• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

تفسیر کبیر ۔ تفسیر القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا محمود احمد رض ۔جلد 1 تا 2 یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
تفسیر کبیر ۔ تفسیر القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا محمود احمد رض ۔جلد 1۔ یونی کوڈ

۱؎ سوزۃ۔ سورۃ کے معنی عربی زبان میں مندرجہ ذیل ہیں۔
(۱) مَنْذِلَۃٌ یعنی درجہ (۲) شَرَفٌ یعنی بزرگی بڑائی (۳) عَلاَمَۃٌ یعنی نشان (۴) اونچی دیوار یا عمارت جو خوبصورت بھی ہو۔ (اقرب) (۵) یہ لفظ سُؤْرَۃ سے بھی ہو سکتا ہے یعنی اس میں ہمزہ ہے جو ماقبل مضموم کی وجہ سے وائو سے بدل گیا ہے۔ اس لفظ کے معنی بقیہ کے ہیں عرب کہتے ہیں ھوفی اَشأَر، النّاسِ یعنی وہ قوم کے بقیہ لوگوں میں سے ہے (الجامع لاحکام القرآن للقرطبی) (۶) ایسی شے جو پُوری اور مکمّل ہو۔ عرب جوان تندرست اونٹنی کو سورۃ کہتے ہیں (الجامع لاحکام القرآن للقرطبی) (آیندہ اس تفسیر کا حوالہ دیتے وقت سارے نام کی جگہ صرف قرطبی لکھا جائیگا)سُوْرَۃ کی جمع سُوَرٌہے یعنی سورتیں۔
قرآن کریم کے بعض ٹکڑوں کو سُوْرۃٌکیوں کہتے ہیں اس کے متعلق مختلف علماء نے مختلف توجیہات بیان کی ہیں بعض کے نزدیک اس لئے کہ ان کے پڑھنے سے انسان کا درجہ بڑھتا ہے بعض کے نزدیک اس لئے کہ اس سے بزرگی خالص ہوتی ہے بعض کے نزدیک اس لئے کہ سورتیں مضامین کے ختم ہونے کا نشان ہیں بعض کے نزدیک اس لئے کہ وہ ایک بلند اور خوبصورت روحانی عمارت کو دنیا کے سامنے پیش کرتی ہیں۔ بعض کے نزدیک اس لئے کہ وہ سارے قرآن کا بقیہّ یا حصّہ ہیں۔ بعض کے نزدیک اس لئے کہ ان کے اندر ایک مکمل او رپورا مضمون آ جاتا ہے۔ یہ امر ظاہر ہے کہ یہ اختلاف صرف ذوقی ہے ورنہ سورۃ کے چھ معنی جو بیان ہوئے ہیں وہ چھ کے چھ ہی اس جگہ چسپا ہوتے ہیں اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کریم کے معیّن ٹکڑوں کو سورۃ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ (۱) قرآن کریم کا حصّہ ہیں (۲) اور ان میں سے ہر اک میں ایک مکمّل او رپورا مضمون بیان ہوا ہے (۳) وہ بلند اور خوبصُورت روحانی تعمیر پر مشتمل ہیں جن میں داخل ہونے والا (۴) اعلیٰ مرتبہ اور (۵) بزرگی پاتا ہے اور (۶) ان پر عمل کرنے والے کو دوسرے لوگوں کے مقابل پر ایک خاص امتیاز حاصل ہو جاتا ہے۔)
سُورۃکا لفظ جو قرآن کریم کے خاص ٹکڑوں کی نسبت استعمال ہوا ہیں۔ یہ الہامی نام ہے، اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان کردہ ہے قرآن کریم میں اتا ہے۔ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّانَزَّ لْنا عَلیٰ عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ (بقرہ ع ۳) پس سورۃ کا لفظ خود قرآن کریم نے استعمال فرمایا ہے اور الہامی نام ہے رسول کریم صلعم بھی یہ لفظ استعمال فرماتے تھے صحیح مسلم میں انسؓ سے روایت ہے قَالَ رَسُولُ اللّٰہ صَلّے اللّٰہ علیہ وسلّم اُنْزِلَتْ عَلَیَّ اٰنِفاً سُوَرۃٌ فَقَرَأَ بِسْمِ اللّٰہ الرَّحمٰنِ الرَّحیمِ اِنَّا اَعْطَیْنَاکَ الکَوثَرَ (مسلم کتاب الصّلوۃ باب حجتہ من قال اَلْبسملۃُ اٰیۃٌ مِنْ اَوَّلِ کُلِّ سُورَۃٍ سِوَی بَرَاء ۃ) یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابھی مجھ پر ایک سورۃ اُتری ہے اور وہ یہ ہے بِسْمِ اللّٰہِ الرّحمٰنَ الرّحیمِ اِنَّا اَعْطَیْنَاکَ الْکَوثَر الخ اس روایت سے معلوم ہوا کہ رسول کریم صلعم بھی قرآن کریم کے ان حصّوں کو جن کو آج مسلمان سورتیں کہتے ہیں سورۃ ہی کے نام سے یاد فرمایا کرتے تھے اور یہ بعد کا رکھا ہوا نام نہیں۔
سُورۃ الفاتحۃ
قرآن کریم کے ابتدا میں رکھی ہوئی اس مختصر سی سورۃ کا نام فاتحۃ الکتاب ہے جو مختصر ہو کر سورۃ الفاتحہ بن گیا ہے اردو دان لوگوں نے آگے اسے فارسی اسلوب پر سورۃ فاتحہ بنا دیا ہے اس کا یہ نام ترمذی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی مروی ہے۔ عَنْ عُبَادَۃِ بنِ الصَامِتِ عَن النبیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلٰٓیہِ وسلّم قَالَ لاَصَلوٰۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرأ بِفَاتِحۃِ الکِتَابِ (ترمذی ابواب الصلوۃ ماجاء انہ لا صلوۃ الابفاتحۃ الکتاب) یعنی جب تک فاتحۃ الکتاب یعنی سورۃ فاتحہ نماز میں نہ پڑھی جائے نماز نہیں ہوتی۔ یہی روایت اس صحابی سے انہی الفاظ میں مسلم کتاب الصلوٰۃ باب و جوب قراء ۃ الفاتحہ میں بھی مروی ہے۔
اس سورۃ کے کئی نام ہیں جن میں سے مشہور نام جو بعض قرآن کریم سے اور بعض رسول کریم صلعم سے ثابت ہیں ذیل میں درج کئے جاتے ہیں۔
سُورۃ الصّلوۃ
حضرت ابوہریرۃؓ فرماتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قَسَمْتُ الصَّلوٰۃَ بَیْنِی وَ بَیْنَ عَبْدِی نِصْفَینِ (مسلم باب و جوب قراء ۃ الفاتحتہ فی کل رکعتۃ) یہ روایت جابر ابن عبداللہؓ سے ابن جریر نے بھی نقل کی ہے (مصری جلد اوّل صفحہ ۶۶) میں نے صلوۃ (یعنی سورۃ فاتحہ) کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان نصف نصف کر کے تقسیم کر لیا ہے یعنی آدھی سورۃ میں صفات الہٰیہ کا ذکر ہے اور آدھی میں بندے کے حق میں دُعا ہے۔
سُورۃ اُلْحَمْد
ابو دائود میں حضرت ابوہریرۃؓ سے روایت ہے قَالَ رسولُ اللّٰہ صلَّی اللّٰہُ علیہِ وسلّمَ اَلْحَمْدُللّٰہِ اُمُّ القُرْاٰنِ وَاُمُّ الْکِتَاِب وَالسَّبْعُ المَثَانِی یعنی سورۃ الحمدللہ کے دوسرے نام ام القرآن اور ام الکتاب اور السبع المثانی بھی ہیں۔ (ابو دائود کتاب الصلوۃ باب فاتحتہ الکتاب)
(۳و۴و۵) امّ القرآن۔ القرآن العظیم اور السبع المثانی یہ تین نام بھی اس سورۃ کے ہیں مسند امام احمد بن حنبل میں ابوہریرۃؓ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھی امر القرآن وھی السبع المثانی وھی القرآن العظیم۔ سورۃ فاتح امّ القرآن بھی ہے اور السبع المثانی بھی ہے اور القرآن العظیم بھی ہے (جلد دوم صفحہ ۴۴۸)
السبع المثانی کا لفظ قرآن کریم میں بھی استعمال ہوا ہے فرماتا ہے وَلَقَدْ اٰتَیْفَاکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ (الحجر ع۶) پس یہ نام قرآن کریم کا رکھا ۂوا ہے۔
(۶) اُمُّ الْکِتاب۔ اس نام کا ذکر ابودائود میں حضرت ابوہریرۃؓ کی روایت میں موجود ہے اور اوپر نمبر ۶ میں اس کا ذکر آ چکا ہے۔
(۷)الشفاء ۔ یہ نام حضرت ابو سعید خدریؓ سے مروی ہے۔ فرماتے ہیں۔ قَالَ رسولُ اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وسَلَّمَ فَاتَحِہُ الکِتَابِ شِفَائٌ مِنْ کُلِّ دَائٍ۔ سورۃ فاتحہ ہر بیماری سے شفا دیتی ہے (دارمی) بیہقی فی شعب الایمان میں یہی روایت مروی ہے لیکن من کل داء کی جگہ من کل سم کے الفاظ ہیں یعنی ہر زہر کا علاج ہے۔
(۸) الرُّقْیَہ۔ یعنی دم کرنے والی سورۃ۔ یہ نام بھی حضرت ابو سعید خدری کی روایت مذکورہ مسند احمد بن حنبل و بخاری میں درج ہے (بخاری فضائل القرآن باب فاتحہ الکتاب اور مسند احمد بن حنبل جلد ۳) ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا کہ کسی کو سانپ نے ڈس لیا تھا اس پر سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تھا اور اسے شفا ہو گئی اس پر آپؐ نے فرمایا۔ ما یُدْریک انہارُقْیِۃٌ تم کو کس طرح معلوم ہوا کہ یہ دم کرنے والی سورۃ ہے۔ اس صحابی نے جواب دیا۔ یا رسول اللہ بس میرے دل میں ہی یہ بات آ گئی۔
(۹)سورۃ الکنز بیہقی نے حضرت انسؓ سے روایت کی ہے عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اِنَّ اللّٰہَ اَعْطَا فِی فِیَما مَنُّ بِہٖ عَلَیَّ فَاتِحۃَ الکتابِ وَقَالَ ھِیَ کَنْزٌ مِنْ کُنُوزِ عَرْشِی (فتح البیان صفحہ ۱۹) یعنی رسول کریم صلعم نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے جو احسان فرما کر مجھے انعام دیئے ہیں ان میں سے ایک فاتحۃ الکتاب بھی ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے سے فرمایا کہ یہ میرے عرش کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔ فاتحہ نام میں پہلے بیان کر چکا ہوں۔ پس یہ نو نام قرآن و حدیث سے ثابت ہیں۔ ان کے علاوہ اور نام بھی اس سورۃ کے صحابہ سے مروی ہیں۔ امام سیوطیؒ نے ان کی تعداد پچیس تک لکھی ہے۔ علاّمہ قرطبی تے بارہ نام لکھے ہیں۔ لیکن باقی نامو ںکا ثبوت چونکہ قرآن و حدیث سے مجھے نہیں ملا۔ میں نے انہیں بیان نہیں کیا۔
فاتحہ نام جو اس سورۃ کا بیان ۂوا ہے اس کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ یہ نام پیشگوئی کے طو رپر پہلی کتاب میں بھی آیا ہے۔ چنانچہ مکاشفات باب ۱۰ آیت ۲ میں لکھا ہے۔
’’اور اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی کتاب کھلی ہوتی تھی اور اس نے اپنا داہناں پاووں سمندر پر اور بایاں خشکی پر دھرا اور بڑی آواز سے جیسے ببر گرجتا ہے پُکارا۔ او رجب اس نے پکارا تب بادل نے گرجنے کی اپنی سات آوازیں دیں۔‘‘
اس سورۃ کا نام اور اس کی آیات کی تعداد بطور پیشگوئی مرقوم ہے۔ مترجم نے پیشگوئی کی اصل حقیقت سے ناآشنا ہونے کے باعث عبرانی لفظ فتوحہ کا ترجمہ کھلی ہوئی کتاب کیا ہے حالانکہ فتوحہ یعنی فاتحہ سورۃ کا نام بتایا گیا تھا اس پیشگوئی میں جو گرج کی سات آوازوں کا ذکر ہے ان سے مُراد اس سورۃ کی سات آیات ہیں۔ مسیحی مصنفین بالاتفاق تسلیم کرتے ہیں کہ مکاشفات کے مذکورہ بالا حوالہ میں مسیح کی آمد ثانی کے متعلق پیشگوئی ہے اور یہ بات بالکل درست ہے۔ پیشگوئی کے الفاظ سے ثابت ہے کہ آنے والے مسیح کے زمانہ تک یہ سورۃ مقفل رہے گی یعنی اس کا تفصیلی مفہوم مسیح موعود کے زمانہ میں ظاہر ہو گا۔ چنانچہ مکاشفات میں لکھا ہے کہ نبی کو ایک آسمانی آواز نے کہا کہ ’’بادل کی ان سات رعدوں سے جو بات ہوئی اس پر مُہر کر رکھ اور مت لکھ‘‘ (باب ادر س ۴)
میں نے تفصیلاً سورۃ فاتحہ کے نام اس لئے گنوائے ہیں تایہ بتائوں کہ سورتوں کے نام بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رکھے ہوئے ہیں اور جیسا کہ سورۃ فاتحہ کے بعض ناموں سے ثابت ہے آپؐ نے بھی وہ نام الہاماً اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر رکھے ہیں۔
دوسرے میری غرض ان ناموں کے گنوانے سے یہ ہے کہ ان سے سورۃ فاتحہ کے وسیع مطالب پر روشنی پڑتی ہے یہ تو نام در حقیقت دس مضمون ہیں جو سورۃ فاتحہ بیان کرتی ہے وہ فاتحۃ الکتاب ہے۔ یعنی قرآن کریم میں سب سے پہلے اس کے رکھنے کا حکم ہے دوسرے وہ مطالب قرآنی کے لیے بمنزلہ ایک کلید کے ہے کہ اس کے ذریعہ سے قرآن کریم کے مطالب کھلتے ہیں۔ پھر سورۃ فاتحہ سورۃ الحمد ہے یعنی اس سورۃ نے انسان اور بندہ کے تعلقات پر اور انسانی پیدائش پر اس رنگ میں روشنی ڈالی ہے کہ اس سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ انسانی پیدائش اعلیٰ ترقیات کے لئے ہے اور یہ کہ خدا تعالیٰ کا تعلق بندوں سے رحم اور فضل کی بنیادوں پر قائم ہے۔ پھر وہ الصّلوٰۃ ہے یعنی کامل دعا اس میں سکھائی گئی ہے جس کی مثال اور کہیں نہیں ملتی اور وہ امّ الکتاب ہے اس میں وہ تمام علوم جن کے ذریعہ سے دوسروں کو خطاب کیا جاتا ہے بیان کروئے گئے ہیں اور یہ بھی کہ وہ کتاب کریم یعنی قرآن مجید کے لئے بمنزلہ ماں کے ہے یعنی قرآن کریم کے نزول کا موجب وہ دعائیں ہیں جو سورۃ فاتحہ میں بیان ہوئے ہیں اور جو درد مند دلوں سے اُٹھ کر عرض عظیم سے قرآن کریم کو لائی ہیں اور وہ امّ القرآن ہے اس میں وہ تمام علوم جو انسان کی ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔ بیان کر دیئے گئے ہیں اور وہ السبع المثانی ہے یعنی گو صرف سات آیتیں اس میں ہیں لیکن ہر ضرورت ان سے پُوری ہو جاتی ہے۔ روحانیت کا کوئی سوال ہو کسی نہ کسی آیت سے اس پر روشنی پائی جائیگی گویا علمی سوالوں کے حل کرتے وقت بار بار حوالہ کے طو رپر اس کی سات آیتیں دُہرائی جائیں گی اور اس لئے بھی وہ مثافی ہے کہ نماز کی ہر رکعت میں اسے پڑھا جاتا ہے۔
وہ قرآن عظیم بھی ہے یعنی باوجود ام الکتاب اور امّ القرآن کہلانے کے وہ قرآن کریم کا حصہ بھی ہے اور اس سے الگ نہیں جیسا کہ بعض لوگوں نے غلطی سے سمجھ لیا ہے قرآن عظیم سورۃ فاتحہ کو انہی معنوں سے کہا گیا ہے جس طرح ہم کسی سے کہتے ہیں قرآن سُنائو اور مراد اس سے ایک سورۃ ایک رکوع ہوتا ہے۔
سورۃ فاتحہ شفا ہے کہ اس میں تمام ان وساوس کا رد ہے جو انسان کے دل میں دین کے بارہ میں پیدا ہوتے ہیں او روہ رُقْیَۃ ہے کہ علاوہ دم کے طور پر استعمال ہونے کے اس کی تلاوت شیطان اور اس کی ذریت کے حملوں سے انسان کو کو بچاتی ہے اور دل میں ایسی قوت پیدا کرتی ہے کہ شیطان کے حملے بے ضرر ہو جاتے ہیں اور وہ کنز بھی ہے کہ علوم و فنون کے اس میں دریا بہتے ہیں۔ اُردو میں دریا کوزے میں بند کرنے کا ایک محاورہ ہے اس کا صحیح مفہوم شاید سورۃ فاتحہ کے سوا اور کسی چیز سے ادا نہیں ہو سکتا۔ بلکہ اس سورۃ کے بارہ میں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ سمندر کوزہ میںبند کر دیا گیا ہے۔
غرض اسماء کے گنانے سے میرا منشاء پڑھنے والے کے ذہن کو ان وسیع مطالب کی طرف توجہ دلانا تھا جو رسول کریم صلعم نے مختلف ناموں کے ذریعہ سے اس سورۃ کے بیان فرمائے ہیں ورنہ حقیقت سے خالی نام کسی سورۃ کے نو چھوڑ سو بھی ہوں تو ان سے کوئی مقصد پورا نہیں ہوتا اور رسول کریم صلعم ایسا بے فائدہ فعل ہر گز نہیں کر سکتے تھے۔ پس سوچنے والوں کے لئے ان ناموں میں ایک اعلیٰ روشنی اور کامل ہدایت ہے۔
فضائل سُورۃ فاتحہ
اس سورۃ کے بہت سے فضائل حدیثوں میں بیان ہیں۔ جن میں سے بعض کی طرف تو میں اس کے ناموں میں اشارہ کر چکا ہوں اور بعض جو زیادہ تفصیل سے بیان ہوئے ہیں ان کا ذکر اب کرتا ہوں۔ نسائی نے ابی بن کعب سے روایت کی ہے قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ علیہ وسلّم مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فِی التَّوْرَاۃِ وَلاَ فِی اْلِانْجِیْلِ مِثْلَ اُمِّ الْقُرآنِ وَھِیَ الْسَّبْعُ المَثَانِی وَھِیَ مَقْسْومَۃ بَیْنیِ وَبَیْنَ عَبْدِی وَلِعَبْدِی مَاسَأَلَ (کتاب الافتتاح فضل فاتحۃ الکتاب) یعنی رسول اللہ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے نہ توراۃ میں نہ انجیل میں کوئی ایسی سورہ اُتاری ہے جیسے کہ امّ القرآن (یعنی سورۃ فاتحہ) ہے اور اس کا ایک نام السبع المثانی بھی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کے بارہ میں مجھے فرمایا ہے کہ وہ میرے اور میرے بندے کے درمیان بحصّہ مساوی بانٹ دی گئی ہے اور اس کے ذریعہ سے میرے بندے جو دُعا مجھ سے کریں گے وہ ضرور قبول کی جائے گی۔ یہ فضیلت نہایت اہم ہے کیونکہ اس میں ایک عملی گر بتایا گیا ہے جو انسان کے لئے دین و دُنیا میں مفید ہے یعنی جو دُعا اس کے ذریعہ سے کی جائے وہ قبول کی جاتی ہے۔
ظاہر ہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ سورۃ فاتحہ پڑھ کر جو دعا کی جائے وہ ضرور قبول ہو جاتی ہے۔ بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو ذریعہ دُعا کو قبول کر وا دیتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ ذریعہ کیا ہے؟ جیسا کہ اس سورۃ کی عبارت سے ظاہر ہے وہ ذریعہ اوّل بِسْمِ اللّٰہِ دوم اَلْحَمْدُللّٰہِ سوم الرَّحْمٰن۔ چہارم الرَّحْیِم او رپنجم مٰلکِ یَوْمِ الدِّیْن اور ششم ایَّاکَ نَعْبُدُ اور ہفتم ایّاک نَسْتَعِیْن ہے گویا جس طرح سات آیتوں کی یہ سورۃ ہے اسی طرح سات اصول دُعا کی قبولیت کے لیے اس میں بیان کئے گئے ہیں بِسْمِ اللّٰہ یہ بتایا گیا ہے کہ جس مقصد کے لئے دُعا کی جائے وہ نیک ہو یہ نہیں کہ جو چوری کے لئے اللہ تعالیٰ سے دُعا کرے تو وہ بھی قبول کر لی جائے گی۔ خدا کا نام لیکر اور اس کی استعانت طلب کر کے جو دُعا کی جائے گی لازماً ایسے ہی کام کے متعلق ہو گی جس میں اللہ کی ذات بندہ کے ساتھ شریک ہو سکتی ہو۔ دیکھو ان مختصر الفاظ میں دُعا کے حلقہ کو کس طرح واضح کر دیا گیا ہے۔ میں نے بہت لوگوں کو دیکھا ہے۔ لوگوں کی تباہی اور بربادی کی دُعائیں کرتے ہیں اور پھر شکایت کرتے ہیں کہ ہماری دُعاقبول نہیں ہوئی۔ اسی طرح ناجائز مطالب کے لئے دُعائیں کرتے ہیںاور پھر شکایت کرتے ہیں کہ دُعا قبول نہیں ہوئی۔ بعض لوگوں نے جھوٹا جامہ زہد و اتقا کا پہن رکھا ہے اور ناجائر امور کے لئے تعویذ دیتے اور دُعائیں کرتے ہیں حالانکہ یہ سب دُعائیں اور تعویذ عاملوں کے مُنہ پر مارے جاتے ہیں۔ دوسرا اصلی اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن میں بتایا ہے یعنی دُعا ایسی ہو کہ اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کے دوسرے بندوں کا بلکہ سب دُنیا کا فائدہ ہو یا کم سے کم ان کا نقصان نہ ہو اور اس کے قبول کرنے سے اللہ تعالیٰ کے حمد ثابت ہوتی ہو اور اس پر کسی قسم کا الزام نہ آتا ہو۔ تیسرے یہ کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت کو جنبش دی گئی ہو اور اس دُعا کے قبول کرنے سے اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت ظاہر ہوتی ہو۔ چوتھے یہ کہ اس دُعا کا تعلق اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمیت سے بھی ہو یعنی وہ نیکی کی ایک ایسی بنیاد ڈالتی ہو جس کا اثر دُنیا پر ایک لمبے عرصہ تک رہے اور جس کی وجہ سے نیک اور شریف لوگ متواتر فوائد حاصل کریں یا کم سے کم ان کے راستہ میں کوئی روک نہ پیدا ہوتی ہو۔ پانچویں یہ کہ دُعا میں اللہ تعالیٰ کی صفت مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن کا بھی خیال رکھا گیا ہو یعنی دُعا کرتے وقت ان ظاہری ذرائع کو نظر انداز نہ کر دیا گیا ہو جو صحیح نتائج پیدا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے تجویز کئے ہیں کیونکہ وہ سامان بھی اللہ تعالیٰ نے ہی بنائے ہیں اور اس کے بتائے ہوئے طریق کو چھوڑ کر اس سے مدد مانگنا ایک غیر معقول بات ہے گویا جہاں تک اسباب ظاہری کا تعلق ہے بشرطیکہ وہ موجود ہو ںیا ان کا مہیّا کرنا دُعا کرنے والے کے لئے ممکن ہو ان کا استعمال بھی دُعا کے وقت ضروری ہے ہاں اگر وہ موجود نہ ہو ںتو پھر مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن کی صفت اسباب سے بالا ہو کر ظاہر ہوتی ہے ایک اشارہ اس آیت میں یہ بھی کیا گیا ہے کہ دُعا کرنے والا دوسروں سے بخشش کا معاملہ کرتا ہو اور اپنے حقوق کے طلب کرنے میں سختی سے کام نہ لیتا ہو۔ چھٹا اصل یہ بتایا ہے کہ ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ سے کامل تعلق ہو اور اس سے کامل اخلاص حاصل ہو اور وہ شرک اور مشرکانہ خیالات سے کلی طو رپر پاک ہو۔ اور ساتویں بات یہ بتائی ہے کہ وہ خدا کا ہی ہو چکا ہو اور اس کا کامل توکل اسے حاصل ہو اور غیر اللہ سے اس کی نظر بالکل ہٹ جائے اور وہ اس مقام پر پہنچ جائے کہ خواہ کچھ ہو جائے اور کوئی بھی تکلیف ہو۔ مانگوں گا تو خدا تعالیٰ ہی سے مانگوں گا۔
یہ سات امور وہ ہیں کہ جب انسان ان پر قائم ہو جائے تو وہ لعبدی ماسأل کا مصداق ہو جاتا ہے اور حق بات یہ ہے کہ اس قسم کی دُعا کا کامل نمونہ رسول کریم صلعم یا آپؐ کے کامل اتباع نے ہی دکھایا ہے اور انہی کے ذریعہ سے دُعائوں کی قبولیت کے ایسے نشان دُنیا نے دیکھے ہیں جن سے اندھوں کو آنکھیں اور بہروں کو کان اور گونگوں کو زبان عطا ہوئی ہے مگر اتباع رسول کا مقام بھی کسی کے لئے بند نہیں جو چاہے اس مقام کو حاصل کرنے کے لئے کوشش کر سکتا ہے اور اس مقام کو حاصل کر سکتا ہے۔
بخاریؒ نے سعید ابن المعلّی سے ایک روایت کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول کریم صلعم نے فرمایا کہ آئو۔ میں تمہیں قرآن کریم کی سب سے بڑی سورۃ سکھائوں اور پھر سورۃ فاتحہ سکھائی (بخاری کتاب فضائل القرآن باب فاتحہ الکتاب) آپؐ نے جو اسے اعظم السُّوَر فرمایا تو اس کے یہی معنی ہیں کہ اس کے معانی اور مطالب لمبی لمبی سورتوں سے بھی زیادہ ہیں اور کیوں نہ ہو کہ یہ سارے قرآن کریم کے لئے بطور متن کے ہے۔
میں اس جگہ ایک اپنا مشاہدہ بھی بیان کر دینا چاہتا ہوں۔ میں چھوٹا ہی تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا۔ میں مشرق کی طرف منہ کر کے کھڑا ہوں اور سامنے میرے ایک وسیع میدان ہے۔ اس میدان میں اس طرح کی ایک آوار پیدا ہوئی جیسے برتن کو ٹھکورنے سے پیدا ہوتی ہے یہ آواز فضا میں پھیلتی گئی اور یُوں معلوم ہوا کہ گویا وہ سب فضاء میں پھیل گئی ہے اس کے بعد اس آواز کا درمیانی حصہ متمثل ہونے لگا او راس میں ایک چوکھٹا ظاہر ہونا شروع ہوا جیسے تصویروں کے چوکھٹے ہوتے ہیں پھر اس چوکھٹے میں کچھ ہلکے سے رنگ پیدا ہونے لگے آخر وہ رنگ روشن ہو کر ایک تصویر بن گئے اور اس تصویر میں حرکت پیدا ہوئی اور وہ ایک زندہ وجود بن گئی اور میں نے خیال کیا کہ یہ ایک فرشتہ ہے۔ فرشتہ مجھ سے مخاطب ہوا اور اس نے مجھے کہا کہ کیا میں تم کو سورہ فاتحہ کی تفسیر سکھاووں تو میں نے کہا کہ ہاں آپ مجھے ضرور اس کی تفسیر سکھائیں پھر اس فرشتہ نے مجھے سورۃ فاتحہ کی تفسیر سکھانی شروع کی یہاں تک کہ وہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ ایَّاکَ نَسْتَعِیْن تک پہنچا۔ یہاں پہنچ کر اس نے مجھے کہا کہ اس وقت تک جس قدر تفاسیر لکھی جا چکی ہیں وہ اس آیت تک ہیں۔ اس کے بعد کی آیات کی کوئی تفسیر اب تک نہیں لکھی گئی۔ پھر اس نے مجھ سے پوچھا۔ کیا میں اس کے بعد کی آیات کی تفسیر بھی تم کو سکھاووں اور میں نے کہا ہاںجس پر فرشتہ نے مجھے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمْ اور اس کے بعد کی آیات کی تفسیر سکھانی شروع کی اور جب وہ ختم کر چکا تو میری آنکھ کھل گئی اور جب میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ اس تفسیر کی ایک دو باتیں مجھے یاد تھیں۔ لیکن معاً بعد میں سو گیا اور جب اُٹھا تو تفسیر کا کوئی حصّہ بھی یاد نہ تھا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد مجھے ایک مجلس میں اس سورۃ پر کچھ بولنا پڑا اور میں نے دیکھا کہ اس کے نوے نئے مطالب میرے ذہن میں نازل ہو رہے ہیں اور میں سمجھ گیا کہ فرشتہ کے تفسیر سکھانے کا یہی مطلب تھا۔ چنانچہ اس وقت سے لیکر آج تک ہمیشہ اس سورۃ کے نئے نئے مطالب مجھے سکھائے جاتے ہیں۔ جن میں سے سینکڑوں میں مختلف کتابوں اور تقریریوں میں بیان کر چکا ہو ںاو راس کے باوجود خزانہ خالی نہیں ہوا۔ چنانچہ دُعا کے متعلق جوگر اس سورۃ میں بیان ہوئے ہیں اور جن کا ذکر میں اُوپر کر آیا ہوں وہ بھی انہی تجارت میں سے ہیں۔ کیونکہ سورۃ فاتحہ کی تفسیر لکھتے وقت میرے دل میں خیال گذرا کہ اس موقعہ پر بھی اللہ تعالیٰ کوئی نئے مطالب اس سورۃ کے کھولے تو فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان سات اصول کا انکشاف ہوا جو دُعا کے متعلق اس سورۃ میں بیان ہیں۔ فالحمدللّٰہِ علیٰ ذٰلک۔ اور جو کچھ لکھا گیا ہے محض خلاصہ کے طور پر لکھا گیا ہے ورنہ ان اصول میں بہت وسیع مطالب پوشیدہ ہیں۔ ذٰالِکَ فَضْلُ اللّٰہ یُؤْتِیْمَنِْ یَّشَائِ۔
سُورۃ فاتحہ کا نزول
اس سورۃ کے نزول کے بارہ میں ابن عباسؓ قتادہ اور ابو العالیہ کا بیان ہے کہ یہ مکی سورۃ ہے اور ابوہریرۃؓ اور مجاہد اور اور عطاء اور زہری کا قول ہے کہ یہ مدنی ہے لیکن قرآن کریم سے ظاہر ہے کہ یہ سورۃ مکہ میں نازل ہو چکی تھی۔ کیونکہ اس کا ذکر سورہ الحجر میں جو بالا جماع مکی سورۃ ہے ان الفاظ میں آ چکا ہے۔ وَلَقَدْ آیَتَنَاکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَاِنِیْ وَ الْقُرْآنِ الْعَظِیْم (الحجر ع ۶) (قرطبی) بعض آئمہ کا خیال ہے کہ دو دفعہ یہ سورۃ نازل ہوئی ہے ایک دفعہ مکہ میں اور دوسری دفعہ مدینہ میں پس یہ مکی بھی ہے او رمدنی بھی (قرطبی میں بحوالہ ثعلبی یہ روایت لکھی ہے مگر ثعلبی کی تفسیر میں جو مطبوعہ الجزائر ہے یہ رائے درج نہیں۔ شائد ثعلبی کی کسی اور کتاب سے یہ رائے قرطبی نے درج کی ہو) میرے نزدیک یہی خیال درست ہے۔ اس کا مکی ہونا یقینی ہے اور اس کا مدنی ہونا کبھی معتبر رواۃ سے ثابت ہے۔ پس حقیقت یہی معلوم ہوتی ہے کہ یہ دس دفعہ نازل ہوئی ہے اور جب دوسرے نزول کا رسول کریم صلعم نے کسی مجلس میں ذکر کیا تو بعض لوگوں نے سمجھا کہ یہ سورۃ نازل ہی مدینہ میں ہوئی تھی۔ حالانکہ آپؐ کا مقصد اس سے لوگوں کو یہ بتانا تھا کہ یہ سورۃ مدینہ میں بھی نازل ہوئی ہے۔ اس کے مکی ہونے کا یہ ثبوت بھی ہے کہ تمام روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سورۃ فاتحہ ہمیشہ سے نماز میں پڑھی جاتی رہی ہے اور نماز باجماعت مکہ میں ہی پڑھی جانی شروع ہو گئی تھی بلکہ شروع زمانہ سے ہی شروع ہو گئی تھی۔
سُورۃ فاتحہ قرآن کا حصّہ ہے
بعض لوگوں نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ سورۃ فاتحہ قرآن کریم کا حصّہ نہیں ہے اور اس خیال کی دلیل یہ بتاتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ نے اپنے نسخہ میں سورۃ فاتحہ کو نہیں لکھا تھا مگر یاد رکھنا چاہیئے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ نے سورۃ فاتحہ اور معوذ تین یعنی سورۃ الفلق اور سورۃ الناس تینوں سورتیں قرآن کریم میں نہیں لکھی تھیں او ران کا یہ خیال تھا کہ سورۃ فاتحہ ہر سورۃ کے ساتھ چونکہ نماز میں پڑھی جاتی ہے اس لئے یہ ہر سورۃ کی تمہید ہے اور غالباً معوذ تین کے بارہ میں بھی ان کا یہ خیال تھا کہ بوجہ اس کے کہ ان کا مضمون مختلف نقصانات اور شرور سے بچنے کی دُعا پر مشتمل ہے اس لئے وہ گویا باوجود قرآن عظیم کا حصّہ ہونے کے متن قرآن سے باہر ہیں اور وہ غالباً انہیں بھی ہر سورۃ سے متعلق سمجھتے تھے۔ سورۃ فاتحہ کے بارہ میں تو ان کے اس خیال کا ذکر احادیث سے ثابت ہے چنانچہ ابوبکر الانباری نے عن الاعمش عن ابراھیم ایک حدیث نقل کی ہے کہ عبداللہ بن مسعودؓ سے پوچھا گیا کہ آپ نے اپنے نسخۂ قرآن میں سورۃ فاتحہ کیوں نہیں لکھی تو اس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ لَوْکَتَبَتُہَا لَکَتبتُہَا مَعَ کُلِّ سُورَۃٍ۔ یعنی اگر میں سورۃَ بقرہ سے پہلے اسے لکھتا تو سب سورتوں کے ساتھ لکھتا یعنی یہ سورۃ ہر سورۃ سے متعلّق ہے اس لئے میں نے اسے حذف کر دیا ہے تایہ غلط فہمی نہ ہو کہ صرف سورۃ بقرہ کے ساتھ اس کا تعلّق ہے (قرطبی) معلوم ہوتا ہے یہی استدلال معوذ تین کے بارہ میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے کیا ہے ورنہ وہ سورہ جسے رسول کریم صلعم نے صاف طو رپر قرآن کریم کی سورتوں میں سے سب سے بڑی قرار دیا ہے (بخاری عن سعید بن المعلّی) اسے کس طرح قرآن کریم سے خارج قرار دے سکتے تھے۔
سورۃ افتحہ ہر نماز میں اور ہر رکعت میں پڑھنی ضروری ہے سوائے اس کے کہ مقتدی کے نماز میں شامل ہونے سے پہلے امام رکوع میں جا چکا ہو اس صورت میں اسے تکبیر کہہ کر بغیر کچھ پڑھے رکوع میں چلے جانا چاہیئے۔ امام کی قراء ت ہی اس کی قراء ت سمجھ لی جائے گی۔ سورۃ فاتحہ کے نماز میں پڑھنے کی تاکید مختلف احادیث میں آئی ہے۔ مسلم میں آتا ہے حضرت ابوہریرہؓ نے روایت کی ہے کہ قَالَ (رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّے اللّٰہ علیہ وسلّم) مَنْ صَلّٰی صَلوٰۃَّ لَمْ یَقْرَأَ فِیْہَا بِاُمِّ الْقُرْآنِ فَھِیَ خِداجٌ (مسلم کتاب الصلوۃ باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃٍ) یعنی جس نے نماز ادا کی مگر اس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی تو وہ نماز ناقص ہے اور بخاری مسلم میں عبادۃ بن الصامت کی روایت ہے کہ رسول کریم صلعم نے فرمایا کہ لاَصَلوٰۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ بِفَاتَحِۃِ الکِتَابِ (بخاری کتاب الصلوۃ باب وجوب قراء ۃ الامام و الماموم فی الصلوۃ کلہا نیز مسلم باب و جوب قراۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃٍ) یعنی جس نے فاتحۃ الکتاب نہ پڑھی اس کی نماز ہی نہیں ہوئی اور صحیح بن خزیمہ اور ابن حباب میں ابوہریرۃؓ سے بھی ایسی ہی روایت آتی ہے (قرطبی) نیز ابو دائود میں حضرت ابوہریرۃؓ سے روایت ہے کہ اَمَرَنِی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنْ اُنادِی اَنَّہٗ لَاصَلوٰۃَ اِلَّا بِقِراَء ۃِ فَاتِحَۃِ الکِتَابِ نَمَازَ ادَ (کتاب الصلوۃ باب من ترک القراء ۃ فی صلوتہ) یعنی رسول کریم صلعم نے مجھے حکم دیا کہ میں لوگوں میں اعلان کر دوں کہ کوئی نماز بغیر اس کے نہیں ہوسکتی کہ سورۃ فاتحہ او راس کے ساتھ کچھ اور حصہ قرآن کریم کا پڑھا جائے۔
صحابہ میں سے حضرت عمرؓ، عبداللہ بن عباسؓ، ابوہریرۃؓ، ابی بن کعبؓ، ابو ایوب انصاریؓ، عبداللہ بن عمر بن العاصؓ، عبادۃ بن الصامت، ابو سعید ضدریؓ، عثمان بن ابی العاصؓ خوات بن جبیر اور عبداللہ بن عمر سے یہی عقیدہ احادیث میں مذکور ہے (قرطبی)
ابن ماجہ میں حضرت ابو سعید خدریؓ کی روایت آتی ہے کہ لَاصَلوٰ ۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ فِی کُلِّ رَکْعَۃٍ بِالْحَمْدِ لِلّٰہِ وَسُوَرۃٌ فِی فَرِیْضَۃٍ اَوْغَیْرِھَا یعنی جو شحص ہر رکعت میں الحمدللہ اور کوئی اور سورۃ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی اور یہ حکم فرض نماز اور غیر فرض نماز سب کے متعلق ہے (ابن ماجہ کو محققین نے ضعیف کہا ہے مگر جبکہ صحابہ کا تعامل یہی ہے کہ اس کے مضمون کی صحت میں کلام نہیں ہو سکتا۔ ابو دائود کی ایک اور روایت بھی اس کی تائید میں ہے اور وہ عبادۃ بن الصامت سے مروی ہے۔ نافع بن محمود بن الربیع انصاری کہتے ہیں کہ ایک جگہ حضرت عبادۃ امام الصلوٰۃ تھے ایک دفعہ وہ دیر سے پہنچے اور ابو نعیم نے نماز شروع کر ا دی۔ نماز شروع ہو چکی تھی کہ عبادۃ بھی آ گئے۔ میں بھی ان کے ساتھ تھا ہم صفوں میں کھڑے ہو گئے۔ ابو نعیم نے جب سورۃ فاتحہ پڑھنی شروع کی۔ تو میں نے سنا کہ عبادۃ بھی آہستہ آہستہ سورۃ فاتحہ پڑھتے رہے۔ جب نماز ختم ہوئی۔ تو میں نے ان سے پوچھا کہ جبکہ ابو نعیم بالج ہر نماز پڑھا رہے تھے آپ بھی ساتھ ساتھ سورۃ فاتحہ پڑھتے جا رہے تھے یہ کیا بات ہے؟ انہوں نے جواب دیا ہے کہ ہاں یہ بالکل ٹھیک ہے۔ رسول کریم صلعم نے ایک دفعہ ہمیں نماز پڑھائی اور سلام پھیر کر جب بیٹھے تو پوچھا کہ جب میں بلند آواز سے نماز میں تلاوت کرتا ہوں تو کیا تم بھی منہ میں پڑھتے رہتے ہو۔ بعض نے کہا ہاں۔ بعض نے کہا نہیں اس پر آپؐ نے فرمایا لَاتَقْرَؤْا بِشیًٔ مِنَ القُرآنِ اِذَا جَھَرْتُ اِلَّابِاُمِّ القُرآنِ (ابو دائود کتاب الصلوۃ باب من ترک القرأۃ فی صلوتہ) جب میں بلند آواز سے قرآن کریم نماز میں پڑھوں تو سوائے سورۃ فاتحہ کے اور کسی سورۃ کی تلاوت تم ساتھ ساتھ نہ کرو۔ اس بارہ میں اور بہت سی احادیث بھی ہیں۔ مثلاً وار قطنی نے یزید بن شریک سے روایت کی ہے اور اسکے اسناد کو صحیح قرار دیا ہے کہ سَأَلْتُ عُمَرَ عَنْ الْقِرَائَ ۃِ خَلْفَ الْاِمَاِ فَاَمًر فِی اَنْ اَقْرَأَ قُلْتُ وَ اِنْ کُنْتَ اَنْتَ قَالَ وَاِنْ کُنْتُ اَنَا قُلْتُ وَاِنْ جَرْتَ قَالَ وَاِنْ جَرْتُ۔ یعنی میں نے حضرت عمرؓ سے پوچھا کہ کیا میں امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھا کروں انہوں نے کہا ہاں۔ میں نے پوچھا کیا جب آپ نماز پڑھا رہے ہوں تب بھی۔ انہوں نے کہا خواہ میں نماز پڑھا رہا ہوں۔ میں نے کہا کہ کیا جب بلند آواز سے پڑھا رہے ہوں۔ تب بھی انہوں نے کہا ہاں تب بھی۔ (دار قطی جلد اوّل کتاب الصلوۃ باب و جوب قراء ۃ ام لکتاب فی الصلوۃ) حضرت مسیح موعودؑ کا فتویٰ بھی یہی ہے کہ سورۃ فاتحہ امام کے پیچھے بھی پڑھنی چاہیے خواہ وہ جہرًا نماز پڑھا رہا ہو سوائے اس کے کہ مقتدی رکوع میں آ کر ملے۔ اس صورت میں وہ تکبیر کہہ کر رکوع میں شامل ہو جائے اور امام کی قراء ت اس کی قراء ت سمجھی جائے گی۔ یہ ایک استثناء ہے استثناء سے قانون نہیں ٹوٹتا۔ اسی طرح یہ بھی استثناء ہے کہ کسی شخص کو سورۃ فاتحہ نہ آتی ہو۔ مثلاً نو مسلم ہے جس نے ابھی نماز نہیں سیکھی۔ یا بچہ ہو جسے ابھی قرآن نہیں آتا تو اس کی نماز فقط تسبیح و تکبیر سے ہو جائے گی خواہ وہ قرآن کریم کا کوئی حصہ بھی نہ پڑھے سورۃ فاتحہ بھی نہ پڑھے۔
سُورۃ فاتحہ کے مضامین کا خلاصہ
سورۃ فاتحہ مضامین جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے قرآن کریم کے لئے بطور دیباچہ کے ہیں۔ قرآن کریم کے مضامین کو مختصر طو رپر اس میں بیان کر دیا گیا ہے تاکہ پڑھنے والے کو شروع میں ہی قرآنی مطالب پر اجمالاً آگاہی ہو جائے۔ پہلے بسم اللہ سے شروع کیا ہے جس سے ظاہر ہے کہ ایک مسلمان (۱) خدا تعالیٰ پر یقین رکھتا ہے (بسم اللہ) (۲) وہ اس امر پر بھی یقین رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ فلسفیوں کے عقیدہ کے مطابق صرف دُنیا کے علّتِ اولیٰ کا کام نہیں دے رہا بلکہ دُنیا کے کام اس کے حکم اور اشارہ سے چل رہے ہیں اس لئے اس کی مدد اور اعانت بندہ کے لئے بہت کچھ کار آمد ہو سکتی ہے (بسم اللہ) (۳) وہ صرف ایک اندرونی طاقت نہیں ہے بلکہ وہ مستقل وجود رکھتا ہے اور اس کا مستقل نام ہے اور مختلف صفات سے وہ متصف ہے (اللّٰہ الرّحمٰن الرّحیم) (۴) وہ منبع ہے سب ترقیات کا اور تمام سامان جن سے کام لے کر دُنیا ترقی کر سکتی ہے اسی کے قبضہ میں ہیں (الرّحمٰن) (۵) اس نے انسان کو اعلیٰ ترقیات کے لئے پیدا کیا ہے۔ جب وہ اللہ کے پیدا کردہ سامانوں سے صحیح طو رپر کام لیتا ہے تو اس کے کام کے اعلیٰ نتائج پیدا ہوتے ہیں جو اسے مزید انعامات کے مستحق بنا دیتے ہیں اور بناتے چلے جاتے ہیں (الرّحیم) (۶) اس کے سب کاموں میں جامعیت اور کمال پایا جاتا ہے اور ہر حُسن سے وہ متصف ہے اور سب تعریفوں کا مالک ہے کیونکہ اس کے سوا جو کچھ بھی ہے سب اسی کا پیدا کردہ ہے (اَلْحَمُدلِلّٰہِ رَبٌ العٰلمیْنَ) (۷) کوئی چیز بھی اللہ تعالیٰ کے سوا ایسی نہیں جس کی ابتدا اور انتہاء یکساں ہو بلکہ اس کے سوا جس قدر اشیاء ہیں ادنیٰ حالت سے شروع ہوئی ہیں اور ترقی کرتے کرتے کمال کو پہنچی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ سب اشیاء کا خالق ہے او رکوئی چیز آپ ہی آپ نہیں (ربّ العٰلمین) (۸) یہ دنیا ایک متنوع دنیا ہے یعنی اس کی ہزاروں شاخیں ہیں اور ہزاروں قسم کے مزاج ہیں پس کسی چیز کے سمجھنے کے لیے اس کی جنس پر غور کرنا چاہیئے۔ نہ کہ دوسری جنس کی اشیاء پر خدا تعالیٰ کا معاملہ ہر جنس سے اس کی حیثیت کے مطابق ہے۔ پس دنیا میں خدا تعالیٰ کے سلوک میں اگر اختلاف نظر آئے تو اس سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیئے۔ وہ اختلاف حالات کے اختلاف کی وجہ سے ہے نہ کہ ظلم کی وجہ سے یا عدم توجہ کی وجہ سے (رَبّ العٰالَمین)(۹) جس طرح اللہ تعالیٰ ہر کام لینے والی شے کا خالق نظر اتا ہے وہ ہر سامان کا بھی خالق نظر آتا ہے پس ہر چیز ہر وقت اس کی مدد کی محتاج ہے۔ (اَلرَّحْمٰن) (۱۰) پھر جس طرح خدا تعالیٰ اشیاء اور ان سامانو ںکا خالق ہے جن سے ان اشیاء نے فائدہ اُٹھانا ہے اسی طرح وہ ان نتائج پربھی تصّرف رکھتا ہے جو سامانوں کے استعمال کرنے کے بعد پیدا ہوتے ہیں مثلاً انسان کو بھی اس نے پیدا کیا ہے اور اس کھانے کو بھی اس نے پیدا کیا ہے جو اس کی زندگی کے لئے ضروری ہے اور پھر وہ اچھا یا بُرا خون جو اس کھانے کے استعمال سے پیدا ہو گا وہ بھی اسی کے حکم اور امر سے ہی ہو گا (اَلْرَّحِیم) (۱۱) پھر اس نے جزا سزا کا بھی ایک طریق مقرر کیا ہے یعنی ہر چیز اپنے حالات کے مطابق اپنے کامو ںکے اچھے یا بُرے نتائج کا مجومعی نتیجہ ایک دن دیکھ لیتی ہے یعنی کاموں کے نتیجے دو طرح کے ہوتے ہیں ایک درمیانی کہ ہر کام کا نتیجہ کچھ نہ کچھ نکلتا آتا ہے او رایک آخری کہ سب کاموں کا مجموعی نتیجہ نکلتا ہے سو اللہ تعالیٰ نے صرف یہی انتظام نہیں کیا کہ ہر کام کا نتیجہ نکلے جس کی طرف رحیم کے لفظ سے اشارہ کیا گیا ہے بلکہ اس نے یہ تدبیر بھی اختیار کی ہے کہ سب کاموں کا ایک مجموعی نتیجہ نکلے جس کے سبب سے وہ مٰلِکِ یَوْمِ الذِّیْن کہلاتا ہے۔ (۱۲) پس ایسی ہی ہستی اس امر کی مستحق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور اسی سے محبت کا تعلق رکھا جائے (اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ) (۱۳) پھر بتایا ہے کہ انسانی ترقی کا انحصار دو امر پر ہے۔ اعمالِ بدن اور اعمالِ قلب پر (اعمالِ قلب سے مُراد فکر خیال عقیدہ ارادہ وغیرہ ہیں) ان دونوں کی اصلاح ضروری ہے اور یہ اصلاح بغیر اللہ تعالیٰ کی رہنمائی کے نہیں ہو سکتی (اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتِعِیْنُ)(۱۴) پھر یہ بتایا ہے کہ وہ اپنے بندوں سے ملنے کی اور ان کی اصلاح کی خود خواہش رکھتا ہے صرف اس امر کی ضرورت ہے کہ بندہ اس کی طرف جھکے اور اس کی ملاقات کے لیے اسی سے التجا کرے (اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم)(۱۵) پھر یہ بتایا ہے کہ بظاہر خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے بہت سے راستے نظر آتے ہیں لیکن صرف راستہ کا معلوم ہونا کافی نہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ (الف) وہ راستہ سب سے چھوٹا ہوتا انسان جدوجہد کے دوران میں ہی ہلاک نہ ہو جائے (صِرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ) (ب) وہ راستہ دیکھا بھالا ہو اور اس پر چل کر لوگوں نے خدا کو پایا ہو تاکہ درمیانی خطرات اور ان کے علاج کا بندہ کو پہلے سے علم ہو جائے تادل مطمئن رہے اور مایوسی پیدا نہ ہو اور اچھے ساتھیوں کی صحبت نصیب رہے پس ایسا راستہ اللہ تعالیٰ سے طلب کرنا چاہیئے (صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ)(۱۶) ترقیات کے ملنے کی صورت میں دل میں کبر اور خود پسندی کے خیالات پیدا ہو کر انسان کو تباہ کر دیتے ہیں پس ان سے بچتے رہنا چاہیئے۔ اور ترقیات کو ظلم اور فساد کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیئے بلکہ امن اور خدمت کا ذریعہ بنانا چاہیئے۔ اور اللہ تعالیٰ ہے اس غرض کے لئے دُعائیں کرتے رہنا چاہیئے (غَیْرِ الْمّغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ)(۱۷) جس طرح انسان ترقیات کو ظلم کا ذریعہ بنا لیتا ہے کبھی وہ ادنیٰ اشیاء کو رحم اور ناجائز محبت کی وجہ سے اونچا درجہ بھی دے دیتا ہے۔ اس سے بھی بچنا چاہیئے اور اس نیکی کے حُصول کے لئے بھی اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتے رہنا چاہیئے (وَلَا الضّآلِّیْن)


۲؎ حل لغات
(باء) بسم اللہ کی ابتداء ہیں جو باء آوی ہے وہ حروف ہجاء کا حرف نہیں بلکہ بامعنی حرف ہے عربی زبان میں حروف سے ہجاء کا کام لینے کے علاوہ معنوں کا کام بھی لیا جاتا ہے اور بعض حروف ہجاء کی علامت ہونے کے علاوہ بعض معنے بھی دیتے ہیں۔ ان حروف میں سے باء بھی ہے۔ یہ حروف ہجاء کا دوسرا حرف بھی ہے اور بامعنی حرفوں میں سے بھی ہے اس کے معنی معیت اور استعانت کے ہیں اور اس کا لفظی ترجمہ سے اور ساتھ ہے مگر چونکہ ان لفظوں سے معنی واضح نہیں ہوتے اس لئے لیکر ترجمہ کیا گیا ہے جو دونوں معنوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے زیادہ مناسب ہے۔ مطلب آیت کا یہ ہوا کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق پکڑتے ہوئے اور اس سے مدد مانگنے ہوئے میں یہ کلام پڑھنے لگا ہوں۔
باء حروف جارہ میں سے ہے یعنی جس اسم پر یہ حرف آتے ہیں اس کے آخری حرف پر زیریا زیر کی علامت آتی ہے۔ عربی قاعدہ کی رُوسے ان حروف سے پہلے اکثر ایک متعلق مخدوف ہوتا ہے جو عبارت کے مفہوم کے مطابق نکال لیا جاتا ہے۔ اس آیت سے پہلے اِقرأْ یا اِشرَعْ بعض نے محذوف نکالا ہے یعنی پڑھ یا شروع کر۔ اور اس کی وجہ سورۃ علق کی یہ آیت بیان کی ہے۔ اَقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّک الَّذِیْ خَلَق۔ پس جو لفظ وہاں بیان ۂوا ہے وہی یا اس کے ہم معنی لفظ یہاں نکالا جائے گا۔ زمخشری نے اِقْرَاْ یا اِشْرَعْ کی جگہ جو امر کے صیفے ہیں اِقْرَاْ یا اِشْرَعْ جو مضارع کے صیغے ہیں محذوف نکالے ہیں یعنی میں پڑھتا ہوں یا شروع کرتا ہوں۔ اور اس کی جگہ بِسْمِ اللّٰہ کے بعد تجویز کی ہے یعنی میں پڑھتا ہوں اللہ کا نام لیکر کی بجائے میں اللہ کا نام لے کر پڑھتا ہوں۔ اور اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ اس میں اللہ کے نام پر زور پیدا ہوتا ہے لیکن اگر پڑھتا ہوں پہلے رکھا جائے تو پڑھتا ہوں پر زور آ جاتا ہے۔ زمخشری کے یہ معنی لطیف ہیں میں نے ترجمہ میں انہی معنوں کو اختیار کیا ہے۔ زمخشری نے سورۃ علق میں جو اِقْرأْ پہلے آتا ہے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ اس موقعہ پر اِقْرأْ پر زور دینا منظور تھا کیونکہ رسول کریم صلعم پڑھنے سے ہچکچاتے تھے (بخاری) لیکن بِسْمِ اللّٰہ میں پڑھنے پر زور دینا مقصود نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا نام لے کر پڑھنے پر زور دینا مقصود ہے۔ اس لئے اس جگہ پڑھنے کا لفظ بعد میں مخدوف قرار دینا زیادہ مناسب ہے۔ زمخشری کی یہ تشریح بھی نہایت لطیف ہے۔ اور میں نے جو بِسْمِ اللّٰہ کے دہرانے کے دلائل بیان کئے ہیں۔ ان کے بالکل مطابق آتی ہے۔
(اسم) بسمن باء اور اسم سے مرکب ہے اسم کا ہمزہ گر کر بسم ہو گیا۔ عربی زبان میں بعض ہمارے بولے نہیں جاتے انہیں وصلی ہمزے کہتے ہیں۔ لیکن بسم اللہ میں ہمزہ لکھا بھی نہیں گیا۔ اس کی وجہ علمائِ صرف ونحو کثرت استعمال بتاتے ہیں۔ نسائی اور اخفش کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام ناموں سے پہلے جہاں بھی اسم کا لفظ آئے گا اس کا ہمزہ لکھا نہیں جائے گا لیکن فراّء کا خیال ہے کہ اس جگہ حذف چونکہ نقلاً ثابت ہے۔ ہم بسم اللہ میں تو حذف کر دیں گے۔ لیکن دوسرے صفات آلٰہیہ سے پہلے چونکہ ایسا کرنا نقلاً ثابت نہیں۔ ہم اس کے ہمزہ کو لکھنے میں ترک نہیں کریں گے (بحر محیط ۱۶؎)
اسم کے معنی صفت یا نام کے ہوتے ہیں (قاموس) اور یہ اس مر سے نہیں بلکہ وس م یا س م و سے بنا ہے وائو الف سے بدل گئی ہے جنہوں نے اسے وس م سے بنا ۂو اقرار دیا ہے انہو ںنے اس کے معنی نشان اور علامت کے قرار رویئے کیونکہ وسم کے معنی نشان اور علامت کے ہوتے ہیں مگر جنہوں نے اسے س م و سے بنا ہوا اقرار دیا ہے انہو ںنے اس کے معنی اونچا ہونے کے کئے ہیں۔ (اقرب)
(اللّٰہ)اللہ اس ذات پاک کا نام ہے جو ازلی ابدی اور الحی القیوم ہے او رمالک اور خالق اور رب سب مخلوق کا ہے اور اسم ذاتی ہے نہ کہ اسم صفاتی۔ عربی زبان کے سوا کسی اور زبان میں اس خالق و مالک کل کا کوئی ذاتی نام نہیں پایا جاتا۔ صرف عربی میں اللہ ایک ذاتی نام ہے جو صرف ایک ہی ہستی کے لوے بولا جاتا ہے اور بطور نام کے بولا جاتا ہے۔ اللہ کا لفظ بھی اسم جامد ہے مشتق نہیں۔ نہ یہ اور کسی لفظ سے بنا ہے اور نہ اس سے کوئی اور لفظ بنا ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ لاۃ یلینہ سے مشتق ہے جس کے معنی تستّر علو اور ارتفاع کے ہیں (اقرب) لیکن یہ درست نہیں بعض لوگ کہتے ہیں اللہ لاہ یلوہ سے نکلا ہے جس کے معنی چمکنے کے ہیں اور لاہ اللہ الخلق کے معنی ہیں۔ اللہ نے مخلوق پیدا کی۔ لیکن لسان العرب میں لکھا ہے کہ یہ معنی غیر معروف ہیں۔ پس یہ قیاس کہ یہ لاہَ یلُوہُ سے نکلا ہے بالکل غلط ہے۔ بعض لوگ اسے غیر زبان کا لفظ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ سریانی کے لفظ لاھا سے نکلا ہے لیکن یہ بھی بالکل غلط ہے بلکہ سریانی زبان سے ناواقفیت کے نتیجہ میں ہے چنانچہ یورپین محققین کی رائے ہے کہ عربی کا لفظ الٰہ ابتدائی مادہ سے زیادہ قریب ہے۔ جرمن عالم NOLDEKEلکھتا ہے کہ عربی کا الٰہ اور عبرانی کے ایل پرانے زمانہ سے پہلو بہ پہلو چلے آتے ہیں اور عبرانی زبان جب عربی سے علیحدہ ہوئی ہے اس سے بھی پہلے سے یہ لفظ سامی زبانو ںمیں استعمال ہوتا تھا (انسائیکلو پیڈیا ببلیکا جلد ۳ زیر عنوان نیمز یعنی اسماء کی بحث)
(الرحمٰن) رحم سے ہے اور فَعْلان کے وزن پر ہے۔ اس وزن کے الفاظ امتلاء اور غلبہ پر دلالت کرتے ہیں (بحرِ محیط ۲۷؎) پس رحمن کے معنی یہ ہوئے کہ وسیع رحم کا مالک جو ہر اک پر حاوی ہے اور یہ رحم وہی ہو سکتا ہے جو بلا مبادلہ اور بغیر کسی استحقاق کے ہو کیونکہ ہر شخص حق کے طو رپر رحم کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔
(اَلْرَّحِیْم) بھی رحم سے نکلا ہے اور فیصل کے وزن پر ہے جس کے معنوں میں تکرار اور استحقاق کے مطابق سلوک کا مفہوم پایا جاتا ہے (بحر محیط ۱۷؎) پس اس کے معنی ہوئے جو رحم کے حقدار کو اس کے کام کی اچھی جزاء دیتا ہے اور بار بار اس پر رحم نازل کرتا جاتا ہے۔
علم صرف کے زبردست امام ابو علی فارسی کہتے ہیں۔ اَلّْرَحْمٰنِ اِسْمٌ عَامٌ فِیْ جَمِیْعِ اَنْوُاعِ الہَّحْمَۃِ یَخْتَصُّ بِہٖ اللّٰہُ تَعَالیٰ وَالْرَّحِیِمُ اِنّما ھُوَ فِی جِہَۃ الْمُؤمِنینَ وَ قَالَ تَعَالیٰ کَانَ بِالموُمِنینَ رَحیماً (فتح البیان ۲۵؎) یعنی الرحمٰن اسم عام ہے او رہر قسم کی رحمتوں پر مشتمل ہے اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات سے مخصوص ہے اور الرّحیم مومنوں کی ذات سے تعلّق رکھتا ہے یعنی الرحیم کی رحمت نیکو کاروں سے مخصوص ہے۔ چنانچہ اس کا ثبوت قرآن کریم کی آیت وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِینَ رَحِیْماً ہے۔ (احز اب ع۶)
ابن مسعودؓ اور ابو سعید خدریؓ کی روایت ہے کہ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلرَّحْمٰنُ رَحْمٰنُ الدُّنْیا۔ وَالْرَّحیمُ۔ رَحِیْمُ الاٰخِرَۃِ (محیط ۱۷؎) رسول کریم صلعم نے فرمایا کہ رحمن دُنیا کی رحمتوں پر نظر رکھتے ہوئے ہے اور الرحیم کا نام آخرت کی رحمتوں پر نظر کرتے ہوئے ہے۔ اس سے بھی معلوم ۂوا کہ رحمن کے معنے بلا مبادلہ اور بغیر استحقاق رحم کے ہیں کیونکہ اس قسم کا رحم زیادہ تر اس دُنیا میں جاری ہے اور رحیم کے معنی نیک کاموں کے اعلیٰ بدلہ کے ہیں کیونکہ آخرت مقام جزا ہے۔
تفسیر
قرآن کریم کی سب سورتیں بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ سے شروع ہوتی ہیں۔ سوائے سورۃ برائۃ کے مگر اس کے بارہ میں زیادہ صحیح قول یہی ہے کہ وہ الگ سورۃ نہیں بلکہ سورۃ انفال کا تتمہ ہے اور اس لئے اس میں الگ بسم اللّٰہ نہیں لکھی گئی۔ چنانچہ ابو دائود میں ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ ان رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ لَایَعْرِفُ فَصْلَ السُّورَۃِ حَتَّیٰ یَنْزِلُ عَلَیْہِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ (ابو دائود کتاب الصّلوٰۃ باب مَنْ جَہُہ بِبِسمِ اللّٰہِ) یعنی جب ایک سورۃ کے بعد دوسری سورۃ نازل ہوتی تھی تو پہلے بسم اللہ نازل ۂوا کرتی تھی اور بسم اللہ کے بغیر رسول کریم صلعم کسی وحی کو دوسری سورۃ قرار نہیں دیا کرتے تھے۔ حاکم نے مستدرک میں بھی یہ روایت بیان کی ہے۔ (ابن کثیر) اس حدیث سے ظاہر ہے کہ ہر نئی سورۃ سے پہلے بسم اللہ نازل وہتی تھی او رپہلی سورۃ کا اختتام ہی تب سمجھا جاتا تھا۔ جب بسم اللہ کے نزول سے دوسری سورۃ کے ابتداء کا اعلان کر دیا جاتا تھا۔ پس جبکہ بَرَاء ۃ سے پہلے بسم اللہ نازل نہیں ہوئی یا یُوں کہو کہ انفعال کے بعد بسم اللہ نازل ہو بَرَاء ۃکی آیات نازل نہیں ہوئیں تو یقینا وہ الگ سورۃ نہیں ہے بلکہ انفال کا حصّہ ہی ہے۔
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ تمام سورتوں سے پہلے جو بسم اللہ درج ہے وہ وحی الٰہی سے ہے اور قرآن کریم کا حصّہ ہے زائد نہیں۔
بسم اللہ کے متعلق بعض علماء نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ہر سورۃ کا حصہ بسم اللہ نہیں بلکہ صرف سورۃ فاتحہ کا حصّہ بسم اللہ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ کسی سورۃ کا حصّہ بھی بسم اللہ نہیں ہے لیکن یہ خیال درست نہیں۔ اوّل تو مذکور بالا حدیث ہی اس خیال کو ردّ کرتی ہے دوسرے بہت سی اور احادیث ہیں جن میں بسم اللہ کو رسول کریم صلعم نے سورتوں کا جزو قرار دیا ہے۔ مثلاً سورۃ فاتحہ کا حصّہ ہونے کے متعلق دارقطنی نے مرفوعاً ابوہریرہؓ سے روایت کی ہے قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیہ وَسَلّم اِذَا قَرَأْ تُمْ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ فَاقْرَؤُا بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اِنَّہام اُمُّ القُرْانِ و اُمُّ الْکِتَاب وَالسَّبْعُ المَثَانِی وَ بِسمِ اللّٰہِ الرَّحْمِٰن الرَّحیم احدٰی آیہا (دار قطنی جلد اوّل باب و جوب قراء ۃ بسم اللہ الرحمن الرحیم فی الصّلوٰۃ) یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب تم الحمدللہ پڑھو تو بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھا کرو کیونکہ سورۃ فاتحہ امّ القرآن ہے اور امّ الکتاب ہے اور سبع مثانی ہے اور بسم اللہ الرحمن الرحیم اس کی آیتوں میں سے ایک آیت ہے۔ امام بخاری نے اپنی کتاب تاریخ میں بھی یہ روایت نقل کی ہے (مرفوع بھی اور موقوف بھی) (فتح البیان جلد اوّل)
اس حدیث میں اس امر کی طرف بھی اشارہ ہے کہ دوسری سورتوں کا بھی بسم اللہ الرحمن الرحیم حصّہ ہے۔ کیونکہ رسول کریم صلعم نے صرف یہ نہیں فرمایا کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ فاتحہ کا حصہ ہے بلکہ اس کے حصّہ ہونے کی دلیل دی ہے اور وہ یہ کہ چونکہ یہ اُمّ الکتاب او رامّ القرآن ہے اس لیے بسم اللہ اس کے ساتھ ضرور پڑھنی چاہیئے اور یہ دلیل اسی صورت میں ٹھیک ہوتی ہے جب یہ آیت باقی سورتوں کا بھی حصّہ ہو اور دلیل بالاولیٰ کے طور پر کہا گیا ہو کہ جب باقی سورتوں کا بسم اللہ الرحمن الرحیم حصہ ہے۔ تو تم سمجھ سکتے ہو کہ سورۃ فاتحہ جو اُمّ الکتاب اور اُمّ القرآن ہے اس کا حصّہ بھی ضرور ہو گی پس اس کی تلاوت سے پہلے اس آیت کو ضرور پڑھا کرو۔
اس استدلال کے علاہو اور دلائل بھی اس بارہ میں ہیں مثلاً مسلم کی روایت ہے عن انس قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیہ وَسَلّم اُنْزِلَتْ عَلَیَّ سُورَۃٌ آنفَّا فَقَرَأْ بِسمِ اللّٰہِ الرَّحْمِٰن الرَّحیم انا اعطیناک الکوثر (مسلم باب حجتہ مَنْ قَالَ البسْمِلَۃُ اٰیۃٌ مِنْ اوّلِ کلِّ سورۃٍ) یعنی انسؓ کہتے ہیںکہ رسول کریم صلعم نے ایک دفعہ فرمایا کہ مجھ پر ابھی ایک سورۃ اُتری ہے جو یہ ہے بِسمِ اللّٰہِ الرَّحْمِٰن الرَّحیم انا اعطیناک الکوثرپس آپؐ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کو سورزہ کوثر کا حصہ قرار دیا ہے بعض اور سورتوں کے متعلق بھی ایسی روایات ہیں۔
اس روایت پر یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ یہ سورۃ مکی ہے او رانسؓ انصاری ہیں جو ہجرت کے وقت آٹھ نو سال کے بچے تھے۔ حدیث کے الفاظ بتاتے ہیں کہ آپؐ نے یہ بات سوزہ کے نازل ہوتے ہی فرمائی تھی پھر انسؓ نے اس کو کیونکر سن لیا۔ اگر دوسرے دلائل اس قول کی تائید میں نہ ہوتے تو یہ اعتراض یقینا اس حدیث کو ضعیف بنا دیتا لیکن دوسرے دلائل کی موجودگی میں اس اعتراض کو زیادہ وقعت حاصل نہیں کیونکہ صحابہ بعض دفعہ دوسرے صحابہ سے سن کر بھی روایات بیان کر دیتے تھے اور یہ امر مسلم ہے کہ جب کوئی روایت رسول کریم صلعم کی طرف کوئی صحابی منسوب کرے تو وہ بہرحال درست ہے کیونکہ کسی صحابی پر جھوٹ کا الزام ثابت نہیں ہوتا۔ اگر انسؓ نے رسول کریم صلعم کی طرف یہ قول منسوب فرمایا ہے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ آپؐ نے کسی مہاجر صاحب سے یہ روایت سنی ہے اور جب صحابی تک روایت پہنچ گئی تو اس کے سچا ہونے میں شبہ نہ رہا۔
احناف کے متعلق جو بعض لوگ یہ خیال کرتے کہ وہ بسم اللہ کو گویا قرآن کریم کا حصہ نہیں سمجھتے یہ غلط ہے امام ابو حنیفہؓ کا یہ مذہب نہیں بلکہ یہ ہے کہ یہ آیت مستقل آیت ہے اور سورۃ کا حصہ نہیں۔ امام ابوبکر رازی جو حنفیوں کے آئمہ سے ہیں اپنی کتاب احکام القرآن جزء اوّل میں لکھتے ہیں۔ وَلَمَّا ثَبَتَ اَنَّہاَ لَیْسَتْ مِنْ اَوَائِلِ السُّوَرِواَنْ کَانَتْ آیۃً فِی مَوْضِعِہَا عَلَی وَجْہِ الْفصَلِ بَیْنَ السُّوْرتَیْنِ اُمِرْنَا بِالْاِبتِدَائِ بِہَا تَبَرّکاً۔ ترجمہ۔ اس وجہ سے کہ یہ ثابت ہو گیا ہیں کہ یہ آیت کسی سورۃ کا حصہ نہیں گو دو سورتوں کا فاصلہ بتانے کے لئے ایک مستقل آیت کے طور پر اُتاری گئی ہے۔ ہمیں اس کے ساتھ نماز شروع کرنے کا حکم بطور تبرک کے دیا گیا ہے۔ پس یہ محض ناواقفوں کا خیال ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کو احناف قرآن کا حصہ نہیں قرار دیتے بیشک وہ اسے کسی سورۃ کا حصہ نہیں قرار دیتے۔ لیکن قرآن کریم کا حصہ ضرور قرار دیتے ہیں۔ گو میرے نزدیک ان کا یہ عقیدہ بھی درست نہیں اور حق یہی ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم ہر سورۃ کا حصہ ہے اور جیسا کہ آگے بیان ہو گا۔ ہر سورۃ کے پہلے اس کے رکھنے میں بہت سی حکمتیں ہیں۔
بسم اللّٰہ کی فضیلت
بسم اللہ کی فضیلت پر رسول کریم صلعم نے خاص زور دیا ہے آپؐ فرماتے ہیں کُلُّ اَمْرٍ ذِیْ بَالٍ لَایُبْدَأُ فِیہ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَقُطَعُ (اربعین حافظ عبدالقادر عن ابی ھریرۃ بحوالہ الدر رالمنشور) یعنی جس بڑے کام کو بسم اللہ سے شروع نہ کیا جائے وہ بے برکت ہوتا ہے۔ چنانچہ رسول کریم صلعم نے یہ سنت قائم کی ہے کہ مسلمان اپنے سب کاموں کو بسم اللہ سے شروع کیا کریں۔ چنانچہ ایک حدیث ہے۔ أغْلُقْ بَابَک وَ اْ ذکُر اسْمَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ فَاَنَّ الشَّیْطٰنَ لاَیَفْتَحْ بَابَا مُغْلَقًا وَاْ طِفیْٔ مِصْبَا حَکَ وَاْ ذکُرْ اِسْمَ اللّٰہِ وَخَمِّرْ اِنَائَ کَ وَلَوْ بِعُوْدٍ تعرضہ و اذکُرْ اسمَ اللّٰہِ وَاوکِ سِقائَ کَ وَا ذَکُرْ اسْمَ اللّٰہِ عُزَّوَجَلّ (مسند احمد بن حنبل جلد ثالث صفحہ ۳۱۹) یعنی اپنا دروازہ بند کرتے ہوئے بھی بسم اللہ کہہ لیا کرو اور چراغ بجھاتے ہوئے بھی۔ اور برتن کو ڈہانکتے ہوئے بھی۔ او راپنی مشک کا مُنہ باندھتے ہوئے بھی۔ اسی طرح بیوی کے پاس جاتے ہوئے۔ وضو کرتے ہوئے کھانا کھاتے ہوئے۔ پاخانے میں داخل ہونے سے پہلے۔ لباس پہنتے ہوئے بسم اللہ کا کہنا دوسری احادیث سے ثابت ہے۔ قرآن کریم میں حضرت سلیمان کے ایک خط کا ذکر کیا گیا ہے کہ انہوں نے بھی اپنا خط بسم اللہ سے شروع کیا تھا۔ چنانچہ آتا ہے اِنَّہٗ مِنْ سُلَیْمَانَ وَ اِنَّہٗ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ (نمل ع ۲) یعنی یہ خط سلیمان کی طرف سے ہے اور بسم اللہ الرحمن الرحیم میں فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے حضرت نوحؒ کا ٍکر کر کے بھی قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے کشتی میں چڑھتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ ازُ کَبُوْا فِیْہَا بِسْمِ اللّٰہِ مَحْرٖر مَا وَ مُرْسٰہَا (ہود ع ۴؍۴)
ہر سورۃ کے پہلے بِسْمِ اللّٰہ اس لئے رکھی گئی ہے کہ قرآن کریم کے متعلق یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ ایک خزانہ ہے جسے اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر نہیں کھولا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَایَمَسُّہٗ اِلَّا الْمُطَھَّرُوْنَ (الواقعہ ع ۳) سوائے ان لوگوں کے جن کو اللہ تعالیٰ اس امر کے لئے چُن لے۔ دوسرے لوگ قرآنی اسرار کو نہیں سمجھ سکتے۔ اسی طرح فرماتا ہے یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًا وَّ یَھْدِیْ بِہٖ کَثِیْرًا (بقرہ ع ۳) قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ بعض کے لئے ہدایت کا موجوب اور بعض کے لئے گمراہی کا موجب بنا دیا ہے گویا لفظ اور عبادت تو سب کے لئے ایک ہے مگر اثر جُدا جُدا رنگ کا ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اچھے اثر کو حاصل کرنے اور بُرے سے بچنے کے لئے اور اس کے اسرار کو سمجھنے کے لئے کیا ذریعہ اختیار کرنا چاہیئے سو اس کا جواب اِذَا اقَرَأتَ الْقُرْآنَ فَا سْتَعِذْ بِاللّٰہِ (نحل ع ۱۸) کے حکم سے اور بسم اللہ الرحمن الرحیم ہر سورۃ کے پہلے رکھ کر دیا گیا ہے۔ یعنی قرآن کریم پڑھنے سے پہلے ایک طرف تو اللہ تعالیٰ سے شیطان کے حملہ سے بچنے کے لئے دُعا کر لیا کرو۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی رحمانیت اور رحیمیت کا واسطہ دیکر اس کی مدد حاصل کر لیا کرو اس طرح گمراہی سے بچ جائو گے اور ہدایت حاصل ہو گی۔
دوسری وجہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کو ہر سورۃ کے پہلے رکھنے کی یہ ہے کہ بائبل میں لکھا تھا۔ کہ آخری زمانہ میں جو موسیٰ کا ایک مثیل آنے والا ہے۔ اس کے متعلق خدا تعالیٰ کا یہ قانون ہو گا کہ ’’جو کوئی میری باتو ںکو جنہیں وہ میرا نام لے کے کہے گا نہ سنے گا تو میں اس کا حساب اس سے لونگا‘‘ (استثناء باب ۱۸ آیت ۱۹) اس پیشگوئی کے مطابق مثیل موسیٰ کے لئے مقدر تھا کہ جب وہ خدا تعالیٰ کی باتیں کرے اس سے پہلے کہہ لے کہ میں یہ سب کچھ خدا تعالیٰ کے نام پر کہہ رہا ہوں اپنی طرف سے نہیں ۔ پس ضروری تھا کہ اس پیشگوئی کے مطابق ہر سورۃ سے پہلے بسم اللہ رکھی جاتی۔ تاکہ ایک طرف تو موسیٰ کی پیشگوئی پوری ہو اور دوسری طرف یہود اور نصاریٰ کو تنبیہہ ہوتی رہے کہ اگر وہ اس کلام کو نہ سنیں گے تو موسیٰ علیہ السلام کے الہام کے مطابق اللہ تعالیٰ کی سزا کے مورد بنیں گے۔
تیسری وجہ اس آیت کو ہر سورۃ کے شروع میں رکھنے کی یہ ہے کہ بائبل میں لکھا تھا’’وہ نبی جو ایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا میں نے اُسے حکم نہیں دیا یا اور معبودوں کے نام سے کہے تو وہ نبی قتل کیا جائے‘‘ (استثناء باب ۱۸ آیت ۲۰) اس آیت میں بتایا گیا ہے جو شخص خدا تعالیٰ کا نام لے کر کوئی جھوٹی بات کہے گا اسے اللہ تعالیٰ ہلاک کر دے گا۔ پس اس حکم کے مطابق قرآن کریم کی ہر سورۃ کی ابتداء میں بسم اللہ رکھی گئی تاکہ یہود و نصاریٰ پر خصوصاً اور باقی دُنیا پر عموماً حجت ہو اور اس حُکم کی موجودگی میں رسول کریم صلعم کی کامیابی اور ترقی کو دیکھ کر مرحق کا مثلاشی یہ سمجھ لے کہ آپؐ نے جو کچھ کہا خدا تعالیٰ کی طرف سے کہا۔ اگر ایسا نہ ہوتو جب خدا تعالیٰ کا نام لے کر آپؐ نے اس کلام کو پیش کیا تھا کیوں آپؐ ہلاک نہ ہوتے۔ پس بسم اللہ یہود پر خصوصاً حجت ہے ہر سورۃ کے پہلے بسم اللہ رکھ کر گویا ایک سو چودہ دفعہ یہود کو ملزم بنایا گیا ہے اور محمدؐ رسول اللہ صلعم کی صداقت کی ایک سو چودہ دلیلیں پیش کی گئی ہیں۔ اگر صرف قرآن کریم کے شروع میں یہ آیت ہوتی تو یہ بات حاصل نہ ہو سکتی تھی۔
چوتھی وجہ اس آیت کو ہر سورۃ کے شروع میں رکھنے کی یہ ہے کہ قرآن کریم کو پڑھنے والا تین حال سے خالی نہیں یا تو وہ تہی دست اور بے سرمایہ ہو گا یا گناہوں کے ارتکاب سے خدا تعالیٰ کی ناراضگی کو بھڑکا چکا ہو گا اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو کھینچنے کا کوئی طبعی ذریعہ اس کے پاس نہ ہو گا یا پھر وہ دین کی راہ میں قربانی کرنے والا ہو گا۔ یہ ظاہر ہے کہ ان تینوں قسم کے لوگوںکی قلبی کیفیت الگ الگ ہو گی۔ پہلی قسم کا انسان حیران دوسری قسم کا مایوس اور تیسری قسم کا مغرور ہو سکتاہے۔ پہلی قسم کا انسان اس حیرانی میں مبتلا ہو گا کہ میں کہاں سے صداقت تلاش کروں۔ دوسری قسم کا انسان اس غم میں گھلا جا رہا ہو گا کہ میں کس منہ سے مانگوں۔ اور تیسری قسم کا اس اثر کے نیچے ہو گا کہ جو کچھ حاصل ہو سکتا تھا مجھے حاصل ہو گیا۔ دل کی ان تینوں کیفیتوں کے ماتحت انسان نفع حاصل کرنے سے محروم رہ جاتا ہے۔ پس ہر سورۃ سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم رکھا گیا۔ تا جو تہی دست ہے اسے راستہ بتایا جائے کہ تہی دستوں کی مدد کرنے والا ایک خدا موجود ہے جو بغیر استحقاق کے فضل کرتا ہے اور جو نافرمانی کر کے اپنا حق کھو چکا ہے اسے توجہ دلائی جائے کہ مایوس نہ ہو۔ جس خدا نے یہ سورۃ اُتاری ہے وہ گناہوں کو بخشنے پر بھی آمادہ رہتا ہے اور جو قربانی کی وجہ سے مغرور ہو رہا ہو اسے توجہ دلائی جائے کہ خدا تعالیٰ کی رحمتوں کے خزانے غیر محدود ہیں۔ پس کسی ایک جگہ پر قدم نہ روک کہ ابھی غیر متناہی ترقیات باقی ہیں۔ ظاہر ہے کہ دل کی اس قسم کی اصلاح کے بغیر قرآنی مطالب جس طرح کھل سکتے ہیں اس کے بغیر نہیں کھل سکتے۔ پس ہر سورۃ سے پہلے اس آیت کو رکھ کر قرآنی مطالب کے اظہار کا ایک زبردست ذریعہ مہیا کیا گیا ہے۔
پانچویں وجہ اس آیت کو ہر سورۃ سے پہلے رکھنے کی یہ ہے کہ یہ ہر سورۃ کے لیے کنجی کا کام دیتی ہے تمام دینی اور رُوحانی مسائل رَحْمٰن اور رَحِیْم دو صفات کے گرد چکر کھاتے ہیں۔ چونکہ غلط دو طرح دور ہوتی ہے کبھی تفصیل سے اور کبھی اجمال سے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہر سورۃ کے شروع میں بسم اللہ رکھ دی تاکہ سورۃ کے مطالب میں جو اشتباہ پیدا ہوا سے پڑھنے والا بسم اللہ سے دُور کر لے یعنی جو مطلب وہ سمجھاتا ہے اگر رحمن اوررحیم کے مطابق ہو تو اسے درست سمجھے اور اگر اس کے خلاف ہو تو اسے غلط قرار دے۔ اس طرح بسم اللہ کی شارح سورۃ ہو جاتی ہے اور سورۃ کی مفسر بسم اللہ اور دونو ںکی مدد سے صحیح مفہوم پڑھنے والے کے ذہن نشین ہو جاتا ہے۔
بسم اللہ کی پہلی کتاب میں
بعض معترضین کہتے ہیں کہ بسم اللہ جس پر تم کو اس قدر ناز ہے پہلی کتب میں بھی پائی جاتی ہے مثلاً زر شتی کتب میں بھی لکھا کہ بنام یزدان بخشائش گردا دار بعد کی فارسی میں اس کا اس طرح ترجمہ کیا ہے۔ بنام خداوند بخشا یندہ بخشائش گر (تفسیر ریورنڈوھیری) یا یہ کہ یہود میں بھی بسم اللہ کا رواج تھا۔ ان سے یکھ کر عربوں میں رائج ہوا اور پہلے پہل طائف کے امیر نے اس کا رواج دیا (راڈول ترجمہ قرآن) راڈول کا جواب تو یہ ہے کہ یہ قطعاً غلط ہے کہ عربوں میں اس صورت میں بسم اللہ کا رواج تھا عرب تو الرَّحْمٰن کے کثرت استعمال کو پسند ہی نہ کرتے تھے بہرحال اس کا کوئی تاریخی ثبوت چاہیئے کہ ان میں بسم اللہ اس شکل میں رائج تھی مگر ایسا ثبوت ہر گز موجود نہیں۔ باقی رہا کہ یہود میں بھی اس کا رواج تھا اگر اس سے یہ مراد ہے کہ زمانہ نبوی یا قریب زمانہ میں یہود کی قوم اس عبارت کو استعمال کیا کرتی تھی یا ان کی تاریخ میں اس کا ثبوت ملتا ہے تو یہ بالکل خلاف واقعہ ہے اور اگر یہ مراد ہے کہ خود قرآن کریم میں ہی لکھا ہے کہ سلیمان علیہ السلام نے اس آیت کو اپنے خط میں استعمال کیا تو یہ اول درجہ کی بددیانتی ہے کہ قرآن کریم کے حوالہ کو دوسروں کی طرف منسوب کر کے قرآن کریم پر اعتراض کا ذریعہ بنایا جائے۔ جب خود قرآن کریم حضرت سلیم علیہ السلام کی نسبت فرماتا ہے کہ انہوں نے ملکہ سباء کو جو خط لکھا تھا اس میں یہ عبارت بھی تھی کہ اِنَّہٗ مِنْ سُلَیْمَانَ وَاِنَّہٗ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ (سورۃ نمل ع ۲) تو پھر یہ کہنا کہ مسلمانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ اس سے پہلے اس آیت کا مضمون دُنیا میں رائج نہ تھا کس طرح درست ہو سکتا ہے۔ اسلام کا یہ دعویٰ نہیں کہ اس آیت کا مضمون نیا ہے۔ اللہ۔ رحمن۔ رحیم یہ سب ہی لفظ پہلے موجود تھے اور استعمال ہوتے تھے۔ اسلام کا تو یہ دعویٰ ہے کہ اس کا وہ استعمال جو قرآن کریم میں ہوا ہے اس سے پہلے موجود نہیں۔ اگر کوئی دشمن اسلام اس کا ثبوت پیش کرے تو بیشک اس کی بات قابل توجہ ہو سکتی ہے مگر یہ ناممکن ہے کیونکہ قرآن کریم سے پہلے کوئی بھی ایسی کتاب نہیں جس کی نسبت دعویٰ کیا گیا ہو کہ اس کا ہر ہر لفظ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ پس کوئی آسمانی کتاب نہیں جس کے ہر ٹکڑے سے پہلے یہ عبارت درج کی جا سکے سوائے قرآن کریم کے۔ بارقی رہا تبرک کے طو رپر اللہ اور اس کی صفات کا ذکر اپنے خطوں یا مضمونوں سے پہلے کرنا۔ سو یہ عام بات ہے۔ اس کا نہ اسلام کو انکار ہے نہ مسلمانو ںکو۔ اس امر میں اگر دوسرے لوگ مسلمانوں کے شریک ہوں توہزار دفعہ ہوں۔
باقی رہا ریورنڈوھیری کا اعتراض۔ سو اس کا بھی ایک جواب اوپر آ چکا ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ دونوں عبارتوں کے معنوں میں اس قدر فرق ہے کہ وہی ان کو ہم معنی قرار دے سکتا ہے جو عربی زبان سے ناواقف ہو۔ بخشائش گر اور دادار کا مفہوم رحمن اور رحیم کے مفہوم کا بیسواں حصہ بھی تو نہیں۔ (جیسا کہ اس سورۃ کے متعلق تفسیری نوٹوں سے معلوم ہو جائے گا) لیکن جس حد تک اس میں خوبی ہے اس کا ہمیں انکار نہیں۔ اسلام کا دعویٰ ہے کہ پہلی سب قوموں میں نبی گذرے ہیں اور آیت وَاِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّاخَلَا فَیْہَا لَذِیْرٌ (فاطر ع ۳) اس پر شاہد ہے پھر اگر کوئی اچھا فقرہ زرد شتیوں کی کتب میں موجود ہو۔ تو مسلمانوں کو کیوں بُرا لگنے لگا۔ بُرا تو ریورنڈوھیری یا ان کے ہم مذہب لوگوں کو لگے گا۔ جو خدا تعالیٰ کے فضل کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں اور بنو اسرائیل کی قوم سے باہر نبوت او رالہام کا نشان انہیں کہیں نہیں ملتا۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے زردشت خدا کا پیغامبر ہے اور ہمارے لئے واجب صدا احترام۔ اس کے کلام کا منبع قرآن کا منبع ہے۔ پس ان دونوں میں اشتراک یا موافقت کونسا قابلِ تعجب امر ہے۔
پہلے حل لغات میں بیان کیا جا چکا ہے کہ اللہ کے لفظ کے بارہ میں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اسم مشتق ہے مگر جیسا کہ وہاں پر ثابت کیا جاچکا ہے یہ سب خیال غلط ہیں اور ائمہ نحوان کو ردّ کرتے ہیں چنانچہ سیبویہ اور خلیل دونوں کا خیال ہے کہ اللہ علم ہے اور کسی دوسرے لفظ سے مشتق بھی نہیں ہے (تفسیر کبیر جلد اول صفحہ ۱۵۶ المطبعۃ المصریہ اور صفحہ ۸۵ طبع قدیم) اس کے دلائل مختلف علماء نے یہ دیئے ہیں کہ یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کے لئے مستعمل نہیں ہے حتیّٰ کہ عرب کے مشرک بھی اور کسی معبود کے لئے یہ لفظ نہیں بولتے تھے۔ اگر ال اور الٰہ یا ال اور لٰہ سے یہ لفظ بنا ہوتا تو جس طرح یہ لفظ اوروں کے لئے بولے جاتے ہیں۔ اللہ کا لفظ بھی بولا جاتا مگر عرب ایسا ہر گز نہ کرتے تھے (۲) صفات الہٰیہ ہمیشہ اللہ کے لئے بطور صفت کے استعمال ہوتی ہیں لیکن اللہ کا لفظ اور کسی اسم کے لئے بطور صفت استعمال نہیں کیا جاتا اور یہی اصل علامت علم کی ہے۔
بعض کہتے ہیں کہ سورۃ اربراہیم میں ہے اَلْعِزِیْز الْحَمِیْدِ اللّٰہِ (ابراہیم ع ۱) اس میں اللہ بطور صفت استعمال ہوا ہے لیکن یہ درست نہیں۔ اس میں صفت کے طور پر نہیں بلکہ عطف بیان کے طور پر ساتعمال ہوا ہے او راس موقعہ پر علم کا استعمال جائز ہے۔ جیسے کہتے ہیں ھٰذِہِ الدَّارُ مِلْکٌ لِلْعَالِمِ الْفَاضِلِ زَیْدٍ۔ ایسے موقعہ پر علم کا استعمال اشتباہ کے دُور کرنے کے لئے ہوتا ہے اور آیت کا یہ مطلب ہے کہ عزیر اور حمید سے مراد ہماری اللہ ہے۔
بعض کہتے ہیں کہ ھُوَ اللّٰہُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (انعام ع ۱) سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ علم نہیں بلکہ صفاتی نام ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جب کوئی نام اپنی صفات کے ساتھ مشہور ہو جاتا ہے تو وہ بھی صفاتی رنگ میں استعمال ہونے لگتا ہے جیسے حاتم۔ رستم کہ ہیں توخاص اشخاص کے نام۔ لیکن ایک سخاوت اور دوسرا بہادری کے لئے مشہور ہو گیا ہے اور اب حاتم کو سخی کی جگہ اور رستم کو بہادر کی جگہ استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً فلاں شخص رستم ہے فلاں حاتم ہے۔ اسی طرح اللہ کا لفظ چونکہ اپنی صفات کے ساتھ ایک کامل ہستی پر دلالت کرنے لگ گیا اس لئے یُوں کہنا جائز ہو گیا کہ آسمان میں وہی اللہ ہے یعنی تمام صفات میں کامل ذات جس کا نام اللہ ہے ایک ہی ہے اور دوسرا کوئی اس کے نام میں شریک نہیں اور نہ کام ہیں۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ لفظ فَعَّال کے وزن پر ہے پس اس پر تنوین آنی چاہیئے لیکن استعمال میں تنوین نہیں آئی پس معلوم ہوا کہ ال اس کے اصلی حروف سے نہیں بلکہ ال تعریف کا ہے پس یہ لفظ مرکب ہوا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہر قاعدہ میں استثناء ہو ہوتے ہیں۔ اللہ کے لفظ پر تنوین کا نہ آنا بھی ایک استثناء ہوتے ہیں۔ اللہ کے لفظ پر تنوین کا نہ آنا بھی ایک استثناء کی صورت ہے۔ چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ال پر اگر ندی کا حرف آئے تو اس کے بعد ایہا کا لفظ بڑھایا جاتا ہے۔ مثلاً اگر النّاس کو بلانا ہو تو کہیں گے یا یّہا الناس لیکن یا ایہا اللّٰہ نہیں کہا جاتا جو اس امر کا ثبوت ہے کہ اللّٰہ کا ال اصلی ہے ال تعریف کا نہیں ہے۔
بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں۔ کہ چونکہ اللہ کے لفظ کا ہمزہ وصلی ہے اس سے معلوم ہوا کہ یہ اصلی ہمزہ نہیں بلکہ زائد ہے اسی طرح جب اللہ پر لام آتا ہے یعنی لِللّٰہ کہتے ہیں۔ تو الف گر جاتا ہے یہ بھی ثبوت ہے کہ یہ اصلی ہمزہ نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہمزہ کا گر جانا زائد ہمزہ کی علامت نہیں۔ اسم اور ابن کے ہمزے زائد نہیں ہیں بلکہ دوسرے حرف کے قائم مقام ہیں اور یہ بھی گر جاتے ہیں۔ چنانچہ بسم اللہ میں اسم کا ہمزہ گر گیا ہے حالانکہ وہ ہمزہ زائد نہیں بلکہ تبدیل شدہ ہے پس معلوم ہوا کہ ہمزہ کا وصلی ہونا یا گر جانا اس کے زائد ہونے کا ثبوت نہیں۔
غرض اللہ کے لفظ کا استعمال اسلام اور اسلام سے پہلے دونوں ہی زمانہ میں اس کے علم اور غیر مشتق ہونے پر دلالت کرتا ہے او رجو دلائل اس کی بعض خصوصیات کی وجہ سے اس کے مشتق ہونے کے دیئے گئے ہیں وہ درست نہیں ہیں بلکہ دوسری مثالوں سے ان کی غلطی ثابت ہے۔
بسم اللہ میں اسم کی زیادتی
ایک اور سوال اس جگہ پیدا ہوتا ہے کہ کہنا تو یہ چاہیئے تھا کہ اللہ کی مدد مانگتے ہوئے قرآن کریم پڑھتا ہوں او رکہا یہ گیا ہے کہ اللہ کے نام کی مدد سے پڑھتا ہوں۔ نام کا لفظ کیوں زیادہ کیا گیا ہے اس کے مفصلہ ذیل جواب ہیں۔
(۱) باء استعانت کے علاوہ قسم کے لئے بھی آتی ہے اگر خالی یاللّٰہ ہوتا تو شُبہ ہو سکتا تھا کہ شائد قسم کھائی گئی ہے پس اس شبہ کے ازالہ کے لئے اسم کا لفظ بڑھایا گیا (۲) اللہ تعالیٰ کی ذات مخفی ہے اور صفات ہی سے وہ پہچانا جاتا ہے۔ اس لئے اسم کا لفظ بڑھایا گیا۔ الرَّحْمٰن الرّحِیْم کے ذکر سے مُراد بھی یہی ہے کہ میں خدا تعالیٰ سے اس کی رحمانیت اور رحیمیت کا واسطہ دے کر مدد طلب کرتا ہوں (۳) یہ توجہ دلائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں بھی برکت ہے اور ان کی طرف انسان کو توجہ رکھی چاہیئے (۴) قرآن کریم ایک بند خزانہ ہے اور جب کوئی کسی ایسے مکان میں جس میں داخلہ بلا اجازت ممنوع ہو داخل ہوتا ہے تو اس کے محافظوں کو … کو مالک کا حکم یا اجازت دکھاتا ہے یا اس کا ذکر کرتا ہے چنانچہ پولیس جب کسی کے گھر میں داخل ہوتی ہے تو کہتی ہے کہ حکومت کے نام پر ہم داخل ہو رہے یا فلاں مال پر قبضہ کرتے ہیں پس اس جگہ نام کا لفظ بڑھا کر اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جو شخص بسم اللہ پڑھ کر قرآن کریم پڑھتا ہے وہ گویا قرآن کریم کی خدمت پر مامور فرشتوں سے کہتا ہے کہ مجھے خدا تعالیٰ نے خود اس سورۃ کے پڑھنے کا حکم دیا ہے پس میرے لئے اس کے مطالب کے دروازے کھول دو اور وہ اختصاراً اس مضمون کو یُوں ادا کرتا ہے کہ اللّٰہ رحمٰن رحیم کے نام پر اس خزانہ کے کھولے جانے کی میں درحواست کرتا ہوں ظاہر ہے کہ جو اس طرح خدا تعالیٰ کے اذن سے قرآن کریم کی طرف متوجہ ہو گا۔ اس کے علوم سے حصہ پائے گا۔ لیکن جو اس کے اذن اور اس کے نام سے توجہ نہیں کرے گا بلکہ شرارت اور بعض سے توجہ کرے گا اس کے لئے اس کے خزانے نہیں کھولے جائینگے۔
پانچویں اور چھٹی حکمت اس کی ان دو پیشگوئیوں کی طرف اشارہ کرنا ہے جو استثناء باب ۱۸۔ اور آیت ۲۰ میں مذکو رہیں او رجن کا ذکر میں اس سوال کی بحث میں کر آیا ہوں کہ ہر سورۃ کے شروع میں بسم اللہ کیوں دہرائی گئی ہے اور وہ حکمت یہ ہے کہ ان پیشگوئیوں میں لکھا تھا کہ وہ خدا کا نام لیکر کلام الٰہی سنائے گا پس ان پیشگوئیوں کی طرف توجہ دلانے کے لئے ضروری تھا کہ اسم کا لفظ اس جگہ بڑھایا جاتا۔








۳؎ حل لغات
اَلْحَمْدُ۔ حمد کے معنی تعریف کے ہیں۔ عربی میں تعریف کے لئے کئی الفاظ آتے ہیں۔ حمد۔ مدح شکر۔ ثناء۔ اللہ تعالیٰ نے حمد کا لف؍ چنا ہے جو بلاوجہ نہیں۔ شکر کے معنی احسان کے اقرار اور اس پر قدردانی کے اظہار کے ہوتے ہیں اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ لفظ استعمال ہو تو صرف قدردانی کے معنی ہوتے ہیں ظاہر ہے کہ حمد اس سے زیادہ مکمل لفظ ہے کیونکہ حمد صرف احسان کے اقرار کا نام نہیں ہے بلکہ ہر حسین شے کے حسن کے احساس کے اقرار کا نام نہیں ہے بلکہ ہر حسین شے کے حسن کے احساس اور اس پر اظہار پسندیدگی اور قدردانی کا نام بھی ہے۔ پس یہ لفظ زیادہ وسیع ہے۔
دوسرا لفظ ثناء ہے۔ ثناء کے اصل معنے دُہرانے کے ہوتے ہیں اور تعریف کو ثناء اس لئے کہتے ہیں کہ ذکر خیر لوگوں میں پھیل جاتا ہے اور لوگ وقتاً فوقتاً اس کا ذکر کرتے رہتے ہیں (مفردات) یہ ظاہر ہے کہ ثناء میں ذاتی تجربہ سے زیادہ لوگوں میں ذکر خیر کے پھیلنے کی طرف اشارہ ہے اور گو یہ ایک خوبی ہے لیکن بندہ اور اللہ تعالیٰ کے درمیان جو ذاتی تعلق ہوتا ہے اس پر یہ لفظ اس قدر روشنی نہیں ڈالتا جس قدر کہ مدح کا لفظ ڈالتا ہے کیونکہ یہ لفظ ذاتی تشکر اور احسان مندی پر زیادہ دلالت کرتا ہے۔
اب رہا مدح سو مدح کا لفظ جھوٹی اور سچی دونوں قسم کی تعریف کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن حمد صرف سچی تعریف کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے اُحْثُوا فی وجوہِ الْمَدّ احِیْنَ التُّرَابَ (مسند احمد بن صنبل جلد ۶) جھوٹی تعریف کرنے والوں کے مونہوں پر مٹی ڈالو۔ اسی طرح مدح ان اعمال کے متعلق بھی ہو سکتی ہے جو بغیر اختیار کے ہوں لیکن حمد انہی اعمال کے متعلق ہوتی ہے جو اختیار اور ارادہ سے کئے جائیں (مفردات) پس حمد کا لفظ مدح سے بہرحال افضل ہے اور اللہ تعالیٰ کے متعلق زیادہ مناسب یہ جو میں نے کہا تھا کہ ثنا ایسی تعریف پر دلالت کرتا ہے جو لوگوں میں پھیل جائے اور یہ بھی ایک خوبی تو پیدا نہ ہوئی تو اس کا جواب یہ ہے کہ الحمد کے الفاظ سے یہ خوبی بھی پیدا ہو گئی ہے کیونکہ ال استغراق کے معنی دیتا ہے یعنی تمام افراد کو اپنے اندر شامل کر لیتا ہے پس اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کے معنے ہوئے۔ سب قسم کی تعریف۔ اور ہر شخص کی تعریف اللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہے اور اسی کا حق ہے ان معنوں میں ذکر خیر کی کثیر اشاعت آ جاتی ہے بلکہے ثناء سے بھی زیادہ اس عبارت سے اللہ تعالیٰ کی حمد کی اشاعت کا مفہوم نکلتا ہے۔
رب۔ رب کے معنی اِنْشَائُ الشیِٔ حالاً فحالاً الی حدِّ التَّمامِ کے ہیں۔ (مفردات) یعنی کسی چیز کو پیدا کر کے تبدیلی طور پر کمال تک پہنچانا۔ خالی تربیت کے معنی بھی یہ دیتا ہے۔ خصوصاً جبکہ انسان کی طرف منسوب ہو مثلاً قرآن کریم میں ماں باپ کی نسبت آتا ہے کَمَادَ بَّیٰنِیْ صَغیْرًا (بنی اسرائیل ع ۳) یا اللہ میرے ماں باپ پر رحم فرمایا۔ جس طرح انہوں نے اس وقت میری تربیت کی جبکہ میں چھوٹا تھا۔ رب کے معنی مالک کے بھی ہوتے ہیں۔ (اقرب) اسی طرح سردار اور مطاع کے بھی (اقرب) جیسے قرآن کریم میں حضرت یوسفؑ کا قول ہے أُذْکُرْ فِیْ عِنْدَ رَبِّکَ۔ اور مصلح کے بھی معنی ہیں (اقرب) ان معنوں میں اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کے لئے بھی یہ لفظ استعمال ہو سکتا ہے۔ لیکن بغیر اضافت کے مطلق رب کا لفظ کبھی غیر اللہ کے َلئے استعمال نہیں ہو سکتا ۔ مثلاً ربّ الدّار۔ گھر کا مالک یا رِبَّ الْفَرَسِ۔ گھوڑے کا مالک تو انسان کو کہہ سکتے ہیں مگرجب خالی یہ کہیں کہ رب نے یوں کہا ہے یا کیا ہے تو اس کے معنے صرف اللہ تعالیٰ کے ہونگے (مفردات) رب کے معنے مفسرین نے خالق کے بھی کئے ہیں (بحر محیط)
العلمین۔ عَالَم کی جمع ہے اور مخلوق کی ہر صنف اور قسم عالم کہلاتی ہے۔ (مفردات) اور عَالَمُوْنَ یا عَالَمِیْن کے سوا اس کی جمع عَلاَلِم یا عَوَالِم بھی آتی ہے اور غیر ذوی العقول کی صفات میں سے ون یا یان کے صرف عالم یا یاسم دو لفظوں کی جمع بنتی ہے۔ اور عالم مخلوق کو اس لئے کہتے ہیں۔ کہ اس کے خالق کا پتہ لگتا ہے (اقرب) بعض مفسرین نے کہا کہ عالم کی جمع المون یا عالمین تب بنائی جاتی ہے جبکہ ذوی العقول کا ذکر ہو۔ مثلاً انسان فرشتے وغیرہ۔ مگر یہ قاعدہ لغت کے بھی خلاف ہے۔ اور قرآن کریم کے محاورہ کے بھی خلاف۔ لغت کا حوالہ اوپر گرر چکا ہے۔ قرآن کریم کی یہ آیت اس پر شاہد ہے۔ قَالَ فِرْعَوْنُ وَمَا رَبُّ الْعَالَمِیْنَ۔ قَالَ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَۂمَا اِنْ کُنتُمْ مُوْقِنِیْنَ۔ قَالَ لِمَنْ حَوْلَہٗ اَلَاتَسْمَّعُوِنَ قَالَ رَبُّکُمْ وُ ربُّ اٰبَآئِکُمُ الُاَ وَّلِیْنَ۔ قَالَ اِنَّ رَسُوْ لَکْمُ الَّذِیْ اُرْسِلَ اِلَیْکُمْ لَمَجْنُوْنٌ قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَیْنَہُمَا اِنْ کُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ (شعر اء ع ۲) اس آیت میں عالمین میں انسانوں کے سوا آسمان زمین اور ان کے درمیان کی سب اشیاء اور مغرب اور مشرق اور ان کے درمیان کی سب اشیاء کو عالمین میں شامل بتایا گیا ہے۔ اسی طرح سورۃ حٰمّ سجدہ میں ہے قُلْ اَئِنَّکُمْ لَتَکْفُرُوْنَ بِالَّذِیْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِیْ یَوْمَیْنِ وَ تَجْعَلُوْنَ لَہٗ اَنْدَادًا ذٰلکَ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ۔ وَ جَعَلَ فِیْھَا رَوَ اسِیَ مِنْ فَوْقِھَا وَ بَارَکَ فِیْہَا وَ قَدَّرَ فِیْہَآ اَقْوَ اتَھَا فِیْ اَرْبَعَۃِ اَیَّامٍ سَوَآئً لِّلعَّآئِلِینَ (حٰمٓ سجدہ ع ۲) اس آیت میں بھی زمین اور پہاڑوں وغیرہ کو عالمین میں شامل کیا گیا ہے حضرت مسیح موعودؑ بھی تحریر فرماتے ہیں۔ اِنَّ الْعَالِمَیْنَ عِبَارَۃٌ عَنْ کُلِّ مَوْجُوْدٍ سِوَی اللّٰہِ … سَوَائً کَانَ مِنْ عَالَمِ الْاَرْوَاحِ اَوْمِنْ عَالَمِ الْاَجْسَاِم… اَوْ کَالْشَّمْسِ وَالْقَمَرِ وَغَیْرِ ھَما مِنَ الْاَجْرامِ (اعجاز المسیح صفحہ ۴۸ طبع مصر) یعنی عالم سے مراد جاندار اور غیر جاندار سب اشیاء ہیں۔ اسی طرح سورج چاند وغیرہ کی قسم کے اجارم فلکی۔ غرض سب جاندار یا غیر جاندار اس میں شامل ہیں۔
جو صرف ذوی العقول کے لئے اسے قرار دیتے ہیں۔ وہ مَاھُوَ اِلاَّ ذِکْرِ لِّلْعَالَمِیْنَ (قلم ع ۲) کی آیات سے استدلال کرتے ہیں مگر یہ استدلال درست نہیں۔ کیونکہ جب اس کا استعمال غیر ذوی العقول کے لئے قرآن کریم میں موجود ہے۔ تو اس آیت کے متعلق صرف یہ کہا جائے گا کہ عام لفظ خاص معنوں میں استعمال ہوا ہے چنانچہ قرآن کریم میں یہی لفظ اس سے بھی خاص معنوں میں استعمال ہوا ہے فرمایا ہے وَاَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعَالَمِیْنَ (بقرہ ع ۶) اے یہود ہم نے تم کو سب جہانوں پر فضیلت دی ہے حالانکہ مراد صرف اپنے زمانہ کے لوگ ہیں نہ کہ ہر زمانہ کے لوگ۔ کیونکہ خیر الامم مسلمانوں کو کہا گیا ہے۔ پس خاص معنوں کا استعمال جبکہ عام معنوں میں یہ لفظ استعمال ہو چکا ہے اس کے معنوں کو محدود نہیں کرتا۔ اور حق یہی ہے کہ عالَمِیْن میں ہر قسم کی مخلوق شامل ہیں۔ خواہ جاندار ہو یا غیرجاندار۔
تفسیر۔ اَلْحَمْدُلِللّٰہِ۔ یہاں یہ نہیں فرمایا کہ میں اللہ کی حمد کرتا ہوں نہ یہ کہ ہم کرتے ہیں۔ بلکہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ فرمایا ہے۔ اس طرح کئی معانی پیدا کر دیئے گئے ہیں۔ اوّل مصدر کے استعمال سے عروف اور مجہول دونوں معنی پیدا کر دیئے گئے ہیں یعنی یہ بھی کہ سب حمد جو مخلوق کر سکتی ہے یا کرتی ہے خدا تعالیٰ کو ہی پہچنتی ہے اور وہ سب قسم کی تعریفوں کا مستحق ہے۔ کوئی اچھی بات نہیں جو اس میں نہ پائی جاتی ہو اور کوئی بری بات نہیں جس سے وہ پاک نہ ہو اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ ہی مخلوق کی صحیح حمد کر سکتا ہے کیونکہ وہ عالم الغیب ہے۔ بندے بندے کی تعریف کرتے ہیں لیکن بسا اوقات وہ غلط ہوتی ہے بعض دفعہ جس قدر کسی میں خوبی ہوتی ہے۔ اس کا اظہار نہیں کر سکتے اور بعض دفعہ ایسی تعریف کرتے ہیں۔ جو موصوف میں پائی نہیں جاتی۔ پس اصل حمد وہی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو بلکہ دوسرے لوگ تو الگ رہے انسان خود اپنی نسبت رائے قائم کرنے میں غلطی کر جاتا ہے اور اپنی طاقتوں کا غلط اندازہ لگا لیتا ہے۔ مگر جو بات خدا تعالیٰ بندہ کے متعلق فرماتا ہے نہ اس میں کوئی کمی ہوتی ہے نہ زیادتی۔ اگر الحمد کی بجائے احمد یا نحمد کے الفاظ ہوتے تو یہ معنی پیدا نہ ہو سکتے تھے۔
نیز اگر حمد کا صیغہ فعل استعمال کیا جاتا یعنی یہ کہا جاتا کہ میں اللہ تعالیٰ کی حمد کرتا ہوں تو یہ شبہ ہو سکتا تھا کہ شائد انسان اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کو سمجھنے کی قابلیت رکھتا ہے لیکن یہ درست نہیں۔ انسان کی حمد محدود ہوتی ہے اور وہ صرف اپنے علم کے مطابق حمد کرتا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ میں اس کے سوا غیر محدود اسباب حمد کے اور بھی پائے جاتے ہیں۔
غرص اَحْمَدُ یا نَحْمَدُ سے جو معنے پیدا ہو سکتے تھے وہ بھی الحمد میں پائے جاتے ہیں اور ان سے زائد بھی۔ اس لئے الحمدللّٰہ کے الفاظ کا اس مختصر سورۃ میں رکھنا جو سب مطالب کی جامع ہے ضروری تھا۔ بیشک قرآن کریم میں حمد مخلوق کی طرف بھی منسوب ہوئی ہے جیسا کہ فرمایا وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ (بصرہ ع ۴) لیکن کہیں بھی احمد یا نحمد کے الفاظ مخلوق کی طرف منسوب نہیں ہوئے۔ گونسّبِحُ اور نقدّس کے الفاظ یا یُسَبَحُ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اس میں اس امر کی طرف لطیفہ اشارہ ہے کہ خالص حمد کا مکمل طور پر سمجھنا بندہ کی شان سے بالا ہے حدیثوں میں یہ الفاظ آتے ہیں۔ مگر ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلام میں الفاظ کے اور معنے ہوتے ہیں اور بندہ کے کلام میں اور۔ بندہ جب اپنی طرف سے ایک لفظ بولتا ہے تو اس کے معنے اتنے وسیع نہیں لئے جاتے جتنے وسیع کہ اس وقت لئے جاتے ہیں۔ جب خدا تعالیٰ کے کلام اور پھر کلام شریعت میں وہ الفاظ آئیں۔
لِلّٰہ کے الفاظ سے اس شبہ کو بھی دُور کیا ہے کہ حمد تو انسانو ںکی بھی کی جاتی ہے۔ پھر سب تعریف خدا تعالیٰ کی کس طرح ہوئی۔ اور وہ اس طرح کہ لام ملکیت ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے پس لام کے ذریعہ سے یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد حقیقی ہوتی ہے اور غیر اللہ کی طفیلی۔ کیونکہ انسان میں جو خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ ذاتی نہیں ہوتیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے عطا شدہ ہوتی ہیں۔ پس جو تعریف کسی انسان کی کی جاتی ہے اس کا بھی اصل مستحق اللہ تعالیٰ ہی ہوتا ہے۔
آیت کے مطالب
اس آیت کے بعض مطالب ذیل میں لکھے جاتے ہیں (۱) اس جہان کا خالق سب نقصوں سے پاک اور سب خوبیوں کا جامع ہے۔ (۲) وہ تمام مخلوق کی کنہ اور حقیقت سے واقف ہے اور اس کے سوا کوئی شخص بھی کسی چیز کی کامل ماہیت سے واقف نہیں۔ اس دعویٰ کا روشن ثبوت سائنس کی ترقی سے مل چکا ہے۔ مختلف اشیاء کی تحقیق میںسینکڑوں علماء لکھے ہوئے ہیں لیکن اب تک ادنیٰ سے ادنیٰ شے کی کامل حقیقت سے بھی کوئی آگاہ نہیں ہو سکا۔ اور ہر چیز کے متعلق تازہ انکشافات ہوتے چلے جا رہے ہیں (۳) خدا تعالیٰ کامل حمد کا مالک تب ہی ہو سکتا ہے کہ وہ رَبّ الْعالَمِیْن ہو۔ اگر رب العالمین نہ ہو تو وہ کامل حمد کا مالک نہیں ہو سکتا۔ اس لئے ضروری ہے کہ جس طرح اس کا جسمانی نظام سب کے فائدہ میں لگا ہوا ہے۔ اس کا روحانی نظام بھی سب پر حاوی ہو۔ اور کوئی ملک اور کوئی قوم روحانی ترقی کے سامانوں سے محروم نہ ہو۔ پس اگر کوئی الہام کسی خاص قوم سے مخصص ہے۔ تو دوسری قوم کے لئے الگ الہام نازل ہونا چاہیئے۔ اور جب دوسری قوموں کے لئے الگ الہام نازل نہ ہو۔ تو ایسے وقت میں جو الہام نازل ہو وہ سب دنیا کی ہدایت کے لئے ہونا چاہیئے (پس جو مذاہب اس امر کے قائل ہیں کہ الہام صرف انہی کی قوم کی ہدایت کے لئے نازل ہوا ہے۔ یا یہ کہ نجات صرف انہی کی قوم یا مذہب کا حق ہے غلطی پر ہیں)
(۴) انسانوں کے اندر جس قدر کمالات ہیں وہ سب خدا تعالیٰ کے عطا کردہ ہیں۔ اس لئے جو نیکی بھی وہ کریں۔ اس کی تعریف کا حقیقی مستحق اللہ تعالیٰ ہی ہے (۵) حمد کو ربوبیت عالمین کے ساتھ وابستہ کر کے یہ بتایا ہے کہ حقیقی خوشی انسان کو اسی وقت ہونی چاہیئے۔ جب اللہ تعالیٰ کی صفت رب العالمین ظاہر ہو۔ جو شخص اپنے فائدہ پر خوش ہوتا ہے اور دُنیا کے نقصان کی طرف نگاہ نہیں کرتا۔ وہ اسلام کی تعلیم کو نہیں سمجھتا۔ حقیقی خوشی یہی ہے کہ سب دنیا آرام میں ہو۔
(۶) یہ فرما کر کہ اللہ تعالیٰ رَبُّ الْعَالَمِیْن ہے۔ اس طرف اشارہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر شے ربوبیت کا محل ہے یعنی ارتقاء کے قانون کے ماتحت ہے۔ یہ بتایا ہے کہ دنیامیں کوئی چیز نہیں جس کی ابتداء اور انتہا یکساں ہو۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز تغیر پذیر ہے۔ اور ادنیٰ حالت سے ترقی کر کے اعلیٰ کی طرف جاتی ہے۔ جس سے دو امر ثابت ہوتے ہیں۔ اوّل خدا تعالیٰ کے سوا ہر شے مخلوق ہے کیونکہ جو چیز ترقی کرتی اور تغیر پکڑتی ہے وہ آپ ہی آپ نہیں ہو سکتی۔
دوسرے ارتقاء کا مسئلہ درست ہے۔ ہر شے ادنیٰ حالت سے اعلیٰ کی طرف گئی ہے خواہ انسان ہو ںخواہ حیوان۔ خواہ نباتات ہوں خواہ جمادات۔ کیونکہ رب العالمین کے معنی یہ ہیں کہ ہر شے کو ادنیٰ حالت سے اعلیٰ کی طرف لے جا کر اللہ تعالیٰ کمال تک پہنچاتا ہے پس ثابت ہوا کہ ارتقاء کا مسئلہ دُنیا کی ہرشے میں جاری ہے (۷) نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ ارتقاء مختلف وقتوں اور مدارج (STAGES)میں حاصل ہوتا ہے۔ کیونکہ رب کے معنی ہیں۔ اِنْشَائُ الشَیُٔ حالاًفحا لًا اِلیٰ حدِّ التَّمامِ چیز کو مختلف وقتوں اور مختلف درجو ںمیں ترقی دیکر کمال تک پہنچانا (نہ کہ ایک ہی کڑی کو مکمل کرنا)۔
(۸) یہ بھی معلوم ہوا کہ ارتقاء اللہ تعالیٰ کے وجود کے منافی نہیں۔ کیونکہ فرمایا کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ارتقاء کے ذریعہ سے پیدائش خدا تعالیٰ کے عقیدہ کے خلاف نہیں پڑتی۔ بلکہ اس سے وہ حمد کا مستحق ثابت ہوتا ہے۔ اسی لئے رَبّ الٔعَالَمِیْن کے ساتھ اَلْحمدُلِلّٰہِ کے الفاظ استمعال فرمائے۔
(۹) اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ انسان کو لامتناہی ترقیات کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ کیونکہ فرماتا ہے کہ سب تعریف اللہ تعالیٰ کی ہے کہ وہ مختلف انواع و اقسام کی مخلوق کو ادنیٰ حالت سے اُٹھا کر اعلیٰ تک پہنچاتا ہے اور یہ مضمون صحیح نہیں ہو سکتا جب تک ہر مقام اور درجہ سے اوپر کوئی اور درجہ تسلیم نہ کیا جائے۔
(۱۰) سب سے آخر میں یہ کہ اس سورۃ کو جو سب سے پہلی سورۃ ہے اور قرآن کریم کے مطالب کا خلاصہ اَلْحَمدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ سے شروع کر کے یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کامل حمد اب شروع ہو گی کیونکہ اسلام جو رب العالمین کی صفت کا کامل مظہر ہے سب دنیا کی طرف آیا ہے اور جسمانی عالم کی طرح روحانی عالم میں بھی اتحاد پیدا کر دیا گیا ہے پہلے جب مختلف اقوام کی طرف الگ رسول آتے تھے۔ بعض نادان متبع دسرے انبیاء کی تعلیم کو غلط سمجھ کر ان کی تردید کرتے تھے ہندو کہتے ہم یہودا کو نہیں جانتے پر میشور کو جانتے ہیں یہود پر میشور پر ہنسی اُڑاتے۔ لیکن اسلام کے ظہور سے سب دنیا کے لئے ایک دین ہو گیا۔ اور ہندی اور چینی اور مصری اور ایرانی اور مغربی اور مشرقی سب خدا کی تعریف میں لگ گئے اور یہ تسلیم کیا گیا کہ ہر قوم کا خدا الگ نہیں ہے بلکہ سب اقوام کا خدا ایک ہی ہے۔

۴؎ حل لغات
رَحْمٰنِ اور رَحِیْم کے لئے دیکھو لغت ۲؎ سورۃ ہذا۔
تفسیر۔ الرحمن الرحیم۔ ان الفاظ کے معنی بسم اللہ میں بیان ہو چکے ہیں۔ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ ان دونوں صفات کا ذکر میں ہو چکا ہے بِسْمِ اللّٰہِ الرّحْمٰنِ الرّحِیْمِ میں ہو چکا ہے پھر ان کو دُہرایا کیوں گیا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بسم اللہ میں ایک مستقل مضمون بیان ہوا ہے اور وہ ہر سورۃ کی کنجی ہے۔ اس لئے سورۃ کے مضمون میں اگر اپنے موقعہ پر انہی صفات کو دوبارہ بیان کیا جائے۔ تو یہ امر تکرار نہیں کہلا سکتا۔ چنانچہ یہاں بھی اسی حکمت سے ان صفات کو دُہرایا گیا ہے۔ رب العالمین میں یہ مضمون بتایا گیا تھا۔ کہ خدا تعالیٰ پیدا کر کے آہستہ آہستہ اور درجہ بدرجہ اعلیٰ ترقیات تک پہنچاتا ہے۔ آیت زیر تفسیر میں الرّحْمٰنِ الرَّحِیْم کے الفاظ سے طریق ربوبیت بتایا ہے اور وہ یہ کہ (۱) اللہ تعالیٰ رحمٰن ہے اس نے ہر چیز کے لئے ایسے سامان پیدا کئے ہیں جو اِس کی ترقی میں حمد ہوتے ہیں اور باریک دربار یک سامان پیدا کر کے مخفی اور مخفی قوتوں کو قوت ظہور عطا فرمائی ہے۔ اور ترقی کے ذرائع بہم پہنچائے ہیں۔ انسان حیوان نباتات جمادات سب اپنے گرد و پیش سے متاثر ہو رہے ہیں۔ اور اپنے قیام یا اپنی تکمیل کے سامان حاصل کر رہے ہیں (۲) وہ رَحِیْم ہے پس جب کوئی مخلوق اپنے فرائض کو اچھی طرح ادا کرتی ہے تو اس کی قدر دانی کی جاتی ہے اور اس پر خاص فضل کیا جاتا ہے اور مزید ترقی کی اس میں اُمنگ پیدا کی جاتی ہے اور اسی طرح یہ سلسلہ لامتنا ہی طور پر چلا جاتا ہے۔
الرَّحْمٰن۔ ایسی صفت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اس کا استعمال دوسروں پر نہیں ہوتا سوائے اضافت کے جیسا کہ مسیلمہ کذاب اپنے آپ کو رحمٰن یمامہ کہلواتا تھا۔ اس کے معنی جیسا کہ بتایا جا چکا ہے بلا مبادلہ اور بلا استحقاق رحم کرنے کے ہیں۔ اور اس مفہوم میںکفارہ کا رد پایا جاتا ہے۔ کیونکہ کفارہ کی بنیاد اس خیال پر ہے کہ اللہ تعالیٰ بلا استحقاق رحم نہیں کر سکتا۔ مسیحیوں کو اس کا اس قدر احساس ہے کہ عرب کے نصاریٰ بھی جب اپنی تصنیفات یا خطوں پر خدا تعالیٰ کا نام لکھتے ہیں تو بسم اللہ کے بعد اور صفات کا ذکر کر دیتے ہیں۔ رحمٰن کا لفظ استعمال نہیں کرتے۔ سوائے ایسے شخص کے جو اسلامی تمدن سے متاثر ہو۔ مثلاً یہ لکھ دیں گے۔ بِسْمِ اللّٰہِ الکریم الرَّحِیْم یا اور کوئی صفت بیان کر دینگے۔ رحمٰن کا لفظ استعمال نہیں کریں گے۔ کیونکہ ان کا دل مانتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ رحمن ہے تو پھر اس کے لئے مسیح کا کفارہلئے بغیر بندوں کے گناہ بخشنا کچھ بھی مشکل نہیں۔
رحیم کی صفت میں تناسخ کا ردّ ہے۔ کیونکہ تناسخ کی بنیاد محدود عمل کی غیر محدود جزاء نہ مل سکنے کا عقیدہ ہے صفت رحیم بتاتی ہے۔ کہ محدود عمل کی غیر محدود جزاء نہیں ملتی بلکہ نیک عمل کی خاصیت یہ ہے کہ وہ مکرر ہوتا ہے پس اس کے بدلہ میں جزاء بھی مکرر ملتی ہے۔ رحیم کا لفظ بار بار رحم کرنے پر دلالت کرتا ہے اور بار بار رحم کے معنے یہ نہیں کہ ایک ہی فعل کا بار بار انعام ملتا ہے بلکہ اس سے یہ مراد ہے کہ جو شخص نیکی کی حقیقت کو سمجھتا ہے وہ باربار نیک اعمال بجا لاتا ہے اور کم سے کم اس کے دل میں بار بار نیک عمل بجا لانیکی خواہش ضرور پائی جاتی ہے پس ہر دفعہ جب نیک عمل کی جزا بندہ کو ملتی ہے اور نیکی کرنے کی طاقت اور اس کے بار بار بجا لانے کی خواہش اور بھی ترقی کی جاتی ہے جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اس پر پھر رحم کرتا ہے اور مومن کی نیکی کی خواہش او ربھی زیادہ ہو جاتی ہے اور وہ نیکی کے کاموں میں اور بھی بڑھ جاتا ہے اور اس طرح رحم بار بار نازل ہوتا جاتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کا رحم صرف گذشتہ فعل پر انعام کا رنگ ہی نہیں رکھتا بلکہ آیندہ نیکی کے لئے ایک بیج کا کام بھی دیتا ہے۔
در حقیقت محمدود عمل کا خیال ہندوئوں میں محض اس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ انہوں نے جنت کو بیکاری او ربے عملی کا ایک مقام سمجھ لیا ہے اور ان کو سمجھنا بھی ایسا ہی چاہیئے کیونکہ وہ نجات کے معنی نروان یعنی تمام خواہشات ا ور اعمال سے آزاد ہونا سمجھتے ہیں۔ پس ان کے نزدیک عمل اسی دُنیا میں ختم ہو جاتا ہے اور اس وجہ سے محدود ہوتا ہے۔ اور چونکہ عمل محدود ہوتا ہے ان کے نزدیک اس کا بدلہ بھی محدود ہونا چاہیئے۔ مگر اسلام بار بار رحم اور بار بار عمل کے مسئلہ کو پیش کرتا ہے اور جنت کو دارالعمل ہی قرار دیتا ہے جب خدا تعالیٰ رب العالمین ہے تو جنت بھی تو ایک عالم ہے وہاں بھی ترقی ہو گی۔ ورنہ رب العالمین صحیح نہیں ٹھہرتا۔ اور جب انسان وہاں بھی ترقی کرے گا۔ تو لازماً اس کے تقویٰ اور اس کی محبت الٰہی میں بھی ترقی ہو گی اورجب ان چیزوں میں ترقی ہو گی تو اس ترقی کے مقابل پر اللہ تعالیٰ کا رحم بھی پھر سے نازل ہو گا۔ اور جب یہ رحم اور عمل کا بار بار تبادلہ ہوتا رہے گا تو نجات کا وقت محدود کس طرح ہو سکتا ہے اس دنیا اور اگلے جہاں کے عمل میں صرف یہ فرق ہے کہ اس دُنیا میں تنزل کا خطرہ بھی ساتھ لگا ہوا ہے۔ مگر اگلے جہان میں صرف ترقی ہو گی تنزل نہ ہو گا۔ ورنہ روحانی عمل اور روحانی ترقی وہاں بھی ہو گی۔ پس محدود عمل اور غیر محدود جزاء کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔









۵؎ حل لغات
مالکِ ملَک اور مِلک تین ملتے مجلتے ہوئے لفظ ہیں۔ مالک جسے کسی چیز پر جائز قبضہ اور اقتدار حاصل ہو۔ ملک۔ فرشتہ۔ اور ملک بادشاہ یعنی جسے سیاسی اقتدار حاصل ہو۔
یَوْم۔ اس کے معنی مطلق وقت کے ہوتے ہیں قرآن کریم میں ہے۔ اِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ (حج ع ۶) خدا تعالیٰ کا بعض دن ہزار سال کا ہوتا ہے ایک شاعر کہتا ہے یو ماہ یومر ندیً ویوم طعاء ن میرے ممدوح پر دو ہی قسم کے وقت آتے ہیں۔ یا ِتو وہ سخاوت میں مشغول وتا ہے یا دشمنو ںکو قتل کرنے میں اسی طرح عرب کہتے ہیں۔ یو ماہُ یومُ نُعمٍ ویوم بُؤسٍ ای الدّھر۔ یعنی زمانہ دو حال سے خالی نہیں یا تو اسنان کے لئے نعمتیں لاتا ہے یا تکالیف لاتا ہے۔ (لسان العرب) اسی طرح سیبویہ کا قول ہے کہ عرب کہتے ہیں۔ اَنَا الْیَوْمَ اَفْعَلُ کَذَا الاَ یُرِ یْدُونَ یَوْمًا بِعَیْنِہٖ وَلٰکِنَّھُمْ یُرِیْدُونَ الْوَقْتَ الْحَاضِرَ (لسان العرب) یعنی جب کہتے ہیں کہ میں آج کے دن اس اس طرح کروں گا۔ تو اس سے مراد چوبیس گھنٹہ والا دن نہیں ہوتا۔ بلکہ اس سے مراد صرف موجودہ وقت ہوتا ہے۔ اسی طرح اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ جو قرآن کریم میں آتا ہے۔ اس سے بھی مُراد معروف دن نہیں بلکہ زمانہ اور وقت مراد ہے (لسان العرب) پھر لکھا ہے وَقَدْ یُرَادُ بِالْیَوِمَ اَلْوَقْتُ مُطْلَقًا وَمِنْہُ الحَدِیْثُ تِلْکَ اَیَّامُ الْھَرَجُ اَیْ وَقْتہٌ (لسان العرب) یعنی کبھی یوم سے مطلق وقت مراد ہوتا ہے جیسے حدیث میں ہے کہ یہ دن فتنہ اور لڑائی کے دن ہیں۔ مراد یہ کہ یہ فتنہ اور لڑائی کا زمانہ ہے۔
الدین۔ الجزاء و المکافاۃ۔ بدلہ۔ الطاعۃ اطاعت۔ الحساب۔ محاسبہ۔ القھر و الغلبہ والا ستعلاء غلبتہ السطان و الملک و الحکم۔ تصرف۔ حکومت۔ السیرۃ خصلت۔ التدبیر۔ تدبیر۔ اِسْمٌ لِجَمِیِعَ مایُعْبَدُ بِہٖ اللّٰہُ وہ تمام طریقے جن سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جاتی ہے وہ سب دین کہلاتے ہیں۔ یعنی شریعت۔ نیز اس کے معنی ہیں الِملَّۃ مذہب۔ الوَرَعُ۔ نیکی۔ المَعصیۃ نافرمانی۔ الحال۔ کیفیت القضاء فیصلہ۔ العادۃ۔ عادت۔ الشان۔ خاص حالت (اقرب)
تفسیر۔ آیت کے یہ معنی ہوئے کہ اللہ تعالیٰ جزاء سزا کے وقت کا مالک ہے۔ شریعت کے وقت مالک ہے۔ فیصلہ کے وقت کا مالک ہے۔ شریعت کے وقت کا مالک ہے۔ مذہب کے زمانہ کا مالک ہے۔ نیکی کے زمانہ کا مالک۔ گناہ کے زمانہ کا مالک ہے۔ محاسبہ کے وقت کا مالک ہے۔ اطاعت کے وقت کا مالک ہے۔ غلبہ کے وقت کا مالک ہے۔ خاص اور اہم حالتوں کا مالک ہے۔
عام طور پر تو اس کے معنی قیامت کے دن کا مالک کئے جاتے ہیں لیکن جیسا کہ لغت سے ظاہر ہے۔ یہ معنی محض تفسیری ہیں لغوی نہیں۔ دین کے ایک معنی جزاء سزا کے ہیں۔ اور جزاء سزا کامل مظاہرہ چونکہ قیامت کے دن ہو گا۔ اس لئے مفسرین نے جزاء سزا کے معنوں کی بنیاد پر اس آیت کے یہ معنی کر دیئے کہ قیامت کے دن کا مالک ہے۔ حالانکہ لغت کے رو سے اس آیت کے مختلف معنی ہوتے ہیں اور سب کے سب قرآنی مطالب کے مطابق اور درست ہیں۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ ایک معنوں کو تو لے لیا جائے اور دوسروں کو چھوڑ دیا جائے۔
جیسا کہ بتایا جا چکا ہے۔ مفسرین اس کے یہ معنی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جزاء سزا کے وقت کا مالک ہے۔ ان معنوں کے رو سے ایک تو اس آیت کی یہ تشریح ہو گی۔ کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کا مالک ہے۔ یعنی اس دن جزاء سزا میں کسی اور کا دخل نہ ہو گا بلکہ جزاء سزا صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملے گی۔ اس طرح اس دُنیا اور اگلے جہان کے نتائج میں فرق بتایا ہے کہ اس دُنیا میں تو اچھے برے افعال کی جزاء سزاء انسانوں کے ذریعہ سے بھی ملتی ہے اور اس میں لوگوں سے غلطی بھی ہو جاتی ہے مگر قیامت کے دن صرف اللہ تعالیٰ ہی جزاء سزاء دے گا۔ اور یہ ناممکن ہو گا کہ کسی پر ظلم ہو اور اسے بے گناہ سزا مل جائے یا جُرم سے زیادہ سزا مل جائے۔ نیز مجرم کے لئے بھی ناممکن ہو گا کہ جھوٹ فریب سے کام لے کر سزا سے محفوظ ہو جائے۔
نیز اس میں اس امر کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جزاء سزاء کے وقت صرف بطور مِلک نہیں کام کریگے بلکہ بطور مالک کام کرے گا۔ مِلک یعنی بادشاہ جب فیصلہ کرتا ہے تو اس کا کام صرف یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ انصاف کیا ہے۔ کیونکہ جن امور کا فیصلہ وہ کرتا ہے وہ مدعی اور مدعا علیہ کے حقوق کے ساتھ متعلق ہوتے ہیں۔ اس لئے اسے یہ اختیار نہیں ہوتا۔ کہ وہ کسی کو معاف کر دے لیکن اللہ تاعلیٰ چونکہ بادشاہ ہی نہیں بلکہ مالک بھی ہے اس لئے اُسے حق حاصل ہے کہ وہ اپنے حق میں سے جس قدر چاہے معاف کر دے۔ اس مضمون سے ایک طرف تو امید کا ایک اہم پہلو پیدا کر دیا گیا ہے او رمایوسی سے انسان کو بچا لیا گیا ہے۔ دوسری طرف انسان کو ہوشیار بھی کر دیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے رحم سے ناجائز فائدہ اُٹھانے کا خیال دل میں نہ لانا۔ کیونکہ مالک ہونے کے لحاظ سے جہاں وہ رحم کر سکتا ہے۔ وہاں اپنی پیدائش کو گندہ دیکھنا بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ گویا امید اور خوف کے خیالات یکساں پیدا کر کے انسان کے اندر چستی او رہمت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ برخلاف مسیحی نجات کی تعلیم کے کہ ایک طرف انصاف کا غلط مفہوم پش کر کے گناہ پر دلیر کر دیا گیا ہے گویا مسیحی عقیدہ کے دونو ںپہلوئوں نے پاکیزگی کی نہیں بکہ گناہ کی مدد کی ہے حد سے زیادہ مایوسی نے بھی گناہ ہی پیدا کیا ہے اور حد سے زیادہ امید نے بھی گناہ ہی پیدا کیا ہے کچھ لوگ تو پاکیزگی سے مایوس ہو کر نیکی کو چھوڑ بیٹھیں گے اور کچھ لوگ کفارہ پر توکل کر کے گناہ پر دلیر ہو جائینگے۔
دوسرے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ شریعت اور مذہب کے وقت کا مالک ہے۔ اس میں ایک لطیف مضمون قانونِ قدرت کے بارہ میں بیان کیاگیا ہے عام طور پر خدا تعالیٰ کی معاملہ دُنیا کے ساتھ عام قانونِ قدرت کے ماتحت ہوتا ہے۔ لیکن جس زمانہ میں مذہب یا شریعت کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ صفت مالکیت کا اظہار کرتا ہے۔ یعنی نہ صرف بادشاہت کا ظہور ہوتا ہے جو عام قانون سے تعلق رکھتا ہے۔ بلکہ ان دنوں مالکیت کی صفت کا خاص طور پر ظہور ہوتا ہے یعنی خاص تصرف سے اللہ تعالیٰ کام لیتا ہے اور وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی صفات کی باریکیوں سے واقف نہیں بظاہر قانونِ قدرت کو ٹوٹتے ہوئے دیکھتے ہیں ایک بیچارہ اور بے کس وجود دُنیا کے سامنے آ کر دعویٰ پیش کرتا ہے۔ سب لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں لیکن باوجود ظاہری سامانوں کے مخالف ہونے کے وہ شخص کامیاب ہو جاتا ہے۔ اسی طرح او ربہت سے معاملات میں دُعائوں اور معجزات کے ذریعہ سے ایسے واقعات ظاہر ہوتے ہیں کہ دنیا انہیں دیکھ کر حیران ہو جاتی ہے در حقیقت ان واقعات کی حکمت یہی ہوتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی روحانی سلسلہ کو چلاتا ہے یا کسی شریعت کی بنیاد قائم کرتا ہے توان ایام میں اپنی ملوکیت کیں نہیں بلکہ مالکیت کی صفت کو خاص طور پر ظاہر کرتا ہے۔ یعنی عام قانون کی بجائے اپنے خاص طور پر ظاہر کرتا ہے۔ یعنی عام قانون کی بجائے اپنے خاص قانون کو جو سا کے محبوبوں سے مخصوص ہے ظاہر کرنا شروع کر دیتا ہے اور ایسے واقعات ان دنوں میں ظاہر ہوتے ہیں جو خارق عادت نظر آتے ہیں۔ ہر نبی کے زمانہ میں خدا تعالیٰ کی سنت اسی طرح ظاہر ہوتا چلی آئی ہے۔ اور اس سورۃ میں بتایا گیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں بھی اسی طرح ہو گا۔ خارق عادت واقعات سے جو بظاہر قانونِ قدرت کے مخالف نظر آئینگے۔ اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد کرے گا۔ اور یہ امر اس بات کا ثبوت ہوگا کہ یہ زمانہ قیام شریعت کا ہے۔ اور محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔
ایک معنی اس آیت کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نیکی کے وقت کا اور گناہ کے وقت کا مالک ہے اس میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ دنیا پر دو دور آتے ہیں۔ ایک دور تو وہ ہوتا ہے جبکہ نیکی اور بدی یکساں طور پر دنُیا میں پائی جاتی ہے اس وقت اللہ تعالیٰ کا عام قانون دنیا میں جاری رہتا ہے لیکن ایک زمانہ ایسا آتا ہے کہ دُنیا میں گناہ ہی گناہ پھیل جاتا ہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ مالک کی حیثیت سے ظاہر ہوتا ہے۔ اور اپنے باغ کی اصلاح کرتا ہے اور نبی مبعوث فرماتا ہے اور اس کے ذریعہ سے ایک قوم دنیا میں ایسی قائم ہو جاتی ہے جو نیکی کے مقام کے مقام پر اس طرح قائم ہوتی ہے کہ کہا جا سکتا ہے کہے گویا وہ سب کی سب نیک ہے۔ اس وقت بھی اللہ تعالیٰ اپنی خاص تقدیروں کے ذریعہ اس قوم کی تائید کرتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ قوم اپنے اس معیار کو کھو دیتی ہے۔ اور اس میں نیکی بدی کی متوازی تحریکیں جا رہی ہو جاتی ہیں۔ تب اللہ تعالیٰ اپنی خاص تقدیر کو واپس کر لیتا ہے اور عام قانونِ قدرت کے ماتحت اس سے معاملہ کرنے لگتا ہے یہاں تک کہ وہ قوم ایک وقت میں جا کر بالکل خراب ہو جاتی ہے۔ تب سنت اللہ کے ماتحت پھر اللہ تعالیٰ مالکیت کی صفت کو ظاہر کرتا ہے۔ پھر نبی مبعوث ہوتا ہے پھر گناہ کا قلع قمع کیا جاتا ہے پھر ایک پاکوں کی جماعت بنائی جاتی ہے اور اس تمام عرصہ میں قدرت خاص یعنی مالکانہ قدرت اور تصرف کا ظہور ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ پھر وہ قوم نیکی کے اعلیٰ معیار سے نیچے گر جاتی ہے او رپھر وہی پہلا سا دور شروع ہو جاتا ہے۔
ایک معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اطاعت کے وقت کا مالک ہے یعنی وہی قانون خاص جس کا ذکر اوپر ہوا ہے اور جو اقوام کے متعلق جاری ہوتا ہے اسے اللہ تعالیٰ خاص افراد کے لئے بھی جاری کرتا ہے یعنی جب کسی شخص کی زندگی اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت میں گذرنے لگتی ہے تو اس کے لئے بھی اللہ تعالیٰ خاص قدرت کا اظہار کتا ہے اور وہ انسان عام انسانوں کی طرح نہیں رہتا بلکہ اللہ تعالیٰ اس کے لئے خاص قدرت کا اظہار کرتا ہے۔
ایک معنی اس آیت کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اہم حالتو ںکے وقت کا مالک ہے۔ اس سے اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ دُنیامیں ہر کام ایک زنجیر سے مشابہت رکھتا ہے یعنی منفرد نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کی بہت سی کڑیاں ہوتی ہیں۔ جب انسان بیمار ہوتا ہے تو اس کی بیماری اس دن کی کسی غلطی کے نتیجہ میں نہیں ہوتی۔ نہ تندرستی اس دن کی کسی غلطی کے نتیجہ میں نہیں ہوتی۔ نہ تندرستی اس دن کی ورزش یا غذا کی وجہ سے ہوتی ہے۔ پس انسان کے اعمال دو نتیجے پیدا کرتے ہیں۔ ایک نتیجہ تو عارضی اور وقتی ہوتا ہے۔ اور ایک نتیجہ آخری او رمستقل ہوتا ہے۔ ایک بے احتیاط آدمی آنکھوں کا غلط استمعال کرتا ہے تو اس کی آنکھیں دکھنے آ جاتی ہیں۔ مگر علاج سے اچھی ہو جاتی ہیں۔ پھر بے احتیاطی کرتا ہے پھر دیکھنے آ جاتی ہیں پھر علاج کرتا ہے پھر اچھی ہو جاتی ہیں۔ آخر ایک دن نظر جاتی ہی رہتی ہے اور علاج بپے فائدہ ہو جاتا ہے ایک محنتی طالب سلم سبق یاد کرتا ہے دوسرے دن اُستاد اس سے خوش ہو جاتا ہے یہ نتیجہ تو ساتھ کے ساتھ نکلتا رہتا ہے مگر اس محنت کا ایک خوشگوار اثر اس کے دماغ پر پڑتا جاتا ہے او راس کتابی علم کے علاوہ جو سبق یاد کرنے سے اسے حاصل ہو رہا تھا۔ ایک ذہانت ایک علم کی باریکیوں کے سمجھنے کا ملکہ اس کے دماغ میں پیدا ہوتا چلا جاتا ہے جو ایک دن اسے دنیا کا مرجع اور ممدوح بنا دیتا ہے یہ آخری نتائج ایسے باریک طور پر پیدا ہوتے ہیں کہ ساتھ اور دوست بھی اسے دیکھ نہیں سکتے اور اس کی وجہ سمجھ نہیں سکتے۔
اس مضمون سے اللہ تعالیٰ نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ آخری اور مستقل کامیابی اللہ تعالیٰ کے تعلق سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ بیشک انسان عام قانون کی فرمانبرداری کر کے عزت اور رتبہ حاصل کر لیتا ہے لیکن ایک آخری نتیجہ جو اعمال کی زنجیر کے مکمل ہونے سے پیدا ہوتا ہے اصل میں وہی قابل قدر شے ہے خصوصاً جو موت کے وقت ایمان کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے کہ اسی پر اگلے جہان کی زندگی کا انحصار ہے۔
مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن سے یہ مُراد نہیں۔ کہ اللہ تعالیٰ اس دُنیاکا مالک نہیں ہے بلکہ اگر اس آیت کے معنی قیامت کے دن کے مالک کے کئے جائیں تب بھی آیت کا مطلب یہ ہے کہ اس دن ظاہری طو رپر بھی کوئی مالک نہ ہو گا جیسا کہ فرمایا وَمَآ اَدْرٰکَ مَایَوْمُ الدِّیْنِ ثُمَّ مَآ اَدْرٰکَ مَایَوْمُ الدِّیْنِ یَوْمَ لَا تَمْلِکُ نَفْسٍ لَّنَفْسٍ شَیْئًا وَالْاَ مْرُیَوُ مَئِذٍلِلّٰہِ (انغطار) یعنی تم کو کیا معلوم کہ یوم الدین کیا ہے۔ یوم الدین وہ دن ہے کہ کوئی شخص دوسرے کے کسی کام نہ آ سکے گا۔ اور صرف خدا تعالیٰ کا حکم جاری ہو گا۔ پس مالک سے مراد یہ ہے کہ اس دُنیا میں جو ظاہر میں بادشاہ اور حاکم اور مالک نظر آتے ہیں۔ یہ سلسلہ اگلے جہان میں ختم ہو جائے گا۔ اور یہ مراد نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس جہان ا مالک نہیں ہے۔
ان چاروں صفات میں اور جس ترتیب سے وہ بیان ہوئی ہیں سلوک کا ایک اعلیٰ نکتہ بیان کیا گیا ہے جب ہم اس امر کو دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کا مقام اعلیٰ ہے اور بندہ کا ادنیٰ تو یہ امر ہمارے لئے واضح ہو جاتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ بندہ کی طرف متوجہ ہو گا تو اوپر سے نیچے کی طرف آئے گا لیکن جب بندہ اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرے گا تو نیچے سے اوپرکی طرف جائے گا۔ اس نکتہ کو سمجھ لینے کے بعد ان صفات کو دیکھ کر جو سورۃ فاتحہ میں بیان ہوئی ہیں ہم سمجھ سکتے ہیں۔ کہ اللہ تعالیٰ بندہ کی طرف (۱) رَبِّ الْعَالَمِیْنَ (۲) رحمٰن (۳) رحیم (۴) مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن کی صفات سے درجہ بدرجہ تنزل کرتا ہے۔ یعنی جب وہ اپنے بندہ پر ظاہر ہونے لگتا ہے۔ تو پہلے رب العالمین کی صفت کا ظہور ہوتا ہے یعنی وہ ایسے ماحول تیار کرتا ہے جن میں اس کے منظور اور محبوب بندہ کی صحیح نشوونما ہو سکے۔ پھر وہ ان سامانوں کو اپنے بندہ کے ہاتھ میں دیتا ہے جن سے وہ روحانی ترقی کر سکے۔ پھر بندہ جب ان سامانوں سے فائدہ اٹھاتا ہے تو اس کے اعلیٰ سے اعلیٰ نتائج پیدا کرتا ہے اور انعامات کے ایک لمبے سلسلہ کے بعد بندہ کی جدوجہد کا آخری نتیجہ نکالتا ہے یعنی اسے دنیا پر غالب کر دیتا ہے اور اپنی مالکیت کی صفت اس کے لئے ظاہر کر کے اسے دنیا پر غلبہ دے دیتا ہے۔
اس کے برخلاف جب ہندو اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرتا ہے تو اسے پہلے مالک کی صفت کا مظہر ہونا پڑتا ہے یعنی وہ انصاف اور عدل کو دنیا میں جاری کرتا ہے مگر اس کے انصاف کے ساتھ رحم کی ملونی ہوتی ہے۔ اور عفو کا پہلو غالب ہوتا ہے جس کے معنے ایصال شر سے اجتناب کے ہیں۔ جب بندہ اور ترقی کرتا ہے۔ تو رحیمیت کی صفت کا مظہر ہو جاتا ہے۔ یعنی جو لوگ اس کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں وہ نہ صرف یہ کہ ان کے کاموں کی قدردانی کرتا ہے بلکہ ان کے حق سے زیادہ ان پر انعام کرتا ہے یعنے ایصال خیر کی عادت اس میں پائی جاتی ہے جسے احسان کہتے ہیں۔ پھر اس کے اوپر انسان ترقی کرتا ہے۔ اور رحمانیت کی صفت کا ظہور اس کے ذریعہ سے ہونا شروع ہوتا ہے اور وہ اپنے پرائے سب سے نیک سلوک کرنا شروع کرتا ہے اور اس کا دل وسیع ہو جاتا ہے۔ اور وہ رحمانیت کا مظہر بن جاتا ہے کافر و مومن سب کی محبت اس کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے۔ اور خواہ کسی نے اس سے حسن سلوک کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ سب سے نیک سلوک کرے۔ اسے اِیْتَائِ ذِی الْقُرْبیٰ کی حالت کہتے ہیں۔ یعنی جس طرح ماں اپنے بچہ کی خدمت اطاعت کا خیال کئے بغیر یا کسی بدلہ کی امید رکھے بغیر کرتی ہے اسی طرح یہ شخص بنی نوع انسان کا خیر خواہ ہو جاتا ہے پھر اس مقام سے ترقی کر کے انسان رب العالمین کا مظہر ہو جاتا ہے یعنی اس کی نظر فرد سے اُٹھ کر نظام تک جا پہنچتی ہے۔ اور وہ اپنے آپ کو دنیا کا نگران اور داروغہ سمجھ لیتا ہے اور دنیا کی اصلاح کی طرف بحیثیت مجموعی توجہ کرتا ہے اور سوسائٹی کی حالت کو بدل ڈالتا ہے۔ یہ صعود اور ہبوط کی راہیں جو ان صفات میں بیان کی گئی ہیں۔ سلوک کے اعلیٰ گر اپنے اندر محفی رکھتی ہیں اور سالکوں کے لئے ایک عظیم الشان رحمت ہیں۔
۶؎ حل لغات
اِیَّاکَ عام قاعدہ کے رو سے لَعْبُدُکَ چاہئے تھا مگر معنوں میں اختصاص پیدا کرنے کے لئے ک کو پہلے لایا گیا۔ اور چونکہ ک اکیلا پہلے نہیں آ سکتا اس لئے ایا کو ضمیر منصوبہ ہے اس پر پڑھایا گیا۔ پس اِیَّاکَ نَصْبُدُ کے معنی ہوئے ہم تجھے عبادت کے لئے مخصوص کرتے ہیں۔
نَعْبُدُ ہم عبادت کرتے ہیں۔ اس کا ماضی عَبَدَ ہے اور اس کے مندرجہ ذیل معنی ہیں۔ عَبَدَ اللّٰہَ طاعَ لُہٗ وَخَضَعَ وَ ذَلَّ وَ خَدَمَہٗ وَالْتَزَمَ شَرَائعَ دِیْنِہِ وَ وَحَّدَہٗ (اقرب) یعنی عبد کے معنی ہیں اس کی اطاعت کی اور اس کے حکم کے آگے سر جھکایا اور اس کی خدمت کی اور اس کے دین کے احکام پر مستقل طور پر عمل کرنے لگا اور اس کی توحید کا اقرار کیا۔
عبد کے ایک معنی کسی کے نقش قبول کرنے کی ہیں چنانچہ کہتے ہیں۔ طریق معبّدٌ اے مذتّلٌ ایسا رستہ جو کثرت آمدو رفت سے اس طرح ہو گیاہو کہ پائوں کے نقش قبول کرنے لگ جائے۔
پس عبادت ایک ایسی کامل ہستی کی ہو سکتی ہے جو اپنے کمالات میں منفرد ہو اور اس کا کوئی شریک نہ ہو اور جس کی اطاعت افر فرمابرداری انسان کے لئے ممکن ہو کیونکہ جس کی فرمانبرداری ممکن ہی نہ ہو اس کی عبادت ایک بیمعنی لفظ ہو گا۔
یہ ظاہر ہے کہ ایسی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے کیونکہ اس کے سوا کوئی نہیں جس کی حقیقی معنوں میں فرمانبرداری کی جا سکے اور جس کی ذات کو چن کر انسان اسی کا ہو جائے اس کے سوا جس کی بھی انسان اطاعت کرے وہ اطاعت محدود ہو گی اور پھر اس کے سوا اور وجود بھی یا اور قانون بھی ایسے ہوں گے جن کی اطاعت پر انسان مجبو رہو گا۔
نَسْتَعِیْن ۔ استعانتہ سے ہے جس کے معنی مدد حاصل کرنے یا طلب کرنے کے ہیں۔ پس ایّاکَ نَسْتَعِیْن کے معنے ہوئے ہم مدد طلب کرنے کے لئے تجھے مخصص کرتے ہیں یعنی اور کسی لائق نہیں سمجھتے کہ اس سے مدد طلب کریں۔
تفسیر۔ اَلْحَمْدَلِلّٰہِ سے لے کر مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن تک کی عبارت سے یُوں ظاہر ہوتا ہے کہ گویا خدا تعالیٰ بندہ کی نظر سے اوجھل ہے اور وہ اس کی تعریف کر رہا ہے۔ لیکن ایّاک نَعْبُدُ سے یک دم خدا تعالیٰ کو مخاطب کر لیا گیا ہے بعض نادانوں نے اس پر اعتراض کیا ہے کہ یہ حسنِ کلام کے خلاف ہے۔ حالانکہ یہ حسنِ کلام کے خلاف نہیں۔ بلکہ حسنِ کلام کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات وراء الوراء ہے وہ بندہ کو نظر نہیں آتی۔ اس کی صفات کے ذریعہ سے وہ اسے شناخت کرتا ہے۔ اور اس کے ذکر کے ذریعہ سے وہ اس کے قریب ہوتا ہے یہاں تک کہ اس کے دل کی آنکھیں اسے دیکھ لیتی ہیں۔ ان آیات میں سلوک کے اس نکتہ کو بیان کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ رَبّ الْعَالَمِیْن رَحْمٰن۔ رَحِیْم۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن کی صفات پر جب انسان غور کرتا ہے۔ تو اس کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی محبت شدید طور پر اس کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے تب وہ روحانی طو رپر اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف اور اس کی محبت سے مغلوب ہو کر بے اختیار چلا اٹھتا ہے۔ کہ اے رب میں تیری ہی عبادت کرتا ہوں اور تجھ ہی سے مدد مانگتا ہوں۔ پس اس طرح ضمائر کر بدل کر اس مضمون کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ کہ قرآن کریم میں بتائی ہوئی صفات پر غور کرنے سے انسان کو اللہ تعالیٰ کی ملاقات حاصل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات بندہ کے سامنے آ جاتی ہے۔
حدیث میں آتا ہے عن ابی ھُریرۃ عن رسولِ اللّٰہِ صلی اللّٰہِ عُلیہ وسلم یقول اللّٰہ قسمتُ الصّلوٰۃ بَیْنِی و بین عبدی نِصْفین فنصفہالی و نصفہا لعبدی و لعبدی ماسألَ فاِذَا قال العبدُ الحمدُلِلّٰہِ ربّ العالمین قال اللّٰہُ حَمَدَنی عبدی واذا قال الرَّحْمٰن الرَّحیم۔ قال اثنٰی عَلَیّ عبدی و اذا قال مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن قال مجد نی عبدی و ربما قال فَوَّضَ اِلیّ عبدی و اذا قال اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن قال ھذا بینی و بین عبدی و لعبدی ماسأل و اذا قال اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم الخ (الیٰ اٰخرسورۃ) قال ھذا العبدی و لعبدی ماسال (مسلم کتاب الصلوۃ باب و جوب قراء ۃ الفاتحہ فی کل رکتہ) یعنی حضرت ابوہریرۃ فرماتے ہیں کہ بیٹے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے سورۃ فاتحہ کو اپنے اور اپنے بندہ کے درمیان تقسیم کر دیا ہے۔ پس اس کا نصف میرے لئے ہے اور نصف میرے بندے کے لئے ہے۔ اور میرا بندہ جو کچھ مجھ سے (اس کے ذریعہ سے طلب کرتا ہے) وہ میں اسے دُونگا۔ جب بندہ میرے بندے نے میری حمد کی۔اور جب بندہ کہتا ہے اَلرَّحَمٰنِ الرَّحِیْم تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے میری ثنا کی ہے۔ او رجب بندہ کہتا ہے مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی ہے اور بعض دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے اپنا معاملہ میرے سپرد کر دیا ہے۔ او رجب بندہ کہات ہے اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنتو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ آیت میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے اور میرے بندے نے جو کچھ مانگا ہے میں اُسے دُونگا۔ پھر جب بندہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمسے لے کر آخر تک کی آیات پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ یہ دعا میرے بندے کے لئے ہے اور یہ سب کچھ میرے بندہ کو ملے گا۔
اس حدیث سے مندرجہ ذیل امو رکا استنباط ہوتا ہے۔ اول حمد ثنا اور تمجید میں فرق ہے۔ دوم مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن کی آیت کامل تو کل پر دلالت کرتی ہے۔ یعنی اس میں یہ اشارہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو آخری نتائج کا مرتب کرنے والا قرار دے کر جب اَلْحَمْدُ کہتا ہے تو گویا وہ اس امر پر اطمینان کا اظہار کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ درست ہے اور مجھے منظور ہے اور جب وہ اللہ تعالیٰ پر اس طرح توکل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کیوں نہ اس سے بخشش اور نرمی کا معاملہ کرے۔سوم یہ کہ اس سورۃ میں جن انعامات کے حصول کے لئے دُعا سکھائی گئی ہے وہ مسلمانوں کو بحیثیت قوم ضرور ملیں گے کیونکہ اس دُعا کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ لعبدی ماسأل میرے بندہ نے جو کچھ مانگا ہے اُسے ضرور ملے گا۔
اس آیت میں نَعْبُدُ پہلے اور نَسْتَعِیْن بعد میں۔ بعض لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی عبادت کی توفیق تو اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہی حاصل ہو سکتی ہے پھرنَعْبُدُ کو پہلے کیو ںرکھا۔ نَسْتَعِیْن پہلے چاہیئے تھا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بیشک عبادت بھی اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہوتی ہے لیکن اس جگہ اعانت کا ذکر نہیں بلکہ استعانت کا ذکر ہے۔ یعنی مدد مانگنے کا۔ اور اس میں کیا شک ہے کہ جب بندہ کے دل میں عبودیت اور عبادت کا خیال پیدا ہو گا۔ اس کے بعد ہی وہ اللہ تعالیٰ دے دُعا مانگنے کا خیال کرے گا۔ جو عبادت کی طرف راغب ہی نہ ہو وہ مدد کیوں طلب کرے گا پس گو اللہ تعالیٰ کے فضل اور اعانت کے بغیر عبادت کی توفیق نہیں ملتی لیکن استعانت یعنی بندہ کا اللہ تعالیٰ کے دروازہ پرجُھکنا عباد ت کا خیال آنے کے بعد ہی پیدا ہوتا ہے۔ اس وجہ سے نعبدُ کو پہلے اور نستعین کو بعد میں رکھا گیا ہے۔
دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ ارادہ بندہ کی طرف سے ہوتا ہے اور عمل کی توفیق اللہ تعالیٰ کی طرف سے۔ اگر ارادہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو تو انسان کے اعمال اضطراری اعمال ہو جائیں۔ پس اس آیت میں یہ کہا گیا ہے کہ جب بندہ کے دل میں عبادت کا خیال پیدا ہو۔ اسے اللہ تعالیٰ سے تکمیل ارادہ کے لئے دُعا کرنی چاہیئے اور کہنا چاہیئے کہ اے میرے رب میں تیری عبادت کا فیصلہ کر چکا ہوں۔ مگر اس عہد کی تکمیل تیری تیری عباد ت کا فیصلہ کر چکا ہوں۔ مگر اس عہد کی تکمیل تیری امداد کے سوا نہیں ہو سکتی۔ اس لئے تو میری مدد کر او رمجھے اس امر کی تفیق دے کہ تیرے سوا کسی کی عبادت نہ کروں۔
عبادت کامل تذال کا نام ہے۔ پس عبادت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو بندہ اپنے اندر پیدا کر لے عبادت کی ظاہری علامات صرف قلبی کیفیت کو بدلنے کے لئے مقرر ہیں۔ ورنہ اس میں کوئی شک انہیں کہ عبادت دل کی کیفیت اور اس کے ماتحت انسانی اعمال کے صدور کا نام ہے اور خاص اوقات کی تعیین اور قبلہ رو ہونا اور ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا یا رکوع سجود کرنا یہ اصل عبادت نہیں بلکہ جسم کی ظاہری حالت کا اثر چونکہ دل پر ہوتا ہے اور توجہ بھی قائم ہوتی ہے نماز کے لئے کچھ ظاہری علامات بھی مقرر کر دی گئی ہیں۔ مگر وہ بمنزلہ برتن کے ہیں۔ جس میں معرفت کا دودھ ڈالا جاتا ہے یا بطور چھلکے کے ہیں جس میں عبادت کا مغز رہتا ہے۔
اس آیت میں اور بعد کی آیات میں جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ یعنی یوں کہا گیا ہے کہ ’’ہم عبادت کرتے ہیں‘‘ اور ’’ہم مدد مانگتے ہیں‘‘ اور ’’ہمیں سیدھا راستہ دکھا‘‘ اس میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اسلام ایک مدنی مذہب ہے وہ سب کے لئے ترقی چاہتا ہے۔ نہ کہ کسی ایک شخص کے لئے اور یہ بھی کہ ہر مسلمان دوسرے کا نگران مقرر کیا گیا ہے اس کا یہی کام نہیں کہ وہ خود عبادت کرے بلکہ یہ بھی ہے کہ دوسروں کو عبادت کی تحریک کرے او راس وقت تک تحریک نہ چھوڑے جب تک وہ اس کے ساتھ عبادت کرنے میں شامل نہ ہو جائیں۔ اور وہ آپ ہی اللہ تعالیٰ پر توکل نہ کرے بلکہ دوسروں کو بھی توکل کی تعلیم دے اور اس وقت تک بس نہ کرے جب تک وہ توکل میں اس کے ساتھ شامہ نہ ہو جائیں اور وہ خود ہی ہدایت کا طالب نہ ہو بلکہ دوسروں کو بھی ہدایت طلب کرنے کی نصیحت کرے۔ او ربس نہ کرے جب تک ان کے دل میں بھی ہدایت طلب کرنے کی تڑپ پیدا ہو کر وہ اس کے ساتھ شامل نہ ہو جائیں۔ اور خود بھی ہر دعا میں ’’میں‘‘ کی جگہ ہم کا لفظ استعمال نہ کرنے لگیں۔یہی تبلیغی اور تربیتی روح ہے جس نے اسلام کو چند سالوں میں کہیں کا کہیں پہنچا دیا۔ اور گر آج مسلمان ترقی کر سکتے ہیں تو صرف اسی جذبہ کو اپنے دل میںپیدا کر کے جب تک مسلمان نَعْبُدُ اور نَسْتَعِیْن اور اِھْدِنَا کے الفاظ نہیں کہتے۔ جب تک ان الفاظ کو سچے طور پر کہنے کیلئے جدوجہد نہیں کرتے۔ اس وقت تک ان کا نہ دین میں ٹھکانا ہو گا نہ دُنیا میں۔
حقیقت یہ ہے کہ عبادت بھی اور استعانت بھی اور طلب ہدایت بھی بحیثیت جماعت ہی ہو سکتی ہے کیونکہ اکیلا آدمی صرف ایک محدود عرصہ کے لئے اور ایک محدود دائرہ میں عبادت کو قائم کر سکتا ہے۔ ہاں جو اپنی اولاد کو بھی اور اپنے ہمسائیوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لیتا ہے وہ عبادت کا دائرہ وسیع کر دیتا ہے اور اس کا زمانہ ممتد کر دیتا ہے اور اس میں کیا شبہ ہے کہ سچا عبد وہی ہے۔ جو اپنے آقا کی ملمو کہ اشیاء کو دشمن کے ہاتھ میں نہ پڑنے دے جو اپنے آقا کے باغ کو لٹتے دیکھتا اور اس کیلئے جدوجہد نہیں کرتا وہ ہر گز سچا بندہ نہیں کہلا سکتا۔
اِیّاکَ نَعْبُدُ و اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کی آیت میں جبر اور قدر کے متعلق جو غلط خیالات لوگوں میں پھیل رہے ہیں۔ ان کا بھی رد کیا گیا ہے انسانی اعمال کے بارہ میں لوگوں میں دو غلط فہمیاں پیدا ہیں بعض تو یہ کہتے ہیں کہ جس قدر اعمال انسان سے سر زد ہو رہے ہیں جبر کے ماتحت ہیں یعنی انسان ان کے کرنے پر مجبور ہے۔ یہ خیال مذہبی لوگوں میں بھی ہے اور فلسفیوں میں بھی۔ اور اب علم النفس کے ماہرین کا ایک گروہ بھی ایک رنگ میں اس کا قائل ہو رہا ہے اور ان کا سردار ڈاکٹر فرائڈ آسٹرین پروفیسر ہے جو لوگ اس عقیدہ پر غلط مذہبی عقیدہ کی وجہ سے قائم ہیں ان کا یہ خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ مالک ہے جس طرح ایک انجینئر جب عمارت بناتا ہے تو کسی اینٹ کو پاخانہ میں اور کسی کو بالاخانہ میں لگاتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ محتار ہے کہ جسے چاہے نیک بنائے اور جسے چاہے بدکار بنائے۔سو اس نے بعض کو نیک اور بعض کو بدکار بنایا ہے۔ مسیحیوں نے ورثہ کا گناہ تسلیم کر کے جبر کے مسئلہ کو رائج کیا ہے۔ کیونکہ جب انسان ورثہ کے گناہ سے کفارہ کے بغیر آزاد نہیں ہو سکتا تو جس قدر لوگ کفارہ پر ایمان نہیں لاتے گنہگار ہونے پر مجبور ہیں۔ تناسخ کا مسئلہ بھی جبر کی تائید میں ہے۔ کیونکہ جو جون سابق گناہ کی سزا میں ملی ہے لازماً ان دح بندیوں کے نیچے رہے گی جو ساقبہ گناہ کی وجہ سے اس پر لگا دی گئی ہیں فلسفیوں کے عقیدہ کی بنیاد صرف تجربہ پر تھی کہ باوجود کوشش کے بعض لوگ گناہ سے بچ نہیں سکتے۔ لیکن ڈاکٹر فرائڈ نے اس مسئلہ کو علمی مسئلہ بنا دیا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ چونکہ انسان کی تعلیم ک زمانہ اس کے ارادہ کے زمانہ سے پہلے شروع ہوتا ہے یعنی بچپن سے۔ اور ارادہ اور اختیار بلوغ کے وقت پیدا ہوتا ہے۔ اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ اس کا ارادہ آزاد ہے۔ بلکہ جس چیز کو ہم ارادہ کہتے ہیں در حقیقت وہ وہی میلان ہے جو بچپن کے اثرات کے نتیجہ میں اس کے اندر پیدا ہو گیا ہے۔ انسان اپنے افعال کو با ارادہ اور خیالات کو آزاد سمجھتا ہے لیکن در حقیقت وہ صرف بچپن کے تاثرات کے نتائج ہیں۔ اور چونکہ وہ اس کے نفس کا جزو بن گئے ہیں۔ وہ اسے بیرونی اثر خیال نہیں کرتا بلکہ اپنا ارادہ سمجھتا ہے۔
ڈاکٹر فرائڈ کے یہ خیالات نئے نہیں اسلام میں ان کی سند ملتی ہے جیسے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ کہ بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ مگر اَبَوَاہُ یُہَوِّدَاِنہِ اَوْیُنَصِّرانِہِ (بخاری کتاب الجنائز باب ماقیل فی اولاد المشرکین) اس کے ماں باپ اسے یہودی یا مسیحی بنا دیتے ہیں۔ یعنی ان کی تربیت کے اثر سے وہ بڑا ہونے سے پہلے ان کے غلط خیالات کو قبول کر لیتا ہے او ربے سمجھے بوجھے ان کے راستہ پر چل کھڑا ہوتا ہے۔ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچہ کی پیدائش پرع اس کے کان میں اذان کہنے کا حکم دے کر بچپن کے اثرات کی وسعت اور اہمیت کو ظاہر کیا ہے۔
مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن اور اِیَّاکَ نَعْبُدُ میں قرآن کریم نے ان خیالات کو غلط حصہ کی تردید کی ہے کیونکہ جبر کی صورت میں جزآء سزاء ایک بے معنی فعل ہو جاتا ہے اور اِیَّاکَ نَعْبُدُکہہ کر بتایا ہے کہ انسانی ارادہ اپنی ذات میں آزاد ہے۔ گو ایک حد تک وہ محدود ہو لیکن اس کے اس حد تک آزاد ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ کہ وہ ہدایت کو دیکھ کر اپنے لئے ایک نیا راستہ اختیار کرلے مثلاً گو انسان برے اثرات کے تابع ہو لیکن اگر اللہ تعالیٰ کی صفات پر وہ غور کرے تو اِیَّاکَ نَعْبُدُ کی آواز اس کے اندر سے پیدا ہو سکتی ہے اور ہوتی ہے اور اس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ ڈاکٹر فرائڈ اور ان کے شاگرد اس کا کیا جواب دے سکتے ہیں۔ کہ حالات بدلتے رہتے ہیں اور خیالات بھی بدلتے رہتے ہیں دنیا کبھی ایک حال پر قائم نہیں رہتی۔ اگر بچپن کے اثرات ایسے ہی زبردست ہوتے کہ ان سے انسان آزاد نہ ہو سکتا تو چاہیئے تھا۔ کہ آدم سے لے کر اس وقت تک دنیا ایک ہی راہ پر گامزن رہتی۔ لیکن اس میں بار ہا تغیر ہوا ہے۔ اور ہو رہا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ ایسے تغیرات ممکن ہیں۔ جو انسان کے خیالات کی رو کو اس سمت سے بدل دیں۔ جن پر اس کے بچپن کے تاثرات اسے چلا رہے تھے قرآن کریم نے اس کے نہایت زبردست دلائل دیئے ہیں۔ مگر اس جگہ ان کی تفصیل کا موقعہ نہیں یہاں صرف اجمالی طور پر اس آیت سے جو استدلال ہوتا تھا۔ اسے بیان کر دیا گیا ہے۔
جبر کے عقیدہ کے بالکل مخالف ایک اور خیال بھی ہے اور یہ ہے کہ انسان اپنے خیالات میں بالکل آزاد ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اس کے کاموں میں کوئی دخل نہیں دیتا۔ اسلام اس خیال کو بھی رد کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ تم ان اثرات کو جو گردو پیش سے انسان پر پڑ رہے ہیں بالکل نظر انداز نہیں کر سکتے۔ پس ضروری ہے کہ ایک بالا ہستی جو تمام اثرات سے بلا ہے انسان کی نگران رہے اور ایسے بداثرات جب خطرناک صورت اختیار کر جائیں۔ تو انسان کی مدد کر کے ان سے اسے بچائے۔ اور اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کی دعا سکھا کر اس طرف توجہ دلائی ہے اور بتایا ہے کہ تمہارا خدا ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نہیں بیٹھا بلکہ تمہاری مجبوریوں کو دیکھ رہا ہے۔ پس تم اس کے مانگو تو وہ تم کو دے گا۔ کھٹکھٹائو تو وہ تمہارے لئے کھولے گا۔









۷؎ حل لغات
اِھْدِنَا ھدی سے ہے کہتے ہیں ھَداہ اِلَی الطریق بَیَّنَہ لَہٗ اسے رستہ بتایا۔ ھَدَی العُرُوسَ اِلیٰ بَعْلَہِا زَنَّھا اِلَیْہِ دُلہن کو اس کے خاوند تک لے گیا۔ ھَدیٰ فُلاَنًا تَقَدَّمَدٗ اس کے آگے آگے چلا کہتے ہیں۔
جَائَ تِ الخَیْلُ یَھْدِیْہَا فَرَسٌ اَشْقَرُ اَیْ یَتَقَدَّ مُہَا۔ گھوڑے آئے جبکہ ان کے آگے آگے ایک سرخ رنگ کا گھوڑا دوڑتا چلا آ رہا تھا (اقرب) پس ھدیٰ کے تین معنی ہیں راستہ دکھانا۔ راستہ تک پہنچانا اور آگے آگے چل کر منزل مقصود تک لئے جانا۔
قرآن کریم میں بھی ھدایۃ کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ایک معنی اس کے کام کی طاقتیں پیدا کر کے کام پر لگا دینے کے ہیں۔ مثلاً قرآن کریم میں آتا ہے اَعْطیٰ کُلَّ شَیًُ خَلْقَہ ثُمّ ھَدَٰی (طہ ۱ ع ۲) یعنی ہر چیز میں اللہ تعالیٰ نے اس کے مناسب حال کچھ طاقتیں پیدا کیں پھر اسے اس کے مفوضہ کام پر لگا دیا۔ دوسرے معنی ہدایت کے قرآن کریم سے ہدایت کی طرف بلانے کے معلوم ہوتیہیں۔ مثلاً فرمایا وَجَعَلنَا مِنْھَمْ اَئِمَّۃً یَّھْدُوْنَ بِاَمْرِناَ (سجدہ ع ۳) اور ہم نے ان میں سے امام بنائے جو ہمارے حکم کے مطابق لوگوں کو تورات کی طرف بلاتے تھے۔ تیسرے معنی ہدایت کے قرآن کریم سے چلاتے لئے آنے کے ہیں جیسے کہ جنتیوں کی نسبت آتا ہے کہ وہ کہیں گے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ھَدَ نٰا لِھٰذَا (اعراف ع ۵) سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جو ہمیں جنت کی طرف چلاتا لایا اور جس نے ہمیں یہاں تک پہنچا دیا۔ اسی طرح ہدایت کے معنی سیدھے راستہ کے ساتھ موانست پیدا کرنے کے بھی ہوتے ہیں قرآن کریم میں ہے۔ وَمَنْ یُّؤْمِنْ بِاللّٰہِ یَھْدِ قَلْبَہٗ (تغابن ع ۲) جو اللہ پر کامل ایمان لاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے دل میں ہدایت سے موانست پیدا کر دیتا ہے اور اچھی باتوں سے اسے رغبت ہو جاتی ہے۔ اس آیت میں راہ دکھانے کے معنی نہیں ہو سکتے کیونکہ جو ایمان لاتا ہے اسے راہ تو پہلے ہی مل چکا۔ ہدایت کے معنی کامیابی کے بھی قرآن کریم میں آتے ہیں سورۂ نور میں منافقوں کا ذکر فرماتا ہے کہ وہ کہتے تو یہ ہی کہ انہیں جنگ کا حکم دیا جائے تو وہ ضرور اس کے لئے نکل کھڑے ہونگے لیکن عمل ان کا کمزور ہے فرماتا ہے قسمیں نہ کھائو عملاً اطاعت کرو۔ کیونکہ اللہ تمہارے اعمال سے واقف ہے۔ پھر فرماتا ہے اے رسول ان کے کہدے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اھاعت کرو۔ پھر اگر اس حکم کے باوجود تم پھر گئے تو رسول پر اس کی ذمہ داری ہے۔ تم پر تمہاری۔ اور یاد رکھو کہ اِنْ تُطِیْعُوْۃَ تھْتَدُوْا (نور ع ۷) اگر تم رسول کی بات اس بارہ میں مان لوگے تو نقصان نہ ہو گا بلکہ تم کا میاب ہو جائوگے اور فتح پائو گے۔ چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے اَلَّذِیْنَ اھْتَدَوُا زَادَ ھُمْ ھُدًی (سورہ محمد ع ۲) جو لوگ اس ہداتی کو جو انہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے۔ اپنے نفس میں جذب کر لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں اور ہدایت کرتا ہے قرآن کریم سے یہ بھی معلوم ہوات ہے کہ ہدایت کسی ایک چیز کا نام نہیں بلکہ اس کے بے انتہا مدارج ہیں۔ ہدایت کے ایک درجہ سے اوپر دوسرا درجہ ہے۔ اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے جاذب ہو جاتے ہیں انہیں ایک درجہ کے بعد دوسرے درجہ سے روشناس کرایا جاتا ہے۔
صراط۔ راستہ یہ لفظ ص سے بھی لکھا جاتا ہے اور س سے بھی صراط یا سراط ایسے راستہ کو کہتے ہیں جو صاف ہو۔ چنانچہ عربی کا محاورہ ہے سَرَطْتُ الطعَامَ میں نے بسہولت نگل لیا۔ اور اچھے اور ہموار راستہ کو سراط یا صراط اس لئے کہتے ہیں کہ گویا اس پر چلنے والا اسے کھاتا جاتا ہے۔ (مفردات)
مستقیم۔ استقامۃ سے ہے۔ مفردات میں ہے۔ اَلْاِسْتَقَامَۃُ یُقَالُ فی الطویقِ الذی یکونُ علی خطٍّ مُسْتَوٍربہِ شُبِّہَ طریقُ المحقِّ نحو اِھْدِنَا الصّراط المستقیم یعنی استقامۃ اس راستہ کے لیے بولا جاتا ہے جو سیدھا ہو اور اس وجہ سے جو شخص راستی پر ہو۔ اس کے طریق کو بھی مستقیم کہتے ہیں۔ چنانچہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کی آیت میں یہی معنی ہیں۔
تفسیر۔ اس آیت میں ایسی اعلیٰ اور مکمل دُعا سکھائی گئی ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ یہ دعا کسی خاص امر کے لئے نہیں ہے بلکہ ہر چھوٹی بڑی ضرورت کے متعلق ہے اور دینی اور دنیوی ہر کام کے متعلق اس دعا سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ ہر کام خواہ دینی ہو یا دنیاوی اس کے پورا کرنے کیلئے کوئی نہ کوئی طریق ہوتا ہے اگر اس طریق کو اختیار کیا جائے تو کامیابی ہو گی ورنہ نہ ہو گی۔ پھر بعض دفعہ کئی طریق ایک کام کو کرنے کے نظر آتے ہیں۔ جن میں سے بعض ناجائز ہوتے ہیں اور بعص جائز۔ جو جائز راستے ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض تو مراد تک جلدی پہنچا دیتے ہیںاور بعض دیر سے پہنچاتے ہیں۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کی دعا میں ہمیں یہ سکھایا گیا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے رہیں۔ کہ وہ ہماری اس طریق کی طرف راہنمائی کرے جو اچھا اور نیک ہو اور جس پر چل کر ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں اور جلد سے جلد کامیاب ہوں کیسی سادہ اور کیسی مکمل یہ دعا ہے او رپھر کیسی وسیع ہے زندگی کا وہ کونسا مقصد ہے جس کے متعلق ہم اس دعاکو استعمال نہیں کر سکتے اور جو شخص یہ دعا مانگنے ا عادی ہو وہ کس کس رنگ میں اپنی محنت کو زیادہ سے زیادہ بار آور کرایا جائے گا کہ ہر مقصد کے حصول کے لئے اچھے طریق بھی ہیں او ربرے طریق بھی ہیں اور یہ کہ اسے ہمیشہ اچھے طریق کے تلاش کرنے اور اختیار کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے پھر اچھے طریقوں میں سے بھی اس طرق کو اختیار کرنا چاہیے جو سب سے قریب ہو اس کا دماغ کس طرح اس تعلیم کو اپنے اندر جذب کریگا ظاہر ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے دعا کرے گا کہ اسے صراط مستقیم دکھایا جائْ اس کا دماغ خود بھی اس خیال سے متاثر ہو گا اور اس کی اپنی کوشش بھی اپنے سب کاموں میں ایسے ہی راستہ کی تلاش میں خرچ ہو گی اور جو شخص اپنے کاموں میں ان اصول کو مدنظر رکھے گا کہ (۱) میرے سب کام جائز ذرائع سے ہوں (۲) میں کسی ایک مقام پر پہنچ کر تسلی نہ پا جائوں بلکہ غیر محدود ترقی کی خواہش میرے دل میں رہے (۳) اور میرے وقت ضائع نہ ہو بلکہ ایسے طریق سے کام کروں کہ تھوڑے سے تھوڑے وقت میں ہر کام کو پورا کر لوں اس کے مقاصد کی بلندی اور اس کے اعمال کی درستی اور اس کی محنت کی باقاعدگی میں کیا شک کیا جا سکتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر مسلمان اس دعا کو اخلاص سے مانگتے رہیں اور اس کے مطالب کو ذہن نشین کریں تو دعا کے رنگ میں تو جو فائدہ ہو گا وہ تو ہو گا ہی اس کا جو اثر طبعی طور پر مسلمانوں کے دماغ پر ہو گا وہ بھی کچھ کم قابل قدر نہیں ہے۔
بعض معترض کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو ہر نماز میں اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کہنے کا حکم دیا گیاتھا اور ان کے رسول بھی یہ دُعا روزانہ مانگتے تھے پھر کیا انہیں صراط مستقیم مل نہ تھی کہ بار بار یہ دعا مانگتے تھے ۔ کس قدر مضحکہ خیز یہ اعتراض ہے او رکس قدر تعجب ہے کہ پڑھے لکھے مسیحی اور ہندو بے تکلفی سے یہ اعتراض بیان کرتے ہیں اور حیران ہوتے ہیں کہ مسلمان اب اس کا کیا جواب دیں گے۔ اوّل تو جیسا کہ اوپر ہدایت کے معنے بیان ہو چکے ہیں ہدایت کے معنے صرف کسی بات کے بتائے کے نہیں ہوتے بلکہ بتانے۔ اس تک لے جانے اور آگے ہو کر لئے چلے جانے کے ہوتے ہیں پس مختلف قسم کے دُعا کرنے والوں کے لئے اس کے مختلف معنے ہونگے وہ جنہیں ہدایت کا علم بھی ابھی حاصل نہیں ہوا ان کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے یہ معنی ہونگے کہ ہمیں بتا کہ ہدایت کیا ہے اور کس مذہب یا کس طریق میں ہے اور جن لوگوں کو ہدایت کا علم تو ہو چکا ہے لیکن اس کے قبول کرنے میں ان کے لئے مشکلات ہیں نفس میں کمزوری ہے یا دوست احباب ایسے مخالف ہیں کہ صداقت قبول کرنے سے باز رکھ رہے ہیں یا رہبر کامل دور ہے اور اس تک پہنچنا مشکل ہے یا اس علاقہ میں صحبت صالح میسر نہیں اس شخص کے لحاظ سے اس دُعا کے یہ معنے ہونگے کہ مجھے ہدایت تک پہنچا دے یعنی علمی رنگ میں تو میں ہدایت کو سمجھ گیا ہو مگر عملی طو رپر اس کے اختیار کرنے میں جو دقتیں ہیں انہیں بھی دور کر دے۔ لیکن اگر کوئی ایسا شخص ہے جسے علمی طور پر بھی ہدایت میسر آ گئی ہے او رعملی مشکلات بھی دور ہو گئی ہیں اور وہ ہدایت میسر آ گئی ہے اور عملی مشکلات بھی دور ہو گئی ہیں اور وہ ہدایت کے راستے پر قدم زن ہے تو اس کے لئے اس دُعا کے یہ معنے ہونگے کہ اے خدا تیری ہدایت وسیع ہے اور عرفان کی راہیں غیر محدود ہیں مجھے اپنے فضل سے ہدایت کے راستہ پر آگے بڑھاتا لئے چل میرا قدم کسی جگہ نہ ٹھیرے اور میں صداقت کے اسرار سے زیادہ سے زیادہ واقف ہوتا جائوں اور آگے سے زیادہ مجھے اس پر عمل کرنے کی توفیق ملتی جائے۔ ان تینوں معنوں کو مدنظر رکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ کوئی انسان بھی ایسا ہو سکتا ہے جسے کسی وقت بھی اس دُعا سے استغنا حاصل ہو جائے مسلمانوں کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیشک بہت کامل تھے لیکن اسلام کا خدا غیر محدود طاقتوں والا ہے کوئی کتنی بھی ترقی کر جائے پھر بھی ترقی کّی گنجائش اس کے لئے باقی رہتی ہے اور پھر بھی اس کے لئے ضرورت باقی رہتی ہے کہ وہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کی دعا کرتا رہے۔
دین تو دین دنیا کے متعلق بھی انسان کا علم بڑھتا رہتا ہے اور کوئی علم بھی تو ایسا نہیں جس میں مزید ترقی کی گنجائش نہ ہو پس دُنیا کے کاموں میں بھی انسان محتاج ہے کہ ہمیشہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کی دُعا کرتا رہے کہ اس کے ذریعہ سے علم کی ترقی ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ دُعا بجائے محل اعتراض ہونے کے علم کے بارہ میں اسلام کا ایسا وسیع نظریہ پیش کرتی ہے جو قرآن کریم کی برتری کی ایک زبردست دلیل ہے قرآن پہلے مذاہب کی موجودگی میں آیا اور انہیں منسوخ کر کے اس نے ایک نئے اور مکمل دین کے قیام کا دعویٰ کیا مگر باوجود اس کے اس نے دوسرے ادیان کی طرح یہ نہیں کہا کہ اس کے زمانہ میں علم ختم ہو گیا بلکہ یہ کہا کہ اس کے ذریعہ سے علم کی زیادتی ہمیشہ ہوتی رہے گی اور اس کے لئے مسلمانوں کو دُعا سکھائی اور ان پر واجب کیا کہ وہ اسے ہر روز تیس پنتیس دفعہ پڑھا کریں اس طرح اس نے علم کی ترقی کے لئے انسانی نظریہ کو کس قدر وسیع کر دیا ہے۔
بعض لوگ اس نظریہ پر یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ اس سے تو معلوم ہوا کہ قرآن کریم آخری ہدایت نامہ نہیں کیونکہ اگر علم کی زیادتی ہوتی رہتی ہے تو کیوں تسلیم نہ کیا جائے کہ کسی وقت قرآن کریم بھی منسوخ ہو جائے گا اور اس کی جگہ کوئی اس سے بہتر کتاب لے لیگی اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں کہ قرآن کریم سے بہتر کتاب کوئی لے آئے اور قرآن کریم کو منسوخ قرار دیدے لیکن تیرہ سو سال میں تو ایسی کتاب کوئی آئی نہیں فلسفیوں اور غلط مذاہب کے دلدادوں نے بہت زور لگایا لیکن اب تک ناکام ہی رہے ہیں پس جبکہ ایسی کوئی کتاب اب تک ناکام ہی رہے ہیں پس جبکہ ایسی کوئی کتاب اب تک مقابل پر پیش نہیں کی جاتی تو ہم اس پر غور ہی کیوں کریں۔ دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ قرآن روحانی عالم ہے جو جسمانی عالم کا حال ہے وہی اس کا ہے دنیوی امور میں بھی انسانی علم ہر روز ترقی کرتا ہے مگر یہ تو نہیں ہوتا کہ ہر روز نئی دنیا بنتی ہے بلکہ اسی پرانی دنیا کے اسرار اور غوامض لوگوں پر ظاہر ہوتے چلے جاتے ہیں اسی طرح قرآن کریم کے نزول کے بعد جو روحانی عالم ہے کسی نئی کتاب کی ضرورت نہیں رہی مگر علم کی ترقی میں اس نے روک نہیں پیدا کی۔ جس طرح مادی قانون کے مطالعہ سے دنیوی علم میں ترقی ہو رہی ہے اسی طرح قآن کریم اپنے اندر وسیع اور انسانی پرواز کو مدنظر رکھتے ہوئے غیر محدود علم رکھتا ہے جو لوگ اس پر غور کرتے ہیں جس قدر اخلاص ان کی اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کی دعا میں ہوتا ہے اسی کے مطابق قرآن کریم کے اسرار ان پر کھلتے چلے جاتے ہیں۔ پس باوجود قرآن کریم کے آخری کتاب ہونے کے علم کی ترقی میں کمی نہیں ہوئی بلکہ پہلے سے بھی اس ترقی کی رفتار تیز ہو گئی ہے قرآن کریم کے صریح ارشاد سے ان معنوں کی تصدیق ہوتی ہے۔ فرماتا ہے اَلَّذِِیْنَ اھْتَدَوْا زَادَھُمْ ھُدًی (محمدؐ ع ۲) جو لوگ ہدایت پاتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ پھر او رہدایت دیتا ہے پس ہدایت کسی ایک شے کا نام نہیں بلکہ صداقتوں کی ایک وسیع زنجیر کا نام ہے جس کی ایک کڑی ختم ہوتی ہے تو دوسری سامنے آ جاتی ہے میرا ذاتی تجربہ ہے کہ کوئی مذہبی مسئلہ نہیں جس کے بارہ میں شانی علم قرآن کریم میں نہیں اس حقیقت کی موجودگی میں کسی دوسری شریعت کا پیغام سننا ایسا ہی ہے جیسے چشمہ پر بیٹھا ہوا انسان پانی کی تلاش کے لئے نکل کھڑا ہو۔
مجھے تعجب آتا ہے ان لگوں پر جو ہر روز اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کی دُعا مانگتے ہیں او رپھر خیال کرتے ہیں کہ جو کچھ پہلے مفسر لکھ گئے اس سے بڑھ کر کچھ لکھنا ناجائز ہے ان کے بیان کردہ علوم کے باہر کوئی علم قرآن کریم میں نہیں ہے اگر یہ بات سچ ہے تو وہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کی دُعا کیوں مانگتے ہیں ان کے عقیدہ کے مطابق خدا تعالیٰ کے پاس تو ان کے دینے کے لئے کچھ ہے ہی نہیں انہیں پرانی تفسریں خرید کر یا دوسروں سے مانگ کر پڑھ لینی چاہئیں اور اس دُعا میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیئے۔
یہ دُعا ایسی جامع ہے کہ دین اور دُنیا کے ہر معاملہ میں اس سے انسان فائدہ اٹھا سکتا ہے او رہدایت کا طالب خواہ کسی مذہب کا ہو اس سے فائدہ اُٗٹھانے میںکوئی عذر پیش نہیں کر سکتا۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم میں صرف سیدھے اور بے نقص راستہ دکھانے کی التجاء ہے کسی مذہب کا نام نہیں کسی خاص طریقہ کا ذکر نہیں۔ کسی معین اصل کی طرف اشارہ نہیں صرف اور صرف صداقت اور غیر مخلوط اور خالص صداقت کی درخواست ہے جسے ہر شخص اپنے عقیدہ اور خیال کو نقصان پہنچائے بغیر دہرا سکتا ہے۔ ایک مسیحی ایک یہودی ایک ہندو ایک زردشتی ایک بدھ ایک ہدریہ بھی ان الفاظ پر اعتراض نہیں کر سکتا۔ دہریہ خدا تعالیٰ کو نہیں مانتا لیکن وہ یُوں کہہ سکتا ہے کہ اگر کوئی خدا ہے تو میں اس سے کہتا ہو ںکہ مجھے سیدھا راستہ دکھا۔ پس یہ دُعا جامع بے ضرر اور عام ہے ہر شخص ہر حالت میں اس کا محتاج ہے اور اس کے مانگنے میں اسے کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ میرا تجربہ ہے کہ جن غیر مذاہب کے لوگوں نے میرے کہے پر یہ دُعا مانگی ہے اللہ تعالیٰ نے ان پر اسلام کی سچائی کھول دی ہے اور میں تجربہ کی بناء پر یقین رکھتا ہوں کہ جو کوئی بھی سچے دل سے یہ دُعا مانگے گا اس کی ہدایت کے لئے ضرور کوئی سامان حدا تعالیٰ کی طرف سے پیدا کیا جائے گا کہ یہ ممکن نہیں کہ اس دنیا کا پیدا کرنے والا موجود ہو اور ہدایت کے لئے چلانے والا اس کے دروازہ سے مایوس آئے۔



۸؎ حل لغات
اَنٔعَمْتَ۔ انعام سے ہے انعام کے معنی فضل کرنے اور زیادہ کے ہیں (اقرب) یہ لفظ ہمیشہ اسی وقت استعمال کیا جاتا ہے جبکہ منعم علیہ یعنی جس پر احسان ہوا ہو عقل والی ہستی ہو (مفردات) غیر ذوی العقول کی نسبت مثلاً گھوڑے بیل کی نسبت کبھی نہیں کہیں گے کہ فلاں شخص نے اس گھوڑے یا بیل پر انعام کیا ہاں یہ کہیں گے کہ فلاں انسان پر انعام کیا۔
اَنْغَضَبُ۔ ثَورَانُ دَمِ القلَبِ اِرَادَۃ الْانْتِقَامِ غضب جرم کی سزا دینے کے ارادہ پر دل میں خون کے جوش مارنے کو کہتے ہیں قَالَ علیہ السّلام اتقُوا لغضبَ فاِنَّہٗ جَمْرۃٌ تُو قَدُ فی قَلبِ ابنِ آدمَ الَمْ تَرَ والی انتفاخِ اَوْدَاجِہِ و حُمْرَۃِ عَیْفَیْہِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں غضب سے بچو کیونکہ وہ ایک چنگاری ہے جو ابن آدم کے دل میں سلگائی جاتی ہے پھر فرمایا کیا تم نے دیکھا نہیں کہ جب کسی کو غضب آتا ہے تو اس کی رگیں پھول جاتی ہیں اور اس کی آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں وَاِذَا وُصِفَ اللّٰہُ تَعَالیٰ بِہٖ فَالْمرَادُاَلاِ نتقامُ دُوْنَ غَیْرِہِ اورجب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے بولا جائے تو تو اس کے معنی صرف جُرم کی سزا دینے کے ہوتے ہیں دوسری باتیں اس وقت مدنظر نہیں ہوتیں (مفردات) پر غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ کے یہ معنی ہوئے کہ جن کے افعال کو اللہ تعالیٰ نے برا قرار دیکر ان کے لئے سزا کا فیصلہ کر لیا ہے۔
وَلَا الضّالّین۔ ضَلَّ کے معنے سیدھے راستہ سے ہٹ جانے کے ہیں اور یہ لفظ ہدایت کے مقابل پر ہے اور ضلال کا لفظ راستی سے خلاف ہر فعل پر بولا جاتا ہے خواہ دانستہ ہو یا نادانستہ۔ معمولی فعل ہو یا کوئی بڑا جرم ہو (مفردات) ضَلَ کے معنے کسی کام میں منہمک ہو جانے کے بھی ہیں قرآن کریم میں آتا ہے۔ اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُہُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا (کہف ع ۱۲) ان کی تمام کوششیں دنیا کی زندگی میں ہی لگی ہوئی ہیں اور وہ بالکل دنیا کے کاموں میں ہی منہمک ہیں۔ یہ معنے وَوَجَدَکَ ضَالاً فَھَدٰی (الضحیٰ) کی آیت میں ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ جب ہم نے تجھے اپنی محبت میں منہمک دیکھا اور اپنے عشق میں کھویا ہوا پایا تو اس کے نتیجہ میں ہم نے اپنی ذات تک تیری راہنمائی فرمائی اردومیں بھی کھویا ہوا کھویا رہنا انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے کہتے ہیں فلاں شخص تو آج کل کچھ کھویا کھویا سا رہتا ہے یعنی کسی خاص خیال میں محو رہتا ہے انگریزی میں بھی یہ محاورہ پایا جاتا ہے۔ میں صرف ان حوالوں سے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ ایک طبعی محاورہ ہے اور فطرت انسانی سے ایک نہایت قریب مناسبت رکھتا ہے اس وجہ سے بہت سی زبانوں نے اسے اختیار کر لیا ہے۔
وَوَجَدَکَ ضَالاً فَھَدٰی کے معنی بالکل اسی محاورہ کے مطابق ہیں یعنی محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشق الٰہی میں محو ہو گئے تھے اور ہر وقت کھوئے کھوئے رہنے لگ گئے تھے اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ اداد پسند آئی اور یہ عشق اس کے عشق کو جذب کرنے کا موجب ہو گیا۔ پس جو عاشق اس کے عشق میں کھویا گیا تھا وہ اسے خود جا کر اپنے دروازہ تک لے آیا۔ مگر یہاں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ضَلَّ کا لفظ عام طور پر برے معنوں میں ہی استعمال ہوتا ہے پس جب اچھے معنوں میں استعمال ہو تو اس کے لئے کسی قرینہ کی ضرورت ہو گی جیسے اوپر کی آیت میں فھدٰی کا قرینہ ہے۔
تفسیر۔ جب سیدھے راستہ کے دکھانے کی دُعا سکھائی تو اس میں اس امر کو بھی شامل کیا کہ وہ راستہ ان لوگوں کا ہو جن پر تُو نے انعام کیا ہے یعنی معمولی راستہ نہ ہو بلکہ اعلیٰ اور ترقی یافتہ ارواج کا راستہ ہو۔
یہ کیسا شاندار مقصد ہے جوہر مسلمان کے سامنے اسلام نے پہلی ہی سورۃ میں رکھا ہے اسے نیکیوں میں اور اچھی چیزوں میں صرف نیکی کی خواہش نہیں رکھنی چاہیئے بلکہ انعام جیتنے اولوں کی جماعت میں شامل ہونے کی خواہش رکھنی چاہیئے۔ اللہ تعالیٰ سے محبت رکھنے والا چھوٹے درجہ پر صبر نہیں کر سکتا۔ خدا تعالیٰ کی محبت انسان کے دل میں ایسی وسعت پیدا کر دیتی ہے کہ وہ معمولی ترقی پر خوش نہیں ہوتا۔ وہ حوش ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ خدا تعالیٰ کی جستجو کے بعد کونسی چیز ہے جو اسے خوش کر سکے گی جو خدا تعالیٰ کا طالب ہوا وہ ساری ترقیات کا طالب ہوا۔ اور جس نے خدا تعالیٰ کو سمجھا وہ کسی ترقی کو بھی آخری ترقی نہیں سمجھ سکتا۔ مگر مومن کے لئے اس سے بڑھ کر خوشی کا مقام یہ ہے کہ یہ خواہش صرف اس کے دل سے پیدا نہیں ہوتی اس کا رب بھی اسے یہی تعلیم دیتا ہے کہ دیکھنا چھوٹے درجہ پر راضی نہ ہو جانا مجھ سے نیکی مانگو مگر معمولی نیکی نہیں بلکہ وہ نیکی جو ان لوگوں کو حاصل تھی جنہوں نے نیکیوں کی دور میں انعام حاصل کئے تھے اور کسی ایک دور کے انعام حاصل کرنے والوں کا انعام نہیں بلکہ سب انعام پانے والوں کے انعام مجھ سے طلب کرو۔
لغت کے متعلق تو میں اوپر بتا آیا ہو ںکہ انعام کے کوئی خاص معنے نہیں بلکہ ہر اچھی چیز کو جو خوشنودی کے اظہار کے لئے کسی کو دی جائے وہ انعام ہے خواہ وہ دنیوی ہو یا دینی۔ قرآن کریم میں بھی یہ لفظ انہی وسیع معنوں میں آیا ہے سورۃ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِذَا اَنْعَمْنَا عَلَی الْاِنْسَانِ اَعُرَضَ وَنَأَ بِجَا نِبِہٖ (بنی اسرائیل ۹) یعنی جب ہم انسان پر کوئی انعام کرتے ہیں تو وہ منہ پھر لیتا ہے او رایک طرف ہو جاتا ہے یعنی بجائے انعام پر شکر گزار ہونے کے ہماری طرف سے غافل ہو جاتا ہے۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ انعام کے معنے دنیا کے سامان علم۔ ہنر دنیاوی عزتیں وغیرہ بھی ہیں کیونکہ یہی چیزیں ہیں جو ایک احسان کا رنگ بھی رکھتی ہیں اور بہت سے لوگ ان احسانات کے بعد خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرنے کی بجائے خدا تعالیٰ کو بھلا دیتے ہیں۔
مصائب اور مشکلات سے بچا لینے کا نام بھی قرآن کریم میں نعمت آیا ہے۔ فرماتا ہے۔ یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اذُ کُرَوَ انِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْھَمَّ قَوْمٌ اَنْ یَبْسٔطَؤٓا اِلَیْکُمْ اَیْدِیَھْمُ فَکَفَّ اَیْرِیَھٔمْ عَنْکُمً وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَ کَّلِ الْمْؤْمِنُوْنَ (المائدہ: ع ۲) اے مومنو اللہ تاعلیٰ کی نعمت کو یاد کرو جب ایک قوم (بُری نیّت سے) تمہاری طرف ہاتھ بڑہانے کا قصد کر رہی تھی تو ہم نے ان کے ہاتھوں کو تم (تک پہنچنے) سے روکے رکھا اور اللہ تعالیٰ کا تقویٰ احتیار کرو اور مومنوں کو چاہیئے کہ اللہ پر ہی توکل کیا کریں۔ اس آیت میں دشمن کے حملوں سے محفوظ رکھنے کا نام نعمت رکھا گیا ہے۔
مگر جہاں ہر احسان نعمت ہے وہاں اس کا بھی انکار نہیں کیا جاس کتا کہ بعض احسان خاص طور پر نعمت کہلانے کے مستحق ہیں۔ کیونکہ وہ مختلف قسم کے احسانوں میں سے چوٹی کے احسان ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ یٰقَوْمِ اذَکُرٔوْ انِعْمَہٌ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْجَعَلَ فِیْکُمْ اَنْبِیَآئَ وَجَعَلَکٗمْ مَّلُوْکَّا وَّاتٰکُمْ مَّالَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِیْنَ (مائدہ ع ۴) یعنی اس وقت کو بھی یاد کرو جبکہ موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم اللہ نے جو تم پر نعمت کی ہے اسے ہر وقت اپنی نگاہ میں رکھو اور وہ نعمت یہ ہے کہے اس نے تم میں سے نبی بنائے اور تم کو بادشاہ بنایا اور تمہیں وہ کچھ دیا جو نسل انسانی کی مختلف اقوام میں سے اور کسی قوم کو نہ دیا تھا۔ اس آیت میں ان اشیاء کو جو انسان کے لئے نعمت قرار پا سکتی ہیں گنا گیا ہے اور یہود کو بتایا ہے کہ ان سب اقسام میں سے انہیں کثیر حصہ دیا گیا ہے۔
انسانی کمالات تین قسم کے ہوتے ہیں (۱) دنیوی ذاتی (۲) دینی ذاتی (۳) اور دینی دنیوی نسبتی یعنی علاوہ دنیوی اور دینی کمالات کی قسموں کے ایک کمال کی قسم یہ بھی ہے کہ کسی فرد یا قوم کو اپنے رقیبو ںپر کیا فضیلت حاصل ہے۔ فضیلت کی اس قسم کی طرف انسان فطرتاً بہت راغب ہوتا ہے یعنی وہ صرف کمال کا طالب نہیں ہوتا بلکہ ایسے کمال کا طالب ہوتا ہے جو اسے اپنے ہمعصروں اور قیبوں پر فضیلت بخشے۔ مذکور بالا آیت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کی طرف تینوں قسم کے کمالات منسوب فرمائے ہیں (۱) ان پر دنیوی انعامات ہوئے یہاں تک کہ وہ قوم ایک لمبے عرصہ تک بادشاہت کی وارث کی گئی۔
تمام دنیوی کمالات اپنے نشوو پانے کے لئے بادشاہت چاہتے ہیں اور جس قوم میں بادشاہت آ جائے اسے دنیوی ترقی کے سب اسباب میسر آ جاتے ہیں خواہ وہ ان سے فائدہ اٹھائے یا نہ اُٹھائے اس لئے کسی قوم میں ایک لمبے عرصہ تک بادشاہت کا وجود قائم کر دینے کے یہ معنے ہیں کہ دنیوی ترقیات کے سب رستے اس کے لئے کھول دیئے گئے (۲) جس طرح بادشاہت دنیوی کامیابیوں کا ذریعہ ہے اس کی آخری منتہاء ہے اسّی طرح دینی کامیابیوں کا ذریعہ اور دینی ترقی کی منتہاء نبوت ہے اس بارہ میں حضرت موسیٰ اپنی قوم سے فرماتے ہیں کہ وہ ذریعہ اور وہ انتہائی انعام بھی تم کو دیا گیا ہے۔ اور ایک دو نبی نہیں بلکہ ایک لمبا سلسلہ انبیاء کا تم کو عطا ہوا ہے۔
(۳) تیسرا انعام نسبتی ترقی ہے یعنی دنیوی یا دینی انعامات نہ ملیں بلکہ دوسری اقوام کے مقابلہ میں بھی زیادہ ملیں۔ جس سے ہمعصروں پر عزت اور فوقیت حاصل ہو حضرت موسیٰ علیہ السلام وَاٰتٰکُمْ مَّالَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِیْن فرما کر اپنی قوم کو توجہ دلاتے ہیں کہ دوسری اقوام پر برتری کا انعام بھی اللہ تعالیٰ نے تم کو بخشا ہے تم کو بادشاہت ہی نہیں دی بلکہ شہنشاہیت بھی دی ہے اور نبوت ہی نہیں دی بلکہ ایسے انبیاء عطا کئے جو دوسرے نبیوں کے لئے مشعل ہدایت کا کام دینے والے ہیں اور جن کے ماتحت اور انبیاء ہیں پس تینوں قسم کے انعام تم کو حاصل ہیں دنیوی بھی اور دینی بھی اور دوسری قوموں پر دنیوی اور دینی برتری بھی۔
یہ قول تو موسیٰ علیہ السلام کا ہے لین عبارت قرآن کریم کی ہے ایک مبصر اس کے الفاظ کے اختصار او راس کے معانی کی وسعت کو دیکھ کر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
صَراطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ کے الفاظ نے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم سے مل کر معنوں میں بہت وسعت پیدا کر دی ہے ان الفاظ نے ایک مسلمان کا مقصود صرف یہ نہیں قرار دیا کہ وہ اپنے مقرر کردہ مقاصد کے حصول کے لئے سیدھا راستہ مانگے بلکہ یہ اصل قرار دیا ہے کہ وہ مقاصد عالیہ کے بارہ میں بھی اللہ تعالیٰ سے التجا کرے اور درخواست کرے کہ ہدایت کے راستے ہی مجھے نہ دکھا اور صرف منعم علیہ گروہ میں مجھے شامل نہ کر بلکہ ہدایت کے وہ طریقے اور تعلیم میں اور عرفان کی راہیں بھی مجھے سکھا جو منعم علیہ گروہ پر اس سے پہلے ظاہر کئے جا چکے ہیں یہ اعلیٰ امیدیں پیدا کر کے قرآن کریم نے امتِ محمد یہ پر ایک بہت بڑا احسان فرمایا ہے۔
گو اس واضح تعلیم کی موجودگی میں اس امر کے ثبوت کے لئے کہ مسلمانوں کے ہر قسم کی ذاتی ترقیات کے راستے کھلے ہیں کسی مزید ثبوت کی ضرورت تو نہ تھی مگر چونکہ مسلمانوں میں عام طور پر مایوسی پیدا ہو گئی ہے ہم قرآن کریم سے دیکھتے کہ اس ہدایت طلبی کے معنے قرآن کریم نے کیا لئے ہیں اور کیا اس دُعا کی قبولیت کا بھی کوئی وعدہ کیا ہے یا نہیں سورۂ نساء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَوْ اَفَّھُمْ فَعَلُوْا مَایُوْعَظُوْنَ بِہٖ لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ وَاَشَدَّ تَتُبِیْتًاo وَّاذً الَّاٰ تَیْنٰہُمْ مِّنْ لَّدُنَّآ اَجْرً ا عَظِیْمًا وَّ لَھَدَ یْنٰہُمْ صِرَاطًا مُسْتَقِیْمًاo وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُ ولٰٓکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیِّنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَآئِ وَالصّٰلِحِیْنَ وَحَسُنَ اُولٰٓکَ رَفِیْقًاo(نساء ع ۹) یعنی اگر کمزور مسلمان بجائے نافرمانیوں کے حقیقی اطاعت کا نمونہ دکھائیںاور) جو ان سے کہا جاتا ہے اس پر عمل کریں ت واس کا نتیجہ ان کے حق میں بہت ہی اچھا نکلے۔اور اس سے ان کے ایمان مضبوط ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ کی درگاہ سے انہیںبہت بڑا اجر ملے اور اللہ تعالیٰ انہیں صراط مستقیم دکھائے اور انہیں یاد رکھنا چاہیئے کہ جو اللہ اور اس کے اس رسول یعنی محمدؐ رسلو اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے تو ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے منعم علیہ لوگوں میں شامل کرات ہے یعنی نبیوں میں صدیقوں میں شہیدوں میں اور صالحین میں اور یہ لوگ بہت ہی اچھے ساتھی ہیں۔ اس آیت میں مسلمانوں کے لئے جو انعامات مقدر ہیں ان کا ذکر ہے اور وہی سورۃ فاتحہ والے الفاظ ہیں یعنی صراط مستقیم دکھانا اور صراط مستقیم بھی ان کا جو منعم علیہ گروہ تھا۔ وہ منعم علیہ گروہ کی تشریح فرمائی ہے نبی صدیق شہید اور صالح جس سے معلوم ہُوا کہ امت محمدؐ یہ کو سورہ فاتحہ میں جن اعلیٰ انعامات کے طلب کرنے کا حکم دیا گیا ہے دینی لحاظ سے اس کے مراد اعلیٰ روحانی مقامات ہیں او راللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ سب کے سب مسلمانو ںکو ملیں گے۔
بعض لوگ اس موقعہ پر اعتراض کرتے ہیں کہ سورۃ نساء کی آیت میں مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ ہے یعنی وہ منعم علیہ گروہ کے ساتھ ہونگے نہ کہ ان میں سے۔ اس اعتراض کی کمزوری خود ہی ظاہر ہے اگر مَعَ کا لفظ نبیوں کے ساتھ ہوتا تب تو کہا جا سکتا تھا کہ امت محمدؐ یہ میں نبی نہ ہونگے مگر ایسے لوگ ہونگے جو نبیوںکے ساتھ رہیں گے لیکن قرآن کریم نے مَعَ کا لفظ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ کے ساتھ لگایا ہے پس اگر مَعَ کے معنے یہ کئے جائیں کہ جس لفظ پر مع آیا ہے وہ درجہ مسلمانوں کو نہ ملے گا بلکہ اس درجہ کی معیت ملے گی تو پھر اس آیت کے یہ معنی بنیں گے کہ مسلمانوں میں سے کوئی بھی منعم علیہ یعنی انعام پانے والا نہیں ہو گا بلکہ صرف یہ ہو گا کہ ان کے کچھ افراد انعام پانے والوں کے ساتھ رہیں گے اور ان معنوں کو قرآن۔ حدیث اور عقل سلیم رد کرتی ہے۔
اگر کہا جائے کہ مَعَ کا لفظ در حقیقت اس تشریح کے ساتھ لگتا ہے جو اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ کی اس آیت میں کی گئی ہے تو بھی یہ اعتراض بالبدامت غلط ثابت ہوتا ہے کیونکہ تشریح میں چار گروہوں کا ذکر ہے نبیوں شدیقوں شہیدوں اور صالحوں کا۔ اب اگر مَعَ کے معنے صرف معیت کے ہیں نہ کہ گروہ میں شمولیت کے تو پھر اس تشریح کے مطابق اس آیت کے یہ معنے ہونگے کہ مسلمان نبی نہ ہونگے بلکہ نبیوں کے ساتھ رہیں گے۔ صدیق نہ ہوں گے بلکہ صدیقوں کے ساتھ رہیں گے۔ اسی طرح شہیدوں اور صالح نہ ہونگے بلکہ شہیدوں اور صالحوں کے ساتھ رہیں گے اس سے زیادہ غلط معنے اور کیا ہو سکتے ہیں۔ اور اس سے زیادہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اور اُمت محمدؐیہ کی ہتک کیا ہو سکتی ہے کہ اس امت میں نبی تو الگ رہے صدیق اور شہید اور صالح بھی نہ ہونگے ۔
بعض لوگوں نے اس جگہ پر اعتراض کیا ہے کہ نبوت تو موہبت ہے اس کے لئے دُعا کے کیا معنی اس کا جواب یہ ہے کہ دُعا اس امر کے لئے کرتی ہے کہ خدا تعالیٰ اسے اعلیٰ سے اعلیٰ انعام عطا فرمائے۔ یہی اس آیت کا مفہوم ہے آگے یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے کہ وہ جس پر جو چاہے انعام کرے اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رسَالَتَہٗ (انعام ع ۱۵) نبوت بیشک موہبت ہے مگر یہ موہبت ابوجہل پر کیو ںنہ ہوئی۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیو ںہوئی۔ موہبت کو جذب کرنے کے لئے بھی تو ایثار اور قربانی کی ضرورت ہوتی ہے دوسرے یہ کون کہتا ہے کہ مومن کو یہ سکھایا گیا ہے کہ وہ دُعا کرے کہ یا اللہ مجھے نبوت عطا کر۔ ایسی دعائیں روحانی امور تو الگ رہے دنیوی امور کے لئے بھی بعض دفعہ ناپسندیدہ اور مکروہ ہونگی۔ کوئی بڑھتی یہ دعا شروع کر دے کہ یا اللہ مجھے کالج کا پرنسپل بنا دے۔ یا کوئی لولا لنگڑا یہ دعا کرے کہ یا اللہ مجھے … کا سپہ سالار بنا دے تو یہ دعائیں لغو اور فضول ہونگی۔ دُعائوں کی قبولیت حالات اور مصالح آسمانی کے ماتحت ہوتی ہیں۔ پس مومن کے لئے یہ درست نہیں کہ وہ روحانی مقامات کے لئے نام لے لے کر دعا کرے۔ نبوت تو الگ رہی اگر کوئی یہ دعا کرے کہ یا اللہ مجھے صدیق بنا دے۔ مجھے قطب بنا دے۔ مجھے شہید بنا دے۔ تو یہ دعا بھی ناپسندیدہ ہو گی۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اِھْدِنَا کہہ کر دعا سکھائی ہے اِھْدِنِیْ کے الفاظ نہیں رکھے کیونکہ جمع کے الفاظ میں قومی ترقی کی طرف اشارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ قوم میں سے جسے جس قرب کے مقام کے لئے چنا جا سکتا ہے اس کے لئے اسے چن لیتا ہے۔ پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ دعا حصول انعام کے لئے ہے پس جب نبوت بھی موہبت یعنی انعام ہے تو اگر اس دعا کو قبول کے لئے حصول نبوت کی دعا قرار دیا جائْ ت واس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ اس دعا میں ہر قسم کے انعامات کے طلب کرنے کی دعا سکھائی گئی ہے اور تمام کاموں میں صحیح راہ نمائی کی دعا سکھائی گئی ہے۔ قرآن کریم فرماتا ہے کہ وہ سب انعامات مسلمانوں کو ملیں گے او ران میں وہ خود نبوت کو شامل فرماتا ہے پس اس انعام کو الگ رکھنے کا حق کس کو حاصل نہیں۔
اس جگہ یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبین ہیں تو آپؐ کے بعد نبی کس طرح آ سکتا ہے سو اس اعتراض کا جواب بھی سورٔ نساو کی آیت میں موجود ہے کیونکہ اس آیت میں وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْل کے الفاظ ہیں یعنی اللہ اور محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے کو یہ انعام ملیں گے اور یہ ظاہر ہے کہ جو مطیع ہو گا اس کا کام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کام سے الگ نہیں ہوسکتا۔ نہ وہ کوئی شریعت لا سکتا ہے پس جو نبی محمد رسول اللہ کے تابع ہو گا وہ خاتم النبین کے خلاف نہیں بلکہ اس کے معنوں کو مکمل کرنے والا ہو گا۔
ایک صاحب جو اس زمانہ کے مفسر ہیں۔ اور اپنے ترجمہ قرآن کریم کو بار بار پیش کرنے کے عادی ہیں۔ انہوں نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ اگر یہ دُعا نبوت کے حصول کے لئے ہوتی تو کم از کم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام نبوت سے کھڑا ہونے سے پہلے سکھائی جاتی مگر قرآن کریم میں اس کا موجود ہونا بتاتا ہے کہ مقام نبوت کے ملنے کے بعد سکھائی گئی پس نبوت عطا فرمانے کے بعد اس دُعا کا سکھانا بتاتا ہے کہ حصول نبوت کے لئے یہ دعا نہیں۔ یہ اعتراض انتہاء درجہ کا بودا اور مصنف کے قلت تدبیر پر دلالت کرتا ہے۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم میں جو دعا سکھائی گئی ہے وہ تو ایک طبعی دعا ہے ان الفاظ میں دعا کرنا صرف اس لئے بابرکت ہے کہ قرآنی الفاظ مبارک ہیں اور غلطی سے پاک ورنہ تمام حق کے متلاشی خواہ کسی مذہب کو مانتے ہوں یا نہ مانتے ہوں جب ان کے دل میں صداقت کے پانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے تو وہ انہی کے ہم معنی الفاظ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یا اللہ ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔ اور اپنے پیاروں کا راستہ رکھا۔ کیا کوئی معقول انسان بھی یہ تسلیم کر سکتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں نبوت سے پہلے یہ خواہش پیدا نہ ہوئی تھی کہ خدا تعالیٰ انہیں سیدھا راستہ دکھائے اور اپنے پیاروں کی راہ پر چلائے۔ اس قسم کا تو خیال بھی انسان کو کافر بنا دیتا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کی تڑپ ہی تو تھی جس نے خدا تعالیٰ کے فضل کو اپنی طرف جذب کیا اس تڑپ کو ہی اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ قرآنی الفاظ نے صرف یہ فرق پیدا کیا ہے کہ اول الفاظ ایسے چنے ہیں جو کامل ہیں۔ اور ہر نقص سے پاک ہیں۔ دوسرے ان کے ذریعہ سے ان کے دل میں بھی تڑپ نہ ہوتی۔ تیسرے امید پیدا کر دی گئی ہے کہ ایسی دعا کرو گے تو قبول ہو گی۔ بلکہ حکم دیا ہے کہ یہ دعا کرو۔ ورنہ یہ خیال کرنا کہ اس قسم کا مفہوم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں پیدا نہیں ہوتا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت ہتک ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی بھی ہتک ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں تو سیدھا راستہ پانے کی کوئی تڑپ نہ تھی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے زبردستی آپؐ کو نبی بنا دیا (نعوذ باللّٰہِ مِنْ ذٰلکَ الخرافات)
پھر اگر یہ اعتراض معقول ہے تو کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کے نزول سے پہلے نیک تھے یا نہیں خدا تعالیٰ کی محبت میں سرشار تھے یا نہیں۔ خدا تعالیٰ کا قرب انہیں قرآن کریم کے نزول سے پہلے حاصل تھا یا نیں۔ اگر ان باتوں کے جواب اثبات میں ہیں تو کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ پھر ہمیں اس نماز کی کیا ضرورت ہے جو قرآن کریم میں مذکور ہے اس قسم کے روزہ کی کیا ضرورت ہے جو قرآن کریم میں مذکور ہے اس قسم کے جہاد کی کیا ضرورت ہے۔ یا اور دوسرے شرعی احکام کی کیا ضرورت ہے جو قرآن کریم میں مذکور ہیں جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تقویٰ اور محبت الٰہی بغیر ان احکام پر عمل کرنے کے حاصل ہو گیا تھا تو ہمیں بھی ان کے بغیر حاصل ہو جائے گا۔ بلکہ دین کے معاملات ک وجانے دو۔ دنیوی چیزوں میں ہی اگر کوئی کہے کہ پہلی مرغی یا پہلا انڈا کیونکر بنا تھا۔ پہلا دانہ اور پہلا درخت کیونکر بنا تھا۔ اب بھی اسی طرح بن جائیگا ہمیں ان کے پیدا کرنے کے لئے قانون قدرت کے مطابق کوشش کرنے کی کیا ضرورت ہے تو اس شخص کو ہر کوئی نادان کہے گا خدا تعالیٰ کا قانون اس وقت کے لئے جب بیج مٹ جاتا ہے اور ہے اور جب بیج پیدا کر دیا جاتا ہے اور ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم کے نزول سے پہلے دنیا سے پاکیزہ تعلیم مٹ چکی تھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک فطرت میں جذبات محبت پیدا ہوئے۔ اور اللہ تعالیٰ نے بغیر اس کے کہ وہ خاص الافظ یا خاص انداز میں بیان کئے جاتے ان کو قبول کیا اور نوازا۔ لیکن جب قرآن کریم نازل ہو گیا۔ ہر اک امر کے لئے خاص قواعد بن گئے تو اب ان کے بغیر وہ نعمتیں حاصل نہیں ہو سکتیں جو اس سے پہلے حاصل ہو سکتی تھیں۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین اور شریعت کی بنیاد رکھ دی اور اب اس قانون اور شریعت سے باہر رہنے والا ہر گزکامیاب نہیں ہو سکتا۔
اس سوال پر ایک او رپہلو سے بھی نظر کی جا سکتی ہے اور وہ یہ کہ کیا بہی صرف ایک عہدہ کا نام ہے یا نبی کے لئے تقویٰ طہارت اور قرب الی اللہ کّی بھی شرط ہے اگر ان باتوں کا پایا جانا نبی کے لئے شرط ہے ت وپھر سوال یہ ہے کہ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ غیر نبی نبی سے تقویٰ اور طہارت اور قرب الی اللہ میں زیادہ ہو۔ اگر تو اس کا جواب یہ مفسر اور ان کے ہمنوا یہ دیں کہ ہاں یہ ممکن ہے کہ ایک غیر نبی تقویٰ طہارت اور قرب الی اللہ میں نبی سے بڑھ کر ہو توپھر نزاع لفظی رہ جاتی ہے۔ لیکن اگر اس سوال کا جواب یہ ہو کہ غیر نبی نبی سے ان باتوں میں افضل نہیں ہو سکتا تو جو شخص یہ کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں ظلی بروزی اور نبوت محمدؐیہ کی تابع نبوت بھی نہیں ہو سکتی وہ یہ کہتا ہے کہ اس امت میں کوئی شحص قرب الی اللہ کے اس مقام کو نہیں پہنچ سکتا جو مقام پر پہلے لوگ پہنچے تھے اور ایسا دعویٰ کرنے والا شخص یقینا امتِ محمدؐیہ کو انعام سے محروم قرار دیتا ہے۔
ایک اعتراض انہی مفسر صاحب نے یہ کیا ہے کہ پھر کیا وجہ ہے کہ گزشتہ تیرہ سو سال میں ایک مسلمان کی بھی دعا اس بارہ میں قبول نہ ہوئی اس کا جواب یہ ہے کہ دعا کی قبولیت تو دعا کی قبول نہ ہوئی اس کا جواب یہ ہے کہ دعا کی قبولیت تو دعا کی مقدار اور نوعیت پر منحصر ہے یہ معترض صاحب بھی تسلیم کرتے ہیں کہ صدیقت کا مقام اس امت میں مل سکتا ہے پس یہی سوال ان کے مسلمات کے متعلق بھی کیا جا سکتا ہے کہ اس امت میں کتنے لوگوں کو صدیقیت کا مقام ملا ہے اگر گزشتہ تیرہ سو سال میں صرف ابوبکرؐ کو ملا ہے تو یہی اعتراض پھر بھی پڑے گا کہ کیا تیرہ سو سال میں یہ دعا او رکسی کے حق میں قبول ہی نہ ہوئی اور اگر اوروں کو بھی ملا ہے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ کیا وہ اشخاص عمرؓ اور عثمانؓ اور علیؓ سے بڑھ کر تھے یا کم۔ اگر کم تھے تو پھر یہ کیونکر ہوا کہ کم درجہ کے لوگ صدیق بن گئے اور بڑے درجہ کے لوگ شہید تک ترقی پا سکے صدیق نہ کہلا سکے۔
غرض جو اعتراض نبوت کے اجراء پر ہوتا ہے وہی اعتراض صدیقیت کا دروازہ کھلا تسلیم کر کے اس پر ہوتا ہے پس یہ اعتراض محض قلت تدبر کی وجہ سے ہے حقیقت پر مبنی نہیں۔
اس آیت کے بارہ میں ایک اور نکتہ بیان کر دینا میں ضروری سمجھتا ہوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ فاتحہ کے جو نام بتائے ہیں ان میں سے دو نام ام القرآن اور ام الکتاب بھی ہیں (ابو دائود کتاب الصلوۃ) میرے نزدیک یہ نام قرآن کریم ہی سے مستنبط ہیں اور ان کا ماخذ یہی آیت ہے۔ اس آیت اور پہلی آیت میں بتایا ہے کہ عباد ت الٰہی کی آخری منزل یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ سے منعم علیہ گروہ والا صراط مستقیم طلب کرے۔ اب اگر یہ دعا قبول ہو سکتی ہے تو ظاہر ہے کہ جب انسانی دل سے یہ حیثیت قوم اللہ تعالیٰ کی طرف پکا۔ بلند ہو گی کہے ہم تبہ ہو رہے ہیں ہمارے لئے ہدایت کا راستہ کھولا جائے اور اس کے ساتھ اس زمانہ کے اس مکمل اور پاکیزہ دل کی التجا اور تڑپ بھی شامل ہو جائے گی جسے اللہ تعالیٰ نے اس زڑانہ کا مرد میدان بنایا ہے تو اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا رحم جوش مارے گا اور فضل الٰہی اور ہدایت کی صورت میں نازل ہو گا اسی طرح ہر زمانہ میں ہوتا چلا آیا ہے اور ہوتا چلا جائیگا۔
نوحؒ کے وقت کے مظلوموں کی دعائیں حضرت نوح علیہ السلام کے مطہر قلب کی گریہ و زاری سے مل کر اس کلام کو لائی تھیں جو نوع علیہ السلام پر نازل ہوا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت کی ارواح کی پکار حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قلب صافی کی تڑپ کے ساتھ مل کر صحفِ ابراہیم کے نزول کا موجب ہوئی تھی۔ یہی قصہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ گزرا اور اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ہوا۔ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ نزول قرآن کریم سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے الگ ہو کر غارِ حرا میں جا کر دعائیں اور عبادت کیا کرتے تھے یہ تو قلب اطہر کی حالت تھی جو اپنے خیالات کو پڑھنے کی طاقت رکھتا ہے اس کے علاوہ دنیا کی مخفی آہیں بھی آسمان کی طرف بلند ہو رہی تھیں ان سب نے مل کر خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کیا اور قرآن کریم نازل ہوا۔ پس اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ در حقیقت اسی حالت کا نقشہ ہے جو نزول کلام سے پہلے دُنیا کی ہوتی ہے خصوصاً اس زمانہ کی پاکیزہ ارواح کی جن کے دل سے صرف آہ ہی نہیں اٹھتی بلکہ ان کے دماغ میں بھی ایک تلاطم برپا ہوتا ہے اور اسی کے نتیجہ میں اس زمانہ کا کلام نازل ہوتا ہے پس چونکہ یہ دُعا سورۂ فاتحہ میں نازل ہوئی ہے او ریہی دُعا ہے جو کلام الٰہی کے نزول کا موجب ہوئی ہے اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ فاتحہ کا نام ام القرآن اور ام الکتاب رکھا۔ یعنی سورۂ فاتحہ میں وہ مضمون بیان ہوا ہے جو نزول قرآن کا موجب وا اور چونکہ کسی امر کے وجود کا موجب بمنزلہ ماں کے ہوتا ہے اس لئے سورۃ فاتحہ ام القرآن کہلائی۔
یہ بھی یاد رکھنے کے قابل بات ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سورۃ فاتحہ کو قرآن عظیم قرار دیا ہے اس کے یہ معنے نہیں کہ سورۂ فاتحہ قرآن عظیم ہے اور باقی قرآن چھوٹا ہے کیونکہ یہ امر بالبداہت غلط ہے پس اس کی وجہ اور ہے اور میرے نزدیک وہ وجہ ام القرآن اور ام الکتاب والے نام ہیں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ فاتحہ کو ام القرآن اور ام الکتاب کہا تو آپؐ نے خیال فرمایا کہ اس سے الگ ہے اس لئے آپؐ نے اس کا نام قرآن عظیم بھی رکھا تاکہ مسلمانوں پر یہ واضح رہے کہ سورہ فاتحہ قرآن کریم سے باہر نہیں بلکہ اس کا حصہ ہے کسی چیز کا حصہ بھی چونکہ پوری چیز کے نام میں شریک ہوتا ہے اس لئے آپؐ نے سورۃ فاتحہ کو قرآن عظیم فرمایا۔ ہم ہمیشہ جب قرآن کریم کا کوئی حصہ سننا چاہیں تو کہتے ہیں کہ حافظ صاحب قرآن کریم پڑھ رہا ہے یا ایک آیت میں جو مضمون ہوتا ہے اس کے بارہ میں کہتے ہیں کہ قرآن یُوں کہتا ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ہمارے نزدیک صرف وہ سورۃ آیا آیت قرآن ہے باقی قرآن نہیں بلکہ ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ سورۃ یا وہ آیت جسے ہم پڑھتے ہیں یا جس کا حوالہ دیتے ہیں قرآن کا حصہ ہے۔
اس جگہ ایک اور لطیفہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ فاتحہ کو ام القرآن اور ام الکتاب بھی فرمایا ہے اور قرآن عظیم بھی فرمایا ہے گویا ایک طرف اسے ذریعہ پیدائش قرار دیا دوسری طرف اسے وہ چیز بھی قرار دیا جو اس سے پیدا ہوئی ہے اس میں ایک زبردست روحانی نکتہ نکلتا ہے اور وہ یہ ہے کہ روحانی دنیا میں پہلی حالت دوسری حالت کی پیدا کرنے والی ہوتی ہے اس لئے پہلی حالت ایک جہت سے ماں کہلاتی ہے اور بعدکی حالت اولاد کہلاتی ہے اسی نسبت سے سورۃ فاتحہ کو ام القرآن بھی کہا گیا اور بوجہ اس کے کہ وہ خود قرآن بھی ہے اسے قرآن بھی کہا گیا۔ انسانوں کے متعلق بھی ایسے ہی تغیرات کے مواقع پر اس قسم کے تشبیہی الفاظ استعمال کر لئے جاتے ہیں چنانچہ سورہ تحریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومنوں کی مثال اِمْرَأَۃ فِرْعَوْن اور مَرْیَم بنت عِمْرَان سے دی جا سکتی ہے اور جن مومنوں کی مثال مریم بنت عمران سے دی ہے ان کے متعلق آخر میں فرمایا ہے فَنَفَغْنَا فِیْہِ مِنْ رُّوْحِنَا وَصَدّقَتْ بکَاِمَاتِ رَبِّہاَ وَکُتُبِہٖ وَکَانَتْ مِنَ الْقَانِتِیْنَ (سورہ تحریم ع ۲) ہم نے اس کے ادنر اپنا کلام پھونکا اور وہ اپنے رب کے کلام پر او راس کی کتابوں پر ایمان لائی اور آخر وہ ایک فرمانبردار مرد کی طرح ہو گئی یعنی جو لوگ مریمی صفت ہوتے ہیں جب ترقی کرتے کلام الٰہی کے مورد ہو جاتے ہیں تو مسیحی نفس بن جاتے ہیں۔
غرض سورہ فاتحہ کا نام ام القرآن اور ام الکتاب بھی رکھنا اور اسے قرآن عظیم بھی کہنا اسلامی اصطلاحات پر ایک لطیف روشنی ڈالتا ہے او ران لوگوں کے لئے اس میں ہدایت ہے جو اس مسئلہ کو نہیں سمجھ سکے کہ امت محمدیہ کے ایک شخص کا نام کس طرح مریم بھی رکھا گیا اور عیسیٰ بھی۔ اگر سورہ فاتحہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کی ام بھر فرماتے ہیں اور قرآن بھی۔ توایک سچے مسلمان کے لئے اس امر کا سمجھنا کیا مشکل ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک شخص کو مریم بھی فرماتا ہے اور عیسیٰ بھی۔ اس کی وہ حالت جب وہ حدا کے سامنے اس زمانہ میں ایک مسیح کے ظہور کے لیے چلا رہی تھی مریمی حالت تھی اور اس کی وجہ سے وہ مریم کہلایا جس طرح سورۃ فاتحہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کی دعا کی وجہ سے جو ایک ہدایت نامہ کے لئے پکار رہی تھی ام القرآن اور ام الکتاب کہلائی۔ لیکن جب اس فرد کامل کی دعا سنی گئی اور خدا تعالیٰ نے اسی کو دنیا کے لئے مسیحی نفس عطا کر کے مبعوث فرما دیا تو وہ عیسیٰ کہلایا۔ جس طرح اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کی پکار نے بلند ہو کر جب قرآن کریم کو دنیا کی طرف کھینچا اور یہ دُعا خود اس کا حصہ بن گئی تو ام القرآن اور ام الکتاب کہلانے کے بعد وہ قرآن عظیم کہلانے لگی۔
اس دعا کے باہر میں ایک اور نکتہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے جسے صحابہ نے مدنظر رکھا اور ایک ایسا اعلیٰ درجہ کا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا جس کی مثال دنیا کی کسی اور قوم میں نہیں مل سکتی اور اگر بعد کے مسلمان بھی اسے یاد رکھتے تو یقینا وہ بھی ایسا اعلیٰ درجہ کا نمونہ دکھاتے کہ دنیا کی تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ کے لئے یادگار رہ جاتا۔ مگر افسوس کہ مسلمانوں نے اس زرین ہدایت کو جو اس آیت میں بیان کی گئی تھی۔ بھلا دیا اور اس معیار سے گر گئے جس پر کہ اللہ تعالیٰ انہیں کھڑا کرنا چاہتا تھا۔ اگر آج بھی مسلمان اس ہدایت کو اپنا ملمح نظر بنا لیں تو سب تکلیفیں ان کی فوراً دُور ہو سکتی ہیں اور پھر وہ بے مثال عزت اور رفعت حاصل کر سکتے ہیں۔
وہ سبق جو اس آیت میں بیان ہوا ہے یہ ہے کہ ہر قوم کا ایک مقصد ہوتا ہے اور وہ اس مقصد کے حصول کے لئے جدوجہد کرتی ہے۔ اسی طرح دُنیا کی پیدائش کا بھی ایک مقصد ہے جو قوم اس مقصد کو پورا کر دے دُنیا کی پیدائش کا اصل مقصود کہلانے کی وہی قوم مستحق ہو گی آدم علیہ السلام دُنیا میں آئے اور کچھ نیکیاں انہوں نے دُنیا کو بتائیں اس زمانہ کے لوگوں کے لئے وہ نہایت اعلیٰ تعلیم پر مشتمل تھیں۔ ان نیکیوں پر عمل کر کے اس زمانہ کے لوگوں نے بہت بڑی روحانی اور اخلاقی تبدیلی پیدا کی اور ان کی ذہنی قومیں پہلے لوگوں سے بہت آگے نکل گئیں مگر ابھی انسان اس کمال کو نہ پہنچا تھا جس کے لئے اسے پیدا کیا گیا تھا پس اس کی ترقی کے لئے جستجو جاری رہی یہاں تک کہ نوع علیہ السلام پیدا ہوئے اور وہ انسان کو ترقی کی بلندی پر ایک منزل اور اونچا لے گئے مگر انسان نے گو نوح علیہ السلام کے ذریعہ سے روحانی اور اخلاقی اور ذہنی طو رپر ترقی کی مگر ابھی وہ مقصد حاصل نہ ہوا تھا جس کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا تھا چنانچہ آپؐ کے بعد اور نبی آیا اور اس کے بعد اور۔ اور اس کے بعد اور۔ اور یہ سلسلہ چلتا چلا گیا یہاں تک کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ظاہر ہوئی اور آپؐ نے تمام راز ہائے سربستہ جو انسان پر اب تک پوشیدہ تھے ظاہر کر دیئے اور دینی اور ذہنی اور اخلاقی ترقی کے لئے جس قدر ضروری امور تھے وہ سب کے سب بیان کر دیئے اور گویا علمی طور پر مذہب کو کمال تک پہنچا دیا۔ اور اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ کا اعلان کر دیا مگر جب تک اس اعلیٰ تعلیم کو جامہ عمل نہ پہنایا جاتا اس کے نزول کی غرض پوری نہ ہو سکتی تھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت پوری طرح کامیاب نہیں کہلا سکتی تھی پس اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے سورۂ فاتحہ میں مسلمان کو اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ کی دعا سکھائی اور کہا کہ ہمیشہ اپنے سامنے یہ مقصد رکھو کہ جس مقامِ محمود کو سامنے رکھ کر اس دُنیا نے شروع سے رُوحانی سفر احتیار کیا ہے اور جس کی مختلف منزلوں تک مختلف انبیاء انسانوں کو پہنچاتے چلے آئے ہیںاور جس کی آخری منزل تک پہنچانا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد ہوا ہے اس تک تم پہنچ جائو۔
پس سارے کے سارے منعم علیہ گروہ کی نعمتو ں سے ہمیں حصہ دے کے یہ معنی ہیں کہ اے خدا ہم کو آدم کی امت کی نیکیاں دے او رپھر ہماری ذہنی ترقی نوح کی امت کی طرح کر پھر ابراہیم کی امت کے مقام پر پہنچا اور پھر موسیٰ کی امت کے کمالات ہمیں دے اور پھر مسیح کی روحانیت کے اثر سے ہمیں حصہ دے اور اس طرح منزل بہ منزل روحانی بلندیوں پر چڑھاتے ہوئے بالآخر مقام محمدؐ پر ہم کو قائم کر دے تاکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے مقصد میں کامیابی حاصل ہو اور وہ مقام محمود پر ـفائز ہو جائیں غرض صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ سے مُراد انسانی کمال کی وہ آخری منزل ہے جس کی طرف شروع سے انسانی قافلہ بڑھتا آ رہا ہے اور جس کی مختلف منزلوں کی راہنمائی مختلف زمانہ کے انبیاء کے سپرد تھی اور جس کی آخری منزل تک پہنچانا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد ہوا تھا اور اس دعا کے ذریعہ اس امت محمدؐیہ کے افراد درخواست کرتے ہیں کہ الٰہی دین کی تکمیل تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے تو نے کر ہی دی ہے اب یہ امر باقی ہے کہ ہم لوگوں کے اعمال بھی اس دین کے مطابق ہو جائیں اور ہم ان تمام مخفی اور اعلی قوتوں کا اظہار کریں جن کی مختلف انبیاء کے ذریعے سے نشوونما کی جا چکی ہے اور جن کا پیدا کرنا انسانی پیدائش کا آخری اور اور اعلیٰ مقصد ہے سو اس کام کے لئے ہم کھڑے ہو گئے ہیں اب تو ہماری مدد کر اور ان سب منازل عرفان کو یکجائی طو رپر طے کرا دے جنہیں فرداً مختلف انبیاء کے ذریعہ سے مختلف اقوام طے کر چکی ہیں تاکہ انسانی پیدائش کا مقصد امتِ محمدؐیہ کے ذریعہ سے پورا ہو جائے۔
صحابہؓ نے اس مقصد کو سامنے رکھا اور زمانہ سابق کی سب اقوام کے اخلاق کو یکجائی طور پر اپنے وجود میں پیدا کر کے ایک بے مثال نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا آج اگر ہماری جماعت اس مقصد کو پھر اپنے سامنے رکھ لے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام محمود پر مبعوث ہونے کا وقت او ربھی قریب ہو جائے گا اور دنیا اپنی پریشان گن بے تابیوں سے محفوظ ہو جائے گی۔
ہر شخص یا قوم جو اللہ تعالیٰ کو ناراض کر کے اس کے غضب کو بھڑکا چکی ہو مَعْضُوْب عَلَیْھِمْ میں شامل ہے اسی طرح ہر قوم جو غیر اللہ کی محبت میں کھوئی گئی ہو اور اللہ تعالیٰ کو بھلا بیٹھی ہو وہ ضال ہے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں لفظوں کے خاص معنے بھی کئے ہیں امام احمد بن حنبل اپنی مسند میں عدمی بن حاتم سے ایک لمبی روایت نقل کرتے ہیں جس کے آخر میں ہے۔ قال (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) انَّ الْمَغْضُوْبَ عَلَیْھِم ایہودُ وانَّ الضّالَینَ النصَاریٰ۔ مغضوب علیہم سے مراد یہود ہیں اور ضالین سے مراد نصاریٰ ہیں۔ اسی طرح ترمذی نے بھی یہی روایت نقل کی ہے اور اس کے بارہ میں کہا ہے کہ حسن غریب ابن مردویہ نے ابو ذر غفاریؓ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ رسألتُ رسولَ اللّٰہ صلی اللّٰہُ علیہ وسلَّم عن الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمُ قَالَ ایہود و قلتُ الضّالّین قَالَ النصَاریٰ (بحوالہ فتح البیان جلد اول) یعنی حضرت ابو ذر فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلیہ اللہ علیہ وسلم سے پوچھا مغضوب علیھم کون ہیں آپؐ نے فرمایا۔ یہود پھر میں نے کہا کہ ضالین کون ہیں تو آپؐ نے فرمایا۔ نصاریٰ۔
بہت سے صحابہؓ سے بھی یہ معنے ثابت ہیں مثلاً ابن عباس اور عبداللہ بن مسعود ابن ابی حاتم تو یہاں تک کہتے ہیں وَلَا اَعْلَمُ بَیْنَ الْمُفَسِّرِیْنَ فِی ھٰذَا اِخْتِلَافاً۔ یعنی تمام مفسرین ان معنوں پر متفق ہیں اور اس بارہ میں میں نے ان میں کوئی اخلاف نہیں دیکھا (ابن کثیر)
قرآنی آیات سے بھی ان معنوں پر استدلال ہو سکتا ہے کیونکہ یہود کی نسبت قرآن کریم میں بار بار غضب کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ مثلاً سورہ بقرہ میں ہی فرماتا ہے۔ فَبَآئَ وَ بِغَضَبٍ عَلی غَضَب (ع ۱۱) یہود خدا کے متواتر غضب کو لے کر اس طرح بن گئے کہ گویا خدا تعالیٰ کا غضب انہی کے لئے ہے۔ اس کے برخلاف نصاریٰ کے لئے ضَلَّ کا لفظ آیا ہے جیسے فرماتا ہے اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیٔہُمْ فِی الَّحَیٰوۃِ الدُّنْیَا (کہف ع ۱۲) اسی طرح سورۂ مائدہ میں مسیحیوں کا ذکر کر کے اور مسیح اور ان کی والدہ کو خدائی کا رتبہ دینے کا بیان کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یٰٓاَ ھْلَ الْکِتٰبِ لَاتَعْلُوا فِیْ دِیْنِکُمْ غَیْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوْٓا اَھْوَآئَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَاَضَلُّوْ اکَثِیْرًا وَّضَلُّوْ اعَنْ سَوَآئِ السَّجِیْل (مائدہ ع ۱۰) اے اہل کتاب (یعنی نصارے کیونکہ اس جگہ انہی کا ذکر ہے) اپنے مذہبی خیالات میں غلو سے کام نہ لو اور ایسے لوگوں کے خیالات او رانکی خواہشات کے پیچھے نہ چلو جو پہلے سے گمراہ چلے آ رہے ہیں اور بہتوں کو گمراہ کر چکے ہیں اور سیدھے راستہ سے بھٹک چکے ہیں یعنی عام نصاریٰ کو بتایا ہے کہ سب نصارے شرک کے عقیدہ کے قائَنہ تھے ان میں سے موجد بھی تھے او رمشرک بھی۔ مشرک گروہ جو سیح کو خدا قرار دیتا تھا وہ خود بھی گمراہ تھا اور اس نے باقی مسیحیوں میں بھی اپنا عقیدہ پھیلانا شروع کیا اور اکثر حصہ کو اس گمراہی کے عقیدہ پر لے آیا۔ اور جو سیدھا راستہ توحید کا تھا اُسے چھوڑ دیا۔
غرض قرآن کریم سے بھی اور اقوال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ مفضوب علیہم میں خاص طو رپر یہود مراد ہیں اور ضالین سے خاص طور پر نصاریٰ مراد ہیں۔
یہ آیت اَلَّذِیْنَ کا یا اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ میں جو ھم کی ضمیر ہے اس کا بدل ہے او راس کامفہوم یہ ہے کہ اے اللہ ہمیں منعم علیہ گروہ کے راستہ پر چلا اور منعم علیہ سے ہماری مراد ایسے منعم عیہ ہیں جو بعد میں تیرے غضب کے مورد نہ ہو گئے ہوں یا جو کسی اور کی محبت میں تجھے چھوڑ نہ بیٹھے ہوں۔ اس مضمون میں مومن کے لئے خشیت کا بہت بڑا سامان مہیا ہے اسے یاد رکھنا چاہیئے کہ جب تک انسان اس مقام تک نہ پہنچ جائے جس کے بعد کوئی گمراہی نہیں اسے کبھی مطمئن نہیں ہونا چاہیئے اور جدوجہد میں لگا رہنا چاہئے کہ اس کا قدم زیادہ سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ تقویٰ کی راہو ںپر پڑتا رہے تا ایسا نہ ہو کہ تھوڑی سی غفلت سے وہ اپنے مقام سے گر کرتبہ اور برباد ہو جائے۔
اس آیت میں ایک بہت بڑی پیشگوئی ہے جو ہر سوچنے والے کے لئے ترقی ایمان کا موجب ہو سکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ جس وقت یہ سورۃ نازل ہوئی ہے اس وقت یہود اور نصاریٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نہ تھے بلکہ کفار مکہ آپؐ کے مقابلہ پر تھے۔ یہود اور نصاریٰ کی تعداد مکہ میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہ تھی او رنہ ان کا حکومت میں کوئی دخل تھا پھر کیا وجہ ہے کہ اس سورۃ میں یہ نہیں سکھایا گیا کہ دعا مانگو کہ اللہ تعالیٰ تم کو پھر مشرک ہونے سے بچائے بلکہ یہ سکھایا گیا ہے کہ دُعا کرو کہ اللہ تعالیٰ یہود اور نصاریٰ کے طریق پر چلنے سے بچائے مشرکین کا ذکر چھوڑ کر یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ مشرکین مکہ کا مذہب ہمیشہ کے لیے تبہ ہو جائے گا اس لئے اس دعا کی ضرورت ہی نہیں کہ خدا مسلمانوں کو مشرکین مکہ سا ہونے سے بچائے لیکن یہود اور نصاریٰ کا مذہب قائم رہے گا اس لئے اس بارہ میں دعا کرنے کی ضرورت رہے گی کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو یہود و نصاریٰ میں شامل ہونے سے بچائے۔
اس آیت میں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ مسیحی تو اپنے مذہب میں مسلمانو ںکو شامل کرتے ہیں اس لئے اس دُعا کی ضرورت معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو نصارے کے فتنہ سے بچائے۔ لیکن یہود تو بالعموم غیر مذاہب کے افرا دکو اپنے اندر شامل نہیں کرتے پھر اس دعا کی کیا ضرورت ہے کہ خدا تعالیٰ انہیں یہود ہونے سے بچائے خدا تاعلیٰ کا کلام ایک بے معنی اور بے ضرورت دعا کے کرانے کا مجرم نہیں ہو سکتا نہ یہ سمجھ میں آ سکتا ہے کہ محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایسی غیر ضروری دعا دن میں تیس چالیس بار پڑھنے کا حکم دیں گے۔ پس مسلمانوں کو غور کرنا چاہیئے کہ یہودی فتنہ کسی اور رنگ میں تو ان کے لئے ظاہر نہیں ہونے والا۔ کیا یہ تو ان کے لئے ظاہر نہیں ہونے والا۔ کیا یہ تو ممکن نہیں کہ آنے والے مسیح کا انکار کرنے کی وجہ سے مسلمانوں کی حالت یہود کے مشابہ ہو جائے گی۔ اوریہ حالت اس وقت ہو گی جبکہ مسیحی فتنہ بھی بڑے زور سے اسلام پر حملہ کر رہا ہو گا۔ پس ایک طرف توایک مثیل مسیح کا انکار کر کے انہیں یہود سے مشابہت ہو جائیگی اور وہ خدا تعالیٰ کی نصرت سے محروم ہو جائینگے دوسری طرف مسیحیت ان پر حملے کر کے ان کے ہزاروں جگر کے ٹکڑے ان سے چھین کر لے جائے گی۔ کی یہ آیت ایک زبردست پیشگوئی نہیں ہے۔ کیا اس سے فائدہ اٹھا کر وہ ان دو آگوں سے نجات حاصل نہیں کر سکتے۔
اس سورۃ پر نظر غائر ڈالنے سے ایک اور لطیف خوبی کاپتہ چلتا ہے جو خدا تعالیٰ نے اس سورۃ کّی آیات میں رکھی ہے اور وہ یہ ہے کہ صفات الٰہیہ اور دُعائوں کا بیان بالکل ایک دوسرے کے مقابل میں ہوا چنانچہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ (یعنی سب تعریف اللہ کے لئے ہے) کے مقابلہ میں اِیَّاکَ نَعْبُدُ (ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں) ہے جس سے بتایا ہے کہ جونہی انسان معلوم کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سب خوبیو ںکا جامع ہے تو وہ بے اختیار کہہ اُٹھتا ہے کہ ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں پھر رَبّ الْعٰلَمِیْنَ کے مقابلہ میں اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن کو رکھا ہے کیونکہ جب انسان کو یقین ہو جائے کہ ہمارا خدا ہر ایک ذرہ ذرہ ہو خالق اور محسن ہے تو وہ کہہ اُٹھتا ہے کہ ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔ اسی طرح الرَّحْمٰن کے مقابلہ میں جس کے معنے بغیر محنت اور مبادلہ کے دینے والا۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کو رکھا ہے۔ کیونکہ جب انسان دیکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کے کسی عمل کے بغیر اس کی تمام ضروریات کو پورا کیا ہے تو وہ بے اختیار کہہ اُٹھتا ہے کہ میری سب سے بڑی ضرورت تو حضور تک پہنچنا ہے اس کے پورا کرنے کے سامان بھی پیداکیجئے۔ پھر الرَّحِیْم (یعنی محنت کا عمدہ بدلہ دینے والا) کے مقابلہ میں صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ رکھا یعنی ایسے لوگوں کا رستہ دکھایئے جن پر آپ نے انعام کئے ہیںسیدھے راستہ پر چلاتے چلاتے مجھے ان انعامات کا وارث کر دیجئے جو پہلے لوگوں کو ملے ہیں۔کیونکہ رحمیت چاہتی ہے کہ کسی کام کو ضائع نہ ہونے دیا جائے۔ پھر مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن کے مقابلہ میں غَیْرِ الْمَغْضُبْوبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّالِّیْن کو رکھا کیونکہ جب انسان کو یقین ہو کہ میرے اعمالا کا حساب لیا جائے گا۔ تو فوراً اس کے دل میں ناکامی کا خو ف بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ پس بندہ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن پر غور کر کے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچنے کی دُعا کرتا ہے۔
اس سورۂ شریفہ کی آیات پر اگر نظر غور ڈالی جائے اور ان کی ترتیب کو چشم تعمق سے ملاخطہ کیا جائے تو صاف عیاں ہو جاتا ہے کہ اس میں انسان کے لئے تبدریج روحانی منازل طے کرنے اور منزل بہ منزل چل کر آخر قر الٰہی کا شرف حاصل کرنے کی ہدایت مندرج ہیں کسی ذات کی فرمانبرداری یا عبادت دو ہی وجہ سے ہوتی ہے یا محبت سے یا خوف سے۔ سو اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ میں اپنی دونوں قسم کی صفات کی طرف متوجہ کیا ہے بعض لوگ جن کی طبیعت میں احسان کی قدر کا مادہ زیادہ ہوتا ہے احسان کو دیکھ کر فرمانبرداری کرتے ہیں اور بعض لوگ احسانوںکی پرواہ بھی نہیں کرتے مگر خوف ان کو فرمانبرداری پر مجبور کر دیتا ہے۔ لیکن دانا انسان کا یہ کام ہے کہ پہلے محبت سے کام لے اور اگر اس سے کام نہ چلے تو پھر خوف دلائے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بھی اس سورۃ میں پہلے اپنی ان صفات کا بیان کیا ہے جن پر غور کرنے سے انسان کا دل محبت الٰہی سے پر ہو جاتا ہے اس کا نام اللہ ہے یعنی سب خوبیوں کا جامع اور سب نقائص سے منزہ ہے۔ سب اشیاء کا خالق او ران کا رازق ہے۔ مومن و کافر سب کی ربوبیت کرتا ہے۔ اس نے ہماری زیست کے وہ سامان جن سے ہم واقف بھی نہیں ہمارے لئے پیدا کئے ہیں۔ اور ہم جو نیک عمل کریں ان کا بہتر سے بہتر انعام دیتا ہے جو لوگ کسی چیز کی خوبصورتی یا اس کے احسان کو دیکھ کر فرمانبرداری کرنے کے عادی ہیں وہ ان صفات کو دیکھ کر بے اختیار اِیَّاکَ نَعْبُدُ کہہ کر اُس کے آگے جھک جاتے ہیں لیکن جو لوگ محبت کے اثرات سے ناواقف ہوتے ہیں اور سخت لوگ کے عادی ہوتے ہیں وہ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن کی صفت پر جب غور کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جزاء سزاء کے دن کا مالک ہے اور ایک دن اس کے سامنے حاضر ہو کر اس کے سب انعامات کا حساب دینا ہو گا وہ خوف کی وجہ سے بے اختیار ہو کر اس کے آگے گردن جھکا دیتے ہیں اور اِیَّاکَ نَعْبُدُ کہہ اٹھتے ہیں۔ غرض کوئی انسان ہو خواہ محبت سے متاثر ہونے والا خواہ خوف سے ماننے والا سورۃ فاتحہ کی ان ابتدائی آیات کو پڑھ کر بے اختیار اِیَّاکَ نَعْبُدُ کہہ اٹھتا ہے لیکن ساتھ ہی جب وہ ایک طرف تو اپنی کمزوری کو دیکھتا ہے اور دوسری طر فاس شبہ خوباں کے حسن و احسان یا اس کی عظمت و جبروت کا مطالعہ کرتا ہے۔ تو بے اختیار ہو کر اِیَّاکَ نَعْبُدُ کے ساتھ وَاِیَّاَک نَسْتَعِیْن بھی کہہ اُٹھتا ہے۔ یعنی میں تو حضور کا فرمانبردار ہوں۔ اور آپ ہی کی عبادت کرتا ہوں لیکن جو حق عبادت ہے۔ وہ مجھ سے ادا نہیں ہو سکتا اس لئے میں آپ ہی سے مدد چاہتا ہوں کہ آپ اس کام میں میری مدد فرمائیں اور حق عبادت ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں جب محبت اس حد تک پہنچ جاتی ہے اور عظمت الٰہی اس حد تک بندہ کو متاثر کر دیتی ہے تو پھر جیسا کہ فطرت انسانی کا تقاضا ہے وہ بے اختیار اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کہہ اٹھتا ہے یعنی مجھے سیدھا راستہ دکھایئے اور سیدھا راستہ ہمیشہ باقی راستوں سے اقرب ہی ہوتا ہے پس یہ کلام محبت کے کمال کو ظاہر کرتا ہے کہے اے اللہ اب میں آپ دُور نہیں رہ سکتا۔ آپ مجھے وہ سب سے نزدیک افراط و تفریط سے پاک راستہ دکھائیں جس پر چل کر میں جلد سے جلد آپ تک پہنچ جائوں لیکن چونکہ دربار شاہی میں باریاب ہونے والے لوگ مختلف مدارج کے ہوتے ہیں بعض عام درباری اور بعض خاص الخاص لوگ اس لئے عین فطرت کے تقاضا کو پورا کرتے ہوئے صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ کی دعا سکھلائی۔ یعنی اے مولیٰ آپ مجھے سیدھا راستہ بھی دکھائیں اور مجھ پر یہ فضل بھی کریں کہ منعم علیہ لوگوں کا راستہ دکھائیں یعنی حصور کے دربار میں میرا داخلہ عام لوگوں میں ہو کر نہ ہو۔ بلکہ آپ کے خاص پیاروں میں میں شامل ہو جائوں اور عاشق ہوتے ہوئے معشوق بھی بن جائوں اور جس طرح میں آپ سے محبت کرتا ہوں جناب بھی مجھ سے محبت کرنے لگ جائیں (کیونکہ منعم علیہ گروہ ہی ہے جو اللہ تعالیٰ کا محبوب گروہ ہے اور جو جماعت انعام ہی انعام کی مستحق ہوتی ہے وہی پیاری جماعت ہوتی ہے) اس طرح بندہ اس مقام محبت کو چاہتا ہے جس میں کوئی پردۂ مغائرت نہ رہے اب گویا انسان کمال کو پہنچ جاتا ہے اور عاشق و معشوق ایک ہو جاتے ہیں۔ لیکن چونکہ ایمان بَیْنَ الْخَوْفِ وَالرِّجَائِ ہے اس لئے جب انسان اس رُوحانی لذّت کو حاصل کر لیتا ہے تو اس کی تمنا ہوتی ہے کہ یہ مقام اس کو ہمیشہ حاصل رہے اور اس پر اس کو ثبات نصیب ہو اس لئے مولیٰ کریم نے انسان کو اپنے حضور یہ عرض کرنا سکھلایا کہ آپ یہ فضل بھیکریں کہ اس ملاقات کے بعد میں آپ سے کسی طرح بھی جدا نہ ہوں اور چونکہ جدائی کے دو طریق ہوتے ہیں یا تو یہ کہ معشوق ناراض ہو کر نکال دے اور یا یہ کہ عاشق ہی عشق ترک کر کے علیحدہ ہو جائے اس لئے دونوں صورتوں کو بیان کرنے کے لئے فرمایا کہ غَیُرِ الْمَغْضُوُبِ عَلَیْہِمْ یعنی نہ تو ایسا ہو کہ آپ میری کسی غلطی کی وجہ سے مجھ پر ناراض ہو جائیں وَلَا الضَّالِّیْن اور نہ ایسا ہو کہ منزل مقصود کو پہنچ کر میرے ہی دل میں آپ کے سوا کسی اور شے کا عشق پیدا ہو جائے اور میں آپ کو چھوڑ کر کسی اور طرف چلا جائوں۔
یہ ایک ایسی کامل اور جامع دُعا ہے جو خدا تعالیٰ نے محض اپنے رحم سے انسان کو اپنے حضور عرض کرنے کے لئے تعلیم کی ہے کہے جس کے مقابلہ میں کوئی اور مذاہب اپنے آپ کو پیش نہیں کر سکتا۔ غور کرو کس طرح انسانی فطرت کا اول سے آخر تک نقشہ کھینچ دیا ہے اور کس طرح تمام قسم کے متفرق خیالات کے لوگوں کا علاج اس چھوٹی سی سورۃ میں بتا دیا ہے پس جو سمجھنے والے ہیں سمجھیں اور جو سوچنے والے ہیں سوچیں کہ دُنیا کا نجات دہندہ مذہب سوائے اسلام کے اور روحانی بیماریوں کا علاج سوائے قرآن کے کوئی نہیں۔
آمین۔ صحیح حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں جب سورۃ فاتحہ کو غَیْرِ الْمَغُضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّالِّیْن پر ختم کرتے تو آمین کہتے ہیں جس کے معنے اللّٰھُمَّ اسُتَجِبْ لَنَا کے ہیں۔ یعنی اے اللہ ہماری یہ عرض قبول فرما۔ اور باتباع ارشاد نبویؐ صحابہ رضی اللہ عنہم کا یہی عمل ثابت ہے۔
٭……٭……٭……٭
ان آیات میں منافقوں کی حالت کا وہی نقشنہ کھینچا گیا ہے جو اوپر کی آیت میں شیطان کا کھینچا گیا ہے یہ بھی قسمیں کھاتے تھے جس طرح شیطان نے قسمیں کھائیں تھیں یہ بھی اپنے اخلاص کا دعویٰ کرتے تھے جس طرح شیطان نے کیا تھا اور ان کی باتیں بھی بظاہر ایسی ہوتی تھیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے دھوکا کھا جاتے کہ بڑے اچھے مشورے دے رہے ہیں اسی طرح شیطان کی بات پر آدم نے یقین کر لیا صرف فرق یہ ہے کہ سید ولد آدم چونکہ آخری نبی تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں ان شیطانوں کے حملہ سے اپنے الہام سے بروقت خبردار کر دیا اور وہ اسلام کو عارضی نقصان بھی نہ پہنچا سکے مگر آدم کا شیطان یا اپنے وقت کا عبداللہ بی ابی ابن سلول عارضی طور پر آدم کو جنت سے نکالنے میں کامیاب ہو گیا۔
شیطان کا یہ کہنا کہ میں آپ کا مخلص ہوں اسی لئے تھا کہ آدم علیہ السلام کو یقین دلائے کہ ابلیس اور اس کی ذریت سے بچنے کا حکم بیشک آپ کو ملا تھا میں تو اب آپ کا مخلص ہوں اس لئے اب میں ابلیس کی ذریت سے نہیں رہا بلکہ آپ کی ذریت سے ہو گیا ہوں اس کی ان چکنی چپڑی باتوں سے آدم علیہ السلام کو دھوکا لگ گیا اور انہوں نے سمجھا کہ یہ سچ تو کہتا ہے جب یہ ہمارا مخلص ہو گیا ہے تو اب اس سے بچنے کی کیا ضرورت ہے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے خبردار کر دیا کہ منہ سے یہ منافق کس قدر ہی اخلاص کے دعوے کریں مگر ھُمُ الْعُدُ وُّفَا حْذَرْ ھُمْ اصل دشمن یہی ہیں پس تُو ان سے بچ۔
اب سوال کا یہ دوسرا پہلو حل کرنے کے قابل رہ جاتا ہے کہ شیطان چونکہ ابلیس کے علاوہ اور وجود تھا اس لئے اس نے اپنے مومن اور مخلص ہونے کا دھوکا دے کر حضرت آدمؑ کو غافل کر دیا مگر وہ بات جو اس نے کی ہو گی وہ تو خدا تعالیٰ کے حکم کے خلاف ہی ہو گی پھر اس بات کے ماننے کے لئے آدم علیہ السلام کس طرح تیار ہو گئے اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح آدمی ایک غلط جبہ پہن کر دوسرے کو دھوکا دے دیتا ہے اسی طرح وہ باریک امور میں غلط امور کو غلط رنگ دے کر اچھا بنا کر بھی دکھا دیتا ہے۔ دیکھو اسی سورۃ کے شروع میں اللہ تعالیٰ منافقوں کی نسبت فرماتا ہے کہ وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ قَالُٓوْا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ (بقرہ ع ۲) یعنے جب ان منافقوں سے کہا جاتا ہے کہ کفار سے میل جول رکھ کر فساد پیدا نہ کرو۔ تو وہ کہتے ہیں کہ واہ ہم پر فساد کا الزام لگاتے ہو حالانکہ ہم ہی اصلاح کی سچی کوشش کرنے والے دبائیں اور مسلمانوں کی طرف ان کو مائل کریں۔ اس جواب میں انہوں نے اپنے برے فعل کی اچھی توجیہ کر دی ہے اور اس طرح مسلمانوں کو بھی رغبت دلائی ہے کہ تم بھی اسی طرح کرو تاکہ فساد جاتا رہے۔
قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان نے بھی یہی طریق اختیار کیا تھا چنانچہ فرماتا ہے شیطان نے آدم علیہ السلام کو شجرۂ ممنوعہ کے قریب لے جانے کے لئے کہا کہ قَالَ مَانَھٰکُمَا رَبُّکُمَا عَنْ ھٰذِہِ الشَّجَرَۃِ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَا مَلَکَیْنِ اَوْتَکُوْنَا مِنَ الْخَالِدِیْنَ (اعراف ع ۲) یعنے شیطان نے آدم علیہ السلام سے کہا کہ آپ کو شجرۂ ممنوعہ سے بچنے کی حکمت پر غور کرنا چاہیئے صرف حکم کے ظاہری الفاظ کو نہیں دیکھنا چاہیئے اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ تھا کہ اس شجرہ سے بچ کر آپ فرشتے ہو جائیں اور ہمیشہ کی زندگی پائیں پس جب یہ حکم آپ کو نیک بنانے اور دائمی زندگی دینے کے لئے تھا تو اب اگر اس شجرہ کے قریب جانے سے وہی غرض پوری ہوتی ہو تو اللہ تعالیٰ کے حکم کی رُوح کو مقدم رکھتے ہوئے اب آپ کو اس کے قرب جانے سے دریغ نہیں کرنا چاہیئے اور اس کے قریب جانے کو ہی منشائے الٰہی کو پُورا کرنے والا سمجھنا چاہیئے چنانچہ دوسری جگہ اس کی تشریح یُوں آتی ہے فَوَسْوَسَ اِلَیْہِ الشَّیْطٰنُ قَالَ یَآ اٰدَمُ ھَلْ اَدُلُّکَ عَلیٰ شَجَرَۃِ الْخُلْدِ وَمُلْکٍ لَّایَبْلیٰ (طہ ع ۷) عینی شیطان نے آدم علیہ السلام کو یہ دھوکا دیا کہ اے آدم کیا تم کو وہ درخت بتائوں جو دائمی زندگی بخشنے والا ہے اور ایسی بادشاہت بحشے گا جو کبھی تباہ نہ ہو گی (یعنے فرشتوں جیسی زندگی جو کبھی تنزل کی طرف نہیں جاتے)
سورۂ اعراف کی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان نے اس امر کو آدم علیہ السلام کے سامنے رکھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس درخت سے اس لئے روکا تھا کہ تا اس سے رُک کر آپ فرشتے ہو جائیں اور دائمی زندگی پائیں اور طٰہٰ کی آیت بتاتی ہے کہ اس درخت کے قریب لے جانے کے لئے اس نے کہا کہ اس کے قریب جا کر آپ دائمی زندگی پائینگے ان دونوں آیتوں کو ملا کر صاف معلوم ہوتا ہے کہ شیطان کا فریب یہی تھا کہ اس نے ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کی بات کی تصدیق کر کے آدم علیہ السلام کے سامنے اپنے ایمان کا ثبوت دیا دوسری طرف اجتہاد کی آڑ لے کر یہ بتایا کہ اب حالات بدل گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی غرض اور اس کا منشاء اس درخت سے دُور رہ کر نہیں بلکہ اس کے قریب جا کر پُورا ہوتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے منشاء کو پورا کرنے کے لئے اور اس کے حکم کی رُوح کو مقدم رکھتے ہوئے اب آپ کو اس درخت کے قریب جانا چاہیئے آدم علیہ السلام اس کے اس دھوکے میں آ گئے اور اس کی بات کو مان لیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنت دُکھ کا مقام بن گئی۔ ظاہر ہے کہ اس قسم ا دھوکا بعض باریک مسائل کے متعلق خواص کو بھی لگ سکتا ہے اور آدم علیہ السلام تو پہلے نبی تھے ان سے پہلے اسی قسم کی مثالیں عبرت کے لئے موجود نہ تھیں بلکہ بالکل ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آئندہ لوگوں کی عبرت کے لئے ان سے اس غلطی کے صدور کو روا رکھا ہو۔
ہمارے زمانہ میں بھی عام مسلمان باوجود پہلی قوموں میں عبرت کی مثالوں کے موجود ہونے کے اس قسم کے اجتہادوں سے دھوکا کھا رہے ہیں مثلاً تاجروں کو بعض علماء یہ دھوکا دیتے ہیں کہ سود جو اسلام نے منع کیا تھا وہ وہ سود نہ تھا جو اب بنکوں کو دینا پڑتا ہے موجودہ سود سے بچنا تو قوم کو تباہ کرتا ہے اور اس سود کا لینا قوم کو تباہ کرتا تھا اس لئے اب بنکوں کا سود لینا منع نہیں بلکہ قومی زندگی کے لئے ضروری ہے اور کئی مسلمان جو دل سے اسلام کے احکام پر عمل کرنے کے خواہشمند ہیں اس دھوکے میں آ کر سود لے رہے ہیں اسی طرح بعض لوگوں نے عورتوں کو دھوکا دیا ہے کہ عرب کا ملک جاہل تھا اور پردہ نہ کرنے کی وجہ سے اس وقت کی عورتیں گمراہ ہو سکتی تھیں لیکن اب تعلیم کا زمانہ ہے اب پردہ چھوڑنے میں حرج نہیں بلکہ مسلمان عورتوں کے باہر آنے میں اسلام کی مضبوطی ہے اور کئی عورتیں جو دل سے اسلام سے محبت رکھتی ہیں اس دھوکے میں آ کر پردہ چھوڑ رہی ہیں۔
باقی رہا یہ سوال کہ وہ کیا امر تھا جس کے بارہ میں شیطان نے دھوکا دیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی مصلحت سے اس امر کو پوشیدہ رکھا ہے پس اجمالاً اس امر پر یقین رکھنا کافی ہے کہ ممنوع باتوں میں سے کسی ایک کو جس کے بارہ میں دھوکا لگ سکتا تھا شیطان نے پیش کیا اور اس کی نسبت یہ دھوکا دیا کہ حالات کے بدل جانے کی وجہ سے اب اس کا ترک دین کے لئے مضر ہے جس طرح کہ پہلے اس کا اختیار کرنا دین کے لئے مضر تھا ممکن ہے کہ اس وقت کے دشمنوں سے تعلقات پیدا کرنے کے متعلق ہی تحریک کی ہو جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے منافق کہا کرتے تھے۔ ہماری جماعت کو بھی اس بارہ میں ایک حصہ سے اس قسم کا تلخ تجزبہ ہوا ہے اور حال کے زمانہ کی یہ دو مثالیں ہمیں اس طرف رہبری کرتی ہیں کہ آدم علیہ السلام کے زمانہ میں بھی شیطان نے کوئی ایسی ہی چال چلی تھی۔
شائد کسی کے دل میں یہ شبہ پیدا ہو کہ جب اس امر کو جس کے باہر میں شیطان نے آدم علیہ السلام کو دھوکا دیا تھا ظاہر نہیں کیا گیا تو (۱) اس سے ہم فائدہ کیا اُٹھا سکتے ہیں (۲) دشمنانِ قرآن پر یہ مبہم بیان محبت کیونکر ہو سکتا ہے۔
پہلے شبہ کا جواب یہ ہے کہ اس واقعہ سے جس امر سے ہوشیار کرنا ہمیں مقصود ہے وہ صرف یہ ہے کہ کبھی دشمن نیکی کے جبہ میں آ کر اور بری بات کو نیک توجیہہ کے پردہ چھپا کر گمراہ کرناچاہتا ہے مسلمانوں کو اس سے ہوشیار رہنا چاہیئے یہ غرض اس مضمون سے روز روشن کی طرح واضح ہے باقی رہا یہ کہ آدم علیہ السلام کو کسی خاص امر میں شیطان نے دھوکا دیا تھا اس کا بیان کرنا ضروری نہیں کیونکہ ہر زمانہ میں شیطان نیا رنگ اختیار کرتا ہے اگر اس خاص امر کو بیان کر بھی دیا جاتا تو مسلمانوں کو کوئی خاص فائدہ نہ ہو سکتا تھا جس قدر واقعہ بیان کیا گیا ہے وہ مومنوں کو منافقو ںکی چالبازیوں سے ہوشیار کرنے کے لئے کافی واضح اور بین ہے۔
دوسرے شبہ کا جواب یہ ہے کہ منکرین قرآن کے فائدہ اُٹھانے کا یہاں سوال ہی نہیں قرآن کریم کی تعلیم دو حصوں پر مشتمل ہے (۱) وہ حصہ جو مومن و کافر سب کے لئے مشترک ہے (۲) وہ حصہ جو صرف مومنوں کے لئے نصیحت اور فائدہ کا موجب ہے جن حصص میں عقلی دلائل اور معجزات عامہ اور مختلف مذاہب کی کتب کے نقلی دلائل بیان ہوئے ہیں وہ تو مومن وہ کافر یا مومنوں اور خاص خاص مذاہب کے کافروں کے لئے حجت ہیں اور جن حصوں میں خالص روحانی امور بیان ہوئے ہیں وہ صرف مومنوں کے لئے مفید ہیں اور کافروں کے لئے اسی وقت مفید ہو سکتے ہیں جب پہلے ان کے عقائد کی اصلاح ہو جائے اور یہ حصہ صرف مومنوں سے تعلق رکھتا ہے اس لئے کفار کو اگر اس کی حکمت سمجھ میں نہ آئے تو کوئی اعتراض کی بات نہیں جس طرح ایک دہریہ کی وجہ سے جو خدا تعالیٰ کو نہیں مانتا نبوت کے دلائل بیان کرنے سے رُکا نہیں جا سکتا اسی طرح جو لوگ کسی خاص نبی کو نہیں مانتے ان کی وجہ سے اس نبی کے اتباع کے فائدہ کی باتوں کے بیان کو چھوڑا نہیں جا سکتا۔
اِھْبِطُوْا کے لفظ سے دھوکا کھا کر بعض لوگوں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ آدم علیہ السلام آسمان پر تھے پھر انہیں زمین پر پھینکا گیا مگر جیسا کہ حل لغات میں بتایا گیا ہے اس لفظ کے معنے چلے جانے کے بھی ہوت ہیں اور اس امر کو دیکھنے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو زمین میں خلیفہ بنایا تھا اس جگہ اس کے یہی معنے ہیں قرآن کریم میں ان معنوں میں یہ لفظ دوسری جگہ پر بھی استعمال ہوا ہے مثلاً بنی اسرائیل کی نسبت فرماتا ہے اِھْبِطُوْا مِصْرًا (بقرہ ع ۷) شہر کی طرف چلے جائو یا شہر میں داخل ہو جائو۔



۳۸؎ حل لغات
تَلَقّٰی:۔ لَقِیَ سے باب تفعل کا واحد مذکر غائب کا صیغہ ہے اور تَلَقَّاہُ کے معنے ہیں اِسْتَقْبَلَہُ اس کو آگے سے جا کر ملا۔ چنانچہ کہتے ہیں فُلَانٌ یَتَلَقّٰی فُلَانًا اَیْ یَسْتَقْبِلُہٗ فلاں شخص فلاں کو آگے سے جا کر ملتا ہے اور تَلَقَّی اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمَاتٍ کے معنے ہیں اَخَذَ ھَا عَنْہُ کہ حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے کلمات لئے وَقِیْلَ تَعَلَّمَہَا بعض نے اس کا پورا مفہوم یُوں ادا کیا ہے کہ انہوں نے سیکھے (لسان) اقرب میں لکھا ہے کہ تَلَقَّی الشَّیْئَ کے معنے ہیں لَقِیَہٗ کسی کو آگے جا کر ملا (کسی چیز کو آگے جا کر لیا) او رجب تَلَقَّی الشَّیْئَ مِنْہُ کہیں تو اس کے معنے ہونگے تَلَقَّنَہُ کسی کے منہ سے کوئی بات بالمشافہ سن کر اخذ کی اور اس کو ضبط کر لیا (اقرب) پس تَلَقَّی اٰدَمُ مِنْ رَّبِہٖ کے معنے ہوں گے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے کچھ دعائیہ کلمات بذریعہ الہام سیکھے۔
کَلِمٰتٌ:۔ کَلِمَۃٌ کی جمع ہے اور اس کے معنے ہیں اللَّفْظَہُ منہ سے بولا ہوا مفرد لفظ وَکُلُّ مَایَنْطِقُ بِہٖ الْاِنْسَانُ مُفْرَدًا کَانَ اَوْمُرَ کَّبًا نیز ہر اس بات پر بھی جو انسان بولے خواہ وہ مفرد ہو یا مرکب کَلِمَۃٌ کا لفظ بولا جاتا ہے۔ کَلِمَۃٌ کے ایک معنے اَلْخُطْبَۃُ وَالقَصِیْدَۃُ کے بھی ہیں۔ یعنی خطبہ اور قصیدہ (اقرب)
تَابَ:۔ تَابَ اِلَیْہ وَعَلَیْہِ کے معنے ہیں رَجَعَ عَلَیْہِ بِفَضْلِہاللہ تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوا (اقرب)
تَوَّابٌ:۔ تَوَّابٌ مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے معنے ہیں فضل کے ساتھ بہت متوجہ ہونے والا۔
اَلرَّحِیْم:۔ اس کے دیکھو حل لغات سورہ فاتحہ ۲؎
تفسیر۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت آدم کو شیطان نے دھوکا دے دیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کی غلطی سے آگاہ کیا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دُعا کی رَبَّنَا خَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْ حَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (اعراف ع ۲) یعنی اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا۔ اور اگر تو ہماری غلطی کو معاف نہ فرمائے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم گھاٹا پانے والوں میں سے ہو جائینگے۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ یہی دُعا انہوں نے سیکھی تھی۔
اس آیت میں ایک اور لطیف بات بتائی گئی ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کے رحم اور فضل کی جاذب زیادہ تر وہی دُعائیں ہوتی ہیں جو وہ خود سکھاتا ہے بہت سے انسان اپنی طرف سے دُعائیں بناتے ہیں لیکن وہ ایسی ناقص اور لغو ہوتی ہیں کہ بعض اوقات وہ دُعائوں کی بجائے بد دُعائوں کا مفہوم ادا کرتی یں اس سے ہمارا یہ مطلب نہیں کہ انسان اپنے الفاظ میں دُعا مانگے ہی نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ انسان کو چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ سے ایسا مضبوط تعلق پیدا کرے کہ جب وہ کسی مصیبت یا مشکل میں گرفتار ہو تو آدم اور دوسرے بزرگوں کی طرح اللہ تعالیٰ خود ہی اسے وہ دعا سکھلا دے جس کے مانگے سے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کو حاصل کر سکے۔





۳۹؎ حل لغات
اِمَّا:۔ اِنْ اور مَاسے مرکب ہے (مغنی) اِنْ حرف شرط ہے۔ اور مَا تاکید کے لئے زائد لایا گیا ہے۔
ھُدًی:۔ کے لئے دیکھو حل لغات سورۃ فاتحہ ۷؎ و سورہ ہذا ۳؎
خَوْفٌ:۔ خَوْفٌ کے معنے ہیں اِنْفِعَالٌ فِے النَّفْسِ یَحْدُثُ لِتَوَقُّعِ مَایَرِدُ مِنَ الْمَکْرُوْہِ اَوْیَفُوْتُ مِنَ الْمَحْبُوْبِکسی آیندہ وقت میں کسی ناپسندیدہ امر کے وقوع پذیر ہونے یا کسی پسندیدہ چیز کے ہاتھ سے چلے جانے کے خیال سے جو طبیعت پر گھبراہٹ طاری ہوتی ہے اسے خوف کے نام سے موسوم کرتے ہیں (اقرب)
یَحْزَنُوْنَ:۔ حَزِنَ (یَحْزَنُ) حَزَنًا سے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور حَزِنَ لَہٗ وَ عَلَیْہِ کے معنے ہیں ضِدُّ سر غمگین ہوا (اقرب) اَلْحُزْنُ کے معنے ہیں الْغَمُّ غم و اندوہ خَلَافُ السُرُوْدِ خوشی کے متضاد معنے دیتا ہے یعنی غمگینی۔ نیز لکھا ہے کہ اَلْحَزْنُ اَلْغَمُّ الْحَاصِلُ لِوَ قُوْعِ مَکْرُوْہٍ اَوْ فُوَاتِ مَحْبُوْبٍ فِی الْمَاضِیْ زمانہ ماضی میں کسی ناپسندیدہ امر کے وقوع پذیر ہونے یا کسی پسندیدہ چیز کے ہاتھ سے چلے جانے کی وجہ سے جو طبیعت میں افسوس پیدا ہوتا ہے اُسے حزن کے نام سے تعبیر کرتے ہیں (تاج) مفردات راغب میں ہے اَلْحُزْنُ:۔ خُشُوْنَۃٌ فِی النَّفْسِ لِمَا یَحْصُلُ فِیْہِ مِنَ الْغَمِّ دل کی بیقراری جو غم کی وجہ سے لاحق ہوتی ہے وَیُضَادُّہُ الْفَرْحُ اور اس کے بالمقابل فرح کا لفظ بولا جاتا ہے (مفردات) خوف اور حزن میں یہ فرق ہے کہ خوف آیندہ زمانے کے متعلق ہوتا ہے اور حزن کسی گذشتہ واقعہ کی بنا پر ہوتا ہے۔
تفسیر۔ اس آیت میں اِھْبِطُوْا جمع کا لفظ ہے جس سے ظاہر ہے کہ اس جنت میں صرف آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی نہ تھے بلکہ آدم کے اتباع بھی تھے۔
اس آیت میں وعدہ کیا گیا ہے کہ آدم کی اولاد میں ہمیشہ ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جو لوگوں کو نیکی اور ہدایت کی طرف بلاتے رہیں گے اور ایسے لوگ جو ہدایت کو مان لینگے وہ اسی دنیا میں جنت میں آ جائینگے یعنی ان کے دلوںمیں ایسی ایمانی قوت پیدا ہو جائیگی کہ ہر حالت میں ان کے دل مطمئن رہیں گے اور خوف یعنی آیندہ نقصانات کا ڈر اور حزن یعنی پچھلے نقصانات پر افسوس ان کو غمگین نہ کر سکے گا بلکہ ان کا دل جنت کا قائم مقام ہو جائے گا اور مابعدالموت الٰہی انعامات کے وارث ہوں گے۔
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ آدم علیہ السلام کے بعد وحی کا سلسلہ ختم نہیں ہو گیا بلکہ اسی وقت سے اللہ تعالیٰ وعدہ فرما چکا ہے کہ آیندہ بھی وحی الٰہی آتی رہے گی اور اس کے ماننے والوں پر اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہوتے رہینگے۔






۴۰؎ حل لغات
کَذَّبُوْا:۔ کَذَّبَ سے جمع کا صیغہ ہے۔ اور کَذَّبَ کے معنے ہیں جَعَلَہُ کَاذِبًا وَنَسَبَہٗ اِلَی الْکِذْبِ اُسے جھٹلایا۔ اور اس کی نسبت جھوٹ کی طرف کی۔ وَقِیْلَ قَالَ لَہٗ کَذَبْتَ اور بعض نے کہا ہے کہ کَذَّبِ کے معنے ہیں کسی کو یہ کہا کہ اس نے جھوٹ بولا ہے اور جب کَذَّبَ بِالْاَ مْرِتَکْذِیْبًا وَکِذَّابًا کا فقرہ بولیں تو معنے یہ ہونگے اَنْکَرَہُ و حَجَدَہٗ کہ کسی معاملہ کا انکار کیا (اقرب) پس کَذَّبُوْا کے معنے ہونگے انہوں نے جھٹلایا۔
اٰیٰتٌ:۔ اٰیَۃَ کی جمع ہے اور اٰیَۃٌ کے معنے علامت۔ نشان اور دلیل کے ہوتے ہیں نیز قرآن کریم کے ہر ایسے ٹکڑے کو جسے کسی لفظی نشان کے ساتھ دوسرے جدا کر دیا گیا ہو اٰیَۃٌ کہتے ہیں۔ (تاج)
خٰلِدُوْنَ:۔ کی تشریح کے لئے دیکھو حل لغات سورہ ہذا ۲۶؎
تفسیر۔ یعنی جو لوگ ہدایت کو چھوڑ کر ان نشانوں کا انکار کرینگے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی شناخت کے لئے اس وقت پیدا کئے ہونگے وہ ایک آگ میں پڑ جائینگے۔ اور دلی اطمینان اور قلبی راحت ان کو حاصل نہ ہو گی خواہ بظاہر ہزاروں نعمتوں میں گھرے ہوئے ہوں اور مابعدالموت سزائوں کے وارث ہوں گے۔
وَھُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ۔ خلود کے معنے ہیں ایک لمبا عرصہ رہنا۔ دیکھو کلیات ابی البقاء وَفِی الْاَضْلِ اَلتَّبَاتَ الْمَدِیْدُ دَامَ اَمْ لَمْ یَدُمْ یعنی خلود کے اصل معنے ایک لمبا عرصہ تک رہنے کے ہیں خواہ ہمیشہ رہیں یا نہ رہیں یہ معنے نہیں کہ وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اسلام دائمی عذاب کا قائل نہیں۔ بلکہ دوزخ کو ایک شفا خانہ کی طرح قرار دیتا ہے جس میں لوگ صرف اصلاح کے لئے داخل کئے جائینگے اسلام کا خدا غیظ اور کینہ کے طور پر انتقام نہیں لیتا بلکہ وہ سزا کی یہ وجہ بیان فرماتا ہے کہ انسان کی اصلاح ہو جائے جب یہ بات حاصل ہو جاتی ہے تو عذاب ٹل جاتا ہے اسی لئے حدیث بات حاصل ہو جاتی ہے تو عذاب ٹل جاتا ہے اسی لئے حدیث میں آیا ہے کہ دوزخ پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ اس میں کوئی بھی دوزخی نہ رہے گا اور نسیم اس کے دروازے ہلائیگی۔ (تفسیر معالم التنزیل سورۃ ہود زیر آیت اَمَّا الَّذِیْنَ شَقَوْا) گو یہ واقعہ کسی پچھلے زمانہ میں انسانی نسل کے کسی خاص جد کے ساتھ بھی گزرا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے بیان فرمانے میں ایک ایسا رنگ اختیار کیا ہے جس سے ہر ایک مسلمان نصیحت حاصل کر سکتا ہے او ریہی وجہ ہے کہ بہت سی باتوں کا ذکر بطور قصہ کے نہیں کیا بلکہ ایسے الفاظ میں ان کو ظاہرکیا ہے کہ جنہیں ہر انسان اپنے پر چسپان کر سکے مثلاً یہ کہ اسماء کی نسبت بتایا کہ وہ کیا تھے نہ شجرہ کی نسبت بیان کیا کہ وہ کونسا تھا پھر جہاں آدم کو بہکانے والے کا ذکر ہے وہاں ابلیس کی جگہ شیطان کا لفظ رکھ کر بتا دیا ہے کہ ابلیس کے اضلال چاروں طرف موجود ہیں تایہ واقعہ لوگوں کے لئے نصیحت اور فائدہ کا موجب ہو اور ایسا نہ ہو کہ وہ ایک قصے کے طور پر اسے پڑھیں۔ ہر ایک انسان جو پیدا ہوتا ہے وہ آدم ہے ملائکہ کو جو دنیا کے رُوحانی نظم و نسق کو قائم رکھنے کے لئے ایک واسطہ کے طور پر پیدا کئے گئے ہیں انہیں اس کی مدد کرنے کا حکم دیا جاتا ہے ملائکہ جن اشیاء کے نگران ہیں وہ سب انسان کی مدد کرتی اور اس کی زندگی کو بہ آرام بنانے میں کار آمد ہوتی ہیں۔ لیکن بعض شریر لوگ دوسرے بھائیوں کا سکھ نہیں دیکھ سکتے وہ شیطان بن کر ان کو اس رُوحانی جنت سے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو ہر ایک انسان کو اس کی پیدائش سے ملا ہے اور بہت کچھ دکھ دیتے ہیں۔ لیکن وہ جو آدم کی طرح اپنے رب کے حضور جھکتا ہے اور اس سے اپنی مصیبت کے دُور کرنے کی التجا کرتا ہے آخر کامیاب ہو جاتا ہے اور ہر خوف و حزن کی حد سے باہر نکل جاتا ہے لیکن جو لوگ آدم کے نقش قدم پر نہیں چلتے بلکہ ابتلائوں میں اُن کے قدم لڑکھڑا جاتے ہیں اور شیطان سے صلح کر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو رد کر دیتے ہیں وہ دُکھ میں پڑ جاتے اور ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ہر ایک سورج جو چڑھتا ہے اس واقعہ کو بار بار دُہرا رہا ہے۔ لیکن نادان انسان جو خود ہزاروں خطرناک بدیوں میں مبتلا ہوتا ہے۔ آدم پر اظہار افسوس کرتا ہے کہ اس نے شیطان کا کہنا کیوں مانا۔ حالانکہ آدم بھول کر ایک غلطی کا مرتکب ہوا تھا اور یہ معترض اپنے دل میں شیطان کو لئے بیٹھا ہوتا ہے اور آدم پر اعتراض کرتے ہوئے نہیں شرماتا۔ بعض مفسرین نے اصل حقیقت سے قطع نطر کر کے اس جگہ عجیب عجیب قصے بیان کئے ہیں جن کی صحت کا ثبوت نہ قرآن مجید سے ملتا ہے نہ احادیث صحیحہ سے پس ان کی طرف توجہ نہیں ہونی چاہیئے اور غیر مذاہب کی طرف سے ان کی بناء پر کوئی اعتراض قرآن مجید پر آ سکتا ہے۔
مذکورہ بالا آیات میں حضرت آدم علیہ السلام کے واقعہ سے علاوہ انسان کو اس کے ذاتی حالات کی طرف توجہ دلانے کے جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ کی طرف بھی لطیف طور پر توجہ دلائی گئی ہے۔ اور بتایا گیا ہے کہ (۱) الہام الٰہی میں انسانی برتری کا ذریعہ ہے۔ بشر کو دوسرے حیوانات پر فضیلت الہام الٰہی کے ذریعہ سے ہی ملی پس جو اقوام الہام الٰہی سے محروم ہیں یا اس کی قدر نہیں کرتیں وہ حیوانیت کو انسانیت پر ترجیح دینے کی مجرم ہیں۔ اور تمدنی ترقی کے راستہ میں روک ثابت ہو رہی ہیں اور ہونگی۔ وہی لوگ تمدنی ترقی کا موجب ہوتے ہیں جو آسمانی آواز پر لبیک کہتے ہیں۔ اس زمانہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر لبیک کہنے والے ایک جدید اور مفید تمدن کی بنیاد رکھیں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا اللہ تعالیٰ کی قدیم سنت کے مطابق اس جدید رُوحانی سلسلہ کے متبع ایک جدید اور عظیم الشان تمدن کے بانی ہوئے موجودہ مغربی تمدن گو بہت شاندار نظر آتا ہے مگر وہ بہت حد تک اسلامی تمدن کا خوشہ چین ہے اور جس حد تک وہ اس کے خلاف چلا ہے امن کا موجب نہیں ہوا۔ بلکہ فساد اور خونریزی کا موجب ہوا ہے (۲) جب بھی کوئی نئی اصلاح دنیا کے لوگوں کے سامنے آتی ہے دنیا اس کی مخالفت کرتی ہے وہ ایسی عظیم الشان ہوتی ہے کہ شروع شروع میں نیکوکار بھی اس کی گہرائیوں اور تاثیروں کو نہیں سمجھ سکتے۔ اسلام کے ظہور کے وقت میں ایسا ہی ہونا لازمی ہے چنانچہ ایسا ہی ہوا (۳) نیک لوگ بعد میں اپنی غلطی تسلیم کر لیتے ہیں اور اس کی عظمت کے قائل ہو جاتے اور اس کی تائید میں لگ جاتے ہیں لیکن شریر مخالف مقابلہ شروع کر دیتے ہیں۔ ایسا ہی اسلام سے ہوا اور ہو گا چنانچہ تمام نیک فطرت لوگ ایک ایک کر کے اسلام میں داخل ہوئے اور اس کی تائید میں لگ گئے لیکن ابلیس مزاج نافرمانی پر اُتر آئے (۴) جب ظاہری مخالفت ناکام رہتی ہے تو الٰہی سلسلوں کے دشمن ان میں شامل ہو کر ان کی مخالفت کرتے ہیں جیسا کہ آدم کے وقت میں شیطان نے کیا اور ایسا ہی معاملہ اسلام سے وہ کرینگے اور کر رہے ہیں لیکن جس طرح آدم کا شیطان ناکام رہا اور حقیقی نقصان آدم علیہ السلام کو نہ پہنچا سکا۔ یہ منافق بھی اسلام کو کوئی حقیقی نقصان نہ پہنچا سکیں گے اور باوجود ان کی مخالفت کے اسلام ترقی کرے گا اور اس کے دشمن ایک دائمی عذاب میں مبتلا ہونگے (۵) الٰہی ہدایت کا سلسلہ محدود نہیں ہر زمانہ کی ضرورت کے مطابق اللہ تعالیٰ ہدایت بھجواتا رہے گا اگر ہدایت کا سلسلہ محدود ہوتا تو پھر اسے پہلے نبی کے ساتھ ہی بند ہو جانا چاہیئے تھا جیسا کہ مثلاً ہندوئوں کا خیال ہے لیکن وہ آدم اوّل کے ساتھ ختم نہیں ہوا بلکہ آدم اوّل کے منہ سے اللہ تعالیٰ نے آیندہ ہدایتوں کے آنے کی خبر دی۔ پس آیندہ کسی وقت میں اس کا بند ہو جانا خلافِ عقل و خلافِ وحی الٰہی ہے (۶) جو لوگ آسمانی ہدایت پر ایمان لاتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں ان کی سابق خطائوں کے ہداثرات سے بچا لیتا ہے جیسا کہ آدم علیہ السلام سے ہوا اور آیندہ کا ہر قدم ان کا ایسا مضبوط پڑتا ہے کہ مستقبل کے خطرات کم ہوتے ہوتے بالکل مٹ جاتے ہیں پس خدا تعالیٰ کے اس وعدہ پر ایمان رکھتے ہوئے مومن دلیر بہادر اور جری ہوتا ہے وہ قربانیوں کے وقت عواقب اور انجام سے نہیں ڈرتا کیونکہ جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وحی اس کے لئے ایسا عروہ وتقی ہے کہ اسے پکڑنے کے بعد وہ ہر دُکھ سے محفوظ ہو گیا اگر وہ جیتا رہا تو دنیا کا رہنما ہو گا اگر مارا گیا تو خدا تعالیٰ کی محبت بھری گود میں۔ پس اسے کس امرکا خوف ہو سکتا ہے؟








۴۱؎ حل لغات
بَنِیْ اِسْرَائِیْل:۔اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب ہے جو بائبل کے بیان کے مطابق ان کو ان کی بہادری کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی طرف سے ملا۔ تورات میں آتا ہے ’’کہ تیرا نام آگے کو یعقوب نہیں بلکہ اسرائیل ہو گا کیونکہ تُو نے خدا اور آدمیوں کے ساتھ زور آزمائی کی اور غالب ہوا۔‘‘ (پیدائش باب ۳۲ آیت ۲۸) عبرانی کی لغت میں لکھا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے لقب کے علاوہ ان کی نسل پر (بھی) یہ لفظ بولا جاتا ہے یعنی کبھی بنی اسرائیل کو خالی اسرائیل بھی کہہ دیتے ہیں۔ عربی اسرائیل کا عبرانی تلفظ یَسْرَائِیْل ہے اور یہ مرکب ہے یسر اور ایل سے۔ یسر کے معنے ہیں جنگجو بہادر سپاہی۔ اور ایل کے معنے ہیں خدا۔ پس یسرائیل کے معنے ہوئے خدا کا بادر سپاہی عربی زبان کے لحاظ سے یہ لفظ اسر اور ایل سے مرکب ہے گو یہ ہو سکتا ہے کہ یہ کلیتہً عبرانی لفظ ہو اور عربی میں مستعار طور پر استعمال ہوتا ہو لیکن عربی زبان اور عبرانی زبان در حقیقت ایک ہی ہیں اور ہماری تحقیق میں عبرانی زبان عربی کی بگڑی ہوئی صورت ہے یورپین مصنفوں میں سے بھی بعض اس خیال کے ہیں گو اکثر مذہبی تعصب کی وجہ سے ان دونوں زبانوں کو ایک اور زبان کی شاخ ہی قرار دیتے ہیں بلکہ بعض تو عربی کو عبرانی کی شاخ تک قرار دے دیتے ہیں لیکن یہ موقعہ اس بحث کا نہیں اس موقعہ کے مناسب حال اس قدر کہنا کافی ہے کہ عربی اور عبرانی کا اشتراک ایک مسلمہ حقیقت ہے اسے مدنظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ لفظ اصل میں عربی ہے اور عبرانی زبان میں اس کی شکل بدل گئی ہے اور ہمزہ نے یاء کی شکل اختیار کر لی ہے۔ عربی زبان میں اَسَرَا لزَّجُلُ کے معنے ہیں قَبَضَ عَلَیْہِ وَ اَخَذَہٗ (اقرب) یعنی فلاں شخص اپنے مدمقابل پر غالب آ گیا اور اسے اپنی گرفت میں لے لیا۔ ان معنوں کے اعتبار سے اِسْر کے معنے ہونگے وہ شخص جس کے اندر بہادری اور قوت ہو اور وہ اپنے مدمقابل پر غلبہ پا کر اسے اپنی گرفت میں لے لے۔ اگر عبرانی کے تلفظ اور رسم الخط کو دیکھا جائے تو یَسْر کے معنے ہیں اَللِّیْنُ وَالْاِ نْقِیَادُ (لسان) کسی کی بات کو آسانی سے قبول کر لینا اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا۔
لفظ اِیْل عربی زبان میں خدا تعالیٰ کے معنوں میں نہیں آتا۔ ہاں اگر غور کیا جائے تو اس کے حقیقی معنے اللہ تعالیٰ پر ہی صادق آتے ہیں کیونکہ یہ آلَ سے بنا ہے اور آلَ کا اسم فاعل آئِلٌ بنتا ہے اور اِیْل اس سے صفت مشبہ کا صیغہ ہے آلَ کے معنے ہیں سَاسَ یعنی اس نے نگہداشت کی۔ چنانچہ کہتے ہیں آلَ الرَّجُلُ اَھْلَہٗ اَیْ سا سَہُمْ کہ فلاں شخص نے اپنے کنبہ کی پوری نگہداشت کی (اقرب) نیز کہتے ہیں آلَ الْمَلِکُ الرَّعِیَّۃَ کے بادشاہ نے اپنی رعیت کی نگرانی رکھی اور رعیت کے ساتھ تعلق رکھنے والے امور کی تدبیر کی۔ نیز کہتے ہیں آلَ عَلَی الْقَوْمِ۔ وَلِیَ کہ وہ قوم پر بادشاہ ہو گیا۔ پس آئِلٌ کے معنے ہوئے مدبر۔ حاکم۔ بادشاہ۔ اور اِیْلٌ کے معنے ہونگے ایسی ہستی جس کی ذات میں تدبیر امور اور حکومت اور یہ صفات سوائے خدا تعالیٰ کے کسی اور ذات میں نہیں پائی جاتیں۔ کیونکہ وہی ایک ذات ہے جو ازلی اور ابدی ہے۔ آلَ کے ایک معنے لوٹنے کے ہیں ان معنوں کے لحاظ سے اِیْل کے معنے ہونگے کہ وہ ذات جس کے اندر لوٹنے کی صفت پائیداری اور ہمیشگی کے ساتھ پائی جاتی ہے اور یہی معنے بلفظ دیگر تَوَّابٌ کے ہیں۔ یعنی بار بار رحمت کے ساتھ اپنے بندوں پر لوٹنے والا۔
الغرض پہلے مادہ کو مدنظر رکھتے ہوئے اسرائیل کے معنے مندرجہ ذیل ہونگے (۱) ازلی ابدی بادشاہ (یعنی خدا تعالیٰ) کا سخت گرفت رکھنے والا بندہ (۲) ازلی ابدی مدبر ہستی کا سخت گرفت رکھنے والا بندہ (۳) بار بار لوٹنے والے کا (یعنی تواب خدا کا) بہادر بندہ۔
دوسرے مادہ یعنی یَسْر کے لحاظ سے اسرائیل کے معنے ہونگے اللہ تعالیٰ کا پورا مطیع و فرمانبردار اور اس کے اخلاق کو اپنے اندر لینے والا۔ عبرانی زبان چونکہ عربی سے نکلی ہے اس لئے اگرچہ اسرائیل کا تلفظ عبرانی میں بدل گیا اور اِسْر کو یَسر اور اِیْل کو ایل (نرم زبان سے یعنی زبر اور زیر کے درمیانی تلفظ سے) کر دیا گیا اور عربی زبان جو کہ اپنے اصل معنے کا انکشاف کرتی ہے عبرانی نے اسے محدود کر دیا۔ کیونکہ عبرانی میں اسرائیل کے معنے صرف خدا کے جنگجو بہادر سپاہی کے ہیں لیکن عربی زبان میں جہاں یہ معنے کی طرف بھی اشارہ ہے کیونکہ یہ لفظ یَسْر سے بھی صفت مشتبہ کا صیغہ بن سکتا ہے اور یہ لفظ اس خاص حالت کی طرف اشارہ کرتا ہے جو انبیاء کی فطرت میں پائی جاتی ہے یعنی ہر وقت اللہ تعالیٰ کے لئے سر تسلیم خم رکھنا۔ گویا اسرائیل اس شخص کو کہیں گے جو اللہ تعالیٰ کا مطیع و فرمانبردار ہو اور اس کے احکام کے ماننے کے لئے ہر وقت اپنے تئیں تیار رکھے۔ ان معنوں کی تصدیق تاج العروس والے نے بھی کی ہے چنانچہ لکھا ہے کہ مَعْنَاہُ صَفْوَۃُ اللّٰہِ وَقِیْلَ عَبْدُاللّٰہِ کہ اسرائیل کے معنے ہیں اللہ تعالیٰ کا برگزیدہ کیا ہوا اور اللہ تعالیٰ کا بندہ اور اس کے احکام کا فرمانبردار۔ بعض لوگوں نے اس کے معنے سَرِیُّ اللّٰہِ کے کے کئے ہیں (تاج) سَرِیٌّ کے معنے عربی زبان میں صاحب شرف و مروت اور فیاض کے یا معزز شریف سردار کے ہیں۔ لیکن میں اس بات کی تصریح کر دی گئی ہے کہ یَسْرٌ کے حقیقی معنے سَرِیٌّ کے نہیں ہاں اس سے ملتا جلتا مفہوم ہے (اصل بات یہ ہے کہ یَسْرٌ چونکہ جنگجو بہادر کو کہتے ہیں اور ایسا شخص ہی سرادرِ لشکر ہو سکتا ہے جو بہادر اور جنگجو ہو اور عرب لوگ بھی ایسے شخص کو سردار مانتے تھے جو صاحبِ شرف اور مروت اور فیاض ہو اور ایسا شخص ہی جنگوں میں پیشرو ہو سکتا تھا تو گویا ان معنوں کے لحاظ سے یَسْرٌ کے معنے سَرِیٌّ کے مشابہ ہو گئے)۔
اُذْکُرُوْا:۔ امر حاضر جمع کا صیغہ ہے اور ذَکَرَ الشَّیْئَ (یَدْکُرً ذِکْرًا وَتَذْ کارًا) کے معنے ہیں حَفِظَہٗ فِی ذِھْنِہٖ کسی چیز کو اپنے ذہن میں یاد کر لیا اور جب ذَکَرَ الشَّیْئَ بِلِسَانِہِ کہیں تو معنے ہونگے قَالَ فِیْہِ شَیْئًا کہ اس نے کسی بات کے متعلق اپنی زبان سے کچھ کہا۔ اور ذَکَرَ لِفُلَانٍ حَدِیْثًا کے معنے ہیں قَالَہٗ لَہٗ کوئی بات بیان کی جب ذَکَرَ مَا کَانَ قَدْنَسِیَ کا فقرہ بولیں تو اس کے معنے ہونگے فَطَنَ بِہٖ کسی بھولی ہوئیبات کی یاد تازہ ہو گئی (اقرب) امام راغب لکھتے ہیں اَلذِّکْرُ تَارَۃً یُقَالُ وَیُرَادُبِہٖ ھُیْئَۃٌ لِلنَّفْسِ بِھَا یُمْکِنُ لِلْاِنْسَانِ اَنْ یَحْفَظَ مَایَقْتَنِیْہِ مِنَ الْمَعْرِفَۃِ کہ ذکر کا لفظ بول کر کبھی نفس کی وہ ہیئت مُراد لی جاتی ہے جس کے ذریعہ سے انسان کے لئے ممکن ہوتا ہے کہ وہ معلوم شدہ باتوں کو یاد رکھ سکے وَھُوَ کَا لْحِفْظِ اِلَّا اَنَّ الْحِفْظَ یُقَالُ اِعْتِبَارًا بِاِحْرَازِہِ وَالذِّکْرُ یُقِالُ اِعْتَبَارًا بِاِسْتِحْضَارِہٖ۔ اور ان مذکورہ بالا معنوں میں ذکر کا لفظ حفظ کے لفظ کے ہم معنی ہے ہاں حفظ اور ذکر ہر دو کے مفہوم میں تھوڑا سا امتیاز ہے حفظ کسی شخص کے یاد کرنے پر اس وقت بولیں گے۔ جب وہ ذہن میں بعض باتوں کو جمع کرتا چلا جائے اور ذکر اس کے اس طور پر یاد رکھنے کو کہیں گے کہ اس کو وہ باتیں مستحضر رہیں اور جب چاہے انہیں استعمال کر لے وَتَارَۃً یُقَالُ لِحَضُوْرِ الشَّیْئِ الْقَلْبَ اَوِلْقَوْلَ اور کبھی دل میں کسی امر کا خیال لانے یا زبان پر کسی بات کے لانے کا نام ذکر رکھا جاتا ہے وَلِذٰ لِکَ قِیْلَ اَلذِّکْرُ ذِکْرَ اِن ذِکْرٌ بِالْقَلْبِ وَ ذِکْرٌ بِاللِسَّانِ اسی لئے کہتے ہیں کہ ذکر دو طرح ہوتا ہے (۱) قلبی ذکر (۲) زبانی ذکر وَکُلُّ وَاحِدٍ مِنْھُمَا ضَرْ بَانِ ذِکْرٌ عَنْ نِسْیَانٍ وَ ذِکْرٌ لَاعَنْ نِسْیانٍ بَلْ عَنْ اِدَامَۃِ الحِفْظِ کہ خواہ قلبی ذکر ہو یا قولی ہر دو کی دو دو قسمیں ہیں (۱) بھول جانے کے بعد کیس بات کا یاد کرنا (۲) یا بغیر بھولنے کے یاد رکھنا (مفردات) پس اُذْکُرُوْا کے معنے ہونگے۔ تم یاد کرو۔
نِعْمَتِیْ:۔ اَلنِّعْمَۃُ کے معنے ہیں اَلٰصَّنِیْعَۃُ وَالْمِنَّۃُ احسان۔ مَا اُنْعِمَ بِہٖ عَلَیْکَ مِنْ رِزْقٍ وَ مَالٍ وَغَیْرِہٖ۔ وہ مال یا رزق یا اس کے علاوہ کوئی اور چیز جو بطور انعام ملے۔ اَلْمَسَرَّۃُ۔ خوشی۔ اَلْیَدُ الْبَیْضَائُ الصَّالِحَۃُ ایسا احسان جس میں کوئی کدورت او رکمی نہ ہو۔ وَفِی الْکُلِّیاتِ اَلنِّعْمَۃُ فِی اَصْل وَضْعِمَا ’’اَلْحَالَۃُ الَّتِیْ یَسْتَلِذُّ بِھَا اِلْاِنْسَانُ‘‘ وَھٰذَا مَبْنِیٌّ عَلیٰ مَا اشْتَھَرَ عِنْدَ ھُمْ مِن اَنَّ النِّعْمَۃَ بِالْکَسْرِ لِلْحَالَۃِ وَ بِالْفَتْحِ لِلْمَرَّۃِ۔ اور کلیات ابی البقاء میں یوں لکھا ہے کہ نعمت اصل وضع کے لحاظ سے اس حالت کو کہتے ہیں جس سے انسان لذت اُٹھاتا ہے اور یہ اس بناء پر ہے کہ حالت بیان کرنے کے لئے عربی زبان میں فَعْلَۃٌ اور کسی کام کے ایک ہونے کا اظہار کرنے کے لئے فَعْلَۃٌ کا وزن لاتے ہیں اور نِعْمَۃٌ ان کی زیر سے چونکہ فَعْلَۃٌ کے وزن پر ہے اس لئے اس میں نعمت والی حالت کے معنے پائے جاتے ہیں۔ وَنِعْمَۃُ اللّٰہِ۔ مَا اَعْطَاہُ اللّٰہُ لِلْعَبْدِ مِمَّالَایَتَمَنَّی غَیْرَہٗ اَنْ یُعْطِیَہٗ اِیَّاہُ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمت اپنے بندے پر وہ احسان ہے جس کے بعد بندہ اس کے متعلق کسی اور سے خواہش نہیں رکھتا۔ اس کی جمع اَنْعُمٌ اورنِعَمٌ آتی ہے اور جب فُلَانٌ وَاسِعُ النِّعْمَۃِ کہیں تو اس کے معنے ہونگے وَاسِعُ الْمَالِ یعنے فلاں مالدار ہے (اقرب)
اَلْعَھْدُ:۔ کے مصدری معنے ہیں حِفْظُ الشَّیْئِ وَ مُرَاعَاتُہٗ حَالًا بَعْدَ حَالٍ۔ کسی چیز کی حفاظت کرنا اور وقتاً فوقتاً اس کی دیکھ بھال کرتے رہنا۔ وَسُمِّیَ الْمَوْثِقُ الَّذِیْ یَلْزَمُ مُرَاعَاتُہٗ عَھْدًا۔ اور اس عہد و پیمان کو جس کی ہر لحاظ سے حفاظت کی جائے عہد کے نام سے موسوم کرتے ہیں وَعَھْدُ اللّٰہِ تَارَۃً یَکُوْنُ بِمَارَ کَزَہٗ فِیْ عُقُوْلِنَا اور اللہ تعالیٰ کا بندوں سے عہد تین طور پر ہے (۱) یہ کہ بعض باتیں اس نے فطرت انسانی میں رکھ دی ہیں اور اس عہد کی حفاظت اس طور پر کی جا سکتی ہے کہ خلاف فطرت کام نہ کیا جائے (۲) وَتَارَۃً یَکُوْنُ بِمَا اَمَرَنَا بِہٖ بِالْکِتَابِ وَبِسُنَّۃِ رُسُلِہِ اور کبھی اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں سے عہد لینے سے یہ مُراد ہوتی ہے کہ وہ باتیں جو اس نے اپنی نازل کردہ کتاب اور اپنے رسولوں کی سنت کے ذریعہ ہمارے پاس بھیجی ہیں ہم ان کو بجالائیں (۳) وَتَارَۃً بِمَا نَلْتَزِمُہٗ بعض اوقات اس بات کو بھی عہد کہہ دیتے ہیں جو برضاور غبت اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنے ذمہ لگایا جائے کہ میں خدا تعالیٰ کی خاطر فلاں جائز کام ضرور کرونگا (مفردات) تاج العروس میں ہے اَلْعَھْدُ اَلْوَصِیَّۃُ وَالْاَ مْرُ کہ عہد کے معنے کسی تاکیدی حکم کے ہوتے ہیں نیز اس کے معنے ہیں اَلْمَوْثِقُ وَ الْیَمِیْنُ پکا عہد و پیمان۔ قسم۔ اَلْحِفَاظُ وَرَعَایَۃُ الحُرْمَۃِ کسی بات کی حفاظت اور اس کی حرمت کی نگہداشت کرنا۔ اَلْاَمَانُ امان۔ اَلذِّمَّۃُ ذمہ۔ اَلْاِ لْتِقَائُ ملنا۔ ملاقات۔ اَلْمَعْہِفَۃُ کسی چیز کو جاننا۔ اَلزِّمَانُ۔ زمانہ۔ اَلْوَفَائُ وفا۔ تَوْحِیْدُ اللّٰہِ تَعَالیٰ۔ اللہ تعالیٰ کو واحد گرداننا اَلضَّمَانُ۔ ضمانت۔ اَلَّذِیْ یُکْتَبُ لِلْوُلَاۃِ۔ پروانہ شاہی جو کسی شخص کو کئی ملک کا حاکم مقرر کرتے وقت لکھ کر دیا جاتا ہے۔ (تاج)
اِرْھَبُوْنِ:۔ اِرْھَبُوْا۔ جمع مخاطب کا صیغہ امر ہے اور رَھِبَ الرَّجُلُ (یَوْھَبُ رَھْبَۃً) کے معنے ہیں خَافَ ڈر گیا (اقرب) اِرْھَبُوْنِ اصل میں اِرْھَبُوْنِیْ تھا۔ یہ کو گراد یا گیا اور نون وقایۃ کے کسرہ پر اکتفا کیا گیا۔ اِرْھَبُوْنَ کے معنے ہیں۔ مجھ سے ڈرو۔
تفسیر۔ ترتیب مضمون:۔ آدم علیہ السلام کی مثال دے کر یہ بتایا گیا تھا کہ محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ کوئی نیا دعویٰ نہیں بلکہ جب بشر کی عقل مکمل ہوئی اسی وقت اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام پر الہام نازل کیا تھا۔ اس کے بعد یہ سوال پیدا ہو سکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جب شروع میں الہام نازل کر دیا تو پھر اور کسی الہام کی کیا ضرورت ہے کیا وہ الہام کافی نہیں۔ یہ سوال عام ہے اور اکثر نبوت کے مخالف بلکہ پُرانے مذہب کے مدعیان بھی یہ اعتراض کرتے چلے آتے ہیں۔ مخالفین نبوت کے اعتراض کی غرض تو صرف نبوت میں شک پیدا کرنا ہوتی ہے وہ اس اعتراض سے صرف یہ فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں کہ موجودہ مدعی غلطی پر ثابت ہو گا سابق کا کوئی دعویدار اور نائب موجود ہی نہیں کہ اس کی اطاعت کا سوال ہی لیکن جو مذاہب قدیم ہیں ان کی غرض اس سوال سے یہ ہوتی ہے کہ ہمارے مذہب کی موجودگی میں اور کسی نبی کی ضرورت نہیں۔ اس سوال کا دو طرح جواب دیا جا سکتا ہے ایک اس طرح کہ عقلاً نبوت کی ضرورت ثابت کی جائے دوسرے اس طرح کہ واقعات کی شہادت سے ثابت کر دیا جائے کہ نبوت آدم علیہ السلام کے بعد بھی جاری رہی۔ قرآن کریم نے نبوت کے اجراء کی ضرورت کو عقلی طور پر کئی دوسرے مقامات پر ثابت کیا ہے مگر اس جگہ دوسرے طریق جواب کو اختیار کیا ہے اور بتایا ہے کہ اسلام کے قریب زمانہ تک نبوۃ کے مدعی ہوتے رہے ہیں پس یہ کہنا کہ پہلی شریعت کے بعد اور کسی شریعت یا وحی نبوت کی ضرورت نہیں درست نہیں۔ جن لوگوں کی صداقت شواہد اور دلائل سے ثابت ہو چکی ہو ان کے دعویٰ کا انکار کس طرح کیا جا سکتا ہے؟ اور اگر وہ اپنے دعویٰ میں سچے تھے تو پہلی وحی کے بعد دوسرے زمانوں کی وحیوں کا انکار کس طرح کیا جا سکتا ہے؟ اور اگر پہلی وحی کے بعد بھی الہام ہوتا رہا بلکہ اسلام کے قریب زمانہ تک بھی خدا تعالیٰ کے نبی آتے رہے تو پھر اسلام کی وحی پر اس بناء پر اعتراض کرنا کہ پہلی وحی کے بعد دوسری وحی کی ضرورت نہیں کس طرح درست ہو سکتا ہے؟
اس طریق جواب کو اختیار کرنے میں ایک مزید فائدہ بھی تھا اور وہ یہ کہ قرآن کریم کے پہلے مخاطبین میں ایسے لوگ بھی موجود تھے جو یہودی مذہب یا عیسوی مذہب سے تعلق رکھتے تھے اور انہی کے نبیوں کو قرآن کریم نے وحی کے جاری ہونے کے ثبوت میں پیش کیا ہے اس سلسلۂ نبوت کی ایک کڑی جس کے بغیر ان پہلے نبیوں کی تکمیل نہیں ہو سکتی۔ بنو اسمعیل میں ایک نبی کا وجود بھی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ سے یہ خبر دی گئی تھی کہ بنو اسماعیل میں بھی ایک نبی ہو گا۔ اور موسیٰ علیہ السلام اور ان کے بعد کے نبیوں نے اس نبی کی آمد کی مزید وضاحت کی تھی۔ پس ان انبیاء کی وحی کو بطور شہادت پیدا کرنے میں دو فائدے تھے ایک تو وحی کے اجراء کا ثبوت دوسرے اس امر کا ثبوت کہ اس سلسلۂ نبوت کے بعد وحی الٰہی کا بنو اسماعیل کی طرف منتقل ہونا لازمی اور ضروری تھا پس وحی نبوت کا اجراء ہی ثابت نہیں بلکہ اس کا آخری زمانہ کے مورد کا بنو اسمٰعیل اور عرب میں ہونا بھی ضروری تھا۔
چنانچہ اس دلیل کو بیان کرنے کے لئے اس رکوع سے بنو اسرائیل کو مخاطب کر لیا گیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ان سے فرماتا ہے کہ اے بنی اسرائیل تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرو او راس امر کی سچی گواہی دو کہ خدا تعالیٰ کا الہام دنیا میں ہمیشہ نازل ہوتا رہا ہے اور تم بھی اس کے مہبط رہے ہو۔ بلکہ یہ بھی کہ تمہاری کتب میں یہ بھی موجود ہے کہ ایک دن وحی الٰہی کا سلسلہ تم سے ہٹ کر تمہارے بھائیوں یعنی بنی اسمٰعیل کی طرف منتقل ہو جائے گا۔
اسرائیل
پیشتر اس کے کہ میں اس اجمال کی تفصیل بیان کروں۔ میں بنو اسرائیل کے لفظ کی وضاحت کر دینا چاہتا ہوں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چھوٹے بیٹے اسحاق علیہ السلام تھے۔ ان کے بیٹے کا نام یعقوب (علیہ السلام) تھا۔ جو حضرت یوسف علیہ السلام کے والد تھے۔ حضرت یعقوب یہود میں خاص حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی قوم کا نسلی امتیاز انہی کے نام سے قائم ہے۔ اسرائیل کا نام خدا تعالیٰ کی طرف سے انہیں ملا تھا جس کی وجہ سے ان کی اولاد بنی اسرائیل یعنی اسرائیل کی اولاد کہلائی۔ بائبل میں لکھا ہے کہ یعقوب علیہ السلام سے ایک سفر کے دوران میں رات کے وقت ایک شخص نے کشتی لڑنی شروع کی اور ساری رات کشتی لڑتا رہا۔ بائبل کے بیان کے مطابق وہ کُشتی لڑنے والا خدا تعالیٰ تھا (پیدائش باب ۳۲ آیت ۳۰) صبح کے وقت اس کُشتی لڑنے والے نے حضرت یعقوبؑ سے ان کا نام پوچھا تو انہو ںنے یعقوب نام بتایا اس پر اس نے کہا کہ ’’تیرا نام آگے کو یعقوب نہیں بلکہ اسرائیل ہو گا کہ تُو نے خدا اور خلق پاس قوت پائی اور غالب ہوا۔‘‘ (پیدائش باب ۳۲ آیت ۲۸) بائبل کے شارحین کُشتی لڑنے والے کو فرشتہ کہتے ہیں گو اس کا کوئی ثبوت نہیں دیتے بہرحال وہ فرشتہ ہو یا خدا تعالیٰ عالم تمثیل میں انہوں نے دیکھا ہو۔ اس نے حضرت یعقوبؑ کو اسرائیل کا نام دیا۔ اور اس کے معنے بھی بتا دیئے کہ خدا تعالیٰ اور مخلوق کے نزدیک وہ قوی سمجھا گیا اور غالب ہوا۔ پس اسرائیل کے معنے بائبل کے بیان کے مطابق خدا کا قوی بندہ یا خدا کا غالب بندہ ہیں لغت کے معنے حل لغات میں بتائے جا چکے ہیں کہ خدا کے ہیں بہرحال حضرت یعقوبؑ کو رویا۔ یا کشف میں اسرائیل کا نام دیا گیا تھا اور اس کی وجہ سے ان کی اولاد بنو اسرائیل کہلائی۔
بنو اسرائیل اور یہودی
گو اس آیت میں یہودی کا لفظ استعمال نہیں ہوا لیکن قرآن کریم کے دوسرے مقامات میں یہودی یا اس کی جمع ھود کا لفظ استعمال ہوا ہے اور مناسب ہے کہ ان دونوں لفظوں کا فرق بھی بتا دیا جائے تا معلوم ہو سکے کہ بنو اسرائیل کا لفظ کس موقعہ پر استعمال ہوتا ہے اور یہودی کا لفظ کس موقعہ پر استعمال ہوتا ہے۔
بنو اسرائیل کا لفظ قرآن کریم میں اڑتیس جگہ استعمال ہوا ہے اور یہودی کا لفظ نو جگہ اور ھود یہود کی جمع کے معنو ںمیں تین دفعہ قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے۔ ان مقامات کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی یا ھُوْد جہاں بھی استعمال ہوا ہے مذہب کی طرف اشارہ کرنے کے لئے استعمال ہوا ہے یعنی جہاں حضرت یعقوب کی نسل کی طرف اشارہ مقصود ہے وہاں تو بنی اسرائیل کا لفظ استعمال کیا ہے اور جہاں ان لوگوں کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے جو اپنے آپ کو موسیٰ کے پیرو کہتے تھے وہاں یہودی یا ھود کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ چنانچہ ھود کا لفظ جن تین جگہ پر استعمال ہوا ہے اس کے ساتھ نصاریٰ کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے۔ گویا یہودی مذہب اور نصرانی مذہب کے متبعین کی طرف ان آیات میں اشارہ کیا گیا ہے اسی طرح یہود کا لفظ جن نو مقامات میں استعمال کیا گیا ہے ان میں سے بھی آٹھ مقامات میں نصاریٰ کے مقابل پر استعمال کیا گیا ہے جس سے واضح ہے کہ وہاں اسرائیلی قوم مراد نہیں بلکہ موسوی مذہب مراد ہے۔ باقی ایک مقام میں نصارے کا لفظ ساتھ استعمال نہیں۔ یعنی مائدہ رکوع صفحہ ۹؍۱۳ میں۔ اس کی بھی سب آیتیں واضح طور پر دلالت کرتی ہیں۔ کہ اس جگہ یہودی مذہب کے پیروئوں کا ذکر ہے نہ کہ کسی نسل کے لوگوں کا۔ کیونکہ اس میں عقائد پر بحث ہے۔ اس کے بالمقابل بنی اسرائیل کا لفظ جہاں بھی قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے۔ اور قرآن کریم کے کسی ایک مقام پر بھی اسے نصاریٰ کے مقابل پر استعمال نہیں کیا گیا۔
اس امتیاز کی وجہ سے جہاں تو بنی اسرائیل کا لفظ استعمال ہوا ہے اس میں ایسے لوگ بھی مخاطب ہو سکتے ہیں جو یہودی مذہب تو چھوڑ چکے ہوں لیکن ہوں حضرت یعقوبؑ کی نسل سے مثلاً ان میں سے عیسائی یا مسلمان ہو جانے والے لوگ اسی طرح جہاں یہود یا ھود کا لفظ استعمال ہوا ہے اس میں ایسے لوگ بھی شامل سمجھے جا سکتے ہیں جو بنی اسرائیل سے تو نہ ہو ںلیکن موسوی مذہب کو مانتے ہوں۔
شائد کسی کو یہ شبہ گزرے کہ یہودی لوگ تو اپنے مذہب میں کسی کو داخل نہیں کرتے اس لئے جہاں یہ ممکن ہو سکتا ہے کہے بنی اسرائیل میں سے بعض نصرانی یا مسلمان ہو گئے ہوں وہاں یہ بات سمجھ میں نہیں آ سکتی کہ کوئی غیر اسرائیلی یہودی مذہب میں داخل ہو گیا ہو اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک بنی اسرائیل موسوی مذہب کو اپنے لئے مخصوص سمجھتے تھے مگر اس میں بعض مستثنیات بھی تھے اور بعض قسم کے لوگوں کو یہودی مذہب میں شامل کرنے کی اجازت بھی ہوتی تھی مثال کے طور پر یہودیوں کے غَام یا ان کے ملک میں آ کر اور ان کے تابع ہو کر بسنے والے لوگوں کو یہودی مذہب قبول کرنے کی اجازت ہوتی تھی چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب خروج میں لکھا ہے کہ ’’اور اگر کوئی بیگانہ تمہارے ساتھ مقیم ہو۔ اور خداوند کی فسح کیا چاہے (یعنی یہود کی تہواروں میں شامل ہونا چاہے) تو اس کے سب مرد اپنا ختنہ کروائیں۔ تب وہ نزدیک آئے اور فسح کرے۔ اور اب وہ گویا تمہاری زمین میں پیدا ہوا ہے۔ کیونکہ نامختون انسان اسے نہ کھائے گا۔ وطنی اور بیگانے کی جو تمہارے بیچ میں ہے ایک شریعت ہو گی‘‘ (خروج باب ۱۲ آیت ۴۸؍۴۹) ان آیات سے ظاہر ہے کہ موسوی شریعت گو اپنے آپ کو بنی اسرائیل سے مخصوص قرار دیتی ہے۔ لیکن سوسائٹی میں ایک جہتی قائم رکھنے کے لئے اس امر کی اجازت دیتی ہے کہ جو لوگ بنی اسرائیل کے درمیان آ کر بس جائیں اور ان کے ساتھ مل کر ایک حکومت کا جزو بننا چاہیں وہ موسوی شریعت میں داخل ہو سکتے ہیں۔
اسی طرح استثناء باب ۲۳ ۔ آیت ۳ تا ۸ میں ان قومونکی لسٹ بتائی ہے۔ جن کے افراد بعض قیود کے ماتحت یہودی نظام میں شامل ہو سکتے ہیں۔
یسعیاہ میں لکھا ہے ’’اور بیگانے کی اولاد بھی جنہوں نے اپنے آپ کو خداوند سے پیوستہ کیا ہے اس کی بندگی کریں اور خداوند کے نام کو عزیز رکھیں۔ اور اس کے بندے ہوویں دے سب جو سبت کو حفظ کر کے اسے ناپاک نہ کریں۔ اور میرے عہد کو لیئے رہیں۔ میں ان کو بھی اپنے مقدس پہاڑ پر لائونگا۔ اور اپنی عبادت گاہ میں انہیں شادمان کرونگا اور ان کی سوختنی قربانیاں اور ان کے ذبائح میرے مذبح پر مقبول ہونگے کیونکہ میرا گھر ساری قوموں کی عبادت گاہ کہلائے گا۔‘‘ (باب ۵۶ آیت ۶۔۷) عہد کو قائم رکھیں سے اس جگہ مُراد ختنہ کرانا ہے کیونکہ عہد ارباہیمی کی علامت ختنہ کو قرار دیا گیا تھا اِس کی تائید استثناء باب ۱۲ کے مذکورہ بالا حوالہ سے بھی ہوتی ہے۔
مشہور یہودی عالم جوزیفس لکھتا ہے کہ مذہب بدل کر یہودی بننے والا شخص وہ ہے جو یہودی رسوموں کو اختیار کرے اور جو یہودی قانون کی اتباع کرتے ہوئے اور خدا تعالیٰ کی اس رنگ میں عبادت کرتے ہوئے کہ جس رنگ میں کہ یہود عبادت کرتے ہیں (یہودی ہو جائے) جوش انسائیکلوپیڈیا جلد ۱۰ صفحہ ۲۲۰)
بائبل سے بھی اس امر کا ثبوت ملتا ہے کہ عملاً بھی بعض لوگ موسوی مذہب کو قبول کر لیتے تھے چنانچہ بائبل کی ایک کتاب روت نامی ہے یہ روت جس کا اس میں ذکر ہے۔ موآبی لڑکی تھی جو ایک اسرائیلی سے بیاہی گئی اور اس نے موسوی مذہب کو قبول کر لیا تھا۔ اسی طرح غرا باب ۳ آیت ۲ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسوری لوگ جو فلسطین میں بس گئے تھے انہوں نے بھی یہودی طریقہ کو اختیار کر لیا تھا تاریخ سے بھی اس امر کی تصدیق ہوتی ہے چنانچہ رومی مورخین ٹیسیٹس (Tactus)ڈیوکیسیس (Diocassious)وغیر ہم نے اپنی کتب میں ان رومیو ںکا ذکر کیا ہے جنہوں نے یہودی مذہب کو قبول کر لیا تھا (جوش انسائیکلوپیڈیا جلد ۱۰ صفحہ ۲۲۰) اسلامی تاریخ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ کے عربو ںمیں سے بھی بعض لوگوں نے یہودی مذہب کو اختیار کیا ہوا تھا۔ چنانچہ کعب بن اشرف مشہور دشمن اسلام جس نے معاہدین میں شامل ہونے کے باوجود دشمنانِ اسلام کو مدینہ پر چڑھائی کے لئے اکسایا تھا اور مسلمانوں کے قتل کے منصوبے کئے تھے اور اس وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل کا فتویٰ دیا تھا۔ ایسے ہی لوگوں میں سے تھا۔ اس کا باپ بنو بنہان قبیلہ کا عرب تھا ایک شخص اس کے ہاتھ سے قتل ہو گیا اور وہ بھاگ کر مدینہ آ گیا وہاں اس نے یہودی قبیلہ بنو نضیر سے معاہدہ کر لیا اور اسی قبیلہ کی ایک لڑکی عقیلہ بنت ابی تحقیق سے شادی کر لی اور اس طرح یہودیوں میں شامل ہو گیا آگے اس کا بیٹا کعب بھی یہودی المذہب رہا (زرقانی جلد ۲ صفحہ ۸ زیر عنوان قتل کعب ابن الاشرف)
اسی طرح بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض مشرکین مدینہ نذر کے طو رپر اپنی اولاد کو یہود میں داخل کرنے کا اقرار کر لیتے تھے اور وہ بڑے ہو کر یہودی مذہب کے ہو جاتے تھے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے ’’کَانَتِ الْمَرْأَۃُ تَکُوْنُ مِقْلَاۃً فَتَجْعَلُ عَلیٰ نَفْسِہَا اِنْ عَاشَ لَھَا وَلَدٌ اَنْ تُھَوِّدَہٗ فَلَمَّا اُجْلِیَتْ بَنُوالنَّضِیْرِ کَانَ فِیْہِمْ مِنْ اَبْنَائِ الْاَنْصَارِ فَقَالُوْالَا نَدَعُ اَبْنَائَ نَافَانْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ۔ کہ مدینہ کی عورتوں میں سے جب کسی عورت کے بچے بچپن میں ہی فوت ہو جاتے تو وہ نذر مان لیتی کہ اگراس کا بچہ بچ جائے تو وہ اس کو یہودی مذہب میں داخل کر دیگی۔ چنانچہ جب بنو نضیر کو جلا دطن کیا گیا۔ تو ان میں انصار مدینہ کے ایسے بچے تھے جن کو یہودی بنایا گیا تھا۔ تو انصار نے ان کو ان کے ساتھ بھیجنے سے انکار کیا۔ اس وقت یہ آیت لَااِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ ط نازل ہوئی کہ مذہب کے بارے میں کوئی جبر نہیں کیا جا سکتا (ابو دائود کتاب الجہاد باب فی الاسیر یکرہ علی الاسلام)
خلاصہ یہ ہے کہ موسوی مذہب کے بنی اسرائیل کیلئے مخصوص ہونے کے یہ معنے نہیں کہ کوئی غیر اسرائیلی کبھی یہودی ہو ہی نہ سکتا تھا بلکہ خود حضرت موسیٰ کے بتائے ہوئے قانون کے مطابق غلام یا تابع رہنے والے لوگ اگر موسوی دین پر عمل کریں اور ختنہ کرالیں تو وہ موسوی مذہب میں داخل ہو سکتے تھے موسوی مذہب کے اسرائیلیوں تک مخصوص ہونے کے صرف یہ معنے ہیں کہ یہ مذہب تبلیغی نہیں اور انہیں حکم نہیں کہ دوسری قوموں میں جا کر تبلیغ کریں اور اس میں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے خاص ترقیات کے وعدے ہیں دوسری اقوام کو طفیلی تابع کے طور پر اگر کامل طور پر ان سے مل جائیں حصہ دیا جا سکتا ہے برخلاف اسلام کے کہ اس کے پیروئوں کو تبلیغ کرنے اور استثنائی طور پر نہیں بلکہ قاعدہ کلیہ کے طور پر ساری دُنیا میں اسلام پھیلانے کا حکم ہے اور اس میں داخل ہونے والوں سے کوئی وعدہ نہیں جو صرف عربوں سے مخصوص ہو بلکہ ہر وعدہ اپنی انتہائی صورت میں اسی طرح غیر عربوں کے لئے ہے جس طرح کہ عربوں کے لئے۔
خلاصہ یہ کہ چونکہ موسوی دین کے تابع لوگوں کو استثنائی صورتوں میں غیر اسرائیلیوں کو بھی اپنے دین میں شامل کرنے کی اجازت تھی اور محدود تعداد غیر قوموں کی ان میں شامل بھی ہوتی رہتی تھی اس لئے ضروری تھا کہ بنی اسرائیل کے سوا ان کا کوئی اور نام بھی ہوتا جس کے ذریعہ سے اس کے افراد کی قوم کی طرف نہیں بلکہ مذہب کی طرف نسبت ثابت کی جاتی۔ اس غرض کو پورا کرنے کے لئے آہستہ آہستہ یہودی کے لفظ کو اختیار کیا گیا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قریب زمانہ میں چونکہ ایسے لوگ بہت کم تھے جو باوجود غیر اسرائیل ہونے کے یہودی مذہب قبول کریں انہیںاپنے اندر رہنے والے غیر یا بیگانہ کے لفظ سے یاد کیا جاتا تھا مگر جب حضرت دائود علیہ السلام کے ذریعہ سے بنی اسرائیل میں حکومت آ گئی اور ان کی حکومت کا حلقہ وسیع ہو گیا اور غیر قومیں اسرائیلیوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھنے لگیں اور اسرائیلی حکومت تلے بسنے والوں میں سے ایک خاصے طبقے نے موسوی مذہب احتیار کر لیا تب یہ ضرورت بشدت محسوس ہوئی کہ اسرائیل کے سوا کوئی اور نام بھی ہو جو ایسے لوگوں پر بھی مشتمل ہو۔
اس نام کا انتخاب بعض سیاسی حالات نے خود ہی کر دیا اور وہ اس طرح کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد ان کا لڑکا ایک دنیا دار آدمی تھا اس کی تخت نشینی پر بنی اسرائیل کے سردار اس کے پاس ملنے آوے اور اس سے قانون میں بعض نرمیاں کرنے کی درخواست کی اس پر اس نے اپنے نوجوان دوستوں کے مشورہ سے انہیں سخت جواب دیا اور دھتکار کر دربار سے رخصت کر دیا اس پر بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں میں سے دس کے سرداروں نے دربار سے باہر نکلتے ہی بغاوت کا فیصلہ کر لیا اور رحبعام بن سلیمان سے باغی ہو گئے اور جعام کے ماتحت صرف یہود کا علاقہ (جسے اب فلسطین کہتے ہیں) اور یہود اور بن یامین دو قبیلوں کے آدمی رہ گئے جس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت دائود یہودا کے قبیلہ میں سے تھے اور بن یامین کے قبیلہ میں وہ پیدا ہوئے تھے اور انہیں کی مدد سے انہوں نے پہلے یہودا قبیلہ کے علاقہ کو اور پھر باقی اسرائیل کے علاقہ کو فتح کیا تھا (زیر لفظ دائود جوش انسائیکلو پیڈیا) پس ان دونوں قبیلوں میں آپس میں بہت جوڑ تھا اور اس بغاوت کے وقت میں وہ اکٹھے رہے۔
اس بغاوت کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسرائیلیوں کی دو حکومتیں ہو گئیں ایک اس وجہ سے کہ حضرت دائود یہودا قبیلہ میں سے تھے (۰۱ تو اریخ باب ۱ ۳ و ۹ تا ۱۵ نیز متی باب ۱ آیت ۲ ولوقا باب۳ آیت ۳۳) اور یہودا کے علاقہ میں رہتے تھے یہود یہ کہلائی اس میں یہود اور بن یامین قبائل کے افراد شامل تھے (۲ تواریخ باب ۱۱ آیت ۱) اور دوسری اس وجہ سے کہ اسرائیل کے اکثر قبائل اس میں شامل تھے اسرائیل کی حکومت کہلائی یہود یہ حکومت کا زور فلسطین میں تھا تو اسرائیل کی حکومت کا شمالی فلسطین اور مغربی شام کی طرف۔ اس اختلاف کے بعد اسرائیل کی حکومت متواتر بت پرستی کی طرف راغب ہوتی گئی اور تورات کے علماء اسے چھوڑ کر یہودیہ کی طرف بھاگ آئے اور موسوی مذہب کا گڑھ یہودیہ کی حکومت بن گئی جو آہستہ آہستہ موسوی مذہب کی واحد علمبردار ہو گئی چنانچہ پہلے تو اسرائیل کے حکومت کے باشندوں اور یہودیہ کی حکومت کے باشندوں میں فرق کرنے کے لئے یہودیہ کے باشندوں کو یہودی کہا جانے لگا لیکن جوں جوں مذہبی اختلاف کی خلیج بڑھتی گئی یہودی کا لفظ مقام رہائش کو بتانے کی بجائے مذہب کو بتانے کے لئے استعمال ہونے لگا اور عزیز اور نحمیاہ دو نبیوں کے ذریعہ سے جب یہودیہ دوبارہ بسایا گیا اور مذہب موسوی کی باگ ڈور کلی طور پر یہودا کے لوگوں کے ہاتھ میں آ گئی تو یہودی کا لفظ نسلی امتیاز یا مقام رہائش کے معنوں سے بالکل الگ ہو کر مذہب (موسوی کے پیرو) کے معنو ںمیں استعمال ہونے لگا کیونکہ اس زمانہ سے موسوی مذہب کا احیاء صرف یہودا کے لوگوں کے ذریعہ سے ہی ہوتا تھا اور جب یہ لفظ خالص مذہبی معنوں میں استعمال ہونے لگا تو اس کا اطلاق ان غیر اسرائیلی لوگوں پر بھی کیا جانے لگا جو نسلاً تو اسرائیلی نہ تھے لیکن مذہباً موسوی مذہب کے پیرو تھے۔ پھر حضرت مسیح علیہ السلام کے زمانہ میں جبکہ اسرائیلیوں کا ایک حصہ حضرت مسیح پر ایمان لے آیا تو اسرائیلیوں کی بھی دو اقسام ہو گئیں ایک جو یہودی مذہب پر تھے اور دوسرے جو مسیحی تھے اسلام نے آ کر اسرائیلیوں میں سے بعض کو مسلمان بنا لیا اور اس طرح ایسے اسرائیلی بھی ہو گئے جن کا مذہب اسلام تھا۔
خلاصہ یہ کہ یہودیہ کے رہنے والوں میں چونکہ موسوی مذہب نے فروغ پایا اور تمام بڑے انبیاء وہیں پیدا ہوئے یا اسی سے تعلق رکھتے تھے جیسے یرمیاہ حزقیل دانئیل عزرا نحمیاہ وغیر ہم۔ اور اسرائیلی حکومت میں بت پرستی رائج ہوا گئی۔ یہودیہ کی حکومت کے توابع یہودکے نام سے مشہور ہوئے اور چونکہ اس زمانہ میں بہت سے غیر اسرائیلی بھی موسوی مذہب میں داخل ہوئے۔ مذہب موسوی رکھنے والوں کا نام قوم سے ممتاز کرنے کے لئے یہودی ہو گیا۔ اور اسلام سے چند صدی پہلے یہودی کے معنے موسوی مذہب رکھنے والے کے ہو گئے۔ مگر چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وعدے جو دُنیاوی عزت اور اعلیٰ روحانی مراتب سے متعلق تھے ان کی نسلوں سے خاص تھے بنی اسرائیل کا لفظ الگ طو رپر قومی امتیاز کو بتانے کے لئے قائم رہا۔
میں نے کسی قدر تفصیل سے یہ امر اس لئے بیان کیا ہے تایہ بتائوں کہ قرآن کریم جس پر یہودی مذہب اور اسرائیلی تاریخ سے ناواقفیت کا الزام لگایا جاتا ہے اس امتیاز کوصحیح طور پر بیان کرتا ہے یعنی جہاں مذہب کا سوال ہوتا ہے یہودی کا لفظ استعمال کرتا ہے لیکن جہاں ان قومی وعدوں کا ذکر کرتا ہے جو آل ابراہیم یا آل موسیٰ ؑ یا آل دائود سے خاص تھے یا موسوی انبیاء کے مخاطبین کا ذکر کرتا ہے وہاں یہودی کا لفظ استعمال نہیں فرماتا بلکہ بنی اسرائیل کا لفظ استعمال فرماتا ہے کیونکہ وہ وعدے موسوی دین اختیار کرنے والوں سے نہ تھے بلکہ ان بنی اسرائیل سے تھے جو خدا تعالیٰ کے عہد کو قائم رکھیں خواہ موسوی دین پر ہوں خواہ اس کے بعد آنے والے کسی اور الٰہی دین پر ہوں جیسے کہ مسلمان ہونے والے بنی اسرائیل مگر لطیفہ یہ ہے کہ اس کے برخلاف ان معترضین کا جو قرآن کریم پر اسرائیلی تاریخ سے ناواقفیت کا الزام لگاتے ہیں یہ حالں ہے کہ ان کی مذہبی کتب تک اس بارہ میں غلطی کر جاتی ہیں چنانچہ اناجیل نے بھی اس بارہ میں غلطی کی ہے مثلاً مسیح علیہ السلام کی نسبت لکھا ہے ’’یہودیوں کا بادشاہ‘‘ چنانچہ لکھا ہے کہ پیلاطوس نے مسیح علیہ السلام سے پوچھا ’’کیا تو یہودیوں کا بادشاہ ہے یسوع نے اس سے کہاں ہاں تو سچ کہتا ہے‘‘ (متی باب ۲۷ آیت ۱۱ مرقس باب ۱۵ ۲ ولوقا باب ۲۳ ۳) اس بادشاہت کے دعویٰ کی بنیاد ذکریاہ نبی کی کتاب پر ہے اس میں لکھا ہے ’’اے صیحون کی بیٹی تو نہایت خوشی کر اے یروشلم کی بیٹی تو خوب للکار کہ دیکھو تیرا بادشاہ تجھ پاس آتا ہے‘‘ (ذکریاہ باب ۹ آیت ۹ آیت) اس عبارت سے ظاہر ہے کہ ذکریاہ نے ایک اسرائیلی بادشاہ کی خبر دی ہے جو یروشلم کو پھر اس کی سابق شوکت پر لائے گا پس اس سیمراد اسرائیلیوں کا بادشاہ ہے نہ یہود کا بادشاہ چنانچہ یوحنا باب۱ آیت ۴۹ میں لکھا ہے’’تو اسرائیل کا بادشاہ ہے‘‘ اور یہی درست ہے کیونکہ موسوی سلسلہ کے ترقی کے وعدے بنی اسرائیل سے مخصوص تھے نہ کہ ہر یہودی مذہب کو قبول کرنے والے سے۔ اسی طرح حضرت مسیح کاخطاب صرف بنی اسرائیل سے تھا چنانچہ لکھا ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے جب اپنے مریدوں کو تبلیغ کے لئے بھجوایا تو کہا کہ ’’غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا‘‘ (متی باب ۱۰ آیت ۵) یاد رہے کہ سامری مخلوط نسل کے آدمی تھے اور اکثر ان میں سے یہودی باپوں کی نسل میں سے تھے اور تورات کو مانتے تھے اور اسی پر ان کا عمل تھا۔ جب سامریوں تک سے علیحدہ رہنے کا حکم مسیح نے دیا تو جو بالکل غیر قومیں ہیں ان کا کیا ذکر ہے۔
یہ غلطی مسیحیوں کو ایسی چمٹی ہے کہ آج تک وہ اس غلطی میں مبتلا ہیں چنانچہ آج جرمنی اور بعض دوسرے یورپین ممالک میں اسرائیلی نسل کے خلاف جو جوش پیدا ہے اس میں یہی کہا جاتا ہے کہ ’’یہودیوں‘‘ کو ملک سے نکال دو اور اس سے ان کی مراد یہ نہیں ہوتی کہ جو موسوی مذہب کے تابع ہیں ان کو ملک سے نکال دو بلکہ یہ مخالفت ان لوگوں کے خلاف بھی ہے جو نصرانی مذہب اختیار کر چکے ہیں حالانکہ وہ بنی اسرائیل تو بیشک ہیں مگر یہودی کسی صورت میں بھی نہیں کیونکہ اپنا مذہب تبدیل کر چکے ہیں جرمنی میں تو یہجوش اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ جن لوگوں کی رگوں میں کسی اسرائیلی عورت کا خون بھی ہے اسے بھی ملک کا دشمن قرار دیا جاتا ہے لیکن کہا یہی جاتا ہے کہ یہ یہودی ہیں یا یہودی خون ان کے اندر ہے حالانکہ نہ وہ یہودی مذہب کے پابند ہیں اور نہ ان مائوں کا مذہب یہودی تھا جن کی وہ اولاد ہیں بلکہ ان کی مائیں بھی مسیحی تھیں اور ان کی نسل بھی مسیحی ہے۔
غرض اس علمی زمانہ میں بھی کہ جس کی عملی ترقی پر یورپ کو اس قدر ناز ہے اسرائیلی اور یہودی کے فرق کو بالکل نہیں سمجھا جاتا لیکن قرآن کریم نے تیرہ سو سال پہلے اس فرق کو تسلیم کیا ہے اور جہاں جہاں نسلی ترقی کے وعدوں کا ذکر ہے یا نبیوں کے خطاب کا ذکر ہے وہاں بنی اسرائیل کا لفظ استعمال کیا ہے اور جہاں صرف مذہب کا ذکر ہے وہاں یہودی کا لفظ استعمال کیا ہے۔ چنانچہ آیات زیر تفسیر میں چونکہ ان وعدوں کی طرف اشارہ ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے تھے یا ان وعدوں کا ذکر ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ سے ابراہیمی نسل سے تھے اس لئے ان آیات میں اور ان کے بعد کی آیات میں ہر جگہ لِبَنِٓیْ اِسْرَآئِیلَ کہا گیا ہے ایک جگہ بھی یہودی کا لفظ استعمال نہیں فرمایا۔ اُذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ۔ اُذْکُرُوْا نِعْمَتِیْ نہیں فرمایا بلکہ اس کے بعد اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ زائد کیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ صرف اپنی نعمت نہیں جتائی بلکہ اس سے زائد مضمون کی طرف اشارہ ہے کیونکہ عربی زبان کے قواعد کے مطابق جب حروف یا الفاظ میں زیادتی کی جائے تو وہ جدید یا زائد مضمون پیدا کرنے کے لئے ہوتی ہے پس اس آیت میں اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ کے الفاظ سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ وہ نعمت ہے جو تمہاری قوم کے لئے خاص ہے۔
اللہ تعالیٰ کی دو قسم کی نعمتیں ہوتی ہیں ایک وہ جو عام ہیں مومن و کافر کو مل رہی ہیں جیسے ہوا پانی آگ خوراک وغیرہ لیکن ایک اس کی نعمتیں وہ ہیں جو خاص شرائط پورا کرنے والے مقربوں کو ملتی ہیں یا خاص وعدوں کے مطابق نازل ہوتی ہیں اگر تو عام نعمتوں کا ذکر ہوتا ہے جو خاص وعدہ کے مطابق نہیں ملتیں بلکہ ہر کافر و مومن پر نازل ہوتی ہیں تو خالی اُذْکُرُوْا نِعَمِیْ کہنا کافی تھا لیکن اس جوہ اول تو نِعْمَتِیْ کا لفظ مفرد رکھا گیا ہے جس سے خاص نعمت مراد ہے اور پھر اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ کے الفاظ بڑھائے گئے ہیں اور بتایا ہے کہ وہ نعمت تم پر خاص تھی دوسرے لوگ دُنیا کے اس میں شامل نہ تھے۔
یہ نعمت کیا ہے؟ اسے ہم قرآن کریم سے ہی دیکھتے ہیں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ دوسری جگہ فرماتا ہے وَاِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ یٰقَوْمِ ذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ جَعَلَ فِیْکُمْ اَنْبِیَآئَ وَجَعَلَکُمْ مُّلُوْکًا وَّ اٰتٰمکُمْ مَّالَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِیْنَo (مائدہ ع ۴) یعنے یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اے میری قوم اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کرو جبکہ اس نے تم میں بہت سے انبیاء مبعوث فرمائے اور تم کو بادشاہ بنایا اور تم کو وہ کچھ دیا جو اور کسی کو جہانو ںمیں سے نہ دیا تھا۔ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قول ہے جو انہوں نے اس وقت بنی اسرائیل سے کہا تھا جب وہ ارضِ مقدسہ کے قریب پہنچ گئی تھی اور اس میں داخل ہونے کا اسے حکم دیا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس وقت تک موسیٰ علیہ السلام کی قوم بادشاہ نہ بنی تھی بلکہ ابھی تک جنگلوں میں سرگردان پھر رہی تھی اس سے پہلے بھی کسی زمانہ میں وہ بادشاہ نہ بنی تھی کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے حضرت یوسف ؑ تک ان میں سے کوئی بادشاہ نہ ہوا تھا اور حضرت یوسف علیہ السلام کے بعد تو وہ مصر میں غلام ہو کر رہی تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں اسے اس غلامی سے نکالا گیا لیکن بادشاہت اب تک اسے نصیب نہ ہوئی تھی صرف اس سے وعدہ کیا گیا تھا کہ ارضِ مقدسہ میں اسے بادشاہت دی جائے گی اور جیسا کہ اگلی آیت میں بتایا گیا ہے اس قول تک وہ ارض مقدسہ میں داخل نہ ہوئی تھی پس جَعَلَکُمْ مُّلُوْکَا سے یہ مراد نہیں کہ تم کو گزشتہ زمانہ میں بادشاہ بنایا گیا تھا بلکہ صرف یہ مراد ہے کہ تم کو بادشاہ بنانے کا خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے اور چونکہ ساری آیت میں مضمون کا ایک ہی سلسلہ پیش کیا گیا ہے اِذْ جَعَلَ فِیْکُمْ اَنْبِیَآئَ بھی خدا تعالیٰ کے آیندہ وعدے کی طرف اشارہ کرتا ہے اور اس میں سابق انبیاء کا ذکر نہیں۔ اور مطلب اس قول کا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے اس وعدہ کو یاد کرو جو اس نے تم سے کیا ہے کہ وہ تم میں سے کثرت سے نبی بنائے گا اور تم کو بادشاہ بنائے گا اور تم کو وہ کچھ دے گا جو اور کسی قوم کو نہیں دیا گیا گویا سابق شوکت کا ذکر نہیں بلکہ آیندہ ملنے والی شوکت کا ذکر ہے اور ماضی کے الفاظ حتمی وعدہ کے لحاظ سے استعمال کئے گئے ہیں نہ اس لئے کہ ایسا گزشتہ زمانہ میں ہو چکا ہے اس وعدہ کو یاد دلا کر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قوم کو ارض مقدسمہ میں داخل ہونے کا حکم دیا اور بتایا کہ وہ وعدہ ارضِ مقدسہ میں داخل ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے پس تم ارض مقدسہ کو فتح کرنے میں دیر نہ کرو تاکہ اس وعدہ کا ظہور شروع ہو جائے۔
آیندہ زمانہ کے واقعات نے اس وعدہ کو پورا ہونے کا عملی ثبوت بہم پہنچا دیا اور بنی اسرائیل میں کثرعت سے نبی آئے اور ان کو بادشاہ بنا دیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے ایک لمبے سلسلہ کے ذریعہ سے ان پر پے در پے روحانی علوم کھولے جس کی مثال اور کسی گزشتہ قوم میں نہیں ملتی۔
یہ وعدہ کب ہوا؟ بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وعدہ کی ابتداء ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ سے شروع ہوئی بائبل میں لکھا ہے ’’تب اس نے اسے (ابراہیم کو) کہا کہ میں خداوند ہوں جو تجھے کسدیوں کے اور سے نکال لایا کہ تجھ کو یہ ملک میراث میں دُوں‘‘ (پیدائش باب ۱۵ آیت ۷) اس کے آگے اسی باب میں بتایا ہے کہ یہ وعدہ اس طرح پورا ہو گا کہ پہلے ان کی قوم ایک اور ملک میں جا کر غلام بنے گی اور چار پشت بعد ان کو وہاں سے نکالا جائے گا وہاں سے نکالا جانے کے بعد وہ فلسطین میں بستے ہیں ابھی تک ان کے گناہ اس حد کو نہیں پہنچے کہ ان کو سزا دے کر اس ملک سے نکالا جائے۔ اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ پہلے وعدہ ابراہیم علیہ السلام سے کیا گیا تھا اور اس کے پورا ہونے کا وقت وہ بنایا گیا تھا جب بنی اسرائیل مصر میں غلام بن کر رہنے کے بعد وہاں سے نکلیں گے اور یہ زمانہ جیسا کہ بائبل تاریخ اور قرآن کریم سے ثابت ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ تھا۔ پس ان آیات میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جو قول بتایا گیا ہے اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وعدہ کی طرف اشارہ ہے کہا جا سکتا ہے کہ اس وعدہ میں بادشاہت کا تو ذکر ہے مگر نبوت کا ذکر نہیں مگر بائبل کے دوسرے مقامات کو ملا کر اس حصہ کا بھی پتہ لگ جاتا ہے۔ چنانچہ سترھویں باب میں لکھا ہے ’’اور میں اپنے اور تیرے درمیان عہد کرتا ہوں کہ میں تجھے نہایت بڑہائونگا تب ابراہیم منہ کے بل گرا اور خدا اس سے ہمکلام ہو کر بولا کہ دیکھ میں جو ہوں میرا عہد تیرے ساتھ ہے اور تو بہت قومو ںکا باپ ہو گا اور تیرا نام پھر ابرام نہ کہلایا جائے گا بلکہ تیرا نام ابرہام ہو گا (جس کا عربی تلفظ ابراہیم ہے) کیونکہ میں نے تجھے بہت قوموں کا باپ ٹھہرایا اور میں تجھے بہت برومند کرتا ہوں اور قومیں تجھ سے پیدا ہونگی اور بادشاہ تجھ سے نکلینگے اور میں اپنے اور تیرے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ان کے پشت در پشت کے لئے اپنا عہد جو ہمیشہ کا عہد ہو کرتا ہوں کہ میں تیرا اور تیرے بعد تیری نسل کا خدا ہونگا اور میں تجھ کو اور تیرے بعد تیری نسل کو کنعان کا تمام ملک جس میں تو پردیسی ہے دیتا ہوں کہ ہمیشہ کے لئے ملک ہو اور میں ان کا خدا ہونگا۔‘‘ (باب ۱۶ آیت ۲ تا ۸) اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے خدا تعالیٰ نے دو وعدے کئے تھے ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کی قوم کو کنعان میں داخل کرے گا اور اس کے بعد (۱) انہیں وہاں کا بادشاہ کرے گا (۲) دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کا خدا ہوگا۔ خدا ہونے کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ یہاں روحانی ترقیات کا وعدہ ہے کیونکہ بادشاہت میں دنیاوی ترقیات کا وعدہ آ چکا تھا۔
اوپر کے حوالہ سے ثابت ہو جاتا ہے کہ بائبل کے بیان کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم سے وعدہ کیا تھا کہ ان کی اولاد آیندہ زمانہ میں کنعان میں آئے گی اور ان کو بادشاہت اور اعلیٰ روحانی ترقیات عطا ہونگی۔ یہ وعدہ بعد میں حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ سے بھی دہرایا گیا ہے لیکن ابتداء اس کا اظہار حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ سے ہی کیا گیا تھا پس سورۂ مائدہ کی مذکورہ بالا آیت میں جس نبوت اور بادشاہت کے دیئے جانے کا ذکر ہے وہی موعود بادشاہت اور نبوت ہے اور آیت زیر تفسیر میں نعمت سے مُراد وہی نعمت مراد ہے جس کا ذکر سورۂ مائدہ میں ہے اور جس کا ثبوت بائبل سے میں پیش کر چکا ہوں اس نعمت کو یاد دلا کر یہ اشارہ کیا ہے کہ انعام نبوۃ آدم پر ختم نہیں ہو چکا بلکہ بنی اسرائیل میں ایک نہیں دو نہیں بلکہ ایک لمبا سلسلہ نبوت کا جاری رہا ہے۔
قرآن کریم میں بھی اسی سورۃ میں اس موعود نعمت کا ذکر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذکر میں کیا گیا ہے چنانچہ فرماتا ہے وَ اِذِا بْتَلٰٓی اِبْراھٖمَ رَبُّہٗ بَکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّھُنَّ ط قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ ط قَالَ لاَیَنَالُ عَھْدِی الظّٰلِمِیْنَo (بقرہ ع ۱۵) یعنی یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کی بعض کلمات کے ذریعہ آزمائش کی تو ابراہیم نے ان احکام الٰہی کو پورا کر دیا اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تجھے لوگوں کے لئے امام بنانے والا ہوں تب ابراہیم ؑ نے عرض کیا کہ میری اولاد میں سے بھی بعض کو امام بنایا جائے اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ظالموں کو میرا عہد نہیں پہنچے گا۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ (۱) اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو امام وبنانے یعنی اولوالام نبی کے درجہ پر فائز کرنے کا وعدہ فرمایا (۲) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کی نست بھی اس وعدہ فرمایا (۲) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کی نسبت بھی اس وعدہ کی توسیع کی درخواست کی تو اللہ تعالیٰ نے مشروط وعدہ فرمایا یعنے وعدہ کیا کہ تمہاری اولاد میں سے بعض اس عہد سے حصہ پائینگے مگر حصہ پانے والے وہی ہونگے جو قومی ظلم کے ذریعہ سے اپنے آپ کو محروم نہ کر چکے ہوں۔
وَاَوْ فُوْا بِعَھْدِیْ اُوْفِ بِعَھْدِکُمْ اس جملہ میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ گو آخری قوم جس میں الہام کا سلسلہ دیر تک جاری رہا بنی اسرائیل کی قوم تھی لیکن ان سے جو وعدہ کیا گیا تھا وہ مشروط تھا جب تک بنی اسرائیل اس وعدہ کے مستحق رہے اللہ تعالیٰ اپنے عہد کو پورا کرتا رہا مگر جب بنی اسرائیل کلی طور پر اس عہد کے انعامات کے ناقابل ہو گئے تو لازماً وہ عہد دوسری طرف منتقل ہو گیا۔ اوپر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے جو وعدہ کیا گیا تھا اس کا ذکر آ چکا ہے وہ وعدہ یہ تھا کہ ان کی اولاد میں بھی بنی ہونگے مگر جب ان کی اولاد کا کئی حصہ ظالم ہو جائے گا تو پھر وہ اس عہد کا مستحق نہیں رہے گا اور عہد اولاد کے دوسرے حصہ کی طرف منتقل ہو جائے گا۔
بائبل میں بھی اس عہد کے مشروط ہونے کا ذکر ہے پیدائش باب ۱۷ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’پھر خدا نے ابراہام سے کہا کہ تو اور تیرے بعد تیری نسل پشت در پشت میرے عہد کو نگاہ رکھیں اور میرا عہد جو میرے اور تمہارے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ہے جسے تم یاد رکھو سو یہ ہے کہ تم میں سے ہر اک فرزند نرینہ کا ختنہ کیا جائے اور تم اپنے بدن کو کھلڑی کا ختنہ کرو اور یہ اس عہد کا نشان ہو گا جو میرے اور تمہارے درمیان ہے‘‘ (پیدائش باب ۱۷ آیت ۹ تا ۱۱) ’’اور وہ فرزند نرینہ جس کا ختنہ نہیں ہوا وہی شخص اپنے لوگوں میں سے کٹ جائے کہ اس نے میرا عہد توڑا‘‘ (آیت ۱۴)
ان آیات سے ظاہر ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ان کی اولاد کی نسبت جو عہد کیا گیا تھا وہ مشروط تھا اور اس کی ظاہری علامت ختنہ تھا اور صاف کہہ دیا گیا تھا کہ اولاد میں سے جو اس عہد کی پابندی نہ کرینگے خدا تعالیٰ کا عہد بھی ان سے کوئی نہ رہے گا اور ان کو وہ انعامات نہ ملیں گے جن کا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ سے وعدہ کیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ اس وعدہ میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ یہ اس عہد کا نشان ہے جو اللہ تعالیٰ اور بندہ کے درمیان کیا گیا ہے اس سے ظاہر ہے کہ بندہ کی طرف سے عہد ختنہ کا نہیں بلکہ عہد اور ہے ہاں اس کا ظاہری نشان ختنہ ہے یہود نے اس کو نہ سمجھا اور صرف ختنہ پر خوش ہو گئے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہود کو اس طرف توجہ دلائی کہ وہ صرف کسی ایک حکم پر عمل کر کے خوش نہ ہوں اور یہ نہ سمجھیں کہ اس کے ذریعہ سے انہوں نے عہد کا اپنا حصہ پورا کر دیا ہے وہ اپنی قوم کو خدا تعالیٰ کا یہ حکم پہنچاتے ہیں۔ ’’پر اگر تم میرے سننے والے نہ ہو اور ان سب حکموں پر عمل نہ کرو اور میری سنتوں کو حقیر جانو یا تمہارے دل میری عدالتوں کو ناپسند کریں ایسا کہ تم میرے حکموں پر عمل نہ کرو اور مجھ سے عہد شکنی کرو تو میں بھی تم سے ویسا ہی کرونگا اور خوف اور سل اور تپ سوزاں کو تمہارے اوپر غالب کرائونگا جس سے تمہاری آنکھیں پھوٹیں اور دل دکھیں اور تم اپنے بیج بے فائدہ بوئوگے اس لئے کہ تمہارے دشمن اسے کھائیں گے اور میرا چہرہ تمہارے برخلاف ہو گا‘‘ (احباب باب ۲۶ آیت ۱۴ تا ۱۷) (آخری الفاظ کو عہد کے ان الفاظ کے ساتھ ملا کر دیکھنا چاہیئے کہ میں تیرا اور تیری نسل کا خدا ہونگا) اس حوالہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ختنہ صرف ایک ظاہری نشان تھا ورنہ اصل عہد جس کی پابندی کی حضرت ابراہیم کی اولاد سے توقع کی گئی تھی یہ تھا کہ وہ دل کے پاک ہوں خدا تعالیٰ کی سنتو ںپر مطمئن ہوں اور اس کے سب احکام پر عمل کریں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد کے نبیوں نے بھی اس مضمون کو خوب کھول کر بیان کیا ہے یرمیاہ نبی نبی اسرائیل کو عذاب الٰہی سے ڈراتے ہوئے فرماتے ہیں ’’اسرائیل کے سارے گھرانے کے دل نامختوں ہیں‘‘ (باب ۹ آیت ۲۶) اسی طرح فرماتے ہیں ’‘دیکھ وے دن آتے ہیں خداوند کہتا ہے کہ میں ان سب کو جو مختون ہیں نامختون کے ساتھ سزا دوں گا۔‘‘ (باب ۹ آیت ۲۵) اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ یرمیاہ نبی جسم کے مختون ہونے کو عہد کا پورا کرنا نہیں سمجھتے بلکہ دل کے مختون ہونے کو اصل ذریعہ عہد کے پورا کرنے کا قرار دیتے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واسطہ سے ایک معاہدہ اللہ تعالیٰ نے ان کی اولاد سے کیا تھا۔ اس معاہدہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ وعدہ تھا کہ وہ حضرت ابراہیم کی اولاد سے خدا رسیدہ لوگ پیدا کرے گا جو قرآن کریم کے بیان کے مطابق امام یعنی اولوالعزم نبی ہونگے اور دوسرے یہ کہ وہ انہیں کنعان کا ملک بطور میراث دے گا جس کے وہ بادشاہ ہونگے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وحی چونکہ اصل صورت میں محفوظ نہیں اس کا جس قدر حوالہ بائبل سے مل سکتا ہے بیشک اس میں ختنہ کی پوری تشریح نہیں مگر حضرت موسیٰ کی کتاب احبار اور یرمیاہ نبی کی وحی سے میں نے ثابت کر دیا ہے کہ ختنہ سے مراد صرف ظاہری ختنہ نہیں بلکہ اصل مراد دل کی صفائی اور کامل فرمانبرداری ہے جسمانی ختنہ اس کے لئے بطور علامت قرار دیا گیا ہے۔
اس تشریح کے مطابق آیت زیر تفسیر کے معنے یہ ہوئے کہ اے بنی اسرائیل یاد کرو کہ ہمارے تمہارے درمیان ایک عہد ہوا تھا اس عہد کا جو حصہ ہمارے متعلق تھا وہ ہم نے پورا کر دیا تم می سے پے در پے نبی بھی بھجوائے اور بادشاہ بھی بنائے اور اس کے بالمقابل جو حصہ عہد کا تم سے تعلق رکھتا تھا وہ تم نے پورا نہ کیا اور تمہارے دل نامختون ہو گئے اور تم نے اپنے خدا کے حکمو ںکو بھلا دیا اور اس کے نتیجہ میںتمہارے دلو ںمیں غیر اللہ کا خوف جاگزیں ہو گیا اگر تم اپنے حصہ عہد کو پورا کرو تو میں بھی پھر اپنے عہد کو تم سے پورا کرنے کو تیار ہوں لیکن تمہارا یہ امید کرنا کہ میں تو عہد کے اس حصہ کو پورا کرتا جائوں جو مجھ سے تعلق رکھتا ہے لیکن تم متواتر اس حصہ کو نظر انداز کرتے جائو جو تمہارے متعلق ہے درست نہیں۔
جیسا کہ میں اوپر لکھ آیا ہوں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد یہی عہد دوسرے انبیاء کے ذریعہ سے پھر دہرایا گیا ہے چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جو اسرائیلی قوم کی شریعت لانے والے تھے ان کے ذریعہ سے بھی یہ عہد دہرایا گیا تھا۔ یہ عہد ایسا مشہور و معروف ہے کہ بائبل میں بیسویں جگہ اس کا ذکر آتا ہے اور بار بار اسے عہد کے نام سے پکارا گیا ہے خروج باب ۲۰ میں وہ دس احکام جو حضرت موسیٰ ؑ کی معرفت دیئے گئے اور بنی اسرائیل کے ساتھ ایک نیا عہد باندھا گیا تفصیلاً درج ہیں۔ استثناء باب ۵ آیت ۲ اور باب ۱۸ آیت ۱۸ و ۱۹ کو ملا کر معلوم ہوتا ہے کہ سینا پہاڑ پر یا حورب پر جو نام کوہ سینا کا کتاب استثنا میں مستعمل ہے۔ خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو بلا کر دس حکم دیئے۔ اور بنی اسرائیل سے ایک نیا عہد باندھا (استثنا باب ۵ آیت ۲) اور کہا کہ اگر وہ ان احکام کے پابند رہیں تو میں ان کی قوم کو زندہ رکھونگا اور ان کا بھلا ہو گا اور ارضِ مقدس پر ان کے قبضہ کی مہلت لمبی ہوتی چلی جائے گی (استثناء باب ۵ آیت ۳۳) جس وقت یہ احکام نازل ہو رہے تھے اور خدا تعالیٰ کا جلال کوہ سینا یا حورب پر ظاہر ہو رہا تھا۔ خطرناک بجلی چمک رہی تھی۔ اور مہیب آوازیں آ رہی تھیں جسے دیکھ کر بنی اسرائیل جو خدا تعالیٰ سے عہد باندھنے کے لئے اپنے خیموں سے باہر نکل کر دامنِ کوہ میں کھڑے تھے ڈر گئے اور انہوں نے حضرت موسیٰ سے کہا کہ ہم اس کلام کو نہیں سنتے تو خدا سے سن کر ہمیں سنا دیا کر ہم ڈرتے ہیں کہ ہم اس کلام کو سن کر مر نہ جائیں (خروج باب ۲۰ آیت ۱۹) اس پر خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ سے کہا کہ جو کچھ انہوں نے کہا ہے اچھا کہا ہے جب تک یہ ان احکام پر کاربند ہونگے برکت پائیں گے لیکن آیندہ جب کوئی نبی تیری مانند کھڑا کیا جائے گا (یعنی ان میں سے نہ ہو گا) کو حضرت موسیٰ نے کہا ہے کہ تم میں سے تمہارے بھائیوں میں سے نبی کھڑا کیا جائے گا (استثناء باب ۱۸ آیت ۱۵) لیکن اوّل تو یہ خدا تعالیٰ کے اس کلام کے خلاف ہے جو اس نے موسیٰ ؑ سے کیا۔ کیونکہ اس میں ’’تم میں سے‘‘ کے الفاظ نہیں ہیں بلکہ صرف یہی ہے کہ تیرے بھائیوں سے۔ دوم یہ فقرہ ہی بے معنی ہے کہ تم میں سے تمہارے بھائیوں میں سے جبکہ اس کلام کے سب بنی اسرائیل مخاطب تھے تو پھر تم میں سے کہہ کر تمہارے بھائیوں میں سے کہنا لغو تھا۔ جب بنی اسرائیل کو مخاطب کر کے کہا جائے گا کہ تمہارے بھائیوں سے نبی کھڑا کیا جائے گا۔ تو وہ بنی اسرائیل کے سوا کسی اور قوم میں سے ہو گا نہ ان میں سے اور اگر ان میں سے ہو تو پھر بھائیوں سے نہیں کہلا سکتا۔
سو بنی اسرائیل کے بھائیو ںمیں سے نبی کھڑا کرنا تو سزا کے طور پر تھا۔ اگر انہیں میں سے نبی ہو۔ تو سزا نہیں رہتی۔ جیسا کہ استثناء باب ۱۸ آیت ۱۶ میں لکھا ہے ’’اس سب کی مانند جو تو نے خداوند اپنے خدا سے حورب میں مجمع کے دن مانگا اور کہا کہ ایسا نہ ہو کہ میں خداوند اپنے خدا کی آواز پھر سنوں اور ایسی شدت کی آگ میں پھر دیکھوں تاکہ میں مر نہ جائوں‘‘ پھر لکھا ہے ’’اور خداوند نے مجھے کہا کہ انہوں نے جو کچھ کہا۔ سو اچھا کہا۔ میں ان کے لئے ان کے بھائیوںمیں سے تجھ سا ایک نبی برپا کرونگا۔ اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالونگا۔اور جو کچھ میں اُسے فرمائوں گا وہ سب ان سے کہے گا‘‘ (آیت ۱۷ و ۱۸) اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ بنی اسرائیل نے خدا کا کلام سننے سے انکار کر دیا جو کلام کہ شریعت کے متعلق تھا تو آیندہ خدا تعالیٰ نے ان کے لئے شریعت کا دروازہ بند کر دیا اور کہا کہ جب کسی ایسے نئے نبی کی ضرورت ہو گی جو موسیٰ کی مانند ہو تو وہ ان کے بھائیوں میں سے کھڑا کیا جائے گا۔ اس عہد کے ماتحت بنی اسرائیل کو ہر قسم کی ترقی ملتی رہی اور ان کی روحانی زندگی کے لئے بادشاہ ہوتے رہے۔ اور ان کو سوائے ایک قلیل درمیانی مدت کے ارضِ مقدس پر حکومت میسر رہی گو مسیح کے نزول کے بعد ارض مقدس پر حکومت میسر رہی گو میسح کے نزول کے بعد ارض مقدس کا قبضہ اس گروہ کے ہاتھ آ گیا جو مسیح کا ماننے والا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں اسی عہد کی طرف اہل کتاب کو متوجہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ ہم سے تمہارا ایک عہد تھا۔ جس کے پورا کرنے کی صورت میں ہم نے تم سے برکت کی زندگی کا وعدہ کیا تھا۔ تم اگر اس عہد کو پورا کرو۔ تو میں اپنے عہد کو پورا کرنے کے لئے تیار ہوں جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عہد کا ذکر قرآن کریم میں ہے جو اوپر گذر چکا ہے مذکورہ بالا موسوی عہد کا ذکر بھی قرآن کریم میں موجود ہے فرماتا ہے وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍط فَسَاَ کْتُبُھَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَالَّذِیْنَ ھُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَo اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَ ھُمْ فِی التَّوْرٰلۃِ وَالْاَ نْجِیْلِ زیَاْ مُرُ ھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَیَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَ ھُمْ وَالْاَ غْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْط فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّ رُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِٓیْ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o(اعراف ع ۱۹) یعنی میری رحمت ہر ایک چیز پر وسیع ہے میں ضرور ان لوگوں کے لئے جو تقویٰ کریں اور زکوۃ دیں اور ہماری آیات پر ایمان لائیں اسے لازم کردونگا (خواہ وہ کسی قوم کے ہوں) ہاں ان لوگوں کے لئے جو اس رسول نبی اور اُمی کی فرمانبرداری کرتے ہیں جسے وہ اپنی اپنی کتب تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں وہ انہیںاچھی باتوں کا حکم دیتا ہے اور بری باتوں سے روکتا ہے او رپاک چیزوں کو ان کے لئے حلال کرتا ہے (برخلاف یہود کے جو بہت سی پاک چیزوں کو اپنی تنگ ظرفی کی وجہ سے حرام قرار دیتے ہیں) اور گندی چیزوں کو حرام کرتا ہے (برخلاف نصاریٰ کے جو سور اور خون جیسی ممنوع اور بُری چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں) اور ان کے کمرتوڑ دینے والے بوجھوں کو دُور کرتا ہے اسی طرح ان طوقوں کو بھی جو ان کے گلوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ پس وہ جو اس پر ایمان لاتے ہیں اور اپنی زبانوں اور تلواروں سے اس کی اعانت کرتے ہیں اور اس کی مدد کرتے ہیں اور اس نور کی اتباع کرتے ہیں جو اس کے ساتھ اُتارا گیا ہے (یعنی قرآن کریم) وہ ضرور کامیاب ہو نگے یعنی باوجود غیر عرب ہونے کے ان برکات سے حصہ پائینگے جو عرب کے نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت سے وابستہ ہیں کیونکہ وہ کسی ایک قوم کا نبی نہیں بلکہ سب دُنیا کا نبی ہے چنانچہ اگلی آیت میں اس مضمون کی طرف اشارہ کرنے کے لئے فرماتا ہے قُلْ یٰٓاَ یُّھَا النَّاسُ انِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًاط تو کہہ دے کہ اے لوگو میں تم سب کی طرف خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں یعنی مجھ پر ایمان لانے والے سب کے سب ان انعامات کے وارث ہونگے جن کا مجھ سے وعدہ ہے اور صرف میری قوم ہی کے لوگ ان سے فائدہ نہ اٹھائیں گے۔
اوپر کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عہد کا ذکر فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب میں ایک نبی امی کا ذکر موجود ہے اور اس پر ایمان لانے کا حکم ہے اور اس کی اطاعت کے ساتھ خدا تعالیٰ کے اس وعدہ کے پورا ہونے کا تعلق ہے جو حصرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ سے ان کی قوم سے کیا گیا تھا کیونکہ موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ جب وہ مورعود نبی آئے گا تو اس وقت اس عہد کو جو موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ سے کیا گیاتھا اللہ تعالیٰ صرف انہی سے پورا کرے گا جو اس پر ایمان لائینگے چنانچہ لکھا ہے ’’میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سے ایک نبی برپا کرونگا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا او رجو کچھ میں اسے فرمائوں گا وہ سب ان سے کہے گا اور ایسا ہو گا کہ جو کوئی میری باتوں کو جنہیں وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے گا تو میں اس کا حساب اُس سے لُوں گا‘‘ (استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸؍۱۹) اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بنی اسرائیل کے متعلق جو وعدہ کیا تھا اس کا زمانہ اس موعود نبی کی بعثت تک تھا اس کی بعثت کے بعد یہ شرط تھی کہ اگر بنی اسرائیل اس نبی کو مانینگے تو انعام پائینگے ورنہ سزا پائینگے اور اسی طرف اشارہ ہے اس آیت میں کہ اَوْفُوْا بِعَھْدِیْ اُوْفِ بِعَھْدِ کُمْ تم اپنا عہد مجھ سے پوراکرو تو میں اپنا عہد تم سے پُورا کرونگا۔
اس جگہ دو شبہات پیدا ہوتے ہیں ایک یہ کہ ہر نبی کے منکروں کو ہی سزا ملتی ہے اور بنی اسرائیل میں موسیٰ کے بعد بہت سے نبی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے گذر چکے تھے جن کا انہوں نے انکار کیا پس عہد ت واس وقت ہی ٹوٹ چکا تھا پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس پیشگوئی کا خاص تعلق کیونکر ہوا (۲) دوسرے یہ کہ اگر پیشگوئی محمد رسول اللہ صلعم کے متعلق تھی تو ان کی بعثت سے بنی اسرائیل کا زمانہ تو ختم ہو گیا پھر یہ کیوں کہا گیا ہے کہ تم اپنا عہد پورا کرو تو میں اپنا عہد پورا کروں گا۔ بنی اسرائیل کے تبوہ کر لینے سے نبوت ان کی قوم میں واپس تو جا نہ سکتی تھی پھر یہ الفاظ کیوں کہے گئے۔
پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بنی اسرائیل نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی بہت سے نبیوں کا انکار کیا لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ وہ چونکہ ان کے قومی نبی تھے بعد میں ان کے حالات اور الہام ان کی مقدس کتب کے مجموعہ میں شامل ہو گئے پس وہ انکار عارضی تھا اس سے قومی تفریق نہیں ہوتی تھی۔ اس وجہ سے قوم ان انبیاء کی معرفت آنے والے انعامات سے محروم نہ ہوتی تھی۔ ان کی مثال ایسی ہی تھی جیسے کہ عرب نے پہلے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا لیکن آخر میں ان پر ایمان لے آئی ہاں آخری نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا انکار بنی اسرائیل نے شدت سے کیا اور بعد میں ان پر ایمان بھی نہ لائے لیکن بہرحال وہ بھی اسرائیلی نبی تھے اور بنی اسرائیل کا وہ حصہ جو ان پر ایمان لایا اس عہد کے تسلسل کو قائم رکھنے والا تھا اور اگر وہ اپنے عہد کو قائم رکھتا تو نبوت کا انعام پھر بھی ان کو ملتا لیکن انہوں نے بھی اس عہد کو قائم نہ رکھا اور نبوت دوسری طرف منتقل ہو گئی۔
یہود نے تو عہد کے روحانی پہلو کو بھلا یعنی دل کی پاکیزگی کو نظر انداز کر کے خدا تعالیٰ سے عہد کو توڑ دیا اور جو بنی اسرائیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے تھے انہوں نے بظاہری ختنہ کو چھوڑ کر عہد کے نشان کو مٹا دیا پس اس طرح بنی اسرائیل کا کوئی حصہ بھی عہد پر قائم نہ رہا اور خدا تعالیٰ نے عہد کو بنی اسمٰعیل کی طرف منتقل کر دیا۔
خلاصہ یہ کہ گو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی بنی اسرائیل نے نبیوں کا انکار کیا لیکن وہ انکار عارضی ہوتا تھا اور بع دمیں وہ اس بنی کو قومی نبی کے طور پر تسلیم کر لیتے تھے سوائے حضرت مسیح کے کہ جن کو بنی اسرائیل کی باقی قوم نے قبول نہ کیا لیکن چونکہ وہ اسرائیلی نبی تھے اسرائیل ہی کی طرف آئے تھے اور جیسا کہ اناجیل سے ثابت ہے موسوی شریعت پر چلنے کا ہی حکم دیتے تھے اور ان کے پہلے مومن اسرائیل میں سے ہی تھے اس لئے ان پر ایمان لانے والے اسرائیلیوں کے ذریعہ سے وہ وعدہ قومی طور پر پورا ہوتا رہا لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار اور رنگ کا تھا۔ آپ موسوی شریعت کے تابع نہ تھے بلکہ موسیٰ ؑ کی پیشگوئی کے مطابق ایک نئی شریعت لائے تھے اور اسرائیل کی طرف مبعوث نہ تھے بلکہ سب دنیا کی طرف مبعوث تھے پس آپ کے ذریعہ سے جو دین قائم ہوا وہ موسوی دین کا تسلسل نہ تھا اور اسرائیل اس پر قومی فخر نہ کر سکتے تھے اور ان کی قومی برتری کا دور اس سے ختم ہو جاتا تھا اس لئے فرمایا گیا کہ چونکہ تم نے اپنا عہد توڑ دیا ہم نے بھی اپنا عہد ختم کر دیا۔
دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ گو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے اسرائیلی نبیوں کا تسلسل ٹوٹ گیا اور بنی اسرائیل کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے سے وہ تسلسل پہلی شکل میں پھر قائم نہ ہو سکتا تھا لیکن پھر بھی اَوْفُوْا بِعَھْدِیْ اُوْفِ بِعَھْد کُمْ کے ارشاد کے مطابق بنی اسرائیل پر خدا تعالیٰ کی رحمتو ںکا سلسلہ جاری رہ سکتا تھا چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے وَلَوْ اَنَّ اَھْلَ الْکِتٰبِ اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَکَفَّرْنَا عَنْھُمْ سَیِّاٰ تِھِمْ وَلَاَدْ خَلْنٰھُمْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِo وَلَوْ اَنَّھُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰلۃَ وَالْاِنْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ مِّنْ رَّبِّھِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْ قِھِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِہِمْ مِنْھُمْ اُمَّۃٌ مُّقْصِدَۃٌط وَکَثِیْرٌ مِّنْھُمْ سَآئَ مَایَعْمَلُوْنَo یٰٓا یُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَط وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗط وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِط اِنَّ اللّٰہَ لَایَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَo (مائہد ع ۹ و ع ۱۰) یعنی اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور تقویٰ سے کام لیتے تو ہم ان کی غلطیوں پر پردہ ڈال دیتے اور ہم انہیں نعمت والی جنتو ںمیں جگہ دیتے اور اگر وہ تورات کو قائم کرتے اور انجیل کو اور اس کلام کو بھی جوان پر (یعنے موجودہ زمانہ کے اہل کتاب پر) ان کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے تو وہ اپنے اوپر سے بھی کھاتے یعنی روحانی غذا کے دروازے ان کیلئے کھولے جاتے اور آسمانی الہام ان پر نازل ہوتا وہ اپنے قدموں کے نیچے سے بھی کھاتے یعنی مادی انعامات بھی ان پر نازل ہوتے۔ ان میںسے ایک جماعت میانہ رو ہے (یعنی جو اسلام لے آئے ہیں) اور اکثر ان میں سے بُرے عمل کرتے ہیں۔ اے رسول جو تجھ پر نازل کیا گیا ہے اسے پوری طرح پہنچا اور اگر تُو ایسا نہ کرے گا تو گویا تُو نے کوئی حصہ بھی کلام الٰہی کا نہیں پہنچایا اور اللہ تعالیٰ تجھے لوگوں کے حملوں سے بچائیگا اللہ تعالیٰ کافروں کو کامیابی کا راستہ کبھی نہیں دکھاتا۔
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ تورات اور انجیل کے ماننے والے اگر ان کی تعلیم کو مانتے ہوئے اس کلام کو جو آخری زمانہ میں ان کی ہدایت کے لئے نازل کیا گیا ہے مان لیں اور ایمان اور تقویٰ سے کام لیں تو اللہ تعالیٰ ان کے لئے الہام اور رزق طیب کا دروازہ کھول دے گا اور اپنی سابق بدیوں کے عذاب سے وہ محفوط ہو جائینگے گویا اس رنگ میں اللہ تعالیٰ اپنے عہد کو ان سے پُورا کرے گا اور ان اُن کو آسمانی و دنیاوی انعامات سے متمتع کرے گا پھر فرمایا ہے کہ اے رسول ان اقوام کو خوب تبلیغ کرتا ان پر حجت پوری ہو جائے اور ان میں سے جو بچائے جا سکیں بچائے جائیں پس گو نبوت حسب پیشگوئی حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل میں سے نکال کر بنی اسمٰعیل میں آ گئی لیکن پھر بھی اگر بنی اسرائیل اپنے عہد کو پورا کرنے میں لگ جائیں تو ان کے لئے خدا تعالیٰ اپنے عہد کو پوراکرنے کے لئے تیار ہے۔ استثناء باب ۱۸ کی پیشگوئی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے اس آیت میں ایک لطیف اشارہ کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ بنی اسرائیل کو ایمان لانے کی ہدایت کے بعد یہ آیت رکھی گئی ہے کہ اے رسول جو تجھ پر نازل کیا گیا ہے سارا کا سارا پہنچا دے اور یہی الفاظ استثناء کی پیشگوئی کے آخر میں ہیں کیونکہ وہاں لکھا ہے ’’اور جو کچھ میں اسے فرمائونگا وہ سب ان سے کہے گا‘‘ (باب ۱۸ آیت ۱۸)
آیت اَوْفُوْا بِعَھْدِیْ اُوْفِ بِعَھْدِ کُمْ سے یہ استدلال بھی ہوتا ہے کہ امت محمدیہ میں غیر تشریعی نبوت کا دروازہ بند نہیں اور وہ اس طرح کہے اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل سے فرماتا ہے کہ اگر تم میرا عہد پورا کرو یعنی خدا کی باتو ںکو مان لو اور وقت کے نبی محمد رسول اللہ پر ایمان لائو تو میں نے جو تم سے عہد کیا تھا وہ میں پھر تم سے پوار کروں گا اور اوپر بتایا جا چکا ہے کہ وہ عہد یہ تھا کہ ان سے نبی پیدا ہوتے رہیں گے پس معلوم ہوا کہ امت محمدیہ میں نبوت کا دروازہ مسدود نہیں صرف شریعت ختم ہوئی ہے ورنہ بے شریعت والے اور قرآن اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ ولسم کے تابع اور خادم نبی اب بھی پیدا ہو سکتے ہیں کیونکہ اگر ایسا ممکن نہ تھا تو اللہ تعالیٰ کے اس قول کے کیا معنے ہوئے کہ اگر اب بھی تم اپنا عہد پورا کرو تو میں تم سے اپنا عہد پورا کروں گا یہ قول اسی وقت درست ہو سکتا ہے جبکہ امت محمدیہ میں نبوت کا دروازہ کھلا ہو اور بنی اسرائیل میں سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں کو اس کا وعدہ دیا جائے۔
یہ امر بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مذکورہ بالا پیشگوئی کے مطابق بنی اسرائیل میں آیندہ شرعی نبوت کا دروازہ مسدود ہو چکا تھا اور صرف موسوی شریعت کے تابع نبوت کا دروازہ کھلا تھا کیونکہ استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸ میں صاف لکھا تھا کہ شریعت والا نبی آیندہ بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے یعنی بنو اسمٰعیل میں سے آئے گا پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی ان میں بغیر شریعت کے نبی آتے تھے اور نبوت محمدیہ پر ایمان لانے کے بعد بھی یہ دروازہ ان کے لئے بند نہ تھا۔ پس فرمایا کہ اگر اب بھی اپنے عہد کو پورا کرنے لگو تو اس انعام سے حصہ پا سکتے ہو۔
وَاِیَّایَ فَارْ ھَبُوْنِ عام طور پر اس کا ترجمہ یہ کیا جاتا ہے کہ پس مجھ ہی سے ۔رو مگر یہ پورے معنے اس جملہ کے نہیں کیونکہ اِیَّایَ مفعول ہے اور اس کا فعل محذوف نکالنا صروری ہے جو اگلے الفاظ کو مدنظر رکھتے ہوئے اِرْھَبُوْا ہے پس وَاِیَّایَ کے معنے ہوئے اور ڈرو مجھ سے اس کے بعد فا آیا ہے جو امر محذوف پر دلالت کرتا ہے اور وہ امر بھی عبارت کے مطابق ہی نکالنا ہو گا اور وہ اِرْھَبُوْا ہی ہو سکتا ہے پس محذوف کو ظاہر کر کے عبارت یہ ہو گی وَارْھَبُوْا اِیَّایَ اِرْھَبُوْا فَارْ ھَبُوْنَ۔ اور ترجمہ یہ ہو گا کہ او رمجھ ہی سے ڈرو ڈر جائو پس مجھ ہی سے ڈرو گویا اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے خوف کو تین دفعہ بیان کیاگیا ہے۔
اس جگہ بعض مغرب کے فلسفہ سے متاثر لوگوں کو شائد یہ وہم ہو کہ خدا تعالیٰ کے خوف پر اس قدر زور کیوں دیا گیا ہے ایسے لوگوں کا ایک جواب تو یہ ہے کہ خوف بُری چیز نہیں خوف تقویٰ کے پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے انسان مختلف حالتوں کے ہوتے ہیں بعض محبت سے مانتے ہیں اور بعض خوف سے۔ پس جس ہستی کے مدنظر اصلاح ہو گی وہ خوف اور محبت دونوں سے کام لے گی۔ فلسفہ انسان کی اصلاح نہیں کر سکتا اصلاح تو مرض کے مطابق علاج کرنے سے ہوتا ہے پس جو لوگ گندے ہو چکے ہوں ان کو ان کے عیوب کے بدنتائج سے ڈرا کر ہی ان کی اصلاح کی جا سکتی ہے جو اس طریق کو استعمال نہ کرے گا۔ اصلاح کے کام میں ناکام رہے گا۔
دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ رَھْبٌ کے معنے عام خوف کے نہیں بلکہرَھْبٌ کے معنوں میں کوشش اور جدوجہد کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے چنانچہ عرب کہتے ہیں دُھِبَتِ النَّاقۃُ اور اس کے معنے ہوتے ہیں جَہَدَھَا السَّیْرُ یعنی اونٹنی خون دوڑائی گئی اور تھک گئی۔ پس رَھْبٌ اس خوف کو کہتے ہیں جو کام کی طرف رغبت پیدا کرے اسی وجہ سے عابد لوگوں کو راہب کہتے ہیں۔
ایک اور شبہ کا ازالہ بھی میں اس جگہ کر دینا چاہتا ہو ںکہا جا سکتا ہے کہ حضرت اسمٰعیل ؑ تو بڑے بھائی تھے ان کی نسل کو ایک لمبے عرصہ تک اللہ تعالیٰ نے انعام سے کیوں محروم رکھا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بنو اسحاق گو بعد میں کیسے ہی بگڑے لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سینکڑوں سال تک انہو ںنے دین کی شمع کو اُٹھائے رکھا اس لئے وہ یقینا خدا تعالیٰ کے خاص فضلوں کے وارث ہوئے۔ بنو اسمٰعیل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک اس رتبہ کو نہیں پہنچے اس لئے بقدر ضرورت ہی انہیں انعام ملا۔ ہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے جوہر کامل بنو اسمٰعیل میں سے ہوئے کہ جنہوں نے سب کمی کو پورا کر دیا۔ اور چونکہ آپؐ حاتم النبین ہونے والے تھے اس لئے ضروری تھا کہ سب دسرے انبیاء کو جو براہِ راست نبوت کے مقام پر کھڑے ہونے والے تھے پہلے گذرنے دیا جاتا تا آخر میں آپ تشریف لاتے اور شریعت والی اور براہِ راست نبوت کا دروازہ مسدود کر دیا جاتا۔






۴۲؎ حل لغات
اٰمِنُوْا:۔امر حاضر جمع کا صیغہ ہے مزید تشریح کے لئے دیکھو حل لغات سورۂ ہذا ۴؎ و ۱۴؎
اَنْزَلْتُ:۔ اَنْزَلَ سے واحد متکلم کا صیغہ ہے اور اَنْزَلَ کے لئے دیکھو۔ حل لغات سورۃ ہذا ۵؎
مُصَدِّقًا:۔ صَدَّقَ سے اسم فاعل کا صیغہ ہے اور صَدَّقَہٗ کے معنے ہیں۔ ضِدُّ کَذَّبَہٗ اسے سچا قرار دیا اور اَلتَّصْدِیْقُ کے معنے ہیں نِسْبَۃُ الصِّدْقِ بِالْقَلْبِ اَوِ اللِّسانِ اِلی الْقَائِلِ۔ کسی بات کرنے والے کو اس کی بات میں دل سے سچا سمجھنا یا زبان سے سچا قرار دینا۔ وَقِیْلَ ھُوَ اَنْ تُنْسِبَ بِاِخْتِیارِکَ الصِّدْقَ اِلَی الْمُخْبِرِ اور بعض نے تصدیق کے یہ معنے کئے ہیں کہ اپنے احتیار سے سوچ سمجھ کر مخبر کی طرف صدق کا منسوب کرنا تصدیق کہلاتا ہے۔ نیز لکھا ہے اَلْمُصَدِّقُ۔ اَلَّذِیْ یُصَدِّ قُکَ فِیْ حَدِیْثِکَ کہ جو کسی کی باتوں کو سچا قرار دے اسے اس کا مصدق کہیں گے (اقرب)
کَافِرِ:۔ کَفَرَ سے اسم فاعل ہے اور کَفَرَ کے معنے کے لئے دیکھو حل لغات سورہ ہذا ۷ و ۲۵؎
لَاتَشْتَرُوْا:۔ نہی مخاطب کا جمع کا صیغہ ہے اِشْتَرٰی کے معنے کے لئے دیکھو حل لغات سورہ ہذا ۱۷؎
بِاٰیَاتِیْ:۔ اٰیٰتٌ اَیَۃٌ کی جمع ہے اٰیٰۃٌ کے لئے دیکھو حل لغات سورۃ ہذا ۴۰؎
اَلثَّمَنُ:۔ مَاقَدَّرَہٗ الْعَاقِدَانِ عِوَضًا لِلْمَبِیْعِ کہ خرید و فروخت کرنے والے جو کسی چیز کی قیمت ٹھہراتے ہیں وہ ثمن کہلاتی ہے (اقرب) مفردات میں ہے اَلثَّمَنُ اِسْمٌ لِمایَاْخُذُہُ البَائِعُ فِیْ مُقَابَلَۃِ الْمَبِیْعِ عَیْنًا کَانَ اَوْسِلْعَۃً کہ ثمن اس چیز کو کہتے ہیں جس کو بیچنے والا بیچی ہوئی چیز کے بدلہ میں لیتا ہے خواہ نقدی کی صورت میں ہو یا سامان کی وَکُلُّ مَایَحْصُلُ عِوَضًا عَنْ شَیْئٍ فَھُوَ ثَمَنُہٗ ہر وہ چیز جو کسی چیز کے عوض حاصل کی جائے اس پر بھی ثمن کا لفظ بول دیا جاتا ہے (مفردات) لسان میں لکھا ہے کہ اَلثَّمَنُ مَاتَسْتَحِقُّ بِہٖ الشَّیْئَ ثمن ہر اس چیز پر بولینگے جس کے ذریعہ کسی دوسری چیز کے لینے کا حق ہو جائے وَالثَّمَنُ ثَمَنُ الْبَیْعِ وَثَمَنُ کُلِّ شَیْئٍ قِیْمَتُہٗ کہ ثمن کا لفظ کسی چیز کی سا قیمت پر بھی بولا جاتا ہے جو کسی چیز کی اصل قیمت ہو (یعنی بعض اوقات ایک چیز کی اصلی قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے لیکن بکتی کم قیمت پر ہے تو اصل قیمت پر اور اس قیمت پر جس پر وہ بک رہی ہوتی ہے ثمن کا لفظ بولا جاتا ہے) فرار کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں جہاں بھی ثمن پر نصب آئی ہے اور مبیع پر باء داخل کی گئی ہے وہاں ان دونوں میں سے کوئی بھی معین ثمن نہیں ہوتی۔ ہر دو اشیاء میں سے جس کو چاہیں ثمن بنا سکتے ہیں مثلاً جب یہ کہیں کہ اِشْتَرَیْتُ ثَوْبًا بِکَسَائٍ کہ میں نے چادر دے کر کپڑا خریدا۔ تو اس میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ کپڑا چادر کی قیمت ہے گویا ہر دو اشیاء ایک دوسرے کی قیمت بن سکتی ہیں او رجب یہ بتانا مقصود ہو کہ فلاں چیز اتنی رقم سے خریدی گئی ہے اور وہاں مال کا ذکر ہو تو اس وقت مال کو ثمن کہیں گے اور اس پر باء داخل ہو گی جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کے متعلق آتا ہے وَشَرَوْہُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ دَرَا ھِمَ کہ قافلہ والوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو چند دراہم دے کرخرید لیا تو یہاں درہم ثمن بن سکتے ہیں (لسان)
اِتّقُوْنِ:۔ اِتَّقُوْا امر جمع مخاطب کا صیغہ ہے نِ نِیْ کا قائم مقام ہے۔ اِتَّقُوْنِ کے معنے ہیں۔ مجھ سے ڈرو اِتَّقٰی کی تشریح کے لئے دیکھو حل لغات سورہ ہذا ۳؎
تفسیر۔ اس آیت میں واضح کر دیا گیا ہے کہ اَوْفُوْا بِعَھْدِیْ کے معنے استثناء باب ۱۸ کے موعود نبی کو قبول کرنا ہے کیونکہ اَوْفُوْا بِعَھْدِیْ کے بعد اٰمِنُوْا بِمَا اَنْزَلْتُ کہا گیا ہے جس سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ایفار عہد اور خدا تعالیٰ کا خوف اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی پر ایمان لانا یہ سب امور ان انعامات کی تکمیل کے ساتھ گہرا تعلق رکھنے والے ہیں جو بنی اسرائیل کے لئے مقرر تھے۔
بِمَا اَنْزَلْتَ۔ اَنْزَلْتُ کے بعد ضمیر واحد غائب محذوف ہے کیونکہ مَا کی طرف ضمیر کا پھرنا ضروری ہے پس اصل جملہ یہ ہو گا بِمَا اَنْزَلْتُہٗ یعنی اس پر ایمان لائو جسے میں نے نازل کیا ہے۔
مُصَدِ قًالِّمَا مَعَکُمْ۔ یہ جملہ اَنْزَلْتُ کے بعد جو ضمیر محذوف ہے اس کا حال ہے اور مطلب یہ ہے کہ میرے اُتارے ہوئے اس کلام پر ایمان لائو جو اس کا جو تمہارے پاس ہے مصدق ہے مطلب یہ ہے کہ اس کلام کے ذریعہ سے موسیٰ علیہ السلام کی استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸ والی پیشگوئی پوری ہوئی ہے اسی طرح اور بنی اسرائیل کے نبیوں کی پیشگوئیاں پوری ہوئی ہیں پس اس کلام اور اس کے لانے والے پر ایمان لانا اپنے سابق الہامی کلام کی تصدیق کرنا ہے اور اس کے حکم پر عمل کرنا ہے اور اس کو نہ ماننا اس کلام کی تکذیب اور تردید ہی گویا بنی اسرائیل میں نئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیش کردہ کلام الٰہی قرآن کریم پر ایمان لاتا ہے وہ حضرت موسیٰ اور دوسرے اسرائیلی نبیوں پر بھی ایمان لاتا ہے کیونکہ انہوں نے ان کی خبر دی تھی اور جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ پر نازل شدہ کلام کو رد کرتا ہے وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور دوسرے اسرائیلی نبیوں کو بھی رد کرتا ہے کیونکہ وہ ان کی تصدیق کو ٹھکرا دیتا ہے۔ پس وہ ان انعامات کا مستحق نہیں رہتا جو ان کی تصدیق اور ان پر ایمان لانے سے وابستہ کئے گئے تھے۔
ایک غیر مسلم سوال کر سکتا ہے کہ کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اور ان کے بعد میں آنے والے انبیاء نے واقعہ میں کسی ایسے نبی کی خبر دی تھی جسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت نے پورا کر دیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دُنیا کی ہر قوم میں ایک آخری زمانہ کے نبی کی خبر دی گئی تھی اور اس کی بعض علامات بھی بتائی گئی تھیں جو پورے طو رپر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں پوری ہو گئیں خصوصاً اسرائیلی نبیو ںکی پیشگوئیاں تو اس بارہ میں بکثرت ملتی ہیں اس کثرت سے کہ ان پر ایک ضخیم کتاب لکھی جا سکتی ہے۔
اس آیت میں سب انبیاء اور اقوام کی پیشگوئیوں کا ذکر نہیں اس لئے اس وقت میں ان کو بیان نہیں کرتا لیکن مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ کے مضمون کی مطابقت سے بنی اسرائیل کے نبیو ںکی پیشگوئیوں کا ذکر چونکہ ضروری ہے میں اختصار کے ساتھ ان کا ذکر اس جگہ کرتا ہوں۔
تصدیق نمبر۱
پہلی تصدیق قرآن کریم اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کرتا تھا جنہوں نے بنو اسمٰعیل کی ترقی کی پیشگوئی کی تھی اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ آتے اور آپ پر وحی نازل نہ ہوتی تو حضرت ابراہیم جھوٹے قرار پاتے۔ حضرت ابراہیم ؑ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کہ ’’اسمٰعیل کے حق میں میں نے تیری سنی دیکھ میں اسے برکت دونگا اور اسے برومند کرونگا اور اسے بہت بڑھائونگا اور اس سے بارہ سردار پیدا ہونگے اور میں اسے بڑی قوم بنائونگا‘‘ (پیدائش باب ۱۷ ۲۰ و ۲۱) اس پیشگوئی سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح اسحاق کی اولاد سے وعدہ تھا کہ انہیں بہت بڑھائونگا اور اسے برکت دونگا اور اس سے بڑی قوم بنائونگا۔ اسی طرح حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے متعلق بھی وعدہ تھا گو باوجود اس کے بائبل میں لکھا ہے کہ یہ عہد اسحاق کی اولاد سے پورا ہو گا مگر یہ تو قلم درکفِ دشمن کی وجہ سے ہے ورنہ ساری باتیں جو حضرت اسحاق کی نسبت کہی گئی تھیں حضرت اسمٰعیل کی نسبت بھی کہی گئیں۔ تو پھر عہد کا حضرت اسحاق سے مخصوص ہونا بے معنی ہے بائبل کے قول کے مطابق خدا کا کلام حضرت ہاجرہ پر بھی نازل ہوا تھا اور اس میں اسمٰعیل ؑ کی نسبت یہ پیشگوئی تھی ’‘میں تیری اولاد کو بہت بڑھائونگا کہ وہ کثرت سے گنی نہ جائے گی اور خداوند کے فرشتے نے اسے کہا کہ تو حاملہ ہے اور ایک بیٹا جنے گی اس کا نام اسمٰعیل رکھنا کہ خداوند نے تیرا دکھ سن لیا وہ وحشی آدمی ہو گا اس کا ہاتھ سب کے اور سب کے ہاتھ اس کے برخلاف ہونگے اور وہ اپنے سب بھائیوں کے سامنے بودو باش کرے گا۔‘‘ (پیدائش باب ۱۶ آیت ۔ ۱ تا ۱۲) گو یہ الہام ہاجرہؓ پر نازل ہوا ہے مگر موسیٰ کی وحی میں اسے شامل کر کے اس کے خدائی الہام ہونے کی تصدیق کر دی گئی ہے پس یہ الہام بھی اسی طرح بنی اسرائیل پر حجت ہے جس طرح حضرت ابراہیم کا اپنا الہام۔ اس الہام میں یہ امو ربیان ہیں کہ (۱) حضرت اسمٰعیل کی اولاد بھی حضرت اسحاق کی اولاد کی طرح بے انتہا ترقی کریگی حتٰی کہ گنی نہ جا سکے گی (۲) اسے ایسی عظمت ملے گی کہ سب دُنیا اس سے حسد کریگی (۳) باوجود اس کے کہ سب دُنیا اس کی مخالفت کرے گی وہ ان سے دبے گی نہیں بلکہ ان کے مقابل پر عزت کی زندگی بسر کرے گی۔
اس پیشگوئی سے ظاہر ہے کہ بنو اسمٰعیل کے لئے عالمگیر عزت شہرت اور عظمت مقدر کی گئی تھی اس قدر کہ اس کے نتیجہ میں دُنیا کی سب قومیں ان سے حسد کرنے لگینگی۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے متعلق آ کر یہی دعویٰ کیا کہ وہ ایسی عظمت حاصل کرینگے کہ سب دُنیا ان پر حسد کرنے لگے گی خصوصاً بنو اسحاق۔ اور یہ کہ آپ کو سب دُنیا پر خدا تعالیٰ غلبہ دے گا۔ اس دعویٰ کے ساتھ گویا آپ نے حضرت ابراہیم ؑ علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ کے الہاموں کو پورا کرنے کا دعویٰ کیا اگر آپ ظاہر نہ ہوتے تو ظاہر ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کی وہ پیشگوئی پوری ہوتی جو انہوں نے حضرت اسمٰعیل ؑ کی اولاد کے بارہ میں کی تھی اور نہ ہاجرہ پر نازل ہونے والا الہام جو بائبل میں موجود ہے پورا ہوتا مگر رسول کریمؐ کی بعثت کے ساتھ یہ دونوں الہام پورے ہو گئے اور قرآن کریم بائبل کا مصدق ہو گیا یعنی اس کے الہام کو سچا کرنے والا۔
یہ جو بائبل میں ہے کہ حضرت اسحاق اس عہد کو پورا کرنے والے ہونگے جو حضرت ابراہیم ؑ سے ہوا تھا اس کا ایک جواب تو میں پہلے دے آیا ہوں کہ بائبل انسانوں کی دست برد سے پاک نہیں بنو اسحاق کو بنو اسمٰعیل سے سخت عداوت تھی۔ پس جو کتاب زمانہ جہالت میں ایک لمبے عرصہ تک ان کے ہاتھو ںمیں رہی خدا ہی جانے کہ اس میں انہوں نے کیا کیا تحریف کی ہو گی۔ دُور جانے کی ضرورت نہیں۔ بائبل کے وہ نسخے جو عزانبی کے بعد تاریخی زمانہ میں لکھے گئے ہیں ان میں ہی کافی اختلاف ہے یہودیوں سامریں اور مسیحیوں کی بائبل کے نسخو ںمیں اختلاف پایا جاتا ہے گو اصولی طور پر وہ متفق ہیں لیکن پھر بھی کافی اختلاف موجود ہے جب یہ اختلاف تاریخی زمانہ کا ہے تو خدا تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ عزرا نبی سے پہلے زمانہ میں کیا کیا دست بُرد یہودی کتب میں کر چکے ہونگے۔
اگر اس دست برد کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تب بھی میں کہتا ہوں کہ ان پیشگوئیوں کو دیکھتے ہوئے جو حضرت اسمٰعیل کے حق میں بائبل میں اس وقت تک موجود ہیں ہم جائز طو رپر کہہ سکتے ہیں کہ یہ جو بائبل میں لکھا ہے کہ ’’لیکن میں اسحاق سے جس کو سرہ دوسرے سال اسی وقت معین میں جنے گی اپنا عہد قائم کرونگا‘‘ (پیدائش باب ۱۷ آیت ۲۱) اس کے صرف یہ معنے ہیں کہ یہ عہد ابتداء اسحاق کی اولاد کے ذریعہ پورا ہونا شروع ہو گا چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ پہلے یہ عہد ایک لمبے عرصہ تک بنو اسحاق کے ذریعہ سے پورا ہوتا رہا پھر خدا تعالیٰ نے اسے بنو اسمٰعیل کی طرف منتقل کر دیا۔
اور اس امر کی وجہ کہ گو اسحاق چھوٹے تھے مگر خدا تعالیٰ کا عہد پہلے ان کی والاد کے ذریعہ سے پُورا ہونا شروع ہوا ہے یہ ہے کہ حضرت اسمٰعیل کی اولاد کو وہ نبوت ملنی تھی جو منسوخ نہ ہونے والی تھی اگر ان کے ذریعہ سے پہلے عہد پورا ہوتا تو بنو اسحاق نعمت سے بالکل محروم رہ جاتے پس اللہ تعالیٰ نے پہلے بنو اسحاق کو ایک لمبے عرصہ تک نبوت کے انعام سے حصہ دیا اس کے بعد بنو اسمٰعیل میں وہ نبی مبعوث فرما دیا جو خاتم النبین تھا اور جس کی شریعت کو کسی اور شریعت نے منسوخ نہ کرنا تھا بلکہ اس نے قیامت تک دُنیا پر حکومت کرنی تھی۔
اس امر کا قطعی ثبوت کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے جو عہد تھا اس میں حضرت اسمٰعیل ؑ کی اولاد بھی شامل تھی اس سے ملتا ہے کہ جس طرح عہد کا ظاہری نشان بندوں کی طرف سے ختنہ قرار دیا گیا تھا اسی طرح عہد کا ظاہری نشان خدا تعالیٰ کی طرف سے کنعان کی حکومت قرار دیا گیا تھا۔ بائبل کا حوالہ میں اوپر نقل کر آیا ہوں لیکن اس جگہ مضمون کو واضح کرنے کے لئے پھر لکھ دیتا ہوں لکھا ہے ’’اور میں اپنے اور تیرے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ان کے پشت در پشت کے لئے اپنا عہد جو ہمیشہ کا عہد ہو کرتا ہو ںکہ میں تیرا اور تیرے نسل کو کنعان کا تمام لک جس میں تو پردیسی ہے دیتا ہوں کہ ہمیشہ کہ لئے ملک ہو اور میں ان کا خدا ہونگا۔ پھر خدا نے ابراہام سے کہا کہ تو اور تیرے بعد تیری نسل پشت در پشت میرے عہد کو نگاہ رکھیں اور میرا عہد جو میرے اور تمہارے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ہے جسے تم یاد رکھو۔ سو یہ ہے کہ تم میں سے ہر ایک فرزند نرینہ کا ختنہ کیا جاوے اور تم اپنے بدن کی کھلڑی کا ختنہ کرو اور یہ اس عہد کا نشان ہو گا جو میرے اور تمہارے درمیان ہے‘‘۔ (پیدائش باب ۱۷ آیت ۷ تا ۱۱) اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ عہد خداوندی کے مادی حصہ کی دو شقیں تھیں ایک شق اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھتی تھی اور وہ آل ابراہیم ؑ کو کنعان کی بادشاہت دینے کا وعدہ تھا۔ اور دوسری شق آل ابراہیم سے تعلق رکھتی تھی اور وہ ختنہ کرانے کی رسم تھی خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا کہ ہمیشہ آل ابراہیم کے پاس کنعان رہے گا اور آل ابراہیم سے مطالبہ کیا کہ وہ بھی ہمیشہ نرینہ اولاد کا ختنہ کرائیں۔ ایک زمانہ وہ آیا کہ حدا تعالیٰ نے کنعان یہود سے لے کر میسحیوں کو دے دیا بوجہ اس کے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اسرائیلی نبی تھے اس وقت بھی پیشگوئی قائم رہی اور کنعان آل ابراہیم کے قبضہ میں ہی رہا لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے معاً بعد سے لے کر ۱۹۱۸ء؁ تک اندازاً تیرہ سو سال تک یہ ملک مسلمانوں کے پاس رہا اگر تو بنو اسمٰعیل آل ابراہیم کے وعدہ میں شامل نہ تھے او رپھر بھی یہ ملک تیرہ سو سال ان کے اتباع کے قبضہ میں رہا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیشگوئی قطعاً باطل ٹھہرتی ہے لیکن چونکہ خدا کی بات جھوٹی نہیں ہو سکتی ثابت ہوا کہ بنو اسمٰعیل عہد ابراہیم میں بنو اسحاق سے برابر کے شریک تھے۔
اس جگہ یہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کی اس فعلی شہادت سے یہ نتیجہ نکالا جائے کہ عہد ابراہیم میں بنو اسمٰعیل بھی شامل تھے اس وجہ سے ان کے قبضہ میں کنعان کا آنا عہد الٰہی کے پورا ہونے کے تسلسل میں تھا۔ تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ عہد الٰہی کا رُوحانی حصہ یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سے نبوت کا ملنا اور بندہ کی طرف سے ول کا ختنہ کرنا بھی بنو اسمٰعیل کے حق میں پورا ہونا ضروری تھا اور یہ ایفاء عہد خدا تعالیٰ او ربندہ کی طرف سے جہاں تک بنو اسمٰعیل کا تعلق ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں پورا ہوا اور نہ بنو اسمٰعیل میں سے کوئی اور ایسا وجود پیش کیا جائے جس کی ذات سے یہ وعدہ پورا ہوا ہو۔
تصدیق نمبر ۲
دوسری تصدیق قرآن کریم اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کلام کی کی۔
(۱) کتاب استثناء میں لکھا تھا ’’میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا۔ او رجو کچھ میں اسے فرمائوں گا وہ سب ان سے کہے گا اور ایسا ہو گا کہ جو کوئی میری باتو ںکو جنہیں وہ میرا نام لے کے کہے گا نہ سنے گا تو میں اس کا حساب اس سے لوں گا لیکن وہ نبی جو ایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا میں نے اسے حکم نہیں دیا یا اور معبودوں کے نام سے کہے تو وہ نبی قتل کیا جاوے‘‘ (استثناء باب ۱۸ آیت ۱۹ تا ۲۱) اس پیشگوئی میں خبر دی گئی تھی کہ (الف) آیندہ بنو اسرائیل کے بھائیوں میں سے یعنی بنو اسمٰعیل میں سے ایک نبی کھڑا کیا جائے گا (باء) وہ موسیٰ کی ماندن ہو گا یعنی صاحب شریعت ہو گا اور اس کے واقعات سے ملتے جلتے ہونگے (ج) اس کی زبان پر خدا تعالیٰ کا کلام جاری ہو گا یعنی اس کا الہام کل کا کل لفظی ہو گا یہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کے حکم کو اپنے الفاظ میں بیان کرے (د) وہ خدا تعالیٰ کے کلام کو نڈر ہو کر لوگوں کے سامنے بیان کرے گا اور سارا کلام الٰہی لوگوں کو سنائے گا (ہ) اور جو الہام سنائے گا خدا کا نام لے کر سنائے گا اورشرک کی تردید کرنے والا ہو گا (ر) اگر کوئی شخص اس پیشگوئی کا جھوٹا مصداق بننے کی کوشش کرے گا تو خدا تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ وہ ہلاک ہو جائْ (یاد رہے کہ انگریزی زبان میں اس جگہ یہ الفاظ ہیں He shall die یعنی وہ ہلاک ہو گا نہ کہ وہ قتل کیا جائے جیسا کہ اُردو میں ہے)
ان پیشگوئیوں کے مطابق (الف) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنو اسمٰعیل میں سے یعنی بنو اسرائیل کے بھائیوں میں سے ظاہر ہوئے۔
(باء) آپ نے مثیل موسیٰ ہونے کا دعویٰ کیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّآ اَرْسَلْنَآ اِلَیْکُمْ رَسُوْلًا شَاھِدًا عَلَیْکُمْ کَمَآ اَرْسَلْنَآ اِلیٰ فِرْعَوْنَ رَسُوْلًاo(مزمل ع ۱) ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھجوایا ہے جو تم پر گواہ ہے اسی طرح جس طرح ہم نے فرعون کی طرف ایک رسول بھجوایا تھا یعنی موسیٰ ؑ۔ آپؐ موسیٰ علیہ السلام کی طرح صاحب شریعت نبی تھے اور آپؐ کے حالات حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بڑی مشابہت رکھتے ہیں یعنی ایک کامل شریعت آپؐ کو دی گئی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح آپؐ سے وعدہ کیا گیا کہ آپؐ کی امت میں سے متواتر مجددین آتے رہیں گے اور یہ کہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کا آخری خلیفہ حضرت مسیح تھے اسی طرح قریباً اتنا ہی عرصہ بعد بانی سلسلہ احمدیہ مسیح موعود بن کر خدا تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہوئے (ج) آپ نے دعویٰ کیا کہ خدا تعالیٰ کا کلام آپ کی زبان پر جاری ہے یعنی اپنی وحی کے جو الفاظ آپ پیش کرتے ہیں وہ بعینہٖ وہ الفاظ ہیں جو آپ کے دل پر نازل ہوئے تمام گذشتہ نبیوں کی کتب کو پڑھ کر دیکھ لو ان میں خدا کا کلام کم اور بندہ کا زیادہ ہوتا ہے۔ انجیل میں تو شاید ایک دو فقرے ہی خدا کے ہیں باقی سب کچھ مسیح کا اپنا کلام یا انجیل کے داستان نویسوں کا نوشتہ ہے صرف قرآن کریم ہی وہ کتاب ہے کہ الف سے یاء تک خدا تعالیٰ کا کلام ہے۔
غرض میں اپنا کلام اس کے مُنہ میں ڈالوں گا سے یہی مُراد تھا کہ پہلے انبیاء کا سارا کلام لفظی نہ ہوتا تھا بلکہ اکثر حصہ ان کے دل پر بطور مفہوم نازل ہوتا یا بطور نظارہ دکھایا جاتا اور بعد میں وہ اسے اپنے الفاظ میں بیان کرتے۔ محمد رسول اللہ صلعم کی یہ خصوصیت اس پیشگوئی میں بتائی گئی کہ وہ خدا تعالیٰ کے مفہوم کو اپنے الفاظ میں بیان کرینگے اور جو الفاظ وہ اپنے منہ سے خدا تعالیٰ کا منشاء بتانے کے لئے نکالیں گے وہ خود خدا تعالیٰ ہی کے الفاظ ہونگے پس فرمایا کہ میں اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا یعنی باقی انبیاء کے تو دلو ںپر کلام نازل ہوتا تھا اور مُنہ تک آتے ہوئے وہ نبیوں کے کلام کے لباس میں ملبوس ہو جاتا تھا مگر محمد رسول اللہ صلعم کے دل پر بھی خدا تعالیٰ کا کلام اُتارا جائے گا اور منہ پر بھی وہی لفظ بعینہٖ جاری ہونگے جو خدا تعالیٰ نے کہے ہونگے اسی کی طرف قرآن کریم کی اس آیت میں اشارہ ہے کہ وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلَّا وِحْیٌ یُّوْحٰی (النجم ع ۱) محمد رسول اللہ اپنی مرضی سے خدا تعالیٰ کے منشاء کو الفاظ کا جامہ نہیں پہناتے بلکہ صرف وہی الفاظ وحی کے جو خدا تعالیٰ نے معین شکل میں ان کے دل پر نازل کئے ہیں دُنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں (د) آپؐ نے خدا تعالیٰ کے کلام کو نڈر ہو کر سنایا اور سارا کلام سنایا چنانچہ قرآن کریم کا وجود اس پر شاہد ہے شدید مخالفت آپؐ کی کی گئی اور کفار نے ہزار لالچ آپ کو دی کہ کسی طرح بعض حصے جو ان کے بتوں کے خلاف تھے حذف کر دیئے جائیں یا کمزور کر دیئے جائیں مگر آپؐ نے ذرا ان کی پروا نہیں کی اور خدا تعالیٰ کا کلام پورا کا پورا اصلی شکل میں لوگوں تک پہنچا دیا چنانچہ قرآن کریم میں اس کا ذکر یوں ہے فَلَعَلَّکَ تَارِکٌ بَعْضَ مَایُوْحٰی اِلَیْکَ وَضَآئِقٌ بِہٖ صَدْرَکَ اَنْ یَّقُوْ لُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ کَنْزً اَوْجَآئَ مَعَہٗ مَلَکٌ اِنَّمَا اَنْتَ نَذِیْرٌ وَاللّٰہُ عَلیٰ کُلِّ شَیْئٍ وَّکِیْلٌo (ہود ع ۲) یعنی تیرے مخالف اس امر کی طمع رکھتے ہیں کہ شائد ان کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر تو اس وحی میں سے جو تجھ پر نازل کی گئی ہے کچھ چھوڑ دے اور شائد کہ تیرا سینہ ان کے اس اعتراض سے ڈر کر کہ کیوں اس کے ساتھ خزانہ نہیں اترا یا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ آسمان سے تائید کے لئے نہیں آیا بعض حصہ وحی کا چھوڑ دے مگر ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ تو ایک ڈرانے والا ہے۔ ڈرانے والا ان لوگوں سے کس طرح ڈر سکتا ہے جن کے متعلق تباہی کی خبر دی گئی ہے اور اللہ تو ہر چیز پر نگران ہے پھر اس کے حکم سے کوئی باہر کیونکر نکل سکتا ہے (اس آیت کی پوری تفسیر کے لئے دیکھو نمبر ۱۲ سورۂ ہود) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اس امر پر شہادت دی اور لوگوں سے بھی دلوائی کہ آپؐ نے خدا تعالیٰ کا کلام سب کا سب دُنیا کو پہنچا دیا چنانچہ حجتہ الوداع کے موقعہ پر جب آپؐ کو یہ قرآنی وحی ہوئی کہ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ (مائدہ ع ۱) آج میں نے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے تو آپؐ نے تمام مسلمانوں کے سامنے دوبارہ مسلمانوں کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلائی اور پھر فرمایا اَللَّھُمَّ ھَکْ بَلَّغْتُ اے لوگو خدا تعالیٰ کو گواہ رکھ کر بتائو کیا میں نے خدا تعالیٰ کا حکم پوری طرح دنیا کو پہنچا دیا ہے یا نہیں؟ اس پر سب صحابہ یک زبان ہو کر بولے اَللّٰہُمَ نَعَمْ ہم اللہ تعالیٰ کو گواہ کر کے کہتے ہیں کہ آپ نے خدا تعالیٰ کا پیغام اچھی طرح پہنچا دیا ہے اس پر آپ نے فرمایا اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ۔ اے خدا تو اس پر گواہ رہ کہ یہ سب لوگ اس کی گواہی دیتے ہیں کہ تبلیغ کلام الٰہی کا کام میں نے پورا کر دیا۔ (سیرۃ ابن ہشام جلد سوم)
اس پیشگوئی کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ چونکہ موعود نبی خاتم النبین ہونے والا تھا اس پر جو دینی وحی ہو گی دُنیا کو پہنچانے کے لئے ہوگی تاکہ دین کا کوئی حصہ نامکمل نہ رہ جائے۔ اس سے پہلے کے نبیوں کا یہ حال نہ تھا ان پر دین کے بعض اسرار کھولے جاتے تھے مگر انھیں ان کے بتانے کی اجازت نہ ہوتی تھی کیونکہ ان کے زمانہ کے لوگ اس کے سمجھنے کے قابل نہ ہوتے تھے گو نبی کا ترقی یافتہ دماع اسے سمجھنے کے قابل نہ ہوتے تھے گو نبی کا ترقی یافتہ دماغ اسے سمجھنے کے قابل ہوتا تھا پس یہ کہنا کہ وہ نبی سب کچھ جو اسے کہا جائْ گا لوگوں سے کہہ دے گا اس کے یہ معنے ہیں کہ اس کے زمانہ میں انسانی دماغ مکمل ہو چکا ہو گا اور آخری اور کامل شریعت جو تمام اسرار روحانی پر مشتمل ہوگی اسے دیدی جائیگی اور اسے حکم دیا جائے گا کہ وہ اپنی امت کو سب باتیں سکھا دے کیونکہ وہ ان کے سننے کے اہل ہیں ان معنوں کی طرف انجیل میں بھی اشارہ ہے حضرت مسیح فرماتے ہیں ’‘میری اور بہت سی باتیں ہیں کہ میں تم سے کہوں۔ پر اب تم ان کی بردشات نہیں کر سکتے لیکن جب وہ یعنے روح حق آوے توب وہ تمہیں ساری سچائی کی راہ بتا دے گی۔‘‘ یوحنا باب ۱۶ آیت ۱۲ و ۱۳) اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیحؑ نے اپنی سب وحی لوگوں کو نہ سنائی کیونکہ وہ ان کے لئے خاص تھی ان کی امت اسے سمجھنے کے قابل نہ تھی لیکن انہوں نے یہ خبر دے دی کہ ان کے بعد ایک روح حق آئے گی وہ لوگوں کو سب باتیں سنا دیگی کیونکہ اس وقت لوگ سب باتوں کے سمجھنے کے قابل ہو جائیں گے گویا وہ روح حق خاتم النبین کے مقام پر فائز ہو گی۔
(ہ) پیشگوئی کا یہ حصہ کہ وہ آنے والا جو کچھ کہے گا خدا کا نام لے کر کہے گا اس طرح پورا ہوا ہے کہ قرآن کریم کی ہر سورۃ سے پہلے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ کی آیت رکھی گئی ہے جس کے معنے ہیں میں اللہ جو رحمن و رحیم ہے اس کا نام لے کر اس کلام کو پیش کرتا ہوں (د) پیشگوئی کا یہ حصہ کہ اس کے منکر ہلاک ہونگے جس شان سے محمد رسول اللہ صلعم کی نسبت پورا ہوا ہے اس کے دشمن بھی معترف ہیں گو وہ اسے دنیوی سامانوں کی طرف منسوب کرتے ہیں جو ایک خلافِ عقل و خلاف واقعہ اعتراض ہے (ر) پیشگوئی کا یہ حصہ کہ جو شخص اس پیشگوئی کا جھوٹا مصداق بنے گا اللہ تعالیٰ اسے ہلاک کر دے گا نہایت شان سے پورا ہوا باوجود اس کے کہ محمد رسول اللہ صلعم اکیلے تھے اور ان کے دشمنوں نے انہیں ہلاک کرنے کے لئے پورا زور لگایا وہ ہر میدان میں کامیاب ہوئے اور کوئی شخص انہیں نقصان نہ پہنچا سکا اور یہ امر اتفاقی طو رپر نہیں ہوا بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے پہلے سے کہدیا تھا اور دُنیا کو یہ حکم سنا دیا گیا تھا کہ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ (مائدہ ع ۱۰)
آپکا دشمنوں کے منصوبوں سے غیر معمولی طور پر محفوظ رہنا ایک ایسا نشان ہے کہ بہت سے سخت دشمنو ںکی ہدایت کا موجب ہوا ہے چنانچہ تاریخ کا مشہور واقعہ ہے کہ ہند ابو سفیان کی بیوی فتح مکہ کے بع دجب دوسری عورتوں سے مل کر بیعت کرنے کے لئے آئی اور آپ نے عورتوں سے اقرار لیا کہہم شرک نہیں کرینگی اس پر ہند جوش سے بول پڑی کہ کیا ہم اب بھی شرک کر سکتی ہیں حالانکہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ تو اکیلا تھا اور ہم لوگ ایک مضبوط جتھا تھے ہم نے اپنا سارا زور تجھے تباہ کرنے کے لئے خرچ کیا لیکن باوجود اس کے تجھے ہلاک نہ کر سکے اگر بتوں میں کوئی بھی طاقت ہوتی تو ہم تجھے تبہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے مگر نتیجہ الٹا نکلا ہم ہلاک ہوئے اور تو کامیاب (العروض الائف جلد دوم)
اب غور کرو کہ اگر بنو اسمٰعیل میں سے کوئی نبی شریعت کے ساتھ موسیٰ کے نقش قدم پر ظاہر نہ ہوتا اگر باوجود مخالفت کے وہ خدا کا کلام لوگوںکو نہ سناتا اور سب کا سب کلام نہ سناتا اور اس کے دشمن تباہ نہ ہوتے اور وہ باوجود شمنوں کے زور اور ان کی مخالفت کے کامیاب نہ ہوتا اور خدا تعالیٰ اس کے منہ میں اپنا کلام نہ ڈالتا تو موسیٰ ؑ کی پیشگوئی کس طرح پوری ہوتی اور اس کی سچائی کس طرح ثابت ہوتی پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی نے موسیٰ علیہ السلام کو جھوٹ کے الزام سے بچایا اور ان کی تصدیق کا موجب ہوئی۔
تصدیق نمبر ۳
موسیٰ علیہ السلام نے ایک اور پیشگوئی کی تھی کہ ’’اس نے کہا کہ خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر طلوع ہوا۔ فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا۔ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے داہنے ہاتھ ایک آتشی شریعت ان کے لئے تھی۔‘‘
(استثناء باب ۳۳ آیت ۲) اس پیشگوئی میں تین آسمانی نشانوں کا ذکر ہے ایک سینا سے خدا تعالیٰ کے جلوہ گر ہونے کی جس سے حضرت موسیٰ ؑ کی ترقی کی طرف اشارہ ہے دوسرے شعیر سے خدا تعالیٰ کے طلوع کی اس میں حضرت مسیح علیہ السلام کے ظہور کی خبر تھی جو شعیر کے علاقہ میں ظاہر ہوئے۔
تیسرے الٰہی جلوہ کے ظہور کا مقام فاران بتایا گیا ہے اور اس جلوہ کی تفصیل پہلے دونوں جلووں کی تفصیل پہلے دونوں جلووں سے زیادہ بیان کی گئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہاسی جلوہ کا ذکر اس جگہ اصل میں مقصود ہے۔ اس جلوہ کا مقام فاران بتایا گیا ہے اور اس جلوہ کے ظہور کی کیفیت یہ بیان کی گئی ہے کہ دس ہزار قدوسیوں کی معیت میں وہ وہ گا۔ اور اس کی مزید خصوصیت یہ بتائی گئی ہے کہ جس شخص کے ذریعہ سے وہ جلوہ ظاہر ہو گا اس کے داہنے ہاتھ میں ایک آتشی شریعت ہو گی۔ یہ تینوں نشانیاں تمام و کمال محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں پائی جاتی ہیں آپؐ قرآن کریم کی واضح پیشگوئیوں کے مطابق جب کفار مکہ پر غالب آ کر مکہ میں داخل ہوئے تو فاران کی طرف سے ہی آپؐ کا داخلہ ہوا کیونکہ مدینہ اور مکہ کے درمیان میں فاران کی وادی واقع ہے اور جس وقت آپ مکہ پر حملہ آور ہوئے آپ کے ساتھ دس ہزار صحابہ کا لشکر تھا اور آپ ایک آتشی شریعت دُنیا کے لئے لائے تھے یعنی جو اللہ تعالیٰ کی محبت سے انسان کی بدیو ںاور اس کے گناہوں کو جلا دینے والی ہے اور اس لحاظ سے بھی وہ آتشی شریعت ہے کہ اس میں نہ صرف ماننے والوں کے لئے انعامات کے وعدے ہیں بلکہ منکرو ںاور شریروں کے لئے سزائوں کا بھی ذکر ہے۔
اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظاہر نہ ہوتے انھیں مدینہ منورہ کی طرف ہجرت نہ کرنی پڑتی۔ اور پھر خدا تعالیٰ آپؐ کو دشمنوں پر غلبہ نہ دیتا آپؐ کے ہاتھ پر مکہ فتح نہ ہوتا آپؐ کیس اتھ اس وقت دس ہزار صحابہ نہ ہوتے آپؐ کے ہاتھ میں ایک کامل شریعت جو صرف مومنوں کے لئے ترقی کی خبر دینے والی نہ تھی بلکہ دشمنانِ حق کی سزائوں کی خبروں پر بھی مشتمل تھی نہ ہوتی تو استثناء باب ۳۳ آیت ۲ کی پیشگوئی کس طرح پوری ہوتی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وحی کی تصدیق کس طرح ہوتی پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی اس پیشگوئی کو پورا کرنے اور اسے سچا ثابت کرنے کا موجب ہو کر مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ ثابت ہوئی۔
تصدیق نمبر ۴
تصدیق نمبر ۴ حضرت سلیمان علیہ السلام کے الہام کی ہے حضرت سلیمان علیہ السلام غزل الغزلات میں فرماتے ہیں۔ ’’میرا محبوب سرخ و سفید ہے۔ دس ہزار آدمیو ںکے درمیان وہ جھنڈے کی مانند کھڑا ہوتا ہے اور اس کا سر ایسا ہے جیسا چوکھا سونا اس کی زلفیں پیچ در پیچ ہیں اور کوے کی سی کالی ہیں اس کی آنکھیں ان کبوتروں کی مانند ہیں جو لب دریا دودھ میں نہا کے تمکنت سے بیٹھے ہیں اس کے رخسارے پھولوں کے چمن اور بلسان کی اُبھری ہوئی کیاری کی مانند ہیں اس کے لب سوسن ہیں جن سے بہتا ہوا امر ٹپکتا ہے اس کے ہاتھ ایسے ہیں جیسے سونے کی کڑیاں جن میں ترسیس کے جواہر جڑے گئے اس کا پیٹ ہاتھی دانت کا سا کام ہے جس پر نیلم کے گل بنے ہوں۔ اس کے پیر ایسے جیسے سنگ مرمر کے ستون جو سونے کے پایوں پر کھڑے کئے جاویں اس کی قامت لبنان کی سی وہ خوبی میں رشک سروہے اس کا منہ شیرینی ہے ہاں وہ سراپا عشق انگیز ہے۔ اے یروشلم کی بیٹیوں یہ میرا پیارا یہ میرا جانی ہے‘‘ (غزل الغزلات باب ۵ آیت ۱۰ تا ۱۶) اس پیشگوئی میں حضرت سلیمان علیہ السلام نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ بتایا ہے جو تاریخ سے سرخ و سفید ثابت ہے پھر فتح مکہ کا نقشہ کھینچا ہے اور بتیا ہے کہ آپؐ دس ہزار آدمیوں کے ساتھ فتح مندانہ اپنے ملک کو واپس آئینگے یہ دس ہزار آدمی وہی دس ہزار قدوسی ہیں جن کا ذکر استثناء باب ۳۳ کی پیشگوئی میں تصدیق نمبر ۳ میں گزر چکا ہے پھر آخر میں آپ کا نام بھی بتا دیا ہے یعنی محمد اس نام کو چھپانے کے لئے بائبل کے مترجموں نے اُردو میں عشق انگیز کے الفاظ لکھ دیئے ہیں لیکن عبرانی زبان کے اصل الفاظ جو اس جگہ ہیں اُن کا اردو ترجمہ یوں ہے ’’ہاں وہ محمدیم ہے محمدیم میں ی اور م ادب کیلئے بڑھائے گئے ہیں جیسے الوہ جس کے معنے خدا کے ہیں اسے بائبل میں بہت جگہ الوھیم لکھا جاتا ہے پس ہاں وہ محمدیم کے معنے ہیں ہاں وہ بزرگ محمد ہے چنانچہ اس پیشگوئی کی وجہ سے یہ دیکھتے ہوئے کہ کئی نشانات ظہور محمد کے ظاہر ہو چکے ہیں لوگ اپنے بچوں کے نام محمد رکھنے لگ گئے تھے چنانچہ مدینہ میں بھی کئی ایک شخص کا نام ان کے والدین نے محمد رکھے ہوئے تھے چنانچہ ان میں سے ایک محمد بن احیحہ بھی تھے جو صحابہ میں شمار ہوتے ہیں (اسد الغابہ جلد ۴) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی نے اس پیشگوئی کی بھی تصدیق کی۔ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر خدا تعالیٰ کا کلام نہ اُترتا تو سلیمان علیہ السلام کی یہ پیشگوئی جھوٹی جاتی۔
تصدیق نمبر ۵
’’وہ کس کو دانش سکھاوے گا کس کو وعظ کر کے سمجھاوے گا۔ ان کو جن کا دودھ چڑھایا گیا۔ جو چھاتیوں سے جدا کئے گئے۔ کیونکہ حکم پر حکم۔ حکم پر حکم۔ قانون پر قانون قانوں پر قانون ہوتا جاتا۔ تھوڑا یہاں۔ تھوڑا وہاں۔ ہاں وہ وحشی کے سے ہونٹھوں اور اجنبی زبان سے اس گروہ کے ساتھ باتیں کرے گا۔ کہ اس نے اُن سے کہا کہ یہ وہ آرام گاہ ہے تم ان کو جو تھکے ہوئے ہیں آرام دیجیء اور یہ چین کی حالت ہے پردے شنوانہ ہوئے سو خدا کا کلام ان سے یہ ہو گا حکم پر حکم حکم پر حکم۔ قانون پر قانون۔ قانون پر قانون۔ تھوڑا یہاں تھوڑا وہاں۔ تاکہ دے چلے جاویں۔ اور پچھاڑی گریں اور شکست کھاویں اور دام میں پھنیں اور گرفتار ہوویں (یسعیاہ باب ۲۸ آیت ۹ تا ۱۳) اس پیشگوئی سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام ایک زمانہ میں (۱) اسی قوم کے پاس آئے گا جو الہام کے دودھ سے محروم کر دی گئی اور جو اپنی والدہ سے جدا کئے گئے یعنی نبوت پانے کے بعد اس سے محروم کر دیئے گئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی وقت آئے جب نبوت پر ایک لمبا عرصہ گزر گیا تھا اور آپ نے بنی اسرائیل کو بھی مخاطب کیا جو الہام کے دودھ سے محروم کر دیئے گئے تھے اور نبوت کی چھاتیوں سے جدا کر دیئے گئے تھے۔ قرآن کریم میں آتا ہے یٰٓاَ ھْلَ الْکِتٰبِ قَلجَآئَ کُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ عَلیٰ فَتْرَۃٍ مِّنَ الرُّسُلِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا جَآئَ نَا مِنْ بَشِیْرٍ وَّلَا نَذِیْرٍ فَقَدْ جَآئَ کُمْ بَشِیْرٌ وَّ نَذِیْرٌ وَاللّٰہُ عَلیٰ کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌo (مائدہ ع ۳) یعنی اے اہل کتاب تمہارے پاس ہمارا رسول آیا ہے رسولوں کے ناغہ کے بعد وہ تمہارے فائدے کی باتیں بیان کرتا ہے تایہ نہ کہو کہ ہمارے پاس تو نہ کوئی خوشخبری دیے والا آیا نہ ڈرانے والا پس خوب سن لو کہ تمہارے پاس اب ایک خوشخبری دینے والابھی اور ڈرانے والا بھی آ گیا ہے۔ اور اللہ ہر امر پر خوب قادر ہے غرص اسی آیت میں یسعیاہ نبی کے ان الفاظ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ’’وہ کس کو دانش سکھائے گا کس کو وعظ کر کے سمجھا ویگا ان کو جن کا دودھ چھڑایا گیا جو چھاتیوں سے جدا کئے گئے‘‘ (۲) دوسرے وہ کلام جو اس قوم کے لئے نازل ہو گا یکدم نازل نہ ہو گا نہ کسی ایک شہر میں نازل ہو گا بلکہ حکم پر حکم اور قانون پر قانون مختلف مقامات پر اُترینگے۔ قرآن کریم اسی طرح اُترا کچھ مکہ میں کچھ مدینہ میں کچھ سفروں میں حتٰی کہ دشمنوں نے اعتراض کیا کہ لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْآنُ جُمْلَۃً وَّاحِدۃً (فرقان ع ۳) یعنی کیوں محمدیہؐ پر سارا قرآن ایک ہی دفعہ نہ اُترا۔ اور باوجود یسعیاہ نبی کی پیشگوئی کے مسیحی لوگ آج تک قرآن کریم پر یہ اعتراض کرتے جاتے ہیں اور اس طرح اپنی قلموں سے اس امر کا ثبوت مہیا کر رہے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یسعیاہ نبی کی پیشگوئی کے مصداق تھے (۳) تیسرے وہ کلام ایک عرب کی زبان سے نایا جائے گا اور غیر زبان یعنی عربی زبان میں سنایا جائے گا کیونکہ وحشی کا لفظ عرب پر دلالت کرتا ہے اوپر پیدائش باب ۱۶ آیت ۱۲ کا حوالہ دیا جاچ کا ہے جس میں حصرت ہاجرہ کو اللہ تعالیٰ نے حصرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش کی خبر دی تھی اس میں لکھا تھا ’’وہ (یعنی اسماعیل) وحشی آدمی ہو گا۔ پس وحشی حضرت اسماعیل ؑ کا نام ہے جو بائبل میں آتا ہے اور در حقیقت عرب کا ترجمہ ہے جو تعصب کی وجہ سے بنو اسرائیل نے وحشی کے لفظ سے کیا ہے ع ر ب کے معنے عربی زبان میں اظہار کے ہوتے ہیں اور عبر عربو ںکا نام اسی لئے ہے کہ وہ خیموں میں رہتے تھے ادب کے دلدادہ تھٖے اور نہاتی فصیح بلیغ کلام کرتے تھے خیموں اور بادیہ میں رہنپے کی وجہ سے ان کے مخالف بجائے خیموں میں رہنے والوں کے انہیں وحشی کہتے تھے بائبل نے بھی یہی طریق اختیاء کیا اور جہاں حضرت اسماعیل کا ذکر آیا وہاں بھی انہیں وحشی کے لفظ سے یاد کیا ہے۔ اور جہاں ان کی اولاد میں سے آنے والے نبی کی ذکر آیا وہاں بھی بجائے یوں کہنے کے کہ وہ اسماعیل کی اولاد میں سے ہو گا یہ لکھ دیا کہ وہ وحشی کے ہونٹوں سے کلام کرے گا گو قرآن کریم عربی زبان میں ہے اور ہر اک کو نظر آتا ہے اس کے بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی مگر پھر بھی یسعیاہ نبی کی اس پیشگوئی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے قرآن کریم فرماتا ہے وَمِنْ قَبْلِہٖ کِتَابٌ مُوْسٰٓی اِمَا مًا وَّ َرحْمَۃً وَ ھٰذَا کِتَابٌ مُصَدِّقٌ لِّسَانًا عَرَبِّیًا لِّیُنْذِرَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا وَ بُشْرٰی لِلْمُحْسِنِیْنَo(احقاف ع ۲) یعنی اس قرآن سے پہلے موسیٰ کی کتاب گذر چکی ہے یہ قرآن اس کی پیشگوئیوں کو پورا کرنے والا ہے چنانچہ انہی پیشگوئیوں کے مطابق یہ عربی زبان میں اُترا ہے تاکہ ظالموں کو ڈرائے اور محسنوں کو بشارت دے اس جگہ قرآن کریم کا عربی زبان میں ہونا موسوی کتب کی تصدیق کا موجب قرار دیا ہے اس سے اشارہ کتاب پیدائش کی اس پیشگوئی کی طرف ہے جس میں حضرت اسماعیل کو وحشی یعنی عرب قرار دیا گیا ہے اور دوسرے استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸ کی اس پیشگوئی کی طرف جس میں کہا گیا تھا کہ آیندہ شریعت والا کلام بنو اسحاق میں سے کسی فرد پر نہیں بلکہ ان کے بھائی بنو اسماعیل پر اُتارا جائْ گا اور ضممناً حضرت یسعیاہ کی پیشگوئی کی طرف بھی اشارہ ہو گیا جو حضرت موسیٰ کے تابع نبی تھے اور جن کی مذکورہ بالا پیشگوئی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب میں بیان شدہ پیشگوئی کی مزید وضاحت تھی (۴) چوتھے یہ بتایا گیا تھا کہ وہ نبی یہود سے کہے گا کہ اس کا جائے رہائش آرامگاہ یعنی امن کا مقام ہے پس تم اُن کو جو تھکے ہوئے ہیں آرام دیجیو۔ اس طرح تم چین سے رہو گے مگر یہود نبی کی است بات کو نہ مائینگے اور اسجگہ کو آرامگاہ نہ بننے دینگے اور تھکے ہوئوں کو تکلیف دیں گے یہ امر بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ پر صادق آتا ہے آپؐ نے مدینہ منورہ کو جہاں یہود بھی رہتے تھے مکہ مکرمہ کی طرح امن کی جگہ قرار دیا اور یہود سے مدینہ منورہ کو با امن رکھنے کے لئے معاہدہ کیا (سیرت حلبیہ جلد ۲) لیکن انھوں نے تھکے ہوئوں کو یعنی مہاجرین کو جو دُور سے سفر کر کے آئے تھے آرام سے نہ رہنے دیا اور مطابق پیشگوئی خود بھی چین نہ پایا (۵) پانچویں اس پیشگوئی میں تھا۔ حکم پر حکم نازل ہو گا ’’تاکہ دے چلے جاویں اور پچھاڑی گریں اور شکست کھاویں اور دام میں پھنسیں اور گرفتار ہوویں‘‘۔ یہ پیشگوئی بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں پوری ہوئی۔ یہود نے جب تھکے ہوئوں کو آرام میں نہ رہنپے دیا تو وہ چلے بھی گئے یعنی کچھ ان میں سے مدینہ سے جلاوطن کئے گئے وہ ’’پچھاڑی بھی گرے‘‘ یعنی بعض قتل بھی کئے گئے انہوں نے شکست بھی کھائی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور دام میں پھنسے اور گرفتار بھی ہوئے بعض ان میں سے غلام بھی بنائے گئے۔
یہ کیسی واضح پیشگوئی ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے پوری ہوئی اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ کتاب عَرَبِّیٌ مُّبِیْنٌ نازل نہ ہوتی اور یسعیاہ نبی کی پیشگوئی کی اس طرح تصدیق نہ ہوتی تو یسعیاہ جھوٹے قرار پاتے لیکن قرآن کریم کے ذریعہ سے ان کی پیشگوئی پوری ہو کر ان کے کلام کی تصدیق ہو گئی۔
تصدی نمبر ۶
یہی یسعیاہ نبی فرماتے ہیں ’’باوجود اس کے خداوند یہودا یوں فرماتا ہے دیکھو میں صیحون میں بنیاد کے لئے ایک پتھر رکھونگا ایک آزمایا ہوا پتھر کونے کے سرے کا ایک مہنگ مولا ایک مضبوط نیو والا پتھر اس پر جو ایمان لاوے اتاولی نہ کرے گا ‘‘ (یسعیاہ باب ۲۸ آیت ۱۶) حضرت دائود علیہ السلام فرماتے ہیں وہ پتھر جسے معماروں نے رد کیا کونے کا سرا ہو گیا ہے یہ خداوند سے ہوا جو ہماری نظروں میں عجیب ہے‘‘ (زبور ۱۱۸۔ آیت ۲۲ و ۲۳) پھر فرماتے ہیں ’’مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام سے آتا ہے ہم خداوند کے گھر میں سے تم کو مبارک بادی دیتے ہیں‘‘ (آیت ۲۶) پھر اسی بارہ میں دانیال علیہ السلام پر الہام نازل ہوا اس کا قصہ یوں ہے کہ بنو کد نضر بادشاہ نے ایک خواب دیکھا جسے وہ بھول گیا اس نے اپنے منجموں سے اس کا حال پوچھا مگر انہوں نے بھولی ہوئی خواب کی تعبیر بتانے سے معذوری ظاہر کی اس پر بادشاہ نے ان کے قتل کا حکم دیا دانیال نبی جو یروشلم سے لائے ہوئے قیدیوں میں سے تھے انہوں نے یہ حال سنا تو اللہ تعالیٰ سے دُعا کی اور اس نے ان کو خواب اور اس کی تعبیر بتا دی اس پر انہوں نے بادشاہ سے خواب اور اس کی تعبیر بتانے پر آمادگی ظاہر کی اور مندرجہ ذیل الفاظ میں خواب اور اس کی تعبیر بتائی ’’تو نے اے بادشاہ نظر کی تھی اور دیکھ ایک بڑی مورت تھی وہ بڑی مورت جس کی رونق بے نہایت تھی تیرے سامنے کھڑی ہوئی اور اس کی صورت ہیبت ناک تھی اس مور ت کا سر خالص سونے کا تھا اس کا سینہ اور اس کے بازو چاندی کا۔ اس کا شکم اور رانیں تانبے کی تھیں اس کی ٹانگیں لوہے کی۔ اور اس کے پائوں کچھ لوہے کے اور کچھ مٹی کے تھے اور تو اسے دیکھتا رہا یہاں تک کہ ایک پتھر بغیر اس کے کہ کوئی ہاتھ سے کاٹ کے نکالے آپ سے نکلا جو اس شکل کے پائوں پر جو لوہے اور مٹی کے تھے لگا اور انہیں ٹکڑے ٹکڑے کیا۔ تب لوہا اور مٹی اور تانبا اور چاندی اور سونا ٹکڑے ٹکڑے کیا۔ تب لوہا اور ٹی اور تانبا اور چاندی اور سونا ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اور تابستانی کھلیان کی بھوسی کے مانند ہوئے اور ہوا انہیں اُڑا لے گئی یہاں تک کہ ان کا پتہ نہ ملا اور وہ پتھر جس نے اس مورت کو مارا ایک بڑا پہام بن گیا اور تمام زمین کو بھر دیا وہ خواب یہ ہے اور اس کی تعبیر بادشاہ کے حضور بیان کرتا ہوں تو اے بادشاہ بادشاہوں کا بادشاہ ہے اس لئے کہ آسمان کے خدا نے تجھٖے ایک بادشاہت اور توانائی اور قوت اور شوکت بخشی ہے اور جہاں کہیں بنی آدم سکونت کرتے ہیں اس نے میدان کے چوپائے اور ہوا کے پرندے تیرے قابو میں کر دیئے اور تجھے ان سبھوں کا حاکم کیا۔ تو ہی وہ سونے کا سر ہے اور تیرے بعد ایک اور سلطنت برپا ہو گی جو تجھ سے چھوٹی ہو گی اور اس کے بعد ایک اور سلطنت تانبے کی جو تمام زمین پر حکومت کریگی اور چوتھی سلطنت لوہے کی مانند مضبوط ہو گی اور جس طرح کہ لوہا توڑ ڈالتا ہے اور سب چیزوں پر غالب ہوتا ہے ہاں لوہے کی طرح سے جو سب چیزوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرتا ہے اسی طرح وہ ٹکڑے ٹکڑے کرے گی اور کچل ڈالے گی اور جو کہ تُو نے دیکھا کہ اس کے پائوں اور انگلیاں کچھ تو کمہار کی ماٹی کی۔ اور کچھ لوہے کی تھیں سو اس سلطنت میں تفرقہ ہو گا۔ مگر جیسا کہ تو نے دیکھا کہ اس میں لوہا گلاوے سے ملا ہوا تھا۔ سو لوہے کی توانائی اس میں ہو گی اور جیسا کہ پائوں کی انگلیاں کچھ لوہے کی اور کچھ ماٹی کی تھیں۔ سو وہ سلطنت کچھ قوی کچھ ضعیف ہو گی اور جیسا تو نے دیکھا کہ لوہا گلاوے سے ملا ہوا ہے وے اپنے آپ کو انسان کی نسل سے ملا دینگے لیکن جیسا لوہا مٹی سے میل نہیں کھاتا تیساوے باہم میل نہ کھاوینگے اور ان بادشاہوں کے ایام میں آسمان کا خدا ایک سلطنت برپا کرے گا جو تا ابد نیست نہ ہو ویگی اور ان سب مملکتو ںکو ٹکڑے ٹکڑے اور نیست کرے گی اور وہی تا ابد قائم رہے گی جیسا کہ تو نے دیکھا کہ وہ پتھر بغیر اس کے کہ کوئی ہاتھ سے اس کو پہام سے کاٹ نکالے آپ سے نکلا اور اس نے لوہے اور تانبے اور مٹی او رچاندی اور سونے کو ٹکڑے ٹکڑے کیا خدا تعالیٰ نے بادشاہ کو وہ کچھ دکھایا جو آگے کو ہونے والا ہے اور یہ خواب یققینی ہے اور اس کی تعبیر یقینی‘‘ (دانیال باب ۲ آیت ۳۱ تا ۴۵) ان تین انبیاء کی بتائی ہوئی خبر سے معلوم ہوتا ہے کہ آخری زمانہ میں ایک روحانی بادشاہ کا ظہور ہونے والا تھا جس نے کونے کے پتھر کی حیثیت پانی تھی یعنی وہ روحانی سلسلہ کا آخری وجود ہونے والا تھا۔ وہ پتھر بڑا قیمتی ہو گا مضبوط نے والا۔ جو اس پر ایمان لائینگے صاحب وقار ہونگے اور جلد باز نہ ہوں گے وہ پتھر ایسا ہو گا جسے معماروں نے رد کیا ہوا ہو گا وہ زبردست بادشاہوں کو کچل ڈالے گا وہ ان گھڑ پتھر ہو گا اور کسی انسان کے ہاتھ نے اسے نہ گھڑا ہو گا۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی اس پیشگوئی کا ذکر کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں۔ ’’ایک اور تمثیل سنو۔ ایک گھر کا مالک تھا جس نے انگورستان لگایا اور اس کی چاروں طرف روندھا اور اس کی بیچ میں کھود کے کو لہوگاڑ اور برج بنایا اور باغبان کو سونپ کے آپ پردیس گیا اور جب میوہ کا موسم قریب آیا اس نے اپنے نوکروں کو باغبانوں پاس بھیجا کہ اس کا پھل لادیں پر ان باغبانو ںنے اس کے نوکروں کو پکڑ کے ایک کوپیٹا اور ایک کو مار ڈالا اور ایک کو پتھرائو کیا۔ پھر اس نے اور نوکروں کو جو پہلوں سے بڑھ کے تھے بھیجا انہوں نے ان کے ساتھ بھی ویسا ہی کیا آخر اس نے اپنے بیٹے کو ان کے پاس یہ کہہ کر بھیجا کہ وے میرے بیٹے سے دبیں گے لیکن جب باغبانوں نے بیٹے کو دیکھا آپس میں کہنے لگے وارث یہی ہے آئو اسے مار ڈالیں کہ اس کی میراث ہماری ہو جائے اور اسے پکڑ کے اور انگورستان کے باہر لے جا کر قتل کیا جب انگورستان کا مالک آوے گا تو ان باغبانوں کے ساتھ کیا کرے گا وے اے بولے ان بدوں کو بری طرح مار ڈالے گا اور انگورستان کو اور باغبانوں کو سونپے گا جو اسے موسم پر میوہ پہنچاویں یسوع نے انہیں کہا کیا تم نے نوشتوں میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو راج گیروں نے ناپسند کیا وہی کونے کا سرا ہوا یہ خداوند کی طرف سے ہے اور ہماری نظروں میں عجیب اس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہت تم سے لے لی جائے گی اور ایک قوم کو جو اس کے میوہ لا دے دی جائیگی‘‘۔ (متی باب ۲۱ آیت ۳۳ تا ۴۳) اس حوالہ میں حضرت مسیح علیہ السلام نے ایک تمثیل دی ہے اور بتایا ہے کہ بنی اسرائیل نے بہت سے نبیوں کا انکار کیا آخر خدا تعالیٰ نے ایک ایسے نبی کو بھیجا جو خدا تعالیٰ کا بیٹا کہلائے گا یعنی خود مسیح علیہ السلام لیکن بنی اسرائیل ان کا بھی انکار کریں گے اور انہیں قتل کریں گے یعنی قتل کرنے کی کوشش کرینگے جیسا کہ دوسرے حوالوں سے جو اپنے وقت پر بیان ہونگے ثابت ہے) اس پر ایک ایسا نبی آئے گا جو خدا تعالیٰ کا ظہور کہلائے گا اور وہ کونے کا پتھر ہو گا اس کی آمد پر بنی اسرائیل کو مکمل سزا دی جائے گی اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت ایک ایسی قوم کے سپرد کی جائے گی جو خدا تعالیٰ کو وقت پر میوہ پہنچائیں گے یعنی خدا تعالیٰ کے احکام کو پوری طرح بجا لائیں گے وہ پتھر اس شان کا ہو گا جس پر وہ گرے گا اسے پیس ڈالے گا اور جو اس پر گرے گا وہ بھی چور چور ہو گا۔
یہ پیشگوئیاں جن کے بیان کرنے میں چار نبیوں نے حصہ لیا ہے یعنی دائود۔ یسعیاہ دانیال اور حضرت مسیحؑ ایسی واضح طور پر رسوال کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پوری ہوتی ہیں کہ سوائے تعصب سے اندھے شخص کے کوئی ان کا انکار نہیں کر سکتا آپ بنو اسماعیل میں سے تھے جن کو بنو اسحاق نے ہمیشہ رد کیا اور ابراہیم ؑ کی برکتوں سے ہمیشہ محروم رکھنے کی کوششیں کیں آپ نے خود دعویٰ فرمایا کہ میں کونے کا پتھر ہوں چنانچہ آپ فرماتے ہیں مَثَلِیْ وَمَثَلُ الْاَنْبِیَآئِ کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنٰی بُنْیَانًا فَاَ حْسَنَہٗ وَاَجْمَلَہٗ فَجَعَلَ النَّاسُ یُطِیْفُوْنَ بِہٖ یَقُوْلُوْنَ مَارَئَ یْنَا بُنْیَانًا اَحْسَنَ مِنْ ھٰذَا اِلَّا ھٰذِہِ اللَّبِنَۃَ فَکُنْتُ اَنَا تِلْکَ اللَّبِنَۃَ (مسلم جلد ۴ کتاب الفضائل) یعنی میرا اور دوسرے انبیاء کا حال یُوں ہے کہ جیسے کسی نے ایک عمدہ اور خوبصورت محل تیار کیا پھر لوگ کثرت سے اسے دیکھنے کے لئے آنے لگے اور کہتے تھے کہ ہم نے اس سے عمدہ محل کوئی نہیں دیکھا ہاں یہ کونہ اس کا ننگا ہے پھر خدا تعالیٰ نے مجھے مبعوث کیا اور میں وہ کونے کا پتھر ہوں۔ آپؐ کا وجود نہایت قیمتی وجود تھا اور آپ کی بنیاد مضبوط جیسا کہ واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ باوجود دُنیا کی شدید مخالفت کے تیرہ سو سال سے آپؐ کے مقام کو کوئی نہیں ہلا سکا۔ آپؐ کے صحابہ مسیح کے حواریوں کی طرح جلد بازی کرنے والے نہ تھے بلکہ نہایت صاحبِ وقار تھے مسیح کے حواریوں کا تو یہ حال تھا کہ جب مسیحؑ کو رومی سلطنت نے پکڑا تو وہ ان کا انکار کر بیٹھے اور تتر بتر ہو گئے (متی باب ۲۶ آیت ۵۶۔ ۷۰۔ ۷۲۔ ۷۴) مگر آپؐ کے صحابہ نے خطرناک مواقع پر کہا کہ یا رسول اللہ ہم آپ کے دائیں بھی لڑینگے بائیں بھی اور آگے بھی لڑینگے پیچھے بھی اور دشمن آپؐ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے قرآن کریم ان کی شان میںفرماتا ہے وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا وَّ اِذَا خَا طَبَھُمُ الْجَا ھِلُوْنَ قَالُوْا سَلَامًا (فرقان ع ۶) یعنی محمد رسول اللہ پر ایمان لانے والے اللہ کے بندے ایسے ہیں کہ زمین پر بڑے اطمینان سے چلتے ہیں اور جلد بازی سے کام نہیں لیتے اور جب جاہل لوگ ان کو گالیاں دیتے ہیں تو وہ غصہ میں آ کر گالیاں نہیں دیتے بلکہ کہتے ہیں کہ ہم تو تمہاری سلامتی چاہتے ہیں پھر فرماتا ہے وَ اِذَا مَرُّوْا بِا للَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا (فرقان ع ۶) یعنی جب وہ لہو ولعب کے امور کے مواقع کے پاس سے گزرتے ہیں تو دنیوی لذات سے متاثر ہو کر ان میں شامل نہیں ہو جاتے جیسے کہ مسیح کی اُمت ہے کہ ذکر الٰہی کو بُھول کر ناچ گانے اور موسیقی میں مشغول ہو گئی ہے بلکہ وہ اپنے نفس پر قابو رکھتے ہوئے اُخروی زندگی کی طرف جس کے پھل دیر سے ملتے ہیں آگے بڑھ جاتے ہیں۔
پھر اس کونے کے پتھر کی شان یہ بتائی تھی کہ اس کا آنا خدا تعالیٰ کا آنا کہلائے گا اور وہ خدا تعالیٰ کے نام پر آئے گا۔ مسیح علیہ السلام نے اس کی مزید تشریح یہ کر دی ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کے نام پر آنے والا خدا کا بیٹا کہلانے والے کے بعد آئے گا چنانچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مسیح علیہ السلام کے بعد تشریف لائے اور آپ کا آنا خدا کا آنا کہلایا۔ چنانچہ آپؐ کی نسبت قرآن کریم میں آتا ہے۔ اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَا یِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَا یِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ (فتح ع ۱) یعنی وہ لوگ جو تیرے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں وہ اللہ کی بیعت کرتے ہیں تیرا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہوتا ہے۔
ان الفاظ میں کہ آپ کا آنا خدا کا آنا ہے اس طرف بھی اشارہ ہے کہ آپ مثیل موسیٰ ہونگے کیونکہ حضرت موسیٰ کی نسبت آتا ہے کہ وہ خدا کی مانند تھا۔ چنانچہ خروج باب ۷ آیت ۱ میں ہے کہ ’’پھر خداوند نے موسیٰ سے کہا۔ دیکھ میں نے تجھٖے فرعون کے لئے خدا سا بنایا‘‘ پس خدا کے مانند ہونے کے معنے دوسرے لفظوں میں یہ ہیں کہ وہ مثیل موسیٰ ہو گا اور اس طرح گویا استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸ کی پیشگوئی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
پھر اس پیشگوئی میں ہے کہ وہ پتھر جس پر گرے گا اسے پیش ڈالے گا اور جو اس پر گرے گا چور چور ہو گا سو ایسا ہی آپ سے ہوا۔ باوجود انتہائی غربت اور کمزوری کے ساری قوموں سے آپؐ کی لڑائی ہوئی اور آپؐ کامیاب رہے حضرت مسیح علیہ السلام نے تو آپؐ کی جنگوں کا نقشہ ہی کھینچ دیا ہے یعنی فرماتے ہیں۔ ’’جو اس پتھر پر گرے گا وہ چور ہو جائے گا پر جس پر وہ گرے گا اسے پیس ڈالے گا‘‘ یعنی اس کی جنگوں کی یہ کیفیت ہو گی کہ پہلے دشمن اس پر حملہ کرے گا اور سخت نقصان اٹھاتا رہے گا بعد میں وہ دشمن پر حملہ کرے گا اور اسے تباہ کر دے گا اسی طرح آپ سے ہوا کہ پہلے آپ کے دشمن آپ پر حملہ کرتے رہے اور چور ہوتے رہے بعد میں آپ نے حملہ کیا اور ان کی شوکت کو بالکل توڑ دیا۔ دانیال نبی نے یہ خبر بھی دی تھی کہ اس کی جنگ اپنی ہی قوم سے نہ ہو گی بلکہ اس کے زمانہ کی زبردست حکومتوں سے بھی ہو گی اور وہ بھی اس کے ہاتھوں تباہ ہونگی چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں آپ کی پیشگوئی کے مطابق قیصر کی حکومت تباہ ہوئی دانیال نبی نے اس حکومت کے مذہب کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے فرماتے ہیں ’’اور جیسا تو نے دیکھا کہ لوہا گلاوے سے ملا ہوا ہے وے اپنے کو انسان کی نسل سے ملا دیں گے لیکن جیسے لوہا مٹی سے میل نہیں کھاتا تیسا وے باہم میل نہ کھائیں گے‘‘ (دانیال باب ۲ آیت ۴۳) اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ وہ قوم ایک ایسے مذہب سے وابستہ ہو گی جس میں داخل ہونے کا اسے حق نہ ہو گا کیونکہ یہ فرمانا کہ وہ قوم اپنے آپ کو انسان کی نسل سے ملاویگی۔ اس سے یہ مراد تو نہیں ہوسکتی کہ وہ انسان نہ ہونگے کیونکہ انسان ہونا تو ان کا ظاہر ہے پس اس کے کوئی معنے کرنے پڑینگے اور وہ معنے یہی ہو سکتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو ابن آدم سے ملانے کی کوشش کرینگے یعنی مسیح علیہ السلام سے لیکن ان کا یہ دعویٰ باطل ہو گا کیونکہ ابن آدم یعنی مسیح تو صرف بنی اسرائیل کے لئے آئے گا غیر قوموں کو اس کے مذہب میں داخل ہونے کی اجازت ہی نہ ہوگی جیسے کہ خود مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں ’’میں اسرائیل کے گھر کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی پاس نہیں بھیجا گیا‘‘ (متی باب ۱۵ آیت ۲۴) اسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام نے جب اپنے بعض حواریوں کو مبلغ بنا کر بھیجوایا تو انہیں مندرجہ ذیل الفاظ میں حکم دیا۔ ’’غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا‘‘ (متی باب ۱۰ آیت ۵) پس رومی لوگ جو اپنے آپ کو مسیحی کہتے تھے ان کی مثال ایسے وجود کی تھی جو اپنے آپ کو ایسی نسل میں شامل کرتا ہے جس میں وہ شامل ہونے کا حق نہیں رکھتا اور یہ جو میں نے کہا ہے کہ انسان سے مراد مسیح ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا نام بار بار انجیل میں ابن آدم آتا ہے چنانچہ متی باب ۲۴ آیت ۲۷ میں لکھا ہے ’’جیسے بجلی پورب سے کوندھ کے پچھم تک چمکتی ویسا ہی ابن آدم کا آنا بھی ہو گا‘‘ پس انسان سے مراد اس جگہ ابن آدم کے ساتھ اپنے آپ کو منسوب کرنا ہے۔
پھر لکھا تھا کہ وہ ان گھڑ پتھر ہو گا اس سے مراد یہ تھی کہ وہ پڑھا لکھا نہ ہو گا اور انسانوں نے اسے تعلیم نہ دی ہو گی چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم امی تھے اور قرآن کریم نے اس پیشگوئی کو مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے اَلَّذِیْنَ یِتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَ ھُمْ فِی التَّوْرٰلۃِ وَالْاِ نْجِیْلِ (اعراف ع ۱۰۹) یعنی وہ لوگ جو اتباع کرتے ہیں اس رسول نبی اور امی کی جس کا ذکر تورات اور انجیل میں موجود ہے اس آیت میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ تورات اور انجیل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر تین ناموں سے کیا گیا ہے۔ر سول کے نام سے نبیکے نام سے۔ اور امی یعنی ان پڑھ کے نام سے اور جیسا کہ اوپر کے حوالجات میں بتایا گیا ہے عہد نامہ قدیم میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان گھڑے پتھر کے نام سے یاد کیا گیا ہے اور انجیل نے اس پیشگوئی کی تصدیق کی ہے اور گویا عربی زبان کے محاورہ کے مطابق آپ کے امی ہونے کی خبر دی ہے۔
بعض لوگ اس پیشگوئی کو نادانی سے مسیح ناصری پر چسپان کرتے ہیں لیکن وہ نہیں سمجھتے کہ مسیح ان پڑھ نہ تھا اس کے انسان اُستاد تھے چنانچہ لکھا ہے ’’تب یسوع جلیل سے یردن کے کنارے یوحنا کے پاس آیا تاکہ اس سے ہتپسمہ پاوے‘‘ (متی باب ۳ آیت ۱۳) پھر لکھا ہے ’’اور یسوع بپتسمہ پا کے وہیں پانی سے نکل کے اوپر آیا‘‘ (آیت ۱۶) پس مسیح نے نہ صرف مادی تعلیم پائی بلکہ رُوحانی تعلیم کے لئے بھی وہ یحییٰ ؑ کا شاگرد ہوا پس وہ امی نہیں کہلا سکتا اور اس پیشگوئی کے مصداق کے لئے امی ہونے کی شرط ہے نیز مسیح میں یہ بات بھی پائی نیں جاتی کہ جو اس پر گرے چور چور ہو جائے اور جس پر وہ گرے اسے نیست کر دے لوگ مسیح پر گرے اور اسے ایذاء دی اور اسے کسی پر گرنے کا موقعہ ہی نہیں ملا۔
اب اگر یہ پیشگوئیاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود سے پوری نہ ہوتیں تو دائود۔ یسعیاہ۔ دانیال۔ اور مسیح علیہ السلام سب کے سب نعوذ باللہ من ذالک جھوٹے قرار پاتے۔ پس ان پیشگوئیوں کو پورا کر کے قرآن کریم نے ان انبیاء کے کلام کی تصدیق کی ہے۔
تصدیق نمبر ۷
کتاب اعمال میں لکھا ہے ’’پس توبہ کرو اور متوجہ ہو کہ تمہارے گناہ مٹائے جائیں تاکہ خداوند کے حضور سے تازگی بحش ایام آویں اور یسوع مسیح کو پھر بھیجے جس کی منادی تم لوگوں کے درمیان آگے سے ہوئی ضرور ہے کہ آسمان اسے لئے رہے اس وقت تک کہ سب چیزیں جن کا ذکر خدا نے اپنے سب پاک نبیوں کی زبانی شروع سے کیا اپنی حالت پر آویں کیونکہ موسیٰ نے باپ دادوں سے کہا کہ خداوند جو تمہارا خدا ہے تمہارے بھائیوں میں سے تمہارے لئے ایک نبی میری مانند اُٹھاویگا جو کچھ وہ تمہیں کہے اس کی سب سنو اور ایسا ہو گا کہ ہر نفس جو اس نبی کی نہ سنے وہ قوم میں سے نیست کیا جائے گا بلکہ سب نبیوں نے سموایل سے لے کے پچھلوں تک جتنوں نے کلام کیا ان دنوں کی خبر دی ہے تم نبیوں کی اولاد اور اس عہد کے ہو جو خدا نے باپ دادوں سے باندھا ہے جب ابرھام سے کہا کہ تیری اولاد سے دُنیا کے سارے گھرانے برکت پاویں گے تمہارے پاس خدا نے اپنے بیٹے یسوع کو اُٹھا کے پہلے بھیجا کہ تم میں سے ہر ایک کو اس کی بدیوں سے پھیر کے برکت دے‘‘ (اعمال باب ۳ آیت ۱۹ تا ۲۶) یہ پیشگوئی اعمال میں ہے لیکن ظاہر ہے کہ پیشگوئی بہرحال حضرت مسیح علیہ السلام نے کی ہو گی کیونکہ حواری انہی کے اقوال کو نقل کرتے ہیں اور مسیحیوں کا یہ عقیدہ بھی ہے کہ حواری جو کچھ کہتے تھے مسیح کے روحانی اثر کے نیچے کہتے تھے اسی وجہ سے حواریوں کے اعمال و اقوال کو انہو ںنے الہامی نوشتوں میں جگہ دی ہے اور بائبل کا حصہ قرار دیا علاوہ ازیں جیسا کہ تصدیق نمبر ۶ میں بیان کیا جا چکا ہے حضرت مسیح علیہ السلام نپے دوسرے لفظوں میں اس پیشگوئی کو بیان کیا ہے پس جو کچھ اعمال کے حوالہ میں کہا گیا ہے ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ وہ حصرت مسیح علیہ السلام کا کہا ہوا ہے۔
اس حوالہ میں مندرجہ ذیل امور بیان ہوئے ہیں (۱) مسیح علیہ السلام دبارہ دُنیا میں نازل نہ ہونگے جب تک کہ وہ پیشگوئی موسیٰ کی پوری نہ ہو لے کہ بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے ایک نبی موسیٰ کی مانند آئے گا (۲) موسیٰ علیہ السلام کے علاوہ سمو ایل سے لے کر آخر تک سب نبیوں نے اس آنے والے کی خبر دی ہے (۳) مسیح اوّل کی آمد اس نبی کے لئے بشارت دینے والے کی تھی کیونکہ لکھا ہے تمہارے پاس خدا نے اپنے بیٹے یسوع کو اُٹھا کے پہلے بھیجا کہ تم کو اپنی بدیوں سے پھیر کے برکت دے۔
میں اوپر ثابت کر آیا ہوں کہ موسیٰ کی مانند نبی یا انجیل کے محاورہ کے مطابق وہ نبی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے پس اس پیشگوئی میں جو کہا گیا ہے کہ ضروری ہے کہ مسیح آسمان پر ہی رہے جب تک سب پیشگوئیاں خصوصاً مثیل موسیٰ کے آنے کی پیشگوئی پوری نہ ہو جائے۔ اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی خبر دی گئی تھی نیر یہ بھی بتایا گیا تھا کہ حضرت مسیح کی پہلی آمد اسلئے تھی کہ تا وہ اس نبی کے لئے راستہ صاف کریں اور لوگوں کے دلوں کو گناہوں سے صاف کر دیں تا وہ اس پر ایمان لائیں کیونکہ لکھا ہے خدائے یسوع کو اُٹھا کے پہلے بھیجا۔ یہ الفاظ صاف بتاتے ہیں کہ مسیح کی آمد بطور ایک مبشر کے تھی اور غرض یہ تھی کہ کچھ لوگوں کے دل صاف ہو جائیں اور یہودیت کی سختی ان کے دلو ںپر سے جاتی رہے اور ایسا ہی ہوا قرآن کریم فرماتا ہے لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَا وَۃً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَھُوْدَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا وَلَتَجِدَنَّ اَقْرَ بَھُمْ مَّوَدَّۃً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّا نَصٰرٰی ذٰلِکَ بِاَنَّ مِنْھُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَّ اَنَّھُمْ لَایَسْتَکْبِرُوْنَo وَ اِذَا سِمِعُوْا مَٓا اُنْزِلَ اِلَی الرَّسُوْلِ تَرٰٓی اَعْیُنَھُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَ فُوْا مِنَ الْحَقِّ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشّٰھِدِیْنَo (مائدہ ع ۱۱) یعنے مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن تو یہود کو پائے گا اسی طرح مشرک لوگوں کو اور مسلمانوں سے محبت کرنے میں سب سے زیادہ قریب تو ان لوگوںکو پائے گا جو اپنے آپ کو نصاریٰ کہتے ہیں یہ اس لئے ہے کہ ان میں پادریوں اور زاہدوں کا گروہ پایا جاتا ہے اور اس لئے بھی کہ ان میں فروتنی پائی جاتیہے اور اس جب وہ اس کلام کو جو ہمارے اس رسول پر نازل ہوا ہے سنتے ہیں تو اس وجہ سے کہ انہوں نے سچ کو پہچان لیا ہے تجھے ان کی آنکھوں سے آنسو ٹپکتے ہوئے نظر آتے ہیں وہ کہتے ہیں اے رب ہم ایمان لے آئے ہمارا نام بھی گواہوں میں لکھ لے۔
غرض قرآن کریم بھی مسیح کی اس پیشگوئی کی تصدیق کرتا ہے کہ مسیح نے پہلے آ کر بہتوں کے دلو ںکو گناہوں سے پھیر دیا اور انہیں برکت دی حتٰی کہ وہ اس نبی کو جو موسیٰ کی مانند تھا ماننے کے قابل ہو گئے۔
اوپر کی پیشگوئی کو پورا کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مسیح اور سمو ایل سے لے کر آخر تک کے سب نبیوں کی تصدیق کی۔ اگر آپؐ نہ آتے تو یہ سب کے سب بھوٹے ٹھہرتے۔
پیشگوئیاں تو بہت ہیں جن کو پورا کر کے آنحصرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے انبیاء کے کلام کی تصدیق کی ہے مگر میں اس موقعہ پر اس پر بس کرتا ہوں انہی مثالوں سے ہر غیر متعصب اس امر کو سمجھ سکے گا کہ قرآن کریم کا بنی اسرائیل سے یہ کہنا کہ وَ اٰمِنُوْا بِمَا اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ کیسا سچا دعویٰ ہے قرآن کریم بنی اسرائیل کی کتب کی خبروں کو پورا کرنے والا ہے بنی اسرائیل میں سے جو کوئی اس کا انکار کرتا ہے وہ اس کا انکار نہیں کرتا وہ اپنی کتب کا انکار کرتا ہے جنہوں نے اس کے ظہور کی خبر دی تھی۔
بعض مسیحی مصنف اس آیت کی نسبت اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ قرآن کریم نے اس آیت میں یہ اعلان کیا ہے کہ جو کچھ تمہاری موجودہ کتب میں لکھا ہے وہ سب سچ ہے اور یہ معنے کر کے وہ اعتراض کرتے ہیں کہ جبکہ قرآن کریم کے نزدیک موجودہ بائبل درست ہے تو پھر قرآن کریم جھوٹا ہوا کیونکہ وہ موجودہ بائبل کے خلاف مضامین بیان کرتا ہیں میری سمجھ میں یہ ذہنیت کبھی بھی نہیں آتی کہ چونکہ الف باء کو سچا کہتا ہے اس لئے وہ جھوٹا ہے یہ تو گویا احسان کا بدلہ ظلم سے دینا ہے مگر جیسا کہ میں اوپر بتا آیا ہوں۔ اس آیت کے وہ معنے ہیں ہی نہیں جو یہ پادری صاحب کرتے ہیں انہیں تصدیق کے لفظ سے دھوکا لگا ہے حالانکہ تصدیق کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے کسی کو سچا کہنے کے معنوں میں بھی اور اس کی بات کو پورا کرنے کے معنو ںمیں بھی۔ اور یہاں وہ دوسرے معنے ہیں قرآن کریم دوسری جگہ فرماتا ہے وَاِذْ اُخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٰنَ لَمَٓا اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبِ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ قَالَئَ اَقْرَرْ تَمْ وَاَخَذْ تُمْ عَلیٰ ذٰلِکُمْ اِصْرِیْ قَالُٓوْا اَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْھَدُوْا وَاَنَا مَعَکُمْ مِّن الشّٰھِدِیْنَo فَمَنْ تَوَلّٰی بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُ ولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَo (آل عمران ع ۹) یعنی جب اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء سے یہ فرماتے ہوئے پختہ عہد لیا کہ میرے تم کو کتاب اور حکمت دینے کے بعد جو ایسا رسول آئے کہ جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ اس کا مصدق ہو تو تم اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا پھر فرمایا کہ کیا تم اقرار کرتے ہو اور اس بارہ میں مجھ سے پختہ عہد باندھتے ہو انہوں نے جواب میں کہا کہ ہاں ہم اقرار کرتے ہیں اس پر فرمایا کہ اب تم بھی گواہ رہو اور میں بھی تمہارا گواہ رہونگا اور یہ بھی یاد رکھو کہ اب اس عہد کے بعد جو لوگ اس سے پھر جائینگے وہ فاسقوں میں سے گنے جائینگے۔اس آیت سے ظاہر ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک تمام انبیاء کو ایک ایسے نبی کے آنے کی خبر دی گئی تھی جو سب انبیاء کی کتب کی تصدیق کرے گا اور اس پر ایمان لانا سب قوموں کے لئے ضروری ہو گا۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم نبیوں کے متعلق فرماتا ہے۔ وَاِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْہَا نَذِیْرٌ (فاطر ع ۳) کوئی قوم ایسی نہیں گزری کہ اس میں نبی نہ آیا ہو پھر اس کے بعد فرمایا ہے وَالَّذِیْٓ اَوحَیْنَآ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتْبِ ھُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ اِنَّ اللّٰہ بِعِبَادِہٖ خَبِیْرٌ بَصِیْرٌo (فاطر ع ۴) یعنی جو کتاب اللہ تعالیٰ نے تجھ پر وحی سے نازل کی ہے وہ ساری کی ساری حق ہے اور اس سے پہلے جس قدر و حیاں نازل ہو چکی ہیں سب کی مصدق ہے اور اللہ تعالیٰ یقینا اپنے بندوں سے خبردار اور ان کے حال کا دیکھنے والا ہے ان آیات کو پہلی آیت کے ساتھ ملا کر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نبی سب دُنیا میں اور ہر قوم میں آوے ہیں اور یہ کہ اس آیت کا موعود نبی ہر نبی کی کتاب کا مصدق ہو گا اور ہر نبی کی امت کو اس پر ایمان لانا ہو گا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ جس قسم کی تصدیق قرآن کریم بائبل کی کرتا ہے ویسی ہی تصدیق وہ دیدوں کی بھی کرتا ہے اور ویسی ہی تصدیق وہ ژند کی بھی کرتا ہے اور ویسی ہی ان تمام نبیوں کی کتب کی جو دُنیا کے کسی گوشہ میں گذرے ہوں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ان سب کتب کی موجودہ شکلو ںمیں شدید اختلاف ہے اگرانہیں موجودہ شکل میں درست قرار دیا جائے تو چونکہ وہ ایک دوسرے کی مکذب ہیں مذہب کا کچھ باقی نہیں رہ جاتا۔ او رہم انہیں موجودہ شکل میں خدا تعالیٰ کیکتاب کہہ کر گویا خود ان نبیوں کی تکذیب کرتے ہیں جن کی طرف وہ منسوب ہیں مثلاً کیا ہم موجودہ تورات کو کلی طور پر موسیٰ ؑ کا الہام کہہ سکتے ہیں اس میں تو یہ لکھا ہے ’’سو خداوند کا بندہ موسیٰ خداوند کے حکم کے موافق موآب کی سر زمین میں مر گیا اور اس نے اسے موآب کی ایک وادی میں بیت فغور کے مقابل گاڑا۔ پر آج کے دن تک کوئی اس کی قبر کو نہیں جانتا‘‘ (استثناء باب ۳۴ آیت ۵ و ۶) پھر لکھا ہے۔ ’’اور نون کا بیٹا یشوع دانائی کی روح سے معمور ہوا کیونکہ موسیٰ نے اپنے ہاتھ اس پر رکھے تھے اور بنی اسرائیل اس کے شنوا ہوئے اور جیسا خداوند نے موسیٰ کو فرمایا تھا انہو ںنے ویسا ہی کیا۔ اب تک بنی اسرائیل میں موسیٰ کی مانند کوئی نبی نہیں اُٹھا جس سے خداوند آمنے سامنے آشنائی کرتا۔‘‘ (استثناء باب ۳۴ آیت ۹ و ۱۰) ان آیات سے طاہر ہے کہ یہ موسیٰ کی وفات کے لمبے عرصہ بعد لکھی گئی ہیں بلکہ اس وقت جبکہ موسیٰ کی قبر کا نشان تک مٹ گیا تھا اور بہت سے نبی بنی اسرائیل میں آ چکے تھے کیونکہ لکھا ہے اب تک موسیٰ کی مانند نبی بنی اسرائیل میں کوئی نہیں آیا۔ کیا کوئی عقلمند مان سکتا ہے کہ حضرت موسیٰ اپنی وفات کے سینکڑوں سال بعد دوبارہ دُنیا میں آئے تھے اور یہ الفاظ اپنی کتاب میں بڑھا گئے تھے اگر ایسا نہیں بلکہ کسی اور ہاتھ نے صدیوں بعد موسیٰ کی کتاب کے آخر میں یہ الفاظ بڑھا دیئے تھے تو کون کہہ سکتا ہے کہ اس نے اور کیا کیا اس کتاب میں نہ بڑہا دیا ہو گا پھر قرآن کریم کی تصدیق ہم کس کس آیت پر چسپان کریں اور کیونکر معلوم کریں کہ اس مخرف کتاب میں کہ جسے آج بائبل کے اپنے علماء بھی بہت سے ہاتھوں اور بہت سے زمانوں کا لکھا ہوا بتاتے ہیں کونسا کلام خدا کا ہے جس کی ہم تصدیق کریں۔ او رکونسا انسانوں کا ہے کہ جسے ہم رد کرنے کے مجاز ہوں۔
اسی طرح انجیل میں لکھا ہے کہ مسیح علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے کہا کہ ’’میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ ان میں سے جو یہاں کھڑے ہیں بعضے ہیں کہ جب تک ابن آدم کو اپنی بادشاہت میں آتے دیکھ نہ لیں موت کا مزہ نہ چکھیں گے‘‘ (متی باب ۱۶ آیت ۲۸) لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ سب لوگ مر گئے اور اس وقت تک ان کی سوسو پشت مر چکی ہے مگر مسیحیوں کے نزدیک ابھی تک ابن آدم اپنی بادشاہت میں نہیں آیا اگر مسیح کی آمد سے اس کی قوم کی ترقی مراد لی جائے تب بھی یہ بات غلط ہوئی کیونکہ مسیحیوں کو ترقی تین سو سال واقعہ صلیب کے بعد ملی اور اس وقت تک ایک آدمی بھی مسیح کے زمانہ کا زندہ نہ تھا اب یہ پادیر صاحبان جو تصدیق کے معنے اس کے سچا ہونے کا اقرار کرتے ہیں۔ ہمیں بتائیں کہ قرآن کریم اس قسم کی باتو ںکی کس طرح تصدیق کر سکتا ہے۔
بڑی بات تو یہ ہے کہ مسیحی صاحبان کے نزدیک اناجیل میں مسیح کی خدائی اور اقنون ثلاثہ کا ذکر ہے اور قرآن کریم فرماتا ہے لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ ثَالِثُ ثَلَاثَۃٍ وَمَا مِنْ اِلٰہٍ اِلَّآ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ وَّاِنْ لَّمْ یَنْتَھُوْا عَمَّا یَقُوْلُوْنَ لَیَمَسَّنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (مائدہ ع ۱۰) یعنی وہ لوگ جو کہتے ہیں اللہ تین اقنوم میں سے ایک اقنوم ہے (یعنی نصاریٰ) وہ کافر ہیں اور حق یہی ہے کہ دُنیا کا معبود صرف ایک ہی ہے اور اگ ریہ شرک کرنے والے لوگ اپنے شرک سے رکیں گے نہیں تو جو ان میں سے کفر پر اصرار کریں گے انہیں درد ناک عذاب پہنچے گا۔ یہ آیت اور ایسی ہی او ربہت سی آیات صاف بتاتی ہیں کہ قرآن کریم اس انجیل کا یقینا مصدق نہیں جسے مسیحی لوگ پیش کرتے ہیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ قرآن کریم انجیل کے اس مفہوم کا ہر گز مصدق نہیں جسے آج کل کے مسیحی لوگ پیش کرتے ہیں پھر ان معنوں سے مسیحی لوگ کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ تصدیق انسانوں کی دو طرح ہوتی ہے۔ اوّل یہ کہ کسی انسان کو راستباز کہا جائے دوم یہ کہ اس کی کسی بات کو سچا ثابت کر دیا جائے خواہِ زبان سے مثلاً کہا جائے کہ اس قول میں یہ سچا ہے یا فعل سے کہ عملاً اس کے قول کی تصدیق کی جائے مثلاً اس نے اس کے متعلق کسی کام کے کرنے کی خبر دی ہو اور یہ وہ کام کر دے لیکن کتب سماویہ کی تصدیق تین طرح ہوتی ہے اس طرح بھی کہ انہیں کلی طور پر سچا کہا جائے اس طرح بھی کہ ان کے بعض حصص کی تصدیق کی جائے اور اس طرح بھی کہ ان کی ابتدائی حالت کی تصدیق کی جائے اور اس طرح بھی کہ ان کی ابتدائی حالت کی تصدیق کی جائے مثلاً اس امر کا اقرار کہ وہ ابتداء میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی تھیں اور ان کے پیش کرنے والے راستباز تھے جھوٹے نہ تھے گو اب اس کتاب میں لوگوں نے خرابیاں پیدا کر دی ہیں۔

میں ثابت کر چکا ہوں کہ کلی تصدیق پہلی کتب کی نہ تو ممکن ہے اور نہ قرآن کریم ایسا کر سکتا ہے ممکن اس لئے نہیں کہ وہ سب کتب اس وقت دُنیا میں موجود ہی نہیں اور قرآن کریم کی شان کے لائق اس لئے نہیں کہ وہ خود ہی ان کتب کی غلطیاں بیان کرتا ہے پس جب وہ ان کتب کی غلطیاں بیان کرتا ہے تو ان کی تصدیق کیونکر کر سکتا ہے۔ اب صرف دو طرف تصدیق کے رہ گئے۔ جزئی تصدیق یا ابتدائی حالت کی تصدیق۔ سو سابق کتب کی تصدیق قرآن کریم انہی دو طریق سے کرتا ہے جو کتب تو دنیا میں موجود ہیں ان کی تو دونوں قسم کی تصدیق کرتا ہے یعنی ان کے بعض مسائل کی تصدیق کرتا ہے اور ان کی بعض پیشگوئیوں کو اپنی ذات میں پُورا کر کے انہیں سچا ثابت کرتا ہے دوسری تصدیق وہ یہ بھی کرتا ہے کہ سب کتب سماویہ کے متعقل وہ یہ خبر دیتا ہے کہ جس وقت انہیں دُنیا کے سامنے پیش کیا گیا وہ سچی تھیں۔ وہ حصرت آدمؑ کے الہام۔ حضرت نوحؑ کے الہام حضرت ابراہیمؑ کے الہام حضرت موسیٰ ؑ کے الہام حضرت مسیحؑ کے الہام حضرت کرشنؑ کے الہام حضرت رامچندرؑ کے الہام حضرت زردشتؑ کے الہام۔ اور باقی ان تمام انبیاء کے الہامو ںکی تصدیق کرتا ہے جو وقتاً فوقتاً اور مختلف ملکوں اور قوموں میں ظاہر ہوئے خواہ ان کے نام بھی ہمیں معلوم نہیں چنانچہ فرماتا ہے وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِکَ مِنْھُمْ مَّنْ قَصَصْنَا عَلَیْکَ وَ مِنْھُمْ مَّنْ لَّمْ نَقْصُصْ عَلَیْکَ وَ مَا کَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ یَّاْتِیَ بِاٰیَۃٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰہِ فَاِذَ اجَآئَ اَمْرُ اللّٰہِ قُضِیَ بِالْحَقِّ وَخَسِرَھُنَا لِکَ الْمُبْطِلُوْنَo (مومن ع ۸) یعنے اے محمد رسول اللہ ہم تجھ سے پہلے بہت سے رسول بھیج چکے ہیں ان میں سے بعض کا ذکر ہم نے قرآن میں کیا ہے اور بعض کا نہیں کیا اور یاد رکھو کہ کسی رسول کی یہ طاقت نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کوئی نشان لے آئے پس جب اللہ کا حکم آ جائے تو سچائی کے ساتھ فیصلہ کر دیا جاتا ہے اور جو بھی جھوٹا ہو ہلاک ہو جاتا ہے۔ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ صرف وہی نبی خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہیں جو قرآن کریم میں مذکور ہیں ان کے سوا اور لوگ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہو کر آ چکے ہیں پھر یہ سوال اٹھایا ہے کہ جن کا ذکر قرآن کریم میں نہیںہم کیونکر جانیں کہ وہ سچے تھے تو اس کی یہ علامت بتائی ہے کہ رسول نشان لے کر آتا ہے اور نشان خدا تعالیٰ کی امداد کے بغیر کوئی نہیں دکھا سکتا۔ پس جو نشان دکھاتا ہے وہ یقینا سچا ہے پھر یہ سوال ہو سکتا تھا کہ بہت سے نشان عینی شہادت اور واقعات کے تفصیلی علم کو چاہتے ہیں اور مختلف اقوام جن لوگوں کو بطور اپنے نبیوں کے پیش کرتی ہیں ان کے تفصیلی حالات کا ہمیں علم نہیں پھر ان کی سچائی کو کس طرح معلوم کریں تو اس سوال کا جواب اس طرح دیا کہ ایک نشان ایسا ہے جو سب نبیوں میں مشترک ہے اور وہ اپنی شہادت ہر وقت ساتھ رکھتا ہے وہ یہ کہ جب کوئی نبی دنیا میں آتاہے آخر کار (۱) اس کے مخالف ہلاک ہو جاتے ہیں اور (۲) اس کا نام دُنیا میں رہ جاتا ہے اور اس کے اتباع کو غلبہ حاصل ہو جاتا ہے جس مدعی الہام کی تائید میں یہ امر دیکھو سمجھ لو کہ خدا تعالیٰ کی تائید اس کے حق میں ہے اور وہ جھوٹا نہیں۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم صرف انہی انبیاء کا مصدق نہیں جن کے نام اس نے لئے ہیں بلکہ اُن انبیاء کا بھی مصدق ہے جن کے نام اس نے نہیں لئے اور جب وہ ایسے انبیاء کا مصدق ہے تو ان کے کلام کا بھی مصدق ہے اور اس ناپید یا غیر مذکور کلام کی تصدیق اسی طرح ہو سکتی ہے کہ اجمالاً ایمان لایا جائے کہ وہ سچے ہیں پس تصدیق کے دوسرے معنے اجمالی ایمان کے ہیں یعنی ان کلاموں کی ابتداء اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھی اور ایسی ہی تصدیق قرآن کریم یہود و نصاریٰ کی کتب کی بھی کرتا ہے پس اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ قرآن کریم ان کی موجودہ صورت کو صحیح قرار دیتا ہے ظلم ہے اور دیگر آیاتِ قرآنیہ اور واقعات اور خود ان کی کتب کی اندرونی شہادت کے خلاف ہے۔
یہ لطیفہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ آیت زیر بحث میں تورات انجیل کی تصدیق کا ذکر نہیں بلکہ لِمَا مَعَکُمْ کی تصدیق کا ذکر ہے یعنے قرآن جو کچھ ان کے پاس ہے اس کا مصدق ہے اب اگر ان الفاظ کے وسیع معنے لئے جائیں تو ان کے یہ معنے ہونگے کہ ان کے قصوں کہانیوں کو بھی وہ تصدیق کرتا ہے لیکن یہ معنے بالبداہت باطل ہیں اور یہ ماننا پڑے گا کہ ان الفاظ کو بعض قیود سے مقید کرنا ہو گا اور وہ قیود معقول طور پر یہی ہو سکتی ہیں (۱) اس کے یہ معنے لئے جائیں کہ جو مضمون اس قسم کی آیات سے پہلے یا بعد میں بیان ہو رہا ہے یہ الفاظ ساری کتاب کی نہیں بلکہ صرف اس کی تصدیق کے بارہ میں ہیں اور یہ مطلب لیا جاوے کہ اس مسئلہ کے متعلق جو تعلیم ہماری ہے وہی تمہاری کتب میں ہے پس تصدیق خاص ہو گی نہ کہ عام۔ انہی معنوں کے رو سے میں نے اس آیت کے یہ معنے کئے ہیں کہ یہ قرآن کریم تمہاری کتب میں بیان شدہ پیشگوئیوں کی تصدیق کرتا ہے یعنی انہیں پورا کرتا ہے (۲) یا پھر لِمَا مَعَکُمْ کو اس حد بندی سے محدود کیا جائے گا کہ تمہارے پاس جو خدا کا کلام ہے اس کی تصدیق قرآن کریم کرتا ہے اور ان معنوں پر بھی کوئی اعتراض نہیں اس میں کیا شک ہے کہ پہلی کتب میں جو خدا کا کلام ہے اس کی تصدیق ہر دوسرے آسمانی کلام کو کرنی چاہیئے مگر اس تصدیق کے یہ معنے نہیں ہو سکتے کہ جو کچھ بھی ان کتب میں ہے وہ ضرور خدا کا کلام ہے۔
اس سوال کے متعلق ایک اور بات بھی قابل غور ہے اور وہ یہ کہ پہلی کتب کے لئے جس جس جگہ قرآن کریم میں تصدیق کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں اس کا صلہ لام آیا ہے سو اے دو جگہوں کے جہاں کوئی صلہ استعمال نہیں ہوا لیکن جہاں قرآن کریم یا رسول کریم کی نسبت یہ لفظ آیا ہے وہاں اس کا صلہ با آتا ہے اور لغت سے بھی ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ جہاں تصدیق کے معنے اس کوسچا قرار دینے کے ہوں وہا ںباصلہ آتا ہے پس اس اختلاف سے معلوم ہو جاتا ہے کہ جہاں جہاں پرانی کتب کی نسبت یہ لفظ استعمال ہوا ہے اس کے اور معنے ہیں اور وہ یہی ہو سکتے ہیں کہ پہلی کتب میں جو پیشگوئیاں تھیں قرآن کریم ان کا پورا کرنے والا ہے یہ نہیں کہ ان کے اندر جو کچھ غلط یا درست لکھا ہوا ہے اس کو سچا قرار دیتا ہے قرآن کریم کی بعض آیات بھی اس استدلال کی تصدیق کرتی ہیں۔ سورۂ احقاف میں ہے قُلْ اَرَئَ یْتُمْ اِنْ کَانَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَ کَفَرْ تُمْ بِہٖ وَ شَھِدَ شَاھِدٌ مِّنْ بَنِٓیْ اِسْرَآئِیْلَ عَلیٰ مِثْلِہٖ فَاٰ مَنَ وَ اسْتَکْبَرْ تُمْ اِنَّ اللّٰہَ لَایَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَoوَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُ وْالِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَوْ کَانَ خَیْرًا مَّا سَبَقُوْنَآ اِلَیْہِ وَ اِذْ لَمْ یَھْتَدُوْا بِہٖ فَسَیَقُوْلُوْنَ ھٰذَا اِفْکٌ قَدِیْمٌo وَمِنْ قَبْلِہٖ کِتٰبُ مُوْسٰٓی اِمَا مًا وَّرَحْمَۃً وَھٰذَا کِتٰبٌ مُّصَدِّقٌ لِّسَانًا عَرَبِیًّا لِّیُنْذِرَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا وَبُشْرٰی لِلْمُحْسِنِیْنَo (احقاف ع ۱ و ع ۲) یعنے اے لوگو بتائو تو سہی کہ اگر یہ کتاب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوئی اور تم نے اس کا انکار کر دیا تو کیا بنے گا اور استھ ہی یہ بات بھی ہے کہ بنی اسرائیل میں سے ایک گواہ نے اپنے مثل نبی آنے کی خبر دی ہے پس وہ تو ایمان لے آیا اور تم نے تکبر سے کام لیا یاد رکھو کہ اللہ ظالموں کو کبھی کامیاب نہیں کرتا اور کافر مسلمانوں کے حق میں کہتے ہیں کہ اگر اس کلام میں کوئی بھلائی ہوتی تو یہ لوگ ہم سے پہلے کس طرح ایمان لے آتے بات یہ ہے کہ چونکہ ان کو ہدایت نہیں ملی اب تو انہو ںنے یہی کہنا ہوا کہ پہلے کلام بھی جھوٹے تھے یہ بھی ویسا ہی جھوٹ ہے اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب گذر چکی ہے جو لوگوں کو ہدایت دیتی تھی اور رحمت کا موجب تھی اور اب یہ کتاب اس کی مصدق ہے اور عربی زبان میں نازل ہوئی ہے تاکہ ظالموں کو ڈرائے اور محسنوں کو بشارت دے۔
ان آیات سے پہلے کی آیات پڑھو تو معلوم ہو گا کہ اس جگہ یہود نہیں بلکہ کفار مکہ مخاطب ہیں ان سے کہا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک اپنے مثیل کی خبر دی تھی (جس میں یہ بھی خبر تھی کہ وہ بنی اسمٰعیل میں سے ہو گا) اب کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ موسیٰ ؑ نے بنو اسحاق میں سے ہوا کر اس پر ایمان کا اظہار کیا اور تم جن کو عزت ملی تھی اپنی قوم کے نبی کے ماننے میں تکبر سے کام لے رہے ہو اس پر کفار کا اعتراض بیان فرمایا ہے کہ ہم تو اس کے جھوٹا ہونے کی وجہ سے اس کا انکار کرتے ہیں اور اس کا ثبوت ہمارے پاس یہ ہے کہ اس کو ماننے والے ادنیٰ لوگ ہیں بڑے لوگ تو سب اس کے مخالف ہیں اگر یہ سچا ہوتا تو سب سے پہلے ہمیں اس پر ایمان لانے کا موقعہ ملتا۔ اس کا جواب یہ فرمایا کہ اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب گذر چکی ہے جو اپنی ہدایت اور فائدہ کے لحاظ سے اپنی سچائی کا ثبوت دے چکی ہے اس میں اس کتاب کے بارہ میں پیشگوئیاں ہیں جن کو یہ کتاب پورا کرتی ہے چنانچہ ان پیشگوئیوں کا ایک حصہ یہ ہے کہ اس کتاب پورا کرتی ہے چنانچہ ان پیشگوئیوں کا ایک حصہ یہ ہے کہ اس کتاب کی زبان عربی ہو گی اور دوسری یہ کہ اس کی قوم کے لوگ اس کے مخالف ہونگے اب ان صدیوں پہلے کی پیشگوئیوں کو جب یہ کتاب پورا کرتی ہے تو تم اس کا انکار کیونکر کر سکتے ہو۔
آیندہ شریعت کے عربی زبان میں ہونے کی پیشگوئی استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸ سے نکلتی ہے جہاں بتایا ہے کہ آنے والا موعود بنو اسرائیل کے بھائیوں میں سے یعنی بنو اسمٰعیل میں سے ہو گا اور اس کی مخالفت کی خبر استثناء باب ۳۳ آیت ۲ سے نکلتی ہے جہاں لکھا ہے کہ وہ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آئے گا اور اس کے داہنے ہاتھ میں آتشی شریعت ہو گی یعنی وہ ضرورت کے موقعہ پر جنگ کرے گا اور جنت کی اجازت دے گا۔ ظاہر ہے کہ جنگ کی ضرورت اس وقت ہوتی ہے جب قوم مخالفت کرے اور مخالف زبردست ہوں۔ پس مکہ والوں کا یہ کہنا کہ ہم جو بڑے لوگ ہیں ایمان نہیں لاتے یہ ان کے سچا ہونے کی دلیل نہیں بلکہ قرآن کریم اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچا ہونے کی دلیل ہے کیونکہ اس کے ذریعہ سے موسیٰ ؑ کی خبر کا ایک اور حصہ پورا ہوا اور ایک طرف اس سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق ہوئی تو دوسری طرف حضرت موسیٰ کی سچائی ظاہر ہوئی۔
اس آیت سے تصدیق کے معنے بالکل واضخ ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ زبانی تصدیق کہ تورات سچی ہے کفار مکہ پر کیا اثر کر سکتی تھی وہ قرآن اور تورات دونو ںکو جھوٹا سمجھتے تھے کفار مکہ پر وہی تصدیق حجت ہو سکتی تھی جس میں کسی پیشگوئی کے پورا ہونے کا ذکر کیونکہ پیشگوئی خواہ کسی نبی کی ہو چونکہ علم غیب پر مشتمل ہوتی ہے ہر ایک شخص پر حجت ہوتی ہے۔
خلاصہ یہ کہ سورۂ احقاف کی مذکورہ بالا آیت میں تصدیق کے معنے پیشگوئی پورا کرنے کے سوا اور کوئی ہو ہی نہیں سکتے اور یہی معنی ہیں جو مُصَدِّقُ لِّمَا مَعَکُمْ والی آیت اور اسی قسم کی دوسری آیات میں استعمال ہوئے ہیں وَلَا تَکُوْنُوْا اَوَّلَ کَافِرٍبِہٖ۔ اس جملہ کا پہلا حصہ جمع ہے اور دوسرا مفرد یعنی لَاتَکُوْنُوْا کے معنے ہیں کہ اے بنی اسرائیل تم نہ بنو اور اس کا جواب کہ کیا نہ بنو یہ دیا ہے کہ اوّل کافر نہ بنو اور کاف رمفرد ہے اُردو کے لحاظ سے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں کیونکہ اردو میں ایسے موقعہ پر مفرد کا لفظ ہی استعمال کرتے ہیں لیکن عربی کے محاورہ کے مطابق یہ قابلِ اعتراض ہے کیونکہ عربی میں اس جگہ جمع کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ عربی کے علماء نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ جب افعال التفصیل کا صیغہ استعمال ہو جیسا کہ اوّل کا لفظ ہے اور وہ کسی ایسے نکرہ کی طرف مضاف ہو جو صفت کا صیغہ ہو جیسا کہ کافر کا لفظ ہے تو اس وقت اس نکرہ کو جو صفت کا صیغہ ہو مفرد لانا بھی جائز ہے اور جمع لانا بھی جائز ہے اور اس کی مثال کے طو رپر فراء نے ایک شاعر کا یہ شعر نقل کیا ہے ؎
وَاِذَا ھُمُ طَعِمٌ فَاَلْأَمُ طَاعِمٍ
وَاِذَا ھُمُ جَاعُوْا فَشَرُّ جِیَاعٍ
یعنی جب وہ قوم کھاتی ہے تو کھانے والوں میں سے سب سے بری ہوتی ہے اور جب وہ بُھوکی ہوتی ہے تو بھوکوں میں سے بدتریں ہوتی ہے۔ اس شعر میں پہلے مصرعہ میں طَاعِمٍ کافر کی طرح مفرد آیا ہے لیکن دوسرے مصرعہ میں جِیَاعٍ جمع کا صیغہ آیا ہے گویا ایک ہی شعر میں دونوں طرح کا محاورہ استعمال ہو گیا ہے۔
جب صفت نکرہ افعال تفضیل کا مضاف الیہ ہو تو فرار کے نزدیک مَنْ کے بعد فعل استعمال کر کے اس کے معنے کئے جاتے ہیں مثلاً اس شعر میں طَاعِم کے معنے مَنْ طَعَمَ کئے جائینگے اور آیت میں کافر کے معنے مَنْ کَفَرَ کئے جائیں گے بعض دوسرے نحویوں نے کہا ہے کہ اس صور ت میں یہ تو جیہہ ہو گی کہ اوّل فریق کا فربہ یعنی ابتداء ہی میں کفر کرنے والے گروہ میں شامل نہ ہو۔ بعض دوسروں نے اس کے یہ معنے کئے ہیں کہ وَلَا یَکُنْ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْکُمْ اَوَّلَ کَافِرٍ بِہٖ تم میں سے ہر ایک اوّل درجہ کے کافروں میں سے نہ بنے سیبویہ امام لغت کہتے ہیں کہ ایسے موقعہ پر مفرد نکرہ جمع کے معنے دیتا ہے اور اس جملہ کی ترکیب یوں ہے لَاتَکُوْلُوْا اَوَّلَ کَافِرِیْنَ بِہٖ اوّل درجہ کے کافروں میں سے نہ بنو (بحر محیط زمخشری) اس کے یہ معنے نہیں کہ پہلے کافر نہ بنو ہاں دوسروں کے بعد بیشک کف رکرو۔ یہ عربی کا محاورہ ہے کہ ایک حصہ جملہ کا بیان کر دیتے ہیں اور دوسرا چھوڑ دیتے ہیں اسے وہ تحسین کلام میں سے سمجھتے ہیں اس کے رو سے جملہ یہ ہو گا کہ لَاتَکُوْنُوْا اَوَّلَ کَافِرٍ بِہٖ وَلَاتَکُوْنُوْا اٰخِرَ کَافِرٍ بِہٖ یعنی نہ اس کے کفر میں جلدی کرو اور نہ بعد میں کفر کرو۔ اس کی مثال مفسرین اس شعر سے دیتے ہیں۔ ؎
مِنْ اُنَاسٍ لَیْسَ فِیْ اَخْلَا قِھِمْ
عَاجِلُ الْفُحْشِ وَلَا سُوْئُ جَزَعٍ
وہ شخص ایسے لوگوں میں شامل ہے جن کے اخلاق میں نہ تو فحش میں جلدی کرنا شامل ہے اور نہ سخت گھبرانا۔ وہ کہتے ہیں اس کے یہ معنے نہیں کہ فوراً فحش کو اختیار نہیں کرتا بلکہ دیر سے کرتا ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ فحش کو نہ جلدی اختیار کرتا ہے نہ دیر سے (بحر محیط)
میرے نزدیک اس کی ایک اور تشریح بھی ہو سکتی ہے اور وہ یہ کہ بنی اسرائیل سے کہا گیا ہے کہ جب یہ کتاب تمہاری کتب کی پیشگوئیوں کی مصدق ہے تو تمہارا اس کتاب کا انکار کرنا اوّل درجہ کا کفر ہو گا کیونکہ جو لوگ جاہل ہیں ان کا انکار نظر انداز کیا جا سکتا ہے اور انہیں معذور سمجھا جا سکتا ہے لیکن تم کو معذور نہیں سمجھا جا سکتا۔ گویا یہ مُراد نہیں کہ چھوٹا کفر جائز ہے یا بعد میں انکار کرنا جائز ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ کفر بہرحال ناجائز ہے مگر تمہارا کفر تو اوّل درجہ کا کفر ہے اور زیادہ خطرناک ہے یا یہ کہ تم کو کفار کی اوّل صف میں لاکھڑا کرتا ہے۔ یہ محاورہ قرآن کریم میں دوسری جگہ بھی استعمال ہوا ہے اللہ تعالیٰ فرماتاہے وَمَا اَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ (ق ع ۲) میں اپنے بندوں پر بہت بڑا ظلم کرنے والا نہیں ہوں اس کے یہ معنے نہیں کہ میں تھوڑا ظلم کر لیتا ہوںبلکہ یہ معنے ہیں کہ پہلا مضمون جو گذرا ہے اگر اسے تسلیم کیا جائے تو اللہ تعالیٰ بڑا ظالم ثابت ہوتا ہے مگر وہ ایسا نہیں ہے اُردو میں بھی یہ محاورہ مستعمل ہے کہتے ہیں اتنا قہر کیوں توڑتے ہو ںاس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ چھوٹا قہر بیشک توڑو بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی پر ظلم کرنا تو ناجائز ہے پھر تم اس قدر بڑا ظلم کیو ںکرتے ہو یا یہ کہ جھوٹ بولنا تو ناپسندیدہ ہے پھر تم اتنا بڑا جھوٹ کیوں بولتے ہو۔
کَافِرٍبِہٖ میں ہ کی ضمیر بِمَا اَنْزَلْتُ میں میں جو مَا ہے اس کی طرف بھی جا سکتی ہے اس صورت میں اس کے معنے ہونگے کہ خدا تعالیٰ کے نئے کلام یعنی قرآن کریم کے کافرنہ بنو اور لِمَا مَعَکُمْ کے مَا کی طرف بھی جا سکتی ہے اس صورت میں اس کے یہ معنے ہونگے کہ یہ قرآن تو تمہاری کتب کی پیشگوئیوں کو پُورا کرنے والا ہے دوسرے لوگ ان پیشگوئیوں کے مُنکر ہوں تو ہوں تم کیوں دوسروں سے بھی جلدی کر کے خود اپنی کتب کی تکذیب کرتے ہو۔
وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا میری آیات کو چھوڑ کر تھوڑی قیمت نہ لو۔ مسلمانونکی بدقسمتی ہے کہ اس زمانہ میں قرآن کریم کے معنوں کو بگاڑنے والے لوگ پیدا ہو گئے ہیں۔ بعض ملا چار پانچ آنہ والا قرآن خرید کر دیہاتیوں کے ہاتھوں میں دو چار روپیہ کو فروخت کرتے ہیں اور کوئی اعتراض کرے تو کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ میری آیات کو تھوڑی قیمت پر فروخت نہ کرو مردوں پر جو قُلْ کئے جاتے ہیں ان میں بھی اس بیہودہ خیال پر بناء رکھ کر قرآن بخشا جاتا ہے یہ سب بیہودہ خیالات ہیں اور اس آیت کے یہ معنی نہیں ہیں اگر اس آیت کے یہ معنے ہوتے تو الفاظ یوں ہوتے وَلَا تَشْتَرُوْا اٰیٰتِیْ بِثَمَنِ قَلِیْلٍ کیونکہ عربی محاورہ کے مطابق ب قیمت پر آیا کرتی ہے پس تھوڑی قیمت لینی مراد ہوتی تو ب ثمن پر آتی مگر ب ثمن پر نہیں بلکہ آیات پر آئی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں اشتراء کا لفظ خریدو فروخت کے معنوں میں استعمال ہی نہیں ہوا بلکہ استبدال کے معنوں میں استعمال ہوا ہے (بحر محیط) نوٹ نمبر ۱۷ میں بتایا جا چکا ہے کہ لغت کے رو سے ایک معنے اشتراء کے یہ بھی ہیں کہ ایک چیز کو چھوڑ دیا اور دوسری کو لے لیا۔ لغت میں لکھا ہے وَکُلَّ مَنْ تَرَکَ شَیْئًا وَتَمَسَّکَ بِغَیْرِہٖ فَقَدِ اشْتَرٰلہُ (اقرب) یعنی جو شخص ایک چیز کو ترک کر دے اور دوسری کو اختیار کرے اس کے لئے بھی اشتراء کا لفظ عربی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس آیت میں یہی معنے ہیں اور یہ مطلب نہیں کہ میری آیات دے کر تھوڑا مال نہ لو بلکہ یہ معنے ہیں کہ میری آیات کو نہ چھوڑو اور تھوڑے مال کو اختیار نہ کرو تھوڑے مال سے مراد دُنیا ہے کیونکہ قرآن کریم میں آتا ہے قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌ (نساء ع ۱۱) دنیا کا سب سامان تھوڑا ہے پس مراد یہ ہے کہ دین چھوڑ کر دُنیا کو اختیار نہ کرو۔ اس میں بنی اسرائیل کو زجر کی ہے کہ تمہارا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کرنے سے انکار کرنا باوجود اس کے کہ تمہاری کتب میں ان کی پیشگوئیاں موجود ہیں محض اپنی لیڈری کے کھوئے جانے کے خوف سے ہے تم کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا گراں گذرتا ہے اور ان کی محافلت کر کے اپنی قوم کی سرداری قائم رکھنا زیادہ عزیز ہے گویا دنیا کی معمولی عزت اور تھوڑے سے پیسوں کے لئے تم ان پیشگوئیوں کو ترک کر رہے ہو جو تمہاری کتب میں موجود ہیں۔
حدیثوں میں آتا ہے دو یہودی عالم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے واپس جاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ نبی وہی ہے جس کا ذکر ہماری کتب میں آتا ہے لیکن ماننا تو نہیں کیونکہ ہماری جماعت کے لوگ ہمیں قتل کر دیں گے یہی ذہنیت ہے جو اکثر لوگوں کو سچائی سے محروم کر دیتی ہے۔
(مسند احمد حنبل جلد رابع نمبر ۲۳۹)
وَاِیَّایَ فَاتَّقُوْنِ۔ اس فقرہ کی بناوٹ بھی وَ اِیَّایَ فَارْھَبُوْنِ کی طرح ہے (دیکھو نوٹ نمبر ۴۱ سورۃ ہذا ) اور یہ پورا جملہ یوں ہوتا ہے وَاتَّقُوْا اِیَّایَ تَنَبَّھُوْا فَاتَّقُوْنِ مجھ سے ڈرو ہوشیار ہو جائو اور مجھ سے ڈرو اس میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ انسان دُنیا کو اس لئے اختیار کرتا ہے کہ زندگی میں تکلیف سے ڈرتا ہے مگر یہ ڈر عبث ہے کیونکہ تکلیف اور آرام خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے پس دُنیا کا آرام بھی خدا تعالیٰ کو خوش کر کے مل سکتا ہے اسے چھوڑ کر نہیں مل سکتا۔
۴۳؎ حل لغات
لاَتَلْبِسُوْنہی جمع مخاطب کا صیغہ ہے اور لَبَسَ عَلَیْہِ (یَلْبِسُ) الْاَمْرَ لَبْسًا کے معنے ہیں خَلَطَہٗ وَجَعَلَہٗ مُشْتَبِھًا بِغَیْرِہٖ ایک معاملہ کو دوسرے معاملہ کے ساتھ ملا کر مشتبہ کر دیا (اقرب) پس لَاتَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ کے معنے ہونگے کہ حق کو باطل کے ساتھ نہ ملائو۔
اَلْحَقُّ:۔ اَلْحَقُّ کے لئے دیکھو حل لغات سورۃ ہذا ۲۷؎
اَلْبَاطِلُ:۔ اَلْبَاطِلُ نَقِیْضُ الْحَقِّ وَھُوَ مَالَاثَبَاتَ لَہٗ عِنْدَ الْفحْصِ۔ یعنی باطل حق کے مقابل پر بولا جاتا ہے اور باطل اس چیز پر بولتے ہیں جس کی تحقیق کی جائے تو کوئی حقیقت نہ نکلے (مفردات)
تفسیر۔ تَلْبِسُوْا لَبَسَ سے بنا ہے۔ لَبَسَ ضَرَبَ بَضْرِبُ کے وزن پر بھی آتا ہے اور عَلِمَ یَعْلَمُ کے وزن پر ہو تو اس کے معنے پہننے کے ہوتے ہیں۔ لباس اسی میں سے بنا ہے اس آیت میں چونکہ تَلْبِسُوْا ہے یعنی ب کے نیچے زیر ہے اس لئے اس کے معنے مخلوط کر کے مشتبہ بنا دینے کے ہیں اور آیت کا یہ ترجمہ ہے کہ حق میں باطل ملا کر اسے مشتبہ نہ بنا دو۔ انبیاء کے دشمن ہمیشہ یہی طریقہ اختیار کرتے ہیں یعنے کوئی سچی بات لی اور اس میں ایک جھوٹ ملا دیا اور شور مچا دیا کہ مدعی کا دعویٰ جھوٹا ہے یہود سب علامتوں کو تسلیم کر کے کبھی کہدیتے کہ اصل علامت آنے والے کی یہ ہے کہ وہ بنی اسرائیل میں سے ہو گا کبھی کہدیتے کہ اصل علامت یہ ہے کہ وہ یروشلم میں ظاہر ہو گا اس طرح عوام کی سچ قبول کرنے سے محروم کر دیتے ہیں حالانکہ صداقت کے پہچاننے میں اصل چیز جسے مدنظر رکھا جاتا ہے یہ ہے کہ موعود اس غرض کو پُورا کرتا ہو جس کے لئے اس کی خبر دی گئی تھی اس زمانہ میں ظاہر ہو جس میں اس کے ظہور کی سب سے زیادہ ضرورت ہو اور کچھ حصہ پیشگوئیوں کا ظاہر میں اس کے حق میں پورا ہو جائے ورنہ پیشگوئیوں میں چونکہ اخفاء کو مدنظر رکھا جاتا ہے کچھ حصہ ان کا تعبیر طلب ہوتا ہے بیشک بعض جگہ بنی اسرائیل میں سے اُس نبی کے آنے کی خبر ہے مگر چونکہ دوسری جگہ بنو اسمٰعیل میں سے ہونے کی خبر ہے اس کے معنے صرف یہ ہیں کہ اس کی قوم بنی اسرائیل کی برکات کی وارث ہو گی اور گویا آیندہ زمانہ میں وہ بنی اسرائیل کی قائم مقام ہو گی۔ اور صیحون میں اس کے ظاہر ہونے کے الفاظ بیشک آتے ہیں لیکن اس کے معنے صر فیہ ہیں کہ جس جگہ وہ ظاہر ہو گا وہ بھی خدا تعالیٰ کے مقدس مقامات میں سے ہو گا یعنی مکہ بہت سی دوسری علامات کے حرف بہ حرف پورا ہو جانے کے بعد اور سب سے زیادہ یہ کہ اس زمانہ میں ظاہر ہونے کے بعد جس میں کہ اس موعود کو ظاہر ہونا چاہیئے تھا اور وہ کام کرنے کے بعد جو اس کے لئے مقدر تھا پھر بنی اسرائیل کا یہ اعتراض کہ فلاں فلاں پیشگوئی ابھی پوری نہیں ہوئی یا لفظاً پوری نہیں ہوئی محض حق اور باطل کو ملانے والی بات تھی اور لوگوں کو حق کے قبول کرنے سے روکنے کی ایک ناواجب کوشش۔ مگر ایسی کوششیں نہ پہلے کبھی کامیاب ہوئی تھیں نہ محمد رسول اللہ صلیہ اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ہوئیں اور نہ آیندہ کبھی ہونگی۔
وَتَکْتُمُوا الْحَقَّ۔ اس جملہ کا پہلے جملہ پر عطف ہے اس لئے وہی لَاجو جو پہلے گذر چکا ہے دوبارہ دہرایا جائیگا اور جملہ یوں ہو گا وَلَاتَکْتُمُوا الْحَقّ۔ اور تم حق کو نہ چھپائو۔ یہ بنی اسرائیل کی دوسری شرارت بتائی وہ ان پیشگوئیوں کے چھپانے کی کوشش کرتے تھے جن سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت ثابت ہوتی تھی۔ گویا وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت ثابت ہوتی تھی۔ گویا وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو طرح مقابلہ کرتے تھے۔ اوّل اس طرح کہ پیشگوئیوں کو مخلوط کر کے بیان کر دیتے تھے۔ مثلاً لفظاً پورا ہونے والی پیشگوئیوں سے تعبیری پیشگوئیوں کو ملا دیتے تھے یا موعود آخر الزمان کی پیشگوئیوں کے ساتھ بعض سابق نبیوںکے متعلق جو پیشگوئیوں تھیں انہیں ملا دیتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ بھی آنے والے کی علامت ہے حالانکہ وہ کسی اور نبی کی علامت ہوتی تھی اور اس کے وجود میں پوری ہو چکی تھی (اسی طرح آج کل بعض علمائے اسلام کرتے ہیں اسلام نے بہت سے مہدیوں کی خبر دی ہے بعض آ چکے اور اپنے متعلق پیشگوئیوں کو پورا کر چکے۔ مگر یہ علماء آنے والے مہدی کے بارہ میں ان پیشگوئیوں کو بتا کر ان پیشگوئیوں کو مشتبہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو اس کے بارہ میں ہیں اور پہلے زمانہ میں پوری ہو چکی ہیں) دوسرا حربہ وہ یہ استعمال کرتے تھے کہ بعض پیشگوئیوں کو عوام کی نطر سے پوشیدہ رکھنے کی کوشش کرتے تھے اور ان کا ذکر اپنے وعظوں پر چھوڑ جاتے تھے ا ور اگر مسلمان انہیں بیان کرتے تو صاف انکار کر دیتے تھے اگر کوئی واقف آدمی ان کو مجبور کر دیتا تو بہانے تراشنے لگ جاتے۔
وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۔ ورانحالیکہ تم جانتے ہو یعنی یہ حق و باطل کو ملانا اور بعض حق کو چھپانا اتفاقی حادیثہ نہیں اور نہ غلطی کی وجہ سے ہے بلکہ تم ایسا دیدہ و دانستہ کرتے ہو اور جو دیدہ و دانستہ ایسے گناہ کا مرتکب ہو ہر گز خدا تعالیٰ کے فضل کا وارث نہیں ہو سکتا۔








۴۴؎ حل لغات
اَقِیْمُوْا۔ امر جمع مخاطب کا صیغہ ہے۔ اَقَامَ کے لئے دیکھو حل لغات سورۃ ہذا ۴؎
اَلصَّلٰوۃُ۔ اَلصَّلٰوۃُ کی تشریح کے لئے دیکھو حل لغات سورۃ ہذا ۴؎
اَلزَّکوٰۃُ:۔ زَکَا (یَزْکُوْا) تَزْکِیَۃً کا اسم ہے اور زَکَی الشَّیْئُ کے معنے ہیں نَمَا کوئی چیز زیادہ اور بکثرت ہو گئی کہتے ہیں زَکَا الرَّجُلُ۔ صَلَحَ وَ تَنَعَّمُ وَکَانَ فِیْ خَصْبٍ۔ کوئی شخص اچھی عمدہ حالت میں ہو گیا۔ خوشحالی میں ہو گیا (کیونکہ زَکَتِ الْاَرْضَ اس وقت بولتے ہیں جبکہ وہ سرسبز ہو جائے) اور جب زَکَّاہُ اللّٰہُ کہیں تو اس کے معنے ہونگے اَنْمَاہُ اللہ تعالیٰ نے اس کو پروان چڑھایا۔ طَھَّرَہٗ اسے پاکیزہ کیا۔ زَکَّی فُلَانٌ مَالَہٗ کے معنے ہیں اَدَّی عَنْہُ زَکوٰۃً اس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کی اور جب زَکَّی نَفْسَہٗ کہیں تو معنے ہونگے کہ مَدَحَھَا اپنے نفس کو اس نے تعریف کے قابل بنایا اور تَزَکَّی کے معنے ہیں تَصَدَّقَ اس نے صدقہ دیا اور اَلزَّکوٰۃُ کے معنے ہیں صَفْوَۃُ الشَّیْئِ اعلیٰ درجہ کی چیز طَاعَۃُ اللّٰہِ اللہ کی اطاعت۔ مَا اَخْرَجْتَہٗ مِنْ مَالِکَ لِتُطَھِّرَہٗ بِہٖ۔ مال کا وہ حصہ جو بطور زکوۃ نکالا جاتا ہے تاکہ باقی مال پاک ہو جائے۔ وَقِیْلَ سُمِّیَتِ الصَّدَقَہُ بِالزَّکوٰۃِ لِاَنَّھَا تَزِیْدُ فِی الْمَالِ الَّذِیْ تُخْرَجُ مِنْہُ وَ تُوَفِّرُہٗ وَتَقِیْہِ مِنَ الْاٰفَاتِ۔ اور صدقہ کا نام اس لئے زکوۃ رکھا گیا ہے کیونکہ جس مال سے زکوۃ نکالی جائے وہ اس مال میں برکت ڈالتی ہے اور اس کو بڑھاتیہے اور اُسے آفات سے بچاتی ہے (اقرب)
اِرْکَعُوْا:۔ امر جمع مخاطب کا صیغہ ہے اور رَکَعَ الْمُصَلِّی (رَکْعًاوَ رُکُوْعًا) کے معنے ہیں طَأْطَأَ رَاْسَہٗ۔ نمازی نے اپنا سر نیچے کیا اور جب رَکَعَ اِلَی اللّٰہِ کہیں تو معنے ہونگے اِطْمَأَنَّ اِلَیْہِ اس نے اللہ کی طرف تسلی پائی۔ نیز رَکَعَ الرَّجُلُ کے معنے ہیں اِنْحَطَّتْ حَالَتُہٗ وَ افْتَقَّرَ اس کی مالی حالت کمزور ہو گئی اور وہ محتاج ہو گیا (یہ مجازی معنے ہیں) اور رَکَعَ الْمُصَلِّی فِی الصَّلٰوۃِ رُکُوْعًا کے معنے ہیں خَفَضَ رَأْسَہٗ بَعْدَ قَوْمَۃِ الْقِرَائَ ۃ حَتّٰی تَنَالَ رَاحَتَاہُ رُکْبَتَیْہِ اَوْحَتّٰی یَطْمَئِنَّ ظَھْرُہٗ۔ نمازی نے قراء ت کے بعد گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر کمر کو جھکایا نیز لکھا ہے وَالرَّاکِعُ کُلُّ شَیْئٍ یَخْفِضُ رَأْسُہٗ اور ہر اس چیز پر جو سر نیچے جھکائے رکھتی ہے رَاکِع کا لفظ بولتے ہیں (اقرب) مفردات میں ہے اَلرُّکُوْعُ اَلْاِنْحِنَائُ کہ رکوع کے معنے جھک جانے کے ہیں فَتَارَۃً یُسْتَعْمَلُ فِی الْھَیْئَۃِ الْمَخْصُوْصَۃِ فِی الصَّلٰوۃِ وَ تَارَۃً فِی التَّوَاضُعِ وَالتَّذَلُّلِ اِمَّا فِی الْعِبَادَۃِ وَ اِمَّا فِیْ غَیْرِ ھَا کبھی تو یہ لفظ اس مخصوص ہیئت پر استعمال کیا جاتا ہے جو نماز میں کی جاتی ہے۔ یعنی قرأت کے ختم کرنے کے بعد گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر جھک جانا اور کبھی یہ لفظ عاجزی کرنے اور تذلل اختیار کرنے پر بولا جاتا ہے خواہ یہ عاجزی نماز میں کی جائے یا اس کے علاوہ کسی اور حالت یا مقام میں (مفردات) تاج العروس میں ہے کُلُّ شَیْئٍ یَنْکَبُّ لِوَجْھِہِ فَتَمَسُّ رُکْبَتَیْہِ الْاَرْضَ اَوْلَا تَمَسُّہَا بَعْدَ اَنْ یَخْفِضَ رَأْسَہٗ فَھُرَ رَاکِعٌ کہ ہر اُس چیز پر جو اوندھے منہ ہو کر چلتی ہے رَاکِعٌ کا لفظ بولتے ہیں (گویا اس کی ہیئت کذائی عاجزی پر دلالت کرتی ہے) وَقَالَ ثَعْلَبٌ اَلرُّکُوْعُ: الٓخُضُوْعُ لغت کے مشہور امام ثعلب کہتے ہیں کہ رکوع کے معنے عاجزی کرنے کے ہوتے ہیں وَکَانَتِ الْعَرَبُ فِی الْجَا ھِلِیَّۃِ تُسَمِّی الْحَنِیْفَ رَاکِعًا اِذَا لَمْ یَعْبُدِ الْاَ وْ ثَانَ وَ یَقُوْلُوْنَ رَکَعَ اِلَی اللّٰہِ اور عرب لوگ قبل اسلام موحد کر راکع کہتے تھے کیونکہ وہ بتو ںکی پوجا نہ کرتا تھا اور اس کے لئے راکع کا لفظ اس لئے استعمال کرتے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کی اور اس کے سامنے عاجزی اختیار کی (تاج) الغرض رَکَعَ کے لفظ کے اندع عاجزی اور تذلل کے معنے پائے جاتے ہیں پس رَاکِعٌ کے معنے ہونگے (۱) عاجزی کرنے والا (۲) اللہ تعالیٰ کی خالص پرستش کرنے والا۔ اور اِرْکَعُوْا کے معنے ہونگے تم عاجزی کرو۔ (۲) تم اللہ تعالیٰ کی خالص پرستش کرو۔
تفسیر۔ پہلی آیات میں ایمان کی درستی کی بنی اسرائیل کو ہدایت کی تھی اب اعمال کی درستی کی طرف توجہ دلائی ہے اور فرماتا ہے کہ جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کر اپنے ایمان کی تکمیل تمہارے لئے ضروری ہے اسی طرح آپ پر ایما لا کر اپنے اعمال کی درستی تمہارے لئے ضروری ہے بیشک تم اپنے رنگ میں عبادت کرتے ہو مگر اب وہ عبادات تمہاری مقبول نہیں۔ اب تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق کے مطابق نمازیں پڑھو گے تو عبادت قبول ہو گی۔ اسی طرح بیشک تم قومی چندے دیتے ہو مگر اب تو شریعت محمدیہ کے مطابق زکوٰۃ نہ دو گے تو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل نہ کر سکو گے اسی طرح بیشک تمہاری عبادات اور تمہارے اعمال شرک سے ایک حد تک پاک ہونگے مگر اب وہ معیار توحید کا جو پہلے تھا بدل گیا ہے اب تو اس وقت تک تم خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث نہیں ہو سکتے جب تک اس معیار توحید کو قائم نہ کرو جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے۔
وَاٰتُوا الزَّکوٰۃَ میں زکوٰۃ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے یہ ایک مقررہ طریقہ اپنے اموال کو خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کا ہے زکوٰۃ کے بارے میں آ گے چل کر تفصیلی بحث ہو گی اسی سلسلہ میں نوٹ ۳؎ سورہ ہذا بھی دیکھ لینا چاہیئے جس میں اسلام ذمہ داریاں مال کے متعلق بیان کی گئی ہیں۔
وَارْکَعُوْا مَعَ الرَّاکِعِیْنَ۔ میں جو لفظ رَکَعَ استعمال ہوا ہے اس کے بارہ میں حل لغات میں بتایا جا چکا ہے کہ اس کے معنے علاوہ رکوع یعنی جھکنے کے موحدانہ زندگی بسر کرنے کے بھی ہوتے ہیں۔ حقیقت الاساس میں لکھا ہے کَانَتِ الْعَرَبُ تُسَمِّی مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَلَمْ یَعْبُدِ الْاَوْثَانَ رَاکِعًا۔ یعنی عرب لوگ اسے جو اللہ پر ایمان لاتا ہو اور بتوں کی پوجا نہ کرتا ہو رَاکِعٌ کہتے ہیں اسی طرح لسان العرب میں لکھا کہ رَاکِعٌ توجہ کو خالص ایک طرف کر دینے والے کو کہتے ہیں اور اس کی تائید میں نابغہ ذبیانی کا یہ شعر لکھا ہے ؎
سَیَبْلُغُ عُذْرًا اَوْنَجَا حًا مِنِ امْرَئٍ
اِلیٰ رَبِّہٖ رَبِّ الْبَرِیَّۃِ رَاکِعُ
یعنی وہ شخص جو صرف اپنے رب کی طرف جو سب دُنیا کا رب ہے خالص طور پر متوجہ ہو جانا ہے ضرور یا نجات پا جائے گا یا معذور قرار پا جائے گا۔ پس وَارْا کَعُوْا مَعَ الرَّا کِعِیْنَ کے معنے اس جگہ نماز کے رکوع کے نہیں کیونکہ نماز میں صرف رکوع ہی نہیں ہوتا بلکہ رکوع کے سوا اور اجزاء بھی ہوتے ہیں پس کوئی وجہ نہ تھی کہ صرف رکوع کا ذکر کیا جاتا۔ دوسرے اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ میں نہ صرف خالی نماز کا بلکہ باجماعت نماز کا ذکر ہو چکا ہے جس میں قیام رکوع سجدہ سب ہی شامل ہیں۔ پھر کوئی وجہ نہیں کہ ساری نماز کا جس میں رکوع بھی شامل ہے ذکر کر کے صرف رکوع کا الگ ذکر کیا جائے۔ پس ان امور سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں رکوع کے معنے اور ہیں نماز والے رکوع کے نہیں اور وہ معنے میں اوپر بیان کر چکا ہوں پہلے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے ساتھ باجماعت نماز پڑھنے کی تلقین کی پھر مسلمانو ںکی طرح زکوٰۃ دینے کی تلقین کی پھر یہ حکم دیا کہ مسلمانوں کی طرح اپنے سب اعمال کو خدا تعالیٰ کے َئے کر دو اور کامل توحید کو اختیار کر لو شرک کی ملونی کو اپنے اعمال سے بالکل جدا کر دو تب جا کر تم ان فضلوں کے دوبارہ وارث ہو سکو گے جن کا وعدہ عہد ابراہیم میں بیان ہوا ہے۔
اس تشریح کی اس لئے ضرورت پیش آئی کہ تا کوئی یہ دھوکا نہ کھائے کہ یہود کے لئے تورات کے احکام پر عمل کرنا اب بھی کافی ہے اور یہ امر واضح ہو جائے کہ اب عمل صالح سے مُراد وہی عمل ہو گا جو شریعت محمدیہ میں نازل ہوا ہے اور اسی صورت میں مقبول ہو گا کہ اسلامی طریق کے مطابق ادا کیا جائے۔








۴۵؎ حل لغات
اَلْمِرُّ۔ اَلصِّلَۃُ۔انعام احسان اور عطیہ۔ اَلَّطَّاعَۃُ فرما نبرداری۔ اَلصِّدْقُ سچائی (اقرب) تاج العروس میں ہے اَصْلُ مَعْنَی البِرِّ اَلسَّعَۃُ کہ بر کے اصل معنے وسعت کے ہوتے ہیں ثُمَّ ھَاعَ فِی الشَّفْقَۃِ وَالْاِ حْسَانِ والصِّلَۃِ پھر یہ لفظ شفقت۔ احسان اور انعام عطیہ وغیرہ کے معنوں میں مشہور ہو گیا۔ ابو منصور جو لغت کے امام ہیں کہتے ہیں کہے اَلْبِرُّ خَیْرُ الدُّنَیا وَالْاٰخِرَۃِ۔ بر کے لفظ کے اندر دُنیا و آخرت ہر دو کی بھلائیاں آ جاتی ہیں۔ نیز اَلْبِرُّ کے معنے ہیں اَلصَّلَاحُ صلاحیت۔ اَلْخَیْرَ بھلائی۔ اَلْاِتِّسَاعُ فِے الْاِحْسَانِ اِلَی النَّاسِ۔ لوگوں کے ساتھ احسان کرنے میں وسعت (تاج العروس)
تَنْسَوْنَ۔ نَسِیَ (یَنْسٰی) سے مضارع جمع مخاطب کا صیغہ ہے اور نَسِیَ الشَّیْئَ نَسْیًا کے معنے ہیں ضِدُّ حِفِظَہٗ کسی چیز کو بھول گیا۔ قَالَ الرَّاغِبُ ’’اَلنِّسْیَانُ تَرْکُ الْاِنْسَانِ ضَبْطَ مَا اسْتُوْدِعَ اِمَّا لضَعْفِ قَلْبٍ وَ اِمَّا عَنْ غَفْلَۃٍ وَ اِمَّا عَنْ قَصْدٍ حَتّٰی یَنْحَذِفَ عَنِ القَلْبِ ذِکرُہٗ‘‘ امام راغب لکھتے ہیں کہ انسانی دماغ میں جو باتیں محفوظ ہوں ان کو اس کا ضائع کر دینا نسیان کہلاتا ہے واہ یہ ضائع کرنا اس کی دماغی کمزوری کا نتیجہ ہو خواہ غفلت کی وجہ سے ہو یا ارادۃً ہو حتٰی کہ ان باتو ںکا نقش ذہن سے مٹ جائے (اقرب) تاج العروس میں لفظ نسیان کی تشریح میں لکھا ہے اَکْثَرُ اَھْلِ اَللُّغَۃِ فَسَّرُوْہُ بِالتَّرْکِ کہ اکثر اہل لغت نے نسیان کے معنے چھوڑنے کے کئے ہیں پھر امام ثعلب جو عربی لغت کے مشہور اما م ہیں ان کا قول آیت نَسُو اللّٰہَ فَنَسِیَہُمْ کی تشریح میں لکھا ہے کہ لَایَنْسَی اللّٰہُ عَزُّوَجَلَّ اِنَّمَا مَعَنَاہُ تَرَکُوا اللّٰہَ فَتَرَ کَھُمْ یعنی اللہ تعالیٰ کی شان سے یہ امر بعید ہے کہ وہ کسی چیز کو بھول جائے۔ اس لئے آیت نَسُو اللّٰہَ فَنَسِیَہُمْ میںنسیان کے معنے چھوڑنے کے ہیں یعنی لوگوں نے خدا تعالیٰ کو چھوڑ دیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان کو چھوڑ دیا (تاج) پھر لکھا ہے وَ اِذَا نُسِبَ ذٰلِکَ اِلَی اللّٰہِ فَھُوَ تَرْکُہٗ اِیَّا ھُمْ اِسْتِہَانۃً وَ مَجَازَاۃً لِمَا تَرَکوہُ۔ جب لفظ نسیان اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف منسوب ہو تو اس کے معنے چھوڑنے کے ہوتے ہیں کیونکہ جب لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ دیتے ہیں اور اُس کے احکام سے رُو گردانی کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے ایسے اعمال کے بدلہ میں ان کو چھوڑ دیتا ہے (تاج) اقرب میں لَا تَنْسُوُ الْفَضْلَ کی تشریح میں لکھا ہے کہ اس کے معنے ہیں لَا تَقْصُدُ وا التَّرْکَ وَالْاِھْمَالَ کہ اپنی فضیلت کو چھوڑنے کا قصد نہ کرو (اقرب) پس تَنْسوْنَ کے معنے ہونگے تم بھلاتے ہو۔ فراموش کرتے ہو۔ تم چھوڑتے ہو۔
اَنْفُسَکُمْ:۔ اَنْفُسٌ نَفْسٌ کی جمع ہے اور اَلنَّفْسُ کے معنے ہیں اَلرُّوْحُ۔ رُوح۔ اَلْجِسْمُ جم وَیُرَادُ بالنَّفْسِ اَلشَّخْصُ وَالْاِنْسَانُ بِجُمْلَتِہٖ بعض اوقات نفس کا لفظ بول کر رُوح اور جسم کا مجموعہ انسان اور اس کا خاص تشخص مراد لیاجاتا ہے۔ اَلْعَظْمَۃُ۔ عظمت اَلْعِزَّۃُ عزت۔ اَلْھِمَّۃُ ہمت۔ اَلْاِرَادَۃُ۔ ارادہ اَلرَّأَیُ رائے (اقرب)
تَتْلُوْنَ:۔ تَلیٰ (یَتْلُوْ) سے مضارع جمع مخاطب کا صیغہ ہے اور تَلَا الکَلَامَ تِلَاوَۃً کے معنے ہونگے تم پڑھتے ہو۔
تَعْقِلُوْنَ:۔ عَقَلَ (یَعْقِلُ) سے مضارع مخاطب جمع کا صیغہ ہے اور عَقَلَ الدَّوَائُ الْبَطْنَ کے معنے ہیں اَمْسَکَۃٗ دوائی نے پیٹ کو روک دیا یعنی قبض کر دی اور جب عَقَلَ الْغُلَامُ کہیں تو معنے ہوں گے اَدْرَکَ لڑکا بالغ ہو گیا یعنی اچھی اور بُری باتوں کو سمجھنے لگ گیا اور عَقَلَ الشَّیْئَ عَقْلًا کے معنے ہیں فَھِمَہٗ وَ تَدَبَّرَہٗ کسی چیز کو سمجھا اور اس کے متعلق غور و فکر کیا عَقَلَ الْبَعِیْرَ:۔ ثَنٰی وَظِیْفَہٗ مَعَ ذَرَاعِہِ فَشَدَّ ھُمَا معًا بِحَبْلٍ اُونٹ کی ٹانگ کو اس کی ران کے ساتھ باندھ دیا۔ عَقَلَ الْوَعْلُ عَقْلًا کے معنے ہیں صَعَدَ وَامْتَنَعَ فِی الْجَبَلِ الْعَالِی پہاڑی بکر اپہاڑ پر چڑھ گیا اور وہاں جا کر رُک کر محفوظ ہو گیا۔ نیز اَلْعَقْلُ کے معنے ہیں نُوْرً رُوْحَانِیٌّ بِہٖ تُدْرِکُ النَّفْسُ الْعَلُوْمَ الضَّرُوْرِیَّۃَ وَالنَّظَوِیَّۃَ کہ عقل اس روحانی روشنی کا نام ہے جس کے ذریعہ سے نفس بدیہی باتوں کو یا غورو فکر سے معلوم ہونے والی باتوں کو معلوم کرتا ہے (اقرب) پس اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ کے معنے ہونگے (۱) کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے (۲) کیا تم اپنی ناواجب حرکات سے رکتے نہیں۔
تفسیر۔ بِرٌّ کے معنے جیسا کہ حل لغات میں لکھا جا چکا ہے اعلیٰ درجہ کے احسان اور نیکی کے ہوتے ہیں اس آیت میں توجہ دلائی ہے کہ بنی اسرائیل اپنی کتب کے حکم کے مطابق لوگوں کو بہت احسان کرنے اور نیکی کرنے کا حکم دیتے تھے لیکن اپنا یہ حال تھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والے عظیم الشان نبی کو صرف دنوی نقصان کے ڈر کے مارے قبول نہ کرتے تھے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو تو اپنی جانوں کو بھی تو نہ بھولو ان کا حق تو تم پر زیادہ ہے۔ نسیان کے معنے چھوڑنے کے بھی ہیں اس کے رو سے یہ معنی ہونگے کہ لوگوں کو اعلیٰ نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے نفسوں کو چھوڑ دیتے ہو انہیں ایسا حکم کیوںنہیں دیتے کہ تمہارا عمل تمہارے قول کے خلاف نہ ہو۔
وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتابَ کے یہ معنے نہیں کہ تمہاری کتاب محرف مبدل نہیں جیسا کہ بعض ناواقف نتیجہ نکالتے ہیں بلکہ کتاب کا ذکر پہلے حکم کے سلسلہ میں ہے اور مطلب یہ ہے کہ تم تو اپنی کتاب پڑھتے ہو اس میں تو یہ حکم نہیں کہ دوسروں کو تو نیکی کا حکم دو اور اپنے آپ کو بد راہ پر چلائو پس جب تم جس کتاب کو مانتے ہو وہ بھی اس طریق کو جائز نہیں قرار دیتی تو تم نے اس طریق کو کیوں اختیار کر رکھا ہے چاہیئے کہ جس طرح دوسروں کو قربانی کا حکم دیتے ہو خود بھی حق کے لئے قربانی کرو اور اپنی جانوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔
اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۔ پھر کیا تم باز نہیں آتے یعنی اگر تمہاری کتب میں یہ تعلیم نہ ہوتی کہ اپنے نفس کو بھی نیکی راہ پر چلائو تو تم کو معذور سمجھا جا سکتا تھا لیکن اس تعلیم کی موجودگی میں تمہارا نیکی کے راستہ سے بھٹکنا تو سخت افسوسناک ہے پس کسی دوسرے کی نہیں مانتے تو اپنی کتاب کے حکم ہی کو مانو اور نیکی اور تقویٰ کی راہ پر چلو۔



۴۶؎ حل لغات
اِسْتَعِیْنُوْاامر حاضر جمع کا صیغہ ہے اور اِسْتِعَانَۃٌ کے معنے مدد طلب کرنے یا مدد حاصل کرنے کے ہیں چنانچہ کہتے ہیں اِسْتَعَنْتُہٗ فَاَعَانَتِیْ میں نے اس سے مدد طلب کی تو اس نے مدد دے دی (اقرب) مزید تشریح کے لئے دیکھو سورہ فاتحہ ۶؎
اَلصَّبْرُ:۔ صَبْرٌ کے معی ہیں تَرْکُ الشِّکْوٰی مِنْ اَلَمِ الْبَلْوٰیِ لِغَیْرِ اللّٰہِ لَا اِلَی اللّٰہِ کہ مصیبت کے دُکھ کا شکوٰی خدا تعالیٰ کے سوا کسی اور کے پاس نہ کرنا فَاِذَا دَعَا اللّٰہَ الْعَبْدُ فِیْ کَشْفِ الضُّرِّ لَایُقْدَحُ فِیْ صَبْرِہٖ اگر بندہ اپنی رفع مصیبت خدا تعالیٰ کے پاس فریاد کرے تو اس کے صبر پر اعتراض نہ کیا جائے۔ کلیات ابی البقاء میں لکھا ہے کہ اَلصَّبْرُ فِی الْمُصِیْبَۃِ کہ صبر مصیبت کے وقت ہوتا ہے وَصَبَرَ الرَّجُلُ عَلَی الْاَمْرِ نَقِیْضُ جَزِعَ اَیْ جَرُؤَ و شَجُعَ وَتَجَدَّرَ اور صبر جزع یعنی شکوٰی کرنے اور گھبرانے کے مقابل کا لفظ ہے اور صبر کے معنے ہوتے ہیں دلیری دکھائی جرأت دکھائی ہمت دکھائی اور صَبَر عَنِ الشَّیْئِ کے معنے ہیں اَمْسَکَ عَنْہُ کسی چیز سے رُکا رہا۔ صَبَرَ الدَّابَۃَ حَبسَہَا بِلَا عَلَفٍ اور جب صَبَرَ کا مفعول دَابۃ کا کا لفظ ہو تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ جانور کو چارہ نہ دیا نیز کہتے ہیں صَبَرْتُ نَفْسِیْ عَلیٰ کَذَا۔ حَبَسْتُھَا کہ میں فلاں بات پر ثابت قدمی دکھائی چنانچہ محاورہ ہے صَبَرْتُ عَلیٰ مَا اَکْرَہُ وَ صَبَرْتُ عَمَّا اُحِبُّ یعنے جب صَبَرَ کا صلہ عَلٰی ہو تو اس کے معنے کسی امر پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں اور جب اس کا صلہ عَنْ ہو تو اس کے معنے کسی چیز رُکنے یا کسی کو اس سے روک دینے کے ہوتے ہیں (اقرب) پس صَبْرٌ کے معنے (۱) بدیوں سے رُکتے رہنا اور نیکیوں پر ثابت قدم رہنا (۲) خدا تعالیٰ کے راستہ میں تکلیف پر جزع فزع نہ کرنا۔
اَلصَّلوٰۃُ:۔ کی تشریح کے لئے دیکھو حل لغات سورۃ ہذا ۴؎
اَلْخٰشِعِیْنَ:۔ خٰشِعِیْنَ اور خٰشِعُوْنَ خَاشِعٌ کی جمع ہے جو خَشَعَ سے اسم فاعل ہے۔ خَشَعَ کے معنے ذَلَّ وَتَطَأْمَنَ تابعدار ہو گیا اور عاجزی کا اظہار کیا اور خَشَعَ بِبَصَرِہٖ کے معنے ہیں غَضَّہٗ آنکھ نیچے کر لی۔ نھایۃ میں لکھا ہے کہ اَلْخُشُوْعُ فِیْ الصَّوْتِ وَالْبَصَرِ کَالْخُضُوْعِ فِی الْبَدَنِ جس طرح بدن کی عاجزی اور کمزوری ظاہر کرنے کے خضوع کا لفظ بولا جاتا ہے اسی طرح آواز کے کمزور ہونے اور آنکھ کے عجز کو ظاہر کرنے کے لئے خشوع کا لفظ استعمال ہوتا ہے (اقرب) مفردات میں ہے کہ اَلْخُشُوْعُ اَلضَّرَاعَۃُ خشوع کے معنے عاجزی کرنے ہوتے ہیں وَاَکْثَرُ مَا یُسْتَعْمَلُ الْخُشُوْعُ فِیْمَا یُوْجَدُ عَلَی الْجَوَارِح وَالضَّرَاعَۃُ اَکْثَرُ مَا تُسْتَعْمَلُ فِیْمَا یُوْجَدُ فِی الْقَلْبِ کہ خشوع کا استعمال اکثر اس عاجزی پر ہوتا ہے جو اعضاء سے ظاہر ہو رہی ہے اور تضرع اکثر دل میں عاجزی پیدا ہو جانے کے متعلق بولا جاتا ہے (مفردات) پس خٰشِعِیْنَ کے معنے ہونگے عاجزی اختیار کرنے والے۔ فروتنی اختیار کرنے والے۔
تفسیر۔ صداقت کے قبول کرنے میں دو روکیں ہوتی ہیں (۱) حکومت قوم رشتہ داروں اور دوستوں کا دبائو جو حق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے یا ضد تعصب یا خود غرضی کی وجہ سے حق کو قبول نہیں کرتے اور دوسروں کو بھی قبول نہیں کرنے دیتے (۲) سابق عادات یا گناہوں کا زنگ دل کو مردہ کر دیتا ہے اور ہمت کو سلب کر دیتا ہے۔
اس آیت میں ان دونوں روکوں کی طرف اشارہ کر کے بتایا گیا ہے کہ اے بنی اسرائیل اگر تم پر حق کھل گیا ہے تو اسے قبول کرنے میں دیر نہ کرو بیشک تم کو تمہارے ہم قوموں اور رشتہ داروں دوستوں کی طرف سے روکا جائے گا تم پر ظلم کیا جائے گا۔ تکلیفیں دی جائینگی مگر ان باتوں کی پروا نہ کرو اور صبر کی پسندیدہ عادت سے اس روک کا مقابلہ کرو دوسرے اپنے دل کو صاف کرنے کے لئے خدا تعالیٰ سے دعائیں کرو تاکہ دل کے زنگ دور ہوں اور تم میں صداقت کو قبول کرنے کی اہلیت پیدا ہو۔
ایک اور نفسیانی نکتہ بھی اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ کسی کام کی درستی کے لئے دو امور کی ضرورت ہوتیہے اول بیرونی بد اثرات سے حفاظت ہو دوسرے اندرونی طاقت کو بڑھایا جائے اس آیت میں صبر کے لفظ سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ بیرونی بد اثرات کا مقابلہ کرو اور صلوٰۃ کے لفظ سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کر کے اس کے فضلوں کو جذب کرو اس طرح کمزوری کے راستے بند ہونگے اور طاقت کے حصول کے دروازے کھل جائیں گے اور تم کامیاب ہو جائو گے حل لغات میں بتایا جا چکا ہے کہ صبر کے معنے صرف جزع فزع سے بچنے کے ہی نہیں ہوتے بلکہ برے خیالات کا اثر قبول کرنے سے رکنے اور ان کا مقابلہ کرنے کے بھی ہوتے ہیں اوپر کی تفسیر میں یہی معنے مُراد ہیں جب کوئی بد اثرات کو رد کرے اور نیک اثرات کو قبول کرنے کی عادت ڈالے جو دعائوں سے حاصل ہو سکتی ہے تو اس کے دل میں روحانیت پیدا ہو کر جو کام پہلے مشکل نظر آتا تھا آسان ہو جاتا ہے اور روحانی ترقی کی جنگ میں اسے فتح حاصل ہوتی ہے۔
اگلے جملہ میں جو کَبِیْرَۃٌ کا لفظ استعمال ہوا ہے اس کے معنے بڑی کے ہیں اور اس آیت میں موقعہ کے لحاظ سے مشکل امر کے معنے ہوتے ہیں اور خَاشِع کے معنے ڈرتے والے کے ہوتے ہیں لیکن قرآن کریم میں یہ لفظ جس جگہ بھی استعمال ہوا ہے اس ہستی سے ڈرنے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے اس ہستی سے ڈرنے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے جس سے ڈرنا مناسب ہو چنانچہ خَاشِع کا لفظ سارے قرآن کریم میں یا تو خدا تعالیٰ سے ڈرنے یا اس کے عذاب سے ڈرنے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ بندوں یا دوسری چیزوں سے ڈرنے کے معنوں میں کبھی استعمال نہیں ہوا۔
اس جگہ یہ سوال پیدا ہوسکتا تھا کہ اس قسم کا علاج بتانا آسان ہے اس پر عمل کرنا مشکل ہے پس اس کا جواب وَاِنَّھَا لَکَبِیْرَۃٌ اِلَّا عَلَی الْخٰشِعِیْنَ میں دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس علاج پر عمل مشکل کام ہے لیکن جو خَاشِع ہو جائے اس کے لئے مشکل نہیں رہتا گویا گناہوں اور کمزوریوں سے بچنے کا حقیقی علاج خدا تعالیٰ پر ایمان ہے بغیر اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان کے انسان دوسری تدبیروں سے گناہ سے نہیں بچ سکتا۔ دُنیا نے بارہا اس کا تجربہ کیا ہے لیکن افسوس کہ وہ بار بار اس نکتہ کو بھول جاتی ہے حقیقی نیکی اور کامل نیکی کبھی بھی خدا تعالیٰ پر کامل یقین کے بغیر نہیں پیدا ہوتی فلسفیانہ دلائل انسان کے اندر سچا تقویٰ نہیں پیدا کر سکتے۔ خدا تعالیٰ پر کامل ایمان کے بعد خوف بدیوں سے پیدا ہوتا ہے وہ اور کسی طرح پیدا نہیں ہوتا اسی وجہ سے انبیاء کی جماعتوں نے جو نیکی اور قربانی کا نمونہ دکھایا ہے وہ اور کوئی جماعت دُنیا کی نہیں دکھا سکتی۔
اس آیت میں جس محبت اور خیر خواہی سے بنی اسرائیل کو نصیحت کی گئی ہے وہ اس اعلیٰ روح کا جو اسلام دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے ایک بین ثبوت ہے لفظ لفظ سے ان کی خیر خواہی ٹپکتی ہے اور ان الفاظ کا کہنے والا بنی اسرائیل کو غلطی سے بچانے کا پورا خواہشمند معلوم ہوتا ہے بعض نادان کہتے ہیں کہ یہ کلام محمد رسول اللہ کا ہے اور وہ اس طرح یہودیوں میں اپنے آپ کو مقبول بنانا چاہتے تھے مگر اس آیت کے الفاظ پر غور کرو کیا یہ الفاظ کسی شہرت کے طالب کے ہو سکتے ہیں پھر یہ بھی سوچو کہ بنی اسرائیل نے باوجود اس نصیحت کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بحیثیت قوم کے نہیں مانا مگر اس سے کس کا نقصان ہوا کیا اسلام کو اس سے کوئی نقصان بھی پہنچا۔ جس وقت یہ نصیحت کی گئی تھی صرف چند سو آدمی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا چکے تھے لیکن اب چارلیس کروڑ آدمی آپؐ کا کلمہ پڑھ رہا ہے ایک ہزار سال تک مسلمانوں نے دنیا پر حکومت کی ہے اور اب پھر ان کی ترقی کے سامان اللہ تعالیٰ پیدا کر رہا ہے۔ بنی اسرائیل اگر آپ پر ایمان لے آتے تو وہ ان حالات میں اور کیا تبدیلی کر دیتے اگر کچھ فائدہ تھا تو انہی کا تھا۔ ان میں سے لاکھوں مسیحی ہوئے ہیں مگر اس کا کیا نتیجہ نکلا ہے ملکوں میں سے نکالا جانا۔ جائدادوں کا لُوٹا جانا ان کا حصہ ہے اور نہ وہ اِدھر کے رہے ہیں نہ اُدھر کے۔ اگر اسلام لاتے تو آج کروڑوں مسلمانوں کے برابر کے شریک ہوتے اور کوئی ان کو غیر قرار دے کر دُکھ نہ دیتا پس ان حالات کے باوجود مسیحی مصنفوں کا یہ کہنا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنی اسرائیل کو لالچ دے کر اپنے ساتھ ملانا چاہتے تھے ایک خلافِ عقل اور خلافِ واقع اعتراض ہے محض بنی اسرائیل کے فائدہ کی ایک بات کہی گئی تھی انہوں نے نہ مانا اور تکلیف اُٹھا رہے ہیں۔






۴۸؎ حل لغات
یَظُنُّوْنَ۔ ظَنَّسے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور ظَنَّ الشَّیْئَ کے معنے عَلِمَہٗ وَاسْتَیْقَنَہٗ کہ کسی چیز کو معلوم کیا اور اس کے متعلق یقین کر لیا اور اَلظَّنُّ کے معنے کے ماتحت لکھا ہے ھُوَ الْاِعْتِقَادُ الرَّاجِحُ مَعَ اِحْتِمَالِ النَّقِیْضِ وَیُسْتَعْمَلُ فِی الْیَقِیْنِ وَالشَّکِّ یعنی ظن کے معنے زیادہ تر خیال غالب کے ہوتے ہیں اور بعض وقت وہ یقین زیادہ تر خیال غالب کے ہوتے ہیں اور بعض وقت وہ یقین کے معنے میں اور بعض وقت شک کے معنے میں بھی استعمال ہوتا ہے (اقرب) اس آیت میں ظن بمعنے یقین کے استعمال ہوا ہے اور یَظُنُّوْنَ کے معنے ہیں وہ یقین رکھتے ہیں۔
تفسیر قرآن کریم کا یہ عام طریق ہے کہ جب کسی لفظ کو خاص معنوں میں استعمال کرتا ہے تو اس اصطلاح کی ساتھ ہی تشریح بھی کر دیتا ہے اس آیت میں بھی قرآنی اصطلاح کے مطابق خَاشِعِیْنَ کے معنے بتائے گئے ہیں خَاشِعٌ چونکہ ڈرنے والے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اس جگہ عام ڈرنیوالے کے معنوں میں یہ لفظ استعمال نہیں ہوا بلکہ ان معنوں میں استعمال ہوا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ پر کامل ایمان رکھتے ہیں اور ایک دن اس کے سامنے حاضر ہونے پر انہیں پورا یقین ہے۔
پس خَاشِعِیْنَ کے معنے اوپر کی آیت میں صرف ڈرنے والے کے نہیں کئے جائیں گے بلکہ اس سے مراد وہ شخص لیا جائے گا جس کا خوف خدا تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین سے پیدا ہوتا ہے اور اس خوف کی بناء نقصان کے ڈر پر نہیں بلکہ اس امر پر ہے کہ میں اعلیٰ ترقیات سے محروم نہ رہ جائوں گویا یہ ڈر ایک بزدلی کا ڈر نہیں بلکہ ایک عارف کی گھبراہٹ ہے جو دلیر سے دلیر آدمی میں بھی پائی جاتی ہے اور پائی جانی چاہیئے۔ یہی وجہ ہے کہ یہود کو دُنیاوی تکلیفوں سے ڈرنے سے روکتے ہوئے یہ فقرہ استعمال کیا گیا ہے کہ اس ڈر کا دُور کرنا ہے تو مشکل مگر خَاشِعِیْنَ کے لئے مشکل نہیں ڈر کے عام معنوں کے رو سے یہ فقرہ عجیب معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس کی ظاہری شکل یوں بنتی ہے کہ لوگوں سے ڈرو نہیں بیشک ڈرنے سے بچنا مشکل ہے مگر ڈرنے والوں کے لئے مشکل نہیں۔ مگر جیسا کہ بتایا گیا ہے۔ اَلْخُشُوْعُ کے معنے عام ڈر کے نہیں بلکہ ایک کامل ہستی پر ایمان رکھتے ہوئے قرب سے محروم رہنے کے خوف کے ہیں اور ان معنوں کی رو سے اس فقرہ میں کوئی امر قابلِ تعجب نہیں اور اس کے معنے صرف یہ ہیں کہ دنیوی مشکلات سے نہ ڈرو یہ بیشک مشکل امر ہے لیکن جو لوگ اپنے لئے ایک اعلیٰ مقصد قرار دے لیں اور اس مقصد کو چھوڑنا ان پر سخت گراں گزرنے لگے ان کے لئے ایسے خطرات برداشت کرنے مشکل نہیں رہتے اس قسم کا ۔ر درحقیقت بہادری اور احتیاط کی ایک قسم ہے نہ کہ بزدلی کا مظاہرہ۔
وَاَنَّھُمْ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو مابعدالموت زندگی پر اس کے مناسب حال زور دیتا ہے اسلام کے سوا کوئی اور مذہب تقویٰ کی بنیاد کو بعدالموت زندگی پر نہیں رکھتا۔ اسلام اس دُنیا کی زندگی کو ایک لمبی زندگی کی ایک کڑی قرار دیتا ہے جس میں انسانی روح کی تکمیل ہوتی ہے وہ اس زندگی کے ختم ہونے کو رُوح کی کشمکش کا خاتمہ قرار نہیں دیتا بلکہ اس کے بعد بھی اس کشمکش کو جاری بتات ہے صرف فرق یہ ہے کہ اس زندگی میں انسان نسبتی طو رپر اندھیرے میں کوشش کرتا ہے اور مرنے کے بعد نیک و بد دونو ںکو ایک بصیرت حاصل ہو جاتی ہے جس کی رہنمائی میں وہ آیندہ ترقی کے لئے کوشش کرتے ہیں۔ بد لوگ اپنے پیدا کردہ ماحول سے نجات پانے کے لئے اور نیک لوگ مزید ترقیات کے لئے یہی وہ یقین ہے جس نے سچے مسلمانوں کو ہمیشہ موت سے نڈر بنائے رکھا ہے اورجب بھی اس ایمان کے ساتھ مسلمان اُٹھتے ہیں دُنیا پر غالب آتے ہیں۔ جو لوگ اس دُنیا کو اپنی ترقیات کا انجام سمجھتے ہیں کبھی نیکی کے لئے جدوجہد نہیں کر سکتے جو بعد الموت زندگی پر ایمان لانے والے کر سکتے ہیں اس دُنیا کو منتہا قرار دینے والے بار بار دنیاوی لذات کی طرف راغب ہو جاتے ہیں اور جسمانی آرام کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کر سکتے۔


۴۹؎ حل لغات
اِتَّقُوْا۔ اِتَّقُوْاامر مخاطب کا جمع کا صیغہ ہے اِتَّقٰی کے لئے دیکھو حل لغات سورہ بقرہ ۴؎
یَوْمًا:۔ یَوم کے معنے کے لئے دیکھو حل لغات سورہ فاتحہ ۵؎
لَاتَجْزِیٰ:۔ جَزیٰ سے مضارع منفی واحد مونث غائب کا صیغہ ہے اور اَلْجَزَائُ (جو جَزٰی کا مصدر ہے) کے معنے ہیں اَلْمُکَافَأَۃُ عَلَی الشَّیْئِ کسی بات پر کسی کو کوئی بدلہ دینا اور جب کہیں کہ جَزَی الشَّیْئُ تو اس کے معنے ہونگے کَفٰی ایک چیز دوسری چیز کی ساری باتوں

۱؎ سورۃ البقرہ
اس سورۃ کا نام سورۃ البقرہ ہے جیسا کہ مختلف احادیث سے ثابت ہے اور خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے گو احادیث سے یہ امر ظاہر نہیں ہوتا کہ آپ نے خود ہی یہ نام رکھا یا اللہ تعالیٰ کے فرمانے کے مطابق رکھا۔ مگر میرا اپنا یقین یہی ہے کہ سورتوں کے نام بھی اللہ تعالیٰ کے حکم سے رکھے گئے ہیں۔ اس سورۃ کے نام کے متعلق جو روایات ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں۔
ترمذی میں ہے عن ابی ھریرۃَ قال قال رسولُ اللّٰہِ صلَّی اللّٰہُ علیہِ وسلَّمَ لکلّ شیًٔ سَنامٌ وانَّ سنامَ القراٰنِ سورۃُ البقرۃ وفیہا اٰیہٌ ھِیَ سَیِّدَۃُ اٰیِ القراٰنِ ھی آیۃ الکرْسی (ترمذی جلد دوم ابواب فضال القرآن) یعنی ہر چیز کا ایک چوٹی کا حصہ ہوتا ہے اور قرآن کریم کی چوٹی کا حصہ سورۃ البقرہ ہے اور اس میں ایک ایسی آیت ہے جو قرآن کریم کی سب آیت کی سردار ہے اور وہ آیۃ الکرسی ہے۔
یہ سورۃ مدینہ میں نازل ہوئی ہے اور مختلف وقتوں میں نازل ہوتی رہی ہیں اور بعض کے نزدیک اس کی ایک آیت آخری ایام حجتہ الوداع کے موقع پر قربانی کے دن نازل ہوئی تھی اور وہ وَاتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْہِ اِلَی اللّٰہِ (بقرہ ع ۳۸) کی آیت ہے اس سورۃ کی رباء کی آیات (یعنی سود کے احکام پر مشتمل آیات) قرآن کریم کی آخری زمانہ میں نازل ہونے والی آیات میں سے ہیں۔
ترمذی نے ابوہریرۃ سے روایت کی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فوج بھجوائی جو آدمی اس کے لئے چنے گئے۔ آپؐ نے اُن سے قرآن کریم سنا۔ آخر آپؐ ایک شخص کی طرف متوجہ ہوئے جو ان سب سے چھوٹی عمر کا تھا اور اس سے پوچھا کہ تم کو کتنا حصہ قرآن کریم کا یاد ہے اس نے کہاں فلاں فلاں سورۃ کے علاوہ سورۃ بقرہ بھی یاد ہے آپؐ نے فرمایا کہ کیا سورۃ البقرہ کو یاد ہے؟ اس نے کہا ںہاں یا رسول اللہ آپؐ نے فرمایا۔ بس تو تم اس لشکر کے سردار مقرر کئے جاتے ہو۔ اس پر اس قوم کے سرداروں میں سے ایک شخص نے کہا کہ خدا کی قسم میں سورۃ بقرہ کے یاد کرنے سے صرف اس لئے رکا رہا ہوں کہ کہیں مجھے بعد میں بھول نہ جائے۔ یہ سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قرآن سیکھو اور اسے پڑھتے رہا کرو کیونکہ جو شخص قرآن سیکھتا ہے او رپھر اسے پڑھتا رہتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے اس کی مثال اس تھیلی کی سی ہے جس میں مشک بھرا ہوا ہو اور اس کی خوشبو نکل نکل کر سارے مکان میں پھیل رہی ہو۔ اور جو شخص قرآن سیکھ کر سو جائے اس حالت میں کہ قرآن اس کے اند رہو اس کی مثال اس تھیلی کی سی ہے جس میں مشک بند پڑا ہو (ترمذی جلد دوم ابواب فضائل القرآن۔ ابن ماجہ نے بھی اس روایت کو جزواً روایت کیا ہے)
ابن مردویہ نے عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت کی ہے کہ جس گھر میں سورۃ بقرہ کی تلاوت کی جائے اس سے شیطان بھاگ جاتا ہے (ابن کثیر)
اسی طرح دارمی نے اپنی مسند میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت درج کی ہے کہ جو شخص سورۃ بقرہ کی دس آیتیں رات کے وقت پڑھے صبح تک شیطان اس کے گھر میں داخل نہیں ہوتا۔ یعنی سورۃ بقرہ کے ابتداء کی چار آیتیں آیتہ الکرسی اور اس کے بعد کی دو آیتیں اور سورۂ بقرہ سے آخر کی تین آیتیں جو لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ کے الفاظ سے شروع ہوتی ہیں (یہ آخری رکوع ہے جس میں صرف تین آیتیں ہیں) (ابن کثیر)
بظاہر سورتوں کے ذاتی فضائل کا ذکر ایک تعلیم یافتہ آدمی پر گراں گزرتا ہے کیونکہ کسی سورۃ کا صرف سورۃ کے ہونے کے لحاظ سے کوئی خاص اثر رکھنا بے معنی سا معلوم ہوتا ہے لیکن اگر اس امر کو اس نگہ سے دیکھا جائے کہ ہر سورۃ خاص مضمون پر مشتمل ہوتی ہے اور وہ مضمون ضرور قلب پر کوئی اثر چھوڑتا ہے تو فضائل کا بیان آسانی سے سمجھ میں آ جاتا ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سورۃ بقرہ کے یاد کرنے پر ایک نوجوان کو لشکر کا امیر بنا دیا۔ اس میں کئی حکمتیں تھیں۔ اوّل آپؐ نے اس طرح دوسرے لوگوں کے دلوں میں زیادہ سے زیادہ قرآن یاد کرنے اور یاد رکھنے کی خواہش پیدا کی۔ اسلامی لشکروں کی سرداری مالی لحاظ سے منفعت بخش نہ تھی مگر اپنے روحانی باپ کی خوشنودی کی جو قدر صحابہ کے دل میں تھی اسے صرف محبت کی چاشنی سے واقف لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں دوسرے اس میں یہ بھی حکمت تھی کہ اس زمانہ میں جو سردار لشکر ہوتا تھا وہی عام طو رپر امام الصلوٰۃ بھی ہوتا تھا اور اسی سے لوگ مسائل وغیرہ بھی دریافت کرتے تھے۔ اور سورۃ بقرہ میں باقی سب سورتوں سے زیادہ مسائل بیان ہوئے ہیں یہاں تک کہ حضرت ابن العربی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے استادوں میں سے ایک اُستاد سے سُنا ہے کہ سورۃ بقرہ میں ایک ہزار حکم ہے اور ایک ہزار مناہی ہے اور ایک ہزار فیصلے اور ایک ہزار خبریں ہیں (قرطبی) یہ صوفیانہ رنگ کی بات ہے لیکن اس بات سے انکار نہیں ہو سکتا کہ سورۃ بقرہ میں مضامین کی نوعیت اور احکام اسلام کی وسعت اس قدر ہے کہ دوسری سورتوں میں سے کسی میں بھی اس قدر نہیں ہے۔
یہ جو آپؐ نے فرمایا کہ جس گھر میں سورۃ بقرہ پڑھی جائے اس میں شیطان نہیں آتا اس کا بھی یہی مطلب ہے کہ اس سورۃ میں شیطانی وساوس کا ایسا رد موجود ہے کہ اس پر غور کرنے کے بعد شیطان گھر میں نہیں آ سکتا اور یہ جو فرمایا کہ صبح تک شیطان نہیں آتا اس سے اس طرف اشارہ کیا کہ تعلیم خواہ کیسی اعلیٰ ہو جب تک بار با دہرائی نہ جائے دل پر پورا اثر نہیں ہوتا اور نیک اثر خواہ کس قدر اعلیٰ ہو کچھ عرصہ کے بعد اگر اس کی تجدید نہ کی جائے زائل ہو جاتا ہے۔
اور یہ جو فرمایا کہ جو شخص سورۂ بقرہ کی پہلی چار آیتیں اور آیۃ الکرسی اور اس کے ساتھ کی دو آیتیں اور سورۂ بقرہ کی آخری تین آیتیں پڑھے اس کے گھر سے بھی شیطان بھاگ جاتا ہے اس سے بھی یہی مراد ہے کہ ان آیتوں میں اسلام کا خلاصہ ہے سورہ بقرہ کی پہلی آیتوں میں پاک عملی زندگی کا نقشہ کھینچا گیا ہے آیتہ الکرسی میں صفات باری کا نہایت لطیف نقشہ ہے اور سورۂ بقرہ کی آخری آیتوں میں دل کو پاک کر دینے والی دُعائیں ہیںاور یہ تین چیزیں یعنی (۱) الٰہی کلام کی متبع میں نیک اعمال کا بجا لانا (۲) صفات الٰہیہ پر غور کرنا (۳) او ران دونوں باتوں کے ساتھ دعا میں مشغول رہنا اور اپنے آپ کو آستانہ الٰہی پر گرا دینا جب اکٹھی ہو جائیں تو انسان کہ دل پاک ہو جاتا ہے اور شیطان بھاگ جاتا ہے۔
سورتوں کی ترتیب
یہ سورۃ قرآن کریم کی تفصیل سورتوں میں سے پہلی سورۃ ہے لیکن نزول کے لحاظ سے یہ سورۃ کلام الٰہی کے نزول کے چودھویں سال میں جا کر نازل ہونی شروع ہوئی اور کئی سال تک نازل ہوتی رہی۔ بالآخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے کچھ ہی عرصہ پہلے مکمل ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ کیوں نہ قرآن کریم کو اسی ترتیب سے جمع کیاگیا جس ترتیب سے کہ قرآن کریم نازل ہوا تھا؟ بعض دشمنانِ اسلام اور بعض مسلمانوں تک نے اس سوال کا یہ جواب دیا ہے کہ سورتوں کی لمبائی چھوٹائی کے لحاظ سے قرآن کریم کو جمع کر دیا گیا ہے اور کسی معنوی ترتیب کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ یہ دعویٰ ایک نہایت لغو اور حقیقت سے دُور دعوی ہے کہ کیونکہ (۱) قرآن کریم کی سورتوں کی موجودہ ترتیب خود اس دعویٰ کو باطل کرتی ہے پہلی سورۃ فاتحہ ہے جو نہایت چھوٹی اور سات آیتوں کی سورۃ ہے۔ دوسری بقرۃ نہایت لمبی ہے تیسری آل عمران ہے جس کے بیس رکوع ہیں لیکن چوتھی نساء کے چوبیس رکوع ہیں اسی طرح اگلی سورتوں میں بھی کئی جگہ پر فرق ہے پس یہ کہنا کہ لمبائی کے مطابقوں سورتوں کو آگے پیچھے رکھ دیا گیا ہے درست نہیں۔ (۲) قرآن کا جمع کرنا کسی بندہ کا فعل نہیں بلکہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی فعل نہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَ قُرْاٰنَہٗ (القیامتہ ع ۱) یعنی قرآن کریم کا جمع کرنا اور اس کا دُنیا میں پھیلانا یہ دونو ںکام میں خود کروں گا اور میرے خاص حکم اور نگرانی سے یہ کام ہوں گے پس ایک مسلمان کے نزدیک تو یہ انسانی کام ہو ہی نہیں سکتا اور غیر مسلموں کے لئے وہ جواب ہے جو پہلے بیان ہو چکا ہے (۳) تیسرا جواب یہ ہے کہ سب سورتوں کے مضامین میں ترتیب موجود ہے اگر صرف لمبائی اور اختصار پر انہیں آگے پیچھے رکھا گیا تھا تو پھر سورتوں کے مضامین میں جوڑ اور اتصال کیونکر پیدا ہو گیا۔ جیسا کہ آگے چل کر تفسیر میں انشاء اللہ ثابت کیا جائے گا اور جس کا علم ہر سورۃ کے شروع اور آخر کے نوٹوں کو پڑھنے سے اس تفسیر کا مطالعہ کرنے والو ںکو ہو جائے گا۔ پس عیاں راچہ بیاں۔
بیشک یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ اگرموجودہ ترتیب خدا تعالیٰ کے منشاء کے مطابق ہے تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو کیوںنہ اسی تریب میں اُتارا جو اس وقت موجود ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کلامِ حکیم کے لئے یہ امر لازمی ہے کہ اس کے اُترنے کی ترتیب اور اس کے جمع کرنے کی ترتیب الگ الگ ہو جب کوئی ایسا نبی دنیا میں آئے جو نئی شریعت لانے والا ہو اور جس نے عقائد اور اعمال کے متعلق ایک مکمل ہدایت نامہ دُنیا کو دینا ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ترتیب نزول کے لحاظ سے اس کے الہام کا ابتدائی حصہ ترتیب تدوین کے لحاظ سے ابتدائی نہ ہو کیونکہ جن باتو ںکی ابتدائی دعویٰ کے وقت جبکہ لوگ اس نئے دین سے بالکل ناواقف ہوں گے سب سے پہلے پیش کرنے کی ضرور ت ہو گی ان باتوں کو اس وقت سب سے پہلے پیش کرنے کی ضرورت ہو گی جبکہ لوگ اس کے کلام سے ایک حد تک واقف ہو چکے ہونگے۔ پس اسی حکمت کے مطابق قرآن کریم کے نزول کی ترتیب او رہے اور اس کے جمع کرنے کی ترتیب اور ہے چناچنہ سورتوں کے نزول کا سوال آیتوں کے نزول کی کیفیت سے حل ہو جاتا ہے۔ احادیث سے ثابت ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم کی آیتیں نازل ہوتی تھیں تو آپؐ کا بتوں کو بلوا کر حکم فرما دیتے تھے کہ فلاں آیت کو فلاں جگہ پر رکھو او رفلاں کو فلاں جگہ پر (ابو دائود۔ ترمذی۔ احمد بحوالہ مشکوٰۃ کتاب فضائل القرآن نیز فتح الباری جلد ۹ صفحہ ۱۹،۲۰،۳۹) اگر صرف نزول کی ترتیب کافی ہوتی تو جب کوئی آیت نازَ ہوتی اسے اس سے پہلے کی نازل شدہ آیتوں کے ساتھ رکھ دیا جاتا۔
سورۃ بقرہ ہی کو دیکھ لو۔ اس کی رباء کی آیات قرآن کریم کے سب سے آخر میں نازل ہونے والے ٹکڑوں میں سے ایک ہیں لیکن وہ سورۃ بقرہ کے آحر میں نہیں رکھی گئیں۔ بلکہ کئی رکوع پہلے رکھی گئی ہیں۔ اسی طرح وَاتَّقُوْا یَوْمًا والی آیت جس کی نسبت احادیث میں آتا ہے کہ حجتہ الوداع میں نازل ہوئی سورۃ کے آخر میں نہیں رکھی گئی۔ پس معلوم ہوا کہ آیتیں جس ترتیب سے نازَ ہوتی تھیں اسی ترتیب سے انہیں سورتوں میں نہیں رکھا جاتا تھا بلکہ مضمون کے لحاظ سے رکھا جاتا تھا۔ بعینہٖ یہی صورت سورتوں کی ترتیب کی ہے وہ بھی مضامین کے لحاظ سے جمع کی گئی ہے نہ کہ نزول کے وقت کے لحاظ سے۔
یاد رہے کہ بس سے پہلے جو سورۃ نازل ہوئی یا یُوں کہو کہ جس سورۃ کی بعض آیات نازل ہوئی وہ سورۃ العلق ہے۔ اس کی جو آیات سب سے پہلے نازل ہوئیںیہ ہیں اِقْرَاْبِا سْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقِ اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَ کْرَمُ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ۔ ان آیات میں تبلیغ کے شروع کرنے کا حکم ہے اور بتایا گیا ہے کہ تبلیغ کا حق انسان پر اس لئے ہے کہ اس کا ایک رب ہے جس نے اسے پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں محبت اور تعلق کا مادہ پیدا کیا ہے نیز اس نے انسان کے اندر ترقی کی قوتی رکھیں ہیں اور وہ اپنے بندے پر فضل کر کے اسے بڑھانا چاہتا ہے اور اس غرض سے اس نے انسان کو تحریر و تصنیف کا مادہ عطا کیا ہے تاکہ وہ اپنے علم سے خود ہی فائدہ نہ اٹھائے بلکہ دوسروں تک بھی اسے پہنچائے اور آیندہ کے لئے بھی ان علوم کو محفوظ کر دے پھر فرماتا ہے کہ علمی ترقی کا مادہ اور اسے دوسروں تک پہنچانے کی طاقت اس کے اندر رکھ کر اور علم کے محفوظ کرنے کا طریقہ بتانے کے بعد اس نے علم کی ترقی کے لئے ایسے سامان پیدا کئے ہیں جو ہر زمانہ میں علم کی ترقی کا موجب ہوتے رہیں گے اور انسان نئی سے نئی باتیں معلوم کرتا رہے گا جو اس کے باپ دادوں کو معلوم نہیں تھیں۔ ان آیات میں قرآن کریم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تبلیغ کی ضرورت کی طرف توجہ دلائی ہے۔ یہ بتایا ہے کہ زمین و آسمان کا ایک خالق ہے یہ بتایا ہے کہ انسان ہدایت کا محتاج ہے او راس کے اند رہدایت پانے اور ترقی کرنے کی قوت پیدا کی گئی ہے جس کے ابھارنے کے لئے یہ الہام نازل ہوا ہے۔ یہ سب باتیں وہ ہیں جو نبوت کا دعویٰ کرتے وقت سب سے مقدم ہیں سب سے پہلا مخاطب انسان کا اپنا نفس ہوتا ہے جب تک اس کا اپنا دل جوش اور اخلاص اور کام کی اہمیت اور ضرورت کے احساس سے پُر نہ ہو وہ کبھی ایسے کامو ںکے لئے آمادہ نہیں ہو سکتا۔ جو اس کی جان اور اس کے آرام کی قربانی کا مطالبہ کرتے ہوں۔ چنانچہ سب سے پہلی قرآنی آیات میں اسی مضمون کو بیان کیا گیا ہے صرف اسی سورۃ میں نہیں بلکہ دوسری سورتیںجو ابتدائی زمانہ میں نازل ہوئی ہیں ان میں بھی یہی مضمون ہے۔ مثلاً سورۂ مُدَّثّر پہلی سورتوں میں سے ہے اس کی ابتدائی آیات بھی اسی مضمون کی ہیں فرماتا ہے یٰٓا اَیُّھَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَانْدِرْ وَ رَبَّکَ فَکَبِّرْ اے ماموریت کا خلعت پہننے والے اُٹھ اور لوگوں کو ہوشیار کر اور اپنے رب کی بڑائی بیان کر سورۂ مُزَّمِّل بھی ابتدائی سورتوں میں سے ہے اس کی ابتداء بھی اسی طرح کی ہے۔ یٰٓاَ یُّھَا الْمُزَّمِّلُ قَمِ الَّیْلَ اِلاَّ قَلِیْلاً نِّصْفَہٗ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلاً اَوْزِدْ عَلَیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلاًo اِنَّا سَنُلُقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیْلًاoیعنی اے نبوت کی چادر اوڑھنے والے راتوں کو جاگ کر عبادت کیا کر۔ نصف رات یا نصف سے کم یا نصف سے زیادہ عبادت میں گذار۔اور قرآن کو پڑھتا رہا کر کیونکہ ہم تجھ پر ایک ایسی ذمہ داری نازل کرنے لگے ہیں جس کا اُٹھانا آسان کام نہیں۔
ان ابتدائی سورتوں کے مضامین سے ظاہ رہے کہ ان میں اللہ تعالیٰ کی صفات۔ انسانی پیدائش کی غرض عبادت کی ضرورت۔ دُنیا میں شرارت اور گناہ کی ترقی وغیرہ کے مضامین بیان کرنے کے علاوہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تبلیغ پر آمادہ کرنے اور اس کے لئے آپؐ کے دل میں جوش پیدا کرنے پر خاص زور دیا گیا ہے۔ گویا ان آیات میں محمد رسول اللہ کو نبوت کے عظیم الشان کام کے لئے تیار کیا گیا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ بغیر اس تیاری کے نہ تو آپؐ اس کام کی اہمیت کو سمجھ سکتے تھے جو آپ کے سپرد ہونے والا تھا۔ اور نہ آپ اس کام کو عمدگی سے انجام دے سکتے تھے پس ابتداء میں ایسے ہی کلام کی ضرورت تھی اسی طرح اس مضمون کے بعد خدا تعالیٰ کی صفات۔ ضرورِ نبوت تقویٰ اور پاکیزگی کے مضامین۔ ضرورت دعا۔ قضا و قدر بعث بعد الموت وغیرہ مضامین کے متعلق تعلیمات کے بیان کرنے کی ضرورت تھی کیونکہ اس وقت تک کوئی جماعت قائم نہ ہوئی تھی او رنہ دین مکمل ہوا تھا پس ضروری تھا کہ اتبدائی ضروری امور کو اختصار کے ساتھ لوگوں کے سامنے رکھ دیا جائے تاکہ وہ اصولی باتیں جو اسلام اور دوسرے مذاہب میں فرق کرنے والی تھیں لوگوں کے سامنے آ جائیں۔
لیکن جب قرآن مکمل ہو گیا جب مسلمانوں کی تعداد بڑھ گئی جب ان کے ساتھ رہنے سہنے کی وجہ سے بہت سے مضامین سے غیر مسلموں کو بھی واقفیت ہو گئی اور مسلمانوں کی نسل بھی چل پڑی جس نے ابتدائی اور اصولی باتیں اپنے ماں باپ سے بچپن میں ہی سیکھ لیں تو اب قرآن کریم کے پڑھنے والے کے لئے ایک اور تریب کی ضرورت پیش آئی جو آیندہ زمانہ میں ہمیشہ کی ضرورتوں کو پورا کرے۔ اب اس مضمون کے ابتداء میں بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی کہ اے محمدؐ رسول اللہ تیری قوم کی حالت خراب ہے اور گو ان میں قابلیت موجودہ مگر اس قابلیت سے وہ فائدہ نہیں اٹھا رہے پس تو اُٹھ اور اُن میں تبلیغ کر اور انہیں خدا تعالیٰ کی طرف بلا۔ اب تو قرآن کریم کے پہلے مخاطب وہ لوگ ہونگے جو اس پر ایمان رکھتے ہیں اور جن کے زمانہ میں اسلام کو غلبہ حاصل ہو چکا ہے اب اس مضمون سے قرآن کریم کا شروع ہونا ضروری ہے جس میں مومنوں کو بتایا جائے کہ قرآن کریم کے نزول کی غرض کیا ہے اور مسلمان ہونے کے لحاظ سے ان پر کیا ذمہ داریاں ہیں اسی طرح اس زمانہ میں غیر مسلم بھی قرآن کو فلسفیانہ نگہ سے دیکھنے کی کوشش کرینگے اور یہ پوچھیں گے کہ دوسرے مذاہب کی موجودگی میں اسلام کی کیا ضرورت ہے۔ ایک مسلمان کونسی ایسی غرض پُوری کر رہا ہے جو پہلی اقوام کے لوگ نہیں کر سکتے تھے۔ اسی طرح وہ پہلی کتب کی تعلیمات اور اسلام کی تعلیم کا فتفصیلی مقابلہ کر کے دیکھنا چاہیں گے نیز اس پر بحث کرینگے کہ پہلے انبیاء نے جو خاتم النبین کے بارہ میں پیشگوئیاں کی ہیں اسلام اور بانئی اسلام ان پیشگوئیوں کے مصداق ٹھہرتے ہیں یا نہیں۔ غرض قرآن کریم کی تکمیل کے بعد اس کی طرف توجہ کرنے کا طریقہ ماننے والوں اور نہ ماننے والوں دونوں ہی کے لئے مختلف ہو جاتا ہے اور ایک کامل کتاب تبھی اپنے کمال کو قائم رکھ سکتے ہے جبکہ وہ ان تبدیل شدہ حالات کو مدنظر رکھے اور قرآن کریم ہی ایک ایسی کتاب ہے جس نے اس ضرورت کو پورا کیا ہے۔ نہ تورا نہ انجیل اور نہ اور کسی کتاب میں یہ حکمت مدنظر رکھی گئی ہے کہ ابتداء نزول میں پہلے مخاطبین کو مدنظر رکھ کر اور طرح ترتیب ہو اور مذہب کی اشاعت کے بعد اس وقت کے لوگوں کا خیال کرتے ہوئے کتاب کے مضامین کی ترتیب بدل دی گئی ہوتا ان تبدیل شدہ حالات کے مطابق وہ مضامین زیادہ سے زیادہ مؤثر ثابت ہوں پس قرآن کریم کی نزول کی ترتیب اور جمع کی ترتیب میں جو فرق ہے یہ قابلِ اعتراض امر نہیں بلکہ قرآن کریم کی فضیلت او ربرتری کی ایک علامت ہے۔
سورۂ بصرہ میں جیسا کہ اس کی تفسیر کے پڑھنے سے ثابت ہو گا فطرت انسانی کے پیدا کردہ ان طبعی سوالات کو حل کیا گیا ہے جو فلسفیانہ طور پر ایک مکمل مذہب کے متعلق پیدا ہو سکتے ہیں اور اس کا مضمون ہی بتاتا ہے کہ یہ سورۃ ابتداء میں رکھنے کے لئے ہی نازل کی گئی تھی بلکہ جیسا کہ بتایا جائے گا سورۃ فاتحہ کے مضامین کا اس میں جواب دیاگیا ہے اور اس کے مضامین سے اس کا خاص تعلق ہے جو اس امر کا مزید ثبوت ہے کہ اس کو سب سے پہلے رکھنا اس کی لمبائی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ سورۃ فاتحہ کے مضامین سے اس کے گہرے تعلق کی وجہ سے ہے۔
اس سورۃ کے متعلق ایک ادبی لطیفہ یاد رکھنے کے قابل ہے۔ لبید بن ربیعہ عامری جاہلیت کے مشہور شعراء میں سے گزرا ہے ہے اس کا ایک قصیدہ سبع مطلقہ میں شامل ہے یعنی اس کے کلام کو عرب کے بہترین سات قصائد میں شمار کیا گیا ہے۔ یہ شاعر آخر عمر میں اسلام لے آیا۔ اور سورۂ بقرہ کی فصیح زبان سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے شعر کہنا ہی چھوڑ دیا۔ ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے اس سے اپنا نیا کلام سنانے کی فرمایش کی اس نے اس کے جواب میں سورۃ بقرہ کی تلاوت شروع کر دی حضرت عمرؓ نے اسپر اسے کہا کہ میں نے تم سے اپنے شعر سنانے کو کہاہے۔ اس نے جواب دیا کہ مَاکُنْتُ لاقول بَیْتًا مِّنَ الشعر بعد اِذ عَلَّمَنِیَ اللّٰہُ البَقَرَۃ وَاٰلَ عِمْران یعنی جب اللہ تعالیٰ نے مجھے سورۃ بقرہ اور آل عمران سکھا دی ہیں تو اب کس طرح ممکن ہے کہ اس کے بعد میں ایک شعر بھی کہوں۔ حضرت عمرؓ کو اس کا یہ جواب اس قدر پسند آیا کہ انہوں نے اس کا وظیفہ جو دو ہزار درہم سالانہ تھا بڑھا کر اڑھائی ہزار کر دیا (اسد الغابہ جلد چہارم حالات لبید بن ربیعہ صفحہ ۲۶۲) بظاہر یہ ایک معمولی واقعہ معلوم ہوتا ہے مگر جب ہم لبید کے اس مرتبہ کو دیکھتے ہیں جس اسے عرب کے ادبی حلقہ میں اس زمانہ میں حاصل تھا جو عربی علم ادب کے کمال کا زمانہ کہلاتا ہے او رجس زمانہ کے شعراء کے کلام کو آج تک بہترین کلام سمجھا جاتا ہے اور پھر جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اتنا زبردست شاعر جو خود بادشاہِ سخن کہلاتا تھا سورۂ بقرہ کی زبان سے اس قدر متاث رہوا کہ اس نے شعر کو جو اس کی رُوح کی غذا تھی جو اس کی عزت کا ذریعہ تھا جس نے اسے عرب کے حکمران حلقوںمیں صدر مقام پر بٹھا رکھا تھا سورۂ بقرہ کی زبان سے مرعوب ہو کر بالکل ترک کر دیا اور جب اس سے اپنا تازہ کلام سنانے کو کہا گیا تو اس نے حیرت سے جواب دیا کہ کیا سورۂ بقرہ کے بعد بھی کسی اور کلام کی ضرورت رہ جاتی ہے تو ہمیں مالنا پڑتا ہے کہ ایک معجزانہ کلام کے سوا یہ تاثیر اور کسی کلام سے پیدا نہیں ہو سکتی۔
خلاصۂ سورۂ بقرہ
پیشتر اس کے کہ میں سورۂ بقرہ کی آیات کا مطلب الگ الگ بیان کروں۔ میں سورۂ بقرہ کے مصامین کا خلاصہ بیان کر دینا مناسب سمجھتا ہوں کیونکہ اس سے یہ بھی ثابت ہو جائیگا کہ سورۂ بقرہ کو باوجود آخر میں نازل ہونے کے پہلے کیوں رکھا گیا ہے اور اس کے مضامین کی ترتیب بھی مختصر طورپر ذہن میں آ جائے گی جس سے اس کے مطالب کا سمجھنا آسان ہو جائے گا۔
میں سورۂ فاتحہ میں بیان کر چکا ہوں کہ اس کی تفسیر مجھے ایک فرشتہ نے رویا میں سکھائی تھی سورۂ بقرہ کی تفسیر مجھے اس طرح تو حاصل نہیں ہوئی لیکن اس میںکوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک القاء کے طو رپر مجھے اس کی تفسیر بھی سکھائی ہے اور جو شخص بھی ذرا غور سے دیکھے گا اسے معلوم ہو گا۔ کہ جو نکتہ اس بارہ میں مجھے بتایا گیا ہے وہ ساری سورۂ بقرہ کو ایک باترتیب مضمون کی صورت میں بدل دیتا ہے اور اس امر کے تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا کہ یہ تفہیم صرف اور صرف فضل الٰہی سے حاصل ہوئی ہے۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ستائیس سال کا عرصہ گذرا کہ میں چند دوستوں کو قرآن کریم پڑھا رہا تھا سورۂ بقرہ کا درس تھا جب میں اس آیت پر پہنچا کہ رَبَّنَا وَا بْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَ کِّیْھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (بقرہ ع ۱۵) تو یکدم میرے دل پر القاء ہوا کہ یہ آیت اس سورۃ کے مضامین کی کنجی ہے اور اس سورۃ کے مضامین اس آیت کے مضامین کے مطابق اور اسی ترتیب سے بیان ہوئے ہیں میں جب اس علم سے فائدہ اُٹھا کر سورہ بقرہ کا مطالعہ کیا تومیری حیرت اور عقیدت کی کوئی حد نہ رہی کیونکہ سورۂ بقرہ کو میں نے نہ صرف اس آیت کے مضامین کے مطابق پایا بلکہ اس کے مضامین باوجود مختلف قسم کے ہونے کے میرے ذہن میں ایسے مستحضر ہو گئے کہ مجھے یُوں معلوم ہوا کہ گویا اس کے مضامین موتیوں کی لڑی کی طرح پروئے ہوئے ہیں۔
اس آیت کو دیکھنے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ایک دعا کا ذکر ہے جو انہوں نے مکہ میں ایک نبی کے مبعوث ہونے کے لئے کی ہے اور اس دعا کا مضمون یہ ہے کہ اس شہر اور اس قوم میں ایک ایسا نبی مبعوث ہو جو (۱) اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایمان اور یقین کو درست اور مضبوط کرنے والے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے والے دلائل لوگوں کے سامنے بیان کرے جو دُنیا کو خدا تعالیٰ تک پہنچانے کے لئے راستہ کے نشان اور شمع ہدایت ثابت ہوں (۲) وہ لوگوں کے سامنے ایک مکمل کتاب پیش کرے (۳)جو شریعت وہ دُنیا کے سامنے پیش کرے اس کے اندر احکام او رمذہب کی اور ان تمام دینی امور کی جن پر مذہب کی ترقی کا مدار ہے حکمت بھی بیان کی گئی ہو (۴) وہ ایسے ذرائع اختیار کرے اورایسے طریق بتائے جن سے قوم کی ترقی اور پاکیزگی کے سامان پیدا ہوں۔
ان مضامین کو سامنے رکھ کر جب میں نے سورۂ بقرہ کو دیکھا تو اس کے مضامین کو لفظاً لفظاً ان مضامین کے مطابق پایا بلکہ میں نے دیکھا کہ وہ مضامین بیان بھی اسی ترتیب سے ہوئے ہیں جس ترتیب سے ان کا اس آیت میں ذکر ہے اور ہر حصہ میں اس آیت کے الفاظ کی طرف اشارہ بھی کر دیا گیا ہے یعنی آیات کے مضمون میں آیات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے پھر کتاب اور حکمت کا مضمون بیان کیا ہے اور کتاب اور حکمت کے الفاظ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ پھر تزکیہ کا مضمون بیان کیا ہے تو اس مضمون کی طرف اشارہ کیا گیا ہے چنانچہ مضامین کے لحاظ سے یُعَلِّمْھُمُ الْکِتٰبَ کا مضمون اکتیس رکوع تک بیان ہوا ہے اور پھر تزکیہ کا مضمون اکتیسویں رکوع سے شروع ہو کر آخر سورۃ پر یعنی پر یعنی چالیسویں رکوع پر ختم ہوا ہے جو شخص اس امر کو مدنظر رکھ کر سورۂ بقرہ کو پڑھے گا اس کے مطالب کی وسعت اور جامعیت اور ترتیب کی خوبی اور تاثیر کا حیرت انگیز مطالعہ کرے گا۔
خلاصہ رکوع اوّل
سورۂ بقرہ سورۂ فاتحہ کے بعد شروع ہوتی ہے۔ سورۂ فاتحہ میں طلبِ ہدایت کی دُعا سکھائی گئی تھی۔ سورۂ بقرہ کی پہلی آیات میں اس دُعا کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ تم نے سورۃ فاتحہ میں جس ہدایت کو طلب کیا تھا اور جو گزشتہ زمانہ کے منعم علیہ گروہ کی ہدایت ہے وہ یہی کتاب یعنی قرآن شریف ہے اور اس کے نزول کے ذریعہ سے فطرت کی اس پکار کو اللہ تعالیٰ نے پورا کیا ہے جو سابق ہدایتو ںکے مٹ جانے کی وجہ سے لوگوں کے دلوں سے پیدا ہو کر عرش الٰہی کو ہلا رہی تھی پھر فرماتا ہے کہ قرآن کریم نے نہ صرف دنیا کے لئے ایک ہدایت نامہ پیش کیا ہے بلکہ ایک ایسا مکمل ہدایت نامہ پیش کیا ہے جو سب مذاہب کی صداقتوں پر مشتمل ہے اور اسی وجہ سے اس کے دعویٰ کی بنیاد اس پر نہیں کہ دوسرے مذاہب پر اعتراض کرے او ران کے متعلق دلوں میں شکوک پیدا کرے اور یہ کتاب انسان کے اخلاق اور اعملا ہی کو درست نہیں کرتی بلکہ ایسے ایسے مقام پر پہنچاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اسے محبت خالص والا تعلق پیدا ہو جائے۔ اس کتاب کو ماننے والوں کے لئے امور اعتقادیہ بھی بیان کئے جائیں گے جن پر ایمان لانا ان کے لئے ضروری ہو گا اور ان کے لئے عبادات کے طریق بھی بیان کئے جائیں گے جن پر عمل پیرا ہونا ان کے لئے ضروری ہو گا ان کے لئے حقوق العباد بھی بیان کئے جائیں گے اور ان پر چلنا بھی ان کے لئے ضروری ہو گا اور ان کے لئے سب صداقتوں اور سب سچے مذاہب کے بانیوں اور سب سچائیوں کا جو گزشتہ یا آیندہ زمانہ سے متعلق ہوں اس کتاب میں ذکر کیا جائے گا اور ان سب پر ایمان لانا ان کے لئے ضروری ہو گا او ریہ ایمان رسمی نہ ہو گا بلکہ اس کے لئے انہیں قربانیاں کرنی پڑے گی اور لوگ مخالفت کریں گے لیکن وہ اپنی محالفت میں ناکام رہیں گے۔
خلاصہ رکوع دوم
اور کچھ لوگ منافقت سے تعلق پیدا کریں گے حالانکہ ان کے دلوں میں ایمان نہ ہو گا۔ اور کچھ لوگ ایمان تو رکھتے ہونگے مگر ان کے دل بزدلی سے پُر ہونگے پس بزدلی کی وجہ سے وہ اس کے دشمنوں سے ساز باز رکھیں گے ان دونوں گروہوں کی مخالفت اور منصوبہ بازی بھی اسلام کا کچھ نہ بگاڑ سکے گی۔
خلاصہ رکوع تیسرا
پس جو بھی خدا تعالیٰ پر ایمان رکھتا پہے اسے اس مذہب میں داخل ہو کر خدائے واحد کی عبادت میں حصہ لینا چاہیئے اور تقویٰ کا مقام حاصل کرنا چاہیئے تا وہ قرآن کریم کی مدد سے خدا تعالیٰ تک رسائی پائے کہ پیدائش عالم کی غرص ہی یہ ہے اور اگر کوئی کہے کہ قرآن کریم کے اس دعویٰ کو ہم کیونکر تسلیم کریں ت وانہیں کہوکہ کسی نہ کسی مذہب کو تو تم تسلیم کرتے ہو اسے اس کی تعلیم کے مقابل پر رکھ کر دیکھ لو اگر اس میں اس سے اعلیٰ تعلیم موجود نہ ہو تو اسے رد کر دو ورنہ تو کو خود اپنے مسلمات کے رو سے ماننا پڑے گا کہ یہ الٰہی کتاب ہے جس میں پہلی الٰہی کتب سے بہتر تعلیم موجود ہے۔ نیز آسامانی نشانات کے بارہ میں بھی تم اس کتاب کے ماننے والوں سے مقابلہ کرکے دیکھ سکتے ہو کہ خدا تعالیٰ کن کے ساتھ ہے لیکن اگر سوچنے کی کوشش نہ کرو او ربلاوجہ انکار کرتے جائو تو اس میں کیا شبہ ہے کہ تم کو عذاب ملے گا اور اس میں کیا شبہ ہے کہ جو لوگ اس اعلیٰ تعلیم کو مانیں گے انہیں اعلیٰ انعامات عطا ہونگے جو متواتر انہیں دیئے جائینگے تاکہ کوئی شخص ان انعامات کو اتفاقی حادثہ نہ کہہ سکے اور گو ہم نے ان انعامات کی طرف مختصر الفاظ میں اشارہ کیا ہے مگر اپنے وقت پر ان پیشگوئیوں کی عظمت ظاہر ہو کر رہے گی۔ اور منکروں کے لئے اعتراض کا لیکن مومنوں کے لئے زیادتی ایمان کا موجب ہو گی۔ او رمنکروں کا فائدہ نہ اُٹھانا ایک طبعی نتیجہ ہے کیونکہ بیمار آنکھ نور کو نہیں دیکھ سکتی۔ پھر فرماتا ہے کہ قرآن کریم کی صداقت کے سمجھنے میں مشکل ہی کیا ہے یہ پہلا کلام نہیں۔ اس سے پہلے خدا تعالیٰ کی طرف سے مردہ قوموں کی طرف ہدایت آتی رہی اور اس کے ذریعہ سے لوگ زندہ کئے جاتے رہے۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ یہ سلسلہ اب ختم ہو جائے پس اب بھی اسی سنت کے مطابق خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک حق آیا ہے اور آیندہ ایسا ہی ہوتا رہے گا پھر کیا مشکل ہے کہ جن اصول پر سابق صداقتوں کو پرکھا گیا تھا انہی پر قرآن کریم کی صداقت کو بھی پرکھ لیا جائے۔ پھر فرماتا ہے کہ یہ لوگ کیوں نظامِ عالم کو نہیں دیکھتے کہ وہ ایک ارتقاء پر دلالت کرتا ہے جس میں الٰہی ہاتھ نظر آتا ہے پھر کیوں یہ اس ارتقاء کی آخری کڑی کو ماننے میں عذر کرتے ہیںحالانکہ ارتقاء کی آخری کڑی ہی مقصودِ اعلیٰ ہوتی ہے اسے چھوڑ دیا جائے تو سب نظام ہی ناممکن رہ جاتا ہے۔
خلاصہ رکوع چہارم
پھر اس نظام کی پہلی کڑی یعنی آدمؑ یعنی ملہم اوّل کا ذکر فرماتا ہے کہ آخر آدم کو تم مانتے ہو اس کی سچائی کا کیا ثبوت تمہارے پاس ہے جس طرح اس کی سچاوی کو اس زمانہ کے لوگوں نے مانا۔ اسی طرح محمد رسول اللہ کی صداقت کو پرکھا جا سکتا ہے اس کی ذات پر بھی اعتراض ہوئے اور معمولی لوگوں کی طرف سے نہیں بلکہ ملائکہ صفت انسانوں کی طرف سے اعتراض ہوئے۔ مگر کیا اس سے اس کی سچائی میں فرق آیا اللہ تعالیٰ نے اسی کی تائید کی اور پھر وہی ملائکہ صفت رہ سکے جنہوں نے اس کے ہاتھ میں ہاتھ دیا اور اس کے آگے تذلل سے گر گئے باقی شیطان بن گئے۔ پھر فرمایا کہ یہ نہ سمجھنا چاہیئے کہ اگر آدم پر کلام نازل ہوا تھا تو پھر کسی اور کلام کی کیا ضرورت ہے کیونکہ آدم کے بعد اللہ تعالیٰ کیّ طرف سے متواتر اور حسبِ ضرورت کلام نازل ہوتا رہا ہے چنانچہ موجودہ زمانہ سے پہلے موسیٰ علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ کا کلام نازل ہوا ان کی قوم میں نبی کے بعد نبی اصلاح کے لئے آئے اور چونکہ اس قوم نے بغاوت پر بغاوت کی۔ اللہ تعالیٰ نے مرکز الہام بدلنے کا فیصلہ کر لیا اور بنو اسمعٰیل میں سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری کلام کا مورد بنایا اور اب بنی اسرائیل حسد کی وجہ سے آپؐ کی محالفت کرتے ہیں لیکن اس مخالفت کا بھی وہی نتیجہ ہو گا جو پہلے انبیاء کی مخالفت کا نتیجہ ہوا تھا۔
خلاصہ رکوع پانچ
پھر فرمایا بنی اسرائیل کو یاد رکھنا چاہیئے کہ ان پر جو فضل ہوئے ہیں ہو حضرت ابراہیمؑ کے وعدوں کی وجہ سے ہوئے ہیں اور ابراہیمؑ سے جو وعدے ہوئے تھے وہ صرف بنو اسحاق کے بارہ میں نہ تھے بلکہ بنو اسمعٰیل کے حق میں بھی تھے۔ پس ضروری تھا کہ جب بنو اسحاق ذمہ داری کے ادا کرنے میں کوتاہی کریں تو بنو اسمعٰیل کے وعدہ کو پورا کیا جائے اور اسی وعدہ کے پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت اسمعٰیل کو وادی غیر ذی زرع یعنی مکہ میں رکھا تھا آخر بنو اسمعٰیل کی قربانی کا بدلہ ملنے کا وقت آ گیا چنانچہ اب ان میں سے نبی مبعوث کیا گیا ہے جس کا یہ کام ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیات لوگوں کو سنائے انہیں کتاب اور حکمت سکھائے اور انہیں پاکیزہ کرے۔ (خلاصہ رکوع ۱۶) بنو اسرائیل کو اس پر چڑنے کا حق نہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہیئے کہ ان کے آباء ابراہیم اسحاق یعقوب علیہم السلام نے انہیں نصیحت کی تھی کہ اصل عزت کامل فرمانبرداری میں ہے پس نہیں فرمانبرداری کر کے خدا تعالیٰ کے انعامات کو حاصل کرنا چاہیئے اور باغی بنکر اس کے عذاب کو نہ بھڑکانہ چاہیئے۔
خلاصہ رکوع ۱۷،۱۸
پھر فرمایا کہ بنی اسرائیل محمدؐ رسول اللہ پر اعتراض کرتے ہیں کہ اس نے گزشتہ نبیوں کا قبلہ ترک کر دیا ہے حالانکہ اوّل تو قبلہ مقصود بالذات شے نہیں صرف وحدت کے قیام کا ایک ذریعہ ہے دوسرے ابراہیم نے جو دُعا بنو اسمعٰیل کے حق میں کی تھی اس میں کعبہ کے قبلہ اور مکہ کے حج کی جگہ مقرر ہونے کی خبر دی گئی تھی۔ پس جب محمد رسول اللہ اس پیشگوئی کو پورا کرنے والے ہیں تو ان کے لئے ضروری تھا کہ کعبہ کے قبلہ ہونے کا اعلان کریں ورنہ ان کی قوم ان برکات سے حصہ نہیں لے سکتی جو ابراہیمی دعا کے مطابق اس قبلہ سے وابستہ ہیں۔ پس خدا تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ کعبہ کی ظاہری و باطنی صفائی کریں ظاہری صفائی اس مقام کو فتح کر کے اور وہاں سے آلاتِ شرک کو دُور کر کے اور باطنی صفائی شرک اور کفر کے خیالات کو مٹا کر اور کعبہ کو قبلہ عالم بنا کر (خلاصہ رکوع ۱۹) پھر فرمایا اس کام میں مشکلات ہونگی اور کفار تلوار کے زور سے مسلمانو ںکو اسکام سے روکیں گے لیکن انہیں اس سے ڈرتا نہیں چاہیئے بلکہ دُعا اور کوشش سے اس کام میں لگا رہنا چاہیئے او ریاد رکھنا چاہیئے کہ جو لوگ خدا کی راہ میں مارے جاتے ہیں وہی ابدی زندگی پاتے ہیں۔ مسلمانوں کی یہ کوشش ضرور بار آور ہو گی اور مکہ فتح ہو گا اور انہیں اس کی ظاہری باطنی صفائی کا موقع مل جائے گا۔ (خلاصہ رکوع ۲۰)اس رکوع میں خاص طور پر آیات کا لفظ استعمال فرما کر یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِکَ کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ جو باتیں ہم پہلے بیان کر آئے ہیں وہ یونہی نہیں بلکہ زمین و آسمان کی پیدائش اور رات دن کے اختلاف اور قانون قدرت کے تمام مظاہروں سے انکی تصدیق ہوتی ہے یعنی اوّل تو قانون قدرت ایک روحانی قانون کے وجود اور اس کے ارتقاء کے ساتھ مکمل ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ دوسرے خود محمدؐ رسول اللہ کی تائید میں تم آسمان و زمین اور رات اور دن اور بادلوں اور ہوائوں اور خشکی اور تری کے سامانوں کو دیکھو گے اور تم کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ شخص خدا تعالیٰ کا پیارا ہے۔ تھی تو سب کائنات اس کی تائید میں لگی ہوئی ہے ورنہ جو شخص اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ایک نئی راہ تجویز کرتا ہے وہ تو ذلیل ہوا کرتا ہے اس رکوع میں آیات پڑھ کر سنانے کے مضمون کو ختم کیا گیا ہے۔
خلاصہ رکوع ۱۲
اس رکوع سے ابراہیمی پیشگوئی کے دوسرے پہلو کو لیا ہے یعنی شریعت اور اس کی حکمتوں کے بیان کو اور سب سے پہلے حلال اور طیب کھانے کی تعلیم دی ہے کیونکہ انسانی اعمال اس کے ذہنی حالت کے تابع ہیں اور ذہنی حالت غذا سے متاثر ہوتی ہے حلال وہ ہے جس کّی شریعت اجازت دے اور طیب وہ جس کی اصول صحت اور روں ملی اور ذوق صحیح اجازت دے۔ ممنوع غذائوں کے بارہ میں چار اصول بتائے کہ وہ غذائیں استعمال نہ کرو جو مردار ہوں یعنی ان میں سڑاندھ شروع ہو گئی ہو یا جو خون کی مانند ہوں یعنی زہروں پر مشتمل ہوں یا جو سورٔ کے گوشت کی طرح ہوں کہ وہ بد اخلاق جانور ہے اور اس کے استعمال سے انسان اس کے اخلاق کو قبول کر لیتا ہے یا جو بے غیرتی پیدا کرنے والی ہوں جیسے مشرکانہ رسوم کے کھانے وغیرہ وغیرہ۔ (خلاصہ رکوع ۲۲) اس رکوع میں اسلامی تعلیم کا خلاصہ بیان کیا ے اللہ۔ یوم آخر۔ کتب سماویہ۔ اور انبیاء پر ایمان لانا ضروری ہے تا کسی سچائی کا انکار نہ ہو اور بندوں سے حسن سلوک بھی ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت اور قومی چندے بھی ضروری ہیں اور اخلاق حسنہ صبر اور ایفائے عہد بھی ضروری ہیں اور انصاف کا قیام اور اپنے رشتہ داروں کی جائز مدد اور قوانین تمدن کا قیام بھی ضروری ہے جس کے اہم قانونوں میں سے ایک قانون وراثت بھی ہے (خلاصہ ع ۲۳) اخلاقی قانون کو پورا کرنے کے لئے ظاہری ریاضت بھی ضروری ہے چنانچہ اس کے لئے اسلام نے روزے مقرر کئے ہیں اس سے اخلاق درست ہوتے ہیں اور دعائوں کی توفیق ملتی اور ان میں اثر پیدا ہوتا ہے (خلاصہ رکوع ۲۴، ۲۵) اس رکوع میں حج کے قواعد بیان کئے گئے ہیں جو اجتماع امت کا ذریعہ ہے اور بتایا ہے کہ ایسے پر امن مقام کے رستہ میں جو لوگ فساد پیدا کرتے ہیں ان سے جنگ کرنی فساد نہیں بلکہ امن کا قیام ہے پس مسلمانوں کو ایسے لوگوں سے جنگ کرنے سے دریغ نہیں کرنا چاہیئے اور بتایا ہے کہ ایک مرکز کے بغیر سب عالم ایک رسی میں نہیں بندھ سکتا پس حج کے حکم کو معمولی حکم نہ سمجھیں۔
خلاصہ رکوع ۲۶
اس میں احکام کی حکمتوں کو بیان کیا گیا ہے اور بتایا ہے کہ شریعت کو فضول نہیں سمجھنا چاہیئے۔ ظاہر باطن کی درستی کا موجب ہوتا ہے اور شریعت کی محالفت کی اصل وجہ دُنیا کی محبت ہوتی ہے کہ انسان اپنے اوقات او راموال خدا کی راہ میں خرچ کرنا پسند نہیں کرتا اور بہانے بنا کر اس بوجھ سے بچنا چاہتا ہے ایسے ہی بہانو ںسے دُنیا میں اختلافات بڑھتے ہیں اور انبیاء کی لائی ہوئی تعلیم کو لوگ کچھ کا کچھ بنا دیتے ہیں حالانکہ روحانیت بغیر قربانی کے حاصل نہیں ہو سکتی۔ پھر صدقہ خیرات کا ذکر کیا ہے کہ اس کا مصرف کیا ہے اور بتایا ہے کہ سب سے بڑا مصرف صدقہ کا جہاد فی سبیل اللہ ہے جبکہ لوگ دین میں دخل اندازی کریں اور حیرت ضمیر کو روکیں۔ (خلاصہ ع ۲۷) ایسے وقت میں جنگ ضروری ہوتی ہے اور مالی جانی قربانی لازمی۔ حتی کہ اگر دشمنانِ صداقت حج کے مہینوں میں بھی کہ عام حالتو ںمیں ان میں لڑائی منع ہے جنگ کریں تو تم کو بھی ان میں جنگ کر ناجائز ہو جائے گا۔ جنگ کے ایام میں لوگ جوئے اور شراب کی طرف رغبت کرتے ہیں تاکہ دل کو بہلائیں اور جنگ کے لئے روپیہ جمع کریں۔ فرمایا کہ مسلمانو ںکی جنگ تو ایک دینی جنگ ہے ان کے دل کے بہنے کا سامان تو اللہ تعالیٰ کی رضا میں موجود ہے۔ انہیں ان بُرے کاموں سے پرہیز چاہیئے۔ پھر بتایا کہ اموال کی قربانی کی حد کوئی نہیں جو زیادہ سے زیادہ قربانی جس سے دوسروں کے حقوق کو نقصان نہ پہنچتا ہو انسان کر سکے کرے۔ پھر فرمایا جنگوں کی وجہ سے کثرت سے تیامی رہ جائینگے ان کے بارہ میں حکم یاد رکھو کہ بہتر سے بہتر سلوک ان سے کرنا اور یاد رکھنا کہ مشرک عورتوں مردوں سے شادی نہ کرناکہ اس سے نظام میں خلل آتا ہے (خلاصہ رکوع ۲۸ تا ۳۱) پھر عورتوں کے عام احکام بیان فرمائے کہ حیض میں ان کے قریب نہ جائو اور ان سے حسنِ سلوک کرو اور اگر کسی مجبوری سے ان سے قطع تعلق کرنا پڑے تو چار ماہ سے زیادہ ایسا نہ کرو ہاں بالکل تعلق قائم نہ رکھ سکتے ہو تو طلاق دے دو۔ پھر طلاق کے احکام بیان کئے اور رضاحت اور بیوائوں کے بھی۔ اس جگہ کتاباور حکمت کا مضمون ختم ہوا (خلاصہ رکوع ۳۲، ۳۳) رکوع ۳۲ سے تزکیہ کے اصول بیان کرنے شروع کئے بتایا کہ قومی ترقی بغیر قربانی کے نہیں ہوتی پس یاد رکھو کہ وہی قوم زندہ ہو سکتی ہے جو اپنے لئے موت کو قبول کر لے اور اس دنیا میں اللہ تعالیٰ احیاء موتیٰ اسی طرح کرتا ہے کہ ایسے احکام دیتا ہے جو قوم کو بمنزلہ موت نظر آتے ہیں مگر جب وہ ان پر عمل کر لیتی ہے تو اسے زندگی مل جاتی ہے۔
خلاصہ رکوع ۳۴
بتایا کہ زندگی کا اعتبار نہیں اس لئے جلد سے جلد نیکی طرف توجہ کرنی چاہیئے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا چاہیئے پھر اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے بارہ میں ایک مختصر مگر جامع بیان دیا جو آیۃ الکرسی کہلاتا ہے اور جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی بہترین آیت قرار دیا ہے۔ پھر فرمایا ایسی اعلیٰ صفات والے خدا سے تعلق کسی جبر کا محتاج نہیں بلکہ اس کا حُسن خود دلوں کو موہ لیتا ہے او ریہی تعلق مفید ہو سکتا ہے پس دین کے بارہ میں جبر سے کام نہ لو کیونکہ مذہب کی غرض تزکیہ ہے اور جبر سے دلوں کا تزکیہ نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ جن کو اپنے قُرب میں جگہ دیتا ہے ان کے دلوں کی تاریکی کو دلائل و براہین سے دُور کرتا ہے صرف ظاہری اقرار کو وہ پسند نہیں کرتا (خلاصہ رکوع ۳۵) اللہ تعالیٰ کی طرف سے پاکیزگی عطا کرنے کے دو طریق ہیں اول افراد کی پاکیزگی جو براہِ راست بندو ںکو عطا کی جاتی ہے جیسے انبیاء کو۔ دوسرے قوام کی پاکیزگی جو انبیاء کے ذریعہ سے انہیں حاصل ہوتی ہے پھر فرمایا کہ پاکیزگی کی یہ اقسام ابراہیمؑ کی اولاد کو چار زمانو ںمیں خاص طو رپر ملنی مقدر ہیں (خلاصہ رکوع ۳۶) پھر فرمایا کہ قومی پاکیزگی کے حصول کے لئے جدوجہد کی بھی اور تعاون باہمی کی بھی ضرورت ہوتی ہے ہاں کوئی یہ اعتراض کرے کہ تعاون باہمی تو ہر قوم کی ترقی کا ذریعہ ہے اس میں خدا تعالیٰ کے ماننے والوں کی کوئی شرط نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ جو لوگ ایمان سے آزاد ہو کر تعاون باہمی کرتے ہیں ان کے اعمال کے نتائج قربانیوں کے مطابق ہوتے ہیں لیکن جو اللہ تعالیٰ کی خاطر ایسا کرتے ہیں ان کی قربانیوں کے نتائج ان کی کوششوں کے مقابلہ پر بہت زیادہ ہوتے ہیں اور ان لوگوں کی علامت یہ ہے کہ (۱)وہ قربانیاں خدا تعالیٰ کے احکام کے قیام کے لئے کرتے ہیں (۲) وہ اپنی قربانیوں کو خدا تعالیٰ کے لئے سمجھتے ہیں اور بندوں پر احسان نہیں جتاتے (خلاصہ رکوع ۳۷)جو لوگ اللہ تعالیٰ کے لئے قربانیاں کرتے ہیں ان کے عمل کبھی ضائع نہیں ہو سکتے۔ اور ان کے دل قربانیوں پر مطمئن ہوتے ہیں اور ان کے اعمال میں پاکیزگی پیدا ہوتی جاتی ہے۔ پھر بتایا کہ گو حُسن سلوک کسی سے بھی ہو اچھا کام ہے مگر جو لوگ دُنیا کی اصلاح میں مشغول ہوں ان سے حسنِ سلوک زیادہ ثواب کا موجب ہوتا ہے مگر یہ بھی یاد رہے کہ وہی حُسن سلوک مفید ہو گا جو جائز طور پر کمائے ہوئے اموال سے ہو (خلاصہ رکوع ۳۸) فرمایا کہ سود کا کاروبار حسنِ سلوک اور تعاون باہمی روح کے خلاف ہے اس سے مومن کو بچنا چاہیئے۔ چنانچہ سود کا کاروبار کرنے والی قومیںلڑائی پر دلیر ہوتی ہیں اور امن عامہ کی پرواہ نہیں کرتیں اس بات سے مت ڈرو کہ سود کے بغیر ترقی نہیں ہو سکتی دُنیا میں ایسے سامان پیدا کر دیئے جائینگے کہ سود خوار قومیں تباہ ہو جائینگی (خلاصہ رکوع ۳۹)حسنِ سلوک اور تعاون باہمی کا ایک طریق قرض بھی ہے جو اپنے اموال کلی طو رپر اپنے حاجتمند بھائی کو نہیں دے سکتا لیکن قرض سے اس کی مدد کر سکتا ہے اسے اس سے دریغ نہیں کرنا چاہیئے مگر قرض کا چونکہ کچھ مدت بعد مطالبہ ہوات ہے اس لئے قرص کو لکھ لینا چاہیئے اور گواہ مقرر کر لینے چاہئیں تا فساد نہ ہو اور اگر لکھنے والا نہ ہو تو شہادت کے طور پر کوئی چیز رہن رکھ دینی چاہیئے (خلاصہ رکوع ۴۰) مگر سب سے بڑا گر پاکیزگی اور طہارت کا (۱) اللہ تعالیٰ کی صفات کو سامنے رکھنا (۲) کلام الٰہی پر ایمان اور تدبر (۳) انبیاء اور صلحاء اور اشخاص متعلقہ کی دُعا ہے۔
(یہ خلاصہ ہے سورۃ بقرہ کا اور اس میں بلاواسطہ تو یہود و نصاریٰ اور قریش پر اس رنگ میں حجت تمام کی گئی ہے کہ ابراہیم کی ایک دُعا کا جو مقبول بارگاہ الٰہی ہو چکی پورا ہونا باقی تھا محمد رسول اللہ علیہ اللہ علیہ وسلم کا وجود اس دُعا کو پُورا کرتا ہے پس اگر ان کے وجود کا انکار کیا جائے تو ابراہیم بھی جھوٹے بنتے ہیں اور ان کے جھوٹا ہونے سے موسویت اور مسیحیت بھی ساتھ ہی جھوٹی ہو جاتی ہیں اور بالواسطہ تمام دنیا پر اسلام کی صداقت ثابت کی گئی ہے کیونکہ انسان کی پیدائش بغیر مقصد کے نہیں ہو سکتی اور اس مقصد کو اگر کوئی کلام پورا کرتا ہے تو وہ محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا کلام ہے کیونکہ اسی سے معرفت الٰہی صحیح قانون اور فلسفۂ شریعت او رپاکیزگی قلب جیسے ضروری امور حاصل ہوتے ہیں۔
اگر کوئی ان نوٹوں کی مدد سے سورۂ بقرہ کو پڑھے گا تو میں سمجھتا ہوں اسے اس سورۃ میں ایک نیا لطف آئے گا اور اس کے مطالب کا ایک وسیع دروازہ اس کے لئے کھل جائے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ
سُورۃ بقرہ کا تعلق سُورہ فاتحہ سے
سورۃ فاتہ کا تعلق تو کلام الٰہی کا خلاصہ ہونے کے وجہ سے سب ہی سورتوں سے ہے لیکن سورۃ بقرہ کو چونکہ اس کے معاً بعد رکھا گیا ہے اس سورۃ کا تعلق سورۃ فاتحہ سے یقینا سب سے زیادہ ہے چنانچہ اوّل تعلق تو اس کا اس سے یہ ہے کہ جس طرح سورۃ فاتحہ خلاصہ ہے سارے قرآن کریم کا۔ اسی طرح یہ سورۃ بھی خلاصہ ہے سب قرآن کا کیونکہ اس میں دلائل و براہین بھی بیان کئے گئے ہیں شریعت بھی اور فلسفۂ شریعت بھی اور پاکیزگی اور طہارت کے گر بھی بیان کئے گئے ہیں اور ابراہیمی دُعا میں آخری موعود کی بعثت کا یہی مقصد بیان کیا گیا ہے۔ دوسرا تعلق سورۃ فاتحہ کا سورۃ بقرہ سے یہ ہے کہ اس میں اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کی دُعا سکھائی گئی تھی اور سورۂ بقرہ کی ابتداء بھی آیت ذٰلِک الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ ھُدیً لِّلْمُتَّقِیْنَ سے ہوئی ہے یعنی یہ سورۃ صراط مستقیم کی طرف لے جانے کے مقصد کو پورا کرتی ہے اور فاتحہ کی دُعا کی قبولیت کا ظاہری نشان ہے۔
۲؎ سورۃ البقرہ
چونکہ یہ حروف الگ الگ بولے جاتے ہیں انہیں حروف مقطعات کہتے ہیں جو ایک سے لے کر پانچ کی تعداد تک بعض سورتوں کے شروع میں بیان کئے گئے ہیں حروف کی اقسام کے لحاظ سے یہ چودہ حرف ہیں اور ان کی تفصیل یہ ہے ا۔ ل۔ م۔ ص۔ ر۔ ک۔ ہ۔ ع۔ ع۔ ط۔ س۔ ج۔ ق۔ ن۔ ان میں سے ق اور نون اکیلا اکیلا ایک سورۃ کے پہلے آیا ہے۔ باقی دو دو یا زیادہ مل کر آئے ہیں ان کے معنوں کے بارہ میں مفسرین میں بہت اختلاف ہے بعض نے تو لکھا ہے کہ یہ حروف خدا تعالیٰ کے اسرار میں سے ہیں اس لئے ان کے معنوں کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے۔ بعض نے لکھا ہے کہ ان سے یہ مراد ہے کہ قرآن کریم بھی حروف ہجاء سے بنا ہے مگر پھر بھی معجزانہ کلام ہے اگر یہ انسانی کلام ہوتا تو کیوں عرب انہی حروف سے ایسا ہی کلام نہ بنا لیتے۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ سورتوں کے نام ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ قسمیں ہیں جو سورۃ کے مضمون پر اللہ تعالیٰ نے کھائی ہیں۔ مگر سب مطالب ایسے معمولی ہیں کہ ان کی خاطر حروف مقطعات کا قرآنی سور کے شروع میں رکھنا نظر میں جنچتا نہیں۔ بعض نے ان کو بامعانی کلام کا خلاصہ قرار دیا ہے مثلاً الف لام میم کے معنے یہ کئے ہیں کہ اللہ جبریل محمدؐ یعنی اللہ تعالیٰ نے جبریل کے ذریعہ سے محمد (صلیٰ اللہ علیہ وسلم) پر یہ کلام نازل کیا ہے۔ یہ معنے الف لام میم کے حروف پر تو چسپان ہو جاتے ہیں۔ لیکن تمام حروف مقطعات کی اس طرح تشریح نہیں ہو سکتی۔ بعض نے ان حروف کے معنی یہ کئے ہیں کہ ان میں اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا ذکر ہے جن کی تشریح بعد کی سورۃ میں کی گئی ہے اور صفات کے پہلے حروف یا بعض اہم حروف کو مضمون کی طرف اشارہ کرنے کے لئے بیان کر دیا گیا جیسا کہ میں آگے چلے کر بیان کروں گا یہی معنی سب سے زیادہ درست اور شانِ قرآن اور شہادت قرآن کے مطابق ہیں بعض نے ان حروف سے ان آیات کے مضامین کے اوقات کی طرف اشارہ مراد لیا ہے یعنی حروف مقطعات سے جس قدر عدد نکلتے ہیں اس قدر عرصہ تک کے متعلق ان سورتوں میں واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ یا یہ کہ اس زمانہ کے حالات کی طرف ان سورتوں میں خاص طو رپر اشارہ کیا گیا ہے یہ معنی بھی جیسا کہ بتایا جائے گا درست معلوم ہوتے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی کم سے کم ان کی تصدیق کرتی ہے بعض مغربی مصنفین نے یہ معنے کئے ہیں کہ یہ ان کا بتوں کے نام ہیں جنہوں نے حضرت محمد (صلے اللہ علیہ وسلم) کے حکم سے یہ سورتیں لکھیں (سیہل بحوالہ گولیس) چنانچہ انہوں الف سے ابوبکر ع سے علی یا عمر س سے سعد ط سے طلحہ اور ھا سے ابوہریرہؓ وغیرہ مراد لئے ہیں یہ معنے اس ناواقفیت کا ایک اور ثبوت ہیں جس کے باوجود ہر مغربی مصنف اسلام کے بارہ میں علمیت کا دعویٰ کرنے پر تیار رہتا ہے لطف یہ ہے کہ ہ سے حضرت ابوہریرہؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین سال پہلے اسلام لائے تھے جبکہ سورۂ مریم اور سورۂ طہ جن میں ہ آتی ہے دونوں ہی مکی ہیں اور ابوہریرہؓ کے اسلام لانے سے دس پندرہ سال پہلے نازل ہو چکی تھیں علاوہ ازیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے ثابت ہے کہ یہ حروف بھی الہامی ہیں۔
نیز یہ امر بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اگر یہ سورتیں دوسرے صحابہ سے تیار کروائی گئی تھیں تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قدر افراد کو اپنے جھوٹے ہونے کا (نعوذ باللہ من ذالک) گواہ بنا لیا آخر جب باقی قرآن آپ نے (نعوذ باللہ من ذالک) خود بنایا تھا تو ان سورتوں کو صحابہ سے بنوانے کی کیا خاص غرض تھی اور کیوں ان کو ایک افتراء کا گواہ بنایا۔ اور اگر بفرض محال ایسا کیا بھی تھا تو ان نامو ںکو شروع میں رکھ کر اس افتراء کا ثبوت کیوں بہم پہنچایا ایسا کام تو ایک نیم عقل کا انسان بھی نہیں کر سکتا۔
اس امر کا ثبوت کہ ان حروف کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی وحی کا حصہ قرار دیا ہے۔ اس حدیث سے ملات ہے جو بخاری نے آپنی کتاب تاریخ میں نیز ترمذی اور حاکم نے عبداللہ بن مسعود سے نقل کی ہے وہ فرماتے ہیں۔ قالَ رسولُ اللّٰہِ صلَّی اللّٰہُ علیہِ وسلَّمَ مَنْ قَرَئَ حرفًا من کتاب اللّٰہِ فَلَہُ بہِ حَسَنَۃٌ وَالْحَسنَۃُ بِعَشرِ امثا لِھَالا اَقولُ الٓمّٓ حرفٌ ولٰکن الف حرفٌ ولا حرفٌ و میم حرفٌ (ترمذی ابواب افضائل القرآن۔ باب ما جائَ فی من قَرَأ حرفاً من القرآن ما لہ من الاجر) اس روایت کو بزاز اور ابن شیبہ نے بھی عوف بن مالک الاشجعی کی سند پر نقل کیا ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی کتاب یعنی قرآن کریم کا ایک حرف بھی پڑھے وہ جنت کا مستحق ہو گا اور اس کی یہ نیکی دس گنے ثواب کا مستحق اسے بنا دیگی اور میں یہ نہیں کہتا کہ الٓمّٓ ایک حرف ہے بلکہ الٓمّٓ کا الف ایک مستقل حرف ہے اور لام ایک مستقل حرف ہے اور میم ایک مستقل حرف ہے۔ (اس جگہ حرف سے مُراد لفظ ہے قواعد نحو کے مدوّن ہونے سے پہلے حرف کا لفظ الفاظ کے لئے بھی عربی میں استعمال کیا جاتا تھا اسلامی زمانہ میں قواعد نحو کے مدوّن ہونے پر حرف کا لفظ حروف ہجاء یا ان الفاظ کے لئے مخصوص کر دیا گیا جو دوسرے لفظوں سے ملے بغیر مستقل معنی نہیں دیتے) اس شہادت کی موجودگی میں کون خیال کر سکتا ہے کہ یہ حروف کا بتو ںنے اپنے نام کے لئے بطور علامت کے سورتوں کے شروع میں رکھ دیئے تھے پھر لطف یہ ہے کہ دعویٰ تو یہ ہے کہ کا بتوں نے اپنے ناموں کی علامت کے طور پر یہ حروف لکھے تھے لیکن الٓمّٓ کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ اَمَرَلی مُحمد مجھے اس کے لکھنے کا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے حکم دیا ہے ان معنوں سے تو کسی شخص کا نام بھی ظاہر نہیں ہوتا۔ پھر یہ علامت کس بات کی ٹھہرے۔ اس حدیث سے بھی جو جابر بن عبداللہ سے ابھی بیان کی جائے گی اس امر کا ثبوت ملتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے الٓمّٓ کو کو وحی الٰہی کا حصہ قرار دیا ہے۔
میں نے ایک معنی ان حروف کے یہ بتائے تھے کہ ان کے عدد کے مطابق سالوں کے واقعات کی طرف ان کے بعد کی سورۃ میں اشارہ کیا گیا ہے یہ معنی ایک یہودی عالم نے کئے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس نے ان کو دہرایا آپؐ نے اس کی تردید نہیں کی بلکہ ایک رنگ میں تصدیق کی۔ اس لئے یہ معنی بھی قابل غور ضرور ہیں اور تدبر کرنیوالوں کے لئے اس تفسیر سے کئی نئے مطالب کی راہ کھل جاتی ہے وہ حدیث جس میں اس تشریح کا ذکر آتا ہے یُوں ہے ابن اسحاق نے اور بخاری نے (اپنی تاریخ میں) نیز ابن جریر نے ابن عباس ے اور انہوں نے جابر بن عبداللہ سے یوں روایت کی ہے مَرَٔاَ بُوْ یَاسِرِ بْنِ اَخْطَبَ فِیْ رِجَالٍ مِنْ یھود برَسولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہ وَسَلَّمَ وَھُوَ یَتْلُوْ فَاتۃَ سودۃِ البقرۃ الٓمّٓ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ فَاَنٰی اَخَاہُ حُسَییّ بنَ اَخْطَبَ فِیْ رجَالٍ مِّنَ الْیَھُوْد فَقَالَ تَعْلَموُنَ وَاللّٰہِ لَقَدْ سَمِعْتُ محَّمدً ایَتْلُوْ فِیْمَا اُنْزِلَ عَلَیْہِ الٓمّٓ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ فَقَّالَ اَنْتَ سَمِعْتَہ فَقال اَنْتَ سَمِعْہَ فَقَال نَعَمْ فَمَشَی حُییّ فِیْ اولٰٓک النَّفَرِ اِلیٰ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَا لُوْایَا مُحَمَّدُ اَلَمْ یُدْکَرْ اَنَّکَ تَتْلُوْ فِیْمَا اُنْزِلَ عَلَیْکَ الٓمّٓ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ قَالَ بَلیٰ قَالُوْا اَجَائَ کَ بِھٰدا جِبْرِیْل مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ قَالَ نَعَمْ قَالُوْا لَقَدْ بَعَثَ اللّٰہُ مِنْ قَبْلِکَ الْاَنْبِیَائَ مَانعلمہ بَیّن لِنبیٍّ مِنُھم مادّۃ مُلِکہٖ وَمَا اَجَل امّتہ غیرکَ فَقَالَ حُیییّ بنُ اَخْطب و اقبل عَلیٰ مَنْ کَانَ معہ الا لف واحدۃ والام ثلاثون والمیم اَرْبَعُوْنَ فَھٰدِہ احدٰی وَسَبْعُوْنَ سَنَۃً اَفَتَدْ خُلُوْنَ فِیْ دِیْن نَبیّ اِنَّمَاُدّۃ لُکہٗ وَاَجَل اُمَّتِہٖ احدٰی وَ سَبْعُوْنَ سَنَۃً ثُمَّ اَقْبَلَ عَلَیٰ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلّمَ فَقَالَ یَا مُحَمَّدَ ھَلْ مَعَ ھٰذا غَیْرُہٗ قَالَ نَعَمْ قَالَ وَ مَا ذٰکَ قَال الٓمص قَالَ ھٰذِہٖ اَثْقَل وَ اَطْوَلَ الالف واحِدۃ واللَّام ثلثونَ وَالْمِیْم اَرْبَعُوْنَ وَالصَّاد تِسْعُوْن فَھٰذہ احدٰی وَّسِتُّونَ وَمأۃ سَنَۃً ھَلْ مَعَ ھٰذا یَا مُحَمَّد غَیْرہٗ قَالَ نَعَم قَالَ وَمَا ذٰکَ قَال الٓمٰ قَالَ ھٰذہ اثْقَلَ وَ اَطْوَلُ الالف واحدۃٌ وَاللَّامُ ثَلٰثُوْنَ والرّاء مأتان ھٰذہ احدٰی وَ ثَلَاثُوْنَ سَنَۃً وَ مأتَانِ فَھَلْ مَعَ ھٰذا غَیْرُہ قَالَ نَعَمْ الٓمرٰ قَالَ فَھٰذہٖ اَثْقل وَ اَطْوَل الالف واحدۃ واللام ثَلاثُوْنَ وَالْمِیْم اَرْبَعُوْنَ وَالرّاء مأتانِ فَھذہ احدٰی وَ سَبْعُوْنَ سَنَۃً وَ مأتَان ثُمَّ قَالَ لَقَدْ لبس عَلَیْنَا اَمْرک یا مُحَمَّد حتّٰی مَانَدْدِیْ أقَلِیْلاً اُعْطَیْت اَمْ کَثِیْرًا ثُمَّ قَامُوْا فَقَالَ اَبُوْ یاسر لاَخِیْہ حییی ومن معہ من الاحبار مَاید رِیْکُمْ لَعَلّہٗ قَدْ جُمع ھٰذا لِمُحَمَّد کلّہ احدٰی وَ سَبْعُوْنَ واحدٰی وَسِتُّوْ ن ومأۃ واحدٰی و ثَلاَثُوْن و ماتُمَانِ واحدٰ ی وَ سِبْعُوْنَ وَ مأتانِ فَذا لِکَ سبع مأۃ وَ اَرْبَع وَ ثَلَاثُوْنَ سَنَۃً فَقَالُوْا لَقَدْ تَشَا بَہَ عَلَیْنَا اَمْرُہ (بحوالہ فتح مصری صفحہ ۲۴) یعنی ابو یاسر بن اخطب (رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مشہور یہودی علماء سے تھا) کچھ یہود سمیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گزرا جبکہ آپؐ سورۂ بقرہ کیاابتدائی آیات پڑھ رہے تھے یعنی الٓمّٓ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ وہ یہ سُن کر اپنے بھائی حُیَّیْی بن اخطب کے پاس جبکہ وہ یہود کی ایک جماعت کے پاس بیٹھا ہوا تھا آیااور کہا تم کو کچھ معلوم ہے میں محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کو کیا پڑھتے سنا ہے خدا کی قسم میں نے سنا ہے کہ وہ اپنے اوپر نازَ ہونے والے کلام میں سے یہ کلام پڑھ رہے تھے الٓمّٓ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ اس پر حُیَّیْینے کہا کیا فی الواقع تم نے یہ کلام سنا ہے؟ اس نے کہا کہ ہاں اسپر حُیَّیْی اپنے ساتھیوں کو لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ اے محمد (صلے اللہ علیہ وسلم) کیا آپؐ کے متعلق یہ بات نہیں کہی جاتی کہ آپ اپنے اوپر نازل ہونے والے کلام میں سے ایک یہ وحی بھی سناتے ہیں کہ الٓمّٓ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ آپؐ نے فرمایا یہ درست ہے اس نے کہا کیا یہ کلام جبریل نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر نازل کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا ہا حُیَّیْی نے کہا کہ آپؐ سے پہلے بھی انبیاء آئے ہیں ہمیں معلوم نہیں کہ سوائے آپؐ کے ان میں سے کسی کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی حکومت کی مدت او راس کی قوم کا عرصہ بیان کیا ہو۔ پھر اس نے اپنے ساتھیوں کو مخاطب کیا اور کہا الف کا ایک لام کے تیس او رمیم کے چالیس یعنی کل اکہتر سال ہوئے کیا تم ایسے نبی کے دین کو قبول کرو گے جس کی حکموت کا عرصہ اور جس کی امت کا زمانہ کل اکہتر سال ہے پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مخاطب ہوا اور پوچھا کہ اے محمد (صلے اللہ علیہ وسلم) کیا ان کے علاوہ اور حرف بھی آپؐ پر نازل ہوئے ہیں آپؐ نے فرمایا ہاں اس نے پوچھا کیا آپؐ نے فرمایا الٓمّٓصٓ اس نے کہا یہ اس نے کہا یہ زیادہ گراں ہے اور ص کے نوے کل ایک سوا کاسٹھ ہوئے پھر پوچھا کیا ان کے سوا اور حروف بھی آپ پر نازل ہوئے ہیں آپ نے فرمایا ہاں۔ اس نے کہا وہ کیا آپؐ نے فرمایا الٓرٰ اس نے کہا یہ اس سے بھی زیادہ گراں اور لمبا عرصہ ہے الف کا ایک لام کے تیس اور ر کے دوسو کل دوسو اکتیس ہوئے پھر کہنے لگا کیا ان کے سوا اور حروف بھی ہیں آپؐ نے فرمایا ہاں اور وہ الٓمّٓرٰ کے حروف ہیں اسپر وہ بولا کہ یہ تو پہلے سے بھی گراں اور لمبا عرصہ ہے الف کا ایک لام کے تیس میم کے چالیس اور ر کے دوسو ہوئے کل دو سواکہتر سال کا عرصہ ہوا پھر کہنے لگا اے محمد (صلے اللہ علیہ وسلم) آپؐ کا معامل ہم پر مشتبہ ہو گیا ہے پتہ نہیں لگتا آپؐ کو لمبی عمر عطا ہوئی ہے یا چھوٹی پھر وہ اور اس کے ساتھ اُٹھ کر چلے گئے راستہ میں ابو یاسر اے اپنے بھائی اور دوسرے یہودی علماء سے کہا کیا معلوم کہ یہ سب زمانے محمد (صلے اللہ علیہ وسلم) کے لئے اکٹھے کر دئے گئے ہوں جن کی میزان سات سو چونتیس سال ہوتی ہے اس پر سب نے کہا کہ معاملہ کچھ مشتبہ ہی ہو گیا ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہود نے ان حروف سے سالوں کی تعداد مُراد لی تھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنے خیال کا اظہار بھی کیا تھا اور آپؐ نے اُن کے خیال کی تردید نہیں فرمائی۔
یہود کا یہ خیال کہ ان حروف سے امت محمدؐیہ کا زمانہ بتایا گیا ہے ایک بالبداہت غلط بات ہے کیونکہ امت محمدؐیہ تردید نہ کرنا بھی کچھ معنے ضرور کھتا ہے اور اس کو مدنظر رکھتے ہوئے اور سورتوں کے مضامین کو دیکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ حروف اپنی عدوی قیمت کے لحاظ سے اس زمانہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس کے واقعات خاص طور پر اس سورۃ میں بیان کئے گئے ہیں جس کی ابتداء میں وہ حروف آئے ہیں خواہ اس لحاظ سے کہ بعثت نبوی کے بعد اتنے عرصہ کے اختتام پر وہ واقعات شروع ہوئے اگر اس خیال کو درست سمجھا جائے تو یہ بات تو واضح ہے کہ سورۂ بقرہ کے واقعات بعثت کے بعد کے اکتہر سال کے واقعات کا مختصر خاکہ ہیں حضرت معاویہ ۶۰ھ؁ میں فوت ہوئے ہیں اس میں تیرہ سال قبل ہجرت کے شامل کئے جائیں تو یہ ۷۳ھ؁ ہوتا ہے یزید کی بیعت حضرت معاویہ نے وفات سے ایک دو سال پہلے لی ہے چونکہ اسی وقت سے اصل فتنہ شروع ۂوا ہے اس لئے ابتدائے اسلام اور ترقی اسلام کا زمانہ اکتہر سال ہوتا ہے اور اسی زمانہ کا نقشہ سورۂ بقرہ کھینچا گیا ہے۔ دوسری سورۃ مریم ہے اس سے پہلے کھٰیٰعص کے الفاظ ہیں جن کی مجموعی رقم ۱۹۵ ہوتی ہے سورۂ مریم میں مسیحیت کی ترقی کا ذکر ہے اور خصوصاً دوسری ترقی کا جو اسلامی ترقی کے بعد ہونی تھی۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سال سے مسیحیت نے دوبارہ سر نکالا ہی یہی سال ہے جس میں اسلامی تاریخ میں پہلی دفعہ کوشش کی گئی کہ جس وقت معتصم باللہ مسیحی رومی حکومت کے خلاف لڑ رہا تھا اسے معزول کر کے عباس بن مامون کو خلیفہ مقرر کر دیا جائے اور اس طرح مسیحیوں کے مقابل پر اسلام کو ضعف پہنچایا جائے اسی زمانہ کے قریب مسیحیوں نے دوبارہ سپین پر حملہ کر کے اس کے کچھ حصے واپس لے لئا اور اسی زمانہ کے قریب یہ بدبختی کا واقعہ دیکھنے میں آیا کہ خلاف انلس نے خلاف عباسیہ کے خلاف روما کے عیسائی بادشاہ سے خفیہ معاہدہ کیا اور عباسی حکومت نے شاہ فرانس سے سپین کی اسلامی حکومت کے خلاف دوستانہ تعلقات قائم کئے اور اس طرح اسلامی سیاست میں مسیحیوں کو داخل کر کے مسیحیت کی ترقی اور اسلام کے تنزل کی داغ بیل ڈالی۔ میری رائے میں اگر دوسری سورتوں پر بھی غور کیا جائے تو زمانہ کے لحاظ سے کافی روشنی ان مضامین پر پڑے گی۔
اب میں حروف مقطعات کے بارہ میں وہ تحقیق لکھتا ہوں جس کی بنیاد حضرت ابن عباسؓ اور حضرت علیؓ کے کئے ہوئے معنوں پر ہے اور وہ تحقیق یہ ہے۔
حروف مقطعات اپنے اندر بہت سے راز رکھتے ہیں ان میں سے بعض راز بعض ایسے افراد کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں جن کا قرآن کریم سے ایسا گہرا تعلق ہے کہ ان کا ذکر قرآن کریم میں ہونا چاہیئے لیکن اس کے علاوہ یہ الفاظ قرآن کریم کے بعض مضامین کے لئے قفل کا بھی کام دیتے ہیں کوئی پہلے ان کو کھولے تب ان مضامین تک پہنچ سکتاہے جس جس حد تک ان کے معنوں کو سمجھتا جائے۔ اسی حد تک قرآن کریم کا مطلب کھلتا جائے گا۔
میری تحقیق یہ بتاتی ہے کہ جب حروف مقطعات بدلتے ہیں تو مضمون قرآن جدید ہو جاتا ہے اور جب کسی سورۂ کے پہلے حروف مقطعات استعمال کئے جاتے ہیں تو جس قدر سورتیں اس کے بعد ایسی آتی ہیں۔ جن کے پہلے مقطعات نہیں ہوتے ان میں ایک ہی مضمون ہوتا ہے اسی طرح جن سورتوں میں وہی حروف مقطعات دُہرائے جاتے ہیں وہ ساری سورتیں مضمون کے لحاظ سے ایک ہی لڑی میں پروئی ہوئی ہوتی ہیں۔
اس قاعدہ کے مطابق میرے نزدیک سورۂ بقرہ سے لیکر سورہ توبہ تک ایک ہی مضمون ہے اور یہ سب سورتیں الٓمّٓ سے تعلق رکھتی ہیں۔ سورۃ بقرہ الٓمّٓ سے شروع ہوتی ہے پھر سورۃ ؑ العمران بھی الٓمّٓ سے شروع ہوتی ہے پھر سورہ نساء سورہ مائدہ اور سورہ انعام حروف مقطعات سے خالی ہیں اور اس طرح گویا پہلی سورتوں کے تابع ہیں جن کی ابتداء الٓمّٓ سے ہوتی ہے ان کے بعد سورہ اعراف الٓمّٓصٓ سے شروع ہوتی ہے اس میں بھی وہی الٓمّٓ موجود ہے ہاں حرف ص کی زیادتی ہوئی ہے اس کے بعد سورۃ افعال اور براء ۃ حروف مقطعات سے خالی ہیں۔ پس سورۃ براء ۃ تک الٓمّٓ کا مضمون چلتا ہے سورۃ اعراف میں جو ص بڑھایا گیا اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ حرف تصدیق کی طرف لیجاتا ہے۔ سورہ اعراف انفال اور توبہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی اور اسلام کی ترقی کا ذکر کیا گیا ہے سورۂ اعراف میں اصولی طور پر اور انفال اور توبہ میں تفصیلی طور پر تصدیق کی بحث ہے اس لئے وہاں ص کو بڑھا دیا گیا ہے۔
سورۂ یونس سے الٓمّٓ کی بجائے الٓرٰ شروع ہو گیا ہے ال تو وہی رہا اور مرکو بدلکرر کر دیا۔ پس یہاں مضمون بدل گیا۔ اور فرق یہ ہوا کہ بقرہ سے لیکر توبہ تک تو علمی نقطہ نگاہ سے بحث کی گئی تھی اور سورۂ یونس سے لیکر سورۂ کہف تک واقعات کی بحث کی گئی تھی اور سورۂ یونس سے لیکر سورۂ کہف تک واقعات کی بحث کی گئی ہے اور واقعات کے نتائج پر بحث کو منحصر رکھا گیا ہے اس لئے فرمایا کہ الٓرٰیعنی اَنَا اللّٰہُ اَرٰی میں اللہ ہوں جو سب کچھ دیکھتا ہوں اور تمام دُنیا کی تاریخوں پر نظر رکھتے ہوئے اس کلام کو تمہارے سامنے رکھتا ہوں۔ غرض ان سورتوں میں رویت کی صفت پر زیادہ بحث کی گئی ہے اور پہلی سورتوں میں علم کی صفت پر زیادہ بحث تھی۔
میں فی الحال اس جگہ اختصاراً اتنی بات کہہ دینا چاہتا ہوں کہ حروف مقطعات کے متعلق بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ یہ بے معنی ہیں۔ اور انہیں یونہی رکھ دیا گیا ہے مگر ان لوگوں کی تردید خود حروف مقطعات ہی کر رہے ہیں چنانچہ جب ہم تمام قرآن پر ایک نظر ڈا ل کر یہ دیکھتے ہیں کہ کہاں کہا ںحروف مقطعات استعمال ہوئے ہیں تو ان میں ایک ترتیب نظر آتی ہے۔ سورۃ بقرہ الٓمّ سے شروعہ ہوتی ہہ پھر سورہ آل عمران الٓمّ سے شروع ہوتی ہے پھر سورۂ نساء سورۂ مائدہ سورہ انعام حروف مقطعات سے خالی ہیں پھر سورۂ اعراف الٓمّٓصٓ سے شروع ہوتی ہے اور سورۂ انفعال اور براء ۃ خالی ہیں ان کے بعد سورۂ یونس سورۂ ہود سورۂ یوسف الٓرٰ سے شروع ہوتی ہیں اور سورہ رعد میں مر بڑہا کر الٓھّٓوٰ کر دیا گیا ہے لیکن جہاں الٓمّٓصٓ میں ص آخرمیں رکھا یہاں مرکور سے پہلے رکھا گیا ہے۔ حالانکہ اگر کسی مقصد کے مدنظر رکھے بغیر زیادتی کی جاتی تو چاہیئے تھا کہ میم کو جو زائد کیا گیا تھا۔ ر کے بعد رکھا جاتا میم کو الٓرٰ کے درمیان رکھ دینا بتاتا ہے کہ ان حروف کے کوئی خاص معنے ہیںاور جب ہم دیکھتے ہیں کہ پہلے الٓمّٓکی سورتیں ہیں۔ اور اس کے بعد الٓرٰ کی ۔ تو صاف طو رپر معلوم ہو جاتا ہے کہ مضمون کے لحاظ سے میم کو ر پر تقدم حاصل ہے اور سورۂ رعد جس میں میم او ر ر اکٹھے کروئے گئے ہیں اس میں میم کو ر سے پہلے رکھنا اس امر کو واضح کر دیتا ہے کہ یہ سب حروف خاص معنے رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان حروف کو حروف خاص معنے رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان حروف کو جو معنی تقدم رکھتے ہیں ہمیشہ مقدم ہی رکھا جاتا ہے۔ سورۂ رعد کے بعد ابراہیم اور حجر میں الٓرٰ استعمال کیا گیا نہیں ہوئے اور یہ سورتیں گویا پہلی سورتوں کے مضامین کے تابع ہیں۔ ان کے بعد سورۂ مریم ہے جس میں کھٰیٰعص کے حروف استعمال کئے گئے ہیں۔ سورۂ مریم کے بعد سورۂ طٰہٰ ہے اور اس میں طٰہٰ کے حروف استعمال کئے گئے ہیں۔ اس کے بعد انبیاء حج مؤمنوں نور اور فرقان میں حروف مقطعات چھوڑ دیئے گئے ہیں۔ گویا یہ سورتیں طٰہٰ کے تابع ہیں۔ آگے سورۂ شعراء طٰسم سے شروع کی گئی ہے گویا طاء کو قائم رکھا گیا ہے اور ھا کی جگہ س اور میم لائے گئے ہیں اس کے بعد سورہ نمل ہے جو طٰسٓ سے شروع ہوتی ہے اس میں سے میم کو اُڑا دیا گیا ہے اور طاء اور س قائم رکھے گئے ہیں اس کے بعد سورۂ قصص کی ابتدا پھر طٰسم سے کی گئی ہے گویا میم کے مضمون کو پھر شامل کر لیا گیا ہے۔ اس کے بعد سورہ عنکبوت کو پھر الٓمّٓ سے شروع کیا گیا ہے اور وہ دوبارہ علم الٰہی کے مضمون کو نئے پیرایہ اور نئی ضرورت کے ماتحت شروع کیا گیا ہے (اگرچہ میں ترتیب پر اس وقت بحث نہیں کر رہا۔ لیکن اگر کوئی کہے کہ الٓمّٓ دوبارہ کیوں لایا گیا ہے۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ سورۂ بقرہ سے الٓمّٓ کے مخاطب کفار تھے اور یہاں سے الٓمّٓ کے مخاطب مومن ہیں) سورۂ سجدہ کو بھی الٓمّٓ سے شروع کیا گیا ہے ان کے بعد سورۂ احزاب۔ سبا۔ فاطر۔ بغیر مقطعات کے ہیں اور گویا پہلی سورتوں کے تابع ہیں۔ ان کے بعد سورۂ یٰسٓ ہے جس کو یٰسٓ کے حروف سے شروع کیا گیا ہے اس کے بعد سورۂ صافات بغیر مقطعات کے ہے اس کے بعد سورہ صٓ حرف ص سے شروع کی گئی ہے پھر سورہ زمر حروف مقطعات سے خالی اور پہلی سورۃ کے تابع ہے اس کے بعد سورۂ مومن حٰمّٓ سے شروع کی گئی ہے اس کے بعد سورہ حٰمّٓ سجدہ کو بھی حٰمّٓ سے شروع کیا گیا ہے پھر سورۂ شوریٰ کو بھی حٰمّٓ سے شروع کیا گیا ہے لیکن ساتھ حروف عٓسٓقٓ بڑھائے گئے ہیں اس کے بعد سورۂ زخرف ہے اس میں بھی حٰمّٓ کے حروف ہی استعمال کئے گئے ہیں۔ پھر سورۂ دخان۔ جاثیہ اور احقاف بھی حٰمّٓ سے شروع ہوتی ہیں۔ ان کے بعد سورۂ محمد فتح اور حجرات بغیر مقطعات کے ہیں اور پہلی سورتوں کے تابع ہیں سورہ قٓ حرف ق سے شروع ہوتی ہے اور قرآن کریم کے آحر تک ایک ہی مضمون چلا جاتا ہے۔
یہ ترتیب بتا رہی ہے کہ یہ حروف یونہی نہیں رکھے گئے۔ پہلے الٓمّٓ آتا ہے پھر الٓمّٓصٓ آتا ہے جس میں ص کی زیادتی کی جاتی ہے۔ پھر الٓرٰ آتا ہے اور پھر الٓمّرٰٓ آتا ہے کہ جس میںمیم کی زیادتی کی جاتی ہے پھر کھٰیٰعص آتا ہے جس میں ص پر چار اور حروف کی زیادتی ہے پھر طٰہٰ لایا جاتا ہے۔ اور پھر اس میں کچھ تبدیلی کر کے طٰسٓمّٓ کر دیا جاتاہے۔ یہ ایک ہی قسم کے الفاظ کا متواتر لانا اور بعض کو بعض جگہ بدل دینا بعض جگہ اور رکھ دینا بتاتا ہے کہ خواہ یہ حروف کسی کی سمجھ میں آئیں جس نے انہیں رکھا ہے کسی مطلب کے لئے ہی رکھا ہے۔ اگر یونہی رکھے جاتے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ کہیں ان کو بدل دیا جاتا کہیں زائد کر دیا جاتا کہیں کم کر دیا جاتا۔
علاوہ مذکورہ بالا دلائل کے خود مخالفین اسلام کے ہی ایک استد لال سے یہ مستنبط ہوتا ہے کہ مقطعات کچھ معنی رکھتے ہیں۔ مخالفین اسلام کہتے ہیں کہ قرآن کریم سورتوں کی ترتیب انکی لمبائی اور چھوٹائی کے سبب سے ہے اب اگر یہ صحیح ہے تو کیا یہ عجیب بات نہیں کہ باوجود اس کے کہ سورتیں اپنی لمبائی اور چھوٹائی کے سبب سے آگے پیچھے رکھی گئی ہے ایک قسم کے حروف مقطعات اکٹھے آتے ہیں الٓمّٓ کی سورتیں اکٹھی آ گئی ہی الٓرٰٓ کی اکٹھی طٰہٰاور اس کے مشترکات کی اکٹھی پھر الٓمّٓکی کٹھی حٰمّٓ کی اکٹھی۔ اگر سورتیں ان کے عجم کے مطابق رکھی گئی ہیں تو کیا یہ عجیب بات نہیں معلوم ہوتی کہ حروف مقطعات ایک خاص حجم پر دلالت کرتے ہیں اگر صرف یہی تسلیم کیا جائے تب بھی اس کے معنے یہ ہوں گے کہ حروف مقطعات کے کچھ معنی ہیں خواہ یہی معنی ہوں کہ وہ سورۃ کی لمبائی اور چھوٹائی پر دلالت کرتے ہیں مگر حق یہ ہے کہ ایک قسم کے حروف مقطعات کی سورتوں کا ایک جگہ پر جمع ہونا بتاتا ہے کہ ان کے معنوں میں اشتراک ہے اور یہ حروف سورتوں کے لئے بطور کنجیوں کے ہیں۔
میرے نزدیک حروف مقطعات کے معنوں کے لئے ہمیں قرآن کریم ہی کی طرف دیکھنا چاہیئے پہلی سورتوں میں الٓمّٓ آیا تھا چنانچہ سورہ بقرہ کے پہلے یہی حروف تھے اور ان کے بعد ذٰلِکَ الْکِتابُ لَا رَیْبَ فِیْہِ ھُدًیِ لِّلْمُتَّقِیْنِکا جملہ تھا اس کے بعد آل عمران میں الٓمّٓ آیا جس کے بعد اَللّٰہُ الَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ القَیُوْمُ نَزَّلَ عَلَیْکَ الْکِتَابَ الحَقِّ آیا یاد رکھنا چاہیے کہ حقّ اور لَارَیْبَ کے دراصل ایک ہی معنے ہیں پس بقرہ میں بھی الٓمّٓ کے بعد ایسی کتاب کا ذکر تھا جس میں ریب نہ ہو اور اس جگہ بھی پھر اعراف میں الٓمّٓصٓ آیا اور اس کے بعد کِتَابٌ اُنْزِلَ اِلَیْکَ فَلَایَکُنْ فِیْ صَدْرِکَ حَرَجٌ مِّنْہُ لِتُنْنِدَبِہٖ وَذِکْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ کی آیت رکھی گئی گویا یہاں بھی لَا رَیْبَ فِیْہِ والی کتاب کا ذکر ہوا ہے کیونکہ فَلَایَکُنْ فِیْ صَدْرِکَ حَرَجٌ ایسی ہی کتاب پر دلالت کرتا ہے جو لَا رَیْبَ فِیْہِ کی صفت سے متصف ہو۔ ان ابتدائی سورتوں کے بعد وقفہ دے کر عنکبوت الٓمّٓ سے شروع ہوتی ہے فرماتا ہے الٓمّٓ o اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَ کُوْٓ اَنْ یَّقُوْ لُوْٓا اٰمَنَّا وَ ھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ o وَلَقَدْ مَّتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَلَیَعْلَمَنْ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَ قُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَo ان آیات میں بھی ایک یقینی کتاب کا ذکر کیا گیا ہے چنانچہ امتحان شک اور ریب کے دُور کرنے پر ہی دلالت کرتا ہے۔ پس اس سورۃ میں بھی وہی مضمون ہے جو سورۃ بقرہ وغیرہ میں تھا صرف فرق یہ ہے کہ بقرہ میں انسان بحیثیت مجموعی مخاطب تھے اور یہاں مومنوں سے کہا گیا ہے کہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ابھی شک تمہارے دلوں میں باقی ہو اور ہم تم سے معاملہ کا ملین والا شروع کر دیں۔ سورۂ روم میں بھی یہی مصمون ہے گو بہت باریک ہو گیا ہے فرماتا ہے الٓمّٓ o غُلِبَتِ الرُّوْمُ فِیْٓ اَدْنَی الْاَرْضِ وَھُمْ مِّنْ بَعْدِ غَلَبِہِمْ سَیَغْلِبُوْنَo خدا تعالیٰ کا کلام روم کے متعلق نازل ہوا ہے اور وہ ضرور پُورا کر رہے گا گویا بجائے سب کتاب کی طرف اشارہ کرنے کے ایک خاص حصّہ کی طرف اشارہ اور اس کے یقینی ہونے پر زور دیا ہے جیسا کہ مِنْ اور س کے حروف سے ظاہر ہے۔
سورۂ روم کے بعد سورۂ لقمان الٓمّٓ o تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْحَکِیْمِ oھُدًی وَّرَحْمَۃً لِّلْمُحْسِنِیْنَo الَِذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلوٰۃَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکوٰۃَ وَھُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَo اُولٰٓکَ عَلیٰ ھُدًی مِّنْ رَّبِّھِمْ وَ اُولٰٓکَ ھُمْ الْمُفْلِحُوْنo اس سورۃ میں بھی حَکِیْم کا لفظ استعمال کر کے ایک یقینی امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور گویا بقرہ کے ابتدائی مضمون کو دُہرا دیا گیا ہے اور اس کے بعد سورہ سجدہ ہے اس میں آتا ہے الٓمّٓ o تَنْزِیْلُ الْکِتٰبِ َلارَیْبَ فِیْہِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَo یہاں بھی ایک بے ریب کتاب کا ذکر ہے پس ان سب آیات سے ظاہر ہے کہ جہاں الٓمّٓ آتا ہے اس کے بعد ایک خاص مضمون آتا ہے اور ایک یقینی علم کے نزول کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے اب اس امر کی موجودگی میں کس طرح سمجھ لیا جائے کہ یہ الفاظ یونہی رکھ دیئے گئے ہیں۔ پس حق یہی ہے کہ الٓمّٓ کے حروف ازالہ شک اور یقین پر دلالت کرنے کے لئے آتے ہیں اور وہ چیز جس سے شک دُور ہوتا ہے اور یقین پیدا ہوتا ہے کامل علم ہی ہوتا ہے پس الٓمّٓ کے معنی یہی ہیں اَنَا اللّٰہُ اَعْلَمُ میں اللہ ہوں جو سب سے زیادہ جاننے والا ہوں پس اگر شک کو دُور کرنا اور یقین حاصل کرنا چاہتے ہو تو میرے کلام کی طرف توجہ کرو اور میری کتاب کو پڑھو۔
اب میں الٓرٰ کو لیتا ہوں ان حروف سے جو سورتیں شروع ہوتی ہیں اگر ان پر غور کیا جائے تو وہ بھی ایک ہی مضمون سے شروع ہوتی ہیں سورۂ یونس میں آتا ہے الٓرٰٰ تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتّبِ الْحَکِیْمِo اَکَانَ للِنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَیْنَٓا اِلیٰ رَجُلٍ مِّنْہُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسِ وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنَّ لَہُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّہِمْط قَالَ الْکٰفِرُوْنَ اِنَّ ھٰذَا الَسٰحِرٌ مُّبِیْنٌ o پھر سورۂ ہود میں آتا ہے۔ الٓرٰ کِتٰبٌ اُحْکِمَتْ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ خَبِیْرٍہ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللّٰہَط اِنَّنِیْ لَکُمْ مِّنْہُ نَذِیْرٌ وَّبَشِیْرٌo وَّاَنِ اسْتَغْفِرُ وْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْہِ یُمَتِّعْکُمْ مَتَاعًا حَسَنًا اِلیٰٓ اَجَلٍ مُّسَمًّی وُّ یُؤْتُ کُلَّ ذِیْ فَضْلٍ فَضْلَہٗط وِانِْ تَوّلَّوْا فَاِنِیْ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ کَبِیْرٍہo پھر سورۂ یوسف میں آتا ہے الٰٓرٰقف تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْمُعِیْنِ o اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ o نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَآ اَوْحَیْنَٓا اِلَیْکَ ھٰذَا الْقُرْاٰنَق وَاِنْ کُنْتَ مِنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الْغٰفِلِیْنَ پھر سورۂ رعد میں آتا ہے الٓمّٓ قف تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِط وَالَّذِیْٓ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ الْحَقُّ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَایُؤْمِنُوْنَo اَللّٰہُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَھَا ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَط کُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّیط یُدَبِّرُالْاَ مْرَیُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ بِلِقَآئِ رَبِّکُمْ تُوْقِنُوْنَo یہاں میم کا بھی اور راء کا بھی مضمون آ گیا۔ پھر سورۂ ابراہیم میں آتا ہے الٓرٰقف کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِ رَبِّہِمْ اِلیٰ صِرَاطِ الْعَزِیْزَ الْحَمِیْدِo اللّٰہِ الَّذِیْ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِط وَ وَیْلٌ لِّلْکٰفِرِیْنَ مِنْ عَذَابٍ شَدِیْدٍo پھر سورہ حجر میں آتا ہے الٓرٰقف تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ وَ قُرْاٰنٍ مُّبِیْنٍ o رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْالَوْکَا لُوْا مُسْلِمِیْنَo… وَمَٓا اَھْلَکْنَا مِنْ قَرْیَۃٍ اِلَّا وَلَھَا کِتَابٌ مَّعْلُوْمٌo مَاتَسْبِقُ مِنْ اُمَّۃٍ اَجَلَھَا وَمَا یَسْتَاْ خِرُوْنَ۵ ان سب مقامات پر مجموعی نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں دو مضامین پر زور دیا گیا ہے ایک پُرانی تاریخ پر جس میں سے خاص طو رپر شریروں کو سزا ملنے کے مضمون کو منتخب کر لیا گیا ہے اور دوسرے پیدائش عالم کے مضمون پر۔ سورۂ یونس میں استفہام انکاری کے استعمال سے بتایا گیا ہے کہ نذیر و بشیر انبیاء ہمیشہ ہی آتے رہے ہیں۔ سورۂ ہود میں اوّل تو یہ قاعدہ بتایا ہے کہ کوئی قوم ایک ہی حالت پر قائم نہیں رہتی بلکہ ایک دائرہ کے اندر چکر لگاتی ہے او رپیدائش عالم کا ذکر کر کے بتایا کہ دُنیا کی ترقی قانونِ ارتقاء کے ماتحت ہے اس کے بعد سورۂ یوسف میں صاف الفاظ میں تاریخ عالم کی طرف اشارہ کیا ہے سورۂ رعد میں چونکہ میم زائد تھا اس میں الٓمّٓ اور الٓرٰ دو مضمونوں کو جمع کر دیا اور پہلے تو میم کی مناسبت سے ایک یقینی کلام کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس کے بعد پیدائشِ عالم کا مطالعہ کرنے کی طرف توجہ دلائل ہے سورۂ ابراہیم میں پھر قانونِ قدرت کا مطالعہ کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے اور بتایا ہے کہ اسے دیکھو اس میں تمہیں ایک بیدار آقا کا ہاتھ نظر آئیگا سورۂ حجر میں پھر پچھلی تاریخ کی طرف توجہ دلائل ہے یہ امر ظاہر ہے کہ واقعات اور قانون کا تعلق دیکھنے سے ہے حقیقت تک وہی پہنچ سکتا ہے جس کی آنکھو ںکے سامنے واقعات ہوںیا جس کی آنکھوں کے سامنے کوئی قانون ظاہر ہو رہا پس ان سورتوں کا رویت کے ساتھ تعلق ہے اور الٓرٰ میں یہی دعویٰ کیا گیا ہے کہ میں اللہ دیکھتا ہوں نہ ت وپُرانی تاریخ میری نظر سے پوشیدہ ہے اور نہ قانونِ قدرت کا اجراء یا پیدائش عالم میری نگاہ سے مخفی ہے پس رویت سے تعلق رکھنے والے اُمور میں میری ہی ہدایت کافی ہو سکتی ہے۔
ایک اور بات بھی حروف مقطعات کے متعلق یاد رکھنی چاہیئے کہ گو حروف مقطعات کے مضامین حروف کے اختلاف سے بدلتے رہتے ہیں لیکن ایک امر میں یہ سب حروف مشترک ہیں اور وہ یہ کہ جو سورتیں حروف مقطعات سے شروع ہوتی ہیں ان کے مضمون کی ابتداء وحی الٰہی کے ذکر سے ہوتی ہے۔ اکثر میں تو صاف الفاظ میں کتاب یا قرآن کا لفظ ہی استعمال ۂوا ہے اور چند ایک میں کسی پرانی کتاب کی طرف اشارہ ہے جیسا سورۂ مریم میں یا کسی خاص کلام کی طرف اشارہ ہے جیسا سورۂ روم میں (یہ نوٹ جلد ۳ میں سورۂ یونس کی تفسیر میں چھپ چکا ہے لیکن چونکہ حالات کی مجبوری سے پہلی جلد بعد میں چھپ رہی ہے اس نوٹ کو سورۂ بقرہ میں درج کرنا پڑا۔ تاکہ شروع سے تفسیر پڑھنے والے پر بھی حروف مقطعات کی حقیقت واضح ہو جائے)
یہ دو معنے جو اوپر کئے گئے ہیں یعنی (۱) حروف مقطعات صفات الٰہیہ پر دلالت کرتے ہیں اور ہر حرف کسی ایسی صفت پر دلالت کرتا ہے جس کا ذکر اس سورۃ میں پایا جاتا ہے (۲) ان حروف سے اشارہ حروف کی عدوی قیمت کی طرف ہے اور جس قدرعہ دان حروف سے نکلتے ہیں اس قدر زمانہ کے حالات پر ان کے خاص طور پر روشنی پڑتی ہے دونو ںہی درست ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ ایک کو درست اور دوسرے کو غلط کہا جائے اور اس بارہ میں ابتداء اسلام کے بعض آئمہ بھی مجھ سے متفق ہیں چنانچہ ابن ابی حاتم نے ابو جعفر رازی کی روایت سے ابو العالیہ سے ایک روایت نقل کی ہے جس کے ایک حصّہ کا ترجمہ یہ ہے ’’ان حروف میں سے ایک حرف بھی ایسا نہیں (یعنی ال م اور دوسرے مقطعات میں سے) جو اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے کسی صفت کی گنجی نہ ہو اور نہ ان میں سے کوئی حرف ہے جو اللہ تعالیٰ کی نعمتو ںمیں سے نہ ہو اور اس کی روشنی سے حاصل نہ ۂوا ہو اور ان میں سے ایک حرف بھی ایسا نہیں جو بعض اقوام کی تاریخ اور ان کے زمانہ پر دلالت نہ کرتا ہو‘‘ یعنی ان حروف سے یہ تینو ںمعنے بیک وقت ظاہر ہوتے ہیں ان سے صفات الٰہیہ پر بھی دلالت کی گئی ہے اور مختلف زمانوں کے بارہ میں پیشگوئی بھی کی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ کے معجزانہ کلام کا نمونہ بھی دکھایا گیا ہے اور ابو العالیہ کا یہ خیال نہایت درست اورمطابق حقیقت ہے۔ ابن جریر نے بھی اس روایت کو دوسرے لفظوں میں نقل کیا ہے اور اس کے مضمون کی تصدیق کی ہے۔
حروف مقطعات کی نسبت یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ اس غیر معمولی طریق کو قرآن کریم نے کیوں استعمال کیا کیوں نہ یہی مضمون سیدھی سادھی عبارت میں بیان کر دیا۔ تاکہ اوّل عربوں پر او ربعد میں دوسرے لوگوں پر اس کا سمجھنا آسان ہوتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ غیر معمولی طریق نہیں بلکہ عربوں میں یہ طریق کلامِ رائج تھا اور ان کے بڑے بڑے شاعر بھی اسے استعمال کرتے تھے اور نثر میں بھی اس کا استعمال ہوتا تھا چنانچہ ایک شاعر کہتا ہے ع قُلْنَا قِفِیْ لَنَا فَقَالَتْ قاف ہم نے اس سے کہا کہ تو ذرا ہماری خاطر ٹھہر جا تو اس نے جواب میں قاف کہا یعنی وقَفْتُ لو میں کھڑی ہو گئی ہوں۔ اسی طرح ایک دوسرا شاعر کہتا ہے۔
بِالْخَیْرِ خَیْرَاتٌ وَاِنْ شرًا فَا
وَلَا اُرِیْدُ الشَّرَّ اِلاَّ اَنْ تَا
یعنی نیکی کے بدلہ میں نیکی کرونگا۔ لیکن اگر تیرا ارادہ بدی کرنیکا ہو تو میں اس کیلئے بھی تیار ہو ںاور میں بدی کا ارادہ نہیں رکھتا سوائْ اس کے کہ تیرا ارادہ ہو۔ اس شعر میں فَشَرٌّ کی جگہ صرف حرف فا استعمال کیا گیا ہے اور تَشَائُ یعنی تو چاہے کی جگہ صرف حرفِ تا استعمال کیا گیا ہے۔
آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں بھی ہے کہ ’’مَنْ اَعَانَ علی قَتْلٍ مُؤْمنٍ بِشَطرِ کلمۃٍ لقی اللّٰہ عَزَّوجلَّ مکتوبٌ بَیْنَ عینیہ آیَسَ مِنْ رحمۃِ اللّٰہِ‘‘ (ابن ماجہ ابواب الدیات) یعنی جو شخص کسی مسلمان کے قتل میں ایک لفظ کا حصّہ استعمال کرتے (یعنی اُقْتُلْ کی جگہ اُقْ کہہ دے) تو وہ قیامت کے دن اس حالت میں اُٹھے گا کہ اس کے ماتھے کے درمیان یہ لکھا ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہو گیا۔ پس عرب میں نظم و نثر میں جب قرینہ موجود ہو الفاظ کی جگہ حروف استعمال ہوتے تھے اور اس اسلوب کلام کا ایک لطیف نمونہ حروف مقطعات کے ذریعہ سے قرآن کریم نے دکھایا ہے۔ آج کل یورپ نے تو اس اسلوب کو بیحد استعمال کیا ہے ایم اے۔ بی اے۔ بی ٹی۔ ایم ڈی وغیرہ سینکڑوں ہزاروں حروف الفاظ کے قائم مقام استعمال ہو رہے ہیں۔ اور لوگ ان کے فائدہ کو سمجھتے ہیں۔
۱؎ حل لغات
ذٰلکت۔ اسم اشارہ ہے اور اشارہ بصید کے لئے آتا ہے جس کا ترجمہ اردو میں وہ ہے لیکن کبھی ھذا کے معنوں میں یعنی قریب کی چیز کی طرف اشارہ کرنے کے لئے بھی استعمال کر لیا جاتا ہے چنانچہ زجاج کا قول ہے ذٰلِکَ الْکِتٰبُ اَیْ ھٰذَا الْکِتٰبُ یعنی ذٰلِکَ الُکِتٰبُ کے معنی ہیں یہ کتاب (تاج العروس) لیکن ذٰلِکَ کو اشارہ بعید کے لوے تصور کرتے ہوئے بھی فٰلِکَ کے معنی یہ کے کئے جا سکتے ہیں کیونکہ کبھی قریب کی چیز کے لئے نہیں بلکہ اس کی شان کی بلندی کے اظہار کے لئے بھی استعمال کر دیا جاتا ہے (فتح البیان)
الکتٰبُ ۔ ال اور کتاب کا مجموعہ ہے اور معنوں کے علاوہ ال حرف تعریف بھی ہے اس صورت میں یہ کبھی عہد کے لئے ہوتا ہے اور کبھی جنس کے لئے جب عہد کے لئے ہو تو کبھی ذکری ہوتا ہے اور کبھی ذہنی اور کبھی حضور یعنی جس لفظ پر ال آئے کبھی تو اس سے یہ بتانا مقصصود ہوتا ہے کہ یہ وہی امر ہے جس کا ذکر کر آئے ہیں اور کبھی یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ ہماری مُراد اس چیز سے ہے جو ہم اور تم دونوں اپنے دلوں میں جانتے ہیں اور کبھی یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ یہ جو سامنے چیز پڑی ہے میں اسی کا ذکر کر رہا ہوں۔ اور جب جنسی ہو تو استغراقی ہوتا ہے یعنی اس سے یہ مُراد ہوتی ہے کہ اس جنس کے سب افراد اس لفظ میں شامل ہیں۔ استغراقی آگے کبھی حقیقی ہوتا ہے جیسے خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفاً۔ انسان ضعیف ہی پیدا کئے گئے ہیں اور کبھی مجازی۔ مجازی کی صورت میں ال لا کر یہ بتایا جاتا ہے کہ کامل فرد یہی ہے ورنہ حقیقتہً اس قسم کے اور افراد بھی موجود ہوتے ہیں اس کی مثال اَنْتَ الہَّجُل ہے اس کے یہ معنی نہیں کہ بس تُو ہی مرد ہے باقی سب عورتیں ہیں بلکہ یہ مراد ہے کہ مرد کے کمالات کو اگر دیکھا جائے تو اس کی مکمل تعریف تجھ پر ہی صادق آتی ہے باقی مردوں میں کچھ نہ کچھ نقص ہیں استغراقی کے علاوہ جنسی ال تعریف حقیقت بیان کرنے کے لئے بھی آتا ہے جیسے اَلْاِنْسَانُ اَفْضَلُ مِنَ الْحَیَوَانِ انسان اپنی حقیقت کے لحاظ سے حیوان سے بہتر ہے۔ (اقرب)
کتابٌ۔ کتاب۔ کَتَبَ کا مصدر ہے اور اسی لحاظ سے ہر اس چیز کا نام کتاب رکھا گیا ہے جس میں مختلف مسائل کو فصل باب کے ساتھ لکھ دیا جائے تو رات کو بھی انہی معنوں میں کتاب کہتے ہیں اور ہر لکھی ہوئی تصنیف کو بھی کتاب کہتے ہیں اور کتاب کے معنی فرض کے بھی ہیں اور حکم کے بھی اور قضاء آسمانی کے بھی۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے کلام کو بھی کتاب کہتے ہیں اور خط کو بھی کتاب کہتے ہیں (اقرب)
پس اس لفظ کے اپنے اپنے محل پر مختلف معنی ہونگے کبھی فروض و احکام کو مدنظر رکھتے ہوئے شریعت والی وحی کو کتاب کہیں گے اور کبھی صرف الہام کو مدنظر رکھتے ہوئے ہرقطعی اور یقینی وحی کو کتاب کہیں گے خواہ کتابی صورت میں جمع کی گئی ہو یا نہ کی گئی ہو۔
ریبٌ۔ الظِّنَّۃُ وَالتُّھْمَۃ۔ تخمین سے بلا دلیل کوئی بات کہنا یا محض وہم سے کسی پر الزام لگانا اور اس کی سچائی میں شبہ کرنا۔ الشَّکٌ۔ شک۔ الَحْاَجَۃُ۔ مکی۔ ضرورت اور رَیْبُ الْمَنُوْنِ کے معنے ہیں زمانہ کے مصائب آفات (اقرب)
ریب کا لفظ قرآن کریم میں اور کئی جگہ استعمال ہوا ہے مثلاً اسی سورۃ میں فرماتا ہے وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلیٰ عَبْدِنَا فَاْتُوْ بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ (بقرہ ع) اس جگہ مراد صداقت میں شبہ کے ہیں۔ اسی طرح سورۂ حج میں ہے یٰٓا اَیُّھَا النَّاسُ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ (الحج عٰ) اس جگہ بھی بعث بعد الموت کی صداقت میں شک و شبہ کرنے کے معنے ہیں پھر سورۂ طور میں ہے اَمْ یَقُوْلُوْنَ شَاعِرٌ نَتَوَبَّصُ بِہٖ رَیْبَ الْمَنُوْنِ (الطور ع) یعنی کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن یہ کہتے ہیں کہ یہ شاعر ہے جس کے متعلق ہم انتظار کر رہے ہیں کہ زمانہ کے مصائب آخر اسے ہلاک کر دینگے۔ اس جگہ ریب مضائب دہر اور ہلاکت کے معنوں میں مستعمل ہوا ہے۔
قرآن کریم میں ریب کا لفظ اچھے معنوں میں استعمال نہیں ہوتا۔ مثلاً فرماتا ہے۔ مَنَّاعٍ لِّلْخَیْرِ مُعْتَدٍ مُّرِیْبٍ (ق ع ۲) نیکی سے بہت روکنے والا۔ حد سے بڑھنے والا۔ شک و شبہ کا شکار دوزخ میں ڈالا جائے گا۔ اسی طرح سورۂ مومن میں آتا ہے کَذٰ لِکَ یُضِلُّ اللّٰہُ مَنْ ھُوَ سُرِفٌ مُّرْتَابٌ (المومن ع ۴) یعنی اللہ تعالیٰ اسی طرح گمراہ قرار دیتا ہے یا ہلاک کرتا ہے اسے جو حد سے بڑھنے والا یا اپنے عقیدہ اور خیالات کی بنیاد غیر معقول شبہات و و ساوس پر رکھنے والا ہو۔ پس ریب اس شک کو نہیں کہتے جو علم کی زیادتی کا موجوب ہوتا ہو اور تحقیق میں حمد ہو بلکہ اس شک کو کہتے ہیں جو تعصب یا بدظنی کی وجہ سے ہو اور سچائی سے محروم کر دے چنانچہ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا یَرْتَابَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ (المدثر ع ۱) ہم نے یہ (مذکورہ بالا) کام اس لئے کیا ہے کہ تا اہل کتاب اور مومن ریب میں نہ پڑیں گویا مومن ریب میں نہیں پڑتا اور اللہ تعالیٰ مومن کو ریب سے بچاتا ہے حدیث میں آتا ہے دَعْ مَایُرِ یْبُکَ الیٰ مالا یَرِیْبُکَ (ترمذی مطبوعہ مطبع مجتبائی جلد دوم صفحہ ۷۴ ابواب صفۃ القیامۃ) یعنی جو چیز تیرے دل میں قلق اور وسوسہ پیدا کرے اسے چھوڑ دے اور اس چیز کو اختیار کر جس کے بارہ میں وسوسہ نہ ہو۔ اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ریب اس شک کو کہتے ہیں جس کی بنیاد وسوسہ اور وہم پر ہو اور اس شک کو نہیں کہتے جو تحقیق و تدقیق کے لئے ضروری ہوتا ہے۔
ھُدًی۔ الرَّشَادُ۔ سیدھے راستہ پر ہونا۔ اَلْبیَانُ بیان کرنا۔ الدَّ لَالَۃٌ۔ کسی امر کی طرف رہبری کرنا (اقرب) الھدایتہ الدَّلَالَۃُ بلُطْفٍ یعنی ہدایت (جو ھدًی کالم معنی دوسرا مصدر ہی) کے معنی محبت اور نرمی سے کسی امر کی طرف رہبری کرنے کے ہیں (مفردات) امام راغب کے نزدیک ہدایت کا لفظ قرآن کریم میں مندرجہ ذیل چار معنوں میں آتا ہے (۱) ہر عقل یا سمجھ یا ضروری جزوی ادراک کی طاقت رکھنے والی شے (جیسے حیوانات وغیرہ کہ ادراک کامل ان کو حاصل نہیں ہوتا صرف جزوی یا سطحی ادراک ایسے ضروری امو رکا جو ان کی حیات اور محدود عمل تعلق رکھتے ہیں ان کو حاصل ہوتا ہے) کو اس کی صلاحیت کے مطابق کام کا طریق بتانا۔ اس کی مثال قرآن کریم میں یہ ہے رَبُّناَ الَّذِیْٓ اَعطیٰ کُلَّ شَیًْ خَلْقَہٗ ثُمَّ ھَدٰی (طہٰ ع ۲) یعنی ہر چیز کو پیدا کر کے اس کی عقل یا سمجھ یا اس کے ضروری تقاضوں کے مطابق اسے رہنمائی کی (میرے نزدیک اس جگہ ھَدٰی کے معنے یہ ہیں کہ ہر شے میں مناسب قوتیں پیدا کر کے پھر انہیں کام پر لگا دیا کیونکہ صرف قوتوں کا موجود ہونا کافی نہیں ہوتا بلکہ انہیں ابتدائی حرکت دیکر کام پر لگانا ان کی حیات کے شروع کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے بچہ پیدا ہوتا ہے تو گو پیدائش سے پہلے آلات تنفس کامل طور پر موجود ہوتے ہیں مگر باہر نکلنے کے بعد جب تنفس کے آلات کو ہوا لگنے یا پانی کا چھینٹا دینے سے ان میں حرکت پیدا ہوتی ہے بچہ کی عملی زندگی در حقیقت اسی وقت سے شروع ہوتی ہے جس طرح ایک گھڑی کے اندر سب ہی پُرزے موجود ہوتے ہیں مگر جب تک اسے کنجی دے کر حرکت نہ دی جائے پُرزے سے کام کرنا شروع نہیں کرتے غرض حیات کو شروع کرنے سے پہلے ایک ابتدائی دھکے کی ہر شے کو ضرورت ہوتی ہے اور ہدایت سے مُراد وہی حرکت اُولیٰ ہے اور اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شے کو مناسب قویٰ کے ساتھ پیدا کیا ہے او رپھر حرکت اولی دیکر اسے مفوضہ کام پر لگا دیا ہے) علامہ راغب کے نزدیک ہدایت کے دوسرے معنے اس ارشاد کے ہیں جو اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں اور رسولوں کے ذریعہ سے بندوں تک پہنچاتا ہے اس کی مثال قرآن کریم کی یہ آیت ہے وَجَعَلْنَا مِنْہُمْ اَئِمَّۃً یَّھْدُوْنَ بِاَمْرِنَا (سجدہ ع ۳) ہم نے بنی اسرائیل میں سے ایسے امام مقرر کئے جو ہمارے الہام سے لوگوں کو ہماری طرف بلاتے تھے۔ ہدایت کے تیسرے معنے ان کے نزدیک اس توفیق کے ہیں جو ہدایت پانے والوں کو ملتی ہے یعنی ہدایت ملنے کے بعد جو عمل کی توفیق یا فکر کی بلندی پیدا ہوتی ہے یا مزید ہدایت کے حصول کی خواہش پیدا ہوتی ہے وہ بھی ہدایت کہلاتی ہے اس کی مثال قرآن کریم کی یہ آیت ہے اَلَّذِیْنَ اھْتَدَ وَزْاَدَھُمْ ھُدًی (محمدؐ ع ۲) جو لوگ ہدایت پاتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت میں اور بڑھا دیتا ہے (یعنی عمل کی توفیق اور ہدایت کے سلسلہ میں مزید فکر کرکے اور علوم حاصل کرنے کا موقعہ عطا کرتا ہے) چوتھے معنی ہدایت کے انجام بخیر کے اور جنت کو پالینے کے ہیں اس کی مثال قرآن کریم کی یہ آیت ہے سَیَھْدِ یْھِمْ وَیُصْلِحُ بَالَھُمْ (محمدؐ ع ۱) اللہ تعالیٰ ان کا ا نجام بخیر کر کے انہیں جنت تک پہنچا دے گا اور ان کے حالات کو درست کر دے گا اور قرآن کریم میں جہاں یہ آات ہے یَھْدُوْنَ بَاَمْرِنَا (انبیاء ع ۵) وہ ہمارے حکم کے مطابق ہدایت دیتے تھے یالِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ (رعد ع ۱) ہر قوم میں ہادی آیا ہے اس جگہ ہدایت سے مُراد لوگو ںکو ہدایت کی دعوت دینے کے ہیں اور ایسی آیات جیسے کہ اِنَّکَ لَاتَھْدِیْ مَنْ اَجْنَبْتَ اور ایسی آیات جن میں یہ ذکر ہے کہ کافروں اور ظالموں کو ہدایت نہیں مل سکتی۔ اس سے مُراد تیسیر اور چوتھی قسم کی ہدایتیں ہیں یعنی ہدایت پا جانے کے بعد توفیق عمل کا ملنا یا نور ایمان کا عطا ہونا یا جنت میں داخلہ کی نعمت کا حصول۔ پس ان آیات کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ کفار کو مذکور بالا انعامات نہیں مل سکتے (اور یہ ظاہر ہے کہ جو دوسری قسم کی ہدایت یعنی دعوت انبیاء کو قبول نہیں کرتا۔ وہ تیسری اور چوتھی قسم کی ہدایتوں کو جو دوسری قسم کی ہدایتوں کے نتائج ہیں حاصل نہیں کر سکتا) (مذکورہ بالا تمام مضمون سوائے ان عبارتوں کے جو خطوط و حدانی میں ہیں عربی کی مشہور لغت کی کتاب مفردات راغب سے لیاگیا ہے)
المُتَّقِیْن۔ متقی کی جمع ہے جو اِتَّقَی کا اسم فاعل ہے۔ اتقاء وقی سے باب افتعال کا فعل ماضی ہے وقی کے معنے ہیں بچایا حفاظت کی۔ اور اِتَّقَی کے معنے ہیں۔ بچا۔ اپنی حفاظت کی (اقرب) مگر اس لفظ کا استعمال دینی کتب کے محاورہ میں معصیت اور بُری اشیاء سے بچے کے ہیں اور خالی ڈر کے معنو ںمیں یہ لفظ استعمال نہیں ہوتا۔ وقایۃ کے معنی ڈھال یا اس ذریعہ کے ہیں جس سے انسان پنے بچائو کا سامان کرتا ہے بعض نے کہا ہے کہ اتقاء جب اللہ تعالیٰ کے لئے آئے تو انہی معنوں میں آتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کو اپنا نجات کے لئے بطور ڈھال بنا لیا۔
قرآن کریم میں تقویٰ کا جو لفظ استعمال ہوا ہے اس کے بارہ میں حضرت ابرہریرہؓ سے کسی نے پوچھا تو انہو ںنے جواب دیا کہ کانٹوں والی جگہ پر سے گزرو تو کیا کرتے ہو اس نے کہا یا اس سے پہلو بچا کر چلا جاتا ہوں یا اس سے پیچھے رہ جاتا ہوں یا آگے نکل جاتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ بس اسی کا نام تقویٰ ہے یعنی انسان اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے مقام پر کھڑا نہ ہو اور ہر طرح اس جگہ سے بچنے کی کوشش کرے ایک شاعر (ابن المعتنر) نے ان معنوں کو لطیف اشعار میں نظم کر دیا ہے وہ کہتے ہیں۔
خَلً الذّنُوْبَ صغیرَھاو٭ کبیرَھا ذاکَ التُّقٰی وَاصنَعْ کَماشٍ فَوْقَ٭ ضِ الشَّوْکِ یَحذ رُمَایرَیٰ لَاتَحْقَرَنَّ صغیرۃً٭ اِنَّ الجبالَ مِنّ الْحَصٰی (ابن کثیر) یعنی گناہوں کو چھوڑ دے خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے یہ تقویٰ ہے اور تو اس طریق کو اختیار کر جو کانٹوں والی زمین پر چلنے والا اختیار کرتا ہے یعنی وہ کانٹوں سے خوب بچتا ہے۔ اور تو چھوٹے گناہ کو حقیر نہ سمجھ کیونکہ پہاڑ کنکروں سے ہی بنے ہوئے ہوتے ہیں۔
تفسیر۔ ذٰلِکَ الْکِتَابُ۔ اس کے متعلق اعتراض کیا گیا ہے کہ ذالک تو اشارہ بعید کے لئے ہے پھر اس لفظ کو اس جگہ کیوں استعمال کیا گیا ہے بعض علماء نیپ اس کا یہ جواب دیا ہے کہ یہ اشارہ قریب کے لئے بھی استعمال ہو سکتا ہے (زجاج دیکھو حل لغات) بعض نے کہا ہے کہ گو اشارہ بعید کے لئے بھی ہے لیکن جب کسی چیز کا ذکر ختم ہو جائے تو وہ بھی بعید کے حکم میں ہوتی ہے چنانچہ عام طور پر گفتگو میں جس امر کا ذکر ہو چکا ہے اس کے بارہ میں ذٰلِکَ کہہ کر اشارہ کر دیتے ہیں چنانچہ عرب اپنی بات ختم کر کے کہتے ہیں ذَالِکَ مَالَا شَکَّ فِیْہِ اور ذٰلِکَ سے مُراد وہ بات ہوتی ہے جو اس نے ختم کی ہے۔ اسی طرح قرآن کریم میں آتا ہے۔ لَافَارِضٌ وَّلا بِکُرٌ عَوَانٌ بَیْنَ ذٰلِکَ (بقرہ ع ۸) اس جگہ ذَلِکَ سے مُراد فارض اور بکر ہیں جن کا ذکر اوپر ہوا ہے پھر فرماتا ہے ذٰلِکُمَا مِمَّا عَلُّمَنِیْ رَبِّیْ (یوسف ع ۵) اس جگہ بھی جو بات اوپر کہی ہے اس کی طرف ذٰلِکَ سے اشارہ کیا ہے (کشاف) ان آیتوں کے علاوہ اور آیات بھی قرآن کریم میں ہیں مثلا ذٰلِکَ عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ (سجدہ ع ۱) تِلْکَ حُجَّتُنَٓا اٰتَیْنَا ھَآ اِبْرَاھِیْمَ (انعام ع ۱۰) قران کریم میں دوسری جگہ ذٰلِکَ الْکِتَابُ کی جگہ ھٰذَا کِتَابٌ اَنْزَالْنَاہُ مُبَارَکٌ بھی آیا ہے۔
غرض اوّل ذٰلِکَ عرب کے محاورہ کے مطابق ھٰذَا کے معنوں میں بھی استعمال ہو جاتا ہے۔ دوم ضروری نہیں کہ جس چیز کے بارہ میں ذٰلِکَ آئے وہ دُور ہو۔ اگر ذہنی طور دُور ہو یعنی اس کا ذکر ختم ہو چکا ہو تو اس کے لئے بھی ذٰلِکَ کالفظ استعمال کر لیا جاتا ہے۔
اس تشریح کے ماتحت ذٰلِکَ الْکِتَابُ کے کئی معنے ہو سکتے ہیں (۱) یہ وہ کتاب ہے (۲) وہ یہ کتاب ہے (۳) یہی کامل کتاب ہے (۴) وہی کامل کتاب ہے۔
مذکورہ بالا معانی اس صورت میں ہیں کہ ذٰلِکَ مبتدا ہو اور اَلْکِتاب خبر۔ لیکن ایک صورت یہ بھی ہے کہ ذٰلِکَ کو مبتدا اور الکتاب کو عطف بیان اور لَارَیْبَ فِیْہِ کو اس کی خبر سمجھا جائے اس صورت میں اس کے معنی یُوں ہونگے (۱) یہ یعنی کامل کتاب اپنے اندر کوئی ریب کی بات نہیں رکھتی (۲) وہ کامل کتاب (یعنے ہدایت انبیاء) اپنے اندر کوئی ریب کی بات نہیں رکھتی۔
لغوی معنے بیان کرنے کے بعد اب میں تفسیری معنی بیان کرتا ہوں (۱) جن لوگوں نے الٓمّٓ کو سورۃ کا نام قرار دیا ہے انہوں نے یہ معنے کئے ہیں کہ الٓمّٓ یہ کتاب ہے یعنے الٓمّٓ نام ہے اس سورۃ کا۔ یا یہ معنے کئے ہیں کہ الٓمّٓ ایک کامل کتاب ہے (۲) جنہوں نے ذٰلِکَ کا استعمال قرآن کریم کی عظمت شان کی وجہ سے قرار دیا ہے انہوں نے یہ معنے کئے ہیں کہ یہ عظیم الشان کلام وہ کتاب ہے جس کی تعریف صحفِ موسیٰ اور دوسری کتب میں آ چکی ہے (۳) بعض نے اشارۂ بعید لے کر یہ معنی کئے ہیں کے لوحِ محفوظ میں جو کتاب ہے وہ یہی ہے یعنے قرآن کریم۔ مگر یہ معنے بہت بعید ہیں اور الفاظ قرآنی ان کی تصدیق نہیں کرتے۔ اس رنگ میں بعض قرآنی ان کی تصدیق نہیں کرتے۔ اس رنگ میں بعض اور معنے بھی مفسّرین نے کئے ہیں مگر وہ سب کے سب اسی طرح بعد از قیاس ہیں اور ان کے لکھنے کی ضرورت نہیں۔ میرے نزدیک ان تینوں قسم کے معنوں میں سے دوسرے معنے ہی ایسے ہیں جو الفاظ قرآنیہ کے مطابق ہیں۔ کیونکہ مشہور عام بات کی طرف اس طرح اشارہ کیا جاسکتا ہے۔ چونکہ پہلے ادیان کے لوگ ایک کتاب کے منتظر تھے۔ انہیں مخابط کر کے قرآن شریف کے شروع میں کہا جا سکتا تھا کہ جس کتاب کے تم منتظر ہو یہ وہی کتاب ہے۔ مگر میرے نزدیک زیادہ صحیح معنے جو الفاظ قرآنیہ کے بالکل مطابق ہیں۔ دو ہیں۔
۱۔ یہی کامل کتاب ہے۔ عرب لوگ کہتے ہیں زَیْدُنِ الْعَادلُ زید ہی عادل ہے ہے اسی طرح یہ جملہ ہے ذٰلِکَ الْکِتَابُ کتاب کہلانے کی مستحق تو یہی کتاب ہے یعنی اَلْ جنسی استغراقی مجازی ہے ان معنوں کی رو سے کسی ایسی چیز کی طرف اشارہ نہیں نکالنا پڑتا جس کا ذکر اس جگہ نہیں ہے اور یہ معنے مناسب موقع بھی ہیں۔ ایک الہامی کتاب جو دوسری کتب کی موجودگی میں اپنے آپ کو پیش کرے اسے ابتداء کلام میں ایسا ہی دعویٰ پیش کرنا چاہیئے کیونکہ لوگوں کے دلوں میں طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دوسری کتب کی موجودگی میں یہ نئی کتاب کیوں پیش کی جاتی ہے۔ اس فطرقی سوال کے جواب میں قرآن کریم کے شروع میں ہی یہ الفاظ رکھ دیئے گئے کہ یہی کامل کتاب ہے اور متلاشیانِ حق کو بتلایا گیا کہ بیشک اس کے سوا اور کتب بھی موجود ہیں لیکن کتاب کا موجود ہونا اور شئے ہے اور اس کا انسان کی ضرورتوں کو پورا کرنا اور شئے ہے۔ اگر کتاب کی غرض یہ ہے کہ انسان کی روحانی ضرورتوں کو پورا کرے تو پھر صرف یہی کتاب اس غرض کو پورا کرتی ہے اس لئے دوسری کتب کی موجودگی میں بھی اس کی ضرورت ہے۔
الٓمّٓ کے حروف کو جن کے معنے اوپر بتائے جا چکے ہیں مدِّنظر رکھتے ہوئے بھی یہی معنے زیادہ چسپاں ہوتے ہیں کیونکہ میں اللہ سب سے زیادہ جاننے والا ہوں کے الفاظ اسی پر دلالت کرتے ہیں کہ میرا علم جب اور جو تعلیم دُنیا کو دے وہی اس زمانہ کے لحاظ سے کامل اور مکمل تعلیم ہو سکتی ہے۔ نیز میں سب سے زیادہ جاننے والا ہوں ایک دعویٰ ہے جس کا ثبوت بھی چاہیئے اور اس کا سب سے بڑھ کر ثبوت یہی ہو سکتا ہے کہ کوئی ایسی علمی چیز پیش کی جائے جو اپنی نظیر نہ رکھتی ہو پس الٓمّٓ کے معنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی ذٰلِکَ الْکِتَابُ کے بہترین معنے یہی ہو سکتے ہیں کہ یہی کامل کتاب ہے۔
جب ہم واقعات کو دیکھتے ہیں تو یہ دعویٰ قطعی طور پر ثابت ہے۔ بیشک قرآن کریم سے پہلے توریت انجیل و ید زند وغیرہ کتب موجود تھیں لیکن ان کی تعلیم اور قرآن کریم کی تعلیم کا مقابلہ کر کے دیکھ لو۔ قرآن کی جامعیت کسی اور کتاب میں نہ ملیگی انجیل کا سب سے بڑا کمال محبت الہی پر زور ہے قرآن کریم میں وہ سب تعلیم موجود ہے بلکہ اس سے بڑھ کر۔ توریت کا فخر جامع شریعت پر ہے لیکن شریعت کی جامعیت میں قرآن کریم کے آگے وہ بھی خم کھاتی ہے حالانکہ حجم میں قرآن کریم دو نوکتب سے چھوٹا ہے قرآن کریم کی یہ جامعیت ایسی کامل ہے کہ ایک مسلمان کے نزدیک شریعت کا مفہوم ہی دوسروں سے جداگانہ ہو گیا ہے۔ جب ایک مسلمان شریعت کا لفظ بولتا ہے تو فوراً اس کا ذہن اس طرف منتقل ہو جاتا ہے کہ اس میں والدین اور اولاد کے تعلقات میاں بیوی کے تعلقات۔ شادی اور اس کے اغراض کے متعلق میاں بیوی کے فرائض کے متعلق۔ میاں بیوی کے انتخاب کے متعلق۔ وراثت کے متعلق۔ وصیت کے متعلق۔ ہمسایہ اور اہلِ محلہ کے متعلق تجارت اور زراعت کے متعلق۔ حاکم و محکوم کے تعلقات اور ذمہ داریوں اور حکومت کی نوعیت کے متعلق۔ مزدوروں اور مزدور رکھنے والوں کے متعلق۔ حکومتوں کے باہمی تعلقات کے متعلق۔ اقتصادی مسائل کی بنیادوں کے متعلق۔ انسانوں اور جانوروں کے متعلق۔ اور سب سے آخر میں لیکن سب سے مقدم یہ کہ اللہ اور بندہ اور اس کے رسولوں کے متعلق تفصیلی اور مکمل احکام ان کی حکمتوں سمیت بیان کئے گئے ہونگے یہ سب مسائل اور ان کے علاوہ اور بہت سے اپنی حکمتو ںسمیت قرآن کریم میں بیان ہیں اور ان کا عشر عشیر بھی اور کسی کتاب میں موجود نہیں۔
ویدوں کو لو۔ تو اوّل عام ہندو ویدوں کو جانتا بھی نہیں اور جو تھوڑے سے جانتے ہیں ان میں سے اکثر انہیں بطور منتر جنتر استعمال کرت ہیں اور جو اسے سمجھتے ہیں ان کے نزدیک بھی اس کی بڑی خوبی دُعائیں اور انسانی پیدائش کے فلسفہ پر جو مکمل اور تفصیلی بحث قرآن کریم نے کی ہے اس کے مقابل میں ویدوں کی تعلیم بالکل ماند پڑ جاتی ہے قرآن کریم کی دُعائیں انسانی فطرت کی باریکیوں پر مشتمل ہیں وہ لفاظی سے پُر نہیں وہ انسان کی ضروریات کو پہلے ننگا کر کے دیکھاتی ہیں پھر انہیں قدو سیت اور پاکیزگی کی چادر اُڑھاتی ہیں۔ اسی طرح قرآن کریم انسانی پیدائش کی ایسی تفصیلات بیان کرتا ہے جو استعاروں میں چھپ کر انسانی دماغ کو پریشان نہیں کر دیتیں بلکہ اسے مشاہدہ اور تجربہ کے میدان میں کھڑا کر کے اس کے ذہن کو صاف کرتیں اور اس کے فکر کو جلا بخشتی ہیں اسلام نے انسان کے انجام کو یعنے مابعد الموت کے مسئلہ کوجس طرح بیان کیا ہے اس کے مقابل پر سب کتب شکست خوردہ ہیں۔ توریت خاموش ہے انجیل بالکل نامکمل سا ذکر کرتی ہے۔ ویدوں میں مابعدالموت کا کوئی ذکر نہیں۔ زر تشت کی کتاب میں کچھ ذکر ہے مگر صرف استعارہ کے ھو رپر اور مادی الفاظ میں دیا ہوا۔ اس کے مقابل پر قرآن کریم تفصیلاً بتاتا ہے کہ نیک و بد کو کیا جزاء ملے گی اور کس طرح ملے گی اس کی کیا کیفیت ہو گی اور اس کی غرض کیا ہو گی۔ دوسری زندگی کا مقصد کیا ہے اور اس کے حصول کے لئے کس جدوجہد کی ضرورت ہے جزاء سزا کے اُصول کیا ہیں۔
پھر فلسفہ اخلاق ہے جس پر مذہب کی بنیاد ہے اور دُنیاوی امن و امان کے قیام کا انحصار ہے اس مضمون کو بھی دوسری کتب نے یا چھو انہیں یا صرف اس کے حوالی کو چھو کر چھوڑ دیا ہے بدُھ کی تعلیم میں بیشک جذبات پر بحث ہے مگر قرآن کریم کی تعلیم کے مقابل پر وہ بھی کچھ نہیں۔ قرآن کریم نہ صرف جذبات پر بحث کرتا ہے بلکہ وہ ان کے پیدا ہونے کی وجوہ اور ان کی ضرورت اور پھر ان کے صحیح طور پر اختیار کرنے کے ذرائع پر بھی روشنی ڈالتا ہے وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ جذبات کب اور کس صورت میں نیک ہوتے ہیں اور کب اور کس صورت میں بد۔ پھر یہ بھی بتاتا ہے کہ جذبات کو نیک کس طرح طرح بنایا جا سکتا ہے او ربد ہونے سے کس طرح بچایا جا سکتا ہے او رایسے اثرات سے کس طرح اپنے نفس کو بچایا جاس کتا ہے جو جذبات کو بدی کی رو میں بہا دیتے ہیں۔
بُدھ کی تعلیم میں یہ تو یہ کہا گیا ہے کہ تم خواہشات کو ترک کرو تو گناہ سے بچ جائو گے مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ کونسی باتیں ہیں جن سے بدی کی خواہش پیدا ہوتی ہے اور وہ کونسے ذرائع ہیں جن کی مدد سے ان کو روکا جا سکتا ہے مگر قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ گناہ کا منبع کہاں ہے اور پھر وہ اس منبع کو روکنے کی تدبیر بھی ہمیں بتاتا ہے۔
اور ان سب تفصیلات کے باوجود قرآن کریم سب کتب سے جو الہامی ہونے کی دعویدار ہیں چھوٹا ہے جس کی وجہ سے اس کا پڑھنا۔ سمجھنا او ریاد رکھنا بہت آسان ہے حتیٰ کہ ہزاروں لاکھوں اس کے حافظ دنیا میں موجود ہیں۔ پس قرآن کریم کے شروع ہی میں اس دعویٰ کو پیش کرنا کہ یہی کامل کتاب ہے ایک ایسا دعویٰ ہے جو ضرورت کے مطابق ہونے کے علاوہ نہایت مناسب موقعہ پر پیش کیا گیا ہے۔
۲۔ ان معنوں کے علاوہ ایک اور معنی بھی اس آیت کے ہیں اور وہ بھی سیاق و سباق کے عین مطابق ہیں اور وہ یہ کہ سورۂ بقرہ سے پہلے سورہ فاتحہ ہے اس سورۃ میں ایک دُعا سکھائی گئی تھی کہ خدایا! مجھے سیدھا راستہ دکھا ان لوگوں کا راستہ جن پر تُو نے انعام نازل کیا ہے۔ اس دُعا کا جواب ان الفاظ میں دیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جن ہدایت کو تم نے سورۃ فاتحہ میں طلب کیا تھا وہ یہی کتاب یعنے قرآن کریم ہے اس طرح ذٰلِکَ اشارہ بعید کے معنے ہیں دیتا ہے اور کسی اور تاویل کی ضرورت نہیں رہتی۔ جب مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ معنی سکھائے تو میں بہت خوش ہوا مگر کچھ عرصہ کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ مجھ سے پہلے ان معنوں کی طرف کم سے کم ایک عالم اسلام سبقت کر چکا ہے اور ہو علامہ ابو حیان کے اُستاد ابن جعفر بن ابراہیم بن الزبیر ہیں جنکی طرف منسوب کر کے علامہ ابوحیان نے یہ معنی اپنی تفسیر میں لکھے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ نہایت لطیف معنی ہیں۔ ان معنوں سے سورۃ فاتحہ اور سورۃ بقرہ کے تعلق پر بھی روشنی پڑتی ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ بقرہ کا ر کھا جانا یونہی نہیں بلکہ اس وجہ سے ہے کہ اس کے مضامین سورہ فاتحہ کے جواب میں ہیں اور ذٰلِکَ کے معرف معنی کو بھی نہیں چھوڑنا پڑتا۔
اس آیت کا آخری حصہ یعنے ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ ان معنوں کی مزید تصدیق کرتا ہے۔ گویا اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے جس ہدایت کو تم نے طلب کیا تھا وہ یہی کتاب ہے اور تم نے چونکہ معوملی ہدایت طلب نہیں کی۔ بلکہ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ گروہ کی ہدایت طلب کی ہے اس لئے ہم تم کو بتاتے ہیں کہ یہ کتاب ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْن ہے یعنی معمولی ہدایت نہیں دیتی بلکہ کامل متقی کو اور اوپر لے جا کر اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ کے اعلیٰ طبقہ کے لوگوں میں شامل کر دیتی ہے اور تمام انبیاء کی تعلیموں اور ان کے حاصل کردہ انعامات کی جامع ہے۔
لَارَیْبَ فِیْہِ۔ ریب کے معنے بتائے جا چکے ہیں۔ کہ تہمت۔ شک۔ کمی۔ نقص اور آفت و مصیبت کے ہیں۔
یہ سب کے سب معنی اس آیت میں چسپان ہوتے ہیں اور قرآن کریم کے متعلق اس میں چار دیویٰ کئے گئے ہیں۔
(۱) اس میں کسی ہستی کی حق تلفی نہیں کی گئی اور کسی پر ناواجب الزام نہیں لگایا گیا۔ نہ خدا تعالیٰ پر اس میں تہمت لگائی گئی ہے اور نہ کسی نبی یا رسول پر نہ ملائکہ پر نہ بنی نوع انسان پر نہ انسانی فطرت پر۔ غرض کسی کی اس حق تلفی نہیں کی گئی۔ کسی پر اتہام نہیں لگایا گیا۔ یہ اتنا بڑا دعویٰ ہے کہ اس کی نظیر دنیا کی کسی اور کتاب میں نہیں ملتی اور یہ ایسی زبردست صداقت ہے جس کی مثال اور کوئی مذہب پیش نہیں کر سکتا۔ قرآن کریم کے شروع کرتے ہی یہ سوال اُٹھایا گیا ہے کہ اس کتاب کی دوسری کتب کی موجودگی میں کیا ضرورت تھٖی اس سوال کا سہل ترین جواب یہ ہو سکتا تھا کہ پہلی کتب کی بعض مضحکہ خیز باتیں پیش کر دی جاتیں اور کہا جاتا کہ ان کتب میں فلاں فلاں عیوب ہیں اس لئے ان سے دُنیا ہدایت نہیں پا سکتی۔ پس اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو اُتارا ہے یہ جواب باوجود اس اذعا کے کہ قرآن کریم سب نبیونکی تعلیم کی طرف ہدایت دینے کے لئے نازل ہوا ہے درست ہوتا کیونکہ قرآن کریم گو اس امر کا مدعی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے نبی آتے رہے ہیں او ران میں سے بعض کو شریعت بھی ملی ہے اس امر کو تسلیم نہیں کرتا کہ ان انبیاء کی تعلیم موجودہ وقت میں بھی محفوظ ہے پس اس کا یہ جواب کہ موجودہ زمانہ میں پہلے نبیوں کی کتب غیر محفوظ ہیں اور خراب ہیں بالکل درست ہوتا اور مخالفین قرآن کریم کے لئے نہایت درجہ مسکت بھی ہوتا مگر ایک عظیم الشان بشارت کی اس رنگ کی ابتداء نفیس طبیعتوں پر گراں ضرور گذرتی۔ کیونکہ گو پہلی کتب کی غلطیوں پر مطلع کرنا قرآن کریم کے ضروری فرائض میں سے ہے مگر ابتداء ہیں میں اس مضمون کو چھیڑ دینا نہ تو ایک غیر معمولی شان کی کتاب کے شایاں تھا اور نہ اس سے اس عظمت و شوکت کا اظہار ہو سکتا تھا جو اس مضمون سے ظاہر ہوتی ہے کہ ہم کسی فرد یا ہسی کو اس کے مقام سے نہیں گراتے بلکہ سب کے مناسب مقام اور درجہ کو تسلیم کرتے ہیں۔ اس دعویٰ سے قرآن کریم نے ابتداء ہی میں اپنے دعویٰ کے ثبوت کے لئے کسی قدر مشکلات پیدا کر لی ہیں؟ اعتراض کرنا آسان ہوتا ہے اور اعتراضوں پر ہی مختلف مذاہب کے مدعی اپنی تبلیغ کی بنیاد رکھتے ہیں لیکن قرآن کریم ابتدا ہی اس طرح کرتا ہے کہ اپنی ضرورت کے ثبوت کے لئے پہلے مذاہب کے نقائص کو پیش نہیں کرتا بلکہ یہ کہتا ہے کہ میرا الکتاب یعنے کامل کتاب ہونپے کا دعویٰ اس امر پر مبنی نہیں کہ دوسری کتب میں نقص ہیں اور مجھ میں نہیں ہیں دوسروں کے مقابل میں نسبتی کمال کو اپنے سچا ہونے کّی دلیل نہیں دیتا بلکہ بغیر کسی مذہب پر اتہام لگانے کے اپنے ذاتی کمالات اور اپنے فضائل اور دینی امتیازی تعلیمات سے اپنی ضرورت اور اپنی صداقت کو ثابت کرتا ہوں۔ یہ مقام کیسا شاندار ہے اور پھر ساتھ ہی کیسا مشکل بھی؟ مگر قرآن کریم اسی کو اختیار کرتے ہوئے اپنی صداقت کو کامیاب طور پر ثابت کرتا ہے قرآن کریم اپنی سچائی کی دلیل یہ نہیں دیتا کہ دوسرے مذہب جھوٹے ہیں اس لئے ایک سچے مذہب کی ضرورت تھی جسے وہ پورا کرتا ہے بلکہ وہ یہ کہتا ہے کہ اِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّاخَلَا فِیْہَا نَذِیْرٌ (فاطر ع ۳) کوئی قوم بھی ایسی نہیں جس میں خدا تعالیٰ کا نبی نہ گذرا ہو اور اسی طرح فرماتا ہے وَلِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ (رعد رکوع ۱) اور ہر قوم میں ایک ہادی ہماری طرف سے آ چکا ہے اور اسی طرح وہ تمام اقوام کے متعلق اصولی طو رپر اس امر کو تسلیم کر لیتا ہے کہ خدا تعالیٰ ان میں سے ہر ایک کے سمجھانے کے لئے بھی اپنی طرف سے ہدایت نامے بھجواتا رہا ہے اور اصولی طو رپر تمام مذاہب کو جو خدا تعالیٰ کی تصدیق کی مہر رکھتے ہیں جھوٹ اور فریب سے بری قرار دیتا ہے اور ان کی سچائی کا اقرار کرتا ہے برخلاف مثلاً یہود نصاریٰ اور آریو ںکے مذاہب کے کہ وہ اپنے سوا دوسرے مذاہب کو جھوٹا قرار دیتے ہیںاور یہ خیال کرتے ہیں کہ تورات انجیل اور وید کے سوا باقی سب جگہ ظلمت ہی ظلمت ہے اور ان اقوام کے سوا اللہ تعالیٰ نے باقی سب اقوام کو ہدایت کے سامانوں سے محروم کر دیا تھا بلکہ حق تو یہ ہے کہ اسلام کے سوا اور سب اویان کسی نہ سکی شکل میں دوسرے مذاہب کو جھوٹا یا ادنیٰ ہی قرار دیتے ہیں لیکن اسلام ایسا نہیں کرتا وہ ہر زمانہ اور ہر قوم کے لئے آسمانی ہدایت کو ضروری قرار دیتا ہے اور اپنے اپنے زمانہ کے لئے سب کو کامل اور انسانی حاجتو ںکو پورا کرنے والا تسلیم کرتا ہے اور اس طرح قرآن کریم دوسرے مذاہب سے اتہام سے پاک ہونے میں بالکل ممتاز ہے۔
اگر تفصیلات کو دیکھا جائے تو اس میں بھی قرآن کریم کو اتہام سے پاک ہونے میں دوسرے مذاہب کے مقابل پر ایک امتیاز حاصل ہے سب سے ضروری وجود مذہب کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کا ہے وہ تمام مذاہب کا مرکزی نقطہ ہے۔ بظاہر یہ نہیں خیال کیا جاسکتا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر کسی مذہب نے کوئی اتہام لگایا ہو گا لیکن ذرا سے تامل سے معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ ناقابل فہم غلطی بھی انسان کر چکا ہے اور خوب پیٹ بھر کر چکا ہے۔ توریت خدا کی نسبت کہتی ہے کہ وہ دنیا کو پیدا کر کے تھک گیا اوراسے آرام کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی حالانکہ جو تھک وہ خدا نہیں ہو سکتا۔ بائبل میں لکھا ہے کہ دُنیا کو پیدا کر کے ساتویں دن اللہ تعالیٰ نے آرام کیا (پیدائش باب ۲۔ آیت ۲ و ۳ بعض اردو کے نسخوں میں مترجموں نے آرام کیا کی جگہ اعتراض کے ڈر سے فراغت پائی لکھ دیا ہے لیکن دوسرے نسخوں اور انگریزی کے نسخوں میں آرام کیا کے الفاظ ہی ہیں) اور یہ اللہ تعالیٰ پر اتہام ہے کہ وہ کام کرتے کرتے تھک گیا اور اُسے آرام کی ضرورت محسوس ہوئی لیکن قرآن کریم اللہ تعالیٰ کو اس اتہام سے بری قرار دیتا ہے اور اس کی طرف سے یہ قول نقل فرماتا ہے وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمٰوتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا فِیْ سِتَّہِ اَیَّامٍ وَّمَا مَسَّنَا مِنْ لَّغُوْب (ق ع ۳) یعنی ہم نے آسمانوں اور زمین کو چھ اوقات میں پیدا کیا لیکن اس کام سے ہمیںکوئی تھکان محسوس نہیں ہوئی اور نہ آرام کرنے کی حاجت پیدا ہوئی۔ اسی طرح مثلاً بائبل میں اللہ تعالیٰ کی نسبت لکھا ہے کہ ’’تب خداوند زمین پر انسان کے پیدا کرنے سے پچھتایا اور نہایت دلگیر ہوا۔‘‘ گویا انسان کو پیدا کرنا ایک غلطی تھی او راسپر نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کو ندامت پیدا ہوئی اور وہ اسپر دلگیر ہوا۔ یہ اللہ تعالیٰ پر ایک اتہام ہے وہ خدا ہی کیا ہوا جو غلطی کرتا ہے اور انہیں جانتا کہ میرے فعل کا کیا نتیجہ ہو گا۔ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی نسبت فرماتا ہے کہ وہ سبحان اور قدوس یعنے وہ سب عیبوں سے پاک ہے اور سب بزرگیوں کا مالک ہے اور اسی سورۃ میں آگے چل کر فرماتا ہے کہ اِنِّیْ اَعْلَمُ السَّمٰوتِ وَالْاَرْضِ (بقرہ ع ۳) یعنی میں اللہ آسمان و زمین کے متعلق تمام امور ابتدائے آفرنیش سے اور آئندہ کے تمام زمانوں کے متعلق خوب اچھی طرح جانتا ہوں۔ اب ظاہر ہے کہ جس کو آسمان اور زمین کے متعلق پورا غیب حاصل تھا اور وہ اس کے حال اور مستقبل سے اچھی طرح واقف تھا اس کی نسبت کب یہ تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ اس نے غلطی سے دنیا کو پیدا کر دیا اور بعد میں پچھتانے لگا۔
پھر ایک اصول کے طور پر قرآن کریم میں یہ بھی بیان فرمایا گیا ہے یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَافِی السَّمٰوتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ الْمِلِکِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْم (جمعہ ع ۱) یعنے زمین و آسمانکا ذرّہ ذرّہ اللہ کے ہر عیب سے پاک ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ اس میں کس طرح اصولاً بائبل کے خیال کے خلاف تعلیم دی ہے اور بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سا دنیا کو پیدا کرنے میں کوئی غلطی نہیں کی کیونکہ جو کام ایک فاعل بالارادہ غلطی سے کرتا ہے یا جو انجام کے لحاظ سے غلط ہو جاتا ہے وہ کام اپنے فاعل کے نقص پر ایک شہات ہوتا ہے اور اس کی کم علمی یا بصیرت کے صنعف پر دلالت کرتا ہے مگر قرآن کریم فرماتا ہے کہ زمین اور آسمان میں جو بھی ہے انسان ہوں یا حیوا ہوں۔ فرشتے ہوں یا ارواح ہوں اسی طرح نباتات ہوں کہ جمادات ہوں باریک سے باریک ذرّہ ہو کہ بڑے سے بڑا سماوی کرہ ہو۔ سب کے سب اس بات پر شہادت دے رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر نقص سے پاک ہے اور اس نے زمین و آسمان کے پیدا کرنے میں کوئی غلطی نہیں کی بلکہ آیت کا مضمون اس بات کو بھی پیش کر رہا ہے کہ مومن ہوں یا کافر مخلص ہوں یا منافق سب ہی باوجود اپنے منہ کے غلط بیانات اور دماغ کے مخالف خیالات کے اپنے وجود اور اپنے عمل سے اس امر کو ثابت کر رہے ہیں کہ زمین و آسمان کی پیدائش میں اللہ تعالیٰ نے غلطی نہیں کی۔
اس کے بعد فرماتا ہے کہ اس دعویٰ کا ثبوت یہ ہے کہ دنیا کا وجود خدا تعالیٰ کے ملک قدوس عزیز اور حکیم ہونے پر دلالت کر رہا ہے یعنی نظامِ عالم اس امر پر دلالت کر رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ ملک یعنی بادشاہ ہے اور اس کی طرف سے ایک قانون دنیا کو ملا ہے جس کی پابندی کرنے والے انعام پاتے ہیں اور خلاق ورزی کرنے والے سزا پاتے ہیں۔ ملک سے اس جگہ قانونِ شریعت مراد ہے یا قانون طبعی کا وہ حصہ جس کی خلاف ورزی کا انسان مرتکب ہو سکتا ہے جیسے مثلاًزیادہ کھا جانا یا آنکھ ناک کان سے زیادہ یا کم کام لینا۔ غرض اللہ تعالیٰ کا وہ قانون جس کی اطاعت جبراً نہیں کی جاتی بلکہ اس پر چلنے یا نہ چلنے کی بندے کو مقدرت حاصل ہوتی ہے اس کا ملوکیت والا قانون ہے کیونکہ بادشاہی قانون بھی ایسے ہی ہوتے ہیں کہ لوگوں کو ان کے توڑنے کی طاقت ہوتی ہے گو ان کے توڑے پر وہ سزا پاتے ہیں۔ اس ملوکیت والے قانون پر عمل کرنے والے روحانی انعام اور طبعی قانون پر عمل کرنے والے طبعی انعام۔ اور یہ اس امر کا ثبوت ہے۔ کہ اس نظام عالم کا کوئی بادشاہ ہے چنانچہ انبیاء اور صلحاء کے ساتھ جو معاملہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے وہ ایک قادر خدا کا جو تمام مخلوقات کا بادشاہ ہے ایک قطعی اور یقینی ثبوت ہے۔
اس کے بعد فرماتا ہے القدّوس وہ پاک اور تمام عیوب سے مبرا ہے یعنی اس کو ملوکیت کے معاملہ پر غور کرو تو تم کو معلوم ہو گا کہ اس کا معاملہ دنیوی بادشاہوں اور سلطنتو ںکا سا نہیں ہے کہ ان کے حکام اور بادشاہ اپنی حکومت کے قیام کے لئے ہر قسم کے اعمال کو جائر سمجھتے ہیں بلکہ اس کی صفت ملوکیت اس طرح ظاہر ہوتی ہے کہ اس سے اس کی قدوسیت ثابت ہوتی ہے۔ مثلاً یہ کہ اس کی طرف سے جو لوگ اس کے قانون کو جاری کرنے کے لئے مبعوث ہوتے ہیں وہ اعلیٰ اخلاق سے متصف ہوتے ہیں اور جس قدر کوئی اس کا قرب حاصل کرتا ہے اسی قدر نبی نوع انسان کا ہمدرد ہوتا ہے۔ اسی طرح جو اس کے طبعی قانون پر عمل کرتا ہے اس کے اعلیٰ سے اعلیٰ فوائد اصل کرتا ہے اور طبعی نقائص سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ کے جاری کردہ قانون کے مطابق آنکھوں سے کام لینے والے کی آنکھیں مضبوط ہونگی اس کے قواعد کے مطابق معدہ سے کام لینے والے کا معدہ تمام بیماریوں سے بچا رہے گا۔ غرض اس کا قانون ایسا ہے کہ اس پر عمل اسنان کو مشقت اور تکلیف میں نہیں ڈالتا بلکہ اس پر عمل سے انسان قدوسیت کی چادر پہنتا ہے یعنی جس قدر عمل کرتا ہے اسی قدر نقصوں سے پاک ہوتا جاتا ہے۔ شرعی قانون پر عمل کرنے سے روحانی طہارت ملتی ہے اور طبعی قانون پر عمل کرنے سے جسمانی طہارت اور قوت حاصل ہوتی ہے۔
پھر فرماتا ہے کہ وہ عَزِیْز بھی ہے یعنی اگر مخلوقات پر نگاہ ڈالو تو اس قانون کے علاوہ جو ملوکیت کے قانون کے مشابہ ہے او رجس پر عمل کرنے یا نہ کرنے پر انسان کو مقدرت حاصل ہے اس کا ایک اور بھی قانون فطرت کہنا چاہیئے۔ یہ قانون بھی دو قسم کا ہوتا ہے روحانی بھی اور جسمانی بھی۔ روحانی قانون تو وہ ہے جسے دین الفطرۃ کہتے ہیں اور جس میں تمام اخلاقی جذبات شامل اور جوہر مومن و کافر میں پایا جاتا ہے اور جو آخر ہر اس شخص کی ہدایت کو سمجھنا چاہے اس قانون سے بچنا انسانی طاقت سے باہر ہے۔ مثلاً رحم اور شکر گذاری کے جذبات ہیں کہ ہر شخص میں پائے جاتے ہیں۔ ظالم سے ظالم میں بھی یہ جذبات پائے جاتے ہیں۔ کوئی انسان ان کے اثر سے بچ نہیں سکتا۔ ایک ڈاکو جو ہزاروں قتل کر کے ندامت محسوس نہیں کرتا اپنے بچے کی بیماری پر چیخیں مار کر رونے لگتا ہے۔ اسی طرح بسا اوقات دیکھا جاتا ہے۔ کہ ڈاکو اور چور بھی ان لوگوں کو نقصان نہیں پہنچاتے جنہوں نے ان سے کبھی حسن سلوک کیا ہو۔ غرض بطور جذبۂ فطرت کے یہ مادے ہر انسان میں موجود ہیں گوبد استعمال کی وجہ سے بعض لوگ ان کا ساتعمال بہت محدود کر دیتے ہیں۔
جسمانی نظام میں یہ قانون ان طبعی خواص پر مشتمل ہے جن کے ماتحت تمام نظام عالم چل رہا ہے ایک دہر یہ خدا تعالیٰ کو مُنہ سے گالیاں دے لیتا ہے۔ لیکن اس کے اس قانون کی نافرمانی نہیں کر سکتا جو صفت عزیز کے ماتحت ظاہر ہوتا ہے۔ مثلاً خدا تعالیٰ نے اس کی زبان کو چکھنے کے لئے بنایا ہے اس میں یہ طاقت نہیں کہ زبان سے دیکھنے کا کام لے سکے۔ باوجود مذہب میں بغاوت کرنے کے وہ اس کے اس قانون کو بلا چون و چرا پابندی کرتا ہے۔ اسی طرح جو جو خواص اشیاء اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں وہ اسی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں کہ جس صورت میں خدا تعالیٰ نے ان کو پیدا کیا ہے اس قانون کے خلاف و نہیں جا سکتے۔ بیشک خواص اشیاء میں بھی تغیرات ہوتے ہیں مگر وہ تغیرات بھی دوسرے طبعی قانونوں کے مطابق ہی ہوتے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ اس دُنیا میں ایک قانون صفتِ عزیز کے ماتحت جاری ہے جس سے خدا تعالیٰ کے غلبہ اور قدرت کا اظہار ہوتا ہے۔ اس قانون کی ہر کہ دمہ پوری پابندی کرتا ہے اور پابندی کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ ملوکی قانون کی طرح اس کی خلاف ورزی نہیں ہو سکتی اور یہ قانون ایک عزیر ہستی پر دلالت کرتا ہے۔
پھر فرمایا ہے کہ شاید کسی کو اعتراض ہو کہ زبردست اور حیر سے کام لینا تو اچھا کام نہیں تو اس کا یہ جواب دیا کہ نہ ہر امر میں قدرت دینا اچھا ہے او رنہ ہر امر میں جبر جائز ہے۔ قدرت اپنی جگہ اچھی ہے اور جبر اپنی جگہ جائر ہے اور یہ دونوں مرحکمت کے ماتحت برتے جائیں تبھی نتائج اچھے نکلتے ہیں اگر قانونِ قدرت نہ بنایا جاتا تو تمام علمی ترقی انسان کی محدود ہو جاتی۔ کیونکہ کیمیا اور فزکس اور بایالوجی اور زوالوجی وغیرہ تمام علوم کی بنیاد ہی غیر متبدل قوانین اور خواص پر ہے۔ اگر آگ کبھی جلاتی اور کبھی پیاس بجھاتی اور پانی کبھی سرد کرتا اور کبھی آگ لگاتا تو کارخانۂ عالم ہی درہم برہم ہو جاتا۔ غرض قانونِ قدرت ہو یا قانونِ فطرت ہو ان کا غیر معتبدل ہونا زبردست حکمتوں کے ماتحت ہے اور بلاوجہ او ربے فائدہ نہیں ہے۔
خلاصہ یہ کہ اس آیت میں آسمان و زمین کی پیدائش کو خدا تعالیٰ کی چار صفات الملک۔ القدوس۔ العزیز۔ اور الحکیم کا ظاہر ہے کہ یہ جو فعل الٰہی ان چار صفات کا اور خصوصاً حکمتِ الہٰی کا ظاہر کرنے والا ہو اس پر نادم ہونے یا پچھتانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ معمولی سے معمولی شخص بھی اچھے کام پر پچھتایا نہیں کرتا۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے خاص اسی مضمون کو لیکر بھی وضاحت سے اس کی تردید کی ہے۔ فرماتا ہے۔ وَمَاخَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَابَیْنَھُمَالَا عِبِیْنَ (الانبیاء ع ۲) یعنی آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ہم نے اس کو یونہی بے سوچے ہوئے پیدا نہیں کیا یہ ہمارا کام کوئی کھیل نہیں بلکہ حکمت اور حق کے ساتھ اس کی پیدائش ہوئی ہے۔ اس مضمون کی تائید میں فرماتا ہے۔ خَلَقَ اللّٰہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بالْحَقِّ (العنکبوت ع ۴) یعنے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو ایک نہایت پختہ اور اٹل قانون کے ماتحت بنایا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے متعلق سب سے بڑا اتہام شرک کا ہے۔ قرآن کریم سب کا سب اسی اتہام کے رو کے دلائل سے بھرا ہوا ہے۔ خدا تعالیٰ کے شریک کئی قسم کے تجویز کئے گئے ہیں۔ بعض نے دو خدا تجویز کئے ہیں۔ ایک نور کا اور ایک ظلمت کا خدا۔ بعض نے تین خدا تجویز کئے ہیں۔ باپ۔ بیٹا اور روح القدس۔ بعض نے خدا تعالیٰ کے لئے بیویاں تجویز کی ہیں۔ بعض نے یہ تجویز کیا ہے کہ اس نے بعض ہستیوں کو پیدا کر کے اپنی صفات ان میں بانٹ دی ہیں۔ اور مختلف صفات کے ظہور کے لئے مختلف دیوتا مقرر کر دیئے ہیں۔ بعض نے یہ کہا ہے کہ خدا تعالیٰ بندوں میں سے بعض کو چن کر اپنے اختیارات کل یا بعض ان کو سونپ دیتا ہے۔ بعض تمام بڑے مظاہر قدرت کو خدا تعالیٰ کی صفات کا بالارادہ ظاہر کرنے والا قرار دیتے ہیں اور بعض لوگ مضر اشیاء اور خوف دلانے والے جانوروں کو دیوتا تجویز کرتے ہیں۔ بعض مظاہرِ حسن کو خدا کا مظہر اور الوہیت کی صفت سے متصف قرار دیتے ہیں۔ قرآن کریم نے ان تمام قسم کے شرکوں کو تفصیل سے ردّ کیا ہے۔ اور ان عقائد کے غلط ہونے کے دلائل دیئے ہیں مگر اس مفصل مضمون کو حوالو ںکے ساتھ بیان کرنے کا یہ موقعہ نہیں۔ اگلے کسی موقعہ پر ان آیات کے ماتحت ان کا ذکر آ جائیگا جن مںی توحید ما شرک کی تفصیلات کا ذکر ہے۔ (انشاء اللہ)
اسی طرح قرآن کریم کرنے اللہ تعالیٰ کی صفات کو بالتفصیل بیان کیا ہے جس کی مثال اور کسی کتاب میں نہیں ملتی اور اس طرح ان تمام اتہاموں سے جو مختلف صفات کے ناقص بیان سے یا ناقص طو رپر سمجھنے سے اللہ تعالیٰ کی طرف مختلف مذاہب یا مختلف فلسفے منسوب کرتے چلے آئے ہیں اللہ تعالیٰ کو بری قرار دیا ہے۔ غرض قرآن کریم کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شان اور اس کے درجہ کو مدنظر رکھتے ہوئے جن امور کو اس کی طرف منسوب کرنے سے اس کی کسر شان ہوتی ہے انکو اس کی طرف منسوب کرنے سے قرآن کریم نے اجتناب کیا ہے بلکہ اُن کا بادلیل رد کیا ہے۔ اور جن امور سے اس کی وہ شان جو ایک معبود او رکامل الصفات خدا تعالیٰ میں ہونی چاہیئے ظاہر ہوتی ہے ان امو رک واس کی طرف منسوب کیا ہے اور نہایت بسط اور عمدگی سے اُن کا ذکر کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے بعد کارخانۂ قدرت کے چلانیوالی ابتدائی علتوں میں ملائکہ کا وجود ہے۔ ملائکہ کو بھی قرآن کریم نے تمام نقائص اور عیوب سے جو ان کی ذات کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں پاک قرار دیا ہے۔ مثلاً فرماتا ہے لَایَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَھُمْ وَیَفْحَلُوْنَ مَایُؤْمَرُوْنَ (التحریم ع ۱) یعنے ملائکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو انہیں حکم دیا جاتا ہے اس کی پوری طرح اطاعت کرتے ہیں اور اس طرح ان تہمتوں کا رد کر دیا ہے جو مثلاً یہود کی طرف سے ملائکہ پر لگائی جاتی ہیں کہ فرشتوں نے خدا تعالیٰ کی نافرمانی کی اور اُس کے احکام کو پس پشت ڈال دیا۔ ہندوئوں میں ہے کہ دیوتائوں نے فلاں فلاں گناہ کیا اور اس تہمت سے فرشتوں کو بچانا ایک ضروری امر تھا کیونکہ فرشتے نیکی کی تحریرکوں کا سرچشمہ ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ اگر ایک مصطفی پانی کے چشمہ کے متعلق شک اور شبہ پیدا ہو جائے تو انسان اُس سے فائدہ اُٹھانے سے محروم رہ جائے گا اور نیکی کا وہ دروازہ اس کے لئے بند ہو جائے گا۔
تیسرا ستون انسان کی روحانی اور اخلاقی عمارت کی تکمیل کے لئے کلام الٰہی ہے کہ اس کے ذریعہ سے انسان یقین اور معرفت حاصل کرتا ہے۔ اس پر بھی مختلف مذاہب اور فلسفوں نے تہمت دھرنے سے دریغ نہیں کیا تھا مثلاً بعض یہ کہتے تھے کہ الہام صرف خیالاتِ صافیہ کا نام ہے حالانکہ محض خیالات کا نام الہام رکھ کر اس یقین اور اعتماد کا دروازہ بند کر دیا جاتا ہے جو لفظی الہام کے ذریعہ سے حاصل ہوتا ہے۔ کیونکہ اس صورت میں ہر شخص اپنے خیال کا نام الہام رکھ سکتا ہے۔ اس بارہ میں قرآن کریم فرماتا ہے۔ کَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسیٰ تَکْلِیْمًا (نساء ع ۲۳) اللہ تعالیٰ نے موسیٰ سے بالمشافہ اور الفاظ میں باتیں کی تھیں۔ اسی طرح قرآن کریم کی نسبت فرماتا ہے۔ وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَاَجِرْہُ حَتّٰی یَسْمَعَ کَلَامَ اللّٰہِ ثُمَّ اَبْلِغْہُ مَاْمَنَہٗ (التوبہ ع ۱) یعنی اگر ان مشرکوں میں سے جو تجھ سے برسرِ جنگ ہیں کوئی شخص تجھ سے پناہ مانگے تو اُسے پناہ دے تاکہ وہ اس کتاب کو سُن سکے جو تجھ پر نازل ہوئی ہے اور ساری کی ساری کلام اللہ سے ہے نیز کسی بندہ کا بنایا ہوا کوئی لفظ بھی اس میں شامل نہیں۔ پھر جب وہ اللہ تعالیٰ کے لام کو سُن لے اور چاہے کہ اپنے لوگوں کے پاس واپس جائے تو چاہیئے کہ حکومت کی حفاظت میں اُسے اس علاقہ میں جو اس کی اپنی قوم کا ہے اور اس کے لئے امن کی جگہ ہے تو اُسے واپس پہنچا دے۔
غرض قرآن کریم نے کتب سماویہ کو بھی اس تہمت سے بچایا ہے کہ گویا وہ خدا تعالیٰ کا کلام نہیں بلکہ بعض بڑے لوگوں کے خیالات ہیں جو انہو ںنے خدا تعالیٰ کا کلام نہیں بلکہ بعض بڑے لوگوں کے خیالات ہیں جو انہوں نے خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیئے ہیں۔
چوتھا ستون مذہب کی عمارت کا انبیاء کا وجود ہے ان کے متعلق بھی قرآن کریم نے جو تعلیم دی ہے وہ ہر اک اتہام سے پاک ہے۔ مثلاً ایک تو اصولی طو رپر قرآن کریم نے یہ بتایا ہے کہ انبیاء خدا تعالیٰ کے مقرب اور پاک لوگ ہوتے ہیں۔ چنانچہ فرماتا ہے۔ وَ اِذَا جَآئَ تْھُمْ اٰیَۃٌ قَالُوْا لَنْ نُؤْمِنَ حَتّٰی نُؤْتٰی مِثْلَ مَٓا أوْتِیَ رُسُلُ اللّٰہِط اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ سَیُصِیْبُ الَّذِیْنَ اَجْرَ مُوْا صَغَارٌ عِنْدَاللّٰہِ وَعَذَابٌ شَدِیْدٌ بِمَا کَا نُوْایَمْکُرُوْنَ (انعام ع ۱۵) یعنی جب انبیاء خدا تعالیٰ کا معجزانہ کلام یا اس کے آسمانی نشانات دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں تو گنہگار لوگ کہتے ہیں کہ ہم کو بھی براہ راست وہی نعمت ملے جو اللہ کے رسولوں کو ملی ہے تب ہم ایمان لائیں گے یہ لو گاپنے اعمال کو نہیں دیکھتے۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنا پاکیزہ کلام کس طرح نازل کر سکتا ہے جبکہ یہ گہنگار اور مجرم ہیں اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ اپنی رسالت کا بارکس پر رکھے یعنی اُسی کو یہ خلعت دیتا ہے جو پاکباز اور نیکوکار ہو مجرم نہ ہو۔ پھر فرماتا ہے کہ یہ گنہگار لوگ انبیاء والے انعامات کے طالب ہیں حالانکہ گنہگارو ںکو تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن کے بدارادوں اور منصوبہ بازیوں کی وجہ سے ذلت اور سخت عذاب پہنچیگا۔ اس آیت میں اصولی طو رپر انبیاء کی پاکیزہ زندگی اور اُن کے تقدس کی شہادت دی گئی ہے اور اس طرح ان تمام خیالات کی تردید کر دی گئی ہے جو اللہ کے انبیاء پر لگائے جاتے ہیں خواہ اُن کا ذکر قرآن کریم میں کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو۔ جسیا کہ مثلاً کرشن جی علیہ السلام کے بارہ میں خود اُنہی کے متبع کہتے ہیں کہ وہ مکھن چرایا کرتے تھے اور عورتوں کے ساتھ عیش و عشرت میں مشغول رہا کرتے تھے۔ نعوذ باللہ من ذالک۔ چنانچہ ’’شریمد بھاگوت پر ان‘‘ اسکندھ صفحہ ۱۰ نمبر ۸؍۱۰ میں لکھا ہے کہ شری کرشن جی کی والدہ انہیں کہتی ہیں کہ:
’’بیٹا نو لاکھ گائیں میرے یہاں دُودھ دینے والی ہیں جتنا دُودھ ماکھن چاہیئے کھایا اور لٹایا کرو۔ دوسروں کے گھر ماکھن کھانے اور چرانے مت جایا کرو۔‘‘
اسی طرح برہم وی ورت پُورا ان کرشن جنم کھنڈ صفحہ ۴ ادھیائے ۷۲ میں تحریر ہے کہ۔
’’دن کے چھپنے پر اکرور جی اپنے گھر چلے گئے اور کرشن جی بھی کسی کے گھر چلے گئے۔ نند اور بلدیو سمیت کرشن جی گوبند بھگت کے ہاں ٹھیر۔ بھگت نے سب کاستکار (عزت) کیا جب سب پلنگوں پر سو گئے اور (مسماۃ) کبجا بھی سو گئی۔ تب کرشن جی بھی کبجا کے گھر چلے گئے۔ وہاں پر جا کر کبجا کو پلنگ پر سوئی ہوئی دیکھا۔ کرشن جی نے داسیوں (لونڈیوں) کو نہیں جگایا صرف کبجا کو جگا لیا۔ اس سے کرشن جی نے کہا اے سندوی نیند کو چھوڑ کر مجھ کو شرنگاہ دان (داد عیش) دے۔‘‘
اور اس عبارت کے بعد اور بہت کچھ خرافات ہیں جن کی نقل سے شرم و حیا اور حضرت کرشن کا ادب مانع ہے۔ مگر یہ سب من گھڑت باتیں دوسرے لوگوں کی ہیں۔ کرشن جی علیہ السلام ان باتوں سے پاک تھے۔ جیسا کہ قرآن کریم سے اصولی طور پر سب ربانی مصلحین کی پاکیزگی کا ثبوت ملتا ہے۔
اسی طرح رامچندر جی کی نسبت کہا جاتا ہے کہ وہ سیتا جی سے آخری عمر میں بلاوجہ ناراض ہو گئے اور قطع تعلق کیا۔
(رامائن اتر کانڈ سرگ ۵۳)
جن انبیاء کا ذکر خاص مصالح کے ماتحت اور فوائد جلیلہ کے لئے قرآن کریم نے نام لے کر کیا ہے اُن کی شان کو قرآن کریم نے خاص طو رپر ذکر کیا ہے اور ان پر لگائے ہوئے اتہامات کو خاص طور پر ردّ کیا ہے۔ مثلاً بائبل کہتی ہے کہ آدم نے گناہ کیا اور دیدہ دانستہ اللہ تعالیٰ کی نافرمائی کی۔ قرآن کریم فرماتا ہے وَلَقَدْ عَہِدْ نَآ اِلٓیٰ اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَسَِیَ وَلَمْ نَجِدْلَہٗ عَزْمًا (طہ ع ۶) یعنی اے محمد رسول اللہ تجھ سے پہلے ہم نے آدم کو بھی بعض امور شریعت سے اطلاع دی تھی مگر ایک موقعہ پر وہ ایک حکم کے بارہ میں بھول گیا مگر اس کا ارادہ ہماری نافرمانی کرنے کا نہ تھا۔ یعنی آدم سے جو غلطی ہوئی تھی وہ بھول چوک کی قسم سے تھی جو گناہ نہیں کہلاتی اور دل کی تاریکی پر دلالت نہیں کرتی۔ اسی طرح بائبل میں لکھا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے نعوذ باللہ منہ بعض پر جھوٹ بولا۔ مسلمانوں کی ایک جماعت نے بھی بعض احادیث سے دھوکا کھا کر اسی قسم کا عقیدہ بنا رکھا ہے مگر قرآن کریم فرماتا ہے وَابْرَاھِیْمَ اَلَّذِیْ وَفّی (النجم ع ۳) یعنی ابراہیم نے جو وعدہ اللہ تعالیٰ سے کیا تھا اُسے کامل طو رپر پورا کر دیا۔ یعنی تمام اخلاق حسنہ کا اعلیٰ سے اعلیٰ نمونہ دکھایا۔ کیا عدل اور کیا احسان اور کیا عفو اور کیا ستاری اور کیا رأفت اور کیا شفقت علیٰ خلق اللہ اور کیا سچائی اور کیا معاملہ کی صحت۔ ہر ایک حکم جو خدا کی طرف سے اُسے دیا گیا تھا اُسے اُس نے پورا کیا اور معمولی طو رپر ہی نہیں بلکہ اعلیٰ سے اعلیٰ نمونہ احکام الٰہی کے پوار کرنے میں دکھایا۔
بعض لوگوں نے کہا تھا کہ موسیٰ نے خدا تعالیٰ کے حکم سے مصریوں سے دھوکا سے اُن کے زیور مانگ لئے (خروج ب ۱۱ آیت ۲) اور پھر ان کو لے کر مصر سے بھاگ گئے۔ مگر قرآن کریم کہتا ہے کہ وَلٰکِنَّا حُمِّلْنَٓا اَوْزَارً امِّنْ زِیْنَۃِ الْقَوْمِ فَقَذَ فْنٰھَا (طہ ع ۴) یعنی جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پہاڑ پر جانے کے بعد اُن کی قوم کے ایک حصہ نے شرک کیا اور حضرت موسیٰ نے آ کر اُن پر ناراضگی کا اظہار کیا تو اُن کی قوم نے جواب دیا کہ ہم نے اپنی مرضی سے یہ کام نہیں کیا بلکہ سامری کے ورغلانے سے کیا ہے۔ اور بات یُوں ہوئی ہے کہ مصری قوم کے زیورات جو ہمیں زبردستی دے دئے گئے تھے ہم اُنہیں اپنے پاس رکھنا نہیں چاہتے تھے سامری کے کہنے پر ہم نے وہ زیورات اُسے دیدئے۔ اس عبارت سے ظاہر ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے مشورہ سے تو الگ رہا بنی اسرائیل نے خود اپنے ارادہ سے بھی مصریوں کو دھوکا دینا نہ چاہا تھا بلکہ مصریوں نے خود ہی غدابوں سے گھبرا کر بنی اسرائیل کو اپنے زیورات دئے تھے تاکہ کسی طرح وہ چلے جائیں اور ان سے مصریوں کا پیچھا چھوٹے اور یہ کہ ان زیورات کو اپنے پاس رکھنے کی بنی اسرائیل کو بالکل کوئی خواہش نہ تھی۔
تورات میں کہا گیا تھا کہ موسیٰ کا ہاتھ معجزہ کی وجہ سے مبروص ہو گیا تھا (خروج باب ۴ آیت ۶) حالانکہ خود تورات ہی مبروص کو ناپاک قرار دیتی ہے (احباب باب ۱۳ آیت ۹،۱۰) اور برص ایک گھنائونی مرض ہے۔ مگر قرآن کریم فرماتا ہے کہ تَخْرُجُ بَیْضَٓائَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓئٍ (طہ ع ۱) یعنی ہاتھ کے سفید ہونے کا معجزہ کسی بیماری سے مشابہ نہ ہو گا بلکہ معجزانہ رنگ میں ہاتھ میں چمک پیدا ہو گی۔
تورات میں کہا گیا تھا کہ ہارون نے نعوذ باللہ من ذالک بنی اسرائیل کو ھچھڑا بنا کر دیا اور شرک کی راہ پر چلایا لیکن قرآنکریم فرماتا ہے کہ وَلَقَدْ قَالَ لَھُمْ ھَارُوْنُ مِنْ قَبْلُ یَا قَوْمِ اِنَّمَا فُیِّنْتُمْ بِہٖ وَاِنَّ رَبَّکُمُ الرَّحْمٰنُ فَاتَّبِعُوْنِیْ وَاَطِیْعُوْٓا اَمْرِیْ(طہ ع ۵) یعنی موسیٰ کے پہاڑ سے واپس آنے سے پہلے حضرت ہارونؑ بھی اپنی قوم کو شرک سے روکت رہے تھے اور اُن سے کہتے تھے کہ اے قوم اس بچھڑے کے ذریعہ سے تمہارا ایمان خراب کیا گیا ہے اور تمہارا رب تو رحمن ہے یہ بے حقیقت بچھڑا رب کس طرح ہو سکتا ہے پس تم میری فرمانبرداری کرو اور میرے حکم پر چلو۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ہارون شرک کرانے والوں میں سے نہ تھے بلکہ شرک کے روکنے والوں میں سے تھے۔ حضرت سلیمان پر یہود شرک کا الزام لگاتے ہیں اور گنہگار قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ لکھا ہے’’جب سلیمان بوڑھا ہوا تو اس کی جورئووں نے اس کے دل کو غیر معبودوں کی طرف مائل کیا۔‘‘ (اسلاطین باب ۱۱ آیت ۴) قرآن کریم اس الزام کو بھی ردّ کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ وَمَا کَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَلٰکِنَّ الشَّیَاطِیْنَ کَفَرُوْا (البقرہ ۱۲ ع ۱۲) یعنی سلیمان نے کوئی کفر والی بات نہیں کی بلکہ اس کا انکار کرنے والے اور اس پر الزام لگانے والے کافر تھے۔
حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق یہود نے الزام لگایا تھا کہ نعوذ باللہ من ذالک اُن کی پیدائش بدکاری کے نتیجہ میں تھی اور یہ کہ وہ نعوذ باللہ من ذالک یوسف کے نطفہ سے بغیر شادی کے پیدا ہوئے تھے (انسائیکلو پیڈیا ٹینکا جلد ۵ صفحہ ۱۰۲ زیر لفظ CELSUS نیز دیکھو جوئش لائف آف کرائسٹ صفحہ ۱۲) اسی طرح بعض یہودی یہ الزام لگاتے تھے کہ وہ نعوذ باللہ من ذالک ایک رومی سپاہی پینتھرا PENTHERA کے بیٹے تھے جن کا ناجائز تعلق حضرت مریم صدیقہ سے تھا (جوئش انسائکلو پیڈیا جلد ۷ صفحہ ۱۷۰ کالم اول) اسی طرح یہود کا یہ اعتراض تھا کہ انہیں شیطانی الہام ہوتا تھا اور ان کا تعلق بعل سے تھا جس کے معنے اُن کے محاورہ میںشیطان کے تھے۔ چنانچہ لکھا اور فقیہہ جو یروشلم سے آئے تھے کہتے تھے کہ اس کے ساتھ بعل زبول کا تعلق ہے اور یہ بھی کہ وہ بدروحوں کے سردار کی مدد سے بدروں کو نکالتا ہے (مرقس باب ۲ آیت ۲۲) قرآن کریم نے حضرت مسیح علیہ السلام کو ان سب تہمتوں سے پاک قرار دیا ہے۔ اُن کی پیدائش کے متعلق فرماتا ہے وَالَّتِّیْ اَحْصَنَتْ فَرْجَہَا فَنَفَخْنَا فِیْھَا مِنْ تُروْحِنَا وَجَعَلْنٰھَا وَابْنَھَآ اٰیَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ (الانبیاء ۶ ع ۶) یعنی مریم جو حضرت عیسیٰ کی والدہ تھیں انہو ںنے اپنے تمام سوراخوں کو گناہ سے محفوظ رکھا تھا اور ان کو جو حمل ہوا تھا وہ ناپاک اور شیطانی روح کا نہ تھا بلکہ ایک پاک جو ہماری طرف سے تھی ان کے اندر داخل ہوئی تھیک اور ہم نے اس کو اور اس کے بیٹے عیسیٰ کو دنیا کے لیے ایک نشان بنایا تھا۔
حضرت مسیح علیہ السلام کے شیطان سے تعلق کے ازالہ کیلئے فرماتا ہے۔ وَاٰتَیْنَا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنَاتِ وَاَیَّدْ نَاہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ (البقرہ ۱۱ ع ۱۱) یعنی ہم نپے عیسیٰ بن مریم کو کھلے کھلے نشانات عطا فرمائے تھے اور اس کو روح القدس یعنی پاک الہام لانے والے فرشتے سے مدد دی تھی یعنی اُن کا الہام خدا تعالیٰ کی طرف سے تھا اور فرشتے اس پر نازَ ہوتے تھے شیطان سے اُن کا تعلق نہ تھا۔
حضرت مسیح علیہ السلام کے اپنے تبعین نے بھی ایک شدید الزام اُن پر لگایا تھا کہ وہ نعوذ باللہ من ذالک صلیب پر مر گئے تھے حالانکہ صلیبی موت تورات کے مطابق *** موت ہوتی ہے۔ چنانچہ عہد نامہ جدید میں لکھا ہے۔ ’’مسیح جو ہمارے لئے *** باا اس نے ہمیں مول لے کر شریعت کی *** سے چھڑایا کیونکہ لکھا ہے کہ جو کوئی لکڑی پر لٹکایا گیا وہ *** ہے‘‘ (گلتیوں باب ۲ آیت۱۳) قرآن کریم اس الزآم کو بھی رد فرماتا ہے چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبانی فرماتا ہے وَالسَّلاَمُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ وَیَوْمَ اَمُوْتُ وَیَوْمَ اُبْعَثُ حَیًّا (مریم ۵ ع ۲) یعنی جو لوگ مجھ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ گویا میری پیدائش حرامکاری کے نتیجہ میں تھی وہ بھی غلط کہتے ہیں کیونکہ میری پیدائش پر خدا تعالیٰ کی طرف سے سلامتی نازل ہوئی تھی۔ اور جو لوگ کہینگے کہ میں صلیب پر لٹکایا جا کر *** موت مرا ہوں وہ بھی غلطی کریں گے کیونکہ میری موت بھی خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہو گی اور *** کی موت سے میں بچایا جائوں گا۔ اور جو لوگ یہ کہیں گے کہ میں دوسروں کے گناہ اٹھا کر (نعوذ باللہ من ذالک) تین دن سزا بھگتوں گا وہ بھی غلطی کریں گے کیونکہ میرا بعث بعد الموت بھی خدا تعالیٰ کی سلامتی سے شروع ہو گا۔
حضرت مسیح کا مسیحیوں کی مزعومہ صلیبی موت کے بعد دوزخ میں جانا اور گویا اُن کی موت کی *** کے اثر کے نیچے ہونا انجیل نقودیمس کے باب ۲۱ سے ثابت ہے۔ نیز اپطرس ۱۸م۲۰؍۳ میں لکھا ہے۔ ’’کیونکہ مسیح نے بھی ایک بار گناہو ںکے واسطے دکھ اٹھایا یعنی راستباز نے ناراستوں کے لئے۔ تاکہ وہ ہم کو خدا کے پاس پہنچائے۔ کہ وہ جسم کے حق میں تو مارا گیا لیکن روح میں زندہ کیا گیا جس میں ہو کے اس نے ان روحوں کے پاس جو قید تھیں جا کے منادی کی جو آگے نافرمانبردار تھیں۔ جس وقت کہ خدا کا صبر نوح کے دنو ںمیں جب کشتی تیار ہوتی تھی انتظار کرتا رہا۔‘‘
بائبل کی تفسیر میں جو متھیو پول MATTHEW POOL کی تصنیف شدہ ہے قید مراد دوزخ لیا گیا ہے۔
(تفسیر بائبل مصنفہ متھیوپول جلد صفحہ ۳ صفحہ ۹۱۱)
پانچوان ستون مذہب کا خود انسان کا وجود ہے کیونکہ وہ مہبط وحی ہے۔ اس ستون کو بھی بعض مذاہب نے گرانے کی کوشش کی ہے۔ مثلاً مسیحی مذہب کہتا ہے کہ انسانی روح آدم علیہ السلام کے گناہ کی وجہ سے گنہگار ہو گئی ہے او رانسان طبعاً میلان گناہ رکھتا ہے۔ رومیوں باب ۵ میں لکھا ہے۔ ’’پس جس طرح ایک آدمی کے سبب سے گناہ دنیا میں آیا۔ اور گناہ کے سبب سے موت آئی اور یوں موت سب آدمیوں میں پھیل گئی۔ اس لئے کہ سب نے گناہ کیا۔‘‘ (آیت ۱۲)
او رہندو مذہب بھی ظاہر کرتا ہے کہ گویا انسان تمام کوششوں کے باوجود پاک نہیں ہو سکتا اور بار بار جونوں میں ڈالا جاتا ہے۔
(ستیارتھ پرکاش مصنفہ پنڈت دیانند جی بانی آریہ سماج ب ۹)
قرآن کریم نے ان مذاہب کے برخلاف انسانی فطرت کی براء ت کی ہے اور وہ فرماتا ہے۔ وَنَفْسٍ وَّمَاسَوّٰھَا فَاَ لْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْو ٰھَا قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا وَقَدْخَابَ مَنْ دَسّٰھَا( الشمس ۱۶ ع ۱) یعنی ہم نفسِ انسانی کو بطور شہادت کے پیش کرتے ہیں کہ اسے ہم نے سب عیوب سے پاک پیدا کیا ہے اور اس کی فطرت میں نیکی اور بدی کے پہچاننے کی طاقت رکھی ہے۔ چنانچہ جو شخص اپنی روح کو بیرونی ملونیوں سے پاک رکھتا ہے وہ کامیاب ہو جاتا ہے اور جو شخص اس کی جبلی پاکیزگی کو دنیاوی آلائشوں سے گدلا کر دیتیا ہے اور اسے اس کے اعلیٰ مقام سے نیچے گرا دیتا ہے وہ ناکام ہو جاتا ہے یعنی انسانی روح اصل میں پاکیزگی لے کر آتی ہے اور بعد میں لوگ اُسے گندہ کر دیتے ہیں۔ یہ نہیں کہ آدم یا کسی اور کے گناہ کی وجہ سے وہ ناپاک ہو گئی ہے۔ اسی طرح تناسخ کے چکر کا اس طرح ردّ کرتا ہے کہ اَلَّذِیْنَ تَتَوَ فّٰھُمُ الْمَلآَئِکَۃُ طَیِّبِیْنَ یَقُوْلُوْنَ سَلَامٌ عَلَیْکُمُ ادْخلوا ابعنۃ بما کنتم معملون (النحل ۱۰ ع ۴) یعنی وہ لوگ جن کی جان فرشتے اس حالت میں نکالتے ہیں کہ وہ پاک ہوتے ہیں فرشتے اُن سے کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے دائمی سلامتی تم کو ملیگی (سلام کا لفظ جو اسم ہے دائمی سلامتی پر دلالت کرتا ہے) جائو اور اپنے اعمال کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی جنت میں داخل ہو جائو۔ اسی طرح فرماتا ہے کہ وَاَمَّا الَّذِیْنَ سُعِدُ وْافِفِی الْجَنَّۃِ خَالِدِیْنَ فِیْھَا مَادَا امَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اِلَّامَاشَٓائَ رَبُّکَ عَطَائً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ (ہود ۹ ع ۹) یعنی جو لوگ سعید اور نیک ہونگے وہ جنت میں جائیں گے اس میں جنت کے آسمان زمین کے قیام تک اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع رہتے چلے جائیں گے۔ پھر فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مشیئت کا فیصلہ بھی کر دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ ان کو کبھی جنت سے نہیں نکالے گا اور اُن کو ایسا انعام بخشے گا جو کبھی بند نہ ہو گا۔
اس آیت سے انسانی فطرت کے اس حق کو جو دائمی نجارت کے متعلق ہے اور جسے آریہ صاحبان نے تناسخ کے عقیدہ سے باطل کر دیا ہے، قائم کر دیا گیا ہے۔
خلاصہ یہ کہ تمام اہم ہور جو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اُن کے متعلق جو جو تہمتیں مختلف مذاہب کے پیرووں یا فلاسفروں نے لگائی تھیں اسلام نے ان کو دُور کیا ہے اور ہر اک تہمت سے خدا تعالیٰ کو ملائکہ کو کلام الٰہی کو انبیاء کو اور فطرتِ انسانی کو بری کیا ہے اور یہ ایسی خوبی ہے جو اور کسی کتاب میں اس کی موجودہ حالت میں نہیں پائی جاتی اور صرف قرآن کریم ہی ہ جو سب تہمتوں سے ان مبارک وجودوں اور اصولوں کو پاک کرتا ہے جو مذہب کے لئے بمنزلہ ستون کے ہیں اور یہ ایسا امر ہے کہ اگر قرآن کریم اس کے سوا اور کوئی کام نہ بھی کرتا تو صرف یہی کام دوسرے ادیان کی موجودگی کے باوجود اس کی ضرورت کو ثابت کرنے کے لیے کافی تھا۔
ظاہر ہے کہ جس کے دل میں خدا تعالیٰ کی نسبت بدظنی ہو گی اور وہ اس کی طاقتوں کے بارہ میں شک میں ہو گا وہ اس سے کامل تعلق پیدا کر کے اس کی بے پایاں رحمت سے فائدہ نہیں اُٹھا سکے گا۔ اور جو ملائکہ کی نسبت بدظن ہو گا وہ ملائکہ سے تعلق جوڑ کر ان کی پاکیزہ تحریکوں سے فائدہ نہ اٹھا سکے گا۔ اور جو انبیاء سے یا اُن میں سے کسی سے بدظن ہو گا اور وہ ان کے اعلیٰ نمونہ سے فائدہ نہ اُٹھا سکے گا۔ اور جو کلام الٰہی کے متعلق شبہ میں ہو گا وہ اس کی پاک کرنے والی تاثیرات سے محروم رہے گا۔ اور جو انسانی فطرت سے بدظن ہو گا وہ اپنے نفس کو پاک کرنے کی جدوجہد میں اس عزم اور ارادہ سے محروم رہے گا جو پاکیزگی کے حصول کے لئے ضروری ہے۔ پس لَارَیْبَ فِیْہِ کے مطابق تعلیم دے کر قرآن کریم نے انسان کو نیکی کے سر چشموں سے فائدہ اٹھانے، نیک نمونوں کو خضرِ راہ بنانے اور نہ ٹوٹنے والی امید کو اپنے دل میں جگہ دینے کی ایک ایسی راہ کھول دی ہے جو اس کی نجات کی ضامن اور اس کی کامیابی کی کفیل ہو جاتی ہے۔
جیسا کہ بتایا جا چکا ہے رَیْب کے دوسرے معنے شک کے ہیں۔ پس لَارَیْبَ فِیْہِ کے یہ معنے بھی ہیں کہ قرآن کریم کی صداقت کا ایک مزید ثبوت اور اس کی ضرورت حقہ کا ایک زبردست گواہ یہ ہے کہ اس میں کسی قسم کا شک نہیں۔
جو لوگ عربی زبان سے ناواقف ہونے کے باوجود قرآن کریم پر اعتراض کرنے میں جلدی کرتے ہیں انہوں نے اس جملہ کے صرف یہی معنے کئے ہیں اور پھر اس پر یہ اعتراض کیا ہے کہ قرآن کریم نے یہ دعویٰ کر کے کہ اس میں کوئی شک نہیں گویا خود اپنے مشکوک ہونے کا اعتراض کیا ہے کیونکہ جب دل میں چور نہ ہوتو انسان کو یہ خیال ہی نہیں ہو سکتا کہ لوگ مجھ پر جھوٹا ہونے کا الزام لگائیں گے (ویری بحوالہ رومن قرآن) اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اس نادان معترض کو یہ بھی معلوم نہیں کہ سورۂ بقرہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی ابتدائی وحی نہیں ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ اپنے دل کے خدشہ کی وجہ سے سے شک کی نفی کی گئی ہے بلکہ یہ سورۃ تو مدینہ منورہ میں نازل ہوئی ہے جبکہ قرآن کریم کو نازل ہوتے ہوئے تیرہ سال سے زائد گذر چکے تھے اور اس عرصہ میں کفار ہزاروں شبہات قرآن کریم کے بارہ میں پیش کر چکے تھے۔ پس اس قدر عرصہ تک دشمنوں کے اعتراضات لینے کے بعد بھی اگر قرآن کریم کا حق نہیں کہ وہ یہ کہے کہ اس میں کوئی شک کی بات نہیں تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ جو سچا ہو اُسے کبھی یہ نہیں کہنا چاہیے کہ وہ سچا ہے ورنہ اس کی سچائی میں شک پڑ جائیگا۔ یہ دعویٰ بالبداہت باطل ہے اور کبھی کسی عقلمند نے اسے قبول نہیں کیا نہ کبھی کسی صادق نے اس پر عمل کیا ہے اور یہ نکتہ صرف رومن قرآن کے مصنف کے ہی ذہن میں آیا ہے اور ریورنڈویری ہی ایک ایسے شخص ہیں جن کو اس خلاف عقل دعویٰ کی تصدیق کی توفیق ملی ہے۔
مگر افسوس ہے کہ ان دونوں پادریوں کو خود اپنی مذہبی کتب پر غور سے مطالعہ کرنے کا کبھی موقعہ نہیں ملا۔ اگر وہ اپنی مذہبی کتب کا غور سے مطالعہ کرتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ وہ یہ اعتراض قرآن کریم کی صداقت کے خلاف نہیں کر رہے بلکہ خود اپنی کتب کے خلاف کر رہے ہیں چنانچہ مندرجۂ ذیل حوالے جو بہت سے حوالوں میں سے چند ہیں ثابت کرتے ہیں کہ بالکل اس قسم کے محاورات بائبل میں بھی استعمال ہوئے ہیں۔ ا مثال ۸؍۸ ’’میرے منہ کی ساری باتیں صداقت سے ہیں ان میں کچھ ٹیڑھا ترچھا نہیں۔‘‘ بیعیاہ ۱۹؍۴۵ ’’میں خداوند سچ کہتا ہوں اور راستی کی باتیں فرماتا ہوں۔‘‘ تمطائوس (۱) طیطس ۸؍۳ ’’یہ بات سچ ہے۔‘‘ مکاشفات ۵؍۲۱، ۶؍۲۲ ’’یہ باتیں سچ اور برحق ہیں۔‘‘
ان حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ اپنی سچائی پر زور دینے کے لئے عہد نامہ قدیم اور جدید دونوں نے بالکل قرآن کریم کے مشابہ الفاظ استعمال کئے ہیں۔ اور اگر اس قسم کے محاوروں کے استعمال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قائل اپنی سچائی کی نسبت شبہ رکھتا ہے تو یہ شبہ بہت زیادہ مصنفین عہد نامہ قدیم اور جدید کے دل میں پایا جاتا تھا۔ مگر حق یہ ہے کہ یہ اعتراض نہ بائبل پر پڑتا ہے نہ قرآن کریم پر۔ کیونکہ جب شبہات پیش کئے جائیں تو اپنے دعویٰ کی سچائی پر زور دینے کے لئے ایسے کلمات کا استعمال شک پر نہیں بلکہ یقین پر دلالت کرتا ہے۔ اور قرآن کریم میں یہ الفاظ ابتدائی سورتوں میں استعمال نہیں کئے گئے بلکہ ایک لمبے عرصہ کی محالفت کے بعد استعمال کئے گئے ہیں۔
اوپر کا جواب امر واقعہ کے لحاظ سے ہے ورنہ میرے نزدیک اس کتاب میںجو عالم الغیب خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہو اگر شروع میں بھی ایسے کلمات پائے جائیں تو کسی شک پر دلالت نہیں کرتے۔ کیونکہ گو بندہ نہیں جانتا کہ اس کے دعویٰ کو لوگ کس نگاہ سے دیکھیں گے مگر خدا تعالیٰ تو جانتا ہے ہ اُس کے نازل کردہ کلام سے لوگ کس طرح پیش آئیں گے اور وہ اپنے علم کی بنا ئپر ایسے کلمات شروع میں ہی استعمال کر سکتا ہے او راس کا ایسا کرنا اس کے متشکک ہونے کا ثبوت نہ ہو گا بلکہ اس کے عالم الغیب ہونے کا ثبوت ہو گا۔
اوپر کے جوابات اس امر کو تسلیم کر کے دئے گئے ہیں کہ لَارَیْبَ فِیْہِ کا فقرہ محض صداقت قرآن کریم کی تاکید کیلئے استعمال ہوا ہے۔ مگر میرے نزدیک ریب کے معنے اگر صرف شک کے کئے جائیں تو اس صورت میں بھی یہ صرف صداقت کی تاکید کے طور پر استعمال نہیں ہوا بلکہ اپنے اندر مزید صداقتیں رکھتا ہے جو قرآن کریم کے سچے ہونے کے دلائل پر مشتمل ہیں چنانچہ ’’اس میں کوئی شک نہیں‘‘ کے ایک تو یہ معنے ہیں کہ یہ کلام ضرور سچا ہے اور دوسرے معنے اس کے یہ بھی ہیں کہ اس میں کوئی شکی بات نہیں۔
میں حل لغات کے موقعہ پر ثابت کر چکا ہوں کہ ریب اس شک کو نہیں کہتے جو تحقیقی کے راستہ میں حمد ہوتا ہے اور جس پر علمی ترقی کا مدار ہے بلکہ ریب اس شک کو کہتے ہیں جو بلاوجہ اور بدظنی پر مبنی ہو اور ان معنوں کی رُو سے ’’اس میں کوئی ریب نہیں‘‘ کے یہ معنے ہوئے کہ قرآن کریم میں کوئی ایسی بات نہیں جو بدظنی اور صداقت کے انکار پر مشتمل ہو یعنی اس میں جس قدر امور ہیں وہ تحقیقی ہیں ظنی نہیں۔ اور یہ امر ظاہر ہے کہ قرآن کریم کا یہ دعویٰ کہ اس میں جس قدر امور ہیں تحقیقی ہیں ظنی نہیں کوئی معمولی دعویٰ نہیں بلکہ اگر یہ دعویٰ ثابت ہو جائے تو اس سے قرآن کریم کی صداقت پر ایک زبردست شاہد مہیا ہو جاتا ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن میں جس قدر امور بھی بیان کئے گئے ہیں سب کے لئے دلائل مہیا کئے گئے ہیں۔ مثلاً بائبل وید اور دیگر کتب خدا تعالیٰ کے وجود کو پیش کرتی ہیں مگر اس کو ایک دعویٰ کے طو رپر پیش کرتی ہیں اس کے لئے کوئی دلیل نہیں دیتیں۔ مگر قرآن کریم اگر خدا تعالیٰ پر ایمان لانے کا حکم دیتا ہے توایسا مطالبہ کرنے کی تائید میں دلائل بھی دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے وجود کو زبردست شواہد سے ثابت کرتا ہے۔ اسی طرح اگر وہ ملائکہ پر ایمان لانے کا حکم دیتا ہے تو ملائکہ کے موجود ہونے کا ثبوت بھی دیتا ہے۔ اگر وہ قبولیت دعا کا عقیدہ پیش کرتا ہے تو اس کی تائید میں دلیلیں بھی دیتا ہے۔ اگر انبیاء پر ایمان لانے کو کہتا ہے تو ان کی صداقت کے ثبوت بھی بہم پہنچاتا ہے۔ اگر بعث بعد الموت منواتا ہے تو اس عقیدہ کو براہین تو یہ سے ثابت بھی کرتا ہے۔ غرض کوئی ایسا عقیدہ نہیں جسے قرآن کریم پیش کرتا ہو اور اس کی صداقت کے ثبوت میں اس نے دلائل بھی نہ دئے ہوں۔ چنانچہ ان امور کی تفصیل قرآن کریم کی مختلف آیات کی تفسیر میں آگے چل کر بیان ہو گی۔ پس لَارَیْبَ فِیْہ کہہ کر قرآن کریم نے اس امر کو پیش کیا ہے کہ گو قرآن کریم ایک کامل کتاب ہے یعنی ہر ضروری امر کے متعلق اس میں بحث کی گئی ہے پھر بھی وہ ظنی اور شکی امور کو پیش نہیں کرتا بلکہ ہر امر کی دلیل ساتھ دیتا ہے اور تحقیق کے ساتھ ہر مسئلہ کو پیش کرتا ہے اور یہ امر قرآن کریم کی افضلیت کا ایک زبردست ثبوت ہے کیونکہ یہ امر تو آسان ہے کہ ایک دو امور جو تحقیقی طور پر ثابت ہو چکے ہوں ان کو با دلائل بیان کر دیا جائے لیکن یہ امر نہایت مشکل ہے کہ ہر ضروری امر کے متعلق بحث بھی کی جائے اور پھر ہر بات کا دلائل کے ساتھ ثابت بھی کیا جائے اور ظن اور گمان کی دح سے نکال کر یقین اور وثوق کے مقم پر کھڑا کر دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ جو کتاب اپنے تمام دعاوی کو اس طرح پیش کرے گی اس کے سچا ہونے میں کسی منصف مزاج کو شک اور تردد نہ ہو سکے گا۔
لَارَیْبَ فِیْہ کے ایک معنے یہ بھی ہیں کہ قرآن کریم کے محفوظ ہونے میں کوئی شک نہیں اور ذَالِکَ الْکِتَابُ کے بعد یہ الفاظ اس مضمون پر دلالت کرتے ہیں کہ اس کتاب کے بعد کوئی اور کتاب نازل نہ ہو گی اور یہ دنیا کے لئے آخری ہدایت نامہ ہے۔ کیونکہ جیسا کہ بتایا جا چکاہے ذَالِکَ الْکِتٰبُ کا ایک مفہوم یہ ہے کہ یہ کام کتاب ہے اور تمام انسانی ضروریات کے پورا کرنے کا سامان اس میں موجود ہے اس قسم کی کتاب کے بعد دوسری کتاب اسی صورت میں نازل ہو سکتی ہے جب وہ محفوظ نہ رہے۔ کیونکہ نئے قانون کی دو ہی صورت میں ضرورت ہوتی ہے یا تو اس وقت جبکہ پہلا قانون ناقص ہو اور کسی وقت جا کر لوگوں کی ضروریات کے پورا کرنے سے قاصر ہو جائے یا پھر اس صورت میں کہ پہلا قانون دنیا سے کلی طور پر یا جزوی طور پر مفقود ہو جائے اور اسے دوبارہ تازہ کرنے کی ضرورت ہو سوذَالِکَ الْکِتٰبُ کے بعد لَارَیْبَ فِیْہِ فرما کر یہ بتایا کہ یہ کامل کتاب ہمیشہ زمانہ کی دست بُرد سے محفوظ رہے گی اور کوئی زمانہ ایسا نہ آئے گا کہ اس کے بارہ میں یہ شک کیا جا سکے کہ آیا اس کے الفاظ وہی ہیں جو کسی وقت میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئے تھے یا ان میں کوئی تغیر تبدل ہو گیا ہے؟ اور چونکہ ایسا زمانہ اس پر کوئی نہ آئے گا یہ کتاب منسوخ نہ ہو گی اور آئندہ سب زمانوں میں اسی کے مطابق لوگوں کو رُوحانی زندگی بسر کرنی پڑے گی۔ یہ مفہوم بھی قرآن کریم کی ایک زبردست خوبی پر دلالت کرتا ہے اور آج بھی جبکہ قرآن کریم کے نزول پر تیرہ سو سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے دوست تو الگ رہے دشمن بھی اس کے محفوظ ہونے کی شہادت دیتے ہیں۔ اور قرآن کریم اندرونی اور بیرونی شواہد بھی ایسے رکھتا ہے جو اُس کے محفوظ ہونے پر گواہ ہیں۔ چنانچہ سرولیم میور جیسا شحص بھی اس کے بارہ میں گواہی دیتا ہے کہ:
THERE IS OTHERWISE EVERY SECURITY INTERNAL AND EXTERNAL THAT WE POSSESS THAT TEXT WHICH MOHAM-MAD HIMSELF GAVE FORTH AND USED.
یعنی ’’ہمارے پاس ہر ایک قسم کی ضمانت موجود ہے۔ اندرونی شہادت کی بھی اور بیرونی کی بھی۔ کہ یہ کتاب جو ہمارے پاس ہے۔ وہی ہے جو خود محمد (صلے اللہ علیہ وسلم) نے دنیا کے سامنے پیش کی تھی اور اُسے استعمال کیا کرتے تھے۔‘‘
(لائف آف محمد)
قرآن کریم کی یہ فضیلت ایسی ہے جو دوسری کتب کے مقابلہ پر اس کی ضرورت کو روز روشن کی طرح ثابت کر دیتی ہے کیونکہ جس کلام کے محفوظ ہونے میں شک پڑ جائے اس پر عمل کرنے کے لیے انشراح صد رپیدا نہیں ہوتا اور مذہب کیلئے کامل انشراح کا ہونا ضروری ہے۔
بے شک قرآن کریم کے وقت میں عہد نامہ قدیم موجود تھا عہد نامہ جدید موجود تھا۔ وید موجود تھے۔ ژند اور اس کی شرح اوستا موجود تھی۔ مگر ان میں سے ایک کتاب بھی تو نہ تھی جو اس طرح محفوظ ہو جس طرح کہ وہ نازل ہوئی تھی۔ ژند اوستا کے متعلق تو خود پارسی بھی مقر ہیں کہ اس کے بہث سے حصے ضائع ہو چکے ہیں اور موجودہ ژند ایسی نامکمل صورت میں ہے کہ اس کے غیر محفوظ ہونے میں کوئی شک ہی نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ انسائیکلو پیڈیا آف ایلیجن اینڈ ایتھکس جلد ۲ صفحہ ۲۶۷ پر لکھا ہے کہ شاہ یساسپ (VISHTASPA) زر تشت مذہب کا سر پرست تھا۔ اوستا کے دو نسخے سنہری حروف میں لکھوا کرا صطخرہ اور سمرقند میں رکھوائے ہوئے تھے۔ لیکن ۳۳۰ قبل مسیح سکندر کے حملہ کے دوران میں وہ دونوں نسخے تباہ کر دیئے گئے اور سکندراعظم کی تاخت و تاراج نے رر تشتی مذہب کی طاقت کو توڑ دیا۔ اور ان پانچ صدیوں میں جو اس کے بعد آئیں۔ سیلیسڈ SELEUCIDاور پارتھینPARTHIANکا عہد حکومت زر تشتی مذہب کی تاریخ میں تاریکی اور پستی کا زمانہ ہے جس کے نتیجہ میں اصل مذہبی کتابوں کا بہت بڑا حصہ ضائع ہو گیا۔ باوجود اس غفلت کے جو اس کے نتیجہ میں پیدا ہوئی۔ مذہبی کتب کے معتدبہ حصے متفرق کتابوں میں اور علماء کے حافظہ میں یاد رہے۔
وید بھی غیر محفوظ ہیں اُن کے مختلف نسخے آپس میں اس قدر اختلاف رکھتے ہیں کہ اُن کے متغیر ہونے کی ایک کھلی دلیل ہیں حتیٰ کہ منتروں کے منتر بعض نسخوں میں موجود ہیں اور بعض میں نہیں اور بعض میں عبارت کسی طرح ہے اور بعض میں کسی طرح ہے چنانچہ زمانہ قدیم کے ہندو علماء میں سے ایک عالم نے آج سے کئی صدیاں قبل وید کے محروم ہونے کے متعلق ان الفاظ میں گواہی دی ہے کہ ’’وید بیاس نے تودو اپریگ میں چاروں ویدوں کا ذکر کیا ہے لیکن رشیوں کی اولاد نے علم کی خامی کی وجہ سے ویدو ں کو ایک دوسرے سے مختلف بنا دیا۔ کہیں منتروں کے ساتھ براہمن بھاگ (تفسیری حصہ) شامل کر دیا۔ اور کہیں اعراب اور الفاظ کے فرق سے رگ یجر اور سام وید کو کئی طرح کا بنا دیا۔ بعض جگہ ازراہِ تشریح و عام خیالات کے ذریعہ۔ نیز کلپ سوتروں کو ایشوری کلام میں شامل کر کے انہیں مختلف شکلوں میں تبدیل کیا گیا ہے‘‘ (کورم پوران پُورو آردھ۔ ادھیائے صفحہ ۲۰ شلوک صفحہ ۴۴ نا صفحہ ۴۶) ویدوں کے غیر محفوظ ہونے کے متعلق جو کچھ اُوپر لکھا گیا ہے اس کی تائید زمانہ حال کے ہندو اور آریہ سماجی پنڈت بھی کرتے ہیں جس سے وید کی موجودہ حالت کا پتہ لگتا ہے ۔ چنانچہ پنڈت جے دیو شرما اپنے سام وید بھاش (تفسیر) کے صفحہ ۲۹۵ میں لکھتے ہیں کہ ’’سام وید کے کئی نسخوں میں آرنیکت کانڈ (باب) نہیں ہے۔‘‘ اسی طرح پنڈت تلسی رام سوامی اپنے سام وید بھاش جلد صفحہ ۲ صفحہ ۸۳۴ میں لکھتے ہیں کہ ’’سام وید کا جو نسخہ پنڈت ستیہ برت سام شرمی نے شائع کیا ہے اس میں ’’مہانامی منی سوکت‘‘ نہیں ہیں حالانکہ یہ آرنیک کا نڈ ار صانامنی سوکت آریوں کے شائع کردہ نسخہ مطبوعہ اجمیر میں موجود ہیں۔ مگر جو سام وید بنار س میں شائع ہوا ہے اس میں یہ دونوں باب نہیں پائے جاتے۔ ان دونوں میں ۶۵ منتر ہیں جو بعض نسخوں میں ہیں اور بعض میں نہیں یہی حالت رگوید، یجروید اور اتھروید کی ہے۔ چنانچہ اتھروید کی تحریف کے متعلق پنڈت ویدک منی نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے کہ ’’حقیقت میں جتنی بری حالت اتھروید کی ہوئی ہے اتنی اور کسی ویدکی نہیں ہوئی سائن آچاریہ کے بعد بھی کئی سوکت (باب) اس میں شامل کئے گئے ہیں۔‘‘ (وید ستر دسو صفحہ ۹۷)
تورات بھی اپنے غیر محفوظ ہونے پر شاہد ہے مثلاً تورات میں جو حضرت موسیٰ کی کتاب ہے لکھا ہے۔ ’’سو خداوند کا بندہ موسیٰ خداوند کے حکم کے موافق مو آب کی سر زمین میں مر گیا اور اُس نے اُسے مو آب کی ایک وادی میں بیت ففور کے مقابل گاڑا۔ پر آج کے دن تک کوئی اس کی قبر کو نہیں جانتا۔‘‘ (استثنا باب ۳۴ آیت ۵،۶) پھر آیت۱۰ میں لکھا ہے کہ ’’اب تک بنی اسرائیل میں موسیٰ کی مانند کوئی نبی نہیں اٹھا جس سے خداوند آمنے سامہنے آشنائی کرتا۔‘‘
اب ہر اک شخص سمجھ سکتا ہے کہ موسیٰ پر یہ کلام نازل نہیں ہو سکتا تھا کہ پھر موسیٰ مر گیا اور اب تک اس جیسا شحص کوئی پیدا نہیں ہوا۔ ضرور ہے کہ یہ فقرہ تورات میں موسیٰ کی وفات کے لمبے عرصہ بعد بڑھایا گیا ہو۔
واضح الحاقی عبارتوں کے علاوہ بائبل میں ایسے اختلافات بھی پائے جاتے ہیں جن کی موجودگی میں کسی صورت میں بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کتاب اس شکل میںموجود ہے جس شکل میں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کے کلام میں اختلاف نہیں ہو سکتا۔ مثال کے طور پر اختلافات ذیل میں درج کئے جاتے ہیں۔
پیدائش باب ۱ میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے حشرات الارض اور جنگلی جانور پیدا کئے اور اس کے بعد انسان کو پیدا کیا۔ (آیت ۶۴ و ۲۵،۲۶) لیکن پیدائش باب ۲ میں لکھا ہے کہ آدم کی پیدائش کے بعد جانور اور آسمان کے پرندوں کو بنایا گیا۔ آیت ۱۹ اسی طرح حضرت نوح علیہ السلام کے متعلق پیدائش باب ۷ میں لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو کہا کہ سب پاک جانوروں میں سے سات سات نر اور ان کے مادے اپنی کشتی میں رکھ لے اور نوح نے ایسا ہی کیا (آیت او ۲، ۵) لیکن اسی بات کی ۸ اور ۹ آیت میں لکھا ہے کہ پاک چار پایوں میں سے دو دو نر اور مادے نوح کی کشتی میں داخل ہوئے جیسے کہ خدا نے فرمایا تھا۔ گویا ایک ہی جگہ پر دو تین آیتوں کے فرق پر اس قدر اختلاف پیدا ہو گیا ہے۔ دو تین آیتوں پہلے تو کہا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ نے سات سات جانور رکھنے کا حکم دیا اور نوح نے سات سات جانور ہی رکھے۔ لیکن دو تین آیتوں بعدیہ کہا گیا ہے کہ خدا نے دو دو جانور رکھنے کا حکم دیا تھا اور نوح علیہ السلام نے دو دو جانور ہی رکھے۔ اس قسم کے میسیوں اختلافات تورات میں پائے جاتے ہیں جس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب اس شکل میں موجود نہیں جس شکل میں کہ موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی ورنہ ایسے صریح اختلافات پائے نہ جاتے۔
انا جیل کی بھی یہی حالت ہے اول تو اس امر کا ہی کوئی ثبوت نہیں کہ کون سی انجیل الہامی ہے اور کون سی نہیں کیونکہ اناجیل کئی ہیں۔ ان میں سے ہلاک کسی دلیل کے محض قرعہ ڈال کر چار انجیلوں کا انتخاب کر لیا گیا ہے اور یہ فیصلہ کر دیا گیا ہے کہ یہ زیادہ معتبر ہیں۔ پھر جو چار انجیلیں منتخب کر کے بنیادی کتب قرار دی گئی ہیں ان میں بھی مسیح کا کلام بہت تھوڑا ہے اور خدا تعالیٰ کا کلام تو اس میں کوئی ہے ہی نہیں ہاں مسیح کی زبانی چند فقرات خدا تعالیٰ کی طرف منسوب ملتے ہیں۔ پس حقیقتاً ذخدا تعالیٰ کا الہام خواہ اس کے الفاظ میں ہو یا مسیح کے الفاظ میں انا جیل میں بہت کم ہے۔ ہاں تاریخی واقعات پر یہ کتاب مشتمل ہے جو کسی صورت میں الہام نہیں کہلا سکتے۔ بلکہ صرف بعض مورخوں کا نقطہ نگاہ ہے مگر اسی پریس نہیں ان اناجیل میں بھی کہ جو عہد نامہ جدید میں شامل کی گئی ہیں (۱) شدید اختلاف ہے اور (۲) اس کے مختلف زمانوں کے ترجموں میں بھی باہم شدید اختلاف ہے۔
پہلے دعویٰ کی تائید میں مندرجہ ذیل مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ متی باب ۱۰ آیت ۹، ۱۰ میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح ؑ نے حواریوں کو یہ نصیحت کی کہ ’‘نہ سونا، نہ روپا، نہ تائیا اپنے کمر بندوں میں رکھو راستے کے لئے نہ جھولی نہ دو کرتے نہ جوتیاں نہ لاٹھی لو‘‘ لیکن مرقس باب ۶ میں حضرت مسیح کی نصیحت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے ’’اور حکم کیا کہ سفر کے لیے سوالاٹھی کے کچھ نہ لو نہ جھولی، نہ روٹی، نہ اپنے کمر بند میں پیسے۔ مگر جوتیاں پہنو پردہ کرتے مت پہنو‘‘ (آیت ۸،۹) یہ کیسا صریح اختلاف ہے۔ متی کا بیان ہے کہ مسیح نے کہا نہ جوتی لو نہ لاٹھی لومرقس کہتا ہے کہ مسیح نے یوں کہا کہ لاٹھی کے سوا کچھ نہ لو ہاں جوتی ضرور پہنو۔اسیطرح متی باب ۶۷ آیت ۴۴ میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح کو صلیب کے موقعہ پر ان کے دو نو مصلوب ساتھیوں نے ملامت کی اور طعنے دئے۔ مرقس باب ۱۵ آیت ۳۹، ۴۰ میں لکھا ہے کہ ان چوروں میں سے جو اس کے ساتھ صلیب دئے گئے ایک نے اُسے طعنہ دیا لیکن دوسرے نے نہ صرف یہ کہ طعنہ نہیں دیا بلکہ طعنہ دینے والے کو ملامت کی۔ چنانچہ لکھا ہے کہ ان دو صلیب والوں میں سے ایک چور نے مسیح سے کہا ’’کہ اگر تو مسیح ہے تو آپ کو اور ہم کو بچا۔ دوسرے نے اُسے ملامت کر کے جواب دیا۔ کیا تو بھی خدا سے نہیں ڈرتا جس حال کہ اسی سزا میں گرفتار ہے‘‘ پھر آگے لکھا ہے ’’اور اُس نے یسوع سے کہا اے خداوند جب تو اپنی بادشاہت میں آوے مجھے یاد کیجئو‘‘ (آیت ۴۲) اس پر یسوع نے اُسے کہا کہ میں تجھ سے سچ کہتا ہوں کہ آج تو میرے ساتھ بہشت میں ہو گا‘‘ (آیت ۴۳) اسی طرح مرقس باب ۱۵ آیت ۲۵ میں لکھا ہے کہ مسیح کو صلیب تیسرے گھنٹے میں دی گئی۔ لیکن یوحنا باب ۱۹ آیت ۱۴ میں لکھا ہے کہ چھٹی گھڑی تک ابھی مسیح پیلا طوس کی کچہری میں موجود تھا۔ اسی طرح متی باب ۶۷ آیت ۵ میں لکھا ہے کہ یہوداہ اس کر یوطی جس نے مسیح علیہ السلام کو پکڑ وایا تھا۔ اُس نے پھانسی کے ذریعہ خود کشی کر لی لیکن اعمال باب ۱ آیت ۱۸ میں لکھا ہے کہ وہ اوندھے منہ گر گیا اس کا پیٹ پھٹ گیا اور اس کی ساری انتڑیاں نکل گئیں۔ اسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب دئے جانے کے دوسرے دن کے متعلق اناجیل میں عجیب و غریب اختلاف پایا جاتا ہے۔ یوحنا باب ۲۰ آیت ۱ میں لکھا ہے کہ ہفتہ کے پہلے دن (یعنی اتوار کو) مریم میگدلینی قبر پر آئی لیکن متی باب ۲۷ آیت ۱ میں لکھا ہے کہ سبت کے بعد (یعنی اتوار کے دن) پوپھٹنے کے بعد مریم میگدلینی اور دوسری مریم اس کی قبر کو دیکھنے آئیں۔ یعنی قبر پر آنیوالی دو عورتیں تھیں۔ مرقس باب ۱۶ آیت ۱ میں سا سے بھی اختلاف کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اتوار کے دن مریم میگدلینی یعقوب کی ماں مریم اور سلومی یعنی تین عورتیں قبر پر آئیں۔ لیکن لو قا باب ۶۴ آیت ۱۰ میں کہا گیا ہے کہ مریم میگدلینی اور یوحنا اور مریم یعقوب کی ماں اور اَور عورتیں ساتھ تھیں۔ اور یہ سب مل کر قبر پر گئیں۔ گویا ہر ایک انجیل دوسری انجیل کے مخالف بیان دے رہی ہے۔ یوحنا ایک عورت کا جانا بیان کرتا ہے۔ متی دو عورتوں کا جانا بیان کرتا ہے۔ مرقس تین عورتوں کا جانا بیان کرتا ہے۔ اب یہ کیونکر تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ یہ سب کلام خدا تعالیٰ کا ہے۔ یہ اور اسی قسم کے بہت سے اختلافات اناجیل میں پائے جاتے ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ موجودہ اناجیل شک و شبہ سے خالی نہیں۔
دوسرے دعویٰ کی تائید میں مندرجہ ذیل مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ متی باب ۱۷ میں ایک آیت نمبر ۲۱ یوں ہوا کرتی تھی۔ ’’مگر اس طرح کے دیو بغیر دعا و روزہ کے نہیں نکالے جاتے۔‘‘ ۱۹۳۰؁ء کے پہلے کی تمام اناجیل میں یہ آیت پائی جاتی تھی مگر ۱۹۳۰؁ء اور اس کے بعد کی اناجیل میں سے یہ آیت کی آیت ہی نکال دی گئی۔ متی باب ۱۹ آیت ۱۷ کے الفاظ پہلے انا جیل میں یوں ہوا کرتے تھے ’’تو کیوں مجھے نیک کہتا ہے‘‘ لیکن ۱۹۳۰؁ء کی اناجیل میں اس فقرہ کو بدل کر یوں کر دیا گیا ہے ’’تو مجھ سے نیکی کی بات کیوں پوچھتا ہے‘‘ متی باب ۲۳ میں ایک آیت ۱۴ ہوا کرتی تھی جس کے الفاظ یوں تھے ’’اے ریا کار فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس کہ بیوائوں کے گھر نگل جاتے اور مکر سے لمبی نمازیں پڑھتے ہو اس سبب سے تم زیادہ تر سزا پائو گے۔‘‘ ۱۹۳۰؁ء کے نسخوں میں سے یہ آیت بالکل نکال دی گئی ہے۔ متی باب ۲۷ میں ایک آیت ۳۵ ہوتی تھی جس کے الفاظ یہ تھے ’’تاکہ جو نبی نے کہا تھا پورا ہو۔ کہ انہوں نے میرے لباس آپس میں بانٹ لئے اور میرے لباس پر چٹھی ڈالی۔‘‘ مگر یہ آیت ۱۹۳۰؁ء کے نسخوں میں موجود نہیں۔ یوحنا باب ۵ میں ایک آیت ۴ ہوتی تھی جس کے الفاظ یہ تھے ’’کیونکہ ایک فرشتہ بعضے وقت اس حوض میں اُتر کے اس پانی کو ہلاتا تھا۔ او رپانی کے ہلنے کے بعد جو کوئی کہ پہلے اس میں اُترتا کسی بیماری میں گرفتار ہو اس سے چنگا ہو جاتا تھا۔‘‘ یہ آیت ۱۹۳۰؁ء اور بعد کی اناجیل میں سے بالکل نکال دی گئی ہے۔ یوحنا باب ۷ آیت ۵۳ سے باب ۸ آیت ۱۱ تک نسخہ مطبوعہ مرزا پور میں موجود ہیں مگر نسخہ بحروف رومن اردو کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ ساتویں باب لی ۵۳ آیت سے لیکر آٹھویں باب کی گیارہویں آیت تک کی عبارت اکثرقلمی نسخو ںمیں نہیں پائی جاتی۔ عیسائی علماء کا اپنا اقرار کہ بعض آیتیں جو اناجیل میں درج تھیں وہ در حقیقت اناجیل کا حصہ نہیں تھیں۔ اور پُرانے نسخوں کا آپس میں اختلاف کہ بعض آیتیں بعض میں پائی جاتی ہیں اور بعض میں نہیں۔ یہ امور اس بات کا صاف اور واضح ثبوت ہیں کہ موجودہ اناجیل شک اور شبہ سے پاک نہیں بلکہ اس بات کا قطعی اور یقینی ثبوت ہیں کہ وہ ملاوٹ سے ہر گز محفوظ نہیں۔ اور خود عیسائیوں کے مسلمات کے رو سے محرف اور مبدل ہیں۔ پس ایسی کتب کی موجودگی کے باوجود خواہ وہ خدا تعالیٰ ہی کی طرف منسوب کی جاتی ہوں یقینا ایک ایسی کتاب کی ضرورت تھی جس کا ہر ہر لفظ قطعی اور یقینی ہو اور جس کی حفاظت کا دشمن اور دوست کو اقرار ہو۔ اور اس ضرورت کو قرآن کریم نے پورا کیا۔ اور اس آیت میں اسی مضمون کی طرف اشارہ کیا گیا ہے خلاصہ یہ کہ قرآن کریم کے متعلق یہ اعتراض کرنا کہ پہلی کتب کی موجودگی میں اس کی کیا ضرورت ہے ایک بے معنے اعتراض تھا کیونکہ محرف مبدل کتب خود ایک محفوظ کتاب کا مطالبہ کرتی تھیں جس پر لوگ اس یقین سے عمل کر سکیں کہ اس کا ایک ایک لفظ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ پس قرآن کریم نے اپنی ضرورت کی تائید میں اپنے کامل ہونے کی دلیل کے ساتھ یہ دلیل بھی پیش کی کہ ایمان کے لئے اس کتاب پر کامل یقین ضروری ہے جس پر عمل کرنے کا حکم دیا جائے اور قرآن کریم سے پہلے کی سب کتاب اپنی موجودہ شکل میں مجروح اور مشکوک ہو چکی ہیں۔ پس ایک ایسی کتاب کی ضرورت پیدا ہو چکی ہے جس کے لفظ لفظ کے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے میں شک نہ کیا جا سکے۔ پس اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے تاکہ جو لوگ اس پر عمل کریں اس یقین کے ساتھ عمل کریں کہ یہ تمام کا تمام محفوظ ہے اور ہر ہر لفظ اس کا اسی طرح ہے جس طرح حدا آنے نازل کیا ہے۔ یہ ایک ایسی دلیل ہے جس کے بعد کوئی شخص قرآن کریم کی ضرورت کا انکار نہیں کر سکتا او رجس کے بعد پہلی کتب کا موجود ہونا اس کی ضرورت کو باطل نہیں کر سکتا۔ علاوہ ازیں ان الفاظ میں یہ پیشگوئی بھی کر دی گئی ہے کہ یہ کتاب ہمیشہ محفوظ رہے گی اور کبھی بھی انسانی دستبرد کاشکار نہ ہو گی۔
۳۔ ریب کے ایک معنے ہلاک اور تباہی کے بھی ہیں۔ ان معنوں کے رُو سے لَارَیْبَ فِیْہِ کے یہ معنے ہوں گے کہ یہ کتاب نہ صرف سب خوبیوں کی جامع ہے بلکہ سب نقائص سے پاک بھی ہے۔ کیونکہ بعض دفعہ ایک نسخہ کسی خاص مرض کے لئے مفید تو ہوتا ہے لیکن اس فائدہ کے ساتھ بعص اور نقصان بھی پہنچا دیتا ہے پس ان الفاظ میں بتایا گیا ہے کہ جو ضرورت بھی انسان کو مذہب کے بارہ میں پیدا ہو قرآن کریم اس کو پورا کرتا ہے اور ساتھ ہی اس میں یہ خوبی بھی ہے کہ اس پر عمل کرنے سے کسی اور جہت سے انسان کی روحانیت کو نقصان بھی نہیں پہنچتا۔ چنانچہ اس بارہ میں اللہ تعالیٰ سورۃ طہ میں فرماتا ہے مَا اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰٓی (ع ۱) یعنی اس قرآن کریم میں کوئی ایسی بات نہیں جس سے انسان دن یا دنیا میں نقصان اٹھائے بلکہ اس کی تعلیم مفید ہونے کے ساتھ بے ضرر بھی ہے۔ اس بارہ میں بھی آئدہ تفسیر میں متعدد مثالیں پیش کی جائیں گی (انشاء اللہ) جن سے معلوم ہو گا کہ قرآن کریم میں کوئی ایسی بات نہیں جس سے انسان کی روحانیت یا اخلاق کو نقصان پہنچتا ہو بلکہ وہ خالص خیر ہی خیر ہے۔ او ریہ امر بھی اسے دوسری کتب پر ایک زبردست فوقیت عطا کرتا ہے۔
۴۔ چوتھے معنے رَیْب کے حَاجَۃٌ کے بتائے گئے تھے۔ ان معنوں کے رُو سے لَارَیْبَ فِیْہِ کے معنے یہ ہوں گے کہ اس کتاب میں کوئی دینی امر بیان کرنے سے رہ نہیں گیا بلکہ سب ضروری امور اس میں بیان کر دیئے گئے ہیں چنانچہ یہ فضیلت بھی قرآن کریم میں پائی جاتی ہے اور وہ ایک ایسی جامع کتاب ہے کہ کوئی انسانی ضرورت ایسی نہیں جس کے متعلق اس میں شافی تعلیم موجود نہیں۔ کوئی اعتقادی او رکوئی عملی اور کوئی اخلاقی اور کوئی اقتصادی اور کوئی مدنی امر نہیں جس کے بارہ میں قرآن کریم میں بحث نہ کی گئی ہو اور اس کے متعلق ہدایت نہ دی گئی ہو بلکہ باوجود قلیل الحجم ہونے کے قرآن کریم میں سب ضروری امور پر اس طرح روشنی ڈالی گئی ہے کہ انسان حیران ہو جاتا ہے اور اسے قرآن کریم کا ایک زبردست معجزہ تسلیم کرنے پر مجبو رہو جاتا ہے۔ اس خوبی کی طرف شروع سے اس کے دشمنوں کی نگاہ بھی پڑتی چلی آئی ہے چنانچہ احادیث میں آتا ہے۔ کہ قَالَ رَجُلٌ مِّنَ الْیَھُوْدِ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ یَا اَمِیْرَ الْمُؤمِنِیْنَ لَوْ عَلَیْنَا اُنْزِلَتْ ھٰذِہِ الْاٰیَۃُ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتَ لَکُمْ الْاِ سْلَامَ دِیْنًا لَاتَّخَذْنَاہُ ذَالِکَ الْیَوْمَ عِیْدًا فَقَالَ عُمَرُ اِنِّیْ لَاَ عْلَمُ اَیَّ یَوْمِ اُنْزِلَتْ ھٰذِہِ الْاٰیَۃُ اُنْزِلَتْ یَوْمَ عَرَفَۃَ فِیْ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ (ترمذی جلد دوم کتاب التفسیر زیر آیت الیوم اکملت لکم دینکم) کہ ایک یہودی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ملا۔ اور کہنے لگا۔ کہ اگرہم پر آیت اَلْیَوْم اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ اترتی۔ جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ قرآن مجید میں کوئی دینی امر بیان کرنے سے رہ نہیں گیا بلکہ سب ضروری امور اس میں بیان کر دیئے گئے ہیں اور قرآن مجید کامل کتاب ہے۔ تو ہم اس دن کو جس دن وہ آیت اُترتی عید کا دن مقرر کرتے۔ اور خوشی مناتے۔ کہ ہماری شریعت کامل شریعت ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ مجھے خوب یاد ہے کہ کب او رکہاں یہ آیت نازل ہوئی۔ یہ آیت حج کے ایام میں یوم عرفہ میں جمعہ کے روز نازل ہوئی۔ گویا تم تو ایک دن عید مناتے لیکن ہمارے لئے یہ دو عیدیں تھیں ایک جمعہ کا دن اور دُوسرا یوم عرفہ۔ اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباسؓ نے آیت اَلْیَوْم اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ پڑھی۔ اور پاس ہی ایک یہودی کھڑا تھا۔ اس نے اُن سے کہا کہ اگر یہ آیت ہم پر اترتی تو ہم اس روز عید مناتے۔ حضرت ابن عباسؓ نے جواب دیا کہ یہ آیت نازل ہی ایسے ایام میں ہوئی جبکہ دو عیدیں جمع تھیں (ترمذی جلد دوم کتاب التفسیر)
خلاصہ کلام یہ کہ لَا رَیْبَ فِیْہِ میں صرف اس امر کی تاکید نہیں کی گئی کہ یہ کلام سچا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں۔ بلکہ ریب کے معنوں پر نظر کرتے ہوئے اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ (۱) اس میں کسی صداقت کا انکار نہیں ہے بلکہ سب صداقتوں کا اقرار کیا گیا ہے اور مذہب کے سب ضروریامو رپر سے تہمتوں اور بدگمانیوں کو دور کیا گیا ہے (۲) اس میں کوئی ظنی اور شکی بات نہیں بلکہ ہر بات دلیل سے بیان کی گئی ہے (۳) یہ کلام محفوظ اور یقینی ہے اور ہمیشہ محفوظ رہیگا (۴) اس میں کوئی ایسا امر نہیں جو انسان کے لئے تکلیف اور تباہی کا وجب ہو (۵) اس میں سب ضروری امور بیان کر دیئے گئے ہیں اور کوئی ایسا مذہبی اخلاقی تمدنی اقتصادی سیاسی وغیرہ مسئلہ نہیں جس کے بارہ میں اس میں مکمل تعلیم نہ دی گئی ہو۔
ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ۔ ان الفاظ یہ بتایا کہ (۱) قرآن کریم میں وصال الٰہی کی تڑپ پیدا کرنپے کے سامان موجود ہیں یعنی ہر فطرت صحیحہ کو اس کی تلاوت کے ذریعہ سے وہ ضروری دھکا لگتا ہے جس کے بغیر والہانہ اور عاشقانہ قدم ارواح اپنے معشوق حقیقی کی طرف نہیں اٹھا سکتیں۔ صرف فلسفیانہ خیالات کا پیدا ہونا انسان کے لئے کافی نہیں ہوتا کیونکہ فلسفہ صرف خیالات کو درست کرتا ہے ایک ناقابل برداشت جذبہ اس سے پیدا نہیں ہوتا مگر عمل کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ فطرۃ انسانی کو ایک ایسا دھکا لگے کہ وہ آپ ہی آپ آگے بڑھتی چلی جائے۔ خدمت اور ایثار پر فلسفی زبردست تقریر کر سکتا ہے ایک جاہل ماں اس کا لاکھواں حصہ بھی بیان نہیں کر سکتی لیکن اپنے بچہ کے لئے جس ایثار اور قربانی کا عملی نمونہ وہ دکھاتی ہے ایک فلسفی بنی نوع انسان کے لئے اس نمونہ کا لاکھواں حصہ بھی پیش نہیں کر سکتا۔ پس جب تک کوئی کوئی کتاب ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ نہ ہو یعنی جن لوگوں کے خیالات و افکار دلیل اور بُرہان سے پاک ہو چکے ہوں اُن کے اندر عشق اور محبت کی آگ نہ بھڑکا دے اور ایک طرف خدا تعالیٰ کی طرف محبت سے بڑھتے چلے جانے اور دوسری طرف مخلوق کی طرف شفقت سے جھکتے چلے جانے کا بے پناہ جذبہ نہ پیدا کر دے وہ دنیا کی عملی اصلاح میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اور قرآن کریم ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ کے الفاظ سے اسی مقصد کے پورا کرنے کا دعویٰ کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ اس کتاب کے مطالعہ سے انسانی فطرت کو وہ ابتدائی دھکا لگتا ہے جو اُسے عشق کیر اہ پر گامزن کر دیتا ہے۔
دوسرے معنے ہدایت کے اس ارشاد کے ہوتے ہیں جو نبیو ںکے ذریعہ سے انسانوں کو پہنچایا جاتا ہے۔ ان معنوں کے رُو سے اس جملہ کے معنے یہ ہوں گے کہ جو لوگ اس امر کے شائق ہیں کہ ان کو ان کے خالق و مالک کی طرف سے ہدایت ملتی رہے ان کی حواہش کے پوار کرنے کے بھی اس میں سامان موجود ہیں اور خواہ کسی درجہ کا متقی ہو اس کی راہنمائی کے لیے اس کتاب میں پاک اور مصفی الٰہی تعلیم موجود ہے جس سے متقی کے دل کو یہ تسکین حاصل ہوتی ہے کہ وہ صرف اپنی عقل سے کام نہیں لے رہا۔ بلکہ اُسے خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی ہدایت حاصل ہے جس کی مدد سے وہ ہر قدم یقین اور اطمینان سے اٹھا سکتا ہے اور شک و شبہ کی زندگی سے پاک ہو جاتا ہے۔
تیسرے معنے ہدایت کے جیسا کہ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے عمل کی مزید توفیق اور فکر کی بلندی کے ہیں۔ ان معنوں کے رو سے اس جملہ کے یہ معنے ہیں کہ قرآن کریم میں ایسی قوت ہے کہ جب اس کے کسی حکم پر انسانع مل کرنے تو اسے مزید نیکیو ںکی توفیق ملتی ہے اور اس کے خیالات میں جلا پیدا ہوتی ے اور اس کا فکر اور اس کا حوصلہ بڑھتا چلا جاتا ہے اور باریک در باریک تقویٰ کی راہیں اس پر کھولی جاتی ہیں۔ گویا وہ ایک لامتناہی نیکی اور تقویٰ کی نہ ختم ہونے والی راہوں پر چل پڑتا ہے اور اس کی ترقیات کی کوئی انتہاء مقرر نہیں کی جا سکتی۔ دوسری جگہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِیْنَ اھْتَدَوْا زَادَ ھُمْ ھُدًی وَّاٰتٰھُمْ تَقْوھٰمْ (محمد ۶ع۲) یعنی جو لوگ ہدایت پا جائیں انہیں اللہ تعالیٰ قرآن کریم کے ذریعہ سے ہدایت میں اور بھی بڑھاتا ہے اور ان کے مناسب حال تقویٰ انہیں عطا کرتا ہے۔ اس آیت سے ظاہر ہے۔ کہ ہدایت اور تقویٰ کسی ایک مقام کا نام نہیں ہیں بلکہ ہدایت کے بھی مختلف مقامات ہیں اور تقویٰ کے بھی مختلف مقامات ہیں۔ قرآن کریم ہدایت یا فتو ںکو ان کے مقام سے اوپر کے مقام ہدایت کی طرف راہنمائی کرتا ہے اور پھر اس مقام کے مناسب حال تقویٰ کا مقام اس شخص کو دیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ لامتناہی ترقیات کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے۔
اسی طرح فرماتا ہے وَالَّذِیْنَ جَاھَدُ وْافِیْنَا لَنَھْدِ یَنَّھُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت ۳ ع ۷) یعنی جو لوگ ہماری محبت او رہمارے وصال کے حصول کے لئے ہمارے بتائے ہوئے قواعد کے مطابق (اس پر فینا کے الفاظ دلالت کرتے ہیں اور ان سے ایک مراد قرآن کریم ہے) جدوجہد کرتے ہیں انہیں ہم یکے بعد دیگرے ان راستوں کا پتہ بتاتے چلے جاتے ہیں جو ہم تک پہنچنے والے ہیں۔ اس آیت میں بھی اسی طرف اشارہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف ہدایت کے راستے محدود نہیں بلکہ ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا راستہ ہے۔
اسی طرح فرماتا ہے نُوْرُ ھُمْ یَسْعٰی بَیْنَ اَیْدِ یْھِمْ وَبِاَیْمَا نِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْلَنَا اِنَّکَ عَلیٰ کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْر (التحریم ۱۰ ع ۲) یہ آیت مابعد الموت زندگی کے متعلق ہے اور اس میں بتایا گیا ہے کہ قیامت کو جب آنحضرت صلعم اور مومن جنت کی طرف جائیں گے تو ان کے ایمان و عمل کے نتیجہ میں پیدا شدہ نور ان کے آگے ہو گااور وہ یہ کہتے جائیں گے کہ اے ہمارے رب ہمارے نور کو مکمل کر دے او رہماری کمزوریوں کو ڈھانپ دے تو ہر شئے پر قادر ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہدایت صرف اسی دنیا میں نہیں بڑھتی بلکہ بعد الموت بھی ہدایت اور عرفان میں انسان ترقی کرے گا اور نئی طاقتیں اُسے ملتی جائیں گی۔ خلاصہ یہ کہ ہدایت کے لفظ میں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور دوسری آیت قرآنیہ اس کی وموید ہیںکہ روحانی ترقیات غیر محدود ہیں اور قرآن کریم متقیوں کو ان اعلیٰ ترقیات کی طرف بڑھاتا لئے جاتا ہے۔
چوتھے معنے ہدایت کے جیسا کہ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے قرآن کریم سے یہ ثابت ہیں کہ انجام بخیر اور جنت حاصل ہو جاتی ہے۔ ان معنوں کے رُو سے اس جملہ ی معنے ہوتے ہیں کہ قرآن کریم میںایسی تعلیم ہے کہ جس کی امداد سے خدا ترس انسان اپنے منزل مقصود یعنی جنت کو حاصل کر لیتا ہے۔ یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ دعویٰ سب مذاہب ہی کرتے ہیں اور بظاہر اس مضمون میں کوئی جدت یا افضلیت نہیں پائی جاتی۔ لیکن جب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں کہ اس میں جنت کے حصول کے کیا معنے ہیں تو پھر یہ دعویٰ بالکل جدید اور نرالا ہو جاتا ہے کیونکہ قرآن کریم میں لکھا ہے کہ جنت کے حصول کے یہ معنے نہیں کہ انسان مرنے کے بعد جنت میں داخل ہو جائے بلکہ مرنے کے بعد کی جنت کا حصول اس دنیا میں جنت کے حصول سے وابستہ ہے جسے اس دنیا میں جنت مل جائے صرف اسی کو بعد الموت جنت ملے گی۔ چنانچہ فرماتا ہے وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتَانِ (الرحمن ع ۳) یعنی جو شخص تقویٰ کے سچے مقام پر ہوتا ہے اُسے دو جنتیں ملتی ہیں۔ ایک اس دنیا میں اور ایک اگلے جہان میں۔ اور ایک دوسری جگہ فرماتا ہے مَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاٰ خِرَۃِ اَعْمٰی (بنی اسرائیل ع ۸) یعنی جو شخص اس دنیا میں اندھا ہو یعنی اُسے دیدار الٰہی نصیب نہ ہو وہ اگلے جہان میں بھی اندھا ہی ہو گا اور یدار الٰہی یا دوسرے الفاظ میںجنت سے محروم رہیگا۔
قرآن کریم کی اس تشریح کو مدنظر رکھتے ہوئے جنت کے ملنے کے معنے صرف یہ نہیں کہ مرنے کے بعد قرآن کریم کا مومن جنت حاصل کرے گا کیونکہ یہ صرف ایک دعویٰ ہے جس کی کوئی دلیل نہیں۔ بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ قرآن کریم پر ایمان لانے والا اور اس کی روشنی سے فائدہ اٹھانے والا شخص اسی دنیا میں اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہو جاتا ہے اور ایمان بالغیب اس کے لئے ایمان بالمعاینہ ہو جاتا ہے۔ وہ صرف عقیدۃ اس امر کو نہیں مانتا کہ اسے مرنے کے بعد جنت مل جائے گی بلکہ اسی دنیا میں اللہ تعالیٰ اپنی صفات کو اس کے لئے ظاہر کرتا ہے او راپنے وجود کو اس کے سامنے لے آتا ہے یہاں تک کہ وہ موت سے پہلے ہی اپنے آپ کو جنت میں محسوس کرنے لگتا ہے اور جسمانی موت صرف اُس کے مشاہدہ کو زیادہ روشن کرنے کا موجب ہوتی ہے ورنہ مشاہدہ اور دیدار الٰہی اُسے اسی دنیا میں میسر آ جاتا ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ ایسا مقام ہے جس کے بعد کوئی بے چینی اور شک باقی نہیں رہتا اور ایسا انسان ہر ٹھوکر اور ابتلاء سے محفوظ ہو جاتا ہے اور گویا اسی دنیا میں خدا تعالیٰ کی گو دمیں جا بیٹھتا ہے۔ پس قرآن کا مومنوں کو قرآن کریم کے ذریعہ سے جنت ملنے کا دعویٰ کرنا محض ایک بے دلیل دعویٰ نہیں بلکہ وہ اسے ایک ایسی شہادت کے طور پر پیش کرتا ہے جس کا جھوٹ اور سچ اسی دنیا میں آزمایا جا سکتا ہے۔ اور اسلام کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں ہر زمانہ میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں جو اس دعویٰ کے لئے دلیل کے طور پر تھے اور جن کو اللہ تعالیٰ کا وصال اور دیدار کامل طو رپر اسی دنیا میں حاصل ہو گیا اور اسی دنیا میں جنت میں داخل ہو گئے۔ یعنی ہر قسم کے شیطانی حملوں سے محفوظ ہو گئے اور ہر قسم کی روحانی نعمتوں سے متمتع ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے تازہ بتازہ کلام کو انہو ںنے سُنا اور اس سے بالمشافہ انہو ںنے باتیں کیں اور اس کے زندہ نشانوں کو انہو ںنے اپنی ذات میں دیکھا اور دوسروں کے وجودوں میں انہیں دیکھایا۔
بعض لوگ اس آیت پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اگر قرآن کریم متقیوں کے لئے ہدایت ہے تو معلوم ہوا کہ متقی پیدا کرنے کیلئے اور کسی کلام یا کتاب کی ضرورت ہے۔ سو یاد رہے کہ یہ اعتراض محض قلت تدبر سے پیدا ہوا ہے کیونکہ قرآن کریم تقویٰ پیدا کرنے کا بھی مدعی ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِینَتَہٗ عَلیٰ رَسُوْلِہٖ وَعَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَاَلْزَمَھُمْ کَلِمَۃَالتَّقْویٰ وَکَانُوْٓا اَحَقَّ بِھَا وَاَھْلَہَا (فتح ۱۱ ع ۳) یعنے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور اپنی کتاب پر ایمان لانے والوں پر سکینت او راطمینان نازل کیا اور اُن سے تقویٰ کی حقیقت کو وابستہ کر دیا اور مومن بالقرآن ہی حقیقت تقویٰ کے مستحق اور اس کے اہل ہیں۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ قرآن کریم کے ذریعہ سے اور اس پر ایمان لا کر انسان کو کامل تقویٰ میسر آتا ہے بلکہ ایسا تقویٰ میسر آتا ہے جو دائمی ہوتا ہے۔ بلکہ اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ تقویٰ کے اہل اور اس کے ساتھ حقیقی تعلق رکھنے والے صرف مومنین قرآن ہیں۔
اس آیت کی موجودگی میں یہ اعتراض کرنا کہ گویا قرآن کریم صرف مقتیوں کو ہدایت دینے کا دعویٰ دار ہے تقویٰ پیدا کرنے کا دعویٰ نہیں کرتا بالبداہت باطل ہے۔ اس کے برخلاف قرآن کریم تو اس امر کا مدعی ہے کہ حقیقی تقویٰ صرف قرآن کریم پر ایمان لانے سے پیدا ہو سکتا ہے۔
اس آیت کے علاوہ قرآن کریم کی اور بہت سی آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کریم صرف مقتیوں کے لیے ہدایت نہیں بلکہ سب بنی نوع انسان کے لئے ہدایت ہے خواہ وہ روحانی زندگی میں اعلیٰ مقام پر ہوں یا ادنیٰ پر۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ھٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَھُدًی (آل عمران ۵ ع ۱۴) یہ قرآن تمام انسانوں کے لئے ضروری امور بیان کرتا ہے اور انہیں ہدایت دیتا ہے۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ قرآنی ہدایت صرف متقیوں کیلئے نہیں بلکہ تمام انسانوں کے لئے ہے۔ اسی طرح ایک اور جگہ قرآن کریم میں ہے ھُدًی لِّلنَّاسِ وبَیِّنَتٍ مِّنَ الْھُدٰی (البقرہ ۶ ع ۲۳) یعنی قرآن کریم سب انسانوں کے لئے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت کی تمام اقسام بیان کی گئی ہیں۔ اسی طرح فرماتا ہے۔
وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِیْ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ لِلنَّاسِ مِنْ کُلِّ مَثَلٍ ط (الکف ۲۰ ع ۸) یعنی اس قرآن میں تمام انسانوں کے فائدہ کے لئے خواہ متقی ہو ںیا غیر متقی ہر بات اعلیٰ سے اعلیٰ پیرایہ میں بیان کر دی گئی ہے یعنی ہر انسان کی حالت کے مطابق اس میں ایسی تعلیم ہے جو اسے اوپر کے درجہ کی طرف لے جاتی ہے اور اس کی رحوانی ضرورتوں کو پورا کرتی ہے۔ اسی طرح فرماتا ہے وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِیْ ھٰذا الْقُرْاٰن مِنْ کُلِّ مَثَلٍ (الروم ۹ چ ۶) اس آیت کے بھی قریباً وہی معنے ہیں جو اوپر کی آیت کے ہیں صرف فرق یہ ہے کہ پہلی آیت میں صَرَّفْنَا کہا گیا تھا یہاں صَرَّفْنَا کہا گیا ہے۔ اورصَرَّفْنَا میں اس امر پر زور ہے کہ مختلف پیرایوں سے اس ہدایت کو بیان کیا ہے۔ اور صَرَّفْنَا میں اس امر پر زور ہے کہ فطرت کی صحیح مثالوں اور واضح نمونوں کے مقابل پر رکھ رکھ کر ہدایت کو بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح فرماتا ہے وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِیْ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ لَیَذَّ کَّرُوْا (بنی اسرائیل ۵ ع ۵) یعنی قرآن کریم میں تمام ضروری امور ہدایت مختلف پیرایوں میں بیان کئے گئے ہیں تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں اور فائدہ اٹھائیں۔ اس جگہ بھی متقیوں یا مومنوں کے لئے ہدایت کو مخصوص نہیں کیا گیا بلکہ تمام انسانوں کے لئے اسے پیش کیاگیا۔
قرآن کریم کی متعدد آیات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ تقویٰ کی راہیں بھی قرآن کریم نے تمام انسانوں کے لئے بیان کی ہیں چناچنہ فرماتا ہے یَآ اَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (البقرہ ۳ ع ۳) یعنی اے انسانو (نہ کہ مومنو یا مسلمانو) اپنے اس رب کی جس نے تم کو اور تمہارے باپ دادوں کو پیدا کیا ہے عبادت کرو تاکہ تم متقی بنو۔ اسی طرح فرماتا ہے۔ وَکَذَ ایِکَ اَنْزَلْنَاہ قُرْآنًا عَرَبِیًّا وَّصَرَّ فْنَا فِیْہِ مِنَ الْوَعِیْدِ لَعَلَّہُمْ یَتَّقُوْن (طہ ۱۵ ع ۶) یعنی قرآن کریم کو ہم نے عربی زبان میں اتارا ہے اور اس میں تمام عذاب کی خبریں بھی بیان کی گئی ہیں تاکہ جو مومن نہیں وہ بھی متقی ہو جائیں۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ قرآن کریم کافروں کو بھی متقی بناتا ہے۔
اب رہا یہ سوال کہ پھر اس جگہ یہ کیوں فرمایا کہ قرآن کریم متقیوں کے لئے ہدایت ہے یہ کیوں نہ فرمایا کہ قرآن کریم تقویٰ پیدا کرات ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس جگہ قرآن کریم کی افضلیت کا ذک ہے یعنی یہ بیان ہے کہ دوسری کتب کی موجودگی میں اس کتاب کی کیا ضرورت ہے۔ پس اس مضمون کے لحاظ سے ان اعلیٰ مقامات کے حصول کا ذکر ہی مناسب اور درست تھا جن میں قرآن کریم منفرد ہے او رجس میں اس کا مقابلہ کرنے کا دوسرے مذاہب کو دعویٰ تک بھی نہیں۔
اس جواب کے علاوہ اس اعتراض کا ایک اور بھی جواب ہے اور وہ یہ کہ قرآن کریم میں تقویٰ کی ایک اور بھی تعریف بیان کیگئی ہے اور اس تعریف کے رُو سے تقویٰ کا تعلق انسانی فطرت سے ہے نہ کہ مذہب سے۔ چنانچہ سورہ شمس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَ ھَا وَتَقْوٰھَا۔ ہر انسان کو اس کی پیدائش کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ایک امتیازی قابلیت بخشی ہے جس کے ذریعہ سے وہ بُرے اور بھلے میں تمیز کرتا ہے۔ یہ قابلیت مسلمان یا غیر مسلمان کے ساتھ تعلق نہیں رکھتی بلکہ ہر انسان میں پیدا کی گئی ہے۔ پس اس تعریف کے مطابق تقویٰ کے معنے فطرت کی حفاظت کے ہیں نہ کسی خاص مذہب یا عقیدہ کے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ ہدایت وہی لوگ پا سکتے ہیں جو فطرۃ کو گندے اثرات سے پاک رکھتے ہیں ورنہ جو لوگ فطرت کو پاک رکھنے کی کوشش نہیں کرتے اور صداقت کے مانے سے انکار کرتے ہیں وہ ہدایت نہیں پا سکتے ان کو ہدایت تبھی مل سکتی ہے جب جبر سے کام لیا جائے۔ اور قرآن کریم جبر کے خلاف ہے۔
خلاصہ یہ کہ اوپر کی تعریف کے رُو سے اس آیت کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ جو لوگ صداقت کو قبول کرنے کیلئے تیار ہوں قرآن کریم ان کو ہدایت دیتا ہے اور اعلیٰ مدارج تک پہنچاتا ہے۔ او رلوگ ہدایت کو ماننے کیلئے تیار ہی نہ ہوں وہ گویا اپنی ہلاکت کا خود ہی فیصلہ کر دیتے ہیں اور انہیں ہدایت جبر ہی سے دی جا سکتی ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ جبر سے جو ہدایت ملے اس کا فائدہ جبر کرنے والے کو حاصل ہو سکتا ہے اسے نہیں ہو سکتا جسے ہدایت دیجائے۔ جیسے مثلاً کسی سے زبردستی مال چھین کر صدقہ کر دیا جائے تو اس صدقہ کا کوئی فائدہ اُسے نہیں مل سکتا جو صدقہ کا قائل ہی نہیں اور صدقہ دینا ہی نہیں چاہتا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس آیت میں دوسری کتب کی موجودگی میں قرآن کریم کی ضرورت کو بیان کیا گیا ہے اور بتایا ہے کہ غیر الہامی کتب کی موجودگی میں تو اس کی یہ ضرورت ہے کہ بغیر آسمانی ہدایت کے انسان ہدایت پا ہی نہیں سکتا۔ اس لئے آسمانی ہدات کی ضرورت تھی جسے قرآن کریم نے پورا کیا ہے اور الہامی کتب کی موجودگی میں اس کی یہ ضرورت ہے کہ (۱) اس سے پہلے سب ہدایت نامے نامکمل تھے یہ مکمل ہے (۲) ان میں خرابیاں پیدا ہو گئی ہیں اور یہ سب خرابیوں سے محفوظ ہے (۳) وہ سب ہدایت نامے ایک ایک قوم اور مذہب کے لئے تھے اور یہ ہدایت نامہ سب قوموں کے لئے ہے اور سب قوموں کے بزرگوں کی عزت قائم کرنے اور سب ضائع شدہ ہدایتو ںکو زندہ کرنے کے لئے آیا ہے۔ (۴) ان کتب میں بوجہ اندرونی بیرونی نقائص کے وصال الٰہی پیدا کرنیکی خاصیت باقی نہ رہی تھی اب اس کے ذریعہ سے پھر انسان کو وصال الٰہی حاصل کرنے او رکلام الٰہی سے مشرف ہونے کا موقعہ دیا جائے گا وغیرہا وغیرہا۔
اس چھوٹی سی آیت میں اس قدر وسیع مطالب کا بیان ہونا قرآن کریم کا ایک عظیم الشان معجزہ ہے جس کی مثال پیش کرنے سے دوسری کتب قاصر ہیں۔
مذکورہ بالا مضمون بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کے بتائے ہوئے مطالب کی روشنی اور ہدایت میں لکھے گئے ہیں۔ لیکن بطور مثال میں ان بے شمار مطلالب سے جو ان کی کتب میں پائے جائے ہیں ایک نکتہ براہِ راست بھی ان کی طرف سے اس جگہ بیان کر دیتا ہوں۔ تا معلوم ہو کہ کس طرح انہوںنے اس آیت کے عمیق سمندر میں سے روحانیت کے ہوتی نکالے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ ہر شے کی تکمیل کے لئے چار علل کی تکمیل ضروری ہوتی ہے یعنی (۱) اس کے بنانے والا کامل ہو (۲) وہ جس مادہ سے بنائی جائے وہ اعلیٰ ہو (۳) اس کی شکل و صورت بھی اعلیٰ درجہ کی ہو (۴) جو نتیجہ اس سے پیدا ہو وہ بھی اعلیٰ دجرہ کا ہو۔ گویا علمت فاعلی علت مادی علت صوری اور علت غائی۔ ان چار علتوں کے کمال سے کوئی چیز مکمل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ابتدائے قرآن میں ہی اس کے حق میں چاروں علتوں کے مکمل ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ الم جس کے معنے ہیں کہ میں اللہ سب سے زیادہ جانتا ہوں علت فاعلی کے مکمل ہونے پر دلالت کرتا ہے کہ اس کا بنانے والا علم میں کامل ہے اور سب سے افضل ہے۔ پس ایسی علیم ہستی جس کتاب کو بنائیگی یقینا وہ ان تمام کتب سے افضل ہو گی جو ادنیٰ علم والی ہستیوں کی طرف سے تیار کی جائیں گی۔ ذَالِکَ الْکِتٰبُ یعنی یہی کامل کتاب ہے قرآن کریم کی علت مادی کے مکمل ہونے پر دلالت کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ تمام اعلیٰ اور ضروری مطالب اس کتاب میں موجود ہیں پس اس کا مادہ بھی دوسری کتب کے مادہ سے اعلیٰ اور مکمل ہے۔ لَا رَیْبَ فِیْہِ کہہ کر یہ بتایا کہ قرآن کریم اپنی بے مثل فصیح زبان اور غیر معمولی حفاظت کی وجہ سے اپنی ظاہری مشکل میں بھی نہایت اعلیٰ درجہ کا اور محفوظ کلام ہے۔ پس اس کی علت صوری بھی تمام دوسری کتب سے مکمل اور اعلیٰ ہے۔ پھر ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ کہ کر بتایا کہ دوسری کتب تو صرف متقی کے درجہ تک پہنچاتی ہیں مگر یہ کتاب متقیوں کو بلند مقامات پر لے جا کر اللہ تعالیٰ سے مکالمہ مخاطبہ کا شرف دلواتی ہے اور اس سے کامل اتحاد پیدا کر دیتی ہے پس اس کی علت غائی بھی دوسری کتب سے افضل اور اکمل ہے۔
یہ خلاصہ ہے بانی سلسلہ احمدیہ کی ایک تحریر کا اور جو صاحبِ بصیرت اور پر غور کرے گا وہ ان سب مطالب کو جو اوپر بیان ہوئے ہیں بلکہ ان کے علاوہ اور مطالب بھی اس لطیف تفسیر میں مخفی پائیگا۔

۴؎ حل لغات
یُؤْمِنُوْنَ:۔ اٰمَنَ۔ سے جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور اٰمَنَہٗ اِیْمَانًا کے معنے ہیںاٰمَّنَہٗ: اس کو امن دیا اور جب اس کا صلہ حرف باء ہو یعنی اٰمَنَ بِہٖ کہیں تو معنے ہونگے صَدَّقَہٗ وَوَثَّقَ بِہٖ۔ اس کی امن دیا اور جب اس کا صلہ حرف باء ہو یعنی اٰمَنَ بِہٖ کہیں تو معنے ہونگے صَدَّقَہٗ وَوَثَّقَ بِہٖ اس کی تصدیق کی اور اس پر اعتماد کیا اور جب اٰمَنَ کے بعد لام صلہ ہو یعنی اٰمَنَ بِہٖ کہیں تو اس کے معنے ہونگے خَضَعَ وَ انْقَادَ: یعنی فرمانبرداری اختیار کی۔ مطیع ہو گیا اور کہنا مان لیا (اقرب) اَلْاِیْمَانْ: اَلَّصْدِیْقُ۔ ایمان جو اٰمَنَ کا مصدر ہے اس کے معنے تصدیق کرنے کے ہیں۔ (اقرب) تاج العروس میں ہے۔ اَلْاِیْمَانْ یَتَعَدَّی بِنَفْسِہٖ کَصَدَّقَ وَبِاْللَّامِ باِعْتبَارِ مَعْنَی الْاِذْعَانِ وَبِالْبَائِ باِغْتبَارِ مَعْنَی الْاِعْتِرَافِ اشَارَۃ اِلَی اَنَّ التَّصْدِیْقَ لَایُعْتَبرُ بِہُ وْن اِعْتِرَافٍ۔ کہ لفظ ایمان کبھی بغیر صلہ کے استعمال ہوتا ہے اور کبھی اس کا صلہ لام آتا ہے اور اس میں اذعان یعنی فرمانبرداری کے معنے ملحوظ ہوتے ہیں۔ اور جب باء کے صلہ کے ساتھ استعمال ہو تو اس وقت اس طرف اشارہ ہوتا ہے کہ ایمان کے معنے تصدیق کے ہیں اور تصدیق کے ساتھ اعتراف بھی ہوتا ہے اس لئے اس کو اعتراف کے معنے میں استعمال کر لیتے ہیں۔ پس یُؤْمِنُوْنَ کے تین معنے ہوں گے (۱) تصدیق کرتے ہیں (۲) اعتراف کرتے ہیں (۳) پختہ یقین اور اعتماد رکھتے ہیں۔
اَلْغَیْبُ:۔ غَاتَبَ (یَغِیْبُ) کا مصدر ہے کہتے ہیں غَابَتِ الشَّمْسُ وَغَیْرُھَا: اِذَا اسْتَتَرَتْ مِنَ الْعَیْنِ یعنی غَابَ کا لفظ سورج اور دیگر اشیاء کے لئے اس وقت بولتے ہیں جبکہ سورج اور دوسری چیزیں آنکھوں سے اوجھل ہو جائیں وَاسْتُعْمِلَ فِیْ کُلِّ غَاِئبٍ عَنِ الْحَاسَّۃِ وَعَمَّا یَغِیْبُ عَنْ عِلْمِ الْاِنْسَانِ بِمَعْنَی الْغَائِبِ۔ جس کا علم جو اس ظاہری سے حاصل نہ ہو سکے یا جس کا علم انسان کو نہ ہو اُسے غائب کہتے ہیں۔ وَالْغَیْبُ فِیْ قَوْلِہٖ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ مَالَایَقَعُ تَحْتَ الْحَوَاسِّ وَلَا تَقْتَضِیْہِ بَدَ اَیۃُ الْعُقُوْلِ اور آیت یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ میں غیب سے مراد ہر وہ چیز ہے جو حواس ظاہری سے معلوم نہ کی جا سکے اور سرسری نظر میں انسانی عقلیں اس تک نہ پہنچ سکیں (مفردات) لسان میں ہے وَقَوْلُدٗ تعالیٰ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ اَیْ یُؤْمِنُوْنَ بِمَا غَابَ عَنْھُمْ کہ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ میں غیب کے یہ معنے ہیں کہ جو باتی ںاُن کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں اُن پر ایمان لاتے ہیں۔ وَالْغَیْبُ مَاغَابَ عَنِ الْعُیُوْنِ وَاِنْ کَانَ مُحَصَّلًافِی الْقُلُوْبِ اَوْغَیْرَ مُحَصَّلٍ اور غیب کا لفظ ہر اس امر پر بولا جاتا ہے جو آنکھوں سے پوشیدہ ہو خواہ وہ ایسا امر ہو کہ دماغی طو رپر اس کا علم حاصل ہو یا ایسا ہو کہ عقلاً بھی اس کا علم حاصل ہو کُلُّ مَکَانٍ لَایُدْرٰی مَافِیْہِ فَھُوَ غَیْبٌ۔ ہر وہ جگہ جس کے متعلق معلوم نہ ہو کہ اس کے اند رکیا ہے اس کو غیب کہتے ہیں۔ وَکَذَا الِکَ الْمَوْضِعُ الَّذِیْ لَایُدْریٰ مَاوَ وَائَ ہٗ۔ اوری اسی طرح اس جگہ پر بھی غیب کا لفظ بولتے ہیں جس کے پیچھے کی اشیاء کا علم نہ ہو۔ نیز کہتے ہیں۔ غَابَ الرَّجُلُ غَیْبًا اَیْ سَافَرَ اَوْبَانَ۔ کہ فلاں شخص نے سفر کیا یا کسی سے جدا ہو گیا۔ پس غیب ہر وہ امر ہے جو آنکھوں سے پوشیدہ ہو نہ یہ کہ وہ موہوم اور بے ثبوت ہو۔ پس یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ کے معنے ہوں گے (۱)ہر وہ چیز (امر) جو ظاہری آنکھوں سے نظر نہیں آتی اور ظاہری حواس اُسے پانے سے قاصر ہیں لیکن وہ موجود ہے اور ایمانیات میں داخل ہے اس کے حق ہونے پر پختہ یقین رکھتے ہیں اور اس کا اعتراف کرتے ہیں اور اس کی تصدیق کرتے ہیں (۲) اس زندگی کے بعد کے پیش آنیوالے حالات پر پختہ یقین رکھتے ہیں (۳) نیز اس کے یہ بھی معنے ہو سکتے ہیں کہ وہ غیبوبت کی حالت میں یعنی علیحدگی میں بھی ایمان رکھتے ہیں اور ان میں منافقوں کی طرح دورنگی نہیں پائی جاتی۔
یُقِیْمُوْنَ:۔ اَقَامَ سے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور قَامَ سے جو اس کا مجرد ہے بنا ہے۔ قِیَامٌ (کھڑا ہونا) کا لفظ جُلُوْسَّ (بیٹھ جانے) کا نقیض ہے۔ کہتے ہیں۔ قَامَ الْاَمْرُ۔ اِعْتَدَلَ معاملہ درست ہو گیا۔ قام علی الامر: دام و ثبت۔ یعنی کسی چیز پر دوام و ثبات اختیار کیا۔ قَامَ الْحَقُّ ظَہَرَ وَ ثَبَتَ حق ظاہر اور ثابت ہو گیا۔ اور اَقَامَ السُّوْقُ کے معنے ہیں نَفَقَتْ بازار بار رونق ہو گیا۔ اور اَقَامَ الصَّلٰوۃَ کے معنے ہیں اَدَامَ فِعْلَہَا نما زپر دوام اختیار کیا۔ اَقَامَ لِلصَّلٰوۃِ کے معنے ہیں نَادٰی لَہَا نماز کے لئے تکبیر کہی۔ اَقَامَ اللّٰہُ السُّوْقَ: جَعَلَہَانَا فِقَۃً اللہ تعالیٰ نے برکت دی اور بازار کو بارونق بنا دیا (اقرب) مفردات میں ہے یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃ اَیْ یُدِیْمُوْنَ فِعْلَہَا وَیُحَافِظُوْنَ عَلَیْہَا۔ نماز کو اس کی شرائط کے مطابق ادا کرتے ہیں اور اس پر دوام اختیار کرتے ہیں۔ نیز لکھا ہے اِنَّمَا خُصَّ لَفْظُ الْاِقَامَۃِ تَنْبِیْھًا اَنَّ الْمَقْصُوْدَ مِنْ فَعْلِہَا تَوْفِیَۃُ حقُوْقِہَا وَ شَرَائِطِہَا۔ کہ صلٰوۃ کے ذکر کے ساتھ اقامت کا لفظ اس لئے لایا گیا ہے تاکہ اس طرف توجہ مبذول کرائی جائے کہ نماز کے حقوق اور شرائط کو پوری طرح ادا کیا جائے نہ کہ صرف ظاہری صورت میں اس کو دادا کر دیا جائے۔ نسان میں اَلْقِیَامُ کے معنے اَلْعَزْمُ کے بھی لکھے ہیں یعنی کسی چیز کا پختہ ارادہ کر لینا۔
اَلصَّلٰوۃُ:۔ صَلَّی سے مشتق ہے اور اس کا وزن فَعْلَۃٌ ہے۔ الف دائو سے منقلب ہے۔ صَلَّی (یُصَلِّیْ) کے معنے دعا کرنے کے ہیں اور اَلصَّلٰوۃُ کے اصطلاحی معنے عِبَادَۃٌ فِیْہَا رکُوْعٌ وَسجُوْدٌ کے ہیں یعنی اس مخصوص طریق سے دعا کرنا جس میں رکوع و سجود ہوتے ہیں جس کو ہماری زبان میں نماز کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کے اور بھی کئی معانی ہیں جو بے تعلق نہیں بلکہ سب ایک ہی حقیقت کی طرف راہنمائی کرتے ہیں۔ چنانچہ اس کے دوسرے معنے مندرجہ ذیل ہیں اَلرَّحْمَۃُ۔ رحمت۔ الدِّیْنُ۔ شریعت۔ الَاِسْتِغْفَار۔ بخشش مانگنا۔ الدعاء دعا (اقرب) التَّعْظِیْمُ۔ بڑائی کا اظہار۔ اَلْبَرَکَۃُ۔ برکت (تاج) وَالصَّلٰوۃُ مِنَ اللّٰہِ الرَّحْمَۃُ وَمِنَ الْمَلَآئِکَۃِ الْاِسْتِغْفَارُ وَمِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ الدُّعَائُ وَمِنَ الطَّیْرِ وَالْھَوَامِّر التَّسْبِیْحُ۔ اور صلوۃ کا لفظ جب اللہ تعالیٰ کے لئے بولا جائے تو اس کے معنے رحم کرنے کے ہوتے ہیں۔ اور جب ملائکہ کیلئے استعمال ہو تو اس وقت اس کے معنے استغفار کے ہوتے ہیں اور جب مومنوں کے لئے بولا جائے تو اس کے معنے دعا یا نماز کے ہوتے ہیں اور جب پرند اور حشرات کیلئے یہ لفظ استعمال ہو تو اس کے معنے تسبیح کرنے کے ہوتے ہیں۔ وَھِیَ لَاتَکُوْنُ اِلَّافِی الْخَیْرِ بِخَلَافِ الدُّعَائِ فَاِنَّہٗ یَکُوْنُ فِی الْخَیْرِ وَالشَّرِّ۔ اور لفظ صلوۃ صرف نیک دُعا کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن لفظ دعا، بد دعا اور نیک دعا دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ لفظ صلوۃ کے ایک معنے حُسْنُ الثَّنَائِ مِنَ اللّٰہِ عَلَی الرَّسُوْلِ کے بھی ہیں یعنی جب صَلَّی فعل کا فاعل اللہ تعالیٰ ہو اور مفعول آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات ہو تو اس وقت اس کے معنے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول کریم کی بہترین کے ہوتے ہیں۔ (اقرب) وَیُسَمَّی مَوْضِعْ الْعِبَادِۃِ الصَّلٰوۃَ اور عبادت گاہ کو بھی الَّصلٰوۃَ کہہ دیتے ہیں (مفردات) پس یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے معنے ہونگے (۱) نماز کو باجماعت ادا کرتے ہیں (۲) نماز کو اس کی شرائط کے مطابق اور اس کے اوقات میں صحیح طو رپر ادا کرتے ہیں (۳) لوگوں کو نماز کی تعین کر کے مساجد کو بارونق بناتے ہیں (۴) نماز کی محبت اور خواہش لوگوں کے دلو ںمیں پیدا کرتے ہیں (۵) نماز پر دوام اختیا کرتے ہیں اور اس پر پابندی اختیار کرتے ہیں (۶) نماز کو قائم رکھتے ہیں یعنے گرنے سے بچاتے رہتے اور اس کی حفاظت میں لگے رہتے ہیں۔
رَزَقْنَا:۔ رَزَقَ سے متکلم مع الغیر کا صیغہ ہے اور الرِّزْقُ (جورَزَقَ کا مصدر ہے) کے معنے اَلْعَطَائُ۔ عطا کرنا۔ دینا۔ جیسے کہتے ہیں رُزِقْتُ عِلْمًا کے مجھے علم دیا گیا ہے۔ اور اس کے ایک معنی حصہ کے بھی ہیں جیسے وَتَجْعَلُوْنَ رِزْقَکُمْ اَنَّکُمْ تُکَذِّبُوْنَ (الواقعہ) کہ تم نے اپنے ذمہ یہ لگا لیا ہے کہ رسول اور خدا کی باتوں کا انکار کرتے ہو (مفردات) اقرب الموارد میں ہے۔ الرِّزْقُ۔ مَایُنْتَفَعُ بِہِ ہر وہ چیز جس سے نفع اُٹھایا جائے۔ اور رَزَقَہُ اللّٰہُ (یَرْزُقُ) رِزْقًا کے معنے ہیں اَوْصَلَ الیہِ رِزْقًا کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے ایسی اشیاء عطا فرمائیں جن سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ رزق اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو غذا کے طور پر استعمال کی جائے (مفردات) یُنْفِقُوْنَ:۔ اَنْفَقَ سے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور اِنْفَقَ مَالہٗ کے معنے ہیں صَرَفَہُ وَاَنْفَدَہٗ۔ مال کو خرچ کرتا رہا اور اس کو ختم کر دیا۔ اِنْفَاق کے اصل معنے کسی چیز کو مقبول اور ہاتھوں ہاتھ بک جانے والا بنا دینے کے ہیں چنانچہ کہتے ہیں اَنْفَقَ التَّاجِرُ: نَفقَتْ تِجَارتُہٗ کہ تاجر کی تجارت خون چل پڑی اور سامان تجارت مقبول ہو کر فروخت ہونے لگا۔ اور اَنْفَقَ السِلْعَۃَ کے معنے ہیں رَوَّجَہَا۔ سامان کو ایسا بنا دیا کہ ہاتھوں ہاتھ بک جائے۔ چنانچہ جب کسی سامان تجارت کے گاہک زیادہ ہوں یا کسی عورت کی شادی کے خواہشمند زیادہ تعداد میں ہوں تو نفق کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور کہتے ہیں نَفَقَتِ الْمَرأْۃُ وَالسِّلعَۃُ اَیْ کَئُٔر طُلَّا بُہَا وَخُطَّا بُہَا یعنی اس عورت یا مال کے بہت سے خواہش کرنے والے یا طالب پیدا ہو گئے ہیں اور النَّافِقُ اس مال کو کہتے ہیں جو بازار میں جاتے ہی بک جائے (اقرب) پس مادہ کے لحاظ سے اس کے معنے نکالنے اور جاری کرنے اور مسلسل طو رپر مال کو خرچ کرنے کے ہیں۔
تفسیر۔ جیسا کہ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے ایمان کے معنے یقین رکھنے اور فرمانبرداری کرنے کے ہوتے ہیں۔ جس کو یقین نہ ہو وہ مومن نہیں کہلا سکتا بلکہ منافق کہلاتا ہے۔ جیسا کہ سورۂ البقرہ ع ۲ آیت صفحہ ۹ میں فرمایا وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰ خِرِوَ مَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ یعنی کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جو مُنہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور یوم آخر پر ایمان لائے ہیں حالانکہ وہ دل سے اس امر کو نہیں مانتے۔ اسی طرح قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ جن میں یقین ہو اور اطاعت نہ ہو وہ بھی مومن نہیں بلکہ کافر کہلاتے ہیں۔ جیسا کہ سورۃ النمل ع ۱ آیت ۱۵ میں فرمایا وَجَحَدُ وْابِہَا وَا سْتَیْقَنَتْھَٓا اَنْفُسُہُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا۔ یعنی وہ اس کا انکار ظلم اور دشمنی سے کرتے ہیں حالانکہ اُن کے دل اس پر یقین رکھتے ہیں۔
یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ کے یہ معنے ہر گز نہیں کہ اندھا دُھند مان لیتے ہیں۔ یہ معنے نہ زبان عرب کے رُو سے درست ہیں اور نہ قرآن کریم ہی ان معنوں کی تصدیق کرتا ہے۔ کیونکہ بے دلیل ماننے والوں کو قرآن نے بار بار الزام دیا ہے۔ جیسے کہ سورۃ انجم ع ۱ آیت ۲۴ میں فرمایا۔ اِنْ ھِیَ اِلَّا اَسْمَآئُ سَمَّیْتُمُوْھَا اَنْتُمْ وَاٰبَٓاؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰہُ بِھَا مِنْ سُلْطَانٍ اِنْ یَتَّبِعُونَ اِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَھخوَی الْاَنْفُسُ۔ یعنی یہ تو چند نام ہیں جو تم لوگوں نے اور تمہارے باپ دادوں نے خود ہی رکھ دئے ہیں خدا تعالیٰ نے اس کی کوئی دلیل بیان نہیں کی۔ یہ لوگ صرف اپنے وہموں کی یا اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ قرآن کریم دشمنان اسلام پر اعتراض کرتا ہے کہ وہ بے دلیل باتوں کو جن کے لئے نہ آسمانی دلیل ہوتی ہے نہ عقلی، مانتے ہیں اور اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں اور وہمی باتوں کے پیچھے چلتے ہیں۔ پس جبکہ اللہ تعالیٰ وہمی باتوں کے ماننے کو قابل اعتراض قرار دیتا ہے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ قرآن کریم کی ابتدا ہی میں وہ مسلمانوں کو بے دلیل باتوں کے ماننے کا حکم دے اور اس امر کو تقویٰ کا جزو قرار دے۔
قرآن کریم کی متعدد آیات میں اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ ایمان دلائل اور براہین پر مبنی ہونا چاہیئے نہ کہ وہم اور گمان پر۔ چنانچہ سورۃ احقاف ع ۱ میں فرماتا ہے۔ قُلْ اَرَئَٔیْتُمْ مَّاتَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَرُوْنِیْ مَاذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَہُمْ شِرْکَ فِی السَّمٰوٰتِ ط اِیْتُوْنِیْ بِکِتٰبٍ مِنْ قَبْلِ ھٰذٓا اَوْ اَثٰرَۃٍ مِّنْ عِلْمٍ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۔ یعنی مجھے بتائو تو سہی کہ خدا کے سوا جن وجودوں کو تم پکارتے ہو کیا ان میں کوئی حقیقت بھی ہے اگر ہے تو مجھے بتائو تو کہ انہوں نے زمین میں سے کس چیز کو پیدا کیا ہے یا یہ تو ثابت کرو کہ آسمانی بادشاہت میں اُن کا کوئی حصہ ہے اور اگر تم سچے ہو ت واس کے َئے یا تو قرآن سے پہلے کی کسی آسمانی کتاب میں سے دلیل پیش کرو یا اپنے باپ دادوں کی بتائی ہوئی کسی علمی بات کو ہیش پیرو کرو۔ یعنی تمام شرکیہ مسائل نہ تو کسی آسمانی کتاب سے ثابت ہیں نہ کسی علمی دلیل سے ثابت ہو سکتے ہیں پھر ان پر ایمان لانا کس طرح جائز اور ممکن ہو سکتا ہے۔ اسی طرح فرماتا ہے اَمْ اَنْزَلْنَا عَلَیْہِمْ سُلْطَانًا فَھُوَ یَتَکَلَّمُ بِمَا کَانُوْابِہٖ یُشْرِکُوْنَ (روم ع ۴) یعنی کیا اللہ تعالیٰ کے شریک قرار دینے کی کوئی بھی دلیل ہے جو اللہ تعالیٰ نے مہیا کی ہو اور وہ شرک کی صداقت پر گواہ ہو اگر ایسا نہیں تو پھر بے دلیل بات کو یہ لوگ کس طرح مان رہے ہیں۔ اسی طرح فرماتا ہے قُلْ ھَلْ عِنْدَ کُمْ مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِ جُوْہُ لَنَا اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ اَنْتُمْ اَلَّاتَخْرُسُوْنَ۔ قُلْ الِلّٰہِ الْحُجَّۃُ الْبَالِغَۃُ (انعام ع ۱۸ آیت ۱۴۹ و ۱۵۰) یعنی کفار سے کہدو کہ کیا تمہارے پاس اپنے دعاوی کی کوئی علمی دلیل بھی ہے جسے تم ہمارے سامنے پیش کر سکو تمہارے پاس ہر گز ایسی کوئی دلیل نہیں بلکہ تم تو صرف وہم کی پیروی کرتے ہو اور صرف ڈھکو نسلے مارتے ہو۔ پھر فرماتا ہے کہ اے ہمارے رسول ان سے یہ بھی کہو کہ اللہ تعالیٰ تو وہ باتیں اپنے بندوں سے منواتا ہے جن کے دلائل مکمل طور پر موجود ہوتے ہیں۔ پس جو بات بے ثبوت ہو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہو سکتی۔
اسی طرح مومنوں کی نسبت قرآن کریم میں فرماتا ہے اَلَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُ وْا بِاٰیَاتِ رَبِّھِم لَمْ یَخِرُّ وْاعَلَیْہَا صُمًّا وَّعُمْیَانًا (فرقان ع ۶) یعنی مومنون کے سامنے جب اُن کے رب کی آیات بیان کی جاتی ہیں تو وہ اُنہیں اندھا دُھند نہیں مانتے بلکہ سوچ سمجھ کر اور دلالئل کے ساتھ مانتے ہیں۔ نیز فمراتا ہے قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلِٓیْ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ عَلیٰ بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ (یوسف ع ۱۲) اے ہمارے رسول اپنے منکروں سے کہہ دو کہ میرا راستہ مذکورہ بالاراستہ ہے میں اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتا ہوں اور میں اور میرے متبع کسی بے دلیل بات کو نہیں مانتے بلکہ ہم سوچ سمجھ کر اور دلائل قطعیہ کی بناء پر جو شک و شبہ سے بالا ہوتے ہیں ایمان لاتے ہیں۔
قرآن کریم میں غیب کا لفظ جن معنوں میں استعمال ہوا ہے ان سے بھی ثابت ہے ہ اس سے مراد وہمی امور نہیں فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (حجرات ع ۲) اللہ تعالیٰ آسمان اور زمین کے غیب کو جانتا ہے اس جگہ غیب کا لفظ حقیقت کے لوے بولا گیا ہے۔ کیونکہ اگر غیب کے معنے محض وہمی اور بے دلیل باتوں کے ہوں تو اس آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ بے دلیل اور وہمی باتوں کو جانتا ہے اور یہ ترجمہ بالبداہت غلط ہے اسی طرح فرماتا ہے ذَالِکَ عَالِمُ الْغَیْبِ وَ الشَّہَادَۃِ (سجدہ ع ۱) یعنی خدا ہی غیب اور ظاہر کو جانتا ہے اس آیت میں غیب کا لفظ یقینی مگر نظروں سے پوشیدہ امور کے لیے بولا گیا ہے۔ اسی طرح فرماتا ہے وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ (انعام ع ۷) اللہ عالیٰ کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں۔ اس آیت سے بھی ظاہر ہے کہ غیب وہمی باتوں کا نام نہیں بلکہ ان تمام مخفی خزانوں کا نام ہے جو انسانوں کی نظروں سے پوشیدہ ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ان کو جانتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ کے یہ معنے ہر گز نہیں کہ متقی وہ ہیں جو بغیر دلیل کے قرآن کریم کی باتو ںکو مان لیتے ہیں کیونکہ یہ معنے قرآن کریم کی دوسری آیات کے خلاف ہیں۔
ریورنڈ ویری نے اپنی تفسیر میں اس آیت کے نیچے لکھا ہے کہ جب مسلمان اپنی کتاب کے اسرار کو مانتے ہیں تو کیوں پہلی کتابوں کے اسرار کو جیسے کہ تثلیث یا کفارہ ہیں نہیں مانتے۔ مگر جیسا کہ ظاہر ہے یہ اعتراض یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ کے معنوں کے نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے۔ قرآن کریم کسی ایسے امر کو ماننے کی تلقین نہیں کرتا جو بے دلیل ہو بلکہ وہ تو ان دوسرے مذاہب پر جو بے دلیل باتی مانتے ہیں اعتراض کرتا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے متبعین کی نسبت گواہی دیتا ہے کہ وہ ہر امر کو دلیل او ربرہان سے مانتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان کفارہ اور تثلیث کا اس لئے انکار نہیں کرتے کہ وہ اسرار میں سے ہیں بلکہ اس لئے کہ یہ مسائل بے دلیل بلکہ خلاف عقل ہیں اگر ان کی کوئی دلیل ہوتی تو ان کے ماننے سے مسلمانو ںکو ہر گز انکار نہیں ہو سکتا تھا۔
اب رہا یہ سوال کہ پھر یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ کے کیا معنے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ جیسا کہ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے غیب کے معنے ان امو رکے ہیں جو حواس ظاہری سے معلوم نہ ہو سکیں بلکہ ان کے ثابت کرنے کے لئے عقلی و تجرباتی دلائل کی ضرورت ہو۔ اور ظاہر ہے کہ ایسے امور بے دلیل نہیں کہلا سکتے۔ ہم ہزاروں اشیاء کو جو جسمانی دنیا سے تعلق رکھتی ہیں مانتے ہیں حالانکہ حواسِ خمسہ سے ان کو محسوس نہیں کیا جاس کتا۔ مثلاً انسانی حافظہ ہے اس کا کوئی انکار کر سکتا ہے۔ مگر کوئی نہیں جو قوت حافظہ کو دیکھ سکے یا سونگھ سکے یا چکھ سکے یا سن سکے یا چھو سکے۔ اسی طرح شرم ہے جرأت ہے، محبت ہے، نفرت ہے، خود عقل اور فکر کی قوتیں ہیں ان کو کونسا شخص حواس خمسہ سے معلوم کر سکتا ہے۔ مگر کیا اس وجہ سے کہ ان کا علم حواس خمسہ سے نہیں ہوتا ان کا انکار کیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح کئی اخلاقی مسائل ہیں جو حواس خمسہ سے معلوم نہیں ہو سکتے لیکن ہم ان پر یقین رکھتے ہیں۔ مثلاً یہ حقیقت کہ عفو بالعموم دلوں سے بغض کو دور کرتا ہے۔ حسن سلوک مختلف انسانوں کو آپس میں رشتہ محبت سے جوڑ دیتا ہے سب دنیا کی تسلیم کردہ ہے مگر اس کو حواسہ خمسہ سے تو معلوم نہیں کیا جا سکتا۔ ایک ماں اپنے بچہ سے حسن سلوک کرتی ہے لیکن وہ نہیں جانتی کہ اس حسن سلوک کے نتیجہ میں جو محبت پیدا ہو گی وہ اس کا کوء… مزہ بھی چکھ سکے گی یا نہیں۔ لیکن باوجود اس کے وہ محبت کرتی جاتی ہے۔ ایک استاد شاگردوں کو پڑھاتا ہے وہ نہیں جانتا کہ اس کی تعلیم کے نتیجہ میں اس کے طلباء کسی اعلیٰ درجہ کو پہنچیں گے یا نہیں مگر وہ پڑھانے سے باز نہیں رہتا۔ حکومتیں ملک کی حالت سدھارنے کے لئے ہزاروں جتن کرتی ہیں اور نہیں جانتیں کہ ان کے خوشگوار نتائج کب اور کس شکل میں پیدا ہوں گے مگر وہ آئندہ کی امید پر اور سابقہ تجربہ کی بناء پر اپنی کوششوں میں لگی رہتی ہیں۔ سپاہی نہیں جانتے کہ جنگ کا کیا نتیجہ نکلے گا لیکن اپنے ملک کی حفاظت میں جانیں دیتے چلے جاتے ہیں۔ یہ سب ایمان بالغیب ہی ہوتا ہے یا کچھ اور؟
خلاصہ یہ کہ ایمان بالغیب سے مراد (۱) ان سب صداقتوں پر ایمان لانا ہے جو حواس خمسہ سے معلوم نہیں کی جا سکتیں بلکہ ان کا ثبوت اور ذرائع سے معلوم ہوتا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جسے مومن سنتے ہیں اور اس کے بتائے ہوئے علوم غیبیہ ہیں جنہیں مومن پورا ہوتے دیکھتے ہیں اور اس کی زبردست قدرتیں ہیں جن کا ظہور مومن اپنے نفسوس اور باقی دنیا میں دیکھتے ہیں مگر باوجود ان باتوں کے خدا تعالیٰ کی ہستی وراء الوراء ہے وہ حواس خمسہ سے محسوس نہیں کی جا سکتی۔
اسی طرح ملائکہ کا وجود ہے۔ ملائکہ ظاہری آنکھوں سے نظر نہیں آتے نہ دوسرے حواس ظاہری سے معلوم کئے جا سکتے ہیں لیکن باوجود اس کے اُن کا وجود وہمی نہیں ہے بلکہ ان کے وجود پر قطعی دلائل ہیں جو قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر بیان کئے گئے ہیں۔ یا مثلاً ایک غیب موت کے بعد کی زندگی ہے قرآن کریم اسپر بے دلیل ایمان لانے کا حکم نہیں دیتا بلکہ اس کے سچے ہونے پر زبردست دلائل دیتا ہے جو آئندہ مختلف مواقع پر بیان کئے جا ئیں گے۔
(۲) یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ کے یہ معنے بھی ہیں کہ متقی صرف ایسے کام نہیں کرتے کہ جن کے نتائج نقد بہ نقد مل جاتے ہیں۔ جیسے کہ تاجر سودا فروخت کرتا ہے اور اس کی قیمت وصول کر لیتا ہے۔ بلکہ ان کی زندگی اخلاقی زندگی ہوتی ہے اور وہ اخلاق کی قوت اور ان کے نیک نتائج پر ایمان رکھتے ہیں اور تاجرانہ ذہنیت کو ترک کر کے ایسی قربانیاں کرتے ہیں کہ جو آخر میں اُن کی قوم کو اور باقی دنیا کو اُبھار دیتی ہیں۔ مثلاً دنیا میں امن کے قیام کے لئے جہاد کا کرنا ایماب بالغیب کا ہی نتیجہ ہے۔ ورنہ کون جانتا ہے کہ وہ زندہ رہے گا اور لڑائی کے اچھے نتیجہ کو دیکھے گا۔ سپاہی جب کسی اچھے مقصد کیلئے میدان جنگ میں جاتا ہے تو وہ ایمان بالغیب کا ایک مظاہرہ کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ اس مقصد کے حصول میں کامیاب ہو گیا تو یہ بھی اچھا ہے۔ لیکن اگر وہ اس کے لئے جدوجہد کرتے ہوئے مر گیا تب بھی اس کا نتیجہ حق اور صداقت کے لئے اچھا نکلے گا۔
حق یہ ہے کہ جس قدر شاندار کام ہیں وہ سب ایمان بالغیب کے نتیجہ میں ہی پیدا ہوتے ہیں۔ تعلیم، صدقہ، حیرات، غرباء کے اُبھارنے کے لئے کوششیں، ملکی تنظیم سب ایمان بالغیب ہی کی اقسام ہیں۔ اگر انسان آئندہ نکلنے والے اچھے نتائج پر ظاہر نگاہ سے پوشیدہ ہوتے ہیں یقین نہ رکھے تو کبھی ایسی قربانیاں نہ کر سکے پس متقی کی علامت ایمان بالغیب بتا کر قرآن کریم نے یہ بتایا ہے کہ مومن ضروری دینی امور پر ایمان رکھنے کے علاوہ اعلیٰ درجہ کی اخلاقی قربانیاں کرتا ہے اور تاجرانہ ذہنیت سے بالا ہو جاتا ہے اور اس امر پر اصرار نہیں کرتا کہ میں وہی کام کروں گا جن کا نقد بہ نقد نتیجہ نکلے۔ بلکہ جب اُسے یقین ہو جائے کہ جو کام اس کے سامنے پیش کیا گیا ہے اچھا اور نیک ہے تو وہ ظاہری حالات سے بے پروا ہو کر اس یقین سے اس کام کے کرنے میں لگ جاتا ہے کہ خواہ حالات کتنے ہی مخالف کیوں نہ ہوں نیک کام کا نتیجہ نیک ہی نکلے گا اور اس امر کی بھی پرواہ نہیں کرتا کہ وہ اس نتیجہ کو خود بھی دیکھے گایا نہیں۔
اگر کوئی شخص تعصّب سے آزاد ہو کر غور کرے تو ایمان بالغیب کا یہ مفہوم ایسا ہم ہے کہ اس کے ذریعہ سے قرآن کریم نے تمام قومی، ملی اور بنی نوع انسان کی ترقی کے لئے قربانیوں کی بنیاد رکھ دی ہے۔ یہ ایمان بالغیب ہی تھا کہ جس نے صحابہ نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم سے وہ قربانیاں کرائیں جنہو ںنے عرب کی ہی نہیں بلکہ سب دنیاکی حالت بدل دی۔ اگر وہ تاجرانہ ذہنیت دکھاتے اور ایمان بالغیب کے ماتحت کام نہ کرتے تو دنیا میں ایسے شاندار نتائج کس طرح پیدا ہو سکتے تھے۔
اوپر جو معنے بیان ہوئے ہیں وہ تو ایمان بالغیب کے کامل اور اعلیٰ معنے ہیں۔ لیکن ایک معنے اس کے اور بھی ہیں جو ادنیٰ درجہ کے متقیوں سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ یہ ہیںکہ ادنیٰ درجہ کا تقویٰ یہ ہے کہ انسان ایمان بالغیب رکھے یعنی دلائل عقلیہ کے ساتھ اسے خدا تعالیٰ اور ملائکہ اور بعث بعد الموت پر یقین ہو گو وہ اس مقام پر نہ پہنچا ہو کہ خدا تعالیٰ اُسے حواس باطنی کے ساتھ نظر آنے لگے۔ یہ مقام تقویٰ کا ادنیٰ ہے یعنی اس تقویٰ کی بنیاد صرف دلائل پر ہوتی ہے مشاہدہ پر نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے لَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَہَا (بقرہ ع ۴) یعنی اللہ تعالیٰ کسی انسان پر اس کی طاقت سے زیادہ ذمہ داری نہیں رکھتا۔ پس ایک انسان جو ابھی تقویٰ کے اعلیٰ مقام پر نہیں پہنچا اور اُسے ان امور غیبیہ پر جو ہیں تو یقینی او رقطعی لیکن ہیں انسانی ادراک سے بالا ابھی ایسا ایمان اور یقین پید نہیں ہوا جو مشاہدہ کی حد تک پہنچا ہوا ہو اس سے اللہ تعالیٰ اس امر کا مطالبہ نہیں کرتا کہ جب تک اسے مشاہدہ اور تجبرہ اولا ایمان نصیب نہ ہوا ہو اُسے متقی اور مومن نہیں سمجھا جائے گا۔ بلکہ اس سے صرف اس قدر مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ان دلائل اور براہین پر غور کر کے جو امور غیبیہ کے ثبوت کیلئے اللہ تعالیٰ نے مہیا کئے ہیں ان پر ایمان لے آئے اور یہ امر اس کے متقی ہونے کے لئے ادنیٰ دجرہ کے طو رپر کافی ہو گا۔ اب دیکھو کہ یہ کیسی اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہے جو سب مدارج کے انسانوں کی ضرورت کو پورا کر دیتی ہے۔ اور ایسی ہی تعلیم خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونیوالی کہلا سکتی ہے جو سب استعداد کے لوگوں کی ضرورتوں کو پُورا کرنے والی ہو۔ یہ ادنیٰ دجرہ تقویٰ کا انسان کی نجات محض کے لئے کافی ہے۔ ہاں جب وہ اس سے ترقی کرتا ہے تو اُسے ایمان بالغیب کا وہ درجہ میسر ہو جاتا ہے جو امور غیبیہ کو مشاہدہ کے رنگ میں اُس کے سامنے لے آتا ہے۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث میں بھی اس فرق کو ظاہر کیا گیا ہے۔ آپؐ نے فرماتے ہیں کہ احسان یہ ہے کہ اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ (مسلم کتاب الایمان) یعنی احسان اس کا نام ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کرے کہ گویا روحانی نظروں سے وہ تیرے سامنے موجود ہے اور تو اُسے دیکھتا ہے لیکن اگر یہ درجہ تجھے حاصل نہ ہو تو کم سے کم اس درجہ پر فائز ہو کہ تجھے یقین اور وثوق سے عبادت کے وقت یہ معلوم ہو کہ خدا تعالیٰ تجھے دیکھ رہا ہے۔ اس حدیث میں ایمان بالغیب کے ان دونو ںدرجوں کو بیان کر دیا گیا ہے اعلیٰ درجہ کو بھی اور ادنیٰ درجہ کو بھی۔
جیسا کہ حل لغات میں بتایا گیا ہے ایک معنے غیب کے غائب ہونے کی حاتل کے بھی ہوتے ہیں۔ ان معنوں کے رو سے ایمان بالغیب کے یہ معنے بھی ہیں کہ جب انسان غیب کی حالت میں ہو یعنی لوگو ںکو نظروں سے پوشیدہ ہو تب بھی اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہو۔ یعنی اس کا ایمان صرف قومی نہ ہو کہ جب اس کے ہم مذہب لوگ اس کے سامنے ہوں تب تو وہ ان عقائد کو تسلیم کرے جو اس کے مذہب نے اس کے سامنے پیش کئے ہیں۔ لیکن جب وہ اپنے لوگوں سے جُدا ہو تو اس کا ایمان کمزور ہو جائے۔ غیب کے یہ معنے قرآن کریم میں بھی استعمال ہوئے ہیں مثلاً فرماتا ہے اَلَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَیْبِ (انبیاء ع ۴) وہ مومن جو علیحدگی میں بھی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے ڈرتے ہیں۔ اسی طرح فرماتا ہے وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ وَ رُسُلَہٗ بِالْغَیْبِ (حدید ع ۳) یعنی ہم نے جنگ کے سامان اس لئے پیدا کئے ہیں تاکہ ظاہر ہو جائے کہ کون خدا تاعلیٰ اور اس کے رسول کا دل سے مددگار تھا اور صرف ظاہری دعویٰ نہیں کر رہا تھا۔ حضرت یوسفؑ کی نسبت آتا ہے اَنِّیْ لَمْ اَخُنْہُ بِالْغَیْبِ (یوسف ع ۷) جس کے یہی معنے ہیں کہ میں نے پس پشت نظروں سے اوجھل اپنے آقا کی خیانت نہیں کی۔
ان معنوں کے رُو سے ان لوگوں کو توجہ دلائی گئی ہے کہ جو تقریریں سنتے ہیں یا وعظ کی مجالس میں بیٹھتے ہیں تو اُنہیں خوب جوش آ جاتا ہے۔ لیکن جب وہ علیحدگی میں جاتے ہیں تو ان کا ایمان کمزور پڑ جاتا ہے۔ ایسے لوگ در حقیقت معمولی مذہب رکھتے ہیں اور ان کی حالت بھیڑ چال کی ہوتی ہے۔ وہ دوسروں کی آراء کی رَو میں بہ جاتے ہیں ان کا اپنا مذہب کچھ نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو متنبہ کرتا ہے کہ ایسا ایمان بے حقیقت ہے ایمان وہی ہے کہ جوداتی ہو اور صرف دوسروں کے جو ش کو دیکھ کر بھڑک نہ اٹھتا ہو۔ اور جو شخص ذاتی ایمان نہیں رکھتا او راپنی قوم اور جماعت اور پر جوش واعظوں کی صحبت سے الگ ہو کر اسے دل کا جوش ٹھنڈا پڑ جاتا ہے یا مٹ جاتا ہے وہ متقی نہیں کہلا سکتا۔ کیونکہ اس کا ایمان اپنا ایمان نہیں بلکہ عارضی طو رپر دوسرے لوگوں سے مانگا ہوا ایمان ہے ایسے لوگوں کی نسبت قرآن کریم میں دوسری جگہ فرمایا ہے وَاِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّا وَاِذَا خَلَوْا اِلیٰ شَیَا طِینِہِمْ قَالُوْٓا اِنّا مَعَکُمْ اِنَّمَا نَحْنُ مُشتَہْرِئُ وْنَ (بقرہ ع ۲) بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب مومنوں کی مجالس میں آتے ہیں تو اُن کی باتوں کو سُن کر او راُن کے یقین اور ایمان کو دیکھ کر متاثر ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بھی ان باتو ںپر ایمان لاتے ہیں لیکن جب اُن سے الگ ہوتے ہیں اور اسلام کے دشمنوں کی مجلس میں جاتے ہیں تو پھر اُن کی سی کہنے لگتے ہیں۔ اور ان کے خیالات سے متاثر ہو کر کہتے ہیں کہ ہم بھی تمہارے ہی ہم عقیدہ ہیں اور جو مومنوں کی ہاں میں ہاں ہم نے ملائی تھی یہ صرف ایک مذاق تھا۔ ایسے لوگوں کا ایمان در حقیت کوئی ایمان نہیں بلکہ یہ لوگ بے اصولے ہوتے ہیں۔ پس یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ متقی وہ ہوتا ہے جس کی زبان ہی ایمان کا دعویٰ نہیں کرتی بلکہ اس کا دل بھی صداقت کا مصدق ہوتا ہے اور وہ جب مومنوں کی صحبت سے دُور ہوتا ہے مثلاً غیر ملکوں اور غیر مذاہب کے پیروئوں میں چلا جاتا ہے جہاں اس کے ہم مذہب نہیں ملتے تو بھی اس کا ایمان ڈگمگاتا نہیں یا کمزور نہیں ہوتا کیونکہ وہ دوسروں کی نقل کرنے والا نہیں تھا بلکہ یقین اور وثوق سے ایمان پر قائم تھا۔
اس مضمون سے اُن مسلمان طلباء کو جو تعلیم کی خاطر کالجوں میں داخل ہوتے ہیں یا دوسرے ممالک میں جاتے ہیں سبق حاصل کرنا چاہیئے اور اپنے ایمان کا مطالعہ کرنا چاہیئے کہ اگر وہ مومنوں کے ماحول سے جدا ہو کر کمزور ہو جاتا ہے تو اس کے یہ معنے ہیں کہ انہوں نے اپنے مذہب کو سمجھ کر نہیں مانا تھا اور اُن کا ایمان ذاتی نہ تھا بلکہ صرف اپنے ماحول کی ایک صدائے باز گشت تھا۔
خلاصہ یہ کہ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ کہہ کر قرآن کریم نے بتایا ہے کہ قرآن کریم ان متقیوں کو جو مندرجہ ذیل ضفات اپنے اندر رکھتے ہیں اعلیٰ روحانی مقامات تک پہنچاتا ہے (۱) ان متقیوں کو بھی دلائل اور برابین سے روحانی دنیا سے تعلق رکھنے والے عقائد پر ان کی صداقت واضح ہو جانے کے بعد پورا ایمان لے آتے ہیں خواہ ابھی اس مقام پر نہ پہنچے ہوں کہ دلیل سے بڑھ کر ذاتی تجربہ نے بھی ان کے ایمان کو مضبوط کر دیا ہو (۲) وہ ان متقیوں کو بھی ہدایت کی اعلیٰ راہوں پر چلاتا ہے جن کا ایمان منافقت سے پاک ہو اور ان کا دل اور زبان اور عمل ایک ہو (۳) وہ ان متقیوں کو بھی ہدایت کی اعلیٰ راہو ںپر چلاتا ہے جن کا ایمان قومی نہ ہو بلکہ ذاتی ہو یہ نہ ہو کہ مومنوں کی مجلس میں مومن او رکافروں کی مجلس میں کافر بلکہ خواہ اُنہیں کیسی ہی مخالف سوسائٹی یا قوم میں رہنا پڑے اُن کا ایمان ڈانوا ڈول نہ ہو اور اُن کے مومنانہ عمل میں فرق نہ آئے (۴) وہ ان متقیوں کو بھی ہدایت دیتا ہے جو اِن ظاہری حواس سے محسوس نہ ہونے والی صداقتوں پر کامل یقین اور اعتقاد رکھتے ہیں جن کا وجود دوسرے دلائل اور براہین سے ثابت ہے اور ایسے ایمان کو اپنے تجارب کی بناء پر کمال تک پہنچاتے ہیں (۵) ایسے متقیو ںکو بھی ہدایت کے اعلیٰ مقام تک پہنچاتا ہے جو تاجرانہ ذہنیت کو چھوڑ کر اخلاقی اور دینی نتائج پر یقین رکھتے ہیں اور ان قربانیوں کے نیک نتائج پر یقین رکھتے ہیں جو بظاہر حالات مقبول ہوتی نظر نہیں آتیں لیکن قومی ترقی اور ملی کامیابی کے لئے اُن کا وجود ضروری سمجھا جاتا ہے اور اپنے ذاتی فوائد کو قومی فوائد پر قربان کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔
جن متقیوں میں ان سے ایک یا زیادہ باتیں پائی جائیں وہ قرآن کریم کی اتباع میں حاصل ہونے والی اعلیٰ ہدایتوں کے مستحق سمجھے جاتے ہیں اور وہ ہدایت انہیں دی جاتی ہے۔
یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ۔ جیسا کہ حل لغات میں بتایا جاچ کا ہے اقامۃ الصلٰوۃ کے معنے (۱) باقاعدگی سے نماز ادا کرنے کے ہیں کیونکہ قَامَ عَلَی الْاَمْرِ کے معنے کسی چیز پر ہمیشہ قائم رہنے کے ہیں پس یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے یہ معنے ہوئے کہ نماز میں ناغہ نہیں کرتے۔ ایسی نماز جس میں ناغہ کیا جائے اسلام کے نزدیک نماز ہی نہیں کیونکہ نماز وقتی اعمال سے نہیں بلکہ اُس وقت مکمل عمل سمجھا جاتا ہے جبکہ تو بہ یا بلوغت کے بعد کی پہلی نماز سے لے کر وفات سے پہلے کی آخری نماز تک اس فرض میں ناغہ نہ کیا جائے جو لوگ درمیان میں نمازیں چھوڑتے رہتے ہیں اُن کی سب نمازیں ہی رد ہو جاتی ہیں۔ پس ہر مسلمان کا فرض ہے کہ جب وہ بالغ ہو یا جب اُسے اللہ تعالیٰ توفیق دے اُس وقت سے موت تک نماز کا ناغہ نہ کرے کیونکہ نماز خدا تعالیٰ کی زیارت کا قائم مقام ہے اور جو شخص اپنے محبوب کی زیارت سے گریز کرتا ہے وہ اپنے عشق کے دعویٰ کے خلاف خود ہی ڈگری دیتا ہے (۲) دوسرے معنے اِقَامَۃ کے اعتدال اور درستی کے ہیں اِن معنوں کے رُد سے یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے یہ معنے ہیں کہ متقی نماز کو اُس کی ظاہری شراوط کے مطابق ادا کرتے ہیں اور اس کے لئے جو قواعد مقرر کئے گئے ہیں ان کو توڑتے نہیں۔ مثلاً تندرستی میں یا پانی کی موجودگی میں وضوء کر کے نما زپڑھتے ہیں اور وضو بھی ٹھیک طرح ان شرائط کے مطابق ادا کرتے ہیں جو اس کے لئے شریعت نے مقرر کی ہیں۔ اسی طرح صحیح اوقات میں نماز ادا کرتے ہیں نماز میں قیام رکوع سجدہ قعدہ کو عمدگی سے ادا کرتے ہیں۔ مقررہ عبارات اور دعائیں اور تلاوت اپنے اپنے موقع پر اچھی طرح اور عمدگی سے پڑھتے ہیں غرض تمام ظاہری شرائط کا خیال رکھتے اور انہیں اچھی طرح بجا لاتے ہیں۔
اس جگہ یاد رکھنا چاہیئے کہ گو شریعت کا حکم ہے کہ نماز کو اس کی مقررہ شرائط کے ماتحت ادا کیا جائے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ جب مجبوری ہو اور شرائط پوری نہ ہوتی ہوں تو نماز کو ترک ہی کر دے نماز بہرحال شرائط سے مقدم ہے۔ اگر کسی کو صاف کپڑا میسر نہ ہو تو وہ گندے کپڑوں میں ہی نماز پڑھ سکتا ہے خصوصاً وہم کی بناء پر نماز کا ترک تو بالکل غیر معقول ہے۔ جیسا کہ ہمارے ملک میں کئی عورتیں اس وجہ سے نماز ترک کر دیتی ہیں کہ بچوں کی وجہ سے کپڑے مشتبہ ہیں۔ اور کئی مسافر نماز ترک کر دیتے ہیں کہ سفر میں طہارت کامل نہیں ہو سکتی۔ یہ سب شیطانی وساوس ہیں لَایُکَلِّفُ اللّٰہَ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا (بقرہ ع ۴۰) الٰہی حکم ہے جب تک شرائط کا پورا کرنا اختیار میں ہو اُن کے ترک میں گناہ ہے لیکن جب شرائط پوری کی ہی نہ جا سکتی ہوں تو اُن کے میسر نہ آنے کی وجہ سے نماز کا ترک گناہ ہے۔ اور ایسا شخص معذور نہیں بلکہ نماز کا تارک سجھا جائے گا۔ پس اس بارہ میں مومنوں کو خاص طور پر ہوشیار رہنے کی ضرورت (۳) تیسرے معنے اِقَامَۃ کے کھڑا کرنے کے ہیں رُو سے یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے معنے یہ ہوئے کہ وہ نماز کو گرنے نہیں دیتے یعنی ہمیشہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ ان کی نماز درست اور باشرائط ادا ہو اس میں ان مشکلات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جو نماز پڑھنے والے مبتدی کو زیادہ اور عارف کو کسی کسی وقت پیش آتی رہتی ہیں یعنی اندرونی یا بیرونی تاثرات نماز سے توجہ ہٹا کر دوسرے خیالات میں پھنسا دیتے ہیں۔ یہ امر انسانی عادت میں داخل ہے کہ اس کا خیال مختلف جہالت کی طرف منتقل ہوتا رہتا ہے اور خاص صدموں یا جوش یا محبت کے اثر کے سوا جبکہ ایک وقت تک خیالات میں کامل یکسوئی پیدا ہو جاتی ہے انسانی دماغ اِدھر اُدھر گھومتا رہتا ہے اور ایک خیال سے دوسرا خیال پیدا ہو کر ابتدائی خیال سے کہیں کا کہیں لے جاتا ہے۔ اسی طرح بیرونی آوازیں یا پاس کے لوگوں کی حرکات یا کھٹکے، بو یا خوشبوٹ جگہ کی سختی یا نرمی اور اسی قسم کے اور اُمور انسانی ذہن کو اِدھر سے اُدھر پھرا دیتے ہیں۔ یہی مشکلات نمازی کو پیش آتی ہیں او راگ راپنے خیالات پر پوار قابو نہ ہو تو اُسے پریشان خیال بنائے رکھتی ہیں اور بعض اوقات وہ نماز کے مضمون کو بھول کر دوسرے خیالات میں پھنس جاتا ہے۔ اس حالت کی نسبت یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ میں اشارہ کیا ہے اور فرمایا ہے کہ بعض نمازیوں کو یہ مشکل پیش آئے گی مگر انہیں گھبراتا نہیں چاہیئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر درجہ کے انسان کے لئے ترقی کا راستہ کھول دیا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی نماز میں ایسی پریشان خیالی سے دو چار ہو تو اُسے مایوس نہیں ہونا چاہیئے اور اپنی نماز کو بیکار نہیں سمجھنا چاہیئے کیونکہ اللہ تعالیٰ بندوں سے اسی قدر قربانی کی امید کرتا ہے جتنی قربانی اُن کے بس کی ہو پس ایسے نمازی جن کے خیالات پراگندہ ہو جاتے ہوں اگر نماز کو سنوار کر اور توجہ سے پڑھنے کی کوشش میں لگے رہیں تو چونکہ وہ اپنی نماز کو جب بھی وہ اپنے مقام سے گرے کھڑا کرنیکی کوشش میں لگے رہیں گے اللہ تعالیٰ ان کی نماز کو ضائع نہیں کرے گا بلکہ اُسے قبول کرے گا او راس نماز کو کھڑا کرنے کی کوشش کرنے والے کو متقیوں میں ہی شامل سمجھے گا۔
(۴) لُغت کے مذکورہ بالا معنوں کے رُو سے یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے ایک اور معنے بھی ہیں اور یہ کہ متقی دوسرے لوگوں کو نماز کی ترغیب دیتے ہیں کیونکہ کسی کام کو کھڑا کرنے کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ اُسے رائج کیا جائے اور لوگوں کو اس کی ترغیب دلائی جائے۔ پس یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے عامل متقی وہ بھی کہلائیں گے کہ جو خود نماز پڑھنے کے علاوہ دوسرے لوگوں کو بھی نماز کی تلقین کرتے رہتے ہیں اور جو مسست ہیں انہیں تحریک کر کے چست کرتے ہیں۔ رمضان کے موقع پر جو لوگ تہجد کے لئے لوگوں کو جگاتے ہیں وہ بھی اس تعریف کے ماتحت یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کی تعریف میں آتے ہیں۔
(۵) نماز باجماعت سے پہلے امام کے نماز پڑھانے کے قریب وقت میں اذان کے کلمات تھوڑی زیادتی کے ساتھ دہرائے جاتے ہیں ان کلمات کو اِقَامَۃ کہتے ہیں اور نماز باجماعت بھی ان معنوں کے رُو سے اِقَامَۃ الصَّلٰوۃ کا مفہوم رکھتی ہے۔ ہمارے ملک میں بھی کہتے ہیں نماز کھڑی ہو گئی ہے۔ اس محاورہ کے مطابق یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے معنے ہوںگے کہ وہ نماز باجماعت ادا کرتے ہیں اور دوسروں سے ادا کرواتے ہیں۔
نماز باجماعت کی ضرورت کو عام طور پر مسلمان بھول گئے ہیں اور یہ ایک بڑا موجب مسلمانوں کے تفرقہ اور اختلاف کا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس عبادت میں بہت سی شخصی اور قومی برکتیں رکھی تھیں مگر افسوس کہ مسلمانوں نے انہیں بھلا دیا قرآن کریم نے جہاں بھی نماز کا حکم دیا نماز باجماعت کا حکم دیا ہے خالی نماز پڑھتے کا کہیں بھی حکم نہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز باجماعت اہم اصول دین میں سے ہے بلکہ قرآن کریم کی آیات کو دیکھ کر کہ جب بھی نماز کا حکم بیان ہوا ہے نماز باجماعت کے الفاظ میں ہوا ہے تو صاف طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک نماز صرف تبھی ادا ہوتی ہے کہ باجماعت ادا کی جائے سوائے اس کے کہ ناقابل علاج مجبوری ہو۔ پس جو کوئی شحص بیماری یا شہر سے باہر ہونے یا نسیان یا دوسرے مسلمان کے موجود نہ ہونے کے عذر کے سوا نماز باجماعت کو ترک کرتا ہے خواہ وہ گھر پر نماز پڑھ بھی لے تو اس کی نماز نہ ہو گی اور وہ نماز کا تارک سمجھا جائے گا۔
قرآن کریم میں نماز پڑھنے کا جہاں بھی حکم آیا ہے اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ کے الفاظ سے آیا ہے کبھی خالی صَلَّوْا کے الفاظ استمعال نہیں ہوئے یہ امر اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اصل حکم یہ ہے کہ فرض نماز کو باجماعت ادا کیا جائے اور بغیر جماعت کے نماز صرف مجبوری کے ماتحت جائز ہے جیسے کوئی کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھ سکے تو اُسے بیٹھ کر پڑھنے کی اجازت ہے پس جس طرح کوئی کھڑا ہو کر نماز پڑھنے کی طاقت رکھتا ہو لیکن بیٹھ کر پڑھے تو یقینا وہ گہنگار ہو گا اسی طرح جسے باجماعت نماز کا موقع مل سکے مگر وہ باجماعت نماز ادا نہ کرے تو وہ بھی گہنگار ہو گا۔
آج کل بہت سے لوگ ایسے ملتے ہیں جو باجماعت نمازوں کی ادائیگی میں کوتاہی کرتے ہیں اور باتو ںمیں مشغول رہتے ہیں یہاں تک کہ نماز ہو چکتی ہے او رپھر افسوس کرتے ہیں کہ نماز چلی گئی۔ ان کو بہت احتیاط سے کام لینا چاہیئے کیونکہ وہ معمولی غفلت سے بہت بڑے ثواب سے محروم رہ جاتے ہیں۔
(۶) یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے ایک معنے یہ بھی ہیں کہ نماز چستی او رہوشیاری سے ادا کی جائے کیونکہ سستی اور غفلت کی وجہ سے خیالات میں پراگندگی پیدا ہوتی ہے اور نماز کا مغز ہاتھ سے جاتا رہتا ہے اسی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں لاتی ںڈھیلی چھوڑنے یا سہارا لگانے (مسلم جلد اول کتاب الصلوٰۃ باب کراھۃ الاختصار فی الصلوٰۃ) یا کہنیاں سجدہ کے وقت زمین پر ٹیکنے سے منع فرمایا ہے (ترمذی ابواب الصلوٰۃ باب ماجاء فی الاعتدال فی السجود) اور اس کے بالمقابل رکوع میں کمر سیدھی رکھنے (ترمذی ابواب الصلوۃ باب ماجاء فی من لایقیم صلبہ) کھڑا ہوتے وقت یا رکوع میں ٹانگوں کو سیدھا رکھنے سجدہ میں پائوں گھٹنوں ہتھیلیوں اور ماتھے پر بوجھ رکھنے (ترمذی کتاب الصلوۃ باب ماجاء فی السجود علیٰ سبعہ اعتضاء) او رکمر اور پیٹ کو لاتوں سے جدا رکھنے انسانی کتاب افتتاح الصلوٰۃ باب صفۃ السجود و التجانی نی السجود دوالا عتدال فی السجود) اور قعدہ کے موقع پر دائیں پائوں کی انگلیوں کو قبلہ رُخ رکھ کر پائوں کھڑا رکھنے کا حکم دیا ہے (ترمذی ابواب الصلوٰۃ باب ماجاء کیف الجلوس التشھد) کیونکہ یہ سب امور چستی اور ہوشیاری پیدا کرتے ہیں اور نیند اور اونگھ اور غفلت کو دُور کرتے ہیں اور اسی وجہ سے اسلام نے نماز سے پہلے وضوء کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ سر اور جو ارح کے اعصاب کو تری اور سردی پہنچ کر جسم میں چستی اور خیالات میں یکسوئی پیدا ہو۔
اوپر جو معانی یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے لغوی معنوں سے استنباط کر کے لکھے گئے ہیں قرآن کریم اور احادیث سے بھی ان کی تصدیق ہوتی ہے۔ مثلاً ایک معنے یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے یہ کئے گئے تھے کہ باقادگی سے نماز ادا کریں اور ناغے نہ کریں اس کے مفہوم کی تائید قرآن کریم کی اس آیت سے ہوتی ہے الَّذِیْنَ ھُمْ عَلیٰ صَلٰو تِھِمْ دَا ئِٓمُوْنَ (معارج ع ۱) یعنی مومن اپنی نمازوں میں ناغہ نہیں ہونے دیتے بلکہ ہمیشہ باقاعدگی سے نماز ادا کرتے رہتے ہیں۔ دوسرے معنے یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے اعتدال اور درستی کے ساتھ نماز ادا کرنے کے کئے گئے تھے ان کی تائید اَلَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلٰو تِھِمْ خَاشِعُوْنَ کی آیت سے ہوتی ہے (مومنون ع ۱) یعنی مومن اپنی نمازوں میں خشوع اور فرمانبرداری کو مدنظر رکھتے ہیں یعنی ظاہری اور باطنی احکام جو نماز کے بارہ میں دئے گئے ہیں سب کو پورا کرتے ہیں۔
تیسرے معنے یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے یہ کئے گئے تھے کہ وہ نماز کو درست رکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ان معنوں کی تصدیق اس آیت سے ہوتی ہے وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَلٰی صَلٰو تِھِمْ یُحَافِظُوْنَ (مومنون ع ۱) مومن کامل اپنی نماز کی حفاظت کرتے رہتے ہیں۔ یعنی اُسے اعلیٰ اور کامل بنانے کی کشش میں لگے رہتے ہیں۔
چوتھے معنے یہ کئے گئے تھے کہ نماز باجماعت کی ترویج میں مومن لگے رہتے ہیں۔ اِن معنوں کی تصدیق قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیت سے ہوتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَأْمُرْ اَھْلَکَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْہَا (طہ ع ۸) اے ہمارے مخاطب اپنے اہل کو نماز کی نصیحت کرتے رہا کرو۔ اور اس حکم کو کبھی نہ بھولو بلکہ نماز کی یاد دہانی کو ایک ضروری اور لازمی ذمہ داری سمجھ لو۔
اور یہ جو معنے کئے گئے تھے کہ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ سے مراد نماز باجماعت کے ہییں سو یہ مندرجہ ذیل آیت سے نکلتے ہیں وَاِذَا کُنْتُ فِیْھِمْ فَاَقَمْتَ لَھُمْ الصَّلٰوۃَ فَلْتَقُمْ طَائِفَۃٌ مِّنْھُمْ مَعَکَ وَلْیَاْ خُذُٓوْا اَسْلِحَتَہُمْ (نساء ع ۱۵) یعنی جب تو مسلمانوں میں موجود ہو اور نمازیں ان کی امامت کرائے تو چاہیئے کہ مومن سب کے سب نماز باجماعت میں شامل نہ ہوں بلکہ بوجہ جنگ کے ان مںی سے صرف ایک حصہ نماز باجماعت میں شامل ہو اور وہ حصہ بھی اپنہ ہتھیار اٹھائے رہے۔ اس آیت میں اَقَمْتَ لَھُمُ الصَّلٰوۃَ کے الفاظ سے واضح ہو جاتا ہے کہ اِقَامَۃ الصَّلٰوۃ سے مراد باجماعت نماز ہوتی ہے۔
ایک معنے یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے یہ کئے گئے تھے کہ نماز ہوشیاری اور چستی کی حالت میں ادا کرتے ہیں۔سو ان معنوں پر یہ آیت دلاتل کرتی ہے۔ فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلٰو تِھِمْ سَاھُوْنَ (الماعون ع ۱) یعنی ان نمازیوں پر خدا کا عذاب نازل ہو گا جو اپنی نمازوں میں غفلت برتتے ہیں یعنی نماز تو پڑھتے ہیں مگر اُن کے دلو ںمیں پوری رغبت اور چستی نہیں ہوتی ایسی طرح ظاہری سستی اور غفلت کی طرف سے اس آیت میں اشارہ کیا ہے وَلاَیَاْ تُوْنَ الصَّلٰوۃَ اِلَّا وَھُمْ کُسَالٰی (توبہ ع ۷) یعنی وہ جب بھی نماز پڑھتے ہیں اُن پرستی اور غفلت غالب ہوتی ہے۔ اسی طرح قرآن کریم میں ہے یَا بَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُ وْازِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْتِجدٍ (الاعراف ع ۳) یعنی اے مومنو ہر مسجد کے پاس جاتے ہوئے اپنی زینت کے سامان مکمل کر لیا کرو۔ یعنی وضوء کر لیا کرو اور ہوشیار ہو جایا کرو۔ اسی طرح فرمایا یَٓا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا الَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُکٰرٰی حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَاتَقُوْلُوْنَ (نساء ع ۷) یعنی اے مومنو جبکہ تمہارے خیالات پراگندہ ہوں نماز کے قریب مت جائو بلکہ اُسی وقت نماز پڑھو جبکہ تم یہ جانتے ہو کہ تم کیا کہہ رہے ہو یعنی دماغی پراگندگی یا سستی کی حالت میں انسان نہیں جانتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور اس کی نماز خراب ہو جاتی ہے ایسی حالت میں نماز پڑھنی چنداں مفید نہیں ہوتی۔
اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ خیالات پراگندہ ہوں تو نماز نہیں پڑھنی چاہیئے بلکہ یہ مراد ہے کہ خیالات کو پراگندگی سے بچائو اور ذہنی بیداری اور چستی پیدا کرو اور جو باتیں کہ پراگندگی کو پیدا کرنے والی ہیں اُنہیں دُور کرو۔ اسی غرض کو پورا کرنے کے لئے اسلام نے حکم دیا ہے کہ نماز سے کچھ عرصہ پہلے اذان ہونی چاہیئے جسے سُنکر مسلمانوں کو اپنے کاروبار ترک کر کے نماز کی تیاری شروع کر دینی چاہیئے۔ اسی طرح یہ کہ نماز سے پہلے وضوء کرنا چاہیئے پھر مسجد میں جا کر یا گھر پر سنتیں پڑھنی چاہئیں پھر مسجد میں امام کے انتظار میں ذکر الٰہی کرنا چاہیئے۔ اِن سب کاموں سے ظاہری اور باطنی سستی دُور ہوتی ہے کیونکہ خیالات میں پراگندگی اور سستی اِسی وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ دھیان کسی اور طرف ہو۔ مگر جو شخص نماز سے پہلے اپنا کاروبار ترک کر دے گا اس کے خیالات جو تجارتی یا دوسرے کاروبار کی وجہ سے یا گھر کے جھگڑوں یا فکروں کی وجہ سے پراگندہ ہو رہے تھے آہستہ آہستہ نماز اور عبادت کی طرف پھر جائیں گے۔ پھر مسجد میں جانے اور سنتیں پڑھنے اور ذکرِ الٰہی کرنے کی وجہ سے وہ دوسری تمام طرفوں سے ہٹکر عبادت اور نماز کی طرف منتقل ہو جائیں گے اور وہ تمام ذرائع مہیا ہو جائینگے جن کی وجہ سے نماز میں خیالات کی یکسوئی پیدا ہو سکتی ہے۔ اِسی پراگندگی کی حالت کو دُور کرنے کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ اس حالت میں پیشاب پاخانہ وغیرہ کی حاجت معلوم ہو نماز نہیں پڑھنی چاہیئے بلکہ پہلے ان حاجات کو پورا کرے پھر نماز پڑھے (ابو دائود کتاب الطہارۃ باب ایصلی الرجل وھو حاقن) اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اِذَا وُضِعَ الْعَشَائُ وَاُقِیْمَت الصَّلٰوۃُ فَابْدَ ؤا بِالْعَشَائِ (بخاری کتاب الآ ذان باب اذاحمضر الطعام و اقیمت الصلوۃ) یعنی جب شام کا کھانا سامنے آ جائے تو عشاء کی نماز سے پہلے کھانا کھا لیا کرو۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ کھانے سامنے آ جانے کے بعد خیال کھانے کی طرف رہے گا پس پہلے کھانا کھا کر نماز پڑھی جائے تاکہ طبیعت میں یکسوئی پیدا ہو۔ اس حدیث میں جو شام کے کھانے کا خاص طور پر ذکر ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اوّل تو دوپہر کا کھانا نماز ظہرؔ سے اس قدر نہیں ٹکراتا جس قدر کہے شام کا کھانا عشاء کی نماز سے ٹکراتا ہے۔ دوسرے اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ رات کو سونے سے کافی پہلے کھانا کھا لینا چاہیئے تا نیند پریشان نہ ہو اور بدہضمی کی شکایت پیدا نہ ہو۔ اگر شام کے کھانے کو عشاء کی نماز کے بعد کے لئے اٹھا رکھا جائے تو چونکہ اسلام عشاء کے بعد جلد سونے کی ہدایت دیتا ہے تاتہجد کے لئے اُٹھنے میں آسانی پیدا ہو شام کے کھانے اور سونے کے وقت میں تھوڑا فرق رہ جائے گا اور صحت خراب ہو گی۔
صَلٰوۃ کے معنے حل لغات میں بتایا جا چکا ہے کہ دُعا، رحم دین، شریعت، استغفار، تعظیم، برکت او رمسلمانوں کی اصطلاحی عبادت کے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کے لئے یہ لفظ بولا جائے تو اس کے معنے رحم اور برکت کے ہوتے ہیں اور جب بندوں کے لئے استعمال ہو تو دُعا، دین، شریعت، استغفار، تعظیم، عام عبادت یا مسلمانوں کی اصطلاحی عبادت کے ہوتے ہیں۔ چنانچہ دُرود شریف کے لئے بھی صلوۃ کا لفظ بولا جاتا ہے اور اس کے معنے دعا اور برکت اور تعظیم کے ہوتے ہیں او رمطلب یہ ہوتا ہے کہ مومن اپنے آقا کے مدارج کی ترقی کے لئے دعا کریں۔ اس کے لئے خدا تعالیٰ سے برکت طلب کریں اور اس کی بڑائی بیان کریں۔ ان معنوں میں قرآن کریم میں یہ لفظ سورۂ احزاب میں استعمالل ہوا ہے۔ وہاں فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہَ وَمَلَآ ئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یَٓا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اصَلُّوْ ا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (احزاب ع ۷) اللہ اپنے رسول پر برکات نازل کرتا ہے اور اس کے فرشتے اس کے لئے دعائیں کرتے اور اس کی بڑائی بیان کرتے ہیںپس اے مومنو تم بھی اس کے لئے دعائیں کرو اور اس کی بڑائی بیان کرو اور اس کے تمام احکام کی کامل فرمانبرداری کرو۔ استغفار کے خالص معنوں میں یہ لفظ سورۂ توبہ میں استعمال ہوا ہے وہاں آتا ہے وَصَلِّ عَلَیْہِمْ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَھُمْ (توبہ ع ۱۳) اے رسول جن سچے مومنوں سے کمزوریاں ہو جائیں تو اُن کیلئے استغفار کر کیونکہ تیرا اُن کے لئے استعفار کرنا ان کی تسلی کا موجب ہوتا ہے۔
دعا کے معنوں میں بھی سورۂ توبہ میں یہ لفظ استعمال ہوتا ہے فرماتا ہے وَمِنَ الْاَ غَرابِ مَنْ یُّؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰ خِرِوَ یَتَّخِذُ مَایُنْفِقُ قُرُبَاتٍ عِنْدَ اللّٰہِ وَصَلَواَتِ الرَّسُوْلِ اَلَآ اِنَّھَا قُرْبَۃٌ لَّھُمْ سَیُدْ خِلُھُمُ اللّٰہُ فِیْ رَحْمَتِۃٖ (التوبہ ع ۱۲) یعنی چھوٹے دیہات یا جنگلوں میں رہنے والے بعض عرب بھی ایسے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان رکھتے ہیں اور یوم آخر پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ بھی وہ خرچ کرتے ہیں اُسے اللہ تعالیٰ کے قرب اور رسول کی دعائیں حاصل کرنے کا ذریعہ بناتے ہیں اور خوب سن رکھو کہ ان کا یہ فعل خدا تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ بن جاتا ہے اللہ تعالیٰ ان کی اس نیک نیتی اور رسول کی دعائوں کی وجہ سے اُن کو ضرور اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔
نماز کے معنو ںمیں جب یہ لفظ بولا جاتا ہے تو اس میں اصطلاحی نماز کے علاوہ یہ امور بھی مدنظر ہوتے ہیں کہ نماز دعا ہے اور اس سے دین کا مغز پورا ہوتا ہے اور شریعت کی غرض پوری ہوتی ہے اور اس میں بندہ اپنی کمزوریوں کی معانی کی درخواست اللہ تعالیٰ سے کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور برکت کو طلب کرتا ہے چنانچہ دوسری جگہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اُتْلُ مَا اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃِ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرِ (عنکبوت ع ۵) یعنی قرآن کریم کی تلاوت کر اور نماز باجماعت ادا کر یقینا نماز اُن بُری باتوں سے بھی کہ جو انسان کی ذات سے تعلق رکھتی ہیں اور ان سے بھی کہ جو سوسائٹی پر گراں گذرتی ہیں روکتی ہے۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ نماز کو ایک رسم کے طو رپر مقرر نہیں کیا گیا بلکہ یہ عبادت اس طرح بنائی گئی ہے کہ اس کا لازمی نتیجہ بدی سے نفرت ہوتا ہے اور اندرونی پاکیزگی اس سے حاصل ہوتی ہے۔
یہ الفاظ استعمال فرما کر کہ نماز بدی سے روکتی ہے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ نماز میں یہ ذاتی خوبی ہے کہ وہ بدی سے روکتی ہے۔ پس جس شحص کو باوجود نماز پڑھنے کے بدی سے نفرت پیدا نہ ہو اُس کی نماز میں ضرور نقص ہے اور یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ میںاسی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ متقی صرف رسمی طور پر نماز نہیں ادا کرتے بلکہ ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اُن کی نماز کھڑی ہو جائے یعنی وہ اُن کی روحانیت کے لئے بطور سہارے کے بن جائے جس طرح ٹیک اور سہارے جب تک اپنی جگہ پر کھڑے رہیں چھتوں کو کھڑا رکھتے ہیں اسی طرح نماز جب کامل ہو جائے تو متقی کے تقویٰ کو سہارا دے کر اپنی جگہ پر کھڑا رکھتی ہے پس صرف نماز پڑھنے پر تسلی نہیں پانی چاہیئے بلکہ نماز کو کھڑا کرنا چاہیے تاکہ اس کے سہارے پر انسان کا تقویٰ بھی کھڑا رہے۔
اسلامی نماز۔ چونکہ قرآن کریم میں نماز قائم کرنے کا حکم یہاں پہلی دفعہ بیان ہوا ہے میں اسلامی نماز کی کیفیت کو اس جگہ مختصراً بیان کر دینا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ جو غیر مسلم اس تفسیر کو پڑھیں انہیں نماز کے متعلق کچھ واقفیت ہو جائے۔
اسلامی نماز کے ادا کرنے سے پہلے وضو ء یاتمیم فرض ہے وضوء کا حکم اصل ہے اور تمیم کا حکم بطور قائم مقام کے ہے۔ (سورۃ مائدہ رکوع اول آیت ۴) وضوء پانی سے کیا جاتا ہے اور اس میں پہلے ہاتھ دھوئے جاتے ہیں اس کے بعد کلی کر کے منہ صاف کیا جاتا ہے اور نتھنوں سے پانی اوپر کی طرف کھینچ کر ناک کو صاف کیا جاتا ہے اس کے بعد منہ دھویا جاتا ہے پھر کہنیو ںتک کہنیوں کو شامل کرتے ہوئے دونوں ہاتھ دھوئے جاتے ہیں اس کے بعد ہاتھ گیلے کر کے سر کے بالوں پر ایک ثلث سے دو ثلث تک مسح کیا جاتا ہے او رپھر انگوٹھے کے پاس کی انگلی سے کانو ںکے سوراخوں کو گیلا کیا جاتا ہے اور انگوٹھوں کو کانو ںکی پشت پر پھرایا جاتا ہے تاکہ کان کی پشت بھی گیلی ہو جائے اس کے بعد دونوں پائوں ٹخنوں تک دھوئے جاتے ہیں (بخاری تکاب الوضوء باب الوضوء ثلاثاً و نسانی کتاب الوضوء باب مسیح الاذنین مع الراس) باہو ںاور پائوں کے دھونے میں اس امر کو ملحوظ رھا جاتا ہے کہ دائیں طرف پہلے دھوئی جائے اور بائیں طرف بعد میں۔ (نسائی کتاب الوضوء باب بای الرجلین یبدا بالغل) وضوء کرتے وقت یہ نیت کرنی بھی ضروری ہوتی ہے کہ نماز کے لئے یا طہارت کے لئے وضوء کیا جا رہا ہے (نسائی کتاب الوضوء باب النیتہ فی الوضوء) اس سے یہ مقصود ہوتا ہے کہ خیالات کی رو عبادت کی طرف پھر جائے اور اس وقت سے خیالات دوسرے کاموں کی طرف سے ہٹ جائیں یہ فعل ظاہری صفاء… کا بھی موجب ہوتا ہے کیونکہ جن اعضاء کو دھویا جاتا ہے بوجہ بالعموم ننگا رہنے کے وہی گردو غبار کا نشانہ بنتے ہیں۔
ان اعضاء کا دھونا یا گیلا کرنا خیالات کے اجتماع کے لئے بھی مفید اور ضروری ہوتا ہے کیونکہ خیالات کی پراگندگی حواس خمسہ کے مقامات کی تیزی سے ہوتی ہے اور حواس خمسہ کے مقامات آنکھیں کان ناک اور منہ اور جسم ہیں۔ وضوء میں کلی کے ذریعہ سے منہ کو تر کیا جاات ہے اور اس میں یکسوئی کی قوت پیدا کی جاتی ہے۔ ناک میں پانی ڈال کر اُسے ٹھنڈا کیا جاتا ہے۔ منہ دھوتے ہوئے آنکھوں کو تری پہنچائی جاتی ہے۔ کانوں میں گیلی انگلیاں ڈال کر اور اُن کے پیچھے انگوٹھے کو حرکت دے کر کانوں کی حس کی پراگندگی کو دُور کیا جاتا ہے ۔ جسم کی زیادہ حس کو دُور کرنے کے لئے باہیں اور پائوں دھوئے جاتے ہیں۔ اور طبی تجربہ اس امر پر شاہد ہے کہ بخار کی تیزی کو دُور کرنے کے لئے صرف یا ہوں اور پائوں کا ٹھنڈے پانی سے دھونا یا تر کرنا سارے بدن سے بخار کی گرمی دور کرنے کے لئے کافی سمجھا جاتا ہے۔ سر کی گرمی خیالات کو بہت پراگندہ کر دیتی ہے اس وجہ سے سر کا مسح رکھا گیا ہے جو سر کو ٹھنڈا کر کے سر کی گرمی کو دُور کرتا اور خیالات کے اجتماع میں ممد ہوتا ہے۔
اعصابی ماہرین ماہرین کے تجربہ سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہاتھوں او رپائوں کی انگلیوں کے ٹھنڈا کرنے سے بھی خیالات کی رَد کو بدلا جا سکتا ہے۔ چنانچہ مسمریزم کے ماہرین کا تجربہ ہے کہ مسمریزم کے عمل کے بعد اگر ہاتھوں او رپائوں کو پانی ڈال کر ٹھنڈا کر لیا جائے تو اس دماغی برتی طاقت کے ضاوع ہونے سے انسان بچ جاتا ہے جو مسمریز کے عمل کے بعد دیر تک جاری رہ کر انسان کو کمزور کر دیتی ہے۔ پس ہاتھوں اور پائوں کے دھونے سے بھی ان خیالات کی رد کو رد کا جا سکتا ہے جو نماز سے پہلے انسان کے دماغ میں جاری وتی ہے اور اُسے پھیر کر عبادت اور ذکر الٰہی کی طرف لایا جا سکتا ہے۔
غرض وضوء ایک نہایت پر حکمت حکم ہے جس کے ایک جزو کی تجربہ اور علم الاعصاب تائید کرتے ہیں۔ وضوء کا حکم قرآن کریم میں موجود ہے (دیکھو سورۂ مائدہ ع ۲)
جب پانی میسر نہ ہو یا انسان بیمار ہو یا وضوء سے بیماری کا خطرہ ہو۔ تو اس صورت میں اسلام نے تمیم کا حکم دیا ہے کہ (سورۂ مائدہ آیت ۶ و نساء ۴) اور وہ حکم یہ ہے کہ پاک مٹی یا کسی پاکیزہ گرد والی چیز پر ہاتھ مار کر اپنے منہ پر او رہاتھوں اور باہوں پر پھیر لے (بخاری کتاب التمیم باب التمیم للوجہ والکفین) یہ حکم بھی انہی حکمتوں سے پُر ہے کیونکہ تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ صاف اور پاک مٹی بھی پانی کا قائم مقام ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اسی حکمت کو کسی وقت سمجھ کر ہندو سادھوئوں نے جسم پر بھبوت ملنے کا طریقہ جاری کیا تھا مگر یہ بات اُن سے نظر انداز ہو گئی کہ یہ طریق ادنیٰ درجہ کا ہے او رپانی کے میسر نہ آنے یا استعمال نہ کر سکنے کی صورت میں ایک قائم مقام کے طور پر ہی استعمال ہو سکتا ہے ورنہ پانی کا استعمال بہرحال افضل اور اعلیٰ ہے۔ تمیم کا حکم بھی قرآن کریم میں مذکور ہے اور سورۃ نساء ع میں اس کا ذکر آتا ہے۔
مرد اور عورت کے شہوانی اجتماع کے بعد کے لئے ایک زائد حکم بھی ہے اور وہ یہ کہ نماز پڑھنے سے پہلے نہا بھی لے۔ اس حکم میں یہ حکمت ہے کہ یہ فعل جیسا کہ تجربہ اس پر شاہد ہے سارے جسم پر اثر کرتا ہے اور جسم کے ہر حصہ کی برتی طاقت میں ایک ہیجان پیدا کر دیتا ہے۔ پس اس کو ٹھنڈا کر کے سارے جسم کی برتی طاقت اور خیالات کے انتشار کو دُور کرنا عبادت کی تکمیل اور خدا تعالیٰ کے ساتھ حصول اتصال کے لئے ضروری ہے۔ اس کا حکم سورۃ نساء کے رکوع میں بیان ہے۔ مگر جس طرح بیماری اور پانی کے میسر نہ آنے کی صورت میں وضوء کی جگہ تمیم کو کافی قرار دیا گیا ہے اسی طرح ان دونوں صورتوں میں بھی غسل کی جگہ تمیم کو کافی قرار دیاگیا ہے۔
وضوء یا تمیم جو بھی صورت ہو اس کے بعد مسلمان کو حکم کہ اگر امن کی حالت ہو اور زمین پر ہو تو قبلہ رو کھڑا ہو کر (بخاری کتاب الصلوۃ باب التوجہ سخو القبلۃ) دونو ںہاتھ اٹھا کر اور ہاتھوں کو قبلہ رُو کر کے انگوٹھوں کو اَللّٰہُ اَکْبَرْ کہتے ہوئے (جس کے معنے ہیں اللہ سب سے بڑا ہے) کانو ںکی لوئوں تک لائے (ابو دائد کتاب الصلوۃ باب استفتاع الصلوۃ و نسائی کتاب الا فتتاح اصلوۃ باب موضع الا بہامین عندالرفع) او راس نیت کے ساتھ کہ وہ خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے لگا ہے دوسرے سب خیالات کو دور کر کے عبادت الٰہی کے خیال میں محو ہو جائے۔ اس طرح ہاتھ اُٹھانے میں علاوہ توجہ کے قیام کے یہ بھی حکمت ہے کہ یہ حرکت طبعی طور پر باقی سب امور کو ترک کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ پس اس حرکت سے مسلمان یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس وقت دنیا کے سب خیالات اور کاموں سے علیحدہ ہو کر اپنے رب کی طرف متوجہ ہو گیا ہے۔ ہاتھو ںکی اسی قسم کی حرکت کی طرف غالب نے اس شعر میں اشارہ کیا ہے۔ ؎
کانوں پہ ہاتھ دھرتے ہوئے کرتے ہیں سلام
جس سے ہے یہ مراد کہ ہم آشنا نہیں
پس اس حرکت سے مومن گویا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ سب دنیا سے قطع تعلق کر کے اپنے مولیٰ کی طرف متوجہ ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس سے بیداری اور چستی بھی پیدا ہوتی ہے۔
اس کے بعد مسلمان اپنے سینہ پر ہاتھ باندھ لیتا ہے۔ (ابن حزیمہ بروایت وائل بن حجر) گویا مودب ہو کر اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے اور یہ عبارت کہتا ہے سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالیٰ جَدُّکَ وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ (ترمذی ابواب الصلوۃ باب مایقول عند افتتاح الصلوۃ و نسائی کتاب الافتتاح باب الذکربین افتتاح الصلوۃ و نسائی کتاب الا فتتاح باب الدکر بین افتتاح الصلوۃ و بین القراۃ) یعنی اے اللہ توہر نقص سے جو تیرے مقام کے خلاف ہے پاک ہے او رہر خوبی سے جو تیری شان کے لائق ہے متصف ہے اور تیرا نام تمام برکتوں کا جامع ہے اور تیری شان بہت بلند ہے اور تیرے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ اس کے بعد وہ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ پڑھتا ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ اے اللہ میں ہر اُس بد روح سے جو تیری درگاہ سے دور کی گئی ہے تیری پناہ چاہتا ہوں کہ اس کا اثر مجھ پر نہ ہو اور میں تیری درگاہ سے دور ہونیوالوں میں شامل نہ ہو جائوں۔ پھر وہ سورۂ فاتحہ پڑھتا ہے (نسائی کتاب الافتتاح باب البداء ۃ بقاتحتہ الکتاب قبل السورۃ و ایجاب قرأۃ فاتحتہ الکتاب) اس کے بعد وہ قرآن کریم کی کوئی سورۃ یا کم سے کم کسی سورۃ کا اتنا حصہ جو تین آیات پر مشتمل ہو پڑتا ہے او رپھر اللّٰہُ اَکْبَرْ کہہ کر رکوع میں چلا جاتا ہے (رکوع اُسے کہتے ہیں کہ انسان اس طرح کمر سیدھی کرے کہ اس کا سر اور لاتوں کا اوپر کا حصہ ایک دوسرے کے متاوزی ہو جائیں جھک جاتا ہے اور اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھ لیتا ہے اور لاتیں بالکل سیدھی رکھتا ہے اور لاتیں بالکل سیدھی رکھتا ہے ان میں خم پیدا نہیں ہونے دیتا (نسائی کتاب افتتاح الصلوۃ باب الاعتدال فی الرکوع) پھر اس حالت میں وہ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم کا فقرہ کہتا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ میرا رب جو اپنی شان کی وسعت میں سب سے بڑھ کر ہے تمام نقائص سے پاک ہے۔ یہ فقرہ کم سے کم تین بار یا اس سے زیادہ طاق عدد میں وہ دہراتا ہے (ترمذی ابواب الصلوۃ باب ماجاء فی التسبیح فی الرکوع) پھر سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ کہہ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس فقرہ کے یہ معنے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہر اس شخص کود عا کو سنتا ہے جو سچے دل سے اس کی تعریف بیان کرتا ہے۔ اس کے بعد وہ پوری طرح کھڑا ہو کر ہاتھ سیدھے چھوڑ کر یہ دعا مانگتا ہے کہ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ حَمَدً اکَثِیْراً طَیِّبًا سُبَارَکًافِیْہِ (نسائی کتاب الافتتاح مایقول الماموم اذارفع رأسہ من الرکوع) یعنی اے میرے رب سب تعریف تیرے ہی لئے ہے کثرت سے تعریف اور پاک تعریف جو سب تعریفوں کی جامع ہے۔ اس کے بعد وہ پھر اللّٰہُ اَکْبَرْ کہہ کر سجدہ میں چلا جاتا ہے۔ سجدہ اسے کہتے ہیں کہ انسان اپنی سات ہڈیوں پر زمین پر جھک جاتا ہے یعنی اس کا ماتھا زمین پر پوری طرح لگا ہوا ہو اس کے دونوں ہاتھ قبلہ رُو زمین پر رکھ ہوئے ہوں اور اس کے گھٹنے بھی زمین پر لگے ہوئے ہوں اور اس کے دونوں پائوں بھی زمین پر لگے ہوئے ہوں اس طرح کہ دونوں پائوں کی انگلیاں دبا کر قبلہ رُو کی ہوئی ہوں (مسلم جلد اول کتاب الصلوۃ باب فی اعضاء السجود) اس حالت میں مسلمان سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلیٰ کہتا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ اے میرے رب تو اپنی شان کی بلندی کے لحاظ سے سب سے زیادہ ہے۔ یہ فقرہ وہ کم سے کم تین دفعہ یا اس سے زیادہ کسی طاق عدد کے مطابق کہتا ہے (ترمذی ابواب الصلوۃ باب ماجاء فی التسبیح فی السجود) اس کے بعد وہ اللّٰہُ اَکْبَرْ کہہ کربیٹھ جاتا ہے۔ اس طرح کہ اس کی بائیں لا سے تو تہہ کی ہوئی مگر اس کا پائوں اس طرح کھڑا ہو کہ انگلیاں قبلہ رخ ہوں۔ اس وقفہ میں وہ یہ دعا پڑھتا ہے اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِیْ وَارْ حَمْنِیْ وَاھْدِ نِیْ وَعَا فِنِیْ وَارْزُقْنِیْ (ابو دائود بحوالہ مشکوۃ کتاب الصلوۃ باب السجود و فضلہ) جس کے یہ معنے ہیں کہ اے میرے رب میرے گناہ معاف کر اور مجھ پر رحم کر اور مجھے سب صداقتوں کی طرف رہنمائی بخش اور مجھے تمام عیبوں سے محفوظ رکھ اور مجھے اپنے پاس سے حلال و طیب رزق عطا فرما۔ (بعض احادیث میں وَاجْبُرْنِیْ اور بعض میں وَارْفَعْنِیْ آتا ہے یعنی اے میرے رب میری تمام کمزوریوں کو دُور کر اور تمام نقصانات سے بچا۔ اور میرا قدم ہر گھڑی ترقی کی شاہراہ پر گامزن رہے) اس کے بعد وہ پھر بآواز بلند اللّٰہُ اَکْبَرْ کہ کر پہلے کی طرح سجدہ میں چلا جاتا ہے۔ اور پہلے سجدہ کی طرح دعا کر کے پھر اللّٰہُ اَکْبَرْکہہ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ اسے ایک رکعت کہتے ہیں اس کے بعد وہ پہلے کی طرح پھر ایک رکعت ادا کرتا ہے صرف اس فرق کے ساتھ کو سُبْحَانَکَ اللّٰھُمْ وَبِحَمْدِکَ والی دعا جس سے اُس نے نماز شروع کی تھی وہ اسے حذف کر دیتا ہے اور صرف سورۂ فاتحہ سے نماز شروع کرتا ہے۔ اس دوسری رکعت کے ختم کرنے پر وُہ اس طرح بیٹھ جاتا ہے جس طرح کہ پہلے سجدہ اور دوسرے سجدہ کے درمیان بیٹھا تھا اور تشہد پڑھتا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں اَلتَّحِیَّاتُ للّٰہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُہٗ اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلیٰ عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ۔ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ (بخاری کتاب الصلوۃ باب التشہد فی الآخرۃ) یعنی تمام وہ کلمات جو تعظیم کے لئے زبان سے نکل سکتے ہیں اور تمام وہ عبادات جو جسم انسانی بجالا سکتا ہے اور تمام وہ مالی قربانیاں جو کسی پاک ذات کے لئے پیش کی جا سکتی ہیں خدا تعالیٰ کا ہی حق ہیں اس کے سوا اور کوئی ہستی ان کی مستحق نہیں اور اے نبی تجھ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلامتی نازل ہو اور اللہ تعالیٰ کا رحم تجھ پر اُترتا رہے اور اس کی برکتوں سے تو حصّہ پاتا رہے اور ہم پر جو اس نماز میں شامل ہیں اور اللہ تعالیٰ کے تمام نیک بندے جو پہلے گذر چکے ہیں یا اس وقت موجود ہیں یا آئندہ آنے والے ہیں ان سب پر بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے سلامتی نازل ہو اور یہ کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اور یہ کہ محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔
اس کے بعد وہ دُرود پڑھتا ہے جو مختلف الفاظ میں آتا ہے مگر مختصر دورد یہ ہے کہ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدً وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِلَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْد۔ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ (بخاری جلد دوم کتاب بدء الخلق باب یزفون النسلان نے المشی و مشکوۃ کتاب الصلوۃ باب الصلوۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم) اس کے معنے یہ ہیں کہ اے اللہ محمد پر اپنے فضل اور رحمتیں نازل کر اور اسی طرح تمام ان لوگوں پر جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق رکھتے ہیں جس طرح تو نے ابراہیم پر اور ابراہیم سے تعلق رکھنے والوں پر فضل اور رحمت نازل کی تھی اور اے اللہ محمد صلعم پر اپنی برکتیں نازل کر اور ان پر بھی جو آپؐ سے تعلق رکھتے ہیں۔ جس طرح تو نے ابراہیم پر اور اس سے تعلق رکھنے والوں پر برکتیں نازل کی تھیں۔ اس کے بعد وہ بعض دعائیں جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں پڑھتا ہے مثلاً یہ کہ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْ ذُبِکَ مِنَ الْھَمِّ وَالْحُزْنِ وَاٰعُوْ ذُبِکَ مِنَ الْعَجْزِ وَانْکُسَلِ وَاٰعُوْ ذُبِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَاٰعُوْ ذُبِکَ مِنْ غَلْبَۃِ الدَّیْنِ وَ قَھْرِ الرِّجَالِ (ابو دائود کتاب الصلوۃ باب الاستعاذہ) یعنی اے میرے رب میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس سے کہ مجھے کوئی گھبرا دینے والی مصیبت پہنچے یا مجھے غم فکر دبالیں اور اے میرے رب میں تیری پناہ چاہات ہوں اس بات سے کہ میں وہ سامان کھو بیٹھوں جن سے میری زندگی کے کام چلتے ہیں یا وہ طاقتیں میری جاتی رہیں جنکی مجھے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ضرورت ہے اور اس سے بھی پناہ چاہتا ہوں کہ میرے پاس ترقی میں مدد دینے والے سامان تو موجود ہوں یا ترقی میں مدد دینے والی طاقتیں تو مجھے حاصل ہوں مگر اُن کے استعمال سے میں گریز کروں اور سستی اور کاہلی کا شکار ہو جائوں اور اے میرے رب میں تیری پناہ چاہتا ہوں بزدلی اور بخل کی اخلاقی امراض سے۔ اور اے میرے رب اس بارہ میں بارہ میں بھی تیری پناہ چاہتا ہوں کہ مجھے قرض دبالے اور میں لوگوں کی نظروں میں قرض نہ ادا کرنے کی وجہ سے ذلیل ہو جائوں اور اس سے بھی پناہ مانگتا ہوں کہ ایسے انسان مجھ پر مسلط ہو جائیں جو میرے حقوق کو تلف کریں اور مجھے ان ترقیات کے حصول سے روک دیں جو ہر انسان کے لئے تو نے اپنے فضل سے مقدر کر چھوڑی ہیں۔
یہ اور اسی قسم کی اور دعائیںہیں جو رسول کریم صلی اللہ سے ثابت ہیں ان دعائوں کو اس موقع پر مسلمان پڑھتا ہے یا جو اور دعائیں اپنی ضرورت کے مطابق مناسب سمجھتا ہے مانگتا ہے پھر وہ پہلے دائیں طرف منہ کر کے الَسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ کہتا ہے اور اس کے بعد بائیں طرف منہ کر کے الَسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ کہتا ہے اور اس کی نماز ختم ہو جاتی ہے۔
یہ اس صورت میں ہے کہ نماز دو رکعت کی ہو اگر دو رکعت سے زائد کی نماز ہو تو بجائْ اِدھر اُدھر منہ پھیر کر السلام علیکم ورحمتہ اللہ کہنے کے مسلمان اللّٰہُ اَکْبَرْ کہہ کر پھر کھڑا ہو جاتا ہے اور تین رکعت کی نماز ہو تو ایک رکعت او رپڑھ کر دوبارہ تشہد پڑھ کر سلام پھیرتا ہے اور اگر چار رکعت کی نماز ہو تو دو رکعت اور پڑھ کر پھر تشہد میں بیٹھ کر اور اوپر کی دعائیں اور کلمات پڑھ کر سلام پھیر دیتا ہے۔ جب دو رکعت سے زائد کی نماز ہو تو پہلے تشہد کے بعد ایک یا دو رکعت جو دو پڑھتا ہے ان میں صرف سورۂ فاتحہ پڑھتا ہے قرآن کریم کی زائد آیات نہیں پڑھتا۔
نماز مسلمانو ںپر پانچ وقت فرض ہے ایک نماز صبح کی جس کا وقت پوپھٹنے سے لے کر سورج نکلنے کے وقت تک ہوتا ہے یعنی سورج نکلنے سے پہلے یہ نماز ختم ہو جانی چاہیئے اس نماز کی دو رکعت ہوتی ہیں ایک نماز سورج ڈھلنے سے لے کر اندازًا پونے تین گھنٹہ بعد تک پڑھی جاتی ہے گرمیوں میں یہ وقت ہندوستان میں کوئی تین گھنٹہ تک چلا جاتا ہے اس نماز کو ظہر کی نماز کہتے ہیں اور اس کی چار رکعت ہوتی ہیں اس کے بعد تیسری نماز کا وقت شروع ہوتا ہے یہ نماز دھوپ کے زرد ہونے کے وقت تک پڑھی جا سکتی ہے اسے عصر کی نماز کہتے ہیں اور اس کی بھی چار رکعت ہوتی ہیں اس کے بعد سورج ڈوبنے سے لے کر شفق یعنی مغرب کی طرف کی سرخی کے غائب ہونے تک چوتھی نماز کا وقت ہوتا ہے اور اسے مغرب کی نماز کہتے ہیں اس کی رکعتیں تین ہوتی ہیں پہلی دو رکعتوں کے بعد تشہد پڑھتے ہیں اور پھر کھڑے ہو کر ایک رکعت پڑھتے ہیں اور دونوں سجدوں کے بعد تشہد میں بیٹھ کر اور جو دعائیں اوپر بیان ہو چکی ہیں پڑھ کر سلام پھیر دیتے ہیں اس کے بعد پانچویں نماز کا وقت شروع ہوتا ہے جسے عشاء کی نماز کہتے ہیں اس کا وقت ہندوستان کے اوقات کے لحاظ سے غروب آفتاب سے کوئی ڈیڑھ گھنٹہ بعد سے شروع ہوتا ہے اور نصف شب تک اور بعض کے نزدیک اس کے بعد تک بھی چلا جاتا ہے اس نماز کی رکعتیں بھی چار ہوتی ہیں جو رکعتیں بیان کی گئی ہیں یہ اس وقت کے لئے ہیں جبکہ انسان وطن میں موجود ہو یا ایسی جگہ پر ہو جہاں اس کی مستقل اقامت ہو۔ جب سفر میں ہو تو اس صورت میں صبح اور مغرب کی نمازوں کے سوا دوسری نمازیں آدھی پڑھی جاتی ہیں یعنی بجائے چار رکعتوں کے دو دو رکعت پڑھی جاتی ہیں بعض لوگوں میں غلطی سے یہ خیال پیدا ہو گیا ہے کہ سفر میں آدھی نماز رہ گئی ہے لیکن اصل بات یہ نہیں بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے جسے امام مالکؓ نے نقل کیا ہے (موطا امام مالک قصر الصلوۃ فی السفر) ثابت ہے کہ جب نماز فرض ہوئی ہے تو ظہر عصر اور عشاء کی دو رکعتیں ہی تھیں مگر بعد میں سفر کی حالت میں دو دو رکعتیں ہی رہنے دی گئیں لیکن حضر یعنی اقامت کے ایام میں دگنی نماز کر دی گئی۔ یعنی دو دو کی جگہ چار چار کعتوں کا حکم ملا۔
ان نمازوں میں سے صبح کی نماز باجماعت ہو تو امام سورہ فاتحہ اور قرآن کریم کا حصہ بلند آواز سے پڑھتا ہے اور مقتدی سورۃ فاتحہ ساتھ ساتھ آہستہ پڑھتے ہیں اور باقی قرارء ت صرف سنتے ہیں باقی حصہ نماز کا امام بھی آہستہ پڑھتا ہے سوائے تکبیروں اور سَمعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ اور آخری سلاموں کے ظہر کی نماز میں تمام رکعتوں میں امام آہستہ پڑھتا ہے اور اس کے پیچھے کے نمازی بھی اپنے طور پر سورہ فاتحہ اور قرآن کریم پڑھتے ہیں ۔ عصر کی نماز بھی اسی طرح ہوتی ہے مغرب کی نماز میں پہلی اور دو رکعتوں میں امام سورہ فاتحہ بلند پڑھتا ہے اور ساتھ ساتھ اس کے مقتدی آہستہ آہستہ منہ میں سورہ فاتحہ پڑھتے جاتے ہیں سورۂ فاتحہ کے بعد امام قرآن کریم کا کچھ حصہ جب پڑھتا ہے تو مقتدی خاموش اس کے پڑھے ہوئے کو سنتے ہیں خوہ کچھ نہیں پڑھتے۔ آخری رکعت میں امام بھی دل میں سورہ فاتحہ پڑھتا ہے اور مقتدی بھی۔ عشاء کی نماز میں بھی پہلی دو رکعتو ںمیں اسی طرح امام بلند آواز سے سورہ فاتحہ اور قرآن کریم کا کچھ اور حصہ پڑھتا ہے اور مقتدی سورہ فاتحہ اور قرآن کریم کا کچھ اور حصہ پڑھتا ہے اور مقتدی سورہ فاتحہ منہ میں دہراتے ہیں اورقرآن کریم کا دوسرا حصہ صرف سنتے ہیں مگر آخری دو رکعتوں میں قیام کی حالت میں امام صرف سورہ فاتحہ پڑھتا ہے اور وہ بھی آہستہ آہستہ منہ میں اور مقتدی بھی اپنے اپنے طور پر آہستہ آہستہ ہی منہ میں سورہ فاتحہ پڑھتے ہیں تمام نمازو ںمیں باجماعت ہوں تو امام تکبیریں اور سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ رکوع سے کھڑے ہوتے وقت اور نماز کے خاتمہ کے بعد کا سلام بہرحال بلند آواز سے کہتا ہے کیونکہ مقتدیوں کو ساتھ چلانا بدنظر ہوتا ہے۔
ان پانچ فرض نمازوں کے علاوہ ایک نماز تر کہلاتی ہے اس نماز کی بھی مغرب کی طرح تین رکعتیں ہیں مگر فرق یہ ہے کہ مغرب کی نماز میں پہلے تشہد کے بعد جو تیسری رکعت پڑھی جاتی ہے اس میں سورہ فاتحہ کے بعد قرآن کریم کی زائد تلاوت نہیں کی جاتی لیکن و ترکی نماز میں تیسری رکعت میں بھی سورہ فاتحہ کے بعد قرآن کریم کی چند آیات یا کوئی چھوٹی سورۃ پڑھی جاتی ہے (ترمذی جلد اول کتاب الصلوۃ ابواب الوترباب ماجاء مایقرافی الوتر) دوسرا فرق اس میں یہ ہے کہ اس نماز کو مغرب کی نماز کے برخلاف دو حصوں میں بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے یعنی یہ بھی جائز ہے کہ دو رکعتیں پڑھ کر تشہد کے بعد سلام پھیر دیا جائے اور پھر ایک رکعت الگ پڑھ کر تشہد کے بعد سلام پھیر دیا جائے اور پھر ایک رکعت الگ پڑھ کر تشہد کے بعد سلام پھیر دیا جائے (نسائی کتاب قیام اللیل و تطوع النہار باب کیف الوتر ثبلاث و باب یف الوتر بواحدۃ وکیف الوتربثلاث) یہ نماز عشاء کے بعد بھی پڑھی جا سکتی ہے اور تہجد کی نماز کے بعد بھی جس کا ذکر آگے آتا ہے۔
ان نمازوں کے علاوہ کچھ سنتیں ہوتی ہیں یعنی ایسی زائد نماز جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بالالتزام ادا فرمایا کرتے تھے اور گو آپؐ ان کو فرض قرار نہ دیتے تھے لیکن ان کی تاکید کرتے رہتے تھے صبح کی نماز سے پہلے دو رکعتیں پڑھی جاتی ہیں ظہر کی نماز سے پہلے چار رکعتیں ہیں اور بعد میں بھی چار رکعتیں ہیں۔ چار کی جگہ دو دو بھی پڑھی جا سکتی ہیں۔ عصر کے ساتھ کوئی ایسی سنتیں نہیں ہیں مغرب کے بعد دو رکعتیں پڑھی جاتی ہیں اور عشاء کے بعد بھی دو یا چار رکعتیں پڑھی جاتی ہیں (ترمذی ابواب الصلوۃ باب ماجاء فی من صلی فی یوم و لیلۃ ثنتی عشرۃ رکعۃ من السنتہ مالہ من الفضل۔ وباب ماجاء فی الرکعتین بعد الظہر) اور انہی کے بعد مذکورہ بالا و تر پڑھے جاتے ہیںان سنتوں کے علاوہ ایک نماز تہجد کہلاتی ہے نصف سب کے بعد کسی وقت پوپھٹنے سے پہلے یہ نمار پڑھی جا سکتی ہے مگر جیسا کہ تہجد کے معنوں سے ظاہر ہے یہ نمار سو کر اُٹھنے کے بعد پڑھنی جانی چاہیئے گو کسی وقت سونے کا وقت نہ ملے اور نصف شب گذر جائے تو یوں بھی پڑھ سکتا ہے مگر قرآن کریم نے جو اس کا نام رکھا ہے اس سے بھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق عمل سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ عشاء کے بعد آدمی سو جائے اور سونے سے اُٹھ کر یہ نمار ادا کرے اس نماز کا روحانی ترقیات سے بہت گہرا تعلق ہے اور قرآن کریم میں اس کی خاص تعریف آئی ہے (دیکھو سورۂ مزمل آیت ۱ تا ۶) ان کے علاوہ بعض اور سنتیں بھی ہیں جو موکد تو نہیں یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی خاص تاکید تو نہیں فرمائی مگر آپ جب موقع ملتا انہیں ادا کرتے تھے ان میں سے ایک اشراق کی نماز ہے یعنی جب سورج نیزہ دو نیزے اوپر آ جائے اسی طرح اور بعض نوافل ہیں لیکن حکم یہ ہے کہ جب سورج نکل رہا ہو یا ڈوب رہا ہو یا نصف النہار کا وقت ہو تو نماز ناجآئر ہے اور جب دھوپ زرد ہو جائے تب بھی ناپسندیدہ ہے۔
نمازوں کو ان کے مقررہ وقت پر پڑھنے کا حکم ہے لیکن اگر کسی مجبوری کی وجہ سے مثلاً بارش ہ اور بار بار مسلمانوں کا جمع ہونا مشکل ہو یا کوئی ایسا اجتماعی کام ہو جسے درمیان میں نہ چھوڑا جا سکتا ہو یا سفر ہو تو جائز ہے کہ ظہر اور عصر کی نمازوں کو ملا کر پڑھ لیا جائے اس صورت میں بعض کے نزدیک درمیانی سنتیں معاف ہوتی ہیں اور بعض کے نزدیک پہلی اور پچھلی سنتیں بھی معاف ہوتی ہیں اور میرے نزدیک یہی آخری بات درست ہے معرب اور عشاء کو ملا کر پڑھنا بھی انہی حالات میں اور اسی طرح جائز ہے جس طرح کہ ظہر اور عصر کا۔ مگر صبح ظہر یا عصر مغرب یا عشاء صبح کا ملا کر پڑھنا جائز نہییں سوائے اس کے کہ کوئی ایسے شدید کام میں ہو کہ اس کا ترک جان کے لئے پر خطرہ ہو جیسے جہاد میں کہ اگر لڑائی سے ہٹ کر نماز پڑھے تو دشمن قتل کر دے گا یا مثلاً نہر یا دریا کا بند ٹوٹ جائے اور اس کے بند کرنے میں لوگ مشغول ہوں یا آگ لگ جائے اور اس کے بجھانے میں لوگ مشغول ہوں تو ایسے مواقع پر ان نمازوں کو بھی جمع کیا جا سکتا ہے جن کو امن کی حالت میں جمع نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ آفات ملک اور قوم اور شہر کی تباہی کا موجب ہوتی ہیں اس صورت میں بھی ان نمازوں کو جو عام طور پر جمع نہیں ہو سکتیں جمع کرنا جائز ہے کہ کوئی شخص بیہوش ہو جائے اور اس وقت ہوش آئے کہ دوسری نماز کا وقت آ جائے مثلاً عصر کی نماز کے وقت بیہوش ہو اور عشاء کے وقت ہوش آئے تو عصر اور مغرب جمع کر کے پڑھ لے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنگ کے موقعہ پر ظہر، عصر مغرب اور عشاء جمع کیں مگر ان مجبوریوں کی وجہ سے جو اوپر بیان ہوئیں ان نمازوں کا جمع کرنا بھی جائر ہے جو عام طور ہر جمع نہیں کی جا سکتیں لیکن جو نماز جان بوجھ کر چھوڑ دی جائے اسے دوسرے موقعہ پڑھنا جائز نہیں یعنی وہ نماز کے طو رپر قبول نہ ہو گی اس کا علاج صرف توبہ اور استغفار ہے ہاں بھول اور نسیان کے سبب سے یا سوتے رہنے کی وجہ سے جو نماز چھت جائے جب بھی یاد آ جائے یا آنکھ کھلے اس کا پڑھنا جائز ہے بشرطیکہ ممنوع وقت نہ ہو جیسے سورج نکل رہا ہو تو سو کر اٹھنے والا انتظار کرے اور جب سورج پوری طرح نکل چکے تو اس وقت نماز ادا کرے۔
ان نمازوں کے علاوہ ایک جمعہ کی نماز ہے جو جمعہ کے دن ظہر کے وقت پڑھی جاتی ہے اس دن ظہر کی نماز نہیں پڑھی جاتی جمعہ کی نماز سے پہلے امام خطبہ پڑھتا ہے جس میں جب موقعہ کسی اسلامی مسئلہ یا مسلمانوں کی کسی ضرورت کے متعلق وہ اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے اس کے بعد وہ دو رکعت نماز پڑھاتا ہے جس میں برخلاف ظہر کی نماز کے سورۂ فاتحہ اور قرآن کریم کا حصہ بلند آواز سے پڑھا جاتا ہے سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے وقت مقتدی ساتھ ساتھ سورۂ فاتحہ کے الفاظ منہ میں آہستہ طور پر دہراتے جاتے ہیں ا ور دوسری قراء ت کے وقت صرف کلامِ الٰہی سنتے ہیں۔
اس کے علاوہ دو اور نمازیں ہوتی ہیں ایک رمضان کے بعد کی عید کی نماز او رایک حج کے موقعہ کی عید کی نماز۔ رمضان کے بعد کی عید پہلی شوال کو ہوتی ہے اس میں دو رکعت ہوتی ہیں اور سورۂ فاتحہ اور تلاوت بلند آواز سے امام پڑھتا ہے اور حج کے موقعہ کی عید حج کے دوسرے دن دسویں ذی الحجہ کو ہوتی ہے اس میں بھی دو رکعتیں ہوتی ہیں اور امام سورۂ فاتحہ اور مزید حصہ قرآن کریم کا بلند آواز سے پڑھتا ہے۔
یہ دونوں نمازی دن کے ابتدائی حصہ میں ہوتی ہیں روزوں کے بعد کی عید جسے عیدالفطر کہتے ہیں ذرا دیر سے پڑھی جاتی ہے اور حج کے بعد کی جسے عیدالاضحیہ کہتے ہیں ذرا سویرے پڑھی جاتی ہے۔
ان دونوں نمازوں کے ساتھ بھی خطبہ ہوتا ہے مگر جمع کے خطبہ کے برخلاف ان عیدو ںمیں خطبہ نماز کے بعد ہوتا ہے ان دونوں نمازوں سے پہلے اقامۃ نہیں کہی جاتی۔
ان نمازوں کے علاوہ ایک ضروری نماز جنازہ کی نماز ہے یہ فرض کفایہ ہے یعنی جب کوئی مسلمان فوت ہو اور کچھ مسلمان اس کا جنازہ پڑھ لیں تو سب کی طرف سے فرض کا ادا ہونا سمجھ لیا جاتا ہے اور اگر کسی مسلمان کی نماز جنازہ کوئی مسلمان بھی ادا نہ کرے تو سب مسلمان جن کو علم ہوا اور وہ شامل نہ ہوئے مجرم سمجھے جاتے ہیں گویا جنازہ کی ادائیگی انفرادی ذمہ داری نہیں بلکہ قومی ذمہ داری ہے۔
جنازہ کی نماز میں دوسری نمازوں کے برخلاف رکوع اور سجدہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے سب حصے کھڑے کھڑے ادا کئے جاتے ہیں (بخاری جلد اول باب فی الجنائز باب سنۃ الصلوۃ علی الجنائز) اور یہ جنازہ کی نماز میت کو سامنے رکھ کر پڑھائی جاتی ہے اور یہی وجہ اس میں رکوع اور سجدہ نہ ہونے کی ہے کیونکہ میت کے سامنے پڑے ہونے کی وجہ سے لوگوں کو دھوکا لگ سکتا ہے کہ یہ رکوع اور سجدہ اس میت اس میت کو کیا جا رہا ہے اور ایسی لاش جو کسی بزرگ کی ہو اس کا جنازہ پڑھتے ہوئے کئی کمزور طبائع خود بھی اس خیال میں مبتلا ہو سکتی ہیں پس نماز جنازہ سے رکوع اور سجدہ کو اڑا دیا گیا تا شرک کا قلع قمع ہو۔
اس نماز کے چار حصے ہوتے ہیں امام قبلہ رو کھڑا ہو کر بلند آواز سے سینہ پر ہاتھ باندھ کر تکبیر کہہ کر اس نماز کو شروع کرتا ہے اس نماز سے پہلے اقامۃ نہیں کہی جاتی۔ پہلی تکبیر کے بعد منہ میں آہستہ آواز سے امام اور مقتدی اپنے اپنے طور پر سورۂ فاتحہ پڑھتے ہیں اس کے بعد امام پھر بلند آواز سے تکبیر کہتا ہے اور بغیر رکوع میں جانے کے اسی طرح کھڑے ہوئے منہ میں آہستہ آواز سے درود پڑھتا ہے اور مقتدی بھی اپنے اپنے طور پر ایسا ہی کرتے ہیں اس کے بعد امام پھر تکبیر کہتا ہے اور اسی طرح کھڑے کھڑے میت کی بخشش کے لئے اگر وہ بالغ ہو دعا کرتا ہے اسی طرح دوسرے مسلمان مردوں عورتوں بڑوں چھوٹوں سب کے لئے عممواً اور میت کے پسماندگاں کے لئے خصوصاً دعا کرتا ہے اور مقتدی بھی یہی کام کرتے ہیں میت نابالغ ہو تو اس کے ماں باپ کے صبر اور نعم البدل کے لئے دعا کی جاتی ہے اور اس امر کے لئے کہ مرنے والے کو خدا تعالیٰ اس کے رشتہ داروں کے لئے اگلے جہاں میں رحمت اور بخشش کا ذریعہ بنا دے بعض مقررہ دعائوں کے علاوہ اپنے طور پر اپنی زبان میں بھی دُعا کی جا سکتی ہے اور کی جاتی ہے اس کے بعد امام پھر بلند آواز سے تکبیر کہتااور تھوڑے سے وقفہ کے بعد سلام پھیر کر نماز کو ختم کر دیتا ہے۔
بعض اور قسم کی نمازیں بھی اسلام میں ہیں مثلاً استسقاء کی نماز جو قلت باراں اور خطرہ قحط کے وقت میں پڑھی جاتی ہے کسوف و خسوف کے موقعہ کی نماز۔ صلوٰۃ الحاجۃ یعنی کسی بڑی مصیبت کے دُور ہونے کے لئے یا دُور ہونے پر شکریہ کے طور پر یہ نماز پڑھی جاتی ہے مگر یہ نمازیں چونکہ کبھی کبھی ادا ہوتی ہیں میں ان کے بارہ میں اس جگہ کچھ لکھنا نہیں چاہتا فقہ کی کتابوں میں ان کی تفصیل دیکھی جا سکتی ہے۔
تمام باجماعت ادا ہونے والی نمازوں کے لئے حکم ہے کہ امام آگے کھڑا ہو اور مقتدی اس کے پیچھے اتنے اتنے فاصلہ پر صفیں باندھ کر کھڑے ہوں کہ سب آسانی سے سجدہ کر سکیں صفوں کو درست کرنے پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاص طو رپر زور دیتے تھے (ترمذی ابواب الصلوۃ باب ما جاء فی اقامۃ الصفوف) قرآن کریم سے بھی اس بارہ میں استدلال ہوتا ہے۔
نماز میں سجدہ اور قعدہ کے علاوہ باقی سب حصے کھڑے ہو کر ادا کئے جاتے ہیں لیکن بیمار کے لئے بیٹھ کر اور بیٹھ کر بھی نہ پڑھ سکے تو لیٹ کر اشارہ سے نماز پڑھنا جائر ہے۔
نماز کے وقت ادھر اُدھر دیکھنا نظر پھرانا بات کرنا یا نماز سے باہر والے کی بات کی طرف توجہ کرنا اور اسی قسم کے اور کام جو نماز کے فعل میں خلل ڈالیں منع ہوتے ہیں (ابو دائود کتاب الصلوۃ باب الالتفات فی الصلوۃ و باب النظر فی الصلوۃ و باب تشمیت العاطس فی الصلوۃ) بلاوجہ کھانسنا ادھر ادھر ہلنا بھی ناجائز ہے یہ حکم پہلی تکبیر سے لے کر سلام تک کے وقت کے لئے ہے۔
جب نماز ایسے خوف کے وقت پڑھی جائے کہ نماز پڑھی تو جا سکتی ہو لیکن پورے اطمینان سے نہ پڑھی جا سکتی ہو جیسے مثلاً جنگ کا میدان ہو اور عملاً لڑائی نہ ہو رہی ہو لیکن دشمن حملہ کی تیاری میں ہو یا حملہ کا خوف ہو تو اس صورت میں کئی طرح نماز میں تخفیف جائز ہے ایک مسنون طریق یہ ہے کہ ایک حصہ امام کے ساتھ دو رکعتیں اور زیادہ خطرہ ہو تو ایک رکعت ادا کرے دوسرا حصہ دشمن کی طرف منہ کر کے کھڑا رہے جب پہلا حصہ ایک یا دو رکعت جیسا بھی موقعہ ہو ختم کرے تو جو حصہ کھڑا تھا وہ امام کے پیچھے آ جائے اور پہلا پیچھے ہٹ کر دشمن کی طرف منہ کر کے کھڑا رہے اگر دشمن قبلہ کی طرف ہو تو بہرحال سب کا منہ ایک ہی طرف ہو گا (مسلم جلد اول کتاب الصلوۃ باب صلوۃ الخوف) اس نماز کی مختلف صورتیں ہیں جو گیارہ تک پہنچتی ہیں اور خطرہ کی مختلف حالتوں کے مطابق ہیں اس جگہ ان سب کے بیان کا موقعہ نہیں خلاصہ یہ ہے کہ نماز باجماعت کا حکم خطرہ جنگ کی صورت میں مختلف صورتوں کے مطابق جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں بدلتا رہے گا اس نماز کا ذکر قرآن کریم میں سورہ نساء رکوع ۱۵ میں آتا ہے۔
اس کے علاوہ جب خطرہ شدید ہو اور سواری پر یا پیدل دوڑ کر دشمن کے مقابلہ کے لئے جانا پڑے یا پیچھے ہٹنا پڑے تو سواری پر ہی یا دوڑتے ہوئے بھی نماز جائز ہے اور اسے جلدی جلدی ادا کرنے کی بھی اجازت ہے اس کا ذکر بھی سورۂ نساء کے رکوع ۱۵ میں آتا ہے۔
نماز قبلہ رُخ ہو کر پڑھی جاتی ہے یعنی جہاں بھی کوئی ہو کعبہ کی طرف منہ کر کے جو کہ مکہ مکرمہ میں ہے کھڑا ہوتا ہے اس طرح تمام دنیا کے مسلمانوں کی توجہ ایک مرکز کی طرف جمع ہو جاتی ہے یہ کعبہ کی طرف منہ کرنا اس لئے نہیں کہ اسلام نے کعبہ کو کوئی خدائی صفت دی ہے بلکہ جیسا کہ قرآن کریم میں بیان ہوا ہے اوریہ اسی سورۃ میں آگے آئے گا ایسا اس لئے کیا گیا ہے کہ کسی نہ کسی طرح منہ کر کے کھڑے ہونے کا حکم باجماعت نماز کے لئے ضروری تھا اگر کوئی خاص جہت مقرر نہ کی جاتی اور صفوں میں کھڑے ہو کر ایک جگہ پر لوگ نماز نہ پڑھ سکتے کسی کا منہ کسی طرف ہوتا اور کسی کا کسی طرف تو نماز جماعتی عبادت کس طرح بنتی؟ پس جب جماعتی عبادت کے لئے کسی نہ کسی طرف منہ کرنا ضروری تھا تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے خانہ کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم دے دیا جس کی نسبت اسلام کا وعدہ ہے کہ سب سے پہلا گھر جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے بنایا گیا تھا یہی ہے (آل عمران آیت ۹۶) یہ گھر حضرت ابراہیمؑ سے بھی پہلے کا بنا ہوا ہے مگر حضرت ابراہیمؑ سے پہلے کسی وقت منہدم ہو گیا تھا جس پر خدا تعالیٰ کے حکم سے حضرت ابراہیمؑ نے اپنے لڑکے اسماعیل کی مدد سے اسے دوبارہ بنایا (بخاری جلد ۲ کتاب بدا الخلق باب یزفون النسلان فی المشی) اور اللہ تعالیٰ نے انہیں خبر دی تھی کہ کسی وقت یہ مقام تمام سچے پرستاروں کا مرکز ہو گا (سورہ بقرہ آیت ۱۲۵ و حج آیت ۲۶) چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ پیشگوئی پوری کی (سورہ بقرہ آیت ۱۲۹ و سورہ جمعہ آیت ۲) اس لئے اسی مقام کو مسلمانوں کے ظاہری اجتماع کا مرکز بنایا گیا۔ تا انہیں ہمیشہ وہ فرض یاد رہے جو ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ سے جماعت مسلمین کے قیام کی غرض کے طو رپر مقرر کیا گیا تھا۔
اس کا ثبوت کہ کعبہ عبادت کا حصہ دار نہیں صرف اجتماع کا ذریعہ ہے یہ ہے کہ جب چلتی ہوئی کشتی یا کسی دوسرے سواری میں نماز ادا کرنی پڑے تو ایک دفعہ قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز شروع کر لینا کافی ہوتا ہے اس کے بعد سواری کا منہ کدھر بھی ہو جائے نماز میں خلل نہیں پڑتا (ترمذی جلد اول ابواب الصلوۃ باب الصلوۃ الی الراحلۃ و ابودائود کتاب الصلوۃ باب التطوع علی الراحلۃ) اور جب کعبہ کی طرف کا علم نہ ہو سکے تو نماز معاف نہیں ہو جاتی بلکہ جدھر منہ کر کے بھی نماز پڑھ لی جائے جائز ہے بلکہ ضروری ہے کہ نماز پڑھے خواہ کدھر ہی منہ کر کے نماز پڑھے (ترمذی ابواب الصلوۃ باب ماجاء فی الرجل یصلی لغیر القبلۃ فی الغیم)
اگر وضو اور تمیم دونوں نہ کر سکے تو اس صورت میں بھی میرے نزدیک نماز ادا کر سکتا ہو تو ادا کر لے جیسے مثلاً جہاز عرق ہو جائے اور کوئی شخص لائف بلٹ پہن کر سمند رمیں کودے پڑے اور عرصہ تک اسے بچانے والا کوئی نہ آوے تو نہ یہ وضو کر سکے گا نہ تمیم اس سورۃ میں اس کا اشارہ کے ساتھ ہی نماز پڑھ لینا درس ہو گا اور جن فقہاء کے نزدیک اس طرح پانی میں ہونا وضو ہی کا مترادف ہے ان کے خیال کی رو سے تو اس کا وضو ہی ہو گا کیونکہ وضو والے سب اعضاء دُھل چکے ہونگے۔
نماز کی شکل میں حکمت:
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں جو قیام اور رکوع اور سجدہ اور قعدہ مقرر کئے گئے ہیں یہ ایک رسمی سی بات ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان ہیئتوں کے اختیار کنے میں خاص کمتیں ہیں۔ جو نماز کی تکمیل کے لئے ضروری ہیں اور نماز کا ان پر مشتمل ہونا اسے ایک رسمی عبادت نہیں بنات۔ ان ہیئتوں پر اس کا مشتمل ہونا اسے روحانیت کے لئے مکمل بناتا ہے اصل بات یہ ہے کہ انسانی بناوٹ اس قسم کی ہے کہ جسم کا اثر روح پر اور روح کا اثر جسم پر پڑتا ہے ہم دیکھتے ہیں کہ جو رونی صورت بنائے اس کی آنکھو ںمیں کچھ دیر کے بعد آنسو آ جاتے ہیں اور دل بھی غمگین ہو جاتا ہے اور جس غمگین آدمی کے پاس بیٹھ کر لوگ ہنسیں او راسے ہنسائیں تھوڑی دیر کے بعد اس کے دل پر سے غم کا اثر کم ہونے لگتا ہے او راس کے اُلٹ یہ بھی ہوتا ہے کہ دل کے غم اور خوشی کا اثر انسان کے چہرہ اور دوسرے اعضاء پر پڑتا ہے حتیٰ کہ بعض دفعہ ایک رات کے صدمہ سے بعض لوگوں کے بال تک سفید ہو گئے ہیں اس طبعی قانوان کے مطابق اسلام نے عبادت الٰہی میں چند جسمانی افعال بھی شامل کئے ہیں تاکہ وہ ظاہری ہیئتیں جو ادب کا اظہار کرتی ہیں اس کے باطن میںبھی اسی قسم کاجذبہ پیدا کر دیں۔
ہم دیکھیت ہیں کہ دُنیا میں ادب اور احترام کے اظہار کے لئے محتلف اقوام نے مختلف شکلو ںکو اختیار کیا ہے بعض قوموں میں ادب کے اظہار کا طریق یہ ہے کہ اپنے بزرگوں کے سامنے سینہ پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور بعض قوموں میں ہاتھ چھوڑ کر کھڑے ہونا ادب کے اظہار کی علامت ہے بعض میں رکوع کی طرح جھک جانا ادب کے اظہار کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے اور بعض قومو ںمیں سجدہ کے طور پر گر جانا ادب کے انتہائی اظہار کے لئے دلامت مقرر کیا گیا ہے اور بعض قوموں میں گھٹنوں کے بل بیٹھنا انتہائی ادب کے لئے علامت قرار دیا گیا ہے چنانچہ اسی وجہ سے مختلف اقوام میں عباد تکے وقت ان مختلف اقوام میں عبادت کے وقت ان مختلف صورتوں کو اختیار کیا جاتا ہے ایرانی لوگ اپنے بادشاہ کے سامنے جسے وہ خدا تعالیٰ کا مظہر قرار دیتے تھے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے تھے اسی طرح بعض حالات میں ہو ہاتھ چھوڑ کر کھڑے ہوتے تھے مغربی ممالک میں گھٹنوں کے بل گرنیپ کی انتہائی تذلل کا مقام سمجھا جاتا ہے ہندوستان میں رکوع کی طرح جھکنا ادب کے اظہار کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے اسی طرح اپنے قابل تحریم بزرگوں اور بُتوں کے آگے سجدہ کیا جاتا ہے اسلام چونکہ سب دُنیا کے لئے ہے اس نے اپنی عبادت میں ان سب ط۔ریقوں کو جمع کر دیا ہے تاکہ ہر قوم کے لوگوں کے دلوں میں اس طریقِ عبادت سے وہ خشیت پیدا ہو جو عبادت میں پیدا ہنوے چاہیئے کیونکہ ایک تو اپنی قومی عادت کے ماتحت وہ اس خاص ہیئت سے زیادہ متاثر ہونگے دوسرے اپنی قلبی کیفیت کے ماتحت وہ ان مختلف ہیئتوں سے موقعہ کے مناسب زیادہ متاثر ہونگے کیونکہ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ انسان کے اندر جو مختلف تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں ان کے ماتحت وہ کبھی تو شدت محبت اور شدتِ ادب کے وقت جھک جاتا ہے کبھی دوزانو ہو جاتا ہے کبھی سامنے کھما ہو جاتا ہے اور کبھی سجدہ میں گر جاتا ہے پس اس کے قلب کی جو بھی کیفیت ہو گی اس کے مطابق ہیئیت کے وقت اس کے قلب میں جوش پیدا ہو جائے گا اور وہ اپنی عبادت سے پورا فائدہ اُٹھا سکے گا۔
علاوہ طبعی کیفیت کے محتلف جسمانی کیفیتوں کے ماتحت بھی ان مختلف حرکات کا اثر انسانی دل پر مختلف پڑتا ہے مثلاً ایک نزلہ کا مریض سجدہ میں تکلیف پاتا ہے او راس حالت میں اسے پورا جوش نہیں آتا لیکن کھڑے ہونے یا قعدہ کی حالت میں اسے پورا جوش دعا کے لئے پیدا ہو جاتا ہے کیونکہ وہ ہیئت اس کی صحت کے زیادہ مطابق ہوتی ہے مگر ایک دوسرا آدمی جس کی مثلاً لاتوں میں ضعف محسوس ہو رہا ہو سجدہ میں زیادہ جوش پاتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ اسلام نے چونکہ عبادت کو ایک اجتماعی فعل قرار دیا ہے اور چونکہ اس نے سب قوموں کو جمع کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے اس لئے اس نے اپنی عبادت میں ان تمام ہیئتوں کو جمع کر دیا ہے جن کے ذریعہ مختلف اقوام کو ادب و محبت کے اظہار کی عادت ہے اور جو مختلف حالتوں میں مختلف انسانوں کے دل میں عقیدت اور ادب کے جذبات کو اُبھار دیتی ہیں اور اس کی نماز ایسی جامع اور کامل ہے کہ اور کسی مذہب کی نماز اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی اس خصوصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام نے اجتماعی نمازوں کا حکم دیا ہے کیونکہ جب مختلف استعدادوں کے لوگ ایک جگہ جمع ہوںتو ایک دوسرے کے قلب کی حالت کا اثر دوسرے پر پڑتا ہے اور کمزور قوی کی قوت ایمان کو اپنے دل پر تاثیر ڈالتا ہوا محسوس کرتا ہے۔
چونکہ کبھی کبھی انسان کے دل میں خلوت میں عبادت کا جوش بھی پیدا ہوتا ہے اس لئے اسلام نے فرض نمازوں کے علاوہ نوافل کی طرف بھی توجہ دلائی ہے جیسا کہ تہجد کی نماز ہے اور اس طرح انسان کی اس مخصوص ضرورت کو بھی پورا کر دیا گیا ہے۔
خلاصہ یہ کہ اسلامی نماز ان تمام طریقوں کی جامع ہے جو مختلف اقوام کے دلوں میں اس کیفیت کو پیدا کرنے کا ذریعہ بنتے چلے آئے ہیں جو عباد ت کے لئے ضروری ہے اور اس میں ہر قوم ہر فرد کی قلبی حالت کو درست کرنے اور عبادت کا سچا جذبہ پیدا کرنے کی قوت موجود ہے او رجن ظاہری ہیئتوں کا اختیا رکرنا نماز میں لازمی قرار دیا گیا ہے ان سے نماز کی عظمت میں کمی نہیں آتی بلکہ وہ اان کے ذریعہ سے مکمل ہوتی ہے اور دوسری عبادت پر اسے فضیلت حاصل ہوتی ہے۔
ان ظاہری افعال کے علاوہ اسلامی نماز اللہ تاعلیٰٖ کی تسبیح تحمید اور تعظیم کے ایسے مضامین پر مشتمل ہے جو سنگدل سے سنگدل انسان کے دل کو بھی نرم کر دیتی ہے اور اس میں ایسی دعائیں رکھی گئی ہیں جو انسانی فکر کو بہت بلند کر دیتی ہیں اور اس کے مقاصد کو اونصا کر دیتی ہیں اور اس کے جذبات کو نیکی او ر تقویٰ کے لئے اُبھار دیتی ہیں اور خدا تعالیٰ کی محبت کی آگ بھڑکا دیتی ہیں اور روحانی حصہ نماز کا وہی ہیں او ران کا دوسری اقوام کی عبادات سے اگر مقابلہ کیا جائے تو دونو ںمیں وہی نسبت معلوم ہوتا ہے جیسے سورج کے مقابلہ پر مٹی کا ایک دیا۔ اور یہی وجہ ہے کہ باوجود اس کے کہ اسلام نے عبادت کو تمام ظاہری دلکشیوں سے خالی رکھا ہے۔ نہ اس وقت گانا ہوتا ہے نہ باجا ہوتا ہے جیسا کہ عام طور پر دوسری اقوام کی اجتماعی عبادتوں میں ہوتا ہے بلکہ فقط سنجیدگی سے اللہ کے بندے اس کے حضور میں اپنی عقیدت کے پھول پیش کرتے ہیں اور اس کی محبت کی بھیک مانگتے ہیں اور باوجود اس کے کہ نماز ہفتہ میں ایک وقت ادا نہیں کی جاتی جیسا کہ اکثر مذاہب میں ہے بلکہ دن میں کم سے کم پانچ بار پڑھی جاتی ہے مگر پھر بھی اس بے دینی کے زمانہ میں بھی اس قدر مسلمان پانچ وقت کی نمازیں ادا کرتے ہیں کہ دوسرے تمام مذاہب کے افراد ملا کر ہفتہ میں ایک دفعہ کی عبادت بھی اس تعداد میں ادا نہیں کرتے یہ نماز کی روحانی کشش کا ایک بین ثبوت ہے اور مشاہدہ اس پر گواہ ہے۔
دوسری عبادت گاہوں میں باجے بجتے ہیں گانے گائے جاتے ہیں آرام کے لئے کرسیاں اور صوفے مہیا کئے جاتے ہیںاور صرف ہفتہ میں ایک بار بلایا جاتا ہے لیکن لوگ ہیں کہ پھر بھی ان سے دور بھاگتے ہیں لیکن یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے مخاطب سخت زمین پر سجدہ کرنے کے لئے پانچ وقت مساجد میں شوق سے جمع ہوتے ہیں اور بغیر کسی ظاہری دلکشی کے اور بغیر کسی مادی آرام کے کے سامان کے موجود ہونے کے وہ لذت اور سرور محسوس کرتے ہیں کہ دُنیا کی سب نعمتیں اس کے آگے مات ہوتی ہیں اس مشاہدہ کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ اسلامی عبادت صرف چند ظاہری رسوم کا مجموعہ ہے اور اس میں روحانیت کی نسبت جسمانی ہیئتوں کا زیادہ خیال رکھا گیا ہے علم النفس اس پر شاہد ہے اور تجربہ بتا رہا ہے کہ اسلامی عبادت کی ظاہری شکل صرف ایک برتن کی حیثیت رکھتی ہے ورنہ اس کا مغز تو وہ پر معارف مضامین ہیں جو اس میں دہرائے جاتے ہیں اور وہ پر شوکت دعائیں اور وہ پر سوز التجائیں ہیں جو اس میںکی جاتی ہیں۔
بعض لوگ اعتراض کریت ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو عبادت کا حکم دینے سے کیا فائدہ۔ کیا وہ بندوں کی عبادت کا محتاج ہے تعظیم اور تکریم سے تو نادان انسان خوش ہوا کرتے ہیں خدا تعالیٰ کی ذات کو تو اس سے ارفع ہونا چاہیئے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ عبادت کا فائدہ یہ نہیں کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی شان بڑھتی ہے بلکہ عباد ت کی غرض اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ایسا اتصال پیدا کرنا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے نور کو اپنے اندر اخذ کر لے اس حقیقت کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ صرف فکر انسان کے اندر وہ جذبہ نہیں پیدا کر سکتا جس سے وہ خدا تعالیٰ کی ذات میں اپنے آپ کو محو کرنے کی کوشش کرے ایسا جذبہ تو محبت کام سے ہی پیدا ہو سکتا ہے او رمحبت کامل محسن ہستی کے احسانوں کے کامل انکشاف سے پیدا ہوتی ہے اور نماز اس غرض کو پورا کرتی ہے کیونکہ نماز میں اللہ تعالیٰ کی حقیقی شان کو سامنے لانے کے سامان مہیا کئے جاتے ہیں اگر کہو کہ جو انسان خدا تعالیٰ کی محبت پیداکرنا چاہے گا وہ خود ہی اپنے لئے اس کا موقع نکال لے گا اس کے لئے پانچ وقت کی نماز مقرر کرنے کی کیا ضرورت تھی تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اعتراض قلت تدبر سے پیدا ہوا ہے انسانی طبیعت اس قسم کی ہے کہ اگر باقاعدگی سے اسے اس کے مقصد کی طرف توجہ نہ دلائی جائے تو وہ سستی کرنے لگتا ہے پس اللہ تعالیٰ نے کمزور اور قوی سب کو اس اعلیٰ مقام تک پہنچانے کے لئے نماز باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ کمزور بھی قوی کے ساتھ مل کر ان مواقع کو پاتے رہیں جو ان کے دلوں کے اندر صفائی پیدا کریں اور قومی ایمان والوں کے دلوں سے نکلنے والی مخفی تاثیرات کو اپنے اندر جذب کر کے صفائی قلب پیدا کر سکیں۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ پانچ وقت کی نماز کا کیوں حکم دیا گیا ہے حالانکہ اس زمانہ میں مشاغل اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ انتا وقت نمازوں کے لئے نکالنا مشکل ہے اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اگر نماز کی غرض محبت الٰہی کی آگ بھڑکا کر اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنے اندر پیدا کرنے کے لئے سہولت بہم پہنچانا ہے تو جس زمانہ میں مشاغل بڑھ جائیں اس زمانہ میں نماز کی ضرورت بڑھ جاتی ہے نہ کم ہوت جاتی ہے ظاہر ہے کہ جب مقصد کو بھلا دینے کے سامان کم ہوں گے اس وقت بار بار مقصد کی طرف توجہ دلانے کی اس قدر ضرورت نہ ہو گی جس قدر کہ اس وقت جب مقصد کو بھلا دینے کے سامان یادہ ہوں پس اگر اس زمانہ میں دنیوی مشاغل بڑھ گئے ہیں تو نماز کی ضرورت بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ اگر نماز صرف ایک اظہار عقیدہ کا ذریعہ ہوتا تب یہ اعتراض کچھ وزن بھی رکھتا مگر جیسا کہ بتایا گیا ہے نماز کی غرض صرف اقرار عبودیت نہیں بلکہ اس کی غرض تو انسانی نفس میں وہ استعداد پیدا کرنا ہے جس کی مدد سے وہ مادی دُنیا سے اُڑ کر روحانی عالم میں پہنچ سکے اور اس کا دماغ جسمانی خواہشات میں ہی الجھ کر نہ رہ جائے بلکہ اعلیٰ اخلاق کو حاصل کرے جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ (العنکبوت ع ۵) یعنی نماز صرف عبودیت کا اقرار نہیں بلکہ قلب انسانی کو جلا دینے والی شے ہے اور اس کی مدد سے انسان بدیو ںاور بد کرواریوں سے بچتا ہے اور اس کا وجودبنی نوع انسان کے لئے مفید بنتاہے اور وہ ملت و قوم کا ایک فائدہ بخش جزو ہو جاتا پس جو عمل کہ یہ خوبیاں رکھتا ہو مادی اشغال کی کثرت کے زمانہ میں اس کی ضرورت کم نہیں ہوتی بلکہ بہت بڑھ جاتی ہے اور حق تو یہ ہے کہ اس زمانہ میں بدامنی اور شورش اور نفسانفسی اور قوموں کی قوموں پر چڑھائی کا اصل سبب یہی ہے کہ لوگ سچی عبادت کا طریق لوگوں میں رائج ہوتا تو اس دُنیا کو پیدا کرنے والے مہربان آقا سے اتصال کی وجہ سے بغض اور نفرت کی جگہ محبت اور ایثار اور قربانی کا جذبہ پیدا ہوتا۔
وَمِمَّا رَزَقْہٰمُ یُنْفِقُوْنَ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے کہ رَزَقَ کے معنے دینے کے ہیں نہ کہ کھانے دینے کے رَزَقَہٗ کے یہ معنے نہیں کہ اسے کھانا کھلایا۔ بلکہ یہ ہیں کہ اسے کچھ دیا حواہ وہ کوئی ہی چیز کیوں نہ ہو عربی زبان میں دینے کے لئے کئی الفاظ استعمال ہوتے ہیں رزق بھی اور ھبہ بھی اور ایتاء بھی او ربھی کئی الفاظ ہیں لیکن قرآن کریم میں یہی سات لفظ استعمال ہوئے ہیں۔ ان میں ایتائِ تو صرف دینے کے معنے کسی کے پاس آنے کے ہوتے ہیں اور ایتاء کے معنے کسی کے پاس لانے کے ہوتے ہیں جس سے آگے دینے کے معنے ہو گئے کیونکہ کسی کے پاس کوئی چیز لانے سے مُراد غالب طور پر اسے وہ چیز دینا ہوتا ہے۔ غرض یہ لفظ محض دینے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے خواہ وہ چیز بڑی ہو یا چھوٹی اچھی ہو یا بُری اور قرآن کریم میں متعدد بار ان معنو ںمیں استعمال ہوتا ہے۔ دوسرا لفظ عطاء ہے یہ لفظ آئی ہے زیادہ اہم مفہوم بیان کرتا ہے اور معمولی دینے کے معنوں میں استعمال نہیں ہوتا بلکہ بالعموم ایسی چیز کے دینے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے جسے اس چیز کا حاصل کرنے والا ایک نعمت خیال کرتا ہو اور اسے شوق سے لے اس لفظ کو اسی موقعہ پر استعمال کیا جاتا ہے جبکہ وہ چیز جو دی جائے اس کے لئے جسے دی جائے مفید اور کار آمد ہو چنانچہ عطاء کے معنی خدمت کے بھی ہوتے ہیں اور تعاطیٰ کے معنی ایڑیاں اُٹھا کر اور ہاتھ بلند کر کے کسی چیز کے لینے کے ہوتے ہیں من احسان اور انعام زیادہ تر حسن سلوک کے معنوں پر دلالت کرتے ہیں اور لینے والے کی کسی خاص حالت کو ظاہر کرنے کی بجائے دینے والے کے نیک جذبات پر دلالت کرتے ہیں۔ وطب کے معنوں میں اس امر پر زور ہے کہ دینے والے نے جو کچھ دیا ہے اس کے بدلہ میں کسی عوض یا بدلہ کی امید نہیں رکھی۔ رزق کا لفظ جو آیت زیر بحث میں استعمال ہوا ہے اس کے معنے بھی دینے کے ہیں لیکن اس کے معنوں میں یہ اشادہ پایا جاتا ہے کہ جو چیز دی گئی ہے اس نے لینے والے کی ضرورت کو پورا کیا ہے۔ گویا علاوہ دینے کے معنوں کے اس میں پانے والے کی ضرورت کی طرف بھی اور اس کے پوار ہونے کی طرف بھی اشارہ ہوتا ہے اور چونکہ انسانی ضرورت بار بار پیدا ہوتی ہے رزق اس عطاء کو کہتے ہیں جو بار بار ضرورت کے مطابق نازل ہو چناچہ مفردات راغب میں لکھا ہے کہ الرِّزْقُ یُقَالُ لِلْعَطائِ الْجَارِی رزق اس عطاء کو کہتے ہیں جو بار بار نازل ہوتی رہے وَیُفَالُ لِلنَّصِیْبِ اور حصہ کو بھی کہتے ہیں یہ حصہ کے معنے بھی اسی وجہ سے پیدا ہوئے کہ رزق در حقیقت قدرِ کفایت کا نام ہے اور حصہ بھی اسی کا نام ہے کہ جس جس قدر کسی کو ضرور ت ہو اس کے مطابق اسے چیز مل جائے قرآن کریم میں آتا ہے وَفِی السَّمَآئِ رِزْقُکُمْ یعنی ہر جنس کی ضرورت کے مطابق اللہ تعالیٰ نے سامان پیدا کر دیئے ہیں۔
محض اردو دان طبقہ میں یہ طبقہ میں یہ غلط خیال رائج ہے کہ رزق کے معنی صرف کھانے پینے کی چیزوں کے ہیں حالانکہ اصل میں رزق کے معنے بقدر ضرورت سامان مہیا کر دینے کے ہیں بیشک انہی معنوں سے غذا کے معنے بھی پیدا ہو گئے ہیں کیونکہ وہ بھی انسان کا ضروری حصہ ہیں مگر وہ اصل معنی نہیں ہیں بلکہ بعد میں ضمناً پیدا ہو گئے ہیں پس وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْقِقُوْنَ کے معنے یہ ہیں کہ جو کچھ بھی تم کو ہم نے دیا ہو خواہ علم ہو عزت ہو عقل ہو مال ہو دولت ہو اس میں سے ایک حصہ تم کو خرچ کرنا چاہیئے پس اس جملہ کے یہ معنے نہیں کہ جو کچھ تم کو کھانے پینے کی اشیاء ملی ہیں ان میں سے کچھ غریبو ںکو بھی کھلائو کیونکہ نہ تو اس جملہ میں غریبوں کا ذکر ہے نہ اس چیز کی تعیین ہے جسے خرچ کرنا ہے اور ہمارا کوئی حق نہیں کہ جن اشیاء کو خدا تعالیٰ نے بغیر حد بندی کے چھوڑ دیا ہے ہم ان کے لئے اپنے پاس سے حد بندی مقرر کریں۔
اللہ تعالیٰ اس آیت میں رف اس قدر فرماتا ہے کہ جو کچھ ہم نے تمہاری ضرورتوں کے مطابق دیا ہے اسے خرچ کرو یہ ضرورت کے مطابق ملنے والی چیز علم بھی ہو سکتا ہے عقل بھی جرأت بھی غیرت بھی وفا بھی ہاتھ پائوں کی خدمت بھی آنکھ ناک کی خدمت میں روپیہ پیسہ کی خدمت بھی۔ غرض کوئی چیز جس کی نسبت کہا جا سکے کہ خدا تعالیٰ نے دی ہے اور کسی ضرورت کے پورا کرنے کے لئے دی ہے اس کے خرچ کرنے کاحکم ہے اور اگر کوئی شخص ایسا ہو کہ روپیہ تو دوسروں کو امداد کے طو رپر دیتا ہو لیکن مثلاً کھانا نہ دیتا ہو لیکن مکان نہ دیتا ہو یا مکان تود یتا ہو مگر اپنے ہاتھوں سے خدمت نہ کرتا ہو یا ہاتھوں سے خدمت تو کرتا ہو مگر اپنے علم سے لوگوں کو فائدہ نہ پہنچاتا ہو تو وہ اس آیت پر پوری طرح عامل نہ سمجھا جائے گا اور اسی طرح اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہی اس آیت پر عامل نہیں جو غریبوں کو روپیہ دیتا ہے بلکہ وہ بھی عامل ہے جو لوگو ںکو علم پڑھاتا ہے اور وہ بھی عامل ہّے جو مثلاً بیوائوں یتیموں کے کام کر دیتا ہے اور وہ سپاہی بھی عامل ہے جو میدانِ جنگ میں ملک کی خاطر جان دینے کی نیت سے جاتا ہے اور وہ موجد بھی عامل ہے اور وہ موجد بھی عامل ہے جو رات دن کی محنت سے دُنیا کے فائدہ کے لئے کوئی ایجاد کرتا ہے۔
اس آیت پر غور کرنے والے لوگ ہمیشہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ ان کی ہر طاقت اور ان کے قبضہ ہر سامان ایک حد تک دوسروں کے کام آئے ان فقہا نے اسلام کی ایک بڑی صداقت کو پا لیا جنہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ عورت کا وہ زیور جو پہنا جائے اور کبھی کبھی دوسری غریب عورتوں کو پہننے کے لئے دیا جائے اس پر زکوٰۃ نہیں یہ ایک نہاتی سچی بات ہے کیونکہ زکوٰۃ مال کو پاک کرنے کے لئے ہے او رجو مال خرچ ہو رہا ہو وہ جاری پانی کی طرح ہے اور کوئی چیز اسے گندہ نہیں کر سکتی۔ جو مال آج ایک فائدہ دے رہا ہے کل دوسرے کو وہ بہتے چشمے کی طرح ہے جس کا پانی اس وقت یہاں ہوتا ہے تو دوسرے منٹ آگے اسی لئے اسلام نے زمینداری تجارت وغیرہ سے منع نہیں کیا لیکن روپیہ یا سونا چاندی جمع کرنے سے منع کیا ہے کیونکہ زمینداری تجارت وغیرہ سے زمیندار یا تاجر کے علاوہ دوسرے لوگ بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کا سرمایہ بھی ایک طرح خرچ ہو رہا ہوتا ہے مگر جو روپیہ جمع پڑا رہے وہ چونکہ دوسروں کے کام نہیں آتا اسے گناہ کا موجب قرار دیا اور یہاں تک فرما دیا کہ اس مال کو گرم کر کے اُن کے جمع کرنے والوں کے ہاتھوں پر داغ لگائے جائینگے (التوبہ آیت ۳۵)
دوسری شق خرچ کرنے کے مقام کی ہے اس آیت میں یہ کوئی ذکر نہیں کہ جو چیز خرچ کی جائے وہ کس پر خرچ کی جائے اس آیت میں کوئی لفظ غریب یا مسکین کا نہیں بلکہ محض یہ ہے کہ وہ اس عطیہ کو جو ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے دیا گیا ہے خرچ کرتے ہیں۔
اس آیت میں غریبوں کا تو کیا ذکر ہے یہ بھی کوئی حد بندی نہیں کہ غیروں کو دیتے ہیں نہ یہ کہ اپنے عزیزوں کو دیتے ہیں اور نہ یہ کہ اپنی ذات پر خرچ کرتے ہیں پس جہاں تک اس آیت کا تعلق ہے وہ شخص ہی اس آیت پر عمل نہیںکرتا جو اپنے مال میں سے کچھ غریبوں کو دیتا ہو بلکہ اس آیت کے مفہوم کے مطابق وہ باپ جو اپنی اولاد پر خرچ کرتا ہے اور وہ ماں جو اپنے بچہ کو دودھ پلاتی ہے او روہ خاوند جو اپنی بیوی کو ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اور وہ اولاد جو اپنے ماں باپ کا خیال رکھتا ہے سب ہی اس آیت کے احکام میں سے بعض احکام کو پورا کرتے ہیں کیونکہ اس آیت کے مفہوم میں ان سب لوگوں پر خرچ کرنا شامل ہے بلکہ اس آیت کے مفہوم میں وہ خرچ بھی شامل ہے جو ایک شخص خود اپنی ذات پر کرتا ہے۔ وہ شخص جو اپنے نفس کو اس کی ضرورت کے مطابق کھانا کھلاتا ہے اس آیت کے مفہوم کے ایک حصہ کو پورا کرنے والا ہے وہ شخص جو اپنے جسم کے لئے ضرورت کے مطابق کپڑا بناتا ہے اس آیت کے مفہوم کو پورا کرنے والا ہے۔
ہر وہ شحص جو اپنے نفس کے بارہ میں بحل سے کام لیتا ہے اور ضِرورت اور صحت کے مطابق کھانا نہیں کھاتا وہ اس حکم کو توڑنے والا ہے خواہ وہ دوسروں پر کس قدر ہی کیوں نہ خرچ کرے کیونکہ یہ آیت یہ نہیں کہتی کہ غریبوں پر خرچ کرو بلکہ یہ آیت کرنے کے مقام کو بلا تعیین چھوڑکر خود انسان کے نفس کو بھی اس میں شامل کرتی ہے اور اس کی بیوی کو بھی اور اس کے بچے کو بھی۔ اور اس کے دوستوں کو بھی۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سے اس آیت کے اس مفہوم کی خوب تشریح ہوتی ہے آپؐ کے پاس ایک دفعہ ایک شخص کی شکایت کی گئی جو ہر روز روزہ رکھتا تھا رات بھر عبادت کرتا تھا اور اپنے بیوی بچوں کی طرف سے غافل تھا اس پر آپؐ نے فرمایا اِنَّ لِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقًّا وَلِرَبِّکَ عَلَیْکَ حَقًّا وَ لِضَیْفِکَ عَلَیْکَ حَقًّا وَاِنَّ لِاَ ھْلِکَ عَلَیْکَ حَقًّا فَاعْطِ کُلَّ ذِیْ حَقٍّ حَقَّہٗ یعنی تیرے نفس کا بھی تجھ پر حق ہے تیرے رب کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیرے مہمان کا بھی پر حق ہے اور تیری بیوی اور بچوں کا بھی تجھ پر حق ہے پس ہر حق والے کو اس کا حق دے او رکسی کو محروم نہ کر۔ (ترمذی جلد دوم ابواب الزھد)
اس آیت نے ان تمام اقسام رہبانیت کو جن میں گندہ رہنے بھوکا رہنے اپنے عزیز رشتہ داروں کو حقوق سے غافل رہنے کا نام نیکی قرار دیا گیا ہے رد کر دیا ہے کیونکہ اسلام کے نزدیک متقی وہ ہے جو ان سب چیزوں کو خرچ کرے جو اسے خدا تعالیٰ کی طرف سے ملی ہیں اور اس کی عطاء اس کے نفس کے لئے بھی ہو اور اس کے عزیزوں کے لئے بھی اور اس کے دوستوں کیلئے بھی ہو اور اسکے ہمسائیوں کے لئے بھی ہو اور غریبوں کے لئے بھی ہو اور امیروں کے لئے بھی ہو اور جان پہچان لوگوں کے لئے بھی ہو اور اجنبیوں کے لئے بھی ہو اور ہم وطنو ںکیلئے بھی ہو اور دُور سے آئے ہوئے مسافروں کے لئے بھی ہو اور انسانوں کے لئے بھی ہو اور حیوانوں کے لئے بھی ہو کیونکہ وہ حکم دیتا ہے کہ ہر نعمت سے خرچ کرو اور ہر ضروری مقام پر خرچ کرو۔
اس آیت سے یہ بھی استدلال ہوتا ہے کہ خدا کے دیئے ہوئے میں سے کچھ حصہ خرچ کرنے کا حکم ہے نہ یہ کہ سب ہی خرچ کر دے قرآن کریم کی دوسری آیات اس امر کی وضاحت کرتی ہیں کہ اس طرح اپنے مال کو خرچ کرنا کہ اس کے پاس اپنے گزارہ کا سامان ہی ختم ہو جائے ناجائز ہے چنانچہ فرماتا ہے وَلَا تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْ لَۃً اِلیٰ عُنُقِکَ وَلَا تَبْسُطْہَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُورًا (بنی اسرائیل ع ۳)یعنی نہ تو اپنے ہاتھوں کو اپنی گردن سے باندھ دے کہ خدا کی نعمتوں کا خرچ بالکل روک دے اور نہ ہاتھ ایسا کھول کہ سب مال ضائع ہو جائے اور لوگ تجھ کو ملامت کریں اور تو آئندہ مال کمانے کے سامانوں سے محروم رہ جائے مَحْسُوْرا سے کہتے ہیں جس کی طاقت ضائع ہو جائے اور اس کی کمزوری ظاہر ہو جائے اور اس آیت میں اس شخص سے مراد ہے جو آئندہ کی ترقی کے سامانوں سے محروم ہو جائے۔
اس جگہ یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ تمام مال کا خرچ تو بُرا کہلا سکتا ہے مگر اس آیت میں تو علم اور فہم وغیرہ کے اخراجات کو بھی شامل کیا گیا ہے ان چیزوں میں سے کچھٖ خرچ کرنے کے کیا معنے ہیں کیا انسان اپنا سارا علم لوگوں کو نہ سکھائے یا اپنی عقل سے پوری طرح لوگو ںکو فائدہ نہ پہنچائے تو اس کا جواب یہ ہے کہ علم اور فہم اور عقل خرچ کرنے سے بڑھتے ہیں پس ان میں سے کچھ خرچ کرنے کے یہ معنی ہیں کہ اس طرح علم مے لوگوں کو فائدہ نہ پہنچائے یا فہم سے یا عقل سے کہ انکے بڑھنے کا منبع خراب ہو جائے مثلاً یہ ہلاک ہو جائے یا اس کی صحت ایسی طرح بگڑ جائے کہ اس کا علم یا فہم یا عقل کام دینے سے رُک جائیں مثلاً دماغ خراب ہو جائے۔ غرض علم اور فہم اور عقل کا بھی اسی قدر استعمال ہونا چاہیئے کہ ان کا چشمہ نہ سوکھ جائے کیونکہ جو شخص اپنے علم اور عقل سے لوگوں کو اس طرح فائدہ پہنچاتا ہے یا اپنے آپ کو اس طرح فائدہ پہنچاتا ہے کہ ان کے منبع میں خرابی واقع ہو جاتی ہے وہ اس آیت کے حکم کے خلاف عمل کرتا ہے۔
اگر کہا جائے کہ کیا سارا مال حدا کی راہ میں خرچ کرنے والا گنہگار ہو گا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح علم اور فہم اور عقل کا منبع ہوتا ہے اور وہ اس کا راس المال ہوتا ہے اسی طرح مال کا بھی ایک منبع ہوتا ہے پس سارا مال خرچ کرنے سے یہی مراد ہو گی کہ وہ اس منبع تک کو خرچ نہ کر دے مثلاً ایک شخص کا رائس المال اگر اس کی قوت بازو اور اس کی عقل یا اس کا فن ہے تو ہ اگر اپنا وہ مال جو روپیہ کی صورت میں اس کے پاس ہے سب کا سب خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دیتا ہے تو وہ گنہگار نہیں کیونکہ اس کا رائس المال موجود ہے وہ اس سے اور مال کما لے گا لیکن اگر کوئی شخص ایسا ہے کہ اس کا رائس المال اس کی دماغی قوت یا جسمانی قوت نہیں بلکہ اسے اپنی روزی کمانے کے لئے کسی قدر مال کی ضرورت ہے تو اس کے لئے اپنا سارا مال خرچ کر دنیا جائز نہ ہو گا حضرت ابوبکرؓ تجارتی کامو ںمیں بہت ہوشیار تھے وہ اپنی عقل سے پھر مال پیدا کر لینے کا ملکہ رکھتے تھے مکہ سے نکلتے ہوئے ان کا سب مال قریباً ضائع ہو گیا لیکن مدینہ میں آ کر انہوں نے نے پھر اور مال کما لیا ایک دفعہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص چندہ کی تحریک کی آپؓ نے اپنے گھر کا سب اثاثہ چندہ میں دے دیا اور جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ ابوبکرؓ اپنے گھر میں کیاچھوڑا ہے تو انہوں نے جواب دیا حضور اللہ اور اس کے رسول کا نام چھوڑا ہے (ترمذی جلد دوم ابواب المناقب مناقب ابی بکر الصدیقؓ) ایسے شخص کے لئے اپنا سارا مال دے دیناکوئی گنہ نہیں کیونکہ اس کا رائس المال اس کا دماغ ہے چنانچہ اس کے بعد بغیر اس کے کہ حضرت ابوبکرؓ لوگوں سے سوال کرتے آپ نے پھر اور مال کما لیا اور اپنا گزارہ اپنے ہاتھوں کی کمائی سے کرتے رہے کسی کے دست نگر نہ ہوئے پس سارے مال کی تعریف ہر شخص کے حالات کے لحاظ سے مختلف ہو گی پیشہ ور کے لحاظ سے اور تاجر کے لحاظ سے اور اور اس تاجر کے لحاظ سے او رجو تجارت صرف روپیہ کہ زور سے نہیں کرتا بلکہ اپنے وسیع تجارتی علم اور تجربہ کے زور سے کرتا ہے او رمزید سرمایہ پیدا کر لینا اس کے لئے مشکل نہیں ہوتا بلکہ دوسرے لوگ اسے حود اپنا سرمایہ پیش کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں کیونکہ جانتے ہیں کہ اس کو سرمایہ دے کر خود اپنے مال کو بڑھائیں گے۔
مِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ سے یہ بھی استدلال ہوتا ہے کہ انسان کو حلال اشیاء خرچ کرنی چاہئیں یہ نیکی نہیں کہ حرام مال یا حرام اشیاء خرچ کرے بعض لوگ رشوتیں لے کر اور بعض ڈاکے ڈال کر مال جمع کرتے ہیں اور غریبوں میں تقسیم کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ نیکی کرتے ہیںحالانکہ بدی سے بدی پیدا ہو سکتی ہے نیکی نہیں ایسے لوگ بدیوں کی بنیاد رکھتے ہیں ان کا صر ف اس قدر کام تھا کہ جو خدا تعالیٰ نے ان کو دیا تھا اس میں سے خرچ کرتے اگر کوئی شخص دوسرے کے مال سے جس پر اس کا حق نہیں دوسرے کو کچھ دے دیتا ہے وہ اس حکم کا پورا کرنے والا نہیں کہلا سکتا کیونکہ وہ اس رزق میں سے خرچ نہیںکرتا جو خدا تعالیٰ نے اسے دیا تھا بلکہ اس میں سے خرچ کرتا ہے جو خدا تعالیٰ نے اسے نہیں دیا تھا اور یہ آیت کہتی ہے کہ جو ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے حرچ کرتے ہیں۔
اس آیت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مال خرچ کرنے پر گھبرانا عقل کے خلاف ہے کیونکہ یہاں خدا تعالیٰ کی نعمت کا نام رزق رکھا گیا ہے اور رزق اس عطاء کو کہتے ہیں جو جاری ہو اور جو ایک ہی دفعہ ختم نہ ہو جائے پس رزق کا لفظ استعمال کر کے اس جگہ یہ اشارہ کیا گیاہے کہ خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق جو خرچ کرے گا اس کا مال بڑھے گا کم نہ ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ اس پر بار بار انعام کر لے گا۔ علم اور فہم اور عقل اور جسمانی قوتوں کے خرچ کرنے سے ان اشیاء کا بڑھنا تو ظاہرہی ہے جو شخص اپنے علم سے دوسروں کو فائدہ پہنچاتا ہے اس کا علم ہمیشہ بڑھتا ہے کم نہیں ہوتا جو لوگ درس و تدریس میں مشغول رہتے ہیں ان کا علم ہمیشہ بڑھتا رہتا ہے اسی طرح جو لوگ اپنی عقل اور اپنے فہم سے دوسروں کو فائدہ پہنچاتے ہیں ان کی عقل اور ان کا فہم بڑھتا ہے گھٹتا نہیں اسی طرح جسمانی قوتوں کو صحیح طرح خرچ کرنے والے کی قوت بڑھتی ہے گھٹتی نہیں اسی طرح مال خرچ کرنے والے کا مال بھی بڑھتا ہے مثلاً یہ ظاہر امر ہے کہ جو شخص اپنے مال کا کچھ حصہ اپنے نفس پر خرچ کرے گا اس کے جسم میں زیادہ کما سکے گا اسی طرح جو شخص صحیح طو رپر اپنی بیوی اور اپنی اولاد پر خرچ کرے گا اس کے ہاں کمانے والوں کی تعداد بڑھے گی جو اپنے ہمسائیوں پر اور دوستوں پر مال حرچ کرے گا اس کے معاون اور مددگار بڑہیں گے جو غربار پر خرچ کرے گا اس کی قوم کی مالی حالت ترقی کرے گی اور اس کا رد عمل خود اس کے مال کے بڑھنے کی صورت میں ہو گا غرض مال کا صحیح خرچ کبھی مال کو ضائع ہونے نہیں دیتا بلکہ اسے بڑھاتا ہے پس علاوہ اس کے کہ خدا تعالیٰ کا فضل اس شحص پر روحانی طو رپر نازل ہوتا ہے خدا تعالیٰ نے طبعی قوانین بھی اسی طرح بنائے ہیں کہ اُن کی مدد سے بھی ایسے حالات میں مال بڑھتا ہے کم نہیں ہوتا اور صرف کم عقل لوگ اس قسم کے خرچ سے گھبراتے ہیں وہ نہیں سمجھتے کہ اس طرح وہ اپنے مالوں کو نقصان پہنچاتے ہیں محفوظ نہیں کرتے۔
شائد کوئی اعتراض کرے کہ خدا تعالیٰ کو اس کی کیا ضرورت پیش آئی کہ بندوں کی وساطت سے دوسروں پر خرچ کر وائے کیوں نہ اس نے سب انسانوں کو براہِ راست ان کا حصہ دے دیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ محض طمت تدبر کا نتیجہ ہے کہ خیال کیا جاتا ہے کہ بعض لوگ خرچ کرنے والے ہیں اور بعض دوسروں کی امداد پر گزارہ کرتے ہیں کیونکہ در حقیقت سب ہی لوگ ایک دوسرے پر خرچ کرنے والے ہیں امراء ظاہر میں غربا پر مال خرچ کرتے ہیں لیکن حق یہ ہے کہ غرباء بھی امراء پر خرچ کر رہے ہوتے ہیں ایک مالدار جو ایک گائوں میں رہتا ہے اس کے مال کی حفاظت ان سینکڑوں غرباء کی ہمسائیگی سے ہو رہی ہوتی ہے جو اس کے ساتھ گائوں میں رہتے ہیں ورنہ ڈاکو اور چور اس کو لوٹ لیں اگر اس کے گھر پر چور اور ڈاکو حملہ نہیں کرتے تو اس کا موجب صرف اس کے ملازم نہیں کرتے بلکہ اسی بستی میں رہنے والے سب لوگ ہوتے ہیں جن کے خوف سے ڈاکو اس کے گھر پر حملہ نہیں کرتے ایک امیر اپنی امارت غرباء کی مدد کے بغیر قائم ہی نہیں رکھ سکتا کیونکہ دولت مزدور کی مدد سے آتی ہے مزدور نہ ہو تو دولت کہاں سے آئے پس امیر ہی غریب کی مدد نہیں کرتا بلکہ غریب بھی امیر کی مدد کرتا ہے پس اللہ تعالیٰ نے تعاون اور محبت کے قیام اور زیادتی کے لئے دنیا میں ایسا انتظام کیا ہے کہ ہر شخص کے مال میں کچھ دوسروں کا حصہ بھی رکھ دیا ہے تاباہمی ہمدردی اور تعاون سے محبت بڑھے اور تمدن ترقی کرے اگر ہر اک آزاد ہوتا تو مدنیت کبھی ترقی نہ کرتی اور وہ علوم جو انسان کو حیوانوں سے ممتاز کرتے ہیں کبھی پیدا نہ ہوتے پس رزق کا باہم ملا دینا ایک بڑی حکمت پر مبنی ہے۔
اس جگہ میں مالی خرچ کے متعلق کسی قدر تفصیل سے قرآنی تعلیم کو بیان کر دینا چاہتا ہوں تاکہ قرآن کریم نے جو اس بارہ میں احکام دیئے ہیں اجمالی طور پر ذہن نشین ہو جائیں۔
قرآن کریم میں مالی خرچ کئی قسم کا بیان ہوا ہے۔ (۱) زکوٰۃ جو فرض ہے (۲) صدقہ جو نفلی ہے اور انسان کے اندرونی تقوی کے فیصلہ پر اسے چھوڑ دیا گیا ہے یہ آگے دو قسم کا ہے (الف) ان کے لئے صدقہ جو اپنی ضرورتوں کو پیش کر کے مطالبہ کر لیتے ہیں (باء) ان کے لئے صدقہ جو اپنی ضرورتوں کو پیش نہیں کرتے یہ آگے دو قسم کا ہے (۱) جو اپنی ضرورتوںکو پیش نہیں کرتے (۲) جو اپنی ضرورتوں کو پیش نہیں کر سکتے (۳) وہ خرچ جو انسان قومی ضروریات کے لئے کرتا ہے (۴) شکرانہ (۵) فدیہ (۶) کفارہ (۷) تعاونی خرچ جو مدنی نظام کی ترقی کے لئے ضروری قرار دیا گیا ہے (۸) حق الخدمت (۹) ادا احسان (۱۰) تحفہ یہ دس قسم کے حرچ ہیں جو قرآن کریم سے ثابت ہیں اور جن خرچوں میں سے کسی ایک کا ترک بھی جب موقعہ اس کا مقتضی ہو اس آیت پر عمل کرنے سے انسان کو محروم کر دیتا ہے اور اس کے تقویٰ میں کمزوری پیدا کر دیتا ہے دُنیا میں بہت سے لوگ اس تقسیم کو مدنظر نہ رکھ کر اعلیٰ ثوابوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔
(۱) زکوٰۃ وہ خرچ ہے جو قرآن کریم میں فرض کیا گیا ہے اور اس کی حکمت یہ بتائی گئی ہے کہ تمام انسانوں کی دولت دوسرے لوگوں کی مدد سے کمائی جاتی ہے اور اس کمائی میں بہت دفعہ دوسروں کا حق شامل ہوتا ہے جو باوجود انفرادی طور پر دوسروں کا حق ادا کر دینے کے پھر بھی دولتمند کے مال میں باقی رہ جاتا ہے مثلاً ایک مالدار آدمی ایک کان سے فائدہ اٹھاتا ہے وہ کان کے مزدوروں کو ان کی مزدوری پوری طرح ادا بھی کر دے تو بھی وہ جو کچھ ان کو ادا کرتا ہے وہ ان کی مزدوری ہے مگر قرآنی تعلیم کے مطابق وہ لوگ بھی اس کان میں حصہ دار تھے کیونکہ قرآن کریم بتاتا ہے کہ دُنیا کے سب خزانے تمام بنی نوع انسان کے لئے پیدا کئے گئے ہیں نہ کہ کسی خاص شخص کے لئے پس مزدوری ادا کر دینے کے بعد بھی حق ملکیت جو مزدوروں کو حصال تھا ادا نہیں ہوتا اس کی ادائیگی کی یہ صورت ہو سکتی تھی کہ ان مزدوروں کو کچھ زائد رقم بھی دی جائے مگر اس سے بھی وہ حق ادا نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ اس طرح ان چند مزدوروں کو تو ان کا حق ادا ہو جاتا مگر باقی دنیا بھی تو اس میں حصہ دار تھی ان کا حق ادا ہونے سے رہ جاتا۔ پس اسلام نے یہ حکم دیا کہ اس قسم کی کمائی میں سے کچھ حصہ حکومت کو ادا کیا جائے تاکہ وہ اسے تمام لوگوں پر مشترک طو رپر خرچ کرے۔
اسی طرح زمیندار جو زمین میں سے اپنی روزی پیدا کرتا ہے گو اپنی محنت کا پھل کھاتا ہے مگر وہ اس زمین سے بھی تو فائدہ اٹھاتا ہے جو تمام بنی نوع انسان کے لئے بنائی گئی تھی پس اس کی آمد میں سے بھی ایک حصہ حکومت کو قرآن کریم دلواتا ہے تاکہ تمام بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے اسے خرچ کیا جائے اسی طرح تجارت کرتنے والا بظاہر اپنے مال سے تجار تکرتا ہے لیکن اس کی تجارت کا مدار ملکی امن پر ہے اور اس امن کے قیام میں ملک کے ہر شخص کا حصہ ہے پس اس حصہ کو دلانے کے لئے اس کے مال پر بھی اسلام نے زکوٰۃ مقرر کی ہے تاکہ حکومت کے ذریعہ سے باقی لوگوں کا حق ادا ہو جائے اسی طرح جو شخص مال جمع کرتا ہے اس کے مال جمع کرنے کی وجہ سے دوسرے لوگ اس مال سے نفع حالص کرنے سے محروم ہو جاتے ہیں جو اس مال میں ازل سے شریک مقرر کئے گئے تھے پس اس مال پر بھی شریعت نے زکوٰۃ مقر ر کی ہے گو جس وقت وہ مال کمایا گیا تھا اس پر زکوٰۃ دی گئی تھی لیکن پہلی زکوٰۃ تو اس حق کے بدلہ میں تھی جو اس مال میں دوسروں کو حاصل تھا اور دوسری زکوٰۃ اس وجہ سے ہے کہ اس مال کو بند رکھنے کی وجہ سے وہ اس سے فائدہ اٹھانے سے محروم کر دیئے گئے۔
زکوٰۃ کے یہ تمام احکام قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں اور بعض کی تشریح بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام سے ہوتی ہے وہ سب اپنے اپنے موقعہ پر تفسیر میں انشاء اللہ بیان ہوں گے اس جگہ زکوٰۃ کے اس اجمالی حکم کی طرف اشارہ کرنا کافی ہے جس میں اس حکم کی حکمت کو بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ خُذْ مِنْ اَمْوَا الِھِمْ صَدَقَۃً تُطَہِرُ ھُمْ وَتُزِکِّیْھِمْ بِھَا (توبہ رکوع ۱۳) یعنی تمام ان مومنوں سے جو اسلامی حکومت تلے رہتے ہیں صدقہ لے اس طرح تو ان کے دلوں کو پاک کرے گا اور ان کے مالوں کو بھی دوسرے لوگوں کے مالوں کی طونی سے صاف کر دے گا اور قومی ترقی کے سامان پیدا کرے گا صدقہ سے مُراد اس جگہ زکوٰۃ مفروضہ ہے یہ لفظ صدقہ کا علاوہ ان متد اول معنوں کے جن بھی استعمال ہوتا ہے جن میں سے ایک زکوٰۃ مفروضہ بھی ہے اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ بغیر اس قسم کی زکوٰۃ لینے کے لوگوں کے مال پاک نہیں ہو سکتے کیونکہ جب تک لوگوں کا حق ادا نہ ہو مال پاک نہیں ہو سکتا اور نہ مالدار کا تقویٰ مکمل ہو سکتا ہے یہ زکوٰۃ حکومت لیتی ہے اور ایس کی معرفت خرچ ہو سکتی ہے یا حکومت نہ ہو تو اسلامی نظام اس کے وصول کرنے اور خرچ کرنے کا حقدار ہے جیسے کہ خذ یعنی لے کے لفظ سے ظاہر ہے (۲) نفلی صدقہ جس کی بناء رحم اور شفقت پر ہے یہ کسی مقدار معین معین میں فرض نہیں بلکہ ہمسائیوں کی ضرورت اور دینے والے کی مالی حالت او راس کے دل کے تقویٰ پر اسے چھوڑا گیا ہے صدقہ کا حکم اس شکل میں اس لئے دیا گیا ہے تا ہر شخص اپنے تقویٰ اور اپنی مالی حالت کے مطابق اسے ادا کرے چونکہ اس کی حکمت تعاون باہمی کی روح کو پیدا کرنا ہے اس لئے یہ خرچ حکومت کی وساطت سے نہیں رکھا گیا بلکہ ہر فرد کو نصیحت کی گئی ہے کہ وہ خود اس قسم کا خرچ کرے اس کا ارشاد قرآن کریم کی اس آیت میں اجمالاً کیا گیا ہے۔ اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَا لَھُمْ بِا لَّیْلِ وَالنَّھَارِ سِرًّا وَّعَلَا نِیَۃً فَلَھُمْ اَجْرُ ھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَo(برقرہ رکوع ۳۸) یعنی جو لوگ اپنے مال رات اور دن خرچ کرتے ہیں اور پوشیدہ بھی خرچ کرتے ہیں اور ظاہر بھی خرچ کرتے ہیں وہ اپنے اجر اپنے رب کے پاس پائیں گے اور انہیں نہ آئیندہ کا خوف لا حق ہو گا اور نہ سابق کوتاہیوں پر انہیںکوئی گھبراہٹ لاحق ہو گی اس آیت کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ یہاں زکوٰۃ کا ذکر نہیں جو فرض ہے اور حکومت کو ادا کی جاتی ہے کیونکہ زکوٰۃ مخفی خرچ نہیں کی جا سکتی پس یہ خرچ نفلی صدقہ کا ہے جو انسان خود کرتا ہے اور حسب موقعہ کبھی مخفی کرتا ہے کبھی ظاہر مخفی اس لئے تاکہ جس کی امداد کرتا ہے لوگوں میں شرمندہ نہ ہو اور ظاہر اس لئے کہ تا ان لوگوں کو بھی صدقہ کی تحریک ہو جو اس نیکی میں ابھی کمزور ہیں ورنہ اسے اپنی ذات کے لئے کسی شہرت کی تمنا نہیںہوتی ایسے لوگوں کی نبست فرماتا ہے کہ وہ اپنے اس فعل کا بدلہ خدا سے پائیں گے۔
جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے اس حرچ کے دو مواقع قرآن کریم سے معلوم ہوتے ہیں (۱) ان افرا دپر خرچ کیا جائے جو اپنی ضرورتوں کے لئے مطالبہ کر لیتے ہیں جیسے کہ وہ غرباء جو سوال کر لیتے ہیں اور اس میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے اس اسلام ان پر بھی حسب موقعہ خرچ کرنے کو پسند کرتا ہے۔ چناچنہ فرماتا ہے وَفِٓیْ اَمْوَ الِھِمْ حَقٌ لِلسَّآئِلِ (ذاریات رکوع ۱) مومنوں کے اموال میں سائلوں کا بھی حق ہوتا ہے۔
یاد رہے کہ قرآنی محاورہ میں مسائل سے مراد وہ عادی گدا گر نہیں کہ جنہوں نے سوال کو اپنا پیشہ بنا رکھا ہے کیونکہ اسلام ساول کو ناپسند کرتا ہے اور ایسا گداگر اسلامی نظام کی کسی شق میں بھی انہیں آ سکتا کیونکہ قرآن کریم تو کل علی للہ پر بڑا زور دیتا ہے اور سوال کرنا تو کل کے باکل بر خلاف ہے پھر قرآن کریم انسانی زندگی کو مفید طو رپر حرچ کرنے پر زور دیتا ہے اور عادی سوالی اپنی زندگی کو تباہ کر رہے ہوتے ہیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال سے سختی سے منع فرمایا ہے اور حضرت عمرؓ تو اس حکم پر عمل کرانے میں اس قدر شدت سے کام لیتے تھے کہ اگر کوئی ایسا سوالی ملتا تو آپ اس کی مانگی ہوئی چیزوں کو پھینک دیتے تھے او راسے محنت مزدوری کرنے کی تلقین کرتے تھے۔
سوالی سے مُراد وہ لوگ بھی نہیں جو معذور ہو ںاور کما نہ سکیں کیونکہ ان کا بوجھ اسلام نے قوم پر تسلیم کیا ہے اور زکوٰہ بھی ان لوگوں کے اخراجات کی متحمل ہے۔
پس جب ہم اسلام کے دوسرے احکامات کو ملا کر دیکھتے ہیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے نزدیک سوالی وہ ہے جو در حقیقت محنت او رمزدوری سے کام تو لیتا ہے لیکن مثلاً اس کا پیشہ ایسا ہے کہ اس سے کافی آمدن نہیں ہو سکتی یا یہ کہ اس کے عیال زیادہ ہیں ایسے اشخاص میں سے اگر کوئی اپنے دوستوں سے سوال کرے تو گو اسلام نے اسے پسند تو نہیں کیا لیکن اسے منع نہیں کیا کیونکہ پوری محنت کے بعد بھی اگر اسکی ضرورت پوری نہ ہوتی تو گو اس کا سوال کرنا معیوب ہو مگر اسے حرام یا ممنوع نہیں کہا جا سکتا کیونکہ آخر بھائی بھائیو ںکے بوجھ اُٹھاتے ہیں۔
دوسرا مصرف قرآن کریم نے ایسے صدقہ کا محروم لوگوں کا گروہ بتایا ہے چنانچہ اوپر کی آیت پوری اس طرح ہے وَفِٓیْ اَمْوَ الِھِمْ حَقٌ لِلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمرِ (ذاریات ع ۱) یعنی مومنوں کے مالوں میں سائلوں کا بھی حق ہوتا ہے اور محروم لوگوں کا بھی یعنی جو باوجود غربت کے ساول نہیں کرتے اور اس طرح ان لوگوں کی توجہ میں نہیں آتے جو گہری نگاہ سے اپنے ہمسائیوں کو دیکھنے کے عادی نہیں ہیں۔
ان لوگوں کا ذکر قرآن کریم کی ایک اور آیت میں ان الفاظ میں آیا ہے لِلْفُقَرَآئِ الَّذِیْنَ اُحْوصرُ وْافِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَایَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ یَحْسَبُھُمُ الْجَاھِلُ اَغْنِیَآئَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُھُمْ بِسِیْمَا ھُمْ لَایَسْئَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا (بقرہ رکوع ۳۷) یعنی اے مومنو جو مال تم خرچ کرو اس میں سے ان بے مایہ لوگوں کو بھی دیا کرو جو دین یا ملت کی خدمت میں لگے رہتے ہیں اور اس شغل کی وجہ سے اِدھر ادھر پھر کر اپنی کمائی میں زیادتی نہیں کر سکتے لیکن باوجود مال کی کمی کے وہ اپنے نفس کو سوال کی وفات سے بچاتے اور خاموش رہتے ہیں اور اس وجہ سے وہ لوگ جو غور کرنے کے عادی نہیں انہیں خوشحال سمجھ لیتے ہیں حالانکہ تو اگر دیکھے تو ان کو ان کے چہروںسے پہچان لے گا وہ لوگوں سے چمٹ کر نہیں مانگتے۔
اس کے آخری فقرہ سے یہ دھوکا نہیں کھانا چاہیئے کہ وہ نرمی سے مانگ لیتے ہیں کیونکہ اوپر بیان ہو چکا ہے کہ وہ سوال کرتے ہی نہیں پس چمٹ کر نہیں مانگتے سے یہ مراد ہے کہ وہ اپنی غربت کو چھپانے کے لئے امرا ئکا سایہ بننے سے بھی گریز کرتے ہیں اور اس طرح سوال مجسم ہو کر انسان لوگوں سے جو فائدہ اٹھا سکتا ہے اس سے بھی محروم رہتے ہیں ایسے لوگوں پر خرچ کرنے پر قرآن کریم نے خاص زور دیا ہے۔
محروم کے دوسرے معنے یہ بھی ہیں کہ وہ سوال کر ہی نہ سکتے ہوں سو ان معنوں کے روسے اس میں وہ لوگ شامل ہوں گے جو مثلاً گونگے بہرے ہیں یا پردہ دار عورتیں ہیں یا چھوٹے بچے ہیں یا پھر جانور ہیں کہ زبان ان کو قدرت نے عطا ہی نہیں کہ ان سب پر خرچ کرنا بھی صدقہ کی اقسام میں شامل ہے۔
قرآن کریم سے ثابت ہے کہ صدقہ رد بلا کے لئے مفید ہوتا ہے او راسلام آفات اور مصائب کے وقت اس قسم کے صدقات کی تحریک متواتر کرتا ہے۔
صدقہ میں وہ تمام اخراجات شامل ہیں جو ردِّ بلا کی غرض سے او رمصیبت کے وقت میں یا مصیبتوں کو دُور رکھنے کے لئے اور خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے لئے کئے جاتے ہیں اسی کی ایک قسم کو نذر کہتے ہیں اس میں اور عام صدقہ میں یہ فرق ہے کہ عام صدقہ تو اس خرچ کو کہتے ہیں جو ردِّ بلاء کی امید میں کیا جاتا ہے اور نذر اس صدقہ کو کہتے ہیں جس کا وعدہ اس صورت میں کیا جائے کہ اگر فلاں مشکل دُور ہو جائے یا فلاں کام ہو جائے تو یہ خرچ کروں گا یا فلاں عبادت بجا لائوں گا۔ اس کا ذکر سورۂ دھر رکوع اول میں ہے جہاں فرماتا ہے وَیُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ مومن نذر کو پورا کرتے ہیں یعنی جب کسی خیرات یا نیک عمل کا عہد کرتے ہیں صلحاء امت میں سے جو بڑے پایہ کے صلحاء گزرے ہیں ان کا خیال ہے کہ گو نذر کا پوار کرنا ضروری ہے کیونکہ وہ ایک عہد ہے جو بندہ خدا تعالیٰ سے کرتا ہے لیکن اس طرح عہد کرنے سے کہ اگر خدا تعالیٰ فلاں مصیبت کو ٹلا دے تو اس اس قدر صدقہ کرونگا یہ بہتر ہے کہ پہلے ہی صدقہ کر کے اللہ تعالیٰ پر توکل کر لے بجائے اس کے کہ خدا تعالیٰ سے سودا کرنے کی کوشش کرے اور یہ خیال ان کا درست اور صحیح ہے امام بخاری نے امام مالک کے واسطہ سے حضرت عائشیہؓ سے روایت کی ہے قال مَنْ نَذَرَ اَنْ یُّطِیْعَ اللّٰہَ فَلْیُطِعْہُ وَمَنْ نَذَرَ اَنْ یَعْصِیَہٗ فَلَا یَعْصِہًٖ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو ایسی نذر مانے جس میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہوتی ہو تو اسے پورا کرے اور جو ایسی نذر مانے جس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہو تو وہ نذر کو پورا کرکے نافرمانی نہ کرے۔ (بخاری جز رابع کتاب الغذور باب النذر فی الطاقہ)
(۳) تیسری قسم خرچ کی جو قرآن کریم سے ثابت ہوتی ہے وہ اخراجات ہیں جو قومی اور ملی ضرورتوں کے مواقع پر اچھے اور نیک افراد کرتے ہیں یہ اخراجات صدقہ نہیں کہلا سکتے کیونکہ ان سے مساکین کی ضرورتیں پوری نہیں کی جاتیں بلکہ غریب و امیر ان سے متمتع ہوتے ہیں اور بعض دفعہ ساری قوم ان سے فائدہ اٹھاتی ہے جیسے گھر سے خرچ کر کے جہاد کے لئے جانا یا دوسرے کسی سپاہی کے اخراجات مہیا کرنا کہ وہ خرچ اس سپاہی پر نہیں ہوتا بلکہ قوم پر ہوتا ہے کیونکہ کوئی شخص اس لئے سواری طلب نہیں کرتا کہ تامیدانِ جنگ میں جا کر جان دے یا پانچ دس دن کے لئے روٹی نہیں مانگتا کہ اتنے دنوں میں اپنی موت کا سامان کرے پس اگر سپاہی کو ایام جنگ کے لئے کھانا مہیا کر دیا جائے یا اس کے لئے سواری مہیا کر کے دی جائے تو یہ قومی خرچ ہے فرد کی امداد نہیں کیونکہ جنگ اس شخص کا ذاتی کام نہیں بلکہ ملت کے فائدہ کا کام ہے۔
اسلام نے ان اخراجات پر زور دیا ہے اور یہ حکم زکوٰۃ و صدقہ سے الگ ہے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِقَا لًاوَّجَاھِدُ وْا بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ذَا لِکُمْ خَیْرٌ تَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (توبہ ع ۶) کہ اگر ہلکے پھلکے ہو یعنی سواری مہیا ہے یا گھر کا انتظام مکمل ہے تب بھی جہاد کے لئے گھروں سے نکلو اور اگر بوجھ ہو یعنی خود بوجھ اٹھا کر جانا پڑے سواری نہ ہو یا پیچھے گھر کا کوئی انتظام نہ ہو تب بھی جماد کے لئے گھروں سے باہر نکلو اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرو یہ تمہارے لئے اگر تم جانو تو بہتر ہو گا۔
اس آیت میں جو جان و مال کے خرچ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ضروری نہیں کہ دوسروں پر خرچ کیا جائے۔ جو شخص صرف اپنے لئے سواری مہیا کرتا ہے تاکہ جہاد میں شامل ہوسکے یا اپنے لئے تلوار خریدتا ہے تاجہاد میں شریک ہو سکے یا اپنے لئے کچھ غلہ خریدتا ہے تاجہاد کے دنوں اسے کھا کر گزارہ کر سکے وہ ہر ایک چیز اپنے لئے خریدتا ہے۔ پس یہ معروف صدقہ نہیں کہلا سکتا کیونکہ اس کا فاودہ وہ خود اٹھاتا ہے۔ مگر چونکہ یہ خرچ جو اس نے اپنے نفس پر کیا اپنے کسی شوق کو پورا کرنے کے لئے نہیں کیا بلکہ دین و ملت کی خدمت کیلئے کیا اور ایسی حالت میں کیا کہ بجائے لذت کا سامان مہیا کرنے کے اپنی جان کو خطرہ میں ڈالا۔ یہ خرچ خدا تعالیٰ کی رضاء کے مطابق خرچ ہے اور ثوابِ عظیم کا مستحق اس شخص کو بناتا ہے۔
اسی طرح اگر جہاد کی غرض سے یا کسی قومی خدمت کیلئے جو براہ راست اس سے متعلق نہیں۔ کوئی شخص کسی بھائی کی امداد کرتا ہے تو اس کا وہ خرچ بھی صدقہ نہیں۔ کیونکہ اس خرچ سے دوسرے بھائی کی ذاتی ضرورت پوری نہیں کی گئی بلکہ اس کے بدلہ میں اس سے ایک قومی کام لیا گیا ہے۔ سو یہ تیسری قسم کا خرچ ہے جو نہ زکوٰۃ ہے نہ صدقہ۔ مگر ہے نہایت ضروری۔ اور انسان کو بہت بڑے ثواب کا مستحق بنتا ہے۔ آج کل تلوار کا جہاد تو ہے نہیں۔ پس اشاعت اسلام یا تعلیم یا نظام جماعت کی مضبوطی اور اسی قسم کے دوسرے کاموں کے لئے جو رقوم دی جاتی ہیں وہ اسی مد میں شامل ہیں۔ اور جَاھِدُرْا بِاَ مْرَا لِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ کے حکم کے پہلے نصف کے پورا کرنے کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ مگر دوسرا نصف اسی صورت میں پوار ہو سکتا ہے کہ مال خرچ کرنے کے علاوہ کبھی کبھی اپنے کاموں کا حرج کر کے خود بھی کچھ دن تبلیغ کے لئے دے۔ یا ملی ترقی کی غرض سے تعلیم و تربیت کے کام میں حصہ لے۔
(۴) چوتھی قسم خرچ کی جسے اسلام نے پسند کیا ہے اور اس کا حکم دیا ہے وہ خرچ ہے جو بطور شکرانہ کیا جاتا ہے۔ اس میں اور صدقہ میں یہ فر قہے کہ صدقہ تو کسی مصیبت کے دور کرنے یا کسی مقصد کے حصول کے لئے کیا جاتا ہے۔ مگر شکرانہ کا خرچ حصول مقصد کے بعد یا بلا کے دُور ہونے پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں اس کا ذکر مندرجہ ذیل آیت میں ہے کُُلْوا مِنْ ثَمَرِہٖٓ اِذَآ اَثْمَرَ وَاٰتُوْا حَقَّہٗ یَوْمَ حَصَادِہٖ (انعام ع ۱۷) یعنی جو پھل یا غلہ خدا تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اس میں سے کھائو۔ اور جس وقت اس پھل یا غلہ کو کاٹو اس وقت خدا تعالیٰ کا حق بھی ادا کرو۔ یا یہ کہ اس غلہ یا پھل کو کاٹ کر اپنے قبضہ میں لانے کا حق بھی ادا کرو یعنی کچھ حصہ خدا تعالیٰ کی راہ میں بطور شکر تقسیم کرو۔ بعض لوگوں نے اس کے معنے زکوٰۃ کے کئے ہیں اور بعض نے اس حکم کو زکوٰۃ سے منسوخ قرار دیا ہے۔ مگر حق یہی ہے جیسا کہ اس آیت کے موقعہ پر لکھا جائے گا۔ کہ نہ اس جگہ زکوٰۃ کا حکم ہے او رنہ یہ حکم زکوٰۃ سے منسوخ ہے بلکہ اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہو اور تمہاری محنت ٹھکانے لگے تو اس شکریہ میں کہ خدا تعالیٰ نے تم کو اس قابل بنایا اللہ تعالیٰ کے غریب بندوں کو بھی اس میں سے کچھ حصہ دو۔ اس حکم پر بھی مسلمانوں میں بہت کم عمل رہ گیا ہے۔ حالانکہ یہ خرچ ایسا طبعی خرچ ہے کہ اسے بھولنا نہیں چاہیئے۔ او رہر کامیابی پر خدا تعالیٰ کی راہ میں کچھ نہ کچھ بطور شکرانہ خرچ کرنا چاہیئے۔ کیونکہ یہ کامیابی پر الحمد للہ کہنے کا ایک عملی نمونہ ہے۔
(۵) خرچ کی پانچویں قسم جو قرآن کریم سے ثابت ہوتی ہے فدیہ ہے۔ فدیہ کے معنے صدقہ کے بھی ہیں۔ لیکن اس کا اصل مفہوم یہ ہے کہ جو کمی کسی نیک عمل میں رہ جائے۔ اُسے خدا تعالیٰ کی راہ میں کچھ مال خرچ کر کے پورا کیا جائے۔ چنانچہ سورۃ بقرہ ع ۲۴ میں حج کے احکام میں لکھا ہے کہ ایام احرام میں سر نہیں منڈانا چاہیئے۔ لیکن اگر کسی کے سر میں کوئی بیمار ہو اور سر منڈوانا پڑے تو بطور فدیہ کچھ صدقہ کرے یا روزے رکھے یا قربانی دے۔ پس فدیہ وہ خرچ ہے جو کسی عمل میں کمی رہ جانے کے خیال سے دیا جاتا ہے۔ اور گویا عبادت کی اس کمی کو اس خرچ سے پورا کیا جاتا ہے۔
(۶) خرچ کی ایک چھٹی قسم قرآن کریم سے ثابت ہے اور اس کا نام کفارہ ہے۔ کفارہ کا لفظ و بلا کرنے والے فعل کے بھی ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ ایک اور اصطلاح بھی قرآن کریم کی ہے۔ اور اس کے رُو سے کفارہ اس خرچ یا اس عبادت کا نام ہے جو کسی گناہ کا وبال دور کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ان معنوں میں یہ لفظ قرآن کریم مںی سورۃ مائدہ کے بارہویں اور تیرہویں رکوع میں آتا ہے۔ اس میں اور فدیہ میں یہ فرق ہے کہ فدیہ تو اس صورت میں ادا کیا جاتا ہے جب کوئی فعل اللہ تعالیٰ کی اجازت سے کیا جائے اور اس اجازت سے کوئی حکم جو دسری صورت میں ضروری تھا ترک کرنا پڑے۔ یا جب کوئی عمل کر تو لیا جائے مگر اس خیال سے کہ اس میں کوئی کمی نہ رہ گئی ہو کچھ صدقہ کر کے اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے۔ مگر کفارہ اس صور ت میں دیا جاتا ہے کہ جب کوئی گناہ صادر ہو جائے۔ یا گناہ تو صادر نہ ہو لیکن گناہ کے صدور کے قریب ہو جائے اور اس کی غرض اس گناہ کے وبال سے بچنا اور توبہ کا ایک عملی نشان قاوم کرنا ہوتی ہے (اس مضمون کو تفصیل کے ساتھ انشاء اللہ آیاتِ متعلقہ کے ماتحت بیان کیا جائے گا)
اس جگہ ایک لطیفہ یاد رکھنے کے قابل ہے۔ کہ قرآن کریم تو کفارہ کا مفہوم یہ لیتا ہے کہ ایک تائب اپنی توبہ کا عملی ثبوت دلی ندامت اور زبانی اقرار کے علاہو کچھ مالی یا جسمانی قربانی کے ذریعہ سے دے۔ لیکن مسیحیوں کے نزدیک کفارہ کا یہ مفہوم ہے کہ ایک اعلیٰ وجود نے اپنے آپ کو گنہگار کے پیدا ہونے سے بھی پہلے قربان کر دیا۔ گویا توبہ کا اس سے کوئی تعل ہی نہیں۔ کیونکہ توبہ تو الگ رہی مسیحیوں کا کفارہ گناہ بلکہ گہنگار کے پیدا ہونے سے بھی پہلے اداکیا جا چکا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ایسے کفارہ کو توبہ سے دُور کا تعلق بھی نہیں ہو سکتا۔
(۷) ساتویں تقسم خرچ کی قرآن کریم سے یہ ثابت ہوتی ہے کہ مدنی نظام کی ترقی کے لئے کچھ اخراجات انسان پر واجب کئے گئے ہیں۔ جیسے خاوند کا بیوی پر خرچ اور باپ کا اولاد پر خرچ۔ ان اخراجات کو بھی قرآن کریم نے ضروری اور فرض مقرر کیا ہے۔ اور اگ رکوئی ان اخراجات سے گریز کرے تو اُسے گنہگار قرار دیا گیا ہے۔ اور اگر اسلامی حکومت ہو یا اسلام نظام ہو تو اس کا فرض مقرر کیا گیا ہے کہ وہ یہ اخراجات جبراً کرائے۔ اس خرچ کی تفصیلات بھی آئندہ حسب موقع بیان ہوں گی۔
(۸) آٹھویں قسم خرچ کی جو قرآن کریم سے ثابت ہوتی ہے۔ حق الخدمت ہے یعنی اگر کوئی شخص کسی کا کام کرے تو اس کا مناسب اجر اُسے دیا جائے اور اس سے نیک سلوک کیا جائے۔ اس خرچ کی ایک مثال قرآن کریم کا وہ حکم ہے جو اولاد کو دُودھ پلوانے کے متعلق آتا ہے۔ اس بارے میں قرآن کریم کا حکم ہے کہ اگر اپنے کسی بچہ کو کسی دوسرے عورت سے دُودھ پلوانا چاہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ بشرطیکہ دودھ پلانے والی عورت کو سَلَّمْتُمْ مَا اَتَیْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ (بقرہ ع ۳۰) یعنی جو حق الخدمت حسب دستور اور ملک کے اقتصادی حالات کے مطابق اور اپنی مالی حالت کے مطابق تم اُسے دینے کا وعدہ کرو اُس کے سپرد کر دو۔ اس حکم میں بتایا گیا ہے کہ حق الخدمت کے لئے ضروری ہے کہ (۱) بلا حجت ادا کر دیا جائے او راس کے ادا کرنے کا انسان ایسا عہد کر لے کہ گویا اداکر ہی دیا ہے (۲) اس کے ادا کرنے میں معروف کو مدنظر رکھا جائے یعنی (الف) کی اقتصادی حالت کے مطابق ادا کیا جائے یعنی اس قدر کم نہ ہو کہ اس وقت کی اقتصادی حالت کے مطابق اس کے دُودھ پلانے والی کا گذارہ نہ ہو سکے (ب) پہلی حد بندی تو کم سے کم تھی اس سے زائد یہ بھی مدنظر رکھو کہ اگر تمہاری مالی حالت عام لوگوں سے اچھی ہو تو ایسا حق الخدمت اداکرو جو تمہاری مالی حالت کے بھی مطابق ہو۔ یعنی کم سے کم حق الخدمت تو وہ ہو جو اس زمانہ کے حالات کے مطابق گزارہ کے لئے کافی ہو۔ لیکن اگر ہو سکے تو اس سے زیادہ دو۔
اس حکم کے ذریعہ سے قرآن کریم نے حق الخدمت کا ایک ایسا زریں اصل بتا دیا ہے کہ اگر اس کے مطابق حق الخدمت مقرر کیا جائے تو مزدو راور مالک کے جھگڑوں کا بالکل خاتمہ ہو جاتا ہے۔ مگر اس مضمون کو تفصیل سے آیت مذکورہ بالا اور اس کے ہم معنے آیات کے ماتحت بیان کیا جائے گا۔
(۹) نویں قسم خرچ کی قرآن کریم سے۔ اداء احسان کی ثابت ہوتی ہے۔ جیسے مثلاً والدین کی خدمت کا حکم ہے۔ یہ سلوک نہ تو حق الحدمت کہلا سکتا ہے کیونکہ والدین خدمت نہییں کرتے بلکہ ایک طبعی جوش سے بچے کی پرورش کرتے ہیں اور بچہ ان کو اس کام پر مقرر نہیں کرتا نہ کوئی اور انسان انہیں مقرر کرتا ہے اور نہ انہیں کسی بدلہ کی متنا ہوتی ہے۔ پس والدین کا سلوک بچے سے خدمت نہیں ہے بلکہ احسان ہے۔ اور اگر بڑا ہو کر کوئی بچہ اپنے والدین کی خدمت کرتاہے تو وہ ان کا حق الخدمت ادا نہیں کرتا۔ بلکہ اُن کے احسان کا بدلہ اتارنے کی کوشش کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالی والدین کی نسبت فرماتا ہے وَوَصَّیْنَا الْاِنسانَ بِوَالِدَیْہِ (لقمان ع ۲) یعنی ہم نے ہر انسان کو اپنے والدین سے حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔ پھر اسی جگہ آگے چل کر فرماتا ہے اَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَ الِدَیْکَ یعنی ہم نے انسان کو حکم دیا ہے کہ ہمارا بھی شکر کر اور اپنے والدین کا بھی۔ شکر کے لفظ سے یہ بتایا ہے کہ والدین کے ساتھ جو سلوک کر اس خیال سے نہ کر کہ میں ان کے ساتھ احسان کرتا ہوں بلکہ احسان تو انہو ںنے تجھ پر کیا ہے۔ تو تو جو نیک معاملہ ان سے کرے گا وہ اظہار شکراور اقرار احسان کے طور پر ہو گا۔
قرآن کریم میں بعض جگہ والدین سے سلوک کا نام احسان بھی آیا ہے۔ جیسا کہ مثلاً اسی سورۃ میں یعنی سورۃ بقررہ میں فرماتا ہی وَبِالْوَ الِدَیْنِ اِحْسَانًا (ع ۱۰) یعنی والدین سے احسان کا سلوک کر۔ اس سے یہ دھوکا نہ کھانا چاہیئے کہ والدین سے سلوک بھی احسان کے معروف معنوں میں کیا جاسکتا ہے۔ اس آیت میں احسان کا لفظ عام معنوں میں استعمال نہیں ہوا بلکہ ایک اور معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
عربی زبان کا محاورہ ہے کہ کسی امر کے بدلہ کے لئے بھی وہی لفظ استعمال کر دیا جاتا ہے۔ جیسے مثلاً ظلم کے بدلہ کا نام ظلم رکھ دیا جاتا ہے اور اس سے مراد ظلم نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کے معنے ظلم کے بدلہ کے ہوتے ہیں۔ اسی طرح اس آیت میں اور دوسری آیات میں جہاں والدین کے لئے احسان کا لفظ آیا ہے اس کے معنے احسان کے بدلہ کے ہیں۔ لیکن ان کے سوا دوسرے لوگوں کی نسبت اس لفظ کا استعمال اپنے معروف معنوں میں ہوا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں اور الفاظ بھی اس محاورہ کے مطابق استعمال ہوئے ہیں۔ مثلاً اسی سورۂ بقرہ میں فرمایا ہے فَمَنِ اعْتَدیٰ عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْمِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ (بقرہ ع ۲۴) یعنی جو تم پر ظلم کرے اس پر اسی قدر ظلم کر سکتے ہو۔ اب یہ امر ظاہر ہے کہ ظلم کا اسی قدر بدلہ ظلم نہیں کہلا سکتا۔ پس بدلہ لینے والے کے لئے جو اعتداء کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اس کے معنے محض بدلہ کے ہیں نہ کہ ظلم کے اسی طرح احسان کرنے والے کے حق میں جب احسان کرنے کرنے کے الفاظ استعمال کئے جائیں تو اس کے معنے بدلہ احسان کے ہوتے ہیں نہ کہ احسان کے۔
اسی اداء احسان کے حکم کے نیچے اپنے اُستادوں اور دوسرے محسنوں یا ان کی اولادوں سے حسن سلوک بھی آ جاتا ہے۔ اور اس حکم کے ماتحت سب سے بڑے انسانی محسن آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے حسن سلوک کا بدلہ بھی آ جاتا ہے۔ جو صحابہ کرام درود اور دعائوں اور خدمت کے ذریعہ سے ادا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ میرے نزیک رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کو جو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ان کی اولاد کے لئے صدقہ جائز نہیں ت واس میں یہی حکمت تھی کہ کہ امت اسلامیہ کو بتایا جائے کہ اس محسن عظیم کی اولاد سے جو سلوک کیا جائے وہ صدقہ ہو ہی نہیں سکتا۔ وہ تو اس محسن کے احسان کا بدلہ اتارنے کی ایک ادنیٰ کوشش ہو گی۔
مجھے ہمیشہ تعجب ہوتا ہے کہ مسلمان اس مسئلہ کو خاش زور سے بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم ایسے بے نفس تھے کہ آپؐ نے اپنی اولاد کے لئے صدقہ کو حرام کر دیا۔ او راُنہیں یہ خیال نہیں آتا کہ آپؐ ایسے بے نفس تھے تو مسلمان ایسے نفس کے بندے کیو ںہو گئے ہیں کہ آپؐ کے احسان کا بدلہ اتارنے کی ادنیٰ کوشش بھی نہیں کرتے۔ محسن کسی بدلہ کا خیال نہیں کرتا۔ مگر کیا جس پر احسان کیا جائے اس کی شرافت نفس اس کا تقاضا نہیں کرتی کہ وہ محسن کے احسان کا شکریہ عمل سے ادا کرے۔ میرے نزدیک اس حکم سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانو ںکو یہ ادب سکھایا تھا کہ اگر حضرت رسالتمآب کی اولاد میں سے کوئی غریب ہو تو وُہ اس کے ساتھ حضور کے احسان کی یاد میں سلوک کریں۔ کیونکہ آپ کی اولاد کے ساتھ صدقہ کا معالہ کیا ہی نہیں جا سکتا۔ کیا اپنے بھائیون جیسا نہیں ہونا چاہیئے؟ افسوس کہ اس حکمت کے نہ سمجھنے کی وجہ سے مسلمان دو حکموں میں سے ایک کو توڑنے لگ گئے ہیں۔ یا تو وہ سادات پر صدقہ اور زکوٰۃ خرچ کرنے لگ گئے ہیں یا اُن کی خدمت سے بالکل محروم ہو گئے ہیں۔
مجھ پر اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ میں نے دیر سے اس نکتہ کو سمجھا ہے اور مجھے کئی دفعہ اس امر کی توفیق ملی ہے کہ غرباء سادات کی خدمت کروں۔ نہ اس خیال سے کہ میں اُن پر صدقہ کر رہا ہوں بلکہ اس خیال سے کہ اُن سے حسنِ سلوک اس احسان عظیم کے اقرار کی جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے ہم پر کئے ہیں ایک ادنیٰ کوشش ہے۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک۔ کاش مسلمان اس نکتہ کو سمجھیں اور سادات کو صدقہ دینے یا ان کی مشکلات کو بالکل نظر انداز کرنے کے دو قبیح جرموں سے محفوظ ہو جائیں۔ اگر وہ ایسا کریں تو شاید اللہ تعالیٰ بھی ان کی اولاد دوں پر رحم فرمائے۔
(۱۰) دسویں قسم جو قرآن کریم سے خرچ کی ثابت ہے وہ ہدیہ ہے۔ یعنی بغیر کسی سابق احسان یا صدقہ کے خیال کے ایک دوسرے کو موقعہ مناسب پر ہدیہ دیا جائے تاکہ آپس میں محبت بڑھے۔ اس کا بہترین موقعہ تو وہ ضیافت ہے جو ایک شخص دوسرے کی کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں اس کا ذکر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام دو نبیوں کے ذکروں میں آتا ہے۔ ضیافت صرف ایک صورت ہدیہ کی ہے ورنہ اور مناسب مواقع بھی اس حکم کے عمل کے نکل سکتے ہیں۔ افسوس مسلمانوں نے اس حکم کو بھی بھلا دیا ہے۔ اور مسافروں کی مہمان نوازی شاذو نادر کے طو رپر رہ گئی ہے بلکہ شہروں کے باشندے تو اس سے قریباً محروم ہی گئے ہیں۔ حالانکہ رسول کریم صلے اللہ علیہ سلمنے اس کی اس قدر تاکید کی ہے کہ ضیافت کو ایک حق قرار دے دیا اور فرمایا کہ اگر کسی بستی کے باشندے ضیافت کا حق وصول کیا جا سکتا ہے۔ اس حق کی تمام تفصیلات بیان کرنے کا یہ موقع نہیں۔ یہاں اس قدر بیان کر دینا کافی ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم اس حق کی تشریح میں فرماتے ہیں تَھَا دَوْا تَحَابَّوْا (ابن عساکر بن ابی ہریرہ بحوالہ جامع الصغیر) یعنی ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کرو اس سے محبت میں ترقی ہوتی ہے۔ اسی طرح احادیث میں آتا ہے کہ آپؐ نے فرمایا مجھے جبریل علیہ السلام نے ہمسایوں سے نیک سلوک کی اس قدر تاکیدکی کی میں نے سمجھا کہ اُسے وارث مقرر کر دیا جائے گا۔ (ترمذی جلد دوم ابواب البر والصلۃ باب ماجاء فی حق الجوار)
یہ خرچ صدقہ کی اقسام سے نہیں ہے بلکہ اخوت کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے اور تمدن کی ترقی کے لئے نہایت ضروری احکام میں سے ہے۔
خلاصہ یہ کہ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ میں صرف صدقہ کا ذکر نہیں بلکہ اُوپر کے بیان کرو سب قسم کے اخراجات اس میں شامل ہیں۔ اور غریب امیر، بڑے چھوٹے سب کے بارہ میں اس میں نہایت لطیف احکام بیان ہوئے ہیں۔ اور تقویٰ کے قیام کے لئے یہ ایک ضروری امر ہے۔
آیت کے مضامین پر مجموعی نظر:
اِس آیت میں تین احکام بیان ہوئے ہیں۔ سب سے پہلے تو ان صداقتوں پر ایمان لانے کا ذکر کیا گیا ہے جو انسانی نظر سے پوشیدہ ہیں۔ او ربتایا ہے کہ صرف محسوسات پر ایمان رکھنا کوئی خوبی نہیں۔ کیونکہ ان کو تو ہر بیوقوف سے بیوقوف بھی مانتا ہے متقی کا مقام اس سے بالا ہے اور وہ یہ کوشش کرتا ہے کہ وہ ان صداقتوں پر بھی ایمان لائے جو ظاہر نظر سے پوشیدہ ہوتی ہیں اور یہی روحانیت کے کمال کی علامت ہے ورنہ دریا کو دریا سمجھنا او رپہاڑکو پہاڑ جاننا کوئی خوبی نہیں ہے دریا کو دریا ماننے والا عالم اور کامل نہیں کہلا سکتا۔ بلکہ وہ شخص عالم سمجھا جاتا ہے جو اس دریا کے پیچھے نظر کرتا ہے۔ اور یہ تحقیق کرتا ہے کہ دریا کہاں سے آیا ہے کس طرح بنا ہے، کن طبعی تغیرات کے نتیجہ میں اس کو پانی حاصل ہوا ہے۔ اور اس پر بھی غور کرتا ہے کہ دریا سے اس وقت کیا کیا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، اور یہ کہ وہ کدھر کو جاتا ہے او رکہاں گرتا ہے۔ غرض ایک دریا کو دیکھنے والے جاہل اور عالم میں یہی فرق ہے کہ جاہل صرف حاضر کو جانتا ہے اور عالم اس کے غائب حصہ کو بھی جانتا ہے۔ اور اسی کے جاننے سے وہ اس سے علمی اور عملی فائدہ اٹھا سکتا ہے اور دوسروں کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ یہی حال روحانیات کے متعلق ایک عالم با عمل یا دوسرے لفظو ںمیں ایک متقی کا ہوتا ہے۔ وہ بھی اس دنیا کے بارہ میں صرف اس پر قناعت نہیں کرتا جو اس کی آنکھوں کے سامنے ہے بلکہ اس کے مبداء اور متھٰی کی تحقیق بھی کرتا ہے اور اس کے مخفی خزانوں کو بھی تلاش کرتا ہے اور اسی کا نام ایمان بالغیب ہے۔ اور یہ ظاہرہے کہ سوائے اس قسم کی تحقیق کے نہ علم کامل ہو سکتا ہے نہ عمل۔ پس ایمان بالغیب انسانی تکمیل کا ایک ایسا ضروری جزو ہے کہ اسے نظر اندار کر دینا صرف ایک جاہل کا کام ہو سکتا ہے۔
اس اہم اور ضروری امر پر زور دینے کے بعد اس کے لازمی نتائج کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اول یہ کہ جب انسان اس عالم کے مبداء پر غور کرتا ہے اور اسکے پیدا کرنے والے وجود کو دلائل سے معلوم کر لیتا ہے تو اس کے ساتھ شدید تعلق پیدا کرنے کی طرف بھی توجہ کرتا ہے اور اسی کا نام دوسرے لفظوں میں عبادت یا اقامتِ صلوۃ ہے۔ پھر جب اس کا روحانی تعلق اس مبداو کل سے ہو جاتا ہے تو لازماً اسے اس کے متعلقین او رمتوصلین کی طرف بھی توجہ ہوتی ہے او ران کی بہتری کے لئے کوشش کرنے لگتا ہے۔ کیونکہ مبداء کل سے تعلق پیدا ہو جانے کے بعد اس کی مخلوق کی محبت بھی اس کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے جس طرح کہ ماں باپ سے تعلق کے نتیجہ میں بھائیوں کی محبت پر بھی انسان مجبور ہو جاتا ہے۔ پس عبادت اور اقامتِ صلوٰۃ کے بعد متقی کا دوسرا کام وَمِمَّا رَزَقُنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ بتایا۔
اوپر کی تشریح سے ظاہ رہے کہ اس آیت میں ایمان بالغیب کے بعد اِقاَمَۃ الصَّلٰوۃ اور اس کے بعد َمِمَّا رَزَقُنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ کا رکھنا ایک اتفاقی امر نہیں۔ بلکہ ایک پُر حکمت ترتیب کو مدنظر رکھتے ہوئے ہے۔
اس جگہ ایک اور نکتہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے او روہ یہ ہے کہ اِقاَمَۃ الصَّلٰوۃ کو اس جگہ پہلے رکھا گیا ہے اور َمِمَّا رَزَقُنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ کو بعد میں رکھا گیا ہے۔ اس سے اس طرف اشارہ ہے کہ رُوحانی عالم میں خدا تعالیٰ سے تعلق مخلوق سے تعلق پر مقدم ہے اور یہی طبعی اور درست ترتیب ہے۔ کیونکہ بغیر اللہ تعالیٰ سے کامل تعلق کے مخلوق سے کامل محبت ہو ہی نہیں سکتی۔
اس معاملہ میں اسلام اور فلسفیوں کے خیالات میں اختلاف ہے۔ فلسفی کہتے ہیں اور بعض مذہب سے نامکمل تعلق رکھنے والے بھی ان کی تائید کرتے ہیں کہ جب مخلوق سے تعلق ہو جائے تو اللہ تعالیٰ سے خود بخود ہی تعلق ہو جاتا ہے۔ اور اُن کے نزدیک جو شخص مخلوق سے تعلق کو درست کر لے اس کا تعلق اللہ تعالیٰ سے بھی آپ ہی آپ درست ہو جاتا ہے۔ پس اصل چیز جس کی طرف توجہ چاہیئے وہ مخلوق سے تعلق ہے۔ مگر ایک ادنی تامل سے معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ بات بالبداہ، باطل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مخلوق سے نیک سلوک خدا تعالیٰ کی عباد ت کا حصہ ہے لیکن یہ کہنا کسی طرح درست نہیں کہ یہ امر اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حصہ ہے لیکن یہ کہنا کسی طرح درست نہیں کہ یہ امر اللہ تعالیٰ سے تعلق کا موجب ہو سکتا ہے۔ بلکہ حق یہی ہے کہ خدا تعالیٰ سے تعلق مخلوق سے محبت کا موجب ہوات ہے او رجو لوگ اس کے الٹ خیال کرتے ہیں وہ اس امر کو نہیں دیکھتے کہ مشاہدہ کس امر کی تائید کرتا ہے۔ اگر وہ یہ دیکھتے کہ جن لوگوں نے خدا تعالیٰ کو پا کر مخلوق سے محبت کی ہے وہ کس پایہ کے تھے اور جو لوگ مخلوق سے محبت کر کے خدا تعالیٰ کو پانے کے مدعی ہیں وہ اگر کہیں پائے جاتے ہیں تو کس پایہ کے ہیں۔ خدا تعالیٰ کو پا کر مخلوق سے محبت کرنے والوں میں سے حضرت ابراہیم‘ حضرت موسی‘ حضرت عیسی‘ حضرت کرشن‘ حضرت رام چندر اور حضرت زردشت ہیں اور میرے نزدیک حضرت بدھ اور حضرت کنفیوشس علیہم السلام بھی اور سب کے سردار حضرت محمد مصطفیٰ صلے اللہ علیہ وسلم۔ ان سب کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ انہو ںنے جس رنگ میں اور جس شان کی بنی نوع انسان اور باقی مخلوق کی خدمت کی ہے اس کی مثال دوسرے لوگوں میں کہاں پائی جاتی ہے؟ کوئی ایک شخص بھی جس نے مخلوق سے محبت کر کے خدا تعالیٰ کو پایا ہو ان کے مقابل پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔اور ان کے مقابل پر ٹھہر نہیں سکتا۔ اور حق یہ ہے کہ تاریخ ایسے وجود کو پیش ہی نہیں کرتی۔ جس کا یہ دعویٰ ہو کہ اس نے پہلے مخلوق سے محبتکی او رپھر خدا تعالیٰ کو پایا۔ لیکن ایسے ہزاروں لاکھوں آدمی دنیا میں گزرے ہیں کہ جن کا یہ دعویٰ ہے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کو پایا اور اس کی محبت سے سرشار ہو کر اس کی مخلوق کی محبت کو حاصل کیا۔ پس جبکہ مشاہدہ اس امر پر شاہد ہے کہ خدا تعالیٰ کو پا کر مخلوق کی محبت کرنے والے تو ہزاروں لاکھو ںوجود دنیا میں گزرے ہیں لیکن مخلوق کی محبت کر کے خدا تعالیٰ کو پانے والے کسی ایک وجود کا بھی پتہ نہیں ملتا۔ تو ایسی بے دلیل بات کے پیش کرنے کا فائدہ کیا۔
دوسرا پہلو اس سوال کا عقلی پہلو ہے۔ اگر اس پہلو سے غور کیا جائے تب بھی یہ دعویٰ کہ پہلے مخلوق کی محبت ہو تو اس سے خدا تعالیٰ آپ ہی مل جاتا ہے‘ درست ثابت نہیں ہوتا۔ کیونکہ عقلی طور پر مخلوق کی محبت سے خدا تعالیٰ کے وجود کامل جانا ناممکن اور غیر معقول نظر آتا ہے۔ کیونکہ مخلوق کی محبت کی وجہ یا تو حب وطن ہو سکتی ہے یا طبیعت کی نرمی۔ اور ظاہر ہے کہ حب وطن کی وجہ سے جو بنی نوع انسان سے محبت کرتا ہے وہ وطنی تقاضا کے ماتحت ان دوسرے انسانوں سے جو اس کے وطنی نہیں ہیں دشمنی بھی کر سکتا ہے۔ اور اسے خدا تعالیٰ تک پہنچانے والا کوئی بھی موجب موجود نہیں بلکہ اس سے دور لے جانے والے موجبات پیدا ہوتے رہیں گے اور وہ بجائے خالق کی طرف جانے کے سیاسیات میں الجھ کر رہ جائے گا۔ اور اگر اس کا موجب طبعی نرمی ہو تب بھی ایسے شخص کو خدا تعالیٰ کی طر ف ھھیرنے والا موجب کوئی موجود نہیں۔ کیونکہ ایسا شخص کسی عقلی سبب سے مخلوق سے حسن سلوک نہیں کرتا بلکہ محض طبعی نرمی کی وجہ سے ایسا کام کرتا ہے۔ اس لئے اس کی عقل اُسے کسی دوسرے راستہ کی طرف راہنمائی ہی نہیں کرتی اور نہ کر سکتی ہے۔
بعض لوگ اس موقعہ پر کہا کرتے ہیں کہ حب وطن نہیں بلکہ حب انسانیت انسان کو بنی نوع سے حسن سلوک کی طرف راغب کرتی ہے اور ایسا انسان یقینا سیاسیات سے بالا رہتا ہے لیکن یہ دعویٰ بھی بلا دلیل ہے۔ کیونکہ ہر فعل کا کوئی طبعی محرک ہوتا ہے اور اُسی کے مطابق اس کے خیالات کی رو دوسری اطراف کی طرف پھرتی ہے۔ پس اس صورت میں یہ سوال پیدا ہو گا کہ انسانیت کی محبت کی وجہ سے بنی نوع انسان سے حسن سلوک کرنے والے شخص کے لئے محرک کیا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ اگ راس کے افعال کا محرک خدا تعالیٰ کی محبت نہیں توپھر اس کے لئے محرک یہی خیال ہو سکتا ہے کہ چونکہ باقی انسان بھی میری طرح کے انسان ہیں اس لئے بوجہ ہم جنس ہونے کے مجھے اُن سے محبت کرنی چاہیئے۔ ظاہر ہے کہ جو شخص دوسرے انسانوں سے اس لئے محبت کرتا ہے کہ وہ اُسی کی طرح کے انسان ہیں وہ در حقیقت اپنے آپ سے محبت کرتا ہے اور اس کی اپنی ذات کی محبت اُسے کسی اپنے سے بالا وجود کی طرف توجہ نہیں دلا سکتی۔ او راس کا خاتمہ بھی اسی حالت میں ہو گا جس حالت پر کہ اس کی ابتداء ہوئی ہے اور وہ محض حب انسانیت کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی طرف راہنمائی حاصل نہیں کر سکتا۔
اب صر ف ایک ہی صورت رہ جاتی ہے کہ جو شخص مخلوق سے محبت کرے اُسے خدا تعالیٰ اس کے نیک فعل کی وجہ سے اپنی طرف کھینچ لے۔ مگر یہ حالت غیر طبعی ہے کیونکہ یہ صورت اسی شخص کے حق میں پوری ہو سکتی ہے جو خدا تعالیٰ کا علم نہ رکھتے ہوئے مخلوق سے کامل محبت کرے۔ کیونکہ جو شخص خدا تعالیٰ کو عقلی طور پر علوم کر لیتا ہے او رپھر اس کی طرف سے منہ موڑ کر مخلوق کی خدمت پر کفایت کرتا ہے وہ تو ایک زبردست سچائی کا منکر ہے او رہدایت پانے کا مستحق نہیں۔ ہاں صرف وہ شخص اس حالت میں ہدایت پانے کا مستحق ہو سکتا ہے جسے خدا تعالیٰ کا علم حاصل نہیں ہوا لیکن اس نے اپنے فطری قویٰ کو صحیح طور پر استعمال کیا اور گو صانع کا وجود اس کی نگہ سے پوشیدہ رہا مگر اس نے اس قدر حصہ سے جو اسے نظر آتا تھا (یعنی مخلوق) اپنے تعلق کو مضبوط کر لیا۔ ایسا شخص بے شک باوجود مخلوق سے پہلے تعلق پیدا کرنے کے صانع کی طرف ہدایت پانے کا مستحق ہے۔ کیونکہ جس قدر حصہ پر عمل کرنااس کے لئے اس کے علم کے مطابق ممکن تھا اس نے اس پر عمل کر لیا اور اس قسم کی استثنائی حالتو ںمیں مخلوق کو پا کر خالق کو پالینے کے ہم بھی منکر نہیں۔ نہ قرآن کریم اس کے خلاف ہے۔ بلکہ قرآنکریم سے صاف ظاہر ہے کہ جو ان سامانوں سے فائدہ اٹھاتا ہے جو اُسے میسر ہیں خدا تعالیٰ اُسے ان دوسرے سامانوں کی طرف ہدایت کرتا ہے جو اُسے میسر نہ تھے۔ اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی شہادت بھی اسے ثابت کرتی ہے۔ چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! مجھے ایمان تو اب نصیب ہوا ہے مگر ایمان سے پہلے بھی میں بنی نوع انسان سے نیک سلوک کیا کرتا تھا کیا میرے ان اعمال کا بھی مجھے کوئی صلہ ملے گا یا مجھے اب اپنی گزری ہوئی عمر کے اعمال کی تلافی کرنی چاہیئے۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اَسْلَمْتَ عَلٰی مَا اَسْلَفْتَ (مسلم کتاب الایماب باب بیان حکم عمل الکافر اذا اسلم بعدہ) یعنی تمہارے وہ عمل ضائع نہیں ہوئے بلکہ تم کو جو اسلام کی صداقت کے قبول کرنے کی توفیق ملی ہے یہ انہی اعمال کی وجہ سے ہے۔ گویا دوسرے لفظوں میں یہ کہ وہ اعمال جو خدا تعالیٰ کا علم ہونے سے پہلے تم نے کئے گو خدا تعالیٰ کی رضاء جوئی کے لئے نہیں کئے مگر چونکہ اس میں تمہارا قصور نہ تھا خدا تعالیٰ نے ان کو بھی قبول کر لیا اور مخلوق سے نیکی نے تم کو خدا تعالیٰ کے عرفان اور اس پر ایمان کی طرف راہنمائی کی۔ لیکن اس جگہ سوال یہ نہیں کہ عدمِ علم کی صورت میں بطورِ استثناء انسان سے کیا سلوک کیا جا سکتا ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ اگر شخص کو خدا تعالیٰ کے وجود کا علم ہو جائے تو پھر وہ اس سے تعلق پیدا کرکے اپنے نفس کی اصلاح میں جلدی کرے یا وہ اس سے منہ موڑ کر مخلوق کی خدمت میں لگ جائے اور اقرار کرے کہ میں تواس ذریعہ سے خدا تعالیٰ کو پائوں گا۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی عقلمند اس امر کی تائید کرے گا۔ کہ خدا تعالیٰ کا علم ہو جانے کے بعد بھی انسان کو اس سے منہ موڑ لینا چاہیئے اور مخلوق کی خدمت میں لگ جانا چاہیئے کہ یہی طبعی راستہ خدا تعالیٰ کی طرف سے منہ موڑ لینا ہدایت پانے کا موجب نہ ہو گا بلکہ ہدایت سے دُور جانے کا موجب ہو گا۔
خلاصہ یہ کہ مخلوق کی خدمت کر کے خدا تعالیٰ کو پانا ایک استثنائی صورت ہے۔ اور عدم علم کی صورت میں ہی فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ کو پا کر مخلوق کی محبت کا پیدا ہونا ایک طبعی راستہ ہے کیونکہ جو شخص خدا تعالیٰ کو پا کر اس کی عبادت میں لگ جائے گا وہ لازماً اس کی مخلوق سے بھی محبت کرے گا۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کو پا لینے کے معنے یہ ہیں کہ اس کی صفات کا کامل علم اُسے ہو جائے اور جو شخص خدا تعالیٰ کی صفت ربوبیت عالمین اور صفت رحمانیت اور صفت رحیمیت اور صفت مالکیت یوم الدین کو معلوم کر لے گا وہ طبعاً اس کے بندوں سے اسی رنگ میں سلوک کرے گا جس رنگ میں کہ اس کا رب ان بندو ںسے سلوک کرتا ہے ورنہ وہ اس کے نقش کو اپنے دل میں پیدا نہیں کر سکتا۔ پس خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر کے اس کے بندوں سے حسن سلوک کرنا ایک لازمی امر ہے اور خدا تعالیٰ کے تعلق کا ایک نشان ہے اور اسی طبعی امر کی طرف اشارہ کرنے کے لئے قرآن کریم نے اِقاَمَۃ الصَّلٰوۃ کو َمِمَّا رَزَقُنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ سے پہلے رکھا ہے۔
۵؎ حل لغات
یُؤْمِنُوْنَ:۔کے لئے دیکھو حل لغات سورۃ ہذا ۴؎
اُنْزِلَ:۔ اَنْزَلَ سے ماضی مجہول کا صیغہ ہے اور اَنْزَلَ اللّٰہُ الْکَلَامَ کے معنے ہیںاَوْحَیٰ بِہِ۔ اللہ تعالیٰ نے کسی کلام کو بذریعہ وحی نازل فرمایا (اقرب) پس وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ کے معنے ہوں گے اور وہ لوگ جو اس کلام پر جو تجھ پر نازل کیا گیا ہے ایمان لاتے ہیں۔
اَلْاٰخِرَۃ:۔ اَلْاٰخِرُ کا مونث ہے اور اَلْاُ وْلٰی کے مقابل پر بولا جاتا ہے اور صفت کے طور پر استعمال ہوتا ہے (اقرب) یہاں پر اس کا موصوف محذوف ہے معینی یہ ہوں گے کہ آئندہ آنے والی، آئندہ ہونے والی۔
یُوْقِنُوْنَ:۔ اَیْقَنَسے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور اَیْقَنَ الْاَمْرَ وَاَیْقَنَ بِہِ کے معنے ہیں عَلِمَہُ وَتَحَقَّقَہٗ۔ یعنی کسی بات کو معلوم کیا اور اس کی پوری تحقیق کرتے ہوئے اپنے شک و شبہ کو دور کر لیا۔ اور اَیْقِیْنَ (جو اَیْقَنَ کا مصدر ہے) کے معنے ہیں اِزَاحَۃُ الشَّکِّ وَتَحقِیْقُ الْاَمْرِ۔اپنے شک کو دور کر لینا اور کسی معاملہ کی پوری تحقیق کر کے حقیقت پر قائم ہو جانا۔ (اقرب)
تفسیر۔ اس آیت میں متقیو ںکی تین اور صفات بیان کی گئی ہیں اور اس آیت کی پہلی اور گزشتہ آیت کو ملا کر چوتھی علامت متقی کی اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ بیان فرمائی ہے کہ جو کلام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے متقی اس پر ایمان لاتے ہیں۔ اس صفت کے بیان کے بیان کرنے میں یہ حکمت ہے کہ انسان کے لئے صرف نیک نیتی کافی نہیں ہوتی بلکہ صحیح طریق عمل کا اختیار کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ صر ف نیک نیتی اسی حالت میں کام آتی ہے۔ صرف نیک نیتی اسی حالت میں کام آتی ہے جبکہ صحیح طریق عمل کا معلوم کرنا اس کے لئے ناممکن ہو۔ لیکن جب صحیح ۔طریق عمل کا معلوم کرنا ممکن ہو تو نیک نیتی کا عذر نہ صرف یہ کہ غیر مقبول ہوتا ہے بلکہ غیر معقول بھی ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک شخص کی نیت نیک بھی ہو اور وہ پھر بھی صحیح طریق عمل کو نظر انداز کر دے اور اس کے معلوم کرنے سے اعراض کرے۔ نیک نیت تو وہی ہوتا ہے جو اپنی نیت کے مطابق عمل بھی کرتا ہے۔ لیکن جو شخص باوجود استطاعت کے صحیح طریق عمل کو چھوڑ دیتا ہے یا اُسے معلوم کرنے کی کوشش نہیں کرتا وہ ت واپنے عمل سے اپنے دعویٰ کو باطل کرتا ہے اور اپنی بدنیتی پر آپ شاہد ہوتا ہے۔
چونکہ روحانی عالم میں صحیح طریق عمل دہی ہے کہ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے بتایا جائے اس لئے وہی شحص نیک نیت کہلائے گا کہ جو اس طریق کو معلوم کرنے اور پھر اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے۔ اور چونکہ قرآن کریم کا دعویٰ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعشت کے بعد وہی صحیح طریق عمل ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی آپ پر ظاہر کیا ہے۔ اس لئے وہی شخص روحانی مقاصد کو پا سکتا ہے جو آپؐ پر نازل ہونے والے کلام پر ایمان لائے۔ پس چوتھی صفت متقی کی یہ بیان کی گئی کہ وہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والے کلام پر ایمان لاتا ہو۔ کیونکہ جو شخص اس کلام پر ایمان نہیں لاتا جو اس کے زمانہ کی ہدایت کے لئے نازل ہوا ہو وہ ہدایت کی جزئیات سے نہ باخبر ہو سکتا ہے او رنہ اُن پر عمل کر سکتا ہے۔ او رظاہر ہے کہ جو کسی مقصد کے حصول کی تمام جزئیات سے واقف نہیں ہو اس مقصد کے حصول کی تمام جزئیات سے واقف نہیں وہ اس مقصد کو پا بھی نہیں سکتا۔ جو شخص کسی زبان کا عالم بننا چاہے اسے اس زبان کے الفاظ اور الفاظ کی صحیح بندش کے طریق اور اس میں خیالات کے اظہار کے مناسب طریق کو بھی سیکھنا ہو گا ورنہ اس زبان کا ماہر نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح تقویٰ کی تکمیل کے لئے یہ ضروری ہے کہ تقویٰ کی جزئیات کے بھی انسان واقف ہو۔ جو ان سے واقف نہ ہو گا اس کے خیالات اور عمل بسا اوقات تقویٰ کے خلاف ہوں گے اور بجائے تقویٰ میں ترقی کرنے کے وہ آہستہ آہستہ اس اجمالی تقویٰ کو بھی کھو بیٹھے گا جو اُسے نیک نیتی کی وجہ سے حاصل تھا کیونکہ خالی نیت انسان کو صحیح اعمال پر قادر نہیں کر سکتی۔ کوئی شخص کتنا ہی مضبوط ارادہ رکھا ہو کہ وہ صحیح زبان بولے گا لیکن اگر اُسے اس زبان کے الفاظ کا علم نہیں‘ اس کی بندشوں کا علم نہیں تو محض ارادہ سے وہ صحیح (زبان نہیں بول سکتا۔ پس اس جملہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ اجمالی تقویٰ کے حاصل ہونے کے بعد متقی اس کی تفصیلات کو معلوم کر کے اس کے مطابق عمل کرنے کی بھی کوشش کرتا ہے اور چونکہ اس زمانہ میں تقویٰ کی تفصیلات وہی ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کے ذریعہ سے ظاہر کی گئی ہیں اس لئے تقویٰ کے تفصیلی حصہ کو کامل کرنے کے لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی پر ایمان لانا بھی ضرویر ہے۔
بعض لوگ اس آیت اور ایسی ہی بعض دوسری آیات سے یہ دھوکا کھاتے ہیں کہ قرآن کریم پر ایمان لانے کا حکم ہے نہ کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم پر ۔ اس لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بات کو تسلیم کرنے کی نہ ضرورت ہے‘ نہ یہ جائز ہے بلکہ شرک ہے۔ یہ فرقہ چند سال سے ہندوستان میں پیدا ہوا ہے اور اصل میں خوارج کی ایک شاخ ہے کیونکہ خوارج میں بھی اصل جذبہ یہی کار فرما تھا کہ اَلْحُکْمُ لِلّٰہِ وَالْاَمْرُ شُوْریٰ بَیْنَہُمْ یعنی حکم صرف خدا تعالیٰ کا ہے اس کے بع دجن امو رمیں کسی فیصلہ کی ضرورت ہو اس کا فیصلہ مسلمان اپنے مشورہ اور اتفاق سے کریں گے۔
ان لوگوں کو یہ دھوکا قرآن کریم کے مضامین پر غور نہ کرنے سے لگا ہے۔ ان کے اس وہم کی بنیاد اس پر ہے کہ چونکہ قرآن کریم کا یہ دعویٰ متعدد آیات میں بیان ہوا ہے کہ وہ مکمل کتاب ہے اس لئے اور کسی شخص کی ہدایت یا تشریح کی کیا ضرورت ہے اس بنیاد میں غلو کر کے جہاں جہاں رسول پر ایمان لانے یا اس کی اطاعت کرنے کا حکم قرآن کریم میں آتا ہے اس کے معنے وہ قرآن کریم کے لیتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ وہاں رسول سے مراد قرآن کریم ہے۔ یہ لوگ اس امر پر غور نہیں کرتے کہ قرآن کریم میں کتب سماویہ کے نزول کا ذکر دو طرح آتا ہے ایک تو رسول کی طرف نسبت دے کر دوسرے اس کتاب کے ساتھ وابستہ گروہ سے نسبت دے کر۔ مثلاً قرآن کریم کی نسبت یہ الفاظ بھی ہیں کہ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ اور یہ بھی ہیں کہ وَھُوَ الَّذِیْ اَنْزَلَ اِلَیْکُمْ الْکِتٰبَ مُفَصَّلاً (انعام ع ۱۴) یعنی وہ خدا ہی ہے جس نے تم پر ایک کامل اور مفصل کتاب اتاری ہے غور کے قابل بات ہے کہ آخر یہ فرق قرآن کریم نے کیوں کیا ہے۔ کسی جگہ تو فرماتا ہے کہ یہ کتاب تم پر نازل ہوئی ہے اور کسی جگہ فرماتا ہے کہ یہ کتاب محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہے اگر دوسرے لوگوں کی طرف کتاب نازل ہوئی ہے اگر دوسرے لوگوں کی طرف کتاب نازل ہونے کی نسبت اس غرض سے کی گئی ہے کہ وہ کتاب اُن کے لئے نازل کی گئی ہے تو پھر محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی صرف یہی کہا جاتا کہ جو کتاب تم پر نازل ہوئی ہے اس پر ایمان لائو۔ لیکن قرآن کریم نہ ایک جگہ بلکہ متواتر اس نسبتِ نزول کا ذکر کرتا ہے اور اس شخص کو پیش کرتاہے جس پر وہ کلام نازل ہوا ہے اور یہ طریق بیان اس کا آنحضرت علیہ السلام کی نسبت ہی نہیں بلکہ تمام سابق انبیاء کی نسبت بھی ہے۔ مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارہ میں بھی وہ یہ فرماتا ہے کہ وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتَابَ (بقرہ ع ۲۱۱) یعنی ہم نے موسیٰ کو ضرور کتاب دی تھی اور پھر ساتھ یہ بھی فرماتا ہے وَاِنَّ مِنْ اَھْلِ الْکِتَابِ لَمَنْ یُّؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ (آل عمران ع ۲۰) یعنی اہل کتاب میں سے وُہ بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر بھی ایمان لاتے ہیں اور اس پر بھی جو اے مسلمانوں تم پر نازل ہوا ہے اور اس پر بھی جو ان اہل کتاب پر نازل ہوا ہے۔ ان دو قسم کی نسبتوں سے صاف ظاہر ہے کہ جہاں قوم پر نزول کتاب کا ذکر کیا گیا ہے وہاں اس امر پر زور دینا مطلوب ہے کہ اس قوم اور اس کتاب کے حالات بالکل متناسب ہیں اور اس قوم کے لئے اس کتاب پر عمل کئے بغیر کوئی چارہ نہیں اور جہاں رسول پر کتاب نازل ہونے کا ذکر ہے وہاں اس مناسبت کی طرف اشارہ ہے جو اس رسول کی فطرۃ کو اس کتاب سے حاصل ہے اور صر ف کتاب کا ذکر ہی مطلوب نہیں۔ ملکہ یہ بتانا بھی مطلوب ہے کہ اس کتاب کی عملی تفسیر اور زندہ نمونہ اس کے وجود میں موجود ہے جس پر وہ کتاب نازل ہوئی ہے اگر یہ نہ ہوتا تو کسی جگہ اُنُزِلَ اِلَیْکُمْ اور کسی جگہ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ یا ٰاتَیْنَا مُوْسٰی کہہ کر دو مختلف نسبتوں کی طرف اشارہ نہ کیا جاتا بلکہ صرف یہ کہہ دیا جاتا کہ قرآنکریم پر ایمان لائو یا تو رات پر ایمان لائو جب کسی کتاب کا نام رکھ دیا جائے تو اس کا ذکر لمبے چوڑے جملوں سے عبث اور فضول ہو جاتا ہے اگر اس کی کلام حکیم میں کتاب کے نام کو چھوڑکر اور الفاظ میں اس کتاب کا ذکر کیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ اس طریق بیان میں کوئی زائد فائدہ مدنظر رکھا گیا ہے اور وہ فائدہ آیت زیر بحث میں یہی مدنظر ہے کہ کتاب کو منزل الیہ وجود کی طرف نسبت دے کر اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ نہ صرف یہ کتاب ہادی ہے بلکہ وہ وجود بھی ہادی ہے جس پر یہ کتاب نازل ہوئی ہے چنانچہ اس اشارہ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں دوسری جگہ واضح الفاظ میں بھی بیان فرما دیا ہے ۔ فرماتا ہے وَ اِذَا جَآئَ تْھُمْ اٰیَۃٌ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ حَتّٰی نُوتٰی مِثْلَ مَا اُوْتِیَ رُسُلُ اللّٰہِ۔ اللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ (انعام ع ۱۵) یعنی جب کفار کو نبیوں کے الہام کے ذریعہ سے کوئی نشان دکھایا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ جب تک اسی طرح ہم پر کلام نازل نہ ہو جس طرح ان مدعیانِ نوبت پر نازل ہوا ہے ہم ایمان نہیں لائیں گے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس کا علم ہے کہ اس کا کلام کس پر نازل ہو اور کس پر نازل نہ ہو۔ پس جس کو وہ اس کلام کے نزول کے مناسب حال سمجھتا ہے اسی کے ذریعہ کلام بھجواتا ہے۔ یہ آیت واضح طور پر اس امر کو ثابت کر دیتی ہے کہ کلام الٰہی محض ایک ہر کارہ کے ذریعہ سے نہیں بھیجا جاتا بلکہ وُہ ایک ایسے شخص کے ذریعہ سے بھجوایا جاتا ہے جو اس کا صحیح مفہوم لوگوں کو بتا سکے اور اس کا مطلب سمجھا سکے۔ اگر صرف الفاظ پہنچائے مطلوب ہوتے تو ہر نبی کی قوم میں اچھے اچھے ادیب موجود تھے ان کے ذریعہ سے وہ کلام پہنچایا جا سکتا تھا۔ مشہور ادیبوں اور شاعروں کو چھوڑ کر بالعموم اُمّیوں اور ظاہر بینوں کی نگاہ میں کم علم لوگوں کی معرفت اس کلام کو بھجوانے کے تویہی معنے ہیں کہ اس کلام کا مطلب بیان کرنے کی کلام لانپے والے سے امید کی جاتی ہے اور دوسروں کی نسبت اس کلام کی باریکیوں کو سمجھنے کا اُسے زیادہ اہل سمجھا جاتا ہے اور نہ صرف الفاظِ کتاب اُسے دئے جاتے ہیں بلکہ فہم کلام بھی اُسے عطا کیا جاتا ہے کہ کیونکہ اس کی فطرت اس کلام کے مفہوم کے مطابق اور مناسب ہوتی ہے اور جب یہ حقیقت ہو تو پھر یہ کہناکہ جب کلام موجود ہے تو کلام لانے والے میں اور ہم میںکیا فرق ہے ہم کلام پر ایمان لائیں گے اور اس کا مطلب خود سمجھیں گے کس قدر عقل کے خلاف ہے اور بالکل اسی قسم کا قول ہے جیسے کفار نے کہا کہ خدا تعالیٰ نے بات ہی کرنی تھی تو ہم سے کیوں نہ کر دی درمیان میں ایک واسطہ ڈالنے کی کیا ضرورت تھی کیا ہم اس کی بات کو نہیں سمجھ سکتے تھے۔ نہ خدا تعالیٰ نے ان کفار کے اعتراض کو درست سمجھا نہ یہ مومن کہلانے والے اپنے دعویٰ میں سچے ہیں۔ اور سچ یہی ہے کہ کلام الٰہی پر ایمان لانے میں کلام الٰہی لانے والے پر ایمان لانا اور اس کی تشریح کو قبول اور تسلیم کرنا بھی شامل ہے کیونکہ کلام الٰہی لفظی کلام ہوتا ہے اور کلام الٰہی لانے والا اس کا جسمانی نمونہ۔ اور اُسے اسی لئے منتخب کیا جاتا ہے تا وہ اپنے عمل سے اس کا نمونہ پیش کرے اور اپنے کلام سے اس کی تفسیر بیان کرے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اسی تشریح کو قبول کیا جائے جو اُس تک یقینی طور پر پہنچی ہو نہ یہ کہ ہر رطب و یا بس جو کسی جھوٹے راوی نے اپنے سے پہلے چند معروف لوگوں کی طرف منسوب کرتے ہوئے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دی۔
چونکہ اس آیت سے بھی اس مضمون کا تعلق ہے اس جگہ اختصاراً اسے بیان کر دیا گیا ہے مفصل بحث اس کی ان آیات کے ماتحت آئے گی جو زیادہ وضاحت سے اس مضمون کی طرف اشارہ کرتی ہیں یا جن آیات سے مذکورہ بالا فاسد عقیدہ کے لوگ استدلال کرتے ہیں۔
اس جگہ ایک اور مضمون بھی وضاحت طلب ہے اور وُہ کلام کے اتارنے کا محاورہ ہے عام طو رپر جب اسلامی تعلیم سے ناواقف لوگ کلام الٰہی کے اترنے کا محاورہ قرآن کریم میں پڑھتے ہیں تو خیال کر لیتے ہیں کہ شائد یہ کلام خدا تعالیٰ نے لکھ کر فرشتوں کو دیا اور وہ اسے آسمان پر سے زمین پر لائے اور رسول کے ہاتھ میں دے دیا۔ بلکہ غیر مذہب والوں کو کیا کہنا ہے خود مسلمانوں میں سے ایک بڑا طبقہ تعلیم اسلام سے ناواقفی کی وجہ سے اب یہی سمجھنے لگ گیا ہے کہ شائد کوئی چیز آسمان پر سے زمین پر مادی طو رپر اترتی ہے اور رسول کو ملتی ہے۔ لیکن یہ عقیدہ کئی غلطیوں کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے (۱) ان لوگوں نے غور نہیں کیا کہ آسمان سے کیا مراد ہے (۲) انہوں نے غور نہیںکیا کہ فرشتے کیا ہیں اور ان کے اعمال کس طرح ظاہر ہوتے ہیں۔ (۳) انہوں نے یہ غور نہیں کیاکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کس ذریعہ سے ظہور پذیر ہوتے ہیں (۴) انہوں نے غور نہیںکیا کہ نزول کے کیا معنے ہیں۔ ان چار امور پر غور نہ کرنے کے سبب سے ان کو مذکورہ بالا غلط عقیدہ میں مبتلا ہونا پڑا ہے۔
اوّل سوال یہ ہے کہ کیا نزول کے یہ معنے ہیں کہ کلام الٰہی آسمان سے مادی طور پر نازل ہوتا ہے جیسا کہ عوام مسلمانوں میں اور اُن سے سن سنا کر دوسرے مذاہب کے لوگوں میں پھیلا ہوا ہے۔ چنانچہ سیل مترجم قرآن انگریزی نے اپنے ترجمہ کے دیباچہ کے باب ۳ میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام قرآن کریم ایک جدل میں جبریل فرشتہ کو دیا اور وہ اسے نچلے آسمان پر لے آئیاور یہاں سے آہستہ آہستہ انہو ںنے قرآن کریم حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر اُتارا۔ (تفسیر ریورنڈی ویری جلد اول صفحہ ۱۰۸) اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض ایسی روایات کی بناز پر جو مسلمانوں میں بدقسمتی سے مشہور ہو گئے ہیں لیکن اُن کے معنوں پر انہوں نے غور نہیں کیا اور نہ ان کی صحت کی تصدیق کی مسیحیوں نے اس قسم کی تاریخ کی بنیاد رکھی ہے اور اس وجہ سے ہم ان پر یہ الزام تو نہیں لگا سکتے کہ انہوں نے یہ روایات خود بنا لی ہیں۔ لیکن جس رنگ میں اُنہوں نے ان روایات کو استعمال کیا ہے وہ ضرور قابل اعتراض ہے نیز وہ اس اعتراض کے نیچے ضرور ہیں کہ جن امور پر وہ اعتراض کرتے ہیں اسی قسم کے امور خود ان کی کتب میں موجود ہیں۔ جو تاویل وہ اپنی کتب میں کر لیتے ہیں دیانت اور تقویٰ کا تقاضا یہ تھا کہ ایسی روایات یا ان قرآن کریم کی آیات کے متعلق جن میں انہیں کوئی ایسا مضمون نظر آتا وہ ویسی ہی تاویل کر لیتے مذہب تو خشیت اللہ اور تقویٰ پیدا کرنے کے لیے ہوتا ہے نہ کہ ہارجیت کا اکھاڑہ بنانے کے لئے۔
موسیٰ کی کتاب پیدائش میں لکھا ہے کہ جب سدوم اور عمارہ میں گناہ بڑھ گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی تباہی کی خبر دی تو وہ حضرت ابراہیم سے یوں گویا ہوا ’’میں اب اُتر کے دیکھوں گا کہ انہوں نے سراسر اس چلانے کے مطابق جو مجھ تک پہنچا، کیا ہے یا نہیں‘‘ (باب ۱۸ آیت ۲۱) اس آیت سے نہ صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم کامل نہیں اور وہ دوسروں سے خبریں سن کر ان کی تصدیق بعد میں کرتا ہے بلکہ یہ بھی کہ وہ اس تصدیق کے لئے آپ آسمان سے اترنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اب اگر ان مسیحی مصنفین میں حقیقی دینی روح ہوتی اور وہ مذہب کو ایک جیت ہار کا اکھاڑہ نہ سمجھتے تو اس آیت کی موجودگی میں انہیں قرآن کریم کے اس مضمون پر کیونکر اعتراض ہو سکتا تھا کہ کلامِ الٰہی آسمان سے اُترتا ہے۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
اس مضمون کے مطابق جو قرآن کریم میں بیان ہوا ہے عہد نامہ قدیم کی کتاب اسموئیل میں بھی ذکر آتا ہے وہاں لکھا ہے ’’اور خداوند کی روح اس دن سے ہمیشہ دائود پر اُترتی رہی‘‘ (باب ۱۶ آیت ۱۳) خدا کی روح کے معنے اس کے کلام اور اس کی ہدایت کے ہی ہیں۔ پس اس آیت میں یہی بتایا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام دائود پر اترتا رہا۔ اب جو چیز ہمیشہ دائود پر اترتی رہی اور اس کا ذکر بائبل میں موجود ہے کس طرح تسلیم کیا جائے کہ مسیحی مصنفین اس کے مفہوم کے سمجھنے سے قاصر ہیں۔
نئے عہد نامہ میں بھی اسی قسم کا محاورہ استعمال ہوا ہے۔ اس میں آتا ہے ’’اور یوحنا نے یہ کہہ کے گواہی دی کہ میں نے روح کو کبوتر کی طرح آسمان سے اترتے دیکھا اور وہ اس پر ٹھہر اور میں اسے نہ جانتا تھا پر جس نے مجھے بھیجا کہ پانی سے بیتسمہ دوں اس نے مجھے کہا کہ جس پر تو روح کو اترتے اور ٹھہرتے دیکھے وہی ہے جو روح قدس سے بیتسمہ دیتا ہے سو میں نے دیکھا اور گواہی دی کہ یہی خدا کا بیٹا ہے (یوحناب ۱ ۳۲ تا ۳۴) ان آیات سے ظاہر ہے کہ روح القدس جسے قرآنی اصطلاح میں کلام لانے والا فرشتہ یاجبرئیل کہتے ہیں کبوبتر کی شکل میں حضرت مسیحؑ پر اترا جیسا کہ عہد نامہ جدید کے متعدد حوالہ جات سے ثابت ہے یہ روح قدس ہی ہے جو خدا کا کلام پہنچاتی ہے پس اس کبوتر نے اُتر کر مسیح پر خدا تعالیٰ کی مرضی ہی کھولی ہو گی چنانچہ متی باب ۳ آیت ۱۶ سے اس کی وضاحت بھی ہو جاتی ہے کیونکہ وہاں لکھا ہے کہ ’’اس نے (یعنی مسیح علیہ السلام) نے خدا کی روح کو کبوتر کی مانند اترتے اور اپنے اوپر آتے دیکھا‘‘ غرض خدا کی روح سے خدا تعالیٰ کا کلام ہی مراد ہے۔
پس جبکہ عہد ناہ قدیم او رجدید دونوں خدا تعالیٰ اور اس کے کلام کے اترنے پر شاہد ہیں تو اس قسم کی روایات اگر مسلمانوں میں پائی جائیں تو مسیحیوں کو ان کے سمجھنے میں کیوں دقت پیش آئے۔
اصل بات یہ ہے کہ قرآن کریم میں سماء کا لفظ مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ کبھی اس کے معنے بادلوں کے ہوتے ہیں کبھی بلندی کے اور کبھی بلندی مقام کے جب اللہ تعالیٰ کی نسبت یہ لفظ استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنی اس کے بلند مقام کے ہوتے ہیں نہ یہ کہ وہ کسی خاص مقام پر انسانوں کی طرح بیٹھا ہے جس ہستی کی نسبت قرآن کریم خود فرماتا ہے نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْد (ق ع ۲) وہ انسان کی رگِ جان سے بھی زیادہ اس کے قریب ہے اس کی نسبت یہ خیال کرنا کہ وہ ایک جسمانی آسمان پر بیٹھا ہے اور وہاں سے لکھ لکھ اپنا کلام بھجوا رہا ہے کس طرح درست ہو سکتا ہے۔
عام مسلمانو ںکو بھی یہ ٹھوکر لگی ہے اور انہوں نے بھی اللہ تعالیٰ کی ان صفات پر جو قرآن کریم میں مذکور ہیں غور کئے بغیر ذوالوجوہ روایات اور تمشابہ آیات سے دھوکا کھایا ہے۔
دوسری وجہ جس سے لوگوں نے دھوکا کھایا ہے وہ فرشتوں کے متعلق اور ان کے اعمال کے ظہور کے متعلق اُن کا ناقص علم ہے قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے مادی اجسام نہیں ہیں بلکہ تمام کائنات عالم کے لئے علت ثانیہ کا مقام رکھتے ہیں یعنی خدا تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے درمیان پہلے واسطہ کی حیثیت ان کو حاصل ہے اور نظام عالم کا خدا تعالیٰ کے حکم اور اس کے اشارہ کے مطابق چلانا ان کا کام ہے۔ کوئی فرشتہ کلام الٰہی کو بندہ تک پہنچنے کا ذمہ دار ہے۔ کوئی پیدائش کا کارخانہ چلا رہا ہے‘ کسی کے ذمہ موت کا کام ہے اور وہ گویا بمنزلہ تاروں کے ہے جن کے ذریعہ سے دنیا کے کار خانہ کو خدا تعالیٰ حرکت دیتا ہے چناچنہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اُن کی زبانس ے فرماتا ہے وَمَا مِنَّآ اِلَّا لَہٗ مَقَامَّ مَّحْلُوْمٌ (صافات ع ۵) ہم میں سے ہر ایک کا ایک معلوم مقام ہے یعنی ہر ایک اپنے مقام پر رہتے ہوئے اسی طرح اپنا کام کر رہا ہے جس طرح کہ سورج اپنی جگہ پر رہتے ہوئے اپنے گرد کے سیاروں تک روشنی پہنچاتا ہے اور انہیں اس کی ضرورت نہیں کہ وہ اپنی جگہ کو چھوڑیں پس جب فرشتوں کا اترنا ایک استعارہ ہے تو اس کلام کا اترنا بھی جو اُن کے ذریعہ سے واقع ہوتا ہے ایک استعارہ ہے۔
تیسری وجہ غلطی لگنے کی یہ ہے کہ لوگوں نے یہ غور نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کس طرح ظاہر ہوتا ہے ہیں۔ جاہل لوگ خیال کرتے ہیں کہ جس طرح انسان کو ضرورت ہوتی ہے کہ اپنا کلام پہنچانے کے لئے وہ مادی وسائل کو اختیار کرتا ہے مثلاً کسی پیغامبر کو ساوری دے کر اپنے مخا۔ب کی طرف بھجواتا ہے اسی طرح نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ بھی اس امر کا محتاج ہے کہ اپنا پیغام لکھ کر کسی پیغامبر کو دے اور وُہ اس کے اس بندے تک چل کر آئے جس تک پیغام بھجوایا گیا تھا حالانکہ اللہ تعالیٰ تو اپنے کامو ںکے متعلق صاف فرماتا ہے کہ وَ اِذَا قَضٰٓی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ (بقرہ ع ۱۴) یعنی جب اللہ تعالیٰ کسی امر کا فیصلہ کرتا ہے تو اُسے اس امر کی ضرورت نہیں ہوتی کہ وہ انسانوں کی طرح حرکت کرے اور اس کام کے کرنے کے لئے چل کر جائے بلکہ وہ صرف یہ ارادہ کر لیتا ہے کہ ایسا ہو جائے پھر اسی ہو جاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے کلام بھجوانے کے صرف یہ معنے ہیںکہ وہ اس کا ارادہ کر لیتا ہے اور اس ارادہ الٰہی سے آپ ہی آپ کلام الٰہی کے نزول کا ذمہ دار فرشتہ واقف ہو جاتا ہے پھر وہ اس حکم کی تعمیل کے لیے کائنات کی متعلقہ زنجیروں کو کھینچتاہے اور خود بخود ایک لطیف اور پر معارف کلام اللہ تعالیٰ کے اس بندہ کے کانوں یا دل یا آنکھوں پر نازل ہو جاتا ہے جس تک خدا تعالیٰ کے ہونٹ ہیں اور زبان ہے اور حلق اور تالو ہے کہ وہ ان کو حرکت دے کر کوئی آواز پیدا کرتا ہے یا انسانوں کی طرح کے ہاتھ ہیں کہ وہ ان سے لکھ کر فرشتوں کو دیتا ہے اور وہ اسے رسول تک پہنچا دیتے ہیں۔
اس آیت کا صحیح مفہوم نہ سمجھنے کا وچوتھا موجب یہ ہے کہ لوگوں نے نزول کے معنے غلط سمجھے ہیں۔ بے شک نزول کے عام معنے جسمانی طور پر اترنے کے ہیں لیکن یہ لفظ اور معانی میں بھی مستعمل ہے اور قرآن کریم میں کئی اور جگہ دوسرے معنوں میں مستعمل ہوا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اَنْزَلَ عَلَیْکُمْ مِنْ بَعْدِ الْغَمِّ اَمَنَۃً (آل عمران ع ۱۶) کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر غم کے بعد امن کے سامان اتارے اور اس سے مراد امن کے سامان پیدا کرنا ہے کیونکہ نہ غم آسمان سے اترتا ہے نہ امن دونوں زمینی تغیرات سے پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح قرآن کریم میںہے وَاَنْزَلَ لَکُمْ مِنَ الْاَ نْعَامِ ثَمَانِیَۃَ اَزْوَاج (زمر ع ۱) اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے آٹھ قسم کے چوپائے اتارے ہیں۔ حالانکہ چوپائے آسمان سے اُتگرا نہیں کرتے بلکہ زمین میں پیدا کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح قرآن کریم میں ہے یَا بَنِٓیْ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَا سًا یُّو ارِیْ سَوْا تِکُمْ وَرِیْشًا۔ (اعراف ع ۳) اے بنی آدم ہم نے تمہارے لئے لباس اتارا ہے جو جو تمہارے ننگ کو ڈھانکتا ہے اور تمہارے لئے موجبِ زینت ہوتا ہے۔ اسی طرح قرآن کریم فرماتا ہے وَاَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ الْمَنَّ وَا لسَّلْویٰ (بقرہ ع ۶) ہم نے تمہارے لئے ترنجبین او ربٹیرے اتارے تھے۔ اسی طرح قرآن کریم فرماتا ہے وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْہِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ (الحدید ع ۳) ہم نے لوہا اتارا ہے جس میں بہت بڑے جنگ کے سامان مخفی ہیں۔ اب ان تمام اشیاء میں سے ایک بھی نہیں جو آسمان سے اترتی ہو بلکہ سب ہی چیزیں زمین میں پیدا کی جاتی ہیں۔
خود رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی نسبت قرآن کریم میں آتا ہے کہ قَدْ اَنْزَلَ اللّٰہُ اِلَیْکُمْ ذِکْرًا رَّسُوْلًا (طلاق ع ۲) ہم نے تم پر ایک بڑے شرف کی بات یعنی اپنا رسول اتارا ہے۔
اوپر کی تمام آیات سے ثابت ہے کہ نزول کا لفظ پیدا کرنے کے لئے بھی بولا جاتا ہے اور اس جگہ بولا جاتا ہے جبکہ اس چیز کی پیدائش کا ذکر کیا جائے جسے بطور احسان یا انعام کے پیش کیا جائے۔ چنانچہ جانوروں کی پیدائش کا ذکر بھی بطور احسان کیا گیا ہے لوہے کی پیدائش کا بھی اور من و سلویٰ کی پیدائش کا بھی اور لباس کی پیدائش کا بھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا بھی۔ پس ان معنوں کے رو سے کلام الٰہی کے اترنے کے اصل معنے صرف یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کلام بطور ایک خاص نعمت کے ہوتا ہے اور اس کی ناقدری اور ناشکری کرنا انسان کو خدا تعالیٰ کی نظروں سے گرا دیتا ہے۔ ورنہ یہ مراد نہیں کہ وہ کسی کاغذ پر لکھا ہوا آسمان سے اترتا ہے۔ بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کا ایک خاص اذن ہے جو تمام ملاوٹوں اور وسوسوں سے پاک ہونے کی حالت میں اس کے مصریوں کا کانوں یا آنکھوں یا قلوب پر منکشف کیا جاتا ہے اور جسے الفاظ اور صوت دی جاتی ہے۔ صرف ایک خیال کا نام نہیں ہے جیسے کہ برہمو سماج یا بایی وغیرہ خیال کرتے ہیں۔
اس جملہ سے یہ دھوکا نہیںکھانا چاہیے کہ متقی کی تعریف صرف یہ ہے کہ جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی وحی پر ایمان لائے کیونکہ قرآن کریم سے پہلے زمانہ کے لوگوں میں بھی قرآن کریم متقیوں کا وجود تسلیم کرتا ہے مثلاً فرماتا ہے وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰی وَھَارُوْنَ الْفُرْقَانَ وَضِیَآئً وَّذِکْرًا لِّلْمُتَّقِیْنَ (انبیاء ع ۴) یعنی ہم نے موسیٰ اور ہارون کو فرقان دیا تھا اور وہ تعلیم دی تھی جو متقیوں کے لئے روشنی اور شرف کا موجب تھی۔ پس جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زڑانہ میں بھی متقی تھے جبکہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم ظاہر ہوئے تھے او رنہ قرآن کریم اترا تھا تو معلوم ہوا کہ متقی کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی پر ایمان لانا دائمی شرط نہیں بلکہ ایک موقت شرط ہے جس کا وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد شروع ہوتا ہے اور ہونا بھی یہی چاہیئے کیونکہ خدا تعالیٰ کے تازہ احکام کو جو نہ مانے وہ متقی کیونکر ہو سکتا ہے۔ غرض موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کے متقیوں کے لئے یہ شرط تھی کہ موسیٰ کی وحی پر ایمان لاتے ہوں حضرت عیسیٰ کے زمانہ میں متیقوں کی یہ علامت تھی عیسیٰ علیہ السلام کی وحی پر ایمان لاتے ہوں اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے بعد یہ علامت قرار پائی کہ آپ کی وحی پر ایمان لانے والے ہوں۔
وَمَاَ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ۔ پہلی آیت کو شامل کر کے پانچویں اور اس آیت میں بیان کردہ دوسری علامت متقیوں کی یہ بتائی کہ وہ ان وحیو ںپر بھی ایمان لاتے ہیں جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم سے پہلے نازل ہو چکی ہیں۔ اللہ اکبر! یہ قرآن کریم کا کیسا شاندار معجزہ ہے کہ ایک امی جو اپنی زبان میں بھی پڑھنا لکھنا نہیں جانتا تھا او رپھر عرب قوم کا فرد جو تعصبِ قومی میں ساری دنیا سے بڑھی ہوئی تھی قرآن کریم سے حکم پا کر اعلان کرتا ہے کہ اسی کلام پر ایمان لانے سے نجات نہ حاصل ہو گی جو مجھ پر نازل ہوا ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی ہدایت کے مستحق بننا چاہتے ہو تو جود حیاں مجھ سے پہلے نازل ہو چکی ہیں اُن پر بھی ایمان لائو۔ اسی کی تشریح دوسری جگہ یوں فرماتا ہے اِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّاخَلَا فِیْھَا نَذِیْر (فاطر ع ۳) کوئی قوم ایسی نہیںگزری جس میں خدا تعالیٰ کا مامور نہ آیا ہو اور فرماتا ہے وَلِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ (رعد ع ۱) ہر قوم میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہادی گزرا ہے گویا محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم مجمع البحرین ہی نہیں مجمع البحار ہیں جو آپؐ پر ایمان لائے اس کے لئے ضروری ہے کہ ابتدائی عراقی نبیوں آدم۔ نوح اور ابراہیم علیہم السلام پر بھی ایمان لائے اور جو آپؐ پر ایمان لائے وہ یہودی نبیوں موسیٰ، دائود، ادریس، الیاس، ذکریا اور یحییٰ پر بھی ایمان لائے اور جو آپؐ پر ایمان لائے وہ مسیحیت کے بانی عیسیٰ علیہ السلام پر بھی ایمان لائے اور جو آپؐ پر ایمان لائے وہ ہندوستان کے نبیوں کرشن اور رامچندر پر بھی ایمان لائے اور جو آپؐ پر ایمان لائے وہ ایرانی نبی زردشت پر بھی ایمان لائے۔ اس سے زیادہ روا داری اور اس سے زیادہ صداقت طلبی کا کیا ثبوت ہے۔ کوئی قومی تعصب نہیں، کوئی نسلی امتیاز نہیں صرف اور صرف صداقت اور راستی کی طلب ہے جہاں بھی ملے اس کا اقرر، جہاں بھی پوشیدہ ہو اس کا اظہار۔ آہ! دنیا یہ کس قدر قدر ناشناسی ہے کہ اسیکتاب سے سب سے زیادہ بغض اور کینہ کا اظہار کیا جاتا ہے۔ کاش دنیا میں انصاف کا مادہ ہوتا کاش لوگ قرآن کریم کے پہلے ہی رکوع کے مطالب پر غور کر کے اس کی نسبت اپنا فیصلہ صادر کرتے۔
مسیحی مصنف جن کی نطر حسن کی جگہ قبح پر پڑنے کی عادی ہو چکی ہے اس آیت کی مذکور بالا خوبی پر نظر ڈالنے اور اس کی عظمت اور خوبی تسلیم کرنے کی بجائے الٹا یہ ناجائزہ فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ قرآن کریم نے بائبل کی تصدیق کی ہے اور چنوکہ بائبل کے مضامین قرآن کریم کے خاف ہیں اس لئے قرآن کریم جھوٹا ہے نعوذ باللہ من ذالک۔ کیسے شاندار مضمون کے موقعہ پر کیسی بھونڈی بات سوجھی ہے وہ یہ نہیں سمجھتے کہ قرآن بائبل کے کسی حصہ کی تصدیق کرتا ہے۔ عہد نامہ قدیم کی کہ جس میں شریعت کو روحانیت کے لئے ضروری قرار دیا ہے یا اناجیل کے ان قصوں کی کہ جن میں یہ لکھا ہے کہ مسیح علیہ السلام روزے رکھا کرتے تھے (متی باب ۴ آیت او ۲) او رلکھا ہے کہ خاص قسم کے جن بغیر روزوں کے نہیں نکلتے (مرقس باب ۹ آیت ۲۹) یا حواریوں کے اقوال کی جن میں یہ لکھا ہے کہ شریعت ایک *** ہے۔ ان دو متضاد اقوال میں سے وہ کس کی تصدیق کرتا ہے؟ کاش وہ سمجھتے کہ ایک مصلح کو پہلے ادیان کی تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں اُسے تو صرف منبع کے بارہ میں اپنے خیال کا اظہار کر دینا کافی ہے کیا دنیا میں صلح کے قائم کرنے اور سچائی جہاں بھی ملے اس کا اقرار کرنے کے لئے یہ اصل کم قیمتی ہے کہ اس امر کا قرار کیا جائے کہ خدائے قیوم سب اہل زمین کا خدا ہے اور اس کا کلام ہر قوم پر نازل ہوتا رہا ہے اور ایک مومن صادق کو اجمالاً اس پر ایمان رکھنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی قوم کو بھی اپنی ہدایت سے محروم نہیں رکھا۔ اگر تفصیلی مصتقدات مختلف اقوام کے تسلیم کرنے صلح کے لئے ضروری ہوں تو یہ اتحاد تو خود مسیحیوں میں بھی پیدا نہیں بیسیوں فرقے ہیں جو ایک دوسرے کے عقیدے کو غلط کہتے ہیں رومن کیتھولکس کے نزدیک اناجیل کچھ کہتی ہیں اور پرائسٹنٹ کے نزدیک کچھ۔ اور اگر تصدیق کے وہی معنے ہیں جو قرآن کریم کے سر مسیحی مصنف مڑھنا چاہتے ہیں تو مسلمان کون سے عقائد کی تصدیق کرے پرائسٹنٹ عقیدہ کی یا رومن کیتھولک عقیدہ کی یا یونی ٹیرین عقیدہ کی یا گریک چرچ کی یا شامی گرجا کی؟
مسیحی مصنفوں کا استدلال اس سے باطل ہوتا ہے کہ (۱) قرآن کریم میں پہلے کلاموں پر ایمان کو بعد میں رکھا گیا ہے اگر تفصیلی ایمان مراد ہوتا توپہلے پہلی وحی کا ذکر ہوتا بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی کا۔ پہلی وحی کا بعد میں ذکر کرنا بتاتا ہے کہ اس پر ایمان قرآن کریم کے توسط سے ہے یعنی اس کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق۔
(۲) وَمَا اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ میں کسی قوم یا مذہب کا مخصوص ذکر نہیں بلکہ ہر قوم و ملت کے الہام کی تصدیق کی ہے اگر مسیحی اس سے بائبل کی تصدیق نکالیں تو ہندو اپنے ویدوں کی تفصیلی تصدیق نکالنے میں حق بجانب ہوں گے اور زردشتی اپنی الہامی کتب کی۔ ان سب کتب میں مسیحی اتحاد کیونکر پیدا کریں گے آخر بائبل کو دوسری کتب پر فضیلت کیوں؟
(۳) قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِکَ مِنْھُمْ مَّنْ قَصَصْنَا عَلَیْکَ وَ مِنْھُمْ مَّنْ لَّمْ نَقْصُضَ عَلَیْکَ (مومن ع ۸) ہم نے تجھ سے پہلے جو رسول بھیجے تھے ان میں سے بعض کا ذکر ہم نے تیرے الہام میں کیا ہے اور بعض کا ذکر تک نہیں کیا۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ کئی نبیاء کا ذکر تک نہیں اُن کے کلام پر مسلمان کس طرح ایمان لائیں؟ پس ظاہر ہے کہ اس جگہ اجمالی ایمان مراد ہے نہ ی تفصیلی۔
(۴) قرآن کریم میں آتا ہے فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃ (البینہ ع ۱) قرآن کریم میں تمام سابق صحیح اور غیر منسوخ تعلیم میں جمع کر دی گئی ہیں پھر فرماتا ہے وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتَابِ بِالْحَقِّ مُصَدِّ قًا لِّمَا بَیْنَ یَہَ یْہِ مِنَ الْکِتَابَ وَمُھَیْمِنًا عَلَیْہِ (مائدہ ع ۷) اور ہم نے تجھ پر ایسی کتاب اتاری ہے جو تمام سچائیوں پر مشتمل ہے اور کتاب الٰہی میں سے جو کچھ بھی اس کے وقت میں موجود ہے اس کی تصدیق کرتی ہے اور اس کے مضامین کی حفاظت کرتی ہے۔ ان آیات سے ظاہر ہے کہ تصیلی تعلیم کو مدنظر رکھتے ہوئے قرآن کریم کا دعویٰ ہے کہ سب پہلی غیر منسوخ اور زمانہ حال کے لئے قابل عمل تعلیمات قرآن کریم میں شامل کر دی گئی ہیں۔ پس جب سب پہلی قابل عمل تعلیمات قرآن کریم کے دعویٰ کے مطابق اس شامل ہو چکی ہیں تو پہلی کتب کی تصدیق سے مراد صرف اجمالی تصدیق ہے نہ کہ کچھ اور یہ تصدیق ویسی ہی ہے جیسے کہ مسیحی ابراہیم اور موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لاتے ہیں کہ وہ نبی تھے لیکن ان کی تعلیم پر تو عمل نہیں کرتے بلکہ وہ تو اُسے *** کہتے ہیں۔ قرآن کریم بھی اسی اجمالی رنگ میں اُن کی بھی اور اُن کے علاوہ دوسری اقوام کے انبیاء کی بھی تصدیق کرتا ہے مگر وُہ ان کی شریعتوں کو *** قرار نہیں دیتا بلکہ وُہ ان سب راستبازوں کو اپنے اپنے وقت کے لئے رحمت الٰہی قرار دیتا ہے۔
مسیحی مصنفوں کی سمجھ میں قرآن کریم کا یہ بے نظیر نکتہ اس لئے نہیں آتا کہ وہ نبی مان کر بھی ایک شخص کو مجرم اور گنہگار قرار دینے میں دریع نہیں کرتے پس ان کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ نہ قرآن کریم کی اس تعلیم سے کہ ہر قوم کے نبیوں اور ان کے الہام کے سچا ہونے کا اقرار کرو دنیا کو یا اس کے امن کو کیا فائدہ پہنچے گا۔ کیونکہ وہ تو جن کو نبی سمجھتے ہیں ان پر بھی خلاف اخلاق الزام لگانے سے باز نہیں رہتے اور صرف مسیح علیہ السلام کو پاک قرار دیتے ہیں لیکن قرآن کریم کا مسلک اور ہے وہ سب نبیوں کو پاک اور راستباز قرار دیتا ہے اس لئے جب وہ ہر قوم کے نبیوں کے الہام کو اجمالی طور پر سچا ماننے کا حکم دیتا ہے وُہ اپنے عقیدہ کے رُو سے دنیا میں امن کے قیام کا راستہ کھول دیتا ہے کیونکہ جب ایک مسلمان یہ تسلیم کر لے گا کہ خدا تعالیٰ نے کرشن اور رام چندر اور زردشت پر اپنا کلام نازل کیا تھا تو وہ قرآنی عقیدہ کے رُو سے اُن کی زندگیوں کو پاک سمجھے گا۔ اور اُن پر لگائے گئے سب الزاموں کو خواہ ماننے والو ںکی طرف سے ہوں خواہ مخالفوں کی طرف سے غلط اور بے بنیاد قرار دے گا اور ان کا احترام کرے گا اور اس طرح دنیا میں امن قائم ہو گا۔
اس اجمالی ایمان کا ایک اور بھی فائدہ ہے کہ اس طرح مسلمانو ںکے دل میں خدا تعالیٰ کی حقیقی محبت قائم کی گئی ہے کیونکہ تعصب کی وجہ سے خواہ کوئی قوم کتنا ہی یقین کرے کہ صرف ہماری ہی کتاب خدا تعالیٰ کی طرف سے آئی ہے لیکن ان خشیت اللہ کے اوقات میں جو ہر انسان پر آتے ہی رہتے ہیں اس کے دل میں ضرور یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ رب العالمین کس طرح ہو گیا جبکہ اس نے کسی ایک قوم کو اپنے الہام کے لئے چن لیا اور باقی سب اقوام کو چھوڑ دیا ہے۔ اس قرآنی عقیدہ کی بناء پر ایک مسلمان کا عقیدہ ربوبیت عالمین کے متعلق اور بھی پختہ ہو جاتا ہے اور وہ سمجھ لیتا ہے کہ خدا تعالیٰ واقعہ میں کسی ایک قوم کا خدا نہیں بلکہ سب دنیا کا حدا ہے۔
وَبِا لْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْن۔ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے کہ اَلْاٰخِرَۃ کے معنے بعد میں آنے والی چیز کے ہوتے ہیں اسی وجہ سے بعد الموت زندگی کو حیاتِ آخرت اور قیامت کے دن کو یوم الآخرۃ کہتے ہیں اور اسی وجہ سے انجام کو بھی آخرت کہتے ہیں کیونکہ بعد میں ظاہر ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں انجام کے معنو ںمیں یہ لفظ استعمال ہوا ہے چنانچہ فرماتا ہے وَلَلْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوّلیٰ (الضحیٰ) یعنی تُو جو کام بھی شروع کرتا ہے اس کام انجام ابتداء کی نسبت اچھا ہوتا ہے اور یہ ہر کام میں تیری کامیابی اس امر کی شہادت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضاء تیرے ساتھ ہے پس لفظی معنے وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنْوُن کے یہ ہیں کہ بعد میں آنے والی شئے پر وہ یقین رکھتے ہیں۔ اب رہا یہ سوال کہ بعد میں آنے والی کیا شئے ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر تو اس امر کو دیکھا جائے کہ قرآن کریم میں آخرۃ کا لفظ زیادہ تر کن معنوں میں استعمال ہوا ہے تو اس کے معنے قیامت یا مابعدالموت زندگی کے ہوتے ہیں۔ مثلاً فرماتا ہے مَالَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاق (بقرہ ع ۱۲) ایسے شخص کا حصہ بعدالموت زندگی میں کوئی نہ ہو گا۔ یا فرماتا ہے بَلِ الدَّارَکَ عِلْیُمْھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ (نمل ع ۵) بعد الموت زندگی کے بارہ میں ان کا علم بعد مشاہدہ کے کامل ہو گیا۔ اسی طرح اور متعدد مقامات پر ان معنوں میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ پس اگر قرآن کریم میں اس لفظ کے استعمال کی کثرت کو دیکھا جائے تو اس جملہ کے یہ معنے ہوں گے کہ یوم آخرۃ پر ایمان لاتے ہیں (مگر بالعموم ایسے موقعہ پر خالی آخرۃ کی جگہ یوم الآخرۃ کے الفاظ آتے ہیں) لیکن اگر اس آیت کے مضمون اور اُس کے مطالب کو دیکھا جائے تو چونکہ اس جگہ پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی پر ایمان لانے کا ذکر ہے پھر آپ سے پہلے جو وحی نازل ہوتی رہی اس پر ایمان لانے کا ذکر ہے اس کے بعد آخرۃ پر یقین رکھنے کا ذکر ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آخرۃ سے مراد اس جگہ بعد میں آنے والی وحی ہے اور اس آیت میں تینوں وجہوں پر ایمان لانا متقی کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ اس وحی پر بھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اور اس پر بھی جو آپ سے پہلے نازل ہو چکی تھی اور اس پر بھی جو آپؐ کے بعد نازل ہو گی۔ سباق آیت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ معنے زیادہ چسپاں ہوتے ہیں۔
بعض مسلمان اس غلطی میں مبتلا ہیں کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد وحی کا نزول کس طرح ہو سکتا ہے لیکن یہ وہم اُن کا قرآنی تعلیم کے خلاف ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ صاف طو رپر مسلمانو ںکی نسبت فرماتا ہے اِنَّ الّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلآَیِکَۃُ اَلَّا تَخَا فُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْ ابِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَo(حٰم سجدہ ع ۴) یعنی جو مسلمان یہ اعلان کر کے کہ اللہ ہمارا رب ہے تمام مصائب کو برداشت کریں گے اور استقامت دکھائیں گے خدا تعالیٰ کے فرشتے ان پر یہ کہتے ہوئے نازل ہوں گے کہ نہ آئندہ کا خوف کرو اور نہ سابق پر غم کرو اور اس جنت کی بشارت سنو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔ اسی طرح قرآن کریم میں آتا ہے۔ وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولِٰٓکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِنَ النَّبیِّنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ والشُّھَدَآئِ والصَّالحِیْنَ وَحَسُنَ اُولِٰٓکَ رَفِیْقًاo(نساء ع ۹) یعنی جو لوگ اللہ اور رسول (یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کریں گے وہ اس گروہ میں شامل ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے یعنی نبیوں صدیقوں شہداء اور صالحین کے گروہ میں اور یہ گروہ ساتھیوں کے لحاظ سے سب سے بہتر گروہ ہے پس جبکہ اس اممت سے یہ وعدہ ہے کہ وہ نبیو ںاور صدیقوں اور شہداء والے انعام پائے گئی تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اس امت میں وحی الٰہی کا دروازہ بند ہو اصل انعام جو نبیوں اور صدیقوں اور شہداء کو ملتا ہے وہ تو خدا تعالیٰ کی وجی ہی ہے۔
اس آیت میں اس پیشگوئی کی طرف بھی اشارہ ہے جو سورۂ جمعہ میں کی گئی ہے اللہ تعالیٰ نے فرماتا ہے ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُ مِّیّنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَ کِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ o وَّاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمo(ع ۱) یعنی وہ خدا ہی ہے جس نے اُمّیوں میں انہی کو قوم کا ایک رسول بھیجا جو اُنہیں اس کی آیات پڑھ کر سُناتا ہے اور اُنہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے گو پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے اور اسی طرح وہ ان کے سوا ایک اور قوم کو سکھائے گا جو اب تک انہیں تک انہیں نہیں ملے اور اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو احادیث میں آتا ہے کہ صحابہ نے پوچھا وہ کون لوگ ہیں جن کا اس آیت میں ذکر ہے جو ہم سے نہیں ملے اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی کے سر پر ہاتھ رکھ کر فرمایا لَوْکَانَ الدِّیْنُ عِنْدَ الثُّرَیَّا لَذَھَبَ رَجُلٌ مِنْ فَارِسَ اَوْ اَبْنَائِ فَارِسَ حَتٰی یَتَنَا وَلَہٗ (مسند احمد بن حنبل جلد دوم صفحہ ۳۰۹) کہ اگر ایمان ثریا پر بھی چڑھ جائے تو فارس سے ایک شخص یا فرمایا ابناء فارس میں سے ایک شخص آسمان پر جا کر دین کو واپس لے آئے گا۔ اس روایت سے اور بعض اور روایا تسے کہ جن میں رَجُلٌ کی جگہ رِجَالٌ کا لفظ ہے (بخاری جلد سوم کتاب التفسیر) معلوم ہوتا ہے کہ ایک زمانہ میں ایمان دُنیا سے اُٹھ جائے گا اور ایک شخص بنو فارس سے جس کے ساتھ اور بھی بعض ابناء فارس بطور مدگار ہوں گے ایمان کو واپس لائے گا اور اس کی معرفت اللہ تعالیٰ پھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہی کام کرنے کا موقع دے گا کہ جو صحابہؓ کے زمانہ میں آپؐ نے کیا یعنی وہ آپؐ کا بروز ہونے کی حیثیت سے خدا تعالیٰ کی وحی سے اصلاحِ امت کرے گا۔
غرض اس آیت کے سباق کو مدنظر رکھتے ہوئے وَبِالْاٰ خِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ کے معنے یہ ہیں کہ جس طرح متقی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی پر ایمان رکھتا ہے اور آپ سے پہلی وحی پر ایمان رکھتا ہے اسی طرح وہ بعد میں آنے والی وحی پر بھی یقین رکھتا ہے۔
شاید کسی کو یہ شبہ گزرے کہ پہلی دونوں وحیوں کی نسبت تو ایمان کا لفظ استعمال ہوا ہے لیکن آخرۃ کی نسبت یقین کا لفظ استعمال ہوا ہے پس کیوں نہ سمجھا جائے کہ اس جگہ وحی کی بجائے کسی اور چیز کا ذکر ہے ورنہ اس کے لئے بھی ایمان کا لفظ استعمال ہوتا اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ ایمان کا لفظ عام طو رپر اس شے کے متعلق استعمال ہوتا ہے جس کا وجود معرض وجود میں آ چکا ہو۔ جس کا وجود معرضِ وجود میں نہ آیا ہو بلکہ آئندہ آنے والا ہو اس کی نسبت یقین کا لفظ ہی زیادہ مناسب ہوتا ہے۔ اگر کہا جائے کہ حیٰوۃ بعد الموت کے متعلق بھی تو ایمان کا لفظ آتا ہے حالانکہ وہ بعد میں آنے والی شے ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ حیٰوۃ بعد الموت بیشک ایک زندہ شخص کے لئے تو بعد میں آنے والی شے ہے مگر اس کا وجود اس وقت بھی موجود ہے اور جو لوگ مر چکے ہیں وہ معاً ایک قسم کی زندگی پا رہے ہیں پس یہ خدائی فعل پہلے بھی ظاہر ہوتا رہا ہے اب بھی ہو رہا ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا پس حیٰوۃ بعد الموت در حقیقت ایک اسی چیز ہے جو ہر وقت ہو رہی ہے اس لئے اس کی نسبت ایمان کا لفظ ہی زیادہ مناسب ہے مگر جو وحی آئندہ نازل ہونے والی ہو اس کی نسبت یقین کا لفظ زیادہ مناسب ہے۔
اگر پہلی وحیوں کی نسبت سے وحی کا ذکر نہ کیا جائے بلکہ صرف یہ کہا جائے کہ مومن اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ وحی خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتی ہے تو اس موقعہ پر چونکہ مخصوص طو رپر آئندہ وحی کا ذکر نہ ہو گا اس کے لئے ایمان کا لفظ زیادہ مناسب ہو گا۔
اصل بات یہ ہے کہ وحی الٰہی ہر شخص پر نہیں اُترتی بلکہ بعض ترقی یافتہ اور مقرب وجودوں پر اُترتی ہے اور قومی لحاظ سے متقیوں کا فرض مقرر کیا گیا ہے کہ وہ اس امر پر یقین رکھیں کہ اللہ تعالیٰ آئندہ بھی ان کو بھلائے گا نہیں بلکہ ان میں سے کامل وجودوں پر وحی نازل ہوتی رہے گی اور اس طرح ہر مسلمان کے دل میں یہ خواہش پیدا کی گئی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایسا اعلیٰ درجہ کا متقی بنائے کہ اس پر خدا تعالیٰ کی وحی نازل ہو اور اس طرح اعلیٰ امید پیدا کر کے اور اعلیٰ مقصد کو سامنے لا کر مسلمانوں کا ملح نظر اونچا کر دیا گیا ہے۔
افسوس کہ مسلمانوں نے اس عظیم الشان احسان کو نہ سمجھااور خود اپنے مستقبل کو تاریک بنا لیا آج کیوں مسلمان اسلام سے دُور جا رہے ہیں اور کیوں گزشتہ صدی میں ان میں حسن بصری۔ سید عبدالقادر جیلانی۔ جنید بغدادی۔ معین الدین چشتی۔ شہاب الدین سہروردی۔ محی الدین ابن عربی۔ سید احمد سرہندی اور شاہ ولی اللہ رحم اللہ علیہم جیسے لوگ پیدا نہیں ہوئے؟ اسی وجہ سے کہ اعلیٰ روحانی مقامات کے حصول کے لئے جس امید اور یقین کی ضرورت ہے وہ ان میں نہیں رہی خدا تعالیٰ نے اس ولولہ اور جوش کے پیدا کرنے کے لئے ان سے اعلیٰ روحانی انعامات کا وعدہ کیا تھا اور اس پر یقین رکھنے کے لئے قرآن کریم کے شروع میں ہی انہیں حکم دیا تھا۔ لیکن انہوں نے اس کی قدر نہ کی اور ان کی اہمیں پست ہو گئیں اور کوششیں سست ہو گئیں آج مسلمان تعلیم حاصل کرتے ہیں کیونکہ انہیں یقین ہے کہ ایم اے بی ایے ہو کر انہیں نوکریاں مل جائینگی۔ تجارت کرتے ہیں کیونکہ انہیں یقین ہے کہ اس سے مال ملے گا۔ زراعت کرتے ہیں کیونکہ انہیں یقین ہے کہ اس غلہ اور پھل حاصل ہو گا۔ لیکن نماز اور روزہ اور حج میں وہ جوش نہیں جو اُمید سے پُر دل کا نتیجہ ہوتا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان امور کا بجالانا صرف فرض کی ادائیگی ہے اس کے رُوحانی نتائج کوئی پیدا نہ ہونگے۔
کس قدر حسرت کا مقام ہے کہ مسلمانو ںمیں سے جس نے اس دروازہ کو کھلا بتایا۔ مسلمانوں نے اس پر کفر کا فتویٰ لگا یا انہوں نے کہا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرنے والا ہے کیونکہ وہ آپؐ کے بعد وحی کا دروازہ کھلا بتاتا ہے اور یہ نہ سمجھا کہ وحی کیا ہے؟ وحی کے معنے ہیں خدا تعالیٰ کے تازہ کلام کا سننا اور جو شخص خدا تعالیٰ کے تازہ کلام کو سنے گا ظاہر ہے کہ اس کا دل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں ترقی کرے گا اور آپؐ پر اس کا ایمان بڑھے گا نہ یہ کہ اس کے برعکس ہو گا۔ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرے وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دُور چلا جائے نعوذ باللہ من ذالک۔
خلاصہ کلام یہ کہ آخرۃ پر یقین کی تعلیم مسلمانوں کے حوصلے بڑھانے اور روحانی میدان میں ان کی کوششوں کو تیز کرنے کے لئے تھی اور جو مسلمان بھی آخرۃ پر یقین رکھے گا وہ اس کے حصول کے لئے اسی طرح کوشش کرے گا جس طرح صحابہ کرام نے کی اور سید عبدالقادر جیلانی ؒ اور محی الدین ابن عربی وغیر ہم نے کی۔
بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ وحی مذکر ہے اور آخرۃ مؤنث کا صیغہ ہے پھر اس سے وحی کی طرف کس طرح اشارہ ہوا۔ اس کا جواب یہ ہے کہاس جگہ وحی کا لفظ نہیں مَا اُنْزِلَ کے الفاظ ہیں اور ان کی تغیر کسی ہم معنے لفظ سے کی جا سکتی ہے قرآن کریم میں مَا اُنْزِلَ کے لفظ سے بھی۔ چنانچہ سورۂ احزاب میں ہے اَلَّذِیْنَ یُبَلِّغُوْنَ رِسَالٰتِ اللّٰہِ وَیَخْشَوْنَہٗ وَلَا یَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلَّا اللّٰہ (ع ۵) یعنی وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی وحی لوگوں تک پہنچاتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے غرض رسالت کا لفظ بھی وحی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور یہ لفظ مونث ہے پس آخرت کے معنے الرِّسَالَۃُ الْاٰخِرۃُ کے ہیں اور رسالۃ کے لفظ کی رعایت سے اخرۃ کا لفظ مونث آیا ہے یاد رہے کہ *** میں بھی وحی کے معنے رسالت کے آتے ہیں۔ (تاج العروس)
اس جگہ یہ امر بھی نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ اوپر کی دونو آیتو ںکی ابتدا یُؤْمِنُوْنَ کے الفاظ سے ہوئی ہے اور بعد میں دو امور دونوں آیتوں میں بیان ہوئے ہیں اس سے استدلال ہوتا ہے کہ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ کے تابع اقامۃ الصَّلٰوۃ اور انفاق مارَزَقَ اللہ ہیں اور یُؤْمِنُوْنَ بِمَا اُنْزِلَ اِلیٰ مُحمدٍؐ کے تابع بِمَا اُنْزِلَ مِنْ قِبْلِہٖ پر ایمان اور اخرۃ پر یقین ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس زمانہ میں قرآن کریم ہی کے ذریعہ سے اس سے پہلے کی وحیوں پر ایمان اور آحرۃ پر یقین پیدا ہو سکتا ہے کیونکہ پہلے انبیاء کے حالات ایسے مشتبہ کر دئے گئی ہیں کہ قرآن کریم کی روشنی میں ہی ان کی قدر اور صداقت معلوم ہو سکتی ہے اور آئندہ وحی کے نزول کے متعلق بھی قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق ہی یقین ہو سکتا ہے کیونکہ اس کے سوالوں قدرادیان ہیں سب نے وحی کا دروازہ بند کر رکھا ہے اور کوئی مذہب اس امر کا معی نہیں کہ اسے مانکر خدا تعالیٰ کی وحی اب بھی بندہ پر نازل ہو سکتی ہے۔







۶؎ حل لغات
عَلیٰ۔ علیٰ حرف جر ہے اور اس کے نو معنے ہیں جن میں سے ایک معنے استعلاء کے ہیں یعنی غالب ہونے یا اوپر آ جانے کے (مغنی)
ھُدًی۔ کے لئے دیکھو سورۃ فاتحہ حل لغات ۷؎ و سورۂ بقرہ حل لغات ۳؎
رَبّھمْ:۔ رَبّ کے معنوں کے لئے دیکھو سورۃ فاتحہ حل لغات ۳؎
اَلْمُفْلِحُوْنَ:۔ اَفْلَحْ سے اسم فاعل مُفْلِحٌ آتا ہے اور مُفْلِحُوْنَ اس سے جمع کا صیغہ ہے اَفْلَحَ الرَّجُلُ کے معنی ہیں فَارَوَظَفِرَ بِمَا طَلَبَ یعنی اپنے اردادے میں کامیاب ہو گیا اور مقصود کو پا لیا۔ اَفْلَحَ زَیْدٌ۔ نَجَعَ فِی سَعْیِہٖ وَاَصَابَ فِیْ عَمَلِہِ۔ زید نے اپنی کوشش کے پھل کو پا لیا اور اس کی محنت بار آور ہوئی۔ (اقرب) اَلْفَلَاحُ اَلظَّفَرُ وَاِدْرَاکُ بُغْیَۃٍ۔ فلاع کے معنے کسی کام میں کامیابی اور مقصود کو پالینے کے ہیں (مفردات) تاج العروس میں ہے یُقَالُ لِکُلِّ مَنْ اَصَابَ خَیْرًا۔ مُفْلِحٌ۔ ہر اس شخص جو کسی دنیوی یا دینی بھلائی کو حاصل کر مُفْلح کہتے ہیں اور فلاں ایسی کامیابی کو کہتے ہیں جس پر دوسرے رشک کریں۔ اَئمہ عرب کا اس پر اتفاق ہے کہ عربی زبان میں فلاح کے لفظ سے بڑھ کر دینی اور دنیوی دونوں بھلائیوں کو شامل رکھنے والا لفظ اور کوئی نہیں۔ پس مُفْلِحُوْنَ کے معنے ہونگے اپنے مطالب میں کامیاب ہونے اور اپنے مقصود کو حاصل کر لینے والے۔
تفسیر۔ اس آیت میں اس قسم کے متقی کا انمام بتایا ہے جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے پہلے تو یہ بتایا تھا کہ قرآن کریم اس قسم کے متقی کو ہدایت کے اعلیٰ مقامات تک پہنچاتا ہے اس آیت میں اس ہدایت کی نوعیت کو ظاہر کے لئے فرماتا ہے کہ اوپر کے بیان کردہ شرائط کے ماتحت جو متقی ہوں ’’وہ اپنے رب کی ہدایت پر ہوتے ہیں۔‘‘
تفصیل اس مضمون کی یہ ہے کہ ایک تو اس آیت میں مِنْ رَّبِّھِمْ کے الفاظ استعمال کر کے یہ بتایا ہے کہ خدا تعالیٰ چونکہ رب ہے اور رب اسے کہتے ہیں جو بتدریج ترقی کی طرف لے جائے اس لئے جو شخص خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرے اس کا قدم بتدریج آگے کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے دوسرے رب کو ھُمْ کی طرف مضاف کر کے یہ بتایا ہے کہ خدا تعالیٰ چونکہ ان کا رب ہے اس لئے اصل منشاء اس کا یہ ہے کہ لوگ ہدایت پائیں نہ یہ کہ گمراہ ہوں پس جو شخص ہدایت کی طرف توجہ کرے اسے ضرور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کی طرف توجہ کرے اسے ضرور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کے سامان میس رہوتے ہیں۔ تیسرے عَلیٰ ھُدًی کہہ کر اس طرف اشارہ کیا ہے کہ گویا ایسے متقیوں کے لئے ہدایت ایک سواری کی طرح ہو جاتی ہے جس کی پیٹھ پر وہ سوار ہوتے ہیں اور یہ سواری ان کے رب کی طرف سے آتی ہے اور جب کسی کی طرف سے سواری آئے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اس شخص کو ملاقات کے لئے بلایا گیا ہے۔ پس اس عبادت سے یہ بتایا گیا ہے کہ یہ ہدایت انہیں اللہ تعالیٰ سے مل جاتے ہیں۔
ہدایت کے لئے سواری کا محاورہ کوئی ذوقی لطیفہ نہیں بلکہ عربی میں اس قسم کا محاورہ عام مستعمل ہے چنانچہ عرب لوگ کہتے ہیں جَعَلَ الْغَوَایَۃَ مَرْکَبًا فلا ںشخص نے تو گمراہی کو اپنی سواری بنا لیا ہے یعنی وہ جس طرف رُخ کرتا ہے گمراہی کی راہ سے کرتا ہے اسی طرح کہتے اِمْتَطَی الْجَھْلَ فلاں شخص جہالت پر سوار ہو گیا ہے اسی محاوہر کے مقابل پر قرآن کہتا ہے کہ اوپر کی صفات والے متقیوں کی سواری ہدایت ہو جاتی ہے یعنی وہ ہر کام خدا تعالیٰ کی ہدایت کے ماتحت کرتے ہیں جہالت اور گمراہی سے ان کے افعال پاک ہو جاتے ہیں او رایسا شخص جو ہر وقت ہدایت پر رہے وہی ہو سکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی اور الہام سے ہدایت ملتی رہے ورنہ جو شخص محفل عقل سے کام لیتا ہے وہ بسا اوقات غلطی میں پڑ جاتا ہے۔ عَلیٰ ھُدًی فرما کر اس طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف جانے کا عمل ان کے لئے آسان ہو جاتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والی ہدایت سواری کی طرح ان کے سفر کو ہلکا کر دیتی ہے۔
عَلیٰ ھُدًی میں جو ھُدًی پر تنوین ہے یہ تعظیم کے لئے ہے یعنی یہ ہدایت بہت بڑا مرتبہ رکھتی ہے۔
وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔ مُفْلِحُون کے معنے حل لغات میں بتائے جا چکے ہیں کہ اپنی مُراد کو پالینے کے ہوتے ہیں پس اس جملہ کے یہ معنے ہوئے کہ یہ لوگ اپنی مراد کو پا لیتے ہیں اور مومن کی مراد اپنے رب کا قرب اور اس سے وصال ہوتا ہے پس اس جملہ میں پہلے جملہ کے مضمون کا انجام بتایا ہے کہ ایسے متیقی ہدایت کی سواری پر چڑھ کر آخر خدا تعالیٰ تک پہنچ جاتے ہیں اور اپنی مراد کو پا لیتے ہیں۔
بعض لوگ اس جگہ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ہم تو دیکھتے ہیں کہ کئی خدا تعالیٰ کے مقرب اور اس زندگی میں تکلیفیں اٹھاتے ہیں اور بعض مارے جاتے ہیں تو پھر کیونکر کہا جا سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہدایت یافتہ لوگ ضرور کامیاب ہوتے اس کا جواب یہ ہے کہ مُفْلِح کے معنے اپنی مراد پا لینے کے ہیں نہ کہ دنیوی ترقیات یا جسمانی راحت کے۔ اس میں شک نہیں کہ بالعموم خدا تعالیٰ کے مقربوں کو دنیوی کامیابی بھی ہوتی ہے۔ مگر وہ ایک ضمنی شے ہے مقصود نہیں ہے خدا رسیدہ لوگوں کی مُراد تو خدا تعالیٰ کا قُرب اور اس کی بھیجی ہوئی سچائی کی اشاعت ہے۔ سو اس میں کبھی کوئی خدا رسیدہ ناکام نہیں ہوا۔ مسیح علیہ السلام کو یہود نے پھانسی پر تو لٹکا دیا مگر کیا وہ مسیح کے مشن کو ناکام کر سکے؟ اپنے مقصد میں تو مسیح علیہ السلام ہی کامیاب ہوئے۔ حضرت امام حسین یزید کے مقابلہ پر شہید ہوئے مگر کیا یزید کا نام بھی اب کوئی لیتا ہے۔ جس مقصد کے لئے امام حسین کھڑے ہوئے آخر وہی کامیاب ہوا اور دنیا نے اسلامی نظام کی اسی تشریح کو قبول کیا جس کے لئے حضرت امام حسینؓ کھڑے ہوئے تھے۔ یزید کے مقصد کی تو آج ایک مسلمان بھی تائید نہیں کرتا۔ مُفْلِحْ کے لفظ سے مراد کو پا لینے کا وعدہ ہے نہ یہ کہ وہ اپنے دشمن کے ہاتھوں ہلاک نہیں ہو سکتے عاجل طور پر وہ ہلاک بھی ہو جائیں تب بھی فتح آخر انہی کے مقصد کو حاصل ہوتی ہے اگر حضرت امام حسینؓ کربلا کے میدان میں جان نہ دیتے تو مسلمانوں کو شاید اسلامی نظام کی اہمیت کا اس قدر احساس نہ ہوتا جس قدر کہ اُن کی شہادت کی وجہ سے ہوا۔ اس شہادت نے مسلمانوں کے دلوں میں اسلام کی تعلیم کے احیاء کے لئے گویا ایک آگ لگا دی اور اسلام کے علماء نے اس تعلیم کو ہمیشہ کیلئے روشن کر دیا۔
اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ میں جو دعا بندہ سے منگوائی گئی تھی وہ قرآن کریم کی مدد سے پوری ہو جاتی ہے او راس کے بتائے ہوئے تقویٰ کے طریق پر چل کر انسان خدا تعالیٰ کو حقیقتاً پا لیتا ہے صرف دعا تک ہی اس کی کوشش ختم نہیں ہو جاتی۔




۷؎ حل لغات۔
کَفَرُوْا:۔ کَفَرَ سے جمع کا صیغہ ہے۔ اور کَفَرَ الرَّجُلُ (یَکْفُرُ کُفْرًا) کے معنے ہیں ضِدُّ اٰمَنَ کسی چیز کا انکار کیا۔ کَفَرَ نِعْمَۃَ اللّٰہِ وَبِنِعْمَتِہ جَحَدَھَا و سَتَرَھَا۔ اللہ کی نعمتوں کا انکار کیا اور نا شکری کی (اقرب) اَلْکُفْرُ فِی اللُّغَۃِ سَتْرُا لشَّیْیِٔ۔ کفر کے لغوی معنے کسی چیر کو ڈھانپنے کے ہیں۔ وَکُفْرٌ بِنِعْمَۃٍ وَکُفْرَا نُھَا سَتْرُ ھَا بِتَرْکَ اَدَائِ الشُّکْرِ۔ او رکفر ان نعمت کے معنے ہیں نعمت کا شکر ادا نہ کیا۔ وَلَمَّا کَانَ الْکُفْرُاَنْ یَقْتَضِییَ حُجَوْدَ النِّعْمَۃِ مَارَیُسْتَعْمَلُ فِی الْجُحُوْدِ۔ اور کفر انِ نعمت میں نعمت کا شکریہ ادا نہ کرنا ایک طر پر اس نعمت کا انکار تھا اس لئے کفر کا لفظ صرف انکار کے معنے میں مستعمل ہونے لگا وَالْکَافِرْ عَلَی الِاْ طْلَاقِ مُتَعارِفٌ فِیْمَنْ یَجْحَدُ الْوَاحْدَ نِیَّۃَ اَوِ النُّبُوُّۃَ اَوِ الشَّرِیْعَۃَ اَوْ ثَلَاثَھَا اور کافر لفظ جب اکیلا استعمال ہو تو اس کے معروف معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا آنحضرتؐ کی نبوۃ اور شریعت یا ان تینوں کا منکر ہو (مفردات) پس کَفَرُوْا کے معنے ہونگے جنہوں نے انکار کیا۔ کفر کیا۔ حق پوشی کی۔ یا اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا یا آنحضرت صلعم کی نبوت کا یا شریعت کا یا ان تینوں کا انکار کیا۔
ئَ اَنْذَرْتَھُمْ۔ أ ھمزہ ہے جو استفہام کے معنے بھی دیتا ہے یعنی سوال کے۔ اور کبھی ان معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے کہ فعل پر آ کر اُسے مصدر کے معنے دیدیتا ہے اس وقت اس کے معنو ں میں استفہام کا مفہوم باقی نہیں رہتا۔
اَنْذَرْتَھُمْ: اَنْذَرْتَ۔ اَنْذَرَ سے مفرد مخاطب کا صیغہ ہے اور اس کا مصدر انذار ہے۔ کہتے ہیں اَنْذَرَہٗ بِالْاَمْرِ: اَعْلَمَہٗ وَحَذَّرَہٗ مِنْ عَوَاقِبِہٖ قَبْلَ حَلُولِہٖ یعنی کسی امر کی حقیقت سے اُسے آگاہ کیا۔ اور اس امرکے نتائج ظاہر ہونے سے پہلے اُسے ہوشیار کر دیا۔ نیز کہتے ہیں۔ اَنْذَرَہٗ: خَوَّفَہٗ فِیْ اِبْلَاغِہِ یُقَالُ اَنْذَرْتَ الْقَوْمَ سَیْرَ العَدُوِّ اِلَیْھِمْ فَنَذَرُوْا یعنی اَنْذَرَہٗ کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ خبر پہنچاتے ہوئے خوب ہوشیار کیا۔ چنانچہ جب کہتے ہیں اَنْذَرْتَ الْقَوْمَ سَیْرَ الْعَدُدِّ تو اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ میں نے قوم کو دشمن کی پیش قدمی سے خوب ہوشیار کیا اس کا فعل لازم یا مطادع نَذَرَ ہے۔ جس کے معنے ہیں وُہ ہوشیار ہو گیا (اقرب)
یُؤْمِنُوْنَ: کے لئے دیکھو حل لعات ۴؎
تفسیر۔ پہلی آیات میں ان لوگوں کا حال بتایا تھا۔ جو قرآن کریم پر عمل کریں گے۔ اور بتایا تھا کہ وہ لوگ خدا تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کر لیں گے اور ادنیٰ ہدایت سے اعلیٰ ہدایت کی طرف بڑھتے چلے جائیں گے حتٰی کہ ان کا تعلق ہدایت سے دائمی ہو جائے گا اور وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص روشنی حال کر کے اپنے روحانی سفر کو کامیابی کے طرف سے خاص روشنی حاصل کر کے اپنے روحانی سفر کو کامیابی کے ساتھ طے کر لیں گے اس کے بعد اس آیت میں ان لوگوں کا ذکر فرماتا ہے جو قرآن کریم کی تعلیم سنکر اس سے اعراض کرتے ہیں اور اس پر سنجیدگی سے غور نہیں کرتے بلکہ اس کے انکار پر باوجود ہر قسم کے دلائل مہیا ہونے کے مصر ہوتے ہیں۔ ان کی نسبت فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو باوجود دلائل کے مہیا ہو جانے کے صداقت کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں انہیں ایمان نصیب نہیں ہوتا کیونکہ ایمان اُسی کو نصیب ہو سکتا ہے کہ جو دلائل و براہین سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے (دیکھو یونس ع آیت ۳۳۔ الاعراف ع ۳ آیت ۳۰ النحل ع ۵ آیت ۳۷۔ یٰس عٰ آیت ۸ تا ۱۱۔ ان آیات میں بھی اسی آیت کے مضمون کی تشریح ہے)
اس آیت سے یہ مراد نہیں کہ کفار میں سے آئندہ کوئی ایمان نہ لائے گا کیونکہ واقعات اس امر پر شاہد ہیں کہ اس آیت کے بعد کثرت سے کفار ایمان لائے بلکہ اس آیت کے بعد سورۂ نصر نازل ہوئی جس میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے اِذَا جَائَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَ رَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَا جًا یعنی جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص نصرت اور فتح آئے گی اور تو دیکھے گا کہ لوگ دین الٰہی میں فوج در فوج داخل ہوں گے۔ پس جبکہ سورۂ بقرہ کی اس آیت کے نزول کے کئی سال بعد قرآن کریم میں فوج در فوج لوگوں کے اسلام میں داخل ہونے کی خبر دی گئی ہے تو اس آیت کے یہ معنے کسی طرح درست نہیں ہو سکتے کہ اس میں کفار کے مسلمان نہ ہونے کی خبر دی گئی ہے۔
یہ شبہ کہ شاید اس آیت میں اس امر کا ذکر ہے کہ آئندہ کوئی کافر ایمان نہ لائے گا اس آیت کے معنوں پر غور نہ کرنے سے پیدا ہوا ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اس آیت سے کھینچ تان کر بھی یہ معنے نہیں نکالے جا سکتے کہ کافر ایمان نہیں لاتے۔ اس آیت میں تو یہ ذکر ہے کہ جن کفار کے لئے ڈرانا یا نہ ڈرانا برابر ہو وہ ایمان نہیں لاتے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ نہ رہر کافر ایسا ہوتا ہے کہ اس کے لئے ڈرانا یا نہ ڈرانا برارب ہو اور نہ ہر کافر ہدایت سے محروم ہوتاہے۔
کافر منکر کا نام ہے اور جب ایسے لوگوں کے سامنے صداقت آئے گی جو اس سے واقف نہیں اور اس کے دلائل ابھی ان کے ذہن نشین نہیں ہوئے تو وہ اس وقت تک اس کا انکار کرنے پر مجبور ہوں گے۔ لیکن ان میں سے ہر شخص وہ نہ ہو گا جو باوجود صداقت کے روشن ہو جانے کے اس منکر ہو گا اور نہ ہر شخص ایسا ہو گا جس کی دماعی قابلیت کے لحاظ سے پہلے ہی دن اس پر صداقت روشن ہو سکے گی۔ پس ہر ایسا شخص اس آیت کے مصداقوں میں سے نہ ہو گا۔ اس کا مصداق وہی ہو گا جو باوجود صداقت کھل جانے کے اس کا انکار کرے گا یا اس کوشش میں لگا رہے گا کہ مجھ پر صداقت کھلے ہی نہ۔ اور ظاہر ہے کہ ان دونوں صفات والا شخص جب تک اپنی اس حالت کو نہ بدلے ایمان نہیں لا سکتا۔
اصل بات یہ ہے کہ اس آیت میں یہ ذکر نہیں کہ کفار ہدایت نہیں پائیں گے بلکہ یہ ذکر ہے کہ یہ قرآن کافروں کو ہدایت دے گا سوائے اُن کے جو صداقت کے کھل جانے کے باوجود اس کا انکار کریں یا صداقت کے کھلنے کے راستوں کو اپنے اوپر بند کرنے کی کوشش میں لگے رہیں۔
یہ شبہ جو اوپر بیان ہوا اس بات سے پیدا ہوا ہے کہ سَوَٓائٌ عَلَیْھِمْ ئَ اَنْذَرَ تَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْ ھُمْ کو ماضی میں سمجھ لیا گیا ہے حالانکہ اس کے معنے ماضی کے ہو ہی نہیں سکتے۔ کیونکہ اگر ان الفاظ کے معنے ماضی کے کئے جائیں تو ترجمہ یہ ہوتا ہے کہ اُن کے لئے برابر ہے کیا تو نے انہیں ڈرایا یا نہ ڈرایا۔ ایک ادنیٰ تاتل سے یہ امر سمجھ میں آ سکتا ہے کہ یہ فقرہ بے معنے ہے۔ اس صورت میں تو استفہام کی کوئی ضرورت نہ تھی یہ کہنا چاہیئے تھا کہ اُن کے لئے یہ امر یکساں رہا ہے کہ تو نے انہیں ڈرایا یا انہیں نہ ڈرایا۔ استفہام کا طریق اختیار کرنا ظاہر کرتا ہے کہ یہاںکسی واقعہ کا ذکر مراد نہیں بلکہ بعض کفار کی حالت کا اظہار مراد ہے۔ علاوہ ازیں جیسا کہ بتایا جا چکا ہے یہ معنے قرآن کریم کی دوسری آیات کے بھی خلاف ہیں۔
ان غلط معنوں کے کرنے والوں کو یہ بات معلوم نہ تھی کہ عربی زبان میں ایسے موقعہ پر ہمزہ استفہام کے لئے نہیں بلکہ مصدر کے مشابہ معنے دینے کے لئے آتا ہے اور سَوَٓائٌ عَلَیْھِمْ ئَ اَنْذَرْ تَھُمْ اَمْر لَمْ تُنْذِرْ ھُمْ کے معنے یہ ہیں کہ تیرا ان کو ڈرانا یا نہ ڈرانا برابر رہا ہے۔ پس یہ جملہ معترضہ ہے اور تاکید کے لئے یا پہلے مضمون سے جو غلطی لگتی ہو اُسے دُور کرنے کے لئے آتا ہے اور حال اور صفت کے معنوں کے مشابہ معنے دیتا ہے۔ اور مراد یہ ہے کہ وہ کافر جن کا حال یہ ہے یا جن کی یہ صفت ہے کہ تیرا اُن کو ڈرانا یا نہ ڈرانا اُنکے لوے برابر ہے وہ ایمان نہ لائیں گے۔ یعنی جو کافر دلائل پر کان ہی نہیں دھرتے وہ ہدایت نہیں پا سکیں گے۔ چنانچہ امام سیبویہ جونحو کے سب سے بڑے عالم ہیں لکھتے ہیں کہ اس مقام پر استفہام یعنی سوال کے معنے بالکل نظر اندار کر دئے جاتے ہیں۔ (کشاف زیر آیت اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُ وْاسَوَٓائٌ عَلَیْہِمْ) اقرب الموار و جو لغت کی مشہو رکتاب ہے اس میں لکھا ہے وَتَخْرُجُ الْھَمْزَۃُ عَنْ حَقیْقَۃِ الْاِ سْتَفْھَامِ فَتَرِدُ لِثَمَانِیۃِ مَعَانٍ یعنی کبھی ہمزہ استفہام کے معنوں سے بالکل خالی ہوتا ہے اور اس صورت میں اس کے آٹھ معنے عربی زبان میں ہوتے ہیں۔ پھر لکھا ہے اَلاَوَّلَ التَّسْوِیَۃُ نَحوَمَا اُبَالِی اَقْمْتَ اَمرْ قَعَدْتَ وَضَابِطَتُہَا اَنَّھَا تَّدْخُلُ عَلیٰ جُمْلَۃٍ یَصِحُ اِسْتِبْدَ الُھَا بِالْمَصْدَ رِوَ ھِیَ تَقَعُ بَعْدَ سَوَائٍ وَمَا اُبَالیِ وَلَیْتَ شِعْرِی وَمَا شَا کَلَھُنَّ۔ یعنی پہلے معنے اس کے برابر ہونے کے ہوتے ہیں جیسے کہ یہ فقرہ کہ مجھے تیرے کھڑے رہنے یا بیٹھ جانے کی پرواہ نہیں۔ او راس کا قاعدہ یہ ہے کہ یہ ہے کہ یہ ایسے جملہ پر داخل ہوتا ہے جس کی جگہ مصدر کا رکھناجائز ہوتا ہے اور اس موقعہ پر یہ سواء کے لفظ کے بعد استعمال ہوتا ہے یا مَا اُبالی یا لَیْتَ شعری یا ان کے ہم معنی دوسرے الفاظ کے بعد استعمال ہوتا ہے۔ اس آیت میں بھی یہ سواء کے بعد استعمال ہوا ہے۔ پس اس کے معنے مصدر کے معنوں سے صحیح طو رپر ادا ہوتے ہیں اور سوال کے معنے اس میں ہر گر جائز نہیں بلکہ صرف یہ معنے ہیں کہ سَوَائٌ اِنْذَارُکَ لَھُمْ وَعَدَمُ اِنْذَارُکَ لَھُم یعنی جن کافروں کے لئے تیرا ڈرانا یا نہ ڈرانا برابر ہے وہ ایمان نہ لائیں گے۔
جو معنے میں نے اوپر بیان کئے ہیں ان کے رُو سے لَایُؤْمِنُوْنَ اِنَّ کی خبر ہے یعنی ایسے کافر ایمان نہیں لائیں گے۔ لیکن بعض مفسرین نے سَوَائٌ صَلَیْھِمْ کو پہلی خبر اور لَایُؤْمِنُوْنَ کو دوسری خبر بتایا ہے مگر میرے نزدیک گونحواً یہ درست ہے لیکن معناً درست نہیں۔ کیونکہ اس صورت میں معنے یہ ہوتے ہیں کہ کافروں پر تیرا ڈرانا یا نہ ڈرانا برابر ہے اور وہ ایمان نہ لائیں گے۔ اور جیسا کہ میں بتا چکا ہوں یہ معنے سورہ نعرے مضمون کے خلاف ہیں جس میں یہ وعدہ دیا گیا ہے کہ کفار … کے ساتھ ایمان لائیں گے۔
مذکورہ بالا تشریح کے مطابق اس آیت کے معنے مندرجہ ذیل طریقوں میں سے کسی ایک طریق پر کئے جا سکتے ہیں (۱) کافر در آنحالیکہ تیرا ڈرانا یا نہ ڈرانا ان کے لئے برابر ہے ایمان نہیں لائیں گے یعنی جب تک یہ اپنے اس عناد ک دُور نہ کریں وہ ہدایت نہیں پا سکتے (۲) وہ کافر جن کے لئے تیرا ڈرانا یا نہ ڈرانا برابر ہے ایمان نہیں لائیں گے یعنی ایسے لو جو انذار کا محل نہیں ہیں انہیں خدا تعالیٰ کا خوف دلانے کا فائدہ نہیں وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ یعنی کافر دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جو کوئی نہ کوئی مذہب رکھتے ہیں خدا تعالیٰ کو مانتے ہیں‘ حشر و نشر کو مانتے ہیں اُن کے سامنے جب صداقت پیش کی جائے اور خشیت اللہ کی طرف توجہ دلائی جائے تو ان کے دلوں میں ایک قسم کا تقویٰ پیدا ہو جاتا ہے اور وہ غور کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اور اگر صداقت کھل جائے تو اُسے مان بھی لیتے ہیں لیکن ایسے کافر نہ خدا کو مانیں اور نہ حشر و نشر کو انہیں خشیت اللہ کی طرف توجہ دلانے کا فائدہ نہیں۔ وہ تو خدا تعالیٰ کے نام پر بھی ہنسی اڑاتے ہیں۔ اُن کے لئے تو پہلے خدا پر ایمان اور حشر و نشر پر۔ ایمان لانے کے دلائل بیان کرنے چاہئیں تب جا کر وہ نبی کی لائی ہوئی صداقت کی طرف توجہ کرینگے کیونکہ اللہ تعالیٰ پر ایمان کے بعد ہی خشیت پیدا ہوتی ہے اور تبھی خشیت اللہ کی طرف توجہ دلانا ایمان کا موجب ہو سکتا ہے (۳) تیسرے معنے اس آیت کے یہ ہو سکتے ہیں کہ وہ کافر جن کیلئے تیرا ڈرنا یا نہ ڈرانا برابر ہے یعنی وہ سننا ہی نہیں چاہتے تو انہیں وعظ کرے یا نہ کرے اُن کے لئے یکساں ہے کیونکہ انہوں نے تو اسے سننا ہی نہیں ایسے لوگ بھی ایمان نہیں لا سکتے اور ایمان نہیں لائیں گے۔
بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اس سے کم سے کم یہ تو معلوم ہوا کہ ایک طبقہ انسانوں کا ایسا ہے جو ایمان سے محروم ہے لیکن یہ اعتراض غلط فہمی پر مبنی ہے کیونکہ کسی حالت کا نتیجہ بتانے کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ وہ حالت بھی نہیں بدل سکتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جس شخص کے لئے ڈرانا یا نہ ڈرانا برارب ہو وہ ایمان نہیں لا سکتا لیکن اس حالت کا ہمیشہ رہنا تو ضروری نہیں۔ بڑے بڑے ضدی شخص کبھی اپنی ضد کو چھوڑ دیتے ہیں اور اس وقت اُن کے لئے ہدایت کا رستہ کھل جاتا ہے۔ خود حضرت عمرؓ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دوسرے خلیفہ ہوئے اُن کے متعلق تاریخو ںمیں آتا ہے کہ قرآن کا خود سننا تو الگ رہا وہ دوسروں کو بھی سننے نہ دیتے تھے۔ لیکن ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ قرآن کریم سننے پر اپنے بہنوئی کو مارنے لگے او ربہن درمیان میں آ گئی اور اُسے چوٹ آ گئی چونکہ شریف آدمی تھے عور ت کو زخمی دیکھ کر مذامت پیدا ہوئی اور اس ندامت کی وجہ سے کہا کہ اچھا مجھے دکھائو تم کیا پڑھ رہے تھے۔ اس کے بعد قرآن کریم کا کچھ حصہ پڑھا اور فوراً ایمان لے آئے (سیرت ابن ہشام) پس یہ حالت ایمان سے بے شک محروم کر دیتی ہے مگر یہ حالت بدل بھی جاتی ہے اور اس وقت انسان کے لئے ایمان نصیب ہونے کا راستہ کھل جاتا ہے۔







۸؎ حل لغات۔
خَتَمَ:۔خَتَمَ خَتْماً وَخِتَامًا کے معنے ہیں طَبَعَہٗ وَوَضَعَ عَلَیْہِ الْخَاتَمَ مہر لگائی۔ خَتَمَ الصَکَّ وَغَیْرَہٗ: وَضَعَ عَلَیْہِ نَقْشَ خَاتَمِہٖ حَتّٰی لَایَجْرِیَ عَلَیْہِ التَّزْوِیْرُ۔ کسی تحریر مہر لگا دی تاکہ جعلی ہونے کا امکان باقی نہ رہے (اقرب) کلیات ابی البقاء میں ہے خَتَمَ اللّٰہُ عَلیٰ قَلْبِہِ: جَعَلَہٗ حَیْثُ لَایَفْھَم شَیئًا وَّلَا یَخْرُجُ عَنْہُ شَیْئًا یعنی خَتَمَ اللّٰہُ عَلیٰ قَلْبِہٰ جب بولا جائے ت واس کے یہ معنے ہوں گے کہے اس کے دل کو ایسا بنا دیا کہ وہ کوئی بات نہیں سمجھ سکتا اور نہ اپنی بات سمجھا سکتا ہے۔ مفردات میں ہے اَلْخَتْمُ وَالطَّبْعُ عَلیٰ وَجْھَیْنِ مَصْدَرُ خَتَمْتُ وَطَبَعْتُ رَھُوَتَاثیْرُ الشَّیْ کَنَقْشِ الْخَاتَمِ والطَّابَعِ۔ کہ لفظ ختم اور طبع دو طرح استعمال ہوتا ہے (۱) مصدر معنوں میں یعنی کسی چیز پر کس چیز کا مہر کی طرح کا نقش کر دینا۔ وَالثَّانِی الْاَثَرُ الْحَاصِلُ عَن النَّقْشِ۔ (۲) اس نقش سے جو اثر حاصل ہوتا ہے یعنی جو مہر لگتی ہے اُس پر بھی ختم کا لفظ اطلاق پاتا ہے۔ وَیُتَجَوَّزُ بِذَ الِکَ تَارَۃً فِی الْاِ سْتِّیْثَاقِ مِنَ الشَّیْ ئِ وَالْمَنْعِ مِنْہُ اِعْتبَارًا بِمَایِحَصُلُ مِنَ الْمَنْعِ بِالْخَتْم عَلی الْکُتُبِ وَالْاَ تَوابِ او رکبھی کبھی کسی امر سے رُکنے کے مفہوم کو ادا کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور یہ معنے اس بات پر اعتبار کرتے ہوئے کئے گئے ہیں کہ جب کتابوں کو یا ابواب کو لکھنے کے بعد ان پر مہر کر دیتے ہیں تو گویا اب اُن کی تصنیف کو ختم کر دیا اور اس کے لکھنے سے رُک گئے (گویا کسی چیز کو ختم کرنے کے معنے مجازی ہیں) وَقَوْلُہٗ خَتَمَ اللّٰہُ عَلیٰ قُلُوْ بِھِمْ اِشَارَۃٌ اِلیٰ مَا اَجْرَی اللّٰہُ بِہِ الْعَادَۃَ اَنَّ الْالْسَانَ اِذَا تَنَاھٰی فِیْ اِعْتِقَادٍ بِاطِلٍ اَوِارْ تِکَابِ مَحْظُوْرٍ وَلَا یَکُوْنُ مِنْہُ تَلَفُّتٌ بِوَجْہٍ اِلَی الْحَقِّ یُوْرِثُہٗ ذَالِکَ ھَیْئَۃً تُمَرِّنُہُ عَلیٰ اسْتِحْسَانِ الْمَعَاصِیْ وَکَانَّمَا یُخْتَم بِذَالِکَ عَلیٰ قَلْبِہٖ۔ اور آیت خَتَمَ اللّٰہ عَلیٰ قُلُو بِھِم میں سے ختم کا لفظ بولنے سے اللہ تعالیٰ کے اس قانون کی طرف اشارہ ہے کہ جب انسان اعتقاد باطل یا ممنوع باتوں کے ارتکاب میں حد سے بڑھ جاات ہے او رحق کی طرف کی طرح بھی توجہ نہیں کرتا تو اس کا یہ طرز عمل اس کے اندر ایک ایسی حالت پیدا کر دیتا ہے جو گناہوں کے ارتکاب کو عمدہ سمجھتی ہے گویا اس کے دل پر اب مہر لگ گئی کہ نہ اُس پرحق کا اثر ہوتا ہے اور نہ اس کا دل حق کی طرف رجوع کرتا ہے (مفردات) نیز لکھا ہے اَلْخَتْمُ والطَّبْعُ وَاحِدٌ فِی اللُّغَتِوَ ھُوَ التَّغْطِیَۃُ عَلَی الشَّیْ ئِ وَالْاِ شْتِیْثَاقُ مِنْ اَنْ لَایَدْ خُلَہٗ شَیْئٌ۔ کہ لفظ ختم اور طبع لُغت میں دونوں ہم معنے ہیں اور اُن کے معنے یہ ہیں کہ کسی چیز پر پردہ ڈال دینا۔ اور اس کے اور دوسری اشیاء کے درمیان روک بنا دینا۔ اس طور پر کہ کوئی چیز اس تک نہ پہنچ جائے (تاج)
قُلُوْب: قلب کی جمع ہے اور اس کے معنے ہیں اَلْفُؤَادُ۔ دل۔ وَقَدْ یُطْلَقُ عَلَی الْعَقْلِ اور کبھی قلب کا لفظ عقل پر بھی بولا جاتا ہے (اقرب) وَیُعَبَّرُ بِالْقَلْبِ عَلَی الْمَعَانِی الَّتِیْ تَخْتَصُّ بِہٖ مِنَ الرُّوْحِ وَالْعِلْمِ وَالشُّجَاعَۃِ۔ اور لفظ قلب کے ذریعہ ان کیفیات کو بیان کیا جاتا ہے جو روح۔ علم اور شجاعت وغیرہ اقسام کی اس کے ساتھ مخصوص ہیں۔ وَجَائِزٌ فِی الْعَرَبِیَّۃِ اَنْ تَقُوْلَ مَالَکَ قَلْبٌ وَمَا قَلْبُکَٔ مَعَکَٔ تَقُوْلُ مَا عَقْلُکَٔ مَعَکَ۔ اور عربی زبان میں یہ جائز ہے کہ مَالَکَ قَلْبٌ اور مَا قَلْیُکَ مَعَکَ بول کر قلب سے مراد عقل لی جائے یعنی تجھے عقل نہیں نیز کہتے ہیں اَیْنَ ذَھَبَ قَلْبُکَ۔ اور مراد یہ ہوتی ہے کہ تیری عقل کہاں گئی اور مَنْ کَان لَہٗ قَلْبٌ کے تحت میں لکھا ہے اَیْ تَفَھُمٌ وَتَدَبُّرٌ یعنی قلب کے معنے سوچنے اور تدبر کے ہیں (لسان) پس خَتَمَ اللّٰہُ عَلیٰ قُلُوْ بِھِمْ کے معنے ہوں گے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کے دلو ںپر مہر لگا دی ہے یعنی ایسا بنا دیا ہے کہ نہ اُن کے دل کوئی بات سمجھتے ہیں نہ ان کی عقل میں سوچنے اور تدبر کا مادہ باقی رہا ہے۔
السَّمْعُ:۔ یہ سَمِعَ (یَسْمَعُ) کا مصدر ہے اور سَمِعَ الصَّوْتَ یَسْمَعُ سَمْعًا کے معنے ہیں اَدْرَکَہٗ بِحَاسَّۃِ الْاُذُنِ۔ آواز کو کان کس حس کے ساتھ معلوم کیا نیز السَّمْعُ کے معنے ہیں حِسُّ الْاُذُنِ۔ سنوانی۔ وَالْاُذُنُ۔ کان۔ وَمَا وَلَجَ فِیْھَا مِنْ شَیْ ئٍ تَسْمَعُہٗ اور جو آواز کان میں پڑے اس پر بھی سمع کا لفظ بولتے ہیں۔ الذِّکْرُ الْمَسْمُوْعُ سنی ہوئی بات۔ لفظ سمع واحد اور جمع دونوں طرح استعمال ہوتا ہے کیونکہ یہ دراصل مصدر ہے جو قلت اور کثرت کا احتمال رکھتا ہے اس کی جمع اَسْمَاع آتی ہے (اقرب) مفردات میں ہے السَّمْعُ قُوَّۃٌ فِی الْاُذُنِ بِہٖ یُدْرَکُ الْاَصْوَاتُ یعنی سمع کان کی ایک قوت (شنوائی) کا نام ہے جس کے ذریعہ سے انسان آواز کو معلوم کرتا ہے وَفِعْلُہٗ یُقَالُ لَہٗ السَّمعُ اَیْضًا۔ اور سننے کے فعل کا نام بھی سمع رکھا جاتا ہے وَبْعَبَّرُ تَارَۃً بِالسَّمْعِ عَنِ الْاُذُنِ اور کبھی لفظ سمع بول کر کان مراد ہوتا ہے وَتَارَۃً عَنْ فِعْلِہٖ کَاَ سْمَاعٍ اور کبھی لفظ سمع سے اس کا فعل مراد لیا جاتا ہے۔ جیسے اِنُّھُمْ عَنِ السَّمْعِ لِمَعْزُوْلُوْنَ کہ ان کو سننے کے فعل سے روک دیا گیا ہے وَتَارَۃً عَنِ الْفَہْمِ اور کبھی لفظ سمع سے مراد بات کا سمجھنا ہوتا ہے جیسے کہتے ہیں لَمْ تَسْمِعْ مَا قُلْتُ۔ کہ جو میں کہا تو نے نہیں سمجھا وَتَارَۃً عَنِ الطَّاعَۃِ۔ اور کبھی اس سے مراد اطاعت ہوتی ہے۔
اَلْاَبْصَارُ:۔ اَلبَصَرُ کی جمع ہے۔ اس کے معنے ہیں حَاسَّۃُ الرُّوْیَۃِ دیکھنے کی حس۔ اَلْعَیْنُ آنکھ اَلْعِلْم۔ علم (اقرب)
غِشَاوَۃٌ:۔ اَلْغِشَاوَۃُ کے معنے ہیں اَلْعِظَائُ : پردہ (اقرب) تاج میں ہے اَلْغِشَاوَۃُ مَایُغْشیٰ بِہِ الشَّیْئُ۔ کہ
اَلْعَذَابُ:۔ اَلْعَذَابُ کُلُّ مَاشَقَّ عَلَی الْاِنْسَانِ وَمَتَعَہٗ عَنْ مُرَادِہٖ۔ عذاب کے معنے ہیں ہر وہ چیز جو انسان پر شاق گذرے اور حصول مراد سے اُسے روک دے۔ وَفِی الْکُلِّیَاتِ کُلُّ عَذَابٍ فِی الْقُرْآنِ فَھُوَ التَّعْدِیْبُ اِلَّاوَ لْیَشْھَدْ عَذَالَھُمَا طَائِفَۃٌ فَاِنَّ الْمُرَادَ الضَّرْبُ : اور کلیات میں لکھا ہے کہ عذاب سے مراد قرآن مجید میں عذاب دینا ہوتا ہے سوائے وَ لْیَشْھَدْ عَذَالَھُمَا کی آیت کے۔ وہاں ظاہری سزا مدا ہے (اقرب) اَلْعَذَابُ ھُوَ الْاِیجاعُ الشَّدِیْدُ۔ عذاب کے معنے ہیں سخت تکلیف دینا۔ فَالتَّعْذِیْبُ فِی الْاَصْلِ ھُوَ حَمْلُ الْاِنْسَانِ اَنْ یَعْذبَ اَیْ یَجُوْعَ وَیَسْھَرَ۔ اگر مادہ کے لحاظ سے اُسے دیکھا جائے تو اس کے معنے ہیں کہ کسی کو بھکا اور بیدار رہنے پر آمادہ کرنا۔ کیونکہ عَذَبُ الَّرجُلُ کے معنے ہیں۔ اس نے کھانا پینا ترک کر دیا۔ وَقِیْلَ اَصْلُہٗ مِنَ الْعَذْبِ۔ فَعَدّبْتُہٗ اَیْ اَزَلْتُ عَذْبَ حَیٰوتہٖ۔ بعض نے کہا ہے کہ عذاب عَذْبٌ سے نکلا ہے۔ جس کے معنے میٹھے پانی کے ہیں۔ تَعْذِیب کے معنے اور عَذَّبَ کے معنے ہیں کہ اُسے زندگی کی حلاوت سے محروم کر دیا (مفردات) پس عَذَابَکے معنے ہوئے (۱) تکلیف (۲) ایسی چیز جو زندگی کی حلاوت سے محروم کر دے (۳) مقصود حیات سے محروم کر دے۔
تفسیر۔ اس آیت میں ان کفار کا انجام بتایا ہے کہ جن میں مذکورہ بالا آیات والی صفت پائی جاتی ہے نہ کہ ہر کافر کا۔
یہ طبعی قاعدہ ہے کہ جو عضو انسان استعمال نہیں کرتا وہ بے کار ہو جاتا ہے۔ بعض ہندو سادھو اپنا ہاتھ کھڑا رکھ کر سکھا دیتے ہیں۔ اسی طرح اگر آنکھ سے کام نہ لیا جائے تو بالآخر اس کی بینائی جاتی رہتی ہے۔ اور اگر کانوں سے کام نہ لیا جائے تو شنوائی مفقود ہو جاتی ہے۔ اور اگر زبان کو بند رکھا جائے تو گویائی جاتی رہتی ہے۔ یہی حال باطنی حسوں کا ہے ان سے بھی اگر کام نہ لیا جائے تو وہ بھی کچھ عرصہ کے بعد معطل ہو جاتی ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ چونکہ یہ کفار قلوب کی نظر سے کام نہیں لیتے رہے اس لئے ان کے قلوب کی بینائی جاتی رہی ہے اور وہ مردہ دل ہو گئے ہیں۔ اور چونکہ باوجود کان رکھنے کے وہ ہماری باتیں نہیں سنتے رہے اور باوجود آنکھیں رکھنے کے نشانات اور واقعات نہیں دیکھتے رہے اس لئے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دین کی طرف سے ان کی یہ حسیں بیکار ہو گئی ہیں۔ اگر وہ اپنی آنکھو ںسے کام لیتے اور جن کی باتیں سنتے اور ان کو سمجھتے تو اس عذاب میں مبتلا نہ ہوتے۔ چنانچہ دوزخیوں کی نسبت آتا ہے کہ وہ عذاب میں مبتلا ہو کر کہیں گے کہ لَوْ کُنَّا نَسْمَعُ اَوْنَعْقِلُ مَا کُنَّا فِٓیْ اَصْحٰبِ السَّعِیْر (الملک ع ۱) اگر ہم ان کی باتیں سنتے یا خود سمجھنے کی کوشش کرتے تو آج دوزخ والوں میں شامل نہ ہوتے۔
غرض اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تین لطیف باتوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور توجہ دلائی ہے کہ اگر غور کرو تو عنادی کا فرد ہی ہوتے ہیں جو دل، کان اور آنکھوں سے کام لینا چھوڑ دیتے ہیں۔ اور ہدایت کے یہی تین بڑے ذریعے ہیں اور ہر ایک بات پر غور انہی تین طریق سے ہو سکتا ہے۔ اول دل ہے۔ سب پہلا ہدایت کا ذریعہ یہی ہے جو شخص سوچنے کا عادی ہوتا ہے وہ بیسیوں صداقتوں کو پا لیتا ہے دوم کان ہیں اگر کسی میں زیادہ عقل اور سمجھ نہیں ہوتی کہ غور کر کے خود فیصلہ کر لے وہ کسی سے سن کر بات مان لیتا ہے۔ تیسرے آنکھیں ہیں۔ اگر کانوں سے سن کر ہدایت نہ پائے تو کم سے کم آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے کہ جو باتیں مجھ سے کہی جاتی ہیں اُن کا نتیجہ دنیا میں کیا پیدا ہو رہا ہے۔ اگر نتیجہ اچھا نکل رہا ہو تو وہ معلوم کر سکتا ہے کہ گو کانوں سے سن کر وہ باتیں بھلی معلوم نہیں ہوتیں مگر مشاہدہ نے ان کی تصدیق کر دی ہے لیکن جو بدبخت ان تینوں باتوں سے عاری ہو۔ وہ کبھی کوئی بات نہیں مان سکتا وہ ہمیشہ دکھ اٹھاتا ہے ۔ پس وہ انسان جو دنیا کی اشیاء پر غور کر کے خود صحیح نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتا وہ اگر نبیاء کے منہ سے نکلی ہوئی باتیں سنے تو اسے ہدایت مل سکتی ہے۔ اگر ان کو سن کر اس کا دل فیصلہ نہ کر سکے تو وہ خدا تعالیٰ کی قدرت کے جلوے اور نظارے دیکھ کر مان سکتا ہے کہ وہ کس کی تائید میں ہیں اور اگر وہ نہ خود سوچے اور نہ علم کی باتوں کو سنے اور نہ خدا تعالیٰ کے نشانات کو دیکھے تو اس کا انجام اس کے سوا کیا ہو گا کہ وہ دکھوں میں پڑ جائے۔
اللہ تعالیٰ نے اس جگہ ان لوگوں کو ان تینوں باتوں کی طرف متوجہ کیا ہے اور فرمایا ہے کہ ہم نے انہیں ایسے دل دئے تھے جو حق و باطل میں تمیز کر سکتے تھے۔ اگر یہ قوت فکریہ سے کام لیتے تو اسلامی صداقتوں کا چشمہ ان کے دلوں سے ہی پھوٹ پڑتا اور یہ اسلام کی دعوت کو سننے ہی اسے مان لیتے۔ اگر دلوں سے انہوں نے فاودہ نہ اٹھایا تھا۔ تو ان دلائل کو سنتے جو اسلام نے پیش کئے ہیں۔ اس طرح بھی ان کو ہدایت مل سکتی تھی۔ اگر کانو ںسے سن کر اسلام کی صداقت کا فیصلہ نہ کر سکے تھے تو یہ خدا تعالیٰ کے فعل کو ہی دیکھتے کہ خدا تعالیٰ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم سے کیا معاملہ کر رہا ہے۔ مگر انہوں نے یہ بھی نہ کیا۔ پس جب سب دروازے انہوں نے اپنے لئے خود بند کر لئے تو اب انہیں ہدایت نصیب ہو تو کیسے ہو۔ ان تینوں طاقتو ں کو استعمال نہ کرنے کی وجہ سے اب تو ان کی وہ قوتیں ہی ضائع ہو گئی ہیں۔
اس آیت کا یہ مطلب نہیں جیسا کہ مخالفین اسلام نے اس سے نتیجہ نکلا ہے کہ خدا تعالیٰ جبراً کفار کے دلو ںپر اور کانوں پر اور کانوں پر مہر لگا دیتا ہے او ران کی آنکھو ںپر پردے ڈال دیتا ہے یہ تو ظلم ہے اور قرآن کریم خدا تعالیٰ سے ظلم کی نفی فرماتا ہے جیسے کہ فرمایا اِنَّ اللّٰہَ لَایَظْلِمُ مِثقَالَ ذَرَّۃٍ (نساء ع ۶) یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ایک ذرّہ بھر بھی ظلم نہیں کرتا۔ اور فرمایا اِنَّ اللّٰہَ لَایَظْلِمُ النَّاسَ شَیْئًا وَّلٰکِنَّ النَّاسَ اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ (یونس ع ۵) یعنی اللہ تعالیٰ کی شان تو ایسی ہے کہ وہ لوگو ںپر کچھ بھی ظلم نہیں کرتا۔ ہاں لوگ اپنی جانوں پر آپ ہی ظلم کرتے ہیں۔
دوسرے اگر ان معنوں کو تسلیم کیا جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ خود بعض بندوں کے لئے کفر کو پسند کرتا ہے۔ حالانکہ قرآن کریم میں ہے وَلَایَرْضٰی لِعِبَادِہِ الْکُفْرَ (زمرع۱) کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لئے کفر کو ناپسند کرتا ہے۔ اور فرمایا وَکَرَّہَ اِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ (حجرات ع ۱) یعنے کفر اور خود سری اور نافرمانی سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو نفرت دلا دی ہے۔
تیسرے ان معنوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ جبر سے بعض لوگوں سے کفر کرواتا ہے۔ لیکن قرآن کریم اس مضمون کو بھی رد کرتا ہے چنانچہ فرماتا ہے فَمَنْ شَٓائَ فَلْیُؤْ مِنْ وَّمَنْ شَٓائَ فَلْیَکْفُرْ (کہف ع ۴) یعنی جو چاہے اللہ کی طرف سے نازل شدہ کلام پر ایمان لے آئے اور جو چاہے اس کا انکار کر دے۔ بلکہ قرآن کریم نے جبر کی نفی کرتے ہوئے بیسویں جگہ بتایا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے جبر ہوتا تو ایمان پرہوتا نہ کہ کفر پر۔ جیسے کہ فرمایا فَلَوْ شَآئَ لَھَدٰ کُمْ اَجْمَعِیْنَ (انعام ع ۱۸) کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو سب کو دین حق کی طرف ہدایت کرتا۔ قرآن کریم سے تو وضاحت سے یہ مراد ثابت ہے کہ ایمان لانا اور کفر اختیار کرنا بندو ںکا فعل ہے او ریہی وجہ ہے کہ کوئی مومن ہے تو کوئی کافر۔ جیسے کہ فرمایا فَمِنْھُمْ مَّنْ اٰمَنَ وَمِنْھُمْ مَّنْ کَفَر (بقرہ ع ۳۳) یعنی لوگوں میں سے بعض تو ایسے تھے جو ایمان لے آئے اور بعض ایسے تھے جنہوں نے انکار کر دیا۔ اور فرمایا مَنْ کَفَرَ فَعَلَیْہِ کُفْرُہٗ (روم ع ۵) جو کفر کرتا ہے۔ تو اُسی پر اس کے کفر کا وبال پڑے گا۔
اصل بات یہ ہے کہ جیسا کہ قرآن کریم سے ثابت ہے۔ یہ مہر اور پردہ انسان کے اپنے ہی اعمال کا نتیجہ ہے۔ جیسے فرمایا طَبَعَ اللّٰہُ عَلَیْھَا بِکُفْرِ ھِمْ (نساء ع ۲۲) کہ اللہ نے اُن کے کفر کی وجہ سے اُن کے دلوں پر مہر کر دی ہے۔ پھر فرمایا اٰمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا فَطُیِعَ عَلیٰ قُلُوْبِھِمْ (المنافقون ع ۱) یعنی اصل بات یہ ہے کہ اُن کے دلوں پر اُن ہی کے اعمال بد کے زنگ بیٹھ گئے ہیں۔
اگر کہا جائے کہ پھر کیا وجہ کہ اس آیت میں مہر لگانے کی نسبت خدا تعالیٰ کی طرف کی گئی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ انسان کے اعمال کا یہ نتیجہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ظاہر ہوتا ہے اس لئے اِن آیات میں خَتم اور طَبع کی نسبت جناب الہٰی کی طرف کی گئی ہے۔ ورنہ ایک دوسری آیت میں اس مہر کو خود کفار کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے اَفَلَایَتَدَ بَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلیٰ قُلُوْبٍ اَقْفَا لُھَا (محمدؐ ع ۳) یعنی کیا کفار قرآن کریم کے مضمون پر غور نہیں کرتے یا یہ بات ہے کہ ان کے دلوں پر اُنہی کے دلوں سے پیدا شدہ قفل لگ ہوئے ہیں۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ نہ ماننے کے دو ہی سبب ہوتے ہیں۔ یا تو غور نہ کرنا یا غور نہ کرنے کی عادت یا لمبے عناد اور تعصب کی وجہ سے دلوں میں ایسا مادہ پیدا ہو جانا جو سمجھنے کی طاقت کو ضائع کر دیتا ہے۔ اور استعارۃً اس کی نسبت کہہ سکتے ہیں کہ دلوں میں قفل پیدا ہو کر دلوں کی کھڑکیوں میں لگ گئے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کا مہر لگانا انہی معنوں میں ہے کہ دوسری قسم کے لوگوں نے چونکہ خود اپنے اوپر ہدایت کے دروازے بند کر دئے تھے اور اپنے دلوں کو اور کانوں کو اور آنکھوں کو معطل کر دیا تھا۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے ان کے فعل کا مناسب نتیجہ پیدا کر دیا ہے۔ اس مفہوم کے مطابق قرآن کریم میں ایک اور مثال بھی پائی جاتی ہے۔ حضرت آدمؑ کے جنت سے نکلنے کے متعلق ایک جگہ فرماتا ہے کہ ہم نے آدم کو کہا کہ اِھْبِطُوْا مِنْھَا جَمِیْعًا (بقرہ ع ۴) یعنی اللہ تعالیٰ نے آدم سے کہا کہ تم سب نکل جائو۔ جس کے یہ معنے ہیں کہ جنت سے آدمؑ کو اللہ تعالیٰ نے نکالا۔ مگر دوسری جگہ فرماتا ہے یَا بَنِیْ اٰدَمَ لَایَفْتِنَنَّکُمُ الشَّیْطٰنُ کَمَآ اَخْرَجَ اَبَوَیْکُمْ مِنَ الْجَنَّۃِ (اعراف ع ۳) یعنی اے بنی آدم شیطان تم کو دُکھ میں مبتلا نہ کر دے جس طرح اس نے تمہارے ابتدائی ماں باپ کو جنت سے نکال دیا تھا۔ اس بارہ میں ایک دفعہ نکالنے کو اپنی طرف منسوب کرنا اور ایک دفعہ شیطان کی طرف سے اسی حکمت سے ہے۔ شیطان کی طرف نکالنے کو اس لئے منسوب کیا کہ اس کے فعل کے سبب سے وہ جنت سے نکلنے کے مستحق ہوئے اور خدا تعالیٰ کی طرف اس لئے کہ اس فعل کا آخری اور لازمی نتیجہ خدا تعالیٰ نے نکالا۔ بعینہٖ اسی طرح مہر لگانے والی بات بھی ہے۔ مہر لگتی ہے عناد اور جحد سے یعنی جان بوجھ کر صداقت کے انکار سے۔ لیکن آخری نتیجہ اللہ تعالیٰ نکالتا ہے جس طرح ہر دوسرے فعل کا نتیجہ وہی نکالتا ہے۔ یہ معنے جو میں نے کئے ہیں ان کی تصدیق رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے کلام سے بھی ہوتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں ۔ اِنَّ الْمُؤْمِنَ اِذَا اَذْنَبَ دَنْبًا کَانَ نُکْتَۃً سَوْدَائَ فِیْ قَلْبِہٖ فَاِنْ تَابَ وَنَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ صُقِّلَ قَلْبُہٗ فَاِنْ زَادَ زَادَتْ حَتّٰی یُغلَفَ قَلْبُہٗ فَذَا لِکَ الرَّانُ الَّذِیْ قَالَ اللّٰہُ جَلَّ ثَنَائُ ہٗ کَلَّابَلْ رَانَ عَلیٰ قُلُوْ بِھِمْ مَا کَانُوْیَکْسِبُوْنَ (ابن جریر) یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی مومن گناہ کرے تو اس کے دل پر ایک سیاہ داغ پڑ جاتا ہے پھر اگر توبہ کرے اور گناہ ترک کر دے اور استغفار کرے تو اس کے دل کو صاف کر دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر گناہ میں بڑھتا جائے تو یہ سیاہی بڑھتی جاتی ہے حتٰی کہ اس کے دل پر غلاف چڑھ جاتے ہیں۔ اور یہی وہ زنگ ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ خبردار بات یہ ہے کہ خود ان کے اعمال نے اُن کے دلو ںپر زنگ لگا دیا ہے۔ اس کی ابن جریر یہ تشریح بیان کرتے ہیں کہ فَاَخْبَرَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّ الذُّتُوْبَ اِذَا تَنَا بَعَتْ عَلَی القُلُوْبِ اَغْلَفَتْھَا وَ اِذَا اَغْلَفَتْہَا اَتَاھَا حِیْنَئَذٍ الْخَتْمُ مِنْ قِبَلِ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ فَلَا یَکُوْنُ لِلْاِ یْمَانِ اِلَیْھَا مَسْلَکٌ وَلَا للِّکُفْرِ مِنْھَا مَخْلَصٌ فَذَالِکَ ھُوَ الطَّبْعُ وَ الْخَتْم یعنی رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں یہ خبر دی ہے کہ گناہ جب متواتر صادر ہوں تو وہ دلوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں اور جب وہ دلوں پر پردہ ڈال دیں تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہر آ جاتی ہے۔ پس اس صورت میںدل میں ایمان داخل نہیں ہو سکتا نہ اس میں سے کفر باہر نکل سکتا ہے۔ اور اسی کا نام قرآن کریم میں طَبع اور خَتم آتا ہے۔ اسی مضمون کی ایک حدیث مسلم میں حذیفہؓ سے بھی روایت کی گئی ہے۔
اس جگہ یہ بھی یاد رہے کہ مہر اور پردہ کوئی جسمانی چیز نہیں ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کفار کی زبانی بیان فرماتا ہے قَالُوْا قُلُوْ بْنَا فِیْ اَکِنَّۃٍ مِّمَّا تَدْعُوْنَآ اِلَیْہِ وَ فِیْٓ اٰذَا نِنَا وَ قْرٌ وَ مِنْ بَیْنِنَا وَبَیْنِکَ حِجَابٌ (حٰم سجدہ ع ۱) کہ کفار آنحضرت کو یوں کہتے ہیں کہ جس بات کی طرف تم ہمیں بلاتے ہو ہمارے دل اس کے پردے میں ہیں اور ہمارے کانوں میں گرانی ہے جس کی وجہ سے تمہاری بات سنائی نہیں دیتی اور تمہارے او رہمارے درمیان ایک پردہ حائل ہے جس کی وجہ سے تم ہم پر اثر انداز نہیں ہو سکتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ پردہ اور ختم وغیرہ کے الفاظ بطور استعارہ ہیں۔ اور ان کی تشریح وہی ہے جو مندرجہ ذیل آیات میں کی گئی ہے۔ لَھُمْ قُلُوْبٌ لَّایَفْقَہُوْنَ بِھَا وَ لَھُمْ اَعْیُنٌ لَّایُبْصِرُوْنَ بِھَا وَلَھُمْ اٰذَانٌ لَّایَسْمَعُوْنَ بِھَا (اعراف ع ۲۲) یعنی اُن کے دل تو ہیں لیکن وہ ان سے سمجھنے کا کام نہیں لیتے اور ان کی آنکھیں بھی ہیں مگر وہ ان سے دیکھنے کا کام نہیں لیتے اور این کے کان بھی ہیں مگر وہ ان سے سننے کام نہیں لیتے۔ اسی مضمون کی تشریح ایک اور آیت میں بھی ہے جو یہ ہے اَفْلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَتَکُوْنَ لَہُمْ قُلُوْبٌ یَعْقِلُوْنَ بِھَآ اَوْ اٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِھَا فَاِنَّھَا لَا تَعْمَی الْاَ بْصَارُ وَ لٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ (الحج ع ۶) یعنی؛ کیا یہ لوگ ملک میں چلتے پھرتے نہیں۔ کہ اُن کے دل ایسے ہوتے کہ ان کے ذریعے نصیحت کی باتوں کو سنتے۔ اصل بات یہ ہے۔ کہ اصل نابینائی آنکھو ںکی نہیں بلکہ اصل نابینائی ان کے دلوں کی ہے جو سینو ںمیں ہیں۔
اوپر جو شبہ بیان ہوا ہے اور جس کا جواب دیا گیا ہے وہ در حقیقت اس سے پیدا ہوتا ہے کہ یہ غو رنہیں کیا گیا کہ یہ آیت پہلی آیت کا تتمہ ہے اور اس میں ان کفار کا ذکر ہے جو صداقت کو سننے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتے اور نہ خدا تعالیٰ کے فعل کو دیکھنے کے لئے تیار ہوتے ہیں پس ان لوگوں کی مہر تو ان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے۔ اس سے خدا تعالیٰ پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔
وَلَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْم میں جس بڑے عذاب کی خبر دی گئی ہے اس سے صرف بعد الموت کی جہنم کی سزا ہی مراد نہیں بلکہ سب سے زیادہ اس میں خدا تعالیٰ کی دوری کا ذکر ہے۔ عذاب کے معنے حل نعات میں بتائے جا چکے ہیں۔ کہ روکنے کے بھی ہوتے ہیں۔ پس عذاب سے مراد اس جگہ یہ ہے کہ مومن تو خدا تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہدایت پر سوار ہو کر اس تک پہنچ جائیں گے مگر یہ لوگ خدا تعالیٰ کے دیدار سے روک دئے جائینگے اور اس سے بڑا عذاب اور کیا ہو سکتا ہے؟ اس کے علاوہ اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ جو لوگ دل۔ کان اور آنکھوں کے استعمال کو ترک کر دیتے ہیں وہ دنیا کے ہر کام میں بھی ذلت اور دکھ پاتے ہیں اور عذاب میں مبتلا رہتے ہیں۔
اس آیت کے متعلق یہ لطیفہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اس میں دل کے بعد کان کا ذکر ہے اور اس کے بعد آنکھ کا۔ اور قرآن کریم میں جہاں بھی اس قسم کا ذکر آیا ہے کان کو آنکھ پر مقدم کیا گیا ہے۔ اس کی ایک حکمت تو پہلے بیان ہو چکی ہے دوسری حکمت یہ ہے کہ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو اس کے کان پہلے کام کرنے لگتے ہیں اور آنکھیں بعد میں۔ چنانچہ بعض جانوروں میں تو آنکھیں کئی دن تک بند رہتی ہیں اور شروع میں کان ہی سے وہ کام لیتے ہیں۔
اس آیت کے بارہ میں ایک سوال یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دل اور آنکھوں کو تو جمع بیان کیا اور کانو ںکے لئے مفرد کا لفظ رکھا ہے اس میں کیا حکمت ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دلوں اور آنکھوں کا فعل ہر شخص کا جداگانہ ہوتا ہے۔ دلوں کی طاقتوں کا اس قدر فرق ہوتا ہے کہ کوئی تحت الثریٰ میں ہوتا ہے او رکوـئی افلاک پر اسی طرح آنکھوں کے فعل سے اس جگہ معجزات اور نشانوں کو دیکھنا مراد ہے اس کا اندازہ بھی ہر شخص الگ الگ لگاتا ہے۔ اور اس طرح گویا مختلف آنکھوں سے ان کو دیکھا جاتا ہے مگر سنی جلنے والی شئے ایک معین چیز ہے یعنی قرآن کریم۔ وہ معین الفاظ میں سب کے سامنے پڑھا جاتا تھا۔ پس سوچنے میں گو سب مختلف تھے اور معجزات کا نظارہ کرنے میں بھی مختلف تھے مگر سننے میں مختلف نہ تھے کیونکر ایک ہی کلام سنتے تھے پس سننے کے لئے مفرد کا لفظ استعمال کیا کہ گویا سب ایک ہی کان سے سنتے تھے۔
ایک سوال اس آیت کے بارہ میں یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ دلوں اور کان کیلئے تو مہر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو زیادہ سخت ہے لیکن آنکھوں کیلئے پردہ کا لفظ استعمال کیا ہے جو ہٹ بھی سکتا ہے لیکن سورۃ نحل ع ۱۴ میں فرماتا ہے طَبَعَ اللّٰہُ عَلیٰ قُلُوْ بِھِمْ وَ سَمْعِہِمْ وَ اَبْصَار ھِمْ وَاُولٰٓئِکَٔ ھُمُ الْغَافِلُوْن۔ یعنی اللہ تعالیٰ ان کے دلو ںان کے کان اور ان کی آنکھوں پر مہر لگا دی ہے۔ اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ پہلے انسان اپنے دل میں غور کرتا ہے پھر بات سن کر ہدایت پاتا ہے اور جب یہ بھی نہ ہو تو معجزات کو دیکھتا ہے۔ معجزات کلام کے بعد آہستہ آہستہ ظاہر ہوتے ہیں اس لئے آنکھوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیر میں مہر لگائی جاتی ہے کیونکہ اس راستہ کے ذریعہ حجت دیر سے قائم ہوتی ہے پہلے پردے پڑتے ہیں پھر مہر لگتی ہے پس سورۂ بقرہ میں اس حالت کا ذکر ہے کہ جب ابھی مہر کا وقت نہ آیا تھا اور سوۃ نحل میں اس حالت کا ذکر ہے جبکہ معجزات کو دیکھ کر بھی ایک لمبے عرصہ تک انسان ایمان نہ لائے۔
اس جگہ یہ لطیفہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قلوب اور کانو ںپر مہر لگانے کو تو اپنی طرف منسوب کیا ہے لیکن آنکھو ںکے پردوں کو اپنی طرف منسوب نہیں کیا۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ کفاریہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں سمجھ نہیں دی کہ ہم اس کی باریک حکمتوں کو سمجھ سکیں اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں سننے کا موقعہ نہیں ملا۔ گو حق یہ ہے کہ انہوں نے خود ہی نہیں سنا۔ لیکن وہ اس بات کا کیا جواب دینگے کہ خدا تعالیٰ کی تائیدات اور نصرتیں ان کے دائیں اور بائیں اور سامنے ظاہر ہو رہی ہیں انہیں انہوں نے کیوں نہیں دیکھا پس اس مضمون کو واضح کر دیا ہے کہ ختم کا خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جانا صرف نتیجہ فعل کے طور پر ہے ورنہ یہ دونوں نتائج بھی خود کفار کے اعمال کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں جس طرح ان کا نشانات کو نہ دیکھنا ان کا اپنا فعل ہے۔








۹؎ حل لغات۔
اٰمَنَّا:۔ اٰمَنَ سے متکلم مع الغیر کا صیغہ ہے اور مَوْمِنُوْن وَ مَوْمِنِیْن، مُوْمِنٌ کی جمع ہے جو اسم فاعل کا صیغہ ہے قبل ازیں حل لغات ۴؎ سورۃ ہذا میں ایمان کے تین معنے لکھے جا چکے ہیں (۱) اعتراف (۲) تصدیق یعنی سچائی کا اقرار کرنا (۳) کسی چیز کے اوپر پختہ ہو جانا۔ امام راغب ایمان کی تشریح کرتے ہوئے یوں لکھتے ہیں کہ:۔ ’’اَلْاِیْمانُ یُسْتَعْمَلُ تَارَۃً اِسْمًا لِّلشَّرِیْعَۃِ الَّتِیْ جَائَ بِھَا مَحَّمد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ وَ یُوْصَفُ بِہٖ کُلُّ مَنْ دَخَلَ فِیْ شَرِیَعتِہٖ مُقِرًّا بِاللّٰہِ وَبِنُبُّوَتِہٖ‘‘ یعنی ایمان کبھیاس شریعت کے لئے بطور نام استعمال کیا جاتا ہے جو حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم لائے اور ایسے شخص کو جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور آنحضرت صلعم کی نبوت کا اقرار کرتے ہوئے شریعت محمدیہ میں داخل ہو ایمان کے ساتھ موصوف کرتے ہوئے مومن کہتے ہیں (یعنی لفظ مومن بولنے سے فوراً ذہن میں اس شخص کا تصور آتا ہے جو آنحضرتؐ پر ایمان رکھنے والا ہو) ’’وَتَارَۃً یُسْتَعْمَلُ عَلیٰ سَبِیْلِ الْمَدْحِ وَیُرَادُبِہٖ اِذْعَانُ النَّفْسِ لِلْحَقِّ عَلیٰ سَبِیْدِ التَّصْدِیْقِ وَ ذَالِکَ بِاجِمَاعِ ثَلٰثَۃِ اَشْیَائَ تَحْقِیْقٌ بَالْقَلْبِ وَاِقْراَرْٔ بِاللِّسَانِ وَعَمَلَ وَبِحَسْبِ ذٰلِکَ بِالْجَوَارِحِ۔‘‘ نیز کبھی لفظِ ایمان بطور مدح استعمال کیا جاتا ہے اور اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ تصدیق کے ساتھ ساتھ نفس نے حق کی پوری اطاعت بھی کر لی ہے اور حق کے پوری طرح تابع ہو جانیکا اظہار تین چیزوں کے جمع ہونے سے ہوتا ہے (۱) دل سے صداقت کو حق قرا ردینا (۲) زبان سے اس کا اقرار کرنا (۳) اعضاء سے اس کے مطابق عمل کر کے پوری طرح صداقت کے تابع ہو جانیکا اظہار کرنا۔ گویا امام راغب نے اسی شخص کو حقیقی مومن قرار دیا ہے جس کے اندر تینوں مذکورہ بالا باتیں پائیں جائیں۔ اگر کسی میں ان میں سے کوئی ایک بات پائی جائے تو وہ مومن کہلانے کا حقدار نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ تصریح فرما دی ہے کہ محض زبان سے اقرار یا صرف دل سے یقین کر لینا اور زبان سے اقرار نہ کرنا کوئی معنے نہیں رکھتا جب تک کہ یہ اکٹھے نہ ہو ںچنانچہ فرمایا قَالَتِ اِلْاَعْرَابُ اٰمَنَّا قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ تُوْلُوْا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْ بِکُمْ (حجرات) یعنی اعراب نے مومن ہونے کا دعویٰ کیا ہے حالانکہ یہ درست نہیں۔ کیونکہ انہو ںنے زبان سے تو کہہ دیا کہ وہ اسلام میں داخل ہو گئے لیکن ان کے قلوب میں ایمان داخل نہیں ہوا اور چونکہ ایسے لوگ مومن نہیں ہوئے اس لئے ان کے ایمان لانے کا دعویٰ غلط ہے۔ ایک اور جگہ آل فرعون کی نسبت فرمایا حَحَدُ وْ ابِھَا وَاسْتَیْقَنَتْھَٓا اَنْفُسُہُمْ (نمل) کہ انہوں نے ظاہر میں اور عمل سے اللہ تعالیٰ کے نشانات کا انکار کر دیا۔ حالانکہ ان کے دل ان نشانوں کے سچے ہونے کا اقرار کر چکے تھے۔ الغرض ایمان صرف منہ سے کسی بات کے اقرار کر لینے یا دل سے کسی کے سچا ہونے کا یقین کر لینے کا نام نہیں بلکہ جب تک (۱) دل سے صداقت کو حق قرار نہ دیا جائے (۲) اور پھر زبان سے اس کا اقرار کرتے ہوئے (۳) اعضاء سے اس کے مطابق عمل کا اظہار نہ کیا جائے اس وقت تک مومن کہلانا درست نہیں۔
تفسیر۔ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ سے ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ تک اس گروہ کا ذکر کیا جو ایمان پر مستقل طور پر قائم ہے اور اس کے ایمان سے جو فوائد وابستہ ہیں ان سے پوری طرح فائدہ اٹھاتا ہے پھر اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سے اس گروہ کا ذکر کیا جو کفر و عصیان سے متقل طو رپر وابستہ ہے اور اس کے بد نتائج کا مستحق ہو چکا ہے۔ انہی کے ذکر میں ضمناً ان کفار کا بھی ذکر آ گیا جو گو عقیدۃً کافر ہیں لیکن ان کے دلوں میں تعصب نہیں وہ صداقت کے سمجھ آ جانے پر اسے قبول کرنے کیلئے بھی تیار ہیں اور اس کے سمجھنے کیلئے بھی کوش کرتے ہیں کیونکہ جب یہ فرمایا کہ وہ کافر ایمان نہیں لائینگے جنھو ںنے سنا ان سنا کر چھوڑا ہے اور جو اس حد تک متعصب ہیں کہ سچائی کو قبول نہ کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں تو اس سے ضمناً یہ نتیجہ بھی نکل آیا کہ جو کافر سنتے ہیں اور سچائی کو اگر سمجھ میں آ جائے ماننے پر آمادہ ہیں وہ جیسے جیسے انکشاف تام ان پر ہوتا جائے گا ایمان لاتے چلے جائیں گے۔
اب اس آیت سے قرآن کریم سے تعلق رکھنے والے ایک اور گروہ کا ذکر کرتا ہے جو منافقوں کا گروہ کہلاتا ہے۔ مومنوں کی جماعت کو مدنظر رکھتے ہوئے منافق دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جو صرف ظاہر میں مومنوں سے ملے ہوئے ہوتے ہیں لیکن دل میں منکر ہوتے ہیں اور ان کی ظاہری شمولیت محض دنیوی فوائد یا قومی جتھا بندی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اور ایک وہ منافق جو عقلی دلائل سے تو ایمان کے اصول کو تسلیم کرتے ہیں لیکن اُن کے اندر ایسی مضبوطی نہیں ہوتی کہ اس کے لئے پوری طرح قربانیاں کر سکیں پس ایسے لوگ اپنی عملی کمزوری کی وجہ سے نہ کہ عقیدہ کے اختلاف کی وجہ سے عمل میں سستی دکھاتے ہیں اور کبھی کفار کا زیادہ دبائو پڑے تو انکی ہاں میں ہاں بھی ملا دیتے ہیں اور اُن سے تعلق و محبت بھی جتا دیتے ہیں اور دل میں خیال کرتے ہیں کہ جب صداقت کو اللہ تعالیٰ نے غلبہ دینا ہی ہے تو کیا حرج ہے کہ مداہنت کر کے ہم اپنے آپ کو نقصان سے بچا لیں۔ اور یہ نہیں سمجھتے کہ اگر سب لوگ ہی اس طریق کو اختیار کر لیں تو صداقت کی تائید کون کرے۔ اور یہ خیال بھی نہیں کرتے کہ صداقت کو تو بے شک اللہ تعالیٰ نے فتح دینی ہی ہے لیکن اُنہیں اپنے انجام کا بھی تو خیال کرنا چاہیئے اگر صداقت کامیاب ہو گئی مگر وہ صداقت کے منکروں میں شامل ہو گئے تو ان کو اس سے کیا فائدہ۔
آیت زیر تفسیر میں اس تیسرے گروہ کے پہلے حصہ کا یعنی جو دل سے قرآن کریم کے منکر تھے لیکن ظاہر میں مسلمانوں میں شامل تھے ذکر کیا گیا ہے فرماتا ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہیں کہ ظاہر میں تو وہ مسلمانوں میں شامل ہیں لیکن اُن کے دل میں اسلام کی صداقتوں پر پورا یقین نہیں وہ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور یوم آخر کو مانتے ہیں لیکن اُن کے دلوں میں اللہ اور یوم آخر پر کوئی ایمان نہیں۔
اس آیت میں صرف اللہ اور یوم آخر پر ایمان کا ذکر ہے کلام الٰہی یا انبیاء وغیرہ کا ذکر نہیں۔ اس کی یہ وجہ ہے کہ ایمانیات کے سلسلہ کی پہلی کڑی خدا تعالیٰ پر ایمان لانا ہے اور آخری کڑی یومِ آخر پر ایمان لانا۔ پس اختصار کے لئے صرف پہلی اور آخری کڑی کا ذکر کر دیا گیا اور درمیانی امو رکو چھوڑ دیا گیا کیونکہ ابتداء اور انتہاء کے ذکر سے درمیانی اُمور خود ہی سمجھ آ جاتے ہیں۔ پس گو کفار کا قول اختصاراً یہی نقل کیا ہے کہ ہم اللہ اور یوم آخر پر ایمان لاتے ہیں لیکن مراد یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ سے لے کر یوم آخر تک سب امور ایمانیہ کو مانتے ہیں جیسے کہ ہماری زبان میں بھی کہہ دیتے ہیں کہ الف سے یاء تک سب بات سمجھ لی ہے۔
قرآن کریم میں یہ طریق کلام عام طور پر مستعمل ہے کیونکہ وہ سب علوم کی جامع کتاب ہے اس نے روحانی مسائل بھی اور جسمانی مسائل بھی اور الٰہیات بھی اور فلکیات بھی اور مادی ضرورتوں کے مسائل بھی بیان کرتے تھے۔ اُس نے اقتصادی امور، اجتماعی امور، مدنی احکام، اخلایقی احکام، عبادات کے ساتھ تعلق رکھنے والے احکام، بندوں سے تعلق رکھنے والے احکام، حاکموں سے متعلق احکام، رعایا سے متعلق احکام، مالداروں سے متعلق احکام، مزدوں سے متعلق احکام، خاندان سے متعلق احکام اور میاں بیوی سے متعلق احکام، جنگ، صلح، قضاء، اکل و شرب کے متعلق احکام غرض بیسیوں اور سینکڑوں اقسام کے احکام بھی اس نے بیان کرنے تھے، اُن کے علل و اسباب بھی بیان کرتے تھے، اور خدا تعالیٰ کے تازہ بتازہ نشانات بھی بیان کرتے تھے۔ سابق انبیاء کے کام اور خدا تعالیٰ کے ان سے معاملات بھی اس نے بیان کرنے تھے اور آئندہ زمانو ںکے متعلق اخبار غییہ بھی بتانی تھیں تا ہر زمانہ کے مسلمانوں کے ایمانوں میں زیادتی ہو اور غیر مومنوں کے لئے موجباتِ ہدایت پیدا ہوں۔ ایسی کتاب اس چھوٹے سے حجم میں آ ہی کس طرح سکتی تھی اگر اس میں لطیف اختصار سے کام نہ لیا جاتا۔ عہد نامہ جدید میں ایک دو مضامین کے سوا اور ہے کیا؟ مگر اس کا حجم قرآن کریم سے بڑا ہے۔ اسی طرح عہد نامہ قدیم بھی قرآن کریم سے بڑا ہے اسی طرح وید بھی قرآن کریم سے بڑے ہیں۔ مگر وہ مضامین جن پر قرآن کریم نے بحث کی ہے کوئی ان کی صداقت کاق تائل ہو نہ ہو اُسے یہ ضرور ماننا پڑے گا کہ اس کے مطالب کی فہرست دوسری کتب میں مذکور شدہ مطالب سے بہت ہی زیادہ ہے اور باوجود اس کے اس کا اختصار ایسا نہیں کہ وہ چیتان بن کر رہ جائے۔ قرآن کریم کے ایک رکوع کے برابر بھی متنبتی کے دیوان کے مضامین نہیں لیکن اس نے ایک ضخیم جلد شعروں کی لکھی ہے مگر وہ ہے چسیتان ہی لیکن قرآن کریم نے سینکڑوں مسائل پر اختصار سے گفتگو کر دی ہے مگر پھر بھی پہیلیوںکی صورت نہیں پیدا ہوئی۔ ہر شخص اپنی لیاقت کے مطابق اس کے مضامین کو سمجھتا ہے اور ایک عام اور سادہ زبان میں بیان کرنے والی کتاب اسے پاتا ہے کسی جگہ بھی کوئی ایسی عبارت اُسے نظر نہیں آتی کہ جو پہیلیوں کی طرح کی ہو۔
اس قسم کا اختصار ظاہر ہے کہ ایسے ہی لطیف اصولوں کی اتباع سے پیداہو سکتا ہے۔ مثلاً ایک طبعی تقسیم کا ذکر کرنا ہو تو ابتدائی آخری کڑی کو بیان کر دیا۔ کسی واقعہ سے کوئی فائدہ حاصل کرنا ہے تواس کے زائد حصوں کو چھوڑ کر صرف اس حصہ کو لے لیا جس سے استنباط کرنا ہے۔ الفاظ وہ استعمال کئے جو نہایت وسیع معنے رکھتے ہوں۔ جملوں کی بندش ایسی رکھی کہ ہر لفظ کے ہر معنے دوسرے الفاظ سے مل کر ایک الگ اور مستقل مضمون بیان کرتے ہوں، آیات میں ترتیب ایسی رکھی کہ آیت علیحدہ کر لی جائے تو اور مضمون ظاہر کرے اور دوسری آیات سے مل کر اور مطالب پر روشنی ڈالے۔ پھر مختلف آیات کا مجموعہ دوسرے مجموعوں سے الگ کر کے الگ مطالب پر روشنی ڈالے اور دوسرے مجموعوں سے ملا کر ایک نئے معنے بھی دینے لگے۔ ان اصولوں کو قرآن کریم نے اس لئے استعمال کیا تاکہ تھوڑے سے الفاظ میں غیر محدود مضامین بیان ہو جائیں۔
مجھے اس تفصیل کی اس لئے ضرورت پیش آئی ہے کہ بعض نادان ایسی آیات سے یہ مضمون نکالتے ہیں کہ گویا صرف اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان لانا کافی ہوتا ہے کیونکہ اس جگہ ایمان کے ثبوت کے لئے انہی دو باتوں کا ذکر ہے۔ اور یہ لوگ ان زبردست اصولوں کو بھول جاتے ہیں جو جامعیت اور اختصار کی خاطر قرآن کریم نے استعمال فرمائے ہیں اور جو تمام قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں جیسا کہ اس کے مطالب پر غور کرنے والوں لوگوں پر یہ امر کماحقہ، منکشف ہے۔
شاید کوئی کہے کہ تمہارا یہ استدلال خو ساختہ ہے کس طرح معلوم ہو کہ قرآن کریم نے واقعہ زنجیر کی اول اور آخری کڑی بیان کر کے ساری زنجیر کی طرف اشارہ کیا ہے کیونکہ نہ سمجھا جائے کہ درحقیقت انہی دو باتوں کا بیان مقصود ہے کیونکہ یہی ایمان کی بنیاد ہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم کا یہ بھی ایک معجزہ ہے کہ وہ ان اصولوں کی تشریح بھی خود ہی دوسری جگہ پر کر دیتا ہے۔ چنانچہ اس آیت میں جو اختصار کیا گیا ہے۔ اس کی وضاحت بھی دوسری جگہ مل جاتی ہے سورۂ انعام میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَھٰذَا کِتَابٌ اَنْزَلْنَاہُ مُبَارَکٌ مَصَدِّقُ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِ وَ لِتُنْذِ رَاُمَّ الْقُرٰی وَمَنْ حَوْ لَھَا وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ یُؤْمِنُوْن بِہٖ رَھُمْ عَلیٰ صَلَاتِھِمْ یُحَافِظُوْنَ (ع۱۱) یعنی یہ کتاب اس شان کی ہے کہ اِسے خدا تعالیٰ نے اتارا ہے پھر اس کے اندر تمام ان کلاموں کی ضروری تعلیمات جمع ہو گئی ہیں جو اس سے پہلے نازل ہوئے تھے اور ان کتب سماویہ میں بھی اس کے بارہ میں خبریںتھیں جن کو اس کی آمد نے پورا کیا ہے۔ یہ کتاب دنیا کو ہدایت دینے کے لئے نازل ہوئی ہے اور اس کے گرد کی دنیا کو ہوشیار کرنے کیلئے بھی اور وہ لوگ جو یوم آخرۃ پر ایمان لاتے ہیں وہ اس کتاب پر بھی ضرور ایمان لاتے ہیں اور وہ اپنی نمازوں میں بھی بہت باقاعدہ ہیں۔ اب دیکھو اس آیت میں کس طرح واضح کر دیا گیا ہے کہ ایمان بالآخرۃ ایمان بالقرآن کا مستلزم ہے اور جو قرآن کریم پر ایمان لائے گا لازماً اُسے محمد رسول اللہ پر بھی ایمان لانا ہو گا۔ کیونکہ آپؐ ہی کے ذریعہ سے قرآن کریم دنیا کو ملا ہے۔ اسی طرح اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ملائکہ پر ایمان بھی یومِ آخر میں شامل ہے کیونکہ اس میں بار بار ملائکہ کا ذکر کیا گیا ہے بلکہ اس آیت میں تو یہ امر بھی زائد کر دیا گیا ہے کہ یوم آخر پر ایمان میں اعمال صالحہ بھی شامل ہیں۔ کیونکہ فرماتا ہے کہ جو یوم آخرۃ پر ایمان لاتے ہیں نہ صرف یہ کہ وہ قرآن پر ایمان لاتے ہیں بلکہ وہ اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔
غرض مذکورہ بالا آیت اس امر پر شاہد کہ میرا یہ استدلال کہ اللہ اور یومِ آخر کے ذکر پر اقتصار اس لئے نہیں کیا گیا کہ اُن کے سوا کسی اور امر پر ایمان لانا مومن ہونے کے لئے ضروری نہیں بلکہ اس لئے کیا گیا ہے کہ یہ دونوں امور ایمانیات کی ابتدائی اور آخری کڑیاں ہیں پس ساری زنجیر کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ان کو منتخب کر لیا گیا ہے۔
ایک اور معنے بھی اس آیت کے ہو سکتے ہیں اور وہ یہ کہ اس جگہ منافقوں کا قول بیان کیا گیا ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کا پس ہو سکتا ہے کہ منافق یہ الفاظ جان بوجھ کر کہتے ہوں اور ان کی غرض مومنوں کو دھوکا دینا ہو۔ وہ مومنوں کے سامنے یہ الفاظ کہ کر ان پر تو یہ اثر ڈالنا چاہتے ہوں کہ ہم تمام اسلامی عقیدوں کو تسلیم کرتے ہیں لیکن دل میں یہ خیال رکھتے ہوں کہ ہم اللہ تعالیٰ کو بھی مانتے ہیں اور یوم آخر کو بھی مانتے ہیں لیکن قرآن کریم اور اس کے لانے والے کو نہیں مانتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کفار عرب میں سے بہت سے ایسے لوگ تھے جو قیامت کے منکر تھے مگر سب کے سب کفار اس خیال کے نہ تھے ان میں سے ایسے لوگ بھی تھے کہ جو بعدالموت زندگی کے قائل تھے۔ چنانچہ ان کی روایات اور اشعار سے ایسے مطالب کی طرف اشارہ ملتا ہے خصوصاً مدینہ کے پاس کے لوگوں کے خیالات میں نسبتاً زیاد اصلاح تھی۔ کیونکہ یہود اور انصاریٰ کے ساتھ مل جل کر رہنے کی وجہ سے اُن میں اہل کتاب کے کئی عقیدے سرایت کر گئے تھے۔ اور یہ منافقین جن کا ذکر ہے مدینہ ہی کے رہنے والے تھے۔
خلاصہ یہ کہ ہو سکتا ہے کہ اس آیت میں اس دھوکے کی طرف اشارہ کیا گیا جو منافق اپنے کلام سے مومنوں کو دینا چاہتے تھے۔ چنانچہ اگلی آیات میں ان کیدھوکا دینے اور استہزاء کرنے کا ذکر بھی ہے۔
اس آیت کو وَمِنَ النَّاسِ سے شروعکرنے میںیہ حکمت بھی ہے کہ منافقوں کو ان کی انسانیت کی طرف توجہ دلائی جائے۔ کیونکہ قرآن کریم میں جہاں جہاں بھی نَاسٌ کا لفظ استعمال ہوا ہے بشر کی اچھی قوتوں اور استعدادوں کی طرف اشارہ کرنے کیلئے استعمال ہوا ہے۔ ورنہ یا تو قرآن کریم کفار کا لفظ استعمال کر کے یا صرف ضمیر کے استعمال سے یا ملکوں یا قوموں کا نام بیان کر کے مخالفین صداقت کا ذکر کرتا ہے پس اس جگہ وَمِنَ النَّاس کہہ کر ایک لطیف طنز سے انہیں نیکی کی طرف توجہ دلائی ہے کہ انسان اور حیوان میں یہی فرق ہے کہ حیوان ایک مقرر راستہ پر چلتا جاتا ہے اور انسان سمجھ کر کام کرتا ہے سو انسانیت کے جامہ کی تم کو اس قدر تو عزت ہونی چاہیئے تھیکہ جس امر کو سچا سمجھتے تھے اس پر کاربند ہوتے اور اگر تمہاری قوم مسلمان ہو بھی گئی تھی لیکن تم خود اسلام کو برا سمجھتے تھے تو بھیڑوں کی طرح ان کے پیچھے نہ چلتے بلکہ جو تمہارا عقیدہ خلافِ اسلام تھا اس پر قائم رہتے۔
وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ کہہ کراس بات پر زور دیا ہے کہ ان کے اندر کوء شائبہ بھی ایمان کا نہیں مَا سے نفی کر کے پھر بعد میں باء کا استعمال عربی میں زور پیدا کرنے کے لئے ہوتا ہے اور اُردو میں اس کا صحیح ترجمہ ’’ہرگز‘‘ کی زیادتی سے ہوتا ہے یعنی اس جملہ کا یہ ترجمہ نہیں کہ وہ مومن نہیں بلکہ یہ ہے کہ وہ ہر گز مومن نہیں۔ اگر صرف عدم ایمان کا اظہار کرنا ہوتا تو اس مضمون کو دوسری ترکیب سے بیان کیا جاتا۔ مثلاً کہا جاتا کہ وَھُمْ مُنَافِقُوْنَ۔
اس قسم کے منافقوں کا جو دل سے تو کافر ہوں لیکن منہ سے مومن بنتے ہوں قرآن کریم میں متعدد بار ذکر آیا ہے۔ مثلاً فرماتا ہے وَ اِذَا جَآئُ وْکُمْ قَالُٓوْا اٰمَنَّاوَقَدْ دَّخَلُوْا بِالْکُفْرِ وَھُمْ قَدْخَرَ جُوْابِہٖ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا کَانُوْا یَکْتُمُوْنَ (مائدہ ع ۹)یعنی جب یہ منافق تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تو ایمان لا چکے ہیں حالانکہ وہ جب تمہارے پاس آئے تھے تب بھی کافر تھے اور جب تمہارے پاس سے اٹھ کر گئے تب بھی کافر تھے اور جو کچھ وہ دلوں میں چھپاتے ہیں اللہ تعالیٰ اسے خوب جانتا ہے اسی طرح قرآن کریم میں آتا ہے قَالُٓوْا اٰمَنَّابِاَ فْواَ ھِھِمْ وَلَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْ بُھُمْ (مائدہ ع ۶) یعنی یہ منافق لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں لیکن ان کے دل مومن نہیں۔ اسی طرح فرماتا ہے یَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَا ھِہِم مَالَیْسَ فِیْ قُلُوْ بِھِمْ (آل عمران ع ۱۷)وہ اپنے مونہوں سے وہ کچھ کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہے۔
مندرجہ بالا آیات اور آیت زیر تفسیر میں ان لوگوں کے خیالات کی زبردست تردید ہوتی ہے کہ جو کہتے ہیں کہ اسلام نے لوگو ںکو زبردستی مسلمان کرنے کا حکم دیا ہے اس غلطی میں بعض مسلمان بھی پھنسے ہوئے ہیں اور دشمنانِ اسلام نے تو اس غلط عقیدہ کو اسلام کی طرف منسوب کر کے اس پر اعتراض کرنا ایک مشغلہ بنا رکھا ہے حالانکہ اگر یہ دھوکا خوردہ مسلمان اور وہ دشمنانِ اسلام اسی آیت پر غور کرتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ اسلام جبر کے سراسر خلاف ہے کیونکہ جبر منافقت پیدا کرتا ہے اورجبراً کسی کو مسلمان بنانے کے یہی معنے ہیں کہ گو تیرال دل اور دماغ اسلام پر تسلی نہیں پاتا لیکن تو ظاہر میں کہہ دے کہ میں مسلمان ہوں۔ اب ظاہر ہے کہ جو مذہب ایسی مذہبی تبدیلی کو جائز بلکہ پسند کرے گا وہ لازماً منافق کو اپنی جماعت کا جزو سمجھے گا اور اُسے کبھی خارج نہیں کر سکتا۔ کیونکہ منافقت کے نقص کو جانتے ہوئے اُس نے جبراً ایک ایسے شخص کو اپنے مذہب میں داخل کیا ہو گا جو اس کا قائل نہ تھا لیکن قرآن کریم تو جیسا کہ اوپر کی آیات میں بتایا گیا ہے سختی سے ایسے لوگوں کو ملامت کرتا ہے اور ان کی نسبت اعلان کرتا ہے کہ وہ مومن نہیں ہیں۔ اور یہ امر ظاہر ہے کہ جو مذہب منافقوں کو اپنے اندر شامل کرنے کے لئے تیار نہیں اور صرف دل کی تسلی کے بعد درست عقیدہ رکھنے والے کو اپنا جزو قرار دیتا ہے وہ زبردستی اور تلوار سے کسی شخص کو نہ اپنے اندر شامل کر سکتا ہے نہ اُسے جائز قرار دے سکتا ہے چنانچہ قرآن واضح الفاظ میں فرماتا ہے اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجَاھَدُوْا بِاَمْوَا لِھِمْ وَ اَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الصَّادِقُوْنَ (الحجرات ع ۲) یعنی مومن صرف وہی ہیں جو اللہ اور رسول پر ایمان لائیں اور اُن کے دل میں بعد میں بھی کوئی شبہ پیدا نہ ہوا ہو اور وہ اپنے مالو ںاور جانوں سے اللہ تعالیٰ کے دین کے لئے ہر قسم کی قربانیاں بھی کریں اور یہی لوگ سچے مومن ہیں۔ پس اسلام کے نزدیک مومن ہونے کے لئے دلی یقین شرط لازم ہے۔ اور جو مذہب دلی یقین کو شرط ایمان قرار دے وہ کسی صورت میں زبردستی اور جبراً تبدیلی مذہب کی اجازت نہیں دے سکتا۔









۱۰؎ حل لغات۔
یُخَادِعُوْنَ:۔ خَادَعَ سے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے۔ خَادَعَ خَدَعَہسے رباعی مزید فیہ ہے اور خَدَعَ کے اصل لغوی معنے فساد کے ہیں چنانچہ تابع العروس میں ہے خَدَعَ الشَّیْئُ خَدْعًا: فَسَدَ کہ جب خَدَعَ الشَّیْئُ کہیں تو اس کے معنے یہ ہونگے کہ اس چیز میں فساد پیدا ہو گیا۔ اقرب میں اس لفظ کی تشریح میں لکھا ہے ’’خَدَعَہٗ: خَتَلَہٗ وَاَ رَادَ بِہِ الْمُکْرُوْہَ مِنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُہٗ‘‘ کہ خَدَعَ کے معنے ہیں اُسے دھوکا دیا اور ایسے ایسے طریقوں سے تکلیف پہنچانی چاہی جن سے وہ بے خبر تھا وَفِی الْکُلِّیَاتِ یُقَالُ خَادَعَ اِذَا لَمْ یَبْلُغْ مُرَادَہٗ وَخَدَعَ اِذَا بَلَغَ مُرَادَہٗ۔ اور کلیات (ابی البقاء) میں ہے کہ جب دھوکا دینے والا کامیاب ہو جائے تو خَدَعَ کا لفظ (مجرد) استعمال کرتے ہیں۔ اور اپنی کوشش میں ناکام رہے تو خَادَعَ کا لفظ بولتے ہیں۔ خَادَعَہٗ کے ایک معنے تَرَکہٗ یعنی چھوڑ دینے کے ہیں۔ اور خَادَعَ الْعَیْنَ کے معنے شَکَّکَھَا فِیْمَا تَرٰی۔ آنکھوں پوری طرح دیکھ نہ سکی اور کسی چیز کی اصلیت میں شک پڑ گیا۔ وَخَادَعَہٗ : کَامَدَہٗ خَادَعَ کے معنی گھاٹا دینے کے بھی ہیں نیز مضردات میں ہے اَلْخِدَاعُ اِنْزَالُ الْغَیْرِ عَمَّا ھُوَ بِصَدَدِہٖ بِاَمْرٍیُبْدِ یْہِ عَلیٰ خِلَافِ مَایْخفِیْہِ کسی کو اس کے اصل مقصود سے جس کے وہ درپے ہو ایسے طریق سے ہٹا دینا کہ دل میں کچھ اور ہو اور ظاہر میں کچھ اور خداع کہلاتا ہے۔ لسان العرب میں ہے اَلْخَدْعُ اِظْھَارُ خِلَافِ مَاتُخْفِیْہِ جس بات کو پوشیدہ رکھا گیا ہے اس کے خلاف بات کا اظہار کرنا خَدَعَ کہلاتا ہے وَجَازَ یُفَا عِلُ لِغَیْرِ اثْنَیْنِ لِاَنَّ الْمِثَالَ یَفُعُ کَثِیْرًا فِی اللُّغَۃِ لِلْوَاجِدِ نَخوَعَاقَبْتُ الاِّصَّ اور خَادَعَ باب مفاعلہ ہے جس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ دونوں فریق نے بالمقابل ویسا ہی کام کیا لیکن بعض اوقات اس طرح بھی استعمال ہوتا ہے کہ اس سے صرف ایک شخص کے فعل پر دلالت ہوتی ہے جیسے کہتے ہیں عَاقَبْتُ اللِّصَّ کہ میں نے چور کو سزا دی حالانکہ سزا صرف حاکم چور کو دیتا ہے۔ چور حاکم کو سزا نہیں دیتا۔ وَالْعَرَبُ تَقُوْلُ خَادَعْتُ فُلَانًا اِذَا کُنْتَ تَرُوْمُ خَدْعَہُ اور خَادَعَ عرب ان معنو ںمیں بھی استعمال کرتے ہیں جبکہ کوئی کسی کو دھوکا دینے کا قصد کرے خواہ دوسرا شخص دھوکے میں آئے نہیں تاج العروس میں ہے کہ خدع کے ایک معنے روک لینے یا روک دینے کے بھی ہیں چنانچہ جب کہتے ہیں کَانَ فُلَانًا کَرِیْمًا ثُمَّ خَدَعَ تو اس کے معنے ہوتے ہیں اَمْسَکَ وَمَنَعَ کہ فلاں شخص بہت عطا کیا کرتا تھا پھر اس نے اپنے مال کو روک لیا اور اپنے نفس کو اس طرح خرچ کرنے سے باز رکھا۔ پھر ایک اور معنے کرتے ہوئے لکھا ہے سُوْقٌ خَادِعَۃٌ: ای مُخْتَلِفَۃٗ مُتَلَوِّنَۃٌ تَقُوْمُ تَارَۃً وَتَکْسِدُ اُخْرٰی کہ جب کہیں بار خادع ہے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ کبھی بھائو بڑھ جاتا ہے کبھی گھٹ جاتا ہے۔ نیز اقرب میں ہے کہ جب کہیں خَادَعَ الْحَمْدَ تو اس کے معنے تَرَکَہ کے ہوتے کہ اس نے حمد کو چھوڑ دیا۔ پس یُخَادِعُونَ اللّٰہَ کے معنے یہ ہوں گے (۱) کہ وہ اللہ کو دھوکا دینا چاہتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ دھوکا نہیں کھاتا۔ (۲) جو اُن کے دلوں میں بات ہے اس کے خلاف اظہار کر کے شک میں ڈالنا چاہتے ہیں (۳) وہ خدا کے دین کے معاملہ میں فساد کرتے ہیں (۴) وہ اللہ کو روکتے ہیں یعنی دین کی اشاعت میں روکیں ڈالتے ہیں۔
یَشْعُرُوْنَ: شَعَرَ سے مصارع جمع غائب کا صیغہ ہے اور شعرہ کے معنے ہیں عَلِمَ بہٖ اس کو جانا شَعَرَ لِکَذا: فَطَنَ لَہٗ۔ اس کو خوب سمجھ لیا۔ عَقَلَہٗ۔ اس کو جان لیا۔ وَاَحَسَّ بِہٖ۔ اس کو محسوس کیا (اقرب) تاج العروس میں ہے الَشِّعْرُ ھُوَا لْعِلْمُ بِدَ قَائِقِ الْاُ مُوْرِ وَ قِیْلَ ھُوَ الْاِ دْرَاکُ بِالْحَوَاسِّ کہ شعر علم کی وہ قسم ہے جس کے ذریعہ سے امور کی باریکیاں معلوم ہو سکیں۔ اور بعض نے کہا ہے کہ حواس کے ذریعہ سے کسی امر کو معلوم کر لینا شِعَر کہلاتا ہے۔ نیز لکھا ہے کہ لَایَشْعُرَونَ کی جگہ لَایَعْقِلُوْنَ استعمال نہیں کر سکتے کیونکہ اکثر اوقات ایک چیز معقول تو ہوتی ہے لیکن محسوس نہیں ہوتی۔ شعور اور علم میںیہ فرق ہے کہ شعور ایک حس باطنی کے متعلق ہے جو بلا سامان ظاہری بھی اپنا کام کرتی ہے لیکن علم بیرونی چیزوں سے حاصل ہوتا ہے۔ ممکن ہے علم کا اثر قلب پر نہ ہو لین شعور کا بالضرور ہوتا ہے۔ پس وَمَایَشْعُرُوْنَ کے معنے ہونگے۔ وہ سمجھتے نہیں۔
تفسیر۔ اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ ایمان وہی کار آمد ہوتا ہے جو نیک نیتی اور اخلاص اور صداقت پر مبنی ہو جس ایمان میں اخلاص نہیں وہ کسی کام کا نہیں کیونکہ وہ تو دھوکا ہے اور خدا تعالیٰ جو عالم الغیب ہے وہ دھوکا کب کھا سکتا ہے۔
اس آیت پر بعض اعتراضات کئے جاتے ہیں جن کا ذکر اس جگہ ضروری ہے۔ وہ اعتراض یہ ہیں (۱) اللہ تعالیٰ کو کوئی دھوکا کب دے سکتا ہے (۲) اگر دھوکا دینے کے قصد کے معنے کئے جائیں تو اللہ تعالیٰ کو مان کر کوئی شحص اسے دھوکا دینے کا قصد ہی کب کر سکتا ہے (۳) اس جگہ یُخَادِعُوْنَ کے الفاظ ہیں اور خَادَعَ باب مفاعلہ سے ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ اس فعل میں دونوں فریق شریک ہیں او ران معنوں کے لحاظ سے آیت کے معنے یہ ہوں گے کہ منافق خدا تعالیٰ کو دھوکا دیتے ہیں اور خدا تعالیٰ ان کو دھوکا دیتا ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف دھوکے کی نسبت کرنا اس کی ہتک ہے۔ ان اعتراضات کا جواب علی الترتیب یہ ہے۔
(۱)پہلا اعتراض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کوئی شخص دھوکا کب دے سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ (الف) اس جگہ خَادَعَ کا لفظ ہے خَدَعَ کا نہیں اور خَادَعَ کے معنے عربی زبان میں دھوکا دینے کے نہیں بلکہ دھوکا دینے کا قصد کرنے کے ہیں خواہ دوسرا دھوکا کھائے یا نہ کھائے۔ جیسا کہ حل لغات میں بتایا جاچ کا ہے پس یہ اعتراض اس آیت پر نہیں پڑ سکتا کہ خدا تعالیٰ کو کوئی دھوکا کیونکر دے سکتا ہے (ب) اگر دھوکا دینے کے معنے بھی کئے جائیں تب بھی کوئی اعتراض نہیں پڑتا کیونکہ اس صورت میں اس کے یہ معنے ہوں گے کہ وہ خدا تعالیٰ سے ایسا معاملہ کرتے ہیں کہ جو دھوکے مشابہ ہوتا ہے یعنی اس میں صداقت اور اخلاص نہیںہوتا اور یہ امر مشاہدہ سے ثابت ہے کہ بعض لوگ اپنے ایمان میں مخلص نہیں ہوتے۔ پس جب مشاہدہ اس امر کی تائید کرتا ہے تو اس پر اعتراض کیسا۔ آخر ایک منافق خواہ بہ ظاہر مومن ہو اور کفار سے ملا جلا رہے۔ یا بظاہر کافر ہو اور مسلمانوں سے ملا جلا رہے وہ ایسا فعل کیوں کرتا ہے۔ ظاہرہے کہ اس کی غرض یہی ہوتی ہے کہ ہندوں کو دھوکا دے کر فائدہ اٹھائے مگر چونکہ ایمان کا معاملہ خدا تعالیٰ سے ہے اس لئے اس کے اس فعل کے معنے بہر صورت یہ ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ سے اخلاص کا معاملہ نہیں کر رہا اور جس طرح اخلاص کا تعلق اس سے رکھنا چاہیئے اس قسم کا تعلق نہیں رکھتا۔ پس اس کی نیت خواہ بندوں کو دھوکا دینے کی ہو اگر اس کے عمل کا تجزیہ کیا جائے تو اس کے یہی معنے ہوں گے کہ وہ خدا تعالیٰ کو دھوکا دینا چاہتا ہے۔ اور جب کسی انسان کا دل حراب ہو جائے تو اس سے اس قسم کے متضاد افعال کا صدور غیر ممکن نہیں ہوتا۔ باقی خدا تعالیٰ پر اس سے کوئی اعتراض نہیں آتا کیونکہ جیسا کہ اس فعل کے معنوں سے ثابت ہے اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ خدا تعالیٰ بھی دھوکا کھا جاتا ہے بلکہ جیسا کہ اس آیت کے آخری حصہ میں وَمَایَخْدَعُوْنَ اِلَّا اَنْفُسَہُمْ فرمایا ہے وہ خدا تعالیٰ کو دھوکا نہیں دیتے بلکہ اپنی جانوں کو دھوکا دیتے ہیں یعنی اس قسم کے نامناسب افعال سے سمجھتے تو یہ ہیں کہ ہم دکھوں سے محفوظ ہو گئے ہیں حالانکہ وہ اس طرح خدا تعالیٰ کی ناراضگی کو سہیڑ لیتے ہیں اور عذابوں کا مورد بن جاتے ہیں۔
خادع کا یہ استعمال عرب شعراء کے کلام میں بھی آتا ہے جیسے کہ ایک شاعر کہتا ہے ؎ وَخَارَعْتُ الْمَنِیَّۃَ عَنْکَ سِرًّا یعنی میں نے چھپ کر تیری موت کو دھوکا دے دیا جس کا مطلب صرف یہ ہے کہ میں نے موت کے اثر کو دور کر دیا۔ اسی طرح اس جگہ خدا تعالیٰ کے احکام اور ذمہ داریو ںکو ٹلانے کے لئے یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور منافقوں کے اس قسم کے فعل کو مجازًا خداع کہا گیا ہے۔
(۲) دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اگر دھوکے کے قصد کے معنے کئے جائیں تو بھی درست نہیں کیونکہ کوئی شخص خدا تعالیٰ عالم الغیب ہے۔ یہ اعتراض بھی درست نہیں کیونکہ اول تو ایک گروہ دنیا کا ایسا ہے بلکہ تمام فلسفی ہی اس گروہ میں شامل ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے علیم ہونے کے قائل نہیں بلکہ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو کلیات کا علم ہے جرئیات کا علم نہیں۔ قرآن کریم کے زمانۂ نزول کے وقت بھی ایسے لوگ پائے جاتے تھے۔ چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے وَلٰکِنْ ظَنَنْتُمْ اَنَّ اللّٰہَ لَا یَعْلَمُ کَثِیْرًا مِمَّاتَعْمَلُوْنَ وَ ذَا لِکُمْ ظَنُّکُمْ الَّذِیْ ظَنَنْتُمْ بِرَبِّکُمْ اَر ادَا کُمْ فَاَصْبَحْکُمْ مِّنَ الْخَاسِرِیْنَ (رٰم سجدہ ع ۳) یعنی تم وہ لوگ ہو کہ تم کو یہ خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اکثر اعمال کو نہیں جانتا (یعنی اُسے کلیات کا علم ہے جزئیات کا علم نہیں) اور یہی تمہارا وہم جو تم نے اپنے رب کے متعلق غلط طو رپر اپنے دلوں میں بٹھا لیا ہے تمہاری ہلاکت کا موجب ہو گیا ہے۔ یعنی اس کی وجہ سے تمہیں اپنے اعمال کی اصلاح کا خیال نہیں رہا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تم زیاں کار ہ وگئے ہو۔ اسی طرح فرماتا ہے اَلَا اِنَّھُمْ یَثْنُوْن صُدُ وْرَ ھُمْ لِیَسْتَخْفُوْا مِنْہُ اَلَا حِیْنَ یَسْتَغْشُوْنَ ثِیَا بَھُمْ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَمَا یُعْلِنُوْنَ اِنَّہٗ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ (ہود ع ۱) یعنی سنو وہ یقینا اپنے سینوں کو اس لئے موڑتے رہتے کہ اس سے چھپے رہیں۔ سنو جس وقت وہ اپنے کپڑے اوڑھتے ہیں تو اس وقت بھی جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں اُسے وہ جانتا ہوتا ہے وُہ یقینا سینو ںکی باتوں کو بھی خوب جانتا ہے۔
ظاہر ہے کہ اس عقیدہ کے لوگ اگر ایسے افعال کریں کہ جن میں اللہ تعالیٰ سے اخلاص کی رُوح نہ پائی جائے تو یہ کچھ بعید نہیں ہے کیونکہ وہ اس کی نسبت جزئیات کے علم کے قائل نہیں اور دراصل اس عقیدہ کی بھی شرط نہیں بالعموم جو لوگ کمزور ایمان کے ہوتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی صفات کا کامل علم نہ رکھنے کی وجہ سے ہی کمزور ہوتے ہیں اور جب صفات الٰہیہ کا علم کامل نہ ہو تو ایسے متضاد اعتقادات اور اعمال کا صدور اُن سے ناممکن نہیں ہوتا چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ قیامت کو جب مشرک خدا تعالیٰ کے حضور میں پیش ہوں گے تو اُن میں سے بعض اس سے یہ کہنے گے کہ وَاللّٰہِ رَبِّنَا مَاکُنَّا مُشْرِکِیْنَ (انعام ع ۳) یعنی ہمیں اللہ اپنے رب کی قسم کہ ہم مشرک نہ تھے۔ عربی کی مثل ہے کہ اَلْغَرِیْقُ یَتَشَبَّتُ بِالْحَشِیْشِ یعنی جو شخص غرق ہو رہا ہو وہ تنکے کے سہارے کو بھی نہیں چھوڑتا پس وہ کمزور ایمان والے جو مصائب اور مشکلات کا مقابلہ نہیں کر سکتے قسم قسم کے بہانوں سے اپنے دل کو تسلی دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ اللہ رحم کرنے والا ہے۔ اللہ بخشنے والا ہے۔ اس وقت انسانوں کے عذاب سے اپنے آپ کو بچا لو جب خدا تعالیٰ سے معاملہ ہو گا تو ہم اس کی بخشش کے طالب ہوں گے۔ اسی قسم کے غلط خیالات ہیں جن کی وجہ سے کسی شاعر نے کہہ دیا کہ ؎
مستحق شفاعت گناہ گار اند
خدا تعالیٰ کی بخشش آخر گنہگاروں کے ذریعہ سے ہی ظاہر ہو گی پس اگر ہم گناہ کرتے ہیں تو کیا ہوا ہم ہی لوگ تو اللہ تعالیٰ کی بخشش کو ظاہر کرنے والے ہوں گے۔ اس قسم کے خیالات اللہ تعالیٰ کو دھوکا دینے کے قصد کو ظاہر نہیں کرتے تو اور کیا ظاہر کرتے ہیں؟ اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے اخلاص کا معاملہ اس کی صفات کے کام علم سے ہوتا ہے جو لوگ اس علم سے محروم ہوتے ہیں وہ اس قسم کے بیسویں بہانے بنا کر اپنے دل کو تسلی دے لیتے ہیں حالانکہ یہ تسلی ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کہ کہتے ہیں کہ کبوتر بلی کے حملہ کے وقت آنکھیں بند کر کے سمجھ لیتا ہے کہ وہ بلی کے حملہ سے محفوظ ہو گیا ہے۔
(۳) تیسرا اعتراض یہ ہے ک یہاں مُخَادَعَہ کا لفظ استعمال ہوتا ہے جو دونوں فریق کے فعل میں مشارکت پر دلالت کرتا ہے اور معنے یہ ہوتے ہیں کہ خدا بھی ان کو دھوکا دیتا ہے اور یہ امر خدا تعالیٰ کی شان سے بعید ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ (الف) باب مفاعلہ ہمیشہ دونوں کے فعل میں شریک ہونے پر دلالت نہیں کرتا بلکہ کبھی صرف ایک شخص کے فعل پر دلالت کرتا ہے۔ چنانچہ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے۔ کہ عَاقَبْتُ اللِّصَّ کا محاورہ عربی میں ہے جس کے معنے یہ نہیں کہ میں نے یعنی قاضی نے چور کو سزا دی اور چور نے مجھ کو سزا دی بلکہ صرف یہ معنے ہوتے ہیں کہ میں نے چور کو سزا دی۔ پس یُخٰدِعُوْنَ کے معنوں میں خدا تعالیٰ کی مشارکت ثابت نہیں بلکہ صرف اس قدر مفہوم ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کو دھوکا دینا چاہتے ہیں (ب) دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کبھی جرم کا لفظ جزاء کے اظہار کے لئے دہرا دیا جاتا ہے پس اس جملہ کی تشریح ہوں ہو گی کہ اَلُمَنَافِقُوْنَ یَخْدَعُوْنَ اللّٰہَ وَاللّٰہُ یَخْدَ عُھُمْ اور اللہ تعالیٰ کے متعلق جو یَخْدَعُہُمْ کا لفظ آئے گا اس کے معنے یہ نہ ہوں گے کہ وہ ان کو دھوکا دیتا ہے بلکہ یہ معنے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کے دھوکے کی سزا دیتا ہے یہ محاورہ جیسا کہ نوٹ ۴ ؎ سورۃ ہذا میں بتایا جا چکا ہے قرآن کریم میں بھی استعمال ہوا ہے چنانچہ آتا ہے جَزَٓاُء سَیِّئَٔۃٍ سَیِّئَٔۃٌ مِّثْلُہَا (شوریٰ ع ۴) یعنی بدی کا بدلہ ویسی ہی بدی ہے چونکہ بدی کا بدلہ بدی نہیں ہوتا اس لئے اس کے یہ معنے ہیں کہ بدی کا بدلہ اُسُ قدر جزاء ہے۔ اسی طرح قرآن کریم میں ہے فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ (بقرہ ع ۲۴) اس پر اُسی قدر زیادتی کر لو جس قدر کہ اُس نے تم پر زیادتی کی تھی ظاہر ہے کہ زیادتی اور ظلم کا اُسی قدر بدلہ ظلم نہیں کہلا سکتا۔ پس یہاں بھی فَاعْتَدُوْا کے معنے اسی قدر سزا کے ہیں۔
عربی زبان میں بھی یہ محاورہ کثرت سے استعمال ہوتا ہے چنانچہ اقرب المواء د میں جو عربی لغت کی کتاب ہے لکھا ہے کہ عربی کا محاورہ ہے حَسَدَ فِیَ اللّٰہُ اِنْ کُنْتُ اَحْسَدُکَ یعنی اگر میں تجھ سے حسد رکھتا ہوں تو اللہ تعالیٰ مجھ سے حسد کرے اور اس کے معنے یہ لکھے ہیں عَاقَبَنِیْ عَلَی الْحَسَدِ یعنی اس کا یہ مفہوم نہیں کہ اللہ مجھ سے حسد کرے (کیونکہ اللہ تو حسد کر ہی نہیں سکتا) بلکہ یہ معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے میرے حسد کرنے کی سزا دے۔ پھر آگے لکھا ہے وَھُوَ مِنْ بَابِ الْمُشَا کَلَۃِ اور یہ استعمال مشاکلہ کی قسم سے ہے یعنی اس جگہ جرم کے لفظ کو سزا کے معنوں کے اظہار کے لئے استعمال کر لیا گیا ہے اور جرم کی مانند لفظ کو دہرا دیا گیا ہے۔ عرب شعراء نے بھی اس محاورہ کو استعمال کیا ہے عمرو بن کلثوم کہتا ہے ؎
اَلَا لَا یَجْھَلَنْ اَحَدٌ عَلَیْنَا فَنَجْھَلْ فَوْقَ جَھْلِا الْجَاھِلِیْنَا سنو ہم سے کوئی شخص جہالت کا معاملہ نہ کرے ورنہ ہم جاہلوں سے زیادہ جہالت کا معاملہ کریں گے۔ مطلب یہ کہ ہم طاقتور ہیں جو ہم پر حملہ کرے گا یہ اس کی حماقت ہو گی ہم اس کی حماقت کی اُسے سزا دیں گے کیونکہ کمزور کا طاقتو رپر حملہ جہالت کہلا سکتا ہے طاقتور کا جواب حماقت نہیں کہلا سکتا۔
اسی طرح ابوالفول الطحوی کہتا ہے ؎
فَنَکَّبَ عَنْہُمْ دَرْئَ الْاَ عَادِی۔ وَ دَ ادَوْابِا لْجُنُوْنِ مِنَ الْجُنُوْنِ یعنی انہوں نے اپنی قوم سے دشمن کے حملہ دُور کیا اور جنون کا علاج جنون سے کیا۔ اس جگہ بھی حملہ آور کے جنون سے مراد اس کا کمزور ہو کر طاقتور پر حملہ کرنا ہے پس طاقتور کا جواب جنون نہیں کہلا سکتا اس کے معنے محض جزاء کے ہیں۔
غرض اگر باب مفاعلہ کے اصلی معنوں کو قائم رکھا جائے تب بھی اس آیت پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نسبت خَدَعَ کے لفظ کے معنے بسبب اس کے کہ یہ لفظ ایک جُرم کے جواب میں استعمال ہوا ہے صرف یہ ہوں گے کہ وُہ ان کے دھوکے کی سزا دے گا۔ سورۂ نساء میں جو یہ الفاظ ہیں کہ اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ یُخَادِعُوْنَ اللّٰہَ وَھَوَ خَادِ عُھُمْ (نساء ع ۲۱) اس کے بھی یہی معنے ہیں کہ منافق خدا تعالیٰ کو دھوکا دینا چاہتے ہیں مگر وہ ان کے اس بد عمل کی اُن کو سزا دے گا۔
یُخَادِعُوْنَ اللّٰہَ کے معنے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ وہ اللہ کو چھوڑتے ہیں۔ چنانچہ اقرب میں لکھا ہے خَادَعَ الْحَمْدَ: تَرَکَہُ یعنی جب خَادَعَ الْحَمْدَ کا محاورہ بولیں تو اس کے معنے ہوں گے اس نے حمد کو چھوڑ دیا۔
غرض اس آیت سے ہر گز یہ مطلب نہیں نکلتا کہ اللہ تعالیٰ کو کوئی دھوکا دے سکتا ہے یہ تعلیم تو قرآن کریم کی صریح آیات کے خلاف ہے اور محض عناد سے ایسا خیال اس آیت کے متعلق کر لیا گیا ہے۔ ورنہ قرآن کریم کے رو سے تو اللہ تعالیٰ ہر پوشیدہ سے پوشیدہ بات کو جانتا ہے۔ اور اس تعلیم کی موجودگی میں یہ کہنا کہ قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق اللہ تعالیٰ کو دھوکا دیا جا سکتا ہے ایک ظلم عظیم ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَ نَعْلَمُ مَاتُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ (ق ع ۲) کہ ہم نے انسان کو پیدا کیا اور ہم اس کے دلی خیالات تک سے واقف ہیں اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی اس سے زیادہ قریب ہیں۔ اور فرماتا ہے اِنَّہٗ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ (انفال ع ۵) کہ اللہ تعالیٰ سینوں تک کی باتوں سے واقف ہے۔ اور فرماتا ہے عَالِمِ الْغَیْبِ لَا یَعْزُبُ عَنْہُ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَلَا فِی الْاَرْضِ وَلَآ اَصْغَرُ مِنْ ذَالِکَ وَلَآ اَکْبَرُ اِلاَّ فِی کِتَابٍ مُّبِیْنٍ (سباء ع ۱) کہ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے اور ذرّہ بھر آسمانوں اور زمین کی چیزوں میں سے اس سے پوشیدہ نہیں ہے اور ذرّہ سے چھوٹی اور ذرّہ سے بڑی جتنی چیزیں بھی ہیں سب اس کو معلوم ہیں اور فرماتا ہے اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمْ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ مَایَکُوْنَ مِنْ نَّجْویٰ ثَلٰثَۃٍ اِلَّاھُوَرَ ابِعُۂمْ وَلَا خَمْسَۃٍ اِلَّا ھُوَ سَادِ سُھُمْ وَلَآ اَدْنیٰ مِنْ ذَالِکَ وَلَآ اَکْثَرَ اِلَّا ھُوَ مَعَہُمْ اَیْنَ مَا کَانُوْا ثُمَّ یُنَبِّۂُمْ بِمَا عَمِلُوْا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اِنَّ اللّٰہ بِکُلِّ شَیْیئٍ عَلِیْمٍ۔ (مجادلہ ع ۲) کہ کیا تم کو معلوم نہیں کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے خدا کو سب معلوم ہے۔ کسی تین شخصوں کا مشورہ نہیں ہوتا مگر وہ ان میں چوتھا ہوتا ے اور نہ کہیں پانچ کا مگر وہ ان میں چھٹا ہوتا ہے اور نہ اس سے کم یا زیادہ مگر وہ جہاں ہوں خدا ان کے ساتھ ضرور ہوتا ہے۔ پھر جو جو کام یہ کرتے ہیں قیامت کے دن ایک ایک کر کے ان کو بتائے گا بیشک خدا ہر چیز سے واقف ہے۔ پھر فرماتا ہے تَعْلَمُ خَآئِنَۃَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْر (مومن ع ۲) وہ آنکھوں کی خیانت کو بھی جانتا ہے اور جو باتیں سینو ںمیں پوشیدہ ہیں ان کو بھی۔ قرآن کی ایسی تعلیم کی موجودگی میں کسی کا یہ کہنا کہ مسلمانو ںکا خدا دھوکا میں آ جاتا ہے یا اس پر کسی شخص کا دائو فریب چل جاتا ہے ایک صریح ظلم ہے۔
خلاصہ یہ کہ یُخَادِعُوْنَ اللّٰہَ کے معنے اس جگہ یہہیں کہ (۱) وہ خدا تعالیٰ سے ایسا معاملہ کرتے ہیں جو دھوکے کے مشابہ ہے (۲) وہ خدا تعالیٰ کو دھوکا دینا چاہتے ہیں حالانکہ وہ دھوکا میں نہیں آ سکتا (۳) وہ خدا تعالیٰ سے دھوکے کا معاملہ کرتے ہیں اس لئے خدا تعالیٰ اُن کے غیر مخلصانہ افعال کی سزا دے گا۔ (۴) وہ خدا تعالیٰ کو چھوڑ رہے ہیں۔
(۵) حل لغات میں ایک اور محاورہ بھی لکھا گیا ہے۔ کہ عرب کہتے ہیں سُوْقٌ حَادِعَۃٗ بازار دھوکا دے رہا ہے اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ منڈی کے بھائو ایک رنگ میں نہیں چل رہے بلکہ کبھی یکدم بڑھ جاتے ہیں کبھی یکدم گھٹ جاتے ہیں۔ ان معنوں کے رُو سے اس آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ منافقوں کا معاملہ خدا تعالیٰ سے اخلاص کا نہیں ہے کبھی وہ مومنوں کے رعب میں آ کر اچھے کام کرنے لگ جاتے ہیں اور کبھی کفار کے اثر کے نیچے دین کی مخالفت شروع کر دیتے ہیں۔
(۶) ایک معنے خِدَاع کے فساد کے بھی حل لغات میں لکھے جا چکے ہیں۔ ان معنوں کے رو سے اس کے یہ معنے ہوں گے کہ وہ خدا تعالیٰ سے فساد کا معاملہ کرتے ہیں یعنی ان کے کامو ںمیں اخلاص نہیں ہے۔
(۷) ایک معنے اس کے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے دھوکا کرنے سے مراد یہ ہو کہ وہ خدا تعالیٰ کے رسول اور مومنوں سے دھوکے کا معاملہ کرتے ہیں۔ چنانچہ اس قسم کا محاورہ قرآن کریم میں کئی جگہ استعمال ہوا ہے۔ جیسے کہ فرمایا اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَا یِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِ یْھِمْ (فتح ع ۱) یعنی جو لوگ تیری بیعت کرتے ہیں وہ در حقیقت اللہ تعالیٰ کی بیعت کرتے ہیں بیعت کے وقت خدا تعالیٰ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہوتا ہے۔ اس آیت میں رسول کی بیعت کو خدا تعالیٰ کی بیعت قرار دیا ہے اسی طرح ایک دوسری جگہ فرماتا ہے فَاِنَّھُمْ لَایُکَذِّ بُوْنَکَ وَلٰکِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ یَجْحَدُوْنَ (انعام ع ۴) کیونکہ وہ تیری تکذیب نہیں کرتے بلکہ ظالم اللہ تعالیٰ کے نشانات کی تکذیب کرتے ہیں۔ اِن دونوں آیات میں رسول کے ساتھ ہونے والے ایک فعل کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا گیا ہے اسی طرح آیت زیر بحث میں رسول سے ہونے والے ایک فعل کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیا گیا ہے۔ ایک حدیث قدسی میں بھی اس طریقِ کلام کو استعمال کیا گیا ہے اور وُہ یہ ہے عَنْ اَبیْ ھُرَیْرۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہِ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَ جَلَّ یَقُوْلُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَا ابْنَ آدَمَ مَرِضْتُ فَلَمْ تَعْدِ نِیْ قَالَ یَارَبِّ کَیْفَ اَعُوْدُکَ وَاَنتَ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ قَالَ اَمَا عَلِمْتَ انَّ عَبْدِیْ فُلَانًا مَرِضَ فَلَمْ تَعُدْہُ اَمَا عَلِمْتَ انَّکَ لَوْعُدْتَہٗ لَوَجَدْ تَنِیْ عِنْدَہٗ یَا ابْنَ اٰدَمَ اسْتَطْعَتُکَ فَلَمْ تُطْعِمْنِیْ قَالَ یَا رَبِّ کَیْفَ اُطْعِمُکَ وَ اَنْتَ رَبُّ الْعٰالَمِیْنَ قَالَ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّہٗ اسْتَطْعَمَکَ عَبْدِیْ فُلَانٌ فَلَمْ تُطْعِمْہٗ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّکَ لَوْ اَطْعَمْتَہٗ لَوَ جَدْتَ ذَالِکَ عِنْدِیْ یَا ابْنَ اٰٖدَمَ اسْتَسْقَیْتُکَ فَلَمْ تُسْقِنِیْ قَالَ یَا رَبِّ کَیْفَ اَسْتَقِیْکَ وَ اَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ قَالَ اسْتَسْقَاکَ عَبْدِیْ فُلَانٌ فَلَمْ تَسْقِہٖ اَمَا اِنَّکَ لَوْ سَفَیْتَہٗ لَوَ جَدْتَ ذَالِکَ عِنْدِیْ (مسلم جز رابع کتاب البرو الصلۃ والا داب باب فضل عیادۃ المریض) یعنی حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا اے آدم کے بیٹے میں بیمار ہوا اور تو نے میری عیادت نہیں کی۔ وہ کہے گا اے میرے رب میں تیری عیادت کس طرح کر سکتا ہوں حالانکہ تو رب العالمین ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تجھے یہ علم نہیں ہوا تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہے مگر تُو نے اس کی عیادت نہیں کی۔ کیا تجھے یہ معلوم نہیں کہ اگر تو میرے اس بندے کی عیادت کو جاتا ُتو تو مجھے اس کے پاس پاتا۔ پھر خدا فرمائے گا اے ابن آدم میں نے تجھ سے کھانا مانگا مگر تو نے مجھے کھانا نہیں دیا۔ وہ کہے گا اے میرے رب میں تجھے کس طرح کھانا کھلا سکتا ہوں حالانکہ تو رب العالمین ہے۔ خدا فرمائے گا کیا تجھے یہ علم نہیں ہوا تھا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا مگر تو نے اُسے کھانا نہیں دیا۔ کیا تجھے معلوم نہیں کہ اگر تُو اُسے کھانا کھلا دیتا تو تُو اُسے میرے پاس پاتا۔ اے ابن آدم میں نے تجھ سے پانی مانگا مگر تو نے مجھے پانی نہیں پلایا۔ وہ کہے گا اے میرے رب میں تجھے پانی کس طرح پلا سکتا ہوں حالانکہ تو رب العالمین ہے۔ خدا فرمائے گا تجھ سے میرے فلاں بندے نے پانی مانگا تھا مگر تو نے اُسے پانی نہیں پلایا۔ اگر تُو اُسے پانی پلا دیتا تو تُو اُسے میرے پاس پاتا یعنی تیرا یہ پانی مجھے پہنچتا۔ اس حدیث سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے معاملہ کو اپنے ساتھ معاملہ قرار دیتا ہے۔ پس جس طرح بندوں کو کھانا نہ کھلانا خدا تعالیٰ کو کھلانا نہ کھلانا اور بندوں کی عیادت نہ کرنے کے معنے خدا تعالیٰ کی عیادت نہ کرنا اور بندوںکو پانی نہ پلانا خدا تعالیٰ کو پانی نہ پلانا ہو سکتے ہیں اسی طرح اس کے بندوں کو دھوکا دینا خدا تعالیٰ کو دھوکا دینا کہلا سکتا ہے۔ اس طریق کلام کو انجیل میں بھی استعمال کیا گیا ہے۔ اس طریق کلام کو انجیل میں بھی استعمال کیا گیا ہے چنانچہ انجیل میں آتا ہے کہ مسیح کی آمد ثانی کے موقع پر سب قومیں اس کے سامنے پیش کی جائیں گی اور وہ مومنوں سے کہے گا کہ خدا تعالیٰ کی میراث حاصل کرو کیونکہ ’’میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا۔ میں پیاسا تھا تم نے مجھے پانی پلایا می ںپردیسی تھا تم نے مجھے اپنے گھر میں اتارا۔ ننگا تھا تم نے مجھے کپڑا پہنچایا۔ بیمرا تھا تم نے میری عیادت کی۔ قید میں تھا تم میرے پاس آئے۔ اس وقت راستباز اُسے جواب میں کہنے گے اے خداوند! کب ہم نے تجھے بھوکا دیکھا اور کھانا کھلایا یا پیاسا دیکھا اور پانی پلایا۔ کب ہم نے تجھے پردیسی دیکھا اور اپنے گھر میں اتارا۔ یا ننگا دیکھا اور کپڑا پہنایا۔ ہم کب تجھے بیمار یا قیدی دیکھ کر تجھ پاس آئے۔ تب بادشاہ اُن سے جواب میں کہے گا میں تم سے سچ کہتا ہو ںکہ جب تم نے میرے اِن سب سے چھوٹے بھائیوں میں سے ایک کے ساتھ یہ کیا تو میرے ساتھ کیا۔‘‘ (متی باب ۲۵ آیت ۳۵ تا ۴۰) گو انجیل کے ناقلوں نے خدا تعالیٰ کی جگہ مسیح کو رکھ کر اس لطیف پُر استعارہ کلام کو بھونڈا بنا دیا ہے مگر اس سے یہ تو ثابت ہو جاتا ہے کہ کسی کے مقرب یا پیار سے سلوک کرنا خود اسی سے سلوک کہلا سکتا ہے اور اسی لطیف استعارہ کو یُخَادِعُوْنَ اللّٰہ میں استعمال کیا گیا ہے۔
وَمَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّا اَنْفُسَہُمْ میں اس حقیقت کو ظاہر کیا گیا ہے کہ منافقوںکے غیر مخلصانہ افعال خود اُن کے لئے وبال بن جائیں گے۔ کیونکہ جو شخص دھوکے سے کام لیتا ہے آخر اس کا وبال جائیں گے۔ کیونکہ جو شخص دھوکے سے کام لیتا ہے آخر اس کا وبال اسی پر پڑتا ہے اور وہ دنیا اور آخرت میں ذلیل ہوتا ہے پس جبکہ وہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ میں دوسروں کو دھوکا دے رہا ہوں وہ در حقیقت اپنے نفس کو دھوکا دے رہا ہوتا ہے اور خود اپنی تباہی کے سامان کر رہا ہوتا ہے۔
وَمَا یَشْعُرُوْنَ اور وہ سمجھتے نہیں۔ شعور کے معنے جیسا کہ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے باریک امو رکے جاننے کے ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں اس کے مشابہ الفاظ علم، عرفان، عقل اور فکر کے استعمال ہوئے ہیں۔ بظاہر یہ الفاظ مشابہ ہیں لیکن ان سب الفاظ کے معانی ایک دوسرے سے مختلف ہیں بلکہ جیسا کہ عربی زبان کے ماہروں نے لکھا ہے دراصل عربی زبان میں کوئی لفظ بھی ایسا نہیں جو دوسرے لفظ کا کلی طور پر ہم معنی ہو بلکہ ہر لفظ مختلف اور زائد معنے دیتا ہے۔ چنانچہ علم اس قسم کے جاننے کیلئے آتا ہے۔ جو باہر سے پیدا ہو۔ یعنی سن کر یا دیکھ کر یا چھو کر یا چکھ کر پیدا ہو مثلاً کسی شخص کو ایک میٹھی چیز کا چکھ کر جس ذائقہ کا پتہ چلتا ہے وہ علم کہلا سکتا ہے شعور یا عرفان نہیں کہلا سکتا۔ اسی طرح عرفان اس علم کو کہتے ہیں جو دوبارہ حاصل ہو کیونکہ عرفان پہچاننے کو کہتے ہیں اور پہچانتا انسان اُس شئے کو ہے جس کا علم اُسے پہلے حاصل ہو چکا ہو۔ ایک شخص کو پہچاننے کے یہ معنے ہیں کہ ہم نے اُسے پہلے دیکھا ہوا تھا دوبارہ دیکھ کر ہمارا وہ سابق علم تازہ ہو گیا اور ہم نے اس علم کے متعلق غلھی نہیں کی۔ روحانی علوم کو اسی لئے عرفان کے نام سے موسوم کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کے ذریعہ سے یا فطرت صحیحہ کے ذریعہ سے جو روحانی امو رہمیں معلوم تھے ہم نے ان کا جب مشاہدہ کیا توپہچان لیا کہ یہ وہی چیز ہے جس کا علم کلام الٰہی یا فطرت صحیحہ کے ذریعہ سے ہم کو حاصل ہو چکا تھا۔ اسی وجہ سے عارف اُسے کہتے ہیں کہ اس نے خدا تعالیٰ کی صفات کا جن کا علم اُسے کتاب الٰہیہ کے ذریعہ سے حاصل ہو چکا تھا مشاہدہ کر لیا اور سمجھ لیا کہ یہ وہی صفات ہیں جن کو اس نے کلام الٰہی میں پڑھا تھا۔ عقل اس قوت کو کہتے ہیں کہ جو انسان کو علم، فکر اور شعور کے مطابق کام کرنے کی توفیق بخشتی ہے اور عاقل وہ ہے جو علم صحیح، فکر صحیح اور شعور صحیح کے مطابق کام کرے اور اپنے نفس کو ان کے خلاف چلنے سے رہ کے۔ فکر اس قوت کا نام ہے جو بیرونی علم سے نتائج اخذ کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اور مفکر اُسے کہتے ہیں کہ جو اس بسیط علم کو جو اُسے حاصل ہو چکا جوڑ کر اور ملا کر ایک نیا نتیجہ پیدا کرے۔ جو محض بسیط علم سے حاصل نہیں ہو سکتا تھا۔ اور شعور اس حس کو کہتے ہیں جو اندر سے پیدا ہوتی ہے اور فطرت صحیحہ کو معلوم کرنے کا نام ہے۔ پس شعور کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ جب انسان اپنی اندرونی طاقتوں کو محسوس کرنے لگتا ہیاور ان جبلی طاقتوں کو محسوس کر کے اپنے لئے نیک راہ تجویز کرنے لگتا ہے کہ جو خدا تعالیٰ نے اس کے اندر پیدا کی تھیں۔ چنانچہ بالوں کو اَشْعَارٌ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ اندر سے باہر کی طرف اگتے ہیں۔ اسی طرح اَشْعَارٌ اس لباس کو کہتے ہیں کہ جو دوسرے کپڑوں کے نیچے ہو اور جسم سے لگا ہوا ہو۔ اَشْعَارٌ درخت کو بھی کہتے ہیں کیونکہ وہ زمین سے باہر نکلتا ہے۔ اور اَشْعَارٌ اس اشارہ کو بھی کہتے ہیں کہ جو فوجیں باہم مقرر کر لیتی ہیں تاکہ اس کے ذریعہ سہ واپنے سپاہیوں کو اپنا مطلب سمجھا سکیں۔ اور اسے یہ نام اس لئے دیا گیا ہے کیونکہ وہ مخفی ہوتا ہے اور باہمی راز کو ظاہر کرتا ہے اسے انگریزی میںPass Word) یا (watch word کہتے ہیں شِعْر کو بھی شعر اس لئے کہتے ہیں کہ وہ اندرونی جذبات کو بیان کرتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے ارادے کو ظاہر کرنے والے امو رک وبھی شَعَائِر کہتے ہیں۔ کیونکہ ان کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کے منشاء کا پتہ چلتا ہے اور اس کی صفات کا ظہور ان کے ذریعے سے ہوتا ہے۔ اسی طرح مَشَاعِر باطنی حواس کو کہتے ہیں۔ پس شعور وہ مخفی حس ہے جو انسان کو اس کے اندرونی قویٰ کا علم دیتی ہے اور اس کا تعلق بیرونی علم سے نہیں۔ پس وَمَا یَشْعُرُوْنَ کے یہ معنے ہوئے کہ دھوکا دینا ایک ایسا فعل ہے جس کے خلاف فطرت صحیحہ گواہی دیتی ہے مگر یہ لوگ ایسے ہیں کہ انہوں نے مذہب کو توکیا سمجھنا ہے خود اپنے نفس کو بھی نہیں سمجھتے اور نہیں جانتے کہ منافقت ان افعال قبیحہ میں سے ہے کہ جن کو فطرت صحیحہ بھی ردّ کرتی ہے اور کسی دوسرے شخص کے بتانے کی بھی ضرورت نہیں۔
جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے اس آیت میں ان مسلمانوں کہلانے والے لوگوں کا ذکر ہے جو دل سے مسلمان نہ تھے اور صرف ظاہری طور پر مسلمانوں سے مل گئے تھے۔ یہ لوگ مدینہ کے رہنے والے تھے جب مدینہ کے اکثر لوگوں نے اسلام قبول کیا تو یہ لوگ بھی دیکھا دیکھی اسلام پر پورا غور کئے بغیر مسلمان ہو گئے مگر جب اسلام میں داخل ہونے کی شرائط پر غور کیا اُس میں داخل ہو کر جو قربانیاں کرنی پڑتی ہیں انہیں دیکھا تو اسلام میں ترقی نہ کر سکے بلکہ آہستہ آہستہ اس سے دُور ہو گئے لیکن اپنی قوم کی وجہ سے ظاہراً اسلام کو ترک بھی نہ کر سکے۔ اس مگر وہ کا ذکر قرآن کریم میں ان الفاظ میں آیا ہے لَاتَعْتَذِ رُوْا قَدْ کَفَرْ تُمْ بَعْدَ ایْمَا نِکُمْ اِنْ نَّعْفُ عَنْ طَآئِفَۃٍ مِّنْکُمْ نُعَذِّبْ طَآئِفَۃً بِاَ نَّھُمْ کَانُوْا مُجْرِ مِیْنَ اَلْمُنَا فِقُوْنَ وَالْمُنَافِقٰتُ بَعْضُہُمْ مِنْ بَعْضٍ یَاْ مُروْنَ بِالْمُنْکَرِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ وَیَقْبِضُوْنَ اَیْدِیَھُمْ نَسُوا اللّٰہَ فَنَسِیَھُمْ اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ ھُمْ الفَاسِقُوْنَ (توبہ ع ۸ و ع ۹) یعنی جب منافق لوگ شرارتیں کرتے ہیں اور انہیں اس پر گرفت ہوتی ہے تو وُہ عذر کرنے اور بہانے بنانے لگ جاتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عذر نہ کرو کیونکہ عذر بے فائدہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تم پہلے تو رسماً ایمان لے آئے تھے بعد میں پھر کفر میں چلے گئے اگر ہم تم میں سے بعض کو اپنی خاص مصالح کے ماتحت معاف کرتے رہیں گے تو بعض کو حسب موقعہ سزا بھی دیتے رہیں گے کیونکہ وُہ مجرم ہیں۔ منافق مرد بھی اور منافق عورتیں بھی آپس میں ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا شغل یہ ہے کہ جن امور سے اسلام روکتا ہے وہ ان کے کرنے کی ایک دوسرے کو تلقین کرتے ہیں اور جن باتوں کی اسلام تحریک کرتا ہے وہ ان کے نہ کرنے کی ایک دوسرے کو ہدایت کرتے رہتے ہیں اور اسلام کی مدد سے ہاتھ کھینچے رکھتے ہیں اور خدا تعالیٰ کو انہو ںنے چھوڑ دیا ہے پس خدا تعالیٰ نے ان کو چھوڑ دیا ہے یقینا منافق ہی اطاعت سے باہر نکلنے والے ہیں (ورنہ اللہ تعالیٰ کسی بندہ کو آپ نہیں چھوڑتا)
ان آیات سے ظاہر ہے کہ یہ لوگ پہلے تو اسلام میں داخل ہو گئے تھے پھر بعد میں اُن کے دلوں سے اسلام نکل گیا۔ اس گروہ میں کچھ مرد بھی شامل تھے اور کچھ عورتیں بھی۔ یہ لوگ اسلام پر اعتراض کرتے رہتے تھے لیکن کھلی کھلی مخالفت کی جرأت بھی نہ رکھتے تھے پوشیدہ مخالفت کرتے تھے۔ جب اسلام کی مدد کا وقت اتا پیچھے ہٹ جاتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی محبت اُن کے دل میں نہ تھی دنیا کی محبت میں مبتلا تھے اس لئے خدا تعالیٰ کی نصرت بھی جاتی رہی تھی۔
اصل بات یہ ہے کہ جب مدینہ والوں کو اسلام کی خبر ہوئی اور ایک حج کے موقعہ پر کچھ اہل مدینہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم سے ملے اور آپ کی صداقت کے قائل ہو گئے تو انہوں نے واپس جا کر اپنی قوم سے ذکر کیا کہ جس رسول کی آمد کا مدینہ میں رہنے والے یہودی ذکر کیا کرتے تھے وہ مکہ میں پیدا ہو گیا ہے اس پر اُن کے دلوں میں رسول کریمؐ کی طرف رغبت پیدا ہو گئی اور انہوں نے دوسرے حج پر ایک وفد بنا کر آپ کی طرف بھجوایا۔ اس وفد نے جب آپ سے تبادلہ خیالات کیا تو آپ پر ایمان لے آیا اور آپ کی بیعت کر لی۔ چونکہ اس وقت مکہ میں آپؐ کی شدید مخالفت تھی یہ ملاقات ایک وادی میں مکہ والوں کی نظروں سے پوشیدہ ہوئی اور وہیں بیعت بھی ہوئی۔ اس لئے اس بیعت عقبہ کہتے ہیں۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو مدینہ کے مومنوں کی تنظیم کے لئے افسر مقرر کیا اور اسلام کی اشاعت کی تاکید کی اور ان کی امداد کے لئے اپنے ایک نوجوان صحابی مصعب ابن عمیر کو بجھجویا تاکہ وہ وہاں کے مسلمانوں کو دین سکھائیں (سیرت ابن ہشام جلد اول) یہ لوگ جاتے ہوئے آنحضرت صلعم کو یہ دعوت بھی دے گئے کہ کہ اگر مکہ چھوڑنا پڑے تو آپ مدینہ تشریف لے چلیں جب یہ لوگ واپس گئے تو تھوڑے ہی عرصہ میں مدینے کے لوگوں میں اسلام پھیل گیا اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے کچھ اور صحابہ کو مدینہ بھجوا دیا جن میں حضرت عمرؓ بھی تھے (سیرت ابن ہشام جلد دوم) اس کے بع دہجرت کا حکم ملنے پر آپ خود وہاں تشریف لے گئے اور آپؐ کے جاتے ہی بہت تھوڑے عرصہ میں وہ سب اہل مدینہ جو مشرک تھے مسلمان ہو گئے۔
اسلام کے مدینہ میں پھیلنے سے پہلے مدینہ کی یہ حالت تھی کہ اس میں دو عرب قبیلے بستے تھے جن کا نام اوس اور خزرج تھا اور تین یہودی قبیلے بستے تھے جن کا نام بنو قریظہ، بنو نضیر اور بنو قینقاع تھا۔ یہودی گو مالدار تھے اور علوم دنیوی سے آراستہ لیکن تھے اقلیت میں۔ اور ارد گرد کی عرب آبادی کو ملا کر اور بھی کمزور ہو جاتے تھے۔ اس وجہ سے انہوں نے مدینہ میں دنیوی سیاست کا جال پھیلا رکھا تھا اور ’’اختلاف پیدا کر اور حکومت کر‘‘ کی سیاسی چال پر عمل پیرا تھے۔ آئے دن لوس اور خزرج میں لڑائیاں کرواتے رہتے تھے او رمدینہ کے امن کو خراب کرتے رہتے تھے۔ اسلام کے مدینہ میں آنے کے قریب زمانہ میں مدینہ کے لوگو ںکو اس حالت کا احساس پیدا ہوا اور انہو ںنے اپنی حالت پر غور کرنا شروع کیا۔ آخر بعض لوگوں نے یہ تجویز کی کہ اس فتنہ کے سدِّباب کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ مدینہ میں ایک منظم حکومت قائم کی جائے اور اپنے میں سے کسی شخص کو بادشاہ تجویز کر لیا جائے۔ یہ خیال زور پکڑ گیا اور مدینہ کے مشرک لوگ ایک بادشاہ کے انتخاب پر متفق ہو گئے آخر ایک شخص عبداللہ ابن ابی ابن سلول پر جو خزرج قبیلہ کا ایک ریئس تھا سب کا اتفاق ہوا۔ عام رواج کے مطابق اس کے لئے ایک تاج بنوانے کا بھی فیصلہ ہوا۔ مگر ابھی تاج بنوانے کی تیاری ہو رہی تھی کہ ان تک اسلام کی آواز پہنچ گئی اور انہوں نے محسوس کیا کہ اوپر لکھا جا چکا ہے آخر کار مسلمان ہو گئے۔ قوم کا شدید اخلاص اسلام کی طرف دیکھ کر عبداللہ بن ابی بن سلول اور اس کے ساتھی بھی اس کا مقابلہ نہ کر سکے اور اس وقت یہ خیال نہیں آیا کہ اسلام کی حکومت کے قیام سے ان کی حکومت بالکل جاتی رہے گی۔ لیکن جب اسلامی نظام قائم ہوا تو ان لوگوں کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ اب کسی خاص دنیوی وقار کی تمنا ایک خواب پریشان ہو چکی ہے۔ چنانچہ اس احساس کے بعد جو خفیف سا لگائو بھی اسلام سے تھا جاتا رہااور اسلام کی مخالفت دل میں پیدا ہو گئی۔ مگر ادھر قوم کی بڑی اکثریت اسلام کی شیدا ہو چکی تھی اس وجہ سے ظاہر میں یہ لوگ اسلام سے باہر بھی نہ نکل سکتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ظاہر میں تو یہ لوگ مسلمان بنے رہے مگر اندر ہی اندر ریشہ دوانیاں شروع کیں۔ ابتداء میں تو سابق عادت کے مطابق یہود سے مخفی دوستی گانٹھ کر اسلام کو نقصان پہنچانے کی تجویزوں میں مشغول ہوئے اور کفار مکہ سے تعلق پیدا نہ کیا کیونکہ قومی تعصبات کی وجہ سے وہ ان سے تعلق پیدا کرنے کو پسند نہ کرتے تھے حتٰی کہ اُحد کی جنگ کے موقعہ پر منافقین کفار مکہ کا مقابلہ کرنے کیلئے مسلمانوں کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہو گئے تھے لیکن رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے بعض احکام سے ناراض ہو کر راستہ میں سے واپس لوٹ آئے (سیرت ابن ہشام جلد دوم) اس کے بعد یہود کی انگیحت کی وجہ سے اور مسلمانو ںکی بڑھتی ہوئی طاقت سے متاثر ہو کر انہو ںنے اپنے پرانی قومی تعصب کو بھی بھلا دیا اور کفار مکہ سے بھی ساز باز شروع کر دی مگر پھر بھی ظاہری تعلقات کو قائم رکھنے کے لئے ان کے سردار مختلف جنگوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جاتے رہتے تھے گو ہمیشہ مسلمانوںکوباہم لڑوانے کے منصوبے کرتے رہتے تھے۔
قرآن کریم کے متعدد مقامات پر ان منافقوں کا ذکر آتا ہے۔ ان کی آخری شرارت وہ تھی جو انہوں نے فتح مکہ کے بعد کفار مکہ کی طاقت سے مایوس ہو کر قیصر کی حکومت کے ساز باز کر کے کرنی چاہی اسی کے نتیجہ میں غزوہ تبوک کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جانا پڑا۔ آخر اس میں بھی ان کو مایوسی ہوئی اور شاید اسی صدمہ سے عبداللہ بن ابی بن سلول تبوک کے واقعہ کے دو ماہ بعد مر گیا اور اس پارٹی کا شیرازہ بکھر گیا اور کچھ لوگ تو سچے دل سے مسلمانوں میں شامل ہو گئے اور باقی گمنامی میں ہلاک ہو گئے۔











۱۱؎ حل لغات۔
قُلُوْ بھمُ:۔ قلوب قلب کی جمع ہے اس کی تشریح کے لئے دیکھو حل لغات سورۃ ہذا ۸؎
مَرَضٌ:۔ اَلْمَرَضُ کُلُّ مَاخَرَجَ بِالْاِنسانِ عَنْ حَدِّ الصِّحَۃِ مِنْ عِلَّۃٍ وَّنِفَاقٍ وَّشَکٍّ وَّظُلْمَۃٍ وَّنُقْصَانٍ وَّتَقْصِیْرٍ فِیْ اَمرٍ۔ یعنی ہر وہ امر جو انسان کو دِّ صحت سے نکالدے خواہ وُہ بیماری ہو یا نفاق یا شک یا فساد یا ظلمت یا کسی چیز میں کمی اور کوتاہی ہو۔ وُہ مرض کہلاتا ہے (اقرب) مفردات میں مرض کے معنے یہ کئے گئے ہیں کہ ہر وہ چیز جو انسان کو صحت کی حد سے باہر نکال دے۔ اور اس کی دو اقسام ہیں۔ اول جسمانی مرض۔ دوسرے جملہ بری عادات جیسے جہالت۔ بزدلی بخل۔ نفاق وغیرہ اور نفاق او کفر اور ایسی ہی اور بُری باتوں کو مرض کے ساتھ او واسطے تشبیہہ دی جاتی ہے (۱) کہ جس طرح ظاہری مرض بدن کو پوری طرح سے کام کرنے سے روک دیتے ہیں (۲) یا اس لئے کہ جو ایسی باتوں کا شکار ہو اُسے اخروی زندگی حاصل نہیں ہو سکتی (۳) یا جس طرح مریض آدمی کا بدن مضر اشیاء کی طرف مائل ہوتا ہے اسی طرح ایسی باتوں میں پھنسے ہوئے انسان کا میلان اعتقادات رویہ کی طرف ہوتا ہے اور یہ سب اشیاء مرض کی صورت میں شمار کی جاتی ہیں۔ تو گویا اس شخص کو جو ان باتوں میں گرفتار ہو مریض قرار دیا گیا ہے۔ (مفردات)
عَذَاب:۔ کے لئے دیکھو حل لغات سورۃ ہذا ۸؎
اَلِیْمُ:۔ کے معنے ہیں اَلْمُوْجِعُ: دکھ دینے والا (اقرب) عَذَابٌ اَلِیْمٌ اَیْ مُؤْلِمٌ۔ یعنی تکلیف وہ عذاب (مفردات)
یَکْذِبُوْنَ:۔ کَذَبَ سے مضارع جمع غائب کا صیغہ ہے اور ککَذَبَ کے معنے ہیں اَخْبَرَ عَنِ الشَّیْئِ بِخَلَاِف مَا ھُوْمَعَ الْعِلْمِ بِہٖ ضِدُّ صَدَقَ۔ کسی چیز کے متعلق اپنے علم کے خلاف خبر دینا کذب کہلاتا ہے اور یہ لفظ صدقی کے مقابل پر بولا جاتا ہے۔ وَسَوَائٌ فِیْہِ الْعَمَدُ وَالْخَطَائُ خواہ جان بوجھ کر جھوٹ بولا گیا ہو یا نادانستہ غلط بات بیان کر دی ہو۔ دونوں کے لئے کذب کا لفظ بولیں گے (اقرب)
تفسیر۔ اس آیت میں بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَ کا ترجمہ اُن کے جھوٹ بولنے کے سبب سے کیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ مَا مصدریہ ہے اور اپنے بعد کے فعل کے معنٰی کو مصدری معنٰی میں تبدیل کر دیتا ہے۔ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ ان کا فطرت صحیحہ کے مطابق کام نہ کرنا بتاتا ہے کہ ان کے دل مریض ہیں کیونکہ اگر دل میں مرض نہ ہوتا تو کم سے کم یہ ان باتو ںکو تو محسوس کرتے جو فطرت صحیحہ سے پیدا ہوتی ہیں جس طرح صفراء کی زیادتی سے زبان کا مزہ خراب ہو جاتا ہے اور میٹھا بھی کڑوا معلوم دیتا ہے اسی طرح جن کے دل مریض ہوں وہ اپنی فطرت کی آواز کو صحیح طور پر نہیں سن سکتے۔
اس آیت میں بیماری سے مراد نفاق کی بیماری ہے پہلے رکوع کے شروع میں روحانی طور پر تندرست لوگوں کا ذکر تھا پھر کفر کے بیمارو ںکا ذکر ہوا اب اس آیت میں نفاق کی بیماری کا ذکر کیا گیا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نفاق کی بیماری کی مندرجہ ذیل علامات بتائی ہیں اِذَا حَدَّثَ کَذِبَ وَ اِذَا وَعَدَ اَخْلَفَ وَ اِذَا اُؤْتُمِنَ خَانَ وَ اِذَا عَاھَدَ غَدَرَ وَ اِذَا خَاصَمَ فَجَرَ (بخاری کتاب المظالم و کتاب الشہادات) یعنی جب منافق بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے او رجب وعدہ کرتا ہے تو پورا نہیں کرات اور جب اس کے پاس کئی امانت رکھائیں تو وُہ خیانت کرتا ہے اور جب معاہدہ کرے تو اُسے توڑ دیتا ہے اور جب جھگڑا ہو تو گالیوں پر اُتر آتا ہے۔
یہ علامات منافقت کا لازمہ ہیں کیونکہ منافق چونکہ اپنے نفاق کو چھپانا چاہتا ہے اس کا ذریعہ وہ یہی سمجھتا ہے کہ اگر اس پر کوئی الزام لگائے اور اس کے عیب کو ظاہر کرے تو وُہ جھوٹ بولے اور اس سے لڑ پڑے اور گالیوں پر اُتر آئے تاکہ لوگوں کی توجہ دوسری طرف پھر جائے۔ اسی طرح اُسے جھوٹ بولنے کی بھی ضرورت تہی ہے کیونکہ اس کے بغیر وہ اپنے اندر رونہ کو چھپا نہیں سکتا۔ وعدہ خلافی اور عہد کو توڑنا بھی اس کے خواص میں ہونا لازمی ہے کیونکہ منافق وہی ہوتا ہے جو ایک قوم سے بظاہر تعلق رکھ کر دراصل اس سے بگاڑ رکھے۔ امانت میں خیانت بھی اس کا ضروری خاصہ ہوتا ہے کیونکہ اپنے قومی راز غیروں کو بتائے بغیر وہ ان میں مقبول نہیں ہو سکتا۔
اس آیت میں بیماری کا بڑھانا اللہ تعالیٰ کی طرف اس لئے منسوب کیا گیا ہے کہ یہ ایسی کے احکام اور قوانین کی خلاف ورزی کا نتیجہ ہے اور لوگوں کے اعمال پر نیک و بد نتائج بھی وہی مرتب فرماتا ہے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو کسی کی بیماری کے بڑھانے کے لئے نازل نہیں فرمایا بلکہ لوگوں کی بیماری کے دور کرنے کیلئے بھیجا ہے چنانچہ فرماتا ہے یَا اَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَائَ تْکُمْ مَوْ عِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ شِفَآئٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ (یونس ع ۶) یعنی اے لوگو تمہارے پاس ایک ایسی کتاب آئی ہے جو دل پر اثر کرنے والی نصائح پر مشتمل ہے اور سینہ کی سب بیماریوں کیلئے شفاء ہے۔
یہ مرض جس کا اس آیت میں ذکر ہے قوت فیصلہ کا نہ ہونا بزدلی اور نفاق ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ دوسری جگہ قرآن شریف میں فرماتا ہے فَاَعْقَبَھُمْ نِفَا قًا فِیْ قُلُوْ بِھِمْ اِلیٰ یَوْمِ یَلْقَوْنَہُ بِمَٓا اَخْلَفُوا اللّٰہَ مَا وَعَدُوْہُ وَ بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَ (توبہ ع ۱۰) یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کی وعدہ خلافی اور جھوٹ کا یہ انجام دکھایا کہ اُن کے دلوں میں نفاق پیدا ہو گیا۔
(۲) اللہ تعالیٰ کے مرض بڑھا دینے سے ایک یہ مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ جوں جو ںمسلمانوں کو ترقی دیتا اور اُن کی طاقت بڑھاتا گیا منافقو ںکو اپنے دلی عقیدے کے خلاف ان کے ساتھ تعلقات قائم رکھنے کی وجہ سے اور زیادہ نفاق سے کام لینا پڑا۔ حالانکہ دراصل اسلام کی شوکت اُن کو ایک آنکھ نہ بھاتی تھی اِنْ تَمْسَکُمْ حَسَنَۃٌ تَسُؤْ ھُمْ (آل عمران ع ۱۲) اگر تمہیں کوئی آرام پہنچتا ہے تو ان (منافقوں) کو تکلیف ہوتی ہے۔ دوسرے شریعت اسلامی آہستہ آہستہ نازل ہوئی پس جوں جوں احکام اور مسائل بڑھتے گئے منافقوں کا نفاق بھی بڑھتا جاتا تھا اور ان کی جان اور گھبراہٹ اور بزدلی میں اضافہ ہوتا جاتا تھااللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاِ ذَا اُنْزِلَتْ سُوْرَۃٌ مُّحْکَمَۃٌ وَ ذُکِرَ فِیْھَا الْقِتَالُ رَاَیْتَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْ بِھِمْ مَرَضٌ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ نَظَرَ الْمَغْشِییِّ عَلَیْہِ مِنَ الْمَوْتِ فَاَ وْلیٰ لَھُمْ (سورۃ محمدؐ ع ۳) یعنی جب کوئی محکم آیات نازل ہوتی ہیں اور ان میں لڑائی کا ذکر ہوتا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ جن لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے وہ تمہاری طرف اس طرح دیکھتے ہیں جیسے کہ کسی پر موت کی غشی طاری ہو۔
پہلی آیات میں کفار کی نسبت فرمایا تھا وَلَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْم ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔اس آیت میں منافقوں کی نسبت فرمایا ہے کہ وَلَھَمْ عَذَابٌ اَلِیْم یعنی اُن کے لئے درد ناک عذاب ہے۔ اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ کافر کو خواہ کس قدر عذاب ملتا ہو وہ مقابلہ کر کے اپنے دل کا بخار نکال لیتا ہے اور اس طرح بدلہ لینے سے جو انسان کو تسلی ہوتی ہے وہ اسے حاصل ہو جاتی ہے۔ مگر منافق بدبخت چونکہ اپنے اندر و نہ کو چھپاتا ہے اندر ہی اندر کڑھ کڑھ کر مرتا ہے۔ اس لئے منافق کی اس حالت کی طرف اشارہ کرنے کے لئے عَذَابٌ اَلِیْمٌ کے الفاظ استعمال کئے گئے کہ اُسے دُکھ کے ساتھ جلن کا مزہ بھی چکھنا پڑتا ہے۔


۱۲؎ حل لغات۔
لَاتُفْسِدُوْا:۔ نہی جمع مخاطب ہے اور الفساد کے معنے ہیں خُرُوْجُ الَّشْیِٔ عَنِ الْاِعْتِدَالِ قَلِیْلًاکَانَ الْخُرُوْجُ مِنْہُ اَوْ کَثِیْراً وَیْضَادُّہٗ الصَّلَاحُ ۔کسی چیز کا حد اعتدال سے نکل جانا فساد کہلاتا ہے خواہ وہ خروج کم ہو یا زیادہ۔ اور اس کے بالمقابل ’’صلاح‘‘ کا لفظ بولا جاتا ہے۔ (مضردات)
اَلْاَرْضُ:۔ اَلْاَرْضُ کے مصدری معنے اَلنَّفَضَدُّ وَالرِّعْدَۃُ کے ہیں یعنی کانپنا (تاج) اقرب میں ہے اَلْاَرْضُ ، کرہ زمین کُلُّ مَاسَفلَ۔ ہر نیچے کی چیز۔
مُصْلِحُوْنَ:۔ اَصْلَحَ سے اسم فاعل جمع کا صیغہ ہے اَصْلَحَ بَیْن الْقَوْمِ کے معنے ہیں۔ وَفَّقَ ، قوم کے درمیان صلح کرائی اور اَصْلَحَہٗ۔ کے معنے ہیں اقامہ بعد فسادہ کسی چیز کے خراب ہو جانے کے بعد اسے اس کی اصل حالت پر لے آیا (اقرب) پس مُصْلِحُوْنَ کے معنے ہوئے اصلاح کرنے والے۔
تفسیر۔ ارض کے معنے عربی زبان اور محاورہ کے مطابق ساری زمین کے ہیں اور اس حصہ زمین کو بھی کہتے ہیں جو کسی چیز کے نیچے آئے جیسے کہتے ہیں اَرْضُ النَّعْلِ جوتی کے نیچے آنے والا حصہ زمین۔ اور ہر نیچے کی چیز یا دبے ہوئے وجود کو بھی کہتے ہیں۔ چنانچہ عربی کا محاورہ ہے اِنْ ضُرِبَ فَاَرْضٌ (اقرب) یعنی اگر اُسے مارا جائے تو وہ ارض ہو جاتا ہے یعنی بالکل دب جاتا ہے۔ محاورۂ زبان میں ارض کے معنے ملک یا زمین کے ٹکڑہ کے بھی ہوتے ہیں۔ چنانچہ کہتے ہیں اَرْضُ شَامِ اَرْضُ مِصْرَ یعنی شام کا ملک‘ مصر کا ملک۔ ہمارے ملک میں بھی زمیندار کی زمین کو اراضی کہتے ہیں۔ اس آیت میں ارض سے مراد ملک یا علاقہ کے ہیں کیونکہ جن منافقوں کا ذکر ہے ان کے اعمال ساری دنیا پر حاوی نہ تھے بلکہ ملک عرب یا اس کی سرحدوں تک محدود تھے۔
منافقوں کا فساد کئی رنگ میں ظاہر ہوتاہے تھا (۱) وہ مہاجرین اور انصار میں فساد ڈلوانے کی کوشش کرتے رہتے تھے اور قومی سوال کو اپنے بد اغراض کو پورا کرنے کے لئے آڑ بناتے رہتے تھے چنانچہ غزوہ بنی المصطلق کے موقعہ پر جب ایک معمولی سی بات پر مہاجرین اور انصار میں کچھ اختلاف پیدا ہو گیا تو عبداللہ بن ابی بن سلول نے جو اس وقت ساتھ تھا اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شور مچا دیا کہ یہ مہاجر باہر سے آ کر ہم پر حکومت کرنا چاہتے ہیں تم لوگوں نے ان کو سر پر چڑھا رکھا ہے اگر ان کی مدد نہ کرو تو وہ خود ہی تتر بتر ہو جائیں گے (سیرت ابن ہشام جلد سوم) چنانچہ اس قول کا ذکر قرآن کریم میں یوں ہے ھُمْ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ لَاتُنْفِقُوْا عَلیٰ مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ حَتّٰی یَنْفَضُّوْا (منافقوں ع ۱) یہ منافق ہی ہیں جو کہتے ہیں کہ یہ لوگ جو محمد رسول اللہ کے ساتھ جمع ہیں ان پر اپنے روپے نہ خرچ کیا کرو تاکہ یہ تتر بتر ہو جائیں۔ اور جب عبداللہ بن ابی بن سلول نے دیکھا کہ انصار جوش میں آ گئے ہیں تو جڑ پر تبر چلانا چاہا۔ یعنی خود رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی ہتک کی اور کہدیا لَئِنْ رَّجَعْنَا اِلَی الْمَدِیْخنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْھَا الْاَذَلَّ (منافقون ع ۱) یعنی ہمیں مدینے پہنچ لینے دو ہاں مدینہ کا سب سے بڑا آدمی (یعنی خود عبداللہ بن ابی) اس کے سب سے ذلیل آدمی کو (یعنی نعوذ باللہ من ذالک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فداہ نفسی و روحی کو) وہاں سے نکال دے گا۔
کبھی یہ لوگ قومی گہنگاروں کی پیٹھ ٹھونکتے تھے کہ تا وہ جوش میں آ کر اسلام سے برگشتہ ہو جائیں کبھی رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے اعمال پر معترض ہوتے تاکہ لوگوں میں بد دلی پھیلائیں جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے وَمِنْھُمْ سمَنْ یَلْمِزُکَ فِی الصَّدَقٰتِ (توبہ ع ۷) یعنی ان منافقوں میں سے وہ بھی ہیں جو تیری صدقات کی تقسیم پر معترض ہوتے ہیں۔ اس سے ان کی غرض یہ ہوتی تھی کہ جن کو صدقہ میں سے مال نہ ملا ہو ان میں بد دلی پیدا ہو۔ اسی طرح آپ کے متعلق اعتراض کرتے کہ ھُوَ اُذُنٌ (توبہ ع ۸) وہ تو کان ہی کان ہے یعنی اس نے تو چاروں طرف جاسوس چھوڑ رکھے ہوئے ہیں کوئی آدمی آزادی سے اپنے خیالات ظاہر نہیں کر سکتا۔ کبھی مشکلات کے وقت مسلمانوں میں بد دلی پیدا کرنے کی کوشش کرتے۔ جیسا کہ فرماتا ہے۔ وَاِنْ تُصِبْکَ مُصِیبَۃٌ یَّقُوْ لُوْا قَدْ اَخَذْنَٓا اَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ (توبہ ع ۷) یعنی اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اور مخلصین صحابہ کو کوئی نقصان جنگ میں پہنچتا تو کہتے کہ دیکھا یہ ہمارے مشورہ پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ ہے ہم نے پہلے ہی صورتِ حالات کو بھانپ لیا تھا اور اس جنگ میں میں شامل نہ ہوئے تھے۔ کبھی کفار کو مسلمانوں کے خلاف جوش دلاتے جیسا کہ فرماتا ہے اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ نَافَقُوْ ایَقُوْ لُوْنَ لِاِ خْوَانِھِمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ امِنْ اَھْلِ الْکِتَابِ لَئِنْ اُخْرِ جْتُمْ لَنَخْرُجَنَّ مَعَکُمْ وَلَا نُطِیْعُ فِیْکُمْ اَحَدًا اَبَدًا وَّاِنْ قُوْ تِلْتُمْ لَنَنْصُرَ نَّکُمْ وَاللّٰہُ یَشْھَدُ اِنَّھُمْ لَکَا ذِبُوْن (حشر ع ۲) یعنی کیا تجھے ان منافقوں کا حال معلوم ہے کہ وہ اپنے اہل کتاب کافر بھائیوں کو جاکر اُکساتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر تم کو مدینہ سے نکالا گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ ہی مدینہ چھوڑ جائیں گے اور تمہارے معاملہ میں ہم کسی کی بات نہ سنیں گے اور اگر تم سے جنگ کی گئی تو ہم تمہارے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑیں گے لیکن اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ یہ جھوٹ بولتے ہیں۔ چنانچہ ایسا ی ہوا کہ جب اہکتاب کو جلا وطن کیا گیا تو وہ لوگ ساتھ نہ نکلے۔ اورجب ان سے لڑائی ہوئی تو انہوں نے ان کا ساتھ نہ دیا۔ کیونکہ ان کی اصل غرض تو مسلمانوں کے خلاف فساد پھیلانا تھی۔
اسی طرح ایک فساد کا طریق یہ تھا کہ وہ مسلمانوں کو ڈرانے کی کوشش کرتے تھے۔ چنانچہ فرماتا ہے وَ اِذَا جَٓائَ ھُمْ اَمْرٌمِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَا عُوْابِہٖ (نساء ع ۱۱)جب کوئی امن یا خوف کی بات ان کو معلوم ہو جائے تو اسے خوب پھیلاتے ہیں تاکہ مسلمانوں میں فساد پیدا ہو جائے۔ خوف کی بات تو اس لئے کہ مسلمان ڈریں اور امن کی بات اس موقعہ پر کہ جب دیکھیں کہ بعض مسلمان اس صلح پر خوش نہیں تو ایسے موقعہ پر وہ مسلمانوں کو جوش دلانے کی کوشش کرتے اور کہتے کہ اس طرح صلح کر کے ہم کو ذلیل کیا جا رہا ہے۔
غرض منافق طرح طرح سے ملک میں فساد پیدا کرتے تھے اور اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ جب ان سے کہا جاتا کہ اس طرح فساد پیدا کرنے سے کیا فائدہ ایسا نہ کرو۔ تو وہ یہ جواب دیتے کہ ہم تو صرف اسلاح کے خاطر یہ سب کام کرتے ہیں۔ یہ بھی منافقوں کی ایک علامت ہے کہ اپنے گندے اعمال کو چھپانے کے لئے ہمیشہ اپنے اعمال کے لئے کوئی نہ کوئی ایسا بہانہ بنا لیتے ہیں کہ جس سے ان کے اعمال بظاہر نیک نظر آئیں۔ کسی موقعہ پر غریبوں کی امداد کا بہانہ کسی موقعہ پر مسلمانوں کو تباہی سے بچانے کا بہانہ۔ غرض اپنی بدنیتی کو نیک نیتی کے پردہ میں چھپانے کی کوشش ہمیشہ ان کی طرف سے ہوتی رہتی ہے۔ اور اگر وہ یہ نہ کریں تو اپنی نفاق کو چھپائیںکس طرح۔ ہر قوم اور ہر ملک کے منافق اسی طرح کرتے ہیں۔ اور جن قوموں کی تباہی کے دن آ جاتے ہیں وہ ان کے دھوکے میں آ کر سچے خیر خواہوںکو چھوڑ دیتی ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے صحابہؓ کو ان کے دھوکے سے بچایا اور ان کی شرارتیں انہی کے سروںپر الٹ پڑیں۔
منظم جماعتوں میں منافقوں کا گروہ ضروری ہوتا ہے۔ کیونکہ جب تنظیم نہ ہو تو منافقت کرنے کی ضرورت کم ہی ہوتی ہیں لیکن جب ایک جماعت منظم ہو۔ تو اسے چھوڑنا کمزور دل لوگوں کے لئے مشکل ہو جاتا ہے اس لئے وہ ایک طرف تو اپنی جماعت سے بھی تعلق بنائے رکھتے ہیں اور دوسری طرف خفیہ خفیہ اس کے مخالفوں سے بھی ساز باز شروع کر دیتے ہیں۔ جماعت احمدؐ یہ چونکہ ایک منظم جماعت ہے اسے اس خطرہ کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہیئے۔ منافقوں کا وجود اس میں پایا جانا اس کی کمزوری کی علامت نہیں بلکہ اس کی تنظیم کا ثبوت ہے۔ ہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ منافقوں کی چالوں کو جو قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں سمجھے اور انہیں مدنظر رکھ کر منافقوں کو پہچانے اور ان سے وہی معاملہ کرے جو قرآن کریم نے تجویز کیا اور ان کے ہتھکنڈوںمیں نہ آئے کہ وہ شیطان کی طرح خیر خواہ بن کر ہی حملے کیا کرتے ہیں۔
۱۳؎ حل لغات۔
اَلَا کے معنے چوکس اور ہوشیار کرنے کے ہوتے ہیں نہ کہ دھمکی دینے کے پس خبردار کی بجائے ’’سنو‘‘ کا لفظ رکھا گیا ہے۔ جو ہوشیار کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہیں۔
وَلٰکِنْ:۔عربی میں وائو اور لٰکِنْ دو لفظ عطف کئے ہیں۔ اور ایک دوسرے کی تاکید کرتا ہے۔ اردو میں اس کی جگہ ’’ہاں مگر‘‘ یا ’’مگر‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔
یَشْعُرُوْنً کے لئے دیکھو حل لغات سورۃ ہذا ۱؎
تفسیر۔ منافقوں کے سا قول سے کہ اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ اِس طرف اشارہ تھا کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں مگر وہ لوگ جن کو سچا مسلمان کہا جاتا ہے فساد کرتے ہیں کیونکہ اِنَّمَا حصر کے لئے آتا ہے۔ اور جب کوئی شخص کہے کہ میں ہی ایسا ہوں تو اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ میرے سوا دوسرے لوگ ایسے نہیں ہیں۔ ایسے ان کے جواب میں قرآن کریم میں ایسا ہی فقرہ استعمال فرمایا کہ اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ یعنی سننے والے سن چھوڑیں کہ منافق ہی تو فساد کرنے والے ہیں اور الزام دوسرو دیتے ہیں۔
پہلے ثابت کیا جا چکا ہے کہ منافق قسم قسم کے فساد کرتے تھے مگر اپنے مفسدانہ اعمال کی کوئی نہ کوئی نیک توجیہہ پیش کر دیا کرتے تھے لیکن نیک توجیہہ بُرے کام کو اچھا نہیں بنا دیتی۔ اگر کوئی شخص کسی جماعت کے نظام یا عقیدہ سے خوش نہ ہو تو اس کا فرض ہوتا ہے کہ اس سے جدا ہو جائے نہ کہ اس میں رہ کر اس میں فساد پیدا کرنے کی کوشش کرے۔
اس آیت کے آخر میں منافقوں کے اندر شعور کی کمی بتائی ہے کیونکہ نفاق دل سے تعلق رکھتا ہے اور قوتِ شعور ہی سے اس کا پتہ لگایا جاتا ہے۔ اگر منافق ظاہری تو جیہوں کی بجائے اپنے دلون کو پڑھنے کی کوشش کریں تو انہیں معلوم ہو جائے کہ ان کے اعمال اصلاح کے خیال سے نہیں بلکہ بزدلی اور جماعت سے اختلاف رکھنے کے باعث ہیں اور اس طرح ان کو اپنی بیماری کا علم ہو جائے۔ مگر وہ اپنے دل کے خیالات کو بھی صحیح پر پڑھنے کی کوشش نہیں کرتے اور اس طرح دوسروں کو دھوکہ دینے کی بجائے اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں۔
۱۴؎ حل لغات۔
اٰمِنُوْا: اٰمَنَ سے جمع مرکب کا صیغہ ہے۔ اوراٰمَنَ کے لئے دیکھیں حل لغات سورۃ ہذا ۹؎
اَلسُّفَھَآئُ:۔ سَفِیْہٌ کی جمع ہے جو سَفِہَ سے صفت مشبہ کا صیغہ ہے اور سَفِہَ عَلَیْنَا کے معنے ہیں جَھِلَ و ہ جہالت سے پیش آیا۔ سَفِھَتِ الطَّعْنَہُ : اَسْرَعَ مِنْھَا الدَّمُ وَخَفَّ۔ خون نیزہ کے زخم سے تیزی سے نکل کر ہلکے طور پر بہا۔ سَفِہَ نَصِیْبَہٗ : نَسِیَہٗ اپنے حصہ کو بھول گیا۔ اَلسَّفَہُ کے معنے ہیں۔ خِفَّۃُ الْعِلْمِ اَوْنَقِیْضُہٗ بیوقوفی۔ کم عقلی۔ برداشت کا کم ہونا۔ اَوِ الْجَھْلُ۔ جہالت۔ وَ اَصْلُہُ الْخِفَّۃُ وَالْحَرَکَۃُ وَالْاِ ضْطِرَابُ اس کے اصل معنے ہلکاپن۔ حرکت اور اضطراب کے ہیں۔ اور اَلسَّفِیْہُ کے معنے ہیں ذُوالسَّفَہِ ایسا شخص جس میں عقل۔ صبر اور برداشت کم ہوں۔ (اقرب) مضردات میں ہے اَلسَّفَہُ : اَلْخِفَّۃُ فِی الْبَدَنِ وَ مِنْہُ قِیْلَ زَمَامٌ سَفِیْہٌ کَثِیُر الْا ضِطِرَابِ وَ ثَوْبٌ سَفِیْہٌ: رَدِیُّ النَّسْج۔ اَلسَّفَہُ کے معنے اونٹ کی ایسی مہار کو جو ہلکا ہونے کی وجہ سے بہت حرکت کرے زَمَامٌ سَفِیْہُ کہتے ہیں۔ بدن میں ہلکا پن کا پایا جانا۔ اس واسطے اونٹ کی ایسی مہار کو جو ہلکا ہونے کی وجہ سے بہت حرکت کرے زَمَامرٌ سَفِیْہُ کہتے ہیں۔ اور ایسا کپڑا جو ناقص طور پر بنا ہوا ہو اور وہ بہت کم قیمت سمجھا جائے اسے ثَوْبٌ سَفِیْہٌ کہتے ہیں۔ وَاسْتُعْمِلَ فِیْ خِفَّۃِ النَّفْسِ وَ نُقْصَانِ الْعَقْلِ وَفِی الْاُ مُوْرِ الدُّنْیَوِیَّۃِ وَالْاُ خْرَوِیَّۃِ۔ اور دینی یا دنیوی امور میں سمجھ اور عقل نہ ہونے کی وجہ سے جو نفس میں کمزوری پیدا ہو جاتی ہے۔ اس پر بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے (مضردات) لسانی العرب میں ہے کہ جب سَافَھْتُ الشَّرَابَ کا فقرہ بولیں تو معنے یہ ہوں گے۔ اِذَا اَسْوَفْتُ فِیْہِ کہ میں نے شراب کے خرچ کرنے میں اسراف سے کام لیا۔ پس سَفِیْہٌ کے معنے ہوں گے (۱) خضیف العقل (۲) جاہل (۳) جس کی رائے میں اضطراب ہو۔ استقامت نہ ہو (۴) ایسا شخص جو دینی و دنیوی عقل عمدہ نہ رکھتا ہو (۵) جس کی رائے کی کچھ قیمت نہ ہو (۶) جو شخص اپنی قیمتی اشیاء کو بے سوچے خرچ کر دے۔
لَایَعْلَمُوْنَ: عَلِمَ سے مضارع منفی جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے۔ اور عَلِمَہٗ (یَعْلَمُہٗ) کے معنے تَیَقَّنَہٗ وَعَرَفَہٗ کسی چیز کا یقین کر لیا اور اس کو جان لیا۔ جب سمجھنے کے معنوں میں استعمال ہو تو اس وقت اس کے دو مفعول آئیں گے اور اگر معرفت کے معنوں میں استعمال ہو تو ایک عَلِمَ الْاَمْرَ کے معنے ہیں اَتْقَنَہٗ کسی کام کو مضبوط کیا۔ عَلِمَ الشَّیْ ئَ وَ بِالشَّیْئِ: شَعَرَبِہٖ وَاَحَاطَہٗ وَاَدْرَکَہٗ کسی چیز کی پوری واقفیت حاصل کر لی۔ اس کی حقیقت کا احاطہ کر لیا۔ اس کا پورا علم حاصل کر لیا۔ اور اَلْعِلْمُ کے معنے ہیں اِدْرَاکُ الشَّیْئِ بِحَقِیْقَتِہٖ کسی چیز حقیقت کو معلوم کر لینا (اقرب) پس لَایَعْلَمُوْنَ کے معنے ہوں گے۔ وہ حقیقت کو نہیں جانتے۔
تفسیر۔ گو اس آیت میں صیغہ مجہول کا استعمال کیا گیا ہے مگر گذشتہ آیات کو دیکھتے ہوئے کہنے والے مسلمان ہی معلوم ہوتے ہیں۔ اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب مسلمان ان منافقوں سے کہتے ہیں کہ جس طرح دوسرے شریف آدمی ایمان لائے ہیں او راپنے عہد کے پکے ہیں تم بھی اسی طرح ایمان لائو۔ یہ کیا کہ کبھی اِدھر اور کبھی اُدھر۔ دل مںی کچھ اور زبان پر کچھ۔ تو منافق اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ جن لوگوں کی طرح ایمان لانے کا تم ہم کو مشورہ دیتے ہوں وہ تم کو عقل ہیں اور اپنی جانوں اور مالوں کو بے دریغ لٹا رہے ہیں۔ کیا تم چاہتے ہو کہ ہم بھی ان کی طرح بے عقل ہو جائیں۔ ایک مٹی بھر آدمی ہیں اور ساری دنیا سے مقابلہ شروع کر رکھا ہے۔ ان کو چاہیئے تھا کہ سمجھ سے کام لیتے اور سب سے تعلقات بنا کر رکھتے جس طرح ہم سب سے تعلق بنا کر رکھتے ہیں۔
حل لغات میں بتایا جا چکا ہے کہ سَفِیْہٌ جس کی جمع سُفَھَائُ سے سَفَہَ سے نکلا اور اس کے معنے قلب عقل کے بھی ہوتے ہیں۔ اور بے دریغ اپنے اموال کو لٹانے کے بھی ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں بھی یہ محاورہ استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ آتا ہے وَلَا تُؤْ تُوا الشُّفَھَآئَ اَمْوَ الَکُمُ (نساء ع ۱) اپنے مال ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں نہ دو جو ان کو خرچ کرنا نہ جانتے ہوں اور ان کو ضائع کر دیں۔ منافقوں کا مسلمانوں کو سُفَھَاء کہنا انہی معنوں میں ہے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ لوگ نہ اپنی جانوں کی حفاظت کر سکتے ہیں نہ اپنے مالوں کی اور یونہی بے سوچے سمجھے اپنی جانیں ضائع کر رہے ہیں اور مال لٹا رہے ہیں۔ لیکن ہم ہوشیار ہیں۔ ہم مسلمانوں کے ساتھ بھی بنا کر رکھتے ہیں اور کفار سے بھی اس طرح ہم دونوں طرف کے خطروں سے محفوظ ہیں۔
منافقوں کا یہ اعتراض قرآن کریم میں دوسرے مقامات پر بھی وضاحت سے بیان ہوا ہے۔ چنانچہ آتا ہے کہ منافق اپنے ہموطنوں سے کہتے تھے لَاتُنِفْقُوْا عَلیٰ مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ حَتّٰی یَنْفَضُّوْا (المنافقون ع ۱) یہ لوگ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہیں اور ان پر خواہ مخواہ اپنے مال نہ خرچ کرو تاکہ یہ پراگندہ ہو جائیں اور تم اس وبال سے محفوظ ہو جائو۔ اسی طرح آتا ہے اَلَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِیْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ فِی الصَّدَقٰتِ وَالَّذِیْنَ لَایَجِدُوْنَ اِلَّا جُہْدَ ھُمْ فَیَسْحَرُوْنَ مِنْھُمْ (توبہ ع ۱۰) یعنی منافق لوگ ان پر بھی ہنسی اڑاتے ہیں جو صاحب توفیق ہو کر بڑھ بڑھ کر چندے دیتے ہیں اور ان پر بھی جو صاحبِ توفیق نہیں۔ اور جو کچھ تھوڑا سامال ان کے پاس ہوتا ہے۔ حاضر کر دیتے ہیں۔ گویا ان کو دونو ںپر اعتراض تھا۔ جو صاحبِ استطاعت تھے انہیں کہتے تھے کہ دیکھو کیسے ریا کار ہیں اپنے مال شہرت کی خاطر لٹاتے ہیں۔ جو غریب تھے ان پر ہنستے تھے کہ کیسے بیوقوف ہیں کھانے کو ملتا نہیں اور چندے دئے جاتے ہیں۔ جانوں کے اسراف کے بارہ میں بھی ان کا اعتراض تھا۔ چنانچہ جنگ کا ذکر اور دشمنوں کے غلبہ اور کثرت کا ذکر کر کے فرماتا ہے کہ اِذْ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ غَرَّا مٰٓؤُلَآئِ دِیْنُھُمْ (انفال ع ۷) یعنی منافق اور جن کے دلوں میں مرض ہے کہتے ہیں کہ ان مسلمانوں کو تو ان کے دین نے مفرور کر دیا ہے۔ یعنی دین میں جو وعدے ترقی کے مذکور ہیں ان سے دھوکہ کھا کر اپنی جانوں کی پروا نہیں کرتے اور جانیں قربان کرتے چلے جاتے ہیں اور انجام کو نہیں دیکھتے۔
غرض سَفِیْہٌ سے مراد منافقوں کی یہ ہے کہ مسلمان اپنی جانوں اور مالوں کو بے سوچے سمجھے برباد کر رہے ہیں اور ہم اپنی جانوں کی حفاظت کرتے ہیں اور اپنے مالوں کو بچا رہے ہیں۔ یہ اعتراض ہمیشہ بڑھنے والی قوموں پر ہوتا ہے۔ جب بھی خدا تعالیٰ کسی قوم کو بڑھانا چاہتا ہے ایسے ہی حالات میں بڑھاتا ہے کہ باوجود اس کے کہ جو قوم کمزور اور بے سامان ہوتی ہے اور وہ اسے بے دریغ قربانی کا حکم دیتا ہے جو منافقوں اور دشمنوں کی نظر میں ایک لغو فعل نظر آتا ہے۔ کیونکہ وہ قربانی کی قیمت نہیں جانتے۔ ہاں جب کامیابی حاصل ہو جاتی ہے تو ان کی اولاد کہتی ہے کہ یہ کامیابی غیر معمولی نہیں اس کا سبب یہ تھا کہ مومن قربانی کرتے تھے اور ان کے مخالفت غافل تھے گویا پہلے ان کے آباء اور رنگ کا اعتراض کرتے ہیں اور اولاد بالکل الٹ قسم کے اعتراض شروع کر دیتی ہے۔ چنانچہ اسلام کی ابتداء میں تو یہ اعتراض کیا گیا کہ مسلمان تو بے وقوف ہیں۔ اپنے مالوں اور اپنی جانوں کو ضائع کر رہے ہیں۔ اور ایسے طور پر خرچ کر رہے ہیں کہ نتیجہ کچھ نہ نکلے گا یونہی اپنے مذہب کے جھوٹے وعدوں کے دھوکے میں آ گئے ہیں مگر جب اسلام کو غلبہ مل گیا تو اب ان کی اولاد یا ان کے اظلال یہ کہہ رہے ہیں کہ اسلام کی ترقی کوئی معجزانہ ترقی نہ تھی۔ عربوں اور ایرانیوں اور رومیوں کے اخلاق تباہ ہو گئے تھے اور ان میں قوم کی خاطر قربانی کرنے کا جذبہ نہ رہا تھا اس لئے مسلمان غالب آ گئے۔ سچ ہے جب انسان سچائی کو چھوڑتا ہے تو کسی ایک مقام پر کھڑا نہیں ہو سکتا اسے بار بار اپنی جگہ بدلنی پڑتی ہیں۔ بھلا کوئی سوچے کہ اگر مسلمانوں کے اندر ایسی ہی کوئی غیر معمولی طاقت موجود تھی اور ان کے مدمقابل ایسے ہی کمز ور تھے تو اندرونی منافق اور بیرونی دشمن ان کی قربانیوں کو اسراف اور ان کے ارادوں کو جنون کیوں قرار دے رہے تھے۔
باقی رہا یہ کہ بعض اسباب ان کی تائید میں پیدا ہو گئے تو یہ معجزانہ غلبہ کے خلاف نہیں۔ اللہ تعالیٰ جب کوئی خبر دیتا ہے تواس کی تائید میں سامان بھی پیدا کر دیتا ہے۔ مگر وہ سامان مومنوں کی کوشش کا نتیجہ نہیں ہوتے۔ آخر عربوں، ایرانیوں اور رومیوں کو سچی قربانیوں سے مسلمانوں نے تو محروم نہ کیا تھا۔ پھر یہ بھی تو دیکھنا چاہیئے کہ دونوں فریق کی طاقت کی باہمی نسبت کیا تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عربوں رومیوں اور ایرانیوں سے سچی قربانی کی روح چھین لی۔ مگر جس حد تک انہو ںنے طاقت خرچ کی مسلمانوں میں تو اس کے مقابلہ کی بھی ظاہر حالات میں طاقت نہ تھی پھر وہ کیونکر غالب آئے۔
منافقوں کی اس حالت کا کہ وہ کفار کے مقابلہ کو نادانی سمجھتے تھے ایک اور آیت میں بھی بیان کیا گیا ہے فرماتا ہے۔ تَرَی الَّذِیْنَ فِی قُلُوْبِھِمْ مَّرَضَّ یُسٰرِعُوْنَ فِیْھِمْ یَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓی اَنْ تُصِیْبَنَا دَآئِرَۃٌ فَعَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّاْ لِّیَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍمِّنْ عِنْدِہٖ فَیُصْبِحُوْا عَلیٰ مَٓا اَسَرُّوْا فِٓیْ اَنْفُسِہِمْ نٰدِمِیْنَo ( مائدہ ع ۸) یعنی ان منافقو ںکا حال جن کے دلوں میں بیماری ہے تم دیکھتے ہیں کہ ہم تو اس سے اسلام میں بھاگ کر گھستے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو اس سے ڈرتے ہیں کہ مسلمانوں کو شکست ہوئی تو انجام کیسا بُرا ہو گا۔ پس قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ فتح کے سامان پیدا کر دے یا اور کوئی ایسا امر ظاہر کر دے کہ یہ منافق ان خدشات کی وجہ سے جو ان کے دلوں میں پیدا ہو رہے ہیں شرمندہ ہو جائیں۔
اصل بات یہ ہے کہ فتح تو بہادروں اور قربانی کرنے والوں کا حق ہوتا ہے۔ اور مومن دنیا میں سب سے بہادر ہوتا ہے کیونکہ اس کی نظر آسمان کی طرف ہوتی ہے نہ کہ زمین پر۔ جو قوم بھی سچی قربانی سے ڈرتی ہے تباہ ہوتی ہے۔ جو اپنے مالوں کو سنبھال کر رکھتے ہیں وہی انہیں ضائع کرتے ہیں جو انہیں صحیح طور پر خرچ کرتے ہیں ان کے مال ہزاروں گنے بڑھ کر واپس آتے ہیں۔
آخر آیت میں فرمایا کہ اصل میں یہی لوگ اپنے اموال اور جانوں کا نقصان کر رہے ہیں۔ کیونکہ نہ کفار نے فتح پانی ہے کہ ان کے ساتھ تعلق ان کے لئے مفید ثابت ہو اور نہ مسلمانوں نے ہارنا ہے کہ ان سے بگاڑا نہیں فائدہ پہنچا سکے۔ لیکن چونکہ یہ آئندہ کی بات ہے یہ جانتے نہیں۔ اور خدا تعالیٰ پر ایمان نہیں کہ اس کی پیشگوئیوں کے ذریعہ سے اس حقیقت کو سمجھ سکیں۔ حالانکہ اگر جانتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ یہ اس طریق عمل سے اپنے مالوں اور جانوں کو خطرہ میں ڈال رہے ہیں۔ ایک دوسری آیت میں اس کی تشریح اس طرح فرمائی ہے۔ فرماتا ہے وَلَا تُعْجِبْکَ اَمْوَا لُھُمْ وَاَوْلَا دُ ھُمْ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ اَنْ یُّعَذِّ بَھُمْ بِھَا فِی الدُّنْیَا وَتَّزْھَقَ اَنْفُسُھُمْ وَھُمْ کٰفِرُوْنَ۔ (توبہ ع ۱۱) یعنی منافق لوگ اپنے مالوں اور اپنی اولادوں پر ناز کرتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ ان کے مال بھی محفوظ ہیں اور جانیں بھی۔ کیونکہ وہ اپنی اولادوں کو جہاد پر جانے نہیں دیتے۔ لیکن مسلمان ان کے اس فخر سے دھوکہ نہ کھائیں۔ کیونکہ گو بظاہر وہ مالدار ہیں۔ اور بظاہر ان کی اولادیں گھروں میں آرام سے بسر کر رہی ہیں لیکن خدا تعالیٰ انہیں ان کے مالوں اور ان کی اولادوں کی ذریعہ سے اسی دنیا میں عذاب دے گا اور دنیا میں ذلیل ہو جانے کے بعد ایک دن کفر کی حالت میں یہ اس دنیا سے چل بسیں گے۔
یہ آیت منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی بن سلول پر خوب صادق آئی۔ وہ اپنی سب کوششوں کو نامراد ہوتے دیکھ کر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی دیکھ کر آپ کی زندگی میں ہی وفات پا گیا اور اس کا بیٹا نہایت مخلص ثابت ہؤا جو اس کے لئے مزید ذلت اور دکھ کا موجب تھا۔

۱۵؎ حل لغات
خَلَوْا:۔ خَلٰیکسے جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے۔ اور خَلَا بِالشَّیْئِ کے معنے ہیں اِنْفَرَدَبِہٖ وَلَمْ یَخْلُطْ بِہٖ غَیْرَہُ۔ کسی چیز کو الگ رکھا اور اس کے ساتھ کسی اور چیز کو نہ ملایا خَلَابِفُلَانٍ وَمَعَہٗ وَاِلَیْہِ: سَاَلَہٗ اَنْ یَجْتَمِعَ بِہٖ فِیْ خِلْوَۃٍ فَفَعَلَ کسی سے علیٰحدہ ملنے کی خواہش کی اور دوسرے نے یہ بات مان لی۔ وَقِیْلَ اِنَّ اِلیٰ ھٰمُنَا بِمَعْنی مَعَ کَمَا فِیْ قَوْلِہٖ مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ وَ اِذَا خَلَوْا اِلیٰ شَیٰطِیْہِمْ میں اِلیٰ کے معنے مَعَ کے ہیں۔ یعنی جب وہ اپنے شیطانوں کے ساتھ علیٰحدہ ہوتے ہیں۔ جیسے کہ آیت مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ میں اِلیٰ کے معنے مَعَ کے ہیں اور خَلَاکَ ذَمٌّ کے معنے ہیں تجھ سے مذمت دور ہو جائے۔ (اقرب)
شَیٰطِیْنِھِمْ:۔ شَیْطَانٌ کی جمع ہے۔ اور یہ لفظ دو مختلف مادوں سے بن سکتا ہے (۱) شَطَنَ (۲) شَاطَ۔ اگر اسے شَطَنَ کے مادہ سے بنا ہوا قرار دیا جائے تو یہ فَیْعَالٌ کے وزن پر ہے۔ اور شَطَنَ عَنْہُ کے معنے ہیں اَبْعَدَ دور ہو گیا۔ شَطَنَ الدَّارُ کے معنے ہیں گھر دور ہو گیا (اقرب) اور اَلشَّطَنُ کے معنے ہیں اَلْحَبْلُ الطَّوِْیِّل لمبارسہ۔ اور شَطَنَ صَاحِبَہٗ کے معنے ہیں خَالَفَہٗ عَنْ نِیَّتِہٖ وَ وَجْھِہٖ اپنے ساتھی کی مخالفت کی۔ اس کو اس نے ارادہ اور مقصد سے پھرا دیا (اقرب) پس اس مادہ کے لحاظ سے اس کے معنے ہونگے کہ وہ ہستی جو حق سے خود بھی دور ہے اور دوسروں کو بھی دور کرنے والی ہے۔ اور وہ ہستی جسے ہر وقت شرارتیں ہی سوجھتی ہیں اور اس نے حق کی مخالفت کا ٹھیکہ لے لیا ہے۔ اور اگر شَاطَ اس کا مادہ مانا جائے تو اس کے معنے ہوں گے کہ وہ ہستی جو حد اور تعصب کی وجہ سے جل جائے یا ہلاک ہو جائے۔ کیونکہ شَاطَ الشَّیْ ئُ کے معنے ہیں اِخْتَرَقَ کوئی چیز جل گئی۔ اور اِسْتَشَاطَ غَضبًا کے معنے ہیں اِذَا احْتَدَّ فِیْ غَضْبِہٖ وَالْتَھَبَ کہ غصہ سے آگ بگولا ہو گیا۔ شَاطَ فُلَانٌ کے معنے ہیں ھَلَکَ ہلاک ہو گیا۔ شَیْطَان اس سے فَعْلَان کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے۔ اگر تو فَیْعَال کے وزن پر ہو تو یہ منصرف ہو گا وگرنہ غیر منصرف۔ ان معنوں کے علاوہ شیطان کے معنے لغت میں مندرجہ ذیل لکھے ہیں:۔
رُوْحٌ شَرِیْرٌ۔ بدروح۔ کُلُّ عَاتٍ مُتَمَرِّدٍ۔ ہر سرکش اور حد سے بڑہنے والا۔ اَلْحَیَّۃُ سانپ (سانپ کو اس لئے شیطان کہتے ہیں کہ یہ بھی لوگوں کو ہلاک کرتا ہے۔ مگر شیطان اسی سانپ کو کہتے ہیں جو چھوٹا ہو)۔ جو ہلاک ہونے والا ہو اس کو بھی شیطان کہتے ہیں۔ جو ہلاک ہونے والا ہو اس کو بھی شیطان کہتے ہیں۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ اکیلا سفر کرنے والا یا دو سفر کرنے والے شیطان ہیں۔ ہاں تین اشخاص جا سکتے ہیں۔ یعنی چونکہ اس وقت ڈاکے پڑتے تھے اور ہلاک ہونے کا خطرہ تھا۔ اس لئے فرمایا کہ دو شخصوں کے ہلاک ہونے کا اندیشہ ہیں۔ ہاں تین ہوں تو سلامت آ جانے کی امید ہو سکتی ہے۔ قاموس میں لکھا ہے:۔ وَ الشَّیْطَانُ مَعْرُوْفٌ وَ کُلُّ عَاتٍ مُتَمَرِّدٍ مِنْ اِنْسٍ اَوْجِنٍّ اَوْ دَآبَّۃٍ۔ یعنی ایک شیطان تو مشہور ہے ہی نیز ہر ایک حد سے بڑہنے والے سرکش کو بھی شیطان کہتے ہیں خواہ انسان ہو یا جن یا چارپایہ۔
مُسْتَھْرِئُ وْنَ: اِسْتَھْزَأَ سے اسم فاعل جمع کا صیغہ ہے اور اِسْتَھْزَأَ کے وہی معنے ہیں جو مجرد ھَزَأَ کے ہیں۔ کہتے ہیں ھَزَئَ بِہٖ وَمِنْہُ اَیْ سَخِرَینْہُ اس سے ہنسی ٹھٹھا کیا (اقرب) اور اَھْزَاَہُ الَْبَرَدُ کے معنے ہیں قَتَلَہٗ سردی نے اسے ہلاک کر دیا (لسان) پس مُسْتَھْزِیٌٔ کے معنے ہوں گے ہنسی کرنے والا اور مُسْتَھْزِئُ وْنَ کے معنے ہونگے ہنسی کرنے والے۔
تفسیر۔ شَیْطٰن کے معنے اوپر حل لغات میں لکھے جا چکے ہیں۔ ہر شخص جو حق سے دُور ہو یا بغض و کینہ سے جل رہا ہو یا سرکش اور باغی ہو شیطان کہلاتا ہے اس آیت کے مضمون سے ظاہر ہے کہ شیطان کا لفظ قرآن کریم میں یقینی طو رپر انسان کے لئے بھی استعمال ہوا ہے۔
اس آیت میں شیطاطین سے مراد کفار اور منافقین کے سردار ہیں جو کبر اور نخوت کے باعث خدا تعالیٰ کے دین سے دور اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہونے سے نفور رہتے تھے اور دوسرے زیر اثر لوگوں کو بھی صراط مستقیم کی طرف نہیں آنے دیتے تھے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کفار کہیں گے۔ رَبَّنَآ اِنَّآ اَطَعْنَا سَا دَتَنَا وَکُبَرَآ ئَ نَا فَاَ ضَلُّوْنَا الصَّبِیْلَاo (احزاب ع ۸) کہ اے ہمارے رب ہم اپنے سرداروں اور بڑوں کے کہنے پر چلے جہنوں نے ہمیں گمراہ کر دیا۔ یہی وہ لوگ تھے جو منافقوں کو اکسانے والے تھے اور مسلمانوں کی ترقیوں کو دیکھ کر جلتے اور حق سے دور تھے۔ مسلمانوں سے جھگڑتے رہتے اور ان کاموں میں مشغول تھے جو ان کی ہلاکت کا باعث تھے۔ شیطان سے یہاں ابلیس مراد لینا صحیح نہیں اور نہ اس لفظ کے استعمال سے یہود اور مسیحیوں کے رئوساء کو گالی دی گئی ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہؓ کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں اَلرَّا کِبُ شَیْطَانٌ وَالرَّاکِبَانِ شَیْطَانَانِ وَالثَّلٰثَۃُ رَکْبٌ یعنی سفر کی مصیبتو ںکی صورت میں اکیلا سفر کرنے والا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے والا ہیں۔ دو کا بھی یہی حال ہیں تین ہوں تو مشکلات سے بچ سکتے ہیں۔ مسیمی معترضین مرقس باب ۸ آیت ۳۳ ملاخطہ کریں۔ ’’پر اس نے پھر کے اور اپنے شاگردوں پر نگاہ کر کے پھرس پر جھنجہلایا اور کہا اے شیطان میرے سامنے سے دور ہو۔‘‘ اسی طرح متی باب ۳۳ ملاخطہ ہو جہاں مسیح نے اپنی مخالف فقیہوں اور فریسیوں کو کہا ہیں ’’اے سانپو اور اے سانپ کے بچو تم جہنم کے عذاب سے کیونکر بھاگو گے۔‘‘ نیز متی باب ۳ آیت ۷ بھی ملاخطہ ہو جہاں لکھا ہیں۔ ’’پر جب اس نے دیکھا کہ بہت سے فریسی اور صدوقی بتپسمہ پانے کو اُس پاس آئے ہیں اور تو انہیں کہا کہ اے سانپو کے بچو تمہیں آنے والے غضب سے بھاگنا کس نے سکھلایا۔‘‘ انجیل میں ان حوالوں کی موجودگی کے باوجود مسیحیوں کا شیطان کے لفظ پر اعتراض کرنا جو گالی کے طور پر نہیں بلکہ محض ایک حقیقت کے اظہار کے لئے عربی محاورہ کے مطابق استعمال ہؤا ہے سخت تعجب انگیز ہے۔
شیطان کے جو معنے میں نے کئے ہیں وہ صحابہؓ اور اکابر علماء سے بھی ثابت ہیں۔ ابن جریر حضرت ابن عباسؓ کی روایت نقل کرتے ہیں کہ اِذَا خَلَوْا اِلٰی شَیٰطِیْنِہِمْ مِنَ الْیَھُوْدِ الَّذِیْنَ یَاْ مُرُوْنَہُمْ بِالنَّکْذِیْبِ یعنی شیاطین سے منافقوں کے دوست یہودی مراد ہیں جو انہیں تکذیب اسلام کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ اسی طرح ابن جریر قتادہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ اِذَا خَلَوْا اِلیٰ شَیٰطِیْنِھِمْ کے معنے ہیں اِخْوَانُھُمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ یعنی ان کے مشرک بھائی۔ اِسی طرح ابن جریر مجاہد کا قول نقل کرتے ہیں۔ اَصْحَابُھُمْ مِنَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَالْمُشْرِکِیْن یعنی ان کے منافق اور مشرک دوست۔ اسی طرح ابنِ جریر نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا قول نقل کیا ہے کہ شیاطین سے مراد رُئُ وْسُھُمْ فِی الْکُفِرْ یعنی ان کے کافر سردار مراد ہیں۔
مُسْتَھْزِئُ وْنَ بصیغہ اسم فاعل جو دوام اور ہمیشگی کا فائدہ دیتا ہے۔ منافق یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ ہم مسلمانوں سے جب بھی ملتے ہیں استہزاء کے طو رپر ہی ملتے ہیں۔









۱۶؎ حل لغات
یَمُدُّھُمْ:۔ یَمُدُّ مَدَّسے مضارع واحد مذکر غائب کا علیغہ ہے۔ اور مَدَّہٗ فِیْ غَیِّہٖ کے معنے ہیں اَمْھَلَہٗ وَطَوَّلَ لَہٗ اس کو کسی بات میں مہلت دی اور اس کی میعاد کو لمبا کیا۔ (اقرب) تاج میں ہے مَدَّہٗ فِی الْغِیِّ وَالضَّلَالِ: اَمَّلیٰ لَہٗ وَ تَرَکَہٗ اس کو گمراہی میں پڑا رہنے دیا اور اس میں چھوڑ دیا۔ پس یَمُدُّ ھُمْ کے معنے ہونگے وہ انہیں چھوڑ دے گا۔ ان کو رہنے دے گا۔
طُغْیَانھمْ:۔ طُغْیَان مصدر ہے طَغِیَ یَطْغیٰ یا طَغیٰ یَطْغِی کی۔ اور اس کے علاوہ طَغًی اور طُغْیَانًا کی صورت پر بھی اس کی مصدر آتی ہے۔ طَغیٰ کے معنے ہیں جَاوَزَ الْقَدْرَ وَالْحَدَّ اندازہ اور حد سے بڑھ گیا۔ طَغَی الْکَافِرُ: غَلَا فِی لْکُفْرِ کفر میں زیادہ بڑھ گیا۔ طَغیٰ فُلَانٌ: اَسْرَفَ فِی الْمَعَاصِیْ وَالظُّلْمِ گناہ اور ظلم میں حد سے بڑھ گیا۔ طَغَی الْمَائُ : اِرْتَفَعَ پانی اونچا ہو گیا۔ طغیانی اور سیلاب آ گیا۔ (اقرب)
یَعْمَھُوْنَ: عَمَہ سے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے۔ کہتے ہیں عَمَہ الرَّجُلُ جس کے معنے ہیں تَرَدَّدَ فِی الضَّلَالِ وَتَحَیَّرَ فِیْ مُنَازَعَۃٍ اَوْ طَرِیْقٍ وہ شخص گمراہی کی حالت میں حیران پھرتا رہا یا جھگڑے یا راستہ میں حیران رہ گیا کہ اصل حقیقت یا اصل راستہ کونسا ہے اور یہ بھی محاورہ ہے کہ جب کسی کو کوئی دلیل نہ سوجھے یا بات نہ آئے تو اسحالت کو بھی عَمَہٌ کہتے ہیں۔ جیسا کہ لکھا ہے اَلْعَمَدُ اَنْ لَایَعْرِفُ الْحُجَّۃَ یعنی عَمَہَ کے یہ معنے ہیں کہ انسان کو دلیل نظر نہ آئے۔ اس کا اسم فاعل عَامِہٌ ہے۔ اور اس کی جمع عُمَّہٌ اور ضیغہ مبالغہ عَمِہٌ ہے۔ جس کی جمع عَمِھُوْنَ آتی ہے۔ عَمِیَ کا لفظ جو قرآن کریم میں آتا ہے اور جس سے اَعْمٰی کا لفظ بنا ہے اس کے معنے بھی اندھے پن کے ہیں مگر زمخشری کا قول ہے کہ وہ عَمَہٌ سے عام ہے۔ اَعْمٰی اس شخص کو کہتے ہیں جو آنکھ یا عقل کا اندھا ہو مگر عَامِدٌ صرف اس کو کہتے ہیں جو عقل کا اندھا ہو۔ آنکھ کے اندھے کو عَامِہٌ نہیں کہتے۔ (اقرب) پس معنے یہ ہوئے کہ اپنی ظالمانہ زیادتیوں میں سرگردان پھرتے ہیں اور پھرتے رہیں گے۔ اور ان کی عقلیں ماری ہوئی ہیں اور ماری رہنے گی۔
تفسیر۔ اللہ تعالیٰ ان سے استہزاد کرے گا کے یہ معنے نہیں جیسا کہ بعض معترضین قرآن کریم نے سمجھا ہے کہ نعوذ باللہ مسلمانوں کا خدا استہزاء کرتا ہے۔ بلکہ اس جگہ جزائے جرم کے لئے جرم کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جو عربی زبان کا عام قاعدہ ہے اور قرآن کریم میں مستعمل ہے اور مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے استہزاء کی انہیں سزا دے گا۔ (اس کی تفصیل کے لئے دیکھو نوٹ نمبر ۴ اور نمبر ۱۰)
قرآن کریم کی تعلیم اس بارہ میں صاف ہے کہ اللہ تعالیٰ استہزاء سے کام نہیں لیتا۔ چنانچہ اسی سورۃ میں (ع ۸) حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذکر میں فرمایا ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے شرک کی عادات کو چھڑانے کے لئے ایک خاص گائے قربان کرنے کے لئے کہا تو انہوں نے جواب دیا اَتَّتَّخِذُنَا ھُزُوًا کیا آپ ہم سے ٹھٹھا کرتے ہیں۔ اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ جواب نقل کیا گیا ہے اَعُوْذُ بِاللّٰہِ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْجٰھِلِیْنَ میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ جاہلوں میں شامل ہو جائوں یعنی استہزاء کرنا تو جاہلوں کا کام ہے اور میں تو اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہتا ہوں کہ جاہل نہ بنوں میں کس طرح استہزاء کر سکتا ہوں۔ پس جس پاک ہستی کی مدد سے بندے استہزاء سے بچتے ہیں اس کی طرف استہزاء کی نسبت قرآنی تعلیم کے مطابق کس طرح جائز ہو سکتی ہے۔
علاوہ ازیں استہزاء جھوٹ کو کہتے ہیں یعنی کہا کچھ جائے اور عدل میں کچھ اور مراد ہو۔ اور اس سے مخاطب کی تذلیل مراد ہو۔ مگر اللہ تعالیٰ کی نسبت قرآن کریم میں آتا ہے وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰہِ قِیْلاًo(نساء ع ۱۸) یعنی اللہ تعالیٰ سے سچا اور کون ہو سکتا ہے۔ اسی طرح ہنسی مذاق کرنے والا شخص لغو گو ہوتا ہیں اور اللہ تعالیٰ کا نام قرآن کریم حکیم رکھتا ہیں یعنی جس کی ہر بات میں حکمت پوشیدہ ہوتی ہے۔پس اللہ تعالیٰ کی نسبت استہزاء کا لفظ محض ان معنوں میں استعمال ہوا ہے کہ وہ منافقوں کو ان کے استہزاء کی سزا دے گا۔
ان معنوں کے علاوہ یہ امر بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ کی نسبت جو لفظ استعمال ہو وہ ان معانی سے جدا ہو جاتا ہے جو بندہ کی نسبت استعمال ہونے کی صورت میں اس میں پائے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی نسبت بولنے کا لفظ بولا جائے تو یہ معنی نہیں کہ اس کی زبان اور ہونٹ ہیں جن کو اس نے ہلایا۔ بلکہ صرف یہ معنے ہیں کہ بولنے کا جو نتیجہ ہوتا ہے یعنی الفاظ کا پیدا ہونا وہ اس نے اپنی قدرت سے پیدا کر دیا۔ اللہ کی نسبت آتا ہے۔ لَیْسَ کَمِثْلِہ شَیْ ئٌ (شوری ع ۲) پس اس تاویل کے رو سے اللہ تعالیٰ کے استہزاء کرنے کے یہ معنے ہونگے کہ استہزاء کا نتیجہ اس نے ان کے حق میں پیدا کر دیا یعنی انہیں ذلیل کر دیا اور لوگوں کی نظروں میں قابل مضحکہ بنا دیا۔
یہ لطیفہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ مومنوں کے سامنے منافقوں نے یہ کہا کہ ہم ہنسی کرنے والے ہیں۔ یہ ان کی فطرت کی شہادت ہے کہ مومن کیسے ہیں اور کافر کیسے ہیں۔ مومنوں کی نسبت وہ جانتے تھے کہ کافروں سے ہنسی کرنے کا عذر بھی قبول نہ کرینگے اور اسے بھی بُرا منائیں گے۔ اس لئے ان کے سامنے اصلاح کا عذر پیش کیا۔ مگر کافروں کی نسبت سمجھتے تھے کہ ان میں تقویٰ نہیں ہمارے استہزاء کے عذر پر بُرا نہ منائیں گے بلکہ بوجہ عداوت خود بھی اسے پسند کریں گے اور خوب خوش ہونگے کہ ہمارے ساتھیوں نے مسلمانوں کو بیوقوف بنایا۔ منافقوں کی یہ بے ساختہ شہادت مسلمانوں کے اعلیٰ اخلاق اور کفار کی تقویٰ سے دُوری کی عجیب مؤثر شہادت ہے۔
وَیَمُدُّ ھُمْ فِیْ طُغْیَا نِھِمْ: یَمُدُّ مَدٌّ سے نکلا ہے جس کے معنے مہلت دینے کے ہیں (تاج العروس) جلد ثانی و قاموس جلد اول) صاحب تفسیر روح المعانی زجاج اور ابن کیسان نے بھی یہی معنے کئے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے بھی یہی مروی ہے۔ سورۃ انعام ع ۱۳ میں فرمایا نَذَرُ ھُمْ فِیْ طُغْیَا نِہِمْ یَعُمَھُوْنَ جس سے مہلت دینے کے معنوی کی تائید ہوتی ہے۔ پس اس آیت کے یہ معنے ہوئے کہ باوجود ان کی شرارتوں کے خدا تعالیٰ ان کو مہلت دیتا ہے کہ وہ سنبھل جائیں مگر وہ طغیان میں بڑھتے جاتے ہیں۔
یہ معنے نہیں کہ اللہ تعالیٰ کفار کو طغیان میں زیادہ کرتا ہے۔ اس بات کو سورۃ فاطر ع ۴ میں خوب حل کر دیا ہے کہ مہلت گمراہ کرنے کے لئے نہیں دی جاتی بلکہ اس لئے کہ جو چاہیں اس عرصہ میں توبہ کر لیں۔ جیسا کہ فرمایا اَوَ لَمْ نُعَمِّرْ کُمْ مَّا یَتَذَ کَّرُ فِیْہِ مَنْ تَذَکَّرَ وَجَآئَ کُمْ النَّذِیْرُ یعنی کیا ہم نے تم کو اس قدر عمر نہ دی تھی کہ جس میں نصیحت پکڑنے والا نصیحت پکڑ لیتا ہے۔ اور تمہارے پاس ڈرانے والے بھی آئے۔ مگر تم نے نہ ڈھیل سے فائدہ اٹھایا نہ نذیر سے۔ اس سے ثابت ہوا کہ مہلت جو کفار کو ملتی ہے وہ گمراہ کرنے کے لئے نہیں بلکہ ہدایت پانے کے لئے ملتی ہے۔
یَعْمَھُوْنَ۔ عَمَہُ سے نکلا ہے جو رستہ میں علامات اور نشانات نہ ہونے کو کہتے ہیں۔ اور اس کے تین معنے مستعمل ہیں۔ (۱) متحیر‘ حیران ہونا۔ (۲) رشد سے اندھا ہونا۔ (۳) سر نیچے کر لینا اور جو آگے سے آ رہا ہے اُسے نہ دیکھنا۔ یہاں یہ مراد ہے کہ منافقین جن شرارتوں میں پڑے ہوئے ہیں بلا سوچے سمجھے انہی میں بڑہتے جاتے ہیں۔







۱۷؎ حل لغات
اِشْتَرَوْا:۔ اِشْتَریٰ سے جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور اِشْتَرٰمہُ کے معنے ہیں مَلَکَہٗ بِالُبَیْعِ کسی چیز کا خرید کے ذریعہ سے مالک ہو گیا۔ بَاعَہٗ نیز اس کے معنے ہیں اس کو بیچا یعنی یہ لفظ اضداد میں سے ہے۔ اور متضاد معنے دیتا ہے خریدنے کے بھی اور بچنے کے بھی۔ وَکُلُّ مَنْ تَرَکَ شَیْئًا وَ تَمَسَّکَ بِغَیْرِہٖ فَقَدِ اشْتَرٰلہُ۔ ہر وہ شخص جو ایک چیز کو چھوڑ کر کسی دوسری چیز کو اس کی بجائے اختیار کر لے اس پر اِشْتَرٰی کا لفظ بولیں گے۔ گویا اس نے ایک چیز دے کر دوسری لے لی۔ (اقرب) عام طور پر شَرَا کسی چیز کو خرید نے اور لفظ بَیْع کسی چیز کے بیچنے کے معنوی میں استعمال ہوتا ہے۔ لیکن جب سامان کو سامان کے بدلہ میںتبادلہ کیا جائے تو دونوں لفظ ایک دوسرے کی جگہ استعمال کر لیا کرتے ہیں۔ لیکن لفظ شَرَا اور اِشْتَرٰی کا استعمال اس طرح بھی جائز ہے کہ جو شخص ایک چیز کو ترک کر دے اور دوسری کو اختیار کرے تو اس کی نسبت کہیں گے کہ شَوٰلہُ یا اِشْتَرٰلہُ (مضردات)
اَلضَّلٰلَۃُ : ضَلَّ یَضِلُّ کے معنے ہیںضِدُّ اِھْتَدٰی یعنی ہدایت کے خلاف حالت پر ہو گیا اور دین اور حق نہ پایا۔ ضَلَّ عَنْہُ یَضِلُّ : لَمْ یَھْتَدِ اِلَیْہِ اس طرف راہ نہ پائی۔ ضَلَّ یَضَلُّ (ضاد کی زبر سے) فُلَانٌ اَلطَّرِیْقَ وَعَنِ الطَّرِیْقِ : لَمْ یَھْتَدِ اِلَیْہِ راستہ نہ پایا۔ جب دار یا منزل یا ہر اپنی جگہ پر قائم رہنے والی چیز کا اس کے بعد ذکر ہو تو اس کے یہی معنے ہوتے ہیں۔ ضَلَّ الرَّجُلُ فِی الدِّیْنِ ضَلَا لًا وَضَلَالَۃَّ : ضِدُّ اِھْتَدٰی۔ اس شخص نے دین کے معاملہ میں درست راہ نہ پائی۔ ضَلَّ فُلَانُ اِلْفَرسَ فلاں شخص نے اپنا گھوڑا گم کر دیا۔ ضَلَّ عَنِّیْ کَذَا : ضَاعَ مجھ سے فلاں چیز ضائع ہو گئی۔ ضَلَّ الْمَائُ فِی اللَّبَنِ۔ خَفیِّ وَغَابَ پانی دودھ میں مل گیا اور غائب ہو گیا۔ ضَلَّ فُلَانٌ فُلَانًا: نَسِیَہٗ اس شخص کو بھول گیا۔ ضَلَّ النَّاسِیْ : غَابَعَنْہُ حِفْظُ الشَّیْئِ۔ بھول گیا۔ اس کے ذہن سے بات نکل گئی۔ ضَلَّ سَعْیُہٗ : عَمِلَ عَمَلًا لَمْ یَعُدْ عَلَیْہِ نَفْعُہٗ ایسا کام کیا کہ جس کا اسے کوئی نفع نہ ہوا۔ (اقرب) مزید تشریح کے لئے دیکھو سورۃ فاتحل حل لغات ۸؎
اَلْھُدٰی کے لئے دیکھو سورہ بقرہ حل لغات ۳؎ و سورۃ فاتحہ حل لغات ۷؎
رَبِحَتْ تِّجَارَتُہٗ کے معنے ہیں رَبِحَ فِیْھا کہ تاجر نے اپنی تجارت میں نفع اٹھایا (اقرب)
مُھْتَدِیْنَ : اِھْتَدٰی سے اسم فاعل جمع کا صیغہ ہے۔ اور اِھْتَدٰی کے دہی معنے ہیں جو ھَدٰی کے ہیں۔ ھَدٰی کے لئے دیکھو حل لغات سورۃ فاتحہ ۷؎
تفسیر۔ (۱) اِشْتَرَوُا الضَّلٰلَۃَ بالْھُدٰی کے ایک معنے تو یہ ہیں کہ ان لوگوں نے ہدایت دے کر گمراہی کو خرید لیا ہے۔ دوسرے معنے یہ ہیں کہ ان لوگوں کے سامنے ہدایت اور ضلالت دونوں پیش کی گئی تھیں انہو ںنے ضلالت اختیار کر لی اور ہدایت ترک کر دی۔
پہلے معنوں کی بنیاد اس بات پر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک انسان کو فطرت صحیحہ عطا کی ہے ۔ اور اسے بہترین قویٰ دئے ہیں۔ جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔ فِطْرَت اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا (روم ع ۴) اللہ تعالیٰ کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ اور دوسری جگہ فرماتا ہے۔ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ (تین) کہ ہم نے انسان کو بہترین طاقتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے اور اسے اعلیٰ قویٰ دئے ہیں۔ پھر اس کے بعد وہ اپنی یا اپنے والدین کی خرابیوں اور بداعمالیوں کی وجہ سے فطرت صحیحہ اور پاک قویٰ سے محروم ہو جاتا ہے جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ مَا مِنْ مَوْ لُوْدٍ اِلاَّ یُوْلَدُ عَلَے الْفِطْرَۃِ فَاَبَوٰلہُ یُھَوِّدَ انِہٖ اَوْ یُمَجِّسَانِہٖ اَوْیُنَصِّرَانِہٖ (مسلم جلد ۴ کتاب القدر) کہ بچہ تو فطرہِ صحیحہ پر پیدا ہوتا ہے مگر اس کے والدین اس کے بچپن سے فائدہ اٹھا کر اسے اپنے دین پر کر لیتے ہیں اور اسے یہودی یا مجوسی یا عیسائی بنا لیتے ہیں گویا وہ ان کی فطرتی ہدایت کو قربان کر دیتے ہیں اور اس کے بدلہ میں اسے گمراہی خرید دیتے ہیں۔ یا پھر وہ بڑا ہو کر خود اپنی اچھی طاقتوں کو بُرے طریق پر استعمال کر کے خراب کر لیتا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے اسے جرأت عطا کی ہے تو بجائے اس کے کہ وہ اس سے کسی کی مدد کرے وہ ظلم کرنے لگ جاتا ہے۔ اسی طرح اور اچھے جوہر جو اللہ تعالیٰ نے اسے عطا کئے ہیں بُرے استعمال کی وجہ سے ضائع کر دیتا ہے۔ پس اس جگہ ہدایت سے وہ فطرتی نیک طاقتیں مراد ہیں جو انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہیں۔ اور اِشْتَرٰی کا مطلب یہ ہے کہ شر کہ لوگ ان پاک قویٰ کو جو ان کی ترقی کے لئے ان کو دئے گئے تھے بُرے مواقع پر استعمال کر کے ان سے گمراہی اور ضلالت خرید لیتے ہیں اور دینی اور دنیوی دونوں فائدوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔
دوسرے معنوں کی بنیاد اس بات پر ہے کہ ایک طرف تو خدا تعالیٰ نے انسان کو نیکی اور بدی کے امتیاز کی مقدرت اور اختیار دیا ہے۔ دوسری طرف نبیوں کے ذریعہ اس کے پاس نیکی کی تعلیم اور ہدایت بھیجدیتا ہے مگر ساتھ ہی شیطان اپنی بُری تعلیم اس کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ جو لوگ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی عقل سے کام نہیں لیتے وہ خدا تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہدایت کو چھوڑ دیتے ہیں اور شیطان یا اس کے چیلوں کی پیش کی ہوئی گمراہی کی باتوں کو قبول کر لیتے ہیں اور اس طرح ہدایت کو رد کر کے ضلالت کو اختیار کرنے والے ہو جاتے ہیں۔
(ب) فَمَارَ بِحَتْ تِّجَارَ تُھُمْ۔ چونکہ کفار نے ایک چیز چھوڑ دی اور دوسری اس کے بدلہ میں لے لی اس لئے اس کا نام تجارت رکھا گیا ہے۔ فرماتا ہے کہ انہوں نے اپنے خیال میں ایک مفید تجارت کی ہے کہ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی نیک فطرت کو ترک کر کے بُری باتوں کو اختیار کر لیا ہے۔ یا خدا تعالیٰ کی بھیجی ہوئی تعلیم کو چھوڑ کر شیطانی باتوں کو اختیار کر لیا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ بہت فائدہ اٹھائیں گے۔ لیکن انہیں کوئی فائدہ حاصل نہ ہو گا بلکہ وہ نقصان اٹھائیں گے اور یہ سودا انہیں بہت مہنگا پڑے گا۔
(ج) وَمَا کَانُوْا مُھْتَدِیْنَo یہ نتیجہ پہلے نتیجہ کے علاوہ ہے۔ اس میں بتایا ہے کہ ان کو صرف یہی نقصان نہیں ہو گا کہ وہ دنیا میں ذلیل ہوں گے اور نقصان اٹھائیں گے۔ بلکہ اس کا نتیجہ یہ بھی نکلے گا کہ وہ ہدایت سے محروم رہیں گے اور ان کی عاقبت بھی خراب ہو گی۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر فعل کے دو نتیجے نکلتے ہیں۔ ایک نتیجہ تو اس فعل کے ساتھ ہی نکلتا ہے اور دوسرا اس کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ مثلاً ایک انسان چوری کرتا ہے تو اس کا ایک نتیجہ تو یہ نکلتا ہے کہ وہ ذلیل ہو جاتا ہے اور پکڑا جاتا ہے اور قید ہوتا ہے یا اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے یا اور کوئی سزا پاتا ہے۔ دوسرا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہدایت کے قبول کرنے کی قابلیت اس میں سے جاتی رہتی ہے اور وہ ہدایت سے دور ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ہر نیکی کا نتیجہ اس کے ساتھ ہی نکلنا شروع ہو جاتا ہے۔ مثلاً اس نیکی کی وجہ سے اس کے اس کے اپنے دل میں خوشی پیدا ہوتی ہے اور لوگوں میں اس کی عزت قائم ہو جاتی ہے اور وہ اسے اچھا خیال کرنے لگ جاتے ہیں۔ دوسرا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے اندر ہدایت قبول کرنے کی قابلیت بڑہتی جاتی ہے اور وہ ہدایت میں ترقی کرتا جاتا ہے۔ وَمَاکَانُوْا مُھْتَدِیْنَ میں اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ دوسرا نقصان انہیں یہ پہنچا کہ وہ ہدایت سے دور ہی دور ہوتے چلے گئے ہیں۔








۱۸؎ حل لغات
مَثَلُھُمْ:۔ اَلْمَثَلُ کے معنے ہیں اَلشِّبْہُ وَالنَّظِیْرُ۔ مشابہ اور نظیر۔ اَلصِّفَۃُ حالت۔ بیان۔ اَلْحُجَّۃً۔ دلیل۔ ثبوت۔ یُقَالُ اَقَامَ لَہٗ مَثَلاً اَیْ حُجَّۃً۔ اَقَامَلَہٗ مَثَلاً کہ کر مثل سے مراد دلیل لیتے ہیں۔ اَلْحَدِیْثَ بات۔ اَلْقَوْلُ السَّائِرُ۔ ضرب المثل اَلْعِبْرَۃُ۔ عبرت۔ اَلْاٰیَۃُ نشان (اقرب) مضردات میں ہے اَلْمَثَلُ عِبَادَۃٌ عَنْ قَوْلٍ فِیْ شَیْئٍ یُشْبِہُ قَوْلًا فِیْ شَیْئٍ اٰخَمَ بَیْنَھُمَا مُشَابَھَۃٌ لِیُبَیِّنَ اَحَدُ ھُمَا الْاٰخَرَ وَیُصَوِّرہٗ یعنی کسی چیز کے متعلق کسی دوسری چیز سے جو اس سے مشابہ ہو ملتا جلتا بیان کرنا تاکہ ان میں سے ایک کا ذکر دوسرے کی حقیقت کو واضح کر دے مثل کہلاتا ہے۔
اِسْتَوْقَدَ: اِسْتَوْقَدَ النَّارَ اِسْتِیْقَادًا کے معنے ہیں اَشْعَلَھَا آگ کو روشن کیا (اقرب)۔
اَضَآئَ ْت : اَضَآئَ سے واحد مؤنث غائب کا صیغہ ہے جو ضَائَ سے باب افعال ہے۔ اَضَآئَ لازم اور متعدی ہر دو طرح استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ یوں بھی کہتے ہیں اَضَآئَ تِ النَّارُ اَیْ اِسْتَنَارَتْ کہ آگ روشن ہو گئی (لازم) اور یوں بھی کہتے ہیں کہ اَضَآء ھَا یعنی آگ کو کسی نے روشن کیا (متعدی) (مضردات)۔ اس آیت میں اَضَائَ متعدی استعمال ہوا ہے۔ اور فَلَمَّا اَضَآ ئَ تَ کے معنے ہیں کہ جب اس آگ نے روشن کر دیا۔
حَوْلَہٗ : کہتے ہیں قَعَدَ حَوْلَہٗ اَیْ فِی الْجِھَاتِ الْمُحِیْطَۃِ بِہٖ اس کے ارد گرد بیٹھا (اقرب)
ظُلُمٰتٌ : اَلظُّلُمَاتُ۔ اَلظُّلْمَۃُ کی جمع ہے اور اَلظُّلْمَۃُ کے معنے ہیں ذَھَابُ النُّوْرِ روشنی کا نہ ہونا یعنی اندھیرا۔ وَقِیْلَ ھِیَ عَدْمُ الضَّوْئِ عَمَّا مِنْ شَانِہٖ اَنْ یَکُوْنَ مُضِیْئًا اور بعض نے یہ معنے کئے ہیں کہ جس چیز کے لئے روشنی ضروری تھی اس سے اگر روشنی علیحدہ ہو جائے تو اس پر ظلمت کا لفظ بولتے ہیں وَرُبَّمَا کُنِیَ بِالظُّلْمَۃِ مَنِ الضَّلٰلَۃِ کَمَا یُکْنیٰ بِالنُّوْرِ عَنِ الْھُدٰی جس طرح نور کا لفظ بول کر ہدایت مراد لیتے ہیں۔ اسی طرح کبھی ظلمت کا لفظ بول کر اس سے ضلالت مراد لیتے ہیں۔ (اقرب) وَیُعَبَّرُبِھَا عَنِ الْجَھْلِ وَ الشِّرْکِ وَ الْفِسْقِ اور جہل اور شرک اور فسق کو بھی ظلمت کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ (مفردات)
اندھیروں کا لفظ اس امر کے اظہار کے لئے استعمال کیا گیا ہے کہ صرف ظاہری تاریکی ہی نہیں بلکہ وہ جگہ بھی پر خطر ہے اور ظاہری اندھیرے کے ساتھ اور کئی قسم کے خطرات اور ظاہری اندھیر کے ساتھ اور کئی قسم کے کے خطرات بھی لاحق ہو گئے ہیں۔ اردو میں چونکہ اندھیرے کا لفظ اس موقعہ پر جمع کے صیغہ میں استعمال نہیں ہوتا۔ اور اگر استعمال بھی کر لیں تو وہ معنے نہیں دیتا جو عربی سے ظاہر ہوتے ہیں۔ اس لئے ’’قسما قسم‘‘ کے الفاظ خطوط میں بڑھا دئے گئے ہیں تا اصل مفہوم پڑھنے والے پر ظاہر ہو جائے۔ قرآن کریم میں یہ لفظ ہمیشہ جمع کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ لیکن جب بھی استعمال ہوا ہے اخلاقی یا روحانی امر کی تمثیل بیان کرنے کے لئے ہوا ہے۔ کیونکہ گناہ اور بد اخلاقیاں اکیلی نہیں رہتیں۔ بلکہ ایک گناہ دوسرے گناہ کو اور ایک مصیبت دوسری مصیبت کو کھینچتی ہے۔
لَایُبْصِرُوْنَ: لَایُبْصِرُوْنَ اَبْصَرَ سے مضارع منفی جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے۔ اور اَبْصَرَہٗ کے معنے ہیں رَاٰہُ اس کو دیکھا۔ وَاَخْبَرَہٗ بِمَا وَقَعَتْ عَیْنُدٗ عَلَیْہِ اور جس پر اس کی نگاہ پڑی اس کے متعلق خبر دی۔ اَبْصَرَ فُلَانًا : جَعَلَہٗ بَصِیْرًا کسی کو دیکھنے والا بنا دیا۔ اَبْصَرَ الطَّرِیْقَ۔ اِسْتَبَانَ وَ وَضَحَ راستہ واضح ہو گیا (اقرب)
تفسیر۔ اس آیت میں اعتقادی منافقوں کی جو دل سے کافر تھے مگر بظاہر مسلمانوں سے ملے ہوئے تھے۔ ایک مثال دی ہے۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے اس مثال سے ملتے ہوئے بعض الفاظ بیان فرمائے ہیں جن سے بعض لوگوں نے یہ خیال کیا ہے کہ وہ اِس آیت کی تشریح میں ہیں۔ مگر میرے نزدیک یہ درست نہیں۔ وہ حدیث جسے اِس آیت کی تشریح سمجھا گیا ہے یوں ہے۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ اِنَّمَا مَثَلِیْ وَ مَثَلُ اُمَّتِیْ کَمَثَلِ رَجُلٍ اِسْتَوْقَدَ نَارًا فَجَعَلَتِ الدَّ وَآبُّ وَالْفَرَاشُ یَقَعْنَ فِیْہِ (فِیْھَا) فَاَنَا اٰخِذٌ بِحَجزِ کُمْ وَ اَنْتُمْ تَقَعُوْنَ فِیْہِ (مسلم جلد چہارم۔ کتاب الفضائل باب شفقتہ علیٰ آمتہ) یعنی حضرت ابوہریرہؓ نے روایت کی ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ میری حالت اور میری امت کی حالت اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ جلائی۔ جب آگ جل اٹھی تو کیڑے مکوڑے آگ میں گرنے لگے۔ پس میں تو تمہاری کمروں کو پکڑتا ہوں کہ آگ میں نہ گر جائو اور تم اس میں بے تحاشا گر رہے ہو۔
اس حدیث میں بے شک ایک تمثیل بھی بیان کی گئی ہے۔ نیز اس میں آگ جلانے والے ایک شخص کا بھی ذکر ہے۔ مگر ساتھ ہی اس میں یہ لفظ بھی ہیں کہ یہ میری اور میری امت کی مثال ہے۔ لیکن جن کفار کا آیت زیر تفسیر میں ذکر ہے وہ تو اعتقادی کافر ہیں۔ یعنی دل سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ من ذالک جھوٹا سمجھتے ہیں اور ان کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَمَا ھُمْ بِمُؤْ مِنِیْنَ۔ وہ ہر گز مومن نہیں۔ ایسے لوگوں کو امت رسول اللہؐ کس طرح کہا جا سکتا ہے۔ پس اِس حدیث میں اس آیت سے ملتے جلتے ہوئے الفاظ بے شک ہیں لیکن اس میں ان منافقوں کا ذکر نہیں بلکہ امت کپے بعض گنہگاروں کا ذکر ہے جو عقیدہً تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں لیکن پورا تقویٰ نصیب نہ ہونے کی وجہ سے اعمال میں کمزور ہوتے ہیں۔
میرے نزدیک اِس آیت میں منافقوں کی حالت بیان کی گئی ہے کہ پہلے تو انہوں نے خود آگ جلائی مگر جب اس آگ کا نور پھیل گیا تو بینائی سے محروم ہو گئے اور اس سے فائدہ نہ حاصل کر سکے۔ آگ جلانے سے یہاں مراد اسلام کو مدینہ میں بلوانا ہے۔ جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کو مدینہ میں آنے کی دعوت دی گئی تو اس میں سب ہی اہل مدینہ شامل تھے اور یہ منافق بھی سب کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے مگر جب اسلام کی روشنی پھیل گئی تو ان کے دلوں کے بغضوں اور کینوں نے انہیں حسد پر مجبور کر دیا اور آخر بینائی بھی کھو بیٹھے۔ یہ ایک روحانی حقیقت ہیں کہ جب انسان راستہ کو قبول کر کے پیچھے ہٹتا ہے تو جو نیکی کا مقام اسے پہلے حاصل تھا اسے بھی کھو بیٹھتا ہے۔
آگ سے الٰہی تعلیم اور آسمانی نشانات کا مراد لینا قرآن کریم کی دوسری آیات سے ثابت ہے چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذکر میں قرآن کریم میں آتا ہے کہ جب وہ مدین سے واپس آ رہے تھے تو انہوں نے الٰہی تجلی کو آگ کی شکل میں دیکھا۔ چنانچہ فرماتا ہے اٰنَسَ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ نَارًا (قصص ع ۴) انہو ںنے طو رکی جانب ایک آگ دیکھی۔ پھر آگے ذکر ہے کہ جب وہ اس آگ کے پاس آئے۔ تو انہیں آواز آئی کہ یٰمُوْسٰٓی اِنِّیْٓ اَنَا اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ اے موسیٰ میں یقینا اللہ سب جہانوں کا رب ہوں۔ پس آگ کا لفظ تجلی الٰہی کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور یہاں بھی یہی مراد ہو سکتا ہے اور مطلب یہ ہے کہ پہلے تو ان لوگوں نے آگ جلائی یعنی اللہ تعالیٰ کی تجلی کو یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ میں بلوایا مگر بعد میں حسد کرنے لگ گئے۔ اور آپ کے ساتھ وابستگی کے فوائد سے محروم رہ گئے۔
قرآن کریم میں ایک اور جگہ بھی الٰہی کلام کے نزول کو نار سے تشبیہ دی گئی ہے اور وہ یہ ہے:۔ یَکَارُ زَیْتُھَا یُضِیْٓ ئُ وُلَوُ لَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌ (نور ع ۸) یعنی فطرۃ صحیحہ کا تیل ایسی اعلیٰ طاقت رکھتا ہے کہ الہام کی آگے سے روشن ہونے کے بغیر بھی جلنے کے قریب ہوتا ہے۔ یعنی گو جلتا تو الہام کی آگ سے ہی ہے مگر استعداد کے لحاظ سے وہ بھڑکنے کے قریب ہوتا ہے۔
غرض قرآنی محاورہ کے مطابق آگ کا لفظ الٰہی جلوہ یا الٰہی کلام پر بھی دلالت کرتا ہے۔ اور اس محاورہ کے مطابق اس آیت کا یہی مفہوم ہے کہ منافقوں نے خدا کے کلام کی آگ کو اپنے گھروں میں روشن کیا مگر بعد میں اس کے فوائد سے محروم ہو گئے۔
آگ کے لفظ کا الٰہی جلوہ یا کلام الٰہی کے لئے استعمال کرناکوئی معیوب امر نہیں۔ کیونکہ آگ بے شک جلانے والی چیز ہے۔ لیکن محبت کے لئے بھی آگ کا لفظ مستعمل ہے کیونکہ وہ ایک نہ مٹنے والی خواہش کو پیدا کر دیتی ہے۔ اسی طرح جو چیز گندے خیالات اور گناہ کی خواہش کو مٹا دے اور بھسم کر دے۔ اسے آگ سے تشبیہ دینا بالکل درست اور ایک لطیف تشبیہ ہو گی۔ اور جلوہ الٰہی اور کلام الٰہی کا یہی کام ہے۔ پس ان کی اس تاثیر کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کو آگ سے بھی تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ جس طرح بعض تاثیرات کے لحاظ سے انہیں پانی سے بھی تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ اور قرآن کریم نے دی ہے۔
آگ عربی کی محاورہ میں جنگ کو بھی کہتے ہیں اس محاورہ کے رو سے اس آیت کا یہ مطلب بھی ہے کہ منافقوں نے کفار سے منصوبے کر کے جنگ کی آگ بھڑکائی۔ اور خیال کیا کہ اس طرح محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو نقصان پہنچا سکیں گے۔ لیکن نتیجہ الٹا نکلا۔ ان جنگوں سے اسلام کو اور بھی تقویت پہنچی اور اسلام کی شان اور بھی بڑھ گئی۔ اور یہ بجائے فائدہ اٹھانے کے اپنی بینائی کھو بیٹھے یعنی حیران رہ گئے کہ اب کیا کریں کہ نتیجہ تو ہماری توقع کے خلاف نکلا۔
آگ کا لفظ ان معنوں میں عرب میں عام طور پر مستعمل ہے۔ کہتے ہیں۔ خَمَدَتْ نَارُہٗ اس کی آگ بجھ گئی یعنی لڑائی میں اس کا جتھا شکست کھا گیا۔ عربو ںمیں آگ کا جنگ سے اس قدر تعلق سمجھا جاتا تھا کہ اگر لڑائی کے میدان میں کسی لشکر کی آگ بجھ جاتی تو وہ اسے اپنی شکست کا شگون سمجھتا تھا۔ چنانچہ غزوۂ احزاب کے موقعہ پر ابو سفیان اس لئے میدان سے بھاگ کھڑا ہوا تھا کہ اس کی آگ بجھ گئی تھی۔ قرآن کریم نے بھی اس محاورہ کو استعمال فرمایا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے۔ کُلَّمَآ اَوْ قَدُ وْانَارًا لِّلْحَرْبِ اَطْغَاَھَا اللّٰہُ (مائدہ ع ۹) یعنی جب بھی وہ لڑائی کی آگ جلاتے ہیں اللہ تعالیٰ اسے بجھا دیتا ہے۔ یعنی ان کی شکست اور ذلت کے سامان پیدا کر دیتا ہے۔ پس اس محاورہ کی روشنی میں اس آیت کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ منافقوں نے لڑائی کی آگ تو اس لئے جلائی تھی کہ اسلام تباہ ہو۔ اُلٹے خود تباہ ہو گئے۔
ذَھَبَ اللّٰہُ بِنُوْرِ ھِمْ کے ایک معنے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ جنگوں کی وجہ سے اسلام کا نورانی جبہ جو منافقوں نے پہن رکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اتار لیا یعنی کفار کو فتح تو ملی نہیں الٹا ان کا نفاق ظاہر ہو گیا۔ کیونکہ جب وہ مسلمانوں کی امداد سے دستکش ہو گئے۔ اور لڑائیوں میں شامل نہ ہوئے تو ان کے اسلام کے دعوویٰ کی قلعی کھل گئی۔ اور جو مسلمان غلطی سے ان پر حسن ظنی رکھتے تھے ان پر کھل گیا کہ یہ لوگ منافق ہیں اور اسلام سے ان کو کوئی لگائو نہیں۔ دوسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ اسلام کی ترقی نپے منافقوں کی حقیقت کو آشکار کر دیا۔ کیونکہ جوں جوں دین کامل ہوتا جاتا ہے اور نورِ الٰہی ترقی کرتا جاتا ہے۔ شریعت کے احکام بڑھتے جاتے ہیں اور منافقوں کے لئے اس پر عمل کرنا زیادہ سے زیادہ دو بھر ہوتا جاتا ہے۔ اور ان کی منافقت کا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے۔ اور نور کا لباس ان سے چھن جاتا ہیں۔
تَرَکَھُمْ فِیْ ظُلُمٰتٍ لَّایُبْصِرُوْنَ سے یہ بتایا ہے کہ جنگ کی آگ تو انہوں نے اس لئے جلائی تھی کہ اس کی بھڑکتی آگ سے فائدہ اٹھائیں گے اور پھر اپنی شوکت قائم کریں گے۔ مگر ہوأ یہ کہ نفاق کے کھل جانے کے سببب سے اور بھی اندھیرے میں جا پڑے یعنی حیران رہ گئے کہ اب کیا کریں یا یہ کہ نفاق کی مرض اور بھی ترقی کی گئی۔
آگ کے معنے اگر اسلام کے کئی جائیں تو اس کے معنے یہ ہونگے کہ چونکہ انہوں نے خود اسلام کو بلوایا اور پھر اس سے اعراض کیا اللہ تعالیٰ نپے ان کو اس نور سے بھی محروم کر دیا جو فطرت صحیحہ کے ذریعہ سے ہر انسان کو ملتا ہے اور ان کو اسی حالت میں چھوڑ دیا کہ نہ خدا تعالیٰ کے الہام کا نور ان کے پاس رہا اور نہ فطرۃ صحیحہ کی ہدایت ان کے ساتھ رہی۔
بعض لوگ اس آیت پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ آگ جلانے والے ایک شخص کا ذکر ہے لیکن بعد میں ضمیر جمع کی آئی ہے اس کا کیا مطلب؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں آگ جلانے والے کے لئے اَلَّذِیْ کا لفظ آیا ہے اور اَلَّذِیْ عربی میں مفرد تثنیہ اور جمع تینوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ جائر ہے کہ کبھی تو اس کی طرف لفظ کی رعایت سے مفرد کی ضمیر پھیری جائے اور کبھی مراد کے لحاظ سے اگر وہ جمع ہو جمع کی ضمیر پھیری جائے چنانچہ ہمع الہوامع میں جو امام سیوطی کی علم نحو میں نہایت اعلیٰ کتاب ہے لکھا ہیں کہ اخفش کہتا ہے اَلَّذِیْ کَمَنْ یَکُوْنُ لِلْوَاحِد وَالْمُثَنّٰی وَالْجَمْعِ بِلَفْظٍ وَاحِدٍ۔ اَلَّذِیْبھی مَنْ کی طرح ہے اس سے واحد میثنٰی اور جمع تینوں کی طرف اشارہ کرنا جائر ہوتا ہے۔ پھر اخفش کی روایت سے ایک مصرعہ لکھا ہیں اُولٰٓئِکَ اَشْیَا خِی الَّذِیْ تَعْرِ فُوْنَھُمْ یعنی یہ میرے شیوخ ہیں جن کو تم جانتے ہو۔ اس مصرعہ میں اشیاخی کے لئے جو جمع ہے اَلَّذِیْ کا لفظ استعمال کی گیا ہیں۔ قرآن کریم میں بھی دوسرے مقامات پر اسی طرح اَلَّذِیْ جمع کے لئے استعمال ہوتا ہے فرماتا ہے وَاَلَّذِیْ جَآئَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہٖٓ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَo (زمر۔ ع ۴)یعنی اَلَّذِیْ کے بعد پہلے مفرد ضمیر استعمال کی اور جَآئَ اور صَدَّقَ کے الفاظ رکھے مگر بعد میں اُولٰٓئِکَ کہہ کر جمع کے لفظ سے اشارہ کیا۔ اس طرح ایک اور جگہ آتا ہے وَخُضْتُمْ کَالَّذِیْ خَاضُوْا (توبہ ع ۹) اور تم باتوں میں پڑ گئے جس طرح پہلے لوگ باتوں میں پڑ گئے تھے۔ یہاں اَلَّذِیْ کہہ کر خَاضُوْا کہا ہے جس میںجمیع کی ضمیر ہے۔
غرض اس آیت میں پہلے تو اَلَّذِیْ کے لفظ کی رعایت سے اَسْتَوْقَدُ لفظ لایا گیا جس میں واحد کی ضمیر ہے او رپھر ذَھَبَ اللّٰہُ بِنُوْرِ ھِمْ کہ کر تباہ دیا گیا کہ گو لفظ مفرد کا استعمال ہؤا ہے مگر مراد اس سے ایک جماعت ہے۔
نیز اس کا جواب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پہلے اِسْتَوْقَدَ میں ان کے لیڈر کی طرف اشارہ کیا جس نے آگ جلائی تھی اور پھر ذَھَبَ اللّٰہُ بِنُوْرِ ھِمْ میں اس طرف اشارہ کر دیا کہ وہ شخص اکیلا نہیں بلکہ اس کے ساتھ ایک جماعت بھی ہیں۔
اور یہ مراد بھی ہو سکتی ہے کہ فساد شروع منافقوں کے لیڈر نے کیاتھا مگر اس کے نتیجہ میں تباہی سب منافقوںپر آئی۔
ایک اعتراض اس آیت پر یہ کیا جاتا ہے کہ پہلے تو فرمایا مَثَلُھُمْ پھر فرمایا کَالَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًا ی یعنی پہلے تو ایک جماعت کی حالت بیان کرنے کا ذکر کیا اور بعد میں ایک شخص کو پیش کیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے۔ اس جگہ ایک شخص کا ذکر نہیں بلکہ اَلَّذِیْکی وجہ سے واحد کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے مگر مراد جمع ہی ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ ایک جماعت کی حالت بھی ایک شخص کی حالت کے مشابہ ہو سکتی ہے۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ جماعت کو ایک سے مشابہت دینا محاورہ کے خلاف نہیں۔ قرآن کریم میں بھی دوسری جگہ آتا ہے مَثَلُ الَّذِیْنَ حُتِلُوا التَّوْرٰلۃَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْھَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًا (جمعہ ع ۱) یعنی وہ لوگ جن پر تورات حکماً لا دی گئی۔ پھر انہو ںنے اس کو نہ اٹھایا یعنی اس پر کار بند نہ ہوئے ان کی مثال گدھے کی مثال ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں۔
۱۹؎ حل لغات
صُمٌّ:۔ اَصَمُّ کی جمع ہے اور کہتے ہیں صَمَّ الرَّجُلُ صَمًّا وصَمَمًا: اِنْسَدَّتْ اُذُنُہٗ وَثَقُلَتْ سَمْعُہُ۔ اس کے کان بند ہو گئے اور بوجھل ہو گئے یعنی شنوائی جاتی رہی فَھُوَ اَصَمُّ اور ایسے شخص کو اصم یعنے بہرہ کہتے ہیں اَلْاَصَمُّ اَیْضًا الرَّجُلُ لَایُطْمَعُ فِیْہ وَلَا یُرَدَّ عَنْ ھَوَاہُ اور ایسے شخص کو بھی اَصَمّ کہتے ہیں جس کے راہ راست پر آنے کی امید نہ کی جا سکے اور نہ اس سے کسی بھلائی کی امید کی جا سکے اور اس کو بھی اَصَمّ کہتے ہیں جو اپنی شرارت سے باز نہ آئے اور اس کو ہوا پرستی و گمراہی سے روکا نہ جا سکے (اقرب)
بُکْمٌ:۔ اَبْکَمُ کی جمع ہے۔ جو بَکَمَ سے صفت مشبہ ہے۔ اَلْبُکْمُ کے معنے ہیں اَلْخُرْسُ مَعَ عَیٍّ وَبَلْہِ ایسا گونگاپن جس میں زبان کی رکاوٹ اور سادہ لوحی پائی جائے وَقِیْلَ ھُوَ الحُزْسُ مَاکَانَ بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنے مطلق گونگا پن کے ہیں خواہِ کیسا ہی ہو۔ وَقَالَ ثَعْلَبُ اَلْبُکْمُ اَنْ یُوْلَدَ الْاِنْسَانُ لَایَنْطِقُ وَلَایَسْمِعُ وَلَایَبْصُرُ۔ ثعلب جو لغت کے مشہور امام ہیں کہتے ہیں کہ اَبْکَمُ ایسے شخص پر بولا جائے گا جس کی پیدائش ایسی ہو کہ نہ وہ بول سکے اور نہ سُن سکے اور نہ دیکھ سکے۔ نیز اَبْکَمُ کے معنی ہیں۔ اَخرَسُ بَیِّنُ الْخُرْسِ۔ ایساگونگا جس کا گونگا پن ظاہر ہو قَالَ الْاَ ذھَرِی بَیْنَ الْاَخْرَسِ وَالْاَ بْکَمِ فَرْقٌ فِی کَلَامِ الْعَربَ۔ ازہری کہتے ہیں کہ اَخْرَسُ اور اَبْکَم میں کلام عرب میں فرق ہے فَالْاَ خْرَسُ الَّذِیْ خُلِقَ وَلَا نُطْقَ لَہٗ کَا لْبَھِیْمَۃِ الْعَجْمَائِ وَالْاَ بْکَمُ الَّذِیْ بِلِسَانِہٖ نُطٰقٌ وَھُوَ لَایَعْقِلُ الْجَوَابَ وَلَا یُحْسِنُ وَجْہَ الْکَلَامِ۔ اخرس ایسے شخص کو کہتے ہیں کہ جو ایسی خلقت میں پیدا ہو کہ اس میں قوت ناطقہ نہ ہو اور وہ جیعان کی طرح ہو اور ابکم ایسے شخص کو کہیں گے جس کی زبان میں نطق تو ہو لیکن وہ جواب نہ دے سکتا ہو اور نہ اچھی طرح کلام کر سکتا ہو۔ (لسان)
عُمْیٌ:۔ اَعْمٰی کی جمع ہے اس کا فعل عَمِیَ ہے کہتے ہیں عَمِی:۔ ذَھَبَ بَصَرُہٗ کُلُّہٗ مِنْ عَیْنَیْہِ کِلْتَیْھِمَا یعنی بکلی آنکھوں سے اندھا ہو گیا۔ نیز عَمِیَ فُلَانٌ کے معنے ہیں۔ ذَھَبَ بَصَرُ قَلْبِہ وَجَھِلَ ول کا اندھا اور بصیرت سے کورا ہو گیا۔ غَوِیَ:۔ بدراہ ہو گیا (اقرب)
لَایَرْجِعُوْنَ:۔ رَجَعَ سے مضارع منفی جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور رَجَعَ الرَّجُلُ کے معنی ہیں اِلْصَرَفَ واپس لوٹا(اقرب) پس لَایَرْجِعُوْنَ کے معنے ہونگے وہ لوٹیں گے نہیں۔
تفسیر۔ فرماتا ہے۔یہ منافق بہرے۔ گونگے اور اندھے ہیں۔ اس لئے اپنی شرارتوں سے باز نہیں آ سکتے۔ بہرے اس لئے کہ قرآن کریم سنا مگر پھر بھی اس سے فائدہ نہ اُٹھایا گونگے اس لئے کہ اگر دل میں شبہات پیدا ہوتے تھے تو ان کے بارہ میں سوال کر لیتے اور اس طرح دل صاف کر لیتے۔ مگر جھوٹی عزت کے خیال سے کہ پہلے تو قوم کو پڑھانے والے سمجھے جاتے تھے۔ اب دوسروں سے کس طرح پڑھیں۔ پوچھنے سے بھی گریز کیا۔ اور گونگوں کی طرح ہو گئے۔ اندھے اس لئے کہ سچے مومنوں کے اندر جو نیک تبدیلیاں پیدا ہوئیں ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے فائدہ نہیں اٹھایا۔ آخر اوس اور خزرج ہی میں سے بیسیوں وہ لوگ تھے جو ہر قسم کے اخلاقی عیوب سے پاک ہو گئے تھے۔ ان کے دل خدا تعالیٰ کی محبت سے پُر تھے اُن کی آنکھیں خدا تعالیٰ کے ذکر سے بہتی تھیں ان کی زبان خدا تعالیٰ کی تقدیس کے گیت گاتی تھی وہ دُنیا میں رہتے ہوئے دُنیا سے جُدا تھے اور آخر ان کی پہلی حالت سے بھی یہ منافق واقف تھے اور ایمان کے بعد کی حالت سے بھی آگاہ تھے پھر اگر قرآن کریم سمجھ نہ آتا تھا اور اس کے متعلق اپنے شبہات کا ازالہ کروانے سے شرماتے تھے تو اس عظیم الشان تبدیلی ہی کو دیکھتے جو خود ان کے گھروں میں ظاہر ہو رہی تھی عبداللہ بن ابی ابن سلول کا لڑکا مخلص مسلمان تھا کیا عبداللہ کو نظر نہ آتا کہ اس جیسے کذاب کے لڑکے کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صادق اور راستباز کس طرح بنا دیا اور اس جیرے بُزول کے لڑکے کو آپؐ نے بہادر او رجری کس طرح بنا دیا۔ اس جیسے دُنیا کے پرستار کے لڑکے کو خدائے ذوالجلال کے عرش کے آگے سجدہ میں کس طرح گروا دیا۔ اسی طرح دوسرے منافقوں کے گھروں او رہمسائیوں کے گھروں میں یہ تبدیلیاں ہو رہی تھیں مگر دل کی آنکھیں اندھی تھیں اس لئے نظر کچھ نہ آتا تھا سجہائی کچھ نہ دیتا تھا۔

۲۰؎ حل لغات
اَوْ:۔ حرف عطف ہے۔ اور مندرجہ ذیل بارہ معنوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
(۱) اَلشَّکُّ (۲) اَلْاِبْہَامُ (۳) اَلتَّخْیِیْرُ۔ (۴) الْمُطْلقُ (۵) اَلتَّقْسِیْمُ (۶) اَلْاِضْراَبُ (۷) اَلْاِبَاحَۃُ (۸) بمعنے اِلَّا (۹) بمعنے الیٰ (۱۰) اَلتَّقْرِیْبُ (۱۱) اَلشَّرطیہ (۱۲) اَلتَّبْعِیْضُ (معنی)
آیت ہذا میں ان میں سے دو معنے چسپاں ہو سکتے ہیں جن کی تشریح ذیل میں درج ہے۔
(۱) اَلْجَمْعُ الْمُطْلقُ یعنی کبھی دو امور کے درمیان لفظ اَوْ استعمال ہوتا ہے اور اس کے معنے ’’اور‘‘ کے ہوتے ہیں چنانچہ
؎ وَقَدْ زَعَمَتْ لَیلیٰ بِاَنِّی فَاجِرٌ
لِنَفْسِیْ تُقَاھَا اَوْ عَلَیْہَا فُجُوْرُھَا
میں اَوْ بمعنے یا نہیں بلکہ بمعنے ’’اور‘‘ ہے یعنی میرے نفس کا تقوے مجھے ہی فائدہ دے گا اور اس کی برائی بھی مجھ پر ہی وبال ثابت بنے گی۔
(۳) اَلتَّقْسِیْمُ:۔ کسی چیز کی مختلف اقسام بتانے کے لئے بھی اَوْ آتا ہے۔ چنانچہ نحو کا یہ جملہ کہ اَلْکَلِمَۃُ اِسْمٌ اَوْ فِعْلٌ اَوْ حَرْفٌ اس کی مثال ہے اس میں اَوْ تقسیم کے لئے استعمال ہؤا ہے اور معنی یہ ہیں کہ کلمہ کی تین قسمیں ہیں یا وہ اسم ہو گا یا فعل ہو گا یا حرف ہو گا۔ (مغنی)
کَصَیّبٍ: ۔ اَلصَیّبُ کے معنے ہیں ! السَّحَابُ ذُوْالصَّوْبِ۔ ایسا بادل جو کڑک اور بارش والا ہو (اقرب) الصَّوْبُ: خَزُوْلُ الْمَطَرِ اِذَا کَانَ بِقَدَرٍ مَّا یَنْفَعُ یعنے صوب بارش کے ایسے طور پر اور ایسے انداز پر برسنے کو کہتے ہیں جبکہ وہ موجب نفع ہو۔ وَالصَّیِّبُ:۔ السَّحَابُ الْمُخْتَصُّ بِالصَّوْبِ۔ اور صَیّب اس بادل کو کہتے ہیں جس میں صوب کی صفت پائی جائے یعنی خوب برسے (مفردات)
اَلسَّمَاء :۔ آسمان کُلُّ مَا عَلَاکَ فَاَظَلَّکَ۔ ہر اوپر سے سایہ ڈالنے والی چیز سَقْفُ کُلِّ شَیْئٍ وَبَیْتٍ چھت رَوَاقُ الْبَیْتِ گھرکے سامنے کا چھجہ ۔ ظَہْرُ الْفَرسِ گھوڑے کی پیٹھ۔ السَّحَابُ بادل۔ اَلْمَطَرُ بارش اَلْمَطُر الجَیِّدٗۃُ ایک دفعہ کسی برسی ہوئی عمدہ بارش۔ اَلْعُشْبُ سبزہ و گیاہ (اقرب)
ظُلُمَات:۔ کے لئے دیکھو حل لغات سورۂ ہذا ۱۸؎ نیز تاج العروس جلد ثامن میں ہے کہ اَلْعَرَبُ تقُوْلُ لِلْیَومِ الَّذِیْ تلقٰی فِیہِ الشِّدَّۃُ یَوْمٌ مظْلِمٌ:۔ اہلِ عرب شدت اور تکلیف کے دن کو ظلمت والا دن کہتے ہیں۔
رَعْدٌ:۔ رَعدَ کا مصدر ہے اور رَعَدَ السَّحَابُ کے معنے ہیں صَاتَ وَ ضَجَّ لِلْامْطَارِ بادل برسنے کے لئے گرجا الرّعد کے معنے ہیں۔ صَوْتُ السَّحَابِ۔ بادل کی آواز یعنی کڑک (اقرب) لغوی معنے رَعْدٌ کے بادلوں کے گرجنے اور گرجنے کی آواز کے ہیں۔ آیت ہذا میں زبردست احکام۔ تباہی کی خبروں۔ وعید کی پیشگوئیوں اور احکام جنگ کو رعد یعنی کڑک سے تشبیہہ دی گئی ہے۔
البرق:۔ وَمِیْضُ السَّحَابِ:۔ بادل کی چمک (اقرب) لغوی طور پر برق چمکتی بجلی کو کہتے ہیں۔ آیت ہذا میں اس سے مُراد لڑائی کے نظارے ہیں یا کھلی کھلی علمی باتیں‘ صداقت کے نشانات یا مال غنیمت و اسلامی فتوحات۔
یَجْعَلُوْنَ:۔ جَعَلَ سے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے۔ جَعَلَہٗ (یَجْعَلُ) جَعْلًا کے معنے ہیں صَنَعَہٗ اس کو پیدا کیا۔ چنانچہ انہی معنوں میں جَعَلَ اللّٰہُ الظُّلَمَاتِ وَالنُّوْرَ استعمال ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اندھیروں اور روشنی کو پیدا کیا۔ جَعَلَ الشَّیْئَ کے ایک معنی وَضَعَہٗ کے ہیں اس کو کسی جگہ رکھا۔ نیز جَعَلَ کبھی ظَنَّ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے چنانچہ کہتے ہیں جَعَلَ الْبَصْرَۃَ بَغْدَلوًا اَیْ ظَنَّہَا اِیَّا ھَا کہ فلاں شخص نے بصرہ کو بغداد خیال کر لیا۔ بعض اوقات جَعَلَ کے معنے شَرَعَ کے ہوتے ہیں۔ چنانچہ کہتے جَعَلَ یَنْشُدُ مراد ہوتی ہے کہ اس نے شعر خوانی شروع کر دی (اقرب) اس آیت میں جَعَلَ وَضَعَ کے معنے میں استعمال ہوا ہے۔ اس لئے یَجْعَلُوْنَ کے معنے یہ کئے گئے ہیں کہ ڈال لیتے ہیں۔
الصَّوَاعِقُ:۔ الصَّاعِقَۃُ کی جمع ہے اور الصَّاعِقَہُ کے معنے ہیں اَلْمَوْتُ۔ موت۔ کُلُّ عَذَابٍ مُھْلِکٍ۔ ہر مہک غذاب۔ صَیْحَۃُ الْعَذَابِ۔ عذاب کی آواز۔ نَارٌ تَسْقُطُ مِنَ السَّمَائِ فِیْ رَعْدٍ شَدِیْدٍ لَا تَمُرّ عَلیٰ شَیْئٍ اِلاَّ اَحْرَقَتْہُ وہ آگ جو بادل سے کڑک کے ساتھ نازل ہوتی ہے اور جس چیز پر گرے اسے جلا دیتی ہے (یعنی گرنے والی بجلی) (اقرب) الصَّاعِقَۃُ:۔ ھِیَ الصَّوْتُ الشَّدِیْدُ مِنَ الْجَوِّ ثُمَّ یَکُوْنُ مِنْہُ نَارٌ فَقَطَ اَوْ عَذَابٌ اَوْ مَوْتٌ وَھِیَ فِی ذا تِھَا شَیْئٌ وَاحِدٌ وَھٰذِہِ الْاَشْیائُ تَاثِیْرَاتٌ مِنْھَا۔ صَاعِقَہ اس ہولناگ گرج اور آواز کو کہتے ہیں جو فضاء سے پیدا ہوتی ہے پھر اس سے کبھی تو آگ واقع ہوتی ہے یا عذاب یا موت نازل ہوتی ہے۔
حَذَر:۔ التَّحَرُّزُ وَ مُجَانَبَۃُ الشَّیْ خَوْفًا مِنْہُ کسی چیز سے بچنا اور خوف کے ۔ر سے علیحدہ رہنا۔ (اقرب)
اَلْمَوْت:۔ زَوَالُ الْحَیَاۃِ عَمَّنْ اِتَّصَفَ بِھَا:۔ اس چیز سے زندگی کا علیحدہ ہو جانا جو زندگی کے ساتھ متصف ہو (اقرب) مفردات میں ہے اَلْمَوْتُ زَوَالُ الْقُوّۃِ الْحَیَوَانِیَّۃِ وَاِبِانَۃُ الرُّوْحِ عَنِ الْجِسْمِ۔ قوت حیوانیہ اور رُوح کا جسم سے علیحدہ ہو جانا موت کہتا ہے اَنْوَاعُ الْمَوْتِ بِحَسْبِ الْحَیٰوۃِ۔ موت کئی قسم کی ہوتی ہے جس قسم کی زندگی ہو گی اسی کے مطابق موت ہو گی(۱) فَالْاَوَّلُ مَاھُوَ بِازائِ الْقُوَّۃِ النَّامِیَّۃِ الْمَوْجُوْدَۃِ فِی الْاِنْسَانِ وَالْحَیَوَانَاتِ وَالنَّبَاتِ۔ انسان۔ حیوانات اور نباتات میں نشوونما کا رُک جانا موت کہلاتا ہے جیسے یُحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا (روم) میں اشارہ فرمایا ہے (۲) الثَّانِیْ زَوَالُ الْقُوَّۃِ الْحَاسَّۃِ احساس کا زوال بھی موت کہلاتا ہے جیسے حضرت مریم علیہ السّلام کا قول یَا لَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ ھٰذَا (مریم ع ۲) ہے کہ اے کاش میں اس سے پہلے کی بے حس ہو چکی ہوتی (۳) زَوَالُ الْقُوَّۃِ الْعَاقِلَۃِ زوال یعنی جہالت بھی موت کہلاتی ہے جیسے اَوَمَنْ کَانَ میْتًا فَاَ حْیَیْنَاہُ (انعام) (۴) اَلرَّابِعُ الْحُزْنُ الْمُکَدِّرَۃُ لِلْحَیٰوۃِ۔ ایسے غم جو زندگی کو دو بہر کر دیں جیسے فرمایا یَاْ تِیْہِ الْمَوْتُ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ وَمَا ھُوَ بِمَیِّتٍ (ابراہیم) (۵) الخامس۔ المنام نیند۔ لسان میں ہے وَقَدْ یُسْتَعَارُ الْمَوْتُ لِلْاَحْوَالِ الشَّاقَّۃِ کَالْفَقْرِ وَالذُّلِ وَالسُّؤَالِ وَالھَہِمَ وَالْمَعْصِیَۃِ کبھی موت کا لفظ استعارۃً تکلیف دو حالتوں پر بھی جیسے فقر۔ ذلت۔ سوال۔ بڑھاپا اور معصیت ہیں بولا جاتا ہے۔
وَاللّٰہُ:۔ وائو اس جگہ حالیہ ہے یعنی جب کفار خدا کی گرفت تلے آ گئے ہیں اور تباہ ہونے والے ہیں پھر اُن سے ۔رنا حماقت نہیں تو اور کیا ہے۔ چونکہ دائو حالیہ ہے اس لئے ترجمہ ’‘حالانکہ‘‘ کیا گیا ہے۔
مُحِیْطٌ:۔ اَحَاطَ سے اسم فاعل ہے۔ اَحَاطَ بِالْاَمْرِ کے معنے ہیں۔ اَحدَتَہٗ مِنْ جَوَانبِہٖ۔ اس کو تمام طرفوں سے گھیر لیا۔ (اقرب) پس محیط کے معنے ہونگے گھیرنے والا۔
تفسیر۔ اس آیت میں دوسری قسم کے منافقوں کا ذک رہے جو دل سے کافر نہ تھے۔ مگر کمزوری ایمان کی وجہ سے قربانیوں کے مطالبہ یا دشمن کے حملہ کے وقت گھبرا جاتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی سزا کی نسبت بندوں کی سزا سے زیادہ خائف تھے اس لئے ایسے اوقات میں کفار کو خوش کرنے کے لئے ان سے مخفی تعلق رکھتے اور ایسی باتیں کرتے جس سے وہ ان کو اپنا خیر خواہ سمجھیں یا بعض خبریں مسلمانوں کی ان کو دیتے اور دل میں یہ سمجھ لیتے کہ اسلام سچا مذہب ہے ہماری اس کمزوری سے اسلام کو حقیقی نقصان تو پہنچ نہیں سکتا پھر کیا حرج ہے اگر ہم اس طرح اپنے آپ کو تکلیف سے بچا لیں۔ اسلام جیسے قربانی والے مذہب میں ایسے لوگوں کی بھی گنجائش نہیں اس لئے ابتداء قرآن میں ہی ایسے لوگوں کو بھی کھول کر بتا دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو منافق ہی سمجھتا ہے اور منافقوں والا سلوک ان سے کرے گا۔ اسلام تو سب کچھ خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے قربان کر دینے کا نام ہے جو اس رنگ میں مخلصانہ تعلق نہیں پیدا کر سکتا اسے ان انعامات کی امید نہیں رکھنی چاہیئے جو اسلام کے ساتھ وابستہ ہیں۔
اس امر کا ثبوت کہ اس آیت اور اس کے بعد کی آیتوں میں کمزور ایمان والوں کا ذکر ہے جو کمزوری ایمان کی وجہ سے قومی کاموں میں جرأت سے حصہ نہیں لے سکتے اور وقت پر کمزوری دکھا جاتے ہیں یہ ہے کہ پہلی آیات میں تو منافقوں کے آگ جلانے کا ذکر ہے مگر ان آیات میں منافقوں کے اگ جلانے کا ذکر نہیں بلکہ آسمانی سامانوں کے ظہور کا ذکر ہے۔ پہلی مثال میں یہ ذکر ہے کہ روشنی کے وقت منافقوں کا نور جاتا رہا اور اس میں یہ ذکر ہے کہ روشنی ہو ت ویہ لوگ سنبھل جاتے ہیں اور چلنے لگ جاتے ہیں۔ پھر پہلی مثال میں تو یہ ذکر ہے کہ وہ مومن نہیں ہیں وہ بہرے گونگے اور اندھے ہیں لیکن اس مثال میں جن لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے ان کی نسبت یہ فرماتا ہے کہ خدا تعالیٰ چاہتا تو انہیں بہرے اور اندھے کر دیتا مگر اب تک وہ ایسے ہوئے نہیں۔ ہاں ان کی یہ حالت قائم رہی تو بہرے اور اندھیر ہو جائیں گے اسی طرح پہلی مثال میں بتایا تھا کہ وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں اور دوسری مثال والوں کی نسبت یہ بتایا ہے کہ وہ مسلمانوں کو نقصدان نہیں پہنچانا چاہتے بلکہ ڈر کے مارے مصیبت کے وقت ان کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔
بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اس آیت سے پہلے جو اَوْ کا لفظ آیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ منافقوں پر یا پہلی مثال چسپان ہوتی ہے یا دوسری۔ اس عبارت سے شک ظاہر ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کو شک نہیں ہو سکتا پس یہ کلام انسان کا ہے۔ یہ اعتراض معترضین کے قلت تدبر پر دلالت کرتا ہے کیونکہ شک پر تو یہ آیت اس صورت میں دلالت کرتی۔ اگر اس کا یہ مطلب ہوتا کہ ہم کہہ نہیں سکتے کہ منافقوں کی حالت وہ ہے جو پہلے بیان ہوئی یا یہ ہے جو ہم اب بیان کرتے ہیں۔ مگر اس آیت میں تو کوئی ایسا لفظ نہیں جس سے یہ مطلب نکلتا ہو اَوْ کا لفظ بیشک استعمال ہؤا ہے جس کے معنے ’’یا‘‘ اور ’’اور‘‘ دونوں کے ہوتے ہیں اور ان دونو ںمعنوں میں سے کوئی بھی اس جگہ لئے جائیں ان سے شک کا اظہار نہیں ہوتا۔ اگر اس کے معنے ’’اور‘‘ کے کئے جائیں تو بھی اس کے یہ معنے ہونگے کہ منافقوں کے گروں پر وہ مثال بھی صادق آتی ہے اور یہ بھی یعنی ان کے دو گروہ ہیں ایک پر پہلی مثال صادق آتی ہے اور دوسرے پر دوسری اور اگر اَوْ کے معنے یا کے کئے جائیں تو بھی اس کے یہ معنے ہونگے کہ منافقوں کی یا تو وہ حالت ہے جو اوپر بیان ہوئی اور یا پھر یہ حالت ہے جو ہم اب بیان کر رہے ہیں یعنی ان میں سے ایک گروہ کی وہ حالت ہے اور ایک کی یہ۔
حل لغات میں یہ بتایا جا چکا ہے کہ اَوْ کا لفظ علاوہ شک یا ابہام کے معنوں کے تقسیم کے معنے بھی دیتا ہے یعنی اس سے شئے مذکور کی قسمیں بیان کرنی مطلوب ہوتی ہیں جیسے مثلاً یہ کہیں کہ الکَلِمَۃُ اِسْمٌ اَوْ فِعْلٌ اَوْحَرْفٌ تو اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ ہمیں معلوم نہیں کہ کلمہ اسم ہوتا ہے یا فعل یا حرف بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ کلمہ کئی قسم کا ہوتا ہے یا اسم ہوتا ہے یا فعل یا حرف پس اگر اَوْ کے معنے یا کے کئے جائیں تو اس کے یہ معنی ہونگے کہ منافقو ںکی دو قسمیں ہیں یا تو وہ کافر جو ظاہر میں مسلمان بن گئے ہیں یا وہ مسلمان جو عقیدۃً تو مسلمان ہیں لیکن ایمان کی کمزوری کی وجہ سے کفار سے تعلق رکھتے اور ان کے ڈر سے اسلام کے لئے قربانیاں کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
حماسہ میں جعفر بن علبہ حارثی کا شعر لکھا ہے ؎
فَقَالُوْا الَنَا ثِنْتَانِ لَا بُذَّ مِنْھُمَا
صُدُوْرُرِ مَاجِ اُشْرِعَتْ اَوْسَلاسِلُ
جس کے یہ معنی ہیں کہ انہو ںنے کہا کہ ہمارے پاس دو چیزیں تمہارے لئے ہیں ان دونوں میں سے ایک کے لینے کے سوا تمہیں کوئی چارہ نہیں یا اُٹھائے ہوئے نیزوں کے سر لینے پڑیں گے یا زنجیریں۔ مطلب یہ کہ تم میں سے بعض کو ہم مار دیں گے اور بعض کو قید کر لینگے۔ اس میں شک کا کوئی شائبہ نہیں ہے بلکہ صرف مخالف کی تقسیم بتائی ہے کہ ہم اسے دو حصو ں میں تقسیم کر دیں گے یعنی مقتولوں اور قیدیوں میں۔
اسی طرح اَوْ کے ایک معنی لغت میں جمع مطلق کے بھی آتے ہیں یعنی یہ لفظ صر ف جمع کے معنے دیتا ہے اور یا کے معنی نہیں دیتا چنانچہ لغت میں اس کی مثال یہ مصرعہ لکھا ہے ؎
لِنَفْسِیْ تُقَا ھَا اَوْ عَلَیْھَا فُجُوْرُھَا
اس کے یہ معنے نہیں کہ یا میرے نفس کو تقویٰ ملے گا۔ یا فجور۔ بلکہ یہ معنے ہیں کہ میرے نفس کو اس کے تقویٰ کا بھی بدلہ ملے گا۔ اور اس کے گناہ کا بھی بدلہ ملے گا۔
پس اس آیت میں شک کا کوئی ذکر نہیں بلکہ صرف یہ بتایا ہے کہ منافق اوپر کی صفات والے بھی ہیں اور ان دوسری صفات والے بھی جو اس آیت میں بیان ہوئے ہیں۔ عرب کا ایک شاعر کہتا ہے ؎
قَوْمٌ اِذا سَمِعُوْ الصُّرَاخَ رَئَ یْتَہُمْ
مَابَیْنَ مُلْجِمِ مُھْرِ ہِ اَوْ سَافِعِ (لسان)
یعنی وہ ایسی قوم ہے کہ جب کسی فریادی کی آواز سُنتے ہیں تو فوراً ان میں سے کچھ گھوڑوں کے مُنہ میں لگام دے رہے ہوتے ہیں اور کچھ گھوڑوں کی پیشانی کے بال پکڑ کر ان کو کھینچ رہے ہوتے ہیں یعنی سب کے سب فوراً فریادی کی فریاد کو پہنچنے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں غرض ان آیات میں منافقوں کے دو گروہوں کا ذکر ہے نہ کہ کسی شک کا اظہار ہے۔
ان معترضین نے اس غور نہیں کیا کہ یہاں ایک فرد کا ذکر نہیں بلکہ ایک گروہ کا ذکر ہے جس کے مختلف افراد مختلف حالتوں کے ہیں ایسے موقعہ پر اَوْ شک کو ظاہر نہیں کرتا شک اسی وقت ظاہر ہوتا ہے جب ایک شخص کی ایک ہی حالت کے متعلق دو باتیں بتائی جائیں۔ مثلاً یہ کہا جائے کہ زید کھڑا ہے یا بیٹھا ہے لیکن جب قوم کی نسبت کہا جائے کہ وہ کھڑی ہے یا بیٹھی تو اس کے یہ معنے ہونگے کہ اس میں سے کچھ کھڑے ہیں اور کچھ بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایک فرد کی نسبت بھی اگر دو مختلف حالتوں کا ذکر ہو تب بھی اَوْ شک کے معنے نہیں دیتا مثلاً ہم بزدل انسان کی نسبت کہہ سکتے ہیں کہ جب خطرہ پیدا ہو وہ یا بھاگ جاتا ہے یا چھپ جاتا ہے اس کے معنی یہ نہ ہونگے کہ ہمیں معلوم نہیں کہ وہ کیا کرتا ہے بلکہ ی معنی ہونگے کہ کبھی اس کے قلب کی حالت ایسی ہوتی ہے کہ وہ بھاگ جاتا ہے اور کبھی ایسی کہ وہ چھپ جاتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ ان آیات میں شک کا اظہار نہیں بلکہ یہ بتایا ہے کہ منافقو ںکے ایک گروہ کی حالت یہ ہے کہ جیسے بادل سے باش نازل ہونے کے وقت جبکہ اس کے ساتھ تاریکی اور گرج اور بجلی ہو تو وہ خوب ڈرتے ہیں اور اگر کبھی بجلی گر پڑے تو پھر تو موت کے ڈر سے کانو ںمیں انگلیاں دے کر کھڑے ہو جاتے ہیں حالانکہ بارش تو خدا تعالیٰ کی رحمت کی علامت ہے او راس کے ساتھ اندھیروں اور گرج اور بجلی کا چمکنا لازمی امر ہے کبھی کبھی اس کے ساتھ بجلی کا گرنابھی ایک سنت ہے ان باتوں سے گھبرا کر بارش کے فوائد سے محروم ہو جانا بیوقوفی ہے۔ مثلاً ایک زمیندار اگر بارش کے وقت بجائے اس کے کہ اپنے کھیت کی مینڈھوں کو ٹھیک کرے اور پانی جمع کرنے کی کوشش کرے کانوں میں انگلیاں ڈال کر گھر بیٹھ جائے تو اسے کوئی شخص عقلمند نہیں کہہ سکتا۔ اسی طرح اسلام کا ظہور آسمانی بار ش کی طرح ہے۔ اس کے ساتھ بھی اندھیروں اور گرج اور بجلی کا وجود ضروری ہے مومن اس کو سمجھتے ہیں اور اس حالت سے ۔رنے کی بجائے قربانیاں کر کے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مگر عملی منافق اس حالت سے ڈر کر اپنے گھروں میں بیٹھ جاتے ہیں اور ان فوائد سے بھی محروم رہ جاتے ہیں جو اسلام کی ظاہری ترقی کے ساتھ وابستہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی بھی حاصل کرتے ہیں پھر فرماتا ہے وَاللّٰہُ مُحِیْطٌ بِالْکٰفِرِیْن۔ آخر یہ ڈرتے کن سے ہیں؟ کیا کافروں کی ایذاء سے ؟ کافروں کی تباہی کا تو اللہ تعالیٰ فیصلہ کر چکا ہے جن کی تباہی کا فیصلہ ہو چکا ہے اور جن کی تباہی کے لئے یہ سامان پیدا ہؤا ہے ان سے ڈرنے کا کیا مطلب؟
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ خدائی سلسلے جب بھی دُنیا پر ظاہر ہوتے ہیں بارش برسانے والے بادلوں کی طرح ان کے ساتھ بھی تاریکیاں ہوتی ہیں گرج ہوتی ہے اور بجلیاں ہوتی ہیں یعنی شروع شروع میں تکالیف کا وجود ان کے ساتھ ضرور ہوتا ہے مثلاً تاریکیاں ہوتی ہیں کہ بُرے رشتہ داروں اور بُرے دوستوں سے قطع تعلق کا حکم ہوتا ہے کبھی ہجرت کا حکم ملتا ہے مالی قربانیوں کا مطالبہ ہوتا ہے جانی قربانیوں کا مطالبہ ہوتا ہے پھر ان کے ساتھ گرج بھی ہوتی ہے یعنی سب دُنیا سے مقابلہ کا اعلان ہوتا ہے اور بظاہر یُوں معلوم ہوتا ہے کہ سب دُنیا کو دشمنی کی دعوت دے کر اپنے مدمقابل کھڑا کر لیا گیا ہے پھر ان کے ساتھ بجلی بھی ہوتی ہے یعنے ایسے امور ظاہر ہوتے ہیں جو نظروں کو خیرہ کر دیتے ہیں۔
پھر یہ بجلیاں کبھی صواعق بن جاتی ہیں۔ یعنی دشمن مومنوں کو برباد کرنے کے لئے حملے کرتے ہیں یا مومن جو ابی ۔طور پر ان پر حملے کرتے ہیں اور بعض دفعہ ان حملوں کے نتیجے میں بعض مومن موت کا شکار بھی ہو جاتے ہیں جو کمزور دل کے لوگ ہوتے ہیں وہ یوں تو سب مشکلات سے ہی گھبراتے ہیں مگر اس آخری حصہ کے ڈر سے تو ان کی رُوح تھر آنے لگتی ہے۔
اس آیت میں ان لوگوں کا بھی جواب دیا گیا ہے جو انبیاء کی بعثت پر اعتراض کرتے ہیں کہ ان کے آنے سے تو فساد پیدا ہو گیا ہے اور بتایا ہے کہ دیکھو بارش کیسی رحمت الٰہی ہے مگر اس کے نازل ہونے کے وقت بھی یہ پہلے سورج چھپ جاتا ہے اور تاریکی چھا جاتی ہے اور گرج اور بجلی نمودار ہوتی ہے۔ اسی طرح انبیاء کا وجود ہے ان کی امد پر جو شور و شر اُٹھتا ہے وہ نحوست کی علامت نہیں بلکہ آنے والی برکات کا اعلان ہوتا ہے اور انسانوں سے خدا تعالیٰ کے سلوک کا بدل جانا اسی نہج سے ہوتا ہے جس طرح بادل کے آنے پر سورج چھپ جاتا ہے اور روحانی بارش کے بعد الٰہی سورج پھر پہلے سے بھی زیادہ شان کے ساتھ چمکنے لگتا ہے۔
جیسا کہ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے صاعقہ کے معنی گرنے والی بجلی کے ہیں اور اس کے معنے موت اور عذاب کے بھی ہیں اور یہی وہ امور ہیں کہ جن سے کمزور دل لوگ زیادہ گھبراتے ہیں مگر فرماتا ہے کہ صاعقہ کی وجہ سے کان میں انگلی ڈالنے سے کیا ہوتا ہے اوّل تو صاعقہ کے گرنے کے بعد آواز پیدا ہوتی ہے جو بجلی گر چکی اس سے بچنے کے لئے کان میں اُنگلی دینے سے کیا فائدہ۔ دوسرے جب خدا تعالیٰ کی طرف سے اعلان جنگ ہو گیا تو پھر ان منافقوں کے ڈرنے سے اس میں تبدیلی تو ہو نہیں سکتی بہرحال کافر حملہ کریں گے تب بھی انہیں کچھ نہ کچھ ضرر پہنچے گا اور مومن حملہ کریں گے تب بھی کچھ نہ کچھ نقصان انہیں پہنچے گا۔ ان کے کانوںمیں اُنگلیاں ڈال لینے سے وہ اعلان جنگ تو نہ ٹل جائے گا۔ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہؤا ہے کفر و ایمان کی نبرد آزمائی ان بُزدلوں کے اظہارِ بُزدلی سے رُک تھوڑے ہی جائے گی۔
جیسا کہ اوپر کی تشریح سے ظاہر ہے صواعق ظلمات رعد اور برق کے علاوہ ایک تیسری شئے ہے ضروری نہیں کہ جب بجلی چمکے اس سے صاعقہ بھی گرے۔ صاعقہ کبھی گرتی ہے کبھی نہیں۔ اسی طرح کفر و ایمان کے ٹکرائو میں ہمیشہ جنگ کی صورت ہی پیدا نہیں ہوتی کبھی بجلی صرف روشنی کا کام دے جاتی ہے اس میں سے صاعقہ نہیں گرتی اور کبھی اس کے ساتھ صادقہ بھی گرتی ہے جب بجلی کی چمک کے ساتھ صاعقہ نہ ہو تو منافق نہیں گھبراتے کیونکہ خالی بجلی کا چمکنا اسلام کی شوکت کے اظہار کے لئے ہے ہاں جب اس کے ساتھ صاعقہ بھی ہو تب وہ بہت گھبراتے ہیں چنانچہ اگلی آیت میں اس فرق کو ظاہر کیا ہے۔
اس آیت کی ترکیب کچھ مشکل ہے نحویوں کو اس میں اختلاف ہے کہ مِنَ الصَّوَا عِقِ کا کیا مقام ہے اور حَذَرَ الْمَوْت کا کیا اکثر مفسر حَذَرَ الْمَوْت کو مفعول لہ قرار دیتے ہیں لیکن اس پر بعض مفسرین نے اعتراض کیا ہے کہ مِنَ الصَّوَا عِقِ کا پھر کیا مقام ہے اس کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ مِنَ اس جگہ سببیہ ہے اس پر معترض اعتراض کرتے ہیں کہ اگر مِنَ سببیہ ہے تو وہ بھی فی معنی مفعول لہ ہوا۔ اس صورت میں دونوں مفعولوں میں عطف چاہیئے تھا۔ اس کا جواب پہلا گروہ یہ دیتا ہے کہ فی معنی مفعول لہ ہونا اور بات ہیاور مفعول لہ ہونا اور بات۔ اس لئے عطف کی ضرورت نہ تھی (محیط) بعض نے حَذَرَ الْمَوْت کو مفعول مطلق قرار دے کر اس مشکل کو حل کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ حَذَرَ الْمَوْت سے پہلے یَحْذَرُوْنَ کا فعل محذوف ہے اس کے مفعول موت کو وہاں سے اُٹھا کر حَذَر مصدر کو اس کی طرف مضاف کر دیا گیا ہے اور معنے یہ ہیں کہ صواعق کے ۔ر سے کانوں میں انگلیاں دیتے ہیں اور اس طرح ڈرتے ہیں جس طرح موت سے ڈرنا چاہیئے (املاء ابی البقاء) مِنَ الصَّوا عِقِ یَجْعَلُوْنَ کا متعلق ہے۔
(کشاف)




۲۱؎ حل لغات
اَلْبَرْق:۔ کے لئے دیکھو حل لغات سورہ ہذا ۲۰؎
یَخْطَفُ: خَطَفَ سے مضارع ہے اور خَطَفَ کے معنے ہیں اِسْتَلَبَہٗ بِسُرْعَۃٍ جلدی سے اُچک لیا۔ خَطَفَ الْبَرْقُ الْبَصَرَ کے معنے ہیں ذَھَبَ بِہٖ بجلی اپنی چمک کے ذریعہ سے بینائی کو لے گئے (اقرب)
اَضَائَ: کے لئے دیکھو حل لغات ۱۸؎
اَظْلَمَ: اَظْلَمَ عَلَیْہ اللَیْلُ کے معنے ہیں رات نے ان پر اندھیرا کر دیا۔ (اقرب)
ذَھَبَ:۔ ذَھَبَ چلا گیا۔ ذَھَبَ بِہٖ لے گیا۔ نیز ذَھَبَ بِہٖ کے معنے اَزَالَہٗ کے بھی ہیں یعنی ضائع کر دے دُور کر دے (اقرب) قرآن کریم میں یہ لفظ کئی معانی میں استعمال ہؤا ہے مثلاً ذَھَبَ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ الرَّوْعُ (ہود ع ۷ آیت ۷۵) ابراہیم کا خو دُور ہو گیا۔ فَلَا تَذْھَبْ نَفْسُک عَلَیْھِمْ (فاط ع ۲ آیت ۹) تیرا نفس ان کے پیچھے ہلاک نہ ہو۔ اَذْھَبَہٗ بھی ذَھَبَ بِہٖ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے جیسے قرآن کریم میں ہے اِنْ یَّشَا یُذْ ھِبْکُمْ وَیَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِیْدٍ (ابراہیم ع ۳) اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو تمہیں ہلاک کر کے اور مخلوق پیدا کر دے۔ اس آیت میں ذَھَبَ بِہٖ ضائع کرنے اور تباہ کرنے کے معنوں میں ہی استعمال ہؤا ہے۔
شَیْئٌ:۔ شَائَ کا مصدر ہے عربی میں مصدر کبھی بمعنی اسم مفعول بھی استعمال ہوتا ہے اور شَیْء کا لفظ انہی معنوں میں ہے اور اس کے معنے ہیں چاہی ہوئی بات نیز اس کے ہیں مَایَصِحُّ اَنْ یُعْلَمَ وَیُخْبَرَعَنْہُ۔ وہ امر یا بات جس کے متعلق خبر دی جا سکے (اقرب) شَیْ کا ترجمہ امر۔ بات وغیرہ کیا جاتا ہے۔ مگر شَیْ کے مکمل معنے ہیں وہ چیز جسے کوئی فاعل چاہے یا جس کا وہ ارادہ کرے۔ ان معنوں کو واضح کرنے کے لئے خطوط میں بعض الفاظ بڑھا دیئے گئے ہیں۔ جب تک ان معنوں کو مدنظر نہ رکھا جائے ناواقفوں کو دھوکا لگ جاتا ہے حتی کہ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کیا خدا چوری پر قادر ہے مرنے پر قادر ہے حالانکہ خدا تعالیٰ چوری اور مرنے کو پسند نہیں کرتا اور نہیں چاہتا کیونکہ یہ امور اس کی ذات کے لئے نقص ہیں خوبیاں نہیں۔
قَدِیْر:۔ مبالعہ کا صیغہ ہے۔ قَدَرَ عَلَیہ (یَقْدِرُ) قَدْرًا وَ قُدْرَۃً کے معنے ہیں قَوِیَ عَلَیْہِ کسی چیز کے کرنے پر طاقت پائی اور اَلْقُدْرَۃُ کے معنے ہیں۔ اَلْقُوَّۃُ عَلَی الشَیْ والتَّمکُنُ مِنْہُ کسی چیز کے کرنے پر طاقت حاصل کرنا یا کسی پر قابو پا لینا قدرت کہلاتا ہے (اقرب) مفردات میں ہے کہ جب قُدْرَۃ کا لفظ انسان کے لئے بولا جائے تو اس کے معنے یہ ہونگے کہ اس کو کسی چیز کے کرنے کی طاقت حاصل ہے اور جب اللہ تعالیٰ کی صفت ہو تو اس سے مراد ہر قسم کی کمزوری و عاجزی کی نفی ہو گی اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لئے قدرت مطلقہ کا لفظ استعمال نہیں ہو سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو پوری قدرت حاصل نہیں۔ صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ایسی ذات ہے جسے پوری پوری قدرت ہر بات پر حاصل ہے۔ قَدِیْر کے معنی کے ماتحت لکھا ہے ھُوَ الْفَاعِلُ لِمَا یَشَائُ عَلیٰ قَدْرٍ مَاتقَضِی الْحِکمَۃُ لَا زَائِدً اعَلَیْہِ وَلَا نَاقِصًا عنہٗ یعنے اپنی چاہی ہوئی بات کو اندازْ پر جس کا حکمت تقاضا کرتی ہے بغیر کمی یا بیشی کے کرنے والا قدیر کہلاتا ہے قدیر مبالغہ کا صیغہ ہے اور کثرت و عظمت پر دلالت کرتا ہے۔ عام طو رپر بڑا قادر اور بہت قادر سے اس کا ترجمہ ہوتا ہے لیکن اردو میں جب اس کا مفعول بھی بیان کیا گیا ہو تو بڑا یا بہت کے الفاظ استعمال نہیں ہو سکتے بلکہ یہ مفہوم پورا پورا یا پوری طرح کی قسم کے الفاظ سے ادا کیا جاتا ہے۔
تفسیر۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ قریب ہے کہ بجلی ان کی بینائیوں کو اُچک لے جائے یعنی بار بار صاعقہ کی حالت پیدا ہو ت وان کے ایمان بالکل ضائع ہو جائیں لیکن خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ سامان پیدا کیا گیا ہے کہ کبھی تو بجلی صرف روشنی کا کام دیتی ہے یعنی صرف شوکت اسلام کے ظہور کے سامان پیدا ہوتے ہیں اس موقع پر یہ مسلمانوں کے ساتھ آشامل ہوتے ہیں مگر کبھی اس کے ساتھ صاعقہ بھی نازل ہوتی ہے اور اس وقت ان کی نگہ میں دنیا تاریک ہو جاتی ہے۔ اور یہ وہیں دبک کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور مسلمانو ںکاساتھ دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔
اس آیت سے ظاہر ہے کہ بجلی کی دو کیفیتوں کا الگ الگ اثر ان منافقو ںپر ہوتا ہے جب صرف روشنی ہو تب اور اثر ہوتا ہے جب صرف روشنی ہو تی اور اثر ہوتا ہے اور جب اس کے ساتھ موت اور ہلاکت ہو تو اور اثر ہوتا ہے۔ الفاظ آیت سے ظاہر ہے کہ روشنی اور تاریکی دونوں بجلی کا فعل ہیں کیونکہ جس طرح اَضَائَ کی ضمیر برق کی طرف راجع ہے اسی طرح اَظْلَمَ کی ضمیر بھی برق کی طرف راجع ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ روشنی تو بجلی سے ظاہر ہوتی ہے مگر بجلی سے اندھیرا نہیں ہوا کرتا پس اس جگہ اندھیریس ے مراد ظاہری اندھیرا نہیں بلکہ اس کے گرنے کے اثر کے نتیجہ میں جو تباہی اور ہلاکت پیدا ہوتی ہے وہ مراد ہے اس کا مزید ثبوت یہ ہے کہ اس آیت کے شروع میں فرمایا ہے کہ قریب ہے کہ بجلی ان کی بینائیوںکو اچک کر لے جائے مگر ساتھ ہی یہ فرما دیا کہ جب بجلی ان کے لئے دُنیا کو روشن کر دیتی ہے تو یہ چل پڑتے ہیں یعنی اس وقت یہ اپنے آپ کو مطمئن پاتے ہیں اور مسلمانو ںکے ساتھ مل کر کام کرنے لگ جاتے ہیں پس جبکہ روشنی کے وقت وہ اچھے ہو جاتے ہیں اور نقصان کو اچک لے جانے کا کونسا موقع ہوا۔ اگر کہا جائے کہ اس کا موقع وہ ہے جب وہ نہیں چمکتی اور اندھیرا ہو جاتا ہے تو یہ عقل کے خلاف ہے کیونکہ جب بجلی نہ چمکے تو وہ بینائیو ںکو ضائع نہیں کر سکتی پس معلوم ہوا کہ اس جگہ اندھیرے سے مراد معنوی اندھیرا ہے یعنی تکالیف اور مصائب کی شدت اور بجلی کے ساتھ مصائب اور شرائد کی نسبت اس وقت ہوتی ہے جبکہ وہ گر کر ہلاک کرتی ہے پس مطلب آیت کا یہ ہے کہ جب بجلی صرف یہ اثر ظاہر کرے کہ روشنی کرے گرے نہیں تب تو یہ لوگ مطمئن ہو جاتے ہیں اور مسلمانو ںکے ساتھ چل پڑتے ہیں مگر جب بجلیظلمات پیدا کر دے یعنی صاعقہ کی صورت اختیار کر کے موت اور ہلاکت کا دروازہ کھول دے تب یہ لوگ ڈر کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔
وَلَوْ شَآئَ اللّٰہُ لَذَھَبَ بِسَمْعِہِمْ وَ اَبْصَارِ ھِمْ یعنی اگر اللہ چاہے تو ان کے نفاق کی وجہ سے ان کی شنوائی کو بھی زائل کر دے اور بینائیوں کو بھی۔ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے کہ ذَھَبَ بِہٖ کے معنے دُور کر دینے اور ضائع کر دینے کے بھی ہوتے ہیں ار یہی معنے اس جگہ چسپان ہوتے ہیں اور بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کی شنوائی کو بھی برباد کر دے اور بینائیو ںکو بھی۔ یعنی اب تک تو ان کو یہ توفیق حاصل ہے کہ یہ قرآن سن کر اس پر ایمان لے آتے ہیں لیکن اگر یہ حالت رہی تو بالکل ممکن ہے کہ ان کا یہ ایمان بھی جاتا رہے اور قرآن کریم کو سن کر ان کے دل میںکوئی ایمان نہ پیدا ہو اسی طرح اگر یہ حالت لمبی چلی تو خطرہ ہے کہ ان کی بینائیاں بھی جاتی رہیں یعنی بوجہ بار بار صاعقہ کے نزول کے اور آفات اور مصائب کے آنے کے یہ مسلمانوں کا بالکل ساتھ چھوڑ دیں اور اب تو یہ حالت ہے کہ روشنی کے وقت مسلمانوں کے ساتھ مل جاتے ہیں پھر یہ حالت ہو جائے کہ روحانی بینائی کے ضآئع ہو جانے کے سبب سے ایسے مواقع پر بھی ان کو مسلمانوں کا ساتھ دینے کی توفیق نہ ملے اور یہ کلی طور پر مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ دیں۔
یہ آیت مشکل آیات میں سے ہے اور جن لوگوں نے اس کی تفسیر کی ہے مجملاً کی ہے الگ الگ حصو ںکا کلی تطابق نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں نے اس کی اس طرح وضاحت کر دی ہے کہ اس کے ہر حصہ کا الگ الگ بھی اور دوسرے حصوں کے ساتھ مل کر بھی مضمون ہو جتا ہے اور کوئی اغلاق نظر نہیں آتا۔
بعض لوگ شبہ کرتے ہیں کہ عملی منافق کوا وجود قرآن کریم سے ثابت نہیں اور یہ کہ دوسری مثال بھی اعتقادی منافقوں کے متعلق ہے چنانچہ مجھے یاد ہے کہ جب ہم حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول رضی اللہ عنہ سے قرآن کریم پڑھا کرتے تھے تو حافظ روشن علی صاحب مرحوم جو ہماری جماعت کے بڑے پایہ کے عالم تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو قرآن کریم کے مضامین کے اخذ کرنے کا خاص ملکہ دیا تھا (اللہ تعالیٰ ان پر اپنی برکات نازل فرمائے اور ان کی رُوح کو اپے قرب میں جگہ دے) اکثر حضرت خلیفتہ المسیحؓ سے بحث کیا کرتے تھے کہ عملی منافق کا وجود عقلاً محال ہے منافق اسی کو کہتے ہیں کہ جس کا عقیدہ خراب ہو مگر علاوہ اس کے کہ ان آیات میں ایک حدیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی مل گئی ہے جس میں عملی منافقوں کا ذکر کیا گیا ہے اور وہ حدیث یہ ہے عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ (رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلْقُلُوْبُ اَرْبَعَۃٌ قَلَبٌ اَجْوَدُفِیْہِ مِثْلُ السِرَاجِ یَزْھَرُ وَ قَلْبٌ اَغْلَفُ مَرْبُوْطٌ عَلیٰ اَغْلَافِہٖ وَ قَلْبٌ مَنْکُوْسٌ وَقَلْبٌ مُصَفَّحٌ فَاَمَّا الْقَلْبُ الاَجْرَدُ فَقَلْبُ الْمُؤْمِنِ سِرَاجُہٗ فِیْہِ نُوْرُہٗ وَ اَمَّا الْقَلْبُ الْاَ غْلَفُ فَقَلْبُ الْکَافِرِ وَ اَمَّا الْقَلْبُ الْمَنْکُوْسُ فَقَلْبُ الْمُنَافِقِ عَرَفَ ثُمَّ اَنْکَرَ وَ اَمَّا الْقَلْبُ الْمُصَفَّحُ فَقَلْبٌ فِیْہِ اِیْمَانٌ وَنِفَاقٌ فَمَثَلُ الْاِیْمَانِ فِیْہ کَمَثَلِ الْبَقْلَۃِ یَمُدُّھَا اثمَائُ الطَّیِّبُ وَمَثَلُ النِّفَاقِ فِیْہِ کَمَثَلِ الْقَرْعَۃِ یَمُدُّ الْقَیْحُ وَ الدّمُ فَاَییّ المَدَّتَینِ غَلَبَتْ عَلیٰ الْاُخْرٰی غَلَبَتْ عَلَیْہِ (مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفحہ ۱۷) یعنی انسانی دل چار قسم کے ہوتے ہیں ایک مصفے شفاف تلوار کی طرح ستا ہوا خدمت دین کے لئے تیار اور دوسرا وہ دل ہوتا ہے کہ اس پر غلاف چڑھاہوا ہوتا ہے اور غلاف بھی وہ جو خوب بندھا ہوا ہو اور تیسرا وہ دل جو اوندھا رکھا ہوا ہو اور چوتھا وہ دل جو ٹیڑھا رکھا ہوا ہو یا پتھروں کے نیچے دبا ہوا ہو۔ وہ جو پہلا دل ہے یعنی صاف وہ تو مومن کا دل ہے اس کا دیا وہ نور ہے جو اس کے دل میں پیدا ہے۔ اور وہ دل جو غلافوں میں بند ہے کافر کا دل ہے (کہ صداقت اس کے اندر نہیں جاتی اور کفر باہر نہیں نکلتا) اور اوندھا رکھا ہوا دل منافق کا دل ہے جو پہلے صداقت کو مان لیتا ہے پھر اس کا ایمان ضائع ہو جاتا ہے اور وہ دل جو ٹیڑھا رکھا ہوا ہے یا پتھروں میں دبا ہوا ہے وہ اس شخص کا دل ہے جس میں ایمان اور نفاق دونو ںپائے جاتے ہیں اس کے ایمان کی حالت تو اچھی سبزی کے مشابہ ہے جسے پاک پانی مل رہا ہو اور اس کے نفاق کی حالت ایک زخم کی سی ہے جسے پیپ اور خون خراب کر رہا ہو پھر ان دونوں سے جو حالت غالب آ جائے وہ اسی گروہ میں شامل ہو جاتا ہے۔
اس حدیث سے ثابت ہے کہ ایک منافق وہ ہوتا ہے جو ایمان کے لحاظ تو مسلمانوں میں شامل ہوتا ہے مگر عملی لحاط سے اس میں کمزوریاں ہوتی ہیں اگر اس کی ایمانی حالت غالب آ جائے تو وہ مومن ہو جاتا ہے اور نفاق کی حالت غالب آ جائے تو پورا منافق ہو جاتا ہے یعنی ایمان ضائع ہو جاتا ہے یہ مضمون آیات مذکورہ بالا کی تشریح ہے کیونکہ ان آیات میں بھی یہی بتایا گیا ہے کہ ایسے شخص کی روحانی شنوائی اور بینائی باطل نہیں ہوئی لیکن اگر یہ حالت دیر پا رہی تو ضائع ہونے کا خطرہ ہے۔
ان آیات نے مومن کو بہت ہوشیار کیا ہے ان میں بتایا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جب بھی کوئی ہدایت آتی ہے اس کے ساتھ شروع میں بہت سی مشکلات اور مصیبتیں لپٹی ہوئی ہوتی ہیں دین کا راستہ پھولوں کی سیج نہیں ہوتا بلکہ خار دار جنگلوں میں سے گزر کر انسان گوہر مراد کو پاتا ہے پس اگر ایمان چاہو تو ان مصائب کو برداشت کرنا پڑے گا اور وہ قربانیاں ضروری دینی پڑے گی جو اس مُراد کے حصول کے لئے مقرر کی گئی ہیں جو شخص ایمان لینا چاہے لیکن قربانیاں پیش نہ کرنا چاہے وہ بیوقوف ہے اور نفقا کی راہ سے خدا تعالیٰ کو پانا چاہتا ہے وہ اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا اگر صداقت کے متلاشی اس گر کو سمجھ لیں تو ان کی کامیابی یقینی ہے ورنہ وہ خیالی پلائو پکانے والے ثابت ہونگے اور خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کی بجائے اس کے غضب کو اپنے پر وارد کر لیں گے۔ العیاذ باللہ۔
اِنَّ اللّٰہَ عَلیٰ کُلِ شَیْئٍ قَدِیْر اس میں یہ بتایا کہ کمزور ایمان والو ںکا ڈر اللہ تعالیٰ پرکامل ایمان نہ ہونے اور اس کی صفات کو پوری طرح نہ سمجھنے کی وجہ سے ہوتا ہے آخر وہ قربانیوں سے کیوں ڈرتے ہیں؟ اسی وجہ سے نہ کہ ایسا نہ ہو کہ کفار کے ہاتھوں ہم دکھ اُٹھائیں حالانکہ اگر انہیں اللہ تعالیٰ کی صافت پر پورا یقین ہو تو وہ کبھی اس شبہ میں مبتلا نہ ہوں۔ اگر ان کو یہ یقین ہو کہ خدا تعالیٰ ہر امر جس کا فیصلہ کرے اس پر قادر ہے تو کفار کی طرف سے کسی خطرہ سے وہ کیوں ڈریں ان کو جاننا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ جس امر کا ارادہ کر لے اس پر پورا قادر ہوتا ہے اور اس کے ارادہ کو پورا ہونے سے کوئی شخص روک نہیں سکتا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ اسلام کو ترقی دے اور غلبہ عطا کرے تو اس کے اس ارادہ کو کفار خواہ بظاہر کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہو ںاور ان کے پاس کتنے ہی سامان کیوں نہ ہوں کس طرح پورا ہونے سے روک سکتے ہیں پس چاہیئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات پر غور کریں او ران پر اپنے ایمان کو مضبوط کریں پھر ان کا ڈر آپ ہی آپ دور ہو جائے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام کمزوریاں اور گناہ صفات الٰہیہ کے نہ سمجھنے اور ان پر کامل ایمان نہ ہونے سے پیدا ہوتے ہیں پس جس شخص کے دل میں ماسوی اللہ کا ڈر پیدا ہو اسے سمجھ لینا چاہیئے کہ اس ڈر کی نسبت کے مطابق اس کے دل میں خدا تعالیٰ کی صفات کے متعلق ایمان میں کمی ہے ورنہ وہ ڈر پیدا ہی نہ ہو سکتا۔
اِنَّ اللّٰہَ عَلیٰ کُلِ شَیْئٍ قَدِیْر پر بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ کیا خدا تعالیٰ مرنے پر بھی قادر ہے یا کیا خدا تعالیٰ جھوٹ بولنے پر بھی قادر ہے یہ اعتراض بالکل بے سوچے سمجھے کیا گیا ہے کیونکہ قدیر کا لفظ تو قدرت اور طاقت کے کمال پر دلالت کرتا ہے پھر کیا مرنا اور جھوٹ بولنا قدرت اور طاقت کی علامتیں ہیں کہ اس آیت سے یہ نتیجہ نکالا جائے کہ خدا تعالیٰ مرنے پر اور جھوٹ بولنے پر بھی قادر ہے یہ تو ایسا ہی اعتراض ہے جیسے کوئی کہے کہ فلاں شخص بڑا بہادر ہے تو دوسرا اعتراض کرے کہ کیا وہ ایسا بہادر ہے کہ چور سے ڈر کر بھاگ بھی سکتا ہے ایسے معترض کو کونسا شخص عقلمندوں میں شمار کرے گا دوسرے یہ بھی یاد رہے کہ اللہ تعلیٰ نے ایسے معترضین کو خامو ش کرنے کے لئے عَلیٰ کُلِّ شَیْئٍ کے الفاظ استعمال کئے ہیں اور شَیْ کے معنی چاہی ہوئی چیز کے ہوتے ہیں پس اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ ہر اس چیز پر قادر ہے جس کا وہ ارادہ کر لے ان الفاظ سے وہ اعتراض کلی طو رپر باطل ہو جاتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ موت اور جھوٹ کا ارادہ نہیں کرتا کیونکہ یہ قدرت نہیں بلکہ ضعف کی علامت ہے۔

۲۲؎ حل لغات
اُعْبُدُوْا:۔ امر مخاطب جمع کا صیغہ ہے۔ اَلْعَبادَۃُ۔ کے معنے ہیں عَابَۃُ التُّدْلّلِّ ۔ کامل تذلل (مفردات) مزید تشریح کے لئے دیکھو حل لغات سورہ فاتحہ ۶؎
رَبُّکُمْ:۔ رَبّکے معنی کے لئے دیکھو حل لغات فاتحہ ۳؎
خَلَقَّکُمْ:۔ خَلَقَ (یَخْلُقُ) اَلْاَدِیْمَ کے معنے ہیں قَدَّرَہٗ قَبْلَ اَنْ یَقْطَعَہٗ۔۔کھال کو کاٹنے سے پہلے اُسے جانچا کہ زیادہ سے زیادہ مفید کٹائی کس طرح ہو سکتی ہے اور جب خَلَقَ الشَیْئَ کہیں تو معنے ہوں گے۔ اَوْجَدَہٗ وَ اَبْدَعَہٗ عَلیٰ غَیْرِ مِثَالٍ سَبَقَ یعنی کسی چیز کو پیدا کیا عدم سے وجود بخشا نیست سے ہست کیا۔ اختراع کیا۔ (اقرب) پس خَلْقٌ کے دو معنے ہوئے (۱) اندازہ کرنا (۲) کسی چیز کا اختراع کرنا۔
لَعَلَّکُمْ:۔ لَعَلَّ حروف مشبہ بالفعل میں سے ہے اس کے ساتھ یاء متکلم کے درمیان نون زائد کیا جاتا ہے جسے نونِ وقا یہ کہتے ہیں جیسے لَعَلَّنِیْ۔ نون کے بغیر استعمال زیادہ ہے یہ اسم کو نصب اور خبر کو رفع دیتا ہے جیسے لَعَلَّ زیْدًا قَائمٌ۔ لیکن فراء اور بعض دیگر نحویوں کے نزدیک اسم اور خبر دونوں کو نصب دیتا ہے جیسے لَعَلَّ زیْدًا قَائماً لَعَلَّ کے کئی معنے ہیں (۱) پسندیدہ شے کی توقع اور ناپسندیدہ شے سے خوف ان معنوں میں یہ ایسے امر کے لئے استعمال ہوتا ہے جس کا حصول ممکن ہو گو مشکل ہو۔ قرآن کریم میں جو فرعون کاق ول نقل ہے۔ لَعَلِّیْ اَبْلُغَ الْاَسْبَابَ اَسْبَابَ السَّمٰوٰتِ (مومن ع ۴ آیت ۳۶) اس کے متعلق مفسرین کہتے ہیں یہ اس کی جہالت پر دلالت کرتا ہے وہ اپنی نادانی سے یہی سمجھتا ہو گا کہ میں اونچے مکان پر سے خدا تک پہنچنے کا راستہ پا لوں گا مگر میرے نزدیک یہ درست نہیں۔ میرے نزدیک اس کی توجیہ یہ ہے کہ یا تو وہ یہ کہتا ہے کہ علم ہیئت کے ذریعہ سے موسیٰ کے مستقبل کو معلوم کر کے اس کا مقابلہ کروں گا اور یہ عقدہ گو باطل ہے مگر کثرت سے رائج ہے۔ یا پھر اس کا قول بطور تمسخر ہے۔ چونکہ موسیٰ ؑ بار بار خدا کو آسمان پر بتاتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ خدا اور فرشتے مجھ سے باتیں کرتے ہیں۔ اس پر وہ تمسخر سے کہتا ہے کہ لائو ایک مکان بنائو شائد اس طرح ہم موسیٰ کے خدا کو پہنچ جائیں اور ہم بھی اس سے باتیں کر کے دیکھیں۔ مطلب یہ کہ ایک طرف خدا کو آسمان پر ماننا اور دوسری طرف اس سے باتیں کرنے کا دعویٰ یہ خلافِ عقل ہے الٰہی علوم سے ناواقف انسانوں کے لئے اس مسئلہ کو نہ سمجھ سکنا قابلِ تعجب نہیں (۲) اس کے معنے محض تعلیل کے بھی ہوتے ہیں جیسے قُوٰلَا لَہٰ قَوْلًا لَیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرَاَوْ یَخْشٰی یہی معنے ترجمہ میں استعمال کئے گئے ہیں (۳) کوفیوں کے نزدیک کبھی اس کے معنو ںمیں استفہام کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے کلیات ابی الیقاء میں لکھا ہے کہ قرآن کریم میں ایک جگہ یعنی لَعَلَّکُمْ تَخْلُدُوْنَ کے سوا (شعرار۔ ۱۳۰) جہاں کہیں بھی لَعَلَّ استعمال ہوا ہے توقع کے معنوں میں نہیں بلکہ تعلیل کے معنوں میں استعمال ہوا ہے یعنی ’’تاکہ‘‘ یا ’’تا‘‘ کے معنوں میں (۴) کلام ملوک کے طو ر پر بھی استعمال ہوتا ہے یعنی بادشاہ کے لئے کوئی اور یا بادشاہ اپنی نست خود امید اور توقع کے الفاظ استعمال کرتا ہے لیکن مراد اس سے یقینی بات یا حکم کے ہوتے ہیں۔
تَتَّقُوْنَ:۔ اِتَّقٰی سے مضارع مخاطب کا صیغہ ہے اس کی تشریح کے لئے دیکھو حل لغات سورہ بقرہ ۳؎
تفسیر۔ قرآن کریم کی ابتادء اس دعویٰ سے کی گئی ہے کہ بہترین نسخہ وہی ہو سکتا ہے جو علم کامل رکھنے والی ہستی کی طرف سے تجویز ہو اور وہ خدا تعالیٰ کی ذات ہے اور اس نے دنیا کی روحانی تکمیل کے لئے قرآن کریم کا نسخہ تجویز کیا ہے جو (۱) تمام کمالات کا جامع ہے (۲) تمام سم کے ریبوں سے یعنے عیوب سے پاک ہے (۳) کمال کے کسی ایک مقام پر نہیں ٹھہرتا بلکہ جس مقام کا بھی کوئی متقی ہو اسے اس کے اوپر کے درجہ تک پہنچاتا ہے اور غیر متناہی ترقیات کے راستے کھولتا ہے۔ اس کے بعد متقیوںکے لئے جو قرآن کریم کیپ زمانہ کے لوگوں کے لئے شرائط مقرر کی گئی تھیں وہ بتائیں اور پھر بتایا کہ اس کلام کا انکار کرنے والوں کا کیا حال ہو گا اس کے بعد ان لوگوں کا حال بتایا کہ جو قرآن کریم کو ظاہر میں مانتے ہیں مگر دل سے نہیں مانتے یا دل سے مانتے تو ہیں لیکن اس کے بتائے ہوئے طریق پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں اور ان کی نسبت بیان کیا کہ یہ دونوں قسم کے لوگ قرآن کریم سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے کیونکہ قرآن کریم کوئی نیا جتھا بنانے کے لئے نہیں آیا کہ صرف نام اختیار کرنے پر خوش ہو جائے وہ تو دنیا کی زندگی میں تغیر پیدا کرنے کے لئے آیا ہے پس جب تک اس کو مانکر اس پر عمل کرنے کی کوشش نہ کی جائے اس سے فائدہ نہیں اُٹھایا جا سکتا اور نہ ایسے لوگوں کو قرآن کریم کے ماننے والوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔
اس اجمالی نقشہ کے بعد تیسرے رکوع میں بنی نوع انسان کو اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ چونکہ قرآن کریم متقیوں کو اعلیٰ مقامات پر پہنچاتا ہے اس لئے تم کو متقی بننا چاہئے تاکہ تم اس کے ساتھ جو فوائد وابستہ ہیں ان سے متمتع ہو سکو اور اس کا طریقہ یہ بتایا کہ اپنے رب کی عبادت کرو اس سے تم متقی بن جائو گے۔
عبادت کے معنے حل لغات میں بتائے جا چکے ہیں کہ کامل تذلل اور اتباع کے ہیں جب تک پوری اتباع نہ ہو اور انسان اپنے نفس کو الٰہی تاثرات کے قبول کرنے کے قابل نہ بنائے اس کی عبادت عبادت نہیں کہلا سکتی۔ جو شخص صرف ظاہری شکل عبادت عبادت نہیں کہلا سکتی جو شخص صرف ظاہری شکل عباد ت کی پوری کرتا ہے وہ عابد نہیں کہلا سکتا کیونکہ اس نے تذلل اور اتباع کا نقشہ نہیں پیش کیا۔
اس آیت میں عبادت کے بارہ میں ایک لطیف اور مکمل تعلیم دی گئی ہے اور عباد ت کی تکمیل کے لئے جن امور کی ضرورت ہے وہ سب بیان کئے گئے ہیں اور یہ بھی بتایا ہے کہ عبادت میں فائدہ کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ کامل عبادت کامل تعلق کو چاہتی ہے اور کامل تعلق کامل احسان سے پیدا ہوتا ہے اور کامل احسان وہ ہوتا ہے جو اس انسان پر بھی ہو جو عبادت کرتا ہے اور اس کے بزرگوں پر بھی ہو کیونکہ دنیا میں لوگ مخلصانہ تعلق دو ہی وجہ سے رکھتے ہیں یا تو اس لئے کہ ان پر احسان کیا جائے یا اس لئے کہ ان کے بررگوں پر احسان کیا گیا ہو چنانچہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہزاروں قربانیاں اس لئے پیش کی گئی ہیں کہ قربانی کرنے والوں کے ماں باپ پر کسی شخص کا احسان تھا گو خود ان سے کوئی خاص سلوک نہ تھا۔ ہزاروں جانیں ظالم بادشاہوں اور امراء کی خدمت میں سا لئے قربان کی جاتی رہی ہیں کہ ان ظالم بادشاہوں کے آباء نے ان قربانی کرنے والوں کے آباء سے حسن سلوک کیا تھا پس اولاد نے احسان کے بدلہ کے طو رپر باوجود خود مظلوم ہونے کے اپنی جانیں قربان کر دیں تا اس احسان کے ناقردان نہ قرار دیئے جائیں لیکن اگر دونوں قسم کے احسان جمع ہو جائیں تو پھر تو محبت کا جذبہ نہایت شدت سے ابھر آتا ہے چنانچہ اس فطرتی جذبہ کو اپیل کرنے کے لئے اس آیت میں کہا گیا ہے کہ اے لوگو اس ہستی کی عبادت کروجو تمہاری بھی خالق ہے اور تمہارے آباء کی بھی۔ جب عارضی تعلقات کی بناء پر تم اخلاص کا معامل کرتے ہو تو کیوں اس ہستی سے اخلاص کا تعلق پیدا نہیں کرتے جو تمہاری بھی محسن ہے اور تمہارے آباد کی بھی محسن رہی ہے۔
اس آیت میں عبادت کی تحریک بھی نہایت عجیب اسلوب سے کی گئی ہے اور اس سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی ضرورت خوب واضح ہو جاتی ہے اس جگہ عبادت کی تحریک ان الفاظ میں کئی گئی ہے کہ اے لوگو اس رب کی عبادت کرو جس نے تم کو بھی اور تمہارے بڑوں کو بھی پیدا کیا ہے اس میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جو کسی وجود کو پیدا کرنے والا ہو وہی اس کی صحیح طاقتوں کو سمجھتا ہے۔ ایک مکان بنانے والا انجینیر جانتا ہے کہ اس کی تعمیر کردہ عمارت کس حد تک بوجھ برداشت کر سکتی ہے اسی طرح حقیقی اصلاح خدا تعالیٰ ہی کر سکتا ہے جو نے انسان کو اور اس کے آباء کو پیدا کیا ہے اور وہی اس کی قوتوں کی حد بندی کو اچھی طرح جانتا ہے۔ کسی اور ہستی کی عبادت کرنے کے یہ معنی ہیں کہ اپنے آپ کو ایسے ناواقف کے سپرد کر کے تباہ کروایا جائے جو انسان کی قابلیتوں اور اس کی حد بندیوں کو نہیں جانتا پس اصل عبادت جو صرف ظاہری رسوم کا نام نہیں بلکہ روحانی راستہ پر چلنے کا نام ہے خدا تعالیٰ کی ہی مناسب ہے کیونکہ وہی جانتا ہے کہ انسان کی قوتیں کیا ہیں اور انہیں کن ذرائع سے بڑھایا اور مکمل کیا جا سکتا ہے۔
اس کے بعد عبادت کی وجہ بھی بتا دی کہ عبادت کی غرض صرف اقرار عبودیت نہیں اگر صرف اقرار عبودیت کسی عبادت کا مقصد ہوتا تب بھی خدا تعالیٰ کے سوا دوسرے کسی کی عبادت کرنا گو ظلم ہوتا مگر اس قدر مضر نہ ہوتا مگر عبادت تو حصولِ تقویٰ کے لئے کی جاتی ہے یعنی تکمیل روحانیت کے لئے اور تکمیل روحانتی وہ ہستیاں کس طرح کر سکتی ہیں جو انسان کی خالق نہیں اور اس کی مخفی طاقتوںاور حد بندیوں سے واقف نہیں۔ وہ تو اسے مکمل کرنے کی بجائے توڑ کر رکھ دیں گی۔
ہم دیکھتے ہیں کہ جب بھی انسان نے اپنی باگ ڈور غیر اللہ کے سپرد کی ہے نقصان اُٹھایا ہے کسی راہنما نے کھلی آزادی دے کر رُوحانی تکمیل کی راہوں سے بالکل دُور پھینک دیا اور کسی راہنما نے انسانی قوتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ایسا بوجھ لادو یا کہ انسان اس بوجھ تلے دب کر رہ گیا کسی نے رہبائنیت کے اختیار اور طیبات سے اجتناب کرنے کی تعلیم دی تو کسی نے مضر اور مفید میں فرق نہ کرتے ہوئے شریعت کو *** قرار دے کر انسان کو تباہی کے گڑھے میں گرا دیا۔ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے ایسی تعلیم دی کہ جس کی مدد سے نہ تو وہ اپنی ذمہ داریوں کو بھلا دے اور نہ ایسے بوجھوں تلے دب جائے جو اس کی فطرت کو کچل کر رکھ دیں۔ غرض لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ کہہ کر اس طرف توجہ دلائی کی عبادت کی غرض یہ ہوتی ہے کہ انسان فطرتِ صحیحہ کی راہنمائی میں ترقی کر سکے اور ظاہر ہے کہ فطرت کے مطابق صحیح راہنمائی وہی کر سکتا ہے جو فطرت انسانی کی تمام جزئیات سے واقف ہے اور وہ خالق ہی کی ہستی ہو سکتی ہے نہ کہ کسی اور کی۔
لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ سے اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ عبادت کا حکم کسی ایسی غرض کے لئے نہیں جس میں خدا تعالیٰ کا فائدہ ہو بلکہ عبادت کا حکم خود انسان کے فائدہ کے لئے دیا گیا ہے اور اس کی غرض صرف یہ ہے کہ فطرت کے تقاضوں کو صحیح طور پر پورا کر کے انسان کو مکمل بنایا جائے۔ اس مضمون سے ان لوگوں کے شبہات کا بھی ازالہ ہو جاتا ہے جو شریعت کو *** قرار دے کر اسے ترک کر چکے ہیں۔ انہوں نے شریعت کو *** اسی لئے قرار دیا کہ اس کے احکام کو لغو اور بلا حکمت کے سمجھا اور خیال کیا کہ ان کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ صرف بندوںپر حکومت جتانا چاہتا ہے مگر قرآن کریم میں لکھا ہے کہ ہمارے بتائے ہوئے احکام لغو اور بلا حکمت نہیں بلکہ انسان کو صحیح راستہ پر چلانے کے لئے ہیں اور اسے افراط و تفریط کی راہوں سے ہٹا کر ان اعمال کی طرف توجہ دلانے کے لئے ہیں جن سے اس کی مخفی قوتیں نشوونما پاتی ہیں اور اس قسم کی تعلیم کو *** قرار دینے والا عقلمند نہیں کہلا سکتا۔ ایک اندھے کو راسہت کے گڑھے سے ہوشیار کرنے والا کیا *** کی تعلیم دیتا ہے؟ کیا کوئی اس اندھے کو کہہ سکتا ہے کہ میاں اسطرح ہوشیار کرنے والے تم کو *** کا طوق پہناتے ہیں۔ ایک ڈاکٹر جو مریض کو صحیح پرہیز بتاتا ہے *** کا کام نہیں کرتا بلکہ رحمت کا کام کرتا ہے پس شریعت کو *** قرار دینے والوں کے دعویٰ کی بنیاد صرف اس پر ہے کہ وہ شریعت کے احکام کے بے حکمت سمجھتے ہیں ممکن ہے ان کے دین کی یہی حالت ہو مگر قرآنی تعلیم کی یہ حالت نہیں وہ تو یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اس کی غرض تمہیں نفع پہنچانا اور تباہی کے راستوں سے بچانا ہے۔
اِتَّقٰی کا لفظ اِوْتَقٰی سے بنا ہے اور وضع *** کے لحاط سے اس کے معنی یہ ہیں کہ کسی کو اپنی ڈھال بنا لیا۔ اپنے بچائو کا ذریعہ بنا لیا۔ پس تَتَّقُوْنَ کے معنے یہ ہوئے کہ تاتم خدا تعالیٰ کو اپنی ڈھال بنا لو یعنی خدا تعالیٰ کی مدد سے تباہیوں سے بچ جائو اور وہ تمہارا ذمہ دار ہو جائے جس طرح دنیوی راہنما انسان کو جنگل یا نادیدہ راستوں سے صحیح او ربے تکلیف نکال کر لے جاتے ہیں اسی طرح خدا تعالیٰ تم کو زندگی کی الجھنوں اور پریشانیوں سے صحیح سلامت بچا کر لے جائے۔
ایک اور لطیف بات بھی اس آیت کے متعلق یاد رکھنے کے قابل ہے اور یہ کہ اس میں اُعبُدُوْا رَبَّکُمْ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور رب کے معنے جیسا کہ بتایا جا چکا ہے اس ہستی کے ہوتے ہیں جو پیدا کر کے بتدریج ترقی کی طرف لے جائے۔ اس صفت کے انتخاب سے اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ ہر انسان کی پیدائش میں اس کی آیندہ ترقی کے لئے مقصود ہے کہ ہر انسان کی پیدائش میں اس کی آیندہ ترقی کے لئے ایک بنیاد رکھی گئی ہے تاکہ وہ اس پر چل کر کمال تک پہنچے۔ پس جب تک عبادت رَبْ کی نہ ہو جو اسے ان مخفی طاقتوں کے مطابق کمال تک پہنچائے مفید نہیں ہو سکتی بیشک انسانوں میں مابہ الاشتراک بھی ہے اور سب انسان اپنے اندر مشابہ طاقتیں بھی رکھتے ہیں لیکن باوجود اس کے ہر انسان دوسرے سے مختلف ہوتا ہے باپ کا مزاج اور بیٹے کا اور بھائی کا اور۔ کوئی ایک تعلیم سب کے لئے یکساں مفید نہیں ہو سکتی اصول تعلیم ایک ہونگے لیکن جزئیات الگ الگ ہنگی پس ایسے راہنما کی ضرورت ہے جسے ان جزئیات کا علم ہو اور ان کے مطابق ترقی دے کر بلند مراتب تک لے جا سکے پس یہ کام رب ہی کر سکتا ہے جو پیدائش سے جوانی تک ایک خاص طرز پر اس فرد کو بڑھاتا لایا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ زید یا بکر کے مزاج کی افتاد کس طرح پڑ چکی ہے اور اس کے مزاج کا اس کے باپ یا بھائیوں کے مزاج سے کیا اختلاف ہے پس خالی شریعت پر عمل کافی نہیں بلکہ اپنے رب سے اخلاص اور محبت کا تعلق بھی ضروری ہے تاکہ وہ خاص راہنمائی کے ذریعہ اسے شریعت کی ان جزئیات کی طرف راہنمائی کرے جو اس کی ذات کے لئے زیادہ مفید ہیں بیشک شریعت کہتی ہے نماز پڑھو زکوٰۃ و مگر وہ نہیں بتا سکتی کہ اقل ترین نماز اقل ترین صدقہ کے بعد کونسا عمل ایک شخص کی روحانی ترقی کے لئے زیادہ ضروری ہے یہ ہدایت توہر شخص کو الگ الگ ہی مل سکتی ہے اور رب کی طرف سے ہی مل سکتی ہے۔
غرض ہدایت عامہ یعنی شریعت کے مل جانے کے بعد بھی انسان محفوظ نہیں ہوتا کیونکہ اسے اعلیٰ ترقیات کے لئے ہدایت خاصہ کی ضرورت ہے جو بطور القاء کے رب کی طرف ہی یعنی اس ہستی کی طرف سے ہی جس نے اسے پیدا کر کے اعلیٰ مدارج تک پہنچانے کا ذمہ لیا ہے آ سکتی ہے پس اس ہستی سے محبت اور عبادت کا تعلق بہرحال ضروری ہے تا ہدایت خاص سے بھی انسان فائدہ اٹھا سکے۔
تَتَّقُوْنَ میں جہاں ایسے امور سے بچنے کے معنے نکلتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور بندے کے تعلق کو بگاڑ دیتے ہیں وہاں اس سے ان امور سے بچنے کا بھی اشارہ پایا جاتا ہے۔ جو بندوں کے باہمی تعلقات سے تعلق رکھتے ہیں عبادت الٰہی ایسے امور میں غلطی کرنے سے بھی انسان کو بچاتی ہے جو شخص خدا تعالیٰ کو اپنا رب سمجھنے لگے ضرور ہے کہ وہ اس کے بندوں سے بھی اچھا تعلق پیدا کرے گا اور پھر یہ بھی لازم ہے کہ وہ بندوں پر ظلم نہیں کرے گا کیونکہ جو شخص اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا بندہ بنا لے گا اس کی نظر اپنی سب ضرورتوں کے لئے خدا تعالیٰ پر ی پڑے گی خصوصاً جبکہ وہ اس کے رب ہونے پر ایمان رکھتا ہو گا۔ اور جو شخص اللہ تعالیٰ کو اپنی سب ضرورتوں کا کفیل سمجھے گا وہ بندوں کے اموال پر نظر نہیں رکھ سکتا اور نہ اپنی ضرورتوں کے پورا کرنے کے لئے ان کے مالوں میں خیانت کر سکتا ہے نہ ان پر ظلم کر سکتاہے۔ پس تَتَّقُوْنَ کے ایک معنے یہ بھی ہیں کہ اگر تم رب کی عبادت اخلاص اور یقین کے ساتھ کرو گے تو آپس کے ظلموں سے بھی بچ جاوو گے اور دنیا میں بھی امن قائم ہو گا صحابہ کرام اپنے رب کے بندے بن گئے تھے۔ دیکھو ان کی حکومت میں دنیا کو کس قدر امن ملا حتیٰ کہ دشمن تک ان کے نیک سلوک کے معترف ہوئے اور آج تک ابوبکرؓ اور عمرؓ کی حکومت کی یاد لوگوں کے دلوں میں تازہ ہے حضرت عثمان اور حضرت علیؓ کی حکومت بھی ایسی ہی تھی مگر چونکہ ان کے بارہ میں اختلاف ہوا ہے میں نے ان کا ذکر نہیں کیا۔ سچ بات یہی ہے کہ دنیا میں امن رب کا بندہ بن جانے کے بغیر قائم نہیں ہو سکتا اگر یورپ خدا کا بندہ بن جاتا تو آج یہ جوع الارض کی بیماری اسے لاحق نہ ہوتی۔
بعض لوگ خلق کے لفظ سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم بھی اس امر کا قائل ہے کہ اس دُنیا کی پیدائش ایک ایسے مادہ سے ہوئی ہے کہ جو پہلے سے موجود تھا پس قرآن کریم بھی مادہ کے انادی یا ازلی ہونے کا قائل ہے۔ یہ استنباط ایک وسوسہ ہے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا کیونکہ گو خلق کے معنے ایک موجود شے کے اندازہ کرنے کے بھی ہوتے ہیں لیکن اس کے معنے جیسا کہ حل لغات میں لکھا جا چکا ہے کسی چیز کو بغیر اصل اور نمونہ پیدا کرنے کے بھی ہوتے ہیں پس ایک خاص موقعہ کے استعمال سے یہ استدلال کرنا کہ سب جگہ وہی معنے ہیں درست نہیں قرآن کریم میں خَلَقَ کُلَّ شَیْئٍ (انعام ع ۱۳) بھی تو آتا ہے۔ پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ خلق کا لفظ ہی قرآن کریم میں استعمال نہیں ہوا بلکہ بَدِیع اور فاطر کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے اور بدیع کے معنے ہیں جو شروع کرے اور فاطر کے معنے ہیں جو کسی پہلے سے موجودہ وجود کے بغیر نیا وجد پیدا کرے۔ اس میں شک نہیں کہ قرآن کریم میں فَطَرَ لِیْ (ہود ع ۵) اور فَطَرَنَا (طہٰ ع ۳) کے الفاظ آتے ہیں مگر اس سے ابتدائے پیدائش کی طرف اشارہ کیا گیا ہے نہ کہ قریب کی پیدائش کی طرف۔
یہ آیت اس لحاظ سے نہایت اہمیت رکھتی ہے کہ ترتیب مستقل کے لحاظ سے اس میں قرآن کریم کا سب سے پہلا حکم بیان ہوا ہے اس سے پہلے یہ کہا گیا تھا کہ متقی ایسا ایسا کرتے ہیں مگر حکم کے طور پر بنی نوع انسان کو نہ کہا گیا تھا کہ تم ایسا کرو حکم سب سے پہلے اسی آیت میں دیا گیا ہے اور سب سے پہلا حکم توحید کا دیا گیا ہے اور ایسے لطیف اور مکمل طو رپر دیا گیا ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی مثلاً اوّل تو عبادت کرو کا حکم الناس کو دیا گیا ہے یعنی سب دنیا کو مخاطب کیا گیا ہے نہ کہ صرف عربوں کو جو اس امر کا ثبوت ہے کہ اسلام شروع سے ہی سب دنیاکو دین توحید پر جمع کرنے کا مدعی ہے اور قومی عبادتوں کو مٹا کر ایک جامع حلقہ جس میں سب انسان آ جائیں بنانا چاہتا ہے پھر عبادت کس کی کرو۔ اس کے لئے اللہ کا لفظ نہیں استعمال کیا بلکہ رب کا لفظ چنا ہے جس سے بہت سے معبود اِن باطلہ کا رد ہو گیا کیونکہ دُنیا میں بہت لوگ شرک پتھروں سے کرتے ہیں رب کے لفظ سے ایسے تمام وجودوں کو عبادت کو حد سے نکال دیا۔ پھر لوگ دریائوں پہاموں ستاروں کی پرستش کرتے ہیں اَلَّذِیْ خَلَقَکُمْ کہہ کر ان کو خارج کر دیا۔ پھر کچھ لوگ اپنے بزرگوں کی پوجا کرتے وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ کہہ ان کو بھی عبادت سے خارج کر دیا۔ غرض ایسی جاع عبارت بیان کی ہے چند لفظوں میں خالص توحید کی تعلیم دے دی ہے۔ اسی طرح تعلق کی مضبوطی کے لئے فطرت کے عین مطابق طریق استعمال کیا۔ دنیا میں تعلیم کے دو ہی طریق ہیں یا محبت یا خوف مختلف اقوام میں عبادت انہی دو اسباب کی وجہ سے کی جاتی ہے جیسا کہ کمپیریٹو ریلیجنز (Comparative Religions) والوں نے تفصیل سے اس پر بحث کی ہے اس آیت میں دونوں باتو ںکی طرف اشارہ کیا ہے پہلا محبت کے لئے اور لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ خوف کے مضمون کو سامنے لانے کے لئے محبت آگے دو طرح پیدا ہوتی ہے یا حسن سے یا احسان سے اس مختصر آیت میں ان دونوں باتو ںکو خدا تعالیٰ سے محبت پیدا کرنے کے لئے پیش کیا گیا ہے۔ وہ حسین ہے کیونکہ رب ہے کیسا اعلیٰ درجہ کا صناع ہے کہ ایک چیز کو نہایت ادنیٰ حالت میں پیدا کرتا ہے پھر درجہ بدرجہ ترقی دی کر کمال تک پہنچا دیتا ہے ۔ پھر احسان کو کس لطیف طو رپر پیش کیا کہ وہ تمہارا بھی حسن ہے اور تمہارے ماں باپ کا بھی۔ پھر جہاں لَعَلَکُمْ تَتَّقُوْنَ میں خوف کی طرف اشارہ کیا مستقبل کے احسان کی طرف بھی توجہ دلائی اس قدر چھوٹی سی آیت میں اس قدر وسیع مطالب کا بیان کرنا کیسا معجزانہ کلام ہے فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ۔
(لَعَلَکُمْ تَتَّقُوْنَ میں لَعَلَّ کے لئے دیکھو حل لغات)
عجیب بات ہے کہ حضرت مسیح ناصری سے سوال کیا گیا کہ سب سے بڑا حکم شریعت میں کونسا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ خداوند کو جو تیرا خدا ہے اپنے سارے دل اور اپنی ساری سمجھ سے پیار کر پہلا اور بڑا حکم یہی ہے اور دوسرا اس کی مانند ہے کہ تو اپنے پڑوسی کو ایسا پیار کر جیسا آپ کو‘‘ (متی باب ۲۲ آیت ۳۷ تا ۳۹) لیکن انجیل کو پڑھ کر دیکھ لو اس میں پہلے اور باتیں بیان کی گئی ہیں اس حکم کا نام و نشان نہیں بلکہ جو سب سے بڑا اور پہلا حکم تھا مسیح ناصری نے بیان ہی نہیں کیا جب تک لوگوں نے سوال نہیں کیا حالانکہ اہمیت کے لحاط سے پہلے اس حکم کو بیان کرنا چاہیئے تھا جو سب سے بڑا ہے پُرانے عہد نامہ کو دیکھو تو اس میں بھی اس حکم کو کہیں بعد میں جا کر بیان کیا گیا ہے پہلے اِدھر اُدھر کی باتیں لکھی گئی ہیں یہی حال دوسری کتب کا ہے کوئی ایک مذہبی کتاب نہیں جس میں اس حکم کو جو نہ صرف مسیح علیہ السلام کے قول کے مطابق بلکہ عقل کے مطابق بھی سب سے بڑا اور سب سے پہلا ہے پہلے جگہ نہیں دی گئی۔ یہ فضیلت صرف قرآن کریم کو حاصل ہے کہ اس نے سب سے پہلا حکم جو قرآن کریم میں بیان کیا ہے یہی ہے کہ یَا اَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ کیا یہ قرآن کریم کی فضیلت نہیں کہ اس نے پہلے حکم کو پہلی جگہ دی ہے جبکہ دوسری تمام کتب نے اس پہلے حکم کو پیچھے ڈال دیا ہے اگر حکم کے لفظ پر زور نہ دیا جائے تو اس سے بھی پہلے جہاں متقیوں کے عمل کا قرآن کریم نے ذکر کیا ہے وہاں یُؤْمِنُوْنِ بِالْغَیْبِ وَ یُقِّیْمُوْنَ الصَّلوٰۃَ فرمایا ہے جس کے معنے یہی ہیں کہ خدا تعالیٰ پر ایمان لائو اور اسکی عبادت کرو اور اس کے بعد اس حکم کو جسے مسیح علیہ السلام نے دوسرے درجہ پر رکھا ہے بیان کیا ہے کہ وَمِمَّا رَزَ قْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ اس بارہ میں بھی قرآن کریم کی تعلیم فائق ہے کیونکہ مسیح نے تو صرف دل کی حالت کی طرف اشارہ کیا ہے اور قرآن کریم نے جامع الفاظ رکھے ہیں اور وَمِمَّا رَزَ قْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ کہہ کر فرمایا ہے کہ اپنی دلی محبت بھی اپنے ہمسائیوں کو دے اور اپنا علم بھی اور اپنا مال بھی اور اپنی جان بھی۔ غرض ان دونوں احکام کو اسلام نے ان کے مناسب حال جگہ دی ہے اور مسیح کے الفاظ سے زیادہ شاندار الفاظ میں۔ اگر کوئی کہے کہ مسیح نے تو سارے دل اور اور ساری جان اور ساری سمجھ کے الفاظ استعمال کئے ہیں جو زیادہ شاندار ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم نے وہی مضمون ایک لفظ میں ادا کر دیا ہے جو مسیحؑ نے ایک فقرہ میں بیان کیا ہے کیونکہ قرآن کریم کہتا اُعْبُدُوْ! عبادت کرو اور عبادت کے معنے جیسا کہ حل لغات میں بیان کیا گیاہے غَایَۃُ التُّذَلُّلِ کے ہیں یعنی اپنی سب طاقتوں کو انتہائی درجہ پر خرچ کرنا۔ پس عبادت میں سارا دل بھی اور ساری جان بھی اور ساری سمجھ بھی اور اس کے سوا ساری قوت بھی اور سارے اسباب بھی شامل ہیں اور اس ایک لفظ سے قرآن کریم نے وہ سب کچھ بیان کر دیا ہے۔ جو حضرت مسیح ناصری بیان کرنا چاہتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔
(ذات باری کے متعلق ایک نوٹ اگلی آیت کے بعد دیکھو)

۲۳؎ حل لغات
اَلْاَرْضُ:۔ کرۂ زمین کُلُّ مَاسَفَلَ۔ ہر نیچے کی چیز (اقرب)
فِرَاشًا:۔ فَرَشَ الشَیْئَ (یَفْرُشُ) فَرْشًا وَّفِرَاشًا کے معنے ہیں۔ بَسَطَہُ کسی چیز کو پھیلایا۔ کہتے ہیں فَرَشَ فُلَانٌ بِسَاطًا:۔ بَسَطَہٗ لَہٗ اس کے لئے غالیچہ بچھایا۔ اور اَلْفِرَاشُ کے معنے ہیں مَا یُفْرَشُ وَ یُنَامُ عَلَیْہِ جو بچھایاجائے اور اس پر سویا جائے (اقرب)
اَلْفرْشُ کے معنے ہیں بَسْطُ الثِّیَابِ کپڑوں کا پھیلانا وَیُقَالُ لِلْمَفْرُوْشِ فَرْشٌ وَفِرَاشٌ اور بچھائی ہوئی چیز کے لئے فَرْشٌ اور فَرْاشٌ کا لفظ بولتے ہیں قَالَ ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمْ الْاَرْضَ فِرَاشًا اَیْ ذَلَلَھَا وَلَمْ یَجْعَلْہَا نَائِیَۃً لَایُمْکِنُ الْاِسْتِقْرَارُ عَلَیْہَا اور آیت ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمْ الْاَرْضَ فِرَاشًا میں زمین کو فراش بنانے کے یہ معنی ہیں۔ کہ اس کو ایسا بنایا ہے کہ وہ ہموار اور درست ہے اور اس طو رپر اُٹھا ہوا نہیں بنایا کہ اس پر آرام حاصل نہ ہو سکے (مفردات) وَالْفَرْشُ مَایُفْرَشُ مِنَ الْاَنْعَامِ ای یُرْکَبُ اورفرش ایسے چار پائیوں کو بھی کہتے ہیں۔ جن پر سواری کی جاتی ہے (مفردات)
بِنَائٌ: اَلْبِنَائُ بَنَی (یَبْنِیْ) کا مصدر ہے اور اس کی جمع اَبْنِیَۃٌ آتی ہے۔ کہتے ہیں۔ بَنَاہٗ یَبْنِیْہِ (بَنْیًا وَبِنَائً) نَقِیْضُ ھَدَمَہٗ یعنی کسی مکان کو بنایا اور جب بَنَی الْاَرْضَ کہیں تو معنے ہونگے بَنَی فِیْہَا دَارًا اَوْ نَحْوَھَا کہ کسی رقبہ زمین میں کوئی مکان بنایا (اقرب) اَلْبِنَائُ اِسْمٌ لِمَا یُبْنَی بِنَائً لفظ بناء ہر اس چیز کے لئے بولا جائے گا جو بنائی جاوے (مفردات)
وَاَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ:۔ السَّمَائُ کے معنی یہاں بادل کے ہیں۔ یعنی بادلوں سے پانی اُتارا۔ مزید تشریح کے لئے دیکھو حل لغات سورۂ بقرہ ۲۰؎
اَخْرَجَ:۔ نکالا۔ پیدا کیا (مفردات)
الثَّمَرَات:۔ الثَّمَرَۃُ کی جمع ہے اور الثَّمَرَۃُ کے معنے ہیں حِمْلُ الشَجَدِ یعنی درخت کا پھل (اقرب) الثَّمَرُ اِسْمٌ لِکُلِّ مَایُتَطَعَّمُ مِنْ اَحْمَالِ الشَّجَرِ کہ درختوں کے ان پھلوں کو جن کو کھانے کے کام میں لایا جاتا ہے۔ ثَمَرٌ کہتے ہیں۔
رِزْقًا:۔ کی تشریح کے لئے دیکھو حل لغات سورۃ بقرہ ۲؎
اَنْدَ ادَّا:۔ نِدٌّ کی جمع ہے اور اَلنِدُّ کے معنے ہیں اَلمِثْلُ۔ مثل ہمرتبہ وَلَایَکُوْنُ اِلّا مُخَالِفًا لفظ نِدٌّ کا استعمال صرف اس نظیر اور مشابہ کے لئے ہوتا ہے۔ جو مخالف ہو اور مَالَہٗ نِدٌّ کے معنے ہیں مَالَہٗ نظِیْرٌ کہ اس کا کوئی مثل او رہمرتبہ نہیں (اقرب) نِدٌّ الشَّیْئِ مُشَارِکُہُ فِی الجَوْھَرِ وَمِثْلُہٗ مُشَارِکُہٗ فِی أَیِّ شَیئٍ کَانَ کسی چیز کا ند وہ ہوتا ہے جو اس کے جوہر میں شریک ہو اور مثل اس پر بولتے ہیں جو اپنے ممثل کی کسی بات میں شریک ہو یعنی ند خاص ہے اور ممثل کی کسی بات میں شیرک ہو یعنی ند خاص ہے اور مثل عام ہے۔ اور ان دونوں میں عموم و خصوص مطلق کی نسبت ہے۔ نیز نِدُّ الشَّیِْ کے معنے ہیں مَایَسُدُّ مَسَدَّہٗ جو کسی چیز کے قائم مقام ہو سکے قَالَ ابْنُ الْاَ ثِیْرِ ھُوَ مِثْلُ الشَّیْئِ الَّذِیْ یُضَادُّہٗ فِیْ اُمُوْدِہٖ وَیُنَادُّہٗ اَیْ یُخَالِفُہٗ ابن اثیرفرماتے ہیں کہ ند کسی چیز کے اس مثیل پر بولیں گے جو اس کے جملہ امور کے مخالف ہو (تاج العروس)
تفسیر۔ اس آیت میں پہلی آیت کے مضمون کو مکمل کیا ہے پہلی آیت میں تو یہ بتایا تھا کہ عبادت صرف رَبّ کی اور اس رب کی جس نے تم کو پیدا کیا ہو اور تمہارے آباء کو بھی پیدا کیا ہو صحیح ہو سکتی ہے کیونکہ وہی تمہاری قوتوں کی صحیح ہو سکتی ہے کیونکہ وہی تمہاری قوتوں کی صحیح راہنمائی کر سکتا ہے اب اس آیت میں بتاتا ہے کہ آسمان و زمین بھی حدا تعالیٰ نے بناوے ہیں اور ظاہر ہے کہ انسانی اعمال کا وجود ان اشیاء سے پیدا ہوتا ہے جو اس کے گر دو پیش ہیں آخر انسانی عمل کس چیز کا نام ہے؟ اس کی تجارت اس کی زراعت اس کی صنعت و حرفت اس کی سیر و سیاحت یہی اعمال ہیں جو انسان بجا لاتا ہے او ریہ سب امور زمین و آسمان اور ان کی تاثیرات سے پیدا ہوتے ہیں۔ پس وہی ہستی انسان کے اعمال کو صحیح راستہ پر چلا سکتی ہے جو زمین و آسمان او ران کی تاثیرات کو پیدا کرنے والی ہے دوسری کوئی ہستی اس بارہ میں کامل ہدایت نہیں دے سکتی کیونکہ وہ بوجہ ان اشیاء کی خالق نہ ہونے کے ان کی تاثیرات اور قوتوں کی پوری طرح واقف نہیں ہو سکتی۔ نہ وہ ان اشیاء کو انسان کی مدد پر لگا سکتی ہے کیونکہ اسے ان پر کوئی اختیار حاصل نہیں۔ پس فرمایا کہ اس خدا کی عبادت کرو جس نے زمین کو تمہارے لئے فراش کے طور پر بنایا ہے یعنی ایسا بنایا ہے کہ اس سے تم فائدہ اُٹھا سکتے ہو اور اس میں آرام کر سکتے ہو۔
جیسا کہ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے فراش سے مراد اس طرح پھیلانے کے ہیں کہ اس پر آرام کیا جا سکے پس زمین کو فراش کی طرح بنانے کے یہ معنے ہیں کہ اس میں انسان کے آرام کے سامان پیدا کئے گئے ہیں لیکن یہ ظاہر ہے کہ زمین پر ہر قسم کا تصرف انسان کے آرام کا موجب نہیں ہوتا یہی زمین انسان کی ہلاکت کا موجب بھی ہو جاتی ہے پس زمین کی طاقتوں سے فائدہ اُٹھانے کے لئے بھی کسی قاعدہ اور دستور کی ضرورت ہے اور وہی قاعدہ اور دستور سب سے زیادہ مناسب ہو سکتا ہے جو زمین کی پیداکرنے والے کی طرف سے مقرر کیا جائے اسی طرح آسمان کوبطور چھت کے بنایا گیا ہے یعنی حفاظت کا ذریعہ سورج اور چاند اور ستاروں کی روشنیاں کس طرح ہزاروں فائدے انسان کو پہنچا رہی ہیں مگر ان کی محالف تاثیرات بھی ہیں جو انسان کے اخلاق و عادات پر اثر ڈالتی ہیں ہزاروں بیماریاں اور حادثات اجرام فلکی کے دوروں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سائنسدان تسلیم کریں یا نہ کریں دُنیا پر بعض ایسے حوادث آتے ہیں جو زمینی تغیرات کی طرف منسوب نہیں ہو سکتے۔ مثلاً میں نے دیکھا ہے کہ بعض ایام میں عورتیں کثرت سے اسقاط کی مرض میں مبتلا ہوتی ہیں بعض ایام میں لڑکیوں کی پیدائش کی کثرت ہوتی ہے اور بعض میں لڑکوں کی بعض ایام میں تکلیف دہ زچگی کی شکایات بڑھ جاتی ہیں بعض ایام میں دیکھا گیا ہے کہ ہڈی ٹوٹنے کے حادثات کثرت سے ہوتے ہیں بعض ایام میں ریلیں کثرت سے ٹکراتی ہیں ان تغیرات کو محض حادثہ نہیں قرار دیا جا سکتا۔ کیونکہ آخر اس کی کوئی وجہ ہونی چاہیئے کہ کیوں بعض ایام میں گر کر سر کو چوٹ آنے کے حادثات زیادہ ہوتے ہیں اور بعض ایام میں گر کر لاتوں کو زیادہ ضربیں آتی ہیں۔ میں نے اپنے ہسپتال کے ڈاکٹر صاحب سے اس کا ذکر کیا اور انہو ںنے اس کا خیال رکھا تو بعد میں کئی دفعہ اس کی رپورٹ کی آج فلاں حادثہ کے مریض کثرت سے آ رہے ہیں حالانکہ وہ تکلیفیں بیماریوں کا نتیجہ نہ تھیں کہ انہیں وبائو کہا جائے بلکہ حادثات تھے جو ایک ہی صورت میں ظاہر ہوتے اور لطیفہ یہ کہ چوٹوں کے مریض آنے شروع ہوئے تو کبھی پے در پے سر کی چوٹوں کے مریض آئے اور کبھی پے در پے لاتوں کی چوٹوں کے مریض آئے اس تجربہ کے بعد انہو ںنے تسلیم کیا کہ واقعہ میں یہ امر ایک حیرت انگیز قانون قدرت کے مخفی اسباب پر دلالت کرتا ہے۔
غرض علاوہ اس کے کہ بارشوں خشک سالی کھیتوں کے پکنے یا موسمی تغیرات کا تعلق اجرام فلکی سے ہے حوادث اور بعض غیر متعدی بیماریوں کا تعلق بھی اجرام فلکی سے ہے چنانچہ میں نے یہ تجربہ کیاہے کہ جس علاقہ میں پورا چاند گرہن ہو اس علاقہ میں اس اس موسم میں زچگی کی تکالیف بہت زیادہ نمایاں طور پر پیدا ہو جاتی ہیں میں نے کئی دفعہ دوستوں کو اس طرف توجہ دلائی ہے اور بعد میں اسی طرح مشاہدہ کیا ہے پس ان امور سے ایک عام اندازہ اس امر کا کیا جا سکتا ہے کہ زمین و آسمان مل کر سارے عالم پر مختلف اثرات ڈالتے ہیں اور اسی قسم کے بعض مشاہدات سے بعض لوگ اس وہم میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ سورج‘ چاند‘ ستارے بھی خدائی میں شریک ہیں اور ان کے خوش کرنے کے لئے کئی قسم کی عبادات بجا لاتے ہیں مگر یہ سب وہم ہیں جو انسان کو انسانیت سے گراکمر حیوانیت کے مقام تک پہنچا دیتے ہیں اصل حقیقت تو ان تاثیرات میں صرف اس قدر ہے کہ انسان اس تمام کائنات کو ایک طبعی مؤثر اپنے اعمال اور قویٰ پر سمجھے اور اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کی اعانت کا طالب ہو۔ تاکہ اپنے علم سے کام لینے کے بعد جن باتو ںکا اسے علم نہیں ان میں خدا تعالیٰ کی مدد اس کی راہنمائی کرے اور اس کی غیبی حفاظت کے سامان کرے ورنہ اس قسم کے امو رکو دیکھ کر اجرام فلکی کی عبادت کرتی تو ایسی ہی ہے جیسے کوئی طاعون کے کیڑوں یا ہیضہ کے کیڑوں کی عبادت شروع کر دے۔ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملک کے بعض جاہل ان چیزوں کی عبادت کر ربھی رہے ہیں چنانچہ چیچک کی دیوی کی عبادت تو ہمارے ملک میں مشہور ہے اسی وہم کی بناء پر ہمارے ملک میں چیچک کا نام نہیں لیتے بلکہ اسے ماتا یعنے ماں کہتے ہیں تاکہ وہ مزعومہ دیوی خوش ہو کر ماتا کہنے والے ماں باپ کی اولاد کو چھوڑ دے۔ نعوذ باللہ من ذالک۔
غرض اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ زمین اور آسمان میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے آرام کے سامان پیدا کئے ہیں لیکن یہ سب سامان ظاہر نہیں ان میں سے ظاہر بھی ہیں اور مخفی بھی پس انسان کو اس دُنیا کے پیدا کرنے والے رب سے تعلق پیدا کرنا چاہیئے تاکہ وہ ان سے صحیح فائدہ اٹھانے کی توفیق دے اور ان کی مخفی مفرتوں سے محفوظ رکھے کیونکہ انسان ساری تدبیریں کر لینے کے بعد بھی ارضی و سماوی تغیرات کے ضرروں سے کامل طور پر نہیں بچ سکتا خدا تعالیٰ ہی پوری طرح اس کی حفاظت کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے انبیاء کو دیکھو لوگ ان کے تباہ کرنے کے لئے کیسے جتن کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ان کی سب تدبیرو ںکو باطل کر دیتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کے دشمنوں نے طرح طرح کے حملے کئے۔ آپؐ کو زہر دینے کی کوشش کی گئی مگر آپؐ کے ایک ساتھی تو شہید ہو گئے لیکن آپؐ جن کو زہر دینے کی اصل کوشش تھی محفوظ رہے۔ آپؐ پر خفیہ کمینوں میں بیٹھ کر حملہ کرنے کی کوشش کی گئی مگر دشمن ناکام رہا۔ علیحدگی میں آپؐ پر حملہ کرنے کی تدبیہ کی گئی مگر اللہ تعالیٰ نے وہاں بھی دشمن کو نامراد رکھا گھر بلا کر اوپر سے پتھر پھینکنے کا منصوبہ یہود نے کیا مگر اللہ تعالیٰ نے الہام سے خبردار کر دیا اور دشمن کو شرارت کا اقرار کرنا پڑا۔ غارِ ثور میں دشمن سر پر پہنچ کر جس طرح لوٹا آج تک دُنیا اس پر حیران ہے۔ یہ سب کچھ زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے خدا کے فضلوں سے ہؤا۔ آپؐ نے اس سے تعلق جوڑا تو اس نے آپؐ سے جوڑا۔ اور سارے عالم کو آپؐ کی خدمت میں لگا دیا حضرت مسیحؑ ناصری کو جب ان کے دشمنوں نے اپنی طرف سے صلیب پر لٹکا کر مار ہی دیا تھا خدا تعالیٰ نے کس طرح ایک تاریک آندھی بھیج کر حاکم اور یہود دونوں کو مجبور کر دیا کہ وہ ان کو وقت سے پہلے صلیب پر سے اُتار لیں اور اس طرح حضرت مسیح اس ذلت کی موت سے محفوظ ہو گئے جو دشمنوں نے ان کے لئے تجویز کی تھی۔ اس زمانہ میں بانی سلسلہ احمدٓ کے ذریعہ سے ایسے بیسیوں واقعات ظاہر ہوئے آپؐ کو خدا تعالیٰ نے بتایا کہ طاعون سے آپ کا گھر محفوظ رہے گا سو باوجود اس کے کہ سالہا سال تک قادیان میں طاعون پھیلتی رہی اور آپؐ کے گھر کے دائیں بائیں بھی اس سے کئی موتیں ہوئیں مگر آپؐ کے گھر میں کوئی حادثہ نہ ہوا۔ آپ کی جوانی کا ایک واقعہ ہے جس کے بعض ہندو صاحبان بھی گواہ ہیں چنانچہ مسٹر جسٹس کنور سین جو جموں کی ریاست کے چیف جسٹس رہ چکے ہیں۔ ان کیو الد لالہ بھیم سین بھی اس کے گواہ تھے او رانہو ںنے اپنے صاحبزادے کے سامنے اس کے متعلق شہادت بھی دی ہوئی ہے جن سے اب بھی پوچھا جا سکتا ہے وہ واقعہ یوں ہے کہ آپؐ سیالکوٹ میں ایک مکان پر تھے کہ ایک معمولی سی آواز چھت میں پیدا ہوئی آپؐ نے سب ساتھیوں کو جگایا جن میں لالہ بھیم سین صاحب وکیل بھی تھے او رکہا کہ فوراً نیچے اُترو مگر انہوں نے ہنسی اُڑائی اور کہا کہ آپؐ کو وہم ہو گیا ہے مگر پھر تھوڑی دیر بعد آپ نے سب کو اُٹھا کر دوستانہ جبر سے اُترنے پر مجبور کر دیا۔ پھر ان سب سے کہا کہ پہلے تم اُترو کیونکہ یہ چھت تب تک قائم ہے جب تک میں اس پر ہوں اس لئے میں سب سے آخر میں اُتروں گا جب سب دوست سیڑھیاں اُتر چکے تو پھر آپ اُترے اور جونہی آپؐ سیڑھی پر آئے چھت یکدم زمین پر آ رہی۔ یہ سب امور جو دنیا کی پیدائش سے اس وقت تک ظاہر ہوتے چلے آئے ہیں اور ظاہر ہوتے رہیں گے اس امر کا ثبوت ہیں کہ اس دنیا کا پیدا کرنے والا ایک وجود ہے اور اس سے تعلق پیدا کرنے والا ایک وجود ہے اور اس سے تعلق پیدا کرنے سے ہی انسان کامل طو رپر ہلاکت سے بچ سکتا ہے۔ اور یہی اس آیت کا مطلب ہے اور اس میں بتایا گیا ہے کہ زمین اور آسمان کو خدا تعالیٰ نے ہی تمہارے فائدہ کے لئے پیدا کیا ہے۔ پس اس سے کامل فائدہ تم اسی سے تعلق پیدا کر کے حاصل کر سکتے ہو اور نقصانات سے بھی تم اسی سے تعلق پیدا کر کے محفوظ ہو سکتے ہو۔
یاد رہے کہ اس فائدہ سے وہ ظالمانہ فائدہ مُراد نہیں جو ظالم بادشاہ اور جابر رئوسا اُٹھاتے ہیں کیونکہ وہ فائدہ اُٹھانا نہیں بلکہ *** مول لینا ہے۔ پس خدا رسیدہ لوگوں کی زندگی کے مقابلہ پر ظالم بادشاہوں اور ڈکٹیٹروں کے حالات رکھ کر مقابلہ نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ انہوں نے عزت نہیں بلکہ ذلت حاصل کی تھی۔
یاد رہے کہ اس آیت میں سماء سے مُراد بلندی ہے نہ کہ کوئی ٹھوس دائرہ جیسا کہ عوام الناس کا خیال ہے اور اس بلندی سے مراد وہ تمام فضاء ہے جس میں ستارے اور سیارے پائے جاتے ہیں اور چھت بنانے سے یہ مُراد ہے کہ بلندی کو حفاظت کا ذریعہ بنایا ہے حفاظت کے لئے چھت کا لفظ اس لئے استعمال کیا کہ چھت بھی بہت سی تکالیف سے حفاظت کا ذریعہ ہوتی ہے اور یہ ایک محاورہ ہے۔
بلندی کو حفاظت کا ذریعہ بنایا سے یہ مطلب ہے کہ انسان کی زندگی کے قیام کے لئے جن اشیاء کی ضرورت ہے وہ بلندی سے تعلق رکھتی ہیں پانی بھی بلندی سے برستا ہے۔ ہوا بھی اوپر ہے۔ اسی طرح سورج چاند وغیرہ ہیں اور انہی اشیاء سے وہ سب چیزیں تیار ہوتی ہیں جن سے انسان زندہ رہتا ہے روحانیات میں بھی انسان اوپر کا محتاج ہے۔ مِنَ السَّمَآئِ مَائً سے مراد یہ ہے کہ بادلوں سے پانی اُتارا ہے۔ اس جگہ سَمَاء سے مراد فضاء کی بلندی نہیں بلکہ بادل ہے اور بادل کے معنے استعارۃً نہیں کئے گئے بلکہ لغت سے ثابت ہیں اور قرآن شریف میں دوسری جگہوں پر بھی اس معنے میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے چنانچہ فرماتا ہے وَاَرْ سَلْنَا السَّمَآئَ عَلَیْہِمْ مِدْرَارًا (سورہ انعام ع ۱)کہ ہم نے ان پر بالوں سے موسلادھار مینہہ برسایا۔ اسی طرح پھر فرماتا ہے یُرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِدْرَارًا (سورۂ نوح ع ۱ و ہود ع ۵) کہ اللہ تعالیٰ تم پر موسلا دھار برسنے والا بادل بھیجے گا۔ آیت زیر تفسیر میں سَمَاء بمعنے بادل استعمال ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ یہاں دو دفعہ سَمَاء کا لفظ استعمال ہوا ہے اگر دوسری جگہ پر فضء ہی کے معنے ہوتے تو صرف ضمیر لانی کافی تھی دوبارہ سَمَاء کے لفظ کو لانا بتاتا ہے کہ دوسری جگہ پر اس کے دوسرے معنے ہیں۔
اس امر کو بیان کر دینے کے بعد کہ زمین و آسمان او ران کے پیدا کردہ تغیرات جیسے بادل وغیرہ کا آنا سب اللہ تعالیٰ ہی کے بنائے ہوئے ہیں فرماتا ہے کہ جب دُنیا کی ہر چیز اللہ تعالیٰ ہی کی بنائی ہوئی ہے تو تم کو سمجھ لینا چاہیئے کہ خدا تعالیٰ کا کوئی ند نہیں ہے یعنی ایسا کوئی وجود نہیں ہے جو خدا تعالیٰ کا ذات اور صفات میں شریک ہو اور اس کے برابر ہو (ند کے لئے دیکھو حل لغات) اور جب تمام نظامِ عالم ایک قانون کے ماتحت نظر آتا ہے اور کوئی بات بھی اس پر دلالت نہیں کرتی کہ اس کا کوئی حصہ کسی نے پیدا کیا ہے اور کوئی کسی اور نے تو پھر خدا تعالیٰ کے سوا کسی اور کی عبادت کے معنے ہی کیا ہوئے۔ پس تم کو چاہیئے کہ ایک خدا کی پرستش کرو اور اس کے فضلوں سے فائدہ اُٹھائو اور اس کے سوا دوسروں کی عبادت کر کے اپنے مستقبل اور حاضر کو خراب نہ کرو۔
وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ نظامِ عالم میں یکسوئی ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جس سے کوئی عقلمند شخص بھی ناواقف نہیں ہو سکتا اور سب کو اس کا علم اور اقرار ہے کہ کل کائنات ایک قانون کے مطابق چلی رہی ہے پس اس امر کو جانتے بوجھتے ہوئے شرک میں مبتلا نہ ہو بلکہ اس علم سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے توحید پر قائم ہو جائو ان الفاظ میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ جُرم کامل اسی صورت میں ہوتا ہے کہ علم کے ماتحت ہو۔ اس سے اسلام کی کیسی برتری ثابت ہوئی ہے کہ وہ صرف عمل پر ہی فیصلہ نہیں کرتا بلکہ اس امر کا بھی لحاظ کرتا ہے کہ وہ عمل کن حالات میں کیا گیا ہے اور کس قسم کے علم کے نتیجہ میں صادر ہوا ہے۔
اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ مادی دُنیا کی تکمیل بھی زمینی اور آسمانی قوتوں کے ملنے سے ہوتی ہے زمین پر پانی کو لوگ خراب کر دیتے ہیں تو آسمان سے نیا پانی آ کر مصفی پانی مہیا کر دیتا ہے۔ ہوا جیسی مصفی چیز کو جب انسان سانس سے گندہ کر دیتا ہے تو وہ اوپر جا کر پھر پاک ہو جاتی ہے آنکھ مفید ہے مگر آسمان یعنی سورج کی روشنی کے بغیر وہ کس کام کی۔ غرض اگر زمین انسان کے لئے بچھونا ہے تو آسمان چھت کا کام دیتا ہے اسی طرح روحانی دُنیا کا حال ہے انسان کے اندر بیشک عقل موجود ہے مگر عقل کا وجود آنکھ کی طرح ہے جب تک روحانی سورج کی روشنی یعنی الہام اس کے ساتھ نہ ملے وہ صحیح طو رپر کام نہیں کر سکتی فطرتی تقاضے بیشک نہایت پاک ہیں لیکن دنیوی لالچوں سے مل کر وہ گندے ہو جاتے ہیں اور الہام کے آسمانی پانی کے ذریعہ سے ہی پاک ہوتے ہیں پس اللہ تعالیٰ سے تعلق کے بغیر انسان کامیاب زندگی کسی صورت میں بسر نہیں کر سکتا۔ او راللہ تعالیٰ نے مادی زندگی کو زمین اور آسمان دو حصوں کے ساتھ متعلق کر کے رُوحانی امور میں بھی صرف زمینی سامانو ںپر کفایت نہ کر لینا اور اپنی عقل اور اپنی فطرت کو ہی اپنے لئے کافی نہ سمجھ لینا کہ جس طرح مادی دنیا آسمانی امداد کی محتاج ہے روحانی دنیا بھی آسمانی امداد کی ہر وقت محتاج ہے جس طرح مادی دنیا میں زمین کے اوپر آسمان ہے اسی طرح روحانی دُنیا میں انسانی دل اور دماغ زمین ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فیوض و ہدایات آسمان ہیں یہ دونوں مل کر ہی روحانی دنیا کو کامل کرتے ہیں ان کے ملے بغیر وہ دنیا نامکمل اور بے فائدہ ہو جاتی ہے۔
وَاَخْرَج بِہٖ مِنَ الثَّمَراتِ رِزْقًا میں اسی مضمون کی مزید تشریح کی ہے اور بتایا ہے کہ زمین میں قوتِ نمو موجود ہے مگر کیا آسمانی پانی کے بغیر وہ پھل پیدا کر سکتی ہے پھر تم کس طرح خیال کرتے ہو کہ تمہارے دماغ خواہ کیسے ہی زرخیز کیوں نہ ہوں اور کیسی ہی نمو کی قابلیت کیوں نہ رکھتے ہوں وہ خدا تعالیٰ کی مدد کے بغیر اچھے پھل دینے لگیں گے جس طرح بارش بند ہو جائے تو زمین کے پانی بھی خراب ہو جاتے ہیں اور زمین اچھے پھل دینے سے قاصر ہو جاتی ہے اسی طرح الہام الٰہی نہ آئے جو خدا تعالیٰ کی عبادت کا نتیجہ ہے تو انسانی دماغ بھی پاکیزہ خیالات پیدا کرنے سے جو روحانی ثمرہ ہوتے ہیں قاصر رہ جاتے ہیں پس یہ دعوے نہ کرو کہ ہم اپنی عقلوں سے اپنے لئے ہدایت نامے تجویز کر سکتے ہیں۔ اور کریں گے۔
اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو تم کو ادنیٰ حالت سے ترقی دے کر اعلیٰ تک پہنچایا اور تم اس کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ کو اس کے مقام سے نیچے گراتے ہو اور اس کے انداد تجویز کرتے ہو۔ جن کو انداد بناتے ہو وہ نہایت معمولی ہستیاں ہیں پس تم دوسرے لفظوں میں یہ کہتے ہو کہ اللہ بھی ایسا ہی ہے ہم نے تو تم کو مخلوقات میں لاشریک بنا دیا زمین آسمان کو تمہاری خدمت میں لگا دیا مگر تم نے ہم کو جو فی الحقیقت لاشریک تھے باشریک بنا دیا۔ کیسے جاہل اور اندھے اور قابلِ افسوس ہیں وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے ان احساسنات کے ہوتے ہوئے کہتے ہیں کہ خدا نے انسان کو نہیں بنایا بلکہ انسان نے خدا کو بنایا ہے یعنی خدا تعالیٰ کا وجود کوئی نہیں انسان نے اپنی عقل سے ایک ایسا وجود گھڑ لیا ہے یہ لوگ فلسفی کہلاتے ہیں حالانکہ ان سے زیادہ جاہل اس دنیا کے پردہ پر کوئی نہیں مل سکتا۔
توحید کی وہ تعلیم جو اس آیت میں دی گئی ہے ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس پر کیسا عمل تھا۔ اس کی ایک مثال لکھتا ہوں ایک دفعہ ایک صحابی نے آپؐ کے سامنے کہا کہ مَاشَائَ اللّٰہُ وَشِئْٔتَ یعنی فلاں معاملہ میں اسی طرح ہو گا جس طرح خدا تعالیٰ چاہے گا یا آپؐ چاہیں گے آپؐ نے فرمایا اَجَعَلْتَنِیْ لِلّٰہِ نِدًّا کیا تو مجھے خدا کا نِدّ بناتا ہے یوں کہو کہ مَاشَائَ اللّٰہُ وَحْدَہٗ یعنی وہی ہو گا جو خدائے واحد چاہے گا (ابن کثیر جلد اوّل صفحہ ۹۹)
اس آیت اور پہلی آیت کے تعلق سے ایک سوال کے متعلق جو اس زمانہ میں یورپین مصنفین نے اُٹھایا ہے کچھ تحریر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ یہ سوال مسٹر ہر برٹ اسنپنر مشہور فلسفی اور مسٹر فریزر نے نمایاں طور پر پیش کیا اور ان کے بعد ڈاکٹر رابرٹسن سمتھ مسٹر لارنس گوم مسٹر گرانٹ ایلن وغیر ہم نے اسے پھیلایا۔ ان لوگوں کے دو گروہ ہیں ایک گروہ نے یہ اصل پیش کیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی نسبت عقیدہ روحو ںجنوں اور پریوں کے خیال سے ترقی پا کر بنا ہے اور دوسرے گروہ نے یہ اصل پیش کیا ہے کہ ابتدائی انسان نے درندوں اور زہریلے کیڑوں سے متاثر ہو کر ان کی پُوجا فریق کا خیال ہے کہ ابتداء میں کئی خدائوں کا خیال پیدا ہوا اور رفتہ رفتہ اس کی جگہ ایک خدا نے لے لی۔ اِن لوگوں کے دعویٰ کی بنیاد اس پر ہے کہ ابتداء آفرینش میں انسان ی تاریخ کئی خدائوں کے اعتقاد پر دلالت کرتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شرک واحدنیت سے پہلے کا ہے اور چونکہ شرک وحدانیت سے پہلے کام ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایک خدا کا خیال شرک کی ترقی پذیر صورت ہے۔
ان میں سے بعض نے مذاہب کے پیروئوں سے ڈر کر اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ ہمارے عقیدہ کی زد مذہب پر نہیں پڑتی۔ کیونکہ ایک معقولیت پسند خدا سے یہ بعید نہیں کہ جس طرح اس نے دُنیا پر قوانین نیچر کو بتدریج ظاہر کیا اسی طرح اس نے اپنی نسبت عقیدہ کو بھی دنیا پر بتدریج ظاہر کیا۔
میں اس امر کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں کہ ان لوگوں نے اِس خیال کو پورے غور کے بعد پیش کیا ہو بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ یا تو یہ خیال انہوں نے مذہبی دُنیا کی مخالفت کے ڈر سے پیش کیا ہے یا پھر انہو ںنے اس سوال پر غور کی ضرورت ہی نہیں سمجھی اور مذہبی لوگوں کی دلجوئی کے لئے بغیر کافی غور کرنے کے یہ بات پیش کر دی ہے۔
میرے اس خیال بنیاد اِس پر ہے کہ تمام اہم مذاہب مذہب کی بنیاد الہام پر رکھتے ہیں اور اگ رمذہب کی بنیاد الہامپر رکھی جائے تو یہ فلسفہ کہ خدا تعالیٰ نے آہستہ آہستہ اپنے آپ کو ظاہر کیا اور پہلے اپنے سوا دوسرے وجودوں کی طرف دنیا کی راہنمائی کی ایک منٹ کے لئے بھی نہیں ٹھیر سکتا۔ کیونکہ یہ عقل کے خلاف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے مردہ ارواح کی طرف لوگوں کی راہنمائی کی یا پتھروں دریائوں‘ سانپوں‘ شیروں کی طرف دُنیا کی راہنمائی کی اور بعد میں اپنے آپ کو ظاہر کیا کیونکہ ایک خدا کے وجود کی طرف راہنمائی اگر شروع زمانہ سے بھی کی جاتی تو اس میں عقلاً کوئی امر مستبعد نہیں۔ علاوہ ازیں مختلف مذاہب جو اس وقت دُنیا میں پائے جاتے ہیں اور اس امر کا کوئی بھی قائل نہیں کہ الہام بعد کے کسی زمانہ سے شروع ہوا ہے ہندو مذہب بھی اِسی کا قائل ہے کہ ابتداء آفرینش سے الہام ہونا شروع ہوا اور یہودی مذہب بھی اِسی امر کا قائل ہے اور مسیحیت چونکہ یہودی مذہب کی آخری کڑی ہے وہ بھی اسی امر کی قائل ہے اور زردشتی مذہب بھی اِسی امر کا قائل ہے اور اسلام بھی اسی کا قائل ہے پس اگر یہ خیال درست ہے ت وماننا پڑے گا کہ دید اور تورات اور انجیل اور زند اوستا اور قرآن کریم سب کی بنیاد جھوٹ پر ہے۔
بائبل صاف طور پر اِس امر کی مدعی ہے کہ جب انسان دنیا پر نمودار ہوا اسے الہام ہوا اور اسے خداء واحد کا پتہ دیا گیا اور انجیل اس کے بیان کو صحیح تسلیم کرتی ہے پس اگر دُنیا میں ابتداء خدا تعالیٰ کا علم نہ تھا تو بائبل کا یہ دعویٰ یقینا جھوٹا ہے کہ خدا نے آدم سے کہا کہ ’’پھلو اور بڑھو اور زمین کو معمور کرو اور اس کو محکوم کرو اور سمندر کی مچھلیوں پر اور آسمان کے پرندوں پر اور سب چرندوں پر جو زمین پر چلتے ہیں سرداری کرو‘‘ (پیدائش باب ۱ آیت ۲۸)اس آیت سے ثابت ہے کہ آدم کے زمانہ سے جو پہلا انسان تھا۔ اس کو یہ بتا دیا گیا تھا کہ آسمان و زمین میں جو کچھ پیدا کیا گیا ہے انسان کا محکوم اور اس کے فائدہ کے لئے ہے۔ اس تعلیم کے بعد آدم کے دل میں یہ خیال کس طرح پیدا ہو سکتا تھا کہ پہلیس تاروں اور سورج اور چاند کو خدا سمجھے یا زمین کے جانوروں کو خدا سمجھے یا آدم سے پہلے کونسے آباء تھے جن کو وہ خدا سمجھ سکتا تھا پس یقینا یا تو بائبل کو جھوٹا کہنا ہو گا یا اس خیال کو کہ خدا کا خیال آہستہ آہستہ پیدا ہوا غلط کہنا پڑے گا۔
اسلام نے بھی اسی عقیدہ کو پیش کیا ہے جیسا کہ اگلے رکوع میں آدم کے ذکر میں آئے گا کہ انسان کے نمودار ہوتے ہی خدا تعالیٰ نے پہلے انسان کواپنے کلام سے مشرف کیا اور اپنے وجود کی اسے خبر دی۔
ان تعلیمات کی موجودگی میں مذہب کے دعویٰ اور ان خیالات کا اجتماع کسی صورت میں نہیں ہو سکتا اور یقینا دونوں میں سے ایک کو باطل کہنا پڑے گا پس میں ان دونوں اصول کے درمیان موازنہ کر کے بتاتا ہوں کہ کونسا درست اور کونسا غلط۔
اس خیال کی جو خدا تعالیٰ کے متعلق فلاسفروں نے پیش کیا ہے بنیاد ان دو باتو ںپر ہے۔ اوّل وحی الٰہی کے وجود سے انکار۔ دوم مسئلہ ارتقاء کا غلط مفہوم۔
وحی الٰہی کا انکار محض اس لئے پیدا ہوا ہے کہ ان فلاسفروں کو اس کا تجربہ نہیں اور وہ مسیحی ممالک میں پیدا ہوئے ہیں جن میں ایک لمبا عرصہ سے الہام کا وجود ناپید ہے۔ چونکہ اُنہوں نے نہ خود الہام پایا اور نہ الہام پانے والوں کو دیکھا وہ اس وہم میں مبتلا ہو گئے کہ وحی کا وجود ہی کوئی نہیں۔ اور جب وحی الٰہی کے منکر ہوئے تو خدا تعالیٰ کے خیال کے لئے کوئی عقلی وجہ تلاش کرنے لگے اور چونکہ ارتقار کے مسئلہ کی طرف ان کی توجہ اِن دنوں ہو رہی تھی اسے بھی اِس مسئلہ کے ماتحت حل کرنا چاہا اور اس غلط عقیدہ میں مبتلا ہو گئے۔
جیسا کہ میں نوٹ ۵؎ سورۃ ہذا (زیر آیت وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ) میں بتا آیا ہوں قرآن کریم نہ صرف وحی الٰہی کا قائل ہے بلکہ اس کے وجود کو ہر زمانہ میں تسلیم کرتا ہے اور اگراِس کا یہ دعویٰ صحیح ثابت ہو تو اِس فلسفہ کی جڑ آپ ہی آپ اُکھڑ جاتی ہے۔ قرآن کریم اپنی نسبت دعویٰ کرتا ہے کہ اس کا ہر ہر لفظ لفظی وحی کی قسم سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلعم پر نازل کی اور وہ اس امر کا بھی مدعی ہے کہ اس سے پہلے ابتداء آفرینش سے اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں اور ان کے اتباع پر وحی نازل کرتا چلا آیا ہے اور اپنے وجود کو ان پر ظاہر کرتا چلا آیا ہے اور وہ اس امر کا بھی مدعی ہے کہ قرآن کریم کے ماننے والوں پر بھی وحی نازل ہوتی رہے گی۔ چنانچہ اِس زمانہ میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود مہدی مسعود علیہ السلام بانی سلسلہ احمدؐیہ بھی وحی الٰہی پانے کے مدعی تھے خدمت کے لئے ان پر بھی وحی نازل ہوتی ہے او رہزار ہا الہام انہیں ہوئے جو کتاب تذکرہ کی صورت میں یکجائی طور پر ان کی جماعت نے شائع کر دیئے ہوئے ہیں ان میں ہزاروں پیشگوئیاں اور معجزات پر مشتمل کلام ہے جو پورا ہو چکا ہے او رپورا ہو رہا ہے۔ اس تازہ مشاہدہ کے بعد ہم کس طرح ان فلسفیوں کی باتوں کو تسلیم کر سکتے ہیں۔ بلکہ اِن نشانات کو دیکھنے کے بعد ہماری نگہ میں تو یہ لوگ اِس روایتی لال بجھ کڑ کے مثیل ہیں کہ جو ہر سادہ سے بات کا کوئی غیر معقول سبب نکالنے کا عادی تھا۔
آپؐ کے بعد آپ کی برکت سے ہم لوگوں نے بھی وحی الٰہی کا مزہ چکھا ہے اور راقم حروف بھی سینکڑوں باء اس کا تجربہ اور مشاہدہ کر چکا ہے اس مشاہدہ کے بعد مجھ پر ان فلسفیوں کی باتوں کا کیا اثر ہو سکتا ہے سوائے اس کے کہ میں ان کی حالت کو قابلِ رحم سمجھ کر ان کی روحانی دنیا سے ناواقفی پرحیرت کروں۔ اگر یہ لوگ ہماری طرف رجوع کریں تو ہم انہیں بتا سکتے ہیں کہ وہ رُوحانی دُنیا کے بادشاہ جو گذشتہ زمانوں میں گذرے ہیں ان کی صداقت مشاہدات اور قوی دلائل سے ہم اب بھی بفضلہ تعالیٰ ثابت کرنے کو تیار ہیں۔
غرض جب وحی الٰہی ایک مجرب اور مشاہدہ سے ثابت شدہ امر ہے تو ان عقلی وجوہ کی جو محض ظنیات اور قیاسات پر مبنی ہیں کوئی وقعت بھی بقی نہیں رہتی۔
ان لوگوں کے خیال کی دوسری بنیاد مسئلہ ارتقاء کے غلط مفہوم پر ہے ان کا یہ خیال کہ دنیا کی ابتداء میں محض آباء یا طبعی مظاہروں یا جانوروں وغیرہ کی پرستش ہوتی تھی بالکل باطل ہے اور تاریخ اور عقل سے غلط ثابت ہوتا ہے اصل بات یہ ہے کہ ارتقاء کا تعلق جہاں تک عقل انسانی سے ہے صرف اس حد تک محدود ہے کہ باریک مسائل آہستہ آہستہ دنیا پر کھولے گئے ہیں اور انسانی عقل کی نشوونما کے مطابق انہیں ظاہر کیا گیا ہے۔ اس قدر ارتقاء کا یہودی مذہب بھی قائل ہے اور مسیحیت بھی اور اسلام بھی۔ لیکن یہ کہ خدا تعالیٰ کے وجود کا بسیط علم بھی انسان کو ابتداء میں نہیں دیا گیا بالکل غیر معقول ہے۔ بھلا وہ کونسی روک تھی جو ابتدائی انسان کو ایک پیدا کرنے والے کے وجود کو ماننے میں مانع تھی؟ کوئی بھی عقلی وجہ اس کی معلوم نہیں ہوتی۔ پھر ایسے غیر معقول عقیدہ کو کوئی کس طرح تسلیم کر سکتا ہے۔
اِن فلسفیوں کا یہ خیال کہ چونکہ غیر مذہب اقوام میں خدا تعالیٰ کے متعلق جو علم بھی ہے مشرکانہ عقیدوں کے ذریعہ سے ہے اس لئے یہی عقیدہ خدا تعالیٰ کے وجود کی بنیاد ہے اس حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے کہ غیر مہذب ہونا ابتدائی ہونے کی علامت نہیں۔ اگر وہ تاریخ کو دیکھتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ مختلف اقوام پر تہذیب کے مختلف دور آئے ہیں۔ اور کسی وقت ایک قوم مہذب اور علوم سے آراستہ تھی تو دوسرے وقت میں وہی قوم غیر مہذب اور علوم سے تہی ہو گئی۔ کیا انہوں نے یونان اور ایران اور عراق اور مصر کی تاریخوں کو نہیں پڑھا۔ کیا ہندوستان اور چین کی تاریخ ان سے پوشیدہ ہے کیا قدیم آثار سے جن کو خود انہی کے بھائی بندوں نے دریافت کیا ہے انہیں یہ بات معلوم نہیں ہوئی کہ گذشتہ زمانو ںمیں ان ملکوں میں ایک نہایت اعلیٰ دجرہ کی تہذیب پائی جاتی تھی لیکن اب وہ مفقود ہے۔ قدیم زمانہ میں یہ ممالک علوم کے گہوارہ تھے مگر بعد میں جہالت کا مرکز ہو گئے۔ کیا موجودہ یونان باوجود یورپ کا حصہ ہونے کے انہی علوم کا سرچشمہ ہے جو ارسطو اور افلاطون کے وقت میں وہاں سے پھوٹ رہا تھا۔ کیا ہندوستان میں اب ان ترقیات کے زندہ آثار موجود ہیں جو سابق زمانوں میں یہاں پائے جاتے تھے۔ مصر نے اپنے وقت میں کس قدر ترقی کی اس کا ایک ادنیٰ کرشمہ اس کی ممیوں (مصالحوں سے محفوظ کردہ لاشوں) میں نظر آتا ہے جس کے نسخے کو اب تک بھی یورپ معلوم نہیں کر سکا۔ لیکن اب ان علوم کا نشان کہاں ہے پس جب تہذیب اور تمدن کے دوروں کے بعد جہالت اور کم علمی کے دور اتے رہے ہیں تو اس میں کیا استبعاد ہے کہ توحید کے بعد شرک کے دور آتے رہے ہوں او رکس بناء پر ان شرک کے دوروں کو توحید کے دوروں پر مقدم سمجھا جائے اور اگر شرک کے دور کا توحید کے دو رپر تقدیم ثابت نہ ہو تو ان فلسفیوں کے خیال کی بنیاد کس بناء پر ہے؟اس اِمکان کے پیدا ہونے کی صورت میں تو وہ خود بخود باطل ہو جاتا ہے۔
میں اس سوال پر روشنی ڈالنے کے لئے موجودہ مذاہب ہی کی مثال پیش کرتا ہوں ہندو قوم کے ایک بزرگ جو دو ہزار سال پہلے گذر چکے ہیں ان کا کلام اب تک موجود ہے اور وہ حضرت کرشن ہیں ان کی کتاب گیتا ایک معروف کتاب ہے اس کتاب کی تعلیم کو آج سے پانچ سو سال پہلے کے ہندوئوں کے عقائد سے مقابلہ کر کے دیکھو کہ کوئی لگائو بھی ان میں پایا جاتا ہے۔ آج سے پانچ چھ سو سال پہلے جب مسلمان اس ملک میں آئے ہیں گھر گھر میں بت خانہ تھا تو ہم پرستی تھی مذہب کا حقیقی وجود کہیں بھی پایا نہ جاتا تھا مگر کیا گیتا میں بھی اِن بتوں کا کہیں ذکر ہے جن کی حکومت آج سے چند سو سال پہلے ہندستان میں تھی کیا گیتا میں بھی ان توہمات کی کوئی سند ہے جو اس وقت ملک میں پھیلے ہوئے تھے۔ اگر یہ درست ہے کہ شرک کا دور پہلے تھا اور اس سے آہستہ آہستہ توحید کا خیال پیدا ہوا تو چاہیئے تو یہ تھا کہ پہلے توہمات کا راج ہوتا بتوں کا زور ہوتا او ربعد میں توحید آتی لیکن یہاں توہمیں یہ نظر آتا ہے کہ پہلے توحید کا دور تھا اور کرشن جی جیسا موحد انسان ہندوستان کا رہنما تھا مگر بعد میں شرک اور توہم پرستی نے جگہ لے لی۔ اگر کہو کہ بعد میں لوگ بگڑ کر مشرک ہو گئے تو میں کہتا ہوں کہ یہی خیال ان دوسرے شرک کے دوروں کی نسبت کیوں درست نہیں جو ان لوگو ںکو دھوکا دینے کا موجب ہوئے ہیں۔ اصل سوال تو یہ تھا کہ ارتقاء چاہتا ہے کہ پہلے ادنیٰ حالت ہو بعد میں اچھی ہو جائے مگر جب یہ بات غلط ثابت ہو گئی تو اس عقیدہ کی بنیاد گر گئی۔
دوسری مثال یہودی مذہب کی ہے تورات کو پڑھ کر دیکھ لو اس سے صاف ثابت ہے کہ توحید کے دوروں کے بعد یہود پر شرک کے دور آتے رہے بلکہ دور کیو ںجائیں تورات میں جس توحید کا ذکر ہے اس کے خلاف یہود میں موجودہ زمانہ میں بھی مشرکا نہ خیالات پیدا ہو گئے ہیں۔ پھر مسیحیت کو لو اس عقیدہ کے پیش کرنے والے بھی تسلیم کرتے ہیں کہ مسیح نے ایک سادہ خدا کی تعلیم دی تھی مگر وہ عقیدہ بگڑ کر اب کیا شکل اختیار کر چکا ہے کیا یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ توحید کا دو رپہلے تھا اس امر کا شرک کا دو رپہلے تھا۔

سب سے آخر میں اسلام ظاہر ہوا اسی کی تاریخ دیکھ لو وہ مذہب جو ابتداء سے انتہاء تک ایک خالص توحید کا پیش کرنے والا مذہب تھا جس میں ارواج پرستی کا کبھی نام نہ تھا جس کے نبی نے اس کو بھی برداشت نہ کیا کہ اس کا کوئی صحابی اسے یہ کہے کہ جو تم چاہو وہ ہو گا جیسا کہ اس (نوٹ صفحہ ۲۳ سورۂ ہذا زیر آیت لَاتجعَلُوْا لِلّٰہِ اَنْدَاداً دیکھو) سے پہلے بتایا جا چکا ہے۔ جس کے نبی نے مرتے وقت اپنی قوم کو ان الفاظ سے ہوشیار کیا کہ خدا *** کرے یہود اور نصاریٰ پر کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ کی جگہ بنا لیا (بخاری کتاب الصلوۃ باب الصلوٰۃ فی البِیَعَۃ) ان کی امت بگڑی تو ان کا کیا حال ہوا۔ قبروں پر سجدے انہو ںنے کئے۔ اولیاء کو خدا کی صفات انہوں نے دیں۔ مُردوں سے مرادیں انہوں نے مانگیں غرض وہ کونسی مشرکانہ بات تھی جو انہوں نے نہ کی کیا ان کی حالت کو دیکھ کر یہ نتیجہ نکالنا جائز ہو گا کہ اسلام کی ابتداء شرک سے ہوئی اور بعد میں ایک خدا کا خیال پیدا ہوا کیونکہ ارتقاء کے مسئلہ کے ماتحت بسیط عقیدہ اپنی تمام شاخو ںمیں کامل ہو جانے والے عقیدہ سے پہلے ہونا چاہیئے۔
اگر ان سب تاریخی حوالوں کا جواب یہ ہو کہ ان اقوام میں توحید پہلے تھی اور شرک بعد میں آیا تو ایسے زبردست تاریحی شواہد کے باوجود اس ڈھکونسلے کے پیش کرنے کے کیا معنے جو اِن نام نہاد فلسفیو ںنے پیش کیا ہے؟ کیا یہ شواہد اس امر کا ثبوت نہیں کہ جس طرح ان اقوام میں توحید کے بعد شرک آیا ان سے پہلی اقوام میں بھی توحید کے بعد شرک آیا۔
اصل بات یہ ہے کہ انسانی ترقی دوروں کی صورت میں ہوتی ہے اور ترقی کے بعد زوال اور زوال کے بعد ترقی کا دور آتا ہے پس انسانی خیالات کے متعلق کسی دور سے یہ قیاس کرنا کہ صرف زوال کا دور پہلے تھا جس سے پہلے کوئی اور ترقی کا دور نہ تھا ایک ایسا بودا قیاس ہے جو کسی صورت میں بھی درست نہیں۔
دوسرا جواب اس خیال کے غلط ہونے کے بارہ میں یہ ہے کہ اگر ارتقاء سے خدا تعالیٰ کا خیال پیدا ہوا ہے تو چاہیئے تھا کہ سورج چاند ستاروں کا پرستش پہلے شروع ہوتی۔ لیکن مشرکانہ قبائل کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ سانپ کی پرستش اور دوسرے حیوانات کی پرستش پہلے کی ہے اور چاند سورج کی پرستش نسبتاً مہذب اقوام میں پائی جاتی ہے حالانکہ اگر انسان نے ابتداء میں اپنے گرد و پیش کے حالات سے مرعوب ہو کر خدا کا خیال اخذ کیا تھا تو چاند سورج ستاروں کی پرستش پہلے چاہیئے تھی کیونکہ وہ ہر جگہ میں نظر آتے ہیں اور ہر روز نظر آتے ہیں اور دُنیا پر ایک خاص اثر ہر روز پیدا کرتے ہیں جو علم ہیئت سے ناواقف انسان کے دل کو خاص طورپر مرعوب کرنے والا ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف شیر چیتے سانپ کبھی کبھی نظر آتے ہیں اور ان کا اثر اس قدر وسیع نہیں۔ علاوہ ازیں اگر انسان ارتقاء کے قواعد کے ماتحت ترقی کر کے بنا ہے ت وانہی شیر چیتوں سانپوں سے اس کا واسطہ ہزار ہا سال سے پڑ رہا تھا مگر اس نے ان کو کوئی خاص عظمت نہ دی تھی۔ پھر کیا وجہ کہ یکدم اس نے ان کو خدائی کا مرتبہ دے دیا حالانکہ ان کے وجود میں ستاروں سورج اور چاند کی طرح کوئی پر اسرار کیفیت نہ تھی جو خدا بنانے کے خیال کے لئے ضروری ہے۔ غرض ان حیوانات اور کیڑوں کی پرستش کا خیال پہلے پیدا ہونا جو انسانی ارتقاء کی ترقی کے مسئلہ کے مطابق تو اس کے ہم صحبت بھی رہے تھے اور بندر کی شکل میں یا لنگور کی شکل میں انسان ان سے لڑتا بھڑتا بھی رہا تھا اور بعض کو مارتا بھی رہا تھا اور ستاروں کا خیال بعد میں پیدا ہونا ان فلسفیو ںکے خیالات کی ایک کھلی تغلیط ہے۔
تیسری دلیل یہ ہے کہ انسان سانپ بچھو اور سورج چاند کو ہزاروں سال اپنے ارتقائی دو رمیں خدا نہ سمجھا اس کے بعد انہی اشیاء کو جن کو وہ پہلے معمولی وجود سمجھتا تھا خدا سمجھنے لگا تو اس ی وجہ خوف یا ہر اس نہیں ہو سکتی خوف و ہراس تو پہلے دن سے ہی اثر کرتے ہیں مگر ہزاروں سال کے معاملہ کے بعد اس خیال کا پیدا ہونا بتاتا ہے کہ اس کا سبب کچھ اور ہے اور وہ سبب در حقیقت اتفاقی حادثات سے تعلق رکھتا ہے جو انسان کے تو ہم اور اس کے ادھورے علم سے ملکر اسے صداقت سے پھرا کر غلط تعلیم کی طرف لے جاتا ہے افسوس کہ ان فلسفیوں نے علم النفس کو مطالعہ کر کے شرک کے مسئلہ پر غور نہ کیا ورنہ انہیں معلوم ہوتا کہ شرک کا مقام طبعاً توحید کے بعد ہی ہے پہلے نہیں۔ بھلا کونسا عقلمند مان سکتا ہے کہ انسان روزانہ سب جانوروں کو مرتے ہوئے دیکھ کر ایک دن اپنے مرنے پر خدا کے خیال کو ایجاد کر بیٹھا حالانکہ وہ پہلے بھی مرتا تھا اور اگر وہ ارتقائیوں کے خیال کے مطابق بندر کی قسم کی کسی جانور سے بنا ہے تو اس وقت بھی تو وہ مرتا تھا اور اس کے گردو پیش کے سب جانو رہی مرتے تھے موت تو اگر کوئی خیال پیدا کر سکتی تھی تو صرف یہ کہ دُنیا کی ہر چیز ایک عرصہ کے بعد اپنی قوت کھو کر بیکار ہو جاتی ہے نہ یہ کہ مرنے کے بعد کوئی اور زندگی بھی ہے۔ اگر ایسی زندگی کا خیال پیدا ہو سکتا ہے تو خوابوں سے ہو سکتا ہے اور جب دماغی خوابوں پر غلط خیالات کی بنیاد تسلیم کر لی جائے تو سچی خوابوں پر غلط خیالات کی بنیاد تسلیم کر لی جائے تو سچی خوابوں پر صحیح عقائد کی بنیاد تسلیم کرنا کچھ مشکل نہیں رہتا اور یہ سب جھگڑا ہی ختم ہو جاتا ہے۔
ایک اور ثبوت بھی اس کے رد میں میں پیش کرتا ہوں جو خود ان فلسفیوں کی تحقیقاتوں سے ہی ملتا ہے اور وہ ثبوت یہ ہے کہ تہذیبکے ادنیٰ ترین مقام پر جو قبائل اس وقت دنیا میں پائے جاتے ہیں اور مشرکانہ خیالات میں شدت سے مبتلا ہیں ان میں بھی ایک خدا کا خیال پایا جاتا ہے اور یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ توحید کا دور پہلا تھا کیونکہ ان کے حالات سے ثابت ہے کہ وہ باوجود ایک بڑے خدا کو ماننے کے اس کو پوجا نہیں کرتے۔ پوجا وہ اپنے قومی دیوتائوں کی ہی کرتے ہیں۔ آسٹریلیا مکسیکو افریقہ کے قبائل کی تحقیق جو کمپیریٹو ریلیجنز (Comparative Religions)والوں نے کی ہے اس میں تسلیم کیا ہے کہ ان اقوام میں ایک بڑے خدا کا خیال موجود ہے جو ان کے نزدیک نظر نہیں آتا اور آسمانو ںپر ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ عقلی طور پر ایسے انسان اس خیال کی طرف زیادہ راغب ہونگے جو پہلے پیدا ہوا یا بعد میں پیدا ہونے والے خیال کی طرف زیادہ راغب ہونگے ظاہر ہے کہ انسان پر وہی خیال زیادہ غالب ہوتا ہے جو آخر میں پیدا ہوا ہو۔ اب اگر ایک خدا کا خیال بعد میں پیدا ہوا تھا تو چاہیئے تھا کہ ان وحشی قبائل میں جو قدیم زمانہ کی یادگارہیں اس غیر مرئی خدا کی پرستش زیادہ کی جاتی اور ان خدائوں کی پرستش کم کی جاتی جو پہلے خیالات کا نتیجہ تھے کیونکہ ترقی یافتہ خیال غالب ہوا کرتا ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ واقعہ اس کے برخلاف ہے مکسیکو آسٹریلیا اور افریقہ کے ان وحشی قبائل میں جن میں ایک غیر مرئی اور سبس ے بڑے خدا کا خیال پایا جاتا ہے اس کی عبادت بالکل مفقود ہے یا نہ ہونے کے برابر ہے اور چھوٹے خدائوں اور قومی دیوتائوں کی پرستش وہ لوگ خوب کرتے ہیں جس سے صاف ثابت ہے کہ مشرکانہ خیالات توحید کے خیالات کے بعد پیدا ہوئے اسی لئے ان کی زندگی پر وہی غالب نظر آتے ہیں۔
اس امر کے ثبوت میں کہ غیر مہذب قدیم وحشی قبائل میں ایک غیر مرئی خالقِ کل خدا کا یقین پایا جاتا ہے میں مندرجہ ذیل مثالیں پیش کرتا ہوں مکسیکو کے قدیم باشندے قدیم ترین اقوام کے نمائندے سمجھے جاتے ہیں کمپیریٹو ریلیجنز کے محققین نے ان کی نسبت لکھا ہے کہ ان میں بھی یہ خیال موجود ہے کہ ایک خدا ایوونا ویلونا ہے جو سب کا خالق ہے اور سب پر محیط ہے اور سب باپوں کا باپ ہے۔ ابتداء میں جب کچھ نہ تھا ریلونا نے خیال کیا اور اس کے خیال کرنے کے بعد اس خیال سے نمو کی طاقت پیدا ہوئی اور وہ طاقت بڑھتے بڑھتے وسیع فضا کی صورت میں تبدیل ہو گئی اور اس سے خدا کی روشنی جلوہ گر ہوئی اور وہ فضاء سکڑنے لگی جس سے یہ چاند اور سورج اور ستارے بنے۔ اس خیال کو موجودہ مذاہب کے خیالات سے ملا کر دیکھو تو عجیب مشابہت معلوم ہوتی ہے بلکہ پیدائش عالم کے متعلق جو خیالات ہیں وہ تو موجودہ علم ہیئت کی تحقیق سے اور نیبولائی تھیوری سے ملتے جلتے ہیں۔
اس امریکن قدیم قبیلہ کے علاوہ افریقہ میں بعض نہایت وحشی قدیم غیر مہذب قبائل پائے جاتے ہیں یہ لوگ ایسے ابتدائی ہیں کہ ان کے دماغوں کی بناوٹ جانوروں سے بہت ملتی ہے اور بعض تو جوانی کا یاد کیا ہوا بڑھاپے میں بالکل بھول جاتے ہیں۔ ان قبائل میں بھی ایک سب کے خالق خدا کا خیال پایا جاتا ہے جسے ان کی زبان میں نینکمو کہتے ہیں۔
بابل کا زمانہ کیسا قدیم ہے ان میں بھی ایک خدا کا پتہ چلتا ہے چنانچہ بابل کے آثار قدیمہ میں سے ایک کتبہ ملا ہے جس پر لکھا ہے ’’اے دائمی بادشاہ تمام مخلوق کے مالک تو میرا خالق ہے اے بادشاہ تیرے رحم کے مطابق اے آقا جو تو سب پر رحم کرنے والا ہے تیری وسیع بادشاہت رحم کرنے والی رحم والی ہو۔ اپنی الوہیت کی عبادت کی محبت میرے دل میں گاڑ دے اور جو کچھ تجھے اچھا معلوم دیتا ہے وہ مجھے دے کیونکہ تو ہی ہے جس نے میری زندگی کو اس رنگ میں ڈھالا ہے‘‘ یہ کیسا اعلیٰ اور موجودہ مذاہب سے ملتا جلتا خیال ہے حالانکہ اس زمانہ کے بعد بابل مرکز شرک بن گیا تھا۔
اسی طرح کینیڈا کے قدیم باشندوں میں بھی ایک خدا کے عقیدہ کا پتہ چلتا ہے۔
پھر آسٹریلیا کا علاقہ جو چند صدیوں سے ہی دریافت ہوا ہے اور جہاں کے لوگ باقی دنیا سے بالکل منقطع ہو رہے تھے اور اس قدر وحشی اور خونخوار تھے کہ ان کا قریباً خاتمہ ہی کر دیا گیا ہے ان کے ایک قبیلہ کا نام آرنٹا ہے وہ ایک ایسے خدا کا قائل ہے جسے آلٹجیرا کہتے ہیں ان کا خیال ہے کہ چونکہ وہ حلیم ہے اس لئے سزا نہیں دیتا پس اس کی عبادت کی ضرورت نہیں۔
افریقہ کا ایک وحشی قبیلہ جسے زولو کہتے ہیں ان میں بھی یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ ایک غیر مرئی خدا ہے جو سب دنیا کا باپ ہے۔ اس کا نام ان کے نزدیک ان کو لنکز لو ہے۔
اسی طرح آسٹریلیا کے بعض اور قدیم باشندے نورینڈیئر کو شریعت دینے والا خدا سمجھتے ہیں۔ ووممبو ایک پرانا وحشی قبیلہ ہے وہ نوریلی کے نام سے ایک زبردست حدا کی پرستش کرتا ہے۔ افریقہ کا مشہور بنٹو قبیلہ نزا مبی نام خدا کو تمام دنیا کا پیدا کرنے والا اور بنی نوع انسان کا باپ قرار دیتا ہے۔
ان مثالوں سے یقینی طور پر ثابت ہو جاتا ہے کہ پرانے اور غیر مہذب قبائل میں مشرکانہ خیالات کے علاوہ اور قبائلی خدائوں کے علاوہ ایک خالق کل اور غیر مرئی غیر مادی خدا کا وجود بھی تسلیم کیا جاتا ہے او رپھر یہ بھی ثابت ہے کہ وہ اس غیر مادی۔ سب پر حاکم خدا کی پرستش یا تو کرتے ہی نہیں یا سب سے کم کرتے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ پہلے کسی وقت ان میں توحید کا خیال رائج تھا اس کے بعد مشرکانہ خیالات پیدا ہو گئے اور جھوٹے خدائوں نے ان کے دل میں سچے خدا کی جگہ لے لی اور توحید کے بعد شرک کا دور دورہ ہوا۔
خلاصہ یہ کہ اگر الہام کا وجود تسلیم کیا جائے اور بوجھ ہر زمانہ میں اس کا ثبوت ملنے کے اس کا انکار ایسا ہی ہے جیسے کہ سورج کا انکار کر دیا جائے تو ماننا پڑتا ہے کہ توحید کا خیال ابتداء سے تھا اور شرک کا خیال قومی زوال تاریخی زمانہ کی اقوام میں توحید کا خیال شرک کے خیالات سے پہلے کا ہے جس سے ماننا پڑتا ہے کہ جن اقوام کی تاریخ معلوم نہیں ان میں بھی توحیدشرک سے پہلے تھی۔ تیسرے یہ کہ قدیم اقوام کے جو نمونے اس وقت دنیا میں ملتے ہیں ان میں بھی ایک بڑے اور غیر مرئی خدا کا وجود پایا جاتا ہے مگر اس کی عبادت ان میں مفقود ہے جس سے معلوم ہوا کہ توحید کا خیال پہلا ہے اور شرک کے خیالات بعد کے ہیں تبھی پہلا خیال بعد کے خیالات سے دب گیا۔
ان فلسفیوں کو اس غلط خیال کی طرف ایک اور چیز نے بھی راہنمائی کی ہے۔ میں اس کا بھی ازالہ کردینا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ بائبل اور دوسری کتب میںانہوں نے جب یہ پڑھا کہ ہمارے قبیلہ کا خدا ایسا ہے اور ویسا ہے تو یہ نتیجہ نکالا کہ گو ایک خدا کا وجود ان میں پایا جاتا ہے مگر یہ خیال قبائلی خدا کے خیال سے ترقی پا کر بنا ہے حالانکہ یہ غلطی محض اس لئے لگی ہے کہ اسلام سے پہلے تمام مذاہب ایک ایک قوم کی طرف آتے تھے اور چونکہ وہ قبائلی مذاہب ہوتے تھے اپنی بول چال میں وہ لازماً ہمارے خدا اور ان کے خدا کے الفاظ بولتے تھے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ مذاہب الہامی نہ تھے بلکہ یہ محاورات محض اس وجہ سے پیدا ہوئے کہ مختلف اقوام کے مذاہب بھی مختلف تھے جاہل لوگ جو مذہب کی اس حقیقت سے ناواقف تھے یہ خیال کرتے تھے کہ جس خدا نے ہمیں مذہب عطاکیا ہے وہ اور ہے اور دوسروں کا خدا اور ہے حالانکہ خدا ایک ہی تھا صرف مختلف اقوام کے لحاظ سے اس نے ہر قوم کی ضرورت کے لحاظ سے مختلف تعلیم دی تھی اور یہ محاورات خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ تھے بلکہ قومی اختلافات سے دھوکہ کھا کر لوگوں نے ایسا سمجھا لیا تھا۔ یہوا وہی تھا جو ہندوستان میں برہما یا پرم ایشور کہلاتا تھا اور جو ایران میں یزدان کہلاتا تھا مختلف ناموں کی وجہ سے اور مختلف تعلیمات کی وجہ سے ان مذاہب کے جاہل پیروئوں نے ان کو الگ الگ خدا سمجھ لیا۔ مگر مذاہب کے بعض ناواقف ماننے والو ںکی غلطی سے یہ نتیجہ ہر گز نہیں نکالا جا سکتا کہ ایک خدا کا وجود ان میں نہ تھا اسلام نے اس غلطی پر سے پردہ اُٹھا دیا اور صاف کہہ دیا کہ اِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ الَّا خَلَا فِیْہَا نَذِیْرٌ (فاطر ع ۳) یعنی ہر قوم میں خدا تعالیٰ کے نبی گذر چکے ہیں۔ ہندوستان میں بھی اور ایران میں بھی اور کنعان میں بھی اور عرب میں بھی۔ اور ان ممالک کے مذاہب کے پاس جو کتب ہیں وہ سب خدائے واحد کی نازل کردہ تھیں۔ اس حقیقت کو نہ سمجھ کر ایک غلط عقیدہ کی بناء پر ایک تاریخی نتیجہ نکال لینا ایک صریح ظلم ہے قوم کے ناواقفوں یا مذہبی تعصب رکھنے والوں کی رائے پر حقائق کی بنیاد نہیں رکھی جاتی بلکہ اصل صداقت سے نتائج نکالے جاتے ہیں۔ اگر اس طرح بعض جاہلوں کی غلطیوں پر بنیاد رکھ کر صداقتیں معلوم کرنے کی کوشش کی جائے تو دنیا میں اندھیر پڑ جائے اور علم کی جگہ جہالت لے لے۔
مجھے تعجب آتا ہے ان لوگوں پر جو موسیٰ کے بعد ایک ترقی پذیر یہوا کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ موسیٰ سے پہلے حضرت ابراہیمؑ کا وجود گذر چکا ہے ان کی نسل سے ایک قوم عرب کی مکہ میں بستی تھی وہ عقیدتاً یہود کے خلاف تھی اور خطرناک مشرک تھی کہ کعبہ جیسے مقام میں جو توحید کا مرکز تھا اس نے بتو ںکی ایک فوج رکھ چھوڑی تھی بیرونی تہذیب کے اثر سے وہ بالکل غیر متاثر تھی ان میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کی وہ قوم جانی دشمن تھی ببانگ بلند یہ دعویٰ کیا کہ ان کے دادا ابراہیم وحد تھے مشرک نہ تھے چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے مَاکَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ (بقرہ ع ۱۶) ابراہیم مشرک نہ تھے بلکہ خالص موحد تھے مگر ان مشرکوں میں سے ایک بھی نہ بولا کہ ابراہیم تو مشرک تھے۔ باوجود شرک میں مبتلا ہونے کے وہ اس امر کو تسلیم کرتے تھے کہ ابراہیم علیہ السلام مشرک نہ تھے اور ایک بت کی نسبت بھی ان کا یہ عقیدہ نہ تھا کہ ابراہیم علیہ السلام اُس کی پوجا کیا کرتے تھے ایسی مشرک قوم کا ابراہیم کی نسبت تسلیم کرنا کہ وہ مشرک نہ تھے اور قرآن کریم کے بار بار اعلان کی کہ ابراہیم مشرک نہ تھے تردید نہ کرنا جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہے بتاتا ہے کہ عربو ںکا یہ عقیدہ تھا کہ ابراہیم مشرک نہ تھے بلکہ موحد تھے اور ان کی قدیم روایات اسی امر کی تصدیق کرتی تھیں اور ایسی قدیم روایات خصوصاً ایسی قوم کی جو بیرونی دُنیا کے خیالات سے متاثر نہ ہوئی تھی ایک زبردست ثبوت ہے اس امر کا کہ موسیٰ ؑ کے ظہور سے پہلے ایک خدا کا وجود دُنیا میں مانا جاتا تھا اور موسیٰ علیہ السلام کے آباء میں مانا جاتا تھا۔ پھر اس حقیقت کی موجودگی میں یہ کہنا کہ ایک خدا کا وجود یہود میں جو حضرت ابراہیم کے صدیوں بعد ہوئے اور ان کی اولاد ہونے کا دعویٰ کرتے تھے پایا نہ جاتا تھا اوری ایک یہود انامی دیوتا کے ڈر سے جس کی نسبت ان کا خیال تھا کہ وہ بڑا غیور ہے انہوں نے دوسرے دیوتائوں کو چھوڑ کر اس کی عبادت شروع کر دی اور اس طرح ایک خدا کا خیال پیدا ہوا کیسا بودا استدلال ہے۔
خلاصہ یہ کہ ایک خدا کا عقیدہ جسے ان آیات میں پیش کیا گیا ہے کہ کسی مشرکانہ عقیدہ کی ارتقائی کڑی نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے جس پر وہ دلائل و براہین جو اوپر بیان کئے گئے ہیں اور تاریخ اور تمام غیر مہذب اقوام کے حالات اس پر گواہ ہیںکہ توحید کا عقیدہ ہی اصل اور پرانا عقیدہ ہے اور شرک صرف قوموں کے زوال کی حالت میں پیدا ہوا ہے اور ابتدائی انسانی عقیدہ نہیں ہے۔
میں ان فلسفیوں کی محنت کے نتائج کا بالکل منکر نہیں ان کی ان تحقیقاتوں کو اس حد تک مان سکتا ہو ںکہ انہو ںنے شرک کے اسباب کو ایک حد تک دریافت کیا ہے اور جن اقوام میں شرک پھیلا ہے ان کے خیالات میں تنزل جس جس وجہ سے ہوا اس کی انہوں نے ایک حد تک تحقیق کی ہے مگر اس تحقیق سے یہ نتیجہ نکالنا کہ یہ شرک ایک خدا کے خیال کا موجب تھا بالکل درست نہیں اور ویسی ہی غیر معقول چھلانگ ہے جیسے کہ انسانی نسل کے ارتقاء کی نسبت انہو ںنے لگائی ہے اور دوسرے حیوانات اور انسان کی بناوٹ کی مناسبتوں اور ان کے باہمی اختلافات اور ان کے اور انسان کی بناوٹ کے اختلافات سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ انسان حیوانات کی زنجیر کی آخری کڑی ہے۔ جس طرح پیدائش کے ارتقاء کی ایک غائب کڑی کو نظر انداز کر کے انہوں نے غلط نتیجہ نکال لیا ہے اسی طرح اس بارہ میں بھی ایک غلط نتیجہ نکال لیا ہے اگر وہ اپنی تحقیق کا نام شرک کے اسباب کی دریافت رکھتے تو یہ ایک حد تک معقول ہوتا اور ان کے خیالات سے ہمیں جس حد تک کہ ان کا نتیجہ درست اور معقول ہوتا۔ اتفاق ہوتا۔







۲۴؎ حل لغات
رَیْب:۔ رَیْب کے لئے دیکھو سورہ بقرہ حل لغات ۳؎
نَزَّلْنَا:۔ نَزَّلَ (جو نَزَلَسے باب تفعیل ہے) سے جمع متکلم کا صیغہ ہے۔ اور نَزَّلَہٗ کے معنے ہیں صَیَّرَہٗ نَازِلًا۔ اس کو اُترنے والا کر دیا۔ یعنی اس حالت میں کر دیا کہ وہ اُترے۔ اور نَزَّلَ الْقَوْمَ کے معنے ہیں اَنْزَ لَھُمُ الْمَنَازِلَ لوگوں کو ان کی جگہوں پر اُتارا۔ نَزَّلَ الشَّیْئَ رَتَّبَہٗ کسی چیز کو مرتب کیا۔ نَزَّلَ الْعِیْرَ: قَدَّرَ لَھَا الْمَنَازِلَ قافلہ کے امام نے قافلہ کے لوگوں کے لئے جگہیں مقرر کر دیں۔ تَنْزِیْلٌ اصل میں آہستہ آہستہ اُتارنے کو کہتے ہیں چنانچہ لکھا ہے اَلتَّنْزِیْلُ یْکُوْنُ تَدْرِیْجِیًّا وَمِرَّۃً بَعْدَ مَرَّۃٍ وَالْاِ نْزَالُ اَعَمُّ مِنْہُ کہ تنزیل میں تدریجاً اور یکے بعد دیگرے اُترنا ہوات ہے لیکن لفظ انزال تنزیل سے عام ہے۔ اس میں یہ شرط نہیں (اقرب) مفردات میں ان دونوں میں فرق کرتے ہوئے لکھا ہے۔ وَالْفَرْقُ بَیْنَ الْاِنْزَالِ وَالتَّنْزِیْلِ اَنَّ التَّنْزِیْلَ یَخْتَصُّ بِالْمَوْ ضِعِ الَّذِیْ یُشِیْرَ اِلَیْہِ اِنْزَالُہٗ مُفَرَّقًا وَمَرَّۃً بَعْدَ اُخْرٰی وَالْاِ نْزَالُ عَامٌ کہ انزال اور تنزیل میں یہ فر قہے کہ تنزیل کا لفظ آہستہ آہست اُتارنے اور یکے بعد دیگرے اتارنے کے معنوں سے مخصوص ہے لیکن لفظ انزال (اُتارنا) عام ہے یعنی خواہ اکٹھا اُترے یا یکے بعد دیگرے۔ (مفردات)
عَبْدِنَا:۔ عَبَدَلَہٗ کے معنے ہیں تَاَلَّہٗ لَہٗ تمامتر کوشش کے ساتھ پرستش میں لگ گیا۔ اور عَبَدَاللّٰہَ کے معنی ہیں طَاعَ لَہٗ وَخَضَعَ وَ ذَلَّ وَخَدَمَہٗ وَالْتَزَمَ شَرَائِعَ دِیْنِہٖ وَ وَحَّدَہٗ یعنی اللہ کا فرمانبردار بن گیا اور اپنے آپ کو اسی ایک کا بنا کر اس کے احکام کا پابند ہو گیا (اقرب) العُبُوْدیَّۃُ اِظْہَارُ الْتَّذَلُّلِ وَالْعِبَادَۃُ اَبْلَغُ مِنْہَا لِاَنَّھَا غَایَۃُ التَّذَلَّلِ۔ عبودیت کے معنی عاجزی کے اظہار کے ہیں اور لفظ عبادت اس مفہوم کو ادا کرنے کے لئے زیادہ بلیغ ہے۔ کیونکہ اس کے معنے انتہائی عاجزی کرنے کے ہیں۔ وَلَا یَسْتَحِقُہَا اِلَّا مَنْ لَہٗ غَایَۃُ الْاِفْضَالِ وَھُوَ اللّٰہُ تَعالیٰ۔ اور انتہائی عاجزی اسی کے سامنے کی جا سکتی ہے جس کے انعام و اکرام بہت زیادہ ہوں اور ایسی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہی ہے۔ وَالْعَبَادَۃُ ضَرْبَانِ عِبَادَۃٌ بِالتَّسْخِیْرِ وَ عِبَادَۃٌ بِالْاِ خْتِیَارِ اور عبادت کی دو اقسام ہیں (۱) کسی چیز کا اپنے طبعی اعمال کے ذریعہ سے اظہار فرمانبرداری کرنا (۲) اختیاری عبادت اور یہ انسانوں کے ساتھ خاص ہے۔ وَالْعَبْدُ یُقَالُ عَلیٰ اَرْبَعَۃِ اَضْرُبٍ اور عبد کا لفظ چار طرح پر استعمال ہوتا ہے (۱) عَبْدٌ بِحُکْمِ الشَّرْعِ شریعت کی رو سے غلام جس کا بیچنا اور خریدنا جائر ہو ان معنوں کے اعتبار سے لفظ عبد کی جمع عبید ہو گی (۲) عَبْدٌ بِالْاِ یْجَادِوَ ذَالِکَ لَیْسَ اِلَّالِلّٰہِ پیدا کئے جانے کے باعث عبد کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے اور اس لحاظ سے عبد کی اضافت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف ہو گی کیونکہ خالق صرف وہی ذات ہے (۳) عَبْدٌ بِالْعِبَادَۃِ وَالْخِدْمَۃِ عبادت اور خدمت کے باعث عبد کا لفظ استعمال ہوتا ہے اس لحاظ سے لوگ دو حصوں میں تقسیم ہو جائیں گے (الف) جو محض اللہ تعالیٰ کے لئے عبادت کرنے والے ہیں یعنی عابد ان معنوں کے لحاظ سے اس کی جمع عِیَاد آتی ہی (ب) جو دُنیا کے غلام اور دُنیا دار ہوں (مفردات) مصنف تاج العروس کہتے ہیں قَالَ بَعْضُ اَئِمَۃِ الْاِ شْتِقَاقِ اَصْلُ الْعُبُوْدِیَّۃِ الذُّلُّ وَالْخُضُوْعُ یعنی علم اشتقاق کے بعض آئمہ نے کہا ہے کہ عبودیت کے اصل معنے عاجزی اور خضوع کے ہیں۔ وَقَالَ اٰخَرُوْن العُبُوْدَۃُ: اَلرِّضَا بِمَا یَفْعَلُ الرَّبُّ وَالْعِبَادَۃُ فِعْلُ مَایَرْضٰی بِہٖ الرَبُّ وَالْاَوَّلُ اَقْویٰ اور بعض آئمہ نے کہا ہے کہ عبودیت اللہ تعالیٰ کی قضا کے ساتھ راضی رہنے کو کہتے ہیں اور عبادت وہ فعل ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ راضی رہتا ہے لیکن بقول مصنف تاج العروس پہلے معنے زیادہ صحیح ہیں نیز اَلْعَابِدُ کے معنے ہیں اَلْمُوَحِّدُ توحید پرست اور التَّعْبِیْدَۃُ کے معنی ہیں اَلْعُبُوْدِیَّۃُ عاجزی کرنا۔ کہتے ہیں مَا عَبَدَکَ عَنِّیْ اَیْ مَا جَلَسَکَ کس چیز نے تجھ کو مجھ سے روکا اور جب عَبَدَبِہٖ کہیں تو اس کے معنے ہونگے لَزِمَہٗ وَلَمْ یُفَارِقْہُ اس کے ساتھ اس طرح چمٹ گیا کہ اس سے جدا نہ ہوا۔ قَالَ ابنُ الْاَنْبَارِیْ فُلَانٌ عَابِدٌ وَھُوَ الْخَاضِعُ لِرَبِّہِ الْمُسْتَسْلِمُ الْمُنْقَادُ لِاَمْرِہٖ ابن انباری کہتے کہ عابد کے معنے ہیں وہ شخص جو اپنے رب کے سامنے عاجزی کرنے والا ہو اور اس کے حکموں کے سامنے سر تسلیم خم کرنیوالا ہو وَالْمُتَعَبِّدُ اَلْمُنْفَرِدُ بِالْعِبَادَۃِ اور وہ شخص جو عبادت میں ہی لگا رہے اسے متعبد کہتے ہیں۔ (تاج العروس) الغرض عبد کے معنی کے اندر انتہائی عاجزی ’’تذلل‘ خضوع‘‘ توحید پرستی خدمت گذاری‘ کسی کے ساتھ چمٹ جانا اور مفارقت اختیار نہ کرنا اور دُنیا سے اپنے آپ کو روک کر اللہ کا ہی ہو جانیکی طرف اشارہ ہے۔
سُوْرَۃٌ:۔ کی تشریح کے لئے دیکھو حل لغات فاتحہ ۱؎
شُھَدَآء:۔ شَھِیْدٌ کی جمع ہے اور یہ شَھِدَ سے صفت مشبہ کا صیفہ ہے۔ شَھَادَۃٌ اور شُہُوْدٌ (جو شَہِدَ کے مصدر ہیں) کے معنی ہیں اَلْحُضُوْرُ مَعَ الْمُشَاھَدَۃِ اِمَّا بِالْبَصَرِ اَوْ بِالْبَصِیْرَۃِ کہ کسی واقعہ کے وقت حاضر ہو کر اس کا مشاہدہ کرنا خواہ وہ مشاہدہ ظاہری آنکھ سے ہو یا بصیرت سے وَقَدْ یُقَالُ لِلْحُضُوْرِ مُفْرَدًا اور کبھی صرف حاضر ہونے پر شَہَادَۃ اور شُہُوْد کالفظ بولا جاتا ہے وَالشَّہَادَۃُ قَوْلٌ صَادِرٌ عَنْ عِلْمٍ حَصَلَ بِمُشَاھَدَۃِ بَصِیْرَۃٍ اَوْ بَصَرٍ اور کسی واقعہ کے متعلق اس بیان کو جو ایسے علم کے ساتھ دیا جائے جو آنکھ کے ساتھ مشاہدہ کرنے یا بصیرت کے ذریعہ حاصل ہوا ہو شہادت کہتے ہیں۔ وَقَدْ یُعَبَّرُ بِالشَّھَادَۃِ عَنِ الْحُکْمِ وَالْاِ قْراَرِ اور کبھی شہادت کے لفظ سے مُراد کسی بات کا کا اقرار ہوتا ہے وَقَوْلُہٗ مَا شَہِدْنَا اِلَّا بِمَا عَلِمْنَا اَے مَا اَخْبَرْنَا اور آیت مَا شَھِدٰنَا… الخ میں شہادت سے مراد خبر ہے کہ ہمیں جس چیز کا علم تھا اسی کی خبر دی نیز شہادۃ کے معنے یقینی خبر کے کئے گئے ہیں وَادْعُوْا شُھَدَآئَ کُمْ کے معنے کرتے ہوئے لکھا ہے۔ قَالَ ابْنُ عَبَّاٍس مَعْنَاہُ اَعْوَالَکُمْ کہ ابن عباسؓ نے شُہَدَائَ کے معنے مددگاروں کے کئے ہیں وَقَالَ مُجَاھِدٌ الَّذِیْنَ یَشْہَدُوْنَ لَکُمْ اور مجاہد کے نزدیک شہداء سے مراد وہ لوگ ہیں۔ جو گواہی دیں وَقَالَ بَعْضُہُمْ اَلَّذِیْنَ یُعْتَدُّ بِحُضُوْرِ ھِمْ کہ شہداء ان لوگوں کو کہیں گے جن کی گواہی کی کوئی دقت سمجھی جائے (مفردات) اَلشَّھِیْدُ:۔ الشَّاھِدُ گواہ۔ اَلْاَمِیْنُ فِیْ شَہَادَتہِ:۔ سچی گواہی دینے والا۔ اَلَّذِیْ لَایَغِیْبُ عَنْ عِلْمِہٖ شَیْئٌ:۔ جس کے علم سے کوئی چیز پوشیدہ نہ ہو۔ (اقرب) پس وَادْ عُوْا شُہَدَآئَ کُمْ کے یہ معنے ہونگے (۱) کہ تم اپنے معاونوں اور دوستوں کو بلا لو۔ (۲) تم اپنے گواہوں کو بلا لو(۳) اپنے معبودوں کو بلا لو۔
دُوْن:۔ دُوْن کے ایک معنی غَیر کے ہیں۔ یعنی سوا (اقرب) پس دُوْن اللّٰہِ کے معنے ہونگے غَیْرُ اللّٰہِ یعنے اللہ کے سوا۔
تفسیر۔ اس اس آیت سے پہلی دو آیت میں قرآن کریم کا سب سے پہلا حکم حکم کی شکل میں نازل ہوا تھا۔ اس سے پہلے بیشک قرآنی خوبیاں اور متقیوں کے فرائض اور سورۃ فاتحہ میں مومنوں کی دعائوں۔ ارادوں او رکاموں کا ذکر ہوا تھا مگر انسان کو خداکی طرف سے مخاطب کر کے کوئی حکم نہ سورۃ فاتحہ میں بیان ہوا تھا اور نہ سورۂ بقرہ کی ان آیات میں جو اس سے پہلے گذر چکی ہیں اور یہ ایک طبعی امر ہے کہ انسان خطاب پر ہی اعتراض کی طرف مائل ہوتا ہے کیونکہ جب تک اسے مخاطب نہ کیا جائے وہ سمجھتا ہے کہ اس کلام سے مجھے کیا تعلق ہے لیکن جب اس کو مخاطب کیا جائے تو فوراً اس کی توجہ یا ماننے کی طرف یا غور کی طرف یا مقابلہ کی طرف مائل ہو جاتی ہے پس پہلے حکم کے بعد جو اس کا لازمی نتیجہ نکلا یعنے وہ رد عمل جو قرآن کریم کے حکم کو سن کر کفار کے دل میں پیدا ہوا اس کا ذکر آیت زیر تفسیر میں کیا گیا ہے اور وہ رد عمل یہ تھا کہ یہ کلام تو ہم کو کوئی ایسا اچھا معلوم نہیںہوتا اس نے تو ہمارے امن کو برباد کر دیا ہے اور ہمارے دلوں کو اس یقین سے بھی محروم کر دیا ہے جو اس سے پہلے ہم کو حاصل تھا اور شکوک و شبہات کا دروازہ کھول دیا ہے یہ استدلال جو میں نے کیا ہے اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلیٰ عَبْدِنَا کے الفاظ سے کیا ہے کیونکہ رَیْب کے معنے جب شک کے ہوں تو شک کی طرح اس کا صلہ بھی فی آنا چاہیئے مثلاً کہیں گے فِیْہِ رَیْبٌ یہ امر شک پیدا کرنے والاہے چنانہ قرآن کریم میں ہے اَنَّ السَّاعَۃ لَا رَیْبَ فِیْھَا (کہف ع ۳)موعود ساعت کے بارہ میں کوئی شک نہیں۔ اسی طرح فرماتا ہے وَالسَّاعَۃُ لَا رَیْبَ فِیْہَا (جاثیہ ع ۴) ساعت مقررہ کے آنے میں کوئی شک نہیں۔ قرآن کریم میں ایک اور جگہ پر مِنْ اس کے بعد استعمال کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِنَ الْبَعْثِ (حج ع ۱) مگر اس کے معنے بھی یہ کئے جاس کتے ہیں کہ اگر بَعْث کے مسئلہ کے سبب سے تم شکوک میں پڑ گئے ہو۔ یہ نہیں کہ بعث کے مسئلہ میں تم کو شک ہے کیونکہ کفار کو تو بعث کے بارہ میں شک نہ تھا بلکہ و ہ قطعی طو رپر اس کا انکار کرتے تھے۔
ریب اور شک میں یہ فرق ہے کہ شک انسان کرتا ہے لیکن ریب انسان نہیں کرتا بلکہ ریب کو ہمیشہ اس چیز کی طرف منسوب کیا جاتا ہے جس سے شک پیدا ہوا ہو مثلاً یہ تو کہیں گے کہ اَشُکُّ فِیْ ذَالِکَ میں اس معاملہ میں شک کرتا ہوں مگر یہ نہیں کہیں گے کہ اُرِیْبُ فِیْہِ بلکہ یُوں کہیں گے رَابَنِی یَا اَرَابَنِیْ ھٰذَا الْاَمْرُ اس بات نے مجھے شک میں ڈال دیا ہے۔ غرض کفار نے صرف قرآن کریم کے دعویٰ کے بارہ میں شک کا اظہار نہیں کیا بلکہ اس سے بڑھ کر یہ اظہار کیا ہے کہ (۱) قرآن کریم نے ہمارے شکوک کیا دُور کرنے تھے اس کے مضامین کی وجہ سے تو ہمارے دلوں میں بعض اور صداقتوں کے بارہ میں بھی جن کو ہم پہلے مانتے تھے شکوک پیدا ہونے شروع ہو گئے ہیں اور اس کتاب نے بجائے شک دور کرنے کے ہمارے دلوں میں شکوک پیدا کر دئے ہیں (۲) ہم پہلے تو محمد رسول اللہ کے دعویٰ کو قابلِ غور سمجھتے تھے اور اس پر غور کرنے پر تیار تھے لیکن جوں جوں قرآن نازل ہوا ہمارے دلوں میں اس کے مضامین کی وجہ سے اس کے دعویٰ کے بارہ میں شکوک کا سلسلہ بڑھنا شروع ہو گیا۔ گویا وہ قرآن پر دو اعتراض کرتے ہیں ایک یہ کہ اس کے مضامین اس غرض کو پورا نہیں کرتے جس کے لئے یہ نارل ہوا ہے۔ دوم یہ کہ اگر اسے مانا جائے تو کئی صداقتوں کو چھوڑنا پڑتا ہے اور بجائے صداقت کی طرف لے جانے کے یہ اور کئی صداقتوں سے دُور کر دیتا ہے۔
علامہ ابو البقاء مِمَّا نَزَّلْنَا کی ترکیب دو طرح کرتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ ریب کی صفت ہے یعنی تم ایسے ریب میں پڑ گئے ہو جو ہمارے بندے پر اُتارے گئے کلام سے پیدا ہوا ہے اور اس کی یوں تشریح کرتے ہیں کہ فِیْ رَیْبٍ کَائِنٍ مِنَ الَّذِیْ نَزَّلْنَا اور دوسرا مقام اس کا یہ بتاتے ہیں کہ مِمَّا نَزَّلْنَا ریب کا متعلق ہے اور معنے یہ ہیں کہ فِیْ رَیْبٍ مِنْ اَجْلٍ مَانَزَّلْنَا یعنے ایسے شک میں ہو جو ہمارے اُتارے ہوئے کلام کے سبب سے پیدا ہوا ہے علامہ ابو حیان اپنی تفسیر بحر محیط میں اس آیت کے ماتحت لکھتے ہیں۔ وَمِنٌ یَحْتَمِلُ اِبْتَدَائَ الْغَایَۃِ وَالسَّبَبیَّۃِ مِنْ کے معنے اس جگہ یہ ہیں کہ مَا نَزَّلْنَا سے شک پیدا ہوا ہے یا یہ کہ مَا نَزَّلْنَا شک کا باعث ہوا ہے۔
خلاصہ اوپر کے حوالوں کا یہ ہے کہ مِمَّا کے الفاظ نے اس امر پر دلالت کی ہے کہ جس شک کا ذکر اوپر ہوا ہے وہ قرآن کریم پر اعتراض کرنے والوں کے نزدیک قرآن کریم سے پیدا ہوا تھا اور ان کا یہ اعتراض اس جگہ بیان کیا گیا ہے کہ ہمیں تو قرآن کریم نے قلق اور اضطراب میں ڈال دیا ہے۔
اس آیت میں جو اِنْ کُنْتُمْ فِی رَیْبٍ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں یہ شک پر دلالت نہیں کرتے بلکہ کفار کے اعتراض کے جھوٹا ہونے پر دلالت کرتے ہیں کیونکہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ کفار کہتے ہیں کہ ہمیں تو اس قرآن نے شکوک میں ڈال دیا ہے ان کے اس دعویٰ کے جھوٹا ہونے کی طرف اشارہ کرنے کے لئے فرمایا کہ اگر تم کو قرآن کی وجہ سے شک ہوا ہے تو ایسا ایسا کرو یعنی تمہارا یہ دعویٰ کہ قرآن کی وجہ سے شک پڑ گیا ہے غلط ہے۔ چنانچہ عربی کا محارہ ہے کہ اِنْ کُنْتَ عَبْدِیْ فَاَطِعْنِیْ اگر تو میرا غلام ہے تو میری اطاعت بھی کر۔ یہ ایسے موقعہ پر بولا جاتا ہے کہ جب کوئی شخص جھوٹا دعویٰ کرتا ہے کہ میں تو آپ کا غلام ہوں۔ اس کے جواب میں وہ شخص جس کی غلامی کا دعویٰ قائل کرتا ہے کہتا ہے کہ اِنْ کُنْتَ عَبْدِیْ فَاَطِعْنِیْ یعنی تو اپنے اس قول میں کہ تو میرا غلام ہے جھوٹا ہے اگر سچا ہے تو پھر میری اطاعت بھی کر لیکن جبکہ تو اطاعت نہیں کرتا تو معلوم ہوا کہ صرف منہ سے غلامی کا دعویٰ کرتا ہے اسی مفہوم میں یہاں اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور مُراد یہ ہے کہ تمہارا یہ دعویٰ کہ تم کو قرآن کریم نے شک میں ڈال دیا ہے جھوٹا ہے اگر سچا ہے توپھر اس کا ثبوت اس طرح تم دے سکتے ہو کہ ایسی ہی ایک سورۃ بنا کر پیش کرو لیکن اگر تم ایسی سورۃ کے لانے کی کوشش بھی نہ کرو تو معلوم ہوا کہ تمہارا یہ دعویٰ کہ قرآن کریم نے تم کو شکوک میں ڈال دیا ہے باطل ہے اور صرف دفع الوقتی کے طور پر ہے ورنہ جو کلام اس قدر گندہ اور خراب ہو کہ اس سے دلوں میں شکوک پیدا ہو جاتے ہیں اس کی مثل تو ایک بچہ بھی لا سکتا ہے کجا یہ کہ تمام کفار اور ان کے انصار مل کر بھی اس کی مثل نہ لا سکیں بلکہ اس کی کوشش تک جرأت نہ کر سکے ہوں پس ان کے عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹے ہیں۔
اعتراض کرنا سہل ترین کام ہے جو کوئی شخص اپنے مد مقابل کے خلاف کر سکتا ہے۔ صداقت کے منکر ہمیشہ اعتراضوں تک ہی اپنے حملہ کو محدود رکھتے ہیں کبھی کوئی ٹھوس کام مقابل پر نہیں کرتے جس سے ان کے جوہر بھی ظاہر ہوں اور ان کے اعتراض کی حقیقت بھی ظاہر ہو۔ یہی حال قرآن کریم کے منکروں کا تھا۔ وہ قرآن کریم پر اعتراض تو کرتے تھے لیکن اس کے مقابل پر کوئی تعلیم ایسی پیش نہ کرتے تھے جو اس سے برتر تو الگ رہی اس کے برابر بھی ہو۔ آج تک قرآن کریم کے مخالفوں کا یہی حال رہا ہے مسیحی مصنف قرآن کریم پر اعتراض کرتے چلے جاتے ہیں لیکن اج تک اس مطالبہ کو پورا کرنے کی جرأت نہیں کر سکے۔ کہ اس کی مثل لائیں وہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم نے انجیل کا فلاں مسئلہ چرا لیا ہے۔ تو راۃ سے فلاں بات اڑا لی ہے زرد شتی کتب سے فلاں تعلیم اخذ کر لی ہے لیکن یہ جرأت نہیں کہ انجیل توراۃ اور زردشتی کتب میں سے مضامین لے کر خود کوئی کتاب ایسی بنا دیں جو قرآن کریم جیسی جامع ہو شہد پر انسان اعتراض تو آسانی سے کر سکتا ہے کہ مکھیوں نے پھولوں سے خوشبو اُڑا لی پھلوں میں سے مٹھاس چرا لی۔ مگر بات تو تب ہے کہ ویسا شہد بنا کر دکھا دے اچھی چیزوں کو مختلف جگہوں سے اڑا کر کوئی نئی اور اعلیٰ چیز بنا دینا بھی تو ایک کمال ہے اگر یہ آسان بات ہے تو معترض ویسا ہی کام کر کے کیو ںنہیں دکھا دیتے۔ مگر یہ جواب بطور تنزل ہے۔ ورنہ قرآن کریم کا دعویٰ یہ ہے کہ اس میں وہ سب صداقتیں بھی موجود ہیں جو پہلی کتب میں پائی جاتی ہیں چنانچہ فرماتا ہے فِیْہَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ (البیہ) اس میں سب قائم رہنے والی صداقتیں جو زمانہ کے لحاظ سے منسوخ کرنے کے قابل نہ تھیںموجود ہیں اور اس کے علاوہ فرماتا ہے وَیُعَلِّمُکُمْ مَّالَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ (بقرہ ع ۱۸) یعنی یہ رسول تم کو وہ کچھ سکھاتا ہے جو تم پہلے نہ جانتے تھے۔ یعنی اس کی تعلیم صرف انہی اچھی تعلیمات پر مشتمل نہیں جو پہلی کتب میں پائی جاتی ہیں بلکہ اس سے زائد اس میں ایسی باتیں بھی ہیں جو پہلے دنیا کو معلوم نہ تھیں۔ اسی طرح فرماتا ہے فَاِذَٓا اَمِنْتُمْ فَاذْکُرُواللّٰہَ کَمَا عَلَّمَکُمْ مَالَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ (بقرہ ع ۳۱) یعنی جب تم امن میں آ جائو تو اللہ تعالیٰ کو ان صفات سے یاد کرو جو خدا تعالیٰ نے اس قرآن کریم کے ذریعہ سے تم کو سکھائی ہیں اور جن کا علم اس سے پہلے تم کو حاصل نہ تھا اِس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ قرآن کریم میں صفات الٰہیہ کا ایسا زائد علم دیا گیا ہے جو اس سے پہلے دنیا کو حاصل نہ تھا۔ اسی طرح فرماتا ہے کہ قرآن کریم میں بعض متشابہات ہیں یعنی ایسے امور ہیں جو پہلی کتب سے ملتے جلتے ہیں۔ اور بعض محکمات ہیں یعنی ایسے امور ہیں کہ جو دوسری کتب کے علاوہ ہیں اور فرماتا ہے ھُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وہی اس کتاب کی ماں ہیں یعنی وہی اس کے نزول کا سبب ہیں (آل عمران ع ۱) اسی طرح فرماتا ہے یَمْوُا اللّٰہُ مَا یَشَٓائُ وَیُثْبِتُ وَعِنْدَہٗٓ اُمُّ الْکِتٰبِ (رعد ع ۶) یعنی کفار اعتراض کرتے ہیں کہ یہ شخص پہلی کتب کے خلاف تعلیم لایا ہے اور یہ اس کے جھوٹا ہونے کی دلیل ہے تو ان سے کہدے کہ ہر قوم کے لئے ایک وقت مقرر ہے جب وہ وقت پورا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس تعلیم کے بعض حصوں کو جو اسے دی گئی تھی مٹا دیتا ہے اور بعض حصے رہنے دیتا ہے اور اس کے پاس وہ احکام محفوظ ہیں جو اس کے زمانہ کے لئے ضروری ہیں اور جو نئے نبی کو دیئے جاتے ہیں۔ پس ان کا اعتراض فضول ہے۔ پہلی کتب کے مفید حصوں کو بھی ہم نے لے لیا اور ان کے علاوہ وہ نئی تعلیم جو پہلے زمانہ کے مناسب حال نہ تھی اور اسی زمانہ کے مناسب حال تھی وہ بھی تجھ کو عطا کر دی۔
خلاصہ یہ کہ قرآن کریم پہلی کتب کی مفید تعلیم اخذ کرنے کا تو خود اقرار کرتا ہے مگر وہ اس کے علاوہ اس اس سے زائد نئی تعلیمات کے پیش کرنے کا بھی دعویٰ دار ہے پس صرف چند متشابہ باتو ں کو پیش کر کے اعتراض کرنا خلاف دیانت ہے جسے دعویٰ ہو کہ قرآن کریم صرف چوری کے مضامین پر مشتمل ہے وہ پہلی کتب سے مضامین اخذ کر کے قرآن کریم کی مثل پیش کر دے اور پھر دیکھے کہ کیا اس کی محنت ان مضامین کا ہزارواں حصہ بھی پیش کرتی ہے جو قرآن کریم نے پیش کئے ہیں۔
اس آیت کا تعلق پہلی آیات سے یہ ہے کہ شروع سورۃ میں کہا گیا تھا کہ لَارَیْبَ فِیْہِ اس میں کوئی بات ریب والی نہیں جب تمام بنی نوع انسان کو ایک خدا کی پرستش کی طرف بلایا گیا اور مخالفین قرآن کی رگ حمیت بھڑکی تو انہوں نے یہ اعتراض کر دیا کہ تم ہمیں کیا دعوت دیتے ہو تمہارا دعویٰ تو یہ ہے کہ اس کتاب میں کوئی ریب والی بات نہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اس کتاب نے شروع میں ہی وہ تعلیم دے دی ہے کہ جو شکوکو و شبہات کا دروازہ کھول دیتی ہے یعنی ایک خدا کی تعلیم دیتی ہے حالانکہ توحید کا مسئلہ (ان کے خیال کے مطابق) بالکل باطل ہے۔ اس قسم کی تعلیم کو سن کر تو ہم کو مذہب پر ہی شکوک و شبہات شروع ہو جاتے ہیں کہ کوئی یقینی سے یقینی بات بھی اعتراض سے محفوظ نہیں۔ پھر مذہب کا کیا فائدہ ہوا اور اس سے کیا تسلی حاصل ہوئی۔
اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب یہ دیا کہ (۱) فَاتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ (۲) وَادْ عُوْا شُھَدَآئَ کُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ تم دو کام کرو اوّل تو اس قسم کیکوئی سورۃ بنا لائو یعنے جو مضامین اس سے پہلے سورۃ بقرہ میں بیان ہوئے ہیں اس قسم کے مطالب پر مشتمل کوئی کلام پیش کر دو اور دوسرے یہ کہ اپنے شہداء کو پکارو۔
اوپر کی تشریح سے ظاہر ہے کہ اس جگہ جس بات کا مطالب کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ سورۃ بقرہ کی پہلی آیات میں جو مضمون گذرا ہے اسے مدنظر رکھتے ہوئے کوئی سورۃ ایسی لے آئو جو اس معیار کو پہنچتی ہو جو ان مضامین میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کے یہ معنے نہیں کہ باقی قرآن کریم کی مثل لوگ لا سکتے ہیں بلکہ یہ حجت ملزمہ ہے کہ قرآن کریم میں جو اور اصول بیان ہوئے ہیں ان کی مثال تو تم نے کیا لانی ہے ان چند آیات میں بیان کردہ مضمون کے مطابق ہی کوئی سورۃ لے آئو کیونکہ وہی تمہارے اعتراض کا موجب ہوئے ہیں۔
اب ہم دیکھتے ہیںکہ اس اعتراض سے پہلے قرآن کریم میں کیا مضامین گذرے ہیں تو ہمیں پہلی آیت میں ہی جس میں لَا رَیْبَ فِیْہِ کہا گیا ہے اور جس کی بناء پر کفار نے اپنے ریب کا ذکر کیا ہے یہ مضامین نظر آتے ہیں (۱) ذٰلِکَ الْکِتٰبُ (الف) یہ موعود کتاب ہے یعنے پہلے انبیاء نے ایک کامل کتاب کی خبر دی تھی یہ وہی ہے اور اس کے ذریعہ سے ان انبیاء کی پیشگوئیاں پوری ہوتی ہیں (باء) یہ ایک کامل کتاب ہے اس میں تمام ضروری امور جو روحانی تکمیل کے لئے ضروری ہیں بیان ہیں (ج) یہ کتاب اس دُعا کو پُورا کرنے والی ہے جو سورۃ فاتحہ میں سکھائی گئی ہے یعنی اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ ہمیں سیدھا راستہ دکھا وہ راستہ جو منعم علیہ گروہ یعنے انبیاء صدیقوں شہداء اور صالحین کو دکھا گیا تھا (تفصیل کے لئے دیکھو نوٹ ۷؎ سورۃ فاتحہ زیر آیت اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ)
(۲) لَا رَیْبَ فِیْہِ یعنے (الف)اس میں کوئی بات ایسی بیان نہیں کی گئی جو فی الحقیقت قلق و اضطراب پیدا کرنے والی ہو بلکہ یہ ہر امر کے لئے دلائل و براہین مہیا کرتی ہے اور ہر گناہ اور نیکی کے اسباب بتا کر بدی کا دروازہ بند کرتی۔ اور نیکی کے لئے راستہ کھولتی ہے (باء) اس میں کوئی بات ایسی بیان نہیں کی گئی جس سے خدا تعالیٰ پر یا کسی راستباز انسان پر یا کسی سچی تعلیم پر کوئی تہمت لگائی گئی ہو (ج) اس سے کوئی بات ایسی نہیں رہ گئی جس کا بیان کرنا روحانی تکمیل کے لئے ضروری ہو (د) اس میں کوئی تعلیم ایسی نہیں دی گئی کہ جو انسان کو مشقت یا ہلاکت میں ڈالتی ہو۔ اس کے بعد کی آیات میں مندرجہ ذیل امور بیان ہوئے ہیں۔
(۳) ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ یہ صرف انسان سے ہی اعمال حسنہ کا مطالبہ نہیں کرتی بلکہ وعدہ کرتی ہے کہ جو لوگ اس کی تعلیم پر چلیں گے انہیں خدا تعالیٰ اپنے وصال کے مقام پر پہنچائے گا اور اپنے قریب میں جگہ دے گا اور اپنے منشاء سے انہیں مطلع فرمائے گا۔
(۴) اس کا ضد سے انکار کرنے والے خدا تعالیٰ کے عذاب میں مبتلا ہونگے۔
(۵) جو لوگ اس سے اخلاص کا معاملہ نہ کریں گے خواہ عقیدہ کے لحاظ سے یا اخلاص عمل کے لحاظ سے وہ بھی آسمانی سزائوں میں مبتلا ہونگے۔
(۶) یہ ذاتِ باری کے متعلق سچی اور مدلل تعلیم پیش کرتی ہے۔
یہ وہ امو رہیں جو اس آیت سے پہلے گذر چکے ہیں اور مثل کا مطالبہ وہی سورہ پورا کر سکتی ہے جو ان تمام امور پر مشتمل ہو مگر ظاہر ہے کہ ان امور میں مثل کا مطالبہ پورا کرنا انسانی طاقت سے بالا ہے ایسی مثل تو وہی کتاب پیش کر سکتی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہو۔
چونکہ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ میں ایک ایسا دعویٰ قرآن کریم کی نسبت کیا گیا تھا کہ جو انسان کے بس کا ہی نہیں بلکہ اسے صرف خدا تعالیٰ ہی پورا کر سکتا ہے اس لئے آخر میں یہ بھی فرما دیا وَادْ عُوْا شُھَدَآئَ کُمْ تم اپنے معبودوں کو بھی بلا لو کہ وہ تم کو الہام کریں کیونکہ ایک دعویٰ اس کتاب کا یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعہ سے آسمانی الہام کا دروازہ کھلے گا۔
یہ وہ مطالعہ ہے جو اس آیت میں کیا گیا ہے اس میں زبان کی خوبی میں شامل ہے کیونکہ اگر زبان اعلیٰ نہ ہو تو مطلب واضح نہیں ہوتا اور شک پیدا ہوتا ہے پس جب یہ فرمایا اس میں کوئی امر ایسا نہیں جو قلق و اضطراب پیدا کرے تو اس میں یہ دعویٰ بھی آ گیا کہ اس کی زبان بھی نہایت اعلیٰ درجہ کی ہے اور اس کا کلام فصیح و بلیغ ہے۔ لیکن اس آیت کے یہ معنے کرنے کہ اس میں صرف اس امر کا مطالبہ ہے کہ قرآن کریم جیسی فصیح و بلیغ عبارت پیش کرو درست نہیں اور سمندر میں سے ایک قطرہ لے کر پیش کرنے والی بات ہے قرآن کریم کا مطالبہ وسیع ہے اور صرف زبان پر مشتمل نہیں اور نہ زبان کا یہاں کوئی ذکر ہے زبان کا ذکر تو لَارَیْبَ فِیْہِ سے ہی نکل سکتا ہے مگر اس میں بھی اور مطالب کا ذکر ہے اور یہ درست نہیں کہ لَارَیْبَ فِیْہِ کے ایک معنی کو لے لیا جائے اور باقی معانی کو چھوڑ دیا جائے اور نہ یہ درست ہے کہ صرف لَارَیْبَ فِیْہِ کے حصہ کو لے لیا جائے اور باقی مطالب جن کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے ان کو چھوڑ دیا جائے۔
خلاصہ یہ کہ قرآن کریم میں کفار کے اس اعتراض کا کہ ہمیں تو قرآن کریم کے مضامین سے اور بھی شبہات دین پر پیدا ہونے شروع ہو گئے ہیں اور یا یہ کہ قرآنی مضامین کی وجہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں اور بھی شبہات پیدا ہو گئے ہیں ایسا منہ توڑ جواب دیا ہے کہ نہ اس سے کوئی اس سے پہلے عہدہ برا ہو سکا ہے اور نہ آیندہ کوئی ہو سکتا ہے۔ باقی رہے اعتراض تو وہ لوگ پہلے بھی کرتے چلے آئے ہیں اور پھر بھی کرتے چلے جائیں گے جب تک انسانوں میں تقویٰ سے خالی لوگ موجود ہیں اس وقت تک یہ سلسلہ ختم نہیں ہو سکتا۔ ہاں تعصب سے خالی ہو کر کوئی شخص اس مطالبہ کو پورا کرنے کی کوشش کرے تو اسے اپنے عجز کے اقرار کے سوا کوئی چارہ نہ ہو گا چنانچہ قرآن کریم اگلی آیت میں خود ہی فرماتا ہے کہ تم لوگ اس کی مثل نہ قریب زمانہ میں نہ آیندہ کسی زمانہ میں لا سکو گے۔
قرآن کریم میں یہ مثل کا مطالبہ پانچ جگہ ہوا ہے۔ اور میرے نزدیک پانچوں جگہ میں اس کا مفہوم جدا جدا ہے ایک تو اسی آیت میںجس کی تفسیر اوپر بیان کی گئی ہے۔ دوم سورہ یونس ع ۴ میں۔ وہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرَاہُ قُلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّثْلِہٖ وَادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَoسوم:۔ سورۃ ہود ع ۲ میں جہاں فرماتا ہے اَمْ یَقُوْ لُوْنَ افْتَرَاہُ قُلْ فَاْ تُوْابعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِہٖ مُفْتَرَیَاتٍ وَادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَoچہارم سورہ بنی اسرائیل ع ۱۰ میں۔ وہاں آتا ہے۔ قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٓیٰ اَنْ یَاْتُوْا بِمِثْلِ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ لَایَاْ تُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْ کَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْرًاoپنجم سورۃ طور ع ۲ میں وہاں آیا ہے۔ اَمْ یَقُوْ لُوْنَ تَقَوَّ لَہٗ بَلْ لَّا یُؤْمِنُوْنَ فَلْیَاْ تُوْا مَجِدِیْثٍ مِّثْلِٓہٖ اِنْ کَانُوْا صَادِقِیْنَo
ان پانچوں جگہوں میں سے سورہ بقرہ اور سورہ یونس میں تو ایک ہی قسم کا مطالبہ ہے۔ باقی تین جگہ میں علیحد علیحد مطالبے کئے گئے ہیں۔ چنانسہ سورہ بنی اسرائیل میں سارے قرآن کریم کی مثال کا مطالبہ کیا گیا ہے اور فرمایا ہے کہ اگر سارے جن و انس بھی اکٹھے ہو جائیں تو قرآن کی کی مثال نہیں لا سکیں گیح سورۃ ہود میں فرمایا ہے اگر تم سچے ہو تو دس سورتیں اپنے پاس سے بنا کر خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کر کے شائع کرو۔ سورہ بقرہاور سورہ یونس میں ایک سورۃ کا مطالبہ ہے اور سورہ طور میں ایک سورۃ کی بھی شرط نہیں ہے خواہ وہ ایک بات ہی بنا کر لے آئیں اب بظاہر یہ بات عجیب نظر آتی ہے کہ کہیں سارے قرآن کا مطالبہ ہے کہیں دس سورتوں کا مطالبہ ہے اور کہیں ایک سورۃ کا اور کہیں ایک ہی بات پر اکتفا کی گئی ہے اور طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ فرق کیوں ہے بعض لوگوں نے یہ کہا ہے کہ ترتیب نزول کے لحاظ سے ایسا ہوا ہے۔
پہلے سارے قرآن کی مثال کا مطالبہ کیا۔ جب وہ نہ لا سکے تو دس سورتوں کا مطالبہ کیا۔ جب وہ بھی نہ لا سکے تو پھر فرمایا کہ ایک سورۃ ہی لے آئو۔ جب وہ بھی نہ لا سکے تو پھر فرمایا کچھ ہی لے آئو۔ خواہ ایک بات ہی ہو۔ میرے نزدیک اس میں کچھ استباہ معلوم ہوتا ہے اس لئے کہ ان سورتوں میں سے کہ جن میں اس مضمون کا ذکر آیا ہے نزول کے لحاظ سے سب سے پہلے سورہ طور ہے اور اس میں قرآن کریم کی بجائے بِحَدِیْثٍ مِّثْلِہ ہے۔ یعنی اس جیسا کوئی کلام لے آئو اور شرط ایک سورۃ کی بھی نہیں رکھی گئی۔ خواہ وہ کلام ایک سورۃ سے بھی کم ہو۔ پس عقلاً یہ بتا عجیب معلوم ہوتی ہے کہ سورۃ طور میں تو بغیر مقدار مقرر کرنے کے مثل کا مطالبہ کیا گیا ہو۔ اور اس کے بعد سورۃ بنی اسرائیل میں پورے قرآن کا مطالبہ کیا گیا ہو اور بعد میں اس مطالبہ کو گرا کر دس سورتوں میں اور پھر دس سورتوں سے گرا کر ایک سورۃ میں محصور کر دیا گیا ہو۔
دوسرے یہ کہ یہ کوئی واقعہ تو ہے نہیں کہ ہم اس سے عبرت پکڑیں بلکہ ایک چیلنج ہے جو ہم نے دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے اب ہم دُنیا کے سامنے کیا پیش کریں آیا یہ کہ سارا قرآن لائو یا یہ کہ دس دسورتیں لائو یا ایک سورۃ یا ایک بات لائو اگر یک آیت کا مطالبہ کافی ہے تو ایک سورۃ کا مطالبہ کیوں کریں۔ اور اگر ایک سورۃ کا لانا کافی ہو سکتا ہے تو دس سورتوں کا مطالبہ کیوں کریں۔ اور اگر دس سورتوں کا لے آنا کافی ہے تو سارے قرآن کی مثل لانے کے لئے کیوں کہیں۔ میرا اپنا یہ خیال ہے کہ اس میں ترتیب نکالنے کی ضرورت نہیں۔ اوّل تو اِن میں سے بعض سورتیں یسے قریب قریب کے زمانہ کی نازل شدہ ہیں کہ ان کی صحیح ترتیب کا پتہ لگانا مشکل ہے۔ دوسرے قرآن کریم کی تنزیل اس طرح نہیں ہوئی کہ ایک وقت میں ایک ہی سورۃ نازل ہوئی ہو۔بلکہ قریب قریب نازل ہونے والی سورتیں بعض دفعہ ایک ہی وقت میں تین تین چار چار نازل ہوتی جاتی تھیں اور اِن میں سے ایک کو پہلی کہنا اور دوسری کو بعد کی کہنا اس لحاظ سے تو گو درست ہو کہ ایک کی آخری آیت پہلے اور دوسری کی آخری آیت پیچھے نازل ہوئی ہو لیکن ایک کی سب آیتوں کے متعلق کہنا کہ یہ پہلے نازل ہوئی ہیں اور دوسری کی سب آیتوں کے متعلق یہ کہنا کہ یہ پیچھے نازل ہوئی ہیں درست نہیں ہو سکتا پس میرے نزدیک ان آیتوں میں ایسے مطالبات ہیں جو ترتیب نزول کے حل کرنے کے محتاج نہیںہیں اور سب کے سب ایک ہی وقت میں آج بھی اس طرح پیش کئے جا سکتے ہیں جس طرح کہ زمانہ نزول میں پیش کئے جا سکتے تھے۔
پیشتر اس کے کہ میں ان مختلف تحدیوں کی تشریح کروں جو ان آیات میں مذکور ہیں۔ میں اس عجیب بات کی طرف توجہ پھرانی چاہتا ہوںکہ یہ چیلنج جس جس جگہ کے لئے ہیں اُن کے ساتھ ہی مال و دولت اور طاقت و قدرت کا بھی ذکر آیا ہے سوائے سورہ بقرہ کے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں کوئی نیا چیلنج نہیں ہے بلکہ سورۃ یونس کے چیلنج کو سورۃ بقرہ کے مضامین کی ضرورت کے لحاظ سے دہرایا گیا ہے (سورۃ یونس مکیہے اور سورۃ بقرہ مدنی ہے) اسلئے اس میںاس ذکر کو غیر ضروری سمجھ کر چھوڑ دیا گیا ہے اس کے سوا باقی سب سورتوں کو دیکھ لو۔ سب میں مال و دولت یا طاقت و قدرت کا ذکر ہے سورۃ یونس میں اس مطالبے سے چند آیات پہلے آیا ہے۔ قُلْ مَنْ یَّرْزُ قُکُمْ مِّنَ السَّمآئِ وَالْاَرْضِ اَمَّنْ یَّمْلِکَ السَّمْعَ وَالْاَ بْصَارَ وَ مَنْ یُّخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الٰحَیِّ وَمَنْ یُّدَبِّرُالْاَ مْرَ فَسَیَقُوْلُوْنَ اللّٰہُ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَoگویا دعویٰ کیا ہے کہ سب خزانے اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں خواہ و رزق کے ہوں یا قوائے طبعیہ کے یا قوائے عملیہ کے ہوں یا مختلف قوتوں کو ایک نظام میں لانے کے متعلق ہوں۔اور پھر اس کے بعد فرمایا قُلْ ھَلْ مِنْ شُرَکَائِ کُمْ مَنْ یَبْدَئُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ قُلِ اللّٰہُ یَبْدَؤُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ فَاَنّٰی تُؤْ فَکُوْنَ قُلْ ھَلْ مِنْ شُرَکَآئِ کُمْ مَنْ یَّھْدِٓیْ اِلَی الْحَقِّ قُلِ اللّٰہُ یَھْدِیْ لِلْحَقِّ۔ اَفَمَنْ یَّھْدِیْٓ اِلَی الْحَقِّ اَحَقُّ اَنْ یُتَّبَعَ اَمَّنْ لَّایَھِدِّیْٓ اِلَّا اَنْ یُّھْدٰی فَمَا لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُوْنَoاس میں بھی طاقت و قوت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ پپر سورۃ طور میں تحدی کے بعد فرماتا ہے۔ اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَیْرِ شَیْئِ اَمْ ھُمْ الْخَالِقُوْنَo اَمْ خَلَقُوا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بَلْ لَّا یُوْقِنُوْنَo اَمْ عِنْدَ ھُمْ خَزَآئِنُ رَبِّکَ اَمْ ھُمْ الْمُصَیْطِرُوْنَo یہاں پر بھی دولت اور حکومت اور طاقت و قدرت کا ذکر کیا گیا ہے۔
سورۃ ہود کی آیت سے پہلے بھی لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ کَنْزٌاَوْ جَآئَ مَعَہٗ مَلَکٌ آیا ہے۔ سورۂ بنی اسرائیل میں تحدی کے بعدآیا ہے وَقَا لُوْا لَنْ نُّؤْ مِنَ لَکَ حَتّٰی تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَتْبُوْعًا اَوْ تَکُوْنَ لَکَ جَنَّۃٌ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْاَ لْھٰرَ خِلٰلَھَا تَفْجِیْرًا اَوْ تُسْقِطَ السَّمَآئَ کَمَا زَعَمْتَ عَلَیْنَا کِسَفًا اَوْ تَاْتِیَ بِاللّٰہِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ قَبِیْلًاo اَوْیَکُوْنَ لَکَ بَیْتٌ مِّنْ زُخْرُفٌ اَوْ تَرْقٰی فِی السَّمٓائٍ اس جگہ بھی مال و دولت اور طاقت و قوت کا ہی ذک رہے۔ غرض چاروں جگہ پر ایک ہی قسم کا مطالبہ بیان ہوا ہے یا مطالبہ کا ذکر نہیں۔ لیکن مطالبہ کا جواب دیا گیا ہے۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ خزانوں کے سوال اور مطالبہ مثل میں کوئی گہرا تعلق ہے۔ اور وہ یہی تعلق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو خزانہ قرار دیا ہے اور مخالفین کے خزانہ کے مطالبہ کا یہ جواب دیا ہے کہ اس کا اصل خزانہ قرآن کریم ہے اور لَوْلَا اُنْزِلَ عَلَیْہِ مَلَکٌ کا بھی یہی جواب دیا ہے کہ ملائکہ ظاہری مقابلوں کے لئے نہیں اُترتے بلکہ کلام الٰہی لے کر اُترا کرتے ہیں اور وہ اس پر نازل ہو چکا ہے پس یہ کہنا کہ اس پر ملک نہیں اُترا یا یہ کہ اُترنا چاہیئے بے معنی قول ہے اور ایسی چیز کا مطالبہ ہے جو پہلے سے حاصل ہے۔ پھر چونکہ ملائکہ کا اُترنا یا روحانی خزانہ کا حصول بظاہر ایک دعویٰ معلوم ہوتا ہے جس کا ثبوت نہیں اس کے لئے خود قران کریم کے بے مثل ہونے کو پیش کیا ہے کہ یہ اپنی صداقت کی آپ دلیل ہے اور اس کے اندر ایسے دلائل موجود ہیں جو اسے لاثانی خزانہ اور منجانب اللہ کلام ثابت کرتے ہیںاور یہ جو فرق کیا ہے کہ جس جگہ زیادہ کلام کا مطالبہ ہے اس جگہ کفار کی طرف سے خزانوں یا ملک کا مطالبہ ہے اور جس جگہ تھوڑے کلام کی مثل کا مطالبہ ہے اس جگہ خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ سوال کیا گیا ہے کہ کیا یہ کفار خزانوں کے مالک اور قانونِ قدرت کے متولی ہیں سو اس کی وجہ یہ ہے کہ جن مقامات پر پورے قرآن یا دس سورتوں کا مطالبہ ہے اس جگہ سوال ایسا ہے جو کفار کے ذہن میں آ سکتا تھا اور موٹا تھا۔ پس ان کے سوال کو پیش کر کے اس کا جواب دے دیا گیا ہے لیکن بعض پہلو قرآن کریم کے بے مثل ہونے کے ایسے رہ جاتے ہیں جن کے متعلق سوال کرنے کا بھی کفار کو خیال نہیں آ سکتا تھا اگر ان کابیان کرنا بھی کفار کے سوالات پر منحصر رکھا جاتا تو وہپہلو پوشیدہ ہی رہتے۔ اس لئے ان پہلوئوں کو قرآن کریم نے خود سوال پیدا کر کے بتا دیا اور اس طرح قرآن کریم کی تکمیل کے سب پہلوئوں کو روشن کر دیا۔ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَo
اب میں تفصیل کے ساتھ ایک ایک مطالبہ کو الگ الگ لے کر بتاتا ہوں کہ کس طرح اِن آیات میں قرآن کریم کی مختلف خوبیوں کے مقابلہ کی دعوت دی گئی ہے او رہر جگہ کے مناسب حال زیادہ یا کم کلام کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ سب سے بڑا مطالبہ سارے قرآن کی مثل لانے کا ہے اور یہ سورۃ بنی اسرائیل میں ہے اس مطالبہ میں یہ شرط نہیں رکھی گئی۔ کہ جس کلام کو منکر پیش کریں اسے اللہ تعالیٰ کی طرف بھی منسوب کریں بلکہ جائز ہے کہ ان کا پیش کردہ کلام مفتریات میں سے نہ ہو اور ان کا صرف یہ دعویٰ ہو کہ گو ہم نے یہ کلام خود بنایا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہے لیکن یہ کلام قرآن کریم کی مثل یااس سے بڑھ کر ہے۔ چونکہ مثل کی حد بندی بھی ضروری تھی کہ وہ کلام کس امر میں مثل ہو۔ اس لئے اس کی تشریح بھی خود کر دی اور فرمایا کہ وَلَقَدْ صَرَّ فْنَا لِلنَّاسِ فِیْ ھٰدَا الْقُرْاٰنِ مِنْ کُلِّ مَثِلٍ فَاَبٰٓی اَکْثَرُ النَّاسِ اِلَّا کَفُوْرًا اس کلام میں ہر پہلو سے لوگوں کے فائدہ کے لئے ہر اک ضروری دینی امر پر روشنی ڈالی گئی ہے لیکن پھر بھی بہت سے لوگ اس کے انکار پر مصر ہیں۔ یہی چیز ہے جس میں مثل کا مطالبہ کیا گیا ہے اگر فی الواقع وہ اس کلام کو انسانی کلام سمجھتے ہیں تو ان چار خوبیوں والا کلام پیش کریں جو اپنی خوبیوں میں قرآن کریم کے برابر ہو (۱) اس میں ہر ضروری دینی مسئلہ پر روشنی ڈالی گئی ہو یعنی اعتقادات۔ فلسفۂ اعتقادات۔ صفات باری اور فلسفۂ ظہور صفات باری۔ علم کلام۔ عبادات۔ فلسفۂ عبادات علم اخلاق۔ فلسفۂ اخلاق۔ معاملات۔ فلسفۂ معاملات۔ مدنیت اقتصادیات۔ سیاسیات کا جو حصہ مذہب سے تعلق رکھتا ہے اور اس کا فلسفہ معاد اور اس کے متعلق تمام امور وغیرہ وغیرہ۔ سب امور ضرور یہ پر اس میں روشنی ڈالی گئی ہو (۲) وہ بحث جو ان امور کے متعلق کی گئی ہو سیر کن ہو نہ صرو وسعت کے رُو سے احاطہہو یعنی سب علوم کے متعلق کچھ نہ کچھ بحث ہو بلکہ حق کی گہرائی کا بھی احاطہ ہو اور ہر مسئلہ کے ہر پہلو کو پیش کر کے اس میں ہدایت دی گئی ہو (۳) وہ تمام تعلیم باوجود اپنی وسعت اور باریکی کے مضرت رساں نہ ہو بلکہ اس میں نفع ہی نفع ہو (۴) اس میں کسی ایک قوم یا طبقہ کے فائدہ کو مدنظر نہ رکھا گیا ہو بلکہ تمام بنی نوع انسان کی فطرت کو مدنظر رکھا گیا ہو اور ہر قسم کی طبیعت او رہر قسم کے حالات اور ہر درجہ اور ہر فہم کے انسان کے متعلق اس میں ہدایت موجود ہو۔
چونکہ قرآن کریم ابھی مکمل نہیں ہوا تھا اس لئے یہ نہیں فرمایا کہ تم ابھی اس کی مثل لے آئو بلکہ یہ فرمایا ہے کہ نہ لا سکو گے یعنی نہ اس کی موجودہ حالت میں اور نہاس وقت جب یہ مکمل طو رپر نازَ ہو جائے گا حق یہی ہے کہ قرآن کریم نے ایسے رنگ میں روحانی امور پر بحث کی ہے کہ اوپر کے چاروں امو رکے مقابلہ میںاس قدر کلام میں بھی کوئی شخص اس کی کوئی مثل نہیں لا سکتا تھا جو اس وقت تک نازل ہو چکا تھا۔ اور اس وقت کے لحاظ سے قرآن کہلاتا تھا۔
اس آیت کے مطالب میںایک اور امر کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے جس کا بیان کرنا فائدہ سے خالی نہ ہو گا اور وہ یہ کہ اس میں علم الارواح کے ماہرین کو بھی جنہیں انگریزی میں سپر یچولسٹ کہتے ہیں مخاطب کیا گیا ہے اور جن سے مُراد وہی ارواح ہیں جن سے تعلق پیدا کر کے روحانیت کی باریکیاں معلوم کرنے کے علم الارواح کے علماء مدعی ہیں اور بتایا ہے کہ قرآن کریم کی مثل نہ تو انسان خود لا سکتے ہیں اور نہ پوشیدہ ارواح کی مدد سے لا سکتے ہیں جن کی مدد کا ان کو دعویٰ ہے اس جگہ جن سے مراد وہ جنات نہیں کہ جو عوام الناس میں مشہور ہیں کیونکہ اِن کی مدد سے کلام لانے کا مطالبہ ایک مہمل بات ہو جاتی ہے نیز اس آیت سے پہلے وَیَسْئَلُوْ نَکَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِرَبِّیْ بھی مذکور ہے جس سے ظاہر ہے کہ اس جگہ ارواح کا ہی ذکر ہے نہ کہ جنات کا (تفصیل کے لئے دیکھو اس آیت کی تفسیر بنی اسرائیل رکوع ۱۰ میں)
دوسری آیت جس میں کفار کا یہ اعتراض بیان کیا ہے کہ اس کے پاس خزانہ اور ملک نہیں۔ اس کے جواب میں فرمایا کہ اگر یہ درست ہے تو تم دس سورتیں مفتریات کی اس کے مقابلہ میں لے آئو۔ پس اس جگہ سورتوں کو بطور خزانہ کے پیش کیا اور مفتریات کا مطالبہ کر کے بتایا ہے کہ اگر اس کا دعویٰ وحی یا ملائکہ کا جھوٹا ہے اور اس کے ساتھ ملائکہ نہیں آئے تو تم بھی زیادہ نہیں تو دس سورتیں ایسی پیش کرو جن کے متعلق دعویٰ ہو کہ ملائکہ نے باذن الٰہی ہم پر اُتاری ہیں پھر دیکھو کہ تمہارا کیا انجام ہوتا ہے اور اگر تم میں یہ جرأت نہیں کہ تم ایسا جھوٹا دعویٰ کر سکو تو محمد رسول کی نسبت کس طرح خیال کر سکتے ہو کہ اس قدر افتراء کر رہا ہے۔ اور اگر افتراء کر رہا ہے تو پھر خدا تعالیٰ کی گرفت سے محفوظ کیوں ہے غرض اس جگہ عقلی مقابلہ کے ساتھ آسمانی مقابلہ کو بھی شامل کیا گیا ہے اور یہ جو اس جگہ فرمایا کہ دس سورتیں ایسی لائو اس کی یہ وجہ ہے کہ اس جگہ قرآنکریم کیہر رنگ میں مکمل ہونے کا دعویٰ نہ تھا بلکہ کلام بعض القرآن کے متعلق تھا یعنی مخالف معترض تھا کہ اس کے بعض حصے قابل اعتراض ہیں جیسا کہ آیت فَلَعَلَّکَ تَارِکٌ بَّعْضَ مَایُوْحٰٓی اِلَیْکَ سے ظاہر ہے اور اسی طرح کفار کے اس سوال سے بھی ظاہر ہے کہ اس کے پاس خزانہ اور ملک نہیں۔ پس اس جگہ سارے قرآن کے مقابلہ کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ یہ مطالبہ کیا ہے کہ تم قرآن میں جو بھی کمزور سے کمزور حصہ سمجھتے ہو اس کے مقابلہ میں دس سورتیں بنا کر پیش کردو تا تمہارے دعویٰ کی آزمائش ہو جائے۔
دس کا عدد اس واسطے استعمال کیا کہ یہ عدد کامل ہے اور چونکہ معترض کے دعویٰ کو رد کرنا تھا اس وجہ سے اس کو دس سورتیں بنانے کو کہا کہ تم کو ایک مثال نہیں دس مثالیں بنانے کی اجازت دیتے ہیں پس یہاں دس کا لفظ اس لئے نہیں رکھا گیا کہ وہ ایک سورۃ تیار کر سکتے تھے بلکہ اس لئے کہ ان کے اس اعتراض کو دُور کرنے کا بہترین ذریعہ یہی تھا کہ انہیں کئی مواقع اعتراض کے دیئے جاتے۔ اور سب اس لئے نہیں کہا کہ اس وقت جن معترضوں کا ذکر تھا وہ صرف بعض حصوں کو قابل اعتراض قرار دیتے تھے سب کو نہیں۔ غرض سورۃ بنی اسرائیل میں چونکہ تکمیل کا دعویٰ تھا اس میں قرآن شریف کی مثل کا مطالبہ کیا گیا۔اور سورۃ ہود میں چونکہ کفار کے اس اعتراض کا جواب تھا کہ بعض حصے غیر معقول ہیں اس لئے فرمایا کہ دس ایسے حصے جو تمہارے نزدیک سب سے کمزور اور قابل اعتراض ہوں تم انہی کے مقابل میں کوئی کلام بنا کر پیش کردو تاکہ کفار یہ نہ کہیں کہ ہمیں صرف ایک اعتراض کا حق دیا تھا اور اس کا مقابلہ کرنے میں ہم سے غلطی ہو گئی۔
تیسرا مقام جس میں قرآن کریم کی بے مثلی کا دعوی ہے سورۃ یونس ہے اس میں ایک سورۃ کا مطالبہ کیا ہے جو پہلے دونوں مطالبوں سے کم ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ مطالبہ اپنے ایک دعویٰ کے ثبوت کے لئے تھانہ کہ کفار کے اعتراض کی تردید میں۔ اس جگہ اس آیت سے پہلے دعویٰ کیا گیا تھا کہ سب تصرف اللہ تعالیٰ کے احتیار میں ہے اور اس کے ثبوت میں قرآن کریم کو پیش کر کے اس کے متعلق پانچ دعوے کئے تھے وَمَا کَانَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ اَنْ یُّفْتَرٰی مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلٰکِنْ تَصْدِیْقَ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِ وَ تَفْصِیْلَ الْکِتٰبِ لَارَیْبَ فِیْہِ مِنْ رَّبِ الْعَالَمِیْنَoیعنی اوّل اس میں ایسی تعلیم ہے جسے انسان بنا ہی نہیں سکتا۔ دوم پہلی کتب کی اس میں تصدیق ہے۔ سوم اس میں پہلی کتب کے نامکمل احکام کو مکمل کیا گیا ہے۔ چہارم یہ کلام بالکل محفوظ اور انسانی دست بُرد سے پاک ہے۔ پنجم اس کی تعلیم تمام قسم کے انسانوں اور تمام زمانوں کے لئے ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ اگر یہ سچ نہیں تو پھر تم بھی ایک سورۃ ایسی بنا کر پیشکردو جس میں وہ پانچ باتیں جو بیان کی گئی ہیں ایسے مکمل طو رپر بیان ہوں جیسی کہ اس سورۃ یعنی سورۃ یونس میں بیان کی گئی ہیں لیکن اگر ایک سورہ کے مقابلہ میں بھی تم کوئی کلام پیش نہ کر سکو تو پھر سمجھ لو کہ سارے کلام میں کس قدر کمالات مخفی ہونگے اور ان کا بنانا انسانی طاقت سے کس قدر بالا ہو گا۔ غرضکہ اس جگہ مِثْلِہٖ سے مراد ان پانچ کمالات کی مثل والا کلام ہے جو سورۃ یونس میں بیان کئے گئے ہیں۔
اب رہی آخری آیت یعنی فَلْیَاْ تُوْا بِحَدِیْثٍ مِّثْلِٓہٖ اِنْ کَانُوْا صَادِقِیْنَ (سورۂ طور ع ۲) اگر تم سچے ہو تو کوئی ایسی ہی بات پیش کر کے دکھائو۔ میرے نزدیک اس آیت میں سب سے چھوٹا مطالبہ ہے اور وہ صرف ایک مثال کا ہے خواہ وہ ایک سورۃ سے بھی چھوٹی ہو اور یہ مطالبہ بھی اپنے دعویٰ کے ثبوت میں ہے نہ کہ کفار کے دعویٰ کے رد میں اور وہ دعویٰ وہی ہے جو اس سورۃ کے شروع میں کیا گیا ہے یعنی وَالطُّوْرِ وَ کِتَابٍ مَّسْطُوْرٍ فِیْ رَقٍّ مَنْشُوْرٍ وَّالْبَیْتِ الْمَعْمُوْرِ وَالسَّقْفِ الْمَرْ فُوْعِ وَالْبَحْرِ الْمَسْجُوْرِ اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ لَوَاقِعٌ مَّالَہٗ مِنْ دَافِعٍ۔ یعنی یہ کتاب جس کا وعدہ کوہِ طور پر دیا گیا تھا اور جو لکھی جائے گی اور اسلام جس کے متبعین کی تعداد بہت بڑھ جائے گی اور نہ صرف عوام بلکہ اعلیٰ طبقہ کے لوگ روحانی و جسمانی فضائل والے اس میں داخل ہونگے اور یہ روحانیت کا چشمہ جو مختلف ملکوں کو سیراب کرے گا ان دونوں امور کو ہم بطور قیامت کی دلیل کے پیش کرتے ہیں۔ اس ذکر کے بعد فرمایا کہ کیا یہ لوگ اس کلام کو بناوٹی کہتے ہیں اگر ایسا ہے تو جو جو اور جس جس قسم کی پیشگوئیاں اوپر پیش کی گئی ہیں ان کی مانند یہ بھی ایک پیشگوئی پیش کر دیں اور مفتریات کی بھی ہم شرط نہیں لگاتے انہیں اجازت ہے کہ چاہیں تو پچھلی الہامی کتب سے ہی کوئی ایسی مثال نکال کر پیش کر دیں۔ مگر یاد رکھیں کہ یہ اس کی نظیر کہیں سے نہیں لا سکتے۔ اس مطالبہ میں خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرنے کی بھی کوئی شرط نہیں اور نہ یہ شرط ہے کہ اپنے پاس سے کوئی پیشگوئی کریں بلکہ اجازت دی ہے کہ خواہ خود بنالیں یا پچھلی کتب سے جو خواہ الہامی ہو خواہ غیر الہامی نکال کر پیش کر دیں اور پھر مطالبہ بھی نہایت چھوٹا رکھا ہے کہ ایسی ایک ہی پیشگوئی پیش کر دیں حالانکہ قرآن کریم میں اور بھی عظیم الشان پیشگوئیاں ہیں اور پھر دشمن کے عاجز رہنے کی وجہ سے بتا دی ہے کہ ایسی پیشگوئی کے بیان کرنے کے لئے تو زمین اور آسمان کے خالق اور خزانوں کے مالک اور نگران اور روحانی ترقی کے مالک اور غیب کے مالک کی ضرورت ہے اور یہ باتیں ان میں موجود نہیں پس یہ کیونکر اس کی مثل بنا سکتے ہیں۔
دوسرے حصے کو یعنی پہلی کتب سے مثال نہ لا سکنے کے دعویٰ کو رد کرنا ضروری نہیں سمجھا کیونکہ وہ کتب سچی تھیں صرف درجہ کا سوال تھا یہ مطالبہ بھی باقی مطالبوں کی طرح اب تک قائم ہے۔
اب کیا کوئی انسان خواہ کسی مذہب کا ہو۔ سورۃ طور کی اس آیت کی مثل لانے کا دعویٰ کر سکتا ہے؟ اگر ہے تو آگے آ کر اُسے پیش کرے۔
پانچواں مطالبہ سورۃ بقرہ کا ہے جس کی تشریح اوپر گذر چکی ہے۔
اوپر کی تشریحات سے یہ امر ثابت ہے کہ در حقیقت یہ پانچوں مطالبے الگ الگ ہیں اور سب ایک ہی وقت میں قائم ہیں کوئی مطالبہ کسی دوسرے مطالبہ کو منسوخ نہیں کرتا۔ اور سب غلطی اِسی امر سے لگی ہے کہ خیال کر لیا گیا ہے کہ جہاں جہاں مثل طلب کی گئی ہے وہاں صرف فصیح عربی کی مثل طلب کی گئی ہے اور سب آیتو ںمیں ایک ہی مطالبہ ہے حالانکہ معاملہ بالکل برعکس ہے ان پانچ سورتوں میں ایک ہی مطالبہ نہیں بلکہ مختلف مطالبے ہیں اور ہر مطالبہ کے مناسب حال پورے قرآن یا بعض قرآن کی مثل طلب کی گئی ہے۔
اوپر کی تشریح سے یہ دھوکا نہیں کھانا چاہیئے کہ مثل کا مطالبہ انہی سورتوں تک محدود ہے جن میں اس دعویٰ کو پیش کیا گیا ہے کیونکہ گو ایک جگہ سارے قرآن کی مثل لانے کا ایک جگہ دس سورتوں کی مثل لانے کا اور ایک جگہ اِس دعویٰ کی مثل لانے کا مطالبہ ہے جو سورہ طٰہ کے شروع میں بیان کیا گیا ہے اور سورہ یونس کا مطالبہ بھی اسی مضمون کے متعلق ہے جو سورہ یونس میں بیان ہوا ہے مگر سورہ بقرہ کا مطالبہ عام ہے کیونکہ سورہ بقرہ کے شروع میں جو مضمون ہے وہ ساری سورتوں میں مشترک ہے۔ قرآن کریم کی ہر ایک سورۃ گذشتہ انبیاء کی پیشگوئیوں کو پورا کرنے والی ہے۔ (دیکھو سورہ فاتحہ میں بسم اللہ کا نوٹ ۲؎) اسی طرح سب کی سب سورتیں ریب والی تعلیم سے پاک ہیں اور سب ہی ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ ہیں پس اِس سورۃ میں جو مطالبہ ہے وہ باقی ساری سورتوں کے متعلق بھی ہے اور کسی ایک سورۃ کی مثل بھی اگر کوئی ان شرائط کے مطابق لے آئے جو سورہ بقرہ کے شروع میں بیان ہوئی ہیں اور جو شخص ایسی کوشش بھی کرے گا مُنہ کی کھائے گا۔ ایک جاہل شخص نے جو عربی بھی صحیح طور پر نہ لکھ سکتا تھا چند سال ہوئے تمسخر کے رنگ میں قرآن کریم کی مثل پیش کی تھی آج اس کا نام و نشان بھی کہیں باقی نہیں اور قرآن کریم کے پیش کردہ امو رمیں صرف ایک امر کو لے لیا جائے یعنی ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ کو تو اس کا دعویٰ مثل کا جھوٹا ہو جاتا ہے کیونکہ اس کا تو ماننے والا دُنیا میں کوئی بھی نہیں پھر وہ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ کیونکہ ہوئی۔ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ کے الفاظ کتاب کے الہامی ہونے پر بھی دلالت کرتے ہیں اور قرآن کریم فرماتا ہے کہ جو الہام کا جھوٹا دعویٰ کرے تباہ کر دیا جاتا ہے کسی زمانہ میں مسیلمہ کذاب نے بھی جھوٹے الہام کا دعویٰ کیا تھا مگر چند ہی سال میں ہلاک ہوا اور اس کی تباہی نے اور قرآن کریم کے قائم رہنے نے بتا دیا کہ اس کا پیش کردہ کلام قران کریم کی مثل نہ تھا۔ امام رازیؒ نے ایک مضحکہ خیز کلام اس کا نقل کیا ہے جو اس نے سورۃ الکوثر کے مقابل پر پیش کیا تھا جو یہ ہے اِنَّا اَعْطَیْنَاکَ الْجَمَاھِرَ فَصَلِّ لِرِبِّکَ وَ ھَاجِزْ اِنَّ مُبْغِضَکَ رَجُلٌ کَافِرٌ۔ اس کلام کو مثل قرار دینا کسی مجنون کا کام ہے یہ تو اس سے بھی احمقانہ فعل ہے جیسے کوئی شخص غالب اور میر کی غزلوں کو لے کر اس میں بعض الفاظ بدلکر غالب او رمیر کے مدمقابل ہونے کا دعویٰ کرے قرآن کریم کی ہی سورۃ میں سے بعض الفاظ بدلکر ایک کلام پیش کرنا اور وہ بھی معنے اور مطلب سے عاری حالانکہ سورہ کوثر زبردست پیگوئیو ںپر مشتمل ہے جن میں سے بہت سی غیر معمولی حالات میں پوری ہو چکی اور بعض پوری ہونے والی ہیں ایک مجنون ہی کا کام ہو سکتا ہے اور بعض مسیحی مصنفوں کا اس پوچ عبارت کو قرآن کریم کی سورہ کے مدمقابل پیش کرنا یقینا ان کے تقویٰ کو اچھی شکل میں پیش نہیں کرتا۔ مگر میں پھر کہتا ہوں قرآن کریم کا دعویٰ ہر سورۃ کے بارہ میں ہے کہ اس پر قیامت تک عمل کیا جائے گا مگر مسیلمہ کا کلام کہاں ہے اور اُسے کون مانتا ہے؟
مِمَّا نَزَّلْنَا… الخ اس آیت کے متعلق ایک یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ بعض مفسرین نے کفار کے شبہ کی وجہ نَزَّلْنَا کے باب تفعیل سے ہے اور باب تفعیل میں ایک خاصیت آہستہ آہستہ یا بار بار فعل کے صدور کی پائی جاتی ہے اس لئے مراد یہ ہے کہ اے کفار اگر تم کو قرآن کے آہستہ آہستہ اور ٹکڑے ٹکڑے کر کے نازل ہونے پر اعتراض ہے اور تمہارے نزدیک سارا قرآن اکٹھا اُترتا تو اور بات تھی مگر وہ چونکہ آہستہ آہستہ پیش کیا جا رہا ہے اور آہستہ آہستہ پیش کرنے میں اس کے مصنف کو آسانی رہتی ہے کہ جوں جوں واقعات پیش آتے جاء…ں وہ ان کے مطابق کلام بناتا جاتا ہے اسل ئے وہ معجزانہ کلام نہیں ہو سکتا تو ہم تم کو کہتے ہیں کہ تم ایک ٹکڑا ہی قرآن جیسا بنا دو اگر تم ایک ٹکڑا ہی بنا سکے تو تمہارا اعتراض درست ہو گا ورنہ نہیں۔ معنًی تو یہ استنباط لطیف معلوم ہوتا ہے لیکن عربی زبان کے قواعد کے لحاظ سے یہ امر درست نہیں ثابت ہوتا کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ باب تفعیل میں تکرار اور کثرت کا مفہوم پایا جاتا ہے جن کے مجرد کا صیغہ متعدی ہو مثلاً ضَرَبَ کا لفظ ہے اس کے معنی ہیس کسی کو مارا یہ متعدی ہے اس کو اگر ضَرَّبَ بنا دیا جائے تو اس میں تکرار اور شدت کے معنے پیدا ہو جائیں گے اور ضَرَبَ کے معنے اگر مجرد مارنے کے ہوں گے تو ضَرَّبَ کے معنے بار بار اور خوب مارنے کے ہوں گے۔ یا ذَبَحَ کا لفظ ہے اس کے معنے کسی کو ذبح کرنے یا ہلاک کرنے کے ہوتے ہیں اگر ذَبَّحَ کہیں گے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ اسے بار بار ذبح کیا یعنی ایک ہی وار میں ذبح نہیں کر دیا بلکہ بار بار چھری پھیر کر آہستہ آہستہ ذبح کیا مگر نَزَلَ جو نَزَّلَ کا مجرد ہے اس کے معنے اُتارنے کے نہیں ہوتے بلکہ اُترنے کے ہوتے ہیں یعنی وہ لازم ہے متعدی نہیں اس صورت میں نَزَّلَ کی زاء کا دوبارہ لانا صرف اسے متعدی بنائے گا بار بار یا آہستہ آہستہ اُتارنے کے معنے نہ دے گا۔ کیونکہ عربی زبان کا اصل قاعدہ یہ ہے کہ جب کوئی حرف زیادہ کیا جائے تو وہ کچھ نہ کچھ زیادتی معنوں میں کرتا ہے اور اس جگہ لازم کو متعدی بنا کر زیادتی حرف نے اپنی غرض کو پورا کر دیا ہے۔ اس امر کا مزید ثبوت کہ خالی نَزَّلَ کے لفظ سے یہ استدلال نہیں ہو سکتا اس امر سے بھی ہو سکتا ہے کہ کفار کا یہ اعتراض کہ قرآن کریم کیوں ایک ہی دفعہ نہیں اُتارا گیا جس آیت میں بیان کیا گیا ہے اس کے الفاظ یہ ہیں۔ وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُ وْالَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْاٰنُ جُمْلۃً وَّاحِدَۃً (فرقان ع ۳) یعنی کفار کہتے ہیں کہ کیوں اس پر سارا قرآن ایک ہی دفعہ نہیں اُتارا گیا اور اس آیت میں بھی نُزِّلَ زاء کی تضعیف سے استعمال ہوا ہے پس کم سے کم اس آیت میں نَزَّلَ (بِتَشْدِیْدالزَّائِ) سارے قرآن کے اکٹھا نازل ہونے کے معنوں میں استعمال ہؤا ہے پس جب اکٹھا اُتارنے کے لئے بھی تنزیل کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو اس آیت سے یہ استدلال کرنا کہ اس جگہ قرآن کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اُتارنے پر اعتراض ہے درست ثابت نہ ہوتا کیونکہ کفار کے مُنہ سے اللہ تعالیٰ نے اس اعتراض کو بیان کرتے وقت اُنْزِلَ کا لفظ بیان نہیں کیا بلکہ نُزِّلَ کا لفظ بیان فرمایا ہے پس اس آیت سے یہ استدلال درست نہیں معلوم ہوتا لیکن اس کے یہ معنے نہیں کہ نَزَّلَ تشدید کے ساتھ کہیں بھی آہستہ آہستہ اُترنے کے معنوں پر دلالت نہیں کرتا۔ کیونکہ بعض جگہ پر اس لفظ کے بعد مصدر بھی لایا گیا ہے جیسے نَزَّلْنَاہُ تَنْزِیْلًا کہا گیا ہے (بنی اسرائیل ع ۱۲) جس سے یہ غرض پوری ہو گئی ہے اور مصدر کی زیادتی نے وہ معنے پیدا کر دئے ہیں مگر بہرحال آیت زیر تفسیر میں بار بار اور آہستہ اُترنے پر اعتراض نہیں بلکہ توحید کے مضمون پر اعتراض ہے جو اس آیت سے پہلے بیان ہؤا ہے اور مراد یہ ہے کہ توحید کی تعلیم نے دلوں میں قسم قسم کے شک پیدا کر دیئے ہیں۔







۲۵؎ حل لغات
فَاتَّقُوْا:۔ باب افتعال سے امر جمع کا صیغہ ہے اور اِتَّقٰی۔ یَتَّقِیْ کے لئے دیکھو حل لغات سورہ بقرہ ۳؎
وَقُوْدُھَا:۔ اَلْوَقُوْدُ:۔ مَا تُوْ قَدُبِہِ النَّارُ مِنَ الْحَطَبِ۔ایندھن جس سے آگ جلائی جاتی ہے (اقرب)
الحِجَارَۃُ:۔ الحَجَرُ کی جمع ہے اور الحَجَرُ کے معنی ہیں الجَوْھَرُ الصُّلْبُ پتھر (مفردات) اس کی جمع اَحْجَارٌ بھی آتی ہے اور حَجَرَانٍ سونے اور چاندی کو کہتے ہیں (اقرب)
اُعِدَّتْ:۔ اَعَدَّ سے ماضی مجہول مؤنث کا صیغہ ہے اور اَعَدَّہٗ لاَمْرٍکَذَا کے معنی ہیں ھَیَّأَہُ وَاَحْضَرَہٗ اس کو اس کے لئے تیار کیا اور حاضر کیا (اقرب) پس اُعِدَّتْ کے معنے ہونگے وہ تیار کی گئی ہے اور حاضر رکھی گئی ہے۔
اَلْکَافِرِیْنَ: الکافِرُ کی جمع ہے اور یہ کَفَرَ کا اسم فاعل ہے مزید تشریح کے لئے دیکھیں حل لعات سورۂ بقرہ ۷؎
تفسیر۔ فرماتا ہے کہ اگر تم اس دعویٰ کا مقابلہ نہ کر سکو اور قرآن کریم کی کسی سورۃ کی مثل نہ لا سکو اور وہ امور جو یہاں بیان کئے گئے ہیں اپنے کلام میں بتا نہ سکو اورتم ایسا کبھی نہ کر سکو گے تو سمجھ لو کہ یہ کلام خدا تعالیٰ کا ہے اور تم انسان کا نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا مقابلہ کر رہے ہو اور اس صورت میں تم کو اِس سزا کے بھگتنے کے لئے بھی تیار ہو جانا چاہیئے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی صداقتوں کا مقابلہ کرنے والو ںکو ملتی ہے۔
ولن تفعلوا کے معنے یہ بھی ہیں کہ تم ایسا ہر گز نہ کر سکو گے اور یہ بھی کہ تم ایسا نہیں کرو گے۔ دوسرے معنوں کے رُوسے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ گو کفار خدا تعالیٰ کے ساتھ بعض ہستیوں کو شریک قرار دیتے تھے مگر اپنے دلوں میں جانتے تھے کہ ان میں الہام نازل کرنے کی طاقت نہیں اور وہ کبھی وحی نازل نہیں کرتے پس وہ کس منہ سے اپنے شہداء کو بلاتے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی جب مشرکوں کو توجہ دلائی کہ اپنے معبودوں سے پوچھو کہ وہ فلاں امر کے بارہ میں کیا کہتے ہیں تو انہوں نے مجبور ہو کر جواب دیا کہ لَقَدْ عَلِمْتَ مَاھٰٓؤُلَآئٍ یَنْطِقُوْنَ (انبیاء ع ۵) یعنی تم جانتے ہو کہ وہ بولتے نہیں۔ اسی طرف قرآن کریم بھی اشارہ کرتا ہے کہ ہم تو اس کلام کو خدا تعالیٰ کے کلام کے طور پر پیش کرتے ہیں تم کو بھی یہ کہنا ہو گا کہ ہمارے بتو ںنے یا خدا تعالیٰ کے سوا دوسرے خود ساختہ معبودوں نے اس سورۃ کے مضامین ہمیں بتائے ہیں جو قرآن کریم کے مقابل پر ہم پیش کرتے ہیں مگر تم شرک کے دعوے تو بہت کرتے ہو مگر اس مقابلہ کے لئے تم کبھی تیار نہیں ہو گے کیونکہ تم جانتے ہو کہ تمہارے معبود تمہارے ذہنوں میں ہی ہیں ان کا خارجی وجود کوئی نہیں ا ور وہ زندہ خدا کی طرح بول نہیں سکتے۔
جس سزا سے ڈرایا گیا ہے اس کے متعلق بتایا کہ وہ سزا آگ ہے جس کا ایندھن ناس اور حجارہ ہیں۔ نار کے معنی اگر دوزخ کے کئے جائیں تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ جس دوزخ میں کافر جائیں گے اِس کا ایندھن کچھ انسان او رپتھر ہیں یعنی مشرک اور ان کے بُت جن کو وہ پُوجتے ہیں چنانچہ ایک دوسری جگہ آتا ہے اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ (انباء ع ۷) تم اور تمہارے بُت جہنم میں جائو گے یہ بھی مُراد ہے کہ وہ آگ پتھروں کی ہو گی جو زیادہ سخت ہوتی ہے جیسے پتھر کے کوئکہ یا چونہ کے پتھر کی آگ نہایت سخت ہوتی ہے۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایندھن کا لفظ استعارہ کے طور پر ہو اور معنے یہ ہوں کہ اس آگ کے بھڑکانے کا موجب انسانوں اور پتھرو ںکا تعلق ہو گا یعنیبُت پرستی۔
ناس او رحجارہ کی تشریح بانی سلسلہ احمدیہ نے یہ کی ہے کہ ان الفاظ سے دوزحیوں کی دو اقسام بیان کی گئی ہیں ایک وہ جو کسی قدر محبت الٰہی اپنے دل میں رکھتے ہیں اور ناس کے لفظ سے جو محبت پر دلالت کرتا ہے بالکل خارج نہیں ہو گئے مگر ایک گروہ دوزخ میں وہ جائے گا جو حجارہ کے مشابہ ہو گا یعنی ان کے دل محبت الٰہی سے بالکل سرد ہونگے او روہ پتھروں کی مانند ہونگے کہ کوئی رأفت اور شفقت ان کے دلو ںمیں باقی نہ رہی ہو گی۔ یہ معنے نہایت لطیف ہیں اور قرآن کریم سے ان کی تصدیق ہوتی ہے چنانچہ قرآن کریم میں کفار کو پتھروں سے مشابہت دی گی ہے چنانچہ یہود کی نسبت فرماتا ہے ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْ بُکُمْ مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ فَھِیَ کَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً (بقرہ ع ۹) یعنی اللہ تعالیٰ کے نشانات دیکھنے کے بعد بھی تمہارے دل پتھروں کی طرح ہو گئے بلکہ بعض کے دل تو پتھروں سے بھی زیادہ سخت ہو گئْ پس اس تشبیہہ کو مدنظر رکھتے ہوئے اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ دوزخ کی آگ مںی عام کفار بھی ڈالے جائیں گے اور وہ لوگ بھی جو شقاوت کی وجہ سے پتھروں کے مشابہ ہو گئے ہیں۔ اگر کہا جائے کہ اس صورت میں تو حجارہ کو پہلے بیان کرنا چاہیئے تھا اور ناس کو بعد میں۔ کیونکہ وہ لوگ جو پتھروں کی طرح ہو گئے ہیں دوزخ کے زیادہ مستحق ہیںتو اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں فرمایا یہ گیا ہے کہ فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَقُوْدُ ھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ۔ یعنی تم کو آگ سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیئے اور ظاہر ہے کہ اس حکم سے فائدہ اٹھانے کی زیادہ قابلیت انہی لوگوں میں ہو سکتی ہے کہ جو کسی قدر انشانیت کا مادہ اپنے اندر رکھتے ہوں پس موقعہ کے لحاظ سے ناس کا لفظ حجارہ سے پہلے ہی رکھنا مناسب تھا۔
قرآن کریم نے شرارت کے لحاظ سے بھی کفار کے دو نام رکھے ہیں جن اور ناس اور سزا کے لحاظ سے بھی دو نام رکھے ہیں حجارہ اور ناس۔ سورۃ الناس میں فرماتا ہے اَلَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ یعنے وسوسے ڈالنے والے وجود سے میں پناہ مانگتا ہوں جو کبھیجن ہوتا ہے اور کبھی انسان۔ اس محاورہ کا استعمال سورۃ حٰم سجدہ میں بھی ہوا ہے وہاں فرماتا ہے کہ دوزخ میں ڈالے جانے کے وقت عام دوزخی کہیں گے کہ رَبَّنَٓا اَرِنَا الَّذَیْنَ اَضَلّٰنَا مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ نَجْعَلْھُمَا تَحْتَ اَقَدَا مِنَا لِیَکُوْنَا مِنَ الْاَسْفَلِیْنَ (ع ۴) یعنی اے ہمارے رب جن لوگوں نے ہم کو گمراہ کیا تھا خواہ جن تھے خواہ انس ان کو ہمارے حوالے کر کہ انہیں خواب پائوں تلے روندیں۔ اس آیت میں بھی گمراہ کرنے والے انسانوں کو دو گروہ قرار دیا ہے اورایک کو جن کہا ہے اور ایک کو انس (جن کی پوری تشریح کے لئے دیکھو حجر ۲۶؎) غرض گمراہ کرنے کے لحاظ سے کفار کی دو قسمیں بتائی گئی ہیں جن اور انس۔ اور سزا کے لحاظ سے بھی دو قسمیں بتائی ہیں ناس اور حجارہ۔ اس فرق کی یہ وجہ ہے کہ شرارت کو مدنظر رکھتے ہوئے تو اخفا کے پہلو پر زور دینا ضروری ہوتا ہے کیونکہ شریر لوگ ہمیشہ باریک راہوں سے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ اگر وہ اپنی شرارتوں کو ظاہر کر دیں تو لوگ ان کے فریب میں نہ آویں پس ان کی اس کوشش کے مدنظر ان کا جن رکھا لیکن سزا کا جب ذکر ہو تو ان کی سزا کی سختی کی وجہ بتانے کے لئے ان کے دلوں کی سختی کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہوتا ہے تا سزا کے ذکر کے ساتھ اس کی سختی کی معقولیت بھی ثابت ہو پس ایسے موقعہ پر انہی انسانو ںکو جو شرارت اور فساد کے لحاظ سے جن کہلاتے تھے دوخ کی سزا کے لحاظ سے پتھر کے نام سے یاد کیا۔
گو اس آیت میں آگ اور خصوصاً پتھروں کی آگ کا ذکر کیا گیا ہے لیکن مابعدالموت سزا اور جزاء کے بارہ میں جو کچھ قرآن کریم نے بیان کیا ہے وہ تمثیلی زبان میں ہے جیسا کہ آگے چل کر مختلف آیات کے ماتحت بتایا جائے گا صرف عذاب اور ثواب کو انسانی ذہن کے قریب لانے کے لئے وہ الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جن کو انسان اس دُنیا میں سمجھتا ہے تا وہ بعد الموت عذاب یا ثواب کی کیفیتوں کو ایک حد تک سمجھ سکے۔
اُعِدَّتْ لِلْکَافِرِیْنَ سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ عذاب الٰہی صرف انکار کی صورت میں آتا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو نجات کے لئے پیدا کیا ہے۔ اِس آیت سے بعض مسلمانو ںکے اس خیال کی تردید ہوتی ہے جو یہ خیال کرتے ہیں کہ ہر مومن و کافر دوزخ کا مزہ تھوڑا بہت ضرور چکھے گا کیونکہ اس آیت سے صاف ثابت ہے کہ دوزخ صرف کفار کے لئے تیار کی گئی ہے مگر یہ بھی اس کے معنی نہیں کہ کوئی مومن کہلانے والا دوزخ میں نہ جائے گا کیونکہ قرآن کریم نے ایسے لوگوں کو جو اسلام کی تعلیم پر پوری طرح عمل نہیں کرتے اور اپنی اصلاح کی بھی کوشش نہیں کرتے بمنزلہ کفار کے قرار دیا ہے پس ایسے لوگ جو عقیدہً مسلمان ہوں لیکن عملاً کفار کا سا رنگ رکھتے ہوں اس آیت کے مضمون کی وجہ سے عذاب سے محفوظ نہیں سمجھے جا سکتے۔
یہ بھی یاد ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم کے رو سے سزا دائمی اور ابدی نہیں ہوتی نہ اس کی غرض انتقام اور بے حکمت تکلیف دینا ہے بلکہ اسلام کی تعلیم کے رو سے سزا وقتی ہوتی ہے اور اس کی غرض یہ ہے کہ وہ پاکیزگی پیدا کی جائے جو انسان کو اللہ تعالیٰ کے قرب کے قابل بنا دے اور اس کی حیثیت ایک شفا خانہ کی ہے جو بیماری کے علاج کے لئے مقرر کیا جاتا ہے۔ اس کی تفصیل آیندہ متعلقہ آیات کے ماتحت آئے گی (مثال کے لئے دیکھو سورہ ہود نوٹ ۱۰۹؎)



۲۶؎ حل لغات
بَشِّرْ:۔ اَلْبَشَرَۃُ ظَاھُِر الْجِلْدِ جلد کے اوپر کے حصہ کو بَشَرَۃٌ کہتے ہیں اور بَشَّرْتُہُ کے معنے ہیں اَخْبَرْتُہٗ بِسَارٍّ بَسَطَ بَشَرَۃَ وَجْھِہِ وَ ذَالِکَ اَنَّ النَّفْسَ اِذا سُرَّتْ اِنْتَشَرَالدَّمُ فِیْہَا اِنْتِشَارَ الْمَائِ فِی الشَّجَرِ میں نے اسے خوشخبریس نائی جس سے اس کے چہرہ پر اثر ہوا اور چہرہ خوشی سے پھیل گیا۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب نفس انسانی خوش ہو تو خون اس میں ایسے ہی پھیل جاتا ہے جس طرح درخت میں پانی۔ وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ کفََرُ وْا بِعَذابٍ اَلِمْمٍ فَاسْتِعَارَۃُ دَالِکَ تَنْبِیْہٌ اَنَّ اَسَرَّ مَا یَسْمَعُوْنہٗ الخَبَرُ بِمَایَنَا لُھُمْ مِنَ الْعَذَابِ اور کفار کو عذاب کی خبر دیتے ہوئْ بشارت کا لفظ استعمال کرنے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ خوش کرنے والی بات جو وہ سنیں گے وہ اس عذاب کی خبر ہو گی جو انہیں پہنچے (مفردات) تاج میں ہے اَلْبَشَارَۃُ الْمُطْلَقَۃُ لَاتَکُوْنُ اِلَّا بِالْخَیْرِ بشارت کا لفظ جب بغیر کسی قید کے بولا جائے تو اس سے مُراد اچھی خبر ہوتی ہے۔ وَ اِنَّمَا تَکُوْنُ بِالشَّرِّ اِذَا کَانَتْ مُقیَّدَۃً کَقَوْلِہٖ تعالیٰ فَبَشِّرْ ھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ اور وہ بُری چیز کے لئے اس وقت بولا جاتا ہے جبکہ ساتھ کی بُری بات کا ذکر ہو جیسے کہ آیت مذکورہ میں عَذَاب اَلِیْم کے ساتھ اسے مقید کیا گیا ہے وَالتَّبْشِیْرُ یَکُوْنُ بِالْخَیْرِ وَالشَّرِّکَقَوْلِہٖ تَعَالیٰ فَبَشِّرْ ھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ لیکن تبشیر کا لفظ خیر اور شر دونں معنوں کے ادا کرنے کے لئے بولا جاتا ہے وَقَدْ یَکُوْن ھٰذَا عَلیٰ قَوْ لِہِمْ تحِیَّتُکَ الضَّرْبُ وَعِتَابُکَ السَّیْفُ اور تبشیر کا یہ استعمال ایسا ہی ہے جیساکہ کسی شخص کو جو سخت غُصیلا ہو کہتے ہیں کہ تیرا تحفہ مار ہے اور تیری ناراضگی تلوار۔ یعنی معمولی غصہ میں تو تلوار نکال لیتا ہے اور کسی پر خوش ہو تو مار کا تحفہ دیتا ہے اسی طرح یہ کہہ دیا گیا کہ انہیں عذاب کی بشارت ملے گی وَالتَّبْشِیْرُ فِیْ عُرْفِ اللُّغَّۃِ مُخْتَصَّۃٌ بِالْخَبَرِ الَّذِیْ یُفِیْدِ السُّرُوْرَ اِلَّا اَنَّہٗ بِحَسْبِ اَصْلِ اللُّغَۃِ عِبَادۃٌ عَنِ الْخَبرِ الَّذِیْ یُؤَثِّرُ فِی الْبَشَرَۃِ تَغَیُّرًا وَّھٰذَا یَکُوْنُ لِلْحُزْنِ اَیضًا فَوَجَبَ اَنْ یَکُوْنَ لَفْظُ التَّبْشِیْرِ حَقِیْقَۃً فِی الْقِسْمَیْنِ اور لفظ تبشیر عام لغت میں خوشی کی خبر دینے کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن اصل لغوی اعتبار سے دیکھا جائے تو اس کے معنی ایسی خبر دینے کے ہیں جس سے چہرہ پر اثر ہو اور یہ دونوں طرح ہو سکتا ہے خوشی سے بھی اور غم و اندوہ سے بھی۔ اس لئے در حقیقت یہ لفظ دونوں معنے اپنے اندر رکھتا ہے (تاج)
الصَّالِحَات:۔ الصَّالِحَۃُ کی جمع ہے جو صَلَحَ سے نکلا ہے اور صَلَحَ الشَّیْئُ کے معنے ہیں ضِدُّ فَسَدَ کوئی چیز فساد سے پاک ہو گئی نیز کہتے ہیں ھٰذَ ایَصْلُحُ لَکَ اَیْ مِنْ بَابَتِکَ یعنی یہ تیرے مناسب حال ہے اور صَالَحَہٗ کے معنے ہیں وافقہ اس سے موافقت کی الصَّالِحُ کے معنے ہیں ضِدُّ الْفَاسِدِ فساد سے پاک وَالصَّلَاحِیَۃُ حَالَۃٌ بَکُوْنَ بِھَا الشَّیْئُ صَالِحاً وہ حالت جس سے کوئی چیز مناسب و موزون ہو جائے (اقرب) پس صالحان کے معنے ہونگے وہ اعمال جو فساد سے پاک اور بامصلحت اور مناسب حال ہوں۔
جَنّٰتٌ:۔ جَنَّتٌۃ کی جمع ہے اور اَلْجَنَّۃُ جَنَّ میں سے ہے وَاَصْلُ الْجَنِّ سَتْرُ الشَّیْئِ یعنی جَنَّ کے اصل معنے کسی چیز کو ڈھانپنے کے ہیں۔ یُقَالُ جَنَّہٗ اللَّیْلُ چنانچہ جَنَّہُ اللَّیْلُ کا محاورہ یہی معنے ادا کرنے کے لئے مستعمل ہے کہ رات نے اس کو ڈھانپ لیا۔ وَالْجَنَّۃُ کُلُّ بُسْتَانٍ ذِیْ شَجَرٍ یَسْتُرُ بِاَشْجَادِہِ الْاَرْضَ اور جنت ہر اس باغ کو کہتے ہیں جس میں کثرت سے درخت ہوں اور وہ درختوں کے سایہ سے زمین کو ڈھانپ لے۔ وَقَدْ تُسَمَّی الْاَشْجَارُ السَّاتِرَۃُ جَنَّۃَّ اور ڈھانپنے اور چھپانے والے یعنے گھنے درختوں کو بھی جنت کہتے ہیں وَسُمِّیَتِ الْجَنَّۃُ اِمَّا تشْبِیْھًا بِالْجنَّۃِ فِی الْاَرْضِ وَاِنْ کَانَ بَیْنَھُمَا بَوْنٌ وَاِمَّا لِسَتْرِہِ نِعَمَھا عَنَّا الْمُشَارَ اِلَیْھَا بقَوْلِہٖ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا اُخْفِیَ لَھُمْ مِنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ اور جن کو اس لئے جنت کے نام سے پکارا گیا ہے کہ یا تو وہ دنیاوی باغات کے مشابہ ہے اگرچہ ان میں اور اس میں بہت فرق ہے یا اس وجہ سے ہے کہ اس کی نعمتیں ہم سے پوشیدہ ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آیت فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا اُخْفِیَ میں فرمایا ہے کہ جنت کی نعماء کاکسی کو علم نہیں (مفردات)
اَلْاَنْھٰرُ:۔ النَّھْرُ کی جمع ہے او رالنَّھْرُ کے معنے ہیں مَجْرَیِ المَائِ الْفَائِضِ بہنے والے پانی کے چلنے کی جگہ۔ وَجَعَلَ اللّٰہُ تعالیٰ ذٰلِکَ مَثَلاً لِّمَایُدِ رُّمِنْ فَیْضِہٖ وَفَضْلِہٖ فِی الْجَنَّۃِ عَلَی النَّاسِ قَالَ اِنَّ الْمُّتَقِیْنَ فِی جَنّٰتٍ وَّنَھَرٍ اور اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعہ سے بطور مثال کے اپنے اس فیض اور فضل کو جو اس کے بندوں پر جنت میں بکثرت نازل ہو گا بیان کیا ہے۔ جیسے کہ فرمایا اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّنَھَرٍ کہ متقی باغات اور نہروں میں ہونگے وَالنَّھَرُ السَّعَۃُ تَشْبِیْھًا بِنَھْرِ المَائِ نَھَر کے معنی وسعت کے ہیں۔ نہر کا پانی چونکہ وسیع ہوتا ہے اس لئْ اس کو اس پر قیاس کر لیا چنانچہ کہتے ہیں نَھْرٌ نَھِرٌ اَیْ کَثِیْرُ الْمَائِ بہت پانی والا دریا (مفردات)
اَزْوَاجٌ:۔ زَوْجٌ کی جمع ہے اور زَوْجِ کے معنے ہیں کُلُّ وَاحِدٍ مَعَہٗ اٰخَرُ مِنْ جِنْسِہٖ ہر اک وہ چیز جس کے ساتھ اس کی جنس میں سے ایک اور وجود بھی ہو (اقرب) عام لوگ زوج کے معنے سمجھنے میں غلطی کرتے ہیں۔ اور وہ سمجھتے ہیں کہ زوج کے معنے جوڑے کے ہیں حالانکہ عرب لوگ اس مفہوم کو ادا کرنے کے لئے زوج کا لفظ استمعال نہیں کرتے بلکہ وہ تثنیہ کا صیغہ بولتے ہیں مثلاً وہ کبوتروں کے جوڑے کے لئے (مذکر اور مؤنث کے لئے) زَوْحُ حَمامٍ نہیں کہیں گے بلکہ زَوْجَانِ مِنْ حَمَامٍ کہیں گے اسی طرح دو موزوں کے لئے زَوْجَانِ مِنْ خَفَافٍ کہیں گے چنانچہ قرآن مجید میں سورہ ہود کی آیت قُلْنَا احْمِلْ فِیْھَا مِنْ کُلِّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنَ بھی اس استعمال کو واضح کرتی ہے اور اس سے ثابت ہے کہ زوج کے معنے نرو مادہ کے نہیں بلکہ یا نریا مادہ کے ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے اس آیت میں اِثْنَیْنِ کا لفظ لگا کر واضح کر دیا گیا ہے کہ مُراد دو ہم جنس جانور ہیں نہ کہ دو جوڑے (یعنی چار جانور مُراد نہیں) حضرت نوحؒ کو حکم تھا کہ ضروری جانوروں میں سے ایک ایک نر اور ایک ایک مادہ اپنے ساتھ رکھ لیں۔ پس آیت وَلَہُمْ فِیْھَا اَزْوَاجٌ میں اَزْوَاجٌ سے مراد ہم جنس ساتھی کے ہیں یعنی ایسے وجود جن کے ساتھ مل کر تمام ترقیاں اور تمام آرام مکمل ہونگے قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ سوائے ذات باری کے ہر چیز ایک جوڑے کی محتاج ہے اس قاعدہ کے مطابق جنتی بھی جوڑوں کے محتاج ہونگے خواہ مرد ہوں یا عورتیں۔ باقی رہا یہ سوال کہ وہ جوڑے کس قسم کے ہونگے یہ تفصیل اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ انسان اس کو تفصیلاً اسی وقت معلوم کرے گا جب وہ جنت میں جائے گا۔
مُطَھَّرَۃٌ:۔ طَھَّرَ سے اسم مفعول مؤنث کا صیغہ ہے اور طَھَرَ (مجرد) کے معنی ہیں ضِدُّ نَجِسَ پاک ہو گیا اور طَھَّرَہٗ کے معنے ہیں جَعَلَہٗ طَاھِرًا اسے پاک کیا (اقرب) مفردات میں ہے الطَّھَارَۃُ ضَرْبَانِ طَھَارَۃُ جِسْمٍ وَ طَھَارَۃُ نَفْسٍ پاکیزگی دو قسم کی ہوتی ہے (۱) جسمانی (۲) باطنی پس اَزْوَاجٌ مُطَھَّرَۃٌ کے معنے ہوں گے پاک ساتھی۔
خَالِدُوْنَ:۔ خَلَدَ سے اسم فاعل جمع کا صیغہ ہے اور الخُلْدُ کے معنے عربی زبان میں یہ ہوتے ہیں کہ اَلْبَقَائُ باقی رہنا۔ الدَّوَامُ چلتے ہی چلے جانا۔ اور خَلَدَ (یَخْلُدُ) خُلُوْدًا کے معنے ہیں دَامَ وَ بَقِیَ دائم رہا اور باقی رہا کہتے ہیں خَلَدَ الرَّجُلُ خَلْدً اوَ خُلُوْدًا اَیْ اَبْطَأَ عَنْہُ المَشِیْبُ وَ قَدْاَ سَنَّ کہ اس آدمی کی کی عمر زیادہ ہو گئی۔ اور بڑھاپا نہ آیا۔ خَلَدَ بِالمَکَانِ وَاِلیٰ المَکَانِ کے معنے ہیں اَقَاَمَ بِہٖ کسی جگہ میں ٹھہر گیا بس گیا اور جب خَلَدَ اِلَی الْاَرْضِ کہیں تو یہ معنے ہونگے کہ لَصِقَ بھَا وَاطْمَأَنَّ اِلَیْھَا کہ وہ زمین پر چمٹ گیا اور اس پر مطمئن ہو گیا (اقرب) کلیات ابی البقاء میں ہے کُلُّ مَایَتَبَا طَأُعَنْہُ التَّغَیُّرُ وَالْفَسَادُ تَصِفُہُ العَرَبُ بِالْخُلُوْدِ کَقَوْ لِھِمْ لِلْاَ یَّامِ خَوَالِدُ وَ ذٰلِکَ لطُوْلِ مَکْثِھَا لَا لِلدَّ وَامِ کہ ہر وہ چیز جس سے تغیر اور فساد دُور رہے اس پر عرب خُلُوْدٌ کا لفظ بولتے ہیں جیسے اَیَّام کے لئے خَوَالِد کا لفظ بولتے ہیں او ریہ ان کی لمبائی کے لئے کہا جاتا ہے نہ اس لئے کہ وہ ہمیشہ رہتے ہیں اور مفردات میں ہے کہ اَلْخلُوْدُ ھُوَ تَبَرِّی الشَّیْئِ مِنْ اِعْتِرَاضِ الْفَسَادِ وَ بَقَّائُ ہٗ عَلَی الْحَالَۃِ الَّتِیْ ھُوَ عَلَیْہَا کسی چیز کا خراب ہونے سے محفوظ اور اپنی اصلی حالت پر رہنا خُلُود کہلاتا ہے وَاَصْلُ الْمُخَلَّدِ اَلَّذِیْ یَبْقٰی مُجدَّۃً طَوِیْلۃً اور مُخَلَّہ کے اصلی معنے اس چیز کے ہیں جو ایک لمبے عرصہ تک رہے ثُمَّ اسْتُھِیْرَ لِلْمَبْقِیِّ دَائِمًا پھر ہمیشہ رہنے والی چیز کے لئے یہ لفظ استعارۃً استعمال ہونے لگا۔ وَالْخُلُوْدُ فِی الْجَنَّۃِ بَقَائُ الْاَ شْیَائِ عَلَی الْحَالَۃِ الَّتِی عَلَیْہَا مِنْ غَیْرِ اِعْتِرَاضِ الْفَسَادِ اور جنت میں خُلُوْد سے مُراد یہ ہے کہ اشیاء بغیر خراب ہونے کے اپنی حالت پر رہیں گی۔
تفسیر۔ اس آیت میں مومنوں کے انعامات کا ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ انہیں جنات میں جگہ ملے گی جن کے ساتھ نہریں متعلق ہونگی۔ مومنوں کے انعامات کا مسئلہ مخالفین اسلام کے لئے قابلِ اعتراض بنتا چلا آیا ہے اس پر ذیل کے اعتراض کئے جاتے ہیں (۱) اس قسم کے انعام کا وعدہ انتہائی درجہ کی لالچ ہے اور کامل ایمان کے منافی ہے کیونکہ جس ایمان کا باعث لالچ ہو وہ ایمان نہیں کہلا سکتا (۲) ایمان کے نتیجہ میں مادی انعامات قرآن نے تجویز کئے ہیں جو قابل اعتراض ہے (۳) اگر مرنے کے بعد مادی انعامات ملنے ہیں تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک مرنے کے بعد پھر یہی جسم زندہ کیا جائے گا جو عقل کے خلاف ہے کیونکہ یہ جسم تو فنا ہو جاتا ہے اور ایک ہی جسم کے اجزاء کئی کئی انسانوں میں استعمال ہو جاتے ہیں پھر وہ جسم کس کس کو ملے گا (۴) اِس آیت میں اور متعدد آیات میں بتایا گیا ہے کہ مومنوں کو جنت میں بیویاں ملینگی اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں جنسی تعلقات بھی ہونگے جو قابلِ اعتراض ہے اور جنسی تعلقات کی خواہش کا اخروی زندگی کے متعلق پیدا کرنا اور بھی قابلِ اعتراض ہے نیز جنسی تعلقات تو نسل چلانے کے لئے ہوتے ہیں پھر کیا وہاں بھی نسل چلے گی (۵) جنات کی کیفیت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک عیش و طرب کا مقام ہو گا نہ کہ روحانی اور یہ انعام قابلِ قدر نہیں۔
خلاصہ ان اعتراضات کا یہ ہے کہ اسلام نے محض نفسانی خواہشات کو انگیحت کر کے اُخروی زندگی کو بہت ادنیٰ درجہ دے دیا ہے اور اس طرح اس زندگی کا پاک مفہوم خراب کر دیا ہے۔
ان اعتراضات کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ جنت کے اُس نقشہ کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیا جائے جو قرآن کریم نے پیش کیا ہے۔
اول۔ تو یہ امر یاد رکھنے کے قابل ہے کہ قرآن کریم نے صاف طور پر بیان کر دیا ہے کہ اگلے جہان کے انعامات کا سمجھنا انسانی عقل سے بالا ہے پس اس دنیا کی زندگی سے اُخروی زندگی کا قیاس کرنا درست نہیں قرآن کریم فرماتا ہے فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّٓا اُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَآئً بِّمَا کانُوْا یَعْمَلُوْنَo (سجدہ ع ۲) یعنی کوئی انسان بھی اِس کو نہیں سمجھ سکتا کہ ان کے لئے اگلے جہان میں کیا کیا نعمتیں مخفی رکھی گئی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت کے بارہ میں جو کچھ قرآن کریم میں بیان ہوا ہے وہ تمثیلی زبان میں ہے اور اس سے وہ مفہوم نکالنا درست نہیں جو اس دنیا میں اسی قسم کے الفاظ سے نکالا جاتا ہے اس مضمون کی تشریح میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ قَالَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ اَعْدَدْتُ لِعبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالاَ عَیْنٌ رَأَتَ وَلَا اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلیٰ قَلْبِ بَشَرٍ (بخاری جلد دوم کتاب بدء الخلق باب صفتہ الجنہ و مسلم جلد ۴ کتاب الجنتہ وصفتہ نعیمہا والہا) یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندو کے لئے آخرت کی زندگی میں وہ کچھ تیار کر چھوڑا ہے کہ جس کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے او رنہ کسی انسان کے فکر نے اس کی حقیقت اِس دنیا کی حقیقت سے بالکل مختلف ہے کیونکہ اگر وہاں بھی اسی قسم کے مادی باغ اور مادی نہریں اور مادی پھل اور مادی بیویاں ہونی ہیں تو یہ چیزیں تو ایسی ہیں جنہیں آنکھوں نے دیکھا بھی ہے اور کانوں سے سنا بھی ہے اور فکر انسانی ان کی حقیقت کو سمجھتا بھی ہے۔
اصولی طور پر ان انعامات کے متعلق سورہ رعد میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَثَلُ الْجَنَّۃِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ تَجْرِیْ مِنْ تَجْتِہَا الْاَ نْھٰرُاُکُلُہَا دَآئِمٌ وَظِلُّہَا تِلْکَ عُقْبَی الَّذِیْنَ اتَّقَوْاوَّ عُقْبِی الْکَافِرِیْنَ النَّارُ (ع ۵) یعنی متقیوں کو جن جنات کا وعدہ دیا گیا ہے ان کی کیفیت یہ ہے کہ نہریں ان کے تابع ہو کر بہتی ہونگی اور ان کے پھل بھی دائمی ہونگے اور ان کے سائے بھی دائمی ہونگے یہ مومنوں کا آخری مقام ہو گا اور کافروں کا آخری مقام آگ ہو گا۔ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ وہ باغات جو اُخروی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں اِس دُنیا کے باغوں سے مختلف ہیں کیونکہ ان کے پھل بھی دائمی ہیں اور اُن کے سائے بھی دائمی ہیں یعنی ان میں زوال نہیں۔ لیکن مادی اشیاء میں زوال کا پیدا ہونا لازمی ہے کیونکہ مادی اشیاء میں تحلیل کا سلسلہ چلتا ہے اور جن چیزوں میں تحلیل کا سلسلہ چلے انہیں غذا کی ضرورت بھی ہوتی ہے اس کے برخلاف جن میں تحلیل کا سلسلہ نہ ہو ان کو غذا کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ پس وہ جنات ایسی ہیں کہ نہ غذا کی محتاج ہیں اور نہ ان پر فنا آتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی جنات ہر گز مادی نہیں ہو سکتیں۔
جنات کی تفصیل ایک اور جگہ قرآن کریم میں یوں بیان ہوئی ہے۔ مَثَلُ الْجَنَۃِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ فِیْھَٓا اَنْھَارٌ مِّنْ مَّآئٍ غَیْرِ اٰسِنٍ وَ اَنْھَارٌ مِّنْ لَّبِنٍ لَّمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُہٗ وَاَنْھَارٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّدَّۃٍ لِّلشَّارِ بِیْنَ وَ اَنَھَارٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًی وَلَھُمْ فِیْہَا مِنْ کُلِّ الثَّمَوٰتِ وَمَغْفِرَۃٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ (محمدؐ ع ۲) یعنی جس جنت کا وعدہ متقیوں کو دیا گیا ہے اس کی کیفیت یہ ہے کہ اس میں نہریں بہتی ہیں ایسے پانی کی جس کے لئے سڑنا ناممکن ہو گا۔ اور ایسے دودھ کی نہریں بہتی ہپیں جن کا مزہ کبھی بگڑا نہیں اور ایسی شرابوں کی نہریں رواں ہیں جو پینے والوں کے لئے لذت کا موجب ہوتی ہیں اور ایسی شہد کی نہریں جاری ہیں جو بالکل مصفیٰ ہے موم وغیرہ کوئی شئے اس میں نہیں۔ اور انہیں وہاں تمام اقسام کے پھل ملیں گے اور ان کے رب کی طرف سے مغفرت بھی ملے گی۔ اس آیت میں جو امور بیان ہوئے ہیں ان سے ظاہر ہے کہ یہ جنتیں مادی نہیں کیونکہ جو پانی کبھی سڑے نہیں جو دودھ کبھی بگڑے نہیں جو شراب خمار پیدا نہ کرے جس شہد میں موم نہ ہو وہ ان مادی اقسام کی اشیاء میں سے تو ہو نہیں سکتا۔
جنت کی شراب کے متعلق جو یہ آیا ہے کہ لَذَّۃٍ لِّلشَّارِ بِیْنَ اور اس سے میں نے یہ استدلال کیا ہے کہ وہ خمار پیدا کرنے والی نہ ہو گی اس کا ثبوت قرآن کریم کی ایک دوسری آیت سے ملتا ہے جس میں مذکور بالا آیت کے مفہوم سے ملتا جلتا مضمون بیان ہوا ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یُطَافُ عَلَیْھِمْ بِکَاْسٍ مِّنْ مَّعِیْنٍ بَیْضَآئَ لَذَّۃٍ لِّلشَّارِ بِیْنَ لَا فِیْہَا غَوْلٌ وَّلَا ھُمْ عَنْھَا یُنْزَفُوْنَ (الصافات ع ۴) یعنی مومنوں کے پاس چھلکتے ہوئے پیالے بار بار لائے جائیں گے وہ سفید ہوں گے اور پینے والوں کے لئے موجب لذت ہونگے نہ تو ان سے خمار ہو گا او رنہ مومن ان کو پی کر مدہوش ہونگے۔ اس آیت میں بھی لَذَّۃٍ لِّلشَّارِ بِیْنَ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور بعد میں لذت کی تشریح کر دی ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ نہ تو نشہ ہو گا اور نہ نشہ اُترنے کے بعد کا خمار۔ اس سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ دنیوی شراب حقیقی لذت کا موجب نہیں ہوتی بلکہ در حقیقت غفلت پیدا کر کے غم غلط کرنے کا ذریعہ ہوتی ہے مگر جنت کی شراب نہ نشہ کرے گی اور نہ بعد کا خمار اس سے پیدا ہو گا۔ اسی طرح اس شراب کے بارہ میں ایک دوسری جگہ آتا ہے وَسَقَا ھُمْ رَبُّھُمْ شَرَابًا طَھُوْرًا (دھر ع ۱) اللہ تعالیٰ انہیں وہ کچھ پینے کو دے گا۔ جو پاک اور پاک کر دینے والا ہو گا۔ اسی طرح فرماتا ہے۔ یُسْقَوْنَ مِنْ رَّحِیْقٍ مَّخْتُوْمٍ خِتٰمُہٗ مِسْکٌ وَ فِیْ ذٰلِکَ فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَا فِسُوْنَ وَ مِنَ اجُہُ مِنْ تَسْنِیْمٍ عَیْنًا یَّشْرَبُ بِہَا الْمُقَرَیُوْنَ (تطفیف) مومنوں کو جنت میں خوشبودار شراب پینے کو دی جائے گی جس پر مہریں لگی ہوئی ہونگی اور اس کا آخری حصہ مشک کا ہو گا اور چاہیئے کہ جس نے خواہش کرنی ہو ایسی چیز کی خواہش کرے اور اس کی ملاوٹ کثرت اور بلندی سے ہو گی۔ وہ کثرت او ربلندی ایک چشمہ ہے جس سے مقرب لوگ پانی پیا کرتے ہیں اسی طرح لکھا ہے یَتَنَازَعُوْنَ فِیْھَا کَأ سًالَّا لَغْوٌ فِیْہَا وَلَا تَا ثِیْمٌ (طور ع ۱) یعنی مومن جنت میں ایسے شراب سے بھرے ہوئے پیالے ایک دوسرے سے چھین جھپٹ کر لیں گے جن میں نہ ت وکوئی لغو بات ہو گی او رنہ اس کو پی کر ایک دوسرے کو گالیاں دینگے اوپر کی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں ایک ایسی شراب ملے گی جو نہ نشہ لائے گی نہ خمار پیدا کریگی۔ کثرت او ربلندی والے ایک چشمہ کا پانی بلا کر وہ مومنوں کو دی جائے گی اس میں مشک کی سی خوشبو ہو گی وہ پاک ہو گی اور جو اسے پئے گا اسے پاک کردیگی اور وہ ایسی شراب ہو گی کہ اس کے پینے والے نہ تو لغو باتیں کریں گے اور نہ ایک دوسرے کو گالیاں دینگے یہ تو جنت کی شراب کا حال بیان ہوا ہے لیکن دُنیا میں جو شراب بنتی ہے وہ نشہ لاتی ہے اور اس کو پینے والے لغو باتیں کرتے ہیں اور بعض دفعہ گالیاں دینے لگتے ہیں اس کی نسبت قرآن کریم میں آتا ہے یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالَاَ نْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَیْطٰنِ فَا جْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَکُمْ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآئِ فِی الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِر وَ یَصُدَّ کُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَعَنِ الصَّلوٰۃِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُنْتَھُوْنَo(مائدہ ع ۱۲) یعنے اے مومنو! شراباور جوا اور جو بتوں کے لئے عبادت گاہیں بنائی جاتی ہیں اور لاٹریاں سب گندی باتیں ہیں پس تم ان سے بچو تاکہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکو۔ شیطان تم میں شراباور جوئے کے ذریعہ سے صرف عداوت اور بغض پیداکرنا چاہتا ہے نیز اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اور نماز سے روکنا چاہتا ہے پھر کیا تم ایسے اعلیٰ درجہ کے کاموں سے رُک جائو گے۔
ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ شراب ایک گندی چیز ہے اس کا پینا شیطانی فعل ہے یعنے دین کے خلاف ہے اس سے عداوت اور بغض پیدا ہوتا ہے اور اس کے پینے سے ذکر الٰہی اور نماز میں روک پیدا ہوتی ہے۔ اب ان باتوں کو جنت کی شراب کی خصوصیات سے ملا کر دیکھو تو دونوں میں اندھیرے اور نور کا فر نظر آتا ہے۔ اگر پاک کرنے والی قرار دیا گیا ہے اگر دنیا کی شراب کو بغض اور عداوت پیدا کرنے والی بتایا گیا ہے کہ تو اُخروی شراب کا نتیجہ یہ بتایا ہے کہ لغو باتیں کرنے اور گالی گلوچ سے وہ بچانے والی ہو گی اگر دنیاکی شراب کو عمل شیطان کہا گیا ہے تو اُخروی شراب کی نسبت یہ کہا گیا ہے کہ وہ کثرت اور بلندی پیدا کرنے کا موجب ہو گی۔ اگر دنوی شراب نشہ اور خمار پیدا کرنے والی ہوتی ہے تو اُخروی شراب کی نسبت کہا گیا ہے کہ نہ اس سے نشہ پیدا ہو گا اور نہ خمار۔ اگر دُنیا کی شراب کی نسبت یہ کہا گیا ہے کہ اس سے بچو تو اُخروی شراب کی نسبت یہ کہا گیا ہے کہ اگر کسی شخص نے کوئی خواہش کرنی ہو تو وہ اس شراب کے حصول کی خواہش کرے۔ ان اختلافات سے روز روشن کی طرح ثابت ہو جاتا ہے کہ جنت کی وہ چیز جس کا نام شراب رکھا گیا ہے نہ صرف یہ کہ دنیوی شراب سے مختلف ہے بلکہ وہ مادی چیز بھی نہیں کیونکہ مادی چیز خواہ کیسی اعلیٰ بھی ہو وہ نہ تو دل کو پاک کر سکتی ہے اور نہ اس سے کثرت اور بلندی پیدا ہوتی ہے۔ کثرت اور بلندی تو کسی روحانی چیز سے ہی پیدا ہو سکتی ہے۔
خلاصہ یہ کہ جنت کی نعمتوں کے نام گو دنیا کی چیزوں جیسے رکھے گئے ہیں لیکن ان سے مُراد بعض رُوحانی نعمتیں ہیں نہ کہ کوئی جسمانی اشیاء۔ کجا یہ کہ وہی اشیاء جو اس دنیا میں پائی جاتی ہیں۔
صحابہؓ کے کلام سے بھی اس مفہوم کی تصدیق ہوتی ہے چنانچہ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں۔ لَیْسَ فِی الدُّنْیَا مِمَّا فِی الْجَنَّۃِ (شَیْئٌ) اِلَّا الْاَ سْمَآء (ابن جرید جلد اول) یعنی جو کچھ جنت میں ہے اس دنیا میں صرف ان کے نام معلوم ہیں ان کی حقیقت معلوم نہیں۔
غرض اُخروی زندگی میں باغات او رنہروں اور پانی اور دودھ اور شراب اور شہد سے مُراد صرف یہ ہے کہ وہ بعض چیزیں ہونگی جو اس قسم کی رُوحانی تاثیرات پیدا کرینگے جو یہ دُنیا کی اشیاء مادی جسم پر پیدا کرتی ہیں سوائے شراب کے کہ اس کے بس خواص مُراد نہیں بلکہ بعض خاص خواص مراد ہیں اور چونکہ اس کا نام استعمال کرنے سے دھوکہ لگ سکتا تھا۔ قرآن کریم نے اُخروی شراب اور دنیوی شراب کا فرق بالتفصیل بیان کر دیا۔
وہ دھوکہ جو شراب کے نام سے لگ سکتا تھا یہ تھا کہ کیا وہ شراب بھی عقل پر پردہ ڈالنے والی ہو گی اور جسمانی نشہ کی سی کیفیت پیدا کرے گی سو اس کا جواب یہ دیا کہ ان باتوں میں اس کو دنیوی شراب شے مشابہت نہ ہو گی بلکہ اس کی مشابہت اور لحاظ سے ہے اور وہ مشابہت یہ ہے کہ جس طرح شراب انسان کے دماغ پر اثر ڈال کر یکسوئی پیدا کر دیتی ہے وہ شراب بھی یکسوئی پیدا کر دے گی اور اسے پی کر قلوب کلی طور پر خدا تعالیٰ کی محبت میں مست اور مدہوش ہو جائینگے۔
اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ جب جنت کی نعماء بالکل اور قسم کی ہیں اور روحانی ہیں ت وپھر دنیوی نام کیوں اختیارکئے گئے تو اس کاجواب یہ ہے کہ مذہب سب قسم کے لوگوں کے لئے ہوتا ہے مخالفوں کے لئے بھی اور ادنیٰ لوگوں کے لئے بھی اور اعلیٰ قسم کے لوگوں کے لئے بھی۔ ان امور کے متعلق جن کا سمجھنا لوگوں کے لئے مشکل ہو ضروری ہوتا ہے کہ ایسے الفاظ میں کلام کیا جائے کہ ان میں مخالفوں کا بھی جواب آ جاوے اور ادنیٰ درجہ کے لوگوں کی تسلی کا بھی وہ موجب ہو اور اعلیٰ درجہ کے لوگ بھی اس کے فائدہ اُٹھا سکیں اس حکمت کو مدنظر رکھ کر قرآن کریم نے اُخروی نعماء کے لئے ایسے الفاظ استعمال کئے ہیں جو سب قسم کے لوگوں کے لئے ان کی عقل اور درجہ کے بموجب تشفی کا موجب ہوں چونکہ کفار کہا کرتے تھے کہ دیکھو محمد رسول اللہ (صلعم) تو ہم سے سب قسم کی نعمتیں چھموانا چاہتے ہیں اور ان کی جماعت بھی تمام نعمتوں سے محروم ہے اللہ تعالیٰ نے اُخروی نعمتوں کو ان کے ذہن کے قریب کرنے کے لئے وہ اشیاء جن کو وہ نعمت سمجھتے تے انہی کے نام لے کر بتایا کہ مومنوں کو یہ سب کچھ حاصل ہو گا۔ یہ ایسی ہی بات ہے کہ جیسے کوئی مالدار کسی عالم سے کہے کہ میرے پاس مال ہے تو ہو عالم اپنے کتب خانہ کی طرف اشارہ کر کے کہے کہ میریپاس تم سے بھی بڑھ کر خزانہ ہے اس جواب کا یہ مطلب ہر گز نہ ہو گا ان کتب میں روپیہ بھرا ہوا ہے بلکہ صرف یہ کہ جس چیز کو تم خزانہ کہتے ہو اس سے زیادہ فائدہ والی چیز میرے پاس موجود ہے پس جب قرآن کریم نے یہ کہا کہ مومنوں کو وہ جنتیں ملینگی جن میں سایہ دار درخت اور نہریں اور نہ خراب ہونے والا دودھ اور نہ سڑنے والا پانی اور موم اور آلائش سے پاک شہد اور نشہ نہ دینے والی بلکہ دل کو پاک کرنے والی شراب ہو گی تو اس سے ان کے اعتراض کا جواب اس رنگ میں دیا کہ جن چیزوں کو تم نعمت سمجھتے ہو وہ حقیقی مومنوں کو ملنے والے انعامات سے ادنیٰ ہیں جن نہرو ںکو تم نعمت سمجھتے ہو ان کا پانی تو سڑ جاتا ہے مومنوں کو وہ نہریں ملینگی جن کا پانی سڑنے والا نہ ہو گا اور جن باغوں کو تم نعمت خیال کرتے ہو وہ اصل نعمت نہیں اصل نعمت تو وہ باغ ہیں جو کبھی برباد نہ ہوں گے اور مومنوں کو ملینگے۔ جس شراب کو تم نعمت سمجھتے ہو اس کی مومنوں کو ضرورت نہیں وہ شراب تو گندی اور عقل پر پردہ ڈالنے والی شئے ہے مومنوں کو تو خدا وہ شراب دے گا جو عقل کو تیز کرنے والی اور پاکیزگی بڑھانے والی ہو گی۔ اور جس شہد پر تم کو ناز ہے اس میں تو آلائش ہوتی ہے خدا تعالیٰ مومنوں کو وہ شہد دے گا جو ہر آلائش سے پاک ہو گا جور جن ساتھیوں پر تم کو نا زہے وہ نعمت نہیں کیونکہ وہ گندے ہیں مومنوں کو اللہ تعالیٰ وہ ساتھی دے گا جو پاک ہونگے جن پھلوں پر تم کو ناز ہے وہ تو ختم ہو جاتے ہیں مومنوں کو تو وہ پھل ملیں گے جو کبھی ختم نہ ہونگے اور ہر وقت اور خواہش کے مطابق ملیں گے یہ مضمون ایسا واضح ہے کہ ہر شخص جو تعصب سے خالی ہو کر غور کرے اس کے مفہوم کو سمجھ سکتا ہے اور اس کے لطیف اشارہ کو پا سکتا ہے مگر جو متعصب ہو یا جاہل۔ اس کا علاج تو کوئی ہے ہی نہیں۔
مسیحی معترضین کو ہی سب سے زیادہ اس کلام پر اعتراض ہے مگر وہ خود اپنی کتب میں نہیں دیکھتے کہ وہاں لکھا ہوا ہے ’’بلکہ مال اپنے لئے آسمان پر جمع کرو‘‘ (متی باب ۶ آیت ۶۰) اسی طرح لکھا ہے ’‘تو جا کے سب کچھ جو تیرا ہے بیچ ڈال اور محتاجوں کو دے کہ تجھے آسمان پر خزانہ ملے گا‘‘ (متی باب ۱۹ آیت ۲۱) اگر آسمان پر خزانہ جمع کرنا اور مرنے کے بعد آسمان پر خزانہ کا ملنا انسان کے لئے ممکن ہے تو جنتوں اور نہروں اور پانی اور دودھ اور شہد اور بے نشہ پاک کرنے والی شراب کا ملنا کیوں عقل کے خلاف ہے۔ اسی طرح لکھا ہے کہ مسیح ’’خدا کے تخت کے داہنے جا بیٹھا‘‘ (عبرانیوں باب ۱۲ آیت ۲) اگر خدا کو تخت پر بیٹھنے کی ضرورت ہے اور مسیح کو بھی آسمان پر جا کر تخت کی ضرورت پیش آئی تو مومنوں کو جنتوں کی کیوں ضرورت نہیں اور اس پر کیا تعجب ہے۔ اگر ان کا جواب ہو کہ انجیل میں مذکور خزانہ سے مراد یہ ہے کہ جو کوئی شخص خدا تعالیٰ کے لئے اپنے خزانہ کو چھوڑے گا اسے خدا تعالیٰ روحانی خزانہ عطاکرے گا۔ اور خدا تعالیٰ کے تخت سے مُراد لکڑی یا سونے چاندی کا تخت نہیں بلکہ اس سے مراد اس کے جلال کا تخت ہے تو یہی توجیہہ انہو ںنے قرآنی پانی اور دودھ اور شراب کی کیوں نہ کر لی اور کیوں نہ سمجھا کہ اس سے بھی یہی مُراد ہے کہ جب مومن خدا تعالیٰ کی خاطر پانیوں سے محروم کئے گئے ان کے اموال چھین کر انہیں دودھ اور شہد سے محروم کر دیا گیا انہوں نے خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے روزے رکھے اور خود اپنے لئے دوددھ اور شہد اور پانی کو حرام کر لیا تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ میں انہیں رُوحانی دودھ اور روحانی شہد اور روحانی پانی دے گا اور چونکہ انہوں نے خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اپنے اوپر شراب کا استعمال حرام کر لیا تو اللہ تعالیٰ انہیں محبت کی شراب پلائے گا اور چونکہ وہ خدا کے لئے اپنے گھروں سے نکالے گئے یا انہو ںنے خدا تعالیٰ کے لئے اپنے گھروں کو غریبوں کے ٹھہرنے کی جگہ اور مہمانوں کی آسائش کا مقام بنا دیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں اپنی رحمت کے باغوں میں جگہ دی۔
خلاصہ یہ کہ قرآب کریم میں جن باغوں اور نہروں اورپھلوں اور جس دودھ اور شہد اور شراب کا ذکر آتا ہے وہ اس دُنیا کے باغوں اور نہرو ںاور پھلوں سے بالکل مختلف ہیں اور وہاں کا دودھ اور شہد اور شراب اس دُنیا کے دودھ اور شہد اور شراب سے بالکل مختلف ہے اور قرآن کریم نے ان امور کی خود ایسی تشریح فرما دی ہے کہ اس کے بعد اس امر میں شک کرنا محض تعصب کا اظہار ہے اور یہ محاورات چونکہ پٖہلی کتب میں بھی موجود ہیں اس لئے ان آیات میں کوئی ایسی بات نہیں جس کا سمجھنا لوگوں کے لئے مشکل ہو۔
میں اس جگہ یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ میرا یہ مطلب نہیں کہ اخروی زندگی کی ایسی روحانی زندگی ہو گی جو کلی طور پر جسم سے پاک ہو گی اور جہاں صرف دل کے احساسات پر ہی سب انعامات ختم ہو جائینگے بلکہ قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے کہ رُوح اپنی ہر حالت میں ایک جسم ملے گا جو اس مادی دنیا سے بالکل مختلف ہو گا۔ اور اس زندگی کے سمجھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں عالم خواب کا سلسلہ جاری کیا ہے تاکہ انسان اگلے جہان کی زندگی کا کچھ اندازہ کر سکے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر فرما دیا ہے کہ اُخروی زندگی اور عالم خواب کا ایک گہرا جوڑ ہے چنانچہ فرماتا ہے اَللّٰہُ یَتَوَ فَّی الْاَ نْفُسَ حِیْنَ مَوْتِھَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنا مِھَا فَیُمْسِکُ الَّتِیْ قَضٰی عَلَیْہَا الْمَوْتَ وَیُرْسِلُ الْاُخُرْیٰٓ اِلیٰٓ اَجَلٍ مُّسَمّٰی اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَایٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ(زمر ع ۵) یعنے کفار اُخروی زندگی اور اس کے عذابو ںکے منکر ہیں حالانکہ اگر غور کریں تو انہیں اس کا ثبوت اپنی زندگیوں میں مل سکتا ہے وہ دیکھ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر رُوح کو موت کے وقت قبض کر لیتا ہے اور جو مرتی نہیں اسے بلند کے وقت قبض کر لیتا ہے اور جو مرتی نہیں اسے نیند کے وقت قبض کر لیتا ہے پھر جس پر تو موت کا فیصلہ ہو چکا ہوتا ہے اسے اپنے پاس رہنے دیتا ہے اور دوسری رُوح کو یعنے سونے والے کی رُوح کو ایک وقت مقررہ تک کے لئے واپس کر دیتا ہے۔ اس مشاہدہ میں فکر کرنے والے لوگوں کے لئے بہت سے نشانات ہیں اس آیت ہیں بتایا گیا ہے کہ موت اور نیند آپس میں مشابہ ہیں۔ صرف فرق یہ ہے کہ موت میں کلی طور پر رُوح کو مادی جسم سے علیحدہ کر دیا جاتا ہے اور نیند کے وقت اس کے تعلق کو عارضی طور پر مادی جسم سے قطع کر دیا جاتا ہے اس عارضی قطع تعلق کے وقت روح انسانی کئی نظارے دیکھتی ہے اور اپنے لئے ایک نیا جسم اور نیا ماحول پاتی ہے اس سے اُخروی زندگی کے متعلق بہت کچھ قیاس کر سکتے ہیں۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ نیند کی حالت میں جو انسان کو نظارے نظر آتے ہیں انہیں محض روحانی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ کبھی کوئی شخص خواب میں خالی رُوح نہیں دیکھتا بلکہ اس کے ساتھ ایک جسم بھی دیکھتا ہے اور بسا اوقات وہ اپنے آپ کو باغوں میں پاتا ہے اور نہروں میں دیکھتا ہے اور پھل کھاتا ہے اور دودھ پیتاہے یہ بھی محض روحانی نہیں ہوتے بلکہ ظاہری شکل میں باغوں اور نہروں اور دودھ اور شہد وغیرہ سے مشابہ ہوتے ہیں مگر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ خواب کا دودھ ظاہری دودھ ہے یا خواب کا پانی ظاہری پانی ہے بلکہ اس کا مفہوم روحانی عالم میں کچھ اور ہوتا ہے مثلاً جب کوئی شخص اپنے آپ کو ایک ایسے باغ میں دیکھتا ہے جس میں نہر چل رہی ہو اور اس کی یہ خواب اس کے کسی خیال کا نتیجہ نہ ہو بلکہ سچی ہو اور اللہ تعالیٰ نے دکھائی ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کا ایمان خدا تعالیٰ کے ہاں مقبول ہے اور اس کے ایمان اور اس کے عمل نے اللہ تعالیٰ کے فضل کو جس رنگ میں جذب کیا ہوتا ہے اسے وہ باغ اور نہر کی صورت میں دیکھ کر روحانی لذت محسوس کرتا ہے یا مثلاً کوئی دیکھے کہ وہ آم کھا رہا ہے اور اس کی رئو یا سچی ہو تو اس کی تعبیر یہ ہو گی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے نیک اعمال کے بدلہ میں اُسے نیک اولا دیا نیک دل دینے کا فیصلہ کیا ہے یا مثلاً کوئی دیکھے کہ وہ انگور کھا رہا ہے تو اس کی تعبیر یہ ہوتی ہے کہ اس کے دل میں خشیت اللہ بڑھے گی اور محبت الٰہی ترقی کرے گی اور اس پر اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہو گا۔ اور اگر کوئی دیکھے کہ وہ کیلا کھا رہا ہے تو اس کے یہ معنے ہونگے کہ اللہ تعالیٰ اسے حلال اور طیب او ربے مشقت رزق دینے کا فیصلہ فرما چکا ہے۔ پس جبکہ انسان بظاہر کیلا یا انگور یا آم کھا رہا ہوتا ہے در حقیقت اس کی رُوح میں ان انعامات کے قبول کرنے کی قابلیت پیدا کی جا رہی ہوتی ہے جو ان پھلوں سے مشابہت رکھتے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ رُوحانی انعامات سے یہ مُراد نہیں کہ اُخروی زندگی میں محض ایک اندرونی احساس خدا تعالیٰ کی نعمتو ںکا ہو گا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دُنیا کی سب نعتمیں جیسا کہ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ نے فرمایا ہے اُخروی نعماء کی تمثیل ہیں اور بجائے یہ کہنے کے کہ اُخروی زندگی میں اس دنیا کی نعمتوں کی مثل ملے گی یُوں کہنا چاہیئے کہ اخروی نعمتیں تو اصل ہیں اور یہاں کے پھل سب اُحروی زندگی کی تمثیل ہیں اور ان نعمتوں کا نقشہ کھینچے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور چونکہ یہ دُنیا مادی ہے انہیں مادی شکل دے دی گئی ہے ورنہ اللہ تعالیٰ نے ان نعماء سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ جب تمثیل ایسی لذیذ ہے تو اصل شئی کہیں لذیذ ہو گی کیونکہ رُوح اپنے احساس کے لحاظ سے جسم سے بہت زیادہ شدت رکھتی ہے۔
اس تشریح کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ مجھے ان اعتراضات کا جواب الگ الگ دینے کی ضرورت نہیں جو اوپر درج ہو چکے ہیں ان سب اعتراضوں کا سوائے ایک کے اس تشریح میں جواب آ گیا ہے کہ وہ وہ ایک اعتراض وہ ہے جو بیویوں کے متعلق ہے سو اس کا جواب آ گے چل کر اس ٹکڑے کی تفسیر کے نیچے دیا جائے گا۔
اب میں آیت زیر نفسیر کی تفسیر بیان کرتا ہوں اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور اعمال صالحہ بجا لاتے ہیں۔ انہیں جنتیں ملینگی او ریاد رکھنا چاہیئے کہ جیساکہ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے۔ صَلَحَ کے معنے مناسب حال کے ہوتے ہیں پس اعمال صالحہ کے معنے مناسب حال اعمال کے ہیں قرآن کریم اور دوسری کتب میں یہ فرق ہے کہ دوسری کتب میں نیک اعمال کرنے کا حکم ہے اور نیک اعمال کا مطلب خدا تعالیٰ کی عبادت اور بندوس سے حُسنِ سلوک مثلاً صدقہ و خیرات عفو احسان وغیرہ اعمال کو سمجھا جاتا ہے مگر قرآن کریم اس کی جگہ عمل صالح کے بجا لانے کا حکم دیتا ہے جو نیک عمل سے زیادہ وسیع مفہوم پر مشتمل ہے قرآن کریم کے نزدیک ایک عمل سے زیادہ وسیع مفہوم پر مشتمل ہے قرآن کریم کے نزدیک خدا تعالیٰ کی عبادت کی ظاہری شکل کا بجا لانا کافی نہیں جب تک کہ وہ ریا اور نمائش سے بھی پاک نہ ہو۔ نماز نیک عمل ہے لیکن اگر اس کے ساتھ ریا شامل ہو تو گو بظاہر وہ خدا تعالیٰ کی عبادت ہے مگر خدا تعالیٰ کے ہاں مقبول نہیں کیونکہ وہ عمل صالح نہیں اسی طرح مثلاً کوئی شخص ڈوب رہا ہو اور ایک شخص جو تیرنا جانتا ہو اور اسے اس ڈوبنے والے کا علم ہو جائے وہ اگر اس وقت نماز شروع کر دے تو نماز گو نیک عمل ہے مگر اس وقت عمل صالحہ نہ ہو گا کیونکہ اس وقت کے مناسب حال عمل اس ڈوبنے والے کو بچانا ہے نہ کہ نماز پڑھنا۔ یا مثلاً ایک شخص فطرۃً رحم کا مادہ اپنے اندر رکھتا ہو اور وہ کسی شخص کو دیکھے کہ دوسرے آدمی پر ظلم کر رہا ہے تو اگر وہ اس ظالم کے متعلق عفو ظاہر کرنا چاہیے تو گو عفو نیک عمل ہے مگر اس وقت وہ عمل صالح نہیں ہو گا بلکہ عمل صالح یہ ہو گا کہ وہ اس ظالم کا مقابلہ کرے اور مظلوم کی حمایت کرے یا مثلاً ایک شخص جج کی کرسی پر بیٹھا ہو اور ملک نے اسے مجرموں کی سزا کے لئے مقرر کیا ہو تو اگر وہ ایک چور کو یا ڈاکو کو اپنے طبعی رحم کی وجہ سے چھوڑ دے تو گو عفو نیک عمل ہے مگر چونکہ اس وقت وہ عمل صالح نہ ہوگا خدا تعالیٰ کے حضور میں مقبول نہ ہو گا کیونکہ جج کی کرسی پر بیٹھنے والے کے مناسب حال عمل یہ ہے کہ جو فرض اس کے ذمہ لگایا گیا ہے اُسے پورا کرے گو جس حد تک قانون اسے اجازت دیتا ہو وہ رحم سے بھی کام لے سکتا ہے۔ یا مثلاً کسی شخص کے پاس کسی نے اپنا رویہ امانت رکھوایا ہوا ہو اور وہ امین شخص اس روپیہ کو غرباء میں تقسیم کر دے تو گو غرباء کی امداد نیک عمل ہے مگر اس کا یہ فعل عمل صالح نہیں ہو گا کیونکہ امین کی حیثیت سے اس کے لئے مناسب حال عمل یہی تھا کہ وہ اس روپیہ کو محفوظ رکھتا اور اگر کسی مستحق کا اسے علم ہوتا تو مال کے مالک کو اس سے حُسن سلوک کرنے کی طرف توجہ دلاتا۔ اسی طرح مثلاً اگر کوئی شخص دوسرے کسی شخص کو دربان کے طور پر مقرر کرے اور اس دربان کو علم ہو کہ کوئی ایسی مصیبت دُنیا پر نازل ہو رہی ہے کہ جس کی وجہ سے مخلوق خدا کا تباہ ہونا ممکن ہے تو گو اس وقت وہ ایک امانت پر مقرر ہے مگر اس کا فرض ہو گا کہ وہ اس وسیع تباہی کے دور کرنے میں لگ جائے کیونکہ اس وقت عمل صالح یہی ہے کہ وہ تھوڑے نقصان کی پرواہ نہ کرے اور بڑے نقصان کو دُور کرے۔ غرض عمل صالح نیک عمل سے زیادہ وسیع معنے رکھتا ہے اور عمل صالح اس نیک عمل کو کہتے ہیں کہ جو نہ صرف ظاہری طور پر اچھا ہو بلکہ باطنی طور پر بھی اچھا ہو اور صرف اپنی ذات میں اچھا نہ ہو بلکہ موقعہ کے لحاظ سے بھی اچھا ہو اور عمل صالح کنرے والا وہ شخص ہے کہ جو اندھار دھند لفظوںکی اتباع نہیں کرتا بلکہ اپنی عقل خداداد سے کام لے کر یہ بھی دیکھتا ہے کہ موقعہ کے لحاظ سے وہ عمل کس صورت میں ظاہر ہونا چاہیئے یا وہ اس پر کفایت نہیں کرتا کہ وہ کوئی نیک عمل بجا لا رہا ہے بلکہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ وہ ہر قسم کے نیک اعمال جو اس کی اور دوسری کی روحانی یا مادی بہتری کے لئے ضروری ہیں بجا لا رہا ہے قرآن کریم میں اس فرق کو ایک نہایت لطیف پیرا یہ میں بیان کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ (شوریٰ ع ۴) یعنے جس شخص پر ظلم ہو وہ اس کا بدلہ اس قدر لے سکتا ہے جس قدر اس پر ظلم ہوا ہو لیکن جو شخص معاف کرے مگر ساتھ اس کے اصلاح کا پہلو مدنظر رکھے تو اس کا اجر اللہ پر ہو گا اس آیت میں عفو جو ایک نیک عمل ہے اسکی تعریف کی گئی ہے مگر اس کے ساتھ ہی یہ شرط لگا دی ہے کہ عفو اسی صورت میں خدا تعالیٰ کے حضور پسندیدہ ہو گا جبکہ اس کے نتیجہ میں اصلاح بھی پیدا ہو ورنہ نہیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص کو کوئی ڈاکو ملے جو پاس کے گائوں میں لوٹنے جا رہا ہو وہ ڈاکو اس کی طاقت کا غلط اندازہ لگاتے ہوئے جاتے جاتے اس پر بھی ہاتھ صاف کرنا چاہے مگر اس سے مغلوب ہو جائے تو گو اس کا اس ڈاکو کو معاف کر دینا بظاہر نہیں اور وہ اس سے چھٹ کر گائوں کے کسی اور غریب اور کمزوری آدمی پر حملہ کر کے اس کے مال یا اس کی جان کو نقصان پہنچائے گا تو وچونکہ اس ڈاکو کو معاف کرنا اصلاح کا نہیں بلکہ فساد کا موجب ہو گا اگر وہ شخص اس ڈاکو کو معاف کر دے تو باوجود عفو سے کام لینے کے عمل صالح کا بجا لانے والا نہ سمجھا جائے گا۔
احادیث رسول کریم سے بھی اس فرق کا پتہ چلتا ہے احادیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ سب سے اچھا عمل کونسا ہے آپ نے فرمایا اِیْمَانٌ بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ قِیْلَ ثُّمَّ مَا ذَا قَالَ جِہَادٌ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ سب سے اچھا عمل کونسا ہے تو آپؐ نے فرمایا اللہ اور اس کے رسول پر ایمان پھر پوچھا گیا کہ اس کے بعد تو آپؐ نے فرمایا اللہ کے رستہ میں جہاد کرنا (بخاری جلد اول کتاب الحج)
ایک دوسرے موقعہ پر حصرت عبداللہ بن مسعودؓ نے آپؐ سے پوچھا یا رسول اللہ سب سے اچھا عمل کونسا ہے تو آپؐ نے فرمایا الصَّلوٰۃُ عَلیٰ مِیْقَاتِہَا یعنے اپنے وقتوں پر نمازو ںکا ادا کرنا۔ وہ کہتے ہیں میں نے پھر پوچھا یا رسول اللہ اس کے بعد کونسا عمل ہے تو آپؐ نے فرمایا ثُمَّ بِرُّالْوَ الِدَیْنِ اس کے بعد والدین سے نیکی کرنا۔ فرماتے ہیں میں نے پوچھا یا رسول اللہ اس کے بعد پھر کونسا عمل اچھا ہے تو آپؐ نے فرمایا اَلْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ پھر اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا اچھا عمل ہے (بخاری جلد دوم کتاب الجہاد) جو لوگ شریعت کی باریکیوں سے واقف نہیں۔ انہیں اس میں اختلاف نظر آیا ہے اور انہوں نے بحث شروع کر دی ہے کہ اس اختلاف کو کس طرح دُور کیا جائے اور یہ کہ اصل میں کونسا اچھا عمل ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ انہو ںنے غور نہیں کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نیک اعمال کا مقابلہ نہیں یا بلکہ اعمال صالحہ کا مقابلہ کیا ہے جس شخص کو آپؐ نے یہ فرمایا کہ ایمان کے بعد جہاد سب سے اچھا عمل ہے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص جہاد کے موقعہ پر سستی دکھاتات ھا اور اس نیک عمل کے بجا لانے کے متعلق اس کے دل میں قبض تھا پس وہ اپنے تقویٰ کے مکان کو ادھورا رکھ رہا تھا اسے آپؐ نے یہ بتایا کہ جہاد سب سے اچھا عمل ہے اور مُراد یہ تھی کہ تمہارے مناسب حال عمل جہاد ہے کیونکہ تم باقی نیک اعمال بجا لاتے ہو مگر جہاد میں سستی کرتے ہو۔ اور جس وقت یہ فرمایا کہ سب سے اچھا عمل وقت پر نماز ادا کرنا ہے اور پھر ماں باپ کی خدمت اور پھر جہاد۔ اس وقت معلوم ہوتا ہے بعض ایسے لوگ مجلس میں بیٹھے تھے جو وقت پر نماز ادا کرنے میں سست تھے اور ماں باپ سے اچھا سلوک نہ کرتے تھے۔ پس ان کے مناسب حال یہی حکم تھا کہ وہ نماز وقت پر ادا کریں اور ماں باپ کی خدمت کریں تا ان کی نیکیوں میں یہ رخنہ باقی نہ رہ جائے۔
اس آیت میں ایمان اور عمل صالح بجا لانے والے کو جنتو ںکی بشارت دی گئی ہے اس میں یہ حکمت ہے کہ ایمان ایک باغ کی حیثیت رکھتا ہے اور عمل اسے سر سبز کرتا ہے اور اس کو پانی دے کر بڑھاتا ہے جو شخص ایمان لانے کے بعد عمل نہیں کرتا اس کے ایمان کا درخت سوکھا جاتا ہے چنانچہ عملی منافقوں کی مثال میں اوپر بتایا جا چکا ہے کہ اگر وہ ایمان کے بعد اعمال کی طرف توجہ نہ کرینگے تو ان کا ایمان بھی ضائع ہو جائے گا (دیکھو نوٹ ۲۰؎ سورہ ہذا)قرآن کریم میں دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ و الْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ (فاطر ع ۲) یعنے جب انسان ایمان کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف جاتا ہے لیکن اسے خدا تعالیٰ تک اُٹھا کر لے جانے والا عمل صالح ہوتا ہے یعنے ایمان کی تکمیل عمل صالح سے ہوتی ہے اگر عمل صالح نہ ہو تو ایمان درمیان میں ہی رہ جائے اور اپنا پھل پوری طرح نہ دے ایک دوسری آیت میں کلمہ طیبہ پاک تعلیم کو جس کا نتیجہ ایمان ہوتا ہے شجرہ طیبہ سے مثال دی ہے فرماتا ہے اَلَمْ تَرَکَیْفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا کَلِمَۃًّ طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ (ابراہیم ع ۴) یعنے کیا تم کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پاک کلمہ کو پاک درخت سے تمثیل دی ہے پاک درخت سے مشابہت دینے کے معنے یہ بھی ہیں کہ جس طرح درخت پانی کا محتاج ہوتا ہے اسی طرح کلمہ طیبہ کا اختیار کر لینا ہی کافی نہیں۔اسے عمل کے پانی سے سیراب کرنا بھی ضروری ہے تبھی اس کی سرسبزی اور شادابی قائم رہے گی۔ عمل صالح کرنے والے مومنوں کو ایسے باغات کی بشارت دے کر جن کے نیچے نہریں بہتی ہونگی اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ چونکہ انہوں نے اپنے ایمان کی کھیتی کو عمل کے پانی سے سینچا تھا اللہ تعالیٰ بھی انہیں ایسے باغوں میں رکھے گا جن کے اندر نہریں بہتی ہونگی اور یہ نہروں کا بہنا انہیں یاد کراتا رہے گا کہ ان کا ایمان اور عمل ضائع نہیں ہوا بلکہ اس سے ہمیشہ کی راحت پیدا ہوئی۔ باغوں کے سائے ان کی توجہ کو ایمان کی طرف کھینچیں گے جو اللہ تعالیٰ کے فضل کو کھینچتا ہے اور اس کے اند ربہنے والی نہریں انہیں ان کے اعمال صالحہ کی یاد دلائینگی جنہو ںنے ایمان کے درخت کو سوکھنے سے بچایا۔
یہ جو فرمایا ہے کہ ان باغوں کے نیچے نہریں بہتی ہونگی اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ جنت میں ہر شخص کا دائرہ عمل دوسروں کے اثر اور دخل اندازی سے آزاد ہو گا اور نیچے بہنے سے مُراد یہی ہے کہ ہر باغ کی نہر اس سے متعلق ہو گی اور اس کے انتظام کا حصہ ہو گی اس دُنیا کی طرف نہ ہو گا کہ ایک نہر کئی باغوں اور کھیتو ںکو پانی دیتی ہے اور بسا اوقات لوگو ںمیں اس کے پانی کی تقسیم پر جھگڑا ہو جاتا ہے۔
کُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْھَا مِنْ ثَمَرَۃٍ رِّزْقًا اس میں رِّزْقًا مفعول مطلق بھی ہو سکتا ہے او رمفعول بہ بھی مفعول مطلق کی صورت میں رِزْقًا کے معنے ہونگے اچھی طرح دینا۔ اور آیت کا ترجمہ یہ ہو گا کہ جب کبھی پھلوں کی قسم سے کوئی چیز انہیں بطریق احسن دی جائے گی۔ ان معنوں کے لحاظ سے آیت کا یہ مفہوم ہو گا کہ مومنوںکو ان کے ایمان کا پھل ہی نہیں ملے گا بلکہ ان کا ایسا اعزاز کیا جائے گا کہ وہ پھل کامل طور پر انہیں ملے گا اور خدا تعالیٰ کی عطا اسی طرح ہو گی کہ جو عطا کرنے کا حق ہے رِزْقًا کو اگر مفعول بہ مانا جائے تو اس کے معنے مَرْزُوْقٌ کے کئے جائیں گے یعنے کھانے کی چیز یا دی جانے والی چیز اور اس صورت میں اس کے یہ معنے ہونگے کہ جب کبھی کوئی کھانے کی چیز انہیں دی جائے گی جو پھلوں کی قسم سے ہو گی تو وہ اگلا بیان کردہ فقرہ دہرائیں گے۔ اس صورت میں زور عبارت کا مِنْ ثَمَرَۃٍ پر ہو گا اور اس طرف اشارہ سمجھا جائے گا کہ جو کچھ انہیں ملے گا وہ ان کے ایمان اشارہ سمجھا جائے گا کہ جو کچھ انہیں ملے گا وہ ان کے ایمان اور اعمال کا نتیجہ ہو گا۔
قَالُوْا ھٰذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ۔ وہ کہینگے کہ یہ وہی ہے جو ہمیں پہلے مل چکا ہے مفسرین لکھتے ہیں کہ یا تو اس کے یہ معنی ہیں کہ دُنیا میں اللہ تعالیٰ ہمیں جو پھل دیتا تھا وہی پھل ہمیں وہ یہاں بھی دے رہا ہے یا اس کے یہ معنے ہیں کہ بار با پھل ملے گے اور وہ ہر دوسری بار کہیں گے کہ یہ وہی چیز ہے جو ہمیں پہلے بھی مل چکی ہے گویا جنت کی نعمتوں کی تکرار کی طرف اشارہ کریں گے لیکن میرے نزدیک یہ دونوں معنی درست نہیں کیونکہ اگر اس کے یہ معنی کئے جائیں کہ دُنیا میں بھی ہم کو پھل ملے تھے اور اب بھی ملے ہیں تو اس کے معنے تو یہ ہنوگے کہ دُنیا میں بھی ہم کو پھل ملے تھے اور اب بھی ملے ہیں تو اس کے معنے تو یہ ہونگے کہ دُنیا کے پھل اور آخرت کے پھل ایک قسم کے ہیں حالانکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّٓا اُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ (سجدہ ع ۲) کوئی شخص بھی نہیں جانتا کہ جنت میں اسے کیا ملنے والا ہے پھر جنت کے پھلوں کو دنیا کے مادی پھلوں جیسا قرار دینے کے معنے کیا ہوئے اور اگر یہ معنے کئے جائیں گے کہ ایسے پھل ہمیں جنت میں پہلے بھی مل چکے ہیں تو اول تو اس پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ قرآن کریم فرماتا ہے جب بھی انہیں پھل ملیں گے وہ یہ فقرہ کہیں گے لیکن ظاہر ہے کہ پٖہلی دفعہ پھل ملنے یہ وہ یہ فقرہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ کے یہ معنی ہیں کہ ہمیں پہلے یہ پھل مل چکے ہیں۔ دوسرا اعتراض اس پر یہ پڑتا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی نعمت کا کفران ہے شکریہ نہیں کیونکہ احسان کی قدردانی کے موقعہ پر تو انسان یہ کہتا ہے کہ آج جیسی لطیف چیز ملی ہے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی کسی میزبان کو یہ کہنا کہ ایسا کھانا آپ مجھے پہلے بھی کھلا چکے ہیں اس کی ہجو ہے نہ کہ تعریف۔ اس کا تو یہ مطلب نکلتا ہے کہ اب کچھ او رکھلائو کب تک وہی چیز دوبارہ دیتے رہو گے۔
میرے نزدیک اس کے دو معنے ہیں ایک تو یہ کہ چونکہ باغ ایمان کی تمثیلی شکل ہونگے اور پھل ایمان کی لذت کا تمثل ہو گا مومنو ںکو جب بھی جتنی جنتی پھل ملیں گے وہ کہیں گے کہ یہ وہی ایمان کی حلاوت ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہم کو دُنیا میں عطا فرمائی تھی اور ہمارا وہ ایمان ضائع نہیں ہوا بلکہ برابر پھل لا رہا ہے۔
اور ظاہر ہے کہ یہ فقرہ شکریہ اور امتنان کے جذبات سے بھرا ہوا ہے اور مومن اور خدا تعالیٰ دونوں کے شایان شان ہے۔ ہر دفعہ پھل ملنے پر وہ ایمان کی نعمت کو یاد کریں گے اور اللہ تعالیٰ کے اس فضل کو بھی یاد کریں گے کہ اس نے انہیں ایمان بخشا تھا اور ساتھ ہی وہ اس نعمت کا بھی شکریہ ادا کریں گے جو ہمیشہ کے لئے ایمان کے نتیجہ کے طو رپر رُوحانی پھل کی شکل میں انہیں آخرت میں ملے گی۔
دوسرے معنی اس کے یہ ہیں کہ رُزِقْنَا کے معنی وعدہ کے کئے جائیں اور آیت کے معنے یہ ہوں کہ جب کبھی بھی انہیں جنتی پھل ملینگے وہ کہینگے کہ یہی وہ پھل ہیں جن کا ہم سے دُنیا میں وعدہ کیا گیا تھا اور وعدہ کے لئے ماضی کے لفظ کا استعمال قرآن کریم سے ثابت ہے چنانچہ اُجرت پر دودھ پلانے والی عورتوں کے ذکر میں فرماتا ہے اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّٓا اٰتَیْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ (بقرہ ع ۳۰) جس کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ جب تم دودھ پلانے والیوں کو دے دو جو حسب قاعدہ دے چکے ہو مگر مُراد یہ ہے کہ جس کے دینے کا ان سے پختہ وعدہ کر چکے ہو اس محاورہ کے مطابق رُزِتُوْا کے معنے اس آیت میں یہ کئے جائینگے کہ جس کے دینے کا ہم سے وعدہ کیا گیا تھا اور آیت کے یہ معنے ہونگے کہ جس بات کا وعدہ ہم سے دُنیا میں کیا گیا تھا وہ آج اس نعمت کے ذریعہ سے پورا کیا جا رہا ہے۔ اور جب بھی جنتی پھل ملیں گے وہ بے اختیار کہہ اُٹھیں گے کہ لو اس وعدے کے مطابق آج بھی ہم کو یہ پھل ملے ہیں ان معنوں کو بعض سابق مفسرین نے بھی اختیار کیا ہے۔
وَاُتُوْابِہٖ مُتَشَابِھًا۔ یعنی وہ پھل انہیں متشابہ صورت میں دیئے جائینگے کے معنے مفسرین نے یہ کئے ہیں کہ دُنیا کے پھلوں سے ملتے ہوئے پھل دیئے جائینگے۔ یا یہ کہ جو پھل آخرت میں ملینگے ان کی شکل تو آپس میں ملتی جلتی ہو گی مگر مزہ میں فرق ہو گا پہلے معنوں کی کمزوری میں پہلے بیان کر چکا ہوں دوسرے معنی بالبداہت باطل ہیں کیونکہ پھل ہی دیئے جائیں گے تو انہیں ایک شکل میں دینے کا کیا فائدہ۔ پھر مزہ کے مختلف ہونے کا ثبوت کہاں سے ملا۔
میرے نزدیک اس کے صحیح معنے یہ ہیں (۱) جنتی پھل اپنی لذت کے لحاظ سے ان عبادات کی لذتوں کے مشابہ ہونگے کہ جو مومن اس دُنیا میں کرتے رہے ہیں یعنی مومن ان پھلوں کو کھا کر محسوس کرے گا کہ یہ وہی نماز ہے جو میں نے پڑھی تھی یہ وہی روزہ ہے جو میں نے رکھا تھا یہ وہی حج ہے جو میں نے کیا تھا یہ وہی صدقہ ہے جو میں نے دیا تھا یہ وہی عفو ہے جس سے میں نے اپنے دشمن سے معاملہ کیا تھا۔ غرض تمام نیک اعمال ایک ایک کر کے ان کے لئے جنت میں متمثل ہونگے اور ان کے دل خدا تعالیٰ کے شکر سے بھرتے جائینگے کہ میری فلاں نماز بھی اس نے نہیں بھلائی۔ میرا فلاں صدقہ بھی اس نے نہیں بھلایا۔ غرض ہر ہر پھل میں وہ خدا تعالیٰ کی قدردانی کو محسوس کرینگے اور انہیں وہ لذت یاد آ جائیگی کہ جو اس دُنیا میں اس نیک عمل کے بجا لاتے وقت ان کو حاصل ہوئی تھی۔
ان معنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مومنوں کو اپنی اس ذمہ داری کو محسوس کرنا چاہیئے جو اعمال صالحہ کے بجا لاتے وقت ان پر عائد ہوتی ہے اگر ہماری نماز جنت میں پھل کی شکل میں آنے والی ہے ہمارا صدقہ پھل کی شکل میں سامنے آنے والا ہے تو ہمیں اپنی نماز اور اپنے صدقہ کو درست کرنا چاہیئے کیونکہ جیسی ہماری نماز اور جیسا ہمارا روزہ ہو گا اسی قسم کے مزہ کا وہ پھل وہ گا جو ہمیں جنت میں ملے گا اگر ہم اپنے اعمال کو پوری دلجمعی اور شوق سے بجا نہیں لاتے تو ہم اپنی روحانی غذا کو جو ہمیں جنت میں ملنے والی ہے دوسروں سے کم لذیذ بناتے ہیں اور اگر ہم اپنے صدقہ اور اپنے عفو اور خدمت خلق کو اور عبادت کو ٹھیک کرتے ہیں تو گویا اپنی روحانی غذا کو لذیذ بناتے ہیں۔ کیونکہ اس غذا کی لذت ہماری اس لذت کے مشابہ ہو گی جو اس وقت ہم نیک اعمال میں محسوس کرتے ہیں۔
دوسرے معنے اس جملہ کے یہ ہیں کہ جو رزق جنتیوں کو ملے گا وہ متشابہ خاصیتو ںکا ہو گا یعنی اس دُنیا میں تو جو غذا انسان کھاتا ہے وہ بسا اوقات ایک دوسرے کے اثر کو باطل کرنے والی ہوتی ہے ایک چیز معدہ کے لئے مقوی اور دوسری مضعف۔ ایک چیز دل کے لئے اچھی دوسری بری۔ ایک دماغ کو طاقت دینے والی دوسری کمزو رکرنے والی ہوتی ہے۔ اس طرح بہت سی غذا آپس میں ٹکرا کر اپنے اثر کو کمزور کر لیتی ہے اور بہت تھوڑی غذا حقیقتاً ہمارے جسم کے کام آتی ہے۔ اسی طرح اِس دُنیا میں رُوحانی اعمال کا حال ہوتا ہے کوئی نیک عمل ظاہر ہوتا ہے تو کوئی بد۔ اور بدیاں نیکیوں کے اثرات کم کرتی رہتی ہیں مگر اُخروی زندگی کے متعلق فمراتا ہے کہ وہاں جو روحانی غذا ملے گی وہ متشابہ ہو گی یعنی تاثیر کے لحاظ سے ہر چیز دوسری کی ممد ہو گی اور یہ نہ ہو گا کہ کوئی غذا رُوحانیت کی طرف لی جائے تو کوئی اس سے دُور کرے بلکہ ساری کی ساری غدا ایک دوسری کی ممد ہو گی اور رُوحانی ترقی کا موجب ہو گی اور انسانی رُوح ہر قسم کی روحانی بیماریوں سے محفوظ ہو جائیگی اور روحانی بیماریاں اسی مادی دُنیا میں رہ جائینگی۔
ایک معنی اس کے یہ بھی ہیں کہ جنت کی غذا ہر شخص کے اندرونی قویٰ کے مطابق ہو گی جیسی اس کی طاقت ویسی غذا۔ یعنی جس جس انسان کو روحانی ترقی کے لئے جس جس قسم کی روحانی غذا کی ضرورت ہو گی وہی غدا اس کے لئے مہیا کی جائے گی تاکہ اس کی رُوحانی طاقتیں بڑھتی چلی جائیںاور کوئی روک پیدا نہ ہو۔
ایک معنے اس کے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ گو جنت کے پھل دُنیا کے پھلوں کے ہم شکل ہونگے مگر یہ مشابہت صرف شکل کی ہو گی ورنہ اپنی لذت اور تاثیر اور حقیقت کے لحاظ سے وہ اِن سے مختلف ہونگے کیونکہ یہ مادی جسم والے پھل ہیں اور وہ روحانی جسم والے پھل ہونگے۔
وَلَھُمْ فِیْہَا اَزْوُاجٌ مُّطَھَّرَۃٌ۔ انہیں وہاں پاک ساتھی یا پاک بیویاں یا پاک خاوند ملیں گے۔ پاک ساتھی کے معنوں کی صورت میں تو کسی کے لئے اعتراض کرنے کی گنجائش ہی نہیں کیونکہ اِس صورت میں اِس کے یہ معنی ہونگے کہ جنت میں جس طرح غذا ایک دوسرے کی ممد ہو گی اس طرح اِس کے سب مکین ایک دوسرے کی رُوحانی ترقی میں مدد کرنے والے ہونگے گویا اندرونی اور بیرونی ہر طرح کا امن اور تعاون حاصل ہو گا۔
اور اگر خاوند یا بیوی کے معنی کئے جائیں کیونکہ ازواج مرد اور عورت دونوں کے لئے بولا جاتا ہے عورت کا زوج اس کا خاوند ہے او رمرد کا زوج اس کی بیوی تو اس صورت میں اس کے ایک معنی یہ ہونگے کہ ہر جنتی کے پاس اس کا وہ جوڑا رکھا جائے گا جو نیک ہو گا۔ اس صورت میں بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں پڑ سکتا بلکہ یہ تحریک ہے کہ مرد کو اپنی نیکی کے ساتھ اپنی بیوی کی نیکی کا بھی خیال رکھنا چاہیئے اور عورت کو اپنی نیکی کے ساتھ اپنے خاوند کی نیکی کا بھی خیال رکھنا چاہیئے کیونکہ اگر وہ دنیوی زندگی کی طرح اگلے جہان میں بھی اکٹھا رہنا چاہتے ہیں تو اچہیئے کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کو بھی نیک بنانے کی کوشش کرے تا ایسا نہ ہو کہ میاں جنت میں ہو اور بیوی دوزخ میں ہو یا بیوی جنت میں اور میاں جنت میں ہو اور بیوی دوزخ میں ہو یا بیوی جنت میں اور میاں دوزخ میں ہو۔ ان معنوں کے رُو سے یہ روحانی پاکیزگی کی ایک اعلیٰ تعلیم ہے جس پر اعتراض کرنے کی بجائے اس کی خوبی کی داد دینی چاہیئے۔
باقی رہا یہ کہ اِس کے معنے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ ہر شخص کو ایک پاک جوڑا دیا جائے گا تو ان معنوں کے رو سے بھی کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا کیونکہ اگر یہی معنوی ہوں کہ ہر مرد کو ایک پاک بیوی دی جائے گی اور ہر عورت کو ایک پاک مرد دیا جائے گا تو اس پر کیا اعتراض ہے اعتراض تو اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کسی ناپاک فعل کی طرف اشارہ کیا جائے جب قرآن شریف پاک کا لفظ استعمال کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ جنت میں وہی کچھ ہو گا جو جنت کے لحاظ سے پاک ہے پھر اِس پر اعتراض کیسا۔
سرولیم میور نے اِس آیت کے مضمون پر ایک نہایت ناپاک اعتراض کیا ہے اور ریورنڈ وہیری نے حسب عادت اس کی تصدیق کی ہے اور وہ اعتراض یہ ہے کہ قرآن کریم کی مکی سورتوں میں جنت میں عورتوں کا ذکر کثرت سے اور زیادہ جوش سے کیا گیا ہے لیکن مدنی سورتوں میں صرف دو دفعہ اور نہایت مختصر الفاظ میں جو یہ ہیں کہ مومنوں کو جنت میں پاک بیویاں ملینگی ذکر کیا گیا ہے اس سے (نعوذ باللہ من ذالک) یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ چونکہ مکہ میں آپؐ کی صرف ایک بیوی تھی اور وہ بھی عمر میں بڑی اس لئے محمد صاحب (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کو عورتوں کا خیال زیادہ آتا تھا مگر مدینہ میںچونکہ یہ خواہش پوری ہو گئی اور کئی جوان بیویاں مِل گئیں یہ خیال کم ہو گیا۔
سرولیم نے جو اعتراض کیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ قرآنی آئینہ میں اپنا منہ دیکھا ہے اور ریورنڈ وہیری نے پادریوں کے روایتی تعصب کو قائم کیا ہے مجھے تعجب آتا ہے کہ یہ لوگ تعلیم یافتہ کہلاتے ہوئے اور تہذیب کا دعویٰ کرتے ہوئے کروڑوں انسانوں کے پیشوائوں پر قیاسی باتوں کی بناء پر کس طرح حملہ کر دیتے ہیں حانلانکہ خود ان لوگوں کے اخلاق اس قدر گرے ہوئے اور ذلیل ہوتے ہیں کہ انسانیت کو ان سے شرم آتی ہے ان کی یہ جرأت محض اس وجہ سے ہے کہ اس وقت عیسائیوں کو حکومت حاصل ہے اور ان کو یہ شرم بھی نہیں آتی کہ جب مسلمان دُنیا پر حاکم تھے اور مسیحیوں کا اس سے بھی پتلا حال تھا کہ جو اس وقت مسلمانوں کا مسیحیوں کے مقابل پر ہے اس وقت بھی مسلمانوں نے یسوع ناصری کے بارہ میں سخت الفاظ کبھی استعمال نہیں کئے مسلمانوں نے ہزار سال تک مسیحی ممالک پر حکومت کر کے اُن کے سردار کی جس عزت کا اظہار کیا کاش مسیحی لوگ دو تین سو سال کی حکومت پر ایسے مغرور نہ ہو جاتے کہ اس نبیوں کے سردارؐ پر اس طرح درندو ںکی طرح حملے کرتے اور مسلمانوں کے اس احسان کا کچھ تو خیال کرتے کہ انہو ںنے یسوع کے خلاف کبھی جارحانہ قدم نہیں اٹھایا اور نہ حق یہ ہے کہ مسلمان یسوع کی نسبت اس سے بہت زیادہ کہہ سکتے ہیں جو مسیحی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کہتے ہیں۔
سر ولیم نے اپنی طرف سے ایک گندہ اعتراض تو کر دیا لیکن یہ نہیں سوچا کہ مکی اور مدنی سورتوں میں اس قسم کا فرق صرف عورتوں کے بارہ میں ہی نہیں ہے بلکہ اور امو رمیں بھی ہے مثلاً یہ کہ مکی سورتوں میں یہ ذکر آیا ہے کہ جنت میں شراب ہو گی مگر کسی مدنی سورۃ میں یہ ذکر نہیں مکی سورتوں میں یہ ذکر ہے کہ جنت میں شہد ہو گا مگر کسی مدنی سورۃ میں یہ ذکر نہیں مکی سورتوں میں یہ ذکر ہے کہ جنت میں دودھ کی نہریں ہونگی مگر کسی مدنی سورۃ میں یہ ذکر نہیں (جیسا کہ اوپر گذری ہوئی آیات سے ثابت ہے) اب اگر سر ولیم کا خود ساختہ نفسیاتی نکتہ صحیح ہے کہ چونکہ مکہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم علی آلہ و اصحابہ) کی ایک ہی بیوی تھی اور وہ بڑی عمر کی اس لئے آپؐ کو جنت کے نقشے میں عورتیں نمایاں نظر آتی تھیں تو کیا شراب کے ذکر میں بھی سر ولیم کا یہ نکتہ چسپان ہو سکے گا کہ چونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ میں شراب نہ ملتی تھی اس لئے جنت میں بھی انہیں شراب نظر آتی تھی اور مدینہ میں چونکہ شراب ملنے لگی اس لئے مدنی زندگی میں قرآنی جنت میں سے شراب کا ذکر حذف ہو گی یا کیا اسی قاعدہ کی رُوسے یہ نتیجہ بھی نکالا جا سکے گا کہ مکہ میں آپؐ کو دودھ نہ ملتا تھا اس لئے جنت میں دودھ میسر ہونے کا آپؐ خیال کیا کرتے تھے مگر مدینہ میں چونکہ دودھ ملنے لگا یہ خیال کمزور پڑ گیا یا کیا یہ کہنا درست ہو گا کہ مکہ میں چونکہ آپؐ کو شہد نہ ملتا تھا اس لئے آپؐ اس کے شوق کی وجہ سے جنت میں شہد کی کثرت کا خیال کرتے تھے مگر مدینہ میں چونکہ شہد ملنے لگا آپؐ نے اس کے ذکر کو چھوڑ دیا۔ کیا کوئی انسان بھی جس کے دماغ میں عقل ہو اس قسم کی خرافات کو تسلیم کر سکتا ہے اگر وہ نفسیاتی نکتہ صحیح ہے تو پھر ان دوسری باتوں پر بھی اسے چسپان کر کے دکھائیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مکی زندگی کے اکثر حصہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے زیادہ فراخی حاصل تھی جس قدر کہ مدنی زندگی میں حاصل تھی کیونکہ آپؐ کی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بہت مالدار تھیں اور جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہوتا ہے انہوں نے اپنا سب مال آپؐ کی خدمت میں پیش کر دیا تھا چنانچہ آپؐ کی وہ اولاد جو مکہ میں جوان ہوئی اور بیاہی گئی اس کی نسبت ثابت ہے کہ اسے قیمتی زیورات جہیز میں دئے گئے مگر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو مدینہ میں بیاہی گئیں انہیں ایک چھلا تک نہیں ملا۔ غرض دنیوی لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت مکہ میں اچھی تھی لیکن چونکہ آپؐ نے حضرت خدیجہؓ کی دولت کو آہستہ آہستہ نیک کامو ںمیں خرچ کر دیا اس لئے مدینہ منورہ کے ایام میں آپؐ کی وہ آسودگی کی حالت نہ رہی تھی پس اگر یہ فرق کسی نفسیاتی اثر کے ماتحث ہوتا تو معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوتا جیسا کہ سر ولیم نے سمجھا ہے۔
اگر سر ولیم کا طریق استدلال ٹھیک ہو تو پھر مسیحت کے مخالفوں کو بھی یہ حق حاصل ہونا چاہیئے کہ وہ کہیں کہ یسوع کو چونکہ بوجہ غربت اور یہود کی مخالفت کے اِدھر اُدھر بھاگے پھرنا پڑتا تھا اس لئے وہ اپنے دل کی تکلیف کا ازالہ اِن خیالات کے ذریعہ کرتا رہتا تھاکہ وہ یہودیوں کا بادشاہ ہونے والا ہے اسی طرح سر ولیم کے مقرر کردہ اصل کے ماتحت یسوع کی نسبت یہ اعتراض بھی درست تسلیم کیا جانا چاہیئے کہ چونکہ ان کو شادی کی توفیق نہ ملی اس لئے ان کے ذہنی جذبات انہیں ایک دوبارہ آمد کے خیال میں مبتلا رکھتے تھے جبکہ وہ دُولھا کی شکل میں آئیں گے اور ایک نہیں دو نہیں اکٹھی پانچ کنواریوں کو لے کر مکان میں گھس جائیں گے چنانچہ انجیل میں لکھا ہے کہ یسوع نے کہا ’’اس وقت آسمان کی بادشاہت دس کنواریو ںکی مانند ہو گی جو اپنے مشعلیں لے کر دولہا کے استقبال کے واسطے نکلیں۔ اُن میں پانچ ہوشیار ار پانچ نادان تھیں جو نادان تھیں انہوں نے اپنے مشعلیں لئے مگر تیل ساتھ نہ لیا پر ہوشیاروں نے اپنے مشعلوں کے ساتھ برتنو ںمیں تیل لیا۔ جب دولہا نے دیر کی سب اونگھنے لگیں اور سو گئیں آدھی رات کو دھوم مچی کہ دیکھو دُولہا آتا ہے اس کے استقبال کے واسطے تکلو تب ان سب کنواریوں نے اُٹھ کر اپنی مشعلیں درست کیں اور نادانوں نے ہوشیاروں سے کہا اپنے تیل میں سے ہمیں بھی دو کہ ہماری مشعلیں بجھی جاتی ہیں پر ہوشیاروں نے جواب میں کہا ایسا نہ ہو کہ ہمارے اور تمہارے واسطے کفایت نہ کرے بہتر ہے کہ بیچنے والوں کے پاس جائو اور اپنے واسطے مول لو۔ جب وے خریدنے گئیں دُولہا آ پہنچا اور وے جو تیار تھیں اس کے ساتھ شادی کے گھر میں گئیں اور دروازہ بند ہوا پیچھے وے دوسریکنواریاں بھی آئیں اور کہنے لگیں اے خداوند اے خداوند ہمارے لئے دروازہ کھول تب اس نے جواب میں کہا میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تمہیں نہیں پہنچانتا‘‘ (متی بات ۲۵۔ آیت ۱ تا ۱۲) اب دیکھو اگر سر ولیم میور او رپادیر وہیری جیسے شخص اسی تمثیل سے یہ نتیجہ نکالیں کہ شادی نہ ہونے کی وجہ سے یسوع کو کنواریوں کا ہی خیال رہتا تھا تو کیا یہ درست ہو گا کیا مسیح دُنیا ایسے اعتراض کرنے والے کو منصف قرا ردیگی اگر نہیں تو میں کہتا ہوں کیوں انہوں نے اس قسم کے لوگوں کا مقابلہ نہ کیا جنہوں نے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم پر ایسے لغو اور بیہودہ اعتراض کئے اور کیوں مسیحیت کی اِس تعلیم کو یاد نہ رکھا کہ ’’تُو اپنے پڑوسی کو ایسا پیار کر جیسا آپ کو‘‘ (متی باب ۲۲ آیت ۳۹)
اگر سر ولیم اور پادری وہیری غور کرتے تو انہیں معلوم ہو سکتا تھا کہ یہ فرق جو مکی اور مدنی سورتوں کے بیان میں ہے اِس کی نہایت معقول وجہ موجود ہے اور و ہ یہ کہ مکہ میں مسلمانوں پر کفار کا یہ طعنہ ہوتا تھا کہ یہ ذلیل اور غریب ہیں ان کے پاس وہ نعمتیں نہیں ہیں جو ہمیں حاصل ہیں اس لئے انہیں کے الفاظ میں جنت کی حقیقت کو بیان کیا گیا۔ اور بتایا گیا کہ جن چیزوں پر تم کو فخر ہے ان سے بہتر مسلمانوں کو ملینگی لیکن مدینہ میں جب مسلمانوں کے قدم اللہ تعالیٰ نے جما دیئے تو کفار کے اس اعتراض کی گنجائش نہ رہی اس لئے اللہ تعالیٰ نے بھی اس رنگ کے جواب کو ترک کر دیا۔ اب آیندہ زمانوں کے لئے قرآن شریف میں دونوں طرح کی تشریح جنت کی موجود ہے جن کا اعتراض مسلمانو ںپر مکی زندگی کے دشمنوں کا سا ہو ان کے لئے مکی زندگی کی آیات میں جواب موجود ہے اور جن کا اعتراض مدنی زندگی کے دشمنوں کا سا ہو ان کے لئے مدنی زمانہ کی آیات موجود ہیں۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ مکی زمانہ میں اعتقادات کی تشریح پر زور دینا ضروری تھا کیونکہ ابتداء میں اعتقادات کی درستی اور تلقین ہی ضروری ہوتی ہے اس لئے ان سورتوں میں اعتقادی مسائل کی تشریح زیادہ تفصیل سے موجود ہے اور جنت بھی اعتقادات میں سے ہے پس جنت کے متعلق زیادہ تفصیلی مکی سورتوں میں ہے مدنی سورتوں میں چونکہ اسلامی تمدن کا قیام زیادہ مقدم تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کے حسبِ حال تعلیم مدنی سورتوں میں دی ہے اور وہ مدنی احکام کی زیادہ تفصیل بیان کرتی ہیں اور ان میں ان مسائل کی طرف (جب بھی ان کا ذکر آئے) صرف اشارہ ہوتا ہے جو مکی سورتوں میں بیان ہو چکے تھے اور کلام حکیم میں ایسا ہی ہونا چاہیئے۔
سر ولیم نے اعتراض کا ایک اور پہلو بھی اختیار کیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اگر وہ بات نہیں جو اوپر بیان ہوئی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) مدینہ میں آئے تو یہود و نصاریٰ کے اثر سے انہوں نے جنت کے بارہ میں اپنے کلام کو بدل دیا کسی نے سچ کہا ہے کہ دروغ گورا حافظہ بنا شد۔ مسیحی مصنف کفار مکہ کے اِسی اعتراض کو بڑی وقعت دیتے ہیں کہ محمد رسول اللہ کو کوئی اور شخص سکھاتا ہے اور اس پر زور دیتے ہیں کہ بعض مسیحی لوگ جو غلام تھے محمدؐ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو مسیحی کتب کی باتیں بتاتے تھے اور کبھی وہ یہ الزام لگاتے ہیں کہ آپؐ نے ایک مسیحی راہب سے اپنی جوانی میں مسیحی مذہب کی تعلیم حاصل کی تھی اور اسے قرآن میں نقل کر دیا۔ سر ولیم میور نے اپنی کتاب میں اس امر کی تصدیق کی ہے کہ آپؐ نے صہیب رضی اللہ عنہ سے جو ایک رومی غلام تھے اور مکہ میں رہتے تھے عیسائیت کے بارہ میں علم حاصل کیا تھا (لائف آف محمد صفحہ ۶۷) اگر یہ بات درست ہے تو مدینہ میں آنے سے پہلے ہی آپ کو مسیحی تعلیم کا علم تھا اور مدینہ میں آ کر جنت کے بارہ میں مسیحی تعلیم سے متاثر ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر واقعہ میں مسیحی اور یہودی غلام آپؐ کو پرانے اور نئے عہد نامہ کی باتیں بتایا کرتے تھے تو یہ علم آپ کو مکہ میں ہی حاصل ہو جانا چاہیئے تھا۔
بات یہ ہے کہ یہودی اور نصرانی لٹریچر میں جنت کا کوئی ذکر ہی نہیں اسرائیلی لوگوں کو اس دُنیا کی زندگی سے ایسی اُلفت رہی ہے اور اُن کی شاخ مسیحیت بھی اسی مرض میں مبتلا رہی ہے کہ اُخروی زندگی کے بارہ میں اُن کی کتب میں کوئی معین تعلیم موجود نہیں وہ سب ان وعدوں کو جو انبیاء نے اُخروی زندگی کے بارہ میں کئے ہیں اِسی دُنیا پر چسپان کرتے چلے آئے ہیں۔ پس ان سے کسی کا متاثر ہونا امر محال ہے ان کی کتب میں نہ ان مسائل پر بحث ہے اور نہ کوئی ان سے کچھ اخذ کر سکا ہے وہ تو اِسی دُنیا کی طرف راغب رہے ہیں جیسا کہ قرآن کریم ان کے حق میں فرماتا ہے کہ ضَلَّ سَعْیُہُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا (سورہ کہف ع ۱۲) یعنی ان کی تمام کوششیں اسی دُنیا میں غائب ہو کر رہ جاتی ہیں پس اگر کوئی ان سے اس بارہ میں حاصل کرنا بھی چاہے تو کچھ حاصل نہیں کر سکتا۔ ہاں قرآن کریم ہی ایک ایسی کتاب ہے جس نے ان مسائل پر سیر کن بحث کی ہے جو اپنے اپنے موقعہ پر بیان ہو گی۔
میں آخر میں اس امر کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس آیت کے بارہ میں جو مضامین میں نے بیان کئے ہیں وہ بانی سلسلہ احمدؐیہ کی کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی کی روشنی میں بیان کئے گئے ہیں۔ عالم اُخروی کے متعلق اس کتاب میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے کوئی شخص جو اس مسئلہ کے متعلق کچھ بیان کرے اس سے مستغنی نہیں ہو سکتا۔
وَھُمْ فِیْھَا خَالِدُوْنَ۔ وہ جنت میں بستے چلے جائیں گے فنا کبھی ان پر نہ آئے گی۔ یہ پہلی دونوں باتوں کا لازمی نتیجہ ہے۔ فنا اسی صورت میں ہوتی ہے کہ جب انسان کی غذا اس پر متضاد اثر ڈالے آخر ایک دن اس کی متضاد غذا کا اثر موت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے یا موت اس طرح آتی ہے کہ کوئی اسے مار دے۔ جب وہاں کی ہر غذا دوسرے کی مؤید ہو گی اور انسان کی اندرونی طاقتوں کے بھی مطابق ہو گی او رجب سب ساتھی نیک اور پاک ہونگے اور کوئی کسی کو نقصان پہنچانے والا نہ ہو گا تو ظاہر ہے کہ موت کے دروازے بند ہو جائیں گے اور ابدی زندگی کا مقام انسان پائے گا۔

ان اللہ لایستحی ان یضرب مثلا مابعوضۃ فما
اللہ ہر گز نہیں رکتاکسی بات کے بیان کرنے سے (خواہ وہ) مچھر کے برابر ہو یا اس سے (بھی) بڑھ کر ہو پھر جو لوگ (تو) ایمان
فو قھا فاما الذین امنوا فیعلمون انہ الحق من ربھم
رکھتے ہیں تو جان لیتے ہیںکہ وہ ان کے رب کی طرف سے بالکل حق (بات) ہے اور جو لوگ کاف رہوئے ہیں وہ کہتے ہیں
واما الذین کفر وا فیقولون ماذا ار اد اللہ بھذا مثلا یضل بہ
کہ(آخر) اللہ کا اس (بات) کے بیان کرنے سے منشاء کیا ہے (اصل بات یہ ہے کہ) وہ بہت (سے لوگوں) کو اس کے ذریعہ سے
کثیرا ویھدی بہ کثیرا وما یضل بہ الا الفقینo
گمراہ قرار دیتا ہے اور بہت (سے لوگوں) کو اس کے ذریعہ سے ہدایت دیتا ہے اور وہ اس کے ذریعہ سے ان نافرمانوں کے سوا ۲۷؎
یہ آیت بھی اس امر کا بین ثبوت ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک انسانی پیدائش شروع سے ہی دوسرے حیوانوں سے مختلف تھی کیونکہ جب سے وہ نطفہ سے پیدا ہونے لگا ہے اس کا بیج نطفۂ امشاج سے بننا شروع ہوا ہے جبکہ دوسرے حیوانوں کا تناسل نطفۂ غیر امشاج سے ہوتا چلا آیا ہے۔
ہاں ایک بات ضرور ہے کہ گو انسان کی پیدائش شروع سے ہی نطفۂ امشاج سے ہونی ہے مگر ابتداء میں وہ بالقوۃ تو نطفۂ امشاج کی خصوصیات رکھتا تھا مگر بالفعل اس سے نطفۂ امشاج کی قوتیں ظاہر ہونی شروع نہ ہوئی تھیں بلکہ آہستہ آہستہ ترقی کرنے کے بعد ظہور میں آنے لگیں چنانچہ قرآن مجید فرماتا ہے فَجَعَلْنَاہُ سَمِیْعًا بَصِیْرًا (دہرع ۱) یعنی نطفۂ امشاج سے پیدا کرنے کے بعد ایک زمانہ وہ آیا کہ انسان بالقوۃ سے بالفعل بھی انسان بن گیا اور سمیع و بصیر ہو گیا۔
سمیع و بصیر سے مراد صرف سننے والا اور دیکھنے والا نہیں ہے بلکہ سمیع بہت سننے والے اور بصیر دیکھنے پر قادر کو کہتے ہیں کہ یہ الفاظ حیوانوں کی نسبت استعمال نہیں ہو سکتے ان کی نسبت یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ سمیع اور بصیر ہیں بلکہ وہ صرف سننے والے اور دیکھنے والے ہیں سننے اور دیکھنے کے قویٰ ان میں کامل طور پر نہیںپائے جاتے سمیع و بصیر وہی ہستی کہلا سکتی ہے جس کی سننے اور دیکھنے کی قوت کمال کو پہنچی ہوئی ہو چنانچہ اللہ تعالیٰ کی نسبت بھی سمیع و بصیر کے الفاظ آتے ہیں مثال کے طور پر قرآن کریم کی یہ آیت پیش کی جا سکتی ہے اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعًا بَصِیْرًا (نساء ع ۸) اللہ تعالیٰ یقینا سمیع اور بصیر تھا وار سمیع و بصیر ہے اور ہمیشہ ایسا ہی رہے گا۔ غرض سمیع و بصیر اس ہستی کی نسبت بولا جاتا ہے جو سننے اور دیکھنے میں کمال رکھتی ہو اور قرآن کریم کے محاورہ میں انسان کو اسی لئے سمیع و بصیر کہا جاتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی آواز کو سنتا اور اس کی قدرتوں کو دیکھتا ہے چنانچہ قرآن کریم میں ان لوگوں کو جو الٰہی کلام کے سننے سے انکار کرتے ہیں اور اس کی قدرتوں کے دیکھنے سے اعراض کرتے ہیں اندھے اور بہرے قرار دیا گیا ہے فرماتا ہے اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمُنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَخْبَتُوْٓا اِلیٰ رَبِّھِمْ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ ھُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ مَثَلُ الْفَرِیقَیْنِ کَالْاَ غمٰی وَالْاَ صَمِّ وَالْمَصِیْرِ وَالسَّمِیْعِ ھَلْ یَسْتَوِیَانِ مَثَلًا اَفَلَا تَذَکُرُوْنَo(ہود ع ۲) یعنی وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے ایمان کے مطابق اعمال بھی کئے اور اپنے رب کی طرف عجز کے ساتھ جھکے اور اس کے سلوک سے مطمئن ہو گئے وہی لوگ جنت کے مستحق ہیں وہ اس میں بستے چلے جائیں گے۔ ان دونوں فریق (یعنی خدا تعالیٰ کا کلام سن کر اس پر ایمان لانے والوں اور اس کی قدرتوں کو دیکھنیو الوں او رمنکروں) کی حالت اندھوں اور بہرو ںاور دیکھنے والوں اور سننے والوں کی حالت کی طرح ہے کیا یہ دونوں حالتیں برابر ہو سکتی ہیں پھر کیا یہ لوگ نصیحت حاصل نہیں کرتے۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ قرآن کریم حقیقی سمیع و بصیر انہی کو قرار دیتا ہے جو خدا تعالیٰ کی بات سُننے اور اس کی قدرتوں کے دیکھنے کے عادی ہیں۔ پس اوپر کی آیت میں انسان کے سمیع و بصیر بنانے سے یہی مُراد ہے کہ ایک وقت انسان پر ایسا آیا کہ نطفۂ امشاج سے جو خاصیتیں اس کے اندر بالقوہ رکھی گئی تھیں وہ بالفعل بھی ظاہر ہو گئیں اور یہی وہ تغیر تھا جس کے اول مظہر اور اپنے زمانہ کے کامل مظہر آدم علیہ السلام تھے ورنہ یہ نہیں کہ ان سے پہلے کوئی بشر نہ تھا ان سے پہلے بھی بشر تھے کیونکہ وہ نطفۂ امشاج سے پیدا ہوئے مگر آدم علیہ السلام کے ظہور سے پہلے وہ ابھی سمیع و بصیر نہ ہوئے تھے یعنی ان کی قوتیں ابھی اس حد تک ترقی پذیر نہ ہوئی تھیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے کلام کو سننے کے اہل ہو جاتے اور اس کی قدرتوں کو دیکھنے کے لائق ہو جاتے پس اس زمانہ میں ان پر الہام نازل نہ ہوتا تھا اور خدا تعالیٰ اپنی قدرتوں کو جو شریعت سے تعلق رکھتی ہیں ان کے لئے ظاہر نہ کرتا تھا لیکن جب انسان ترقی کرتے کرتے سمیع و بصیر کے مقامپر پہنچ گیا اور اس کا پہلا کامل وجود آدم علیہ السلام کی شکل میں ظاہر ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے کلام کے لئے چن لیا اور اپنے الہام سے اسے مشرف کیا اور رُوحانی دور کی ابتداء ہو گئی اور انسان گویا اس جنت کا مستحق ہو گیا جس کے لئے اسے پیدا کیاگ یا تھا اس سے پہلے بشر گو بالقوۃ انسانیت کی طاقتیں رکھتا تھا مگر بالفعل ان قوتوں کو ظاہر کرنے کے قابل نہ تھا اور اس کی دماغی حالت دوسرے حیوانوں سے زیادہ ممتاز نہ تھی او راس وجہ سے اسے شریعت کا پابند نہ کیا گیا تھا۔
اوپر کی آیات سے یہ امر ظاہر ہو چکا ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک بشر کی پیدائش یک دم نہیں ہوئی اور آدم علیہ السلام سے اس کی ابتدا نہیں ہوئی بلکہ آدم علیہ السلام بشر کی اس حالت کے پہلے ظہور تھے جب سے وہ حقیقی طور پر انسان کہلانے کا مستحق ہوا اور شریعت کا حامل ہونے کے قابل ہوا اور اس وجہ سے گو آدم علیہ السلام رُوحانی لحاظ سے ابو البشر ہیں کیونکہ روحانی دُنیا کی ابتداء سے ہوئی اور وہ پہلے ملہم انسان تھے مگر جسمانی لحاظ سے ضروری نہیں کہ وہ سب موجودہ انسانوں کے باپ ہو ںبلکہ ہو سکتا ہے کہ کچھ حصہ انسانوں کا ان دوسرے بشروں کی اولاد ہو جو حضرت آدم علیہ السلام کے وقت میں موجود تھے اور جو ان پر ان کے زمانہ میں ایمان لائے یا ان کے زمانہ میں تو ایمان نہ لائے مگر بعد میں آہستہ آہستہ ایمان لاتے رہے۔
اب میں بتاتا ہو ںکہ قرآن کریم میںجو آدم کا واقعہ بیان ہوا ہے اس میں کہیں بھی اس امر کا اظہار نہیں کیا گیا کہ آدم علیہ السلام سے نسل انسانی کی ابتداء ہوئی ہے یا یہ کہ ان کے زمانہ میں اور کوئی بشر نہ تھا قرآن کریم میں آدم علیہ السلام کا نام لے کر ان کے واقعہ کو مندرجہ ذیل مقامات پر بیان کیا گیاہے۔ اول تو اسی آیت میں جس کی تفسیر میں اس وقت لکھ رہا ہوں اس آیت کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ اس میں انسانی پیدائش کا کوئی ذکر نہیں صرف یہ فرماتا ہے کہ یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین پر ایک خلیفہ بنانے والا ہوںاور یہ فقرہ اپنی بناوٹ سے ہی ظاہر کرتا ہے کہ آدم اور ن کے کچھ ہم جنس پہلے ہی موجود تھے ان کے بنانے کا اس وقت سوال نہ تھا بلکہ سوال صرف بشر میں سے ایک خلیفہ بنانے کا تھا اور ظاہر ہے کہ خلیفہ بنانے سے ہر گز یہ نتیجہ نہیں نکلات کہ اس سے پہلے کوئی انسان نہ تھا بلکہ صرف یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس وقت خلیفتہ اللہ نہ تھا قرآن کریم میں حضرت دائود کو بھی خلیفہ اللہ کہا گیا ہے اور حضرت دائود کسی لحاظ سے بھی پہلے انسان نہ تھے ان کی نسبت آتا ہے یَا دَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِیْفَۃً فِی الْاَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْھَوٰی فَیُضِلَّکَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ (ص ع ۲) یعنے اے دائود ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے پس سچائی کے مطابق لوگوں میں فیصلہ کر اور اپنی خواہشات کی پروی نہ کر کیونکہ اگر تو ایسا کرے گا تو اللہ تعالیٰ کے راستہ سے بھٹک جائے گا۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ خلیفہ بنانے سے صرف یہ مراد ہے کہ وہ بنی نوع انسان میں انصاف کی حکومت قائم کرے اور انسانی عقل کو اللہ تعالیٰ کے الہام کی ہدایت کے تابع کرے۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو خلیفہ بنانے کا اعلان کیا ت واس سے بھی صرف اسی قدر مُراد تھی یہ مطلب ہر گز نہ تھا کہ آدم کو اس وقت پیدا کیا گیاتھا بلکہ ان کی بلوغت روحانی کے زمانہ میں انہیں الہام کا مرکز بنانے کا اعلان تھا اس کے بعد کی آیت بھی اسی امر پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآئَ کُلَّہَا۔ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو خلیفہ بنانے کی خبر دے کر آدم پر الہام نازل کیا اور اسے تمام اسماء سکھائے اسماء کیاتھے اس کی نسبت تو میں اگلی آیت میں روشنی ڈالوں گا اس وقت اس امر کی طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ یہ آیت بتاتی ہے کہ اس وقت آدم پہلے سے موجود تھے کیونکہ خلیفہ بنانے کا ذکر کرنے کے بعد یہ نہیں کہا گیا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا بلکہ یہ کہا ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ نے آدم پر الہام نازل کیا جس سے صاف ظاہر ہے کہ اس وقت سے پہلے آدم پیدا ہو چکے تھے۔
دوسری آیت میں جس میں آدم کا ذکر کیاگیا ہے یہ ہے وَلَقَدْ خَلَقْنَا کُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَا کُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اِسْجُدُوْا لِاٰدَمَ (اعراف ع ۲) یعنی ہم نے تم کو پیدا کیا پھر تم کو اعلیٰ سے اعلیٰ قویٰ بخشے پھر اعلیٰ بخش کر فرشتوں سے کہا کہ آدم کی فرما نبرداری کرو۔ میں نے صورت دینے کے معنے اس جگہ اعلیٰ قویٰ بخشنے کے کئے ہیں اور یہ لغت کے مطابق ہیں مفردات راغب میں لکھا ہے صورت دو قسم کی ہوتی ہے اَحَدُھمَا مَحْسُوْسٌ یُدْرِکُہُ الْخَاصَّۃُ وَالْعَامّۃُ بَلْ یُدْرِکُہُ الْاِنْسَانِ وَکَثْیرٌ مِّنَ الْحَیَوَانِ کَصُوْرَۃِ الْاِنْسَانِ وَالْفَرَسِ وَالْحِمَارِ بِالْمُعَایَنَۃِ یعنی ایک صورت تو وہ ہوتی ہے جو حواس ظاہری سے معلوم ہوتی ہے اسے خاص و عام سب معلوم کر لیتے ہیں بلکہ انسانوں کے سوا بہت سے جانور بھی اسے دیکھتے ہیں جیسے انسان یا گھوڑے یا گدھے کی شکل وَالثَّانِی مَعْقُوْلٌ یُدْرِکُہُ الخَاصَّۃَ دُوْنَ الْعامَّۃِ کَالصُّوْرَۃِ الَّتِیْ اخْتَصَّ الْاِنْسَانِ بِھَا مِنَ الْعَقْلِ وَالرَّوِیَّۃِ وَالْمَعَا فِی الَّتِی خُصَّ بِھَا شَیْئٌ شَیْئٍ اور دوسری صورت وہ ہے جو صرف عقل کے ذریعہ سے دیکھی جا سکتی ہے اسے صرف خاص ہستیاں دیکھ سکتی ہیں جانور الگ رہے عام انسان بھی اس کا انداز نہیں لگا سکتے جیسے کہ وہ صورت جس سے انسان کو ممتاز کیا گیا ہے یعنی اس کی عقل اور قوت فکریہ اسی طرح وہ ممتاز کرنے والی طاقتیں جو مختلف اشیاء کو ایک دوسرے سے ممتاز کرتی ہیں۔ اس عبارت سے ظاہر ہے کہ عربی زبان میں صورت کا لفظ ظاہری شکل کے لئے بھی اور باطنی شکل یعنی اندرونی طاقتوں کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور انہی دوسرے معنوں کے مطابق میں نے ثُمَّ صَوَّرْنَا کُمْکے معنی یہ کئے ہیں کہ تم کو اعلیٰ سے اعلیٰ قویٰ بخشے۔
اس کے بعد جوفرمایا کہ پھر ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم کی فرمانبرداری کرو اس عبارت سے ظاہر ہے کہ محض پیدائش انسان کے معاً بع دہی ملائکہ کو آدم کو فرمانبرداری کا حکم نہ دیا گیا تھا بلکہ انسان کے پیدا ہونے کے بعد جب درجہ بدرجہ ترقی کر کے انسان سے اپنی روحانی قوتوں کو کامل کیا تھا۔ اس وقت آدم کے سجدہ کا حکم دیا گیا تھا۔
ایک اور امر بھی اس آیت سے ظاہر ہے کہ آدم کے سجدہ یا دوسرے لفظوں میںمطاع یا خلیفہ بننے سے پہلے متعدد انسان موجود تھے کیونکہ اس آیت میں یہ نہیں کہا گیا کہ آدم کو پیدا کرنے اور اُسے صورت رُوحانیہ دینے کے بعد ہم نے ملائکہ کو سجدہ کرنے کا حکم دیا بلکہ جمع کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ ہم نے تم کو پیدا کیا اور تم کو صورت روحانیہ بخشی اس کے بعد آدم کے سجدہ کا حکم ملائکہ کو دیا۔ تم کو پیدا کیا اور تم کو صورت روحانیہ بخشی کے الفاظ صاف بتاتے ہیں کہ آدم پہلا بشر نہ تھا بلکہ اس کے زمانہ میںمتعدد بشر موجود تھے جو صورت روحانیہ پا چکے تھے ان میں سے آدم چونکہ کامل وجود تھا اسے خلافت کے لئے چنا گیا اور اس کی فرمانبرداری کا فرشتوں کو حکم دیا گیا۔
تیسری جگہ جہاں آدم کا ذکر کیا گیا ہے سورہ طہٰ کی یہ آیت ہے وَلَقَدْ عٰھِدْ نَآ اِلیٰ اٰدَم مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْلَہٗ عَزْمًا (طہ ع ۶) یعنی ہم نے اس سے پہلے آدم کو بھی خاص احکام دیئے تھے پھر وہ ایک موقعہ پر بھول گیا مگر ہم نے اس کی اس بھول میں ارادہ کا ظہور نہیں پایا۔ بلکہ یہ فعل اس سے نادانستہ ہوا۔ اس آیت میں بھی یہ ذکر نہیں کہ آدم کو سب بشروں سے پہلے پیدا کیا گیا تھا بلکہ محض یہ ذک رہے کہ آدم کو بھی اللہ تعالیٰ نے نبوت عطا فرمائی تھی۔ ان آیات کے علاہ سورہ آل عمران میں آدم کا ذکر ہے (ع ۴) جس میں صرف ان کی بزرگی کا اظہار کیا گیا ہے او رپھر دوسری دفعہ اسی سورۃ میں آدم کا ذکر ہے (ع ۶) جس میں یہ بتایا ہے کہ حضرت مسیحؑ کو آدم سے ایک مشابہت ہے مگر ان آیات میں سے کسی میں بھی یہ ذکر نہیں کہ آدم کو اللہ تعالیٰ نے پہلا بشر بنا کر پیدا کیا۔
فرشتوں کے سجدہ کا ذکر بغیر آدم کا نام لئے بعض اور مقامات پر ہے اور بعض لوگ ان آیتوں سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ آدم علیہ السلام پہلے بشر تھے لیکن ان سے بھی یہ مضمون ثابت نہیں ہوتا یہ ذکر مندرجہ ذیل آیات میں ہے فرماتا ہے وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ وَالْجَآنَّ خَلَقْنَاہُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّارِ السَّمُوْمِ وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیْ خَالِقٌ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَ نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْالَہٗ سٰجِدِیْنَ o(حجر ع ۳) اور ہم نے انسان کو ایک آواز دینے والی مٹی سے پیدا کیا جو ایک پانی ملے ہوئے گارے سے بنی تھی اور جنوں کو اس سے پہلے پیدا کیا۔ ایک ایسی آگ سے جو گرم ہوا کی شکل کی تھی۔ اور اس وقت کو بھی یاد کر جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں آواز دینے والی مٹی سے جو پانی ملے ہوئے گارے سے تیار ہوئی ہے ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں پھر جب میں اس کی قوتوں کو مکمل کر لوں اور اس میں اپنی رُوح ڈال دوں تو اس کے سامنے فرمانبرداری کا طریق اختیار کرتے ہوئے جھک جائو۔ اسی طرح سورہ ص میں ہے اِذْ قَالَ رَبَّکَ لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیْ خَالِقٌ بَشَرًا مِّنْ طِیْنٍ فَاِذَا سَوَّیْتَہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ سَجِدِیْنَ (ع ۵) یعنی یاد کر جب تیرے رب نے ملائکہ سے کہا تھا کہ میں ایک بشر گیلی مٹی سے پیدا کرنے والاہوں پھر جب میں اس کی قوتوں کو مکمل کر دوں اور میں اپنی رُوح ڈالدوں تو اس کے آگے فرمانبرداری کے طریق سے جھک جائو۔ ان دو آیتوں سے شبہ پڑ سکتا ہے کہ چونکہ بشر کی پیدائش کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو سجدہ کا حکم دیا ہے اور دوسری طرف آدم کے اندر نفخ رُوح کرنے کے بعد اس کی فرمانبرداری کا حکم ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ بشر سے مراد آدم ہے اور آدم ہی پہلا بشر ہے۔ لیکن یاد رہے کہ اس جگہ آدم کا ذکر نہیں محض ایک بشر کی پیدائش کا ذکر ہے۔ اور کوئی وجہ نہیں کہ ان آیات کے یہ معنی نہ کئے جائیں کہ اللہ تعالیٰ نے بشر کی پیدائش کے وقت فرشتوں کو بتا دیا تھا کہ ایک دن بشر میرے الہام پانے کا مستحق ہو گا پھر آدم کے زمانہ میں اس کے خلیفہ بنانے کا وقت جب قریب آ گیا۔ تو دوبارہ انہیں اپنے اس ارادہ کی خبر دی اور بتایا کہ جس امر کی میں نے تم کو خبر دی تھی اب اس کا وقت آ گیا ہے اور سَوَّیْتُہٗ میں جس وقت کی طرف اشارہ تھا اسی وقت کی طرف جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً کے سے دوبارہ اشارہ کیا گیا اور یہ بتایا گیا کہ اب بشر کا تسویہ ہو گیا ہے اور وہ الہام پانے کے قابل ہو گیا ہے اس لئے اب تم اس امر کے لئے تیار ہو جائو کہ اس پر الہام نازل ہوں اور اس کی تائید کرنے لگ جائو۔ قرآن کریم کی ایک دوسری آیت سے ان معنوں کی تصدیق بھی ہوتی ہے۔ چنانچہ سورہ سجدہ میں آتا ہے اَلَّذِٓیْ اَحْسَنَ کُلَّ شَیْئٍ خَلَقَہٗ وَ بَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانَ مِّنْ طِیْنٍo ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہٗ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِنْ مَّآئٍ مَّھِیْنٍo ثُمَّ سَوّٰلہُ وَ نَفَخَ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِہٖ وَجَعَلَ لَکُمْ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْئِدَۃَ قَلِیْلًا مَّاتَشْکُرُوْنَo (ع ۱) یعنی خدا ہی ہے جس نے ہر اس چیز کو اس نے پیدا کیا ہے اس کے مطابق حال طاقتیں بخشی ہیں اور انسان کی پیدائش کو اس نے گیلی مٹی سے شروع کیا ہے پھر اس نے اس کی نسل کو ایک بظاہر حقیر نظر آنے والی پانی کے خلاصہ سے (یعنی نطفہ سے) بنانا شروع کیا پھر اس نے اُسے مکمل قویٰ والا بنایا اور اس میں اپنی رُوح داخل کی اور تم کو اس نے کان اور آنکھیں اور دل عطا کئے مگر باوجود اس کے تم شکر نہیں کرتے اس آیت میں پیدائش کی ترتیب یُوں بیان کی گئی ہے (۱) انسان کو گیلی مٹی سے پیدا کیا گیا (۲) اس کے بع داُس کی نسل نطفہ سے چلی (۳) اس کے بعد انسانی قویٰ ایک وقت جا کر مکمل ہوئے (۴) اس کے بعد اس پر خدا تعالیٰ کا کلام نازل ہوا۔ اس ترتیب سے صاف ظاہر ہے کہ کلام الٰہی نطفہ سے چلنے والی مخلوق پر نازل ہوا نہ کہ اس ابتدائی انسان پر جو گیلی مٹی سے بنا تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پہلے گیلی مٹی سے انسان بنا پھر اس کی نسل نطفہ سے جاری ہوئی۔ اس کے بعد اس کے قویٰ مکمل ہوئے اور اس کے بعد کلام الٰہی نازل ہوا۔ پس آدم جس پر کلام نازل ہوا تھا نطفہ سے پیدا ہونے والے انسانو ںمیں تھا نہ کہ ان انسانوں میں سے جو نطفہ کی پیدائش سے پہلی ابتدائی کڑی کے طور پر مٹی سے ترقی دے کر بنائے گئے تھے کیونکہ یہ آیت صاف بتا رہی ہے کہ کلامِ الٰہی نطفہ سے پیدا ہونے والے والا انسان وہی ہو سکتا ہے جس کے ماں باپ موجود ہیں اور جس کے ماں باپ موجود ہو ںوہ پہلا انسان نہیں کہلا سکتا پس اس آیت کی روشنی میں پہلی نقل کردہ دونوں آیتوں کا یہی مطلب لینا پڑے گا کہ جس ابتدائی بشر کا ان میں ذکر کیا گیا ہے وہ آدم نہ تھا بلکہ اس کے آباء میں سے میں کوئی تھا اور فرشتوں کو جو سجدہ کا حکم دیا گیا تھا وہ اس ابتدائی بشر کے متعلق نہ تھا بلکہ اس کامل انسان کے متعلق تھا جس نے انسانی نسل کے دماغی ترقی کر جانے کے بعد سب سے پہلے کلام الٰہی سے مشرف ہونا تھا۔
ان آیات کے علاوہ اور آیات بھی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ آدم پہلے انسان نہ تھے بلکہ ان کے زمانہ میں اور لوگ بھی موجود تھے۔ چنانچہ سورہ بقرہ کی ان آیات میں جو آیت زیر تفسیر کے بعد میں فرمایا گیا ہے وَقُلْنَا یٰٓاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ اے آدم تو اور تیرے ساتھی یا یہ تو اور تیری بیوی جنت میں رہو اگر زوج کے معنے ساتھی کے لئے جائیں جو *** کے لحاظ سے درست ہیں تو بھی اس کے یہ معنی بنتے ہیں کہ اس وقت آدم کے اور ہم جنس بھی موجود تھے اور اگر اس کے معنی بیوی کے لئے جائیں تو بھی اس کے یہ معنی ہیں کہ اس وقت عورت اور مرد پیدا ہو چکے تھے کیونکہ اس جگہ کوئی لفظ بھی ایسا نہیں جس سے معلوم ہو کہ اس وقت اللہ تعالیٰ نے آدم کے لئے کوئی بیوی پیدا کی تھی بلکہ ایک امر واقعہ کے طو رپر اس کا ذکر ہے کہ تو اور تیری بیوی دونوں جنت میں رہو جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت پہلے سے موجود تھی اور عورت کو اس وقت پیدا نہیں کیا گیا تھا اگر اس وقت عورت کا وجود نہ تھا اور نئے سرے سے عورت بنائی گئی تھی تو چاہیئے تھا کہ اس کا بھی ذکر کیا جاتا مگر قرآن کریم تو عورت کے وجود کو یک تسلیم شدہ حقیقت کے طور پر لیتا ہے اور آدم علیہ السلام کو اسی طرح اپنی بیوی سمیت جنت میں رہنے کا حکم دیتا ہے جس طرح کہ موجودہ زمانہ میں کسی مرد اور اس کی بیوی کے متعلق کو ئی حکم دیا جا سکتا ہے سورۂ اعراف ع ۲ میں بھی یہ حکم اس رنگ میں بیان ہوا ہے اور وہاں بھی بیوی کے پیدا کرنے کا کوئی ذکر نہیں۔ سورۂ طہ میں بھی بیوی کا ذکر ہے اور ان الفاظ میں ہوا ہے فَقُلْنَا یٰآدَمُ اِنَّ ھٰذَا عَدُوٌلَکَ وَلِزَ وْجِکَ (ع ۷) اے آدم شیطان تیرا اور تیری بیوی کا دشمن ہے یہاں بھی بیوی کا اس طرح ذکر ہے گویا کہ اس کا وجود عام قاعدہ کے مطابق تھا نہ کہ کسی معجزانہ رنگ میں اور اس کے خاص طور پر پیدا کرنے کا کوئی ذکر نہیں۔
ایسی طرح آیت زیر تفسیر کے بعد لکھا ہے وَقُلْنَا اھْبِطُوْا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٌ عدُ وٌّ وَلَکُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلیٰ حِیْنٌ اور ہم نے کہا کہ یہاں سے چلے جائو۔ تم میں سے بعض بعض کے دشمن ہونگے اور تم سب کے لئے اسی دُنیا میں ایک وقت تک رہنا اور فائدہ اٹھانا ہو گا اس آیت میںجن لوگوں کو ہاں سے نکلنے کا حکم دیا گیا ہے وہ ایک جماعت ہے پس معلوم ہوا کہ آدم اور اس کی بیوی کے سوا اور اشخاص بھی اس وقت ان کے ساتھ رہتے تھے اگر کہا جائے کہ جمع کا صیغہ اس لئے استعمال کیا گیا ہے کہ شیطان بھی وہاں تھا تو بھی وہ استنباط باطل نہیں ہوتا جو اس آیت سے میں نے کیا ہے کیونکہ اگر شیطان کو اس حکم میں شامل کیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ شیطان بھی آدم کی جنس میں سے تھا کیونکہ اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ آدم کے ساتھ نکلنے والے سب کے سب اکٹھے اس زمین پر رہیں گے اور ایک دوسرے سے معاملات رکھیں گے پس اگر شیطان اس حکم میں شامل ہے تو وہ بھی جنس آدم سے قرار پاتا ہے اور اس طرح بھی آدم پہلا انسان قرار نہیں پا سکتا اور اگر شیطان کو اس حکم سے باہر رکھا جائے تو پھر آدم اور اس کی بیوی کے ہوا اور انسانی وجودوں کو ماننا پڑے گا کیونکہ اس آیت میں دو سے زیادہ اشخاص کو نکلنے کا حکم دیا گیا ہے اور انسانوں کی ایک جماعت کے پائے جانے کا ثبوت ملتا ہے (میرا یہی خیال ہے کہ اس حکم میں شیطان بھی شامل ہے اور یہ کہ شیطان جس نے آدم کو دھوکا دیا اس وقت کے ان بشروں میں سے ایک بشر تھا جو آدم پر ایمان نہ لائے تھے اور ان کی شریعت کے جوئے کو اُٹھانے کے لئے تیار نہ تھے)
اس کے بعد پھر اگلی آیت میں فرمایا ہے قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْھَا جَمِیْعًا فَاِمَّایَاْ تِیَنَّکُمْ مِنِّیْ ھُدًی فَمَنَ تَبَعَ ھُدٰیَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَoاس آیت سے بھی ظاہر ہے کہ اس وقت بہت سے اور افراد بھی آدم علیہ السلام کے ساتھ موجود تھے کیونکہ اس آیت میں پھر جمع کا صیغہ استعمال کیاگیا ہے بلکہ اس آیت سے تو یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آدم علیہ السلام کے سوا ایک جماعت تھی کیونکہ فرماتا ہے کہ اے جماعت اگر تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت آئے تو یاد رکھو کہ جو میری ہدایت پر چلیں گے ان کو کوئی خوف یا حزن پیش نہ آئے گا ظاہر ہے کہ اس حکم کے مخاطب حضرت آدم علیہ السلام نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ تو خود وقت کے نبی تھے پس اس کے مخاطب ان کے ساتھی تھے جو قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق ایک جماعت کی حیثیت رکھتے تھے یہی الفاظ سورۂ اعراف میں بھی بیان ہوئے ہیں۔
شاید اس جگہ کوئی کہے کہ سورہ طہ ع ۷ میں قَالَ اھْبِطَا مِنْہَا کے الفاظ آئے ہیں یعنی تم دونوں یہاں سے چلے جائو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف آدم اور ان کی بیوی کو وہاں سے نکلنے کا حکم دیا گیا تھا اور ان کے ساتھ اس وقت کوئی اور آدمی نہ تھا اس کا جواب یہ ہے کہ بیشک سورۂ طہ میں اِھْبِطَا کے الفاظ آئے ہیں مگر ان کے آگے جَمِیْعًا کا لفظ بھی رکھا ہوا ہے اس لفظ کو ساتھ ملا کر ترجمہ کیا جائے تو ترجمہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کہا اس جنت سے تم دونوں سب کے سب چلے جائو ساری آیت یوں ہے قَالَ اھْبِطَا مِنْہَا جَمِیْعًا بَعْضُکُمْ بِعَعْضٍ عَدُ وٌّ فَاِمَّایَاْ تِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنِ تَّبَعَ ھُدَٰیَ فَلَایَضِلُّ وَلَا یَشْقٰی (طہ ع ۷) یعنی اللہ تعالیٰ نے فرمایا تو دونوں سب کے سب چلے جائو پس جب تم سب کی طرف میری طرف سے ہدایت آئے تو جو میری ہدایت کی پیروی کریں گے وہ نہ گمراہ ہونگے نہ دُکھ میں پڑینگے ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ تم دونوں سے مراد آدم اور ان کی بیوی نہیں بلکہ آدم اور شیطان کی جماعتیں مراد ہیں کیونکہ اگر آدم اور ان کی بیوی دونوں مراد ہوتے تو اس کے بعد ’’تم سب‘‘ کے الفاظ استعمال نہ ہوتے ’’تم سب‘‘ کے الفاظ بناتے ہیں کہ دونوں سے مُراد دو فرد نہیں بلکہ دو جماعتیں ہیں پس یہ آیت میرے استدلال کے خلاف نہیں بلکہ اس کی تائید کرتی ہے پھر ہدایت کے ذیر میں بھی جمع کا لفظ استعمال کر کے اس امر کی اور وضاحت کر دی گئی ہے سورۂ حجر میں بھی آتا ہے کہ جب شیطان نے آدم کے خلافت پر مبعوث ہونے پر فرمانبرداری سے انکار کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق زجر کی تو اس نے کہا کہ رَبِّ بَمَاَ اَغْوَ یْتَنِیْ لَاُزَیِّنَنَّ لَھُمْ فِی الْاَرْضِ وَلَاُغْوِ یَنُّہُمْ اَجْمَعِیْنَ اِلَّا عِبَادَکَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصِیْنَ (الحجر ع ۳) یعنی اے میرے رب چونکہ تُو نے مجھے آدم کی وجہ سے ہلاک کیا ہے میں ان سب کو زمین میں بُری باتیں خوبصورت کر کے دکھائوں گا اور ان سب کو ہلاک کروں گا سوائے ان کے جو ان میں سے تیرے مخلص بندے ہونگے اس آیت سے بھی ظاہر ہے کہ شیطان اس وقت اپنے خلاف ایک جماعت کو پاتاتھا۔ بیشک کہا جا سکتا ہے کہ اس سے شیطان کی مُراد آدم کی اولاد سے ہے لیکن آدم کی اولاد تو دوسرے نمبر پر آئے گی پہلا ارادہ اس کا تو آدم اور اس کے ساتھیوں کے متعلق ہی ہو سکتا ہے پس جب وہ ایک جماعت کا ذکر کرتا ہے تومعلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ایک جماعت موجود تھی۔
شاند اس جگہ کسی کو یہ اعتراض پیدا ہو کہ اوپر کی تشریح سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ شیطان بھی بشر کی نسل میں سے تھا حالانکہ قرآن کریم میں مذکور ہے کہ قَالَ مَامَنَعَکَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُکَ قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارِ وَخَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ (اعراف ع ۲) یعنی جب اللہ تعالیٰ نے ابلیس سے فرمایا کہ باوجود اس کے کہ میں نے تجھٖے حکم دیا تھا تجھے کس امر نے اس بات سے روکا کہ تو آدم کی فرمانبرداری کرے تو اس سے پیدا کیا ہے اور آدم کو پانی ملی ہوئی مٹی سے پیدا کیا ہے اسی طرح ابلیس کی نسبت آتا ہے کہ کَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِرَبِّہٖ (کہف ع ۷) یعنی ابلیس جنوں میں سے تھا تبھی اس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی اور جنوں کی نسبت آتا ہے کہ وَخَلَقَ الْجَآنَّ مِنْ قَارِجٍ مِّنْ نَّارٍ (رحمن ع ۱) اللہ تعالیٰ نے جنوں کو آگ کے تیز شعلہ سے پیدا کیا ہے پس جبکہ انسان او رجن کی پیدائش میں فرق ہے ایک طین سے پیدا ہوا ہے اور دوسرا آگ سے تو اِن دونوں کو ایک جنس کیونکر سمجھا جائے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو قرآن کریم میں ابلیس اور شیطان میں فرق کیا گیا ہے جہاں کہیں آدمؑ کو سجدہ نہ کرنے کا ذکرہے وہاں ابلیس کا ذکر ہے اور جہاں کہیں آدمؑ کو ورغلانے کی کوشش کا دکر ہے وہاں شیطان کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ مثلاً انہیں آیات زیر تفسیر میں جہاں سجدہ کا ذکر ہے وہاں تو ابلیس کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور جب آدمؑ کو ورغلانے کا ذکر کیا ہے تو فرمایا فَاَزَ لَّھُمَا الشَّیْطٰنُ عَنَہَا یعنی پھر شیطان نے ان کو اِس حالت سے پھسلا دیا اسی طرح سورۂ اعراف کے رکوع ۲ میں اِس واقعہ کا ذکر ہے وہاں بھی جہاں سجدہ کے حکم کا ذکر ہے ابلیس کا لفظ استعمال کیا گیاہے لیکن جہاں ورغلانے کا ذکر ہے وہاں فرمایا ہے فَوَسْوَسَ لَھُمَا الشَّیْطٰنُ پھر انہیں شیطان نے شک میں ڈال دیا۔ تیسری سورۃ جہاں اس واقعہ کا ذکر ہے سورہ طہ ہے وہاں بھی جہاں کہ سجدہ نہ کرنے کا ذکر ہے وہاں ابلیس کا ذکر کیا گیا ہے لیکن جہاں آدم کو شک میں ڈالنے کا ذکر ہے وہاں فرماتاہے فَوَسْوَسَ اِلِیْہِ الشَّیْطٰنُ شیطان نے آدمؑ کے دِل میں شک پیدا کر دیا (طہ ع ۷)
ہر آیت میں دونو مواقع پر الگ الگ الفاظ کا استعماجل کرنا حکمت سے خالی نہیں قرآن کریم جو لفظ لفظ میں حکمت کو مدِّنظر رکھتا ہے ممکن ہی نہیں کہ اس فرق میں کہ ہر جگہ سجدہ کے ذکر میں ابلیس کا لفظ استعمال کرتاہے اور آدم کو ورغلانے کے ذکر میں شیطان کا لفظ استعمال کرتا ہے کوئی حکمت مدنظر نہ رکھتا ہو پس ضرور ہے کہ سجدہ سے انکار کرنے والا کوئی اور وجود ہو اور ورغلانے والا کوئی اور وجود ہو۔ اسی وجہ سے ایک کا نام ابلیس بتایا گیا اور دوسرے کا شیطان۔ پس اگر کوئی اس شبہ پر زور دے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ نار سے پیدا کرنے کا ذکر تو ابلیس کے متعلق ہے نہ کہ شیطان کے متعلق (میرے نزدیک جو اس فرق کی وجہ ہے آگے چل کر متعلقہ آیات کے ضمن میں بیان کی جائے گی)
دوسرا جواب اور یہی اصلی جواب ہے یہ ہے کہ نار سے پیدا کرنے کے یہ معنی ہر گز نہیں کہ ابلیس یا جن اس مادی آگ سے پیدا کئے گئے تھے بلکہ یہ ایک عربی کا محاورہ ہے اور اس سے مُراد یہ ہے کہ اس کی طبیعت ناری تھی اور وہ اطاعت کی برداشت نہیں کر سکتا تھا چنانچہ یہ محاورہ قرآن کریم کی دوسری آیات میں بھی استعمال ہوا ہے فرماتا ہے خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ سَاُو رِیْکُمْ اٰیٰتِیْ فَلَاتَسْتَعْجِلُوْنَ (انبیاء ع ۳) یعنی انسان کو عجلت سے پیدا کیا گیا ہے میں تم کو اپنی آیات دکھائوں گا پس جلدی نہ کرو اب یہ ظاہر ہے کہ اس آیت کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ عجلت اور جلدی کوئی مادہ ہے جس سے انسان کو بنایا گیا ہے بلکہ اس سے مراد صرف یہ ہے کہ انسانی طبیعت جلد باز واقع ہوئی ہے وہ ہر کام کا نتیجہ جلدی دیکھنا چاہتا ہے اسی طرح قرآن کریم میں ہے اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ ضُعْفٍ (روم ع ۶) اللہ ہی ہے جس نے تم کو ضعف سے پیدا کیا ہے اس آیت کا بھی یہ مطلب نہیں کہ ضعف کوئی مادہ ہے جس سے انسان کو پیدا کیاگیا ہے بلکہ اس سے مُراد صرف یہ ہے کہ انسان کی طبیعت میں کمزوری ہے وہ خود اپنے لئے ہدایت کا راستہ تیار نہیں کر سکتا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت آنے کا محتاج ہے ان محاوروں کے رو سے جنوں کے اور ابلیس کے نار سے پیدا کرنے کے یہ معنے ہیں کہ ان کی طبیعت ناری تھی یعنی جب تک انسان میں تمدن کی حکومت قبول کرنے کا ملک پیدا نہ ہوا تھا وہ ناری مزاج کا تھا اور اس کے لئے دوسرے کی اطاعت قبول کرنا آسان نہ تھا مگر جب وہ ترقی کرتے کرتے طینی جوہر کو جس ا کا اصل تھا پا گیا تو اس میں اطاعت کے قبول کرنے کا مادہ پیدا ہو گیا اور ابلیس کے مقال کا صرف یہ مطلب ہے کہ آدم تو غلام ذہنیت رکھتا ہے کہ دوسرے کی اطاعت کر سکتا ہے مگر میں ناری مزاج ہوں اور دوسرے کی اطاعت نہیں کر سکتا۔ پس میں اس سے اچھا ہوں اور یہ دعویٰ ابلیس اور اس کے ساتھیوں کا طبعی دعویٰ تھا وہ اپنی خیالی حریت کو اطاعت سے بہتر خیال کرتے تھے اور ایک نظام کے ماتحت چلنے کو عیب خیال کرتے تھے آج بھی جو لوگ ابلیس کے اظلال ہیں اسی غلطی میں مبتلا ہوں کہ کسی دوسرے انسان کی اطاعت کرنا گویا اپنے نفسوں کو ذلیل کرنا ہے انار کسٹ رحجانات کے لوگ اسی قسم میں شامل ہیں۔
ؐ قرآن کریم یں اس ناری طبیعت کا محاورہ ایک اور جگہ بھی استعمال ہوا ہے فرماتا ہے کہ تَبَّتْ یَدَا اِبِیْ لَھَبٍ وَّ تَبَّ (سورہ لہب) یعنی شعلہ کے باپ کے دونوں ہاتھ برباد ہو گئے اور وہ خود بھی برباد ہو گیا اس آیت میں ابو لہب یعنی شعلوں کا باپ کسی کا نام نہیں بلکہ ایک مخالفِ اسلام کی صفت بتائی ہے اور اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے ہاں آگ پیدا ہوتی تھی بلکہ صرف یہ مراد ہے کہ اس کی طبیعت ناری تھی اور وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بغض اور حسد سے جلتا رہتا تھااور آپؐ کی مخالفت میں آگ بنا رہتا تھا۔
اوپر کی آیاتی میں جو یہ ذکر آیا ہے کہ صلصال سے پیدا ہونے والے انسانوں سے پہلے دُنیا میں جن بستے تھے اس کی تشریح متعلقہ آیات کے ماتحت آئے گی (کسی قدر اس کا ذکر سورہ حجر کے نوٹ نمبر ۲۵ میں بھی آیا ہے جس کی تفسیر پہلے شائع ہو چکی ہے اس میں دیکھنا چاہیئے)
جو کچھ قرآن کریم کی آیات زیر تفسیر اور دوسری آیات کی روشنی میں اوپر لکھا جا چکا ہے اس سے ظاہر ہے کہ قرآن کریم تعلیم کے مطابق (۱) انسان کی پیدائش یکدم نہیں ہوئی بلکہ باریک در باریک ذرات کی صورت نے ترقی کر کے اور مختلف احوال میں سے گذر کر انسانی شکل اختیا رکی ہے (۲) انسان شروع سے ہی بطور انسان پیدا کیا گیا ہے اور وہ فلاسفروں کے خیال کے مطابق جانوروں کے ارتقاء کا اتفاقی نتیجہ نہیں ہے (۳) سب سے پہلا الہام الٰہی پانے والا وجود وہ تھا جو نطفہ سے پیدا ہونے والا تھا یعنی سب سے پہلے حیوانی شکل اختیار کرنے والا جوو دملہم من اللہ نہ تھا بلکہ اس کی نسل میں سے ایک کامل وجود اس مقام کا مستحق ہوا جس کا نام قرآن کریم کے رو سے آدم تھا (۴) اس سے پہلے ملہم کے زمانے میں اس کے علاوہ اس کے اور ہم جنس بھی تھے اور انہی کے نظام اور ہدایت کے لئے اسے خلیفہ بنایا گیا یہ لوگ اس کے ساتھ اس جنت ارضی میں رہتے تھے جس میں آدم علیہ السلام رکھے گئے تھے اور ان کے ساتھ ہی وہ اس جنت ارضی سے نکالے بھی گئے۔
اگر اوپر کے مطالب کو درست سمجھا جائے (اور میں سمجھتا ہوں کہ میں قرآن کریم کی مختلف آیات سے اس امر پر کافی روشنی ڈال چکا ہوں کہ وہ مطالب درست ہیں) تو یہ امر بھی واضح ہو جاتا ہے کہ بعض لوگوں کا یہ شبہ کہ آدم اور اور اس کی بیوی اگر ایک ہی جوڑا تھے تو پھر ان کی اولاد کی شادی کس سے ہوئی تھی اگر بھائی بہنوں کی آپس میں شادی ہوئی تھی تو یہ قابل اعتراض اور گھنونا امر ہے بے بنیاد شبہ ہے کیونکہ اوپر کی تشریح کے مطابق شریعت آدم سے شروع ہوئی اور اس وقت تک بہت سے دوسرے انسان پیدا ہو چکے تھے باقی رہا ان سے پہلے کا زمانہ سو اس وقت تک انسانی دماغ بالقوۃ انسانی دماغ نہ بنا تھا اور شریعت کو سمجھنے یا اس پر عمل کرنے کے قابل ہی نہ تھا پس اس کے کسی فعل کو قابل اعتراض نہیں کہا جا سکتا نیز یہ بھی ضروری نہیں کہ آدم علیہ السلام سے پہلے کے بشر ایک ہی جوڑے سے ترقی پا کر بنے ہوں جس طرح یہ ممکن ہے کہ وہ ایک ہی جوڑے سے ترق پا کر بنے ہوں اسی طرح یہ بھی ممکن ہے بلکہ زیادہ قرین قیاس ہے کہ وہ کئی جوڑوں سے ترقی پا کر بنے ہوں۔
اس بارہ میں میں بانی سلسلہ احمد یہ علیہ السلام کے اس مکالمہ کے ذکر کے بغیر نہیں رہ سکتا جو ان میں اور ایک آسٹریلین سٹرانومسٹ کے درمیان ہوا یہ آسٹریلین پروفیسر ۰۸؁ء میں ہندوستان کی سیر کو آیاتھا اور اس نے ہندوستان کے مختلف شہروں میں لیکچر بھی دیئے تھے جن دنوں وہ لاہور میں تھا وہ بانی سلسلہ احمدیہ سے بھی ملا تھا اور اس نے ان سے اس مضمون کے بارے میں سوال کیا تھا اس کا ساول اور آپ کا جواب اس بارہ میں میں ذیل میں نقل کرتا ہوں۔
سوال۔ بائبل میں لکھا ہے کہ آدم یا یُوں کہیئے کہ پہلا انسان جیحون سیحون میں پیدا ہوا تھا اور اس کا وہی ملک تھا تو پھر کیا یہ لوگ جو دُنیا کے مختلف حصوں امریکہ۔ آسٹریلیا وغیرہ میں پائے جاتے ہیں یہ اس آدم کی اولاد سے ہیں۔
جواب۔ فرمایا ’’ہم اس بات کے قائل نہیں ہیں اور نہ ہی اس مسئلہ میں ہم تو ریت کی پیروی کرتے ہیں کہ چھ سات ہزار سال سے ہی جب سے یہ آدم پیداہوا تھا اس دنیا کا آغاز ہوا ہے اور اس سے پہلے کچھ نہ تھا اور خدا گویا معطل تھا اور نہ ہی ہم اس بات کے مدعی ہیں کہ یہ تمام نسل انسانی جو اس وقت دُنیا کے مختلف حصوں میں موجود ہے یہ اس آخری آدم کی نسل ہے ہم تو اس آدم سے پہلے بھی نسل انسانی کے قائل ہیں جیسا کہ قرآن شریف کے الفاظ سے پتہ لگتا ہے خدا نے یہ فرمایا کہ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً خلیفہ کہتے ہیں جانشین کو اس سے صاف پرتہ چلتا ہے کہ آدم سے پہلے بھی مخلوق موجود تھی پس امریکہ اور آسٹریلیا وغیرہ کے لوگوں کے متعلق ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اس آخری آدم کی اولاد میں سے ہیں یا کہ کسی دوسرے آدم کی اولاد میں سے ہیں۔ (الحکم ۳۰ مئی ۱۹۰۸ء؁)
اس بارہ میں امتِ اسلامیہ کے گزشتہ اہم ترین صاحبِ لوگوں میں سے ایک حضرت محی الدین صاحب ابنِ عربی اپنے ایک عجیب کشف کا ذکر اپنی کتاب فتوحات مکیہ میں فرماتے ہیں وہ لکھتے ہیں کہ میں نے رئویا میں دیکھا کہ میں خانہ کعبہ کاطواف کر رہا ہو ںاس وقت کچھ اور لوگ بھی طواف کر رہے تھے اور یہ شعر پڑھتے جاتے تھے۔
لَقَدْ طُفْنَا کَمَا طُفْتُمْ سِنِیْنَا
بِھٰذا الْبَیْتِ طُرًّا اَجْمَعِیْنَا
یعنی ہم سب نے بھی اسی طرح اس گھر کا سالوں طواف کیا ہے جس طرح تم نے اس گھر کا طواف کیاہے۔ اس پر وہ کہتے ہیں میں نے ان لوگوں میں سے ایک شخص سے بات کی اس نے جواب میں کہا کہ کیا تم مجھ کو نہیں پہچانتے میں تمہارے پہلے دادوں میں سے ایک ہوں فرماتے ہیں میں نے اس سے پوچھا آپ کو کتنا عرصہ گزرا ہے اس نے جواب دیا چالیس ہزار سال سے زیادہ گزرے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس پر میں نے کہا کہ اتنا عرصہ تو آدم پر نہیں گزرا اس کے جواب میں اس شخص نے جواب دیا کہ تم کون سے آدم کے متعلق سوال کرتے ہو جو سب سے زیادہ تم سے قریب ہے یا کسی اور کے متعلق۔ اس جواب کو سن کر وہ کہتے ہیں کہ مجھے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث یاد آ گئی کہ اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ آدم پیدا کئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس پر میں نے اپنے دل میں کہا کہ وہ جد اکبر جس نے مجھے اپنی طرف منسوب کیا ہے ان میں سے ایک ہونگے۔ (فتوحات مکیہ جلد ثالث الفصل الخامس فی المنازلات الباب التسعون و ثلث مائتہ)
اس کشف سے معلوم ہوتا ہے کہ ملہم آدم جس کی طرف اس زمانہ کے لوگ منسوب ہوتے ہیں پہلا آدم نہیں بلکہ آخری آدم ہے او ریہ بھی کہ آدم کا لفظ کبھی بطور صفت کے استعمال ہوتا ہے یعنی جد اکبر کے معنوں میں اور ضروری نہیں کہ اس سے مراد وہی آدم اوّل ہو جو الہام کے لحاظ سے سب سے اوّل تھا اس کشف سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بشر کی نسل بہت قدیم زمانہ سے چلی آتی ہے اور یہ جو سات ہزار سال کا دور اس دُنیا کی پیدائش کے متعلق احادیث میں مذکور ہے اس سے مراد صرف آخری آدم کا دور ہے نہ کہ دور بشر بحیثیت مجموعی۔
غرض اوپر کی شہادتوں سے ثابت ہے کہ مجھ سے پہلے ایسے صاحب کشف لوگوں نے جن کی رائے ہی قرآن کریم کی تفسیر کے بارے میں ماننے کے قابل ہے اس عقیدہ کا اظہار کیا ہے کہ نسل انسانی ایک آدم سے نہیں چلی بلکہ متعدد آدم پہلے گزر چکے ہیں اور یہ کہ آدم مذکور جس کا ذکر قرآن کریم میں آتا ہے ان آدمیوں میں سے ایک فرد ہے نہ کہ صرف ایک ہی فرد۔
اس موقعہ پر یہ سوال ہو سکتا ہے کہ اگر یہ بات درست ہے کہ آدم مذکور سے پہلے بھی بشر کی نسل موجود تھی اور ان کی نطفہ سے پیدائش ہو رہی تھی تو پھر قران کریم میں یہ کیوں فرماتا ہے کہ تم کو ایک جوڑے سے پیدا کیا گیا ہے اور احادیث میںیہ کیوں آتا ہے کہ عورت کو مرد کی پسلی سے پیدا کیا گیا ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم میں اس امر کا ذکر مندرجہ ذیل آیات میں آتا ہے کہ سورۂ نساء رکوع ۱ سورۂ اعراف رکوع ۲۴۔ اور سورۂ زمر رکوع۱ ان میں سے سورۂ نساء میں تو یہ لفظ ہیں خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَہَا اس نفس سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور سورۂ اعراف میں یہ الفاظ ہیں جَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا اس نفس سے اس کا جوڑا بنایا اور سورۂ زمر میں یہ الفاظ ہیں ثُمَّ جَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا پھر اس سے اس کا جوڑا بنایا۔ ان تینوں حوالوں میں آدم کا کہیں ذکر نہیں صرف یہ ذکر ہے کہ تم کو ہم نے ایک نفس سے پیدا کیا ہے پھر اس سے اس کا جوڑا بنایاان تینوں آیات میں سے جو ہم معنی ہیں زیادہ صراحت سورہ اعراف کی آیات میں ہے وہاں فرماتا ہے ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَّجَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا لِیَسْکُنَ اِلَیْہَا فَلَمَّا تَغَشّٰھَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِیْفًا فَمَرَّتْ بِہٖ فَلَمَّا اَثْقَلَتْ وَّعَوَا اللّٰہَ رَبَّھُمَا لَئِنْ اٰتَیْتَنَا صَالِحًا لَنَکُو نَنَّ مِنَ الشَّاکِرِیْنَo فَلَمَّا اٰتٰھُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَہٗ شُرَکَآئَ فِیْمَا اٰتٰھُمَا فَتَعَالَی اللّٰہُ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ (اعراف ع ۲۴) یعنی اللہ تعالیٰ نے تم کو ایک نفس سے پیدا کیا ہے اور اسی میں سے اس کا جوڑا بنایا ہے تاکہ اس کی طرف مائل ہو کر تسکین حاصل کرے پھر جب اس نفس واحدہ نے اپنی بیوی سے مباشرت کی تو وہ ایک ہلکا سا حمل لے کر جُدا ہوئی پھر جب وہ حمل نمایاں ہوا تو اس نفس واحدہ اور اسکی بیوی نے اللہ اپنے رب سے دُعا کی کہ اگر تو ہم کو تندرست بچہ عطا کرے تو ہم ضرور شکر گزار ہونگے پھر جب اللہ تعالیٰ نے انہیں تندرست بچہ عطا فرمایا تو انہوں نے اس کے متعلق شرک کرنا شروع کر دیا یعنی یہ کہنے لگے کہ یہ بچہ تو ہمیں فلاں بُت یا دیوی کی بدولت ملا ہے اور اللہ تعالیٰ تو ان کے شرک سے بہت بلند ہے۔ اس آیت پر غور کرو کہ یہ کسی صورت میں بھی آدم اور ان کی بیوی پر چسپاں نہیں ہوتی کیونکہ آدم علیہ السلام تو خدا تعالیٰ کے نبی تھے اور اس نفس واحدہ کی نسبت اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ وہ اولاد ہونے پر مشرک ہو گیا تھا اور اس کی بیوی بھی مشرک ہو گئی تھی۔
پس حق یہ ہے کہ نفس واحدہ سے اس جگہ پہلا بشر مُراد نہیں اور نہ آدم علیہ السلام بلکہ اس سے صرف یہ مُراد ہے کہ ایک ایک انسان سے بڑی بڑی اقوام پیدا ہو جاتی ہیں اور اولاد اپنے ماں باپ کے اثر کو قبول کرکے وہ کافر ہوں تو کافر مشرک ہوں تو مشرک اور مؤحد ہوں تو مؤحد ہو جاتی ہے پس شادی کرتے ہوئے انسان کو بہت احتیاط سے کام لینا چاہیئے اور اپنی اولاد کی تربیت کا خاص خیال رکھنا چاہیئے تا یہ نہ ہو کہ ماں باپ کی غلطیاں اولاد میں پیدا ہو کہ ہزاروں لاکھوں انسان گند میں مبتلا ہو جائیں۔
یہ جو فرمایا وَجَعَلَ مِنْھَا زَوْجَھَا اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ اس قسم سے اس کا جوڑا بنایا یعنی بیوی اور میاں ایک ہی جنس میں سے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے خیالات سے متاثر ہوتے ہیں نہ یہ کہ بیوی میاں کی پسلی سے پیدا کی جاتی ہے کیونکہ اگر یہ معنے کئے جائیں تو ماننا پڑے گا کہ جس قدر مشرک لوگ ہوتے ہیں ان کی بیویاں ان کی پسلیوں سے پیدا کی جاتی ہیں کیونکہ یہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ اس آیت میں پہلا بشر مُراد نہیں اور جب پہلا بشر یہاں مُراد نہیں تو ماننا پڑے گا کہ ہر مرد کی بیوی اس کی پسلی سے پیدا کی جاتی ہے جو بالبداہت باطل ہے (اس مضمون کو پوری تفصیل کے ساتھ سورۂ نساء کی آیت کے نیچے انشاء اللہ بیان کیا جائے گا)
اب رہا یہ سوال کہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اس سے تو ضرور معلوم ہوتا ہے کہ آدم اکیلے پیدا کئے گئے تھے اور ان سے پہلے کوئی بشر نہ تھا پھر جب آدم کی پسلی سے عورت پیدا ہوئی تو اس سے انسانی نسل چلی اس کا جواب یہ ہے کہ وہ حدیث جس سے بعض لوگ دھوکا کھاتے ہیں ان الفاظ میں ہے اِسْتَوْصُوْا بِالنِّسَآئِ فَاِنَّ الْمَرْأَۃَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلْعٍ (مسلم جلد دو کتاب الرضاع باب الوصیتہ بالنساء) یعنی عورتوں کے متعلق نیک سلوک کرنے کے بارہ میں میری نصیحت کو قبول کرو کیونکہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اس حدیث کی پوری تشریح تو میں سورۂ نساء کی آیت کے ماتحت ہی لکھوں گا اس جگہ کے مناسب حال صرف اس قدر کہنا کافی ہے کہ اس حدیث میں آدم کی بیوی کا ذکر نہیں بلکہ عورت کا ذکر ہے او رہر عورت کے پسلی سے پیدا ہونے کا بیان ہے اور ہر عورت کی پیدائش جس طرح ہوتی ہے اسے ہم سب لوگ جانتے ہیں پس مشاہدہ کے خلاف اس حدیث کے یہ معنے ہر گز نہیں کئے جا سکتے کہ عورت پسلی سے پیدا ہوتی ہے بلکہ اس کے معنی وہی ہیں جو آئمہ لغات نے کئے ہیں حدیث کی مستند لغت کی کتاب مجمع البحار میں شیخ محمد طاہر صاحب لکھتے ہیں۔ فَاِنَّھُنَّ خُلِقْنَ مِنَ الضِّلْعِ اسْتِعَارَۃٌ لِلْمُعْوَجِّ اَیْ خُلِقْنَ خَلْقًا فِیْہِ الْاَعْوِ جَاجُ (مجمع الیحار جلد اوّل زیر لفظ ضلع) یعنی یہ جو حدیث میں آتا ہے کہ عورتیں پسلی سے پیدا کی گئی ہیں یہ کلام استعارہ کی قسم سے ہے اور مُراد یہ ہے کہ ان کے اخلاق میں ناز کا پہلو غالب ہوتا ہے یعنی خاوند سے اختلاف کرنے کو ان کا دل طبعاً چاہتا ہے اور یہ امر تجربہ سے ثابت ہے کہ عورت اپنے خاوند سے اختلاف کر کے اس سے اپنی بات منواتی ہے اور اس پر اثر ڈال کر اس پر حکومت کرتی ہے اسی کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا ہے اور فرمایا ہے کہ عورت پر جبری حکومت نہ کیا کرو بلکہ محبت سے اسے منوایا کرو اور اس کے احساسات کا خیال رکھا کرو کیونکہ چونکہ وہ بہت سی باتوں میں مرد کے تابع ہوتی ہے۔ طبعاً مرد کے ہر حکم کو پرکھنا چاہتی ہے اور اس سے اختلاف ظاہر کرتیہے تا حقیقت کو معلوم کرے پس مرد کو بھی چاہیئے کہ عورت سے جو بات منوائے دلیل اور محبت سے منوائے۔ اگر جبر اور زور سے منوائے گا تو عورت کا دل ٹوٹ جائے گا۔ اور اس کا پیار کا تعلق مرد سے نہیں رہے گا۔
خلاصہ یہ کہ اوپر کی آیات اور حدیث سے بھی ہر گز یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آد پہلے بشر تھے اور یہ کہ ان کے جسم سے ان کی بیوی پیدا کی گئی۔ بلکہ آیات اور حدیث دونوں میں تمام بنی نوع انسان کا ذکر بطور قاعدہ کلیہ کے ہے نہ کہ خاص طور پر آدم اور ان کی بیوی کا۔ اور جب یہ ثابت ہو گیا تو وہ اعتراض بھی دُور ہو گیا جو بعض لوگ کیا کرتے ہیں کہ جب سب انسان آدم کی اولاد سے ہیں تو کیا آدم کی نسل میں بہن بھائی کی شادی ہوا کرتی تھی کیونکہ یہ اعتراض صرف آدم کی نسل پر پڑ سکتا تھا جو پہلا کامل العقل اور حامل الشریعت انسان تھا لیکن جب اس کے زمانہ میں اور انسانوں کا وجود ثابت ہو گیا تو یہ اعتراض بھی باقی نہ رہا۔ باقی رہے اس سے پہلے کے انسان ت وان پر یہ اعتراض نہیں پڑ سکتا کیونکہ وہ اوّل تو کامل العقل اور حامل شریعت ہی نہ تھے۔ دوسرے ان کی نسبت بھی یہ ثابت نہیں کہ وہ ایک ہی بشر سے پیدا ہوئے تھے بلکہ ممکن ہے کہ وہ بھی ایک ہی وقت میں کئی مرد اور کئی عورتیں پیدا کئے گئے ہوں۔
انسان صفاتِ الہیہ کا ظلی حامل
اسی آیت سے یہ امر بھی ثابت ہوتا ہے کہ انسان صفات الٰہیہ کاظلی طور پر حامل ہے کیونکہ اس آیت میں آدم کو خلیفہ بنانے کا ارشاد ہے اور خلیفہ کے ایک معنے دوسرے کی صفات کو جاری رکھنے کے ہوتے ہیں جیسے بادشاہ کا خلیفہ وہ ہوتا ہے جو بادشاہ کے اختیارات کو چلاتا ہے پس خلیفتہ اللہ وہ ہوا جو اللہ تعالیٰ کی صفات کو جاری رکھے اور چونکہ آدم انسانیت کا پہلا کامل مظہر تھا اور دوسرے انسانوں کو اپنے نقشِ قدم پر چلانے کے لئے بھیجا گیا تھا۔ معلوم ہوا کہ سب انسان ہی خلیفتہ اللہ ہونے کی قدرت رکھتے ہیں اور اس کی صفات کو اپنے اندر پیدا کر سکتے ہیں یہ اور بات ہے کہ وہ اس مقدرت کو ظاہر کریں یا نہ کریں۔
آدم کا تمدن
چونکہ اس آیت میں سب سے پہلے خلیفہ اللہ کا ذکر ہے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ آدم کے تمدن کا بھی ذکر کر دیا جائے جس کے قیام کے لئے آدم کو مبعوث کیا گیا تھا اور جو اس کی خلافت کا اصل مقصد تھا۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتاہے کہ آدم نے اپنی خلافت کو جس تمدن کے قیام سے ظاہر کیا وہ مندرجہ ذیل اصول پر مبنی تھا۔
۱۔ آدم کی جماعت کا فرض مقرر کیا گیا تھا۔ کہ وہ شادی کریں جیسا کہ یٰٓاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَّ (بقرہ ع ۲) کے حکم سے معلوم ہوتا ہے۔ آدم سے پہلے چونکہ شریعت نازل نہ ہوئی تھی۔ شادی کا خاص دستور بشر میں نہ تھا۔ آدم کے ذریعہ سے شادی کا حکم جاری ہوا۔ بائبل نے اس واقعہ کو مسخ کر کے بیان کیا ہے مگر اس کا یہ بیان کہ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ آدم کیلئے ایک بیوی تیار کرے (پیدائش باب ۲) اس تحقیق کی روشنی میں کہ آدم سے پہلے بشر موجود تھے اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ گو آدم سے پہلے بشر تھے مگر کوئی باقاعدہ نکاح کا طریق رائج نہ تھا اور بیوی بنانے کا اصل مطلب یہ ہے کہ میاں بیوی کے تعلقات کے متعلق احکام بتائے گئے۔
۲۔ جہاں اتباع آدم کو کچھ امور کے کرنے کا حکم دیا گیا تھا وہاں کچھ امور سے اجتناب کا بھی حکم دیا گیا تھا جیسا کہ وَلَا تَقْرَبَا ھٰذِہِ الشَّجَرَۃً (بقرہ ع ۴) کے الفاظ سے ظاہر ہے۔
۳۔ وہ تعاون سے اپنی جماعت کے کھانے پینے کا انتظام کریں۔
۴۔ پانی کا انتظام کریں۔
۵۔ لباس پہنیں اور ننگے نہ رہیں۔
۶۔ مکان بنائیں اور اکٹھے رہیں۔
تین سے چھ تک کے امور اس آیت سے ظاہر ہوتے ہیں اِنَّ لَکَ اَلَّا تَجُوْعَ فِیْہَا وَلَا تَعْریٰ وَ اَنَّکَ لَاتَطْمَؤُا فِیْہَا وَلَا تَضْحٰی (طہ ع ۷) یعنی اے آدم جس مقام پر ہم تم کو رکھنے لگے ہیں۔ اس میں تمہارا فرض ہو گا۔ کہ بھوکے نہ رہو۔ اور ننگے نہ رہو اور پیاسے نہ رہو۔ اور دُھوپ کی تکلیف نہ اُٹھائو۔ بعض لوگوں نے غلطی سے یہ سمجھا ہے کہ یہ آدم کی جنت کی تفصیل ہے۔ لیکن یہ جنت کی تفصیل نہیں ہو سکتی۔ بھوکے پیاسے تو درندے بھی نہیں رہتے اور نہ وہ دھوپ میں تپتے ہیں۔ یہ امور تو اسی دُنیا میں جانوروں تک کو میسر ہیں۔ پس یہ جنت کی تفصیل نہیں۔ آدم کے تمدن کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور پہلی انسانی سوسائٹی کو بتایا گیا ہے کہ ایک جگہ رہنے سہنے کے نتیجہ میں بعض دفعہ ایک حصہ آبادی کا اپنی خوراک مہیا نہیں کر سکتا یا لباس مہیا نہیں کر سکتا۔ پس جہاں تم کو تمدن کی برکات سے حصہ دیا جاتا ہے وہاں اس کی خرابیوں کے دور کرنے کا خیال رکھنا بھی تمہارا فرض ہے اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا اور عریبوں کی مدد کرنا تمہارے ذمہ لگایا جاتا ہے اگر کوئی بوڑھا ہو جائے یا غریب ہو جائے یا اور کسی طرح معذور ہو جائے تو یہ سب کا فرض ہ وگا کہ اس کے لئے روٹی اور لباس اور پانی اور رہائش کا انتظام کریں یہ اصول تمدن ایسے اعلیٰ درجہ کے ہیں کہ دُنیا کبھی ان سے آزاد نہیں ہوئی لیکن افسوس کہ کبھی بھی دُنیا نے اس طرف پوری طرح توجہ نہ کی ۔ سوائے اسلام کے جس کے اصولوں میں حکومت کے فرائض میں یہ امور داخل ہیں مگر افسوس کہ انھوں نے بھی بعد زمانہ خلافت ان اصول پر عمل نہیں کیا اور اس کا نتیجہ آج دُنیا کو فسادوں اور جھگڑوں اور قتل و خونریزی کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔
خلیفہ
جیسا کہ پہلے حل لغات اور نوٹوں میں بتایا جا چکا ہے لفظ خلیفہ کے مندرجہ ذیل معانی ہیں (۱) جو کسی پہلی قوم یا فرد کا قائم مقام ہو (۲) جو کسی بالا افسر کا اس کی زندگی ہی میں دوسرے مقام پر اس کے احکام کے نافذ کرنے کے لئے مقرر ہو (۳) جس کے بعد کوئی اس کا قائم مقام ہو خواہ (الف) اس کے اختیارات یا کام کو چلانے والا (ب) خواہ اس کی نسل لیکن اس آیت میں جو لفظ کا آیا ہے اس کے معنوں کو قرآن کریم کے محاوہر کی روشنی میں دیکھنا چاہیئے۔ سو جب ہم قرآن کریم کودیکھتے ہیں تو اس میں یہ لفظ مندرجہ ذیل تین معنوں میں استعمال ہوتا ہے (۱) نبی اور مامو رکے معنوں میں۔ جیسا کہ اس آیت میں استعمال ہوا ہے کیونکہ گو آدم سے اس معنے میں بھی خلیفہ تھا کہ ایک پہلی نسل کے تباہ ہونے پر اس نے اور اس کی نسل نے جگہ لی اور اس معنے میں بھی خلیفہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعہ سے ایک بڑی نسل چلائی۔ لیکن وہ سب سے بڑی اہمیت جو اسے حاصل تھی وہ نبوت اور ماموریت ہی کی تھی جس کی طرف سے آیت میں سب سے پہلا اشارہ ہے۔
نبی یا مامور اللہ تعالیٰ کے خلیفہ ہوتے ہیں یعنی صفات الٰہیہ کو اپنے زمانہ کی ضرورت کے مطابق دنیا پر ظاہر کرتے ہیں اور اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے ظل بن کر ظاہر ہوتے ہیں۔ انہی معنوں میں حضرت دائود کو بھی خلیفہ کہا گیا ہے (ص ع ۲) (۲) دوسرے ہر قوم جو پہلی قوم کی تباہی پر اس کی جگہ لیتی ہے ان معنوں میں بھی خلیفہ کا لفظ قرآن کریم میں متعدد بار استعمال ہوا ہے مثلاً حضرت ہود کی زبان سے فرماتا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا وَاذْ کُرُوْٓا اِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَآئَ مِنْ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ (اعراف ع ۹) یاد کرو جبکہ خدا تعالیٰ نے تم کو قوم نوح کے بعد ان کا جانشین بنایا یعنی قوم نوح کی تباہی کے بعد ان کی جگہ تم کو دنیا میں حکومت اور غلبہ حاصل ہو گیا اسی طرح حضرت صالح کی زبانی فرماتا ہے وَاذْ کُرُوْٓا اِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَآئَ مِنْ بَعْدِ عَادٍ (اعراف ع ۱۰) یاد کرو جب تم کو خدا تعالیٰ نے عاد اولیٰ کی تباہی کے بعد ان کا جانشین بنایا اور حکومت تمہارے ہاتھ میں آ گئی (۳) نبی کے وہ جانشین بھی خلیفہ کہلاتے ہیں جو اس کے نقش قدم پر چلنے والے ہوں یعنی اس کی شریعت پر قوم کو چلانے والے ہوں اور ان میں اتحاد قائم رکھنے والے ہوں خواہ نبی ہوں یا غیر نبی جیسے کہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام موعودراتون کے لئے طور پر گئے تو اپنے بعد انتظام کی غرض سے انہوں نے حضرت ہارون سے کہا کہ اُخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ وَ اَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِیْلَ الْمُفْسِرِیْنَ (اعراف ع ۱۷) یعنی میرے بعد میری قوم میں میری جانشینی کرنا اور ان کی اصلاح کو مدنظر رکھنا اور مفسد لوگوں کی بات نہ ماننا حضرت ہارون خود نبی تھے اور اس وقت سے پہلے نبی ہو چکے تھے پس یہ خلافت جو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انہیں دی تھی وہ خلافت نبوت نہ ہو سکتی تھی اس کے معنے صرف یہ تھے کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی غیر حاضری میں ان کی قوم کا انتظام کریں اور قوم کو اتحاد پر قائم رکھیں اور فساد سے بچائیں جہاں تک اس خلافت کا تعلق ہے یہ خلافت نبوت نہ تھی بلکہ خلافت انتظامی تھی مگر جیسا کہ میں اوپر لکھ چکا ہو ںاس قسم کی شخصی خلافت علاوہ خلافت انتظامی کے خلافت نبوت بھی ہوتی ہے یعنی ایک سابق نبی کی امت کی درستی اور اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ ایک اور نبی کو مبعوث فرماتا ہے جو پہلے نبی کی شریعت کو ہی جاری کرتا ہے کوئی نئی شریعت جاری رنہیں کرتا پس جہاں تک کہ شریعت کا تعلق ہوتا ہے وہ پہلے نبی کے کام کو قائم رکھنے والا ہوتا ہے اور اس لحاظ سے پہلے نبی کا خلیفہ ہوتا ہے لیکن عہدہ کے لحاظ سے وہ پہلے نبی کا مقرر کردہ نہیں ہوتا نہ اس کی امت کا مقرر کردہ بلکہ براہِ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے مقرر کیا جاتا ہے اس قسم کے خلفاء بنی اسرائیل میں بہت سے گذرے ہیں بلکہ جس قدر انبیاء بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل میں آئے ہیں سب اسی قسم کے خلفاء تھے یعنی وہ نبی تو تھے مگر کسی جدید شریعت کے ساتھ نہ آئے تھے بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کو ہی دنیا میں جاری کرنے کے لئے آئے تھے چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْراۃَ فِیْہَا ھُدًی وَّ نُوْرٌ ج بَجْکُمُ یِھَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِیْنَ ھَادُوْا وَالرَّیَّا نِیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ وَکَانُوْا عَلَیْہِ شُھَدَآئَ (مائدہ ع ۷) یعنی ہم نے تورات اُتاری تھی جس میں ہدایت اور نور تھے۔ تورات کے ذریعہ سے بہت سے نبی جو (موسیٰ ؑ کے) فرمانبردار تھے اور اسی طرح ربانی اور احبار بوجہ اس کے کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کی حفاظت کرنے کا انہیں حکم دیا گیا تھا یہود کے درمیان فیصلے کرتے تھے اور یہ انبیاء اور ربانی اور احبار تورات پر بطور نگران مقرر تھے۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد کچھ انبیاء ایسے آئے تھے جن کا کام موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کا قیام تھا اور وہ گویا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ تھے (۲) ان انبیاء کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی جن کو ربانی اور احبار کہنا چاہیئے اس کام پر مقرر تھے اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء اور مجددین کا ایک لمبا سلسلہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد ان کے خلفاء کے طو رپر ظاہر ہوتا رہا جن کا کام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کام کی تکمیل تھا۔ اس سلسلہ کی آخری کڑی حضرت مسیح ناصری علیہ السلام تھے جن کو تدبر فی القرآن نہ کرنے کے سب کئی مسلمان خصوصاً آخری زمانہ کے مسلمان باشریعت نبی سمجھ بیٹھے ہیں۔ اسی طرح اسی زمانہ کے مسیحی ان کی نسبت یہ خیال کرنے لگے ہیں کہ وہ ایک نیا قانون لے کر آئے تھے اور اسی وجہ سے وہ ان کی کتاب کو نیا عہد نامہ کہتے ہیں حالانکہ قرآن کریم ان کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دین کا قائم کرنے والا ایک خلیفہ قرار دیتا ہے جیسا کہ مذکورہ بالا آیت سے چند آیات بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَقَفَّیْنَا عَلیٰ اٰثَارِ ھِمْ بِعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ مُصَدِّ قًالِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ التَّوْرَاۃِ (مائدہ ع ۷) یعنی ہم نے مذکورہ بالا نبیوں کے بعد جو تورات کی تعلیم کو جاری کرنے کے لئے آئے تھے عیسیٰ بن مریم کو بھیجا جو ان کے نقش قدم پر چلنے والے تھے اور توریت کی پیشگوئیوں کو پورا کرنے والے تھے خود مسیح ناصری فرماتے ہیں۔
’’یہ خیال مت کرو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتاب منسوخ کرنے کو آیا ہوں۔ میں منسوخ کرنے کو نہیں بلکہ پوری کرنے کو آیا ہوں کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں۔ ایک نقطہ یا شوشہ توریت کا ہر گز نہیں مٹے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو۔‘‘ (متی باب ۵ آیت ۱۷ و ۱۸)
غرض یوشع سے لے کر جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے معاً بعد ان کے خلیفہ ہوئے حضرت مسیح ناصری تک کے سب انبیاء اور مجدیدن حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ اور ان کی شریعت کو جاری کرنے والے تھے۔
امتِ محمدؐیہ میں ان تینوں قسم کی خلافتوں کا وعدہ بھی قرآن کریم سے ثابت ہے جن سے افسوس کہ بعض مسلمان غافل رہے اور ان سے صحیح فائدہ اُٹھا سکے چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلَوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِیْ ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّ لَنَّہُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْ فِھِمْ اٰمْنًاط یَعْبُدُوْنَنِیْ لَایُشرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًاط وَمَنْ کَفَرَ بَعْدُ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفَاسِقُوْنَo (نور ع ۷) یعنی اللہ تعالیٰ تم میں سے مومنوں اور مناسبِ حال عمل کرنے والوں سے وعدہ کرتا ہے کہ ضرور ان کو بھی زمین میں اسی طرح خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلوں کو خلیفہ بنایا تھا اور ضرور ان کے لئے ان کے اس دین کو جس کو اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے مضبوطی سے قائم کرے گا اور ان کے خوف کے بعد امن کی حالت پیدا کر دے گا وہ میری عبادت کرینگے اور کسی چیز کو میرا شریک نہ بنائینگے اور جو لوگ اس کے بعد بھی کفر کینگے وہ نافرمان قرار دیئے جائیں گے۔
اس آیت میں مسلمانوں سے وعدہ کیا گیا ہے کہ ان کو پہلو اُمتوں کی طرح کی خلافت حاصل ہو گی اور پہلی امتوں کی خلافت جیسا کہ قرآن کریم سے اوپر ثابت کیا جا چکاہے تین قسم کی تھی (۱) ایسے انبیاء ان میں پیدا ہوئے جو ان کی شریعت کی خدمت کرنے والے تھے (۲) ایسے وجود ان میں کھڑے کئے گئے جو نبی تو نہ تھے لیکن خدا تعالیٰ کی خاص حکمت نے ان کو ان امتوں کی خدمت کے لئے چن لیا تھا اور وہ اُمت کو صحیح راستہ پر رکھنے کے کام پر خدا تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت لگائے گئے تھے (۳) ان امتوں کو خدا تعالیٰ نے پہلی قوموں کا قائم مقام بنایا اور پہلوں سے شوکت چھین کر ان کو دی۔ یہ تین قسم کی خلافتیں ہیں جن کا مسلمانوں سے وعدہ تھا اور تینوں کے حصول سے ہی اسلام کی شوکت پوری طرح ظاہر ہو سکتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی مسلمانوں کو اس وعدہ کے مطابق پہلی قوموں کی جگہ پر متمکن کر دیا اور ان کے دشمنوں کو ہلاک اور برباد کر دیا اور اگر مسلمان ایمان اور عمل صالح پر قائم رہتے تو ہمیشہ کے لئے ان کی شوکت قائم رہتی لیکن افسوس کہ کچھ عرصہ گذرنے کے بعد وہ دین کی طرف سے ہٹ کر دنیا میں مشغول ہو گئے اور انھوں نے غلطی سے سمجھا کہ دوسری اقوام کی طرح وہ دنیا میں مشغول ہو کر بھی ترقی کر سکتے ہیں حالانکہ قرآن کریم صاف فرما چکا تھا کہ مسلمانو ںکی ترقی دوسری اقوام کی طرح نہ ہو گی بلکہ وہ جب ترقی کرینگے صدیوں کے تجربہ نے اس صداقت کو ثابت کر دیا ہے۔ کاش وہ اب بھی اپنی ترقی کے گر کو سمجھ کر ایمان اور عمل صالح کی طرف توجہ کریں۔ دوسری قسم کی خلافت انہیں کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ملی۔ جبکہ اول حضرت ابوبکرؓ اور پھر حضرت عمرؓ اور پھر حضرت عثمانؓ اور پھر حضرت علیؓ یکے بعد دیگرے نعمتِ خلافت سے متمتع ہوئے اور ان کی اس نعمت سے تمام مسلمانوں نے حصہ پایا۔ اگر بعد کے مسلمان اس نعمت کی قدر کرتے تو وہ صحابہ کی ترقی کی راہ پر گامزن رہتے اور آج اسلام کہیں کا کہیں پہنچا ہوا ہوتا لیکن افسوس انھوں نے اس نعمت کی بھی قدر نہ کی اور بادشاہت کی طرف متوجہ ہو گئے اور اس شان کو کھو بیٹھے جو خلافت کے ذریعہ ان کو حاصل ہوئی تھی اس ی طرف سے مسلمان ایسے غافل ہوئے کہ آخری زمانہ میں اس قسم کی نبوت کا سرے ہی سے انکار کر دیا اور باب نبوت کو خواہِ غیر تشریعی ہی کیوں نہ ہو بند کر کے اس عظیم الشان فضل سے منکر ہو گئے جو اس زمانہ میں صرف اسلام سے ہی مخصوص تھا اور جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زندہ نبی ہونے کا ایک زبردست ثبوت تھا کیونکہ تابع کی نبوت مقبوع کی نبوت اور شان کو بڑھاتی اور روشن کرتی ہے نہ کہ کم کرتی ہے۔
جماعتِ احمدیہؐ کا ایمان ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کے ذریعہ سے اس پر فتن زمانہ کی اصلاح اور اسلام کو دوبارہ اس کے مقام پر کھڑا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے پھر اس تابع نبوت کا جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی شان کے مناسب حال امت نبوت ہے دروازہ کھولا ہے اور آپ کے ذریعہ سے اس نے پھر آپ کے ماننے والوں میں خلافت کو بھی زندہ کر دیا ہے جس سے پھر ایک دفعہ ساری دنیا میں ایک طبقہ ایسا پیدا ہو گیا ہے جو ایک ہاتھ پر جمع ہو کر خدمتِ اسلام کر رہا ہے اور اسلام اور مسلمانوں کو ان کا حق دلانے کے لئے رات دن جدوجہد کر رہا ہے اور وہ دن دُور نہیں جب پھر دنیا میں اسلام کا بول بالا ہو گا اور کفر بھاگ جائے گا۔ سیھزم الجمع و یولون الدبر۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔
ملائکہ
ؐ اس آیت میں ملائکہ کا بھی ذکر آتا ہے پس ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ملائکہ کے متعلق قرآنی تعلیم کو اجمالی طور پر بیان کر دیا جائے تا آیندہ جہاں جہاں ملائکہ کا ذکر آئے ان کے بارہ میں قرآنی نقطہ نگہ سمجھنے میں آسانی ہو ہاں تفصیلات متعلقہ آیات کے نیچے اپنی اپنی جگہ بیان ہونگی۔
جدید فلسفہ سے متاثر نوجوانوں نے اللہ تعالیٰ کی ہستی کا غلط اندازہ لگا کر ملائکہ کی نسبت یہ خیال پیدا کر لیا ہے کہ ملائکہ کا وجود چونکہ الوہیت کے منافی ہے اس لئے ملائکہ کا کوئی وجود نہیں ہے اور جو لوگ مذہب کے اثر سے ابھی تک پوری طرح آزاد نہیں ہوئے انھوں نے فرشتوں کے لفظ کی توجہہ کر کے اپنے نفس کو تسلی دے لی ہے وہ کہتے ہیں کہ ملائکہ سے مُراد وہ نیک جذبات ہیں جو انسان کے دل میں پیدا ہوتے ہیں ان کا کئی علیحدہ وجود نہیں۔
ملائکہ کے وجود کو الوہیت کے منافی قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ ایسے نوجوان اللہ تعالیٰ کا نقشہ یہ کھینچتے ہیں کہ وہ ایک وراء الوریٰ ہستی ہے اور اوّل تو اس کا اس دنیا کے کاروبار سے کوئی تعلق ہی نہیں اس لئے اسے کسی واسطہ کی ضرور ت نہیں اور اگر اس کا کوئی تعلق ہے تو یہ یقین کرنا کہ وہ فرشتوں سے کام لیتا ہے اس کی قدرت کاملہ کے خلاف ہے اور اس کی صفات میں نقص پر دلالت کرتا ہے پس دونوں صورتوں میں فرشتوں کا وجود محال ہے۔
اول الذکر عقیدہ کہ خدا تعالیٰ تو ہے مگر اس کا دنیا کے کاروبار میں کوئی دخل نہیں صرف ایک خوشکن پردہ ہے جو دہریت کے خیالات پر ڈالا گیا ہے در حقیقت اس عقیدہ اور دہریت میں کوئی فرق نہیں اگر خدا ہے بھی اور اس کا دُنیا سے کوئی تعلق بھی نہیں تو سوال یہ ہے کہ وہ ہے کیوں؟ خدا تعالیٰ کا وجود دو صورتوں سے خالی نہیں یا تو وہ کوئی دخل دُنیا کے نظام میں رکھتا ہے یا بے تعلق محض ہے اگر بے تعلق محض ہے تو اس کی بھی دو صورتیں ہیں یا تو وہ ہمیشہ سے بے تعلق محض ہے یا دنیا کو پیدا کر کے بے تعلق ہو گیا۔ اگر ہمیشہ سے بے تعلق محض ہے تو پھر اس کے وجود کا کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ بھی ثبوت نہیں پھر اس کے وجود کو تسلیم کرنے کے لئے نہ کوئی معنی ہیں نہ اس کی کوئی ضرورت ہے سوائے اس کے کہ خدا تعالیٰ کے ماننے والوں سے ایک منافقانہ ارتباط ظاہر کر کے ان کی خوشنودی اور ہمدردی حاصل کی جائے جو ایک نہایت ہی ذلیل مقصد ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ وہ دنیا کو پیدا کر کے بے تعلق ہو گیا تو پھر اس کا بار ثبوت ان لوگوں پر ہے جو خدا تعالیٰ کو اس صورت میں پیش کرتے ہیں کیونکہ ایک فعال ہستی کو بپے کار اور بے تعلق قرار دینے کا کوئی ثبوت ہونا چاہیئے۔ خدا تعالیٰ کو ہمیشہ فعال اور زندہ ماننے والے تو صرف اس کے اس فعل کے تسلسل کے قائل ہیں جس کو یہ دوسرے عقیدہ والے بھی مانتے ہیں لیکن اسے اب غیر فاعل اور عاجز قرار دینے والے اس کی فعالیت کو ایک وقت تک جاری قرار دے کر پھر بعد میں باطل اور ساکن قرار دیتے ہیں پس یہ بار ثبوت ان کے ذمہ ہے کہ وہ بتائیں کہ کس دلیل سے معلوم ہوا کہ پہلے تو وہ کوئی کام کرتا تھا لیکن بعد میں وہ اس کام سے علیحدہ ہو گیا اور اب بالکل بیکار اور دُنیا سے بے تعلق بیٹھا ہے اور نظامِ عالم آپ ہی آپ چل رہا ہے۔
بہرحال دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت بھی تسلیم کی جائے فرشتوں کا وجود محل اعتراض نہیں ٹھیرتا۔ کیونکہ اگر خدا تعالیٰ کسی وقت کوئی کام کرتا تھا۔ تو سوال یہ ہے کہ اس وقت کوئی واسطہ نہ استعمال کرتا تھا یا نہیں یعنی کیا ابتدائے آفرینش میں دنیا کے وجود میں آنے کا ذریعہ کوئی طبعی قواعد تھے یا جادو کے وہمی کرشموں کی طرح ہر تغیر بغیر کسی قانون یا ذریعہ کے ہو جاتا تھا اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ اس عالم کی بناوٹ ہی ایسی ہے کہ اس کے اند رکا ہر تغیر کسی قاعدہ کے ماتحت معلوم ہوتا ہے تو ماننا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ نے اس عالم کو وجود میں لانے کے لئے بعض و سائط بھی پیدا کئے تھے اور بعض قانون جاری کئے تھے جن کے ماتحت یہ عالم پیدا ہوا اور اس نے موجودہ صورت اختیار کی اگر یہ تسلیم کیا جائے اور اس کے تسلیم کرنے کے بغیر چارہ نہیں تو پھر یہ بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ فرشتوں کے وجود پر بھی کوئی اعتراض نہیں کیونکہ جس طرح ایک وسیلہ اور واسطہ کا اختیار کرناخدا تعالیٰ کی قدرت کے منافی نہیں اسی طرح دوسرے ویسلے یا واسطے کا استعمال کرنا بھی اس کی قدرت کے منافی نہیں۔
اسی طرح اگر یہ عقیدہ رکھا جائے کہ خدا تعالیٰ اب بھی نظامِ عالم کے چلانے میں کوئی دخل رکھتا ہے تب بھی فرشتوں کے وجود پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا کیونکہ اگر خدا تعالیٰ بچہ پیدا کرنے کے لئے انسانی نطفہ سے کام لیتا ہے۔ حیوان کی پیاس بجھانے کے لئے پانی سے کام لیتا ہے۔ دُنیا کو روشن کرنے کے لئے سورج سے کام لیتا ہے اور اس کی قدرت پر کوئی حرف نہیں آتا۔ تو نظامِ عالم کے جاری رکھنے کے لئے اگر اس نے فرشتوں کو بھی واسطہ بنایا ہو تو اس کی قدرت پر کیوں حرف آنے لگا۔
اصل بات جیسا کہ قرآن کریم سے ثابت ہے اور قانونِ قدرت اس کی تصدیق کرتا ہے یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنی حکمت کاملہ سے کارخانہ عالم کو ایک وسیع قانون کے ماتحت چلایا ہے قرآن کریم فرماتا ہے رَفَعَ سَمْکَھَا فَسَوّٰلھَا وَاَغْطَشَ لَیْلَھَا وَ اَخْرَجَ ضُحٰھَا۔ (النازعات ع ۲) یعنی آسمان کو دیکھو کہ ہم نے اس کی بلندی کو خوب بلند بنایا ہے اور پھر اسے تمام ضروری قوتیں اور کمالات دئے ہیں اور اس کی قوتوں کو دو طرح کا بنایا ہے ایک مخفی جورات کی طرح پوشیدہ ہیں اور ایک ظاہر کہ دوپہر کی طرح روشن ہیں۔ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ نظامِ آسمانی ایک کامل قانون پر مبنی ہے جس میں سے کچھ مخفی ہے اور غور اور فکر اور تدبر سے اس کا علم ہوتا ہے اور کچھ ظاہر و روشن ہے کہ ظاہری آنکھ بھی اس کا مطالعہ کر سکتی ہے یہ دونوں قسم کے قانون۔ قانونِ صورت کا مطالعہ کرنے والوں پر روشن ہیں۔ سورج اور چاند کو ہی لے لو کچھ اثرات ان کے ایسے واضح ہیں کہ جاہل اور ان پڑھ لوگ بھی ان سے واقف ہیں اور کچھ قانون ان کے ایسے مخفی ہیں کہ ہزاروں سالوں کے مشاہدہ کے بعد ان کا ایک نہایت خفیف حصہ علم ہیئت کے ماہر اور سائنسدان دریافت کر سکے ہیں اور مزید تحقیقاتیں ہوتی جا رہی ہیں۔ اس وسیع سلسلہ علت و معلول اور سبب او رمسبب کی اول کڑی ملائکہ ہیں اور جس طرح آخری کڑیوں کو دیکھ کر کوئی شخص خدا تعالیٰ کے قادر ہونے پر اعتراض نہیں کر سکتا اسی طرح پہلی کڑی کی وجہ سے بھی اس کی قدرت پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔
غرض یہ اور بات ہے کہ کوئی انسان خدا تعالیٰ کا ہی انکار کرے۔ اس صورت میں تو اسے پہلے ہستی باری تعالیٰ کے دلائل معلوم کرنے چاہئیں لیکن خدا تعالیٰ کو مانکر اور یہ مانکر کہ خدا تعالیٰ اس دُنیا میں قانون اور وسائط سے کام لے رہا ہے اور سب کارخانہ اس دُنیا کا مختلف وسیلوں اور اسباب اور علتوں کے ماتحت چلایا جا رہا ہے یہ کہنا کہ فرشتو ںکا وجود خدا تعالیٰ کی قدرت کے خلاف ہے ایک نہایت ہی کمزور وہم ہے۔ اگر او رہزاروں وسیلوں اور اسباب اور علتوں اور قانونوں سے کام لینے سے خدا تعالیٰ کی قدرت میں فرق نہیں آتا تو فرشتوں کے پیدا کرنے سے کیوں خدا تعالیٰ کی قدرت میں فرق آ جائے گا۔ اگر آنکھ کو دیکھنے کے قابل بنانے کے لئے خدا تعالیٰ نے روشنی پیدا کی ہے او راس سے خدا تعالیٰ کے قادر ہونے میں فرق نہیں آیا اور کانوں کو شنوائی پر قادر کرنے کے لئے اس نے ہوا پیدا کی ہے اور اس سے اس کی قدرت پر کوئی حرف نہیں آیا تو اسی طرح فرشتو ںکو کارخانہ عالم کے چلانے میں ایک علت ادنیٰ بنانے میں اس کی قدرت میں کوئی فرق نہیں آتا۔
قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ نظامِ عالم کا سلسلہ جس طرف بھی اسے لے جایا جائے آہستہ آہستہ باریک درباریک علل یا نتائج میں غائب ہو جاتا ہے صرف اس کی درمیانی کڑیاں ظاہر او ر روشن ہوتی ہیں انسان ہی کو لے لو اس کی پیدائش کے پہلے کے علل اور اسباب بھی مخفی ہیں اور اس کی موت کے بعد کے نتائج بھی مخفی ہیں۔ ان دونوں مخفی اور باریک حالات کا فرشتوں سے جو مخلوق کی رنجیر کی باریک ترین کڑیاں ہیں گہرا تعلق ہے گویا وہ خدا تعالیٰ اور دوسری مخلوق کے درمیان ایک واسطہ کے طو رپر ہیں چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے وَاَنَّ اِلیٰ رَبِّکَ الْمُنْتَھٰی (نجم ع ۳) اور بات یہ ہے کہ ہر چیز کی انتہاء تیرے رب کی طرف جاتی ہے اور اس انتہاء کا ذریعہ خدا تعالیٰ یہ بتاتا ہے کہ مخلوق کا آخری واسطہ خدا تعالیٰ سے ملنے کے لئے ملائک ہیں جب چیز پیدا ہوتی ہے تو اس کی پہلی کڑی ملائکہ ہوتے ہیں اور جب ختم ہوتی ہے یا اپنی منزل ختم کرتی ہے تو اس کی آخری کڑی بھی ملائکہ ہوتے ہیں اور اس طرح باریک درباریک اسباب سے شروع ہو کر مخلوق ظاہری شکل اختیار کرتی ہے اور پھر باریک در باریک شکلوں میں بدلتے ہوئے فرشتوں کے ذریعہ سے اپنی منزل مقصود کو پہنچ جاتی ہے چنانچہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ملائکہ تمام نظامِ عالم کی ابتدائی کڑیاں ہیں اور خدا تعالیٰ کے حکم کو چلانے والے ہیں قرآن کریم فرماتا ہے اَلَّذِیْنَ یَحْمَلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہٗ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّھِمْ وَ یُؤْمِنُوْنَ بِہٖ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا (مومن ع ۱) یعنی فرشتے جو عرش کو اُٹھا رہے ہیں اور وہ بھی جو عرش کے گرد ہیں اپنے رب کی حمد کرتے ہیں اور اس پر ایمان لاتے ہیں اور مومنوں کے قصوروں کے لئے معافی کی دُعائوں میں لگے رہتے ہیں۔ عرش کے معنے سورہ یونس نوٹ نمبر ۵ میں بیان کئے گئے ہیں اور ثابت کیا گیا ہے کہ اس سے مُراد صفاتِ الٰہیہ کے ظہور کے ہیں۔ پس عرش کو اُٹھانے کے معنے یہ ہوئے کہ خدا تعالیٰ کی صفات کو ظاہر کرتے ہیں۔ چونکہ کارخانہ عالم صفات الٰہیہ کے ماتح چلتا ہے اس کا مطلب یہ نکلا کہ تمام کارخانہ عالم کے چلانے کی وہ پہلی کڑیاں ہیں اور خدا تعالیٰ کی صفات کو عالمِ مادی میں جاری کرتے ہیں۔
قرآن کریم کی مختلف آیات میں فرشتوں کے کام بھی بیان کئے گئے ہیں مثلاً وحی الٰہی کا نزول۔ قانونِ قدرت کا اجراء موت و حیات کے قانون کو چلانا۔ نیک تحریکوں کا دلو ںمیں پیدا کرنا وغیرہ وغیرہ جن کو ان کی متعلقہ آیات کے ماتحت بیان کیا جائے گا اس آیت زیر تفسیر میں جو ملائکہ کا ذکر کیا گیا ہے اس کی وجہ چند آیات چھوڑ کر بیان کی گئی ہے اور وہ یہ ہے وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِکَۃِ اسْجُدُوْ الِاٰدَمَ فَسَجَدُوْا (بقرہ آیت ۳۴) یعنی یاد کرو جب ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم کی فرمانبرداری کرو پس سب نے فرمانبرداری کی۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ملائکہ کا ایک کام یہ بھی ہے کہ چونکہ وہ تمام اسباب مادیہ کی علت اولی ہیں جب اللہ تعالیٰ کسی مامور کو مبعوث فرماتا ہے تو ساتھ ہی انہیں بھی حکم ملتا ہے کہ وہ تمام کائنات کو اس کی تائید میں لگا دیں اور اس طرح کل دنیا ہی مامور کی خدمت میں لگ جاتی ہے اور وہ باوجود شدید مخالفت کے آخر غالب آ جاتا ہے اور اس مقصد میں کامیاب ہو جاتا ہے جس کے لئے اسے بھیجا جاتا ہے۔ حدیث نبوی میں بھی یہ امر بیان ہوا ہے چنانچہ حدیث میں آتا ہے اِذَا اَحَبَّ اللّٰہُ عَبْدً انَادیٰ جِبْرِیْلَ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ فُلَانًا فَاَحِبَّہٗ فَیُحِبُّہُ جِبْرِیْلَ فَیُنَادِی جِبْرِیْلُ فِیْ اَھْلِ السَّمَآئِ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ فُلَانًا فَاَحِبُّوْہُ فَیُحِبُّہٗ اَھْلُ السَّمَآئِ ثُمَّ یُوْضَعُ لَہُ الْقَبُوْلَ فِی الْاَرْضِ (بخاری جلد رابع کتاب الادب باب المقت من اللہ) یعنی جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے تو جبریل سے فرمات ہے کہ میں خدا فلاں شخص سے محبت کرتا ہوں اس پر جبریل بھی اس سے محبت کرنے لگتا ہے پھر جبریل دوسرے آسمانی فرشتوں سے کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے محبت کرتا ہے پس تم بھی اس سے محبت کرو اس پر سب آسمانی وجود اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اس کے بعد دنیا کے لوگوں میں بھی اس کی قبولیت کی رُوح پیدا کر دی جاتی ہے۔اس حدیث میں اوپر کی آیت کا مضمون ہی دوسرے لفظوں میں بیان کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ دنیوی تغیرات جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوتے ہیں ان کی علت اولیٰ ملائکہ ہیں اور ان کا ایک کام اللہ تعالیٰ کے مامورین کی قبولیت کا پھیلانا ہے۔
چونکہ وہ دنیوی تغیرات کے سربراہ ہوتے ہیں ان کی تائید سے کل کارخانہ عالم مامورین کی تائید میں لگ جاتا ہے اور آسمانی تائیدات کو دیکھ کر سفلی وجود آخر ہدایت پا جاتے ہیں اور ماموروں کو قبول کر لیتے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ ملائکہ روحانی وجود ہیں اور مادی عالم کی پہلی کڑیاں اور اس کے مدبر ہیں اور ان کا وجود درباریوں کے طور پر نہیں ہے بلکہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے کارخانۂ عالم کو چلانے کے لئے مختلف اسباب پیدا کئے ہیں اسی طرح انہیں کائناتِ عالم کے تغیرات کے لئے پہلی علتیں اور ابتدائی اسباب بنایا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کے بنائے ہوئے قواعد کے ماتحت دُنیا میں تغیرات پیدا کرتے چلے جاتے ہیں اور ان کی تدبیر سے یہ کارخانۂِ عالم صحیح طور پر مقررہ قوانین کے مطابق چلتا جاتا ہے بیشک بوجہ ان کے نظر نہ آنے کے تدبر سے کام نہ لینے والے لوگ ان کے وجود کا انکار کرتے ہیں لیکن یہ انکار ایسا ہی ہے جیسا کہ بعض جاہل قانونِ قدرت کے باریک اسباب کو نہ جاننے کی وجہ سے ان کا انکار کر دیتے ہیں چنانچہ اب تک دنیا میںایسے لوگ موجود ہیں جو بیماریوں کے جراثیم کا انکارکرتے ہیں اور انہیں دیوی دیوتائوں کے غصہ اور ناراضگی کی طرف منسوب کرتے رہتے ہیں۔ ورنہ جو لوگ روحانیت سے ادنیٰ تعلق بھی رکھتے ہیں انہیں ملائکہ کو دیکھنے کا بھی موقعہ ملا ہے جیسا کہ انجیل میں حضرت مسیح پر جبریل کے اُترنے کا ذکر آتاہے اور موجودہ زمانہ میں بانی سلسلہ احمدیہؐ نے ملائکہ سے تعلق کا دعویٰ کیا ہے۔ راقم سطور بھی اس امر میں خدا تعالیٰ کے فضل سے کسی قدر مشاہدہ رکھتا ہے اور اس ذاتی مشاہدہ کے بعد ہمیشہ ان لوگوں پر حیران ہوتا ہے جو ملائکہ کو صرف انسان کی مخفی طاقتیں قرار دیتے ہیں ذاتی مشاہدات کے بعد ایسے لوگوں کے خیالات کو محض وہم اور عدم علم میں قرار دیا جا سکتا ہے۔
ملائکہ کے کاموں ان کی پیدائش کی غرض ان سے تعلق رکھنے کے ذرائع اور فوائد اور ایسے ہی بہت سے امور کے متعلق میری کتاب مَلَائِکَۃُ اللّٰہ دیکھنی چاہیئے۔ اس طرح مضمون کو یکجائی طور پر تفسیر میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں مختلف آیتوں کے ماتحت متعلقہ امور کو بیان کیا جائے گا۔
خلاصہ اس آیت کا یہ ہے کہ اس میں پہلی آیات کے اس دعویٰ کی دلیل دی گئی ہے کہ خدا تعالیٰ ضرورت کے موقعہ پر اپنے مامور بھجواتا ہے اور شروع زمانہ سے ایسا کرتا چلا آیا ہے جب وہ ایسا مامو ربھجواتا ہے تو فرشتوں کو اس کی آمد کی اطلاع دیتا ہے تاکہ وہ اپنے اپنے حلقۂ نظام میں ان کی تائید کی رو چلائیں۔ اور یہ بھی کہ ہمیشہ سے یہ سنت اللہ چلی آئی ہے کہ جب وہ مامور آتا ہے بدکار تو الگ رہنے نیکوکار اور فرشتہ خصلت لوگ بھی بوجہ نبوت کے زمانہ سے بعد کے اور اس کی خصوصیات سے ناواقفیت کے نبوت کی ضرورت کو نہیں سمجھتے اور اس نئے نظام کی حقیقت سے بے خبر ہونے کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ وقت کے نبی کے ذریعہ سے قائم کرنا چاہتا ہے اس کی بعثت کی ضرورت کا انکار کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ بہرحال اس نظام کو قائم کرتا ہے اور دُنیا کی غیر معمولی بہتری کے سامان پیدا کر دیتا ہے اور اس آیت سے اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور قرآن کریم کے نزول کے وقت میں بھی ایسا ہی ہونا لازمی تھا اگر اس وقت کے کفار ان کی بعثت کی عدم ضرورت کے قائل ہیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں جب نبوت کی ابتداء ہوئی تھی تو ملائکہ تک اس کی ضرورت کو نہیں سمجھ سکتے تھے مگر آخر واقعات نے ان سے اس کی عظمت کا اقرا رکروا کر چھوڑا۔






۳۲؎ حل لغات
آدَمَ:۔ ابوالبشر (صلوٰت اللہ علیہ السلام) کا نام ہے بعض لوگوں نے اسے اعجمی قرار دیا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ مشتق ہے اور میرے نزدیک یہی درست ہے اس صورتمیں اس کے غیر منصرف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ علم بھی ہے اور وزنِ فعل پر بھی ہے اگر مشتق مانا جائے اور ہے بھی یہی درست۔ تو پھر آدم کا نام اس لئے آدم رکھا گیا کہ وہ لوگوں کو ایک تمدن پر جمع کرنے والے تھے چنانچہ کہتے ہیں اَدَمَ بَیْنَہُمْ (یَادِمُ) اَدْمًا: اَلَّفَ وَوَفَّقَ لوگوں کو جمع کیا ۔ یا پھر اس وجہ سے ان کو آدم کہا گیا کہ وہ مختلف عناصر سے بنے تھے۔ اور ان میں مختلف قویٰ جمع کر دیئے گئے تھے کیونکہ اٰدَمَ الْخَبْرَ کے معنی ہیں خَلَطَہُ بِالْاِ دَامِ کے روٹی کو سالن کے ساتھ ملا دیا۔ یا اس لئے کہ وہ اپنے ساتھیوں کے لئے نمونہ تھے۔ چنانچہ جب اٰدَمَ اَھْلَہٗ کہیں تو اس کے معنے ہوتے ہیں صَارَ لَہُمْ اُسْوَۃً کہ وہ اپنے خاندان کے لئے نمونہ بن گیا۔ یا اس وجہ سے کہ وہ سطح زمین پر رہتے تھے کیونکہ سطح زمین کو اَدِیْمُ الْاَرْضِ کہتے ہیں۔ یا اس لئے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور بندوں کے درمیان ایک وسیلہ تھے۔ کیونکہ اَلْاُرْمَۃُ کے معنے اَلْوَسِیْلَۃُ کے بھی ہیں (اقرب)
اَلْاَسْمَآئَ : اِسْمٌ کی جمع ہے اور اَلْاِسْمُ کے معنے ہیں اَللَّفْظُ الْمَوْضُوْعُ عَلی الْجَوْھَرِ وَالْعَرَضِ لِتَمْیِیْزِہٖ کہ جو لفظ کسی چیز کی حقیقت کے بیان کے لئے او راس کی صفات کے بیان کے لئے لاتے ہیں اسے اسم کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے نیز کہتے ہیں اِسْمُ الشَّیْئِ عَلَامَتُہُ کہ کسی چیز کو پہچاننے کے لئے جو اس کے بالمقابل لفظ رکھا جاتا ہے اسے اس کا اسم کہتے ہیں (اقرب) کلیات ابی البقاء میں ہے اَلْاِسْمُ:۔ ذَاتُ الشَّیْئِ وَالْاِسْمُ اَیْضًا اَلصِّفَۃُ کہ اسم اس کو بھی کہیں گے کہ جو کسی چیز کی حقیقت اور ذات کو بیان کرے۔ اور اس کو بھی کہیں گے جو اس چیز کی صفات کو بیان کرے (کلیات)
عَرَضَھُمْ: عَرَضَ الشَّیْئَ لَہٗ کے معنے ہیں اَظْہَرَہُ لَہٗ اس سامنے کسی چیز کو پیش کیا۔ اور جب عَرَضَ المتَاعَ لِلْبَیْعِ کہیں تو معنے یہ ہونگے کہ اَظْھَرَہُ لِذَوِی الرَّغْبَۃِ لِیَشْتَرُوْہُ کہ سامان خریداروں کے سامنے پیش کیا۔ اور عَرَضَ الشَّیْئَ عَلَیْہِ کے معنے ہیں اَرَاہُ اِیَّاہُ :۔ اسے کوئی چیز دکھائی۔ (اقرب)
اَنْئُوْنِیْ:۔ اَنْمِبُوْنِیْ امر جمع کا صیغہ ہے۔ اور اَنْبَاہُ الْخَبَرَ کے معنی ہیں خَبَّرَہُ اس کو خبر دی (اقرب) پس اَنْبِئُوْنِیْ کے معنے ہونگے مجھے خبر دو۔
صٰدِقِیْنَ:۔ صَدَقَ (یَصْدُقُ) صَدْقًا وَصِدْقًا سے اسم فاعل جمع کا صیغہ ہے۔ اور صَدَقَ نے الْحَدِیْثِ کے معنے ہیں اس نے سچی سچی بات کہی (اقرب) صَدَقَہُ الْحَدِیْثِ اَنْبَاہُ بِالصِّدْقِ اُسے اُس نے جو بات کہی وہ درست ھی (اقرب) تاج العروس میں ہے صَدَقَنِیْ فُلَانٌ: قَالَ لِیَ الصِّدْقَ یعنی اس نے جو بات کہی درست تھی (تاج) بخاری اور مسلم میں حدیث ہے کہ ایک دفعہ جبرائیل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سوال کیا۔ اور آپ کے جواب پر اس نے کہا صَدَقْتَ یعنے آپ نے درست کہا۔ یہ نہیں کہ آپؐ نے سچ بولا۔ پس اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ کے معنے ہونگے اگر تم درست بات کہہ رہے ہو۔
تفسیر۔ آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے کیا نام سکھائے اس میں مفسرین نے اختلاف کیا ہے بعض نے کہا ہے کہ اشیاء کے نام سکھائے مثلاً پیالہ کا نام پیالہ۔ ہنڈیا کا نام ہنڈیا سکھایا یعنی زبان سکھائی (دُررِ منشور) بعض نے اس پر یہ زیادتی کی ہے کہ تمام زبانیں سکھائیں (فتح البیان) یہ معنے بالکل خلافِ عقل و نقل ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ آدم کو اس کی اولاد کے نام بتائے (دُرر منشور)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ظاہر الفاظ میں نہیں فرمایا کہ کیا نام سکھائے اس وجہ سے اختلاف ہوا ہے لیکن اگر ہم قرآن کریم کو غور سے دیکھیں تو آسانی سے سمجھ میں آ سکتا ہے کہ اَسْمَاء سے کیا مراد ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانوں کے متمدن ہونے کی صورت میں ان کے لئے ایک زبان کی ضرورت تھی اور اللہ تعالیٰ نے ضرور آدم کو زبان کا علم سکھایا ہو گا لیکن قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے ایک خاص اسماء بھی ہیں جن کا سیکھنا انسان کے دین اور اخلاق کی تکمیل کے لئے ضروری ہے اور جن کو خدا تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں سکھا سکتا۔ پس اس جگہ جن اسماء کے سکھانے کا ذکر ہے ان سے وہ اسماء ضرور مراد ہیں اور ان سماء کا قرآن کریم کی اس آیت میں ذکر ہے وَلِلّٰہِ اِلْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِھَاوَ زَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْ اَسْمَآئِہٖ سَیُجْزَوْنَ مَاکَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (اعراف ع ۲۲) یعنی اللہ تعالیٰ تمام نیک ناموں یعنی صفات کا مالک ہے پس اللہ کو ان نامو ںے یاد کیا کرو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں یعنی صفات میں غلط راستوں کو اختیار کرتے ہیں اور شک اور جھگڑے سے کام لیتے ہیں وہ اپنے اعمال کا بدلہ پائیں گے اس آیت سے ظاہر ہے کہ (۱) اللہ تعالیٰ کے اسماء یعنی صفات کا صحیح علم حاصل کئے بغیرانسان اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل نہیں کر سکتا اور اس کے فضلوں کا وارث نہیں ہو سکتا (۲) ان اسماء یعنی صفات کا صحیح علم اسی کے سکھانے سے آ سکتا ہے جو لوگ اپنے خیال اور عقل سے کام لیتے ہیں وہ ضرور غلطی کرتے ہیں اور اسماء الٰہیہ کا صحیح علم حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔ پس آدم چونکہ مذہب کے قیام اور اللہ تعالیٰ سے مخلوق کے وصال کی غرض سے مبعوث ہوئے تھے ضروری تھا کہ انہیں اسماء الٰہیہ سکھائے جاتے تا ان کی امت ان ناموں کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کو شناخت کرتی اور اس سے تعلق پیدا کرتی اور اگر وہ نام نہ سکھائے جاتے تو اس کے ملحد اور بے دین ہونے کا خطرہ تھا۔
جب یہ ثابت ہو گیا کہ اسماء الٰہیہ کا آدم کو سکھانا ضروری تھا تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ جن اسماء کے سکھانے کا اس آیت میں ذکر ہے ان میں اسماء الٰہیہ ضرور شامل تھے بلکہ مذہب کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہی نام اصل میں مقصود تھے اور ان کپیس وا جو نام بھی ہوں وہ ان کے تابع ہونگے۔ سابق مفسرین میں سے مظہری نے اسماء کے معنی اسماء الٰہیہ کے ہی کئے ہیں (فتح البیان) مصنف فتح البیان نے اسے بے دلیل قرار دیا ہے مگر جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے یہ معنی سب معنوں سے زیادہ بادلیل ہیں۔
ان معنوں کی تعیین اس امر سے بھی ہو جاتی ہے کہ اگلی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ جو اسماء آدم کو سکھائے گئے تھے فرشتے ان سے پوری طرح واقف نہ تھے اور وہ اسماء جن سے فرشتے فرداً فرداً کلی طور پر واقف نہیں صفات الٰہیہ ہی ہیں کیونکہ ان کی نسبت قرآن کریم میں آتا ہے کہ یَفَعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ (نحل ع ۶) انہیں جو حکم دیا جاتا ہے وہی کرتے ہیں اس کے سوا کچھ نہیں کرتے اور کر نہیں سکتے۔ اور جب فرشتے وہی کچھ کرتے ہیں جو انہیں کہا جاتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی بخشش اور خدا تعالیٰ کی ستاری اور خدا تعالیٰ کی قہاری کی صفات کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے۔ انسان ہی ہے جسے خدا تعالیٰ نے علم دی کر مقدرت دی ہے کہ وہ جو راستہ چاہے اپنے لئے اختیار کرے اور خطا اور نسیان کا اسے محل بنایا ہے وہ خدا تعالیٰ کے علم کے بعد کبھی نافرمانی کرتا ہے اور کبھی نوبہ اور کبھی نسیان کا مرتکب ہوتا ہے اور کبھی پھر صحیح راستہ کی طرف واپس آتا ہے اور اسی طرح خدا تعالیٰ کی بخشش اور اس کی راہنمائی سے فائدہ اٹھاتا ہے اور کبھی نافرمانی پر اصرار کر کے خدا تعالیٰ کے غضب کو بھڑکاتا ہے پس صفاتِ الہیہ کا کام علم انسان کو ہی حاصل ہوتا ہے ملاـئکہ کو نہیں۔ وہ صرف اس صفت کوہی جانتے ہیں جو ان سے متعلق ہے اسی لئے اس آیت میں کُلَّہَا کا لفظ رکھ کر اس پر زور دیا ہے کہ گو ملائکہ اپنے ساتھ تعلق رکھنے والی ایک صفت یا ایک سے زیادہ صفات سے تو واقف ہوتے ہیں مگر انسان تمام صفات الٰہیہ سے واقف ہوتا ہے وہ رحیم ہے یہ بھی رحیم بننے کی قابلیت رکھتا ہے وہ غفار ہے یہ بھی غفار بننے کی قابلیت رکھتا ہے وہ قہار ہے یہ بھی قہار بننے کی قابلیت رکھتا ہے وہ جبار ہے یہ بھی جبار بننے کی قابلیت رکھتا ہے وہ شکو رہے یہ بھی شکور بننے کی قابلیت رکھتا ہے۔ ظاہر ہے کہ فرشتے ان سب صفات کے حامل نہیں ہو سکتے۔ مثلاً موت کے فرشتے ہیں ان کا کام صرف جان نکالنا ہے وہ کسی پر رحم نہیں کر سکتے۔ رزق پر مامور فرشتے کسی کی جان نہیں نکال سکتے۔ کلام الٰہی لانے والے فرشتے کوئی اور کام نہیں کر سکتے۔ مگر ایک کامل انسان اپنے اپنے موقعہ پر جلاتا بھی ہے مارتا بھی ہے بخشتا بھی ہے اور سزا بھی دیتا ہے پس انسان تمام صفات الٰہیہ کا حامل ہے مگر فرشتے صرف ایک یا چند صفات کے حامل ہیں اس لئے انسان کو صفات الٰہیہ کا جو کامل علم دیا گیا ہے وہ فرشتوں کو نہیں دیا گیا اور اس کی بنیاد آدم کے ذریعہ سے اور ان کے وقت سے رکھی گئی ہے ان سے پہلے کا انسان چونکہ کامل نہ تھا وہ یہ علم نہ رکھتا تھا اور تمام صفاتِ الہٰیہ سے واقف نہ کیا گیا تھا۔
جیسا کہ پہلے اشارہ کیا گیا ہے زبان کا مفہوم بھی اس آیت کے مفہوم میں بطور تنزل شامل ہے۔ کیونکہ تمدن کے قیام کے لئے کسی زبان کا ہونا ضروری تھا اور معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو زبان کے اصول سکھائے جن کے مطابق انہو ںنے زبان کا علم جاری کیا اور اسی آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ زبان عربی زبان تھی کیونکہ اس آیت سے ظاہر ہے کہ آدم کو اسماء مسمیات کے ذریعہ سے سکھائے گئے تھے۔ یعنی جس زبان کا انہیں علم دیا گیا تھا اس کی بناء مسمیات اور اسماء کے اتحاد پر تھی یعنی ہر چیز کا نام اس کی خصوصیت کی بناء پر رکھا گیا تھا نہ کہ بے تعلق اور بے ربط اور یہ خصوصیت صرف عربی زبان میں ہے کہ اس کے تمام اسماء مسمیات سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ دوسری زبانوں میں یہ بات نہیں ہے ان زبانوں میں نام سے صرف شناخت کا فائدہ حاصل کیا گیا ہے اگر ان ناموں کو بدل دیا جائے تو بھی کوئی ہرج واقع نہیں ہوتا مثلاً اُردو میں غلہ سے بنائی ہوئی غذا کو روٹی کہتے ہیں انگریزی میں بریڈ اور فارسی میں نان۔ اگر ان ناموں کی جگہ مثلاً جوئی یا جریڈ یا پان۔ اس چیز کے نام رکھ دئے جائیں تو کوئی ہرج واقع نہیں ہوتا مگر عربی زبان میں اس چیز کا نام خُبْرٌ ہے جو با معنٰی ہے۔ عربی زبان میں خ ب زجمع ہوں تو ان کے معنوں میں عمل اور پھولنے کے معنے پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ بَزَخَ کے معنی ہیں سینہ کو باہر نکالا اور خَزَبَ کے معنی ہیں بغیر بیماری اور نقص کے موٹا ہو گیا اور خَبَزَ کے معنے ہیں جلدی جلدی ہاتھ مار کے عمل کیا پس خَبَزٌکے معنے ہوئے وہ چیز جسے جلدی جلدی ہاتھوں سے تیار کیا جائے اور وہ موٹی ہو جائے اور پھول جائے اور یہ روٹی کا عین نقشہ ہے۔ روٹی کو جلدی جلدی ہاتھ مار کر تیار کیا جاتا ہے اور آگ میں رکھنے کے بعد وہ پھول جاتی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ روٹی کے لئے اگر عربی زبان میں خُبْزٌ کی جگہ کوئی اور لفظ رکھا جائے تو اس سے روٹی کی حقیقت ظاہر نہیں ہوتی بلکہ روٹی کا مفہوم خ ب ز کے حروف کے ملائے سے ہی پیدا ہوتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے نام ربّ کو لے لو۔ ربّ کے معنے تربیت کرنے اور ادنی سے اعلیٰ حالت تک پہنچانے کے ہیں اس لفظ کی جگہ کوئی اور لفظ رکھو تو یہ غرض کبھی پوری نہ ہو گی۔ پھر عربی میں آسمان کو سماء کہتے ہیں س مرو جس سے یہ لفظ بنا ہے بلندی اور ارتفاع پر دلالت کرتاہے مگر آسمان فارسی کا لفظ یا سکائی انگریزی کا لفظ اس حقیقت کو ظاہر نہیں کرتا پس عربی ہی ایک ایسی زبان ہے جس میں سب نام نام والے کی حقیقت کو ظاہر کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں اگر ان نامو ںک وبدل دو تو وہ اس حقیقت کو ظاہر نہیں کرینگے بلکہ صرف ایک علامت رہ جائینگے لیکن دوسری زبانوں میں اس حقیقت کا نام و نشان نہیں پایا جاتا اِلَّا مَاشَائَ اللّٰہ۔ پس زبان سکھانے کے معنو ںسے یہ مراد لی جائے گی کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو ایک ایسی زبان سکھائی جو بے معنے او ربے ربط نہ تھی بلکہ اس کی بُنیاد فلسفہ پر تھی اور اس کے تمام لفظ بامعنٰی تھے یا دوسرے الفاظ میں یہ کہ آدم علیہ السلام ک واللہ تعالیٰ نے عربی زبان سکھائی جو بعد میں دوسری زبانوں کو ماں بنی (اس لطیف نکتہ کے لئے بانی سلسلہ احمدیہ کی کتاب مِنَن الرَّحْمٰن دیکھو جس میں نہایت لطیف پرایہ میں عربی زبان کے ام الالسنہ ہونے کا مسئلہ بتایا گیا ہے)
میری مراد اوپر کی تحریر سے یہ ہر گز نہیں کہ عربی زبان اپنی موجودہ شکل میں آدم علیہ السلام کو سکھائی گئی یا یہ کہ آدم علیہ السلام کے بعد اس نے ترقی نہیں کی بلکہ میری مراد صرف یہ ہے کہ اس آیت کے مفہوم کے مطابق عربی زبان کے بعض اصول پر اس وقت ُبنیاد رکھی گئی تھی باقی رہا یہ کہ وہ بعد میں تبدیل بھی ہوئی یا اس میں اور الفاظ کی ترقی ہوئی اس کا نہ اس مسئلہ سے تعلق ہے نہ اس سے عربی زبان کی اس افضلیت یا خصوصیت میں کوئی فرق آتا ہے اصول وہی ہیں ہاں ان اصول کی اتباع میں زبان آگے ترقی کرتی چلی گئی ہے اور آیندہ بھی ترقی کر سکتی ہے۔
عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآئَ کی ایک اور تفسیر بھی ہو سکتی ہے اور وہ یہ کہ عَلَّمَ کے معنے خارجی ذرائع سے سکھانے کے علاوہ طبعی طورپر سکھانے کے بھی ہوں یعنے یہ مطلب بھی ہو کہ آدم کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے مختلف علوم کے سیکھنے کا مادہ رکھا یہ ظاہر ہے کہ ہر جنس کے افراد گو اپنی جنس سے تعلق رکھنے والے علوم کو بھی ایک دوسرے سے کم و بیش سیکھتے ہیں لیکن جو علوم ان کے دائرہ سے باہر ہوں انہیں وہ بالکل نہیں سیکھ سکتے۔ پس معلوم ہوا کہ ہر جنس کے لئے اللہ تعالیٰ نے الگ الگ قوتوں کے ذائرے مقرر کئے ہیں انسان کے علم حاصل کرنے کا دائرہ اور ہے طوطے کا اور مینا کا اور گھوڑے کا اور۔ اور کتے کا اور۔ مینا طوطا بھی سکھانے سے چند لفظ سیکھ لیتے ہیں لیکن پوری طرح بات سمجھ کر ہر قسم کے موضوع پر بات نہیں کر سکتے لیکن انسان ایسا کر سکتا ہے گھوڑے اور کتے بھی بعض کرتب سیکھ لیتے ہیں لیکن انسان کی طرح ان کا یہ سیکھنا وسیع نہیں ہوتا۔ پس ایک معنی اس آیت کے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر وسیع علوم سیکھنے کی قابلیت پیدا کی اس صورت میں عَلَّمَ الْاَسْمَآئَ کے یہ معنے ہونگے کہ اس نے مختلف اشیاء کے خواص سمجھنے کی قابلیت انسان میں پیدا کی چنانچہ آدم کے وقت سے اس وقت تک انسان مختلف علوم میں ایجادیں کر رہا ہے اور ہر روز اس کا علم پہلے سے بڑھ رہا ہے اس صورت میں اسماء کے معنی خواص اور صفات کے ہی ہونگے مگر صفات الٰہیہ کی بجائے صفات طبعیہ کے معنے کئے جائیں گے۔ منطقی اصطلاح کی روشنی میں ان معنوں کی تشریح یہ ہو گی کہ آدم کو ہم نے حیوانِ ناطق بنایا یعنے مختلف اشیاء پر غور کرنے اور اس کی کنہ کو پہنچنے اور دوسروں کو سکھانے کی قابلیت اس میں رکھی جیسا کہ اَنْبِئْہُمْ بِاَسْمَآئِہِمْ کے الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے۔
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خلافت کا تعلق ان اسماء کے سکھانے سے ہے جن کا ذکر پہلے کیا گیا ہے کیونکہ پہلی آیت میں صرف اس امر کا اظہار تھا کہ خدا تعالیٰ نے فرشتوں سے ایک خلیفہ بنانے کا ذکر کیا۔ اس کے بعد اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بعض اسماء سکھانے اس کے بعد کی دو آیتوں میں انہی اسماء کے متعلق باتیں بیان کی گئی ہیں ان کے بعد فرماتا ہے کہ ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم کی فرمانبرداری کرو۔ اس سے ظاہر ہے کہ آدم کی خلافت ان اسماء کے سکھانے کے بعد شروع ہوئی اور اسی وقت سے ملائکہ کو اس کی تائید اور نصرت کا حکم ملا پس پہلی آیت آدم کی خلافت کی خبر نہیں دیتی تھی بلکہ صرف خلافت کی خبر دیتی تھی اس کے بعد جب آدم علیہ السلام کو اسماء سکھائے گئے تو یہ گویا اس شخص کی تعیین کا اظہار تھا جسے اللہ تعالیٰ نے خلافت کے لئے چُنا تھا۔
یہ جو فرمایا گیا ہے وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآئَ کُلَّھَا آدم کو اللہ تعالیٰ نے سب نام سکھانے اس سے یہ دھوکہ نہ کھانا چاہیئے کہ تمام صفاتِ الٰہیہ کا مکمل علم آدم کو دیا گیا یا زبان کا مکمل علم آدم کو دیا گیا کیونکہ کُلّ کا لفظ عربی زبان کے محاورہ کے مطابق ضروری نہیں کہ تمام افراد جنس پر مشتمل ہو بلکہ بسا اوقات یہ لفظ ضرورت کے مطابق اشیاء پر بولا جاتا ہے قرآن کریم میں متعدد جگہوں پر کُلّ کا ان معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے کہ فَلَمَا نَسُوْا مَا ذُکِّرُوْا بِہٖ فَتَحْنَا عَلَیْھِمْ اَبْوَابَ کُلِّ شَیْئٍ (انعام ع ۵) یعنی جب تجھ سے پہلی قوموں نے اس نصیحت کو بھلا دیا جو انہیں کی گئی تھی تو ہم نے پہلے تو ہر قسم کی ترقیات کے دروازے ان پر کھول دیئے (اور پھر ان پر عذاب نازل کیا) جیسا کے ظاہر ہے اس آیت میں کُلَّ کے لفظ کے یہ معنی نہیں کہ ہر نعمت دُنیا کی ان کو ملی بلکہ صرف یہ مُراد ہے کہ اس زمانہ کی اور ان کے ملک کی بڑی بڑی نعمتوں سے اُنہیں حصہ ملا۔ اسی طرح اہل مکہ کی نسبت آتا ہے اَوَلَمْ نُمَکِّنْ لَّھُمْ حَرَمًا اٰمِنًا یُّجْبٰٓی اِلَیْہِ ثَمَرَاتُ کُلِّ شَیٍْ رِّزْقًا مِّنْ لَّدُنَّا (قصص ع ۶) یعنی کیا اہل مکہ کو ہم نے ایک عزت والے اور محفوظ مقام میں جگہ نہیں دی کہ ہماری طرف سے انعام کے طور پر اس کی طرف ہر قسم کے میوے لائے جاتے ہیں۔ اس آیت میں بھی کُلَّ سے تمام دنیا کے میوے مراد نہیں بلکہ بہت سے میوے جو اہلِ مکہ کی صحت کی درست اور ان کی لذت کا سامان پیدا کرنے کے لئے ضروری تھے مُراد ہیں۔ ان کے علاوہ بھی اور کئی آیات میں کل کا لفظ بہت سے یا حسب ضرورت کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
عربی زبان کے علاوہ باقی سب زبانوں میں بھی کُلَّ یا اس کے ہم معنی الفاظ علاوہ اپنے اصلی معنوں کے کثرت یا حسب ضرورت کے معنوں میں استعمال ہوتے ہیں اور سیاق و سباق یا محل استعمال سے ان کے اصلی معنوں اور ان مجازی معنوں میں فرق کیا جاتا ہے۔
جیسا کہ میں نے اوپر بتایا ہے آیت زیر تفسیر میں بھی کُلَّہَا سے مُراد نہ تمام صفات الٰہیّہ مُراد ہیں اور نہ انسان سے تعلق رکھنے والی سب صفات یا ان کا کامل علم مراد ہے کیونکہ قرآن کریم سے ثابت ہے کہ علم دین جو صفات الہٰیہ سے تعلق رکھتا ہے دنیا پر آہستہ آہستہ کھولا گیا ہے اور اس کی پوری تکمیل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ہوئی ہے جیسا کہ فرماتا ہے اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَ اَثْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ (مائدہ ع ۱) آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور اپنی صفات الٰہیہ کا پورا انکشاف نہ ہوا تھا بلکہ وہ انکشاف آہستہ آہستہ کامل ہوتا ہوا رسول کریم صلعم کے ذریعہ سے اپنی انتہاء کو پہنچا اور آد کو سب اسماء سکھانے کا صرف یہ مطلب ہے کہ ان کے زمانہ کے ساتھ جن صفاتِ الٰہیہ کے ظہور کا تعلق تھا اور جس حد تک تعلق تھا اسی حد تک انہیں ظاہر کیا گیا اسی طرح جو صفاتِ الٰہیہ کہ انسانوں سے متعلق نہیں ان کا انکشاف بھی کل کے لفظ میں شامل نہیں۔ ہاں کُلَّ کے لفظ سے انسانوں سے تعلق رکھنے والی کل صفات بھی مراد لی جا سکتی ہیں مگر اس صورت میں آیت کے یہ معنے ہونگے کے کل صفات کے سمجھنے کی قابلیت آدم اور اس کی ذریت میں رکھی یعنی یہ تعلیم بالقوہ اور بالا جمال تھی بالفعل اور بالتفصیل نہ تھی۔ بالفعل اور تفصیلاً یہ تعلیم کمل صورت میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود سے پوری ہوئی۔ اسی طرح زبان کے اسماء سکھانے سے یہ مراد نہیں کہ کل اسماء اور زبان کے مادے آدم علیہ السلام کو سکھائے گئے بلکہ اصول مراد ہیں جو بعد میں ترقی کرتے کرتے کامل عربی زبان کی شکل میں ظاہر ہوئے۔
یہ جو فرمایا کہ ثُمَّ عَرَ ضَہُمْ عَلَی الْمَلٰٓئِکَۃِ پھر انہیں ملائکہ کے سامنے پیشکیا اس سے مراد اسماء نہیں ہو سکتے کیونکہ اسماء کا لفظ عربی زبان کے قاعدہ کے مطابق مؤنث ہے چنانچہ اس سے پہلے اسماء کی طرف کُلَّہَا کے لفظ میں ھا کی ضمیر آ چکی ہے جو مؤنث ہے لیکن عَرَضَھُمْ میں جمع مذکر کی ضمیر آوی ہے پس معمولم ہوا کہ ملائکہ کے سامنے اسماء نہیں پیش کئے گئے بلکہ جن کے نام تھے ان کے وجود پیش کئے گئے۔
اسی طرح عَرَضَھُمْ میں جو ھُمْ کی ضمیر استعمال ہوئی ہے اس سے بھی ظاہر ہے کہ جن کو پیش کیا گیا ہے وہ چیزیں نہ تھیںیعنی پیالے یا لوٹے یا ہنڈیاں پیش نہیں ہوئیں کیونکہ اگر ان چیزوں کا ذکر ہوتا تو بھی عَرَضَھَا آنا چاہیئے تھا کیونکہ بے جان چیزوں کی طرف بھی بلکہ جاندار اور غیر ذوی العقول کی طرف بھی عربی زبان میں ھُمْ کی ضمیر نہیں پھیری جاتی ھُمْ کی ضمیر صرف ذوی العقول کی طرف پھیری جاتی ہے پس عَرَضَھُمْ کے الفاظ سے یہ بھی ظاہر ہے کہ جو وجود ملائکہ کے سامنے لائے گئے وہ ذوی العقول تھے۔
عَرَضَھُمْ کے معنوں میں یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ وجود عملاً پیش کئے گئے ہوں کیونکہ عَرَضَھُمْ کے ایک معنی دکھانے کے بھی ہیں پس اگر ھُمْ کی ضمیر آدم کی آوندہ نسل یا اس کے کامل ظہوروں کی طرف پھرائی جائے تو اس کے معنے یہ ہونگے کہ وہ مسمیات ملائکہ کو دکھائے یعنی کشف کے ذریعہ سے آیندہ ہونے والے مظاہر کا نقشہ ملائکہ کو دکھا دیا۔
اب رہا یہ سوال کہ وہ کیا تھے سو سیاق و سباق پر غور کر کے ہم کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ ملائکہ کو خلیفہ بنانے پر اس لئے تعجب تھا کہ اس کے سبب سے خونریزی ہو گی اور فساد ہو گا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو ان صفات الٰہیہ کے جو آدم اور اس کی نسل پر ظاہر ہونے والی تھیں کامل مظاہر دکھائے اور پوچھا کہ اگر تمہاری بات درست ہے تو پھر ان کے نام بتائو یعنی اللہ تعالیٰ کی صفات رحم کی یا غضب کی جس طرح ان کے ذریعہ سے ظاہر ہونے والی تھیں ان کا نقشہ ان وجودوں کے ذریعہ سے دکھایا اور ملائکہ سے پوچھا کہ کیا تم ان کی تفصیل بتا سکتے ہو۔
دوسرے معنے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ آدم کو تعلیم اسمء کے بعد اور خلافت سونپنے کے بعد جو اعوان و انصار ملے اور جن کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی مختلف صفات کا ظہور ہوا ان افراد کو ملائکہ کے سامنے پیش کیا اور پوچھا کہ اگر تمہارا خیال درست ہے تو ان کے نام بتائو یعنی ان کی صفات کاملہ کی تفصیل بیان کرو مطلب یہ کہ یہ افراد تو صلح و آشتی کا نمونہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کی صفات کو ظاہر کرنے والے ہیں اور آدم کے پیدا کردہ لوگ تو یہ ہیں ان سے سفک دم اور فساد کس طرح پیدا ہو سکتا ہے اور ان کے بالمقابل جو لوگ آدم کے دشمن ہیں یا اس کی تعلیم پر ظاہر میں ایمان لائے ہیں مگر سچے متبع نہیں اگر ان سے سفک دم یا فساد پیدا ہو تو ان کے اعمال کا آدم کس طرح ذمہ وار ہو سکتا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ آج تک کوئی نبی بھی دُنیا میں نہیں آیا جس کی بعثت کے ساتھ ساتھ سفک دم اور فساد بھی نہ ہوا ہو مگر وہ سفک دم اور فساد اس کے یا اس کے اتباع کے اعمال کی وجہ سے یا ان کی خواہش کے مطابق نہیں ہوتا بلکہ ان کے منشاء کے خلاف اور ان کی خواہش کے مطاق نہیں ہوتا بلکہ ان کے منشاء کے خلاف اور ان کے مخالفوں کی شرارتوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔پس جو فساد بظاہر نیا پیدا شدہ نظر آتا ہے وہ دیرینہ فساد کا اظہار اور اس کی آخری سرکشی کا شعلہ ہوتا ہے نبی فساد پیدا نہیں کرتا بلکہ شریروں کے اندرونی خبث کے اظہار کا ذریعہ ہو جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ جب تک اندرونی خبث باہر نہ آئے اس کا علاج اور قلع قمع بھی ناممکن ہے حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی اسی مضمون کو ان الفاظ میں ادا کیا ہے۔ ’’یہ مت سمجھو کہ میں زمین پر صلح کروانے آیا۔ صلح کروانے نہیں بلکہ تلوار چلانے کو آیا ہوں کیونکہ میں آیا ہو ںکہ مرد کو اس کے باپ اور بیٹی کو اس کی ماں اور بہو کو اس کی ساس سے جدا کروں اور آدمی کے دشمن اس کے گھر ہی کے لوگ ہوں گے‘‘ (متی باب ۱۰ آیت ۳۴ تا ۳۶) ان فقرات میں حضرت مسیح نے اسی طرف اشارہ کیا ہے کہ گو میں تو صلح کی تعلیم دیتا ہوں لیکن میرے مخالف اس صلح کے پیام کو جنگ کے اعلان میں بدل دینگے اور مجھ پر ایمان لانے کی وجہ سے بھائی بھائی کا اور باپ بیٹے کا دشمن ہو گا اور اپنے اندرونی خبث کو شرارت اور فتنہ کی صورت میں ظاہر کرے گااور اس طرح باوجود میری صلح کی تعلیم کے جنگ کے شعے بھڑک اُٹھیں گے اور بظاہر یہ معلوم ہو گا کہ میں جو صلح کا پیغامبر ہوں جنگ اور فساد کا بانی ہوں۔
اسی سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی نسبت فرماتا ہے۔ کُتِبَ عَلَیکُمْ الْقِتَالُ وَھُوَکُرْہٌ لَّکُمْ (ع ۲۶) تم پر جنگ فرض کی گئی ہے باوجود اس کے کہ وہ تم کو سخت ناپسند ہے یعنی مسلمان دل سے صلح جو تھے مگر دشمن نے بار بار حملہ کر کے ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ مسلمانوں کو جنگ کرنی پڑی اب ساری مخالف دُنیا مسلمانوں کو ملامت کرتی ہے کہ انہوں نے فساد کیا اور سفک وماء کیا اور یہ کوئی نہیں سوچتا کہ جنگ پر مسلمانو ںکو کفار نے مجبور کیا پس سفک دم کا الزام تو کفار پر ہے نہ کہ مسلمانوں پر۔ وہ جو تلوار چلانے پر کسی کو مجبور کرتا ہے اگر مدمقابل کو مار لیتا ہے تب بھی وہی قاتل ہوتا ہے اور اگر خود مارا جاتا ہے تب بھی وہی قاتل ہوتا ہے کیونکہ اس نے دوسرے کو تلوار چلانے پر مجبو رکیا۔
خلاصہ یہ کہ اس آیت کے ایک تو یہ معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آیندہ پیدا ہونے والے کا ملین کو خواہ تقویٰ کے کامل ہوں یا کفر کے کامل ہوں بطور کشف ملائکہ پر ظاہر کیا اور ان سے پوچھا کہ کیات م ان صفات کو بتا سکتے ہو جو ان کے ذریعہ سے ظاہر ہونے والی ہیں۔ اور دوسرے معنے یہ ہیں کہ آدم کے ذریعہ سے جو لوگ کامل ہونے والے تھے اور اس کی صفات الٰہیہ کی تعلیم سے جو بہرہ ور ہونے والے تھے ان وجودوں کو ان کے سامنے کر کے پوچھا کہ کیا تم ان کی صفات اور ان کے خواص کو ظاہر کر سکتے ہو (اور یہ مراد نہیں کہ محض تھا کہ آدم جن لوگوں کو پیدا کرے گا وہ سفک دم کرنے والے یا فساد کرنے والے نہ ہونگے بلکہ ان نیک طبع اور شریف لوگوں سے ان کے دشمن جھگڑا کر کے لڑائی کی طرح ڈالیں گے پس سفک دم کے وہ دشمن مجرم ہونگے نہ کہ آدم یا اس کے اتباع خواہ وہ کا فر منہ سے اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ کے کتنے ہی نعرے لگاتے رہیں۔
اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ کے یہ معنے نہیں کہ اگر تم سچ بول رہے ہو۔ فرشتوں کی نسبت اوپر ثابت کیا جا چکا ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق گناہ کا امکان ثابت نہیںپس اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ کے یہ معنے نہیں کہ اگر تم جھوٹ نہیں بول رہے تو ان کی صفات بتائو بلکہ یہ معنی ہیں کہ اگر تمہاری بات درست ہے تو ان کی صفات بتائو۔ یہ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے کہ صَدَقَ کے معنے صرف سچ بولنے کے نہیں ہوتے بلکہ اس کے معنے درست بات کہنے کے بھی ہوتے ہیں اور یہی معنی اس آیت میں ہیں۔
اوپر جو معنے اس آیت کے کئے گئے ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کو اپنے بعد آنے والے انبیاء اور اپنی جماعت کے افراد کی قابلیتوں کا بھی ایک حد تک علم دیا جاتا ہے کیونکر آدم کے بعد آنے والے انبیاء کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک نظر آتا ہے کہ وہ اپنے بعد آنے والے ایک یا ایک سے زیادہ نبیوں کی خبر دیتے رہے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم جو جامع جمیع کمالات تھے ان کی تو ہر ایک نبی نے ہی خبر دی ہے اسی طرح انبیاء کی زندگی پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اتباع میں سے جو خاص وجود ہوتے ہیں ان پر ان کے حالات بھی اجمالی طور پر منکشف کئے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی کسی نبی نے اپنے انصار چننے میں غلطی نہیں کہ یعنی ان کے انصار کی اکثریت کبھی غلطی پر جمع نہیں ہوئی کاش شیعہ لوگ اس حقیقت کو دیکھتے اور خلفاء کی مخالفت سے باز آتے۔
لطیفہ:۔ آج کل کے تعلیم کے طریقوں میں سے جدید ترین طریقہ کنڈرگارٹن کہلاتا ہے جو جرمنی کی ایجاد ہے اس کے لفظی معنے تو بچوں کے باغ کے ہیں مگر محاورہ میں اس کے معنے بچوں کا سکول کے لئے جاتے ہیں جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اس طریق تعلیم کا مقصد یہ ہے کہ کتابوں سے علم پڑھانے کی بجائے چیزیں دکھا کر ان کے نام سکھائے جائیں اس طرح بات اچھی طرح یاد رہتی ہے اور بچہ حافظہ پر بوجھ پڑے بغیر سبق یاد کر لیتا ہے اس طرح تعلیم میں یا تو عملاً باغ میں بچہ کو پھرا کر مختلف اشیاء کے نام یاد کرائے جاتے ہیں اور یا تصویروں اور مٹی اور لکڑی کے بنے ہوئے نمونوں کو دکھا کر مختلف اشیاء کا علم دیا جاتا ہے یورپ کو اور خاص کر جرمنی کو اس طریق تعلیم پر بڑا نا زہے مگر دیکھو کہ قرآن کری کی اس مختصر آیت میں اسی کنڈرگارٹن کے طریق کو کس لطیف طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کو زبان اس طرح نہیں سکھائی کہ الفاظ یاد کراتا بلکہ اشیاء کو پیش کر کے اور ان کے اعمال دکھا کر ان کے نام بتائے اور جب فرشتوں کے سبق کا وقت آیا تو انہیں بھی صرف الفاظ میں جواب نہیں دیا گیا بلکہ عَرَضَھُمْ عَلَی الْمَلٰٓئِکَۃِ فرشتوں کے سامنے بھی اصل اشیاء کو یا ان کے کشفی وجود کو پیش کر کے پھر آدم سے کہا کہ ان کے نام بتائو کیونکہ علم سکھانے کا مؤثر ترین طریقہ یہی ہے کہ اصل چیز یا اس کے نمونہ یا تصویر کو پیش کر کے اس کا نام اور کام بتایا جائے اس طرح سبق خوب یاد رہتا ہے پس پہلا سبق جو کنڈرگارٹن کے اصول پر دیا گیا وہ نہ تھا جو جرمنی میں دیا گیا بلکہ جنت یا باغ آدم پہلا کنڈرگارٹن کا سکول تھا جس میں خدا تعالیٰ کی وحی نے پہلے آدم کو اور پھر آدم کے ذریعہ سے فرشتوں کو اسماء کا سبق مسمیات دکھا کر دیا تا اس کا نقش گہرا ہو اور پوری کیفیت ذہن میں سما جائے۔
اللہ تعالیٰ کے تعلیم دینے کی ایک تازہ مثال اس زمانہ میں بھی پائی جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ بانی سلسلہ احمدیہؐ جنہو ںنے کسی باقاعدہ مدرسہ میں تعلیم نہ پائی تھی انہوں نے خدا تعالیٰ کے حکم سے عربی زبان میں کتاب لکھنی شروع کیں تو ایک دفعہ انہیں ایک رات میں چالیس ہزار عربی کتب لکھیں اور دنیا کو چیلنج دیا کہ اس قسم کی فصیح عبارت اور لطیف مضامین پر مشتمل کتب الگ الگ یا مل کر لکھ کر پیش کریں لیکن باوجود اس کے کہ ان کتب کو عربی بلاد میں بھی کثرت سے پھلایا گیا آج تک کوئی ان کی مثل نہیں لکھ سکا اور یہ معجزہ قرآنی معجزہ کی تائید میں اور اس کے افاضۂ کمال کے ثبوت میں تھا۔
اس جگہ ایک سوال کا جواب دیا جانا ضروری ہے کہا جا سکتا ہے کہ اگ رملائکہ سیکھ نہ سکتے تھے تو پھر انہیں نام بتانے سے کیا فائدہ تھا اور اگر وہ سیکھ گئے تو آدم و ملائکہ کی قابلیت کے تفادت کا مسئلہ غلط ہو گیا اس کا جواب یہ ہے کہ آدم کا علم تفصیلی ہے اور ملائکہ کا اجمالی۔ اجمالی طور پر کسی شے کا علم ان افراد کو بھی ہو جاتا ہے جو اس کا تفصیل علم حاصل کرنے کے قابل نہیں ہوتے ملائکہ کو صرف یہ بات بتانی مقصود تھی کہ آدم اپنی قابلیت سے صفاتِ الٰہیہ کا علم جس رنگ میں حاصل کر سکتا ہے ملائکہ نہیں کر سکتے اور اس قدر بات کا ملین کا وجود پیش کرنے سے ان کی سمجھ میں آ سکتی تھی ورنہ یہ مُراد نہیں کہ کاملین کا وجود دیکھنے کے بعد فرشتے تمام صفات الٰہیہ کا تفصیلی علم سیکھ گئے۔





۳۳؎ حل لغات
سُبْحَانَکَ:۔ سُبْحَانَ مصدر ہے اور اس کے معنی عیوب سے پاک سمجھنے او رپاک کرنے کے ہیں۔ چناچنہ کہتے ہیں سُبْحَانَ اللّٰہِ اَیْ اُبَرِّیُٔ اللّٰہَ مِنَ السُّوْئِ بَرَائَ ۃً کہ میں اللہ تعالیٰ کی ذات کو تمام عیوب سے پاک سمجھتا ہوں (اقرب) مزید تشریح کے لئے دیکھو حل لغات سورہ ہذا ۳۱؎
اَلْحَکِیْمُ:۔ اَلْعَالِمُ۔ عالم صَاحِبُ الْحِکْمَۃِ حکمت والا۔ اَلْمُتْقِنُ لِلْاُ مُوْرِ۔ تمام کامو ںکو اچھی طرح کرنے والا جس کے کامو ںکو کوئی بگاڑ نہ سکے (اقرب) حِکْمۃٌ کے معنے ہیں عدل۔ علم۔ حل۔ یعنی دانائی۔ مَایَمْنَعُ مِنَ الْجِہَالَۃِ یعنی یعنی ہر وہ بات جو جہالت کے سے روکے۔ کُلُّ کَلَامٍ مُوَافِقٍ لِلْحَقِّ۔ ہر وہ کلام جو سچائی کے موافق ہو۔ بعض کے نزدیک اس کے معنے وَضَعُ الشَّیْئِ فِیْ مَوْضِعِہِ کے ہیں۔ یعنی ہر امر کو اس کے مناسب حال طور پر استعمال کرنا۔ نیز اس کے ایک معنی ہیں صَوَابُ الْاَمْرِ وَسِدَادُہُ بات کی حقیقت او راس کا مغز (اقرب) حَکَمَ جو حَکیمْ کا مادہ ہے اس کے معنے ہیں مَنَعَ مَنْعًا لِاِ صْلَاحٍ۔ اصلاح کی خاطر کسی کو کسی کام سے روکنا۔ اور اسیوجہ سے جانور کی لگام کو حَکَمَۃٌ کہتے ہیں۔ ایک شاعر کہتا ہے ؎
أَبَنِیْ حَنِیْفَۃَ اَحْکِمُوْا سُفَہَائَکُمْ کہ اے بنی حنیفہ اپنے بیوقوفوں کو سمجھائو اور بُری باتوں سے روکو (مفردات)
تفسیر۔ ملائکہ نے ان وجودوں کے دکھلائے جانے پر کہا کہ اے اللہ پاک ہے ہمیں تو اسی قدر علم ہے جس قدر تُو نے ہمیں دیا ہے تُو بہت جاننے والا اور حکمت والا خدا ہے یعنی آدم کی خلافت کا مسئلہ ہماری سمجھ میں نہ آیا تھا اور ہمارا خیال تھا کہ اس کی وجہ سے خونریزی اور فساد ہو گا مگر اب اس اظہار سے کہ گو اس کے خلیفہ ہونے پر خونریزی اور فساد ہو گا مگر اس کی ذمہ داری آدم پر نہ ہو گی بلکہ جس مقام پر آدم کو کھڑا کیا گیا ہے اس کا یہ بھی ایک لازمہ ہے جس کا باعث بیرونی دشمن یا اندرونی کمزور وجود ہوتے ہیں نہ کہ خلیفہ اور اس کے ساتھی۔ مگر ہم اب سمجھ گئے ہیں کہ اس حالت کا پیدا کرنا حکمت سے خالی نہیں اور یہ فعال تیرے حکیم ہونے پر دلالت کرتا ہے۔
بعض لوگ غلطی سے یہ اعتراض کرتے ہیںکہ خدا تعالیٰ نے آدم کو سکھایا تو وہ سیکھ گیا فرشتوں کو نہ سکھایا وہ نہ سیکھے پھر اس میں فرشتوں کا کیا قصور۔ اور ان کی بات کو غلط کہنا کس طرح درست ہو سکتا ہے۔ یہ اعتراض صرف اس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ پہلی آیت جس میں خلافت کا سلسلہ شروع کرنے کا اعلان ہے اس کے یہ معنے سمجھے گئے ہیں کہ (۱) اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے مشورہ کیا (۲) فرشتوں نے جواب میں کہا کہ ہم جو تیری تسبیح کرنے والے موجود ہیں ہماری موجودگی میں کسی اور خلیفہ کی کیا ضرورت ہے کیا ہم کافی نہیں۔
لیکن یہ دونوں نتیجے جو اخذ کئے گئے ہیں غلط ہیں۔ (۱) اس آیت میں کسی مشورہ کا ذکر نہیں۔ آیت کے الفاظ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ ان الفاظ میں مشورہ کرنے کا کوئی اشارہ تک نہیں اگر مشورہ ہوتا تو یوں کہنا چاہیئے تھا کہ اے فرشتو! بتائو کہ میں زمین میں کوئی خلیفہ بنائوں یا بنائوں مگر اس قسم کا کوئی جملہ نہ اس جگہ ہے نہ قرآن کریم میں کسی اور جگہ ہے پس جب مشور ہ لیا ہی نہیں گیا تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ خدا تعالیٰ نے فرشتوں سے جن کو علم تھا ہی نہیں مشورہ کیوں لیا اور اگر مشورہ لیا تھا تو ان کے مشورہ پر اعتراض کیسا؟ (۲) فرشتوں نے جو کچھا کہا ہے جیسا کہ اس آیت کی تفسیر میں بتایا جا چکا ہے اس میں ہر گز یہ کوئی ذکر نہیں کہ ہماری موجودگی میں کسی اور خلیفہ کی کیا ضرورت ہے اور وہ ایسا کہہ بھی کب سکتے تھے جبکہ زمین پر خلیفہ بنانے کا ذکر تھا نہ کہ آسمان پر فرشتوں نے جو کچھ کہا اس کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ وہ یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ اس نئے نظام کی جو دُنیا پر قائم کیا جانے والا ہے جبکہ اس کے ساتھ خونریزی اور فساد کا امکان بھی موجود ہے کیا ضرورت ہے پس ان کا سوال حقیقت کو سمجھنے کے لئے تھا نہ کہ خدا تعالیٰ پر اعتراض کے طور پر یا اپنے آپ کو خلافت کا مستحق ثابت کرنے کے لئے۔ اب ان کے اس سوال کا صحیح جواب دو ہی طرح ہو سکتا تھا (۱) یا تو انہیں یہ بتایا جاتا کہ خلیفہ کے قیام کے بعد کوئی خونریزی یا فساد نہ ہو گا (۲) یا یہ بتایا جاتا کہ خونریزی اور فساد تو بیشک ہو گا لیکن اس کے باوجود یہ نظام ضروری ہے اور اس کے فوائد اس کے نقصانوں سے زائد ہیں چونکہ خلافت انسانیہ کے نظام کے متعلق یہی دوسرا جواب صحیح اور درست تھا اللہ تعالیٰ نے اسی جواب کو ملائکہ کے سامنے پیش کیا ہے اس نے یہ نہیں کہا کہ خلافت انسانیہ کے ساتھ خونریزی اور فساد نہیں ہو گا بلکہ یہ بتایا ہے کہ گو اس نظام کی وجہ سے کچھ لوگ خونریزی اور فساد کے مجرم ہونگے لیکن اس کے نتیجہ میں ایسے وجودوں کا بھی ظہور ہو گا جو اللہ تعالیٰ کی متعدد صفات کے حامل ہوں گے اور خدا تعالیٰ کے مظہر ہونگے اور ایسے وجودوں کو پیدا کرنا ان ناقص وجودوں کی موجودگی کے باوجود جو انسانوں میں سے ظاہر ہونگے صفات الہٰیہ کے ظہور کے لئے ضروری ہے اور نظامِ عالم کے لئے مفید۔ یہ جواب بھی دو طرح دیا جا سکتا تھا (۱) فلسفیانہ رنگ میں دلائل کے ساتھ (۲) عملی رنگ میں پہلے خلیفہ کی قوتوں کا اظہار کر کے اور اس کی نسل کے کاملین کو کشفی رنگ میں فرشتوں کو دکھا کر۔ ظاہر ہے کہ یہ دوسرا طریق زیادہ اعلیٰ اور زیادہ مؤثر ہے۔ سو اللہ تعالیٰ نے اس طریق کو اختیار کیا اور آدم کو صفات الٰہیہ کی تعلیم دی اور اس نے ان پر عمل کر کے بتا دیا کہ صفات الہٰیہ کا کامل ظہور بغیر ایسے وجود کے جس میں خیر اور شر دونوں قسم کی طاقتیں موجود ہوں اور اسے دونوں میں سے ایک کو اختیار کرنے کی مقدرت دی جائے اور پھر وہ محبت الٰہی کے جذبہ سے متاثر ہو کر خیر کی طاقتوں کو اپنے اندر نشوونما دے کر خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرے ممکن نہیں پس چونکہ صفات الٰہیہ کے کامل ظہور کے لئے ایسے وجود کا ہونا جسے خیر و شر کی تعلیم دے کر اپنے لئے خود راستہ تجویز کرنے کی مقدرت دے دی جائے ضروری ہے ایسے ناقص افراد کے پیدا ہونے کے خطرہ کو بھی جو شر کی طاقتوں کو اختیار کر کے خونریزی اور فساد کریں برداشت کر لیا جائے گا۔ اگر یہ مقدرت نہ دی جائے اور اس وجود کو خیر پر مجبور کیا جائے تو وہ صفات الٰہیہ کا مظہر نہیں کہلا سکتا۔ صرف ایک بے جان اور بے مقدرت آلہٰ کار کہلا سکتا ہے۔
جواب کی اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد یہ امر آسانی سے سمجھ میں آ سکتا ہے کہ یہ اعتراض کہ جب خدا تعالیٰ نے آدم کو سکھایا اور فرشتوں کو نہ سکھایا تو پھر اس کا یہ پوچھنا کس طرح درست تھا کہ مجھے ان مسمیات کی صفات اورخواص سے اطلاع دو۔ درست نہیں۔ کیونکہ یہاں تو سوال ہی یہ تھا کہ ایسے وجودوں کی کیا ضرورت ہے جو گناہ بھی کر سکیں گے اور شریعت کے مجرم ہو سکیں گے اس سوال کا جواب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا تھا کہ بیشک وہ گناہ کے مرتکب بھی ہو سکیں گے مگر اس مقدرت کے باوجود ان میں سے کاملیں کانکی کو اختیار کرنا اور صفات الٰہیہ کو اپنے وجود سے ظاہر کرنا اور پھر ایک نظام کے ماتحت دوسروں کو نیکی کی راہ پر چلانا ہی تو ان کے مقرب بارگاہ ہونے کا ذریعہ ہو گا اور یہی تو ان کے اعلیٰ کمالات کا ثبوت ہو گا اور جس طرح ان کامل وجودوں کو دکھا کر جو فرشتوں کے دائرہ عمل سے اوپر نکل چکے ہوں اور صفاتِ الٰہیہ کو مجموعی طور پر بہتر رنگ میں ظاہر کرنے والے ہوں۔ فرشتوں کو حقیقتِ حال سے آگاہ کرنے کا ممکن نہ تھا پس یہ آیات قابل اعتراض نہیں بلکہ ان میں ایک اعلیٰ حقیقت ایک ایسے مکمل پیرایہ میں ظاہر کی گئی ہے کہ اس سے بہتر ذریعہ اور ممکن ہی نہیں۔
فرشتوں کا جواب ظاہر کرتا ہے کہ باوجود معترضین کے اعتراض کے جو وہ فرشتوں کی طرف سے کرتے ہیں فرشتوں کی اس جواب سے پوری تسلی ہو گئی اور انہوں نے اقرار کیا کہ ان کا علم محدود ہے اور انسان کا ان کے مقابل پر غیر محدود اور انہوں نے تسلیم کیا کہ اللہ تعالیٰ اَلْعَلِیْم اور اَلْحَکِیْم ہے یعنے اس کا علم کامل ہے اور اس کا کوئی فعل بلا حکمت نہیں ہوتا۔
بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اس سے تو یہ نتیجہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ علیم ہے یہ تو نتیجہ نہ نکلا کہ انسان بھی کوئی ذاتی خوبی رکھتا ہے اس اعتراض کا جوواب یہ ہے کہ اسلام کی تعلیم کے رو سے او ریہی حقیقت بھی ہے حقیقی طور پر ذاتی خوبی تو خدا تعالیٰ کے سوا اور کسی وجود میں ہے ہی نہیں۔ اور فرشتوں نے اپنے پہلے اظہار خیال میں ہی اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کیونکہ انہوں نے شروع میں ہی کہہ دیا تھا کہ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَ نُقَدِّسُ لَکَ پس یہ سوال توزیر بحث ہی نہیں تھا کہ خدا تعالیٰ کو علم کامل حاصل ہے یا نہیں سوال یہ تھا کہ آیا انسانی پیدائش کی کوئی غرض ہے یا نہیں اور اسی کا جواب آدمؑ کو صفاتِ الٰہیہ کا علم دے کر دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم کو سیکھنے کی قابلیت جس قدر ایسے وجود میں پائی جا سکتی ہے جو خیر و شر دونوں کی مقدرت رکھتا ہو وہ قابلیت ان وجودوں میں نہیں ہو سکتی جو صرف خیر کا ہی مادہ رکھتے ہوں اور شر کو اختیار کرنے کی مقدرت ان میں نہ ہو فرشتوں نے اس حقیقت کو سمجھا اور عَلِیْم کے ساتھ حَکِیْم کا لفظ لگا کر اقرار کیا کہ خدا تعالیٰ کی صفت علیم کا کام مظہر وہ نہیں ہوسکتے بلکہ انسان ہی ہو سکتا ہے اس لئے اس کی پیدائش خدا تعالیٰ کی صفت حکیم کے ماتحت ہے یعنی بڑی بھاری حکمت اپنے اندر رکھتی ہے۔
جیسا کہ اوپر کی تشریحات سے ثابت ہے کہ آدم کے واقعہ کی اس تفصیل کے بیان کرنے سے پیدائش عالم کی غرض اور حکمت بتانا مقصود ہے اور یہ بتانا بھی مقصود ہے کہ ہر زمانہ میں الہام الہی کا نزول اسی غرض کو پورا کرنے کے لئے ہوتا ہے اور جو لوگ نبیو ںکی بعثت پر معترض ہوتے ہیں وہ گویا دوسرے الفاظ میں اس امر پر معترض ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انسانی پیدائش کی غرض کو کیوں پورا کرنے لگا ہے اور یہ اعتراض ان کا ایسا بودا ہے کہ اس کی بناء پر نبوت کے سلسلہ کو منقطع نہیں کیا جا سکتا۔
یہ جو ملائکہ نے کہا کہ لَاعِلْمَ لَنَا اِلَّا مَاعَلَّمْتَنَا ہمیں اتنا ہی علم ہے جتنا تُو نے ہمیں سکھایا اس کا یہ مفہوم نہیں کہ جو تو نے ہمیں سکھایا ہے اسی قدر ہمیں علم ہے کیونکہ یہ تو ایک ظاہر حقیقت ہے بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ ہمارا علم اس طرح بڑھتا نہیں جس طرح کہ انسان کا بڑھتا ہے اور اسے اس کے بڑھانے کی مقدرت حاصل ہے اور دوسرے یہ کہ ہمارے اندر وہی طاقتیں ہیں جو تو نے ہمارے اندر رکھی ہیں اور ان طاقتوں کے ساتھ ہم انسان کے متنوع اور جامع علوم کو نہیں پہنچ سکتے یعنی ہم یہ سمجھ گئے ہیں کہ انسان کی پیدائش میں حکمت ہے اور اس کے سپرد ایک ایسا کام ہے جو ہم بھی نہیں کر سکتے اس لئے اگر بعض انسان خونریزی کرنے والے ہوں یا خونریزی کا موجب بننے والے ہوں یا شریروں کی شرارتوں کو روکنے کے لئے جائز خونریزی پر مجبور ہوں تب بھی انسان کی پیدائش ضروری اور حکیمانہ فعل ہے۔







۳۴؎ حل لغات
اَلسَّمٰوٰت:۔ کی تشریح کے لئے دیکھو حل لغات سورہ بقرہ ۲۰؎
الْاَرض:۔ کی تشریح کیلئے دیکھو حل لغات سورۂ بقرہ ۱۲؎
تُبْدُوْنَ:۔ اَبْدٰی (یُبْدِیْ) سے مضارع جمع مذکر مخاطب کا صیغہ ہے۔ اور بَدَا (یَبْدُوْا) سے جو اس کا مجرد ہے بنا ہے بَدَا الْاَمْرُ کے معنے ہیں ظَھَرَ کوئی امر واضح اور ظاہر ہو گیا اور اَبْدَی الْاَمْرَ کے معنے ہیں اَظْھَرَہُ کسی امر کو ظاہر کیا (اقرب) پس تُبْدُوْنَ کے معنے ہونگے تم ظاہر کرتے ہو۔
تَکْتُمُوْنَ:۔ کَتَمَ (یَکْتُمُ کَتْمًا وَ کِتْمَانًا) سے مضارع جمع مخاطب کا صیغہ ہے کَتَمَ الشَّیْئَ کے معنی ہیں اَخْفَاہُ اس کو پوشیدہ رکھا۔ بعض اوقات کَتَمَ کے دو مفعول آ جاتے ہیں چنانچہ کہتے ہیں کَتَمَ زَیْدَ الْحَدِیْثَ کہ اس نے زید سے بات کو مخفی رکھا۔ اس میں زَیْد اور اَلْحَدِیْثَ دونوں کَتَمَ کے مفعول ہیں (اقرب) نیز اہل عرب کہتے ہیں کَتَمَ الْفَرَسُ الرُّبْوَ اور اس سے مراد یہ لیتے ہیں کہ ضَاقَ مَنْخِرُہُ عَنْ نَفْسِہٖ کہ گھوڑا جب دوڑتے ہوئے ہانپ گیا اور لمبے سانس لینے لگا تو نتھنوں کے تنگ ہونے کی وجہ سے وہ پوری طرح سانس نہ لے سکا (اقرب) گویا جب کسی چیز کی وضع ایسی ہو کہ وہ کسی بات کے ظاہر کرنے سے قاصر ہو تو اس وقت بھی اس کے متعلق کَتَمَ کا لفظ استعمال کر لیتے ہیں مفردات راغب میں امام راغب لکتھے ہیں کہ لَا یَکْتُمُوْنَ اللّٰہَ حَدِیْثًا کے معنی حضرت ابن عباسؓ اور حسنؓ نے یہ کئے ہیں کہ ان کا اللہ تعالیٰ سے کوئی بات نہ چھپا سکنا اس طور پر ہو گا کہ اُن کے جوارح تمام باتو ںکو ظاہر کر دینگے (مفردات) گویا آپ ہی آپ جو بات ظاہر ہو جائے وہ خلاف کَتَمَ ہے۔ پس جو بات آپ ہی رکی ہوئی ہو اس پر کَتَمَ بولیں گے۔ پس تَکْتُمُوْنَ کے دو معنے ہوئے (۱) جو تم چھپاتے ہو (۲) جو تم سے ظاہر نہیں ہو سکتا ہے جو چیز باہر آنی تھی وہ بسبب ناقابلیت کے نہیں آ سکتی یعنی تمہاری خلقت ایسی ہے کہ تم سے یہ کام نہیں ہو سکتا۔
تفسیر۔ گو فرشتوں نے اجمالی طور پر انسانی پیدائش کی غرض کو سمجھ لیا تھا مگر دلیل کو مکمل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آدم کو حکم دیا کہ وہ ان کا ملین کے خواص اور خصائص کو جو اس کی امت میں ہونے والے تھے یا اس کی نسل میں ہونے والے تھے بیان کرے تاکہ وہ حقیقت جو علمی طور پر ظاہر تھی عملی طور پر بھی ظاہر ہو جائے۔
اس سے یہ مراد نہیں کہ فرشتوں یا آدم میں واقعی کوئی ایسا مکالمہ ہوا بلکہ عربی محاورہ کے مطابق ایک حقیقت جو ظاہر کی جائے اسے مکالمہ کا رنگ دے دیا جاتا ہے۔ عربی زبان کا شاعرانہ جز کہتا ہے اَمْتَلَائَ الْحَوْضُ وَقَالَ قَھْنِیْ حوض بھر گیا اور اس نے کہا کہ بس بس میں بھر گیا ہو ںاس سے یہ مراد نہیں کہ حوض بھر گیا تو چیخ اُٹھا کہ بسکرو بلکہ مراد یہ ہے کہ حوض نے بزبان حال ایسا کہا (فقہ اللعتہ للثعالبی جلد دوم صفحہ ۲۳۷) اسی طرح ایک اور عرب شاعر کہتا ہے ؎
قَالَتْ لَہُ الْعَیْنَانِ سَمْعًا وَ طَاعَۃً (لسان) آنکھوں نے اس سے کہا کہ ہم نے آپ کی بات سنی اور ہم فرمانبرداری کرینگی۔ دوسری زبانوں میں بھی یہ محاورہ استعمال ہوتا ہے اُردو کے مشہور شاعر جلال الدین لکھنوی جن سے بچپن میں میں نے بھی اصلاح لی تھی کہتے ہیں ؎
حکم دل کا ہے لگی آکے بجھائو میری
عرض کرتے ہیں یہ آنسو کہ جناب آنکھوں سے
اس شعر کا بھی یہی مطلب ہے کہ دل کے ورد کا نتیجہ آنکھو ںسے آنسوئوں کا بہنا ہے پس کبھی قول کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور مراد صرف یہ ہوتی ہے کہ زبان حال سے یہ امر ظاہر ہوا اسی طرح اس جگہ یہ ضروری نہیں کہ خدا تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے ایسا کہا ہو بلکہ یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت آدم علیہ السلام نے ان صفاتِ الٰہیہ کا اظہار کرنا شروع کیا جو ان کی نسل سے ظاہر ہونے والی تھیں اور اس طرح عملی طور پر ملائکہ پر انسان کی روحانی ترقیات کی حقیقت کھل گئی اور آدم علیہ السلام کو تعلیم دینے کے بھی یہ معنی نہیں کہ بالمشافہ بٹھا کر درس دیا گیا تھا بلکہ الہام جلی یا خفی دونوں میں سے کسی ایک کے ذریعہ سے یا دونوں سے انہیں صفاتِ الٰہیہ اور لغت اور خواص اشیاء کا علم بخشا گیا فَلَمَّا اَنَبَأَ ھُمْ بِاَسْمَآ ئِھِمْ یعنی جب آدم علیہ السلام نے ان کمالات کو ظاہر کرنا شروع کیا جو ان کی امت سے عام طو رپر اور ان کی نسل کے کاملین سے خاص طور پر ظاہر ہونے والے تھے تو ملائکہ کو معلوم ہو گیا کہ جس رنگ میں صفات الٰہیہ کو انسان ظاہر کرنے والا ہے اور کوئی وجود ظاہر نہیں کر سکتا۔
قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّکُمْ اِنِّیْٓ اَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاَعْلَمُ مَاتُمْدُوْنَ وَمَا کُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَ اس میں پہلی آیت کے ان الفاظ کی طرف اشارہ ہے کہ قَالَ اِنِّیْ اَعْلَمُ مَالَا تَعْلَمُوْنَ اور اسی مضمون کی تشریح کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ زمین کی ضرورتوں کو بھی بہتر طور پر جانتا ہے اور آسمانی فضل کی بارشیں جس طرح زمین پر نازل ہونا چاہتی ہیں اور اس کی صفات کا جو تقاضا ہے اسے بھی بہتر طور پر جانتا ہے۔
وَاَعَلَمْ مَاتُبْدُوْنَ وَمَاکُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَ سے یہ مراد نہیں کہ فرشتوں کے دلوں میں کوئی ایسا اعتراض تھا جسے وہ چھپاتے تھے اور منہ سے کچھ اور کہتے تھے کیونکہ جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے فرشتے گناہ سے پاک ہیں وہ اس قسم کا فعل کر ہی نہیں سکتے اس جملہ کا صرف یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ان قوتوں کا بھی علم ہے جو فرشتوں سے ظاہر ہوتی ہیں اور ان کا بھی جو ان کے ذریعہ سے ظاہر نہیں ہو سکتیں۔ حل لغات میں کَتَّمَ کے معنے کبھی روک بننے اور معذور ہونے کے بھی ہوتے ہیں وار یہی معنے اس جگہ چسپان ہوتے ہیں اور مراد یہ ہے کہ میں جانتا ہوں کہ کس حد تک تم صفات الٰہیہ کو ظاہر کرنے پر قادر ہو اور کس حد تک ان کے اظہار سے قاصر ہو اس لئے میری صفاتِ کاملہ نے چاہا کہ وہ ایک ایسا وجود بھی کھڑا کرے جو خدا تعالیٰ کی تمام صفات کو ظاہر کر سکنے کی مقدرت رکھتا ہو۔


۳۵؎ حل لغات
قُلْنَا:۔ قَالَ سے متکلم مع الغیر کا صیغہ ہے اور قَالَ کے لئے دیکھو حل لغات سورہ ہذا ۳۱؎
اُسْجُدُوْا۔ امر جمع مخاطب کا صیغہ ہے اور اَلسُّجُوْدُ جو (سَجَدَ کا مصدر ہے) کے معنے ہیں التَّذَلُّلُ عاجزی اطاعت اور فرمانبرداری کرنا۔ وَقَوْلُہٗ اُسْجُدُوْالِاٰدَمَ قِیْلَ اُمِوُوْا بالتَّذَلُّلِ لَہٗ وَالْقِیَامِ بِمَصَالِحِہِ وَ مَصَالِحِ اَوْلَادِہٖ یعنی آیت اُسْجُدُوْا لِاٰدَمَ الخ میں فرشتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ آدم کی فرمانبرداری کریں اور اس کے ماتحت چلیں (یعنی اصلاح کا وہ کام جو آدم دنیا میں کرینگے اس میں اس کی مدد کریں اور اس کی قبولیت لوگوں میں پھیلائیں) اور اس کی مدد کریں اور اس کی اولاد کے لئے ممد او رمعاون بنیں اَوِاسْجُدُ وْالِاَ جَلِ خَلْقِ اٰدَمَ نیز اُسْجُدُوْا لِاٰدَمَ کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ آدم کی پیدائش کی وجہ سے اللہ کے حضور سجدہ میں گر جائو۔ وَقَوْلُہٗ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدَّا ای مُتَذَلِّلِیْنَ مُنْقَادِیْنَ اور قرآن کریم میں جو یہ آیا ہے کہ تم اس دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو جائو اس کے معنے بھی یہی ہیں کہ تم فرمانبرداری کرتے ہوئے جائو (مفردات) سَجَدَ (یَسْجُدُ) سُجُوْدًا کے معنی ہیں خَضَعَ وَ اِنْحَنَی اس نے عاجزی کی اور عجز کا اظہار جھکنے سے کیا سَجَدَ الْبَعِیْرُ:۔ خَفَضَ رَأْسَہٗ اونٹ نے اپنا سر نیچا کیا۔ سَجَدَتِ السَّفِیْنَۃُ الرِّیَاحَ اَطَاعَتْہَا وَمَالَتْ بِمَیْلِہَا کشتی نے ہوا کی پیروی کی۔ اور جدھر کو ہوا اسے لے گی اُدھر چل پڑی۔ اہلِ عرب کہتے ہیں فُلَانٌ سَاجِدُ الْمِنْخَرِ اور مراد یہ ہوئی ہے ذَلِیْلٌ خَاضِعٌ کہ فلاں شخص مطیع ہے اور عاجزی کرنے والا ہے (اقرب) پس اُسْجُدُوْا کے معنے ہونگے اطاعت و فرمانبرداری کرو۔
اِلَّا:۔ حرف استثناء ہے اور اپنے مابعد اسم کو اکثر نصب دیتا ہے۔ استثناء دو قسم ہوتا ہے (۱) متصل جیسے جَائَ نِی الْقَوْمُ اِلاَّزَیْدًا یعنی زید کے سوا باقی سب لوگ میرے پاس آئے (۲) منقطع جیسے مَا جَائَ نِی الْقَوْمُ اِلاَّ حِمَارًا یعنی لوگ تو میرے پاس نہیں آئے مگر گدھا آیا ہے۔
اِبْلِیْس:۔ اِبْلیْس اَبْلَسَ سے بنا ہے اور اَبْلَسَ کے معنے ہیں قَلَّ خَیْرُہٗ اس سے کسی بھلائی کی توقع کم ہو گئی یعنی بے خیر ہو گیا۔ اِنْکَسَرَوَ حَزَنَ شکستہ خاطر ہو گیا۔ غمگین ہو گیا اور جب اَبْلَسَ مِنْ رَحْمَۃِ اللّٰہِ کہیں تو اس کے یہ معنے ہونگے یَئِسَ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہو گیا (ان معنوں میں لازم معنے کے علاوہ متعدی معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے چنانچہ کہتے ہیں اَبْلَسَہٗ غَیْرُہٗ اس کو کسی نے ناامید اور مایوس کر دیا) اور اَبْلَسَ فِیْ اَمْرِہٖ کے معنے ہیں تَحَیَّرَ وہ اپنے معاملہ کے بارہ میں حیرانگی میں پڑ گیا۔ اَبْلَسَ فُلَانٌ کے ایک معنے سَکَتَ غَمًّا کے بھی ہیں یعنی غم و اندوہ کی وجہ سے خاموش ہو گیا (اقرب) پس اِبْلِیْس کے معنے ہونگے (۱) ایسی ہستی جو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہو گئی (۲) ایسی ہستی جس سے بھلائی کی امید کم ہو (۳) ایسی ہستی جو اپنے معاملہ میں حیران رہ گئی ہو کہ اُسے کیا کرنا چاہئے (۴) ایسی ہستی جو غم و اندوہ سے بھری رہے۔
اَبیٰ:۔ اَبَاہُ اِبَائً وَاِبَائَ ۃً کے معنے ہیں لَمْ یَرْضَہُ اس کو پسند نہ کیا (اقرب) امام راغب اپنی کتاب مفردات راغب میں لکھتے ہیں کہ اَلْاِ بَائُ کے معنی ہیں شِدَّۃُ الْاِمْتِنَاعِ کسی امر سے سختی سے رُکنا (ہر امتناع کو اِبَاء نہیں کہیں گے) (مفردات) مصنف تاج العروس لکھتے ہیں اَبَاہُ:۔ کَرِھَہٗ کہ اَبیٰ کے معنے کسی چیز سے نفرت کرنے کے ہیں نیز لکھا ہے کہ اَلْاِبَائُ:۔ ھُوَ الْاِمْتِنَاعُ عَنِ الشَّیْئِ وَالْکَرَاھِیَۃُ لَہٗ بِغَضِّہِ وَ عَدَمِ مُلَایَمَتِہِ کسی چیز کو ردی اور اپنے مناسب حال نہ سمجھ کر اس سے انکار کر دینا اور اس سے نفرت کرنا اِبَائٌ کہلاتا ہے (تاج)
اِسَْتکْبَرَ:۔ اِسْتَکْبِرَ الشَّیْئَ کے معنی ہیں رَاٰہُ کَبِیْرًا وَعَظُمَ عِنْدَہٗ کسی چیز کو بڑا سمجھا نیز اِسْتَکْبَرَ کے کے معنے ہیں کَانَ ذَاکِبْرِیَائِ بڑا بنا۔ مغرور ہوا (اقرب) مفردات میں لکھا ہے۔ اَلْکِبْرُ:۔ اَلْحَالَۃُ الَّتِیْ یَتَخَصَّصُ بھَا الْاِنْسَانُ مِنْ اِعْجَابِہٖ بِنَفسِہٖ وَ ذٰلِکَ اَنْ یَرَی الْاِنْسَانُ نَفْسَہٗ اَکْبَرَ مِنْ غَیْرِہٖ کہ کِبْر اس حالت کو کہتے ہیں کہ جب انسان خود پسند بن کر کسی بات کو اپنے ساتھ مخصوص سمجھ لیتا ہے اور اس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو دوسرے لوگوں سے ممتاز اور بڑا خیال کرنے لگ جاتا ہے وَالْاِ سْتِکْبَارُ یُقَالُ عَلیٰ وَجْھَیْنِ اور اِسْتِکْبَار (اپنے آپ کو بڑا سمجھنا) دو طور پر ہوتا ہے (۱) اَنْ یَتَحَرَّی الْاِنْسَانُ وَیَطْلُبَ اَنْ یَصِیْرَ کَبِیْرًا کہ انسان بڑا بننے کی خواہش او رکوشش کرتا ہے (اور یہ اگر مناسب محل و مقام پر کوشش کی جائے تو قابلِ تعریف بات ہوتی ہے) (۲) اَنْ یتَشَبَّعَ فَیُطْھِرَ مِنْ نَفْسِہٖ مَالَیْسَ لَہٗ کہ کوئی بعض ایسی باتوں کے ساتھ اپنے نفس کو متصف کرے جو اس میں پائی نہیں جاتیں اور مقصد یہ ہو کہ وہ کسی طرح دوسروں پر فوقیت لے جائے (مفردات)
کَانَ:۔ کَانَ افعال ناقصہ میں سے ہے یہ مبتداء اور خبر پر داخل ہو کر مبتداء کو رفع اور خبر کو نصب دیتا ہے اس سے یہ بنانا مقصود ہوتا ہے کہ ایک فعل گزشتہ زمانے میں سرزد ہو کر ختم ہو گیا۔ بعض اوقات اس کے معنے صرف کسی بات کے حدوث اور وقو ع کے ہوتے ہیں اس وقت اس کی خبر نہیں آتی۔ چنانچہ کہہ دیتے ہیں کَانَ الْاَمْرُ کہ فلاں کام ہو چکا۔ علاوہ ازیں یہ کئی اور معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے ان میں سے ایک معنی صَارَ کے ہیں یعنی ہو گیا (اقرب) چنانچہ کَانَ مِنَ الْکَافِرِیْنَ میں کَانَ کے معنی صَارَ کے بھی ہو سکتے ہیں کہ وہ کافروں میں سے ہو گیا۔ اور یہ بھی کہ کافروں میں سے تھا۔
اَلْکَافِرِیْنَ:۔ کفر سے اسم فاعل کَافِرٌ آتا ہے اور کَافِرُوْن اور کَافِرِیْنَ اس کی جمع ہے مزید تشریح کے لئے دیکھو حل لغات سورۂ ہذا ۷؎
تفسیر۔ پیشتر اس کے کہ اس آیت کی مجموعی تفسیر بتائی جائے یہ واضح کر دینا مناسب ہو گا کہ اس آیت میں سجدہ کرنے سے کیا مُراد ہے۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر اللہ کو سجدہ کرنا کسی صورت میں جائز نہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا تَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوْا للّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَھُنَّ (سورہ حٰم سجدہ ع ۵) یعنی نہ تو سورج کہ سجدہ کرو اور نہ چاند کو بلکہ صرف اس خدا کو سجدہ کروجس نے ان کو پیدا کیا ہے پس اس حکم کے ہوتے ہوئے کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے فرشتو ںکو حکم دیا کہ وہ آدم کو سجدہ کریں بعض لوگ اس پر کہدیا کرتے ہیں کہ شائد آدم کے وقت میں سجدہ غیر اللہ کے لئے جائز ہو گا بعد میںمنع ہوا لیکن یہ خیال درست نہیں کیونکہ توحید پر قائم رہنے کا حکم ایک دائمی حکم ہے وقتی حکم نہیں کہ مختلف زمانوں میں بدلتا رہا ہو۔ علاوہ ازیں فرشتوں کے متعلق اللہ تعالیٰ صاف الفاظ میں فرماتا ہے اِنَّ الَّذِیْنَ عِنْدَ رَبِّکَ لَایَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَیُسَجِّوُنَہٗ وَلَہٗ یَسْجُدُوْنَ (اعراف ع ۲۴) وہ ہستیاں جو اللہ تعالیٰ کے قرب میں رہتی ہیں اللہ تعالیٰ کی عبادت کو بڑا نہیں سمجھتیں اور اس سے جی نہیں چراتیں وہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی رہتی ہیں اور صرف اس کے سامنے سجدہ کرتی ہیں اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ ملائکہ کا ہمیشہ سے یہ طریق ہے کہ وہ صرف اللہ تعالیٖ ہی کے سامنے سجدہ کرتے ہیں۔ اور کسی کے آگے سجدہ نہیں کرتے۔ پس جب ملائکہ اور ملائکہ کے نقش قدم پر چلنے والے وجودوں کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ کبھی بھی خدا تعالیٰ کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کرتے تو یہ کہنا کس طرح درست ہو سکتا ہے کہ کسی وقت اللہ تعالیٰ نے خود حکم دے کر ملائکہ سے غیر اللہ کو سجدہ کروایا اور انہوں نے سجدہ کیا۔
جب یہ ثابت ہو گیا کہ غیر اللہ کو سجدہ کرنا قرآنی تعلیم کے خلاف ہے اور یہ بھی کہ ملائکہ نے کبھی بھی کسی غیر اللہ کے سامنے سجدہ نہیںکیا تو اب یہ سوال رہ گیا کہ اس آیت میں سجدہ کے حکم سے کیا مُراد ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ (۱) عربی زبان میں گو کبھی لام سَجَدَ کے بعد اس کے معنوں کو تقویت دینے کے لئے بھی آتا ہے اور اس وقت اس کے معنے اس چیز کو سجدہ کرنے کے ہوتے ہیں جیسے فرمایا وَاسْجُدُوْ الِلّٰہِ (حٰم سجدہ ع ۵) یعنی اللہ کو سجدہ کرو لیکن کبھی لام عام صلہ کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے اور اس وقت اس کے اپنے مستقل معنے ہوتے ہیں اور وہ معنے علت اور سبب کے ہیں چنانچہ عرب کا مشہور شاعر امرء القیس کہتا ہے ؎
وَیَوْمَ عَقَرْبُ لِلْعَذَارٰی مَطَیِّتِیْ (سبعہ معلقات) اور یاد کرو اس دن کو جبکہ میں نے کنواری عورتوں کی خاطر اپنی سواری کی اونٹنی ذبح کر دی تھی اس جگہ لام تعدیہ کی تقویت کے لئے نہیں آیا بلکہ مستقل معنے دیتا ہے اور وہ سبب اور علت کے معنے ہیں اور مُراد یہ ہے کہ میرے اونٹنی ذبح کرنے کا سبب کنواری لڑکیو ںکی دلبستگی کا حصول تھا اسی طرح اُسْجُدُوْالِاٰدَمَ کے معنے یہ نہیں کہ آدم کو سجدہ کرو بلکہ ی معنی ہیں کہ آدم کے خلیفہ بننے کے سبب سے خدا تعالیٰ کو سجدہ کرو کہ اس نے ایک ایسے اچھے نظام قائم کیا۔ گویا جب اللہ تعالیٰ نے دلائل اور مشاہدات سے فرشتوں پر ثابت کر دیا کہ آدم کی خلافت اللہ تعالیٰ کے پُر حکمت افعال میں سے ہے اور اس سے اللہ تعالیٰ کی صفات کا ایک نیا اور کامل ظہور وابستہ ہے تو اس نے ملائکہ کو کہا کہ اس خوشی میں اب تم میرے حضور سجدات شکر بجا لاوو یہ حکم ویسا ہی ہے جیسے خدا پرست لوگوں کو جب کوئی خدا تعالیٰ کی قدرت نظر آتی ہے تو وہ سجدہ میں گر جاتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ آدم کو جسدہ کرنے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ خلافتِ آدم کی خوشی میں اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور آیت کے یہ معنے ہیں کہ آدم کی وجہ سے یعنی اس کے مقام خلافت پر فائز ہونے کی وجہ سے سجدہ کرو۔ سجدہ کسے کرو اس کے اظہار کی ضرورت نہ تھی کیونکہ سجدہ سوا خدا تعالیٰ کے کسی کو جائز ہی نہیں۔
ان معنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مومن کو یہ سبق ملتا ہے کہ جب کوئی فضل خدا تعالیٰ کا نازل ہو اسے اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ میں گر جانا چاہیئے کیونکہ اس سے اللہ تعالیٰ کے مزید فضل نازل ہوتے ہیں لیکن افسوس کہ بہت سے لوگ انعامات کے حصول پر بجائے خدا تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنے کے مغرور ہو جاتے ہیں اور اپنی ترقیوں کو اپنے ہنر اور اپنے کمال کی طرف منسوب کرنے لگ جاتے ہیں۔
(۲) دورے معنے سجدہ کرنے کے یہ بھی ہو سکتے ہیں اور ہیں کہ آدم کی فرمانبرداری اور اطاعت کرو جیسا کہ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے سجدہ کے معنے علاوہ جسمانی سجدہ کے فرمانبرداری اور اطاعت کے بھی ہیں چنانچہ راغب لکھتے ہیں اَلسَّجُوْدُ: اَلتَّذَلُّلُ سجدہ کے معنے فرمانبرداری اور عاجزی کے بھی ہیں حل لغات میں راغب کایہ قول لکھا جا چکا ہے کہ بعض آئمہ نے اُسْجُدُوْالِاٰدَمَ کے یہ معنی کئے ہیں کہ اُمِرُوْا بالتَّذٗلُّلِ لَہٗ وَالْقِیَامِ بِمَصَالِحِہِ وَ مَصَالِحِ اَوْلَادِہٖ یعنی ملائکہ کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ آدم کی فرمانبرداری کریں اور اس کی مصلحتوں اور اس کے ارادوں اور اس کی اولاد کے ارادوں اور خواہشوں کے پورا کرنے میں لگ جائیں۔
ان معنوں کی رُو سے آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو خلعتِ خلافت بحشا تو ملائکہ کو حکم دیا کہ اب یہ دُنیا پر ہماری مرضی ظاہر کرنے والا ہے تم کو بھی چاہیئے کہ جو کام یہ کرے اس کی امداد کرو اور اس کی تائید میں اس نظام کو لگا دو جو تمہارے ماتحت ہے اور جس کی تم ابتدائی کڑیاں ہو چنانچہ فرماتا ہے فَسَجَدُوْا اس پر وہ سب کے سب آدم کی تائید میں لگ گئے اور اس کے ارادوں کو پورا کرنے کی کوششوں میں منہمک ہو گئے۔
اِلَّا اِبْلِیْس۔ یعنی ملائکہ نے تو حکمِ الہٰی کے ماتحت سجدہ ک دیا۔ مگر ابلیس نے نہ کیا۔ ابلیس کون تھا اس کا تفصیلی جواب آگے آئے گا مگر یہ امر سمجھ لینا چاہیئے کہ بہرحال وہ فرشتوں میں سے نہ تھا۔ دوسری جگہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ (کہف ع ۷) وہ جنوں میں سے تھا پس اپنی جبلت کے مطابق اس نے فرمانبرداری سے انکار کیا۔
بعض کہتے ہیں کہ اگر ابلیس فرشتوں میں سے نہ تھا تو اِلَّا کا لفظ کیوں یہاں استعمال ہوا ہے کیونکہ اِلَّا کے معنے سوائے کے ہیں۔ اور سوائے سکے لفظ سے تو انہی اشیاء کا استثناء کیا جاتا ہے جو اس سے پہلے کی مذکورہ چیزوں میں سے ہوں مثلاً جب یہ کہیں کہ سب دو ست آ گئے سوائے زید کے تو اس کے معنے یہی ہوتے ہیں کہ زید ہمارے دوستوں میں سے ہے پس اس آیت میں بھی سوائے ابلیس کے الفاظ کے یہی معنے ہو سکتے ہیں کہ ابلیس بھی فرشتو ںمیں سے تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اِلَّا کے معنے سوائے کے ہیں اور بالعموم اِلَّا کے پہلے کے بیان کردہ گروہ کی جنس میں تو شریک ہوتا ہے مگر اس خاص فعل میں جس کا پہلے ذکر ہوا ہو اس سے مختفل ہوتا ہے جیسا کہ اوپر کی مثال میں ہے کہ سوائے سے پہلے جن دوستوں کا ذکر ہے ان میں تو زید شامل ہے لیکن آنے کے فعل میں ان کا شریک نہیں لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اِلَّا کے بعد مذکور وجود اِلَّا سے کے مذکورہ گروہ سے الگ ہوتا ہے اور جب ایسا ہو تو عربی میں اس اِلَّا کو منقطع کہتے ہیں یعنی اس کے بعد جس وجود کا ذکر ہے وہ نہ صرف یہ کہ پہلے بیان کردہ فعل میں ان کا شریک نہیں بلکہ اس فعل کے مرتکب لوگوں کا بھی جزو نہیں اس کی مثال میں علماء نحو کا یہ مشہور فقرہ ہے کہ جَائَ الْقَوْمُ اِلَّاحِمَارَ ھُمْ یعنی قوم تو آگئی مگر ان کا گدھا نہیں آیا اس استعمال کے موقعہ پر اُردو زبان میں ترجمہ کرتے ہوئے سوائے کا لفظ استعمال نہ کیا جائے گا بلکہ مگر کا لفظ استعمال کیا جائے گا کیونکہ اُردو زبان میں سوائے کا لفظ وہی معنے دیتا ہے جن میں اِلَّا کے بعد کا مذکور اس سے پہلے کے مذکور کا حصہ ہو اور وہ دوسرے معنے اِلَّا کے جو اوپر بیان ہوئے ہیں سوائے کے لفظ سے ادا نہیں ہوتے ان دوسرے معنوں کے ادا کرنے کے لئے مگر کا لفظ زیادہ مناسب اور ٹھیک ہوتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ اس جگہ اِلَّا منقطع ہے اور اس کے معنے سوائے کے نہیں بلکہ مگر کے ہیں۔ ان معنوں پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اگر ابلیس ملائکہ میں سے نہیں تو پھر ملائکہ کو سجدہ کا حکم دینے اور ان کے فرمانبرداری کرنے کے ذکر میںابلیس کا ذکر کیو ںکیا گیا ہے جب اسے حکم ہی نہ دیا گیا تھا تو پھر اس نے سجدہ کرنا ہی کیوں تھا مگر یہ اعتراض ملائکہ کی حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے پہلی آیات میں بتایا جا چکا ہے کہ ملائکہ اس نظام عالم کے مدبر ہیں چنانچہ قرآن کریم میں انھیں مختلف امور کی پہلی کڑی اور سبب اولی بتایا گیا ہے اور سورۃ نازعات میں ان کی نسبت آتا ہے فَِالْمُدِبِّرَاتِ اَمْرًا ہم شہادت کے طور پر ان ارواح کو پیش کرتے ہیں جو کارخانہ عالم کو چلاتی ہیں پس جب ملائکہ کارخانہ عالم کو چلانے والے اور پہلی علت ہیں تو جو انھیں دیا جائیگا وہ ان کے لئے ہی نہ ہو گا بلکہ ان افراد کے لئے بھی ہو گا جو ان کے تابع ہیں چنانچہ اس حدیث میں جو پہلے بیان ہو چکی ہے کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی شخص کی قبولیت دنیا میں پھیلانا چاہتا ہے تو جبریل سے کہتا ہے اور جبریل دوسرے ملائکہ سے۔ اور پھر ملائکہ سے یہ بات عالم سفلی میں اُتر آتی ے اور اس شخص کی قبولیت انسانوں میں پھیل جاتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کارخانہ عالم ایک زنجیر کی طرح ہے اور اس کی پہلی کڑی ملائکہ ہیں اور جو زنجیر کی پہلی کڑی کو ہلائے اس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ اس کے ہلنے سے بعد کی کڑیاں بھی حرکت کریں اسی طرح جب اللہ تعالیٰ ملائکہ کو کوئی حکم دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عالم دُنیاوی میں اس قسم کی تحریک شروع ہو جائے جب ملائکہ کو آدم کی فرمانبرداری کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا تو اس کا بھی یہی مطلب تھا ملائکہ ت وپہلے مخاطب تھے لیکن حکم سب دُنیا کے لئے تھا پس جس نے اس حکم کا انکار کیا نافرمان ٹھہرا۔ چنانچہ ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ اس کی نسبت فرماتا ہے کہ مَامَنَعَکَ اَلَّاتَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُکَ (اعراف ع ۲) جب میں نے تجھے حکم دیا تھا تو تجھے سجدہ کرنے سے کس امر نے رکوا اس سے معلوم ہوا کہ ملائکہ کے حکم میں سب کے لئے حکم شامل تھا اور ابلیس بھی اس کا ویسا ہی پابند تھا جیسا کہ اور مخلوق۔ پس ابلیس کی نافرمانی کا ذکر یہ ثابت نہیں کرتا کہ وہ ملائکہ میں سے تھا بلکہ یہ ثابت کرتا ہے کہ اس نے ملائکہ کی تحریک کا انکار کیا اور خدا تعالیٰ کے حکم کو جسے فرشتوں نے اگے چلایا قبول نہ کیا اَبیٰ وَاسْتَکْبَرَوَ کَانَ مِنَ الْکَافِرِیْنَ۔ اس جملہ میں ملائکہ کی تحریک کے انکارکے چار اسباب بیان فرمائے ہیں (۱) اول اِبَاء اِبَاْء کے معنے جیسا کہ حل لغات میں بتائے جا چکے ہیں ایسی چیز کے رد کرنے کے ہیں جسے انسان ناقص اور اپنے مناسب حال نہ سمجھتے ہوئے رد کر دے۔ پس ابی کے معنے ہوئے کہ ابلیس نے اس تحریک کو اپنے مناسب حال نہ سمجھا اور ناقص خیال کیا اور اس وجہ سے اِسے نفرت کرتے ہوئے ٹھکرا دیا۔ سچائیوں کے انکار کا یہ ایک بہت بڑا سبب ہوتا ہے لوگ سچائی کو اس نظر سے نہیں دیکھتے کہ ان سے دُنیا کو کیا فائدہ پہنچے گا بلکہ اس نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ ان کے قریب کے مصالح پر ان کا کیا اثر پڑے گا اور جب ان کے قریب کے مصالح پر برا اثر پڑتا ہے تو وہ اپنے انجام کو اور دنیا کے فوائد کو بھلا دیتے ہیں اور سچائی کی مخالفت کرنے لگ جاتے ہیں (۲) دوسری وجہ اِسْتَکْبَرَ کے ان معنوں سے بتائی ہے جو تکبر کرنے کے ہیں۔ ابلیس نے اس وجہ سے آدم کی فرمانبرداری سے انکار کیا۔ کہ وہ اپنے آپ کو بڑا سمجھتا تھا اور آدم کی اطاعت میں اپنی بڑائی کے کھوئے جانے کا خطرہ محسوس کرتا تھا قرآن کریم میں دوسری جگہ آتا ہے کہ ابلیس نے آدم کی فرمانبرداری سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ خَلَتْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ (اعراف ع ۲ و ص ع۵) میں اس سے بہتر ہوں کیونکہ تُو نے اسے تو پانی ملی ہوئی مٹی سے بنایا ہے اور مجھے آگ سے بنایا ہے یعنی یہ تو گیلی مٹی کی طرح غلامانہ فطرت رکھتا ہے جس سانچے میں چاہو اسے ڈھال لو۔ مگر میں تو آگ ہوں کسی کی بات مان نہیں سکتا۔ آزاد مزاج رکھتا ہوں۔ ایسے غلام مزاج والے کی فرمانبرداری کس طرح کر سکتا ہوں۔
صداقت کے انکار کی یہ دوسری وجہ بھی عام ہے صداقت کے ساتھ جو انکسار اور فروتنی انسانی کی طبیعت میں پیدا ہو جاتی ہے اسے صداقت کے دشمن حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ملک و ملت کے مفاد کے خلاف سمجھتے ہیں اور ایسے لوگوں کو قوم کا دشمن اور ملک کا غدار خیال کرتے ہیں اور اپنی شورش پسند اور شریر طبیعت پر فخر کرتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اس جارحانہ عادت سے وہ ملک اور قوم کو اعلیٰ مقام پر لے جائیں گے اور یہ خیال نہیں کرتے کہ حقیقی ترقی استقلال اور قربانی اور پابندی نظام سے حاصل ہوتی ہے نہ کہ شورش اور فساد سے کہ وہ عارضی طور پر جاذب توجہ ہوتا ہے مستقل فوائد کا موجب نہیں ہو سکتا۔
استکبار کے لفظ سے اس طرف بھی اشارہ ہے کہ ایسے لوگوں کے لئے اصل روک یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی سرداری کھوئے جانے سے ڈرتے ہیں۔ قوم کا فائدہ اور دُنیا کا نفع ان کے سامنے نہیں ہوتا۔
(۳) تیسری وجہ استکبار کے ان معنوں سے بتائی ہے جو بڑا سمجھنے کے ہیں جیسا کہ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے استکبار کے ایک معنی تکبر اور حود پسندی ہیں اور دوسرے کسی چیز کو بڑا سمجھنے کے ہیں۔ قرآن کریم میں یہ لفظ ان معنوںمیں بھی استعمال ہوا ہے فرماتا ہے وَقَالَ الَّذِیْنَ لَایَرْجُوْنَ لِقَآئَ نَالَوْلَا اُنْزِلَ عَلَیْنَا الْمَلٰٓئِکَۃُ اَوْنَرٰی رَبَّنَا لَقَدِ اسْتَکْبَرُوْافِیْ اَنْفُسِہِمْ وَعَتَوْا عُتُوًّا کَبِیْرًا (فرقان ع ۳) یعنی جو لوگ ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے انہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعاوی کو سن کر کہا کہ اگر فرشتے اترتے ہیں تو ہم پر کیوں نہیں اُترتے اور اگر خدا تعالیٰ کی کو کوئی دیکھ سکتا ہے تو ہمیں خدا تعالیٰ کیوں نظر نہیں آتا۔ بات یہ ہے کہ یہ اپنے دلو ںمیں ان دونوں باتوںکو بہت بڑا اور ناممکن سمجھتے ہیں اور شرارتوں میں حد سے بڑھ گئے ہیں۔
یہ تیسری وجہ بھی صداقتوں کے انکار میں بہت بڑا دخل رکھتی ہے منہ سے تو مخالف یہ کہتے ہیں کہ انبیاء جھوٹ بول رہے اور قوم کے دشمن ہیں لیکن اپنے دلوں میں یہ خیال کرتے ہیں کہ قوم کو جس مقام تک پہنچانے کے وہ مدعی ہیں اسے حاصل نہیں کیا جا سکتا گویا بظاہر مخالفت کی وجہ تو قوم سے غداری بیان کرتے ہیں اور بہ باطن ان کے دعووں کو ناقابل حصول سمجھتے ہیں اور اس مایوسی کی وجہ سے ان فربانیوں کے لئے جو ان کے ساتھ مل کر کرنی پڑتی ہیں اپنے نفوس میں جرأت نہیں پاتے۔
(۴) چوتھی وجہ جو ابلیس کے انکار کا سبب ہوئی یہ بیان فرمائی ہے کہ وَکَانَ مِنَ الْکَافِرِیْنَ ابلیس پہلے سے منکروں میں شامل تھا یعنی صداقتوں کے انکار کی اسے عادت تھی یہ وجہ بھی اکثر لوگوں کو صداقت کے قبول کرنے میں روک بنتی ہے وہ اچھے اخلاق نہ رکھنے کی وجہ سے اچھی باتو ںکا انکار کرنے کے عادی ہو جاتے ہیں اور کمزوری اور بزدلی اور اچھی باتو ںکے ترک کرنے کی عادات کی وجہ سے جب صداقت ان پر کھل بھی جاتی ہے اسے قبول کرنے کی جرأت نہیں کرتے ایسے ہزاروں لوگ ہر زمانہ میں پائے جاتے ہیں کہ صداقت تو ان پر کھل جاتی ہے لیکن جس طرح عنکبوت اپنے گرد خود ایک جالاتنکر اس میں گرفتار ہو جاتا ہے وہ بھی سچائیوں کے انکار کا ایک ایسا جالا اپنے گرد تن چکے ہوتے ہیں کہ باوجود صداقت کا علم ہو جانے کے اسے قبول کرنے کی جرأت اور توفیق نہیں پاتے۔ ابلیس میں یہ چاروں عیب جمع تھے وہ آدم کی تعلیم کو اپنے مفاد کے خلاف سمجھتا تھا وہ آدم سے اپنے آپ کو دنیوی وجاہت میں بڑا سمجھتا تھا اور اس کی اطاعت اسپر گراں گزرتی تھی وہ آدم کے مطمح نظر کو ناقابلِ حصول سمجھتا تھا اور اس کے دعاوی کو ایک ہوائی قلعہ خیال کرتا تھا وہ اس کے بیان کردہ عقائد کا ایک حد تک قائل تھا لیکن جھوٹ سے ملوث زندگی بسر کرنے کی وجہ سے ان کا قبول کرنا اس کے لئے ناممکن ہو گیا تھا کیونکہ اس کا دل اپنے سابق اعمال کے جال میں پھنس رہا تھا اج بھی صداقتوں کے منکروں کی یہی حالت ہے کاش لوگ ان چاروں عیبوں سے پاک ہو کر صداقتوں کو سمجھنے کی کوشش کریں تو انہیں معلوم ہو جائے کہ اس وقت بھی خدا تعالیٰ نے دُنیا کے لئے ترقی کا ایک وسیع دروازہ کھولا ہے اور اسلام کے غلبہ کے سامان پیدا کئے ہیں مگر تھوڑے ہیں جو اس موت کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں جس کے بعد انہیں بھی اور اسلام کو بھی نئی زندگی ملے گی وہ وقتی قربانیوں پر جان دیتے ہیں اور دائمی قربانی کے دینے سے کتراتے ہیں کاش ان کے دل کھل جائیں کاش ان کے دلوں کے زنگ دُھل جائیں۔
اِبْلِیْس۔ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے کہ ابلیس بَلَسَ اور اَبْلَسَ سے بنا ہے اَبْلَسَ کے معنی ہیں (۱) نیکی کا مادہ کم ہو گیا (۲) ہمت ٹوٹ گئی اور غمگین ہو گیا (۳) اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہو گیا (۴) حیران رہ گیا اور اسے کوئی راہ کام کی نظر نہ آئی۔ ان معنوں کے رُو سے ابلیس کے معنی ہوئے وہ ہستی جس میں نیکی کا مادہ کم ہو گیا اور بدی کی طاقتیں زیادہ ہو گئیں جس کی ہمت ٹوٹ گئی اور ناکافی کے غم نے اسے دبا لیا جو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہو گیا جس نے اپنے مقاصد کے پانے کے لئے کوئی راستہ کھلا نہ پایا اور حیران رہ گیا ان معنو ںکو مدنظر رکھتے ہوئے یہ سمجھ میں آ سکتا ہے کہ یا تو یہ نام صفاتی طور پر کسی ایسی رُوح کو دیا گیا ہے جو اس قسم کی کیفیات اپنے اندر رکھتی ہے او ریا پھر یہ صفاتی نام کسی ایسے انسان کا ہے جس کا نام خواہ کچھ ہو مگر اس کی دلی کیفیت کے لحاظ سے وہ اس قسم کے نام پانے کا مستحق تھا اور قرآن کریم نے اسے یہ نام دیا ہے۔
قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بلیس کا نام قرآن کریم میں گیارہ جگہوں میں آتا ہے (۱) یہی مقام جس کی تفسیر لکھی جا رہی ہے (۲) اعراف (۳ و ۴) حجر دو دفعہ (۵) بنی اسرائیل (۶) کہف (۷) طہ (۸) شعراء (۹) سباء (۱۰ و ۱۱) ص۔ ان گیارہ مقامات میں سے سوائے شعراء اور سباء کے باقی سب جگہ آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کے ذکر میں ابلیس کا ذکر آتا ہے باقی دو جگہوں میں آدم کے سجدہ کا ذکر نہیں۔ سورۃ شعراء میں یہ ذکر ہے کہ ابلیس کے سب تابع جہنم جائیں گے اور سورۂ سباء میں یہ ذکر ہے کہ سباء کی قوم نے ابلیس کے گمان کو پورا کر دیا یعنی ابلیس نے انہیں اپنا شکار سمجھا اور وہ اس کا شکار بن گئے۔
بہرحال جہاں آدم کا ذکر ہے وہاں سجدہ نہ کرنے کے موقعہ پر ہر جگہ ابلیس کا لفظ استعمال ہوا اس کے مقابل پر آدم کو ورغلانے کی کوشش کا جہاں ذکر ہے وہاں ہر جگہ ہی شیطان کا لفظ استعمال کیا گیا ہے کسی ایک جگہ بھی ابلیس کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا اس فرق سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم نے ابلیس اور شیطان کے الفاظ کے استعمال میں ایک خاص امتیاز سے کام لیا ہے اور یہ امتیاز بتاتا ہے کہ یہ سجدہ نہ کرنے والا ابلیس اور آدم کو دُکھ میں ڈالنے کی کوشش کرنے والا شیطان دو الگ وجود ہیں۔
جب ہم دیکھتے ہیں کہ آدم کو اللہ تعالیٰ نے صاف لفظوں میں فرما دیا تھا کہ ابلیس کی بات کو نہ ماننا یہ تمہارا دشمن ہے تو اس کے بعد آدم کا ابلیس کے دھوکے میں آنا سمجھ میں نہیں آتا چنانچہ سورۂ طہ میں آتا ہے فَقُلْنَا یٰٓاٰدَمُ اِنَّ ھٰذَا عَدُوٌّلَّکَ وَ لِزَوجِکَ فَلَا یُخْرِ جَنَّکُمَا مِنَ الْجَنَّۃِ فَتَشْقٰی (ع ۷) یعنی ہم نے ابلیس کے سجدہ سے انکار کے بعد آدم سے کہ دیا تھا کہ یہ ابلیس تیرا اور تیری بیوی یا تیرے ساتھیوں کا دشمن ہے پس ایسا نہ ہو کہ یہ تم دونوں کو جنت سے نکال دے اور تو تکلیف میں پڑ جائے اس واضح ارشاد کے بعد آدم علیہ السلام ابلیس کے دھوکے میں نہ آ سکتے تھے سوائے اس کے وہ خدا تعالیٰ کی نافرمانی پر آمادہ ہوتے مگر قرآن کریم اس کا انکار فرماتا ہے اور فرماتا ہے فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا (طہ ع ۶) یعنی آدم علیہ السلام سے جو غلطی ہوئی وہ بھول سے ہوئی اور ہم نے اس میں اس غلطی کے ارتکاب کے متعلق کوئی ارادہ نہیں پایا۔
ان دونوں امور کی تطبیق اس طرح ہو سکتی ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ ابلیس اور تھا اور وہ شیطان جس نے آدم علیہ السلام کو دھوکادیا اور تھا۔ چونکہ آدم کو ابلیس سے بچنے کا حکم دیا تھا وہ اس کے ظل اور نمائندہ کو ابلیس کا نمائندہ سمجھنے میں غلطی کر گئے اور اسے دوسرا وجود سمجھ کر اس کے بارہ میں انہوں نے پوری ہوشیاری سے کام نہ لیا اور اس طرح غلطی کے مرتکب ہو گئے ان معنوں کا موید وہ امتیاز ہے جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے کہ قرآن کریم نے جہاں بھی سجدہ نہ کرنے کا ذکر کیا ہے وہاں ابلیس کا لفظ استعمال کیا ہے اور اسی وجود سے آدم کو ہوشیار کیا گیا ہے اور جہاں دھوکا دینے والے کا ذکر کیا ہے وہاں اسے شیطان کے نام سے یاد کیا ہے۔
حقیقت جیسا کہ اوپر کے حوالہ جات سے ثابت ہوتا ہے یہ ہے کہ ابلیس تو اس وجود کا نام رکھا گیا ہے جو فرشتوں کے مقابل پر بدی کا محرک ہے اور شیطان ایک ایک عام نام ہے۔ اس ابلیس کو بھی شیطان کہہ سکتے ہیں اور ان تمام لوگوں کو بھی جو ابلیس کے نائب کے طور پر اور اس کے ورغلائے ہوئے اس دُنیا کے پردہ پر بدیوں کی راہنمائی کرتے ہیں اور نبیو ںاور ان کی تعلیم کا مقابلہ کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں کسی انسان کو ابلیس کے نام سے یاد نہیں کیا گیا جہاں بھی ابلیس کا ذکر ہے فرشتوں کے مقابلہ کرنے والے وجود کے متعلق یہ لفظ استعمال ہوا ہے یا بدی کی محرک رُوح کے لئے استعمال ہوا ہے جیسا کہ سورۂ شعراء اور سورۂ سباء کے مذکورہ بالا حوالوں میں گزر چکا ہے اس کے برخلاف شیطان کا لفظ مختلف ارواحِ خبیثہ کے متعلق بھی استعمال ہوا ہے اور انسانوں کے متعقل بھی استعمال ہوا ہے ارواح خبیثہ کے متعلق یہ لفظ بہت دفعہ استعمال ہوا ہے اور انسانوں کے متعلق اس کا استعمال بھی بہت ہے مگر نسبتاً کم ہے اور مندرجہ ذیل مثالوں سے ثابت ہے (۱) سورۂ بقرہ میں اللہ تعالیٰ منافقوں کی نسبت فرماتا ہے وَ اِذَا خَلَوْا اِلیٰ شَیْا طِیْنِہِمْ قَالُوْا اِنَّا مَعَکُمْ (ع ۲) جب وہ اپنے شیطانوں کے ساتھ الگ جمع ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اس آیت کے الفاظ سے یہ امر واضح ہے کہ یہاں شیاطین سے مُراد آئمہ کفر ہیں اور صحابہ نے بھی اس آیت میں شیاطین کے یہی معنی کئے ہیں (دیکھو نوٹ نمبر ۱۵ سورہ بقرہ) اسی طرح قرآن کریم میں آتا ہے کہ لوگ مومنوں سے کہتے ہیں کہ کفار بڑی تعداد میں ان پر حملہ کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں پھر فرماتا ہے اِنَّما ذٰلِکُمُ الشَّیْطٰنُ یُخَوِّفُ اَوْلیَآئَ ہٗ فَلَا تَخَا فُوْ ھُمْ وَ خَافُوْنِ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ (آل عمران ع ۱۸) یعنی یہ تو شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے تم کو ڈراتا ہے پس تم کفار سے مت ڈرو بلکہ اگر مومن ہو تو مجھ سے ڈرو۔ اس عبارت سے ظاہر ہے کہ یہاں شیطان سے مراد کفار کے وہ ایجنٹ ہیں جو مسلمانو ںکو کفار سے مرعوب کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے چنانچہ سابق مفسرین نے بھی اس جگہ شیطان سے مراد نعیم بن سعود یا ابو سفیان یا عام کفار مراد لئے ہیں جو مسلمانوں کو کفار کی طاقت سے ڈراتے تھے (فستح البیان ابن کثیر) اسی طرح قرآن کریم میں ہے وَکَذٰ لِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُ وًّاشَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَالْحِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُہُمْ اِلیٰ بَعْضٍ (انعام ع ۱۴) یعنی اسی طرح ہم نے ہر نبی کا دشمن انسانوں میں سے شیطانوں اور جنوں میں سے شیطانوں کو بنایا ہے وہ آپس میں ایک دوسرے کے دلوں میں وسوسے ڈالتے ہیں۔
غرض شیطان کا لفظ قرآن کریم میں ارواحِ خبیثہ کے متعلق بھی استعمال ہوا ہے جو دلوں میں وساوس ڈالتے ہیں اور انسانوں کے متعلق بھی استعمال ہوا ہے لیکن ابلیس کا لفظ صرف اسی ہستی کی نسبت استعمال کیا گیا ہے جس نے آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کیا پس ابلیس سے مُراد تو وہ رُوح خبیثہ ہے جو فرشتوں کے مدمقابل ہے اور دلوں میں وساوس ڈالتی ہے اور شیطان اسے بھی کہتے ہیں اور اس کے ان اظلال کو بھی جو انسانوں میں سے اس جیسے کام کرتے ہیں۔
اس جگہ ایک نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو دو ناموں سے یاد کیا ہے (۱) ابلیس اور (۲) شیطان حل لغات میںبیان کیا جا چکا ہے کہ ابلیس کے معنے مایوس اور حیران کے ہیں اور شیطان کے معنے حق سے دور ہونے والے یا حق سے دور کرنے والے کے اور جلنے والے کے ہیں۔ پہلا نام اس وجود کا ابلیس رکھا گیا ہے اور دوسرا نام شیطان۔ اس سے یہ نفسیاتی نکتہ نکلتا ہے کہ گمراہی اور ضلالت کا تغیر جب بھی انسان میں پیدا ہوتا ہے اس کے دو مدارج ہوتے ہیں پہلے مایوسی اور حیرانی یا دوسرے لفظوں میں جہالت پیدا ہوتی ہے اور اس کے بعد حق سے دوری اور دوسروں کو گمراہ کرنے اور حسد کی حالت جو آگ میں جلنے کے مشابہ مرض ہے پیدا ہوتی ہے پس گناہ سے بچنے کے لئے انسان کو مایوسی اور جہالت کا مقابلہ کرنا چاہیئے اگر مایوسی اور جہالت کو دنیا سے دُور کر دیا جائے تو گمراہی اور دوسروں کو گمراہ کرنے اور حسد کا فساد بھی خود بہ خود دور ہو جائے کیونکہ یہ دوسری حالت پہلی حالت کا نتیجہ ہے۔
ملائکہ اور ابلیس
اگر کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو کیوں پیدا کیا۔ کیا وہ اپنے بندوںکو خود گمراہ کرنا چاہتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے خیر و شر کی مقدرت بخشی تو ساتھ ہی ملائکہ اور ابلیس اور ان کے اظلال کا وجود بھی پیدا کیا کہ ایک گروہ تو نیکی کی تحریک دلو ںمیں پیدا کرتا ہے اور دوسرا بدی کی تحریک پیدا کرتا ہے پھر جو شخص ملائکہ اور ان کے اظلال کی تحریک کو قبول کرتا ہے انعام کا مستحق ہوتا ہے اور جو ابلیس اور اس کی ذریت کی تحریک کو قبول کرتا ہے وہ سزا کا مستحق ہوتا ہے۔ انسان کے کامل ہونے کے لئے ضروری تھا کہ اس کے سامنے دونوں قسم کی تحریکات پیش ہوں تا وہ اپنے فیصلہ سے ایک تحریک کو قبول کرے اور اعلیٰ انعامات کا وارث ہو اگر بدی کی تحریکات اس کے راستہ میں نہ آئیں تو وہ اعلیٰ انعامات کا مستحق نہیں بن سکتا۔
ہاں ایک بات قرآن کریم نے واضح فرما دی ہے اور وہ یہ کہ ابلیس یا شیطان کسی کو بھی انسان پر تصرف حاصل نہیں لوگ اپنی مرضی سے ان کی اتباع کریں تو کریں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطَانٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْغَاوِیْنَ (الحجر ع ۳) یعنی اے ابلیس میرے بندوں پر تجھے دلیل اور برہان کے ذریعہ سے غلبہ حاصل نہ ہو گا ہاں مگر جو سرکش لوگ تیرے متبع ہو جائیں گے انہیں تیری باتیں وزنی معلوم ہونگی اسی طرح سورۂ بنی اسرائیل میں بھی ابلیس کے متعلق فرمایا ہے اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطَانٌ وَکَفٰی بِرَبِّکَ وَکِیْلًا (بنی اسرائیل ع ۷) اے ابلیس تھے میرے بندوں پر دلائل اور براہین کے ذریعہ غلبہ حاصل ن ہو گا اور تیرا رب ان کا کارساز ہو گا۔
میں نے سُلْطَانٌ کے معنے دلیل اور برہان کے ذریعہ غلبہ کے کئے ہیں یہ معنی قرآن کریم سے ثابت ہیں۔ سورۂ کہف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ھٰٓؤُ لَآئِ قَوْمُنَا اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اٰلِھَۃًط لَوْلَا یَاْ تُوْنَ عَلَیْہِمْ بِسُلْطٰنٍ بَیِّنٍط (کہف ع ۲) یعنی یہ ہماری قوم ہے جس نے خدا تعالیٰ کے سوا دوسرے معبود اختیار کر لئے ہیں اگر یہ سچے ہیں تو کیوں ان کے بارہ میںکوئی کھلی دلیل پیش نہی کرتے۔ اسی طرح یہ لفظ قرآن کریم کی دوسری آیات میں بھی واضح دلیل کے معنوں میں استعمال ہوا ہے پس ابلیس کو خدا تعالیٰ کے بندوں کے خلاف کوئی سلطان حاصل نہ ہونے کے یہی معنے ہیں کہ ابلیس کا پلہ دلیل کی وجہ سے کبھی بھاری نہ ہو گا بلکہ وہ جھوٹ اور خوف اور لالچ اور حرص کے ذریعہ سے لوگوں کو ورغلائے گا جیسا کہ فرماتا ہے وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْھُمْ بِصَوْرِ تِکَ وَاَجْلِبْ عَلَیْہِمْ بِخَیْلِکَ وَرَجِلِکَّ وَشَارِ کْھُمْ فِی الْاَمْوالِ وَالْاَ وْلَادِ وَعِدْ ھُمْ ط وَمَا یَعِدُ ھُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا (بنی اسرائیل ع ۷) یعنی اے ابلیس ان میں سے جس پر تیرا بس چلے اسے اپنی آواز سے خوف دلا کر یا دھوکا دے کر اپنی طرف بلا اور اپنے سواروں اور پیادو ںکو ان پر چڑھالا اور ان کے ہلوں اور اولادوں میں حصہ دار بن اور ان سے جھوٹے وعدے کر اور شیطان جو وعدے بھی کرتا ہے فریب دینے کے لئے ہی کرتا ہے۔ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ ابلیس کے ورغلانے کا طریق یہ نہیں کہ وہ کوئی معقول دلیل دیتا ہے بلکہ اس کا طریق یہ ہے کہ دلوں میں خوف پیدا کرتا ہے اور جھوٹے وعدے دیتا ہے پھر جو لوگ اس خوف اور جھوٹ کی وجہ سے اس کا ساتھ دینے ہیں ان کی مدد سے ان سے کم درجہ کے خراب لوگو ںکو ڈرا دھمکا کر ہدایت سے محروم کر دیتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ قرآن کریم کی تعلیم کے رو سے ابلیس کی تحریکات کسی دلیل پر مبنی نہیں ہوتیں بلکہ خوف اور جھوٹے وعدوں پر مبنی ہوتی ہیں اس وجہ سے نہیں کہہ سکتے کہ خدا تعالیٰ نے ابلیس کو پیدا کر کے انسان کو گمراہ کیا ہے کیونکہ گمراہی کا الزام اللہ تعالیٰ پر تب لگ سکتا تھا اگر ابلیس کی تائید میں بھی اس نے کوئی علمی دلیل پیدا کی ہوتی۔ ولیلیں سب ملائکہ کی تائید میں ہوتی ہیں پس جو لوگ ابلیس کی اتباع کرتے ہیں اپنی مرضی سے کرتے ہیں اور اپنے عمل کے خود ذمہ دار ہوتے ہیں۔
یہ بھی یاد رکھناچاہیئے کہ قرآن کریم کی تعلیم کے رو سے لمہ خیر یعنی نیکی کی تحریک کا پلہ بھاری ہوتی ہے چنانچہ اس کی پہلی دلیل تو یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو ملائکہ کے تابع قرار دیا ہے جو امر کہ اِلَّا اِبْلِیْسَ کے الفاظ سے ظاہر ہے سجدہ کا حکم ملائکہ کو دیا گیا تھا لیکن اس کی نافرمانی پر ابلیس کو بھی تنبیہہ کی گئی ہے اور میں بتا چکا ہوں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ دُنیا کی ہر چیز ملائکہ کے تابع رکھی گئی ہے پس جو حکم ملائکہ کو دیا گیا اس میں ابلیس شامل تھا پس اِلَّا اِبلِیْس کہہ کر اس طرف اشدہ کیا گیا ہے کہ اصل تحریک ملکی ہے اس سے انحراف کا نام ابلیس تحریک ہوتا ہے جس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ ملائکہ کو ابلیس پر غلبہ حاصل ہے۔ دوسری دلیل اس امر کی یہ ہے کہ قرآن کریم نے بار بار فطرتِ انسانی کے نیک ہونے کا اظہار فرمایا ہے ہاں بعد میں انسان خود اسے خراب کر دیتا یا اس کے والدین یا مربی اسے خراب کر دیتے ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَ نَفْسٍ وَّمَا سَوّٰلھَا فَاَ لْھَمَھَا فُجُوْرَھَا و تَقْوٰھَا قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰمَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰہَا (الشمس ع ۱) یعنی ہم انسانی جان اور اس کی درستی اور تکمیل کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں اس کے مکمل بنانے کے بعد جن باتوں سے اس کے اندر خرابی پیدا ہو سکتی ہے اور جن امور سے اس میں نیکی پیدا ہو سکتی ہے ہم نے ان سے اسے خبردار کیا پس جو شخص اپنے نفس کو بیرونی اثرات سے پاک رکھتا ہے وہ کامیاب ہو جاتا ہے اور جو شخص اپنے نفس کو مٹی میں ملا دیتا ہے ناکام ہو جاتا ہے ان آیات سے ظاہر ہے کہ نفسِ انسانی کو پاک بنایا گیا ہے او ربُرے بھلے کی پرکھ کا مادہ اس میں رکھ دیا گیا ہے۔ اس کے بعد انسان کا کام صرف اس قدر ہے کہ فطرت کے مطابق چلے اگر وہ ایسا کرے اور بیرونی اثرات کو جو فطرت کے خلاف ہوں قبول نہ کرے تو وہ نیکی میں ترقی کرتا چلا جاتا ہے لیکن جو ایسا نہ کرے اور فطرت کے خلاف اثرات کو قبول کر کے اپنے پاک نفس کو گندگی سے ملوث کر دے وہ ہلاک ہو جاتا ہے دوسرے لفظوں میں اس کے یہ معنی ہیں کہ انسان اپنی پیدائش کے لحاظ سے ملائکہ کی تحریکوں کو قبول کرنے کے قابل بنایا گیا ہے پیدائش کے وقت اس میںابلیس کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ لیکن بعد میں وہ خود ابلیس کو دعوت دے کر ہلاک ہو جاتا ہے احادیث نبی کریمؐ میں بھی اس مضمون کو وضاحت سے بیان کیا گیا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کُلَّ مَوْلُوْدِ یُوْلَدَ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَاَبَوَاہُ یُھَوِّدَانِہٖ اَوْیُنَصِّرَانِہٖ اَوْیُمَجِّسَانِہٖ (بخاری کتاب الجنائز باب ماقیل فی اولاد المشرکین) یعنی ہر بچہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کے ماوہ کے ساتھ پیدا کیا جاتا ہے اس کے بعد اس کے باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے کسی بچہ کی فطرت میں خرابی پیدا نہیں کی۔ یہ خرابی بعد میں پیدا ہوتی ہے گویا اصل تعلق بچہ کا ملائکہ سے ہوتا ہے۔ ابلیس سے اس کا تعلق خارجی اسباب سے پیدا ہوتا ہے۔
بعض حال کے مفسرین نے اس آیت میں ابلیس کی ضرورت یہ بتائی ہے کہ وہ سفلی زندگی کا مظہر ہے جس میں سے گذر کر انسان کو رُوحانی ترقی حاصل ہوتی ہے مگر یہ تشریح درست نہیں۔ کیونکہ اگر سفلی زندگی سے مُراد جسمانی خواہشات کا پورا کرنا ہے جیسے کھانا پینا پہننا یا شہوات بہ حد اعتدال پورا کرنا تو اسے ابلیس سے رکھنے والی زندگی نہیں کہا جا سکتا ان تقاضوں کو اللہ تعالیٰ کے انبیاء بھی پورا کرتے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے یٰٓاَ یُّھَا لرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًا (مومنون ع ۴) اے رسولو پاک چیزیں کھائو اور نیک اعمال کرو یعنی طیبات کا استعمال نیک کاموں کی توفیق دیتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ لَارَھْبَانِیَتَۃَ فِی الْاِسْلَامِ (مسند احمد بن حنبل جلد ۶) اسلام میں رہبانیت نہیں یعنی اسلام طیب اشیاء کے استعمال سے خواہِ کھانے پینے کے متعلق ہوں یا پہننے اوڑھنے کے متعلق ہوں یا رہنے سہنے کے متعلق ہوں منع نہیں کرتا بلکہ ضرورت کے مطابق ان اشیاء کے استعمال نہ کرنے کو گنہ قرار دیتا ہے پس جہاں تک طیبات کو حد اعتدال کے اندر استعمال کرنے کا سوال ہے اسلام اسے دین کا حصہ قرار دیتا ہے اور ان کے ترک کو گنہ گردانتا ہے اب اگر اس فعل کو ابلیس کے متعلق قرار دیا جائے اور سفلی زندگی کہا جائے تو اس کے یہ معنے ہونگے کہ گویا خدا تعالیٰ تمام انبیاء اور مومنوں کو ابلیس اور شیطان سے تعلق پیدا کرنے کا حکم دیتا ہے۔
اگر کہا جائے کہ سفلی زندگی سے مُراد حدِّ اعتدال سے زیادہ ان اشیاء کا استعمال ہے تو اس صورت میں بھی مذکورہ بالا خیال غلط قرار پاتا ہے تو اس صورت میں بھی مذکورہ بالا خیال غلط قرار پاتا ہے کیونکہ اس صورت میں سفلی زندگی کو اعلیٰ زندگی کے حصول کے لئے ضروری قرار دینے کے یہ معنے ہونگے کہ خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے لئے انسان کو کھانے پینے اور پہننے میں اسراف کرنا چاہیئے اس کے بعد اسے اعلیٰ زندگی مل سکتی ہے یا دوسرے لفظوں میں یہ کہ سب انبیاء اور کاملِ مومن خدا تعالیٰ کو پانے سے پہلے اسراف کرتے اور حدِّ اعتدال سے بڑھتے ہیںاور یہ بھی بالبداہت باطل ہے پس ابلیس کی یہ تشریح کہ وہ سفلی زندگی کا مظہر ہے اور اس میں سے ہو کر خدا تعالیٰ تک پہنچا جا سکتا ہے ایک غلط عقیدہ ہے اور قرآن کی تعلیم کے خلاف ہے۔


۳۶؎ حل لغات
اُسْکُنْ:۔ واحد امر مخاطب کا صیغہ ہے اور سَکَنَ (یَسْکُنُ) سُکُوْنًا کے معنے ہیں قَرَّ کسی جگہ قرار پکڑا۔ ٹھہر گیا۔ سَکَنَ فُلَانٌ دَارَہٗ کے معنے ہیں اِسْتَوْطَعَہَا وَ اَقَامَ بِھَا وہ اپنے گھر میں قیام پذیر ہوا۔ رہ پڑا اور بس گیا (اقرب) پس اُسْکُنْ کے معنے ہونگے۔ رہو۔
زوْجُکَ:۔ زَوْجٌ کے معنے کے لئے دیکھو حل لغات سورۂ ہذا ۲۶؎
اَلْجَنَّۃُ:۔ اَلْجَنَّۃُ کے لئے دیکھو حل لغات سورہ ہذا ۲۶؎
رَغَدَّا:۔ رَغَدَ عَیْشُہُ رغَدًًا کے معنے ہیں طَابَ وَاتَّسَعَ اس کے لئے زندگی کے سامان وسیع طور پر اور بافراغت مہیا ہو گئے (اقرب) تاج العروس میں ہے الرَّغَدُ:۔ اَلْکَثِیْرُ الْوَاسِعُ الَّذِیْ لَایُعْیِیْکَ مِنْ مَّالٍ اَوْمَآئٍ اَوْ عَیْشٍ اَوْکَلَائٍ ضروریات زندگی کا سہولت اور کثرت کے ساتھ مل جانا رغد کہلاتا ہے (تاج)
حَیْثُ:۔ ظرف مکان ہے یعنی یہ بتاتا ہے کہ کوئی کام کس جگہ واقع ہوا ہے جمہور علماء کے نزدیک اس کے بعد جملہ کا آنا ضروری ہے۔ بعض اوقات اس کے ساتھ ما لگتا ہے یعنی حَیْثُ کی بجائے حَیثُما کہہ دیتے ہیں اسوقت اس کے معنی میں شرط کا مفہوم آ جاتا ہے اس لئے یہ اپنے بعد دو جملوں کو جزم دیتا ہے جیسے کہ ایک شاعر کا شعر ہے ؎
حَیْثُمَا تَسْتَقِمْ یُقَدِّرْ لَکَ
اللّٰہُ نَجَاحًا فِی غَابِرِ الْاَزْمَانٖ کبھی یہ کسی فعل کے وقوع کا زمانہ بتانے کے لئے آتا ہے چنانچہ اوپر کا شعر بھی انہی معنو ںمیں استعمال ہوا ہے (اقرب) پس حَیْثُ شِئْتُمَا کے معنی ہونگے جہاں سے چاہو۔ (۲) جب چاہو۔
اَلظّٰلِمِیْنَ:۔ ظَلَمَ سے اسم فاعل ظَالِمٌ آتا ہے اور اَلظّٰلِمُوْنَ اور اَلظَّالِمِیْنَ اس کی جمع ہیں ظَلَمَ فُلَانٌ ظُلْمًا وَظَلْمًا کے معنے ہیں وَضَعَ الشَّیْئَ فِیْ غَیْرِ مَوْضِعِہٖ کسی چیز کا بے محل اور بپے موقع استعمال کیا نیز ظَلَمَ فُلَانًا کے معنے ہیں فَعَلَ لَہُ الظُّلْمَ اس پر ظلم کیا۔ ظَلَمَ فُلَانٌ حَقَّہٗ:۔ فَقَصَہٗ اِیَّاہُ اس کو اس کا حق پورا نہ دیا (اقرب) نیز حد سے بڑھ جانے اور دوسرے کی ملکیت پر دست درازی کرنے کو بھی ظلم کہتے ہیں (اقرب) مفردات میں ہے کہ ظلم کی تین قسمیں ہیں (۱) ظُلْمٌ بَیْنَ الْاِنْسَانِ وَ بَیْنَ اللّٰہِ تَعَالیٰ۔ اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ظلم۔ یعنی جو حقوق اللہ تعالیٰ کے بندے کے ذمہ ہیں وہ اس کو دینے کی بجائے دوسروں کو دیئے جائیں وَ اَعْظَمُہُ الْکُفْرُ وَالشِّرْکُ وَ النِّفَاقُ اوران معنوں کے لحاظ سے سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کا انکار کیا جائے اس کے ساتھ شریک قرار دیا جائے اور نفاق سے کام لیا جائے حالانکہ مناسب تو یہ ہے کہ اللہ کے احکام کو مانا جائے اور اس کی توحید کا اقرار کیا جائے اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے (۲) ظُلْمٌ بَیْنَہٗ وَ بَیْنَ النَّاسِ لوگوں کا آپس میں ایک دوسرے پر ظلم کرنا (۳) ظَلْمٌ بَیْنَہٗ وَ بَیْنَ نَفْسِہٖ انسان کا اپنے نفس پر ظلم کرنا چنانچہ آیت مِنْہُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ میں یہی ظلم مراد ہے (مفردات) پس ظالم کے معنے ہونگے (۱) بے محل و بے موقعہ کام کرنے والا۔ (۲) کسی کے حق کو کم دینے والا۔ (۳) حد سے بڑھ جانے اور دوسرے کی ملکیت پر دست درازی کرنے والا۔ (۴) شرک کرنے والا۔ (۵) ظلم کرنے والا۔
تفسیر۔ اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ آدم اور اس کی بیوی یا آدم اور اس کے ساتھیوں کو اللہ تعالیٰ نے جنت میں رہنے کا حکم دیا جس کی تشریح دوسری جگہ یہ کی گئی ہے کہ وہ اس میں نہ بھوکا رہے گا نہ پیاسا اور نہ ننگا رہے گا اور نہ دُھوپ کی تکلیف اُٹھائے گا اور یہ بھی حکم دیا کہ وہ اس میں جہاں سے چاہیں بافراغت کھائیں۔
جنت سے مُراد بعض نے کہا ہے کہ وہی جنت ہے جس میں انسان بعد الموت جائے گا اور بعض مفسرین نے اسے اسی زمین کا کوئی ٹکڑا قرار دیا ہے۔ بائبل میں ہے اور خداوند خدا نے عدن میں پورب کی طرف ایک باغ لگایا اور آدم کوجسے اس نے بنایا تھا وہاں رکھا (پیدائش باب ۲ آیت ۸) اس کے بعد آیت ۱۴ میں یہ ذکر ہے کہ اس باغ کو دجلہ اور فرات سیراب کرتے ہیں گویا بائبل کا یہ بیان استعارہ اور حقیقت اور صحیح اور غلط سے مخلوط ہے لیکن دجلہ اور فرات کے پاس کے علاقہ کی اس سے تعیین ہو جاتی ہے چونکہ حضرت نوحؑ اور ان کی قوم کے واقعات بھی اسی علاقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور حضرت ابراہیمؑ علیہ السلام کا مولد بھی اُذ رہے جو عراق میں ہے اور جدید تحقیق سے بھی اور اور اس کے گرد کا علاقہ کھودنے سے معلوم ہوا ہے کہ یہ ملک نہایت قدیم تمدن کا گہوارہ رہا ہے پس ان حالات سے قرین قیاس یہی ہے کہ آدم کا مولد عراق کا علاقہ ہی تھا اور جس جنت کا ان کے متعلق ذکر آتا ہے وہ بھی اسی علاقہ کا کوئی مقام تھا جسے مقام کے آرام دہ ہونے اور اس اچھے نظام کی وجہ سے جو آدم نے قائم کیا جنت کہا گیا ہے۔
جیسا کہ اوپر اشارہ کیا گیا ہے آثار قدیمہ کی تازہ کھدائیوں سے یہ علاقہ ایک نہایت قدیم تمدن کا گہوارہ ثابت ہوتا ہے چنانچہ اور جو بائبل کے بیان کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام کا وطنت ھا اور جو دجلہ اور فرات کے ملنے کی گجہ کے قریب واقع ہے اس کی کھدائی جنگِ عظیم کے بعد اوّل اوّل مسٹر ہال نے اور ان کے بعد مسٹر وودلے نے کی ہے ان دونوں کی کھدائیوں کے نتیجہ میں اس شہر کے دبے ہوئے جو آثار ملے ہیں ان کا زمانہ حضرت مسیح علیہ السلام کے زمانہ سے ۳۵۰۰ سال پہلے معلوم ہوتا ہے (انسائیکلو پیڈیا برٹینکا زیر لفظ ) بلکہ بعد کی تحقیق سے یہ آثار اس سے بھی بہت پہلے کے تمدن کے معلوم ہوتے ہیں (ایضاً) پس جبکہ ہم ایک طرف مغربی عرب میں کعبہ جیسے قدیم معبد کو دیکھتے ہیں دوسری طرف مشرقی طرف اور کی قدیم ترین تہذیب کے آثار ہمیں ملتے ہیں او رمعلومہ تاریخ کے زبردست تغیرات کا اس علاقہ کو مرکز پاتے ہیں تو یہ نتیجہ نکالنا بعیداز قیاس نہیں معلوم ہوتا کہ آدم کا مولد یا بشر کی تمدنی ترقی کا مبداء یہی علاقہ تھا۔
یہ خیال کہ آدمؑ کو اس جنت میں رکھا گیا تھاجس میں نیک انسان بعد الموت جائیں گے بالبداہت باطل ہے اوّل تو قرآن کریم فرماتا ہے کہ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً میں زمین میں خلیفہ مقرر کرنے والا ہوں اور یہ امر خلافِ عقل ہے کہ آدم علیہ السلام کو انتظام تو دنیا کا سپرد کیا گیا اوررکھا انہیں آسمان پر گیا۔ دوسرے اس جنت کی نسبت جو بعدالموت ملنے والی ہے خود حضرت آدم علیہ السلام کے واقعہ کے تسلسل میں اللہ تعالیٰ سورہ حجر میں فرماتا ہے لَایَمَسُّھُمْ فِیْھَا نَصَبٌ وَّ مَا ھُمْ مِّنْھَا بِمُخْرَجِیْنَ (ع ۴) یعنی جنت سے نکالے جائینگے لیکن آدم علیہ السلام کو جس جنت میں رکھا گیا وہ اس سے نکالے گئے پس معلوم ہوا کہ آدم علیہ السلام کی جنت ارضی تھی آسمانی نہ تھی۔ تیسرے یہ کہ آدم علیہ السلام کی جنت میں شیطان کا داخل ہونا ثابت ہے بلکہ اس کی ذریت کا بھی۔ پس بفرضِ محال آدم کا جنت سماوی میں رکھنا اگر تسلیم بھی کر لیا جائے تو یہ خلافِ عقل ہے کہ آدم کے ساتھ شیطان اور اس کی ذریت کو بھی جنت میں رکھ دیا گیا۔ اس آیت سے اس امر کا بھی استدلال ہوتا ہے کہ آدم علیہ السلام پہلے کسی اور جگہ رہتے تھے پھر جب ان پر الہام الٰہی نازل ہوا تو اپنی بیوی یا ساتھیوں سمیت اس مقام میں جا بسے جسے جنت کہا گیا ہے کیونکہ آیت کے الفاظ یہ ہیں کہ اے آدم تُو اور تیرا زوج جنت میں ہی بسو پس معلوم ہوا کہ وہ پہلے کسی دوسری جگہ رہتے تھے۔
رَغَدًا کی تشریح جیسا کہ حل لغات میں بتایا گیا ہے یہ ہے کہ ضروریاتِ زندگی سہولت کے ساتھ اور کثرت کے ساتھ مل جائیں۔ اس میں تمدن کی خوبی بتائی گئی ہے تمدن ہی ہے جو انسان کے لئے بافراغت سامانِ زندگی مہیا کرتا ہے بغیر تمدن کے کھانے پینے کی اشیاء کی پیداوار کی جا سکتی ہے۔ حیوانی زندگی میں ضروری اشیاء کے پیدا کرنے کی طرف توجہ نہیں کی جا سکتی اور نہ ان کا ذخیرہ رکھا جا سکتا ہے اور کمی کے وقت انسان تکلیف اُٹھاتا ہے پس ان الفاظ میں تمدن کی خوبی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب تم مل کر رہو گے تو ضروریات زندگی کو کثرت سے پیدا کر سکو گے اور ضرورت کے موقعہ کے لئے ان کا ذخیرہ رکھ سکو گے اور یہی وہ ارضی جنت ہے جس کی بنیاد تمدن کے ذریعہ سے آدم علیہ السلام کے زمانہ سے رکھی گئی۔ جو قومیں اس تمدن کی نگہداشت کرتی ہیں ان کے تمام افراد آرام سے رہتے ہیں۔ اسلام نے اپنے ابتدائی ایام میں اس تعلیم کے مطابق عمل کیا اور مسلمانوں کا بچہ بچہ بھوک اور پیاس اور تنگی کی زندگی سے محفوظ ہو گیا۔
بظاہر یہ ایک دُنیاوی حکم معلوم ہوتا ہے لیکن حق یہ ہے کہ یہ طریق زندگی انسان کو گناہ سے بچانے والا ہے لوٹ کھسوٹ اور دھوکے فریب کا بڑا باغث غربت اور بے سرو سامانی ہوتے ہیں جو قوم اپنے تمام افراد کے کھانے پینے اور پہننے کا سامان مہیا کر دیتی ہے وہ اس کو گناہ میں پڑنے سے بچا لیتی ہے اور اس بڑے سبب کو جو ظلم اور گناہ کی طرف کھینچتا ہے دُور کر دیتی ہے پس گو بظاہریہ کام دُنیاوی اور سیاسی نظر آتا ہے لیکن حقیقتاً خالص دینی انتظام ہے اور گناہ کو جڑ سے اُکھیڑنے میںممد ہے اس وقت دُنیا میں جو جھگڑا اور فساد پھیلا ہوا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ بعض افراد تو مالا مال ہیں اور دوسرے بھوکے مر رہے ہیں اگر سب دُنیا میں ایسا نظام قائم ہو جائے کہ ہر شخص کو اس کی ضروریات زندگی سہولت سے مل جائیں تو لڑائی جھگڑے کی جڑ کٹ جائے۔
حَیْثُ شِئْتُمَا جہاں چاہو کے الفاظ سے یہ بتایا ہے کہ انسانی تمدن کے کمال کا ایک ضروری جزو یہ بھی ہے کہ انسان کو سفر اور اقامت کی سہولت حاصل ہو۔ اور اس پر سے غیر ضروری پابندیاں اُٹھا دی جائیں۔ موجودہ زمانہ کے فسادات کی ایک بڑی وجہ اس حکم کی طرف سے عدم اعتنا بھی ہے مختلف اقوام ایک دوسرے کے خلاف پابندیاں لگاتی ہیں کہ فلاں قوم ہمارے ملک میں نہ آئے یا ہمارے ملک میں نہ رہے اور اس طرح خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو اپنے لئے مخصوص کرنا چاہتی ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے سب دنیا کو سب انسانو ںکے لئے پیدا کیا ہے اور اس قسم کی روکیں پیدا کر کے دوسروں کو خدائی نعمتوں سے محروم کرنا بڑا گناہ ہے اس وقت بعض بڑے بڑے براعظموں میں صرف چند لاکھ آدمی رہ رہے ہیں اور دوسروں کو ان ممالک میں آ کر بسنے سے روکا جاتا ہے۔ ہندوستان میں چالیس کروڑ کے قریب آبادی ہے اور آسٹریلیا جو اُس سے دُگنے کے قریب ہے اس میں کل ستر لاکھ آبادی ہے۔ لیکن ہندوستانیوں کو اس میں جا کر بسنے سے روکا جاتا ہے اسی طرح جنوبی افریقہ میں ہندوستانیوں کو کامل شہری کے حقوق حاصل نہیں بلکہ اس ملک کے قدیم باشندو ںکو بھی یہ حقوق حاصل نہیں چنانچہ ہندوستان کے موجودہ سیاسی لیڈر گاندھی جی کی تمام طاقت کی بنیاد انہی زخمی جذبات پر ہے جو جنوبی افریقہ کی رہائش کے ایام میں ان کے دل میں پیدا ہوئے۔
اس قسم کے امتیاز سے دلوں میں بغض اور کشیدگی پیدا ہو جاتی ہے۔ اسلام نے آدم علیہ السلام کے زمانہ سے ہی اس قسم کی پابندیوں سے منع فرمایا ہے۔ اور تمام بنی نوع انسان کو دنیا سے یکساں فائدہ اُٹھانے کی اجازت دی ہے کاش لوگ اس تعلیم پر علم کرتے اور بعض اور فساد کا قلع قمع ہو کر یہ دُنیا جو اس وقت بعض لوگوں کے لئے جہنم بن رہی ہے سب کے لئے جنت بن جاتی۔
شائد اس جگہ کسی کے دل میں یہ شبہ پیدا ہو کہ اسلام نے بھی تو حجاز میں دوسرے مذاہب کے لوگوں کا داخلہ منع کیا ہے سو اس کا جواب یہ ہے کہ بیشک اسلام نے حجاز میں دوسرے مذاہب کے لوگو ںکا داخلہ منع کیا ہے لیکن اس کا اثر دُنیا کے اقتصادی معاملات پر نہیں پمتا حجاز ایک وادی غیر ذی زرع ہے جہاں نہ کچھ پیدا ہوتا ہے نہ اُگتا ہے پس اس علاقہ کے ساتھ دُنیا کے کھانے پینے کا تعلق نہیں جس علاقہ میں نہ فصل ہوتی ہو نہ میٹھا پانی ملتا ہو۔ اقتصادی ضرورتوں کے لئے لوگوں نے وہاں جا کر کرنا کیا ہے وہاں تو وہی لوگ جا کر بسنے کی خواہش کرینگے جن کو اس جگہ سے مذہبی لگائو ہو اور وہ لوگ خواہ کسی قوم کے ہوں اس جگہ جا سکتے ہیں شائد اللہ تعالیٰ نے اپنی اول اور آخر مسجد کے لئے اس وادی غیر ذی زرع کو چنا ہی اس لئے تھا تاکہ اس کے مذہبی نظام کے قیام کے لئے دوسرے مذاہب کو اس سے روکا جائے تو کسی کو یہ اعتراض نہ ہو کہ اس طرح ہمیں دنیوی فوائد اور ثمرات سے محروم کر دیا گیا ہے ورنہ ہو سکتا تھا کہ کعبہ کو کسی سر سبز جگہ بنایا جاتا مگر ایسا ہوتا تو دوسرے مذاہب کے لوگ دنیوی فوائد سے محروم رہ جاتے یا پھر اسے دین کے لئے محفوظ قلعہ نہ بنایا جا سکتا۔
وَلَا تَقْرَبَا ھٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ۔ اور اس شجرہ کے قریب نہ جائو ورنہ تم ظالم ہو ہو جائو گے۔
یہ شجرہ جس کے پاس جانے سے آدم کو روکا گیا تھا کیا تھا؟ یہ سوال بڑا ہی محل اختلاف بنا رہا ہے بعض نے اسے عورت کہا ہے بعض نے گندم کا دانہ اور بعض نے انگور لیکن یہ سب معانی خلافِ قرآن ہیں۔ عورت اس سے مراد نہیں ہو سکتی کیونکہ آدم علیہ السلام کو بیوی سمیت اس میں رہنے کا حکم دیا گیا ہے گندم بھی اس سے مراد نہیں ہو سکتی اور نہ انگور۔ کہ یہ دونوں اشیاء حلال ہیں اور اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام سے فرماتا ہے کہ کُلَا مِنْہَارَ غَدًا اس میں سے اپنی غذا با افراط حاصل کرو۔
بائبل میں اسے شجرۂ علم قرار دیا گیا ہے لکھا ہے ’’اور خداوند خدا نے آدم کو حکم دے کر کہا کہ تُو باغ کے ہر درخت کا پھل کھایا کر لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت سے نہ کھانا کیونکہ جس دن تو اس سے کھائے گا ضرور مرے گا‘‘ (پیدائش باب ۲ آیت ۱۶ و ۱۷) بائبل کا یہ بیان بالبداہت باطل ہے کیونکہ نیک و بد کی پہچان ہی تو انسان کو دوسرے حیوانوں سے افضل بتاتی ہے ورنہ بیل گھوڑے گدھے اور انسان میں فرق ہی کیا ہے اور جبکہ خود بائبل کہتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو اپنی صورت پر اور اپنی مانند بنایا (پیدائش باب ۱ آیت ۲۶) تو اس کے معنے ہی یہ ہیں کہ اس میں نیک و بد کی پہچان رکھی اور علم اور عرفان کا مادہ رکھا ورنہ خدا کی صورت اور اس کی مانند بنایا گیا تھا تو وہ تو اپنی پیدائش کے ساتھ ہی نیک و بد کو پہچاننے والا تھا اس غرض کے لئے اسے کسی درخت کا پھل کھانے کی کیا ضرورت تھی اپنی مانند پیدا کر کے اسے نیک و بد کی پہچان کا درخت کھانے سے روکنے کے تو یہ معنے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے خود اپنا کام باطل کیا اور بچوں کا سا کھیل کھیلا جو پہلے ایک گھروندا بناتے ہیں اور پھر اسے توڑ دیتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر اس درخت سے مراد نہ تو گندم اور انگور ہے اور نہ نیک و بد کی شناخت ہے تو پھر اس درخت سے کیا مراد ہے جس کے پاس جانے سے آدم علیہ السلام کو روکا گیا؟ قرآن کریم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس درخت کا پھل کھانے سے آدم علیہ السلام پر ان کا ننگ ظاہر ہو گیا پس معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ درخت کا لفظ استعارتاً استعمال ہوا ہے کیونکہ دُنیا کے پردہ پر کوئی ایسا درخت نہیں جس کا پھل کھانے سے انسان پر اس کا ننگ ظاہر ہوتا ہو۔ دوسرے ہم دیکھتے ہیں کہ نہ اسلامی شریعت میں اور نہ کسی قدیم شریعت میں کوئی درخت ایسا ملتا ہے جس کے پھل کا استعمال شرعاً ممنوع ہو تو یہ امر اس امر کے لئے مزید شہادت ہے کہ شجرہ سے مراد اس جگہ درخت نہیں بلکہ استعارۃً کسی اور چیز کا نام درخت رکھا گیا ہے تیسرے قرآن کریم فرماتا ہے کہ اس درخت کے قریب جانے سے آدم اور اس کی بیوی یا اس کے ساتھی ظالم ہو جائینگے یہ امر بھی ظاہر کرتا ہے کہ درخت کا لفظ اس جگہ استعارۃً استعمال ہوا ہے کیونکہ اگر کوئی ممنوع درخت ہوتا تو اس کے پھل کے استعمال سے وہ گنہگار تو ہو سکتے تھے ظالم نہیں ہو سکتے تھے کیونکہ ظلم کا لفظ یا تو شرک کے معنوں میں قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے یا پھر دوسروں کے حقوق کے تلف کرنے کے معنوں میں چوتھے ایک طرف تو ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ ایک خاص درخت کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ کر کے آدم کو منع فرمایا کہ اس درخت کے قریب نہ جانا۔ دوسری طرف فرماتا ہے کہ شیطان کے بہکانے پر انہو ںنے اس درخت کا پھل کھا لیا۔ اب اگر یہ ممنوع چیز ظاہری درخت ہوتا تو یہ قصور آدم کا دیدہ دانستہ ہو سکتا تھا۔ ایک معین درخت جس سے منع کیا گیا تھا اس کا پھل کھانا کسی صورت میں غلطی کا نتیجہ نہیں ہو سکتا۔ لیکن تیسری طرف ہم قرآن کریم میں یہ لکھا ہوا دیکھتے ہیں فَنَسِیَ (طہ ع ۶) آدم نے اس پھل کو بھول کر کھایا تھا جان بوجھ کر نہیں کھایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ درخت سے مُراد کوئی ظاہری درخت نہ تھا بلکہ کوئی اور چیز معنوی درخت ہی ہو سکتی ہے مثلاً ظلم کا درخت کہ اگر اس کے قریب جانے سے منع کیا جائے تو یہ کوئی ایسا معین حکم نہ ہو گا جس میں غلطی نہ لگ سکے یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک شخص کو ظلم سے منع کیا جائے اور وہ اس سے بچنا بھی چاہے لیکن اس سے کوئی ایسا فعل سر زد ہو جائے جو ہو تو ظلم لیکن وہ شخص اسے ظلم نہ سمجھے۔
غرض ان سب امور سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جس چیز سے آدم علیہ السلام کو روکا گیا تھا اسے استعارۃً شجر کے لفظ سے یاد کیا گیا ہے ورنہ وہ تھی کچھ اور۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم میں شجرہ کا لفظ کسی اور معنو ںبھی استعمال ہوا ہے یا نہیں یا یہ کہ استعارۃً کسی اور چیز کو بھی شجرہ کہا گیا ہے یا نہیں۔
شجرہ کا لفظ قرآن کریم میں استعارۃً اچھی اور بری باتو ںکی نسبت استعمال ہوا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلَمْ تَرَکَیْفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ (ابراہیم ع ۴) یعنی کیا تجھے معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح پاک بات کی کیفیت پاک درخت کی مثال سے بیان فرمائی ہے پھر فرماتا ہے وَمَثَلُ کَلِمَۃٍ خَبِیْثَۃٍ کَشَجَرَۃٍ خَبِیْثَۃٍ (ابراہیم ع ۴) بُری بات کی کیفیت بُرے درخت کی طرح ہوتی ہے ان معنوں کے رُو سے اس درخت کے پاس نہ جائو کے یہ معنے ہونگے کہ جس طرح اوپر بعض اچھی باتوں کا ذکر تھا ان کے مدمقابل کاموں سے اللہ تعالیٰ نے آدم کو منع فرمایا اور چونکہ اس اچھے نظام کو جو اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو دیا تھا جنت یعنی باغ سے مشابہت دی تھی اس نظام کے خلاف جو امور تھے انہیں بھی درخت کے نام سے یاد کیا گیا۔ اور فرمایا کہ جہاں اس جنت میں تم کو رہنے کا حکم ہے وہاں اس کے خلاف امور سے بچنے کی بھی تاکید ہے تا وہ جنت ضائع نہ ہو جائے ان معنوں کے رو سے آسانی سے سمجھ میں آ سکتا ہے کہ بعض باریک امور میں آدم علیہ السلام کو غلطی بھی لگ سکتی تھی اور کوئی دوسرا آدمی انہیں دھوکا بھی دے سکتا تھا۔
گو شجرہ سے مراد تمام وہ بدیاں ہو سکتی ہیں جن سے آدم علیہ السلام کو منع کیا گیا تھا۔ مگر اس آیت کے مضمون کے لحاظ سے خصوصیت سے یہ امر اس شجرۂ ممنوعہ میں داخل ہو گا کہ ابلیس اور اس کی ذریت سے بچ کر رہیں کیونکہ اس نے آدم اور ان کی اولاد کو گمراہ کرنے کی قسم کھا رکھی تھی چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَقُلْنَایَٓا اٰدَمُ اِنَّ ھٰذَا عَدُوٌّلَّکَ وَلِزَوْجِکَ فَلَا یُخْرِ جَنَّکُمَا مِنَ الْجَنَّۃِ فَتَشْقٰی (طہ ع ۷) یعنی ہم نے کہا کہ اے آدم یہ ابلیس تیرا اور تیری بیوی یا ساتھیوں کا دشمن ہے پس اس سے بچتے رہیو ایسا نہ ہو کہ یہ تم کو جنت سے نکال دے تو تم تکلیف میں پڑو اس حکم سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم کہ ابلیس سے بچتے رہو اس شجرہ کی ایک ضروری شاخت ھی جس کے قریب نہ جانے کا آدم کو حکم دیاگیا تھا۔
جب ہم دیکھتے ہیں کہ سلسلہ نسب کو بھی شجرہ کہتے ہیں تو اس موقعہ پر شجرہ کے لفظ کا استعمال نہایت لطیف معلوم ہوتا ہے کیونکہ ابلیس سے بچنے کا حکم جب دیا گیا تو اس کی ذریت یعنی اس کے اتباع اس حکم میں شامل تھے۔
یہ امر یاد رکھنے کے قابل ہے کہ آدم اور اللہ تعالیٰ کی گفتگو عام انسانی بول چال کی طرح نہیں تھی وہ لازماً اسی طرح ہوئی ہو گی جس طرح سب انبیاء کے ساتھ خدا تعالیٰ کی گفتگو ہوتی ہے یعنی الہام اور وحی کے ذریعہ سے اور الہام اور وحی میں استعارۃ اور مجاز اور تمثیل کا استعمال کثرت سے پایا جاتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کا کلام جمیل و حسین ہوتا ہے اور استعارہ مجاز اور تمثیل کلام کو حسین بنا دیتے ہیں۔
جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو ایک ایسے مقام میں رہنے کا حکم دیا جو نہایت آرام دہ تھا اور بمنزلہ جنت کے تھا اور ایسی شریعت عطا کی جو اس دنیا کو جنت بنا دینے والی تھی اور ایسی بیوی اور ساتھی بحشے جو مطیع اور فرمانبردار تھے او رہر قسم کے آرام کا موجب ہو کر اس زندگی کو جنت میں تبدیل کر دینے والے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان تمام امور کو مدنظر رکھتے ہوئے آدم علیہ السلام سے کہا کہ اب تو اور تیرے ساتھی اس جنت میں رہو اور اسی استعارہ کو مدنظر رکھتے ہوئے نظام کی خرابیو ںاو ربرے ساتھیوں کو ایک درخت قرار دے کر فرمایا۔ کہ ایک طرف تو اس جنت میں رہنے کا ہم تو کو حکم دیتے ہیں اور دوسری طرف اس کے مخالف صفات والے درخت سے بچنے کا حکم دیتے ہیں۔
غرض شجرہ کا لفظ جنت کے لفظ کو مدنظر رکھتے ہوئے استعمال کیا گیا۔
اچھے نظام اور عمدہ ساتھیوں کو جنت کہہ کر جو بہت سے درختوں کا مجموعہ ہوتا ہے اور بری باتوں اور برے ساتھیوں کو شجرہ کہہ کر جس کے معنے ایک درخت کے ہیں مندرجہ ذیل امور کی طرف ایک لطیف اشارہ کیا گیا ہے (۱) آدم کو جو تعلیم دی گئی ہے اس میں اشیاء کی حلت اصل ہو گی اور حرمت کے احکام محض ضرورتاً دیئے جائینگے اور اس طرح حلال اشیاء حرام اشیاء کے مقابلہ پر بہت زیادہ ہونگی (۲) آدم کی جماعت غالب آ جائیگی اور تعداد بڑھ جائیگی اور اس کے دشمن قلیل ہونگے حتی کہ اگر آدم کے نظام اور اس کی جماعت کو ایک باغ کا نام دیا جا سکے گا تو اس کے دشمنوں او ران کے نظام کو ایک درخت کہا جا سکے گا جس کا سایہ محدود ہوتا ہے اور پھیلائو تنگ۔
۳۷؎ حل لغات
اَزلَّھُمَا:۔اَزَلَّہٗ کے معنے ہیں اَرُلَقَہٗ اس کو اس کے مقام سے ہٹا دیا حَمَلَہٗ عَلَی الزَّلَّۃِ اس کو لغزش پر آمادہ کیا (اقرب) مفردات میں ہے اَلزَّلَّۃُ فِی الْاَصْلِ اِسْتِز سَالُ الرِّجْلِ مِنْ غَیْرِ قَصْدٍ کہ اصل وضع لغت کے لحاظ سے زَلَّۃٌ کے معنے ہیں پائوں کا بغیر قصد کے پھسل جانا وَقِیْلَ لِلذَّنْبِ مِنْ غَیْرِ قَصْدٍ زَلَّۃٌ تَشْبِیْھًا بِزَلَّۃِ الرِّجْلِ بغیر ارادہ کے کسی غلطی اور قصور کے ہو جانے کو بھی زَلُّۃ سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ جس طرح بغیر ارادہ کے پائوں پھسل جاتا ہے اسی طرح بعض اوقات غلطیاں بھی بغیر ارادہ کے واقع ہو جاتی ہیں گویا پائوں کا بغیر ارادہ کے پھسلنا اور غلطی کا بغیر ارادہ کے وقوع پذیر ہونا دونوں آپس میں مشابہ ہیں (مفردات) لسان میں ہے اَزَلَّہٗ اَیْ حَمَلَہٗ عَلَی الزَّلَلِ اس کو قصور اور خطا کرنے پر آمادہ کیا (لسان)
اَلشَّیْطٰنُ:۔ کی تشریح کے لئے دیکھو حل لغات سورہ ہذا ۱۵؎
عَنْھَا:۔ عَنْ حرف جا رہے اور یہ دس معانی ادا کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے جن میں سے ایک تعلیل کے ہیں (مغنی) یہی معنی ادا کرنے کے لئے آیت فَاَزَ لَّھُمَا الشَّیْطٰنُ عَنْہَا میں عَنْ استعمال ہوا ہے یعنی حَمَلَہُمَا عَلَی الزَّلَّۃِ بِسَبَبِھَا اَی بِسَبَبِ الشَّجَرَۃِ یعنی اس درخت کے ذریعہ سے ان دونوں کو ان کے مقام سے ہٹا دیا۔
اِھْبِطُوْا:۔ اِھْبُطُوْا امر مخاطب جمع کا صیغہ ہے اور ھَبَطَہُ (ھَبْطُ ھَبْطًا) مِنَ الْجَبَلِ کے معنے ہیں اَنْزَلَہٗ اس کو پہاڑ سے اُتارا۔ ھَبَطَ بَلَدَّا کَذَا:۔ دَخَلَہٗ کسی شہر میں داخل ہوا (یہ متعدی بھی استعمال ہوتا ہے چنانچہ ھَبَطَہٗ بَلَدًا کَذَا کے معنے ہونگے اَدْخَلَہُ اس کو فلاں شہر میں داخل کیا) ھَبَطَ السُّوْقَ:۔ اَتَاھَا بازار میں آیا۔ ھَبَطَ فُلَانٌ مِنَ الْجَبَلِ (یَھْبُطُ وَ یَھْبِطُ ھُبُوْطًا) نَزَلَ پہاڑ سے اُترا۔ ھَبَطَ الْوَادِیَ : نَزَلَہٗ وادی میں اُترا۔ ھَبَطَ مِنْ مَوْضِعٍ اِلیٰ مَوْضِعٍ آخَرَ: اِنْتَقَل ایک جگہ سے دوسری جگہ چلا گیا (اقرب) پس اِھْبِطُوْا کے معنے ہونگے اپنے جائے قیام کو چھوڑ کر کسی اور جگہ قیام پذیر ہو جائو (۲) نکل جائو۔
اَلْاَرْض:۔ کی تشریح کے لئے دیکھو حل لغات سورہ ہذا ۱۲؎
مُسْتَقَرٌّ:۔ اَلْمُسْتَقَرُّ اِسْتَقَرَّ سے ظرف ہے اور اِسْتَقَرَّ بِالْمَکَانِ کے معنے ہیں ثَبَتَ وَ سَکَنَ کسی جگہ میں ٹھہرا۔ رہائش اختیار کی اور اَلْمُسْتَقَرُّ کے معنے ہیں مَوْضِعُ الْاِسْتِقْرَارِ۔ قرار گاہ۔ جائے رہائش (اقرب)
مَتَاعٌ:۔ کُلُّ مَایُنْتَفَعُ بِہٖ مِنَ الْحَوَائجِ کَالطَّعَامِ وَالْبَزِّ وَ اَثَاثِ الْبَیْتِ وَالْاَ دَوَاتِ وَالسِّلَعِ وہ تمام اشیاء جن سے ضرورت کے وقت فائدہ اٹھایا جاتا ہے مَتَاعٌ کہلاتی ہیں۔ جیسے خوراک۔ پوشاک۔ گھر کا سامان۔ فروخت کی چیزیں وغیرہ وَقِیْلَ مَاْیُنْتَفَعُ بِہٖ مِنْ عُرُوْضِ الدُّنْیَا قَلِیْلِہَا وَکَثِیْرِھَا مَاسِوَی الفِقُّۃِ وَالذَّھَبِ۔ اور بعض کے نزدیک دنیا کا سامان جس سے نفع اُٹھایا جاتا ہے وہ متاع ہے خواہ وہ تھوڑا ہو یا بہت سوائے سونے اور چاندی کے وَعُرْفًا کُلُّ مَایَلْبِسُہٗ النَّاُس وَیَبْسُطُہٗ اور عرف عام میں متاع ان کپڑوں کو کہتے ہیں جو انسان پہنتا ہے یا فرش وغیرہ جو بچھائے جاتے ہیں وَفِی الْکُلْیَاتِ اَلْمَتَاعُ وَالْمُتْعَۃُ مَایُنْتَضَعُ بِہٖ اِنْتِفَا عَا قَلِیْلًا غَیْرَ بَاقٍ بَلْ یَنْقَضِیْ عَنْ قَرِیْبِ کلیات ابی البقا میں ہے کہ متاع اور متعہ اس چیز کو کہتے ہیں جس سے قلیل فائدہ حاصل کیا جاتا ہو۔ اور جس کا فائدہ مستقل نہ ہو بلکہ جلدی ختم ہو جائے۔ وَاَصْلُ الْمَتَاعِ مَایُتَبَلَّغُ بِہٖ مِنَ الزَّادِ۔ متاع اصل میں وہ زاد ہے جس کے ذریعہ سے منرل مقصود تک پہنچا جائے وَیَاتِی الْمَتَاعُ اِسْمًا بِمَعْضَی التَّمْتِیْعِ اور یہ لفظ اسم و مصدر کے طور پر تمتیع کے معنے میں بھی استعمال ہوتا ہے یعنی سامان دنیا (اقرب)
حِیْن:۔ اَلْحِیْنُ کے معنے ہیں وقت مُبْہَمٌ یَصْلَحُ لِجَمِیْعِ الْاَزْمَانِ طَالَ اَوْقَصَرَ مطلق وقت خواہ وہ تھوڑا ہو یا زیادہ۔ وَقِیْلَ اَوِلذَّھْرُ بعض محققین لغت نے اس کے معنے ’’ایک لمبے زمانہ‘‘ کے کئے ہیں۔ نیز اس کے ایک معنی اَلْمُدَّۃُ کے ہیں یعنی کچھ وقت (اقرب)
تفسیر۔ عَنْھَا میں میں ھاکی ضمیر جنت کی طرف بھی جا سکتی ہے اور شجرہ کی طرف بھی جنت کی طرف ضمیر پھیرنے کی صورت میں اس کے یہ معنی ہونگے کہ شیطان نے آدم کو جنت سے الگ کر دیا یا یہ کہ شیطان کے دھوکے کی وجہ سے جنت کی حالت میں فرق آ گیا اور وہ ایک وقت کے لئے تکلیف کا مقام بن گئی۔ شجرہ کی طرف ضمیر پھرنے کی صورت میں عَنْ کے معنے سبب کے ہونگے او رمطلب یہ ہو گا کہ اس درخت کو ذریعہ بنا کر آدم کو اس کے مقام سے پھسلا دیا لیکن جیسا کہ حل لغات میں بتایا گیا ہے اَزلَّ کے لفظ میں یہ مفہوم بھی پایا جاتا ہے کہ جس شخص سے وہ فعل ہوا اس کا اس میں ارادہ نہ تھا پس معنے یہ ہونگے کہ اس درخت کے ذریعہ سے شیطان نے آدم کا قدم پھسلا دیا لیکن آدم کا اس میں ارادہ شامل نہ تھا سب کچھ دھوکے اور فریب سے ہوا۔
عن کے معنے سببیت کے عربی زبان میں عام ہیں لغت میں لکھا ہے اَلرَّابِعُ التَّغْلِیْلُ نَحْوَ وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرَاھِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ (اقرب) یعنی چوتھے معنے عَنْ کے تعلیل کے ہوتے ہیں جیسے کہ قرآن کریم میں آتا ہے وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرَاھِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ (توبہ ع ۱۴) جس کے معنے یہ ہیں کہ ابراہیم نے جو استغفار اپنے باپ کے لئے کیا تھا وہ صرف ایک وعدہ کے سبب سے تھا جو وہ اس سے کر چکے تھے ان معنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے عَنْہَا کے معنے یہ ہونگے کہ شَجَرَۃ کو سبب اور ذریعہ بنا کر شیطان نے حضرت آدم کے قدم کو بغیر اس کے کہ ان کا اپنا ارادہ ہوتا پھسلا دیا۔
فَاَخْرَ جَھْمَا مِمَّا کَانَا فِیْہِ۔ اور اس طرح جس حالتِ امن میں وہ تھے اس سے انہیں نکال دیا یا یہ کہ جس جنت میں وہ تھے وہاں سے انہیں نکال دیا۔ مگر پہلے معنے زیادہ درست ہیں کیونکہ جنت میں سے نکلنے کا حکم اس کے بعد دیا گیا ہے ہاں اگر یہ مطلب لیا جائے کہ جنت میں سے نکالے جانے کا مستحق بنا دیا تو دوسرے معنے بھی درست ہو سکتے ہیں۔
وَقُلْنَا اھٰبِطُوْا مِنْہَا۔ اور ہم نے کہا کہ جائو تم میں سے بعض بعض کے دشمن ہونگے یعنی اس دشمنی کو یہیں ختم نہ سمجھنا یہ دشمنی آیندہ جاری رہے گی اور ہر نبی کے وقت میں پھر شیطان اسی طرح حملہ کرنے کی کوشش کیا کرے گا۔
وَلَکُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلیٰ حِیْنٍ۔ یعنی اسی زمین میں تم کو رہنا اور فائدہ اُٹھانا ہے پس ہوشیاری سے کام کرنا۔ شیطان کی ذریت سے الگ ہو کر رہنے کی کوئی صورت نہیں اس کے ساتھ ہی رہنا ہو گا۔ پس ہر وقت چوکس رہنے کی کوشش کرو۔ دوسرے یہ زندگی آیندہ زندگی کے لئے سامان جمع کرنے کا ذریعہ ہے اس سے غافل نہ رہو اور دوسری زندگی کے لئے سامان جمع کرتے رہو۔
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ مومن و کافر نیک اور بد کو ایک ہی جگہ رہنا پڑتا ہے اس لئے مومنوں اور نیکوں کو اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو شیطان کے حملہ سے بچانے کی کوشش کرتے رہنا چاہیئے یہ حکم ایسا ضروری ہے کہ اسے نظر انداز کرنے کی وجہ ہی سے ہمیشہ نیکی کا زمانہ مٹ جایا کرتا ہے جب بھی مومن اور نیک یہ سمجھتے ہیں کہ وہ شیطانی حملہ سے محفوظ ہو گئے ہیں تنزل کا دور شروع ہو جاتا ہے اور شیطان غالب آنے لگ جاتا ہے کاش کوئی قوم ایسی پیدا ہو جو اس حکم کو مدنظر رکھے اور شیطان کا سر پوری طرح کچلا جائْ۔ لوگ خود نیک بھی ہو جائیں تو اولاد کی محبت یا ان پر حد سے زیادہ اعتماد کر کے اسے خرابی میں پڑنے کا موقع بہم پہنچا دیتے ہیں اور پھر قوم نیکی کی چوٹی سے نیچے گر جاتی ہے۔
اس آیت سے ایک اور زبردست استدلال ہوتا ہے جو مسلمانوں کے ایک غلط عقیدہ کا قلع قمع کرتا ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کے لئے اسی دُنیا میں رہنے کا فیصلہ فرمایا ہے اور شیطانی حملہ سے بچنے کے لئے کسی اور جگہ جانے کو ناممکن بتایا ہے لیکن باوجود اس کے بعض مسلمان یہ خیال کرتے ہیں کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر شیطان کی ذریت نے حملہ کیا تو اللہ تعالیٰ ان سے بچانے کے لئے انہیں آسمان پر لے گیا۔ یہ عقیدہ اس آیت کے صریح خلاف ہے اللہ تعالیٰ صاف فرماتا ہے کہ باوجود شیطان کے حملہ کے آدم اور ان کی اولاد کو اسی دُنیا میں رہنا ہو گا پھر کس طرح ہو سکتا تھا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو اللہ تعلیٰ آسمان پر لے جاتا اگر کوئی حقدار تھا کہ اسے آسمان پر لے جایا جاتا تو وہ آدم علیہ السلام تھے جو سب سے پہلے نبی تھے یا پھر سید ولد آدم حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے مگر حضرت آدم کی نسبت تو مسلمان یہ یقین رکھتے ہیں کہ انہیں شیطان حملہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے آسمان سے زمین پر پھینک دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ یقین رکھتے ہیں کہ انہیں مکہ مکرمہ چھوڑ کر مدینہ منورہ جانا پڑا اگر اللہ تعالیٰ نے ان دو کی نسبت اس آیت کا بیان کردہ قانون نہیں بدلا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت کیونکر بدل دیا اور خود اپنے فیصلہ کو کیوں غلط کر دیا۔
آدم علیہ السلام کو اس شجرہ کے ذریعہ سے شیطان نے کس طرح دھوکا دیا؟ یہ ایک اہم سوال ہے کیونکہ کہا جاتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو ابلیس سے بھی اور اس درخت سے بھی ہوشیار کر دیا تھا تو پھر وہ شیطان کے دھوکے میں کس طرح آئے کچھ جواب تو اس کا میں اوپر دے آیا ہوں کچھ اس جگہ بیان کرتا ہوں۔
میں بیان کر چکا ہو ںکہ جہاں تک ابلیس سے دھوکا کھانے کا سوال ہے اس دھوکے کی وجہ یہ ہے کہ گو آدم علیہ السلام کو ابلیس سے بچنے کا حکم دیا گیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ کا منشاء اس سے یہ تھا کہ ابلیس اور اُس کے اتباع سے بچو کیونکہ ابلیس تو ایک بدی کی محرک روح ہے وہ براہ راست تو آ کر آدم کو دھوکا دے نہ سکتی تھی اس کے اتباع ہی بری تحریکوں کا موجب ہو سکتے تھے مگر یہ اتباع چونکہ انسان ہوتے ہیں بسا اواقت ان کا پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے کبھی وہ ظاہر میں مومن بن کر ساتھ آ ملتے ہیں اور اسطرح دھوکا دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور انسان کے لئے یہ جاننا مشکل ہو جاتا ہے کہ کیا یہ اب بھی ابلیس کے اتباع ہیں یا مومن ہو کر خیر خواہ ہو گئے جس شیطان کا اس جگہ ذکر ہے اس نے بھی اس ترکیب کو استعمال کیا تھا چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے وَقَا سَمَھُمَآ اِنِّیْ لَکُمَا لَمِنَ النَّا صِحِیْنَ (اعراف ع ۲) یعنی اس شیطان نے آدم اور اس کے ساتھی کے سامنے قسمیں کھا کر کہا کہ میں یقینا تمہارا خیر خواہ ہوں گویا مخالفت کا رنگ چھوڑ کر وہ ساتھ آ شامل ہوا او راپنے اخلاص کا انہیں یقین دلایا اس صورت میں آدم علیہ السلام کو دھوکا لگنا بالکل ممکن تھا کیونکہ انہوں نے یہ اجتہاد کیا کہ گو یہ شخص پہلے ابلیس کا ظل تھا اور اس وقت اس سے بچنا ضروری تھا مگر اب تو یہ مخالفت کا راستہ ترک کر کے ہمارے ساتھ آ ملا ہے اور قسمیں کھاتا ہے کہ میں تمہارا مخلص خادم ہوں اب اس سے تعلق رکھنے میں کوئی ہرج نہیں۔ یہ اجتہاد گو غلط تھا مگر باوجود ابلیس سے بچنے کے حکم کے اس اجتہاد کی وجہ سے دھوکا کھا جانا بالکل ممکن تھا اور یہ دھوکا خلاف عقل نہیں ایسے ہی لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی تھے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِذَا جَائَ کَ الْمُنَا فِقُوْنَ قَالُوْا نَشْہَدُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُ اللّٰہِ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُہٗ وَاللّٰہُ یَشْہَدُ اِنَّ الْمُنَا فِقِیْنَ لَکٰذِبُوْنَo اِتَّخَذُوْا اَیْمَا نَہُمْ جُنَۃًً فَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِط اِنَّھُمْ سَآئَ مَاکَانُوْا یَعْمَلُوْنَo ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ اٰمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا فَطُبِعَ عَلیٰ قُلُوْبِھِمْ فَھُمْ لَایَفْقَھُوْنَo وَ اِذَا رَأَیْتَہُمْ تُعْجِبُکَ اَجْسَا مُھُمْط وَاِنْ یَّقُوْلُوْا تَسْمَعْ لِقَوْلِہِمْ کَاَنَّہُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ یَحْسَبُوْنَ کُلَّ صَیْحَۃٍ عَلَیْہِمْ ھُمُ الْعُدُوُّ فَاحْذَرْ ھُمْ قَاتَلَہُمُ اللّٰہُ اَنّٰی یُؤْفَکُوْنَo (منافقون ع ۱) یعنے جب منافق تیرے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ تو یقینا اللہ ا رسول ہے اور اللہ جانتا ہے کہ تو واقعہ میں اس کا رسول ہے مگر اللہ انکی گواہی کے مقابل پر یہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق جھوٹے ہیں ان لوگو ںنے اپنی قسموں کو اپنے بچائو کے لئے ڈھال بنا رکھا ہے۔ اور اس طرح یہ اللہ کے راستہ سے لوگوں کو روکتے ہیں ان کے یہ عمل بہت ہی برے ہیں۔ یہ اعمال ان سے اس وجہ سے سر زد ہوتے ہیں کہ یہ لوگ پہلے ایمان لائے پھر کافر ہو گئے پس ان کے دلوں پرمہریں کر دی گئیں اور اب یہ کچھ نہیں سمجھتے اور جب تُو ان پر نگہ کرے تو ان کے جسم تجھے پسند آتے ہیں اور اگر یہ بات کریں تو ان کی باتوں کو معقول سمجھ کر سنتا ہے وہ یوں معلوم ہوتے ہیں جیسے بڑی بڑی لکڑیاں ٹیک لگا کر کھڑی کی ہوں۔ یعنی مجالس میں بڑی شان سے اور رعب سے بیٹھتے ہیں جو عذاب بھی آئے یہ اسے اپنے ہی خلاف سمجھتے ہیں یہ لوگ اصل دشمن ہیں ان سے بچ کر رہ۔ اللہ انہیں ہلاک کرے یہ کدھر لوٹے جا رہے ہیں۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
تفسیر کبیر ۔ تفسیر القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا محمود احمد رض ۔جلد 2۔ یونی کوڈ

بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمِدُہ وَ نُصَلّیِ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْم
پیش لفظ!
یہ تفسیر جو احباب کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے سورہ البقرۃ کے اکتیس ۱۳ رکوعوں کی تفسیر پر مشتمل ہے اور چونکہ اس سے پہلے تفسیر کبیر کی ایک جلد جو ابتدائی نو۹رکوع کی تفسیر پر مشتمل ہے خود حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے قلم سے شائع ہو چکی ہے اس لئے اِن نوٹوں کے ذریعے خدا تعالیٰ کے فضل سے سورۂ بقرہ کی مکمل تفسیر احباب کی خدمت میں پہنچ گئی ہے۔ یہ تفسیر حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اُن پُر معارف اور درسوں کا مجموعہ ہے جو حضور نے ابتدائے زمانہ خلافت میں قادیان میں دیئے تھے۔ حضور نے اپنے زمانہ خلافت میں قرآن کریم کے ابتدائی دس ۱۰ پاروںکا دو ۲دفعہ درس دیا ہے۔ ایک دفعہ جون۱۹۱۷ء میں اور دوسری دفعہ اگست ۱۹۲۲ء میں۔ یہ درس اُنہی دونوں قلمبند کئے گئے تھے۔ اور پھر حضور کے ارشاد پر اُن کی ایک مجموعی کاپی تیار کی گئی تھی ۔ جس سے انگریزی ترجمۃ القرآن والوں نے بھی فائدہ اٹھایا۔ اب وہی درس اس تفسیر کی شکل میں احباب کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
اس جگہ یہ ذکر کر دینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ آج کل حضور اپنی علالت کیوجہ سے مسودات پر نظر ثانی کا کام نہیں فرما سکتے اور نہ اتنے لمبے مضامین حضور کو سُنائے جا سکتے ہیں اس لئے جس طرح آجکل حضور کے تمام خطبات ، تقاریر اور ملفوظات وغیرہ حضور کے ملاحظہ اور نظرثانی کے بغیر شائع کیے جاتے ہیں اور حضور نے خود اس کی اجازت مرحمت فرمائی ہوئی ہے اسی رنگ میں یہ تفسیر بھی الشر کۃ الاسلامیہ حضور کی اجازت کے ماتحت اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہی ہے۔ حضور نے اس پر نظر ثانی نہیں فرمائی۔ اگر اس میں کسی دوست کو کوئی ایسی بات نظر آئے جو اُس کے نزدیک حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی اپنی کسی تحریر کے منافی ہو تو وہ اس سے الشرکۃ الاسلامیہ کو مطلع کر دے۔اصولاًیاد رہے کہ حضور کو خود نوشت تحریر استناد کے لحاظ سے مقدم ہو گئی۔ اس تفسیر میں حضور کے ان معارف کو بھی شامل کر لیا گیا ہے جو حضور نے اپنی تقاریر یا خطبات و تصانیف میں بیان فرمائے ہیں۔آخر میں الشرکۃ الاسلامیہ مکرم مولوی محمد یعقوب صاحب فاضل انچارج شعبۂ زودنویسی کی ممنون ہے کہ انہوں نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے درسوں کے علاوہ حضور کی تصانیف اور خطبات و ملفوظات وغیرہ میں جس قدر قرآنی معارف متفرق طور پربیان ہو چکے تھے انہیں بھی حضور کی اجازت کے ماتحت ہمیں شائع کر کے اسے حضور کے بیان فرمودہ تفسیری حقائق کا صحیح رنگ میں آئینہ دار بنادیا۔ فجزہ اللہ احسن الجزا۔اسی طرح مولوی ابوالمنیر نور الحق صاحب فاضل بھی شکریہ کے مستحق ہیں جنہوں نے اس تمام مسودہ کو دوبارہ بڑے غور کے ساتھ پڑھا اور اس کی کاپیاں اور پروف بھی بڑی توجہ سے دیکھے۔ اللہ تعالیٰ ان ہر دو اصحاب کہ جزائے خیر عطا فرمائے اور انہیں بیش از بیش دینی خدمات سر انجام دینے کی توفیق بخشے۔
الشرکۃ الاسلامیہ حقائق و معارف کا یہ نایاب خزانہ احباب کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے دعا کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس تفسیر کو زیادہ سے زیادہ قرآنی انوار اور برکات کی اشاعت کا موجب بنائے اور ایک عالم کو اس کے معارف سے فیضیاب کرے۔ آمین۔
ربوہ ۳ دسمبر ۱۹۶۲؁ خاکسار جلال الدین شمس
وَاِذَ اَخَذْنَا



مُّعْرِضُوْنَo
ا ؎ حل نعات:۔مِیْثَاق’‘:۔ اَلْمِیْثَاق ُفَقْد’‘ مُوَْکَّد’‘ بِیَمِیْنٍ وَّعَھْدٍ۔مِیْثَاق’‘ کے معنے ہیں ایسا عہد کرنا جو قسم سے مؤکد ہو۔(مفردات)
تفسیر:۔گذشتہ کئی رکوعوں میں اللہ تعالیٰ نے یہود کے اُن فعالِ شنیعہ کا ذکر کیا تھا جن کا ارتکاب انہوں نے اپنے انبیاء کے مقابلہ میں کیا۔ اور بتایا تھا کہ یہود کی ان متواتر نافرمانیوں کی وجہ ابراہیمی وعدہ نبوت بنو اسحاق کی بجائے بنو اسمٰعیل کی طرف متقل کر دیا گیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہود صرف اس وجہ سے مجرم نہیں تھے کہ انہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابلہ میں معاندانہ رویہ اختیار کیا اور اسلام اورمسلمانوں کو تباہ کرنے کے لیے کوئی وقیقہ فروگذاشت نہ کیا بلکہ اُن کے جرموں کا ایک لمبا سلسلہ تھا جسکی بنا پر آخر نبوت بنو اسحاق سے نکل کر بنو اسمٰعیل کی طرف منتقل ہو گئی۔ اگر صرف اس آخری جرم کی وجہ سے اُنکو نبوت سے محروم کیا جاتا تو بے شک یہ اعتراض ہو سکتا تھا کہ صرف ایک جرم کی وجہ سے بنی اسرائیل کو نبوت سے کیوں محروم کر دیا گیا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اُن کے جرائم کا ایک لمبا سلسلہ بیان فرما کر اس اعتراض کو دُور کر دیا اور بتایا کہ تمہارے پے در پے گناہوں نے تمہیں اس سزا کا مستحق ٹھہرایا ہے کہ تم کو اس نعمت سے محروم کر دیا جائے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ بنو اسحاق میں نبوت کا اجراء اُن کی کسی ذاتی فضیلت کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ ابراہیمی وعدوں کی وجہ سے تھا۔ جب انہوں نے ابراہیمی عہد کو پسِ پشت پھینک دیا تو محض بنو اسحاق کا ایک فرد ہوناانہیں نبوت کے انعام کا مستحق نہیں بنا سکتا تھا۔
اس کے بعد قرآن کریم نے انہیںبتایا کہ تمہارے جرم اب بھی کچھ کم نہیں۔ اس رسول کے آنے سے پہلے تمہری قوم جو کچھ کیا کرتی تھی وہ تم نے اس رسول کے زمانے میں بھی جاری رکھا ہے۔ اگر اب بھی تمہاری قوم میں سے کوئی نبی آجاتا تو تم اس سے بھی یہی سلوک کرتے۔ پس تمہارا یہ کہنا کہ ہمارے لیے اس رسول کی تعلیم حجت نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ بنی اسمٰعیل میں سے ہے درست نہیں کیونکہ تمہارا رویا بتارہا ہے کہ اگر تم میں سے کسی کو اب بھی نبی بنا دیا تو تم اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرتے جیسا کہ تم پہلے آنے والے انبیاء سے کرتے رہے ہے۔
اب اس رکوع میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اس اعلیٰ تعلیم کو جانے دو جس میں تمہیں اس رسول سے اختالف ہے تم صرف ان افعال کو زیربحث لائو جن کو تم بھی قومی اور اخلاقی ترقی کے لیے ضروری سمجھتے ہو۔ اور بتائو کہ کیا تم ان پر کاربند ہو۔ چنانچہ فرماتا ہے کہ ہم نے تم سے ایک عہد لیا تھا اور عہد بھی ایسا جو نہایت پختہ تھا۔ جس کے پورا کرنے پر انعام اور توڑنے پر سزا مقدر تھی۔ مگر کیاوہ عہدتم نے پورا کیا؟ اگر تمہارے اپنے مذہب پر بھی عمل نہیں رہا اور ہمارے رسول کا بھی تم انکار کر رہے ہو تو بتائو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں تم کتنے بڑے مجرم ہو۔
اس آیت میں جس میثاق کا طرف اشارہ کیا گیا ہے اس سے کوئی خاص عہد مراد نہیں بلکہ مختلف عہد مراد ہیں جو بنی اسرائیل سے متفرق اوقات میں لئے جاتے رہے اور جن پر عمل کرنے کی بائیبل میں ان کو سخت تاکید کی گئی ہے۔ اسی لئے یہ احکام بائیبل میں کسی ایک جگہ بیان نہیں ہو ئے بلکہ متفرق مقامات میں اُن کا ذکر آتا ہے قرآن کریم نے ان احکام کا اکٹھا ذکر اس لئے کیا ہے تاکہ ان کو یاد دلایا جا ئے کہ وہ اپنے مذہب سے کس قدر دُور جا چکے ہیں۔ مزید برآن قرآن کریم نے ان احکام کو ایک اعلیٰ درجہ کی ترتیب کے ساتھ بیان کیا ہے۔ جا اس کے حُسن کو نمایاں کرنے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور معبود کی پرستش سے بائیبل میں بہت سے مقامات پر روکا گیا ہے بلکہ یہ حکم خود موسیٰ کے دَس احکام میں بھی پایا جاتا ہے چنانچہ خروج باب ۲۰ آیت۳ تا ۶ میں لکھا ہے:۔
’’میرے حضور تیرے لئے دوسرا خدا نہ ہو۔ تو اپنے لئے کوئی مورت یا کسی چیز کی صورت جو آسمان پر یا نیچے زمین پر یا پانی میں زمین کے نیچے ہے مت بنا۔ تو اُنکے آگے اپنے تیئں مت جُھکا۔ اور نہ اُنکی عبادت کر کیونکہ میں خداوند تیر ا خدا غیّور خدا ہوں۔ اور باپ دادوں کی بدکاریاں اُن کی اولاد پر جو مجھ سے عداوت رکھتے ہیں تیسری اور چوتھی پشت تک پہنچاتا ہوں۔ پر اُن میں سے ہزاروں پر جو مجھ سے پیار کرتے اور میرے حکموں کو قبول کرتے ہیں رحم کرتا ہوں۔‘‘
(۲) والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم بھی انہیں احکام میں موجود ہے۔ چنانچہ خروج باب۲۰ آیت۱۲ میں لکھا ہے:۔
’’تو اپنے ماں باپ کو عزت دے تاکہ تیری عمر اس زمین پر جو خداوند تیرا خدا تجھے دیتا ہے دراز ہووے۔‘‘
اِسی طرح استثناء باب۲۱ آیت۱۸تا۲۱ میں بھی اس کا ذکر آتا ہے۔ لکھا ہے:۔
’’اگر کسی آدمی کا بیٹا گردن کش اور گرا ہو جو اپنے باپ اور اپنی ماں کی آواز کو نہ سُنے۔ اور دے ہر چنداُسے تنبیہہ کریں پر وہ ان پر کان نہ لگاوے۔ تب اُس کا باپ اور اس کی ماں اُسے پکڑیں اور باہر لے جا کر اُس شہر کے بزرگوں کے پاس اور اس جگہ کے دروازے پر لائیں اور دے اس شہر کے بزرگوں سے عرض کریں کہ یہ ہمارا بیٹٓ گردن کش اور مگراہے ہرگز ہمارے بات نہیں مانتا بڑاہی کھائو اور متوالا ہے۔ تو اس کے شہر کے سب لوگ اس پر پتھرائو کریں کہ وہ مر جائے۔ تو شرارت کو اپنے درمیان سے یوں دفع کی جیئو تاکہ سارا اسرائیل سُنے اور ڈرے۔‘‘
(۳)ذی القربیٰ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا ذکر احبار باب ۱۹آیت۱۶تا۱۸ میں یوں آتا ہے:۔
’’تو عیب جوئیوں کی مانند اپنی قوم میں آیا جایا نہ کر۔ اور پانے بھائی کے خون پر کمر نہ باندھ۔میں خداوند ہوں۔تو اپنے بھائی سے بغض اپنے دل سے نہ رکھ۔تو البتہ اپنے بھائی کو نصیحت کر تاکہ تو اس کے سبب خطا کار نہ ٹھہرے۔ تو اپنی قوم کے فرزندوں سے بدلامت لے اور نہ ان کی طرف سے کینہ رکھ۔بلکہ تو اپنے بھائی کو اپنی مانند پیار کر۔ میں خداوند ہوں۔‘‘
یہ امریادرکھنا چاہیے کہ تورات میں تمام رشتہ داروں کے لئے عام طور پر بھائی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔
(۴)بہو سے نیک سلوک کرنیکا ذکر خروج باب۲۱ آیت۹ میں اس طرح آتا ہے کہ
’’اگروہ اُس کی منگنی اپنے بیٹے کے ساتھ کردے تو وہ اُس سے بیٹوں کا سا سلوک کرے۔‘‘
(۵)ہمسایہ سے نیک سلوک کا ذکر احبار باب۱۹آیت۱۳ میں آتا ہے۔لکھا ہے:۔
’’تو اپنے پڑوسی سے دغا بازی نہ کر نہ اس سے کچھ چھین لے۔‘‘
چونکہ ذوی القربیٰ سے ظاہری قرابت بھی مراد ہو سکتی ہے اس لیے ہمسایہ کا ذکر کر دیا گیا ہے۔
(۶)یتامیٰ کے ساتھ حسن سلوک کا ذکر استثنا باب۱۴آیت۲۹ میں آتا ہے۔ لکھا ہے:۔
’’مسافر اور یتیم اور بیوہ جو تیرے پھاٹکوں کے اندر ہیں آویں اور کھاویں اور سیر ہو ویں تاکہ خداوند تیرا خدا تیرے ہاتھ کے سب کاموں میں جو تو کرتا ہے تجھے برکت بخشے۔‘‘
(۷)مساکین کے متعلق استثناء باب۱۵ آیت۱۱ میں یوں حکم ہے کہ
’’مسکین زمین پر سے کبھی جاتے نہ رہیں گے۔ اس لئے یہ کہہ کے میں تجھے حکم کرتا ہوں کہ تو اپنے بھائی کے واسطے اور اپنے مسکین کے لئے اور اپنے محتاج کے واسطے جو تیری زمین پر ہے اپنا ہاتھ کشادہ رکھیئو۔ ‘‘
(۸)تمام بنی نوع انسان سے نیک سلوک کرنے کا حکم خروج باب۲۳ آیت ۱ تا ۷ میں اس طرح ہے:۔
’’تو کسی کی جھوٹی خبر مت اُڑا۔ تو ظلم کی گواہی میں شریروں کا ساتھی مت ہو تو گروہ کی پیروی بدی کرنے میں مت کیجیئواور تو کسی جھگڑے میں لوگوں کی بہتات کے سبب اُن کی طرف مائل ہو کے ناحق مت کیجیئو اور نہ کنگال کی اُس کے مقدمہ میں طرفداری کیجیئو اگر تو اپنے دمن کے بیل یا گدے کو بے راہ جاتے دیکھے تو ضرور اُسے اُس کنے پہنچائیو اگر تو اس کے گدھے کو جو تیرا کینہ رکھتا ہے دیکھے کہ بوجھ کے نیچے بیٹھ گیا اور تو اس کی مدد نہ کرنا چاہے تو البتہ اس کی کمک کر۔تو اپنے محتاج سے اس کے مقدمہ میں انصاف کو مت پھیرئیو۔ جھوٹے معاملہ سے دور رہیئو۔ اور بے گناہوں اور بچوں کو قتل مت کیجیئو۔ کیونکہ میں شریر کی تصدیق نہ کروں گا۔‘‘
اس طرح امثال باب۳ آیت۳۰ میں لکھا ہے:۔
’’اگر کسی نے تجھے نقصان نہ پہنچایا ہو تو اُس سے بے سبب جھگڑا نہ کرنا۔‘‘
(۹)نماز قائم کرنے کا حکم استثناء باب۱۳ آیت۴ میں یوں ہے کہ
’’چاہیئے کہ تم خداوند اپنے خدا کی پیروی کرو۔ اور اس سے ڈرو اور اس کے حکموں کو حفظ کرو۔ اور اس کی بات مانو۔ تم اُس کی بندگی کرو اور اس سے لپٹے رہو۔‘‘
اسی طرح استثنا باب۶آیت۱۳ میں لکھا ہے:۔
’’تو خداوند اپنے خدا کا خوف ماننا اور اُسی کی عبادت کرنا اور اُسی کے نام کی قسم کھانا۔‘‘
(۱۰)زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم خروج باب۲۳ آیت ۱۰،۱۱ میں یوں ہے:۔
’’اور چھ برس زمین میں کھیتی کر اور اس سے جو پیدا ہو جمع کر۔ پر ساتویں برس اُسے چھوڑدے کہ پڑی رہے تاکہ تیری قوم کے مسکین اُسے کھاویں۔ اور ج ان سے بچے میدان کے چار پائے چریں۔ ایسا ہی تو اپنے انگور اور زیتون کے باغ کا معاملہ بھی کیجیئو۔‘‘
مگرباوجود ان احکام کے یہود کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ اور ان کے سلوک اپنوں اور بیگانوں سے خراب ہو رہے تھے۔ یہاں تک کہ ان میں سے بعض حضرت عزیز کو ابن اللہ قرار دینے لگ گئے تھے۔ جیسا کہ یہود کا صدوقی فرقہ جو یمن کی طرف رہتا تھا اس شرک میں ملوث ہو چکا تھا ۱؎۔ اور بعض اپنے علماء کے ہر ایک حکم کو وحی الہٰی کے طور پر مانتے اور اپنی کتاب کے احکام کو پس پُشت پھینک دیتے۔ یتامیٰ اور مساکین کے ساتھ ان کا سلوک نہایت بُرا تھا۔ اور بنی نوع انسان کی ہمدردی اُن کے اندر نام کو بھی نہ تھی۔ عبادتوں میں سُست اور زکوٰۃ دینے سے جی چُراتے تھے۔ جیساے آجکل کے مسلمان ایک طرف تو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور دوسری طرف وہ تمام باتیں جو یہود کے متعلق خدا تعالیٰ نے بیان فرمائی ہیں ان میں بھی پائی جاتی ہیں۔ یہود سے تو صرف یہ عہد لیا گیا تھا کہ خدا تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا۔ لیکن مسلمانوں پر خدا تعالیٰ نے اتنا فضل کیا کہ اسلام کی بنیاد ہی اس نے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ پر رکھی۔یعنی اس بات پر کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں وہ قادرِ مطلق ہے۔ وہ ہر ایک کام خود کر سکتا ہے۔ اُس کو کسی کی مدد کی ہرگز ضرورت نہیں۔ مگر باوجود اس کے کہ اسلام کی بنیاد لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہپر رکھی گئی تھی آج مسلمانوں میں اس قدر شرک پایا جاتا ہے کہ اور قوموں میں اس کی نسبت بہت کم ہے ۔ مسلمان قبروں پر بغیر کسی قسم کے حجاب کے اس طرح سجدہ کرتے ہیں کہ خدا کے آگے سجدہ کرنے والوں میں اور ان میں ذرہ بھی فرق نہیں رہ جاتا۔ مجھے اس بات پر ہمیشہ تعجب آیا کرتا تھا کہ کیا کوئی مسلمان بھی قبر پر سجدہ کر سکتا ہے؟ اور میں باوجود شہادتوں کے اس پر یقین نہیں کرتا تھا۔ لیکن ایک دفعہ جب ہم چند آدمی ہندوستان میں اسلامی مدارس دیکھنے کے
۱؎ ’’الملل اوالنمل‘‘ جلد اول صفحہ۹۹
لئے گئے تو لکھنو میں فرنگی محل کا مدرسہ دیکھ کر دل بہت خوش ہوا۔ اچھے لائق اور عالم اُستاد تھاے۔ ہوشیار اور ذہین شاگرد معلوم ہوتے تھے لیکن اس مدرسہ اور دوسرے مدارس کو دیکھ کر جب ہم شام کو واپس اپنے مکان کی طرف آرہے تھے تو ایک قبر کے سامنے جو آدمی پورا پورا سجدہ کر رہا تھا وہ فرنگی محل کے مدرسہ کا ایک استاد تھا۔ مجھے اس کو دیکھ کر تعجب ہوا کہ اس نے علم پڑھ کر بھی اس کی کچھ قدر نہ کی۔ اور قبر پر سجدہ کرنے لگ گیا۔ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے اِن آیات میں اسی لئے یہود کا ذکر سنایا تھا کہ ایک دن تم بھی اسی طرح کرنے لگو گے۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہود سے ہم نے یہ بھی اقراء لیا تھا کہ والدین کے ساتھ احسان کرنا۔ یہ بات بھی اس زمانہ میں مسلمانوں سے بالکل مٹ گئی ہے۔ یہ تو ضروری سمجھا جاتا ہے کہ والدین اپنی اولاد سے نیک سلوک کریں۔ ان کی پرورش کریں۔ اُن پر اپنا مال صرف کریں لیکن یہ ضروری نہیں سمجھا جاتا کہ اولاد بھی والدین پر احسان کرے اور اُن کی خدمت بجا لائے۔ اِسی طرح یہود سے یہ عہد لیا گیا تھا کہ قریبیوں یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ نیک سلوک کرنا۔ پھر تمام دنیا میں جس قدر لوگ ہیں ان کو نیک باتیں کہنا۔ یہ کیسی اچھی اور عمدہ تعلیم تھی کوئی بوجھ نہ تھا۔ کوئی عقل کے خلاف بات نہ تھی لیکن جس طرح یہود نے ان احکام پر عمل ترک کر دیا تھا۔ اسی طرح مسلمانوں نے بھی ان احکام پر عمل ترک کر دیا۔ پھر حکم تھا کہ نمازیں پڑھتے پڑھو۔ لیکن دیکھ لو آج کتنے مسلمان ہیں جو نمازیں پڑھتے ہیں۔ پھر حکم تھا کہ زکوٰۃ دو۔ مگر بہت تھوڑے ہیں جو اس کے پابند ہیں۔اللہ تعالیٰ یہود کی نسبت فرماتا ہے کہ وہ ان احکام کو سُن کر پھر گئے اور ان پر عمل نہ کیا۔ اسی طرح اب مسلمانوں نے کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ان احکام سے اکثر پھر گئے ۔ اسی طرح مسلمان ذوی القربیٰ کو شریکہ یعنی دشمنی کا باعث سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جن کے ساتھ نیک سلوک کرنیکا حکم دیا تھا اُن سے دشمنی اور لڑائی جھگڑے کئے جاتے ہیں ۔ یتیموں کے ساتھ ملاطفت اور نرمی کا حکم تھا لیکن ان کے اموال بڑی دلیری سے کھائے جاتے ہیں۔ مسکینوں کی خبر گیری اُن کا فرض تھا لیکن انہیں حقارت اور نفرت سے دیکھا جاتا ہے۔ تمام بنی نو انسان کو نیک باتوں کی تلقین کرنا ان کا فرض تھا لیکن اس فرض کی ادائیگی کی طرف توجہ نہیں کی جاتی۔ وہ ہم پر اعتراض کرتے ہیں کہ تم ہمیں کافر کہتے ہو مگر خودیہ کبھی سوچنے کی تکلیف گوارا نہیں کرتے کہ کہ اُن کا اپنا عمل اسلام پر کہاں تک ہے۔ مجھے کئی غیر احمدیوں سے گفتگو کرنے کا موقعہ ملا ہے۔ جب اس قسم کی بحث ہو تو میں ان سے پوچھا کرتا ہوں کہ آپ اپنے آپکو کیا سمجھتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں مسلمان۔ میں کہتا ہوں کہ میں بھی آپ لوگوں کو مسلمان ہی سمجھتا ہوں۔ مگر آپ یہ بتائیں کہ کیا آج کل مسلمانوں میں اسلامی احکام پر عمل پایا جاتا ہے؟ اس پر انہیں اقرار کرنا پڑتا ہے کہ نہیں پایا جاتا۔ میں کہتا ہوں کہ ہم بھی یہی بات کہتے ہیں کہ آج کل مسلمانوں میں حقیقتِ اسلام نہیں رہی۔ ورنہ نام کے لحاظ سے تو وہ یقینا مسلمان ہی ہیں اور اس سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔ پس جس طرح مسلمان جانتے ہیں کہ چوری ناجائز ہے۔ جھوٹ اور افتراء ناجائز ہے۔ دوسروں کے حقوق غصب کرنا ناجائز ہے مگر پھر بھی وہ ان افعال کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں یہود بالکل مطلب پرست اور مشرک ہو گئے تھے اور باوجود اس کے مسلمانوں سے جو ان احکام پر بلکہ ان سے بڑے بڑے احکام پر عمل پیرا تھے لڑتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا حضرت عیٰسی علیہ السلام کی صداقت کے متعلق تویہ عذرپیش کر سکتے ہو کہ ہم ان پر ایمان نہیں رکھتے مگر تورات کے ان احکام متعلق کیا عذر کر سکتے ہو۔ تمہارا ان احکام کو تسلیم کرنا اور پھر اُں سے کلی طور پر اعراض اختیار کر لینا بتاتا ہے کہ اب تم میں صداقت باقی نہیں رہی۔ مگر جیسا کہ قرآن کریم کا طریق ہے اُس نے اس آیت میں بھی یہود کی بدیوں کا ذکر کرتے ہوئے اُن کی تمام قوم کو یکساں مجرم قرار نہیں دیا بلکہ اِلَّا قَلِیْلاً مِّنْکُمْ فرما کر اُن میں سے جو نیک لوگ تھے اُن کو مستثنیٰ کر لیا ہے۔
اِس آیت کے متعلق یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جیسا کہ قرآن کریم میں ہر جگہ ترتیب کے حسن کو قائم رکھا گیا ہے اسی طرح یہاں بھی ترتیب الفاظ کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا گیا۔سب سے پہلے لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰہ میں واحد خدا پر ایمان لانے اور اس کی عبادت کرنیکا حکم بیان کیا ہے کیونکہ توحید ایک بنیادی اصل ہے جو تمام انبیاء کا مشترک مشن تھا اور جس کے سمجھنے سے ہی باقی تمام مسائل سمجھے جا سکتے ہیں۔
اِس کے بعد وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا کا حکم دے کر والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنیکا حکم بیان کیا ہے۔ کیونکہ والدین کا احسان خداتعالیٰ کے احسان کا ظل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا احسان حقیقی ہوتا ہے اور باقی سب احسان ظلّی ہوتے ہیں۔ اور چونکہ والدین بھی اپنی اولاد کے لئے خداتعالیٰ کی صفات کے ایک رنگ میں مظہر ہوتے ہیں۔ اس لئے توحید کے ذکر کے بعد والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک کاذکر فرمادیا۔
وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاسے یہ دھوکا نہیں کھانا چاہیے کہ والدین سے سلوک بھی احسان سے معرف معنوں میں کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ کیونکہ اس آیت میں احسان کا لفظ عام معنوں میں استعمال نہیں ہوا بلکہ ایک اور معنیٰ میں استعمال ہوا ہے۔ عربی زبان کا محاورہ ہے کہ کسی امر کے بدلہ کے لئے بھی وہی لفظ استعمال کر دیا جاتا ہے۔ جیسے ظلم کے بدلہ میں ظلم رکھ دیا جاتا ہے اور اس سے مرادظلم نہیں ہوتا بلکہ اس کے معنے صرف ظلم کا بدلہ لینے کے ہوتے ہیں۔ جیسے اسی سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدی عَلَیْکُمْ۔
(بقرہ ع۲۴)یعنی جو شخص تم پر ظلم کرے تم اُس پر اُسی قدر ظلم کر سکتے ہو۔اب یہ امر ظاہر ہے کہ ظلم کا اسی قدر بدلہ لینا ظلم نہیں کہلا سکتا۔ پس بدلہ لینے والے کے لئے جو اِعْتَدَاء کا لفظ استعمال کیا گیاہے اس کے معنے محض بدلہ کے ہیں نہ کہ ظلم کے۔ اسی طرح احسان کرنے والے کے حق میں جب احسان کا لفظ استعمال کیا جائے تو اس کے معنے بدلہ احسان کے ہوتے ہیں نہ کہ احسان کے لیکن احسان کرنے والوں کے سوا دوسرے لوگوں کی نسبت اس لفظ کا استعمال اپنے معروف معنوں میں ہوتا ہے۔
اس کے بعد ذوی القربیٰ کے ساتھ حسنِ سلوک کا ذکر ہے۔ کیونکہ ماں باپ سے حسن ِسلوک کے بعد طبعاً ہر شخص اپنے رشتہ داروں سے حسنِ سلوک کرتا ہے اور وہ بھی ولدین کی عدم موجودگی میں والدین ہی کے قائم مقام سمجھے جاتے ہیں۔ پھر عام لوگوں کو لیا ہے جن کا احسان حقیقی معنوں میں نہیں ہوتا بلکہ قومی معنوں میں ہوتا ہے۔ ان میں سے پہلے یتامیٰ کو لیا ہے۔ یہ خود محسن نہیں ہوتے لیکن ان کے ساتھ احسان اس لئے کیا جاتا ہے کہ وہ بوجھ اپنی کمزوری اور صغر سنی کے اپنے مطالبات کو خود پورا کروانے کی طاقت نہیں رکھتے۔ اور اُن کے حقوق کودلیری کے ساتھ غصب کر لیا جاتا ہے۔ پھر اس لئے بھی وہ محبت اور حسنِ سلوک کے مستحق ہوتے ہیں کہ وہ اپنے والدین کے سایہ عاطفت سے بچین میں ہی محروم ہو جاتے ہیں۔ اگر اُن کی صحیح نگرانی کی جائے۔ ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا جائے اُنکو آوارگی سے محفوظ رکھا جائے تو وہ قوم کا ایک مفید وجود بن جاتے ہیں۔ اور نہ صرف ان کی اپنی زندگی منور جاتی ہے بلکہ وہ دوسروں کی زندگیوں کو بھی سنوارنے والے بن جاتے ہیں۔
ان کے بعد مساکین کا ذکر کیا۔ یہ لوگ گو محتاج ہوتے ہیں مگر سوال کے ذریعہ کسی کو اپنی غربت کا پتہ لگنے نہیں دیتے۔ پس مساکین کا ذکر کر کے اس طرف توجہ دلائی کہ تمہیں یہ طریق اختیار نہیں کرنا چاہیے کہ جو شخص تمہارے سامنے دست سوال دراز کرے اس کی تو تم مدد کردو اور جو خاموش بیٹھا رہے اس کو تم نظر انداز کر دو۔ بلکہ تم ایسے لوگوں کی طرف بھی توجہ رکھو جو غربت کے باوجود اپنے وقار کو قائم رکھتے ہیں اور اخلاقی بلندی کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔
اس کے بعدتمام بنی نوع انسان کی ہمدردی کا ذکر کیا۔ اور فرمایا قُوْ لُوْالِلنَّاسِ حُسْنًا۔ یہ لفظ حُسْن’‘ اور حَسَن’‘ دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔لیکن بعض نے فرق بھی کیا ہے۔ کہ اگر حَسَن’‘ ہو تو مصدر محذوف کی صفت ہو گا۔ یعنی قُوْ لُوْالِلنَّاسِ قَوْلاًحُسْنًا۔ اور اگرحُسْن’‘ ہو تو حذفِ مضاف ہو گا۔ یعنیقُوْ لُوْالِلنَّاسِ قَوْلاًذَا حُسْنٍ (ملاء) دونوں صورتوں میں اس کے معنے یہ ہیںکہ تم لوگوں کو ایسی باتیں کہو جو نہایت اچھی ہوں۔ عام بنی نوع انسان کو بعد میں اس لئے رکھا کہ یہ لوگ یتامیٰ اور مساکین کی طرح محتاج نہیں ہوتے بلکہ اپنی ضروریات کے آپ متکفل ہوتے ہیں۔ پس سب سے کم احتیاج رکھنے کی وجہ سے ان کو سب سے آخر میں رکھا۔
غرض ان تمام احکام میں ایک اعلیٰ درجہ کی ترتیب پائی جاتی ہے۔ ایک خدا کی پرستش کے ذکر کے بعد اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک وہ جو بطور حق نیک سلوک کے مستحق ہیں اور دوسرے وہ جو بطور رحم کے مستحق ہیں۔پہلوں کا مقدم ذکر کیا کیونکہ وہ ایک قرضہ کی ادائیگی کی سی صورت تھی۔ اور جو بطور رحم احسان کے مستحق تھے ان کے بعد میں رکھا۔ اور پھر جو شخص جس قدر رحم کا محتاج تھا اُسی درجہ پر اُس کا ذکر کیا۔ اِس کے بعد عبادات کو لیا۔ اور اُن میں سے بدنی اور مالی عبادات کی سردار عبادت نماز اور زکوٰۃ کو چُن لیا۔ اور اس کا ذکر بنی نوع انسان کے ساتھ حسن سلوک روحانیت کی طرف پہلا قدم ہے اور انسان کو کئی مواقع پر فطرتاً بغیر کسی شریعت کے اس کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے اور عبادات کا تفصیلی طور پر بجا لانا ایک دوسرا قدم ہے۔ پس جو شخص پہلا قدم اٹھائیگا۔ وہی دوسرا قدم اُٹھا سکے گا۔
یہ امر یادر کھنا چاہیے کہ قرآن کریم کبھی تو درجات کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے حقوق کا پہلے ذکر کر دیتا ہے اور بندوں کے حقوق کا بعد میں ذکر کرتا ہے۔ اور کبھی بندوں کے حقوق کا پہلے ذکر کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حقوق کو بعد میں رکھتا ہے۔ درجہ کے لحاظ سے چونکہ اللہ اعلیٰ ہے اور انسان ادنیٰ اس لئے اللہ تعالیٰ کے حقوق کا ذکر پہلے رکھا جاتا ہے۔اور بندوں کے حقوق کو بعد میں۔ مگر جہاں بندوں کے حقوق کا ذکر پہلے ہوتا ے وہاں ان کی کمزوری کو مدنظر رکھ کر پہلے ذکر کیا جاتا ہے۔ اور چونکہ اللہ تعالیٰ کمزور نہیں بلکہ طاقتور ہے اس لئے اس کے حقوق کا بعد میں ذکر کیا جاتا ہے۔ جیسے اسی آیت میں یتامیٰ کی کمزوری کے لحاظ سے ان کا پہلے ذکر کیا گیا ہے اور مساکین کا بعد میں ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن اَقِیْمُوا الصَّلوٰۃَوَاٰتُوا الذَّکٰوۃَ میں اللہ تعالیٰ نے پہلے اپنے حق بیان فرمایا ہے اور بعد میں بندوں کا حق بیان کیا ہے۔
اَقِیْمُوا الصَّلوٰۃمیں استقلال کے ساتھ بغیر کسی ناغہ کے نماز ادا کرنا شامل ہے۔ اور نوافل اس کے تابع ہیں اوروَاٰتُوا الذَّکٰوۃَ میںصدقہ و خیرات بھی شامل ہیں۔ جو زکوٰۃ کے تابع ہے۔ گویا بدنی اور مالی دونوں قسم کی عبادات کی ادائیگی کا اس آیت میں ذکر فرمادیا۔
بہرحال قرآن کریم نے بائیبل کے پراگندہ احکام کو ایسی عجیب ترتیب دی ہے کہ جس سے ان احکام کی عظمت اور بھی نمایاں ہو گئی ہے۔ اول خدا تعالیٰ کی عبادت کو لیا کہ وہ سب سے اعلیٰ ہے۔ پھر بندوں سے حُسن سلوک کا ذکرکیا۔ اور اُن میں سے بھی پہلے والدین کا ذکر کیا جو بطور حق کے حسنِ سلوک کے مستحق ہوتے ہیں۔ پھر قریبیوں اور رشتہ داروں کو رکھا۔ جن کا مقام والدین کے بعد دنیا میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد عام لوگوں کو لیا۔ اور اُن میں سے پہلے اُن کا ذکر جو اپنی خبر گیری آپ کرنے کے قابل نہیں ہوتے یعنی یتامیٰ۔ پھر مساکین کو لیا جو بوجہ خود طاقت رکھنے کے اسقدر مدد کے محتاج نہیں ہوتے جس قدر کہ یتامیٰ۔ اِس کے بعد قُوْ لُوْالِلنَّاسِ حُسْنًا۔ فرما کہ سب لوگوں سے نیک سلوک کرنے کا حکم دیا۔ جس میں دو امور شامل تھے۔ اوّل تمام بنی نوع انسان سے مذہب و ملّت کے امتیاز کے بغیر حسن سلوک۔ دوم بنی نوع انسان کی ترقی کی فکر اور دوسرے لوگوں کو اس کی تلقین۔ پھر یہودیوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ جب تم خدا اور اس کی مخلوق دونوں کے حقوق توڑتے ہو اور ان احکام کی پرواہ نہیں کرتے حالانکہ تم ان کو تسلیم کرتے ہو تو یہ کس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ تم اِن حالات میں مومن ہو۔ اور وہ قوم جو دنیا کی اصلاح کر رہی ہے کافر ہے؟حقیقت یہی ہے کہ تمہارا خدا تعالیٰ سے کوئی تعلق نہیںرہا۔ اور تم صداقت سے بہت دور جا چکے ہو۔
اس جگہ اس سوال پر روشنی ڈالنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں لَا تَعْبُدُوْا اِلَّا اللَّہَکہنے کی بجاے لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللَّہَکیوں فرمایا ہے۔ اگر لَا تَعْبُدُوْا اِلَّا اللَّہَکہاجاتا تو اس کے معنے یہ ہوتے کہ تم نے خدا تعالیٰ کے سوا اور کسی کی پرستش نہیں کرنی۔ مگر کہا یہ گیا ہے لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللَّہ یعنی ہم نے انہیں کہا۔کہ تم خدا تعالیٰ کے سوا اور کسی کی پرستش نہیں کروگے۔ گویا بجائے نہی پر زور دینے کے اُن سے اس توقع کا اظہار کیا گیا ہے کہ وہ خدا کے سوا اور کسی کے سامنے سر بسجود نہیں ہونگے۔ پس طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں خداتعالیٰ نے نرالا طریق کیوں اختیار کیا ہے۔ سو یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن کریم اور عام عربی زبان کا یہ محاورہ ہے کہ بعض دفعہ نہی پر زور دینے کے لئے نہی کی بجائے نفی استعمال کرتے ہیں تاکہ وہ بات زیادہ زوردار طریق پر زہن نشین کروائی جا سکے۔ اس کی مثال ہماری زبان میں بھی پائی جاتی ہے۔ ہم بعض دفعہ ایک بچہ کو بجائے یہ کہنے کے کہ تم ایسا مت کرو یہ کہتے ہیں کہ میں اُمید کرتا ہوں کہ تم ایسا ہرگز نہیں کرو گے۔ یا کہتے ہیں کہ میں تو یہ خیال بھی نہیں کر سکتا کہ تم ایسا کروگے۔ اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا یہ طریق نہی سے زیاد ہ موثر ہے۔ یہی طریق اللہ تعالیٰ نے اس جگہ اختیار فرمایا ہے۔ اور لَا تَعْبُدُوْا اِلَّا اللَّہَکہنے کی بجائیَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللَّہَفرماکر اپنے اس یقین اور اعتماد کا اظہار کیا ہے کہ تمہارے متعلق تو یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ تم شریک کروگے۔ بلکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ تم ہمیشہ اُسی کی عبادت کیا کرو گے۔گویا یہ کام صرف بُرا ہی نہیں بلکہ ایک اور وجہ ہے جس کی وجہ سے تمہیں اس سے بچنا چاہیے۔ اور وہ ہمارے اور تمہارے تعلقات ہیں۔ ہم اُمید رکھتے ہیں کہ تم ان تعلقات کی وجہ سے ایسا کبھی نہیں کرو گے۔ یہ جذبات کو اُبھارنے کے لئے ایک نہایت ہی موثر طریق کلام ہے۔ اس سے جذباتِ محبت برانگیختہ ہو جاتے ہیں۔ اور اگر اس کے بعد بھی کوئی شخص ایسے حکم کو توڑے تو اس کا جرم زیادہ شدید ہو جاتا ہے کیونکہ وہ ایک حکم کو بھی توڑتا ہے اور دوسرے کی امید بھی ٹھکرا دیتا ہے۔
اِس کی اور توجیہات بھی کی گئی ہیں۔ مگر میرے نزدیک جذباتی پہلو کے لحاظ سے اس توجیہہ کو دوسری توجیہات پر فضیلت حاصل ہے۔ اس کی ایک توجیہہ یہ بھی کی جاتی ہے کہ اصل میں یہ عَلَی اَنْ لَّا تَعْبُدُوْا ہے۔ حرف جار کو حذف کر دیا گیا ہے۔اور اس کے بعد اَنْ کو بھی محذوف کر کے فعل کو مرفوع بنا کر لَّا تَعْبُدُوْاکر دیاگیا ہے۔ اور گویہ یہ بھی ممکن ہے ۔ مگر میرے نزدیک پہلے معنے زیادہ اچھے ہیں۔ کیا بلحاظ معنوی خوبی کے اور کیا بلحاظ ظاہری کے نفی اُمید بھی دلاتی ہے اور اس میں نہی بھی آجاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے بنی اسرائیل سے ان توقعات کا اظہار کیا تھا کہ تم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی عبادت بجا لائو گے۔ والدین کے ساتھ نیک سلوک کروگے یتامیٰ کے ساتھ حسن سلوک کرو گے۔ مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک کروگے۔ اور لوگوں کو ہمیشہ اچھی باتیں کہو گے۔ نمازیں پڑھو گے۔ زکوٰۃ دو گے۔ اور یہ وہ احکام ہیں جن سے تمہیں کوئی اختلاف نہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کے متعلق تمہیں اختلاف ہے۔ حضرت مسیحؑ ناصری کی صداقت کے متعلق تمہیں اختلاف ہے مگر یہ ایسی باتیں ہیں جن سے تمہیں کوئی اختلاف نہیں بلکہ تم خود ان کو اپنے لئے تسلیم کرتے ہو۔ تمہیں کہا گیا تھا کہ تم توحید الہٰی پر قائم رہو اور تم اس بات کو مانتے ہو کہ تمہیں ایسا حخم دیا گیا تھا۔ تمہیں کہا گیا تھا کہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرو۔ اور تم تسلیم کرتے ہو کہ تمہیں واقع میں یہ تعلیم دی گئی تھی۔ تمہیں رشتہ داروں ،یتامیٰ اور مساکین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا گیا تھا۔ اور تم مانتے ہو کہ یہ بات درست ہے۔ پھر تمہیں یہ بھی کہا گیا تھا کہ تم لوگوں کو تکلیف نہ دو۔ ان کے جذبات کا خیال رکھو۔ اُن کے ساتھ اچھی طرح پیش آئو۔ اور تم یہ اقرار کرتے ہو کہ ہمیں یہ احکام دیئے گئے تھے۔ پس سوال یہ ہے کہ کیا تم ان احکام پر عمل کرتے ہو ۔ اگر تم اپنے حالات کا جائزہ لو تو تمہیں ماننا پڑے گا کہ تم ان احکام پر عمل نہیں کرتے ۔
اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ ہر قوم میں کچھ افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جو عام خرابی واقع ہونے کے بعد بھی نیکی پر قائم رہتے ہیں مگر وہ قوم بحیثیت مجموعی مُردہ ہی کہلاتی ہے کیونکہ اس کی اکثریت احکامِ الہٰی سے اعراض کر رہی ہوتی ہے اور یہی یہود کی کیفیت تھی۔
یہاں یہ شُبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ ممکن ہے یہود نے صرف ظاہری طور پر کسی مجبوری یا ناواقفیت کی وجہ سے ایسا کیا ہو۔ ورنہ دلوں میں وہ ان احکام کی عظمت اور ان کی اہمیت کے قائل ہوں۔ جیسے مسلمانوں میں کئی ہیں جو نمازیں نہیں پڑھتے۔ کئی ہیں جو روزے نہیں رکھتے کئی ہیںجو زکوٰۃ نہیں دیتے۔ کئی ہیں جو استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتے۔ مگر وہ اپنے دلوں میں نماز اور وروزہ اور زکوٰۃ اور حج کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ اور اپنی بدعملی کو صرف غفلت اور گناہ کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ اِسی طرح ممکن ہے یہود بھی صرف ظاہری طور پر بد عمل ہو چکے ہوں اور دلوں میں ان احکام کی عظمت کے قائل ہوں۔ اس شُبہ کے ازالہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ وَاَنْتُمْ مُّعْرِضُوْنَ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْمیں تو اس طرف اشارہ فرمایا کہ تمہارا ان احکام پر ظاہری طور پر کوئی عمل نہیں۔ اور َاَنْتُمْ مُّعْرِضُوْنَ فرما کر اس طرف توجہ دلائی کہ تمہارے دلوں میں بھی ان کی طرف کوئی رغبت نہیں رہی۔ اور اب تم موسوی شریعت سے کلی طور پر بیگانہ ہو چکے ہو۔ گویا ظاہری طو پر بھی تم میں بے دینی اور اباحت پیدا ہو گئی ہے اور باطنی طور پر بھی تمہاری روحانیت مر چکی ہے۔
وَاِذْاَخَذْنَا مِیْثَا


اَنْتُمْ تَشْھَدُوْنَo
۲ ؎ تفسیر:۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ یہود کے دو۲ اور تمدنی نقائص بیان کرتا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں ان میں خاص طور پر پائے جاتے تھے۔ اورجن کے وہ اکثر مرتکب ہو ا کرتے تھے۔ فرماتا ہے کہ تم اس وقت کو بھی یاد کرو۔ جب ہم نے تم سے یہ عہد لیا تھا کہ تم اپنے خون نہ بہائو گئے اور اپنے آپ کو اپنے گھر وں سے نہ نکالو گے۔
اپنے خون بہانے سے اس جگہ اپنے ہم قوموں کا قتل مراد ہے۔ اور یہ الفاظ اس لئے اختیار کئے گئے ہیں کہ اپنی قوم کو قتل کرنا درحقیقت اپنا ہی قتل کرنا ہوتا ہے۔ کیونکہ بعض افرادکی ہلاکت یا ان کا قتل تمام قوم پر بحیثیت مجموعی اثر انداز ہوتا ہے۔ اِسی طرح اپنے آپ آپ کو گھروں سے نکال دینے سے بھی اپنے آپ کو گھروں سے نکالنا مراد نہیں ۔جیسا کہ خود اگلی آیت سے ظاہر ہوتا ہے بلکہ اس سے مراد بھی اپنی قوم کا نکالنا ہے۔ ورنہ کوئی شخص اپنے آپ کو اپنے گھر سے نکالا نہیں کرتا۔ اس جگہ بھی پچھلی بیان کردا حکمت کے ماتحت قوم کے بعض افراد کے نکالنے کا ذکر کرنے کی بجائے اپنا نکالنا بیان کیا گیا ہے تاکہ انکو اپنی حمایت کا احساس ہو۔ مطلب اس آیت کا یہ ہے کہ ایک دوسرے کو قتل کرنا اور اپنی قوم کو اپنے گھروں سے نکالنا تمہارے لئے ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ مگر تم نے اس حکم کو بھی توڑا جیسا کہ اگلی آیت میں بیان کیا گیا ہے۔
اِس آیت کے شروع میں الفاظ وَاِذْاَخَذْنَا مِیْثَا تَکُمْ رکھے گئے ہیں۔ اور اس سے پہلی آیت کو وَاِِذْاَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْ ٓاِسْرَآئِ یْلَسے شروع کیا گیا ہے۔حالانکہ دونوں عہد بنی اسرائیل سے ہی لئے گئے تھے۔پھر ان دو آیتوں میں مختلف الفاظ کیوں رکھے گئے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم کا یہ ایک عجیب کمال ہے جو اس کے بے نظیرہونے کے ہزاروں دلائل میں سے ایک دلیل ہے۔ کہ وہ الفاظ کی خفیف تبدیلیوں سے مختلف مضامین ادا کر جاتاہے اور فقروں کا کام لفظوں سے لے لیتا ہے۔ اس جگہ بھی بنی اسرائیل کی جگہ کُمْ رکھا کر ایک خاص امر کی طرف متوجہ کیا ہے اور وہ یہ کہ اول الذکر بدیاں تو وہ تھیں جو اس وقت تمام بنی اسرائیل میں پھیلی ہوئی تھیں۔ اور موخر الذکر بدیاں وہ ہیں جو خاص طور پر یہود کے اُن قبائل میں رائج تھیں جو مدینہ اور اس کے نواح میں رہتے تھے۔ پس ایک جگہ بنی اسرائیل کا لفظ رکھ کر اس کی عمومیت کی طرف اشارہ کیا تو دوسری طرف کُسند فرما کر عرب کے یہودقبائل کو خاص طور پر مخاطب کیا اور انہیں اس طرف توجہ دلائی۔ کہ ان بدیوں کے تم خاص طور پر شکار ہو۔
ثُمَّ اَنْتُمْ ھٰٓؤُ






عَمَّا تَعْمَلُوْنَo
ثُمَّ اَقْرَرْ تُمْ وَ اَنْتُمْ تَشْھَدُوْنَ۔اَس میں بتایا کہ بعض اوقات محض ادب کی وجہ سے انسان کسی بات کو مان لیتا ہے ۔ مگر اس کا دل اس کی برتری اور اہمیت کا قائل نہیں ہوتا۔ لیکن ہمارے یہ اکحکام اتنے اعلیٰ درجہ کے تھے کہ نہ صرف تم نے اپنی زبانوں سے اس کا اقرار کیا بلکہ تمہارے دل بھی تسلیم کرتے تھے کہ یہ احکام بہت مفید ہیں۔ مگر تم نے اپنے اقرار کو بھی پسِ پُشت پھینک دیا۔ اور اپنی قلبی شہادت کو بھی ٹھکرا دیا۔ اور اپنے بھائیوں کے خالف تم نے جنگ شروع کر دی۔
۳؎ حل لغات:۔خَزْی’‘۔یہ لفظ ذلّت سزا۔بُعد اور ندامت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ لُغت میں لکھا ہے۔ اَلخِزْیُ: اَلْھَوَانُ وَالْعِقَابُ وَالْبُعْدُ وَالنَّدَامَۃُ۔(اقرب الموارد)
تفسیر:۔اس آیت میں بتایا کہ یہود کی یہ کیفیت ہے کہ باوجود اس کے کہ شریعت میں ان کو ان دونوں کاموں سے روکا گیا تھا۔ پھر بھی وہ ایک دوسرے کو قتل کرتے اور ایک دوسرے کو ان کے گھروں سے نکالتے ہیں۔ گھروں سے نکالنے کا مطلب یا تو جلاوطن کرنا ہوتا ہے یا دوسرے کو غلام بنا لینا ۔ غلام چونکہ دوسرے کے تابع ہوتا ہے اور وہ اُسے جہاں چاہے لے جا سکتا ہے۔ اس لئے اس جگہ گھروں سے نکالنے کے معنے جلاوطنی کے نہیں بلکہ غلامی کے ہیں۔ بلخصوص اس وجہ سے بھی کہ اس سے پہلے سَفْکُ الدِّمَآئَ کا ذکر کیا گیا ہے۔ جس میں جگ کی طرف اشارہ ہے۔ پس ضروری ہے کہ گھروں سے نکالنے کے معنے غلامی ہی کے لئے جائیں جو جنگ کے نتیجہ میں لازماً پیدا ہوتی ہے۔
یہ حکم کہ تم دوسروں کو قتل نہ کرو۔ خروج باب۲۰ آیت ۱۳ میں اس طرح آتا ہے کہ
’’تو خون مت کر۔‘‘
اور دوسروں کو گھروں سے نہ نکالنے کا اصولی ذکر خروج باب ۲۱ آیت ۱۶ میں پایا جاتا ہے۔ وہاں لکھا ہے۔
’’اور جو کوئی کسی آدمی کو چُرائے خواہ وہ اُسے بیچ ڈالے خواہ وہ اس کے ہاں ملے۔ وہ قطعی مارڈالا جائے۔‘‘
اِسی طرح کسی اسرائیل کو غلام بنانے کی ممانعت کا ذکر احبار باب ۲۵ آیت ۳۹ تا ۴۱ میں اس طرح کیا گیا ہے کہ
’’اگر تیرا بھائی جو تجھ پاس ہے مجلس ہو جائے اور تیرے ہاتھ بک جائے تو تُو اس سے غلام کی مانند خدمت نہ کروا بلکہ وہ مزدور اور مسافر کی مانند تیرے ساتھ رہے اور یوبل کے سال تک تیری خدمت کرے۔ اور بعد اس کے وہ تجھ سے جُدا ہو جائیگا۔ اور وہ اور اس کے لڑکے اُس کے ساتھ اور اپنے گھرانے کے پاس اور اپنے باپ کی ملکیت کو پھر جائیگا۔‘‘
اِسی طرح احبارباب۲۵ آیت ۵۴ میں لکھا ہے:۔
’’اگر وہ اِن برسوں میں چھڑا یا نہ جائے تو یوبل کے سال میں(جو ہر ساتویں سال آتا ہے) وہ آزاد ہو جائیگا۔ اور اس کے لڑکے اس کے ساتھ۔‘‘
اِن احکام سے یہود نے جو کچھ نتیجہ نکالا وہ نحمیاہ نبی کے طریق عمل سے ظاہر ہے جنہوں نے بنی اسرائیل کے سب غلاموں کو آزاد کروادیا۔ ان کو بھی جو غیر قوموں کے پاس تھے اور ان کو بھی جو اپنوں کے پاس تھے۔(نحمیاہ باب ۵ آیت۸)
اور ظالمودک زمانہ میں تو یہود کا اس بات پر اتفاق ہو گیا تھا کہ یہودی غلام نہیں بنایا جا سکتا۔ چنانچہ انسائیکلوپیڈیا ببلیکا جلد ۴ میں لکھا ہے۔
’’یہ اصل کہ کوئی یہودی کبھی غلام نہیں بتایا جا سکتا طالمودی قانون میں شامل کیا گیا۔ حتیٰ کہ وہ چو ر بھی جسے اُس کے جرم کی وجہ سے فروخت کیا جاتا ہے۔ غلام نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اور سلوقیوں SCLEUCIDS اور ٹولمیوںPTOLEMIESکی جنگ کے وقت جب بہت سے یہودی کافروں کے ہاتھ میں قید ہو گئے تو ان کا چھڑانا ایک فرض اور ثواب کا کام سمجھا جاتا تھا۔‘‘
(انسائیکلوپیڈیا بلبیکا جلد۴ کالم نمبر۴۶۵۷)
اِن احکام سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں کو غلام بنانا جو اُن کو گھروں سے نکالنے کے مترادف ہے بائیبل کے حکم کے مطابق ناپسندیدہ سمجھا جاتا تھا۔ اور اگر کوئی قید ہو جائے تو اس کے لئے ایسے احکام تھے جن کے نتیجہ میں وہ جلد سے جلد آزاد ہو جائے۔ یہودی غلام صرف دو طرح بند سکتاتھا۔ اول اس طرح کے کوئی اپنے آپ کو بیچ ڈالے۔ ہماری شریعت نے اسے ناجائز قرار دیا ہے مگر اُن میں یہ جائز تھا۔ وہ قرضہ اور تنگی کے باعث اپنے آپ کو فروخت کر سکتے تھے۔ دوم اس طرح کہ عدالت ان کو بیچ دے۔ خواہ قرضہ میں بیچے یا کسی ایسے جرم کے نتیجہ میں بیچے جس سے مالی طور پر دوسرے کا نقصان ہوا ہو۔ مثلاً کسی نے چوری کر لی ہو یا غبن کر لیا ہو یا کوئی اور نقصان پہنچایا ہو۔ مگر اِن دونوں صورتوں میں غیر یہودی کے ہاتھ میں اس کا غلام ہونا بہت ہی بُرا سمجھا جاتا تھا۔ حتیٰ کہ عدالت جس کو بیچتی تھی اس کو بھی کسی غیر یہودی کے ہاتھ نہیں بیچ سکتی تھی۔
اِس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ باوجود اس کے کہ تم کو یہ احکام دیئے گئے تھے تم ایک دوسرے کو قتل کرتے ہو۔ یعنی اس سے جنگ کرتے ہو۔ اور تم میں سے ایک فریق اپنے آدمیوں کو ان کے گھروں سے باہر نکالتا ہے۔ یعنی اس جنگ کے نتیجہ میں وہ قید ہو کر غلام بنا لئے جاتے ہیں اور اس طرح ایک دوسرے کے خلاف دشمنوں کی گناہ اور ظلم سے مدد کرتے ہو۔ حالانکہ شرعاً تمہارے لئے ان کے خلاف ایسا قدم اٹھانا جائز ہی نہیں۔ اور اگر وہ قیدی کی صورت میں تمہارے پاس لائے جاتے ہیں تو تم فدیہ دیکر ان کو چھڑا لیتے ہو۔ حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ ان کا گھروں سے نکالنا بھی تم پر حرام کیا گیا تھا۔ یعنی پہلا کام جس کے نتیجہ میں تم فدیہ دیکر انہیں چھڑاتے ہو وہ بھی حرام تھا۔ مگر تم نے اس کا ارتکاب کر لیا۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ تم کتاب کے ایک حصہ پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے کا انکار کرتے ہو۔
اللہ تعالیٰ نے اس جگہ یہود کے ان واقعات کی طرف اشارہ کیا ہے جن کا وہ مدینہ کے مشرک قبائل کے ساتھ مل کر ارتکاب کیا کارتے تھے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدینہ منورہ تشریف لانے سے قبل مشرکوں کی دو پارٹیاں تھیں۔ جن میں سے ایک کا نام اوس اوردوسری کا نام خزرج تھا۔بعثت سے کچھ عرصہ پہلے سے ان کی آپس میں جنگ چلی آتی تھی۔ یہودی قبائل جو مدینہ میں اس خیال سے آکر آباد ہو گئے تھے کہ جب وہ موعود نبی جو اس ملک میں آنے والا ہے آئیگا تو ہم اُس پر ایمان لائیں گے۔ وہ تین تھے۔ بنو قریظہ۔ بنو قینقاع اور بنو نضیر۔ اُس زمانہ کے دستور کے مطابق جتھہ بندی ہی اس کا ذریعہ تھی۔ اس کے بغیر لوگ اطمینان سے نہیں رہ سکتے تھے چونکہ اوس اور خزرج کی آپس میں جنگ تھی اس لئے انہوں نے یہودی قبائل سے سمجھوتہ شروع کر دیا ۔
بنو قینقاع اور بنو قریظہ اوس کے حلیف ہ گئے اور بنو نضیر خزرج کے ساتھ مل گئے۔ جب اوس اور خزرج میں جنگ ہوتی تو یہودی بھی اپنے معاہدہ کے مطابق اُن کے ساتھ جنگ میں شامل ہوتے اور اُن کے ساتھ ہو کر لڑتے اور ان کی مدد کرتے۔ اس طرح ہر قبیلہ اپنے عمل سے دوسرے یہودی قبیلہ کو جنگ کے لئے اس کے گھر سے نکالتا۔ لیکن جنگ کے بعد ان میں سے جو پارٹی بھی جیتتی وہ جہاں دوسرے قبیلہ کے آدمیوں کو قید کرتی وہاں یہودیوں کو بھی قید کر لیتی۔ اس پر اُس پارٹی کے یہودی جو ہار جاتی تھی اُن سے جا کر کہتے کہ ہمارے مذہب میں یہودی کو غلام بنانا ناجائز ہے اس لئے تم فدیہ لے کر ان کو چھوڑ دو۔ چنانچہ وہ آپس میں چندہ کر کے ایک بڑی رقم بطو ر فدیہ اُن کو دیدیتے اور یہود کو مشرکین کی غلامی سے آزاد کروالیتے اور کہتے کہ یہودی کا کسی غیر یہودی کے پاس غلام رہنا درست نہیں۔اللہ تعالیٰ یہود کے اس فعل کو قابل مذمت قرار دیتا ہوئے فرماتا ہے کہ تم کو دو باتوں سے منع کیا گیا تھا۔ آپس میں جنگ کرنے سے بھی اور اپنے بھائیوں کو غلام بنانے سے بھی۔ مگر تم جنگ بھی کرتے ہو اور اُس کے نتیجہ میں اپنی قوم کے افراد کو غیر یہودیوں کا غلام بنانے یا بنوانے کی کوشش بھی کرتے ہو۔ مگر غلام بنواتے وقت تو نہیں یہ خیال آتا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ اور جب وہ غلام بن جاتے ہیں تو تم برے نیک بن کر انہیں فدیہ دے کر چھڑالیتے ہو اور کہتے ہو کہ ہمارے مذہب میں اللہ تعالیٰ نے یہود کو غلام بنانا حرام کیا ہوا ہے۔ حالانکہ تم خود غیر یہودیوں کی مدد کر کے آپس میں جنگ کرتے ہو اور یہودیوںکو اُن کے ہاتھوں میں قید کرواتے اور اُن کو غلام بناتے ہو۔ پس اِس سے زیادہ اور کیا شرارت ہو گئی کہ تم ایک حصہ کتاب کو تو مانتے ہو اور ایک کو رد کرتے ہو۔ ایک طرف یہودی غلاموں کو آزاد کرواتے ہو اوردوسری طرف خود ایسے اسباب پیدا کرتے ہو جن سے وہ غلام بنیں۔ پھر تمہارا آپس میں تو کوئی جھگڑا ہی نہیں۔ تم صرف ایک مشرک قبیلہ کی دوستی کی وجہ سے لڑتے ہو اور اپنے آدمیوں کو غیر مذاہب والوں کا غلام بنا کر کہتے ہو کہ ان کو چھڑانا چاہیے۔
تاریخ میں لکھا ہے کہ جب عرب کے قبائیل یہودیوں کا طعنہ دیتے کہ تم یہ کیا کرتے ہو کہ خود پہلے جنگ کرتے ہو اور پھر فدیہ کے کر اور یہ کہہ کر کہ ہم نے یہود کا غلام بنانا ناجائز ہے ان کو چھڑاتے ہو تو وہ کہتے کہ ہمارے لئے ان سے لڑنا تو منع ہے لیکن ہمیں اپنے حلیفوں سے شرم آ جاتی ہے اور مجبوراً لڑائی میں شامل ہو جاتے ہیں اس لئے بعد میں فدیہ دے دیتے ہیں۔ (محیط) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا تم کتاب کے ایک حصہ پر یامان لاتے ہو اوردوسرے کا انکار کرتے ہو۔ یعنی جو شخص ایک حصہ کتاب کا مانتا ہے وہ اپنے عمل سے اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ وہ اس کتاب کی صداقت کا قائل ہے۔ پاس اس کا دوسرے حصے کو ترک کرنا اس کے نفس کی گندگی پر دلالت کرتا ہے۔
فَمَا جَزَآئُ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلَّا خِزْی’‘فِی الْحِیٰوۃِ الدُّنْیَا وَیَوْ مَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلیٰ اَشَدِّ الْعَذَابِ۔فرماتا ہے کہ تمہارے جیسے لوگ جن کو اصلاح کے اِس قدر مواقع دیئے گئے ہیں اور جو خدا تعالیٰ کی باتوں سے اِس قدر واقف ہیں تمہیں سوائے اس کے اور کیا سزا دی جا سکتی ہے کہ ان جرائم کی وجہ سے تمہیں دنیا میں رسوا کر دیا جائے اور آخرت میں تو اس سے بھی زیادہ سخت عذاب کی طرف تمہیں لوٹایا جائیگا۔
حقیقت یہ ہے کہ ایک بہت بڑی مرض جو انسان کی رُوح کو کھانے والی ہے وہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ اپنے منشا اپنے خیالات اور اپنی ارزو کے مطابق مذہب کی جس بات کو دیکھتے ہیں صرف اُس پر عمل کرنا وہ اپنے لئے کافی سمجھ لیتے ہیں اور اس بات کی کوئی پروا نہیں کرتے کہ کئی اور احکام بھی ہیں جن کو وہ بڑی دلیری سے نظر انداز کر رہے ہیں۔ چونکہ بنی نوع انسان کی عادات مختلف حالات اور مختلف صحبتوں کی وجہ سے بدلتی رہتی ہیں۔ اس لئے ہر انسان اپنا ایک خاص ذوق رکھتا ہے جس کو وہ پورا کر لیتا ہے۔ اور وہ چیز اس کے ذوق کے خلاف ہو اُسے نظر انداز کر دیتا ہے۔ اگر اپنے ملک کے مختلف علاقوں پر ہی نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہو گا کہ بعض مقامات کے لوگ نمازوں کے زیادہ پابند ہوتے ہیں اور روزوں میں سُستی کرتے ہیں۔ بعض جگہ کے لوگ زکوٰۃ تو بڑی پابندی سے دیتے ہیں مگر نماز اور روزہ کی پروا نہیں کرتے۔ اِسی طرح بعض جگہ تماز اور روزہ کی تو پابندیکی جاتی ہے مگر زکوٰۃ کی طرف توجہ نہیں کی جاتی۔ پھر بعض جگہ کے لوگ باوجود استطاعت کے حج نہیں کرتے اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ اگر حض کے لئے بھی جائیں تو شائد اس سفر میں بھی نماز نہ پڑھیں۔ اب اس نماز اس روزہ اس زکوٰۃ اور اس حج کو خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری نہیں کہا جا سکتا۔ کیونکہ اگر وہ خدا تعالیٰ کی سچے دل سے فرمانبرداری کرتے تو جس خدا نے نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے اُسی نے روزے رکھنے کابھی حکم دیا ہے۔ اور جس خدا نے زکوٰۃ کا ارشاد فرمایا ہے اُسی نے حج کی بھی تاکید فرمائی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا ایک حکم ماننے اور دوسرے کو ترک کرنے نے اس بات کو ثابت کردیا کہ ایسے لوگ جس فعل کو کدا تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری سمجھتے ہیں وہ درحقیقت فرمانبرداری نہیں بلکہ اُن کے نفس کا ایک دھوکا ہوتا ہے۔ اطاعت اور فرمانبرداری کا ثبوت تب ملتا ہے جب انسان ہر رنگ میں اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کا فرمانبردار ہو۔ خواہ وہ حکم اس کے منشاء خیالات اور رسم و رواج کے مطابق ہو یا مخالف۔
بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی طبیعتوں میں غصہ نہیں ہوتا۔ اُن کے خلاف اگر کوئی بات کہتا ہے تو وہ بڑی خندہ پیشانی سے اس کو برداشت کرتے ہیں لیکن اگر ان پر کوئی ایسا موقعہ آئے جہاں خدا تعالیٰ کے لیئے ناراضگی کے اظہار کی ضرورت ہو اور وہاں بھی وہ عفو اور درگذر کریں تو معلوم ہو جائے گا کہ اُن کا عفو اور درگذر اپنے اندر کوئی نیکی نہیں رکھتا۔ اگر اُن کا عفو اللہ تعالیٰ کے حکم اور منشاء کے ماتحت ہوتا تو جہاں اللہ تعالیٰ کے حکم اور منشاء تھا کہ عفو سے کام نہ لیا جائے وہاں وہ کیوں عفو سے کام لیتے۔
غرض اطاعت صرف اپنے ذوق کے مطابق احکام پر عمل کرنے کا نام نہیں ۔ بالکہ خدا تعالیٰ کے ہر حکم پر عمل کرنیکا نام ہے خواہ وہ کسی کی عادات یا مزاج کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
اِس جگہ اللہ تعالیٰ یہود کی نسبت فرماتا ہے کہ اُن کا بھی یہی حال تھا۔ وہ بڑے بڑے گناہ تو کر لیتے تھے لیکن چھوٹی چھوٹی باتوں اور حکموں کے متعلق کہہ دیتے کہ ہم ان کی پابندی کرتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے۔ اُن کو حکم تھا کہایک دوسرے کو قتل مت کرو۔ اُن کو حکم تھا کہ اپنے لوگوں کو گھروں سے مت نکالو۔ مگر وہ لڑائی جھگڑے میں ایک دوسرے کو خود قتل کرتے اور اپنی قوم کے لوگوں کو گھروں سے نکالنے کا موجب بنتے لیکن جب اس کے بعد ان کا کوئی آدمی قید ہو جاتا تو پھر وہ چندہ کر کے اس کو چھڑانے کی فکر کرتے اور کہتے کہ بائیبل کا چونکہ حکم ہے کہ کوئی یہودی کسی غیر قوم کے پاس قید نہ رہے اس لئے ہم اس حکم کی تعمیل میں اسے چھڑاتے ہیں۔ انہیں اپنے بھائیوں کو قتل کرنے اور انہیں جلا وطن کرنے کے وقت تو بائیبل کا حکم یاد نہ آتا لیکن قید کے لئے یاد آجاتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا ان کی اس اطاعت سے ہم خوش ہو سکتے ہیں۔ کہ جو حکم اپنی مرضی کے مطابق دیکھا اُس کی تعمیل کر لی اور جو نہ دیکھا اُس کو پسِ پُشت ڈالدیا ایسے لوگوں کو ہم ذلیل اور رُسوا کریں گے کیونکہ یہ لوگ جب اپنی مرضی کے خلاف کوئی بات دیکھتے ہیں تو بڑے بڑے احکام کی پروانہیں کرتے اور جب اپنی مرضی کے مطابق پاتے ہیں تو مان لیتے ہیں۔ حالانکہ سچا مومن وہ ہے جو ہر بات میں خدا تعالیٰ کی رضا کو مدنظر رکھے۔
حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ ایک شخص جو زانی تھا میں نے اس کو نصیحت کی کہ یہ کام چھوڑ دو۔ وہ کہنے لگا۔ میں نے تو فلاں عورت سے عہد کیا ہوا ہے کہ تم سے بیوفائی نہیں کرونگا۔ اگر آپ فرماتے ہیں تو میں بیوفائی کا جرم کر لیتا ہوں۔ گویا اُس شخص نے بے وفائی اور عہد کے توڑنے کو تو گناہ سمجھا لیکن زنا کے متعلق کسی گناہ کا خیال نا آیا۔ پس مومن کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر وقت ہوشیار رہے اور یہود کی طرح اللہ تعالیٰ کے احکام کے ساتھ یہ تمسخر نہ کرے کہ جس حکم پر جی چاہا عمل کر لیا اور جس کے متعلق جی چاہا اُسے نظر انداز کر دیا۔ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ خبر دی تھی کہ ایک زمانہ میں مسلمان بھی یہود کے نقش قدم پر چلیں گے جس طرح ایک بالشت دوسری بالشت کے اور ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کے مشابہ ہوتا ہے۔(بخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ) اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ جب اسلام پر تنزل کا دور آیا تو وہ تمام خرابیاں جو یہود میں پائی جاتی تھیں ۔
اُولٰئِٓکَ الَّذِیْنَ

یُنْصَرُوْنَo
ایک ایک کر کے مسلمانوں میں بھی پیدا ہونے لگ گئیں۔ یہود کو کہا گیا تھا کہ لَاتَسْفِکُوْنَ وِمَآ ئَ کُمْ دیکھواپنی قوم کے افراد سے مت لڑو۔ اور اُن کا خون مت بہائو۔ ورنہ تم کمزور ہو جائو گے۔ اور یہی نصیحت مسلمانوں کو بھی کی گئی تھی۔ مگر اسلام کے دَورِ تنزل کی تاریخ اس بات پر شاہدہے کہ مسلمانوں نے خود مسلمانوں کا خون بہایا۔ اور اپنی حکومتوں کو تبا کرنے کے لئے انہوں نے ہر قسم کی خفیہ ریشہ دوانیوں اور سازشوں سے کام لیا یہاں تک کہ عیسائی حکومتوں سے معاہدہ کر کے مسلمان حکومتوں کا تختہ اُلٹنے کی بھی شازشیں کیں ۔ چنانچہ خلافتِ اندلس نے روما کے عیسائی بادشاہ سے خفیہ معاہدہ کیا کہ وہ اُس کے ساتھ ملکر خلافتِ عباسید کو تباہ کر یگی۔ اور عباسی حکومت نے شاہِ فرانس سے مل کر یہ معاہدہ کیا کہ وہ سپین کی اسلامی حکومت کو مزلزل کرنے کے لئے اس کا ساتھ دے گی۔ گویا انہوں نے اپنے ہاتھ اپنے بھائیوں کے خون سے رنگے۔ اور یہ نہ سمجھا کہ اسلامی سیاست میں مسیحیوں کو داخل کر کے وہ اسلام کو کتنا بڑا نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اسی طرح صلاح الدین ایوبی جب سارے یورپ کے مقابلہ میں لڑ رہا تھا۔ اُس وقت مسلمان اور عیسائی حکومتوں نے باہم معاہدہ کر کے اس کو قتل کرنے کی سازش کی اور آخر ایک مسلمان کو ہی اس کام پر مقرر کیا گیا اور اُس نے صلاح الدین پر نماز پڑھتے ہوئے قاتلانہ حملہ کر دیا گو اللہ تعالیٰ نے اُس پر فضل کیا اور وہ اس قاتلانہ حملہ سے محفوظ رہا۔
پھر یہود کو کہا گیا تھا کہ تم نے یہ کیا دوغلی پالیسی اختیار کر رکھی ہے کہ ایک طرف اپنے بھائیوں سے جنگ کرتے ہو اور دوسری طرف جب وہ قید ہو جاتے ہیں تو تم فدیہ دے کر اُن کو چھڑانے کی کوشش کرتے ہو۔ یہی کیفیت مسلمانوں کی بھی نظر آنے لگی ۔ چنانچہ پہلی جنگ عظیم میں مسلمانوں نے ترکوں کے خلاف لشکروں میں بھرتی ہو کر جنگ کی۔ لیکن جب وہ لوگ قید ہو گئے تو پھر ان کو فدیہ دیکر چھڑانا چاہا۔ غرض جس طریق پر یہود نے قدم مارا تھا مسلمانوں نے اسی طریق پر چلنا شروع کر دیا حالانکہ یہ واقعات اس لئے بتائے گئے تھے کہ مسلمان ہوشیار رہیں اور اپنے اندر ان خرابیوں کو پیدا نہ ہونے دیں ۔ بیشک جہاں تک اہل کتاب کی اصلاح کا سوال ہے اِس سے یہود اور نصاریٰ ہی مراد ہیں۔ لیکن اس میں کیا شبہ ہے کہ مسلمان بھی اہل کتاب ہیں۔ بلکہ صحیح معنوں میں اہل کتاب صرف مسلمان ہی کہلا سکتے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک کامل کتاب عطا فرمائی ہے جبکہ دوسری قومیں ایسی کامل اور بے عیب کتاب سے محروم ہیں۔ پاس اہل کتاب ہونے کے لحاظ سے بھی مسلمانوں کا فرض تھا کہ وہ یہود اور نصاریٰ کی خرابیوں پر کڑی نگاہ رکھتے۔ اور ان کو اپنے اندر نہ آنے دیتے۔
۴؎ تفسیر:۔اِس آیت میں بتایا کہ چونکہ یہود نے دین کو چھوڑ کر دنیا اختیار کر لی ہے۔ اس لئے اِس جرم کی سزا میں اب ان سے دنیا کی حکومت چھین لی جائے گی۔ اور جب تک کہ وہ پھر دین کو اختیار نہ کریں اُس وقت تک اُن کے اس عذاب میں کمی نہیں کی جائیگی۔
فَلَایُخَفَّفُ عَنْھُمُ الْعَذَابُ وَ لَا ھُمْ یُنْصَرُوْنَ سے یہ مراد ہو سکتا ہے کہ آسمانی عذاب بھی اُن سے کم نہیں ہونگے اور دنیا کی قومیں بھی ان پر رحم نہیں کرینگی۔
قرآنی ترتیب کا یہ اصول ہے کہ وہ اپنے پہلے مضمون کو آخر میں پھر دُہرادیتا ہے۔ شروع میں بیان فرمایا تھا کہ یہود کا یہ خیال کہ ہمیں صرف چند دن عذاب ہو گا۔ غلط ہے۔ اب آخر میںفَلَایُخَفَّفُ عَنْھُمُ الْعَذَابُ فرما کر بتادیا کہ اس رکوع میں بھی لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّا اَیَّا مًا مَّعْدُوْدَۃً والا مضمون ہی چل رہا تھا جو یہاں آکر ختم ہوا۔ اور انہیں تنبیہہ کی گئی ہے کہ تم شریعت کے احکام کو اس طرح کھیل بنا لینے کے جُرم میں مختلف قسم کے آسمانی عذابوں میں گرفتار رہو گے اور تمہیں کسی کی مدد حاصل نہیں ہو سکے گی۔ پس تمہارا یہ دعویٰ کہ تمہیں صرف چند دن عذاب ہو گا باطل ہے۔ تمہیں عذاب ہو گا اور عذاب بھی ایسا کہ جو ہلکا نہیں کیا جائیگا۔ یعنی ایک لمبے عرصے تک وہ تمہیں سوزش اور جلن میں مبتلا رکھے گا۔
دوسرا خیال ان کا یہ تھا کہ ہمارا انبیاء سے تعلق ہے ۔ وہ ہماری مدد کریں گے۔ سواس کی بھی اللہ تعالیٰ نے تردید فرمادی کہ ان کا یہ خیال بھی غلط ہے۔ ان کی کوئی بھی مدد نہیں کریگا۔
غرض قرآنی ترتیب کا یہ اصول ہے کہ وہ اپنے پہلے مضمون کو آخر میں پھر دُہرا دیتا ہے اور یہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ یہاں گزشتہ بحث ختم ہوتی ہے۔اور آئندہ نیا مضمون شروع ہوتا ہے۔
اِس رکوع میں پہلے جس عہد کا ذکر کیا تھا وہ عام تھا مگر اس کے بعد اس خاص عہد کا ذکر کیا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ کے اُن یہود سے تعلق رکھتا ہے جو مدینہ اور اس کے نواح میں رہنے والے تھے۔ اس کے بعد اُن کی دو۲ اور قومی غلطیوں کا ذکر فرمایا۔ یہ وہ غلطیاں تھیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں یہود میں خصوصیت کے ساتھ پائی جاتی تھیں۔ پھر اس ترتیب میں بھی پہلے ان غلطیوں کا ذکرکیاج و نیکیوں کے ترک کرنے کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں۔ اور پھر ان غلطیوں کا ذکر فرمایا جو اپنی ذات میں گناہ اور ظلم ہیں۔
یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ گناہ دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو انسان کی اپنی ذات سے تعلق رکھتے ہیں اور دوسرے وہ جن کا بنی نوع انسان سے تعلق ہوتا ہے۔ پھر وہ گناہ بھی جنکا دوسروں سے تعلق ہوتا ہے۔ دو۲ قسم کے ہوتے ہیں۔ اوّل وہ گناہ جن میں انسان کو احسان ہو کہ میں گناہ کر رہا ہوں اور وہ اُن گناہوں کو چُھپانے کی کوشش کرے۔ دوم وہ گناہ جن کے کرتے وقت انسان محسوس ہی نہ کرے کہ میں گناہ کا ارتکاب کر رہا ہوں۔ اِس رکوع میں اللہ تعالیٰ نے تَقْتُلُوْنَ اَنْفُسَکُمْ وَتُخْرِجُوْنَ فَرِیْقًا مِنْکُمْ مِّنْ دِیَارِھِمْ فرما کر دو۲ مثالیں یہود کے اُن گناہوں کی بیان فرمائی ہیں جن کے متعلق انہیں احساس ہونا چاہیے تھا کہ اگر یہ بات لوگوں کے سامنے آئی تو وہ ملامت کریں گے مگر باوجود اس کے کہ یہ نہایت واضح گناہ تھے اور ان کا اُن کی قوم کے ساتھ تعلق تھا پھر بھی وہ دلیری کے ساتھ اِن گناہوں میں ملوث رہے اور اپنی شریعت کی بے حرمتی کرتے رہے۔
وَلَقَدْ اٰتَیْنَا


تَقْتُلُوْنَo
۵؎حل نعات:۔قَفَّیْنَا: قَفٰی فُلَان’‘ زَیْدًا اَوْبِزَیْدٍ عربی زبان کا ایک محاورہ ہے جس کے معنے میں وہ زید کے پیچھے پیچھے چلا۔ اور قَفّٰی کے معنے ہیں پیچھے چلایا۔ یہ لفظ قَفَاسے نکلا ہے اور قَفَا انسان کے سر کا پچھلا حصہ ہوتا ہے جسے اردو زبان مین گُدّی کہتے ہیں۔ اور گُدّی کے ساتھ ساتھ ہنے کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ وہ چیز پیچھے بھی ہو۔ اور قریب بھی۔ اصل معنے تو اس کے ساتھ ساتھ اور قریب قریب جانے کے ہیں مگر محاورہ میں اس کے معنے وسیع کے لئے گئے ہیں۔ اس لئے اب یہ لفظ ایسے موقع پر بھی استعمال کر لیا جاتا ہے جبکہ کوئی پیچھے چل کر آئے خواہ وہ فاصلہ پر ہی ہو۔
بَیِّنٰت:۔وہ دلائل ہوتے ہیں جو اپنی ذات میں کسی نبی کی صداقت کا ثبوت ہوتے ہیں۔ دلائل و قسم کے ہوتے ہیں۔ اول وہ جن سے کسی نبی کی صداقت کا استنباط کیا جاتا ہے۔ مثلاً زمانہ کے خراب ہوجانے کے وقت نبوت اور اس کی ضرورت بتانے کے لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ دنیا خراب ہو گئی ہے۔ لوگ شریعت کو بھول گئے ہیں۔اس کے احکام انہیں نے ترک کر دیئے ہیں اس لئے اب ایک نبی کی ضرورت ہے اور وہ آنیوالا یہی ہے۔ یہ سب باتیں ایک نبی کی ضرورت بتانے کے لئے بطور استنباط ہوتی ہیں۔ یہ دلائل تو ہیں مگر بینات نہیں کہلا سکتے۔ اسی طرح اگر کوئی ایسی پیشگوئیاں ہوں جو قرب زمانہ کی تعیین کرتی ہوں نہ کہ خود اس زمانہ کی تو وہ پیشگوئیاں بھی اُس نبی کے لئے بینات میں سے شما ر نہیں ہوں گی۔جیسے وہ نشانات و حالات ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے ظاہر ہو ئے۔ اور جن سے آپ کی صداقت کا استنباط کیا جا سکتا ہے وہ آپ کی صداقت کے دلائل تو ہیں مگر چونکہ وہ معین رنگ میں آپ کی شناخت نہیں کراتے اس لئے وہ بینات نہیں کہلا سکتے ہیں۔ مگر دوسری قسم کے دلائل وہ ہیں جو بینات کہلاتے ہیں۔ وہ ایسے دلائل ہوتے ہیں جو اپنی ذات میں کسی نبی کی صداقت کا مشاہدہ کراتے ہیں۔اور جن کے ذریعہ حق و باطل بالکل کھل جاتا ہے۔ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے بھی طاعون کی پیشگوئی کی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی طاعون کی پیشگوئی فرمائی۔ اب یہ صرف دلیل ہی نہیں بلکہ بینہ بھی ہے۔ کیونکہ یہ پیشگوئی صرف یہی ثابت نہیں کرتی کہ یہ وہ زمانہ ہے جس میں آنیوالے کو آنا چاہیے بلکہ یہ بھی ثابت کرتی ہے کہ آپ مسیح موعود ہیں۔ غرض بینہ وہ ہوتی ہے جو صداقت کی وضاحت کر دیتی ہے۔ مگر دوسری دلیل صرف اشارہ کنا یہ سے صداقت کی طرف راہنمائی کرتی ہے۔ حضرت مسیح موعودالصلٰوۃ والسلام کی صداقت کے بعض دلائل صرف کنایہ و اشارہ کی قسم میں سے ہیں اور بعض بینات ہیں۔ اور درحقیقت ہر نبی دونوں قسم کے دلائل اپنے ساتھ رکھتا ہے۔ کیونکہ صرف کنایہ و اشارہ ہی صداقت کے ثبوت کے لئے کافی نہیں ہو سکتا۔بلکہاس کے ساتھ بینات کا ہونا بھی ضروری ہے تاکہ عام لوگوں پر اس کی صداقت واضح ہو جائے ورنہ ان کو معلوم نہیں ہو سکتا کہ یہ وہی شخص ہے جس کا انتظار کیا جار ہا تھا۔البینات کے معنے علامہ ابوحیان اپنی تفسیر میں یہ لکھتے ہیں اَلْحُجَجُ الْوَضِحَۃُ الدَّالَّۃُ عَلیٰ نَبُوَّتِہ۔ یعنی ایسے واضح دلائل جو حضرت مسیحؑ کی نبوت کو ثابت کرنے والے تھے(بحر محیط جلد اول)
رُوْحُ الْقُدُسِ:۔ کے معنے لسان العرب میں یہ لکھے یہں کہ خدا کا پاک یا مبارک کلام۔ روح کے معنے کلام اور قدس کے معنے مبارک یا پاک کے ہیں۔ اس لئے دونوں لفظوں کے مل کر یہ معنے ہوئے کہ مبارک یا مقدس کلام۔ لسان العرب اور عربی کی دوسری لغت کی کتب دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تقدیس کا لفظ صرف اُن اشیاء کے متعلق بولا جاتا ہے جو خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتی ہوں یوں تو پاکیزگی کے لئے اور بھی کئی الفاظ ہیں مگر ان کے لئے یہ شرط نہیں۔ صرف تقدیس کے متعلق یہ شرط ہے کہ اس کا استعمال شرعی یا روحانی اشیاء کے متعلق ہوتا ہے۔ پس مقدس پاکیزگی وہ ہے جو شریعت کے ساتھ تعلق رکھتی ہو۔ جیسے مقدس مقام وہ ہو گا جو شرعی اور روحانی طور پر اعتراز رکھتا ہو۔ یوں تو نظافت کا لفظ بھی پاکیزگی پر دلالت کرتا ہے۔ مگر اس کا تعلق شرعی اور روحانی پاکیزگی کے ساتھ نہیں ہوتا۔ جیسیایک کافر بھی نطیف کہلا سکتا ہے لیکن مقدس انسان وہی کہلاسکتا ہے جسے خداتعالیٰ کی طرف سے روحانی اعزاز حاصل ہو۔اِسی طرح مبارک اور مقدس کلام بھی صرف پاکیزہ خیالات کو ہی نہیں کہتے ورنہ ایک فلاسفر کے خیالات بھی پاکیزہ ہو سکتے ہیں۔ وہ بھی طبیعات کے متعلق نئے سے نئے نکتے نکالتا رہتا ہے۔ مگر وہ مؤید بروح القدس نہیں ہوتا۔ وہ وحی الہٰی سے مشرف نہیں ہوتا۔ وہ ایساے خیالات سے مشرف نہیں ہوتا جو خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر دیتے ہیں۔ مؤید بروح القدس صرف وہ کلام ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہو۔ اور جو ہر لحاظ سے مبارک اور پاکیزہ ہوتا ہے۔
(۲)رُوح کے معنے فرشتہ کے بھی ہوتے ہیں۔اس لحاظ سے روح القدس کے معنے ہیں فرشتہ تقدس و برکات۔ فرشتے دو قسم کے ہوتے ہیں۔ اول وہ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے کلام لاتے ہیں۔ دوم وہ جو اس کلام کو یا قضاء قدر کو دنیا میں جاری کرتے ہیں ۔ جو فرشتے کلامِ الٰہی لانے والے ہوتے ہیں اُن کو روح القدس کہتے ہیں۔ خصوصاً کلام لانے والے فرشتوں کا سردار جبرائیل روح القدس کہلاتاہے۔
پس اَیَّدْنَہُ بِرُوْحِ القُدُسِ کے یہ معنے ہیں کہ (۱) ہم نے تقدس و برکات والے فرشتہ سے اس کی مدد کی۔ جو خداتعالیٰ کے حضور سے کلام لاتا ہے یا (۲)خدا نے اُسے اپنے پاک اور مبارک کلام سے مشرف کیا اور اُسے طاقت بخشی۔
تفسیر:۔جیسا کہ حل لغات مین بتایا جا چکا ہے لفظ قَفَّیْنَا کے معنے’’ہم نے پیچھے چلایا‘‘ ۔ اِس لفظ سے نہ صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد اور بھی بہت سے انبیاء آئے۔ بلکہ یہ ظاہر کرنا بھی مطلوب ہے کہ وہ صاحب شریعت بنی نہ تھے۔ بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متبع تھے اور اُسی راستہ پر چلتے تھے جس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام چلے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ’’شہادۃ القرآن‘‘ میں اس سے یہ استدلال فرمایا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد کئی ایسے انبیاء آئے جن کی کوئی جدید شریعت نہ تھی۔ بلکہ وہ تورات کے احکام پر ہی لوگوں سے عمل کرواتے اور اُسی کی تعلیم کو رائج کرنے تھے۔(شہادۃ القرآن صفحہ۴۲)
عام طور پر مفسرین یہ خیال کرتے ہیں کہ ہر رسول نئی شریعت لے کر آتا ہے۔ لیکن یہاںاللہ تعالیٰ نے واضح طور پر بیان کیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک جس قدر انبیاء آئے وہ سب کے سب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تابع اور انکی شریعت لے کر آنے والے تھے ۔اِسی وجہ سے علامہ ابو حیان نے اپنی تفسیر میں اس بات کا اعتراف کیا ہے وہ کوئی نئی شریعت لے کر نہیں آئے بلکہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت ہی کے تابع ہوا کرتے تھے۔ چنانچہ وہ اپنی تفسیر بحِر محیط میں اس آیت میں لکھتے ہیں ۔وَیَحْتَمِلُ اَنْ تَکُوْنَ التَّقْفِیّتُ مَعْنَوِ یَّتً وَھِیَ کَوْ نُھُمْ یَتَبِعُوْ نَہ‘ نِی الْعَمَلِ بِالتَّوْرٰ ۃِ دَ اٰ حْکَا مِھَا وَیَاْمُرُوْنَ بِاِتِّبَا عِھَاوَالْبَقَائِ عَلَی الْتِزَامِھَا۔(بحر محیط جلد اول صفحہ۲۹۹) یعنی آیت زیر بحث میں قَفَّیْنَا کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ وہ تورات پر عمل کرنے اور اس کے احکام کو بجا لانے میں ایک دوسرے کے پیچھے چلتے تھے اور لوگوں کو اس بات کی تلقین کرتے تھے کہ تورات کے احکام پر پوری طرح عمل کیا جائے۔ گویا ظاہری طور پر نقشِ قدم پر چلنا ہی مراد نہیں بلکہ معنوی طور پر بھی چلنا مراد ہے۔
(ب)وَاٰتَیْنَا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدْنٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ۔ بینات اور روح القدس کے ذریعے حضرت مسیحؑ کا تائید پانا یہ دونوں چیزیں ایسی نہیں جو صرف حضرت مسیحؑ ناصری کے ساتھ مخصوص ہوں یا اس سے دوسرے انبیاء پر اُن کی کسی فضلیت کا استدلال ہو سکے۔ چنانچہ قرآن کریم اِسی سورۂ بقرۃ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت فرماتا ہے۔ وَلَقَدْجَآئَ کُمْ مُّوْسٰی بِالْبَیِّنٰتِ ثُمَّ اتَّخَذْ ثُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِہٖ وَ اَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ(سورۃ بقرۃآیت۹۳) یعنی موسیٰ علیہ السلام تمہارے پاس بینات لے کر آئے تھے۔مگر پھر بھی تم نے اُس کے (پہاڑ پر جانے کے)بعد شرک کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر بچھڑے کو معبود بنا لیا۔ اِس سے صاف ظاہر ہے کہ اِس بارہ میں حضرت عیٰسی علیہ السلام کو کوئی خصوصیت حاصل نہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بینات دیئے گئے تھے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے وَلَقَدْاَنْزَلْنَا اِلَیْکَ اٰیٰتٍ بَیِّنَاتٍ وَمَایَکْفُرُ بِھَآ اِلَّا الْفٰسِقُوْنَ(بقرہ آیت۱۱۰) یعنی یقینا ہم نے تیری طرف بینات نازل کی ہیں۔ جنکا نافرمانوں کے سوا اور کوئی انکار نہیں کرتا۔ اسی طرح سورہ مومن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے زمانہ کی اقوام کی تباہی کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ کَانَتْ تَّأَتِیْھِمْ رُسُلُھُمْ بِاْلبَیِّنٰتِ فَکَفَرُوْا فَاَخَذَ ھُمُ اللّٰہ‘ اِنّٰہ‘ قَوِیّ’‘ شَدِیْدُ الْعِقَابِ (مومن:۲۳)یعنی اُن کے ہلاک ہونے کا باعث یہ تھا کہ اُن کے پاس اپنے اپنے وقت میں ہمارے رسول بینات لے کر آئے تھے اور انہوں نے اُن کا انکار کر دیا تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو گرفتارِ بلا کر دیا۔ اور وہ طاقتور اور بعض شرارتوں پر فوری سزا دینے والا ہے۔ اس آیت سے صاف ظاہرہے کہ جس قدر انبیاء دنیا میں آئے سب اپنے ساتھ بیّنات بھی رکھتے تھے۔ اگر اُن کے ساتھ بیّنات نہ ہوتے تو وہ رسول ہی ثابت نہیں ہو سکتے تھے۔ پس آیت زیرِ تفسیر میں حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے نام کے ساتھ بینات کا ذکر کرنے سے یہ ہر گز مراد نہیں کہ ان کو اس امر میں کوئی امتیازی خصوصیت حاصل تھی بلکہ اس سے یہود کی طرف یہ بات بتلانا مدنظر ہے کہ مسیح علیہ السلام بھی اُن تمام انبیاء کی طرح جن کی صداقت کے تم قائل ہو اپنے ساتھ اپنی صداقت کے نشانات رکھتے تھے۔
اِسی طرح روح القدس کے ذکر سے یہ بتلانا مدنظر ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو بھی دوسرے انبیاء کی طرح الہام ہوتا تھا۔ نہ یہ کہ اُن کو دوسرے انبیاء پر کوئی خاص فضیلت حاصل ہے۔ یا وہ صاحب شریعت نبی ہیں۔ اور اگر رُوح کے معنے فرشتے کے کئے جائیں تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ اُن کی تائید کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں اور حضرت جبرائیل علیہ السلام کو مقرر کر دیا تھا۔ تاکہ وہ لوگوں کے دلوں میں اُن کو قبولیت بٹھائیں یا خود اُن کے دل کو مضبوط کریں۔ چنانچہ ایک دوسری آیت سے اس کی تشریح ہو جاتی ہے فرماتا ہے۔ وَاِذْ اَوْحَیْتُ اِلَی الْحَوَارِیِّیْنَ اَنْ اٰمِنُوْابِیْ وَبِرَسُولِیْ(سورۃ مائدہ آیت ۱۱۲) اس واقعہ کو بھی یاد کرو جبکہ میں نے حواریوں کو وحی کی کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لائو۔ اور یہ ظاہرہے کہ وحی عام طور پر ملائکہ کے توسط سے ہی ہوا کرتی ہے۔ پاس ایک مطلب اس آیت کا یہ بھی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی تائید جبرائیل کے ذریعہ کی۔ اور یہ بات اللہ تعالیٰ کے سب نبیوں بلکہ اعلیٰ درجہ کے مومنوں کو بھی نصیب ہوتی ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ ؓ کی نسبت قرآن کریم میںآتا ہے۔ اُولٰٓئِک کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الْاِ یْمَانَ وَاَیَّدَھُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ(مجادلہ آیت۲۳) یعنی یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان راسخ کر دیا ہے اور اپنی طرف سے رُوح بھیج کر اُن کی مدد کی ہے۔ یعنی ملائکہ کو اُن کی مدد پر مقرر فرمایا ہے۔ گو اس جگہ روح القدس کے الفاظ نہیں مگر رُوْحُ مِنْہُ کے الفاظ پائے جاتے ہیں ۔ اور رُوح جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے وہ مقدس ہی ہوتی ہے۔ اِسی طرح اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے۔ قُلْ نَزَّلَہُ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّکَ بِالْحَقِّ لِیُثَبِّتَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاوَ ھُدیً وَّ بُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَ(نحل آیت۱۰۳) یعنی اے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! تو لوگوں سے یہ کہدے کہ روح القدس نے اِس قرآن کریم کو تیرے رب کی طرف سے حق و حکمت کے ساتھ اتارا ہے تاکہ جو لوگ ایمان لائے ہیں انہیں وہ ہمیشہ کے لئے ایمان پر قائم کردے۔ نیز اُس نے یہ کتاب مومنوں کے مزید ہدایت اور انہیں بشارت دینے کے لئے نازل فرمائی ہے۔ اِسی طرھ ایک اور جگہ فرماتا ہے۔ فَاِنَّہ‘ نَزَّلَہ‘ عَلٰی قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللّٰہِ(سورۃ بقرۃ آیت۹۸) یعنی رُوح القدس نے اِس کتاب کو تیرے دل پر اللہ تعالیٰ کے اِذن کے ساتھ نازل کیا ہے۔ پا بینات دیئے جانے اور مؤید بروح القدس ہونے کی وجہ سے حضرت عیٰسی علیہ السلام کو کوئی خاص فضیلت نہیں دی جا سکتی۔
قرآن کریم کے علاوہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام سے بھی ثابت ہے کہ روح القدس کا نزول حضرت مسیح ؑ ناصری کے علاوہ اور انبیاء بلکہ غیر انبیاء پر بھی ہو سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت حسان کا واقعہ اس پر شاہد ہے۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت اس زمانہ کے اشرار رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی ازواج مطہرات کے خلاف نہایت گندی نظمیں اور اشعار بنا بنا کر پڑھا کرتے تھے۔ ایک مدت تک تو صحابہؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم کے مطابق صبر سے کام لیتے رہے مگر جب وہ اِس خباثت سے حد سے بڑھ گئے تو بعض صحابہؓ نے حضرت حسانؓ سے خواہش کی کے وہ ان کا جواب دیں۔حضرت حسانؓنے اُن کے کہنے پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں اس کے متعلق عرض کیا۔ کہ یا رسول اللہ ! انہوں نے آپ پر بہت حملے کئے ہیں میں چاہتا ہوں کہ اُن کو جواب دوں۔ اور اُن کے عیوب ظاہر کروں۔ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جواب دینا اچھی بات ہے مگر اس میں ایک دقت ہے اور وہ یہ کہ اُن کے اور ہمارے آبائو اجداد ایک ہی ہیں۔ اگر تم اُن پر حملہ کرو گے تو وہ حملہ ہم پر بھی ہو گا۔ حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ۔یا رسول اللہ! میں آپ کو اور آپ کے خاندان کو اُن سے اس طرح الگ کرلوں گا جس طرح مکھن میں سے بال نکال لیا جاتا ہے۔ یہ اُن کے قادر الکلام ہونے کی دلیل تھی۔ کیونکہ قادر الکلام شاعری ہی اس رنگ میں شعر کہہ سکتا ہے کہ دوسرے کو جواب بھی دیدے اور اپنے بزرگوں پر بھی حملہ نہ ہونے دے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ اُھْجُ قُرَیْشاً وَرُوْحُ الْقُدُسُ مَعَکَ(الجرالمحیط جلد اول صفحہ۲۹۹) یعنی اے حسّان! قریش کو ہجو کر رُوح القدس تیرے ساتھ ہے۔اب یہ کوئی الہام نہ تھا جس کا آپؐ نے ذکر فرمایا ہو۔ بلکہ بغیر الہام کے آپؐ نے یہ الفاظ استعمال فرمائے۔ کیونکہ حسّانؓ اُس وقت دین کی تائید کے لئے کھڑے ہوئے تھے۔
پس رُوح القدس کے الفاظ سے کسی کا یہ سمجھنا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو کوئی خصوصیت حاصل تھی درست بات نہیں۔ اسی طرح ایک روایت میں آتا ہے۔ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دفعہ حضرت حسانؓ کو فرمایا۔ وَجِبْرِیْلُ مَعَکَ(الجرالمحیط جلد اول صفحہ۲۹۹) یعنی جبریل تیرے ساتھ ہے۔ حضرت حسانؓ اپنے ایک شعر میں بھی فرماتے ہیں۔ ؎
وَجِبْرِیْلُ رَسُوْلُ اللّٰہِ فِیْنَا
وَ رُوْحُ الْقُدُسِ لَیْسَ لَہُ کِفَاء‘
(الجرالمحیط جلد اول صفحہ۲۹۹)
یعنی اللہ کے رسول پر اُترنے والا جبریل ہم میں ظاہر ہوا ہے اور وہ ایسی پاکیزہ رُوح ہے جس کا کوئی مثیل نہیں۔ یعنی جبریل جو اللہ کا رسول ہے ہم میں ہے اور روح القدس کا کوئی مثیل نہیں۔ اس شعر کے مطابق تمام صحابہ کرامؓ کو رُوح القدس کی تائید حاصل تھی۔ پس صرف روح القدس کی تائید حاصل ہونے سے عیسائیوں کا یہ استدلال کرنا کہ حضرت مسیحؑ ابن اللہ تھے یا لہٰ تھے نادانی ہے۔
اسی طرھ ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کفار کا جواب دینے کے لئے حضرت حسانؓ کو فرمایا اور دُعا کی کہ اَللّٰھُمَّ اَیِّدْہ‘ بِرُوْحِ الْقُدُسِ۔ اے خدا! روح القدس سے اس کی تائید فرما۔(مشکوٰۃ باب البیان و الشعرو کنز العمال جلد ۷ صفحہ۲۲-۲۳)
ایک اور روایت کے مطابق اُھْجُ الْمُشْرِکِیْنَ فَاِنِّ جَبْرِیْلَ مَعَکَ(بخاری کتاب المغازی باب مرجع النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سن الاحزاب)یعنی اے حسانؓ !مشرکین کی ہجو کر جبریل تیرے ساتھ ہے۔
پس حضرت مسیحؑ کا روح القدس سے مؤید ہونا اُنکی کسی فضیلت کا ثبوت نہیں اس میں تمام انبیاء بلکہ غیر انبیاء بھی شریک ہیں۔ اَور سب کو اپنے اپنے درجہ اور مقام کے مطابق رُوح القدس کی تائید حاصل ہوتی ہے۔ حضرت معین الدین صاحب چشتی (رحمتہ اللہ علیہ) جو امّتِ محمدیہ کے ایک مسلمہ بزرگ ہیں وہ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ ؎
ومبدم رُوح القدس اندر معینے می ومد
من نمی گویم من عیٰسیٔ ثانی شدم
(دیوان حضرت خواجہ معین الدین صاحب چشتی صفحہ۵۶)
یعنی رُوح القدس بار بار میرے اندر اس طرح نفخ ِرُوح کر رہا ہے کہ شاید مجھے عیٰسی ٔ ثانی کا مقام حاصل ہو گیا ہے۔ پس حضرت مسیحؑ کا مؤید بروح القدس ہونا کہ کوئی قابلِ تعجب امر نہیں۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے جس کا جواب دینا ضروری ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ وَاٰتَیْنَا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنَّاتِ وَاَیَّدْنٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ میں اگر حضرت مسیحؑ ناصری کی کوئی امتیازی خصوصیت بیان نہیں کی گئی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد باقی سب انبیاء کا مجموعی ذکر کرنے کے بعد حضرت مسیحؑ کا علیحٰدہ ذکر کیوں کیا گیا ہے اور اُن کے متعلق یہ مخصوص طو رپر کیوں بیان کیا گیا ہے کہ ہم نے عیٰسی بن مریم کو بیّنات دیں اور اس کی رُوح القدس سے تائید کی۔
عیسائی تو اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ چونکہ ان کو دوسرے انبیاء پر فضیلت حاصل تھی اور وہ دوسروں سے بالا مقام رکھتے تھے اس لئے ان کا علیحٰدہ ذکر کیا گیا ہے۔ اگر وہ بھی رسول ہی ہوتے تو اُن کا الگ ذکر نہ کیا جاتا۔ لیکن مفسرین یہ کہتے ہیں کہ چونکہ دوسرے انبیاء کو ئی نئی شریعت نہیں لائے تھے بلکہ موسوی شریعت کے تابع تھے اس لئے ان کا اکٹھا ذکر کیا گیا ہے مگر حضرت عیٰسی علیہ السلام شریعت موسوی کے متبع نہیں تھے بلکہ وہ ایک نئی شریعت لائے تھے اس لئے ان کا علیحٰدہ ذکر کیا گیا ہے مگر یہ صحیح نہیں۔ کیونکہ حضرت مسیح علیہ السلام نے خود کہا ہے کہ
’’یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں۔ کیونکہ میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت سے ہرگز نہ ٹلے گا۔ جب تک سب کچھ پورا نہ ہو جائے‘‘ (متی باب۵ آیت۱۷-۱۸)
پس یہ تو غلط ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا علیحٰدہ ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ آپ صاحبِ شریعت جدیدہ تھے۔ لیکن یہ سوال ضرور قائم رہتا ہے کہ اگر بینات دیئے جانے اور روح القدس سے مؤید ہونے میں اُن کی کوئی خصوصیت نہیں تھی تو پھر ان کا علیحٰدہ ذکر کیوں کیا گیا۔ سو یاد رکھنا چاہییے کہ بنی اسرائیل میں جس قدر انبیاء حضرت مسیحؑ سے پہلے گذر چکے ہیں اُن کی عظمت کے بنی اسرائیل کسی نہ کسی رنگ میں ضرور قائل تھے۔ اور گوابتداء میں اُن کی مخالفت بھی ہوئی لیکن بعد میں اُن کی صداقت کو یہودیوں نے قبول کرلیا تھا۔ چنانچہ بائیبل میں ملا کہ نبی تک سب انبیاء کی کتب موجود ہیں۔ جن کو وہ پڑھتے اور قابل عمل سمجھتے ہیں۔ حتیٰ کہ حضرت دائودؑ اور حضرت سلیمانؑ جن کے آخر عمر میں مرتد ہونے کے وہ قائل ہیں ان کا ذکر بھی بائیبل میں موجود ہے اور انکے اعمال کو نظر انداز کرتے ہوئے اُن کے کلام کی اُن میں اَب تک قدر پائی جاتی ہے۔ اِسی طرح حضرت ذکریاؑ اور یحییٰ ؑ کو بھی گووہ نبی تسلیم نہیں کرتے لیکن عالم اور نیک آدمی سمجھتے ہیں۔ پس سب انبیاء کی عظمت کے وہ قائل ہیں گو بعض کو بحیثیت عالم اور نیک ہی مانتے ہیں۔ لیکن حضرت مسیحؑ کی نسبت اُن کا عقیدہ نہایت گندہ اور ناپاک ہے۔ وہ آپ پر خطرناک الزام لگاتے ہیں اور نعوذ باللہ مفتری اور طعون قرار دیتے ہیں۔ پاس یہود نے نبیوں کی جو مخالفت کی تھی اُس کا ذکر کرتے ہوئے ضروری تھا کہ حضرت مسیحؑ کا ذکر دوسرے انبیاء سے علیحٰدہ اور خاص طور پر کیا جاتا کیونکہ اُن کے ساتھ انہوں نے سب سے بُرا سلوک کیا تھا۔ اور قرآن کریم کے نزول تک اپنے اس عقیدے پر قائم تھے کہ نعوذ باللہ آپ مفتری تھے۔ اور صداقت سے آپ کو کوئی حصہ نہیں ملا تھا۔ اسی طرح حضرت مسیح ؑ سے یہود کی مخالفت کا ذکر کرتے ہوئے اس بات کا بتلا دینا بھی ضروری تھا کہ گو یہود انہیں جھوٹا قرار دیتے ہیں لیکن وہ اپنے ساتھ صداقت کی وہ تمام علامتیں رکھتے تھے جو دوسرے راستباز انبیاء جن کی نبوت کے بنی اسرائیل قائل ہیں اپنے ساتھ رکھتے تھے۔چنانچہ انبیاء کی صداقت کی زبردست علامات میں سے دو کو حضرت مسیحؑ کے ذکر کے ساتھ بیان کر دیا جن میں سے پہلی علامت آپ کے ساتھ بینات یعنی کھلے کھلے نشانات کا ہونا ہے جو ہر نبی کی صداقت کے اظہار کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتے ہیں اور دوسرے روح القدس کی تائید ہے کہ یہ بھی ہر نبی کے لئے ضروری ہے۔ بینات اور روح القدس کا ذکر اس لئے بھی کیا گیا ہے کہ یہودی حضرت مسیحؑ پر یہی دو اعتراض کیا کرتے تھے ۔ کہ اول اُس نے کوئی معجزہ نہیں دکھایا۔ دوم وہ نعوذ باللہ ناپاک تھا اور اُس پر شیطانی رُوح آتی تھی۔ چنانچہ معجزہ نہ دکھانے کے اعتراض کا ذکر ستی باب ۱۲ آیت۳۸ تا ۴۰ میں اس طرح آتا ہے کہ
’’تب بعضے فقیہیوں اور فریسیوں نے جواب میں کہا۔ کہ اے اُستاد! ہم تجھ سے ایک نشان دیکھنا چاہتے ہیں۔ اُس نے انہیں جواب دیا اور کہا کہ اس زمانہ کے بد اور حرامکار لوگ نشان ڈھونڈتے ہیں۔ پر یونس نبی کے نشان کے سوا کوئی نشان ا نہیں دکھایا نہ جائے گا۔ کیونکہ جیسا یونس تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہا ویسا ہی ابن آدم تین رات دن زمین کے اندر رہے گا۔‘‘
اور شیطانی رُوح کے متعلق یہود کے الزام کا ذکر لوقات باب۱۱ آیت۱۵ میں آتا ہے۔ لکھا ہے:۔
’’پھر وہ ایک گونگی رُوح کو نکال رہا تھا۔ اور جب وہ بد رُوح نکل گئی۔ تو ایسا ہوا کہ گونگا بولا۔ اور لگوں نے تعجب کیا۔ لیکن ان میں سے بعض نے کہا ۔ یہ تو بدرُوحوں کے سردار بعلزبول کی مدد سے بدرُوحوں کو نکالتا ہے۔‘‘
بلکہ لوگوں نے حضرت مسیحؑ کا نام ہی بعلزبول رکھ دیا تھا۔ چنانچہ وہ اپنے شاگردوں کو صبر کی نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’جب اپنوں نے گھر کے مالک کو بعلزبول کہا تو اس کے گھرانے کو لوگوں کو کیوں نہ کہیں گے۔‘‘
(ستی باب۱۰آیت۲۵)
پس اٰتَیْنَا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ میںیہود کے پہلے اعتراض کا رد کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ حضرت مسیح ؑ کے ہاتھ پر ہم نے بڑے بڑے نشانات ظاہر کئے تھے۔ گو افسوس ہے کہ انجیل آپ کے وہ معجزات پیش نہیں کرتی جو یہود کے مقابلہ میں حضرت مسیحؑ کی صداقت کی دلیل ہو سکتے ۔ آپ کا صرف ایک ہی معجزہ تھا اُسے بھی عیسائیوں نے اپنی نادانی سے مشتبہ کر ڈالا۔ وہ معجزہ ہی تھا جس کا حضرت مسیحؑ نے خود ذکر کیا تھا۔ اور کہا تھا کہ انہیں یونس نبی کے نشان کے سوا اور کوئی نشان نہیں دکھایا جائیگا۔ حضرت یونس ؑ تین دن رات مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہے اور زندہ ہی نکلے۔ مگر عیسائی کہتے ہیں کہ حضرت عیٰسی علیہ السلام صلیب پر ہی مر گئے تھے اور مر کر ہی قبر میں گئے تھے اور پھر زندہ ہو کر آسمان پر چلے گئے۔ اِس معجزہ کے دو حصے تھے۔ ایک حصہ بندوں کے ساتھ تعلق رکھتا تھا اسے خود عیسائیوں نے مشتبہ کر دیا۔ دوسرا حصہ کہ وہ زندہ ہو گئے اُسے یہود مانتے ہی نہ تھے۔گویا ایک ہی معجزہ جو حضرت مسیح ؑنے دکھانے کا وعدہ کیا تھا وہ بھی انجیل کے مطابق نہ دکھایا جا سکا۔ایک حصہ کے متعلق تع عیسائیوں نے مان لیا کہ وہ غلط نکلا ہے اور دوسرا حصہ یہود کے لئے حجت نہیں ہو سکتا تھا۔ پس بینات کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے اُن کے اعتراض کا رد کیا ہے۔باقی انبیاء کے متعلق تو کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہ تھی کیونکہ اُن پر تو یہ اعتراض ہی نہ ہوا تھا۔ صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ہو اتھا۔ پس اس اعتراض کا رد کرنے کے لئے خاص طور پر فرمایا کہ یہود اور نصاریٰ جو کہتے ہیں کہ حضرت مسیحؑ نے کوئی معجزہ نہیں دکھایا یہ غلط ہے۔ ہم نے اُن کوبہت سے معجزات اور بینات دے کر مبعوث کیا تھا۔ دوسرا اعتراض یہ تھا کہ حضرت مسیحؑ پر نعوذ باللہ شیطانی رُوح کا نزول ہوا کرتا تھا۔ اس کا رد اللہ تعالیٰ نے اَیَّدْ نٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ کے ذریعہ کیا۔ جس طرح عیسائیوں نے حضرت مسیحؑ کے ایک ہی معجزہ کو یہ کہہ کر باطل کر دیا کہ حضرت مسیحؑ صلیب پر مر گئے تھے اور مر کر ہی قبر میں گئے اسی طرح انہوں نے یہود کے اس اعتراض کو بھی پختہ کر دیا کہ حضرت مسیحؑ کا نعوذباللہ شیطان سے تعلق ہے۔ کیونکہ انجیل میں لکھا ہے کہ شیطان نے حضرت مسیحؑ کا امتحان لیا(ستی باب۴) اب بھلا شیطان کو ایک نبی کا امتحان لینے کی جرات ہی کیسے ہو سکتی ہے۔ بلکہ وہ تو اس کے قریب بھی نہیں جا سکتا۔ مگر انہوں نے انجیل میں اس کا ذکر کر کے یہود کے اِس اعتراض کو اور بھی مضبوط کر دیا۔ کہ حضرت مسیحؑ کا شیطان سے تعلق تھا۔ پس چونکہ اس اعتراض کا بھی کسی اور نبی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے مسیحؑ کا الگ ذکر کر کے اَیَّدْنٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ فرمادیا۔ اور اس اعتراض کا باطل کر دیا کہ جو یہود آپ کی ذات پر کرتے تھے۔
یہاں تک تو یہود کے نقطہ نگا ہ کہ مد نظر رکھتے ہوئے اس بات کا جواب دیا گیا ہے ۔ کہ حضرت مسیحؑ کا باقی انبیا ء سے علیحدہ کیوں ذکر کیا گیا ہے ۔ اب میں عیسائیوں کے نقطہ نگاہ کو مد نظر رکھ کر جواب دیتا ہوں ۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے ۔ عیسائی اس آیت سے فائدہ اُٹھا کر حضرت مسیحؑ کو ابن اللہ قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر حضرت میسحؑ اللہ تعالیٰ کے رسول ہوتے تو اُن کو وَ قَفَّیْنَا مِنْ بَعْدِہٖ بِا لرُّسُلِ میں پہلے ہی شامل کر لیا گیا تھا پھر ان کا الگ ذکر کیوں کیا گیا ۔ ان کا الگ ذکر کرنا بتاتا ہے کہ اُن کو رسولوںسے بالا ہستی قرار دیا گیا ہے ۔ اِس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ وہ انبیاء جن کو وَ قَفَّیْنَا مِنْ بَعْدِہٖ بِا لرُّسُل میں بیان کیا گیا ہے ۔ اُن کی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں کوئی الگ جماعتیں موجود نہ تھیں مثلاً حضرت داؤد علیہ السلام کی کوئی جماعت نہ تھی ۔ حضرت سلمان ؑ کی کوئی جماعت نہ تھی ۔ حضرت زکریاؑ کی کوئی جماعت نہ تھی ۔اسی طرح دانی اییل اور حزقی ایل کی کوئی جماعت نہ تھی ۔پس ان کا الگ ذکر کرنے کی بھی کوئی جماعت نہ تھی ۔ پس ان الگ کرنے میں بھی کوئی ضرور ت نہ تھی ۔ لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جماعت یہود سے الگ موجود تھی اس لئے ضروری تھا ۔کہ ان کا علیحدہ ذکر کیا جاتا ۔دوسرے اس لئے بھی انکا علیٰحدہ ذکر ضروری تھا کہ اُن کی قوم نے اُن سے رسالت کا اصل رنگ ہٹا کر اُن کو انبیت کی چادر پہنا دی تھی ۔ باقی تمام رسول جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعدنبی اسرائیل میں آئے ایک یہ تسبیح کے دانے تھے ۔ اور اُن میں سے کسی کو وہ کوئی خاص انبیاء نہیں دیتے تھے ۔ اِس لئے اُن کا ایک ہی جگہ ذکر کر دیا گیا مگر مسیح کا ذکر اِس لئے اُن کا ایک یہ جگہ ذکر کر دیا گیا مگر مسیحؑ کا ذکر اس لئے علیحدہ کیا کہ اُن کی الوہیت کی وہ چادر ہٹانی ضروری تھی جو عیسائی انہیں پہنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
دراصل یہ آیت حضرت مسیحؑ کے متعلق عیسائیوں کے عقیدہ کو رد کرنے کیلئے نازل کی گئی ہے ۔ اور انہیں بتایا گیا ہے کہ تمہارا انہیں خدا کا بیٹا قرار دینا تمہاری کم فہمی پر مبنی ہے ۔ وہ تو صرف ایک رسول تھے ۔ جن کی بینات اور روح القدس سے تائید کی گئی تھی اور بینات شریعت اسلامیہ کی روسے سب انبیاء کو ملے ہیں۔ آج تک دنیا میں ایسا کوئی بنی نہیں آیا جو بغیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال کے رو سے روح القدس کا نزول غیر بنی پر بھی ہو سکتا ہے ۔ پس حضرت مسیح موعود کو بینات اور روح القدس کی تائید حاصل ہونا نہ تو انہیں شرعی ثابت کرتا ہے اور نہ ابن اللہ یا الہٰ ثابت کرتا ہے ۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیحؑ کے متعلق جو کچھ فرمایا ہے اس کا پہلا لفظ اٰتَیْنَاہے ۔یعنی ہم نے ان کو دیا اب کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو وہ ہستی ہے جسے لینے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی بلکہ وہ خود دوسروں کو اپنی نعمتیں دیتا ہے ۔ مگر حضرت مسیحؑ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’ہم نے اُس کو دیا ‘‘۔پس اِس آیت کا پہلا لفظ ہی ان کے اقنوم ہونے کو باطل قرار دے رہا ہے ۔
دوسرا بینا ت کا لفظ ہے ۔ یہ بھی میسح کی آیت کو ثابت کرتا ہے ۔ کیونکہ جو شخص اپنی صداقت منوانے کیلئے دوسرے کی دی ہوئی بینات کا محتاج ہے وہ الہٰ نہیں ہو سکتا ہے ۔
دنیا میں دو قسم کی چیزیں ہیں (۱) مادی (۲)اور دوسری غیر مادی۔ مادی چیزیں سبب اور مسبب کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں۔ اور اُن کو اپنا وجود منوانے کے لئے کسی خارجی دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر وہ ذات جو غیر مادی ہو۔ وہ سبب اور مسبب سے بالا ہوتی ہے۔ اسے اپنی ذات منوانے کے لئے کسی خارجی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بلکہ اس کے دعویٰ کی دلیل خود اس کا اپنا وجود ہوتا ہے۔ جیسے کسی نے کہا ہے کہ
ع آفتاب آمد دلیلِ آفتاب
حضرت عیسٰی علیہ السلام چونکہ اپنی صداقت منوانے کے لئے خارجی دلائل کے محتاج ہوئے اس لئے معلوم ہوا کہ وہ مخلوق تھے نہ کہ خالق اور مخلوق الٰہ نہیں ہوسکتی۔
اَیَّدْ نَہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ کے الفاظ بھی بتاتے ہیں کہ وہ دوسرے کی مدد کے محتاج تھے۔ اور جو دوسرے کی مدد کا محتاج ہو وہ خدا کس طرح ہو سکتا ہے۔ طاقت اور قوت تو اسی کو بخشی ہوجاتی جو کمزور اور ضعیف ہو۔ پس اَیَّدْ نٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ کے الفاظ بھی حضرت مسیحؑ کی کمزوری مانی جائے۔ اور جو ہستی کمزور اور ضعیف ہو وہ خدا یا خدا کا بیٹا نہیں کہلا سکتی ہے۔پس یہ فقرہ خود ان کی ذات میں اُن کی خدائی کی تردید کر رہا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ انہیں پاکیزگی کی قوت خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوئی تھی۔ اگر خدا تعالیٰ ان کو پاکیزگی عطا ہوئی تھی۔ اگر خدا تعالیٰ ان کو پاکیزگی عطا نہ کرتا تو وہ صرف گوشت پوست کا ایک لوتھڑا ہوتے۔ پس یہ فقرات حضرت مسیح کی الوہیت کا ثبوت نہیں۔ بلکہ اُن کی الوہیت کا عقیدہ رکھنے والوں پر ایک کاری ضرب ہیں۔
اَفَکُلَّمَا جَآئَ کُمْ الخ۔اِس میں بتایا کہ نبی تو اس وقت آتا ہے جب کہ لوگ صحیح راستہ کو چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ اور اس وجہ سے لازما! اس کی تعلیم لوگوں کے خیالات کے خلاف ہوتی ہے۔ لیکن یہود نے اپنی یہ عادت بنا رکھی ہے کہ جو بات اپنی رائے کے مخالف ہو اسے قبول نہیں کرنا۔ اس لئے ہر رسول کے آنے پر انہوں نے تکبر سے کام لیا۔ اور اگر ایک حصہ کو صرف زبان سے جھٹلا دیا تو دوسرے حصہ کو قتل کرنے تک کے منصوبے کئے۔
اللہ تعالیٰ یہود کی اس شقاوت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ جب تم نے انکار ہی کرنا ہے تو پھر تمہارا یہ کہنا کہ اگر نبی اسحاق میں سے نبی ہوتا تو ہم اُسے مان لیتے کیسے تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ تو تمہارا صریح جھوٹ ہے۔
فَفَرِیْقاً کَذَّ بْتُمْ وَ فَرِیْقاً تَقْتُلُوْنَ کے یہ بھی معنے ہو سکتے ہیں کہ تم نے بعض کو جھٹلایا اور بعض کو قتل کر دیا۔ جیسے حضرت یحییٰ علیہ السلام کو شہید کیا گیا۔ مگر کَذَّ بْتُماورتَقْتُلُوْنَ کے صیغوں میں چونکہ فرق کر دیا گیا ہے اس لئیفَرِیْقاً تَقْتُلُوْنَ سے مراد مراد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق یہود کا ارادہ قتل بھی ہو سکتا ہے۔ یعنی چونکہ تم نے پچھلوں کو تم نے جھٹلایا اور اس نبی کو
وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا
یُوْمِنُوْنَo
تم قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہو۔ یا اس سے لڑائی کرتے ہو۔ اس صورت میں اس کے معنے قتل کے نہیں بلکہ لڑائی کے ہوں گے۔بہر حال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارا گزر کم نہیں ہوا بلکہ اور بھی بڑھ گیا ہے اور جہاں تک تمہارا گند کم نہیں ہوا بلکہ اور بھی برھ گیا ہے اور جہاں تک تمہارا بس چلا ہے تم نے خدا تعالیٰ کے نبیوں کی مخالفت کرنے میں کوئی کمی نہیں کی۔
۶؎ حل نعات:۔ غُلْف’‘: اَغْلَفُ کی جمع ہے۔ اور غِلَاف’‘ کی بھی۔ اس کے معنے نامختون کے ہیں۔ لیکن اِ س کے علاوہ عربی زبان میں دو عام محاورے بھی ہیں۔ کہتے ہیں(۱)قَلْب’‘ اَعْلَفُ یعنی ایسا دل جو اپنے اندر سمجھ نہ رکھتا ہو۔ اور (۲)سَیْف’‘ اَغْلَفُ یعنی تلوار ایسے غلاف میں ہے کہ جس میں باہر سے کوئی چیز داخل نہیں ہو سکتی۔
تفسیر:۔ جب کسی صداقت کا مقابکہ دلائل کے ساتھ کوئی انسان نہ کر سکے اور اسے قبول کرنے کے لیے بھی تیار نہ تو وہ اِدھر اُدھر کی باتیں بنا کر اُسے ٹالنے کی کوشش کرتا ہے۔ اِس آیت میں یہود کا ایک ایسا ہی پیچھا چھڑانے کی کوشش کرتے تھے۔ اور اس زمانہ میں بھی ضِدی لوگ اسی قسم کے عذرات کر کے اپنے آپ کو اس صداقت سے علیحٰدہ رکھنا چاہتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ دنیا میں بھیجی گئی ہے۔
جیسا کہ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے۔ غُلْف’‘ اَعْلَفُ کی بھی جمع ہے جس کے معنے نا سمجھ کے ہیں اور غِلَاف’‘ کی بھی جمع ہے۔ اگر غُلْف’‘ کو غِلَاف’‘ کی جمع سمجھا جائے تو اس کا یہ مطلب ہو گا۔ کہ ہمارے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے ایک قیمتی چیز کی طرح پردہ میں رکھا ہوا ہے۔ تمہاری باتیں ہمارے دلوں پر اثر نہیں کر سکتیں۔
غلاف چونکہ اعلیٰ درجہ کی چیزوں پر چڑھایا جاتا ہے تاکہ وہ میلی نہ ہوں اس لئے قُلُوْ بُنَا غُلْف’‘ کا فقرہ کہہ کر اُن کا منشایہ ہوتا کہ تم ہمیں کیا سمجھاتے ہو ہمارے دل تو خود بڑے پاک اور ہر قسم کی آلائشوں سے مبرا ہیں۔ اِس لئے تمہاری باتوں کا ہم پر کوئی اثر نہیں ہو سکتا۔ خدا تعالیٰ نے ہمیں تمہارے اثرات سے محفوظ رکھا ہوا ہے۔
اور اگراس کے معنے نا سمجھ کے لئے جائیں۔ تو قُلُوْبُنَا غُلْف’‘ کا یہ مفہوم ہو گا کہ مسلمان جب اُن کے سامنے دلائل پیش کرتے تو وہ اپنا پیچھا چھڑانے کے لئے کہہ دیتے کہ یہ باتیں تو بڑی اچھی ہیں مگر ہم نا سمجھ اور جاہل ہیں بھلا ہم ان باتوں کو کہاں سمجھ سکتے ہیں۔ اس سے بعض لوگوں کی تو یہ مراد ہوتی۔ کہ ہم کسی بحث میں نہیںپڑنا چاہتے۔ تم ہمارے علماء کو سُنائو اور سمجھائو ہمارے ساتھ کوئی گفتگو نہ کرو۔ اور بعض لوگ طنز کے طو پر کہتے کہ آپ لوگ تو برے عالم ہیں۔ ہم جاہل لوگ ہیں یہ باتیں ہمیں کہاں سمجھ آسکتی ہیں۔ جس کا دوسرے الفاظ میں یہ مطلب ہوتا۔ کہ ہم لوگ سمجھدار ہیں جب ہماری سمجھ میں بھی یہ باتیں نہیں آتیں تو تم کیونکر سمجھ گئے۔ یا یہ کہ تمہارے نزدیک ہمارے دل غلاف میں ہیں یعنی سزا کے طور پر اُن پر پردے پڑے ہوئے ہیں۔ پھر ایسی صورت میں تم کیوں سمجھانے آتے ہو۔
اگر غُلْف’‘ کے معنے علم کے خزانہ کے لئے جائیں۔ تو یہودیوں کا ان الفاظ سے یہ مطلب ہوتا کہ ہمارے دل تو علم کے خزانے میں ہمیں کسی مزید صداقت کی کیا ضرورت ہے۔
قُلُوْبُنَا غُلْف’‘ کے معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ ہمارے دل ناپاک ہیں۔ یعنی جب انہیں کوئی جواب نہیں آتا تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم گندے لوگ ہیں ہمیں چھوڑو اور کسی اَور سے گفتگو کرو گویا مسلمانوں سے وہ اپنا پیچھا چھُڑانے کے لئے ایسا کہتے ہیں حالانکہ ہدایت تو آتی ہی ایسے لوگوں کے لئے ہے جو گندے ہوں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ قُلُوْ بُنَا غُلْف’‘ بطور تنفر کے کہتے ہوں۔ یعنی جب تم ہمیں گندہ اور ناپاک سمجھتے ہو تو ہمیں نصیحت کیوں کرتے ہو۔
بَلْ لَّعْنَھُمُ اللّٰہُ:۔ فرمایا ہے یہود کا اِن الفاظ سے خواہ کچھ بھی مطلب ہو۔ خواہ وہ بات کو ختم کرنے کے لئے ایسا کہیں خواہ طنزاً ایسا کہیں خواہ اپنی علمیت کا ڈھنڈورا پیٹنے کے لئے ایسا کہیں حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ان پر *** پڑ گئی ہے اور اسی *** کا یہ نتیجہ ہے کہ وہ قبول حق سے محروم ہو گئے ہیں۔
بِکُفْرِھِمْ میں بتایا کہ یہ *** اُن پر اس لئے پڑی ہے کہ انہوں نے متواتر اللہ تعالیٰ کے انبیاء کا انکار کیا اور اُن کی مخالفت کی۔ پس نہ تو یہ ایسے نا سمجھ ہیں کہ بات کو سمجھ ہی نہ سکیں اور نہ ہی اعلیٰ درجہ کے سمجھدار وجود ہیں کہ کسی کی تبلیغ کے محتاج ہی نہ ہوں۔ اصل وجہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن پر *** ڈال دی ہے۔ اس وجہ سے باوجود اس کے کہ اسلام کی تعلیم دوسری تمام تعلیموں سے افضل ہے اور فطرت انسانی اس کو قبول کرتی ہے اور عقلِ سلیم اس سے مطمئن ہوتی ہے پھر بھی وہ اس کا انکار کر رہے ہیں۔
لَعَنَھُمُ اللّٰہُ بِکُفْرِھِمْ کے الفاظ اس حقیقت پر بھی روشنی ڈالتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی *** کسی پر بلاوجہ نہیں پڑتی بلکہ اس کا اصل باعث کفر ہوتاہے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ جو اپنے بندوں پر بے حد رحم و کرم سے کام لینے والا ہے انہیں اپنی محبت سے محروم نہیں کرتا۔ وہ اسی وقت اپنے قرب کے دروازے ان پر بند کرتا ہے جب وہ خود اس کی رحمت کے دروازوں کو اپنے ہاتھ سے اپنے اوپر بند کر لیتے ہیں۔
فَقَلِیْلاً مَّا یُؤْ مِنُوْنَ:۔ اِس کے دونوں معنے ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی کہ وہ تھوڑا ایمان لاتے ہیں یعنی بعض باتوں کو مانتے ہیں اور بعض کو ردّ کر دیتے ہیں۔ جیسے یہود کے متعلق پچھلے رکوع میں آچکا ہے کہ یُؤْ مِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَیَکْفُرُوْنَ بِبَعْضِ یعنی وہ احکامِ الہٰی میں سے بعض کو تومان لیتے ہیں اور بعض کا انکار کر دیتے ہیں۔ پس اِس کے ایک معنے تو یہ ہیں کہ وہ ناقص طور پر ایمان لاتے ہیں۔ لیکن اِس کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ وہ بالکل ایمان نہیں لاتے۔ کیونکہ نفی کے لئے بھی قلیل کا لفظ استعمال کر لیتے ہیں۔ علامہ ابو البقاد نے لکھا ہے کہ اس کے معنے اس طرح بھی ہو سکتے ہیں کہ ما نافیہ مانا جائے اور اصل عبارت یوں سمجھی جائے کہ مَایُؤْمَنُوْنَ قَلِیْلًا وَ لَا کَثِیْرًا۔ مگر اس صورت میں بھی معنے ایک ہی رہتے ہیں کہ یہ لوگ ایمان سے بالکل محروم ہو چکے ہیں۔
وَلَمَّاجَآئَ



عَلَی الْکَفِرِیْنَo
۷؎ حل نعات:۔یَستَفْتِحُوْنَ:اِسْتَفْتَحَ فُلَان’‘ کے معنے ہوتے ہیں طَلَبَ الْفَتْحَ وَاسْتَنْصَرَ اُس نے فتح اور نصرت چاہی۔ اور اِسْتَفْتَحَ الْبَابَ کے معنے ہوتے ہیں فَتَحَہ‘ اُس نے دروازہ کھولا(اقرب)
تفسیر:۔ مُصَدِّف’‘ لِّمَا مَعَھُمْ:۔ یاد رکھنا چاہیے کہ تصدیق دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک قسم تو یہ ہے کہ مثلاً ہم کہیں کہ زید سچا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہو گا کہ زید کی طرف جھوٹ منسوب نہیں ہو سکتا۔ اور دوسری قسم یہ ہے کہ زید کہے بکرآجائیگا اور وہ آجائے۔ تو ہم کہیں کہ بکر نے زید کو اپنی بات میں سچا کر دیاہے۔ یعنی اُس نے زید کی بات سچی ثابت کر دی۔ اس جگہ بھی تصدیق کے یہ معنے نہیں کہ قرآن کریم نے تورات کی ساری تعلیم کو سچا قرار دے دیا ہے بلکہ اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ وہ پیشگوئیاں جو بائیبل میں قرآن کریم اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق پائی جاتی تھیں قرآن کریم نے اپنے نزول سے اُنکو سچا ثابت کر دیا ہے۔ پس یہ تصدیق پیشگوئیوں کے بارہ میں ہے۔ یہ مُراد نہیں کہ قرآن کریم بائیبل کی تمام باتوں کی تصدیق کرتا ہے۔
مُصَدِّق’‘ لِّمَا مَعَھُمْ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ قرآن کریم وہ کتاب ہے جس کے متعلق خود یہود کی اپنی کتابوں میں پیشگوئیاں پائی جاتی ہیں۔ اگر قرآن کریم نہ آتا تو اُن کی پیشگوئیاں جھوٹی ثابت ہوتیں گر اب قرآن کریم نے بائیبل کی ان پیشگوئیوں کو سچا ثابت کر دیا ہے ۔ اگر ان کے اندر اپنی کتب پر سچا ایمان پایا جاتا تو اُن کا فرض تھا کہ وہ قرآن کریم کی صداقت کو تسلیم کرتے اور اس طرح اپنے عمل سے بائیبل کی صداقت کا اقرار کرتے۔
وَکَانُوْامِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتَحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوْا۔ اِ س کے دو معنے ہو سکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ کفار کے ماتحت رہتے تھے اس لئے وہ اُن پر فتح حاصل کرنے کے لئے خدا تعالیٰ کے حضور دُعائیں کیا کرتے تھے کہ اے اللہ! آنے والے موعود نبی کو بھیج۔ اور ایسے سامان پیدا فرما جن کے ذریعہ سے ہمیں کفار پر غلبہ حاصل ہو۔اس لحاظ سے یَسْتَفْتَحُوْنَ کے یہ معنے ہونگے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے فتح مانگتے تھے۔ اور دوسرے معنے یہ ہیں کہ وہ کفار پر اپنی کتاب کی پیشگوئیوں کا باب کھولتے تھے اور انہیں بتایا کرتے تھے کہ فلاں فلاں علامت رکھنے والے ایک رسول کی ہمیں خبر دی گئی ہے۔ چونکہ اُن کے دلوں میں ابھی کتاب کا
احترام باقی تھا۔ اس لئے وہ اپنی کتاب کی اُن پیشگوئیوں کو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق تھیں کافروں کے سامنے بیان کیا کرتے تھے اور اُن کو بتایا کرتے تھے کہ جب وہ نبی آئیگا تو انہیں سب کفار پر غلبہ حاصل ہو جائے گا۔(ابن ہشام صفحہ۱۵۵) یہی بات تھی جو مدینہ کے لوگوں کے ایمان لانیکا باعث ہوئی۔یہود کے تین قبائل جو ہجرت کر کے مدینہ آگئے تھے اُنکو اپنے بزرگوں سے اس بات کا علم ہو چکا تھا کہ موعود نبی مدینہ اور اس کے اردگرد کے علاقہ میں آنے والا ہے۔ چنانچہ وہ مدینہ کے لوگوں کے سامنے یہ پیشگوئیاںبیان کیا کرتے تھے اور ان کو بتایا کرتے تھے کہ ہمارے اندر ایک نبی آنے والا ہے اس کے ذریعہ کفر مٹ جائیگا۔ اور دینِ حق غالب آئیگا۔ چنانچہ ایک سال جب مدینہ کے لوگ حج کرنے کے لئے مکہ مکرمہ گئے تو اُن کو اس بات کا علم ہوا کہ مکہ کے ایک شخص نے رسول ہونیکا دعویٰ کیا ہے اس پر انہوں نے آپس میں مشورہ کر کے فیصلہ کیا کہ یہود کہا کرتے تھے کہ ایک نبی آئیگا جسے نہ ماننے والے تباہ ہو جائیں گے۔ چلو ہم اُسے مان لیں اور تباہی سے بچ جائیں۔حدیث میں آتا ہے کہ انہوں نے آپس میں یہی ذکر کیا کہ یہود عقلمند ہیں۔ مالدار ہیں۔ طاقتور ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اُسے مان کر ہم پر غالب آجائیں۔ اس لئے ہمیں چاہیے کہ ہم پہلے مان لیں۔ یہی بات انہو ں نے اپنی قوم سے جا کر بیان کی اور اُسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دعویٰ کی خبر دی۔ اس پر وہ قریباً سب کے سب ایمان لے آئے۔ مگر یہود ان لوگوں کو جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مان لیا تھا کافر کہنے لگ گئے۔حالانکہ اس سے قبل آنے والے رسول کے متعلق وہ اپنی کتابوں سے خود پیشگوئیاں نکال نکال کر بیان کیا کرتے تھے۔ اور اس بات پر فخر کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ وہ موعود نبی آئیگا تو پھر ہم تمہاری خوب خبر لینگے لیکن جب وہ رسول آگیا۔ تو وہ تاویلیں کرنے لگ گئے یہی حال آج کل کے مسلمانوں کا ہے۔ وہ بھی کفار پر غلبہ کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے۔ مگر جب آنے والا آگیا تو وہ تاویلیں کرنے لگ گئے۔ اور پھر یہ کہنے لگ گئے کہ یہ خیالات ہمارے اندر مجوسیوں سے آگئے ہیں۔ ورنہ دراصل ہمارے ہاں کوئی ایسی پیشگوئی ہی نہ تھی۔
فَلَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ۔ اس جگہ کافر سے مراد عام کافر بھی ہو سکتے ہیں۔ مگر زیادہ تر وہی کافر مراد ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے پہلے تو یہ دُعائیں کیا کرتے تھے کہ الہٰی کوئی ایسا رسول مبعوث فرما جو دین حق کو ادیانِ باطلہ پر غالب کر دے لیکن جب وہ رسول آگیا۔ اور ان لوگوں نے علامات سے یہ بات دیکھ لی کہ باطل پر صداقت غالب آرہی ہے اور عنقریب کلی طور پر غالب آجائیگی تو اس کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ پس واضح صداقت کو دیکھ کر اور حجت قائم ہونے اور دُعائیں کرنے کے بعد اُن کے انکار کرنے کے یہ معنے ہیں کہ اُن پر خدا تعالیٰ کی *** پڑی ہوئی ہے۔ ورنہ ایسی واضح صداقت کا وہ بِلا وجہ کِس طرح انکار کر سکتے تھے۔
واقعہ میں جب ہم اس بات پر غور کریں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بدولت کس طرح حضرت موسیٰ ؑ اور دوسرے اسرائیلی نبیوں کی عزت عرب کے دلوں میں بیٹھ گئی اور وہ جو اُن انبیاء کو مفتریوں کی طرح سمجھتے تھے صادقوں کی طرح اُن کی عزت کرنے لگے تو حیرت ہوتی ہے کہ یہود کو آخر وہ کونسی تکلیف پہنچی تھی جس کی وجہ سے ایسے محسن انسان کی دشمنی اور ایذاء دہی میں انہوں نے عرب کے کفار سے بھی زیادہ زور لگایا۔
بِئْسَمَا اشَتَرَوْا


عَذَاب’‘ مُّھِیْن’‘o
۸؎ حل نعات:۔بِئْسَمَا اشَتَرَوْابِہٖ اَنْفُسَھُمْ یہ ایک وسیع مضمون ہے جو لمبی تفصیل سے تعلق رکھتا ہے مگر میں اسے اختصار کے ساتھ بیان کر دیتا ہوں۔
قرآن کریم سے یہ بات ثابت ہے کہ جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے تو اس وقت اللہ اور اس کے درمیان ایک سودا ہو جاتا ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قراان مجید میں دوسری جگہ فرماتا ہے۔اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْ مِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ الَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃُ۔(توبہ آیت۱۱۱) یعنی اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے اُن کی جانیں اور اُن کے اموال اس وعدہ کے ساتھ خرید لئے ہیں کہ انہیں اس کے بدلہ میں جنت دی جائے گی۔
اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ وہ مومنوں سے ان کے مال اور جان خرید لیتا ہے اور اس کی قیمت میں انہیں جنت دے دیتا ہے جنت مرنے کے بعد ملنے والی چیز ہے ۔ اور جو چیز بعد میں ملنے والی ہوتی ہے اس لئے سودا کرتے وقت کوئی نہ کوئی رسید دی جاتی ہے جسے وہ موقع پر دکھا سکے ۔اس نکتہ نگا ہ سے جنت کیلئے بھی کوئی پروانہ ہونا چاہیئے تھا جسے وہ موقعہ پر دکھا کر داخل ہو سکے ۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں ۔ قرآن مجید میں دوسری جگہ جنت کیلئے ایک پروانہ بھی مقرر کیا گیا ہے ۔ فرماتا ہے ۔یٰٓآ یَّھُاَ النَّفْسُ اْلمُطَمیٔمِنَّۃُ ارْ جِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْ ضِیَّۃً ہ فَاْ دْ خُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ(فجرآیت ۲۸تا۳۱)یعنی اے نفس مطمَنْدتوُ اپنے رب کی طرف اس حالت میں رجو ع کر کہ تو اپنے رب سے راضی ہو گویا یہ علامت ہو گی اس بات کی کہ سودا ٹھیک ہے ۔چونکہ دینے والا اور لینے والے دونوں راضی ہونگے اسلئے ثابت ہو جائیگا کہ سودا بالکل درست ہے۔ غرض ایمان لانا ایک سودا ہے جو بندہ کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوتا ہے اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو جنت میں داخل رک لیتا ہے ۔ اور اس کیلئے پہلے اسے ایک پروانہ دے دیتا ہے اور وہ پروانہ یہ ہے کہ فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ تو میرے بندوں میں داخل ہو جا۔گویا عبودیت کا مقام وہ ٹکٹ ہے جسے دکھا کر ایک مومن بندہ جنت میں داخل ہو جائیگا۔
ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنْ یَّھْدِیَۃٗ یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِ سْلَامِ۔(انعام آیت ۱۲۶)یعنی جسے اللہ تعالیٰ ہدایت کا راستہ دکھانا چاہتا ہے اور کامیاب کرنا چاہتا ہے اور جنت میں پہنچانا چاہتا ہے۔اُس کا سیند اسلام کیلئے کھول دیتا ہے ۔
اسلام کا لفظ بعض دفعہ ایمان کیلئے بھی استعال ہوجاتا ہے ۔ اور بعض دفعہ ایمان اور اسلام دونوں الگ الگ مفہوم میں استعمال ہوتے ہیں ۔اس جگہ اسلام کا لفظ ایمان کے معنوں استعمال ہوا ہے اور بتایا گیا ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ جنت میں لے جانا چاہتا ہے ۔ اُس کا سینہ اسلام کیلئے کھول دیتا ہے گویا سینے کا کھلنا بھی جنت کا ایک ٹکٹ ہے ۔غرض ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے عبودیت کے ٹکٹ کا ذکر کیا ہے اور دوسری جگہ صدر کو اُس کی علامت قرار دیا ہے ۔دراصل یہ دونوں ایک ہی چیز ہیں ۔ کیونکہ تعبد کے معنے تذلل اور خدا کے نقش کو قبول کرنے کے ہیں ۔ اور عبدکامل وہ ہو جاتا ہے ۔جو خدا تعالیٰ کے نقش کو قبول کرنے لگ جائے اور یہی معنے شرح صدر کے ہوتے ہیں ۔ گویا یہ ایک ثابت شدہ امر ہے کہ انسا ن کا مومن ہوتے ہی اللہ تعالیٰ کے ساتھ سودا ہو جاتا ہے ۔اور وہ جان مال اور اپنی جان خدا تعالیٰ کے سپرد کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اُسے جنت دے دیتا ہے جنت کیونکہ مرنے کے بعد ملا کرتی ہے اسلئے دنیا اس دنیا میں اس کیلئے اُسے ٹکٹ دے جاتا ہے ۔کہ اسے دکھانا اور اندر چلے جانا ۔ورنہ اُسے کیا پتہ لگ سکتا ہے کہ مرنے کے بعد اُسے جنت ملے گی یا نہیں ۔اس لئے اس کی علامت مقرر کر دی جو عبودیت اور اسلام کیلئے شرح صدر ہے گویا ایمان و اسلام ایک ٹکٹ ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے بندہ کو ملتا ہے اور اس سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کا سودا خدا تعالیٰ سے طے پا گیا ہے ۔جب وہ اسے پیش کر دیتا ہے تو اُسے جنت مل جاتی ہے ۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص اس سودا کو فسخ کرنا چاہے تو کیا کرے ۔اس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اُسے کہیگا کہ جنت کا ٹکٹ واپس کر دو ۔ اور اپنی چیز لے لو۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم جب اُن پر ایمان لائی تو اُس کا خدا تعالیٰ سے سودا ہو گیا اور اُسے جنت کیلئے ٹکٹ مل گیا ۔ اِسی طرح جب عیسائی قوم نے حضرت عیسی علیہ السلام کو مان لیا تو ان کا بھی خدا تعالیٰ سے سودا ہو گیا اور اُسے جنت کا ٹکٹ مِل گیا۔ یہ لوگ اپنے اپنے زمانہ میں مومن تھے اور اُنکا خدا تعالیٰ سے سودا ہو گیا اور اُن کو بھی خدا تعالیٰ نے جنت کا ٹکٹ دے دیا۔ مگر یہود نے یہ حماقت کی کہ انہوں نے اس بیع کو فسخ کر دیا ۔ اور جنت کا ٹکٹ جو اللہ تعالیٰ نے ان کو دیا تھا واپس کر دیا اور اپنی جانوں اور مالوں کو لے لیا ۔ خدا کی دی ہوئی چیز ایمان اور اسلام واپس کر دی اور اپنی جانیں اور اموال لے لئے ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ کہ بِدْٔسَمَا اشْتَرَ وْا بِہٖ اَنْفُسَھُمْ ۔پہلی بیع تو برکت والی تھی مگر یہ بیع نہایت گندی اور تباہ کن ہے ۔ پہلے سودے میں خدا تعالیٰ کی دی ہوئی چیز اچھی تھی ۔اور اُن کی دی ہوئی ناقص تھی ۔ پھر کیا بیع فسخ کرنے کی دو ہی وجوہ ہو سکتی ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ چیز جو لی گئی ہو اچھی نہ ہو بلکہ ناقص ہو ۔مگر یہاں یہ بات نہ تھی ۔خدا کی دی ہوئی چیز ناقص نہ تھی بلکہ کامل تھی ۔ دوم خدا کی طرف سے جو چیز ملی ہو وہ تو اچھی وہ مگراُس کے مقابلہ میں سودا وفسخ ہو تو بھی قابل اعتراض نہیں ہوتا ۔ مگر یہاں یہ بات بھی نہ تھی ۔
اب ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ بیع فسخ کرنے میں یہود نے کونسی بات کو مد نظر رکھا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔اُن کے بیع فسخ کرنے کی اِن دو میں سے کوئی وجہ نہ تھی بلکہ اُن کے فسخ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے سر کشی کی ۔ اور محض شرارت سے کہا کہ ہمارے سوا دوسروں کو یہ چیز کیوں دی گئی ہے ۔ یہود کی یہ بات کس قدر حماقت پر مبنی ہے ۔ کیا کوئی دوکاندار کے متعلق کہہ سکتا ہے کہ اس نے فلاں سودا میرے سوا دوسرے شخص کو کیو ں دیا۔
یہود کے اس نظریے کی تشریح کیلئے حدیث میں آتا ہے کہ اِن لوگوں کی مثال اس واقعہ کے ساتھ ملتی ہے کہ کسی ٹھیکیدار نے بعض اشخاص کو صبح سے ظہر تک اور بعض کو ظہر سے عصر تک اور بعض کو عصر سے مغرب تک کام کرنے کیلئے مقرر کیا ۔ اور مزدوری سب کو ایک ہی دی ۔ اس پر ظہر اور عصر تک کام کرنے والوں نے ٹھیکیدارسے کہا کہ عصر سے مغرب تک کام کرنے والوں نے تو تھوڑا کام کیا ہے اور معاوضہ ہمارے جتنا لے گئے ہیں ۔یہ قرین انصاف نہیں۔اس پر ٹھیکیدار نے انکو کہا کہ یہ میری مرضی ہے ۔اس پر تم کو کی اعتراض ہو سکتا ہے ۔رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہی حل یہوداور نصاریٰ اور مسلمانوں کا ہے ۔ یہود اور نصاریٰ نے جب دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے وہی انعامات انہوں کو بھی دے دیئے ہیں جو انہیں ملے تھے تو انہوں نے کہا کہ مسلمان جو آخر میں آئے تھے۔ اُن کو وہی انعامات کیوں مل گئے جو ہمیں ملے تھے ۔غرض اس غصہ میں اور حسد کی وجہ سے کہ مسلمانوں کو بھی جنت مل گئی ہے۔حالانکہ جنت صرف ہمیں ملنی چاہیے تھی انہوں نے اسلام کو قبول نہ کیا اور بزبان حال خدا تعالیٰ سے کہنے لگے کہ ہمارا جو سودا پہلے ہوا تھا اُسے فسخ کر دیجیئے ۔یہود کی یہ بات کہ ہمارا سودا فسخ کر دیجیئے کیونکہ وہی سودا مسلمانوں کے ساتھ کر کے اُن کو بھی جنت کا حقدار قرار دیا گیا ہے اور مسلمانوں میں تمام اقوام شامل ہو کر نجات پا سکتی اور جنت میں جا سکتی ہے اسکا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرما تا ہے کہ اِن پر دُہرا غضب نازل ہوا ۔ایک تو اُن کے کفر اختیار کرنے اور ترک ایمان کی وجہ سے اور دوسرے اُن کے پاس حسد کی وجہ سے کہ مسلمانوں کو بھی جنت کا حقدار بنا دیا گیا ہے ۔گویا ایک تو بغاوت اور دوسرے حسد کی وجہ سے انہوں نے ایسا کیا۔ اپنا ذاتی فائدہ مد نظر نہ رکھا اور سودا فسخ کر دیا ۔
دوم اِشْتَریٰ کے معنے اگربیچنے کیلئے جائیں تو کسی چیز کے بدلے میں اپنی جانوں کو بیچنے کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ انسان اُس میں مہنمک ہو جائے ۔اس صورت میں بِسَْٔمَا اشْتَرَوْابِہٖ اَنْفُسَھُمْ کے یہ معنے ہونگے ۔کہ وہ چیز جس کے ساتھ انہوں نے اپنی جانوں کو بیچا ہے ۔ بہت بُری ہے۔یعنی کفر ۔کفر کیلئے اپنے آپ کو فروخت کردینا اور حقیقت ایک محاورہ ہے بدی میں مبتلا وہ جانیکا ۔اردو زبان میں بھی کہتے ہیں ۔کہ تم فلاں بات میں ہی لگ گئے ہو۔پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ لوگ کفر میں ہی مہنمک ہو چکے ہیں اور اِن کی کفر میں ترقی کی بڑی وجہ یہ حسد ہے کہ نبوت ہمیں کیوں نہیں ملی ۔مسلمانوں کو کیوں مل گئی ہے ۔ غرض یہاں اِشْتَریٰ کے دونوں معنے چسپاں ہو سکتے ہیں خریدنے کے بھی اور بیچنے کے بھی ۔
فَبِآئُ وْ ابِغَضَبٍ عَلَی غَضَبٍ میں بتایا کہ یہود خداتعالیٰ کے متواتر غضب کو لے کر اس طرح بن گئے کہ گویا خداتعالیٰ کا غضب انہیں کیلئے مخصوص کیا گیا ہے ۔ چنانچہ ایک دفعہ جب رسول کریم ﷺ سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! سورۃ فاتحہ میں جو مغضوب اور ضالین کا ذکر آیا ہے اس میں مغفوب سے کون لوگ مراد ہیں ۔تو آپؐ نے فرمایا ۔یہود ۔(فتح البیان جلد اول)اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ متواتر اللہ تعالیٰ کے انبیاء کا مقابلہ کرتے رہے اور غضب الہٰی کے مورد بن گئے ۔
بِغَضَبٍ عَلَی غَضَبٍ الفاظ اس لئے استعمال کئے گئے ہیں کہ ایک دفعہ تو یہود حضرت مسیح ؑ کا انکار کر کے خدا تعالیٰ کے غضب کا مورد بنے تھے اور دوسری دفعہ رسول کریم ﷺ کا انکار کر کے وہ اُس کے غضب کا مورد بنے گویا دوہرے طور پر وہ غضب الہٰی کا مورد بن گئے ۔
وَاِذَاقِیْلَ


کُنْتُمْ مُؤْ مِنِیْنَo
وَلْلکٰفِرِیْنَ عَذَاب’‘ مُّھِیْنٗ میں بتایا کہ حسد کرنے والے آخر میں ضرور رُسوا ہوتے ہیں ۔اگر دیا نتدار ی سے کسی مذہب کی مخالفت ہو تو وہ ایک علیحدہ امر ہے لیکن یہود کو اپنی کتاب کی پیشگوئیاں دیکھ کر محمد رسول اللہ ﷺ کی صداقت کا علم ہو چکا تھا۔ اگر اسکے باوجود وہ آپ کا انکار کرتے رہے ۔اور جو شخص کسی صداقت کا عمداً انکار کرتا ہے وہ یقینا رسوا ہو تا ہے بلکہ اگر بعد میں
وہ مان بھی لے تب بھی لوگ اسے رسوا کرتے ہیں کہ اِس نے انکار کر کے مان لیا۔
۹؎ تفسیر :۔ یہود کے ایمان نہ لانیکی وجہ یہ تھی کہ انہیں اس بات پر غصہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے سوا دوسروں میں اپنا نبی کیوں بھیج دیا۔چنانچہ جب اُن سے کہا جاتا کہ قرآن مجید میں جو کچھ اُترا ہے اُس پر ایمان لاؤتو وہ کہتے کہ ہم تو اُسی پر ایمان لائیں گے جو ہم پر نازل ہو ا ہے۔ حالانکہ وہ اس بات میں بھی جھوٹے ھتے ۔اگر وہ موسیٰ علیہ السلام کی کتاب پر سچے دل سے ایمان رکھتے تھے تو اُن کی پیشگوئیوں کا وہ کیوں انکار کرتے تھے ۔جو محمد رسول اللہ ﷺ کے متعلق اُن کی کتاب میں پائی جاتی تھیں۔ اُن کا اپنی کتاب کی پیشگوئیوں کو جھٹلا دینا بتاتا ہے کہ وہ اپنے اس دعویٰ میں جھوٹے تھے کہ ہم صرف اپنی کتاب پر ایمان رکھیں گے ۔ ورنہ اگر اُن میں دیانتداری پائی جاتی تو وہ سمجھتے کہ اگر وہ محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان نہیں لائے گے تو خود اُن کا مذہب پر حملہ ہو گا کیونکہ اُن کی اپنی کتاب میں ایک آنے والے رسول اور ایک جدید کتاب کا ذکر ہے ۔ اور وہ نشانیاں جو اس رسول اور اِس کتاب کی بتائی گئی ہیں وہ رسول کریم ﷺاور قرآن کریم پر حرف بحرف منطبق ہوتی ہیں ۔پس اُنکار اِنکار درحقیقت اپنی کُتب کی صداقت سے بھی انکار کرنا ہے ۔ کیونکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ علامات باطل تھیں اور جھوٹے آدمی میں بھی پائی جا سکتی تھیں۔ یا یہ کہ نغوذباللہ اللہ تعالیٰ کے سوا شیطان بھی عیب کی باتیں بتا سکتا ہے ۔ او ر اُس نے پہلے انبیاء کو آنے والے رسول کی نسبت بعض ایسی علامات بتادیں جو ایک جھوٹے نبی میں پائی جاتی تھیں ۔
نُؤْ ِمنُ ِبماَ اُنْزِ لَ عَلَیْنَا سے یہ امر بھی مستبظ ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی شخص پر کوئی ایسا انعام نازل ہو جس سے سار ی قوم کو فائدہ پہنچے تو اُس وقت ایسا ہی سمجھا جات اہے ۔ کہ گویا وہ انعام ساری قوم کو ملا ہے ۔ بلکہ صرف حضرت موسی علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی ۔ مگر وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم پر اُتری ۔کیونکہ اس کتاب سے تمام یہود نے بحیثیت قوم فائدہ اٹھایا تھا۔ افسوس ہے کہ اِس زمانہ میں مسلمان بھی یہی کہتے ہیں کہ قرآن کریم کو مان کر مرزا صاحب کی کیا ضرورت ہے ؟گویا وہ بھی نُؤْ مِنُ بِمَا اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَیَکْفُرُوْنَ بِمَا وَرَآئَ ہٗ کے مصداق بنتے ہیں۔
وَھُوَ اْلحَقُ مَصَدِّ قًا لِّمَا مَعَھُمْ ۔فرماتا ہے ۔کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ ہماری یہ تعلیم حق ہے یعنی ایک اٹل صداقت ہے جو دنیا میں نمایا ں ہو کر رہیگی ۔عربی زبان میں سچائی کے اظہار کیلئے جتنے الفاظ استعمال ہوتے ہیں ۔وہ سب دوام پر دلالت کرتے ہیں۔ یعنی ایسی بات پر جو نہ ٹلنے والی ہو اور پوری ہو کر رہنے والی ہو ۔ پاس وَھُوَ اْلحَقُ میں بتایا کہ یہ دائمی صداقت ہے جو کبھی نہیں ٹلے گی ۔اِسکا انکار تم کو کیا فائدہ دیگا ۔کیوں نہ تم اسے پہلے ہی مان لو ۔
اصل بات یہ ہے کہ رسول کریمﷺ کے متعلق جو پیشگوئیاں بائیبل میں پائی جاتی ہیں وہ سب کی سب قرآن کریم کے ذریعہ پوری ہوئی ہیں اور اِسی کے ذریعہ سچی ثابت ہوتی ہیں ۔ اِن میں سے بعض پیشگوئیاں عیسائی حضرت مسیح علیہ السلام پر چسپاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔مگر ان پیشگوئیوں کی علامات بتا دیتی ہیں کہ ان کا حضرت مسیح موعود پر چسپاں کرنا غلطی ہے ۔ اس بارہ میں سب سے پہلے پیشگوئی استثنات باب۱۸تا ۱۹ کی ہے ۔ یہ پیشگوئی اتنی واضح ہے کہ اِسے کسی صورت میں بھی کسی اور پرچسپاں نہیں کیا جا سکتا ۔واقعہ یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ ؑ بنی اسرائیل کو طور کے دامن میں لے گئے تو بائیبل میں لکھا ہے کہ آسمان پر متواتر بجلی چمکنی شروع ہوئی اور اُس نے زور زور کی آوازیں پیدا ہوئیں ۔بنی اسرائیل خوفزدہ ہو گئے اور حضرت موسیٰ ؑ سے کہنے لگے کہ تو خود جا اور خدا سے کلام کر ہم اُس کا کلام سننا نہیں چاہتے اور نہ ہماری اولادیں اُسے سنیں ۔تب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو کہا کہ اِن کو کہدے کہ میں نے ان کی بات سن لی ہے ۔ اَب میں ان سے وہی معاملہ کرونگا جو وہ چاہتے ہیں ۔ یعنی آئندہ میں اِن میں سے شرعی نبی برپا نہیں کرونگا ۔بلکہ ان کے بھائیوں سے برپا کرونگا ۔یہ پیشگوئی حضرت مسیح ؑ پر کسی صورت میں بھی چسپاں نہیں ہو سکتی ۔اگر اسے اُن پر چسپاں کیا جائے تو ہمیں ماننا پڑیگا کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مانند ہیں۔ حالانکہ یہ بات غلط ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مانند شرعی نبی تھے ۔اورحضرت موسیٰ علیہ السلام شرعی نبی تھے ۔ اِس کی دلیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ قول ہے جو انجیل میں آتا ہے کہ
’’یہ نہ سمجھو کہ میں تورات یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں ۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں ۔ کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت سے ہر گز نہ ٹلیگا۔ جب تک سب کچھ پورا نہ ہو جائے ‘‘۔(مئی باب ۵آیت ۱۷۔۱۸)
لیکن اگر بفرض محال حضرت مسیح ؑ کو شرعی نبی بھی مان لیا جائے تب بھی وہ موسیٰ ؑ کی مانند نہیں ہو سکتے کیونکہ عیسائی نقطہ نگاہ سے انہوں نے شریعت کو لغت قرار دیا تھا اور خود بھی لغتی ہو گئے تھے ۔
پھر اس پیشگوئی میں لکھا ہے کہ وہ نبی تیرے بھائیوں میں سے ہو گا ۔ مگر انجیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو داؤد کی نسل سے بتاتی ہے ۔ اگر اس پیشگوئی کو حضرت مسیح ؑ پر چسپاں کیا جائے تو لازماً اُن کا حضرت داؤد علیہ السلام کی نسل سے ہوناغلط قرار پاتا ہے۔ حالانکہ مسیحی لوگ نہیں کہہ سکتے کہ انجیل نے جو کچھ بتایا ہے وہ غلط ہے ۔اور تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ حضرت میسح موعود علیہ السلام بنی اسرائیل میں سے تھے نہ کہ بنی ااسماعیل میں سے ۔ پس تیرے بھائیوں سے لازماً بنی اسرائیل مراد نہیں ہو سکتے ۔ بلکہ اُن کے بھائی بنی اسماعیل ہی مراد ہیں ۔
پھر اگر اس سے حضرت مسیح علیہ السلام مراد ہوتے تو وہ اپنے آپ کو اس کا مصداق بھی قرار دیتے اور دعویٰ کرتے کہ میں مثیل موسیٰ ؑ ہوں ۔ مگر انجیل کو دیکھنے سے یہ بات کہیں نظر نہیں آتی کہ حضرت عیسیٰ ؑ نے کبھی مثیل موسیٰ ؑ ہونے کا دعویٰ کیا ہو ۔ لیکن قرآن کریم میں یہ دعویٰ موجود ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ اِنَّآ اَرْسَلْنَآ اِلَیْکُمْ رَسُوْلًا شَاھِدً ا عَلَیْکُمْ کَمَآ اَرْسَلْنَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا(مزمل آیت ۱۶)یعنی اے لوگو! ہم نے تمہاری طرف ایک ایسا رسول بھیجا ہے جو تم پر نگران ہے بالکل اُسی طرح مثیل موسیٰ ہونیکا دعویٰ ہے ۔ اِسی طرح سورہ احقاف میں بھی مثیل کا لفظ پا یا جاتا ہے ۔ جیسا کہ فرماتا ہے ۔قُلْ اَرَئَ یْتُمْ اِنْ کَانَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَکَفَرْ تُمْ بِہٖ وَشَھِدَ شَاھِدُٗ مِّنْ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ عَلٰی مِثْلِہٖ فَاٰمَنَ وَ اسْتَکُبَرْتُمْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی اْلقَوْمَ الظَّلِمِیْنَ۔(احقاف آیت ۱۱)یعنی کہہ دے کہ اے لوگو( جو قرآن کریم پر غور کرنا بھی پسند نہیں کرتے ) بتاؤ تو سہی اگر یہ کلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہو اور تم نے اس کا انکار بلا سوچے سمجھے کر دیا (تو اس کا نتیجہ کیا نکلیگا )اور پھر بنی اسرائیل میں سے ایک شخص (موسیٰ ؑ)اپنے ایک مثیل کی گواہی بھی دے چکا ہے ۔ پس وہ تو اُس پر ایمان لے آیا۔ مگر تم لوگوں نے تکبر کیا ۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ ظالموں کو کبھی کامیابی کا منہ نہیں دکھاتا ۔ یہ اُسی پیشگوئی کی طرف اشارہ ہے ۔ جو حضرت موسیٰ ؑ نے کی تھی ۔ اس جگہ اس پیشگوئی کو بطور دلیل کے پیش کیا گیا ہے ۔ اور بتایا گیا ہے ۔ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مثیل موسیٰ ؑ ہیں ۔ اور موسیٰ ؑ تو پیشگوئی کر کے اِس آنے والے نبی پر ایمان لے آیا ۔ مگر تم نے انکار کر دیا اور تکبر سے کام لیا۔ غرض اس آیت میں عَلٰی مِثْلِیہٖ کی پیشگوئی کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر چسپاں کیا گیا ہے ۔ مگر حضرت عیسیٰ ؑ نے کہیں اسے اپنے اوپر چسپاں نہیں کیا۔
اس سے بڑھ کر ایک اور بات یہ ہے کہ حضرت مسیح ؑ نے خود مثیل موسیٰ ؑ ہونے سے انکار کیا ہے اور اُن کا یہ انکار کتاب اعمال باب ۳آیت ۱۹تا ۲۶ میں درج ہے ۔
لکھا ہے :۔
’’پس توبہ کرو اور متوجہ ہو کر تمہارے گناہ مٹانے جائیں تاکہ خدا وندے کے حضور سے تازگی بخش ایام آویں ۔اور یسوع مسیح کو پھر بھیجے۔ جس کی منادی تم لوگوں میں آگے سے ہوئی۔ضرور ہے کہ آسمان اُسے لئے رہے اُس وقت تک کہ سب چیزیں جن کا ذکر خدا نے اپنے سب پاک نبیوں کی زبانی شروع سے کیا اپنی حالت پر آویں۔ کیونکہ موسیٰ نے باپ دادوں سے کہا کہ خداوند جو تمہارا خدا ہے تمہارے بھائیوں میں سے تمہارے لئے ایک نبی میری مانند اٹھا ویگا۔ جو کچھ وہ تمہیں کہے اُس کی سب سُنو۔ اور ایسا ہو گا کہ ہر نفس جو اس نبی کی نہ سُنے وہ قوم سے نیست کیا جائیگا۔ بلکہ سب نبیوں نے سموایل سے لے کے پچھلوں تک جتنوں نے کلام کیا ان دنوں کی خبر دی ہے۔ تم نبیوں کی اولاد اور اس عہد کے ہو جو خدا نے باپ دادوں سے باندھا ہے جب ابراہام سے کہا کہ تیری اولاد سے دنیا کے سارے گھرانے برکت پاویں گے۔ تمہارے پاس خدا نے اپنے بیٹے یسوع کو اُٹھا کے پہلے بھیجا کہ تم میں سے ہر ایک کو اُسکی بدیوں سے پھیر کے برکت دے۔‘‘
اِس حوالہ سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس وقت تک نہیں آسکتے جب تک کہ وہ تمام پیشگوئیاں پوری نہ ہوں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کی تھیں۔ اور آیت ۲۰ سے اہر ہوتا ہے کہ مثیل موسیٰ ؑ مسیح کی پہلی بعثت کے بعد اور دوسری بعثت سے پہلے آئے گا گویا اس جگہ اُن کی دو بعثتوں کا ذکر ہے۔ جن میں پہلی بعثت مثیل موسیٰ سے پہلے ہے اور دوسری بعثت مثیل موسیٰ کے بعد ہے۔ پس انجیل مثیلِ موسیٰ ؑ کی پیشگوئی حضرت مسیح علیہ السلام کی دو بعثتوں کے درمیان بتاتی ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی دو بعثتوں کے درمیان بتاتی ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام کا پہلا نزول مثیلِ موسیٰ سے پہلے ہوا۔ اوردوسرا نزول اُس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ تمام پیشگوئیاں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے مثیل کے متعلق بیان فرمائی تھیں۔ پوری نہ ہو جائیں۔
اِسی طرح استثناء باب ۳۳ آیت ۲۰ میں بھی ایک پیشگوئی بیان کی گئی ہے جو یہ ہے:۔
’’اور اُس نے کہا کہ خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے اُن پر طلوع ہوا۔ فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا۔ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا۔ اور اُس کے داہنے ہاتھ ایک آتشی شریعت اُن کے لیے تھی۔‘‘
اِس میں آنے والے موعود کے متعلق کئی باتیں بیان کی گئی ہیں۔ اول یہ کہ وہ فاران کے پہاڑ سے جلوہ گر ہوگا۔ اور فاران کا پہاڑ مکہ کے علاقہ میں ہی ہے۔
دوسرے یہ بات بتائی گئی ہے کہ وہ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آئیگا۔ اس جگہ دس ہزار قدوسیوں سے مراد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ فتح مکہ کے موقع پر دس ہزار صحابہؓ کاموجود ہونا ہے۔ اتنی بڑی تعداد کسی اور نبی کے ساتھ ایک جگہ کبھی جمع نہیں ہوئی۔ اور پھر صحابہؓ کے قدوسی ہونیکا ثبوت بھی قرآن کریم سے ملتا ہے۔ فرماتا ہے۔ وَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْ اعَنْہُ(سورہ توبہ آیت۱۰۰) کہ اللہ تعالیٰ اُن سے راضی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ سے۔ حضرت مسیح علیہ السلام کے ساتھ صرف بارہ حواری تھے۔ مگر اُن میں سے بھی ایک نے تو تیس روپے لے کر حضرت مسیح ؑ کو گرفتار کرادیا۔ اور دوسرے نے آپ پر *** ڈالی اور باقی سب گرفتاری کے وقت آپ کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ مگر محمد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے ایسے جاں نثار صحابہؓ بخشے جنہوں نے ہر مشکل گھڑی میں آپ کا ساتھ دیا اور اپنی جانیں قربان کر کے آپ کی حفاظت کی۔ تیسری علامت یہ بتائی گئی ہے تھی کہ اُس کے داہنے ہاتھ ایک آتشی شریعت ہو گی۔ اگر مثیل موسیٰ سے مراد اس جگہ حضرت مسیح علیہ السلام سمجھے جائیں تو یہ پیشگوئی غلط ٹھہرتی ہے کیونکہ مسیحؑ کے پاس کوئی نئی شریعت نہیں تھی۔ اس جگہ قرآنی شریعت کو آتشی شریعت اِس لئے کہا گیا ہے کہ آتش کے دو فائدے ہوتے ہیں۔ اول جلانا دوسرے نُور دینا۔ گرم پانی یا گرم لوہا دوسری چیز کو جلا توسکتا ہے مگر وہ کسی کو نور نہیں دے سکتا۔ مگر آگ جلانے کے علاوہ نور بھی دیتی ہے۔ پس آتشی شریعت کہہ کر بتایا گیا ہے کہ وہ ایسی شریعت ہو گئی جو دوکام کرے گی۔اُس میں ایک طرف تو نار ہو گئی اور دوسری طرف نو ر ہو گا۔ وہ ایک طرف تو تمام گندی اور بُری باتوں کو جلا کر راکھ کر دیگی اور دوسری طرف لوگ اُس سے نور حاصل کرینگے۔
غرض فاران سے دس ہزار قدوسیوں سمیت ایک الہٰی جلوہ کے ظہور کا وعدہ تھا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ پورا ہوا۔ فتح مکہ کے وقت آپ کے ساتھ دس ہزار قدوسی بھی تھے۔اور پھر موسیٰ کے بعد شریعت لانے کا دعویٰ بھی آپ کے سوا اور کسی نبی نے نہیں کیا۔
اِن دونوں پیشگوئیوں کے علاوہ اَور بھی بہت سی پیشگوئیاں ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر چسپاں ہوتی ہیں۔دیکھو یسعیاہ باب۸ آیت ۱۴ تا ۱۷ اوباب۹ آیت۱۳، ۱۷ اوباب۲۸ آیت۹تا۱۳ اوباب۳۵ آیت۳ تا۸ اوباب ۴۰ آیت۹تا۱۲، باب۴۲،۴۹ آیت ۵ تا۸ اوباب۶۲ آیت۲ تا۴۔نیز دیکھو دانیال باب ۷ و غزل الغزلات باب۵ آیت ۱۰تا۱۶ دستی باب۲۱ آیت ۴۲ تا ۴۴۔
غرض فرمایا کہ ایک طرف تو یہ تعلیم حق پر مشتمل ہے اور دوسری طرف اس کے ماننے سے گذشتہ الہامی کتابوں کی پیشگوئیوں کی تصدیق ہو جاتی ہے۔ اگر وہ اس کا انکار کر دینگے تو ان کو اپنی کتابوں کی بھی بہت سی باتیں جھوٹی ماننی پڑیں گی۔
اس جگہ اللہ تعالیٰ نے اس تعلیم کی صداقت منوانے کے لئے تین دلائل دیئے ہیں۔ اول یہ کہ یہ تعلیم خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہے۔ دوم دنیا اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی وہ ضرور دنیا میں قائم ہو کر رہے گی۔ سوم یہ تعلیم تمہاری اپنی کتابوں کی پیشگوئیوں کو جو آنیوالے موعود اور قرآن کریم کے متعلق ہیں پورا کرتی ہے۔ اگر تم اِس کا انکار کرتے ہو تو تمہیں اپنی کتابوں کا بھی انکار کرنا پڑیگا۔ اور تم ان پر قائم نہیں رہ سکو گے۔ چنانچہ دیکھ لو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آنے سے قبل یہود آپ کے منتظر تھے۔ اور اپنے بچوں کا نام تک محمد رکھا کرتے تھے۔ اور اس لئے رکھتے تھے کہ شاید وہ نبی ہم میں ہی پیدا ہو جائے۔ لیکن جب وہ آگیا تو اُس کا انکار کر دیا۔ اور کہنے لگے کہ وہ بنی اسمعٰیل سے کس طرح آسکتا تھا۔ اُس نے تو ہماری طاقت کو بڑھانا تھا۔ عیسائی کہنے لگ گئے کہ اس سے مراد کلیسیا کی طاقت تھی۔ اسی طرح اور مختلف قسم کی تاویلیں کرنے لگ گئے۔ حالانکہ اگر وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مان لیتے تو یقینا ان کی طاقت بڑھ جاتی اور وہ تباہی سے بچ جاتے۔
فَلِمَ تَقْتُلُوْنَ اَنْبِیَآئَ اللّٰہِ مِنْ قَبْلُ۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ اگر تم اس بات میں سچے ہو کہ اگر ہم میں سے نبی آتا تو ہم اسے ضرور مان لیتے تو تم یہ بتائو کہ تم اُن انبیاء کو جو تمہاری قوم میں سے آئے تھے قتل کرنے کے کیوں درپے رہے؟اگر تم میں ایسی ہی شرافت پائی جاتی ہے۔ اور تم اپنی اس بات میں سچے ہو تو بتائو کہ تم اُن پر کیوں ایمان نہ لائے اور ان کا مقابلہ کیوں کرتے رہے۔ پس یہ غلط ہے کہ جو کلام اسرائیلی نبی پر نازل ہوا ہے اُسے تم مان لیتے ہو۔بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ایمان کی خرابی کی وجہ سے انسان حق کا انکار کیا کرتا ہے۔ اور تم بھی اسی وجہ سے اس کلام کا انکار کر رہے ہو۔ یہ محض تمہارے نفس کا ایک دھوکا ہے کہ اگر کوئی اسرائیلی نبی ہوت اتو تم اُسے ضرور مان لیتے۔ تمہارا عمل بتا رہا ہے کہ تم ہمیشہ انبیاء کا مقابلہ کرتے چلے آئے ہو۔ چنانچہ یہود کی اِس دیرینہ عادت کا حضرت مسیحؑ نے بھی ان الفاظ میں نوحہ کیا ہے کہ
’’اے یروشلم اے یروشلم جو نبیوں کو مارڈالتی اور انہیں جو تجھ پاس بھیجے گئے پتھرائو کرتی ہے۔‘‘(متی باب۲۳ آیت ۳۷)
۱۰ ؎ تفسیر:۔فَلِمَ تَقْتُلُوْنَ اَنْبِیَآئَ اللّٰہ میں اللہ تعالیٰ نے یہود کے اس قول کا اجمالی جواب دیا تھا کہ اگر یہ نبی بنی اسرائیل میں سے ہوتا تو ہم اُسے مان لیتے۔ اور فرمایا تھا کہ اگر تم اپنے اِس قول میں سچے ہوتے تو اِس سے قبل بھی تم میں انبیاء آتے رہے ہیں تم
وَلَقَدْ جَآئَ



کُنتُمْ مُّؤْ مِنِیْنَo
ان کا مقابلہ کیوں کرتے رہے پس تمہارا یہ کہنا کہ اگر یہ نبی بنی اسرائیل میں سے ہوتا تو ہم اِسے مان لیتے بالکل غلط ہے۔ اب اسی بات کا اللہ تعالیٰ اس جگہ مزید تشریح کے ساتھ جواب دیتا ہے ۔ فرماتا ہے کہ تم حضرت موسیٰ پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کرتے ہو۔ اور تم نے اُس کے ساتھ بینات اور کھلے کھلے دلائل بھی دیکھے۔ مگر جب وہ طُور پر خدا سے برکات لینے گئے تو تم نے بچھڑے کو معبود بنا کر اُس کی پرستش شروع کر دی۔ اب تم یہ کس طرح کہہ سکتے ہو کہ اگر یہ بنی اسرائیل میں سے ہوتا تو ہم اسے مان لیتے۔ تم نے اس نبی کے ساتھ جس پر تمہیں بڑا ناز ہے جب ایسا سلوک کیا تو اب تم سے یہ کیسے اُمید کی جا سکتی ہے کہ اگر یہ نبی اسرائیل سے ہوتا تو تم اسے ضرور مان لیتے۔
یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے بَیِّنٰت کا لفظ رکھا ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے بھی یہی لفظ استعمال فرمایا ہے۔ عیسائی لوگ بینات سے اُن کی ابنیت اور الوہیت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ اگر اُن کا یہ استدلال درست ہو تو پھر انہیں حضرت موسیٰ کو بھی خدا کہنا چاہیے۔ مگر اُنکے متعلق وہ ایسا نہیں کہتے۔ پس ان کا صرف بینٰت سے حضرت مسیحؑ کی ابنیت اور الوہیت کا استدلال کرنا غلط ہے۔
وَاَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ۔حقوق کا تلف کرنا دو قسم کا ہوتا ہے۔ اوّل خدا تعالیٰ کے حقوق کو تلف کرنا۔ دوم بندوں کے حقوق کو تلف کرنا۔اَنْتُمْ ظٰلِمُوْن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حقوق تلف کئے جانے کی طرف توجہ دلائی ہے اور بتایا ہے کہ تم مشرک ہو جو میرے حقوق کو تلف کرتے ہو۔ ظالم کا لفظ مشرک کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ کیونکہ ظُلم کے لغوی معنے وَضْعُ الشَّیْ ئِ فِیْ غَیْرِ مَحَلِّہٖ کے ہیںیعنی کسی چیز کو اُس کی مناسب جگہ سے ہٹا کر غیر مناسب جگہ رکھنا۔ چونکہ مشرک بھی اللہ تعالیٰ کی صفات دوسروں کی طرف منسوب کر دیتا ہے اس لئے اُس پر ظالم کا لفظ اطلاق پاتا ہے۔
۱۱؎ حل لغات:۔ اِسْمَعُوْا:سَمِعَ لَہُ کے معنے ہیں اَطَاعَہُ اُس کی اطاعت کی ۔ پس اِسَمَعُوْا کے معنے ہیں اطاعت کرو۔ اصل میں یہ اِسْمَعُوْالَنَا ہے۔ یعنی جس طرح ہم نے کہا ہے اُس طرح کرو۔ مگر صلہ کو مخدوف کر دیا گیا ہے۔ اگر اس کے معنے سُننے کے کئے جائیں۔ تو پھر اس لفظ کا استعمال لغو ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اُن سے پہلے ایک عہدلے لیا گیا تھا اور عہد لے لینے کے بعد اُس کے سُننے کا کوئی سوال ہی باقی نہیں رہتا۔ پس اس کے معنے اطاعت کرنے کے ہی ہیں۔
اُشْرِبُوا۔ اُشْرِبَ سے جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے۔ عربی زبان کا محاورہ ہے اُشْرِبَ فُلَان‘ حُبَّ فُلَانٍ(اقرب) کہ فلاں شخص کی محبت دوسرے کے دل میں رچ گئی ہے۔ یہ لفظ ہمیشہ مجہوں استعمال ہوتا ہے۔ اور اس سے پلانا نہیں بلکہ ملانا مراد ہوتا ہے۔ پس مطلب یہ ہے کہ بچھڑے کی محبت اُن کے ذرہ ذرہ میں رَچ گئی۔ اصل میں اس سے مائع کا جامد چیزوں میں ملانا مراد ہوتا تھا۔ چنانچہ’’بحرمحیط‘‘ میں لکھا ہے۔ وَالْاِ شْرَابُ مُخَالَطَۃُ الْمَائِعِ الْجَامِدَ وَتَوْسَعَّ فِیْہِ حَتّٰی صَارَفِی اللَّوْ نَیْنِ وَقَالُوْ اَشْرَبْتُ الْبِیَاضَ حُمْرَۃً اَیْ خَلَطْتُھَا بِالْحُمْرَۃِ۔ یعنی اِشْرَاب’‘ کسی مائع چیز کو جامد کے ساتھ ملانے کو کہتے ہیں۔ پھر اس کا استعمال اس قدر و سیع ہو گیا کہ یہ رنگوں کے آپس میں ملانے پر بھی بولا جانے لگا۔چنانچہ اگر یہ کہنا ہو کہ میں نے سفیدی کو سُرخی میں ملا دیا۔ تو اُس وقت اِشْرَاب’‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ اسی وسعت کے ماتحت یہ لفظ محبت کے دل میں گھر کرجانے پر بھی استعمال ہوتا ہے۔
چنانچہ ایک شاعر کہتا ہے:۔
یعنی جب کسی کے دل میں کسی کی محبت سرائت کی جاتی ہے تو اُس کے بعد یہ اُمید رکھنا کہ وہ محبت اُس سے جاتی رہے گی نا ممکن ہے۔
تفسیر:۔ وَاِذْاَخَذْنَا مِیْنَاَ قُکُمْ ۔ اس میں یہودکی عہد شکنی کی ایک اور مثال بیان کی ہے ۔ فرماتا ہے تم اُس وقت بھی یا د کرو جب ہم نے موسیٰ کے زمانہ میں تم سے ایک عہد لیا ۔ اور عہد بھی ایسی حالت میں لیا جبکہ تم طور کے دامن میں کھڑے تھے جو کہ ایک مقدس مقام تھا مگر پھر بھی تم نے بد عہدی سے کام لیا اور طور کی تقدیس اور اس کی حرمت کا بھی خیال نہ رکھا ۔ درحقیقت کسی مقدس مقام میں کھڑے ہو کر جو عہد کیا جاتا ہے اُسے باقی عہدو ں پر ایک نمایاں فوقیت حاصل ہوتی ہے ۔ قرآن کریم نے بھی بعض قسموں کے متعلق فرمایا ہے کہ وہ نماز کے بعد لی جائیں ۔کیونکہ ایسے موقع پر لوگوں کے دل اللہ تعالیٰ کی خثیت سے لبریز ہوتے ہیں ۔یہ عہد کیا تھا جو بنی اسرائیل سے لیا گیا ؟ اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے خود ہی کر دیا ہے کہ جو کچھ ہم نے تمہیں دیا ہے اِسے مضبوطی سے پکڑو اور ہماری اطاعت کرو۔ مگر انہوں نے بجائے اطاعت کرنے کے کہا کہ ہم نے بات تو سن لی ہے مگر ہم یہ بھی کہے بغیرنہیں رہ سکتے کہ ہم اس کی نا فرمانی کرینگے ۔یہ بھی کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ ہم اسکی نا فرمانی کرینگے۔ یہ ضروری نہیں کہ انہوں نے اپنی زبانوں سے ہی یہ لفظ کہے ہوں بلکہ ہو سکتا یہ کہ اُن کی عملی نا فرمانی کا اِن الفاظ میں اظہار کیا گیا ہو۔یعنی اُن کے اندر روحانی لحاظ سے ایسا بگاڑ تھا۔ کہ وہ اِدھر بات سنتے اور اُدھر اس کی نافرمانی شروع کر دیتے ۔ عربی زبان میں قال کا لفظ کبھی زبانی قَالَ کی بجائے عملی حالت کے اظہار کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے کہتے ہیں ۔اِمْتَلَأ اَلْحَوْ ضُ وَقَالَ قَطْنِیْ ۔ یعنی حوض بھر گیا اور اُس نے بزبانِ حال کہا کہ اب مجھ میں اور گنجائش نہیں ۔ اِسی طرح بیان بھی سَمِعْنَا وَ عَصَیْنَا سے یہ مراد ہو سکتی ہے۔ کہ انہوں نے عملاً اس کی اطاعت سے انکار کر دیا۔ لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک ہی وقت میں انہوں نے سَمِعْنَا بھی کہا ہو۔ اور عَصَیْنَا بھی کہا ہو۔
قُلْ اِنْ

کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَo
کیونکہ انسان کسی دو طرح جواب دیا کرتا ہے۔ ایک زبان سے اور دوسرے دل سے ۔ پس اس کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ اُن کی زبانیں سَمِعْنَا کہہ رہی تھیں اور ان کے دل عَصَیْنَا کہہ رہے تھے۔ زبانیں تو کہتی تھیں کہ بس حضور یہی صحیح ہے گو یا وہ فرمانبرداری کا اقرار کر رہی تھیں مگر اُن کے دل نافرمانی کر رہے تھے۔ اور انکار پر مصر تھے اور کہتے تھے کہ یہ تعلیم قامل عمل نہیں ہو سکتی۔
وَاُشْرِ بُوْ افِیْ قُلُوْ بِھِمُ اْلعِجْلَ ۔ اس واقعہ کا ذکر خروج باب ۳۲ آیت ۲ میں اِس طرح آتا ہے کہ
’’اس نے اس بچھڑے کو جسے انہوں نے بنایا تھا لیا ۔ اور اُس کو آگ سے جلایا اور اُس کو پانی پر چھڑک کر بنی اسرائیل کو پلایا‘‘۔
مگر قرآن کریم اِسے رد کرتا ہے ۔کیونکہ سونا نہ جلا سکتا ہے اور نہ پانی میں حل ہو سکتا ہے ۔اس جگہ عجل سے مراد حُبُّ الْعِجْلِ ہے ۔ یعنی اُن کے دلوں میں اُس کی محبت گھر کر گئی تھی ۔
قُلْ بِسَْمَا یَاْ مُرُ کُمْ بِہٖ اِیْمَا نُکُمْ ۔ فرماتا ہے ۔ اگر تم واقعہ میں ایمان لانے والے ہوتے ۔ تو کیا تمہارے ایمان تمہیں اس بات کی اجازت دے سکتے تھے کہ جب موسیٰ ؑ چند دنوں کیلئے باہر جاتے تو تم بُت پرستی شروع کر دیتے ۔پھر تو اس ایمان سے کفر ہی بہتر ہے ۔ یہ ویسا ہی مضمون ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ:۔
بعد از خدا بعشق محمدؐ مخمرم
گر کفرایں یود بخدا سخت کافرم
یعنی مجھ میں دو چیزوں کا عشق پایا جاتا ہے ایک اللہ کا اور دوسرے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا۔ اگر تم اس وجہ سے مجھے کافر ٹھہراتے ہو تو میں بھی تمہارے ساتھ مل کر اس امر کی تصدیق کرتا ہوں کہ میں بڑا سخت کافر ہوں۔ اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہی اسلوب اختیار فرمایا ہے کہ اگر تمہیں ایمان کا دعویٰ ہے تو پھر تو تمہارا وہ ایمان تمہیں بہت بُرا حکم دیتا ہے کیونکہ تم ابتداء سے ہی اللہ تعالیٰ کے نبیوں کا انکار کرتے آئے ہو اور نبیوں کی مخالفت خواہ زبان سے ہو خواہ اعمال سے کبھی نیک نتائج پیدا نہیں کرتی۔ پھر اس کے ہوتے ہوئے تم اپنے آپ کو ایماندار اور مومن کیسے کہتے ہو۔ اگر اس کا نام تم ایمان کی بجائے انکار رکھو تو بہتر ہے۔ کیونہ ایمان اور نبیوں کی مخالفت دونوں اکٹھے نہیں ہو سکتے۔
۱۲ ؎ تفسیر:۔ جو قوم اپنے اندر نبوت کو محدود کرتی ہے وہ لازماً نجات کو بھی محدود قرار دینے پر مجبور ہوتی ہے۔ چونکہ یہود کے اندر یہ خیال راسخ ہو چکا تھا کہ انبیاء صرف بنی اسرائیل میں ہی آسکتے ہیں ۔ اس لئے لازماً اُن کے اندر یہ خیال بھی پیدا ہو گیا کہ اگلے جہاں کے انعامات کے بھی وہی حقدار ہیں۔ اور نجات صرف انہی کا حق ہے۔ اِن کے علاوہ اور کوئی قوم نجات حاصل نہیں کر سکتی۔ یہ بظاہر ایک چھوٹی سی بات معلوم ہوتی ہے لیکن اپنے نتائج کے لحاظ سے نہایت خطرناک ہے۔ مگر افسوس ہے کہ قرآن مجید سے قبل اس حقیقت کو اس کسی نے نہیں سمجھا۔ حالانکہ یہ ایسی غیر معقول بات ہے جسے کوئی عقل سلیم رکھنے والا انسان ایک منٹ کے لئے بھی تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا۔ پھر یہ خیال صرف یہود ہی کا نہ تھا بلکہ اس وقت بعض اور اقوام میں بھی یہ بات پائی جاتی تھی۔ چنانچہ ہندو قوم کو دیکھ لو۔ وہ بھی نجات صرف اپنے اندر محدود قرار دیتی ہے۔کسی اورکو نجات یا فتہ سمجھنے کیلئے تیار نہیں ہوتی ۔ عیسائیوں نے بے شک آجکل اپنے مذہب کی تبلیغ عام کر دی ہے اور وہ کہتے ہیں ۔کہ جو بھی مسیح ؑ کے کفارہ پر ایمان لے آئے وہ نجات پا سکتا ہے ۔ مگر بعثت مسیح ؑ سے پہلے وہ بھی نجات کو محدود قرار دیتے رہے ہیں اور اب ساری دنیا کو تبلیغ کر رہے ہیں تو حضرت مسیح ؑ کی تعلیم کے مطابق نہیں کر رہے ۔ بلکہ اس کی تعلیم کو پس پُشت ڈال کر رہے ہیں ورنہ مسیح نے خود کہا تھا کہ
’’ میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کی طرف نہیں بھیجا گیا ۔ ‘‘(متی باب ۱۵ آیت ۲۴)
اِسی طرح انہوں نے ایک طالب ہدایت عورت کو جو اسرائیلی نہ تھی بلکہ کنعان کی راہنے والی تھی ۔ صاف طور پر کہا کہ
’’ مناسب نہیں کہ لڑکوں کی روٹی لے کر کتوں کے آگے پھینک دیویں۔‘‘ (متی باب ۱۵ آیت ۲۶)
پھر حواریوں کا بھی یہی طرز عمل رہا ۔ کہ وہ غیر اقوام میں انجیل کی مناوی کرنا جائز سمجھتے تھے ۔چنانچہ اعمال میں لکھا ہے کہ
’’ دے جو اس جودر جفا سے جو کچھ استیفن کے سبب برپا ہوئی تتر بتر ہو گئے تھے پھرتے پھرتے خینکے وکپرس اور انطاکیہ میں پہنچے مگر یہودیوں کے سوا کسی کو کلام نہ سُناتے تھے۔‘‘ (اعمال باب ۱۱ آیت ۱۹)
اِسی طرح جب حوایوں نے سنا کہ پطرس نے ایک جگہ غیر قوموں میں انجیل کی مناوی کی ہے تو وہ سخت ناراض ہوئے ۔ اور جب پطر س یروشلم میں آیا تو مختون اُس سے یہ کہکر بحث کرنے لگے کہ تو نا مختونوں کے پاس گیا اوراُن کے ساتھ کھانا کھایا ۔ (اعمال ۲،۳/۱۱)
غرض مسیحیت کی عام تبلیغ انا جیل کے نقطہ نگاہ سے بالکل ناجائز ہے ۔ بعد جب مسیحیت کا دائرہ بھی ایک خاص طبقہ تک محدود ہے تو لازماً اُن کے نزدیک بھی نجات اُنہی لوگوں کیلئے مخصوص ہے جو حضرت مسیح پر ایمان لاتے ہیں ۔ لیکن اسلام بتاتا ہے کہ یہ بات قطعی طور پر غلط ہے کہ نجات کسی خاص قوم میں محدود ہے ۔ وہ وَمَا خَلَقْتُ اْلجِنَّ وَاْلِا نْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ فرماکر نجات دُنیا کے ہر فرد کا حق قرار دیتا ہے ۔ اور بتایا ہے کہ انسان کی پیدائشی ہی اِسی لئے ہوئی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا عہد بنے اور اُس کی صفات کا انعکاس اپنے آئینہ قلب میں پیدا کرے ۔
زیر تفسیر آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہود کے دو دعوے بیان کئے ہیں ۔ ایک یہ کہ جنت اُن کا حق ہے اور دوسرا یہ کہ جنت میں اُن کے سوا اور کوئی نہیں جا ئیگا ۔اللہ تعالیٰ اسجگہ یہود کے اس عقیدہ کی تردید کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے حضور دار آخرت صرف تمہارے لئے مخصوص ہے اور تم اپنے اس دعویٰ میں سچے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے نبوت صرف تمہارے گھرٰنے کیلئے ہی مخصوص کر دی ہے اور دوسرے لوگ اس سے محروم ہیں تو پھر آؤ اس جھگڑے کے تصفیہ کیلئے موت کی تمنا کرو۔
فَتَمَنَّوُ ااْلمَوْتَ کے دو معنے ہیں ۔ایک یہ کہ تم مباہلہ کر لو ۔ یعنی مسلمانوں کو دُعا سے مقابلہ کر کے دیکھ لو ۔ اور کہو کہ الٰہی ہم میں سے جو جھوٹا ہے تو اُسے تباہ و برباد کر دے ۔ اگر خدا تعالیٰ کے نزدیک تم سچے ہوئے تو خدا تعالیٰ تمہیں بچا لیگا ۔ اور اس طرح دنیا کو پتہ لگ جائیگا ۔ کہ خدا تعالیٰ کس سے ناراض ہے اور کس سے خوش۔اِس جگہ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں صرف موت کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ مُوْتَکُمْ نہیں فرمایا ۔ کیونکہ مباہلہ میں یہ شرط ہوتی ہے کہ دونوں فریق یہ دعا کریں کہ جھوٹے پر عذاب نازل ہو۔اِس میں کسی فریق کی تعیسین نہیں کی جاتی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آیت مباہلہ میں بھی یہ الفاظ رکھے ہیںکہ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّہِ عَلَی انْکَاذِبِیْنَ (آل عمران آیت ۶۲)یعنی ہم جھوٹوں پر اللہ کی *** ڈالیں ۔ پس فَتَمَنَّوُ ااْلمَوْتَ کے یہ معنے ہیں۔ کہ اگر یہود حق پر ہیں۔ اور اگلے جہان میں خداتعالیٰ کے انعامات کے وہی وارث ہیں تو اس بات کو ثابت کرنے کیلئے وہ مسلمانوں کے مقابلہ میں یہ دعا کریں کہ الٰہی میں سے جو فریق جھوٹا ہے اور جس سے تو ناراض ہے اُسے ہلاک اور برباد کردے ۔ بلکہ خدا تعالیٰ کے نزدیک واقع میں یہود پسندیدہ ہیں ۔ اور مسلمان قابل سرزنش ہیں۔ تو مسلمان ہلاک ہو جائیں گے اور یہود کو سر فرازی حاصل ہو گی ۔ اور اس طرح دنیا کو یہ فیصلہ کرنیکا موقع حاصل ہو جائیگا کہ آخرت کے متعلق کس قوم کا دعویٰ سچا ہے ۔ کیونکہ آخرت کے متعلق مختلف مذاہب کے دعووں کی صداقت پر کھنے کا سوائے اِس کے اور کو ئی ذریعہ نہیں کہ اِس دنیا میں ہی آسمان تائیدات سچے مذہب کے ادعا کو ثابت کردیں۔ اور دُنیا پر ظاہر ہو جائے کہ خدا کس کے ساتھ ہے ۔
فَتَمَنَّوُ ااْلمَوْت کے دوسرے معنے یہ ہیں کہ اگر تمہارا یہ دعویٰ درست ہے کہ تم ہی نجات یافتہ ہو تو اِس دعویٰ کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تمہارے متعلق یہ سمجھا جائے کہ تمہارا ہرفرد پاکیزگی کے اعلیٰ مقام پر قائم ہے ۔ اور اس کا دل اللہ تعالیٰ کے انوار اور اُسکی برکات کا تجلی گاہ ہے ۔ ایسی صورت میں تم خدا تعالیٰ کی رضا میں اپنے آپ کو فنا کیوں نہیں کرتے اور اپنی صفلی زندگی پر ایک موت واردکیوں نہیں کرتے ۔ جو قوم اکیلی جنت کی مستحق ہو اُسے اس دنیا سے محبت کیوں ہو ۔اُسے تو رضا الٰہی کے کاموں میں اپنے آپ کو فنا کر دینا چاہیے کیونکہ خداتعالیٰ نے بہترین جہاں اس کیلئے مخصوص کر دیا ہے ۔ پس فَتَمَنَّوُ ااْلمَوْتکے دوسرے معنے یہ ہیں کہ اگر تم اپنے دعویٰ میں سچے ہو تو خدا تعالیٰ کی محبت میں اپنے آپ کو فنا کر دو۔ اور اس کی راہ میں جس قدر بھی تکالیف تمیہں برداشت کرنی پڑیں اُن کو برداشت کرو۔ اور ہر قسم کی جانی اور مالی قربانیوں میں حصہ لیکر ثابت کر دو کہ تم نے ایک بے جان چیز کی طرح اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے سپرد کر رکھا ہے ۔ اگر تم ایسا رکو تو یہ سمجھ لیا جائیگا کہ تمہارا یہ دعویٰ درست ہے کہ تمہارا سوا اور کسی کیلئے اُخروی انعامات مقدر نہیں۔ مگر فرمایا ۔ وَلَنْ یَّتَمَنَّوْ ہُ اَبِدً اَ ِبمَا قَدَّ مَتْ اَیَدْ یْھِمْ ۔ وہ اس موت کو کبھی بھی اپنے اوپر وارد نہیں کر سکتے کیونکہ وہ عیاشیوں میں اپنی زندگی بسر کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت سے غافل ہیں۔ اِن میں اخلاص اور قربانی کی کوئی روح مووجود نہیں ۔ اور جنت کا اُن کیلئے مخصوص ہونا تو الگ رہا ۔ اُن کو جنت کے ملنے کا بھی یقین نہیں ۔ بلکہ اُس کے وجود کو بھی انہیں ۔ کیونکہ دنیا کی محبت اُن کی رگ رگ میں سرایت کئے ہوئے ہے اور یہ محبت اُن کے بعث بعد الموت پر عدم ایما ن کا ایک نمایا ثبوت ہے ۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے ۔ کہ قرآن کریم میںتو آیا ہے کہ یہود کہتے ہیں ۔ لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّا اِیَّا مًا مَّعْدُوْدَہً یعنی ہمیں دوزخ میں صرف چند دن کیلئے ڈالا جائیگا ۔اور یہاں یہ کہا گیا ہے کہ جنت صرف ہمارا ہی حق ہے ۔ اِن دونوں باتوں میں تو بہت بڑا اختلاف ہے ۔ پھر بیک وقت دونوں باتیں اُنکی طرف کِس طرح منسوب ہو سکتی ہیں ؟ سو یاد رکھنا چاہیے کہ یہود کے دو گروہ ہیں۔ اور ان دونوں کے الگ الگ عقیدے ہیں۔ ایک گروہ کا خیال تھا کہ ہم کچھ دن دوزخ میں رہ کر نکل آئیں گے اور دوسرا کہتا تھا کہ ہم دوزخ میں بالکل نہیں جائیں گے ۔ پہلے اس گروہ کا ذکر آچکا ہے جو صر ف گنتی کے چند دنوں کیلئے دوزخ میں ڈالے جانے کے قائل تھا ۔ اب اللہ تعالیٰ اس گروہ کا ذکر کرتا ہے جس کا یہ عقیدہ تھا کہ نجات صرف بنی اسرائیل سے مخصوص ہے اور نبوت بھی کسی اور قوم میں نہیں جا سکتی ۔ اِس گروہ کے متعلق یہود کی کتاب ایرومین طالمود میں لکھا ہے کہ گنہگار یہودی دوزخ کے دوروازے لے جائے جائیں گے ۔ تو وہاں تو بہ کر لیں گے ۔اور وہاں سے بغیر سزا دئیے کے واپس کر دئیے جائیں گے ۔اور پھراُن کو جنت میں لے جایا جائے گا ۔ (جیوش انسا ئیکلو پیڈیا زیر لفظ (Genenha)اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہود کا وہ گروہ جو کہتا ہے کہ ہمیں سزا نہیں ملے گی ۔اور جس کا یہ دعویٰ ہے کہ دوسروں کیلئے ہرگز نجات نہیں ۔ وہ اگر اپنے اس عقیدہ میں سچے ہیں ۔ تو مسلمانوں سے مباہلہ کر لیں۔یا اپنے عمل سے خدا تعالیٰ کیلئے اپنے اوپر موت وارد کر کے پاگیزگی نفس اور بلندی کردار کا ثبوت پیش کریں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام سے قبل تقریباً تمام مذاہب میں یہ تعلیم پائی جاتی تھی کہ نجات صرف اُنہی کا حق ہے ۔بلکہ ہندؤں کا تو یہ عقیدہ تھا کہ جو شودر دید سُن لے اُس کے کانوں میں سیسہ پگھلا رک ڈالا جائے ۔وہ کہتے تھے کہ یہ ہیں تو اللہ تعالیٰ کے بندے۔ مگر ان کو کلام الٰہی سننے کا کوئی حق نہیں ۔ بد ھ قوم میں دوسروں کی نسبت قومی احساس کم تھا اور ان کی تبلیغ عام تھی لیکن تبلیغ عام ہونے کے باوجود وہ نبوت کو عام نہیں سمجھتے تھے ۔بلکہ اُسے محدود قرار دیتے تھے ۔اِس لئے اُن کے نظریہ میں بھی وہ وسعت نہیں تھی جو اسلام نے پیش کی ہے ۔
یہاں کوئی کہہ سکتا ہے کہ مسلمانوں کا بھی تو وہی عقیدہ ہے جو یہود کا تھا کہ نبوت صرف ہم میں ہی رہے گی اور ہم ہی نجات کے مستحق ہیں۔ پھر مسلمانوں کو دوسروں پر کیا فضیلت حاصل ہوئی اس کا جواب یہ ہے کہ مسلمان نہ تو ہر نام نہاد مسلمان کیلئے جنت ضرورت قرار دیتے ہیںاور نہ کسی خاص قوم کے آدمیوں کے سوا دوسری کیلئے نجات کا دروازہ بند قرار دیتے ہیں۔ بلکہ وہ سب دنیا کیلئے اس کا دروازہ کھلا تسلیم کرتے ہیں۔ پس اسلام پر یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کہ اُس نے بھی نجات اپنے پیردوں کیلئے مخصوص کر لی ہے ۔ اسلام تمام قوموں کی ہدایت کیلئے نازل ہوا ہے اور دنیا کا ہر فرد اس کے پیغام کا مخاطب ہے ۔ اگر بنی اسرائیل بھی اس نبی کو مان لیتے تو وہ اپنے اوپر نجات کا دروازہ کھول سکتے تھے ۔ اِس طرح دوسری اقوام بھی اس بنی کو مان کر نجات پا سکتی ہیں ۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ ایک بات بطور استحقاق ہوتی ہے ۔ اور ایک بطور تلطف اور رحم کے ہوتی ہے ۔ جو شخص سچی تعلیم کو ماننے والا ہو ۔ اسکا ایک حق ہوتا ہے اور گو وہ حق اس کا ذاتی طور پر نہیں ہوتا مگر بہر حال خدا تعالیٰ نے اس کا ایک حق قائم کیا ہوتا ہے ۔اس نقطہ نگاہ سے جو شخص شریعت حقہ اسلامیہ پر ایمان رکھے اس کیلئے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اُسے نجات دیگا ۔ یہ امر اس کیلئے استحقاق کے طور پر ہے اور اسی وجہ سے سچے مذہب کے تمام پیرو نجات حاصل کرنے کے مستحق ہوتے ہیں۔ لیکن دوسرے لوگ بطور تلطف اور رحم کے نجات حاصل کرتے ہیں ۔ اور اللہ تعالیٰ کی رحمت بڑی وسیع ہے ۔ جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے۔رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیِ ئٍ (اعراف آیت ۱۵۷)کہ میری رحمت ہر چیز پر حاوی ہے ۔اِس رحمت عام میں یہودی ، عیسائی اور ہندو وغیرہ کا کوئی امتیاز نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ماتحت ہر شخص جنت میں جا سکتا اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکتا ہے ۔ اسلام پر اعتراض تب ہوتا جب اسلام میں دوسرے لوگ شامل نہ ہو سکتے ۔ مگر جب اسلام نے ہر قوم اور ہر مذہب کے لوگوں کیلئے اپنے دروازے کھول رکھے ہیںاور اُن کو دعوت دے دی ہے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا ۔اعتراض اُن مذاہب پر پڑتا ہے جنہوں نے نجات کا دروازہ دوسروں کیلئے بند کر دیا ہے اور انہیں اپنے اندر شامل کرنے کی اجازت بھی نہیں اپنے اند ر شامل کرنے کی اجازت بھی نہیں دی ۔ بہر حال اسلام کے سوا باقی تمام مذاہب نے نجات کو اپنے لئے مخصوص کیا ہوا ہے ۔ صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو اسے اپنے ساتھ مخصوص نہیں کرتا ۔کیونکہ تلطف کی نجات صرف مسلمانوں کیلئے مخصوص نہیں بلکہ اس میں غیر مسلم بھی شامل ہو سکتے ہیں ۔ مگر یہودی تعلیم کی رو سے کوئی غیر یہودی نجات حاصل نہیں کر سکتا اور عیسائیوں کے نزدیک کوئی غیرعیسائی نجات حاصل نہیں پا سکتا ۔ لیکن اسلام یہ نہیں کہتا ہے کہ جنت صرف مسلمان کہلانے پر ملتی ہے ۔بلکہ اسلام یہ کہتا ہے کہ اگر کوئی شخص مسلمان کہلا کر بُرے کام کرتا ہے تو وہ بھی جنت میں داخل نہیں ہو گا ۔ اِسی طرح ہو سکتا ہے کہ کوئی مسلمان نہ ہو اور وہ جنت میں چلا جائے ۔ کیونکہ جنت بہت سی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے نتیجہ میں ملتی ہے ۔ کیونکہ جنت صرف منہ کے اقرار کا نتیجہ نہیں بلکہ جنت بہت سی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے نتیجہ میں ملتی ہے ۔اِسی طرح دوزخ صرف منہ کے انکار کا نتیجہ نہیں بلکہ دوزخ کا شکار بننے کیلئے بہت سی باتوں کا پایا جانا ضروری ہے ۔کوئی انسان دوزخ میں نہیں جا سکتا جب تک اس پر اہتمام حجت نہ ہو خواہ وہ بڑی سے بڑی صداقت کا منکر ہی کیو ں نہ ہو۔خود رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ بچپن میں مر جانے والے یا اتنے بوڑھے جن کی سمجھ ماری گئی ہو۔ یا پاگل جو عقل سے عاری ہوں یا بہرے جو کسی بات کو نہیں سن سکتے ۔اُن سے کوئی مواخذہ نہیں ہو گا ۔ بلکہ خدا تعالیٰ قیامت کے دن ان لوگوں کو طرف دوبارہ نبی معبوث فرمائے گا اور ان کو سچ اور جھوٹ پہچاننے کا موقعہ دیا جائے گا ۔ تب جس پر حجت تما م ہو گی وہ دوزخ میں ڈالا جائیگا اور جو ہدایت قبول کریگا وہ جنت میں جائیگا ۔(روح المعانی جلد ۴ زیر ایت وما کنا معذبین حتی نبعت رسولاً)پس یہ غلط ہے کہ ہر وہ شخص جو اسلام میں داخل نہیں ہوتا دوزخی ہے ۔
نجات کے متعلق اسلام نظریہ یہ ہے کہ وہ شخص جو صداقت کے سمجھنے سے گریز کرتا ہے اور یہ کوشش کرتا ہے کہ ہدایت کی بات اسکے کان میں پڑے توکہ اُسے ماننی نہ پڑے یا جس پر حجت تما ہو جائے مگر پھر بھی ایمان نہ لائے ۔ وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل مؤاخذ ہے ۔
بانی سلسلہ احمدیہ اِسی حقیقت کے طرف اشارہ رکرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
’’اگر درحقیقت خدا تعالیٰ کے علم میں ایسا ہو گا کہ اسپر تمام حجت نہیں ہوا تو اُس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے ۔ ہمیں اس کی ضرورت نہیں ۔ ہاں جو اسلام سے محض بے خبر ہے اور بے خبری میں مر جائے جیسے نا بالغ بچے اور مجانین یا کسی ایسے ملک کے رہنے والے جہاں اسلام نہیں پہنچا تو وہ معذور ہیں‘‘۔(حقیقۃ الوحی صہ ۱۸۱)
’’اسی طرح آپ ایک اور جگہ فرماتے ہیں:۔
’’اگر یہ کہو کہ جن تک کتاب الہامی نہیں پہنچی اُن کی نجات کا کیا حال ہے تو اِس کا یہ جواب ہے کہ اگر ایسے لوگ وحشی اور عقل انسانی سے بے بہرہ ہیں تووہ ہر یک باز پرس سے بُر ی اور مر فوع القلم ہیں۔ اور مجانین اور مسلوب الحواسوں کا حکم
وَلَنْ یَّتَمَنَّوْہُ
بِالظّٰلِمِیْنَo
رکھتے ہیں ۔ لیکن جن میں کسی قدر عقل اور ہوش ہے اُن سے بقدر عقل ان کی محاسبہ ہو گا۔‘‘(براہین احمدیہ حصہ سوم صہ ۱۸۷حاشیہ ۱۱) اگر کوئی شخص سوال کرے کہ اگر اسلام قبول کئے بغیر بھی انسان کو نجات مل سکتی ہے ۔تو پھر مَنْ یَبْتَغِ غَیْرَ اْلِا سْلَا مِ یدِ یْنًا فَلَنْ یُّقْبَلُ مِنْہُ (آل عمران آیت ۸۶)کا کیا مطلب ہے ؟ تو اِسے یاد رکھنا چاہیے کہ اِس آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ نجات جو استحقاق کے طور پر ملتی ہے ۔ وہ مسلمان کے سوا اور کسی کو نہیں ملتی ۔ مگر جیسا کہ بتایا جا چکا ہے ۔ یہ حق بھی وہ ہے جو خدا تعالیٰ نے قائم کیا ہوا ہے ۔ ورنہ بندہ کا اللہ تعالیٰ پر کوئی ذاتی حق نہیں ۔ ہاں اللہ تعالیٰ نے خود بندے کا اپنے اوپر حق قائم کر لیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے مقرر کرنے کے وجہ سے بطور استحقاق نجات صرف مسلمانوں سے مخصوص ہے۔اِن میں سے جو شخص بھی قرآن کریم پرعمل کرے گا نجات حاصل کرے گا ۔ لیکن دوسرے لوگ بطور رحم کے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ مثلاً اگر کوئی بچہ بہرہ پاگل اور معزور ہو تو اُسے دوبارہ موقعہ دیا جائیگا ۔اور یہ دیکھا جائیگا کہ آیا اس نے اس ایمان کے مطابق عمل کیا تھا یا نہیں ورنہ اگر خد ا تعالیٰ کسی کو بخشنا چاہے تو ہم اُس کا ہاتھ نہیںپکڑ سکتے۔وہ مالک ہے جسے چاہے نجات دے ۔ مَنْ تَّبْتَغِ غَیْرَ اْلِا مثلَا مِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ میں صرف یہ بتایا گیا ہے ۔ کہ جو شخص غیر اسلام کا ابتغام کرتا ہے وہ عام قانون کے مطابق نجات نہیں پا سکتا ۔کیونکہ وہ خود اپنے لئے نجات کا دروازہ بند کرتا ہے اور استحقاق سے اپنے آپ کو محروم کرتا ہے ۔ لیکن نجات کے اور بھی ذرائع ہیں۔ اگر ان کے ماتحت کوئی شخص آجائے تو یقینا نجات پا جائے گا ۔
۱۳؎ تفسیر :۔تَمَنَّوُ اْلمَوْتَ کے دو معنوں کی رو سے اِس کے بھی دو معنے ہونگے ۔اگر موت سے مباہلہ مراد لیا جائے تو اِس کے یہ معنے ہوں گے کہ وہ ہر گز مباہلہ نہیںکرینگے۔ اور ان کا یہ گریز اس امر کا ثبوت ہو گا کہ اُن کے دل جانتے ہیں کہ انہوں نے خدا کی مرضی کے مطابق کام نہیں کیا۔ ورنہ وجہ کیا ہے کہ وہ پیچھے ہٹتے ہیں۔اُن کا پیچھے ہٹنا بتاتا ہے کہ انہیں اپنی بدیاں معلوم ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے مباہلہ کیا تو انہیں اپنے گناہوں کی سزا مل جائیگی۔
دوسرے معنے تَمَنَّوُ اْلمَوْتَ کے یہ تھے کہ تم خدا کی رضاء کے لئے اپنے آپ کو فنا کرو اور اپنے اوپر وہ موت دارد کرو جو ابدی زندگی کا پہلا قدم ہے۔ اِس مفہوم کے لحاظ سے آیت کا یہ مطلب ہو گا کہ وہ کبھی بھی اِس موت کو جس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے حیات ابدی عطا کرتا ہے قبول نہیں کریں گے کیونکہ گناہوں کی وجہ سے اُن کی روحانیت مسخ ہو چکی ہے اور اب وہ ایسے مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ اُن کے دلوں میں یہ خیال بھی نہیں آ سکتا کہ وہ خدا کے لئے اپنے آپ پر موت وارد کریں۔ گویااُن کی گردنوں میں جو گناہوں کے طوق و اغلال پڑے ہوئے ہیں اُن کی وجہ سے انہیں یہ توفیق ہی نہیں ملے گی کہ وہ یہ نمونہ دکھا سکیں۔
وَاللّٰہُ عَلِیْم’‘ بِالظّٰلِمِیْنَ میں بتایا کہ جُھوٹے کہ یہ علامت ہے کہ وہ اَنوں بہانوں سے مباہلہ کا ٹلاتا چالا جاتا ہے
وَلَتَجِدَ نَّھُمْ


یَعْمَلُوْنَo
کبھی مقابلہ پر نہیں آتا۔مگر کیا وہ اس طرح بچ جائیں گے؟ آخر ایک دن پکڑے جائیں گے۔ اور ان کا انجام لوگوں پر ظاہر کردیگا کہ کون ظالم تھا اور کون راستباز چنانچہ یہود پر جو تباہیاں آئیں۔ اُس نے اُن کے انجام کو ظاہر کر دیا۔
۱۴ ؎ حل نعات:۔ یَوَدُُّّ کے معنے پسند کرنے کے ہیں۔ مگر جب ۔لَوْ اس کے بعد آئے تو اس کے معنے تمنا کرنے کے ہوتے ہیں۔
تفسیر:۔فرماتا ہے۔ یہ لوگ سب سے زیادہ اس بات کے حریص ہیں کہ زندہ رہیں۔ حتّٰی کہ مشرکوں سے بھی زیادہحریص ہیں۔ گویا اَحْرَص ہونا یہود کے ساتھ مخصوص کر دیا گیا ہے۔ یوں مشرک بھی بڑے حریص ہوتے ہیں کیونکہ وہ قیامت کے منکر ہوتے ہیں۔ اور وہ بھی یہی چاہتے ہیں کہ جس قدر ہو سکے دنیا میں زندہ رہیں۔ مگر فرماتا ہے۔ یہ لوگ اِن سے بھی زیادہ حریص ہیں۔
دوسرے معنے یہ ہیں کہ ان لوگوں میں سے بھی جنہوں نے شرک کیا ہے بعض کو تو دنیا کی زندگی کا زیادہ حریص پائیگا۔ گویا ان کی حرص پر زیادہ زور دینے کے لئے مِنْ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا کو النَّاس سے علیٰحدہ لیا۔ جیسے کہتے ہیں جَآئَ قُوْم’‘ وَزَیْد’‘ وَ عَمْر’‘و۔ قوم کے لوگ آئے اور زید اور عمرو بھی آگئے۔ حالانکہ زید اور عمرو بھی قوم میں شامل ہیں مگر ان کا نمایاں کرنے کے لئے الگ نام لے لیا گیا۔
مشرک دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو قیامت کے منکر ہوتے ہیں اور اس جہاں میں آرام سے رہتے ہیں۔ وہ طبعًا دنیوی زندگی کے بہت زیادہ حریص ہوتے ہیں۔دوسری قوم کے مشرک ہو ہوتیہ یں جو قیامت کے تو منکر ہوتے ہیں مگر اس جہان میں انہیں آرام نہیں ہوتا۔ اس قسم کے مشرک زندگی کے ختم ہونے کے متمنی ہوتے ہیں تاکہ انہیں ان تکالیف سے نجات مل جائے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس زندگی کا ختم ہو جانا ہی سُکھ کا موجب ہے۔ اس لئے فرمایا کہ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا۔ اِن مشرکوں میں سے ایک جماعت ایسی ہے جو ہزار سالہ زندگی چاہتی ہے ورنہ سارے مشرک ایسے نہیں۔
اِس آیت سے نص صریح کے طور پر تو نہیں صرف ایک استنباط کے رنگ میں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قرآنی نظریہ کے مطابق انسان کی ہزار سالہ زندگی ایک بعید از قیاس امر ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام جب کتاب’’ چشمہ معرفت‘‘ لکھ رہے تھے تو آپ کا قاعدہ تھا کہ آپ بعض دفعہ اُس کے مضامین دوسروں کو بھی سُنادیا کرتے تھے ایک دفعہ آپ نے حضرت نوحؑ کی۹۵۰ سالہ عمر پر آریوں کے اعتراض کے بارہ میں فرمایا کہ ہم نے اس کے جواب میں یہ لکھا ہے کہ نبی کی عمر سے مراد اُس کی اپنی عمر نہیں ہوتی بلکہ اُس کی جماعت کی عمر ہوتی ہے۔ آپ یہ سُناہی رہے تھے کہ حضرت نانا جان میر ناصر نواب صاحب تشریف لے آئے۔ وہ کہنے لگے بات تو ٹھیک ہے مگر لوگ نیچریت کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا۔ ہوتے ہیں تو ہوں پھر کیا ہوا ہمیں تو جہاں بھی اسلام کی صداقت نظر آئیگی ہم اُسے پیش کرینگے خواہ کوئی اُس سے نیچریت کی طرف ہی کیوں نہ مائل ہو جائے۔ بہر حال قرآن مجید میں جہاں کسی نبی کی زیادہ عمر کا ذکر آتا ہے۔ وہاں ایک فرد کی عمر مُراد نہیں بلکہ اُس کی اُمت کی عمر مراد ہے۔
وَمَاھُوَ بِمُزَحْزِحِہٖ مِنَ الْعَذَابِ میں ھُوَ کی ضمیراَحَدُھُمْ کی طرف جاتی ہے اور ترجمہ کے لحاظ سے یہ عبارت یُوں بنتی ہے کہ مَا اَحَدُھُمْ بِمُزَحْزِھِہٖ تَعْمِیْرُہ‘ مِنَ الْعَذَابِ کہ اُن میں سے کوئی بھی ایسا نہیں کہ جسے زیادہ عمر کا دیا جانا عذاب سے بچا سکے۔
فرماتا ہے لمبی عمر کی خواہش کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا ۔ کیونکہ آرام کی لمبی گھڑیا ں دُکھ کی ایک چھوٹی سی گھڑی کے مقابلہ میں بھی ہیچ ہو جاتی ہیں۔اور راحت کی گھڑیوں پر غالب آجاتی ہے ۔ پس لمبی عمر انہیں عذاب سے بچا کر کہاں لے جائیگی ۔اور ان کو اس سے کیا فائدہ ہو گا ۔ یہ تو حماقت کی بات ہے ۔ مگر اس میں اسی طرح مبتلا ہیں۔ جس طرح وہ اپنی اس پہلی حماقت میں مبتلا تھے ۔ کہ بنی اسرائیل کے علاوہ کسی اور کو انعام نبوت حاصل نہیں ہو سکتا ۔ اب بھی یہ احمق لوگ یہ خواہش تو نہیں کرتے کہ عذاب کو اُن کے ٹلا دیا جائے ۔ حالانکہ اس سے انہیں کیا فائدہ ؟ اصل علاج تو یہ تھا کہ وہ اسلام کو قبول کر لیتے جس نے اُن کیلئے نجات کا دروازہ کھولا ہوا ہے ۔ مگر بجائے اِس کے کہ وہ اسلام قبول کرکے اس عذاب کو ٹلا دیں یہ اس کو شش میں لگے ہوئے ہیں کہ وہ ؛پیچھے ہو جائے ۔حالانکہ کوشش یہ ہونی چاہئیے تھی کہ وہ اس سے بچ جائیں اور خدا تعالیٰ کی رحمت کو کھینچ لیں۔
اِس رکوع کی آیت نمبر ۸۸ میں اللہ تعالیٰ نے یہود کو بتایا تھا کہ دیکھو تم حضرت موسیٰ علیہ السلام سے لیکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام تک تمام ابنیاء کی مخالفت کرتے آئے ہو اور اگر اُن کی مخالفت تمہارے آباء نے کی مگر تم بھی اُس میں اس لئے شریک ہو کہ تمہاری اور اُن کی مخالفت فکی وجہ ایک ہی ہے ۔ یعنی اپنے منشاء کے خلاف نبی وقت کی تعلیم کاہونا ۔ پس اگر ان کے وقت میں تم ہوتے تو اُسوقت بھی تم وہی کچھ کرتے جو اب کررہے ہو۔
آیت ۹۰ میں بتایا کہ غضبِ الٰہی اور تمہاری آبائی عادت کا یہ نتیجہ ہے کہ جب وہ موعود رسول آیا جس کا تم انتظار کر رہے تھے تو تم انکار کر بیٹھے ۔آیت ۹۱ میں اس کے انکار کی وجہ بتائی جو صرف یہ ہے کہ غیر قوم سے کیوں رسول آیا ؟ آیت ۹۲ میں ان کے تمر دانہ انکار کا نقشہ کھینچا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دعویٰ پیش کیا جاتا یہ تو بغیر سوچے سمجھے اور دلائل پر غور کرنے کے کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو ویہ مانیں گے جو بنی اسرائیل کے انبیاء پر نازل ہوا۔ حالانکہ یہ نبی بھی اُنہی بنی اسرائیل کی پیشگوئیوں کے مطابق آیا ہے ۔پھر اُن کے اس مقابلہ کو یاد دلا کر جو وہ انبیائے بنی اسرائیل کا وقتاً فو قتاً کرتے رہے ہیں ان کو نام دیا گیا ہے ۔کہ تم نے اُن کے وقت میں اُن کو بھی نہیں ماننا تھا ۔آیت نمبر ۹۳ میں بتایاکہ اور انبیاء تو الگ رہے خود حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تم نے مخالفت کی آیت نمبر ۹۴ میں بتایا کہ یہ مخالفت ایسے وقت میں کی جب تم طور پر نیا نیا عہد باندھ کر آئے تھے ۔ آیت نمبر ۹۵ میں بتایا کہ ان کا یہ ان کا یہ عذر باطل ہے کہ صرف بنی اسرائیل کے نبیوں کا پیغام مانیں گے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ سمجھتے ہیںکہ نجات ہمارے لیئے مخصوص ہے ۔اچھا اگر اُن کو اس بات پر یقین ہے ۔ تو مباہلہ کر لیں ۔ آیت نمبر ۹۶ میں اُن کی اِس بُری حالت کو مشرکوں سے بھی بدتر بتایا ۔اور فرمایا کہ آخرت میں جانے سے تو اس لئے ڈرتے ہیں کہ وہاں سزا ملے گی لیکن ان کیلئے اِس دُنیا میں بھی سُکھ نہیں پس ایسے عذرات سے کیا حاصل ہے ۔
۵۱؎حل لغات:۔
جِبْرِیْلَ :۔ جبر کا لفظ جبر اور ایل سے مرکب ہیں۔جبر کے معنی عبرانی زبان میں خادم اور غلام کے ہوتے ہیں۔ اور ایل کے معنے خدا کے ۔ پس جبریل کے معنے ہیں خدا کا خادم یا خدا کا غلام ۔
عربی زبان میں جبر کے معنے اصلا ح کرنے اور ٹوٹی ہو ئی چیز کو جوڑنے کے ہوتے ہیں ۔ (۲)دوسرے معنے کسی کو کام پر مجبور کر دینے کے ہیں۔ (۳)تیسرے معنے اَلرَّ جُلُ الشَّجَا عُ کے ہیں۔ (اقرب )یعنی بہادر آدمی ۔ چنانچہ جبر کا لفظ ایک شعر میں بھی بہادر کے معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔عرب شاعر ابن عمر کہتا ہے ۔
وَانْعِمْ صَبَا حًا اَیُّھَا اْلجَبَرا
اے بہادر آدمی تم پر صبح اچھی ہو۔ ’’گڈ مارننگ‘‘Good Morningاسی سے لیا گیا ہے ۔پس جبر میں عبرانی میں خادم اور غلام کے معنے رکھتا ہے ۔اس کے یہ معنے عربی زبان میں بھی ملتے ہیں لیکن ایل کے معنوں میں عربی زبان اور عبرانی زبان میں بڑا فرق ہے ۔ عبرانی میں عام طو رپر یہ لفظ خدا کیلئے آتا ہے ۔مگر یہ معنے عربی میں نہیں پائے جاتے ۔بلکہ ایل کا لفظ ہی عربی زبان میں نہیں آتا ۔ لیکن تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ عربی میں اٰئل کا لفظ آتا ہے ۔ جو اٰلَ سے اسم فاعل کا صیغہ ہے ۔ اورآئی کے معنے ہیں ۔ اُس نے تدبیر سے حکومت کی ۔ چنانچہ اٰلَ اْلمَلِکُ رَعِیَّتَہ کہ معنے ہوتے ہیں۔ سَا سَھُمْ بادشا ہ نے اپنی رعایا کی ضرورت کا انتظام کیا۔ اور اٰلَ عَلَی اْلقَوْمِ کے معنے ہیں۔وَلِیَ وہ قوم کا بادشاہ بن گیا ۔ غرض آلَ کے عربی زبان میں کئی معنے ہیں ۔ایک معنے اِس کے لوٹنے کے بھی ہیں۔ اس لحاظ سے آئل لوٹنے والے کو بھی کہتے ہیں۔ (اقرب ) پس آئل لوٹنے والے مدبر حاکم اور بادشاہ کو کہتے ہیں۔ اور یہ سب معانی خدا تعالیٰ پر چسپاں ہو سکتے ہیں ۔ ان معانی کے لحاظ سے جبریل کے تین معنے ہونگے (۱)بادشاہ کا بہادر اور اچھا خادم (۲)ایک مدبر ہستی کا بہادر اور اچھا غلام (۳)اپنے بندوں کی طرف بار بار رحمت کے ساتھ لوٹنے والے خدا کا بہادر اور اچھا خادم ۔
عبرانی زبان میں بھی ایل کے معنے آئل سے ملتے جلتے ہیں۔ کیونکہ عبرانی کے بعد ماہر علماء کہتے ہیں۔ کہ ایل کے معنے طاقتور کے ہیں۔ (انسائیکلو پیڈیا ببلیکا جلد ۳ کالم ۳۳۲۶ )جو حاکم یا مدبر سے ملتے ہیں۔ لیکن عبرانی کے بعض دوسرے ماہر کہتے ہیں۔ کہ اس لفظ کے معنے ہیں۔ ’’وہ وجود جو سب انسانوںکا مرجع ہو‘‘۔یہ اٰئل کے دوسرے معنی یعنی لوٹنے والے سے کسی قدر فرق کے ساتھ ملتے ہیں۔
عربی زبان کو ملحوظ رکھتے ہوئے جبریل کے معنے ہیں بار بار لوٹنے والے یعنی تواب خدا کا خادم یہ خدا تعالیٰ ہی کی صفت ہے کہ وہ بار بار الہام نازل کرتا ہے اور بار بار اپنے بندوں کی طرف رجوع کرتا ہے ۔ لیکن جیسا کہ میں اوپر بتا چکا ہوں عبرانی زبان کے ماہر کہتے ہیںکہ عبرانی میں ایل کے معنے ہیں ’’وہ انسان جس کی طرف لوگ رجوع کرتے ہیں۔ اور جو سب انسانوں کا مرجع ہے ۔ یہ معنے عربی زبان سے کسی قدر مختلف ہیں۔ گو جہاں تک لوٹنے کا سوال ہے اس کا دونوں معنوں میں ذکر آتا ہے ۔ صرف اس قدر فرق ہے کہ عبرانی نے اُسے مرجع بتایا ہے اور عبرانی نے راجع ۔یعنی عربی میں اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ خدا جو بندہ کے پشیمان ہونے پر بار بار اپنے فضل کے ساتھ اُس کے طرف رجوع کرتا ہے اور عبرانی میں اس کے معنے ہیں اور وہ ہستی جس کی طرف بار بار رجو ع کرتے ہیں۔ یہ تغیر ایسا ہی ہے ۔ جیسے عبرانی میں ایلو ھیم جس کے معنے مضبوط کے ہو گئے ہیں اور اب محاورہ میں یہ لفظ ہر اس وجود کیلئے استعمال کر لیتے ہیں۔جو مضبوط اور طاقتور ہو۔ پس جس طرح اٰئل کے معنے لوٹنے والے سے بدل کر ’’جس کی طرف لوٹا جائے ‘‘ہو گئے ۔
اس کی زیادہ تر وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہود خدا تعالیٰ کی تواٰب صفت کے قائل نہیں تھے اور وہ اس کے قائل ہو بھی نہیں سکتے تھے ۔کیونکہ جو قوم یہ سمجھتی ہو کہ خدا تعالیٰ پر ہمارا حق ہے وہ ہمیں بحر حال نجات دے گا ۔وہ خدا تعالیٰ کا تواٰب کیسے مان سکتی ہے ۔وہ تو اُسے کبھی بھی تواٰب نہیں مانیگی اُسے تو اّب وہی مان سکتا ہے جو یہ سمجھے کہ اُس پر میرا کوئی حق نہیں ۔ مگر یہود کا یہ عقیدہ نہ تھا ۔ وہ خدا تعالیٰ پر اپنا حق جتاتے تھے ۔ اسی لئے انہوں نے ایل کے معنے کر دئیے ’’وہ ہستی جس کی طرف لوگ لوٹتے ہیں‘‘۔ نہ یہ کہ خدا جو لوگوں کی طر ف بار بار رحمت کے ساتھ لوٹتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عبرانی زبان میں تواّب کے معنوں میں اللہ تعالیٰ کی کوئی صفت بیان نہیں ہوئی ۔ لیکن زیادہ صحیح یہی ہے کہ اس کے اصل معنے لئے جائیں ۔یعنی بار بار لوٹنے والے خدا کا بہادر اور اچھا خادم یا ایک مدبر ہستی کا بہادر اور اچھا خادم ۔
تفسیر:۔
قرآن کریم اور بائیبل دونوں میں اس امر پر متفق ہیں کہ جبریل خدا تعالیٰ کے مقرب ملائکہ کا سردار ہے اور اس کا کام بندوں تک کلام الٰہی پہنچانا ہے ۔ مگر یہود اپنے تنزل کے زمانہ میں جبریل کو لڑائی اور عذاب کا فرشتہ سمجھنے لگ گئے تھے ۔ ۱؎ اور اسے اپنا دشمن تصور کرتے تھے ۔ چنانچہ مسند احمد بن حنبل اور ابن کثیر کی روایت ہے کہ یہود جب مسلمانوں سے انحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کے دلائل اور براہین سنتے اور کوئی جواب نہ دے سکتے تو کہہ دیتے کہ اچھا ہمیں یہ بتاؤ۔کہ اُن کی طرف وحی کون لاتا ہے ؟ اس کے جواب میں مسلمان کہتے کہ جبرایل ۔اِس پر یہود پکار اُٹھتے کہ جِبْرِیْلُ ذَاکَ الَّذِیْ یَنْزِلُ بِا لْحَرْبِ وَالْقِتَالِ وَ اْلعَذَابِ عَدُوُّفَا۔۲؎ یعنی جبرایل تو وہ فرشتہ ہے جو جنگ و جدال اور عذاب لے کر نازل ہوتا ہے اور ہمارا دشمن ہے اس لئے ہم یہ کلام نہیں مان سکتے۔
یہود میں یہ خیال زیادہ تر طالمودی روایات اور ٹار گم کی تفسیروں سے پھیلا ہے ۔ ورنہ بائیبل جبریل کو کلام الٰہی لانے والا فرشتہ ہی قرار دیتی ہے چنانچہ دانیال باب ۸ آیت میں لکھا ہے :۔(۱؎ انسائیکلو پیڈیا ۔زیر لفظ جبریل ۔۲؎ تفیسرابن کثیر جلد اول برحاشیہ تفسیر فتح البیان جلد اول صہ ۲۲۲)’’اور میں نے اولائی میں سے آدمی کی آواز سُنی جس نے بلند آواز سے کہا کہ اے جبریل اِس شخص کو اس رویا کے معنے سمجھا دے ۔ چنانچہ وہ جہاں میں کھڑا تھا نزدیک آیا اور اُس کے آنے سے میں ڈر گیا اور منہ کے بل گرا۔ پر اُس نے مجھ سے کہا ۔ اے آدم زاد سمجھ لے کہ یہ رویا آخوی زمانہ کی بابت ہے ۔‘‘
اسی طرح دانیال باب ۹ آیت ۲۱ میں لکھا ہے :۔
’’میں دعا میں یہ کہہ ہی رہا تھا کہ وہی شخص جبرائیل جسے میں نے شروع میں رویا میں دیکھا تھا حکم کے مطابق تیز پروازی کرتا ہوا آیا ور شام کی قربانی گذراننے کے وقت کے قریب مجھے چھوا اور اس نے مجھے سمجھایا اور مجھ سے باتیں کیں ‘‘۔
لوقا باب ۱ آیت ۱۹ میں بھی لکھا ہے :۔
’’ فرشتہ نو جواب میں اُس سے کہا ۔میں جبرائیل ہوں جو خدا کے حضور کھڑا رہتا ہوں اور اس لئے بھیجا گیا ہو ں کہ تجھ سے کلام کروں اور تجھے ان باتوں کی خوشخبری دوں ۔‘‘
اِسی طرح لوقا باب ۱ آیت ۲۶ میں لکھا ہے :۔
’’چھٹے مہینے میں جبرائیل فرشتہ خدا کی طرف سے گلیل کے ایک شہر میں جس کا نام ناصرہ تھا ایک کنواری کے پاس بھیجا گیا۔ ‘‘
مگر بعد میں یہودی احادیث میں جبرائیل کو عذاب کا فرشتہ قرار دے دیا گیا ۔ اور میکا ئیل کو وحی الٰہی لانے والا فرشتہ سمجھا جانے لگا ۔دانیال نبی کے وقت تک وہ مانتے تھے ۔ کہ جبرائیل کلام الٰہی لانے والا فرشتہ ہے ۔ اوردنیوی ترقیات کا تعلق میکا ئیل کے ساتھ ہے ۔ لیکن رفتہ رفتہ وہ میکائیل کو کلام الٰہی لانے والا فرشتہ سمجھنے لگ گئے۔ اور جبرائیل جو کلام لاتا تھا وہ چونکہ نہ مانتے والوں کیلئے سزا کا بھی پیغام لاتا تھا اس لئے وہ اُسے نا پسند کرنے لگ گئے ۔ یہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانہ میں یہود کا یہ پختہ خیال ہو گیا کہ جبرائیل گرج اور عذاب کا فرشتہ ہے ۔ (انسائیکلو پیڈیا بلیکا زیر لفظ جبریل )
معلوم ہوتا ہے کہ یہود چونکہ مغفوب قوم تھی ۔اور جو نبی بھی اُن کی طرف آتا وہ اُنہیں ڈراتا اور کہتا کہ تم تباہ ہو جائو گے۔ اس لئے وہ عذابوں کے پَے درپَے آنے کے سبب سے یہ سمجھنے لگ گئے کے جبرائیل اُنکا دشمن ہے۔ کیونکہ وہ جو کلام بھی لاتا ہے اُس میں عذاب ہی عذاب کی خبریں ہوتی ہیں۔ پس وہ جبریل سے عداوت رکھنے لگ گئے۔ وہ کہتے تھے کہ ہمیں اس کے ماننے کی ضرورت نہیں۔ اصل فرشتہ میکائیل ہے جس کی لائی ہوئی وحی ماننے کے قابل ہے۔ وہ جبرائیل کو لڑائی اور جھگڑے پیدا کرنیوالا فرشتہ اس لئے کہتے تھے کہ وہ ہمیشہ انبیاء کا انکارکرتے تھے۔ اور س انکار کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اُن پر عذاب نازل کیا کرتا تھا۔ اِن عذابوں کو وہ جبرائیل کی طرف منسوب کر دیتے اور سمجھتے تھے کہ وہ عذاب کا فرشتہ ہے۔ آجکل بھی لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئیوں کے ماتحت جب عذاب آتے دیکھتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ یہ کیسے نبی ہیں جو دنیا کو ہلاک کرنے کے لئے آئے ہیں یہی الزام جبرائیل پر لگایاگیا تھاجسے اللہ تعالیٰ نے اِس آیت میں دُور کیا ہے۔
فَاِنَّہ‘ نَزَّلَہ‘ عَلَی قَلْبِکَ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا وہ اس وجہ سے اُس سے عداوت کرتے ہیں کہ اُس نے قرآن مجید کو تیرے دل پر اللہ تعالیٰ کے حکم سے نازل کیا ہے۔اِس جگہفَاِنَّہ‘ نَزَّلَہ‘ کے معنوں میں ہے اور مطلب یہ ہے کہ وہ اس وجہ سے جبریل ؑ سے عداوت کرتے ہیں کہ اُس نے یہ کتاب کیوں نازل کی۔ حالانکہ یہ ایسی کتاب ہے جو اپنے اندر کئی قسم کی خوبیاں رکھتی ہے اور جن کو دیکھتے ہوئے اس سے دشمنی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔ اِس جگہ یہود کے مذکورہ بالا شبہ کے ازالہ کے لئے اللہ تالیٰ نے چار جواب دیئے ہیں۔ پہلا جواب تو یہ دیا کہ کوئی فرشتہ اپنی طرف سے کلام نازل نہیں کر سکتا بلکہ اس کا نزول اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ہوتا ہے۔ پس خواہ کوئی فرشتہ کلام نازل کرنے والا ہو۔ جبریل ہو یا میکا ئیل جسے وہ اپنا دوست سمجھتے ہیں بہر حال کلام نازل کرنے والا تو خدا ہے اور اس کے کلام پر فرشتہ کی دشمنی کا کوئی اثر نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ کلام لانیوالے کے فرق سے کلام میں فرق نہیں آسکتا۔ پس اگر کسی قومی روایت کی وجہ سے جبرائیل سے نفرت بھی ہو تو اس کلام سے نفرت کس طرح جائز ہو سکتی ہے جو وہ لاتا ہے ۔ وہ کلام تو بہرحال اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو گا اور اُس کا قبول کرنا ضروری ہو گا۔
باقی رہا یہ کہ جبریل اِسے کیوں لایا میکائیل کیوں نہیں لایا۔ سو جبرائیل نے اِسے خود نازل نہیں کیا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے نازل کیا ہے۔ اور جب خدا کے حکم سے اُس نے اسے اتارا ہے تو اِس سے دشمنی کیسی؟ اُس نے تو خدا کے حکم کی تعمیل کی ہے۔
اِسی ضمن میں اللہ تعالیٰ نے اس کلام کی برتری اور اس کی فضیلت کی ایک یہ بھی دلیل دی ہے کہ یہ تعلیم اِس نبی کے دل پر اتاری گئی ہے۔ جس کی وجہ سے اس تعلیم نے اس کے جذبات کو اس کے تابع کر دیا ہے۔
اِس جگہ فلاسفروں کے خیالات اور نبیوں کے کلام میں یہ فرق بتایا گیا ہے کہ نبی پر جو کلام اُترتا وہ اُس سے دل پر نازل کیا جاتا ہے۔ مگر فلاسفر کے خیالات کا نزول اُس کے دماغ پر ہوتا ہے۔فلاسفر بھی اچھی باتیں کہتا ہے مگر اُس کے جذبات اُس کے افکار کے تابع نہیں ہوتے اور وہ جو کچھ کہتا ہے اُس کے مطابق اُس کا عمل نہیں ہوتا۔ لیکن نبی پر جو کلام نازل ہوتا ہے اُس کا عمل اس کے مطابق ہوتا ہے۔ انگریزوں میں کئی برے برے فلاسفر گذرے ہیں جن کی کتابیں اخلاقی باتوں سے بھری ہوئی ہیں۔ لیکن اُن کا عمل دیکھ کر انسان کو سخت مایوسی ہوتی ہے۔ اِس کی وجہ یہی ہے کہ اُن کے فلسفہ کا نزول دماغ پر ہوتا ہے اور کلامِ الہٰی کا قلب پر جس کی وجہ سے کلامِ الہٰی کا قلب پر جس کی وجہ سے کلامِ الہٰی انسان کی زندگی کو پاک کر دیتا ہے۔ لیکن ایک فلاسفر کا فلسفہ اُس کے دل کو پاک نہیں کر سکتا اِسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جبریل نے اِس کلام کو تیرے دل پر نازل کیا ہے یعنی اُس نے اِس کلام کو تیرے جسم اور رُوح کے ذرّہ ذرّہ میں داخل کر دیا ہے۔ یہاں تک کہ تُو خود قرٓن ہو گیا ہے جیسا کہ حضرت عائشہؓ سے کسی نے دریافت کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کیسے تھے؟ تو آپ نے فرمایا۔ کَانَ خُلُہُ الْقُرْاٰن(مجمع البحار جلد اول صفحہ۳۷۲) کہ آپؐ کے اخلاق معلوم کرنے ہوں تو قرآن کریم پڑھ کر دیکھ لو جتنی باتیں قرآن کریم میں لکھی ہیں وہ سب آپؐ میں پائی جاتی تھیں۔
غرض نَزَّ لَہ‘ عَلٰی قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللّٰہِ میں جہاں یہ جواب دیا گیا ہے کہ جبریل نے یہ کلام اللہ تعالیٰ کے حکم سے اُتارا ہے۔ اِس میں اُس کی مرضی کا کوئی دخل نہیں کہ یہ کہا جائے کہ اُس نے تم سے دشمنی کی وجہ سے کسی اور پر وحی نازل کر دی ہے۔ وہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلبِ مطہر کا ذکر فرما کر اس طرف بھی اشارہ فرمایا ہے کہ تمہارا یہ خیال کہ جبریل نے تمہاری دشمنی کی وجہ سے بنی اسمعٰیل کے ایک فرد پر یہ کلام بلاوجہ نازل کر دیا ہے غلط ہے۔ یہ کلام اُس نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اُسی شخص پر نازل کیا ہے جو اس عظیم الشان امانت کے سب سے زیادہ اہل تھا۔
دوسری بات یہ بتائی کہ وہ کلام جو اس رسول پر نازل ہوا ہے اُن پیشگوئیوں کو پورا کرنے والا ہے جو تمہاری کُتب میں موجود ہیں۔ پاس یہ تو عداوت نہیں بلکہ دوستی کی علامت ہے کہ ایسے کلام کا نزول ہوا جو تمہاری کتب کی صداقت کو ظاہر کرنے والا ہے۔ اگر یہ کلام نہ اُترتا تو تمہاری کتابیں جھوٹی ہو جاتیں اور اُن کی پیشگوئیوں باطل قرار پاتیں پس یہ تعلیم جو جبریل نے اتاری ہے ایسی ہے جو تمہاری کتابوں کی پیشگوئیوں کو پورا کرتی ہے۔ اگر یہ نبی اس زمانہ میں نہ آتا یا بنی اسمعٰیل میں سے نہ آتا تو بائیبل کی پیشگوئیوں غلط ہو جائیں۔ پس جبریل نے تمہاری دشمنی نہیں کہ بلکہ خیر خواہی کی۔ اگر جبریل کی تمہارے ساتھ دشمنی ہوتی تو پھر یہ کلام تمہاری کتابوں کی تصدیق کیوں کرتا۔ پس اس وحی کے قبول کرنے میں ہی تمہاری عزت ہے۔ تمہیں اس کلام کو رد نہیں کرنا چاہیے۔
تیسری بات یہ بتائی کہ یہ کتاب لوگوں کے لئے ہادی اور رہنما ہے۔ یعنی اور باتوں کے علاوہ اس میں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ ہدایت کے صحیح راستہ کی طرف لے جاتی اور گمراہی سے بچنے کے ذرائع بیان کرتی ہے۔ اور اگر یہ قرآن تم کو تقویٰ ار پرہیزگاری اور نیکی کی تعلیم دیتا ہے تو تمہیں سمجھ لینا چاہیے کہ بہر حال اس کا قبول کرنا تمہارے لئے ضروری ہے۔ کیونکہ تم اس کے ذریعہ سے پاک اور متقی بن جائو گے۔ اگر یہ کتاب باطل کی طرف لے جاتی تو پھر بے شک تم اس کا انکار کر سکتے تھے۔
مگر تم جانتے ہو کہ یہ کتاب باطل کی طرف نہیں بلکہ ہدایت کی طرف لے جاتی ہے اور کسی کلام کے ماننے یا رد کرنے میں اصل سوال یہی قابلِ غور ہوتا ہے کہ وہ درست ہے یا غلط۔پس اگر یہ کلام صحیح ہے اور اس میں بنی نوع انسان کی خیر خواہی اور اُن کی ترقی کی تعلیم دی گئی ہے تو تمہیں کسی اور امر کو مدنظر رکھ کر اُسے چھوڑنا نہیں چاہیے۔
چوتھی بات یہ بتائی کہ یہ تعلیم ایسی ہے جو اپنے ماننے والوں کے لئے بُشْرٰی ہے۔ یعنی اُن کو بڑے بڑے انعامات کا وعدہ دیتی ہے۔ گویا اگر کوئی شخص صرف اس لئے کسی صداقت کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا کہ وہ بنفسبہ صداقت ہے بلکہ وہ انعامات کا بھی طالب ہو تو اُسے یاد رکھنا چاہیے کہ جو شخص اِسپر سچے دل سے عمل کرے گا۔ اُسے بڑے بڑے انعامات بھی ملیں گے۔ پس اس کو چھوڑنا اپنانقصان کرنا ہے۔ اس فقرہ میں بھی یہود کو توجہ دلائی گئی ہے کہ تم تو کہتے ہو کہ جبریل عذاب کا فرشتہ ہے۔ مگر اس کلام میں تو بشارتیں ہی بشارتیں بھر ی پڑی ہیں۔ پھر وہ عذاب کا فرشتہ کیسے ہوا؟
غرض بتایا کہ یہ بحث ہی لغو ہے کہ کلامِ الہٰی جبرائیل لاتا ہے یا میکائیل۔ کلام تو خدا نازل ہوتا ہے۔ پس اگر کلام کی وجہ سے کسی سے دشمنی ہونی چاہیے تو خدا سے ہونی چاہیے۔ جبرائیل جو ایک درمیانی واسطہ ہے اُس سے دشمنی کِس طرح جائز ہو سکتی ہے۔ مگر تم خدا کو تو اپنا دوست قرار دیتے ہوا ور جبرائیل جو اس کا ایلچی ہے اُسے گالیاں دینے لگ جاتے ہو۔ پھر دوسری طرف تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دشمنی کرتے ہو اور کہتے ہو کہ جبرائیل اُس پر کلام کیوں لایا۔ اور یہ نہیں سوچتے کہ اس کا کلام تمہاری کتابوں کی تصدیق کرتا ہے اور اُن کی پیشگوئیوں کو پورا کرتا ہے۔ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جبریل کا آنا اِس بات کی علامت ہے کہ جبریل تمہارا دشمن ہے تو یہ عجیب دشمنی ہے کہ اُسی کے کلام سے تمہاری کتابیں سچی ثابت ہو رہی ہیں۔ پھر اس کا ھُدًی اور بُشْریٰ ہونا بھی بتاتا ہے کہ تمہارا یہ خیال بالکل غلط ہے کہ جبریل آگ اور عذاب کا فرشتہ ہے کیونکہ اس کے ذریعہ جو کلام نازل ہوا ہے۔ وہ ہدایت سے پُر ہے اور ایمان لانے والوں کو اعلیٰ درجہ کے رُوحانی انعامات سے سرفراز کرتا ہے ۔ پس جبرائیل یا میکائیل کی بحث میں پڑ کر اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے۔ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قبول کر لینا چاہیے۔
میں نے اس آیت میں فَاِنَّہُ کے معنے لِاَ نَّہ‘ کے کئے ہیں۔ کیونکہ میرے نزدیک یہاں فاء لام کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ مگر فاء کے عام معنے قائم رکھ کر دوسرے معنے بھی کئے جا سکتے ہیں۔ مگر اس صورت میں یہ جواب مخدوف ماننا پڑے گا۔ کہ فَلَا وَجْہَ لِعَدَاوَتِہٖ۔ اِس سے عداوت رکھنے کی کوئی وجہ نہیں۔ کیونکہ اُس نے اس کلام کو تیرے دل پر اللہ تعالیٰ کے حکم سے اتارا ہے۔
مَنْ کَانَ
عَدُوّ’‘لِّلْکٰفِرِیْنَo
اس میں بتایا کہ وہ لوگ جو جبریل سے دشمنی کرتے ہیں ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ جو کچھ اس نے اِس رسول کے دل پر اُتارا ہے وہ اللہتعالیٰ کے اِذن سے اتارا ہے اور اس کے کہنے کے مطابق اتارا ہے۔ پس اس سے دشمنی کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی۔ اگر تم دشمنی کرو گے تو اللہ تعالیٰ سے کرو گے نہ کہ جبریل سے(۲)وہ تعلیم تمہاری کتابوں کی پیشگوئیوں کی تصدیق کرنے والی ہے۔ اگر جبرائیل کو تم سے دشمنی ہوتی تو وہ ایسی تعلیم جو تمہاری تعلیم کو پورا کرتی ہے نہ اتارتا۔ پس جبرائیل سے دشمنی کرنے کے یہ معنے ہیں کہ تم اپنی کتابوں سے بھی دشمنی کر رہے ہو۔(۳) پھر یہ کلام اس حال میں اُترا ہے کہ وہ ہادی اور مُبشر ہے۔ جو شخص ہادی سے دشمنی کرتا ہے ہو گویا اپنی جان سے دشمنی کرتا ہے۔ اور جو شخص مبشر سے دشمنی کرتا ہے وہ اپنی آئندہ نسلوں سے دشمنی کرتا ہے۔ ہدایت انسان کے اپنے نفس سے تعلق رکھتی ہے اور بشارت آئندہ نسلوں کے ساتھ۔ ہدایت ورثہ میں نہیں دی جاتی۔ مگر دنیوی کہ یہودی لوگ منبع سے بھی دشمنی کرتے ہیں اور درمیانی حالت سے بھی دشمنی کرتے ہیں اور انتہائی حالت سے بھی دشمنی کرتے ہیں۔(۱) منبع تو اللہ تعالیٰ ہے جس سے وہ دشمنی کرتے ہیں(۲) پھر وہ انبیاء جو دنیا میں اس کے ظل اور مظہر ہوتے ہیں اور ایک واسطہ کی حیثیت رکھتے ہیں اُن سے دشمنی کرتے ہیں۔ (۳) پھر اپنی ذات کے بھی دشمن ہیں اور آئندہ نسلوں سے بھی دشمنی کرتے ہیں اور انہیں اُن انعامات اور افضال سے جو ایمان لانے سے اُن کو مل سکتے ہیں محروم کرتے ہیں۔ پس جبریل کی دشمنی کوئی معمولی دشمنی نہیں۔ جو اُس سے دشمنی کرتے ہیں وہ دراصل اس سے نہیں بلکہ اللہ وہ اپنیہ جان اور اپنی آئندہ نسلوں سے دشمنی کرتا ہے۔
دوسرے معنی کی صورت میں مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ کا جواب اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت کے آخر میں رکھا ہے۔ یعنی فَاِنَّ اللّٰہَ عَدُوّ‘ لَّلْکٰفِرِیْنَ کہ اللہ تعالیٰ ایسے کافروں کا دشمن ہے۔ مگر چونکہ فقرہ لمبا ہو گیا تھا اس لئے اس کے بعد پھر اس کے ذکر کو دُہرادیا ہے۔ اور ساتھ ہی میکائیل کا بھی ذکر کر دیا ہے۔ کیونکہ جبرائیل کی دشمنی میکائیل کی بھی دشمنی ہے اور اس کے بعد اس کی اصل جزاء بتا دی ہے۔
اوپر جو مضمون بیان ہوا ہے اس سے یہود کو یہ بتایا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی الہٰی کا نزول خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوا ہے اور اسی نے ان کو بنی بنایا ہے۔ پس تمہارا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دشمنی کرنا خدا تعالیٰ سے دشمنی کرنا ہے۔ اِسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لائے ہوئے کلام کا انکار دراصل موسیٰ ؑ کا انکار ہے جس نے اس کی پیشگوئی کی تھی۔ اب تم خود سوچ لوک ہ تم اس مخالفت میں کہاں تک حق بجانب ہو۔
۱۶؎ تفسیر:۔اِس میں بتایا کہ فرشتے تو ایک واسطہ ہیں جس طرح ہو آواز پہنچانے کا واسطہ ہے ۔پس جو شخص اُن سے عداوت رکھتا ہے وہ درحقیقت اُس سے عداوت رکھتا ہے جس نے ان کو بھیجا۔ اور اُس پر یہ الزام لگاتا ہے کہ اس نے انتخاب میں غلطی کی۔ پس اس قسم کے خیالات کے یہ معنے ہیں کہ یہود خدا سے دشمنی کرتے ہیں۔کیونکہ ایلچی کی ہتک درحقیقت بادشہ کی ہتک ہوتی ہے۔ پاس جو شخص فرشتوں میں سے کسی کو بُرا کہتا ہے وہ دوسرے الفاظ میں اللہ تعالیٰ پر الزام لگاتا ہے کہ اُس نے وحی الہٰی نازل کرنے کے لئے ایک ناقص ہستی کو تجویز کیا۔ پس جبریل کی دشمنی صرف ایک فرشتہ کی دشمنی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی دشمنی ہے۔ پھر جو جبریل کا دشمن ہے وہ تمام ملائکہ کا بھی دشمن ہے۔ کیونکہ جبریل خود ملائکہ میں سے ایک مَلک ہے۔ پھر جبریل کی دشمنی کے نتیجہ میں انسان تمام رسولوں کا بھی دشمن بن جاتاہے کیونکہ جبریل ابتداء سے اللہ تعالیٰ کے نبیوں پر کلامِ الہٰی لاتا رہا ہے۔
آخر پھر جبریل کا ذکر کر کے یہود کو متنبہ کیا ہے کہ اس کو اپنا دشمن مت سمجھو ورنہ اس کی دشمنی تمہیں خدا تعالیٰ کے دشمنوں میں شامل کر دیگی۔ اور خدا تعالیٰ کے افعال پر جرح کرنیوالا انسان مجبور ہوتا ہے کہ وہ سب ملائکہ اور رسولوں پر بھی معترض ہو کیونکہ ان سب کی عزت ذاتِ باری کی اطاعت کے ساتھ وابستہ ہے۔ پس رُوحانی سلسلہ کے کسی اک رُکن پر الزام لگانا اُس سے عداوت کا اظہار کرنا انسان کو ہدایت سے بہت دور لے جاتا ہے اور ایسے اشخاص آخر اللہ تعالیٰ کو اپنا دشمن بنا لیتے ہیں۔ یعنی اُن فیوض اور برکات سے اپنے آپ کو محروم کر لیتے ہیں جو اس کے دوستوں پر نازل ہوتی ہیں اور اُن عذابوں کے مورد بن جاتے ہیں جو اُس کے احکام کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لئے مقرر کئے جاتے ہیں۔
جبریل کے بعد میکائیل کا خصوصیت سے اس لئے ذکر کیا کہ یہود کا خیال تھا کہ میکال ان کا خاص مہربان فرشتہ ہے ۔ اور وہ اسے اسرائیل کا محافظ فرشتہ یا شہزادہ خیال کرتے تھے(انسائیکلو پیڈیا یا بڑمینیکا جلد ۱۸ صفحہ۳۵۲)
میکال کے معنے ہیں خدا کی مانند۔ جس کی وجہ تسمید یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس فرشتہ کا کام زیادہ تر صفتِ ربوبیت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے یعنی اُس کے سپرد دنیا کا رزق اور خبر گیری ہے اور جبریل کا روحانیات کے ساتھ تعلق ہے اور وہ کلامِ الہٰی لاتا ہے۔ گویا ہدایت لانے کا کام جبرائیل کے سپرد ہے۔ اور بُشْریٰ یعنی دنیوی ترقیات کے سامان مہیا کرنا میکائیل کا کام ہے اور بشریٰ ہمیشہ ہدایت کے تابع ہوتی ہے۔ جب انسان اس تعلیم پر جسے جبرائیل لاتا ہے عمل کر کے مہدی بن جاتا ہے تب اُسے بُشْریٰ یعنی دنیوی انعامات حاصل ہوتے ہیں۔ پس جو شخص مہدی نہ ہو وہ دنیوی انعامات بھی حاصل نہیں کر سکتا۔ اِسی طرح جو شخص جبرائیل سے دشمنی کرے گا میکائیل خود بخود اس کا ساتھ چھوڑ دے گا اور دشمن ہو جائیگا۔ غرض یہود کو بتایا گیا ہے کہ اگر تم جبریل سے دشمنی کرو گے تو میکال بھی تمہارا دشمن ہو جائیگا۔ اور اس طرح تمہارا دین اور دنیا دونوں برباد ہو جائیں گے۔
جبریل اور میکال کے دوبارہ ذکر کرنے کا مقصد تاکید بھی ہے۔ یعنی جو کوئی ان کا دشمن ہو گا اُسے یاد رکھنا چاہیے کہ ان کی دشمنی میں اللہ اور اس کے ملائکہ اور اُس کے تمام رسولوں کی دشمنیاں بھی شامل ہیں۔
پھر اس فرشتوں کا دوبارہ ذکر اس لئے بھی کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ بتانا چاہتا ہے کہ فرشتے اپنی ذات میں کوئی چیز نہیں وہ صرف ایک درمیانی واسطہ ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام نے فرشتہ کی مثال ہوا سے دی ہے یعنی جس طرح کلام کرنے والے اور سُننے والے کے درمیان ہوا کا واسطہ ہوتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ اور بندہ کے درمیان فرشتہ واسطہ ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص اس واسطہ سے دشمنی کرتا ہے جس ایک ضروری چیز ہے تو دراصل اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ وہ اس چیز سے نہیں بلکہ اُس سے دشمنی کرتا ہے جس نے اس واسطہ کو بنایا ہے ۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انتخاب میں غلطی کی ہے۔ پاس دراصل جبرائیل کی دشمنی خدا کی دشمنی ہے اور جو آقا کا دشمن ہوتا ہے ماتحت بھی اس کے دشمن ہو جاتے ہیں۔ اس لئے فرمایا کہ میکائیل بھی ان کا دشمن ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ آقا ہے اور باقی سب اس کے تابع ہیں۔ جو زنجیر کی کڑیوں کی طرح ہیں۔ اگر زنجیر کی ایک کڑی ٹوٹ جائے تو ساری زنجیر ٹوٹ جاتی ہے۔ اسی طرح جبریل کی دشمنی سے نہ صرف وہی بلکہ تمام ملائکہ دشمن ہو جاتے ہیں اور ایک کڑی کے ٹوٹنے سے ساری زنجیر بے کار ہو جاتی ہے۔ یہود میکائیل کو اسرائیل کا شہزادہ اور اپنا دوست اور محافظ سمجھتے تھے۔ اس لئے اُس کا خاص طو ر پر ذکر کرکے بتایا کہ جبرائیل ؑ کی دشمنی سے وہ بھی تمہارا دشمن بن گیا ہے۔
پھر میکال کا اس لئے بھی خصوصیت سے ذکر کیا ہے کہ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب اُن کی کسی مقدس ہستی کو کوئی نادان بُرا کہے تو وہ ضِد اور تعصب کی وجہ سے دوسرے کی مقدس ہستیوں کو بھی بُرا بھلا کہنے لگ جاتے ہیں۔ چونکہ ممکن تھا کہ کسی وقت مسلمانوں میں سے بھی بعض نادان یہود کی ضِد کی وجہ سے میکال کو بُرا بھلا کہنا شروع کر دیتے اور ان دونوں فرشتوں کو یہود اور مسلمانوں کے خاص محافظ فرشتے قرار دے کر ایک دوسرے کے مقابل میں کھڑاکر دیا جاتا ۔ اِس لئے اس غلطی سے مسلمانوں کو محفوظ رکھنے کے لئے خدا تعالیٰ نے میکال کا نام علیٰحدہ بھی لے دیا تاکہ یہود جب مسلمانوں کے سامنے یہ کہیں کہ جبریل ہمارا دشمن ہے تو مسلمان ان کے مقابلہ میں ان کی اس عداوت کی وجہ سے یہ نہ کہہ دیں کہ اچھا اگر جبرائیل تمہارا دشمن ہے تو میکال ہمارا دشمن ہے۔ اِس خطرہ کو دُور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے میکال کا ذکر خصوصیت سے فرمادیا اور بتایا کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی مقدس ہستیاں ہیں۔ ان سے عداوت کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی۔ اگر یہود جبریل کے دشمن ہیں تو تم میکال کو بُرا نہ کہو۔
بائیبل سے پتہ لگتا ہے جکہ دنیا کو رزق دینے والا اور لوگوں کی خبر گیری کرنے والا فرشتہ میکال ہے۔ چنانچہ دانیال باب ۱۰ آیت۱۳ میں لکھا ہے کہ
’’میکاایل جو مقرب فرشتوں میں سے ہے میری مدد کو پہنچا۔ اور میں شاہانِ فارس کے پاس رُکا رہا۔‘‘
اور آیت۲۱میں لکھا ہے:۔
’’جو کچھ سچائی کی کتاب میں لکھا ہے تجھے بتاتا ہوں اور تمہارے موکل میکائیل کے سوا اس میں میرا کوئی مدد گار نہیں ہے۔‘‘
اِس طرح دانی ایل باب۱۲ آیت ۱ میں لکھا ہے:۔
’’اور اس وقت میکائیل مقرب فرشتہ جو تیری قوم کے فرزندوں کی حمایت کے لئے کھڑا ہے اُٹھیگا اور وہ ایسی تکلیف کا وقت ہو گا کہ ابتدائے اقوام سے اس وقت تک کبھی نہ ہوا ہو گا۔ اور اس وقت تیرے لوگوں میں سے ہر ایک جس کا نام کتاب میں لکھا ہو گا رہائی پائیگا۔‘‘
غرض میکال کا ذکر کر کے مسلمانوں کو اس کے ساتھ دشمنی کرنے سے روکا ہے اور بتایا ہے کہ ایسا نہ ہو تم ضد میں آکر اپنا نقصان کر لو۔ اور یہود کے مقابلہ میں میکال سے دشمنی کرنے لگو۔
فَاِنَّ اللّٰہَ عَدُ وّ’‘لَّلْکٰفِرِیْنَ میں ضمیر کی بجائے اللہ تعالیٰ کا ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ ضمیر کے استعمال سے یہ خطرہ تھا کہ لوگ اس کا مرجع میکال کو نہ قرار دے دیں۔ پس ضمیر کی بجائے اللہ تعالیٰ کا نام لے کر بتایا کہ اگر تم جبریل کو بُرا بھلا کہو گے اور اپنی اس
وَلَقَدْاَنْزَلْنَآ
اِلَّا الْفٰسِقُوْنَO
عادت کو ترک نہیں کرو گے تو پھر خدا بھی تمہارا دشمن ہو جائیگا۔ اور تمہاری ناکامی و نامرادی میں کوئی شبہ نہیں رہیگا۔
۱۷؎ تفسیر:۔ عیسائی لوگ اس سورۃ کی آیت وَقَالَ الَّذیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ لَوْلَایُکَلِّمُنَا اللّٰہُ اَوْتَاْتِیْنَا اٰیَۃ’‘(ع۱۴) سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ کیوں ہم سے براہ راست اللہ تعالیٰ بات نہیں کرتا؟ یا کیوں ہمارے پاس تُو کوئی نشان نہیں لاتا۔ اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے کوئی معجزہ نہیں دکھایا لیکن یہ عجیب بات ہے کہ حضرت عیٰسی علیہ السلام کے لئے بیّنٰت کا لفظ آجائے جیسا کہ پچھلے رکوع میں ہی آچکا ہے تو وہ اِس سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ مسیحؑ نبی نہیں تھا بلکہ نبیوں سے بالا ہستی تھی۔ مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے وہی الفاظ آجائیں تو نہایت خاموشی سے گذر جاتے ہیں۔ بلکہ کفار کے مطالبہ کو پیش کر کے کہتے ہیں کہ چونکہ کفار یہ کہا کرتے تھے کہ ہمیں آیات نہیں دکھائی جاتیں اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی نشان نہیں دکھایا۔ حالانکہ اگر کفار کے آیات مانگنے سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوئی معجزہ نہیں دیا گیا تو پھر یہی اعتراض حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی پڑ سکتا ہے۔ اور اُن کے متعلق بھی یہی کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے کوئی معجزہ نہیں دکھایا۔ چنانچہ متی باب ۱۲ آیت ۳۸،۳۹ میں لکھا ہے کہ:۔
’’تب بعضے فقیہیوں اور فریسیوں نے جواب میں کہا۔ کہ اے اُستاد ہم تجھ سے ایک نشان دیکھنا چاہتے ہیں۔ اُس نے انہیں جواب دیا اور کہا کہ اس زمانہ کے بد اور حرامکار لوگ نشان ڈھونڈتے ہیں پر یونس بنی کے نشان کے سوا کوئی نشان اُنہیں دکھایا نہ جائیگا۔‘‘
اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اُس وقت تک جب آپ نے یہود کو یہ جواب دیا تھا کوئی معجزہ نہیں دکھایا تھا۔ اور پھر اس جواب سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ساری عمر یہود کو کوئی نشان نہیں دکھایا کیونکہ یونس بنی سے مماثلت کا نشان وہ ہے جو اُن کی موت کے وقت ظاہر ہوا۔اور یہود کا سوال یہ تھا کہ ہمیں اب کوئی نشان دکھایا جائے ۔ مگر جب اُن سے کوئی نشان طلب کیا گیا تو انہوں نے بقولِ انجیل یہ کہا کہ اس زمانہ کے بد اور حرامکار لوگوں کو کوئی نشان نہیں دکھایا جائیگا۔ گویا انہوں نے دشمن کے مقابلہ میں اپنے عجز کا اقرار کر لیا۔ اور کہا کہ اُن کو سوائے یونس نبی کے معجزہ کے اور کوئی معجزہ نہیں دکھایا جائیگا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے انہوں نے کوئی معجزہ نہیں دکھایا تھا اور آئندہ کے لئے بھی صرف ایک نشان کا انہوں نے وعدہ کیا مگر یہ وعدہ بھی غلط ہو گیا۔ کیونکہ عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام صلیب پر مر گئے تھے۔ اور مر کر ہی وہ قبر میں گئے تھے۔ حالانکہ یونس علیہ السلام سمندر میں گرے تو زندہ رہے ۔ پھر مچھلی نے اُن کو نگلا تب بھی وہ زندہ رہے ۔ اور پھر اس کے پیٹ میں سے بھی زندہ ہی نکلے۔ مگر مسیح علیہ السلام تو اُن کے نزدیک صلیب پر ہی مر گئے تھے۔ گویا ایک ہی معجزہ جس کے دکھانے کا انہوں نے وعدہ
اَوَ کُلَّمَا
لَایُؤْمِنُوْنَo
کیا تھا۔ اُس کے متعلق مسیحیوں نے کہہ دیا کہ وہ نہیں دکھایا گیا۔ اور اس طرح انہوں نے ثابت کر دیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے کوئی نشان نہیں دیکھایا۔
مگر اس کے مقابلہ میں قرآن کریم بتاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بڑی کثرت کے ساتھ معجزات دیئے گئے تھے۔ عیسائی یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف جو معجزات منسوب کئے جاتے ہیں انہیں ہم معجزہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہو سکتے مگر یہ کہنا کہ قرآن کریم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے معجزات کامنکر ہے حد درجہ کا ظلم ہے۔ قرآن کریم نہایت واضح الفاظ میں اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بڑے بڑے معجزات دیئے گئے تھے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ اٰیٰتٍ م یَیِّنٰتٍ یعنی ہم نے یقینا تجھ پر کھلے کھلے نشانات نازل کئے ہیں۔ اس جگہ آیت بینات سے وہ تمام نشانات مراد ہیں جو رکریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت ثابت کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ظاہر فرمائے اور جن کی نظیر نہ موسی ؑ کے نشانوں میں مل سکتی ہے اور نہ عیٰسی ؑ کے نشانوں میں۔ مگر فرمایا۔ وَمَا یَکْفُرُ بِھَآ اِلَّا الْفٰسِقُوْنَ باوجود اِس کے کہ نشانات الہٰیہ کی بارش برس رہی ہے پھر بھی اطاعت سے نکل جانے والے لوگ انکار پر کمر بستہ ہیں۔ مگر اُن کا انکار اُنہیں کیا فائدہ دے سکتا ہے ۔ جس طرح پہلے نبیوں کے منکر تباہ ہوئے اُسی طرح یہ بھی تباہ ہوں گے۔ اور اللہ تعالیٰ اُس سکیم کو پورا کر کے رہیگا جس کے لئے وہ متواتر اپنے نبیوں سے ہر زمانہ میں پیشگوئیوں کرواتا چلا آیا ہے۔
۱۸؎ تفسیر:۔ فرماتا ہے۔ ہر نبی کے وقت لوگ عہد و پیمان کرتے ہیں۔ مگر ابھی زیادہ عرصہ نہیں گذرتا کہ انہیں میں سے کچھ لوگ اُس عہد کو پسِ پُشت پھینک دیتے ہیں۔ اور ان کا حال پہلے سے بھی بدتر ہو جاتا ہے۔ یہ مرض صرف یہود ہی میں نہیں بلکہ تمام اقوام اس مرض میں شریک ہیں۔ ہر قوم میں ایسے لوگ ہیں جن میں عہد و پیمان کو پسِ پشت پھینک دینے کا مرض پایا جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ یہ مرض کبھی دُور بھی ہو گا یا نہیں۔ نبی کا آنا کوئی معمولی بات نہیں ہوتی۔ اُس وقت آسمان و زمین کے ذرّہ ذرّہ میں ایک ہیجان پایا جاتا ہے اور جس طرح ایک عورت کو بچہ جننے کے وقت دردزِہ کی تکلیف ہوتی ہے اُسی طرح نبی کے آنے کے وقت زمین و آسمان کے ذرّہ ذرّہ میں درد زِہ کی سی کیفیت ہوتی ہے۔ اُس کے صداقت ثابت کرنے کے لئے کہیں زلزلے آتے ہیں۔ کہیں لڑائیاں ہوتی ہیں۔ کہیں ستارے ٹوٹتے ہیں ۔کہیں بیماریاں پڑتی ہیں کہیں قحط آتے ہیں۔ غرض سارے عالم میں ایک ہیجان پیدا ہو جاتا ہے۔ اور ایسی دردزِہ ہوتی ہے کہ ساری دنیا پر موت کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ آخر درد زِہ کی اِس کیفیت کے بعد نیچر میں ایک خوبصورت بچہ پیدا ہوتا ہے جس کی غوروپرداخت شروع ہو جاتی ہے۔ مگر ابھی زیادہ عرصہ نہیں گذرتا کہ کچھ لوگ فتنہ و فساد اور شرارت پر کمر بستہ ہو جاتے ہیں۔ اور شیطان پھر اپنا سر اُٹھانا شروع کر دیتا ہے۔ اس قسم کے شیطانی عنصر کی علامت یہ ہوتی ہے کہ
وَلَمَّا جَآ ئَ ھُمْ

لَایَعْلَمُوْنَo
اَکْثَرُ ھُمْ لَاْ یُؤْ مِنُوْنَ۔ اُن میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو حقیقی ایمان سے محروم ہوتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ دوسروں کو بھی بے ایمان بنا دیں۔ اور اُس مقصد کو باطل کر دیں جس کے لئے خدا تعالیٰ نے اپنا نبی بھیجا تھا۔
۱۹؎ تفسیر:۔ فرماتا ہے کہ خداتعالیٰ کا بلاوا آتا ہے تو ایک فریق اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لیتا ہے۔ اور خدا تعالیٰ کی آواز کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتا۔حالانکہ خدا کا بلاوا کوئی معمولی چیز نہیں۔ اگر ایک معمولی افسر کا بھی بلاوا آجائے تو بسا اوقات انسان پھولا نہیں سماتا۔ مگر خداتعالیٰ کا بلاوا آتا ہے تو وہ پیٹھ پھیر کر چلا جاتا ہے۔ حالانکہ اگر دل میں نورِ ایمان ہو تو اس آواز کو سُنکر انسان پر شادی مرگ کی سی کیفیت طاری ہو جانی چاہیے۔ دنیا کے اعزازاس کے مقابلہ میں کیا چیز ہیں؟ خدا تعالیٰ خود بندوں کو یاد کرتا ہے۔ اور اپنا نبی اُن میں بھیجتا ہے مگر لوگ ایسے بیوقوف ہوتے ہیں کہ وہ اسے کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے۔ حالانکہ اُس آواز پر لبیک کہنا اُن کے لئے فخر کا موجب ہوتا ہے۔ اِسی طرح یہود کو تو خوشی منانی چاہیے تھی کہ ہماری کتابوں کی سچائی ظاہر ہو رہی ہے اور یہ نبی اُن کی کتابوں اور بزرگوںکی تصدیق کرتا ہے۔ مگر وہ قوم جو غلط رویہ اختیار کر چکی ہو وہ ایسا کس طرح کر سکتی ہے!
مُصَدِّق’‘ لِّمَا مَعَھُمْ سے یہی مراد ہے کہ اِس رسول نے اپنی بعثت کے ساتھ اُن پیشگوئیوں کو پورا کر دیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کتابوں میں بیان فرمائی تھیں جو یہود کے پاس ہیں۔ گویا اس رسول کے ذریعہ اسرائیلی نبیوں کی صداقت واضح ہو رہی ہے۔ پس اس رسول پر ایمان لانا درحقیقت اُن کا اپنے سابق الہامی کلام کی تصدیق کرنا اور اُس کے حکموں کی تعمیل کرنا ہے۔ اور اگر یہ لوگ اس پر ایمان نہیں لاتے تو یہ اپنی کتاب اور اپنے نبیوں کی پیشگوئیوں کو جھٹلاتے ہیں۔ غرض محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مُصدِق ہیں موسیٰ ؑ کے۔ مُصّدِق ہیں تورات کے مُصّدِق ہیں تمام اسرائیلی نبیوں کے مگر ان معنوں میں نہیں کہ تورات اپنی موجودہ حالت میں اللہ تعالیٰ کا کلام ہے یا موسیٰ ؑ اور عیٰسی ؑ اور دوسرے نبیوں پر ایمان لانا ہی کافی ہے محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا ضروری نہیں بلکہ وہ صرف ان معنوں میں مُصّدِق ہیں کہ آپ نے اپنی بعثت سے اُن کی پیشگوئیوں کو سچا ثابت کر دیا اور موسیٰ ؑ اور عیٰسی ؑ اور دوسرے اسرائیلی نبیوں کی سچائی ظاہر ہو گئی۔ اب یہ ان لوگوں کا کام ہے کہ وہ اپنی کتاب کی لاج رکھتے ہوئے محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لے آئیں یا اسے رد کر دیں۔ مگر جیسا کہ آیت کے اگلے ٹکڑہ میں بیان کیا گیا ہے یہود نے اِن پیشگوئیوں سے کوئی فائدہ نہ اُٹھایا اور انہوں نے کتاب اللہ کو اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا۔
اس جگہ کِتٰب اللّٰہِ سے مراد تورات ہے اور اسے اپنے پیٹھ کے پیچھے پھینک دینے سے یہ مراد ہے کہ وہ اس کے ساتھ
وَ اتَّبَعُوْا مَا تَتْلُواالشَّیٰطِیْنُ








لَوْکَانُوْایَعْلَمُوْنَo
ایسی تذلیل کے ساتھ پیش آتے ہیں کہ گویا وہ اسے اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک رہے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کا انہیں ادب کرنا چاہیے تھا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی کتاب تو الگ رہی نبیوں کے کلام کی تحقیر بھی انسان کو ہلاک کر دیتی ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسریٰ کو جو تبلیغی خط لکھا تھا وہ اُس نے اپنی بیوقوفی سے پھاڑ ڈالا تھا۔ جب رسول کریمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس بات کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا۔ اس نے ہمارا کظ پھاڑا ہے خدا اس کی سلطنت کو تباہ کرے۔ چنانچہ تھوڑے ہی عرصہ کے بعد اس کی سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی۔ اگر محمدرسول اللہصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک خط کو پھاڑ کر انسان اتنی سزا کا مستحق ہو سکتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی کتاب کو اپنی پیٹھ پیچھے پھینکنے والا اور اُس کی تذلیل کرنے والا کتنی سزا کا مستحق ہو گا۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو خط پھاڑنے والے کو تباہ کر دیتا ہے تو وہ اپنے خط کی تذلیل کس طرح برداشت کر سکتا ہے۔
۲۰؎ حل لغات:۔ تَتْلُوْا:تلَاَ سے مضارع واحد مؤنث غائب کا صیغہ ہے۔تَلَاَماضی کا صیغہ ہے۔ جو مختلف معنوں میں آتا ہے۔ جن میں سے ایک معنے پیچھے چلنے کے ہوتے ہیں۔ چنانچہ تاج العروس میں تَلَوْتُہ‘ تَلْوًا کے معنے لکھے ہیں تَبِعْتُہ‘ میں نے اُس کی پیروی کی ۔ اور لکھا ہے وذَالِکَ یَکُوْنُ بِالْجِسْمِ وَتَارَۃً بِالْاِ قْتِدَائِ فِی الْحُکْمِ۔ یہ اقتدار ظاہری رنگ میں بھی ہو سکتی ہے۔ اور قتدار فی الحکم کے رنگ میں بھی ہو سکتی ہے۔ ظاہری اتباع کے معنی میں اس کا استعمال قرآن کریم میں بھی آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالقَمَرِ اِذَا تَلَا ھَا(الشمس:۳) ہم چاند کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جبکہ وہ سورج کے پیچھے آتا ہے۔اور معنوی پیروی کی مثال قرآن کریم کی یہ آیت ہے کہ اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ یَتْلُوْنَہ‘ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ(بقرہ ع۱۴ آیت ۱۲۲) یعنی وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ اس کے اسی طرح پیروی کرتے ہیں جس طرح اس کی پیروی کرنی چاہیے ۔ گویا وہ اتباع کا حق ادا کردیتے ہیں۔
عَلیٰ اور معنوں کے علاوہ فِیْ کے معنیٰ میں بھی مستعمل ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم کی آیت اِنْ کُنتُمْ عَلیٰ سَفَرٍ میں عَلیٰ بمعنیٰ فِیْ ہی استعمال ہو ا ہے۔(مغنی اللبیب جلد اول صفحہ۱۱۷)
مُلْک کے(۱) ایک معنے اَلْعَظْمَۃُ وَالسُّلْطَانُ کے ہیں یعنی غلبہ اور دبدبہ(۲) اس کے دوسرے معنی ہیں اِحْتِوَائُ الشَّیْ ئَ وَالْقُدْرَۃُ عَلَی الْاِ سْتِعْلَائِ بِہٖ یعنی کسی چیز پر کسی شخص کا قبضہ کر لینا۔اس پر حاوی ہو جانا اور اس کو اپنے منشا کے مطابق کر لینا (لسان العرب) یہ معنے بھی دبدبہ کا ہی مفہوم رکھتے ہیں(۳) اس کے تیسرے معنے مُلک کے بھی ہیں جو عام مروج ہیں۔
سَحْر: اس کے عربی میں کئی معنے ہیں۔ اول کُلُّ مَالَطُفَ مَاخَذُہ‘ وَدَقَّ۔ہر وہ بات جس کا ماخذ نہایت باریک اور دقیق ہو۔ اور جس کی اصلیت معلوم نہ ہو سکے سحر کہلاتی ہے۔ دوم فساد۔ سوم اِخْرَاجُ الْبَاطِلِ فِیْ صُوْرَۃِ الْحَقِّ۔ باطل کو سچائی کی صورت میں پیش کرنا۔ چہارم خِدَاع’‘ یعنی دھوکا۔ پنجم ملمع سازی ششم راستہ سے ہٹادینا۔ چانچہ سَحَرَہ‘ کے معنے ہوتے ہیں صَرَفَہ‘ اُسے ایک طرف کر دیا۔(اقرب الموارد)
مَلَکَیْنِ: مَلَک کے اصل معنے فرشتہ کے ہیں۔ لیکن مجازاً ملک کا لفظ نیک انسانوں پر بھی بولا جاتا ہے۔ اور چونکہ اس کی ایک قرأت مَلِکَیْن بھی آتی ہے(بحرِ محیط) اور قرأت صحیح معنوں کی مفسر ہوتی ہے اس لئے یہ دوسری قرأت اس کے صحیح معنوں کو حل کر دیتی ہے اور بتا دیتی ہے کہ اس جگہ دو فرشتے مراد نہیں بلکہ دو فرشتہ خصلت بزرگ مراد ہیں جن کو ان کی نیکی اور تقویٰ کی وجہ سے ملک قرار دیا گیا ہے۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہمَلَک کا لفظ استعارۃً اچھے اور نیک انسان پر بھی بولا جاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی نسبت آتا ہے کہ اِنْ ھٰذَا اِلَّا مَلَکْ کَرِیْم’‘(یوسف :۳۲) یعنی یہ تو ایک معزز فرشتہ ہے۔ اور مراد یہ ہے کہ بڑا بزرگ اور خوبیوں والا انسان ہے۔ مَلَک کے اس استعمال کو مدنظر رکھ کر مَلَکَیْن کے معنے یہ ہوئے کہ دو نہایت اچھے شریف اور فرشتہ خصلت بزرگ۔ اور یہی معنیٰ اس جگہ چسپاں ہوتے ہیں۔ مَلَک سے مراد فرشتہ کی بجاے انسان ہم اس لئے بھی سمجھتے ہیں کہ اس جگہ ان دونوں کا کام یہ بتایا گیا ہے کہ وہ لوگوں سے ملتے تھے اور انہیں اہم باتیں سکھاتے تھے۔ اور قرآن کریم سے ظاہر ہے کہ ملائکہ انسانوں کی طرف اس طرح نہیں بھیجے جاتے کہ وہ انسانوں میں مِل جُل کر رہیں اور انہیں پڑھائیں اور سکھائیں۔ بلکہ ہمیشہ انسان رسول ہی لوگوں کی ہدایت کے لئے مبعوث کئے جاتے رہے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ایک مقام پر فرماتا ہے۔ وَمَامَنَعَ النَّاسَ اَنْ یُّؤْ مِنُواَ اِذْ جَآئَ ھُمُ الْھُدٰٓی اِلاَّ ٓ اَنْ قَالُوْ ٓا اَبَعَثَ اللّٰہُ بَشَرًارَّ سُوْلاً(بنی اسرائیل ع۱۱آیت۹۵) یعنی لوگوںکو ہدایت کے قبول کرنے سے سوائے اس بات کے اور کسی چیز نے نہیں روکا کہ وہ کہہ دیتے ہیں کہ اگر کوئی نبی آنا تھا تو کیا آدمیوں میں سے ہی آتا؟ فرماتاہے تو انہیں جواب میں کہدے کہ لَوْکَانَ فِی الاَرْضِ مَلٰٓئِکَۃ‘ یَّمْشُوْنَ مُطْمَئِنِّیْنَ لَنَزَّ لْنَا عَلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآئِ مَلَگاً رَّسُوْلاً(بنی اسرائیل آیت۹۶) اگرزمین میں آدمیوں کی بجائے فرشتے ہوتے جو اطمینان سے چلتے پھرتے تو ہم بے شک کسی فرشتہ ہی کو رسول بنا کر بھیج دیتے۔ مگر چونکہ دنیا میں آدمی بستے ہیں اس لئے ہم بھی آدمیوں ہی کو نبی بنا کر بھیجتے ہیں۔غرض چونکہ خدا تعالیٰ نے یہ فرما دیا ہے کہ ہمیشہ آدمی ہی رسول بن کر آتے ہیں اس لئے اس جگہ بھی انسان ہی مراد ہو سکتے ہیں فرشتے نہیں۔
پھر ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ بطو واقعہ کے فرماتا ہے کہ جس قدر رسول دنیا میں گذرے ہیں وہ سب انسان ہی تھے۔ جیسا کہ فرماتا ہے وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ اِلَّارِجَالاً نُّوْحِیْٓ اِلَیْھِمْ فَاسْئَلُوْآ اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(انبیاء ع۱ آیت ۸)یعنی اے محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے تجھ سے پہلے ختنے رسول بھیجے تھے وہ سب کے سب انسان تھے جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے اور اگر تم کو اس بات کا علم نہیں تو تم ان قوموں سے جن کے پاس کلام الہٰی ہے پوچھو کہ دنیا میں انسان نبی ہو کر آتے تھے یا فرشتے! اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے وضاحت سے بتادیا ہے کہ دنیا میں کبھی بھی آزمائش یا ہدایت کے لئے ملک رسول نہیں آئے بلکہ ہمیشہ مرد رسول آتے رہے ہیں۔ اور فرشتے صرف انبیاء و اولیاء پر کلامِ الہٰی کے کر نازل ہوتے ہیںیا شاذ و نادر کے طو ر پر بعض دوسرے لوگوں کو بھی کشفی طور پر نظر آ جاتے ہیں۔ اور چونکہ اس آیت میں بتایا ہے کہ وہ دونوں ملک دنیا میں رہتے اور لوگوں کو تعلیم دیتے تھے اس لئے اس جگہ مَلَکین سے دو فرشتے نہیں بلکہ دو فرشتہ خصلت بزرگ مراد ہیں جو اپنی نیکی او ر تقویٰ کی وجہ سے تَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْ مَرُوْنَ میں شامل ہیں۔ یعنی انہیں جو بھی حکم دیا جاتا اُس پر وہ چلتے تھے۔ اور اُس کی کسی حالت میں بھی خلاف ورزی نہیں کرتے تھے۔ اور چونکہ ملائکہ کی بھی یہی صفت ہے۔ اسلئے ان کا نام بھی مَلک رکھا گیا۔
پھر اس کی ایک قرأت جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے مَلِکَیْن بھی آئی ہے۔ اس سے بھی ان معنوں کی تصدیق ہو جاتی ہے ۔ معلوم ہوتا ہے جن لوگوں کا یہ خٰال ہے کہ ھَارُوْت و مَارُوْت دو فرشتے تھے جنہوں نے بابل میں آکر لوگوں کو سحر سکھلایا اور اُن کے ایمان کی آزمائش کی وہ قرآن کریم کے مطالب سے آگا ہ نہیں۔ ورنہ جب دنیا میں فرشتے نہیں بستے تو فرشتے رسول بنکر کیوں آئیں پس یہ قطعی طور پر محال ہے کہ بجائے انسان کے فرشتے لوگوں کی ہدایت کے لئے آیا کریں۔تاریخ پڑھ کر دیکھ لو ہمیشہ رَجُل ہی نبی بن کر آیا ہے۔ نہ کبھی عورت نبی بنی ہے اور نہ ہی کبھی کوئی غیر انسان نبی ہو کر آیا ہے۔
پس یا تو اس کے یہ معنے کرنے پڑینگے کہ ھَارُوْت ومَارُوْت دونوں ملکوتی صفات انسان تھے جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کے متعلق آتا ہے کہ اِنْ ھٰذَا اِلَّا مَلَک‘ کَرِیْم’‘۔ اور یا یہ ماننا پڑیگا کہ اگر وہ واقعی فرشتے تھے تو وہ دو نبیوں پر اُترے تھے نہ کہ عام لوگوں کی طرف مبعوث ہوئے تھے کیونکہ جیسا کہ قرآن کریم کی آیت لَوْکَانَ فِی الْاَرْضِ مَلَٓا ئِکَۃ’‘ یَّمشُوْنَ مَطْمَئِنِّنَ(بنی اسرائیل ع۱۱) سے ظاہر ہے فرشتے مُطْمَئِنِّیْن کی طرف آیاکرتے ہیں یعنی ان لوگوں کی طرف جو نیک اور پاک اور خدا رسیدہ ہوں۔ بدیوں سے کلی طور پر اجتناب کرنے والے ہوں۔ ہر قسم کے رزائل سے محطوظ ہوں اور الہٰی انعامات اور برکات کے مورد ہوں۔ مُطْمَئِنِّیْن کی یہ وہ تعریف ہے جو قرآن کریم نے اس آیت میں بیان کی ہے یٰٓاَ یَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ارْجِیِیْ اِلیٰ رَبِّکِ رَاضِیَۃًمَّرْضِیَّۃًفَادْ خُلِیْ فَیْ عِبَادِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ(سورۃفجرآیت۲۸،۲۹)پس مطمئنین سے مراد وہ لوگ ہیں جو نفس مطمئنہ رکھنے والے ہوں۔ یہ مراد نہیں کہ اطمینان سے زمین میں کھاتے پیتے اور چلنے پھرتے ہوں۔ اورلڑائیوں سے اجتناب کرتے ہوں۔ اور درحقیقت ایسے ہی لوگوں پر ملائکہ کلامِ الہٰی کے کر نازل ہوتے ہیں۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ کفار پر ملائکہ نازل ہوئے ہوں اور اُنہیں اللہ تعالیٰ کے پیغامات پہنچائے گئے ہوں۔
ھَارُوْت:ھَرت سے نکلا ہے اور ھَرَت کے معنے ہیں پھاڑنا۔ پس ھَارُوْت کے معنے ہیں بہت پھاڑنے والا۔
مَارُوْت: مَرَت سے نکلا ہے جس کے معنے توڑنے کے ہیں۔ پس مَارُوْت کے معنے بہت توڑنے والا۔
فِتْنَۃ’‘: وہ آزمائش جس کے ذریعہ سے کسی انسان کی خوبی یا بُرائی معلوم کی جائے۔ اور بھلے بُرے کو پرکھا جائے۔ اور خیر و شر کا پتہ لگایا جائے۔ جیسے امتحان کے ذریعہ انسان کی خوبی یا نقص کو ظاہر کر دیا جاتا ہے۔
تفسیر:۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام مئی ۱۹۰۸ء؁ میں فوت ہوئے تھے۔ غالباً ااپ کی وفات کے ایک ماہ بعد کی بات ہے کہ مجھے الہام ہوا۔اِعْمَلُوْا اٰلَ دَاو‘دَ شُکْرًا۔ اے دائود کی نسل شکر گذاری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور اعمال بجا لائو۔ اس الہام میں اللہ تعالیٰ نے لفظ سلیمان تو استعمال نہیں فرمایا مگر آلِ دائود کہہ کر حضرت سلیمان ؑ کی بعض خصوصیات کا مجھ کو وعدہ دیا گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں اُن باتوں میں سے ایک یہ ہے بات بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت جو ہمیشہ لوگوں کے لئے اضطراب کا موجب رہی ہے مجھ پر ابتدائی زمانہ ہی میں کھول دی تھی اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس میں یہ بھی پیشگوئی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد خلافت کے مقام پر مجھ کو کھڑا کیا جائیگا اور ان مشکلات کا بھی اِس میں ذکرتھا جو میرے راستہ میں آنیوالی تھیں۔ چونکہ انسانی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ تکالیف اور اعتراضات سے گھبراتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا کہ تکالیف او ر اعتراضات کوئی بُری چیز نہیں بلکہ آلِ دائود ہونے کے لحاظ سے تمہیں اِن کا منتظر رہنا چاہیے۔ اور ان سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ آیت زیر تفسیر میں بھی حضرت سلیمان علیہ السلام کی بعض اُن مشکلات کا ذکر کیا گیا ہے جو اُن کو پیش آئیں۔ گویہ آیت ہمارے نزدیک واضح ہے لیکن اس کے متعلق پہلے مفسرین کو بہت دقتیں پیش آئیہ ہیں۔ اور آخر وہ اس کے یہ معنے کرنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ دنیا میں دو دفعہ سحر سیکھا گیا تھا۔ ایک دفعہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانہ میں شیطان آدنمیوں میں مِل جُل گئے تھے اور وہ اُن کو سحر سکھایا کرتے تھے اور دوسری دفعہ بابل میں دو فرشتے ھاروت اور ماروت خدا تعالیٰ کی طرف سے اُترے تھے اور وہ لوگوں کو سحر سکھاتے تھے۔۔ مگر وہ لوگوں کو یہ کہہ دیا کرتے تھے کہ ہمیں خدا تعالیٰ نے آزمائش کے لئے بھیجا ہے اِسی طرح جو لوگ اُن سے سحر سیکھنا چاہتے تھے اُن کو وہ یہ بھی کہہ دیا کارتے تھے کہ سحر سیکھنا کفر ہے لیکن اگر تم کفر کرنا چاہتے ہو تو ہم تم کو کفر سکھا دیتے ہیں۔ مفسرین کہتے ہیں کہ اس جگہ ان دونوں واقعات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
عوام میں اس کے متعلق عجیب عجیب کہانیاں مشہور ہیں ہم بچپن میں وہ کہانیاں سُنا کرتے تو بڑے حیران ہوتے تھے۔ اب تو شاید ہی کبھی احمدی بچوں کے کانوں میں وہ کہانیاں پڑتی ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس ایک انگوٹھی تھی جس کی برکت سے وہ سارے کام کیا کرتے تھے۔ اُس کو خاتمِ سلیمانی کہتے ہیں۔ وہ انگوٹھی شیطانوں نے کسی بہانے سے حضر ت سلیمان علیہ السلام سے لے لی جس کی وجہ سے سالہا سال تک حضرت سلیمان علیہ السلام بھٹکتے پھرے اور شیطان اُن کی صورت بن کر لوگوں پر حکومت کرتا رہا۔ ایک لمبے عرصہ کے بعد وہ انگوٹھی ایک شخص کو ملی اور اُس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو دی جس کی وجہ سے انہیں دوبارہ بادشاہت نصیب ہوئی۔
اِسی طرح ھاروت و ماروت کے متعلق بھی عوام میں یہ قصہ مشہور ہے کہ وہ دو فرشتے تھے جنہوں نے خدا تعالیٰ پر یہ اعتراض کیا تھا کہ آدمؑ والے قصہ میں فرشتوں والی بات درست نکلی کہ انہوں نے کہا تھا کہ کیا تُو ایسی مخلوق بنائیگا جو زمین میں فساد کریگی اور خون بہا ئیگی۔ اور خدا تعالیٰ نے کہا تھا کہ تم نہیںجانتے۔ مگر آخر اُن کی بات درست نکلی کہ آدمؑ کی نسل دنیا میں شیطان کے قبضہ میں چلی گئی ۔ اُن فرشتوں نے خدا تعالیٰ کو کہاکہ اگر ہم دنیا میں ہوتے تو یہ شراتیں کیوں ہوتیں۔اِس پر اللہ تعالیٰ نے ہاروت و ماروت کو دنیا میں بھیج دیا۔ اور فرمایا کہ تم دنیا میں جائو ہم دیکھیں گے تم کیسے عمل کرتے ہو۔ وہ دنیا میںآگئے اور لوگوں میں رہے۔ انکو اسم اعظم اور جادو آتا تھا۔ وہ لوگوں کو جادو سیکھاتے رہے اور خداتعالیٰ پر یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ لوگ جان بُوجھ کر کفر اختیار کر تے ہیں وہ ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیتے کہ اِس کا سیکھنا منع ہے اس سے انسان کافر ہو جاتا ہے اب جس کی مرضی ہے سیکھ لے اور جس کی مرضی ہے نہ سیکھے مگر لوگ پھر بھی سیکھ لیتے۔ وہ صرف مردوں کو سحر سکھایا کرتے تھے جس کے نتیجہ میں عورتوں سے جُدائی ہو جاتی تھی۔ اِسی دوران میں زُہرہ نامی ایک کنچنی اُن سے اسم اعظم سیکھنے کے لئے آئی۔ وہ دونوں اُس پر عاشق ہو گئے۔ چنانچہ اُن دونوں نے اُسے ایک دن شراب پلائی اور اُس کے ساتھ بدکاری میں مبتلا ہوئے۔ اِس پر خدا تعالیٰ نے اُن سے پُوچھا کہ اب بتائو اِس کی سزا میںتم دنیا میں کنوئیں میں لٹکنا چاہتے ہو یا قیامت کے دن تم کو سزا ملے چونکہ انہوں نے خدا کا عذاب دیکھا ہوا تھا اس لئے انہوں نے کہا کہ دنیا میں ہی ہمیں عذاب دیدیا جائے۔ چنانچہ بابل میں ایک اندھے کنوئیں میں گرائے گئے اور وہ اُس میں اب تک لٹکے ہوئے ہیں۔ اور زُہرہ جس نے اسم اعظم سیکھا تھا عوام کے نزدیک ستارہ بن کر آسمان پر چلی گئی۔ اُن کے نزدیک آسمان پر جو زہرہ ستارہ دکھائی دیتا ہے وہ وہی کنچنی ہے جو ہاروت و ماروت کے پاس آئی تھی۔
کشمیریوں نے تو اس کے متعلق حد ہی کر دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہاروت و ماروت کا کنوآں کشمیر میں ہے۔ گویا وہ بابل سے اُٹھ کر وہاں جا پہنچے تھے۔ اِن خرافات کو پیش کر کے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ فرشتوں نے جو اعتراض کیا تھا وہ درست نکلا۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے آدمؑ کو بھیجا۔ مگر اُس کی نسل خراب ہو گئی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے دو فرشتے بھیجے۔ مگر وہ بھی انسانوں کی وجہ سے خراب ہو گئے۔ حالانکہ اُن کا یہ نتیجہ سراسر غلط ہے۔ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں واضح الفاظ میں فرمایا ہے کہ ملائکہ سب کے سب نیک ہوتے ہیں اور اُن میں خدا تعالیٰ کی نافرمانی کا مادہ ہی نہیں پایا جاتا۔ لیکن انسانوں میں بعض بیک اور بعض بد ہوتے ہیں۔ اگر انسان خراب ہو گئے تھے تو اعتراض ہوتا ہے کہ آسمیوں کے مقابلہ میں فرشتے بھی خراب ثابت ہوئے۔اس سے تو اعتراض دور نہ ہوا بلکہ اور بھی پختہ ہو گیاکہ خدا تعالیٰ نے جن کے متعلق فرمایا تھاکہ وہ نہیں بگڑیں گے ۔انسانوں کے متعلق تو فرمایا تھا کہ اُن میںکچھ نیک اور کچھ بد ہمیشہ رہیں گے مگر فرشتوں کے متعلق تو یہ کہا گیا تھا کہ لَایَعْمَوْنَ اللّٰہَ مَآاَمَرَھُمْ دَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ(تحریم آیت۷) انکو جو حکم دیا جاتاہے اُس کی وہ خلاف ورزی نہیں کرتے بلکہ جو اُن کو کہا جاتا ہے وہی کچھ کرتے ہیں مگر اس قصّہ سے تو معلوم ہوتا ہے کہ ملائکہ خدا تعا لیٰ کے صریح احکام کی نا فرمانیاں کرتے ہیں اور کنچنی اُن کے مقابلہ میں زُہرہ بن جاتی ہے۔اور وہ سزا کے طور پر کنویں میں لٹکائے جاتے ہیں بلکہ بعض نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ہم نے خود ان کو بابل کے کنویں میں لٹکے ہوئے دیکھا ہے۔اور اُن کی زیارت کی ہے مگر یہ سب خرافات اور واہیات قصے ہیں ۔میرے نزدیک یہ کہنا کہ دو فرشتے لوگوں کو جادو سکھاتے تھے ۔اورحضرت سلیمان علیہٰ لسلام بھی جادو جانتے تھے اور لوگوں کو سحرسکھاتے تھے بالکل غلط ہے۔کیونکہ اس سے انبیاء اور ملائکہ دونوں پر اعتراض پڑتا ہے۔اور پھر یہ بات تاریخ کے بھی لاکل خلاف ہے۔اس قسم کا سحر کوئی ہے ہی نہیں ۔ممریزم بالکل اور چیز ہے۔ مگر یہ اِدھر کچھ پھونکا اور اُدھر کوئی عجیب چیز بن گئی باکل غلط بات ہے۔ایسا کبھی نہیں ہوتا۔
اصل بات یہ ہے کہ آیت زیرِتفسیر میں رسول کریم صلی اﷲعلیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ کے یہود کی بعض خفیہ سازشوں اور شرارتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔اور بتایا گیا ہے کہ وہ آنحضرت ﷺکے خلاف ویسا ہی طریق اختیار کر رہے ہیں جیسے حضرت سلیمان ؑکے ایام ِحکومت میں اُن کے مخالف کیا کرتے تھے اور جن کے ذریعہ سے وہ آپ کی حکومت کو توڑ دینا چاہتے تھے۔اور بتایا گیا ہے کہ یہود آنحضرت ﷺکے مقابل پر ان سازشوں میں ہرگز کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔
اگر مفسّرین کے بیان کردہ قصّے درست ہوں جن میں سے زدائدئیں چھوڑ دیئے ہیںتو اس کا جوڑ پچھلی آیات سے کوئی نہیں بنتا۔اور یہ آیت بے تعلق ہو جاتی ہے۔لیکن میرے اس مضمون سے جو کہ اﷲتعالیٰ نے مجھ پر کھولا ہے اس کا جوڑ پچھلے آیات سے قائم رہتا ہے اورملائکہ پر بھی اعتراض نہیں پڑتا۔اور حضرت سلیمان علیہٰ لسلام کے زمانہ کے واقعات کے خلاف بھی کوئی بات نہیں رہتی۔اور یہ آیت رسول کریم ﷺ کی صداقت کا ایک بہت بڑا ثبوت بن جاتی ہے۔
میں بتا چکا ہوں کہ جو قصّے اس آیت کے متعلق لوگوں میں مشہور ہیں وہ اوّل تو بے ثبوت ہیں ۔دوم وہ ایسے لغو ہیں کہ عقل ان کو برداشت نہیں کر سکتی۔اور قرآن کریم کی عبارتیںانکو رد کرتی ہیں ۔اب میں یہ بتانا چاہتا ہوںکہ اِس کے معنیٰ کیا ہیں اور اس لئے کہ لوگ آسانی سے اس کے معنیٰ سمجھ سکیں میں وہ دماغی اور فکری عمل جو اس نتیجہ تک پہنچنے کے لئے طبعی طور پر کام کرتا ہے مدِّنظر رکھونگااور اس کے مطابق تشریح اور تفسیر کرونگا۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں تین وقت اعمال کا ذکر ہے۔وہ عمل جو تینوں دفعہ ہواکوئی خفیہ بات یا سازش ہے۔یہ عمل مندرجہ ذیل تین مواقع پر ہوا ہے:۔
اوّل . حضرت سلیمان علیہ السلام کے وقت میں
دوم . بابل میں
سوم . رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں
حضرت سلیمان علیہ السلام کے وقت اس کا وقوع وَاتَّبَعُوْامَا تَتْلُو الشَّیَطِیْنُ عَلٰی مُلْکِ سُلِیْمَانَ کے الفاظ سے ثابت ہے۔اور بابل کے موقع کے لئے مَااُنْزِلَ عَلَی الْمَلَکَیْنِ بِبَابِلَ ھَارُوْتَ وَمَارُوْتَ کے الفاظ شاہد ہیں۔ اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں اس کا صدور وَیَتَعَلَمُوْنَ مَایُضُرُّھُمْ وَلَایَنْفَعُہُمْ سے ثابت ہوتا ہے۔بلکہ دوسری آیت وَلَوْاَنَّھُمْ اٰمَنُوْا وَاتَّقُوْا سے بھی اس اک ثبوت ملتا ہے۔ غرض آیت کے یہ تین حصے اس عمل کے تین دفعہ صادر ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔
چوتھی بات اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوتی ہے کہ تینوں دفعہ اس عمل کا صدور یہود سے ہوا تھا۔یہ چار باتیں ہمارے معنیٰ کو محدود کر دیتی ہیں۔پس وہی معنے صحیح ہونگے جو مذکورہ بالا چار باتیں اپنی اندر رکھتے ہوں یعنی وہی معنیٰ ان آیات کے مطابق ہو سکتے ہیں جو
(۱) ایسے عمل پر دلالت کرتے ہوںجو تین دفعہ صادر ہوا ہو۔
(۲) جو کسی ایسے عمل پر دلالت کرتے ہوںجو خفیہ سازش یا خفیہ سوسائٹی کے ساتھ تعلق رکھتے ہوں۔
(۳) جو بات ثابت کرتے ہوں کہ اُن کا ایک صہ ۱ وقوع حضرت سلیمان علیہ السلام کے وقت ۔دوسرا بابل میں اور تیسرا رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے وقت ہوا۔
(۴) جو معنی یہ بتائیں کہ تینوں واقعات یہود کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ۔
پس جو معنے اس کے خلاف ہوں گے آیت ان کو ردّ کردیگی ۔اسی طرح جو معنے مفسّرین نے بیان کئے ہیں لازماََ اُن میں بھی ان چاروں پہلو ؤں میں سے کوئی پہلو ضرور مفقود ہو گا یعنی
(۱) یا تو یہود کا ان سے تعلق نا ہوگا۔
(۲) یا وہ تین دفعہ نہ ہوا ہو گا۔
(۳) یا ان تینوں موقعوں پر نہ ہوا ہو گا۔
(۴) یا اس میں خفیہ سازش ا ورسوسائیٹوں کا ذکر نہ ہو گا۔
اب ہم دیکھتے ہیںکہ وہ کونسی بات ہے جو اِن چاروں اصول پر حاوی ہو ۔ اور پھرتین زمانوں پر حاوی ہو اور انہیں زمانوں پر حاوی ہو جن کا اس جگہ ذکر ہے ۔ ان چاروں اصولوں میں سے ایک اصل ہمیں واضح طور پر نظر آتا ہے جس پر ہم اپنی تحقیق کی بنیاد رکھ سکتے ہیں اور وہ یہ کہ یہ معنے اسی خفیہ سازش اور سوسائٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ جو مرد اور عورت کے درمیان تفریق پیدا کر دیتی ہے ۔یعنی وہاں یہ شرط پائی جاتی تھی کہ اس میں صرف مر د ہی داخل ہو سکتے ہیں عورتیں نہیں ۔ اس شرط سے ہمارے لئے تحقیقات میں بہت سی سہولت پیدا ہو جاتی ہے ۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا کوئی ایسی سوسائٹی ہے جو مرد اور عورت میں جدائی ڈالتی ہو اور آیا اس کا تعلق ان زمانوں کے ساتھ ہے ؟ سو غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں صرف ایک ہی سوسائٹی ہے ۔ جس میں مر د اور عورت میں تفریق پیدا کی جاتی ہے ۔ اور جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ تک نظر آتی ہے ۔ بلکہ آج سے پندرہ بیس سال پہلے تک بھی چلی آئی ہے۔اور وہ فری میسنز کی سوسائٹی ہے ۔ جو پنجاب میں جادو کی سوسائٹی کہلاتی ہے ۔ یہ ایک خفیہ سوسائٹی ہے ۔ جس کا اصول یہ ہے کہ عورتیں اس کی ممبر نہیں ہو سکتیں صرف مرد ہی ممبر ہو سکتے ہیں ۔ اس سے ہم اصل مضمون کے قریب ہو جاتے ہیں ۔ اور ہم اس پر اپنی تحقیق کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ کیونکہ یہ سوسائٹی مخفی بھی ہے اور پھر مردوں یہ کو اپنے اندر داخل کرتی ہے ۔ یہ امر یا د رکھنا چاہیے کہ موجودہ فری میسن سوسائٹی کا ان واقعات سے کوئی تعلق نہیں اِس میں صرف اُس فری میسن سوسائٹی کا ذکر ہے جس کا تعلق تین زمانوں سے ثابت ہو اور تاریخی واقعات سے بھی اُس کی تصدیق ہو۔
یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ کسی فیر میسن سوسائٹی کا آج تک تسلسل قائم نہیں رہا۔ کوئی چار سو سال تک رہی کوئی پانچ سو سال تک ۔کوئی بارھویں صدی میں مٹ گئی کوئی پندرھویں صدی میں قائم ہوئی اور کوئی انیسویں صدی میں قائم ہوئی ۔پس ہم کسی ایک سوسائٹی کے اصول پر قطعی بنیاد نہیں رکھ سکتے ۔کیونکہ بہت سی سوسائٹیاں قائم ہوئی اور انھوں نے پہلووں کی بعض باتیں لے لیں اور بعض ترک کر دیں۔
مگر ایک اصل میں نے یہ بھی بتایا کہ ایسی خفیہ سوسائٹی کا یہود سے تعلق ہونا چاہئیے۔ کیونکہ ان تینوں باتوں کا یہود سے تعلق ہے۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ آیا فری میسن سوسائٹی کایہود سیکوئی تعلق ہے؟
سو یاد رکھنا چاہئیے کہ جیوش انسا ئیکلوپیڈیا جلد۵ جس میں یہودیوںکے متعلق فری میسینریFreemasenary کے ماتحت اس بات کا ازالہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔کہ فری میسینوں کا یہود سے کوئی تعلق ہے۔اسی سے اس بات کاواضح طو رپر ثبوت ملتا ہے کہ یہود کا فری میسینوں سے تعلق رہا ہے۔
اوّل تو انسان اسی مضمون سے سمجھ سکتا ہیکہ اُن کا اس سوسائٹی سے تعلق رہا ہے۔چنانچہ جیوش انسا ئیکلوپیڈیامیں لکھا ہے کہ ہم تسلیم کرتے ہیںکہ فری میسین سوسائٹیوں کے اصولوں میں یہودی نشانات پائے جاتے ہیں۔اور یہ بات سوسائٹی کا ان سے تعلق کوظاہر کرتی ہے۔کیونکہ ان نشانات کا ابتدائی تعلق ان انجینیٔروں کے ساتھ ثابت ہے جن کا حضرت سلیمان علیہ السلام کے تعمیر کردہ معبد میں داخل تھا اس سے ظاہر ہے کہ اس سوسائٹی کی علامات حضرت سلیمان علیہ السلام کے پہلے تیار کردہ معبد کے انجینٔروں کی طرف منسوب کی جاتی ہیں ۔چنانچہ یہ سوسائٹی بھی تسلیم کرتی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے جب اپنا پہلا معبد بنایا۔اس وقت سے ہماری سوسائٹی کی ابتداء ہوئی۔بلکہ بعض لوگ اس سے بھی اوپر جاتے ہیں ۔اور کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت سے ہماری ابتداء ہوئی ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ ؑہمارے گرینڈ ماسٹر ہیں۔جیوش انسا ئیکلوپیڈیامیں لکھا ہے کہ ان کی روایات میں یہ بات پائی جاتی ہے کے اُن کاحورام ابیّ سے تعلق ہے جس نے مسجد بنائی تھی ۔اور کس کا ۲۔سلاطین باب۲آیت۱۳و۱۴میں اس طرح آتا ہے:۔
ــ"اور اب میں حورام ابیّ ایک ہوشیار شخص جو کہ امتیاز کرنا جانتاہے بھیجتا ہوں وہ دان کی بیٹیوںمیں سے ایک عورت کا بیٹا ہے۔پر اس کا باپ صور کا ایک شخص ہے۔وہ سونے اور روپے ا ورپیتل اور لوہے اور پتھر کا لکڑی اور ارغوانی اور آسمانی اور کتانیاور قرمزی اور ہر طرح کی نقاشی کا کام جانتا ہے۔اور ہر ایک منصوبے کو جو اس سے پوچھا جاوے اس کی ایجاد کرنے میں ماہر ہے۔وہ تیرے ہنر مندوں اور میرے مخدوم تیرے باپ داؤد کے ہنر مندوں کے ساتھ سب کا م بناوے گا۔"
فری میسینوںکی روایات کے مطابق مسجد بننے کے تین دن بعد مزدوروں نے حورام ابیّ کو قتل کر دیاتھا۔اور فری میسینوں کی رسموں میں اس کی موت کو بڑا بھاری بھید قراردیاجاتا ہے۔
مصنف کہتا ہے کہ اس کا حل یو کر سکتے ہیں کہ ابیّ لٹریچر میں جو روایات آتی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جب انجینٔروں نے کام پورا کر لیا تو ان کو اس کی وجہ سے قتل کروا دیا گیاکہ وہ مسجد کو بت خانہ نہ بنا دیں اور اس طرح اس کی تہک نہ ہو ۔ان کی روایات میں یہ آتا ہے کہ حورا م حنوک کے پاس آسمان پر بٹھا ئے۔فری میسینوں کی روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ باقی انجینّروں کو بھی قتل کر وادیا گیا تھامگر حورام آسمان پر اُٹھا لیا گیا۔مصنف کہتا ہے کہ ہماری رائے ہے کہ باقی تاریخی کتب میں اس کا ذکر نہیں آتا۔
پھر کہتا ہے کہ جو اصطلاحات ونشانات اور یہودی خیالات و روایات فری میسینوں میں پائی جاتی ہیں بالکل ممکن ہے کہ بغیر یہودیوں کے دخل کے خود انہوں نے بائبل سے نقل کر لی ہو ۔لیکن بہر حال بہت سی روایات یہود سے لی گئی ہیں ۔ اور ان کے دوست فری میسنوں کی علامات میں وہ بیان کی جاتی ہیں۔چنانچہ دو عمود JACHIN اور BRAZE کو فری میسینوں کی علامات میں خاص اہمیت دی جاتی ہے۔
فری میسن سوسائٹی کا یہود سے تعلق اس امر سے بھی ظاہر ہے کہ سکاٹ لینڈ کی فری میسنز سوسائٹی میں جو قمری مہینے اور سال استعمال کئے جاتے ہیں وہ ابتدائی یہودی زمانہ کے استعمال کئے جاتے ہیں مگر جیوش انسائیکلو پیڈیا کا مصنف اس کے متعلق کہتا ہے کہ کیا پتہ ہے کہ وہ عیسائیوں کے ذریعہ سے ان میں داخل ہو گئے ہوں ۔وہ ان اصطلاحات کی لسٹ دیتا ہے جو ان میںداخل ہیں۔اور وہ تیس چالیس لے قریب ہیں ۔اسی طرح فری میسنوں کی جو اصطلاحات ہیں ان میں حورام کا بھی نا م آتا ہے اور ساری رسوم اور اصطلاحات یہودی ہیں ۔اور انسائیکلوپیڈیا میں اسے تسلیم کیا ہے۔
فری میسنوں کی کتابوں میں یہ بھی روایت پائی جاتی ہے کہ ان کاحضرت سلیمان علیہ السلام سے مقابلہ تھا۔چنانچہ فری میسنوں کی ایک کتاب "دنیا کی خفیہ انجمنیں" ہے۔اس کی جلداوّل صہ ۱ تا ۱۰ میں لکھاہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے وقت میں ان کا ایک انجینٔر حورام تھا اس پر بلقیس عاشق ہو گئی تھی اور وہ بلقیس پر عاشق تھا ۔سلیمان ؑ کو حسد پیدا ہوا اور انہوں نے حورام کے تین نائیبوں کو جو اس کے حاسد تھے اپنے ساتھ ملا کر قتل کروا دیا اورخود بلقیس سے جبرًنکاح کر لیا۔اور یہ کہ اسی وقت سے فری میسن چلے آرہے ہیں۔اوران میں معماری کی علامت پائی جاتی ہے۔بلکہ فری میسنز ACCEPTED MASONکے معنے ہی آزاد معمار کے ہیں ۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ فری میسنز سوسائٹی سے حضرت سلیمان علیہ السلام کے دشمنوں کا گہرا تعلق تھا۔اور لوگ بھی یہ سمجھتے تھے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام اور فریمیسنوں میں دشمنی ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور بھی روایت ہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے وقت میں ایک خفیہ سوسائٹی تھی جو آپ کے خلاف کام کر رہی تھی اور وہ ایک پرانی روایت ہے جو قدیم فری میسنوں میں مشہور تھی۔اس میں بتا یا گیا ہے کہ بلقیس سے پہلے بھی حضرت سلیمان علیہ السلام کی حورام سے دشمنی تھی۔وہ بڑا عقلمند اور ذہین تھا ۔اور اسے بڑا رسوخ حاصل تھا۔حضرت سلیمان علیہ السلام کو اس کی عقل اور ذہانت پر حسد تھا ۔ انہوں نے ایک دفعہ اسے خفیہ طور پر ہلاک کرنا چاہا اور اسے ابلتے ہوئے تیل کے تیلاب میں گرا دیا۔لیکن اس کے دادا قابیل کی راح نے اس کو وہاں سے بچا لیااور ساتھ ہی اسے یہ خبر دے دی کہ آخر دشمن غالب آ جائے گا۔اسی کے مطابق حضرت سلیمان علیہ السلام نے حاسدوں کو کچھ دے دلا کر تین انجینٔروں کو قتل کروا دیا جن میں یہ بھی شامل تھا۔
اس کی نسبت یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ اس نے کچھ خفیہ علامات مقرر کی ہوئی تھیں ۔جو اس نے خود وضح کی ہوئی تھیں ۔اور اس کے اور اس کے ساتھیوں کے درمیان بطور راز کے تھیں جن کے ذریعہ وہ فوراً اکھٹے ہو جاتے تھے ۔(سِیکرٹ سوسائٹیز آف دی ورلڈ جلد۲ صہ ۱ تا صہ۱۰ ) اس کتاب سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایکسپٹڈ میسینز(Accepted Masons ) کے طریق سے پہلے تمام فری میسنز سوسائٹیوں میں وہی علامات جا رہی تھیں حورام کے وقت جاری تھیں ۔ ان میں جو نئے لوگ داخل ہوتے اور ممبر بنتے تھے ان کو کچھ خفیہ باتیں عمل کرنے کے لئے بتائی جاتی تھیں ۔اور حورام کا واقعہ بھی ان کو سنایا جاتا تھا ۔(جلد دوم صہ۱۰)یہ بھی ذکر آتا ہے کہ جب کسی کو فری میسن بناتے تھے تو اسے حورام کا قصہ کچھ زبانی سنایا جاتا تھا اور کچھ کے ڈرامے کے طور پر دکھایا جاتا تھا ۔
انسائیکلو پیڈیا برمٹینیکا میں یہ ذکر ہے ۔ کہ حورام کا ذکر فری میسن کی علامات میںدوہرایا جاتا تھا۔ چنانچہ لوگوں نے یہ بھی کوشش کی کہ یہ پتہ لگ جائے کہ وہ علامات کیا ہیں ۔ مگر وہ علامتیں اُس کے گلے میں بندھی ہوئی تھیں ۔ جب اسے حضرت سلیمان ؑ نے قتل کیا ۔ تو انہیں اتار کر پھینک دیا ۔
اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض انجمنیں حضرت سلیمان علیہ السلام کے وقت موجود تھیں اور وہ آپ کی دشمن تھیں اور آپ کے خلاف خفیہ سازشیں کیاکرتی تھیںاور کہا جاتا تھا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اُن کے لیڈر کو مردا دیا تھا ۔ اُس کے بعض متبع اُسے اِتنا مقدس انسان سمجھتے تھے کہ وہ کہتے تھے کہ وہ مرا نہیں بلکہ آسمان پر اُٹھا لیا گیا ہے ۔ پس یہ لوگ یہودی تھے ۔اِن میں یہود کی علامات اور رسوم کا پایا جانا اور اُن کا حورام کی طرف منسوب کرنا اور حورام کااُن کے نزدیک آسمان پر اُٹھا یا جانا بتاتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے وقت یقینا ایک خفیہ سوسائٹی تھی جس کا مقصد حضرت سلیمان علیہ السلام کو نقصان پہچانا تھا ۔
اِس کے بعد ہم بائیبل کو دیکھتے ہیں تو اس میں بھی پتہ لگتا ہے کہ کچھ سوسائٹیاں حضرت سلیمان علیہ السلام کے خلاف تھیں گو اُن میں حورام کا نام نہیں آتا مگر بائیبل سے پتہ ضرور لگتا ہے کہ یہود کو حضرت سلیمان علیہ السلام سے دشمنی تھی اور وہ انہیں کافر کہتے تھے اور اُن کی طرف وہی بات منسوب کرتے تھے جس کا قرآن کی آیات میں ذکر آتا ہے ۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کے خلاف خفیہ سازشوں اور منصوبوں اور دھوکا دینے والے اشارات میں مخالفانہ کاروائیاں کرنے والے لوگوں کا جو ذکر قرآن مجید کی اس آیت میں ہے اس کے متعلق (نمبر ۱ سلاطین باب ۱۱ آیت ۳،۴)سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام پر بُت پرستی کا الزام لگایا جاتا تھااور کہا جاتاتھا کہ آپ مشرک ہو گئے ہیں اور توحید کو ترک کر دیا ہے ۔
چنانچہ لکھا ہے :۔
’’ اُس کی سات سو جو رویں بیگمات تھیں اور تین سو حرمیں اور اُس کی جورؤں نے اُس کے دل کو پھیرا ۔کیونکہ ایسا ہوا کہ جب سلیمان بوڑھا ہوا تو اُس کی جورؤں نے اُس کے دل کو غیر معبودوں کی طرف مائل کیا اور اُس کا دل خدا وند اپنے خدا کی طرف کامل نہ تھا جیسا اس کے باپ دادوں کا دل تھا ‘‘۔
اسی طرح نمبر ۱ سلاطین باب ۱۱ آیت ۹،۱۰ میں لکھا ہے :۔
’’اور خدا وند سلیمان سے ناراض ہوا کیونکہ اُس کا دل خدا وند اسرائیل کے خدا سے پھر گیا تھاجس نے اُسے دوبارہ دکھائی دے کر اُس کو اس بات کا حکم دیا تھا کہ وہ غیر معبودوں کی پیروی نہ کرے پر اُس نے وہ بات نہ مانی جس کا حکم خدا وند نے دیا تھا ‘‘۔
اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی حضرت سلیمان علیہ اسلام کو کافر کہتے تھے اور آپ کی نسبت بُت پرستی کا الزام لگایا جاتا تھا اور لوگوں میں اُسے پھیلا یا جاتاتھا ۔ عَلٰی مُلْکِ سُلَیْمٰنَ کے الفاظ سے بھی معلوم ہوتا ہے ۔ کہ اُس وقت اُن کو کافر کہنے کا عام رواج تھا ۔
دوسری بات جس کا وہاں سے پتہ لگتا ہے یہ ہے کہ جو لوگ بظاہر ان کے ماتحت تھے وہی ان کے خلاف فساد کرتے تھے ۔ حضرت سلیمان علیہ اسلام چونکہ بقول بائیبل مشرک ہو گئے تھے اس لئے خدا نے اُن کے تین دشمن کھڑے کر دئیے تھے ۔
اول : اددمی ُہد ُہد
دوم : الیدع کا بیٹا رزون و مشق کا بادشاہ ۔
سوم : یربعام جسے اخیاہ نبی نے حضرت سلیمان علیہ اسلام کی مخالفت پر بھارا۔
چنانچہ نمبر ۱ سلاطین باب ۱۱ آیت ۱۴،۲۳،۲۶ میں لکھا ہے :۔
’’سو خدا نے ادومی ہد ہد کو ابھارا کہ سلیمان کو دشمن ہو ۔‘‘
یہ ہد ہد ادومی بادشاہوں کی نسل میں سے تھا اور حضرت داؤد ؑ کے وقت مصر بھاگ گیا تھا مگر حضرت سلیمان علیہ اسلام کے تخت نشین ہونے پر پھر واپس آگیا ۔اور اُس نے آپ کے خلاف سازشیں شروع کر دیں ۔
پھر لکھا ہے :۔
’’اور خدا نے الیدع کے بیٹے رزون کو بھی اُبھارا کہ سلیمان کا مخالف ہو۔ ...........اور اُس نے اپنے پاس لوگ جمع کر لئے اور جب داؤد نے ضوباہ والوں کو قتل کیا تو وہ ایک فوج کا سردار ہو گیا ۔ اور و ہ دمشق جا کر وہیں رہنے اور دمشق میں سلطنت کرنے لگے۔‘‘
’’اور صرید ہ کے افرائیمی نباط کا بیٹا یر بعام جو سلیمان کا ملازم تھا اور جس کی ماں کا نام جو بیوہ تھی صروعہ تھا اُس نے بھی بادشاہ کے خلاف اپنا ہاتھ اٹھایا ۔‘‘
اِن حوالوں سے ظاہر ہے کہ آپ کے خلاف کئی اندرونی دشمن پیدا ہو گئے تھے ۔اسی طرح یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی طرف سے آپ کے خلاف خفیہ سازشیں بھی ہوتی تھیں ۔ چنانچہ نمبر ۲ تاریخ باب ۱۰ آیت ۳،۴میں لکھا ہے :۔
’’اور ایسا ہوا کہ جب نباط کے بیٹے یربعام نے جو مصر میں تھا کہ وہاں سلیمان بادشاہ کے آگے سے نکل بھاگاتھا یہ سُنا تو یربعام مصر سے پھر آیا اور لوگوں نے بھیج کر اُسے بلایا ۔سو یربعام اور سارے اسرائیلی آئے اور رحبعام سے ہمکلام ہوئے اور بولے کہ تیرے باپ نے ہم پر بھاری جوا رکھا ۔ سو اب تو اس سنگین خدمت کو اور اس بھاری جوئے کو جو تیرے باپ نے ہم پر رکھا کچھ ہلکا کر تو ہم تیری خدمت کریں گے‘‘۔
اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے سات ہی بنی اسرائیل نے آپ کے خطرناک دشمن یربعام کو مصر سے بُلا بھیجا اور آپ کے بیٹے کے تخت نشین ہونے سے پہلے ہی اس سے بعض مطالبات منظور رکروانے چاہے اور اپنی اطاعت کو اُن مطالبات کی منظوری کے ساتھ مشروط قرار دیا ۔
بائیبل سے ایک اور بات یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ اُن میں خفیہ علامتیں بھی مقرر تھیں ۔ چنانچہ نمبر ۱ سلاطین باب ۱۱ آیت ۲۹ تا ۳۲ میں لکھا ہے :۔
’’اور ایسا ہو اکہ یربعام ایک بار یروشلم سے باہر گیا ۔ اس وقت سیلانی اخیاہ نبی نے اُسے راہ میں پایا۔ اور وہ ایک نئی چادر اوڑھے ہوئے تھا ۔یہ دونوں میدان میں اکیلے تھے ۔سو اخیاہ نے اُس نئی چادر کو جو اس پر تھی ۔پکڑ کے پھاڑا اور بارہ ٹکڑے کئے ۔ اور یربعام کو کہا کہ دس ٹکڑے تو لے کہ خداوند اسرائیل کا خدا یوں فرماتا ہے کہ دیکھ میں سلیمان کے ہاتھ سے سلطنت چاک کر لونگا اور دس فرقے تجھے دونگا ۔مگر ایک فرقہ میرے بندے داؤد کی خاطر اور یروشلم کے لئے ہاں اس شہر کیلئے جسے میں نے بنی اسرائیل کے سارے فرقوں کے شہروں میں سے چُن لیا ہے اُسے دیا جائیگا ۔ ‘‘
اِس حوالہ میں خدا تعالیٰ کا نام تو معلوم ہوتا ہے یہود بعد میں لے آئے ہیں ۔اصل حقیقت یہ ہے کہ یربعام ایک دلیر آدمی تھا ۔بلکہ یوں کہنا چاہئیے کہ باڈی گارڈ کا افسر تھا اور حاجب کا عہدہ رکھتا تھا۔ اس لئے ایسے شخص کو ساتھ ملایا گیا ۔اور تصویر ی زبان میں بات کرنا اُس میلان کو ظاہر کرتا ہے جو فری میسنوں کی طرف ان لوگوں میں پایا جاتا تھا ۔ چنانچہ اس غرض کیلئے چادر کے بارہ ٹکڑے کئے گئے ۔ کیونکہ بنی اسرائیل کے بارہ فرقے تھے اور دس ٹکڑے یربعام کو دئیے گئے ۔اُسے دس ٹکڑے دینے کا مطلب یہ تھا کہ بنی اسرائیل کی دس قومیں تیرے ساتھ ہیں تم حضرت سلیمان علیہ السلام کے خلاف بغاوت کردو۔چنانچہ اُس کے فوراً بعد بغاوت ہو گئی ۔ اور اُن دس فرقوں نے اُسے اپنا بادشاہ بنا لیا ۔ اور قرآن کریم کے بیان کے مطابق یا تو حضرت سلیمان علیہ السلام پر کفر کا الزام لگایا جاتا تھا یا پھر یربعام نے سلطنت سنبھالتے ہی مختلف بتوں کیلئے مندر بنوانے شروع کر دئیے ۔ اور شرک میں مبتلا ہو گیا۔ چنانچہ نمبر ۲ تواریخ باب ۱۱ آیت ۱۵ میں اس کے متعلق یوں لکھا ہے :۔
’’ اور اُس نے اپنے واسطے اونچے مکانوں کے اور شیاطین کے اور اُن بچھڑوں کے لئے جو اُس نے بنائے تھے کاہنوں کو مقرر کیا‘‘۔
اِن حوالوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اُس زمانہ میں لوگ تصویری زبان میں باتیں کیا کرتے تھے ۔ اور ان کو یہ سبق دیا گیا تھا کہ تم اشارات میں اپنا کام کرو تاکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو اس کا پتہ نہ لگے ۔ غرض لالچ دینا عہدوں پر مقرر کرنا ۔رشوت دینا ۔ خفیہ سازشیں کرنا اور اشاروں میں باتیں کرنا ان کاکام تھا۔
غَرض وَاتَّبَعُوْا مَا تَتْلُو الشَّیٰطِیْنُ عَلٰی مُلْکِ سُلَیْمٰنَ وَمَا کَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَلٰکِنَّ الشَّطِیْنَ کَفَرُ دْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ کی آیات میں اُن ساری سازشوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو یہود حضرت سلیمان علیہ السلام کے خلاف کرتے تھے ۔ اور بتایا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ کے یہود بھی ویسی ہی شراتیں کر رہے ہیں ۔لیکن وہ اپنی سازشوں میں ناکام رہیں گے ۔
دوسرا موقع قرآن کریم نے بابل کا بیان کیا ہے ۔اُس وقت بھی بنی اسرائیل نے خفیہ سوسائیٹیوں سے کام لیا تھا۔ لیکن اُس وقت اُن کا سردار اور لیڈر خدا تعالیٰ کے دو نبی تھے جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اُن کی رہائی کیلئے کوشش کر رہے تھے ۔اور اُن کا کام بنی اسرائیل کے دشمنوں کو توڑنا اور پھاڑنا تھا ۔یہ جن لوگوں کو اس مقصد کیلئے اپنے ساتھ ملاتے تھے ۔انہیں کہہ دیا کرتے تھے کہ دیکھو ہم خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک آزمائش اور امتحان ہیں۔ ہمارے ذریعہ سے نیکوں اور بدوں میں فرق کیا جائیگا اِس لئے ہماری بات کا انکار نہ کر نا کہ یہ کفر ہے ۔ اور وہ اپنے اس ارادہ اور سکیم سے عورتوں کو آگا ہ نہ کرتے تھے اور نہ اُن کو اپنے ساتھ ملاتے تھے یہ ایک قدیم رسم ہے جو اکثر خفیہ سوسائیٹیوں میں چلی آتی ہے کہ وہ عورتوں کو اپنے اندر شامل نہیں کرتیں ۔بنی سرائیل اور اُن کے وہ نبی جن کا نام اِس آیت میں ہاروت وماروت رکھا گیا ہے اپنی اِن خفیہ تدابیر سے ان لوگوں کو نقصان پہنچاتے تھے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے انہیں کہا تھا کہ ان کے خلاف کوشش کرواور انہیں نقصان پہنچاؤ۔پس اب دوسری بات یہ رہ جاتی ہے کہ ہم یہ معلوم کریں کہ بابل میں کیا واقعہ ہوا تھا ۔
بابل کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے چند سو سال بعد بابل کا بادشاہ بخت نصر یہودیوں کو یروشلم سے پکڑ کر اور ان کو قیدی بنا کر اپنے ساتھ لے گیا تھا ۔ یہ بارہ قبیلے تھے جن می سے دس کو وہ قید کر کے لے گیا اور دو کو چھوڑ گیا۔ (یہ دس قبیلے پھیل کر کشمیر وغیرہ کی طرف آگئے )بنی اسرائیل کے جلاوطن ہونے کی وجہ یہ تھی کہ یرمیاہ نبی نے یہ خبر دی تھی کہ اگر تم سبت کا احترام نہ کرو گے تو تم پر تباہی آجائے گی ۔چنانچہ اس کی وجہ سے وہ قید ہو کر بابل چلے گئے ۔ بابل میں ان کے رہتے ہوئے عرصہ گذر گیا مگر اُن کو نجات نہ ملی ۔ آخر انبیاء بنی اسرائیل کے ذریعہ یہ پیشگوئیاں ہوئیں کہ وہ واپس اپنے مرکز میں لے جائے جائیں گے ۔چنانچہ ان پیشگوئیوں کے مطابق ستر سال کے بعد میداورفارس کاایک بادشاہ بنا جسے خورس اور انگریزی میں سائرس کہتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان کئے کہ اُس کی بابل کے بادشاہ کے ساتھ لڑائی ہو گئی ۔ چنانچہ یہ بادشاہ طاقت پکڑ رہا تھا اس لئے بابل اور دوسری حکومتوں نے اُس پر حملہ کرنا چاہا ۔مگر یہ اُن سے زیادہ دانہ نکلا ۔ اُس نے ان کو ایک ایک کر کے مارنا شروع کر دیا ۔ اور بابل پر بھی حملہ کر دیا ۔ھاروت و ماروت جو دو نبی تھے انہوں نے اُس کے ساتھ یہ معاہدہ کیا کہ وہ باہر سے حملہ کرے تو یہود اندر سے اُس کی مدد کریں گے ۔اور اُس نے ان کے ساتھ یہ وعدہ کیا کہ بابل فتح ہونے پر تمہیں واپس یروشلم جانے کی اجازت ہو گی ۔بلکہ میں تمہیں معبد کی تعمیر کیلئے بہت کچھ مدد بھی دو نگا ۔چنانچہ اُس نے بابل پر حملہ کیا اور اندر سے یہود نے اُن کی مدد کی اور بابل فتح ہو گیا۔ اور انہیں واپس اپنے وطن جانے کی اجازت ملی ۔ اور عزرا نبی کے زمانہ میں یروشلم پھر آباد ہو ا۔اور خورس نے بہت سا سامان اُن کو اپنے پاس سے دیا جس میں لکڑی وغیرہ بھی تھی ۔چنانچہ ہسٹو رینیز ہسٹری آف دی ورلڈ جلد ۲ صفحہ ۱۲۶ میں یہ ذکر پایا جاتا ہے کہ یہود نے خورس سے خفیہ معاہد ہ کیا تھا اور اُس کے حملہ آور ہونے پر اندر سے اُس کی مدد کی تھی ۔جس کی وجہ سے وہ بابل پر قابض ہو گیا اور اُس کی مدد سے یہود بابل کی قید سے رہا ہو کر واپس اپنے وطن چلے گئے ۔
ھاروت و ماروت جن کا اس جگہ ذکر آتا ہے یہ دو نبی ہیں جو جلا وطنی کے زمانہ میں بنی اسرائیل کو واپس لانے پر مقرر ہوئے تھے ۔اور جنہوں نے میداور فارس کے بادشاہ کی مدد سے آزادی حاصل کی ۔ قرآن کریم نے ان دونوں نبیوں کے صفاتی نام لیئے ہیں۔ یعنی ہاروت اور ماروت ۔ھاروت جیسا کہ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے ھرت سے نکلا ہے جس کے معنے پھاڑنے کے ہیں۔ اور ماروت مرت سے نکلا ہے جس کے معنی توڑنے کے ہیں(تاج العروس)پس ھاروت و ماروت کے معنے ہوئے پھاڑنے اور توڑنے والے ۔چونکہ اُن نبیوں کے سپرد بعض حکومتوں یا جماعتوں کو پھاڑنے اور اُنکی طاقت کو توڑنے کا کام تھا اس لئے اُن کا یہ صفاتی نام رکھا گیا ۔بائیبل پر غور کرنے سے اندازاً کہا جا سکتا ہے کہ یہ حجی نبی اور ذکریا ہ بن عدو ہیں ۔ چنانچہ عرزا باب ۵ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حجی اور ذکریا ہ نبی نے ہی یہود کی آزادی کیلئے کوششیں کیں ۔ اور خورس سے مخفی سمجھوتہ کیا ۔ اور اُس سے آرڈر لکھوائے ۔ پس ھاروت و ماروت حجی اور ذکریاہ نبی ہیں ۔ جنہوں نے خورس سے سمجھوتہ کیا اور اندر سے زور ڈالا جس کی وجہ سے باہر سے خورس نے حملہ کیا ۔ اور بابل فتح ہو گیا۔ اور ان سب واقعات کی طرف اشارہ وَمَااُنْزِلَ عَلَی اْلَملَکَیْنِ بِبَابِلَ ھَارُوْتَ وَمَا یُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰی یَقُوْلَا اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَۃُٗ فَلَا تَکْفَرْ فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْھُمَا مَا یُفَرِّ قُوْنَ بِہٖ بَیْنَ اْلمَرْ ئِ وَزَوْجِہٖ وَمَا ھُمْ بِضَآرِّ یْنَ بِہٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰہِ میں کیا گیا ہے۔
اب تیسری بات یہ رہ جاتی ہے کہ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں بھی یہود نے کبھی ایسی سازشیں کی تھیں یہ نہیں ؟اس غرض کیلئے جب تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلے تو یہودنے رسول کریم صلی علیہ وآلہٖ وسلم کے خلاف کعب بن اشرف کو بھڑکایا ۔ اوراُس نے آپ ؐ کے خلاف تمام عرب میں مخالفت کی ایک خطرناک آگ بھڑکادی اور پھر اُس نے یہیں تک بس نہ کی بلکہ اپنے اشعار میں اُس نے مسلمان خواتین کی عزت و ناموں پر حملے شروع کر دئیے ۔یہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے خاندان کی مقدس خواتین کو بھی اُس نے اپنے اوباشانہ حملوں کا نشانہ بنانے سے دریغ نہ کیا ۔ مگر اس تمام مخالفت کے باوجود جب انہوں نے دیکھا کہ اسلام کی حکومت روز بروز بڑھ رہی ہے اور مسلمانوں کا قدم پیچھے نہیں ہٹتا بلکہ آگے ہی آگے بڑھتا جاتا ہے تو انہوں نے بعض غیر ملکی حکومتوں کے ساتھ مل کر اسلام کو مٹانے کی کوششیں شروع کر دیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم سے کچھ عرصہ قبل یہود کا ایران کے بادشاہ کے ساتھ دوستانہ تعلق قائم ہو گیا تھا ۔چنانچہ ہچنسن ہسٹری آف دی نیشنز اور انسائیکلو پیڈیا ببلیکا صفہ ۶۴۸ پر لکھا ہے کہ نصاریٰ کے ظلم سے تنگ آکر یہود کا فارس کے بادشاہ کی طرف خاص میلان ہو گیا تھا ۔اُس زمانہ میں دو ہی بڑی حکومتیں تھیں ۔ ایک مجوسیوں کی اور ایک مسیحیوں کی ۔ مجوسیوں کی حکومت ایران میں تھی اور مسیحیوں کی روما میں ۔چونکہ ایرانیوں کو روما سے دشمنی تھی اور روما والے عیسائی تھے اور یہود کو بھی اُن سے عداوت تھی اور پھر اُن کے ملک میں انکو تکلیف بھی بہت تھی اس لئے صرف ایک ہی حکومت ایرانیوں کی رہ جاتی تھی جس پر اُن کو کچھ بھروسہ ہو سکتا تھا کہ وہ ان کی طرف توجہ کریگی ۔ اور انہیں مدد دیگی ۔اس لئے یہود کا ایرانیوں سے اور ایرانیوں کا یہود سے تعلق قائم ہو گیا ۔وہاں اُن کو رُسوخ بھی حاصل تھا ۔ کیونکہ اُس وقت کی مسیحی حکومت سے تنگ آکر وہ لوگ ایران چلے گئے تھے ۔اوراُن کے ماتحت رہتے تھے ۔وہاں اُن کو مذہبی آزادی حاصل تھی ۔وہیں اُن کی طالمود تیار ہوئی تھی ۔اور وہیں اُن کے بڑے بڑے پادری رہتے تھے اور دربار میں اُن کو بڑی عزت اور حترام سے دیکھا جاتا تھا ۔ خصوصاً جسٹینین (۵۲۷ء؁ ۔۵۶۷ء؁)کے وقت سے تو مسیحیوں کی طرف سے اُن پر بہت ہی ظلم شروع ہو گئے تھے اور سوائے ایران کے اور کوئی جائے پناہ اُن کیلئے نہ رہی تھی ۔اور اُن کا مذہبی مرکز بجائے یہودا یایروشلم کے ببیلو نیا ہو گیا تھا ۔(ہچنسن ہسڑی آف دی نیشنز صفہ ۵۵Hutchinsons history of the nations pag 550) رسول کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے زمانہ میں تو یہ حالت تھی کہ یہود مسیحیوں سے بالکل تنگ آچکے تھے کیونکہ قیصر روم نے یہودیت کو مٹانے کیلئے کوئی وقیقہ فروگذاشت نہ کیا تھا ۔اور اس مقصد کیلئے وہ نہ صرف خود ہر قسم کا ظلم روا رکھتا تھا بلکہ یہودیوں سے جبراً تبدیلی مذہب بھی کراتا ۔اور انہیں جلا وطن بھی کر دیتا پس آپ ؐ کے زمانہ میں اگر کسی حکومت پر یہودی پانی مدد کا بھروسہ کر سکتے تھے تو وہ صرف حکومت فارس ہی تھی ۔جہاں اُن کے ہم مذہب بہت بارسوخ تھے اور ا نہیں شاہان ایران کے دربار میں خاص عزت کے مقام پر بٹھا یا جاتا تھا ۔ پس اگر یہ ثابت ہو جائے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے زمانہ میں اسلام کو مٹانے کیلئے کوئی شازش ہو ئی تھی تو ماننا پڑے گا کہ وہ یہودی کی سازش تھی ۔کیونکہ مشرکین عرب کا ایرانیوں سے کوئی تعلق نہ تھا ۔
اب ہم یہ دیکھتے ہیں۔ کہ آیا اسلام کے خلاف یہودیوں کی طرف سے کوئی سازش ہوئی یا نہیں؟ سو تاریخ اِس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ ایران کے بادشاہ خسرو ثانی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گرفتاری کا حکم بھیجا تھا اُس نے اپنے یمن کے گورنر کے نام آرڈر لکھا کہ ہمیں رپورٹ پہنچی ہے کہ عرب میں ایک شخص نبوت کا دعویٰ کرتا ہے۔ اُسے پکڑ کر ہمارے پاس بھجوادو تاکہ اُسے سزا دی جائے۔ گورنر یمن نے اپنے دو سفیر آپ کی طرف بھیجے جنہوں نے آکر اطلاع دی کہ ہمیں آپ کی گرفتاری کے لئے بھیجا گیا ہے۔ اور ساتھ ہی انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ آپ ہمارے ساتھ تشریف لے چلیں اور انکار نہ کریں ورنہ ممکن ہے کہ ایران کا بادشاہ کو غصہ آئے اور وہ عرب پر حملہ کر دے۔آپ نے ان کو دوسرے دن ملنے کے لئے فرمایا۔ جب وہ دوسرے دن آپؐ سے ملتے تو آپ نے فرمایا۔ کہ میرے خدا نے مجھے بتایا ہے کہ اُس نے آج رات تمہارے خدا وند کو قتل کر وا دیا ہے۔ انہوں نے نادانی سے سمجھا کہ شاید یہ نہ جانے کے لئے بہانہ بنایا جا رہا ہے۔ اور کہا کہ ہم آپ کی خیر خواہی کے طور پر کہتے ہیں کہ ااپ ہمارے ساتھ چلیں ورنہ بادشہ کو غصہ آئیگا ۔ اور ممکن ہے کہ وہ سارے عرب کو ہی تباہ کر دے۔ لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ مجھے میرے خدا نے بتایا ہے کہ اُس نے آج رات تمہارے خداوند کو مارڈالا ہے۔ اس لئے جو کچھ میں نے تمہیں کہاہے وہی اپنے گورنر کو جا کر پیغام دیدو۔انہوں نے واپس جا کر گورنر یمن کو یہی بات کہہ دی ۔گورنر نے کہا ۔ہم چند دن انتظار کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ یہ بات کہاں تک درست ہے اگر یہ بات درست نکلی تو واقعی وہ سچا نبی ہے ۔ ورنہ عرب کی خیر نہیں ۔ کسریٰ سارے عرب کو تباہ کر دے گا۔چند دن کے بعد بندرگاہ پر ایک جہاز پہنچا اور اُس میں سے ایک سفیر اُتر کر گورنر یمن کے پاس آیا ۔ اور اُس نے گورنر کو ایک شاہی مکتوب دیا جو سر بمہر تھا ۔مگر مہر کسی اور بادشاہ کی معلوم ہوتی تھی ۔خط کو دیکھتے ہی اُس کا ماتھا ٹھنکا ۔اوراُس نے کہا ۔ عرب کے نبی کی بات سچ معلوم ہوتی ہے ۔ پھر اُس نے خط کھولا تو وہ خسرو کے بیٹے شیرویہ کا خط تھا۔ جسے انگیریز ی میں سائردسSiroesکہتے ہین۔ اس میں لکھا تھا کہ ہمار اباپ سخت ظالم تھا کہ آخر اس کے ظلموں سے تنگ آکر ہم نے اُسے قتل کر دیا ہے اور اب میں اس کا جانشیں ہوں ۔تم ہمارے نام پر سب لوگوں سے اطاعت کا عہد لو اور یہ بھی یاد کھو کہ میرے باپ نے جو حکم عرب کے ایک مدعی نبوت کے گرفتار کرنے کیلئے بھیجا تھا وہ بھی ظالمانہ حکم تھا ۔اُسے بھی ہم منسوخ کرتے ہیں ۔ اور جب تک کوئی نیا حکم نہ آئے اس کے متعلق کوئی کاروائی نہ کرنا۔(طبرجلد ۳ صفحہ ۱۵۸۳،۱۵۷۴)غرض اُسی رات جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کو الہاماً یہ خبر دی گئی تھی کہ کسریٰ کو خداتعالیٰ نے ہلاک کر دیا ہے خسروکے بیٹے شیرویہ نے اپنے باپ کو قتل کر دیا اور بیٹے کا اپنے باپ کو مارنا خدا ہی کا مارنا ہے ۔ورنہ یہ رشتہ ایسا ہے کہ کوئی اس کا م کیلئے ہاتھ نہیں اُٹھا سکتا۔
اِس واقعہ کے متعلق لوگوں کو حیرت ہے کہ اِس کی وجوہات کیا تھیں ؟اور کیوں کسریٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی گرفتاری کے احکامات جاری کئے ۔ مگر یہ واقعہ بتایا ہے کہ ایران کا بادشاہ جس کا عرب کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا اُسے بعض نے اُکسایا اور اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی گرفتاری کا حکم بھیجوادیا ۔یہ بات ظاہر ہے کہ
(۱) ایرانیوں کے بادشاہ کو عیسائی تحریک نہ کر سکتے تھے کیونکہ روما اور ایران کی آپس میں دشمنیاں تھیں ۔
(۲) ایران کے بادشاہ کر عرب بھی تحریک نہیں کر سکتے تھے ۔کیونکہ عرب بہت ذلیل سمجھتے جاتے تھے ۔چنانچہ ایران کے بادشاہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جبکہ مسلمانوں کی فوجیں ایران پر حملہ آور ہوئیں کہا تھا کہ تم دو دو اشرفیاں لے لو اور واپس اپنے ملک میں چلے جاؤٖ۔ تم لوگ گوہیں کھانے والے ہو تمہیں ملکوں سے کیا واسطہ ؟ پس ان کے نزدیک جب عرب ایسے ذلیل تھے تو عربوں کو یہ جرات ہی کہاں ہو سکتی تھی کہ وہ شاہ ایران کو بھڑ کائیں ۔ اور شاہ ایران فوراً رسول کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی گرفتاری کا آرڈر دیدے ۔
پھر عرب لوگ بالکل پر اگندہ تھے اور ان کی کوئی تنظیم نہ تھی ۔ پس اگر کوئی یہ کہے کہ عربوں نے فارس کے بادشاہ پر زور ڈالاتو یہ دور از قیاس امر ہے ۔ عرب ایسے بے اثر اور متمدن دنیا سے الگ تھلگ رہنے والے لوگ اتنے بڑے بادشاہ پر جس کے ماتحت آدھی دنیا تھی اور جس سے وہ کچھ بھی تعلق نہ رکھتے تھے کس طرح زور ڈال سکتے تھے ۔ اصل بات یہ ہے کہ ایرانی حکومت میں بڑے بڑے عہدوں پر یہودی لوگ فائز تھے ۔اور وہاں بڑا رسوخ رکھتے تھے ۔اُن کا رئیس شاہان ایران کے دربار میں خاص عزت کے مقام پر بٹھایا جاتا تھا ۔اور یہی وہ لوگ تھے جو اسلام اور بانی اسلام کے شدید ترین دشمن تھے ۔جب یہ ہر طرف سے مایوس ہو گئے تو انہوں نے مختلف ذرائع سے شاہ ایران کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآالہٖ وسلم کے خلاف اکسانا شروع کر دیا جس کے نتیجہ میں اُس نے وہ چٹھی لکھی جس کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے ۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ شاید شاہ ایران کی اس کاروائی کا محرک رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وہ تبلیغی خط تھا جو آپ ؐ نے اُسے لکھا تھا ۔اس خط سے ناراض ہو کر اُس نے گورنر یمن کو حکم بھیجا کہ اس شخص نے ہماری گستاخی کی ہے اس لئے اسے گرفتار کر کے ہمارے سامنے پیش کرو۔اگر تاریخی شہادت سے یہ بات ثابت ہو جائے کہ خط کی وجہ سے ہی اُسے طیش آیا تھا ۔تو پھر تویہ بات ٹھیک ہو گی ۔ لیکن اگر تاریخی شہادت اِسے درست قرار نہ دے تو ماننا پڑے گا کہ کوئی اور رپورٹیں اُسے پہنچائی گئی تھیں جن کی وجہ سے اُسے طیش آیا تھا ۔
بعض مسلمان مورخین نے بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے تبلیغی خط کو اس واقعہ کا متحرک بتایا ہے مگر یہ غلط ہے ۔ وہ خط اس امر کا محرک نہیں ہوا بلکہ کسریٰ کے افسر آپ ؐ کے خط سے پہلے ہی آپ ؐ کی گرفتاری کیلئے آپ ؐکے پاس پہنچ چکے تھے۔چنانچہ زرقانی جلد ۲ صفحہ۲۱۱،۲۱۲پر لکھا ہے کہ لِاَنَّ بَعْثَہ‘ لِلْمُلُوْکِ اِنَّمَا کَانَ بَعْدَ اْلعَوْدِ مِنْھَافِیْ غُرَّۃِ اْلمُحَرَّمِ سَنَۃَ سَبْعِ کَمَا یَأْ تِیْ یعنی یکم محرم ۷؁ھ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بادشاہوں کو تبلیغی خطوط لکھے تھے ۔ جو اس تاریخ کے لحاظ سے جو ہسٹو رنیز ہسٹری آف دی ورلڈ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ہجرت کی مقرر کی ہے (جلد ۸ صفہ ۱۱۸)اس کی تاریخ ۱۲ اپریل ۶۲۸؁ء بنتی ہے ۔اور خسرو ثانی جس نے آپ ؐ کی گرفتاری کا حکم بھیجا تھا وہ ۲۵ فروری ۶۲۸؁ء کو پکڑا گیا اور ۲۹ فروری ۶۲۸؁ء کو قتل کر دیا گیا تھا ۔ (ہسٹو رنیز ہسڑی آف دی ورلڈ جلد ۸ صفحہ ۹۵ )گویا خط اُس کے مارے جانے کے ایک ماہ بارہ دن بعد بھیجا گیا ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خیال بالکل غلط ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا خط اس بات کا محرک ہوا تھا کہ خسرو ثانی آپ ؐ کی گرفتاری کا حکم بھیجے ۔کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا قاصد اس کے قتل کے بعد مدینہ سے مدائن کی طرف جوان دنوں ایران کا پایہ تخت تھا روانہ ہوا تھا ۔ اگر آپ ؐ کے خط کو اس کا محرک سمجھا جائے تو وہ خط کم از کم تین چار ماہ قبل کا ہونا چاہیے یعنی اس صورت میں آپ کا خط دسمبر ۶۲۷؁ء کا ہونا چاہیے ۔حالانکہ آپ ؐ کا خط یکم محرم ۷ ؁ھ کو گیاہے جس کی تاریخ حساب کی روحـ سے ۴ مارچ ۶۲۸؁ء بنتی ہے ۔؛پس جو خط آپ ؐ نے ۴ مارچ ۶۲۸؁ء کو لکھا وہ اس حکم کا باعث نیہں ہو سکتا بلکہ اس کا باعث وہی جھوٹی اور غلط رپوٹیں تھیں جو اُسے یہودکی طرف سے پہنچتی تھیں ۔اور جن سے مشعل ہو کر اس نے یہ ظالمانہ حکم دے دیا۔ اور چونکہ وہ ۲۵ فروری کو پکڑا گیا تھا ۔ اور ۲۹ فروری کو قتل کر دیا گیا اسلئے کسریٰ کی طرف تھا جو اس کے قتل کے بعد تخت نشین ہوا۔ یعنی اس خط کا مخاطب کسریٰ نہیں تھا بلکہ اس کا بیٹا شیرویہ تھا جس نے اپنے باپ کو قتل کیا تھا ۔جن لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے تبلیغی خط کو اِس اشتعال کی وجہ قرار دیا ہے آخر اُن کو بھی تسلیم کر نا پڑا ہے کہ یہ باہر کی تحریک تھی جس سے متاثر ہو کر اُس نے یہ قدم اُٹھایا ۔یہ تحریک گورنروں کی طرف سے نہیں ہو سکتی کیونکہ عرب کا علاقہ اس کے ساتھ نہ تھا ۔ یہ صرف یہودیوں کی کاروائی تھی ۔انہوں نے چاہا کہ جس طرح فارس والوں کے ساتھ مل کر ہم بے بابل کو تباہ کیا تھا ۔اسی طرں دوبارہ ایک بادشاہ کو اکسائیں اور اس کی مدد سے مدینہ والوں کو تباہ کر دیں ۔
یہود کی اس سازش کا سر ولیم میور کو بھی اقرار کرنا پڑا ہے ۔ چنانچہ وہ اپنی کتاب ’’لائف آف محمدؐ ‘‘ ایڈیشن دوم میں لکھتا ہے کہ کسریٰ شاہ ایران کے افسر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا خط پہنچنے سے پہلے روانہ ہو چکے تھے ۔اور پھر وہ یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ یہودی آپ ؐ کے خلاف ایرانی بادشاہ کو اکسایا کرتے تھے ۔ عربوں کی تو ایرانی بادشاہ کے دربار میں کوئی رسائی نہ تھی ۔ عیسائی اس کے دشمن تھے اس لئے وہ بھی اُسے اکسانہ سکتے تھے ۔باقی صرف یہودی رہ گئے ۔اُن کے ذہن میں یہ خیال سمایا ہوا تھا کہ جس طرح فارس کے بادشاہ کی مدد سے بابل والے تباہ ہو گئے تھے اِسی طرح مدینہ بھی ہم فتح کر لیں گے ۔ اس کا مزید ثبوت یہ ہے کہ یہودیوں کی طرف سے متواتر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر حملے کئے گئے ۔ اور آپ ؐ کی جان لینے کی کوشش کی گئی ۔ آپؐ پر جس قدر خفیہ حملے کئے گئے ہیں وہ سب یہودیوں ہی کی طرف سے ہوئے ہیں۔ مثلاً ایک یہودی عورت کی طرف سے آپؐ کو زہر دینا ثابت ہے اسی طرح خفیہ طور پر آپؐ پر ایک بڑی بھاری پتھر کی سیل پھینک کر مارنے کی کوشش بھی یہودی کی طرف سے ہوئی تھی ۔ یہ لوگ خفیہ سازشوں میں کوئی عارنہ سمجھتے تھے حالانکہ بہادر اور شریف دشمن ایسی باتوں کو عار سمجھتے ہیں ۔ اور سامنے آکر مقابلہ کرتے ہیں ۔ مگر یہ لوگ ایسے گرے ہوئے تھے کہ انہوں نے خفیہ طور پر آپ کو زہر دینے کی کوشش کی ۔پھر گھر پر بلا کر مارنے کی کوشش کی ۔اور جب یہ لوگ خود اپنے ارادوں کو عملی جامہ نہ پہنچا سکے تو انہوں نے ایران کے بادشاہ کو اُکسا کرآپ کو ہلاک کرنے کی کوشش کی ۔
اس ساری تحقیق سے ثابت ہے کہ
(۱) خفیہ سوسائٹیوں کی ابتداء یہود سے ہوئی ۔
(۲) یہ لوگ حضرت سلیمان علیہ السلام کے دشمنوں سے تعلق رکھتے تھے ۔
(۳) تین دفعہ انہوں نے خفیہ کوششیں کیں ۔
‏ i حضرت سلیمان علیہ السلام کے خلاف۔
‏ ii بابل کے کے خلاف۔
‏ iii رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے خلاف۔
جب اِن تمام واقعات کی کڑی مل گئی تو ثابت ہو گیا کہ اِن آیات میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے دشمنوں اور خورس اور بابل کے واقعات کی طرف اشارہ ہے ۔ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق ایرانی بادشاہ کی نالائق حرکت اور یہود کی اُن تمام کوششوں کی طرف اشارہ ہے جو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو قتل کروانے کیلئے کی تھیں ۔
اب ہمیں ایک ایسے واقعہ کا علم ہو گیا ہے جو ان تمام اصولی باتوں کو جو اس اایت سے مستنبط ہوئی ہیں اور کرتا ہے یعنی
وَا تَّبَعُوْا مَا تَتْلُو الشَّیٰطِیْنُ والی ایک جماعت ہمیں نظر آگئی جو اس کام کے مثابہ کام کرتی تھی جو شیاطین یعنی بدی کے سرداروں نے ملکِ سلیمان علیہ السلام کے خلاف کیا تھا اوراس فعل سے ایک جزئی مشابہت رکھتا ہے جو ملکین یعنی ہاروت وماروت نے بابل میں کیا تھا ۔معلوم ہوتا ہے کہ ان تینوں زمانوں میں ایک ہی قسم کا فعل ہوا تھا اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ کام اپنے اندر تک اخفا کا پہلو رکھتا تھا ۔
پس ان واقعات کی روشنی میں زیر تفسیر آیات کا ترجمہ کیا جائے تو یہ ہو گا کہ یہ لوگ اس چیز کی پیروی کر رہے ہیں جس کی شیطان صفت لوگ یعنی بدی کے سردار حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومت کے زمانہ میں کیا کرتے تھے اور وہ یہ تھا کہ وہ کافر ہو گیا ہے ۔بے دین اور مشرک ہو گیا ہے بتوں کی پرستش کرتا ہے یا ایسی تعلیم دیتا ہے جو دین کے خلاف ہے ۔ اور وہ یہ باتیں لوگوں میں مخفی طور پر مشہور کیا کرتے ہے ۔وہ آپ کے متعلق یہ بھی مشہورکیا کرتے تھے کہ اس پر بیویوں کا قبضہ ہے اور وہ ان کے مجبور کرنے کی وجہ سے معبود ان ِ باطلہ کی پرستش کرتا ہے ۔ حالانکہ وہ خد ا تعالیٰ کی طرف سے نبی بنا کر بھیجا گیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ بالکل جھوٹ ہے ۔سلیمان علیہ السلام نے ہرگز ایسا نہیں کیا بلکہ یہ شیطان یعنی بدیوں کے سردار خدا تعالیٰ کی باتوں کا انکار کرتے تھے ۔
اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے جسے میں نے پہلے بیان نہیں کیا ۔اور وہ یہ ہے کہ یہاں دو دعوئے کئے گئے تھے ۔ اول یہ کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی نسبت دشمنوں کی طرف سے کفر کا الزام لگایا جاتا تھا دوسرے یہ کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے کفر نہیں کیا بلکہ اس کی حکومت کے باغی لوگ خود کافر اور بے ایمان تھے ۔ اس کے متعلق چونکہ یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ ممکن ہے کافر کہنے والے مخالف دیانت داری سے ان کی طرف یہ الزام منسوب کرتے ہوں یا کسی غلط فہمی کی وجہ سے ان کی مخالفت ہو یا انہوں نے اُن پر الزام تو شرارت سے لگایا ہو مگر ان کی اپنی حالت درست ہو ۔اس لئے فرمایا کہ الزام لگانے والے مخالف نہ تو دیانت داری سے الزام لگاتے تھے اور نہ کسی غلط فہمی کی وجہ سے اور نہ ہی یہ صورت تھی کہ وہ صر ف شرارت سے الزام لگاتے ہوں اور انکی ایمانی حالت درست ہو بلکہ وہ اپنی بد عملی اور بے دینی کی وجہ سے ایسا کرتے تھے ۔ یہ مزید دعویٰ ہے جو قرآن کریم نے پیش کیا ہے ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام پر جو الزام لگایا گیا تھا اس کا حوالہ (سلاطین باب ۱۱ آیت ۳،۴،۵،۱۰)ہے کہ یربعام جس نے بعد میں بغاوت کر دی تھی اُس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے بیٹے کا مقابلہ کر کے دس قوموں کو اپنے قبضہ میں کر لیا تھا اور اُس نے خاص طور پر اُن پر الزام لگایا تھا۔اس میں یربعام اور اس کے ساتھی اخیاہ کے ذریعہ (جسے نبی بنا کہا گیا ہے )حضرت سلیمان علیہ السلام پر یہ الزام لگایا گیا تھا ۔ کہ انہوں نے بُت پرستی کی ہے اور کفر کیا ہے اور شرک میں مبتلا ہوئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں ۔ یہ الزام لگانے والے خود بت پرست تھے اور بُت پرستی قائم کرنا چاہتے اور اُس میں دوسرے لوگوں کو اپنے ساتھ ملانا چاہتے تھے ۔
اب ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ کہ آیا اس کا بھی کوئی ثبوت ملتا ہے یا نہیں ؟ سو اس کا ثبوت کہ انہوں نے بت پرستی کی نمبر ۲ تواریخ باب ۳ آیت ۸ سے ملتا ہے کہ یربعام کی حکومت کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک شخص ابیاہ کو کھڑا کیا ۔ یہ یربعام کے مقابلہ کیلئے فوج لے کر گیا اور اُس کو مخاطب کر کے کہا :۔
’’اب تم کو یہ گمان ہے کہ تم خداوند کی بادشاہت جو داؤد کی اولاد کے ہاتھ میں ہے اس کا سامنا کر سکو گے ۔ اور تم بڑے انبوہ ہو ۔ اور تمہارے ساتھ دے سنہلے بچھڑے ہیں جنہیں یربعام نے بنایا کہ تمارے معبود ہوویں ‘‘۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ گوسالہ پرستی کر رہے تھے ۔ اس کا مصر بھاگ جانا اور پھر وہاں سے واپس آنا بھی اس بات پر دلالت کرتا ہے ۔کیونکہ پہلے بھی مصر ہی سے گوسالہ پرستی کی بیماری آئی تھی ۔معلوم ہوتا ہے کہ مصری کمزور لوگوں کو خرید لیا کرتے تھے ۔اور اس طرح اپنے معبود کی عظمت کو قائم رکھنا چاہتے تھے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ کہ یہ لوگ حضرت سلیمان علیہ السلام پر بت پرستی کا الزام لگاتے تھے ۔حالانکہ وہ خود بت پرست تھے ۔اگر یہ الزام نہ لگاتے تو اُن کی قوم جو موحد تھی نہ بھڑکتی اس لئے انہوں نے آپ پر ایسا الزام لگایا جس سے قوم بھڑک اُٹھی اور جب وہ مشتعل ہو گئی تو انہوں نے بٹ بنا بنا کر شرک کو رائج کر دیا جس کا بائیبل سے ثبوت ملتا ہے ۔
یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ میں بتایا گیا ہے ۔کہ وہ لوگوں کو فریب دہ باتیں بتاتے تھے جن کا ظاہر کچھ اور ہوتا اور باطن کچھ اور۔اس کے معنے یہ ہیں کہ اُن کے دل میں شرک تھا ۔ مگر زبان سے توحید کا اظہار کرتے تھے ۔ کیونکہ اس کے بغیر اُن کے ساتھ نہ مل سکتی تھی ۔پس وہ لوگوں کے سامنے یہ ظاہر کرتے تھے کہ ہم موحد ہیں اورسلیمان مشرک ہے ۔ ہم دنیا میں خدا تعالیٰ کی توحید قائم کرنا چاہتے ہیں۔ منافق بھی ہمیشہ ایسا ہی کرتے ہیں وہ ہمیشہ یہی کہا کرتے ہیں کہ اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ (بقرہ آیت ۱۲ )ہم تو اصلاح کی غرض سے کھڑے ہوئے ہیں ۔ اس پر کمزور ایمان والے کہتے ہیں ۔کہ یہ لوگ بڑی اچھی بات کیلئے کھڑے ہوئے ہیں ہمیں ان کی تائید کرنی چاہیے ۔اسی طرح وہ بھی لوگوں کو ملمع سازی کی باتیں سکھایا کرتے تھے ۔وَمَا اُنْزِلَ عَلٰی الْمَلَکَیْنِ بِبَا بِلَ ھَارُوْتَ ومَارُوْتَ کے دو طرح معنے ہو سکتے ہیں۔
(۱) اول اس طرح کہ داؤعطف کیلئے ہو ۔اِس صورت میں مَاتَتْلُو ا الشَّیٰطِیْنُ کے ساتھ مل کر اِس آیت کے یہ معنے بنتے ہیں۔کہ اس دوسرے زمانہ میں بھی ویسا ہی کام ہوا ہے ۔جیسا کہحضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانہ میں ہوا تھا ۔جس طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کے خلاف سوسائٹی بنی تھی اسی طڑح ایک اور بادشاہ کے مقابلہ میں بھی اس قسم کی سوسائٹی بنی ۔ مگر فرماتا ہے کہ یہ مشابہت صرف ظاہری ہے ورنہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے خلاف کھڑے ہونے والے کافر تھے اور دوسرے وقت بابل کا بادشاہ کافر تھا اور جو مقابلہ کرر ہے تھے وہ مومن تھے ۔پہلے زمانہ میں حضرت سلیمان علیہ السلام کو نقصان پہنچانے کیلئے یہ قوم کھڑی ہوئی تھی اوردوسرے زمانہ میں یہ خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ایک کافر بادشاہ کو نقصان پہنچانے کیلئے یہ قوم کھڑی ہوئی تھی ۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جماعت احمدیہ کی ہمیشہ یہ تعلیم رہی ہے کہ حکومت وقت کے خلاف کھڑا ہونا درست نہیں مگر یہاں تو بغاوت قابل تعریف فعل نظر آ تا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ بعض مواقع پر اپنی حکومت کے خلاف کھڑا ہونا بھی درست ہے ۔یہ اعتراض بظاہر وزنی معلوم ہوتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہماری تعلیم استشناء رکھتی ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ اسلام کی تعلیم میں ہی یہ بات شامل ہے کہ اگر کوئی قوم کسی حکومت کو چھوڑ کرجاناچاہے اور وہ حکومت اُسے جانے نہ دے پھر وہ قوم اُس کی مخالفت کر سکتی ہے اور اُسے اجازت ہے کہ وہ چاہے مخفی بغاوت کرے یا کھلم کھلا ۔وہ اس کا ہر رنگ میـں مقابلہ کر سکتی ہے ۔ اسلام بتاتا ہے کہ جب تم بادشاہ پر خوش نہ ہو اور نا خوشی معمولی ہو تو اُسوقت تک تم انتظار کرو کہ خداتعالیٰ اپنا فضل تم پر نازل کرے ۔اور اگر وہ نا خوشی غیر معمولی ہو اور تم انتظار نہ کر سکو ۔ توپھر اس حکومت سے نکل جاؤ۔اور اس ملک کو چھوڑ دو ۔لیکن اگر وہ حکومت تمہیں زبردستی روکے اور وہاں سے جانے نہ دے اور ظلم بھی دو ر نہ کرے تو اس صورت میں تم اس کا مقابلہ وہاں رہ کر کر سکتے ہو۔یہودی لوگ بابل میں قید تھے ۔ اور ان کو واپس اپنے وطن جانے کی اجازت نہ تھی۔ وہ اپنے وطن سے باہر ایک غیر علاقہ میں تھے۔ اس علاقہ کو چھوڑ نے کی انہیں اجازت نہ تھی اور یہ ایک رنگ میں اُن کے مذہب میں دخل اندازی تھی۔ اس صورت میں ظاہری یا مخفی طور پر بغاوت یا مقابلہ کرنے کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجازت ہوتی ہے۔ گویا مومن جن باتوں کو برداشت کر سکتا ہے اُن کو تو برداشت کر لیتا ہے مگر جن کو وہ برداشت نہیں کر سکتا اُن کے متعلق وہ صاف طور پر کہدیتا ہے کہ ہم ان کی برداشت نہیں کر سکتے۔ تم ہماری جائیدادیں سنبھالو۔ ہمارے مال زمینیں اور مکانات لے لو۔ ہم یہاں سے جاتے ہیں۔ اور اگر حخومت پھر بھی نہ جانے دے تو اس کا مقابلہ کرنا چائز ہوتا ہے۔ کیونکہ مومن اس بات کو پیش کر کے کہ ہماری جائدادیں سنبھالو اور ہمیں جانے دو۔ اپنی طرف سے امن قائم کر دیتا ہے لیکن اگر حکومت پھر بھی نہ جانے دے تو مومنوں کو اجازت ہوتی ہے کہ وہ ظٓہر یا مخفی مقابلہ کریں۔ کیونکہ اس صورت میں بادشاہ خود امن برباد کرتا ہے اور مقابلہ کی صورت پیدا کرتا ہے۔ یہاں بھی یہی حالت تھی اور اس حالت میں بادشاہ کا مقابلہ کرنا جائز تھا۔ اور نہ وہاں کے لوگوں کو اپنے شہر کے آباد کرنے کی اجازت تھی۔ آخر اللہ تعالیٰ نے یروشلم کے آباد کرنے کی صورت پیدا کی۔ چنانچہ عزرا بنی کی کتاب باب۱ آیت۱ تا ۳ میں آتا ہے کہ
’’شاہِ فارس خورس کی سلطنت کے پہلے برس میں اس خاطر کہ خداوند کا کلام جو یرمیاہ کے مُنہ سے نکلا تھا پورا ہووے۔ خداوند نے شاہِ فارس خورس کا دل اُبھارا کہ اُس نے اپنی تمام مملکت میں منادی کروائی اور اُسے قلمبند بھی کر کے یوں فرمایا۔ شاہ فارس خورس یوں فرماتا ہے کہ خداوند آسمان کے خدا نے زمین کی ساری مملکتیں مجھے بخشیں اور مجھے حکم کیا ہے کہ یروشلم کے بیچ جو یہودہ میں ہے اس کے لئے ایک مسکن بنائوں۔ پس اس کی ساری قوم میں سے تمہارے درمیان کون کون سے اس کا خدا اس کے ساتھ ہووے اور وہ یروشلم کو جو شہر یہودہ ہے جاوے اور خداوند اسرائیل کے خدا کا گھر بناوے کہ وہی خدا ہے جو یروشلم میں ہے۔‘‘
یہ وہی خورس ہے جس کی یہود نے مدد کی اور جس نے آکر اعلان کر دیا کہ بنی اسرائیل واپس یروشلم جا سکتے ہیں۔ پھر یہ وہی شخص ہے جس کا ذکر سورہ کہف میں ذولقرنین کے نام سے آتا ہے۔ اُسے خدا تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا تھا کہ تم بنی اسرائیل کو واپس یروشلم جانے دینا ۔ چنانچہ اُس نے اُن سے دوستی قائم کی۔ اور بابل کی حکومت کوشکست دی۔ بابل کی حکومت سینکڑوں سال سے چلی آتی تھی جس کے مقابلہ میں اُس کی حکومت ایک معمولی ریاست تھی۔ لیکن خورس کی ترقی دیکھ کر چند حکومتوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اسے کچل دیں۔ اُسے کسی طرح اس بات کا علم ہو گیا چنانچہ اُس نے اندرونی طور پر یہودیوں سے سمجھوتہ کر لیا۔ اور بابل پر حملہ کر دیا۔ اور خداتعالیٰ کی تائید سے اُسے فتح کر لیا۔
اِن واقعات کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں بھی یہود انہی افعال کی نقل کر رہے ہیں جو سلیمان علیہ السلام کے زمانہ میں شیطانی لوگ اُس کی حکومت کو نقصان پہنچانے کے لئے کیا کرتے تھے۔ اِسی طرح یہ لوگ اُن باتوں کی بھی پیروی کرنا چاہتے ہیں جو بابل میں باروت اور ماروت پر نازل کی گئی تھیں۔ مگر یہ نہیں سوچتے کہ سلیمان ؑ کا مقابلہ کرنے والے وہ لوگ تھے جو گندے اور ناپاک تھے اور ہاروت و ماروت سے خفیہ تدابیر سیکھنے والے وہ لوگ تھے جو خداتعالیٰ کے حکم کے ماتحت اُس میں حصہ لیتے تھے کیونکہ وہ بابل کے بادشاہ سے بنی اسرائیل کو نجات دلانے کے لئے کھڑکئے گئے تھے۔ وہ لوگوں سے کہتے تھے کہ ہماری بات مان لو اور اندر ہی اندر تیار ہو جائو۔ جب خورس اور اس کی قوم باہر سے حملہ آور ہو تو تم اندر سے حملہ کر دو۔ اور وہ یہ بات عورتوں کو نہیں بتاتے تھے کیونکہ وہ کمزور دل ہوتی ہیں۔ اور اُن کے متعلق خطرہ وہتا ہے کہ وہ کہیں دوسروں کو نہ بتادیں پس فرماتا کہ تمہاری خفیہ تدابیر اور اُن تدابیر میں بہت بڑا فرق ہے۔وہ خدا کے حکم سے لوگوں کو سکھاتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ہماری ان باتوں کو رد نہ کرنا ورنہ کفر ہو جائیگا۔ کیا یہ لوگ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جو کچھ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابلہ پر کر رہے ہیں وہ خدا تعالیٰ کے حکم سے کر رہے ہیں۔ اور خدا تعالیٰ کی رضا مندی کے لئے کر رہے ہیں۔ اور کیا یہ اس کے متعلق کہہ سکتے ہیں کہ جو اُسے رد کریگا وہ کافر ہو جائے گا۔ جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابلہ میں وہ یہ بات نہیں کہہ سکتے تو معلوم ہوا کہ یہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے باغیوں سے شابہ ہیں نہ کہ بابل کے باغیوں سے۔
وَمَا ھُمْ بِضَآرِّیْنَ بِہٖ مِنْ اَحَدٍ میں بتایا کہ بابل والے ملکوتی صفت انسان کسی کو نقصان یا ضر نہیں پہنچاتے تھے۔ وہ اگر کسی کو نقصان پہنچاتے تھے تو خدا کے الہام کے ذریعہ۔ اپنے منشا سے ایسا نہیں کرتے تھے۔ کیا یہ لوگ بھی الہام کے مدعی ہیں؟ کیا یہ بھی خدا کے کسی حکم کی تعمیل کر رہے ہیں؟ کیا انہیں بھی یہ الہام ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کرو؟ مگر باوجود اس کے کہ ان کو ایسا کوئی الہام نہیں ہوتا۔ جب ان کو ان باتوں سے منع کیا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہمیں اِس بات کی اجازت مل چکی ہے۔ ہم بابل میں یہی کام کر چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا وہ باتیں اور صورتیں اور وجوہات تمہیں یہاں نظر آتی ہیں۔ تمہارے مقابل پر تو نبی ہے جس کے خلاف تم کام کر رہے ہو اور اُس پر خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام نازل ہوتا ہے ۔ پاس تمہاری صرف حضرت سلیمان علیہ السلام کے مخالفوں اور دشمنوں سے مشابہت ہے، جس طرح وہ لوگ اُن کو کافر کہتے تھے اُسی طرح تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کافر کہتے ہو۔ اور جس طرح وہ اُن کے خلاف جھوٹی باتیں لوگوں میں پھیلاتے تھے اُسی طرح تم یُحَرِّ فُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَ اضِیِہٖ کے ماتحت ہیر پھیر کرتے ہو۔ مگر بابل میں خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق دو نبیوں کے ماتحت ایسی قوم کے خلاف باتیں کی جاتی تھیں جس کی ہلاکت کا خدا تعالیٰ نے فیصلہ کر دیا تھا۔ وہ لوگ الہام کے ماتحت کام کر رہے تھے نہ کہ اپنی طرف سے۔ وہاں خدا کے نبیوں کی اتباع میں کام ہ رہا تھا۔ نہ کہ نبیوں کے خلاف۔ مگر اب تم چاہتے ہو کہ جس طرح دو ملائکہ صفت انسانوں نے بابل کی حکومت کو تباہ کیا اُسی طرح تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سلسلہ تباہ کر دو مگر تم ایسا نہیں کر سکتے۔ کیونکہ تمہاری اُن کے ساتھ مشابہت نہیں بلکہ تمہاری مشابہت سلیمان علیہ السلام کے دشمنوں سے ہے۔ وہاں بھی تم مخفی سمجھوتے کرتے تھے۔ مگر آخر تم ہی جلا وطن ہوئے تھے۔ اسی طرح یہاں بھی ہو گا اور محمد رسول اللہ کے مقابلہ میں تم ناکام و نامراد ہو گے۔
مَااُنْزِلَ عَلَی الَمَلَکَیْنِدرحقیقت جملہ مستائفہ ہے اور مطلب ہی ہے کہ سلیمان ؑ کے دشمنوں کی بات اور ہے اور ہاروت اور ماروت پر جو کچھ نازل ہوا ہے وہ اور ہے۔ اِن کا یہ دعویٰ کہ ہم باروت اور ماروت کے وقت کے لوگوں کے مشابہہ ہیں غلط ہے کیونکہ وہ جو کچھ کرتے تھے الہام الہٰی کے ماتحت کرتے تھے۔ پس ان کی مشابہت صرف سلیمانؑ کے دشمنوں سے ہی ہے جنہوں نے ایک نبی کی مخالفت کی اور تباہ ہوئے ہاروت و ماروت کے وقت کے لوگوں کے ساتھ نہیں۔
(۲)دوسرے معنے اس کے یہ بھی ہو سکتے یہں کہ اِنکی مشابہت دوگروہوں سے ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے مخالفوں سے اور بابل کے مخالفوں سے ۔ پہلوں سے یہ صحیح معنوں میں مشابہ ہیں اور دوسروں سے صرف سطحی رنگ میں۔
وَیَتَعَلَّمُوْنَ مَایَضُرُّ ھُمْ وَلَا یَنْفَعُھُمْ اِس میں بتایا کہ یہود کا خیال یہ ہے کہ جس طرح ہم بابل سے فارس اور مید کے بادشہ کی مدد سے آزاد ہو گئے تھے اُسی طرح اب بھی غیر حکومتوں سے ریشہ دوانیاں کر کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکومت سے آزاد ہو جائینگے مگر ایسا نہیں ہو سکتا۔ ہاروت و ماروت کے وقت اُن کی کامیابی کا باعث یہ تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کام کرتے تھے۔ لیکن اب یہ اس کے حکم کے خلاف کر رہے ہیں۔ اس لئے اب ان کا سلیمان ؑ کے مخالفوں کی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کافر کہنا اور کسرٰی سے مخفی سمجھوتہ کرنا اور بیرونی دشمنوں سے مل کر آپ کا مقابلہ کرنا چیسے خیبر کے وقت کیا گیا۔ اُن کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تباہ کرنے کی بجائے یہ یہودی لوگ خود تباہ ہوں گے گویا اس جگہ اُن کے متعلق پیشگوئی کر دی اور انہیں سمجھایا کہ وہ دو وقت خفیہ تدابیر سے مقابلہ کر چکے ہیں۔ ایک سلیمانؑ کے وقت جبکہ انہوں نے خدا تعالیٰ کے نبی کی مخالفت کی تھی اور دوسرے ہاروت و ماروت کے وقت جبکہ بابل میں انہوں نے آزادی کے حصول کے لئے خور س سے مخفی سمجھوتہ کیا۔ اب نتائج سے مقابلہ کر کے دیکھ لو کہ تمہاری کن لوگوں سے مشابہت ہے۔
پہلی سازش جو ایک نبی کے خلاف کی گئی تھی اُس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بنی اسرائیل کی طاقت کمزور ہو گئی اورآہستہ آہستہ ایسے ذلیل ہوئے کہ ایک وقت زبردستی بابل کی طرف جلاوطن کر دیئے گئے۔ بلکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے بڑے دشمن بر بعام کے لئے بھی سوائے اس کے کوئی چارہ نہ رہا کہ وہ بھاگ کر مصر چلا جائے۔ مگر جب اللہ تعالیٰ کے دو نبیوں کے ماتحت انہوں نے وہی تدابیر اختیار کیں تو جلا وطنی سے اپنے وطن واپس آگئے اور ان کا دشمن تباہ ہو گیا۔
اِن دو مثالوں کو پیش کر کے اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ چونکہ اِس وقت یہود اُسی راستہ پر قدم مار رہے ہیں جس راستہ پر سلیمانؑ کے دشمنوں نے قدم مارا تھا۔ اس لئے جس طرح سلیکان ؑ کے دشمن جلا وطن کئے گئے تھے۔ اُسی طرح یہود کو بھی جلا وطن کیاجائیگا۔ اور اُن کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک ہو گا جیسے سلیمان کے دشمنوں سے ہوا اور یہ اس بات کا ثبوت ہو گا کہ یہ جھوٹے ہیں اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے مخالفوں سے مشابد ہیں۔ چنانچہ یہود کو پہلے مدینہ سے جلا وطن کیا جائیگا۔پھر خیبر سے بھی نکال دیاجائیگا ۔ حتیٰ کہ اُن کے ایرانی منصوبوں کی وجہ سے آخر اُن کو عرب سے بھی نکال دیا جائیگا۔ چنانچہ اُن کی کوششوں کا یہ نتیجہ نکلا کہ کسرٰی بھی ہلاک ہوا اور وہ خود بھی عرب سے جلا وطن کئے گئے۔ پہلے اُن کو مدینہ سے نکالا گیا۔ اور یہ لوگ خیبر میں چلے گئے پھر وہاں سے بھی نکالے گئے اور آخر اُن کو عرب کا ملک چھوڑنا پڑا جو بالکل اُس نتیجہ کے مطابق تھا جو حضرت سلیمان ؑ کے خلاف سازش کرنے کا ہوا تھا۔
وَلَقَدْعَلِمُوْ الَمَنِ اشْتَرٰہہُ مَا لَہ‘ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ میں فرمایا کہ یہ لوگ خوب سمجھتے ہیں کہ نبیوں کی مخالفت اور ایسے گھنائو نے کام کرنے والوں کا اُخروی زندگی کے انعامات میں کوئی بھی حصہ نہیں۔ مگر اس کے باوجود ہ لوگ اِس قسم کی کاروائیوں سے باز نہیں آتے۔ چنانچہ ایک دفعہ یہود کے دو عالم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے۔ جب واپس گئے تو ایک نے دوسرے سے کہا کہ اِس کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے۔ اُس نے کہا۔ کہ پھر کیا رائے ہے آیا قبول کر لیا جائے؟ اُس نے جواب دیا کہ جب تک جان میں جان ہے ماننا نہیں۔ دوسرے نے کہا۔ میرا بھی یہی ارادہ ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ دلائل اور سابقہ پیشگوئیوں کی وجہ سے دل میں آپؐ کی سچائی کا اقرار کرتے تھے۔ مگر زبان سے آپ کی سچائی کو نہیں مانتے تھے فرماتا ہے کہ ان کے بڑے برے لوگ جو شرارت کریوالے ہیں وہ لوگوں کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف اُکساتے ہیں اور وہ اس بات کی بُرائی کو بھی جانتے ہیں کہ ایسے کام اچھا نتیجہ پیدا نہیں کرتے۔ مگر پھر بھی اِن کاموں سے باز نہیں آتے۔
وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْابِہٖٓ اَنْفُسَھُمْ۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اس ذریعہ سے ہم نے اپنی جانوں کو خرید لیا ہے یعنی انہیں ہلاکت سے بچا لیا ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے اُلٹ ہے۔ یہ لوگ اسی کے ذریعہ ہلاک ہوں گے۔چنانچہ اِدھر محمد رسول اللہ صلی اللہ
وَلَوْ اَنَّھُمْ
یَعْلَمُوْنَo
علیہ وآلہ وسلم اُن کو سزا دیں گے اور اُدھر ہم آخرت میں انہیں عذاب میں گرفتار کرینگے۔
لَوْ کَانُوْ ایَعْلَمُوْنَ۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اِس قدر طاقت حاصل ہو جائیگی کہ وہ انہیں عرب سے نکال دینگے ۔ انہیں کیا پتہ تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک دن بادشاہت اور حکومت مل جائیگی اور ان کے لئے عرب میں ٹھہرنا بھی مشکل ہو جائیگا۔
اِس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام خفیہ منصوبوں اور خفیہ سو سائیٹیوں کو سخت نا پسند کرتا ہے۔ اور بابل کا واقعہ ایک استثنائی رنگ رکھتا ہے۔ کیونکہ وہاں جو کچھ ہوا خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ہوا۔
۲۱؎ تفسیرـ:۔ فرماتا ہے۔ اگر یہ لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لاتے اور تقوٰی اختیار کرتے تو اُن کو دین و دنیا میںبڑی ترقی ملتی۔مگر یہ محض اِس ضد کی وجہ سے مخالفت کر رہے ہیں کہ کیوں ہم میں سے کسی پر الہام نازل نہیں کیا گیا۔ بنو اسمٰعیل کا کیا حق تھا کہ اُن کے ایک فرد پر یہ کلام اُتارا جاتا ؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر ان کو پتہ ہوتا کہ ہمارے لئے کیا کیا عذاب مقدر ہے اور مسلمانوں کو کیا کیا انعامات ملنے والے ہیں۔ اور انہیں معلوم ہوتا کہ مستقبل میں حالات کیا شکل اختیار کرنیوالے ہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کس قدر عظمت اور شوکت حاصل کرنی ہے، تو یہ دوڑتے ہوئے آتے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی اختیار کر لیتے مگر ان کو مستقبل کا علم نہیں صرف دنیا طلبی میں اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں اور اسی وجہ سے مخالفت کا شور مچا رہے ہیں۔
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو دیکھ لو۔ انہوں نے جب اسلام قبول کیا تو لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ مکہ کا ایک لیڈر تھا۔ اب ذلیل ہو گیا مگر اسلام سے پہلے اُنکی اِس سے زیادہ کیا عزت ہو سکتی تھی کہدو سو یا تین سو آدمی ان کا نام عزت سے لیتے ہوں گے۔ لیکن اسلام کی برکت ہے اللہ تعالیٰ نے انہیں خلافت اور بادشاہت کی برکت سے نوازا۔
اور انہیں دنیا بھر میں دائمی عزت اور ایک لازوال شہرت کا مالک بنا دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب فوت ہوئے اور آپؐ کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب کئے گئے تو کسی نے مکہ میں جا کر یہ خبر سُنائی کہ ابو بکرخلیفہ تسلیم کر لئے گئے ہیں۔ حضرت ابو بکرؓ کے والد ابو قحافہ بھی اُسی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ کون ابوبکر!خبر لانے والے نے بتایا کہ ابو قحافہ کا بیٹا! آپ کے والد نے نہایت حیرت سے پوچھا۔ کون ابوقحافہ؟ جب انہیں معلوم ہوا کہ خود اُنہی کا بیٹا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خلیفہ منتخب ہوا ہے تو انہوں نے دوبارہ کلمہ پڑھا۔ اور کہا کہ آج مجھ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت منکشف ہو گئی ہے۔ اگر آپ سچے نہ ہوتے تو ابو بکرؓ کی کیا حیثیت تھی کہ اس کو اتنی بڑی عزت ملتی۔ غرض کہاں ایک قبیلہ کی لیڈری اور کہاں یہ کہ تمام مسلمانوں کا خلیفہ اور مملکتِ عرب کا بادشاہ ہونا۔ جس نے ایران اور روم سے ٹکر لی اور انہیں نیچا دکھایا۔ پس فرمایا۔ اسلام کے لئے جو قربانیاں انیہں دینی پڑیں گی۔ وہ اُن فوائد کے مقابلہ میں بہت حقیر ہیں جو انہیں اسلام سے حاصل ہو سکتے ہیں۔ کاش وہ جانتے اور اس کا قدر کرتے۔
آخر میں اس شبہ کا ازالہ کر دینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ وَاتَّبْعُوْا میں ماضی کا صیغہ کیوں رکھا گیا ہے۔ چاہیے تھا کہ یَتَّعُوْنَکہاجاتا۔ اور مضارع کا صیغہ استعمال کیا جاتا۔ اس کے لئے یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ یہاں جس فعل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ وہ شرارتیں ہیں جو انہوں نے ایرانی بادزاہ خسرو ثانی کو محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف بھڑ کا نے کے لئے کی تھیں۔
لیکن خسروثانی کے بعد ایک ایسا بادشاہ تخت نشین ہوا ۔ جس کی پالیسی سابق فرمانروا کے خلاف تھی یعنی شیرویہ۔ وہ تخت حکومت پر بیٹھا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف اس قسم کی ظالمانہ شکایات کا سِلسلہ بند ہو گیا۔اِس وجہ سے یہاں مضارع کا صیغہ نہیں بلکہ ماضی کا صیغہ ہی استعمال ہو سکتا تھا۔ اگر یَتَّبِعَونَ کہا جاتا تو پھر یہ سمجھا جاتا کہ خسروثانی کی پالیسی بعد میں بھی جاری رہی تھی حالانکہ وہ مارا گیا تھا۔ اور اس کے بیٹے نے اپنے باپ کی حکم کو منسوخ کر دیا تھا۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ تَتْلُوا مضارع ہے حالانکہ یہاں ماضی زیادہ مناسب تھی۔ مفسرین نے تو اِس کا یہ جواب دیا ہے کہ یہ اصل میں کَانَتْ تَتْلُوْاہے۔ کانت کو اُڑا کر تَتْلُوْا کر دیا گیا اور الفاظ کو حذف کر دینا عربی زبان کی اُن خصوصیات میں سے ہے جو اُسے دوسری زبانوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ دوسری زبانوں میں زور دینے کے لئے نتبیہ کے الفاظ کثرت سے استعمال ہوتے ہیں۔ لیکن عربی زبان میں صرف حذف سے ہی یہ فائدہ اٹھایا لیا جاتا ہے۔چنانچہ کَانَتْ تَتْلُوا سے صرف تَتْلُوْا کر کے یہ مضمون واضح کیا گیا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانہ میں آپ کے دشمنوں نے بڑے زور سے یہ کام کیا تھا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن بھی اُنہی کے نقشِ قدم پر چل کر اسلام کو ہٹانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور صرف کر رہے ہیں۔
لیکن اِس کے علاوہ عربی محاورات میں جب کسی لمبی عادت کا ذکر کرنا ہو تو عرب ماضی کی جگہ مضارع استعمال کرتے ہیں جیسے قرآن کریم کی آیت فَلِمَ تَقْتُلُوْنَ اَنْبِیَآئَ اللّٰہِ مِنْ قَبْلُ(سورہ بقرہ آیت ۹۲) میں تَقْتُلُوْنَ سے قَتَلْتُمْ مراد ہے اِسی طرح یہاں جو مضارع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے اِس سے یہود کی اُن لمبی سازشوں کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے جو وہ حضرت سلیکان علیہ السلام کے زمانہ سے کرتے چلے آئے تھے اور جو اُن کی ایک رنگ میں طبیعتِ ثانیہ بن چکی تھیں۔ اِسی لئے ماضی کی بجائے یہاں مضارع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔
میں نے پچھلے رکوع میں بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے بنی اسرائیل کی اُن مخالفتوں کا ذکر کیا ہے جو وہ سابق انبیاء کے مقابلہ میں کرتے چلے آئے ہیں۔ اور اُن کی بد اعمالیوں کے سِلسلہ کا ذکر کرتے ہئوے بات کو یہاں تک پہنچایا تھا کہ انہوں نے انبیاء سابقین کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بھی مخالفت کی۔ اب اِس رکوع میں اُس سلسلہ مخالفت کی بعض اور کڑیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اور بتایا گیا ہے کہ یہ لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی جو مخالفت کر رہے ہیں یہ اُن کا ایک دیر ینہ مشغلہ ہے۔ اور اُن کی یہ مخالفت انہیں خدا تعالیٰ کی مخالفت پر بھی آمادہ کر رہی ہے۔
یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ
اَلِیْم’‘o
چنانچہ آیت نمبر۹۸ میں بتایا گیاکہ یاد رکھو۔ اس کلام کی دشمنی درحقیقت کلام بھیجنے والے کی دشمنی ہے اور آیت نمبر۹۹ میں بتایا کہ خدا تعالیٰ کی دشمنی گویا تمام اسبابِ روحانی اور جسمانی کی دشمنی ہے جو انسانی ترقی کے ممدو معاون ہیں۔ اس لئے یہ نہ سمجھو کہ قرآن کریم کا انکار ایک معمولی بات ہے بلکہ یہ خالقِ اسباب اور قوموں کو ترقی و تنزل دینے والے سے جنگ ہے۔ آیت نمبر۱۰۰ میں بتایا کہ قرآن مجید کا انکار بلا وجہ ہے کیونکہ اس کی صداقت کے زبردست دلائل موجود ہیں۔آیت ۱۰۱،۱۰۲ میں بتایا کہ یہ اپنے انبیاء سے عہد کر چکے ہیں کہ ہم آنے والے رسول کو مانیں گے مگر پھر بھی نہیں مانتے۔ آیت ۱۰۳ میں بتایا کہ یہ لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا صرف انکار ہی نہیں کرتے بلکہ آپؐ کے ہلاک کرنے کے لئے طرح طرح کے منصوبے کر رہے ہیں جن میں بعض بادشاہوں سے خفیہ خط و کتابت بھی شامل ہے۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اس طرح یہ سلسلہ تباہ ہو جائیگا ۔ مگر یہ اُن کی غلطی ہے۔ یہ لوگ اپنے اس مقصد میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہو ںگے۔
یہ وہی مضمون ہے جو اَفَکُلَّمَا جَآ ئَ کُمْ رَسُوْل’‘م بِمَا لَاتَھْوٰٓی اَنْفُسُکُمُ اسْتَکْبَرْ تُمْ(بقرہ آیت ۸۸) میں بیان کیا گیا تھا۔ اور پھر اس کی شہادت کے طور پر فرمایا کہ ان کا یہ دیرینہ اصول ہے کہ مخالفت ضرور کرنی چاہیے۔ چنانچہ اس رکوع میں اس کی ایک مثال دی جو تینوں زبانوں سے تعلق رکھتی ہے۔ ایک تو انتہائی ترقی کے وقت پرچسپاں ہوتی ہے یعنی حضرت دائود اور حضرت سلیمان ؑ کے وقت پر۔ دوسرے درمیانی وقت پر یعنی ججی اور زکریا ہ بنی کے زمانہ پر۔ اور آخری مثال اُن کے تنزل کے زمانہ کی ہے گویا کوئی زمانہ بھی اُن کی مخالفت سے خالی نہیں رہا۔ آیتنمبر ۱۰۴ میں بتایا کہ ایمان لانا اور شیوہ اِتّقاء اختیار کرنا اور اللہ تعالیٰ کی مخالفت سے بچنا بہت بڑے ثواب کا کام ہے۔
۲۲؎ حال لغات:۔ رَاعِنَا۔ یہ مرکب ہے رَاعِ اور نَا سے اور رَاعِ باب مفاعلہ سے امر کا صیغہ ہے رَاعَی الرَّجُلَ کے معنے ہیں (۱) اِلْتَفَتَ اِلَیْہِ مُحْسِنًا۔ اُس نے شفقت سے کام لیتے ہوئے دوسرے کی طرف توجہ کی۔(۲) ایک دوسرے کے ساتھ رعایت اور نرمی کا معاملہ کیا۔ لیکن چونکہ رَاعِنَا باب مفاعلہ سے ہے۔ اور باب مفاعلہ کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں مقابلہ کا مفہوم پایا جاتا ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے کے ساتھ ایک جیسا عمل کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے رَاعِنَا کے معنے یہ ہوںگے کہ تم ہمارا لحاظ کرو تو ہم تمہارا کرینگے۔ تم ہماری رعایت کرو تو ہم تمہاری رعایت کرینگے۔ یہ معنے علاوہ ان معنوں کے ہیں جو اوپر کئے گئے ہیں کہ احسان سے توجہ فرمایئے اور مہربانی کی نظر کیجیئے۔
اُنْظُرْنَا: کے معنے ہیں ہماری طرف توجہ کیجیئے ہمارا انتظار کیجیئے۔ ہمیں ساتھ شامل کرنے کے لئے ذرا ٹھہر جائیے۔ گویا اُنْظُرْنَا کے بھی وہی معنے ہیں جو رَاعِنَا کے ہیں۔ مگراس میں وہ شرط نہیں پائی جاتی جو رَاعِنَا میں پائی جاتی ہے۔
تفسیر:۔ لَاتَقپوْلُوْارَاعِنَا۔ یہود مسلمانوں کے خلاف دو قسم کی شرارتیں کیا کرتے تھے۔ اول بیرونی اور دوم اندرونی۔ یہاں اُن کی اُن شرارتوں کا ذکر کیا گیا ہے جو وہ اندرونی طور پر مسلمانوں کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے برگشتہ کرنے اور اُن کے دلوں میں آپکا ادب اور احترام کم کرنے کے لئے کیا کرتے تھے۔ وہ جس طرح اسلام کو تباہ کرنے کے لئے بیرونی لوگوں کو بلکہ حکومتوں تک کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے خلاف اکسایا کرتے تھے اسی طرح وہ مسلمانوں کو بھی اسلام سے بدظن کرنے کے لئے کئی قسم کے حیلے اور تدابیر اختیار کرتے ۔ جہاں کسی کو کوئی تکلیف پہنچتی فوراً اس سے ہمدردی کا اظہار شروع کر دیتے ۔ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجالس میں آ آکر ایسے الفاظ استعمال کرتے جن کے دو معنے ہوتے تھے ایک اچھے اور ایک بُرے تاکہ مسلمان بھی ان الفاظ کو استعمال کرنے لگیں ۔ اور اس طرح ان ان کے دلوں میں سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عزت اور آپ کا احترام جاتا رہے۔ اور اُن میں گستاخی اور بے ادبی کی رُوح پیدا ہوجائے۔ مثلاً تضحیک کرنے کے لئے وہ آپ سے بعض دفعہ کوئی بے معنی سوال کر دیتے۔ اور اِس سے اُن کی غرض یہ ہوتی کہ مسلمانوں کے دلوںسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا رُعب جاتا رہے اور ان کا اخلاص کم ہو جائے یا شرمندہ کرنے کے لئے عبرانی کے متعلق کوئی سوال کر دیتے یا کوئی حوالہ پُوچھ لیتے۔ حالانکہ یہ کوئی ایسی بات نہیں کہ جس سے فی الحقیقت کسی کی عزت کم ہو جائے۔ اگر آپ کو پتہ نہ ہوتا تو آپ اعتراف فرما لیتے کہ مجھے اِس کا علم نہیں۔ حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ آپؐ نے اپنے چند صحابہؓ کو دیکھا کہ وہ کھجور کے نرومادہ کا آپس میں پیوند کر رہے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا۔ ایسا کیوں کرتے ہو؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ! ہم ایسا ہی کرتے چلے آئے ہیں۔ آپ نے فرمایا۔ اگر تم ایسا نہ کرو تو شاید یہ تمہارے لئے زیادہ بہتر ہو۔انہوں نے یہ سمجھ کر کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا۔ کہ آپ کی ہدایت پر ہم نے کھجور کے نرومادہ کو آپ میں ملانا چھوڑ دیا تھا مگر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پھل نہیں آیا۔ آپؐ نے فرمایا۔ اس قسم کے معاملات کے متعلق تم مجھ سے زیادہ واقف ہو۔ جب میں تمہیں کوئی دینی حکم دوں تو اُس کی اطاعت تم پر فرض ہے۔ لیکن اگر کسی دنیوی معاملہ کے متعلق رائے دوں۔ تو میں بھی تمہاری طرح ایک بشر ہوں ہو سکتا ہے کہ وہ غلط ہو(مسلم جلد۲ کتاب الفضائل)
غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ طریق تھا کہ اگر آپ کو کسی بات کا علم نہ ہوتا تو آپ صاف طور پر فرما دیتے کہ ہمجھے اس کا علم نہیں۔ لیکن یہود کا مقصد چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب اور احترام مسلمانوں کے دلوں سے کم کرنا تھا اِس لئے وہ مجالس میں آ آکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایسے سوال کر دیتے جس سے اُن کی یہ غرض ہوتی تھی کہ اگر آپ کو ان کا جواب نہ آئیگا تو آپ شرمندہ ہو نگے۔ اور مسلمانوں میں بد دلی پیدا ہوگی۔ مگر اللہ تعالیٰ اپنے الہام کے ذریعہ آپ کو اُن کی شرارتوں سے محفوظ کر دیتا۔ انہیں شرارتوں میں سے اُنکی ایک شرارت یہ بھی تھی کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق ایسے الفاظ استعمال کرتے تھے جن سے اندرونی طور پر ہتک ہوتی تھی۔ لیکن اگر کوئی روکتا تو وہ کہہ دیتے کہ تم ہماری بات سمجھے نہیں۔ ہماری تو اس سے یہ غرض نہیں تھی۔جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ یہود بعض دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اَلسَّلامُ عَلَیْکُمْ کہنے کی بجائے اَلسَّامُ عَلَیْکَ کہہ دیا کرتے تھے۔ سُننے والا تو سمجھتا کہ انہوں نے سلام کیا ہے مگر اُن کی مد نظر سَام ہوتا جس کے معنے تباہی اور ہلاکت کے ہیں۔ ایک دفعہ بعض یہودیوں نے ایسا ہی کیا۔تو حضرت عائشہؓ بھانپ گئیں اور انہوں نے فوراً کہا عَلَیْکُمْ السَّامُ عَاللَّعْنَۃُ یعنی تم پر ہی ہلاکت اور تباہی نازل ہو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ عائشہ سختی نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ رفق اور نرمی سے کام لینا زیادہ پسند کرتاہے۔ انہوں نے کہا۔ یا رسول اللہ! آپ نے سُنا نہیں کہ یہود نے کیا کہا ہے۔ آپؐ نے فرمایا۔ کیا تم نے نہیں سُنا کہ میں کیا جواب دیا کرتا ہوں۔ میں اُن کے اس فقرہ کے جواب میں صرف عَلَیْکُمْ کہہ دیا کرتا ہوں۔(بخاری کتاب الدعوات باب الدعاء علی المشرکین)
اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہود کی یہ عادت تھی کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق ایسے الفاظ استعمال کرتے جو گستاخانہ بھی ہوتے اور عامیانہ بھی اور اس سے اُن کا مقصد محض رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تذلیل اور آپ کا استخفاف ہوتا اللہ تعالیٰ اس آیت میں اُن کے اس اندرونی بغض کی ایک مثال دیتا ہے فرماتا ہے اے مومنو! تم رَاعِنَامت کہو بلکہ اُنْظُرْنَا کہا کرو۔ حالانکہ رَاعِنَا کے بھی وہی معنے ہیں جو اُنْظُرْنَا کے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ کیوں فرمایا کہ رَاعِنَا نہ کہو بلکہ اُنْظُرْنَا کہو۔ اس کی وجہ جیسا کہ خود قرآن مجید نے ایک دوسرے مقام پر صراحت کی ہے یہ ہے کہ یہود کا یہ طریق تھا کہ جب وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے تو آپؐ کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے رَاعِنَا کا لفظ استعمال کرتے۔ گو ۔رَاعِنَا کے لُغتاً یہ معنے ہیں کہ آپ ہماری راعیت رکھیں اور ہم سے مہربانی کا سلوک کریں مگر قرآن کریم بتاتا ہے کہ وہ سیدھی طرح یہ لفظ استعمال نہیں کرتے تھے بلکہ اپنی زبان کو پیچ دے کر اور اس لفظ کو ایسے رنگ میں بگاڑ کر استعمال کرتے تھے کہ بادی النظر میں تو رَاعِنَا ہی سمجھا جاتا مگر درحقیقت وہ ایک طنزیہ کلام یا گالی بن جاتا۔ اللہ تعالیٰ اُن کی اس شرارت کا ذکر کرتے ہوئے سورۃ نساء میں فرماتا ہے۔ مِنَ الَّذِیْنَ ھَادُوْایُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمُ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ وَیَقُوْلُوْنَ سَمِعْنَا وَعَصَیْنَاوَاسْمَعْ غَیْرَ مُسْمَعٍ وَّرَاعِنَا لَیًّام بِآٰلْسِنَتِھِمْ وَطَعْنًا فِی الدِّیْنِ ط وَ لَوْاَنَّھُمْ قَالُوْ ا سَمِیْنَا وَاَطَعْنَا وَاسْمَعْوَانْظُرْنَا لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ وَاَقْوَمَ(نساء آیت۴۷)
یعنی یہودیوں میں سے بعض لوگ خدا تعالیٰ کے الہامات کو اُن کے اصل مقام سے اِدھر اُدھر بدل دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے سُنا اور نافرمانی کی۔ اور کہتے ہیں۔ ہماری باتیں سُن تجھے خدا کا کلام مبھی نہ سُنایا جائے۔ اور یہ بھی کہتے ہیں کہ رَاعِنَا۔ یعنی ہمارا لحاظ کر۔ مگر یہ بات اپنی زبانوں کو پیچ دیتے ہوئے اور دین میں طعن کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ اگر وہ اس شرارت اور فتنہ انگیزی کی بجائے یہ کہتے کہ ہم نے سُنا اور اہم نے اطاعت کی اور کہتے کہ ہماری معروضا سُن اور ہمارا بھی لحاظ رکھ تو یہ امر اُن کے لئے بہت بہتر اور بہت زیادہ درستی اخلاق کا موجب ہوتا۔
مفسرین کہتے ہیں کہ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابتدائی زمانہ میں بکریاں بھی چرائی تھیں اس لئے فتنہ پرواز یہودی ذرا لہجہ بدل کر رَاعِنَا کی بجائے رَاعِیْنَا کہہ دیا کرتے تھے۔ جس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ تو تو ہمارا چرواہا ہے اَب تُو نبی کِس طرح بن گیا۔مگرعلامہ اصفہانی صاحب مفردات لکھتے ہیں کہ کَانَ ذَالِکَ قَوْلاً یَقُوْلُوْ نَہ‘ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلیٰ سَبِیْلِ التَّھَکُّم یَقْصُدُوْنَ بِہٖ رَمْیَہُ بِالرُّعُوْنَۃِ وَیُوْ ھِمُوْنَ اَنَّھُمْ یَقُوْلُوْنَ رَاعِنَا اَیْ اِحْفَطْنَا مِنْ قَوْلِھِمْ رَعُنَ الرَّجُلُ یَرْ عَنُ رَعَنًا فَھُوَ رَعِن’‘ وَاَرْعَنُ۔یعنی یہودی رَاعِنَا کا لفظ محض ہنسی اور مذاق کے طور پر استعمال کرتے تھے اور اُن کا اصل مقصد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حماقت سے متہم کرنا ہوتا تھا۔ لیکن وہ سُننے والوں کو اس وہم میں بھی مبتلا رکھنا چاہتے تھے کہ وہ رَاعِنَا کا لفظ اِحْفَظْنَا کے معنوں میںا ستعمال کر رہے ہیںحالانکہ وہ رَاعِنمَا نہیں بلکہ رعِنَا کہہ رہے ہوتے تھے۔ چنانچہ اہل عرب بیوقوف اور احمق انسان کو رَعِن’‘ اور اَرْعَنُ کہا کرتے تھے۔ اِس نقطہ نگاہ کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ لفظ رَعِن’‘ سے بھی بن سکتا ہے جس کے معنے احمق خود پسند اور متکبر انسان کے ہیں منادیٰ ہو کر یہ لفظ رَعِنَا ہوا اور چونکہ وہ لَیّاً بِاَلْسِنَتِھِمْ کے ماتحت اپنی زبان کو پیچ دے کر یہ لفظ استعمال کرتے تھے تا اُن کی منافقت پر بھی پردہ پڑا رہے اس لئے وہ رَعِنَا کو ایسے رنگ میں ادا کرتے کہ وہ رَاعِنَا بھی سمجھا جاتا۔ اور چونکہ آخری الف خطاب کے لئے ہے اِس لئے رَعِنَا کے معنے یہ ہوتے کہ اے بیوقوف یا اے دھوکہ خوردہ انسان۔ گویا بظاہر تو یہی دکھائی دیتا کہ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ برے معزز اور بزرگ ہیں۔ آپ ہمیں بھی موقعہ دیں کہ ہم آپ کی باتیں سُنیں۔مگر وہ کہتے یہ تھے کہ اس شخص کا دماغ خراب ہو گیا ہے یا یہ بڑا متکبر اور خود پسند انسان ہے۔ اور اگر انہیں کہا جاتا کہ تم یہ کیا کہہ رہے ہو تو وہ فورا کہہ دیتے کہ ہم نے رَاعِنَا کہا ہے اور آپ میں اشارے کر کے خوش ہوتے کہ دیکھو ہم نے انہیں کیسا بیوقوف بنایا ہے۔
مگر میرے نزدیک ایک اور وجہ بھہ ہے جس کی بنا پر مسلمانوں کو رَاعِنَا کہنے سے روکا گیا ہے۔ اور وہ وجہ یہ ہے کہ رَاعِ باب مفاعلہ سے امر کا صیغہ ہے اور اس باب میں یہ مفہوم پایا جاتا ہے کہ تم مقابل میں ایک بات کرو گے تب ہم تمہارے لئے ایسا کریں گے۔ پس رَاعِنَا میں یہ مفہوم پایا جاتاہے کہ آپ ہماری رعایت مدنظر رکھ ینگے تب ہم بھی آپ کی رعایت ملحوظ رکھیں گے ورنہ نہیں۔مگراُنْظُرْنَا کے صرف یہی معنے ہیں کہ آپ ہماری رعایت رکھیئے یا ہماری طرف نظر عنایت کیجئے۔ پس رَاعِنَا کے معنے اگرچہ عام محاورہ میں یہی میں کہ آپ ہماری رعایت رکھیں ۔ لیکن اس لفظ کے مادہ میں چونکہ بے ادبی کا مفہوم پایا جاتا ہے ۔ اور کسی بڑے آدمی کو جس کا ادب ملحوظ رکھنا چاہیے یہ کہنا کہ ہم آپ کی رعایت اور ادب صرف اُسی صورت میں کرینگے جب آپ بھی ہماری رعایت اور ادب صرف اُسی صورت میں کرینگے جب آپ بھی ہماری رعایت رکھیں گے ایک سخت بے ادبی کا کلام ہے ۔ اور یہ ایک قسم کا سودا بن جاتا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شان و عظمت کے منافی تھا اسلئے اللہ تعالیٰ نے اس کے مخالفت فرمائی اور اسی مفہوم کو ایسے لفظ میں ادا کرنے کا حکم دیا جس سے بے ادبی کا کوئی احتمال نہیں ۔
غرض میرے نزدیک مسلمانوں کو اس الفظ کے استعمال سے اِس لئے نہیں روکا گیا کہ اُن کی یہودیوں سے۸ مشابہت نہ ہو ۔ کیونکہ اگر نیت نہ ہو تو مشابہت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بلکہ اِس لئے روکا گیا ہے ۔ کہ رَاعِ مُرَادعَاۃُٗ سے ہے ۔جس کے معنے یہ ہیں۔کہ تو میری رعایت کر تو میں تیری رعایت کرو نگا۔جیسے قَاتَلَ کے معنے ہیں یہ اُس سے لڑا اور وہ اِس سے لڑا۔اور بَاھَلَ کے معنے ہیں ۔اُس نے اِس پر لغت کی اور اِس نے اُس پر ۔ اِسی طرح اگرچہ رَاعَنَا کے عام استعمال میں یہی معنے لئے جاتے تھے کہ آپ ہماری رعایت کریں مگر لغت میں اسکا یہ مفہوم بھی ہے کہ تم ہماری رعایت کروتب ہم تمہاری رعایت کریں گے اور اس میں یہ گستاخی اور بے ادبی پائی جاتی ہے ۔ یہودیوں کا منشاء تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق ایسے الفاظ بار بار استعمال کریں تا اُن سے سُن کر مسلمان بھی ان الفاظ کو استعمال کرنے لگ جائیں ۔اور اِسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ادب و احترام آہستہ آہستہ اُن کے دلوں سے دور ہو جائے ۔اِس بدی کا سد باب کرنے کیلئے خدا تعالیٰ نے سختی سے حکم دیا کہ کوئی شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق یہ لفظ استعمال نہ کرے ۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کا بھی لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے ۔ مسلمانوں میںجو تباہی اور خرابی پیدا ہوئی اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے ۔ کہ انہوں نے ادب و احترام کے الفاظ گندے معنوں میں استعمال کرنے شروع کر دئیے ۔ ان کی حکومتیں مٹ گئیں۔سلطنتیں بر باد ہو گئیں صرف اس لئے کہ اُن کے نزدیک بادشاہ کے معنے بیوقوف کے ہو گئے ۔ جہاں بادشاہ بیوقوف کو کہا جائے گا وہاں بادشاہ کا ادب کہاں ہو گا ۔ اور جب بادشاہ کا ادب مٹ جائے گا تو حکومت بھی تباہ ہو گئی ۔ اسی طرح علماء اور بزرگوں کا ادب مسلمانوں کے دلوں سے اس طرح اُٹھا کہ حضرت کا لفظ جو اُن کے متعلق استعمال ہوتا تھا وہی لفظ شریروں اور بدمعاشو کے متعلق بھی استعمال کرنے لگ گئے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ علماء کا ادب مٹ گیا اور اُن کی بے ادبی شروع ہو گئی ۔اسی طرح دیکھو۔ اللہ تعالیٰ کے لفظ کے بے ادبی سے مسلمانوں پر کس طرح تباہی اور بربادی آئی ہے۔جب کسی کے پاس کچھ نہ رہے تو کہتے ہیں اب تو اللہ ہی اللہ ہے ۔ مطلب یہ نہیں ہوتا کہ محمد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم والا اللہ اُن کے ذہن میں ہے جن سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک موقعہ پر جبکہ وہ اپنا سارا مال خدا کی راہ میں دینے کیلئے لے آئے تھے پوچھا تھا کہ آپ گھر میں کیا چھوڑ آئے ہیں تو انہوں نے کہا تھا اللہ ۔ یہ بالکل اوررنگ تھا لیکن مسلمان جب یہ کہتے ہیں کہ اب اللہ ہی اللہ ہے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اب کچھ بھی نہیں رہا ۔غرض اس رنگ میں اللہ تعالیٰ کے لفظ کے استعمال کا یہ نتیجہ ہوا کہ لوگوں کے دلوں سے خدا تعالیٰ پر ایمان اُٹھ گیا اوراُن میں ہر یت آگئی ۔ پس اس بات کو اچھی طرح یاد رکھو کہ ادب اور احترام کے الفاظ کبھی گندی اور بڑی جگہ استعمال نہیں کرنے چائیں ۔ ورنہ قابل احترام چیزوں کا ادب بھی اُٹھ جائیگا ۔اور اس کا نتیجہ سوائے تباہی اور بربادی کے اور کچھ نہیں ہو گا۔ اسی طرح آیت معجزہ کرامت ۔نبی ۔رسول ،شہید ۔وغیرہ تما م الفاظ تمہارے نزدیک بڑے معزز و مکرم ہونے چائیں ۔ورنہ اگر ان الفاظ کا ادب اٹھ گیا تو پھر ان لوگوں کا ادب بھی اُٹھ جائیگا ۔ جن کے متعلق یہ الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔ اور اسی طرح اباحت اور بے دینی پیدا ہو جائیگی ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیشہ فرمایا کرتے تھے اَلطَّرِ یْقَۃَ کُلُّھَااَدَبُٗ ۔یعنی روحانیت کی تمام تر بنیاد ادب پر ہے ۔اگر ادب ملحوظ نہ رکھا جائے یا ایسے الفاظ استعمال کر لئے جائیں جو ذومعنیں ہوں تو بعض دفعہ اس کا نہایت خطرناک نتیجہ نکلتا ہے ۔
انشا ء اللہ خان انشار ایک بہت بڑے شاعر تھے ۔ اور ہمیشہ اس امر کی کوشش کیا کرتے تھے کہ بادشاہ ہمارے بادشاہ کی تعریف ہونے لگی ۔ تو کسی نے کہا کہ ہمارے بادشاہ بڑے نجیب ہیں۔ انشا اللہ خان نے فوراً کہا ۔ نجیب کیا حضور تو اَنْجَب ہیں۔ اَب انجیب اِس کے ایک معنے تو زیادہ شریف کے ہیں۔ مگر ساتھ یہ اِس کے معنے لونڈی زادہ کے بھی ہیں ۔ تمام دربار میں سُناٹا چھا گیا ۔اور سب کی توجہ لونڈی زادہ والے مفہوم کی طرف پھر گئی ۔بادشاہ کے دل میں بھی یہ بات بیٹھ گئی ۔ اور انشا ء اللہ خان کو اُس نے قید کر دیا اورآخر اسی قید میں انہیں جنون ہو گیا اور وہ مر گئے ۔ غرض اللہ تعالیٰ مومنوںکو ہدایت دیتا ہے کہ دیکھو تم رَاعِنَا من کہا کرو۔ بلکہ اُنْظُرنَا کہا کرو۔اور ایسے طریق جن سے خدا کے رسول کی بے ادبی ہوتی ہو بچو۔
لَیًّا کے معنے بھی اِخْفَا ئً وَ کِتْمَا نًا کے ہیں ۔ جس میں اس طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ رَاعِنَا کا لفظ اُن کی زبانوں پر ہوتا تھا ۔مگر اس چیز کو چھپاتے ہوئے جواُن کے مد نظر ہوتی تھی وہ اس لفظ کا استعمال کیا کرتے تھے ۔یعنی ان کی زبانوں پر تو یہی لفظ ہوتا ۔مگر دل میں کچھ اور مطلب ہوتا ۔ اصل میں تو یہ مراد ہوتی کہ تو بڑا احمق اور خود سر انسان ہے ۔ مگر جب پوچھا جاتا تو صاف کہہ دیتے کہ ہم تو ان کی نظر عنایت کے طلبگار ہیں ۔ اور رَاعِنَا عرض کر رہے ہیں حالانکہ یہ بات نہیں ہوتی تھی ۔ اور پھر وہ الگ ہو کر کہا کر تے کہ دیکھا ہم نے نعوذ باللہ اسے اُس کے متبعین میں کیسا ذلیل کیا ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مومنوں کو ایسا نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس سے یہود دلیر ہو جاتے ہیں۔ اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ماننے والے بھی اُنہیں کچھ دقعت نہیں دیتے ۔ بے شک اُنْظُرنَاکے بھی
مَا یَوَدُّ

الْعَظِیْمِ o
یہی معنے ہیں کہ ہماری طرف توجہ کیجئے مگر اس میں برابری کا وہ مفہوم نہیں پایا جاتا جو رَاعِنَامیں پایا جاتا ہے ۔ اگر اس کے مفہو م میں بھی یہ بات ہوتی کہ تو توجہ کر تو پھر ہم بھی توجہ کرینگے تو بے شک بے ادبی ہوتی مگراسکا یہ مفہوم نہیں ہے ۔ اُنْظُرنَا کے یہ بھی معنی ہیں کہ ہمارا انتظار کیجئے یا ہمیں مہلت دیجئے یا ہمیں موقعہ دیجئے کہ ہم اپنی معروضات کو پوری طرح پیش کر سکیں ۔پس یہ ادب کے الفاظ ہیں اور ایسے ہی الفاظ میں اپنی عقیدت کا اظہار کرنا ایک مومن کیلئے ضروری ہوتا ہے ۔
وَاسْمَعُوْا میں بتایا کہ ہم نے تمہیں جو یہ حکم دیا ہے ۔
تمہارا فرض ہے کہ تم اسے قبول کرو اور توجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی باتیں سُنا کرو تاکہ تمہیں دوسری دفعہ آپؐ سے سوال کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آوے اور یہ الفاظ تمہیں استعمال ہی نہ کرنے پڑیں ۔ اگر پہلے توجہ نہ کروگے ۔ اور آپؐ کی باتوں کو پورے غور کے ساتھ نہ سنو گے تو تمہیں یہ کہنا پڑیگا کہ ہمیں پھر سمجھائیے اسلئے خدا کے رسول کی باتوں کی طرف تم ایسی توجہ رکھو کہ یہ بات ہی پیدا نہ ہو اور دوسری دفعہ تمہیں سوال کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے ۔ غرض وَاسْمَعُوْا کے دونوں مفہوم میں یہ بھی کہ تم ہماری بات مان لو اور یہ بھی کہ تم توجہ سے اس کی باتیں سنو تاکہ یہ صور ت یہ پیدا نہ ہو ۔ اگر تم ایسا نہ کرو گے تو یاد رکھو یہ چھوٹی چھوٹی باتیں بڑی بن جائیں گی اور تمہاری دل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ وآلہٖ وسلم کی محبت نہیں رہیگی ۔کیونکہ ظاہر کا باطن پر گہر ا اثر پڑتا ہے ۔مگر ظاہر ی آداب سے وہ باتیں مراد نہیں جو انسان کو دوسرے کا غلام بنا دیں مثلاً دوسرے کے پاؤں یا گھٹنے کو ہاتھ لگانا ۔یہ ایک مومن کی انتہائی ذلت ہے جو کسی صورت میں بھی جائز نہیں دوسرے کا ادب بغیر اپنے نفس کو ذلیل کرنے کے بھی ہو سکتا ہے پس جس بات میں ذلت نفس پائی جائے اُسے کبھی اختیار نہیں کرنا چاہیے اور نہ اسلام ایسی باتوں کی تعلیم دیتا ہے ۔ وَلِلْکَفِرِیْنَ عَذَابُٗ اَلِیْمُٗ میں کفار سے مراد ویہ مفسد اور فتنہ پرداز یہود ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ وآلہٖ وسلم کی اہانت اور مسلمانوں میں منافقت کا بیج بونے اور اُن کے دلوں سے محمد رسول اللہ صلی اللہ وآلہٖ وسلم کا ادب اور احترام کم کرنے کیلئے اس قسم کی شرارتیں کیا کرتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔کہ اگر یہ لوگ اپنی حرکات سے باز نہ آئے تو ایک دن انہیں ان کی شراتوں کا دردناک انجام دیکھنا پڑیگا ۔
۲۳؎ تفسیر :۔فرمایا نہ اہل کتاب اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ تم پر خدا کا فضل نازل ہو اور نا ہی مشرک ۔ وہ ایسی حرکیتں کرتے ہیں جن کی وجہ سے تم محمد رسول اللہ صلی اللہ وآلہٖ وسلم کا ظاہری ادب ترک کر دو ۔ اور تمہارے دلوں میں ان کی وقعت کم ہو جائے اور اس طرح تم میں تفریقہ اور شغاق اور فساد پیدا ہو جائے اور تمہارا اتحاد جس کی وجہ سے تمہیں طاقت حاصل ہے جاتا رہے ۔اس لئے تمہیں
مَا نَنْسَخْ
شَیْ ئٍ قَدِیْر’‘o
ہوشیار رہنا چاہیے ۔دشمن کی غرض تو ہنسانا اور تضحیک کا پہلو پید ا کرنا ہوتا ہے ۔مگر ہو جانتا نہیں کہ اس سے خود اُس کی کمینگی ظاہر ہوتی ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ وآلہٖ وسلم کا کیا بگڑتا ہے ۔
وَاللّٰہُ یَخْتَصُّ بِرَ حْمَتِہٖ مَنْ یَّشَآئُ ۔فرماتا ہے ۔ اِن باتوں سے کیا بنتا ہے ۔خدا تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت سے مختص کر لیتا ہے ۔ اِس وقت اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ اپنی رحمت کو مخصوص کر دیا ہے ۔ پس تم چاہے کتنی گالیاں دے لو۔ خدا کا نبی جیتتا چلا جائیگا۔کیونکہ اس کیلئے خدا تعالیٰ کی غیرت جوش میں آئی ہوئی ہے ۔
وَاللّٰہُ ذُواْلفَضْلِ الْعظِیْم ِمیں اس طرف توجہ دلائی کہ اُس کی رحمت عام ہے۔اس لئے اگر تم ایمان لے آؤتو ہماری رحمت ختم نہیں ہو گئی ۔ اگر تم توبہ کر لو تو تمہیں بھی ہماری رحمت سے حصہ مل جائیگا ۔
۲۴؎ حل لغات:۔نَسَخَ الشَّیْ ئَ کے معنے ہیں اَزَ ا لَہُ وَ اَبْطَلَہ‘ وَ مَسَخَہ‘۔ اُس نے کسی چیز کو مٹا دیا۔ باطل کر دیا اور مسخ کر دیا۔
نُنْسِھَا: اَنْسَی الرَّجُلُ الشَّیْ ئَ کے معنے ہیں حَمَلَہ‘ عَلیٰ نِسْیَانِہٖ۔ اُسے بھول جانے پر آمادہ کر دیا۔ پس نُنْسِھَا کے معنے ہیں ہم بھلوادیں اور ذہنوں سے محو کر دیں۔
اَلْاٰیَۃُ کے معنے ہیں اَلرِّسَالَۃُ۔ رسالت۔
تفسیر:۔یہ آیت ایسی اہم ہے کہ میں سمجھتا ہوں اِس آیت کے متعلق جو غلط فہمی لوگوں میں پائی جاتی تھی اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام صرف اسی کو دُور کرنے تو میرے نزدیک یہی ایک بات آپ کی نبوت اور ماموریت کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہوتی۔ اس کے متعلق مسلمانوں میں جو غلط فہمیاں پیدا ہوگئی تھیں اُن کی موجودگی میں اسلام کو سچا مذہب قرار دینا یا اُسے قلبی تسلی اور اطمینان کا موجب سمجھنانا ممکن تھا۔ کیونکہ اس زمانہ میں اس آیت کے معنے مسلمانوں میں یہ رائج تھے کہ ہم قرآن کریم کی جو آیت بھی منسوخ کر دیں یا اُسے بھولادیں ہم اُس سے بہتر یا ویسی ہی اور آیت لے آتے ہیں۔ اس آیت کے یہ معنے کر کے وہ اِس سے قرآن کریم میںنسخ کا ثبوت نکالا کرتے تھے اور یہ سمجھا جاتا تھا کہ قرآن کریم کی بعض آیات یقینا منسوخ ہو گئی تھیں۔ اور منسوخ کے وہ یہ معنے لیتے تھے کہ اُن کے احکام کو معطل کر دیا گیا تھا۔ اور بعض آیات کے متعلق وہ سمجھتے کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے بُھلا دیا تھا۔ اِس نسخ کے متعلق مسلمانوں کے مختلف نظریات ہیں۔ اُن کے نزدیک نسخ کی ایک قسم یہ ہے کہ آیت کے معنے تو قائم ہوتے ہیں مگر الفاظ محو کر دیئے جاتے ہیں۔ گویا ایک آیت معناً تو قرآن کریم میں موجود ہوتی ہے مگر اُس کے الفاظ اس میں نہیں ہوتے۔ وہ اس کی مثال یہ بتاتے ہیں کہ قرآن کریم میں پہلے یہ آیت موجود تھی کہ اَلشَّیْخَ وَالشَّیْخَۃُ اِذَا زَنَیَا فَارْ جُمُوْ ھُمَا نَکَالاً مِّنَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ عَزِیْر’‘ حَکِیْم’‘۔(رُوح المعانی جلد اول) یعنی اگر کوئی بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت زنا کریں تو اُن دونوں کو سنگسار کر دو۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا کے طور پر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ بڑا غالب اور حکمت والا ہے۔مگر پھر اسے نکال دیا گیا لیکن اس کا حکم باقی ہے۔ اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ دوسری آیت جو اُن کے خیال میں قرآن کریم سے نکال دی گئی تھی وہ یہ ہے کہ لَوْکَانَ لِاِبْنِ اٰدَمَ وَادِیَانِ مِنْ مَّالٍ لَابْتَغٰی وَادِیاً ثَالِثًا وَلَا یَمْلَأُ جَوْ فَہ‘ اِلَّا التُّوَابُ(فتح البیان جلد اول) یعنی اگر ابن آدم کے پاس مال و دولت سے بھری ہوئی دو وادیاں بھی ہوں تو وہ چاہتا ہے کہ ایسی ہی اُسے ایک تیسری وادی بھی مل جائے ۔ اور ابن آدم کا پیٹ سوائے مٹی کے اور کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔
دوسری قسم کا نسخ وہ یہ بتاتے ہیں کہ الفاظ آیت تو قائم رکھے جاتے ہیں۔ مگر اُس کا حکم منسوخ کر دیا جاتا ہے۔ وہ اس کے ثبوت میں آیت لَااِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ(بقرہ آیت۲۵۷)کو پیش کرتے ہیں۔ اس آیت کا حکم اُن کے نزدیک منسوخ ہے مگر الفاظ قائم ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس آیت کو آیات جہاد نے منسوخ کر دیا ہے۔ اور اب کفار کو ڈنڈے مار مار کر اسلام میں داخل کرنا جائز ہے۔ اس کی دوسری مثال ہو یہ دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔یٰٓاَیُّھَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّ مُوْابَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰلکُمْ صَدَقَۃًط ذَلِکَ خَیْر’‘ لَّکُمْ وَاَطْھَرُ(مجادلہ آیت۱۳) یعنی اے مومنو! جب تم رسول سے الگ مشورہ کرنے چاہو تو اپنے مشورہ سے پہلے کچھ صدقہ دے دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے اچھا ہو گااور تمہارے دل کو پاک کرنیکا موجب ہو گا اُن کے نزدیک اس آیت کے حکم کو اگلی آیت نے منسوخ کر دیا ہے کہ ئَ اَشْفَقْتُمْ اَنْ تُقَدِّ مُوْ ابَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰلکُمْ صَدَقٰتٍ ط فَاِذْ لَمْ تَفْعَلُوْا وَتَابَ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ فَاَقِیْمُو االصَّلوٰۃَ وَاٰتُواالذَّکٰوۃَ وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہ‘ط وَاللّٰہُ خَبِبْر’‘ بِمَا تَعْمَلُوْنَ(مجادلہ آیت۱۴) یعنی کیا تم مشورہ کرنے سے پہلے صدقہ دینے سے ڈر گئے؟ سو چونکہ تم نے ایسا نہیں کیا اور اللہ تعالیٰ نے تم پر فضل فرما دیا ہے۔ پس تم نمازیں قائم کرو اور زکٰوتیں دو۔ اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ اسے خوب جانتا ہے۔
تیسری قسم کا نسخ وہ ہوتا ہے جس میں اُن کے نزدیک آیت کے الفاظ اور معنے دونوں منسوخ ہو جاتے ہیں۔ اس کی مثال وہ تحویلِ قبلہ کا حکم بتاتے ہیں کہ پہلے مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے۔ لیکن اب اس کی طرف منہ کرنا جائز نہیں۔ حالانکہ نہ اس کا حکم موجود ہے اور نہ ہی عملاً اب مسلمان اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں۔
غرض یہ تین قسمیں وہ منسوخ آیات کی بتاتے ہیں اور نُنْسِھَا کے متعلق وہ یہ کہتے ہیں کہ اِس سے مراد یہ ہے کہ وہ حصہ ذہنوں سے اُتر جاتا ہے۔ اِس کی مثال وہ یہ دیتے ہیں کہ دو صحابہ ؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور شکایت کی کہ یا رسول اللہ وہ سورۃ ہمارے ذہنوں سے اُتر گئی ہے آپ نے فرمایا اِنَّھَا مِمَّا نُسِخَ وَ نُسِیَ یعنی یہ سورۃ بھی منسوخ آیات میں سے تھی جسے خدا تعالیٰ کی طرف سے منسوخ کر دیا گیا ہے۔ اسے بُھلا دیا گیا ہے۔ اِسی مضمون کی ایک روایت امام قرطبی نے بھی لکھی ہے۔
بعض نے نُنْسِھَاکی بجائے نَنْسٰھَا پڑھا ہے۔ اُن کے نزدیک اِس کے معنے بُھلانے کے نہیں بلکہ یہ ہیں کہ ہم اسے چھوڑ دیتے ہیں اور اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ ہم اسے قرآن کریم میں ہی رہنے دیتے ہیں بدلتے نہیں۔
بعض نے اِسے نُنْسٰھَا ہی رکھا ہے۔ مگر اِس کے معنے نُنْسِھَا کے لئے ہیں۔ یعنی ہم اسے غائب کر دیتے یا ذہنوں سے محو کر دیتے ہیں۔ گویا وہ اِس کے معنے بُھول جانے کے لیتے ہیں۔ مگر ہر شخص معمولی تدبر سے بھی کام لے کر سمجھ سکتا ہے کہ نسخ کا عقیدہ تسلیم کرنے کے بعد قرآن کریم کا کوئی اعتبار نہیں رہ جاتا۔ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے فلاں آیت کا حکم منسوخ کر کے اُسے قرآن کریم سے نکال دیا ہے تو یہ بات کم ازکم قرآن مجید کے متعلق شبہ پیدا کرنے والی نہ ہوتی۔ یا جن آیات کو خدا تعالیٰ نے تبدیل کرنا تھا اُن کو قرآن کریم میں درج ہی نہ کیا جاتابلکہ ان کی بجائیء جو مستقل حکم دینا تھا صرف اُسے ہی درج کر دیا جاتا تب بھی کوئی بات تھی لیکن اگر اُن کے بجائے کوئی مستقل حکم نہ لانا تھا تو منسوخ شدہ آیات کو قرآن کریم میں رکھنے کی کیا ضرورت تھی؟ بے شک یہ درست ہے کہ بعض وقتی احکام منسوخ بھی ہوتے ہیں جیسا کہ صُحفِ ابراہیم ؑ کو صحفِ موسیٰ ؑ نے منسوخ کر دیا اور صحفِ موسیٰ ؑ کو قرآن کریم نے منسوخ کر دیا۔ پس احکامِ الہیہ کا منسوخ ہونا کوئی قابلِ تعجب امر نہیں جو معیوب بات ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کریم نے منسوخ کر دیا۔ پس احکام الہیہ کا منسوخ ہونا کوئی تعجب امر نہیں جو معیوب بات ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کریم کی طرف جو ایک دائمی شریعت ہے اس بات کو منسوب کیا جائے کہ قرآن کریم میں بعض آیات کو درج کر کے پھر انہیں نکال دیا گیا تھاپھر اگر ان کو خارج کر دیا جاتا تب بھی اتنی خطرناک بات نہ تھی۔ لیکن جب کوئی شخص یہ بات کہے کہ قرآن کریم کی بعض آیات منسوخ ہیں اور اُن کے الفاظ قرآن مجید میں موجود ہیں اور وہ اس کے ثبوت میں کوئی وحی الہٰی پیش نہ کر سکے بلکہ صرف اپنا قیاس پیش کرے تو اس سے بہت بڑا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے اور قرآن کریم کا کوئی اعتبار نہیں رہتا۔ انسانی دماغ کے کئی مدارج ہوتے ہیں۔بعض باتوں کو ایک دماغ سمجھتا ہے اور دوسرا نہیں سمجھتا۔ اگر اس بات کا فیصلہ انسانی دماغ پر رکھا جائے کہ قرآن مجید میں سے کونسی آیت قابِل عمل ہے اور کونسی منسوخ تو ایک رنگ میں سارا قرآن ہی منسوخ ہو جائیگا۔ کیونکہ کسی حصہ کو کوئی نہیں سمجھتا اور کسی کو کوئی۔ یہی وجہ ہے کہ پانچ آیات سے لے کر گیارہ سوآیات تک منسوخ قرار دی جاتی ہیں ۔گویا جس کی سمجھ میں پانچ ایتیں نہ آئیں اُس نے پانچ منسوخ کر دیں اور جس کی سمجھ میں سو نہ آئیں اُس نے سو منسوخ کر دیں اور جس کی سمجھ میں ہزار نہ آئیں اُس نے ہزار منسوخ کر دیں۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے آکر بتایا کہ شروع سے لے کر آخر تک سارا قرآن قابِل عمل ہے بسم اللہ کی باء سے لیکر والناس کی س تک قرآن کریم قائم اور قیامت تک کے لئے قابلِ عمل ہے۔ آپ کے یہ الفاظ مجھے خود یاد ہیں کہ جب کوئی انسان اس بات کا قائل ہو گا کہ قرآن کریم کے اندر ایسی آیات بھی موجود ہیں جو منسوخ ہیں تو اُسے کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ قرآن کریم پر غور کرے اور سوچے اور اُس کے احکام پر عمل کرنے کی کوشش کرے۔ وہ تو کہیگا کہ جب اِس میں ایسی آیات بھی ہیں جو منسوخ ہیں تو میں اِن پر غور کر کے اپنا وقت کیوں ضائع کروں۔ ممکن ہے میں جس آیت پر غور کر وں مجھے بعد میں معلوم ہو کہ وہ منسوخ ہے لیکن جو شخص یہ کہے گا کہ یہ کلام تمام کا تمام غیر منسوخ ہے اور اس کا ہر شوشہ تک قابلِ عمل ہے وہ اس کے سمجھنے کی بھی کوشش کریگا اور اس طرح قرآن اس کی معرفت کی ترقی کا موجب بن جائیگا۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں بڑے بڑے علم والے لوگ پیدا کئے ہیں۔ مگر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میں نے سارا علمِ قرآن حاصل کر لیا ہے۔ میں بھی کہ جس پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے بے شمار معارف کھولے ہیں نہیں کہہ سکتا کہ قرآن کریم کا سارا علم میں نے حاصل کر لیا ہے۔ اگر ایسا ہوتا کہ کوئی شخص اس کے تمام معارف سمجھ لیتا تو قیامت آجاتی۔ کیونکہ قرآن کریم قیامت تک کے لئے ہے۔ اور اس کے بعد اور کوئی کتاب نہیں۔ جب اِس میں سے نئے نئے مضامین نکلنے بند ہو جائینگے اُس وقت قیامت آجائے گی۔ پس اس کے معارف کبھی ختم نہیں ہو سکتے اور یہ کتاب ہمیشہ نئے نئے مطالب دنیا میں ظاہر کرتی رہیگی۔ اگر مفسرین! اسے سمجھ نہ سکتے تھے تو کم از کم انہیں اس کی طرف اِس قسم کی باتیں تو منسوب نہیں کرنی چاہیں تھیں کہ جن کو کوئی عقل تسلیم نہیں کر سکتی۔ میں جب تفسیریں دیکھتا اور اُن میں سے نسخ کی بحث پڑھتا ہوں تو مجھے تو ایک بھی آیت ایسی نظر نہیں آتی جو منسوخ ہو۔ اور پھر سب سے بڑی بات تو یہ ہے ۔ کہ نسخ ماننے وے قرآن کریم کا وجود ہی بیکار ہو جاتا ہے۔ میرے نزدیک اس آیت کے جو معنے کئے گئے ہیں قرآن کریم کی رو سے قطعاً غلط ہیں۔ اللہ تعالیٰ واضح الفاظ میں ایک دوسری جگہ فرماتا ہے کہ سَنُْقْرِئُکَ فَلَاتَنْسٰی(سورۃ الاعلیٰ آیت۷) یعنی ہم یہ قرآن تجھے اس طرح پڑھائیں گے کہ اس کے نتیجہ میں تو بھولے گا نہیں۔ اگر نُنْسِھَا کا لفظ قرآن کریم کے لئے ہے تو سَنُقْرِئُکَ فَلَاتَنْسیٰ بھی تو قرآن کریم ہی کے لئے فرمایا گیا ہے۔اب جو معنے وہ لوگ کرتے ہیں اُن کو مدنظر رکھ کر ان دونوں میں سے ایک آیت ضرور منسوخ وہ گی۔ اگر دوسری کو منسوخ قرار دیا جائے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ تو قرآن کریم ہمیشہ بُھولا کرے گا اور وہ تجھے کبھی یاد نہیں رہیگا۔ حالانکہ اِسے کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ کے بھی عجیب کام ہوتے ہیں۔ اس نے بھی یہ تدبیر کی کہ فَلَاتَنْسٰی والی آیت کو منسوخ کرنیکا خیال کسی کو بھی نہ سوجھا۔ حالانکہ اگر قرآن کریم میں نسخ قرار دینا تھا تو انہیں سب سے پہلے اس آیت کو منسوخ کر نا چاہیے تھا مگر انہوں نے اسے منسوخ قرار نہیں دیا۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہ‘ لَحَافِظُوْنَ(حجرآیت۱۰) کہ ہم نے ہی یہ قرآن نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرتے چلے جائینگے۔ اس جگہ اللہ تعالیٰ نے اس کی دائمی حفاظت کا خود ذمہ لیا ہے اور فرمایا ہے کہ ہم مستقل طور پر قرآن کریم کی حفاظت کرتے چلے جائیں گے۔ پس جس کلام کی حفاظت کا ذمہ خود خدا نے اٹھایا ہے اُس کو بھول جانے یا اس میں کسی آیت کے منسوک ہونے کے کیا معنے ہیں؟ اور اگر وہ بھول گیا یا اُس میں نسخ ہو گیا تو پھر اُس کی حفاظت کے کوئی معنے نہیں رہتے۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم کا کوئی حصہ منسوخ نہیں اس کا ایک ایک لفظ قابلِ عمل ہے اور یہ قیامت تک قائم رہنے والی شریعت ہے۔ میں نے ایک دفعہ رؤیا میں دیکھا کہ میں کسی کو کہتا ہوں کہ قرآنکریم کا ہر لفظ اور ہر زبر اورہر زیر اپنے اندر معنے رکھتی ہے اور قرآن کریم میں چھوٹے چھوٹے فرق سے اُس کے معنی بدلتے جاتے ہیں اور اس میں جس قدر حکمتیں ہیں کوئی کتاب ان کی مثال پیش نہیں کر سکتی۔ مگر یہ ضروری نہیں کہ ساری حکمتیں ہر شخص پر کھل جائیں ۔ ہاں ہر زمانہ میں قرآنکریم کے کچھ نئے معنے کھلتے ہیں اور اُن کے علاوہ کچھ زائد معنے ہوتے ہیں جو خدا تعالیٰ نے اگلوں کے لئے رکھے ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہیگا یہاں تک کہ قیامت آجائے گی۔جو لوگ قرآن کریم میں نسخ قرار دیتے ہیں ۔ وہ اس کے ثبوت کے طور پر اس قسم کی کوئی دلیل پیش نہیں کرتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہو کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ فلاں آیت منسوخ ہے۔ یا آپؐ نے فرمایا ہو کہ مجھے الہام ہوا ہے کہ آج رات یہ آیت منسوخ ہو گئی ہے۔ وہ صرف استدلال کرتے ہیں کہ چونکہ فلاں آیت کا فلاں آیت کے مخالف مفہوم ہے اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے ایک ناسخ ہے اور دوسری منسوخ۔ گویا جو آیت بھی اُن سے حل نہیں ہوتی اُسے وہ منسوخ قرار دے دیتے ہیں۔اور یہ محض عدم علم کی وجہ سے ہوتا ہے ۔ مگر تعجب کی بات ہے کہ اِدھر تو وہ یہ کہتے ہیں کہ احاداحادیث قرآن کریم کو منسوخ نہیں کرتیں۔ اور یہ بات صحیح ہے۔ ہم بھی کہتے ہیں کہ ایک چھوڑ کروڑ احاداحادیث بھی قرآن کریم کا کوئی حصہ منسوخ نہیں کر سکتیں مگر دوسری طرف وہ اپنے ظن اور قیاس سے کام لے کر قرآن کریم کی آیات کو منسوخ قرار دینے لگ جاتے ہیں۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔ منسوخ کی وہ قسم کہ جس کے الفاظ بھی منسوخ ہوں اور حکم بھی منسوخ ہو اس کی وہ کوئی مثال پیش نہیں کرتے اور بتاتے کہ فلاں آیت قرآن کریم میں تھی اور اس کے الفاظ اور حکم دونوں منسوخ ہیں۔ وہ صرف تحویلِ قبلہ کے متعلق کہتے ہیں کہ اس کا حکم قرآن کریم میں تھا مگر اس کے الفاظ وہ پیش نہیں کرتے اس لئے ان کا یہ دعویٰ قابلِ اعتبار نہیں سمجھا جاسکتا۔
پھر جن آیات کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ وہ صحابہؓ کو بھول گئی تھیں۔ اُن کا بُھولنا تو ایک معجزہ بن جاتا ہے۔ اگر کبھی ایسا ہوا ہوتا تو اس کے متعلق سارے صحابہؓ میں شور پڑجانا چاہیے تھا۔ کیونکہ آپ سینکڑوں آدمیوں کو قرآن کریم سکھاتے اور حفظ کرواتے تھے۔ چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ ایک لڑائی میں ستر قاری شہید ہو گئے تھے۔ جب صرف ایک لڑائی میں شہید ہونے والوں کی تعداد اس قدر ہو تو اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت مسلمانوں میں کس قدر قاری پائے جاتے تھے اور یہ سینکڑوں حفاظ ان پانچ حفاظ کے علاوہ تھے۔ جنہیں آیات نازل ہونے کے فوراً بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم یاد کروادیتے تھے۔ یہ پانچ خاص حفاظ تھے۔ اور آگے ان کے سینکڑوں شاگرد تھے جن کو آیاتِ قرآنیہ حفظ تھیں۔ پس اگر بعض آیتیں یکدم ذہنوں سے محو ہو گئی تھیں تو مسلمانوں میں شور مچ جانا چاہیے تھا۔ اور چاہیے تھا کہ اس قسم کی بیسیوں روایات ہوتیں۔ اور بڑے برے جلیل القدر صحابہؓ مثلاً حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ وغیر کہتے کہ فلاں سورۃ ہمیں یاد تھی مگر پھر اچانک بھول گئی۔ اِسی طرح اگر لوگوں کو کوئی آیت بھول جاتی تو وہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ وغیرہ سے پوچھتے۔ وہ کہتے کہ ہمیں بھی بھول گئی ہے۔ پھر وہ حضرت عثمانؓ سے پوچھتے۔ وہ کہتے کہ مجھے بھی بُھول گئی ہے ۔پھر وہ حضرت علیؓ سے پوچھتے۔ وہ کہتے کہ مجھے بھی بھول گئی ہے۔ پھر وہ سارے مل کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس آتے اور آپ سے پوچھتے تو آپؐ فرماتے کہ اسے تو فرشتے اٹھا کر لے گئے ہیں اور مجھے بھی یاد نہیں رہی اس طرح تو ایک شور پڑ جانا چاہیے تھا۔ مگر کہا یہ جاتا ہے کہ صرف دو آدمیوں کو جن کے باپ کا نام بھی معلوم نہیں ایک سورۃ بُھول گئی تھی۔ اور پھر یہ عجیب لطیفہ ہے کہ وہ رات کو اکٹھے لیٹے اور پھر وہ اکٹھے ہی نماز کے لئے اُٹھے اور پھر وہ آیتیں اکٹھی ہی اُن کو بُھول گئیں اور صبح کو پھر وہ اکٹھے ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس پُوچھنے کے لئے گئے۔ اور پھر یہ بُھول اتنی بڑھی کہ اس روایت کے راویوں کے نام بھی لوگ بُھول گئے۔ اور انہیں یاد نہ رہا کہ یہ دو کون آدمی تھے ۔بُھول کا یہ لطیفہ کوئی احمق ہی درست تسلیم کر سکتا ہے عقلمند انسان تو اسے بالکل مان نہیں سکتا۔جن آیات کے الفاظ منسوخ اور معنے قائم قرار دیئے جاتے ہیں۔ اُن کے متعلق قابل غور بات ہی ہے کہ جب حکم قائم تھا تواُن کے الفاظ کو کیوں باطل کیا گیا؟ یہ بات بھی ایسی ہے۔جسے کوئی عقل تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتی۔ وہ لوگ اس کے ثبوت میں کہتے ہیں کہ قرآن کریم میں پہلے رحم کا حکم تھا مگر اب نہیں۔ لیکن رحم کا حکم منسوخ نہیں ہوا۔ اسی طرح قرآنکریم میں پہلے یہ آیت ہوا کرتی تھی کہ اَلشَّیْخُ وَالشَّیْخَۃُ اِذَا زَنَیَا فَارْجمُوْ ھُمَا مگر اب یہ حکم تو قائم ہے مگر الفاظ نکال دیئے گئے ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ الفاظ کیوں نکال دیئے گئے ہیں۔ اور اس کا کیا فائدہ ہوا؟ حکم تو موجود رہا پھر الفاظ کیوں غائب کر دیئے گئے؟
اِس سے بڑھ کر یہ لطیفہ ہے کہ ایک اور آیت میں یہ ذکر آتا ہے کہ انسان بڑا حریص ہے۔ اس کے متعلق بھی وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ منسوخ ہو گئی ہے۔ حالانکہ وہ ایک واقعہ ہے نہ کہ حکم۔ اور واقعہ کے متعلق سب مفسرین متفق ہیں کہ وہ منسوخ نہیں ہوا کرتا ۔ چنانچہ تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے اَمَّا الْاَخْبَارُ فَلَایَکُوْنُ فِیْھَا نَاسِخ’‘ وَلَا مَنْسُوْخ’‘ یعنی خبروں اور واقعات میں کوئی نسخ نہیں ہوتا۔ (تفسیر ابن کثیر برحاشیہ فتح البیان جلد اول صفحہ۲۵۷) پس واقعہ والی آیت کو منسوخ کرنے کے کیا معنے؟ اس کے تو یہ معنے بنتے ہیں کہ واقوہ کے متعلق خدا تعالیٰ کو غلطی لگ گئی تھی۔ حکم کے نسخ کے تو کچھ معنی بھی ہو سکتے ہیں۔ لیکن غیر حکم میں تو نسخ نہیں ہوتا۔ پھر وہ کیوں منسوخ ہو گیا؟
غرض یہ باتیں اپنی ذات میں اتنی مضحکہ خیز ہیں کہ کوئی انسان انہیں درست تسلیم نہیں کر سکتا۔ اور پھر منسوخ شدہ آیات کے جو الفاظ بتاتے ہیں وہ بھی عجیب و غریب ہیں مثلاًاَلشَّیْخُ وَالشَّیْخَۃُ اِذَا زَنَیَافَارْجُمُوْ ھُمَا میں شیخ کے تین معنے ہو سکتے ہیں۔ اول عالم یا قوم کارئیس اور سردار دوم شادی شدہ مرد کیونکہ عربی زبان میں شَیْخُ الْمَرْأَۃِ عورت کے خاوند کہ کہتے ہیں۔ سوم بوڑھا اور ضعیف انسان۔ ان معنوں کے لحاظ سے اس فقرہ کا یہ مفہوم بنتا ہے کہ اگر کوئی بڑا عالم یا معزز شخص زنا کرے تو اُسے رجم کر دو۔ چھوٹا کرے تو نہ کرو۔ دوسرے معنے یہ بنتے ہیں کہ اگر میاں بیوں آپ میں زنا کریں تو ان کو رجم کر دو۔ کیونکہ شیخ اور شیخۃ کے معنے اس جگہ میاں بیوی کے بھی لئے جا سکتے ہیں۔ اِس صورت میں یہ ماننا پڑے گا کہ میاں بیوں میں آپس میں زنا کیا کرتے ہیں۔ تیسرے معنے یہ بنتے ہیں کہ بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت جو ناقابل جماع ہوتے ہیں زنا کریں تو اُن کو رجم کردو۔غرض تینوں جگہ ناممکنات تسلیم کرنے پڑتے ہیں۔ یعنی ناقابل جماع مرد اور عورت آپس میں زنا کریں۔ یا میاں بیوی زنا کریںتو اُن کو رجم کر دو۔ یا بڑے آدمی زنا کریں تو ان کو رجم کر دو اور اگر چھوٹے کریں تو نہ کرو۔ غرض جس پہلو سے بھی دیکھا جائے اِسے کوئی شخص قرآنی آیت قرار دینے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا۔
پھر سوال یہ ہے کہ یہاں نسخ آیات کے ذکر کا موقع ہی کیا تھا۔ یہاں تو یہودیوں کی کتاب کا ذکر ہو رہا ہے اور بتایا جا راہا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم اپنی ہی کتاب مانیں گے۔ پس اگر یہاں نسخ کا ہی ذکر تسلیم کیا جائے تو پھر اس آیت کے یہ معنے ہونگے کہ یہاں صُحفِ ماضیہ کے نسخ کا ذکر ہے۔ یعنی تورات وغیرہ کا مگر مفسرین کہتے ہیں یہاں قرآن کریم کے نسخ کا ذکر ہے۔ حالانکہ اِس بات کا پہلے مضمون کے ساتھ کوئی جوڑ نہیں۔ پہلے یہ مضمون ہے کہ یہود کہتے ہیں ہم خدا کے خاص فضلوں کے وارث ہیں ہم اپنے نبیوں کے کلام کو مانتے ہیں۔ غیر کے کلام کو ماننے کے لئے تیار نہیں۔ اس پر خدا تعالیٰ نے اُن کے سامنے یہ کیا دلیل پیش کی کہ میرا قرآن بھی منسوخ ہو جاتا ہے اور بُھلا بھی دیا جاتا ہے اس لئے تم اسے مان لو۔
حقیقت یہ ہے کہ مَانَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنْسِھَانَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْھَا اَوْ مِثْلِھَا میں قرآن کریم کی آیات کے منسوخ ہونیگا کہیں ذکر نہیں۔ بلکہ جیسا کہ ترتیب مضمون سے ظاہر ہے پچھلی آیات میں یہود کے متعلق یہ ذکر کیا گیا ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ تم پر کسی قسم کی خیر نازل ہو۔ اور سب سے بڑی خیر الہام الہٰی ہے۔ پاس اس آیت میں کوئی ایسا ہی ذکر ہو سکتا ہے۔ جو پچھلی آیات کے مطابق ہو۔ کوئی مضمون بالا تعلق نکالنا کسی طرح جائز نہیں ہو سکتا اور وہ مضمون یہی ہے کہ یہود تو پسند نہیں کرتے کہ تم پر کوئی خیر نازل ہو لیکن اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے فضل کرتا ہے۔ پاس اس نے تم پر خیر نازل کر دی ہے یعنی قرآن کریم لیکن چونکہ اس پر یہ سوال ہو سکتا تھا کہ پہلے شرائع کے ہوتے ہوئے نئی کتاب کی کیا ضرورت تھی تو اس کا جواب یہ دیا کہ اِن کتب کے بعض حصص اس قابل تھے کے منسوخ کر دیئے جاتے اور بعض ایسی باتیں تھیں کہ مرورزمانہ سے لوگوں کو بُھول گئی تھیں۔ اور آہستہ آہستہ سماویہ سے محو ہو گئی تھیں۔ اُن کا دوبارہ بیان کرنا ضروری تھا ۔ پاس ایک حصہ کو ہم نے منسوخ کر دیا اور اس سے بہترتعلیم اِس کتاب میں بیان کر دی۔ اور وہ تعلیم جو بُھول گئی تھی اُس کو پھر اُسی طرح بیان کر دیا اور اہل کتاب اِس پر اعتراض نہیں کر سکتے۔ کیونکہ خود اُن کی کتابوں میں نئی شریعت کی خبر موجود ہے۔ چنانچہ یرمیاہ باب۳۱ آیت۱۳ میں لکھاہے:۔
ـ’’دیکھ وے دن خداوند کہتا ہے۔ میں اسرائیل کے گھرانے اور یہود کے گھرانے کے ساتھ نیا عہد باندھوں گا۔ اس عہد کے موافق نہیں جو میں نے اُن کے باپ دادا سے کیا۔‘‘
اِسی طرح عبرانیوں باب۸ آیت۸،۹ میںلکھا ہے:۔
’’دیکھ خداوند فرماتا ہے۔ وے دن آتے ہیں کہ میں اسرائیل کے گھرانے اور یہود کے خاندان کے لئے ایک نیا عہد باندھوں گا یہ اس عہد کی مانند نہ ہو گا جو میں نے اُن کے باب دادئوں سے اُس دن کہ جب میں نے اُن کاہاتھ پکڑا کہ انہیں سرزمین مصر سے نکال لائوں باندھا تھا۔ اس واسطے کہ وے میرے عہد پر قائم نہیں رہے۔‘‘
یہی معنے ہیں جو سیاقِ آیت اور قرآن کریم کے مضمون کے مطابق ہیں۔ ورنہ وہ معنے جو بعض مفسریں نے کئے ہیں اور جو اوپر بیان ہو چکے ہیں ہرگز درست نہیں ۔ نہ تو الفاظ ِ قرآن کریم اُن کے متحمل ہیں اور نہ سیاقِ آیت اُن پر شاید ہے اور نہ عقل ان کی تائید کرتی ہے اور نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے کوئی ایسی بات مروی ہے جو اُن کے خیال کی مؤید ہو۔ قرآن کریم سب کا سب قابل عمل ہے۔ چنانچہ اپنی وفات کے دن تک آپؐ قرآن کریم کے تمام احکام کے عامل رہے اور اس پر عمل کرواتے رہے۔ اور قرآن کریم بھی کھلے الفاظ میں اپنے محفوظ ہونے کی شہادت دے رہاہے جیسا کہ آیت اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہ‘ لَحَافِظُوْنَ۔ سے ظاہر ہے۔ پس ان واقعات کی موجودگی میں یہ خیال بھی نہیں خیا جا سکتا کہ قرآن کریم کی بعض آیات منسوخ ہوں۔ اِس وقت جو قرآن کریم دنیا میں موجود ہے ۔ اُس میں سے ایک آیت بھی منسوخ نہیں۔ اور اس میں ہرگز کوئی اختلاف نہیں جس کے مٹانے کے لئے قیاساً ہمیں کیس نسخ کے جواز کا فتویٰ دینا پڑے۔ وہ اپنی موجودہ صورت میں کامل اور بے عیب ہے۔ اور اسلام کے تمام مخالفین مِل کر بھی اگر اس میں کوئی اختلاف ثابت کرنا چاہیں تو نہیںکر سکتے اور ہم اللہ تالیٰ کے فضل سے دعویٰ سے کہتے ہیں کہ اگر کوئی ایسا شخص جو علمی حیثیت رکھتا ہو یا کوئی مخالفِ جماعت قرآن کریم میں اختلاف ثابت کرنا چاہے تو ہم قرآن کریم سے ہی اُس کا ردّکر سکتے ہیں۔
غرض اس آیت میں یہ مضمون بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے غزشتہ زمانوں میں جو پیغام آتے رہے ہیں یا آئندہ آئیں گے ان سب کے متعلق ہمارا ایک قانون جاری ہے اور وہ یہ ہے کہ کبھی تو وہ اپنی ضرورت کو پورا کر لیتے ہیں اور اِس قابل ہوتے ہیں کہ انہیں مٹا دیا جائے اور اُن کی جگہ ایک نیا نظام آسمان سے اتارا جائے اور کبھی لوگ انہیں بُھلا دیتے ہیں اور صرف اس امر کی ضرورت ہوتی ہے کہ جو نظام لوگوں کی غفلت کی وجہ سے الہٰی نظام کی جگہ قائم ہو گیا ہے اُسے لٹا کر پھر نئے سرے سے وہی پہلا الہٰی نظام قائم کیا جائے۔ جب الہٰی نظام ہی اپنی ضرورت پوری کر کے مٹائے جانے کے قابل ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اُس سے بہتر نظام دنیا میں بھجوادیتاہے۔ اور جب وہ نظام تو صحیح ہو اور لوگوں نے اُسے بُھلا دیا ہو تو اللہ تعالیٰ اُسی پہلے نظام کو بجنسہٖ پھر دنیا میں قائم کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو یہ دونوں قدرتیں حاصل ہیں۔
پھر فرماتا ہے اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ لَہ‘ مُلْکَ السَّمٰوٰتِ وَالْارْضِ۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہم ایسا کیوں کرتے ہیں۔ ہم ایک انقلاب عظیم کے پیدا کرنے کے لئے اور ایک نیا آسمان اور ایک نئی زمین پیدا کرنے کے لئے ایسا کرتے ہیں۔
یہ ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ کے کفار کو صرف اس امر کا تو غصہ نہ تھا کہ اُن کے خیالات کے خلاف ایک نیا خیال رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کیوں پیش کرتے ہیں۔ انہیں جس بات کا خطرہ تھا اور جس کا تصور کر کے بھی انہیں تکلیف محسوس ہوتی تھی وہ یہی تھی کہ کہیں قرآن کی حکومت قائم نہ ہو جائے۔ پس فرمایا اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ لَہ‘ مُلْکَ السَّمٰوٰتِ وَالْارْضِ۔ اے انکار کرنے والو! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ خدا زمین و آسمان کا بادشاہ ہے پس جب اس نے اس بادشاہت کو ایک نے رنگ میں قائم کر نیکا فیصلہ کر لیا ہے تو اس کے فیصلہ کے پورا ہونے کو کون روک سکتا ہے۔
غرض قرآن کریم نے مذاہب کے بارہ میں یہ قاعدہ بتایا ہے کہ ہر مذہبی نظام جو قائم کیا جاتا ہے۔ وہ کچھ عرصہ کے بعد یا تو ناقابلِ عمل ہو جاتا ہے یا لوگ اُسے بُھول جاتے ہیں۔ ناقابل عمل وہ دو طرح ہوتا ہے یا لوگ اُس میں ملاوٹ کر دیتے ہیں یا زمانہ کے مطابق اُس کی تعلیم نہیں رہتی۔ یعنی یا تو یہ ہوتا ہے کہ لوگ اس تعلیم میں تصرف کر دیتے ہیں اور یا پھر تعلیم تو محفوظ ہوتی ہے مگر زمانہ چونکہ ترقی کر جاتا ہے اس لئے وہ قابلِ عمل نہیں رہتی۔ اِس کی مثال ایسی ہی ہے۔ جیسے کسی کا لباس پھٹ جائے اور اُسے نیا لباس سلوانے کی ضرورت پیش آئے۔ یا بچہ ہواہواُس کا لباس تو اچھا ہو لیکن قد بڑھ جانے کی وجہ سے اس کے قد پر اب پہلا لباس درست نا آتا ہو اور نیا لباس تیار کروانا پڑے۔ اسی طرح تعلیم یا تو اِس لئے بد ل جاتی ہے کہ وہ خراب ہو جاتی ہے یا اس لئے بدل جاتی ہے کہ انسانی حالت میں ایسا تغیر آجاتا ہے کہ پہلی تعلیم اس کے مطابق نہیں رہی اور اللہ تعالیٰ سمجھتا ہے کہ اب اس کے لئے دوسری تعلیم کی ضرورت ہے۔ یہ جو تعلیم کے خراب ہو جانے کی صورت ہے یہ بھی درحقیقت اسی وقت واقع ہوتی ہے جب وہ تعلیم ناقابلِ عمل ہو جائے۔ ورنہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ اپنے دین کا خود محافظ ہوتا ہے۔ ہاں جب اس تعلیم کی ضرورت کا زمانہ ختم ہو جاتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ بندوں سے کہتا ہے کہ اب بے شک اس میں تغیر و تبدل کر لو مجھے پروا نہیں۔ جیسے گھر میں بعض دفعہ کوئی خراب اور پھٹا پُرانا کپڑا ہو اور بچہ اُسے پھاڑ دے تو ہم پروا نہیں کرتے۔ اِسی طرح مذہب میں قطع و برید کی اجازت اللہ تعالیٰ اسی وقت دیتا ہے جب زمانہ کو اس تعلیم کی ضرورت نہیں رہتی اور انسان کے حالات نئی تعلیم کا تقاضا کرتے ہیں۔ پس اس وقت اللہ تعالیٰ اس فرسودہ مذہب کی حفاظت چھوڑ دیتا ہے اور بندوں کو اجازت دے دیتا ہے کہ وہ اس میں تصرف کریں اور اس سے کھیلیں۔ انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی تعلیم سے کھیل رہا ہے۔ حالانکہ خدا اس تعلیم کو زمانہ کے مطابق نہ پا کر اسے بندوں کے حوالے کر چکا ہوتا ہے اور اپنی حفاظت کا ہاتھ اس سے اُٹھا چکا ہوتا ہے۔ پس فرمایا کہ پیغام الہٰی کے متعلق دو ہی صورتیں ہیں(۱) جب وہ ناقابلِ عمل ہو جاتا ہے تو ہم اس سے بہتر تعلیم لاتے ہیں۔ بہتر کا لفظ اس لئے استعمال کیا کہ پہلی تعلیم ناقابلِ عمل ہو چکی ہوتی ہے اور اب اُس سے بہتر تعلیم ہی کافی ہوتی ۔ اسی حقیقت کے اظہار کے لئے نَاْتِ بِخَیْرٍمِّنْھَا کے الفاظ استعمال فرمائے (۲) دوسری صورت یہ ہے کہ جب تعلیم تو قابلِ عمل ہو مگر لوگ اس پر عمل ترک کر دیں اور اپنے لئے خود ایسے قواعد تجویز کر لیں جو الہٰی تعلیم کے مخالف ہوں۔ اِس حالت میں نئی تعلیم کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ پُرانی تعلیم کی حکومت کو ازسر نو قائم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے فرمایااَوْمِثْلِھَا۔ یعنی جب تعلیم اپنی اصل حالت میں موجود ہو صرف لوگوں نے اس پر عمل چھوڑ دیا ہو تو پھر ہم ویسی ہی تعلیم لے آتے ہیں ۔یعنی اسی تعلیم کو دوبارہ قائم کر دیتے ہیں ۔ مثل کا لفظ اللہ تعالیٰ نے اس لئے استعمال کیا ہے تا یہ بتائے کہ پہلی تعلیم چونکہ مر چکی ہے اس لئے ہم اُس میں نئی زندگی پیدا کرتے ہیں اور اس طرح وہ ایک رنگ میں پہلی تعلیم کا مثل ہوتی ہے ۔ پس اس آیت میں بتایا گیا کہ کلام الٰہی بھی ایک عرصہ کے بعد یا تو قابل عمل نہیں رہتا یا لوگ اس پر عمل ترک کر دیتے ہیں ۔قابل عمل نہ رہتا دو طرح ہوتا ہے ۔ (۱)لوگ اس میں ملاوٹ کر دیتے ہیں (۲)یا زمانہ کے مطابق تعلیم نہیں رہتی ۔ ان دونوں حالتوں کے مقابل پر اللہ تعالیٰ کی بھی دو سنتیں جاری ہیں ۔جب کلام نا قابل عمل ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اُسے منسوخ کر دیتا ہے اور اس سے بہتر تعلیم بھیج دیتا ہے کیونکہ زمانہ ترقی کی طرف جا رہا ہوتا ہے لیکن جب لوگ عمل ترک کر دیتے ہیںاور تعلیم محفوظ ہو تو اللہ تعالیٰ اِس کلام کو دوہرا دیتا ہے اور اُس کا مثل نازل کر دیتا ہے یعنی اُسی تعلیم میں ایک نئی زندگی ڈال دیتا ہے اِس آیت کے آخر میں یہ جو فرمایا کہ کیا تم خیال کرتے ہو کہ اللہ تعالیٰ اِس بات پرقادر نہیں ۔اِن الفاظ سے وہ معنے جو عام طور پر اس آیت کے کئے جاتے ہیں کہ اِس آیت میں قرآنی آیات کے منسوخ کرنے کا ذکر ہے رد ہو جاتے ہیں ۔ کیونکہ قرآنی آیات کے منسوخ ہونے سے قدرت الٰہی کے اظہار کا کوئی تعلق نہیں ۔قدرت کا مفہوم انہی معنوں میںپایا جاتا ہے جو میں نے کئے ہیں ۔
پھریہ جو فرمایا کہ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ لَہٗ مُلْکَ السَّمٰوٰتِ وَاْلاَرْضِ اِس میں بھی اسی طرف اشارہ ہے کہ ہر کلام جب آئے یا اُسے دوبارہ زندہ کیاجائے کہ وہ ایک انقلاب چاہتا ہے اور یہی امر لوگوں کے خیال میں نا ممکن ہے ۔مگر اللہ تعالیٰ ایسے انقلاب پر قادر ہے ۔خواہ نئے کلام کے ذریعہ سے وہ انقلاب پیدا کر دے خواہ پُرانے کلام یہ کو زندہ کر کے انقلاب پیدا کر دے ۔
یہ معنے جو میں نے کیے ہیں گو جدید ہیں ۔ لیکن آیت کے تمام ٹکڑوں کا حل انہی معنوں کے ساتھ ہوتا ہے ۔ پہلے مفسر اس کے معنے یہ کیا کرتے تھے کہ قرآن کریم میں بعض آیتیں اللہ تعالیٰ نازل کرتا اور پھر انہیں منسوخ کر دیتا ہے ۔ مخالف اِن معنوں پر تمسخر کیا کرتے اور کہا کرتے تھے کہ وہ آیت نازل کر کے اُسے منسوخ کیوں کرتا ہے ۔ کیا اُسے حکم نازل کرتے وقت یہ علم نہیـں ہوتا کہ یہ حکم لوگوں کے مناسب حال نہیں ۔دوسرے نسخ سے تو اس کی کمزوری ثابت ہوتی ہے ۔ اس کے بعد اس فقرہ کے کیا معنے کہ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شِیْ ئً قَدِیْرُٗ ۔مگر جو معنے میں نے کئے ہیں اُن میں ایک زبرست قدرت کا اظہار ہے ۔یہ آسان کام نہیں کہ ایک ایسے قانون کو جو لوگوں کے دلوں پر نقش فی الحجر کی طرح جما ہوا ہوا ور جسے چھوڑے جانے کیلئے وہ کسی صورت میں بھی تیار نہ ہو ں ہٹا کر اس کی جگہ ایک نیا قانون قائم کر دیا جائے ۔ یا جبکہ ایک قوم مر گئی ہو اور اپنے قانون کو پس پشت ڈال چکی ہو اور اس کی خوبیوں سے غافل ہو گئی ہو پھر اس مردہ قوم میں سے ایک حصہ کو زندہ کر کے اس بھلائی ہوئی تعلیم کی حکومت دُنیا میں قائم کر دی جائے ۔یقینا یہ نہایت ہی مشکل کام ہے اور اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان قدرت پر دلالت کرتا ہے ۔ اور اس قدرت کے مزید اظہار کیلئے ہی آیت کے آخر میں یہ الفاظ بڑھادئیے گئے ہیں کہ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ لَہٗ مُلْکَ السَّمٰوٰتِ وَاْلَارْضِ کیا تمہیں علم نہیں کہ زمین و آسمان کی بادشاہت خدا ہی کے ہاتھ میں ہے ۔ اور وہ ایسا انقلاب نہایت آسانی سے پیدا کر سکتا ہے ہم دیکھتے ہیں کہ تاریخی طور پر عیسوی دور وہ پہلا دور ہے جو اس آیت کے دوسرے حصہ کے ماتحت آتا ہے کہ مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃِ اَوْ نُنْسِھَا نَاْتِ بِخَیْرً مِّنْھَا اَوْ مِثْلِھَا کہ ہمارے احکام جب لوگوں کے ذہنوںسے اُتر جاتے ہیں تو ہم ویسے ہی احکام پھر اتار دیتے ہیں ۔یعنی دوبارہ ان کو زندہ کر دیتے ہیں کیونکہ اس زمانہ میں ایک ایسا نبی آیا جو نئی شریعت نہیں لایا ۔ اور توارۃ کے بعض مضامین کو اس نے نمایا ں طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا ۔اسی طرح موجودہ زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کہ آپ دوسری قسم کا انقلاب پیدا کریں ۔جسے اس آیت کے آخری حصہ میں بیان کیا گیا ہے۔ یعنی کبھی انقلاب اس طرحـ بھی پیدا کیا جاتا ہے کہ کتاب وہی واجب العمل رہتی ہے جو پہلے سے موجود ہو مگرخدا تعالیٰ دوبارہ اس کی مردہ تعلیم کو زندہ کرنے کیلئے انسان اپنی طرف سے کھڑا کر دیتا ہے ۔ جو لوگوں کو پھر اس تعلیم پر ازسر نو قائم کرتا ہے ۔ اِسی کی طرف سورۃ جمعہ میں بھی ان الفاظ میـں اشارہ کیا گیا ہے ۔ کہ ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُ مِّیِّیْنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْ ا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ اْلکِتٰبَ وَ اْلِحکْمَۃَ وَاِنْ کَا نُوْ امِنْ قَبْلُ لَفِیْ مَلٰلٍ مُّبِیْنٍ وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْ ابِھِمْ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الحَکِیْمُ(سورۃ جمعہ عٰ)یعنی وہ خدا ہی ہے جس نے اُمیوں میں اپنا رسول بھیجا جو اُن پر آیات الٰہیہ کی تلاوت کرتا ان کا تزکیہ نفس کرتا اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے اگرچہ وہ اس سے پہلے کھلی کھلی گمراہی میں مبتلا تھے ۔ اور وہ خدا ہی ہے جو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دوبارہ دنیا میں بھیج یگا اور پھرآپ کے ذریعہ ایک ایسی جماعت پیدا کرے گاجو صحابہ ؓکے رنگ میں کتاب جاننے والی پاکیزہ نفس اورعلم وحکمت سے واقف ہو گی ۔گویا وہی کام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا نئے سرے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کرنا ہے ۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ وہ کلام الٰہی جو اپنی ضرورت کو پورا کر لیتا ہے مٹا دیا جاتا ہے اور اس کی جگہ ایک نیا قانون نازل کیا جاتا ہے تو کیا قرآن کریم بھی کسی وقت منسوخ ہوسکتا ہے ی نہیں ؟ سو یاد رکھنا چائیے کہ قرآن کریم کی نسبت اللہ تعالیٰ واضح الفاظ میں فرماتا ہے کہ اِناّ فَحْنُ نَزَّلْنَا الدِ عْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجرعٰ)یعنی یقینا ہم نے ہی اس کتاب کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرینگے ۔اور جس تعلیم کی حفاظت کی جائے اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ وہ آئندہ بھی تمام تعلیموں سے افضل رہیگی ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ مَا نَنْسَخْ مَنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنْسِھَا فَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْھَا اَوْ مِثْلھْا کہ اگر کوئی کلام منسوخ ہوتا اس سے بہتر لایا جاتا ہے ۔اِس سے یہ بھی نکلا کہ جس کلام کو منسوخ نہ کیا جائے اُس سے بہتر او ر کوئی کلام نہیں ۔ پس معلوم ہوا کہ قرآن کریم نہ صرف گذشتہ تمام الہامی کتابوں سے افضل ہے بلکہ ہمیشہ افضل رہے گا اور اس کی تنسیخ کا کبھی سوال ہی پیدا نہیں ہو گا۔
فرماتا ہے اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرُٗ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے ۔ کہ وہ اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم لائے ۔ اور جو باتیں مٹ گئی ہوں ان کو دوبارہ زندہ کر دے ۔آخر بائیبل کے مٹے ہوئے حصے کون دوبارہ لا سکتا تھا ۔جبکہ یہودی بھی تسلیم کرتے ہیں کہ بخت نصر نے جب بیت المقدس پر حملہ کیا تو اس وقت تمام پرانے صحیفے تباہ ہو گئے تھے (انسائیکلو پیڈیا ببلیکاصفحہ ۶۵۳،۶۵۴)اِسی طرح کنفیوشش کی کھوئی ہوئی تعلیم کو کون لاسکتا تھا دید کے بھولے ہوئے ٹکڑوں کو کون لا سکتا تھا ۔ژند اور اوستاکی بھولی بسری تعلیم کو کون لا سکتا تھا ؟ صرف خدا ہی ان کو لا سکتا ہے ۔ ورنہ سارے یہود مل کر بھی تورات کے گم شدہ حصے نہیں لا سکتے تھے ۔اِسی طرح کنفیوشش کے ماننے والے مل کر بھی اُسکی تعلیم کو نہیں لا سکتے تھے ۔صرف خدا ہی اُسے لا سکتا تھا اور وہی لایا ۔ اور قرآن کریم کے ذریعہ لایا ۔ غرض ْ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر میں اس طرف اشارہ فرمایا کہ لوگ اعتراض کرینگے کہ ان کو کون لاسکتا ہے فرمایا ہم لا سکتے ہیں ۔اور ہم لا کر دکھا دیں گے ۔قرآن کریم نے یہود پر یہ دوسری حجت قائم کی ہے کہ تمہاری کتابیں مٹ چکی تھیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان کو دوبارہ دنیا میں لا رہے ہیں ۔ اگر تمہیں اس کے ماننے میں گریز ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنی کتاب کو بھی نہیں مانتے ۔اور اُسے رد کرتے ہو ۔ جب یہ پہلے سے بہتر تعلیم لایا ہے اور ایسی کتاب لایا ہے جس میں انسانی ضروریات جذبات احساسات تمدن سیاست اور معاملات وغیرہ کے بارہ میں احکام موجود ہیں تو تمہیں چائیے تھا کہ تم خوش ہوتے اور اسے فوراً مان لیتے ۔اور اگر تم اسے تسلیم نہیں کرتے تو تمہیں یاد رکھنا چائیے کہ تمہارے ناقص احکام بہر حال انسانی ضروریات کو پورا نہیںکر سکتے ۔
اصل بات یہ ہے کہ یہود کو یہ بات بری لگتی تھی کہ اُن کی بجائے نبوت بنی اسمعٰیل میں کیوں آگئی ۔ اور تورات کی بجائے قرآن کریم کی شریعت کیوں نازل ہو گئی ؟ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم اس بات پر قادر ہیں کہ بائیبل کو منسوخ کر کے اس سے اعلیٰ کتاب قرآن کریم کی شکل میں لے آئیں ۔ اور موسیٰ ؑ سے اعلیٰ نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شکل میں دنیا میں بھیج دیں ۔ تورات کے متعلق خود یہود یہ تسلیم کرتے ہیں کہ بخت نصر کے وقت اُسے بالکل مٹا دیا گیا تھا ۔ بلکہ عزرا نبی کے وقت تک جو قریباً چار سو سال قبل مسیح ہوا تورات اور دوسرے انبیاء کی کتابوں کا کوئی نسخہ موجود نہیں تھا۔ تب عزرا نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ الٰہی دنیا تاریکی میں ہے اور جو لوگ اس میں رہتے ہیں بغیر روشنی کے ہیں ۔ کیونکہ تیرا قانون جل گیا۔ پس کوئی نہیں جانتا اُن چیزوں کیو جو تو کرتا ہے اور ان کاموں کو جو شروع ہونے والے ہیں لیکن مجھ پر اگر تیری مہربانی ہے تو روح القدس کو مجھ میں بھیج اور میں لکھوں ۔جو کچھ کہ دنیا میں ابتداء سے ہوا ہے اور جو کچھ تیرے قانوں میں لکھا تھا تاکہ تیری راہ کو پاویں۔اِس پر اللہ تعالیٰ نے اُن کی طرف وحی
اَلَمْ تَعْلَمْ
لَا نَصِیْرٍo
نازکی کی ۔ کہ تو چالیس دن کی علیحدگی اختیار کر ۔ اور پانچ زودنویس اپنے ساتھ لے میں تیرے دل میں سمجھ کی شمع روشن کرونگا ۔جو نہ بجھے گی تاوقتیکہ وہ چیزیں پوری نہ ہوـں جو تو لکھنا شروع کر یگا۔ چنانچہ حضرت عزرا اور پانچ زود نویس چالیس روز تک دوسروں سے الگ تھلک جا بیٹھے ۔ اور انہوں نے الہامی تائید سے ان کتب کو مکمل کیا ۔APOCRYPHA 11
‏ ESDRAS 14
غرض اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ تم تو اپنی تعلیموں کو بھی بھول گئے تھے ۔مگر ہم نے تم پر یہ احسان کیا کہ تمہاری بھولی ہوئی تعلیم کو دوبارہ زندہ کر دیا ۔،لیکن بجائے اس کے کہ تم اس نعمت کی قدر کرتے تم نے اس کا انکار کر کے اپنی تعلیم سے بھی بے اعتنائی کا مظاہر ہ شروع کر دیا ۔
۲۵؎تفسیر:۔ اس آیت میں اَلَمْ تَعْلَمْ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نہیں بلکہ ہر انسان مراد ہے ۔ چنانچہ اس آیت کا یہ اگلا ٹکڑہ کہ مَالَکُمْ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلاَ نَصِیْرٍ اس حقیقت کو واضح کر رہا ہے کہاَلَمْ تَعْلَمْ میں خطاب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات والا صفات سے نہیں ہے بلکہ فرداً فرداً ہر قاری سے یاہر سامع سے یاہر انسان سے ہے اور اس کے معنے یہ ہیں کہ اے انسان ؟ یا اے قرآن کے پڑھنے والے یا اے قرآن کریم کے سننے والے کیا تو اِس بات کو نہیں جانتا کہ آسمانوں اور زمینوں کی بادشاہت اللہ ہی کے قبضے میں ہے یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ دنیوی بادشاہتیں بُرے لوگوں سے لے کر قابل ہاتھوں میں دے دیتا ہے ۔اسی طرح روحانی بادشاہت بھی وہ بعض دفعہ ایک قوم سے لے کر دوسری قوم کو دے دیتا ہے ۔ اور جب آسما ن اور زمین دونوں ایک ہی بادشاہ کے تابع ہیں تو لازماً دونوں میں قانون بھی ایک ہی جاری ہونا چائیے اور آسمانی قانون کا زمینی قانون پر اور زمینی قانون کا آسمانی قانون پر قیاس کرنا چائیے ۔اس آیت میں اس طرف توجہ دلائی گئی ہے ۔ کہ جب تمہارے پاس کوئی کف موجود نہ ہو تو تم قانون شرعی کا جو کہ آسمانی قانون ہے قانون قدرت پر جو کہ زمینی قانون ہے قیاس کر لیا کرو۔کیونکہ جسطرح آسمانی بادشاہت اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے زمینی بادشاہت بھی اُسی کے قبضہ میں ہے اور یہ ممکن نہیں کہ ان دونوں میں کوئی تخالف ہو ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس اصول کو ہمیشہ پیش فرمایا کرتے تھے ۔کہ قرآن کریم خدا کا کلام ہے ۔ اور قانون و قدرت اس کا فعل ہے اور یہ نا ممکن ہے کہ دونوں کا بنانیوالا تو ایک ہو اور ان میں کوئی اصول اختلاف پایا جاتا ہو ۔ جس طرح ذہن میں یہ قانون جاری ہے کہ جب تک کوئی قوم بادشاہت کی ذمہ داریوں کو ادا کرتی رہتی ہے اس کے پاس بادشاہت رہتی ہے اور جب وہ اُن ذمہ داریوں کو اد اکرنے سے قاصر ہوتی ہے تو بادشاہت اُس سے چین لی جاتی ہے ۔اسی طرح جو مذہب دنیا کی ضرورت کو پورا نہیں کر تے ان کو منسوخ کر دیا جاتا ہے ۔تمہارا محمد رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو نبوت ملنے پر اعتراض کرنا قانون قدرت کے خلاف ہے۔بہر حال کوئی نہ کوئی کلام اس وقت لوگوں کی ہدایت کے لئے آنا چاہیے تھا۔ اگر یہ شخص نہ آتا تو کوئی اور آجاتا۔ بہرحال جب پہلی کتابیں اپنی اصلاح کی قابلیت کو کھو بیٹھیں تو ضروری تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کی جگہ کوئی اور کتاب بھیج دیتا ۔ حضرت مسیح موعود الصلوٰۃ والسلام نے اپنی بعثت کے متعلق بھی اِسی قانون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ
’’میں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا‘‘
یعنی زمانہ چاہتا تھا کہ کوئی مصلح آئے ۔ پس اگر میں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا ۔یہی مضمون اس آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ تمہاری یہ ناراضگی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نبی بن گئے بلا وجہ ہے ۔تم سماوی قانون کا قانون قدرت پر قیاس کرو۔قانون قدرت یہ ہے کہ جب کوئی چیز مفید نہیں رہتی تو وہ مٹادی جاتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ ایک دوسرے مقام پر فرماتا ہے ۔کہ اَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الاْرْضِ (رعدآیت۱۰)یعنی ہمارایہ قانون ہے کہ جو چیز نفع رسال ہواُسے مٹا دیا جاتا ہے ۔ اور یہی قانون شریعت کے متعلق بھی ہے کہ جب وہ زمانہ کی غرض کو پورا نہیں کرتی تو اُسے منسوخ کر دیا جاتا ہے ۔
وَمَا لَکُمْ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ وَّلِیٍٓ وَلَا نَصِیْرٍ پہلے ہر فرد کو مخاطب کیا تھا اور اسے عام رکھا تھا ۔اب صرف مسلمانو کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ تمہارے سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی دوست اور مدد گار نہیں ۔جب تم نے ساری دنیا کی کتابوں کو منسوخ قرار دے دیا ہے تو پھر تمہارا کون دوست ہو گا ۔اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہود کے کلام کو منسوخ کرتے تو بے شک یہود اُن کے دشمن ہو تے مگر یہودیوں کو ان سے کیا دشمنی ہو سکتی تھی ۔ اور اگر کوئی ہندوؤں کے کلام کو منسوخ کرتا وت ہندو تو اُس کے دشمن ہوتے مگر دوسروں کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ وہ اُس سے دشمنی کرتے ۔ اسی طرح اگر کوئی زرتشتیوں کے کلام کو منسوخ کرتا توزرتشتی تو اس کے دشمن ہو سکتے تھے مگر یہودیوں کو اُس سے دشمنی کرنے کی کیا ضرورت پڑی تھی ۔ مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کتاب نے تو تمام کتابوں کو منسوخ کر دیا ہے ۔ اور یہ نبی تمام قوموں اور افراد کی اصلاح کرنے کیلئے آیا ہے اور جب یہ تمام کتابوں کی غلطیاں کرنے والا ہے اور ہر کتاب میں سے اس کا کچھ حصہ منسوخ کر دیتا ہے اور کچھ حصہ جو لوگوں کو بھول چکا ہوتا ہے اُسے تازہ کر تا ہے تو اس نے تو ہر ایک کے گھر میں تہلکہ مچا دیا۔ اس لئے تمام لوگ تمہارے دشمن ہیں ۔گو اصل حقیقت یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اُن کی خیر خواہی کرتے ہیں مگر وہ تو اس بات کو نہیں سمجھتے ۔پس فرماتا ہے کہ جب تمہاری اس کتاب نے دوسروں کی سب کتابوں کو منسوخ کر دیا ہے تو تمہارا کوئی بھی دوست نہیں ہو سکتا ۔ سب لوگ تمہارے دشمن ہیں ۔ان الفاظ میں اس پیشگوئی کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر پیدائش باب ۱۹ آیت ۱۲ میں اس طرح آتا ہے کہ :۔
’’اُس کا ہاتھ سب کے اور سب کا ہاتھ اس کے بر خلاف ہونگے ۔ ‘‘
جب اللہ تعالیٰ نے حضرت اسما عیل علیہ السلام کو مکہ میں بھیجوایا ۔تو فرمایا کہ اس کہ اس کے بھائیوں کو تلوار ہمیشہ اس کے مقابلہ میں اور اس کی تلوار اِن سب کے مقابلہ میں اُٹھی رہے گی ۔یعنی ساری دنیا اس کی دشمن ہوگی ۔یہی حالت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہے ۔ کیونکہ آپ تمام اقوام کی طرف معبوث ہوئے ہیں ۔ اسلئے تمام اقوام آپ کی مخالف ہیں ۔اور ہر ایک کی چوٹ ہم پرپڑتی ہے شریف لوگ بے شک ایسا نہیں کرتے ۔وہ بحیثیت افراد ہم سے تعلق رکھتے ہیں ۔ مگر بحیثیت جماعت نہیں ۔ پھر لطیفہ یہ ہے کہ ہماری مخالفت میں ہندو،عیسائی اور مسلمان سب اکھٹے ہو جاتے ہیں ۔حالانکہ یہ دونوں قومیں اسلام پر تیرچلاتی ہیں ۔ مگر احمدیت کے مقابلہ میں اسلام کا سارا درد ہندوؤں اور عیسائیوں میں چلا جاتا ہے ۔اس کی وجہ یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سب لوگوں کی اصلاح کیلئے آئے ہیں۔
غرض بتایا کہ چونکہ یہ رسول یہود ونصاریٰ اور زرتشتیوں کی کتابوں کو منسوخ کرتا ہے اس لئے آج روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارا کوئی والی مدد گار نہیں ۔پہلے بتایا تھا کہ یہودی کہ تم میں بگاڑ پیدا ہو اس لئے اُن کی ظاہر ی حالت پر مت جاؤوہ تمہارے دوست نہیں ہو سکتے ۔ اور اب بتایا کہ صرف یہودہی کا سوال نہیں دنیا کی کوئی بھی قوم تمہاری دوست نہیں ہو سکتی ۔ یہ مضمون بھی واضح کرتا ہے کہ پہلی آیت میں قرآن کریم کی آیات کے منسوخ ہونے کا ذکر نہیں بلکہ دوسرے مذاہب کی کُتب کے منسوخ ہونیکا ذکر ہے ۔ ورنہ یہودیوں اور عیسائیوں کو کیوں غصہ آتا۔ اگر قرآن کریم کی آیات منسوخ ہو گئی تھیں ۔ تو اس پر انہیں کیوں غصہ آتا ۔ان کی دشمنی صاف بتا رہی ہے کہ چونکہ قرآن کریم نے انکی کتابوں کو منسوخ کر دیا تھا ۔ اس لئے وہ ناراض ہو گئے ۔پس پہلی آیت میں قرآن کریم کے نسخ کا ذکر نہیں بلکہ دوسرے مذاہب کی کتابوں کے منسوخ کئے جانے کاہی ذکر ہے ۔


اَمْ تُرِیْدُوْنَ

سَوَآئَ السَّبِیْلِo
۲۶؎حل لغات:۔ تبدل :یہ باب تَفَعُّل سے ہے۔اور باب تَفَعُّلکا یہ خاصد ہے کہ اس میں کسی چیز کو اختیار کرلینے کے معنے ہوتے ہیں اس لئے مَنْ تَتَبَدَّلْ کا مطلب یہ ہے کہ جو کوئی ایمان چھوڑ کر اس کے بدلہ میں کفر لے لیتا ہے ۔
ضَلَّ: طریق پر استعمال ہوتا ہے (۱)ضَلَّ الطَّرِیْقَ(۲) ضَلَّ عَنِ الطَّرِیق۔ اسے راستہ نہ ملا۔ یا بھول گیا(اقرب) اسی طرح ضَلَّ سَوَآئَ السَّبِیْلِ اور ضَلَّ عَنْ سَوَائَ السَّبِیْلِ آتا ہے۔
سَوَآئَ کے معنے ہیں سیدھا اور مستقیم جس میں کوئی کجی نہ ہو۔ پس معنے یہ ہوئے کہ درست یا صحیح راستہ سے جس میں کوئی کجی نہ ہو وہ گمراہ ہو گئے یا اُسے بھول گئے۔
تفسیر:۔ نادان عیسائی مصنف اعتراض کیا کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نعوذ باللہ اپنی کم علمی چھپانے کے لئے صحابہؓ کو سوال کرنے سے منع فرمایا کرتے تھے۔ لیکن قرآن کریم کی یہ آیت بتاتی ہے کہ صحابہؓ کو سوال کرنے سے نہیں بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کے لوگوں جیسے سوال کرنے سے روکا گیا تھا۔
اصل بات یہ ہے کہ کوئی سوال زیادتی علم کے لئے ہوتا ہے اور کوئی کج بحشی کے لئے۔ کوئی بے ادبی کے لئے ہوتا ہے اور کوئی تحقیر و تذلیل کے لئے۔ غرض ہر سوال الگ رنگ رکھتاہے۔ معقول انسان کبھی بھی کسی غیر معقول سوال کی دوسرے کو اجازت نہیں دے سکتا۔ اگر کوئی لڑکا کالج میں پروفیسر کے سامنے کھڑے ہو کر سوال پ رسوال کرتا چلا جائے تو وہ لازماً اُسے ڈانٹے گا۔ اور کہیگا کہ تم فضول وقت ضائع کر رہے ہو۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیںہو گا کہ پروفیسر اپنی کم علمی کی وجہ سے اسے سوال کرنے سے روک رہا ہے۔ اسی طرح قرآن کریم نے لغو اور بے ہودہ سوالات کا ناپسند کیا ہے نہ کہ محض سوالات کو چنانچہ سُئِلَ مُوْسٰی علیہ السلام سے لوگ جس قسم کے سوالات کیا کرتے تھے۔ ان کا نمونہ قرآن کریم کی اس آیت میں دکھایا گیا ہے۔ کہ یَسْئَلُکَ اَھْلُ الْکِتٰبِ اَنْ تُنَزِّلَ عَلَیْھِمْ کِتٰبًا مِّنَ السَّمَآئِ فَقَدْ سَاَلُوْا مُوْسیٰٓ اَکْبَرَ مِنْ ذٰلِکَ فَقَالُوْٓ اَ رِنَا اللّٰہَ جَھْرَۃً(نساء آیت۱۵۴)یعنی یہ اہل کتاب تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ تو آسمان سے اُن پر ایک کتاب اُتار کرلے آئے۔ یہ سوال تو انہوں نے پھر بھی کم کیا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تو اس سے بھی بڑا سوال کیا گیا تھا۔ اور کہا گیا تھا کہ تُو خدا کو پکڑ کر ہمارے سامنے لے آتب ہم ایمان لائیں گے۔ اِسی طرح تورات پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بات بات پر سوال کیا کرتے تھے۔ مگر صحابہؓ کی یہ حالت تھی کہ وہ کہتے ہیں۔ ہم اس بات کا انتظار کیا کرتے تھے کہ کوئی اعرابی آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی سوال پوچھے تاکہ ہم بھی سُن لیں۔ گویا انہیں اس قدر وقار اور ضبطِ نفس حاصل تھا کہ خود کوئی سوال پوچھنے کی جرأت نہیں کرتے تھے۔بہر حال مسلمانوں کو صرف ایسے سوال کرنے سے روکا گیا ہے جو سنت اللہ اور قانونِ شریعت کے خلاف ہوں یا اپنے اندر گستاخی اور بے ادبی کا رنگ رکھتے ہوں۔یا جن سے محض وقت کا ضیاع ہوتا ہو۔ کوئی حقیقی فائدہ حاصل نہ ہو۔
مجھے یاد ہے حافظ روشن علی صاحب اور میں دونوں حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پڑھا کرتے تھے بعض اور دوست بھی ہمارے اس سبق میں شریک تھے۔ حافظ صاحب کی عادت تھی کہ وہ بات بات پر بال کی کھال اتارنے کی کوشش کرتے اور بڑی سختی سے جرح کرتے تھے۔ ابھی ہم نے بخاری کا سبق شروع ہی کیا تھا اور صرف دو چار سبق ہی ہوئے تھے کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُن کے سوالوں سے تنگ آگئے۔ وہ سبق کو چلنے ہی نہیں دیتے تھے۔ پہلے ایک اعتراض کرتے اور جب حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کا جواب دیتے تو وہ اس جواب پر اعتراض کر دیتے۔ پھر جواب دیتے تو جواب الجواب پر اعتراض کردیتے۔ اور اس طرح اُن کے سوالات ایک لمبا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ کہتے ہیں خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ میری عمر اس وقت بیس اکیس سال کی تھی اور طبیعت بھی تیز تھی حافظ صاحب کو سوال کرتے دیکھا تو میں نے خیال کیا کہ میں کیوں پیچھے رہوں چنانچہ چوتھے دن میں نے بھی سوالات شروع کر دیئے۔ ایک دن تو حضرت خلیفہ اوال رضی اللہ تعالیٰ عنہ چُپ رہے۔ مگر دوسرے دن جب میں نے بعض سوالات کئے تو آپ نے فرمایا ۔ حافظ صاحب کے لئے سوالات کرنے جائز ہیں تمہارے لئے نہیں۔ پھر آپ نے فرمایا۔ دیکھو تم بڑی مدت سے مجھ سے ملنے والے ہو اور تم میری طبیعت سے اچھی طرح واقف ہو۔ کیا تم کہہ سکتے ہو کہ میں بخیل ہوں۔ یا کوئی علم میرے پاس ایسا ہے جسے میں چھپا رکر رکھتا ہوں۔ میں نے کبھی کوئی بات دوسروں سے چھپاکر نہیں رکھی۔ جو کچھ آتا ہے وہ بتا دیا کرتا ہوںض۔ اب خواہ تم کتنے اعتراض کرو۔ میں نے تو بہر حال وہی کچھ کہنا ہے جو میں جانتا ہوں۔ اس سے زیادہ کچھ بتا نہیں سکتا۔ اب کسی بات کے متعلق دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ یا تو جو بات میں نے بتائی ہے وہ معقول ہے تم اُسے سمجھے نہیں۔ یا پھر جو بات میں نے بتائی ہے وہ غلط ہے اور تمہارا اعتراض درست ہے۔ اگر جو کچھ میں نے بتایا ہے وہ غلط ہے۔ تو یہ تو تم جانتے ہی ہو کہ میں بددیانتی سے تم کو دھوکا دینے کے لئے کوئی بات نہیں کہتا۔جو کچھ کہتا ہوں اُسے صحیح سمجھتے ہوئے ہی کہتا ہوں۔ اس صورت میں کواۃ تم کتنے اعتراض کرومیں تو وہی کہتا چلا جائونگا جو میں نے ایک دفعہ کہا۔اور اگر میں نے جو کچھ کہا ہے وہ درست ہے تو اُس پر اعتراض کرنے کے یہ معنے ہیں کہ وہ بات تمہاری سمجھ میں نہیں آئی۔ ایسی حالت میں اگر تم اعتراض کرو گے تو اس سے تمہاری طبیعت میں ضِد پیدا ہو گی۔ فائدہ کچھ نہیں ہو گا۔ اِس لئے میری نصیحت یہ ہے کہ تم سوالات نہ کیا کرو۔ بلکہ خود سوچنے اور غور کرنے کی عادت ڈٓلو۔ اگر کوئی بات تمہاری سمجھ میں آجائے تو اسے مان لیا کرو۔ اور اگر سمجھ میں نہ آئے تو اللہ تعالیٰ سے دُعا کیا کرو کہ وہ خود تمہیں سمجھائے اور اپنے پاس سے علم عطا فرمائے۔ اِس نصیحت کے بعد میں نے پھر حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ سے کبھی کوئی سوال نہیں کیا۔ کچھ دن گزرے تو آپ نے حافظ صاحب کو بھی ڈانٹ دیا کہ وہ دورانِ سبق میں سوالات نہ کیا کریں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے روزانہ بخاری کا آدھ آدھ پارہ پڑھنا شروع کر دیا۔ بے شک اور علوم بھی ہم پڑھتے تھے لیکن بہر حال آدھ پارہ روزانہ تبھی ختم ہو سکتا ہے جب طالب علم اپنے مُنہ پر مہر لگا لے اور وہ فیصلہ کر لے کہ میں نے اُستاد سے کچھ نہیں پُوچھنا۔ جو کچھ وہ بتائے گا اُسے سُنتا چلا جائوں گا۔ بہرحال حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے اس روکنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں نے خود قرآن کریم پر غور کرنا شروع کر دیا اور اس کا فائدہ یہ ہوا کہ میں ابھی طالب علم ہی تھا کہ میں نے خود درس دینا شروع کر دیا ۔ گویا حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے
وَدَّ کَثِیْر’‘مِّنْ


کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْر’‘o
سوالات سے روک کر میرے ذہن کو اس طرف متوجہ کر دی اکہ مجھے خود بھی قرآن کریم پر غور کرنے کی عادت ڈالنی چاہیئے اِسی طرح اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو سوالات سے روک کر اُن کی فطرت اور ذہنیت کو بلند کرنے کی کوشش کی ہے۔ بے شک بعض اوقات دوسرے سے بھی کوئی بات پوچھنی پڑتی ہے مگر زیادہ تر خود ہی غور کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ میں نے دیکھ اہے قرآن کریم میں آدمؑ کا قصہ آجائے تو لوگ بڑی کثرت سے سوال کرنے لگ جاتے ہیں حالانکہ اگر سوال کرنے کی بجائے وہ خود سوچیں تو اُن کی تمام مشکلات حل ہو جائیں۔ اس جگہ صرف ایسے ہی سوالات سے روکا گیا ہے جو انسان کے ایمان کو تباہ کر دیتے ہیں اور اُس کے اندر کفر پیدا کر دیتے ہیں۔ ورنہ عام سوالات سے جو تحقیق کی غرض سے کئے جائیں اسلام منع نہیں کرتا۔
وَمَنْ یَّتَبَدَّلِ الْکُفْرَبِالْاِیْمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآئَ السَّبِیْلِ۔فرماتا ہے۔ سوال کی اصل غرض تو علم کی زیادتی ہوتی ہے۔ مگر جو شخص گستاخانہ سوالات کرتا رہتا ہے اور خدا اور اس کے رسول اور اس کے کلام کا ادب ملحوظ نہیں رکھتا۔ وہ اس گستاخی کے نتیجہ میں اپنے پہلے ایمان کو بھی کھو بیٹھتا ہے اور ایمان میں ترقی کرنے کے بجائے کفر کی دہلیز تک پہنچ جاتا ہے۔ اگر وہ دائرہ ادب کے اندر رہتے ہوئے نیک نیتی سے سوال کرتا تو اس کی یہ حالت نہ ہوتی۔ پس انسان کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ اپنے قلب کا جائزہ لیتا رہے اور لغو بحثوں اور لغو سوالات میں حصہ نہ لیاکرے۔ حضرت مولوی عبداللہ صاحب غزنوی جنہوں نے ایک دفعہ رویا میں دیکھا تھا کہ قادیان سے ایک نُور نکلا ہے مگر میری اولاد اس سے محروم رہی ہے۔ اُن کے پاس ایک دفعہ کوئی مولوی بحث کے لئے آگیا۔ انہوں نے فرمایا کہ میں بحث کے لئے تیار ہوں بشرطیکہ مولوی صاحب کی نیت بخیر ہو۔ معلوم ہوتا ہے وہ مولوی اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کی خشیت رکھتا تھا اُس نے یہ فقرہ سُنتے ہی کہہ دیا کہ میں آپ سے بحث نہیں کرتا کیونکہ مناظر میں عموماً نیت بخیر نہیں ہوتی بلکہ صرف اتنا ہی مقصد ہوتا ہے کہ دوسرا فریق ذلیل ہو جائے۔ اور لوگوں میں واہ واہ کا ایک شور مچ جائے۔ غرض چونکہ بعض سوال حق پانے کے لئے نہیں ہوتے بلکہ اُن کی غرض محض بحث و مباحثہ لڑائی اور دوسرے کو شرمندہ کرنا ہوتی ہے ۔ اس لئے فرماتا ہے کہ مومنوں کو اس قسم کے سوالات سے بچنا چاہیے۔
۲۷؎ حل لغات:۔وَدَّ کے معنے چاہنے کے ہیں۔ اور وَدُوْد بہت محبت کرنے والے کوکہتے ہیں۔ لَوْ کے معنے کاش کے ہوتے ہیں۔ اور یہ’’اگر‘‘ کے معنے بھی دیتاہے۔ اِسی طرح مصدری معنے بھی دیتاہے۔
یَرُدُّوْنَکُمْ:۔ یہ اَنْ یَّرُدُّوْکُمْ کا قائم مقام ہے ۔ چونکہ اس جگہ دو مفعول آئے ہیں اِس لئے یہ صَیَّرَ کُمْ کے معنے دیتا ہے جس کے معنے بنا دینے کے ہیں۔ کُمْ مفعول اول اور کُفَّارًا مفعول ثانی ہے۔ اور حَسَدًا مفعول لۂ ہے۔
عَفْو کے معنے مٹادینے کے ہیں۔ لیکن جب یہ لفظ کسی مذہبی امر کے متعلق ہو تو اس کے معنے گناہ کو مٹا دینے کے ہوتے ہیں۔
صَفَحَ کے معنے ہیں’’پہلو پھیر لیا‘‘۔ جب انسان مقابلہ کرنا چاہتا ہے تو سامنے آتا ہے۔ اور اُس کا ناک آنکھ مُنہ نظر آرہا ہوتا ہے۔ لیکن جب مقابلہ نہ کرنا چاہے تو دوسری طرف چلا جاتا ہے اس لئے اس کے معنے درگذر کرنا۔ مُنہ پھیر لینا۔
تفسیر:۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آخری عمر میں اُن کا پلوٹھا بیٹا اسمٰعیل ؑ ہاجرہ کے بطن سے پیدا ہوا اور اس کے بعد اُن کی پہلی بیوی سارہ کے بطن سے اسحاق ؑ پیدا ہوا۔ سارہ چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ماموں کی بیٹی تھی ان کو خیال تھا کہ میں خاندانی ہوں اور ہاجرہ باہر کی ہے۔ اِس لئے وہ اپنا درجہ بڑا سمجھتی تھیں۔ اتفاقاً حضرت اسمعٰیل ؑ جو بچے تھے ایک دفعہ حضرت اسحاق ؑ کی کسی حرکت پر یا کسی اور وجہ سے قہقہ مار کر ہنس پڑے ۔ حضرت سارہ نے سمجھا کہ اِس نے میری اور میرے بچے کی تحقیر کی ہے اور قہقہ مارا ہے شاید یہ بھی خیال کیا کہ یہ اس بات پر خوش ہے کہ یہ بڑا بیٹا ہے اور یہ وارث ہو گا اور اسحاق وارث نہیں ہو گا۔ تب انہوں نے غصہ میں آکر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہ اکہ اس کو اور اس کی ماں کو گھر سے نکال دو کیونکہ میں یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ میرے بیٹے کے ساتھ یہ تیرا بیٹا وارث ہو۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پہلے تو اِس بات کو بُرا منایا۔ اور اس کام سے رُکے۔ مگر خداتعا لیٰ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مکہ سے ظاہر کرنا چاہتا تھا اُس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو وحی کی کہ جو کچھ تیری بیوی سارہ کہتی ہے وہی کر۔ (پیدائش باب۲۱ آیت۱۲)چنانچہ خدا کے حکم کے ماتحت حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت ہاجرہ اور حضرت اسمعٰیل ؑ کو وادیٔ حرم میں چھوڑ گئے اور سارہ اور اسحاق کے سپرد کنعان کا علاقہ کر دیا گیا۔حضرت اسمعٰیل ؑ کی نسل نے مکہ میں بڑھنا شروع کیا اور وہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اسمعٰیل کے گھرانے میں پیدا ہوئے۔مگر یہ رقابت یہیں ختم نہیں ہو گئی بلکہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسمعٰیل علیہ السلام کی پیدائش پر ان کی ماں سے کہا تھا ۔اُسی طرح ہوا کہ
’’اس کا ہاتھ سب کے خلاف اور سب کے ہاتھ اس کے خلاف ہوں گے‘‘۔(پیدائش باب۱۶ آیت۱۲)
یعنی ایک زمانہ تک اسماعیلی نسل تھوڑی ہو گی اور اسحاق ؑ کی نسل زیادہ وہ گی اور وہ سب کے سب مل کر اسماعیلی سلسلہ کی مخالفت کریںگے۔ اور کوشش کریں گے کہ وہ کامیاب نہ ہو قرآن مجید نے اس کا یوں ذکر فرمایا ہے کہ وَدَّ کَثِیْر’‘ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ لَوْ یُرُدُّوْنَکُمْ مِّنْ بَعْدِ اِیْمَا نِکُمْ کُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِھِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمُ الْحَقُّ۔ یعنی اہل کتاب میں سے بہت سے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اسمعٰیلی نسل یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھی اُسے چھوڑ کر پھر کافر ہو جائیں اور یہ بعض محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قصور کی وجہ سے نہیں بلکہ اُن کے اپنے دلوں سے پیدا شدہ بغض کی وجہ سے ہے اور رقابت کی وجہ سے ہے۔ وہ سارہ اور ہاجرہ کی لڑائی کو دو ہزار سال تک لمبا لے جانا چاہتے ہیں۔ پس اُن کی اس خواہش کی بنیاد کسی جذبہ خلوص پر نہیں بلکہ اُن کے حسد پر ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مان کر تم اُن سے نیکی اور تقویٰ میں بڑھ گئے ہو۔ پس اب وہ اس کا ازالہ اس رنگ میں کرنا چاہتے ہیں کہ تمہیں بھی ایمان سے محروم کر دیں۔ حالانکہ اگر وہ خود ایمان لے آئیں تو وہ بھی مسلمانوں کے دوش بدوش نیکی اور تقویٰ میں ترقی کر سکتے ہیں۔ مگر اُن کے دلوں میں یہ جلن ہے کہ تم نے مان لیا اور وہ محروم رہ گئے۔ اور اس حسدا ور بغض کی وجہ سے وہ تمہاری کسی نیکی اور خوبی کو برداشت نہیں کر سکتے۔
حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِھِمْ دوسرا مفعول لۂ بھی ہو سکتا ہے۔اِس لحاظ سے اس کے یہ معنے ہوں گے کہ یہ جذبہ خود اُن کے اپنے نفس کی خرابی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ تمہارا کوئی فعل اس کا باعث نہیں۔ دُنیا میں حسد دو قسم کا ہوتا ہے ایک وہ جو باعث کے لحاظ سے اچھا ہوتا ہے۔ اور دوسرا وہ جو باعث کے لحاظ سے بھی بُرا ہوتا ہے اور نفس کے لحاظ سے بھی بُرا ہوتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی غیر مسلم مال و دولت میں بڑھ جائے اور کوئی مسلمان اس پر حسد کرے تو یہ حسد اس وجہ سے بھی ہو سکتا ہے کہ کفر کی طاقت ٹوٹے کیونکہ خدا تعالیٰ کفر کو ناپسند کرتا ہے اور اس وجہ سے بھی ہو سکتا ہے کہ اس کا اپنا نفس اس بات کو برداشت نہ کر سکتا ہو کہ کسی غیر مسلم کو زیادہ دولت مِل جائے اور پھر یہ حسد محض نفسانی بھی ہو سکتا ہے جس میں کسی دینی جذبہ کا دخل نہ ہو۔ محض دنیوی خواہشات اس کی پشت پر کام کر رہی ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُن کا حسد مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِھِمْ ہے۔ یعنی یہ حسد اُن کے نفسوں کی خرابی اور بُخل کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ اس کا موجب مسلمانوں کا کوئی فعل نہیں۔ اگر مسلمان ان کو چڑاتے اور اس وجہ سے ان کو غصہ آتا تو پھر حسد کا باعث مسلمان ہوتے لیکن مسلمان تو ُن کی خیر خواہی کرتے اور اُن کی ترقی کی کوشش کرتے ہیں پس اُن کا حسد اُن کے اپنے نفس سے پیدا ہوا ہے۔
مِنْ بَعْدِ مَاتَبَیَّنَ لَھُمُ الْحَقُّ۔ مسلمانوں کو کافر بنانے کی خواہش دو وجوہ سے ہو سکتی تھی۔ اول اس وجہ سے کہ اہل کتاب غلطی سے یہ سمجھتے ہوں کہ مسلمانوں کی حالت کفار سے گری ہوئی ہے اِ س لئے بہتر ہے کہ وہ پھر کفر اختیار کر لیں۔ دوسرے اہل کتاب غلطی سے نہیں بلکہ علیٰ وجہ البصیرت سمجھتے ہوں کہ مسلمانوں کی حالت اہل مکہ کی حالت سے بھی گری ہوئی ہے اور سمجھتے ہوں کہ اگر یہ اس پہلی حالت پر رہتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر واقع میں اُن کی یہ خواہش نیک نیتی پر مبنی ہوتی تو اور بات تھی مگر ان کی یہ خواہش اس لئے نہیں کہ مکہ والے اِن سے اچھے ہیں بلکہ یہ لوگ محض حسد کی وجہ سے ایسی خواہش کرتے ہیں۔ دوسرے یہ خواہش کسی غلط فہمی کی بنا پر نہیں بلکہ یہ جانتے ہوئے کہ مکہ والوں کی حالت اِن سے ادنیٰ ہے اور یہ جانتے ہوئے کہ ہدایت اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے پھر بھی یہ مسلمانوں کو کافر بنا دینے کے درپے ہیں۔ پس یہ مسلمانوں کے ہی نہیں بلکہ خداتعالیٰ کے بھی دشمن ہیں۔ اس جگہ مِنْ بَعْدِ مَاتَبَیَّنَ لَھُمُ الْحَقُّنے واضح کر دیا ہے کہ باوجود اس بات کے جاننے کے کہ اِس مذہب کو فضیلت حاسل ہے پھر بھی لوگ چاہتے ہیں کہ کفر پھیلے اور ہدایت کا دائرہ زیادہ سے زیادہ تنگ ہو تا چلا جائے۔ مسلمانوں کے متعلق اہل کتاب کی جس خواہش کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے قرآن کریم کے بعض اور مقامات میں بھی اس کا بیان ہوا ہے۔ چنانچہ سوہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ وَدَّتْ طَّآئِفَۃ‘ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ لَوْ یُضِلُّوْ نَکُمْط وَمَا یُضِلُّوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ(آل عمران آیت۷۰)یعنی اہل کتاب میں سے ایک گروہ یہ آرزو رکھتا ہے کہ کاش وہ تمہیں گمراہ کر دے۔ حالانکہ وہ اپنے آپ کو ہی گمراہی میں مبتلا کر رہے ہیں۔ اسی طرح سورہ آل عمران میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ یٰٓاَ یُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِنْ تُطِیْعُوْافَرِیْقاً مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُواالْکِتٰبَ یَرُدُّوْ کُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ کٰفِرِیْنَ(آل عمران آیت۱۰۱)کہ اے مومنو! اگر تم ان لوگوں میں سے جنہیں کتاب دی گئی ہے کسی فریق کی اطاعت کروگے تو وہ تمہارے ایمان لے آنے کے بعد پھر تمہیں کافر بنادینگے۔
فَاعْفُوْا: گناہوں کو تین رنگ میں مٹایا جاتا ہے۔ اول دنیوی نتائج کے لحاظ سے جیسے گناہگار کو جسمانی سزا سے بچالینا۔ دوم اُخروی نتائج کے لحاظ سے جیسے گنہگار کو شرعی سزا سے بچا لینا۔ سوم گناہ کے زنگ اور اُس سیلان تک کو مٹا دینے کے لحاظ سے۔ یہ عفو کامل سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ اس میں دل پر جو گناہ کا زنگ لگ جاتا ہے اس کو بھی مٹا دیا جاتا ہے۔ چونکہ اس جگہ مسلمان مخاطب ہیں۔ اس لئے اس جگہ اُخروی شرعی سزا مراد نہیں بلکہ دنیوی سزامراد ہے اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ تم ان کو خود سزا دینے کی کوشش نہ کرو۔ بلکہ عفو سے کام لو۔
فَاعْفُوْا کی فاء سے ظاہر ہے کہ یہ حکم اہل کتاب کے کسی پہلے فعل کے نتیجہ میں دیا گیا ہے۔ اور وہ پہلا فعل یہی تھا کہ وہ مسلمانوں کو پھر کافر بنانا چاہتے تھے۔ پس فَاعْفُوْا کا یہ مطلب نہیں کہ چونکہ یہ لوگ تمہیں دین سے منحرف کرنا چاہتے ہیں اس لیے تم انہیں معاف کر دو کیونکہ معانی کا موجب ہمیشہ کوئی نیکی ہوا کرتی ہے اور نیکی انہوں نے کوئی کی نہیں بلکہ الٹا یہ خطرناک دشمنی کی کہ مسلمانوں کی مرکزیت کو تباہ کر کے پھر انہیں لا مرکزیت کی طرف لے جانیکی کوششیں شروع کردیں۔ ایسی صورت میں اُن کی کسی نیکی کو اس معافی کا موجب نہیں سمجھا جا سکتا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب انہوں نے کوئی نیکی نہیں کی بلکہ ذکر یہ کیا جا رہا ہے کہ وہ مسلمانوں کو ایک ایک کر کے پھر مرتد کرنا چاہتے ہیں تو اسی صورت میں فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوا کا حکم کیوں دیا گیا؟سو یاد رکھنا چاہیے کہ یہاں عفو اور صفح سے عفو کی تین مذکورہ بالا قسموں میں سے صرف اول قسم مراد ہے۔ اور مطلب یہ ہے کہ تم انہیں جسمانی سزا دینے کی کوشش نہ کرو۔ کیونکہ اُن کے اس فعل کی سزا ہم خود انہیں دیںگے۔ اور عفو کے ساتھ صفح کو جس کے معنے مونہہ پھیرلینے کے ہیں اس لئے شامل کیا گیا ہے کہ نہ صرف اُن کو کوئی سزا نہ دو بلکہ یوں بھی سختی سے پیش نہ آئو۔ بلکہ اُن سے اعراض کرو۔ اسی لئے فرمایا کہ حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ۔ یعنی تم اُن سے درگزر کرو۔ یہاں تک کہ اُن کے لئے خداتعالیٰ کا فیصلہ نافذ ہو جائے۔ یا اُن پر عذاب نازل ہو جائے۔ اس جگہ امر سے مراد جہاد کاحکم نہیں بلکہ یہ مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ کوئی فیصلہ نافذ کرے۔ یعنی مختلف عذابوں سے انہیں ہلاک کرے۔ آخر جو لوگ جسمانی، قلبی، دماغی اور روحانی لحاظ سے اِتنے بڑے جرائم کے مرتکب ہوجائیں اور یہ جاننے کے باوجوس کہ کفار اُن سے ادنیٰ ہیں پھر بھی مسلمانوں کو کفر کی طرف لوٹانا چاہیں اور پھر یہ لوگ حاسد بھی ہوں اور حسد کا موجب ان کے اپنے نفسوں کی کمینگی اور گندگی ہو تو اُنکو سوائے خدا کے اور کون سزا دے سکتا ہے۔ انسان صرف جسمانی سزا دے سکتا ہے۔ وہ دماغی فکری قلبی اور رُوحانی سزا کسی کو نہیں دے سکتا ہے۔ وہ دماغی فکری، قلبی اور رُوحانی سزا کسی کو نہیں دے سکتا۔ یہ قطعی اور یقینی طور پا اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے مل سکتی ہے کیونکہ انسان کے دماغ قلب جسم اوررُوح پر اُسی کا قبضہ ہے اس لئے فرمایا کہ ان پر ہم چوٹ لگا ئینگے تم انہیں ہمارے لئے چھوڑ دو۔ ہم ان کے دماغ پر بھی چوٹ لائینگے ہم ان کے فکر پر بھی چوٹ لگائینگے۔ ہم ان کے قلب پر بھی چوٹ لگائینگے ہم ان کی رُوح پر بھی چوٹ لگائینگے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ یہود مدینہ نے زبانی باتوں سے گذر کر سیاسی طریقوں سے مسلمانوں کو دکھ پہنچانا چاہا اور قتل تک کی سازشیں کیں۔ تب اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن سے جنگ کی اجازت ہوئی اور مسلمانوں کی قلیل جماعت کے ہاتھوں یہود تک سخت ذلیل اور رُسوا ہوئے۔
وَاَقِیْمُواالصَّلٰوۃَ
بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْر’‘o
۲۸؎ تفسیر:۔ خدا تعالیٰ کا یہ کہنا کہ تم ان لوگوں کو سزا نہ دو بلکہ اسے ہم پر چھوڑ دو چونکہ مسلمانوں پر گراں گذر سکتا تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ جب تمہیں دشمن کے مقابلہ میں اپنی بے بسی کو دیکھ کر غصہ آئے اور تمہارے لئے صبر کرنا مشکل ہو جائے تو اس کا علاج یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر جھک جائو اور نمازوں میں ہم سے دُعائیں مانگو۔ کہ الے اللہ تو خود ان کو ہدایت دے اور اگر ان کے لئے ہدایت مقدر نہیں تو ہمیں ان کے ضر ر سے محفوظ رکھ۔ اور انہیں ہمارے راستہ رے ہٹا دے۔
وَاٰتُواالذَّکٰوۃَ۔ اور دوسرا علاج یہ ہے کہ تم زکوٰۃ کے ذریعہ غرباء کی مدد کرو۔ یتامیٰ و مساکین اور بیوگان کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئو۔ قوم کے کمزور طبقہ کو اونچا کرنے کی کوشش کرو۔ اور وہ لوگ جو کفار میں سے نیک نیتی کے ساتھ مذہب کی تحقیق کرنا چاہیںاُنکو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرو۔ اس میں اشارہ فرما دیا کہ ان لوگوں میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے۔ جسے ہم بچانا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو حسنِ سلوک کے ذریعے اپنی طرف کھینچ لو۔ جب وہ ان میں سے نکل آئیں گے تو باقیوں کو ہم ہلاک کر دینگے۔
وَمَاتُقَدِّ مُوْالِاَ نْفُسِکُمْ مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوْہُ عِنْدَاللّٰہِ۔ اس میں بتایا کہ تم جو بھلائی کے کام کرو گے اُسے تم خدا تعالیٰ کے حضور پائو گے۔ یعنی تم یہ خٰال مت کرو کہ یہ صبر کی تعلیم نقصان دہ ہے۔ صبر کرنا اپنی ذات میں ایک بڑی نیکی ہے اور وہ تمہارے نیک اعمال میں اسی طرح شمار کی جاتی ہے جس طرح نماز اور روزہ وغیرہ۔ چونکہ گالیاں سُنکر صبر کرنا ایک بڑا مجاہدہ ہے اس لئے فرمایا کہ جب اس کی جزا تمہیں قیامت کے دن ملے گی تو یہ ایک نیکی ڈھیروں ڈھیر ثواب کی صورت میں تمہارے سامنے آجائے گی۔ اور تم اسے دیکھ کر حیران ہو جائو گے اور کہو گے کہ ہم نے تو کوئی ایسی نیکی نہیں کی جس کی اتنی بڑی جزا ہو۔ مگر خدا تعالیٰ کے نزدیک یہ نیکی اِسی جزاء کی مستحق ہو گی۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا صبر کو بُزدلی سمجھتی ہے اور اسی وجہ سے وہ اس نیکی سے محروم رہتی ہے۔ حالانکہ صبر اور بُزدلی میں بڑا بھاری فرق ہے۔ صبر کے معنے یہ ہیں کہ وہ امور جن کی شریعت نے حد بندی کر دی ہے۔ ہم اس کے اندر رہیں۔ ورنہ صبر کے یہ معنے نہیں کہ انسان اپنے حقوق چھوڑ دے یا اپنے مقاصد کو نظر انداز کر دے حقیقی صابر اور بُزدل میں فرق ہی یہی ہے کہ صابر اُس وقت صبر کرتاہے جب شریعت کہتی ہے کہ صبر کرو۔ لیکن جہاں دین کے وقار اور اعزاز کا سوال آجائے وہ دُنیا کو دکھا دیتا ہے کہ اس جیسا بہادر کوئی نہیں اور وہ کسی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ لیکن بُزدل کی یہ علامت ہوتی ہے کہ اس کا صبر شریعت کے احکام کے ماتحت نہیں ہوتا۔ وہ جو رویہ خود بخود اختیار کرتا ہے اس کا نام صبر رکھتا ہے لیکن اس کا انجام ظاہر کر دیتاہے کہ وہ صبر نہیں تھا بلکہ بُزدلی تھی۔ صبر کے معنے یہ ہیں کہ اگر تمہیں کوئی گالی دے تو تم اسے گالی نہ دو۔ اگر کوئی تم پر ظلم کرے تو تم اس وقت تک ظلم کا جواب نہ دو جب تک شریعت تمہیں جواب دینے کی اجازت نہیں دیتی۔ لیکن صبر کے یہ معنے نہیں کہ تم اپنا دفاع چھوڑ دو اور دین کے معاملہ میں ذلت برداشت کرلو۔ کیونکہ اس طرح بہادری اور دلیری نہیں بلکہ بُزدلی پیدا ہو جائیگی اور بُزدلی خوبصورتی نہیں بلکہ بدصورتی ہے۔ پس مومن کا کام یہ ہے کہ جہاں اُس کی قربانی کی ضرورت ہووہاں قربانی کرے خواہ ساری دنیا اس کی مخالف ہو۔ اور جہاں شریعت کہے کہ خاموش رہو اور صبر سے کام لو وہاں خاموش رہے۔ مگر وہ اس لئے خاموش نہ رہے کہ دشمن طاقت ور ہے اور وہ اس سے ڈرتا ہے بلکہ اس لئے خاموش رہے کہ اس موقعہ پر خاموش رہنے کے لئے خدا تعالیٰ کہتا ہے ورنہ جسے ایک لمحہ بھر کے لئے بھی یہ خیال آتا ہے کہ دشمن طاقتور ہے اس لئے خاموشی اختیار کرنی چاہیے وہ بُزدل ہے۔ اور اخداتعا لیٰ کی مقدس جماعت میں کوئی بُزدل انسان شامل ہونے کے قابل نہیں ہوتا۔
صبر کے معنے یہ ہیں کہ انسان متواتر اور استقلال کے ساتھ ان بدیوں کا مقابلہ کرے جو اس کو اپنی طرف کھینچ رہی ہوں۔ اور اُن بندیوں کے مقابلہ کے لئے تیار رہے جو اس کو آئندہ پیش آنے والی ہوں۔ اسی طرح صبر کے ایک معنے یہ ہیں کہ انسان استقلال کے ساتھ اُن نیکیوں پر قائم رہے جو اس کو حاصل ہو چکی ہوں اور اُن نیکیوں کے حصول کی کوشش کرے جو اس کو ابھی ملی نہیں۔ غرض استقلال کے ساتھ بدیوں کا مقابلہ کرنے۔ استقلال کے ساتھ نیکیوں پر قائم رہنے اور استقلال کے ساتھ آئندہ نیکیوں کے حصول کے لئے کوششں کرنے کانام صبر ہے۔
دوسرے معنے صبر کے یہ ہیں کہ انسان جزع فزع نہ کرے۔ جب کوئی مصیبت آپڑے تو گھبرائے نہیں اور ہمت نہ ہارے۔ اگر اس کا کوئی عزیز مرتا ہے یا اس کا مال کھویا جاتا ہے ۔ یا اسی قسم کا کوئی اور واقعہ پیش آتا ہے تو وہ اس امر کو مدنظر رکھے کہ جو کچھ اُس کے پاس ہے وہ اُس کا نہیں بلکہ بطور انعام خداتعالیٰ کی طرف سے اس کو ملا ہوا ہے اور صبر سے کام لے۔ پھر اس صبر کی بھی آگے دو قسمیں ہیں۔ ایک اُن معاملات میں صبر کرنا جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور بندوں کا ان میں کوئی دخل نہیں ہوتا۔ اور دوسرے اُن معاملات میں صبر کرنا جو بندوں کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں جو معاملات اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ جو معاملات اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اُن کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص کا کوئی رشتہ دار فوت ہو گیا یا بیمار ہو گیا ۔ یا ملک میں قحط پڑ گیا یا کوئی ایسی جنگ چھڑ گئی جس کی وجہ سے اُس کے کاروبار میں گھاٹا پڑ گیا۔ یہ ایسے واقعات ہیں کہ اِن میں انسان کا کوئی دخل نہیں۔ اِن میں خداتعالیٰ کی رضا پر استقلال کے ساتھ قائم رہنا صبر کہلاتا ہے۔ لیکن ایسے معاملات جو بندوں کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اُن میں بعض دفعہ انسان ہاتھ پائوں ہلا سکتا ہے۔ لیکن پھر بھی اگر کوئی شخص اس پر سختی کرتا اور اس کو دکھ دیتا تو وہ مقابلہ نہیں کرتا مثلا کوئی اُس کو تھپڑ مارتا ہے تو وہ آگے سے بولتا نہیں۔ خدا تعالیٰ تو گر اُس کی جان بھی لے لے تو وہ بول نہیں سکتا۔ لیکن اگر کوئی شخص اُسے تھپڑمارے تو یہ بھی مناسب جواب دے سکتا ہے۔ اگر اس کو تھپڑ مارنا ہی مناسب ہو۔ تو تھپڑ مار سکتا ہے اور اگر ساس وقت تھپڑ مارنا قومی فوائد کے لحاظ سے یا اس شخص کی اصلاح کے نقطہ نگاہ سے مناسب نہ ہو تو تھپڑ نہیں مارتا۔ بہرحال ایسی حالت میں اگر کوئی شخص خاموش رہتا ہے تو یہ صبر کہلاتا ہے لیکن اس حالت میں ضروری ہے کہ یہ شخص بُزدل نہ ہو اور اس وجہ سے چپ نہ ہو کہ دوسرا شخص بھی مجھے آگے سے مارے گا۔خداتعالیٰ کے مقابلہ میں تو اس کا چُپ رہنا اور صبر کرنا عدمِ مقدرت پر مبنی ہو گا۔ لیکن انسانوں کے مقابلہ میں اس کا صبر عندالمقدرت ہو گا۔ یعنی اگر وہ بدلہ لینے کی طاقت رکھتا ہے لیکن اس لئے بدلہ نہیں لیتا کہ شاید بدلہ نہ لینے سے کوئی مفید نتیجہ نکل آئے تو یہ اس کا صبر کہلائیگا۔ مگر خداتعالیٰ کے مقابلہ میں یہ بدلہ لینے کی مقدرت ہی نہیں رکھتا وہاں اُس کا چُپ رہنا یا نہ رہنا برابر ہوگا۔ اس لئے
وَقَالُوْ الَنْ
کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَo
وہاں صبر کے یہی معنے ہوں گے کہ گھبرائے نہیں اور ہمت سے ہار کر بیٹھ نہ رہے لیکن بندوں کے مقابلہ میں اس کو بدلہ لینے کی مقدرت ہو اور پھر صبر کرے تو صبر صبر کہلانے کا مستحق ہو گا کیونکہ یہ بدلہ لینے کی طاقت رکھتے ہوئے صبر کرتا ہے اگر کوئی شخص قید میں کوٹھڑی کے اندر بند ہو۔ کوئی راستہ اُس کے نکلنے کا نہ ہو۔ اور وہ کہے کہ میں صبر کر کے بیٹھا ہوا ہوں تو یہ اس کا صبر نہیں ہو گا۔ کیونکہ اگر دروزاہ کھال ہوتا اور کوئی اُس کو نہ روکتا تو وہ ضرور قید سے نکل جاتا۔ اس کا اس وقت قید میں چپ بیٹھے رہنا اس وجہ سے ہوتا ہے کہ اُس کے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ پس اُس کا یہ صبر صبر نہیں کہلائیگا۔ غرض انسانوں کے مقابلہ میں صبر ہمیشہ وہ ہوتا ہے جو عندالمقدرت ہو۔ بے شک بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کمزور ہوتا ہے۔ اس میں بدلہ لینے کی طاقت اور ہمت نہیں ہوتی۔ اور وہ خیال کرتا ہے کہ اچھا میں صبر کرتا ہوں۔ مگر اُسے ہم صبر نہیں کہہ سکتے ۔ صبر یہی ہے کہ وہ دیکھے کہ مجھ میں اتنی طاقت ہے کہ میں بدلہ لے سکتاہوں لیکن پھر بھی وہ عفو سے کام لے۔
۲۹؎ تفسیر:۔یہ مضمون مختلف شکلوں میں قرآن کریم میں تین دفعہ آیا ہے۔پہلی دفعہ سورۃ بقرہ آیت۸۱ میں یہ مضمون اِس طرح بیان کیا گیا ہے کہ قَالُوْ الَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّا اَیَّا مًا مَّعْدُوْدَۃ یعنی یہ لوگ کہتے ہیں کہ آگ ہمیں چند دنوں کے بعد جو اُن کی کتابوں میں زیادہ سے زیادہ بارہ ماہ تک شمار کئے گئے ہیں اُن کو دوزخ میں سے نکال لیا جائے گا۔ بلکہ بارھواں مہینہ بھی ختم نہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ اُن کو آگ سے نکال لے گا۔
دوسری دفعہ یہ مضمون سورۃ بقرہ آیت۹۵ میں اِس طرح آیا ہے۔ کہ قُلْ اِنْ کَانَتْ لَکُمُ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ عِنْدَاللّٰہِ خَالِصَۃً مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْکُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۔ یعنی اہل کتاب یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مرنے کے بعد کی زندگی کے صرف وہی مستحق ہیں اور جنت میں داخل ہونے کے وہی حقدار ہیں۔ اور کوئی قوم جنت میں داخل نہیں ہو گی۔ اس سے ظاہر ہے کہ بعض یہود کا یہ دعویٰ تھا کہ انہیں عذاب ملے گا ہی نہیں بلکہ وہ سیدھے جنت میں جائیں گے اور کسی غیر یہودی کو جنت نہیں ملے گی۔ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو فرماتا ہے کہ اِن سے پوچھو اور دریافت کر و کہ اگر یہ صحیح ہے کہ جنت کے صرف تم ہی مستحق ہو اور کوئی قوم اس میں داخل نہیں ہو گی تو تم رضائے الہٰی کے لئے وہ کوشش کیوں نہیں کرتے ہو جو موت کے مترادف ہوتی ہے۔ یا اس بات کے لئے مباہلہ کیوں نہیں کرتے ۔ دوسروں کو تو تم اس سے محروم قرار دیتے ہو اور جنت صرف اپنے لئے مخصوص کرتے ہو۔ لیکن اگر یہ درست ہے تو تمہارے لئے تو خدا کے لئے اپنی زندگی وقف کرنا اور اس کے رضا کے حصول کے لئے کوشش کرنا اولین فرض ہو جاتا ہے۔ پھر تم کیوں ایسا نہیں کرتے۔
تیسری جگہ جہاں یہ مضمون بیان ہوا ہے یہ آیت ہے۔ اصل میں یہ دو الگ الگ فقرے ہیں جن کو عربی زبان کے محاورہ کے مطابق مختصر کر دیا گیا ہے اصل عبارت یوں ہے کہ وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ لَنْ یَّدْ خُلَ الْجَنَّۃَ اِلَّا مَنْ کَانَ ھُوْدًا وَقَالَتِ النّٰصارٰی لَنْ یَّدْ خُلَ الْجَنَّۃَ اِلَّا مَنْ کَانَ نَصَاریٰ یہود کہتے ہیں کہ جنت میں صرف یہود ہی داخل ہونگے اور کوئی داخل نہیں کیا جائیگا۔ اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ جنت میں صرف نصاریٰ ہی داخل ہونگے اور کوئی داخل نہیں ہو گا پس یہ ایک فقرہ نہیں۔ کیونکہ کوئی یہودی یہ نہیں کہتا کہ جنت میں صرف یہود اور نصاریٰ ہی داخل ہوں گے اور نہ نصاریٰ میں سے کوئی کہتا ہے کہ صرف یہود اور نصاریٰ ہی جنت میں داخل ہوں گے۔ پس یہ الگ الگ فقرے ہیں۔ جن کو یکجا کر دیا گیا ہے۔
یہ تیسرا دعویٰ ہے جو اس آیت میں بیان کیا گیا ہے۔ کہ غیروں کو تو اہل کتاب جنت سے محروم کرتے ہی تھے ان کا آپس میں بھی اس قدر اختلاف ہے کہ ایک فریق دوسرے فریق کو جنت سے محروم قرار دیتا ہے۔ گویا ایک جماعت کا تو یہ دعویٰ ہے کہ یہودی دوزخ میں جا تو سکتے ہیں مگر وہ جلد ہی نکال لئے جائیں گے۔ چنانچہ سیل نے اپنے ترجمہ قرآن میں لکھا ہے کہ یہود کے نزدیک یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ کوئی یہودی خواہ کیسا ہی گنہگار ہو گیارہ یا بارہ ماہ سے زیادہ دوزخ میں نہیں رہے گا۔ سوائے دو یہودیوں داتھن اور اببی رام کے یا سوائے دہریوں کے جو ہمیشہ کے عذاب میں مبتلا رہیں گے۔ اسی طرح جیوش انسائیکلو پیڈیا میں بھی طالمود کے حوالہ جات سے یہود کے اس عقیدہ کو ثابت کیا گیا ہے(جیوش انسائیکلو پیڈیا جلد۵ صفحہ۵۸۲) لیکن دوسری جماعت کا یہ دعویٰ ہے کہ یہود کو عذاب ملے گا ہی نہیں۔ اور ایک جماعت وہ ہے جو نجات کو اور بھی تنگ کر دیتی ہے اور یہودی صرف یہود کو اور عیسائی صرف عیسائیوں کو ہی نجات کا مستحق قرار دیتے ہیں اور کسی کو نہیں۔ چنانچہ عیسائیوں میں سے بعض کا یہ عقیدہ ہے کہ دوزخ دو قسم کی ہے ۔ ایک مستقل اور دوسری عارضی۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر عیسائی دوزخ میں جائیں گے تو وہ عارضی دوزخ میں جائیں گے۔ پھر وہاں سے نکال لئے جائیں گے۔ انہیں مستقل دوزخ میں داخل نہیں کیا جائیگا۔ اور بعض کہتے ہیں کہ جس کے دل میں حضرت مسیح علیہ السلام کی ذرہ بھر بھی محبت ہو گی۔ وہ کسی حالت میں بھی دوزخ میں نہیں ڈالا جائیگا۔ اس عقیدہ کا لازمی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہ آپس میں بھی ایک دوسرے کے خلاف عقیدہ رکھتے ہیں ۔ اور غلطی کرتے کرتے اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ یہود نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ گو عیسائی بھی توریت اور بائیبل پر ایمان لاگے ہیں مگر وہ جنت میں داخل نہیں ہو ںگے۔ اور عیسائویں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ گو یہود بائیبل پر ایمان رکھتے ہیں مگر وہ جنت میں داخل نہیں ہونگے۔ بلکہ صرف عیسائی ہی اس میں داخل ہوںگے۔ ترتیب مضامین کے لحاظ سے ان تین آیتوں میں سے پہلی آیت سورہ بقرہ کے نویں رکوع میں آتی ہے۔ اس رکوع میں اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دعویٰ کا ذکر کیا تھا اور بتایا تھا کہ یہودی آپؐ کی مخالفت کرتے ہیں۔ مگر اُن کی یہ مخالفت ایمانداری کے طریق سے نہیں۔ یوں مخالفت ناجائز نہیں ہوتی کیونکہ اگر کوئی بات کسی کی سمجھ میں نہ آئے تو وہ مخالفت کرنے کا حق رکھتا ہے اور اگروہ کوئی بات غلط سمجھ کر مخالفت کر تا ہے تو وہ معذور ہوتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص کسی مجلس میں بات سُن کر اور سمجھ کر جاتاہے اور پھر باہر جا کر اُسکی مخالفت شروع کر دیتا ہے تو اُس کی مخالفت دیانتداری پر مبنی نہیں ہوتی۔ پس مخالفت جائز ہے بشرطیکہ وہ دیانیداری سے ہو۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہر قسم کی علمی ترقی رُک جاتی۔ کیونکہ تمام علمی ترقیات اختلاف سے وابستہ ہوتی ہیں بس مخالفت جائز ہے مگر وہ دیانت داری پر مبنی ہونی چاہیے کسی قسم کی ضِد اور ہٹ نہیں ہونی چاہیے۔ مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ لوگ ضِد اور ہٹ سے کام لیتے ہیں اور جان بوجھ کر قرآن کریم کی باتیں غلط رنگ مین بیان کرتے ہیں۔ پاس اِن کی باتیں ایمانداری پر مبنی نہیں۔ ان کی مخالفت اُسی صورت میں دیانت داری پر مبنی ہو سکتی ہے جبکہ یہ حقیقۃً ان کو غلط سمجھتے ہوں اور اُن کے غلط ہونے کی دلیل بھی دیتے ہوں۔لیکن اگر یہ لوگوں کے سامنے حقیقت پر پردہ ڈال کر اُسے غلط طریق سے پیش کرتے ہیں یا اس کے مقابلہ میں کوئی دلیل نہیں دے سکتے تو پھر یہ محض اُن کی شرارت ہے اور یہ اس بات کا نتیجہ ہے کہ اُن کو یہ یقین ہے کہ ہم آگ میں داخل نہیں ہو نگے۔ اور جب کوئی قوم نجات کو ورثہ کے ساتھ وابستہ کرتی ہے تو اس قوم میں سے تقویٰ مٹ جاتا ہے۔ دنیا میں بالعموم دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔بعض احسان اور محبت سے مانتے ہیں اور بعض ڈر اور خوف سے مانتے ہیں۔ عذاب کا ڈر ادنیٰ درجہ کے لوگوں کے لئے ہوتا ہے جو انہیں ناشائستہ حرکات سے روکتا ہے۔ لیکن اعلیٰ درجہ کے لوگوں کے لئے احسان اور محبت ہوتی ہے جو ان کو اس قسم کی حرکات سے باز رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ایسے ادنیٰ درجہ کے لوگ ہیں کہ یہ صرف عذاب سے ہی ڈر سکتے تھے۔ مگر ان کی قوم نے ان سے کہا کہ تم عذاب ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دئے گئے ہو۔ اس لئے ان کے دلوں سے عذاب کا خوف نکل گیا۔ جس کیوجہ سے یہ حیا سوز حرکات کرتے ہیں۔ اگر انسان کسی مذہب سے تعلق نہ رکھتا ہو تو پھر بھی وہ مادر پدر آزاد ہو سکتاہے مگر یہ باوجود مذہبی آدمی ہونے کے ایسی حرکات کرتے ہیں جو مادر پدر آزاد بھی نہیں کرتے۔
دوسری آیت مین یہ مضمون بیان کیا گیا ہے کہ جو قومیں انعامات الہٰیہ کو اپنے ساتھ مخصوص کر لیتی ہیں وہ ہدایت کی جستجو بھی ترک کر دیتی ہیں۔ ہدایت کی جستجو کوئی قوم تبھی کرتی ہے جب وہ یہ یقین رکھتی ہو کہ ہدایت اور انعامات کا دروزاہ کھلا ہے۔ لیکن جو قوم یہ یقین رکھتی ہو کہ ہدایت صرف ہماری ہی قوم کے ساتھ مخصوص ہے وہ تو صرف انہی باتوں کو جو اُن کی کتابوں میں لکھی ہوںدرست سمجھے گی اور دوسری طرف نظر اُٹھا کر بھی نہیں دیکھے گی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ قوم نجات کو صرف اپنے تک محدود کر کے اُسے تنگ کر دیتی ہے اور اس میں ناواجب ضِد پیدا ہو جاتی ہے جو اُسے تقویٰ سے دُور لے جاتی ہے۔
زیر تفسیر آیت میں یہ مضمون بیان کیا گیا ہے کہ اِس قسم کے عقائد کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قومیں دائرہ نجات کو محدود کرتی جاتی ہیں اور پھر آپس میں ایک دوسرے کو نجات سے محروم کر دیتی ہیںاورتقویٰ جو اصل معیار ہے وہ اُن کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے حالانکہ کسی وقت بھی کسی شخص کو ہدایت کا دروازہ بند نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ جو کلام بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہو اس کو قبول کر لینے کے لئے تیار رہنا چاہیے۔
یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّۃَ اِلَّا مَنْ کَانَ ھُوْدًااَوْنَصَارٰی کا یہ مطلب نہیں کہ یہود کا یہ کہنا کہ صرف یہودی ہی نجات پائیگا کوئی بُری بات ہے۔ کیونکہ ہر مذہب والا اپنے آپ کو ہی نجات یافتہ کہتا ہے بلکہ ایک مسلمان بھی یہی سمجھتا ہے کہ جنت میں صرف مسلمان ہی داخل ہوں گے۔ پس اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہود اپنے مذہب میں نجات کو کیوں محدود قرار دیتے ہیں یاعیسائی عیسائیت میں نجات کیوں سمجھتے ہیں۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ یہودیت اور عیسائیت کے ساتھ نجات کو مخصوص قرار دے کر یہ لوگ خداتعالیٰ کے وسیع فیضان کو محدود کرتے ہیں اور دنیا کے ایک بڑے حصہ کو اُس کی رحمت سے محروم قرار دیتے ہیں۔ ورنہ قرآن کریم کا یہ منشاء نہیں کہ اُن کو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ یہودیت کے بغیر نجات نہیں یا عیسائیت کے بغیر نجات نہیں۔ اسلام کا بھی تو یہی دعویٰ ہے کہ اس کے بغیر نجات نہیں مگر جہاں اسلام یہ کہتا ہے کہ اسلام ہی بنی نوع انسان کی نجات کا ذریعہ ہے۔ وہاں وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والی ہدایت کے دروازہ کو بند نہیں کرتا۔ بلکہ کہتا ہے کہ وَبِالْاَخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ۔ یعنی مومنوں کی یہ علامت ہے کہ جب بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی تازہ کلام نازل ہو وہ فوراً اُس پر ایمان لے آتے ہیں ۔ پس وہ نجات کو کلامِ الہٰی پر ایمان لانے کے ساتھ وابستہ قرار دیتا ہے۔ خواہ وہ کلام کسی پہلے زمانہ میں نازل ہو چکا ہو یا آئندہ نازل ہو۔ اس کے مقابلہ میں عیسائیوں اور یہودیوں میں سے یہودی کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے بغیر نجات نہیں اور وہ اپنے مذہب میں کسی کو داخل بھی نہیں کرتے۔ کیونکہ وہ دوسروں میں کسی کی نجات کے قائل نہیں۔ وہ صرف اپنی قوم کے ساتھ نجات کو مخصوص کرتے ہیں نہ کہ اپنے مذہب کے ساتھ لیکن عیسائی اپنی قوم کے ساتھ بجات مخصوص نہیں کرتے بلکہ وہ اپنے مذہب کے ساتھ اُسے مخصوص کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دوسروں میں سے ہر شخص عیسائیت میں داخل ہو کر نجات پا سکتا ہے گویا عیسائیت کو اسلام سے ایک ظاہری مشابہت یہ حاصل ہے کہ عیسائی بھی تمام دنیا کے لوگوں کو اپنے مذہب میں شامل ہونے کی دعوت دیتے ہیں اور ہدایت کو کسی خاص قوم سے مخصوص نہیں کرتے اور اسلام بھی تمام دنیا کے لوگوں کو اپنے اندر شامل ہونے کی دعوت دیتا ہے اور ہدایت کو کسی خاص قوم سے مخصوص نہیں کرتا۔ اور چونکہ ان دونوں میں ایک ظاہری مشابہت پائی جاتی ہے۔ اس لئے اعتراض ہو سکتا ہے کہ اگر عیسائیوں کا یہ کہنا کہ صرف عیسائی مذہب میں نجات ہے قابل اعتراض ہے تو اسلام کا یہ کہنا کہ صرف اسلام میں نجات ہے کیوں قابلِ اعتراض نہیں؟ سو یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام اور عیسائیت کے اِن دعووں میں جو ظاہری مشابہت پائی جاتی ہے وہ درحقیقت کوئی حقیقی مشابہت نہیں بلکہ ایک خود ساختہ مشابہت ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ گو عیسائی تمام دنیا کے لوگوں کو اپنے مذہب میں شامل ہونے کی دعوت دیتے ہیں مگر اُن کا مذہب اُن کو غیر مذاہب کے لوگوں کو اپنے اندر شامل کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس کا ثبوت ہمیں اناجیل سے واضح طور پر نظر آتا ہے۔ متی باب۷ آیت۶ میں لکھا ہے:۔
’’وہ چیز جو پاک ہے کتوں کو مت دو۔ اور اپنے موتی سوروں کے آگے نہ پھینکو ایسا نہ ہو کہ وے انہیں پامال کریں اور پھر کر تمہیں پھاڑدیں۔‘‘
اس حوالہ میں بتایا گیا ہے کہ مسیح ناصری کی معرفت جو تعلیم تم لوگوں کو ملی ہے وہ موتیوں کی طرح ہے۔ وہ صرف اسرائیلیوں کے لئے رہنی چاہیے۔ اسے غیر قوموں کے سامنے نہیں رکھناچاہیے ۔ کیونکہ بقول انجیل غیر قومیں سوروں اور کتوں کی طرح ہیں۔ اگر یہ تعلیم اُن کے سامنے گئی تو وہ اُسے توڑ کر ردی کی طرح پھینک دے گی۔ اور اس کے غلط معنے کرکے اس پر حملہ کریںگی اور اس کی ہتک کا ارتکاب کریں گی۔
(۲) متی باب۱۰ آیت۵،۶ میں لکھا ہے:۔
’’ان بارھوں کو یسوع نے فرما کے بھیجا کہ غیر قوموں کے طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا بلکہ پہلے بنی اسرائیل کے گھر کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جائو۔‘‘
اِس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت مسیح ؑ نے اپنے حواریوں کو صرف بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے لئے ہی بھیجا تھا ۔ اور انہیں واضح طور پر ہدایت دی تھی کہ غیر اقوام کو تبلیغ نہ کریں۔ اس جگہ عیسائی ایک لفظ سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہاں’’پہلے‘‘ کا جو لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابتدائی زمانہ میں صرف اسرائیلیوں تک تبلیغ محدود ہو گی۔ مگر آئندہ زمانہ میں انہیں اپنی تبلیغ وسیع کرنے کی اجازت ہو گی۔ لیکن اسی باب کی آیت۲۳ اس مفہوم کو رد کر دیتی ہے۔ اُس میں لکھا ہے:۔
’’میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تم اسرائیل کے سب شہروں میں نہ پھر چکو گے جب تک کہ ابن آدم نہ آئے۔‘‘
اِس میں حضرت مسیحؑ کہتے ہیں کہ میں تم کو یہ بتا دیتا ہوں کہ میری آمد ثانی تک تمہاری یہ تبلیغ غیروں میں شروع نہیں ہوگیا اور جب تک کہ ابن آدم دوبارہ دنیا میں نہ آئے تمہارا یہ مشن جو بنی اسرائیل میں قائم کیا گیا ہے ختم نہیں ہو گا۔ ہاںجب وہ آجائے گا تو پھر اجازت ہو گی کہ دوسروں کو بھی تبلیغ کی جائے۔ پس’’پہلے ‘‘ کی تشریح اس باب کی آیت نمبر۲۳ نے کردی ہے۔
اسی طرح متی باب۱۵ آیت۲۴ میں لکھاہے:۔
’’اُس نے جواب میں کہا۔ میں اسرائیل کے گھر کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا۔‘‘
یہاںحضرت مسیحؑ اس بات کا صاف طور پر اقرار کرتے ہیں کہ میں اسرائیلیوں کے سوا کسی اور کی طرف نہیں بھیجا گیا۔ پس پہلے اور بعد کا کوئی سوال ہی پید انہی ہوتا۔
اِسی طرح مرقس باب۷ آیت ۲۷ میں آتا ہے:۔
’’یسوع نے اُسے کہا کہ پہلے فرزندوں کو سیر ہونے دے۔ کیونکہ فرزندوں کی روٹی لے کے کتوں کے آگے ڈالنا لائق نہیں۔‘‘
یہاں بھی متی باب۱۰ والے حوالہ کا مضمون ہے او راس میں بھی غیر اسرائیلیوں کو کتے قرار دیا گیا ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ یہ روٹی کتوں کے لئے نہیں بلکہ صرف اسرائیلیوں کے لئے ہے۔ اس کے مقابلہ میں اسلام اپنی تبلیغ کو کسی خاص قوم تک محدود نہیں کرتا۔ چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق فرماتا ہے قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا(اعراف آیت۱۵۹) یعنی اے رسول! تو کسی ایک قوم کو نہیں بلکہ تمام دنیا کی قوموں کو مخاطب کر کے کہہ دے کہ میں تم سب کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ دوسری جگہ سورۃ سبا میں فرماتا ہے وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآنَّۃً لِلّنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا وَّلٰکِنَّ اَکْثَرَالنَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ(سورہ سباء آیت۲۹) یعنی ہم نے تجھے تمام بنی نوع انسان کی طرف ایسا رسول بنا کر بھیجا ہے جو مومنوں کو خوشخبری دینے والا اور کافروں کو ہوشیار کرنے والا ہے لیکن انسانوں میں سے اکثر اس حقیقت سے آگاہ نہیں۔ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیںکَانَ کُلُّ نَبِیٍ یُبْعَثُ اِلیٰ قَوْمِہٖ خَآصَّۃً وَبُعِثْتُ اِلیٰ کُلِّ اَحْمَروَ اَسْوَد۔(مسلم کتاب المساجد)یعنی مجھ سے پہلے جس قدر انبیاء تھے وہ اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجے گئے تھے مگر مجھے ہر اسود و احمر کی طرف مبعوث کیا گیا ہے۔ غرض قرآن کریم میں بھی یہ دعویٰ موجود ہے اور سول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بھی بتایا دیا ہے کہ آپ کسی خاص قوم یا خاص ملک کے لئے نہیں بلکہ تمام دنیا کی ہدایت کے لئے بھیجے گئے تھے۔
ایک دوسری حدیث میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ اُرْسِلْتُ اِلَیالْخَلْقِ کَآنَّۃً۔ مجھے تمام مخلوق کی طرف بھیجا گیا ہے1؎۔پس گو بظاہر اسلام اور عیسائیت کے متبعین کا دعویٰ مشترک معلوم ہوتا ہے۔ مگر عیسائی ایسی بات کہتے ہیں جو اُن کے مذہب کے خلاف ہے۔ جب خدا تعالیٰ نے عیسائیت کو غیر مذاہب والوں کے لئے رکھا ہی نہیں تو وہ اُسے قبول کر کے نجات کس طرح حاصل کرسکتے ہیں؟ اگر ایک گورنمنٹ کسی کو کہیں جانے کا حکم دے اور وہاں کوئی اور چلا جائے تو وہ سزا کا مستحق ہوتا ہے۔ اِسی طرح اگر کوئی غیر اسرائیلی عیسائی ہو جائیگا تو وہ انعام کا نہیں بلکہ سزا کا مستحق ہو گا۔
1؎ مسلم کتاب المساجد
پھر ایک اور نقطۂ نگاہ سے بھی اسلام اور دوسرے مذاہب میں فرق ہے۔ اور وہ یہ کہ یہود و نصاریٰ کا یہ دعویٰ ہے کہ لَنْ یَّدْ خُلَ الْجنَّۃَ اِلَّا مَنْ کَانَ ھُوْدًا لَوْ نَصٰریٰ کہ یہود اور نصاریٰ کے سوا اور کوئی بھی جنت میں جاخل نہیں ہو گا۔ یہاں کسی ابتدائی زمانہ کا ذکر نہیں بلکہ یہ ذکر ہے کہ سو ہزار لاکھ بلکہ کڑور سال کے بعد بھی یہود اور نصاریٰ کے سوا کوئی اس میں داخل نہیں ہو گا۔ مگر اسلام کی تعلیم اس سے مختلف ہے۔ وہ دوزخ کے عذاب کو دائمی قرار نہیں دیتا۔ بلکہ کہتا ہے کہ کوئی انسان خواہ دہریہ بھی ہو آخر ایک دن جنت میں داخل ہوجائیگا۔ کیونکہ انسان کا مقصد یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا عبد بنے۔ اگر یہ مقصد پورا نہ ہو تو انسان کی پیدائش لغو قرار پاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے کہ مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِ نْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ(ذٰریٰت آیت۵۷) یعنی میں نے جن دانس کو کسی اور غرض کے لئے نہیں بلکہ صرف اپنا عبد بننے کے لئے پیدا کیا ہے۔ دوسری جگہ فرماتا ہے۔ فَادْ خُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ(سورہ فجر آیت۳۰،۳۱) یعنی اے نفسِ مطمئنہ کے حامل تُو میرے بندوں میں داخل ہو جا اور میرے جنت کو لے لے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے لئے یہ مقدر کر رکھا ہے کہ وہ جنت میں جائے۔ اگر ایسا نہ ہو تا تو پیدائش انسانی کی غرض باطل ہو جاتی۔ اور اللہ تعالیٰ پر اعتراض واقع ہوتا کہ اُس نے انسان کو جس مقصد کے لئے پیدا کیا تھا۔ وہ پورا نہ ہوا۔ غرض اسلام لَنْ یَّدْ خُلَ الْجَنَّۃَ اِلَّا مَنْ کَانَ ھُوْدًا اَوْنَصَاریٰ کو غلط قرار دیتا ہے۔ اور پھر آخر میں تو وہ ہر شخص کو جنت کا حق دار قرار دیتا ہے۔
پھر اسلام اور عیسائیت کے نظریہ نجات میں ایک نمایاں فرق یہ بھی پایا جاتا ہے کہ مسلمان تو اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے وحی کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے جاری ہے اور جو بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے تازہ وحی آئے اُس کا قبول کرنا ضروری ہے ۔ لیکن عیسائیت یہ نہیں کہتی بلکہ وہ کلامِ الہٰی کو حضرت مسیح علیہ السلام تک محدود قرار دیتی ہے اور کہتی ہے کہ اب کوئی تازہ کلام بظور تشریح اور تفسیر بھی نہیں آسکتا۔ اِس لئے اگر کوئی تازہ کلام وحی یا تشریح کے طور پر خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے ۔ تو وہ اپنے اس عقیدہ کی وجہ سے اُسے رد کر دیتے ہیں۔ لیکن مسلمان اُسے قبول کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ کیونکہ ایک سچے مسلمان کی یہ علامت بیان کی گئی ہے کہ بِالْاَ خِرَۃ، ھُمْ یُوْ قِنُوْنَ یعنی وہ ہر آنے والی ہدایت پر اُسی طرح ایمان لاتے ہیں جس طرح پہلی ہدایتوں پر اُن کا ایمان ہوتا ہے۔ یہ فرق ہے جو اسلام اور عیسائیت کے نظریہ نجات میں پایا جاتا ہے۔ عیسائی نجات کو محدود کرتے ہیں کیونکہ وہ وحی کا دروازہ بند سمجھتے ہیں۔ لیکن اسلام اُسے کھلا رکھتا ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ ایمان کو تازہ کرنے اور انسانی علوم کو بڑھانے کے لئے جو وحی آتی ہے اُس کا قبول کرنا بھی ضروری ہوتا ہے لیکن عیسائی اس قسم کی وحی کا دروازہ بند کرتے ہیں۔ اور بنی نوع انسان کو اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے محروم کرتے ہیں۔ اسلام نے انہیں توجہ دلائی ہے کہ تم وحی الہٰی کا دروازہ بند کر کے خداتعالیٰ کی ہدایت کو محدود نہ کرو۔ خدا صرف یہودیوں اور عیسائیوں کا ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کا خدا ہے اور ابتدائے آفرینش سے اپنے تمام بندوں کی ہدایت کا سامان کرتا چلا آیا ہے اور آئندہ بھی وہ اس سلسلہ کو ہمیشہ جاری رکھیگا۔ پس خدا تعالیٰ کے وسیع فیضان اور اُس کی رحمت کے بے کنار سمندر کو ایک خشک چشمہ کی شکل مت دو۔ اور نجات کو صرف اپنے لئے مخصوص کر کے خدا تعالیٰ کو قومی خدا مت بنائو۔
غرض اس آیت میں نہایت واضح طور پر نجات کو اس ایمان کے ساتھ وابستہ کیا گیا ہے کہ جو ہدایت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے میں اُسے خوشی کے ساتھ قبول کرونگا۔ ورنہ عیسائی جو تمام کے لئے نجات کا دروازہ کھلا بتاتے ہیں کیوں قابلِ الزام
ؓبَلٰیق مَنْ اَسْلَمَ
یَحْزَنُوْنَo
ہوتے ؟ وہ اسی بنا پر قابلِ الزام ہیں کہ آئندہ الہام کو ماننے کے لئے تیار نہیں۔ پس اگر مسلمان بھی یہی مقام اختیار کریں تو اس آیت کے مضمون کے مطابق وہ بھی مجرم بن جائیں گے۔
تِلْکَ اَمَا نِیُّھُمْ۔ فرماتا ہے جب کوئی قوم ترقی سے محروم ہو جاتی ہے اور اپنا قدم آگے بڑھانے کی بجائے پیچھے ہٹانا شروع کر دیتی ہے تو وہ عمل اور کردار کا اعلیٰ نمونہ بننے کی بجائے صرف حسرتوں اور آرزوئوں کی ایک تصویر بن کر رہ جاتی ہے اور جہاں محنت اور مشقت اور قربانیوں سے کام لینے والے لوگ دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر رہے ہوتے ہیں وہاں محنت سے جی چرانیوالے اور گیڈر کی طرح صرف شیر کا ماراہوا کھانے والے اسی قسم کے تصورات میں مبتلا رہتے ہیں جس قسم کے تصورات شیخ چلی میں پائے جاتے تھے۔ یہ کہنا کہ ہم ایسے ہیں اور ہم ویسے ہیں ہم موسیٰ ؑ کی امت میں سے ہیں ہم عیسیٰ ؑ کی امت میں سے ہیں کسی کو کیا فائدہ دے سکتا ہے ۔ تم اُن جیسے کام کروتب تو کوئی بات بھی ہے لیکن اگر تم اُن جیسے کام نہیں کرتے ہو منہ کا دعویٰ تمہیں کچھ فائدہ نہیں دے سکتا۔
قُلْ ھَانُوْابُرْھَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۔ فرماتا ہے۔اگر تم سچے ہو تو تم اس بات کی کوئی دلیل پیش کرو۔ کہ صرف یہودیوں اور عیسائیوں کے لئے نجات ہے اور کسی کے لئے نہیں۔ یہ دلیل وہی ہے جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے کہ اگر تمہاری بات سچ ہے کہ نجات صرف تم ہی میں ہے غیروں میں نہیں تو خدا تعالیٰ کے افضال اور اُس کی برکات اور اس کا کلام تم سے وابستہ ہونا چاہیے اگر نجات یہودیوں میں محدود ہے تو یہ چیز اُن کے ساتھ وابستہ ہونی چاہییں۔ اگر عیسائیوں کے ساتھ مخصوص ہے تو اُن سے یہ باتیں وابستہ ہونی چاہئیں۔ اور انہیں بتانا چاہیے کہ ہمارے ساتھ خدا تعالیٰ کلام کرتا ہے اور اپنے نشانات ہماری تائید میں نازل کرتا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے باتایا ہے کہ مومن کو دو جنتیں ملتی ہیں۔ ایک اِس جہاں میں اور ایک اگلے جہاں میں۔ وہ فرماتا ہے وَلِمَنْ خَانَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ(رحمن آیت۴۷) کہ جو شخص اپنے رب کی شان اور عظمت سے ڈرتا ہے اُسے دو جنتیں لمتی ہیں ۔ پس اگر اُن کی یہ بات صحیح ہے کہ وہ نجات یافتہ ہیں تو وہ اپنی دنیوی جنت دکھائیں اور بتائیں کہ خدا تعالیٰ کا کلام اور اس کا فضل اور اس کی برکات اُن پر نازل ہوتی ہیں؟نازک مواقع پر خدا تعالیٰ اُن کے لئے خیرت دکھاتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر بے شک وہ نجات کے مستحق ہیں لیکن اگر اُن کے ساتھ اس کا یہ سلوک نہیں تو اُن کو سمجھ لینا چاہیے کہ خداتعالیٰ نے اُن سے اپنی برکات چھین لی ہیں اور انہیں مرکر بھی نجات حاصل نہیں ہو گی۔
۳۰؎ حلِ لغات:۔اَسْلَمَ کے معنے ہیں اپنے آپ کو کسی کے سُپرد کر دینا یا کلی طور پر سونپ دینا۔
وَجْہ’‘ کے کئی معنے ہیں(۱) توجہ(۲) نَفْسُ الشَّیئِ کسی چیز کا وجود(۳) چہرہ۔ یہ سب معنے یہاں چسپاں ہو سکتے ہیں۔ اور اِس آیت کے معنے یہ ہیں کہ (۱)جو اپنی توجہ پورے طور پر خدا کو سونپ دے یعنی تمام تر توجہ خدا کی طرف لگا دے۔(۲) جو اپنی ذات کو کامل طور پر خداتعالیٰ کے سپرد کر دے اور اسے خداتعالیٰ کے ہاتھ میں دے دے(۳)جو اپنا چہرہ خداتعالیٰ کے سپرد کر دے۔ ہروقت اس کی طرف نظر رکھے اور اُس کی نگاہ کبھی غیر اللہ کی طرف نہ اُٹھے۔
مُحْسِن’‘:احسان کے دو معنے ہیں(۱) دوسرے کو انعام دینابغیر اُس کے کسی کام کے اُس کے ساتھ کوئی اچھا سلوک کرنا یا اس کے کام کے بدلہ سے اُسے زیادہ دینا (۲) انسان کا اپنے ذاتی کام میں کمال کا اعلیٰ درجہ حاصل کرنا۔ یعنی اُسے اپنے ذاتی کام کے متعلق اچھا وعلم حاصل ہو۔ یا جو عمل کرے وہ اچھا ہو۔ غرض احسان یہ ہے کہ (۱)غیر کے ساتھ بغیر بدلہ کے نیک سلوک کرے(۲) اپنے علم اور عمل میں نیکی مد نظر رکھے اور اُس میں بدی کو داخل نہ ہونے دے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔ اَلنَّاسُ اَبْنَا ء ُ مَایُحْسِنُوْنَ کہ لوگ اس چیز کے بیٹے ہوتے ہیں جسے وہ اچھی طرح جانتے ہیں۔ یعنی انسان کی عزت اس علم کے مطابق ہوتی ہے جسے وہ اچھی طرح سیکھتا ہے اور اس عمل کے مطابق ہوتی ہے جسے وہ بہترسے بہتر کر سکتا ہے۔ جیسے ایک شخص نجار کہلاتاہے وہ کوئی کام بھی جانتا ہے۔ مثلاً وہ روٹی پکا سکتا ہے۔ زراعت کا علم رکھتا ہے اور اُسے کر سکتا ہے۔ یا لوہار کا کام بھی جانتا ہے اور اس سے کام چلا سکتا ہے مگر وہ کہلاتا بجار ہے اس لئے کہ سب سے زیادہ اُسے نجاری کا کام آتا ہے۔ اِسی طرح کاتب کئی اور کام بھی جانتااور کر سکتا ہے مگر کاتب کہلاتا ہے۔ اس لئے کہ وہ سب سے زیادہ کتابت جانتا ہے اور یہ اُس کا پیشہ ہے۔ اِسی طرح ڈاکٹر باوجود کئی اور کام جاننے کے صرف ڈاکٹر کہلاتا ہے ۔ اس لئے کہ وہ ڈاکٹری کا کام سب سے زیادہ جانتا ہے۔ پس محسن وہ ہے جو کامل علم رکھنے والا یا کام عمل کرنے والا ہو۔
اِسی طرح اَحْسَنَ الشَّیْئَ کے معنے ہیں جَعَلَہُ حَسَنَۃً اُسے اچھا بنایا۔ جیسے قرآن کریم میں آتا ہے اَلَّذِیَْ اَحْسَنَ کُلَّ شَیْئٍ خَلَقَہ‘(سجدہ آیت۸)کہ جس نے ہر چیز پیدا کی اور کام کے لحاظ سے اُسے بہتر سے بہتر طاقتیں بخشیں۔
احسان انعام سے مختلف چیز ہے۔ انعام صرف دوسرے پر ہوتا ہے اور احسان اپنے نفس پر بھی ہوتا ہے اور دوسروں پر بھی پس تمام بنی نوع انسان سے نیک سلوک کرنا احسان ہے۔
عدل کے لحاظ سے بھی احسان مقام بلند ہے عدل تو یہ ہے کہ جتنا کسی کا حق ہو اُتنا ہی انسان اُسے دے دیاِس سے زیادہ نہ دے مگر احسان یہ ہے کہ جو کسی کا حق ہو اس کو اصل سے زیادہ ادا کیا جائے۔ اور جو لینا ہو وہ حق سے کم لیا جائے(مفردات راغب)
اقرب میں اس سے زیادہ مختصر معنے یہ لکھے ہیں کہ اَتٰی بِالْحَسَنِ۔ اچھی بات کہی یا اچھی بات جانی۔ یا اچھا کام کیا ۔ یہ اَسَائَ کی ضد ہے۔ یعنی بدسلوکی کے مخالف معنے دیتا ہے۔ پس اس کے معنے بھی حسنِ سلوک ہی کے ہیں۔
اَحْسَنَہ‘ کے معنے عَلِمَہ‘ کے بھی ہیں یعنی اُسے اچھی طرح سے جان لیا۔ کہتے ہیں فُلَان’‘ یُحْسِنُ الْقِرْأَۃَ فلاں شخص قرات کا خوب علم رکھتا ہے۔ اور اَحْسَنَ لَہ‘ رَبِہٍ کے معنے ہیں اچھا عمل کیا یا کسی کے ساتھ نیکی کی(اقرب)
اسلامی نقطۂ نگاہ سے اَسْلَمَ وَجْھَہ‘ اور وَھُوَ مُحْسِن’‘ کے یہ معنے ہیں کہ ایسا شخص رسول کی اتباع کرتا ہو۔ اپنے آپ کو خداتعالیٰ کے سپرد کر دے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی کامل فرمانبرداری کرے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَیْسَ عَلَیْہِ اَمْرُنَا فَھُوَرَدّ’‘ کہ جو کوئی ایسا عمل کرتا ہے جس کے متعلق ہمارا حکم نہیںیا جس میں ہماری اجازت نہیں وہ مقبول نہیں ہو گا کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جو کلامِ الہٰی کے لانے والے ہیں وہی خداتعالیٰ کے منشا کو بہتر سمجھ سکتے ہیں۔حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ایک فعہ پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ احسان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا ۔ اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَ نَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَوَاہُ فَاِنَّہ‘ یَرَاکَ۔ کہ تو اللہ تعالیٰ کی عبادت ایسی طرز پر کرے کہ وہ تجھے نظر آجائے یا کم از کم تجھے یہ احساس پیدا ہو جائے کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ درحقیقت یہ ایک معیار ہے انسان کی روحانی ترقی پہچاننے کے لئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بتایا ہے کہ عبادتِ الہٰی اتنی کامل ہے جائے کہ خداتعالیٰ نظر آنے لگے۔یا اُس پر اتنی ہیبت طاری ہو جائے کہ وہ یہ سمجھے کہ میں خداتعالیٰ کے سامنے کھڑا ہوں۔ خدا کو نظر کے سامنے رکھنے سے انسان کا دل بڑھ جاتا ہے جس طرح بھاگتی فوج بادشاہ کے آنے سے کھڑی ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر اِن دونوں باتوں میں سے کوئی بھی نہ ہو تو پھر وہ محسن نہیں رہتا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کی رُو سے مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہ‘لِلّٰہِ وَھُوَ مُحْسِن’‘ کے معنے ہیں(۱) کہ جو اپنی توجہ کو خدا کے سپرد کر دے اور وہ پورے طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا بھی مطیع ہو۔ دوسری روایت کی رُو سے یہ معنے ہیں(۲) کہ جو اپنی توجہ کو پورے طور پر خدا تعالیٰ کے سپرد کردے اور رُوحانی طور پر اتنا کامل ہو جائے کہ اُسے خدا تعالیٰ نظر آنے لگ جائے یا خدا کے حکم کے مطابق اس کا عمل ہو جائے۔ گویا ایک طرف خداتعالیٰ کے منشا کے مطابق اس کا عمل ہو اور دوسری طرف اس کا علم کامل ہو اور اس کا عمل عرفان کے درجہ تک پہنچ جائے۔
لُغت کی رو سے اس کے یہ معنے ہیں کہ جو شخص اپنی نظر خدا تعالیٰ کی طرف رکھے۔ کسی انسان سے اُس کی اُمید وابستہ نہ ہو۔ اس کی امید گاہ وہی ہو۔ اور دوسری طرف و ہ محسن بھی ہو یعنی اس کا عمل اتنا وسیع ہو کہ کوئی شخص اُس کے حسنِ سلوک سے باہر نہ رہے گویا اُس کا احسان ساری دنیا سے وابستہ ہو۔
تفسیر:۔ یہ آیت وَقَالُوْالَنْ یَّدْ خُلَ الْجَنَّۃَ اِلَّا مَنْ کَانَ ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰی کے جواب میں نازل کی گئی ہے۔ اور بتایا گیا ہے کہ اسلام کے معنے ہیں اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق درست رکھنا اور خدا تعالیٰ کی مخلوق سے محبت کرنا۔ پس نجات کا مستحق صرف وہی شخص ہے جو ایک طرف تو آپنے آپ کو کلیۃً اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر ڈال دے اور جو کچھ مانگنا ہو اُس سے مانگے۔ اور دوسری طرف اُس کا دامن اتنا وسیع ہو کہ آپ دوسروں سے لینے کے لئے تیار نہ ہو بلکہ ہر ایک کو دینے کے لئے آمادہ رہتے اسی مضمون کا ایک شعر میںنے بھی کہا ہے کہ
؎ تو سب دنیا کو دے لیکن
خود تیرے ہاتھ میں بھیک نہ ہو
یہ محسن کا کمال ہے کہ وہ اپنے لئے خدا تعالیٰ سے مانگتا ہے اور پھر سب دنیا کو دیتا ہے۔ اور درحقیقت انابت الی اللہ ۔ توجہ الی اللہ اور شفقت علی الناس ہی اسلامی تعلیم کا خلاصہ ہے۔ بعض لوگ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب ؑ نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ یہ دو باتیں اسلام کا خلاصہ ہیں اس کا ثبوت کیا ہے؟ سو وہ خلاصہ اسی آیت میں درج ہے مَنْ اَسْلَمَ میں انابت الی اللہ ااجاتی ہے اور وَھُوَ مُحْسِن’‘ میں لوگوں پر شفقت آجاتی ہے۔ اور بَلٰی کہہ کر بتا دیا کہ نجات صرف انہی لوگوں کے ساتھ مخصوص ہے نہ کہ تمہارے ساتھ۔ ایسے لوگوں کے لئے اُن کے رب کے پاس اُن کا اجر محفوظ رہیگا۔
اِس میں ایک لطیف بات بیان کی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ انہوں نے کہا تھا نجات ہمارے ساتھ مخصوص ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نجات کا گُر تو اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے سپرد کر دینا ہے نہ کہ کوئی خاص مذہب اختیار کرنا پس محض نام نجات نہیں دلاسکتا بلکہ جب بھی خدا تعالیٰ کا کوئی نیا حکم آئے تو اُسے قبول کرنا ہی حقیقی اسلام ہے اور اُس کا انکار کرنا نجات کے مخالف۔ باقی رہا یہ کہ اِن کے علاوہ کوئی ناجی ہے یا نہیں؟ سو اس کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام قانون کے طور پر صرف اُنہی لوگوں کو نجات کا مستحق بتاتا ہے جو اَسْلَمَ وَجْھَہ‘ لَلّٰہِ وَھُوَ مُحْسِن’‘ کے ماتحت آتے ہوں۔ باقی خدا تعالیٰ مالک ہے جسے چاہے بخش دے۔ اگر وہ کسی ہندو کو بخشنا چاہے یا کسی سکھ کو بخشنا چاہے یا کسی عیسائی اور یہودی کو بخشنا چاہے تو اُسے کون روک سکتا ہے۔
بَلٰی مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہ‘ لِلّٰہِ میں اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ ہر سچے مومن کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے سارے وجود کو خداتعالیٰ کے لئے وقف کر دے۔ اور اپنی دنیوی حاجات کو بھی دینی حاجات کے تابع کر دیے۔ بظاہر یہ ایک معمولی سی بات معلوم ہوتی ہے لیکن حقیقتاً اسلام اور دیگر ادیان میں یہی فرق ہے۔ اسلام یہ نہیں کہتا کہ تم علم حاصل نہ کرو۔ نہ یہ کہتا ہے کہ تم تجارتیں نہ کرو۔ نہ یہ کہتا ہے کہ صنعت و حرفت نہ کرو۔ نہ یہ کہتا ہے کہ تم اپنی حکومت کی مضبوطی کی کوشش نہ کرو۔ وہ صرف انسان کے نقطۂ نگاہ کو بدلتا ہے۔ دنیا میںتمام کاموں کے دو نقطۂ نگاہ ہوتا ہے اور ایک مغز سے قشر حاصل کرنیکا نقطۂ نگاہ ہوتا ہے جو شخص قشر سے مغز حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے بلکہ اکثر وہ ناکام رہتا ہے۔ لیکن جو شخص مغز حاصل کرتا ہے۔ اس کو ساتھ ہی قشر بھی مل جاتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ کے اتباع کی تمام جدو جہد دین کے لئے تھی لیکن یہ نہیں کہ وہ دنیوی نعمتوں سے محروم ہو گئے ہوں۔ جن لوگوں کو دین ملے گا دنیا لونڈی کی طرح اُن کے پیچھے دوڑتی آئیگی لیکن دنیا کے ساتھ دین کا ملنا ضروری نہیں۔ بسا اوقات وہ نہیں ملتا اور بسا اوقات رہا سہا دین بھی ہاتھوں سے جاتا رہتا ہے۔
لَا خَوْف‘ عَلَیْھِمْ وَلَا حپمْ یَحْزَ نُوْنَ۔ خوف آئندہ آنے والی باتوں کے لئے ہوتا ہے اور حُزن ماضی پر۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مسلمانوں کا مستقبل محفوظ ہے۔ ان کو کوئی قوم نقصان نہیں پہنچا سکتی اور اُنکی ماضی بھی اُن کو کبھی پریشان نہیں کر سکتی۔ اگر اللہ تعالیٰ ماضی معاف نہ کرتا تو انہیں فکر ہی لگی رہتی کہ ہم نے تیس چالیس پچاس ساٹھ یا سو سال کی عمر ضائع کر دی اور نافرمانیاں کرتے رہے۔ مگر اِدھر وہ اَسْلَمَ وَجْھَہ‘ پر عمل کرتا ہے اور اسلام میں داخل ہوتا ہے اور اُدھر اس کیتمام سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ گویا مومن کی ماضی اُسے کبھی پریشان نہیں کر سکتی۔ کیونکہ وہ ایمان لانے کے بعد ایسا ہو جاتا ہے جیسا کہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے والا بچہ۔ اگر بعد میں وہ کسی گناہ کا ارتکاب کرے گا۔ تو بے شک وہ اس کے نامۂ اعمال میں لکھا جائیگا۔ مگر توبہ کے بعد پچھلے تمام گناہ مٹ جاتے ہیں۔
غرض اس آیت میں بتایا کہ جو شخص خدا تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط کر لے اور مخلوقِ خدا پر بھی اس کے احسان کا دائرہ وسیع ہو اُسے نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ حُزن۔ کیونکہ ایسا شخص خدا تعالیٰ کی پناہ اور سمجھتا ہے کہ جب مر گئے تو خاک ہو جائیں گے اس لئے وہ موت سے ڈرتا ہے اور چاہتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اپنے عیش کے دنوں کو لمبا کرے اور یا پھر خوف اس شخص کے دل میں پیدا ہوتا ہے جو مرنے کے بعد آنیوالی زندگی پر ایمان تو رکھتا ہے مگر اس کے مطابق عمل نہیں کرتا۔وہ ڈرتا ہے کہ اگر میں مر گیا تو خدا کو کیا جواب دوں
وَقَالَتِ



گا۔ لیکن وہ جو آخرت پر سچا ایمان رکھتا ہے اور اُس ایمان کے مطابق عمل بھی بجا لاتا ہے اُس کے دل میں کوئی خوف نہیں رہتا۔ دوسری چیز حُزن ہے۔ خوف آئندہ کے متعلق ہوتا ہے لیکن حُزن ماضی کے متعلق ہوتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو لوگ سچے مومن ہوں اُن کی دوسری علامت یہ ہوتی ہے کہ انہیں حُزن بھی نہیں ہوتا۔ ایک صدمہ ایسا ہوتا ہے جو اتصال اور محبت کی وجہ سے کسی چیز کے ضائع ہونے پر ہوتا ہے ۔ اس صدمہ کو محسوس کرنے اور اس کے اظہار سے خدا نے منع نہیں فرمایا۔ لیکن حُزن یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنی گذشتہ کوتاہیوں کو دیکھتے ہوئے خیال کرے کہ اللہ تعالیٰ اُس کی کوئی تائید نہیں کرے گا۔ فرماتا ہے جسے خدا پر کامل ایمان ہو حُزن اس کے قریب بھی نہیں پھٹکتا۔ کیونکہ وہ اپنے خدا کی محبت اور اُسکی قدرتوں پر کامل یقین رکھتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ خدا اپنے مخلص بندوں کو کبھی ضائع نہیں کیا کرتا۔
ترتیب و ربط: گذشتہ رکوع میں اللہ تعالیٰ نے یہود کے اس منصوبہ کا ذکر کر کے جو وہ غیر سلطنتوں سے کرتے تھے آیت۱۰۵،۱۰۶ میں اُن کے دوسرے منصوبہ کا ذکر کیا جو وہ خود مسلمانوں میں بدامنی پیدا کرنے کے لئے کر رہے تھے اور چاہتے تھے کہ کسی طرح مسلمان گستاخی میں مبتلا ہو کر انعاماتِ الہٰی سے محروم ہو جائیں آیت۱۰۷ میں بتایا کہ ہم کسی کلام کو منسوخ کرتے ہیں تو اُس سے بہتر لاتے ہیں۔ پس یہود سوچیں کہ کیا موسیٰ ؑ اور دیگر انبیاء پر جو کلام نازل ہوتا تھا اس کے اثر اور اشاعت کو کوئی قوم روک سکی تھی جواب یہ روک لیں گے۔
آیت۱۰۸ میں بتایا کہ یہ کلام زمین و آسمان کے بادشاہ کی طرف سے نازل ہوا ہے اس کی مخالفت کا نتیجہ خطرناک ہوگا۔ آیت۱۰۹،۱۱۰ میں یہود کی تیسری تدبیر کا ذکر ہے جو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے خلاف کیا کرتے تھے۔ اور وہ یہ کہ نہایت لغو اور بیہودہ سوالات کرتے تاکہ مسلمان بھی اُنکی دیکھادیکھی اِس مرض میں مبتلا ہو جائیں اور آہستہ آہستہ دین الہٰی کی عظمت اُن کے دلوں سے مٹ جائے ۔ خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو متنبہ کیا ہے کہ دیکھو یہ لوگ حضرت موسیٰ ؑ سے ایسے سوالات کر کے ہلاک ہو چکے ہیں اور اب تمہیں غافل اور گستاخی اور کافر بنانا چاہتے ہیں۔ آیت۱۱۱ میں اُن کے شر سے بچنے کی تدبیر بتائی کہ عبادت میں لگ جائو اور مخلوق کی ہمدردی کرو۔ آیت ۱۱۲ میںمسیحیوں کا بھی ذکر کر دیا(جو موسوی مذہب کی ایک شاخ تھے مگر یہودیوں سے بالکل الگ ہو چکے تھے) اور فرمایا کہ جب خداتعالیٰ نے ایک نیا عہد باندھا ہے اور اُں کی کتابوں میں اس کی خبر ہے تو اب اس سے منہ موڑ کر
یَخْتَلِفُوْنَo
صرف یہودی یا عیسائی کہلانے سے کیونکر نجات ہو سکتی ہے۔ آیت۱۱۳ میں اُن کے خیالات کو رد فرما کر نجات کا حقیقی ذریعہ بتایا جو خدا تعالیٰ کی کامل فرمانبرداری اور اس کی مخلوق پر شفقت سے کام لینا ہے۔
۳۱؎ تفسیر:۔ فرمایا یہ لوگ تمہیں تو غیر ناجی قرار سیتے ہیں لیکن خود ان کی یہ حالت ہے کہ یہود کہتے ہیں کہ نصاریٰ میں کوئی خوبی نہیں پائی جاتی اور نصاریٰ یہ کہتے ہیں کہ یہوداپنے اندر کوئی نیکی اور روحانیت نہیں رکھتے۔حالانکہ دونوں ایک ہی کتاب پڑھتے ہیں۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ بائیبل پر ہمارا ایمان ہے اور وہ بھی کہتے ہیں کہ بائیبل پر ہمارا ایمان ہے ۔ صرف انجیل کے متعلق ان دونوں میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ یعنی یہود تو اسے کوئی مقدس کتاب تسلیم نہیں کرتے اور عیسائی اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ لیکن بائیبل جس میں تمام عہد نامہ قدیم شامل ہے اس پر یہود اور عیسائی دونوں ایمان رکھتے ہیں اور دونوں کہتے ہیں کہ اس میں کئی خوبیاں پائی جاتی ہیں ۔ مگر ایک کتاب پر ایمان رکھنے کے باوجود ان میں اس قدر اختلاف پایا جاتا ہے کہ یہودی عیسائیوں کے متعلق کہتیہ یں کہ ان میں کوئی خوبی نہیں اور عیسائی یہودیوں کے متعلق کہتے ہیں کہ ان میں کوئی خوبی نہیں۔
اِس سے پہلے یہود کے تین دعووںکا ذکر آچکا ہے ۔ اب ان کے متعلق یہ چوتھی بات بیان کی گئی ہے درحقیقت پہلی دو باتیں آپس میں مشابہ تھیں اور آخری دو باتیں آپس میں مشابہ ہیں۔ پہلے کہا تھا کہ یہود کا یہ دعویٰ ہے کہ لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّا اَیَّا مًا مَّعْدُوْدَۃً ہمیں آگ صرف چند دن چھُو ئیگی اور گیارھویں رکوع میں اُن کا یہ دعویٰ بیان کیا گیا ہے کہ اگلا جہان صرف ہمارے لئے مخصوص ہے ۔ گویا پہلے دعوے سے دوسرا دعویٰ بڑھ گیا پہلا دعویٰ یہ تھا کہ ہم دوزخ میں جائیں گے تو صرف چند دن ہی اُس میں رہیں گے۔ اور دوسرا دعویٰ یہ تھا کہ جنت میں ہمارے سوا اور کوئی جا ہی نہیں سکتا۔ یہ پہلے دعویٰ سے بڑھ کر دعویٰ ہے اللہ تعالیٰ نے ان دونوں دعووں کا رد کر دیا۔ اب تیسرا اور چوتھا دعویٰ آپس میں مشابہ ہیں۔ مگر چوتھا تیسرے سے بڑھ کر ہے۔ تیسرا دعویٰ یہ تھا کہ لَنْ یَّدْ خُلَ الْجَنَّۃَ اِلَّا مَنْ کَانَ ھُوْرًا اَوْ نَصٰرٰیکہ یہود کے نزدیک یہودیوں کے سوا اور کوئی جنت میں داخل نہیں ہوگا اور عیسائیوں کے نزدیک عیسائیوں کے سوا کوئی اور جنت میں داخل نہیں ہو گا۔ اور چوتھا دعویٰ یہ ہے کہ جو اس سے بھی بڑا ہے کہ دوسروں کے جنت میں جانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا یہود کے نزدیک عیسائیوں میں کوئی نیکی نہیں اور عیسائیوں کے نزدیک یہود میں کوئی خوبی نہیں۔ یوں دوزخ میں جانے والوں میں بھی بعض نیکیاں ہو سکتی ہیں کیونکہ آخر ایک یاد و نیکیوں سے انسان جنت میں نہیں جا سکتا۔ جنت میں انسان اسی صورت میں داخل ہوتا ہے جب نیکیاں زیادہ ہوں اور بدیاں کم ہوں۔ مگر یہ لوگ ایک دوسرے کو دوزخی قرار دینے میں اتنا غلو کرتے ہیں کہ کہتے ہیں ہمارے سوا دوسروں میں کوئی نیکی پائی ہی نہیں جاتی۔ گویا قطعی طور پر وہ کسی نیکی کو دوسرے کی طرف منسوب کرنے کے لئے تیاری نہیں ہوتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے باقی نیکیوں کو تم جانے دو تم یہ بتائو کہ عہدِ عتیق کا پڑھنا نیکی ہے یا نہیں ؟ وہ کم از کم اسے تو پڑھتے ہیں اور جب وہ یہ نیکی کا کام کرتے ہیں تو پھر کلی طور پر کسی کی نیکی کا کیوں انکار کرتے ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر مذہب اپنے اندر بعض صداقتیں رکھتا ہے اور سچے مذہب کے صرف یہی معنے ہوتے ہیں کہ وہ دوسروں کی نسبت اپنے اندر بہت زیادہ خوبیاں اور کمالات رکھتا ہے اور ہر قسم کے نقائص سے منزہ اور پاک ہوتا ہے۔ ورنہ تھوڑی بہت صداقت تو ہر مذہب میں پائی جاتی ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ عام طور پر اس اصل کو نہیں سمجھا جاتا۔ جس کا نتیجہ شدید مذہبی عداوت کی شکل میں رونما ہوتا ہے۔ اسلام اس کم حوصلگی بلکہ غلط بیانی کا شدید مخالف ہے۔ اور اپنی صداقت کے دعویٰ کے ساتھ اس بات کا بھی اعتراف کرتاہے کہ ہر مذہب کے پیرؤوں کو نصیحت کرتا ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے پر اندھا دھند حملہ نہ کیا کریں۔ بلکہ دوسروں کی خوبیوں کو بھی دیکھا کریں۔اور بلا غور وتحقیق مذہبی تعصب کی بنا پر یہ خیال نہ کر لیا کریں کہ دوسرا مذہب سر سے پاتک عیوب کا مجسمہ ہے اور ہر قسم کی خوبی اس میں مفقود ہے۔ چنانچہ آیت مذکورہ بالا میں یہودیوں اور مسیحیوں کو ملامت کی گئی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے اس قدر سخت عداوت رکھتے ہیں کہ دوسروں کی کسی خوبی کے قائل ہی نہیں بلکہ تعصب مذہبی سے اندھے ہو کر فریق مخالف کو سراسر غلطی پر خیال کرتے ہیں۔ حالانکہ اگر اور کچھ نہ ہو تو کم از کم دونوں ایک ہی کتاب کیک پڑھنے والے ہیں۔ پس اس ایک خوبی میں تو دونوںمشترک ہیں۔ اگر قرآن کریم کی اس تعلیم پر لوگ عمل کریں تو دُنیا کا نقشہ بدل سکتا ہے ۔ اور ہر قسم کے جھگڑے اور مناقشات دُور ہو کر صحیح معنوں میں امن قائم ہو سکتا ہے۔ کیونکہ تمام مذہبی جھگڑوں کی بنیاد اِسی غلط فہمی پر ہے۔ لوگ مخالف مذہب پر غور کرنے سے پہلے اُس کی تردید شروع کر دیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہواتا ہے کہ اس کے پیرؤوں کے دل میں بھی اس حملہ آور کے مذہب کی نسبت بُغض پیدا ہو جاتا ہے اور اس طرح ٹھنڈے دل سے مختلف مذاہب پر غور کرنے کا موقعہ ہی نہیں ملتا۔ اور بِلا غور کئے تمام مذاہب کے پیرو صرف دشمنوں کی روایات کی بنا پر دوسرے مذاہب کے عقائد کو بعیداز عقل اور مجموعۂ توہمات اور اُس کے احکام کو ناقابلِ عمل اور دنیا کے امن کے منافی خیال کر لیتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں اُن مذاہب سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ لیکن اگرہمدرداً غور ہو تو ہر ایک مذہب میں بہت کچھ خوبیاں اور کسی قدر کمزوریاں نظر آئینگی سوائے اس ایک سچے مذہب کے جو سب نقصوں سے پاک ہوتاہے۔ پس اس غور کا لازمی نتیجہ باہمی صلح اور آشتی ہوگا۔ ایک دوسرے کے مذہب پر ناجائز حملہ کرنے کی عادت لوگوں کو اس قدر پڑ گئی ہے کہ اس زمانہ میں وہ ایک شغل خیال کیا جاتا ہے حالانکہ اِس کے نتائج بحییثت مجموعی تمام دنیا کے لئے خطرناک ہیں اور قراان کریم نے اصولی طور پر اس آیت میں اسی نقص کے ازالہ کی طرف توجہ دلائی ہے۔ افسوس کے اس زمانہ میں اسلامی فرقوں کا بھی یہی حال ہے کہ باوجود اس کے کہ وہ ایک خدا پرایمان رکھتے ہیں پھر بھی وہ ذرہ ذرہ سے اختلاف پر ایک دوسرے کو کافر کہتے رہتے ہیں۔
کَذٰلِکَ قَالَ الَّذِیْنَ لَایَعْلَمُوْنَ مَثْلَ قَوْلِھِمْ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ عیب صرف یہود اور نصاریٰ میں ہی نہیں بلکہ وہ تمام لوگ جو علم صحیح سے بے بہرہ ہیں ایک دوسرے پر ایسے ہی حملے کرتے ہیں۔ یعنی ایک دوسرے کی خوبیوں کو بالکل نظر انداز کر دینا اور لڑائی جھگڑے کے وقت نیکی اور بدی کا موازنہ نہ کرنا صرف جُہلا کا کام ہے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک انسان خدا کو مانتا ہو اور پھر اُس میں کوئی نیکی نہ ہو اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ دنیا میں ایک چیز موجود ہو اور پھر اُس میں کوئی خوبی نہ پائی جاتی ہو۔ قرآن کریم تو کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے کوئی چیز بھی ایسی پیدا نہیں کی جس میں کوئی فائدہ نہ ہو۔ بلکہ اب تو سانپ اور بچھو کے زہر تک میں فوائد تسلیم کر لئے گئے ہیں۔ پھر انسان کے متعلق یہ خیال کرنا کہ اس میں کوئی بھی خوبی نہیں سراسر ظلم اور خداتعالیٰ پر حملہ ہے۔
فَاللّٰہُ یَحْکُمْ بَیْنَھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ۔ فرماتا ہے جو لوگ کہتے ہیں کہ یہود میں کسی قسم کی کوئی نیکی نہیں یا کہتے ہیں کہ
وَمَنْ اَظْلَمُ


عَذَاب’‘ عَظِیْم’‘o
نصاریٰ میں کوئی نیکی نہیں اُنکا یہ قول درست نہیں ہاں اُن میں غلطیاں ضرور ہیں تبھی تو اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بھیجا ہے کہ اُن میں جو غلطیاں پائی جاتی ہیں وہ انکی اصلاح کرے مگر یہ کہنا درست نہیںکہ اُن میں کوئی نیکی ہے ہی نہیں۔ ہاں اُن میں نیکیاں کم اور بدیاں زیادہ پائی جاتی ہیں اور جب دنیا میں نیکیاں کم اور بدیاں زیادہ ہو جائیں اور عالمگیر خرابی پیدا ہو جائے تو اس وقت اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ وہ اپنا کوئی نبی مبعوث فرماتاہے تاکہ بدیاں کم اور نیکیاں زیاد ہ ہو جائیں اور لوگ پھر خدا تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط کر لیں۔
۳۲؎ تفسیر:۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص مساجد میں اللہ تعالیٰ کا نام نہ لینے دے اور اُس کی عبادت سے لوگوں کو رو کے اور اس طرح اُن کو ویران کرنے کی کوشش کر وہ سب سے زیادہ ظالم ہے۔ یہ کسی اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہے جو اسلام نے پیش کی ہے ۔ اِسے سامنے رکھ لو دُنیا کا کوئی مذہب اس کے سامنے نہیں ٹھہر سکے گا۔مسلمانوں کا عمل جانے دو بلکہ اس حکم اور تعلیم کو دیکھو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کسی کا حق نہیں کہ ذکر الہٰی سے کسی کو روکے ۔ اگر کوئی شخص مسجد میں جا کر ذکر الہٰی کرنا چاہے یا اپنے رنگ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت بجا لانا چاہے تو اس سے روکنا بالکل ناجائز ہے۔ کوئی ہندو سکھ یا عیسائی آجائے اور مسلمانوں کی مسجد میں اپنے رنگ میں عبادت الہٰی کرنا چاہے تو کسی مسلمان کو اُسے روکنے کا حق نہیں۔ اگر کوئی کہے کہ باجابجانا اور ناچنا اُن کی عبادت میں شامل ہے تو ہم کہیں گے کہ یہ کام وہ باہر کر لیں۔ جتنا حصہ ذکر الہٰی کا ہے وہ مسجد میں آکر ادا کرلیں۔ اِس آیت میں ان تمام قسم کی زیادیتوں اور تعدیوں کو جو ایک مذہب کے پیرو دوسرے مذاہب کے عبادت خانوں یا عبادات کے متعلق کرتے ہیں یک قلم موقوف کر دیا ہے اور سب مذاہب کے پیرووں کو اس طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ وہ عبادت خانوں اور عبادتوں کے متعلق اپنے دلوں اور اپنے حوصلوں کو وسیع کریں کیونکہ اُن کا موجودہ طریق عمل نہایت ظالمانہ اور جابرانہ ہے جس کا نتیجہ کبھی اچھا نہیں ہو سکتا۔ وہ ظالمانہ طریق جو عبادت خانوں یا عبادات کے متعلق زمانہ نزولِ قرآن کے وقت برتے جاتے تھے یا اب بھی برتے جاتے نہیں اور جن سے قرآن کریم منع فرماتا ہے یہ ہیں:۔
اول:۔ اگر ایک گروہ دوسرے گروہ پر فتح پا تا تو اُس کے عبادت خانوں کو گِرا دیتا یا انہیں مقفل کر دیتا یا اس مذہب کے پیرؤوں کو اُس میں عبادت نہ کرنے دیتا۔
دوم:۔ ہر مذہب کے پیرو اپنی اپنی عبادت گاہوں میں دوسرے مذاہب کے لوگوں کو عبادت کرنے سے روکتے اور ان میں دوسروں کو داخل ہونے تک کی بھی اجازت نہ دیتے یہ باتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وقت میں بڑے زور سے رائج تھیں اور مختلف مذاہب کے پیرؤوں کی عادت میں داخل ہو گئی تھیںاور اُس زمانہ میں یہ باتیں عیب نہیں بلکہ حق اور ضروری سمجھی جاتی تھیں اور تاریخ عالم بتاتی ہے کہ یہ اس زمانہ کی ایجاد نہ تھی بلکہ ہمیشہ سے دنیا انہی اُمور کی خوگر چلی آتی تھی۔ اِس لئے کسی انسان کی طبیعت اِن سے گھبراتی نہ تھی بلکہ اس زمانہ میں بھی ایک یا دوسری شکل میں یہ سب باتیں دنیا میں رائج ہیں اور گو علوم کی ترقی نے عبادت خانوں کو گرادینا یا ان کو بند کر دینا بڑی حد تک دُور رک دیا ہے لیکن اپنی عبادت کرنے کی اجازت نہ دینا تو اس زمانہ میں بھی ایک عام بات ہے۔ ایک مسیحی گرجا میں ایک مسلمان کواور ایک یہودی گرجا میں ایک مسیحی کو ایک مندر میں ایک مسیحی کو ایک پارسی صومعہ میںایک ہندو کو اپنی عبادت کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جاتی اور اگر کوئی ایسا کرے تو یورپ کے علوم وفنون سے آگاہ ممالک سے لے کر افریقہ کے نیم وحشی قبائل تک کے لوگ لڑنے مرنے پر آمادہ ہو جائیں گے ۔بلکہ بعض تو اپنے عبادت خانوں میں دوسروں کو داخل ہونے کی اجازت بھی نہیں دیتے۔قرآن کریم اس ظالمانہ کاروائی سے روکتا ہے اور بتاتا ہے کہ گو خیالات متفرق ہیں لیکن جو شخص اللہ تعالیٰ کی عباست کرتا ہے اُس کو اُس شہنشاہِ حقیقی کے نام لینے اور اُس کی عبادت کرنے سے روکنا یا مساجد میں کسی کو نہ آنے دینا اور اِ س طرح اُن کو ویران کرنے کی کوشش کرنا کسی طرح جائز نہیں ہو سکتا بلکہ ایک بہت بڑا ظلم ہے۔ ہر ایک مذہب کے پیرؤ وں کو خواہ وہ مفتوح ہوں یا فاتح مساجد کے استعمال کی کامل آزادی ہونی چاہیے اور اگر ایک مذہب کے عبادت خانہ میںکسی دوسرے مذہب کا کوئی انسان اپنے طریق پر خدا تعالیٰ کا نام لینا چاہے اور اُس کی عبادت کرنا چاہے تو اس کو روکنا نہیں چاہیے۔ کیونکہ مساجد ایک ایسا مقام ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب ہوتے ہیں۔ پس اِن کے بارے میں انسان کو ڈر کر کام کرنا چاہیے اور آپس کے اختلافات کو اُن تک وسیع نہیں کرنا چاہیے ورنہ جو لوگ اس بات کی پرواہ نہیں کرینگے اور اس عمل میں غلو سے کام لیں گے اِس دنیا میں بھی ان کو عذاب دیا جائیگا اور آخرت میں بھی وہ سزا سے بچ نہیں سکتے۔ یہ وہ تعلیم ہے جو قرآن کریم نے مختلف مذاہب کے معبدوں کے احترام اور اُن کی عبادت کے متعلق دی ہے۔ کسی اور مذہب کی تعلیم کو اس سے ملا کر دیکھو اور مقابلہ کرو کہ وہ کونسی تعلیم ہے جو ایک طرف تو عقل اور فہم کے مطابق ہے اور دوسری طرف دنیا میں امن قائم کرنے والی ہے۔ اس تعلیم کے ہوتے ہئوے اسلام پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ ایک متعصب مذہب ہے۔ مگر یہ اعتراض تبھی قابلِ قبول ہو سکتا ہے جب اس سے بڑھ کر عمدہ اور لطیف تعلیم دنیا میں کسی اور مذہب کی طرف سے پیش کی جائے ۔ ورنہ زبانی اعتراض تو ہر مذہب کے لوگ دوسروں پر کر سکتے ہیں۔ دعویٰ بِلا دلیل بجائے نفع دینے کے عقلمندوں کی نظر میں انسان کو ذلیل کر دینا ہے۔ ہم دعویٰ سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ سعتِ حوصلہ جس کی تعلیم اسلام نے دی ہے۔ اس کا مقابلہ دنیا کا کوئی مذہب نہیں کر سکتا۔ چنانچہ سب سے پہلا انسان جس نے اِس پر عمل کیا وہ ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں جنہوں نے نجران کے مسیحیوں کو اپنی مسجد میں گرجا کرنے کی اجازت دے دی۔ زادالمعاد میں لکھا ہے۔ لَمَّا قَدِمَ وَفْدُ نَجْرَانَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَخَلُوْاعَلَیْہِ مَسْجِدَہ‘ بَعْدَ الْعَصْرِ فَحَانَتْ صَلَا تُھُمْ فَقَالُوْااَیُصَلُّوْنَ فِیْ مَسْجِدِہٖ فَاَرَادَ النَّاسُ مَنْعَھُمْ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَعُوْھُمْ فَاسْتَقْبَلُواالْمَشْرِقَ فَصَلُّوْا صَلَوٰتِھِمْ(زادالمعاد جلد۲ صفحہ۳۵) یعنی جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس نجران کا عیسائی وفد آیا۔ تو وہ لوگ عصر کے بعد مسجد نبویؐ میں آئے اور گفتگو کرتے رہے۔ گفتگوکرتے کرتے اُن کی عبادت کا وقت آگیا(غالباً وہ اتوار کا دن ہو گا) چنانچہ وہ وہیں مسجدمیں اپنے طریق کے مطابق عبادت کرنے کے لئے کھڑے ہو گئے۔ لوگوں نے چاہا کہ وہ انہیں روک دیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ایسا مت کرو۔ چنانچہ انہوں نے اُسی جگہ مشرق کی طرف منہ کیا اور اپنے طریق کے مطابق عبادت کر لی۔
پس مسجدوں میں اللہ تعالیٰ کی عبادت سے روکنے کا کسی کو حق نہیں۔ اگر تمام اقوام اس بات پر عمل کرنے لگ جائیں تو تمام باہمی جھگڑے ختم ہو جائیں۔ اگر ہر قوم اپنے معبد میں دوسروں کو آنے اور وہاں عبادت اور ذکر الہٰی کرنے کی اجازت دے دے تو کبھی آپس میں مناقشت اور جھگڑا پیدا نہ ہو اور دنیا میں ہر طرف امن قائم ہو جائے۔ مسلمانوں کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے اعمال پر غور کریں اور سوچیں کہ کیا وہ اس تعلیم پر پوری طرح عمل کرتے ہیں جو قرآن کریم دیتا ہے۔ اور جس پر رسول کریمصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا عمل تھا یا اس کے خلاف اپنے خود ساختہ اصول پر عمل کر رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ آیت غیر احمدیوں اور ہم میں ایک فیصلہ کن آیت ہے۔
قرآن کریم میں مَنْ اَظْلَمُ کے الفاظ تین قسم کے لوگوں کے لئے آئے ہیں اول جھوٹے مدعیان نبوت کے لئے۔ دوم سچے نبی کو جھوٹا کہنے والے کے لئے۔ جیسا کہ آتا ہے فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتٰری عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْکَذَّبَ بِاٰیٰتِہٖ(یونس آیت۱۸) کہ جو شخص اللہ تعالیٰ پر افترا کرتا ہے یا سچے نبی کے الہام کو جھٹلاتا ہے اس سے زیادہ ظالم اور کون ہو سکتا ہے۔ سوم ۔ مساجد میں عبادت الہٰی سے روکنے والوں کے متعلق جیسا کہ اس جگہ ہے اَب سوال یہ ہے کہ آیا بانی سلسلہ احمدیہ نے جھوٹا دعویٰ نبوت کیا ہے یا غیر احمدی ایک سچے نبی کے منکر ہیں ؟ بہرحال دونوں میں سے ایک مَنْ اَظْلَمُ میں ضرور شامل ہے۔اِس سوال کو یہ تیسری آیت بالکل حل کر دیتی ہے کیونکہ جہاں جماعت احمدیہ میں ایسی کوئی مثال پیش نہیں کی جا سکتی کہ اس نے اپنی مساجد میں کسی کو عبادت کرنے سے روکا ہو وہاں مسلمانوں میں ایسی کئی مثالیں پائی جاتی ہیں کہ انہوں نے جماعت احمدیہ کے افراد کو اپنی مسجدوں میں نمازیں پڑھنے سے روکا اور اُن پر سختیاں کیں۔ پس اس آیت نے ثابت کر دیا کہ بانی سلسلہ احمدیہ کے مخالفین اپنے عمل کے لحاظ سے اس گروہ میں شامل ہیں جس کے متعلق مَنْ اَظْلَمکے الفاظ آتے ہیں اور جو خدائی منشاء کے خلاف قدم اٹھاتے ہیں۔
اُولٰٓیئِکَ مَاکَانَ لَھُمْ اَنْ یَّدْ خُلُوْ ھَا اِلَّا خَائِفِیْنَ۔ فرماتا ہے کہ کیسے تعجب کی بات ہے کہ خدا تعالیٰ کا گھر ہو اور پھر یہ ذلیل لڑائیوں ہوں۔حالانکہ اُن کے لئے یہ ہر گز مناسب نہ تھا کہ اس قسم کی ظالمانہ حرکت کرتے۔ یا ان کا خوئی حق نہ تھا کہ خدا تعالیٰ کے گھر میں عبادت کرنے سے دوسروں کو روکتے ان کو تو چاہیے تھا کہ خداتعالیٰ کے گھر جاتے وقت خوف سے اُن کا دل لرزتا اور اس قسم کے فسادات پر کمربستہ نہ ہوتے۔ لَھُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْی’‘ وَّ لَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَاب’‘ عَظِیْم’‘۔ فرماتا ہے چونکہ یہ لوگ ہمارے گھر کو برباد کرنا چاہتے ہیں اس لئے ہم بھی ان کے گھروں کو برباد کر دینگے اور یہ دُنیا میں بھی رُسوا ہوں گے اور آخرت میں بھی انہیں عذاب عظیم ملیگا۔ کیونکہ جنت خدا تعالیٰ کا گھر ہے اس کا ظل مسجد ہے۔ جب انہوں نے مسجدوں کو ویران کر دیا تو ان کو اگلے جہان میںکہاں امن میسر آسکتا ہے۔ مگر اس کے یہ معنے کہ مساجد کی پناہ میں آنے والے لوگوں کو اسلامی شریعت نے قانون سے بالا سمجھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ توبہ(رکوع۱۳) میں بعض ایسے لوگوں کا ذکر کیا ہے کہ جنہوں نے حکومتِ وقت یعنی
وَلِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَ
وَاسِع’‘ عَلِیْم’‘o
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ کی جماعت کے خلاف خفیہ کارروائیاں کرنے کے لئے ایک مسجد تیار کی تھی اور خودرسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی کی خدمت میں درخواست بھی کی تھی کہ آپ تشریف لا کر اس میں نماز پڑھیں اور دُعا فرمائیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے آپ پر حقیقت کھول دی اور بتادیا کہ اِن لوگوں یہ مسجد صرف اس لئے تیار کی ہے کہ ان کی منافقت پر پردہ پڑا رہے اور یہ لوگ یہاںجمع ہو کر اسلام کے خلاف منصوبے کرتے رہیں اور مسلمانوں کو تباہ کریں۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس مسجد کو گروا دیا اور اس جگہ کھاد کا ڈھیر لگوادیا۔ پس مسجد اپنی ذات میں کسی مجرم کو نہیں بچا سکتی۔ اگر مسجد میں کوئی بُرا کام کیا جائیگا تو اس کو بُرا سمجھا جائے گا اور اگر اچھا سمجھا جائے گا تو اس کو اچھا سمجھا جائے گا بلکہ اور مساجد تو الگ رہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حرم کعبہ کے متعلق بھی فرمایا ہے کہ وہ کسی مجرم یا قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کو پناہ نہیں دیتا اور نہ قتل کر کے بھاگنے والے کو بچا سکتا ہے۔ بلکہ ایسے لوگ پکڑے جائیں گے اور انہیں قانونی گرفت میں لایا جائیگا۔ چنانچہ فتح مکہ کے موقعہ پر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اطلاع پہنچی کہ ابن اخطل جس کے قتل کا آپؐ نے حکم دیا تھا کعبہ کے پردوں کو پکڑا کر کھڑا ہے تو آپؐ نے فرمایا اُسے وہیں قتل کر دو۔ چنانچہ اسے قتل کر دیا گیا(سیرۃ جلبیہ جلد۳ صفحہ۹۳) پس اگر بعض مجرموں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خانہ کعبہ میں بھی قتل کر دینے کا حکم دیا تھا تو دوسری مسجدوں کی خانہ کعبہ کے مقابلہ میں کیا حیثیت ہے کہ اُن میں خلاف آئین کام کرنے والے لوگوں کو قانون سے بالا سمجھا جائے۔ پس مساجد تقویٰ کے قیام کے لئے قائم کی گئی ہیں نہ کہ قانون شکنی کے لئے۔ اگر مسجد میں بھی قانون شکنی کے اڈے بن جائیں تو پھر شیطان کے لئے تو کوئی گھر بھی بند نہیں رہتا جن گھروں کو خدا تعالیٰ نے امن کے لئے تسکینِ قلوب روحانیت کے لئے تقویٰ کے قیام کے لئے تعاون اور اتحاد باہمی کے لئے بنایا ہے ان گھروں کو مسلمانوں میں فتنہ ڈلوانے کا ذریعہ بنانا یا اُن گھروں کو حکومت سے بغاوت کرنیکا ذریعہ بنانا یا ان گھروں کو فتنہ و فساد کی بنیاد رکھنے کی جگہ بنانا ایک خطرناک ظلم ہے جس کی اسلام کسی صورت بھی اجازت نہیں دیتا۔
اِس آیت میں ان لوگوں کے لئے جو عبادت گاہوں میں خداتعالیٰ کا نام بلند کرنے سے لوگوں کو روکتے ہیں۔ دوسزائوں کا ذکر کیا گیا ہے ایک یہ کہ انہیں دنیا میں ذلت نصیب ہو گی اور دوسرے آخرت میں انہیں سخت سزا ملے گی ذلت کی سزا اس لحاظ سے تجویز کی گئی ہے کہ مساجد اور معابد بنانے کی صرف ایک ہی غرض ہوتی ہے اور وہ یہ کہ ان میں خداتعالیٰ کی عبادت کی جائے پس جو شخص اِن میں لوگوں کو خداتعالیٰ کی عبادت کرنے سے روکتا ہے وہ دنیا کی نگاہ میں اپنے لئے ذلت اور رسوائی کے سامان پیدا کرتا ہے جو اس فعل کی ایک طبعی سزا ہے یہ الفاظ مشرکین مکہ کے متعلق ایک عظیم الشان پیشگوئی پر بھی مشتمل ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو کعبہ میں داخل ہونے سے روکا اور آخر جب مکہ فتح ہوا تو انہیں ذلت اور رسوائی کے عذاب سے دو چار ہونا پڑا۔
۳۳؎ حل لغات:۔وَجْہ‘ کے تین معنے ہیں۔ (۱) نَفْسُ الشَّیْئِ یعنی کسی چیز کی ذات(۲)توجہ(۳) منہ پس فَثَمَّ وَجْہ‘ اللّٰہِ کے معنے ہوئے۔ اُدھر ہی اللہ کو پائو گے(۲)اُدھر ہی اللہ کی توجہ پائو گے(۳) اُدھر ہی اللہ کا مُنہ پائو گے۔
وَاسِع’‘: بڑی وسعت والا یا بڑی وسعت بخشنے والا
تفسیر:۔ عیسائی لوگ جو ہمیشہ قرآن کریم پر کوئی نہ کوئی اعتراض کرنے کی جستجو میں رہتے ہیں وہ اس آیت سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ قرآن کریم نے آہستہ آہستہ مسلمانوں کا قبلہ بدلا ہے اور زیادہ تر افسوس کا مقام یہ ہے کہ بعض مسلمان مفسرین نے بھی اپنی ناواقفیت کی وجہ سے انہیں اس اعتراض میں مدد دی ہے۔ حالانکہ یہ آیت اُن آیات میں سے سمجھی جاتی ہے جنہیں منسوخ قرار دیا جاتا ہے۔ وہ لوگ کہتے ہیں کہ پہلے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا تھا کہ مشرق اور مغرب سب خدا کا ہے۔ اس لئے جدھر چاہو منہ کر کے نماز پڑھ لیا کرو پھر حکم دیا کہ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھو اور آخر میں یہ حکم دے دیا کہ بیت اللہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھو۔ گو یا اُن کے نزدیک یہ پہلی آیت ہے جس میں یہ حکم دیا گیا تھا کہ تم جدھر چاہو منہ کر کے نماز پڑھ لیا کرو۔ لیکن پھر اسے منسوخ کر دیا گیا۔ حالانکہ اس آیت کا قبلہ کے ساتھ دُور کا بھی تعلق نہیں۔ نہ تو اس آیت میں نماز کا ذکر ہے اور نہ اس آیت میں پہلے اس کا کوئی ذکر ہے ۔ ہاں مساجد کا ذکر ضرور آتا ہے مگر ان کے ذکر کے بعدلَلّٰہِ المَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ کے کوئی معنے نہیں بنتے کیونکہ مساجد کے ذکر کے ساتھ ایک مخصوص جہت کی تعیین بھی ضروری تھی تاکہ سب مسلمان ایک طرف منہ کر کے نماز پڑھتے اور ایسا نہ ہو تاکہ کسی کا منہ ایک طرف ہوتا اور کسی کا دوسری طرف مگر مساجد کے ذکر کے بعد کہ کہہ دیا گیا کہ مشرق و مغرب سب خدا کا ہے تم جدھر جاہو منہ کر لیا کرو۔ اور پھر اگلی آیت میں بھی نہ نماز کا ذکر آتا ہے اور نہ قبلہ کا پس یہ معنے کسی صورت میں بھی درست نہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ گذشتہ کئی آیات سے یہ مضمون بیان کیا جاتا رہا ہے کہ یہود اور نصاریٰ جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سوائے ان کے کسی اور مذہب میں نجات نہیں اور مشرک جو کسی دین کے پابند نہیں یاد ہر یہ جو خدا تعالیٰ کے قائل نہیں۔ یہ لوگ بلاوجہ مسلمانوں کی عبادت گاہوںمیں دخل اندازی کرتے ہیں اور انہیں خدائے واحد کے آگے سر بسجود ہونے نہیں دیتے۔ اللہ تعالیٰ ایسے تمام لوگوں کو ذلیل اور رسوا کریگا کیونکہ وہ خداتعالیٰ کے گھر کو ویران کرنے کی کوشش کرتے ہیںاور چونکہ قاعدہ ہے کہ جب خداتعالیٰ کسی سے کوئی دولت چھینتا ہے تو پھر کسی اور کو جو اس کا حقدار ہوتا ہے ہوتا ہے دے دیتاہے اور چونکہ اس قسم کے افعال کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کر دیا تھا کہ ان کے اموال اور جائیداد یں چھین لی جائیں اور انہیں ذلیل کیا جائے۔ اس لئے لِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالمَغْرِبُ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تسلی دی کہ تم اپنی بے بسی پر غم نہ کھائو مشرق و مغرب سب اللہ ہی کا ہے ۔ ہم ان لوگوں سے حکومت چھین لیں گے اور اُن کی جگہ تمہیں مشرق و مغرب کا حکمران بنا دینگے۔
غرض اس جگہ صرف دنیوی فتوعات کا ذکر ہے یہاں نماز کا ذکر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ چونکہ مشرق و مغرب ہمارے ہیں اس لئے اَیْنَمَاتَوَ لُّوْافَثَمَّ وَجْہ‘ اللّٰہِ جدھر بھی تم اپنے لشکر کے کر نکلوگے وہیں تم اللہ تعالیٰ کی توجہ یا اللہ تعالیٰ کا منہ یا خود اللہ تعالیٰ کا وجود پائو گے کیونکہ تمہارے سامنے ایک ہی مقصد ہو گا جس کو پورا کرنے کے لئے تم جدوجہد کر رہے ہو گے۔
میں نے ایک دفعہ رویا میں بھی دیکھاکہ میں اپنی جماعت کے دوستوں کے سامنے اِسی آیت پر تقریر کررہا ہوں۔ اور میں انہیں کہتا ہوں کہ اس آیت میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اگر جماعت کا مقصد ایک ہو تو اس ایک مقصد کو سامنے رکھ کر پھر خواہ اس کے افراد مختلف جہات کی طرف جائیں اُن میں تفرقہ پیدا نہیں ہو گابلکہ وہ بحیثیت قوم کام کرنے والے ہوں گے اور اگر کسی مقصد کے بغیر جماعت ایک طرف بھی چلے تب بھی اُس کے افراد پراگندہ اور متفرق ہونگ ے پس یہ مت خیال کرو کہ تم پر سب کا ایک جہت میں جانا ہی ضروری ہے بلکہ اگر تم مختلف جہات کی طرف ایک ہی مقصد لے کر جائو گے اور خداتعالیٰ تمہارے ساتھ ہو گا اور تمہیں ہر مقام پر اپنا چہرہ دکھائیگا۔
وَجْہُ اللّٰہِ کے جو معنے اوپر بیان کئے گئے ہیں اُن کو مدنظر رکھتے ہوئے(۱)اللہ تعالیٰ کی توجہ کے یہ معنے ہیں کہ جس طرح مسلمان متوجہ ہونگے اُسی طرف خداتعالیٰ ان کی کامیابی کے سامان پیدا کرنے لگے گا اور ان کو فتوحات پر فتوحات حاصل ہونگی۔ (۲)اللہ تعالیٰ کے مونہہ کو پانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کی حفاظت کریگا اور اُن کی نگرانی کرتا رہے گا۔(۳)خود اللہ تعالیٰ کو پانے کا یہ مفہوم ہے کہ اگرچہ یہ ملکی فتوحات بظاہر دنیوی کام نظر آئیگا مگر چونکہ یہ خداتعالیٰ کی مسجدوں اور معبدوں کی حفاظت کے لئے ہے۔ اس لئے یہ دنیوی کام بھی دینی ہی متصور ہوگا۔ اور اس سے مسلمانوں کو خداتعالیٰ کی رضاء اور اس کی خوشنودی حاصل ہو گی۔ گویا ان فتوحات کے ذریعہ انہیں صرف دنیا ہی نہیں ملے گی بلکہ اُن کے ہر کام میں رضاء الہٰی کے سامان ہوںگے اور ہر کام جو وہ خدمتِ دین کا کرینگے اس کے نتیجہ میں انہیں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہو گی۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص خداتعالیٰ کی ضلطر اپنی بیوی کے منہ میں ایک لقمہ بھی ڈالتا ہے وہ بھی ایک نیکی کا کام کرتا ہے۔ حالانکہ اگر وہ بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالتا ہے تو اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے مگر چونکہ وہ یہ کام خدا تعالیٰ کی خاطر کرتا ہے اس لئے اُسے اس کا بھی ثواب ملِ جاتا ہے اسی طرح اور لوگ فتح حاصل کرتے ہیں تو اُن کو صرف دنیا ملتی ہے مگر مسلمانوں کو دین و دنیا دونوں چیزیں ملیں گی۔ انعام بھی ملے گا اور ملک بھی فتح ہو ںگے۔ یہ پیشگوئی اس وقت کی گئی تھی جب مُٹھی بھر مسلمان ہر قسم کے مصائب میں سے گذررہے اور آزمائشوں میں ڈالے جا رہے تھے اور ان کا مستقبل سخت تاریک دکھائی دیتا تھا۔ لیکن یہ پیشگوئی جلد ہی فتح مکہ کی شکل میں پوری ہو گئی اور تمام عرب اسلام کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو گیا۔ اور ایک صدی سے بھی کم عرصہ میں اسلام کا جھنڈا قریباً تمام ممالک میں لہرانا شروع ہو گیا۔
وَلِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ کے الفاظ میں اِس طرف سے اشارہ ہے کہ اسلام کے لئے پہلے مشرق میں پھیلنا مقدر ہے اور پھر آخری زمانہ کے موعود کی بعثت کے بعد وہ مغرب میں بھی پھیل جائے گا۔ سو مغرب کو اس لئے تیار رہنا چاہیے کیونکہ و ہ زمانہ اب دُور نہیں سرج نکل چکا ہے اور اس کی شعاعیں انہیں بیدار کر رہی ہیں۔
وَاللّٰہُ وَاسِع’‘ عَلِیْم’‘ بھی اسی بات کا ثبوت ہے کہ اس آیت کا قبلہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ بڑی وسعت والا ہے۔ وہ جسے چاہے دولت میں بڑھاوے اور پھر وہ علیم بھی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کن لوگوں کے پاس لوگ سُکھ اور آرام پا سکتے ہیں جس کے پاس رہ کر لوگوں کو آرام ملتا ہے اُسی کو حکومت ملا کرتی ہے۔ یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری جماعت کے متعلق بھی پیشگوئیاں ہیں کہ اُسے دنیوی ترقیات حاصل ہونگی۔ مگر اللہ تعالیٰ دنیوی حکومتیں اُسی کو دیتا ہے جس سے لوگ زیادہ سے زیادہ آرام حاصل کر سکتیں پس تم بھی اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ نافع الناس وجود بنائو اگر تمہاری بھی وہی حالت ہو کہ خدا کے بندے تم سے دُکھ پائیں تو پھر کوئی وجہ نہیں ہو گی کہ دُنیا کی باگ ڈور تمہارے ہاتھ میں دی جائے۔ اور ایک ظالم کو بدل کر دوسرا ظالم کھڑا کر دیا جائے۔
وَقَالُو اتَّخَذَاللّٰہُ


کُنْ فَیَکُوْنُo
۳۴؎ حل لغات:۔ قَضٰی کے معنے ہیں (۱)خَلَقَ۔ اِن معنوں میں اس لفظ کا استعمال قرآن کریم میں اور جگہ بھی آتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے فَقَضٰھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ(حٰم آیت۱۳) یعنی جو دنیا اُس نے پیدا کی تھی اُسے اس نے سات آسمانوں کی صورت میں بنایا (۲) اَعْلَمَ یعنی اُس نے اُسے بتادیا۔ علم دے دیا۔قرآن کریم میں آتا ہے وَقَضَیْنَآ اِلیٰ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ فِی الْکِتٰبِ(بنی اسرائیل آیت۵)ہم نے تورات میں بنی اسرائیل کو یہ بات بتا دی تھی(۳) اَمَرَ حکم دیا جیسے آتا ہے وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓ ااِلَّٓا اِیَّاہُ(بنی اسرائیل آیت۲۴) کہ تیرے رب نے حکم دیا ہے کہ تم صرف اُسی کی عبادت کرو۔(۴) محبت پوری کر دینا۔الزام قائم کر دینا جیسے کہتے ہیں قَضٰی عَلَیْہِ القَاضِی۔ قاضی نے اُس پر حجت قائم کر دی یا اُس کے متعلق فیصلہ کر دیا۔ (۵) پورا کر دینا۔ جیسے آتاہیںفَلَمَّا قَضٰی مُوْسَی الْاَجَلَ(قصص آیت۳۰)جب موسیٰ ؑنے اپنی مقررہ مدت پوری کر دی(۶) ارادہ کرنا۔ جیسا کہ فرمایا فَاِذَا قَضٰی اَمْرًا۔ جب وہ کسی بات کا ارادہ کرتا ہے۔
اَمْر’‘ کے بھی کئی معنے ہیں۔(۱)دین جیسے ظَھَرَ اَمْرُ اللّٰہِ کے معنے ہیں اللہ کے احکام نازل ہو گئے(۲) بات جیسے آیت اِذَا جَائَ اَمْرُنَا(ھود:۴۱) میں ہے ہماری بات کے پورا ہونیکا وقت آگیا(۳) عذاب ۔ جیسا کہ قُضِیَ الْاَمْرُ(بقرہ:۲۱۱) میں ہے(۴) قَضٰی اَمْرًا کے معنے قرآن کریم سے الہام الہٰی کے نزول کے بھی معلوم ہوتے ہیں ۔ ان معنوں کے علاوہ اس کے اور بھی کئی معنے ہیں۔
تفسیر:۔ یہود کا دعویٰ کہ نجات بنی اسرائیل کے ساتھ مخصوص ہے گو ایک غلط دعویٰ تھا مگر اُن میں اتنی معقولیت ضرور پائی جاتی تھی کہ وہ دوسروں کو تبلیغ نہیں کرتے تھے۔ مگر عیسائیوں کا یہ دعویٰ کہ نجات اُن سے مخصوص ہے نہ صرف ایک غلط دعویٰ ہے بلکہ اِس میں یہ غیر معقولیت بھی پائی جاتی ہے کہ وہ اس دعویٰ کے باوجود دوسروں کو بھی تبلیغ کرتے ہیں اور انہیں اپنے مذہب کی دعوت دیتے ہیں اور پھر اِس غیر معقولیت کی بناء اس غیر معقول عقیدہ پر رکھتے ہیں کہ مسیح ابن اللہ تھا اور اب وہی لوگ نجات پا سکتے ہیں جو خدا کے بیٹے پر ایمان لائیں گے۔ اللہ تعالیٰ اس کی تردید میں کئی دلائل دیتا ہے اور فرماتا ہے خداتعا لیٰ کے لئے کسی ولد کا ماننا اس لئے درست نہیں کہ وہ پاک ہے یعنی ولد کے ماننے سے اللہ تعالیٰ میں کئی نقائص ماننے پڑتے ہیں۔
اوّل: ولد کے لئے شہوت کا ہونا ضروری ہے اور شہوت دوسری چیز کی طرف توجہ کرنے اور اس کی احتیاج پ ردلالت کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے
دوم: ولدکے لئے بیوی کا ہونا ضروری ہے اور یہ ایک احتیاج ہے جس سے اللہ تعالیٰ پاک ہے
سوم :بیٹے میں جزئیت ہوتی ہے یعنی وہ اپنے باپ کا جزو ہوتاہے اور اس کا خون اس میں شامل ہوتا ہے اگر اللہ تعالیٰ کا بھی ولد تسلیم کیا جائے تو اُس کے متعلق یہ ماننا پڑے گا کہ اُس کے اجزاء بھی تقسیم ہو ئے۔
چہارم: بیٹا ماننے سے اُس کا فنا ہونا لازم آتا ہے کیونکہ بیٹے کی ضرورت ہمیشہ فانی وجودوں کو ہی ہوتی ہے ورنہ جو چیزیں اپنے مقصد پیدائش تک قائم رہنے والی ہیں اُن کو کسی قائم مقام کی ضرورت نہیں جیسے سورج چان ستارے آسمان اور زمین وغیرہ ہیں۔یہ چیزیں چونکہ اُس وقت تک چلتی چلی جائیں گی جب تک ان کی ضرورت قائم ہے۔ اس لئے نہ تو یہ فنا ہوتی ہیں اور نہ اُن کے کسی قائم مقام کی ضرورت محسوس ہوتی ہے لیکن انسان چونکہ فنا ہو جاتا ہے اس لئے اسے قائم مقام کی بھی ضرورت ہوتی ہے پس اگر خدا تعالیٰ کا بیٹا تسلیم کیا جائے تو اس کے لئے بھی فنا ماننی پڑے گی۔ حالانکہ وہ اس نقص سے منزہ ہے۔
دوسری بات لَہ‘ مَافِی السَّمٰوٰاتِ وَالْاَرْضِ میں یہ بیان کی ہے کہ ایک بادشاہ کو بعض دفعہ بیٹے کی ایک اچھے مدد گار کے طور پر ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اُس کی سلطنت کو وسیع کر سکے۔ مگر خداتعالیٰ کو کسی مددگار کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ مدد کی ضرورت اس وقت ہوتی ہے جب کوئی ایسی چیز ذاتی کوشش سے حاصل نہ ہو سکے۔ مگر جب تمام مخلوق خداتعالیٰ کے قبضہ میں ہے تو پھر اُسے کسی مدد گار کی کیا ضرور ت ہے؟ بیٹے کی ضرورت تو تب ہو جب اُسے نئی فتوحات کی ضرورت ہو یا نئے ممالک پر حکمرانی کی خواہش ہو۔ لیکن جب ہر چیز اُسی کی پیدا کردہ ہے تو پھر اُس نے بیٹا کیسے بنا لیا؟
پھر بعض اوقات بادشاہ کو یہ مشکل آجاتی ہے کہ ملک کا کوئی حصہ باغی ہو جاتا ہے اور ضرورت ہوتی ہے کہ سلطنت کے شورش زدہ یا دُور افتادہ علاقوں پر کنٹرول کرنے کے لئے کوئی دست و بازو بنے اور مدد گار کے طور پر کام آئے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی حکومت سے تو کوئی بھی باہر نہیں۔ کُلّ’‘ لَّہ‘ قَانِتُوْنَ سب کے سب اس کے مطیع اور فرمانبردار ہیں۔ ایسی صورت میں اُس کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ اُس نے ایک شخص کو اپنا بیٹا بنا لیا کیسے درست ہو سکتا ہے؟
پھر ہو سکتا ہے کہ کوئی کہہ دیتا کہ اَب تو اُسکا کام چل گیا ہے لیکن زمین و آسمان کے پیدا کرنے کے وقت تو کام بہت زیادہ تھا اِس لئے اُسے بیٹے کی ضرورت تھی اِس کے لئے فرمایا کہ بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وہ زمین و آسمان کو خود پیدا کرنے والا ہے۔ اُسے پیدا کرتے وقت بھی کوئی شکل پیش نہ آئی تھی کہ اُسے کسی بیٹے کی ضرورت محسوس ہوتی۔ اس میں اُن مسیحی فرقوں کی تردید کی گئی ہے جن کا یہ خیال ہے کہ زمین و آسمان کی پیدائش میں مسیح بھی اللہ تعالیٰ کا شریک تھا۔ فرماتا ہے کہ تمہارا یہ خیال غلط ہے ۔ اُسے پیدائش عالم کے وقت بھی کسی مدد گار کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ عیسائی جو حضرت مسیح ؑ کو زمین و آسمان کی پیدائش میں خداتعالیٰ کا شریک قرار دیتے ہیںاُن سے پوچھنا چاہیے کہ بیٹے نے زمین و آسمان کی پیدائش میں کیا کام کیا ہے۔ اگر وہ کہیں کہ کچھ نہیں تو پھر بیٹے کا وجود بے فائدہ ہوا اور اگر وہ کہیں کہ اُس نے دنیا پیدا کی ہے تو اُن سے پوچھنا چاہیے کہ کیا اکیلا باپ خُدا اُسے پیدا نہیں کر سکتا تھا۔ اگر وہ اس کا جواب دیں کہ نہیں تو انہیں خدا باپ کو ناقص تسلیم کرنا پڑے گا۔ اور اگر وہ اُسے کامل قرار دیں تو انہیں ماننا پڑے گا کہ اکیلا باپ خدا ہی اُسے کر سکتا تھا۔ مسیح ؑ نے اس کی پیدائش میں کوئی حصہ نہیں لیا۔
دوسری بات ان سے پوچھنی چاہیے کہ آیا رُوح القدس اُسے پیدا کر سکتا تھا یا نہیں؟ یہاں بھی اُن کے جواب کی دو ہی صورتیں ہو ں گی۔ اگر وہ کہیں کہ وہ پیدا نہیں کر سکتا تھا تو رُوح القدس میں نقص لازم آئیگا اور اگر کہیں کہ اُس نے پیدائش میں حصہ لیا ہے تو باپ خدا میں نقص لازم آئیگا۔ آخر باپ بیٹا اور رُوح القدس میں سے اگر ہر ایک علیحدہ علیحٰدہ بھی دنیا کو پیدا کر سکتا تھا تو ان سب کو کیا ضرورت تھی کہ مل کر پیدا کرتے۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے ایک پنسل صرف ایک شخص اُٹھا سکتا ہے اُسے کسی اور مددگار کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن اگر وہ اوروں کو بھی بلائے اور کہے کہ آئیے تاکہ سب مل کر ایک پنسل اٹھائیں تو ہر شخص اُسے بے وقوف کہیگا۔ پس جب خدا تعالیٰ اکیلا زمین و آسمان پیدا کر سکتا تھا تو عیسائیوں کا یہ کہنا کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی پیدائش میں حصہ لیا خدا تعالیٰ کو بے وقوف ٹھہرانا ہے کہ اُس نے خواہ مخواہ ان کو اپنے ساتھ بلایا حالانکہ ان کے بنانے میں اسے کوئی مشکل نہ تھی میں سمجھتا ہوں اگر اسی دلیل سے کام لیا جائے تو ہر عیسائی اِس کے جواب سے اسی طرح عاجز آجائیگا جس طرح ایک دفعہ ڈلہوزی میں سیالکوٹ کے ایک بڑے پادری کو میرے ساتھ گفتگو میں عاجز آنا پڑا اور اُسے اقرار کرنا پڑا کہ تثلیث فی التوحید اور توحید فی التثلیث کا مسئلہ ایسا ہے جسے کوئی انسان سمجھ نہیں سکتا۔
یہ امر بھی یاد رکھنا چاہیے کہ عربی زبان میں بَدَعَ کے معنے نیست سے ہست کرنے کے ہوتے ہیں یعنی ایسی چیز پیدا کرنا جس کا پہلے کوئی وجود نہ ہو۔ اِن معنوں کے لحاظ سے اسلام رُوح و مادہ کو بھی حادث قرار دیتا ہے اور ہندو مذہب کی اس تھیوری کو باطل قرار دیتا ہے کہ روح و مادہ ازلی ہیں۔
پھر فرمایا وَاِذَ اقَضَی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہ‘ کُنْ فَیَکُوْنُ۔ اللہ تعالیٰ جب کسی امر کا فیصلہ کر لیتا ہے تو پھر کوئی چیز اس کے ارادہ میں مزاحم نہیں ہو سکتی۔ وہ اِدھر کُن کہتا ہے اور اُدھر اس کا فیصلہ دنیا میں نافذ ہو جاتا ہے۔ اس میں ایک تو اس امر کی طرف اشارہ فرمایا کہ نہ صرف پیدائشِ عالم خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے بلکہ فنا بھی اُسی کے اختیار میں ہے اور اس غرض کے لئے بھی اُسے کسی بیٹے یا مددگار کی ضرورت نہیں۔ اس شبہ کا ازالہ اس لئے کیا گیا ہے کہ ممکن تھا بعض لوگوں کے دلوں میں یہ وسوسہ پیدا ہو جاتا۔ کہ خداتعالیٰ نے سب چیزیں پیدا تو کر لیں اور وہ سب کی سب خداتعالیٰ کے قانون کی بھی تابع ہیں لیکن ممکن ہے اس عالمِ موجودات کو فنا کرنے کے لئے اُسے کسی ساتھی اور مددگار کی ضرورت ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہارا یہ خیال بھی درست نہیں فنا بھی اُسی کے اختیار میں ہے پس اس غرض کے لئے بھی اُسے کسی بیٹے کی ضرورت نہیں۔
عیسائیت کے ذکر میں وَاِذَ قَضٰی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہ‘ فَیَکُوْنُ فرما کر عیسائیوں کے اس عقیدہ پر بھی ایک لطیف رنگ میں چوٹ کی گئی ہے کہ مسیح ؑ مصلوب ہو گیا تھا۔ فرمایا ہے جس خدا نے اپنے بیٹے کو جسے تم خدا تسلیم کرتے کر رہے ہو صلیب پر مار دیا اُسے دنیا کے فنا کرنے میں کیا مشکل پیش آسکتی ہے وہ سب کو آسانی سے موت کے گھاٹ اُتار سکتا ہے اور کوئی چیز اس کے فیصلہ میں روک نہیں بن سکتی۔
اِذَا قَضٰی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہ‘ کُنْ فَیَکُوْنُ میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ الہام الہٰی ۷۹۸۷کا اجرا بھی خداتعالیٰ کے اختیار میں ہے اور جب وہ کوئی نیا کلام دنیا میں نازل کرنا چاہے تو دنیا کی کوئی طاقت اس کے نزول کو روک نہیں سکتی۔ اس میں عیسائیوں کے اس نقطہ نگاہ کا رد کیا گیا ہے کہ حضرت مسیح ؑ پر جو آخری الہام نازل ہونا تھا وہ ہو چکا اب آئندہ کے لئے کسی پر کوئی الہام نازل نہیں ہوسکتا۔ مسیحی کتب میں حضرت مسیحؑ کو کلام کہا گیا ہے اور قرآن کریم نے بھی ان کے لئے کلمہ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ عیسائی اس کے غلط معنے کرتے ہوئے کہاکرتے ہیں کہ کلمہ اور کلام کے چلے جانے کے بعد الہام کا سلسلہ بند ہوچکا ہے مگر فرمایا تمہارا خیال غلط ہے۔ جس طرح وہ پہلے الہام الہٰی نازل کرتا رہا۔ اسی طرح وہ آئندہ بھی کرتا رہیگا۔ اور جس طرح پہلے روحانی نظام کے قیام کے لئے اُسے کسی مددگار کی ضرورت نہیں تھی اسی طرح آئندہ بھی اسے کسی بیٹے یا مددگار کی ضرورت نہیں۔
کُنْ فَیَکُوْنَ کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ اس کے یہ معنے نہیں کہ خداتعالیٰ جب کسی چیز کا اردہ کرتا ہے تو وہ فوری طور پر ایک آن میں پیدا ہو جاتی ہے۔ بلکہ اس کے صرف یہ معنے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کسی امر کا فیصلہ کرتا ہے تو اسے امر کی ضرورت نہیں ہوتی کہ وہ انسان کی طرح حرکت کرے اور اس کام کے کرنے کے لئے چل کر جائے بلکہ وہ صرف یہ ارادہ کر لیتا ہے کہ ایسا ہو جائے اور پھر کوئی چیز اس کے فیصلہ میں مزاحم نہیں ہوتی۔ اسی طرح یہ آیت کسی خاص وقت کے تعین پر بھی دلالت کرتی نہیں کرتی بلکہ کم یا زیادہ جتنا وقت بھی کسی چیز کی تکمیل کے لئے ضروری ہو اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کے بعد وہ اتنے عرصہ میں اپنی تکمیل کو پہنچ جاتی ہے۔
غرض اِن آیات میں اللہ تعالیٰ نے مسیحؑ کی انبیت کی پانچ دلائل سے تردید کی ہے اور بتایا ہے کہ خداتعالیٰ کو کسی بیٹے کی ضرورت نہیں وہ اس قسم کی تمام اختیاجوں سے بالا اور رفع ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اناجیل میں مسیح کی نسبت خداتعالیٰ کے بیٹے کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں لیکن بائیبل کا معمولی مطالعہ رکھنے والا انسان بھی جانتا ہے کہ یہود میں ابن اللہ کے معنے خدا کے پیارے یا اس کی بنی کے ہوتے ہیں۔ اور یہ لفظ متعدد مقامات پر اورروں کے لئے بھی استعمال ہوا ہے۔ اس میں مسیح کی کوئی خصوصیت نہیں۔ چنانچہ اوقاباب۲۰آیت۳۴ تا ۳۶ میں آتا ہے:۔
’’یسوع نے جواب میں اُن سے کہا اس جہان کے لوگ بیاہ کرتے اور بیاہے جاتے ہیں لیکن جو لوگ اُس جہان کے اور قیامت کے شریک ہونے کے لائق ٹھہرتے نہ بیاہ کرتے ہیں اور نہ بیاہے جاتے ۔ پھر نہیں مرنے کے کیونکہ دے فرشتوں کی مانند ہیں۔ اور قیامت کے بیٹے ہو کر خدا کے بیٹے ہیں۔‘‘
اسجگہ حضرت مسیحؑ نے ان تمام لوگوں کو جو اپنی زندگی دین کے لئے وقف کرتے ہیں خدا کے بیٹے قرار دیا ہے۔
’’مبارک وے جو صلح کرانے والے ہیں کیونکہ وے خدا کے فرزند کہلائیں گے۔‘‘
اسجگہ حضرت مسیحؑ نے فرمایا ہے کہ صلح کرنے والے خدا کے فرزند کہلاتے ہیں۔ پھر متی باب۵ آیت۴۵ میں لکھا ہے:۔
’’تاکہ تم اپنے باپ کے جو آسمان پر ہے فرزند ہو۔‘‘
اس میں تمام مومنوں کو خداتعالیٰ کا فرزند اور بیٹا کہا گیا ہے۔ متی باب۵ آیت۴۸ میں آتا ہے۔
’’پس تم کامل ہو۔ جیسا تمہارا باپ جو آسمان پر ہے کامل ہے۔‘‘
اس میں بھی مسیح علیہ السلام سب مومنوں کو خدا کا بیٹے قرار دیتے ہیں۔
پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب میں بھی سب مومنوں کو خداتعالیٰ کا بیٹا کہا گیا ہے۔ لکھا ہے:۔
وَقَالَ الَّذِیْنَ


لِقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَo
’’تم خداوند اپنے خدا کے فرزند ہو۔‘‘(استثنا باب۱۴ آیت۱)
خروج باب۴ آیت۲۲ میں آتا ہے:۔
’’اسرائیل میرا بیٹا بلکہ پلوٹھا ہے۔‘‘
اس حوالہ کو مدنظر رکھتے ہوئے تو خداتعالیٰ کا بیٹا ہونے کا حق حضرت مسیح ؑ کی بجائے حضرت یعقوب علیہ السلام کو حاصل ہے کیونکہ وہ پلوٹھے ہیں اور حضرت مسیح بیٹے تھے۔ پلوٹھے کے ہوتے ہوئے بیٹے کا کیا حق تھا کہ وہ جائیداد پر قبضہ کرتا۔ غرض عہد عتیق اور عہد جدید دونوں کی رُو سے تمام مومن خدا کے فرزند ہیں حضرت مسیحؑ کی اس میں کوئی تخصیص نہیں۔
۳۵تفسیر:۔بعض لوگ اپنی نادانی سے یہ خیال کرتے ہیں کہ خداتعالیٰ بغیر کسی حکمت کے یونہی ایک شخص کو نبی بنا کربھیج دیتا ہے اور وہ انتخاب میں کسی اہلیت کو مدنظر نہیں رکھتااور پھر اس غلط خیال کے نتیجے میں یہ کہپنا شروع کر دیتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہمیں براہ راست کیوں حکم نہیں دیتا کہ ایسا کرو۔ اور ایسا نہ کرو۔ تاکہ کوئی جھگڑا ہی پیدا نہ ہو۔ آخر اس کی کوئی وجہ ہونی چاہیے کہ وہ ہم سے کیوں کلام نہیں کرتا اور اگر ہم اس بات کے مستحق نہیں کہ خداتعالیٰ ہمارے ساتھ باتیں کرے تو کم از کم یہ تو ہوناچاہیے تھا کہ کوئی دلیل ہی مہیا کر دی جاتی جس کی وجہ سے ہم اسے مجبوراً مان لیتے۔
میرے تحقیق یہ ہے کہ قرآن کریم میں جہاں بھی کفار کے آیت طلب کرنے کا ذکر آتاہے وہاں اس سے مراد ہمیشہ عذاب ہی ہوتا ہے۔ بشرطیکہ اُسکے خلاف وہاں کوئی قرینہ موجود نہ ہو۔ چنانچہ وہ تمام مقامات جہاں کفار کی طرف سے آیت کا مطالبہ کیا گیا ہے اُن پر غور کر کے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ہر جگہ آیت سے مراد عذاب ہی ہوتا ہے۔ اس جگہ بھی یہی مراد ہے یا تو اللہ تعالیٰ کا کلام ہم پر نازل ہوتا اور ہم اسے مان لیتے۔ کیونکہ اگر یہ اس کا بندہ ہے تو ہم بھی اُسی کے بندے ہیں۔ پھر اس میں اور ہم میں کیا فرق ہے۔ اور اگر یہ کہو کہ تم اس کے بندے تو ہو مگر تم عذاب کے مستحق ہو تو ایسی صورت میں ہم پر عذاب نازل ہونا چاہیے۔ گویا دو صورتوں میں سے ایک صورت ضرور ہونی چاہیے۔ اگر ہم اُس کے بندے ہیں تو ہم پر بھی کلام نازل ہونا چاہیے اور اگر کہو کہ تم گندے ہو گئے ہو تو پھر ہمیں ہلاک کر دیناچاہیے۔لیکن اگر ہو ہمیں ہلاک بھی نہیں کرتا تو اس کے معنے یہ ہیں کہ ہم گندے نہیںاس لئے ہم پر بھی کلام نازل ہونا چاہیے۔ محمد(صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کو ہم پر کیا فضیلت حاصل ہے کہ صرف اُسی پر کلام نازل ہوتا ہے۔
کَذٰلِکَ قَالَ الَّذِیْنَ مَنْ قَبْلِھِمْ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اسی طرح اُن لوگوں نے بھی اِن سے پہلے گذرے ہیں کہا تھا اور بالکل اِن کی بات کے مشابہ کہا تھا۔ اِس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ تمام انبیاء کے مقابلہ میں ایک ہی قسم کے اعتراض ہوتے چلے آئے ہیں۔ حضڑت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جب منہاجِ نبوت کا ذکر فرمایا کرتے تودشمن چڑ جاتے اور کہتے کہ تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا کیوں نام لیتے ہو۔ مولوی محمدعلی صاحب جو اُس وقت ریویو آف ریلیجنز کے ایڈیٹر تھے اِ س کا یہ جواب دیا کرتے تھے کہ حضرت مرزا صاحب انبیاء میں شامل ہیں۔ پس آگر ہم رسول کریمصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مثال نہ دیں تو اور کس کی دیں۔ لیکن بعد میں وہی مولوی محمد علی صاحب کہنے لگ کہ مرزا صاحب نے نبوت کا کوئی دعویٰ نہیں کیا۔ یہ نیا عقیدہ ہے جو قادیان والوں نے ایجاد کر لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر ان کا اعتراض صحیح ہے تو پھر تمام انبیاء کے نبوتیں باطل ٹھہرتی ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب دعویٰ کیا تھا کہ اُن کو الہام ہوتا ہے تو اس وقت اوروں کو الہام نہیں ہوا بلکہ صرف موسیٰ ؑ کو ہوا۔ پھر باقی لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے یکدم تباہ بھی نہیں کیا۔ ہاں حضت کے بعد وہ ہلاک ہوئے اور وہ بھی آہستہ آہستہ۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جاب الہام ہوا تو اُن کے زمانہ میں بھی باقی لوگوں کو الہام نہیں ہوا اور پھر باقی لوگوں کو یکدم تباہ بھی نہیں کیا گیا پس اگر یہ سلیل صحیح ہے کہ یا تو اللہ تعالیٰ ہم پر الہام نازل کرے اور اگر ہم الہام کے مستحق نہیں تو ہمیں تباہ کر دے تو اس دلیل کو پہلوں پر چسپاں کر کے دیکھ لو کہ کیا یہ صحیح قرار پاتی ہے یا غلط ؟ اور اگر تمہاری یہ دلیل پہلوں پر چسپاں نہیں ہوتو تو معلوم ہوا کہ تمہارا یہ مطالبہ منہاجِ نبوت کے خلاف ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ جب کسی شخص سے کوئی جواب بن نہ آئے تو وہ آگے سے ایسا عذر تلاش کرتا ہے جس پر بحث ختم ہو کر اس کا پیچھا چُھوٹے۔ سچے نبیوں کے مقابلہ میں ہمیشہ سے یہ طریق اختیار کیا جاتا رہا ہے جب اُن کے مخالفوں کو اُن سے بحث کرنے میں ندامت ہوئی ہے تو فوراً انہیوں نے ایسے مطالبات پیش کر دیئے ہیں کہ جن کے نسبت اُن کو یقین تھا کہ ایک یا دوسری وجہ سے اُن کا پورا ہونا ناممکن ہے کبھی تو سنت اللہ کے خلاف کسی بات کا مطالبہ کر دیتے کبھی کسی دیر میں ہونے والی بات کو فوراً پورا کرنے کا مطالبہ کرتے کبھی ایسے امر کا مطالبہ کرتے جو خلافِ شان الہٰی ہوتا اور پھر علاوہ اس قسم کے مطالبات کے یہ جواب بھی دیا کرتے کہ اچھا ہم لوگ جھوٹے ہیں تو عذاب الہٰی کیوں نہیں آتا۔ ہم پر عذاب الہٰی نازل ہو تب ہم مانیں گے ورنہ نہیں۔ آنحضرتصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی اِس سلوک میں دوسرے نبیوں سے مستثنیٰ نہ تھے بلکہ جس قدر آپ کا درجہ بلند تھا اُسی قدر آپؐ کے دشمنوں نے زیادہ غیر معقولیت کے ساتھ معاملہ کیا۔ جب اُن و کوئی جواب نہ آتا تو قسم قسم کے سوال کرتے جن میں سے دو اس جگہ بیان کئے گئے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اگر سچے ہو تو خدا تعالیٰ ہم سے خود کلام کرے اور ہم سے کہے کہ یہ شخص سچا ہے اس کو مان لو۔ حالانکہ خداتعالیٰ نے کبھی کسی نبی کے زمانہ میں یہ نہیں کیا کہ ملک کے آدمی کو الہام ہوا ہو کہ فلاں شخص سچا ہے اسے مان لو۔ یہ تو ہو جاتا ہے کہ بعض اشخاص کو خدا تعالیٰ رؤیا اور کشوف کے ذریعہ بتا دیتا ہے کہ یہ مامور سچا ہے۔ مگر سب لوگوں کو بتانا اس کی سنت کے خلاف ہے اور جن کو بتاتا ہے اُن کی شہادت سے لوگ فائدہ نہیں اُٹھاتے بلکہ اُن پر بھی الزام لگا دیتے ہیں کہ یہ بھی منصوبوں میں شامل ہیں۔ پھر سب کے الہام ہونا اس لئے بھی بے فائدہ ہے کہ ایمان تبھی مفیدہوتا ہے جبکہ وہ انسان کو کوشش سے حاصل ہو۔ اگر خداتعالیٰ کا کلام سب پر نازل ہو تو پھر ایمان کا کوئی فائدہ نہیں رہتا۔ اور انسان کی پیدائش کی اصل غرض فوت ہو جاتی ہے اور دوسری مخؒوق اور انسان میں کچھ فرق نہیں رہتا۔ پس فرمایا کہ یہ لوگ سنت اللہ سے واقف نہیں اور نہیں جانتے کہ ایمان کی صورت میں نافع ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہم سے کلام کرے۔ حالانکہ یہ ایک ایسا مطالبہ ہے جو پہلے نبیوں سے بھی ہوتا رہا ہے جن کو یہ مانتے ہیں لیکن انہوں نے اسے پورا نہیں کیا۔ پھر اس نظیر کے موجود ہوتے ہوئے اس رسول سے کیوں ایسا مطالبہ کرتے ہیں درحقیقت اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے دل پہلے انبیاء کے منکریں کے دِلوں کے مشابہ ہو گئے ہیں۔
دوسرا مطالبہ یہ بیان کیا کہ ہمیں کوئی آیت دکھائو اس کا جواب یہ دیا کہ ایسی آیات تو ہم دکھا چکے ہیں جن سے اگر کوئی فائدہ اٹھانے والا انسان ہو تو فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ لیکن جن لوگوں نے ضِد سے کام لینا ہو اور ہٹ پر قائم رہنا ہواُن کا کوئی علاج نہیں۔
اس جگہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ قرآن کریم میں جہاں تو آیت کا لفظ اللہ تعالیٰ اور اُس کے انبیاء اور مومنوں کی طرف سے استعمال کیا گیا ہے وہاں تو اس کے معنے عام ہوتے ہیں یعنی کوئی شان جو کسی صداقت پر دلیل ہو۔ خواہ وہ عذاب ہو یا انعام۔ خواہ کوئی ایسا نشان ہو جو اِن دونوں قسموں میں سے نہ ہو اور صرف ایک علامت کے طور پر ہو۔ لیکن جب کفار کے منہ سے یہ لفظ بیان کیا جائے تو اس کے معنے جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا ہے ہمیشہ عذاب کے ہوتیہ یں پس تَاْتِیْنَااٰیَۃ سے مراد یہ ہے کہ ہم پر ایسا عذاب نازل ہو جو ہمیں تباہ کر دے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہاں تمہارا یہی کام تھا کہ تم اس قسم کے اعتراض کرتے اس لئے کہ جن لوگوں کے تم جانشیں ہو وہ بھی یہی کہتے آئے ہیں۔ کیونکہ جس طرح نبی کا نبی مثیل ہوتا ہے اسی طرح اس نبی کے وقت کے کافر پہلے نبیوں کے کافروں کے مثیل ہوتے ہیں۔ پس اگر محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دشمن یہ کہتے ہیں کہ آپؐ نے کوئی نشان نہیں دکھایا تو ٹھیک کہتے ہیں کیونکہ وہ حضرت عیسیٰ ؑ کے دشمنوں کے مثیل تھے اور اگر حضرت عیسیٰ ؑ کو اُن کے دشمن کہتے تھے کہ یہ کوئی نشان نہیں لایا تو سچ کہتے تھے کیونکہ وہ حضرت موسیٰ ؑ کے دشمنوں کے مثیل تھے۔ اور اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی اُن کے مخالفوں نے یہی کہا تو ان کا کہنا حق تھا کیونکہ وہ حضڑت ابراہیم علیہ السلام کے دشمنوں کے مثیل تھے اور اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اُن کے نہ ماننے والوں نے یہ کہا تو اُن کا حق تھا کیونہ وہ حضرت نوح ؑ کے دشمنوں کے مثیل تھے۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ اِن کے دل مَل گئے ہیں۔ اس لئے کہتے ہیں کہ کوئی نشان نہیں لایا۔ حالانکہ ماننے والوں کے لئے بہتیرے نشان ہیں۔ ہاں نہ ماننے والوں کے کئے کوئی نہیں۔
نَشَابَھَتْ قُلُوْبُھُمْ سے ظاہر ہے کہ انبیاء کی جماعتوں اور اُن کے مخالفتین کا ایک ہی طریق عمل ہوتا ہے نبیوں کی مشابہت سے۔ اُن کی جماعتوں کی مشابہت پہلے جماعتوں سے۔ اور اُن کے مکفرین کی مشابہت پہلے مکفرین سے ہوتی ہے۔ جس طرح انبیاء اور اُن کی جماعتیں ایک ہی راستہ پر قسم مارتی چلی جاتی ہیں اسی طرح ان کے مخالفین بھی اپنے پیشرؤوں کی سنتوں پر عامل ہوتے ہیں خصوصاً جن ابنیاء کی آپس میں مشابہت اور مماثلت ہو اور ایک ہی قسم کے کام ان کے سپرد ہوں اُن کے حالات تو آپس میں بہت ہی ملتے جلتے ہیں۔
قَدْ بَیَّنَّا الْاَیٰتِ لِقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ میں بتایا کہ عذاب تو تم صداقت معلوم کرنے کے لئے مانگتے ہو حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ ہم نے بہت سی آیات ظاہر کر دی ہیں جو اس رسول کی صداقت ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں بشرطیکہ تمہاری نیت ماننے کی ہو اور
اِنَّآ اَرْسَلْنَکَ
اَصْحٰبِ الْجَحِیْمِo
تم ضِد اور تعصب سے کام نہ لو۔ پس اگر تمہارا مطالبہ دیانت داری پر مبنی ہے تو تم اُن دلائل و براہین پر کیوں غور نہیں کرتے اور صرف عذاب کا مطالبہ ہی کیوں کرتے ہو۔ اگر انبیاء کی بعثت کی غرض یہ ہوتی کہ لوگوں کو تباہ کیا جائے تواِدھر نبی آتا اور اُدھر خداتعالیٰ تمام منکروں کو تباہ کر دیتا ۔ لیکن اگر ایسا ہوتو تو پھر مانتا کون؟ اس لئے اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ انبیاء کی بعثت کے بعد پہلے رحمت کی آیات ظاہر ہوتی ہیں تاکہ جس نے ماننا ہو مان لے اور پھر جو ضِدی بطع نہیں مانتے اُن پر عذاب آجاتا ہے۔ اس آیت میں لِقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ فرما کر اللہ تعالیٰ نے ایک لطیف اشارہ اس امر کی طرف فرمایا ہے کہ نشان تو بہت ظاہر ہو چکے ہیں مگر جو شخص ہر بات میں شبہ پیدا کرے اُسے ہدایت کس طرح مل سکتی ہے۔ اگر تم ہدایت حاسل کرنا چاہتے ہو تو اپنی شکی طبیعت کو چھوڑواوریقین کا مادہ پیدا کرو۔ ورنہ جو لوگ صرف یہی کہنا جانتے ہیں کہ’’ اور نشان دکھائو‘‘ اُن کے لئے کہاں سے نشان آسکتے ہیں۔ ہماری زبان میں بھی مشہور ہے کہ سوتے کو سب جگا سکتے ہیں لیکن جاگتے کو کوئی نہیں جگا سکتا اسی طرح جو لوگ ہر نشان کا انکار کر دیں اُن کے لئے کوئی نشان بھی ہدایت کا موجب نہیں بن سکتا۔
یہاں آیات سے قرآن کریم کی آیات مراد نہیں بلکہ ہر قسم کے دلائل اور براہین مراد ہیں جو کسی نبی کی صداقت ثابت کرنے کے لئے ضروری ہوتے ہیں اس آیت نے عیسائیوں کے اس اعتراض کو بھی باطل کر دیا ہے کہ رسول کریمصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کوئی نشان نہیں دکھایا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم یقین کرنے والی قوم کے لئے ہر قسم کے نشانات کھول کر بیان کر چکے ہیں۔
۳۶؎ حل لغات:۔بِالْحَقِّ: میں باء کے معنے ساتھ اور معیت کے ہیں۔ بِالْحَقِّ اس جگہ حال واقعہ ہوا ہے اور حال فاعل کا بھی ہو سکتا ہے اور مفعول کا بھی اس جگہ دونوں صورتیں ہو سکتی ہیں۔
تفسیر:۔ قرآن کریم کے معانی کے متعلق یہ اصول ہے کہ اگر کسی آیت کے کئی معنے ہوں اور وہ معنے دوسری آیات کے خلاف نہ ہوں تو وہ سارے کے سارے معنے چسپاں کئے جا سکتے ہیں کیونکہ قرآن کریم جن معنوں کو رد کرنا چاہتاہ ے اُن کو دوسری جگہ رد کر دیتا ہے لیکن جو معنے قرآن کریم کی کسی اور آیت سے رد نہ ہوں وہ تمام کے تمام چسپاں ہو سکتے ہیں۔ یہاں بھی بِالْحَقِّ کے چار معنے ہو سکتے ہیں۔
اگراسے فاعل کا حال قرار دیا جائے تو اس کے معنے یہ ہونگے کہ ہم نے تجھے ایسی حالت میں بھیجا ہے کہ حق ہمارے ساتھ ہے اس کے آگے دو مفہوم ہیں ایک یہ کہ ہم نے تجھے ایسے حال میں بھیجا ہے کہ کہ حق کا خزانہ صرف ہمارے ہی پاس ہے کسی اور کے پاس نہیں اگر کوئی اور شخص تعلیم بنا کر پیش کرتا تو اس میں کئی قسم کی غلطیوں کی آمیزش ہوتی اور وہ دنیا کو تباہ کر دیتی ۔ پس خداتعالیٰ کو سوا اور کوئی ایسی سچی تعلیم نہیں دے سکتا تھا جس میں جھوٹ کی کوئی ملونی نہ ہوتی۔ اگر اور کوئی تعلیم دیتا تو یقینا اُس میں دانستہ یا نادانستہ کسئی قسم کی غلطیاں ہوتیں پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے اسے بھیجا ہے اور ایسے حال میں بھیجا ہے کہ ہمارے پاس حق ہے۔ سچائی کا خزانہ ہمارے پاس ہے۔ اس لئے ہمارا ہی حق تھا کہ ہم تعلیم بھیجتے۔ کسی دوسرے کا حق نہیں تھا کہ وہ بھیجتا۔ اگر کسی دوسرے کی طرف سے تعلیم آتی تو وہ دنیا کو تباہ کر دیتی ۔ کیونکہ اس میں جھوٹ کی ملونی ہوتی یا اس میں غلطیاں ہوتیں مگر جو تعلیم ہماری طرف سے آتی ہے وہ تباہی والی نہیں ہو سکتی بلکہ وہ حقیقی اور سچی تعلیم ہوتی ہے اور وہی دوسروں کو حقیقی ہدایت دے سکتی ہے پس یہ ہمرا ہی کام ہے کہ ہم لوگوں کو ہدایت کی تعلیم دیں۔
بَالْحَقِّ کے دوسرے معنے مَعْ الْحَقِّ کے بھی ہو سکتے ہیں۔ اس لحاظ سے اِنَّا اَرْسَلْنٰکَ بِالْحَقِّّ کے یہ معنے ہوں گے کہ ہم نے تجھے بھیجا ہے اور اس حال میں بھیجا ہے کہ ہم ہی اسے بھیجنے کے حقدار تھے۔ گویا جس طرح ہم یَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ہیں اسی طرح ہم اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ یہ تعلیم بھیجتے آخر جس نے اس نظام کو پیدا کیا ہے اُسی کا حق ہے کہ وہ حکم دے دوسرے کا کیا حق ہے کہ وہ اس میں دخل دے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم ہی اس تعلیم کو بھیجنے کے حقدارتھے کیونکہ ہم خالق اور مالک ہیں ۔ آریہ کہتے ہیں کہ خداتعالیٰ رُوح و مادہ کا خالق نہیں لیکن دوسری طرف وہ یہ بھی کہتے ہیں ک خداتعالیٰ قانون بناتا ہے حالانکہ جب وہ خالق نہیں تو اس کا کیا حق ہے کہ وہ قانون بنائے پس فرمایا کہ ہم حق رکھتے ہیں کہ ہم قانون بنائیں کیونکہ ہم خالق و مالک ہیں اور جو خالق و مالک ہو وہ حق رکھتا ہے کہ اپنی مخلوق کے لئے قانون بنائے کیونکہ وہی مخلوق کی ضرورتوں کو جانتا ہے جس نے پیدا ہی نہیں کیا اُسے کیا معلوم کہ انسانی قلب میں کیا کیا جذبات اُٹھتے ہیں اورُسے کیا معلوم کے کونسی باتیں اچھی ہیں اور کونسی بُری اس لئے یقینا وہ غلط قانون بنائیگا جو لوگوں کو ٹھوکر کا موجب ہو گا۔
پھر مفعول کے لحاظ سے بھی اس کے دو معنیٰ ہیں۔ ایک یہ کہ ہم نے اس حالت میں تجھے بھیجا ہے کہ تیرے ساتھ سچ ہے۔ اگر انسانی تعلیم ہوتی تو اُس میں غلطی یا جھوٹ کا امکان ہوتا یا کوئی اور نقص ہوتا۔ مگر جو تعلیم تیرے پاس ہے وہ ہر قسم کے نقائص سے پاک ہہے اور جب وہ بالکل پاک ہے تو ماننا پڑے گا کہ وہ ہماری طرف سے ہے۔
دوسرے معنے یہ ہیں کہ ہم نے تجھے اس حال میں بھیجا ہے کہ تو ہی اس بات کا حق دار تھا کہ تجھے بھیجا جاتا اور تجھ پر کلامِ الہٰی نازل ہوتا۔ یہ لَوْلَا تَاْتِیْنَا اٰیَۃ کا جواب ہے۔ فرماتا ہے کہ چونکہ تو ہی حقدار تھا اس لئے ہم نے تجھے بھیجدیا وہ لوگ حقدار نہ تھے اگر وہ حقدار ہوتے تو ہم ان کا حق انہیں دے دیتے اور انہیں بھیج دیتے۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ باقی لوگ پھر کسی درجہ میں ہیں؟ سواس کے متعلق فرماتا ہے کہ باقی دو درجوں میں ہیں۔ اول اگر وہ اس مستحق شخص کے ذریعہ اس کلام کو مان لیں گے تو بشارات سے حصہ لیں گے۔ دوم اگر وہ نہیں مانیں گے تو منکرین میں داخل ہو کر خداتعالیٰ کے عذاب سے حصہ پائیں گے۔ اسی لئے فرمایا کہ تو بشیر اور نذیر ہے۔ یعنی کچھ لوگوں کے لئے تو بشارتیں لایا ہے اور کچھ لوگوں کے لئے انذار لایا ہے یہ دو قسم کی آیات ہیں جو بعض کو بچانے والی اور بعض کو تباہ کرنے والی ہیں۔ بشارت والی آیات پہلے ہوتی ہیں اور انذار والی آیات پیچھے ہوتی ہے۔ پہلے تو بشیر ہے اس لئے پہلے بشارت والی آیات آئیں گی پھر تو نذیر ہے جس کے نتیجہ میں انذار والی آیات آئیں گی یہ قانونِ قدرت ہے کہ اگر بعض کو بچانا اور بعض کو تباہ کرنا ہو تو پہلے بچانے والی آیات
وَلَنْ تَرْضٰی

مِنْ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیْرٍo
کا ظہور ہوتا ہے تاکہ جنہوں نے بچنا ہے وہ بچالئے جائیں۔
غرض فرماتا ہے کہ اے محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! تیرے تین مقامات ہیں۔
اول: تجھے اَرْسَلْنٰکَ بِالْحَقِّ کا مقام حاصل ہے۔
دوم: بشیر ہونے کا مقام حاصل ہے جس کا تعلق اُن بندوں سے ہے جو ایمان کی وجہ سے بچائے جاتے ہیں۔
سوم: نذیر ہونے کا مقام ہے جس کا اُن بندوں سے تعلق ہے جو انکار کرنے کی وجہ سے تباہ کر دیئے جاتے ہیں۔
بِالْحَقِّ کے ماتحت تجھ پر آیات کا نزول ہوتا ہے بشیر ہونے کی وجہ سے رحمت کی آیات کا نزول ہوگا اور پھر نذیر ہونے کی وجہ سے عذاب اور تباہی والی آیات کا نزول ہو گا۔
وَلَا تُسْئَلُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِیْمِ۔ فرماتا ہے ہمارارسول صرف کلامِ الہٰی پہنچانے کا ذمہ دار ہے۔ لگوں سے منوانا اس کا کام نہیں اگر وہ سب لگوں کو نہ منوا سکے اور کچھ رہ جائیں اور اپنے اعمال کی وجہ سے جہنم کے موردبن جائیں تو یہ کوئی اعتراض کی بات نہیں کیونکہ وہ سب کی نجات کا ٹھیکیدار نہیں۔ وہ تو مبلغ بنا کر بھیجا گیا ہے جو اس کے ذریعہ مان لیں گے وہ بچالئے جائیں گے اور نہ ماننے والے آہستہ آہستہ تباہ کر دیئے جائیں گے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تیرے پا س حق ہے اور تیرے ماننے والوں کے لئے کامیابی اور تیرے منکروں کے لئے تباہی اور ناکامی مقدر ہے۔ اور یہ وہ نشانات ہیں جو تیری صداقت کے لئے ظاہر کئے گئے ہیں مگر دلیل اس کے لئے کافی ہوتی ہے جو مانے کے لئے تیار ہو۔ لیکن جو شخص یہ کہتا ہو کہ خواہ کچھ ہوئیں نے ماننا ہی نہیں اس کو دلیل کچھ کام نہیں دیتی۔جیسا کہ یہود کے دو علماء ایک دفعہ آنحضرتصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس آئے جب واپس گئے تو اُن میں سے ایک نے دوسرے سے پوچھا کہ اس کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟ اُس نے کہا معلوم تو سچا ہی ہوتا ہے مگر جب تک دم میں دم ہے ماننا نہیں دوسرے نے کہا میرا بھی یہی ارادہ ہے پس جب کوئی شخص یہ ارادہ کر لے کہ ماننا نہیں تو سب دلائل بے کار ہو جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم تجھے کس طرح ذمہ دار قرار دیں سکتے ہیں ۔ ہم نے تو انسان کو آزاد بنایا ہے اور ہم نے اُسے کامل مقدرت اور اختیار دیا ہے کہ چاہے تو وہ قبول کرے اور چاہے تو رد کر دے۔ اور پھر ایک طبقہ ایسا بھی ہوتا ہے جو کہتا ہے کہ ہم نے نہیں ماننا۔ ایسے لوگوں کی موجودگی میں ہم تجھے کس طرح ذمہ دار قرار دے سکتے ہیں۔
۳۷؎ حل لغات:۔ ھَوٰٓی محاورہ میں ایسی خواہش کے معنوں میں آتا ہے جو گِری ہوئی ہوتی ہے۔ اصل میں ھَوْع گڑھے یا قعر کی چیز پر دلالت کرتا ہے۔ اس لئے یہ لفظ گِری ہوئی خواہش کے لئے استعمال ہوتا ہے اس میں بتایا ہے کہ اُن کی یہ خواہش نیچے کی طرف لے جانے والی ہے۔ قرآن کریم کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ اصلی اور حقیقی معنے بھی الفاظ میں مدنظر رکھتا ہے۔
وَلِیّ’‘ جو کسی کے کاموں کو چلائے ۔ محاورہ میں اس کے معنے دوست کے ہیں جو ذمہ دار ہو جائے اور وَلَایَۃ’‘ کے معنے حکومت کے بھی ہوتے ہیں پس وَلِیّ’‘ وہ ہے جو ایجنٹ اور وکیل اور ذمہ دار ہو۔
نَصِیْر’‘:مدد گار کے معنے دیتا ہے اس میں آدمی کام تو خود کرتا ہے مگر دوسرا اُسے سہارا دیتا ہے اور اُس کے لئے سہولت پیدا کرتاہے مد دو طرح کی ہوتی ہے اول یہ کہ انسان کلی طور پر دوسرے کا بوجھ اُٹھالے دوم جزئی طور پر بوجھ اُٹھالے۔
تفسیر:۔ اِس آیت میں اختلاف کی اصل وجہ بتلائی کہ یہود اور نصاریٰ تم سے اُس وقت تک خوش نہیں ہوں گے جب تک کہ تم اُن کی بات نہ مان لو اور یہ ہو نہیں سکتا کیونکہ تم کو اللہ تعالیٰ نے خود صداقت کی طرف ہدایت دی ہے پھر جب کہ یہ لوگ صرف رسمی ایمان رکھتے ہیں اور اُن کے ایمان کی بناء نسلی تعصبات پر ہے نہ کہ دلائل و براہین پر۔ اور باوجود صداقت پیش کرنے کے یہ لوگ اُسے قبول نہیں کرتے۔ تو جو شخص خداتعالیٰ کی طرف سے ہدایت یا فتہ ہے وہ مشاہدہ کے بعد صداقت کو کب چھوڑ سکتا ہے۔
قُلْاِنَّ ھُدَی اللّٰہِ ھُوَ الْھُدٰی۔ تُو اُنکو کہہ دے کہ ان رسمی ایمانوں کو ترک کرو اور خداتعالیٰ کی طرف ہے جو ہدایت ثابت ہو جائے اُسے قبول کرو۔ کہ اصل ہدیات وہی ہوتی ہے جو خداتعالیٰ کی طرف سے آئے ورنہ اپنی طرف سے ہدایت کے ذرائع تجویز کرنا اور اُن سے نجات کو وابستہ کرنا جُھوٹ ہے ۔نجات کے قابل صرف وہی شخص ہوتا ہے جو اس ہدایت کو جو خداتعالیٰ کی طرف سے آئے مان لے اور اُس پر چلے۔
وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَائَ ھُمْ میں گو مخاطب رسول کریمصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں لیکن مراد آپ کی جماعت کے لوگ ہیں۔اور یہ قرآن کریم کا ایک عام اسلوبِ بیان ہے ورنہ رسول کریمصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس بات سے بہت بالا و ارفع ہیں کہ آپؐ کی نسبت یہ کہا جائے کہ شاید آپ ؐ بھی خداتعالیٰ کے کسی حکم کی خلاف ورزی کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں آپؐ کی نسبت واضح الفاظ میں فرماتا ہے کہ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیق یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ(آل عمران آیت۳۱)یعنی اے رسول! تو لوگوں سے یہ کہہ دے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میری اتباع کرو۔ اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگے گا۔ اسی طرح فرماتا ہے۔ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃ’‘ حَسَنَۃ’‘(سورۃ احزاب آیت۲۲) یقینا تمہارے لئے محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں ایک نیک نمونہ پایا جاتا ہے۔ اگر تم نیک اور پاک بننا چاہتے ہو تو رسول اللہصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی کامل اتباع کرو۔ پس اس جگہ آپؐ سے نہیں بلکہ اُمت سے خطاب کیا گیا ہے اور ھَویٰ کا لفظ رکھ کر اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ بُری خواہشات انسان کو اسنیٰ حالت کی طرف لے جاتی ہیں اور اعلیٰ خواہشات دینی ترقی کی طرف لے جاتی ہیں۔ فرماتا ہے اگر انسان بُری خواشوں کو قبول کرے تو وہ نیچے کی طرف چلا جاتا ہے اور اپنے مقام کو کھو بیٹھتا ہے اگر کوئی اندھیرے میں گِر پڑے اور ٹھوکر کھائے تو وہ درگذر کے قبل سمجھا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص جان بوجھ کر گِر پڑے تو وہ قابل معانی نہیں ہو سکتا۔ جس سخص کو دھوکا لگا ہوا ہو اور وہ غلطی میں پڑا ہوا ہووہ قابلِ عفو ہو سکتا ہے لیکن جس شخص پر سچائی کھل جائے اور وہ پھر بھی نہ مانے تو وہ قابلِ عفو نہیں ہو سکتا۔
مَالَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَانَصِیْرٍ میں فرمایا کہ نہ کلی طور پر کوئی بوجھ اٹھانے والا ملے گا اور نہ جزئی طور پر اور مِنَ
اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ
ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ o
اللّٰہِ کہہ کر اس طرف اشارہ فرمایا کہ خداتعالیٰ کی طرف سے ایسے شخص کو ہی مدد مل سکتی ہے جو ہوا و ہوس کی پیروی کرنے والا نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے تابع ہو۔
۳۸؎ حل لغات:۔ تِلَاوَتِہٖ: تَلَا یَتْلُوْ کے معنے پڑھنے کے ہیں۔ پس یَتْلُوْ نَہ‘ حَقَّ تِلَا وَتِہٖ کے معنے یہ ہیں کہ وہ لوگ جن کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اسے اس طرح پڑھتے ہیں جس طرح اس کے پڑھنے کا حق ہے یا جس غور و فکر سے اس کو پڑھنا چاہیے اسی غورو فکر سے اُسے پڑھتے ہیں۔
(۲)تَلَا کے معنے پیچھے چلنے کے بھی ہیں۔ یعنی کہنے کے مطابق عمل کرنے کے۔ پس یَتْلُوْ نَہ‘ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ کے یہ بھی معنے ہیں کہ یَتَّبِعُوْ حَقَّ اِتِّبَا عِہٖ۔ جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اُس پر پورے طور پر عمل کرتے ہیں ان معنوں میں یہ لفظ قرآن کریم میں دوسری جگہ بھی استعمال ہوا فرماتا ہے وَالْقَمَرِ اِذَا تَلَاھَا(شمس آیت۳) کہ ہم چاند کو بطور شہادت کے پیش کرتے ہیںجبکہ وہ سورج کے پیچھے چلتا ہے۔ اس صورت میں حَقَّ بَلَاوَتِہٖ حال ہیں۔ دوسری صورت میں یہ خبر بنتا ہے حال نہیں رہتا۔ یعنی وہ لوگ جن کو ہم نے کتاب دی ہے اُن کو خبر یہ ہے کہ وہ اس پر پورے طور پر عمل کرتے ہیں۔
تفسیر:۔ اس جگہ لوگوں نے غلطی سے اَلْکِتٰب سے مراد بائیبل لی ہے۔ مگر یہ معنے اس جگہ کسی طرح چسپاں نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ اگر اس سے بائیبل مراد لیں تو اس صورت میں آیت کاترجمہ یہ بنتا ہے کہ جن لوگوں کو ہم نے بائیبل دی ہے وہ اس کی اس طرح پیروی کرتے ہیں جس طرح اس کی پیروی کرنی چاہیے اور وہ اس کی صداقت پر پختہ ایمان رکھتے ہیں حالانکہ نہ یہودی تورات پر عمل کررہے تھے اور نہ عیسائی انجیل پر عمل کرتے تھے پس یہ معنے یہاں چسپاں ہی نہیں ہو سکتے یہاں اَلْکِتٰب سے مراد وہی کتاب ہو سکتی ہے جس کے ماننے والے اس کی کامل پیروی کرتے تھے۔ جب بائیبل کے احکام پر عمل ہی نہیں کیا جاتا تھا تو اَلْکِتٰب سے تورا ت کس طرح مراد ہو سکتی ہے۔پھر اللہ تعالیٰ نے خود بتاتا ہے کہ رسول کریمصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں تورات انجیل سب محرف و مبدل ہو چکی تھیں۔ اور اپنی اصلی حالت میں محفوظ نہ رہی تھیں جیسا کہ وہ یہود کے متعلق فرماتا ہے کہ یَکْعُبُوْنَ الْکِتٰبَ بِاَیْدِیْھِمْ ثُمَّ یَقُلُوْنَ ھٰذَامَنْ عِنْدِ اللّٰہِ(بقرہ آیتأ۸۰) یعنی وہ اپنے ہاتھوں سے تورات میں بعض باتیں بڑھا دیتے اور پھر کہہ دیتے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ الہام ہے اتنی بڑی تحریف کے بعد اُن کی خوبیاں بیان کرنے اور تعریف کرنے کے کوئی معنے ہی نہیں ہو سکتے تھے۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر قرآن کریم کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ تورات اور انجیل ہی لوگوں کی ہدایت کے لئے کافی تھیں۔ پاس یہاں اَلْکِتٰب سے مراد قرآن کریم ہے نہ کہ تورات۔ چونکہ دوسری جگہ یہود کے لئے بھی اہل کتاب کا لفظ آیا ہے اس لئے لوگ غلطی سے یہاں بھی وہی مراد لے لیتے ہیں۔ حالانکہ ہمیشہ قرآن کو مدنظر رکھ کر معنے کرنے چاہییں۔ اگر کوئی غیر مشترک لفظ ہو تو پھر تو کوئی جھگڑا ہین ہیں ہوتا۔ لیکن مشترک لفظ ہو تو پھر قاعدہ یہ ہے کہ قرینہ دیکھا جاتا ہے اور یہ بھی کہ آیت کے معنے کس فریق پر چسپاں ہو سکتے ہیں چونکہ اَلْکِتٰب کا لفظ تورات پر بھی بولا جاتا ہے اور قرآن کریم پر بھی اس لئے ہمیں دیکھنا چاہیے کہ اس جگہ اَلْکِتٰب کا لفظ کس کے متعلق استعمال کیا گیا ہے۔ حضرت قتادہؓ جو رئیس للتابعین ہیں اُن کا قول ہے کہ اس جگہ اَلَّذِ یْنَ اٰتَیقنٰھُمُ الْکِتٰبَ سے مسلمان مراد ہیں اور اَلْکِتٰب سے مراد قرآن کریم ہے (ابن کثیر جلد۱ صفحہ۲۸۲)درحقیقت اس آیت سے اللہ تعالیٰ نے یہود کو ملزم قرار دیا ہے کہ تم نے تو تورات کو پسِ پشت پھینک رکھا تھا مگر اب یہ لوگ جن کو ہم نے قرآن کریم دیا ہے اس پر پوری طرح عمل کرتے ہیں۔ اور خداتعالیٰ کے دین کو قائم کرنے کے لئے اُس کے ایک ایک حکم کو بجا لاتے ہیں۔ تم کہتے تھے کہ ہمارے پس سچی کتاب ہے حالانکہ اگرتمہارے پاس سچی کتاب ہوتی تو چاہیے تھا کہ تم اس پر عمل بھی کرتے اور تم ہدایت یافتہ وجود ہوتے۔ مگر تم خود بھی تسلیم کرتے ہو کہ ہم خراب ہو گئے ہیں اس لئے لازماً اب کوئی ایسی قوم ہونی چاہیے تھی جو اپنا مال اپنا آرام اور اپنی جانیں قربان کرتی اور خداتعالیٰ کے دین کو ازسرِ نو قائم کرتی اورچونکہ یہ لوگ اپنا مال اور آرام اور اپنی جانیں اسلام کے لئے قربان کر رہے ہیں اس لئے معلوم ہا کہ یہی لوگ حق پر ہیں اور جس کتاب پر ایمان لائے ہیں وہ خداتعالیٰ کی طرف سے ہے کیونکہ جو کتاب دنیا میں ہدایت قائم کر دیتی ہے وہی خدا کی طرف سے نازل شدہ سمجھی جاتی ہے۔
اُولٰٓئِکَ یُوْ مِنُوْنَ بَہٖ یہ دوسرا جملہ ہے یعنی وہی اس پر پختہ ایمان لاتے ہیں یہ اس رسمی ایمان کے علاوہ ہے جس کا پہلے ذکر آچکا ہے۔ دراصل ایمان کے دو مدارج ہیں پہلا درجہ دلیل کے ساتھ ایمان لانا ہے مگر دلیل انسان کو اس مقام ت نہیں پہنچاتی جسے مشاہدہ کا مقام کہتے ہیں۔ وہ ماننا ایسا ہی ہوتا ہے جیسے بادشاہ یا حاکم وقت کی حکومت مان لی جائے۔ مگر دوسرا درجہ انکشاف کا ہوتا ہے۔ اس مقام پر پہنچ کر انسان کا خدا تعالیٰ سے اتصال ہو جاتا ہے اور رسمی ایمان حقیقی ایمان کی شکل اختیار کر کے اس کا جزوبن جاتا ہے اور اُسے بشاشت قلبی حاصل ہو جاتی ہے جس کے بعد اُس کے لئے کسی ارتداد یا ٹھوکر کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
وَمَنْ یَّکْفُرْ بِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْخَاسِرُوْنَ کے الفاظ بھی بتاتے ہیں کہ اَلْکِتٰب سے یہاں قرآن کریم ہی مراد ہے نہ کہ بائیبل۔ کیونکہ قرآن کریم کی موجودگی میں بائیبل کا انکار کرنیوالے خاسر نہ تھے بلکہ بائیبل پر عمل کرنیوالے خاسر تھے صرف قرآن کریم ہی ایک ایسی کتاب ہے جس پر ایمان نہ لا کر انسان خسارہ پاتا ہے لیکن باقی کتابوں کو چھوڑ کر انسان خسارہ نہیں بلکہ نفع پاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتا ہے اس رکو ع کی آیت۱۱۴ میں یہود نصاریٰ کی ایک اور بدی بیان فرمائی تھی کہ یہ ایک دوسرے کو ازراہ تعصب و ضِد بُرا کہتے ہیں اور انکی کسی خوبی کے بھی قائل نہیں حالانکہ ایک کتاب کو ماننے کی وجہ سے ان میں کچھ باتیں مشترک بھی ہیں۔ آیت نمبر۱۱۵ میں بتایا کہ اُن کا بُغض اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ایک دوسرے کو عبادت کرتے دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے مقدس مقامات میں گھسنے نہیں دیتے حالانکہ عبادتخانوں کے معاملہ میں نہایت خوف سے کام لینا چاہیے آیت۱۱۶ میں مسلمانوں کو بتایا کہ اں کی مخالفت سے مت ڈرو۔ یہ موردِ غضب الہٰی ہو رہے ہیں۔ جدھر تمہاری توجہ ہو گی اُدھر ہی اللہ تعالیٰ تمہاری کامیابی کے سامان پیدا کر ے گا۔ آیت۱۱۷ میں یہودی مذہب کی شاخ مسیحیت کی بُرائی بھیی بتا دی تاکہ اُن کو بھی معلوم ہو جائے اُن میں نبی کیوں پیدا نہ ہوا اور کیوں وہ مکالمہ و مخاطبہ الہیہ کی نعمت سے محروم ہیں آیت۱۱۸ میں انبیت کے غلط مفہوم کی تین دلائل سے تردید فرمائی۔ آیت۱۱۹ میں اُن کے دو اعتراضوں کے جواب دیئے۔ اول اس کا کہ اگر ہم غلطی پر ہیں توخداتعالیٰ بذریعہ الہام ہمیں کیوں آگاہ نہیں کرتا۔
یٰبَنِیْ ٓ اِسْرَآئِ یْلَ
عَلَی الْعٰلَمِیْنَo
دوم ہم پر باوجود مخالفت کے عذاب کیوں نازل نہیں ہوتا۔ آیت۱۲۰ میں بتایا کہ ہر رسول بشیر اور نذیر ہوتا ہے۔ پس عذاب تو ضرور آئیگا مگر آہستہ آہستہ ۔ آیت۱۲۱ میں مخالفت کی اصل وجہ بتائی کہ اُن کی خواہشات کے مطابق تمہاری تعلیم نہیں۔ اس کا جواب یہ دیا کہ صراطِ مستقیم وہی ہے جس پر خداتعالیٰ قائم کرے پس جو ہدایت کو دیکھ کر پھر گمراہی کی طرف جھکیگا وہ سزا پائے گا۔آیت۱۲۲ میں فرمایا کہ مسلمان جن کو ہم نے قرآن کریم عطا کیا ہے اور جو اس کی تعلیم پر کامل طور پر عمل پیرا ہیں وہ ایک دن کامیاب ہون گے اور خسارہ پانے والے صرف وہی لوگ ہونگے جو اس کتاب کے منکر ہیں۔
۳۹؎ تفسیر:۔ وہ مضمون جو گذشتہ رکوع پر ختم کیا گیا ہے پانچویں رکوع سے شروع ہوا تھا۔ حضرت آدم علیہ السلام کا واقعہ بیان کرنے اور اس بات کی طرف اشارہ کرنے کے بعد کہ کلامِ الہٰی کا نزول ابتدائے انسانیت سے جاری ہے بنی اسرائیل کے انعامات کا ذکر کیا گیا تھا۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ یٰبَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ اذْ کُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَاَوْفُوْابِعَھْدِیْٓ اُوْفِ بِعَھْدِ کُمْ وَاِیَّایَ فَارْھَبُوْنِ(بقرہ آیت۴۱) یعنی اے بنی اسرائیل! میری اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر کی تھی اور میرے عہد کو پورا کرو میں تمہارا عہد پورا کروں گا اور صرف مجھ سے ہی ڈرو۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ حضرت آدم علیہ السلام سے نبوت شروع ہو کر حضرت موسیٰ علیہ السلام تک آئی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے لیکر حضرت مسیح ؑ ناصری کے زمانہ تک پہنچی۔ پس جب وہ تمہارے قریب ترین زمانہ تک چلی آئی ہے اور اس میں کوئی انقطاع واقع نہیں ہوا تو کوئی وجہ نہیں کہ جو سلسلہ ابتدائے عالم سے چلا آرہا ہے اسے اب تم ختم سمجھو اور محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رسالت سے انکار کردو۔ قرآن کریم کا طریق ہے کہ جب وہ کسی مضمون کو ختم کرنا چاہتا ہے تو وہاں کوئی قرینہ رکھ دیتا ہے جس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اب نیا مضمون شروع ہونے والا ہے۔ اس جگہ بھی یٰبَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ فرما کر اللہ تعالیٰ نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ اے بنی اسرائیل ان تمام باتوں کے بعد جو ہم نے تمہارے سامنے بیان کی ہیں تم یاد تو کرو کہ میں نے اپنی نعمت تم پر کس طرح مکمل کی اور اس بات کو بھی یاد کرو کہ میں نے تم کو تمام قوموں پر فضیلت دی یعنی دو قسم کی برکات تم پر نازل ہوئیں ایک تو یہ کہ نعمت بنوت تمہیں عطا ہوئی اور دوسرے وہ نعمت ایسی تھی جس نے تمام قوموں پر تمہیں فضیلت دی تھی۔ اس جگہ بنی اسرائیل کو پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے متواتر انعامات یاد دلا کر اس طرف توجہ دلائی ہے کہ بنی اسرائیل کو اب شکایت کا کوئی حق نہیں کہ نعمتِ نبوت بنو اسمعٰیل کو کیوں عطا کی گئی ہے کیونکہ ان سے وعدہ پورا ہو چکا ہے اب جس خدا نے ان کا وعدہ پورا کیا ضروری تھا کہ وہ بنو اسمعٰیل کا وعدہ بھی پورا کرتا۔ کیونکہ حضرت ابراہیم ؑ سے خداتعالیٰ نے یہ وعدہ کیا تھا کہ میں اُن کے دونوںبیٹوں کے ساتھ نیک سلوک کرونگا جب ایک سے وعدہ پورا ہوا تو ضروری ہے کہ دوسرے سے بھی پورا ہو۔ پس اب اُن کے لئے کسی شکایت کا موقعہ نہیں۔
اِنِّیْ فَضَّلْتُکمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ۔ یہ قرآن کری کا محاورہ ہے کہ جس قوم میں اللہ تعالیٰ کا کوئی نبی آئے اور اُسے کلامِ الہٰی کی نعمت سے سرفراز فرمایا جائے اُس کے لئے فَضَّلْتُکُمْ کے الفاظ آتے ہیں۔ کیونکہ الہام کو باقی علوم پر فضیلت ہوتی ہے۔ باقی علوم میں غلطیاں بھی ہو سکتی ہیں۔ مگر الہام میں کوئی غلطی نہیں ہوتی۔ اس لئے جو قوم موردِ الہام الہٰی ہو وہ تمام قوموں پر فضیلت رکھتی ہے ۔ اس میں عالمین سے تمام دنیا کی قومیں مراد نہیں۔ بلکہ صرف وہ قومیں مراد ہیں جن میں الہام الہٰی کا سلسلہ جاری نہیں تھا۔ کیونکہ اس جگہ صرف وحی نبوت کو فضیلت کا موجب قرار دیا گیا ہے پس وحی الہٰی کی مورد اقوام اس میں شامل نہیں بلکہ صرف غیر وحی والی اقوام عالمین میں شامل ہیں۔ اسلئے یہ جھگڑا ہی غلط ہے کہ اس قوم کو اس پر فضیلت ہے اور اس کو اُس پر فضیلت ہے کیونکہ یہ الفاظ قرآن کریم میں مختلف اقوام کے متعلق استعمال ہوئے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ قرآن کریم کا یہ ہرگز منشا نہیں کہ وہ تمام قومیں ایک دوسرے پر فضیلت رکھتی ہیں مثلا سورۃ آل عمران میں آتا ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی اٰدَمَ وَ نُوْ حًا وَّ اٰلَ اِبْرَاھِیْمَ وَاٰلَ عِمْرَانَ عَلَی الْعَالَمِیْنَ(آل عمران آیت۳۴)یعنی اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ اور نوح ؑ اور اٰل ابراہیم ؑ اور اٰل عمران کو تمام جہانوں پر فضیلت دی تھی۔ اب اس میں یہ ذکر ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو بھی تمام جہانوں پر فضیلت دی تھی اور حضرت نوح علیہ السلام کو بھی تمام عالموں پر فضیلت دی تھیا ور آل ابراہیم ؑ اور آل عمران کو بھی تمام جہانوں پر فضیلت دی تھی حالانکہ اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو تمام بنی آدم پر فضیلت تھی توپھر حضر ت نوح علیہ السلام کو تمام پر فضیلت حاصل نہیں ہو سکتی کیونکہ آدم ؑ اُن کے دائرہ سے نکل گئے۔ اور اگر حضرت نوح علیہ السلام کو باہر نکال لیں تو آدم علیہ السلام کو سب پر فضیلت نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح آلِ ابراہیمکے متعلق فرمایا ہے کہ ہم نے اُسے بھی تمام جہانوں پر فضیلت دی تھی اب اگر بنو اسمعٰیل کو سب پر فضیلت ہو تو بنو اسحاق کو نہیں ہو سکتی اور اگر بنو اسحاق کو سب پر فضیلت ہو تو بنو اسمعٰیل کو سب پر فضیلت نہیں ہو سکتی اور اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسل کو سب پر فضیلت ہو تو آل ابراہیم ؑ کو سب پر فضیلت نہیں ہو سکتی اور اگر آلِ عمران کو سب پر فضیلت حاصل ہو تو آلِ ابراہیم ؑ کو سب پر فضیلت نہیں ہو سکتی پس اس آیت کے یا تو یہ معنے ہیں کہ اُن سب کو اپنے اپنے زمانہ میں باقی تمام لوگوں پر فضیلت حاصل تھی اور یا پھر یہ معنے ہیں کہ صاحبِ وحی کو غیر صاحبِ وحی پر فضیلت ہو تی ہے۔ وحی کو تو صرف ایک عالم ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا راستہ ایک ہی ہے لیکن کفر کے کئی عالم ہوتے ہیں۔ ان عالموں کے افراد نزولِ وحی کو بھول کر باطل باتیں اپنی طرف منسوب کر لیتے ہیں اور اپنے آپ کو کسی نبی کی طرف نہیں بلکہ کسی فلسفی کی طرف منسوب کر نے لگ جاتے ہیں۔ جیسے بہت سے عیسائی اپنے آپ کو فلسفہ کا تابع قرار دیتیہ یں مسلمان بھی آہستہ آہستہ یونانی فلسفہ کی طرف مائل ہو گئے تھے۔ اور گو کوئی قوم ایسی نہیں جس کی بناء کسی مذہب کے ہاتھوں نہ رکھی گئی ہو لیکن افراد کے لحاظ سے کروڑوں ایسے ہیں جو کسی کتاب کے تابع نہیں ہیں۔ اسی طرح الہام کی اتباع کا دعویٰ کرنے کے باوجود ہزاروں مسلمان ایسے ہیں جو مذہب سے بیگانہ ہیں اور فلسفہ کے قائل ہیں غرض تمام علمی اور اخلاقی اور اعتقادی باتوں پر الہام کو ہمیشہ فضیلت حاصل رہی ہے۔فلسفیوں کی باتیں کمزور اور ناقص نظر آئیں گی اور الہام الہٰی کی باتیں مضبوط اور غالب دکھائی دینگی۔
پس فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعَالَمِیْنَ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمت کی تشریح کی ہے اور بتایا ہے کہ اس نعمت سے مراد انبیاء اور رُسُل کا ایک لمبا سلسلہ ہے جو بنی اسرائیل میں جاری رہا جیسا کہ قرآن کریم میں سورۃ فاتحہ میں ایک طرف تو مومنوں کو یہ دُعا
وَاتَّقُوْا یُوْمًا

ھُمْ یُنْصَرُوْنَ o
سکھلائی کہ اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ اور دوسری طرف منعم علیہ گروہ کی تعیین کرتے ہوئے فرمایا کہ وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّیِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَآئِ وَالصّٰلِحِیْنَ(سورہ نساء آیت۷۰) یعنی جو لوگ اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرینگے وہ اُن لوگوں میں شامل ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا۔ یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین پس چونکہ کمالِ انعام وحی سے تعلق رکھتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے تم پر وحی نازل کر کے تمہیں غیر وحی والی قوموں پر بڑی بھاری فضیلت دی تھی اور جس طرح یہ کمال تمہیں صرف وحی کی وجہ سے حاصل ہوا تھا اسی طرح اب مسلمانوں کو تم پر وحی کے ذریعہ فضیلت دے دی گئی ہے۔ اگر تم اسے رد کرو گے تو تمہارا بھی وہی حال ہو گا جو تمہارے مقابل پر دوسروں کاہوا تھا۔ بنی اسرائیل تجربہ کر چکے تھے کہ بڑے بڑے فلاسفر موسیٰ ؑ کے الہام کے مقابلہ پر اائے مگر ان تمام کو تورات نے شکست دی ۔ پس فرمایا کہ اگر تم اس کے مقابلہ پرآئو گے تو تمہاری عقلیں بھی کسی کام نہ آئیں گی اور تم اس کے مقابلہ میں ناکام رہو گے۔
۴۰؎ تفسیر:۔یہ آیت سورۃ بقرۃ کے رکوع۶ میں بھی آچکی ہے مگر اس فرق کے ساتھ کہ اُس آیت میں لَایُقْبَلُ مِنْھَا شَفَاعَۃ’‘ تھا اور اس میں لَایُقْبَلُ مِنْھَا عَدْل’‘ ہے پھر پہلی آیت میں جہاں وَلَا یُوْ خَذُ مِنْھَا عَدْل’‘ تھا وہاں اس آیت میں وَلَا تَنْفَعُھَا شَفَاعَۃ’‘ رکھ دیا۔اسی طرح پہلی آیت میںعدل کا ذکر تیسری جگہ تھا اور شفاعت کا دوسری جگہ اور اس میں شفاعت کا تیسری جگہ اور عدل کا دوسری جگہ ذکر ہے۔ گویا اِن دو آیات میں تین فرق ہیں۔(۱)ایک فرق تویہ ہے کہ پہلی آیت میں شفاعت کا ذکر پہلے تھا اور عدل کا بعد میں لیکن دوسری آیت عدل کا ذکر دوسری جگہ آگیا ہے اور شفاعت کا ذکر تیسری جگہ۔ (۲) دوسرا فرق یہ ہے کہ پہلی آیت میں عدل کے متعلق لَا یُؤْ خَذُ کے الفاظ تھے اور دوسری آیت میں لَا یُقْبَلُ آگیا۔(۳) تیسرا فرق یہ ہے کہ پہلی آیت میں شفاعۃ کے لئے لَایُقْبَلُ تھا اور دوسری جگہ آیت میں لَاتَنْفَعُھَا کر دیا گیا ہے۔ اس فرق کی وجہ سے یہ ہے کہ پہلی آیت اس مقام پر بیان کر گئی ہے جبکہ ابھی بنی اسرائیل کے عیوب شمار نہیں کئے گئے تھے۔ اور یہ قدرتی بات ہے کہ جب تک انسان پر اپنی کمزوریاں نہیں کُھلتیں اُس کی اُمیدیں وسیع ہوتی ہیںاور وہ اپنے بزرگوں کی امداد ر زیادہ بھروسہ رکھتا ہے۔ اس لئے پہلی آیت میں شفاعت کو پہلی رکھا گیا ہے۔ کیونکہ یہود یہ اُمید رکھتے تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہماری شفاعت کر کے ہمیں بچالیں گے اور وَلَا یُؤْ خَزُ مَنْھَا عَدْل’‘ کو بعد میں رکھا گیا۔کیونکہ جسے شفاعت کی اُمید ہو وہ عدل دینے پر زیادہ آمادہ نہیں ہوتاکیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ بغیر اس کے بھی کام نکل جائیگا ۔ لیکن اس آیت کے بعد جب یہود کی نافرمانیاں اور انبیاء کی مخالفتیں چھٹے رکوع سے شروع کر کے پندرھویں رکوع تک بیان کر دی گئیں اور ان کی مخالفتِ انبیاء کا راز فاش کر دیا گیا تو ان کی یہ اُمید بھی جاتی رہی کہ نبی ہماری شفاعت کرینگے ۔ اس لئے اب طبعی ترتیب یہ ہو گی کہ عدل کا ذکر پہلے ہو اور شفاعت کا بعد میں کیونکہ اب وہ شفاعت پر زیادہ زور نہیں دے سکتے تھے اور اُن کی یہ امید کمزور ہو گئی تھی صرف عدل ہی رہ گیا تھا کہ شاید بدلہ دے کر چھوٹ جائیں اس لئے پہلے عدل رکھا کہ اب وہ عدل پر زیادہ زور دینے لگے ہیں۔
اسی طرح پہلی آیت میں لَا یُؤْ خَذُ مَنْھَا عَدْل’‘ اور دوسری میں لَا یُقْبَلُ مِنْھَا عَدْل’‘ ہے۔ اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ قبولیت اخذسے اعلیٰ لفظ ہے اور اپنے اندر اعزاز کا ایک رنگ رکھتا ہے۔ جیسے کہتے ہیں کہ بادشاہ نے فلاں چیز قبول کرلی۔ یہ کبھی نہیں کہتے کہ فقیر نے بادشاہ کی عطا کردہ چیز قبول کر لی لیکن اخذ میں یہ بات نہیں ہوتی۔ اخذ جس کے معنے لینا ہے ادنیٰ چیز اعلیٰ کے بدلہ میں لینے یا اعلیٰ چیز ادنیٰ کے بدلہ میں لینے یا ایک ہی جیسی قیمت رکھنے والی چیزیں ایک دوسرے سے لینے کے لئے استعمال ہوتا ہے جب تک یہود کی اُمیدقائم تھی اور اُن کے عیوب گنائے نہیں گئے تھے۔ یہ فرمایا کہ اُن سے عدل نہیں لیا جائیگا۔ اور ’’لیا جائیگا‘‘ کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ خود لینے والا لے لے۔ اور اس طرح ھساب پورا کر لے۔ لیکن لَا یُقْبَلُ سے یہ مراد ہوتی ہے کہ دینے والا خود اصرار سے دیتا ہے لیکن پھر بھی نہیں لیا جاتا۔ اور یہ بات مایوسی کی حالت میں پیدا ہوتی ہے پس یہ تبدیلی بھی پندرھویں رکوع میں موقع کے لحاظ سے کی گئی ہے۔ اور بتایا گیا ہے کہ وہ تو مایوسی کی حالت میں چاہیں گے کہ معاوضہ لے لیا جائے مگر معاوضہ قبول نہیں کیا جائیگا۔
تیسری تبدیلی یہ ہے کہ پہلی آیت میں شفاعت کے لئے لَا یُقْبَلُ آیا تھا اور کہا گیا تھا کہ لَا یُقْبَلُ مَنْھَا شَفَاعَۃ’‘ لیکن دوسری آیت میں لَا تَنْفَعُھَاشَفَاعَۃ’‘ آیا ہے۔ یہ تبدیلی بھی موقع کے لحاظ سے ضروری تھی۔ جب تک یہود کے عیوب بیان نہیں کئے گئے تھے وہ اُمید کر سکتے تھیکہ ہم انبیاء کی شفارش پیش کرینگے اور وہ قبول ہو جائیگی۔ اس خیال کے مناسب حال یہ ہے کہ رکوعوں میں جب انبیاء کی مخالفتیں اور یہود کے دوسرے عیوب گِنائے گئے تو یہود کی یہ اُمید منقطع ہو گئی کہ ہم خود شفاعت پیش کر سکے گے۔ لیکن یہ امید اب بھی ہو سکتی تھی کہ شاید انبیاء ہی رحم کر کے ہماری شفاعت کر دیں۔ اس لئے پندرھویں رکوع میں وَلَا تَنْفَعُھَا شَفَاعَۃ’‘ کہا گیا ہے۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ سفارش کرنے والوں کی سفارش سے اور لوگ تو فائدہ اُٹھائیں گے مگر ان کے حق میں کوئی شفاعت کی ہی نہیں جائیگی کہ یہ اس سے فائدہ اُٹھاسکیں۔ لَا تَنْفَعُھَا سے یہ مراد نہیں کہ شفاعت تو ہو گی مگر مانی نہیں جائے گی بلکہ مراد یہ ہے کہ اُن کے حق میں کوئی از خود بھی شفاعت نہیں کریگا آخر شفاعت تو اِذْن سے ہوتی ہے بغیر اِذن کے کون شفاعت کرسکتاہے ۔ پس جب اِذْن نہ ہو گا تو شفاعت بھی نہیں ہو گی۔اور جب شفاعت نہ ہو گی تو اس رحمت کے دروازے سے بھی وہ فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔ غرض یہ سب تبدیلیاں بالکل موقعہ کے مناسب ہیں اور قرآنی ترتیب کے کمال کی ایک زبردشت شاہد ہیں
حقیقت یہ ہے کہ جب قومیں اپنے تنزل کے دور میں اعمال صالحہ کی بجا آوری میں کمزور ہو جاتی ہیں تو وہ شفاعتِ انبیاء پر زور دینے لگ جاتی ہیں۔ صحابہؓ کے اقوال میں ہمیں یہ بات کہیں نظر نہیں آتی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شفاعت سے ہم نجات حاصل کرلیں گے۔ بلکہ اُن کے کلام میں نیکی اور تقویٰ اور قرآن کریم پر عمل اور قربانیاں کرنے پر خاص طور پر زور پایاجاتا ہے مگر جوں جوں انبیاء سے بُعد ہوتا جاتا ہے لوگ یہ کہنے لگ جاتیہ یں کہ ہم اپنے نبیوں کی شفاعت سے جنت میں چلے جائیں گے۔ چونکہ یہود بھی شفاعتِ انبیاء پر بھروسہ کر کے بیٹھے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کا اس آیت میں رد کیا ہے اور بتایا ہے کہ ان کا یہ خیال اُن کو کچھ فائدہ نہیں دیگا۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اس لئے ابراہیم ؑ ہماری شفاعت کریں گے یا ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت میں سے ہیں اس لئے موسیٰ ؑ ہماری شفاعت کرینگے وہ غلطی پر ہیں۔
جب اس مضمون کو رکوع ۶ سے شروع کیا گیا تھا تو اس وقت چونکہ یہود کے اس دعوے کو رد کرنے پر خاص طور پر زور دینا مدنظر تھا کہ انبیاء ہماری شفاعت کریں گے اس لئے شفاعت کو جس پر سارازور تھا مقدم رکھا۔ اور فرمایا کہ ان کے متعلق نہ شفاعت قبول کی جائیگی جسے یہ اپنا حق سمجھتے ہیں اور نہ یہ اپنے بد اعمال کا معاوضہ پیش کر سکیں گے۔
لَایُقْبَلُ مَنْھَا شَفَاعَۃ’‘ کے الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے انہیں شرمندہ کیا ہے کہ تم کس منہ سے کہتے ہو کہ انبیاء ہماری شفاعت کرینگے کیا تم نے موسیٰ علیہ السلام کی اطاعت کی تھی۔ کیا سلیمان علیہ السلام کی اطاعت کی تھی کی اعیسیٰ علیہ السلام کی اطاعت کی تھی۔ کیا دوسرے انبیاء کی اطاعت کی تھی تم نے ہر ایک کا انکار کیا۔ اور اس کی مخالفت کی ۔ اب محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم آئے تو تم نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ ہم میں سے نہیں ہیں ۔ اس لئے ہم اس پر کس طرح ایمان لائیں۔ حالانکہ سوال یہ ہے کہ تم نے کس نبی کی مخالفت نہیں کی؟ تم ہر ایک سے لڑتے رہے اور تم نے ہر ایک کی تکذیب کی پس جب ہر ایک کی تم تکذیب ہی کرتے رہے ہو تو اب تمہاری کون شفاعت کریگا۔ کیا موسیٰ علیہ السلام کریں گے جن کو تم نے فَاذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَٓا اِنَّا ھٰھُنَا قَاعِدُوْنَ(مائدہ آیت۲۵) کہا تھا یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کرینگے جن کو تم نے کافر قرار دیا تھا۔ آخر تم کس کی شفاعت کے امیدوار ہو۔ اس کے بعد چونکہ شفاعت پر اُن کو زیادہ گھمنڈ نہیں ہوسکتا تھا اور اُن کی ہمتیں ٹوٹ چکی تھیں اس لئے اب قدرتی طور پر انہیں یہی خیال ہو سکتا تھا کہ کوئی بدلہ لے کر چھوڑ دے۔ اس وجہ سے مضمون بھی تبدیل کر دیا گیا اور عدل کو پہلے اور شفاعت کو بعد میں رکھ دیا گیا اور مایوسی کے کمال کو ظاہر ہونے کے لئے یُؤْخَذُ کے بجاے عدل کے ساتھ یُقْبَلُ کا لفظ رکھا گیا۔ یعنی وہ تو چاہیں گے کہ بدلہ لے لیا جائے لیکن اللہ تعالیٰ اسے قبول نہیں کرے گا۔ اسی طرح شفاعت کے ساتھ تَنْفَعُھَا کے الفاظ رکھدیئے کہ شفاعت کرنیوالے دوسروں کی تو شفاعت کرینگے مگر اںن کے حق میں انہیں اِذْن ہی نہیں دیا جائیگا۔ کہ شفاعت اُن کو فائدہ دے سکے گویا نہ ان کے اعمال اُن کے کام آئیں گے اور نہ شفاعت ان کو کوئی نفع دیگی۔ شفاعت کی قبولیت درحقیقت کلی طور پر ہوتی ہے اگر شفاعت قبول ہو جائے تو انسان جنت میں چلا جاتا ہے لیکن اعمال صرف جزئی طور پر فائدہ دے سکتے ہیں یعنی جتنے عمل اچھے ہوں اتنے کام آسکتے ہیں پس فرمایا کہ ان کو قلیل طور پر بھی نفع نہیں ہو سکتا اور نہ شفاعت کے ذریعہ قلی طور پر نفع ہو سکتا ہے۔
تیسری صورت یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے معاف کر دے۔ اس کے لئے فرما دیا کہ وَلَا ھُمْ یُنْصَرُوْنَ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی انہیں کوئی مدد نہیں دی جائیگی۔ غرض تین ہی صورتیں ہو سکتی تھیں اور تینوں کی نفی کر دی گئی ہے یعنی نہ توان کے حق میں شفاعتِ انبیاء ہو گی اور نہ ان کے اعمال اُن کے کام آئیں گے اور نہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں کوئی مدد حاسل ہو گی۔ صرف یہی صورت ان کی نجات کی تھی کہ اول اللہ تعالیٰ اپنا فضل نازل کر کے انہیں معاف کر دے۔ دوم انبیاء اُن کی شفاعت کر کے انہیں اپنے ساتھ ملا لیں۔ سوم ان کے اپنے اعمال انکے کام آجائیں اور وہ انکو اللہ تعالیٰ کے فضل کا مستحق بنا دیں مگر اُن کے لئے یہ تینوں راستے بند کر دیئے گے ہیں۔ نہ انکی شفاعت ہوگی نہ انکے اعمال ایسے ہیں کہ وہ انہیں بچا سکیں اور نہ ہم مدد دینگے۔
وَاِذِ ابْتَلٰٓی اِبْرٰھِمَ

عَھْدِی الظّٰلِمِیْنَo
۴۱؎ حل لغات:۔ اِبْتَلیٰ کے دو معنے ہیں۔ اول کسی کی مخفی باتوں کو معلوم کرنا۔ دوم کسی کی پوشیدہ قابلیتوں کو خواہ وہ نیک ہوں یا بد اچھی ہوں یا بُری ظاہر کرنا جب اس لفظ کی نسبت اللہ تعلایٰ کی طرف ہو اور کہا جائے ۔اِبْتَلَی اللّٰہُ فُلَانًا تو اس سے دوسرے معنے مراد ہوتے ہیں۔ یعنی کسی کی پوشیدہ قابلیتوں کو ظاہر کردیا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات عالم الغیب ہے اُسے خود کوئی بات معلوم کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
کَلِمَۃ’‘ کے معنے حکم کے ہوتے ہیں اور حکم میں اوامرونواہی دونوں شامل ہیں۔(مفردات راغب)
اَلْاِمَامُ کے معنے ہیں اَلْمُؤَ تَمُّ بِہٖ جسے اُسوہ بنایا جائے۔ اور جس کے قول و فعل کی اقتداء کی جائے۔(۲) عربی زبان میں کتاب کو بھی امام کہتے ہیں۔ کیونکہ اس کے احکام کو مانا جاتا ہے۔
تفسیر:۔ فرماتا ہے تم اُس وقت کو بھی یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اندرونی نیکی اور تقویٰ کو لوگوں پر ظاہر کرنا چاہا۔ تاکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مخفی رُوحانی طاقتیں اور قابلیتیں اُں کو معلوم ہو جائیں چنانچہ ان قابلیتوں کو ظاہر کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اُن احکام کو پورا کر دیا۔ ار اس طرح دُنیا کو معلوم ہو گیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام میں اطاعت اور فرمانبرداری کی جو اعلیٰ طاقتیں و دیعت ہیں وہ دوسروں میں نہیں ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ حکم دیا کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کو خداتعالیٰ کی راہ میں ذبح کر دیں۔ جب وہ ظاہری طور پر اس عمل کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہماری یہ مراد نہیں بلکہ کچھ اور مراد ہے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کا منشاء اس رنگ میں ظاہر ہوا کہ اُس نے انہیں حکم دیا کہ وہ ہاجرہ اور اسمعٰیل کو ایک وادی غیر دی زرع میں چھوڑ آئیں۔ چنانچہ وہ انہیں وہاں چھوڑ آئے۔ اور اس امتحان میں کامیاب ہو گئے اور اس طرح دنیا کو معلوم ہو گیا کہ وہ خداتعالیٰ کی ہر بات پر لبیک کہنے والے ہیں۔ خواہ بادی النظر میں وہ کتنی ہی بھیانک اور خوفناک کیوںنہ ہو۔
یہاں وَاِذِ ابْتَلیٰٓ اِبْرٰھٖمَ رَبُّہ‘ بِکَلِمٰتٍ فرمایا ہے اور کَلِمٰتٍ جمع کا صیغہ ہے مگر مشہور اُنکے بیٹے کو ذبح کا واقعہ ہے لیکن طالمود میں لکھا ہے کہ اُن کی دس آزمائشیں ہوئی تھیں(جوزف بارصلے کی طالمودصفحہ۲۳۲)
اِنِّیْ جَا عِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَا مًا میں امامت سے نبوت مراد نہیں کیونکہ نبوت تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پہلے ہی حاصل ہو چکی تھی۔ اس جگہ امامت سے انہیں لوگوں کے لئے ایک نمونہ اور مقتدیٰ بنانا مراد ہے اور لِلنَّاسِ سے مراد انسانوں کا عظیم الشان گروہ ہے۔درحقیقت اِس میں آئندہ کے متعلق ایک وعدہ کیا گیا تھا۔ ورنہ اُس زمانہ میں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ صرف چند ہی لوگ تھے۔ چنانچہ دیکھ لو آج دنیا کے کثیر حصہ میں وہ امام اور مقتدی سمجھے جاتے ہیں۔ اور بڑے ادب اور احترام کے ساتھ ان کا نام لیا جاتا ہے۔ یوں تو ہر نبی اپنی قوم کے لئے اُسوہ ہوتا ہے لیکن ہر نبی ساری دنیا کے لئے اُسوہ نہیں ہوتا۔ انبیاء سابقین میں سے حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی ایک ایسی شخصیت ہیں جن کا تمام اقوام میں ادب اور احترام پایا جاتا ہے۔ عیسائیوں کو ہی دیکھ لو۔ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اتنا ادب نہیں کرتے جتنا حضر ت ابراہیم علیہ السلام کا کرتے ہیں بلکہ دوسرے نبیوں پر تو وہ کئی قسم کے الزام بھی لگاتے ہیں صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا وہ خاص طور پر ادب کرتے ہیں کیونکہ ان کو وہ حضرت ابراہیم کی ذریت میں سے مانتے ہیں۔ ورنہ باقی انبیاء کو تو وہ چور اور بٹمار کہنے سے بھی باز نہیں آتے(یوحنا باب۱۰آیت۸) مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بڑا ادب کرتے ہیں یہی معنے اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا کے ہیں یعنی ہم تجھے ایک ایسا وجود بنائیں گے کہ لوگ تیرے اقوال و افعال کی اقتداء کرینگے۔ چنانچہ حج جو اسلامی عبادات میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ انہوں نے ہی قائم کیا اور آج تک دنیا حج کے ذریعے ان کو یاد کرتی ہے۔ اسی طرح ہر قربانی کے موقعہ پر وہ یاد کئے جاتے ہیں۔
ہم اگرچہ اُمتِ محمدیہ میں سے ہیں مگر ہم بھی عیدالاضحیہ کے موقعہ پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کو یاد کرتے ہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے اسلام میں کوئی دن مقرر نہیں کیا گیا کہ جس سے اُن کے کسی فعل کی یاد تازہ ہو ۔ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یاد کے لئے ایک خاص دن مقرر کر دیا گیا ہے۔ پس امامت سے مراد نبوت نہیں بلکہ اُن کا اُسوۃ ہے اور مطلب یہ ہے کہ ہم تجھے تمام لوگوں کے لئے ایک نمونہ بنائینگے اور لوگ تیری اقتدار کرتے رہیں گے۔
شیعہ دوست کہا کرتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ایسے وقت میں فرمایا ہے جبکہ آپ نبی بن چکے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام کا مقام نبی سے بالا ہوتا ہے۔ اُن کی یہ بات تو بالکل درست سے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو امات نبوت کے دعویٰ کے بعد دی گئی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا امام اپنے لغوی معنوں کے لحاظ سے کوئی ایسا عہدہ ہے جو نبوت کے بعد ملتا ہے۔ اگر یہ ایسا عہدہ ہے جو نبوت کے بعد ملتا ہے تو ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ بعض نبی ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی اقتداء ضروری نہیں ہوتی کیونکہ لُغت نے امام کے یہ معنے بتائے ہیں جس کی اطاعت اور فرمانبرداری کی جائے۔ پس اگر یہ ایسا عہدہ ہے جو نبوت سے فائق ہے تو ماننا پڑے گا کہ بعض نبی ایسے بھی ہوئے ہیں جن کی اطاعت و فرمانبرداری فرض نہیں تھی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اطاعت بھی اس سے پہلے فرض نہ تھی حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَآ اَرْسَلْنَامِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ(نساء آیت۶۵) یعنی ہم نے ہر نبی کی اطاعت فرض کی ہوئی ہے۔ اِدھر وہ نبی ہوتا ہے اور اُدھر اُس کی بات کا ماننا واجب ہو جاتا ہے اِن معنوں کی رُوسے امامت نبوت سے علیحٰدہ کوئی مقام نہ رہا بلکہ امامت و نبوت دونوں لازم و ملزوم قرار پاتی ہیں۔ پھر ہمیں قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک امامت نبوت سے بھی پہلے ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔ اَطِیْعُو االلّٰہَ وَ اَطِیْعُواالرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ(نساء آیت۶۰)یعنی اے مومنو! تم اللہ اور رسول کی اطاعت کرو۔ اور جو اولی الامر ور غیر رسول ہیں اُن کی بھی اطاعت کرو۔ پہلے اللہ پھر رسول اور پھر اُن سے نیچے اولی الامر غیر رسول کو رکھا ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو رسول نہیں ہوتے۔ مگر اُن کی اطاعت بھی ضروری ہوتی ہے۔ اگر امام کے م عنے صرف مطاع کے لئے جائیں تو اِس قسم کی امامت تو نبوت سے بھی ادنیٰ ہوئی۔ جو امامت نبوت کے ساتھ لازم ہوتی ہے وہ نبوت کے ساتھ ہی حاصل ہو جاتی ہے ۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک شخص نبی تو ہو مگر اُسے امامت نہ ملی ہو۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ ایک شخص امام ہو مگر اُسے نبوت نہ ملی ہو۔ مگر یہ نہیں ہو سکتا ہے ایک شخص نبی اور رسول ہو اور پھر امامت سے محروم ہو۔ جیسا کہ وَمَااَرْسَلْنَامِنْ رَسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ سے ظاہر ہے ۔ اب ہمیںدو باتوں میں سے ایک بات ضرور ماننی پڑتی ہے یا تو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا یہ نبوت کے بعد کی بات ہے تو اس صورت میں اس کے وہ معنے نہیں ہو سکتے جو عام طور پر کئے جاتے ہیں۔ بلکہ اس کے کچھ اور معنے ہوں گے۔ اور واقعہ یہی ہے کہ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا نبوت کے بعد فرمایا گیا ہے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِذِابْتَلیٰٓ اِبْرٰھٖمَ رَبُّہ‘ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّنَّ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بعض کلمات کے ذریعہ آزمائش کی گئی تو ابراہیم علیہ السلام نے اُن احکام الہٰی کو پورا کر دیا۔ اور انبیاء کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ نبوت کے ملنے سے پہلے امتحان نہیں لیاجاتا ۔ بلکہ بعد میں لیا جاتا ہے اس لئے باقی انبیاء کے طریق کو دیکھتے ہوئے ماننا پڑتا ہے کہ یہ الہام بعد کا ہے۔ اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آیا اس کے کوئی اور معنے ہو سکتے ہیں یا نہیں۔ سو یاد رکھنا چاہیے کہ ہر لفظ دو قسم کے معنے رکھتا ہے۔ اول اضافی دوم غیر اضافی ۔اضافی معنے ہمیشہ اضافت کے لحاظ سے بدلتے رہتے ہیں۔ مثلاً جب ہم سردار کا لفظ بولتے ہیں تو اس کے عام طور پر یہ معنے ہوتے ہیں کہ جو کسی کے اوپر افسر ہو۔ لیکن سردار ایک گائوں کا بھی ہوتا ہے ایک صوبے کا بھی ہوتا ہے ایک ملک کا بھی ہوتا ہے اور پھر کئی ملکوں کا بھی ہوتا ہے۔ پس یہ ایک عام لفظ ہے جو چھوٹے بڑے سب کی سرداری پر دلالت کرتا ہے اور کسی کی طرف اضافت کرنے کے بغیر کوئی خاص معنے معین نہیں کرتا۔ مگر جب ہم یہ کہیں کہ چوہڑوں کا سردار یا چپڑاسیون کا سردار یا جرنیلوں کار سردار تو اس کے معنے معین ہو جاتے ہیں۔ اور پتہ لگ جاتا ہے کہ فلاں قوم سے اسے نسبت ہے اور اس اضافت سے معنوں میں فرق پڑ جاتا ہے۔ اس کی مثال قرآن کریم میں بھی ملتی ہے۔ قرآن کریم میں صدیق کا لفظ آتا ہے جس کے معنے بڑے راستباز کے ہیں اب بڑا راستباز نبی بھی ہوسکتا ہے اور غیر نبی بھی۔ اگر صدیق کالفظ عام معنوں میں ہو تو یہ درجہ نبی سے چھوٹا ہے مگر جب یہ لفظ نبی کے لئے آئے تو اس وقت یہ کسی خاص خسوصیت کا حامل بن جاتا ہے۔ جیسے قرآن کریم میں حضرت ادریس ؑ کے متعلق آتا ہے۔ وَاذْ کُرْ فِی الْکِتٰبِ اِدْرِیْسَ ز اِنَّہ‘ کَانَ صِدِّقْقًا نَّبِیًّا(مریم آیت۵۷) یعنی تو قرآن کریم کی رو سے ادریسؑ کا بھی ذکر کر وہ ایک صدیق نبی تھا۔حالانکہ دوسری جگہ وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَاللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَآئِ وَالصّٰلِحِیْنَ میں صدیقیت کو نبوت سے نیچے رکھا ہے۔ اسی طرح حضرت اسمعٰیل علیہ السلام کی نسبت آتا ہے کَانَ عِنْدَرَبِّہٖ مَرْضِیًّا(مریم:۵۶) کہ وہ اپنے رب کے حضور پسندیدہ وجود تھا۔ مگر دوسری جگہ یہ درجہ نبوت سے نیچے رکھا ہے۔ جیسے فرمایا یٰٓایَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃ‘ ارْجِعِیْ اِلیٰ رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً(فجر آیت۲۸،۲۹) کہ اے نفس مطمئنہ اپنے رب کی طرف اسی حالت میں واپس جا کہ تو اس سے اور وہ تجھ سے راضی ہے اِس آیت میں ہر مومن کا نام جو نفسِ مطمئنہ رکھتا ہے اور ایمان کی حالت میں وفات پاتا ہے، مرضیہ رکھا گیا ہے۔ اگر کَانَ عِنْدَ رَبِّہٖ مَرْضِیًّا کے ہم یہ معنے کریں کے وہ ہر شخص جس سے خدا راضی ہو نبی سے بالا ہوتا ہے تو ہمیں تسلیم کرنا پڑیگا کہ ہر مومن جو نفسِ مطمئنہ رکھتا ہے وہ نبی سے بالا مقام رکھتا ہے۔ یا صِدِّیْقًا نَبِیًّا کے ماتحت کہنا پڑیگا کہ صدیق کا لفظ جس کے متعلق آئے وہ نبی سے بالا ہوتا ہے۔ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی امت کے متعلق آتا ہے کہ قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنًاط قُلْ لَّمْ تُؤْ مِنُوْاوَلٰکِنْ قُوْلُوْآ اَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْ خُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلوُبِکُمْ(حجرات آیت۱۵) یعنی اعراب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں آکر کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں تو کہدے کہ تم ابھی ایمان نہیں لائے۔ ہاں تم یہ کہو کہ ہم اسلام لے آئے ہیں ورنہ ایمان تو ابھی تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا۔ گویا اسلام ایمان کا ابتدائی درجہ ہے مگر اسی جگہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق آتا ہے اَذْقَالَ لَہ‘ رَبّۃہ‘ اَسْلِمْ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ العٰلَمِیْنَ۔یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب اُس کے رب نے کہا کہ تو اسلام لا۔ یعنی ہماری فرمانبرداری اختیار کر تو انہوں نے کہا کہ خدایا میں تو پہلے ہی تمام جہانوں کے رب کی فرمانبرداری اختیار کر چکا ہوں۔ یہ حکم ان کو نبوت کے بعد ہوا اور انہیں نے اَسْلَمْتُ کہا۔ جس کی خداتعالیٰ بے بڑی تعریف فرمائی اور ادھر اٰمَنّاَ کہنے والوں کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اَسْلَمْنَا کہو۔ ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اسلام سے بھی ادنیٰ تھا اگر شیعوں والے معنے لئے جائیں تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ ہر اسلام لانے والا اور اپنے آپ کو مسلم کہنے والا نبی سے بالا ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نبوت کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کو فرمایا کہ مسلم بن جائو اورا نہوں نے اَسْلَمْتُ کہا۔ اسی طرح اگر امامت نبوت کے بعد ملنے کے یہ معنے ہیں کہ امام نبی سے بڑا ہوتا ہے تو پھر امامت تو الگ رہی ان معنوں کو تسلیم کرتے ہوئے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ ہر مسلم کا درجہ نبی سے بڑا ہوتا ہے کیونکہ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نبوت کے بعد امامت ملی ۔ اسی طرح نبوت کے بعد انہیں مسلم بھی بننا پڑا۔ اس صورت میں ہر مسلم نبی سے بڑا ہو جاتا ہے۔ پس خالی امامت نبوت سے بڑی نہیں ہوتی بلکہ وہ امامت جو نبوت کے بعد ملتی ہے وہ بڑی ہوتی ہے۔ جس طرح خالی اسلام نبوت سے بڑا نہیں ہوتا بلکہ وہ اسلام جو نبوت کے بعد حاصل ہوتا ہے بڑا ہوتا ہے ۔ غرض ہر چیز کا الگ الگ دائرہ ہے ایک اسلام وہ ہے جو ایمان سے ادنیٰ ہوتا ہے اور ایک اسلام وہ ہے جو ایمان کے بعد بعد حاصل ہوتا ہے اور ایک اسلام وہ ہے جو نبوت کے بعد حاصل ہوتاہے۔ جیسے مانیٹر کا لفظ ایک ہی ہے مگر ایک ادنیٰ جماعت کا مانیٹر ہونے کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ وہ اونچی کلاس کے مانیٹر سے بھی بالا ہے۔ اس کا علم تو ایک بڑی جماعت کے طالبعلم سے بھی کم ہوتاہے۔ اسی طرح وہ امامت جو نبوت سے الگ ہوتی ہے اُسے اس امامت سے جو نبوت کے بعد ملتی ہے کوئی نسبت ہی نہیں ہوتی ۔ خود مسلمانوں میں دیکھ لو کہ نماز پڑھا نیوالا امام کہلاتا ہے۔ پھرخلیفہ بھی امام ہوتا ہے اور نبی بھی امام ہوتا ہے۔ اِدھر قرآن کریم میں یہ دُعا سکھائی گئی ہے وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا(فرقان آیت۷۵)کہ الہٰی کچھ مومن بھی میرے مقتدی بنا دے اور مجھے اُن کا امام بنا اب کیا اس کے یہ معنے ہوںگے کہ ہر شخص یہ دُعا کرتا ہے کہ اُسے نبیوں سے بالا درجہ مل جائے؟ اگر اس کے یہ معنے ہوں تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ نبیوں سے بالا درجہ بھی مل سکتا ہے کیونکہ اس کی دُعا سکھائی گئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر شخص نبی سے بڑا درجہ پا سکتا ہے ۔ حالانکہ اس کے شیعہ بھی قائل نہیں۔ درحقیقت اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا کے معنے یہ ہیں کہ اے ابراہیم! تو اپنی قوم کے لئے نبی تھا مگر چونکہ تو آزمائشوں میں ثابت قدم نکلا ہے اور تُو نے بڑی دلیری سے میرے حکم کو مانتے ہوئے اپنی بیوی اور بچے کو ایک ایسے جنگل میں جا کر بسا دیا ہے جہاں پانی کا ایک قطرہ اور گھاس کی ایک پتی تک نہ تھی اور تُو نے اپنی اور اپنے خاندان کی موت قبول کر لی ہے اس لئے میں بھی تجھے یہ انعام بخشونگا کہ تیرا یہ واقعہ ساری دنیا کے لوگوں کے لئے قیامت تک بطور نمونہ قائم رہیگا۔ اور جب بھی دنیا کو آزمائشوں اور امتحانوں میں ثابت قدم رہنے کا درس دیا جائیگا تو اس وقت تیرے اس واقعہ کو نمونہ کے طور پر پیش کیا جائیگا۔ یہی وجہ ہے کہ وَ اِذِابْتَلٰٓی اِبْرٰھٖمَ رَبُّہ‘ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَھَّمُنَّ کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ورنہ اگر یہ کوئی الگ عہدہ ہوتا تو آزمائشوں کے ذکر کے ساتھ اس کے بیان کرنیکے کوئی معنے نہ تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ابتلائوں میں شاندار کامیابی کے ذکر کے معًا بعد اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًاکہنا بتاتا ہے کہ اس میں اسی امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ تیری زندگی کا یہ درخشاںواقعہ ہمیشہ کے لئے مشعل راہ کا کام دے گا اور قیامت تک آنے والے لوگوں کے لئے تو ایک نمونہ کے طور پر پیش کیا جائیگا۔
قَالَ وَمِنْ ذُرِّ یَّتِیْ۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلا م کو آئندہ زمانہ کی یہ خبر دی گئی توانہیں خیال آیا کہ جب میں بعد میں آنے والوں کا امام بنایا جاؤگا تو میری طرف منسوب ہونے والی ذریت کی ہدایت بھی سامان ہونا چاہیے۔چنانچہ انہوں نے کہا کہ الٰہی میری اولاد پر بھی تیری رحمت کا ہاتھ رہے ۔فرمایا ۔ٹھیک ہے مگر میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچیگا۔
اِس سے یہ مراد نہیں کہ اُنکی ساری ذریت ظالم ہو جائیگی ۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ اولاد دو قسم کی ہو گی ۔ ایک ظالم اور ایک مطیع و فرمانبردار ۔اللہ تعالیٰ نے ظالم اولاد کی نفی کی ہے اور مطیع اولاد میں سے امام بنانے کا وعدہ کیا ہے ۔
لَا یَنَالُ عَھْدِی الظّٰلِمِیْنَ کے دو طرح معنے ہو سکتے ہیں ۔ایک یہ کہ عہد یعنی معہود ہو یعنی جس چیز کا عہد کیا گیا ہے وہ ظالموں کو نہیں ملیگی ۔
دوسرے معنے یہ ہیں کہ میں ظالموں کیلئے کوئی عہد نہیں کرونگا ۔صرف غیر ظالموں کیلئے کرونگا۔ یعنی جو قوم بحیثیت قوم ظالم بن جائیگی اس میں سے سلسلہ نبوت منقطع ہو جائیگا۔
اِس آیت سے ظاہرہے کہ (۱)اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو امام بنانے کا وعدہ فرمایا (۲)حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کی نسبت بھی اس وعدہ میں توسیع کی درخواست کی تو اللہ تعالیٰ نے مشروط وعدہ فرمایا ۔ یعنی وعدہ کیا کہ تمہاری اولاد میں سے بعض اس عہد سے حصہ پائیں گے ۔مگر حصہ پانیوالے وہی ہونگے جو قومی ظلم کے ذریعہ سے اپنے آپکو انعام سے محروم نہ کر چکے ہوں ۔
جب تک بنی اسرائیل اس وعدہ کے مستحق رہے اللہ تعالیٰ اپنے عہد کو پورا کرتا رہا۔ مگر جب بنی اسرائیل کلی طور پر اس عہد
وَاِذْجَعَلْنَا

وَاِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَھِّرَ ا
کے انعامات کے ناقابل ہو گئے تو وہ عہد بنی اسرائیل کی دوسری شاخ بنی اسماعیل کی طرف منتقل کر دیا گیا ۔
بائیبل میں بھی اس عہد کے مشروط ہونے کا ذکر آتا ہے ۔چنانچہ پیدائش باب ۱۷ میں لکھا ہے :۔
’’پھر خدا نے ابراہام سے کہا ۔کہ تو اور تیرے بعد تیری نسل پشت در پشت میرے عہد کو نگاہ رکھیں ۔ اور میراعہد جو میرے اور تمہارے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ہے جسے تم یاد رکھو ۔سویہ ہے کہ تم میں سے ہر ایک فرزند نرینہ کا ختنہ کیا جائے اور تم اپنے بدن کی کھلڑی کا ختنہ کرو۔ اور یہ اُس عہد کا نشان ہو گا ۔ جو میرے اور تمہارے درمیان ہے ۔ تمہاری پشت در پشت ہر لڑکے کا جب وہ آٹھ روز کا ہو ختنہ کیا جائے گا ۔کیا گھر کا پیدا کیا پردیسی سے خریدا ہوا جو تیری نسل کا نہیں ۔لازم ہے کہ تیرے خانہ دار اور تیرے زر خرید کا ختنہ کیا جائے ۔اور میرا عہد تمہارے جسموں میں عہدا بدی ہو گا اور وہ فرزند نرینہ جس کا ختنہ نہیں ہوا وہی شخص اپنے لوگوں میں سے کٹ جائے کہ اُس نے میرا عہد توڑا۔‘‘
اِن آیات سے ظاہر ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اُن کی اولاد کی نسبت جو عہد کیا گیا تھا وہ مشروط تھا اور اس کی ظاہری علامت ختنہ تھا ۔اور صاف طور پر کہہ دیا گیا تھا کہ تیری اولاد میں سے جو اِس عہد کی پابندی نہیں کریں گے ۔خدا تعالیٰ کا عہد بھی اُن سے کوئی نہیں رہے گا ۔ اوراُن کو وہ انعامات نہیں ملیں گے جن کا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ سے وعدہ کیا گیاہے ۔
اس عہد کا ظاہری نشان جو ختنہ کی صورت میں قائم کیا گیا تھا بنی اسرائیل میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک جاری رہا اور یہ قوم خدا تعالیٰ کے انعامات کی وارث رہی ۔مگر جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام آگئے تو بنی اسرائیل کا وہ ختنہ جو اُن پر ایمان نہ لایا تھا اس کروہ سے کٹ گیا جس کو انعامات کے مستحق رہ گئے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے ۔لیکن آگے چل کر انہوں نے بھی عہد توڑ
بَیْتِیَ السُّجُوْدِo
دیا۔ اور ختنہ جو اس عہد کا ایک ظاہری نشان تھا اسے ترک کر دیا ۔ غرض اس قوم کا کچھ حصہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے انکار کی وجہ سے خدائی انعامات سے محروم ہو گیا اور جنہوں نے مانا تھا انہوں نے ختنہ چھوڑ کر اور شریعت کو لغت قرار دیکر اپنے آپ کو خدائی فضلوں سے محروم کر لیا ۔ اور میرے نزدیک اس جگہ یہی ذکر ہے کہ امامت کا مقام بنو اسحاق کو نہیں ملیگا کیونکہ وہ بحیثیت جماعت ظالم ہونے والے تھے ۔ہاں بنو اسمعٰیل کو ملے گا ۔ کیونکہ وہ بحیثیت جماعت کبھی ظالم نہیں ہونگے ۔ بلکہ ہر زمانہ میں اُن میں ایسے لوگ ہوتے رہیں گے جو خداتعالیٰ کی وحی کے قائل ہونگے ۔چنانچہ اِسی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام دنیا کا امام بنایا گیا ۔اور آپ کی امت میں سے اِس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ مقام بخشا گیا ۔
۴۲؎ حل لغات:۔ مَثَابَۃُ کے معنے ہیں مُجْتَمَعُ النَّاسِ بَعْدَ تَفَرُّیِّھِمْ وہ جگہ جہاں متفرق ہونے کے بعد لوگ جمع ہوتے ہیں ۔(اقرب)
مفردات راغب میں لکھا ہے ۔اِلْمَثَابَۃُ اَلْمَکَانُ الَّذِیْ یُکْتَبُ فِیْہِ الثَّوَابُ۔مثابہ اس مقام کو کہتے ہیں جہاں آنے کی وجہ سے انسان کو ثواب حاصل ہوتا ہے ۔ وَاِذْجَعَلْنَا اْلبَیْتَ مَثَابَۃً میں مَثَابَۃکی دو صورتیں ہو سکتی ہیں ۔اول یہ مفعول ثانی ہے اور جَعَلَ بمعنے مَیَّرَ ہے ۔ اس لحاظ سے اِس کے معنے یہ ہیں کہ مَیَّرْنَا اْلبَیْتَ مَثَابَہً ہم نے خانہ گعبہ کو مثابہ بنایا ہے ۔ دوسرے مَثَابَۃًحال بھی ہو سکتا ہے یعنی جَعَلْنَا اْلبَیْتَ حَالَ کَوْ نِہٖ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ ۔ اس صورت میں جَعَلَ بمعنے صَیَّرَ نہیں بلکہ بنانے کے ہونگے اور مطلب یہ ہو گا کہ ہم نے خانہ کعبہ ایسے حال میں بنایا ہے کہ وہ اپنے اندر مثابہ کی خصوصیات رکھتا تھا ۔
اَمْنُٗ کے معنے ہوتے ہیں ۔ (۱)اطمینان قلب (۲)سَلَامَۃُٗ مِّنَ الْخَوْفِ ۔دل کا اطمینان اور ظاہری خطرات سے نجات۔جب انسان ظاہری خطرات سے بھی محفوظ ہو اور اس کے دل کو بھی اطمینان حاصل ہو تو یہ کامل امن ہوتا ہے ۔
مَنْ کے کئی معنے ہیں ۔مگر اس جگہ یہ تبعمینیہ بھی ہو سکتا ہے اور فائدہ بھی ۔زائد بھی ۔ زائد ہ کے یہ معنے نہیں کہ وہ زائد ہے اور کوئی معنے نہیں دیتا بلکہ یہ عربی زبان کی اصلاح ہے جو زدر دینے کیلئے استعمال کی جاتی ہے ۔ ایسا مَنْ بے معنی نہیںہوتا بلکہ معنوں پر زیادہ زور دینے کیلئے لایا جاتا ہے ۔ اور اُسے زائدہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ عام طور پر استعمال نہیں کیا جاتا ۔اس جگہ وَاتَّخِدُوْا پر زور دیا ہے کیونکہ یہ فعل کے معنوں میں شدت پیدا کر دیتا ہے ۔
مُصَلَّی : جائے نماز کو کہتے ہیں۔
عَھِدَ : کے معنے ہیں اَوْصَاہُ وَشَرَطَ اِلَیْہِ ۔(اقرب)اُسے تاکید کی ۔اور اُس کی پابندی اُس کے لئے ضروری قرار دی ۔
مفرداتِ راغب میں لکھا ہے ۔ اَلْقٰی اِلَیْہِ الْعَہْدَ وَاَوْصَاہُ بِحِفْظِہٖ ۔یعنی اُسے عہد سے واقف کیا اور اس عہد کی حفاظت کی ۔ اُسے تاکید کی ۔پس اِس کے معنے یہ ہیںکہ ہم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمعیل علیہ السلام کو وصیت کی اور اس کی پابندی اُن پر فرض کی ۔
رُکَّعُٗ: رَاِکعُٗ کی جمع ہے اور رکوع کے معنے رکوع کرنے یا توحید پر چلنے کے ہوتے ہیں۔
سُجُوْدُٗ: سَاجِدُٗ کی جمع ہے ۔اس کے معنے (۱)سجدہ کرنے والے اور(۲)کامل فرمابنردار کے ہوتے ہیں۔
طَائِفُٗ: جو شخص بار بار کسی جگہ آئے یااس کے گرد چکر لگائے وہ طائف کہلاتا ہے ۔
عَاکِفُٗ: بیٹھنے والا ۔جو دھرنا مار کر بیٹھ جائے ۔ اِسی سے اعتکاف نکلا ہے ۔
تفسیر :۔ اَلْبَیْت خانہ کعبہ کا نام ہے ۔ اسے اَلْبَیْت اس لئے کہتے ہیں کہ اِس میں بیت کے تمام خواص جمع ہیں ۔جیسے کہتے ہیں زَ یْدُ ا نِ لرَّجُلُ زید ہی آدمی ہے ۔اورمراد یہ ہوتی ہے کہ ایک معقول آدمی کے اندر جس قدر خوبیاں پائی جانی چاہیں وہ سب کی سب زید میں پائی جاتی ہیں ۔ پس خانہ کعبہ ہی گھر ہے کا مطلب یہ ہے کہ گھر کی جو خصوصتیں ہوتی ہیں وہ سب کی سب صرف اِسی گھر سے حاصل ہوتی ہیں ۔گھر کی کیا خصوصیات ہوتی ہیں ۔گھر کی یہ خصوصیات ہوتی ہیں کہ (۱)گھر مستقل رہائش کی جگہ ہوتی ہے (۲)گھر چوری اور ڈاکہ سے حفاظت کا ایک ذریعہ ہوتا ہے (۳)گھر امن کا مقام ہوتا ہے جس میں داخل ہو کر انسان ہر قسم کے مصائب سے نجات پا جاتا ہے (۴)گھر تمام قریبی رشتہ داروںاور عزیزوں کے جمع ہونے کی جگہ ہوتا ہے (۵)گھر انسان کے مال و متاع کو محفوظ رکھنے کا ذریعہ ہوتا ہے ۔ اِن پانچ خصوصیتوں کے لحاظ سے اگر غور کیا جائے تو در حقیقت خانہ کعبہ ہی اصل گھر ہے ۔کیونکہ اگر حفاظت کو لو تو بڑے بڑے قلعوں کو لوگ تباہ کر دیتے ہیں ۔ بڑے بڑے شہروں میں رہنے والوں کو تباہ کر دیتے ہیں ۔ مگر خانہ کعبہ کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اسے خدا تعالیٰ کی دائمی حفاظت حاصل ہے ۔ اور ہر شخص جو اس پر ہاتھ اٹھانا چاہے اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ کو شل کر دیتا ہے ۔ چنانچہ ابرہہ کی مثال اِس بارہ میں ایک زندہ جاوید مثال ہے ۔ ابرہہ جو ایبے سینیا کی عیسائی حکومت کی طرف سے یمن کا گورنر مقرر تھا ۔ اس نے چاہا کہ خانہ کعبہ کو تباہ کر دے اور عربوں کو مجبور کر دے کہ وہ بیت اللہ کی بجائے صَنْعَاء کے گر جا کا حج کیا کریں ۔ تاکہ عیسائیت کو فروغ حاصل وہ جب وہ لشکر کے ساتھ مکہ کے قریب پہنچا ۔تو اُس نے ایک خاص آدمی مکہ والوں کی طرف بھیجوایا ۔ اور اُسے یہ پیغام دیا کہ میں صرف خانہ کعبہ کو گرانے کیلئے آیا ہوں ۔ تمہارے ساتھ میری کوئی دشمنی نہیں ۔اس لئے اگر تم میرے ارادہ میں مزاحم نہ ہو تو میں تمہیں کچھ نہیں کہو نگا اور کعبہ کو گرا کر واپس جاؤنگا۔ وہ شخص جب مکہ پہنچا ۔تواُس نے دریافت کیا کہ مکہ والوں کا آجکل سردار کون ہے ۔ انہوں نے حضرت عبدالمطلب کا نام لیا ۔ وہ آپکے پاس آیا اور اس نے ابرہہ کا پیغام دیا ۔ حضرت عبدالمطلب نے اُسے جواب دیا کہ اگر اس کی ہم سے لڑنے کی نیت نہیں تو ہم بھی اُس سے لڑنا نہیں چاہتے بلکہ ہم میں تو اُس ے لڑائی کی طاقت ہی نہیں ۔ باقی اس گھر کے متعلق ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ یہ خدا کا گھر ہے اور اللہ تعالیٰ اس گھر کو بچانا چاہے تو یہ اُس کا کا م ہے ہم میں ابرہہ اور اُس کے لشکر کے مقابلہ کی کوئی طاقت نہیں ۔اس پر اُس شخص نے کہا کہ اگر آپ لوگ لڑنا نہیں چاہتے تو بہتر رہے گا کہ آپ میرے ساتھ چلیں اور ابرہہ سے ملاقات کر یں ۔ ابرہہ نے بھی خواہش کی تھی کہ میں مکہ کے کسی رئیس کو اپنے ساتھ لاؤں۔اِس سے اُس کا دل خوش ہو جائیگا ۔ اور ممکن ہے کہ وہ خانہ کعبہ کو گرانے کا ارادہ ہی ترک کر دے ۔اس پر حضرت عبد المطلب نے بعض رؤساء اور اپنے لڑکوں کو ساتھ لیا اور ابرہہ کی ملاقات کیلئے چل پڑے ۔
ابرہہ آپ سے مل کر بڑا متاثر ہوا اور اُس نے کہا کہ مجھے آپ سے ملاقات کر کے بڑی خوشی ہوئی ہے ۔ آپ فرمائیں کہ آپ فرمائیں کہ آپ کی اس ملاقات کا مقصد کیا ہے ؟ حضرت عبدالمطلب نے کہا ۔ کہ آپ کے لوگ چھاپہ مار کر کچھ اونٹ لوٹ لائے ہیں ۔ یہ سنکر اُسے غصہ آگیا۔ اور کہنے لگا ۔ میں نے تو آپ کو بڑا عقلمند سمجھا تھا اور میرا خیال تھا کہ آپ مجھ سے یہ کہیں گے کہ میں خانہ کعبہ پر حملہ نہ کروں مگر آپ نے خانہ کعبہ کا نام تک نہیں لیا اور اپنے دو سو اونٹوں کا مطالبہ کر دیا ہے حالانکہ خانہ کعبہ کے مقابلہ میں دوسو اونٹوں کی حیثیت ہی کیا تھی کہ آپ اس کا ذکر کرتے ۔حضرت عبدالمطلب نے بیساختہ جواب دیا کہ اگر عبدالمطلب کو اپنے ۲دو سو اونٹ کی فکر ہے تو کیا خدا تعالیٰ کو اپنے گھر کی حفاظت کا فکر نہ ہو گا ۔ وہ آپ اس کی حفاظت کرے گا ۔ مجھے تو صرف اپنے اونٹوں کی ضرورت ہے ۔ابرہہ یہ سُن کر طیش میں آگیا اور اُس نے اونٹ تو واپس کر دئیے ۔ مگر بیت اللہ پر حملہ کرنیکا ارادہ زیادہ مضبوط کر لیا۔ ابھی اُس نے حملہ نہیں کیا تھا کہ تمام فوج میں چیچک کی بیماری پھوٹ پڑی اور لوگ کتوں کی طرح مرنے لگے ۔ آخر اتنی بھاگڑ مچی کہ وہ محاصرہ چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے اور ہزاروں انسان وادیوں میں بھٹک بھٹک کر مر گئے ۔
غرض اَلْبَیْت میں بتایا یہ کہ حقیقی حفاظت لوگوں کو اِسی گھر کے ذریعہ میسر آسکتی ہے ۔ یہ خدا کا گھر ہے جس پر کوئی دشمن حملہ نہیں کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔
گھر کی دوسری خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ مستقل رہائش کا مقام ہوتا ہے ۔اس لحاظ سے بھی یہی گھر ہے جو اَلْبَیْت کہلانے کا مستحق ہے کیونکہ دائمی زندگی خدا کے گھر میں ہی ملتی ہے ۔جو لوگ خدا تعالیٰ کے گھر میں نہیں جاتے اُن کی زندگی کیا زندگی ہے ۔دنیوی گھر کے متعلق تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَتَاعُٗ قَلِیْلُٗ وہ ایک قلیل متاع ہے ۔لیکن اپنے گھر کے متعلق فرماتا ہے ۔فَادْ خُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ (فجرآیت ۳۰،۳۱)یعنی جب انسان خدا تعالیٰ کا سچا پرستار بن جاتا ہے اور اُس کا گھر مسجد ہو جاتا ہے تو پھر وہ جنت میں داخل ہو جاتا ہے ۔ غرض یہی بیت ہے جو انسان کو ہمیشہ کی زندگی دیتا ہے۔
گھر کی تیسری خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے اندر مختلف قسم کے ذخائر اور اموال وامتعہ رکھتا ہے اور اِس نقطۂ نگاہ سے بھی یہی گھر ہے جو رُوحانی برکات کے ذخائر اپنے اندر محفوظ رکھتا ہے۔ کیونکہ ذخائر تو خواہ کتنے بھی قیمتی ہوں ضائع ہو جاتے ہیں لیکن جو وقت عبادت الہٰی میں خرچ ہوتا ہے وہ ضائع نہیں جاتا بلکہ ایک ایک المحہ جو ذکر الہٰی اور عبادت میں بسر ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اُسے ہزاروں ہزار انعامات کے ذخائر کی صورت میں محفوظ رکھتا اور اپنے بندے کو اس سے متمتع فرماتا ہے۔
گھر کی چوتھی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ رشتہ داروں کے جمع ہونیکی جگہ ہوتی ہے۔ یہ خصوصیت بھی خانہ کعبہ میں بدرجہ اَتَم پائی جاتی ہے۔ کیونکہ تمام دنیا کے مسلمان وہاں ہرسال حج کے لئے جمع ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے مل کر اپنے ایمان تازہ کرتے ہیں اور پھر اس لحاظ سے بھی خانہ کعبہ سب لوگوں کے جمع ہونے کی جگہ ہے کہ وہ جگہ جہاں انسان اپنے تمام رشتہ داروں سے مِل سکے گا صرف جت ہے اور جنت کاظل مسجد ہوتی ہے جس میں پانچوں وقت تمام مسلمان جمع ہو کر خداتعالیٰ کے سامنے سرسجود ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے کے حالات سے بھی با خبر رہتے ہیں۔
پھر گھر کی یہ خصوصیت کہ اس میں انسان کو ہر قسم کا امن حاصل ہوتا ہے یہ بھی خانہ کعبہ کو میسر ہے۔ کیونکہ امن اسی صورت میں میسر آتا ہے جب تمام جھگڑے مٹ جائیں اور خانہ کعبہ ہی ایک ایسا مقام ہے جو توحید کا مرکز ہونے کی وجہ سے تمام دنیا کو ایک نقطۂ اتحاد پر جمع کرنے کا ذریعہ ہے ۔ غرض خانہ کعبہ ہی حقیقی اور کامل گھر ہے جس میں وہ تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں جو ایک گھر میں پائی جانی چاہیں۔
مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ:مثابہ کے معنے تفرقہ کے بعد اکٹھے ہونے کی جگہ کے ہیں اس میں بتایا کہ بیت اللہ کا قیام اس لئے عمل میں آیا ہے کہ ساری دنیا کو ایک مرکز پر جمع کردیا جائے اور لوگ جو متفرق ہو چکے ہیں اس گھر کے ذریعہ پھر اکٹھے کر دیئے جائیں۔ یعنی ایک عالمگیر مذہب کا اس کے ساتھ تعلق ہے اور ساری دنیا کو یہ گھر جمع کرنے کا ذریعہ ہو گا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مختلف انبیاء نے اپنے اپنے زمانہ میں اتحاد پیدا کیا ہے۔ مگر جہاں وہ ایک ایک قوم کے درمیان اتحاد پیدا کرتے وہاں وہ دنیا میں اختلاف بھی پیدا کرتے تھے ۔ جیسے بنی اسرائیل کے لئے ضروری تھا کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پیچھے چلیں۔ حضرت کرشنؑ کے متبعین کے لئے ضروری تھا کہ وہ اُن کے پیچھے چلیں۔ ایرانیوں کے لئے ضروری تھا کہ وہ ذرتشت ؑ کے پیچھے چلیں۔ اس طرح اگر انہوں نے ایک طرف اپنی اپنی قوم میں اتحاد پیدا کیا تو دوسری طرف مختلف ممالک کے درمیان اختلاف بھی پیدا کر دیا۔ یہ صرف خانہ کعبہ ہی ہے جسے یہ خصوصیت حاصل ہے کہ تمام قوموں کو ایک مرکز پر جمع کرنے والا ہے ۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعویٰ فرمایا کہ آپ ساری دنیا کی طرف مبعوث ہوئے ہیں۔ اور پھر ااپ نے یہ بھیی دعویٰ فرمایا کہ تمام متفرق قوموں اور جماعتوں کو میرے ذریعے دین واحد پر اکٹھاکر دیا جائیگا۔ دیکھو کس عجیب رنگ میں اور کس شان و شوکت سے یہ پیشگوئی پوری ہوئی۔ آخر مختلف اقوامِ عالم کے ایک جگہ جمع کر دینے کی خبر سوائے خدا کے اور کون دے سکتا تھا اور اُئندہ جو کچھ مقدر ہے وہ تو اس سے بھی زیادہ ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعو د علیہ السلام نے بھی یہ دعویٰ فرمایا ہے کہ خداتعالیٰ میرے ذریعے سب قوموں کو اکٹھا کر دیگا۔ اور ایک وقت ایسا آئیگا کہ اشرار چوہٹروں اور چماروں کی طرح رہ جائیں گے۔ آپ فرماتے ہیں:۔
’’شیطان نے آدمؑ کو مارنے کو منصوبہ کیا تھا اور اس کا استیصال چاہا تھا پھر شیطان نے خدا سے مہلت چاہی اور اُس کو مہلت دی گئی۔ اِلیٰ وقتٍ مَّصْلُوْمٍ(یعنی ایک معلوم وقت تک) بہ سبب اس مہلت کے کسی نبی نے اس کو قتل نہ کیا۔اُس کے قتل کا وقت ایک ہی مقرر تھا کہ وہ مسیح موعود ؑ کے ہاتھ سے قتل ہو ۔ اب تک وہ ڈاکوؤں کی طرح پھرتا رہا ۔لیکن اب اُس کی ہلاکت کا وقت آگیا ہے ۔اب تک اخیار کی قلت اور اشرار کی کثرت تھی ۔ لیکن اب شیطان ہلاک ہو گا اور خیار کی کثرت ہو گی اور اشراء چو ہڑے چماروں کی طرح ذلیل بطور نمونہ کے رہ جائیں گے ۔‘‘(الحکم جلد ۵ نمبر ۲۴مورخہ ۱۷ ستمبر ۱۹۰۱ء؁ صفحہ ۱۱)
میرے نزدیک اس پیشگوئی کے کامل طور پر پورے ہونے کا زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ ہی ہے ۔ کیونکہ بنو اسحاق اور بنو اسماعیل دونوں کی شاخیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کے وجود میں آخر مل گئی ہیں ۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ تیرہ سو سال کے بعدیہ پیشگوئی پوری ہو رہی ہے اور یورپ امریکہ افریقہ آسٹریلیا ہندوستان اور دیگر ممالک کے باشندے یعنی چینی جاوی سماٹری ایرانی عیسائی ہندو مغل پٹھان اور راجپوت غرضیکہ ہر مذہت و ملت کے لوگ اسلام اور جماعت احمدیت کو قبول کر رہے ہیں۔ اور یہ پیشگوئی سچی ثابت ہو رہی ہے ۔ کہ بیت اللہ کو ہم نے متفرق لوگوں کو ایک جگہ پر جمع کرنے کا ذریعہ بنایا ہے ۔
اَمْنًا : دوسری پیشگوئی یہ فرمائی کہ (۱)یہ مقام امن والاہو گا ۔یعنی اسے دوسروں سے ہمیشہ محفوظ رکھا جائیگا ۔ (۲)یہ مقام لوگوں کو امن دینے والا ہو گا ۔اور چونکہ حقیقی امن اطمینان قلب سے حاصل ہوتا ہے اس لئے اَمْنًاکے تیسرے معنے یہ بھی ہیں کہ اطمینان قلب بخشے گا کہ اسلام سے باہر انسان کو اطمینان قلب کہیں حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس کی موٹی مثال یہ ہے کہ اسلام دلیل سے اپنی بات منواتا ہے جبکہ دوسرے مذاہب دلیل کی بجائے جبراور تحکم سے کام لیتے ہیں ۔ اسلام کہتا ہے کہ جو شخص بغیر دلیل کے کوئی بات مانتا ہے اس کے ایمان کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زبان سے یہ اعلان کرواتا ہے کہ عَلٰی بَصِیْرَ ۃٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْ (یوسف آیت ۱۰۹)یعنی میں جس تعلیم کو پیش کرتا ہوں ۔اُسے دلائل سے مانتے ہیں ۔ پس میرا تمہارا کوئی جوڑ نہیں ۔تم کہتے ہو کہ فلاں بات مان لو ورنہ جہنم میں جاؤ گے لیکن میں جو کہتاہوں اس کے ساتھ اس کی معقولیت کی دلیل بھی دیتا ہوں ۔کیونکہ اس کے بغیر اطمینان قلب حاصل نہیں ہو سکتا ۔
پھر اطمینان قلب کے حصول کا ایک بڑا ذریعہ مشاہدہ یعنی اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہو جانا ہے ۔ اگر یہ بات کسی انسان کو حاصل ہو جائے تو اُسے کوئی چیز پریشان نہیں کر سکتی ۔اسلام خانہ کعبہ سے تعلق کررکھنے والوں کو اس کی بھی خوشخبر ی دیتا ہے اور فرماتا ہے ۔یَاَ یَّتُھَا النَّفْسُ اْلُمطْمَئِنَّۃُ اْرِجِعْی اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْ ضِیَّۃً فَادًخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ وَادْ خُلِیْ جَنَّتِیْ (سورہ فجر عٰ)یعنی اے نفس مطمنہ ! اپنے رب کی طرف اس حالت میں لوٹ کہ تو اس سے خوش ہے اور وہ تجھ سے خوش ۔ پس آ اور مریے بندوں میں شامل ہو جا ۔آاور میری جنت میں داخل ہو جا ۔ یوں تو سب مذاہب کے پیرو کہتے ہیں کہ ہمارے مذہب کے مطابق عمل کرو تو تم جنت میں چلے جاؤگے ۔مگر اسلام یہ نہیں کہتا کہ تمہیں صرف مرنے کے بعد ہی جنت ملی گی ۔ بلکہ وہ کہتا ہے کہ میں اسی دنیا میں تمہیں خدا دکھادیتا ہوں جو اس بات کا ثبوت ہو گا کہ میں حق پر ہوں ۔وہ فرماتا ہے ۔اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْ ارَبَّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْ اتَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْاوَلَا تَحْزَنُوْادَآبشِرُطْ بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْ عَدُوْنَ (حٰمٓ سجدہ ۳۱)یعنی ہو لوگ جنہوں نے کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر مستقل مزاجی سے اس عقیدہ پر قائم ہو گئے اُن پر ملائکہ یہ کہتے ہوئے نازل ہوتے ہیں کہ ڈرو نہیں اور نہ کسی پچھلی کوتاہی کا غم کرواور اس جنت کے ملنے سے خوش ہو جاؤ۔جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے ۔
غرض اسلام اطمینان قلب پیدا کرنے کا مدعی ہے جبکہ اور کوئی مذہب اس کا دعویٰ نہیں کرتا۔
اَمْناً کے دوسرے معنے امن میں آنے والے کے ہیں۔ یہ معنے بھی خانہ کعبہ پر چسپاں ہوتے ہیں ۔ کیونکہ دشمنوں کے بار بار کے منصوبوں کے باوجود یہ مقام خدا تعالیٰ کی مدد سے محفوظ چلا آتا ہے حکومتوں کے بعد حکومتیں بدلیں اور ملکوں کے بعد ملک برباد ہوئے لیکن بیت اللہ دشمنوں کے حملوں سے محفوظ اور مقام امن ہی رہا ۔ پھردنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جس کا معبد ہمیشہ اس کے قبضے میں رہا ہو ۔ صرف اہل اسلام کا مقدس معبد ہمیشہ سے اس کے قبضہ میں رہا ہے ۔ یروشلم جو یہودیوں اور مسیحیوں کا متبرک مقام ہے ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ تک مسلمانوں کے قبضہ میں رہا۔ ہر دوار اور بنارس جو ہندوؤں کا متبرک مقامات ہیںچھ سات سو سال تک مسلمانوں کے قبضہ میں رہے اور پھر انگریزوں کے قبضہ میں چلے گئے ۔ اسی طڑح گیا جو بدُھوں کا متبرک مقام ہے ہے پہلے مسلمانوں کے قبضہ میں رہا۔پھر انگریز اس پر قابض ہوئے اور اب ہندوؤں کا اس پر قبضہ ہے یہی حال جینیوں کا ہے ۔ ان کے معبد کبھی کسی کے قبضہ میں رہے اور کبھی کسی کے قبضہ میں ۔مگر خانہ کعبہ صرف مسلمانوں ہی کے ہاتھ میں رہا اور کبھی کوئی غیر حکومت اُسے اپنے قبضہ میں لینے میں کامیاب نہیں ہوئی ۔ پس یہ ہمیشہ مقام امن ہی رہا۔
امن دینے کے لحاظ سے جو خانہ کعبہ کو خصوصیت حاصل ہے اس کی مثال بھی دنیا میں کہیں نہیں ملتی ۔ وہاں ہر چیز کو امن حاصل ہے ۔یہاں تک کہ جانوروں کو بھی امن حاصل ہے اور ان کا شکار کرمنع ہے بلکہ درختوں کا کاٹنا تک منع ہے ۔ سوائے اِذخر گھاس کے انسانوں کو یہ امن حاصل ہے کہ حدودِ حرم میں لڑائی ممنوع ہے ۔ اور پھر انسان کو تقویٰ اور روحانیت کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ کی حفاظت حاصل ہوتی ہے ۔ وہ مزید براں ہے ۔ مگر تعصب ہے کہ وہی گھرجسے خدا نے امن دینے والا قرار دیا ہے اس کے ساتھ تعلق رکھنے والے لوگ ایسے جہاد کے قائل ہیں جو دنیا میں کسی کو پناہ نہیں دیتا یہ عجیب تماشہ ہے کہ جس مذہب کو امن والا کہا گیا تھا اُسی کو فساد والا قرار دیا جاتا ہے اور اسی طرح اضداد کو جمع کر دیا جاتا ہے ۔اس کا ازالہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ ہم لوگوں کو بتائیں کہ اسلام میں کوئی چیز جبر نہیں ۔ وہ اپنے اندر امن کی تعلیم رکھتا ہے ۔ اور دوسروں کو بھی امن دیتا ہے اور اِسی مقصد کیلئے خانہ کعبہ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا ۔
غرض فرمایا کہ تم اس وقت کو یاد کرو۔ جب ہم نے اس گھر یعنی خانہ کعبہ کو لوگوں کیلئے مثابہ بنایا۔ یعنی تمام دنیا کیلئے نسل اور قومیت کے امتیاز کے بغیر اور ملک اور زبان کے امتیاز کے بغیر اس کے دروازے کھلے رکھے گئے ہیں ۔اسی طرح مثابہ اس منڈیر کو بھی کہتے ہیں جو کنوئیں کے اردگردبنائی جاتی ہے اور جس سے یہ غرض ہوتی ہے کہ جب زور کی ہوا چلے تو کوڑا کرکٹ اور گوبر وغیرہ اُڑ کر اند رنہ چلا جائے ۔ یا کوئی اور گندی چیز کنوئیں کے پانی کو خراب نہ کر دے ۔ اسی طرح منڈیر سے یہ غرض بھی ہوتی ہے کہ کوئی شخص غلطی سے کنوئیں میں نہ جا گرے ۔ غرض منڈیر کا مقصد کنوئیں کو برُی چیزوں اور لوگوں کو گرنے سے بچانا بھی ہوتا ہے ۔اس نقطہ نگاہ کو مد نظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے خانہ کعبہ کو ایک تو اس غرض کے لئے بنایا ہے کہ دنیا کے چاروں طرف سے لوگ اِس جگہ آئیں اور یہاں آکر دینی تربیت اور اعلیٰ اخلاق حاصل کریں ۔ اور دوسرے ہم نے خانہ کعبہ کو اس لئے بنایا ہے تاکہ وہ دنیا کیلئے منڈیر کا کام دے اور ہر قسم کی برائیوں اور شر سے لوگوں کو محفوظ رکھے ۔ تیسرے ہم نے اسے امن کے قیام کا ذریعہ بنایا ہے۔ گویا جس طرح قلعہ اس لئے بنایا جاتا ہے تاکہ فوج وہاں جمع ہو کر اپنے نظام کو مضبوط کر سکے اسی طرح خدا تعالیٰ نے بیت اللہ کو لوگوں کے جمع ہونے کا مقام بنایا ہے ۔اور جس طرح قلعہ کی یہ غرض ہوتی ہے کہ نا پسندیدہ عناصر اندر نہ آسکیں اِسی طرح بیت اللہ کو خڈا نے منڈیر بنایا ہے تاکہ غیر پسندیدہ عناصر اس سے دور رہیں ۔ پھر قلعہ کی تیسری غرض اردگرد کے علاقہ کی حفاظت کر کے امن قائم رکھنا ہوتی ہے ۔یہ غرض بھی بیت اللہ میں پائی جاتی ہے ۔ل چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اَمْنًا کہہ کر اسی امر کی طرف اشارہ کیا ہے ۔اور بتا یا ہے کہ اسے قیام مان کیلئے بنایا گیا ہے ۔ گویا بیت اللہ نظام کے قیام کا مرکز بھی ہے ۔غیر پسندیدہ عناصر کو دور کرنیکا ذریعہ بھی ہے اور دنیا کے امن کے قیام کا سبب بھی ہے ۔
وَاتَّخِذُوْامِنْ مَّقَامِ اِبْرَھٖمَ مُصَلًّی۔اس آیت میں مِنْ یا تو تاکید کیلئے آیا ہے ۔یا تمیز کیلئے اوروَاتَّخِذُوْا سے پہلے تُلْنَا یا اَمَرْ نَا مخدوف ہے اور مراد یہ ہے۔ کہ ہم نے کہا یا ہم نے حکم دیا کہ تم شدت کے ساتھ مقام ابراہیم کو عبادت گاہ بناؤ۔یا جہاں انہوں نے خانہ کعبہ کو بنانے کیلئے قیام کیا تھا اس میں سے کسی جگہ نماز پڑھو ۔یا یہ کہ ابراہیم ؑ کے کھڑے ہونے کی جگہ پر یعنی جہاں وہ عبادت کرتے تھے تم بھی طواف کے بعد اس شکریہ میں کہ خدانے اس گھر کو دنیا کے جمع کرنے اوراس کو قائم کرنے کا ذریعہ بنایا ہے نماز پڑھو۔
مقام ابراہیم کعبہ کے پاس ایک خاص جگہ ہے ۔ جہاں طواف بیت اللہ کے بعد مسلمانوں کو دو سنتیں پڑھنے کا حکم ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کعبہ کے بعداس جگہ شکرانہ کے طور پر نماز پڑھی تھی اور اس سنت کو جاری رکھنے کیلئے وہاں دو رکعت نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ لیکن میں سمجھتا ہوں ۔وَاتَّخِذُوْامِنْ مَّقَامِ اِبْرَھٖمَ مُصَلًّی میں جس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ عبادت اور فرمانبرداری کے جس مقام پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کھڑے ہوئے تھے تم بھی اسی مقام پر اپنے آپ کو کھڑا کرنے کی کوشش کرو۔لوگ غلطی سے مقام ابراہیم ؑ سے مراد صرف جسمانی مقام سمجھ لیتے ہیں ۔ حالانکہ ابراہیم ؑ کا اصل مقام وہ مقام اخلاص اور مقام تقویٰ تھا جس پر کھڑے ہو کر انہوں نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ۔گویا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم بھی اسی طرح اللہ تعالیٰ سے محبت کرو اور اُسی رنگ میں دین کیلئے قربانیاں بجالاؤجس رنگ میں ابراہیم ؑ نے اللہ تعالیٰ سے محبت کی اور جس رنگ میں ابراہیم ؑ نے اللہ تعالیٰ کیلئے قربانیاں کیں۔ پس یہاں مقام ابراہیم ؑ سے مراد کوئی جسمانی مقام نہیں بلکہ روحانی مقام مراد ہے۔ہماری زبان میں بھی کہتے ہیں۔ کہ تم نے میرے مقام کو نہیں پہچانا ۔اب اگر کوئی شخص یہ الفاظ کہے تو دوسرا شخص یہ نہیں کرتا کہ اُسے دھکا دے کر پرے پھینک دے اور کہے کہ تم جس مقام پر کھڑے تھے وہ تو میں نے دیکھ لیا ہے ۔ہمیشہ ایسے الفاظ سے درجہ کی بلندی مراد ہوتی ہے ۔ پس وَاتَّخِذُوْامِنْ مَّقَامِ اِبْرَھٖمَ مُصَلًّیکے یہی معنے ہیں ۔ کہ ابراہیم ؑ نے جس اخلاص اور جس محبت اور جس تقویٰ اور جس انابت الی اللہ سے نیکیوں میں حصہ تھا تم بھی اسی مقام پر کھڑے ہو کر اُن نیکیوں میں حصہ لو تاکہ تمہیں بھی ابراہیمی مقام حاصل ہو۔ اگر مقام ابرہیم کو مصلی بنانے کے یہی معنے ہوں کہ ہر شخص اُن کے مصلی پر جا کر کھڑ ا ہو۔ تو یہ تو قلعی طور پر نا ممکن ہے۔ اول تو یہ جھگڑا رہتا کہ حضرت ابراہیم ؑ نے یہاں نماز پڑھی تھی یا وہاں ۔ اور اگر بالفرض یہ یقینی طور پر پتہ لگ بھی جاتا کہ انہوں نے کہاں نماز پڑھی تھی تو بھی ساری دنیا کے مسلمان وہاں نماز نہیں پڑھ سکتے ۔ صرف حج میں ایک لاکھ سے زیادہ حاجی شامل ہوتے ہیں ۔اگر جلدی جلدی بھی نماز پڑھی جائے ۔ تب بھی ایک شخص کی نماز دو منٹ صرف آئینگے اس کے معنے یہ ہوئے کہ ایک گھنٹہ میں تیس اور چوبیس گھنٹہ میں سات سو بیس آدمی وہاں نماز پڑھ سکتے ہیں۔ اب بتاؤ کہ باقی جو ۹۹۲ رہ جائیں گے وہ کیا کرینگے اور باقی مسلم دنیا کیلئے تو کوئی صورت ہی نا ممکن ہو گی ۔ پس اگر اس حکم کو ظاہر پر محمول کیا جائے تو اس پر عمل ہو ہی نہیں سکتا ۔ پھر ایسی صورت میں فسادات کا بھی احتمال رہتا ہے ۔ بلکہ ایک دفعہ تو محض اسی جھگڑے کی وجہ سے مکہ میں میںایک قتل بھی ہو گیا تھا ۔ پس اس آیت کے یہ معنے نہیں ۔ بلکہ اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ ابراہیم ؑ نے جس مقام اخلاص پر کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کی تھی تم بھی اُسی مقام پر کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو۔
پھر اس حکم میں اللہ تعالیٰ نے اِنِّیْ جَا عِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا کی طرف بھی اشارہ کیا ہے ۔ اور یہ ہدایت د ی ہے کہ تمہارا بھی ایک امام ہونا چاہیے تاکہ اِس طرح سنت ابراہیمی تم میں زندہ رہے ۔ درحقیقت اِن دونوں آیات میں دو اماموں کا ذکر کیا گیا ہے ۔پہلے فرمایا کہ ۔ اِنِّیْ جَا عِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا۔اے ابراہیم میں تجھے امام بنانے والا ہوں۔ اس پر ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا کہ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ اے خدا !میری ذریت کو بھی اس مقام سے سرفراز فرما۔ کیونکہ اگر میں مر گیا تو کام کس طرح چلیگا۔ خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ تیری اولاد میں سے تو ظالم بھی ہونے والے ہیں۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ان ظالموں کے سپرد یہ کام کیا جائے۔ ہاں ہم تمہاری اولاد کو یہ حکم دیتے ہیں کہ وہ سنت ابراہیمی کو اہمیشہ قائم رکھیں جو لوگ ایسا کرینگے ہم اُن میں سے امام بناتے جائیں گے اور وہ خداتعالیٰ کے تازہ بتازہ انعامات سے حصہ لیتے چلے جائیں گے۔ پاس اس رکوع میں اللہ تعالیٰ نے دو امامتوں کاذکر فرمایا ہے۔ ایک امامتِ نبوت کا جو خداتعالیٰ کی طرف براہ راست ملتی ہے اور دوسری امامتِ خلافت کا جس میں بندوں کا بھی دخل ہوتا ہے۔اور جس کی طرف وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ البْرٰھٖمَ مُصَلًّی میں اشارہ کیا گیا ہے۔اور بنی نوع انسان کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ جب امامتِ نبوت نہ ہو تو اُن کا فرض ہے کہ وہ امامت خلافت کو اپنے اندر قائم رکھا کریں۔
پھر وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ اِبْرٰھٖمَ مُصَلیًّ میں دنیا کے تمام اہم مقامات اور شہروں میں ایسے تبلیغی مراکز قائم کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے جو خانہ کعبہ کی ظلیت میں اشاعت اسلام کے مراکز ہوں اور جہاں بیٹھ کر عبادتِ الہٰی کو قائم کیا جائے اور توحید کی اشاعت کے جائے۔ اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کو مخاطب کرتا اور انہیں فرماتا ہے کہ اے لوگو جو خانہ کعبہ کے شیدائی بنتے ہو۔ جو بیت اللہ کی محبت کا دم بھرتے ہو۔ تم ہر ایک چیز جو تمہیں پسند آتی ہے اس کی تصویر اپنے گھروں میں رکھنا پسند کرتے ہو۔ اگر کوئی پھل تمہیں پسند ہو تو تم اُسے اپنے گھر لاتے اوراپنی بیوی بچوں کو کھلانے کی کوشش کرتے ہو۔ جب تم بازار میں خربوزہ دکھ کر اُسے اپنے گھر میں لاتے ہو جب تم کسی اچھے نظارہ کو دیکھتے ہو تو اس کی تصویر کھینچتے اور اپنے بیوی بچوں کو بھی دکھاتے ہو تو کیا وجہ ہے کیاسبب ہے، اور اس میں کونسی معصولیت ہے کہ تم اپنے مونہوں سے تو خانہ کعبہ کی تعریفیں کرتے ہو۔ اپنے مونہوں سے تو خانہ کعبہ کے احترام کا اظہار کرتے ہو لیکن تم ایک خربوزے کو تو گھر میں لانے کی کوشش کرتے ہو۔ تم تاج محل کو دیکھتے ہو تو اس کی تصویر لینے کی کوشش کرتے ہو مگر تم خانہ کعبہ کے ظل کو اپنے ملک اور اپنے علاقہ میں لانیکی کوشش نہیں کرتے۔
خانہ کعبہ کیا ہے؟ ایک گھر ہے جو خداتعالیٰ کی عبادت کے لئے وقف ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ ساری دنیا کے انسان خانہ کعبہ میں نہیں جا سکتے۔ پس جس طرح خداتعالیٰ چاہتا ہے کہ ابراہیم ؑ کی نقلیں دنیا میں پیدا ہوں اسی طرح وہ یہ بھی جاہتا ہے کہ تم خانہ کعبہ کی نقلیں بنائوجس میں تم اور تمہاری اولادیں اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لئے وقف کر کے بیٹھ جائیں جس طرح وہ لوگ جو ابراہیم ؑ کے نمونہ پر چلیں گے۔ ابراہیم ؑ کی اولاد اور اس کا ظل ہونگے۔ اسی طرح یہ نقلیں خانہ کعبہ کی اولاد ہونگی۔ خانہ کعبہ کی ظل اور اس کا نمونہ ہوں گی۔ اور حقیقت یہ ہے کہ جب تک خانہ کعبہ کے ظل دنیا کے گوشہ گوشہ میں قائم نہ کر دیئے جائیں اُس وقت تک دین کبھی پھیل ہی نہیں سکتا۔ پس فرماتا ہے وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰھٖمَ مُصَلًّی اے بنی نوع انسان! ہم تم کو توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ تم بھی ابراہیمی مقام پر کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادتیں کرو یعنی ایسی مراکز بنائو جو دین کی اشاعت کا کام دیں کیونکہ اس کے بغیر اسلام کی کامل اشاعت کبھی نہیں ہو سکتی۔
وَعَھِدْنَااِلیٰ اِبْرٰھِیْمَ وَاِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَھِّرَا بِیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ وَالْعٰکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ اب بتاتا ہے کہ وہ مقامِ ابراہیم کیا چیز ہے! فرمایا ہے۔وَعَھِدْنَااِلیٰ اِبْرٰھِیْمَ وَاِسْمٰعِیْل اور ہم نے ابراہیم ؑ اور اسمٰعیل ؑ کو بڑی پکی نصیحت کی تھی۔ عَھِدَبِہٖ کے معنے ہوتے ہیں اس نے فلاں کے ساتھ عہد کیا۔لیکن عَھِدَ کے ساتھ جب اِلیٰ کا صِلہ آئے تو اسکے معنے ہوتے ہیں پکی نصیحت کرنا یا وصیت کرنا پس فرماتا ہے وَعَھِدْنَا اِلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَ اسْمٰعِیْلَ ہم نے ابراہیم اور اسمعیل کو بار بار نصیحت کی تھی اور بار بار اس بات کی طرف توجہ دلائی اور تاکیدی حکم دیا اَنْ طَھِّرَ ابَیْتِیَ کہ تم دونوں میرے گھر کو پاک کرو اور اسے ہر قسم کے عیبوں اور خرابیوں سے بچائو۔لِلطَّآئِفِیْنَان لوگوں کے لئے جو اس کے اردگرد طواف کرنیوالے ہیں یا اُن لوگوں کے لئے جو اس جگہ بار بار آنے والے ہیں۔وَالْعٰکِفِیْنَ اور ان لوگوں کے لئے جو اعتکاف کے لئے آئیں یا اپنی زندگی وقف کر کے یہیں بیٹھ جائیں۔ طائفین وہ لوگ ہیں جو کبھی کبھی آئیں اور عاکفین وہ ہیں جو اپنی زندگی اس گھر کے لئے وقف کریں۔وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ اور ان لوگوں کے لئے جو خداتعالیٰ کی توحید کے قیام کے لئے کھڑے رہتے ہیں اور اس کی فرمابنرداری میں اپنی ساری زندگی خرچ کرتے ہیں یا ان لوگوں کے لئے جو رکوع و سجود کرتے ہیں۔ اس جگہ رکوع و سجود سے ظاہری اور قلبی دونوں رکوع و سجود مراد ہیں۔ یعنی وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ سے وہ لوگ بھی مراد ہیں جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے اور اس کے حضور رکوع اور سجدہ کرنے والے ہوں۔ اور وہ لوگ بھی مراد ہیں جو خداتعالیٰ کی توحید پر اایمان رکھنے والے ہوں اور جو اس کے کامل فرمانبردار ہوں۔ اسی طرح تطہیر کے بھی دونوں مفہوم ہیں اس سے مراد ظاہری صفائی بھی ہے جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مساجد کو صاف رکھو اور اس میں عود وغیرہ جلاتے رہو اور اس سے باطنی صفائی بھی مراد ہو سکتی ہے یعنی مسجد کی حرمت کا خیال رکھو۔ اور اس میں بیٹھنے کے بعد لغو یات سے کنارہ کش رہو۔ افسوس ہے کہ آجکل مساجد میں ذکر الہٰی کرنے کی بجائے لوگ اِدھر اُدھر کی گپیں ہانگتے رہتے ہیں حالانکہ مسجدیں خداتعالیٰ کی عبادت کے لئے بنائی گئی ہیں بیشک ضرورت محسوس ہونے پر مذہبی ،سیاسی قضائی اور تمدنی امور پر بھی مساجد میں گفتگو کی جا سکتی ہے لیکن مساجد میں بیٹھ کر گپیں ہانگنا اور اِدھر اُدھر کی فضول باتیں کرنا سخت ناپسندیدہ امر ہے۔ نوجوانوں کو خصوصیت کے ساتھ اس بارہ میں محتاط رہنا چاہیے۔
طَھِّرَابَیْتِیَ میں اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ ایک زمانہ میں لوگوں نے اس کے اندر بُت رکھ دینے ہیں۔ تمہارا کام ہے کہ تم ان بُتوں کو نکالو اور بیت اللہ کو پاک و صاف کرو۔ لُغت کی رو سے بھی نجاست ظاہری اور باطنی دونوں کو دُور کرنے کے لئے تطھیر کا لفظ استعمال ہوتاہے۔چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بیت اللی تطہیر کی اور تین سو ساٹھ بتوں سے اس کو پاک کر دیا۔ آپ کا یہ فعل اسی وصیت کے مطابق تھا جو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اسمٰعیل علیہما السلام کو فرمائی تھی کہ طَھِّرَا بِیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ وَالْعٰکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ ۔یہ سورۃ ہجرت کے بعد نازل ہوئی تھی اور وہ ایسا وقت تھا کہ مسلمان مدینہ میں بھی محفوظ نہ تھے۔ مگر خداتعالیٰ نے فرمایا کہ تمام دنیا جو اس وقت متفرق ہے وہ اس مرکز پر جمع ہو جائے گی چنانچہ دیکھ لو۔ اب
وَاِذْقَالَ اِبْرٰھٖمُ



وَبِئْسَ الْمَصِیْرُo
ساری دنیا سے لوگ حج کے لئے جاتے ہیں اور ادھر مُنہ کر کے نماز پڑھتے ہیں اس سے بڑھکر آپ کی صداقت کا اور کیا نشان ہو سکتا ہے۔
۴۳؎ حل لغات:۔ ثَمَرٰت کالفظ بالعموم نتائج کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ اسی طرح ثمرات تازہ بتازہ پھلوں کو بھی کہتے ہیں۔
اَضْطَرُّہ‘: اِضَطَرَّ ہ‘ اِلَیْہِ کے معنے ہیں اَحْوَجَہ‘ وَاَلْجَائَ اِلَیْہِ کسی چیز کو گھیر گھار کر اور مجبور کر کے ایک طرف سے دوسری طرف لے جانا۔ اس لحاظ سے آیت کے معنے یہ ہیں کہ میں اُن کو گھیر گھار کر جہنم کی طرف لے جائونگا۔
تفسیر:۔ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے بیت اللہ کو مرجع خلائق اور امنِ عالم کا گہوارہ بنایا، تو حضرت ابراھیم علیہ السلام فوراً اللہ تعالیٰ کے حضور جُھک گئے اور انہوں نے دُعا کی رَبِّ اجْعَل ھٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا۔ کہ اے خدا تو نے جو یہ کہا ہے کہ طواف اور رکوع و سجود کرنے والے لوگ یہاں آئیں گے تو اس سے پتہ لگتا ہے کہ یہاں آبادی ہو گی۔ پس میں تجھ سے دُعا کرتا ہوں کہ تو اس جگہ کو بَلَدًا اٰمِنًا بنا دے۔ یہاں کی آبادی خوب بڑھے اور پھولے پھلے۔ اور یہ ایک پُرامن شہر ہو۔فتنہ و فساد اور لڑائیوں کی آماجگاہ نہ ہو۔ جس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دُعا کی تھی۔ اُس وقت مکہ کوئی شہر نہیں تھا ۔ صرف چند جھونپڑیاں تھیں جو ایک بے آب و گیاہ وادی میں نظر آتی تھیں۔ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دُعا یہ کی کہ یہ زمین جو ویران پڑی ہوئی ہے اسے ایک شہر بنادے۔ عام طور پر جو لوگ عربی نہیں جانتے وہ اس کے یہ معنے کیا کرتے ہیں کہ اس شہر کو امن ولاا بنا دے۔ حالانکہ اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہی منشا ہوتا تو آپ ھٰذَا بَلَدًا کہنے کی بجائے ھٰذَا الْبَلَدَ فرماتے مگر آپ ھٰذَا الْبَلَدَنہیں کہتے بلکہ ھٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا کہتے ہیں۔ پس یہ شہر کے بنانے کی دُعا ہے شہر کو کچھ اور بنانے کی دُعا نہیں وہ فرماتے ہیںرَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا اے میرے رب بنا دے اس ویران زمین کو بَلَدًا ایک شہر اٰمِنًا۔ مگر شہروں کے ساتھ فتنہ و فساد کا بھی احتمال ہوتا ہے ۔ جب لوگ مل کر رہتے ہیں تو لڑائیاں بھی ہوتی ہیں جھگڑے بھی ہوتے ہیں۔ فسادات بھی ہوتے ہیں اور پھر شہروں کو فتح کرنے کے لئے حکمومتیں بھی حملہ کرتی ہیں یا بعض شہر جب بڑے ہو جائیں تو اُن کے رہنے والے اپنا نفوذ بڑھانے کے لئے دوسروں پر حملہ کر دیتے ہیں اور چونکہ یہ سارے خدشات شہروں سے وابستہ ہوتے ہیں اس لئے میں تجھ سے یہ دُعا کرتو ہوں کہ تو اسے امن والا بنائیو۔یہ کوئی اس پر حملہ کرے اور نہ یہ کسی اور پر حملہ کرے تاکہ خانہ کعبہ کے قیام کا جو مقصد ہے وہ صحیح رنگ میں پورا ہو سکے۔ گویا جس امن کی پیشگوئی خانہ کعبہ کے متعلق تھی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے چاہا کہ وہ ا س جگہ آباد ہونے والے شہر کی طرف بھی منتقل ہو جائے۔ درحقیقت خانہ کعبہ کی حرمت تو خداتعالیٰ نے خود قائم فرمائی تھی مگر مکہ مکرمہ کی حرمت ابراہیم علیہ السلام کی وجہ سے قائم ہوئی۔ اسی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک موقعہ پر فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم بنایا تھا اور میں مدینہ کو حرم بناتاہوں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس دُعا میں مثابہ کا لفظ چھوڑ دیا ہے اور صرف امن کی دُعا مانگی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک زائد دُعا کی ہے اور وہ یہ اس گھر کے ساتھ ایک شہر بھی بن جائے اور وہ بھی امن والا ہو۔ اور محض کسی شہر میں آنا ثواب کا موجب نہیں ہو سکتا تھا اس لئے انہوں نے اس حصہ کو چھوڑ دیا کیونکہ عبادت اور ثواب صرف خانہ کعبہ سے تعلق رکھتا ہے مکہ سے نہیں۔ پس آپ نے مثابۃ کو چھوڑ دیا اور امن کی دُعا کو لے لیا۔ جو خانہ کعبہ کے لئے بھی ضروری تھی اور اس کے ارد گرد آباد ہونے والوں کے لئے بھی ضروری تھی۔ اس دُعا سے معلوم ہو سکتا ہے کہ انبیاء اللہ تعالیٰ کے کالام کو پورا کرنے کے کس قدر حریص ہوتیہ یں اور وہ اس کے لئے کیا کیا کوششیں کرتے ہیں بعض لوگ نادانی سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر اعتراض کیا کرتے ہیں کہ اگر فلاں الہام خداتعالیٰ کا تھا تو مرزا صاحب نے اس کے پورا کرنے کی کیوں کوشش کی ؟ وہ یہ نہیںدیکھتے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدائی کلام کے پورا کرنے کے لئے اس کے معًابعد دُعائیں کرنی شروع کر دیں حالانکہ جب خداتعالیٰ فرما چکا تھا کہ اس گھر کو عائفین کے لئے صاف ستھرا رکھو۔ تو اس کے معنے یہ تھے کہ یہاں لوگ مقیم بھی ہوںگے اور باہر سے بھی آئیں گے۔ گویا اس لفظ میں ایک شہر بن جانے کی خبر دیدی گئی تھی۔ پھر جو بات خداتعالیٰ پہلے ہی منظور کر چکا تھا اس کے متعلق دُعا کرنے کے لئے معنے تھے؟ اس کی وجہ یہی تھی کہ خداتعالیٰ جو خبر دیتا ہے اس کے متعلق مومنوں کا بھی یہ کام ہوتا ہے کہ وہ اُسے پورا کرنے کی کوشش کریں اور ان کی طرف سے پہلی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ خداتعالیٰ سے دُعائیں کرتے ہیں کہ اُن کی غفلت کی وجہ سے وہ وعدہ ٹل نہ جائے۔ پھر دُعا کے ساتھ دوسری چیز کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ ظاہری سامان مہیا کرتے ہیں حدیثوں میں آتا ہے کہ جب حضر ت ہاجرہؓ اور اسمٰعیل علیہ السلام وہاں بس گئے۔ اور زمزم کا چشمہ پھوٹ پڑا تو انہی دنوں وہاں سے ایک قافلہ گزرا۔ انہوں نے جب دیکھا کہ یہاں پانی کا وافر انتظام ہے تو انہوں نے حضرت ہاجرہؓ سے وہاں سکونت اختیار کرنے کی اجازت لی۔ حضرت ہاجرہؓ نے اُن کی اس درخواست کو قبول فرمالیا۔ اور انہیں وہاں پر رہائش کی اجازت دے دی۔ یہ مکہ کی آبادی کی دوسری تدبیر تھی کہ قافلہ ولوں کو رہائش کے لئے زمین دے دی گئی تاکہ وہ بات پوری ہو۔ جو خداتعالیٰ نے فرمائی تھی کہ ہم نے اس مقام کو مثابہ بنایا ہے۔ پس وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اعتراض کرتے ہیں کہ آپ نے فلاں بات کو پورا کرنے کی کیوں کوشش کی وہ درحقیقت کلامِ الہٰی کی حقیقت سے آگاہ نہیں۔ خداتعالیٰ کے بندوں کا سب سے بڑا فرض یہ ہوتا ہے کہہ وہ اُن باتوں کو پورا کرنے کے لئے اپنی طرف سے انتہائی کوشش کریں جن کے متعلق خداتعالیٰ نے خبردی ہو اور کہا ہو کہ ایسا ہو جائیگا۔ اگر کوئی کہے کہ خداتعالیٰ کو کسی کی مدد کی ضرورت ہے تو یہ اعتراض صرف اس پیشگوئی پر ہی پڑے گا بلکہ ہر بات پر پڑیگا خداتعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَمَلخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِ نْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ(واریات:۵۷) یعنی میں نے جن وانس کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ اب اگر خداتعالیٰ کی بات پوری کرنے کے لئے کوئی تدبیر کرنا جائز نہیں تو لوگوں کو نمازوں کی تلقین بھی چھوڑ دینی چاہیے اور کہنا چاہیے کہ خداتعالیٰ خود لوگوں سے نمازیں پڑھوالیگا ہم اس کے لئے کیوں کوشش کریں۔ اسی طرح فرماتا ہے کہ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّالَہ‘ لَحَافِظُوْنَ(حجر:۱۰)یعنی ہم نے ہی یہ قرآن نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرینگے۔ اب اگر یہ درست ہے کہ خدائی وعدوں کو پورا کرنے کے لئے کوشش نہیں کرنی چاہیے تو قرآن کریم کا حفظ کرنا بھی چھوڑ دینا چاہیے کہ یہ خداتعالیٰ کے وعدہ کی بے حرمتی ہے۔ اسی طرح قرآن کریم کا چھاپنا بھی بند کر دینا چاہیے کیونکہ وہ فرماتا ہے کہ ہم ہی اس کی حفاظت کرینگے پھر ہم اسے کیوں چھاپیں۔غرض یہ ایک احمقانہ خیال ہے جسے کوئی معقول انسان تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا ہے۔ بہر حال اس آیت سے یہ استدلال ہو سکتا ہے کہ جب خداتعالیٰ کوئی بات کہے تو مومنوں کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اُسے پورا کرنے کے لئے ہر قسم کی تدابیر اور کوشش سے کام لیں اور اُس وقت تک صبر نہ کریں جب تک کہ خدا تعالیٰ کی بات پوری نہ ہو جائے۔
دوسرا امر ا سے معلوم ہوتا ہے کہ بندے کو ہمیشہ الہٰی منشاء کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہیے اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو فرمایا تھا کہ لَا یَنَالُ عَھْدِی الظّٰلِمِیْنَ ۔ یعنی تیری اولاد میں کچھ ظالم لوگ بھی پیدا ہونے والے ہیں جن سے میرا کوئی عہد نہیں ہو گا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی احتیاط دیکھو کہ انہوں نے فوراً اپنے آپ کو اس کے مطابق ڈھال لیا اور جب مکہ والوں کے لئے دُعا کی تو عرض کیا کہ وَارْزُقْ اَھْلَہ‘ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنْ اٰمَنَ مَنْھُمْ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ یعنی اے خدا جو لوگ ان میں سے اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائیں تو اپنے فضل سے انہیں ہر قسم کے پھل عطا فرما گویا لَا یَنَالُ عَھْدِی الظّٰلِمِیْنَ کی آواز سُنتے ہی انہوں نے منکرین توحید کو اپنی دعا سے خارج کر دیا اور صرف اُن لوگوں تک اپنی دعا کو محدود کر دیا جو خدااور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والے ہوں اور دُعا کی کہ وَارْزُقْ اَھْلَہ‘ مِنَ الثَّمَرٰتِ یعنی اے خدا میں تجھ سے ان کے لئے جمعرات کی روٹی نہیں مانگتا ۔ میں تجھ سے اُن کے لئے چاول نہیں مانگتا ۔میں تجھ سے ان کے لئے زردہ اور پلائو نہیں مانگتا بلکہ میںمانگتا ہوں کہ یہ جگہ جہاں گھاس کی ایک پتی بھی پیدا نہیں ہوتی اس جگہ دنیا بھر کے میوے آئیں اور یہ اُن میوں کو یہاں بیٹھ کر کائیں تو روٹی دیگا تو میں نہیں مانوں گا کہ تو نے اپنی خدائی کا ثبوت دیا۔ تو زردہ اور پلائو کھلائیگا تو میں نہیں مانونگا کہ تو نے اپنی خدائی کا ثبوت دیا ہے۔ میں تیری خدائی کا ثبوت تب مانوں گا جب یہ مکہ میں بیٹھ کر چین اور جاپان اور یورپ اور امریکہ کے میوے کھائیں تب میں تسلیم کرونگا کہ تو نے اپنی خدائی کا ثبوت دے دی اہے میں نے بندہ ہو کر ایک انتہائی قربانی کی ہے۔ اب اے خدا میں تیری خدائی کو بھی دیکھنا چاہتا ہوں اور وہ بھی اس رنگ میں کہ اس وادی غیر ذع زرع میں دنیا کا ہر بہترین پھل تو انہیں پہنچا۔ خداتعالیٰ نے ابراہیم ؑ کے اس چیلنچ کو قبول کیا۔ اور اس نے کہا اے ابراہیم ؑ ! تو نے اپنی اولاد کو ایک وادی غیر ذعزرع میں لا کر بسایا ہے اور مجھ سے کہا ہے کہ میں نے اپنا بیٹا قربان کردیا ہے اب تو بھی اپنی خدائی کا ثبوت دے۔ تُو نے کہا ہے کہ میں نے ایک عاجز بندہ ہو کر اپنی بندگی کا ثبوت دیا ہے اور تو نے ثبوت یہ مانگا ہے کہ یہ نہ کمائیں بلکہ بنی نوع انسان کمائیں اور انہیں کھلائیں۔ اور کھلائیں بھی معمولی چیزیں نہیں بلکہ دنیا بھر کے میوے ان کے پاس پہنچیں ۔ میں تیرے اس چیلنچ کو قبول کرتا ہوں اور میں اس وادی غیرذی زرع میں جہاں گھاس کی ایک پتی بھی نہیں اُگتی تجھے ایسا ہی کر کے دکھائونگا۔ میں نے حج کے موقعہ پر خود اس کا تجربہ کیا ہے میں نے مکہ مکرمہ میں ہندوستان کے گنے دیکھے ہیں۔ میں نے مکہ مکرمہ میں اعلیٰ درجہ کے انار کھائے ہیں۔ گنے کے متعلق تو مجھے یاد نہیں کہ میری طبیعت پر اس کے متعلق کیا اثر تھا لیکن انگوروں اور اناروں کے متعلق میں شہادت دے سکتا ہوں کہ ویسے اعلیٰ درجہ کے انگور اور انار میں نے اور کہیں نہیں کھائے۔ میں یورپ بھی گیا ہوں۔ میں شام بھی گیا ہوں۔ میں فلسطین بھی گیا ہوں۔ اٹلی کا ملک انگوروں کے لئے بہت مشہور ہے ۔یورپ کے لوگ کہتے ہیں کہ بہترین انگور اٹلی میں ہوتے ہیں۔ مگر میں نے اٹلی کے لوگوں سے کہا کہ مکہ کی وادی غیر ذی زرع میں ابراہیمی پیشگوئی کے ماتحت جو انگور میں نے کھائے ہیں وہ اٹلی کے انگوروں سے بہت زیادہ میٹھے اور بہت زیادہ لذیذ تھے۔ ہمارے اردگرد قندھار، کوئٹہ اور کابل کا انار مشہور ہے۔ مگر میں نے جو موٹا سُرخ شیریں اور لذیذ انار مکہ میں کھایا ہے اس کا سینکڑواں حصہ بھی قندھار اور کوئٹہ اور کابل کا انار نہیں۔غرض حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا۔ اے خدا میں نے اپنی بندگی کا انتہائی ثبوت دیدیا ہے۔ اب تجھ سے میں درکواست کرتا ہوں کہ تو بھی اپنی خدائی کا ثبوت دے اور وہ ثبوت میں تجھ سے یہ مانگتا ہوں کہ یہ نہ کمائیں بلکہ لوگ کما کر ان کے پاس لائیں اور لائیں بھی معمولی چیزیں نہیں بلکہ دنیا بھر کے بہترین پھل اور میوے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے وَارْزُقْ اَھْلَہ‘ مِنَ الثَّمَرٰتِ کی دُعا مانگ کر درحقیقت مکہ والوں کے لئے انتہا درجہ کے ترفہ کے لئے دعا کر دی۔کیونکہ مکہ میں ثمرات کا مہیا ہونا ناممکن تھا۔وہاں کوئی کھیتی باڑی نہیں ہو سکتی تھی۔ اور پھلوں کا دُور سے آنا ناممکن تھا۔ کیونکہ ثمرات کا تازہ بتازہ اور عمدہ ہونا ضروری ہوتا ہے مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دُعا کی الہٰی یہ لوگ ان چیزوں سے بھی محروم نہ ہوں تاکہ وہ یہ خیال نہ کریں کہ ہم اِن ثمرات سے اس وجہ سے محروم ہیں کہ ہم دنیا سے کٹ کر صرف اس گھر کے ہی ہو کر رہ گئے ہیں۔ پس ایسی نازک اشیاء بھی یہاں پہنچ جائیں تاکہ دنیا پر حجت ہو کہ خدا تعالیٰ نے جنگل میں منگل کر دیا۔ چنانچہ اس ابراہیمی دعا کی برکت سے ہر قسم کا تازہ بتازہ پھل مکہ والوں کو میسر آرہا ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا کہ میں نے خود حج کے موقعہ پر مکہ مکرمہ میں نہایت شیریں انار دیکھے ہیں اور انگور ایسے اعلیٰ درجہ کے کھائے ہیں کہ اٹلی اور فرانس اک انگور اس کے مقابلہ میں ایسا ہوتا ہے جیسا کہ کابلی انگور کے مقابلہ پر پنچابی انگور۔غرضیکہ تمام اعلیٰ درجہ کی چیزیں مکہ میں میسر آجاتی ہیں۔ ایک دفعہ حج کے موقعہ پر گرمی کی شدت کی وجہ سے ایک بزرگ نے خواہش کی کہ اگر برف ہوتی تو میں ستو پیتا۔ چنانچہ انہوں نے دعا کی کہ الہٰی یہ تیراگھر ہے اور تیرا وعدہ ہے کہ میں یہاں کے رہنے والوں کو ہر قسم کا رزق عطا کروں گا۔ سو تو اپنے فضل سے میرے لئے برف مہیا فرما دے۔ خداتعالیٰ نے اولے برسا دیئے جو لوگوں نے جمع کر لئے اور انہوں نے برف ڈال کر ستو پیئے۔
غرض حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی کہ جو لوگ یہاں راہیں گے ایسا نہ ہو کہ وہ یہ خیال کریں کہ ہم خدا تعالیٰ کے گھر کی خدمت کی وجہ سے ان نعمتوں سے جو دوسروں کو میسر ہیں محروم ہو گئے ہیں اس لئے اے خدا تو انہیں ہرقسم کے اعلیٰ درجہ کے پھل کھلا۔ اور انہیں اپنے انعامات سے متمتع فرماتاکہ ان کو یہ نظر نہ آئے کہ ہم اس گھر کے لئے قربانیاں کر رہے ہیں بلکہ یہ نظر اائے کہ ہمیں خداتعالیٰ اپنے انعامات سے حصہ دے رہا ہے۔ یہاں بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کے آرام کے لئے دعائیں مانگی ہیں لیکن درحقیقت انہوں نے خداتعالیٰ کی غیرت بھڑکا نے کے لئے یہ دعائیں کی ہیں چونکہ خداتعالیٰ نے فرمایا تھا کہ طَھِّرَ ابَیْتِیَ۔ اس لئے ان کے دل میں یہ خیال آیا کہ آئندہ آنے والے یہ نہ سمجھیں کہ ہم اللہ تعالیٰ پر احسان کر رہے ہیں اور ایک بے آب و گیاہ جگہ میں آکرخداتعالیٰ کے گھر کی حفاظت کر رہے ہیں بلکہ وہ یہ محسوس کریں کہ خداتعالیٰ ہم پر احسان کر رہا ہے۔ اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نہایت احتیاط سے دعا کی اور کہا کہ الہٰی تو صرف اُنکو ثمرات عطا فرما جو اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہوں۔ غالباً آپ کا منشاء یہ ہو گا کہ دوسرے لوگ بھوک وغیرہ سے تنگ آکر خود ہی مکہ سے نکل جائیں اور اس طرح یہ مقام ہمیشہ کے لئے خداتعالیٰ کے پاک بندوں سے آباد رہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے رزق کے معاملہ میں اس تخصیص کو پسند نہ فرمایا۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مِنَ الثَّمَرٰتِ کیوں کہا؟ آخر میووں سے تو کوئی نہیں جیتا۔ روٹی سے انسان زندہ رہتا ہے مگر انہوں نے روٹی نہیں مانگی بلکہ پھل مانگا ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ سو یاد رکھنا چاہیے کہ مکہ وہ مقام ہے جہاں کوئی چیز پیدا نہیں ہوتی تھی اور باہر سے بھی سخت چیزیں تو وہاں پہنچ جاتی تھیں لیکن نازک چیزیں وہاں پہنچتے پہنچتے گل سڑ جاتی تھیں۔ پس انہوں نے روٹی مانگنے کی بجاے پھل مانگے جو ایک نہایت نازک چیز ہے اور سمجھا کہ جب میوے آجائیںگے تو اور چیزیں تو خود بخود آجائیں گی۔ چنانچہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ وہاں ہر ملک کے میوے ملتے ہیں۔ پس میوے ملنے سے مراد یہ ہے کہ انکو میوے بھی مل جائیں اور باقی اشیاء بھی مل جائیں۔ گویا میووں میں ہی باقی اشیاء کا ذکر آجاتا ہے۔
قَالَ وَمَنْ کَفَرَ فَاُمَتِّعُہ‘ قَلِیْلًا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ رزق کے معاملہ میں ہمارا حکم ہے اور نبوت اور امامت کے معاملہ میں ہمارا اور حکم ہے اور نبوت اور امامت کے معاملہ میں اور حکم ہے۔ مگر رزق ہر ایک کو ملتا ہے پس جو کافر ہو گا دنیا کی روزی ہم اس کو بھی دیں گے چنانچہ سینکڑوں سال تک مکہ کے لوگ مشرک رہے مگر خدائی رزق ان کو بھی پہنچتا رہا ہاں تیری نسل ہونے کی وجہ سے وہ اُخروی عذاب سے نہیں بچ سکتے ۔ مر جائیں گے تو جہنم میں ڈالے جائیں گے اور وہ بہت ہی بُرا ٹھکانہ ہے۔
اس جگہ اُمَتِّعُہ‘ قَلِیْلًا سے صرف چند دنوں کا رزق مراد نہیں بلکہ اس نے دنیوی نفع مراد ہے جو مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْل’‘ کا مصداق ہوتا ہے۔مَنْ کَفَرَ فَاُمَتِّعُہ‘ میں یا تو فاء زائدہ ہے یا مَنْ کی خبر محذوف ہے اور اصل عبارت یوں ہے کہ اَرْزُقُہ‘ فَاُمَتِّعُہ‘ یعنی میں اُسے رزق بھی دونگا اور اس کے علاوہ ہر قسم کی دوسری منفعت بھی اُسے پہنچتی رہے گی۔ مگر روحانی فوائد جب تک کوئی شخص انبیاء سے تعلق نہیں رکھیگا اسے نہیں ملیں گے۔ گویا اس جگہ فاء عطف کے لئے ہے۔
تورات میں اس دعا کا کہیں ذکر نہیں آتا کیونکہ یہود نے بنو اسمٰعیل کی دشمنی کی وجہ سے تورات سے مکہ کا ذکر ہی اُڑا دیا ہے۔ البتہ خانہ کعبہ کا ذکر اُس میں بعض جگہ مل جاتا ہے۔
اِس آیت سے یہ استدلال بھی ہوتا ہے جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام الصلوٰۃ والسلام بڑا زور دیا کرتے تھے۔ کہ انبیاء کے انکار کی وجہ سے دنیا میں عذاب نہیں آتا ہے۔ بلکہ عذاب محض شرارت اور فساد کی وجہ سے آتا ہے۔ اگر لوگ تقویٰ کی زندگی بسر کریں تو محض انبیاء کے انکار کی وجہ سے اس دنیا میں اُن پر عذاب نہیں آسکتا۔ اصل بات یہ ہے کہ انسان جسم و رُوح سے مرکب ہے وہ جسمانی اطاعت کے ساتھ جسمانی دنیا میں سکھ پا لیتا ہے۔ لیکن جب خالص روحانی دنیا آتی ہے تو چونکہ اس نے اس زندگی کا کام نہیں کیا ہوتا اس لئے وہاں اُسے تکلیف پہنچتی ہے مَنْ کَفَرَ فَاُمَتِّعُہ‘ فَلِیْلًا میں اللہ تعالیٰ نے دنیا میں امن قائم کرنے کا یہ نہایت ہی اعلیٰ درجے کا ذریعہ بتایا ہے کہ اختلاف مذہب دنیوی تعلقات کو توڑ دینے کا موجب نہیں ہونا چاہیے۔اگر دنیا اس پر عمل کرے اور فتنہ و فساد میں حصہ نہ لے تو تمام مذہبی جھگڑے اور فسادات مٹ سکتے ہیں۔
ثُمَّ اَضْطَرُّ اِلیٰ عَذَابِ النَّار سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ فَاُمَتِّعُہ‘ قَلِیْلًا سے مراد کچھ دن نہیں بلکہ دنیوی زندگی ہے کیونکہ فرماتا ہے میں انہیں مضطر کرکے عذاب کی طرف لے جائوں گا۔ اور عذاب کی طرف انسان موت کے بعد ہی جا سکتا ہے ۔ بہر حال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اور کوئی جگہ انکی پناہ کے لئے نہیں رہے گی۔ وہ ایک ہی جگہ لیجائے جائیں گے اور وہ عذاب کی جگہ ہو گی
وَاِذْ یَرْفَعُ
اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُo
اور وہ بہت بُرا ٹھکانہ ہے۔ گھیر گھار کر اور مجبور کر کے لے جانا اپنے اندر ایک حکمت رکھتا ہے۔ بظاہر اس کے یہ معنی معلوم ہوتے ہیں کہ خداتعالیٰ مجبور کر کے عذاب کی طرف لے جاتا ہے۔ لیکن اس سے یہ مراد نہیں بلکہ اس میں اللہ عتالیٰ کے اس قانون کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب انسان متواتر کوئی بُرا کام کرتا ہے تو اس کے لازمی نتیجہ کے طور پر اس کی نیکی کی قوتیں کمزور ہو جاتی ہیں۔ اور وہ بدیوں کی طرف کھچا چلا جاتا ہے۔ جو لوگ اس بات کو نہیں مانتے وہ کہا کرتے ہیں کہ نیکی کا کیا ہے وہ تو ہم جب چاہیں کر سکتے ہیں حالانکہ یہ درست نہیں۔ قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ گناہ کوئی مفرد چیز نہیں بلکہ وہ ایک بیج کی طرح ہوتا ہے اور پھر اس سے آگے اور درخت پیدا ہو جاتے ہیں اسی طرح ہر گناہ اپنے ظہور کے بعد اور گناہ پیدا کرتا ہے۔ یہی حال نیکی کا ہے۔ ہر نیکی اپنے ظہور کے بعد اور نیکیاں پیدا کرتی ہیں۔ خداتعالیٰ کا رحیم ہونا نیکیوں کے بڑھانے پر دلالت کرتا ہے اور اس کا قہاد ہونا بدیوں کے بڑھانے پر دلالت کرتا ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ خداتعالیٰ انسان کو بدی پر مجبور کرتا ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ متواتر بیدوں کے نتیجہ میں انسان اپنے آپ کو ایسے مقام پر پاتا ہے جس سے اگر وہ بچنا بھی چاہے تو نہیں بچ سکتا۔ پس اَضْطَرُّہ‘ میں انسان کو مایوس کرنا مراد نہیں بلکہ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ انسان کو بدیوں سے بچ کر رہنا چاہیے ورنہ اس پر ایسی حالت طاری ہو جائیگی کہ وہ بدیوں کی طرف کھینچا چلا جائیگا اور اس کا پیچھے قدم ہٹا نا مشکل ہو جائیگا۔ کیونکہ جب انسان کسی بدی میں پھنس جاتا ہے تو پھر اس کے لئے چھٹکارا حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پس اس میں کسی جبر کی طرف اشارہ نہیں بلکہ احتیاط کرنیکی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ چنانچہ آگے فرماتا ہے وَبِئْسَ الْمَعِیْرُ۔ اگرمجبور کرنا مراد ہوتا ہے تو َبِئْسَ الْمَعِیْرُکہنے کا کوئی مطلب نہیں تھا۔ یہ الفاظ اس لئے لائے گئے ہیں کہ انسان کو توجہ دلائی جائے کہ اُسے اس بارہ میں بڑی احتیاط سے کام لینا چاہیے اور بدی کے لئے ایک اضطرار کی سی کیفیت پیداہو جائیگی۔ یہی حالت انسان کے دوسرے افعال میں بھی پائی جاتی ہے۔ چنانچہ بڑے بڑے تعلیم یافتہ لوگ بھی بعض دفعہ عجیب عجیب حرکتیں کرتے ہیں۔ جس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ پہلے انہوں نے کوئی حرکت چند بار کی اور پھر انہیں اس کی عادت پڑگئی۔ اسی طرح نیکی اور بدی دونوں کی ابتداء انسان کے اپنے اختیار سے ہوتی ہے مگر انتہا اضطرار ہوتی ہے۔ اور چونکہ ابتداء انسان کے اختیار میں ہوتی ہے اس لئے اس کی انہاء بھی اختیار کے تابع سمجھی جاتی ہے۔ مثلاً جس انسان کو نماز کی پرانی عادت ہو اسے نماز کا ثواب برابر ملتا چلا جاتا ہے۔کیونکہ اس نے ارادہ سے اس کی ابتداء کی ہوتی ہے۔ یہی حال بدی کا ہوتاہے انسان اُسے اپنے اختیار سے شروع کرتا ہے لیکن آخر میں اضطارء تک حالت پہنچ جاتی ہے اور پھر اگر وہ اس سے بچنا بھی چاہے تو بچ نہیں سکتا اور وہ اس بدی کا غلام بن جاتا ہے۔ اَضْطَرُّہ‘ اِلیٰ عَذَابِ النَّارِ میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ چونکہ یہ لوگ ایسے مقام پر پہنچ چکے تھے کہ اپنے آپ کو بدی کرنے پر مجبور پاتے تھے۔ اس لئے خدابھی انہیں مجبور کر کے دوزخ کی طرف لے جائیگا اور انہیں اپنے عمل کے مطابق بدلہ مل جائیگا۔
تفسیر:۔ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا تھا کہ بیت اللہ کو ہم نے مثابہ اور امن کا مقام بنایا ہے۔ اس میں یہ کوئی ذکر نہیں تھا کہ بیت اللہ کی تعمیر کس کے ہاتھوں ہوئی۔ مگر اب فرماتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس گھر کی بنیادیں کھڑی کیں۔ اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ کی بنیادیں رکھی تھیں۔ مگر یہ درست نہیں۔ کیونکہ یہاں اللہ تعالیٰ نے یَضَعُ الْقَوَاعِدَ نہیں فرمایا بلکہ یَرْفَعُ الْقَوَاعِدَ فرمایا ہے۔اگربنیاد رکھنے کا ذکر ہوتا تو وَضَعَ کا لفظ استعمال کیا جاتا۔ اس سے
معلوم ہوتا ہے۔کہ بیت اللہ پہلے سے موجود تھا مگر اس کی عمارت منہدم ہو چکی تھی ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اس کی بنیادوں کو پلند کیا۔ اور بیت اللہ کی ازسرِ نو تعمیر کی۔ قرآن کریم کی بعض اور آیات سے بھی اس مضمون کی تصدیق ہوتی ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ایک مقام پر فرماتاہے۔ اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبَارَکًا وَّ ھُدَی لِّلْعٰلَمِیْنَ(آل عمران:۹۷)یعنی سب سے پہلا گھر جو تمام لوگوں کے فائدہ کے لئے بنایا گیا۔ وہ ہے جو مکہ مکرمہ میں ہے۔ وہ تمام جہانوں کے لئے برکت والا اور ہدایت کا مقام ہے۔ اسی طرح خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور جو دعائیں کیں اس کے بعض الفاظ یہ ہیں کہ رَبَّنَآ اِنِّٓیْ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَبَیْتِکَ الْمُحَرَّ مِ(ابراہیم:۳۸)یعنی اے ہمارے رب: میں نے اپنی اولاد میں سے بعض کو تیرے معزز گھر کے پاس ایک ایسی وادی میں لا بسایا ہے جس میں کوئی کھیتی نہیں ہوتی۔ یہ دُعا بھی بتاتی ہے کہ بیت اللہ وہاں پہلے سے موجود تھا کیونکہ یہ دعا اس وقت کی ہے جب حضرت اسمٰعیل علیہ السلام ابھی بچے تھے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہاجرہ اور اسمٰعیل کو وہاں لا کر بسادیا تھا۔ اُس وقت وہ دعامیں عِنْدَ بَیْتِکَ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جگہ اُنکو الہاماً بتائی گئی تھی اور انہیں بتایا گیا تھا کہ یہ پہلا گھر ہے جو خداتعالیٰ کے لئے تعمیر ہوا۔
اسی طرح قرآن کریم نے ایک مقام پر بیت اللہ کو بَیْتُ الْعٰتِیْقِ بھی قرار دیا ہے چنانچہ فرماتا ہے:۔وَلْیَطَّوَّ فُوْا بِالْبِیْتِ الْعَتِیْقِ(الحج آیت۳۰)یعنی لوگوں کو چاہیے کہ وہ اس قدیم ترین گھر کا طواف کریں۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بیت اللہ بہت پرانا گھر ہے یا یوں کہو کہ وہ پہلی عبادت گاہ ہے جو دُنیا میں تیار کی گئی۔ پس حضرت ابراہیم علیہ السلام اس کے بانی نہیں بلکہ انہوں نے صرف اس کی عمارت کی تجدید کی تھی اور اس کی اصلی بنیادوں پر اُسے کھڑا کیا تھا۔ احادیث سے بھی اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آنے سے پہلے بیت اللہہ کے نشانات موجود تھے۔ چنانچہ بخاری میں لکھا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام ہاجرہ اور اسمٰعیل کو وہاں چھوڑ کر واپس جانے لگے تو فَقَالَتْ یَا اِبْرَاھِیْمُ اَیْنَ تَدْھَبُ! وَ تَتْرُ کُنَا بِھٰذَالْوَادِی الَّذِیْ لَیْسَ فِیْہِ اَنِیْس’‘ وَ لَا شَیْء’‘ فَقَالَتْ لَہ‘ ذٰلِکَ مِرَارًا وَجَعَلَ لَایَلْتَفِتُ اِلَیْھَا فَقَالَتْ لَہ‘ أَللّٰہُ اَمَرَکَ بِھٰذَا ؟قَالَ نَعَمْ! قَلَتْ اِذًا لَا یُضَیِّعُنَا۔ ثُمَّ رَجَعَتْ فَانْطَلَقَ اِبْرَاھِیْمُ حَتّٰی اِذَا کَانَ عِنْدَ الثَنْیَۃِ حَْٰثُ لَا یَرَوْنَہ‘ اِسْتَقْبَلَ بِوَجْھِہِ الْبَیْتَ ثُمَّ دَعَا بِھٰؤُلَٓائِ الْکَلِمٰتِ وَرَفَعَ یَدَیْہِ۔ فَقَالَ رَبِّ اِنِّیْ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّ یَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ(بخاری کتاب بدء الخلق باب قول اللہ عزوجل وَاتَّحَذَ اللّٰہُ اِبْرٰھِیْمَ خَلِیْلًا)یعنی حضرت ہاجرہؓ نے کہا۔ اے ابراہیم؟ تم کہاں جا رہے ہو کیا تم ہمیں ایک ایسی وادی میں چھوڑ کر جا رہے ہو جہاں نہ کوئی انسان ہے نہ کوئی اور چیز اور انہوں نے بار بار یہ سوال کیا۔ مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام شدتِ رقت کی وجہ سے جو اُں پر طاری تھی اس کا جواب نہ دے سکے بلکہ اُن کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھتے تھے اس پر حضرت ہاجرہؓ نے کہا۔ بتائیں کیا خدا نے آپ کو ایسا کرنے کا حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا۔ ہاں! تب حضرت ہاجرہؓ نے کہا۔ کہ پھر ہمیں کوئی ڈر نہیں۔ خداتعالیٰ ہمیں کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ یہ کہہ کر وہ واپس چلی آئیں جب حضرت ابراہیم علیہ السلام موڑ پر پہنچے اور ہاجرہؓ اور اسمٰعیل ؑ اُن کی نظر سے اوجھل ہو گئے تو انہوں نے خانہ کعبہ کی طرف منہ کیا (اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہاں خانہ کعبہ کا نشان موجود تھا گو عمارت نہیں تھی )اور ہاتھ اٹھا کہ یہ دُعا کی کہ رَبَّنَآ اِنِّٓیْ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّ یَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ لارَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلوٰۃَ فَاجْعَلْ اَفْئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَھْرِیٓٓ اِلَیْھِمْ وَارْزُتْھُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّھُمْ یَشْکُرُوْنَ(ابراہیم:۴۸)
یہ حدیث بھی بتاتی ہے کہ خانہ کعبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بنایا ہوا نہیں بلکہ انہوں نے صرف اس کی عمارت کی تجدید کی تھی۔ اور یہ کہ بیت اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بھی پہلے کا ہے اور اس کی ابتداء ایسے زمانہ سے وابستہ ہے جس کا علم صرف خداتعالیٰ کو ہی ہو سکتا ہے۔ تاریخ اس کو بیان نہیں کرتی یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس کی طرف منہ کر کے خاص طور پر دعا کی اور اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل اور رحم طلب کیا۔
میور جیسا متعصب مصنف بھی اپنی تصنیف ’’لائف آف محمدؐ ‘‘ میں تسلیم کرتا ہے کہ:۔
’’مکہ کے مذہب کے بڑے برے اصولوں کو ایک نہایت ہی قدیم زمانہ کی طرف منسوب کرنا پڑتا ہے ۔ گو ہیر وڈوس(مشہور یونانی جغرافیہ نویس) نے نام لے کر کعبہ کا ذکر نہیں کیا مگر وہ عربوں کے بڑے دیوتائوں میں سے ایک دیوتا اللَّات(یعنی خدائوں کا خدا) کا ذکر کرتا ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مکہ میں ایک ایسی ہستی کی پرستش کی جاتی تھی جسے بڑے بڑے بتوں کا بھی خدا مانا جاتا تھا۔‘‘(c-11۲۰۲)
پھر لکھتا ہے ہے کہ مشہور مورخ ڈایوڈواس سکولس جو ساٹھ سال قبل مسیح گذرا ہے اُس نے بھی کہا ہے کہ عرب کا وہ حصہ جو بحیرہ احمر کے کنارے ہے وہاں پتھر کا ایک معبد بنا ہوا ہے جو بہت قدیم زمانہ سے ہے اور جس کی طرف عرب کے چاروں اطراف سے گروہ در گروہ لوگ آتے رہتے ہیں۔ سر ولیم میور اس کا ذکر کرتا ہوا لکھتا ہے کہ یہ الفاظ مکہ کے مقدس گھر کے متعلق ہی ہیں کیونکہ اس کے علاوہ اور کوئی جگہ نہیں جس نے اتنا بڑا احترام حاصل کیا ہو۔(دیباچہ لائف آف محمدc-iii۱۰۳)
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مَنَّا اِنَّکَ اَنْتَ اسَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ یہ انبیاء ہی کی شان ہے کہ وہ کام کے ساتھ ساتھ دعائیں بھی کرتے چلے جاتے ہیں۔ لوگ تھوڑا سا کام کرتے ہیں تو فخر کرنے لگ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہ م نے بڑی بڑی قربایواں کی ہیں۔ مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھو کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کو ذبح کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ پھر وہ بڑا ہوتا ہے تو اسے ایک ایسے جنگل میں چھوڑ آتے ہیں جہاں نہ کھانے کا کوئی سامان تھا نہ پینے کا۔ اور پھر خانہ کعبہ کی عمارت بنا کر اُن کی دائمی موت کو قبول کر لیتے ہیں۔ دائمی موت کے الفاظ میں نے اس لئے استعمال کئے ہیں کہ ممکن تھا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واپس آجانے کے بعد وہ وہاں سے نکل کر کسی اور جگہ چلے جاتے۔ مگر بیت اللہ کی تعمیر کے ساتھ وہ خانہ کعبہ کے ساتھ باندھ دیئے گئے گویا خانہ کعبہ کی ہر اینٹ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو بزبان حال کہہ رہی تھی کہ تم نے اب اسی جنگل میں اپنی تمام عمر گزارنا ہے۔ یہ کتنی بڑی قربانی تھی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے کی۔ مگر اس کے بعد وہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے اور کہتے ہیں کہ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا۔ اے اللہ! ہم ایک حقیر ہدیہ تیرے حضور لائے ہیں تو اپنے فضل سے چشم پوشی فرما کر اسے قبول فرما لے۔ اور پھر کتنے تکلف سے قبول کرنیکی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔ تَقَبَّلْ باب تفعل سے ہے اور تفعل میں تکلف کے معنے پائے جاتے ہیں۔ پس وہ کہتے ہیں کہ تو خود ہی رحم کر کے اس قربانی کو قبول فرمالے حالانکہ یہ اتنی بڑی قربانی تھی کہ اس کی دنیا میں نظیر نہیں ملتی۔ باپ بیٹے کو اور بیٹا باپ کو قربان کر رہا تھا اور خانہ کعبہ کی ہر اینٹ ان کو بے آب و گیاہ جنگل کے ساتھ مقید کر رہی تھی۔ خود حضرت ابراہیم علیہ السلام اس کی ایک ایک اینٹ کے ساتھ ان کے جذبات و احساسات کو دفن کر رہے تھے مگر دعا یہ کرتے ہیں کہ الہٰی یہ چیز تیرے حضور پیش کرنے کے قابل تو نہیں مگر تو اسے قبول فرما لے۔ یہ کتنا بڑا تذقل ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اختیار فرمایا اور درحقیقت قلب کی یہی کیفیت ہے جو انسان کو اونچا کرتی ہے۔ ورنہ اینٹیں تو ہر شخص لگا سکتا ہے مگر ابراہیمی دل ہو تب وہ نعمت میسر آتی ہے جو خداتعالیٰ نے انہیں عطا فرمائی۔ پس ہر انسان کو چاہیے کہ وہ رَبَّنَا تَقَبَلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ مَنَّا الْعلِیْم کہے۔لیکن افسوس ہے کہ لوگ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مَنَّا کہنے کی بجائے یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ ہماری قدر نہیں کی جاتی۔ حالانکہ وہ جو کچھ کرتے ہیں دوسروں کی نقل میں کرتے ہیں۔ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کسی کی نقل میں قربانی نہیں کی۔ بلکہ اِدہر خدا نے حکم دیا اور اُدھر وہ قربانی کے لئے تیار ہو گئے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو دُنیا کے ستون ہوتے ہیں اور جن کا بابرکت وجود مصائب کے لئے تعویز کا کام دے رہا ہوتا ہے۔ وہ قربانیاں بھی کرتے ہیں مگر ساتھ ہی یہ کہتے جاتے ہیں کہ اے خدا ہماری قربانی اس قابل نہیں کہ تیرے حضور پیش کی جاسکے تیری ہستی نہایت اعلیٰ و ارفع ہے۔ ہاں ہم امید کرتے ہیں کہ تو چشم پوشی سے کام لیتے ہوئے اسے قبول فرمالے گا تیرا نام سمیع ہے اور تو دعائوں کو سننے والا ہے۔ ہماری یہ قربانی قبول کرنے کے لائق تو نہیں مگر تو جانتا ہے کہ ہمارے پاس اس سے زیادہ اور کچھ چیز نہیں جو تیرے سامنے پیش کریں۔ ایک طرف تیرا سمیع ہونا چاہتاہ ے کہ تو ہم پر رحم کرے اور دوسری طرف تیرا علیم ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ تو جانتا ہے کہ ہمارے جیسے نے کیا قربانی کرنی ہے۔ اسی رُوح کا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے مظاہرہ کیا۔ اور جب وہ دونوںمل کر بیت اللہ کی بنیادیںاُٹھا رہے تھے تو ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے دعائیں بھی کرتے جاتے تھے کہ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اے ہمارے رب ہم نے خالص تیری توحید اور محبت کے لئے یہ گھر بنایا ہے تو اپنے فضل سے اسے قبول کر لے اور اس کو ہمیشہ اپنے ذکر اور برکت کی جگہ بنا دے۔اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْم تُو ہماری درد مندانہ دعائوں کو سننے والا اورہمارے حالات کو خوب جاننے والا ہے۔ تو اگر فیصلہ کر دے کہ یہ گھر ہمیشہ تیرے ذکر کے لئے مخصوص رہیگا تو اسے کون بدل سکتا ہے۔
اس آیت سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ بیت اللہ بنا نیکے درحقیقت دو حصے ہیں۔ ایک حصہ بندے سے تعلق رکھتا ہے اور دوسرا حصہ خداتعالیٰ سے تعلق رکھتا ہے جس مکان کو ہم بیت اللہ کہتے ہیں وہ اینٹوں سے بنتا ہے۔ چُونے سے بنتا ہے گارے سے بنتا ہے اور یہ کام خدا نہیں کرتا بلکہ انسان کرتا ہے۔ مگر کیا انسان کے بنانے سے کوئی مکان بیت اللہ بن سکتا ہے۔ انسان تو صرف ڈھانچہ بناتا ہے روح اس میں خداتعالیٰ ڈالتا ہے۔ اسی امر کو مدنظر رکھتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ڈھانچہ تو میں نے اور اسمٰعیل نے بنا دیا ہے مگر ہمارے بنانے سے کیا بنتا ہے۔ کئی مسجدیں ایسی ہیں جو بادشاہوں اور شہزادوں نے بنائیں مگر آج وہ ویران پڑی ہیں۔ اس لئے کہ انسان نے تو مسجدیں بنائیں مگر خدا نے انہیں قبول نہ کیا۔ پس حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسمٰعیل ؑ کہتے ہیں کہ اے خدا! ہم نے تیر اگھر بنایا ہے اسے تو قبول فرما۔ اور تو سچ مچ اس میں رہ پڑ۔ اور جب خدا کسی جگہ بس جائے تو وہ کیسے اُجڑ سکتا ہے ۔ گائوں اُجڑ جائیں تو اُجڑ جائیں شہر اُجڑ جائیں تو اُجڑ جائیں مگر وہ مقام کبھی اُجڑ نہیں سکتا جس جگہ خدا بس گیا ہو۔
رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا


اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُo
۴۵؎ حل لغات:۔مُسْلِم’‘ فرمانبردار کو کہتے ہیں۔
اُمَّۃ’‘ کے معنے جماعت کے ہوتے ہیں۔
اَرِنَا: ہمیں دکھادے۔ رُوْیَۃ آنکھوں کی بھی ہوتی ہے اور دل کی بھی۔یہاں دونوں ہی مراد ہو سکتی ہیں ۔ مگر آگے چونکہ مَنَاسِک کا لفظ اایا ہے اس لئے بجائے دکھاوے کے ہم یوں کہیں گے ہم پر ظاہر کر دے یا ہمیں بتا دے۔
مَنَاسِک: مَنْسَک کی جمع جس کے معنے عبادت کے ہوتے ہیں۔ یا وہ تمام حقوق جو خداتعالیٰ کے حضور ہمیں ادا کرنے چاہیں۔
تَوْبَۃ: جب یہ لفظ بندہ کے لئے آئے تو اس کے معنے ہوتے ہیں بندہ کا خداتعالیٰ کی طرف سچے دل سے جھکنا اور اس کی طرف رجوع کرنا۔ اور جب یہ خداتعالیٰ کے لئے آئے تو اس کے معنے ہوتے ہیں۔ خداتعالیٰ کا بندوں پر رحم کرنا۔ اس میں اور رحم میں یہ فرق ہے کہ رحیم کا لفظ نیکی کے بعد روحانی ترقیات دینے پر دلالت کرتا ہے اور توبہ کا لفظ اُن ترقیات پر دلالت کرتا ہے جو نیکی کے اعلیٰ مقام تک نہ پہنچیں بلکہ اس سے نیچے رہیں۔ تَوَّاب زیادہ تر بدیوں اور کمزوریوں کے دور کرنے کے موقع پر استعمال ہوتا ہے اور روحانی قابلیتوں اور طاقتوں کے پیدا کرنے کے موقع پر رحیم کا لفظ آتاہے یہ دونوں الگ الگ قسم کی رحمت ہے۔ رحیم ارتقاء اور زیادتی کے لئے اور تواب نقصان سے پاک ہو جانے کے لئے آتا ہے۔ گویا جب انسان نقصان سے پاک ہو جاتا ہے اور روحانی ارتقاء کی طرف مائل ہو جاتا ہے تو صفت رحیمیت کادور دورہ ہو جاتا ہے۔
تفسیر:۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام دعا مانگتے ہوئے فرماتے ہیں۔اے خدا! اس گھر کی آبادی تیرے بندوں سے وابستہ ہے۔ مگر محض لوگوں کی آبادی کوئی چیز نہیں۔ اصل چیز یہ ہے کہ اس سے تعلق رکھنے والے نیک ہوں۔ پس ہم جو بیت اللہ کو بنانے والے ہیںاور جو دو افراد ہماری پہلی دُعا تو یہ ہے کہ تو کود ہمیں نیک بنا وَمِنْ زُرِّیَّتِنَا مُّسْلِمَۃً لَّکَ اور پھر ہماری اولاد میں سے ہمیشہ ایک گروہ ایسا موجود رہے جو تیرا مطیع اور فرمانبردار ہو۔ وَاَرِنَامَنَا سِکْنَااور ہماری مناسب حال ہمیں عبادت کے طریق بتا۔ اصل بات یہ ہے کہ انسان کے دل میں خواہ کتنا ہی اخلاص ہو۔ اگر اسے طریق معلوم نہ ہو کہ کس طرح کسی گھر کو ااباد رکھنا ہے تو پھر بھی وہ غلطی کر سکتا ہے۔ اس لئے وہ دعا کرتے ہیں کہ اے خدا نہ صرف ہمارے دلوں میں ایمان قائم رکھ بلکہ وقتاً فوقتاً ہمیں یہ بھی بتاتا رہیو کہ ہم نے کس طرح اسے آباد رکھنا ہے اور ہم وہ کونسا طریق عبادت اختیار کریں جس سے تو خوش ہو اور یہ گھر آباد رہ سکے۔
اس دعا میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اَرِنَا الْمَنَا سِکَ کہنے کی بجائے مَنَاسِکَنَا کہا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ہر زمانہ کے حالات بدلتے رہتے ہیں اور کامل مومن وہی ہوتا ہے جو ان فرائض کو سمجھنے کی کوشش کرے جو بدلے ہوئے حالات کے مطابق اُس پر عائد ہوتے ہیں محض ایک پرانی لکیر پر چلتے چلے جانا اور حالات کے تغیر کو مدنظر نہ رکھنا انسان کو کسی ثواب کا مستحق نہیں بناتا۔ افسوس ہے کہ اس زمانہ میں مسلمانوں نے بھی اس نکتہ کو نہ سمجھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ جہاد بالسیف پر ہی زور دیتے رہے حالانکہ زمانہ اُن سے تلوار کے جہاد کا نہیں بلکہ زبان اور قلم کے جہاد کا مطالبہ کر رہا ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام دُعا کرتے ہیں کہ الہٰی جو نیکی جس وقت کے مناسب حال ہو اس کو سرانجام دینے کی ہمیں توفیق عطا فرما اور اس بارہ میں ہمیشہ ہماری رہنمائی فرما۔
حدیثوں میں آتا ہے ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پوچھا کہ یہ یا رسول اللہ! سب سے بڑی نیکی کون سی ہے۔ آپؐ نے فرمایا سب سے بڑی نیکی تہجد ہے۔ پھر کسی اور نے آپؐ سے پوچھا سب سے بڑی نیکی کون سی ہے۔ توآپؐ نے فرمایا جہاد سب سے بڑی نیکی ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہر شخص کے لئے الگ الگ بڑی نیکیاں ہیں۔جوشخص جہاد نہیں کرتا اس کے لئے جہاد ہی سب سے بڑی نیکی ہے اور جو شخص کبرونخوت سے بھرا ہوا ہو اس کے لئے سب سے بڑی نیکی یہی ہے کہ وہ کبر ونخوت چھوڑ دے۔ جو شخص نیند کا متوالا ہے او ر اس وجہ سے عشاء اور صبح کی نمازیں مسجد میں ادا نہیں کر سکتا۔ اس کے لئے سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ وہ نیند دور کرے۔ اور نمازیں مسجد میں ادا کرے۔جو شخص تہجد نہیں پڑھتا او کے لئے سب سے بڑی نیکی تہجد پڑھنا ہے۔ جو شخس ماں باپ کی خدمت نہیں کرتا۔ اس کے لئے سب سے بڑی نیکی ماں باپ کی خدمت کرنا ہے۔ غرض نیکی کا جو کام کسی کے نفس پر بوجھل ہو وہی اس کے لئے سب سے بڑی نیکی ہے اسی طرح جس چیز کی ضرورت دوسروں پر مقدم سمجھی جائے وہی سب سے بڑی نیکی ہے نماز کے وقت نماز ہی سب سے بڑی نیکی ہے۔ اور روزہ کے وقت روزہ ہی سب سے بڑی نیکی ہے۔ غرض انسان کے لئے مختلف اوقات میں مختلف بڑی نیکیاں ہوتی ہیں اسی طرح مختلف اقوام اور افراد اور زمانوں کے لحاظ سے بھی سب سے بڑی نیکی کی تعین مختلف ہوتی چلی جاتی ہے جس قوم یا جس فرد یا جس زمانہ کے لئے جس نیکی کی ضرورت ہو وہی اس کے لئے بڑی بن جاتی ہے اور اس پر عمل اُسے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا مستحق بنا دیاتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اسی نکتہ کو مدنظر رکھتے ہوئے دعا کرتے ہیں کہ الہٰ ہم کمزور اور ناطاقت ہیں اور ہم پوری طرح تیری عبادت بجا لانے سے قاصر ہیں تو آپ ہم پر رحم کیجیئو اور ہمارے مناسب حال عبادت کے طریق بنائیو۔ ہم سے یہ بوجھ نہیں اٹھایا جاتا۔
وَتُبْ عَلَیْنَا۔ مگر اس الہام کے باوجود جو یہ بتاتا رہے کہ کس طرح اس گھر کو آباد رکھنا چاہیے اے خدا! ہم تیرے بندے ہیں ہم نے غلطیاں بھی کرنی ہیں اس لئے تو ہمیں معاف کر دیا کر۔ اور ہمارے گناہوں سیدرگذر کرتا رہ۔
اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ: تو بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے۔ تواب اور رحیم نام اس لئے لائے گئے ہیں کہ بندہ خواہ کتنی بھی نیک نیتی کے ساتھ کام کرے وہ غلطی کر جاتا ہے۔ ایسی حالت میں توابیت اُس کے کام آتی ہے اور اگر اچھا کام کرے تو رحیمیت اُس کے کام آتی ہے۔
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ


اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُo
۴۶؎ حل لغات:۔ اٰیٰت’‘ :۔اٰیَۃ’‘ کالفظ اٰدٰی سے نکلا ہے جس کے معنے ہیں ’’جگہ دی‘‘ (۲) اسی طرح ہر وہ کالام جو لفطی نشان کے ذریعہ ختم کیا جائے آیت کہلاتا ہے۔ جیسے قرآن کریم کی آیات جہاں ختم ہوتی ہے وہاں ایک نشان ڈال دیا جاتا جو آیت کے ختم ہونے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔(۳) اس کے ایک معنے عبرت کے بھی ہیں یعنی ایسی بات جو دوسرے کے لئے نصیحت کا باعث ہو(۴)آیت کے معنے کسی چیزکے وجود اور اس کی شخصیت کے بھی ہیں(۵) اس کے ایک معنے جماعت کے بھی ہیں گویا فردی شخصیت بھی اس لفظ کے مفہوم میں آجاتی ہے اور جماعتی شخصیت بھی چنانچہ کہتے ہیں۔ خَرَجَ الْقَوْمُ بِاٰ یٰتِھِمْ یَدَعْ وَرَائَ ھُمْ شَیْئًا(اقرب)قوم اپنے سارے وجود کو لے کر چلی اور اپنے پیچھے کچھ بھی نہ چھوڑا۔
بعض نحوی کہتے ہیں کہ آیت کا لفظ تَاُیّ سے نکلا ہے جس کے معنے تَثَبَّتَ عَلَی الشَّیْئِ اور اقامت کے ہیں یعنی کسی چیز کا ٹِک جانا اور ایک جگہ پر جم جانا چونکہ یہ ایک جگہ پر قائم ہوتی ہے اس لئے اسے آیت کہتے ہیں۔ جیسے سڑکوں پر سنگِ میل ایک علامت اور نشان کے طور پر کھڑے ہوتے ہیں۔
(۶) اَلْاٰیَۃُ: ھِیَ الْعَلَامَۃُ الظَّا ھِرَۃ۔ اس کے ایک معنے ظاہری علامت کے بھی ہوتے ہیں۔ یعنی ہر چیز کا جو جسم ہوتا ہے علامت اور آیت کہلاتا ہے مثلاً ایک کتاب کے الفاظ علامت اور آیت کہلاتے ہیں۔ کیونکہ ان کے ذریعہ مطلب کا پتہ لگتا ہے۔ غرض ہر وہ چیز جس کے ذریعہ کسی دوسری مخفی چیز کا پتہ لگے وہ آیت ہے۔
(۷) آیت بناء عالی کو بھی کہتے ہیں۔یعنی اونچی عمارت ۔یہ لفظ اِن معنوں میں قرآن کریم میں بھی استعمال ہوا ہے جیسا کہ آتا ہے ۔اَتَبْنُوْنَ بِکُلِّ رِیْعٍ اٰیَۃُ تَعْبُثُوْنَ(شعراء ۱۲۹)یعنی کیا تم پہاڑوں پر بیفائدہ عمارتیں بناتے ہو۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ پُرانے زمانہ میں یہ عام ستور تھاکہ پہاڑوں پر لوگ عمارتیں بناتے تھے ۔ یہ یورپ کا نیا دستور نہیں۔
(۸)آیت کے معنے ٹکڑے کے بھی ہوتے ہیں جیسا کہ قرآن مجید کی آیات ہیں۔
(۹) آیت عذاب کو بھی کہتے ہیں۔جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے ۔وَمَا نُرْسِلُ بِاْلٰا یٰتِ اِلَّا تَخْرِیْفًا۔(بنی اسرائیل ) یعنی ہم تو صرف خوف دلانے کیلئے آیات بھیجتے ہیں۔(مفردات)
ٓ اَلْکِتٰبَ: میں اس کے کئی معنے ہیں۔(۱)اَلصَّحِیْفَۃُ لکھی ہوئی چیز جسے عرف میں کتاب کہتے ہیں۔(۲)اَلْحُکْمُ۔حکم (۳)اَلْفَرْضُ ۔فرض (۴)جامع یعنی جمع کرنے والی چیز ۔جیسے کَتِیْبَۃ ایک بڑے لشکر کو کہتے ہیں۔جس میں جھنڈے سامان اور فوج سب کچھ شامل ہوتا ہے ۔ کتاب کا لفظ اصل میں جوڑنے کے معنے رکھتا ہے ۔چنانچہ مشکیزہ کا منہ بند کر دینا۔یا جانوروں کے منہ میں کوئی آلہ ڈال دینا۔ جس کی وجہ سے وہ دوسری چیزوں یا کھیتوں کو خراب نہ کر سکیں ۔اُسے کتبہ کہتے ہیں۔ یہ بھی کتاب کا مصدر ہے ۔اِسی سے آگے حروف کو دوسرے حروف سے جوڑنے کے معنے پیدا ہو گئے ۔ کتاب کا لفظ لکھی ہوئی چیز کیلئے زیادہ تر استعمال ہوتا ہے ۔ گو محاورہ میں بھی نہ لکھے ہوئے کلام کو بھی جو کہ معین ہو اور یاد کرایا جا تا ہو کتاب کہہ دیتے ہیں۔لغت والے اس کی مثال الٓمّٓ۔ ذٰلِکَ الٓکٖتٰبُ کو پیش کرتے ہیں ۔وہ کہتے ہیںدیکھو الٓمّٓکو ذٰلِکَ الٓکٖتٰب کہا ہے ۔حالانکہ الٓمّٓکبھی نازل ہوا تھا۔اور لکھا ہوا نہ تھا ۔اِس سے ظاہر ہے کہ غیر مکتوب چیزیں بھی کتاب کہلاتی ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نہ لکھی ہوئی چیز کو بھی کتاب کہہ دیتے ہیں۔ لیکن لغت والوں کا اس سے یہ استدلال غلط ہے کیونکہ ذٰلٖکَ کا اشارہ الٓمّٓکیطرف نہیں بلکہ اس کا اشارہ سورۃ فاتحہ کی طرف ہے جو پہلے نازل ہو چکی تھی اور لکھی بھی جا چکی تھی ۔لیکن خواہ اس کا اشارہ الٓمّٓکی طرف ہو یا ساری سورہ بقرۃ کی طرف ہو یا سارے قرآن کریم کی طرف ہو ۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں کہ غیر لکھی ہوئی چیز کیلئے کتاب کا لفظ لایا گیا ہے۔کیونکہ بعض دفعہ جس بات کا ابتداء سے فیصلہ کر لیا گیا ہو اسی کے مطابق نام رکھ دیاجاتا ہے ۔جیسے ماں باپ اپنے بچوں کا نام عبدالرحمن رکھ دیتے ہیں جس کے معنے ہیں اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت کو ظاہر کرنے والا۔ اب کیا اس کے یہ معنے ہونگے کہ وہ بچہ ماں کے پیٹ ہی میں یہ صفت ظاہر کرنے والا تھا ! بلکہ اِس کے صرف اتنے معنے ہوتے ہیں ۔کہ وہ آئندہ بڑے ہو کر اس صفت کو ظاہر کرے گا ۔اِسی طرح قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ حضرت نوح علیہ السلام کے متعلق فرماتا ہے ۔فَاَ نْجَیْنٰۃُ وَمَنْ مَّعَہٗ فِی الْفُلْکِ الْمَشْحُوْنِ (شعرا آیت ۱۲۰)کہ ہم نے نوح ؑ اور اُس کے ساتھیوں کو بھری ہوئی کشی میں سوار کیا ۔اب اس کے یہ معنے نہیں کہ جو کشتی پہلے سے بھری ہوئی تھی اُس میں انہیں سوار کیا کیونکہ جو کشتی پہلے سے بھری ہوئی ہو اُس میں سوار کرنے کے کیا معنے ۔بلکہ اسکا مطلب یہ ہے کہ ایسی کشتی میں سوار کیا جو اُن کے بیٹھنے کی وجہ سے بھری گئی ۔ پاس جو فعل آئندہ کسی سے صادر ہونے والا ہو اس کی وجہ سے بھی نام دے دیا جاتا ہے ۔ اِسی طرح ذٰلِکَ الْکِتٰبُ کا الٓمّٓکی طرف اشارہ نہیں کہ اس سے یہ سمجھا جائے کہ کتاب کا لفظ غیر لکھی ہوئی چیز کیلئے آیا ہے بلکہ اس طرف اشارہ ہے کہ یہ ایک کامل کتاب بننے والی ہے اور اللہ تعالیٰ اِس کے متعلق فیصلہ فرما چکا ہے ۔
کتاب کا لفظ اس چیز کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے جس کے اندر کوئی لکھی ہوئی چیز ہو ۔ جیسے قرآن کریم میں آتا ہے ۔وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ کِتٰبًافِی قِرْ طَاسٍ (انعام ۸۱)یعنی اگر ہم تجھ پر ایک کتاب نازل کرتے جو کاغذ وں پر ہوتی ۔
غرض کتاب کے کئی معنے ہیں۔ محاورہ میں اس کے معنے ایسی چیز کے ہیںـ جیسے قائم کر دیتے ہیں۔ یا جس اک اندازہ کر لیتے ہیںیا جسے واجب کر دیتے ہیںیا فرض کر دیتے ہیں یا پختہ کر لیتے ہیں۔اِن سب کیلئے کتاب کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔پھر کتب کا لفظ قضی کے معنوں میں بھی آتا ہے ۔ جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَا اِلَّا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَا (توبہ ۵۱)یعنی جس امر کا خدا نے فیصلہ کردیا ہے اور جسے ہمارے لئے مقدر کر دیا ہے وہی ہمیں پہنچیگا (مفردات)
الْحِکْمَۃُ: اس کے کئی معنے ہیں(۱) اَلْعَدْلُ انصاف(۲) اَلْعِلْمُ۔ علم(۳) اَلْحِلْمُ۔ دانائی(۴) مَا یَمْنَعُ مِنَ الْجَھْلِ جو بات جہالت سے روکتی ہو۔(۵) وَضْعُ الشَّیْئِ فِیْ مَوْ ضِعِہٖ کسی چیز کو اُسکے مقام پر رکھنا(۶) اس کے ایک معنے صَوَابُ الْاَمْرِ وَ سِدَادُہ‘ کے بھی ہیں یعنی صحیح اور درست کام(اقرب)
یُزَ کِّیْ:زَکّٰی کے معنے ہیں(۱) اس کو بڑھایا اور اسکی نشوونما کی۔ آگے نمو کے دو معنے ہیں۔ اُسے اپنی ذات میں بڑھایا یا اُسے باسامان کیا(۲) اس کے ایک معنے تَطْھِیْر کے بھی ہوتے ہیں۔ یعنی پاک کرنا اس لحاظ سے آیت کے یہ معنے ہیں کہ وہ لوگوں کو اُں کی ذات میں بڑھائیگا وہ ان کو با سامان کریگا۔ وہ ان کو پاک کریگا۔ پھر تَطْھِیْر بھی دو قسم کی ہوتی ہے ایک ظاہری طہارت اور دوسرے باطنی طہارت۔
تفسیر:۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام دعا فرماتے ہیں کہ اے ہمارے رب تو ان لوگوں میں سے جو اس جگہ رہیں گے ایک عظیم الشان رسول مبعوث فرما۔ مِنْھُمْ اور اے ہمارے رب رسول کے آنے سے یہ ضرورت تو پوری ہو جائیگا کہ خانہ کعبہ سے جس طرح تعلق رکھنا ہے اس کا پتہ لگ جائیگا۔ اور وہ سچے اور مخلص مومن بن جائینگے مگر اے ہمارے رب ہم نے جو اپنی اولاد کو یہاں آکر بسایا ہے تو اس میں علاوہ اس غرض کے کہ تیرا نام بلند ہو ہماری یہ بھی غرض ہے کہ ہماری اولاد کے ذریے تیرا نام بلند ہو۔ ہم نے صرف تیرا گھر نہیں بنایا بلکہ اپنی اولاد کو بھی یہاں لا کر بسا دیا ہے۔ گویا ہم نے جو تیرے نام کی بلندی کی کوشش کی ہے اس میں کچھ اپنی غرض بھی شامل ہے۔ ہم نے یہ مکان بنایا ہے اس لئے کہ تیرا نام بلند ہو۔ اور ہم نے اپنی اولاد یہاں اس لئے بسائی ہے کہ اس کے ذریعہ سے تیرا نام بلند ہو۔ پس ہم نے جو اپنی اولاد یہاں بسائی ہے اس میں ہماری یہ غرض بھی شامل ہے کہ آنے والا رسول انہیں میں سے ہو باہر سے نہ ہو۔
یَتْلُوْاعَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ اور وہ تیری آیتیں پڑھ پڑھ کر سُنائے۔ تیرے نشانات اور معجزات کے ذریعے اُن کے ایمانوں کو تازہ کرے۔ اور اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے والاے دلائل لوگوں کے سامنے بیان کرے۔
وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ اور تیری شریعت جس کے بغیر باطن پاکیزہ نہیں ہو سکتا اور جو انسان کو مکمل نمونہ بنا دیتی ہے نازل ہو اور وہ لوگوں کو سکھائے۔
والْحِکمْۃَ اور اے ہمارے رب! جب وہ رسول آئیگا انسانی عقل تیز ہو چکی ہو گی۔ اس وقت انسان بچہ نہیں ہو گا کہ اسے یہ کہا جائے کہ اُٹھ اور فلاں کام کر اور جب وہ کہے کہ میں کیوں کروں تو اُسے کہا جائے کہ آگے سے بکواس مت کرو۔ عیسیٰ ؑ کے زمانہ میں اور موسیٰ ؑ کے زمانہ میں ایسا ہو چکا ہے۔ مگر جب وہ بنی آئیگا اس کا زمانہ انسانی عقل کے ارتقاء کا زمانہ ہو گا۔ اس وقت بندہ یہ نہیں سُنیے گا کہ کر۔ بلکہ پُوچھیگا کہ کیوں کروں۔ پس اے خدا تو اس کو موسیٰ ؑ کی طرح صرف شریعت ہی نہ دیجیئو۔ نوحؑ کی طرح صحف ہی نہ دیجیئو دائود ؑ کی طرح احکام ہی نہ دیجیئو بلکہ ساتھ ہی اُن کی وجہ بھی بتا دیجئیو اور ان احکام کی حکمت بھی واضح کیجیئو۔ تاکہ نہ صرف اُن کے جسم تیرے حکم کے تابع ہوں بلکہ ان کا دماغ اور دل بھی تیرے حخم کا تابع ہو اور وہ سمجھیں کہ جو کچھ کہا گیا ہے فلسفہ کے ماتحت کہا گیا ہے عقل کے ماتحت کہا گیا ہے۔ ضرورت کے ماتحت کہا گیا ہے فوائد کے ماتحت کہا گیا ہے۔
رَ یُزَ کِّیْھِمْ اور ان کو پاک کرے۔ دماغ کو ہی پاک نہ کرے بلکہ حکمت سکھا کر اُن کے قلوب کو بھی محبت الہٰی سے بھردے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے آپ ک خداتعالیٰ میں جذب کر دیں الہٰی صفات اُن میں پیدا ہو جائیں اور وہ چلتے ہوئے انسان نظر نہ آئیں بلکہ خداتعالیٰ کا ایک آئینہ دکھائی دیں اور وہ ایسے ذرائع اختیار کرے جن سے قوم کی ترقی کے سامان پیدا ہوں۔
اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۔ اے ہمارے رب! ہم نے جو چیز مانگی ہے بظاہر یہ نا ممکن نظر آتی ہے اور جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے ایسا کبھی نہیں ہوا لیکن ہم خوب جانتے ہیں کہ تجھ میں طاقت ہے تو عزیز خدا ہے تو غالب خدا ہے اور تیری شان یہ ہے کہ
جس بات کو کہے کہ کروں گا میں یہ ضرور
ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے
ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا کبھی نہیں ہوا لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ تو ایسا کر سکتا ہے۔ چونکہ تو عزیز خدا ہے اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ ایسا رسول آئے۔ اس پر اعتراض ہو سکتا تھا کہ اگر پہلے خدا نے ایسا رسول نہیں بھیجا تو اب کیوں بھیجے اور اگر پہلے بھی ایسا رسول بھیجنا ضروری تھا تو پھر ایسے رسول کو نہ بھجوا کر بنی نوع انسان پر کیوں ظلم کیا گیا۔ اس اعتراض کا الحکیم کہہ کر ازالہ کر دیا کہ ہم جانتے ہیں پہلے ایسا رسول آہی نہیں سکتا تھا پہلے لوگ اس قابل ہی نہیں تھے کہ محمدؐی تعلیم کو برداشت کر سکیں۔ پس ایک طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عزیز کہہ کر خدائی غیرت کو جوش دلایا اور کہا کہ ہمارا یہ مطالبہ غیر معقول نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ تو ایسا کر سکتا ہے مگر ساتھ ہی حکیم کہہ کر بتا دیا کہ ہم یہ انہیں سمجھتے کہ اگر تو نے پہلے ایسا رسول نہیں بھجوایا تو نعوذ باللہ تو نے بخل سے کام لیا بلکہ ہم جانتے ہیں کہ اگر تو نے پہلے ایسا بنی نہیں بھیجا تو صرف اس لئے کہ پہلے ایسا نبی بھیجنا مناسب نہیں تھا۔
اس دعا میں ہمیں ایک عجیب بات نظر آتی ہے اور وہ یہ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے صرف رسولاً فرمایا ہے رُسُلاً نہیں فرمایا حالانکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیشگوئی اپنی اولاد کے متعلق ایسی واضح تھی کہ وہ جانتے تھے کہ ان میں بہت سے رسول پیدا ہونگے لیکن باوجود اس کے وہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد میں صرف ایک رسول کے مبعوث کئے جانے کی دُعا فرماتے ہیں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر یہ بات کھل چکی تھی کہ خاتم النبیین بنی اسمٰعیل میں سے آنا ہے اور وہی ایک رسول ہے جس کی کتاب پر تمام شرائع کا اختتام ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ میرے اس قسم کے الفاظ پر غیر مبائعین کہا کرتے ہیں کہ دیکھو یہ بھی مانتے ہیں کہ رسول تو ایک ہی ہے مگر ہمیں اس سے کبھی انکار نہیںہ وا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی ایک ایسے رسول ہیں جن کا سلسلہ نبوت قیامت تک منقطع نہیں ہو گا۔ اور ہم تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کو بھی آپ کی نبوت کے تابع اور اس کا ظل سمجھتے ہیں اور ظل اصل سے کوئی علیحدہ چیز نہیں ہوتی۔ پس اب کوئی نیا حکم نہیں کوئی نئی تعلیم نہیں کوئی نیا ارشاد نہیں کوئی نئی ہدایت نہیں۔ وہی ارشاد وہی ہدایت وہی تعلیم اور وہی احکام ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دنیا میں لائے تھے اور جو قرآن کریم میں بیان ہیں اگر ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مستقل نبی مانتے تو پھر تو اس بات کی ضرورت تھی کہ ہر چیز نئی ہوتی۔ مگر یہاں تو سب کچھ وہی ہے جو محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بتایا۔ صرف اتنی بات ہے کہ چونکہ لوگوں نے آپؐ کی تعلیم کو بھلا دیا تھا اور اس پر عمل نہیں کرتے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے بروزِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بھیجدیا پس یہ رسالت ہے اور اگر ضرورت کے ماتحت ایسے کئی نبی بھی آجائیں تو کوئی ہرج نہیں کیونکہ ان کے ژریعہ کوئی نیا دین جاری نہیں ہو گا۔ بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا لایا ہوا دین ہی زندہ ہو گا۔ بہر حال رَسُوْلًا کا لفظ بتاتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو الہاسے یہ بات معلوم ہو چکی تھی کہ اسماعیل علیہ السلام کی نسل میں سے ایک عظیم الشان رسول مبعوث ہونیوالا ہے۔
اَب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ان کو یہ معلوم ہو چکا تھا کہ ایک نبی اُن میں مبعوث ہونیوالا ہے تو انہوں نے اس کے لئے دعا کیوں کی۔ سو جیسا کہ میں اوپر بتا چکا ہوں الہام کا پورا کرنا خود اپنی ذات میں ایک نیکی ہوتا ہے اور الہام کے پورا کرنے کے لئے سب سے پہلا کام جو انسان کر سکتا ہے وہ یہی ہے کہ وہ دُعا سے کام لے اور پھر اپنے عمل اور کوشش سے اُسے پورا کرے۔ نادان خیال کرتا ہے کہ الہٰی وعدہ کے بعد کوشش چھوڑ دینی چاہیے۔ حالانکہ یہ بات انسان کی فطرت میں داخل ہے کہ وہ اپنے محبوب کی بات پوری کرنے کے لئے اپنا سارا زور صرف کر دیتا ہے۔ انبیاء کو چونکہ خداتعالیٰ سے گہرا تعلق ہوتا ہے اس لئے اس کی بات کو پورا کرنے کے لئے وہ ہرقسم کی جدو جہد سے کام لیتے ہیں تاکہ اس کا نشان ظاہر ہو۔ پس اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے دعا کی تو یہ کوئی قابلِ اعتراض امر نہیں بلکہ اس امر کا ثبوت ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ سے انتہائی اور کامل عشق تھا قطع نظر اس بات کے کہ خداتعالیٰ قادرِ مطلق ہے اور و ہ اسے خود پورا کر سکتا ہے انہوں نے خداتعالیٰ سے اپنی کامل محبت کا ثبوت دیدیا۔ اور اسی وقت دعا کی۔ کہ اسے ہماری رب! ان میں ایک عظیم الشان رسول مبعوث فرما۔ تنوین تحقیر کے لئے بھی آتی ہے اور تعظیم کے لئے بھی۔ یہاں تعظیم کے لئے آئی ہے اور مطلب یہ ہے کہ ایک عظیم الشان رسول مبعوث فرما۔
میرے نزدیک حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا بتاتی ہے کہ گو وہ جانتے تھے کہ ان کی اولاد میں بہت سے رسول آنے والے ہیں۔ مگر وہ چاہتے تھے کہ آخری رسول جو دُنیا کا نجات دہندہ بن کر آنے والا ہے وہ بنو اسحاق سے نہ ہو بلکہ بنو اسمٰعیل میں سے ہو۔ کیونکہ اس وقت تک بنو اسحاق کو کافی حصہ مل چکا ہو گا مسیح مصنفین دعائے ابراہیمی کے اس حصہ پر بالعموم یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ بائیبل میں اس امر کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد کی نسبت بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کوئی وعدہ کیا گیا تھا دوسرے اگر یہ ثابت بھی ہو جائے کہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد نسبت کوئی وعدہ تھا تو اس امر کا کیا ثبوت ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حضرت اسمٰعیل ؑ کی اولاد میں سے تھے؟ سو یاد رکھنا چاہیے کہ بائیبل کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اسمٰعیل ؑ اور آپ کی نسل سے بنو اسحق کو شدید نفرت تھی اور اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کی دادی حضرت سارہؓ کو ہاجرہؓ اور اسمٰعیل سے نفرت تھی جس کا اثر آئندہ نسل میں بھی منتقل ہونا بعید از قیاس امر نہیں۔ اسی وجہ سے حضرت ابراہیم ؑ ہاجرہؓ اور اسمٰعیل ؑ کو ایک دُور دراز مقام پر چھوڑ آنے پر مجبور ہوئے۔ بائیبل کہتی ہے کہ:۔
’’سارہ نے دیکھا کہ ہاجرہ مصری کا بیٹا جو اس کے ابراہام سے ہوا تھا ٹھٹھے مارتا ہے تب اس نے ابراہام سے کہا۔ کہ اس لونڈی کو اور اس کے بیٹے کو نکال دے۔ کیونہ اس لونڈی کا بیٹا میرے بیٹے اسحاق کے ساتھ وارث نہ ہو گا۔‘‘
(پیدائش باب۲۱ آی۹،۱۰)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پیلے تو یہ بات ناگوار گذری مگر آخر خدا نے انہیںکہا کہ:۔
’’تجھے اس لڑکے اور اپنی لونڈی کے باعث بُرا نہ لگے جو کچھ سارہ تجھ سے کہتی ہے تو اس کی بات مان۔‘‘
(پیدائش باب ۲۱ آیت۱۲)
بنو اسمٰعیل اور بنو اسحاق کی اس باہمی رقابت کی طرف بائیبل کی اس پیشگوئی میں بھی اشارہ موجود ہے جو حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے متعلق کی گئی تھی کہ:۔
’’اس کا ہاتھ سب کے خلاف اور سب کے ہاتھ اُس کے خلاف ہوں گے۔‘‘
(پیدائش باب۱۶ آیت۱۲)
پس اس باہمی رقابت اور پرھ اس انسانی دست بُرد کی وجہ سے جس کا بائیبل تختہ مشق بنی رہی اگر اس میں حضرت اسمٰعیل ؑ اور ان کی اولاد کی نسبت کوئی واضح پیشگوئی موجود نہ وہ تو محض اس بنا پر قرآنی شہادت کو رد کر دینا قریں انصاف نہیں کہلا سکتا جس طرح بائیبال کی ہادت سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ بنو اسحاق سے کوئی وعدہ تھا اسی طرح قرآن کریم کی شہادت سے بھی کہا جا سکتا ہے کہ بنو اسمٰعیل سے بھی کوئی وعدہ تھا۔ لیکن اگر اس نظریہ کو درست تسلیم نہ کیا جائے تب بھی بائیبل ایسے اشارات سے خالی نہیں جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اسمٰعیل کی نسل بھی خاص انعامات کی وارث ہو گی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جو الفاظ حضرت اسحاق کی اولاد کے متعلق بائیبل میں استعمال ہوئے ہیں وہی حضرت اسمٰعیل ؑ کے متعلق بھی استعمال ہوئے ہیں۔ اور جس طرح حضرت اسحق کی اولاد کو بڑھانے اور ان میں سے بادشاہ پیدا کرنے کا وعدہ پیدائش باب ۱۷ آیت ۱۶ میں ہے اسی طرح حضرت اسمٰعیل ؑ کی اولاد کو بڑھانے اور ان میں سے سردار پیدا کرنے کا وعدہ پیدائش باب۱۷آیت۲۰ میں ہے پس جس قسم کے انعامات کا وارث حضرت اسحق کی اولاد کو قرار دیا گیا ہے اُسی قسم کے انعامات کا وارث بنو اسمٰعیل کو بھی تسلیم کرنا پڑیگا اور اگر یہ کہا جائے کہ حضرت اسحق کی نسبت اس باب کی آیت۲۱ میں لکھا ہے کہ
’’میں اپنا عہد اسحاق سے باندھونگا۔‘‘
جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اس نسل سے ہوں گے تو یہ دلیل بھی معقول نہیں کیونکہ اسحاق ؑ کی پیدائش سے بھی پہلے خداتعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے عہد کیا تھا اور اس میں یہ شرط لگائی تھی کہ اس عہد کی علامت ختنہ ہو گی(پیدائش باب۱۷ آیت ۱۱) اور ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کا بھی ختنہ کیا۔ (پیدائش باب۱۷ آیت۲۵) اگر وہ عہد صرف اسحاق ؑ اور اس کی نسل سے ہوتا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام خود اپنا ختنہ کراتے۔ کیونکہ اُن سے عہد تھا ۔ اپنے غلاموں کا کراتے کیونکہ ان کی نسبت حکم تھاحضرت اسحاق کا کرواتے کیونکہ ان سے اس عہد نے پورا ہونا تھا۔ تیرہ سالہ لڑکے اسمٰعیل کا ختنہ کس سبب سے کروایا گیا۔ اس کی صرف ایک ہی وجہ تھی کہ اس کی نسل سے بھی اس عہد نے پورا ہونا تھا پس آپ کا حضرت اسمٰعیل ؑ کا بھی ختنہ کرانا ایک صاف ثبوت ہے اس بات کا کہ حضرت اسمٰعیل ؑ بھی آپ کی اولاد میں سے تھے جس کے ساتھ وہ عہد پورا ہونا تھا چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بنو اسمٰعیل میں ختنہ کا رواج ہمیشہ رہا اور یہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ حکم نہ صرف اسمٰعیل کے لئے بلکہ اس کی اولاد کے لئے بھی سمجھا گیا تھا۔ پس عہد جس طرح حضرت اسحاق ؑ کی اولاد کے لئے تھا۔ اسی طرح حضرت اسمٰعیل کی اولاد کے لئے بھی تھا۔ باقی رہا پیدائش باب ۱۷ آیت۲۱ کا مطلب کہ
’’میں اپنا عہد اسحاق سے باندھونگا‘‘
سو دوسرے حالات کو مدنظر رکھ کر اایت کا یہ مطلب ہے کہ اس ابدی عہد کی ابتداء بنو اسحاق سے شروع ہو گی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ عہد جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد کے متعلق تھا بتداء میں بنو اسحاق سے ہی پورا ہوا۔ لیکن بائیبل سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ کوئی عہد بنو اسمٰعیل کے بارہ میں بھی تھا۔ کیونکہ ختنہ کا حکم نہیں بھی دیا گیا تھا جیسا کہ لکھا ہے:۔
’’جب اس کے بیٹے اسمٰعیل کا ختنہ ہوا وہ تیرہ برس کا تھا۔‘‘
(پیدائش باب ۱۷ آیت۱۷)
اور اسمٰعیل کے متعلق بھی برکت کا وعدہ کیا گیا تھا جیسا کہ لکھا ہے:۔
’’اور اسمٰعیل کے حق میں میں نے تیری سُنی ۔ دیکھ میں اُسے برکت دوں گا اور اُسے برومند کروںگا اور اُسے بہت بڑھائو نگا۔‘‘
(پیدائش باب۱۷ آیت۲۰)
اس طرح پیدائش باب۲۱ میں لکھا ہے:۔
’’میں اس (اسمٰعیل) کو ایک بڑی قوم بنائوں گا۔‘‘(آیت ۱۸)
پس ضروری تھا کہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام بھی اس برکت میں شامل ہوتے گو وہ اس عہد میں شامل نہ تھے جو کنعان کے قبضہ کے متعلق تھا۔ کیونکہ وہ وعہد صرف اسحاق ؑ کی نسل کے ساتھ پورا ہونا تھا۔لیکن یہود و نصاریٰ غلطی سے یہ سمجھنے لگے کہ برکت کا عہد صرف اسحاق کی اولاد سے تھا۔ حالانکہ ابراہیمی عہد کی دو شکلیں تھیں ایک مجمل اور ایک مفصل۔ مجمل عہد تو یہ تھا کہ میں تیری نسل کو برکت دونگا اور نسل سے مراد اسحق اور اسمٰعیل دونوں تھے۔ اور مفصل عہد آگے دو حصوں میں منقسم تھا۔ اسحاق کی نسبت تو یہ عہد تھا کہ کنعان کی حکومت اسے نسلاً بعد نسل حاصل ہو گی اور اسمٰعیل کی نسبت بائیبل صرف اتنا بتاتی ہے کہ خداتعالیٰ نے کہا کہ میں اسے برکت دونگا اور برومندکرونگا۔ یہ برکت اُسے کس طرح دی گئی؟ اس کا جواب ہمیں بائیبل سے نہیں بلکہ قرآن کریم سے ملتا ہے قرآن کریم بتاتا ہے کہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے متعلق یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ اسے اور اس کی اولاد کو مکہ مکرمہ اور اس کے گرد و نواح پر حکومت دی جائیگی اور خداتعالیٰ ان کے مرکز کو ہمیشہ دشمن کے حملہ سے محفوظ رکھیگا اور تمام علاقہ پر ان کی روحانی اور جسمانی حکومت ہو گی۔ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل میں سے ایک عظیم الشان رسول مبعوث فرمائیگا۔ جو تمام دنیا کی ہدایت کا موجب ہو گا۔ پس یہ غلط ہے کہ بنو اسمٰعیل کے ساتھ برکت کا کوئی وعدہ نہ تھا بائیبل کی خود اندرونی شہادات بتا رہی ہیں کہ نسلِ اسمٰعیل کی ترقی کا بھی وعدہ کیا گیا تھا۔ اور ضروری تھا کہ جس طرح بنو اسحاق کو ترقی دی گئی اسی طرح بنو اسمٰعیل کو بھی ترقی دی جاتی اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوتا باقی رہا یہ سوال کہ اگر حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد سے کوئی وعدہ ثابت بھی ہو تو اس کا کیا ثبوت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔ تو اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ کسی خاص قوم کے کسی بزرگ انسان کی اولاد سے ہونے کا حقیقتاً ایک ہی ثبوت ہوتا ہے اور وہ اس قوم کی روایات ہیں جو نسلاًبعدنسلٍ چلتی چلی جاتی ہیں تمام قوموں اور خاندانوں کے کسی خاص شخص سے متعلق ہونے کا اس کے سوا اور کیا ثبوت ہوتا ہے کہ وہ قوم ایسا بیان کرتی ہے پھر اس معاملہ میں کیوں عربوں کے بیان کو تسلیم نہ کیا جائے جبکہ قریش کا دعویٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت سے بھی پہلے کا تھا کہ وہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اور تمام عرب اس بات کو تسلیم کرتے تھے خود کعبہ میں حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کا بُت بنا کر رکھا ہوا تھا پھر قریش کے بنی اسمٰعیل ہونے میں کیا شک ہو سکتا ہے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کوئی ایسی دنیوی شہرت نہ رکھتے تھیکہ خیال کیا جائے کہ عرب کی بعض اقوام نے اس عزت میں حصہ لینے کے لئے اپنے آپ کو ان کی طرف منسوب کر دیا ہو۔ پس ایک قوم کا دعویٰ جو صدیوں سے چلا آتا ہے کسی طرح رد نہیں کیا جا سکتا جبکہ جھوٹ کا کوئی محرک بھی دکھائی نہیں دیتا۔
دوسرا ثبوت قریش کے بنو اسمٰعیل ہونیکا یہ ہے کہ اگر وہ جھوٹے طور پر بنو اسمٰعیل بن گئے تھے تو اصل بنو اسمٰعیل ان کے اس قول کو رد کرتے لیکن کسی قوم کا ان کے دعویٰ کو رد کرنا ثابت نہیں۔
سوم پیدائش باب۱۷ آیت۲۱ میں لکھا ہے کہ
’’میں اسماعیل کو ایک بڑی قوم بنائوں گا۔‘‘
اگر قریش آپ کی اولاد نہیں تو وہ بڑی قوم کون سی ہے جس کا وعدہ دیا گیا تھا۔ کیونکہ پیشگوئی چاہتی ہے کہ وہ قوم شناخت بھی ہو۔ کیونکہ ورنہ اس کے پورا ہونے کا کیا ثبوت ہو سکتا ہے۔ پس چونکہ قریش ہی اس بات کے مدعی ہیں اس لئے ان کا دعویٰ ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا۔
غرض یہ دونوں اعتراض غلط ہیں اور حقیقت یہی ہے کہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد سے بھی بڑے بڑے انعامات کے وعدے تھے۔ پس بنو اسحاق کے بد عمل ہو جانے کے بعد خصوصیت سے بنو اسمٰعیل کا ہی حق تھا کہ ان میں وہ نبی مبعوث ہو جس کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعائیں کی تھیں۔
درحقیقت یہ دُعا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی ہے اس میں اُن فرائض اور ذمہ واریوں کا ذکر کیا گیا ہے جو انبیاء علیہم السلام پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عاید ہوتی ہیں۔ چنانچہ ہر بنی جو دنیا میں آیا اس کا یہی کام تھا کہ وہ تلاوتِ آیات کرتا۔ کتاب اللہ کی تعلیم دیتا احکام کی حکمتیں بتاتا اور تزکیہ نفوس کرتا۔ اور یہی کام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بھی سرانجام دینے تے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے نہ صرف دُعائے ابراہیمی کو قبول فرما کر بنو اسمٰعیل میں سے ایک عظیم الشان رسول بھیجدیا جس نے یہ چاروں کام کئے بلکہ اُسے وہ مقامِ فضیلت بھی عطا فرمایا کہ اس نے تلاوتِ آیات۔ تعلیم کتاب تعلیم حکمت ار تزکیہ نفوس میں ایسا نمایا ں کام کیا۔ جس کی نظیر دنیا کے کسی اور نبی کی زندگی میں نظر نہیں آتی اور درحقیقت یہی وہ کوثر ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو عطا کیا گیا۔
مجھے یاد ہے حضرت خلیفۂ اوّل کے زمانہ میں ایک دفعہ بعض دوستوں نے مجھ سے خواہش کی کہ میں انہیں قرآن کریم پڑھائوں ۔ چنانچہ میں نے سورۃ بقرۃ شروع کی جب میں اس آیت پر پہنچا کہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیَاتِکَ وَ یَعَلِّمُھُمْ اِلْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَ یُزَکِّیْھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُالْحَکِکْمَۃَ ۔ تو یکدم میرے دل میں بجلی کی طرح ڈالا گیا۔ کہ یہ آیت اس سورۃ کے مضامین کی کنجی ہے اور اس سورت کے تمام مضامین اس آیت کی تشریح ہیں۔بلکہ انہیں بیان بھی اسی ترتیب سے کیا گیا جس ترتیب سے دُعائے ابراہیمی میں ان کا ذکر آتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھ پر مزید یہ امر کھولا کہ سورۃ کوثر دعائے ابراہیمی کا جواب ہے جس کا سورۃ بقرۃ میں ذکر آتا ہے۔ چنانچہ سورۂ کوثر کی تفسیر میں میں نے ان تمام امور کا تفصیلاً ذکر کر دیا ہے۔
یَتْلُوْاعَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ۔ اس میں ایک پیشگوئی کی گئی ہے جو قرآن کریم کی ایکدوسری آیت کی تشریح کرتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ایک مقام پر فرماتا ہے کہ دشمن یہ اعتراض کرتے ہیں کہ لَوْ لَانُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرٓاٰنُ جُمْلَۃً وَّاحِدَۃً(فرقان آیت۳۳)یعنی اس سارے کا سارا قرآن ایک ہی دفعہ کیوں نہیں اُترا۔ اُدھر دشمنوں کا یہ اعتراض یے اور اِدھر یہ دعا ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی کہیَتْلُوْاعَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَجس میں اس بات کی طرف اشارہ نہ ہوتا تو پھر یوں کہنا چاہیے تھا کہ یَتْلُوْ عَلَیْھِمْ کَلَامَکَ وہ تیرا کلام لوگوں کو پڑھ کر سُنائیگا۔ آیات کے لفظ کا استعمال باتا تا ہے کہ وہ کلام ٹکڑے ٹکڑے ہو کر نازل ہو گا کچھ آیات اُتریں گی اور وہ سُنادیگا پھر اور اُتریں گی اور وہ سُنا دیگا اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس کلام کے نزول کی کیفیت بھی بتا دی گئی تھی اور سمجھا دیا گیا تھا کہ وہ اکٹھا نہیں اُتریگا بلکہ آہستہ آہستہ اور ٹکڑے ٹکڑے ہو کر اُتریگا قرآن کریم کے آہستہ آہستہ نازل ہونے میں حکمت یہ تھی کہ اگر اکٹھی تمام شریعت نازل ہو جاتی تو انسان گھبرا جاتا اور کہتا کہ میں اس پر کس طرح عمل کروں۔ مگر جب ایک ایک ٹکڑا نازل ہوا تو لوگوں کے لئے عمل کرنا آسان ہو گیا اور بتدریج وہ ترقی کرتے چلے گئے۔ غرض یَتْلُوْ اعَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ میں قرآن کریم کے نزول کی کیفیت بتائی گئی ہے اور اس میں یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ وہ کالام ٹکڑے ٹکڑے ہو کر نازل ہو گا۔
آیت کے ایک معنے علامت کے بھی ہوتے ہیں اس لحاظ سے یَتْلُو عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ کے معنے یہ ہونگے کہ وہ تیری علامات لوگوں کو بتائے اس میں یہ اشارہ مخفی تھا کہ وہ ایسا کلام پیش کرے گا جس سے خداتعالیٰ کا وجود نظر آجائیگا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔لَاتُدْرِکُہُ اْلَابْصَارُ وَھُوَ یُدْرِکُ الْاَ بْصَارَ(انعام:۱۰۴)یعنی آنکھیں اس تک نہیں پہنچ سکتیں مگر وہ اپنے کالام کے ذریعہ بینائیوں تک پہنچ جاتا ہے۔ پس اس کے دوسرے معنے یہ ہیں۔ کہ وہ ایسی علامتیں لوگوں کو بتا ئیگا جن سے خداتعالیٰ کا وجود پہچانا جائیگا۔ اور ایسے دلائل پیش کریگا جن سے انہیں خداتعالیٰ نظر آجائیگا۔ یہ دلائل آگے دو قسم کے ہوتے ہیں ایک عقلی اور دوسرے اعجازی پس یَتْلُوْ اعَلَیْھِمْ اٰیٰتِکمیں بتایا کہ وہ ان عقلی امور کی طرف بھی لوگوں کی راہنمائی کریگا جو خداتعالیٰ کی معرفت عطا کرتے ہیں اور ان معجزات اور نشانات کو بھی پیش کریگا جو خداتعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہوتے ہیں۔
آیت کے ایک معنے چونکہ عذاب کے بھی ہوتے ہیں اس لئے یَتْلُوْ اعَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ سے یہ استنباط بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی قوم کے خلاف عذاب کی خبریں دیگا۔
پھر آیت کے ایک معنے چونکہ اونچی عمارت کے بھی ہیں اس لئے یَتْلُوْ اعَلَیْھِمْ اٰیٰتِک کا یہ مطلب بھی ہے کہ اس کی تعلیم میں تدریحی ارتقاء ہو گا۔ جیسے عمارت پر عمارت بنتی ہے اور وہ اپنے اندر مومنوں کے لئے بھاری ترقیات کے سامان رکھتی ہو گی۔
یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ اس کے ایک معنے تو یہ ہیں کہ وہ انہیں ایسی تعلیم دیگا جو ساری کی ساری لکھی ہوئی ہو گی۔ کیونکہ عربی زبان میں ہر اس چیز کو کتاب کہا جاتا ہے جس میں مختلف مسائل کا ابواب وار اندراج ہو۔ اس لحاظ سے صرف قرآن کریم ہی ایک ایسی کتاب ہے۔ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات پر صحابہؓ کو لکھی ہوئی ملی۔ اور صرف مسلمان ہی دنیا میں دعویٰ کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا قرآن شروع سے اب تک محفوظ صورت میں لکھا ہوا چلا آرہا ہے۔۔ یہ خصوصیت کسی اور الہامی کتاب کو ہرگز حاصل نہیں ۔کیونکہ دوسری کوئی کتاب بھی لکھی ہوئی نہ تھی۔ کوئی سینکڑوں سال بعد جمع کی گئی اور کوئی کتاب اگر اس وقت لکھی بھی گئی تو اسے یہ خصوصیت حاصل نہ تھی کہ اس کا لفظ لفظ الہامی ہو۔ بائیبل کے متعلق یہ کبھی بحث نہیں ہوئی کہ یہاں زبر ہے یا زیر ہے۔ لیکن قرآن کریم کے متعلق یہ بحث ہوتی تھی کہ یہاں زبر ہے یا زیر ہے بلکہ یہاں تک بھی بحث ہوتی تھی کہ یہاں ٹھہرنا ہے یا نہیں ٹھہرنا۔ غرض اس میں بتایا کہ وہ رسول ایک ایسی کتاب کی تعلیم دیگا جو بالکل محفوظ ہو گی اور اس کے زمانہ میں ہی لکھی جا چکی ہو گی۔
پھر کتاب جمع کرنے والی چیز کو بھی کہتے ہیں۔ اس لحاظ سے اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ ایسی تعلیم دے گا جو تمام قسم کے علوم اور تعلیموں پر حاوی ہو گی اور اس قسم کی اخلاقی تمدنی،مذہبی اور اقتصادی تعلیم کی جامع ہو گی۔
کتاب کے ایک معنے چونکہ فرض کے بھی ہیں اس لحاظ سے یُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ کے یہ معنے بھی ہیں کہ وہ ایسی تعلیم دے گا جس پر عمل کرنا لوگوں کے لئے فرض ہو گا۔ گویا کہ وہ تمام ضروری باتیں جن کے بغیر روحانی زندگی تکمیل تک نہیں پہنچ سکتی اس کے ذریعہ لوگوں کو بتادی جائیںگی۔
پھر کتاب کے ایک معنے حکم کے بھی ہیں ۔ اگر حکم کا فرض کا ہم معنے سمجھ لیا جائے تب تو اس کے کوئی علیٰحدہ معنے نہیں ہونگے۔ للیکن اگر حکم کو فرض سے الگ سمجھا جائے تو پھر یہ مراد ہو گی کہ بعض احکام تو فرض ہوتے ہیں اور بعض ایسے ہوتے ہیں جو حالات کے مطابق بدلتے رہتیہ یں۔ جو فرائض قطعی ہوتی ہیں وہ ہر حالت میں قائم رہتے ہیں جیسے نماز ہے لیکن بعض حکم ایسے ہوتے ہیں جو حالات کے مطابق بدل جاتے ہیں۔ مثلاً اسلامی شریعت یہ کہتی ہے کہ اگر تم سزا میں فائدہ دیکھو تو سزا دو اور اگر معاف کرنے میں فائدہ دیکھو تو معاف کر دو۔ پس جو احکام بدلتے نہیں وہ فرائض ہیں اور جو ضرورت کے ماتحت تبدیل ہو جاتے ہیں وہ حکم ہیں۔ ایسے احکام کو حکم اس لئے قرار دیا جاتا ہے کہ یہ لفظ حکمت سے نکلا ہے اور انسان کو اختیار دیا گیا ہے کہ تم خود سوچ لو کہ ایسے وقت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے۔فرض کی صورت میں تو اس نے کسی اور پر بات نہیں چھوڑی لیکن احکام میں اس نے راعیت دیدی ہے مثلاً فرض نمازوں کی اس نے خود ہی رکعات مقرر کر دی ہیں جن کو انسان گھٹا بڑھا نہیں سکتا لیکن نوافل اس نے انسان کی مرضی پر رکھ دیئے کہ جتنی توفیق ہو پڑھ لو۔ اس فرض کو ملحوظ رکھتے ہوئے زیرِ تفسیر آیت کے یہ معنے ہونگے کہ وہ ایسی کتاب ہو گی جو تمام احکام کی جامع ہو گی۔ خواہ وہ لازمی ہوں یا اختیاری۔
پھر کتاب کے ایک معنے قضاء آسمانی کے بھی ہیں۔ اس لحاظ سے وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ کے یہ معنے ہونگے کہ وہ ان کو تقدیر الہٰی کا علم دیگا۔ درحقیقت اگر غور سے کام لیا جائے تو تقدیر کا صحیح علم دینے والا صرف قرآن کریم ہی ہے۔ باقی سب لوگ یا تو جبر کی طرف چلے گئے ہیں یا قدر کی طرف مائل ہو گئے ہیں جس کتاب نے جبروقدر کا صحیح مفہوم بیان کیا ہے وہ صرف قرآن کریم ہی ہے۔ افسوس ہے کہ قرآن کریم کے ماننے والوں میں سے بھی بعض قدری اور بعض جبری بن گئے ہیں۔ حالانکہ صحیح مذہب ان کے بین بین ہے میں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا ہے ۔آپ فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے جتنا غور کیا ہے ہمیں یہی معلوم ہوا ہے کہ صرف قدر کے عقیدہ سے بھی امان اُٹھ جاتاہے اور صرف جبر کے عقیدہ سے بھی امن اُٹھ جاتا ہے۔ اگر یہ سمجھا جائے کہ صرف قدر ہی قدر ہے اور انسان تارک الدنیا ہو جائے تو وہ نیکیوں میں ترقی نہیں کر سکتا اور اگر جبر کا عقیدہ اختیار کر لیا جائے تو وہ سمجھے گا کہ انسان جو کام بھی کرتا ہے خداتعالیٰ اس سے کرواتا ہے اور اس کے نتیجہ میں اسے کسی بدی سے بھی عار نہیں رہیگی کیونکہ وہ اسے خداتعلیٰ کی طرف منسوب کر دیگا ۔ غرض صحیح عقیدہ ان دونوں کے درمیان ہے اور انسانی اعمال کی مثال ایک ایسے گھوڑے کی سی ہے جو لمبی رسی سے بندھا ہو ا ہو۔ وہ یہ خیال کر کے کہ میں آزاد ہوں چلتا ہے مگر آخر اسے جھٹکا لگتا ہے اور رک جاتا ہے۔ اسی طرح انسان مقید بھی ہے اور مختار بھی۔ انسان مختار ہے ایک حد کے اندر اور مقید ہے ایک حد کے اندر جو قید کونہیں سمجھتا وہ بھی گمراہ ہے اور جو اختیار کو نہیں سمجتا وہ بھی گمراہ ہے اور یہ علم صرف قرآن کریم سے ہی حاصل ہوتا ہے۔
وَالْحِکْمَۃَ:حکمت کے ایک معنے چونکہ عدل کیبھیہ یں۔ اس لئے حکمت سکھانے کے ایک معنے یہ بھیہ یں کہ وہ عدل سکھائیگا۔ اس کی تعلیم میں ظلم بالکل نہ ہو گا۔ اس کے یہ معنے بھی ہیں کہ وہ علم کو کامل کریگا۔ یعنی بعض شریعتیں ایسی ہوتی ہیں جو صرف حکم دیتی ہیں علم نہیں دیتیں وہ کہتی تو ہیں کہ فلاں کام کرو اور فلاں کام نہ کرو۔ مگر اس کی وجہ نہیں بتاتیں ان میں صرف امر کا حصہ ہوتا ہیلیکن علم کا حصہ نہیں ہوتا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پہلی شریعتوں میں جو احکام دیئے گئے ان کی بھی حکمتیں تھیں مگر وہ حکمتیں بتائی نہیں جاتی تھیں۔ مگر قرآن کریم کے متعلق فرمایا کہ وہ ایسی تعلیم ہو گی جس کے ساتھ احکام کی حکمت اور وجہ بھی بتائی جائیگی وہ بتائیگا کہ نماز پڑھو۔ کیونکہ اس میں یہ حکمت ہے یا چوری نہ کرو کیونکہ اس کی یہ وجہ ہے وہ صرف یہ نہیں کہیگا کہ جھوٹ نہ بولو اور ظلم نہ کرو بلکہ وہ جھوٹ نہ بولنے اور ظلم نہ کرنے کی وجہ اور حکمت بھی ساتھ بتائیگا۔ اور عمل کے ساتھ علم کا حصہ بھی شامل کریگا۔
حکمت کے ایک معنے حلم یعنی دانائی کے بھی ہیں۔ یعنی موقعہ اور محل کی شناخت ۔ یہ چیز علم سے کسی قدر اختلاف رکھتی ہے۔علم تو کہتاہے کہ ایسا کرو یا نہ کرو لیکن دانائی بتاتی ہے کہ فلاں موقعہ پر یوں کرو اور فلاں موقعہ پر کیوں ۔ پس اس کے ایک معنے یہ بھی ہیں کہ وہ مقررہ احکام کی تو حکمت بتا ئیگا اور جو معین احکام نہیں بلکہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں ان میں دانائی کی راہ سکھائیگا اور بتائیگا کہ فلاں جگہ ا طرح کرو اور فلاں جگہ اس طرح حکمت کے ایک معنے نبوت کے بھی ہیں۔ اس لحاظ سے اس کے معنے یہ ہیں کہ اس رسول کے ذریعے انہیں نبوت کا مقام حاصل ہو سکے گا۔
اس کے ایک معنے وَضْعُ الشَّیْ ئِ فِی مَوْ ضِعِہٖ کے بھی ہیں مگر یہ معنے دانائی میں ہی آجاتے ہیں اسی طرح اس کے معنے مَا یَمْنَعُ مِنَ الْجِھَالَۃِ کے بھی ہیں ۔یعنی ایسی وجوہ جو کسی بُرے کام سے روکنے ولی ہوں۔ مگر یہ معنے بھی پہلے معنوں میں ااجاتے ہیں۔ پاس اصل میں اس کے چار معنے ہیں(۱)عدل(۲) علم(۳) حلم(۴)نبوت۔
وَیُزَ کِّیْھِمْ میں ان معنوں کے لحاظ سے جو حل لغات میں بیان کگئے جا چکے ہیں یہ بتایا گیا ہے کہ (۱) وہ ان کی تعداد کو بڑھا ئیگا۔ یعنی اس کے کلام میں غیر معمولی تاثیر ہو گی جس کی وجہ سے لوگ اُسے قبول کرتے چلے جائینگے اور اس کا مذہب دنیا پر غالب آنیوالا مذہب ہو گا۔ اسی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ تَزَ وَّ جُوْا الْوُلُوْدَ الْوُدُوْدَ فَاِنِّیْ مُکَاثِر’‘ بِکُمُ الْاُمُمَ۔(ابو دائود و نسائی کتاب النکاح) کہ بہت بچے جننے والی اور محبت کرنے والی عورتوں سے شادیاں کرو۔ کیونکہ میں باقی اُمتوں پر تمہاری کثرت کو پیش کر کے قیامت کے دن فخیر کروں گا ۔ غرض تعداد کا بڑھانا خواہ نسلی لحاظ سے ہو یا تبلیغی لحاظ سے یُزَکِّیْھِمْ میں ہی شامل ہے۔
پھر اسلامی تعلیم بنیادی طور پر ایسے امور پر مشتمل ہے جن سے مسلمان دنیوی لحاظ سے بھی غیر معمولی ترقی کر سکتے ہیں۔ مثلاً ایک بڑی تعلیم یہ دی گئی ہے کہ خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ ص۔دَ قَۃً تُطَھِّرُ ھُمْ وَتُزَکِّیْھِمْ بِھَا(توبہ:۱۰۳) یعنی اے محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تو اپنی اُمت کے لوگوں سے مال لے اور اس ے ذریعہ ان کو پاک کر اور ان کو بڑھا یہ قنون جو اسلام نے قائم فرمایا ہے دنیا کی اور کسی مذہبی کتاب میں نہیں صرف اسلام ہی ہے جس نے ایک قومی فنڈ مقرر کیا ہے جس کی غرض یہ ہے کہ اس کے ذریعہ سے غرباء کی طاقت کو بڑھایا جائے۔ اور انہیں بھی ترقی کی دوڑ میں اُمراء کے دوش بدوش کھڑا کیا جائے۔ یہ مال جن مقامات پر خرچ کیا جاسکتا ہے ان میں سے ایک سُؤَ لَّفَۃُ الْقُلُوْبِ ہیں۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ روپیہ دیکر دوسروں کو مسلمان بنایا جائے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ غیر مذاہب میں سے جو لوگ اسلام سے دلچسپی رکھتے ہوں انہیں لٹریچر مہیا کیا جائے اور انہیں حق کی تلاش میں مددی جائے۔ پھر اس کا یاک مصرف مساکین ہیں اور مساکین سے وہ لوگ مراد ہیں جو کمائی نہیں کر سکتے اور جو دوسروں پر بوجھ بنے ہوئے ہوتے ہیں جب کسی قوم میں ایسے لوگ ہوں تو اُن کو دیکھ کر دوسروں کو بھی سوال کرنے کی عادت ہو جاتی ہے اور اُن کی غیرت مٹ جاتی ہے۔ اگر ایک فنڈ ہو جس سے ان کی مدد کی جائے تو قوم میں سوال کرنے کی عادت پیدا نہیں ہوتی۔ اسلامی طریق یہی ہے کہ لوگوں کی ضروریات کو جہاں تک ہو سکے خود پورا کیا جائے اور جماعتی نظام ان کا خیال رکھے اور ان کے مانگنے کے بغیر ہی ان کی ضرورت کو پورا کر دیا جائے اور جو لوگ بغیر ضرورت کے مانگیں ان کی شفارش نہ کی جائے اس کے بغیر قوم کا تزکیہ نہیں ہو سکتا۔
پھر مسکین خالی وہ شخص نہیں جس کے پاس کچھ نہ ہو بلکہ مسکین وہ بھی ہے جو کوئی پیشہ تو جانتا ہو مگر اس کے پس اتنا روپیہ نہ ہو کہ وہ ضروری آلات خرید سکے ایسے شخص کے متعلق بھی ضروری ہے کہ اس کی مدد کی جائے اور ُسے اپنے فن سے تعلق رکھنے ولی ضروری اشیاء اور آلات مہیا کئے جائیں۔ اسی طرح جو بیوگان اور یتامیٰ ہیں ان کے کھانے پینے کا انتظام کیا جائے۔ یہ تمام باتیں یُزَکِّیْھِمْ میں شامل ہیں کیونکہ اس طرح قوم کے افراد ترقی کر سکتے ہیں۔
پھر تزکیہ سے ظاہری صفائی بھی مراد ہے جیسا کہ حدیثوں میں آتا ہے کہ راستہ میں کوئی گند نہ پھینکا جائے کھڑے پانی میں پیشاب نہ کیا جائے۔ سایہ دار جگہوں میں جہاں لوگ آرام کرتے ہیں پاخانہ نہ پھرا جائے۔ اسی طرح وضو کرنا جمعہ کے دن نہانا، بند اور لباس کی میل دُور کرنا ، ناک کان اور بالوں کی صفائی کرنا اور ناخنوں کے اندر میل جمنے نہ دینا ۔ یہ تمام امور یُزَکِّیْھِمْ میں شامل ہیں۔ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کوئی شخص بُودار چیز کھا کر مسجد میں نہ آئے۔ کیونکہ اس سے دوسروں کو تکلیف پہنچتی ہے پھر قلبی صفائی ہے اس کے متعلق بھی اسلام اعلیٰ درجہ کی تعلیم کا حامل ہے اخلاقی تعلیم ہے اس کے متعلق بھی اسلام نے بڑا زور دیا ہے اور کہا ہے کہ غیبت نہ کرو چغلی نہ کرو ۔ حسد نہ کرو۔ دوسروں پر ظلم نہ کرو۔ تجارتی بد دیانتی نہ کرو۔ حساب کتاب صاف رکھو لین دین کے معاملات تحریر میں لے آیا کرو۔ سود نہ لو۔ قرض دو تو لکھ لیا کرو۔ قرض لو تو مقررہ وقت کے اندر ادا کرو۔
غرض تزکیہ نفوس کے لئے تمام ضروری احکام اور ان کی تفصیلات قرآن کریم نے بیان کر دی یہں اور اس نے انسانی اعمال اور جذبات اور فکر کا ایسا تزکیہ کیا ہے جس کی مثال کسی اور مذہب میں نظر نہیں آسکتی اور جس سے دُعائے ابراہیمی کے پورا ہونے کا ایک زبردست ثبوت ملتا ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی تھی کہ اے خدا! تو ان میں ایسا رسول بھیج جو ان کو تیری آیات پڑھ کر سنائے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھائے اور ان کا تزکیہ کرے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دُعا کو قبول فرماتے ہوئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو نسلِ اسمٰعیل میں سے مبعوث فرما دیا۔ اور وہ تمام کام آپؐ نے کر دکھائے جن کی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواہش کی تھی۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بھی اپنے آپ کو دُعائے ابراہیمی کا مصداق قرار دیا ہے اور آپ نے فرمایا ہے اَنَا دَعْوَ ۃُ اَبِیْ اِبْرَاھِیْمَ(جامع البیان جلد اول صفحہ۴۳۵) یعنی میں وہ شخص ہوں جو اپنے دادا ابراہیم کی دُعائوں کے مطابق دنیا کی اصلاح کے لئے کھڑا کیا گیا ہوں۔پس یہ ایک بہت بڑی دُعا ہے جو اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت کا ایک زبردست ثبوت ہے۔
اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۔ اس جگہ خداتعالیٰ کی دو صفات عزیز اور حکیم کا اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ دُعائے ابراہیمی کا ایک حصہ صفت عزیز سے تعلق رکھتا ہے اور دوسرا صفت حکیم سے۔ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ اور یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ والا حصہ صفت عزیز کے ماتحت ہے کیونکہ غالب خدا ہی بندوں تک پہنچ سکتا ہے ۔ بندہ اپنی ذاتی جدوجہد سے اس تک نہیں پہنچ سکتا اور پھر غالب خدا کا ہی یہ حق ہے کہ احکام دے۔ دوسری طرف حکیم ہستی ہی دوسروں کو حکمت سکھا سکتی ہے اور تزکیہ بھی حکمت ہی کے ماتحت ہوتا ہے۔ اگر حکمت سمجھائے بغیر وئی بات منوائی جائے تو دل اس کا تابع نہیں ہو سکتا دل تبھی مانے گا جب وہ اس کی حکمت معلوم کرلیگا۔ اسی طرح تزکیہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک دل پر اثر نہ ہو۔ غرض اس دُعا کا ایک حسہ صفت عزیز سے اور دوسرا صفت حکیم سے تعلق رکھتا ہے۔ یہی چار مقاصد خلافتِ اسلامی کے فرائض سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔
یعنی دلائل سکھانا خدا کی باتیں لوگوں کو بتانا شریعت سکھانا ایمان تازہ کرنے کے لئے قرآن کریم کے احکام اور ان کی حکمتیں بتانا جسمانی و قلبی طہارت پیدا کرنے کی کوشش کرنا اور یہی مبلغوں کارکنوں، پریذیڈنٹوں امیروں اور سکریڑیوں کا کام ہے۔ جب تک ان چاروں بتوں کو مدنطر نہ رکھا جائے اُس وقت سلسلہ کی غرض و غایت پوری نہیں ہو سکتی۔ ابتدائے خلافت میں میں نے منسب خلافت میں ان باتوں کو تفصیل سے بیان کر دیا تھا۔ تاکہ لوگ اس طرف توجہ کریں اور انہین بار بار مجھ سے یہ پوچھنے کی ضرورت نہ رہے کہ ہمیں بھی کوئی کام بتایا جائے۔ مگر بہت کم لوگ اس طرف توجہ کرتے ہیں۔ پس جو درست سلسلہ کی خدمت کا شوق رکھتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اس کتاب کو پرھ لیں اور کود ہی دیکھ لیں کہ ان کے کیا فرائض ہیں۔ ان کی سب سے بڑی خدمت یہی ہے کہ وہ ان چاروں کاموں کو پورا کریں۔ یہی وہ کام ہیں جن کے لئے اسلام نبوت خلافت اور امامت قائم کرتا ہے۔ پس نبی کا بھی اور پھر اس کے بعد خلفاء اور ان کے تابعین کا بھی یہی کام ہوتا ہے اور جو شخص ان کاموں کو پورا کرنیکی کوشش کرتا ہے وہ اپنے آپکو خداتعالیٰ کے انصار میں شامل کر لیتا ہے۔
اس رکوع کی آیت۱۲۳، ۱۲۴ میں یہ بتانے کے لئے کہ جو مضمون شروع کیا گیا تھا وہ ختم کیا جاتا ہے پھر اُسی مضمون کے الفاظ لائے گئے ہیں جو آیت۴۱ میں تھے۔
اور فرمایا کہ دیکھو ہم نے اپنا عہد پورا کیا اور تمہیں لوگو ں پر فضیلت دی مگر اس کے مقابلہ میں تم نے جو شکر کیا وہ یہ ہے پس اب تم میں نبی نہیں آسکتا۔ تم ایمان لائو ورنہ عذاب الہٰی جب نازل ہوتا ہے تو نہ شفاعت کام دیتی ہے اور نہ تاوان۔ آیت۱۲۵ میں بتایا کہ نبوت بنی اسرائیل کو محروم کرنا بھی اسی عہد کے مطابق ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ان کی اولد کے متعلق کیا گیا۔ آیت۱۲۶ ،۱۲۷ میں اس سوال کا جواب دیا جو بنی اسرائیل کو نبوت سے محروم رکھنے پر پیدا ہوا تھا کہ اب نبی کس قوم سے پیدا ہونا چاہیے۔ فرمایا کہ بنو اسمٰعیل سے ۔ چنانچہ اس کے لئے تعمیر کعبہ کا واقعہ یاد دلایا جس میں حضرت ابراہیم ؑ کے ساتھ حضرت اسمٰعیل ؑ بھی شامل تھے۔ اور دونوں نے بہت دعائیں کی تھیں جو رائیگاں نہیں جا سکتیں۔ آیت۱۲۸،۱۲۹،۱۳۰ میں ان دُعائوں کا ذکر کیا اور اس نبی کے کاموں کی تفصیل بتائی جس کے مبعوث ہونے کی دعا کی گئی تھی۔ اور ان دعائوں کو بیان کر کے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ بنو اسحق کی ترقی کے علاوہ بنو اسمٰعیل کی ترقی کے لئے بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی تھی۔ پس جب بنو اسحق اپنی بداعمالیوں سے نبوت کے انعام سے محروم کئے گئے تو ان کے بعد بنو اسمٰعیل حق دار تھے کہ نبوت کا انعام انہیں ملتا اور انہیں میں سے آیا ہے۔
وَمَنْ یَّرْغَبُ
لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَo
۴۷؎ حل لغات:۔ سَفِہَ:(۱) سَفِہَ نَصِیْبَہ‘ کے معنے ہیں نَسِیَہ‘ اپنا حصہ بھول گیا۔(۲)سَفِہَ نَفْسَہ‘ کے معنے ہیں حَمَلَہ‘ عَلَی السَّفَہِ اُسے بیوقوفی پر آمادہ کیا(۳) اَھْلَکَہ‘ اپنی جان کو ہلاک کیا۔(۴) جَھَلَہُ اپنی حقیقت کو نہ سمجھا۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ اِنَّمَا الْبَغْیُ مِنْ سَفْہِ الْحَقِّ اَیْ مِنْ جَھْلِہٖ یعنی ظلم کسی کا حق نہ پہنچاننے کی وجہ سے ہوتا ہے اس جگہ سَفِہَ کے معنے حق کو بُھول جانے اور اس سے ناواقف ہوجانے کے ہیں پس بھولنا۔ بیوقوف بنانا۔ہلاک کرنا واقفی۔ عدم علم سب اس کے معنے ہیں۔ ان معنی کو مدنطر رکھتے ہوئے آیت کے یہ معنے بنتے ہیں کہ (۱) جو شخص اپنی جان کو بھول جاتا ہے(۲) جو اپنی جان کو حماقت پر آمادہ کرتا ہے یا اپنے نفس کو کہتا ہے کہ تم بیوقوفی کرو۔(۳) جو اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالتا ہے (۴) جو اپنے نفس کو حقیقت سے آگاہ نہیں کرتا ۔
اِصْطَفٰی کے معنے ہیں اِخْتَارَ۔ اختیار کر لیا پسند کر لیا چن لیا۔ (۲) اَخَذَہ‘ صَفْوَ ۃُ اس کو پاکیزہ شکل میں لے لیا یعنی نہایت پسند یدہ صورت میں اسے اپنے قریب کر لیا۔ اور اس کے نیک اعمال دیکھ کر اُسے اپنے قرب میں جگہ دی۔
صَالِح: کے معنی ہیں درست جس میں صلاحیت پائی جائے اور عمل صالح وہ عمل ہے جو مناسب حال ہو۔ نیک عمل اور ہوتا ہے اور مناسب حال اَور چیز ہے۔ نماز نیک عمل ہے مگر دشمن کے حملہ کے وقت وہ عمل صالح نہیں ہوتی بلکہ اس کے حملہ کا دفع عمل صالح ہوتا ہے۔ پس صالح وہ شخص ہے جس کی زندگی اپنے ماحول کے مطابق ہو۔ اور نیک بھی ہو اگر ہم یہ کہیں کہ فلاں شخس صالح ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ نیک اعمال کرتا ہے اور مناسب حال کرتا ہے۔ بدی بھی کبھی مناسب حال ہوتی ہے مگر وہ نیکی نہیں ہوتی اس لئے وہ صالح نہیں ہوتی۔ صالح میں دونوں باتوں کی شرط ہے یعنی وہ خیر ہی خیر ہو اور پھر مناسب حال ہو۔
تفسیر:۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مثال پیش کرنے کی بجائے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مثال اس لئے پیش کی ہے کہ مخاطبین میں یہود اور نصاریٰ بھی شامل ہیں۔ اور ان کے لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مثال کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں کر سکتی تھی کیونکہ وہ آپ پر ایمان ہی نہیں رکھتے تھے۔ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مثال اُن کے لئے دلیل ہو سکتی تھی کیونکہ عرب بھی اور یہودی بھی اور عیسائی بھی اور صابی بھی سب کے سب حضر ابراہیم علیہ السلام پر ایمان لانے میں مشترک تھے پس ضروری تھا کہ ان کے سامنے ایسے شخص کی مثال پیش کی جاتی جو علاوہ اہل عرب کے اہل کتاب کے تینوں گروہوں کے لئے بھی یکساں قابلِ احترام ہوتا اور وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی ہو سکتے تھے۔ جو علاوہ عربوں کے یہود کے لئے بھی واجب الاحترام ہیں۔ عیسائیوں کے لئے بھی واجب الاحترام ہیں اور صابیوں کے لئے بھی واجب الاحترام ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ان کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اے عربو اور یہودیو اور عیسائیو اور صابیو! تم بھی ابراہیمی طریق اختیار کرو۔ اور جو خداتعالیٰ کی طرف سے حکم بن کر آیا ہے اس کو مانو او ر قومی جنبہ واریوں اور تعصبات کو چھوڑ دو۔ جیسا کہ ابراہیم نے خداتعالیٰ کے لئے سب کچھ چھوڑ دیا تھا۔ تب تمہارے لئے بھی یہ موقعہ پیدا ہو جائیگا کہ تم خداتعالیٰ کا قرب حاصل کر لو۔
عربی زبان میں یہ ایک بہت بڑی خوبی ہے کہ اس میں صرف عن اور الیٰ کے فرق سے بعض دفعہ ایک متضادمفہوم پیدا کر دیا جاتا ہے حالانکہ دوسری زبانوں میں اس کے لئے مستقل لفظ تلاش کرنا پرتا ہے اس جگہ بھی یَرْغَبُ کے ساتھ عَنْ کا سلہ استعمال کر کے اسے اعراض کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے حالانکہ الیٰ کے صلہ کے ساتھ اس کے معنے محبت اور پیار کے ہیں نہ کہ اعراض کے درحقیقت اگر غور سے کام لیا جائے تو متضاد جذبات بھی ایک منبع سے تعلق رکھتے ہیں اور ظاہرمیں اُن کی جو ایک تبدیل شدہ شکل ہوتی ہے وہ حقیقت کا اختلاف نہیں بلکہ کیفیت کا اختلاف ہوتا ہے ۔ رغبت اور نفرت بھی ایک ہی قسم کے جذبات ہیں صرف اُن کی کیفیت بدل جاتی ہے مثلاً رغبت کو ہی لے لو۔ جب انسان ایک چیز کی رغبت کرتا اور اس کیطرف جاتا ہے اور دوسری چیز کی طرف سے ہٹتا اور نفر ت کا اظہار کرتا ہے تو اگر ہم گہری چھان بین کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ان دونوں کے پیچھے ایک ہی جذبہ کام کر رہا ہوتا ہے جب انسان ایک چیز کی طرف جاتا ہے تو اس طرف جانے کا موجب بھی محبت ہوتی ہے اور جب کسی چیز کی طرف سے پیچھے ہٹتا ہے تو اس کا موجب بھی ایک دوسری محبت ہوتی ہے گویا رغبت کا منبع بھی محبت ہے ار بے رغبتی کا منبع بھی محبت ہے جب انسان ایک چیز کی طرف جاتا ہے تو وہ اس چیز کی محبت کی وجہ سے جاتا ہے اور جب کسی سے پیچھے ہٹتا ہے تو کسی اور چیز کی محبت کی وجہ سے ہٹتا ہے اسی طرح بہادری اور بُزدلی خواہش حفاظت کے تابع ہوتی ہے جب انسان حملہ کرتا ہے تب بھی اس کی غرض جان بچاناہوتی ہے اور جب دشمن سے بھاگتا ہے تب بھی وہ اپنی جان کی حفاظت کے لئے ہی بھاگتا ہے لیکن طریق مختلف ہیں ایک میں دوسرے پر حملہ کر کے اپنے آپ کو بچانا چاہتا ہے اور دوسرے میں اپنے آپ کو ہٹا کر حفاظت کرنا چاہتا ہے غرض عن اور الیٰ کے استعمال میں یہ بتایا جاتا ہے کہ بہت سے جذبات ایک ہی منبع کے تابع ہوتے ہیں صرف کیفیتوں کا اختلاف اور فرق ان میں پایا جاتا ہے۔
اِلاَّ مَنْ سَفِہَ نَفْسَہ: سَفِہَ کے ایک معنے جیسا کہ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے نَسِیَہٰ کے ہیں اس لحاظ سے وَمَنْ یَرْغَبُ عَنْ مِّلَّۃِ اِبْرَھٖمَ اِلَّا مَنْ سَفِہَ نَفْسَہ‘ کے یہ معنے ہونگے کہ اس شخص کے سوا جو اپنے نفس کے فوائد کو کلی طور پر نظر انداز کر دیتا ہے ابراہیم ؑ کے دین سے کون اعراض کر سکتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ انبیاء کا طریق ترک کرنے سے نبیوں کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچتا ہاں انسان کی اپنی جان کو ضرور نقصان پہنچتا ہے۔ ایک ظالم بادشاہ کو چھوڑنا اپنے نفس کو فائدہ پہنچانا ہے مگر جو شخص عادل بادشاہ کو چھوڑتا ہے وہ اپنی جان کو آپ نقصان پہنچاتا ہے کیونکہ وہ اُس کے عدل سے محروم ہو جاتا ہے اسی طرح انبیاء کے نقشِ قدم پر نہ چلنا اور اپن کے طریق کو ترک کر دینا خود انسان کے لئے باعث نقصان ہوتا ہے کیونکہ وہ اُن فوائد سے محروم ہوتا ہے جو متابعت کے نتیجہ میں اُسے حاصل ہو سکتے تھے چونکہ اس سے پہلے یہ بتایا جا چکا ہے کہ ابراہیم ؑ کا نمونہ یہ تھا کہ وہ تمام ابتلائوں اور آزمائشوں کے دور میں سے کامیابی کے ساتھ نکلا اور اُس نے خداتعالیٰ کی ہر آواز پر لبیک کہا۔ یہاں تک کہ جب اُسے کہا گیا کہ جا اور اپنے بیٹے اور بیوی کو ایک ایسے جنگل میں چھوڑ آ جہاں پانی کا ایک قطرہ اور غذا کا ایک دانہ تک نہیں ملتا تو وہ بے چون و چرا اُٹھا اور اُس نے میلوں میل کا سفر طے کرتے ہوئے اپنی بیوی اور بچے کو ایک بے آب و گیاہ جنگل میں لا کر چھوڑ دیا۔ اور خود واپس چلا گیا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ یہ عظیم الشان نمونہ دنیا کے سامنے پیش کر کے فرماتا ہے کہ جو شخص اس ملتِ ابراہیمی سے اعراض کرتا اور خداتعالیٰ کی راہ میں اُن قربانیوں سے کام نہیں لیتا جن کا اس نے مطالبہ کیا جاتا ہے وہ بطاہر تو یہ سمجھتا ہے کہ اس نے اپنے نفس کی خیر خواہی کی اس نے اپنے مال کو بچا لیا یا اپنی اولاد کو بچا لیا یا اپنے جذبات اور احساسات کو قربان ہونے سے بچا لیا۔ مگر درحقیقت وہ اپنے نفس کو بھلانے والا ہوت اہے۔
سَفِہَ نَفْسَہ‘ کے دوسرے معنے ہیں حَمَلَہ‘ عَلَی السَّفْہِ اس نے اپنے نفس کو بیوقوفی پر آمادہ کیا اس لحاظ سے اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ ابراہیمی دعا جو ایک آنے والے عظیم الشان رسول کے متعلق ہے اپنے اندر دنیا کے لئے رحمت کا اتنا بڑا خزانہ پوشیدہ رکھتی ہے کہ جو شخص اس دُعا سے اعراض کرتا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر جو اس کے مصداق ہیں ایمان نہیں لاتا وہ اپنی حماقت اور بے وقوفی کا بدترین مظاہرہ کرتا ہے کیونکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ اس وسیع نظام میں اپنے آپ کو شامل کرنے کے لئے تیار نہیں جو آیات الہیہ کی تعلیم کے لئے قائم کیا گیا ہے جو کتاب اللہ کی ترویج کے لئے قائم کیا گیا ہے جو تمام احکام کو حکمتوں اور ضرورتوں کو بیان کرنے کے لئے قائم کیا گیا ہے اور جو انسانی فکر اور عمل کی اصلاح اور تزکیہ نفوس کے لئے قائم کیا گیا ہے جو شخص اِن تمام باتوں سے منہ موڑتا ہے اور نہ صرف روحانی تعلیمات سے اپنے آپ کو محروم رکھتا ہے بلکہ سیاست ،تمدن اقتصاد اور اخلاق کو ترقی دینے والی تعلیموں کی بھی پروا نہیں کرتا اور فلسفہ احکام سے بھی غافل رہتا ہے اور فکر اور عمل کی بھی اصلاح نہیں کرتا اس کے متعلق سوائے اس کے اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ وہ اس نظام کو ترک کر کے ایک بڑی بھاری حماقت کا ثبوت دیتا ہے۔
سَفِہَ نَفْسَہ‘کے تیسرے معنے آپ اپنے آپ کو ہلاک کر نے کے ہیں۔ چنانچہ لسان العرب میںسَفِہَ نَفْسَہ‘کے معنے یہ ہیں کہ اَھْلَکَ نَفْسَہٗ وَاَوْبَقَھَا۔
اُن نے اپنے آپ کو ہلاک کیا اور برباد کر دیا۔ اس لحاظ سے اِس آیت کے یہ معنے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مخالفت کرنے والے خواہ مشرکین مکہ ہوں یا یہود اور نصاریٰ انہیں یہ بات یاد رکھناچاہیے کہ اگر وہ دعائے ابراہیمی کے اِس مصداق کو قبول کرنیگے اور بیت اللہ کے قیام کے مقاصد اور ہاجزرہؑ اور اسما عیل ؑ کے مکہ میں قیام کی اصل غرض کو نظر اندازکر دینگے تو وہ اپنی جان کو آپ ہلاک کرنے والے ہونگے ۔ یعنی اس لحاظٖ سے بھی اُن پر ہلاکت نازل ہو گی کہ وہ ہر قسم کی اعلیٰ قسم سے محروم رہیںگے اور اس لحاظ سے بھی ان پر ہلاکت نزل ہو گی کہ وہ خدائی عذاب میں گرفتار ہو نگے جیسے ابو جہل نے تعلیم اسلام پر عمل نہ کیا تو اُس پر خداتعالیٰ کا فضل نازل نہ ہوا۔ یہ ایک طبعی نتیجہ تھا جو پیدا ہوا لیکن اس کے علاوہ ایک شرعی نتیجہ بھی اُس نے دیکھا اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ نے اُسے سزادی اور وہ جنگ بدر میں دو انصاری لڑکوں کے ہاتھوں نہایت ذلت کے ساتھ ہلاک ہوا۔
سَفِہَ نَفْسَہ‘کے چوتھے معنے جَھِلَہٗ کے ہیں۔ اِس لحاظ سے آیت کے یہ معنی ہیں کہ اُس شخص کے سوا جو اپنے نفس کو اعلیٰ درجہ کے حقائق سے بے خبر رکھنا چاہتا ہے ملت ابراہیمی کے کون اعراض کر سکتا ہے ؟ اِس میں یہ بتایا گیا ہے ۔ کہ دعائے ابراہیمی کے نتیجہ میں جو عظیم الشان تعلیم دنیا کو ملی ہے یہ انسان کی اندرونی قابلیتوں کو اُبھار کر اُسے کامیابیوں کے اعلیٰ مقام تک لے جاتی ہے ۔ اور سوائے ایسے شخص کے جو اپنے نفس کا دشمن ہوا ور اُسے اعلیٰ تعلیم سے باخبر رکھناپسند نہ کرتا ہواور کوئی اس کا انکار نہیں کر سکتا ۔ ہاں وہ شخص جو ترقی کی دوڑ میں کسی دوسرے سے پیچھے نہیں رہنا چاہتا وہ اسے کسی حالت میں بھی نہیں چھوڑ سکتا ۔کیونکہ اُس کے چھوڑنے سے نفس انسانی پر غفلت اور جمود کا طاری ہو جانا ایک لازمی امر ہے ۔ جیسے موجود ہ زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انکار کرنے والوں میں ایک عام جمود اور بے حسی پائی جاتی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نمازیں بھی پڑھتے ہیں۔ روزے بھی رکھتے ہیں ۔ حج بھی کرتے ہیں۔ زکوۃ بھی دیتے ہیں۔ صدقہ وخیرات میں بھی حصہ لیتے ہیں۔ مگر ہمیں خدا نہیں ملتا حالانکہ اُن کی حالت یہ ہوتی ہے ۔ کہ جب وہ نمازمیں کھڑے ہو کر اِھْدِ نَا الصِّرَ اطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ کہہ رہے ہوتے ہیںتو ساتھ ہی وہ سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ کہ ہمارے لئے تمام تر قیات کے دروازے بند ہیں۔ اور جب کسی انسان کا یہ خیال ہو تو اُسے نمازیں وہ جوش کس طرح پیدا ہو سکتا ہے جو اُسے خدا تعالیٰ تک پہنچا دے ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر آتا ہے ۔ تو وہ کہتے ہیں۔ ابراہیمی انعامات میں ہم کہاں شریک ہو سکتے ہیں۔ حضرت اسما عیل علیہ السلام کا ذکر آتا ہے تو کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو انعام انہیں ملا وہ ہمیں کب مل سکتا ہے ۔ حضرت اسحق علیہ السلام کا ذکر آتا ہے ۔ تو کہتے ہیں اُن کے انعامات ہمارے لئے کہاں مقدر ہیں ۔ حضرت موسیٰ ؑ۔حضرت داؤد ۔ حضرت سلمان اورحضرت مسیح موعود علیہم السلام کا ذکر آتا ہے تو کہتے ہیں۔ کہ جو کچھ خدا نے انہیں دیاوہ
ہمیں کب میسر آسکتا ہے ۔ جب بھی وہ کوئی اچھی چیز دیکھتے ہیںتو کہتے ہیں کہ یہ ہمیں نہیں مل سکتی ۔پھر اُن کے اندر دعا کے وقت جوش کس طرح پیدا ہو سکتا ہے ۔ مگر ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اِس مقام پر پہنچایا ہے کہ جب ہمارے سامنے اللہ تعالیٰ کے انبیاء کا ذکر آتا ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے انہیں دیا وہ بھی ہمیں بھی دے سکتا ہے اور ہمارے لئے بھی وہ مرتب قرب کھلے ہیں جو پہلے لوگوں نے حاصل کئے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جو انعامات ہمیں ملتے ہیںوہ اُن کو نہیں ملتے ۔غرض مَنْ یَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّۃِ اِبْرَاہٖمٰ اِلَّا مَنْ سَفِہَ نَفْسَہٗ میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کے ذریعہ جو تعلیم دنیا میں آئی ہے وہ انسانی قوتوں کو ابھارنے والی اور اُس کے نفس کو تریات کے بلند مینار تک لے جانی والی ہے ۔ وہ یہ نہیں کہتی کہ انسان گنہگار پیدا ہوا ہے ۔ بلکہ کہتی ہے کہ انسان فطرتاً نیک پیدا ہوتا ہے اور نیکی میں ترقی کرنے کیلئے پیدا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر مسلمان کیدل میں یہ خواہش پائی جاتی ہے کہ میں اور نیکیاں کروں اورخدا تعالیٰ کے قرب میں بڑھ جاوں لیکن جب یہ عقیدہ رکھا جانے کہ انسان گنہگار پیدا ہوا ہے تو پھر انسان مردہ ہو جاتا ہے اور ہو کہتا ہے کہ مجھے کسی نیک عمل کی کیا ضرورت ہے ۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان اس تعلیم کو چھوڑ ہی نہیں سکتا کیونکہ یہ تعلیم بڑی فوائد والی ہے اور اس سے وہی شخص اعراض کرسکتا ہے جو اپنے نفس کے حقوق پہچاننے سے بھی عاری ہو ۔
اِصْطَفَیْنٰہُ فِی الدُّنْیَا میں بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دنیا میں سفوۃ اور بزرگی بخشی تھی وہ خدا تعالیٰ کا چنیدہ بندہ تھا ۔ اُسے دوسروں پر فضیلت حاصل تھی اورخدا کا قرب نصیب تھا ۔
وَاِنَّہٗ فِی اْلٰا خِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ اورآخرت میں بھی وہ یقینا اُن بندوں میں شمار ہو گا جو جتنی زندگی کے مناسب حال اعمال بجالانے والے ہونگے ۔ اِس سے صاف طور پر یہ مسئلہ مستنبط ہوتا ہے کہ جنت میں بھی عمل ہے اور وہ ایسا مقام نہیں ۔جیسا کہ مسلمان اس کا عام طور پر نقشہ کھینچا کرتے ہیں۔ کہ وہاں ہر شخص بیکار بیٹھا ہو ا رات دن کھانے پینے میں مشغول رہیگا ۔اگر ایسا ہوتا تو یہاں یہ کہنا چاہیے تھا کہ وہاں اتنی حوریں ملیں گی ۔ اتنے باغ ملیں گے لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ۔ بلکہ اسکی بجائے وَاِنَّہٗ فِی اْلٰا خِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنفرمایا ہے ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگلے جہاں میں بھی نیک عمل ہوگا ۔ ورنہ کیا کئوی شخص یہ تصوربھی کر سکتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اگلے جہاں میں نعوذ باللہ بے نماز ہونگے ۔ یا وہاں اللہ تعالیٰ کے قرب میں بڑھنے کا احساس اُن کے دل میں نہیں رہیگا ۔پس وہاں بھی عمل ہو گا اور جنتیوں کیلئے بھی اللہ تعالیٰ کے قرب کے دروازے اُسی طرح کھلے ہونگے جس
اِذْقَالَ العلمین o

طرح اس جہاں میں کھلے ہیں۔
۲۸؎ حل لغات:۔ اَسْلَمَ کے معنے ہیں۔ انقاد مطیع ہو گیا ۔(۲) تَدَیَّنَ بِدِیْنِ اْلِاْسْلَامِ اس نے دین اسلام اختیار کر لیا۔ اس نے دین اسلام اختیار کر لیا۔ (۳) اَسْلَمَ اَمْرَہٗ اِلَی اللّٰہِ اُس نے اپنا معاملہ خدا تعالیٰ کے سپرد کر دیا ۔پس اَسْلَمکے معنے ہیں۔ سپرد کردینا۔
تفسیر:۔ عربی زبان میں اَسْلَمکے ساتھ اِلیٰ کا صلہ استعمال ہوا کرتا ہے ۔ لیکن یہاں اِلیٰ کی بجائے لام کا صلہ استعمال کیا گیا ہے ۔ مفسرین خیال کرتے ہیںکہ اس جگہ لام کا صلہ ک اِلیٰ کا قائم مقام ہے ۔ لیکن میرے نزدیک یہ درست نہیں ۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب خدا تعالیٰ کے حکم اِسْلِمْ کے جواب میں اَسْلَمْتُ کہا تو یہ مضمون تو اس میں خود بخود آگیا کہ میں خدا تعالیٰ کا فرمانبردار ہونا تھا کسی اور کا نہیں۔ پس یہاں لام کا صلہ استعمال کرنے کی یہ وجہ نہیں کہ وہ خد ا تعالیٰ کے متعلق اپنی فرما نبرداری کا اظہار کرنا چاہتے تھے۔ بلکہ درحقیقت اس میں اَسْلَمْتُ کہنے کی انہوں نے یہ وجہ بتائی ہے ۔ اور کہا ہے کہ میں اپنے کام خدا تعالیٰ کو اس لئے نہیں سونپتا اور اس وجہ سے اس کی فرمانبرداری نہیں کرتا کہ مجھے کوئی مادی نفع حاصل ہو ۔ بلکہ میں رب العالمین خدا کی خاطر ایسا کرتا ہوں ۔ تاکہ وہ مجھے مل جائے کیونکہ وہ میرا اور سب جہان کا محسن ہے اور میں اس سے جدا رہنا پسند نہیں کرتا ۔گویا یہ ایک زائد مضمون ہے ۔ جو انہوں نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے ۔ انہیں یہ حکم ہوا تھاکہ اَسْلَمْ یعنی اے ابراہیم !میں تجھے یہ بھی کہتا ہوں کہ تو اپنے دل کے خیالات بھی کلی طور پر میری اطاعت میں لگا دے اور ابراہیم ؑ نے اس کے جواب میں فورا ً کہا کہاَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔اے خدا ! میرے جسم کا ذرہ ذرہ تیرے آگے قربان ہے ۔ میری عقل اور میرا علم اور میرا ذہن سب تیرے احکام کے تابع ہیں۔ اور میری ساری طاقتیں اور ساری قوتیں رب العالمین خدا کی راہ میں لگی ہوئی ہیں۔ گویاانہیں نے بتایا کہ میری زندگی اپنے ذاتی مفاد کیلئے نہیں بلکہ ساری دنیا کیلئے وقف ہے ۔ اور رب العالمین خدا کی مظہریت میں ساری مخلوق کی شفقت میرے پروگرام میں شامل ہے ۔ اور میں اسے کبھی فراموش نہیں کرونگا ۔میں صرف اپنے لئے بھلائی نہیں مانگونگا بلکہ ساری دنیا کیلئے بھلائی مانگوں گا۔ اور ساری دنیا کی بہبودی ہمیشہ اپنے مد نظر رکھو نگا ۔گویا انہوں نے اَسْلَمْکے جواب میں اَسْلَمْتُکہہ کر ایک تو اس طرف اشارہ کیا کہ میرے تو جسم اور روح کا ذرہ ذرہ پہلے ہی حضور کی راہ میں قربان ہے ۔ حضور مجھ سے جو چاہیں معاملہ کریں اور پھر لِرَبِّ الْغَلَمِیْنَ کا اضافہ کر کے عرض کیا کہ میں نے تو اپنے آپ کو صفت رب العالمین کے ماتحت ساری دنیا کیلئے وقف کر دیا ہے ۔چنانچہ کااَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْغَلَمِیْن مقام حاصل ہونے کی وجہ سے ہی انہوں نے یہ دعا مانگی کہ ربنا وابعث فیھم رسولا منھم چونکہ اُن کی اپنی بعثت تمام دنیا کیطرف نہیں تھی اِس لئے انہوں نے یہ دعا مانگی کہ الٰہی آئندہ دنیا میں ایک عظیم الشان رسول کھڑا کیجئے اوروہ رسول میری اولاد میں ہو تاکہ ساری دنیا کی بھلائی ہو۔ اور رب العالمین کہ تمام مخلوق اُس کے فیض سے مستفیض ہو۔
۴۹؎ تفسیر:۔ فرماتا ہے ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو اور ابراہیم ؑ کے پوتے یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو
اِلٰہَ
مُسْلِمُوْنَo
اِس بات کی تاکید کی تھی کہ تم اپنی خیر خواہی صرف اپنی ذات یا اپنی قوم تک محدود نہ رکھنا بلکہ اُسے وسیع کرتے چلے جانا اور ساری دنیا کو اِس میں شامل کرنا ۔اس جگہ دین سے مراد وہی لائحہ عمل ہے جس میں تما م جہان کی بہتری مد نظر ہو ۔ گویا ابراہیم ؑ نے اپنے پڑپوتوں تک کو ہدایت دی کہ اپنے آپ کو صفت رب العالمین کا مظہر بنانا اور دنیا کی کسی قوم کو اپنی خیر خواہی سے محروم نہ رکھنا ۔
فَلَا تَمُوْ تُنَ اِلَّا وَاَنْتَمْ مُّسْلِمُوْنَ کے دو معنے ہیں۔ ایک یہ کہ ہر وقت اسلام پر قائم رہو۔
کیونکہ موت کے متعلق کوئی انسان نہیں جانتا کہ وہ کب آجائے ۔ اس لئے تمہارا فرض ہے کہ ہمیشہ رب العالمین کے فرمانبردار رہو۔ اور خدا تعالیٰ کی اطاعت میں اپنی زندگی بسر کرو۔ تاکہ جب موت آئے تو وہ تمہیں اطاعت کے سوا اور کسی حالت میں نہ پائے۔دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ سے ایسا تعلق بڑھاؤکہ وہ تمہاری تباہی کو برداشت ہی نہ کر ے ۔ اور اُسوقت تم کو موت دے جبکہ تم کامل مومن بن چکے ہواور اس کی خوشنودی حاصل کر چکے ہو۔
قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر انسان پر قبض اور بسط کی حالت آتی رہتی ہے ۔ کہ دنیا جہاں کو بھلا دیتا ہے اور کبھی دوسری چیزوں کی طرف اُسے اتنی توجہ ہوتی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کو بھول جاتا ہے ۔ چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اُس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں تو منافق ہو گیا آپ نے فرمایا کس طرح !اُس نے کہا ۔ یا رسول اللہ میں آپ کے پاس آتا ہوں تو میری اور حالت ہوتی ہے اور جب میں گھر جاتا ہو تو میری اور حالت ہوتی ہے ۔ آپ نے فرمایا ۔ یہ کوئی گھبراہٹ والی بات نہیں ۔ مگر ہر وقت ایک جیسی حالت رہے تو انسان مر جائے ۔ دراصل قبض اور بسط کے بھی مختلف درجات ہوتے ہیں ۔ کامل مومن کی جو حالت ہوقبض ہوتی ہے وہ اس سے نچلے درجے والے کیلئے بسط کی حالت ہوتی ہے ۔ اِسی طرح انبیاء پر بھی قبض و بسط کا دور آتا رہا ہے مگر نبیوں کی قبض صدیقوں کی بسط ہوتی ہے ۔اِسی لئے صوفیاء نے کہا ہے کہ حَسَنَاتُ اْلَا بْراَرِ سَیِّئَاتُ اْلُمقَرِ مْینَ یعنی نیک لوگوں کی نیکیاں بھی مقربین کی بدیاں ہوتی ہیں۔ اس کا یہی مطلب ہے کہ اوسط درجہ کے لوگ جس کو نیکی سمجھتے ہیں وہ اعلیٰ درجہ کے لوگوں کے نزدیک بعض دفعہ بدی بن جاتی ہے اور اوسط درجہ کے لوگوں کی بدیاں ادنیٰ درجہ کے لوگوں کی نیکیاں ہوتی ہیں۔ پس چونکہ یہ دو حالتیں انسان پر آتی رہتی ہیںاور موت کا وقت کسی کو معلوم نہیں۔ اس لئے فرمایا کہ تم خدا تعالیٰ سے ایسا تعلق بڑھاؤ کہ تم پر موت ایسے وقت میں آئے جو تمہارا بہترین وقت ہو اور ملک الموت تمہاری اسوقت جان نکالتے جب تمہارا خدا تعالیٰ سے ایک سچا اور مخلصانہ تعلق قائم ہو چکا ہو۔
۵۰؎ حل لغات:۔ اَلْاَبُ:اَلْوَالِدُ۔وَیُسَمَّی کُلُّ شَیْ ئٍ مَنْ کَانَ سَبَبًا فِیْ اِیْجَادِشَیْ ئٍ اَرْاِصْلَا حِہٖ اَوْ طُھُوْرِہٖ اَباً(مفردات راعٰب)یعنی اَبُٗ والد کو کہتے ہیں۔اسی طرح ہر وہ چیز جو کسی چیز کے پیدا کرنے یا اصلاح کرنے یا ظاہر کرنے کا موجب ہو اُسے بھی اَبُٗ کہتے ہیں۔ اور جب چچا کا باپ کے ساتھ ذکر کیا جائے تو چچا بھی اَبٗ کہلاتاہے ۔اِسی طرح ما ں باپ کیلئے اَبْوَیْن آتا ہے ۔اور دادا اور باپ کا ذکر ہو تو بھی اَبْوَیْن کہتے ہیں۔ غرض ماں بھی اَبُٗاورچچا بھی اَبُٗاور دادا بھی اَبُٗ کہلاتا ہے ۔
تفسیر :۔ خضر یعقوب الموت ایک محاورہ ہے جو جان کندنی کیلئے نہیں بلکہ موت کے قریب آجانے کیلئے استعمال ہوتا ہے ۔ ورنہ جان کندنی کے وقت تو انسان کلام ہی نہیں کر سکتا ۔ جب غرغرہ موت شروع ہو جاتا ہے تو انسان کے حواس پر اثر پڑنا شروع ہو جاتا ہے گو وہ بھی کبھی زیادہ لمبا اور کبھی بہت قلیل عرصہ کے لئے ہوتا ہے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تو بہ جان کندنی تک قبول ہوتی ہے ۔ جب جان کندنی شروع ہو جائے تو پھر توبہ قبول نہیں ہوتی ۔کیونکہ جب غرغرہ موت شروع ہوجاتا ہے تو حواس جاتے رہتے ہیں۔ یہ غرغرہ بھی دو قسم کا ہوتا ہے ۔ ایک ابتدائی اور ایک اُس کے بعد کا جو اصلی اور حقیقی ہوتاہے ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے والد صاحب بڑے طاقتور تھے ۔ غرغرہ موت شروع ہو تو فرمانے لگے ۔ غلام احمد یہ غرغرہ ہے ۔ اور پھر چند منٹ کے بعد فوت ہو گئے ۔ تو حَضَرَیَعْقُوْبَ الْمَوْتُ سے مراد جیسا کہ بعض نے سمجھا ہے یہ نہیں کہ جب جان کندنی شروع ہو گئی تھی ۔ بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اُن کی موت کا وقت قریب آگیا تھا ۔
اِذْقَالَ یہ پہلے اِذْ کا بدل ہے ۔ گویا خَضَرَ الْمَوْتُ سے مراد وہ وقت ہے ۔جب انہوں نے موت کو قریب دیکھتے ہوئے وصیت کی ۔اور اپنی اولاد سے کہا کہ تم میرے بعد کس کی پرستش کروگے ؟قَالُوْ انَعْبُدُ اِلٰھَکَ وَاِلٰہَ اٰبَآ ئِ کَ۔ اس آیت پر عیسائیوں نے اعتراض کیا ہے کہ حضرت اسماعیل ؑ تو اُن کے آباء میں سے نہ تھے ۔بلکہ چچا تھے ۔پھر انہیں اَبْ کیوں کہا ۔ ؟ مگر یہ اعتراض اُن کی زبان سے ناواقفیت کا ثبوت ہے ۔ عربی زبان میں اَبُٗ کا لفظ چچا کیلئے بھی استعمال ہو سکتا ہے ۔لیکن چونکہ عیسائی جب قرآن کریم پڑھتے ہیں تو اُن کی نیت صرف اعتراض کرنا ہوتی ہے ۔ اس لئے وہ بات بات پر اعتراض کرنا شروع کردیتے ہیںاور یہ نہیں دیکھتے کہ اس سے انکی اپنی نا بینائی کا ثبوت ملتا ہے ۔
یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب انہوں نے نَعْبُدُ اِلٰھَکَ کہد یا تھا تو پھر اِلٰہَ اٰبَآ ئِکَ اِبْرَاَھِیْمَ وَ اِسْمٰعَیْلَ وَاسْحٰقَ اِلٰھًا وَاحِدًا کہنے کی کیاضرورت تھی کیونکہ جو بعقوب ؑ کا معبود تھا وہی ابراہیم ؑ کا معبود تھا۔ وہی اسمٰعیل ؑ اور اسحاق ؑ کا معبود تھا۔ پس اِلْھَکَ پر اکتفاء نہ کرتے ہوئے اِلٰہَ اٰبَآئِکَ کہنا اور پھر اس سپر بھی اکتفا نہ کرتے ہوئے ابراہیم ؑ اسمٰعیل ؑ اور اسحاق ؑ کے الفاظ بڑھانا کیا معنے رکھتا ہے سو یاد رکھنا چاہیے کہ اس میں ایک حکمت ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وراء الوراء ہے جو انسان کو نظر نہیں آتی۔ ہم رب ۔ رحمٰن اور رحیم وغیرہ الفاظ تو استعمال کر لیتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کی پوری حقیقت صرف ان چند الفاظ سے واضح نہیں ہوتی اور جب انسان یہ چاہتا ہو کہ وہ کسی بات کو کھول کر بیان کرے تو اس کی وضاحت کے لئے مختلف طریق اختیار کرتا ہے۔ جیسے اگر انسان اپنے کسی محسن کا احسان یاد دلائے تو وہ کہتا ہے کہ فلاں کا مجھ پر احسان ہے اور پھراُس کی تشریح کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ اُس نے کیا احسان کیا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے جلال اور اُس کے جمال کا اظہار مختلف تجلیات میں ہوتا ہے۔ کوئی تجلی حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ہوئی کوئی تجلی حضرت اسحاق علیہ السلام پر ہوئی کوئی تجلی حضرت اسماعیل علیہ السلام پر ہوئی۔ پس اُن کی اولاد نے ضروری سمجھا کہ وہ اپنے اُن آباء کا نام لے کر کہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی ان تجلیات سے خوب آگاہ ہیں جو اُن کے وجود سے ظاہر ہوئیں۔ ہم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی بھی دیکھی ہے اور خداتعالیٰ کی وہ تجلی بھی دیکھی ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ظاہر ہوئی تھی اسی طرح ہم نے وہ تجلی بھی دیکھی ہے جو حضرت اسمٰعیل علیہ السلام پر ظاہر ہوئی تھی۔ پھر حضرت اسحاق علیہ السلام والی تجلی سے بھی ہم ناواقف نہیں۔ اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کے متعلق اپنے تفصیلی علم کو پیش کر کے کہتے ہیں کہ کیا اتنے جلوے دیکھنے کے بعد بھی ہم بے ایمانی کر سکتے ہیں یہ ویسی ہی بات ہے جیسا کہ ہندہ کے متعلق فتح مکہ کے موقعہ پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حکم دے دیا تھا کہ وہ جہاں ملے اُسے قتل کر دیا جائے۔ کیونکہ اس نے بہت سے مسلمانوں کو قتل کر دایا تھا مگر وہ عورت ہوشیار تھی چالاکی سے عورتوں میں مل کر بیعت کرنے کے لئے آگئی۔ جب آپؐ نے عورتوں سے فرمایا کہ کہو ہم شرک نہیں کرینگی تو وہ فوراً بول اُٹھی کہ یا رسول اللہ! کیا اب بھی ہم شرک کرینگی آپ اکیلے تھے اور آپ کے مقابلہ پر تمام عرب تھا۔ ہم نے آپ کی مخالفت کی اور آپ کو ناکام بناناے کے لئے ایڑی سے چوٹی تک زور لگایا مگر اس کے باوجود آپ کامیاب ہو گئے اور ہمارے بتوں نے ہماری کچھ بھی مدد نہ کی۔ کیا اتنے واضح نشان کے بعد بھی ہم شرک کرینگی۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد نے بھی یہی جواب دیا۔ چونکہ ان کے ایک حصہ نے حضرت یوسف علیہ السلام کی مخالفت کر کے عدمِ ایمان کا ثبوت دیا تھا۔ اور پھر مصر میں بُت پرستی بھی عام تھی اس لئے حضرت یعقوب علیہ السلام نے اُن سے آخری وقت میں پوچھا کہ میری زندگی میں تم میری پیروی کرتے رہے لیکن اب بتائو کہ میرے مرنے کے بعد تم کیا رویہ اختیار کرو گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا ایمان اب پختہ ہو چکا ہے اور ہم پر تمام تجلیات ظاہر ہو چکی ہیں اب ہم خداتعالیٰ کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں وہ نادانی کا وقت آور تھا جبکہ ہم نے یوسف علیہ السلام کی مخالفت کی اور اُن کو کوئیں میں ڈال دیا تھا۔ اب ہم سے یہ حماقت نہیں ہو سکتی۔
اِلٰھًا وَّ احِدًا۔ اِلٰہَ اٰبَآئِکَ کا بدل ہے چونکہ انہوں نے مختلف ناموں یعنی ابراہیم ؑ ۔ اسماعیل ؑ اور اسحٰقؑ کی طرف اِلٰہ کو منسوب کیا تھا اس لئے خیال ہو سکتا تھا کہ شاید کئی اِلٰہ ہوں اس شبہ کے ازالہ کے لئے بتایا کہ وہ ایک ہی خدا ہے۔
اِلٰھًا وَّ احِدًا حال بھی ہو سکتا ہے یعنی حَالَ کَوْ نِہٖ اِلٰھًا وَّ احِدًا اس حال میں کہ ایک ہی خدا ہے صرف اس کی تجلیات مختلف ہیں۔ درحقیقت اس میں یہود کو توجہ دلائی گئی ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام تو مرتے وقت بھی ایک خدا کی پرستش کی تاکید کرتے گئے ہیں پھر اُن کی نسل آج اپنی ہواوہوس کے پیچھے کیوں پڑرہی ہے۔
وَنَحْنُ لَہ‘ مُسْلِمُوْنَ سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک ہر سچا پرستار مسلم ہے ۔چنانچہ پہلے کہا تھا۔ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ اور اس جگہ انہوں نے خود کہا ہے وَنَحْنَ لَہ‘ مُسْلِمُوْنَ۔ حالانکہ اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی مبعوث نہیں ہوئے تھے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہر دین کا سچا پرستار مسلم ہے اور اسی بنا پر تمام پہلے مذاہب کے پیرو جو اپنے اپنے مذہب کی تعلیم پر سچے دل سے عمل کرنے والے تھے وہ بھی مسلم ہی تھے کیونکہ جو بھی خدااور اس کے نبی پر ایمان لاتا ہے۔ وہ مسلم بن جاتا ہے مگر ان میں اور ہم میں یہ فرق ہے کہ اُن کا نام مسلم نہ تھا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اُمت کے لوگ مسلم نام سے پکارے جاتے ہیں۔ پہلی امتوں کے افراد بے شک اطاعت اور فرمانبرداری کے لحاظ سے مسلم تھے مگر لفظ مسلم نام کے طور پر وہ استعمال نہیں کرتے تھے۔ اور نہ اس نام سے وہ پکارے جاتے تھے۔ لیکن اس ُمت کے لوگ اس نام سے پکارے جاتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے مذاہب منسوخ ہونے والے تھے لیکن اسلام نے کبھی منسوخ نہیں ہونا تھا۔ پس اس کو یہ نام دیا گیا تاکہ گڑبڑ واقع نہ ہو۔ اور اُسی مذہب کے پیرو مسلم کہلائیں جس نے قیامت تک قائم رہنا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ خداتعالیٰ جب کوئی نام دیتا ہے تو اُس وقت دیتا ہے جب اُس نے ہمیشہ کے لئے قائم رہنا ہو۔ جیسے کسی نبی کا پہلے کوئی کلمہ نہیں ہو تا تھا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کلمہ بھی دیا گیا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلمانوں نے بہت سے کلمے بنا لئے ہیں جیسے لَا اِلٰہَ اللّٰہُ عِیْسٰی رُوْحُ اللّٰہ یا لَآ اِلٰہَ اِلَّا اٰدَمُ صَفِیُّ اللّٰہِ یا لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُوْسیٰ کَلِیْمُ اللّٰہ اور پھر اس کے لئے انہوں نے کوئی نہ کوئی روایت بھی گھڑ لی ہے۔ مگر درحقیقت حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر بنی اسرائیل کے آخری نبی تک کوئی کلمہ نہ تھا صرف وہی کلمہ ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے پیش کیا ہے کیونکہ اگر پہلے خداتعالیٰ کے نام کے ساتھ کسی نبی کا نام لگایا جاتا اور پھر اُسے ہٹایا جاتا تو یہ بے ادبی ہوتی۔ پس صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا نام ہی خداتعالیٰ کے نام کے ساتھ لگایا گیا کیونکہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمنے قیامت تک چلنا تھا۔غرض اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ جس چیز نے مٹ جانا ہو اُسے نام نہیں دیا جاتا۔ چونکہ اس امت نے قیامت تک رہنا تھا اس لئے اسے مسلم نام دے دیا گیا۔ اسی طرح آپ کی تعلیم کو بھی ایک نام دے دیا گیا یعنی قرآن۔ پہلی کتابوں مثلاً تورات اور انجیل وغیرہ کا نام خداتعالیٰ نے نہیں رکھا لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی کتاب کا نام قرآن خود خداتعالیٰ نے رکھا ہے۔ غرض خداتعالیٰ خود اپنی طرف سے اُن کو نام دیتا ہے جنہوں نے قائم رہنا ہوتا ہے۔ پس معنوی لحاظ سے تو وہ سب لوگ مسلم تھے جو پہلی اُمتوں میں ہوئے مگر جہاں تک مسلم نام کا تعلق ہے خداتعالیٰ نے یہ نام صرف اس اُمت کو دیا ہے کیونکہ یہ قیامت تک رہنے والی تھی۔ انجیل اور تورات لوگوں کے اپنے رکھے ہوئے نام ہیں اور انہی ناموں سے خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں اُن کا ذکر کیا ہے۔ اس بات سے کہ قرآن کریم میں ان کے یہ نام آئے ہیں۔ یہ استدلال نہیں ہو سکتا کہ خداتعالیٰ نے اُن کے یہ نام رکھے تھے۔ جیسے قرآن کریم نے زید کا بھی نام لیا ہے مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ جب وہ پیدا ہوا تھا تو اس کا نام خدا تعالیٰ نے رکھا تھا وہ تو اس کے ماں باپ نے ہی رکھا تھا مگر خداتعالیٰ نے بھی وہی نام لیا۔ کیونکہ اسی نام سے وہ مشہور تھا۔
پھر سابق مذاہب کے پیرووں کو اس وجہ سے بھی مسلم کا نام نہیں دیا گیا کہ نام پانے کا مستحق کامل مذہب ہی ہوتا ہے پس جب وہ مذہب بھیجا گیا جو اپنے کامل ہونے کی وجہ سے تمام مذاہب سے افضل تھا تو اس کا نام بھی اسلام رکھ دیا گیا۔ تاکہ اس کا نام ہی اس کی غرض دغایت پر روشنی ڈالنے کے لئے کافی ہی۔ وہیری ایک عیسائی مفسر ہے وہ اعتراض کرتا ہے کہ اس آیت میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) نے دعویٰ یا ہے کہ پہلے لوگ بھی میرے دین کے تابع تھے چنانچہ تَحْنُ لَہُ مُسْلِمُوْنَ سے وہ استنباط کرتا ہے کہ یعقوبؑ کی اولاد نے کہا کہ ہم محمدؐ پر ایمان لاتے ہیں اور پھر بہت سے دلائل سے اس بات کو رد کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ بالکل غلط ہے۔ مگر دراصل وہیری کو دھوکا لگا ہے اسلام یہ نہیں کہتا کہ وہ اُنہی تفاصیل کے پابند تھے جو اسلام میں پائی جاتی ہیں بلکہ صرف یہ کہتا ہے کہ وہ اپنے اپنے وقت میں سچے دین کے پیرو تھے اور اس سے کوئی سلیم العقل انسان انکار نہیں کر سکتا۔ ورنہ نام کے طور پر یہ لفظ صرف امتِ محمدؐ یہ کو ملا ہے اور کسی کو نہیں۔
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے وصیت کی تھی یا نہیں؟ اور اگر کی تھی تو اس کا کیا ثبوت ہے؟ اس بارہ میں یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے لئے یہ ضروری نہیں کہ ہم اس کا تورات سے ثبوت پیش کریں۔ یہ تو عقلی بات ہے کہ ہر راستباز اپنی اولاد کو اس قسم کی نصیحتیں کرتا اور اُن پر عمل کرنے کی تاکید کیا کرتا ہے ۔ خصوصاً موت کے وقت اپنی اولاد کو وصیت کرنا تو
تِلْکَ اُمَّۃ’‘
کانُوْ ایَعْمَلُوْنَo
ایک ایسی عام بات ہے جس کا نظارہ ہمیں لاکھوں آدمیوں کی زندگیوں میں نظر آتا ہے اور پھر حضرت یعقوب علیہ السلام کے لئے تو یہ بات اور بھی ضروری تھی کیونکہ وہ حصہ جو ٹھوکر کھا چکا ہو اس کے متعلق والدین کو ہمیشہ فکر ہوتی ہے کہ اُسے نصیحت کی جائے پس یہ ایک فطری بات ہے جس سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا لیکن اگر انہوں نے وصیت کی بھی تھی تو سوال یہ ہے کہ کیا بنی اسرائیل نے بائیبل میں یہ وصیت رہنے دینی تھی؟ جن لوگوں کو حضرت اسمٰعیل علیہ السلام سے اتنا بغض ہے کہ راستہ چھوڑ کر بھی اُن کی عیب جوئی کر لیتے ہیں اگر اُن کا ذکر آجاتا تو انہوں نے اُسے کہاں رہنے دینا تھا مگر باوجوس اِس کے کہ اُن کی کُتب انسان دست بُرد سے محفوظ نہیں۔ اس وصیت کے کچھ کچھ نشان ہمیں مل جاتے ہیں اور یہ نشان بھی خود عیسائیوں نے مہیا کیا ہے۔ کئی عیسائیوں نے قرآن کریم کے ترجمے کئے ہیں۔ اُن میں سے ایک مترجم راڈول بھی تھا۔ اُن نے اپنے مترجم قرآن کریم میں اس آیت کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ مدارش رباہ میں جو طالمود کا حصہ ہے پیدائش باب۴۹ آیت۲ کی تفسیر میں لکھا ہے کہ
’’اُس وقت کہ ہمارے باپ یعقوب نے اس دنیا کہ چھوڑا اُس نے اپنے بارہ بیٹوں کو اکٹھا کیا اور اُن سے کہا اپنے باپ اسحق کی بات کو سُنو۔ کیا تمہارے دلوں میں قدوس خدا کے متعلق کوئی شبہ ہے ؟ انہوں نے کہا سُن اے اسرائیل ہمارے باپ جس طرح تیرے دل میں کوئی شبہ نہیں اسی طرح ہمارے دل میں بھی نہیں۔ کیونکہ وہ آقا ہمارا خدا ہے اور وہ ایک ہے۔‘‘
MIDS RABBAH ON GENESIS PAGE98
DEUT PARA 2
پس حضرت یعقوب علیہ السلام کا اپنے بیٹوں کو جمع کرنا اور انہیں نصیحت کرنا اور پھر ان کا اقرار کرنا ثابت ہے گو اس کی ساری تفصیل نہیں۔ اور یہی فرق ہے جو قرآن کریم کی عظمت کو دوبالا کرتا ہے قرآن کریم۱۹۰۰ سال کے بعد نازل ہو کر صحیح تفصیل بیان کر دیتا ہے مگر بائیبل اپنے زمانہ کی بھی صحیح تفصیل نہیں بتاتی۔
۵۱؎ حل لغات:۔ خَلَا کے معنے گذر جانے کے ہوتے ہیں(مفرداتِ راغب) چنانچہ خَلَا الزَّ مَانُ کے معنے ہیں مَضٰی یعنی زمانہ گذر گیا۔ آگے محاورہ میں اِس کے معنے مَاتَ کے بھی آتے ہیں۔ خَلَتْ: مَاتَتْ۔ اِنْقَضَتْ وَسَارَتْ اِلَی الْخَلَائِ وَھُوَ الْاَرْضُ الَّتِیْ لَا اَنِیْسَ فِیْھَا۔ یعنی خَلَتْ کے معنے ہیں مر گیا اور ایسی زمین میں چلا گیا جہاں اُس کا کوئی انیس اور غم خواہ نہیں۔
تفسیر:۔ عام طور پر لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا کے اعمال ہمارے کام آجائیں گے اگر وہ نیک اور پارسا تھے تو ہم بھی
وَقَالُوْ اکُوْنُوْا
مَنَ الْمُشْرِکِیْنَo
اُن کی اولاد ہونے کی وجہ سے انہی کے ساتھ جگہ پائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس خیال کی تردید فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ اُن کے اعمال اُن کے ساتھ اور تمہارے اعمال تمہارے ساتھ۔ تم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ تمہارے باپ دادا کیسے اعمال کرتے تھے۔ بلکہ یہ سوال ہو گا کہ تم کیا کرتے رہے۔ اگر یہ سوال ہونا ہوتا کہ تمہارے باپ دادوں نے کیا کیا تھا تو شاید تم بچ جاتے مگر سوال تو یہ ہو گا کہ تم نے کیا کی اہے۔ چنانچہ لَھَا مَاکَسَبَتْ میں یہی بتایا ہے کہ اُن کی نیکیاں تمہارے کام نہیں آئینگی اور تمہاری بدیاں اُن کے ذمہ نہیں ڈالی جائیں گی تم سے یہ نہیں پوچھا جائیگا کہ حضرت ابراہیم ؑ ۔ اسمٰعیل ؑ اور اسحاق علیہ السلام نے کیا کیا تھا بلکہ یہ پوچھا جائے گا کہ تم نے کیا کیا۔
وَلَا تُسْئَلُوْنَ عَمَّا کَانُوْ ایَعْمَلُوْنَکا یہ مطلب نہیں کہ تم سے پہلے لوگوں کے گناہوں کے متعلق نہیں پوچھا جائے گا بلکہ یہ مطلب ہے کہ تم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ انہوں نے کیا کیانیکیاں کی تھیں بلکہ تم سے صرف تمہارے ذاتی اعمال کے متعلق سوال ہو گا۔ اس لئے اپنے اختلاف کے عمل پر اپنی نجات کو منحصر نہ سمجھو۔
۵۲؎ حل لغات:۔ اَلْحَنِیْفُ کے معنے ہیں اَلْمَائِلُ عَنِ الشَّیْئِ کسی چیز کی طرف سے توجہ پھیر کر دوسری طرف جُھک جانے والا۔ محاورہ میں اس کے معنے ہیں اَلْمَائِلُ عَنِ الضَّلَا لَۃِ اِلَی الْھُدیٰ(مفردات)جو شخص ضلالت کی طرف سے منہ پھیر کر ہدایت کی طرف توجہ کرے۔(۳) اَلْمُسْتَقِیْمُ۔ سیدھا(اقرب الموارد)(۴) اَلصَّحِیْحپ الْمَیْلَانِ اِلَی الْاِسْلَامِ جس کی اسلام کی طرف صحیح توجہ ہو۔پس حنیف کے معنے ہیں۔ ضلالت چھوڑ نیوالا صحیح راستہ پر چلنے والا۔ اسلام کی طرف صحیح رغبت رکھنے والا۔ اور اس کے ایک معنے قرآن کریم سے یہ ثابت ہوتے ہیں کہ جو سارے رسولوں پر ایمان رکھتا ہو۔ کیونکہ اس کے معًا بعد یہ ذکر آتا ہے کہ قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَمَآ اُنْزِلَ اِلیٰٓ اِبْرَھٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَمَآ اُوْتِیَ مُوْسیٰ وَعِیْسٰی وَمَآ اُوْتِیَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّھِمْ لَانُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ وَ نَحْنُ لَہ‘ مُسْلِمُوْنَ ۔ گویا حنیف کی تشریح یہ ہے کہ جو سب رسولوں پر ایمان لائے۔ ابن کثیر میں ابو قلابہ کا بھی ایک قول آتا ہے کہ اَلْحَنِیْفُ الَّذِیْ یوْمِنُ بِالرُّسُلِ کُلِّھُمْ مِنْ اَوَّ لِھِمْ اِلیٰ اٰخِرِھِمْ۔(تفسیر ابن کثیر جلد اول بر حاشیہ فتح البیان صفحہ۳۲۵) یعنی حنیف وہ ہے جو سب رسولوں پر ایمان لائے۔ انہوں نے معلوم نہیں کہاں سے استدلال کیا ہے مگر میں نے اس سے اگلی آیت سے استدلال کیا ہے کیونکہ اگلی آیت میں حنیف ہی کی تشریح ہے اور تمام رسولوں کے ماننے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
تفسیر:۔ فرماتا ہے یہود کہتے ہیں کہ یہودی بننے میں نجات ہے اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ عیسائی بنے میں نجات ہے مگر دونوں کی بات غلط ہے اصل بات یہ ہے کہ نہ یہودی کہلانے سے کام بنیگا نہ نصرٰی کہلانے سے۔ بلکہ ابراہیمی ملت کی پیروی کرنے سے نجات ہو گی۔ کیونکہ یہ پھر ویسی ہی بات ہو جاتی ہے جیسی انہوں نے کہی تھی اس لئے فرمایا کہ ہدایت حاصل کرنے کا ذریعہ یہ ہے کہ انسان ہدایت کا راستہ اختیار کرے۔ یہی طریق ابراہیمؑ کا تھا جو ہر وقت خدا کے حکموں کی طرف کان لگائے رکھتا تھا۔ محض یہودی یا عیسائی کہلانے سے کچھ نہیں بن سکتا۔
اصل بات یہ ہے کہ دنیا میں جس قدر مذاہب پائے جاتے ہیں ان سب کے پیرووں میں اپنے تنزل کے زمانہ میں یہ خیال پیدا ہو گیا تھا کہ شاید اسی مذہب میں شامل ہو کر نجات میسر آسکتی ہے لیکن یہ ایک غلط خیال ہے۔نجات کا اصل باعث فضلِ الہٰی ہوتا ہے اور فضل الہٰی کا جذب کرنے کا ذریعہ اطاعتِ الہٰی ہے۔ پس جب تک کسی سچے مذہب میں شامل ہو کر اطاعتِ الہٰی ہو اُس وقت تک تو اس میں نجات کا امکان ہے۔ لیکن جب اطاعت نہ ہوتی ہو تو کوئی نجات نہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے یہاں یہود اور نصاریٰ کو جو زور دیتے ہیں کہ ہدایت پانا چاہو تو ہمارے مذہب میں داخل ہو جائو پھر ڈانٹا ہے کہ کیا کسی مذہب کا نام لینے سے نجات حاصل ہو سکتی ہے ؟ نجات حاسل کرنے کا طریق یہ ہے کہ ملت ابراہیم کی اتباع کی جائے اور ابراہیم ؑ کا طریق یہ تھا کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو حکم بھی ملا ۔ انہوں نے اُس کو قبول کر لیا۔ یہی دین ابراہیم ؑ ہے۔ اور اسی کی پیروی ہر اس قوم پر فرض ہے جو ابراہیم ؑ کی بزرگی کی قائل ہے حنیف کے معنے جیسا کہ اوپر بتا یا جا چکا ہے ایسے شخص کے ہیں جو ضلالت سے منہ موڑ کر ہدایت اور راستی کی طرف جھکا ہوا ہو۔ اسی طرح حنیف اس شخص کو بھی کہتے ہیں جو اسلام کا کلی طور پر والہ و شیدا ہو اور اس کی طرف اپنی تمام تو جہالت کو مرکوز رکھتا ہو۔ اور ابو القلابہ نے جو ایک بہت بڑے مفسر اور تابعین میں سے ہیں حنیف کے معنے ایسے شخص کے کئے ہیں جو اول سے آخر تک تمام انبیاء پر ایمان لائے اور کسی ایک کا بھی انکار نہ کرے۔ پس حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حنیف قرار دے کر بتایا گیا ہے کہ آپ خداتعالیٰ کی عبادت اور فرمانبرداری کے لحاظ سے ایک ایسے مقام پر فائز تھے کہ ضلالت کی طرف ایک معمولی میلان بھی اُن کے تصورات سے بالا تھا۔ اور خداتعالیٰ کے احکام کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری اُن کا شیوہ تھا اس کے بعد فرمایا وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشرِکِیْنَ۔ ابراہیم ؑ مشرکوں میں سے نہ تھے حنیف کے ساتھ ان الفاظ کی زیادتی اس حقیقت پر روشنی ڈالنے کے لئے کی گئی ہے کہ جو شخص الہام اور نبوت و رسالت کے سلسلہ کو بند کر کے ایک مقام پر کھڑا ہو جاتا ہے وہ حقیقتاً مشرک ہوتا ہے کیونکہ خدانمائی کا آئینہ اس کے ابنیاء ہوتے ہیں اور اُنہیں کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی حقیقی توحید دنیا میں جلوہ گر ہوتی ہے۔توحید صرف اس بات کا نام نہیں کہ خداتعالیٰ کو ایک سمجھ لیا جائے بلکہ اُسے اپنی تمام صفات میں یکتا قرار دینا اور مخلوق میں سے کسی کو اس کا شریک قرر نہ دینا توحید کا ایک اہم حصہ ہے۔ جب کسی نبی کی بعثت پر ایک لمبا زمانہ گذر جاتا ہے تو توحید کا اقرار کرنے کے باوجود ولوگ قسم قسم کے شرک میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور خداتعالیٰ کا حقیقی چہرہ لوگوں کی نگاہ سے مخفی ہو جاتا ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت سے پہلے تمام مسلمان اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کرتے تھے مگر اس کے باوجود وہ یہ عقیدہ بھی رکھتے تھے کہ مسیح علیہ السلام مردوں کو زندہ کیا کرتے تھے پرندے پیدا کیا کرتے تھے۔ اور علم غیب سے حصہ رکھتے تھے اور ظاہر ہے کہ یہ تمام عقاید مشرکانہ ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جہاں اور غلط عقائد کی اصلاح فرمائی وہاں آپ نے ان مشرکانہ عقائد کی اصلاح فرمائی وہاں آپ نے ان مشرکانہ عقائد پر زور تردید فرمائی اور خدا تعالیٰ کی توحید دنیا میں قائم کی۔ پس انبیاء پر ایمان لائے بغیر توحید حقیقی کا قیام ناممکن ہے یہی وجہ ہے کہ خداتعالیٰ نے اپنی ذات پر ایمان لانے کے ساتھ ہی نبیوں پر ایمان لانا بھی ضروری قراردیا ہے۔ اگر یہ مقدس لوگ دنیا میں
قُوْلُوْآ اٰمَنَّا بَا للّٰہِ وَ



وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُوْنَo
نہ آتے تو خداتعالیٰ کا چہرہ لوگوں کو دکھائی نہ دیتا اور وہ ضلالت اور گمراہی سے نہ نکل سکتے۔ پس چونکہ خداتعالیٰ کی شناخت انبیاء پر ایمان لانے کے ساتھ وابستہ ہے اس لئے حنیف کے ساتھ وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ کے الفاظ اس امر کی طرف توجہ دلانے کے لئے استعمال کئے گئے ہیں کہ ابراہیم ؑ مشرکوں میں سے نہ تھا بلکہ وہ سلسلہ نبوت کے دائمی اجراء کا قائل تھا۔ اسی لئے س آیت کے معاً بعد یہ کہا گیا ہے کہ تم اس بات کا اقرار کرو کہ ہم تمام انبیاء سابقین پر بھی ایمان لاتے ہیں وَمَا اُوْتِیَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّھِمْ اور جو کچھ اور نبیوں کو دیا گیا یا آئندہ دیا جائیگا اس پر بھی ایمان لاتے ہیں۔
بے شک وَمَاکَانَ الْمُشْرِکِیْنَ کے ایک یہ بھی معنے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام شرک سے بالکل بیزار تھے اور ایک خدا کی پرستش کرتے تھے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ مشرکین نے خانہ کعبہ میں تین سو ساٹھ بُت رکھے ہوئے تھے پھر بھی کسی بُت کی نسبت اُن کا یہ عقیدہ نہیں تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس کی پرشتش کرتے تھے بلکہ وہ آپ کو کامل موخد تسلیم کرتے تھے۔ اور ان کی قدیم روایات اس کی تصدیق کرتی تھیں۔ اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ان حالات میں بھی جو بائیبل میں موجود ہیں شرک کی تعلیم کا کوئی شائبہ تک نظر نہیں آتا۔ مگر یہ صرف اس ٹکڑہ کے ایک معنے ہیں جو اپنی جگہ درست ہیں لیکن حنیف کے ساتھ وَ مَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ کا اضافہ بتا رہا ہے کہ اس جگہ مشرک اس شخص کو نہیں کہا گیا جو عرف عام میں شرک کا ارتکاب مسدود قرار دیتا ہے کیونکہ وہ خداتعالیٰ کی توحید کی اشاعت میںر وک بنتا ہے۔ اور اس کے مقابل پر اپنے ایک فرضی عقیدہ کو لا کر کھڑا کر دیتا ہے حالانکہ اصل مقام اطاعت کا یہ ہے کہ خداتعالیٰ جو کچھ کہے انسان اُسے مان لے اور ہر زمانہ میں خداتعالیٰ کی طرف سے جو پیغامبر آئے اس کی آواز پر لبیک کہے۔
۵۳؎ حل لغات:۔اَلْاَسْبَاطِ:سِبْط’‘ کی جمع ہے۔اور سِبْط’‘کے معنے اصل میں پھیلائو کے ہوتے ہیں اسی وجہ سے لمنے بالوں کوسِبْط’‘ کہتے ہیںسخی آدمی کو سِبْطُ الْکَفَّیْنِکہتے ہیں کیونکہ اس کا ہاتھ ہر ایک حاجت مند تک پہنچ جاتا ہے بیٹے کے بیٹے کوسِبْط کہتے ہیں کیونکہ جب بیٹوں کے بیٹے ہو جائیں تو نسل کا پھیلائو شروع ہو جاتا ہے پس اَسْبَاط کے معنے پوتوں کے ہونگے یا اُن کی نسل کے جو حضرت یعقوب علیہ السلام کے خاندان کے پھیلانے کا باعث اور ذریعہ ہوئی۔
تفسیر:۔اس آیت سے ظاہر ہے کہ مسلم وہ ہے جو خدا تعالیٰ کے تمام انبیاء پر ایمان لائے اور نفس نبوت کے لحاظ سے اُن میںـ کوئی فرق نہ کرے ۔جن انبیاء کا اُسے علم ہو اُن کی نبوت کا نام لے کر اقرار کرے ۔ اور جو معلوم نہیں اُن کی نبوت پر مجملاً ایمان لائے ۔یعنی یہ یقین کرے کہ ہر قوم میں خدا تعالیٰ کا کوئی نہ کوئی نبی ضرور آیا ہے اور ہم سب کو سچا تسلیم کرتے ہیں۔ اور ان کی پیشکردہ تعلیموں کو خدا تعالیٰ کی طرف سے مانتے ہیں۔ پس جو شخص اپنے زمانہ یا اس سے پہلے زمانہ کے سب نبیوں کی نبوت کا اقرار کرے اور کسی نبی کا انکار نہ کرے وہ مسلم ہے ۔کیونکہ تمام نبیوں کی نبوت کا اقرار کرانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ فقرہ فرمایا ہے کہ نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ ۔ہم اسکے فرمانبردار ہیں ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے ۔ کہ اس اقرار کے بعد انسان مسلم بنتا ہے ۔اوریہ صرف اسلام ہی کی خصوصیت ہے کہ وہ دنیا کے تمام انبیاء کی صداقت کا اقرار کرتا ہے ۔ ہر مذہب کے پیرو اپنے اپنے مذہب کے نبیوں کی صداقت تو منواتے ہیں۔ لیکن دوسری اقوام کے انبیاء کی صداقت منوانے کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے ۔ اسلام سب انبیاء کی صداقت کا اقرار کرتا ہے ۔ خواہ وہ بنی اسرائیل میں آئے ہوں یا ہندوایران کے لوگوں میں مبعوث ہوئے ہوں یا دنیا کے کسی اور ملک میں اصلاح کیلئے کھڑے کئے گئے ہوں مگر اس سے تفصیلی ایمان نہیں بلکہ صرف اجمالی ایمان مراد ہے ۔ اگر تفصیلی ایمان مراد ہوتا تو وَمَاَ اُدْتِیَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّھِمْ فرما کر اُن نبیوں کا ذکر نہ کیا جاتا جن کا نام بھی ہمیں معلوم نہیں اور جن کے حالات کا قرآن کریم نے کہیں ذکر نہیں کیا۔ مگر پھر بھی اجمالی طور پر اُن پر ایمان لانا ضرور ی قرار دیا ہے ۔
میں اس موقعہ پر مسلمانوں کو بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے جو سب نبیوں کو مانے وہی مسلم ہے ۔ اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آنے والے مسیح کو نبی اللہ قرار دیتے ہیںاور اس زمانہ میں مسیحیت موعودہ کا وعدہ بانی سلسلہ احمدیہ کے وجود میں پورا ہو چکا ہے ۔ پس ہر شخص جو اسلام سے اپنے آپ کو وابستہ کرتا ہے اُس کا فرض ہے کہ وہ ہوشیار ہو اجائے اور بے توجہی سے آپ کے دعویٰ کو نہ دیکھے ۔ کیونکہ بے توجہی سے اسلام جیسی قیمتی چیز ہاتھ سے جانے کا اندیشہ ہے ۔ مسلم وہی ہے جو خدا تعالیٰ کے تمام نبیوں کو مانے اور مسیح موعود کی نبوت بھی اس سے مستشنیٰ نہیں ۔ پس مسلمانوں کیلئے ہوشیار ہونے کی ضرورت ہے ۔
لَانُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ ۔ اِس آیت کے یہ معنے نہیں کہ ہم نے انبیاء کے درجات میں فرق نہیں کرتے ۔ کیونکہ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر فرمایا ہے کہ تلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلیَ بَعْضٍ (سورۃ بقرہ آیت ۲۵۴)یعنی یہ رسول ہیں جن میں سے بعض کو بعض پر ہم نے فضیلت بخشی تھی ۔پس اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ ہم سب نبیوں کو درجہ اور مقام کے لحاظ سے ایک جیسا سمجھتے ہیں۔ بلکہ صرف یہ مطلب ہے کہ اُن پر ایمان لانے کے لحاظ سے ہم اُن میں کوئی فرق نہیں کرتے چاہے وہ شرعی نبی تھے یا غیر شرعی ۔ورنہ درجوں کا فرق تو خود قرآن کریم نے تسلیم کیا ہے ۔
مسیحی مصنف اِس آیت پر یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ حضرت اسما عیل ؑ نبی نہ تھے مگر قرآن کریم نے انہیں نبی کہہ دیا ہے ۔ اوروہ دریافت کیا کرتے ہیں کہ اسما عیل ؑ کی نبوت کا کیا ثبوت ہے ؟ حالانکہ اگر وہ غور کریں تو یہی سوال اُلٹ کر اُن پر پڑتا ہے کہ اسحاق ؑ کی نبوت کا کیا ثبوت ہے موسیٰ علیہ السلام اپنے دادا اسحاق ؑ کی نبوت کا اعلان کرتے ہیں۔اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے
فَاِنْ اھْتَدَوْاہ
دادا اسما عیل ؑ کی نبوت کا اعلان کرتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ بائیبل نے نجل سے کام لے کر حضرت اسما عیل ؑ کی نبوت کا ذکر نہیں کیا ۔ اور قرآن کریم ن جو کبھی کسی صداقت کا انکار نہیں کرتا ۔ اُس نے تسلی تعصبات سے کام نہ لے کر دونوں بزرگوں کی بزرگی کا اقرار کیا ہے آخری نبی اسرائیل کے پاس اسحاق ؑ کی نبوت کا اِس کے سوا کیا ثبوت ہے کہ ایک سچے نبی نے جس کی نبوت اُن کے خیال میں دلائل سے ثابت ہے ۔ اسحاق علیہ السلام کی نبوت کا اقرار کیا ہے ۔یہی دلیل ایک مسلمان دیگا کہ اسما عیل ؑ کی نبوت کا یہ ثبوت ہے کہ ایک سچے نبی نے جس کی نبوت دنیا کے تمام انبیاء کی صداقت کے دلائل سے زیادہ دزنی دلائل کے ساتھ ثابت ہے اُسے نبی قرار دیا ہے ۔ اگر بائیبل کی شہادت سے اسحاق علیہ السلام نبی قرار پا سکتے ہیں ۔ توقرآن کریم کی شہادت سے اسما عیل علیہ السلام کو کیوں نبی نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اصل بات یہ ہے کہ مسیحی مصنفوں کو حضرت اسما عیل علیہ السلام کی نبوت کے ماننے میں سوائے اس کے کوئی عذر نہیں کہ اُن کا ذکر بائیبل میں نہیں ۔ حالانکہ بائیبل سے ثابت ہے کہ اُن کا سارہ کے حسد کی وجہ سے وطن چھوڑ کر بے وطنی کی زندگی بسر کرنی پڑی تھی ۔اور جبکہ سار ہ کو اسما عیل ؑ سے اِس قدر دشمنی تھی کہ اُن کو گھر چھوڑنا پڑا اور وہ بہت دور ایک ملک میں چلے گئے ۔تو بنی اسرائیل نے اپنی کتب میں انکی کب تعریف کرنی تھی اور اُن کی نبوت کا کس طرح ذکر کرنا تھا ۔پس اُن کے حالات کا بائیبل میں نہ ہونا کئوی تعجب کی بات نہیں۔
پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ گو کسی چیزا کا عدم ذکر اس کے عدم وجود پر دلالت نہیں کرتا ۔ مگر موجودہ بائیبل بھی ایسے اشارات رکھتی ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام سے بھی خدا تعالیٰ کے بڑے بڑے وعدے تھے ۔اول تو اُن کا نام ہی دلالت کرتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے پیارے ہونے والے تھے ۔کیونکہ آپ کا الہامی نام اسماعیل تھا ۔ جس کے معنے ہیں خدا نے سُنی ۔اوریہ نام بلاوجہ نہیں ہو سکتا ۔ چنانچہ پیدائشی باب ۱۶آیت ۱۱ میں لکھا ہے :۔
’’خدا وند کے فرشتے نے اُسے (یعنی حضرت ہاجرہ ؑ کو )کہا ۔کہ تو حاملہ ہے ۔اور بیٹا جنیگی ۔اس کا نام اسماعیل رکھنا کہ خدا وند نے تیرا دکھ سن لیا۔ ‘‘
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اسما عیل علیہ السلام کی پیدائش اللہ تعالیٰ کی بشارت کے ماتحت ہوئی تھی ۔ اور الہامی طور پر آپ کا نام اسما عیل رکھا گیا تھا اور جو بچہ اللہ تعالیٰ کی بشارت کے ماتحت پیدا ہواور الہام میں اس کا نام بھی تجویز ہوا ہو اس کے متعلق یہ کہنا کہ وہ خدا تعالیٰ کا برگزیدہ نہیں تھا خود الہام الٰہی کی تکذیب کرنا ہے ۔
پھرپیدائش باب ۱۷ آیت ۱۸ میں لکھا ہے :۔
’’ابراہام نے خڈا سے کہا کہ کاش کہ اسما عیل تیرے حضور جیتا رہے ۔‘‘
اصل عبرانی الفاظ کا ترجمہ یہ ہے کہ
’’تیری آنکھوں تلے رہے اور تیرا مقبول ہو۔‘‘
وَاِنْ
الْعَلِیْمُoط
اِس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :۔
’’اور اسماعیل کے حق میں میں نے تیری سُنی دیکھ میں اسے برکت دو نگا ۔ اور اُسے بر ومند کرونگا ۔ اور اُسے بہت بڑھاؤنگا ۔ اور اُس ے بارہ سردار پیدا ہونگے ۔اور میںاُسے بڑی قوم بناؤنگا۔‘‘(آیت ۲۰)
اِن دونوں آیت کے ملانے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خداتعالیٰ سے دعا کی تھی کہ اسماعیل ؑ خدا تعالیٰ کا برگزیدہ ہو۔کیونکہ ان کے الفاظ ہیں۔ ’’تیرے حضور جیتا رہے ‘‘اور تیرے حضور جیتا رہنے کے معنے مقبول ہونے کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتے ۔ اگر آپ کا یہ مطلب نہ ہوتا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا صرف اس قدر کہہ دینا کافی تھا کہ وہ جیتا رہے ۔کیونکہ جس قدر لوگ زندہ رہے ہیں سب خدا تعالیٰ کے حضور ہی زندہ رہتے ہیں۔ اُس سے غائب نہیں ہوتے ۔پس تیرے حضور کے الفاظ بڑھانے کا اِس کے سوا ور کوئی مطلب نہیں تھا کہ تیرے ساتھ تعلق رکھنے والوں میں سے ہو۔ اور نیک پاک اور خدا رسیدہ ہو چنانچہ خدا تعالیٰ نے اس دعا کو قبول کر لیا۔ اور کہا کہ میں نے تیری سن لی۔
۵۴؎حل لغات:۔ شِقَاقُٗ: شِقُٗ جانب کو کہتے ہیں۔ پسشِقَاقُٗ کے معنی دوری کے ہیں۔
سَیِیْعُ: کے معنے ہیں ۔بہت سننے والا ۔اور عَلِیمُٗ کے معنے ہیں ۔بہت جاننے والا۔
تفسیر :۔ اوپر کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کی تشریح بیان فرمائی تھی کہ ایمان کامل وہ ہوتا ہے جس میں انسان کوئی شرط نہ لگائے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے جو تعلیم آجائے اسے مان لے ۔ نہ قوم کی شرط ہو کہ پہلے نبیوں کو مانیں گے اور جو آئندہ آئیں گے ۔اُنکو نہیں مانیں گے ۔فرمایا ۔تم عالم ہو یا نہ ہو ۔اگر تمہیں پتہ لگے کہ فلاں شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے تو تم اسے فوراً مان لو۔ پس یہ کہنا کہ یہودی یا عیسائی ہونے سے نجات ملتی ہے ۔یہ سب ڈھکونسلے ہیں ۔ایمان کی پہلی شرط یہی ہے کہ بغیر کسی شرط کے انسان ایمان لائے اور اس کے ساتھ کوئی قید نہ لگائے اور ہمیشہ خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہنے کے لئے تیار رہے ۔
اس جگہ باء اور مثل دونوں لفظ ہم معنے اور بظاہر یہ ایک تکرار نظر آتا ہے لیکن حقیقتاً تکرار نہیں۔اصل بات یہ ہے کہ یہاں باء زائدہ ہے ۔مگر زائدہ کے یہ معنے نہیں کہ اس کے کوئی معنے ہی نہیں ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ نئے معنے دیتی زاورتاکید پیدا کرتی ہے بعض لوگ زائدہ کا لفظ سنکر کہنے لگ جاتے ہیں۔ کہ کیا قرآن میں بھی زدائد ہیں۔ حالانکہ یہ عربی کی ایک اصلاح ہے اور اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ بے حقیقت ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ تاکید کیلیئے استعمال ہوئی ہے جیسے اردو میں ’’ہی‘‘ کا لفظ ہے ۔یہ کوئی نئے معنی نہیں دیتا بلکہ پہلے معنوں کی تاکید کردیتا ہے ۔جیسے کہتے ہیں۔ ’’یہ زید ہی ہے ‘‘۔ اس فقرہ میں جو ’’ہی ‘‘ استعمال ہوا ہے یہ معنوں کو مضبوط کرنے کیلئے استعمال ہوا ہے نہ کہ کوئی زائد معنے پیدا کرنے کیلئے ۔اِسی طرح باء ہے یہ مثل کی تاکید کیلئے آئی ہے ۔اور اس کے معنے ہیں۔ ’’بالکل ویسے ہی ‘‘ اگر صرف مثل کا لفظ استعمال کیا جاتا تو تھوڑی بہت اِدھر اُدھر ہونے کی گنجائش رہ جاتی تھی اور شبہ ہو سکتا تھا کہ شاید پوری مشابہت مراد نہ ہو۔ لیکن باء کی موجودگی نے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی اور پوری طرح واضح کر دیا کہ جب تک ایمان کا ہر ایک نقطہ دوسرے نقطہ کے مشابہ نہ ہو اُسوقت تک وہ ایمان ہی نہیں کہلاسکتا۔
زائدہ ہونے کے علاوہ باء استعانت کیلئے بھی ہو سکتی ہے ۔ اور مراد یہ ہے کہ فَاِنْ دَخَلُوْ نِی اِلْا ایْمَانِ بِشَھَا دَۃٍ مِثْلَ شَھَادَتِکُمْ۔یعنی اگر وہ صداقت انبیا ء کی شہادت دیتے ہوئے اُن پر ایمان لے آئیں جیسے تم نے انبیاء کی صداقت کی شہادت دی ہے اور اُن کے ایمان کی وہی کیفیت نہ ہو جو تمہاری کیفیت ہے اُسوقت تک وہ ہدایت یافتہ نہیں سمجھے جاسکتے ۔یہ بھی تاکید کا ہی ایک رنگ ہے ۔ اور مطلب یہ ہے کہ اگر وہ ایسا کریں تو پھر بے شک وہ ہدایت یافتہ ہیں ۔ورنہ کسی نبی کو صرف منہ سے مان لینا انسان کو مومن نہیں بنا دیتا ۔ اگر اُن کا وہ عاشقانہ رنگ نہیں جو تم میں پایا جاتا تھا ۔اور اگر وہ اپنے عمل سے اپنے ایمان کی شہادت نہیں دیتے تو محض ابراہیم ؑ اسماعیل ؑ اسحاق ؑ موسیٰ ؑ عیسٰیؑ اور دوسرے نبیوں کو مان لینا کافی نہیں ہو سکتا۔ لوگ غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ ایمان صرف نبی کے وجود پر ایمان لانے سے وابستہ ہوتا ہے حالانکہ نبی کی مثال تو ایک نے َ کی سی ہوتی ہے ۔ جس طرح نَے بولنے والے کی آواز لوگوں کو پہنچاتی ہے اسی طرح نبی بھی خدا تعالیٰ کی آواز لوگوں کو پہنچاتا ہے اور نبی پر ایمان لانا صرف اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا پیغام پر ہوتا ہے ۔پس کسی ایک نبی پر ایمان لانا اور دوسرے کا انکار کردینا انسان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتا ۔ فائدہ اسی صورت میں ہوتا ہے جبکہ وہ ہر آواز پر لبیک کہنے کیلئے تیار رہے اس جگہ اللہ تعالیٰ کچھ نبیوں کا ذکر کرکے فرماتا ہے کہ تم کہو کہ ہم ان سب نبیوں کو مانتے ہیںجن کو تم مانتے ہو ۔اب خدا تعالیٰ نے ایک اور نبی بھیجا ہے جسے ہم مانتے ہیں مگر تم نہیں مانتے ۔تم بھی اسے مان لو تاکہ اللہ تعالیٰ کے انعامات سے حصہ پاؤ۔اور تمہیں دین و دنیا میں سُر خروئی حاصل ہو ۔
فَاِنْ تَوَ لَّوْ انَاِ نَّمَا ھُمْ فِیْ شِقَاقٍ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر وہ پھر جائیں ۔تو تم گھبراؤ نہیں ۔اُن کے اِس اعتراض کی سوائے اس کے اور کوئی وجہ نہیں کہ وہ اختلاف کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔اور تم سے کسی حالت میں بھی اتحاد کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ یہ عبارت اصل میں اِنْ ھُمْ فِیْ شِقَاق ہے ۔ یعنی ان کے اس اعراض سے تم پریشان مت ہو۔ جیسا کہ رسول کریم سلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بعض کمزور دل مسلمان خیال کر سکتے تھے کہ یہ لوگ تم سے پہلے ہی دور ہیںـ ۔اور ان باتوں کی طرف آنے کو تیار نہیں جو خدا تعالیٰ کے قریب کرنے والی ہیں ۔ اور جب اُن کے دلوں میں اتنا بغض ہے اور وہ پہلے ہی تم سے جدا ہیں تو پھر اتحاد کیسے ہوسکتا ہے ۔پس اس بات سے مت ڈرو کہ علیحدگی کی صورت میں ہمیں اُن سے تکلیف پہنچی گی اور لڑائیاں ہونگی ۔
فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ ۔اُن کے مقابلہ میں تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کافی ہے ۔ وہ اُن کے حملوں سے تمہیں خود بچائیگااور تمہاری آپ حفاظت فرمائیگا ۔ جب تک انسان کو یہ مقام حاصل نہ ہو وہ حقیقی مومن نہیں کہلاسکتا۔ ایمان کا مقام وہی ہے جوفَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہ کے ماتحت ہو۔ یعنی وہ اس مقام پر کھڑا ہو کہ دشمن اُسے نقصان پہنچانے کیلئے خواہ کس قدر کوشش کرے ۔ وہ سمجھے کہ میرا خدا میرے ساتھ ہے وہ دشمن کو مجھ پر غالب نہیں آنے دیگا ۔ اور اگر اس مقابلہ میں میرے لئے موت مقدر ہے ۔تب بھی کوئی غم نہیں کیونکہ ہم نے مرکر خدا کے پاس ہی جانا ہے ۔ آخر غور کرو کیا صحابہؓکی بیویاں نہ تھیں ۔ کیا اُن کے بچے نہ تھے کیا اُن کی جائدادیں اور تجارتیں نہ تھیں ۔اگر وہ خدا کیلئے اپنی جانیں قربان نہ کرتے تو ہم تک اسلام کسطرح پہنچتا ۔ ہم تو جہالتوں میں مبتلا ہوتے ۔کوئی بتوں کو پوج رہا ہوتا۔اور کئیو کسی دیوی دیوتا کے آگے اپنا سر جھکا ئے ہوتا ۔ خدا تعالیٰ کی ان پر ہزاروں ہزار برکات ہوں کہ انہوں نے اپنی جانوں کو ہمارے لئے آگ میں ڈالا۔ اپنی اولادوں کو یتیم کیا۔ اپنی بیویوں کو بیوہ کیا ۔ اپنے ماں باپ کو بے نوردبے چراغ کیا۔ اور ہمیں اسلام کی دولت سے مالا مال کیا ۔ مگر افسوس کہ اُن کی اسقدر عظیم الشان قربانی کے بعد اور اُن سے نور ایمان حاصل کرنے کے بعد بجائے اس کے کہ مسلمان انہی کی طرح اس میدان میں نکلتے اور کہتے کہ ہم بھی وہی کچھ قبول کرتے ہیں جو صحابہ ؓ نے کیا۔ ۔انہوں نے دنیوی تکالیف اور مصائب سے ڈر کر اپنے قدم پیچھے ہٹائے اور اسلام جن قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہے اُن میں حصہ لینے سے انہوں نے ہچکچانا شروع کر دیا ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ڈرتے کیوں ہو۔ اگر تم خدا تعالیٰ پر ایمان لائے ہو ۔ تو وہی تمہاری حفاظت کرے گا۔ اور وہی تمہیں ہر قسم کے نقصان سے بچائے گا۔
غرض اگر یہ لوگ ایمان نہ لائیں وت تم سمھج لو کہ ان کے دلوں میں تمہاری نسبت سخت عدادت اور دشمنی ہے ۔اور وہ تمہارے خلاف شرارتیں کرینگے مگر ان کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ تمہارے لئے کافی ہو گا وہ تمہیں ان کے حملہ سے خود بچائے گا ۔ اور ان کی شرارتیں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گی۔
وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِعْمُ۔فرماتا ہے یہ نہ سمجھ لو کہ اب خد اتعالیٰ کی طرف سے چونکہ وعدہ ہو گیا ہے ۔ اس لئے ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ دعائیں کرو کہ ایسا یہ وہ ۔ خدا تعالیٰ سننے والا ہے ۔اور جن باتوں کا تمیہں علم نہیں اُن کا اُسے خود علم ہے ۔ وہ آپ اُن کا انتظام کر دیگا۔
انسان کی دو حالتیں ہوا کرتی ہیں۔ ایک یہ کہ انسان پر اس کا دشمن حملہ کرتا ہے اور اس حملے کا اُسے علم ہوتا ہے اور جہاں تک اُس کیلئے ممکن ہوتا ہے وہ اُس کا مقابلہ کرتا ہے ۔اور اپنے بچاؤ کی تدبیر کرتا ہے دوسری حالت یہ ہوتی ہے کہ اس کا دشمن ایسے وقت میں حملہ کرتا ہے جبکہ اُسے خبر نہیں ہوتی ۔یا ایسے ذرائع سے حملہ کرتا ہے جن کی اُسے خبر نہیں ہوتی ۔مثلاً اُسے نقصان پہنچادیتا ہے۔ یا رات کو اس پر سوتے سوتے حملہ کر دیتا یہ ۔یا راستہ میں چھپ کر بیٹھ جاتا اور اندھیرے میں حملہ کر دیتا ہے یا وہ اُسے تیر مار دیتا ہے یا کھانے میں زہر ملا کر اُسے کھلا دیتا ہے یا اس کا مال یا جانور چُرا لیتا ہے ۔یہ وہ حملے ہیں جو اُس کے علم میںنہیں ہوتے اور اس وقت ہوتے ہیں ۔جبکہ وہ بے خبر ہوتا ہے ۔اِن دونوں حملوں کے بچاو کی مختلف تدبیریں ہوتی ہیں ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ دشمن کس طرح اور کس رنگ میں حملہ کریگا۔ اگر تم کو اس کے حملہ کا علم ہو مگر تم دفاع کی طاقت نہ پاؤتو ایک سمیع اور علیم خدا موجود ہے ۔وہ جانتا ہے کہ دشمن تم پر حملہ آور ہے اور تم ہمیں آواز دو ۔ ہم فوراً تمہاری مدد کیلئے آجائیں گے ۔اور اگرتم سوئے ہوئے ہو یا راستہ پر سے گذر رہے ہو یا تاریکی میں سفر کر رہے ہواور دشمن نے اچانک تم پر حملہ کر دیا ہے یا کھانے میں ذہر ملا دیا ہے یا چوری سے مال نکال لیا ہے ۔ یا کسی دوست سے مل کر اُس نے حملہ کر دیا ہے اور تمہیں اس کا علم نہیں ہوا۔توفرماتا ہے کہ ہم علیم ہیں ہم خوب جاننے والے ہیں اور ہمیں ہر قسم کی قوتیں حاصل ہیں۔ اس لئے ایسی حالت میں بھی تم گھبراؤنہیں ۔بلکہ اللہ تعالیٰ کو پکارواور اُس سے دعائیں کرو۔ وہ تمہاری تمام مشکلات کو دور کر دیگا۔اور تمہارے دشمن کا نام اور ذلیل کریگا۔

صِبْغَۃَاللّٰہِ ج
وَّنَحْنُ لَہٰ عٰبِدُوْنَo
۵۵؎ حل لغات:۔ صِبْغَۃُ کے معنے ہیں مِلَّت۔ دِین۔ فطرت۔ چمڑے کو رنگ دینا۔ غوطہ دینا، چمٹا دینا۔ اس لحاظ سے سِبْغۃَ اللّٰہِ کے معنے ہیں اللہ کے دین کو اختیار کرو۔ یا اللہ کے بتائے ہوئے طریق کو اختیار کرو۔ یا اللہ کی دی ہوئی فطرت کو اختیار کرو۔
تفسیر:۔ سِبْغۃَ اللّٰہِ کے معنے جیساکہ حؒ لغات میں بتایا گیا ہے دین کے بھی ہیں۔ ملت کے بھی ہیں۔ فطرت کے بھی ہیں اور کسی چیز کو رنگ دینے کے بھی ہیں یہ لفظ اس جگہ مفعول بہ استعمال ہوا ہے جو اس لفظ کے آخری کی زبر سے جو مفعول بہ کا نشان ہے ظاہر ہے عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ جہاں کسی کو کسی کام کی ترغیب دلانی ہو وہاں اس فعل کو جس میں ترغیب کے معنے پائے جاتے ہیں حذف کر دیا جاتا ہے اور صرف مفعول بہ بیان کر دیا جاتا ہے۔ یہاں بھی اِتَّبِعُوْا محذوت ہے اور اصل فقرہ یوں ہے اِتَّبِعُوْ اصِبْعۃَ اللّٰہِ یعنی تمہارے لئے مناسب ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے دین کو اختیار کرو اور اس سوال کو جانے دو کہ خداتعالیٰ نے یہ تعلیم کس شخص پر اتاری ہے اور وہ کونسی قوم سے تعلق رکھتاہ ے بلکہ سوال یہ ہے کہ یہ تعلیم خداتعالیٰ کی طرف سے آئی ہے اور خدا ہمارا بھی ہے اور تمہارا بھی اس لئے اس کی طرف سے جو دین بھی آئے اس کے ماننے میں تمہیں کوئی عذر نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ انسان کی نجات اسی میں ہے کہ وہ خداتعالیٰ کے بھیجے ہوئے دین کی اتباع کرے۔
مِلت کے مفہوم کو مدنظر رکھتے ہوئے اس میں وہ بتایا گیا ہے کہ انسان کی نیکی اُسی وقت تک قائم رہتی ہے جب تک اس کا نفس اللہ تعالیٰ کی راہنمائی کے ماتحت چلتا ہے لیکن جب وہ خدائی رہنمائی کو چھوڑ کر نفسانی خواہشات کے پیچھے چلتا ہے اور خدائی طریق کے علاوہ کوئی اور طریق اختیار کر لیتا ہے تو وہ خواہشات اُسے ہلاکت اور بربادی کے گڑھے میں گرادیتی ہیں۔
پھر فطرت کے مفہوم کے لحاظ سے اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ انسان کو ہمیشہ فطرتِ صحیحہ سے کام لیتے ہوئے اختلافات کا فیصلہ کرنا چاہیے کیونکہ ہر انسان کی فطرت اللہ تعالیٰ نے پاک بنائی ہے اور اس لئے سچائی کو پہنچاننے میں بری بھاری مدد ملتی ہے۔ مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ فطرتِ صحیحہ مذہب کی قائم مقام ہے وہ مذہب کی قائم مقام نہیں بلکہ مذہب کے پہچاننے کا ایک ذریعہ ہے اگر کسی کو فطرتِ صحیحہ نصیب نہ ہو تو اُسے سچا مذہب بھی معلوم نہیں ہو سکتا فطرت صحیحہ کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی کے پاس اس کے دوست کا خط آجائے تو وہ اُس کے پڑھنے کے لئے عینک لگالے لیکن اگر وہ عینک لگا کر ہی بیٹھا رہے اور خط نہ پڑھے تو ہر شخس اُسے احمق قرار دیگا۔ اسی طرح دین بھی ایک خط ہے جو خداتعالیٰ کی طرف سے آیا اور عینک فطرت صحیحہ ہے جس طرح خط اصل چیز ہے اور اس سے منہ پھیرنا اور صرف عینک پر اکتفاء کر لینا جہالت ہے۔ اسی طرح جو شخص فطرت صحیحہ کے بعد مذہب کی ضرورت نہیں سمجھتا وہ بھی احمق ہے۔
صِبْغَۃَ اللّٰہِ کے ایک یہ بھی معنے ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ کا رنگ اختیار کرو۔ یعنی ہمیشہ صفاتِ الہٰیہ کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرو۔ اور دیکھتے رہو کہ کیا تم صفات الہٰیہ کے مطہر بنے ہو یا نہیں بنے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اسی غرض کے لئے پیدا کیا ہے کہ وہ صفاتِ الہٰیہ کا مظہر بنے اور اس کی قابلیت خود اس نے انسانی فطرت کے اندر و دیعت کر دی ہے۔ کوئی انسان یہ نہیں کہ سکتا کہ میں اس کی ربوبیت کا مظہر نہیں بن سکتایا رحمانیت کا مظہر نہیں بن سکتا اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں یہ تمام قابلیتیںرکھ دی ہیں اور اسی کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی یہ حدیث بھی اشارہ کرتی ہے کہ خَلَقَ اللّٰہُ اٰدَمَ عَلیٰ صُوْرَتِہٖ (بخاری جلد ۲ کتاب الاستیذان) یعنی اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ یہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی مادی شکل نہیں اور نہ اسلام اس کا قائل ہے پس اللہ تعالیٰ کی صورت پر آدم کوپیدا کرنے کا یہی مفہوم ہے کہ خداتعالیٰ نے آدم میں صفاتِ الہیہ کا مظہر بننے کی قابلیت رکھ دی اب کوئی انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں ان صافات کو اپنے وجود کے ذریعہ ظاہر نہیں کر سکتا۔ جس طرح خداتعالیٰ ستار ہے۔ اس طرح وہ بھی ستار بن سکتا ہے جس طرح خدا شکور ہے اسی طرح وہ بھی شکور بن سکتا ہے جس طرح خدا وہاب ہے اس طرح وہ وہاب بن سکتا ہے جس طرح خدا وہاب ہے اسی طرح وہ بھی اپنے دائرہ میں رزاق بن سکتا ہے۔اور درحقیقت اسلامی نقطہ نگاہ سے اللہ تعالیٰ کا قرب بھی وہی شخص حاصل کرتا ہے جو صفاتِ الہیہ کا مظہربن کر اللہ تعالیٰ سے مشارکت پیدا کر لیتا ہے۔ اور اسی کے رنگ میں رنگین ہو جاتا ہے۔ دیکھو آک کا ٹِڈا آک کے پتوں میں رہ کر ویسا ہی رنگ اختیار کر لیتا ہے اور تیتری جن پھولوں میں اُڑتی پھرتی ہے اُن کا رنگ اختیار کر لیتی ہے۔ کیا ہم ٹِڈوں اور تیتریوں سے بھی گئے گذرے ہیں اور ہمارا خدا نعوذباللہ آک اور پھولوں سے بھی گیا گذرا ہے کہ ٹڈا اگرآک میں رہتا ہے تو ان کا رنگ قبول کر لیتا ہے تیتریاںجن پھولوں میں رہتی ہیں ان کا رنگ اخذ کر لیتی ہیں۔ لیکن خداتعالیٰ کے بندے اس کے پاس جائیں اور وہ اسکا رنگ قبول نہ کریں دراصل اپنے دل کی بدظنی ہی ہوتی ہے جو انسان کو ناکام و نامراد رکھتی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں۔خدا نے مجھے بتایا ہے اَنَاعِنْدَ ظَنِّ عَبْدٍبِیْ۔ جیسا بندہ میرے متعلق گمان کرتا ہے ویسا ہی میں اس سے سلوک کرتا ہوں وہ لوگ جن کے دلوںمیں اپنی عظمت کا احساس نہیں ہوتا یا خد ا تعالیٰ کے متعلق یقین نہیں ہوتا ان کو کچھ نہیں ملتالیکن جو لوگ جن کے دلوں میں اپنی عظمت کا احساس نہیں ہوتا یا خداتعالیٰ کے متعلق یقین نہیں ہوتا ان کو کچھ نہیں ملتا۔ لیکن جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے ہمیں معزز بنایا ہے اور بڑی بری طاقتیں عطا کی ہیں اور وہ یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ خداتعالیٰ بڑا رحم کرنے والا ہے اور بڑے بڑے انعام دینے والا ہے وہ خالی نہیں رہتے بلکہ اپنے ظرف کے مطابق اپنا حصہ لے کر رہتے ہیں پس خداتعالیٰ نے اس آیت میں توجہ دلائی ہے کہ تم انیا میں کسی نہ کسی کا رنگ اختیار کئے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ اور جب تم نے بہر حال کسی کا رنگ اختیار کرنا ہے تو ہم تمہیں نصیحت کرتے ہیں کہ تم اپنے دوستوں کا رنگ اختیار نہ کرو۔ تم اپنے بیوی بچوں کا رنگ اختیار نہ کرو تم اپنے اساتذہ کا رنگ اختیار نہ کرو تم اپنی حکمومت کا رنگ اختیار نہ کرو بلکہ تم خدائے واحد کا رنگ اختیار کرو۔ کیونکہ اس نے تم کو پیدا کیا ہے اور اس سے تعلق ہی تمہاری نجات کا موجب ہو سکتا ہے۔
وَمَنْ اَحْسَانُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃً اور اللہ تعالیٰ سے بہتر اور خوبصورت رنگ تم پر اور کون چڑھا سکتا ہے اس رنگ کے بعد تم بہروپئے نہیں بنوگے بلکہ ایک حسین ترین وجود بن جائو گئے جسے دیکھ کر دنیا کی آنکھیں خیرہ ہو جائینگی اور وہ تمہیں اپنے مکالمات و مخاطبات سے مشرف کریگا۔ تم پر اپنے گیب کے اسرار کھولے گا۔ اور تمہیں اپنے غیر معمولی انعامات سے بہرہ ور فرمائیگا۔
مجھے یاد ہے میں ایک دفعہ دہلی گیا تو وہاں مجھے علم حساب کے ایک بہت بڑے مارہ جن کا نام پروفیسر مولر تھا ملے۔ اور انہوں نے دورانِ گفتگو میں مجھ سے ذکر کیا کہ وہ اور نیویارک کے بعض اور پروفیسر تحقیق کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اس سار یونیورس کا ایک مرکز ہے جس کے گرد یہ سورج اور اس کے علاوہ اور لاکھوں اور کروڑوں سیارے چکر لگا رہے ہیں اورا نہوں نے کہا کہ میری تھیوری یہ ہے کہ یہی مرکز خدا ہے۔ گویا انہوں نے اس امر کا اظہار کیا کہ پہلے تو سائنس خداتعالیٰ کے وجود کو رد کرتی تھی مگر اب ہم نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس سارے نظام کا ایک مرکز ہے جو حکومت کر رہا ہے اور وہی مرکز خدا ہے میں نے ان سے کہا کہ نظامِ عالم کے ایک مرکز کے متعلق آپ کی جو تحقیق ہے مجھے اس پر اعتراض نہیں قرآن کریم سے بھی ثابت ہے کہ یہ تمام دنیا ایک نظام کے ماتحت ہے اور اس کا ایک مرکز ہے مگر آپ کا یہ کہنا کہ وہی مرکز خدا ہے درست نہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھ پر خداتعالیٰ کی طرف سے الہامات نازل ہوتے ہیں اور وہ مجھے اپنے غیب سے اطلاع دیتا ہے کہ اگر آپ کا تجویز کردہ مرکز ہی خدا ہے تو آپ مجھے بتائیں کہ کیا وہ بھی کسی کو الہام نازل کر سکتا ہے کہنے لگے الہام تو نازل نہیں کر سکتا۔ میں نے کہا کہ تو پھر میں کس طرح تسلیم کر لوں کہ وہی مرکز خدا ہے۔ مجھ تو ذاتی طور پر اس بات کا علم ہے کہ خدا مجھ سے باتیں کرتا ہے اور وہ طابتیں اپنے وقت پر پوری ہو جاتی ہیں کوئی بات چھ مہینے کے بعد پوری ہو جاتی ہے کوئی سال کے بعد پوری ہو جاتی ہے کوئی دو سال کے بعد پوری ہو جاتی ہے کوئی چار سال کے بعد پوری ہو جاتی ہے اور اس طرح ثابت ہو جاتا ہے کہ مجھ پر جو الہام نازل ہوا تھا وہ خداتعالیٰ ہی سے تھا پھر میں نے انہیں مثال دی اور کہا کہ آپ مجھے بتائیں کہ کیا آپ کا وہ کرہ جسے آپ خدا قرار دیتے ہیں کسی کو یہ بتاسکتا ہے کہ جنگِ عظیم میں امریکہ کی طرف سے انگلستان کی مدد کے لئے۲۸ سو ہوائی جہاز بھجوایا جائیگا میرا اشارہ اس رویا کی طرف تھا جو گذشتہ جنگ عظیم میں مجھے دکھایا گیا اور جس میں مجھے بتایا گیا تھا کہ امریکہ انگلستان کو ۲۸ سو ہوائی جہاز مدد کے طور پر بھجوائیگا۔ بلکہ مجھے خواب میں تار کے الفاظ بھی بتائے گئے تھے اور مجھ دکھایا گیا تھا کہ برطانوی نمائندہ نے امریکہ سے یہ تار دیا ہے کہ
THE AMERICAN GOVERNMENT HAS DELIVERED 2800 AEROPLANES TO THE BRITISH GOVERNMENT
یعنی امریکن گورنمنٹ نے۲۸ سو ہوائی جہاز برطانوی گورنمنٹ کو دیئے ہیں چنانچہ دو ماہ کے بعد بعینہ یہی الفاظ برطانوی نمائندہ نے امریکہ سے بذریعہ تار بھجوائے اور انگلستان کو۲۸ سو ہوائی جہاز پہنچ گئے وہ کہنے لگے اس کرہ سے تو کوئی ایسی بات نہیں بتائی جا سکتی میں نے کہا تو پھر ماننا پڑے گا کہ اس کرے کا اور اسی طرح اور ہزاروں لاکھوں کروں کا خدا کوئی اور ہے کیونکہ میں اپنے ذاتی تجربہ سے جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا کلام انسان پر نازل ہوتا ہے جو کئی قسم کی غیب کی خبروں پر مشتمل ہوتا ہے پس آپ بے شک اس مرکز کو ہی خدا مان لیں۔ لیکن ہم تو ایک علیم اور خبیر ہستی کو خدا کہتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ اس کے اندر قدرت بھی ہوتی ہے اس کے اندر جلال بھی ہوتا ہے اس کے اندر جمال بھی ہوتا ہے اس کے ندر علم بھی ہوتا ہے اس کے اندر حکمت بھی ہوتی ہے اس کے اندر بسط کی صفت بھی ہوتی ہے اس کے اندر محی ہونے کی صفت بھی ہوتی ہے اس کے اندر معیت ہونے کی صفت بھی ہوتی ہے اس کے اندر حلیم ہونے کی صفت بھی ہوتی ہے اس کے اندر مہیمن ہونے کی صفت بھی ہوتی ہے غرض بیسیوں قسم کی صفات اس کے اندر پائی جاتی ہیں اسی طرح اس کا نور ہونا اس کا وہاب ہونا اس کا شکور ہونا اس کا غفور ہونا اس کا ستار ہونا اور اسی طرح اور کوئی صفات کا اس کے اندر پایا جانا ہم تسلیم کرتے ہیں جب ایک طرف یہ صفات اس مرکز میں نہیں پائی جاتیں اور دوسری طرف ہم پر یک ایسی ہستی کی طرف سے الہام
قُلْ اَتُحَآ جُّوْنَنَا

مُخْلِصُوْنَo
نازل ہوتا ہے جو اپنی صفات کو اپنے کلام کے ذریعہ انیا پر ظاہر کرتا ہے اور باوجود اس کیکہ ساری دنیا مخالفت کرتی ہے پھر بھی اس کا کلام پورا ہو جاتا ہے تو اس ذاتی مشاہدہ کے بعد ہم آپ کی تھیوری کو کس طرح تسلیم کر سکتے ہیں اس پروہ کہنے لگے کہ اگر یہ باتیں درست ہیں تو پھر ماننا پڑیگا کہ یہ تھیوری باطل ہے کیونکہ اس کلام کے ہوتے ہوئے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کوئی ایسا خدا نہیں جس کے تابع یہ تمام مرکز ہو۔
غرض صِبْغَۃَ اللّٰہِ جو اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بننے اور اس کے رنگ میں رنگین ہونے کی نصیحت کی گئی ہے جو انسانی پیدائش کا حقیقی مقصد ہے اور جس پر بنی نوع انسان کی نجات اور اللہ تعالیٰ کا قرب منحصر ہے۔
۵۶؎ تفسیر:۔ اس آیت میں کیا ہی لطیف دلیل دی ہے۔ فرماتا ہے کہ تمہارا یہ کہنا کہ خداتعالیٰ نے ہدایت صرف ہماری قوم میں محدود کر دی ہے اس کو ہم کب مان سکتے ہیں اگر کسی اجنبی شے کے متعلق تم یہ بات کہتے تو تحقیق کی ضرورت بھی ہوتی مگر تم تو خدا کے متعلق یہ بات کہتے ہو جو ہمارا بھی رب ہے اور تمہارا بھی پھر ہم کس طرح اس بات کو ان لیں کہ بنو اسحاق سے باہر نبی نہیں آسکتا۔ اصل سوال تو یہ ہے کہ نبی بھیجا کون کرتا ہے جب اللہ تعالیٰ ہی بھیجتا ہے تو تم ایسی بات کیوں کہتے ہیں جسے کوئی فطرتِ صحیحہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتی۔ وہ تمہارا بھی رب ہے اور ہمارا بھی اگر وہ صرف تمہارا ہی رب ہوتا تو تم کہہ سکتے تھے کہ وہ ہمارے سوا کسی اور سے تعلق نہیں رکھ سکتا مگر جب وہ ہمارا بھی رب ہے اور تمہارا بھی تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ تمہیں تو دے دے اور ہمیں چھوڑ دے۔
اَنَا اَعْمَا لُنَا وَلَکُمْ اَعْمَالُکُم۔ فرماتا ہے کہ دین میں حسد کی بھی کوئی وجہ نہیں کیونکہ کوئی شخص دوسرے کی کمائی نہیں لے سکتا۔ ہر شخص اپنے اپنے اعمال کے مطابق اللہ تعالیٰ کی جزا کا مستھق ہو گا۔ تمہارے اعمال تمہارے کام آئینگے اور جس قوم میں سے یہ نبی آیا ہے اس کے افراد کے اعمال اس کے کام آئیں گے جو شخص جس قدر کوشش کرے گا اسی قدر انعام پائیگا۔ کوئی قومی رعایت نہیں ہو گی۔
وَنَحْنُ لَہ‘ مُخْلِصُوْنَ اور ہم تو اسیسے اخلاص کا تعلق رکھتے ہیں اس میں بتایا کہ ہماری محبت ایسی نہیں کہ اگر وہ کچھ دے تو ہم اس پر ایمان لائیں ۔ بلکہ ہمارا تو یہ حال ہے کہ خواہ وہ ہمیں کچھ دے یا نہ دے تب بھی ہم اسی کے لئے وقف ہیں اور اسی کے اطاعت گزار رہیں گے۔ اس کے سوا ہمیں کوئی اور چیز مطلوب نہیں۔
اَمْ تَقُوْلُوْنَ اِنَّ اِبْرٰھٖمَ





عَمَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَo
۵۷؎ تفسیر:۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ یہود کا یہ دعویٰ بیان کرتا ہے کہ ابراہیم ؑ ۔ اسماعیل ؑ۔ اسحق ؑ یعقوب اور اس کی اولاد بھی یہودی یا مسیحی تھے۔ قرآن کریم اس کا ایک سادہ سا جواب دیتا ہے مگر وہ ایسا جواب ہے کہ جس سے اُن پر موت وارد ہو جاتی ہے حضرت ابراہیم ؑ۔ اسماعیل ؑ۔ اسحاق ؑ۔ یعقوب ؑ اور ان کی اولاد سے تعلق رکھنے والے اراد توریت اور انجیل کے زمانہ سے بہت پہلے گذر چکے تھے اور توریت جسے وہ الہامی مانتے ہیں۔ اس میں اس کا صاف طور پر ذکر آتا ہے۔ پاس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم وانستہ جھوٹ بولتے ہو اور ان گواہیوں کو چھپاتے ہو جو تورات میں موجود ہیں جب اس میں صاف طور پر لکھا ہوا ہے یہ لوگ پہلے گذر چکے تھے تو ان کا ایمان اس چیز سے جو ان کے بعد اائی کس طرح وابستہ ہو کستا ہے اور وہ موسیٰ اور عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے والے کس طرح قرار دیئے جا سکتے ہیں یہ ویسی ہی حماقت ہے جیسے پادری وُڈ نے ایک دفعہ مجھے کہا کہ ابراہیم بھی کفارہ پر ایمان لایا تھا تب اس کی نجات ہوئی۔ یا جیسے بعض شیعہ احباب کہہ دیا کرتے ہیں کہ اِنَّ مِنْ شِیْعَتِہٖ لَاِبْرَھٖم سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی شیعہ تھے فرماتا ہے ہم تمہاری بات مانیں یا تمہاری کتاب کو سچا تسلیم کریں۔ تمہاری تورات تو کہتی ہے کہ ابراہیم ؑ زمانہ نزولِ تورات سے بہت پہلے ہوا ار تم اسے یہودی قرار دیتے ہو۔ یہ کسی احمقانہ بات ہے تعجب ہے کہ اس زمانہ میں بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہودی قرار دینے والے لوگ موجود ہیں چنانچہ انسائیکلو پیڈیا برٹنیکا میں JUDAISM کے نیچے لکھا ہے:۔
IBRAHIM IS CONSIDERED TO HAVE BEEN THE FIRST ADHERENT OF JUDAISM
یعنی ابراہیم علیہ السلام کے متعلق یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ یہودیت کے سب سے پہلے پیرو کار تھے(العیاذ باللہ)
تِلْکَ اُمَۃ‘ قَدْخَلَتْ لَھَا مَا کَسَبَتْ وَلَکُمْ مَاکَسَبْتُمْ۔ فرماتا ہے یہ ایک امت تھی جو گذر چکی۔ تم کیوں اپنی غلطیوں میں ان کو شریک کرتے ہو۔ وہ اپنے اعمال کے ااپ ذمہ دار ہیں اور تم اپنے اعمال کے خود ذمہ دار ہو۔ پس اس بات سے کیا فائدہ کہ تم ان کو بھی اپنے ساتھ شامل کرتے ہو۔ تم اپنے ایمان کی فکر کرو۔ اُن کا ایمان تمہیں کوئی فائدہ نہیں دیگا۔ اور نہ اُن کی نیکیاں تمہاری نجات کا موجب بن سکیں گی۔ گویا وہی مضمون جو آیت لَاتَزِرُ وَازِرَۃ’‘ وِّزْرَاُخْریٰ(انعام آیت۱۶۰) میں بیان کیا گیا ہے ۔ اس کو نئے رنگ میں اللہ تعالیٰ نے پیش کیا ہے اور عیسائیوں اور یہودیوں کو توجہ دلائی ہے کہ وہ اپنے آبائو اجداد کی طرف نہ دیکھیں بلکہ اپنے اعمال پر نگاہ ڈالیں اور سوچیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور کیا وہ نجات کے مستحق ہیں یا نہیں۔
اس رکوع کی پچھلی آیات میں اس بات کی طرف اشارہ کرنے کے بعد کہ بنو اسحاق کے انعاماتِ نبوت سے محروم ہو جانے کے بعد بنو اسماعیل ہی حقدار انعام تھے کیونکہ ان کے متعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا تھی۔ خصوصاً ایک صاحبِ شریعت نبی کی بعثت کی آیت ۱۳۱،۱۳۲ میں اللہ تعالیٰ نے یہود کو سمجھایا کہ ملت ابراہیمی کو ترک کر کے بیوقوف نہ ہو جانا۔ جو یہ ہے کہ جو حکم بھی خداتعالیٰ کی طرف سے آئے اُسے قبول کر لیا جائے جو شخص اس طریق کو اختیار نہیں کریگا۔ وہ نقصان اُٹھائیگا۔آیت۱۳۳ میں بیان فرمایا کہ حضرت ابراہیم ؑ نہ صرف خود اس طریق پر عامل تھے بلکہ ان کی اولاد بھی اپنی اولاد کی یہی وصیت کرتی چلی آئی ہے کہ ہمیشہ خدا کے فرمانبردار رہنا اور جب بھی کوئی مامور آئے اس کے حزب میں داخل ہو جانا آیت ۱۳۴ ،۱۳۵ میں بتایا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام سے تو ان کی اولاد نے عہد بھی کیا تھا کہ وہ واحد خدا کی پرستش کرینگے اور اس کے کامل فرمنبردار رہیں گے اب تم لوگ اگر سچے اسرائیلی ہو تو تمہارا فرض ہے کہ اس عہد کو پورا کرو اور حضرت یعقوبؑ کی طرح فرمانبرداری کر کے دکھائو صرف اُن کی اولاد سے ہونا کچھ فائدہ نہیں دے سکتا کیونکہ ہر ایک اپنے اعمال کا جواب دہ ہے۔ آیت۱۳۶ میں فرمایا دیکھو یہ ضدِ چھوڑ دو کہ یہودی یا مسیحی ہونے کے بغیر نجات نہیں۔ ابراہیمی طرزِ عمل اختیار کرو یعنی ہر حکم کو جس زمانہ میں بھی آئے مان لینا اور اس حکمِ الہٰی کے مقابل میں کسی روک کی پرواہ نہ کرنا۔ آیت ۱۳۷ میں مسلمانوں کو مخاطب کیا اور انہیں توجہ دلائی کہ وہ لوگ طریق ابراہیمی اختیار کریں یا نہ کریں مگر تم ہمیشہ اس بات کا اقرار کرو کہ جو کچھ خداتعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہم اُسے تسلیم کرتے ہیں آیت۱۳۸ میں بتایا کہ اگر اہل کتاب تمہاری طرح اس عقیدہ پر راضی ہو جائیں تو سکھ پائیں گے ورنہ سزا آیت۱۳۹ میں تاکید فرماتا ہے کہ خداتعالیٰ جو رنگ بھی چڑھائے وہ اپنے اوپر چڑھالو۔ یعنی اسی رنگ میں رنگین ہو جائو جو اس کا مامور چاہے آیت۱۴۰ میں فرمایا کہ ان اہل کتاب سے کہو کہ کیا تم خداتعالیٰ کے متعلق ہم سے بحث کرتے ہو کہ اس نے تمہیں کیوں اپنے کلام کے لئے چن لیا یہ اُس کا فضل ہے وہ ہمارے اور تمہارے اعمال سے خوب آگاہ ہے پس جو اخلاص سے کام لیگا وہی انعام پائیگا۔ آیت۱۴۱ میں فرمایا کہ ان سے پوچھو کہ اگر یہودی یا مسیحی قوم میں نجات ہے تو حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے بیٹے پوتوں کا کیا حال تھا کیا وہ بھی یہودی تھے ؟ یہ تو جھوٹ ہے کیونکہ وہ تمہاری مسلمہ آسمانی کتاب سے پہلے زمانہ میں ہوئے ہیں۔ آیت۱۴۲ میں اس قدر اتمامِ حجت کے بعد فرمایا کہ یہ نبیوں کا گروہ اپنے زمانہ میں گذر گیا ان نبیوں کے اعمال تمہارے کام نہیں آسکتے۔ نہ مسیح ؑ کا تکلیف اُٹھانا تمہاری نجات کا موجب بن سکتا ہے ۔ تم سے تمہارے اعمال کی نسبت پوچھا جائیگا۔ اس لئے تمہیں اپنا فکر کرنا چاہے۔
سَیَقُوْلُ السُّفَھَآئُ

صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍo
۵۸؎ حل لغات:۔ سُفَھَآء ُ:سَفِیْہ کی جمع ہے۔ اور اَلسَّفْہُ کے معنے ہیں خِفَّۃُ الْحِلْمِ حلم کی کمی۔ اَلْجَھْلُ جہالت۔ اَلْخِفَّۃُ ہلکا پُھلکا ہونا اَلْحَرَکَۃُ حرکت۔ اَلْاِ ضْطَرَابُ اضطراب(اقرب) پس سَفِیْہ کے معنے ہوئے کم علم۔کم عقل۔ بات کو سمجھے بغیر بول اُٹھنے والے سطحی نگاہ والے۔ بے استقلال۔
اَلْقِبْلَۃُ اَلْجِھَۃُ۔ کُلُّ مَا یُسْتُقْبَلُ مِنْ شَیْ ئٍ قبلہ کے معنے ہیں جہت۔ ہر وہ چیز جس کی طرف منہ کیا جائے(اقرب)
عَلَیْھَا۔ یہاں عَلیٰ کے معنے جسمانی قیام کے نیہں بلکہ عمل اور عقیدہ کے لحاظ سے کھڑا ہونا مراد ہے۔ ہمارے ہاں بھی کہتے ہیں کہ جس پر تم قائم ہو مطلب یہ کہ جس عقیدہ کے تم پابندہو پس کَانُوْ ا عَلَیْھَا کا مطلب یہ ہے کہ جس کے وہ پابند تھے۔
تفسیر:۔ قرآن کریم کا طریق ہے کہ جب وہ کوئی اہم بات بیان کرنا چاہتا ہے تو بجائے اس کے کہ وہ فوری طور پر س کے متعلق اپنا حکم بیان کر دے تمہید کے طور پر بعض بتوں کا ژکر کر دیتا ہے باکہ اس چیز کی اہمیت لوگوں پر واضح ہو جائے اور ان کے قلوب پہلے سے ہی الہٰی حکم کو بشاشت کے ساتھ تسلیم کرنے اور اس کے مطابق اپنے اندر تغیر پیدا کرنے کے لئے تیار ہو جائیں اور اُن پر کم سے کم ابتلاء آئے کیونکہ قرآن کریم کی غرض لوگوں کو ہدایت دینا اور انہیں شریعت کے ساتھ ساتھ حکمت سکھانا بھی ہے پس وہ چاہتا ہے کہ جہاں تک لوگوں کو ٹھوکر کھانے سے بچایا جا سکے انہیں بچا نے کی کوشش کی جائے جیسے روزوں کا حکم دینے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ دنیا میں اور قومیں بھی روزے رکھتی چلی اائی ہیں اور یہ روزے اس لئے مقرر کئے جاتے رہے ہیں تاکہ تقویٰ پیدا ہو اس تمہید کے بعد فرمایا کہ تم پر بھی روزے فرض کئے جاتے ہیں اسی طرھ یہاں بھی تحویل قبلہ کا حکم دینے سے پہلے لوگوں کی طباعء کو اس کے لئے تیار کیا اور آنیوالے انقلاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا۔ سَیَقُوْلُ السُّفَھَآئُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰھُمْ عَنْ قِبْلَھِمُ الَّتِیْ کَانُوْا عَلَیْھَا۔ یعنی ایسے لوگ جو حکمت سمجھے بغیر اعتراض کر دینے کے عادی ہیں عنقریب ایک اعتراض کرنے والے ہیں اور وہ اعتراض باوجود نہایت لغو ہونے کے دشمن کرتے ہی چلے جائیں گے اور کہیں گے کہ ان مسلمانوں کو اس قبلہ سے جس پر وہ پہلے قائم تھے کس چیز نے دوسری طرف پھیرا دیا ہے۔ حالانکہ اس وقت تک اس بارہ میں کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا کہ تم خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھو۔ مگر اصل حکم دینے والے ہیں جس پر بعض لوگ جو کم علم اور کم عقل ہیں یا بات کو سمجھے بغیر بول اٹھنے والے ہیں یہ اعتراض کرینگے کہ مسلمانوں کو اس قبلہ سے جس پر وہ پہلے قائم تھے کس نے پھرا دیا۔ مگر تم نے اس اعتراض سے گھبرانا نہیں کیونکہ اب اللہ تعالیٰ قبلہ کے بارہ میں ایک نیا حکم نازل فرما کر تمہارے ایمانوں کی آزمائش کرنے والا ہے۔
سَیَقُوْلُ میں س تاکید اور استمرار کے لئے استعمال کیا گیا ہے اور استمرار میں مستقبل کا زمانہ شامل ہوتا ہے اسی رنگ میں سَوْفَ کا لفظ بھی عربی زبان میں استعمال ہوتا ہے اور وہ بھی تاکید کے لئے آتا ہے لیکن سَوْفَ کی نسبت س کا زمانہ زیادہ قریب ہوتا ہے۔ بہر حال سَیَقُوْلُ کے الفاط میں یہ خبر دی گئی کہ عنقریب بعض کم عقل لوگ ایک اعتراض کرنیوالے ہیں اور وہ اعتراض باوجود نہایت لغو ہونے کے دشمن کرتا ہی چلا جائیگا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ نہ صرف اس زمانہ میں دشمنوں نے یہ اعتراض کیا بلکہ اب تک سیل و ہیری اوردوسرے مسیحی مصنف برابر یہ اعتراض کرتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ محمد ؐ رسول اللہ مکہ میں تھے تو کعبہ کی طرف منہ کیا کرتے تھے مگر مدینہ میں آکر یہود کی خوشنودی کے لئے بیت المقدس کی طرف منہ کرنے لگ گئے حالانکہ یہ بالکل غلط بات ہے۔
بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ سَیَقُوْلُ السُّفَھَآئُ میں قرآن کریم نے اپنی تعلیم کے مخالف کو بیوقوف قرار دیا ہے جو درست کلامی ہے مگر یہ اعتراض بھی درست نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس جگہ اپنی تعلیم کے مخالف کو نہیں بلکہ صریح خلافِ عقل کام کرنے والوں کو بیوقوف کہا ہے اور ساتھ ہی اس کی دلیل بھی دی ہے جس کے بعد کسی کو ان کی بیوقوفی میں شبہ ہی نہیں رہ سکتا۔ پھر وہ انہیں عقل کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے اور انہیں دلیل سے قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے اوردلیل کے ساتھ دشمن کو سمجھانے والے کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اپنے مخالف کے متعلق بلاوجہ سخت کلامی کرتا ہے سخت کلامی تب ہوتی ہے جب یہ بات حقیقت کے خلاف ہوتی یا دشمن کی صرف بیوقوف کہہ کر اس کی ہنسی اڑائی جاتی مگر جب دشمن کو دلیل کے ساتھ قائل کرنے کی کوشدش کی گئی ہے اور اسے بیوقوف اپنی تعلیم کی مخالف کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک صریح خلافِ عقل کام کرنے پر کہا گیا ہے تو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے اگر یہ قابلِ اعتراض بات ہو تو اس کے معنے یہ ہیں کہ کوئی شخس خواہ کتنی بھی حماقت کرے اسے کچھ نہ کہا جائے۔ بلکہ اس کی عقل اور تدبر اور دانائی کی تعریف کی جائے حالانکہ دنیا میں کبھی کسی شخس نے ایسا نہیں کیا۔ پھر اگر یہی طریق قرآنکریم نے بھی اختیار کر لیا تو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ بہرحال ایسی حالت میں جبکہ خود مسلمانوں کو بھی معلوم نہیں تھا کہ کب اور کس طرف انہیں منہ پھیرنے کا حکم دیا جائیگا اللہ تعالیٰ جو علیم و خبیر ہے اور جانتا تھا کہ لوگوں نے اعتراض کرنے ہیں جس سے کمزور لوگوں کے ابتلائے کا خطرہ ہے اس نے قبل اس کے کہ لوگ اعتراض کرتے بلکہ قبل اس کے کہ تحویلِ قبلہ کے بارہ میں کوئی حکم نازل ہوتا اُن کے اعتراض کا جواب دے دیا اور فرمایا۔ قُلْ لِّلّٰہِ الْمَشْرِقْ وَالْمَغْرِبُ۔ اصل سوال تو خداتعالیٰ کی عبادت کا ہے اور خداتعالیٰ جدہر حکم دے اُدھر ہی منہ پھیرنا انسان کو خداتعالیٰ کی رضا کا مستحق بناتا ہے۔ اگر وہ مشرق کی طرف منہ کرنے کا حکم دے تو مومنوں کو فرض ہے کہ وہ مشرق کی طرف منہ کریں اور اگر مغرب کی طرف منہ کرنے کا حکم ہے تو مومنوں کا فرض ہے کہ مغرب کی طرف مُنہ کریں اس لئے تحویل قبلہ پر اعتراض کرنا اور یہ کہنا کہ فلاں طرف منہ کیوں نہیں کیا۔ اور فلاں طرف کیوں کیا جہالت کی بات ہے اللہ تعالیٰ کے لئے مشرق و مغرب سب برابر ہیں اور اگر ایک خاص جہت کی تعیین کی جاتی ہے تو اس لئے نہیں کہ خداتعالیٰ مشرق میں ہے یا مغرب میں بلکہ اس کی تعیین بعض اور حکمتوں پر مبنی ہوتی ہے مثلاً بڑی وجہ تو یہی ہے کہ اس کے ذریعے اتحاد قائم رہتا ہے اگر نماز کے لئے کوئی خاص جہت مقرر نہ کی جائے تو کسی کا منہ مشرق کو ہو گا اور کسی کا مغرب کو کسی کا شمال کو اور کسی کا جنوب کو اور ان میں کوئی تنظیم اور یکجہتی نظر نہیں آئیگی۔ پس مسلمانوں میں اتحاد قائم کرنے اور پھر صفوں کو درست رکھنے کے لئے اسلام نے ایک جہت مقرر کر دی ہاں ریل اور جہاز میں اگر قبلہ معلوم نہ ہو تو انسان جدھر چاہے نماز پڑھ سکتا ہے جس سے یہ معلوم ہوا کہ جہت بالذات مقصود نہیں بلکہ تنظیم اور اتحاد اور یکجہتی پیدا کرنے کے لئے اس کی تعیین کی گئی ہے۔
پھر بیت اللہ کو قبلہ عالم مقرر کرنے کی ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا فرمائی تھی کہ اللہ تعالیٰ مکہ والوں میں ایک عظیم الشان رسول مبعوث فرمائے جو دنیا کی ہدایت اور راہنمائی کا موجبھ ہو۔ اس کے ہاتھ پر آیاتِ الہٰیہ کا ظہور ہو اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے ایک کامل شریعت عطا ہو۔ وہ شریعت کے اسرار اور غوامض کو بیان کرنیوالا ہو اور تزکیہ نفوس اس کا کام ہو۔ یہ دعا اس امر کا تقاضا کرتی تھی کہ آنے والا عظیم الشان نبی اور اس کے متبع بیت اللہ سے تعلق رکھنے والے ہوں تاکہ جب بھی وہ اس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کریں انہیں وہ ابراہیمی دعا یاد آجائے جو انہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت کے لئے کی تھی۔ جب ایک انسان اَللّٰہُ اَکْبَرْ کہہ کر نماز میں کھڑا ہوتا ہے اور بیت اللہ کی طرف پھر جاتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نیابت میں میرا کام بھی یہی ہے کہ میں لوگوں کو آیاتِ الہٰیہ کی طرف توجہ دلائوں۔اُنہیں کتاب اللہ کا علم سکھائوں۔ احکامِ الہٰیہ کی حکمت اُن پر روشن کروں اور انہیں پاکیزہ اور مطہر بنانے کی کوشش کروں۔ یہ عظیم الشان مقصد لنڈن یا نیویارک کی طرف منہ کرنے سے کسی کی آنکھوں کے سامنے نہیں آسکتا۔ نہ پیرس کی طرف منہ کرنے سے انسانی قلب میں یہ ولولہ پیدا ہو سکتا ہے۔ اس کی طرف منہ کرنے سے تو ناچنے اور گانے کا ہی خیال آئیگا عبادت اور زہد اور خداتعالیٰ سے تعلق پیدا کرنیکا کبھی خیال نہیں آئیگا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خداتعالیٰ ہر جگہ ہے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ عرب میں ہے اور امریکہ میں نہیں یا مکہ میں ہے اور افریقہ میں نہیں۔ لیکن بعض چیزیں اپنے اندر ایسے محرکات رکھتی ہے جو انسان کو غیر معمولی طور پر خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ کر دیتی ہیں اس لئے خانہ کعبہ کو قبلہ مقرر کیا گیا ہے ورنہ خداتعالیٰ ہر قسم کے تجسم سے بالا ہے اور اس کے قرب کے دروازے دنیا کے ہر انسان کے لئے کھلے ہیں۔
لِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ۔ پر بعض لوگ یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ یہی الفاظ سورۂ بقرہ کے چودھویں رکوع میں استعمال ہوئے تھے تو وہاں اس کے یہ معنے کئے گئے تھے کہ تم جدھر چاہو منہ کرو۔ اب انہیں الفاظ سے ایک قبلہ کی دلیل اخذ کی گئی ہے دو متجاد مضمون ایک ہی دلیل سے کس طرح نکل سکتے ہیں اس کا جواب یہ ہے کہ نہ پہلے اس دلیل سے قبلہ کا رد کیا گیا ہے اور نہ اس سے قبلہ کو ثابت کیا گیا ہے بلکہ پہلی جگہلِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَاَیْنَمَا تَوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُاللّٰہِ(آیت ۱۱۶) میں بتایا تھا کہ سب کچھ خدا کا ہے وہ ایک دن تمہیں مشرق و مغرب کا حکمران بنا دیگا اور تمہیں اپنے فضل سے سب کچھ دے دیگا۔ اور اب یہ بتایا ہے کہ قبل اصل مقصود نہیں ہوتا بلکہ اس پر اعتراض کیا جائے بلکہ اصل چیز تو خدا تعالیٰ کی اطاعت ہے اور خدا جدھر منہ کرنے کا حکم دے اسی طرف منہ کرنا انسان کو اللہ تعالیٰ کی رضا کا مستحق بناتا ہے پھر پہلی آیت بھی مدینہ میں نازل ہوئی ہے جبکہ دشمنوں کے نزدیک بھی وہاں قبلہ مقرر ہو چکا تھا پھر قرآن کریم یہ کب کہہ سکتا تھا کہ کسی خاص قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پرھنے کی ضرورت نہیں۔ یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کہ جب قبلہ مقصود نہیں تو پھر مقرر کیوں کیا۔ کیونکہ جس طرح کسی مشورہ کے لئے جمع ہونے والے لوگ گو کسی خاص جگہ پر جمع ہونا اپنا مقصد نہیں ٹھہراتے مگر پھر بھی اُنکو جگہ اور وقت کی تعیین کرنی پڑتی ہے اسی طرح قبلہ گو اصل مقصود نہیں مگر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں
وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ





لَرَئُ وْف’‘ رَّحِیْم’‘o
میں اتھاد قائم کرنے اور اُن کی صفوں کو درست رکھنے کے لئے ایک جہت مقر ر کر دی ہاں سفر میں اگر قبلہ معلوم نہ ہو یا قبلہ تو معلوم ہو مگر نماز شروع کرنے کے بعد ریل یا جہاز یا سواری کا رُخ قبلہ کی طرف سے دل جائے تو نماز میںکوئی نقص واقع نہیں ہوتا جو اس بات کی دلیل ہے کہ جہت بالذات مقصود نہیں بلکہ اتحاد اور تنظیم اور صفوں کی درستی کے لئے اُس کی تعیین کی گئی ہے۔
پھر فرمایا یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۔خدا تعالیٰ جسے چاہتا ہے ایک سیدھی راہ دیکھا دیتا ہے۔ ’’ایک سیدھی راہ ‘‘ کہہ کر اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ہر زمانہ کے لحاظ سے تعلیمات کسی قدر فرق کے ساتھ آتی ہیں کیونکہ یہ الہٰی سنت ہے کہ وہ جس قوم پر فضل کرتا ہے اس کے مناسب حال تعلیم بھی بھیج دیتا ہے مسلمانوں کے مناسب حال قبلہ کعبہ ہی تھا چنانچہ آخر اس نے انکو اس کی طرف پھیر دیا اور لوگ جنہوں نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع کر دیا تھا اور جو سمجھتے تھے کہ ہمارا کام یہی ہے کہ ہم خداتعالیٰ کی آواز کے پیچھے چلیں اور مشرق و مغرب کی حد بندیوں سے اپنی نگاہ کو بالا رکھیں ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسی مخلصانہ اطاعت کی توفیق بخشی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے منہ پھیرتے ہی انہوںنے بیت اللہ کی طرف اپنے منہ کر لئے اور صراطِ مستقیم پر دوڑتے چلے گئے۔
۵۹؎ حل لغات:۔ اُمَّۃً وَسَطًا۔ وَسَط کے معنے درمیان کے ہوتے ہیں چونکہ درمیان میں رہنے والی (یعنی حدِّ اعتدال کے اندر رہنے ولی) چیز ہمیشہ اعلیٰ ہوتی ہے۔ اس لئے محاورہ میں وَسَط کے معنے اعلیٰ کے ہو گئے ہیں۔ افسرانِ اعلیٰ بھی فوج کے درمیان ہوتے ہیں چنانچہ فوج کے کچھ دستے ان کے آگے اور کچھ پیچھے ہوتے ہیں اور وہ خود درمیان میں ہوتے ہیں کیونکہ اعلیٰ چیز کی حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے درمیانی چیز اعلیٰ کے معنوں میں آتی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عربی زبان میں وَسِیْط اُسے کہتے ہیں جو قوم میں سب سے زیادہ شریف ہو۔ چونکہ امت محمدیہ نہ تو اُمتوں کے درمیان ہے اور نہ تعلیم میں کم ہے بلکہ فرماتا ہے کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تم تمام اُمتوں میں سے بہترین اُمت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہو۔ اس لئے اس کے معنے ہیں اعلیٰ اور اکمل۔
شَھِیْد’‘ کے معنے ہیں اَلشَّاھِدُ نگران(۲) اَلْاَمِیْنُ فِی الشَّھَادَۃِ جو اپنی شہادت میں بہت سچ بولنے والا ہو۔ (۳) اَلْقَتِیْلُ فِیْ سَبِیْلِ جو اللہ تعالیٰ کے راستہ میں مارا جائے(۴) اَلْعَالِمُ الَّذِیْ لَا یَغِیْبُ عَنْ عِلْمِہٖ شَیْ ء’‘ وہ عالم جس کے علم سے کوئی بات غائب نہ ہو(۵) اَلَّذِیْ یُعَایِنُ کُلَّ شَیِْ ئٍ جو ہر چیز کو دیکھتا ہے۔(اقراب)
کُنْتَ:کَانَ کے ایک معنے ہیں ’’ہے‘‘ اور اس کے دوسرے معنے صَارَ کے بھی ہوتے ہیں یعنی ’’ہو گیا‘‘ اور اس کے تیسراے معنے تھا کے بھی ہوتے ہیں اس لحاظ سے آیت کے یہ معنے ہونگے کہ ہم نے نہیں مقرر کیا اس قبلہ کو جس پر پہلے تو تھا۔ یا جس کی طرف تو اب پھر گیا اور جس پر اب قائم ہو گیا ہے۔ گویا ایک معنی کی رو سے تبدیلی سے پہلے قبلہ کی طرف اشارہ کرنا ہے اور دوسرے معنے کی رو سے تبدیلی کے بعد کے قبلہ کی طرف اشارہ کرنا ہے۔
فَعْلَمَ:عَلِمَ سے نکلا ہے اور اس کے معنے جاننے کے ہیں۔ عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ کبھی سبب کو سبب کی جگہ رکھ دیتے ہیں یعنی جو چیز کسی دوسری چیز کا باعث ہوتی ہے اس کو اس نتیجہ کی جگہ رکھ دیتے ہیں جو اس کی وجہ سے پیدا ہوا ہوتا ہے اور کبھی اس کے اُلٹ بھی کر لیتے ہیں اس جگہ سبب کو مسبب کی جگہ رکھا ہے علم کا نتیجہ امتیاز پیدا کرنا ہوتا ہے اور اس سے انسان کو اس بات کا پتہ لگ جاتا ہے کہ فلاں چیز اچھی ہے یا بُری پس چونکہ تمیز علم سے پیدا ہوتی ہے اس لئے اسجگہ تمیزکی بجائے علم کا لفظ رکھا دیا ہے تاکہ یہ بھی ثابت ہو کہ تمیز بغیر علم کے نہیں ہوتا (بحر محیط) قرآن کریم میں اس کی بہت سی مثالیں کثرت سے ملتی ہیں جیسا کہ سماء کا لفظ بادل کے معنوں میں آجاتا ہے اس لئے کہ بادل درحقیقت بلندیوں سے اور سورج کی روشنی سے بنتے ہیں چونکہ سماء بادل بننے کا موجب اور ذریعہ ہے اس لئے بادل کو بھی سماء کہنے لگ گئے ہیں۔ پس لِنَعْلَمَ کے معنے یوں ہوئے کہ ہم نے یہ کام اس غرض سے کیا تھا تاہم ان لوگوں کو جو رسول کے متبع ہیں ان لوگوں سے جو اس کی طرف سے پھر جاتے ہیں ممتاز کر دیں(۲) اس کے معنے امتیاز کرنیکی یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ عربی زبان میں جب عَلِمَ کے بعد مِنْ صِلہ آئے تو اس وقت بھی علم سے تمیز مراد لی جاتی ہے چنانچہ ائمہ لُغت لکھتے ہیں کہ اَلْعَلْمُ لَایَتَعَدیّٰ بِمِنْ اِلَّا اِذَااُرِیْدَ بِہِ التَّمِسْیْزُ(بحرمحیط) یعنی عِلم کا مِنْ کے ساتھ کبھی تعد یہ نہیں کیا جاتا۔ یعنی اسے متعدی نہیں بنایا جاتا سوائے اس صورت کے کہ اس سے تمیز مراد ہو اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مِنْ تمیز کے لئے استعمال ہوتا ہے نہ کہ علم بمعنے جاننے کے معنے دینے کے لئے ۔ پس جب اس کے ساتھ مِنْ آجاتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ یہ تمیز کے معنوں میں ہے (۳)علم کے معنے ظاہر کر دینے کے بھی ہوتے ہیں مگر یہ معنے عام لغات میں نہیں۔ جنہوں نے قرآن کریم کی لغات لکھی ہیں انہوں نے یہ معنے لکھے ہیں اور قرآن کریم سے ظاہر ہے کہ یہ معنے درست ہیں۔
عِلم کے معنے ظاہر کرنے کے سورۃ احزاب کی اس آیت میں آتے ہیں کہ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَ ضْنَا عَلَیْھِمْ نِیْٓ اَزْوَجِیْیِمْ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ(احزاب آیت ۵۱) یہاں قطعی اور یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ علم کے معنے ظاہر کرنے کے ہیں کیونکہ کوئی اپنی بات کے متعلق جاننے کا لفظ استعمال نہیں کیا کرتا۔ مثلاً یہ کبھی نہیں کہا جاتا ہے مجھے علم ہے کہ میں کل لاہور گیا تھا۔ اگر کوئی شخص ایسا کہے تو سُننے والے ہنس پڑیں گے کہ یہ کیسی بیوقوفی کی بات ہے۔ پس اگر س جگہ یہ معنے کئے جائیں کہ جو کچھ ہم نے فرض کیا ہے اس کا ہمیں علم ہو گیا ہے تو یہ درست نہیں کیونکہ علم غیر کے متعلق ہوا کرتا ہے اس لئے اس کے معنے علم کے نہیں بلکہ یہ معنے ہیں کہ جو کچھ ہم نے ان پر فرض کیا تھا وہ ہم نے ظاہر کر دیا ہے یا بتا دیا ہے پس چونکہ اس آیت میں سوائے ظاہر کرنے اور بتا دینے کے اور کوئی معنے نہیں ہو سکتے۔ اس لئے یہی معنے کرنے پڑیں گے۔ اور یہی اِلَّا لَنِعْلَمَ کا مفہوم ہے۔
رَء ُوْف’‘:رَأفَۃ’‘ اور رَحْمَۃ’‘ دونوں قریب قریب الفاظ ہیں۔ مگر ان میں کچھ فرق بھی ہے اور وہ یہ کہ رأفت خاص اور رحمت عام ہے۔ رَأ فَۃ‘ میں دفع شر کی طرف اشارہ ہوتا ہے اور رحمت میں دفع شر اور ایصال خیر دونوں شامل ہوتے ہیں بیمار کو دیکھ کر رأفت پیدا ہوتی ہے اور اس کی بیماری کی وجہ سے رحمت پیدا ہوتی ہے۔ کسی کو دکھ میں دیکھ کر جو جذبہ پیدا ہوتا ہے وہ رأفت کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے اور رحمت کے نتیجہ میں بھی پیدا ہوتا ہے۔ صرف اتنا فرق ہے کہ احسان رحمت سے زیادہ تعلق رکھتا ہے اور تکلیف کا دُور کرنا رأفت کے ساتھ زیادہ تعلق رکھتا ہے۔
تفسیر:۔ اس آیت میں کَذٰلِک کے متعلق یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کا اشارہ کس طرف ہے سو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ اشارہ یَھْدِی مَنْ یَّشَآئُ سے یہ مضمون نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہدایت دیا کرتا ہے اور اس نے تم کو اپنے فضل سے ہدایت دے دی۔ اب کسی کو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے اسی کی طرف کَذٰلِک میں اشارہ ہے یعنی جس طرح اس نے تمہیں ہدایت دی ہے اور صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائی ہے اسی طرح اس نے دوسرا احسان تم پر یہ کیا ہے کہ اس نے تمہیں اُمَّۃً وَ سَطًا بنایا ہے جیسا کہ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے وسط کے معنے درمیان کے ہوتے ہیں لیکن اُمت محمدیہؐ نہ زمانے کے لحاظ سے درمیانی امت ہے اور نہ تعلیم اور شریعت کے لحاظ سے درمیانی امت ہے زمانہ کے لحاظ سے تو اس لئے درمیانی امت نہیںکہ امت محمدیہؐ کے بعد اب قیامت تک اور کوئی امت نہیں پس وہ آخری امت تو کہلا سکتی ہے مگر درمیانی نہیں اور اگر شریعت کو دیکھا جائے تو اس لحاظ سے بھی امت محمدیہؐ درمیانی امت نہیں کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد اب کوئی نئی شریعت نہیں آنی کہ کہا جائے کہ کچھ شریعتیں اس سے پہلے آچکی ہیں اور کچھ بعد میں آئیں گی اور یہ اُمت دونوں کیدرمیان ہے۔ اسی طرح اگر تعلیم کو لیا جائے تو قرآن کریم سب سے آخری تعلیم ہے اس لحاظ سے بھی قراان کریم کی تعلیم وسطی اور درمیانی نہیں کہلا سکتی۔ کیود قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَلقَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمق وَاتْمَمْتٍ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضَیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا (المائدہ آیت۴) یعنی آج میں نے تمہارے فائدہ کے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے اور تم پر اپنے احسان کو کامل کر دیا ہے اور تمہارے لئے دین کے طور پر صرف اسلام کو پسند کیا ہے پھر درجہ کے لحاظ سے بھی یہ اُمت درمیانی نہیں کیونکہ یہ سب سے اعلیٰ اور بہترین اُمت ہے جیسا کہ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کُنقتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ(آل عمران آیت۱۱۱) کہ تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے فائدہ کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ پس اُمَّۃً وَسَطًا کے معنی یہاں درمیانی امت کے کسی صورت میں چسپاں نہیں ہو سکتے کیونکہ امت محمدیہؐ نہ تو زمانہ کے لحاظ سے درمیان میں ہے اور نہ تعلیم اورشریعت کے لحاظ سے درمیان میں ہے پس جَعَلقنٰکُمْ اُمَّۃً وَسَطًا کے معنے یہ ہیں کہ ہم نے تمہیں ایک ایسی امت بنایا ہے جو اپنے امعال میں ایک وسطی رنگ رکھتی ہے اور نہ تو افراط کی طرف جھکنے والی ہے اور نہ تفریط کی طرف مائل ہونے والی ہے بلکہ اس کے اعمال ترازو کے تول کی طرح ایسے اعتدال میں رہتے ہیں کہ کوئی پہلو بھی ایک طرف جھکا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ اسی لئے اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ ہر مسلمان کو اپنے تمام کاموں میں میانہ روی کی عادت ڈالنی چاہیے یہ نہیں کہ ایک ہی طرف کا ہوا جائے اور دوسرے پہلوئوں کو نظر انداز کردے۔ اگر وہ ایک ہی طرف کا ہو جائیگا تو اس کے طبعی جذبات جوش میں آکر کناروں پر سے بہہ پڑھیں گے ۔ مثلاً اگر وہ رہبانیت اختیار کریگا تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ اس کے شہوانی جذبات کسی وقت اس کو بے قابو کر دیں گے اور وہ حلال طریق کو چھوڑ کر حرام میں مبتلا ہو جائے گا اسی طرح اگر وہ اپنا سب مال لوگوں میں تقسیم کر دیگا اور اپنے اور اپنے بیوی بچوں کی ضروریات کے لئے کچھ نہیں رکھیگا تو چونکہ اس کی ضروریات خورونوش سب مال لٹا دینے سے باطل نہیں ہو جائیں گی وہ اپنا مال لٹا کر یا تو سوال کرنے پر مجبور ہو گا جو بذاتِ خود ایک ناپسندیدہ امر ہے اور یا پھر چوری ار بددیانتی کی طرف مائل ہو جائیگا اور بجائے نیکی میں ترقی کرنے کے گناہ کا مرتکب ہو گا پس شرعیت اسلامی نے امت محمدیہ کو ایک ایسی امت قرار دی کر جو ہر کام میں اعتدال سے کام لیتی ہے گناہ کے تمام دروازوں کو بند کر دیا ہے اور اُمَّۃً و سَطًا میں اسلام کی اسی وسطی تعلیم کی طرف اشارہ ہے جس میں وہ دوسرے تمام مذاہب سے امتیازی شان رکھتا ہے اور اسی ایک دلیل سے اس کی فضیلت ثابت ہو جاتی ہے۔
اس کے بعد خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسا ہم نے اس لئے کیا ہے لِتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ تاکہ تم دوسرے مذاہب اور دوسری اقوام کے لئے ایک گواہ کی طرح رہو۔ یعنی جس طرح گواہ کی گواہی سے ثابت ہو ا ہے کہ حق کیا ہے اور کس کا ہے اسی طرح تم میں سے جو لوگ قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کر کے اس کے نیک اثرات کو اپنے اندر پیدا کریں گے وہ دوسری اقوام کے لئے جو ابھی تک قرآن کریم کی صداقت سے لذت آشنا نہیں بطور ایک شاہد کے ہونگے۔ یعنی زبان اور عمل دونوں سے وہ اس بات کا اعلان کرینگے کہ انہوں نے اس کے دعاوی کو سچ پایا۔ اور لوگ اُن کی پاکیزہ زندگی اور آسمانی نصرت کو دیکھ کر سمجھ لیں گے کہ سچا راستہ وہی ہے جس پر یہ لوگ چلتے ہیں اور پھر آخر میں بتایا کہ جس طرح ہم نے ان مسلمانوں کو جو قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرتے ہیں دوسری اقوام کے لئے شاہد بنایا ہے اسی طرح ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس جماعت کے لئے اسلام کی سچائی کا شاہد بنایا ہے۔ یعنی ان کے دل میں آپ کے معجزات اور نصرتِ الہٰی کو دیکھ کر اسلام کی صداقت کامل طور پر گھر کر جاتی ہے۔
غرض اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ ہم نے ایسا اس لئے کیا ہے کہ تمہارے ساتھ خداتعالیٰ کا معجزانہ سلوک دیکھ کر اور تمہاری روحانیت اور تقویٰ کو دیکھ کر لوگ ہدایت پائیں اور دوسری طرف یہ رسول السلام کی سچائی کا تمہارے سامنے ایک زندہ گواہ ہو یعنی اپنے معجزات اور نصرتِ الہٰی کی بارش سے گویا تم انیا کے لئے اسلام کی صداقت کے گواہ ہو اور رسول تمہارے سامنے اسلام کی سچائی کا گواہ ہو۔
اسی طرح اس کے ایک یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ رسول تم کو اسلام سکھائے اور تم دوسروں کو سکھاتے روہ۔ دراصل اس آیت میں خداتعالیٰ نے اعلیٰ درجہ کے امت بننے کا یہ طریق بتایا ہے کہ وہ شُھَدَآئَ عَلَی النِّاس ہو۔ یعنی تعلیم و تربیت کا سلسلہ ہمیشہ جاری رکھے اور لوگوں کے ایمانوں کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتی رہے اسی لئے فرمایا کہ ہم نے تمہیں اُمَّۃً وَسَطًا بنایا ہے تاکہ تم لوگوں کو سکھائو اور اُن کے نگران بنو۔ اور رسول کا کام ہے کہ وہ تمہیں سکھائے اور تمہاری کمزوریوں کو دور کرے۔
حقیقت یہ ہے کہ جس طرح انسانی جسم میں تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد فائد فضلے جمع ہو جاتے ہیں جو کبھی قبض کی صورت میں ظاہر ہوتیہیں اور کبھی اسہال کی صورت اختیار کر لیتے ہیں یا مکانوں اور چھتوں پر پانی کے نکاس کے راستے خراب ہو کر پانی جمع ہو جاتا اور چھتوں میں سوراخ ہونے لگتے ہیں اسی طرح قوموں پر بھی مختلف اوقات میں ایسے حالات وارد ہوتے رہتے ہیں اور جس طرح ایک زندہ انسان جسم کی کسی ایک کل کے درست ہونے سے اپنے تمام کام آپ ہی آپ نہیں چلا سکتا بلکہ صبح شام اُس کی نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح قوموں کے اخلاق بھی آپ ہی آپ درست نہیں ہو جاتے بکہ صبح شام ان کی نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ عجیب بات ہے کہ فرد جس کی حیثیت قوم کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں اُس کی زندگی کے لئے تو ضروری سمجھا جاتا ہے کہ صبح شام نگرانی ہو۔ روزانہ اس بات کو دیکھا جاتا ہے کہ آج صبح کیا پکائیں اور شام کو کیا پکائیں۔ گرمی ہے تو برہر سوئیں یا سردی ہے تو اندر سوئیں ہوا ٹھنڈی چل رہی ہے تو سر کو ڈھانک کر رکھیں یا خشکی کا دورہ ورہ ہے تو سر کو کھلا رکھیں۔ دھوپ نکلی ہوئی ہے تو سایہ میں چلیں یا بارش برس رہی ہے تو چھت کے نیچے ٹھہریں یا حبس ہے تو باہر نکل آئیں ۔ غرض سبح شام ان باتوں کا خیال رکھا جاتا ہے بلکہ میں سمجھتا ہوں دن بھر میں انسان اپنے جسم کے متعلق پندرہ بیس دفعہ ضرور سوچتا ہے کہ اُسے اب کس چیز کی ضرورت ہے۔
کبھی خیال کرتا ہے کہ سونے کی ضرورت ہے کبھی خیال کرتا ہے کہ لیٹنے کی ضرورت ہے۔ کبھی خیال کرتا ہے کہ ورزش کی ضرورت ہے کبھی خیال کرتا ہے کہ سیر کی ضرورت ہے کبھی خیال کرتا ہے کہ نہانے کی ضرورت ہے ۔ غرض ایک دو درجن دفعہ ضرور وہ اپنے افعال کے متعلق غور کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ مجھے اپنے جسم کی درستی کے لئے کیا کرنا چاہیے لیکن قوم کی درستی کے متعلق وہ کبھی نہیں سوچتا بلکہ سمجھتا ہے کہ وہ آپ ہی ااپ درست ہو جائیگی۔ اور اگر وہ کوئی غلط قدم اُٹھا لیتی ہے تو بجائے اس کے کہ وہ اپنے آپ پر الزام لگائے کہ میں نے قومی ذمہ واریوں کو ادا نہیں کیا وہ سمجھتا ہے کہ میرے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ قوم پر میں اپنے غصے کا اظہار کر دوں اور عملی طور پر اس کی اصلاح کے لئے کچھ نہ کروں لیکن یہ درست نہیں ۔ قومی درستی فردی درستی سے زیادہ توجہ چاہتی ہے اور ہر فرد کی توجہ چاہتی ہے اگر ہر فرد اس مسئلہ کی طرف توجہ نہیں کریگا تو بعض حصوں میں جرور نقائص پیدا ہو جائیں گے اور پھر وہ اتنے بڑھ جائیں گے کہ اُن کا دور کرنا فرد کے اختیار میں نہیں رہیگا بلکہ ایک وقت ایسا آئیگا کہ اُن کا دُور کرنا قوم کے اختیار میں بھی نہیں رہیگا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نظام قائم رکھنے کے لئے سلام نے خلافت کا سلسلہ قائم کیا ہے لیکن غلطی یہ ہے کہ لوگ سمجھے ہمیں کہ صرف خلافت ہی کا ذمہ ہے کہ وہ تمام کام کرے حالانکہ یہ خلافت ہی کا ذمہ نہیں ہو سکتا اور نہ کوئی ایک شخص ساری قوم کی اس رنگ میں اصلاح کر سکتا ہے جب تک تمام افراد میں یہ رُوح نہ ہو کہ وہ قوم کی اصلاح کا خیال رکھیں۔ اور جب تک تمام افراد اس کی درستی کی طرف توجہ نہ کریں اس وقت تک اصلاح کا کام کبھی کامیاب طور پر نہیں ہو سکتا ۔ مین سمجھتا ہوں اگر قرآن کریم کے اس حکم کی تعمیل میں مسلمان نسلاً بعد نسلٍ تبلیغ ہدایت کا کام جاری رکھتے اور لوگوں کی نگرانی کا فرض صحیح طور پر ادا کرتے تو وہ کبھی تباہ نہ ہوتے۔ اب یہ ہماری جماعت کاکام ہے کہ وہ اس سبق کو یاد رکھے اورآئندہ نسلوں کی درستی کے لئے ہمیشہ جدو جہد کرتی رہے۔
غرض اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ ایک طرف تو تمہارا فرض ہے کہ تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے روحانی فیوض حاصل کر کے اقوامِ عالم کی رہنمائی کرو اور دوسری طرف ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو تم پر نگران و محافظ مقرر کیا ہے تاکہ اگر کوئی خرابی پیدا ہو تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تمہاری اصلاح کرسکیں۔
اصل بات یہ ہے کہ جتنا اعلیٰ درجہ کا رسول ہو اُتنی ہی اعلیٰ درجہ کی قوم اُسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کی جاتی ہے اگر رسول اعلیٰ ہو اور امت ناقص تو رسول کی طاقت ضائع ہونے کا خطرہ ہوتا ہے اور یہ نا ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنا رسول تو بھیجے مگر اس کی قابلیتوں کے مطابق اُسے قوم نہ دے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان کی استعداد کے مطابق قوم ملی۔ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو آپ کی استعداد کے مطابقت قوم ملی۔ اس کی موٹی مثال یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے ایک نہایت نازک موقعہ پر آکر کہہ دیا کہ اِذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰھُنَا قَاعِدُوْنَ (مائدہ آیت۲۵) یعنی تو اور تیرا رب دونوں جا کر لڑو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں لیکن جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی قوم کے لوگوں سے جنگ بدر کے موقعہ پر مشورہ لیا تو ایک صحابیؓ نے کہا یا رسول اللہ ہم موسیٰ کی قوم کی طرح آپ سے یہ نہیں کہتے اِذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰھُنَا قَاعِدُوْنَ بلکہ یا رسول اللہ! آپ ہمیں حکم دیجیئے ہم سمندر میں گھوڑے ڈالنے کے لئے تیار ہیں اور اگرلڑائی ہوئی تو خدا کی قسم ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گذرے جس وقت وہ صحابیؓ یہ کلمات کہہ رہا تھا درحقیقت اُس کی زبان سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ساری قوم بول رہی تھی وہ اس کی انفرادی آواز نہیں تھی بلکہ اجتماعی آواز تھی جو قوم کی نمائندگی میں اُس کی زبان سے بلند ہوئی۔ اور جس نے صحابہؓ کی فدائیت اور جاں نثاری کو روز روش کی طرح واضح کر دیا ۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور موسیٰ علیہ السلام کی امت میں یہ فرق اسی لئے تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک محدود زمانہ اور محدود قوم کے لئے آئے تھے اور محدود نقائص کو دور کرنا آپ کے فرائض میں شامل تھا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت تمام دنیا کی طرف تھی اور قیامت تک آ پ کا دور روحانی مقرر تھا اور قیامت تک آپ نے لوگوں کے نقائس کو دور فرمانا تھا پس آپ کو جو جماعت ملی وہ موسیٰ ؑ کو نہیں ملی۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ ہم نے تمہیں ایک اعلیٰ درجہ کی اُمت بنایا ہے اور ہماری غرض یہ ہے کہ تم لوگوں پر نگران رہو اور رسول تم پر نگران ہو۔ یعنی رسول کی نگرانی میںتمہاری تربیت ہو اور پھر تمہاری نگرانی میں دنیا کی اصلاح ہو۔ کیونکہ ایک آدمی ہمیشہ زندہ نہیں رہ سکتا مسلمانوں کو اعلیٰ درجہ کی امت اسی لئے بنایا گیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی قابلیت چاہتی تھی کہ آپ کی امت بھی اعلیٰ درجہ کی ہو اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اعلیٰ درجہ کے لوگ نہ ملتے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت کی غرض کس طرح پوری ہوتی ؟ پس امت محمدیہؐ کا اعلیٰ ہونا بھی ضروری تھا تاکہ وہ اسلام کی اعلیٰ درجہ کی تعلیم کو اپنے اندر جذب کر کے اس کے مطابق دُنیا کی اصلاح کر سکے۔ اگر اس میں یہ قابلیت نہ رکھی جاتی تو اصلاح کا مقصد پورا نہ ہوسکتا۔
اس آیت سے اُمت محمدیہؐ میں بعثتِ مامورین کا بھی ثبوت نکلتا ہے کیونکہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُمت محمدیہ کو اس لئے کھڑا کیا گیا ہے کہ وہ دائمی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فیضان لوگوں کو پہنچاتی رہے مگر چونکہ یہ خطرہ تھا کہ ایک زمانہ میں خود مسلمان ہی اس فرض سے غافل ہو جائیں گے اس لئے فرمایا کہ جب یہ فیضان مسلمانوں کی بد عملی کی وجہ سے بند ہو جائیگا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خود شہید بن کر دنیا میں آجائیں گے یعنی جب اُمتِ محمدیہ دوسروں کی نگرانی نہ کر سکے گی بلکہ خود نگرانی کی محتاج ہو جائیگی تو یہ رسول ہی اس کی اصلاح کریگا اسی لئے اللہ تعالیٰ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا کو پیچھے رکھا ہے اور تَکُوْ نُوْ اشُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ کو مقدم کیا گیا ہے۔ اگر اس میں صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانے کا ذکر ہوتا تو یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا پہلے اور لِتَکُوْ نُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ بعد میں ہوتا۔ کیونکہ صحابہؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے پہلے سکھایا تھا پھر صحابہؓ نے دوسروں کو سکھایا۔ مگر قرآن کریم نے یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا کو پیچھے رکھا ہے اس سے صاف معلو م ہوتا ہے کہیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا سے پہلی بعثت مراد نہیں بلکہ اس سے آپ کی دوسری بعثتیں مراد ہیں یعنی جب کبھی اُمتِ محمدیہؐ کی نگرانی میں فرق پڑ جائیگا اور مسلمانوں کا نمونہ اچھا نہیں رہیگا اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پھر شہید اور نگران بن کر دنیا میں آجائیں گے۔ اور پھر مسلمانوں کی تربیت کر کے انہیں اس قابل بنا دیں گے کہ وہ دوسروں کی تربیت کریں غرض یہ ترتیب بتاتی ہے کہ اس جگہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بروزی بعثتوں کا ذکر ہے اور الفاظ قرآنی بھی بتاتے ہیں کہ لِتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ سے صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وقت کے لوگ مراد نہیں بلکہ اس سے قیامت تک کے زمانہ کے لوگ مراد ہیں۔ پس یَکُوْنَ الرَّسُوْلَ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا بھی قیامت تک سچا ثابت ہوتا رہیگا یعنی قیامت تک اُمتِ محمدیہؐ شاہد رہے گی اور قیامت تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی شاہد رہیں گے۔ یعنی قیامت تک لوگ آپؐ سے فیضان حاسل کر کے دوسروں کو سکھاتے چلے جائیں گے اور قیامت تک محمد رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی شاہد اور نگران کے فرائض سرانجام دیتے رہے گے۔ مگر چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے جسمانی وجود کے ساتھ ہمیشہ زندہ نہیں رہ سکتے تھے اس لئے یہ آیت آپ کے بعثت بروزی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اور بتاتی ہے کہ اُمتِ محمدیہؐ میں بگاڑ پیدا ہو جائے گا تو اس وقت کوئی باہر کا نبی اس کی اصلاح نہیں کرے گا بلکہ خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی اپنی امت کی بروزی رنگ میں اصلاح فرمائیں گے اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا ۔ یہ آیت بھی اسلام کے عالمگیر مذہب ہونے کی ایک زبردست دلیل ہے۔ کیونکہ اگر اسلام عالمگیر مذہب نہ ہوتا۔ اور قیامت تک قائم رہنے والا مذہب نہ ہوتا تو اصلاح خلق کے لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بروزی رنگ میں مبعوث نہ کیا جاتا ۔
وَمَاجَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْھَآ اِلَّا لِنْعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّ سَوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلیٰ عَقِبَیْہِ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تحویل قبلہ سے قبل بیت المقدس ی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھا کرتے تھے وہ تیرہ سالہ مکی زندگی میں آپ برابر اس طریق پر عمل پیرا رہے۔ اس کے بعد مدینہ تشریف لے گئے تو ہواں بھی سولہ سترہ مہینے تک آپؐ نے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھیں۔ آخر ایک دن جب کہ آپ مسجد بنی مسلمہ میں نماز پڑھا رہے تھے آپ پر تحویل قبلہ کے بارہ میں وحیِ نازل ہوئی اور آپؐ نے نماز کی حالت میں ہی بیت اللہ کی طرف منہ پھیر لیا اور صحابہؓ نے بھی آپؓ کے ساتھ ہی اپنا رُخ بیت المقدس کی بجائے خانہ کعبہ کی طرف کر لیا۔
بعض لوگوں نے کہا ہے کہ مکہ مکرمہ میں آپ کعبہ کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھتے تھے لیکن جب مدینہ منورہ آئے تو بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھنے لگے۔ لیکن یہ درست نہیں مسیحی مورخوں نے اس خیال سے فائدہ اُٹھا کر اعتراض کیا ہے کہ محمدؐ رسول اللہ کی اصل غرض یہود کی خوشنودی حاصل کرنا تھا جب وہ حاصل نہ ہوئی تو پھر کعبہ کی طرف منہ کر لیا۔ چنانچہ ریورنڈ وہیری اور سیل لکھتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مدینہ میں آکر بیت المقدس کی طرف منہ اس لئے کیا تھا کہ یہودی خوش ہو کر آپ پر ایمان لے آئیں مگر جب اس میں کامیابی نہ ہوئی تو انہوں نے کہا۔ چلو ہم اپنے باپ دادا کے اصل کعبہ ہی کی طرف منہ کر لیتے ہیں۔ لیکن جب ہم واقعات کو دیکھتے ہیں تو ان کا یہ خیال غلط ثابت ہوتا ہے۔ اس لئے کہ تاریخی طور پر یہ بات ثابت ہے کہ مکہ میں بھی آپ کو یہی حکم تھا کہ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں اور اس حکم کی تعمیل میں آپ ہجرت سے قبل بھی بیت المقدس کی طرف منہ کر کے ہی نمازیں پڑھا کرتے تھے۔ یہ نہیں کہ یہود کو خوش کرنے کے لئے صرف مدینہ میں آپ نے بیت المقدس کی طرف منہ کرنا شروعد کر دیا ہو اور مکہ میں تو کوئی یہودی نہ تھے جنہیں خوش کرنا مد نظر ہو۔ وہاں تو چاروں طرف مشرک ہی مشرک تھے البتہ بعض روایات میں یہ ذکر آتا ہے کہ جب آپؐ مکہ میں تھے تو آپ ایسی جگہ کھڑے ہو کر نماز پڑھا کرتے کہ خانہ کعبہ اور بیت المقدس دونوں آپ کے سامنے رہتے تھے لیکن جب آپ مدینہ تشریف لے آئے اور بیک وقت دونوں طرف منہ رکھنا نا ممکن ہو گیا کیونکہ یروشلم مدینہ سے شمال کی طرف تھا اور مکہ جنوب کی طرف تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم کیا کہ آپ بیت المقدس کی طرف منہ رکھیں۔ چنانچہ تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے:۔
وَقَدْ جَآئَ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ اَحَادِیْثُ کَثِیْرَۃ‘ وَحَاصِلُ الْاَمْرِ اَنَّہ‘ قَدْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلْیْہِ وَسَلَّمَ اُمِرَبِاِسْتِقْبَالِ الصَّخْرَۃِ مِنْ بَیْتِ الْمقُدَّسِ وَ کَانَ بِمَکَّۃِ یُصَلِّی بَیْنَ الرُّکْنَیْنِ فَتَکُوْنَ بَیْنَ یَدَ یْہِ الْکَعْبَۃُ وَھُوَ مُسْتَقْبِلُ صَخْرَۃِ بَیْتِ الْمُقْدَّسِ فَلَمَّا ھَاجَرَ اِلَی الْمَدِیْنَۃِ تَعَذَّرَ الْجَمْعُ بَیْنَھُمَا فَاَمَرَہُ اللّٰہُ بِالتَّوَ جُّہِ اِلیٰ بَیْتِ الْمُقَدَّسِ (تفسیر کثیر بر حاشیہ فتح البیان جلد اول صفحہ۳۲۹ یعنی تحویل قبلہ کی بحث میں بہت سی احادیث روایت کی گئی ہیں ان سب کو جمع کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو حکم دیا گیا تھا کہ آپ صحزۂ بیت المقدس کی طرف منہ کریں۔ چنانچہ آپ مکہ میں نماز پڑھتے ہوئے ایسے طور پر بیت المقدس کی طرف منہ کرتے تھے کہ کعبہ بھی سامنے رہے اور بیت المقدس بھی لیکن جب آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو یہ طریق جاری نہیں رکھا جا سکتا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ صرف بیت المقدس کی طرف منہ کر لیا کریں۔ اس سے پتہ لگتا ہے کہ مکہ میں آپ بیت المقدس کو ہی اسل قبلہ سمجھتے تھے بے شک آپ ایسے رنگ میں کھڑے ہوتے تھے کہ بیت اللہ بھی سامنے آجاتا تھا مگر وہ ایک ضمنی فائدہ تھا اصل مقصد بیت المقدس کی طرف ہی منہ کرنا تھا لیکن جب آپ مدینہ میں تشریف لے آئے تو جہت تبدیل ہو جانے کی وجہ سے کعبہ اور بیت المقدس دونوں کی طرف آپ کا منہ کرنا ناممکن ہو گیا اور آپ نے صرف بیت المقدس کی طرف منہ کرنا شروع کر دیا۔ بہر حال یہ بات صحیح نہیں کہ مدینہ میں آنے کے بعد دوبارہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو بیت المقدس کی طرف منہ کرنیکا حکم دیا گیا تھا کیونکہ ایسا کوئی حکم ثابت نہیں پس مکہ مکرمہ میں اگر بیت المقدس کے ساتھ بیت اللہ کی طرف بھی آپ کا رُخ ہوتا تھا تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ آپ خانہ کعبہ کو ہی اپنے اصل قبلہ سمجھتے تھے صحیح نہیں۔ آپ بیت المقدس کو اپنا قبلہ سمجھتے تھے لیکن کھڑے ایسے رنگ میں ہوتے تھے کہ بیت اللہ بھی آپ کے سامنے آجاتا ۔ پس جب یہ بات غلط ثابت ہوئی تو دشمن کا اعتراض بھی غلط ہو گیا۔ اسی طرح سیل کا یہ اعتراض بھی غلط ہے کہ آپ مکہ میں جدھر چاہتے منہ کر لیا کرتے تھے۔ اس اعتراض کا ایک جوابیہ بھی ہے کہ جب آپ نے کعبہ کی طرف منہ کیا تو اس وقت حدیثوں میں آتا ہے کہ یہود نے تمسخر کرتے ہوئے مشرکوں سے کہا کہ
اِشْتَاقَ مُحَمَّد’‘ اِلیٰ مَوْلِدِہٖ وَعَنْ قَرِیْبٍ یَرْ جِعُ اِلیٰ دِیْنِکُمْ(بحر محیط جلد اول صفحہ ۴۲۰) یعنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو پھر اپنے وطن کی یاد ستانے لگی ہے اور امید ہے کہ وہ اب جلد تمہارے دین کی طرف لوٹ آئیگا۔ اس روایت سے صاف طور پر پتہ لگتا ہے کہ پہلے آپ بیت المقدس کی طرف ہی منہ کر کے نمازیں پڑھا کرتیتھے اگر آپ پہلے بھی خانہ کعبہ کی طرف منہ کیا کارتے تو کفار آپ کے متعلق یہ اعتراض نہ کرتے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم آہستہ آہستہ مکہ والوں کے دین میں ہی شامل ہو جائیگا۔ ان کا یہ اعتراض اسی صورت میں درست ہو سکتا ہے جبکہ آپ بیت اللہ کی طرف نہیں بلکہ بیت المقدس کی طرف منہ کرتے ہوں ۔
علاوہ ازیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کیا یہ تبدیلی فی الواقعہ کسی ذاتی فائدہ کے لئے تھی؟ معترضین کہتے ہیں کہ یہ تبدیلی اس غرض کے ماتحت کی گئی تھی کہ پہلے آپ نے یہودیوں کو اور بعد میں مکہ والوں کو خوش کرنا چاہا۔ لیکن قرآن کریم بتاتا ہے کہ یہ تبدیلی لوگوں کے لئے ایک بہت بڑا ابتلا تھا مکہ میں مکہ کے لوگوں سے بیت المقدس کی طرف منہ کرانا اور پھر مدینہ میں جہاں یہودی و نصاریٰ کا زور تھا اور مشرک بھی ان سے متاثر تھے وہاں بیت اللہ کی طرف منہ کرانا کوئی معمولی بات نہ تھی۔ اگر معمولی بات ہوتی تو اللہ تعالیٰ یہ کیوں فرماتا کہچ یعنی ہم نے اس قبلہ کو جس پر تو اس سے پہلے قائم تھا یعنی بیت المقدس کو صرف اس لئے مقرر کیا تھا کہ تاہم اس شخس کو جو اس رسول کی فرمانبرداری کرتا ہے اس شخص کے مقابل پر جوایڑیوں کے بل پھر جاتا ہے ایک ممتاز حیثیث میں ظاہر کردیں۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ بیت المقدس کی طرف منہ کرنے کا حکم بطور آزمائش تھا اور حقیقت بھی یہی ہے کہ مکہ والوں کی نظر میں کعبہ کو جو فضیلت حاصل تھی حتیٰ کہ قاتل کو بھی اس میں کچھ نہ کہتے تھے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے سمجھا جا سکتا ہے کہ اُن سے بیت المقدس کی طرف منہ کروانا ایک بہت بڑا ابتلاء تھا۔ اسی طرح مدینہ میں جہاں یہود کا زور تھا بیت المقدس کی بجائے کعبہ کی طرف منہ کروانا ایک دوسرا ابتلاء تھا اسی لئے قرآن کریم دونوں دفعہ کی تحویل کو ابتلاء قرار دیتا ہے۔ پہلی تحویل کی نسبت کہا ہے کہ وَمَاجَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْھَآاِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلیٰ عَقِبَیْہِ۔ اور دوسری تحویل کی نسبت کہتا ہے سَیَقُولُ اسُّفَھَآئُ مِنَ النَّاسِ مَا وَ لّٰھُمْ مَنْ قِبْلَتِھِمُ الَّتِیْ کَانُوْا عَلَیْھَا۔ یعنی سطحی رائے رکھنے والے اور بے وقوف لوگ عنقریب یہ اعتراض کرینگے کہ ان لوگوں کو ایک قبلہ سے دوسرے قبلہ کی طرف کس چیز نے پھرادیا ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں دفعہ کی تحویل ایک ابتلاء تھی اور لوگوں کو مغزِدین سے واقف کرنا اصل مقصود تھا۔ اگر معترصنین کا خیال درست ہوتا کہ آپ اس ذریعہ سے مکہ والوں کو خوش کرنا چاہتے تھے تو چاہیے تھا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا۔ ہم تحویل قبلہ کا حکم دے کر تم پراحسان کرنے والے ہیں تاکہ لوگ خوش ہو جائیں اور اسلام کی طرف ان کا میلان بڑھ جائے۔ مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس حکم کے نزل ہونے پر لوگ اعتراض کرینگے۔ اور ان کے لئے یہ تبدیلی ٹھوکر کا موجب ہو گی۔ گویا قرآن کریم نے تحویل قبلہ کے واقعہ کو ایک ابتلاء اور آزمائش رقرار دیا ہے اسی طرح مکہ میں آپ کا بہت المقدس کی طرف منہ کرنا بھی ان لوگوں کے لئے جو اہل مکہ میں سے مسلمان ہوئے تھے ایک برا بھاری ابتلاء تھا کیونکہ وہ صدیو۲ں سے بیت اللہ کو ایک مقدس معبد مانتے چلے آئے تھے اور اُسی کے مقابلہ میں بیت المقدس کی اُن کے دل میں کچھ بھی وقعت نہ تھی۔ پس مکہ والوں کو یہ کہنا کہ تم بیت المقدس کی طرف منہ کرو۔ ان کے لئے بڑا بھاری ابتلاء تھا۔ اور مدینہ میں جہاں یہود کا زور تھا یہ کہنا کہ تم بیت اللہ کی طرف منہ کرو۔ ان لوگوں کے لئے جو یہود اور نصاریٰ میں سے مسلمان ہوئے ایک بڑا بھاری ابتلا تھا کیونکہ ان کے لئے بیت المقدس ایک متبرک مقام تھا اور تاریخ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ کئی لوگوں کو اس پر ابتلاء آگیا اور وہ مرتد ہو گئے۔ پس یہ تغیر کسی خوشنودی کے حصول کے لئے نہ تھا بلکہ ایمانوں کی ایک سخت آزمائش تھی۔ اگر قبلہ مقرر کرنے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صرف یہی غرض ہوتی کہ دوسروں کو خوش کیا جائے تو اس کا صحیح طریق یہ تھا کہ جب تک آپ مکہ میں رہے خانہ کعبہ کو قبلہ مقرر فرماتے تاکہ اہل مکہ خوش رہیں اور مدینہ میں یروشلم کو قبلہ بنا لیتے تاکہ یہود خوش رہیں۔ مگر یہاں تو معاملہ ہی برعکس نظر آتا ہے مکہ میں آپؐ نے بیت المقدس کی طرف منہ کیا اور مدینہ میں تشریف لانے کے کچھ عرصہ بعد خانہ کعبہ کی طرف منہ پھیر لیا۔ اور یہ تبدیلی دونوں جگہ لوگوں کے لئے سخت آزمائش کا موجب بنی اور کئی لوگ مرتد ہو گئے۔(تفسیر کبیر رازی جلد ۲ صفحہ۱۶ و تفسیر جامع البیان جلد ۲صفحہ۸) اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَاِنْ کَانَتْ لَکَبِیْرَۃً یعنی تحویل قبلہ کا واقعہ یقینا ان لوگوں کے سوا جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی ہے ایک بڑی بھاری آزمائش ہے کیونکہ جب انسن کا کسی چیز کے ساتھ گہرا تعلق ہو تو وہ اس کو آسانی کے ساتھ نہیں چھوڑ سکتا۔ ہاں جو شخص اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت پا جائے اور کہے کہ میں ہر صورت میں خداتعالیٰ کا حکم مانوں گا اس کے لئے کوئی بڑی بات نہیں رہتی اور وہ کسی ابتلاء سے ٹھوکر نہیں کھاتا۔ آخر سورج اور چاند دیھنے کے بعد ان کا کون انکار کر سکتا ہے۔ اسی طرح عقلی طور پر بیشک سوال پیدا ہوتے رہیں۔ مگر جن لوگوں کو خداتعالیٰ نے ایمان اور یقین کی دولت سے مالا مال کیا ہو اُن کے لئے کوئی ابتلاء کا موجب نہیں ہوتا۔
وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُضِیْعَ اِیْمَا نَکُمْ۔ فرماتا ہے بے شک یہ ایک ابتلاء تھا جو بعض لوگوں کے لئے ٹھوکر کا موجب بنا مگر اس قبلہ سے تعلق رکھنے کے ساتھ جو الہٰی وعدے وابستہ تھے اُن سے اللہ تعالیٰ تم کو کب محروم رکھ سکتا تھا جبکہ تم اس رسول پر سچے دل سے ایمان لے آئے تھے اس کے یہ معنے نہیں کہ تحویل قبلہ سے پہلے جو لوگ فوت ہو چکے ہیں اللہ تعالیٰ اُن کے ایمانوں کو ضائع نہیں کرے گا اور ان کے اُخروی درجات میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ جیسا کہ مفسرین نے لکھا ہے بلکہ اس کے اصل معنے یہی ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی شان کے خلاف تھا کہ تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان لاتے اور ہم اس گھر سے تمہارا دائمی تعلق پیدا نہ کرتے۔ کیونکہ اگر بیت اللہ کو قبلہ مقرر نہ کیا جاتا تو ابراہیمی پیشگوئی کی عظمت دنیا پر واضح نہ ہوتی اور اللہ تعالیٰ یہ برداشت نہیں کر سکتا تھا کہ تم دُعائے ابراہیمی کے مصداق پر تو ایمان لائو اور تمہارا خانہ کعبہ کے ساتھ تعلق قائم نہ ہو۔
اسی طرح وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُضِیْعَ اِیْمَا نَکُمْ میں اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ ابتلاء ایمان کو ضائع کرنے کے لئے نہیں آتے بلکہ سچے ایمان کو ظاہر کرنے اور جھوٹے کے جھوٹ کو کھولنے کے لئے آتے ہیں اور اس لئے بھی آتے ہیں کہ ان سے حکمتِ احکام ظاہر ہو کر علم میں ترقی ہوتی ہے جیسا کہ تحویلِ قبلہ کے حکم سے مسلمانوں کے علم میں ترقی ہوئی۔ اور اگر ایک طرف ان کے ایمانوں کی مضبوطی لوگوں پر ظاہر ہوگئی تو دوسری طرف خود انہیں بھی معلوم ہو گیا کہ پہلے بیت المقدس کی طرف اور پھر بیت اللہ کی طرف منہ کرنے کا کیوں حکم دیا گیا تھا اور اس میں اللہ تعالیٰ کی کیا کیا حکمتیں کام کر رہی تھیں چونکہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ وَمَا جَعَلْنَ الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْھَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْہِ اس لئے یہ شبہ ہو سکتا تھا کہ شائد ابتلائوں کا آنا ایک ظلم ہے جو ایمان کا ضائع کر دیتے ہیں اس شبہ کے ازالہ کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابتلائوں سے مومنوں کا ایمان ضائع نہیں ہوتا بلکہ صرف نام نہاد مومنوں کا ایمان ضائع ہوتا ہے ورنہ یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ زید پختہ مومن ہو اور پھر ٹھوکر کھا جائے۔ وہ اگر ٹھوکر کھاتا ہے تو صرف اس لئے کہ وہ پہلے ہی صحیح معنوں میں مومن نہیں تھا۔ پس ابتلاء مومنوں کے ایمانوں کو ضائع کرنے کے لئے نہیں بلکہ سچے مومنوں کی روحانی عظمت اور ان کے ایمانوں کی پختگی ظاہر کرنے اور احکام الہٰیہ کی حکمت ظاہر کرنے کے لئے آیا کرتے ہیں۔
قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْھِکَ


ریورنڈ وہیری نے اس موقعہ پر اعتراض کیا ہے کہ جب لوگوں کو ابتلاء آیا تو محمد(صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) نے نعوذ باللہ یہ بہانہ بنایا کہ یہ ایک امتحان ہے۔ حالانکہ یہ آیتیں تحویلِ قبلہ کا حکم نازل ہونے سے پہلے کی ہیں۔ پس جب ابھی حکم نازل ہی نہیں ہوا تھا تو ابتلاء کس کو آنا تھا۔ اسی طرح سَیَقُوْلُ السُّفَھَآئُ کے الفاظ بھی بتاتے ہیں کہ یہ آیتیں پہلے کی نازل شدہ ہیں۔ پس وہیری کا یہ اعتراض محض تعصب پر مبنی ہے۔
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کا کوئی حکم منسوخ نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے کہ وَمَاجَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْھَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلیٰ عَقِبَیْہِ یعنی ہم نے اس قبلہ کو جس پر تو پہلے سے قائم تھا صرف اس لئے مقرر کیا تھا تاکہ ہم ظاہر کر دیں کہ کون اس رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاتا ہے۔ اس سے صاف
معلوم ہوتا ہے کہ بیت المقدس کی طرف منہ کرنے کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ کا کوئی خاص حکم نازل ہوا تھا۔ یہ نہیں کہ آپ محض جتہادی طور پر اہل کتاب کی اتباع میں بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نمازیں پرھا کرتے ہوں۔ پس آگر قرآن کریم کے احکام جیسا کہ مفسرین لکھتے ہیں منسوخ بھی ہوتے ہیں تو چاہیے تھا کہ وہ آیت بھی قرآن کریم میں موجود ہوتی۔ جس کی طرفوَمَاجَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْھَا کے الفاظ اشارہ کر رہے ہیں۔ مگر وہ ہے نہیں۔ پس ماننا پڑیگا کہ اگر قرآن کریم کا کوئی حصہ منسوخ ہوتا تھا تو پھر وہ قرآن کریم میں نہیں رکھا جاتا تھا لیکن اصل بات یہ ہے کہ قرآن کریم کا کائی حصہ کبھی منسوخ نہیں ہوا بلکہ جو حکم منسوخ ہونا ہوتا تھا اُسے وحی متلو میں اتارا ہی نہیں جاتا تھا ۔ بیت المقدس چونکہ عارضی قبلہ تھا اور مستقل قبلہ خانہ کعبہ بننے والا تھا۔ اس لئے وہ حکم قرآنی وحی سے علیٰحدہ نازل ہوا اور بعد میں منسوخ کر دیا گیا۔اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ تمام احکام جن کو بعد میں منسوخ قرار دے دیا گیا تھا وہ قرآن میں نازل نہیں کئے گئے تھے۔ اگر وہ احکام قرآن میں موجود تھے اور پھر منسوخ کر دیئے گئے تھے تو ضروری تھا کہ وہ قرآن میں اپنی اصل شکل میں کہیں نہ کہیں موجود ہوتے مگر اُن کا قرآن کریم میں موجود نہ ہونا بتلاتا ہے کہ منسوخ ہونے والی وحی قرآن کریم سے علیحٰدہ ہوتی تھی۔ جیسا کہ بیت المقدس کی طرف منہ کرنے کا حکم قرآن میں کہیں موجود نہیں ۔لیکن اس حکم کا منسوخ ہونا بتاتا ہے کہ اس بارہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ضرور کوئی وحی نازل ہوئی تھی مگر چونکہ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ اس حکم نے منسوخ ہوجانا ہے اس لئے اسے قرآنی وحی میں شامل نہ کیا گیا۔ غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وحی دو قسم کی ہوا کرتی تھی ایک قرآنی اور دوسری غیر قرآنی قرآنی وحی ہر قسم کے نسخ سے بالا تھی ۔ مگر غیر قرآنی وحی منسوخ بھی ہو جاتی تھی جیسا کہ تحویل قبلہ کے متعلق پہلا حکم منسوخ کر دیا گیا۔
عَمَّا یَعْمَلُوْنَo
۶۰؎ حل لغات:۔ فَلَنُوَ لِّیَنَّکَ:وَلَّہُ الْاَمْرَ کے معنے ہیں جَعَلَہ‘ وَالِیًا عَلَیْہِ اُسے فلاں پر مسلط کردیا۔ (اقرب) اور وَلَّیْتُ وَجْھِیْ کَذَا کے معنے ہیں اَقَبَلْتُ۔ میں نے اس کی طرف اپنا منہ پھیرا(مفردات)
تفسیر:۔ اس آیت کے متعلق بعض مفسرین روایات نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نماز میں آسمان کی طرف منہ اُٹھا اُٹھا کر دیکھا کرتے تھے کہ تحویلِ قبلہ کا حکم کب نازل ہوتا ہے(تفسیر ابنِ کثیر بر حاشیہ فتح البیان جلد اول صفحہ۳۲۹) یہ تو الگ بحث ہے کہ نماز میں اِدھر اُدھر دیکھنے سے کب روکا گیا ۔ لیکن اس غرض کے لئے آسمان کی طرف سر اُٹھا کر دیکھنا اپنی ذات میں ایسا امر ہے جسے عقل انسانی ایک لمحہ کے لئے بھی تسلیم نہیں کر سکتی۔ اگر قبلہ کیعلاوہ اور باتوں میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی یہ عادت ہوتی کہ آپ ان کے بارہ میں الہٰی حکم معلوم کرنے کے لئے آسمان کی طرف دیکھا کرتے تو ہم اس امر کو بھی مان لیتے کہ شائد نماز پڑھتے وقت آپ آسمان کی طرف دیکھ لیا کرتے ہوں۔ مگر محض اس وجہ سے کہ قرآن کریم میںکے الفاظ آ گئے ہیں ایک ایسے فعل کو صحیح تسلیم کرنا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے عام طریق عمل کے بالکل خلاف تھا کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہو سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک محاورہ ہے جسے نہ سمجھتے ہوئے یہ خیال کر لیا گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تحویلِ قبلہ کے بارہ میں آسمان کی طرف اپنی آنکھیں اُٹھا اُٹھاکر دیکھ اکرتے تھے اور اس امر کے منتظر رہتے تھے کہ کب خدائی حکم نازل ہوتا ہے۔ ہماری زبان میں بھی کہتے ہیں کہ’’ میری تونظر ہی اُدھر لگی ہوئی ہے۔‘‘ یا کہتے ہیں ’’میری تو توجہ فلاں امر کی طرف پھر گئی ہے۔‘‘ اور جب ہم یہ الفاظ کہتے ہیں تو ان کا ہرگز یہ مفہوم نہیں ہوتا کہ فی الحقیقت ہم آنکھیں پھاڑپھاڑ کر کسی طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح قَدْنَرٰی تَقَلُّبَ وَجْھِکَ فِی السِّمَآئِ کے بھی یہی معنے ہیں کہ ہم تیری توجہ کا بار بار آسمان کی طرف پھیرنا دیکھ رہے ہیں ۔ یعنی تیرے دل میں بار بار یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ اس بارہ میں آسمان سے الہٰی حکم نازل ہو۔
اگرظاہری الفاظ کا ہی اتباع کیا جائے تو مفسرین کے بیان کردہ معنے یہاں چسپاں ہی نہیں ہو سکتے کیونکہ اس کے معنے یہ بنتے ہیں کہ’’تیرا آسمان میں اِدھر اُدھر اپنا منہ پھیرنا‘‘۔ اور یہ خود ایک ناقابلِ تسلیم بات ہے ۔ کیونکہ منہ کا آسمان میں تقلب کرنا ناممکن ہے پس الفاظ قرآنی ان معنوں کو برداشت نہیں کرتے۔ اصل بات یہ ے کہ فِیْ کے معنے اس جگہ اِلیٰ کے ہیں۔ اور اس کی مثال قرآن کریم میں بھی موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جَآئَ تْھُمْ رُسُلُھُمْ بِابْیِّنٰتِ فَردُّ وْااَیْدِیَھُمْ فِیْاَفْوَاھِھِمْ(سورہ ابراہیم آیت۱۰) یعنی جب لوگوں کے پاس ان کے رسول کھلے کھلے دلائل لے کر آئے تو انہوں نے ان کے ہاتھ ان کے مونہوں کی طرف لوٹا دیئے۔ اس جگہ فِیْ اَفْوْاھِھِمْ سے ان کے مونہوں میں ہاتھ ڈالنا مراد نہیں بلکہ ان کی طرف لوٹانا مرا د ہے۔ اسی طرح یہاں تَقَلُّبَ فِی السَّمَآئِ سے آسمان میں اِدھر اُدھر منہ پھیرنا مرادنہیں بلکہ آسمان کی طرف آپ کی توجہ کا بار بار پھرنا مراد ہے ورنہ آسمان کی طرف مونہہ اُٹھاناتو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وقار کے بھی خلاف تھا۔ میرے نزدیک اس کے یہی معنے ہیں کہ ہم تیری توجہ کے بار بار آسمان کی طرف جانے کو دیکھ رہے ہیں۔ اور یہ ایسا ہی فقرہ ہے جیسے ہماری زبان میں بھی کہتے ہیں کہ ہماری نظر تو فلاں طرف لگی ہوئی ہے۔ یعنی ہمیں تو ہواں سے کامیابی کی اُمید ہے اسی طرح گو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بیت المقدس کی طرف منہ کرنے کا حکم ملا تھا۔ مگر پُرانی پیشگوئیوں سے جو اللہ تعالیٰ نے اُس وقت تک ظاہر کی تھیں دوسرے کلام کے آپ کو معلوم ہوتا تھا کہ آخر قبلہ کی طرف منہ ملے گا اور وہ ترقی کا پہلا زینہ ہو گا۔ کیونکہ اسلام کی ترقیات کے زمانہ کا اس امر کو نشان قرار دیا گیا تھا۔ پس آپ بار بار خداتعالیٰ کی طرف توجہ کرتے تھے کہ کب کعبہ کی طرف منہ کرنیکا حکم ملتا ہے۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ فِیْ اپنے اصلی معنوں میں ہو اور سماء سے مراد احکامِ سمادی ہوں اور معنے یہ ہوں کہ تیری توجہ کا اصمانی احکام کے متعلق تقلب یعنی تیری توجہ آسمانی احکام کے متعلق تقلب کر رہی تھی اور بے قرار تھی کہ وہ کب نازل ہوتے ہیں۔ عربی زبان کا محاورہ بھی ہے کہ تَکَلَّمْتُ مَعَکَ فِیْ فُلَانٍ اور مراد یہ ہے کہ میں نے تیرے ساتھ فلاں شخص کے بارے میں کلام کیا۔ اس لحاظ سے قَدْ نَرٰی تَقَلُبَ وَجْھِکَ فِی السِّمَآئِ کے یہ معنے ہونگے کہ ہم آسمانی احکام کے بارے میں تیری توجہ کا تقلب دیکھ رہے ہیں۔ یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس بات کے منتظر تھے کہ خدائی حکم نازل ہو اور آئندہ خانہ کعبہ کو قبلہ قرار دیا جائے۔
فَلَنُوَلِّبَنَّکَ قِبْلَۃْ تَرْضٰھَا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم ضرور تجھے اس قبلہ کی طرف پھیر دینگے جسے تو پسند کرتا ہے۔ یہ آی صاف بتاتی ہے کہ سَیَقُوْلُ السُّفَھَاء کے وہی معنے صحیح ہیں جو میں نے کئے ہیں۔ کیونکہ اگر اس سے پہلے قبلہ کے متعلق کوئی حکم نازل ہو چکا تھا تو پھر فَلَنُوَ لِّیَنَّکَ کے معنے کچھ نہیں بنتے۔بعض لوگ اس کے یہ معنے کرتے ہیں کہ ہم تجھے والی کردینگے۔ حالانکہ اگر اس کے یہ معنے ہوتے تو پھر یہان قبلہ کا لفظ نہیں رکھنا چاہیے تھا بلکہ بَلَدًا یا کَعْبَۃً یا بِیْتًا کا لفظ رکھنا چاہیے تھا۔ کیونکہ قِبْلَۃ کا لفظ اس جگہ جہت کے معنوں میں ہے اور جہت کا کوئی والی نہیں ہوتا بلکہ کسی ملک یا شہر یامکان کا والی ہوا کرتا ہے۔ پس اگر نُوَلِّیَنَّکَ کے معنے والی کر دینے کے ہوتے تو پھر یوں فرمانا چاہیے تھا کہ م بیت اللہ یا مکہ کا تجھے والی کر دیں گے مگر خداتعالیٰ نے قبلہ کا لفظ رکھا ہے جس کے معنے جہت کے ہیں پاس یہ معنے کسی صورت میں بھی درست نہیں۔
علامہ ابن حیان نے نُوَلِّیَنَّکَ کے معنے یہ کئے ہیں وَلَنْمَکِّنَنَّکَ مِنْ ذٰلِکَ(بحر محیط جلد اول صفحہ۴۲۸) ہم تجھے اس قبلہ پر مضبوطی سے قائم کردینگے یہ معنے بھی بتاتے ہیں کہ تحویل قبلہ کا حکم ابھی نازل نہیں ہوا تھا ورنہ قبلہ پر قائم کر دینے کے کوئی معنے ہی نہیں بنتے۔
نُوَ لِّیَنَّکَ تک تو ابھی وعدہ ہی تھا اس کے بعد فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فرما کر پہلی دفعہ اللہ تعالیٰ نے کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی بتادیا کہ صرف مدینہ میں نہیں بلکہ جہاں کہیں بھی ہو۔ اس کی طرف منہ کرنا یعنی یہ نہ خیال کرنا کہ چونکہ مدینہ میں بیت المقدس اور کعبہ دونوں کی طرف منہ نہیں ہو سکتا۔ اس لئے یہ حکم دیا گیا ہے کہ کعبہ کی طرف منہ کرو۔ جب دونوں جمع ہو سکیں تو پھر پہلے کی طرح حکم ہو گا اور دونوں کو جمع کرنا اولیٰ ہو گا بلکہ اب یہی حکم ہے کہ کعبہ کی طرف منہ کرو۔ بیت المقدس کا خیال رکھنا ہرگز ضروری نہیں۔
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نظر روحانی معاملات میں اس قدر تیز تھی کہ باوجود اس کے کہ آپ کو بیت المقدس کی طرف منہ کرنیکا حکم تھا آپ ابپنی روحانی فراست کی بنا پر اس امر پر کامل یقین رکھتے تھے کہ خانہ کعب کی طرف منہ کرنے کا حکم ایک نہ ایک دن ضرور نازل ہو گا۔ مگر دوسری طرف خداتعالیٰ کے حکم کا ادب آپ کو اس قدر ملحوظ تھا کہ آپ نے تحویلِ قبلہ کے متعلق کبھی دعا نہیں فرمائی۔ صرف آسمان کی طرف آپ نے اپنی نظریں رکھیں اور خدائی فیصلہ کے منتظر رہے۔ آخر آپ کی اس توجہ روحانی کی برکت سے خداتعالیٰ نے تبدیلِ قبلہ کے متعلق اپنا حکم نازل فرمادیا اور حکم دے دیا کہ اب بیت المقدس کی بجائے خانہ کعبہ کو قبلہ مقرر کیا جاتا ہے۔
پھر فرماتا ہے ۔ وَحِیْتُ مَاکُنْتُمْ فَوَلُّوْا وَجُوْ ھَکُمْ شَطْرَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کہ تو اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیردے۔ اور اس فقرہ میں فرمایا ہے کہ تم جہاں کہیں ہو۔ اپنے منہ اس کی طرف پھیر دو۔پہلی جگہ واحد مخاطب کا صیغہ رکھا اور دوسری جگہ جمع کا۔ اسی طرح پہلے وَجْھَکَ فرمایا اور پھر وُجُوْھَکُمْ فرمایا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے فقرہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مخاطب کیا گیا ہے اور دوسرے فقرہ میں تمام مسلمانوں سے خطاب ہے جو مختلف بلاد وامصار میں رہتے ہیں بیشک رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی جب مدینہ سے باہر تشریف لے جاتے تو آپ بھی بیت اللہ کی طرف ہی منہ کرتے تھے۔ مگر آپ کا زیادہ ترقیام مدینہ میں ہی تھا۔ اور باہر کا قیام عارضی تھا۔ لیکن دوسرے لوگوں کا مدینہ کا قیام عارضی تھا اور باہر کا مستقل اس لئے پہلی جگہ صرف آپ کو مخاطب کیا گیا۔ اور چونکہ آپ کے ساتھ تماز پڑھنے والوں نے بھی اُدھر ہی منہ کرنا تھا جدھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا منہ تھا اس لئے ان کا علیٰحدہ ذکر نہ کیا گیا۔ اور ااپ کی نماز میں ہی ان کی نماز کو شامل کر لیا گیا۔
میں سمجھتا ہوں اس آیت سے یعقینی طور پر یہ استدلال ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام میں نماز باجماعت کو نہایت ضروری قرار دیا ہے۔ کیونکہ اس نے فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فرمایا ہے۔ فَوَلُّوْ اوُجُوْھَکُم شَطْرَالمْسْجِدِ الْحَرَامِ نہیں فرمایا۔ اور اس کی وجہ یہی ہے کہ باقی سارے مسلمانوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ اقتدائے نماز میں شامل ہونا تھا سوائے منافقوں کے جو دل سے ساتھ نہیں ہوتے اور عمل میں بھی پیچھے رہتے ہیں اور جن کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ وہ لوگ جو عشاء اور فجر کی نمازوں میں نہیں آتے۔ میرا جی کرتا ہے کہ میں اُن کے گھروں کو جلا کر راکھ کر دوں۔ پس چونکہ تمام مومنوں نے نماز میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ ہی شریک ہوجانا تھا اس لئے اُن کا علیحٰدہ ذکر کرنے کی بجائے صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مخاطب کر کے کہہ دیا گیا کہ آپ اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں۔ بہرحال نماز باجماعت اسلام کا ایک نہایت ہی اہم حکم ہے۔ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس کے متعلق اس قدر تاکید فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ ایک نابینا شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میری آنکھیں نہیں اور راستہ میں لوگ پتھر وغیرہ ڈال دیتے ہیں جن سے مجھے ٹھوکر یں لگتی ہیں کیا میں گھر پر نماز پڑھ لیا کروں؟ پُرانے زمانہ میں لوگ دیواروں کے ساتھ ساتھ پتھر رکھ دیا کرتے تھے تاکہ مکان بارش کے پانی سے محفوظ رہیں اور دیواریں خراب نہ ہوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُسے اجازت تو دے دی لیکن پھر فرمایا۔ کیا تمہارے مکان تک اذان کی آواز آتی ہے؟ اس نے کہا یا رسول اللہ آتی ہے آپ نے فرمایا ؤپھر جس طرح بھی ہو مسجد میں آیا کرو۔ مگر آجکل ان لوگوں کے سامنے جو اذان کی آواز سن کر بھی مسجد میں نہیں آتے کون سے پتھر پڑھے ہوئے ہوتے ہیں کہ وہ گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں۔ یا انہیں کونسی نبینائی لاحق ہوتی ہے کہ وہ مسجدوں میں نماز کے لئے نہیں آتے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک اندھے شخص کو بھی جو ٹھوکریں کھا کھا کر گِرتا تھا اس بات کی اجازت نہیں دی تھی کہ وہ گھر پر نماز پڑ ھ لے مگر آجکل لوگ معمولی معمولی عذرات کی بنا پر باجماعت نماز کر ترک کر دیتے ہیں اور اس طرح اپنے عمل سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ انہیں روحانی نابینائی لاحق ہے غرض فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کہہ کر اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ امامت کے متعلق احکام صرف ایک شخص کو دینے کا فی ہیں۔ کیونکہ باقی سارے مسلمان اس کے ساتھ باجماعت نماز پڑھیں گے اور اس طرح مسلمان اس کے ساتھ باجماعت نماز پڑھیں گے اور اس طرح وہ سار ے کے سارے ماز میں شامل ہو جائیں گے ۔ اگر کوئی کہے کہ پھر دوسری جگہ جمع کا صیغہ کیوں استعمال کیا گیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہاں دنیا بھر کے امام مخاطب ہیں جو ممکن ہے دس لاکھ یا دس کروڑ ہوں اور ان کی متابعت میں تمام مسلمان پر وہ حکم حاوی ہے۔
وَاِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُو الْکِتٰبَ لَیَعْلَمُوْنَ اَنَّہ‘ الْحَقُ مِنْ رَّ بِّھِمْ۔ فرماتا ہے وہ لوگ جن کو کتاب دی گئی ہے وہ اس بات کو جانتے ہیں کہ تحویل قبلہ کا حکم اللہ تعالیٰ کی اُن پیشگوئیوں کے مطابق ہے جو اُن کو کتب میں پائی جاتی ہیں۔ مگر اس جگہ اہل کتاب سے صرف یہود کے مخصوص علماء مراد ہیں۔ جو اپنی کتب کی پیشگوئیوں سے واقف تھے ورنہ اگر تمام اہل کتاب اس بات پر یقین رکھتے تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان کیوں نہ لاگے۔ ان کا ایمان نہ لانا بتاتا ہے کہ وہ دل سے آپ کی صداقت کے قائل نہیں تھے پس اس جگہ اَلَّذِیْنَ اُوْ تُو االکِتٰبَ سے مراد صرف یہود کے وہ علماء ہیں جو اپنی کتب سے گہری واقفیت رکھتے تھے اورچونکہ قوم اپنے لیڈروں کے تابع ہوتی ہے اس لئے جب کسی قوم کے لیڈر کوئی بات سمجھ لیں تو محاورہ زبان میں یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ قوم اس بات کو سمجھتی ہے۔ اسی رنگ میں یہاں بھی اہل کتاب سے ان کے مخصوص علماء اور لیڈر مراد ہیں۔ جو انبیاء بنی اسرائیل کی پیشگوئیوں سے واقف تھے اور جانتے تھے کہ اب شریعت بھی بدلنے والی ہے اور قبلہ بھی تبدیل ہونے والا ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسیحیوں کی دست بُرد کی وجہ سے موجودہ بائیبل میں حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے متعلق اور مکہ مکرمہ کے متعلق پیشگوئیوں وضاحت سے نہیں مل سکتیں مگر پھر بھی ان سے کچھ نہ کچھ نشان ضرور مل جاتے ہیں چنانچہ اس بارہ میں سب سے بڑی پیشگوئی وہ ہے جو استثنا باب ۳۳ آیت ۱ تا۳ میں پائی جاتی ہے۔ اور جس کے الفاظ یہ ہیں کہ:۔
’’یہ وہ برکت ہے جو موسیٰ مرد خدا نے اپنے مرنے سے آگے بنی اسرائیل کو بخشی اور اس نے کہا خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر طلوع ہوا فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا ۔ دس ہزار قدسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے داہنے ہاتھ ایک آتشی شریعت اُن کے لئے تھی۔‘‘
چونکہ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ یہ پیشگوئی عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان مابہ النزاع بننے والی ہے اس لئے اس نے شروع سے ہی اس پیشگوئی میں ایسے الفاظ رکھ دیئے ہیں جن کو عیسائی اپنے اوپر چسپاں ہی نہیں کر سکتے عیسائیت کا ساراد زور اس اصل پر ہے کہ شریعت *** ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے سب سے بڑی خبر ہی اس پیشگوئی میں یہ دی ہے کہ آنے والے موعود کے ہاتھ میں ایک آتشی شریعت ہو گی۔ پس جو قوم شریعت کو *** قرار دیتی ہے اس کا کوئی حق نہیں کہ وہ اس پیشگوئی کو اپنے اوپر چسپاں کرے۔
پھر اس پیشگوئی میں یہ خبر دی گئی تھی کہ وہ دو ہزار قدوسیوں کے ساتھ آئیگا۔ مگر حضرت مسیح علیہ السلامد کو دس ہزار چھوڑ دس قدوس بھی نصیب نہ ہوئے۔ ان کے صرف بارہ حواری تھے ان میں سے ایک نے تو ان کو پکڑوا دیا اور دوسروں کے متعلق انجیل میں لکھا ہے کہ جب دشمن حضرت مسیح علیہ السلام کی گرفتاری کے لئے آئے تو وہ سارے کے سارے انہیں چھوڑ کر بھاگ گئے(متی باب ۲۶ آیت۵۶) صرف ایک حواری کے متعلق لکھا ہے کہ اس نے تلوار نکال لی۔ اور ایک شخص پر وار کر کے اس کا کان اُڑا دیا(متی باب۲۶ آیت۵۱) مگر یہ صرف ایک عارضی جوش کا نتیجہ تھا۔ ورنہ اس کے بعد حواریوں نے جس ایمان کا مظاہرہ کیا اس کا اس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت کے کارندے جب حضرت مسیح ؑ کو گرفتار کر کے سردار کاہن کے پاس لے گئے تو پطرس بھی ساتھ ساتھ چل پڑا۔ وہاں ایک لونڈی نے اُسے دیکھ کر کہدیا کہ تو بھی مسیح کے ساتھ تھا اس پر اس نے سب کے سامنے انکار کیا اور کہا کہ میں نہیں جانتا تو کیا کہتی ہے پھر وہ دوبارہ کسی لونڈی نے یہی بات دُہرائی تو اس نے قسم کھا کر پھر انکار کیا۔ اور کہا کہ میں اس آدمی کو نہیں جانتا تھوڑی دیر کے بعد پھر ان لوگوں میں سے جو وہاں کھڑے تھے کسی نے کہہ دیا کہ تو بھی انہی لوگوں میں سے ہے جو اس کے ساتھ ہیں۔ اور تیری بولی سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے اس پر اس نے مسیح ؑ پر *** ڈالی اور قسم کھا کر کہا کہ میں مسیح کو جانتا بھی نہیں(متی باب ۲۶ آیت۲۹ تا ۷۵) غرض دس ہزار چھوڑ دس قدوس بھی حضرت مسیح علیہ السلام کو نہیں ملے۔ صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی ایک ایسی شخصیت ہیں جن کے متعلق تاریخ یہ شہادت دیتی ہے کہ آپ کے ساتھ فتح مکہ کے موقع پر دس ہزار قدوسیوں کا لشکر تھا۔ جو بڑے جاہ وجلال کے ساتھ مکہ میں داخل ہوا اور جس نے اپنی نیکی اور عفو اور اعلیٰ درجہ کے حسنِ سلوک سے مکہ والوں کیدل فتح کر لیئے اور وہ کفر و شرک کو چھوڑ کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی غلامی میں داخل ہو گئے۔
تیسری جدیدہ فاران کی پہاڑیوں پر ظاہر ہونے والی ہے شریعت جدیدہ سے مراد مکہ کی پہاڑیاں ہیں۔ کیونکہ عرب لوگ ہمیشہ سے مکہ کے پاس کے میدان کو دشتِ فاران کہتے چلے آئے ہیں فاران کے معنے درحقیقت دو بھاگنے والوں کے ہیں۔ ااور یہ نام اس جگہ کو حضرت ہاجرہؓ اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی وجہ سے ملا ہے جو بائیبل کے بیان کے مطابق سارہؓ کے ستانے
کی وجہ سے یہاں آکر آباد ہوئے۔
بے شک بائیبل میں مختلف جگہوں کا نام فاران آتا ہے مگر اول تو مختلف جگہوں کے نام فاران آنا ہی اس مار کا ثبوت ہے کہ فاران کی تعیین کے لئے ضروری ہے کہ پیشگوئی کے واقعات کو ملحوظ رکھا جائے۔ اور دیکھا جائے کہ وہ کس فاران پر چسپاں ہوتے ہیں ۔ اگر ایک ہی جگہ کا نام فاران ہوتا تب تو اور بات تھی لیکن چونہ کئی مقامات کا نام فاران آتا ہے اس لئے فاران کی تعیین صرف پیشگوئی کے واقعات سے ہی کی جا سکتی ہے اس کے علاوہ اور کوئی ذریعہ نہیں۔ مثلاً اگر فاران کی پہاڑیوں سے مکہ کی پہاڑیاں مراد نہیں بلکہ کوئی اور مقام مراد ہے تو سوال یہ ہے کہ وہاں کون شخص آیا ہے جس کے ساتھ دس ہزار قدوسی تھے اور کس ہاتھ میں آتشی شریعت تھی اور وہ بھی اس کے داہنے ہاتھ میں عیسائی تو بائیں ہاتھ چلو کے قائل ہیں اگر ان واقعات پر نگاہ ڈالی جائے تو صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی ایک ایسے وجود ثابت ہوتے ہیں جنہیں ایک آتشی شریعت دی گئی۔ جو دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ مکہ میں فاتحانہ طور پر داخل ہوئے اور جنہوں نے ہر کام میں دائیں کو بائیں پر ترجیح دی۔ گویا ان واقعات نے ثابت کر دیا کہ فاران سے صرف وہی فاران مراد ہے جہاں محمد رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ظاہر ہوئے تھے کوئی اور فاران مراد نہیں۔
دوم۔ بائیبل میں مختلف جگہوں کا نام فاران آنا یہ شبہ بھی پیدا کرتا ہے کہ بنی اسرائیل نے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی پیشگوئیوں کو مشتبہ کرنے کے لئے اس قسم کے نام رکھ دیئے ہونگے جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت سے پہلے جب یہود نے اپنے علماء سے سُنا کہ عرب میں ایک نبی مبعوث ہونے والا ہے جس کا نام محمدؐ ہو گا تو انہوں نے بھی اپنے بچوں کے نام محمد رکھنا شروع کر دیا تاکہ وہی اس پیشگوئی کے مصداق ہو جائیں۔ اسی طرح ممکن ہے بنی اسرائیل نے فاران کے متعلق حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیشگوئی کو دیکھتے ہوئے مختلف مقامات کا نام فاران رکھنا شروع کر دیا ہو۔ تاکہ آنے والا وہیں ظاہر ہو۔ مگر لوگوں کے خود ساختہ نام دھرے کے دھرے رہ گئے اور خداتعالیٰ نے جس رسول کو مبعوث فرمایا تھا اُسے پیشگوئی کے مطابق مکہ میں مبعوچ فرمادیا جس کے پاس کے میدان کو عرب لوگ ہمیشہ سے دشتِ فاران کہتے چلے آئے تھے۔
(۳) پھر جس پہاڑ کا نام یہود نے فاران رکھا ہے وہ بھی عرب میں ہی ہے جو اس امر کا ثبوت ہے کہ وہ بھی فاران کو عرب سے باہر نہیں لیجا سکے۔
(۴) پھر بائیبل سے بھی اس امر کا ثبوت ملتا ہے کہ فاران سے مکہ کے پہاڑ ہی مراد ہیں۔ چنانچہ پیدائش باب۲۱ آیت ۲۱ میں حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے:۔
’’ وہ فاران کے بیابان میں رہا اور اس کی ماں نے ملک مصر سے ایک عورت اس سے بیاہنے کو لی۔‘‘
اور صرف مکہ ہی ایک ایسا شہر ہے جس کے رہنے والے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو اپنے شہر کا بانی سمجھتے ہیں اور یہ صرف ایک روایت ہی نہیں بلکہ قوموں کی قومیں اپنے آپ کو ان کی طرف منسوب کرتی ہیں اور ان کے سب آثار وہاں پائی جاتے ہیں۔ بلکہ فتوحاتِ اسلام تک کعبہ میں حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے بُت بھی پائے جاتے تھے پس مکہ والوں کے دعوے کو بہر حال تسلیم کرنا پڑے گا۔ ورنہ یہودیوں اور عیسائیوں کو وہ شہر پیش کرنا چاہیے۔ جس کی بنیاد حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسمٰعیل ؑ نے رکھی ہو۔ اور جس کے رہنے والے اپنے آپ کو حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی طرف منسوب کرتے ہوں۔ اگور اگر کوئی ایسا شہر پیش نہ کر سکیں تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہی وہ فاران ہے جس کے متعلق پیشگوئی کی گئی تھی۔ اس جگہ کے متعلق مکہ والے دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ یہاں رہے اور یہیں ان کے آثار پائے جاتے ہیں لیکن وہ جگہ جسے یہودی اور عیسائی فاران قرار دیتے ہیں اس میں رہنے والے لوگ یہ کبھی نہیں کہتے کہ وہاں حضرت اسمٰعیل آکر رہے تھے حالانکہ لوگ فخر حاصل کرنے کے لئے بلا وجہ بھی ایسی باتوں کو اپنی طرف منسوب کرلیتے ہیں۔
(۵) پھر وہ چشمہ جو حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے لئے خداتعالیٰ نے نکالا تھا وہ بھی مکہ ہی میں ہے جو اس بات کا ایک یقینی اور قطعی ثبوت ہے کہ حضرت اسمٰعیل ؑاور حضرت ہاجرہؓ یہیں آکر آباد ہوئے تھے۔ پھر انجیل میں بھی ایک پیشگوئی قبلہ کے بدلنے کے متعلق پائی جاتی ہے یوحنا باب۴ اایت ۲۰،۲۱ میں لکھا ہے کہ ایک سامری عورت نے جس سے مسیح نے پانی مانگا تھا کہا کہ
’’ہمارے باپ دادوں نے اس پہاڑ پر پرستش کی اور تم کہتے ہو کہ وہ جگہ جہاں پرستش کرنی چاہیے یروشلم میں ہے یسوع نے اس سے کہا اے عورت! میری بات کا یقین رکھ کہ وہ گھڑی آتی ہے کہ جس میں تم نہ تو اس پہاڑ پر اور نہ یروشلم میں باپ کی پرستش کرو گے۔‘‘
اس پیشگوئی میں حضرت مسیح صاف الفاظ میں اعلان فرماتے ہیں کہ ایک زمانہ میں نہ یہ پہاڑ قبلہ رہے گا اور نہ یروشلم بلکہ ان دونوں کو منسوخ کر کے اللہ تعالیٰ ایک تیسرا قبلہ مقر کرے گا۔ ان آیات میں جو پہاڑ پر اور یروشلم میں پرستش کرنے کا ذکر ہے اس سے یہ مراد نہیں کہ یہود سب یروشلم میں جا کر عبادت کیا کرتے تھے اور سامری اس پہاڑ پر عبادت کرتے تھے بلکہ اس سے یروشلم اور اس پہاڑ کو قبلہ بنانا ہی مراد ہے یعنی وہ ان کی طرف منہ کر کے عبادت کرتے تھے پس پہاڑ پر اور یروشلم میں عبادت نہ کرنے کا یہی مطلب ہے کہ آئندہ ان کی طرف منہ کر کے عبادت نہیں کی جائیگی۔
یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح انجیل نے پہاڈ کی طرف منہ کر کے عبادت کرنے کو پہاڑ کی عبادت کرنے کے الفاظ سے ادا کیا ہے اسی طرح قرآن کریم نے بھی قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْھِکَ فِی السَّمَائِ کا محاورہ استعمال کیا ہے جس سے مراد آسمان کی طرف آپ کا منہ کرنا نہیں بلکہ آسمان کی طرف آپ کی توجہ کا مبذول ہونا مراد ہے ان دو پیشگوئیوں کے علاوہ اور بھی بہت سی پیشگوئیاں ہیں جو کعبہ کی ترقی پر دلالت کرتی ہیں۔ مگر مثال کے طو ر پر یہ صرف دو ہی کافی ہیں پس ان پیشگوئیوں کی بنا پر گو یہود پہلے ان کا مطلب نہ سمجھتے ہوں مگر وقوع کے بعد ان کے لئے اس مار کا سمجھنا کچھ بھی مشکل نہ تھا کہ یہ حکم ایک قدیم پیشگوئی کے مطابق ہے اور اس پر اعتراض کرنا اپنی کتب پر اعتراض کرنا ہے۔
اِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُواالْکِتٰبَ لَیَعْلَمُوْنَ اَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّ بِّھِمْ میں اہل کتاب سے مسلمان بھی مراد ہو سکتے ہیں۔ اس لحاظ سے اس آیت کے یہ معنے ہونگے کہ وہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم جیسی کامل کتاب عنایت فرمائی ہے وہ اس حقیقت کو خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ تحویل قبلہ کا جو حکم دیا گیا ہے یہ خدا کی طرف سے ہے نہ اس لئے کہ وہ جانتے تھے کہ کعبہ قبلہ ہو گا۔ بلکہ اس لئے کہ وہ جانتے تھے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سچھے نبی ہیں۔ اور ان پر خدا کا کلام نازل ہوتا ہے ایسی صورت میں یہ ناممکن تھا کہ وہ آپ کے احکام کو منجانب اللہ نہ سمجھیں اور آپؐ کی ہر رنگ میں کامل اطاعت نہ کریں۔
وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُوْنَ۔ فرماتا ہے ہم ان کی حرکات کو خوب جانتے ہیں ان کے بڑے بڑے علماء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت کے قائل ہونے کے باوجود محض ضِد اور تکبر کی وجہ سے انکار کر رہے ہیں ورنہ یہ لوگ جانتے ہیں کہ خانہ کعبہ کی تبدیلی اور بنو اسمٰعیل میں ایک نبی کے آنے کے متعلق ان کی کتابوں میں پیشگوئیاں موجود ہیں مگر پھر بھی یہ لوگ اپنے تکبر کی وجہ سے آپ پر ایمان لانے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔
تحویل قبلہ ہجرت کے بعد کوئی سولہ یا سترہ مہینے گذرنے پر ہوئی ہے ۔ چنانچہ بخاری میں حضرت برائبن عازبؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مدینہ میں تشریف لانے کے بعد سولہ یا سترہ مہینے تک بیت المقدس کی طر ف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے لیکن آپ کو پسند یہی تھا کہ قبلہ بیت اللہ ہو۔ آخر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بارہ میں حکم نازل ہوا اور آپؐ نے پہلی نماز جو کعبہ کی طرف منہ کر کے پڑھی وہ عصر کی نماز تھی۔ ایک شخص جو نماز میں آپ کے ساتھ شامل ہوا تھا۔ وہ نماز سے فارغ ہو کر ایک مسجد کے پاس سے گذرا۔ تو اس نے دیکھ اکہ لوگ رکوع کی حالت میں ہیں۔ اور بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ رہے ہیں اس پر اس نے بلند آواز میں کہا۔ کہ اَشْھَدُ بِاللّٰہِ لَقَدْ صَلَّیْتُ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَمَ قِبَلَ مَکَّۃَ۔ یعنی میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ بیت اللہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی ہے۔ اس پر لوگوں نے نماز کی حالت میں ہی بیت المقدس سے منہ ہٹا کر خانہ کعبہ کی طرف منہ کر لیا(تفسیر ابن کثیر جلد اول برحاشیہ فتح البیان صفحہ۳۲۸) نسائی نے ابو سعیدؓ سے روایت کی ہے کہ ظہر کی نماز تھی جس میں تحویل قبلہ ہوئی ۔ ابو سعید ؓ کہتے ہیں کہ میں اور میرا ساتھی پہلے لوگ ہیں جنہوں نے بیت اللہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی۔
اور کئی مفسرین نے اور بعض دوسرے راویوں نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ ظہر کی نماز کی دو رکعتیں ہو چکی تھی جبکہ یہ حکم نازل ہوا یہ حکم مسجد نبی سلمہ میں نازل ہوا تھا۔ اسی لئے صحابہ ؓ اس مسجد کو مسجد القبلتین کہتے تھے( تفسیر ابن کثیر صفحہ۳۳۸)
اوپر کی روایات سے ظاہر ہے کہ ایک میں تو یہ ذکر ااتا ہے ہے کہ عصر کی نماز میں تحویل قبلہ ہوئی اور دوسری میں یہ ذکر آتا ہے کہ تحویل قبلہ کا حکم ظہر کی نمازمیں نازل ہوا ظہر والی روایت زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ یہ ممکن ہے کہ تحویل قبلہ تو ظہر کے وقت ہوئی ہو اور ایک شخص عصر کی نماز میں آکر شامل ہوا ہو اور اس نے اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے دیکھ کر یہ سمجھ لیا ہو کہ تحویل اب ہوئی ہے کیونکہ عصر کے وقت آنیوالے کا خیال ظہر کی نمازکی طرف نہیں جا سکتا پس ظہر والی روایت کو ترجیح دی جائیگی۔
نویلہ بنت مسلم کی روایت ہے کہ وہ ظہر کی نماز پڑھ رہے تھے کہ یہ خبر آئی بیت اللہ قبلہ ہو گیا ہے یہ بھی پہلی روایت کی تائید کرتی ہے چنانچہ لکھا ہے کہ مرد عورتوں کی جگہ اور عورتیں مردوں کی جگہ ہو گئیں(تفسیر ابن کثیر جلد اول صفحہ۳۳۰) یہ اسلامی حکم ہے کہ مرد آگے ہوں اور عورتیں پیچھے تحویل قبلہ کی وجہ سے چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا رُخ بدلنا پڑا اس لئے مردوں اور عورتوں کو بھی اپنی ترتیب بدلنی پڑی۔ اور عورتیں مردوں کی جگہ چلی گئیں اور مرد عورتوں کی جگہ چلے گئے۔ اس حدیث میں ایسی تفصیل موجود ہے جس کی بن اپر ظہر میں حکم نازل ہونے کا خیال زیادہ صحیح قرار پاتا ہے۔ یہ بھی لکھا ہے کہ اہل قبلا کو دوسرے دن صبح کو اس بات کی اطلاع ہوئی کہ نماز کی جہت بدل گئی ہے۔ اور وہ بھی اس وقت جبکہ وہ نماز پڑھ رہے تھے۔(تفسیر ابن کثیر صفحہ۳۳۰) اسی سے میں یہ استدلال کرتا ہوں کہ اگر ایک میل کے فاصلہ پر بھی دوسرے دن اطلاع پہنچی تو براء بن عازب کو بھی عصر کی تعیین میں غلطی لگ سکتی ہے انہوں نے یہ خیال کر لیا کہ عصر کے وقت تحویل قبلہ ہوئی ہے کیونکہ انہیں عصر کی نماز میں ہی شامل ہونے کا موقعہ ملا۔ اور انہوں نے کسی سے دریافت بھی نہ کیا کہ تحویل قبلہ کب ہوئی ہے خود ہی خیال کر لیا کہ یہ پہلی نماز ہے جس میں تحویل قبلہ ہوئی ہے۔
ان روایات میں بھی یہ کہیں ذکر نہیں آتا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مدینہ میں آکر بیت المقدس کی طرف منہ کیا تھا۔ ورنہ اگر یہ بات درست ہوتی تو جو لوگ آپ کے مدینہ اانے سے پہلے ہواں آچکے تھے۔ ان میں سے کسی کو تو روایت ملتی کہ وہ پہلے مکہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے حقیقت یہی لے کہ آپ مکہ میں بھی بیت المقدس کی طرف منہ کی طرف منہ کیا کرتے تھے۔ اور پھر مدینہ میں بھی سولہ سترہ ماہ تک بیت المقدس کی طرف ہی منہ کر کے نمازیں پڑھتے رہے ۔ پس وہیری کا یہ اعتراض کہ محض یہود کو خوش کرنے کیلئے آپ نے مدینہ میں بیت المقدس کی طرف منہ کیا تھا اور جب یہ مقصد حاصل نہ ہوا تو پھر مکہ کی طرف منہ پھیر لیا بالکل غلط ہے۔ صرف ایک روایت ایسی ہے جو بتاتی ہے کہ نعوذ باللہ یہود کو خوش کرنے کے لئے میدنہ آکر قبلہ بدلا گیا۔ مگر اس روایت کے الفاظ ہی بتا رہے ہیں کہ وہ کسی بد باطن منافق یا یہود کی خود تراشیدہ روایت ہے۔ یہ روایت ابودائود نے اپنی کتاب ناسخ میں حضرت ابن عباسؓ سے بیان کی ہے اور اس کے الفاظ یہ ہیں کہ ۔ اَوَّلُ مَا نُسِخَ مِنَ الْقُرْاٰنِ الْقِبْلَۃُ وَذٰلِکَ اَنَّ مُحَمَّدًا کَانَ یَسْتَقْبِلُ صَخْرَ ۃَ بَیْتِ الْمُقَدَّسِ وَھِیَ قِبْلَۃُ الْیَھُوْدِ نَلسْتَقْبَلَھَا سَبْعَۃَ عَشَرَ شَھْرًا لِیْؤْ مِنُوْابِہٖ وَیُتَّبِعُوْہُ وَیَدْ عُوْا بِذٰلِکَ الْاُمِّیِّیْنَ مِنَ الْعَرَبِ فَقَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لِلّٰہِ الْمُشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَاَیْنَمَا تَوَ لُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ۔ یعنی قرآن کریم کا سب سے پہلا حکم جو منسوخ کیا گیا وہ قبلہ کے بارے میں تھا اور یہ کہ محمد( صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) مدینہ میں تشریف لانے کے بعد صخرۂ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھا کرتے تھے جو یہود کا قبلہ تھا۔ اور آپؐ نے اُس کی طرف سترہ مہینے تک منہ رکھا۔ آُؐ کی بیت المقدس کو قبلہ بنانے کی بڑی غرض یہ تھی کہ (نعوذباللہ) یہود خوش ہو کر ااپ پر ایمان لے آئیں۔ اور آپ کی اطاعت کریں اور آپ اس قبلہ کی طرف اہل عرب کو بھی دعوت دیا کرتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ لِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمِغْرِبُ فَاَیْنَمَا تَوْ لُّوْ فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ۔
اس روایت کے یہ الفاظ کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے نعوذباللہ یہ تبدیلی یہود کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کی تھی واضح طور پر اس امر کا ثبوت ہیں کہ یہ کسی فتنہ پرواز منافق یا کسی خبیث یہودی کی شرارت ہے۔ اُس نے جب دیکھا کہ بیت المقدس کی طرف سے محمد رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے رُخ کو بدل کر خانہ کعبہ کی طرف کر لیا ہے تو اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور اس نے یہ روایت وضع کر کے مسلمانوں میں پھیلا دی کہ بیت المقدس کی طرف منہ تو صرف اس لئے کیا گیا تھا کجہ یہود کو مسلمان بنایا جائے۔ مگر جب یہ تدبیر کا رگر نہ ہوئی تو محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خانہ کعبہ کی طرف منہ کر لیا۔ اور بعض مفسرین نے بھی اپنی نادانی سے اس وضعی روایت کو اپنی تفسیروں میںدرج کر دیا اور لکھ دیا کہ یہود کی تالیف قلب کے لئے ہی بیت المقدس کی طرف منہ کیا گیا تھا۔(تفسیر جامع البیان جلد۲ صفحہ۴)
پھر اس روایت کے وضعی ہونے کا ایک یہ بھی ثبوت ہے کہ اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بجائے صرف محمدؐ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے حالانکہ مسلمان رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو آپؐ کے نام کے بجائے ہمیشہ آپؐ کے رُوحانی مقام سے پکارا کرتے تھے۔ یعنی محمدؐ کہنے کی بجائے ’’رسول اللہ‘‘ کہا کرتے تھے اور غیر مذاہب کے لوگ ایشیائی دستور کے مطابق آپ کا ادب اور احترام اس طرح کرتے تھے کہ بجائے آپ کو محمدؐ کہہ کر بلانے کے ابوالقاسم کہہ کر بلاتے تھے جو آپ کی کنیت تھی۔ احادیث میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ ایک یہودی مدینہ میں آیا۔ اور اس نے آکر آپؐ سے بحث شروع کر دی بحث کے دوران میں وہ بار بار کہتا تھا اے محمدؐ بات یوں ہے اے محمدؐ بات یوں ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بِلا کسی انقباض کے اس کی باتوں کا جواب دیتے تھے مگر صحابہؓ اس کی یہ گستاخی دیکھ کر بے تاب ہو رہے تھے۔ آخر ایک صحابیؓ نے برداشت نہ ہو سکا اور اس نے یہودی سے کہا کہ خبردار آپؐ کا نام لے کر بات نہ کرو۔ تم رسول اللہ نہیں کہہ سکتے تو کم سے کم ابو القاسم تو کہو۔ اس یہودی نے کہا میں تو وہی نام لونگا جو ان کے ماں باپ نے ان کا رکھا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مسکرائے اور آپؐ نے صحابہؓ سے فرمایا۔ دیکھو یہ ٹھیک کہتا ہے میرے ماں باپ نے مرا نام محمدؐ ہی رکھا تھا۔ جو نام یہ لینا چاہتا ہے اسے لینے دو اور اس پر غصہ کا اظہار مت کرو۔
اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ صحابہؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو صرف محمدؐ کہہ کر کبھی نہیں پکارتے تھے بلکہ اگر کوئی غیر مذہب کا پیرو بھی آپؐ کہتا تو وہ انقباض محسوس کرتے جب صحابہؓ کے اخلاص و محبت کا یہ عالم تھا کہ وہ غیروں کے متعلق بھی یہ پسند نہیں کرتے تھے کہ وہ آپؐ کو نام لے کر پکاریں ان کے متعلق یہ تصور بھی کس طرح کیا جا سکتا ہے کہ وہ خود آ پؐ کو محمدؐ کہہ کر پکارتے ہوں۔ پس اس روایت کے یہ الفاظ کہ محمدؐ پہلے صخرہؐبیت المقدس کی طرف منہ کیا کرتا تھا جو یہود کا قبلہ تھا اور سترہ مہینے تاک وہ ایسا ہی کرتا رہا اور اس نے بیت المقدس کی طرف منہ اس لئے کیا تھا کہ وہ یہود کو خوش کرے اور وہ اس پر ایمان لے آئیں اور اس کی اتباع کریں ۔لیکن جب وہ اس ذریعہ سے مسلمان نہ ہوئے تو پھر اس نے مکہ کی طرف منہ کر لیا کود اپنی ذات میں اس امر کا ثبوت ہیں کہ یہ الفاظ کسی مسلمان کے منہ سے نہیںنکل سکتے۔ بلکہ یقیناً کسی یہودی یا کسی منافق کے ہی ہو سکتے ہیں۔ یہودی ہی یہ کہا کرتے تھے کہ سترہ مہینے تک تو ادھر منہ کرتے رہے اب دوسری طرف کرنے لگ گئے ہیں۔ پس یہ الفاظ کسی مسلمان کی طرف منسوب نہیں ہو سکتے۔ مگر یہ روایت وضع کرتے وقت اُسے اتنا بھی خیال نہ رہا کہ میں الفاظ تو ایسے لکھوں جن سے میری دھوکا دہی پر پردہ پڑا رہے۔ چنانچہ اس نے روایت تو بنالی مگر خداتعالیٰ نے اس روایت کے اندر ہی اس سے ایسے الفاظ رکھوا دیئے جن سے اس کی افتراء پردازی کا پردہ فاش ہو گیا اور پتہ لگ گیا کہ اس کے پیچھے کوئی منافق یا کذب بول رہا ہے۔ اُسے اپنے بُغض کی شدت کی وجہ سے اتنا بھی یاد نہ رہا کہ صحابہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو محمدؐ کے لفظ سے نہیں بلکہ نبی یا رسول کے لفظ سے پکارا کرتے ہیں اور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے الفاظ ساتھ استعمال کیا کرتے ہیں اور گو ’’جامع البیان‘‘ میں ’’اَلنَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘‘ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ الفاظ خود مسلمانوں نے اس روایت کو نقل کرتے وقت لگا لئے ہیں لیکن خواہ اس روایت کے یہ الفاظ ہوں کہ اَنَّ مُحْمِّدًاکَانَ یَسْتَقْبِلُ صَخْرَۃَ بَیْتِ الْمُقَدَّسِ یا یہ الفاظ ہوںاَنَّ النَّبِیَّ صَلیَّ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَسْتَقْبِلُ صَخْرَۃَ بَیْتِ الْمُقَدَّسِ دونوں صورتوں میں اس روایت کا مضمون اپنی ذات میں ایسا گندہ اور ناپاک ہے کہ کوئی سلیم الفطرت انسان اسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف منسوب نہیں کر سکتا۔
اِسی طرح بیہقی نے اپنی کتاب’’ دلائل النبوت‘‘ میں زہری سے روایت کی ہے کہ قبلہ کی تحویل مسجد حرام کی طرف ماہ رجب میں ہوئی تھی جبکہ ہجرت کے بعد سولہ مہینے گذر چکے تھے۔ وَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَلِّبُ وَجْھَہُ فِی السَّمَآئِ وَھُوَ یُصَلِّیْ نَحْوَ بَیْتِ الْمُقَدَّسِ اور جب آپ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے تو آپ حالتِ نماز میں ہی بار بار اپنا منہ آسمان کی طرف اُٹھاتے تھے اور چاہتے تھے کہ تحویل قبلہ کے بارے میں کوئی خدائی حکم نازل ہو۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے بیت الحرام کی طرف منہ پھیرنے کا حکم نازل فرما دیا اور یہ آیات نازل فرمائیں کہ سَیَقُوْلُ السُّفَھَآئُ مِنَ النَّاسِ مَا وَ لّٰھُمْ عَنْ قَبْلَتِھِمُ الَّتِیْ کَانُوا عَلَیْھَا۔ اس پر یہود نے یہ کہنا شروع کر دیا قَدِ اشْتَاقَ الرَّجُلُ اِلیٰ بَلَدِہٖ وَبَیْتِ اَبِیْہِ یعنی یہ شخص پھر اپنے وطن اور اپنے باپ دادا کے گھر کا مشتاق ہو گیا ہے۔(ابن کثیر جلد اول صفحہ۳۳۹)یعنی یہ شخص اپنے باپ دادا کے گھر اور اپنی قوم کے دین کا مشتاق ہو گیا ہے اس روایت سے بھی پتہ لگتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور مسلمانوں کا بیت المقدس کی طرف سے منہ پھیرنا یہودیوں پر سخت گراں گذرا تھا۔ اور وہ بڑے زور سے یہ اعتراض کرتے تھے کہ ان مسلمانوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ کبھی اس قبلہ کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھنا شروع کر دیتے ہیں اور کبھی اُس قبلہ کی طرف اور اسی طعنہ زنی کے شوق میں انہوں نے وہ روایت وضع کر لی جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے بہر حال اس روایت سے صاف طور پر پتہ لگتا ہے کہ سَیَقُوْلُ السُّفَھَآئُ مِنَ النَّاسِ مَاوَ لّٰھُمْ عَنْ قِبْلَتِھِمُ الَّتِیْ کَانُوْ اعَلَیْھَا والی آیت قبلہ کے بدلنے کے حکم اور یہود کے اعتراض کے بعد نازل نہیں ہوئیں بلکہ پہلے نازل ہوئی تھیں۔ چنانچہ بعد میں تحویل قبلہ کا حکم نازل ہونے پر یہود نے بھی اعتراضات کئے اور بعض مسلمانوں کے قدم بھی لڑکھڑا گئے اور وہ مرتد ہو گئے یہ مضمون عام تفاسیر کے خلاف ہے لیکن اوپر کی روایت سے بھی اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ سَیَقُوْلُ السُّفَھَآئُ والی آیت پہلے اعتراضات کے جواب میں نہیں بلکہ ان اعتراضات کے رد میں تھیں جو بعد میں لوگوں نے کرنے تھیا ور جن کی قبل از وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیشگوئی کر دی گئی تھی۔
وَلَِئنْ اَتَیْتَ الَّذِیْنَ




اِذًالَّمِنَ الظَّالِمِیْنَo
۶۱؎ تفسیر:۔فرماتا ہے کہ اگر تم اہل کتاب کو ہر قسم کے نشان دکھائو تو وہ پھر بھی تمہارے قبلہ کی پیروی نہ کرینگے اور اس میں کی اشبہ ہے کہ اگر وہ تسلیم کر لیتے تو اس کے معنے یہ تھے کہ وہ بنو اسحاق میں سے سلسلہ نبوت کے ختم ہوجانے کا اقرار کرتے اور اس کے یہ معنے بنتے کہ یہودی مذہب باطل ہو گیا ور اسلام قائم ہو گیا۔ لیکن یہود اس کے لئے تیار نہیں تھے۔ پس اُن کی بے دینی اور مذہبی اور قومی مجبوریاں اُن کو اس قبلہ کی طرف نہیں آنے دیتی تھیں اور وہ انکار پر مصر رہتے تھے۔ یہ آپ بتاتی ہے کہ کبھی کوئی قوم ساری کی ساری نہیں مانا کرتی بلکہ کچھ لوگوں کا ہلاک ہونا ضروری ہوتا ہے چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی غیر معمولی عزت خداتعالیٰ کو منظور تھی اس لئے اس نے تیس برس تک آپ کو کوشاں رکھا اور اس عرصہ میں خبیث گروہ کو اس نے ہلاک کر دیا۔ اور بعد ازاں اہل عرب کو توفیق عطا فرمائی اور وہ آپ پر ایمان لے آئے بہر حال اختلافات کا سلسلہ ہمیشہ سے جاری ہے اور قیامت تک چلتا چلا جائیگا ۔ پس وہ شخص جو اختلافات کو دیکھ کر گھبراتا ہے نہایت بیوقوف ہے۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا اَنْتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَھُمْ کہ تو بھی ان کے قبلہ کی کسی صورت میں پیروی نہیں کریگا۔ یہاں قرآنی حسنِ کلام دیکھو کہ اس فقرہ کو کس طرح اعتراض سے بچایا ہے عام عربی قواعد کے لحاظ سے مَاتَتْبَعُ قِبْلَتَھُمْ کہنا چاہیے تھا مگر اللہ تعالیٰ نے بجائے فعل کے اسم کا استعمال کیا ہے اور فقرہ کی شکل بدل دی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے فقرہ کے ساتھ یہ فقرہ بھی تھا کہ وَلَئِنْ اَتَیْتَ الَّذِیْنَ اُوْتُواالْکِتٰبَ بِکُلِّ اٰیَۃٍ مَا تَبِعُوْا قِبْلَتَکَ کہ وہ ہر قسم کے نشانات دیکھنے کے باوجود تیرے قبلہ کی پیروی نہیں کریں گے۔ اگر اسی قسم کا ملہ بنایا جاتا اور اس میں اسی قسم کا فعل رکھا جاتا تو اس کے معنے یہ بنتے کہ یہ رسول بھی باوجود دلائل کے ان کے قبلہ کا پیرو نہیں ہو گا۔ اور چونکہ یہ قابلِ اعتراض بات تھی اس لئے اس کی بجائے ایک اور چھوٹا سا فقرہ رکھ کر اعتراض دور کر دیا اور بتا دیا کہ اس رسول کا انکار محض اس وجہ سے ہے کہ اُسے خداتعالیٰ کی طرف سے دلائل دیئے گئے ہیں۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کیوں فرمایا کہ مَااَنْتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَھُمْ یہ تو محض ضِد نظر آتی ہے۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ضِد نہیں کیونکہ آپؐ نے خداتعالیٰ کے حکم کے مطابق بیت اللہ کی طرف منہ کیا تھا۔ اگر آپ کو یہود سے ضِد ہوتی تو آپؐ مکی زندگی میں بھی اور پھر ہجرت کے بعد بھی سولہ سترہ ماہ تک بیت المقدس کی طرف کبھی منہ نہ کرتے۔ پس آپ کے اِس فعل نے ثابت کر دیا کہ آپ کو ان سے کوئی ضِد نہیں تھی۔ ہاں یہود کے فعل نے یہ ثابت کر دیا کہ اُن کو ضِد تھی۔ کوینکہ انہوں نے تبدیل قبلہ کے متعلق اپنی کتب میں واضح پیشگوئیاں دیکھنے کے باوجود اس کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ غرض دو وجوہ سے آپؐ پر اعتراض نہیں پڑ سکتا۔ اول اس وجہ سے کہ آپؐ نے سالہا سال تک بیت المقدس کی طرف منہ کیا۔ پس آپؐ کے متعلق نہیں کہا جا سکتا کہ آپؐ میں ضِد پائی جاتی تھی۔ دوم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بیت اللہ کی طرف منہ کیا تو یہ الہام الہٰی کے ماتحت کیا تھا لیکن یہود نے محض ضِد کی وجہ سے اس کا انکار کیا نہ کہ الہام الہٰی کی وجہ سے اس لئے آپؐ کے فعلہ کو ان کے فعل سے کوئی نسبت ہی نہیں ہو سکتی۔
وَمَابَعْضُھُمْ بِتَابِعٍ قِبْلَۃَ بَعْضٍ۔ اب اللہ تعالیٰ اُن کی ضِد کو اور زیادہ واضح کرنے کے لئے فرماتا ہے کہ یہ لوگ ایک دوسرے کے قبلہ کی بھی پیروی نہیں کرتے۔ دراصل یہودیوں اور عیسائیوں کے قبلہ میں بھی فرق ہے یہود کا قبلہ تو یروشلم تھا۔ جیسا کہ نمبر ۱ سلاطین باب ۸ آیت۲۲ تا ۳۰ اور دانیال باب۶ آیت۱۰ سے ظاہر ہے لیکن یہود کا سامری فرق یروشلم کے ایک پہاڑ کی طرف اپنا منہ کیا کرتا تھا جیسا کہ انجیل میں لکھا ہے حضرت مسیح ؑ نے ایک سامری عورت سے کہا کہ
’’میری بات کا یقین رکھ کہ وہ گھڑی آتی ہے کہ جس میں تم نے اس پہاڑ پر اور نہ یروشلم میں باپ کی پرستش کرو گے۔‘‘
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے زمانہ میں کم از کم دو فریق تھے ایک وہ جو یروشلم کے پہاڑ کی طرف منہ کرتے تھے اور دوسرے وہ جو یروشلم کی طرف منہ کرتے تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ مین عیسائی شرق کی طرف اور یہود بیت المقدس کی طرف منہ کرتے تھے۔ چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے کہ جب نجران کے عیسائیوں کا وفد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس آیا تو دورانِ بحث میں اُن کی عبادت کا وقت آگیا۔ اس پر انہوں نے مسجد نبوی میں ہی مشرق کی طرف منہ کیا اور اپنے طریق کے ساتھ عبادت کرلی۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ فَاسْتَقْبَلُوا الْمَشْرِقَ فَصَلُّوْا صَلٰو تَھُمْ(زرقانی جلد ۴ صفحہ۴۱)یعنی انہوں نے مسجد میں ہی مشرق کی طرف منہ کیا اور اپنی عبادت بجا لائے۔ یہ روایت بتاتی ہے کہ اس زمانہ میں عیسائی مشرق کی طرف منہ کیا کرتے تھے۔ مشرق کی طرف منہ کرنے کی وجہ بقول پادری اکبر مسیح یہ تھی کہ چونکہ مشرق میں خداوند مسیح کا ستارہ دیکھا گیا تھا اور خداوند کی پیدائش و حیات و وفات و قیامت سب ارض مقدس میں ہوئی اس لئے مشرق اور اس ملک کی طرف منہ پھیرنا انکو محبوب رہا(سلکِ مرولرید حصہ اول صفحہ۴۵) اس بارہ میں مزید تشریح کے لئے دیکھیں تفسیر کبیر تفسیر سورہ مریم زیر آیت اِذَ ا انْتَبَذَتْ مِنْ اَھْلِھَا مَکَاناً شَرْقیًا۔
غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انہوں نے تمہاری بات کیا ماننی ہے ان میں تو اس قدر تعصب پایا جات اہے کہ ایک کتاب پر ایمان رکھتے ہوئے بھی ان کے قبلوں میں فرق ہے۔ اور جب یہ آپس میں ایک شریعت رکھتے ہوئے ایک دوسرے کی ضد میں دین کی شکل بدلتے جاتے ہیں تو انہوں نے تمہاری طرف کیا میلان رکھنا ہے۔
وَلَئِنِ اتَبْعتَ اَھْوَائَ ھُمْ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر علم رکھنے کے بعد بھی تو ان کی گری ہوئی خواہشات کی پیروی کریگا تو تو یقینا ظالم ہو گا۔ اس آیت پر بعض لوگ اعتراض کیا کارتے ہیں کہ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لئے بھی ممکن تھا کہ آپؐ ان کی خواہشات کی پیروی کر کے ظالم بن جاتے؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ بعض جگہ بظاہر واحد مخاطب کی ضمیر استعمال کی جاتی ہے مگر اس سے ہر انسان مراد ہوتا ہے نہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم۔ قرآن کریم میں اس کے مثال موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُ ھُمَآاَوْکِلٰھُمَا فَلَا تَقُلْ لَّھُمَآ اُفٍّ وَّ لَا نَنْھَرْ ھُمَا وَقُلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا(سورۃبنی اسرائیل آیت۲۴) یعنی اگر تمہارے ماں باپ میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہو جائیں تو تم ان سے نرمی کا برتائو کرو اور انہیں اُف بھی نہ کہو۔ اب اس آیت میں بھی واحد مخاطب کی ضمیر استعمال کی گئی ہے۔ حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ماں باپ بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ اس جگہ ہر انسان کو مخاطب کیا گیا ہے۔ نہ کہ صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اسی طرح اس آیت کییہ معنے ہیں کہ اے قرآن کریم کے پڑھنے والے اگر تو مخالفین اسلام کی گِری ہوئی خواہشات کی پیروی کریگا تو تو ظالم بن جائیگا۔ کیونکہ ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذریعہ ایک یقینی علم نازل کر دیا ہے۔ اگر تو اس سے فائدہ نہیں اُٹھائے گا اور اسے چھوڑ کر دوسروں کے پیچھے چلے گو تو تو اپنے آپ کو نقصان پہنچائیگا۔ ورنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق تو اللہ تعالیٰ واضح طور پر فرماچکا ہے کہ وَمَا اَنْتَ بَتَابِعٍ قِبْلَتَھُمْ تو ان کے قبلہ کی کبھی پیروی نہیں کر سکتا ۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق اللہ تعالیٰ اتنی وضاحت سے ایک بات فرما چکا ہے تو اسی آیت مین اس کے خلاف یہ کیونکر فرما سکتا ہے کہ اگر تو نے ان کی خواہشات کی پیروی کی تو تو ظالموں میں سے سمجھا جائے گا۔ پس اس جگہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نہیں بلکہ عام مسلمان مراد ہیں۔ چنانچہ آجکل ایسا ہی ہورہا ہے کہ مسلمان قرآن کریم کو چھوڑ کر دوسرے علوم کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں جو کہ روزانہ بدلتے ہیں۔ اور اس یقینی علم کو انہوں نے ترک کر دیا ہے۔ جو قرآن کریم کی شکل میں ہے۔
پھر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مجسٹریٹ جب مقدمہ کا فیصلہ لکھواتا ہے تو بعض مقامات پر اس میں مجرم کے خطاب کے الفاظ استعمال کرتا ہے۔ مثلاً وہ کہتا ہے اس جرم میں تجھے اتنے ماہ قید کی سزا دی جاتی ہے اس پر تم کبھی نہیں دیکھو گے کہ فیصلہ کو قلمبند کرنے والا کلرک کھڑا ہو کرشور مچانے لگ جائے کہ مجھے یہ سزا کیوں دی گئی ہے۔ اسی طر یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے ایک فیصلہ کا اعلان فرمایا ہے اور اس سے مراد صرف وہی شخص ہے جو اس فیصلہ کی خلاف ورزی کرے کوئی دوسرا شخص مراد نہیں ہو سکتا۔
اسی طرح کبھی ایسا بھی ہو تا ہے کہ حکم دیتے وقت اپنے کسی قریبی کو مخاطب کرلیا جاتا ہے مگر مراد اس سے دوسرے لوگ ہوہتے ہیں اور اس کو مخاطب اس لئے کیا جاتا ہے کہ اگر میر ا قریب ترین عزیز بھی ایسا کرے گا تو میں اُسے سزا دونگا۔ یہ مراد نہیں ہوتی کہ وہ قریبی ایسا کر سکتا ہے بلکہ اس سے جرم کی اہمیت بیان کرنا اور لوگوں کو ہوشیار کرنا مقصود ہوتا ہے اس جگہ بھی یہ مراد نہیں کہ ایسا کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لئے ممکن ہے بلکہ آپؐ کو اس لئے مخاطب کیا گیا ہے کہ دوسرے لوگوں کو ہوشیار کیا جائے اور انہیں متنبہ کیا جائے کہ اگر کوئی بڑے سے بڑا آدمی بھی ایسا کرے گا تو اسے سزا ملے گی۔ اور اس کا کچھ بھی لحاظ نہیں کیا جائیگا۔ یہ بھی ہوشیار کرنے کا ایک طریق ہوتا ہے۔ جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک موقعہ پر فرمایا کہ میری بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو میں اس کے ہاتھ کاٹ دوں۔ اب اس کا یہ مطلب نہیںتھا کہ حضرت فاطمہؓ بھی چوری کر سکتی تھیں۔ بلکہ مطلب یہ تھا کہ
اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ
وَھُمْ یَعْلَمُوْنَo
دوسرے لوگ ہوشیار ہو جائیں ۔ اور انہیں پتا لگ جائے کہ قانون میں چھوٹے بڑے کا کوئی امتیاز نہیں کیا جا سکتا۔
۶۲؎ تفسیر:۔اللہ تعالیٰ اس آیت میں اہل کتاب کی نسبت فرماتا ہے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اسی طرح پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانا جاتا ہے۔ بیٹے کی پہچان ہمیشہ بیوی کی شہادت پر ہوتی ہے۔ جب ایک خاوند اپنی بیوی کو عفیفہ اور صالحہ سمجھتا ہو تو اس سے پیدا ہونیوالی اولاد کے متعلق وہ ہرگز کسی شبہ میں گرفتار نہیں ہوتا بلکہ اُسے جائز طور پر اپنی نسل سمجھتا ہے۔ یہی بات اللہ تعالیٰ اس جگہ پیش کرتا ہے کہ جب لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت کو اسی طرح پہچانتے ہیں جس طرح وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔ یعنی جس طرح ہر انسان اپنی بیوی کی پاکدامنی پر اعتبار کر تے ہوئے اس کے بطن سے پیدا ہونے والی اولاد کو اپنی اولاد سمجھتا ہے اور کبھی اس واہمہ میں گرفتار نہیں ہوتا کہ شاید یہ کسی اور کی اولاد ہو اسی طرح جن لوگوں نے محمد رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دیانت اور آپ کی راستبازی کو دیکھا ہے اُن کے لئے آپ کی صداقت کی سب سے بڑی دلیل خود آپ کا اپنا وجود ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر یہ وحی نازل ہوئی کہ اَنْذِرْ عَشِیْرَ تَکَ الْاَ قْرَبِیْنَ تو آپ نے مکہ کے تمام قبائل کو جمع کیا اور فرمایا کہ اگر میں تمہیں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک بڑا بھاری لشکر جمع ہے جو تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم مان لو گئے؟ اب باوجود اس کے کہ یہ ایک ناممکن بات تھی کیونکہ اس پہاڑ کے پیچھے میدان تھا اور اس میں کوئی لشکر تو الگ رہا پچاس ساٹھ آدمی بھی نہیں چھپ سکتے تھے۔ مگر پھر بھی انہوں نے کہا ہم تمہاری بات یقینا مان لینگے کیونکہ تم نے آج تک کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ گویا وہ ناممکن بات کو بھی جو آپ کے منہ سے نکلے ماننے کے لئے تیار تھے۔ اس پر آپ نے فرمایا۔ اگر تم میری اس بات کو ماننے کے لئے تیار ہو۔ تو میں تمہیں بتاتاہوں کہ خداتعالیٰ نے مجھے نذیر بنا کر بھیجا ہے اگر تم مجھے نہیں مانو گے تو خداتعالیٰ کے غضب کے نیچے آئو گے۔ اس پر وہ آپؐ کو فریبی اور دغاباز کہتے ہوئے واپس چلے گئے۔ غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اُن میں اس قدر راستباز اور امین مشہور تھے کہ دشمن بھی اقرار کرتا تھا کہ اس شخص سے بڑھ کر سارے مکہ میں کوئی شخص دیانت دار اور راستباز نہیں۔ پھر اگر ایک انسان اپنی بیوی کے سو جھوٹ دیکھ کر بھی اپنے دل میں کوئی وسوسہ پیدا نہیں کرتا توکیا وجہ ہے کہ وہ ایسے شخص پر اعتبار نہیں کرتے جس کا ہر قول سچا اور جھوٹ سے مبرا رہا ہے۔ فرماتا ہے کم سے کم بیٹوں جیسا سلوک تو اس کے ساتھ ہونا چاہیے ۔بیویوں کی سچائی پر تو دو گواہ بھی نہیں ہوتے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سچائی پر تمام مکہ شاہد تھا اور دشمن بھی آُؐ کی راستبازی سے انکار نہیں کرتا تھا۔پھر آپؐ کا انکار کیسے درست ہو سکتا ہے۔
وَاِنَّ فَرِیْقًا مِّنْھُمْ لَیَکْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ۔ فرماتا ہے ان میں سے ایک فریق ایسا ہے جو حق کو چُھپا رہا ہے۔ اُسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی راستبازی کا علم ہے اسے آپ کی دیانت کا علم ہے اسے آپؐ کی امانت کاعلم ہے اور وہ
اَلْحَقُ مِنْ رَّبِّکَ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَo
خوب جانتا ہے کہ یہ شخص جھوٹ اور فریب کے کبھی قریب بھی نہیں گیا۔ مگر باوجود اس کے وہ حق کو چھپاتا رہا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تکذیب پر کمر بستہ ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جب دعویٰ نبوت فرمایا تو اس وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کہیں باہر گئے ہوئے تھے واپس تشریف لائے تو آپ کی ایک لونڈی نے آپ سے کہا کہ آپ کادوست تو(نعوذباللہ)پاگل ہو گیا ہے اور وہ عجیب عجیب باتیں کرتا ہے کہتا ہے کہ مجھ پر آسمان سے فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اُسی وقت اُٹھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مکان پر پہنچے کر آپ کے دروازہ پر دستک دی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم باہر تشریف لائے۔ تو حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کیا۔ل کہ میں آپ سے صرف ایک بات پوچھنے آیا ہوں کیا آپ نے یہ کہا ہے کہ خدا کے فرشتے مجھ پر نازل ہوتے ہیں اور مجھ سے باتیں کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس خیال سے کہ ایسا نہ ہو ان کو ٹھوکر لگ جائے تشریح کرنی چاہی۔ مگر حضرت ابوبکرؓ نے کہا۔ آپؐ تشریح نہ کریں اور مجھے صرف اتنا بتائیں کہ کیا آپؐ نے یہ بات کہی ہے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے پھر اس خیال سے کہ معلوم نہیں یہ سوال کریں کہ فرشتوں کی شکل کیسی ہوتی ہے اور وہ کس طرح نازل ہوتے ہیں؟ پہلے کچھ تمہیدی طور پر بات کرنی چاہی۔ مگر حضرت ابوبکرؓ نے پھر کہا۔ نہیں نہیں آپ صرف یہ بتائیں کہ کیا یہ بات درست ہے؟ آپؐ نے فرمایا ہاں درست ہے اس پر حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا میں آپ پر ایمان لاتا ہوں۔ اور پھر انہوں نے کہا یارسول اللہ! میں نے دلائل بیان کرنے سے صرف اس لئے روکا تھا کہ میں چاہتا تھا کہ میرا ایمان مشاہدہ پر مبنی ہو دلائل پر اس کی بنیاد نہ ہو کیونکہ آپ کو صادق اور راستباز تسلیم کرنے کے بعد کسی دلیل کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ غرض جس بات کو مکہ والوں نے چھپایا تھا اسے حضرت ابوبکرؓ نے اپنے عمل سے واضح کر کے دکھادیا۔
۶۳؎ حل لغات:۔ اِمْتَرَاء کے معنے ہیں (۱) جھگڑا کرنا (۲) شک کرنا
تفسیر:۔ فرماتا ہے۔ یہ صداقت تیرے رب کی طرف سے ہے اور اس نے دنیا میں ایک دن پھیل کر رہنا ہے جس بات کے پورا ہونے کے متعلق انسان کو شبہ ہو اس کے معتلق تو وہ بہانہ بنا کستا ہے کہ شاید وہ ٹل جائے۔ لیکن ہمارا رسول تو جو کچھ کہتا ہے وہ ایک اٹل صداقت ہے جو ایک دن پوری ہو کر رہے گی۔ اور ایسا کیوں نہ ہو جبکہ یہ حق تمہارے رب کی طرف سے ہے جس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ اور جس نے درجہ بدرجہ تمہیں ترقی دیتے ہوئے اس بلند مقام تک پہنچایا گیا ایسی اعلیٰ درجہ کی راویت کرنیوالی ہستی کا کلام کبھی ٹل نہیں سکتا ہے پس اس کو رد کرنیکا کیا فائدہ اس سے تو تمہارا ہی نقصان ہو گا تم اگر رد بھی کرو گے تو یہ تعلیم ضروری پھیل کر رہے گی اس لئے اس کے انکار سے تمہیں کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
میں ابھی چھوٹا تھا کہ میں نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ ایک سٹرک پر جو مدرسہ احمدیہ کے پاس سے مہمان خانہ کو جاتی کبڈی ہو رہی ہے لکیر جو حدِ فاصل ہوتی ہے کھینچی ہوئی ہے اور ہم ایک طرف ہیں اور غیر احمدی دوسری طرف غیر احمدیوں میں سے جوبھی ہماری طرف آتا ہے ہمارے آدمی اسے پکڑ کر بیٹھا لیتے ہیں حتیٰ کہ انکے سارے آدمی ہماری طرف آگئے صرف مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی پیچھے رہ گئے ہیں اسکے بعد میں نے دیکھا کہ انہوں نے بھی دیوار کی طرف منہ کر کے آہستہ آہستہ ہماری طرف چلنا
وَلِکُلٍّ وِّ جْھَۃ’‘
عَلٰی قُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر’‘o
شروع کیا اور جب لکیر پر پہنچے تو کہنے لگے کہ جب سارے ہی آگئے ہیں تو میں بھی آجاتا ہوں اور یہ کہکر وہ بھی ہماری طرف آگئے یہی بات اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمائی ہے کہ یہ صداقت تو دنیا میں غالب آنیوالی ہے اور جب آخر میں تم نے ایمان ہی لانا ہے تو آج ہی کیوں نہیں مان لیتے۔ چنانچہ دیکھ لو آخر مشرکین مکہ فتح کے دن آپؐ کے پاس آئے اتع منتیں کرنے لگے کے ہمیں معاف کر دیا جائے۔ آپؐ نے فرمایا جائو لَاَ تْثِریْبَ عَلَیْکُمْ الْیَوْمَ۔ آج میں تمہیں کوئی سرزنش نہیں کرتا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمایا ہے ع قضائے آسماں است این بہر حالت شود پیدا یعنی یہ تو ایک آسمانی قضا ہے اور اس نے ضرور پورا ہونا ہے پھر تم انکار کر کے اپنی عاقبت کیوں خراب کرتے ہو۔
۶۴؎ حل لغات:۔ وِجْھَۃ’‘ کے تین معنے ہیں (۱)جہت (۲) منہاج یعنی راستہ اور طریق (۳) وہ چیز جس کی طرف انسان توجہ کرے یعنی مقصود۔
اِسْتَبِقُوْا: اِسْتَبَقَ سے جمع کا صیغہ ہے اور اِسْتَبَقَ کے معنے عربی زبان میں اَرَادَ کُلُّ وَاحِدٍ اَنْ یَسْتَبِقَ الْاَخَرَ کے ہیں۔ یعنی ہر ایک نے دوسروں سے آگے نکل جانے کی کوشش کی۔
تفسیر:۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر شخص کا کوئی نہ کوئی مطمح نظر ہوتاہے جو ہر وقت اس کی آنکھوں کے سامنے رہتا ہے اور اسے پورا کرنے کے لئے وہ اپنی تمام مساعی صرف کر دیتا ہے ۔ کبھی وہ تجارت میں ترقی اپنا مقصد قرار دے لیتا ہے کبھی زراعت میں ترقی اپنا مقصد قرار دے لیتا ہے کبھی سیاسی لحاظ سے اقتدار کا حصول وہ اپنا مقصد قرار دے لیتا ہے۔ کبھی سائینس میں ترقی کو اپنا مقصد قرار دے لیتا ہے کبھی بیوائوں اور یتامیٰ اور مساکین کی خدمت کو وہ اپنا مقصد قرار دے لیتا ہے کبھی دین اور مذہب کی اشاعت کو اپنا مقصد قرار سے لیتا ہے غرض ہر شخص کسی نہ کسی مطمح نظر کو اپنے سامنے رکھتا ہے اور اس کے حصول کے لئے وہ ہر قسم کی قربانیوں اور جدوجہد سے کام لیتا ہے نکمے سے نکمے انسان کو بھی دیکھ لو۔ تو معلوم ہوگا کہ وہ ہر وقت کچھ نہ کچھ کرتا رہتا ہے۔ کیونکہ فراغت انسان فطرت مین داخل ہی نہیں۔ یہی حال اقوام کا ہے ہرقوم نے اپنا کوئی مقصد قرار دیا ہوا ہوتا ہے۔ اور وہ اس کے لئے سب کچھ قربان کر دیتی ہے پس جب ہر انسان دنیا میں کچھ نہ کچھ ضرور کرتا ہے اور کسی نہ کسی امر کے متعلق اُسے شغف ہوتا ہے تو تمہارا بھیا یک مطمع نظر ہونا چاہیے ۔ یہ نہ ہو کہ تشتتِ قومی کے ماتحت کوئی کسی مقصد کو اپنے سامنے رکھ لے اور کوئی کسی مقصد کو۔ مُوَ لِّیْھَا میں مفعول کو حذف کر دیا گیا ہے اور اصل عبارت اس طرح ہے کہ وَلِکُلٍّ وِّجْھَۃ’‘ ھُوَ مُوَ لِّیْھَا وَجْھَہ‘۔ یعنی ہر شخص کی کوئی نہ کوئی جہت ہوتی ہے یا ہر شخص کا کوئی نہ کوئی نصب العین ہوتا ہے جس پر وہ اپنی تمام تو جہالت کو مرکوز کر دیتا ہے۔ اور جسے زندگی بھر اپنے سامنے رکھتا ہے اور پورے انہماک اور توجہ سے اسے حاصل کرنیکی کوشش کرتا ہے مگر لوگ تو اپنے مقاصد اپنے لئے خود تجویز کرتے ہیں۔ لیکن ہم اُمت محمدیہ پر رحم کرتے ہوئے خود ہی ایک بلند ترین مطمحِ نظر اس کے سامنے رکھتے ہیں اور ہدایت دیتے ہیں کہ فَاسْتَبِقُوْا الْخَیْرٰتِ۔ تمہارا مطمحِ نظریہ ہوناچاہیے کہ تم نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ اس جگہ نیکیوں میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے کی تحریک فرما کر اللہ تعالیٰ نے قومی ترقی کا ایک عجیب گر بتایا ہے جسے افسوس سے کہ اس زمانہ میں بالعموم مدنظر نہیں رکھا جاتا۔ چنانچہ عام طور پر دیکھا جاتاہے کہ اگر کسی شخص کو نیکیوں میں حصہ لینے کی نصیحت کی جائے یا کسی نیک کام کی ترغیب دلائی جائے تو اس کا جواب یہ ہوتا ہے کہ بس غریبوں پر ہی سارا زور ڈالا جاتا ہے امیروں کو تو کوئی پوچھتا یہ نہیں۔ حالانکہ اگر کوئی بڑا ہے اور وہ نیکیوں میں حصہ نہیں لیتا تو وہ اس کی مثال اپنے سامنے کیوں رکھتے ہیں۔ انہیں تو اچھے نمونے کی اقتداء کرنی چاہیے اور امارت اور غربت پر بنیاد رکھنے کی بجائے ہمیشہ یہ دیکھنا چاہیے کہ نیکی اور تقویی کس میں پایا جاتا ہے اگر ایک غریب میں نیکی پائی جاتی ہے تو وہ اس امیر کے مقابلہ میں جس کے اندر تقویٰ نہیں خداتعالیٰ کے حضور لاکھوں گُنا زیادہ بہتر ہے۔ صحابہؓ کی یہ کیفیت تھی کہ ایک دفعہ غرباء نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس جا کر شکایت کی کہ یا رسول اللہ! جس طرح ہم نمازیں پڑھتے ہیں اسی طرح امراء بھی نمازیں پڑھتے ہیں جس طرح ہم روزے رکھتے ہیں اُسی طرح امراء بھی روزے رکھتے ہیں جس طرح ہم جہاد کرتے ہیں اُسی طرح امراء بھی جہاد کرتے ہیں مگر یا رسول اللہ ایک زائدکام وہ کرتے ہیں کہ وہ صدقہ و خیرات دیتے ہین اور ہم غربت اور ناداری کی وجہ سے اس میں حصہ نہیں لے سکتے ۔ہمیں کوئی ایسا طریق بتائیے جس پر چل کر ہم اس کمی کو پورا کر سکیں۔ آپ نے فرمایا تم ہر نماز کے بعد تینتیس تینتیس دفعہ سُبْحَانَ اللّٰہ اور اَلْھِمْدُ لِلّٰہ اور چونتیس دفعہ اَللّٰہُ اَکْبَرْ کہہ لیا کرو۔وہ بڑے خوش ہوئے اور انہوں نے اس پر عمل شروع کر دیا۔ مگر تھوڑے دنوں میں ہی امیروں کو بھی اس کا پتہ لگ گیا اور انہوں نے بھی تسبیح و تحمید شروع کر دی اس پر غرباء نے پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں شکایت کی کہ یا رسول اللہ! انہوں نے بھی تسبیح و تحمید شروع کر دی ہے اب ہم کیا کریں۔ آپؐ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ کسی کو نیکی کی توفیق دیتا ہے تو میں اس کو کس طرح روک سکتا ہوں۔ یہ تھی ان کی نیکی اور اس میں تسابق کی روح۔ اسیطرح بجائے اس کے کہ انسان اعتراض کرے اور کہے کہ فلاں سے یہ کام کیوں نہیں کروایا جاتا۔ اُسے چاہیے کہ خود اس پر حصہ لے اور دوسروں سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے۔ غرض دنیا میں ہر شخص کا ایک مطمح نظر ہوتا ہے کسی کو کھانے پینے کا شوق ہوتا ہے کسی کو عیش و عشرت کا شوق ہوتا ہے۔ کسی کو تجارت کا شوق ہوتاہے۔ کسی کو اچھے لباس کا شوق ہوتا ہے کسی کو غیبت اور بدگوئی کا شوق ہوتا ہے۔ غرض کوئی انسان نہیں جس نے اپنے لئے کسی نہ کسی چیز کے حصول کوا پنا مقصد قرار نہ دیا ہوا ہو۔ غریب سے غریب اور جاہل سے جاہل بھی اپنے سامنے کوئی نہ کوئی مقصد رکھتا ہے کسی کا مقصد چودھرایت حاصل کرنا ہوتا ہے کسی کا مقصد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا ہوتا ہے کسی کا مقصد سیاسی اقتدار حاصل کرنا ہوتا ہے فرماتا ہے کہ جب کوئی نہ کوئی مقصد ہر انسان کے سامنے ہوتا ہے تو پھر تم وہ بت کیوں نہ کرو جس میں سب اچھی باتیں ا ٓجائیں۔ تمہیں تو تہیہ کر لینا چاہیے کہ کوئی خوبی ایسی نہ ہو جس میں دوسرا ہم سے آگے نکل جائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں ایک دفعہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کا آپس میں جھگڑا ہو گیا۔ جب وہ جُدا ہوئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو افسوس ہوا آپ اِس خیال سے کہ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو کسی اور ذریعہ سے اس کی خبر ہوئی تو آپ کو تکلیف ہو گئی فوراً رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس پہنچے اور عرض کیا یا رسول اللہ! آج ابوبکرؓ سے میرا جھگڑا ہو گیا تھا جس کا مجھے افسوس ہے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو یہ بات سن کر غصہ آگیا اور آپ نے فرمایا تم لوگ کیوں اُسے تکلیف دینے سے باز نہیں آتے جب تم لوگ اسلام کا مقابلہ کر رہے تھے تو وہ مجھ پر ایمان لایا تھا۔ اور اس نے میرا ساتھ دیا تھا حضرت عمرؓ ابھی معذرت ہی کر رہے تھے کہ حضرت ابوبکرؓ کو بھی خیال آیا کہ شاید حضرت عمرؓ میرے متعلق کوئی ایسی بات نہ کردیں جس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مجھ سے ناراض ہو ں اس لئے وہ بھی دوڑ کر آئے کہ میں چل کر حقیقت حال بتائوں۔ کہ میرا نہیں بلکہ عمرؓ کا قصور تھا۔ مگر جونہی آپ دروازہ پر داخل ہوئے آپ نے دیکھا کہ حضرت عمرؓ معذرت کر رہے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اُسی وقت ناراض ہو رہے ہیں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اُسی وقت دوزانو ہو کر بیٹھ گئے اور عرض کیا۔ یا رسول اللہ! فِدَاکَ اَبِیْ وَاُمِّیْ۔ قصور میرا ہی تھا۔ عمر کا قصور نہیں تھا۔ اس طرح آپ نے حضرت عمرؓ پر سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ناراضگی کو دُور کرنے کی کوشش کی۔ یہ تھی اُن کی نیکی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی رُوح کہ قصور حضرت عمرؓ کا ہے مگر معافی حضرت ابوبکرؓ مانگ رہے ہیں تاکہ حضرت عمرؓ پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ناراض نہ ہوں۔
درحقیقت اسلام اور دوسرے مذاہب میں جہاں اور بہت سے امتیازات ہیں جو اُس کی فضیلت کو نمایاں طور پر ثابت کرتے ہیں وہاں ایک بہت بڑا فرق یہ بھی ہے کہ دوسرے مذاہب صرف نیکی کی طرف بلاتے ہیں مگر اسلام استباق کی طرف بلاتاہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔ دنیا میں ہر قوم نے ایک ایک طرف اختیار کر لی ہے اور نیکی کی طرف سے اپنا منہ پھیر لیا ہے ۔ وہ کہتے تو یہی ہیں کہ ہم نیکی کی طرف لے جاتے ہیں لیکن واقعہ میں ایسا نہیں کرتے۔ پس اُن کے اور اطراف کو اختیار کرلینے کی وجہ سے نیکی کی طرف بالکل خالی رہ گئی ہے۔ تم اس کو لے لو اور اول تو نیکی اختیار کرو اور پھر نیکیوں میں اسباق کر۔ اور دوسروںسے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں اسباق کا لفظ رکھا ہے جس میں بظاہر ہر سرعت اور تیزی نہیں پائی جاتی اس لئے کہ اگر دو آدمی سست روی سے جا رہے ہوں اورا یک ان میں سے کسی قدر آگے برھ جائے تو لغت کے اعتبار سے اس نے استباق کر لیا۔ اسی طرح ہر کام میں تھوڑا سا بڑھنے کا نام استباق رکھا جاسکتا ہے لیکن دراصل اس لفظ میں انتہا درجہ کی سرعت اور تیزی سے آگے بڑھنے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ کیونکہ ہر شخص کے لئے یہ حکم ہے کہ وہ استباق کرے۔ اب اگر ایک شخص کوشش سے کچھ آگے بڑھ تو دوسرے کے لئے بھی حکم ہے کہ وہ اس سے آگے بڑھے۔ اور جب وہ اس سے آگے بڑھے گا تو پھر پہلے کو وہی حکم آگے بڑھنے کے لئے تیار کر دے گا۔ غرض ہر ایک کے لئے استباق کا حکم ہے۔ اور ہر شخص جہاں تک انسانی طاقت میں ہے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریگا اور اس طرح اُس کی نیکیوں میں ترقی کرنے کی رفتار بہت تیز ہو جائے گی۔ یوُں فَسْتَبِقُواالْخَیْرٰتِ کی بجائے بعض اور الفاظ بھی رکھے جا سکتے تھے مثلاً فَاسْعَوْا بھی رکھا جا سکتا تھا۔ مگر جو حقیقت فَسْتَبِقُوا میں رکھی گئی ہے وہ کسی اور میں نہیں آسکتی تھی ۔ درحقیقت اس جگہ قرآن کریم اسلام اور دیگر مذاہب کا مقابلہ کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ تمام مذاہب خیرات کی طرف سے غافل ہیں اور خیرات کی حقیقت سے ناواقف ہیں پس اس وقت مسلمانوں کے لئے موقعہ ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کریں۔ یہ لفظ ایسا جامع ہے کہ جس سے بڑھ کر کسی مقصد اور مدعا کی طرف دوڑنے اور اُسے جلدی سے حاسل کرنیکا مفہوم کس اور لفظ سے ادا ہی نہیں ہو سکتا ہو سکتا ہے کہ ایک شخص دوڑے مگر پوری طاقت سے نہ دوڑے۔ جلدی کر مگر جس قدر چاہیے اس قدر جلدی نہ کرے لیکن استباق کے حکم کا اس وقت تک پورا ہونا ناممکن ہے جب تک کہ پورے زور اور پوری طاقت سے کام نہ لیا جائے۔ اس لئے کہ جب ایک شخص سے دوسرا بڑھتا ہے تو اس کو بھی تو حکم ہے کہ آگے بڑھو ۔ اس لئے وہ اس سے زیادہ تیزی سے بڑھے گا۔ پھر پہلے کے لئے حکم آجائیگا کہ تم آگے بڑھو۔ اور وہ اس سے زیادہ تیزی اختیار کریگا۔ حتیٰ کہ جس قدر کسی میں طاقت اور ہمت ہو گی وہ سب اس مین صرف کر دیگا۔ پس استباق بظاہر اپنے اندر تیزی اور دوڑنے اور جلدی کرنے کے معنے نہیں رکھتا مگر حقیقت میں یہ لفظ اس قدر تیزی پر دلالت کرتا ہے کہ جس قدر کسی انسان کی طاقت میں ہوتی ہے دوسرے مذاہب والے کہتے ہیں کہ نیکی کرو۔ مگر اسلام کہتا ہے کہ نیکی کرو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھو۔ یہ کام کوئی معمولی کام نہیں۔ ایک دو کامقابلہ ہو تو کوئی بات بھی ہوتی ہے لیکن یہاں تو لاکھوں کا مقابلہ ہے جب ایک دو کے مقابلہ میں بھی تیاری کی ضرورت ہوتی ہے تو جہاں لاکھوں میں مقابلہ ہو وہاں کتنی بڑی تیاری کی ضرورت ہو گی۔ گھوڑدوڑ میں دیکھ لو کتنی تیاری کی جاتی ہے۔ جب لوگ اس میں حصہ لیتے ہیں تو کتنی کوشش اور تیاری کرتے ہیں لیکن جہاں لاکھوں اور کروڑوں افراد ہوں ہواں تو جتنی تیار کی ضرورت ہو سکتی ہے اسے ہر انسان آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے غرض اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی شناخت کا یہ معیار بیان فرمایا ہے کہ وہ تسابق اختیار کرتے ہیں اور نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش یقینا ہر قم کے معیار کو اتنا بلند لے جاتی ہے کہ اس کا انسان قیاس بھی نہیں کر سکتا۔ جب کبھی نیکی دنیا سے مفقود ہو جائے یا جب کبھی نیکی میں آگے بڑھنے کی رُوح مفقود ہو جائے اس وقت قوم یا تو مرنا شروع ہو جاتی ہے یا گرنا شروع ہو جاتی ہے لیکن جب تک تسابق کی روح کسی قوم میں قائم رہے۔ اپس وقت تک خواہ وہ کتنی بھی ذلت میں پہنچی ہوئی ہو اور کتنی بھی گِری ہوئی ہو پھر بھی اپنی چمک دکھلاتی جاتی ہے اور اس کے لئے موقعہ ہوتا ہے کہ وہ پھر آگے بڑھے۔ہمارے قریب کے بزرگوں میں سے ایسے زمانہ میں جب مسلمانوں پر ایک قسم کے تنزل کی حالت آگئی تھی ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں کہ تسابق کی وجہ سے ان لوگوں کے واقعات سن کر انسان کے دل میں گرمی پیدا ہو جاتی ہے ۔ سید اسمٰعیل صاحب شہید جو تیرھویں صدی میں گذرے ہیں سید اسمٰعیل صاحب بریلوی کے مرید تھے۔ اور سید احمد صاحب بریلوی سکھوں سے جہاد کرنے کے لئے پشاور کی طرف گئے ہوئے تھے۔ سید اسمٰعیل صاحب کسی کام کے لئے دہلی آئے ہوئے تھے ۔ جب دہلی سے واپس جاتے ہوئے کیمبل پور کے مقام پر پہنچے تو کسی نے ان سے ذکر کیا کہ اس دریا کو یہاں سے تیر کر کوئی شخص نہیں گذر سکتا۔ اس زمانہ میں صرف فلاں سکھ ہے جو گذر سکتا ہے مسلمانوں میں سے کوئی اس کا مقابلہ کرنے والا نہیں ۔ وہ وہیں ٹھہر گئے اور کہنے لگے کہ اچھا ایک سکھ ایسا کام کرتا ہے کہ کوئی مسلمان نہیں کر سکتا۔ اب جب تک میں اس دریا کو پار نہ کر لونگا میں یہاں سے نہیں ہلونگا۔ چنانچہ وہیں انہوں نے تیر نے کی مشق شروع کر دی۔ اور چار پانچ مہینے میں اتنے مشتاق ہو گئے کہ تیر کر پار گذرے اور پار گذر کر بتا دیا کہ سکھ ہی اچھے کام کرنے والے نہیں بلکہ مسلمان بھی جب چاہیں ان سے بہتر کام کر سکتے ہیں۔ اس تسابق کی روح کو جب بھی ہم اپنے سامنے لاتے ہیں ہماری روحوں میں ایک پالیدگی پیدا ہو جاتی ہے۔ ہمارے دلوں میں گرمی پیدا ہو جاتی ہے۔ اور ہماری دماغوں میں عزم پیدا ہو جاتا ہے کہ م اپنے مخالف یا مد مقابل یا رقیب سے کسی صورت میں بھی دبینگے نہیں۔ اسلام اس کی ہرگزی اجازت نہیں دیتا کہ ہم نیکیوں کے مقابلہ میں سست ہوں۔ بلکہ نیکی کے میدان میں اپنے باپ اور بھائی سے بھی آگے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ قرآن کریم نے فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ کہہ کر اور ایک جگہ وَالتٰبِقٰتِ سَبْقاً فرما کر اس امر کی طرف اشارہ فرمایاہے کہ اس مسابقت میں سب سے آگے نکلنے کی کوشش کرو۔ ہماری جماعت کو بھی چاہیے کہ ہم میں سے ہر فرد اپنے نفس کو ٹٹولتا رہے اوردین کے ساتھ ایک گہری محبت اور شیفتگی پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ اور سوتے جاگتے، اٹھتے، بیٹھتے بس یہی ایک مقصد اپنے سامنے رکھے کہ ہم نے اسلام کو دنیا میں غالب کرنا ہے۔ جب تک یہ روح ہمارے اندر پیدا نہیں ہوتی اُس وقت تک ہم اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔
اس آیت کا پہلی آیت سے یہ تعلق ہے کہ اوپر یہ بتایا گیا تھا کہ یہود نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مخالفت کو اپنا مقصد قرار دیا ہوا ہے چنانچہ فرمایا تھا کہ وَ لَئِنْ اٰتَیْتَ الَّذِیْنَ اُوْ الْکِتٰبَ بِکُلِّ اٰیَۃٍ مَا تَبِعُوْا قِبْلَتَکَ یعنی اگر تو اہل کتاب کے پاس ہر قسم کا نشان بھی لے آئے تب بھی وہ تیرے قبلہ کی پیروی نہیں کرینگے گویا خواہ ان کے ہاتھ سے خدا جائے یا اس کا رسول جائے انہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مخالفت ضرور کرنی ہے۔ اور یہ نتیجہ ہے اس امر کا کہ انہوں نے اپنا کوئی اعلیٰ مقصد قرار دے لو مگر یہ یاد رکھو کہ کوئی ایک نیکی اپنا مقصد قرار دے لینا کافی نہیں بلکہ الخیرات یعنی سب نیکیوں کو اپنا مقصد قرار دو اور جب بھی تمہیں کوئی نیک بات معلوم ہو بلا کسی اور خیال کے اُس کوحاصل کرنے کی کوشش کرو۔ اور اس سے دُور رہنے کو ہلاکت سمجھو۔ اور دوسری بات یہ مدِ نظر رکھو کہ نیکی کے حصول کے وقت تسابق کو مدنظر رکھو یعنی ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ اور تیسری بات یہ مدنظر رکھو کہ اگر تمہارا قدم دوسروں کی سُستی کی وجہ سے یا تمہاری چستی کی وجہ سے آگے پڑ رہا ہے تو دوسروں سے صرف بعض نیکیوں میں آگے رہنے کو کافی نہ سمجھو بلکہ جس قدر جلد ہو سکے ہر قسم کی خیرات کے حصول کے لئے قدم بڑھائو۔ اسی کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس حدیث میں بھی توجہ دلائی ہے کہ کَلِمَۃُ الْحِکْمَۃِ مَنَا لَّۃُ الْمُوْمِنِ اَخَذَ ھَا حَیْثُ وَجَدَھَا یعنی حکمت کی بات مومن کی ایک گمشدہ متاع ہوتی ہے وہ جہاں سے بھی ملے اسے فوراً لے لیتا ہے۔ اس حدیث میں ایک تو اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ مومن کوئی بات بھی بغیر حکمت کے نہیں کرتا۔ تمام خوبیاں اس کے اندر پائی جاتی ہیں اور تمام نیکیاں اُس کے اندر جمع ہوتی ہیں۔ اور دوسرے اس مار کی نصیحت کی گئی ہے کہ اُسے جب بھی کوئی حکمت کی بات نظر آئے تو وہ یہ دیکھے بغیر کہ یہ کلمہ حکمت کسی کافر کے منہ سے نکلا ہے یا منافق کے منہ سے فوراً اسے اپنی کھوئی ہوئی چیز سمجھ کر حاص کرنے کی کوشش کرے۔ گویا جس طرح ایک کھویا ہوا بچہ اُسے نظر آجائے تو وہ فوراً اسے پکڑنے کی کوشش کرتا ہے اسی طرح وہ بھی لپک کر اس خوبی کو لے لے اور کہے کہ اوہو! یہ تو میری ہی چیز تھی افسوس کہ اسے کافر یا منافق لے گیا ۔ اب یہ میرا کام ہے کہ میں اپنی گمشدہ متاع واپس لوں اور اس اس خوبی کو اپنے اندرپیدا کرنے کی کوشش کروں دُنیا میں بہت سی خرابیاں محض اس وجہ سے پیدا ہوتی ہیں کہ جس کسی کے پاس جتنی نیکی ہوتی ہے وہ اسی پر فخر کرنے بیٹھ جاتا ہے اور مزید خویباں اپنے اندر جمع کرنے کی کوشش نہیں کرتا اوراگر دشمن میں اُسے کوئی خوبی نظر آتی ہے تو کینہ اور بُغض اور حسد کی وجہ سے وہ اسے بھی برا قرار دینے کی کوشش کرتاہے اور یہ نہیں سمجھتا کہ اس کے ایسا کرنے سے دشمن کا تو کوئی نقصان نہیں اس کے پاس تو وہ خوبی ہے ہی نقصان اس کا اپنا ہے ۔کیونکہ بُغض کی وجہ سے وہ اس خوبی کو حاصل نہیں کرسکے گا پس مومن کا کام ہے کہ وہ ہر خوبی اپنے اندر پیدا کرے۔ اور ہر خوبی میں دوسروں سے آگے نکلنے کی کوشش کرے۔
یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اسلام نے اس طرح حسد کی بنیاد رکھی ہے کیونکہ امورِ دینیہ اور امور دنیویہ میں یہ مقابلہ ضروری ہے اس کے بغیر کامل ترقی کبھی حاصل نہیں ہو سکتی۔ تمام ترقی کی بنیاد ہی مقابلہ اقوام و افراد ہے ۔ خود غرضی کی جڑ شریعت اسلام نے کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِ جَتْ لَلنَّاسِ کہہ کر اکھاڑ دی ہے کیونکہ مومن کا فرض قرار دیا گیا ہے کہ وہ جس درجہ تک پہنچے اس پر فوراً دوسروں کو بھی پہنچائے۔ کیونکہ اس کی غرض ہی دوسروں کو نفع پہنچانا ہے۔ اسی طرح فرماتا ہے وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃ’‘ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَآمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ط وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (اٰل عمران آیت۱۰۵) یعنی تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جس کاکام صرف یہ ہو کہ وہ لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے۔ اور اچھی باتوں کی تعلیم دے اور برائیوں سے روکے۔ اور یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہین۔ پس جس خیر کو بھی مومن حاصل کریگا وہ فوراً دوسروں کو بلائے گا کہ جلد آئو اور اس چیز کو حاصل کرو۔ گویا مومنوں کا یہ فرض ہے کہ وہ جب آگے بڑھیں تو پچھلوں کو بھی کھینچ کر اپنے ساتھ ملا لیں۔ پھر آگے بڑھیں تو جو لوگ پیچھے رہ جائیں ان کو دوبارہ کھینچ کر اپنے ساتھ شامل کر لیں۔ پھر دوڑیں اور اس طرح پیچھے رہ جائیں ان کو اپنے ساتھ شامل کریں اور پھر سارے مل کر نیکیوں کے میدان میں دوڑیں۔ اس پر پھر جو ان میں سے آگے نکل جائیں وہ پچھلوں کو کھینچ کر اپنے ساتھ ملا لیں۔ اور اس طرح ایک دوڑ جاری رہے۔ نیکیوں میں سبقت لے جانے والے سبقت لے جائیں اور پیچھے رہ جانے والوں کو ساتھ ملالیں۔ پھر ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کریں اور پھر پچھلوں کو اپنے ساتھ ملائیں اور یہی عشق کی کیفیت ہوتی ہے۔ خداتعالیٰ مومنوں سے یہ خواہش رکھتا ہے کہ وہ اس کے پاس اکیلے نہ آئیں بلکہ دوسروں کو بھی ساتھ لیتے آئیں۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو مصر کی طرف روانہ کرتے وقت کہا تھا کہ تم نے اکیلے نہیں آنا بلکہ بن یا مین کو بھی ساتھ لیتے آنا۔ اسی طرح خداتعالیٰ بھی کہتا ہے کہ تم میرے پاس دوڑ کر آنا اور اکیلے نہ آنا بلکہ میرے دوسرے روحانی بیٹوں کو بھی ساتھ لے کر آنا۔ مومن دوڑتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے حضور جانا ہے وہاں میں اُسے کیا جواب دونگا اس لئے وہ دوسروں کو بھی کھینچ کر اپنے ساتھ ملا لیتا ہے۔
غرض کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لَلنِّاسِ اور وَلْعَکُنْ مِّنْکُمْ اُمِّۃ ٍ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِنے حسد اور خود غرضی کی جڑ کاٹ دی ہے کیونکہ مومن جس خیر کو خود حاصل کریگا وہ فوراً اس میں شامل کرنے کے لئے دوسروں کو بھی بُلائیگا اور اس طرح نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا جہاں ایک لطیف مقابلہ جاری رہیگا وہاں خود غرضی اور حسد کا بھی کوئی شبہ دکھائی نہیں دیگا۔ یہ کیا ہی لطیف مقابلہ مبادرہ اور پھر مجاذنہ ہے۔
اَیْنَماَ تَکُوْ نُوْا یَا تٍ بِکُمُ اللّٰہُ جَمِیْعًا۔ فرماتا ہے تم جہاں کہیں بھی ہو گے آخر ایک دن اللہ تعالیٰ تم سب کو اکٹھا کر کے اپنے پاس لے آئیگا اور تمہیں اپنی سستیوں اور غفلتوں اور لوگوں کو نیکیوں کی دوڑ میں پیچھے چھوڑنے کا جواب دینا پڑے گا۔ پاس اس دن کا تمہیں خیال رکھنا چاہیے اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں کسی قسم کی کوتاہی سے کام نہیں لینا چاہیے وہ تم سے ضرور پوچھے گا۔ کہ جب میں نے تمہیں اسلام جیسی نعمت عطا فرمائی تھی تو تم نے اسے دوسروں تک کیوں نہ پہنچایا۔ اور نیکیوں کی دوڑ میں تم نے دوسروںسے سبقت لے جانے کی کیوں کوشش نہ کی۔ پس تم اس دن کے آنے سے پہلے پہلے تیاری کر لو اور اپنے اعمال کا جائزہ لو۔ ایسا نہ ہو کہ اس دن تمہیں شرمندگی لاحق ہو اور خداتعالیٰ کے حضور تم مجرم قرار پائو۔
اِنَّ اللّٰہَ عَلیٰ کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْر’‘۔ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے تم اس مقصد کو ناقابلِ حصول مت سمجھو۔ جیسا کہ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہماری قسمت میں کہاں رکھا ہے کہ ہم اتنا بڑا مقام حاصل کر سکیں ۔ وہ ہمت سے کام لینا ترک کر دیتے ہیں اور ہاتھ پائوں توڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو کچھ خداتعالیٰ نے ہمارے لئے مقدر کیا ہے وہی کچھ ہمیں ملیگا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انسان پر بڑی طاقتیں رکھی ہیں وہ نیکیوں میں خود بھی بڑھ سکتا ہے اور دوسروں کو بھی کھینچ کر اپنے ساتھ شامل کر سکتا ہے یہ کام ناممکنات میں سے نہیں ہے۔
وَمِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ






وَلَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَo
۶۵؎ حل لغات:۔ خَرَجْتَ:عربی زبان میں خَرَجَ کا لفظ نکلنے کے علاوہ اور معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے چنانچہ(۱) جب خَرَجَ عَلَیْہِ کہیں تو اس اس کے معنے ہوتے ہیں بَرَزَ لِقِتَالِہٖ وہ اس سے جنگ کرنے کے لئے نکلا۔ اگر اس آیت میں یہ معنے مراد لئے جائیں تو یہ لفظ جنگ کرنے کے معنوں مین استعمال ہو گا۔(۲) پھر اس لفظ کے معنے اطاعت ترک کر دینے کے بھی ہوتے ہیں ۔ چنانچہ خَرَجَتِ الرَّ عِیَّۃُ عَلَی الْوَالِیْ کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ خَلَعَتِ الطَّاعَۃَ یعنی رعیت نے والی کی اطاعت چھوڑ دی اور بغاوت اختیار کر لی۔(۳) اسی طرح خَرَجَ الْوَالِیْ عَلَی السُّلْطَانِ کے معنے ہوتے ہیں تَمَرَّدَ یعنی والی نے سلطان کے خلاف سرکشی کی۔
قتال کے معنوں میں قرآن کریم میں بعض دوسرے مقامات پر بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے ۔ چنانچہ سورۃ توبہ آیت ۸۳ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ فَاِنْ رَّجَعَکَ اللّٰہُ اِلٰی طَآئِفَۃٍ مِّنْھُمق فَاسْتَاْ ذَ نُوْکَ لَلْخُرُوْجِ فَقُلْ لَّنْ تَخْرُ جُوْا مَعِیَ اَبَدًا وَّ لَنْ تُقَاتِلُوا مَعِیَ عَدُوًّاط اِنَّکُمْ رَضِیْتُمْ بِالْقُعُوْدِ اَوَّلَ مَرَّ ۃٍ فَاقْعُدُوْامَحَ الْخٰلِفِیْنَ یعنی اگر اللہ تعالیٰ تجھ کو ان میں سے ایک گروہ کی طرف لوٹا لائے اور وہ لوگ تجھ سے خروج کی یعنی کسی آئندہ جنگ میں شامل ہونے کی اجازت مانگیں تو تو ان سے کہہ دے کہ تم کو کبھی بھی آئندہ ہمارے ساتھ جنگ پر جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اور کبھی بھی تم دشمن سے میرے ہمراہ ہو کر لڑنے نہیں پائو گے۔ کیونکہ تم پہلی دفعہ پیچھے بیٹھ رہنے پر راضی ہو گئے تھے۔ پس آئندہ ہمیشہ پیچھے رہ جانے والوں کے ساتھ ہی بیٹھ رہا کرو۔ یہاں خروج بمعنے قتال آیا ہے جیسا کہ لَنْ تُقَاتِلُوا مَعِیَ عَدُوًّا سے واضح ہے۔
حُجَّۃ:۔ اس لفظ کے معنے عربی زبان میں اس دلیل کے ہوتے ہیں جو انسان کو دوسرے پر غالب کر دے۔ قَالَ الْاَ زْھَرِ یُّ اَلْوَجْہُ الَّذِیْ بِہِ الظَّفَرُ یُسَمّٰی حُجَّۃ۔(لسان العرب؟) وَفِیْ اَبِی الْبَقَائِ وَمِنْ حَیْثُ الْغَلَبَۃِ عَلَی الْخَمْمِ یُسَیّٰ حُجَّۃً۔ یعنی ازہری کہتے ہیںکہ وہ دلیل جس سے انسان کو کامیابی حاصل ہو اسے حجت کہتے ہیں اور کلیات ابو البقاء میں لکھا ہے کہ اس کا نام حجۃ اس وجہ سے رکھا گیا ہے کہ اس کے ذریعے دشمن پ رغلبہ حاصل ہوتا ہے غالب کر دینے والی دلیل کے معنے حجۃ کا لفظ حدیث میں بھی استعمال ہوا ہے۔ جیسے دجال کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں اِنْ یَخْرُجْ وَاَنَا فِیْکُمْ فَاَنَا حَجِیْجُہ‘۔ یعنی اگر دجال نے خروج کیا اور میں تم میں موجود ہوا تو میں وہ دلائل اس کے سامنے پیش کرونگا اور ایسی باتیں اس کے سامنے رکھوں گا کہ و ہ شکست کھا جائیگا۔ اس حدیث سے ایک طرف تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حجت کے معنے اس دلیل کے ہوتے ہیں جس سے دشمن ہار جائے اور شکست کھا جائے۔ اور دوسری طرف اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ دجال سے تلوار کی لڑائی نہیں ہو گی کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں کہ میں اس سے بحث کر کے دلائل کے لحاظ سے فتح پائو نگا نہ کہ تلوار کے زور سے پس معلوم ہوا کہ دجال پر حجت کے لحاظ سے غلبہ حاصل کیا جانا مقدر ہے نہ کہ تلوار کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر غیر احمدی علماء اعتراض کیا کرتے ہیں کہ انہوں نے دجال سے تلوار کے ساتھ جنگ کر کے اس کو ہلاک نہیں کیا بلکہ جہاد بالسیف قطعی طور پر منسوخ کر دیا۔ حالانکہ اگر وہ احادیث پر تھوڑا سا بھی غور کریں تو ان پر واضح ہو جائے کہ دجال پر دلائل کے ذریعے ہی غلبہ حاصل کرنا ضروری ہے ورنہ تلوار کے ذریعہ دجال کی ہلاکت کی خبر کسی حدیث میں نہیں دی گئی۔ حُجَّۃ کا لفظ کبھی غلط یا کمزور دلیل کے معنے میں استعمال ہو جاتا ہے بشرطیکہ اس کے ساتھ کوئی قرینہ موجو د ہو۔ جیسے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ حُجَّتُھُم دَاحِضَۃ’‘ عِنْدَ رَبِّھِمُ(شوری آیت۱۷) یعنی ان کی دلیل ان کے رب کے حضور باطل اور ضائع ہونیوالی ہے۔ حُجّۃ کے معنے خالص دلیل کے بھی ہوتے ہیں جیسے قرآن کریم میں آتا ہے اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْ حَآ جَّ اِبْرَاھِیْمَ فِیْ رَبِّٓہٖ(بقرۃ آیت ۲۵۹) یعنی کیا تجھے اس شخص کا حال معلوم نہیں جس نے ابراہیم ؑ سے اللہ تعالیٰ کے بارے میں بحث کی تھی یہاں صرف دلیل کے معنوں میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور اس کا قرینہ یہ ہے کہ دونوں فریق غالب نہیں ہو سکتے۔
اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا۔ اِلَّا کبھی لٰکِنْ کے معنے میں بھی آتا ہے چنانچہ عربی محاورہ ہے مَالَکَ عَلَیَّ حُجَّۃ’‘ اِلَّا اَنْ تَظْلِمَنِیْ اَیْ مَلَکَ عَلَیَّ حُجَّۃ’‘ وَلَکِنَّکَ تَظْلِمُنِیْ(بحر محیط و فتح البیان) عینی تجھے مجھ پر کوئی حجت تو حاصل نہیں ہاں اگر تو مجھ پر ظلم کر ے اور خواہ مخواہ اپنے باطل دعوے کو سچا سمجھے تو اور بات ہے۔
(۲) کبھی اِلّا عاطبہ ہوتا ہے یعنی وائو کے قائم مقام ہو کر آتا ہے اور ماقبل کو مابعد کے ساتھ شریک کرتا ہے جیسے لَئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَیْکُمْ حُجَّۃ’‘ اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَنْھُمْ اور لَا یَخَافُ لَدَ یَّ الْمُرْسَلُوْنَ اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًا بَعْدَ سُوْئٍ میں ہے(مغنی اللبیب)اس لحاظ سے اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا کے معنے ہوں گے وَلَا مَنْ ظَلَمُوا اور اِلَّا مَنْ ظَلَمُوْا کے معنے ہوں گے وَلَا مَنْ ظَلَمَ۔ یعنی اس صورت میں اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا کے معنے یہ ہونگے کہ نہ معقول اور غیر معقول لوگ کوئی بھی ایسی دلیل پیش نہیں کر سکتے جس سے وہ لوگوں میں مسلمانوں کے حق پر ہونے کو مشتبہ کر سکیں۔
تفسیر:۔ وَمِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ کے معنے مفسرین نے یہ کئے ہیں کہ تم جہاں کہیں بھی ہو ہر حالت میں اپنا قبلہ مسجد الحرام کو ہی رکھو اور اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ پہلے حکم سے یہ خیال پیدا ہو سکتا تھا کہ شاید یہ قبلہ صرف مدینہ والوں کے لئے ہی ہو باقی لوگوں کے لئے نہ ہو اس لئے خداتعالیٰ نے فرما دیا کہ تم جہاں کہیں سے بھی نکلو اپنے منہ مسجد الحرام کی طرف پھیر دو۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ خواہ اس آیت میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو خطاب کیا گیا ہو خواہ تمام مسلمانوں کو اس کے معنے قبلہ کی طرف منہ کرنے کے ہو ہی نہیں سکتے۔ اول تو اس لئے کہ وہ نمازیں جو کسی شہر یا گائوں میں رہتے ہوئے ادا کی جاتی ہیں شہر سے نکلتے وقت کی نمازوں سے بالعموم زیادہ ہوتی ہیں۔ ایسی صورت میں حکم وہ دینا چاہیے تھا جس کا زیادہ نمازوں پر اطلاق ہو سکتا۔ نہ کہ ایسا حکم دیا جاتا جس پر عمل کرنے کا امکان سفر کی حالت میں بہت ہی کم ہوتا ہے مثلاً یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص شہر سے دس بجے صبح نکلے یا عصر یا مغرب کے درمیان نکلے یا آدمی رات کے وقت نکلے اور یہ سارے کے سارے اوقات ایسے ہیں جن میں نماز کا کوئی سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ ان حالات میں وَ مِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوْلِّ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کا حکم بے معنی بن جاتا ہے۔ کیونکہ کسی شہر سے نکلتے وقت شاز ہی نماز کا موقعہ ہوتا ہے ۔ بالعموم یا تو انسان اس وقت نماز ادا کر چکا ہوتا ہے یا اگر ادا کرنی ہوتی ہے تو کچھ دیر کے بعد بھی نماز ادا کر سکتاہے۔ بہر حال خروج کے ساتھ نماز کا تعلق نہیں۔ پھر ان معنوں کو اس صورت میں بھی درست تسلیم کیا جا سکتا تھا جب کوئی نماز خروج کے وقت سے بھی خاص طور پر تعلق رکھتی لیکن سب لوگ جانتے ہیں کہ کوئی نماز خروج کے وقت سے تعلق نہیں رکھتی ایسی صورت میں اس آیت کو بارادہ سفر گھر سے نکلنے پر چسپاں کرنا کسی طرح درست نہیں ہو سکتا۔ مزید دلیل اس بات کی کہ مِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ سے مراد نماز میں قبلہ کی طرف منہ کرنا نہیں یہ ہے کہ سفر کی حالت میں تو بعض دفعہ جہت کا سوال بھی اُڑ جاتا ہے اور جدھر منہ ہو اُدھر ہی نماز جائز ہوجاتی ہے۔ مثلاً جب انسان سواری سے اُتر نہ سکے توقرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے عمل سے یہی ثابت ہے کہ اس وقت اس کا جدھر منہ ہو جائے اُدھر ہی نماز جائز ہے ۔چاہے قبلہ کی طرف منہ ہو یا کسی اور طرف اس وقت جہت کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا مشرق مغرب شمال جنوب سب ایک جیسے ہوتے ہیں صرف قلبی توجہ خانہ کعبہ کی طرف ہونی ضروری ہے۔آجکل جب انسان ریل گاڑی میں بیٹھا ہوتا ہے تو اس وقت بھی جہت کی کوئی تخصیص نہیں ہوتی کیونکہ گاڑی کبھی شمال کی طرف کبھی جنوب کی طرف کبھی مشرق کی طرف اور کبھی مغرب کی طرف مڑتی اور چکر کھاتی رہتی ہے۔ اس کی نماز میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا گر مفسرین کے معنوں کو درست سمجھا جائے تو اس حکم پر نہ سوار عمل کر سکتا ہے اور نہ ریل گاڑی پر بیٹھنے والا عمل کر سکتا ہے۔ پس جب خروج میں جہت کی تخصیص بھی قائم نہیں رہتی تو پھر اس آیت سے یہ مراد لینا کہ جہاں کہیں سے بھی تم نکلو خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھو۔ کیسے درست ہو سکتا ہے؟
پھر یہ معنے اس لئے بھی درست نہیں کہ اس آیت کے لفظی معنے یہ بنتے ہیں کہ تم جہاں سے بھی نکلو اپنے منہ مسجد الحرام کی طرف کر لو۔ یا جہاں سے بھی تو نکلے تو اپنا منہ مسجد الحرام کی طرف کر لے۔ اب یہ تو ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ چلتے وقت نماز نہیں پڑھی جا سکتی بلکہ نماز ٹھہر کر ہی پڑھی جا سکتی ہے ہاں اگر اس آیت کے یہ الفاظ ہوتے کہ حَیْثُ مَاکُنْتَ فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ تو جہاں کہیں بھی توجہاں کہیں بھی ہو اپنا منہ مسجد الحرام کی طرف کرلے۔ تب تو یہ معنے صحیح ہو سکتے تھے لیکن یہاں تو یہ فرمایا گیا ہے کہ مِنْ حَیْثُ خَرَجْت فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ یعنی اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم یا اے مسلمانو! جہاں سے بھی تم نکلو اپنے منہ مسجد الحرام کی طرف کر لو۔ اب یہ صاف بات ہے کہ نماز پڑھی جاتی ہے پس معلوم ہوا کہ یہاں نماز پڑھنے کے معنے کرنا کسی صورت میں بھی درست نہیں مفسرین کہتے ہیں کہ اگر نماز اور خروج کا کوئی تعلق تسلیم نہ کیا جائے تو پھر تکرار لازم آتا ہے حالانکہ یہ بھی غلط ہے۔ انہیں قرآن مجید میں تکرار صرف اس لئے نظر آتا ہے کہ وہ قرآن کریم کے صحیح مطالب اور مضامین کے باہمی ربط کو نہیں سمجھ سکے۔ انہیں جہاں بھی کوئی اعتراض نظر آتاہے فوراً ناسخ و منسوخ کی بحث شروع کر دیتے ہیں اور ایک آیت کو ناسخ اور دوسری کو منسوخ قرار دیکر اعتراض سے چھٹکارا حاصل کر لیتے ہیں۔ حالانکہ قرآن کریم کے جو حقائق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دنیا کو بتائے ہیں اگر ان کو مدنظر رکھا جائے تو نہ قرآن کریم میں کوئی تکرار نظر آسکتا ہے اور نہ کسی آیت کو منسوخ قرار دینا پڑتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو جب مکہ مکرم سے نکلالا گیا اس وقت و دشمنانِ اسلام کو یہ اعتراض کرنے کا موقعہ ملا کہ جب آپ دُعائے ابراہیمی کے موعود تھے اور خانہ کعبہ کے ساتھ آپ کا تعلق تھا تو آپ کو مکہ سے کیوں نکال دیا گیا۔ جب آپ کو مکہ سے نکال دیا گیا ہے تو آپ دُعائے ابراہیمی کے کس طرح مصداق ہو سکتے ہیں۔ اس اعتراض کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ مِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِالْحَرَامِ۔ اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! تمہارا مکہ سے یہ نکلنا عارضی ہے ہم تم سے یہ وعدہ کرتے ہیں کہ ہم دوبارہ تمہیں یہ موقعہ دینگے اور تم مکہ پر قابض ہو جائوگے۔ لیکن جہاںاللہ تعالیٰ کے مومن بندوں سے یہ وعدے ہوتے ہیں وہاں وہ ان سے یہ بھی اُمید کرتا ہے کہ وہ اس وعدے کو پورا کرنے کی کوشش کرینگے یہ نہیں کہ خدا اُن سے وعدہ کرے اور وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں اور وہ اس وعدہ کو پورا کرنے کو کوشش نہ کریں اور یہ سمجھ لیں کہ جب خداتعالیٰ نے وعدہ کیا ہے تو وہ اُسے خود پورا کرے۔ ہمیں اُس کے پورا کرنیکی کیا ضرورت ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا کہ اُسے کنعان کا ملک دیا جائیگا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو ساتھ لے کر چل پڑے ۔ جب وہ ملک سامنے آگیا۔ تو آپ نے اپنی قوم سے کہا۔ جائو اور لڑائی کر کے اس ملک پر قبضہ کر لو۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے غلطی سے یہ خیال کر لیا کہ خداتعالیٰ نے یہ ملک ہمیں دینے کا وعدہ کیاہے اس لئے وہ خود ہی اس وعدے کو پورا کرے گا اور یہ ملک ہمارے قبضہ میں دے دیگا۔ ہم نے اگر اس ملک کو فتح کیا تو پھر وعدے کا کیا فائدہ ہوا۔ وعدہ تو خدا نے کیا ہے اس لئے وہ اسے خود پورا کرے۔ ہمین اس کے لئے کسی قسم کی کوشش کی ضرورت نہیں۔ چنانچہ انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہ دیاکہ اِذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا اِنَّا ھٰھُنَاقَاعِدُوْنَ اے موسیٰ! تم ہم سے کہا کرتا تھا کہ یہ ملک خدا تعالیٰ تمہیں دے دیگا۔ اب تمام ذمہ داری تجھ پر ہے یا تیرے خدا پر۔ ہم نے اگر ملک فتح کیا تو پھر تیرے خدا کے وعدوں کا کیا فائدہ۔ چونکہ تو ہمیں بتایا کرتا تھا کہ خداتعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ یہ ملک ہمیں ضرور ملے گا اس لئے اب تو اور تیرا رب دونو جا کر لڑو۔ ہم یہیں بیٹھیں گے۔ جب تم ملک فتح کر کے ہمیں دے دو گے تو ہم اس میں داخل ہو جائیں گے۔ اب بظاہر ان کا کہنا درست معلوم ہوتا ہے اگر کوئی شخص کسی سے کہے کہ میں تمہیں فلاں چیز دونگا۔ اور وہ اس سے آکر وہ چیز مانگے اور وہ آگے سے کہدے کہ جائوبازار سے خرید لو۔ تو سارے لوگ یہی کہیں گے کہ اگر اُس نے بازار سے ہی خریدنی تھی تو پھر اس کے ساتھ وعدہ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ پس بظاہر یہ بات معقول نظر آتی ہے لیکن الہٰی سلسلوں میں یہ اول درجہ کی غیر معقول بات ہے چنانچہ خداتعالیٰ نے بنی اسرائیل کی تعریف نہیں کی۔ اس نے یہ نہیں کہا کہ تمہیں لڑنے کی ضرورت نہیں یہ ہمارے ذمہ ہے کہ ہم یہ ملک لے کر تمہیں دیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ تم نے ہماری ہتک کی ہے اس لئے تمہیں اس ملک سے محروم کیا جاتا ہے۔ جائو چالیس سال تک جنگلوں میں بھٹکتے پھرو۔ تم اس ملک کے وارث نہیں بن سکتے۔ تمہاری نئی نسل اس ملک کی وارث ہوگی۔ کیونکہ تم نے ہماری ہتک کی ہے تو دیکھو یہ چیز انسانی لحاظ سے تو درست اور معقول کہلاسکتی ہے لیکن الہٰی سلسلہ کے لحاظ سے نہایت ہی غیر معقول ہے اور انسان کو عذاب کا مستحق بنا دیتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی انسان وعدہ کرتا ہے تو اُسے تغیرات سماوی اور تغیرات ارضی پر اختیار نہیں ہوتا۔ اس لئے جب بھی وہ وعدہ کرتا ہے تو ایسی چیز کا کرتا ہے جو اس کے اختیار میں ہوتی ہے۔ لیکن خداتعالیٰ کی طرف سے جو وعدہ ہو گا۔ اس کا یہ مطلب ہو گا کہ اگرچہ اُس چیز کا حصول تمہارے لئے ناممکن ہے مگر یہ تمہیں ہماری مدد سے حاصل ہو جائیگی۔ وہ قوم جو فرعون کی سینکڑوں سال تک غلام رہی اس کے لئے اینٹیں بناتی رہی لکڑیاں کاٹتی رہی اور ذلیل سے ذلیل کام کرتی تھی کیسے قبضہ کر سکتی تھی۔ اُسے یہ ملک مل جاناآسان نہیں تھا۔لیکن خدا نے کہا کہ گو یہ ملک حاصل کرنا تمہیں ناممکن نظر آتا ہے لیکن ہیم یہ وعدہ کرتے ہیں کہ ہم یہ ملک تمہیںدینگے اور تم یہ ملک ہماری مدد سے حاصل کر لو گے پس خداتعالیٰ کے وعدے کے یہ معنے نہیں ہوا کرتے کہ چونکہ اس نے وعدہ کر دیا ہے اس لئے بندے کوشش کرنے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جب تم اس چیز کو حاصل کرنے کے لئے تدبیر اختیار کرو گے تو خداتعالیٰ تمہاری مدد کرے گا اور تم کامیاب ہو جائو گے۔ گویا اللہ تعالیٰ کے وعدے جن میں تدبیر شام ہوتی ہے بندے کو ان میں دخل دینا پڑتا ہے اور ان کو پورا کرنے کے لئے کوشش کرنی پڑتی ہے۔ اگر بندہ ان میں دخل نہیں دیگا اور ان کو پورا کرنیکی کوشش نہیں کریگا تو وہ سزا کا مستحق ہو گا۔ لیکن بندے کے وعدہ میں یہ نہیںہوتا ۔بندہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں تمہارے لئے خداتعالیٰ کی تقدیر بدل دونگا۔ کیونکہ وہ اس کے اختیار میں نہیں ہوتی۔ اگر وہ ایسا کہیگا تو ہم اس سے پوچھیں گے کہ تم تقدیر کو بدلنے والے کون ہو۔ لیکن خداتعالیٰ یہ کہہ سکتا ہے کہ اگر تم ایسا کرو گے تو میں تمہاری مدد کرونگا اور اپنی تقدیر کو بدل دونگا۔ کیونکہ تقدیر ایسی چیز ہے جو اس کے قبضہ میں ہے اور وہ جب چاہے اُسے بدل سکتا ہے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو فتح مکہ کا وعدہ دیا گیا ۔ تو ساتھ ہی مسلمانوں کو یہ کہا گیا کہ اے مسلمانو! تم موسیٰ ؑ کی قوم کی طرح یہ نہ سمجھ لینا کہ خدا نے مکہ دے دینے کا وعدہ کیا ہے وہ خود اُسے پورا کریگا۔ ہمیں اس کے لئے تدبیر کرنے کی ضرورت نیہں بلکہ تمہیں بی اس کے پورا کرنے کی کوشش کرنی پڑے گی۔ خدائی وعدے کے یہ معنے ہیں کہ تم کمزور ہو اگر تم کمزور نہ ہوتے تو تم مکہ کو چھوڑ کر کیوں آتے مکہ کو چھوڑنے کے معنے ہی یہ تھے کہ تم کمزور ہو اور تمہارا دشمن مضبوط اور طاقتور ہے لیکن خداتعالیٰ تمہیںطاقت دیگا اور تم دشمن سے مکہ چھین لوگے پس وَمِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کے معنے یہ ہوئے کہ تم جہاں سے بھی نکلویا جس جگہ سے بھیی نکلو تمہار ا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ہم نے مکہ فتح کرنا ہے۔
پھرخروج کے معنے جیسا کہ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے لشکر کشی کے بھی ہوتے ہیں ۔ اس صورت مں آیت کے یہ معنے ہونگے کہ تم جہاں بھی لشکر کشی کرو۔ اس صورت میں آیت کیلئے جاؤ ۔چاہے تم مشرق کی طرف نکلویا جنوب کی طرف نکلو۔ مغرب کی طرف نکلو یا شمال کی طرف نکلو تمہارا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ تمہارا یہ خرچ فتح مکہ کی بنیاد قائم کرنیوالا ہو ۔ مثلاً تم اگر جنوب کی طرف دشمن پر حملہ کرنا چاہو لیکن تمہیں معلوم ہو جائے کہ اس ملک کے مغرب کی طرف اس کے دوست موجود ہیں اور اُن کے متعلق یہ شبہ ہے کہ وہ کہیں پیچھے سے حملہ نہ کریں اور تم پہلے مغرب کی طرف حملہ کرکے اُنکو صاف کر لو ۔ تو اسکے معنے یہ ہونگے ۔کہ یہ مغرب کی طرف حملہ اصل میں جنوب کے حملہ کا پیش خیمہ ہے ۔اسی طرح اگر اس قوم کے ساتھی شمال میں بستے ہوں اور پہلے تم اُن پر حملہ کرو تو تمہارا یہ حملہ اصل میں جنوب کے دشمن پر ہی ہو گا۔ کیونکہ اصل مقصد تمہارا جنوب کے دشمن پر حملہ کرنا ہوگا۔ اسی اصل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔کہ اسے مسلمانو! تم کسی قسم کسی ملک اور کسی علاقے پر چڑھائی کرو تمہارا رخ مکہ کی طفرف ہونا چاہیے ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کو تمہارے ہاتھوں پر فتح کرنا چاہتا ہے ۔چنانچہ جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان میں یہ رنگ نمایاں طورپر پایا جاتا ہے ۔ اور آپکی سب لڑائیوں کا مقصد اعلیٰ فتح مکہ ہی تھا ۔جس جنگ میں آپ یہ مقصد فوت ہوتا دیکھتے یا جس قوم کے متعلق آپ محسوس فرماتے کہ اس سے جنگ کرنے کے نتیجہ میں فتح مکہ میں تاخیر ہو جائیگی ۔وہاں باجود اکسائے جانے کے آپ خوموشی اور چشم پوشی اختیار فرماتے ۔چنانچہ کئی اومیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ کیلئے اُٹھیں اور انہوں نے چھیڑ چھاڑ بھی کی ۔ مگر آپ ہمیشہ اغماض سے کام لیتے رہے لیکن جب کوئی ایسی قوم کھڑی ہوئی جس کو شکست دینے سے فتح مکہ قریب ہو سکتی تھی تو اُس کے ساتھ آپؐ نے ضرور جنگ کی ۔ اگر تمام اسلامی غزوات پر نظر دوڑائی جائے ۔تو معلوم ہو گا کہ وہ اپنے اندر ایک حکیمانہ رنگ رکھتی تھیں بالخصوص فتح مکہ سے پہلے جسقدر جنگیں ہوئیں ۔اُن سب کا مقصد صرف یہی تھا کہ فتح مکہ کا راستہ صاف کیا جائے ۔اگر اس آیت کے یہ معنے ہوتے کہ تم جہاں سے بھی نکلو قبلہ کی طفرف اپنا منہ کرو تو جیسا کہ بتایا جا چکا ہے مِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ کے الفاظ اس آیت میں نہ ہوتے بلکہ ان الفاظ کی بجائے یہ الفاظ ہوتے کہ تم جہاں کہیں ہو قبلہ کی طرف اپنا منہ رکھو۔ قبلہ کی طرف منہ کرنے کے لئے جہاں کہیں کے الفاظ ہونے چاہیے تھے۔ نہ یہ کہ تم جہاں سے بھی نکلو قبلہ کی طرف اپنا منہ پھیر دو۔ کیونکہ لوگ کہیں سے نکلنتے وقت نمازیں نہیں پڑھا کرتے۔ نکلتے وقت تو لوگ چلا کرتے ہیں۔ پاس اس آیت کا نمازوں کی ادائیگی سے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ اس آیت کا صرف یہ مطلب ہے کہ تم جہاں سے بھی نکلو چاہے تم اس مقام سے نکلو جس کا منہ مشرق کی طرف ہو۔ چاہے اس مقام سے نکلو جس کا منہ مغرب کی طرف ہو۔ چاہے اس مقام سے نکلو جس کا منہ شمال کی طرف ہو بہرحال تمہارا منہ مکہ کی طرف ہونا چاہیے۔ یعنی تمہاری توجہ اور تمہارا خیال اور تمہارا ذہن صرف اسی بات کی طف رہنا چاہیے کہ تم نے مکہ فتح کرنا ہے۔ اور وہاں اسلام کو قائم کر کے سارے عرب کو ززیر اثر لانا ہے۔ وُجُوْہ’‘ کے معنے توجہات کے بھی ہوتے ہیں پس اس کے معنی یہ ہیں کہ تمہارا ایک ہی مقصد ہونا چاہیے کہ تم نے خانہ کعبہ کو فتح کرکے اُسے اسلام کا مرکز بنانا ہے۔ کیونکہ جب تک مکہ میں اسلام کا مرکز بنانا ہے۔ کیونکہ جب تک مکہ میں اسلام پھیل نہیں جاتا۔ جب تک مکہ مسلمانوں کے ماتحت نہیں آجاتا اس وقت تک باقی تمام عرب مسلمان نہیں ہو سکتا۔ یہ پروگرام تھا جو مسلمانوں کا مقرر کیا گیا ۔ اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ پروگرام ان کی طاقت سے بہت بالا تھا۔ بے شک عرب کی حکومت کوئی منظم حکومت نہ تھی مگر وہ طوائف الملوکی کی بھی نہیں تھی۔ مختلف بادشاہ اس کے ساتھ تعلق رکھتے اور معاہدات وغیرہ کرتے تھے۔ اسی طرح مکہ گو پوری طرح منظم نہ ہو مگر بہر حال وہ ایک ایسے ملک کا دارالحکومت تھا جس کی آبادی پندرہ بیس لاکھ تھی۔ اردگرد کے تمام قبائل کی نگاہیں اس کی طرف اٹھتی تھیں۔ اور وہ اس کے فیصلوں اور حکموں کو واجب الاطلاعت سمجھتے تھے۔ پھر اس زمانہ کے لحاظ سے وہ ایک بہت بڑا شہر تھا۔ پندرہ سولہ ہزار اس کی آبادی تھی۔ ار نہ صرف اس کی تمام کی تمام آبادی بلکہ ملک بھر کے پندرہ بیس لاکھ آدمی سب کے سب سپاہی تھے۔ فنون جنگ میں بہت بڑی مہارت رکھتے تھے۔ جنگ جو بہادر اور لڑاکے تھے۔ اور مسلمانوں کے لئے ان کا مقابلہ کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ جس وقت یہ آیت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر نازل ہوئی اُس وقت مسلمانوں میں صرف چار پانچسو سپاہی تھے۔ زیادہ سے زیادہ ہزار سمجھ لو۔ اور عورتوں اور بچوں وغیرہ کو ملا کر ان کی کل تعداد گیارہ بارہ ہزار ہوگی۔ اس سے زیادہ مسلمانوں کی تعداد نہیں تھی۔ اور ان کی جنگی طاقت تو بہر حال ناقابلِ ذکر تھے۔ جب اُن کی تعداد کفار کے مقابلے میں کوئی نسبت ہی نہیں رکھتی تھی۔ جب ان کے پاس لڑائی کا کوئی سامان نہ تھا۔ اور جب اُن کی جنگی طاقت کفار کے مقابلہ میں کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتی تھی اللہ تعالیٰ تمام کفار کو چیلنج دیتا ہے کہ یہ مسلمان گو تمہیں تھوڑے دکھائی دیتے ہیں۔ تمہیں کمزور اور ناطاقت نظر آتے ہیں مگر یہی مسلمان ایک دن تمہارے ملک کی فتح کرینگے۔ تمہارے دارالحکومت پر قابض ہونگے اور وہاں ان کو اس قدر غلبہ میسر آجائیگا کہ یہ اسلام کے احکام کو وہاں جاری کرینگے اور کفر کو عرب کی سرزمین سے بالکل مٹا دینگے یہ دعویٰ مسلمانوں کی حالت کے لحاظ سے ایک مجنونانہ دعویٰ تھا اور پھر یہ دعویٰ ایسا تھا جو کسی خاص علاقہ سے مخصوص نہیں تھا۔ بلکہ اس دعویٰ کا اثر وسیع سے وسیع تر تھا کیونکہ نہ صرف اس میں مکہ کو فتح کرنے کی پیشگوئی کی گئی تھی۔ نہ صرف عرب پر غالب آجانے کا اعلان کیا گیا تھا بلکہ عیسائیت کو بھی چیلنج دیا گیا تھا۔ یہودیت کو بھی چیلنج دیا گیا تھا۔ مجوسیت کو بھی چیلنج دیا گیا تھا۔ اور بڑے زور سے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ ان تمام مذاہب کو شکست دے کر اسلام ساری دنیا پر غالب آجائیگا۔ یہ دعویٰ ایک مجنونانہ دعویٰ تھا۔ اسی وجہ سے کفار رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو پاگل کہا کرتے تھے اور صحابہؓ کو بھی وہ پاگل سمجھتے تھے کیونکہ وہ ایک ایسا دعویٰ کر رہے تھے جس کے پورا ہونے کے اس مادی دنیا میں انہیں کوئی اسباب نظر نہیں آتے تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب تک غیر معمولی کاموں کے لئے ہر انسان کے اندر وہ حالت پیدا نہ ہو جائے جسے بعض حالتوں میں طب مانوینسیا کہتی ہے۔ جب تک وہ اور تمام مقاصد کو بھول نہ جائے جب تک اس کے اندر ہر وقت ایک خلش اور بے تابی نہ پائی جائے اور جب تک غیر معمولی کاموں کے لئے اس کے اندر جنون کا سا رنگ پیدا نہ ہو جائے اس وقت تک ان کاموں میں کبھی کامیابی نہیں ہو سکتی۔ اسی کی طرف قرآن کریم نے اس آیت میں توجہ دلائی ہے کہ تم باقی تمام مقاصد کو بھول جائو اور صرف اس مقصد کو اپنے سامنے رکھو کہ ہم نے مکہ کو اسلام کے لئے فتح کرنا ہے۔ جب تک یہ مرکز اور یہ قلعہ تمہیں حاصل نہیں ہو گا سارے عرب اور پھر سار دنیا پر تمہیں غلبہ میسر نہیں آسکے گا۔
یہاں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کیوں کہا کہ تم جس جگہ سے بھی نکلو اپنی توجہ مسجد الحرام کی طرف رکھو۔ یہ کیوں نہیں کہا کہ تم جس طرف بھی حملہ کرو اپنی توجہ مسجد الحرام کی طرف رکھو۔ اس کا جواب یہ ہے کہ خروج کے وقت ہی یہ فیصلہ کیاجاتا ہے کہ ہمارا اس حملہ سے کیامقصد ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ انسان لڑائی تو پہلے شروع کر دے او راس کا مقصد بعد میں سوچے۔ پس چونکہ یہاں فتح مکہ کے مقصد کو سامنے رکھنے کی طرف توجہ دلانا مقصود تھا اس لئے فرمایا کہ تم نکلتے وقت یہ دیکھ لیا کرو کہ ہماری اس جنگ کا اثر فتح مکہ پر کیا پڑے گا۔ اگر وہ جنگ فتح مکہ میں ممدنہ ہو تو اسے چھوڑ دو۔ مگر اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اسلام نے اپنے پیرووں کو جارحانہ جنگ کی اجازت دیتا ہے۔ کیونکہ تاریخ سے ثابت ہے کہ ان آیات کے نزول سے پہلے ہی کفار سے جنگیں شروع ہو چکی تھی۔
یہ امر بھی یاد رکھنا چاہیے کہ مِنْ حِیْثُ خَرَ جْتَ میں صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مخاطب فرمایاگیا ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد اس رنگ میں فتح مکہ کی ضرورت باقی نہیں رہنی تھی کیونک آپؐ کے بعد مکہ پر کوئی حملہ نہیں ہونا تھا بلکہ اس نے کامل طور پر مسلمانوں کے قبضہ میں یہ ہی رہنا تھا۔ گویا اس میں آئندہ کے لئے یہ پیشگوئی کر دی کہ مکہ مکرمہ کی دوبارہ جسمانی فتح نہیں ہو گی کیونکہ مکہ کی عظمت قائم کرنے والی ایک فعال جماعت پیدا کر دی جائے گی۔ اور وہ ہمیشہ مسلمانوں ہی کے قبضہ میں رہیگا۔
وَاِنَّہ‘ لَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ۔ فرماتا ہے کہ یہ بات تو تیرے رب کی طرف سے ہو کر رہنے والی ہے ۔ ان آیات کے نزول کا زمانہ ہجرت کے سولہ ماہ بعد کا ہے۔ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مشکلات ابھی کامل طور پر دُور نہیں ہوئی تھیں۔ اور ابھی کامل طور پر آپ کا رعب اور دبدبہ اور حکومت بھی قائم نہیں ہوئی تھی ۔ ایسی صورت میں بظاہر یہ ایک ہنسی کی بات تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مکہ فتح کر لیں گے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ باتیں بنانے والے اور مخالفین وغیرہ بے شک استہزاء سے کام لیں۔ یہ بات تیرے رب کی طرف سے ہو کر رہے گی اور ان کو بھی توجہ دلائی ہے کہ تم لوگ اس و ناممکن خیال کرتے ہو لیکن اللہ تعالیٰ تمہاری آنکھوں کے سامنے اس پیشگوئی کو پورا کر کے دکھا دیگا۔ پھر یہ فقرہ اس لئے بھی کہا گیا ہے کہ انسان جنگ سے ڈرتا اور گھبراتا ہے اُسے یہ خوف لاحق ہوتا ہے کہ معلوم نہیں فتح نصیب ہو گی یا شکست۔ لیکن جہت مخصوصہ کی طرف ہر وقت متوجہ رہنا انسان کی ہمت کو بڑھا دیتا ہے ۔ چنانچہ جب بھی کسی کے دل میں گھبراہٹ پیدا ہوتی ۔ یہ آیت اس کے لئے تسلی کا موجب ہو جاتی ہے کہ اِنَّہ‘ لَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ یہ بات تمہارے رب کی طرف سے ہو کر رہنے والی ہے۔ اور وہ اس کام میں تمہارا حامی اور مددگار ہو گا۔ اسی طرح رَبُّکَ کہہ کر اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ ہر کام کے کچھ محرک ہوا کرتے ہیں۔ اور بہترین محرک کسی کام کا یہ ہوتا ہے کہ انسان کو اس بات کا احساس ہو کر میرا محسن مجھ سے خواہش رکھتا ہے۔ ایسی حالت میں وہ بسا اوقات اپنی جان تک قربان کر دیتا ہے۔ تمہیں بھی یہ خیال رکھنا چاہیے کہ تمہارا رب جو تمہارا محسن ہے اُس کی یہ خواہش ہے کہ تم مکہ کو فتح کرو۔ پس گویہ بات ایک دن پوری ہو رک رہے گی۔ مگر محسن کے احسان کا بدلہ اتارنا بھی تمہارا کام ہے اس لئے تمہیں اس کے متعلق اپنے سرد ھڑ کی بازی لگا دینی چاہییے اور اس عظیم الشان مقصد کے حصول کے لئے کسی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہیے۔
وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ۔ اس کے یہ معنے نہیں کہ وہ تمہیں سزا دیگا۔ بلکہ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری قربانیوں کو دیکھتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ اسلام اپنے کمال کو نہیں پہنچ جب تک مکہ فتح نہ ہو جائے اس لئے تم اپنی کوشش اور جدوجہد کو جاری رکھو اور فتح مکہ کو کبھی اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دو۔ خداتعالیٰ تمہارے اعمال کو ضائع نہیں ہونے دیگا۔ اس میں مسلمانوں کو قربانیوں کے لئے اُبھارا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ خداتعالیٰ تمہاری قربانیوں کو دیکھتا ہے مگر تمہارے انعام اس وقت تک کمال کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ تم مکہ فتح نہ کر لو۔ سو کوشش کرو کہ مکہ جلد فتح ہو جائے۔ اس میں جتنی دیر ہو گی اتنی ہی تمہاری ترقی پیچھے پڑ جائیگی۔
وَمِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَیْثُ مَاکُنْتُمْ فَوَ لُّوْا وُجُوْھَکُمْ شَطْرَہ‘۔ یورپین کہتے ہیں کہ اس جگہ قرآنی آیات میں تکرارپایا جاتاہے۔ جو فصاحت کے خلاف ہے ۔ جب اس سے پہلے غیر مبہم الفاظ میں یہ حکم دے دیا گیا ہے کہ َمِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَام تواس کے معاً بعد پھر انہی الفاظ کا کیوں تکرار ہے۔ اس اعتراض کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ مخالفین اسلام کی اتنی بات تو درست ہے کہ ان دونوں آیات کے معنوں میں کوئی فرق نہیں لیکن یہ بات درست نہیں کہ ان دونوںکو ایک ہی غرض کے ماتحت بیان کیا گیا ہے ۔ بلکہ ان دونوں کے بیان کرنے کی اغراض مختلف ہیں۔ اگر دونوں جگہ ایک ہی غرض کام کر رہی ہوتی تو پھر تو بے شک تکرار کا اعتراض درست ہوتا لیکن جب کسی نئی غرض کے لئے پہلے کلام کو دہرایا جائے تو وہ حُسنِ کلام کے منافی نہیں ہوتا۔ صرف وہ تکرار قابلِ اعتراض ہوتا ہے جو بغیر غرض اور فائدہ کے ہو لیکن اگر ایک حکم کو بیان کیا جائے اور پھر اس کے دہرانے کی کوئی نئی غرض پیدا ہو جائے تو اُسے تکرار نہیں کہا جاتا۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے ہم بعض دفعہ مجلس میں کہتے ہیں ’’بیٹھ جائو‘‘ پھر تھوڑی دیر کے بعد کہتے ہیں ’’بیٹھ جائو‘‘ پھر کچھ وقفہ کے بعد کہتے ہیں ’’بیٹھ جائو‘‘ اب بظاہر ان الفاظ میں تکرار نظر آتا ہے لیکن جب ہم پہلی مرتبہ یہ الفاظ کہتے ہیں تو ہمارے مخاطب وہ تمام لوگ ہوتے ہیں جو اس وقت کھڑے ہوتے ہیں۔ لیکن جب دوبارہ یہی الفاظ کہتے ہیں تو وہ لوگ مراد ہوتے ہیں جو ابھی تک نہیں بیٹھے ہوتے۔ اور جب ہم تیسری دفعہ کہتے ہیں تو وہ پانچ دس لوگ مخاطب ہوتے ہیں جو ابھی تک کھڑے ہوتے ہیں۔ اب یہاں ایک جملے کا کئی دفعہ بولنا غیر نصیح نہیں اور نہ ہی اسے تکرار کہاجاتا ہے بلکہ ہر فقرہ اپنی ذات میں الگ الگ غرض کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اسیطرح اس آیت میں بھی تکرار نہیں کیونکہ یہاں خداتعالیٰ کا دوسری دفعہ وہی فقرہ لانا اپنے اندر ایک نئی حکمت رکھتا ہے۔ چنانچہ پہلی آیت میں تو صرف یہ بتایا تھا کہ تمہاری لڑائیوں کا نقطہ مرکزی مکہ کی فتح ہونا چاہیے اور دوسری آیت میں فتح مکہ اور تحویل قبلہ کے بارہ میں دونوںحکموں کو جمع کر کے ان کی وجہ بتائی اور وہ لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَیْکُمْ حُجَّۃ’‘ ہے۔ اورحجت سوائے اس کے کہ کوئی قرینہ ہو ایسی دلیل کو کہتے ہیں جو غالب کر دینے والی ہو۔ پس یہ تکرار نہیں بلکہ فقرہ مکمل ہی نہیں ہو سکتا تھا جب تک کہ یہ دونوں باتیں دہرائی نہ جائیں۔ یعنی مکہ فتح نہ ہوا تب بھی تم پر لوگوں کی حجت ہو گی اور اگر ادھر منہ نہ کیا تب بھی حجت ہو گی۔ پس اس کا خیال رکھنا ضروری ہے اگر تم نے مکہ فتح نہ کیا تو تمہاری ترقی کے راستہ میں کئی قسم کی روکیں پیدا ہو جائینگی۔ اور اسلام پر دشمنوں کے اعتراضات کا دروازہ کھلا رہیگا۔ غرض دونوں آیات الگ الگ مقاصد رکھتی ہیں اور دوسری جگہ اس مضمون کو جسے پہلی آیت میں اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا تھا وسیع کردیا گیا ہے۔ اور ان فوائد کو واضح کیا گیا ہے جو فتح مکہ اور تحویل ِ قبلہ کے ساتھ وابستہ تھے۔
اسی طرح دوسری آیت میں دنیا کے تمام مسلمانوں کو مخاطب کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اے مسلمانو! تم جہاں کہیں بھی ہو تمہارا فرض ہے کہ تم خانہ کعبہ کی حفاظت کرو۔ اور اُسے دشمنوں کے حملوں سے بچائو۔ یہ مضمون پہلی آیت میں نہیں تھا پس گو اس آیت میں بھی فتح مکہ کا ہی ذکر ہے مگر پھر بھی اسے تکرار نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس میں جئے اسلوب اور نئے انداز سے فتح مکہ کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے اور اسکے فوائد بیان کئے گئے ہیں۔
پھر ایک اور نقطۂ نگاہ بھی تکرار کے اعتراض کو باطل ثابت کرتا ہے اور وہ یہ کہ پہلی آیت اُن اعلیٰ درجہ کے لوگوں کے لئے ہے جو اخلاقی اور روحانی لحاظ سے دوسرے لوگوں سے بہت بڑھے ہوئے اوراپنے اندر خاص فوضیت رکھتے ہیں یا الفاظ دیگروہ آیت ایسے لوگوں کے لئے ہے جو اخلاق اور رُوحانیت کے لحاظ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات میں مدغم ہیں۔ اور کامل طور پر آپ کے ظل کہلا سکتے ہیں ایسے وجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات میں مدغم ہیں۔ اور کامل طور پر آپ کے ظل کہلا سکتے ہیں۔ ایسے وجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے جدا نہیں بلکہ آپؐ میں ہی شامل ہوتے ہیں۔ اس لئے ان کا ذکر آپؐ سے علٰحیدہ کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ یہ لوگ ایسے تھے کہ اللہ تعالیٰ کو اسن کے متعلق یہ علم تھا کہ ان کے لئے اِنَّہ‘ لَلْحَقُ مِنْ رَّبِّکَ کہہ دینا ہی کافی محرک ہوتا ہے چنانچہ اگر غور سے کام لیا جائے تو دنیا میں دو ہی قسم کے لوگ دکھائی دیتے ہیں ایک تو وہ جو اعلیٰ درجہ رکھتے ہیں اور دوسرے وہ جو ادنیٰ درجہ کے ہوتے ہیں۔ اعلیٰ درجہ کے انسانوں کے لئے باریک باتیں ہی کافی محرک ہو جاتی ہیں لیکن ادنیٰ درجہ کے لوگوں کے لئے قریب کا محرک کام کرتا ہے مثلاً اعلیٰ درجہ کے لوگ جب نماز پڑھتے ہیں تو و ہ اس بات کو اپنے دل کے کسی گوشہ میں بھی نہیں لاتے کہ ان کو نماز کے بدلہ میں کیا ملے گا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہماری نماز خداتعالیٰ کے احسانات کے شکریہ کے طور پر ہے۔ کسی جزا کے لئے نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہم پر پہلے ہی کیا کم احسانات ہیں کہ ہم نماز پڑھ کر اس سے بدلہ کی خواہش رکھیں۔ وہ لوگ اسی کو بہت بڑا احسان اور اللہ تعالیٰ کا فضل سمجھتے ہیں کہ اس نے ہمیں اپنے احسانات کا شکریہ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے لیکن اس کے مقابل پر ادنیٰ درجہ کے لوگ اگر چند دن بھی نمازیں پڑھتے ہیں اور اس کے بعد ان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو جھٹ کہنے لگ جاتے ہیں کہ نمازوں میں کیا رکھا ہے ہم نے تو نمازیں پڑھ پڑھ کر دیکھ لیا ہے کہ ان میں کچھ بھی نہیں۔ ایسے لوگ سودے کے طور پر نمازیں پڑھتے ہیں یہ لوگ بھول جاتے ہیں اس بات کو کہ انکی پیدائش سے بھی پہلے اللہ تعالیٰ نے ان کی ماں کے دل میں محبت رکھی۔ وہ اس بات کو بھی بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی پیدائش کے ساتھ ہی ان کی ماں کی چھاتیوں سے دودھ کے چشمے جاری کر دیئے تھے اور وہ اس بات کو بھی بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی پیدائش کے ساتھ ہی ان کے باپ کے دل میں رافت پیدا کر دی تھی اور اسے روزی کمانے کی توفیق دی وہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دینی و دنیوی ترقی کے لئے انہیں ناک کان آنکھیں دل اور دماغ وغیرہ عطا فرمائے ہیں۔ وہ اس بات کو بھی بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُن کی زندگی کے قیام کے لئے سورج چاند ستارے آگ ہوا پانی زمین اور غذائیں وغیرہ پیدا کی ہیں۔ وہ اس بات کو بھی بھول جاتے ہیں کہ یہ سب انعامات کسی عمل کے نتیجہ میں نہیں ملے بلکہ محض اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کے نتیجہ میں ملے ہیں غرض ایک طرف تو بعض لوگوں کی یہ حالت ہوتی ہے اور دوسری طرف ایسے انسان بھی ہیں جو اپنے دل میں بدلے کا خیال تک نہیں لاتے۔ وہ سوالی بن کر اللہ تعالیٰ سے اپنی ضرورت کے مطابق مانگ تو لیتے یہں مگر اپنے عمل کے بدلہ میں انعام کے طالب نہیں ہوتے۔یہ لوگ نماز روزہ زکوٰۃ اور غریب پروری کے بدلے میں اللہ تعالیٰ سے انعام کے طالب نہیں ہوتے بلکہ اسی کو وہ لوگ انعام سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو شکریہ ادا کرنے کا موقعہ داور توفیق عطا فرمائی۔ یہ لوگ کنگال ہو کر بھی اپنے عمل کے بدلہ میں کسی انعام کے طالب نہیں ہوتے وہ اللہ تعالیٰ سے مانگنا پسند کرتے ہیں مگر عمل کے بدلہ میں انعام طلب نہیں کرتے۔ میں نے کئی دفعہ یاک بزرگ کا واعہ سنایا ہے جو متواتر بیس سال ایک ہی دعا کرتے رہے اور ان کی دعا قبول نہ ہوئی اس عرصہ میں ان کا ایک مرید بھی آگیا۔ وہ بزرک رات کو اُٹھ کر دُعا مانگ رہے تھے کہ انہیں الہام ہوا کہ تمہاری یہ دعا قبول نہیں ہو گی۔ یہ الہام ان کے مرید نے بھی سُن لیا مگر وہ شرم کے مارے چپ رہا اور اس نے زبان سے کچھ نہ کہا دوسری رات پھر اس بزرگ نیدعا کی تو پھر الہام ہوا کہ تمہاری یہ دُعا قبول نہیں ہو گی اور ساتھ ہی مرید کو بھی اس کا پتہ لگ گیا۔ مگر وہ پھر شرم کے مارے چپ رہا تیسری رات پھر وہ بزرگ مصلے پر بیٹھے ہوئے تھے کہ الہام ہوا تمہاری یہ دعا قبول نہیں ہو گی۔ اور مرید نے بھی یہ آواز سن لی۔ وہ خاموش نہ رہ سکا اور اس نے کہا کہ ایک دفعہ دعا قبول نہ ہو یا دو فعہ قبول نہ ہو تو کوئی بات نہیں مگر آپ کو تو کئی بار کہا گیا ہے کہ یہ دُعا قبول نہیں ہو سکتی مگر پھر بھی آپ مانگتے چلے جاتے ہیں اُس بزرگ نے کہا کہ تم تو ابھی سے تھک گے ہو میں تو یہ دعا بیس سال سے متواتر کر رہا ہوں اور بیس سال سے ہی مجھے یہ جواب مل رہا ہے ۔لیکن پھر بھی میں مانگتا ہوں لیکن تم تین دن سے ہی یہ آواز سن کر کہتے ہو کے بس کر۔ میرا کام اللہ تعالیٰ سے مانگنا ہے اور اللہ تعالیٰ کا کام ماننا اور قبول کرنا ہے میں اپنا کام کر تا جائونگا اللہ تعالیٰ اپنا کریگا۔ وہ مانے یا نہ مانے اسکا اپنا اختیار ہے۔ پس اعلیٰ درجہ کے لوگ گھبراتے نہیں وہ اعمال بجا لاتے ہیں مگر اس کے بدلے میں انعام کے طالب نہیں ہوتے۔ ایسے لوگوں کے لئے اِنَّہ‘ لَلْحَقُ مِنْ رَّبِّکَ کہنا ہی کافی تھا۔ یعنی تمہارے رب کی خواہش ہے کہ تم ایسا کرو۔ لیکن دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جو اعلیٰ ایمان لانے والے نہیں یہ لوگ چونکہ کام کرنے سے پہلے یہ کہا کرتے ہیں کہ ہمیں کیا ملے گا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے بھی اس کا ذکر کر دیا کہ فتح مکہ کے نتیجہ میں ان پر کیا کیا انعامات نازل ہونگے چنانچہ فرمایا:۔
لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَیْکُمْ حُجَّۃ’‘ ۔یہ حکم تمہیں اس لئے دیا گیا ہے تاکہ لوگوں کو تمہارے خلاف کوئی دلیل نہ مل جائے۔ یعنی اگر تم مکہ فتح کرنے کے لئے نکلو گے تو سب سے پہلا انعام تم پر خداتعالیٰ کی طرف سے یہ ہو گا کہ آئندہ تم پر لوگ اعتراض نہیں کر سکیں گے اور نہ ہی تمہارے خلاف کوئی دلیل قائم کر سکیں گے۔
دوسرا انعام جو ادنیٰ درجہ کے لوگوں کے لئے بیان کیا گیا ہے وہ وَلِاُ تِمَّ نِعْمَتِیْ ہے۔ یعنی اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ تمہیں حکومت اور بادشاہت عطافرمادیگا۔ اس کا بیان کرنا صرف ادنیٰ درجہ کے لوگوں کے لئے ہی ہے۔ ورنہ اعلیٰ درجہ کے لوگ ان باتوں کی پروا نہیں کرتے کہ ان کو کچھ ملے گا یا نہیں۔
تیسرا انعام لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ کے الفاظ میں بیان فرمایا کہ اس کی غرض کہ تم ہدایت پائو۔ ہدایت دراصل مقصود تک پہنچنے کو کہتے ہیں پس ان الفاظ میں اس لفظ کی طرف اشارہ ہے کہ تم اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو مل جائو گے ۔پہلے تم میں سے خداوند اپنی بیوی سے بیوی اپنے خاوند سے ۔بیٹا اپنے باپ سے اور باپ اپنے بیٹے سے جُدا تھا۔ اب مکہ کی طرف نکلنے میں تمہارا یہ بھی فائدہ ہے کہ تم ان کو مل جائو گے۔ اور وہ سارا جھگڑا جس کے باعث تم ایک دوسرے سے جُدا تھے دُور ہو جائیگا۔ پس ادنیٰ درجہ کے لوگوں کے لئے جو کام کرنے سے پہلے یہ پوچھتے ہیں کہ اس میں فائدہ کیا ہے اللہ تعالیٰ نے تین قسم کے انعامات بیان فرمائے (۱)لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَیْکُمْ حُجَّۃ’‘(۲) وَلِاُ تِمَّ نِعْمَتِیْ(۳) لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ پہلا انعام ذہنی ہے اس کے ذریعہ انسان کو دماغی طور پر اطمینان حاصل ہو جاتا ہے۔ دورسرا انعام مادی ہے یعنی حکومت اور بادشاہت تم کو مل جائیگی ۔ تیسرا انعام دل کے اطمینان کے لئے ہے کہ جب تم رشتہ داروں کو مل جائو گے تو تم کو اطمینانِ قلب حاصل ہو جائیگا۔ غرض پہلا حکم اور غرض سے ہے اور دوسرا اور غرض سے پہلے تو جنگ کا ذکر تھا اور اس کی غرض یہ بتائی تھی کہ اِنَّہ‘ لَلْحَقُّ مِنْ رَّبَّکَ یعنی خدا کا چونکہ وعدہ ہے اس لئے اپنے محبوب کے وعدہ کو پورا کرنے کے لئے تمہیں کوشش کرنی چاہیے۔ گویا ایک اعلیٰ غرض بتائی جو صرف کامل الایمان لوگوں کے سامنے ہوتے ہے مگر ساتھ ہی فرما دیا کہ جس طرح تمہارا اعلیٰ مقصد یہ ہو کہ ہمیں انعامات سے کیا تعلق ہے ہم نے تو اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرنی ہے اور اس کی مرضی کو پورا کرنا ہے۔ اسی طرح میرا اعلیٰ تعلق بھی تو یہ ہے کہ میں تمہارے اعمال سے غافل نہ ہون اور کسی عمل کو ضائع نہ جانے دوں یعنی جب تم کوشش کرو گے تو میری غیرت بھی جوش میں آئیگی اور میں اعلیٰ سے اعلیٰ برکات تم پر نازل کرونگا اس کے بعد دوسری دفعہ اس حکم کو اُن لوگوں کے لئے دہرایا ہے جو ایمان کے لحاظ سے اس اعلیٰ مقام پر فائز نہیں تھے جس پر پہلا گروہ قائم تھا اور بتایا کہ فتح مکہ کے نتیجہ میں یہ تین فائدے تمہیں حاصل ہونگے اول دشمن کا اعتراض جاتا رہیگا۔ دوم فتح دنیوی حاصل ہو کر تمہیں امن میسر آجائیگا۔ سوم تمہارے وہ عزیز اور رشتہ دار جواب بوجہ اختلاف مذہب تم سے جدا ہیں وہ تمہارے ساتھ آملیں گے۔ گویا روحانی اور قلبی تینوں قسم کے آرام تمہیں نصیب ہوجائینگے۔ پس چونکہ اس جگہ پہلی غرض کی نسبت ادنیٰ فوائد مذکور تھے اور پہلی جماعت کی نسبت ایک کمزور جماعت کو شامل کرنا مقصود تھا اس لئے اس کو الگ بیان کیا۔ اور چونکہ یہی فوائد پہلی جماعت کو بھی ملنے والے تھے اس لئے اس کو بھی ساتھ شامل کر دیا۔ پس یہ تکرار نہیں بلکہ دوسری آیت میں ان کمزوروں کا زکر کیا گیا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے کامل ظل نہ تھے اور پہلے حکم میں شامل نہ ہو سکتے تھے او رپھر ان کے لئے وہ فوائد بیان کئے جو ان کے شایانِ شانتھے اور ساتھ ہی پہلوں کو بھی شامل کر لیا کیونکہ ان کو بھی وہ چیزیں ملنے والی تھیں۔ اگر انہیں شامل نہ کیا جاتا تو یہ سوال پیدا ہوسکتا تھا کہ جب یہ انعامات ادنیٰ درجہ کے لوگوں کو ملینگے تو کیا اعلیٰ درجہ کے لوگ ان انعامات سے محروم رہیں گے؟ اس شبہ کے ازالہ کے لئے اللہ عالیٰ نے پہلے ٹکڑہ میں ان کامل الایمان لوگوں کا ذکر کر دیا اور بتادیا کہ گو وہ انعامات کے لالچ میں کوئی کام نہیں کرتے مگر جہاں تک ان فوائد کا تعلق ہے تو فتح مکہ سے وابستہ ہیں وہ ان سے محروم نہیں رہیں گے بلکہ جس طرح دوسرے لوگ فائدہ اٹھائینگے اسی طرح وہ بھی فائدہ اُٹھائیں گے۔
یہ ایک عجیب بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس جگہ حِیْثُ مَاخَرَجْتُمْ نہیں بلکہ حِیْثُ مَا کُنْتُمْ فرمایا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں بعض کمزور ور معذور لوگ بھی تھے جن کی جسمانی کمزوریاں اُن کے نکلنے میں مانع تھیں جیسے لنگڑے یا اپاہج وغیرہ پس ان کو مدنظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے حِیْثُ مَاخَرَجْتُمْ کی بجائے حِیْثُ مَا کُنْتُمْ کے الفاظ استعمال فرما کر یہ ظاہر کیا کہ اس ثواب میں صرف وہی لوگ شریک نہیں ہونگے جو خروج کی طاقت رکھتے ہیں بلکہ وہ بیمار جو چارپائیوں سے ہل نہیں سکتے۔ وہ اپاہج جو چلنے پھرنے کی طاقت نہیں رکھتے وہ بیمار اور کمزور جو اپنی بیماری اور کمزوری جسم کی وجہ سے لڑائی کے ناقابل ہیں اگر وہ فتح مکہ کے لئے دعائیں کرتے رہتے ہیں اور ان کے دل اس حسرت سے پُر ہیں کہ کاش اُن کے اجر کو ضائع نہیں کریگا اور ان کو بھی ویسا ہی ثواب دیا جائیگا یسے عملی طور پر جنگ میں حصہ لینے والوں کو دیا جاتاہے غرض کمزور اور معذور لوگوں کو جو صدمہ ہوتا ہے کہ ہم اس ثواب سے محروم رہے اللہ تعالیٰ نے ان کے اس صدمہ کو دور کرنے کے لئے وَحِیْثُ مَاکُنْتُمْ کے الفاظ استعمال فرما دئے تاکہ ان کو تسلی ہو جائے کہ ہم بھی اس میں شامل ہیں ایک اپاہج اور کمزور آدمی جنگ میں شامل نہیں ہو سکتا۔ مگر وہ رات دن دُعائیں کر سکتا ہے کہ یا اللہ! مسلمانوں کو فتح دے اور انہیں مکہ میں فاتحانہ طور پر داخل فرما یا اگر اس کے پاس کوئی غیر مسلم آجاتا ہے اوروہ اُسے تبلیغ کر کے مسلمان بنا لیتا ہے تو وہ بھی ایسا ہی سمجھا جائیگا جیسے عملی طور پر جنگ میں شامل ہونے والا یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حَیْثُ مَا خَرَ جْتُمْ نہیں بلکہ حَیْثُ مَا کُنْتُمْ فرمایا ہے اور یا پھر اس میں اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کو بھی شامل کر لی اہے جب جنگ نہ ہو۔ اور ہدایت دی ہے کہ جب جنگ کو نکلو تب بھی اور جب گھروں میں ہوتب بھی مکہ کی فتح کو اپنی آنکھوں سے کبھی اوجھل نہ ہونے دو۔ اسی طرح ان الفاظ میں مسلمانوں کو اس امر کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ تم جہاں کہیں بھی ہو تمہارا منہ ہمیشہ مکہ ہی کی طرف رہنا چاہیے۔ یعنی تمہیں ہمیشہ اپنے مرکز کی ترقی اور وہاں کے رہنے والوں کی تعلیم و تربیت اور اصلاح کی طرف توجہ رکھنی چاہیے اور یہ امر مدنظر رکھنا چاہیے کہ اگر مکہ مکرمہ میں کوئی خرابی پیدا ہوئی تو اس کا سارے عالم اسلام پر اثر پڑیگا اور اگر مکہ کی ترقی ہوئی تو اس کا اثر بھی تمام عالمِ اسلام پر پڑیگا۔ کیونکہ لوگوں نے وہاں بار بار حج اور عمرہ کے لئے جانا ہے اور دنیا کے کناروں سے وہاں اکٹھا ہونا ہے۔ پس تمہیں کوشش کرنی چاہیے کہ وہاں کوئی خرابی پیدا نہ ہو۔ اگر وہاں خرابی پیدا ہوئی تو لازماً ساری دنیا پر اس کا اثر پڑے گا چنانچہ دیکھ لو۔ اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق اب تک بعض مخالف یہ کہتے ہیں کہ ہم ان کو اپنے دعوے میں کس طرح سچا سمجھ لیں جبکہ مکہ کے علماء نے بھی آپؐ پر کفر کے فتوے لگائے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مکہ والوں کی اصلاح کی طرف توجہ رکھنا کس قدر ضروری ہے بے شک اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیت اللہ کبھی غیر مسلموں کے ہاتھ میں نہیں جا سکتا۔ مگر اس پر شیطانی حملے تو ہر وقت ہو سکتے ہیں اور ہوتے رہتے ہیں اسی طرح وہاں کے رہنے والوں میں بھی کئی قسم کی خرابیاں پیدا ہو سکتی ہیں پس اس آیت میں مسلمانوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ اے مسلمانو! تم خواہ دنیا کے کسی گوشہ میں رہتے ہو تمہیں ہمیشہ مکہ کی طرف اپنی توجہ رکھنی چاہیے اور اس کی اصلاح اور ترقی کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ افسوس ہے کہ گذشتہ دور میں مسلمانوں نے اس اہم فرض کو نظر انداز کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خود ان میں بھی کگئی قسم کی خرابیاں پیدا ہو گئیں۔ میں جب اسلامی تاریخ کو پڑھتا ہوں تو مجھے یہ دیکھ کر حیرت آتی ہے کہ مکہ اور مدینہ کی آبادی تو چند ہزار یا ایک لاکھ کے ارد گرد گھومتی رہی۔ مگر بغداد، دمشق اور قاہرہ کی آبادی اور ایران اور ہندوستان کے اسلامی شہروں کی آبادیاں بیس بیس لاکھ تک پہنچ گئیں۔ میں سمجھتا ہوںاسلام کے تنزل میں اس بات کا بھی بڑا دخل تھا کہ مسلمانوں میں اپنے مذہبی مرکز میں بسنے کی خواہش اتنی نہ رہی جتنی خواہش ااتنی نہ رہی جتنی خواہش انہیں دارالحکومت میں بسنے کی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بنیاد چھوٹی رہی اور عمارت بڑی ہو گئی اور چھوٹی بنیاد پر بڑی عمارت قائم نہیں رہ سکتی۔ ہر انسان کے اندر بعض خوبیاں بھی ہوتی ہیں اور بعض برائیاں بھی۔ اگر وہ بعض غلطیاں کر جاتا ہے تو وہ بعض اچھی باتیں بھی کرتا ہے۔ ہٹلر جو جرمنی کا سابق لیڈر تھا اور جس نے اپنی قوم کی ترقی کے لئے بڑی جدوجہد کی ۔ اگر اس کے اندر اسلام ہوتا تو وہ یقینا بہت بڑا آدمی ہوتا۔ مگر بوجہ اس کے کہ اس کی تربیت کرنیوالا مذہب نہیں تھا وہ بہت سے غلطیوں کا شکار ہوا اور وہ قوم کو ترقی کی طرف لے جانے کی بجائے اُسے تنزل میں دھکیلنے کا موجب ہو گیا۔ وہ چونکہ انجنیئر تھا اس لئے تعمیر سے تعلق رکھنے والی باتیں اس کے لئے زیادہ نصیحت کا موجب ہوا کرتی تھیں اس نے اپنی کتاب ’’مائنے کا لف‘‘ میں جس میں وہ اپنا پروگرام پیش کرتا ہے لکھا ہے اور اس بات پر لمبی بحث کی ہے کہ یورپ میں اگر کوئی قوم بڑھنے کا حق رکھتی ہے تو وہ صرف جرمن قوم ہے اور اس کی وجہ وہ یہ بتاتا ہے کہ جو بڑی عمارت ہو وہ بڑی بنیاد پ رہی قائم رہ سکتی ہے۔ تم اگر چارفٹ چوڑی بنیاد رکھو اور اُس پر چھ فٹ چوڑی دیوار بنا دو تو دیوار گر جائیگی لیکن اگر چار فٹ بنیاد رکھو اور تین فٹ چوڑی دیوار بنائو تو وہ زیادہ مضبوط ہو گی۔ مضبوط عمارتیں بنانے کے لئے ضروری ہے کہ بنیادیں چوڑی رکھی جائیں سو مربع فٹ میں عمارت کھڑی کرنی ہو تو سوا سو مربع فٹ میں بنیاد رکھنی چاہیے۔ چنانچہ دیکھ لو اہرام مصر ہزاروں سال سے کھڑے ہیں جس کی وجہ یہی ہے کہ وہ مثلث شکل میں بنائے گئے ہین ان کی چوٹی صرف چند مربع گز کی ہے لیکن بنیاد ہزاروں مربع گز میں ہے۔ یہ عمارتیں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بھی سینکڑوں سال قبل کی بنی ہوئی ہیں اور کسی نے ان کی مرمت تک نہیں کی لیکن وہ اب تک قائم ہیں۔ نیچے بنیادیں پچاس پچاس ایکڑزمین میں ہیں۔ اور اوپر چوٹی صرف چند مربع گز کی ہے۔ بوجھ توازن کے ساتھ قائم رہتا ہے اور عمارتیں گرتی نہیں ہٹلر کہتا ہے کہ جرمن اور ملکوں سے بڑا ہے۔ اس کی آبادی آٹھ کروڑ ہے۔ انگلینڈ کی آبادی چار کروڑ ہے ۔ سپین کی آبادی چار کروڑ ہے ۔ فرانس کی آباد چار کروڑ ہے اٹلی کی آبادی چار کروڑ ہے۔ اگر یہ مملک پھیلنا شروع کریں تو چار کروڑ سے اوپر نکل کر انکی طاقت کمزور ہو جائے گی اور باہر کی آبادیاں ان سے طاقتور ہو نے لگیں گی۔ لیکن جرمن کی بنیاد بڑی ہے اور اس کا خیال تھا کہ اس بنیاد کو بڑا کرنے کے لئے روس کے بھی چند حصے لے لئے جائیں تاکہ دوسرے ممالک کو جب فتح کیا جائے تو وہ اس کے حصے بن سکیں اس پر غالب نہ آسکیں ۔ مگر یہ گُر مسلمانوں نے نہیں پہچانا۔ حالانکہ قرآن کریم نے انہیں یہ گر بتادیا تھا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایک طرف خانہ کعبہ کی بنیاد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں رکھوائی اور دوسری طرف حکم دیدیا کہ لوگ چاروں طرف سے یہاں آئیں اور حج کریں۔ اسی طرح عمرہ کا حکم دیا اور اس طرح انہیں سال کے سارے حصوں میں مکہ آنے کی طرف توجہ دلائی۔ اسی طرح مدینہ کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ ہر جگہ کے رہنے والے اپنے نمائندے مدینے بھیجا کریں۔ تا وہ یہاں رہ کر دینی تعلیم حاصل کریں۔ مگر مسلمانوں نے اس گر کو نہ سمجھا اور ان کا ہر سیاسی مرکز مذہبی مرکز سے زیادہ آباد رہا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں کا کثیر طبقہ سیاسی مرکز کی طرف جاتا تھا اور مذہبی مرکز کمزور رہتا تھا۔ میرے نزدیک اسلام کو اتنا نقصان اور کسی چیز نے نہیں پہنچایا جتنا نقصان قاہرہ دمشق اور بغداد نے پہنچایا یا جتنا نقصان اصفہان اور ری نے پہنچایا، یا جتنا نقصان بخارا اور مرو نے پہنچایا ان شہروں نے لوگوں کی توجہ مذہبی مراکز سے ہٹا کر اپنی طرف کر لی۔ اگر سب سے بڑے شہر مکہ اور مدینہ ہوتے تو یہ خرابی پیدا نہ ہوتی یونیورسٹیاں بغداد میں بنیں۔ حالانکہ ان کاصحیح مقام مدینہ تھا جامعہ ازہر قاہرہ میں بنا۔ حالانکہ کہ اس کا صحیح مقام مکہ تھا۔ پس جو قوم اپنی روحانیت اور علمی طاقت کو پھیلانا چاہتی ہے اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اس کا مرکز زیادہ سے زیادہ وسیع اور مضبوط ہو۔ اسی امر کی طرف حَیْثُ مَا کُنْتُمْ فَوَ لُّوْا وُجُوْھَکُمْ شَطْرَہ‘ میں اشارہ کیا گیا ہے اور مسلمانوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ تم ہمیشہ اپنی توجہ مکہ کی طرف رکھو اور وہاں کے رہنے والوں کی اصلاح کی کوشش کرتے رہو۔ کیونکہ مکہ مکرمہ حج اور عمرہ اور دوسری دینی اغراض و مقاصد کے لئے جمع ہونے کی جگہ ہے۔ اگر وہاں فساد ہوا یا لوگ اچھے نہ رہے تو وہاں آنے والے بھی بُرا اثر لئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ درحقیقت مرکز جتنا زیادہ مضبوط ہو اسی قدر جماعت کی تنظیم مضبوط ہوتی ہے اور جماعت روحانی لحاظ سے بھی ترقی کرتی چلی جاتی ہے ۔ پس باہر کے لوگوں کو مرکز کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ اور مرکز والوں کو اپنی اصلاح کرنی چاہیے اور ہمیشہ نیکی اور روحانیت میں ترقی کرنے کی کوشش جاری رکھنی چاہیے۔
لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَیْکُمْ حُجَّۃ’‘ ۔اس کے بعد فرماتا ہے ہمارے ان احکام کی غرض یہ ہے کہ کفار کو کوئی ایسی دلیل نہ مل جائے جس کی وجہ سے تمہیں ان کے مقابلہ میں شرمندگی اٹھانی پڑے بے شک روحانی لوگوں کو اس بات کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔ وہ کہتے ہیں اگرلوگ اعتراض کرتے ہیں تو بے شک کریں ہمیں ان کے اعتراضوں کی کیاپروا ہے مگر جو ادنیٰ درجہ کے لوگ ہوتے ہیں ان کے لئے یہ بڑی بات ہوتی ہے وہ کہتے ہیں کہ لوگ ہم پر فلاں اعتراض کرتے ہیں اور اس طرح وہ بعض دفعہ بددل ہو کر علٰیحدہ ہوجایت ہیں ان کو فرمایا اچھا ہم تمہارے سپرد یہ کام کرتے ہیں تم اسے ہمت کے ساتھ سرانجام دو۔ تاکہ دشمنوں کی طرف سے تم پر کوئی الزام باقی نہ رہے۔ یہ الزام پانچ وجوہ کی بنا پرلگایا جا سکتا ہے۔
اول یہود کی کتب میں لکھا تھا کہ آنے والا موعود دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ مکہ کو فتح کریگا۔ اگر مسلمان مکہ فتح نہ کرتے تویہود کہتے کہہ سکتے تھے کہ یہ پیشگوئی اس نبی کے ذریعہ پوری نہیں وہ ئی اس لئے ہم اسے کس طرح مان لیں(۲) پرھ وہ یہ بھی اعتراض کر سکتے تھے کہ اس بارہ میں خود قرآن کریم کی پیشگوئیاں بھی غلط گئیں۔ مثلاً قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے کہا تھا ۔اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لَرَآدُّکَ اِلیٰ مَعَادٍ(قصص آیت۸۶)یعنی وہ خدا جس نے تجھ پر یہ قرآن فرض کی اہے اپنی ذات کی قسم کھا کر کہتا ہے کہ وہ تجھے اس مقام کی طرف ضرور لوٹا کر لائیگا۔ جس کی طرف لوگ حج اور عمرہ کے لئے بار بار لوٹ کر آتے ہیں۔ پس اگر مکہ فتح نہ ہوتا تو مخالفین اسلام کو اس اعتراض کا موقعہ ملتا۔کہ علاوہ توریت کی پیشگوئی کے خود قرآن کریم کی وہ پیشگوئیاں بھی پوری نہ ہوئیں جو فتح مکہ سے تعلق رکھتی تھیں۔(۳) اگر تحویل قبلہ نہ وہتی تو یہ اعتراض ہو سکتا تھا کہ حضرت ابراہیم ؑ نیجس نبی کے لئے دعا کی تھی اس کا تعلق تو بیت اللہ سے ضروری تھا اور اس نے اس کے گھر کی آبادی کے لئے آنا تھا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو ایک غیر جگہ پر بیٹھا ہے اور کعب کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں۔ پھر ہم یہ کیونکر سمجھیں کہ وہ دعائے ابراہیمی کا مصداق ہے۔ (۴)اگر مکہ فتح نہ ہوتا تو لوگ اعتراض کرسکتے تھے کہ کہ اس نبی کی غرض تو توحید پھیلانا تھی مگر خانہ کعبہ میں تو تین سو ساٹھ بُت رکھے ہوئے ہیں پھر یہ پیشگوئی کس طرح پوری ہوئی کہ وہ اس گھر کو پاک کریگا۔ (۵) اگر مکہ فتح نہ ہوتاتویُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ والی پیشگوئی کے پورا نہ ہونے پر بھی اعتراض ہوتا اور کہا جاتا کہ اس رسول نے تو مکہ کے لوگوں کی اصلاح کرنی تھی پھریہپیشگوئی کسی طرح پوری ہوئی؟غرض اگر فتح مکہ یا اصلاحِ مکہ نہ ہوتی تو دشمن کے لئے کئی قسم کے اعتراضات کا موقعہ تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر یہ حکم دیدیا کہ تم مکہ فتح کرو۔ اور یہ خیال رکھو کہ وہاں کوئی خرابی پیدا نہ ہو۔ ورنہ دشمن کے ہاتھ میں ایسی دلیل آجائیگی جس کا تم کوئی جواب نہیں دے سکو گے۔ ہاں اگر تم مکہ فتح کر لو تو پھر اُسکا منہ بند ہو جائیگا اور وہ تم پر کوئی اعتراض نہیں کر سکے گا۔
اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْھُمْ۔یہ استثناء متصل بھہ ہو سکتا ہے اور منقطع بھی ۔اگر مقصل مانا جائے تو اِس کے معنے ہونگے کہ تم مکہ کو فتح کرو تاکہ لوگوں کی طرف سے تم پر کوئی الزام نہ ارہے سوائے اُن لوگوں کے جو ظالم ہیںیعنی وہ لوگ تو پھر بھی شرارتوں میں حصہ لیتے رہیں گے ۔اور باتیں بناتے رہیں گے مگر ان کی وہ باتیں قابل اعتناء نہیں ہونگی ۔ اور اگر حجت کے معنے غلبہ کے کئے جائیں تو پھر یہ اسثناء منقطع ہو گا۔ اور اس کے معنے یہ ہونگے کہ جو لوگ اِن میں سے ظالم ہوں تم اُن سے مت ڈرو بلکہ صرف مجھ سے ہی ڈرو کیونکہ تمہارے غلبہ کی وجہ سے وہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے ۔
(ج) عربی زنان میں اِلاَّکے معنے وَلٰکِنْ کے بھی ہوتے ہیں ۔ جیسے کہتے ہیں مَالَکَ عَلَیَّ حُجَّۃٗ اِلَّا اَنْ تَظْمِنِیْ یعنی تجھے میرے خلاف کسی قسم کی کوئی حجت حاصل نہیں ہاں اگر تم مجھ پر ظلم کرے تو یہ علیحدہ بات ہے ۔ اس لحاظ سے اِس کے معنے یوں ہونگے کہ فتح مکہ کے بعد لوگوں کے ہاتھ میں کوئی حجت تو نہیں رہیگی لیکن اگر وہ پھر بھی اعتراض کریں گے تو ظلماًہی کرینگے ورنہ اس میں کوئی معقولیت نہیں ہو گی۔
جیسا کہ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے ۔ الا واو عاطفہ کے معنے بھی دیتا ہے اور مابعد کو پہلے کے ساتھ شریک کرتا ہے اس لحاظ سے اس کے معنے یہ ہونگے کہ وَلَا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْامِنْھُمْ ۔یعنی فتح مکہ کے ذریعہ مخالفین اسلام پر ایسی حجت ہوجائیگی کہ ظالموں کے منہ بھی بند ہو جائیں گے اور وہ بھی کوئی اعتراض نہیں کر سکیں گے ۔
وَلِاُ تِمَّ نِعْمَتِیْ عَلَیْکُمْ ۔فرماتا ہے یہ حکم میں نے اس غرض کیلئے بھی دیا ہے تاکہ میں اپنی نعمت تم پر پوری کروں ۔ اسجگہ نعمت سے مراد اسلام ہے اور اُس کے اتمام سے مراد سے مستحکم طور پر قائم کر دینا ہے یہ پروگرام بھی فتح مکہ کی اغراض میں سے تھا۔چنانچہ جو نہی مکہ فتح ہوا ۔تمام عرب سے وفود آنے شروع ہوگئے ۔ اور صلح کا ہاتھ بڑہانے لگے ۔آخر اِسی فتح کے نتیجہ میں سارا عرب مسلمان ہو گیا ۔ اور پھر عربوں نے ایک قلیل ترین مدت میں ساری دنیا میں اسلام پھیلادیا۔ اور وہ نعمت اسلام جو خدا تعالیٰ نے بنی نوع انسان کیلئے نازل فرمائی تھی دنیا میں مستحکم طور پر قائم ہو گئی ۔
پھر فرمایا ولعلکم تھتدون ۔فتح مکہ کا ایک فائدہ تمہیں یہ بھی ہو گا کہ تم ہدایت پاجاؤگے ۔یعنی تمہاری قوم داخل اسلام ہو جائیگی اور اللہ تعالیٰ اس کیلئے ہدایت کے دروازے کھول دے گا۔ ورنہ بلحاظ افراد تو فتح مکہ سے پہلے ہی کئی لوگ ایمان لا چکے تھے ۔ مگر باقی لوگوں کا یہ خیال تھا کہ اگر اس نبی نے مکہ فتح کر لیاتو یہ اور اس کا مذہب سچا ہے اور اگر یہ فتح نہ کر سکا تو جھوٹا ہو گا۔ چنانچہ جب فتح مکہ ہوئی تو عرب کے تمام اقوام سمجھ گئیں کہ اسلام سچا مذہب ہے اور اسلام قبول کرنے کے لئے دور دور سے وفود آنے شروع ہوگئے ۔ حتیٰ کے اشد ترین دشمنوں میں سے بھی بعض فتح مکہ کے عبد بیعت میں داخل ہو گئے اِس کی بین مثال ہمارے سامنے ہندہ کی ہے جو فتح مکہ سے پہلے مسلمانوں کے شدید ترین دشمنوں میں سے تھی اور رسول کریم سلی اللہ علیہ وسلم نے جن لوگوں کو سزا کے طور پر قتل کرنے کا حکم دیا تھا اُن میں وہ بھی شامل تھی ۔مگر وہ بری ہوشیار عورت تھی ۔گھر میں چھپ کر بیٹھ گئی اور باہر نہ نکلی ۔جب عورتوں کی بیعت ہونے لگی تو چونکہ اسوقت تک پردہ کا حکم نازل ہو چکا تھا ۔اس لئے اُس نے بھی چادر اوڑھ لی اور اُن کے ساتھ شامل ہو کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کیلئے آگئی ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس اس کا علم نہ تھا کہ اِن عورتوں میں ہندہ بھی موجود ہے ۔آپ نے بیعت لیتے وقت یہ فقرہ فرمایا۔ کہ کہو ہم شرک نہیں کرینگی ۔ اسپر ہندہ چھٹ بول اٹھی کہ یا رسول اللہ !کیا اب بھی ہم شرک کر سکتی ہیں۔ آپ اکیلے تھے اور مقابل پر آپ کی ساری قوم اور تمام عرب مع اپنے بتوں کے تھے جن سے وہ بزغم خود مدد لیتے تھے ۔ لیکن آپ نے اکیلئے ہونے کے باوجود اپنے ایک معبود کی مدد سے مکہ فتح کر لیا۔ اب کیسے ممکن ہے کہ ہم شرک کریں ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنکر فرمایا۔ کیا ہندہ ہے ۔ہندہ فورا بول اٹھی کہ یا رسول اللہ !اب آپ کچھ نہیں کر سکتے ۔ اب میں آپ کی بیعت کر چکی ہوں۔غرض فتح مکہ ایک ایسانشان تھا کہ جس کو دیکھتے ہوئے ہندہ جیسی شدید دشمن عورت نے بھی سمجھ لیا کہ اب سچائی بالکل عیاں ہو گئی ہے ۔
دوسری وجہ اوقوام عرب کے اسلام قبول کرنے کی یہ تھی کہ عرب کے لوگوں کو اس بات اک یقین تھا کہ مکہ کو کوئی جھوٹے مذہب والا آدمی فتح نہیں کر سکتا اور اگر کوئی کوشش کریگا تو تباہ وہ جائیگا اور اس کی تائید میں اُن کے سامنے ایک تازہ واقعہ بھی تھا ۔اور وہ یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے پہلے یمن کے گورنر ابرہہ نے مکہ کو فتح کرنے کی کوشش کی ۔لیکن باوجود ایک کثیر فوج اپنے ساتھ رکھنے کے ناکام رہا ۔اور آخر اس کی فوج میں ایسی وبا پھیلی کہ تمام فوج تباہ ہو گئی اور وہ ناکامی اور نامرادی کے حالت میں واپس چلا گیا ۔غرض عرب کے رہنے والے چونکہ قریب کے زمانہ میں اس بات کا تجربہ کر چکے تھے کہ بیت اللہ کی اللہ تعالیٰ حفاظت کر رہا ہے اور کوئی شخص اس کو بزور فتح نہیں کر سکتا۔ اس لئے جب آہپ نے مکہ والوں کو مغلوب کر لیا تو اس کامیابی نے انہیں یقین دلادیا کہ یہ شخص سچا ہے اور اس کا مذہب بھی سچا ہے اور وہ جوق درجوق آپ پر ایمان لے آئے ۔ بخاری کی ایک حدیث جو حضرت عمر وبن سلمہ سے مرادی ہے اس سے بھی معلوم ہوتا ہے ۔ کہ عرب کے لوگ فتح مکہ کے منتظر تھے ۔ چنانچہ لکھا ہے ۔کَانَتِ الْعَرَبُ تُلِوَّ مُ بِاِ سْلَا مِھِمُ اْلفَتْحَ فَیَقُوْلُوْنَ اُتْرُ کُوْہُ وَ قَوْمَہٗ فَاِ نَّہٗ اِنَ ظَھَرَ عَلَیْھِمْ فَھُوَ نَبِیُّٗ مَادِقُٗ فَلَمَّا کَانَتْ وَقَعَۃُ اَھْلِ الْفَتْحِ بَادَرَ کُلُّ قَوْمٍ بِاِ سْلَامِھِمْ(بخاری کتاب الغازی باب غزوۃ الفتح )یعنی عرب لوگ فتح مکہ کا انتظار کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ اے لوگوں ! اس نبی اور اس کی قوم کو چھوڑ دو۔اگر یہ نبی دوسروں پر غالب آیگا تو پھر یہ ضرور سچا ہے ۔چنانچہ
کَمَٓا اَرْسَلْنَا
وَیُعَلِّمُکُمْ
جب مکہ فتح ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم پر غالب آگئے تو ہر قوم نے دوڑتے ہوئے اسلام کو قبول کر لیا اور وفود ر وفود لوگ بیعت میں داخل ہوگئے ۔
لَعَلَکُمْ تَھْتَدُوْنَ میں یہی بات بیان کی گئی ہے ۔ کہ تمہاری قوم کا ازسلام لانا فتح مکہ کے ساتھ وابستہ ہے جب مکہ فتح ہو گیا تو تمہاری ساری قوم اسلام میں داخل ہو جائیگی ۔پھر جیسا کہ اوپربتایا جا چکا ہے ۔لَعَلَکُمْ تَھْتَدُوْنَ میں اس با کی طرف اشارہ تھا کہ فتح مکہ کے نتیجہ میں تمہیں اپنے رشتہ دار اور دوست سب مل جائینگے اور آپس کی لڑائیاں اور تفرقہ دور ہو جائیگا ۔گویا تین قسم کے انعامات تم پر نازل ہو نگے :۔
اول ۔ لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَیْکُمْ حُجَّۃُٗ۔تمہیں فتح مکہ کے بعد ذیہنی طور پر اطمینان حاسل ہو جائے گا۔ اور دشمن کا مونہہ ہر قسم کے اعتراضات سے بند ہو جائیگا۔
دوم۔ وَلِاُتِمَّ نَعْمَتِیْ عَلَیْکُمْ ۔یہ مادی انعام ہے کہ تمہیں حکومت مل جائیگی ۔بادشاہت تمہارے ہاتھ میں آ جائیگی ۔اور اسلام مستحکم طور پر پہلے عرب اور پھر عرب سے نکل کر ساری دنیا میں قائم ہو جائے گا۔
سوم۔ لَعَلَکُمْ تَھْتَدُوْنَ ۔اس میں قلبی انعام کا ذکر کیا کہ رشتہ داروں کی جدائی کی وجہ سے جو تمہارے دلوں میں بے اطمینانی اور اضطراب ہے وہ بھی دور ہو جائیگا ۔اور تمہاری قوم بھی اسلام میں داخل ہو جائیگی ۔غرض بتایا کہ یہ تین قسم کے انعامات تمہیں ملیں گے ۔کیونکہ وہ لوگ جو روحانیت میں اعلیٰ مقام نہیں رکھتے بالعموم پوچھا کرتے ہیں کہ اگر ہم نے فلاں کام کیا تو ہمیں کیا ملے گا ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تین قسم کے انعامات تمہیں اس کے بدلہ میں ملیں گے ۔ اور پہلے گروہ کو اس گروہ کے ساتھ اس لئے شامل کر لیا گیا ہے کہ یہ انعامات انہیں بھی ملنے والے تھے ۔ ورنہ وہ کسی بدلہ کیلئے کام نہیں کرتے ۔ اور نہ انہیں انعامات کی کوئی لالچ ہوتی ہے ۔ وہ صرف اس لئے کام کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اس کے کرنے کا حکم دیا ہے ۔پس یہ تکرار نہیں بلکہ ایک زائد مضمون بیان کرنے کیلئے اسے دہرایا گیا ہے ۔ اور یہ آیت بھی اپنے اندر فتح مکہ کا ہی مضمون رکھتی ہے ۔ چنانچہ اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ سورۃ فتح میں فتح مکہ کی جو اعتراض بتائی گئی ہیں وہی اس جگہ بھی بیان کی گئی ہیں۔وہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا ۔اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًاہ لِّیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَ خَّرَ وَیَتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ وَیَھْدِ یَکَ صِرَا طًا مُّسْتَقِیْمًا (سورۃ فتح آیت ۱۔۲)
یعنی ہم نے تجھے ایک کھلی فتح بخشی ہے جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ تیرے متعلق کئے گئے وہ گناہ بھی جو پہلے گذر چکے ہیں ڈھانک دے گااور جواب تک وہئے نہیں لیکن آئندہ ہونے کا امکان ہے اُن کو بھی ڈھانک دے گا۔ اور تجھ پر اپنی نعمت پوری کرے گا اور تجھے سیدھا راستہ دکھائے گا ۔اِس آیت میں بتایا گیا ہے کہ فتح مکہ کی تین اغراض ہیں۔ اول دشمن کے اعتراضوں کو دور
مَّا لَمْ تَعْلَمُوْنَo
کرنا ۔جیسے فرمایا ۔ لِیَغْفِرَ لَک اللّٰہُ مَا تَقَدَّ مَ مِنْ ذَنْبِک وَمَا تَا خَّرَ ۔ اس جگہ مِنْ ذَنْبِکَ سے اعتراضات ہی مراد ہیں ۔ کیونکہ کبھی غیر کے خیال کو بھی دوسرے کی طرف منسوب کر دیتے ہیں۔ جیسے کہتے ہیں۔ میرا قصور یہ ہے یعنی تمہارے خیال میں میرا قصور یہ ہے ۔قرآن کریم میں آتا ہے وَلَھُمْ عَلَیَّ ذَنْبُٗ (شعراء عً) اُن کے نزدیک میں نے ایک گناہ کیا ہے ۔ پس لِیَغْفِرَ لَک اللّٰہُ مَا تَقَدَّ مَ مِنْ ذَنْبِک وَمَا تَا خَّرَ کا مطلب یہ ہے ۔کہ اس پیشگوئی کے پورا کرنے سے دشمن جوتم پر اعتراض کیا کرتاتھا ۔کہ جھوٹا دعویٰ کرتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ پروہ ڈال دیگا اور وہ الزام دور ہو جائیگا ۔اور صرف اسی وقت نہیں بلکہ آئندہ بھی یہ دلیل تجھ پر اعتراض کرنے والوں کے منہ بند کرتی رہے گی ۔
فتح مکہ کی دوسری غرض اتمام نعمت بتائی ہے اور تیسری غرض یَھْدِ یَکَ صِرَ اطًا مُّسْتَقِیْمًا میں یہ بتائی کہ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ تمہیں ہدایت میں ترقی عطا فرمائیگا ۔
یہی تین اغراض اس جگہ بھی بیان فرمائی گئی ہیں اور کہا گیا ہے کہ تم مکہ کو فتح کروتاکہ دشمنوں کا تم پر کوئی الزام نہ رہے ۔اور تاکہ میں اپنی نعمت تم پر پوری کر وں اور تاکہ تم ہدایت پاؤ۔ سورۃ فتح اور اِن آیات کے تقابل سے صاف ظاہر ہے کہ دونوں جگہ ایک ہی مضمون بیان کیا گیا ہے اور دونوں میں فتح مکہ پر زور دینا اور اُس کے فوائد کو بیان کرنا مقصود ہے ۔
۶۶؎حل لغات:۔کَمَا کے ایک معنے تو وہ ہیں جو عام طور پر کئے جاتے ہیں۔یعنی ’’جیسا کہ ‘‘ یہ مشابہت کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے ایک دوسرے معنی لِمَا کے بھی ہین یعنی ’’اسلئے ‘‘ (محیط) جیسے ایک شاعر کہتا ہے :
لَا تَشْتُمِ النَّاسَ کَمَا لَا تُشْتُمْ
یعنی تو لوگوں کو گالی نہ دے اس لئے کہ وہ تجھ کو گالی نہ دیں۔
تفسیر :۔ کَمَا کے معنے بنتے اگر ’’جیسا کہ‘‘کے سمجھے جائیں تو اس آیت کے یہ معنے بنتے ہیں کہ جس نعمت کا پیچھے ذکر ہوا ہے اُس کا ہم تم پر ویسے ہی اتمام کریں گے جسیا کہ ہم نے تم میںاپنے اس رسول کو جو دعائے ابراہیمی کا موعود ہے بھیجکر اپنے احسان کو مکمل کیا ہے۔
درحقیت ابراہیمی دعا کے دو حصے تھے ۔ایک حصہ تو اُن میں رسول بھیجنے کے ساتھ تعلق رکھتا تھا اور دوسرا حصہ ایک پاکیزہ اور مقدس جماعت تیار کرنے کے متعلق تھا ۔ ورنہ حضرت ابراہیم علیہ اسلام کا یہ مطلب نہ تھا کہ رسول تو آجائے مگر قوم کو تقدس حاصل نہ ہو ۔پس ضروری تھا کہ ابراہیمی دعا کو پورا کرنے کیلئے جہاں رسول بھیجا گیا وہاں دعا کو دوسرے حصوں کو بھی پورا کیا جاتا اور ایک ایسی پاکیزہ جماعت قائم کی جاتی جو خدا تعالیٰ کے دین کے لئے ہر قسم کی قربانیوں پر آمادہ رہنے والی ہو۔ اور اگر کَمَا بمعنے لِمَا ہوا تو اس صورت میں اس کے یہ معنے ہونگے کہ ہم نے یہ حکم تمہیں اس لئے دیا ہے کہ ہم نے تم میں ایک رسول بھیجا ہے جو تمہیں میں سے ہے اور اس کا کام یہ ہے کہ وہ تم پر ہماری آیتیں پڑھتا ہے اور اس طرح تم کو پاک کرتا اور مدارج عالیہ کی طرف بڑھاتا ہے اور تم کو شریعت سکھاتا ہے اور پھر وہ احکام شریعت کی باریک در باریک حکمتوں اور پوشیدہ اسرار سے واقف کرتا ہے ۔ اور صرف وہی تعلیم نہیں دیتا جو پہلے صحیفوں میں پائی جاتی ہے ۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ایسی تعلیم دیتا ہے جو تم لوگوں کو معلوم ہی نہیں تھی ۔ پس تم لوگ میرا ذکر کرو تاکہ جو اس رسول کے ذریعے تم پر کئے گئے ہیں شکر بجا لاتے رہو اور میری ناشکری نہ کرو۔
یوں تو دنیا کے تمام مذہب کی ابتداء انبیاء ؑ کی فات سے ہی ہوئی ہے لیکن کوئی مذہب بھی ایسا نہیں جس نے ایسے نبی کو پیش کیا ہو جو تمام امور دغیبہ کی حکمتوں کو بیان کرنے کا مدعی ہو اور جسے تمام بنی نوع انسان کیلئے اُسوہ حسنہ کے طور پر پیش کیا گیا ہو۔ عیسائیت جو سب سے قریب کا مذہب ہے ۔ وہ تو مسیح کو ابن اللہ قرار دے کر اِس قابل ہی نہیں چھوڑتی کہ اُس کے نقش قدم پر کوئی انسان چلے کیونکہ انسان خدا جیسا نہیں ہو سکتا۔ باقی رہے حضرت موسیٰ علیہ السلام سو تورات اور انجیل حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مذہبی حکمتوں کے بیان کرنیکا ذمہ دار قرار دیتی ہے ۔ لیکن قرآن کریم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرماتا ہے یُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ ۔کہ یہ نبی تمہیںاحکام الہٰیہ اور اس کے حکمتیں بتاتا ہے ۔ پاس اسلام ممتاز ہے اس بات میں کہ اس کا نبی دنیا کیلئے اسوہ حسنہ بھی ہے اور جبرسے اپنے احکام نہیں منواتا بلکہ جب کوئی حکم دیتا ہے تو اپنے اتباع کے ایمانوں کو مضبوط کرنے اور اُن کے جوش کو زیادہ کرنے کیلئے یہ بھی بتاتا ہے کہ اُس نے جو احکام دئیے ہیں اُن کے اندر ملت افراد ملت اور باقی نوع انسان کیلئے کیا کیا فوائد مخفی ہیں ۔یہ وہی دعائے ابراہیمی ہے جس کا ذکر پہلے آچکا ہے ۔مگر اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعامیں دو فرق ہیں جنہیں ملحوظ رکھنا چاہیے ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کے الفاظ یہ تھے کہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْ عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ دَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَ کِّیْھِمَ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (سورہ بقرۃ آیت ۱۳۰)یعنی اے خدا ! تو ان میں انہی سے ایک رسول بھیج جو انہیں تیری آیات پڑھ کر سنائے ۔انہیں کتاب کی تعلیم دے ان پر احکام الٰہیہ کی حکمت واضح کرے ۔اور ان کے نفوس کا تذکیہ کرے ۔ گویا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پہلے تلاوت آیات پھر تعلیم کتاب پھر تعلیم حکمت اور پھر تذکیہ کو رکھا تھا ۔ مگر یہاں پہلے تلاوت آیات پھر تزکیہ پھر تعلیم کتاب و حکمت کو بیان کیا گیا ہے ۔ پس طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے ۔ کہ خدا تعالیٰ نے ایسا کیوں کیا۔ سو یاد رکھنا چاہیے کہ دعائے ابراہیمی کی ترتیب اس اصول پر مبنی ہے کہ دنیا میں جب بھی خدا تعالیٰ کو کوئی نبی مبعوث ہوتا ہے تو سب سے پہلے وہ تلاوت آیات سے کام لیتا ہے یعنی اس وحی کو پیش کرتا ہے جو اس پر نازل ہوتی ہے ۔اور اُن معجزات اور نشانات کو پیش کرتا ہے جو اُس کی تائید میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہوتے ہیںاس کے بعد آہستہ آہستہ احکام نازل ہوتے ہیں تو اُن احکام کی حکمتیں بیان کی جاتی ہیں اور آخر معجزات و نشانات دیکھنے دلائل و براہین پر غور کرنے اوراُن کی حکمتوں کو سمجھ لینے کے بعد اللہ تعالیٰ اس کی جماعت کو ایک تقدس عطا فرماتا ہے ۔ جس کے نتیجہ میں وہ دوسروں پر غالب آجاتی ہے ۔ مگر یہاں اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری ترتیب کو مد نظر رکھا ہے ۔ یعنی ایمانیات اور روحانیات سے تعلق رکھنے والی باتوں کو اس نے پہلے لے لیا ہے اور علوم ظاہری سے تعلق رکھنے والی باتوں کو بعد میں بیان کر دیا ہے ۔ تزکیہ چونکہ قلب سے تعلق رکھتا ہے اور تلاوت آیت بھی ایمان سے تعلق رکھتی ہے اس لئے پہلے اللہ تعالیٰ نے اب ناتوں کو لے لیا جو ایمانیات اور روحانیات سے تعلق رکھتی ہیں۔ چنانچہ اگر غور کر کے دیھکا جائے تو معلوم ہو گا کہ معرفت کے لحاظ سے سب سے پہلی چیز یہی ہے کہ انسان کو ایسی آنکھیں عطا ہوں جو اللہ تعالیٰ کے نشانات کا مشاہدہ کرنے والی ہوں ۔اور دوسری چیز یہ ہے کہ ان نشانات کا مشاہدہ اُن کے اندر ایسا تزکیہ پیدا کر دے کہ اس کا دل خدا تعالیٰ کا عرش بن جائے ۔ اور صفات الٰہیہ اس کے آئینہ قلب میں منعکس ہو جائیں ۔ جب معرفت کا نور انسانی قلب کو ایسا جلا بخشتا ہے کہ اُس میں کوئی نفسانی قدرت اور آلائش باقی نہیں رہتی تو اس وقت وہ خدا کی صفات کا مظہر ہو جاتا ہے اور یہی انسانی زندگی کا اصل مقصد ہے ۔اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے یہاں تلاوت آیات کے بعد تزکیہ نفوس کو دوسرے امور پر مقدم رکھا ہے ۔ تزکیہ کے بعد تعلیم کتاب اور حکمت کا ذکر فرمایا ہے ۔ جو ظاہری علوم سے تعلق رکھنے والی چیزیں ہیں اور ا نہیں آخر میں رکھ کراس بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ نماز اور روزہ اور حج اور زکوٰۃ وغیرہ احکام اور اُن کی حکمتیں اصل مقصود نہیں بلکہ اصل مقصود تزکیہ نفس اور اللہ تعالیٰ کا نبی کسی شخص کو آواز دے اور وہ جسے بلایا گیا ہو اُس وقت نماز بھی پڑھ رہا ہو تو اس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اُسی وقت نماز توڑ دے اور خدا تعالیٰ کے نبی کی خدمت میں حاضر وہ جائے کیونکہ وہ صفات الٰہیہ کا کامل مظہر ہوتا ہے اور اس کی آواز گویا خدا کی آواز ہوتی ہے ۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک شخص کو آواز دی ۔ وہ اس وقت نماز پڑھ رہا تھا ۔ اُص نے نماز توڑ دی اور آپ کی خدمت میں حاضر ہو گیا ۔لوگوں نے اعتراض کیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہو اور خدا کا نبی اُسے بلائے تو وہ نماز بھی توڑ سکتا ہے ۔ اِسی طرح حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ ایسی حالت میں آواز دی جبکہ آپ نماز پڑھ رہے تھے تو آپ نے بھی نماز توڑ دی اور آپ کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔معلوم ہوتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ استدلال قرآن کریم کی اس آیت سے کیا تھا کہ یٰٓا یُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُو اسْتَجِیْبُوْ اللّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَادَعَا کُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ (سورہ انفال آیت ۲۵)یعنی اے مومنو! تم اللہ اور اس کے رسول کی بات سننے کیلئے فوراً حاضر وہ جایا کرو جبکہ وہ تمہیں زندہ کرنے کیلئے پکارے ۔غرض نماز اصل مقصود نہیں اور نہ ہی روزہ اور حج اور زکوٰۃ وغیرہ مقصود ہیں ۔ یہ سب ذرائع ہیںخدا تعالیٰ تک پہنچنے کے اور یہ سب ذرائع ہیںنفس انسانی کو ہر قسم کی روحانی آلائشوں سے پاک کرنے کے ۔ اگر کسی کا دل پاک نہیں تو خواہ زبان سے وہ ہزار بار کتاب اللہ پر ایمان لانیکا دعویٰ کر ے اس کا یہ دعویٰ ایک رائی کے برابر بھی قیمت نہیں رکھتا۔
تزکیہ کے بعد تعلیم کتاب اور حکمت میں بھی تعلیم کتاب کو اس لئے مقام رکھا گیا ہے کہ اعلیٰ ایمان والا شخص صرف یہ دیکھتا ہے کہ آیا اُس کے محبوب نے فلاں کام کرنے کا کہا ہے یا نہیں ۔ اگر کہا ہو تو وہ بغیر سوچے سمجھے اس کام کو اختیار کر لیتا ہے ۔ لیکن جو اعلیٰ ایمان نہیں رکھتا وہ کہتا ہے کہ پہلے مجھے یہ بتاؤ کہ اس کام کی غرض کیا ہے اور اس میں حکمت کیا ہے جب تک مجھے اس کی حکمت نہ بتائی جائیگی میں عمل نہیں کرو نگا۔ غرض ایک سچے اور مخلص مومن کیلئے یہی کوفی ہوتا ہے کہ اُس کے رب اُسے حکم دے رہا ہے ۔وہ خڈا کی آواز سنتا اور اس کی طرف دوڑپڑتا ہے ۔لیکن فلسفی حکمت کا سراغ لگاتا ہے اور جب تک اُس کا دماغ تسلی نہ پائے اس کا دل مطمئن نہیں ہوتا ۔ایک ماں کو اس کا بچہ کی خدمت کیلئے اگر صرف دلائل دئیے جائیں اور کہا جائے اگر تم خدمت نہیں کرو گی تو گھر کا نظام درہم بریہم ہو جائیگا اور یہ ہو گا اوروہ ہوگا تو یہ دلائل اُس پر ایک منٹ کیلئے بھی اثر انداز نہیں ہوسکتے ۔ وہ اگر خدمت کرتی ہے تو صرف اس جذبہ محبت کے ماتحت جو اس کے دل میں کام کر رہا ہوتا ہے ۔ اِسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ایمان العجائز ہی انسان کو ٹھوکر وں سے بچاتا ہے ۔ورنہ وہ لوگ جو حیل وحجت سے کام لیتے ہیںاور قدم قدم پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں حکم کیوں دیا گیا ہے اور فلاں کام کرنے کو کیوں کہا گیا ہے وہ بسا اوقات ٹھوکر کھا جاتے ہیں۔ اور اُن کا رہا سہا ایمان بھی ضائع ہو جاتا ہے ۔ لیکن کامل الایمان شخص اپنے ایمان کی بنیاد مشاہدہ پر رکھتا ہے ۔ وہ دوسروں کے دلائل کو توسن لیتا ہے مگر ان کے اعتراضات کا اثر قبول نہیں کرتا کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کو اپنی روحانی آنکھﷺں سے دیکھ چکا ہوتا ہے ۔ منشی اروڑے خان ؓ صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک صحابی تھے اُن کا ایک لطیفہ مجھے یاد ہے ۔ وہ کہا کرتے تھے کہ مجھے بعض لوگوں نے کہا کہ اگر تم مولوی ثناء اللہ صاحب کی ایک دفعہ تقریر سن لو تب تمہیں پتہ لگے کہ مرزا صاحب سچے ہیں یا نہیں وہ کہنے لگے میں نے ایک دفعہ اُن کی تقریر سنی ۔بعد میں لوگ مجھ سے پوچھنے لگے ۔ اب بتاؤ کیا اتنے دلائل کے بعد بھی مرزا صاحب کو سچا سمجھا جا سکتا ہے ۔میں نے کہا۔ میں نے تو مرزا صاحب کا مونہہ دیکھا ہوا ہے ۔اُن کا مونہہ دیکھنے کے بعد اگر مولوی ثناء اللہ صاحب دو سال تک بھی میرے سامنے تقریر کرتے رہیں تب بھی اُن کی تقریر کا مجھ پر کوئی اثر نہیں ہو سکتا اور میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ جھوتے کا مونہہ تھا۔ بے شک مجھے اُن کے اعتراضات کے جواب میں کوئی بات نہ آئے میں تو یہی کہو نگا۔ کہ حجرت مرزا صاحب سچے ہیں۔ غرض حکمت کا معلوم ہونا ایک کامل مومن کیلئے ضروری نہیں ہوتا کیونکہ اس کا ایمان عقل کا بنا پر نہیں ہوتا بلکہ مشاہدہ پر مبنی ہوتا ہے ۔اسی لئے اُسے احکام کی حکمت سمجھنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ وہاں جس کا ایمان صرف دلائل کی حد تک ہو اُسے حکمت کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔ غرض ایمان کامل مشاہدہ کی بنا پر ہوتا ہے ۔ اور ایمان ناقص حکمت کی بنا پر ۔کامل الایمان لوگوں کیلئے نبی کا تلاوت ِآیات اور تزکیہ ہی کافی ہوتا ہے ۔اور آیات کی حکمت اور اس کی غرض معلوم کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتے ۔ وہ نبی کی آواز کافی سمجھتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کی معرفت کے حصول کیلئے دیوانہ وار کام شروع کر دیتے ہیں۔ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تقریر فرما رہے تھے کہ آپ ؐ نے دوران تقریر میں فرمایا ۔ بیٹھ جاؤ ۔کیونکہ اُس وقت کناروں پر کئی لوگ کھڑے تھے ۔ اُس وقت حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ گلی میں تھے اور مسجد کی طرف آرہے تھے جونہی یہ آواز آپ کے کان میں پہنچی آپ وہیں بیٹھ گئے اور پھر گھسٹے گھِسٹے دروازہ کی طرف چل پڑے ۔ یہ اچنھبے کی بات تھی کسی نے انہیں بچوں کی طرح گھسٹتے دیکھ کر کہا۔ آپ یہ کیا کر رہے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا تو یہ تھا کہ اندر والے بیٹھ جائیں یہ مطلب تو نہیں تھا کہ گلی میں چلنے والے بھی بیٹھ جائیں ۔حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے جواب دیا۔ کہ اگر وہاں پہنچتے پہنچتے میرے جان نکل جائیے تو میں اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دو گاکہ خدا تعالیٰ کے رسول کی طرف سے ایک آواز آئی تھی جس پر میں نے عمل نہ کیا۔ اب بظاہر یہ بات حکمت کے خلاف نظر آئیگی مگر عشق کا رنگ ہی اور ہوتا ہے ۔عاشق حکمتوں کو نہیں دیکھتا۔ جو کچھ محبوب کے اُسے ماننے کیلئے تیار ہو جاتا ہے ۔ تو یاد رکھنا چاہیے کہ حکمت تابع ہے تعلیم کے اور تعلیم تابع ہے تزکیہ کے اور تزکیہ تابع ہے آیات اللہ کے ۔ اصل خدا تعالیٰ کی ذات ہے پھر اُس کا مقام ہے جو خدا نما ہو۔ پھر اُس سے اتر کر وہ ذرائع ہیںجو انسان کو خدا نما بنانے والے ہیں۔ پھراُن سے اتر کر وہ محرکات ہیں جو لوگوں کو عمل کی ترغیب دلاتے ہیں۔پس یہ ترتیب چھوتے بڑے درجہ کے لحاظ سے ہے ۔ لیکن دعائے ابراہیمی میں اس گترتیب کے مد نظر رکھا گیا ہے جس سے انسان ترقی کرتا ہے ۔چنانچہ پہلے اُسے دلائل دیئے جاتے ہیں۔پھر ان کے بعد فرائض بتائے جاتے ہیں۔ اس کے بعد فرائض کی حکمتیں بیان کی جاتی ہیں۔ اور پھر یہ بتایا جاتا ہے کہ جو لوگ ان باتوں پر عمل کرینگے انہیں تزکیہ حاسل ہو جائیگا ۔
دعائے ابراہیمی اور اس آیت میں دوسرا فرق یہ ہے کہ وہاں دعا کے بعد کہا تھا اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ اور اسجگہ ہے ۔ وَیُعَلِّمُکُمْ مَا لَمْ تَکُوْ نُوْ اتَطْمُوْنَ ۔ اس کی یہ وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عزیز وحکیم صفات کے واسطہ سے دعا کی تھی ۔ کہ جو کچھ میں مانگ رہا ہوں اپنے خیالات کے مطابق مانگ رہا ہوں ۔ مگر مجھے معلوم نہیں کہ اُس وقت کی
فَاذْ تَکْفُرُوْنِo
ضرورت کیا ہوگی ۔پس تو اپنی طاقت اور حکمت سے کام لے کر جس چیز کی اس وقت ضرورت ہو وہ دیجئیو۔لیکن یہاں خدا تعالیٰ نے وَیُعَلِّمُکُمْ مَا لَمْ تَکُوْ نُوْ اتَطْمُوْنَ فرمایااس دعا کی قبولیت کا ذکر کر دیا ۔کہ ابراہیم ؑ نے عزیز اور حکیم دو صفات کے واسطہ سے جو دعا مانگی تھی وہ پوری ہو گئی ۔اور نہ صرف یہ نبی ہو کام کر رہا ہے جو ابراہیم ؑ نے کہے بلکہ ایسے رنگ میں کر رہا ہے کہ پہلے کسی نبی نے نہیں کئے ۔ کیونکہ اس زمانہ کی ضرورت ایسی ہی اعلیٰ درجہ کی تعلیم چاہتی تھی ۔پس دعائے ابراہیمی کامل طور پر پوری ہو گئی ۔
وَیُعَلِّعُکُمْ مَا لَمْ مْکُوْ تُوْ ا تَعْلَمُوْنَ میں اس امر کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے ۔ کہ یہ رسول تم کو وہ کچھ سکھاتا ہے ۔ جو تم پہلے بنہ جانتے تھے ۔ یعنی اس کی تعلیم صرف اُنہی اچھی تعلیمات پر مشتمل نہیں جو پہلی کُتب میں پائی جاتی ہیں۔ بلکہ اس سے زائد اس میں ایسی باتیں بھی ہیں جو پہلے دنیا کو معلوم نہیں تھیں۔ قرآن کریم نے دوسری جگہ اس امر کو محکمات اور منشابہات کے الفاظ میں بیان فرمایا ہے ۔ چنانچہ سورہ آل عمران میں فرماتا ہے کہ مِنْہُ اٰیَاتُٗ مُّحْکَمَاتُٗ ھُنَّ اُمُّالْکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشَا بِھَاتُٗ (سورہ آل عمران آیت ۸)یعنی تجھ پر جو کتاب نازل کی گئی ہے اِس کی بعض آیتیں تو محکم ہیں جو اس کتاب کی جڑیں ۔اور کچھ اور ہیں جو منشابہ ہیں۔ اس میں تشابہات سے مراد وہ باتیں بھی ہیں جو پہلی تعلیموں سے ملتی جلتی ہیں۔مثلاً روزہ رکھنا ۔یہ حکم اپنی ذات میں متشابہہ ہے کیونکہ یہ تعلیم پہلے بھی پائی جاتی تھی ۔اسی طرح قربانیوں کا حکم بھی متشابہہ ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔وَیِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّیَذْکُرُو ااسْمَ اللّٰہِ علَیٰ مَا رَزَتَھُمْ مِّنْ بَھِیْمَۃِ الْاَ نْعَامِ (سورہ حج ع۵)یعنی دنیا کی ہر قوم کیلئے ہم نے قربانی کا ایک طریق مقرر کیا تھا تاکہ وہ اُن جانوروں پر جو اللہ تعالیٰ نے اُن کو بخشے ہیں اللہ کا نام لیں اورانہیں خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کریں ۔غرض قرآن کیرم کی کچھ تعلیمیں تو ایسی ہیں جو پچھلی تعلیموں سے ملتی ہیں اور لازماً ملنی چاہئیں ۔ مثلاً پہلے نبیوں نے کہا تھا کہ سچ بولا کرو۔ تو کیا قرآن یہ کہتا کہ سچ نہ بولا کرو جھوٹ بولا کرو؟ پس اس میں لازماً کچھ ایسی تعلیمیں ہیں جو پہلی تعلیموں سے ملتی ہیں۔اور انہی کا نام منشابہات رکھا گیا ہے لیکن کچھ تعلیمیں ایسی بھی ہیں جن میں اسلام دوسرے مذاہب کے مقابلہ میں ایک یگانہ اور منفرد حیثیت رکھتا ہے اور وہی محکمات ہیں ۔اگر وہ تعلیمیں بھی جو موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ لائے محکم ہوتیں تو پھر قرآن کریم کے نزول کی کوئی ضرورت نہ تھی ۔پس یُعَلِّمُکُمْ مَا لَمْ تَکُوْ لُوْا تَعْلَمُوْنَ میں قرآن کریم کی اسی فضیلت کاذکر کیا گیا ہے کہ وہ صرف وہی تعلیم نہیں دیتا جو پہلے صحیفوں میںپائی جاتی ہے ۔بلکہ ایسی تعلیم دیتا ہے جو اُن سے زائد ہے اور جو تمہیں پہلے معلوم نہیں تھی ۔
۶۷؎ تفسیر :۔ ذکر کے معنے یاد کرنے کے ہوتے ہیں لیکن ہر یاد ایک ہی قسم کی نہیں ہوتی بلکہ الگ الگ رنگ اپنے اندر رکھتی ہے ۔ جس کے اندر طاقت نہیں ہوتی اۃُس کی یاد صرف تمنا اور خواہش اور التجا ہ کا حکم رکھتی ہے ۔جیسے ایک شخص کا رشتہ دار دور گیا ہوا ہو ۔اور وہ اُس کی یاد کرے تو چونکہ اُس میں طاقت نہیں ہوتی کہ اُس کو بلا سکے ۔ خواہ بسبب احتسیاج کے خواہ بسبب مصالح کے اس لئے یہ یاد صرف التجاء اور خواہش تک ہی محدود ہوتی ہے کہ اُس کی ماں اُس کے پاس آئے ۔اور اسے اپنی گود میں اُٹھالے لیکن ایک یاد ایسے شخص کی ہوتی ہے ۔جس میں کچھ طاقت تو ہوتی ہے لیکن پوری طاقت نہیں ہوتی ۔ایسا شخص اپنے مقصد کے حصول کیلئے کوشش بھی کرتا ہے ۔ جیسے بچہ جب بڑا ہو جاتا ہے اور چلنے پھرنے کے قابل ہو جاتا ہے اور اُس وقت اپنی ماں کو یاد کرتا ہے تو وہ اپنی ماں سے ملنے کی صرف خواہش ہی نہیں کرتا بلکہ عملی طور پر اس کیلئے کوشش بھی کرتا ہے ۔ پھر ایک یاد وہ ہے جو بادشاہ کے دل میں پیدا ہوتی ہے اور وہ اپنی رعایا کے کسی فرد کو یاد کرتا ہے ۔ ایسی صورت میں اُس کی یاد التجاء نہیں ہوتی بلکہ ایک زبردست طاقت ہوتی ہے۔جس کے ذریعہ وہ دوسرے کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور اُس کی یاد عملاً پوری ہو جاتی ہے ۔غرض جب ایک ادنیٰ آدمی بڑے کو یاد کرے تو اُس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ وہ بڑا اُمے اپنے پاس بلالے ۔ اور یہ التجاء ہوتی ہے ۔لیکن جب بڑا آدمی ادنیٰ کو یاد کرے تو اس کے معنے اس کو بلانے کے ہوتے ہیں۔ کیونکہ اُس کے اندر ایک طاقت ہوتی ہے ۔ اس کی اسیی ہی مثال ہے ۔جیسے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ جنتیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے ۔ وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَشْتَھِیْ آنْفُسُکُمْ وَا لَکُمْ فِیْھَا مَا تَدَّعُوْنَ (حٰمٓ آیت ۳۲)یعنی جنت میں جو کچھ تمہارا جی چاہیگا تم کو ملیگا اور جو کچھ تم مانگو گے وہ تم کو عطا کیا جائیگا ۔ یہ خواہش بھی ایک طاقت اور قوت پر دلالت کرتی ہے ۔ کیونکہ اِدھر خواہش پیدا ہو گی اور اُدھر اللہ تعالیٰ اُس خواہش کو پورا کرنے کا سامان پیدا فر مادیگا ۔دنیا میں اگر کسی کو کہا جائے کہ بادشاہ سلامت تمہیں یاد کرتے ہیں تو کیاں مجال ہے کہ وہ فوراً اپنا کام نہ چھوڑ دے اور بادشاہ کی ملاقات کیلئے نہ چل پڑے ۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر میں نہ گیا تو میری خیر نہیں ۔پس اس یاد میں ایک زبردست کشش اور طاقت ہوتی ہے اور جسے یاد کیا جاتا ہے وہ اس کی طرف کھیچا چلا جاتا ہے ۔پس اگر بادشاہ کی یاد عام یاد کے علاوہ معنی رکھتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی یاد کے بھی اور معنے ہو سکتے ہیں۔ پس فَاذْکُرُوْنِیْ کے یہ معنے ہیں کہ تم میرے ملنے کی خواہش کرو اور جب تم اسیا کرو گے تو اَذْکُرْکُمْ میں بھی تمہیں یاد کرونگا ۔ جس کے یہ معنے ہیں کہ تم میری طرف کھچے چلے آؤگے ۔میرے قرب کے دروازے تمہارے لئے کھل جائینگے ۔دنیا میں جب ایک معمولی بادشاہ بھی اس طرح یاد نہیں کرتا کہ وہ دوسرے کا نام لینا شروع کردے تو خدا تعالیٰ کی یاد کے یہ معنے کس طرح ہو سکتے ہیں کہ وہ اس کا نام کا وظیفہ پڑھنے لگ جائے ۔ پساَذْکُرْکُمْ کے یہ معنے ہیں کہ تم ہمارے حضور کھچے چلے آؤگے اور ہمارے مقربین میں چامل ہو جاؤگے ۔ یہ مراد نہیں کہ ہم تمہارا نام لینے لگ جائیں گے ۔ عربی زبان میں بھی کہتے ہیں۔ کہ اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ یَذْکُرُکَ ۔یعنی امیر المومنین آپ کو یاد فرماتے ہیں۔ پُرانے زمانہ میں جب کسی کو پیغام دینا ہوتا تھا تو یہی الفاظ کہتے تھے ۔اور اس سے یہ مراد نہیں ہوتی تھی کہ وہ اپنی جگہ بیٹھا رہے ۔بلکہ مطلب یہ ہوتا تھا کہ تم فوراً اُنکے حضور پہنچ جاؤ۔ پس فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْکُرْ کُمْ کے یہ معنے ہیں کہ تم میرا قرب حاصل کرنے کی پوری کوشش کرو۔جب تمہاری محبت اپنے کمال کو پہنچ جائیگی تو اس کے نتیجہ میں میں بھی تمہیں اپنا قرب دے دونگا۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ بندہ کا ذکر عموماً تین قسم کا ہوتا ہے ۔ اول کسی اچھی یا بڑی بات کو دیکھا کر خڈا تعالیٰ کو یاد کر لینا ۔ جیسے گناہ کی تحریک ہو تو اَسْتْغُفِرُا للّٰہ کہنا ۔کوئی مصیبت پہنچے تو اِنَّالِلّٰہِ کہنا ۔ خوشی کی خبر ملے تو اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہنا ۔دوم دوسرے کی بات سن کر اللہ تعالیٰ کو یاد کر لینا ۔جیسے کسی مصیبت زدہ کا واعہ سُنا تو اُص کیلئے دعا کی اور ساتھ ہی خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اُن نے اپنے فضل سے ہمیں اس قسم کے مصائب سے بچا رکھتا ہے ۔ سوم خدا تعالیٰ کے متعلق گفتگو کرنا۔ دشمنوں کے اعتراضات کا جواب دینا ۔ اُس کے نام کی عظمت قائم کرنے کی کوشش کرنا ۔ اور بار بار اللہ تعالیٰ کے احسانات کا ذخر کرنا تاکہ اس کے نتیجہ میں (۱)خدا تعالیٰ کی صفات انسان کے دل پر نقش ہوں (۲)اور پھر وہ مٹیں نہیں بلکہ ہمیشہ قائم رہیں (۳)اور انسان کے ہر قول و عمل سے انکا ظہور ہو۔
پھر ذکر کے ایک معنے چونکہ عزت اور شہرت کے بھی ہوتے ہیں۔ اس لئے اَذْکُرْ کُمْ کے یہ معنے بھی ہو کستے ہیںکہ یٰٓاَیُّھَالَّذِیْنَ الصَّبِرِیْنَo
اگر مسلمان اللہ تعالیٰ کو یاد رکھیں گے اور اس کے احکما پر عمل کرتے رہیں گے تو اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی انہیں عزت اور شہرت عطا فرمائیںگا۔اور آخرت میں بھی انہیں اپنے لازوال قرب سے نوازے گا۔پھر فرماتا ہے وَاشْکُرُوْبِیْ ۔ تم میرا شکر کرو۔ یعنی تمہیں صرف اس بات پر مطمئن ہوجانا چاہئیے کہ تم خدا تعالیٰ کو یاد کرتے ہو بلکہ تمہارا یہ کام بھی ہے کہ تم گذشتہ انعامات پر اُس کا شکر ادا کرتے رہو اور تمہارے اعمال اور تمہاری عبادات ان انعامات پر مبنی ہو ں جو ہم پہلے تم پر کر چکے ہیں۔
وَلَا تَکْفُرُوْنِ اور ہم نے جو تم پر انعامات نازل کئے ہیں ۔ انکی ناقدری مت کرو۔ حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ عورتوں کی نسبت فرمایا کہ وہ دوزخ میں مردوں کی نسبت زیادہ جائینگی ۔عورتوں نے پوچھا ۔یا رسول اللہ ! اس کی کیا وجہ ہے ؟ آپ ؐ نے فرمایا اِس کی یہ وجہ ہے کہ تم میں ناشکری کا مرض زیادہ پایا جاتا ہے ناشکری کے معنے یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ نے جو نعمتیں دی ہیں اُن کو موقعہ اور محل پر استعمال نہ کیا جائے ۔خدا تعالیٰ نے کان اس لئے دئیے ہیں کہ خدائے رحمٰن کی باتیں سُنی جائیں لیکن لوگ ان کو گناہ کی باتیں سننے کیلئے استعمال کرتے ہیں ۔آنکھیں اُن کو اس لئے دی گئی ہیں۔ کہ وہ ان کے ذریعہ علم و عرفان حاصل کر سکیں ۔مگر کوئی ان کے ذریعہ یہ دیکھتا ہے کہ فلاں کے پاس اتنی دولت کیوں ہے ؟ اور کوئی کسی اور ناجائز جگہ پر انکو استعمال کرتا ہے ۔ اسی طرح زبان ان کو اسل ئے دی گئی ہے کہ وہ اُس سے اچھی گفتگو کریں ۔ اور خداتعالیٰ کا ذکر کریں مگر اُسے بُری اور ناپسندیدہ باتوں کے لئے استعمال کرتے ہیں۔مثلاً گالیاں دیتے ہیں۔چغلخوری کرتے ہیں۔غیبت کرتے ہیں۔جھوٹ بولتے ہیں۔اور اس طرح خدا تعالیٰ کی نعمتوں کی ناقدری کرتے ہیں پس فرمایا کہ تم میری نعمتوں کی قدرکرو۔ اور جو انعامات میں نے تم پر کئے ہیںاُن کو عظمت کی نگاہ سے دیکھو اور یہ اقرار کرو کہ ہم ان انعامات کو صحیح طور پر استعمال کریں گے ۔ان کا غلط استعمال کر کے خدا تعالیٰ کی نعمتوں کی بے حرمتی نہیں کر ینگے ۔
۶۸؎ حل لغات:۔ اَلصَّبْرُ۔صبر کے اصل معنے تو رُکنے کے ہیں۔ مگر اس لفظ کے استعمال کے لحاظ سے اس کے مختلف معانی ہیں۔ چنانچہ اس کے ایک معنے تَرْکُ الشِّکُویٰ مِنْ اَلَمِ اْلبَلْوٰی لِغَیْرِ اللّٰہِ ۔ یعنی جب کوئی مصیبت اور ابتلاء وغیرہ انسان کو پہنچے اور اسے تکلیف ہو تو خدا تعالیٰ کے سوا دوسروں کے پاس اس کی شکایت نہ کرنا صبرکہلاتا ہے ۔ ہاں اگر وہ خدا تعالیٰ کے حضور اپنی بے کسی کی شکایت کرتا ہے تو یہ صبر کے منافی نہیں۔ چنانچہ لغت کی کتاب اقرب الموارد میں لکھا ہے ۔ اِذَادَعَاللّٰہَ اْلعَبْدُ فِیْ کَشْفِ الضُّرِّ عَنْہُ لَا یُقْدَ حُ فِیْ صَرْہٍ۔جب بندہ خدا تعالیٰ سے اپنی مصیبت کے دور کرنے کیلئے دعا کرتا ہے تو اُس پر یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کہ اُس نے بے صبری دکھائی ہے ۔ ۔
کلیات ابی البقاء میں لکھا ہے کہ صبر انسان کی ایک اعلیٰ درجہ کی صفت ہے اور مختلف حالات میں اس کے مختلف نام رکھے جاتے ہیں۔امَّا نِی الْمُحَارَبَۃِ فَشُجَاعَۃُٗ اگر لڑائی میں انسان استقامت سے کام لے اور مشکلات سے نہ گھبرائے تو اُسے شجاعت کہتے ہیں۔ وَنِیْ اِمْسَاکِ النَّفْسِ عَنِ الْفُضُوْلِ اَی عَنْ طَلْبِ مَا یَفْضَلُ عَنْ قَوَامِ اْلمَعِیشَۃِ فَقَنَا عَۃُٗ وَعِفُٗۃُٗ اور اگر ضروریات زندگی سے زائد چیزوں کے متعلق انسان اپنی خواہشات کو ترک کر دے اور نفس کو روک لے تو اُسے قناعت اورعفت کہتے ہیں۔ چونکہ صبر کے اصل معنے رُکنے کے ہوتے ہیں۔ اس لئے محققین لغت نے لکھا ہے کہ اَلصَّبْرُ صَبْرَ اتِ صَبْرُٗ عَلٰی مَاتَھْرِی دَسَبْرُٗ عَلٰی مَاتَکْرَہُ ۔ یعنی صبر کی دو قسمیں ہیں۔ جس کی انسان کو خواہش ہو اس سے باز رہنا بھی صبر کہلاتا ہے۔اور جس چیز کو ناپسند کرتا ہو لیکن خدا تعالیٰ کی طرف سے وہ آجائے ۔ اُس پر شکوہ نہ کرنا بھی صبر کہلاتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جیسا کہ قرآن کریم اوراحادیث سے ثابت ہے کہ صبر اصل میں تین قسم کا ہوتا ہے ۔ (۱) پہلا صبر تو یہ ہے کہ انسان جزع فزع سے بچے ۔ جیسے قرآن کریم میں آتا ہے۔ وَاصْبِرْ عَلٰی مَآ اَمَا بَکَ (لقمان آیت ۱۸) تجھے جو کچھ تکلیف پہنچے اسپر تو صبر سے کام لے ۔ یعنی جزع فزع نہ کر (۲)دوسرے نیک باتوں پر اپنے آپ کو روک رکھنا ۔یعنی نیکی کو مضبوط پکڑ لینا ۔ اِن معنوں میں یہ لفظ اس آیت میں استعمال ہواہے ۔ فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلاَ تُطِعْ مِنْھُمْ اٰثِمًا اَوْکَفُوْرًا۔(سورۃ دہرآیت ۲۵)یعنی اپنے رب کے حکم پر قائم رہ اور انسانوں میں سے گہنگار اور ناشکر گذار کی اطاعت نہ کر۔پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے جسقدر احکام قرب الٰہی کے حصول کیلئے دئیے گئے ہیں۔ اُن پر استقلال سے قائم رہنا اور اپنے قدم کو پیچھے نہ ہٹانا بھی صبر کہلاتا ہے ۔ (۳)تیسرے معنے اس کے بد سے رکنے کے ہیں۔ ان معنوں میں یہ لفظ اس آیت میں استعمال ہوا ہے ۔ وَلَوْ انَّھُمْ صَبَرُوْ احَتّٰی تَّخْرُجَ اِلَیْھِمْ لَکَانَ خَیْرً الَّھُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرُٗ رَّحِیْمُٗ (سورۃ حجرات آیت ۶) یعنی اگر وہ تجھے بلانے کے گناہ سے باز رہتے اور اس وقت تک انتظار کرتے جب تک کہ تو باہر نکلتا تو یہ ان کے لئے بہت اچھا ہوتا مگر اب بھی وہ اصلاح کر لیں تو بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے ۔زیر تفسیر آیت میں چونکہ کئی قرینہ نہیں اس لیئے یہاں تینوں معنے مراد لئے جائیں گے ۔ اور اِس آیت کے یہ معنے ہونگے کہ ہر ایک کام کے دو ذرائع ہوتے ہیں۔ ایک جسمانی اور ایک روحانی اور دونوں ذرایعوں کو استعمال کرنے سے کامیابی ہوتی ہے ۔ پس تم دونوں ذریعوں کو استعمال کرو ۔ یعنی (۱)خدا تعالیٰ کی راہ میں جو تکالیف پہنچیں اُن کو بہادری سے برداشت کرو(۲) جو ذرائع کسی کام کے حصول کیلئے مقرر ہیں۔ اُن کو حاصل کرنے اور استعمال کرنے میں کوشاں ہو۔ (۳)جو باتیں اِس کام میں روک ہوتی ہوں ۔ اُن سے بچنے کی کوشش کرتے رہو۔ دوسرا ذریعہ روحانی بتایا کہ دعا کرو۔ اور عبادت میں لگ جاؤ۔
اَلصَّلٰوۃ: صلوٰۃ کے اصل معنے عبادت الٰہی کے ہیں۔ لیکن چونکہ نماز بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے ۔ اس لئے نماز کو بھی صلوٰۃ کہتے ہیں۔ (۲) صلوٰۃکا لفظ دعا کے معنے میں ستعمال ہوتا ہے ۔ (۳) دین کو بھی صلوٰۃکہتے ہیں۔ (۴) رحمت کو بھی صلوٰۃکہتے ہیں۔ (۵) استغفار کو بھی صلوٰۃ کہتے ہیں۔ (۶) حسن ثنا کے معنوں میں بھیصلوٰۃ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے ۔ (۷) صلوٰۃکے معنے درود بھیجنے کے بھی ہوتے ہیں۔ (صبر اور صلوٰۃ کی مزید تشریح کیلئے دیکھیں حل لغات سورۃ بقرہ ۴؎)
تفسیر:۔ اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ مِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ سے مراد وہی جنگیں ہیں جن کا فتح مکہ کے ساتھ تعلق تھا۔ کیونکہ صبر اور صلوٰۃ کا تعلق تکلیفوں کے وقت سے ہی ہوتا ہے ۔ پہلے یہود کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف کے موقعہ ہپر فرمایا تھا کہ صبر اور صلوٰۃ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے اِس کی مدد مانگو(بقرہ آیت ۴۶) اب فتح مکہ کے ذکر پر فرماتا ہے کہ جنگ میں تمہیں تکلیفیں تو بے شک ہونگی اور تمہارے اقرباء بھی شہید ہونگے لیکن اس تکلیف پر بزدلی نہ دکھنا بلکہ استقلال سے قربانیاں کرتے چلے جانا اور تکالیف کے مواقع پر اپنے خدا سے صبر اور دعا کے ذریعے مدد مانگنا ۔
اس آیت میں یہ عظیم الشان مسئلہ بیان کیا گیا ہے کہ مسلمان کیلئے کسی تکلیف پر رونا یا س کے دل میں مدد کا احساس پیدا ہونا منع نہیں ۔اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم کو کئی قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ اور تم اُن کو محسوس بھی کرو گے ۔لیکن میں تمہیں اس درد کا علاج یہ بتاتا ہوں کہ صبر اور دعا کو کام میں لاؤ۔ یہ نہیں فرمایا کہ قطعی طور پر کسی تکلیف کو محسوس نہ کرو۔ احادیث میں آٹا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک نواسہ فوت ہو نے لگا تو آپ کی آنکھوں میں آنسو جاری ہو گئے ۔ ایک صحابی ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا ٓپ بھی روتے ہیں؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے میرا دل سخت نہیں بنایا ۔ غرض درد کا احساس منع نہیں۔
ہاں ہمت ہر کر کام چھوڑ دینا اورجزع وفزع کا احساس کرنا منع ہے ۔ اِسی لئے فرمایا کہ تکالیف تو ہو نگی اورتلوار تو چلے گی اور تمہاری گردنیں بھی کٹیں گی ۔لیکن ان پر صبر سے کام لینا۔ اور استقلال سے اپنے کام لگے رہنا۔ ہم تمہیں یہ نہیں کہتے کہ تمہیں غم کا احساس نہیں ہونا چاہئیے ۔یہ ایک طبعی جذبہ ہے جو روکا نہیں جا سکتا ۔ ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ ان قربانیوں میں استقلال سے حصہ لو ۔ اور اپنے پائے ثبات میں کبھی لغزش نہ آنے دو۔ مگر پھر فرمایا کہ یہ تو دنیوی تدابیر ہیں۔ تمہارا اصل کام یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھو۔ اور دعاؤں سے اُس کی مدد چوہو۔ جب تک تم اللہ تعالیٰ پر کامل توکل نہیں کرو گے ۔ اور اُس سے دعائیں کرنا اپنا معمول نیہں بناؤ گے اُس وقت تک تمہیں فتح حاصل نہیں ہو گی ۔ دیکھو ایک نادان اور کم عقل بچہ بھی جب اُسے کوئی ڈراتا ہے تو فوراً اپنی ماں کے پاس بھاگ جاتا ہے اور ماں خواہ کتنی ہی کمزور ہو۔ وہ اس کے پاس جا کر اپنے آپ کو محفوظ خیال کرتا ہے ۔ اِسی طرح ایک مومن ہپر بھی جب کوئی دشمن حملہ کرتا ہے تو اس کی پناہ صرف خدا تعالیٰ کا ہی وجود ہوتا ہے ۔ اس لئے صلوٰۃکا تعلق روحانی ہونے کے لحاظ سے خدا تعالیٰ سے ہے ۔ اور صبر کا تعلق جسمانی ہونے کے لحاظ سے انسانی تدابیر سے ہے ۔ صبر میں جبری طور پر خدا تعالیٰ کی محبت کا اظہار ہوتا ہے اورصلوٰۃ میں عشقیہ طور پر خدا تعالیٰ سے محبت کا اظہار ہوتا ہے ۔ مشکلات اور مصائب ہم خود پیدا نہیں کرتے بلکہ دشمن مشکلات اور مصائب لاتا ہے ۔ اور ہم انہیں برداشت کرتے ہیںاور خدا تعالیٰ کو نہیں چھوڑتے لیکن نماز اور دعا کی طوعی عبادت ہے ۔ نماز ہمیں کوئی جبری نہیں پڑھاتا ۔بلکہ ہم خود پڑھتے ہیں۔ پس صبر میں ہم جبری طور پر خدا تعالیٰ کی محبت کا ثبوت دیتے ہیں اورصلوٰۃمیں طوعی طور پر اس کا اظہار کرتے ہیں ۔ اور جب یہ دونوں چیزیں مل جاتی ہیںتو محبت کامل ہو جاتی ہے ۔ اور خدا تعالیٰ کا فیضان جاری ہو جاتا ہے ۔
صبر کے جو معنے اوپر بیان کئے گئے ہیں۔ اُن کے لحاظ سے ا ٓیت کا مطلب یہ ہے کہ (۱)اے مومنو! جب تم پر خدا تعالیٰ کی رہ میں مصائب اور مشکلات آئیں تو تم گھبرایا نہ کرواور نہ اُن پر شکوہ کا اظہار کیا کرو۔ (۲)اے مومنو! جو باتیں خدا تعالیٰ کے قرب میں روک ہیں تم اُن سے بچنے کی ہمیشہ کوشش کرتے رہا کرو۔ (۳) اے مومنو! جب تم کو وہ احکام دئیے جائیں جن کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے ۔ تو تم ان پر عمل کرنے میں سستی نہ دکھایا کرو۔ بلکہ استقلال سے اُن پر عمل کیا کرو۔
یہ تین باتیں روحانی مدارج کے حصول کیلئے ممد ہیں تم ان باتوں کو مدنظر رکھو۔ ایسا کرو گے تو جو کام تمہارے سامنے ہیں اُن کے پورا کرنے میں تمیہں کامیابی ہوگی اور تمہارا مقصد تمیہں حاصل ہو جائیگا ۔ اسی طرح صلوٰۃ کے معنوں کے مدنظر رکھتے ہوئے اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ (۱) اے مومنو! تم نماز کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی مدد حاصل کرو۔ (۲) اے مومنو! تم دعاوں کی ذریعہ اس کی مدد حاصل کرو۔ (۳) اے مومنو! دین پر استقلال کے ساتھ قائم ہو جانے کے ذریعے سے اس کی مدد حاصل کرو۔ (۴) اے مومنو!تم خدا تعالیٰ کی مخلوق پر رحم اور شفقت کر کے اس کی مدد حاصل کرو۔ (۵) اے مومنو! تم خڈا تعالیٰ کے حجور استغفار اور اپنے گناہوں کی معافی طلب کر کے اس کی مدد حاصل کرو۔ (۶) اے مومنو! تم خدا تعالیٰ کے رسول پر دورد بھیج کر اُسکی مدد حاصل کرو۔ گویا یہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کی نصرت اور مدد کے حصول کے ذرائع ہیں۔ سورۃ فاتحہ میں یہ بتایا گیا تھا کہ تم اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کہا کرو۔ یعنی اے خدا ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں ۔ اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔ اب اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ گربتایا ہے کہ مدد کس طریق سے حاسل کی جاسکتی ہے ۔ فرماتا ہے وہ ذرائع یہ ہے کہ ایک تو یدن کے راستہ میں جو مشکلات اور مصائب پیش اائیں اور جو قربانیاں تمہین کرنی پڑیں اُن سے گھبرایا نہ کرو ۔ دوسرے ان امور سے جن سے اللہ تعالیٰ تم کو روکتا ہے رُکے رو۔ تیسرے وہ قربانیاں جو قرب الٰہی کے حصول کیلئے ضروری ہیں ان کو ترک نہ کرو۔ اور ان پر استقلال اور دوام اختیار کرو۔ چوتھے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری قربانیوں کے بہترین نتائج پیدا کرے اور اُنکو قبول فرماتے ہوئے تمہیں غلبہ بخشے ۔ پانچویں غرباء سے ہمدردی اور شفقت کا سلوک کرو تا مخلوق خدا کو آرام پہنچانے کی وجہ سے خدا تعالیٰ بھی تم سے خوش ہو ۔چھٹے خدا تعالیٰ سے اپنے قصوروں کی معافی طلب کرتے رہو۔ ساتویں انبیاء پر درود بھیجا کرو۔ کیونکہ اُن کے ذریعے سے ہی تم کو خدا تعالیٰ تک پہنچنے کی توفیق ملی ہے ۔ آٹھویں خدا تعالیٰ کے دین پر استقللق کے ساتھ قائم رہنے کی کوشش کیا کرو۔نویںعبادت پر مضبوطی سے قائم رہو۔ یہ سب امور خدا تعالیٰ نے کامیابی کے حصول کے بیان فرمائے ہیں۔ پس جو شخص چاہتا ہے کہ اُسے خڈا تعالیٰ کی مدد اور نصرت حاصل ہو اس کیلئے اِن نو باتوں پر عمل کرنا ضروری ہے ۔ بندے کا صرف اپنے مونہہ سے خدا تعالیٰ کو یہ کہنا کہ الٰہی میری مدد کر کوئی معنے نہیں رکھتا ۔مدد حاصل کرنے کیلئے پہلے ان ذرائع پر عمل کرنا ضروری ہے ۔ جو شخص گھبرا کر مایوس ہو جاتا ہے اور پھر یہ امید رکھتا ہے کہ خداتعالیٰ کے فرشتے اُس کی مدد کے لئے آسمان سے نازل ہو نگے وہ اُص کی مدد حاصل کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔ جو شخص خدا تعالیٰ کے احکام کو پس پسشت ڈال دیتا ہے اور ساتھ ہی یہ اُمید رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے فرشتے اس کیلئے نازل ہونگے وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتا ۔ جو شخص قربانیوں سے ہچکچاتا اور خدا تعالیٰ کی عاید کردہ زمہ داریوں کو پورا کرنے سے قاصر رہتا ہے وہ کبھی کیامیاب نہیں ہوتا۔ جو شخص دعا نہیں کرتا اور خدا تعالیٰ کے حضور عاجزانہ طور پر گڑ گڑاتا نہیں اور اس کے باوجود اس کی معجزانہ تائید کا امیدوار رہتا ہے وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتا ۔ جو شخص دین کے معاملے میں غیرت سے کام نہیں لیتا اور اس کی ترقی میں ممد نہیں ہوتاوہ دشمنوں کے مقابلہ میں کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔ جوشخص غرباء اور مساکین پر شفقت نہیں کرتا اور اُن کی مشکلات کو دور کرنے میں ہاتھ نہیں بٹاتا وہ اپنی مشکلات کے وقت خداتعالیٰ کی تائید حاصل کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے رسولوں پر درود نہیں بھیجتا۔ اُن کیلئے دعائیں نہیں کرتا اور ان کے احسانات کے شکریہ کا احساس اپنے دل میں نہیں رکھتاوہ اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل میں کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔ جو شخص عبادت اورخدمت دین کیلئے اپنی ساری عمر وقت نہیں کرتا۔ وہ قرب الٰہی کے اعلیٰ مدارج پانے میں کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔ پھر باوجود ان سب باتوں میں عمل کرنے کے جوشخص یہ محسوس نہیں کرتا کہ میں نے کچھ بھی نہیں کیا اور اپنے عمل پر اتر آتا ہے ۔ وہ بھی اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔ لوگ منہ سے تو کہہ دیتے ہیں کہاِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن لیکن یہ نہیں جانتے کہاِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن کہنے کے ساتھ کن کن باتوں کی ضرورت ہے وہ ڈاکخانہ میں روپے منی آرڈر کرانے کیلئے جاتے ہیں تو منی آرڈر فارم ساتھ لے کر جاتے ہیں۔کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جب تک منی آرڈر فارم پُر نہیں کریںکیا جائیگا روپیہ پوسٹ نہیں ہو سکتا۔ یا وہ ڈاکخانہ میں خط ڈالنے جاتے ہیں تو اسپر ٹکٹ لگاتے ہیں ورنہ وہ بیرنگ کر دیا جاتا ہے ۔(؟)میں داخل ہونیکے
 

EkMusafir

مندرج
مستقل رکن
Continue from last page
وَلَاتَقُوْ
تَشْعُرُوْنَo
وقت وہ فارم پُر کرتے ہیں جو داخلہ کیلئے محکمہ تعلیم کی طرف سے مقرر ہوتا ہے ۔امتحان کیلئے یونیورسٹی کا فارم پُر کرتے ہیںاور اس میں ذراسی غلطی ہونے سے بھی اُن کا دل دھڑکنے لگ جاتا ہے ۔ اور وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں کام خراب نہ ہو جائے ۔ مگر خدا تعالیٰ سے بغیر کوئی فارم پُر کرنے کے اور بغیر کسی شرط پر عمل کرنے کے یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ حضور اپنے ملائکہ کی فوج بھیجکر ہماری مدد کیجئے۔حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ یہاں بھی ایک فارم کی ضرورت ہے ۔ جب تک وہ فارم پُر کر کے اُسپر دستخط نہ کئے جائیں ۔اُس وقت تک خدا تعالیٰ کی نصرت شامل حال نہیں ہو سکتی اور وہ صبر اور صلوٰۃ کا فرم ہے ۔ جب تک صبر اور صلوٰ ۃ کے فارم پر دستخظ نہ کروگے تب تک خدا تعالیٰ کی مدد حاصل نہیں ہو سکے گی۔
اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ ۔اس جگہ اللہ تعالیٰ نے صلوٰۃ کے لفظ کو اُڑادیا ہے ۔ اور صرف َ مَعَ الصّٰبِرِیْنکے الفاظ رکھے ہیں۔ مَعَ اْلُمصَلِّیْنَ نہیں فرمایا ۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں صابر کا لفظ اپنے اندر استقلال کے معنے رکھتے ہے اور صابر کا لفظ صرف صبر کا قائم مقام نہیں بلکہ صبر اور صلوٰۃ دونوں کا قائم مقام ہے ۔پس اس کے صرف یہ معنے نہیں کہ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے بلکہ اسکے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ صبرو صلوٰۃ دونوں استقلال کے ساتھ قائم رہنے والوں کے ساتھ ہے ۔ کیونکہ دعا بھی وہی قبول ہوتی ہے جو استقلال سے کی جائے ۔ پس اللہ تعالیٰ صبر کرنیوالوں کے ساتھ رہے کہ یہ معنے ہیں ۔ کہ اگر صبر اور صلوٰۃ کے ذرائع کو استقلال سے استعمال کر و گے تو کامیاب ہو جاؤگے ۔
اِس آیت میں لوگوں کو نصیحت کی گئی ہے جو کچھ عرصہ تکلیف برداشت کرتے اور یہ کہنے لگے جاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ تو ہماری سُنتا ہی نہیں ۔ہم تو اُسے پکار پکار کر تھک گئے اب دعا کرنیکا کیا فائدہ ۔اور بعض لوگوں کو تو اس قدر ٹھوکر لگتی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی ہستی کے ہی منکر ہو جاتے ہیں۔پس اللہ تعالیٰ نے اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَکہہ کر بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد اسی کوحاصل ہوگی جو مشکلات کے وقت استقامت دکھا ئیگا اور صبر اور صلوٰ ۃ کے ذرائع کو استقلال سے استعمال کرتا چلا جائیگا۔
۶۹؎حل لغات:۔ لَا تَقُوْلُوْ الِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتُٗ۔جب قَالَ کے بعد صلہ کے طور پر لام آئے تو اُس کے معنے خطاب کے ہوتے ہیں۔ چنانچہ جب قَالَ لِفُلَافٍ کہیں تو اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ اُس نے فلاں کو کہا ۔ اِسی طرح قَالَ لِفُلَافٍکے یہ بھی معنے ہوتے ہیں کہ اُس کے حق میں کہا ۔ پس اس آیت میں دونوں معنے ہیں ۔ یہ بھی کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے راستے میں مارے جاتے ان کو مردہ مت کہواور یہ بھی کہ تم اُن کے بارہ میں یہ نہ کہو کہ وہ مردہ ہیں۔ اس آیت میں اَمْوَاتُٗ سے پہلے اور بَلْ کے بعد دونون جگہ ھُمْ محذوت ہے ۔ پس عبادت یوں ہوگی ھُمْ اَمْوَاتُٗ بَلْ ھُمْ لَحْیَآئُٗ۔
اَمْوَاتُٗکیلئے دیکھیں حل لغات سورۃ بقرۃ ۶۹؎یَّشْعُرُوْنَ :۔ دیکھیں حل لغات سورۃ بقرہ۱۵؎
تفسیر :۔ اِس آیت میں خدا تعالیٰ کی راہ میں شہید ہونیوالوں کو اس لئے زندہ کہا گیا ہے ۔ کہ اہل عرب میں یہ رواج تھا کہ جو لوگ ماریجائیں اور اُن کا بدلہ لے لیا جائے اُن کلئے تو وہ اَحْیَاء کا لفظ استعمال کرتے تھے اور اُن کو زندہ کہتے تھے ۔لیکن جن مقتولوں کا بدلہ نہ لیا جائے وہ انہیں اَمْوَاتُٗ یعنی مردے کہا جاتے تھے ۔یہ محاورہ اُن میں اس لئے رائج ہوا کہ عربوں میں یہ مشہور تھا کہ جو شخص ماراجائے اور اس کا بدلہ نہ لیا جائے اُس کی روح الو کی شکل میں آکر چیختی رہتی ہے اور جب اس کا بدلہ لے لیا جائے تب وہ آرام کرتی ہے ۔ اس سے ان میں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ جس مقتول کا بدلہ لے لیا جائے وہ زندہ ہوتا ہے ۔اور جس کا بدلہ نہ لیا جائے وہ مردہ ہوتا ہے ۔چنانچہ انہی معنوں میں ایک شاعر حارث بن حلزہ نے کہا ہے کہ ؎
اِنْ فَبِشْتُمْ مَا بَیْنَ مَلْحَۃَ فَالصَّاقِبٖ
فِیْھاَ ا لْاَ مْوَ تُ وَ ا لْاَ حْیَآء‘
(سبعہ معلقات قصیدہ نمبر۷)
اس میں شاعر فریق مخالفکو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ تم یہ سمجھتے ہو کہ تم بڑے شریف اور معزز ہو مگر ایسا ہرگز نہیں تم ملحہ اور صاقب کے درمیان جہاں ہمارے اور تمہارے در میان جنگ ہوئی تھی جائو اور وہاں قبریں کھود کر دیکھو تو اُن میں تمہیں کچھ مردے دکھائی دینگے اور کچھ زندہ۔ یعنی تم نے اپنی قوم کے مقتولوں کا بدلہ نہیں لیا۔ اس لئے وہ مردہ ہیں مگر ہمارے جو آدمی نکلیں گے وہ بزبان حال بتاتے جائیں گے کہ وہ زندہ ہیں کیونکہ ان کا بدلہ لے لیا گیا ہے۔ اس میں اس بارہ میں اتینی غیرت تھی کہ اگر کسی مقتول کا بدلہ نہ لیا جاتا تو وہ اُسے حد درجہ کے بے غیرتی سمجھتے تھے کیونکہ ان میں یہ روایت چلی آتی تھی کہ جس مقتول کا بدلہ نہ لیا جائے اس کی رُوح اُلو بن کر رات دن چیختی رہتی ہے اور جب اس کا بدلہ لے لیا جائے تب وہ نجات پاتی ہے۔ پس شاعر کہتا ہے کہ تم ہمارے باپ دادوں کی قبریں کھود کر دیکھو اور ان سے پوچھو کہ ان کا بدلہ الے لیا گیا ہے یا نہیں ہم نے انکی بجائے دشمن قبیلہ کے کئی کئی اشخاص مار دیئے ہیں۔ پس ہمارے باب دادا مرے نہیں بلکہ وہ زندہ ہیں۔ اگر اُن میں کچھ لوگ مرے ہوئے نظر آئیں تو وہمارے باپ دادا نہیں ہونگے بلکہ تمہارے باپ دادا ہونگے غرض جس مقتول کا بدلہ لے لیا جائے اہل عرب کے محاورہ کے مطابق وہ زندہ ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ جو مسلمان شہید ہو گئے ہیں تم انہیں مردہ مت کہو۔ وہ خداتعالیٰ کے زندہ سپاہی ہیں۔ اور خداتعالیٰ ان کا ضرور بدلہ لے گا۔ چنانچہ اگر ایک صحابیؓ مارا گیا تو اس کے مقابلہ پر مشرکوں کے پانچ پانچ آدمی مارے گئے۔ اور ہر جنگ میں کفار مسلمانوں کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہلاک ہوئے۔ سوائے جنگ ِ اُحد کے کہ اس میں بہت سے مسلمان مارے گئے تھے مگر اُن کا بدلہ بھی خداتعالیٰ نے دوسری جنگوں میں لے لیا۔
دوسرے معنی محاورہ میں اس کے یہ ہوتے ہیں کہ جس شخص کا کام جاری رکھنے والے لوگ پیچھے باقی ہوں اس کے نسبت بھی کہتے ہیں۔ مَامَاتَ کہ وہ مرا نہیں اور مردہ اسے کہتے ہیں جو مرے اور اس کا کوئی اچھا اور نیک قائم مقام نہ ہو۔ چنانچہ عبدالملک بادشاہ نے زہری کے ایک مدرسہ کا معائنہ کیا تو اس مدرسہ کے طلباء میں اصمعی بھی تھے جو بہت بڑے مشہور نجومی گزرے ہیں۔ بادشاہ نے اصمعی کا امتحان لیا اور اس سے کوئی سوال پوچھا تو اصمعی نے اس کا نہایت معقول جواب دیا۔ بادشاہ نے اس کا جواب سن کر خوش ہو کر زہری سے کہا کہا مَامَاتَ مَنْ خَلَفَ مِثْکَ کہ وہ شخص نہیں مرا جس نے ایسے لوگ پیچھے چھوڑے ہوں جیسا کہ تو نے چھوڑے ہیں۔ اس لحاظ سے اس آیت کے یہ معنے ہونگے کہ یہ لوگ مردہ نہیں کہلا سکتے کیونکہ جس کام کے لئے انہوں نے جان دی ہے اس کے چلانے والاے لوگ موجود ہیں۔ اور ایک کے مرنے پر دو اس کی جگہ لینے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ پس ان کے متعلق یہ نہ کہو کہ وہ مردہ ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اچھے قائم مقام پیدا کر دیئے ہیں۔ اور یہ لوگ اپنی تعداد میں پہلے سے بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ مردہ تو وہ ہوتا ہے جس کا بعد میں کوئی اچھا قائم مقام نہ ہو مگر ان کے تو بہت سے قائم مقام پیدا ہو گئے ہیں اور اائندہ بھی ایسا ہی ہو گا کہ ہم ان میں سے ایک ایک کی جگہ کئی کئی قائم مقام پیدا کرتے چلے جائیں گے اور وہ قوم کبھی مرتی نہیں جس کے افراد اپنے شہداء کی جگہ لیتے چلے جائیں جو قوم اپنے قائم مقام پیدا کرتی چلی جاتی ہے وہ خواہ کتنی بھی چھوٹی ہو اسے کوئی مار نہیں سکتا پس فرماتا ہے کہ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ مسلمان مارئے گئے ہیں مسلمان مرے نہیں بلکہ زندہ ہیں۔ اگر ان میں سے ایک مرتا ہے تو دوسرا اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ اگر جنگ بدر میں کچھ مسلمان مارتے گئے تو اُحد میں اس سے زیادہ کھڑے ہو گئے۔اُحد میں کچھ تکلیف پہنچی اور کچھ مسلمان مارے گئے تو غزوہ خندق میں اس سے زیادہ کھڑے ہو گئے۔ اور غزوہ خندق کے مقابلہ میں فتح مکہ کے موقعہ پر زیادہ لوگ آئے اور اگر فتح مکہ کے موقعہ پر ان کو کچھ نقصان پہنچاتو جنگ تبوک میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے کہیں زیادہ تعداد لے لگئے۔ غرض ہر قدم پر پہلے سے زیادہ قربانی کرنے والے لوگ اُن میں موجود ہوتے تھے۔ اور جو قوم قربانی کے اس مقام پر پہنچ جاتی ہے اُسے کوئی تباہ نہیں کر سکتا اور ایسی قوم وہی ہوتی ہے جسے خداتعالیٰ خود کھڑا کرتا ہے۔
تیسرے معنے محاورہ میں اس کے یہ ہوتے ہیں کہ وہ رنج و غم سے آزاد ہیں۔ یعنی جس کا آخری حال یہ ہوا ہے کہ وہ خداتعالیٰ کی راہ میں قتل کیا گیا۔ اُسے اگلے جہان میں کیا دُکھ پہنچنا ہے۔ پس چونکہ وہ خوش و خرم ہیں اور اس زندگی سے اعلیٰ زندگی پا چکے یہں اس لئے ان کو مردہ نہ کہو۔کیونکہ موت غم کی حالت پر دلالت کرتی ہے ورنہ قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد زندگی تو کافر و مومن سب کو ملیگی پس اُن کو مردہ نہ کہنے سے یہ منشاء ہے کہ مردہ کہنے میں دُکھ کا مفہوم پایا جاتا ہے حالانکہ وہ سُکھ میں ہیں اور اُن کو خداتعالیٰ کی طرف سے انعامات مل رہے یہں پھر انہیں مردہ کہنا کس طرح درست ہو سکتا ہے۔
چوتھے معنے اس کے یہ ہیں کہ شہید کو ایک اعلیٰ حیات مرنے کے بعد ہی مل جاتی ہے۔ جبکہ دوسرے لوگوں کو عرصہ تک ایک درمیانی حالت میں رہنا پڑتا ہے۔ بعض حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ شہید تین دن کے اندر اندر زندہ ہوجاتا ہے۔ اور اس کمال کو حاصل کر لیتا ہے جسے دوسرا شخص ایک لمنے عرصے میں حاصل کرتا ہے۔ پس فرماتا ہے ان لوگوں نے مرکر فوراً وہ زندگی حاصل کر لی ہے جس میں رُوح کو کمال حاصل ہو جاتا ہے ورنہ عام زندگی میں تو سب لوگ شریک ہوتے ہیں۔ حتیّٰ کہ ابوجہل کو بھی وہ زندگی حاصل ہو گی اگر وہ زندگی اُسے حاصل نہیں تو وہ جہنم میں کیسے جائیگا۔ پس زندگی تو مومن اور کافر دونوں کو حاصل ہوگی۔لیکن شہید چونکہ خداتعالیٰ کی خاطر اپنی زندگی دے دیتا ہے۔ اس لئے اُسے مرنے کے بعد ہی ایک اعلیٰ حیات مل جاتی ہے۔
پھر اس آیت میں شہید کو زندہ قرار دینے کی ایک یہ بھی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ راہ میں جان دینے میں مومن کو صرف یہی خدشہ ہوتا ہے کہ اگر میں مرگیا تو اعمال صالحہ سے محروم رہ جائوں گا۔ مثلاً ایک شخص کی عمر چالیس سال ہے ۔ اگر ساٹھ سال تک وہ اور زندہ رہتا تو اس عرصہ میں وہ ایک بہت سی نیکیاں کر سکتا تھا۔ پس موت کے راستہ میں صرف یہی ایک خیال اس کے لئے روک بن سکتا ہے ورنہ اگر وہ صحیح طور پر آخرت کو مقدم کرتا ہے تو کوئی دنیوی خیال اس کے راستہ میں روک بن ہی نہیں سکتا۔ یہی ایک خیال ہے جو اُسے جان دینے سے روک سکتا ہے کہ اتنی مدت کی نمازوں روزوں جہاد اور تبلیغ سے محروم رہ جائوں گا اس شبہ کی معقولیت کو اللہ تعالیٰ نے بھی تسلیم کیا ہے اور پھر اس کا جواب بھی دیا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَات’‘ بَلْ اَحْیَآء‘۔ تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان دینے والوں کو مُردہ مت کہو وہ مردہ نہیں بلکہ زندہ ہیں۔یعنی شہید کے اعمال کبھی ختم نیہں ہو سکتے وہ زندہ ہے اور اس کے اعمال ہمیشہ بڑھتے رہتے ہیں۔ اس نے خدا کے لئے اپنی جان قربان کر دی اور خدا نے نہ چاہا کہ اُس کے اعمال ختم ہو جائیں۔ کوئی دن نہیں گذرتا کہ تم نمازیں پڑھو اور ان کا ثواب تمہارے نام لکھا جائے اور شہید اُن سے محروم رہے کوئی رمضان نہیں گذرتا کہ تم اُسکے روزے رکھو اور اُن کا ثواب تمہارے نام لکھا جائے اور شہید اس سے محروم رہے۔ کوئی حج نہیں کہ تم تکلیف اٹھا کر اس کا ثواب حاصل کرو اور شہید اس ثواب سے محروم رہے غرض وہ لوگ وہی برکتیں حاصل کر رہے ہیں جو تم کر رہے ہو اور اس طرح خداتعالیٰ کے قرب میں بڑھتے چلے جا رہے ہیں جس طرح تم بڑھتے جا رہے ہو۔پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فلسفۂ موت و حیات پر نہایت لطیف رنگ میں روشنی ڈالی ہے۔ اور بتایا ہے کہ شہادت کا مقام حاصل کرنے والوں کو دائمی حیات حاصل ہوتی ہے ۔ چنانچہ دیکھ لو جس دن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو یزید کی فوجوں نے مارا ہو گا۔ وہ کس قدر خوش ہوئی ہونگی اور انہوں نے کس مسرت سے کہا ہو گا کہ لو یہ قصہ ختم ہو گیا۔ مگر کیا واقعہ میں وہ قصہ ختم ہو گیا؟ دنیا دیکھ رہی ہے کہ امام حسین ؓ آج بھی زندہ ہیں۔ مگر یزید کو اس وقت بھی مردہ سمجھا جاتا ہے اسی طرح جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے رستہ میں قربان ہوتا ہے تو اس کا خون رائیگاں نہیں جاتا بلکہ اس کی جگہ اللہ تعالیٰ ایک قوم لاتا اور اپنے سلسلہ میں داخل کرتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہوتے ہیں تم انہیں مردہ مت کہو کیونکہ وہ زندہ ہیں۔ خداتعالیٰ نے ان لوگوں کو زندہ اس لئے بھی کہا کہ جب ایک شخص کی جگہ دس کھڑے ہو گئے تو وہ مرا کہاں۔ اور جب وہ مرا نہیں تو اُسے مردہ کہنا کس طرح درست ہو سکتا ہے؟ پس اللہ تعالیٰ کے مقربین اور اس کی راہ میں شہید ہونے والے کبھی نہیں مرتے حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب پر لٹکائے گئے اور پھر وہ زندہ ہی صلیب سے اُتارے گئے گو جیسا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے بعض نے یہ بھی سمجھا کہ آپ مر گئے ہیں۔ مگر آپ کو صلیب پر لٹکانے والوں کا کیا انجام ہوا۔ اس صلیب پر لٹکانے کے جرم میں آج بھی جب کہ اس واقعہ پر انیس سو سال کا عرصلہ گذر چکا ہے یہود صلیب پر لٹکے ہوئے ہیں۔ حالانکہ پچاس ساٹھ سال کے بعد لوگ اپنے دادوں پڑدادوں کا نام تک بھول جاتا ہیں بیسیوں آدمی ہیں جو مجھ سے ملتیہ یں اور میں ان سے دریافت کرتا ہوں کہ آپ کے دادا کا کیا نام تھا تو وہ بتا نہیں سکتے۔ اور کہتے ہیں پتہ نہیں کیا نام تھا اور اگر دادا کا نام لوگ جانتے بھی ہوں تو سو سال پہلے کے آباء کو تو لاکھوں کروڑوں میں سے کوئی ایک جانتا ہے مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مارنے کی کوشش پر انیس سوسال گذر گئے اور آج تک یہودیوں کو پھانسیاں مل رہی ہیں۔ اسی طرح مکہ کے جن اکابر نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مارنا چاہا۔ کیا آج دنیا میں ان لوگوں کا کوئی نام لیوا ہے؟ اُحد کے مقام پر ابوسفیان نے آواز دی تھی اور کہا تھا کیا تم میں محمد( صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کو مارڈالا ہے ۔ پھر اس نے آواز دی۔ کیا تم میں ابو بکرؓ ہے؟ اور جب اس کا بھی جواب نہ ملا تو اس نے کہا ہم نے ابو بکرؓ کو بھی مار ڈالا ہے۔ پھر اس نے پوچھا کیا تم میں عمرؓ ہے؟ جب اس کا بھی جواب نہ ملا تو اس نے کہا ہم نے عمرؓ کو بھی مار ڈالا ہے ۔لیکن آج جائو اور دنیا کے کناروں پر اس آواز دینے والے کے ہمنوا کفار کے سردار ابوجہل کو بلائو اور آواز دو ۔ کہ کیا تم میں ابوجہل ہے۔ تو تم دیکھو گے کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نام پر تو کروڑوں آوازیں بلند ہونا شروع ہو جائیں گی اور ساری دنیا بول اُٹھیگی کہ ہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہم میں موجود ہیں کیونکہ آپکی نمائندگی کا شرف ہمیں حاصل ہے۔ لیکن ابوجہل کو بلانے پر تمہیں کسی گوشہ سے بھی آواز اٹھتی سنائی نہیں دیگی۔ ابوجہل کی اولاد آج بھی دنیا میں موجود ہے مگر کسی کو جرات نہیں کہ وہ یہ کہہ سکے کہ میں ابوجہل کی اولاد میں سے ہوں۔ شاید عتبہ اور شیبہ کی اولاد بھی آج دنیا میں موجود ہو۔ مگر کیا کوئی کہتا ہے کہ میں عتبہ اور شیبہ کی اولاد ہوں۔ پس خداتعالیٰ کی راہ میں مارے جانے والے کبھی نہیں مرتے بلکہ وہ قیامت تک زندہ رہتے ہیں اور آئندہ نسلیں ان کا نام لے لے کر ان کے لئے دعائیں کرتی ہیں ان کی خوبیوں کو یاد رکھتی ہیں اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ تحویل قبلہ کے متعلق مفسریں سے جو میں اختلاف رکھتا ہوں اس میں میں حق پر ہوں۔ اگر وہاں فتح مکہ مراد نہ لی جائے بلکہ تحویل قبلہ مراد لیں تو اس آیت کا یہاں کوئی تعلق ہی معلوم نہیں ہوتا۔ نماز اور قبلہ کے ذکر میں شہیداء کا ذکر کیسے آگیا۔ جنگ کے ساتھ شہداء کا ذکر قابلِ تسلیم بھی ہے لیکن تحویل قبلہ کے ساتھ اس کا ذکر بالکل بے جوڑ معلوم ہوتا ہے۔ پس یہ آیت اس بات کی تائید کرتی ہے کہ پہلی آیت وَمِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ سے مراد فتح مکہ ہی ہے کیونکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ اگر فتح مکہ کی غرض سے تمہیں لڑائیاں کرنی پڑیں تو گھبرانا نہیں کیونکہ اس میں تمہاری زندگی ہے اور جو لوگ مارے جائیں ان کو مردہ مت کہو۔ کیونکہ وہ زندہ ہیں اور جو لوگ اپنی نادانی سے اُن کو مردہ کہتے ہیں ان کے نفس میں اتنی حِس ہی نہیں کہ وہ اس کی اہمیت کو محسوس کریں اس میں ان معترضین کا بھی جواب ہے جو کہتے ہیں کہ لڑائیوں کی اور اپنی جانوں کو قربان کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو فرماتا ہے کہ تمہاری آنکھیں اس بینائی سے جو اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو عطا کی ہے محروم ہیں۔ تم کو کیا معلوم کہ اسلام کی فتح کی بنیاد انہی لوگوں کے ہاتھ سے رکھی جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں مارے جاتے ہیں ہاں مارے جانے والے اس کو خوب سمجھتے ہیں کہ ہمارے شہید ہونے سے اسلام کو کیا فائدہ ہو گا۔ چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک فعہ حضرت جابربن عبداللہ کو دیکھا کہ وہ بہت افسردہ اور غمگین کھڑے ہیں۔ آپ نے فرمایا تم کیوں غمگین ہو۔ انہوں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ ! میرے والد اُحد کی جنگ میں مارے گئے ہیں اور انہوں نے اپنے پیچھے بہت بڑا عیال اور قرضہ چھوڑا ہے اس لئے میں افسردہ ہوں ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا۔ کیا میں تمہیں خوشخبری نہ دوں کہ موت کے بعد تمہارے والد کے ساتھ کیا معاملہ ہوا۔ وہ خداتعالیٰ کے سامنے جب زندہ ہو کر حاضر ہوئے توا للہ تعالیٰ نے ان سے خو ش ہو کر بالمشافہ کلام کیا اور فرمایا۔ اے مریے بندے تو مجھ سے جو کچھ مانگنا چاہتا ہے مانگ میں تجھے دوںگا۔ انہوں نے عرض کیا حضور میری صرف اتنی ہی خواہش ہے کہ میں پھر زندہ ہو کر دنیا میں جائوں اور ااپ کیر اہ میں مارا جائوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں ایسا کر تو سکتا ہوں مگر میں یہ قانون بنا چکا ہوں کہ جو ایک دفعہ مر جائے اس کو دنیا میں واپس نہیں بھیجوں گا۔
(ترمذی جلد ۳ ابواب التفسیر سورہ آل عمران) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو سچا ایمان لاتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ہمارا مرنا قوم کو زندہ کرنے کا موجب ہو گا اور آخرت میں بھی ہمارے لئے بہت بڑا ثواب کا موجب ہو گا اس لئے وہ موت کو کوئی خوف والی چیز نہیں سمجھتے۔ وہ خداتعالیٰ کی رہ میں جان دے کر بھی زندہ ہوتے ہیں اور جانیں نہ دینے والے زندہ رہ کر بھی مردہ ہوتے ہیں۔چنانچہ ڈپٹی عبداللہ آتھم کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو انذاری پیشگوئی فرمائی تھی جب اس کی میعاد گذر گئی اور آتھم نہ مرا تو ظاہربین لوگوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ مرزا صاحب کی پیشگوئی جھوٹی نکلی۔ ایک دفعہ نواب صاحب بہاولپور کے دربار میں بھی بعض لوگوں نے ہنسی اڑانی شروع کر دی کہ مرزا صاحب کی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی اور آتھم ابی تک زندہ ہے اُس وقت دربار میں خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں والے بھی بیٹھے ہوئے تھے جن کے نواب صاحب مرید تھے۔باتوںباتوں میں نواب صاحب سے مونہہ سے بھی یہ فقرہ نکل گیا کہ ہاں! مرزا صاحب کی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی۔ اس پر خواجہ غلام فریم صاحب جوش میں آگئے۔ اور انہوں نے بڑے جلال سے فرمایا کہ کون کہتا ہے کہ آتھم زندہ ہے مجھے تو اس کی لاش نظر آرہی ہے اس پر نواب صاحب خاموش ہو گئے توبعض لوگوں ایسے بھی ہوتے ہیں جو بظاہر زندہ معلوم ہوتے ہیں لیکن حقیقتاً مردہ ہوتے ہیں۔ اور بعض مردہ نظر آتے ہیں لیکن حقیقتاً زندہ ہوتے ہیں۔ اور جو لوگ زندہ ہوتیہ یں ان میں سے ہزاروں روحانی نگاہ رکھنے والوں کو مرادہ دکھائی دیتے ہیں۔ کسی بزرگ کے متعلق لکھا ہے کہ وہ قبرستان میں رہتے تھے ایک دفعہ کسی نے ان سے کہا کہ آپ زندوں کو چھوڑ کر قبرستان میں کیوں آگئے ہیں۔ پس رُوحانی مردوں اور رُوحانی زندوں کو پہچاننا ہر ایک کا کام نہیں۔ مگر اس جگہ اللہ تعالیٰ نے ایک ظاہری علامت ایسی بتا دی ہے جس سے روحانی مردوں اور زندوں کو پہچاننے میں بڑی حد تک آسانی ہوتی ہے۔
وَلٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ۔ شعور وہ علم ہوتا ہے جو انسان کے اندر کی طرف سے باہر کو آتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص کسی دوسرے سے کوئی بات سن کر ایک نتیجہ قائم کرے تو وہ شعور نہیں کہلائیگا۔ وہ یہ نہیں کہہ سکیگا کہ میں نے شعور حاصل کر لیا۔ بلکہ یہ کہگا کہ مجھے علم ہو گیا۔ لیکن اگر اس کے نفس کے اندر سے وہ بات پیدا ہو تو وہ کہگا مجھے فلاں بات کا شعور ہوا۔ چنانچہ جب ایک بچہ بالغ ہو جاتا ہے تو کہتے ہیں کہوہ شعور کی عمر تک پہنچ گیا حالانکہ اس کو علم پہلے بھی حاصل ہوتا ہے بالوں کو شعار اسی لئے کہتے ہیں وہ اندر سے باہر کی طرف آتے ہین اور شعار لباس کو کہتے ہیں جو جسم کے ساتھ چمٹا ہوا ہوتا ہے اور شعر کو بھی اس لئے شعر کہتے ہیں کہ اس کے الفاظ اندر سے باہر آتے ہیں اور اس کا مضمون ایسا ہوتا ہے جو انسان کے اندرونی احساسات کا ترجمان ہوتا ہے اور اُسے پڑھ کر انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ یہ بات تو میرے اندر بھی پائی جاتی ہے۔ چنانچہ غالب اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ۔ ؎
دیکھنا تقریر کی لذت کہ ج اُس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ یہ باتیں کہ شہداء کو ایک اعلیٰ درجہ کی حیات حاصل ہے۔ یا ایک ایک شہید کی جگہ لینے کیلئے پچا پچاس ور سو سو آدمی آئیں گے یا دو رنج و غم سے کلی طور پرآزاد ہیں۔ یا ان کے خون رائیگاں نہیں جائیں گے انسانی شعور سے تعلق رکھتی ہیں اگر کوئی شخص فطرتِ صحیحہ پر غور کرنے کا عادی ہو تو وہ سمجھ سکتا ہے کہ اس دنیا میں کوئی چیز بھی قربانی کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔ ماں جب تک اپنی جان کی قربانی پیش نہیں کرتی اُسے بچہ حاصل نہیں ہوتا۔ دانہ جب تک خاک میں مل کر اپنی جان کو نہیں کھوتا وہ ایک سے ساتھ سو دانوں میں تبدیل نہیں ہوتا۔ اسی طرح کوئی قوم زندہ نہیں ہو سکتی جب تک اس کے افراد جانوں کو ایک بے حقیقت شیٗ سمجھ کر اُسے قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار نہ ہوں اور کوئی قوم زندہ نہیں رہ سکتی جب تک اس کے افراد کے دلوں میں اپنے شہداء کا پورا احترام نہ ہو۔ یہ ایک فطرتی آواز ہے جو شعور کے کانوں سے سنی جا سکتی ہے مگر جن لوگوں کو شعور حاصل نہیں۔ وہ بات بات پر اعتراض کرتے رہتے ہیں اور جب بھی کسی مالی یا جانی قربانی کا مطالبہ کیا جائے ان کے قدم لڑکھڑانے لگ جاتے ہیں۔ اور وہ ان لوگوں کو بیوقوف سمجھتے جو اپنے آپ کو قربانیوں کی آگ میں جھونکنے کے لئے آگے نکل آتے ہیں اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو نصیحت کرتا ہے کہ تم اپنے شعور سے کام لو اور شہدا ء کو مردہ کہہ کر ان کی بے حرمتی مت کرو۔ وہ مردہ نہیں بلکہ حقیقتاً وہی زندہ ہیں۔ کیونکہ تاریخ ان
وَلَنَبْلُوَ نَّکُمْ
وَبَشِّرِالصّٰبِرِیْنَo
کے نام کو زندہ رکھی گی اور آئندہ آنے والی نسلیں انہیں کے نقشِ قدم پر چلیں گی اور ان کے کارناموں کو یاد رکھیں گی اورہمیشہ ان کی بلندی درجات اور مغرفرت کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دُعائیں کرتی رہیں گی۔ تم اُسے زندہ سمجھتے ہو جو جسد عنصری کے ساتھ زندہ ہو حالانکہ زندہ وہ ہے جس نے مرکر اپنی قوم کو زندہ کر دیا اگر تمہیں شہداء بھی مردہ نظر آتے ہیں تو اس کے معنے یہ ہیں کہ تمہارا شعور ناقص ہے تم اس کی اصلاح کرو اور زندگی اور موت کے سلسلہ کو سمجھنے کی کوشش کرو۔
۷۰؎ حل لغات:۔ وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ: بَلَا ء’‘ کسی کے خیر اور شر کے ظاہر کرنے کو کہتے ہیں اور یہ ظاہر کرنا تین اگراض کے لئے ہوتا ہے۔ اول اپنا علم بڑھانے کے لئے جیسے اُستاد اپنے شاگرد کا اس غرض کے لئے امتحان لیتا ہے کہ اُسے معلوم ہو کہ طالب علم نے اپنا سبق یاد کیا ہے یا نہیں۔ دوم اس لئے کہ جس کو ابتلاء میں ڈالا گیا ہے اس کو معلوم ہو جائے کہ اس کی کیسی حالت ہے کیونکہ عام لوگ خود بھی نہیں جانتے کہ جلاں بات ہم میں ہے یا نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ ایک جگہ منافقوں کے متعلق فرماتا ہے وَمَایَخْدَعُوْنَ اِلَّا اَنْفُسَھُمْ وَمَا یَشْعُرُوْنَ(بقرۃ ع۲)یعنی منافق فسادی ہیں مگر وہ اس امر کو سمجھتے نہیں کہ ہم فساد کر رہے ہیں۔ سوم۔ اس لئے کہ دوسروں کو معلوم ہو جائے کہ اس شخص کی ایمانی حالت کیسی ہے۔ یہ مثال اعلیٰ درجہ کے لوگوں کی ہوتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم ؑسے سوال کیا تو اس کی غرض یہ تھی کہ فرشتوں کو معلوم ہو کہ آدم ؑ میں کیا کیا طاقتیں ہیں۔ خدا تعالیٰ چونکہ غلیم و خبیر ہے ۔ اس لئے جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے متعلق استعمال ہوتا ہے تو پچھلے دو مونوں میں استعمال ہوتا ہے۔ نہ کہ پہلے ہیں اگر ابتلاء نہ آئے تو انسان ایمان میں ترقی نہ کر سکے۔ اور اسے معلوم ہی نہ ہو کہ اس کے ایمان کی کیا حالت ہے۔(مزید تشریح کے لئے دیکھیں حل لغات سورۃ بقرہ۵۰؎)
ثَمَرات: اس کے معنے پھلوں کے بھی ہوتے ہیں اور کوششوں کے نتائج کے بھی۔
وَبَشِّرِالصّٰبِرِیِنْ: بشارت ایسی خبر کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے چہرہ پر اثر پڑے۔ خواہ وہ خوشی کی خبر ہو یا غم کی۔
تفسیر:۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے پانچ قسم کے ابتلائوں کا ذکر فرمایا ہے اور کہا ہے کہ ہم اپنی ذات کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ تم ان ابتلائوں میں سے گذرے بغیر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں کر سکتے۔ ایک ابتلاء تو یہ ہو گا کہ دشمنوں کے حملوں کا خوف تمہیں لاحق ہو گا۔ ساری قومیں تمہارے خلاف کھڑی ہو جائیں گی۔ اور تم یہ حملہ کریں گی۔ حکومتیں تم سے ناراض ہو جائیں گی۔ اور تمہیں مٹانے کی کوشش کرینگی۔ یہ چیزیں ایسی ہیں جن سے بزدل لوگ ڈر جاتے ہیں اور کہتے ہیں خدا جانے اب کیا ہو گا اور بہت سے لوگوں کے حوصلے اس خوف کی وجہ سے پست ہو جاتے ہیں ان کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں اور وہ یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ پبلک اور حکومت نے ہمارے خلاف جتھہ بنا لیا ہے یا پنچائت نے ہمارے خلاف فیصلہ کر دیا ہے۔
پھر اس سے ترقی ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ بھوک کے ذریعے مومنوں کے ثباتِ قسم کا امتحان لیتا ہے۔ بھوک کی تکلیف سے یہ مراد ہے کہ جب خداتعلایٰ کے مامور کی آواز پر ایک گروہ جمع ہو جاتا ہے تو لوگ ان کا بئیکاٹ کر دیتے ہیں۔ ملازمتوں سے برخواست کر دیتے ہیں۔ دوکانوں سے سودا نہیں دیتے۔ پیشہ وروں سے کام لینا بند کر دیتے ہیں گویا پہلے تو صرف دھمکیاں دیتے ہیں جن کی وجہ سے خوف لاحق ہوتا ہے کہ وہ کہیں نقصان نہ پہنچادیںمگر دوسرے قدم پر وہ عملی رنگ میںبھوک اور افلاس کے سامان پیدا کر دیتے ہیں مثلاً یہ کہ ان کو کوئی سودا نہیں دینا۔ ان کے پاس غلہ نہیں بیچنا جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب شعب ابی طالب میں محصور کر دیا گیا تو ہر قسم کے کھانے پینے کی چیزیں روک لی گئیں اور یہ بائیکاٹ کا سلسلہ ایک لمبے عرصے تک جاری رہا۔
پھر فرماتا ہے کہ ان مصائب کا سلسلہ یہیں تک محدود نہیں رہے گا بلکہ تمہارے مالوں کا لوٹنا بھی جائز قرار دے دیا جائیگا۔ گویا پہلے تو اپنے پاس سے مال واسباب اور سودا اور غلہ وغیرہ دینا بند کیا جائیگا اور پھر مومنوں کے پس جو کچھ اندوختہ ہو گا اُسے بھی لوٹنا جائز قرار دے دیا جائیگا۔ لیکن جب اس سے بھی کچھ نہیں بنتا تو پھر وہ مومنوں کی جانوں پر حملہ شروع کر دیتے ہیں۔لیکن جب وہ جان دینے سے بھی باز نہیں آتے تو ان کی اولادوں پر حملے کرنے لگ جاتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے ہمارے سالانہ جلسہ کے موقعہ پر بعض خبیث الطبع لوگ ایسے بھی آتے ہیں جو احمدیوں کے بچے اُٹھا کر لے جانے کی کوشش کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہا س ذریعہ سے جماعت کو دکھ پہنچائیں اسی طرح ثمرات کے نقصان سے یہ بھی مراد ہے کہ دشمن ان کی کوششوں میں رخنہ ڈالیں گے اور انہیں مکٹلف قسم کے منافع سے محروم کرنے کی کوشش کریں گے۔
یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ ادنیٰ درجہ کے مومنوں پر جو ابتلاء آتے ہیں وہ تو اس لئے آتے ہیں کہ انہیں معلوم ہو جائے کہ ان کی ایمانی حالت کیسی ہے۔ اور جو اعلیٰ درجہ کے مومنوں پر آتے ہیں وہ اس لئے آتے ہیں کہ دوسروں کو معلوم ہو جائے کہ ان کی کیا حالت ہے۔ عام طور پر لوگ اپنے متعلق خیال کرتے ہیں کہ انہیں ایمان میں ثباتِ قدم حاصل ہے مگر موقعہ آنے پر ان سے کزوری ظاہر ہو جاتی ہے اور ان کو معلوم ہو جاتا ہے کہ ہمارے اندر یہ یہ کمزوری ہے اور وہ اس کو دور کرنے کی وشش کرتے ہیں پھر ابتلاء آتا ہے تو انکو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے اندر فلاں نقص بھی موجود ہے اور وہ اُسے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں پھر ابتلاء آتا ہے تو ان کو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے اندر فلاں نقص بھی موجود ہے اور و ہ اُسے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح رفتہ رفتہ وہ کمال کو پہنچ جاتے ہیں۔ لیکن اعلیٰ درجہ کے لوگوں پر اس لئے ابتلاء لائے جاتے ہیں تاکہ دوسروں کو معلوم ہو جائے کہ یہ کیسے اعلیٰ مقام پر پہنچے ہوئے ہیں کہ کوئی مصیبت ان کے پائے ثبات میں لغزش پیدا نہیں کرتی۔ غرض بتایا کہ ہم تمہارے اندرونہ کو ظاہر کرنے کے لئے پانچ قسم کے ابتلاء تم پر وارد کرینگے۔ جن میں سے ایک خوف ہو گا جو بیرونی دکھ کا نام ہے دوسرا ابتلاء بھوک کا ہو گا۔ جو اندرونی تکلیف ہے۔گویا بعض کوبیرونی دکھوں اور تکالیف کے ذریعہ اور بعض کو اندرونی تکلیفوں کے ذریعہ سے ہم آزمائیں گے۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو لڑائی کے لئے تو تیار ہو جاتے ہیں مگر بھوک کو برداشت نہیں کر سکتے۔ فوجوں میں سپاہی لڑتے ہیں مگر چونکہ وہ بھوک کو برداشت نہیں کر سکتے۔ اس لئے انہیں چنے وغیرہ دیئے جاتے ہیں۔ مگر مومن کی یہ حالت نہیں ہوتی وہ خدا کے لئے بھوکا رہنے کو بھی تیار ہو جاتا ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ صحابہؓ کو باہر بھیجا تو ان میں سے کسی نے بھی یہ نہ پوچھا کہ ہم کھائینگے کیا۔ چنانچہ وہ پتے کھا کر گذارہ کرتے تھے۔ اسی طرح ایک دفعہ انہوں نے کھجوروں کی گٹھلیاں کھا کر گذارہ کیا۔ پس فرمایا ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ تم بہادر ہو یا نہیں اور یہ بھی کہ تم بھوک برداشت کرتے ہو یا نہیں۔
الَّذِیْنَ اِذَآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَo
پھر بعض لوگ بھوک اور خوف تو برداشت کر لیتے ہیں مگر مال کے خطرہ کو برداشت نہیں کر سکتے بعض مال کے خطرہ کو برداشت کر لیتے ہیں مگر جان کے خطرہ کو برداشت نہیں کر سکتے۔ پس فرماتا ہے تمہیں مالی اور جانی نقصانات بھی برداشت کرنے پڑیں گے اور بعض دفعہ اپنی کوششوں کے نتائج سے بھی محروم رہنا پڑیگا۔ ثمرات کے کم ہونے کی مثال اُحد کی جنگ ہے کہ ہو کفار سے لڑے بھی اور شہید بھی ہوئے مگر انہیں اس کا ثمرہ نہ ملا۔ اسی طرح ثمرات کے نقصان میں تجارت اور صنعت و حرفت وغیرہ کی بربادی بھی شامل ہے۔ جو جنگ کا ایک لازمی نتیجہ ہوتی ہے غرض بتایا کہ بعض دفعہ ایسا بھی ہو گا کہ تم کام کرو گے مگر اس کے فوائد تمہاری امیدوں کے مطابق نہیں نکلیںگے۔ مگر فرمایا وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ۔ وہ لوگ جو ان تمام ابتلائوں کو برداشت کرلیں گے اور ایمان پر مضبوطی سے قائم رہیں گے۔ ان کو کوئی ڈر نہیں۔ وہ کہتے ہیں لوگ ہمیں ڈراتے ہیں تو بے شک ڈرائیں۔ اگر ہمارا مقاطعہ کرتے ہیں تو بے شک کریں۔ اگر وہ ہمیں سودا سلف نہیںدیتے تو بے شک نہ دیںہم تو خداتعالیٰ کے رستے میں قربانیوں کرتے چلے جائیں گے۔ اسی طرح اگر وہ ہمارے مال لوٹنے پر آئے ہیں تو بے شک لوٹ لیں اور پھر جب وہ ان کی جانوں پر حملہ کرنا چاہتے ہیں توکہتے ہیں کہ تم ہمیں قتل کر کے ان کی تباہی کا سامان پیدا کرنا چاہتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اچھا تم یہ کام بھی کر کے دیکھ لو۔ ہمیں تمہارے ان کاموں کی بھی پروا نہیں۔ غرض ابتداء سے انتہا تک وہ ان کے ہر حملہ کے مقابلہ میں قائم رہتے ہیں اور یہی کہتے رہتے ہیں کہ جو کچھ تمہاری مرضی ہے کر کے دیکھ لو۔ تم ہمیں صداقت سے منحرف نہیں کر سکتے۔ جب وہ پانچوں قسم کے ابتلائوں سے پیچھے نہیں ہٹتے بلکہ ان میں ثابت قدم رہتے ہیں اور استقلال سے ان کو برداشت کرتے ہیں تو اللہ تعالیی انہیں بشارت دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ مبارک ہو تمہارے ایمان کی پختگی ثابت ہو گی۔ تم امتحان میں پاس ہو گئے اب تم اگلی جماعت کی تیاری کرو۔
اس آیت سے بھی پتہ لگتا ہے کہ مِنْ حِیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ میں قبلہ کی طرف منہ کرنے کا ذکر نہ تھا بلکہ فتح مکہ کا ذکر تھا۔ ورنہ قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے والوں کے ساتھ مارے جانے اور ان ابتلائوں میں پڑنے کا کیا تعلق تھا۔ اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ اس آیت میں یہی حکم دیا گیا تھا کہ تم نے مکہ فتح کرنا ہے۔ مگر وَلَنَبْلَُ نَّکُمْ بِشَیْ ئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ میں بتایا کہ کام آسانی سے نہیں ہو گا بلکہ تمہیں سخت تکالیف میں سے گذرنا ہو گا۔لیکن یہ تکالیف تمہارے لئے بہتر ہو نگی کیونکہ ان سے تمہارے ایمانوں کی پختگی ظاہر ہو جائیگی۔
۷۱؎ حل لغات:۔مُصِیْبَۃ’‘۔ ہمارے ملک میں مصیبت ان تکلیف دہ واقعات کو کہتے ہیں جو انسان کو پیش آتے ہیں۔ لیکن عربی زبان میں مصیبت ایسی چیز کو کہتے ہیں جو انسان کو بہر حال پہنچنے والی ہو۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان مشکلات سے بھاگتا اور ناپسندیدہ باتوں سے کنارہ کشی کرتا ہے۔ اور جو چیزیں اس کی خوشی اور مسرت کا باعث ہوتی ہیں اُن کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے پس جس چیز کی طرف انسان خود بخود جائے وہ پہنچنے والی نہیں کہلاسکتی۔لیکن جس سے انسان بھاگے اور وہ اُسے پکڑلے وہ پہنچنے والی کہلاتی ہے۔ اور چونکہ مصیبت سے ہر انسان بھاگنے کی کوشش کرتا ہے لیکن پھر بھی کوئی نہ کوئی مصیبت اسے آچمٹتی ہے۔ اس لئے عربی زبان میں ایسی چیز کو جو انسان کا پیچھا نہ چھوڑے اور اس کے پاس پہنچ کر رہے مصیبت کہتے ہیں۔ لیکن اُردو میں خالص اس کے وہی معنے رہ گئے ہیں جو عربی میں ضمنی تھے اور مصیبت صرف اس بات کو کہتے ہیں جو تکلیف دہ ہو۔
تفسیر:۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب مومن کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ جزع فزع کرنے کی بجائے پورے یقین اور ایمان کے ساتھ یہ کہتا ہے کہ ہم تو اللہ ہی کے ہیں اُسی کی طرف ہم لوٹنے والے ہیں۔ یہ وہ نمونہ ہے جس کی اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں سے امید رکھتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ جب انہیں کوئی تکلیف پہنچے تو وہ گھبرانے اور جزع فزع کرنے کی بجائے خداتعالیٰ پر توکل رکھیں اور اُسی کو حاضر ناظر سمجھتے ہوئے سچے دل سے یہ کہیں کہ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔ بظاہر یہ ایک چھوٹا سا فقرہ ہے مگر اپنے اندر نہایت وسیع مطالب رکھتا ہے۔
(۱) اس فقرے میں دو جملے ہیں۔ ایک تو اِنَّا لِلّٰہِہے یعنی ہم اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں۔ اور دوسراوَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَہے۔ یعنی ہم اُسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ پہلا جملہ اس مضمون پر دلالت کرتا ہے کہ کوئی مالک اپنی چیز کو اپنے ہاتھوں تباہ نہیں کرتا بلکہ اسے محفوظ رکھنے کو کوشش کرتا ہے وہ مالک برا ہی بیوقوف ہوگا جو اپنی چیز کو آپ تباہ کرنے کی کوشش کرے۔ پس اگر بندہ محض خدا کا ہو جائے اور اُسی کو اپنا حقیقی مالک سمجھے تو اس کے دل میں یہ وہم بھی نہیں آسکتا ہے کہ وہ چیز جو اللہ تعالیٰ نے مجھ سے واپس لے لی ہے۔ یا وہ مصائب جو مجھ پر نازل ہو رہے ہیں ان میں میری تباہی اور بربادی مقصود ہے۔ جو مومن یہ یقین رکھتا ہے کہ میں اللہ کا ہوں اور جس طرح ماں اپنے بچہ کو گود میں رکھتی ہے اسی طرح خداتعالیٰ نے بھی مجھے اپنی گود میں اٹھایا ہوا ہے وہ یہ تصور بھی کس طرح کر سکتا ہے کہ میں تباہ ہو جاونگا۔ اور میری تکلیف مجھ سے دور نہیں کی جائیں گی۔ محافظ کا تو فرض ہوتا ہے کہ وہ دوسرے کو ہر نقصان سے بچائے پھر اللہ تعالیٰ جوتمام محافظوں سے بڑا محافظ ہے کب کسی مومن کو تباہ کر سکتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ جب کوئی چیز اپنے بندے سے واپس لیتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ اس چیز کو تباہ کرنا چاہتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ اسے پہلے سے زیادہ بہتر جگہ میں رکھتا ہے۔ اس کی مثال باکل ایسی ہی ہے جیسے عورتیں انے گھروں کی صفائی کرتے وقت سامان وغیرہ کو ایک جگہ سے اُٹھا کر دوسری جگہ رکھ دیتی ہیں تم کبھی نہیں دیکھو گے کہ عورتیں اپنی چیزوں کو اِدھر اُدھر رکھیں تو وہ رونے لگ جائیں۔ یا مثلاً زمیندار کھیت میں بیج ڈالتا ہے تو بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے بیج کو ضائر کر رہا ہے مگر وہ روتا نہیں اس لئے کہ اس کا نتیجہ تباہی نہیں بلکہ ترقی ہوتا ہے۔ چنانچہ وہی بیج جب کچھ عرصلہ کے بعد اُسے لہلہاتے ہوئے کھیتوں کی شکل میں واپس ملتا ہے اتو اس کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح بندہ اگر یقین رکھے کہ اللہ تعالیٰ جو کچھ کریگا اُس میں میری بہتری ہو گی تو کبھی بھی جزع فزع اور بے صبری کا اظہار نہ کرے۔ جب انسان ایک خوبصورت عمارت بناتا اور پہلی عمارت کو توڑتا پھوڑتا ہے تو اُس پر روتا نہیں۔ بلکہ خوش ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر کپڑے کا دل اور اس کی آنکھیں ہوتیں تو جب درزی اُسے کاٹتا تو وہ رونے کی بجائے خوش ہوتا کہ یہ مجھے اچھا بنانے لگا ہے۔ یہی حال انسان کا ہے اگر انسان یہ یقین رکھے کہ خداتعالیٰ میرا مالک ہے اور وہ جو تبدیلی بھی کریگا میرے فائدے کے لئے کریگا تو وہ جزع فزع نہیں کر سکتا۔ ہاں غم کا اظہار کرنا صبر کے خلاف نہیں ہوتا۔ شادی کے وقت لڑکیاں اپنے گھروں کو رخصت ہوتی ہیں تو ماں باپ رونے لگ جاتے ہیں مگر یہ جزع فزع نہیں کہلاتا۔ کیونکہ غم درحقیقت ایک قدرتی احسا س ہے۔ جو مصیبت کے وقت ہر انسان کے اندر پیدا ہو جاتا ہے۔ اور اس کی علامت دل پر بوجھ ہونا اور آنکھوں میں آنسو آجانا ہے لیکن جزع فزع کرنے والا اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ خدا نے اُسے تباہ کر دیا ہے اور یہ چیز مومنانہ توکل اور ایمان کے بالکل خلاف ہے۔ پس اَنَّا لِلّٰہِ یہ بتاتا گیا ہے کہ مصیبت یا ابتلاء کے آنے پر کافر تو یہ سمجھتا ہے کہ میں مارا گیا لیکن مومن یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بلا میں بھی میرے لئے کوئی خیر اور برکت کا پہلو پوشیدہ رکھا ہو گا۔
(۲) اِنَّا لِلّٰہِ کے دوسرے معنے یہ ہیں کہ مومن کو جب کوئی نقصان پہنچتا ہے تو وہ جھٹ کہتا ہے کہ میرا تو اس چیز کے ساتھ صرف ایک عارضی تعلق تھا اصل تعلق تو خدا تعالیٰ کے ساتھ ہے اور اُسی کی کاطر اس چیز سے بھی میرا تعلق تھا اب اگر اُس نے اپنی کسی حکمت کے باعث یہ چاہا ہے کہ میرا اس چیز سے تعلق ٹوٹ جائے تو میں اس کے فعل پر کیوں اعتراض کروں۔ اس کی مثال حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی زندگی میں بھی ملتی ہے۔ ہمارا چھوٹا بھائی مبارک احمد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی فوت ہو گیا تھا۔ ماںباپ کو عموماً چھوٹے بچے بہت پیارے ہوتے ہیں اس لحاظ سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو اس سے بہت اُنس تھا اور پھر اس لئے بھی آپ اس سے زیادہ پیار کرتے تھے کہ وہ عموماً بیمار رہتا تھا۔ میری عمر جب وہ فوت ہوا اٹھاراہ سال کے قریب تھی اس کی آخری بیماری کے ایام میں اس کا علاج کرنے میں بہت سے معالج مصروف تھے مثلا حضرت خلیفہ المسیح اول رضی اللہ عنہ۔ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس روز صبح کی نماز پڑھ کر گھر آئے تو ساتھ ہی حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ اور ڈاکٹر صاحبان بھی آگئے۔ اس وقت اسے ضعف کی شکایت تھی۔ لیکن چہرہ سے اچھی حالت معلوم ہوتی تھی ڈاکٹروں نے اُسے دیکھ کر کہا کہ اب افاقہ معلوم ہوتا ہے۔ اور وہ مطمئن ہو گئے لیکن حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ چونکہ زیادہ تجربہ کار تھے اس لئے آپ نے فوراً معلوم کر لیا کہ بچہ کی حالت نازک ہے۔ انہو ں نے گھبرا کر فوراً نبض دیکھنی شروع کر دی۔ لیکن نبض کی حرکت معلوم نہ ہوئی۔ کیونکہ جوں جوں انسان موت کے قریب ہوتا جاتا ہے اس کی نبض پیچھے ہٹنی شروع ہو جاتی ہے۔ پھر آپ نے اس کی بغل میں ہاتھ رکھا وہاں بھی نبض نہ ملی ۔ جب حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ نبض نہیںملتی تو آپ نے گھبرا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ حضور جلدی مشک دیجیئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٹرنک میں سے مشک نکلالنے کے لئے تشریف لے گئے تو چونکہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بہت زیادہ محبت تھی اور آپ کو یہ بھی معلوم تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبارک احمد سے بہت پیار رکھتے ہیں اس لئے آپ نے جب دیکھا کہ مبارک احمد فوت ہو رہا ہے تو آپ کو اتنی گھبراہٹ ہوئی کہ آپ کھڑے بھی نہ رہ سکے ۔زمین پر بیٹھ گئے اور فرمایا حضور جلدی سے مشک لائیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس فقرہ سے سمجھ گئے کہ بچے کی حالت اچھی نہیں اور ویسے ہی بغیر مشک لئے واپس آگئے۔ اور فرمایا کیا بچہ فوت ہو گیا ہے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ ہاں حضور فوت ہو گیا ہے۔ آپ نے فوراً اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنپڑھا۔ اور بجائے کسی گھبراہٹ کا اظہار کرنے کے باہر کے احمدیوں کو خط لکھنے شروع کر دیئے کہ مومنوں پر ابتلاء آیا ہی کرتے ہیں۔ ان سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ بلکہ اپنے ایمان کو پختہ رکھنا چاہیے اور پھر لکھاکہ مبارک احمد کی وفات کے متعلق تو اللہ تعالیٰ نے پہلے سے مجھے خبر دے دی تھی کہ یہ چھوٹی عمر میں ہی اُٹھا لیا جائیگا۔ پس اس کے فوت ہونے سے خداتعالیٰ کی پیشگوئی پوری ہو گئی۔ پھر آپ نے اس کے کتبہ کے لئے جو اشعار لکھے۔ اُن میں سے ایک یہ بھی مصرع ہے کہ ع
بُلانے والا ہے سب سے پیارا اُسی پہ اے دل تو جان فد اکر
یہ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْن کا ہی ایک رنگ میں مفہوم رکھتاہے۔ غرض مومن کو جب کوئی نقصان پہنچتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرا تو کدا سے تعلق ہے اگر میرے کسی عزیز کو خداتعالیٰ نے اپنے پاس بُلا لینا مناسب سمجھا ہے تو مجھے اس پر کیا شکوہ ہو سکتا ہے اُسی کی چیز تھی اور وہی بلانے کا حق دار تھا پس۔ اِنَّا لِلّٰہِکے ایک تو یہ معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں تباہ نہیں کریگا اور دوسرے معنے یہ ہیں کہ ہمارا خدا راضی ہے اس میں ہم بھی راضی ہیں۔
(۳) تیسری بات جو قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے اَنَا لِلّٰہِ نہیں فرمایا بلکہ اِنَّا لِلّٰہِ فرمایا ہے تاکہ یہ اقرار صرف انفرادی رنگ میں نہ ہو بلکہ ہر انسان علیٰ وجہ البصیرت اس یقین پر قائم ہو کہ دنیا کی ہر چیز خدا تعالیٰ کی ہے اور ہمارا ان سے محض عارضی تعلق ہے۔ پس نہ صرف مجھے بلکہ دنیا کے کسی انسان کوبھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ خداتعالیٰ کے کسی فعل پر اعتراض کرے یا اس کی کسی تلخ قاش پر اپنا مونہہ بنانا شروع کر دے میثنوی رومی میں حضرت لقمانؓ کے متعلق جن کو بعض لوگ نبی بھی سمجھتے ہیں ایک واقعہ لکھا ہے کہ ہو ابھی چھوٹے ہی تھے کہ انہیں کسی نے ان کے والدین کی وفات کی وجہ سے غلام بنا لیا اور ایک تاجر کے پاس بیچ دیا۔ اس تاجر نے انہیں ذہین اور ہوشیار سمجھ کر ان سے غلاموں والا سلوک ترک کر دیا اور ان سے محبت کرنے لگا۔ ایک دن کسی نے اس کو تحفۃً ایک خربوزہ پیش کیا جو بظاہر بہت اچھا تھا۔ اس نے ایک قاش کاٹ کر حضرت لقمان کو دی۔ حضرت لقمان نے پھر مزے لے لے کر کھائی ۔ حتی کہ تاجر نے یہ سمجھ کر کہ یہ بڑا میٹھا خربوزہ ہے ایک قاش خود بھی چھکی تو اسے معلوم ہوا کہ نہایت کڑوا خربوزہ ہے۔ اس پر وہ حضرت لقمان کو خفا ہا کہ تم نے بتایا کیوںنہیں۔ اگر تم بتا تے تو میں تمہیں اور کڑوی قاشیں نہ کھلاتا۔ حضرت لقمان نے کہا کہ جس ہاتھ سے اتنی میٹھی قاشیں میں کھائی ہوئی تھیں کیا میں اتنا ہی بے شرم تھا کہ اس کی ایک دو قاشوں کو کڑوی سمجھ کر رد کر دیتا۔ تواِنَّالِلّٰہِ کا بھی یہی مفہوم ہے۔کہ وہ خدا جس نے ہمیں اتنی بڑی نعمتیں عطا کی ہوئی ہیں اگر اس نے کسی حکمت کے ماتحت ایک نعمت واپس لے لی ہے یا ہزاروں خوشیوں کے ہوتے ہوئے ایک مصیبت ہم پر آگئی ہے تو کیا ہوا سب کچھ تو اسی کا دیا ہوا ہے۔ اگر وہ اپنی مرضی سے ایک چیز واپس لے لیتا ہے تو اس پر جزع فزع کرنے سے زیادہ اور کیا حماقت ہو سکتی ہے۔
(۴) چوتھے معنے جو اس سے زیادہ اعلیٰ اور مومن کے مقام کے مطابق ہیں وہ یہ ہیں کہ نہ صرف سب کی سب نعمتیں اُسی کی ہیں اور وہی اس کا حقیقی مالک ہے اگر ایک نعمت اس نے واپس لے لی تو کیا ہوا۔ بلکہ ہمارے پاس جو کچھ باقی ہے اگر وہ بھی ہم سے لے لینا چاہے تو ہم باقی چیزیں بھی اس کی راہ میں دینے کے لئے تیار ہیں۔چنانچہ صحابہؓ کرم میں اس کی بہت سے مثالیں ملتی ہیں۔ حضر ت عثمان بن مظعونؓ ایک بڑے مخلص صحابی تھے اور مکی زندگی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان سے اتنی محبت تھی کہ ان کی وفات کے بعد جب آپؐ کے بیٹے حضرت ابراہیم ؓ فوت ہوئے تو آپؓ نے انہیں فرمایا کہ جا اپنے بھائی عثمان بن مظعونؓ کے پاس ۔ گویا ان کو بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا بیٹا قرار دیا۔ وہ کسی رئیس کے بیٹے ان کے والد فوت ہو گئے تو ان کے باپ کے کسی دوست نے ان کو اپنی پناہ میں لے لیا اور اعلان کر دیا کہ یہ میرے بھائی کا بیٹا ہے کوئی شخص اسے تکلیف نہ دے۔ چند دن تو وہ آزاد نہ طور پر پھرتے رہے اور انہیں کسی نے کوئی تکلیف نہ دی لیکن ایک دن انہوں نے دیکھا کہ بعض کمزور مسلمانوں اور غلاموں کو کفار سخت تکلیف دے رہے ہیں اور انہیں تپتی ریت پر لٹا کر دکھ دے رہے ہیں ان سے یہ نظارہ برداشت نہ ہو سکا تو فوراً گھر آکر اُس ریئس سے کہا کہ چچا مہربانی کر کے اپنی پناہ واپس لے لو۔ میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ دوسرے مسلمانوں کو تو لوگ سخت سے سخت سزائیں دیں اور میں مزے سے اِدھراُدھر پھروں۔ چنانچہ اُس ریئس نے اپنی اپنی پناہ کا اعلان منسوخ کر دیا۔ اسی اثناء میں لبید جو ایک بہت بڑا شاعر تھا(اور جو بعد میںمسلمان بھی ہو گیا) وہ مکہ میں آیا اور لوگوں نے اس کے اعزاز میں ایک مجلس مشاعرہ قائم کی۔ حضرت عثمان بن مظعونؓ اور وہ ریئس بھی وہیں تھے اکثر شعراء نے اپنے اپنے شعر پڑھے۔ پھر لبید کی باری آئی تو انہوں نے یہ شعر پڑھا کہ
اَلَا کُلُّ شَیْئٍ مَا خَلَا اللّٰہُ بَاطِل‘
یعنی سُنو! کہ ہر ایک چیز اللہ تعالیٰ کے سوا فنا ہونیوالی ہے ابھی انہوں نے یہ مصرع پڑھا ہی تھا کہ حضرت عثمان بن مظعونؓ بول اُٹھے کہ خوب کہا ٹھیک کہا۔ اس پر لبید کو غصہ آیا کہ کیا میں اتنا ہی حقیر ہوں کہ اس چھوٹے سے بچے کی تصدیق کا محتاج ہوں۔ اور اس نے اہل مجلس کو غیر دلائی کہ یہ کیا بدتہذیبی ہے جو تم لوگوں نے اختیار کر لی ہے کہ ایک بچہ مجھے داد دیتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے حضرت عثمان بن مظعون کو ڈانٹا اور کہا کہ خبردار آئندہ ایسا نہ کرنا۔ اس کے بعد انہوں نے دوسرا مصرع پڑھا ع
وَکُلُّ نَعِیْمٍ لَا مَحَا لَۃَ زَائِل‘
یعنی ہر نعمت ایک دن زائل ہونے والی ہے۔ اس پر حضرت عثمان بن مظعون پرھ بول اُٹھے اور کہنے لگے۔ یہ درست نہیں جنت کی نعمتیں کبھی زائل نہیں ہو نگی۔ لبید کو سخت غصہ آیا اور اس نے پھر لوگوں کو غیرت دلائی کہ تم نے میری بے عزتی کی ہے اب میں کوئی شعر نہیں پڑھوں گا۔ اس پر ایک شخص کو اتنا جوش آیا کہ اس نے اُٹھکر حضر ت عثمان بن مظعون کے منہ پر ایک مکا مارا جس کی وجہ سے ان کی ایک آنکھ نکل گئی۔ ان کے وہ ہمدرد ریئس جنہوں نے ان کو پناہ دے رکھی تھی وہ بھی وہی پاس بیٹھے تھے ۔ چونکہ وہ اتنی طاقت نہیں رکھتے تھے کہ دوسروں کے مقابلہ میں کھڑے ہو سکیں اس لئے انہوں نے حضرت عثمان بن مظعونؓ کو ہی ڈانٹنا شروع کر دیا۔ اور جس طرح کسی غریب عورت کے بچے کو کوئی امیر آدمی کا بچہ مار جائے تو وہ اپنے بچے کو ہی ڈانٹتی ہے اور کہتی ہے کہ تو گھر سے کیوں باہر نکلا تھا۔ اسی طرح انہوں نے بھی حضرت عثمان بن مظعونؓ کو ڈانٹنا شروع کیا کہ تجھے میں نے نہیں کہا تھا کہ میری پناہ سے نہ نکلو۔ اب دیکھا اس کا کیا نتیجہ نکلا۔ اس پر حضرت عثمان بن مظعونؓ نے جواب میں کہا چچا! آپ کو تو میری ایک آنکھ کے نکلنے کا افسوس ہے اور میری تو دوسری آنکھ بھی خداتعالیٰ کے راستے میں نکلنے کے لئے تیار ہے۔ تو حقیقی مومن قربانی سے گھبراتا نہیں بلکہ جب اس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے یا اس کی کوئی قیمتی متاع ضائع ہو جاتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ مرنے والا اور باقی رہنے والے ساب اس کے ہی ہیں۔ پس اگر وہ اللہ کی چیز تھی اورہ م بھی اسی کے ہیں تو اللہ تعالیٰ اگر اپنے ایک غلام کے پاس رکھوائی ہوئی امانت واپس لے گیا تو اسے شکوہ کیا کیا حق ہے۔ میں تو سب کچھ اس کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہوں۔
(۵) مگر یہ پہلا حصہ کچھ استفناء ظاہر کرتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر رحم فرما کر دوسرا حصہ اس کے ساتھ لگادیا کہ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ اور اس طرح اس تعزیت کو مکمل فرما دیا۔ پہلے فرمایا تھا کہ اگر ہم تم کو کوئی انعام دیتے ہیں اور پھر وہ انعام تم سے لے لیتے ہیں تو تمہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ میرے محسن نے فلاں چیز مجھے دی تھی اور میں اس سے پانچ سال یا دس سال یا بیس سال یا تیس سال یا چالیس سال یا پچاس سال تک فائدہ اٹھاتا رہا اس کے بعد وہ اپنی امانت مجھ سے کیوں لے گیا۔ اس بات پر اُسے شکوے کا کیا حق ہے۔ یہ تو اس کا احسان تھا کہ جتنی مدت وہ چیز اس کے پاس رہی اس سے وو پوری طرح فائدہ اُٹھاتا رہا۔ اب کے بعد فرماتا ہے کہ یاد رکھو اگر تمہارا کوئی عزیز ہم نے تم سے دُدا کر دیا ہے تو مومن کو یہ بھی تو سوچنا چاہیے کہ دنیا سے کسی کااُٹھ جانا دائمی جُدائی کا موجب تو نہیں ہوتا۔ اگر یہ دائمی جُدائی ہوتی اور فرض کرو کہ موت کے بعد کوئی زندگی نہ ہوتی۔ تب بھی کیا خدا کا حق نہیں تھا کہ جو چیز اُس نے دی ہے وہ اُسے واپس لے لے۔ لیکن وہ زائد وعدہ یہ کرتا ہے کہ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ۔ ایک شخص اگر خدا کی طرف گیا ہے تو ہم بھی ایک دن اُسی کی طرف چلے جائیں گے ۔فرق صرف یہ ہے کہ کسی نے پہلے سفر طے کر لیا اور کوئی بعد میں سفر کے لئے چل پڑیگا ورنہ منزل مقصود سب کی ایک ہی ہے اور جب منزل مقصود ایک ہے ہے تو اس میں گھبراہٹ کی کونسی بات ہے۔ بچے بعض دفعہ تعلیم حاصل کرنے کے لئے ولایت بھیج دیئے جاتے ہیں ۔ اب کسی کی زندگی کا کیا اعتبار ہوتاہ ے کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ ایک یا دو دن بھی اور زندہ رہیگا۔ نہ والدین جانتے ہیں کہ انہوں نے اتنا عرصہ زندہ رہنا ہے نہ لڑکے جانتے ہیں کہ ان کی زندگی کب تک ہے۔ مگر باوجود اس کے جب لڑکوں کو پڑھنے کے لئے ولایت بھیجا جاتا ہے تو پانچ پانچ چھ چھ دس دس سال تک مائیں صبر کرتی ہیں باپ صبر کرتے ہیں اور وہ گھبراہٹ سے کام نہیں لیتے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ آخر ہمارے بچے ایک دن آجائیںگے۔ یا اگر کسی سفر پر کوئی شخص پہلے چل پڑتا ہے اور دوسروں نے بھی وہیں جانا ہوتا ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ ہم چند دن مے بعد اُس سے جا ملیں گے جانا تو ہے ہی۔تو اللہ تعالیی فرماتا ہے کہ پہلے یہ اقرار کرو کہ خدا نے ہم پر جو احسان کیا ہے ہم اس کے شکر گذار ہیں پھر یہ بھی سمجھ لو کہ تم سارے ایک دن خدا کے پاس جمع ہونے والے ہو اور اس کے پاس پہنچ کر اکٹھے ہو جائو گے۔ پس فرماتا ہے کہ جب تم سارے ایک دن اکٹھے ہو تو خدا کے فعل پر شکوہ یاجزع فزع کتنی بڑی نادانی ہے۔ اگر تم جزع فزع کر وگے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہارا اپنے عزیزوں سے آخری اتصال کمزور ہو جائیگا۔ کیونکہ جس خُدا کے اختیار میں یہ ہے کہ وہ اگلے جہان میں سب کو اکٹھا کر دے اس کے اختیار میں یہ بھی ہے کہ وہ اگلے جہان میں بعض کو خدا جُدا رکھے۔ پس مومن کی اصل تعزیت اِنَّالَلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ہی ہے۔ باقی جہاں تک جسم کا تعلق ہے جسم جب کٹتا ہے تو ضرور دکھ پاتا ہے۔ صحابہؓ جنگوں میں شہید ہوئے اور اپنی خوشی سے شہید ہوئے۔ لیکن جہاں تک جسم کے کٹنے کا سوال ہے ان کو ضرور تکلیف ہوئی پس جسم بے شک دُکھ پاتا ہے مگر اللہ تعالیی کا بہت بڑا احسان ہوتا ہے اُس بندے پر جس کی رُوح خدا کے آستانہ پر جُھکی رہے اور اس سے کہے کہ اے میرے رب! مجھے کوئی شکوہ نہیں تو نے جو کچھ کیا ٹھیک کیا۔ یہی عین مصلحت تھی اور یہی چیز میرے لئے بہتر تھی۔ تیرا فعل بالکل درست ہے اور گو مجھے سمجھ میں نہ آئے مگر میں یہی کہتا ہوں کہ تیرا کوئی کام حکمت کے بغیر نہیں۔
(۶) پھر اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَمیں ایک اور مضمون بھی بیان کیا گیا ہے۔ اور وہ یہ کہ جب کوئی رنج انسان کو پہنچتا ہے۔ تو فطرت کہتی ہے کہ میرے اندر آخر کوئی کمزوری تھی ۔ تبھی تو مجھے یہ دُکھ پہنچا۔ اگر میں طاقتور ہوتا تو یہ دُکھ کیوں پہنچتا۔ اب اس دُکھ کو کوئی طاقتور ہی دُور کر سکتا ہے۔ غرض رنج ہمیشہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ کوئی بیرونی طاقت مد د کرے۔ اور جب انسانی ذہن کو فطرت اس طرف لے جاتی ہے کہ اب کوئی غیر طاقت ہی مدد کرے تو معًا اس کا دل اِدھر مائل ہوتا ہے۔ کہ الہ تعالیی کے سوا کون ہے جو اس دُکھ کو دُور کرے۔ چنانچہ اُس وقت وہ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا ہی ہوں اور میں اسی سے مدد مانگتا ہوں اس کے سوااور کون ہو سکتا ہے جو میری مدد کرے۔اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَکے بے شک یہ بھی معنے ہیں کہ آخر ہم نے بھی اللہ تعالیٰ کے پاس جانا ہے لیکن اس کے یہ معنے بھی ہیں کہ اگر ہم نے لوٹنا ہے تو خداتعالیٰ کی طرف لوٹنا ہے۔ اگرہم نے گریہ وزاری کرنی ہے تو اس کے سامنے ہی کرنی ہے۔ پس اسلام نے یہ سبق فطرت کے تقاضا کے عین مطابق دیا ہے جب کوئی رنج پہنچتا ہے تو یہ انسان کی کمزوری کی علامت ہوتی ہے اس لئے وہ اُسے خود دور نہیں کر سکتا ۔ وہ طبعًا یہ خیال کرتا ہے کہ اس کے دوست اور عزیز اس کی مدد کریں۔ مگر فرمایا یاد رکھو تمہارا سب سے بڑاعزیز اور دوست خداتعالیٰ ہے ۔ تم اس کے سامنے جھکو اور اس سے مدد طلب کرو۔ جو لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس سبق پر عمل کرتے ہیں وہ ناکام و نامراد نہیں رہتے۔ ناکام و نامراد وہی ہوتا ہے جو غیر بطعی فعل کرتا ہے۔ مثلاً رات کو ڈاکہ پڑتا ہے تو عقلمند شخص اپنے عزیزوں اور دوستوں کے پاس جاتا ہے اور اس سے مدد طلب کرتا ہے لیکن بیوقوف انسان دوڑ کر جنگل کی طرف چلا جاتا ہے حالانکہ جنگل میں اس کی مدد کرنے والا کوئی نہیں وہتا۔ اسی طرح روحانی دنیا میں ایک عقل مند انسان تو اللہ تعالیٰ کی طرف جاتا ہے لیکن بیوقوف یو نہی ہائے اماں ہائے اماں! کہتا رہتا ہے۔ اب صاف ظاہر ہے کہ اماں نے کیا کرنا ہے جو کچھ کرنا ہے خداتعالیٰ نے ہی کرنا ہے اور وہ خداتعالیٰ کے پاس جاتا نہیں وہ اس کے پاس جاتا ہے جو کچھ نہیں کر سکتا۔ پس انسان کا فرض ہے کہ جب اُسے کوئی رنج پہنچے تو وہ فوراًاِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہے۔ یعنی اگر مجھ پر مصیبت آگئی ہے تو بقول پنجابی بزرگوں کے ’’ملا کی دوڑ مسیت تک‘‘ میں نے تو خداتعالیٰ کے طرف جانا ہے اور اس سے مدد طلب کرنی ہے اور جب وہ ایسا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُسے اپنی برکات سے حصہ دیتا اور اس کے مصائب کو دور فرماتا ہے۔
(۷)اسی طرح اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہتامیں یہ لطیف مضمون بھی بیان کیا گیا ہے کہ ہم خداتعالیٰ کے غلام ہیں اور اُسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ پس اگر ہم صبر سے کام لیں گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں اس صدمہ کا بہتر بدلہ مل جائے گا۔ پھر ہمیں کسی جزع فزع کی کیا ضرورت ہے۔ گھبراہٹ صرف اسے ہو سکتی ہے جو یہ سمجھتا ہو ک دُکھوں اور تکالیف کے بدلہ میں کوئی جزا مقدر نہیں۔ مگر مومن تو سمجھتے ہیں کہ جب ہم خداتعالیٰ کے پاس جائینگے تو وہ ہمارے دکھوں کا بدلہ اپنے غیر معمولی انعامات کی شکل میں ہمیں عطا فرمائیگا۔ اور جب کوئی ایمان اور یقین کے اس اعلیٰ مقام پر فائز ہو تو اسے بے صبری دکھانے کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے صابرین کی تعریف فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ ہمارے نزدیک کون لوگ صابر ہیں۔ اسلام کے نزدیک صابرین کی یہ تعریف ہے کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو ان کی توجہ فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف پھر جاتی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اگر خدا ہے تو پھر مایوسی کیسی ایک بچہ جب ماں کی گود میں ہوتا ہے تو وہ کسی سے نہیں ڈرتا۔ اسی طرح وہ بھی اپنے ااپ کو خداتعالیٰ کی گود میں سمجھتے ہیں اس لئے کسی مصیبت کے آنے پر مایوس نہیں ہوتے۔ اور اگر صبر کے معنے بدی سے رُکنے کے سمجھے جائیں تو پھر اس آیت کے یہ معنے ہونگے کہ جب اُن پر کوئی ایسی تکلیف آتی ہے جس سے انسان بدی کی طرف مائل ہو تا ہے ۔ جیسے قحط ہے کہ اس میں لوگ چوریاں وغیرہ کرنے لگ جاتے ہیں۔ تب بھی وہ خداتعالیٰ ہی کی طرف توجہ کرتے ہیں اور اگر صبر سے مراد نیکی پر قائم رہنا ہو تو اس کے یہ معنے ہونگے کہ جب کوئی شیطانی تحریک انہیں نیکی سے منحرف کر نا چاہے تو اس وقت بھی وہ فوراً خداتعالیٰ کی طرف متوجہ ہوجاتے ہین اور اسی سے اپنے روحانی پیوند کا اظہار کرتے ہیں۔
غرض یہ بظاہر ایک چھوٹا سا جملہ ہے مگر اپنے اندر بڑے وسع مطالب رکھتا ہے۔ اور جو لوگ صاحب حال ہیں وہ جانتے ہیں کہ اس فقرہ کے کہنے سے جن تکالیف کا ازالہ ممکن ہو اُن کا تو ازالہ ہو جاتا ہے اور جن کا ازالہ ناممکن ہو ان کا نسان کو کسی اور رنگ میں بدلہ مل جاتا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ مردے اس دنیا مین واپس نہیں آتے۔ پس اگر کوئی شخص مرجاتا ہے تو اس سنت اور فیصلہ کے ماتحت وہ زندہ ہو کر اس دنیا میں واپس نہیں آسکتا۔ لیکن اگر یہ فقرہ پورے ایمان اور اخلاص کے ساتھ کہا جائے تو کہنے
اُولٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ

ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ o
والے کو کسی نہ کسی رنگ میں اس کا بدلہ ضرور مل جاتا ہے۔ اور اگر اسان کا کوئی ایسا نقصان ہو جائے جس کا بدلہ ملنا ممکن ہو مگر وہ پھر بھی نہ ملے تو اس کے متعلق یہ سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر خاص اس میں روک بن رہی ہے ورنہ اس کا بدلہ ضرور مل جاتا۔
۷۲؎ حل لغات:۔ صَلٰوۃ’‘:جیسا کہ اوپر حل لغات میں بتایا جا چکا ہے کیصَلٰوۃ’‘ کئی معنے ہیں۔ مگر جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال ہو تو اس کے معنے صرف مغفرت اور حسنِ ثناء کے ہوتیہ یں۔ عبادت کے معنے اس لئے چسپاں نہیں ہو سکتے کہ عبادت خداتعالیٰ کی کی جاتی ہے اس کی طرف سے آتی نہیں۔ اسی طرح رحمت کے معنے بھی یہاں چسپاں نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ صَلٰوۃ کے ساتھ ہی رحمت کا لفظ بھی آگیا ہے۔ پس اس جگہ اس کے معنے صرف یہ یہیں کہ ان لوگوں کو خداتعالیٰ کی طرف سے مغفرت حاصل ہو گی یا انہیں ثنائے جمیل عطا کی جائیگی۔
تفسیر:۔ اس آیت میں بتایا کہ جو لوگ ارضی اور سماوی آفات پر سچے دل سے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں اپنی مغفرت سے حصہ دیتا ہے یعنی وہ ان کے نقصانات کا ازالہ کرتا اور ان کی ناکامی کو کامیابی میں اوفر تکلیف کو راحت میں بدل دیتا ہے۔ اسی طرح اُن پر اللہ تعالیٰ کا فضل حسن ثناء کی صورت میں نازل ہوتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ ان کی نیک شہرت دنیا میں قائم کر دیتا ہے اور لوگوں کی زبانوں پر ان کا ذکر خیر جاری ہو جاتا ہے۔ چنانچہ دیکھ لو۔ مسلمانوں نے اسلام کی اشاعت کے لئے کتنی بری قربانیوں سے کام لیا تھا۔ انہوں نے اپنی جانوں اور مالوں اور اولادوں کو بلا دریغ قربان کر دیا اور کسی بڑی سے بری مصیبت کی وبھی پرواہ نہ کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج دشمنان اسلام تک بھی ان کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ وہ اسلام پر اعتراض کرتے ہیں مگر جب صحابہؓ کی قربانیوں کا ذکر آتا ہے تو وہ یہ تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ انہوں نے اپنے مذہب کی اشاعت کے لئے جو نمونہ دکھایا وہ یقینا بے مثال تھا۔ ایک فرانسیسی مورخ لکھتا ہے کہ مجھے سب سے زیادہ حیرت اس بات پر آتی ہے کہ ہمیں چند آدمی پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس مدینہ کی ایک ٹوٹی پھوٹی مسجد میں جس پرکھجور کی شاخوں کی چھت پڑی ہوئی تھی اور جو ذرا سی بارش سے بھی ٹپکنے لگ جاتی تھی آہستہ آہستہ سرگوشیاں کرتے دکھائی دیتے تھے۔ اور جب ہم ان کے قریب پہنچ کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ آپس میں کی اباتیں کر رہے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ آپس میں یہ باتیں کر رہے ہیں کہ ہم قیصر و کسریٰ کو کس طرح شکست دیں اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ چند سالوں کے اندر اندر واقعہ میں ایسا ہی ہو گیا۔ اور ان بے سرو سامان اور کمزور درویشوں نے قیصر و کسریٰ کی حکومتوں کو پاش پاش کر دیا۔ غرض اشد ترین دشمنوں نے بھی تسلیم کر لیا کہ مسلمانوں کو غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی تھی اور وہ ان کی تعریف کرنے پر مجبور ہو گئے۔
یہاں صَلٰوۃ اور رحمۃ کو اکٹھا کرنے میں یہ حکمت ہے کہ دنیا میں ھکومتوں کی طرف سے عزت افزائی کے دو ہی طریق مقرر ہیں ۔ یا تو کوئی خاص اعزاز بخشا جاتا ہے یا مادی رنگ میں کوئی انعام دیا جاتا ہے جیسے اعزازی طور پر لوگوں کو خطابات دیئے جاتے ہیں اور مادی طور پر انہیں مربعے وغیرہ دیئے جاتے ہیں۔ مگر گورنمنٹ کے خطابات تو بے حقیقت ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ وہ ایک ایسے شخص کو خان بہادر کا خطاب دے دیتی ہے جو بزدل ہوتا ہے اور چوہے سے بھی ڈر جاتا ہے۔ مگر خداتعالیٰ کی طرف سے جسے کوئی خطاب دیا جاتا ہے وہ اس کا سچ مچ اہل ہوتا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ لوگ دونوں طرف دھوکا کھا جاتے ہیں۔ وہ گورنمنٹ کے خانبہادروں کو کچھ بھی نہیں سمجھتے حالانکہ جب خداتعالیٰ کسی کو کوئی خطاب دیتا ہے تو اس کے اوصاف بھی اس میں پیدا کر دیتا ہے ۔ حضرت مسیح موعو د علیہ السلام کے زمانہ میں ایک شخص جو احمدی تھا مگر اس کے دماغ میں کچھ نقص تھا قادیان آیا۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہنے لگا کہ مجھے الہام ہوتا ہے کہ تو محمدؐ ہے تو موسیٰ ؑ ہے تو عیسیٰ ؑ ہے۔۔ آپ نے فرمایاکیا اس کے بعد تمہیں وہ کچھ ملتا ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ملا تھا یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہ ملا تھا یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ملا تھا۔ وہ کہنے لگا ملتا تو کچھ نہیں آپ نے فرمایا پھر یہ شیطانی الہام ہے ۔کیونکہ خداتعالیٰ تو یہ تمسخر نہیں کرتا نہ کہ کسی کو کوئی خطاب دے اور اس کے اوصاف اس میں پیدا نہ کرے۔ خداتعالیٰ تو جب کسی کو کوئی خطاب بخشتا ہے تو اس کے مطابق اُسے طاقتیں بھی دیتا ہے۔ یہ شیطان ہے جو تمہیں دیتا تو کچھ نہیں مگر تمہارا نام موسیٰ اور عیسیٰ اور محمدؐ رکھتا چلا جاتا ہے۔ غرض صلوٰۃ کا تعلق روحانی انعامات سے ہوتا ہے اور رحمت کا تعلق ان مادی انعامات سے ہوتا ہے جس ماحول سے تعلق رکھتے ہیں پس بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ ابتلائوں میں ثابت قدم رہنے والوں کو روحانی برکات سے بھی مستفیض کرتا ہے اور انہیں مادی فوائد اور ترقیات جو ماحول سے تعلق رکھتی ہیں وہ بھی عطا کرتاہے۔
وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ۔ اس جگہ ہدایت سے مراد صرف صراطِ مستقیم پر چلنا نہیں کیونکہ وہ تو پہلے ہی ہدایت یافتہ اور صراطِ مستقیم پر قائم ہوتے ہیں۔ یہاں یہ معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت کے راستہ پر لئے جائے گا اور وہ اپنے اخلاص اور ایمان میں آگے ہی آگے بڑھتے جائینگے۔
دوسرے معنے یہ ہیں کہ مشکلات اور مصائب میں اللہ تعالیٰ انہیں صحیح راستہ بتاتا جائیگا اور مشکلات کے ساتھ ساتھ ان کا حل بھی انہیں نظر آتا جائیگا۔
تیسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ بندہ جب سچے دل سے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہتا ہے اور مصائب پر صبر سے کام لیتا ہے تو مومن کی یہ حالت دیکھ کر اللہ تعالیٰ بھی عرش پر بیتاب ہو جاتا ہے۔ اور وہ اس محبت اور اخلاص کی جزا دینے کے لئے اُسے اپنی ہدایت کی راہوں پر چلاتے ہوئے منزلِ مقصود پر پہنچا دیتاہ ے۔ گویا صبر اور استقامت کے نتیجہ میں وہ منعم علیہ گروہ میں شامل ہو جاتا ہے اور وصلِ الہٰی کے دروازے اس پر کھول دیئے جاتے ہیں۔ غرض تین قسم کے انعامات کا اُن سے وعدہ کیا گیا ہے۔ (۱)اول ہدایت کی راہوں میں ترقی(۲) دوم مشکلات میں صحیح راہنمائی(۳) سوم خداتعالیٰ کا دائمی وصال۔ اور جن کو یہ فوائد حاصل ہوں ان کو اپنے کسی عارضی نقصان کا خیال بھی کس طرح آسکتا ہے۔
اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ

شَاکِر’‘ عَلِیْم’‘o
۷۳؎ حل لغات:۔ صَفَا: صَفَاۃ’‘ کی جمع ہے اور اس کے معنے ہیں سخت موٹے پتھر جن پر مٹی نہ ہو۔ اور کھیتی بھی نہ ہو سکے۔ صفا بیت اللہ کے پاس بڑے بڑے پتھروں کی ایک پہاڑی کا بھی نام ہے۔
اَلْمَرْوَۃَ: یہ مَرْو کا مفرد ہے اور مروہ ان سفید چھوٹے چھوٹے چمکتے ہوئے چقماتی صفت رکھنے والے پتھروں کو کہتے ہیں جن سے لوگ آگے نکالتے ہیں۔ مروہ بھی ایک پہاڑی کانام ہے جو بیت اللہ کے پاس ہے اور اس کی وجہ تسمید یہ ہے کہ یہ چھوٹے چھوٹے پتھروں سے بنی ہوئی ہے۔ غرض صفا اور مروہ دو پہاڑیوں کا نام ہے جو خانہ کعبہ کے پاس ہیں۔ اور اب خانہ کعبہ وسیع ہو کر انکو آ لگا ہے اور ایک دروازہ ان میں آکر کھلتا ہے ان پر ایک بازار ہے جو سوقِ صفا کہلاتا ہے اور شہر کا حصہ ہے اور اسی بازار میں اب سعی ہوتی ہے پہلے دونوں پہاڑیاں الگ الگ تھیں لیکن اب بھرتی پڑ کر مل گئی ہیں اور ایک ہی معلوم ہوتی ہیں صرف دو نشان لوگوں نے سعی کے لئے بنا رکھے ہیں جس سے سعی شروع کرنے اور ختم کرنے کا حال انسان کو معلوم ہوتا ہے۔
اِعْتَمَرَ:۔ اِعْتَمَرَالْمَکَافَ کے معنے ہوتے ہیں قَصَدَہ‘ وَ زَارَہ‘۔ کسی بزرگی رکھنے والے مکان کی طرف جانے کا قصد کیا۔ اور اس کی زیارت کی۔ اسی طرح کہتے ہیں اِتَّخَذْ نَا نَادِیًا نَعْتَمِرُہ‘۔ کہ ہم نے ایک ایسی مجلس قائم کی ہے جس میں ہم بار بار جاتے ہیں اور ہماری آپس میں ملاقات ہوتی ہے پس اعتماد کے اصل معنے کسی شہر کی زیارت یا کسی ایسے مکان کی طرف جانے کے ہیں جو اپنی بزرگی یا دوستوں کی ملاقات کے لحاظ سے قابلِ اعزاز ہو۔ لیکن شریعت میں طواف بیت اللہ اور صفا اور مروہ کی سعی کا نام ہے۔ اور یہ عبادت سال کے ہر حصہ میں ہو سکتی ہے لیکن حج کا ایک خاص وقت مقرر ہے اسی طرح حج اور عمرہ میں یہ فرق ہے کہ عمرہ میں وہیں سے احرام باندھ لیتے اور سر منڈا لیتے ہیں۔ لیکن حج میں مقرر جگہوں سے احرام باندھنا ضروری ہوتا ہے۔
جُنَاح’‘: جَنَحَ کے معنے ہوتے ہیں مَالَ یعنی جُھک گیا۔ پروں کو بھی اور بازوئوں کوبھی اسی لئے جناح کہتے ہیں اور گناہ کو بھی جناح اسی لئے کہتے ہیں کہ اس میں انسان بدی کی طرف جُھک جاتا ہے گناہ کا لفظ دراصل جناح کی ہی بگڑی ہوئی شکل ہے۔
یَطَّوَّفَ: طَوَّفَ حَوْلَ الشَّیْئِ وَبِہِ کے معنے ہیں طَافَ وَاَکْثَرَ الْمَشْیَ حَوْلَہُ اس نے کسی چیز کے ارد گرد چکر لگایا اور کثرت کے ساتھ گھوما (اقرب) طَافَ یَطُوْفُ بھی انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔چنانچہ لسان العرب میں لکھاہے طَافَ بِالْقَوْمِ وَ عَلَیْھِمْ کے معنے ہیں اِسْتَدَارَوَجَآئَ مِنْ نَوَاحِیْہِ اس نے چکر لگایا اور کناروں کی طرف سے اس کے پاس آیا انہی معنوں میں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ جنتیوںکی نسبت فرماتا ہے یَطُوْفُ عَلَیْھِمْ وِلْدَان’‘ مُّخَلَّدُوْنَ (واقعہ آیت۱۸) یعنی اُن کے پاس بار بار نوجوان خادم اُن کی خدمت کے لئے آئیں گے اس جگہ صفا اور مروہ کے گرد گھومنا مراد نہیں بلکہ بار بار اُن کے پاس جانا مراد ہے۔
تَطَوَّع کے معنے ہیں تَبَرَّعَ بِلَا قَصْدِ اُجْرَۃٍ بِاحْتِمَالِ مُشَقَّۃٍ کسی نیکی کو بغیر اُجرت اور بدلہ کی خواہش کے کرنا(۲) تکلیف اٹھا کر کوئی کام کرنا۔ اسی لئے والنٹیر کو عربی زبان میں مطاوع کہتے ہیں ۔کیونکہ وہ بغیر تنخواہ کے آنریری طو پر کام کرتا ہے۔
شَاِکِر’‘: جب یہ لفظ خداتعالیٰ کے لئے آئے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ وہ انعام نازل کرتا ہے یا حکم بجا لانے پر جزا دیتا ہے۔ اور جب یہ بندہ کے لئے آئے تو اُس وقت اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ بندہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کا شکر گزار ہوتا ہے۔
تفسیر:۔ اِنَّ الصَّفَاوَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِ اِللّٰہِ فرماتا ہے صفا اور مروہ دونوں پہاڑیاں یقینا اللہ تعالیٰ کے نشانات میں سے ہیں۔ یہ وہ پہاڑیاں ہیں جن کے درمیان حج اور عمرہ میں خانہ کعبہ کے طواف کے بعد سعی کی جاتی ہے او رسات دفعہ چکر لگایا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ چودہ دفعہ دوڑنا چاہیے۔ مگر یہ کمزور خیال ہے ۔ اصل میں سات دفعہ ہی سعی ہے اور یہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے صفا سے شروع کر کے مروہ پر جاتے ہیں اور وہاں سے صفا پرآتے ہیں۔ یہ سعی چونکہ حضرت ہاجرہ اور حضرت اسمٰعیل علیہما السلام کی یاد گار ہے اس لئے یہ پہاڑیاں اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا نشان ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا گیا تھا کہ اپنی بیوی ہاجرہ اور بچے اسمٰعیل کو عرب کی بے آب و گیاہ دادی میں چھوڑ آئو۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس حکم کی تعمیل کی اور حضرت ہاجرہ اور اسمٰعیل کو انہوں نے خانہ کعبہ کے پاس لا کر بسا دیا جہاں پانی کا ایک قطرہ اور گھاس کی ایک پتی تک نہ تھی۔ صرف ایک مشکیزہ پانی اور ایک تھیلی کھجوروں کی آپ نے انہیں دی اور پُرنم آنکھوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دُعائیں مانگتے ہوئے رخصت ہو گئے۔ جب پانی ختم ہوا تو حضرت اسماعیل علیہ السلام کو پیاس لگی۔ اور آخر شدت پیاس کی وجہ سے وہ تڑپنے لگ گئے حضڑت ہاجرہ سے اُن کی پیاس کی تکلیف دیکھی نی گئی۔ اور وہ پانی کی تلاش میں اِدھر اُدھر دوڑیں۔ مگر پانی نہ ملا۔ قریب ہی صفا پہاڑی تھی وہ دوڑ کر اُس پر چڑھ گئیں۔ کہ شاید کوئی شخص نظر آئے اور وہ اُس سے پانی مانگیں۔ مگر جب وہاں سے کوئی شخص دکھائی نہ دیا تو دوسری پہاڑی مروہ پر دوڑ کر چڑھ گئیں اور ہاں سے بھی کوئی آدمی نظر نہ آیا۔تو پھر صفا کی طرف آئیں اور اس طرھ انہوں نے سات چکر کاٹے۔ آخر چکر میں جب وہ مروہ پر تھیں ان کو ایک آواز آئی حضرت ہاجرہ نے پکار کر کہا۔کہ اے شخص جس کی یہ آواز ہے اگر تو ہماری مدد کر سکتا ہے تو کر۔ یہ آواز اللہ تعالیٰ کے ایک فرشتہ کی تھی۔ اُس نے کہا ہاجرہ جا اور دیکھ کہ اسمٰعیل کے پائوں کے نیچے خداتعالیٰ نے ایک چشمہ پھوڑ دیا ہے۔ چنانچہ وہ واپس آئیں اور انہوں نے دیکھا کہ جہاں حضرت اسمٰعیل علیہ السلام شدتِ پیاس کی وجہ سے تڑپ رہے تھے۔ وہاں پانی کا ایک چشمہ پھوٹ رہا ہے اور بڑے زور سے اس میں سے پانی نکل رہا ہے۔ زمزم کا کنواں وہی چشمہ ہے جو حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے لئے معجزانہ طور پر پھوڑا گیا تھا۔ چنانچہ اس چشمہ کی وجہ سے اس قدر ترقی ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے وہاں عظیم الشان شہر قائم کر دیا۔
غرض صفا اور مروہ کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جو لوگ صبر کرتے اور استقامت کے ساتھ خدمت دین میں حصہ لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو کبھی ضائع نہیں کرتا۔ وہ ہاجرہ اور اسمٰعیل کی طرف انہیں اپنے آسمانی نشانات دکھاتا اور دائمی زندگی اور غیر معمولی انعامات عطا کرتا ہے۔ اگر تم بھی صبر کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں بھی ایسے ہی انعامات سے نوایگا اور تمہیں بھی شعائر اللہ میں داخل کردیگا۔
فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا۔ چونکہ بعض لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ صفا اور مروہ پر جانا گناہ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لَاجُنَاحَ ورنہ یہ مراد نہیں کہ جائو یا نہ جائو تمہارا اختیار ہے ۔ کیونکہ حج اور عمرہ میں صفا اور مروہ کے درمیان سعی ضروری ہوتی ہے اسی طرح فَلَاجُنَاحَ کے یہ معنے ہیں کہ طواف جائز ہے۔ کیونکہ جب اس چیز کے متعلق جسے لوگ حرام جانیں فتویٰ دیا جائے تو اس وقت اس فقرہ کے معنے صرف اس خیال کی نفی کرنی ہوتی ہے نہ کہ اس کا جواز بتانا۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہی مذہب تھا کہ طواف ضروری ہے چنانچہ بخاری جلد اول باب و جوب الصفا و المروۃ وجعل من شائر اللہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے عروہ بن زبیر سے ایک روایت مروی ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ اس آیت سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ طواف جائز ہے ضروری نہیں۔ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ بِئْسَمَا قُلْتَ یَا بْنَ اُخقتِیْ اِنَّ ھٰذِہِ لَوْ کَانَتْ کَمَا اَوَّ لْتَھَا عَلَیْہِ کَانَتْ لَا جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ لَایَطَّوَّ فَ بِھِمَا۔یعنی اے میرے بھانجے تو نے یہ بہت ہی غلط استدلال کیا ہے۔ اگر یہ بات اسی رنگ میں ہوتی جیسا کہ تم کہہ رہے ہو تو عبارت یوں ہوتی کہ لَاجُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ لَا یَطَّوَّفَ وَسَلَّمَ الطَّوَافَ بَیْنَھُمَا فَلَیْسَ لِاَ حَدٍ اَنْ یَّتْرُکَ الطَّوَافَ بَیْنَھُمَا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت یہی تھی کہ آپ صفا اور مروہ کا طواف کیا کرتے تھے۔ پس کس شخص کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اس سنت کے خلاف معنی کرے بہر حال حضرت عمروہ بن زبیر جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے تھے ان کا یہی مذہب تھا کہ طواف ضروری نہیں۔ اسی طرح حضرت ابن عباس ؓ حضرت انؓ عطا اور مجاہد کابھی یہی قول ہے کہ طواف ضروری نہیں۔ امام احمد بن حنبل کا یہ مذہب ہے کہ یہ ضروری تو نہیں مگر کسی شخص کو نہیں چاہیے کہ وہ جان بوجھ کر طواف چھوڑے ہاں اگر بلا ارادہ چھوٹ جائے تو کوئی گناہ نہیں مگر مناسب یہی ہے کہ نہ چھوڑے امام شافعی اور مالک کے نزدیک صفا اور مروہ کا طواف واجب ہے اور ارکانِ حج میں سے ہے اور ثوری اور امام ابوحنیفہؓ کے نزدیک اگر کوئی چھوڑ دے اور بغیر طواف کئے حج پورا کرے تو اُس پر قربانی لازم ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّف بِھِمَا کہنے کی وجہ سے بتائی ہے کہ انصار مسلمان ہونے سے پہلے منات بُت کے لئے احرام باندھا کرتے تھے جس کی مشعل کے پاس لوگ عبادت کیا کرتے تھے اور اس زمانہ میں جو شخص احرام باندھتا وہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنے کو گناہ سمجھتا تھا۔ جب وہ لوگ مسلمان ہو گئے تو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارہ میں دریافت کیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہم صفا اور مروہ کی سعی گناہ سمجھا کرتے تھے لیکن اب اس کے متعلق کیا حکم ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی(بخاری کتاب الحج) پس چونہ اس وقت ایک جماعت ایسی تھی جو صفا اور مروہ کے درمیان طواف کرنے کو جائز نہیں سمجھتی تھی اس لئے اگر کوئی شخص یہ پوچھے کہ اس میں کوئی گناہ تو نہیں۔ تو اس کا جواب یہی ہو گا کہ کوئی گناہ نہیں۔ باقی رہا یہ سوال کہ یہ سعی صرف جائز ہے یا واجب تو یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن کریم نے صرف یہ بحث اُٹھائی ہے کہ جو لوگ اس کام کو غلطی اور گناہ قرار دیتے ہیں وہ درست نہیں کہتے ورنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے اس کا ضروری ہونا ثابت ہے ۔ پس لَا جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا کے یہ معنے نہیں ہیں کہ یہ کام اختیاری ہے کوئی کرے یا نہ کرے یا کرے بلکہ درحقیقت یہ نصیحت کا ایک طریق ہے کہ جب کسی ضرویر بات کی طرف انسان توجہ نہ کرے تو کہتے ہیں کہ یہ بات گناہ نہیں۔ یعنی تم نے جو ادھر توجہ نہیں کی تو شاید گناہ سمجھ کر نہیں کی حالانکہ یہ تو ضروری بات تھی ان معنوں کو سورۃ نساء کی یہ آیت بالکل حل کر دیتی ہے۔ کہ وَاِنِ امْرَاَ ۃ’‘ خَافَتْ مِنْ بَعْلِھَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَآ اَنْ یُّصْلِحَا بَیْنَھُمَا صُلْحَا بَیْنَھُمَا صُلْحًا وَالصُّلْحُ خَیْر’‘(نساء آیت ۱۲۹) یعنی اگر کوئی عورت اپنے خاوند کے نشوز یا اعراض سے ڈرتی ہو۔ تو اگر وہ آپس میں کسی طریق پر صلح کر لیں تو اس میں کوئی گناہ کی بات نہیں اور صلح بہت اچھی چیز ہے۔ اس آیت میں فَلَاجُنَاحَ عَلَیْھِمَا کے جو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ان کا بھی یہی مطلب ہے کہ میاںبیوی سوچیں کہ صلح سے رہنا کوئی گناہ نہیں ہے۔ اگر عورت کے قصور کی وجہ سے مرد کو غصہ ہے۔ تو وہ چھوڑ دے اور اگر عورت کا قصور نہیں تو مرد اپنی اصلاح کر لے۔ پس جس طرح اس آیت میں صلح کے متعلق فَلَا جُنَاحَ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اسی طرح فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا میں جہاں اسے ناجائز سمجھنے والوں کے خیال کی نفی کی گئی ہے وہاں لوگوں کو نصیحت بھی کی گئی ہے کہ صفا اور مروہ کا طواف کوئی گناہ کی بات نہیں یعنی تم جو ادھر تو جہ نہیں کر رہے تو شاید گناہ سمجھ کر نہیں کر رہے حالانکہ یہ تو ضروری بات ہے۔
وَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا میں اللہ تعالیٰ نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص نیکی کے کاموں میں اس لئے حصہ لیتا ہے کہ ان کے بدلہ میں اُسے کوئی چیز مل جائے تو یہ ایک سودا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سے سودا کرنا کوئی پسندیدہ فعل نہیں۔ عبادت تو انسان کو اللہ تعالیٰ کے ان احسانات کے شکر کے طور پر بجا لانی چاہیے جو اللہ تعالیٰ نے اُس پر کئے ہیں۔ نہ اس لئے کہ اگر میں نے عبادت نہ کی تو مجھے کوئی انعام نہیں ملیگا۔ عبادت کے مقابلہ میں انعام کی خواہش ایک ادنیٰ خواہش ہے۔ اصل مقام یہی ہے کہ انسان محض اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے بے پایاں احسانات کے شکر کے طور پر اپنا سر اُس کے حضور جھکا ئے اور رات دن اُس کی عبادت میں مشغول رہے۔ یہ امر یاد رکھنا چاہییے کہ وَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا کے الفاظ سے وجوب طواف کی نفی نہیں کی گئی بلکہ مراد یہ ہے کہ عمرہ جتنی بار کرو اتنا ہی زیادہ ثواب ملے گا۔ اسی طرح حج بھی اگر ایک سے زیادہ دفعہ کر سکو تو یہ بھی تمہارے لئے موجب ثواب ہو گا۔ گویا اس آیت میں وجوبِ طواف کی نفی نہیں بلکہ یہ تحریک کی گئی ہے کہ حج اور عمرہ دونوں باربار کرنے چاہیں اور بار بار ان مقامات مقدسہ کی زیارت کے لئے آتے رہنا چاہیے۔
فَاِنَّ اللّٰہَ شَاکِر’‘ عَلِیْم’‘۔ فرمایاتم خدا تعالیٰ سے دودا نہ کرو بلکہ اُسی پر سچا توکل رکھو ۔ وہ تمہاری نیکیوں کو کبھی ضائع نہیں کریگا اور تمہیں خود ان کی بہتر سے بہتر جزا دیگا ۔ وہ بہت قدردان اور بہت جاننے والا ہے ۔ شاکر کے ساتھ علیم کا اضافہ اس لئے فرمای اکہ اسنان کو جو جزائیں ملتی ہیں اُنکی کئی اقسام ہوتی ہیں۔ بعض جزائیں انسان کو تباہ کر دینے والی ہوتی ہیں اور بعض اس کیلئے مفید اور بابرکت ہوتی ہیں ۔ اگر کسی اندھے کو عینک لگانے کیلئے دی جائے یا کسی جذامی کو اچھے کپڑے دے دئیے جائیں گتو ہو چیزیں اُن کے کسی کام نہیں آسکتیں ۔ خواہ وہ کتنی قیمتی کیوں نہ ہوں ۔ اس لئے فرمایا میں تمہارے حالات کوخوب جانتا ہون اُنہی کے مطابق میں تمہیں انعام دو ںگااور تمہیں ایسی جزا دو نگا جو تمہیں دائمی طور پر فائدہ پہنچا نیوالی ہوگی۔
ترتیب وربط:۔ اِنَّ الصَّفَاوَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ والی آیت میں بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وَمِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ اْلَمسْجِدِ الْحًرامِ سے جو استدلال میں نے کیا تھا وہی صحیح ہے ۔ کیونکہ تحویل قبلہ کے
اِنَّ الَّذِیْنَ

اللّٰعِنُوْنَo
مسئلہ سے صفا اور مروہ کے شعائر ہونیکا کوئی تعلق نیہں اور پرھ مسلمان تو وہاں جاہی نہیں سکتے تھے کہ صفا اور مروہ کا خاص طور پر ذکر کیا جاتا ۔دراصل اس آیت میں بھی اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ تم فتح مکہ کی کوشش کرو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہارے لئے حج کا راستہ جائیگا ۔اور صفا اور مروہ پر جانا بھی تمہارے لئے ممکن ہو جائیگا۔
۷۴؎ حل لغات:۔ بَیِّنٰتُٗ ۔بَیِنَۃُٗ کی جمع ہے اوربَیِّنٰتُٗاُن براہین اور نشانات کو کہتے ہیںجو اپنی صداقت پر آپ شاہد ہوتے ہیں۔ (مزید تشریح کیلئے دیکھیں حل لُغات سورۃ نحل ۲۵؎)
ھُدٰ وہ تعلیمات جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں۔ اور انسان کو خدا تعالیٰ تک پہنچاتی ہیں۔
لَعْنَۃُٗ دور کرنے کو کہتے ہیں۔ یعنی کسی کو دھتکاریا جھڑک کر دور کر دینا ۔ یا اُسے پاس نہ آنے دینا۔
تفسیر:۔ لَا عِن’‘ کے معنے *** کرنے والے کے ہوتے ہیں۔ مگر *** کرنے والے دو قسم کے ہو سکتے ہیں۔ اول وہ شخص جسے دوسروں پر لعنتیں ڈالنے اور بُرا بھلا کہنے کی عادت ہو۔ یہ معنی یہاں چسپاں نہیں ہو سکتے کیونکہ جو شخص اپنے بھائیوں پر لعنتیں ڈالنے والا ہو وہ بد اخلاق اور منافق ہوتا ہے اور قرآن کریم کے خلاف عمل کرتا ہے۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ اس قسم کے بد اخلاق اور منافق ہوتا ہے اور قرآن کریم کے خلاف عمل کرتا ہے۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ اس قسم کے بد اخلاق اور منافق طبع لوگ خداتعالیٰ کا ساتھ دیں۔ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کا ظل نہیں ہوتے۔
لَا عِن’‘سے ایسا شخص بھی مراد ہو سکتا ہے جس کے سپرد اللہ تعالیٰ نے یہ کام کیا ہو اور وہ لوگ جن کو ایسے فرائض سپرد کئے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور مامورین ہوتے ہیں جو خداتعالیٰ کی طرف سے الہام پا کر یہ اعلان کر دیتے ہیں کہ فلاں شخص پر *** پڑے گی اور فلاں اس کے غضب کا شکار ہو گا۔ پس لَاعِنُوْن سے راد وہ ہستیاں ہیں جنہیں خداتعالیٰ کی طرف سے *** کرنے کا اختیار دیا جاتا ہے۔
اَلْکِتٰب سے مراد اس جگہ قرآن کریم ہے اور الناس سے مراد یہودی نہیں بلکہ مسلمان ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس جگہ اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جنگ کے اعلان کے ساتھ جو ابھی ہوا نہیں بلکہ اس کی طرف اشارے ہو رہے ہیں منافقوں کی منافقت ظاہر ہو جائیگی۔ چنانچہ فرماتا ہے یہ دشمن ایمان لوگ جن کے دلوں میںمنافقت ہے جب ان کو قربانی کے احکام سُنائے جاتے ہیں تو وہ ایسی تعلیموں کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ اس بات کی کیا ضرورت ہے کہ ان باتوں کو مخالفوں کے ٍسامنے پیش کیا جائے۔ اس قسم کے لوگ ہمیشہ علیحدگی میں کہا کرتے ہیں کہ مانا کہ یہ باتیں درست ہیں مگر ان کو دشمنوں کیسامنے پیش کرنے کی کیا ضرورت ہے لوگوں کی طرف سے خواہ مخواہ مخالفت ہو گی۔ غرض الہٰی سلسلوں میں جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے احکام نازل ہوتے ہیں جن پر عمل کرنا مخالفوں کی ناراضگی کا موجب ہوتا ہے تو ایسا طبقہ جو دوسروں کی ناراضگی کو زیادہ اہمیت دیتا ہے مداہنت سے کام لیکر ان کو چُھپا نا شروع کردیتا ہے تاکہ نہ لوگوں کو صحیح تعلیم کا علم ہو اور نہ ان کا جذبہ مخالفت بھڑکے اس قسم کی مداہنت کمزوری کے دور میں نہیں ہوتی۔ بلکہ طاقت اور غلبہ کے دور میں ہوتی ہے۔ جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب تک مکہ میں رہے منافقین کا کوئی فتنہ نہیں اُٹھا لیکن جب مدنی زندگی آئی اور اسلام نے طاقت پکڑنی شروع کر دی اور یہ اعلان ہونے لگے کہ جب تک مکہ فتح نہ ہو تم نے جنگ کو جاری رکھنا ہے تو جو لوگ کمزور ایمان والے تھے انہوں نے کافروں سے اپنی حفاظت کی طرح ڈالنی شروع کر دی اور کفار کے پاس جا جا کر اس رنگ میں باتیں کرنی شروع کیں کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) تو بڑے اچھے آدمی ہیں وہ تو نہیں چاہتے کہ لڑائی ہو مگر جو شیلی طبائع والے ان کو اُکساتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ لڑائی ہو جائے اسی طرح بعض لوگ کلام الہٰی پر پردہ ڈالتے اور اُسے چُھپاتے اور دشمنوں کو جا جا کر کہتے کہ تم تسلی رکھو تم پر کوئی تباہی نہیں آسکتی حالانکہ اگر کفار کے متعلق کوئی خبر دی جائے اور ان کو بتایانہ جائے کہ تمہارے متعلق اللہ تعالیٰ نے فلاں انذاری پیشگوئی کی ہے تو پیشگوئی کی شان اور اس کی عظمت قائم نہیں رہ سکتی۔ لیکن اگر پہلے سے کہہ دیا جائے کہ تم پر عذاب آئیگا۔ تمہاری سلامتی اسی میں ہے کہ تم توبہ کر لو تو عذاب کے آنے پر ان پر حجت قائم ہو سکتی ہے۔ اور عقلمندوں کے لئے ایک ایک بہت بڑانشان بن جاتا ہے لیکن منافق محض اس لئے کہ ہمارے تعلقات خراب نہ ہو جائیں ایسی باتوں کو چھپاتے ہیں اور ڈر کے مارے ظاہر نہیں کرتے ایسے لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ برکتوں سے کلی طور پر محروم رہیں گے اور اللہ تعالیٰ کی *** کے علاوہ جن لوگوں کو خداتعالیٰ نے *** کا اختیار دیا ہوا ہے وہ بھی ان پر *** ڈالیں گے ۔ جیسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور دوسرے مامورین نے بھی اپنے دشمنوں پر لعنتیں ڈالیں۔ بلکہ اب تک لوگ ان پر لعنتیں ڈالتے رہتے ہیں اور قیامت تک ان پر لعنتیں پڑتی رہیں گی۔
بعض لوگ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں بعض جگہ کئی کئی صفوں میں مخالفین پر *** ڈالی ہے۔ اور آپ متواتر *** *** *** لکھتے چلے گئے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ وہ خیال کرتے ہیں کہ آپ نے نعوذ باللہ انہیں گالیاں دی ہیں۔ حالانکہ آپ نے گالیاں نہیں دیں بلکہ ایک خدائی فیصلہ کا اعلان کیا ہے اور بتایا ہے کہ یہ لوگ اپنے بُرے اعمال کی وجہ سے خداتعالیٰ کی رحمت سے دُور چلے گئے ہیں۔ جس طرح ایک مجسٹریٹ اگر کسی مجرم کو چھ ماہ قید کی سزا دے تو اس سزا کو درست اور قابلِ قبول قرر دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر کوئی دوسرا شخص جسے گورنمنٹ نے فیصلہ کا کوئی اختیار نہ دیا ہو کسی مجرم کے متعلق یہ فیصلہ کرے کہ اُسے قید کر دیا جائے تو سب لوگ اُسے پاگل تصور کرتے ہیں۔ اسی طرح خداتعالیٰ کے انبیاء بھی رُوحانی عالم کے مجئسٹریٹ ہوتے ہیں۔ اگر وہ مجرموں کو مجرم قرار نہ دیں اور اُن کے بارہ میں اپنا فیصلہ نافذ نہ کریں تو وہ خود مجرم بنتے ہیں۔ پس اُن کا کسی پر *** ڈالنا قانون کے تابع ہوتا ہے اور ایسا کہنا اُن کے فرائضِ منصبی کے لحاظ سے ضروری ہوتا ہے لیکن دوسرے لوگ جو بلاوجہ لعنتیں ڈالتے رہتے ہیں وہ اپنی بداخلاقی اور کمینگی کا مظاہرہ کرتے ہیں کیونکہ خداتعالیٰ کی طرف سے اُنہیں دوسروں پر *** ڈالنے کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہوتا ۔
اِلَّا الَّذِیْنَ
التَّوََّابُ الرَّحِیْمُo
۷۵؎ تفسیر:۔ ہمارے ملک میں عام طور پر عام طور پر لوگ توجہ صرف اس بات کا نام سمجھتے ہیں کہ زبان سے ایک دو دفعہ یہ فقرہ دہرادیا جائے کہ میری توبہ اور وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر ہم ایسا کہہ دیں تو ہمارے سارے گناہ بخشے گئے۔ حالانکہ صرف منہ سے توبہ توبہ کہہ دینا اور اپنے اعمال میں کوئی تغیر پیدا نہ کرنا کسی انسان کو مغفرت کا مستحق نہیں بنا سکتا۔ توبہ درحقیقت تین باتوں کے مجموعے کا نام ہے۔ اول زبان سے اپنے قصور کا اعتراف کرنا۔ دوم اپنی غلطی کے متعلق دل میں ندامت پیدا ہونا۔ سوم جو قصور کیا ہے اس کا عملاً ازالہ کرنا ۔گویا جس مقام پر انسان غلطی کرنے سے پہلے کھڑا ہو اُسی مقام پر وہ رجوع کر کے آجئے اس قسم کی توبہ کوئی معمولی بات نہیں بلکہ ایک بہٹ بڑا انقلاب ہے جو انسانی روح میں واقع ہوتا ہے کیونکہ انسان کے دل میں اپنے گناہوں سے شدید نفرت کا جذبہ پیدا ہونا۔ اس کے اندر اللہ تعالیٰ کی محبت اور روحانیت کے حصول کی خواہش پیدا ہونا اس کے دل کا اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ وزاری کرتے ہوئے پگھل جانا۔ اس کی سفلی خواہشات پر ایک موت کا وارد ہو جانا ایسا ہی ہے جیسے اُس نے اپنے آپ کو خدا کے لئے صلیب پر لٹکا لیا۔ اور اپنی پہلی زندگی پر موت وارد کر لی۔ عیسائی لوگ جو اسلامی توبہ کی حقیقت سے ناواقف ہیں بالعموم اعتراض کیا کرتے ہیں کہ اسلام نے توبہ کا دروازہ کھول کر گناہ کا دروازہ کھول دیا ہے۔ حالانکہ اسلام جس توبہ کو پیش کرتا ہے وہ مکمل ہی نہیں ہو سکتی جب تک انسان زبان سے اپنے قصور کا اقرار اور دل سے اپنے فعل پر ندامت کا اظہار نہ کرے اور آئندہ اس سے مجتنب رہنے کا پختہ عہد کرتے ہوئے گذشتہ قصور کا ازالہ بھی نہ کرے۔ اور کون کہہ سکتا ہے کہ ایسی توبہ گناہ پر دلیری پیدا کر دیتی ہے۔ گناہ پر دلیری تو اُن کا یہ عقیدہ پیدا کرتا ہے کہ ہمارے تمام گناہ مسیح نے اٹھا لئے ہیں۔ اب ہمیں کسی فکر کی ضرورت نہیں لیکن وہ توبہ جسے اسلام پیش کرتا ہے اور جو گذشتہ افعال کے کلی ترک اور آئندہ کے لئے کلی طور پر نیکی کے راستہ کو اختیار کرنے اور خداتعالیٰ کی طرف صدق دل سے رجوع کرنے کے نام ہے وہ گناہ پر دلیری پیدا نہیں کر تی بلکہ گناہ کو بیخ دبُن سے اکھیڑ دیتی ہے اور انسان کو ایک نیا روحانی انسان بنا دیتی ہے۔ اس قسم کی توبہ کرنیوالوں کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو پوری طر ح خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے اور دل میں ندامت پیدا کرتے اور اپنے گناہ کو دور کرتے ہیں اور پھر یہیں تک بس نہیں کرتے بلکہ اَصْلُحُوْا وہ دوسروں سے بھی عیوب دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گویا ان میں اتنا تغیر پیدا ہو جاتا ہے اور انہیں بدیوں سے اتنا بُغض ہو جاتا ہے کہ وہ صرف اپنی اصلاح نہیں کرتے بلکہ دوسروں کی بدیوں کو بھی دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں وَبَیَّنُوْا اور نہ صرف اپنے گرد و پیش کی اصلاح کرتے ہیں بلکہ علی الاعلان دُنیا کے سامنے اس بات کو پیش کرتے ہیں کہ اسلام ہی سچا مذہب ہے اور اسی میں دنیا کی نجات ہے فَاُولٓئِکَ اَتُوْبُ عَلَیْھِمْ فرماتا ہے جب کوئی شخص ایسی توبہ کرتا ہے تو میں بھی فضل کے ساتھ اُس کی طرف رجوع کرتا ہوں۔
اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُ وْا

وَلَاھُمْ یُنْظَرُوْنَo
توبہ کا لفظ جب اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال ہو تو اس کے معنے رجوع برحمت ہونے اور فضل نازل کرنے کے ہوتیہ یں۔ لیکن جب بندے کے لئے یہ لفظ استعمال ہو تو اس کے معنی ندامت کا اظہار کرنے اور جرم کا اقرار کرنے اور خداتعالیٰ کی طرف جھک جانے کے ہوتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ اپنے جرم کا اقرار کر کے ندامت کا اظہار کریں اور خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کریں اور دوسروں کی بھی اصلاح کریں اور اسلام پر پوری مضبوطی سے قائم ہو جائیں۔ ایسے لوگوں کے قصور کو معاف کر کے میں پھر انکو اس مقام پر لا کھڑا کرتا ہوں جہاں وہ پہلے ہوتے ہیں اور پھر میں اپنے پُرانے طریق پر ان کے لئے فضلوں کا سلسلہ شروع کر دیتا ہوں کیونکہ میں بڑا شفقت کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہوں۔
۷۶؎ تفسیر:۔ فرماتا ہے ان توبہ کرنے والوں کے بالمقابل جو لوگ کفر کی حالت میں ہی مر گئے۔ ان پر خداتعالیٰ کی *** ہو گی۔ اسی طرح ملائکہ اور سارے انسانوں کی *** ہو گی۔
اس جگہ اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ سارے انسانوں کی اُن پر *** ہو گی اس میں اور پہلی آیت میں جس *** کا ذکر کیا گیا ہے اس میں یہ فرق ہے کہ پہلے تو اللہ تعالیٰ نے صرف خاص لوگوں کو *** کرنے کی اجازت دی تھی ۔ کیونکہ وہاں *** سے مراد اُن کی تباہی کی پیشگوئی تھی جو اللہ تعالیٰ کے انبیاء کیا کرتے ہیں۔ مگر یہاں اُن کے متعلق پیشگوئی کرنا مقصود نہیں ۔کیونکہ یہاں *** رکرنیوالوں میں سب لوگوں کو شامل کر لیا گیا ہے۔ اور سارے کے سارے لوگ تباہی کی پیشگوئیاں نہیں کیا کرتے ۔ پس یہاں وہ *** مراد ہے جو فطرتی طور پر انسان کے دل سے اٹھتی ہے مثلاً اگر ایک چور کے سامنے بھی اگر چوری کا ذکر ہو تو وہ فوراً کہہ اُٹھتا ہے کہ چور بہت بُرے ہوتے ہیں حالانکہ وہ خود اس فعل کا مرتکب ہوتاہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اُس کی فطرت اسے بُرا قرار دیتی ہے۔ اسی طرح یہاں *** کرنے سے یہ مراد ہے کہ کفار کے افعال پر ہر ایک شخص خواہ نیک ہو خواہ بد فطرتی طور پر *** کرتا ہے بلکہ ایک مجرم خواہ اپنی ذات کو بُرا نہ کہے مگر جرم کو ضرور بُرا کہے گا اور اسی کا نام *** ہے۔ خدا اور ملائکہ صفت انسان تو علی الاعلان *** کرتے ہیں لیکن باقی دنیا فطری اور اصولی طور پر *** کرتے ہے۔ جیسے کوئی قوم جھوٹ کو اچھا نہیں سمجھتی۔کوئی قوم غیبت چوری اور قتل وغیر ہ کو اچھا نہیں سمجھتی۔ ہاں انفرادی طور پر اگر کوئی ان کا ارتکاب کرے تو خود اس کا اپنا نفس اسے شرمندہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ تم نے بے ایمانی کا ارتکاب ہے۔ اس جگہ اسی قسم کی *** مراد ہے کہ خوہ اپنے فعل وہ وہ برا نہ کہیں مگر دوسروں کے اُسی قسم کے فعل کو دیکھ کر وہ ضرور بُرا کہتے ہیں چنانچہ کسی سے پوچھ کر دیکھ لو وہ یہی کہیگا کہ جھوٹ بُرا ہے غیبت بُری ہے چوری بُری ہے قتل بُرا ہے ظلم بُرا ہے ۔
وَاِلٰھُکُمْ اِلٰہ’‘ الرَّحِیْمُo
حالانکہ بعض دفعہ وہ خود ان جرائم کا مرتکب ہوتا ہے اسی طرح کوئی قوم بحیثیت قوم اندھیرے میں چھپ کر کسی کو مار ڈالنے کو اچھا نہیں سمجھتی ۔ کوئی قوم بحیثیت قوم چوری کو اچھا فعل نہیں سمجھتی کوئی قوم بحیثیت غیبت کو اچھا خیال نہیں کرتی۔ اسی طرح وہ افراد جو اس قسم کے کاموں کو کرتے وقت انہیں اچھا خیال کرتے ہیں وہ بھی دوسرے موقعہ پر انہیں بُرا اور ناجائز سمجھتے ہیں ۔ غرض یہ *** ایسی ہے جو کہیں نہیں مٹتی۔ کیونکہ انسانی فطر اس کی ہمنوا ہوتی ہے۔
پھر فرماتا ہے خٰلِدِیْنَ فِیْھَایہ قانون ایسا ہے جو ہمیشہ قائم رہیگا۔ کئی فلسفے اور تہذیبیں بدل گئیں مگر یورپ آج بھی یہی کہتا ہے کہ جھوٹ بُرا ہے ظلم بُرا ہے چوری پُری ہے غیبت بُری ہے۔ یہ *** قائم ہے اورہمیشہ قائم رہے گی۔ یونانی اور ایرانی فلسفہ بھی یہی کہتا ہے یوروپین فلسفہ بھی یہی کہتا ہے غرض یہ ایک نہ مٹنے والا اصل ہے اس میں کبھی تغیر نہیں آسکتا۔ کل اگر کوئی اور تہذیب آئیگی تو وہ بھی یہی کہے گی اس کے خلاف کوئی بات نہیں کہہ سکتی۔
لَایُخَفَّفُ عَنْھُمُ الْعَذَاَبُ وَلَاھُمْ یُنْظَرُوْنَ فرماتا ہے کہ جب منکرین انبیاء کا پیمانہ عمل لبریز ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ آسمانی عذاب میں جکڑے جاتے ہیں اور یہ عذاب ایسا ہوتا ہے کہ نہ تو اسے ہلکا کیا جاتا ہے اور نہ انہیں ڈھیل دی جاتا ہے ۔ ہاں عذاب کے آنے سے پہلے پہلے ان کے لئے موقعہ ہوتا ہے کہ وہ توبہ کر لیں ۔لیکن اگر وہ اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم سے کوئی فائدہ نہ اٹھائیں اور انکار پر کمر بستہ رہیں اور خدائی نشانات کی تضحیک کرتے رہیں تو ایک دن عذاب الہٰی کے کوڑے ان پر برسنے شروع ہوجاتے ہیں اور پھر ان کی شیخ و پکار بالکل عبث ہوتی ہے۔ چنانچہ دیکھ لو وہ لوگ جنہوں نے خداتعالیٰ کے فرستادوں کا مقابلہ کیا۔ ہزاروں سال گذرنے کے باوجود آج بھی ان پر *** پڑ رہی ہے۔ نمرود کو ہلاک ہوئے ہزاروں سال گذر گئے ہیں ۔ فرعون کو سمندر میں ڈوبے ہزاروں سال گذر گئے وہ فقیہی اور فریسی جنہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب پر لٹکایا تھا ان پر بھی دو ہزار سال گذر گئے ابوجہل کو جنگِ بدر میں ہلاک ہوئے بھی چودہ سو سال ہو گئے مگر آج بھی ہر شریف انسان نمرود کا نام لیتا ہے تو اس پر *** ڈالتا ہے فرعون کا نام لیتا ہے تو اس پر *** ڈالتا ہے فقیہیوں اور فریسیوں کا ذکر آتا ہے تو ان پر *** ڈالتا ہے ابوجہل کا ذکر آتا ہے تو ان پر *** ڈالتا ہے۔ اور پھر اگلے جہان میں جو انہیں عذاب دیا جا رہا ہے اس کا تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ غرض یہ عذاب برابر جاری ہے۔ کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فرستادوں کا مقابلہ کیا۔
۷۷؎ تفسیر:۔فرماتا ہے تمہارا خدا تو ایک ہی خدا ہے جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور پھر وہ رحمٰن اور رحیم ہے ایسی کامل صفات رکھنے والے خدا پر ایمان رکھتے ہوئے تمہیں اپنے دشمنوں سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے۔ تمہاری حفاظت کے لئے تمہارا خدا موجود ہے۔ پس تم اس پر توکل رکھو اور اُسی سے مدد مانگتے رہو۔ وہ تمہارا دشمن کو تم پر کبھی غالب نہیں آنے دیگا۔ اور خواہ تمہاری کشتی مشکلات کے بھنور میں کتنے بھی چکر کھائے پھر بھی وہ تمہیں اس میں سے نکال کر ساحل کامیابی پر پہنچا دے گا۔
مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میں نے رویا میں دیکھا کہ میں بہشتی مقبرہ سے ایک کشتی پر آرہا ہوں اور میرے ساتھ کچھ اور لوگ بھی ہیں۔ راستہ میں کثرت سے پانی ہے اور ایک طوفان سا آیا ہوا معلوم ہوتا ہے جب ہم پُل والی جگہ کے قریب پہنچے ۔جہاں صرف دو لکڑیاں لوگوں کے آنے جانے کے لئے رکھی رہتی تھیں تو وہاں میں کیا دیکھتا ہوں کہ کشتی بھنور میں پھنس گئی ہے اور چکر کھانے لگی ہے اس سے سب لوگ جو کشتی میں بیٹھے تھے ڈرنے لگے جب ان کی حالت مایوسی تک پہنچ گئی تو یکدم پانی میں سے ایک ہاتھ نکلا جس میں ایک تحریر تھی اور اس میں لکھا تھا کہ یہاں ایک پیر صاحب کی قبر ہے ان سے درخواست کرو تو کشتی بھنور میں سے نکل جائیگی۔ میں نے کہا۔ یہ تو شرک ہے میں اس کے لئے ہرگز تیار نہیں خواہ ہماری جان چلی جائے میں جوں جوں انکار کرتا گیا چکر بڑھتے گئے۔ اس پر میرے ساتھیوں میں سے بعض نے کہا کہ اس میں کیا حرج ہے۔ اور انہوں نے پیر صاحب کے نام ایک رقعہ لکھ کر بغیر میرے علم کے پانی میں ڈال دیا جب مجھے علم ہوا تو میں نے جوش سے کہا کہ یہ شرک ہے اور میں نے فوراً پانی میں چھلانگ لگا دی اور کود کر وہ کاغذ پکڑ لیا اور اُسے باہر لے آیا اور جونہی میں نے ایسا کیا کشتی بھنور میں سے نکل گئی۔ پس مومن پر خواہ کتنی بھی مشکلات آئیں اس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ پر توکل رکھے اور اُس کے سوا کسی اور کا خوف اپنے دل میں نہ پیدا ہونے دے۔
یہاں سوال ہو سکتا ہے کہ اچھا اگر وہی ایک معبود ہے تو ہمیں کیا معلوم کہ وہ ہم سے کیا معاملہ کریگا۔ اس لئے فرمایا کہ وہ رحمٰن اور رحیم ہے۔ وہ ہمیشہ محبت کا ہی معاملہ کرتا ہے اور بندہ کو نہیں چھوڑتا۔ سوائے اس کے کہ بندہ اُسے خود چھوڑ دے۔ وہ پہلے بغیر کسی عمل کے انسان پر اپنے بے انتہا فضل نازل کرتا ہے اور جب ان سا مانوں سے فائدہ اٹھاتا ہے تو رحیمیت کے ماتحت اس پر مزید احسان کرتا ہے۔ اور یہ سلسلہ چلتا چلا جاتا ہے۔ خداتعالیٰ کے رحمٰن و رحیم ہونے کی مثال درحقیقت اس بوڑھے کے کھجور لگانے کی سی ہے جس نے بادشاہ سے دو تین دفعہ کئی ہزار روپیہ انعام کے طور پر لے لیا تھا۔ بادشاہ کا خزانہ تو محدود تھا س لئے وہ منہ پھیر کر چلا گیا مگر ہمارے خدا کا خزانہ محدود نہیں ۔ ہمارا بادشاہ تو خود کہتا ہے کہ مجھ سے مانگو میں تمہیں دوں گا۔ اور پھر مانگتے چلے جائو تاکہ میں تمہیں دیتا چلا جائوں۔ غرض اللہ تعالیٰ نے انتہا فضل کرنیوالا اور بار بار رحم کرنے والا اس کے خزانے غیر محدود ہیں وہ کہتا ہے کہ تم پھر کام کرو تو میں پھر تمہیں انعام دونگا۔ پھر کرو تو میں پھر دونگا۔ اور ہمیشہ تمہیں اپنے انعامات سے حصہ دیتا چلا جائوںگا۔
اسجگہ اِلٰھُکُمْ سے جو شبہ پیدا ہوتا تھا کہ شاید کسی اور کا خدابھی ہو گا یا کئی خدا ہوتے ہون گے اس کا ازالہ لَااِلٰہَ اِلَّا ھُوَ سے کر دیا اور الرَحْمٰنُ الرَّحِیْمُ سے اس کی کامل صفات بیان کر کے مقلاً بھی کسی اور اِلٰہ کی ضرورت نہ رہنے دی۔
ترتیب وربط:۔ اوپر کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ ابراہیمی دعا کے مطابق ہم نے تمہارا منہ بیت اللہ کی طرف کر دیا اور پھر فتح مکہ پر اس نے خاص طور پر زور دیا اور بتایا کہ لوگ فتح مکہ کا انتظار کر رہے ہیں فتح ہونے پر وہ اسلام میں جوق در جوق داخل ہو جائیںگے اور چونکہ جنگوں میں کئی قسم کی تکالیف پیش آتی ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے صبر کی تلقین کی اور دعائیں مانگنے کی طرف توجہ دلائی اور ساتھ ہی حضرت اسمٰعیل علیہ السلام اور حضرت ہاجرہؓ کی قربانیوں کی مثال بیان کر کے اس حقیقت کو واضح کیا کہ جو لوگ خداتعالیٰ کے لئے قربانی کرتے ہیں اللہ تعالیٰ انکو کبھی ضائع نہیں کرتا پھر حج اور عمرہ اور صفا اور مروہ کے طواف کا ذکر کے کے اس طرف اشارہ فرمایا۔ کہ ہم نے جو تمہیں حج کا حکم دیا ہے تو ضڑور ہے کہ وہ وقت آئے کہ جس میں تم آسانی سے حج کر سکو۔ اور صفا اور مروہ کا طواف کر سکو۔ غرض ان آیات میں یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ مکہ ایک دن ضرور فتح ہو گا کیونکہ جب یہ آیات نازل ہو رہی تھیں اس وقت کفار مسلمانوں کو بیت اللہ کے قریب بھی نہیں آنے دیتے تھے۔ بلکہ اس کے کئی سال بعد بھی کفار نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو طواف نہیں کرنے دیا۔ مگر بتایا کہ ایک وقت آئیگا کہ مکہ پر تمہارا قبضہ ہو گا اور تمہیں حج اور عمرہ میں کسی قسم کی دقت کا سامنا پیش نہیں
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ




لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَo
پڑیگا۔ اور پھر آخر میں فرمایا کہ تمہارا خدا یک ہی خدا ہے اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور وہ رحمٰن اور رحیم ہے پس تمہیں اُسی سے تعلق رکھنا چاہیے۔ اور دشمنوں کی کثرت کو دیکھ کر گھبرانا نہیں چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ اپنی توحید کو دنیا میں قائم کریگا اور تمہیں اپنی رحمانیت اور رحیمیت کے نظارے دکھائیگا۔
۷۸؎ حل لغات:۔ اِخْتِلَاف’‘۔ یہ اِخْتَلَفَ کا مصدر ہے اور اِخْتَلَفَ زیْد’‘ عَمْرًد کے معنے ہیں کَانَ خَلِیْفَتُہ‘ یعنی زید عمرو کا قائم مقام ہوا۔وَجَعَلَہ‘ خَلْفَہ‘ اُسے اپنے پیچھے کیا۔ اسی طرھ اس کے ایک معنے ہیں اَخَذَہ‘ مِنْ خَلْفِہٖ۔ اُسے پیچھے سے پکڑا۔(اقرب)
مفردات امام راغب میں لکھا ہے اِنَّ نِی اخَتَلَفِ اللَّیْلِ وَالنَّھْارِ کے معنے ہیں فِیْ مَجِیْ ئِ کُلِّ وَاحِدٍ مِنْھَمَا خَلْفَ الْاٰخِرِ وَتَعَاقُبِھَا۔ یعنی رات اور ان کا ایک دوسرے کے آگے پیچھے آنا(مفردات)
اَلْفُلَک کے معنے ہیں اَلسَّفِیْنَۃُ۔ کشتی (اقرب) یہ لفظ مذکر بھی استعمال ہوتا ہے اور مونث بھی۔ اس طرح یہ لفظ واحد اور جمع دونوں طرح بولا جاتا ہے چنانچہ قرآن کریم میں دونوں کی مثالیں موجود ہیں۔ ایک جگہ آتا ہے اِذْ اَبَقَ اِلَی الْفُلْکِ الْمَشْحُوْنِ (الصافات آیت۱۴۱) یہ واحد کی مثال ہے۔ دوسری جگہ فرماتا ہے حِتّٰی اِذَا کُنْتُمْ فِی الْفُلْکِ وَجَرَیْنَ بِھِمْ بِرِ یْحٍ طَیِّبَۃٍ(یونس آیت۲۳) اس میں فُلْک کی طرف ھُمْ جو جمع کی ضمیر ہے پھیری گئی ہے گویا یہاں یہ لفظ جمع کے طور پر استعمال ہوا ہے۔
تفسیر:۔ پچھلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا تھا کہ اِلٰھُکُمْ اِلٰہ’‘ وَّ احِد’‘ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ یعنی تمہارا معبود اپنی ذات میں اکیالا اور واحد خدا ہے۔ اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور وہ بے انتہا کرم کرنیوالا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ اب اس رکوع میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمایت اور رحیمیت کے مختلف نظائر کا ذکر کرتے ہوئے اپنی ہستی کو ثبوت پیش کیا ہے ۔ چنانچہ سب سے پہلے وہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش کی طرف بنی نوع انسان کو توجہ دلاتا ہے۔ اور فرماتا ہے کہ اس پیدائش میں عقلمند قوم کے لئے بڑے بھاری نشان ہیں۔ یعنی اگر وہ سوچیں اور غور سے کام لیں تو اس امر کو بآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ آسمانوں اور زمین میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں جس کا انسانی زندگی کے ساتھ تعلق نہ ہو۔ اور یہ تمام چیزیں ایسی ہیں جن کے پیچھے صرف اللہ تعالیٰ کی رحمایت کا ہاتھ کام کر رہا ہے۔ انسان کی کسی کوشش اور عمل کا اس میں دخل نہیں چنانچہ دیکھ لو ہوا اور پانی اور سورج اور چاند اور ستارے انسان کے کسی عمل کے نتیجہ میں اسے نہیں ملے بلکہ محض اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت رحمایت کے ظہور کے طور پر ان کو بنی نوع انسان کی خدمت میں لگا رکھا ہے۔ اگر یہ چیزیں نہ ہوتیں تو انسان ایک لمحہ کیلئے بھی دنیا میں زندہ نہ رہ سکتا۔ پھر آسمانوں اور زمین میں اگر ایک معین قانون کام نہ کر رہا ہوتا اور ایک غیر متبدل نظام جاری نہ ہوتا تب بھی انسانی زندگی بے کار ہو کر رہ جاتی۔مگر اللہ تعالیٰ نے جہاں دنیا کی ہر چیز انسان کے فائدہ کے لئے بنائی وہاں اس نے ہرچیز کو ایک قانون کا بھی پابند بنا دیا تاکہ انسان بغیر کسی خطرہ کے ترقی کر سکے۔ اور زمین اور آسمان کی ہر چیز اس کی خدمت میں مصروف رہے اس حقیقت کو ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ اَلَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰت طِبَاقًاط مَاتَرٰی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوْتٍ ط فَارْجِعِ الْبَصَرَ لا ھَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْرٍہ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّ تَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَّ ھُوَ حَسِیْر’‘(سورۃ الملک آیت۴،۵)یعنی بہت برکت والا ہے وہ خدا جس نے ساتھ آسمان درجہ بدرجہ بنائے اور تو رحمٰن خدا کی پیدائش میں کوئی رخنہ نہیں دیکھتا ۔ تو اپنی آنکھ کو اِدھر اُدھر پھیر کر اچھی طرح دیکھ۔ کیا تجھے خدا کی مخلوق میں کسی جگہ بھی کوئی نقص نظر آتا ہے پھر بار بار اپنی نظر کو چکر دے آخر وہ تیری طرف نکام ہو کر لوٹ آئیگی او ر وہ تھکی ہوئی ہو گی۔ یعنی اُسے نظامِ عالم میں کوئی بھی خلافِ قانون بات یا نقص نظر نہیں آئیگا۔ غرض کارخانہ عالم کا ایک معین قانون سے وابستہ ہونا اور زمین آسمان اور سورج اور چاند اور ستاروں کاا س قانون کے ماتحت ہمیشہ چلتے چلے جانا اور کبھی اس میں کوئی انحراف واقع نہ ہونا ثابت کرتا ہے کہ اس کائنات کو بنانے والایقینا ایک خدا ہے۔ اگر ایک سے زیادہ بنانے والاے ہوتے جیسا کہ عیسائی تین خدائوں کے قائل ہیں توایک ہی قانون ہر جگہ کام کرتا دکھائی نہ دیتا بلکہ اس میں ضرور کوئی نہ کوئی رخنہ واقع ہو جاتا پس آسمانوں اور زمین کی پیدائش کی طرف توجہ دلا کر اللہ تعالیٰ نے اپنی ہستی کا ثبوت کر دیا کہ وہ رحمٰن ہے یعنی اپنی مخلوق پر بے انتہا کرم کریوالا اور انہیں ایسے انعامات سے فیضیاب کرنے والا ہے جن میں بندوں کی کسی کوشش یا عمل کا دخل نہیں۔ اسی طرح آسمانوں اور شمین کی پیدائش اس کی صفت رحیمیت کا بھی ثبوت ہے کیونکہ دنیا میں جب کوئی شخص خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین کے ماتحت کام کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بہتر سے بہتر نتائج پیدا کرتا ہے یہ کبھی نہیں ہوا کہ کسی نے زمین میں ہل چلایا ہو اور بیج ڈالا ہو اور پانی دیا ہو اور نگرانی کی ہو اور پھر اسے ایک دانہ کے بدلہ میں کئی کئی سو دانے نہ ملے ہوں۔ یا کسی نے صحیح محنت کی ہو اور وہ اپنی محنت کے پھل سے محروم رہا ہو۔ یہ دونوں صفات پہلو بہ پہلو چل رہی ہیں۔ رحمانیت کا بھی ظہور ہو رہا ہے اور رحیمیت کا بھی ظہور ہو رہا ہے اور ہر چیز اپنے وجود سے خداتعالیٰ کی طرف انگلی اُٹھا کر اس کی ہستی کا ثبوت پیش کر رہی ہے۔
درحقیقت اللہ تعالیٰ کی ہستی کا علم ایسا ہے جو دوسری چیزوں کے علم اور معرفت کے بعد حاصل ہوتا ہے کیونکہ وہ کلی علم ہے بعض چیزیں اپنی ذات میں نظر آنے والی ہوتیہ یں ان کے دیکھنے سے انسان کو ان کا علم ہو جات اہے۔ مثلاً بچہ کے سامنے اگرہم انگلی رکھیں اور قطع نظر اس سے کہ وہ اس قسم کی تفصیلات معلوم کرے کہ اُس انگلی کے پیچھے ایک پنجہ ہے اور اس پنجہ کے پیچھے ایک بازو ہے اور اس بازو کے پیچھے ایک کندھا ہے۔ وہ کندھا گردن کے واسطہ سے سر سے ملتا ہے اور اس سر میں ایک دماغ ہے جس کے حکم سے ان چیزون نے حرکت کی ہے اور پھر یہ انگلی میرے سامنے آئی ہے۔ وہ یہ سمجھ لے گا کہ اتنی لمبی اور اتنی موٹی ایک چیز میرے سامنے آگئی ہے پاس انگلی کا علم باقی علم کی ضرورت کا پابند نہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات کا علم کلی علم کے طور پر ہے اور جب تک جزئیات کا علم نہ ہو اس وقت تک کلی علم حاصل نہیں ہو سکتا ۔ ہم خداتعالیٰ تک اس کی مخلوقات کے ذریعے سے پہنچتے ہیں اور پھر اس میں بھی تکمیل کے بعد تکمیل اور وسعت کے بعد وسعت پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔ ایک چیز کے علم کے بعد دوسری چیز کا علم حاصل ہوتا ہے اور دوسری چیز کے بعد تیسری چیز کا ۔ اور تیسری چیز کے بعد چوتھی کا علم حاصل ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ مخلوق کی جزئیات کا علم ہوتے ہوتے انسان خداتعالیٰ تک معرفت پیدا کرتا جاتا ہے ایک ادنیٰ سے ادنیٰ انسان بھی اگر غور کرے تو اس کے لئے بھی خداتعالیٰ کی ہستی کی دلیل موجود ہے ۔ جیسے ایک اعرابی سے کسی نے پوچھا کہ تم خدا کو کیوں مانتے ہو تو وہ ہنس پڑا کہ میں اتنا پاگل تو نہیں ہوں کہ خدا کو بھی نہ پہچان سکوں۔ بکریوں کی مینگنیاں راستہ میں پڑی ہوئی ہوتی ہیں تو میں ان کو دیکھ کر سمجھ لیتا ہوں کہ یہاں سے بکری گذری ہے اونٹ کا پاخانہ پڑا ہوا ہو تو اُسے دیکھ کر میں سمجھ لیتا ہوں کہ ادھر سے اُونٹ گذرا ہے تو کیا اتنی وسیع دنیا کو دیکھ کر میں نہیں سمجھ سکتا کہ ایک خدا موجود ہے جو اس ساری دنیا کا خالق اور اس نظام کا پیدا کرنیوالا ہے۔ یہ ایک بسیط علم ہے جس پر فلسفیوں نے اعتراض کیا ہے کہ آخر اتفاقات بھی تو ہوتے ہیں ۔ اس لئے خالی خالی زمین و آسمان کی پیدائش اس بات کی دلیل نہیں ہو سکتی کہ ان کا کوئی خالق ہے۔ بعض چیزیں اتفاقا بھی ہو جاتی ہیں اور تمام لوگ کہتے ہیں کہ یہ اتفاقی بات ہے۔ قرآن مجید نے فلسفیوں اور مفکرین یورپ کے اس اعتراض کی تردید میں یہ دلیل دی ہے کہ خالی اس دنیا کا وجود بیشک خداتعالیٰ کے خالق ہونے کی مکمل دلیل نہیں اور تم اس کو اتفاقی کہہ سکتے تھے مگر اس تمام عالم میں ایک ترتیب کا پایاجانا اور ہرچیز کی دوسری چیز کے ساتھ جوڑ موجود ہونا یہ سب کچھ اتفاقی نہیں بلکہ اس دنیا کی ترتیب اور ہر چیز کا دوسری چیز کے ساتھ جوڑ اور ہر ذرہ کی حکمت یہ سب چیزیں اس بات کی دلیل ہیں کہ اس سارے نظام اور ساری دنیا کا پیدا کرنیوالا خدا موجود ہے جس نے حکمت کے ماتحت اس ساری دنیا کو پیدا کیا ہے اُس نے انسان کی آنکھ پیدا کی جس میں دیکھنے کی طاقت رکھی تو اس کے مقابل میں سورج کے اندر روشنی پیدا کی جس کے ذریعہ سے انسان دیکھتا ہے ناک پیدا کی جس سے انسان سونگھتا ہے تو اس کے مقابل میں خوشبو پیدا کی۔ کان پیدا کی جس سے انسان سنتا ہے تو اس کے مقابل میں ہوا میں یہ خصوصیت رکھی کہ وہ جنبش کرتی ہے اور اس کے ذریعہ سے کان تک آواز پہنچتی ہے ۔ اب کیا دیکھنے کے لئے آنکھ اگر اتفاقاً پیدا ہو گئی ہے تو اس کے مقابل میں سورج کی روشنی بھی اتفاقاً پیدا ہو گئی؟ سونگھنے کے لئے اگر ناک اتفاقاً پیدا ہو گئی تو کیا اس کے مقابل خوشبو بھی اتفاقاً پیدا ہو گئی؟ اگر سننے کے لئے کان اتفاقاً پیدا ہو گئے تو کیا اس کے مقابل میں ہوا کے اندر بھی جنبش کر کے کانوں تک آواز پہنچانے کی قابلیت اتفاقاً پیدا ہو گئی؟ پاس ان چیزوں کے اندر اگر کوئی جوڑ نہ وہوتا کوئی ترتیب نہ ہوتی اور کوئی حکمت نہ ہوتی تو انکو اتفاق کہا جاسکتا تھا لیکن دنیا کا کوئی ذرہ ایسا نہیں جس میں کوئی ترتیب نہ ہو کوئی ذرہ ایسا نہیں جس میں حکمت نہ ہو۔ کوئی چیزایسی نہیں جس کا کسی دوسری چیز سے جوڑ اور وابستگی نہ ہو تو ہم کس طرح مان لیں کے یہی ساری کی ساری چیزیں اور یہ سارے کا سارا نظام خود بخود اور اتفاقی ہے۔ مگر یہ دلیل اُسی صورت میں فائدہ دے سکتی ہے جب انسان بڑا ہو اور ان چیزوں پر غور کرے۔ آنکھوں سے دیکھ دل و دماغ سے سوچے ادھر ان چیزوں پر نگا ڈالنے ادھر اپنے دل کے جذبات پر غور کرے۔ سورج اور چاند کی روشنی کو دیکھے ہوا اور اس کے اثرات پر غور رکے۔ گرمی اور سردی کے اثرات کو دیکھے سبزیوں اور ترکاریوں کے پیدا ہونے اور ان کی خاصیتوں پر غور کرے جب تک وہ ان چیزوں پر غور کرنے اور ان سے نتیجہ نکالنے کی اہلیت نہیں رکھتا اس وقت تک وہ خدا تعالیٰ تک کس طرح پہنچ سکتا ہے؟ یہ بات خلافِ عقل ہے کہ ایک بچہ ان تمام چیزوں پر غور کر کے اس نتیجہ تک پہنچ جائے کہ ایک خدا موجود ہے۔ بچہ توسب سے پہلے اپنی ماں سے روشناس ہوتا ہے اور اسی کو سب کچھ سمجھتا ہے پھر جب اس کو پتہ لگتا ہے کہ ماں کو بھی سب چیزیں باپ ہی لا کر دیتا ہے تو پھر وہ باپ سے محبت کرتا ہے بڑا ہو کر جب اپنی گلی کے بچوں سے کھیلتا ہے تو پھر ان سے محبت کرتا ہے اگر اس کا کوئی دوست نہ ملے تو رونے لگ جاتا ہے اور اصرار کرتا ہے کہ میرے دوست کو بلائو اس کے بغیر میرا گذارہ نہیں۔ پھر کھانے پینے اور پہننے کی چیزوں کا شوق پیدا ہوتا ہے تو ان سے محبت کرتا ہے۔ اگر اُس کی مرضی کے مطابق کھانا نہ ملے یا مرضی کے مطابق کپڑا نہ ملے تو روٹھ جاتا ہے کہ میرا اس کے بغیر گذارہ نہیں پھر اور بڑا ہوتا ہے تو سیر وشکار سے محبت کرتا ہے اور ان چیزوں کے بغیر اپنی زندگی بے لطف سمجھتا ہے۔ غرض یہ چیزیں ایک ایک کر کے اس کے سامنے آتی ہیں اور ہر ایک کے متعلق وہ یہی اندازہ لگاتا ہے کہ اس کے بغیر میرا گذارہ نہیں۔ گویا وہی اس کا خدا ہوتا ہے۔ مگر پھر آہستہ آہستہ ان چیزوں کو چھوڑتا چلا جاتا ہے پہلے ماں سے محبت ہوتی ہے تو اُسی کو اپنا خدا سمجھتا ہے پھر باپ سے محبت ہوتی ہے تو اسی کو اپنا خدا سمجھتا ہے۔ پھربھائیوں اور دوستوں سے محبت سے محبت ہوتی ہے تو ان کو اپنا خدا سمجھتا ہے پھر کھانے پینے اور پہننے کی چیزوں سے محبت ہوتی ہے تو ان کو اپنا خدا سمجھتا ہے۔یہاں تک کہ جب عاقل و بالغ ہوجاتا ہے تو پھر اگر اس پر خدا کا فضل ہو جائے اچھا استاد مل جائے جو اسے علم سکھائے اور ماں باپ بھی اچھی طرح تربیت کرنے والے ہوں تب وہ ان تمام چیزوں کو چھوڑ کر حقیقی خدا کی طرف آجائیگا اور سمجھ لیگا کہ یہ سب نقلی خدا تھے جن کو میں نے اپنی خواہشات کے ماتحت سب کچھ سمجھ رکھا تھا۔ اصل خدا تو وہ ہے جو ان سب کا پیدا کرنیوالا ہے غرض پہلے غیر اللہ کی محبت انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میری زندگی کا سارا انحصار انہی پر ہے۔ لیکن ایک ایک کر کے پھر ان کو چھوڑتا چلا جاتا ہے پہلے ماں کی گود کو ہی سب کچھ سمجھتا ہے اور اس سے الگ ہونے میں اپنی ہلاکت سمجھتا ہے ۔ پھر بڑا ہوتا ہے تو بھائیوں اور دوستوں سے محبت کرنے لگتا ہے اور اپنی زندگی کا تمام سُکھ اور راحت انہیں کے ساتھ کھیلنے میں سمجھتا ہے جب ان کے ساتھ مل کر کھیل ریا ہو تو ماں کے بلانے پر بھی نہیں جاتا۔ اس کی ساری خوشی کھیلنے میں ہوتی ہے۔ پھر اور بڑا ہوتا ہے تو سیر و شکار سے محبت ہوتی ہے پھر صحن اور گلی میں کھیلنے کو بھول جاتا ہے اور اس کی ساری خوشیاں سیر وشکار میں مرکوز ہو جاتی ہیں اگر اس کو ان چیزوں سے روکا جائے تو اس میں اپنی ہلاکت سمجھتا ہے لیکن آہستہ آہستہ آپ ہی آپ ان سب کو چھوڑتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ جب بلوغت کو پہنچ جاتا ہے تو غور و فکر کے بعد خدا کی حقیقی شکل اس کو نظر آجاتی ہے اور ان تمام چیزوں کو لغو سمجھ کر چھوڑ دیتا ہے اسی ترتیب طبعی کے ماتحت مفسرین نے لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پہلے ایک ستارہ کو چمکتا ہوا دیکھا تو اس کو اپنا خدا سمجھ لیا۔ پھر چاند کو دیکھا کہ ستارہ سے بڑا اور اس سے زیادہ روشن ہے تو اس کو اپنا خدا سمجھ لیا۔ پھر سورج کو دیکھا کے ستارے اور چاند دونوں سے بہت بڑا اور اس سے زیادہ روشن ہے تو اس کو اپنا خدا سمجھ لیا۔ مگر جب ایک ایک کر کے سب چُھپ گئے تو آپ نے فرمایا اِنِّیْ وَجَّھْتُ وِجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ(انعام ع۹) یعنی میں نے تمام کج راہوں سے بچتے ہوئے اپنی توجہ اس خدا کی طرف پھیر دی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آخر میں آپ خدا تعالیٰ پر ایمان لے آئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق یہ واقعہ تو درست نہیں مگر مفسرین کا دماغ اس بات تک صحیح پہنچا ہے کہ انسان دماغ بغیر الہام کے جب ہدایت پاتا ہے تو ادنیٰ سے اعلیٰ تک جاتا ہے بچے کے نزدیک ابتداء میں اُس کی ماں ہی سب کچھ ہوتی ہے یا دوسرے لفظوں میں اُس کا خدا ہوتی ہے بلکہ اس کی ماں کی بھی خبر نہیں ہوتی وہ سب سے پہلے پستان ہی کو خدا سمجھتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ مجھے اس سے دودھ ملتا ہے اگر پستان نہ ملے تو روتا ہے پھر ماں کو پہچانتا ہے تو اس سے محبت کرتا ہے۔ پھر باپ کو پہچانتا ہے تو اس سے محبت کرتا ہے۔ پھر بھائی سے محبت کرتا ہے پھر ساتھ کھیلنے والوں سے محبت کرتا ہے گلی اور محلے والوں کو پہچانتا ہے تو اس سے محبت کرتا ہے پھر دوسری ضروریات کھانے پینے اور پہننے کی چیزوں سے محبت کرنے لگتا ہے اور ان میں سے ہر ایک کو اپنے اپنے مقام پر اپنا مقصود سمجھتا ہے ۔ مگر آہستہ آہستہ ان سب کو چھوڑتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ یہ چیزیں اسے خدا تک پہنچا دیتی ہیں۔ اگر سال یا چھ مہینے کے بچہ کے اندر بولنے اور سمجھنے کی طاقت ہوتی اور اُسے کہا جاتا کہ تُو بڑا ہو کر اپنی ماں کی گود کو چھوڑ دیگا تو وہ اس بات سے اتنا حیران ہوتا جتنا کہ ایک سائنسدان اس بات سے حیران ہوتاکہ اُسے کہا جائے آگ جلاتی نہیں بلکہ بجھاتی ہے یا سورج روشنی نہیں دیتا۔یا چاند کی روشنی مکتسب نہیں بلکہ آپ ہی آپ ہے ۔ غرض جس طرح ایک سائنسدان ان اوپر کی باتوں سے حیران ہوگا وہ بچہ بھی اگر اس کو یہ بات سمجھائی جا سکتی کہ ایک دن وہ اپنی ماں کی گود سے اُتر جائیگا اور اس کی رغبت اپنی ماں سے کم ہو جائیگی حیران ہو تا۔ اگر سات آٹھ سال کے بچہ کو یہ بات کہہ دی جائے کہ بڑا ہو کر تو ایک عورت سے شادی کرے گا اور اس سے تیری رغبت زیادہ ہو جائیگی اور تو اپنی ماں کو چھوڑ دیگا تو وہ کہیگا کہ میں ایسا پاگل تو نہیں ہوں کہ اپنی ماں کو چھوڑدوں وہ اور ہونگے جو ایسا کرتے ہیں میں تو کبھی اس طرح نہیں کرونگا۔ پس یہ ایک فطرتی چیز ہے کہ انسان مختلف وقتوں میں مختلف چیزوں سے رغبت کرتا ہے اور جس وقت وہ اس چیز سے رغبت کر رہا ہوتاہے اس وقت وہ یہ وہم بھی نہیں کر سکتا کہ ایک دن میں اس چیز کو چھوڑ دونگا۔ اور جب بڑا ہوتا ہے تو پھر اس بات کا اسے خیال بھی نہیں آتا کہ کسی وقت میں اس چیز سے رغبت رکھتا تھا اور اس کے بغیر اپنی زندگی حرام سمجھتا تھا۔ یہی معنے اَشْھَدُ اَنْ لَا اِلٰہَ اللّٰہ کے ہیں کہ پہلے انسان غیر اللہ کی طرف توجہ کرتا ہے جو بظاہر غیر اللہ کا راستہ ہے مگر اللہ تک پہنچنے کا اصل راستہ یہی ہے۔ اگر بچہ کے اندر پستان کی محبت نہ ہوتی تو اُس کے اندر ماں کی محبت بھی کبھی نہ ہوتی۔ اگر بچہ کو ماں سے محبت نہ ہوتی تو اس کو باپ سے بھی کبھی محبت نہ ہوتی۔ اگر بچہ کو باپ سے محبت نہ ہوتی تو اس کو بھائی اور بہنوں سے محبت نہ ہوتی تو اس کو دوستوں اور ساتھ کھیلنے والوں سے بھی کبھی محبت نہ ہوتی۔ اگو اگر اس کو اپنے اپنے وقت پر ان اشیاء سے رغبت نہ ہوتی تو سچی بات یہ ہے کہ خدا کو بھی اپنے وقت پر نہ پا سکتا۔ بات یہ ہے کہ انسان اپنی فطرت میں جو خلا محسوس کرتا ہے اُس کو پُر کرنے کے لئے وہ مختلف وقتوں میں مختلف چیزوں سے رغبت کرتا ہے کہ شاید یہ چیز میری ضرورت کو پورا کردے۔ جب اُس چیز سے اس کی تسلی نہیں ہوتی تو پھر دوسری چیز سے رغبت کرتا ہے کہ شاید اس چیز سے میری ضرورت پوری ہو جائے۔ جب اس سے بھی اسے طمانیت حاصل نہیں ہوتی تو پھر چوتھی چیز سے رغبت کرتا ہے کہ شاید یہی میرا مقصود ہو۔ یہاں تک کہ ایک ایک کر کے ان تمام چیزوں کو چھوڑتا چلا جاتا ہے اور آخر خداتک جا پہنچتا ہے اور جب اس کو اللہ مل جاتا ہے تو اس کو پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے اور پھر اس مقام سے نہیں ہلتا قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِنَّ اِلیٰ رَبِّکَ الْمُنتَھٰی(نجم آیت ۴۳) کہ ان تمام چیزوں میں سے جو غیر اللہ ہیں گذر کر ایک دن انسان اپنی منزل مقصود یعنی خدا تک پہنچتا ہے اور وہ فورا ہی اس منزل پر نہیں پہنچ جاتا بلکہ راستہ میں کئی چیزیں آتی ہیں جن کو بچپن کی وجہ سے خدا سمجھ لیتا ہے مگر آہستہ آہستہ اُن سب کو چھوڑتا چلا جاتا ہے اور ہر چیز اس کی انگلی پکڑ کر اُس کو خدا کے قریب کر دیتی ہے۔
زیر تفسیر آیت میں اللہ تعالیٰ نے اسی امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اگر تم نظامِ عالم پر غور کرو تو تمہیں ذرہ ذرہ میں خداتعالیٰ کو وجود نظر آئیگا۔ اور تمہیں اقرار کرنا پڑے گا کہ خداتعالیٰ نے زمین و آسمان اور ان کے درمیان جس قدر اشیاء پیدا کی ہیں ان تمام کو حق و حکمت کے ساتھ پیدا کیا ہے یعنی ان کی پیدائش بلاوجہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے کوئی بہت بڑا مقصد کام کر رہا ہے اور چونکہ وہ مقصد اس دنیا میں پورا ہوتانظر نہیں آتا۔ اس لئے ضروری ہے کہ انسانی زندگی اسی دنیا تک محدود نہ ہو تاکہ وہ اس نظام کی عظمت کے مطابق اس اعلیٰ مقام کو حاصل کر کے جس کے لئے اس کی پیدائش معرض، وجود میں آئی ہے ۔ اگر انسان کی زندگی صرف اس دنیا تک ختم ہو جانے والی ہوتی تو اس کے لئے اتنا بڑا نظام جاری کرنا جس کے اسرار کو علوم کی انتہائی ترقی کے باوجود ابھی تک سائنسدان بھی معلوم نہیں کر سکے ایک لغو اور خلافِ عقل فعل قرار پاتا ہے۔
مجھے یاد ہے ۱۹۴۶؁ء میں جب ہم نے قادیان میں ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے افتتاح کے لئے ڈاکٹر سرشانتی سرذب صاحب بھٹنا گر ڈاکٹر سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ گورنمنٹ آف انڈیا کو بلوایا تو انہوں نے تقریر کرتے ہوئے یہی کہا کہ آج سائنسدان کے غرور کا سار اس قدر نیچا ہو چکا ہے کہ وہ ہرگز یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ سائنس ان اشیاء کی بھی مناسب تشریح کر سکتی ہے جو ظاہری طور پر ہمیں نظر آتی ہیں اور جب زمین اور آسمان میں اس قدر اسرار پائے جاتے ہیں کہ سائنس اپنی تمام ترقی کے باوجود ابی مادیات میں سے بھی ایک بہت چھوٹے سے حصے کی تشریح کر سکی ہے تو پھر اس وسیع کائنات کو جس وجود کے لئے ایک خادم کے طور پر پیدا کیا گیا ہے اس کی پیدائش کو عبث قرار دینا کس طرح درست ہو سکتا ہے۔
پھر فرماتا ہے وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ۔ رات اور دن کے آگے پیچھے آنے میں بھی عقلمند لوگوں کے لئے بڑے بھاری نشان ہیں۔ اس جملہ میں اللہ تعالیٰ نے پھر اپنی رحمانیت کا ثبوت پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین پیدا کئے اور سورج اور چاند اور ستارے وغیرہ بنائے۔ اسی طرح اُس نے اپنی رحمانیت کے ماتحت یہ بھی انتظام کیا ہو اہے کہ رات اور دن کا ایک تسلسل جاری ہے۔ اور ہر رات کے بعد ایک دن کا ظہور ہوتا ہے۔ اگر رات نہ آتی تو انسان اپنی طاقتوں کو کھو بیٹھتا۔ اور اگر دن نہ چڑھتا تو انسانی زندگی بے کار ہو کر رہ جاتی۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کا ملہ کے ماتحت رات اور دن بنادیئے تاکہ انسان اپنی نیند پوری کر کے قویٰ میں تازگی حاصل کرے اور دن بھر کام کر کے اپنے آپ کو مفید وجود بنائے رات اور دن کی طرف توجہ دلا کر اللہ تعالیٰ نے روحانی رنگ میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ جس طرح خداتعالیٰ نے مادی ظلمت کو دور کرنے کے لئے انتظام کر رکھا ہے روحانی طور پر بھی ظلمت اور نور کا ایک سلسلہ جاری ہے اور اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر رکھے ہیں کہ جس کے نتیجہ میں روحانی ظلمتیں کا فور ہوتی رہتی ہیں۔ ان سامانوں میں سے ایک تو یہ ہے کہ ملائکہ انسانی قلوب میں نیک تحریکات کرتے رہتے ہیں اور انہیں ظلمات سے بچانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ لیکن جب بنی نوع انسان کی اکثریت ظلمت میں گرفتار ہو جائے اور ملکی تحریکات ان پر اثر نہ کریں اور شیطان ان پر تسلط جمالے تو اس وقت اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء اور مامورین کے ذریعہ ان کی ظلمتوں کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ لوگ روحانی عالم کے آفتاب و ماہتاب ہوتے ہیں اور ان پر ایمان لانے والے ستاروں کی طرح دنیا کی ہدایت کا موجب بنتے ہیں۔ غرض اِخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّھارِ میں اللہ تعالیٰ نے رحمانیت کے اس فیضان کی طرف توجہ دلائی ہے جس کے ڈریعہ ملائکہ اور انبیاء اور مامورین اور مجددین اور اولیاء وغیرہ بنی نوع انسان کو ظلمات سے نور کی طرف لے جاتے ہیں اور دنیا کو تباہ ہونے سے محفوظ رکھتے ہیں۔
وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ میں اس امر کی طرف اشارہ کیا کہ جیسے کشتیوں اور جہازوں کے بغیر تم سمندروں میں نہ ایک طرف کا مال دوسری طرف پہنچا سکتے ہو اور نہ وہاں سے کوئی مال اپنے استعمال کے لئے لاسکتے ہو ۔ اسی طرح خداتعالیٰ نے رُوحانی دنیا میں بھی بعض ایسے وجود بنائے ہیں جو لوگوں کے لئے کشتی کاکام دیتے ہیں وہ خداتعالیٰ کی طرف سے تمہارے لئے فیضان لاتے ہیں اور تمہیں زمین سے اُٹھا کر خداتعالیٰ تک پہنچا دیتے ہیں پھر جس طرح وہی شخص سمندری طوفانوں سے محفوظ رہ سکتا ہے جو کشتی میں سوار ہو اسی طرح روحانی بلائوں اور آفات سے بھی وہی شخص محفوظ رہ سکتا ہے جو اپنے زمانہ کے روحانی نجات دہندہ کی کشتی میں سوار ہو۔
وَمَااَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآئٍ میں اس طرف اشارہ فرمایا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ زمین کو حیاتِ تازہ بخشنے کے لئے آسمان سے پانی نازل فرماتا ہے اسی طرح وہ لوگوں کی روحانی تشنگی فرو رکرنے کے لئے آسمان سے ہی وحی نازل کیا کرتا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ لوگ جسمانی بارش کو تو قدر کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں لیکن جب آسمان سے وحی الہٰی کی بارش ہوتی ہے تو اس سے فائدہ اتھانے کی کوشش نہیں کرتے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دفعہ صحابہؓ سے وحی الہٰی کی بارش سے فائدہ اُٹھانے اور نہ اُٹھانیوالوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ دنیا میں تین قسم کے آدمی پائے جاتے ہیں کچھ تو ایسے ہوتے ہیں کہ جن کی مثال اچھی زمین کی طرح ہوتی ہے۔ جو نرم ہو پانی کو اپنے اندر جذب کرنے کی قابلیت رکھتی ہو اور پھر اچھی کھیتی اُگاسکتی ہو۔ جب بارش نازل ہوتی ہے تو وہ زمین بارش کے پانی کو سمیٹ لیتی اور اُسے اپنے اندر جذب کرلیتی ہے اور پھر زمین سے کھتی نکلتی اور لوگوں کے کام آتی ہے گویا وہ خود بھی پانی پیتی ہے اور باقی لوگوں کے کام آتی ہے گویا وہ خود بھی پانی پیتی ہے اور باقی لوگوں کے لئے بھی غذا مہیاکرتی ہے۔ اور دوسری قسم کے لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی مثال اس زمین کی طرح ہوتی ہے جو سخت ہو لیکن اپنے اندر نشیب رکھتی ہو۔ جب پانی گِرتا ہے تو وہ اس زمین میں جمع ہو جاتا ہے اور گو ایسی زمین خود پانی نہیں پیتی لیکن چونکہ وہ پانی کو جمع کر لیتی ہے اس لئے وہ پانی جانور پیتے ہیں آدمی استعمال کرتے ہیں اور اپنے کھیتوں کو اس پانی سے سیراب کرتے ہیں لیکن ایک تیسری قسم کے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کی مثال اس سخت اور پتھریلی زمین کی طرح ہوتی ہے جو نہ صرف سخت اور پتھریلی ہو بلکہ مسطح اور ہموار بھی ہو۔ اس میں کوئی گڑھا نہ ہو جب آسمان سے پانی نازل ہوتا ہے تو نہ وہ آپ پانی پیتی ہے کیونکہ وہ سخت اور پتھریلی ہوتی ہے اور نہ پانی جمع کرتی ہے کیونکہ وہ مسطح اور ہموار ہوتی ہے۔ پھر فرمایا پہلی مثال تو اس شخص کی ہے جو عالم باعمل ہو۔ وہ دین حاصل کرتا ہے اور نہ صرف خود اس کے احکام پر عمل کرتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاتا ہے اور ان کو عامل بنانے کی کوشش کرتا ہے گویا وہ عالم بھی ہوتا ہے اور عامل بھی ہوتا ہے۔ وہ تعلیم بھی حاصل کرتا ہے اور معلم بھی ہوتا ہے۔ لیکن تیسری قسم کا آدمی نہ عامل ہوتا ہے اور نہ معلم ہوتا ہے نہ خود فائدہ اٹھاتا ہے اور نہ دوسروں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ دوسری مثال بوجہ اس کے کہ دونوں مثالوں سے حل ہو جاتی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان نہیں فرمائی مگر ہر شخص ادنیٰ غور سے سمجھ سکتا ہے کہ دوسری مثال اس شخص کی ہے جو معلم تو ہے مگر عامل نہیں۔ وہ دین سیکھتا ہے اُس کے احکام سنتا ہے اس کی تعلیموں سے واقفیت رکھتا ہے مگر خود دیندار نہیں ہوتا۔ ایسا شخص چونکہ خدا اور اس کے رسول کی باتیں دوسروں تک پہنچاتا رہتا ہے اس لئے وہ بھی ایک مفید وجود ہوتا ہے گو ذاتی طور پر وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھاتا۔ بہر حال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تینوں قسم کے انسانوں کا ذکر فرمایا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ انبیاء کے آنے پر یہی تین گروہ دنیا میں نظر آتے ہیں یعنی کچھ تو ایسے لوگ ہوتے ہیں جو ان کی تعلیموں پر عمل کرتے ہیں اور وحی الہٰی کی بارش سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو اعراض سے کام لیتے ہیں اور انبیاء کا انکار کر دیتے ہیں۔ اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو دین کو سمجھتے تو ہیں مگر اپنی غفلت اور سستی کی وجہ سے اس پر عمل نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس جگہ مادی بارش کا ذکر فرماکر اس طرف توجہ دلائی ہے کہ جس طرح تم بارش سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہو۔ اسی طرح تمہارا فرض ہے کہ تم اس روحانی بارش سے بھی فائدہ اُٹھائو ہو محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ نازل ہوئی اور ان پتھروں کی طرح مت بنو جو بارش کا کوئی قطرہ اپنے اندر جذب نہیں کرتے۔ پھر جس طرح آسمان سے بارش برستی ہے توزمین کی اندرونی تہوں میں جو پانی مخفی ہوتا ہے اس میں بھی جو ش پیدا ہوتا ہے اور کنوئوں کا پانی بھی چڑھ آتا ہے اسی طرح انبیاء پر جب وحی الہٰی کی بارش نازل ہوتی ہے تو عوام الناس کو بھی کثرت کے ساتھ خوابیں آنی شروع ہو جاتی ہیں اور ان کی توجہ بھی خداتعالیٰ کی طرف پھر جاتی ہے چنانچہ اس زمانہ میں بھی ایسا ہی ہوا۔ اور حضرت مسیح موعو د علیہ السلام کی صداقت میں ہزار ہا لوگوں کو خوابیں آئیں میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس قسم کی خوابیں اکٹھی کی جائیں تو ایک بہت بڑی کتاب بن سکتی ہے۔
اسی طرح وحی الہٰی کے فیضان کے دائرہ کو اللہ تعالیٰ اس رنگ میں بھی وسیع کر دیتا ہے کہ جو لوگ انبیاء پر ایمان نہیں لاتے اللہ تعالیٰ ان کے دماغوں میں بھی ایک نئی روشنی پیدا کر دیتا ہے اور ان کی عقلیں تیز ہو جاتی ہیں ان کا فکر بلند ہو جاتا ہے ان کی فراست ترقی کرجاتی ہے اور ان کی دماغی صلاحیتیں زیادہ تیز ی سے اُبھرنے لگتی ہیں۔
پھر فرماتا ہے خداتعالیٰ کے نشانوں میں سے ایک یہ بھی نشان ہے کہ وَبَثَّ فِیْھَا مِنْ کُلِّ دَآبَۃٍ۔ اس نے زمین میں ہر قسم کے جانور پھیلا دیئے ہیں اس میں مادی جانوروں کے علاوہ ان لوگوں کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے جو انبیاء کے آنے سے پہلے مردہ کی سی حیثیت رکھتے ہیں اور ان میں روحانی زندگی کی کوئی رمق تک نظر نہیں آتی لیکن جب آسمانی صُور پُھونکا جاتا ہے تو اس وقت ایسے مردہ بھی زندہ ہو جاتے ہیں اور لولے لنگڑے بھی چلنے پھرنے لگ جاتے ہیں۔ پھر یہ لوگ جو مختلف نسلوں سے تعلق رکھتے ہیں اور مختلف علوم و فنون اور مختلف قابلیتوں کے مالک ہوتے ہیں نبی کی آواز پر لبیک کہنے کے بعد دین کی اشاعت کے لئے دنیا میں چاروں طرف پھیل جاتے ہیں اور اپنی تبلیغی جدوجہد سے لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگوں کو دین کی طرف کھینچ لاتے ہیں جو اس کے دین کی رونق اور تازگی کا موجب بنتے ہیں۔ ان معنوں کے لحاظ سے دَآبَّۃٍ سے ان مومنوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو زمین کی روحانی رونق اور آبادی کا باعث ہوتے ہیں اور جن سے موجودہ اور آئندہ نسلیں ہزاروں قسم کے مادی اور روحانی فوائد اُٹھاتی ہیں۔
وَتَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی صفتِ رحیمیت کا ثبوت پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ صفتِ رحمانیت کے ماتحت اللہ تعالیٰ کے جس قدر فیضان ہیں ان میں تو کافر بھی برابر کے شریک ہیں لیکن رحیمیت کے دائرہ میں جب مومن اور کافر کا مقابلہ ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی تائید مومنوں کو کامیاب کرتی اور کفار کو ان کے بد ارادوں میں ناکام کر دیتی ہے اس جگہ استعارہ کے طور پر ہوائوں سے وہ ہوائیں مراد ہیں جو خاص خاص وقتوں میں چلا کرتی ہیں خصوصاً وہ ہوائیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے چلیں اور جنہوں نے آپ کے انوار کو ساری دنیا میں پھیلا دیا مثلاً جنگِ بدر کے موقعہ پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ریت اور کنکریوں کی ایک مٹھی پھینکی تو اُسی وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسی تیز ہوا چلی جس نے مومنوں کی تائید کی۔ اور کفار کو ایسا بے دست و پا کر دی اکہ تھوڑی دیر میں ہی جنگ کا پانسہ پلٹ گیا اور کفار کے بڑے بڑے لیڈر خاک و خون میں تڑپنے لگے اور ان کے مسلح اور آزمودہ کار سپاہی میدان سے منہ پھیر کر بھاگ نکلے۔
پھر غزوہ احزاب میں بھی ایساہی ہوا اور خداتعالیٰ نے آپ کی تائید میں ہوا چلائی اور کفار بد حواس ہو کر بھاگ کھڑے ہوئے ۔ چنانچہ تاریخ میں لکھا ہے کہ ایک رات سخت آندھی چلی جس نے قناطوں کے پردے توڑ دیئے۔ چولھوں پر سے ہنڈیاں گرادیں اور بعض قبائل کی آگیں بُجھ گئیں۔ مشرکین عرب میں یہ رواج تھا کہ وہ ساری رات آگ جلائے رکھتے تھے اور اس کو نیک شگون سمجھتے تھے اور جس کی آگ بُجھ جاتی تھی وہ خیال کرتا تھا کہ آج کا دن میرے لئے منحوس ہے اور وہ اپنا خیمہ اٹھار کر لڑائی کے میدان سے پیچھے ہت جاتا تھا جن قبائل کی آگ بجھی انہوں نے اس رواج کے مطابق اپنے خیمے اٹھائے اور پیچھے کو چل پڑے۔ انکو دیکھ کر ارد گرد کے قبائل نے سمجھا کہ شاید یہود نے مسلمانوں کے ساتھ مل کر شبخون مار دیا ہے اور ہمارے آس پاس کے قبائل بھاگ رہے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے بھی جلدی جلدی اپنے ڈیرے سمیٹے اور میدان سے بھاگنا شروع کر دیا۔ ابوسفیان اپنے خیمہ میں آرام سے لیٹا تھا کہ اس واقعہ کی خبر اُسے بھی پہنچی وہ گھبرا کر اپنے بندھے ہوئے اونٹ پر چڑھ بیٹا اور اس کو ایڑیاں مارنی شروع کر دیں۔ آخر کسی نے اُسے توجہ دلائی کہ وہ یہ کیا حماقت کر رہا ہے اس پر اس کے اونٹ کی رسیاں کھولی گئیں اور وہ بھی اپنے ساتھیوں سمیت میدان سے بھاگ گیا۔
پھر ہوائوں کی طرح بارشیں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں برسیں اور بادلوں نے بھی آپ کا ساتھ دیا چنانچہ جنگِ بدر کے موقعہ پر جبکہ صحابہؓ کو پانی کی سخت ضرورت تھی اللہ تعالیٰ نے بارش نازل کر دی جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کو پانی بھی مل گیا اور ان کی زمین بھی جو ریتیلی تھی اور میدان جنگ بننے والی تھی سخت ہو گئی۔ اُدھر کافروں کی زمین جو سخت تھی بارش کی وجہ سے ایسی خراب ہو گئی کہ وہ اُس پر پھسلنے لگ گئے۔ اسی طرح مدینہ میں آپ کی دُعا کی برکت سے ایک دفعہ کئی دن بارش ہوتی رہی لیکن جب وہ بارش تکلیف کی صورت اختیار کرنے لگی اور مومنوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوا تو آپ ہی کی دُعا کی برکت سے وہ رُکی اور مدینہ سے ہٹ کر اردگرد کے علاقوں پر برسنے لگ گئی۔
اسی طرح جب مکہ والوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شدید مخالفت کی اور بار بار عذاب کا مطالبہ کیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان پر ویسا ہی سات سالہ قحط نازل فرمائے جیسا کہ اس نے یوسف کے زمانہ میں نازل کیا تھا۔ جنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ آپ کی اس بد دُعا کی وجہ سے حجاز میں ایسا شدید قحط پڑا کہ لوگوں کو مردار اور ہڈیاں اور چمڑے تک کھانے پڑے اور ان کی صحتیں اس قدر کمزور ہو گئیں کہ انہیں ہر وقت آنکھوں کے سامنے دھواں سا نظر آتا تھا اور یہ عذاب پورے سات سال تک ممتد رہا۔ آخر لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے درخواست کی کہ مضر یعنی قبائلِ حجاز کے لئے دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کی تکلیف کو دُور کرے۔ چنانچہ آپؓ نے دعا فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے بارشیں فرمائیں اور قحط دُور ہوا۔ بلکہ ایک روایت میں ذکر آتا ہے کہ خود ابوسفیان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا
وَمِنَ النَّاسِ


شَدِیْدُ الْعَذَابِo
کہ اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) تیری قوم ہلاک ہو گئی۔ دعا کر کہ اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف کو دُور کرے۔ چنانچہ آپ نے دُعا فرمائی اور یہ عذاب دُور ہوا(بخاری جلد ۳ کتاب اتفسیر القرآن سورۃ دُخان) یہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہوائیں بھی مسخر کر دی تھیں اور بادل بھی مسخر کر دیئے تھے اور کامل مومنوں کے لئے بھی وہ ایسا ہی کیا کرتا ہے بے شک ہوائیں ہمیشہ چلتی رہتی ہیں اور بارشیں ہمیشہ برستی رہتی ہیں مگر بدر اور احزاب کی ہوائوں نے بتا دیا کہ وہ مومنوں کے لئے بشارت اور کافروں کے لئے عذاب تھیں اسی طرح بارشیں بھی بے شک عام طور پر ہوتی رہتی ہیں مگر بدر اور مدینہ کی بارشوں نے بتا دیا کہ وہ مسخر شدہ تھیں اور مسخر شدہ بارشیں اور ہوائیں ہمیشہ مومنوں کی تائید اور کفار کی تذلیل کے لئے جاری ہوتی ہیں اور ایسے امور تقدیر خاص کے ماتحت جاری ہوتے ہیں۔
۷۹؎ حل لغات:۔ اَنْدَادًا : یہ نِدّ’‘ کی جمع ہے اور اَلنِّدُّ کے معنے ہیں اَلْمِثقلُ وَلَایَکُوْنُ اِلَّا مُخَالِفًا نِدّ مثل کو کہتے ہیں۔ اور یہ لفظ ہمیشہ مد مقابل کے لئے بولا جاتا ہے۔ یُقَالُ مَالَہ‘ نِدّ’‘ اَیْ مَالَہ‘ نَظِیْر’‘ کہا جاتا ہے کہ اس کا کوئی نِد نہیں یعنی اس کا کوئی نظیر نہیں اس کی جمع انداد آتی ہے۔
یہاں اَذْ۔ حِیْنَ کے معنے میں استعمال ہوا ہے اور حین کے معنے وقت کے ہیں۔
اسی طرح اسجگہ لَوْ کی جزاء محذوف ہے جو کہ یَعْلَمُوْا ہے۔ معنے اس طرح ہونگے کہ اگر یہ ظالم لوگ اس گھڑی کو جس میں اُن پر عذاب نازل ہو گا دیکھ لیں تو انہیں معلوم ہو جائے کہ سب قوت اللہ ہی کے لئے ہے۔
تفسیر:۔ قرآن کریم میں مشرکوں کے معبودوں کے لئے چار الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ (۱) نِدّ (۲) شریک (۳) اِلٰہ (۴)رب ۔اور یہ چاروں نام چار قسم کے شرکوں پر دلالت کرتے ہیں۔ نِدّ شریک فی الجوہر کو کہتے ہیں یعنی ایسی ہستی کو جس کی محض عبادت ہی مدنظر نہ ہو بلکہ جیسے خداتعالیٰ کی ذات ہے ویسے ہی اس چیز کو ازروئے ذات سمجھا جائے اور شریک وہ ہے جسے کاموں میں شریک باری تعالیٰ قرار دیا جائے خواہ بعض صفات میں یا کل صفات میں خواہ اس کی عبادت کی جائے یا نہ کی جائے اور اِلٰہ یعنی معبود کا لفظ جب خداتعالیٰ مشرکوں کی نسبت استعمال کرے تو اس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ جن کی تم عبادت کرتے ہو۔ یہ لفظ بھی نِد سے وسیع ہے کیونکہ عام طور پر وہ بھی اِلٰہ قرار دیئے جاتے ہیں جو خداتعالیٰ کے شریک فی الجوہر تسلیم نہیں کیے جاتے۔ جیسے ہندئوئوں وغیرہ کے دیوتا ہیں اور رب ان ہستیوں کو کہا جاتا ہے جن کی ہر ایک بات بلا تمیز خیر و شر مان لی جائے بغیر اس کے کہ لوگ ان کی عبادت کریں یا انہیں خداتعالیٰ کی صفات میں شریک قرار دیں۔ ان چاروں قسم کے شرکوں کی مثالیں بھی دنیا میں پائی جاتی ہیں۔ نِدّ قرار دینے والی مسیحی اقوام ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا قرار دیتی ہیں وہ انہیں صفاتِ الوہیت کی وجہ سے خدا قرار نہیں دیتیں بلکہ اس وجہ سے خدا قرار دیتی ہیں کہ ان کے نزدیک وہ ازلی ابدی ہیں۔یعنی وہ انہیں شریک فی الجوہر ہونے کے لحاظ سے کدا مانتی ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ خدائی کی وہ تمام صفات جو ذات کے لحاظ سے خداتعالیٰ میں موجود ہونی ضروری ہیں ان میں بھی پائی جاتی ہیں۔ یا جیسے پارسی لوگ دو الگ الگ خدائوں کے قائل ہیں۔ یزدان کو وہ روشنی کا خدا سمجھتے ہیں اور اہرمن کو تاریکی کا خدا قرار دیتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو بعض ہستیوں کو صرف شریک قرار دیتے ہیں یعنی بعض کاموں میں انہیں متصرف تو تسلیم کرتے ہیں لیکن ان کی پرستش نہیں کرتے گویا انہیں صرف شریک فی الصفات مانتے ہیں جیسا کہ عرب کے لوگ تھے وہ جنات وغیرہ کو حکم اور تصرف میں تو خداتعالیٰ کا شریک قرر دیتے تھے مگر انہیں معبود یا رب یا نِدّ خیال نہیں کرتے تھے صرف اُن کا یہ اعتقاد تھا کہ فلاں وادی میں جسے وہ سید الوادی قرار دیتے تھے جن متصرف ہے اور وہ اس میں آتا جاتا ہے۔ وہ اس کا ادب بھی کرتے تھے اور خداتعالیٰ کی طرفح اس سے ڈرتے بھی تھے لیکن اس کی عبادت نہیں کرتے تھے۔
اِلٰہ یعنی معبود کا لفظ نِدّ سے وسیع ہے۔ چنانچہ کئی لوگ ایسے ہیں جو بعض ہستیوں کو معبود تو سمجھتے ہیں اور اُن کی عبادت بھی کرتے ہیں مگر انہیں خدا تعالیٰ کا شریک فی الجوہر تسلیم نہیں کرتے ۔ جیسے ہندو اپنے دیوتائوں کی عبادت کرتے ہیں مگر اُن کو متصرف یا شریک فی الجوہر قرار نہیں دیتے ۔ اسی طرح ان میں ماں باپ کی عبادت بھی پائی جاتی ہے مگر ان کو شریک یا رب یا نِدّ نہیں سمجھا جاتا۔ چوتھا نام رب ہے اور گو اس کے اصل معنے پیدا کرکے کمال تک پہنچانے والے کے ہیں۔ مگر اصطلاح مذاہب میں ہر ایک مربی اور سردار کے لئے یہ لفظ بولا جاتا ہے اور اس سے ایسے لوگ مراد ہوتے ہیں جن کی ہر ایک بات بلاتمیز خیر و شر مان لی جائے۔جیسے گم گشتہ اقوام میں پیروں فقیروں کے متعلق اعتقادرکھا جاتا ہے۔ اسلام اجتہادی مسائل میں دوسروں کی اطاعت جائز قرار دیتا ہے لیکن جس شخص کی خدا اور انبیاء کے حکم کے خلاف نصوص صریحہ میں اطاعت کی جائے وہ گویا رب سمجھا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اِنَّخَذُوْا اَحْبَارَ ھُمْ وَرُحْبَانَہُمْ اَرْ بَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ(توبہ آیت ۳۱) یعنی یہود نے اپنے اھباء اور راہبوں کو خدا کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے۔
ان چاروں الفاظ میں سے اِلٰہ اور رب کے الفاظ تو خداتعالیٰ کے لئے بھی استعمال کر لئے جاتے ہیں لیکن نِدّ اور شریک کے الفاظ صرف معبود ان باطلہ کے لئے ہی استعمال ہوتے ہیں۔ اس تفصیل سے ظاہر ہے کہ جہاں نِدّ کا لفظ استعمال ہوگا وہاں شریک فی الجوہر مراد ہو گا۔(اگر جوہر میں مشابہت نہ ہو تو وہ چیز مثل کہلائیگی نِدّ نہیں۔) اور جس جگہ شریک کا لفظ استعمال ہو گا وہاں شریک فی الصفات مراد ہو گا خواہ اس کی عبادت کی جائے یا نہ کی جائے اور جہاں اِلٰہ یعنی معبود کا لفط ہو گا وہاں صرف عبادت کو مدنظر رکھا جائیگا۔ خواہ انہیں خدا کا شریک فی الجوہر تسلیم نی کیا جائے۔ اور جہاں رب کا لفظ استعمال ہو گا وہاں ایسی ہستیاں مراد ہونگی جن کی ہر ایک بات خیر و شر کی تمیز کے بغیر مان لی جائے اور خدا اور اس کے رسول کے احکام کی پرواہ نہ کی جائے قرآن کریم میں ان سب اقسام کے شریک کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے کہ قُلْ یَآ اَھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآ ئٍ بِیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَلَا نُشْرِکَ بِہٖ شُیْئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَاِنْتَوَ لَّوْا فَقُوْ لُو ا اشْھَدُوْ ابِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ۔(آل عمران آیت ۶۵)یعنی تو کہہ دے کہ اے اہل کتاب کم سے کم ایک ایسی بات کی طرف تو آجائو جو ہمارے اور تمہاراے درمیان مشترک ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کریں کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ہم آپس میں ایک دوسرے کے رب نہ بنایا کریں ۔لیکن اگر اس دعوتِ اتحاد کے بعد بھی وہ لوگ پھر جائیں تو ان سے کہدو کہ تم گواہ رہو کہ ہم خداتعالیٰ کے فرمانبردار ہیں۔ اس آیت میں (۱) لَانَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ (۲) وَلَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا (۳) وَلَا یَتَّحِذُ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْ بَابْا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ فرمایا کہ اِلٰہ یعنی معبود اور شریک اور رب تینوں اقسامِ شرک کی نفی تو صراحتًا کی گئی ہے۔ مگر نِدّ کی ضمنی طور پر نفی کی گئی ہے۔ کیونکہ نِدّ ان تینوں کے اندر شامل ہے۔ یعنی جو نِدّ ہو گا۔ وہ بغیر عبادت اور شرک فی الصفات اور اطاعتِ کامل کے نہیں ہو گا۔ اور جب غیر اللہ کی عبادت اور شریک فی الصفات اور رب بنانے کو گناہ قرار دے دیا گیا تو نِدّ کی خود بخود نفی ہو گئی لیکن اس کے علاوہ لَا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ سے بھی نِدّ کی نفی ہو جاتی ہے۔
غرض اسلام توحید کے جس بلند ترین مقام پر بنی نوع انسان کو پہنچانا چاہتا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان نہ تو کسی کو خداتعالیٰ کا شریک فی الجوہر سمجھے ۔ نہ کسی کو اس کے کام میں شریک قرار دے خواہ اس کی عبادت کی جائے یا نہ کی جائے۔ نہ غیر اللہ میں سے کسی کی پرستش کی جائے اور نہ خدا اور اس کے انبیاء کے احکام کے خلاف کسی کی اس طرح اطاعت کی جائے جس طرح خداتعالیٰ کی اطاعت کی جاتی ہے۔ یہ تمام چیزیں توحید حقیقی کے منافی ہیں۔
یُحِبُّوْنَھُمْ کَحُبِّ اللّٰہِ کے دو معنے ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ ان انداد سے ویسی ہی محبت کرتے ہیں جیسی خدا تعالیٰ سے کرنی چاسہیے اتنی ہی وہ اپنے انداد سے بھی کرتے ہیں۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ باوجود اس کے کہ وہ خداتعالیٰ سے بھی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں ان کے دلوں میں خداتعالیٰ سے کوئی حقیقی محبت نہیں پائی جاتی ۔پہلے معنے کے لحاظ سے تو دونوں سے ان کی محبت یکساں معلوم ہوتی ہے لیکن دوسرے معنے کو مدنظر رکھتے ہوئے واضح ہو جاتا ہے کہ ان کا خدا تعالیٰ سے محبت کا دعویٰ محض ایک لاف زنی ہے۔ ورنہ ان دونوں محبتوں میں بڑا بھاری فرق ہوتا۔
وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ کے بھی دو معنے ہیں ایک تو یہ کہ مومن مشرکوں کی نسبت خداتعالیٰ سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ یعنی جو محبت مشرکوں کو خداتعالیٰ سے ہے اس سے بہت زیادہ محبت مومن اپنے خدا سے کرتے ہیں۔ یا مشرک اپنے بتوں سے جو محبت کرتے ہیں اس سے بہت زیادہ محبت مومن اپنے خداتعالیٰ سے کرتے ہیں۔ اور دوسرے معنے یہ ہیں کہ مومن خداتعالیٰ کے سوا دوسری چیزوں سے جو محبت کرتے ہیں ان تمام چیزوں کی محبت کی نسبت وہ خداتعالیٰ سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں اور اگر دونوں محبتوں کا مقابلہ ہو جائے تو خداتعالیٰ کی محبت کا پہلو ہمیشہ بھاری ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے ایک دوسرے مقام پر اس محبت کی ان الفاظ میں تشریح فرمائی ہے کہ قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآئُ کُمْ وَاَبْنَآئُ کُمْ وَاِخْوَ انُکُمْ وَاَزْوَ اجُکُمْ وَ عَشِیْرَ تُکُمْ وَاَمْوَالُ اِقْتَرَ فْتُمُرْ ھَا وَتِجَارَۃ’‘ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَمَسٰکِنُ تَرْ ضَونَھَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمق مِنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِھَا دٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ ط وَاللّٰہُ لَایَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ(توبہ آیت۲۴)یعنی کہہ دے کہ اگر تمہارے باپ دادا اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں یا تمہارے خاوند اور تمہارے رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے کمائے ہیں اور تجارت جس کے بگڑ جانے سے تم ڈرتے ہو اور گھر جنہیں تم پسند کرتے ہو۔ خدا اور اس کے رسول سے اور خدا کے راستہ میں جہاد کرنے سے تمہیں زیادہ پیارے ہیں تو تم کو خدا سے کوئی محبت نہیں۔ تب تم اللہ تعالیٰ کے عذاب کا انتظار کرو۔ اور خداتعالیٰ ایسے نافرمانوں کو کبھی اپنا راستہ نہیںدکھاتا۔ یعنی کامل محبت کی علامت یہ ہے کہ انسان اس کی خاطر ہر ایک چیز کو قربان کر دے۔ اگر اس بات کے لئے وہ تیار نہیں تو منہ کی باتیں اس کے لئے کچھ بھی مفید نہیں یوں تو ہر شخص کہہ دیتا ہے کہ مجھے خدا سے محبت ہے اور اس کے رسول سے محبت ہے بلکہ مسلمان کہلانیوالا کوئی بھی شخص نہیں ہوگا جو یہ کہتا ہو کہ مجھے خدا سے اور اس کے رسول سے محبت نہیں ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس اقرار کا اثر اس کے اعمال پر اس کے جو روح پر اور اس کے اقوال پر کیا پڑتا ہے۔ وہ لوگ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اپنے آپ کوسرشار بتاتے ہیں ور آپ کی تعریف میں نعتیں پڑھتے اور سنتے رہتے ہیں بلکہ بعض تو خود بھی نعتیں کہتے ہیں۔ آپ کے احکام کی فرمانبرداری کی طرف ان کو کچھ بھی توجہ نہیں ہوتی وہ خداتعالیٰ کی محبت کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن اس سے ملنے کے لئے کوئی کوشش نہیں کرتے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اگر کسی کا کوئی عزیز آجائے تو وہ سو کام چھوڑ کر اس سے ملنے کے لئے جاتا ہے۔ اپنے دوستوں اور پیاروں کی ملاقات کا موقعہ ملے تو پھُولا نہیں سماتا۔ حکام کے حضور شرف بار یابی حاصل ہو تو اس کی گردن فخر سے اونچی ہو جاتی ہے لیکن لوگ خداتعالیٰ کی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں ااور نماز کے قریب بھی نہیں جاتے۔ یا نماز پڑھتے ہیں تو اس طرح کہ کبھی پڑھی کبھی نہ پڑھی۔ یا اگر باقاعدہ بھی پڑھی تو ایسی جلدی جلدی پڑھتے ہیں کہ معلوم نہیں ہوتا کہ سجدہ سے انہوں نے کب سر اٹھایا اور کب دوبارہ سجدہ کیا جس طرح مرغا چونچیں مار کر دانہ اٹھاتا ہے اسی طرح وہ بھی سجدہ کر لیتے ہیں نہ خشوع ہوتا ہے نہ خضوع۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے روزہ کا بدلہ اپنے آپ کو قرار دیا ہے۔ مگر لوگ خداتعالیٰ کی محبت کا دعویٰ کرتے ہوئے اس کا دامن پکڑنے کے لئے نہیں جاتے۔ اور اس کا قرب حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے ۔ خداتعالیٰ کی محبت ظاہر کرتے ہیں لیکن لوگوں کے حقوق دباتے ہیں۔ جھوٹ بولتے ہیں۔ بہتان باندھتے ہیں غیبتیں کرتے ہیں اللہ تعالیٰ سے عشق کا اظہار کرتے ہیں لیکن قرآن کریم کا مطالعہ اور اس پر غور کرنے کی توفیق ان کو نہیں ملتی۔ غرض محبت کا دعویٰ اور شے ہے اور حقیقی محبت اور شے ہے۔ قرآن کریم بتاتا ہے کہ انسان اس وقت تک کبھی سچا مومن نہیں بن سکتا جب تک وہ عملاً خداتعالیٰ سے ایسی محبت نہ کرے کہ اس کے مقابلہ میں نہ ماں باپ کی محبت ٹھہر سکے۔ نہ بیٹوں کی محبت ٹھہر سکے۔ نہ بھائیوں کی محبت ٹھہر سکے۔ نہ بیویوں کی محبت ٹھہر سکے نہ قبیلہ اور قوم کی محبت ٹھہر سکے۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک حدیث میں فرمایا ہے کہ ثَلَا ث’‘ مَنْ کُنَّ فِیْہِ وَجَدَ حَلَا وَۃَ الْاِیْمَانِ اَنْ یَکُوْنَ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہ‘ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِمَّا سِوَاھُمَا وَاَنْ یُّحِبَّ الْمَرْ ئَ لَا یُحِبُّہ‘ اِلَّا لِلّٰہِ وَاَنْ یَکْرَہَ اَنْ یَعُوْدَ فِی االْکُفْرِ کَمَا یَکْرَہُ اَنْ یُقْذَفَ فِی النَّارِ(بخاری جلد اول کتاب الایمان) یعنی جس شخص میں یہ تین باتیں پائی جائیں اس کے متعلق سمجھ لو کہ اُسے حلاوتِ ایمان حاصل ہو گئی ہے۔ اول یہ کہ خدا اور اس کا رسول اس کی نگاہ میں تمام ماسوا سے زیادہ محبوب ہو۔ دوم انسان دوسرے سے محض اللہ کے لئے محبت کرے سوم۔ ایمان لانے کے بعد وہ کفر کی طرف لوٹنا ایسا ہی ناپسند کرے جیسے آگ میں ڈالا جانا۔
وَلَوْ یَرْی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اِذْ یَرَدْنَ الْعَذَابَ میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ آج تو یہ لوگ
اَذْتَبَرَّ اَالَّذِیْنَ
بِھِمُ الْاَسْبَابُo
اسلام کی مخالفت کر رہے ہیں اور بتوں کو خداتعالیٰ کا شریک قرار دے رہے ہیں لیکن اگر یہی لوگ اس وقت کا نظارہ اپنے ذہنوں میں لا سکیں جب وہ عذاب کو دیکھنے گے تو انہیں سب کچھ بھول جائے اور انہیں معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کا شریک بنانا کوئی معمولی گناہ نہیں۔ اس وت تو یہ لا علمی اور جہالت کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں لیکن اگر یہ ُس وقت کا تصور کر سکیں جب ان پر اپنے معبودوں کی بے بضاعتی روشن ہو جائیگی تو وہ ایسا کبھی نہ کریں جیسا کہ فتح مکہ کے موقعہ ہر تمام کفار نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ ان کے معبود ان کے کسی کام نہ آئے بلکہ وہ توڑ پھوڑ کر پھینک دیئے گئے اور بیت اللہ کو خدائے واحد کی عبادت کے لئے پاک کر دیا گیا۔
اِذْ یَرَوْنَ الْعَذَابَ کی تشریح میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اخروی عذاب کی بھی تفصیل بیان فرمائی ہے جو کفار کو ملیگا اور بتایا ہے کہ انہیں تمثیلی طور پر سانپ اور بچھو اور اسی قسم کی اور خوفناک چیزیں نظر آئیں گی۔ جو درحقیقت انہی کے اعمال کی ایک شکل ہونگی۔ کیونکہ دنیا میں انہوں نے سانپوں کی طرح لوگوں ڈسا اور بچھوئوں کی طرف نیش زنی سے کام لیا اور درندوں کی طرح لوگوں کو چیرا پھاڑا اس لئے خداتعالیٰ کی سزا کے لئے سانپوں اور بچھوئوں کو ہی اُن پر مسلط کر دیگا اور انہیں اپنے اعمال کی سزا دیگا۔
یہ آیت اپنے مضمون کے لحاظ سے پہلی آیت سے نہایت گہرا تعلق رکھتی ہے۔ بلکہ درحقیقت یہ دونوں آیات ایک ہی مضمون کی حامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں یہ مضمون بیان فرمایا ہے کہ باوجود ان دلائل کے جو حق و باطل میں فرق کرینوالے ہیں اور باوجود اس کے کہ دنیا کا ذرہ ذرہ خداتعالیٰ کی وحدانیت کا ثبوت دے رہا ہے اور باوجود اس کے کہ یہ لوگ خداتعالیٰ کی تقدیر خاص کو بھی دیکھ رہے ہیں جو مومنوں کے حق میں جاری ہے پھر بھی یہ لوگ خداتعالیٰ کے نِد قرار دے رہے ہیں اور ان سے ایسی ہی محبت کرتے ہیں جیسی خداتعالیٰ سے کرنی چاہیے۔ اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ لوگ تباہ ہونے والے ہیں۔
۸۰؎ حل لغات:۔ تَبَّرَّأَ باب تفعل سے ماضی کا صیغہ ہے اور اس کے معنے ہیں تَخَلَّصَ یعنی اُس نے چھٹکارا حاصل کر لیا(اقرب) اور اَلتَّبَرِّی (مصدر) کے معنے ہیں اَلتَّغَصِّی مِمَّا یُکْرَ ہُ مُجَاوَرَتُہ‘ یعنی ناپسندیدہ چیز سے چھٹکارا حاصل کرنا(مفردات) پس آیت کے معنے یہ ہیں کہ وہ معبود اِن باطلہ یا وہ ہستیاں جنہیں خداتعالیٰ کا شریک قرار دیا جاتا ہے عبادت کرنے والوں کو ناپسندیدہ قرار دینگے۔ اور اپنے آپ کو پاک ٹھہرائیں گے اور کہیں گے کہ ہم تو ایسے اعمال کرنے والوں کے ساتھ نہ تھے۔
اَلَاسْبَابُ : سَبَب’‘ کی جمع ہے اور اَلسَّبَبُ کے معنے ہیں مَایُتَوَ صَّلُ بِہٖ اِلیٰ غَیْرِہٖ۔ وہ چیز جس کے ذریعہ سے غیر تک پہنچا جائے۔ اسی طرح اس کے معنے رستہ محبت اور قرابت کے بھی ہیں۔
وَقَالَ الَّذِیْنَ


مِنَ النَّارِo
تفسیر:۔ فرماتا ہے ایک زمانہ ایسا آئیگا کہ جن کو یہ لوگ نِد قرار دیتے ہیں وہ بھی اس وقت کہہ اُٹھیں گے کہ خدایا ہمارا دن ان سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اور اس طرح ان سے اپنی برات اور نفرت کا اظہار کرینگے اور خدائی عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔
وَتَقَطَّعَتْ بِھِمُ الْاَسْبَابَ۔ اور ان کی نجات کے تمام ذرائع منقطع ہو جائیں گے۔ یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ باء بمعنے عَنْ بھی آتی ہے اور باء بمعنے سبب بھی آتی ہے۔ اور با قعدیہ کے لئے بھی استعمال کی جاتی ہے یعنی فعل لازم کو متعدی بنانے کے لئے بھی استعمال کی جاتی ہے۔ پہلی صورت میں عَنْ کے مفہوم کو مدنظر رکھتے ہوئے اس آیت کا یہ مطلب ہو گا کہ ان کے اسباب ان سے کٹ جائیں گے یعنی وہ چیزیں جو ان کے پاس تھیں اور جن کی نسبت وہ خیال کیا کرتے تھے کہ ہم ان کی وجہ سے خداتعالیٰ تک پہنچ جائینگے یا وہ قرابتیں اور محبتیں جو رشتہ داری کی وجہ سے انہیںحاصل تھیں وہ سب کی سب کٹ جائینگی اور ان کے تمام سہارے جاتے رہیں گے۔
باء کے معنے سبب لینے کی صورت میں یہاں ایک محذوف ماننا پڑے گا اور عبادت یوں ہو گئی کہ وَتَقَطَّعَتْ بِسَبَبِ کُفْرِ ھِمُ الْاَسْبَابَ کہ ان کے کفر کی وجہ سے اُن کے تمام ذرائع کامیابی جاتے رہیں گے۔ اور وہ تباہ ہو جائیںگے۔
تیسری صورت میں اس کا یہ مطلب ہو گا کہ جن چیزوں کو وہ خداتعالیٰ کے وصال کا ذریعہ قرار دیتے ہیں یا وہ ضائع جن کو وہ خداتعالیٰ تک پہنچانیوالا سمجھتے ہیں وہی ان کو کاٹ دیں گے اور ان کی تباہی کا موجب بن جائیںگے۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے قرآن کریم میں ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَلَا تَتَّبِعُواالسُّبُلَ فَتَغَرَّقَ بِکُمْ مَنْ سَبِیْلِہٖ ط (انعام آیت۱۵۴) کہ تم مختلف راستوں کے پیچھے نہ پڑو۔ ورنہ وہ تمہیں صحیح راستہ سے منحرف کر دینگے اور تمہیں ادھر اُدھر لے جا کر تباہ کر دینگے۔
۸۱؎ حل لغات:۔ کَرَّۃً: اَلْکَرَّۃُ بِالْفَتْحِ اَلْمَرَّۃُ یعنی کرۃ کے معنے ایک دفعہ کے ہیں (اقرب) اَلْکَرُّ (مصدر) اَلْعَطْفُ عَلَی الشَّیْئِ کسی چیز کی طرف لوٹنا(مفردات)پس آیت کے معنے یہ ہونگے کہ وہ کہینگے کہ کاش ہمیں ایک دفعہ اور لوٹنے کا موقعہ مل جائے۔
تفسیر:۔ فرمایا اس دنیا میں تو تم خداتعالیٰ کے شریک بناتے اور اس کے نِدّ قرار دیتے ہو مگر وہاں جا کر تمہارا یہ حال ہو گا کہ تم واپس اس دنیا مین آنے کی خواہش کرو گے اور کہو گے ہم تو خیال کرتے تھے کہ یہ معبود ہمارے کام آئینگے مگر انہوں نے تو موقعہ پر آکر دھوکا دے دیا۔ اس لئے ہمیں ایک بار پھر دنیا میں لوٹا تاکہ ہم بھی اُن سے ایسا ہی بے وفائی کا سلوک کرسکیں۔
کَذٰلِکَ یُوِ یْھِمُ اللّٰہُ اَعْمَا لَھُمْ حَسَرَاتٍ عَلَیْھِمْ فرماتا ہے ہم اُن کے اعمال انہیں اس حال میں دکھائیں گے کہ وہ حَسَرَاتٍ ہونگے۔ یعنی وہ اعمال انہیں حسرتیں ہی حسرتیں نظر آئیں گے اور وہ حسرتیں ایسی ہونگی کہ جن کا وبال انہیں پر پڑیگا یعض حسرتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا غیروں پر اثر پڑتا ہے مگر فرماتا ہے وہ ایسی حسرتیں ہونگی جن کا اثر خود انہیں پر پڑے گا دوسروں پر نہیں۔ اس جگہ اگر حَسَرَاتٍ کو مفعول قرار دیا جائے تو رواتت قلبی مراد ہو گی اور معنے یہ ہونگے کہ وہ خداتعالیٰ سے کہیں گے کہ اگر ہمیں مبلغ بنا کر دنیا میں بھیج دیا جائے تو ہم وہاں جاکر شوربرپا کر دیں گے کہ خداتعالیٰ کا کوئی شریک نہیں۔
وَمَا ھُمْ بِخَارِ جِیْنَ مِنَ النَّار سے یہ دھوکا نہیں کھانا چاہیے کہ دوزخی آگ سے نکالے نہیں جائیں گے کیونکہ اس جگہ خداتعالیٰ کے سلوک کا ذکر نہیں بلکہ ان کی اپنی کیفیت کا ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ خود اپنی ذاتی جدوجہد اور کوشش سے اس میں سے نکل نہیں سکیں گے اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے اگر ہم کہیں کہ بیمار ایک قدم بھی نہیں چل سکتا اور پھر اسے دوسرے دن ہسپتال لے جایا جائے تو کوئی شخص یہ نہیں کہیگا کہ کل تو تم نے یہ کہا تھا کہ بیمار ایک قدم بھی نہیں چل سکتا اور آج تم اس کو ہسپتال داخل کر آئے ہو۔ کیونکہ ہمارایہ مطلب نہیں تھا کہ غیر بھی اُسے وہاں نہیں لیجا سکتے اسی طرح اس آیت میں جس چیز کی نفی کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ وہ خود دوزخ سے نہیں نکل سکیں گے ۔چنانچہ اس کی وجاحت قرآن کریم کی اس آیت سے بھی ہو جاتی ہے کہ کُلَّمَآ اَرَادُوْآ اَنْ یَّخْرُ جُوٰامِنْھَآاُعِیْدُ وْا فِیْھَا وَقِیْلَ لَھُمْ ذُوْ قُوْاعَذَابَ النَّارِ الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تُکَذِّبُوْنَ(سجدۃ آیت۲۱) یعنی جب کبھی وہ دوزخ سے نکلنے کا ارادہ کرینگے تو پھر اُسی کی طرف لوٹا دیئے جائیں گے اور انہیں کہا جائے گا کہ اب دوزخ کا وہ عذاب چکھو جس کو تم جھٹلا یا کرتے تھے۔ پس اس جگہ جس چیز کی نفی کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ وہ خود اس عذاب سے نکل نہیں سکیں گے۔ یہ نہیں کہا گیا کہ خداتعالیٰ بھی انہیں دوزخ سے نہیں نکالے گا اور انہیں دائمی عذاب میں مبتلا رکھے گا۔
دراصل اس بارہ میں بھی مومنوں اور کافروں میں بہت بڑا فرق رکھا گیا ہے ۔ مومنوں کے لئے تو جنت حق قرار دیا گیا ہے جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُوْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَ اَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ (توبہ آیت۱۱۱) یعنی اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جانین اور ان کے اموال اس وعدہ کے ساتھ خرید لئے ہیں کہ ان کو جنت ملے گی گویا یہ ایک سودا ہے جو ان کا خدا تعالیٰ سے ہو چکا۔ یوں تو کسی کا بھی خداتعالیٰ پر کوئی ذاتی حق نہیں مگر جس حق کو خداتعالیٰ خود تسلیم کرلے وہ تو حق ہی سمجھا جائیگا۔ مگر کافروں کے لئے فرمایا کہ اگر وہ دوزخ کی تکالیف کو برداشت نہ کرتے ہوئے اس میں سے نکلنا چاہیں گے تو نہیں نکل سکیں گے عربی زبان میں جو باء تاکید کے لئے آتی ہے اس کے معنے ہرگز کے ہوتے ہیں۔ پس اس جگہ وَمَا ھُمْ بِخٰرِجِیْنَ مِنَ النَّارِ میں تاکید کے معنے پائے جاتے ہیں۔ یعنی وہ اپنی ذاتی جد و جہد کے ساتھ جہنم میں سے ہرگز نکل نہیں سکیں گے۔ ہاں جب خداتعالیٰ چاہے گا تو انہیں دوزخ سے نکال لے گا۔ جیسا کہ حدیثوں میں آتا ہے کہ جہنم پر ایک زمانہ ایسا آئے گا جب کہ اُس میں کوئی بھی نہیں رہے گا اور ہوا اس کے دروازوں کو کھٹکھٹائے گی۔(کنز العمال جلد ۷ صفحہ ۲۴۵)
یٰٓاَ یُّھَا النَّاسُ
عَدُوّ’‘ مُّبِیْن’‘o
۸۲؎ حل لغات:۔ طَیَّبًا۔ طَابَ سے صفت مشبہ ہے اور طَیِّب’‘ کے معنے ہیں۔ اَلْحَلَالُ۔ حلال اور جب مَال’‘ طَیِّب’‘کہا جائے تو اس کے معنے ہوتے ہیں ایسا مال جو شرعی لحاظ سے حلا ل ہو(اقرب)
پھر لکھا ہے وَاَصْلُ الطَّیِّبِ مَاتَسْتَلِذُّہُ الْحَوَاسُّ وَمَا تَسْتَلِذُّہُ النَّفْسُ۔ اور درحقیقت طیب اس چیز کو کہتے ہیں جسے انسانی حواس لذیذ قرار دیں اور جس سے انسان کا دل لطف اندوز ہو۔ پس آیت کے یہ معنے ہونگے کہ ایسی چیزیں کھائو جو شرعی لحاظ سے حلال ہوں اور ظاہری لحاظ سے بھی تم انہیں لذیذ اور پسندیدہ سمجھو۔
خُطُوَات کے معنے ہیں طُرُق’‘ وَسُبُل’‘ رستے اور طریق۔ اس کا مفرد خُطْوَ ۃ’‘ ہے جس کے معنے مَابَیْنَ الْقَدَمَیْنِ کے ہیں یعنی دو قدموں کے درمیان کی جگہ اور فاصلہ(اقرب)
تفسیر:۔ اس رکوع سے اللہ تعالیٰ نے ابراہیمی پیشگوئی کے اس دوسرے پہلو کو بیان کرنا شروع کیا ہے کہ یُعَلِمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَ یعنی وہ نبی انہیں شریعت اور اس کے اسرار سے آگاہ کر ے گا۔ چنانچہ اس سلسلہ میں قرآن مجید نے سب سے پہلے حلال اور طیب کھانے کی تعلیم کو لیا ہے۔ کیونکہ انسانی اعمال اس کی ذہنی حالت کے تابع ہوتے ہیں اور ذہنی حالت غذا سے متاثر ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے لوگو! جو کچھ زمین میں ہے اُس میں سے حلال اور طیب اشیاء کا استقلال کرو۔ یعنی تم صرف یہی نہ دیکھا کرو کہ جو کچھ تم کھا رہے ہو وہ حلال ہے یا نہیں بلکہ یہ بھی دیکھ لیا کرو کہ وہ طیب بھی ہے یا نہیں اگر کسی چیز کا کھانا تمہارے مناسب حال نہ ہو خواہ اس لحاظ سے کہ وہ تمہاری صحت کے لئے مضر ہو یا اس لحاظ سے کہ ملکی اور قومی حالات کی وجہ سے تمہیں اس کے کھانے کی عادت نہ ہو یا اس وجہ سے کہ تمہاری طبیعت اس سے انقباض محسوس کرتی ہو۔ تو تم محض یہ دیکھ کر کہ شریعت نے اسے حلال قرار دیا ہے اسے مت کھائو۔ کیونکہ تمہارے لئے کھانے میں صرف حرام و حلال کا امتیاز مدنظر رکھنا ہی ضروری نہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ تم ایسی چیزوں کا انتخاب کیا کرو جو تمہاری طبیعت اور تمہارے ماحول اور تمہارے معمول کے مطابق ہوں اور جن کا کوئی مضر اثر تم پر پڑنے کا امکان نہ ہو۔ مثلاً نزلہ اور زکام اور کھانسی میں تُرش اشیاء کا استعمال کھانسی کو اور بھی بڑھا دیتا ہے اب اگر کوئی شخص کھانسی میں تُرش میوے استعمال کرتا ہے یا اسہال میں گوشت روٹی استعمال کرتا ہے توخواہ یہ چیزیں حلال کیوں نہ ہوں اس وجہ سے کہ وہ اس کے لئے ٹھیک نہیں ہیں ان کا استعمال اسے نقصان پہنچائیگا پس اس جگہ طیب کو حلال کے ساتھ لگا کر یہ بتایا ہے کہ صرف حلال کھانا ہی مومن کا کام نہیں بلکہ یہ دیکھنا بھی اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ چیز طیب ہو یعنی گندی اور سڑی ہوئی نہ ہو مضر صحت نہ ہو۔ جو ساتھ کھانا کھانے والے لوگ ہوں ان کی طبائع کے خلاف نہ ہو۔
وَلَا تَتَّبِعُوْا اخُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ۔ اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو ۔ یعنی ایسا نہ کرو کہ جس طرف شیطان جا
اِنَّمَا یَاْمُرُکُمْ
مَا لَاتَعْلَمُوْنَo
رہا ہے اُسی طرف تم بھی چلنا شروع کر دو۔ وہ تمہارا دشمن ہے اور دشمن سے ہمیشہ دُور رہنا چاہیے نہ کہ اُس کی پیروی کرنی چاہیے۔
کھانے پینے کے ذکر کے بعد شیطان کا ذکر کر کے اس بات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اگر تم حلال اور پھر حالا میں سے بھی طیب رزق چھوڑ دو گے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ تم شیطان کے پیچھے چل پڑوگے کیونکہ انسان جو کچھ کھاتا ہے اس سے جسم تیار ہوتا ہے اور ناجائز یا مضر اشیاء کے استعمال سے تیار شدہ جسم یقینا انسان کو بدی کی طرف لے جائیگا نیکی کی طرف نہیں لے جا سکتا۔
۸۳؎ حل لغات:۔ اِنَّمَا: (اِنَّ کے ساتھ مَا زائدہ ہے) لغت میں لکھا ہے اِذَا اُدْخِلَ عَلَیْہِ مَا یَبْطُلُ عَمَلُہ‘ وَیَقْتَضِیْ اِثْبَاتَ الْحُکْمِ وَصَرْ فِہٖ عَمَّا عَدَاہ‘۔ جب اِنَّ پر مَا داخل ہو جائے تو اس کا عمل باطل ہو جاتا ہے اور بعد میں مذکور چیز کے لئے کسی بات کو ثابت کرنے اور باقی (غیر مذکور) چیزوں سے اس بات کی نفی کرنے کا مقتضی ہوتا ہے۔ (مفردات)
اَلسُّوْئُ: کُلُّ مَا یُغَمُّ الْاِنْسَانَ مِنَ الْاُمُوْرِ الدُّ نْیوِ یَّۃِ وَالْاُخْرَوِیَّۃِ وَمِنَ الْاَ حْوَالِ النَّفْسِیَّۃ، وَالْبَدَنِیَّۃِ وَالْخَارِجَۃِ۔ یعنی اَلسُّوْئَ سے مراد وہ تمام غمزدہ کر دینے والی تکالیف ہیں جو انسان کو دنیوی اور اُخروی امور نیز رُوحانی اور جسمانی اور دوسرے حالات کی وجہ سے زندگی میں پیش آتی ہیں۔(مفرادت)
اَلْفَحْشَآء:۔ اَلْفَحْشَائُ وَالْفَاحِشَۃُ مَایَشْتَدُّ قُبْحُہ‘ مِنَ الذُّنُوْبِ ۔ وَالْبُخْلُ فِیْ اَدَا ئِ الذَّکوٰۃِ وَقِیْلَ کُلُّ مَا نَھَی اللّٰہُ عَنْہُ۔ یعنی فَحْشَاء اور فَاحِشَۃ سے مراد سخت بُرائی والا گناہ۔ زکوٰۃ کی ادائیگی میںبخل کرنا۔ اور بعض کے نزدیک ہر وہ کام ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہو۔(اقرب)
اَلْفُحْشُ وَالْفَحْشَا ئُ وَالْفَاحِشَۃُ مَا عَظُمَ قُبْحَہ‘ مِنَ الْاَ فْعَالِ وَالْاَ قْوَالِ۔ فحش۔ فحشاء اور فاحشہ سے ہر ایسا قول یا فعل مراد ہے جو بہت ہی بُرا ہو۔(مفردات)
تفسیر:۔ شیطان کے پیچھے چلنے کا ایک نتیجہ تو یہ ہوتا ہے کہ وہ ذاتی طور پر انسان کو مختلف قسم کی بُرائیوں میں مبتلا کر دیتا ہے جیسے بدظنی ہے یا جھوٹ ہے یا کینہ ہے یا جہالت ہے یا سُستی اور غفلت ہے یا بُزدلی ہے یا تکبر ہے یا بے غیرتی ہے یا ناشکری ہے یہ وہ بُرائیاں ہیں جن سے صرف انسان کی اپنی ذات کو نقصان پہنچتا ہے اور جن کی طرف سوء کے لفظ میں اشارہ کیا گیا ہے۔ لیکن جب انسان اپنی اصلاح نہیں کرتا تو دوسرا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ فحشاء یعنی ایسی بدیاں کرواتا ہے جن کا دوسرے لوگوں پر بھی اثر پڑتا ہے جیسے خیانت اور تہمت اور ظلم اور دھوکا اور قتل اور چوری اور مارپیٹ اور گالی اور ناواجب طرفداری اور رشوت وغیرہ ایسے جرائم ہیں جو دوسروں سے تعلق رکھتے ہیں پھر وہ بدیوں میں اور زیادہ بڑھاتا ہے اور آخر انسان کو خدا کے مقابلہ میں کھڑا کر دیتا ہے۔ یا انسان کے اندر ایسی بے حیائی پیدا کر دیتا ہے کہ اُسے دوسروں کے سامنے بھی برائیوں کے ارتکاب میں کوئی حجاب محسوس نہیں ہوتا۔ اور وہ بر ملا خدائی احکام
وَاِذَ اقِیْلَ

لَا یَھْتَدُوْنَo
کے خلاف لب کشائی شروع کر دیتا ہے یا اُس پر افتراء پروازی شروع کر دیتا ہے۔ گویا پہلے تو وہ ایسی بدیاں کرواتا ہے جن کا ضر صرف اس کی ذات تک محدود ہوتا ہے۔ پھر غیرتِ انسانی مٹتی ہے تو ایسی بدیاں کرواتا ہے جن سے دوسرے لوگ بھی متاثر ہوں۔ پھر اور ترقی کر کے اس کی زبان سے ایسی باتیں نکلواتا ہے جو خداتعالیٰ ی ہتک کرنے والی اور اس کا مضحکہ اڑانے والی ہوتی ہیں۔ اور اس طرح وہ درجہ بدرجہ انسان کو جہنم کی طرف لے جاتا ہے غرض شیطان کبھی یکدم بڑے گناہ پر انسان کو آمادہ نہیں کرتا۔ بلکہ اس کے وساوس کی یہ ترتیب ہوتی ہے کہ وہ پہلے چھوٹی بدی کا حکم دیتا ہے پھر بے حیائی پر آمادہ کرتا ہے۔ اور پھر خدا پر جھوٹ باندھنے کے لئے تیار کر دیتا ہے ۔ گویا چھوٹی نافرمانی سے شروع کر کے اُسے انتہا تک لے جاتا ہے۔
۸۴؎ تفسیر:۔ اس آیت میں بتایا کہ شیطان کی پیروی کرنے کا ایک یہ نتیجہ بھی نکلنا ہے کہ اگر لوگوں کو خداتعالیٰ کی بات ماننے کے لئے کہا جائے تو ان کی عقل ایسی ماری جاتی ہے کہ وہ کہدیتے ہیں کہ ہم تو اپنے باپ دادا کی بات مانین گے اور اُنہیں کے پیچھے چلیں گے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ نبوت فرمایا تو مکہ والوں نے آپ کا شدیدمقابلہ کیا ۔ وہ لوگ آخر کیوں مقابلہ کرتے تھے اس لئے کہ وہ کہتے تھے کہ کیا ہم اس مذہب کو چھوڑ دیں جس پر ہمارے آبائو اجداد قائم تھے۔ گویا وہ کسی چیز کے ذاتی حُسن کو نہیں دیکھتے تھے بلکہ صرف حسنِ اضافی اُن کے پیش نظر تھا اور باوجود اس کے کہ وہ جاہلانہ باتیں تھیں اُن لوگوں نے ان کے لئے اپنا مال اور اپنے عزیزوں اور اقرباء تک قربان کر دیئے تاکہ وہ چیزیں جو ان کی ہیں بچ جائیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے جواب میں فرماتا ہے کہ اگر تمہارے باپ دادا بیوقوف ہوں تو کیا پھر بھی تم وہی کچھ کرو گے جو وہ کرتے چلے آئے ہیں یعنی تمہارے باپ دادا تو اپنی بیوقوفی کی وجہ سے تباہ ہوئے تھے کیا تم بھی ان کے نقشِ قدم پر چل کر تباہ ہونا چاہتے ہو۔
ہمارے سلسلہ میں بھی لوگوں کے داخل ہونے میں سب سے بڑی روک یہی ہے کہ لوگ کہہ دیتے ہیں کہ کیا وہ باتیں جنہیں پہلے لوگ سالہا سال سے مانتے چلے آئیں ہیں ہم چھوڑدیں یہ تو بڑی مشکل بات ہے ۔ غرض اس آیت میں مخالفین اسلام کا سب سے بڑا عتراض یہ بیان فرمایا ہے کہ ہم تو اسی طریق کی پیروی کرینگے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا تھا اس جگہ قَالُوْا سے یہ مراد نہیں کہ وہ منہ سے بھی ایسا کہتے ہیں بہت لوگ منہ سے بھی کہتے ہیں لیکن بہت ہیں جو منہ سے نہیں کہتے مگر پھر بھی ان کا انکار کی وجہ یہی ہوتی ہے۔ اور قول کا لفظ ان معنوں میں عربی زبان میں استعمال ہو جاتا ہے۔ جیسے کہتے ہیں اِمْثَلَاَ الْحَوْضُ وَقَالَ قَطْنِیْ یعنی حوض بھر گیا اور اس نے زبان حال سے یہ کہا کہ بس بس۔ اس آیت میں بھی اسی محاورہ کے مطابق قول کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔
وَمَثَلُ الَّذِیْنَ
لَا یَعْقِلُوْنَo
اللہ تعالیٰ مخالفین اسلام کے اس اعتراض کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وہ اتنا تو سوچیں کہ اگر ان کے باپ دادے ایسے ہوں کہ وہ کچھ بھی عقل نہ رکھتے ہوں اور نہ راہ راست پر ہوں تو کیا پھر بھی وہ ان کے پیچھے چلتے چلے جائیں گے یعنی کسی کی اتباع دو ہی طرح ہوتی ہے یا تو وہ بڑا عقلمند ہو اور یا پھر خداتعالیٰ سے اُس نے ہدایت پائی ہوئی ہو۔ لیکن اگر ان دونوں باتوں میں سے کوئی بھی نہ ہو تو کیا پھربھی اُس کی اِتباع کی جاتی ہے؟ اور تمہارے باپ دادوں کی تعلیم ان دونوں امور سے خالی ہے نہ عقل کے مقابلہ میں ٹھہرتی ہے اور نہ آسمانی شہادت اُس کی تائید میں ہے یہ ایک عجیب بات ہے کہ لوگ اپنے باپ دادا سے دین کے بارے میں تو اختلاف نہیں کرنا چاہتے لیکن دنیوی امور کے بارہ میں وہ روزانہ اُن سے اختلاف کرتے ہیں ہزار ہا مثالیں اس امر کی پائی جاتی ہیں کہ دنیوی امور میں لوگوں نے اپنے باپ دادا کی اقتداء نہیں کی بلکہ انہوں نے صرف یہ دیکھا کہ اُن کا فائدہ کس امر میں ہے وہ روزانہ ریلوں میں چڑھتے ہیں اور کبھی یہ نہیں کہتے کہ ہمارے باپ دادا تو گدھوں پر سوار ہوتے تھے ہم ریل گاڑیاں پر کیوں سوار ہوں اسی طرح عقلی اور علمی باتوں میں ان کی پیروی نہیں کرتے بلکہ نئی روشنی کے علوم سے فائدہ اُٹھاتے اور ان کے پیچھے چلتے ہیں۔ مگر دین کا معاملہ ہو تو ان کے باپ دادے بڑے عقلمند بن جاتے ہیں۔ حالانکہ خود اُن کا عمل اس طریق کے خلاف گواہی دے رہا ہوتا ہے مگر ایسی صاف اور موٹی بات بھی جب انکے سامنے رکھی جاتی ہے تو وہ اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے اور صداقت سے منہ پھیر لیتے ہیں۔
۸۵؎ حل لغات:۔ یَنْعِقُ: نَعَقَ سے مضارع کا صیغہ ہے اور نَعَقَ الرَّاعِیْ بِغَنَمِہٖ کے معنے ہیں صَاح۔ بِھَاوَ زَجَرَھَا۔ چروا ہے نے اپنی بکریوں کو آواز دی اور اُن کو ڈانٹا۔ اور جب نَعَقَ الْغُرَابُ کہیں تو معنے ہونگے صَاحَ کوے نے کائیں کائیں کی۔ اور نَعَقَ الْمُؤَذِّنُ کے معنے ہیں رَفَعَ صَوْتَہ‘ بِالْاَ ذَانِ۔ موذن نے اذان کے لئے اپنی آواز بلند کی۔(اقرب)
نِدَآء’‘: اَلنِّدَائُ کے معنے ہیں رَفْعُ الصَّوْتِ وَ ظُھُوْرُ ہ‘۔ آواز کا بلند اور واضح ہونا۔(اقرب)
تفسیر:۔ زیرتفسیر آیت ایک تمثیلِ مرکب ہے جس میں حذفِ مضاف سے کام لیا گیا ہے اور دَاعِیٰ کا لفظ اس میں محذوف ہے۔ یعنی اصل عبارت یوں ہے کہ مَثَلُ دَاعِی الَّذِیْنَ کَفَرُوْ اکَمَثَلِ الَّذِیْ یَنْعِقُ یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کفار کے داعی ہیں ۔ آپ کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو جانوروں کو اپنی طرف بلانے کے لئے آواز دیتا ہے۔ مگر وہ جانور اُس کی آواز کے سوا اور کچھ نیہں سُنتے گویا یہ کفار بھی رات اور دن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام سُنتے ہیں اور صبح وہ شام انہیں وحی الہٰی اُنائی جاتی ہے۔ ہر وقت ان کے کانوں میں نیکی اور تقویٰ اور خدا ترسی کی باتیں ڈالی جاتی ہیں مگر یہ لوگ جانوروں کی طرح الفاظ تو سنتے ہیں اور آواز تو ان کے کانوں میں پڑتی ہے لیکن اس کی حقیقت کو نہیں سمجھتے اور اپنی پُرانی ڈگر پر چلتے چلے جاتے ہیں۔
اس تمثیل میں بتایا گیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کفار کے لئے ایک داعی کے طور پر ہیں۔ اور کفار آپ کے لئے ریوڑ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپؐ ان کو اپنی طرف بلاتے ہیں اور آپؐ کی دُعا اور نداء بھی وہ سنتے ہیں مگر وہ جانوروں کی طرح اس کی حقیقت کو نہیں سمجھتے گویا جانوروں کو بلانے والے کا سا حال ہمارے نبی کا ہوتا ہے کہ اس کی بات کو یہ لوگ سمجھتے نہیں۔ اس تشریح پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ مشبہ اور مشبہ بہٖ کے کل اجزاء میں مطابقت ہونی ضروری ہوتی ہے مگر وہ یہاں موجودنہیں اس کا جواب یہ ہے کہ تمثیلِ مرکب میں مشبہ اور مشبہ بہٖ کے تمام افراد میں مطابقت نہیں دیکھی جاتی بلکہ صرف اتنی بات دیکھی جاتی ہے کہ آیا ان میں کسی خاص بات میں مشابہت پائی جاتی ہے یا نہیں اور اگر ہو تو تشبیہ درست سمجھی جاتی ہے۔ چنانچہ سیبویہ کا یہی قول ہے کہ مرکب تمثیل میں تمام اجزاء مشبہ کا مشبہ بہٖ کے اجزاء کے مطابق ہونا ضروری نہیں بلکہ اس کے صرف بعض اجزاء کی مطابقت ہی کافی سمجھی جاتی ہے۔
ان معنوں پر ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کفار کی مثال بھیڑ بکریوں کی سی ہے تو بھیڑ بکریاں تو داعی کی آواز سنتی ہیں اور کفار بھی سُنتے ہیں پھر اُن کو صُمّ’‘ کیوں کہا گیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ صُمّ’‘ سے یہاں یہ مراد نہیں کہ وہ جسمانی طور پر بہرے ہیں بلکہ یہ مراد ہے کہ ان کے کان حق بات سننے سے قاصر ہیں اور صُمّ’‘ کے بعد بُکْم’‘ کے یہ معنے ہیں کہ وہ حق بات کہہ نہیں سکتے اسی طرح صُمّ’‘ سے مراد یہ ہے کہ وہ حق بات کو دیکھ نہیں سکتے اسی طرح صُمّ’‘ سے مراد یہ ہے کہ وہ حق بات سن نہیں سکتے گویا وہ آواز تو سنتے ہیں لیکن اس کی حقیقت نہیں سمجھتے اور نہ اس کے مطابق اپنے اندر تغیر پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں پس جہاں سُننے کا ذکر ہے وہاں یہ مراد ہے کہ وہ صرف الفاظ سُنتے ہیں اور جہاں نہ سُننے کا ذکر ہے وہاں حقیقت کا سُننا مراد ہے اور جہاں نہ سُننے کا ذکر ہے وہاں حقیقت کا سُننا مراد ہے اور حقیقت کے سمجھنے کی نفی سے دُعا اور نداء کے سننے کی نفی نہیں ہو سکتی۔ اور یا پھر صُمّ’‘ سے ایسے لوگ مراد ہیں جن سے کسی فائدہ کی امید نہ کی جاتی ہو کہ یہ معنے بھی لُغتاً ثابت ہیں چنانچہ اقرب الموارد جو لُغت کی مشہور کتاب ہے اس میں لکھا ہے اَلْاَ صُمُّ اَلْاَ صُمُّ اَیْضماً اَلرَّجُلُ لَا یُطْمَعُ فِیْہِ یعنی ایسے شخص کو بھی اصم کہتے ہیں جس سے کسی بھلائی کی اُمید نہ کی جا سکے۔
دوسرے معنے اس کے یہ یہں کہ ان کفار کی مثال جانوروں کی طرح ہے جن کو بلانے والا اپنی طرف بلاتا ہے اور جانور بلانے والے کی آواز سُن کر اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔۔ گو اس کے الفاظ کا مطلب اور مفہوم نہیں سمجھتے اس ی طرح یہ لوگ بھیڑ چال کے طور پر ایک دوسرے کی اتباع کرتے ہیں اوریہ کبھی غور نہیں کرتے کہ کہنے والا کیا کہتا ہے اور آیا اس پر عمل کرنا ان کے لئے مفید ہے یا مضر۔ وہ صرف اتنا دیکھتے ہیں کہ ہمارے سردار یا ہمارے لیڈر نے فلاں بات کہی ہے یا ہماری قوم یا برادری ایسا کہتی ہے۔ اس کے بعد وہ اپنی عقل و فہم اور تدبر کے تمام دروازے بند کر لیتے ہیں اور اندھا دھند اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں ۔ پس ان کی مثال جانوروں کی سی ہے کہ دوسرے کی بات سن کر یہ لوگ اس پر غور کرنے کے عادی نہیں بلکہ اندھی تقلید کے خوگر ہیں ۔ گویا ان کے کان بھی ہیں مگر یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ انہیں جس طرف بلایا جا رہا ہے وہ ہلاکت اور بربادی کی جگہ ہے یا امن اور سلامتی کا مقام ہے۔ ان کی زبانیں بھی ہیں مگر دلیری سے حق بات کہنے کی جرات کھو بیٹھی ہیں اور ان کی آنکھیں بھی ہیں مگر سلامتی کی راہ ان کو دکھائی نہیں دیتی۔
تیسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ ان کفار کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو چیختا اور چلاتا اور بتوں کو اپنی مدد کے لئے بلاتا
یَٓاَ یُّھَاالَّذِیْنَ
تَعْبُدُوْنَo
ہے اور اس کا بلانا دو طرح ہے ایک دعا کے ذریعہ سے دوسرا نداء کے ذریعہ سے۔ نداء ایسی آواز کو کہتے ہیں جو سنی جائے یا نہ سُنی جائے اور دعا اس آواز کو کہتے ہیں جو سنی جائے۔ فرماتا ہے وہ بت جن کو یہ لوگ اپنی مد دکے لئے پکارتے ہیں۔ وہ نہ ان کی دُعا سنتے ہیں نہ نداء۔ گویا ان کفار کا کام محض دعا اور نداء ہی ہے ورنہ جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ کچھ بھی نہیںسُنتے ۔ نہ دُعا سنتے ہیں نہ نداء سنتے ہیں اس لئے ان کے بلانے کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ اس صورت میں اِلَّا کو زائدہ تسلیم کرنا ڑیگا ار یا پھر یہ فقرہ اس طرح ہو گاک کہ لَا یَسْمَعُ اِلَّا ھُوَ یَدْ ھُوْا دُعَائً وَ نَدَائً۔ یعنی وہ بُت تو کچھ نہیں سنتے مگر وہ پکارنے والا برابر دُعائیں کئے چلا جاتا ہے اور آوازیں دیتا چلا جاتا ہے۔ ان معنوں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ چیختے چلاتے ہیں تو پھر وہ بُکْم’‘ کیسے ہوئے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بُکْم’‘ کے یہ معنے ہیں کہ وہ حقیقت کا اپنی زبان سے اقرار کرنے کے لحاظ سے گونگے ہیں۔ اور اس کی دلیل صُمّ’‘ اور عَمْی’‘ کے الفاظ ہیں جیسے صُمّ’‘ سے ایسے لوگ مراد ہیں جن کے کان حق بات کے سُننے سے بہرے ہیں اور عُمْی’‘ سے مراد حق کو نہ دیکھنے والاے لوگ ہیں اسی طرح بُکْم’‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جو روحانی نقطہ نگاہ سے گونگے ہیں۔ اور جو سچائی کا برملا اظہار کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اگر یہاں صرف بُکْم’‘ کا لفظ ہوتا تو اعتراض درست ہوتا۔ لیکن صُم’‘ اور عُمْی’‘ کے الفاظ نے صحیح معنے واضح کر دیئے۔
ترتیب و ربط:۔ اس آیت کا آیت ماقبل سے پہلے معنوں کے لحاظ سے یہ تعلق ہے کہ پہلی آیت میں خداتعالیٰ نے فرمایا تھا وَاِذَا قِیْلَ لَھُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَا اَلْفَیْنَا عَلَیْہِ اٰبَآئَ نَا کہ جب انہیں خداتعالیٰ کی طرف بلایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ جو کچھ خدا نے نازل کیا اس کی اتباع کرو تو وہ اُسے سنکر اعراض اختیار کر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو اُسی طریق کی اتباع کرینگے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا۔ گویا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انہیں دعوتِ حق دینا ایسا ہی ہے جیسے جانوروں کو اپنی طرف بلانا۔ یہ لوگ بھی آپ کی آواز سُنتے ہیں مگر سمجھتے نہیں کہ اس آواز پر لبیک کہنا کس قدر ضروری ہے اور وہ اپنے باپ دادا کے طریق پر چلتے چلے جاتے ہیں۔
دوسرے معنوں کے لحاظ سے اس آیت کا پہلی آیت سے یہ تعلق ہے کہ پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ اَوَلَوْ کَانَ اٰبَآئُ ھُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ شَیْئًا وَّ لَا یَھْتَدُوْنَ کہ یہ لوگ اپنے باپ دادا کے پیچھے چلنے کے تو بڑے دعوے کرتے ہیں لیکن ان کے باپ دادا اپنے بتوں کو پکارتے اور آوازیں دیتے تھک گئے اور کچھ بھی نتیجہ برآمد نہ ہوا ۔ ایسی صورت میں ان کا یہ کہنا کہ ہم اپنے باپ دادا ہی کی پیروی کر ینگے ایسا ہی ہے جیسے کہ کوئی بتوں کو بلائے اور اس کا بلانا بالکل بیکار ثابت ہو اور اُسے کوئی جواب نہ ملے پاس ان لوگوں کا بھی اپنے بتوں کے سامنے چیخنا چلانا انہیں کچھ فائدہ نہیں دے سکتا۔
۸۶؎ تفسیر:۔ جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے اسلامی شریعت نے صرف حلال چیزوں کے کھانے کا ہی حکم نہیں دیا بلکہ حلال میں سے بھی طیب اشیاء کے استعمال کرنے کی ہدایت فرمائی ہے اور یہ اسلام کی ایسی امتیازی خصوصیت ہے جس میں کوئی اور مذہب اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اسی طرح اس نے حلال کے مقابلہ میں صرف حرام کا درجہ ہی نہیں رکھا بلکہ اس سے اتر کر ا نے بعض چیزوں کو مکروہ بھی قرار دیا ہے اور مومنوں کے لئے ان کا استعمال ناپسند فرمایا ہے گویا چار مختلف مدارج ہیں جن کو مدنظر رکھنا ضروری ہوتا ہے اول طیب دوم حلال سوم حرام چہارم مکروہ۔ حلال ترقی کرتے کرتے طیب تک پہنچ جاتا ہے اور حرام گرتے گرتے مگروہ تک آجاتا ہے غرض اسلام اور دیگر مذاہب میں یہ فرق ہے کہ دوسرے مذاہب صرف حلال حرام تک اپنے آپ کو محدود رکھتے ہیں اور اسلام حلال اور حرام کے علاوہ بعض چیزوں کو طیب یا مکروہ بھی قرار دیتا ہے۔ اور یہ بھی بتاتا ہے کہ کونسی چیزیں بعض حالات میں حلال ہو جاتی ہیںگو اصل میں حرام ہوں اور کون سی چیزیں بعض حالات میں حرام ہو جاتی ہیں گو اصل میں حلال ہوں اور اس طرح موازنہ اشیاء کو قائم کرتا اور ایک لطیف باب گناہ اور نیکی کے امتیاز کے لئے کھول دیتا ہے مثلا ہماری شریعت میں لوگوں کو ایذاء دینے سے منع کیا گیا ہے۔ اب اگر حلال چیز سے کسی وقت دوسروں کو ایذاء پہنچ جائے تو اس وقت اس کا استعمال کرنا بھی حرام ہا جائیگا۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مَنْ اَکَلَ مِنْ ھٰذِہِ الشَّجَرِ یَعْنِی الثُوْمَ فَلَا یَاتِیَنَّ الْمَسَاجِدَ۔ (مسلم جلد اول کتاب المساجد) یعنی جو شخص کچے لہسن کا استعمال کر اسے چاہیے کہ مسجد میں نہ آئے۔ ایک دوسری حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وجہ بھی بیان فرمائی ہے کہ فَاِنَّ الْمَلَا ئِکَۃَ تَاَذّٰی مِمَّا تَآ ذّٰی مِنْہُ الْاِنْسُ کہ ملائکہ بھی ان چیزوں سے تکلیف محسوس کرتے ہیں جن سے انسان تکلیف محسوس کرتے ہیں۔(مسلم جلد اول کتاب المساجد) اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ باوجود اس کے کہ لہسن کھانا جائز ہے پھر بھی مساجد میں آنے کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لہسن اور پیاز وغیرہ کا کھانا ممنوع قرار دے دیا ۔ اور ایسے شخص کو نماز باجماعت سے بھی روک دیا۔ ورنہ نماز تو کسی صورت میں بھی چھوڑی نہیں جاسکتی اور اگر مسجد میں نماز نہیں پڑھے گا تو بہر حال اُسے گھر پر نماز پڑھنی پڑے گی۔ لیکن اس وجہ سے کہ وہ دوسروں کے لئے دُکھ اور تکلیف کا موجب نہ بنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا شخص اجتماعی عباردت سے الگ رہے تاکہ مومنوں کو تکلیف نہ ہو۔ غرض یہ اسلام کی ایک بہت بڑی خوبی ہے کہ اس نے نہ صرف حلت و حرمت کے مسائل بیان کئے بلکہ اس نے یہ بھی بتادیا ہے کہ کھانے کی چیزوں میں سے ادنیٰ درجہ کراہت کا ہے پس مومنوں کو حلال اور حرام پر ہی نظر نہیں رکھنی چاہیے بلکہ انہیں تقویٰ کی باریک راہیں اختیار کرتے ہوئے حلال میں سے بھی طیب چیزوں کو اختیار کرنا چاہیے اور حرام چیزیں تو الگ رہیں مکروہ چیزوں کے پاس پھٹکنے سے بھی احتراز کرنا چاہیے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حلال کی بجائے صرف طیب کا لفظ رکھا ہے جس کی وجہ ہے کہ یہاں خاص طور پر مومنوں کو مخاطب کیا گیا ہے یعنی اعلیٰ درجہ کے مومنوں کو۔ ورنہ اس رکوع کے شروع میں بھی یٰٓاَ یُّھَاالنَّاسُ کُلُوْامِمَّا فِی الْاَرْض، حَلٰلاً طَیِّبًا میں اَلنَّاسُ سے مراد مومن ہی تھے کیونکہ کفار کو قرآن کریم مسائل تفصیلی میں حکم نہیں دیتا۔ لیکن ہواں اَلنَّاسُ سے ادنیٰ درجہ کے مومن مراد تھے جو طبعی خواہشات کی طرف جھکنے والے تھے۔ اسی لئے وہاں ان کی کمزوریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ حکم دیا کہ کُلُوْا مِمَّا فِالْاَرْضِ حَلٰلاً طَیِّبًا یعنی جو کچھ حلال اور طیب ہے کھائو۔ کیونکہ ہو سکتا تھا کہ وہ صرف طیبات تک اپنے آپ کو محدود نہ رکھ سکتے بلکہ خالص حلت و حرمت کے دائرہ کے اندر ہی رہنا چاہیے اور زیادہ پابندیاں اپنے لئے برداشت نہ کر سکیں لیکن یہاں خاص درجہ کے مومنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے حکم یدا کہ کُلُوْامِنْ طَیِّبٰتِ مَارَزَ قْنٰکُمْ تم صرف وہ طیبات استعمال کرو جو ہم نے تمہیں عطا کی
اِنَّمَا حَرَّمَ

غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘o
ہیں۔ یہی وجہ ے کہ پہلے حکم کے نتیجہ میں فرمایا تھا کہ تم شیطان کے پیچھے چلنے سے بچ جائئو گے لیکن یہاں یہ فرمایا کہ اگر تم صرف طیبات ہی استعمال کر و گے تو اس کے نتیجہ میں تم اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لا سکو گے یعنی تمہیں ایسے نیک اعمال کی توفیق ملے گی جو تمہاری روح کو اللہ تعالیٰ کے آستانہ کی طرف کھینچ کر لے جائیں گے۔ جیسے دوسرے مقام پر وضاحتاً فرمایا کہ یٰٓاَ یَّھَاالرُّسُلُ کُلُوْامِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا(مومنوں آیت۵۲) یعنی اے ہمارے رسولو! تم طیبات کھائو اور مناسب حال اعمال بجا لائو۔ گویا اسلام نے انسانی اعمال اور اخلاق پر غذا کے اثرات کو واضح طور پر تسلیم فرمایا ہے اور مسلمانوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ اس نقطہ کو ہمیشہ مدنظر رکھیں اور غذائی معاملات میں طیبات کو ترجیح دیا کریں تاکہ ان کے اخلاق بھی متوازن رہیں اور ان میں ناواجب اونچ نیچ کا کوئی پہلو دکھائی نہ دے۔ غرض یہاں اعلیٰ درجہ کے ایمان کے مناسب حال کُلُوْامِنَ الطَّیِّبٰتِ فرمایا۔ اور جب انسان طیبات پر حصر کر لیگا تو نہ صرف یہ کہ وہ منہیات سے بچ جائیگا بلکہ وہ صالحات کی بھی توفیق پائیگا۔ پس اعلیٰ درجہ کے مومن کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر حلال بھی نہ کھائے بلکہ خاص طور پر طیب کو مدنظر رکھے یا پھر اس آیت میں صرف طیب کو اس لئے بیان کر دیا کہ حلال اسی میں آجاتا ہے۔
۸۷؎ حل لغات:۔ اَلْمَیْتَۃُ۔ اَلْمَیْتَۃُ مَالَمْ تَلْحَفْہُ الذَّکوٰۃُ۔ وَالْحَیَوَانُ الَّذِیْ یَمُوْتُ حَتْفَ اَنْغِہٖ(اقرب) اَلْمَیْتَہُ مَیْت’‘ کا مونث ہے۔ اور مَیْتَۃ’‘ سے مراد ہر ایسی چیز ہے جو بغیر کسی بیرونی سبب کے مرے اور اُسے ذبح نہ کیا جائے (اقرب) اور مَیْتَۃ’‘ سے مراد ہر ایسی چیز ہے جو بغیر کسی بیرونی سبب کے مرے اور اُسے ذبح نہ کیا جائے۔(اقرب)
اور شریعت اسلام کے نزدیک اُسے بھی مُردار ہی کہتے ہیں جو ذبح نہ ہو خواہ ایسا جانور خودبخود مر جائے یا کوئی دوسرا اُسے مار دے۔
دَم’‘ کے معنے کون کے ہیں اور اس سے مراد دِم مسفع، ہے جو ذبح کرنے سے بہ جاتا ہے۔ اندر کا خون مراد نہیں۔
اُضْطُرَّ:ضَرَّ سے باب افتعال کا ماضی مجہول کا صیغہ ہے اور اِضْطَرَّہ‘ اِلَیْہِ کے معنے ہیں اَحْوَجَہ‘ وَاَلْجَاہ‘ فَاضْطُرَّ بِصِیْغَۃِ الْمَجْھُوْلِ اَیْ اُلْجِیَٔ(اقرب) اضطرار کسی شخص کو ایسے کام پر مجبور کر دینے کو کہتے ہیں جو اس کے لئے باعث ضر ر ہو یا اُسے ناپسند ہو۔ یہ مجبوری خواہ بیرونی ہو جیسے تہد ید و تخویف یا اندرونی ہو جیسے قدرتی مطالبات اور طبعی حوائج یعنی بھوک وغیرہ ان دونوں میں سے کسی قسم کی مجبوری کے ماتحت انسان کام کرے تو اُسے اضطرار کہتے ہیں۔
بَاغٍ:بَغَیَ سے اسم فاعل کا صیغہ ہے اور اَلْبَغْیُ کے معنے ہیں(ا) اَلظُّلْمُ۔ ظلم (۲) اَلْجُرْمُ وَالْجِنَایَۃُ ۔ قصور (۳)اَلْعِصْیَانُ۔ نافرمانی (۴) کُلُّ مُجَاوَزَۃٍ وَاِفًرَاطٍ عَلَی الْمِقْدَارِ الَّذِیْ ھُوَ حَدُّ الشَّیْ ئِ فَھُوَ بَغْی’‘ ۔ کسی مقررہ حد سے تجاوز کرنا بھی بغی ہے(اقرب)
اور اَلْبَاغِی سے مراد ہے (۱) اَلطَّالِبُ۔ چاہنے والا (۲) اَلظَّالِمُ ظالم (۳) وَاَلْعَاصِی عَلَی اللّٰہِ وَالنَّاسِ۔ اور وہ شخص جو اللہ تعالیٰ اور لوگوں کی مخالفت میں کھڑا ہوجائے۔
عَادٍ: حد سے گذر جانے والا یعنی جو قانون پر عمل کرتے کرتے کچھ زیادتی یا کمی کر دے۔
اِثْم’‘:اس جگہ اس کے معنے سزا کے ہیں۔ سبب کو مسبب کی جگہ استعمال کیا گیا ہے۔ کیونکہ سزا کا سبب گناہ ہوتا ہے۔ (۲)اِثْم’‘ کے معنے گناہ کے بھی ہو سکتے ہیں ۔
اُھِلَّ: اَھَلَّ سے فعل ماضی مجہول کا صیغہ ہے اور اَھَلَّ الْھِلَالُ وَاُھِلَّ (مجھولًا) کے معنے ہیں ہلال ظاہر ہو گیا (۲)اَھَلَّ الْقَوْمُ الْھِلَالَ رَفَعُوْا اَصْوَا مَّھُمْ عِنْدَ رُوْیَتِہٖ۔ لوگوں نے ہلال پر آواز بلند کی (چاند کو ہلال اسی لئے کہتے ہیں کہ اس کے دیکھنے پر آواز بلند کی جاتی ہے)(۳) اور اَھَلَّ الصَّبِیُّ کے معنے ہیں رَفَعَ صَوْنَہُ بِالْبُکَائِ یعنی بچہ رونے لگا۔ (۴) اور اَھََلَّ الرَّجُلُ کہیں تو معنے ہونگے نَظَرَ اِلَی الْھِلَالِ آدمی نے ہلال دیکھا (۵) اور اَھَلَّ الشَّھْرُ کے معنے ہیں ظَھَرَ ھِلَا لُہ‘ نئے مہینے کا ہلال نکالا (۶) اَھَلَّ السَّیْفُ بِغُلَانٍ کے معنے ہیں قَطَعَ فِیْہِ تلوار نے اُسے کاٹ دیا۔ (۷) اَھَلَّ الْعَطْشَانُ کے معنے ہیں رَفَعَ لِسَانَہ‘ اِلیٰ لُھَاتِہٖ لِیَعْتَمِعَ لَہُ رِیْقُہ‘ یعنی پیاسے نے اپنی زبان تھوک سے تر کرنے کے لئے حلق کے قریب کی۔ (۸) اَھَلَّ اللّٰہُ السِّحَابَ کے معنے ہیں خداتعالیٰ نے بادل برسایا (۹) اَھَلَّ الشَّھْرَ کے ہیں رَایَ الْھِلَالَ چاند دیکھا۔ (۱۰) اَھَلَّ اْ لُملَبِیّ کے معنے ہیں رفَعَ صَوْنَہ‘ بِالتَّلْبِیَۃِ بُفَالَ اَھَلَّالْمُحْرِمُ بِالْحِجّ وَالْعُمْرَۃِ لَبّٰی وَرَفَعَ صَوْ تَہ‘۔ محرم نے حج اور عمرہ کے لئے تلبید کیا اور آواز بلند کی۔ (۱۱) اَھَلَّ فُلَان’‘ بِذِکْرِ اللّٰہِ کے معنے ہیں رَفَعَ صَوْتَہ‘ بِہٖ عِنْدَ نِعْمَۃ اَوْرُوْیَۃِ شَیْ ء یُعْجِبُہ‘ فلاں شخص نے کوئی نعمت دیکھ کر ذکر الہٰی کے لئے اپنی آواز بلند کی (۱۲) اَھَلَّ بِالنَّسْمِیَۃِ عَلیٰ الذَّ بِیْحَۃِ کے معنے ہیں کے معنے ہیں قَالَ بِسْمِ اللّٰہِ ذبح کے وقت اللہ کا نام لیا۔ وَمَا اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہکے معنے ہیں نُوْدِیَ عَلَیْہِ بِغَیْرِ اسْمِ اللّٰہِ عِنْدَ ذبْحِہٖ۔ جو جانور خداتعالیٰ کے سوا کسی اور کا نام لے کر ذبح کیا جائے(اقرب)
تفسیر:۔ یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ شریعت اسلامیہ میں جن اشیاء کے کھانے سے منع کیا گی اہے۔ وہ دو قسم کی ہیں اول حرام دوم ممنوع۔ لُغۃً توحرام کا لفظ دونوں قسموں پر حاوی ہے۔ لیکن قرآن کریم نے اس آیت میں صرف چار چیزوں کو ھرام قرار دیا ہے۔ یعنی مردار ، خون، سور کا گوشت اور وہ تمام چیزیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے نام سے نامزد کر دی اگیا ہو ان کے سوا بھی شریعت میں بعض اور چیزوں کے استعمال سے روکا گیا ہے۔ لیکن وہ چیزیں اشیاء ممنوعہ کی فہرست میں تو آئیں گی۔ قرآنی اصطلاح کے مطابق حرام نہیں ہونگی۔ جیسے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نَھیٰ عَنْ کُلِّ ذِیْ نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ وَعَنْ کُلِّ ذِیْ مِخْلَبٍ مِنَ الطَّیْرِ(مسلم جلد ۲ کتاب الصید والذبائح) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر کچلیوں والے درندے اور پنجوں والے پرندے کو کھانا ممنوع قرار دیا ہے۔ اسی طرح ایک حدیث میں آتا ہے کہ نَھٰی لُحُوْمِ الْحُمُرِ الْاِنْسِیَّۃ، یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے۔(مسلم جلد ۲ کتاب الصید دالذبائح)
یہ احکام اس آیت یا دوسری آیات کے مضمون کے مخالف نہیں ہیں۔ کیونکہ جس طرح اوامر کئی قسم کے ہیں بعض جرض ہیں بعض واجب ہیں اور بعض سنت ہیں۔ اسی طرح نہی بھی کئی اقسام کی ہے۔ ایک نہی محرمہ ہے اور یاک نہی مانعہ ہے اور ایک نہی تنزیہی ہے۔ پس حرام چار اشیاء ہیں باقی ممنوع ہیں اور ان سے بھی زیادہ وہ ہیں جن کے متعلق نہی تنزیہی ہے کہ انسان ان سے بچے حرام اور ممنوع میں وہی نسبت ہے جو فرض اور واجب میں ہے۔ پس جن اشیاء کو قرآن کریم نے حرام کہا ہے ان کی حرمت زیادہ سخت ہے اور جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے وہ حرمت میں ان سے نسبتا کم ہیں۔ اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے احکام میں ان کی مثال فرض اور واجب اور سنت کی سی ہے حرام تو بمزلہ فرض کے ہے اور منع بمنزلہ واجب کے جس طرح فرض اور واجب میں فرق ان کی سزائوں کے لحاظ سے کیا جاتا ہے اسی طرح جن اشیاء کی حرمت قرآن کریم میں آئی ہے اگر انسان اُن کو استعمال کرے گا تو اس کی سزا زیادہ سخت ہو گئی اور جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے ان کے استعمال سے اس سے کم درجہ کی سزا ملے گی لیکن بہر حال دونوں جرم قابل گرفت اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہوں گے حرام فعل کا ارتکاب کرنے سے انسان کے ایمان پر اثر پڑتا ہے اور اس کا نتیجہ لازماً بدی ہوتی ہے۔ لیکن دوسری چیزوں کے استعمال کا نتیجہ لازماً بدی اور بے ایمانی کے رنگ میں نہیں نکلتا۔ چنانچہ دیکھ لو ۔ مسلمانوں میں سے بعض ایسے فرقے جو ان اشیاء کو مختلف تاویلات کے ذریعے جائز سمجھتے اور انہیں کھالیتے ہیں جیسے مالکی ان کا اثر انکے ایمان پر نہیں پڑتا۔ اور ان میں نے ایمانی اور بدی پیدا نہیں ہوتی۔ بلکہ گذشتہ دور میں تو ان میں اولیاء اللہ بھی پیدا ہوتے رہے ہیں۔ لیکن خنزیر کا گوشت یا مردار کھانے والا کوئی شخص ولی اللہ نظر نہیں آئیگا۔ پس حرمت کے بھی مدارج ہیں اور ان چاروں حرام چیزوں کے سوا باقی تمام ممنوعات ہیں جن کو عام اصلاح میں حرام کہا جاتا ہے ورنہ قرآنی اصطلاح میں وہ حرام نہیں ہیں۔ دراصل ایک حرمت ایسی ہے۔ جو صرف لُغتاً حرمت کہلاتی ہے اس لحاظ سے ہر وہ چیز جس سے کسی دوسرے کو منع کر دیا جائے حرام کہلائیگی۔ جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی منع کی ہوئی چیز جس سے کسی دوسرے کو منع کر دیا جائے حرام کہلائیگی۔ جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی منع کی ہوئی چیزیں ہیں۔لیکن قرآنی اصطلاح میں صرف یہی چار چیزیں حرام ہیں۔
اس آیت میں مردار کھانے سے اللہ تعالیٰ نے اس لئے روکا ہے کہ مردار کا خون بہت سی زہروں پر مشتمل ہوتا ہے اور مُردار کی نسبت اغلب گمان یہی ہوتا ہے کہ وہ بیماری سے یا زہر سے یا زہریلے جانوروں کے کاٹے سے مرا ہو۔ اور یہ سب حالتیں ایسی ہیں کہ ان میں جانور کا گوشت استعمال کرنیکے قابل نہیں رہتا اور اگر گِر کر یا کسی ار صدمہ سے مرا ہو تب بھی قاعدہ ہے کہ سخت صدمہ کا اثر فوراً خون میں زہر پیدا کر دیتا ہے پس درحقیقت کھانے کے قابل صرف وہی گوشت ہوتا ہے جو ذبح کئے ہوئے جانور کا ہو۔ ورنہ اُس کا لازماً بد اثر ہو گا۔ اور یہ چیز صرف خیالی نہیں بلکہ موجودہ طب نے بھی ثابت کر دیا ہے کہ خواہ کوئی جانور عمر طبعی پا کر بوجہ بڈھا ہونے کے مرے یا کسی اونچے مقام سے گر کر ہلاک ہو یا کسی صدمہ سے جانبر نہ ہو سکے یا کسی بیماری کا شکار ہو اس کے کون میں کئی قسم کے خطرناک جراثیم اور کیڑے پیدا ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ میڈیکل جیورس پروڈنسMIDICAL JURISPRUDENCEجو ڈاکٹر کی ایک مشہور کتاب ہے اس میں لکھا ہے کہ مردہ کے گوشت میں بہت جلد کیڑے پیدا ہو جاتے ہیں جن سے ایسے زہر پیدا ہوتے ہیں جنہیںAL-KALIDES CADAVERICEیاPTOMAINES کہتے ہین۔ یہ زہر سخت مہلک ہوتے ہیں اور ان کا اثر کچلا اور ایڑوپین کے مشابہ ہوتا ہے (صفحہ۵۲۲)
اِسی طرح خون بھی مختلف قسم کے زہروں پر مشتمل ہوتا ہے اور صحت کے لئے سخت مضر چیز ہے۔ فزیالوجی والے لکھتے ہیں کہ کون انسانی بدن میں ایک ایسے گڑھے کی طرح ہوتا ہے جس میں بے حد مچھلیاں اور مینڈک اور کیڑے ہر وقت اپنی غذا بھی اُس سے لیتے ہوں اور اپنا فضلہ بھی اس میں پھینکتے ہوں۔ کیونکہ اس میں بے انتہا سیلز تیر رہے ہوتے ہیں اور ہروقت اُسے خراب کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ خون کا ہی کام ہے کہ وہ ٹشوز سے مردہ مادہ کو ان آرگنز تک لے جاتا ہے جو اُسے خون سے صاف اور علیٰحدہ کرتے ہیں۔ پس خون مختلف قسم کے زہروں اور ردی مادوں سے بھرا ہوا ہوتا ہے اور جسم کے اندر خداتعالیٰ نے اُس کے صاف کرنے کے لئے کئی سامان بنائے ہوئے ہیں لیکن جب وہ جسم سے باہر آجائے تو اُس کے زہر اُس کے اندر ہی رہ جاتے ہیں اور اس کا استعمال صحت کے لئے سخت مضر ہوتا ہے۔ اور چند منٹ میں خراب ہو جاتا ہے بلکہ ہوا کے کیڑے مل کر بہت جلد نشوونما پا جاتے ہیں۔ چنانچہ وہ گوشت جس سے خون دھویا جائے دیر تک رہتا ہے بہ نسبت اس کے جسے خون لگا ہوا ہو۔ پس خون کا بد اثر بھی ظاہر ہے۔
خنزیر کے گوشت کا اثر بھی انسان کے جسم اور اُس کے اخلاق پر نہایت بُرا پڑتا ہے۔ جسم پر تو اُس کا اس طرح گندہ اثر پڑتا ہے کہ اس کے گند اور کیچڑ میں رہنے اور گندی ذہنیت کو پسند کرنے کے سبب سے اس کے گوشت سے کئی قسم کی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ چنانچہ مسٹرJOHN ATHAN NICHOLSONُٓٓاپنی کتاب SWINE FLESH میں لکھتے ہیں :۔
‏IT IS EXCEPTIONAL EVIDENCE AGAINST THE HATEFUL HOG WHEN WE SY TAPE WORM, SCROFULA, CANCER AND ENEYSTER TRICHINA AND UNKNOWN AMONG STRICT JEWS. THEY NEVER TOUCH THE HOG FLESH.
یعنی سور کا گوشت کے متعلق ایک غیر معمولی عجیب شہادت یہ ہے کہ کدو دانیاور سِل کا مادہ یہودیوں کے اندر اس لئے پیدا نہیں ہوتا کہ وہ سور کا گوشت نہیں کھاتے۔ اگر ان کی یہ بات پوری طور پر تسلیم نہ بھی کی جائے تب بھی اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ سور خور قوموں میں یہ بیماریاں زیادہ ہوتی ہیں۔
سور کے گوشت سے ایک مہلک بیماری پیدا ہوتی ہے جسےTRICHINOSISکہتے ہیں۔ اس میں پہلے ہیضہ کی علامات ظاہر ہوتی ہیں پھر بخار ہوجاتا ہے پھر بدن میں درد شروع ہو جاتا ہے اور آخر میں نمونیا ہو جاتا ہے۔ میڈیکل جمیورس پروڈنس میں لکھا ہے کہ اس مرض کا کوئی علاج نہیں۔
اسی طرح سور کے گوشت سے آنتوں میں کیڑے پڑ جاتے ہیں جو کدو دانہ کے مشابہ ہوتے ہیں اور سالہا سال تک رہتے ہیں۔ ڈاکٹر ایف بٹلر ایم ۔ڈی۔ ایف ۔آر۔سی ۔پی اپنی کتاب ’’پریکٹس آف میڈیسن‘‘ میں لکھتے ہیں کہ سور میں یہ بیماری پاخانہ کھانے سے پیدا ہوتی ہے لیکن ان ضرروں سے بھی بڑھ کر بلکہ اصل باعث اس کی حرمت کا دو خرابیاں ہیں جو اخلاق میں پیدا ہوتی ہیں۔ صرف سورہی ایک ایسا جانور ہے جس میں نر کو نر پر پھاندنے کی عادت ہے پس وہ لوگ جو سور کا گوشت کھانے کے عادی ہیں ان میں بھی دیوٹی بڑھ جاتی ہے اور حیا کا مادہ کم ہو جاتا ہے۔
پھر اس میں شجاعت بھی نہیں ہوتی بلکہ تہور کی عادت ہوتی ہے جس وقت اپسے غصہ آجائے وہ آگے پیچھے نہیں دیکھتا بلکہ سیدھا حملہ کرتا ہے او راسی عادت کی وجہ سے شکار اسے جلد مار لیتا ہے۔ جب شکار ی اُسے گولی مارتا ہے تو وہ غصہ میں سیدھا حملہ کرتا ہے اور اس طرح جلدی گِر جاتا ہے۔ اسی طرح جو قوم سور کا گوشت کھانے والی ہوگی اس میں بھی شجاعت نہیں پائی جائیگی بلکہ تہور پایا جائیگا۔
بانی سلسلہ احمدیہ اپنی مشہور تصنیف’’اسلامی اصولوں کی فلاسفی‘‘ میں خنزیر کی حرمت کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:۔
’’ایک نکتہ اس جگہ یاد رکھنے کے قابل ہے اور وہ نکتہ یہ ہے کہ خنزیر جو حرام کیا گیا ہے خدا نے ابتداء سے اس کے نام میں ہی حرمت کی طرف اشارہ کیا ہے یونکہ خنزیر کا لفظ خنز اور اَر سے مرکب ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ میں اس کو فاسد اور خراب دیکھتا ہوں۔ خنز کے معنے بہت فاسد۔ آرٰ کے معنے دیکھتا ہوں پس اس جانور کا نام جو ابتداء سے خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کو ملا ہے وہی اس کی پلیدی پر دلالت کرتا ہے اور عجیب اتفاق یہ ہے کہ ہندی میں اس جانور کو سور کہتے ہیں یہ لفظ بھی سور اور اَر سے مرکب ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ میں اس کو بہت بُرا دیکھتا ہوں۔۔۔۔۔ اور یہ معنے جو اس لفظ کے ہیں یعنی بہت فاسد اس کی تشریح کی حاجت نہیں اس بات کا کس کو علم نہیں کہ یہ جانور اول درجہ کا نجاست خور اور نیز بے غیرت اور دیوث ہے۔ اب اس کے حرام ہونے کی وجہ ظاہر ہے کہ قانونِ قدرت یہی چاہتا ہے کہ ایسے پلید اور بد جانور کے گوشت کا اثر بدن اور روح پر پلید ہی ہو۔ کیونکہ ہم ثابت کر چکے ہیں کہ غذائوں کا بھی انسان کی روح پر ضرور اثر ہے۔ پس اس میں کیا شک ہے کہ ایسے بد کااثر بھی بد ہی پڑے گا جیسا کہ یونانی طبیبوں نے اسلام سے پہلے ہی یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس جانور کا گوشت بالخاصیت حیا کی قوت کو کم کرتا ہے اور دیوثی کو بڑھاتا ہے‘‘۔
(اسلامی اصول کی فلاسفی)
چوتھی چیز جسے حرام قرار دیا گیا ہے وہ ہے جوشرک کے طور پر ذبح کی جائے اور ا سکے قربان کرنے کا باعث خداتعالیٰ کے سوا اور ہستیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی خواہش ہو۔ چونکہ اس میں خدائے وحد لا شیرک کی ہتک کی جاتی ہے اور اس کی صفات دوسری ہستیوں کو دی جاتی ہیں اس لئے اس کو استعمال کرنا انسان کو بے غیرت بناتا ہے بلکہ درحقیقت ایسے جانور کو کھانا دلی ناپانی اور بے غیرتی کی علامت ہے۔ پس اسلام نے اس کو بھی حرام قرار دیا ہے۔ یہ حرمت اس کے بطعی نقصانات سے نہیں بلکہ دینی نقصانات کی وجہ سے ہے کیونکہ جو شخص کسی ایسے جانور کا گوشت کھاتا ہے جسے غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو وہ اس بات کا ثبوت بہم پہنچاتا ہے کہ اُسے خداتعالیٰ کی توحید سے کوئی محبت نہیں۔ وہ بظاہر خداتعالیٰ کی محبت کا دعویٰ کرتا ہے مگر اپنے باطن میں اس نے اور بھی کئی بُت چُھپا رکھے ہیں جن کی وہ پرستش کرتا ہے۔ پس اس کا کھانا اس کے دل کو ناپاک کرتا اور اُسے مشرکوں کا ہمرنگ بنا دیتا ہے۔
عیسائی لوگ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ اسلام نے تورات کی نقل کرتے ہوئے ان اشیاء کو حرام قرار دیا ہے کسی حکمت کی وجہ سے ان کو حرام قرار نہیں دیا۔ مگر ان کا یہ خیال بالکل غلط ہے ۔ کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کو تورات نے حرام کیا ہے مگر قرآن نے حرام نہیں کیا مثلاً اونٹ کو تورات میں حرام قرار دیا گیا ہے (احبار باب۱۱آیت۴) لیکن اسلام میں اس کا کھانا جائز ہے اگر کہو کہ عربوں کی خاطر اُسے حرام نہیں کیا گیا۔ تو میں کہتا ہوں کہ خرگوش کو بھی تورات میں حرام کیا گیا ہے (احبار باب۱۱ آیت۶) لیکن اسلام میں اس کا کھانا بھی جائز ہے۔ اگر اونٹ عربوں کی خاطر حلال کیا گیا تھا تو خرگوش کو حلال قرار دینے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ پھر اگر یہ احکام تورات کی ہی نقل ہوتے تو چاہیے تھا کہ تورات کے تمام احکام کو نقل کر لیا جاتا۔ مگر قرآن کریم نے اس کے بہت سے احکام کو چھوڑ دیا ہے۔ مثلا تورات نے مردار کھانے والے کے لئے یہ سزار مقرر کی ہے کہ وہ ناپاک ہو جائیگا اور کپڑے دھونے کے بعد بھی شام تک ناپاک رہیگا (احبار باب۱۱ آیت۳۹۔۴۰) لیکن قرآن کریم نے اس بے معنی بات کو چھوڑ دیا۔ پاس یہ کہنا کہ قرآن نے تورات کی نقل کی ہے واقعات کے لحاظ سے بالکل غلط بات ہے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ تورات تو حرمت کی کوئی وجہ بیان نہیں کی لیکن قرآن کریم حرمت کی وجہ بھی بتاتا ہے۔ چنانچہ خداتعالیٰ فرماتاہے ۔ قُلْ لَّآ اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُھَرَّ مًا مَّسْفُوْ حًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِیْرٍ فَاِنَّہُ رِجْس’‘ اَوْ فِسْقًا اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّکَ غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘ (انعام آیت۱۴۶)یعنی تو اس سے کہہ دے کے جو کچھ میری طرف نازل کیا گیا ہے میں تو اس میں اُس شخص پر جو کسی چیز کو کھانا چاہے سوائے مردار یا بہتے ہوئے خون یا سور کے گوشت کے کوئی چیز حرام نہیں پاتا۔ اس لئے کہ ان میں سے ہر ایک چیز نجس ہے یا میں فسق کو حرام پاتا ہوں۔ یعنی اس چیز کو جس پر خداتعالیٰ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو۔ لیکن جو شخص اس کے کھانے پر مجبور ہو جائے بغیر اس کے کہ وہ شریعت کا مقابلہ کرنے والا ہو یا حد سے نکلنے والا ہو یعنی وہ جان بوجھ کر ایسے موقعہ پر نہ گیا ہو یا کھاتے وقت ضرورت سے زیادہ نہ کھائے تو وہ یاد رکھے کہ تیرا رب یقینا بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے یعنی ایسا شخص اگر ان کھانوں کو کھالے تو اللہ تعالیٰ اُس کو اُن کے بد اثرات سے بچا لیگا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ مردہ اور بہا ہوا خون اور سور کا گوشت حرام کرنے کی وجہ ان کا تکلیف دہ ہونا ہے کیونکہ رجس کے معنے گند اور عذاب کے ہوتے ہیں پس مراد یہ ہے کہ یہ چیزیں گندی ہیں اور انسان کے لئے رُوحانی اور جسمانی طور پر موجب دکھ ہیں۔
اس کے علاوہ سورۃ مائدہ آیت ۴ اور سورۃ نحل آیت ۱۱۶ میں بھی حلال اور حرام اشیاء کا ذکر ہے اور سب میں یہی چیزیںبیان کی گئی ہیں۔ سوائے سورۃ مائدہ کے کہ وہاں مَیْتَۃ’‘ کی تشریح کر کے بتایا ہے کہ اس میں گلا گھونٹا ہوا یا لاٹھی سے مارا ہوا جانور یا سینگ لگنے سے مرا ہوا جانور یا وہ جانور جسے کسی درندے نے کھا لیا ہو وہ بھی مردار کے حکم میں شامل ہے۔
اُھِلَّ بِہٖ بِغَیْرِ اللّٰہِ کو اس نے علحیٰدہ بیان کیا ہے کہ اگرچہ اس سے ظاہری طور پر کوئی نقصان معلوم نہیں ہوتا مگر اس کے استعمال کرنے سے روحانی رنگ میں یہ بُرا نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان کے اندر باحت اور بے دینی پیدا ہو جاتی ہے اور خدتعالیٰ سے اس کا تعلق ٹوٹ جاتا ہے۔ پس بائیبل نے تو بغیر کوئی حکمت واضح کرنے کے بعض چیزوں کو حرام قرار دے دیا ۔ مگر قرآن کریم نے حرام کرنے کی وجہ بھی بتائی ہے پس یہ نہیں کہا جا سکتا کہ حلت و حرمت کے مسائل تورات سے نقل کر لئے گئے ہیں۔
فَمَن ِاضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ میں پہلی شرط تو یہ رکھی کہ یہ استثنیٰ صرف اس شخص کے لئے ہے جو مفطر ہو جائے اور اضطرار کے معنے کسی شخص کو کسی ایسے کام پر مجبور کر دینے کے ہیں جو اس کے لئے باعثِ ضر ر یا جسے وہ ناپسند کرتا ہو۔ اور یہ مجبوری دو قسم کی وہتی ہے ایک بیرونی تہدید و تخویف اور ایک اندرونی جیسے ہیجانِ جذبات اور مطالبات نیچر وغیرہ (مفردات راغب) دوسری شرط یہ رکھی کہ وہ عادی یعنی حد سے گذرنے والا نہ ہو۔ باغی کی مثال تو ایسی ہے جیسے کوئی پنے کسی عیسائی دوست کے گھر میں بیٹھا ہوا ہو اور وہ بے تکلفی سے گھر والوں سے کہے کہ مجھے کچھ کھانے کے لئے دو اور وہ سور کا گوشت سامنے رکھ دیں تو وہ اُسے بے تکلف کھناے لگ جائے۔ یہ بغاوت اور نافرمانی ہو گی۔ سور کا گوشت کھانا صر ف اُس وقت جائز ہو گا جب وہ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہو اور اُسے کھانے کے لئے سور کے گوشت کے سوا اور کوئی چیز کھانے کی میسر نہ آرہی ہو۔ کیونکہ اس وقت اس کے استعمال میں نقصان کم اور عدمِ استعمال میں نقصان زیادہ ہے لیکن اس کے ساتھ ہی وَلَا عَادٍ فرما کر بتا دیا کہ مضطر کو بھی کلی طور پر اجازت نہیں دی گئی کہ وہ پیٹ بھر کر کھانا کھا لے بلکہ صرف اتنا کھانے کی اجازت دی گئی ہے جس سے اس کی زندگی قائم رہ سکے اگر وہ ان حدود کا خیال رکھیگا تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔ لیکن اگر وہ اس خیال سے اکہ آج تو پہلی مرتبہ سور کا گوشت کھانے کا موقعہ ملا ہے خوب سیر ہو کر کھا لے تو یہ ناجائز ہو گا۔بہر حال اٖطرار تاویلی نہیں بلکہ حقیقی ہونا چاہیے تب ان چیزوں کا استعمال اس کے لئے جائز ہو گا۔
آخر میں فرمایا کہ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘ اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ایسی مجبوری کی حالت میں کھانے والے پر کوئی گناہ نہیں تو بخشنے کے کیا معنے ہوئے۔ اور اگر ایسی حالت میں کھانا بھی گناہ ہے تو پھر فَلَا اِثْمَ عَلَیْہِ کا کی امطلب ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم کی دوسری آیات سے پتہ لگتا ہے کہ انسان سے جو کمزوریاں سر زد ہوتی ہیں۔ چونکہ اس جگہ ایسے لوگوں کا ذکرکیا جا رہا تھا جنہیں مجبوری کی حالت میں لحمِ خنزیر وغیرہ استعمال کرنے کا اجازت دی گئی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘ فرما کر اس طرف توجہ دلائی کہ تمہارا اس حالت کو پہنچنا بتاتا ہے کہ تم تقویٰ کے اعلیٰ مقام پر فائز نہیں تھے ورنہ خداتعالیٰ تمہیں اس حالت سے بچا لیتا اور تمہارے رزق کے لئے غیب سے کوئی اور صورت پیدا فرما دیتا۔ آخر آج تک اُمتِ محمدیہ میں لاکھوں اولیاء اللہ گذرے ہیں کیا کسی ادنیٰ سے ادنیٰ ولی کے متعلق بھی یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ اُس پر ایسا فاقہ آیا کہ وہ مردار یا سور کا گوشت کھانے پر مجبور ہو گیا۔ اگر نہیںتو پھر ایسے شخص کو یہ محسوس کرنا چاہیے کہ اُس سے اپنی پہلی زندگی میں کوئی نہ کوئی قصور ایسا ضرور سرزد ہواہے جس کی پاداش میں اُسے یہ دن دیکھنا پڑا کہ وہ مومن کہلاتے ہئوے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں سے ہوتے ہوئے سور کا گوشت کھانے پر مجبور ہو گیا۔ بے شک ایسی حالت میں اُس کا بقدر ضرورت چند لقمے لے لینا اور موت سے اپنے آپ کو بچا لینا جائز ہے لیکن چونکہ اس کی یہ حالت کسی مخفی شامت اعمال کا نتیجہ ہو گی اس لئے اُسے چاہیے کہ وہ اپنے اعمال کا جائزہ لے کر اپنی گذشتہ کمزوریوں پر ندامت کے آنسو بہائے۔ خداتعالیٰ کے حضور توبہ اور استغفارء سے کام لے اور دُعا کرتا رہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی کمزوریوں کو معاف فرمائے اور ان پر پردہ ڈالے اور اُسے اپنی مغفرت کے دامن میں لے لے۔ اگر وہ سچے دل سے ایسا کریگا تو وہ اللہ تعالیٰ کو غفور اور رحیم پائے گا۔ اور آئندہ اس قسم کے حالات میں مبتلا ہونے سے محفوظ ہو جائے گا۔
ایک صحابی کا واقعہ ہے انہیں جنگ میں پکڑ کر اور قید کر کے قیصر کے پاس بھیجا گیا۔ اس نے چاہا کہ انہیں قتل کر دے۔ مگر
اِنَّ الَّذِیْنَ


عَذَاب’‘ اَلِیْم’‘o
اس کے مصاحبوں نے کہا کہ قتل نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ مسلمان بھی ہمارے قیدیوں کو قتل نہیں کرتے اور اگر عمرؓ کو پتہ لگ گیا کہ اُن کے ایک آدمی کہ قتل کیا گیا ہے تو وہ اس کا سختی سے انتقام لیں گے۔ قیصر نے کہا میں تو چاہتا ہوں کہ اسے ایسی سزا دوں جو دوسروں کے لئے باعثِ عبرت ہو۔ اس پر انہوں نے کہا۔ اسے سور کا گوشت کھلانا چاہیے۔ چنانچہ انوں نے اس صحابی کو چند دن بھوکا رکھا اور پھر سور کا گوشت کھانے کو دیا اس نے کھانے سے سختی سے انکار کر دیا وہ اُسے کھانے پر مجبور کر رہے تھے کہ قیصر کے سر میں شدید درد شروع ہوگئی جس کا اُن سے کوئی علاج نہ ہو سکا۔ اس کے مصاحبوں نے کہا کہ معلوم ہوتا ہے یہ اس شخص کو تکلیف دینے کی وجہ سے ہے۔ اخر یہ قرار پایا کہ مسلمانوں کے خلیفہ کو دُعا کے لئے لکھا جائے۔ اور چونکہ ایسی صورت میں ان کے لئے یہ مناسب نہ تھا کہ ایک مسلمان پر وہ ایسی سختی کریں ورنہ دعا مشکل تھی۔ اس لئے وہ مجبور ہو کر اُسے کھانا دینے لگے گئے پس جو لوگ ایمان میں پختہ ہوتے ہیں خداتعالیٰ ان پر ایسا موقعہ ہی نیہں لاتا کہ انہیں حرام چیز کھانی پڑے خداتعالیٰ خود ان کے لئے ہر قسم کی خیرو برکت کے سامان مہیا کر دیتا ہے۔
اس کادوسرا جواب یہ ہے کہ اگر کسی موقعہ پر انتہائی مجبوری کی وجہ سے مردار یا سور کا گوشت استعمال کر لیا جائے تو جن زہریلے اثرات کی وجہ سے شریعت نے ان چیزوں کو حرام قرار دیا ہے وہ بہر حال ایک مومن کے لئے بھی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان نتائج کا تدارک اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ انسان غفور اور رحیم خدا کا دامن مظبوطی سے پکڑے اور اُسے کہے کہ اے خدا میں نے تو تیری اجازت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی جان بچانے کے لئے اس زہریلے کھانے کو کھالیا ہے لیکن اب تو ہی فضل فرما اور ان مہلک اثرات سے میری روح اور جسم کو بچا جو اس کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اسی حکمت کے باعث آخر میں اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘ کہاگیا ہے۔تاکہ انسان مطمئن نہ ہوجائے بلکہ بعد میں بھی وہ اس کی تلافی کی کوشش کرتا رہے اور خداتعالیٰ سے اُس کی حفاظت طلب کرتا رہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے غالبًا شریعت کی اسی رخصت کو دیکھتے ہوئے ایک دفعہ فرمایا کہ اگر کسی حاملہ عورت کی حالت ایسی ہو جائے کہ مرد ڈاکٹر کی مدد کے بغیر اُس کا بچہ پیدا نہ ہو سکتا ہو اور وہ مرد ڈاکٹر کی مدد نہ لے اور اُسی حال میں مر جائے تو اس عورت کی موت خود کشی سمجھی جائے گی۔ اسی طرح انسان کی ایسی حالت ہو جائے کہ وہ بھوک کے مارے مرنے لگے اور وہ سور یا مردار کا گوشت کسی قدر کھالے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔
۸۸؎ تفسیر:۔ فرماتا ہے ۔ وہ لوگ جو اس عظیم الشان تعلیم کو چھپاتے ہیں جسے خدانے لوگوں کی ہدایت کے لئے اپنی کتاب میں نازل فرمایا ہے اور اس کے بدلہ میں دنیوی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ وہ اپنے پیٹوں میں آگ انڈیلتے ہیں۔ یہ آیت حلت و حرمت کے مسائل کے بیان کرنے کے معًا بعد لا کر اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جس طرح مردار اور خود اور سور کا گوشت تم پر حرام ہے اور جس طرح غیر اللہ کے نام پرذبح کیا ہوا جانور کھانا تمہارے لئے گناہ ہے اسی طرح یاد رکھو کہ خدا اور اس کے رسول کے احکام کو اپنی زندگی کا مقصد قرار دیے دینا اور خداتعالیٰ کو چھوڑ دینا بھی مُردار اور سور کا گوشت کھانے سے کم نہیں۔ جس طرح وہ حرام خور ی ہے اسی طرح یہ بھی حرامخوری ہے کہ انسان دین سے واقف ہوتے ہوئے کلمہ حق کہنتے سے احتراز کرے۔ اور ڈرے کہ اگر میں نے اپنے عقیدہ کو نہ چھپایا یا خدا اور اس کے رسول کے احکام پر بر ملا اظہار کر دیا تو میری ملازمت جاتی رہے گی یا میری تجارت ماری جائیگی یا میرے دوستوں کے حلقہ میں میری عزت کم ہو جائیگی۔ فرماتا ہے جو لوگ صحیح علم رکھنے کے بعد بھی منافقت سے کام لیتے ہیں اور دنیوی مفاد کو دینی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں وہ یاد رکھیں کہ وہ اپنے پیٹوں میں انگارے ڈال رہے ہیں۔
مَایَا کُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ اِلَّا النَّارَ۔ اس آیت میں بُطُوْن کا لفط تاکید کے لئے استعمال کیا گیا ہے اور فِیْ بُطُوْنِھِمْ میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ان کے بطون کے اندر آگ کا عذاب پیدا کیا جائے گا۔ یعنی انہیں اندرونی عذاب دیا جائیگا جو بیرونی عذاب سے زیادہ سخت ہوتا ہے اسی مفہوم کو ایک شاعر نے اس طرح ادا کیا ہے کہ ؎
دُخُوْلُ النَّارِ لِلْمَھْجُوْرِ خَیْر’‘
مِنَ الْھِجْرِ الَّذِیْ ھُوَ یَتَّقِیْہِ
لِاَنَّ دُخُوْ لَہ‘ فِی النَّارِ اَدْنٰی
عَذَابًا مِنْ دُخُوْلِ النَّارِ فِیْہِ
یعنی ایک مہجور انسان جو اپنے محبوب کے فراق میں نالہ و فریاد کر رہا ہو اس کا آگ میں داخل ہو جانا اس جدائی کی آگ سے زیادہ آسان ہوتا ہے جس سے وہ بچنا چاہتا ہے ۔ کیونکہ اس کا آگ کے اندر داخل ہونا اس سے کم تکلیف دہ ہے کہ آگ اس کے اندر داخل ہو جائے اور وہ اس کے رگ و ریشہ کو جلا کر راکھ کر دے۔ اسی محاورہ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ آگ میں داخل کئے جائیں گے بلکہ فرمایا کہ وہ آگ اپنے پیٹوں میں ڈال رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے لئے ایک اندرونی جہنم تیار کر رہے ہیں ۔ گویا اس آیت میں سبب کی جگہ مسبب استعمال ہوا ہے۔
وَلَایُکَلِّمُھُمُ اللّٰہُ یُوْمَ الْقِیٰمَۃِ۔ پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے قیامت کے دن کلام تک نہیں کرے گا۔ یہ ایک عظیم الشان نکتہ تھا۔ جسے افسوس کہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں نے فراموش کر دیا۔ فرماتا ہے اللہ تعالیٰ ان سے نہیں بولیگا۔ حالانکہ قیامت کا دن وہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کافروں سے بھی کلام کرے گا ۔ جیسا کہ دوسری جگہ قرآن کریم میں آتا ہے۔ وَیُوْمَ یُنَّادِیْھِمْ فَیَقُوْلَ مَاذَآ اَجَبْتُمُ الْمُرْسَلِیْنَ(قصص آیت۶۶) یعنی اس دن خداتعالیٰ کفار کو پکارے گا اور کہیگا تم نے میرے رسولوں کے پیغام کا کیا جواب دیا تھا ۔ پس قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ کا کفار سے بھی کلام کرنا ثابت ہے تو بعض لوگوں سے اس کا
اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ
عَلَی النَّارِo
منہ پھیر لینا اور ان سے کلام تک نہ کرنا بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے شدید ناراض ہو گا۔ ار وہ نہیں چاہیگا کہ ان سے زجر کے رنگ میں بھی کلام کرے ۔ گویا اللہ تعالیٰ کا کلام نہ کرنا اس کی ناراضگی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ مگر اس زمانہ کے مسلمان یہ کہتے ہیں کہ خداتعالیٰ کا اپنے بندوں سے کلام نہ کرنا نعوذباللہ ایک بڑی نعمت ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل امتِ محمدیہ کو حاصل ہوئی حالانکہ خیرِ اُمت کی علامت یہ ہونی چاہیے تھی کہ اللہ تعالیٰ اس نعمت کا دروازہ ان پر زیادہ سے زیادہ کھولتا اور پہلی قوموں سے بھی زیادہ نہیں شرفِ مکالمہ و مخاطبہ عطا فرماتا۔ مگر انہوں نے زحمت کو رحمت سمجھ لیا اور خداتعالیٰ سے دوری کو ایک انعام سمجھ کر اُسے حرز جان بنا لیا۔
اس آیت کا ایک یہ مفہوم بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے محبت کا کلام نہیں کریگا۔ اور یہ عام محاورہ ہے ہماری زبان میں بھی کہتے ہیں کہ میں تم سے بات نہیں کرونگا۔ اور مراد یہ ہوتی ہے کہ میں تم سے دوستانہ کلام نہیں کرونگا پس اس کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس روز ان سے دوستانہ کلام نہیں کریگا۔ بلکہ اس کا کلام ایسا ہی ہوگا جیسے ایک جج کسی مجرم کو سزا کاحکم سُناتے وقت کلام کرتا ہے ۔ مگر بہر حال خواہ کوئی معنے لئے جائیں خداتعالیٰ کا ترک گفتگو اس کی ناراضگی کی نشانی ہے۔ مگر مسلمان بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نعوذباللہ خداتعالیٰ کا اُمت محمدیہ پر یہ انعام نازل ہوا کہ اس نے ان سے کلام کرنا ترک کر دیا اور وحی اور الہام کے سلسلہ کو منقطع کر دیا۔
پھر فرمایا وَلَا یُزَکِّیْھِمْ۔ چونکہ اسلام کی رو سے کفار کو دوزخ میں ڈالنے کی غرض ہی یہی ہے کہ ان کا تزکیہ ہو اس لئے وَلَا ئُزَکِّیْھِمْ کے یہ معنے نہیں کہ وہ انہیں پاک نہیں کریگا۔ بلکہ یہ معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں پاک قرار نہیں دے گا۔
ترتیب وربط:۔ ان آیات میں مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے ساتھ ہی یہود کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے چنانچہ اِنَّمَا حَرَّ مَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃَ میں ان کے اس اعتراض کو دور کیا گیا ہے کہ یہ نبی ان چیزوں کو کیوں حلال کرتا ہے جو شریعت موسویہ میں حرام تھیں۔اگر یہ ان پیشگوئیوں کا مصداق ہے تو اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے بتایا کہیہ اعتراض قلتِ تدبر کا نتیجہ ہے۔ جو احکام کسی خاص وقت کے مناسب حال تھے ان کو دوام کا رنگ نہیں دیا جا سکتا تھا اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے یہود کے ہاں اونٹ حرام تھا۔ مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت حلال تھا۔ پس جس طرح موسیٰ علیہ السلام سے قبل بعض چیزیں حلال تھیں اور کئی انبیاء تک ان کو استعمال کرتے رہے مگر بعد میں ان کو حرام کر دی گیا۔ اسی طرح موسوی شریعت کے بعد بھی خداتعالیٰ اختیار رکھتا تھا کہ وہ بعض حرام سمجھی جانے والی چیزوں کو حلال کر دیتا۔ پس اس پر اعتراض کرنا نادانی کی علامت ہے۔
۸۹؎ حل لغات:۔ اِشْتَرٰی اور اَلضَّلٰلَۃَ کی حل لغات کے لئے دیکھیں تفسیر سورۃ بقرہ حل لغات۱۷؎
نیز اَلْھُدٰی کی حل لغات کیل ئے دیکھیں سورۃ البقرۃ حل لغات۳؎ اور ۷؎۔
ذٰلِکَ بِاَنَّ
شِقَاقٍم بَعِیْدٍo

تفسیر:۔ فرماتا ہے یہی لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کی بجائے گمراہی اور مغفرت کی بجائے عذاب کو اختیار کر لیا ہے۔ پس آگ کے عذاب پر ان کی برداشت تعجب انگیز ہے۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان پر کوئی جبر نہیں کیا بلکہ اُسے نیکی اور بدی کے اختیار کرنے پر کامل مقدرت بخشی ہے۔ اور پھر انبیاء کے ذریعہ اس نے بنی نوع انسان کو یہ بھی بتا دیا ہے کہ ہدایت کی اہے اور ضلالت کیا ہے اب یہ انسان کا اختیار ہے کہ وہ خداتعالیٰ کی عطا کر دہ عقل اور اس کے کلام سے فائدہ اٹھا کر ہدایت کی راہ اختیار کرے یا شیطان کے پیچھے چل کر ضلالت کو اختیار کر لے اگر وہ ضلالت کو ہدایت پر ترجیح دیتا ہے تو اس کے نتائج بھی طبعی طور پر اسے عذاب کی صورت میں برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی اس جسارت اور نابینائی پر تعجب کا اظہار کرتا ہے۔ اور فرماتا ہے فَمَا اَصْبَرَ ھُمْ عَلَی النَّارِ۔ جب انہوں نے مغفرت پر عذاب کو ترجیح دی ہے تو ان کو عذاب کو برداشت کر لینے کی جرات بڑی تعجب انگیز ہے۔
اس آیت کے متعلق یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کیا خداتعالیٰ بھی تعجب کا اظہار کیا کرتا ہے۔ سو اس کا جواب یہ ہے کہ بعض اوقات کلام میں حقیقی تعجب مراد نہیں ہوتا بلکہ اس سے یہ بتلانا مقصود ہوتا ہے کہ یہ کیسی بے وقوفی کر رہے ہیں کیا یہ بھی کوئی ایسی چیز تھی جسے اپنے اوپر وارد کر کے وہ صبر کرتے ۔ پس فَمَا اَصْبَرَ ھُمْ عَلَی النَّارِ کا یہ مطلب نہیں کہ یہ لوگ واقعہ میں بڑے صبر کرنے والے ہیں اور خداتعالیٰ ان کے صبر کی تعریف کر رہا ہے یا ان کے صبر پر تعجب کا اظہار کر رہا ہے بلکہ یہ تعریض ہے اور اس سے لوگوں کو یہ بتلانا مقصود ہے کہ ان بیوقوفوں کی موجودہ حالت بتاتی ہے کہ یہ لوگ عذاب پر بہت ہی صبر کرنیوالے ہیں۔ نہ یہ کہ عذاب پر وہ واقعہ میں صبر کرینگے کیونکہ معمولی عذاب بھی انسان کی قوتِ برداشت سے باہر ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ اگر مَا کو استفہامیہ قرار دیا جائے تو اس کے معنے یہ ہونگے کہ کس چیز نے انہیں آگ پر صبر کرنیوالا بنا دیا؟ اور اگرمَا کو فافیہ قرار دیا جائے تو پرھ اس آیت کے یہ معنے ہونگے کہ مَااَصْبَرَ ھُمُ اللّٰہُ عَلَی النَّارِ۔ اللہ تعالیٰ انہیں آگ پر صبر نہ دے۔یعنی خوب سزا دے اور وہ سزا ان کو اچھی طرح محسوس ہو۔
۹۰؎ حل لغات:۔شِقَاق’‘: شَاقَّ کا مصدر ہے اور شَاتہ‘ کے معنے ہیں خَالَفَہ‘ وَعَادَاہُ۔ وَحَقِیْقَتُہ‘ اَنَّ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْھُمَا فِیْ شِقٍّ غَیْرِ شِقِّ صَلِبِہٖ یعنی اس نے اس کے مخالفت اور دشمنی کی اور اس کی حقیقت معنے یہ ہیں کہ دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کی مخالف جانب سے آیا(اقرب)
تفسیر:۔ فرماتا ہے یہ عذاب انہیں اس وجہ سے ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بڑے بھاری احسانات سے کام لیتے ہوئے انہیں ایک ایسا قانون بخشا تھا جس کا ایک ایک حرف صداقت پر مشتمل ہے۔ مگر ان لوگوں نے انتہا درجہ کی عداوت اور دشمنی میں مبتلا ہونے کی وجہ
لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ




ھُمُ الْمُتَّقُوْنَo
سے اُسے ٹھکرا دیا۔ اور خدائی پیغام کے منکر بن گئے۔
شِقَاقٍ بَعِیْدٍ سے ایسی عداوت مراد ہے جو اپنی شدت میں انتہا درجہ تک پہنچی ہوئی ہو اور جس کا سلسلہ ایک طویل مدت تک بھی منقطع نہ ہو۔
۹۱؎ حل لغاتـ:۔ اَلْبِرُّ: اَلصِّلَۃُ وَ الطَّاعَۃُ وَالصِّدْقُ۔ بِرّ کے معنے صلہ رحمی اطاعت اور سچائی کے ہیں(اقرب)
مفرداتِ امام راغب میں لکھا ہے۔ اَلْبِرُّ: اَلتَّوَسُّعُ فِیْ فِعْلِ الْخَیْرِ۔ پھر لکھا ۔ بَرَّ الْعَبْدُ رَبَّہ‘ اَیْ تَوَ سَّعَ فِیْ طَاعَتِہٖ فَمِنَ اللّٰہِ تَعَالیٰ اَلثَّوَابُ وَفِی الْعَبْدِ الَطَّاعَۃُ۔ یعنی بِرّ کے معنے ہیں نیکی میں وسعت اختیار کرنا۔ چنانچہ بَرَّ الْعَبْدُ رَبَّہُ کے معنے ہیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں وسعت اختیار کی۔ برّ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہو تو اس سے مراد ثواب دینا ہے اوراگر بندے کی طرف منسوب ہو تو اس سے مراد اطاعت کرنا ہے۔
اَلْبَاسَآئُ کے معنے ہیں اَلشِّدَّۃُ شدت (۲) اِسْم’‘ الْحَرْبِ جنگ (۳) اَلْمُشَقَّۃُ وَالضَّرْبُ مشقت اور مار۔
اَلضَّرَّآء کے معنے ہیں(۱)اَلزَّمَانَۃُ قحط (۲) اَلشِّدَّۃُ سختی و مصیبت (۳) اَلنَّقْصُ فِی الْاِمْوَالِ وَالْا نْفُسِ مال اور افرادمیں کمی (۴) فَظِیْضُ السَّرَّآئِ یہ سَرَّاء یعنی فراخی کا اُلٹ ہے۔(اقرب)
اَلْبَاسُ: کے معنے ہیں (ا) اَلْفَقْرُ مالی مشکلات۔ (۲) اَلْعَذَابُ عذاب (۳) اَلشِّدَّۃ فِی الْحَرْبِ جنگ کی سختی (۴) اَلْقُوَّۃُ قوت ۔ قرآن کریم میں آتا ہے وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْہِ بَاْس’‘ شَدِیْد’‘ کہ ہم نے لوہے کو نازل کیا جس میں بڑی قوت ہے۔
تفسیر:۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نیکی اور تقویٰ کے متعلق اسلامی نقطہء نگاہ لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے اور بتایا کہ حقیقی نیکی کس چیز کا نام ہے۔ اگر غور سے کام لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ دنیا میں نیکی اور تقویٰ کے متعلق بہت کچھ اختلاف پایا جاتا ہے اور مختلف جماعتوں اور مختلف قوموں اور مختلف زمانہ کے لوگوں کے نزدیک نیکی کی تعریف مختلف رہی ہے۔ غرباء نیکی کی کچھ اور تعریف کرتے ہیں اور اُمراء کچھ اور کرتے ہیں۔ پھر ممالک کے لحاظ سے بھی نیکی کی تعریف میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ہندوستان میں حاجی بڑے نیک شمار ہوتے ہیں یہاںتک کہ ایک شخص خواہ صوم و صلوٰۃ اور دوسرے احکام شرعی کا کتنا ہی پابند کیوں نہ ہو لگ اس کے مقابلہ میں حاجی کو ترجیح دینگے خواہ اس نے سفر حج میں اپنے اوقات فضول اور لغو طور پر ہی ضائع کئے ہوں۔ اور حج کرنے کے بعد بھی اپنے اندر کوئی تغیر پیدا نہ کیا ہو۔ اور صوم و صلوٰۃ کا بھی چنداں پابند نہ ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک ریل کے سٹیشن پر ایک نابینا بڑھیا بیٹھی تھی کہ ایک شخص نے اس کی چادر اُٹھالی۔ بڑھیا کو جب پتہ لگا کہ چاردر غائب ہے تو اس نے آواز دی کر کہا۔ کہ بھائی حانی! مجھ غریب کی چادر کیوں لی ہے۔ میرے پاس تو اَور کوئی کپڑا نیہں میں تو سردی سے ٹھٹھر کر مر جائوں گی۔ وہ چادر تو اس شخص نے لا کر رکھ دی مگر پوچھا کہ تجھے کس طرح پتہ لگا کہ میں حاجی ہوں۔ بڑھیا نے جواب دیا کہ ایسے کام حاجی ہی کیا کرتے ہیں۔ اب دیکھو کووہ عورت اس سے واقف نہ تھی ار نہ اس کی آنکھیں سلامت تھیں مگر اس نے پہچان لیا کہ ایسی سنگدلی حاجی میں ہی پائی جاسکتی ہے لیکن باوجود اس کے پھر بھی عام طور پر ہمارے ملک میںحاجیوں کو بڑا نیک سمجھا جاتا ہے لیکن عرب میں جائو تو وہ لوگ حج کو نیکی قرار دینگے۔ بلکہ ان میں نیکی سخاوت کو سمجھا جائیگا۔ وہ لوگ اگر کسی کی نیکی کی تعریف کرینگے تو کہنگے کہ فلاں شخص بڑا نیک ہے کیونکہ بڑا سخی ہے۔ اسی طرح اب یورپ میں اسلام پھیلے تو وہاں روزے کو بڑی نیکی سمجھا جائیگا کیونکہ وہ لوگ کثرت سے کھانے پینے والے ہیں۔ پس جب ان کو کھانے پینے سے رکنا پڑے گا تو وہ حج اور زکوٰۃ اور نما زوغیرہ احکام شرعی کی بجا آوری کو اعلیٰ نیکی قرار دینے کی بجائے صرف روزہ رکھنے کو سب سے بڑی نیکی قرار دینگے۔ پھر ہمارے ملک میں یہ بھی بڑی نیکی خیال کی جاتی ہے کہ کوئی شخص نماز کا پابند ہو۔ ایسے شخص کے متعلق بھی لو گ کہتے ہیں کہ بڑا نیک ہے کیونکہ نماز پا بند ہے۔ لیکن صحابہؓ کے نزدیک کسی شخص کی نیکی کا معیار محض پابندی نماز نہیں تھا کیونکہ وہ لوگ نیکی کے اس اعلیٰ مقام پر کھڑے تھے جہاں صرف پابندے نماز کو بڑی نیکی قرار دینا ایسی ہی بات تھی جیسے کہا جائے جلاں شخص بڑا بہادر ہے کیونکہ وہ اپنے قدموں پر کھڑا ہو گیا ہے یا فلان شخص بڑا تیز نظر ہے کیونہک اس کی ماں جو اس کے پاس بیٹھی تھی اسے اس کی پہچان لیا ہے۔ یا فلاں شخص کا معدہ بڑا ہی مضبوط ہے کیونکہ اس نے ایک چنا ہضم کر لیا۔ پاس جیسا کہ بہادری تیز فطری اور مضبوطی معدہ کے یہ معیار نہایت مضحکہ خیز ہیں اسی طرح صحابہؓ کے نزدیک کسی شخص کی نیکی کا معیار محض پابندی نماز مضحکہ خیز تھا۔ کیونکہ وہ لوگ دین کے لئے بڑی بری قربانیاں اور سخت آزمائشوں کو نیکی سمجھتے تھے اور جس شخص میں یہ باتیں زیادہ پاتے تھے اس کو نیک سمجھتے تھے پس نیک اور نیکی کی تعریف ہر زمانہ ہر ملک ہر قوم میں جُدا جدا اور مختلف رہی ہے ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مشرق اور مغرب کی طرف منہ پھیرنا کوئی نیکی نہیں۔ اگر کوئی شخص قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتا ہے اور اُس کی نماز میں وہ اخلاص نہیں جو حقیقی نماز میں ہوتا ہے تو اسے قبلہ کی طرف منہ کر کے بھی کچھ حاصل نہیں ہو سکتا کیونکہ نیکی منہ کے کسی طرف پھیر لینے کا نام نہیں۔ بلکہ نیکی نام ہے اس کیفیت کا جو دل کے اندر پیدا ہوتی ہے اور ظاہری حرکات اس کیفیت کا ایک نشان ہیں۔ پس اگر ان ظاہری حرکات میں وہ چیز نہیں جس کا دل سے تعلق ہے تو یہ ظاہری حرکات کچھ چیز نہیں۔ محض قبلہ کی طرف رُخ کرنا یا نماز پڑھنا یا روزہ رکھنا یا حج کرنا یہ تمام باتیں دلی کیفیت نہ ہونے کے باعث ہیج ہوجاتی ہیں۔ کیونکہ یہ وہ ہتھیار ہیں جو بغیر اس قلبی کیفیت کے دُند اور ناکارہ ہوتے ہیں۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے ایک شخص کے پاس تلوار تو ہو مگر کُند ہو یا ہتھیار تو ہوں مگر زنگ خوردہ ہوں پس جس طرح ہتھیاروں کی قیمت ان کی تیزی اور صفائی سے وابستہ ہے اسی طرح ان اعمال کی قدروقیمت خداتعالیٰ کی نظر میں اُسی وقت ہوتی ہے جبکہ ان کے ذریعے خداتعالیٰ کی رضا جوئی مقصود ہو۔
اس آیت میں نیکی کی علامات بیان کی گئی ہیں اور بتایا گیا ہے کہ خداتعالیٰ کے نزدیک حقیقی نیکی کیا چیز ہے فرماتا ہے مشرق و مغرب کی طرف منہ کرنا نیکی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اخلاص اور سوز و گداز کی کیفیت بھی ہونی چاہیے اگر اس کے نتیجہ میں دُوائوں اور ذکرِ الہٰی کی عادت پیدا نہیں ہوتی اگر اس کے نتیجہ میں خداتعالیٰ کی مخلوق سے ہمدردی پیدا نہیں ہوتی۔ اگر اس کے نتیجہ میںیتیموں اور غریبوں اور مسکینوں کی محبت ترقی نہیں کرتی تو محض مشرق و مغرب کی طرف منہ کر لینا کوئی حقیقت نہیں رکھتا ۔ مشرق و مغرب کی طرف منہ پھیرنے کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس لئے ذکر فرمایا ہے کہ چند رکوع قبل اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ لِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَاَیْنَمَا تُوَ لُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ(آیت۱۱۶) یعنی اے مسلمانو! بے شک آج تم کمزور سمجھے جاتے ہولیکن یاد رکھو مشرق و مغرب سب اللہ کا ہی ہے ہم ایک دن ان لوگوں سے حکومت چھین کر تمہیں مشرق و مغرب کا حکمران بنا دینگے اور تم جس طرف بھی اپنے لشکر لے کر نکلو گے تم اللہ کے وجود کو جلوہ گر پائوگے یعنی قدم قدم پر تمہیں فتوحات نصیب ہو نگی اور قدم قدم پر خداتعالیٰ تمہارے لئے اپنے نشانات ظاہر فرمائیگا۔ پس چونکہ مسلمانوں کی دنیوی فتوحات کی پہلے پیشگوئی کی جا چکی ہے جس کے مطابق انہوں نے مشرق و مغرب کا حکمران بننا تھا۔ اور جب کسی قوم کو دنیوی فتوحات حاصل ہو جائیں تو اس بات کا شدید خطرہ ہوتا ہے کہ وہ کہیں دنیا کی طرف ہی نہ جھک جائے اور خداتعالیٰ سے مخلصانہ تعلق جو اس کی فتوحات کا مرکزی نقطہ ہوتا ہے اس کو نظر انداز نہ کر دے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مسلمانوں کو ان کی اعتقادی اور عملی اصلاح کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَ لُّوْا وُجُوْ ھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ۔ یعنی کامل نیکی یہ نہیں کہ تم مشرق و مغرب کے ملکوں پر اپنا تسلط جما لو اور فتوحات پر فتوحات حاصل کرتے چلے جائو بے شک یہ بھی اللہ تعالی کا ایک بڑا بھاری انعام ہے مگر کامل نیکی صرف مادی فتوحات کا نام نہیں بلکہ نام ہے اللہ تعالیٰ پر اور یوم آخرت پر اور ملائکہ پر اور قرآن کریم پر اور تمام نبیوں پر سچے دل سے ایمان لانیکا اور کامل نیکی نام ہے رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں اور سائلوں اور غلاموں کی آزادی کے لئے اپنے اموال خرچ کرنے کا ۔ اسی طرح کامل نیکی نام ہے نمازیں قائم کرنیکا اور زکوٰۃ دینے کا اور اپنے عہدوں کو پورا کرنے کا اور مالی مشکلات اور بیماریوں اور جنگ میں صبر اور استقامت سے کام لینے کا پس بے شک دنیوی فتوحات بھی حاصل کرو مگر اس بات کو مت بھولو کہ صرف ملکوں پر غلبہ حاصل کرنا تمہارا مقصود نہیں بلکہ تمہارا مقصد اللہ تعالیٰ سے کامل تعلق پیدا کرنا اور اس کی مخلوق کی سچی خدمت کرنا ہے اور یہی وہ غرض ہے جو ہر وقت تمہاری نظروں کے سامنے رہنی چاہیے اس کے بعد فرماتا ہے وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بَاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ۔ اس حصہ آیت کا لفظی ترجمہ یہ بنتا ہے کہ’’ نیکی وہ ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لایا‘‘ لیکن ظاہر ہے کہ یہ معنے درست نہیں۔ اَلْبِرَّ اسم ہے اور اس کے بعد ایسی خبر آنی چاہیے جو اس کے مطابق ہو۔ لیکن مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ اس کے مطابق نہیں ۔ اسلئے یہاں بعض الفاظ محذوف سمجھے جائیں گے۔ چنانچہ نحویوں نے اس کی تین توجیہات کی ہیں۔ اول مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ میں مَنْ سے پہلے بِرُّ کا لفظ محذوف ہے اور اصل عبارت یوں ہے کہ وَلٰکِنَّ الْبِرَّ بِرُّ مَنْ اٰمَنَ یعنی کامل نیکی تو اس شخص کی نیکی ہے جو اللہ پر اور یوم آخرت پر سچے دل سے ایمان لایا۔ عربی زبان میں بالعموم ایسا ہوتا ہے کہ مضاف کو حذف کر دیا جاتا ہے جیسے سورہ یوسف میں آتا ہے وَاسْئَلِ الْقَرْیَۃَ اس کے لفظی معنے یہ ہیں کہ بستی سے پوچھو۔حالانکہ بستی سے کوئی نہیں پوچھا کرتا بلکہ بستی والوں سے پوچھا کرتا ہے۔ پس جس طرح وَاسْئَلِ الْقَرْیَۃَ سے مراد وَاسْئَلْ اَھْلَ الْقَرْیَۃِ ہے اور اس جملہ میں اھل کا لفظ محذوف ہے۔ اسی طرح مِنْ اٰمَنَ سے پہلے بَرُّ کا لفظ محذوف ہے(سیبو یہ جلد اول صفحہ۱۰۸)
دوسری صورت یہ ہے کہ اَلْبِرُّ کو مصدر سمجھ کر اس کے معنے اسم فائل کے لئے جائیں اور عبارت کا مفہوم یہ نکالا جائے کہ وَلٰکِنَّ الْبَآرَّ مَنْ اٰمَنَ یعنی بڑا نیک اور محمد رسو ل اللہ ؐ کا کامل متبع وہ ہے جو اللہ اور آخرت کے دن پر اور کتبِ سماویہ پر اور سارے نبیوں پر ایمان لاتا ہے اور اپنے مال کو بوجود تنگی کے اللہ تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے غریبوں میں تقسیم کر تا رہتا ہے۔
تیسری صورت یہ ہے کہ اَلْبِرُّ کے لفظ سے پہلے ذُوْ کا کلمہ محذوف سمجھا جائے اور عبارت یوں ہو کہ وَلٰکِنْ ذَالْبِرِّمَنْ اٰمَنَ یعنی کامل نیکی رکھنے والا وہ شخص ہے جو اللہ پر ایمان لایا۔گویا اس آیت کے مفہوم کو تین صورتیں واضح کرتی ہیں اور آیت کے اگلے حصے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تینوںصورتیں ہی اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق ہیں۔ کیونکہ اس آیت کے بعد وَالْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عَاھَدُوْا وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ وَالضَّرَّآئِ کے الفاظ آتے ہیں اور اَلْمُوْفُونَ حالتِ رفع میں ہے اور اَلصَّابِرِیْنَ حالتِ نصب میں۔ اگر اَلْبَارَّ مَنْ اٰمَنَ یا ذَاالبِّرِ مَنْ اٰمَنَ والی ترکیب صحیح سمجھی جائے تو اَلْمُوْفُوْنَ مرفوع نہیں آسکتا۔اور اگر بِرُّ مَنْ اٰمَنَ صحیح سمجھا جائے تو الَصَّابِرِیْنَ حالت نصبی میں استعمال نہیں ہو سکتا۔ درحقیقت دو مختلف کلمات کو دو صورتوں میں استعمال کر کے یہ بتایا گیا ہے کہ یہاں تینوں صورتیں ترکیب کے لحاظ سے درست ہیں اور تینوں معنے ہی خداتعالیٰ کے منشا کے مطابق ہیں۔ بہر حال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نیکی کے لئے پہلی شرط جو کسی صورت میں بھی بدل نہیں سکتی یہ ہے کہ انسان کو ایمان باللہ حاصل ہو ۔ کبھی کوئی زمانہ ایسا نہیں آسکتا جس میں یہ کہا جا سکے کہ ایمان باللہ کی اب ضرورت نہیں رہی۔ دوسرے یوم آخرت پر ایمان ہو۔ یہ حکم بھی کبھی نہیںبدل سکتا ۔تیسرے ملائکہ پر ایمان ہو یہ صداقت بھی ہمیشہ سے چلی آئی ہے اور چلی جا ئیگی ۔چہارم کتاب یعنی وحی الہٰی پر ایمان ہو۔ اس جگہ الکتاب کا لفظ اللہ تعالیٰ نے واحد رکھا ہے۔ اس سے یہ غلط فہمی نیہں ہونی چاہیے کہ کسی ایک کتاب پر بھی ایمان لانا کافی ہے بلکہ الکتاب سے مراد یہ ہے کہ وہ ساری وحی الہٰی پر ایمان لانے والا ہو۔ خواہ کسی پہلے زمانہ میں نازل ہو چکی ہو۔ یا آئندہ نازل ہو۔ پنجم اسے نبیوں پر ایمان ہو۔ یہ پانچوں نیکیاں ایسی ہیں جن کے بغیر کبھی کوئی شخص روحانیت کا ادنیٰ سے ادنیٰ مقام بھی حاصل نہیں کر سکتا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اعمال کی طرف توجہ کی ہے اور سب سے پہلے مال خرچ کرنے کا ذکر فرمایا ہے مگر اس کے لئے بھی صرف اٰتَی الْمَالَ نہیں فرمایا کیونکہ اگر انسان ناجائز طور پر مال خرچ کر دے تو یہ نیکی نہیں بلکہ بدی ہے۔ اس لئے اٰتَی الْمَالَ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے عَلیٰ حُبِّہٖ رکھا اور حُبِّہٖ کی ضمیر مال کی طرف جا سکتی ہے اور اِیْتَائِ مال کی طر ف بھی جا سکتی ہے اور اس شخص کی طرف بھی جا سکتی ہے جسے مال دیا جاتا ہے اور خداتعالیٰ کی طرف بھی جا سکتی ہے۔ پہلی صورت میں اس کے یہ معنے ہونگے کہ اٰتَی الْمَالَ عَلیٰ حُبِّ الْمَالِ یعنی باوجود مال کے وہ اُسے خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرے۔ دوسری صورت میں اس کے یہ معنے ہیں کہ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّ اِیْتَا ئِ الْمَالِ۔ یعنی وہ اپنا مال چٹی سمجھ کر نہ دے بلکہ اُسے صدقہ و خیرات دینے کا شوق ہو۔ اور وہ اس نیکی میں ایک لذت محسوس کرتے ہوئے اپنا مال پیش کرے۔ تیسری صورت میں اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ جسے مال دے اسے ذلیل سمجھ کر نہ دے بلکہ اپنا بھائی سمجھ کر دے۔ اسی طرح اس کی عادات بگاڑنے کے لئے نہ دے بلکہ اس لئے دے کہ وہ اُسے اچھے کاموں میں لگائے۔ اورترقی کرے۔ چوتھی صورت میں اس کے یہ معنے ہیں کہ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّ اللّٰہِ ہو اللہ کی رضا اور اس کی محبت کے حصول کے لئے مال دے کوئی دنیوی مفاد یا شہرت اس کے پیچھے کام نہ کر رہی ہو۔ ان چار شرائط کے ساتھ مال خرچ کرنا کبھی ناپسندیدہ نہیں ہو سکتا۔ یا یوں سمجھ لو کہ یہ مال خرچ کرنے کے چار مدارج ہیں پہلا درجہ ادنیٰ ہے جس کی طرف قریب کی ضمیر پھر سکتی ہے۔ دوسرا درجہ ادنیٰ ہے جس کی طرف قریب کی ضمیر پھر سکتی ہے۔ دوسرا درجہ اس سے اعلیٰ ہے ۔ تیسرا درجہ اس سے بھی اعلیٰ ہے اور چوتھا درجہ سب سے اعلیٰ ہے۔ پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان کے دل میں مال کی محبت ہو اور پھر بھی وہ اسے خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرے۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ نیک کاموں میں روپیہ خرچ کرنے کی اُسے عادت ہو گئی ہو اور اس کا مزہ اس نے چکھا ہوا ہو جس کی وجہ سے وہ خود دلی شوق اور محبت سے اس قسم کی نیکیوں کی تلاش میں رہے۔ تیسرا درجہ یہ ہے کہ جسے مال دیا جائے اُسے اپنا بھائی سمجھ کر دیا جائے تاکہ وہ اُسے اچھے کاموں میں لگائے اور ترقی کرے لیکن پھر اس سے بھی اوپر ایک اور درجہ ہے اور وہ یہ کہ اس کے اس انفاق میں خالص اللہ تعالیٰ کی محبت کام کر رہی ہو۔ وہ اس وجہ سے مال خرچ نہ کرے کہ اسے مال خرچ کرنے کی عادت ہو چکی ہے یا اُسے اپنے غریب بھائیوں سے محبت ہے بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی رضا اس کے پیش نظر ہو اور اس کی خوشنودی کے حصول کے لئے وہ دوسروں سے حسنِ سلوک کرے۔ یہ سب سے اعلیٰ درجہ ہے اور اسے صوفیاء نے اتنا بڑھایا ہے کہ ان میں سے بعض نے یہاںتک کہا ہے کہ ہمیں نہ جنت کی ضروت ہے نہ دوزخ کی بلکہ صرف خداتعالیٰ کی ضرورت ہے ۔ اگر خداتعالیٰ دوزخ میں پڑنے سے ملتا ہو تو ہم اس میں بھی جانے کے لئے تیار ہیں ۔ یہ بہت بلند مقام ہے۔ کیونکہ اس مقام پر سوائے خداتعالیٰ کے اور کوئی چیز انسان کے سامنے نہیں رہتی صرف خدا ہی خدا رہ جاتا ہے اوفر اس کا حُسن انسان پر اس قدر ممستولی ہو جاتا ہے کہ اس کے سوا کوئی اور چیز اُسے نظر ہی نہیں آتی۔
اب سوال پیدا ہوتا تھا کہ وہ خدا کی محبت کے لئے کہاں خرچ کرے۔ سو اس کی تشریح بھی کر دی اور بتایا کہ (۱) وہ قرابت والوں کو دے اس لئے کہ انسان پر ان کا بڑا حق ہوتا ہے۔ مثلاً ماں پاب ہیں جو بچوں کی پرورش اور ان کی نگہداشت کے لئے اتنی بڑی قربانیاں کرتے ہیں جن کی مثال کسی اور جگہ نہیں مل سکتی۔ اسی طرح دوسرے رشتہ دا اس بات کے مستحق ہوتے ہیں کہ اگر وہ حاجت مد ہوںت و ان کی امداد کی جائے اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے۔ (۲) پھر فرمایا کہ وہ یتامیٰ کو دے چونکہ ان کی خبر گیری کرنیوالا کوئی نہیں ہوتا اس لئے ان کے حقوق کو مدنظر رکھنے کی تعلیم دی۔ (۳) تیسرے نمبر پر مساکین کو رکھا جن کے پاس اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے مال بھی نہیں ہوتا۔ اور وہ لوگوں کے سامنے دست سوال بھی دراز نہیں کرتے۔ گویا وہ اس آیت کے مصداق ہوتے ہیں کہ لَا یَسْئَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَانًا۔ وہ غربت کے باوجود اپنے اندر اخلاقی بلندی رکھتے ہیں اور اپنے و قار کو قائم رکھنے کے لئے دوزروں سے مانگنے کی ذلت برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔(۴) چوتھے نمبر پر مسافر کو رکھا۔ اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے غربت کی شرط نہیں لگائی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں غربت مسافروں کی امداد کرنا ضروری ہوتا ہے وہاں اگر کسی اسودہ حال مسافر کی مدد کرنی پڑے تو اس سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ممکن ہے وہ مالدار تو ہو مگر راستہ میں اس کا مال ضائع ہو گیا ہو۔ اگر ایسا ہو تو وہ بطور حق بھی لے سکتا ہے اور کوئی چیز گرد رکھ کر بھی اپنی ضرورت پوری کر سکتا ہے۔ اسی طرھ حکومت کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ ملکی اور غیر ملکی مسافروں اور سیاحوں کے لئے ہر قسم کی سہولتیں بہم پہنچائے اور ان کی مشکلات کو دور کرنے کی کوشش کرے۔ اس کے بعد پانچویں نمبر پر سائل کو رکھا۔ اس کی نسبت کہا جا سکتا ہے کہ اگر وہ غریب اورمفلس ہے تو اُسے ابن السبیل کہ اجا سکتا ہے کہ اگر وہ غریب اور مفلس ہے تو اُسے ابن السبیل کے بعد کیوں رکھا ہے۔
سو یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام نے سوال کرنا پسندیدہ قرار نہیں دیا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ جس شخص کے پاس ایک وقت کا کھانا ہے اور پھر بھی وہ سوال کرتا ہے وہ خداتعالیٰ کی ناراضگی مول لیتا ہے۔ اسی طرح حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غصہ آیا اور آپ نے اس سے آٹا چھین کر اونٹوں کے آگے ڈال دیا اور فرمایا اب مانگ آپ کی اس سے غرض یہ تھی کہ وہ لوگوں کے لئے بار نہ بنے بلکہ خود کام کرے اور دوسروں سے مانگ کر کھانے کی ذلت سے بچے پس چونکہ اسلام نے مانگ کر کھانا ناپسند کیا ہے اس لئے یہ بتانے کیلئے کہ سوال کرنا ایک ناپسندیدہ امر ہے مسائل کو سب سے آخر میں رکھا۔ اسلام چاہتا ہے کہ مسلمانوں میں اعلیٰ درجہ کے اخلاق پیدا ہوں اور بجائے اس کے کہ لوگ سوال کرتے پھریں۔ وہ خود لوگوں کی ضروریات کا پتہ لگا کر ان کو پورا کیا کریںتاکہ ان کے لئے سوال کرنے کی نوبت ہی نہ آئے۔
وَفِی الرِّقَاب۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر روپیہ خرچ کرنے کا ذکر کیا ہے جو قید میں پڑے ہوئے ہوں۔ اس جملہ میں ایک مضاف محذوف ہے جو فَکُ کا لفظ ہے۔ یعنی اصل عبارت یوں ہے کہ وَفِیْ فَکِّ الرِّقَابِ۔ اس گروہ کو پیچھے رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں میں زیادہ تر غیر مذاہب کے ہی قیدی ہو سکتے ہیں۔ اور قاعدہ ہے کہ اقرب کا حق دوسروں سے مقدم ہوتا ہے۔ ابن السبیل کو تو مہمان کے طور پر رکھا ہے کہ خواہ وہ کافر ہو اُسے بھی دو۔ مگر قیدی تو ایسے ہی لوگ ہونگے جو مسلمانوں کے مقابلہ میںلڑائی کے لئے آئے ہونگے۔ اس لئے فِی الرِّقَابِ کو بعد میں رکھا۔ لیکن یہ بھی اسلام کا کتنا بڑا احسان ہے کہ وہ اُسی شخص کے متعلق جو مسلمانوں کو مارنے کے لئے آیاتھا کہتا ہے کہ اسے روپیہ دے کر آزاد کرادو۔ اسی طرح فِی الرِّقَابِ میں قرضدار اور ضامن کو امداد دینا بھی شامل ہے۔ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے ہر قسم کے صدقات دیئے لیکن غلام آزاد کرنیکا موقعہ نہیں ملا میں جب حج کے لئے مکہ گیا تو آپ نے مجھے فرمایا کہ اگر سو دو سو روپیہ میں کوئی غلام مل جائے تو میری طرف سے آزاد کر دینا مگر مجھے کوئی غلام نہ ملا لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کی بھی توفیق عطا فرمادی۔ چنانچہ مرزا محمد اشرف صاحب محاسب صدر انجمن احمدیہ کی روایت ہے کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے دو غلام آزاد کر وا دیئے تھے۔
پھر فرماتا ہے وَاَتَامَ الصَّلوٰۃَ وَاٰتَی الذَّکوٰۃَ کامل نیک وہ شخص ہے جس نے نماز کو قائم رکھا اور زکوٰۃ دی۔ صلوٰۃ اور زکوٰۃ کے وسیع معنے ہیں۔ مگر شریعت نے ان کو اپنی ایک مخصوص اصطلاح نماز اور زکوٰۃ ہی مراد ہے۔ جن میں سے ایک خدا اور انسان کے تعلقات کو استوار کرتی اور دوسری انسان اور انسان کے باہمی تعلقات میں رابط قائم کرتی ہے۔ اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ صرف مال خرچ کرنے سے تم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل نہیں کر سکتے۔ بلکہ تمہارے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ تم نمازیں قائم کرو۔ اور زکوٰۃ ادا کرو۔ اور زکوٰۃ ادا کرو۔ گویا حقوق اللہ اور حقوق العباد کو جب تک ایک منظم رنگ میں ادا نہ کیا جائے اُس وقت تک انسان نیکی کا اعلیٰ مقام حاصل نہیں کر سکتا۔
پھر فرمایا۔ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عَاھَدُوْا وَالصَّابِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ وَالضَّرَّآئِ۔ نیکی اورتقویٰ کا اعلیٰ مقام جن لوگوں کو حاصل ہوتا ہے ان کی ایک علامت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ معاہدات کی پابندی کرتے ہیں اور اگر لوگ ان پر سختی کریں یاظلم سے کام لیں تو وہ صبر سے کام لیتے ہیں۔ گویا ایک طرف تو وہ اسلامی تمدن کو قائم کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں اور کبھی بدعہدی یا دھوکا بازی سے کام نہیں لیتے اور دوسری طرف اگر مذہبی قومی اور ملکی ضرورت کے لئے انہیں سختیاں بھی برداشت کرنی پڑیں تو وہ استقلال کے ساتھ ان کو برداشت کرتے ہیں اور استقامت کا اعلیٰ نمونہ دکھاتے ہیں۔ اس جگہ عہد سے مراد صرف زبانی عہد ہی نہیں بلکہ تمدن سے تعلق رکھنے والے تمام اہم مسائل بھی اس میں شامل ہیں۔ کیونکہ تمدن دنیا میں ایک دوسرے کے حقوق کی اسی رنگ میں حفاظت ہوتی ہے کہ ہر شخص سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنے دائرہ سے تجاوز نہ کرے اور دوسروں کے حقوق کو سلب کرنے کی کوشش نہ کرے۔ اور جب وہ ایسا کرتے ہیں تو تمدن کو قائم کرنے والے سمجھے جاتے ہیں اور اگر اس کے خلاف عمل کریں تو فتنہ و فساد پیدا کرنے والے قرار پاتے ہیں۔ اسلام چونکہ صلح و آشتی اور محبت کی فضا پیدا کرنا چاہتا ہے اس لئے اس نے کامل الایمان لوگوں کی یہ علامت بیان فرمائی ہے کہ وہ معاہدات کی سختی سے پابندی کرتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی بتایا کہ وَالصَّابِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ وَالضَّرَّآئِ وَھِیْنَ الْبَاْسِ۔ وہ فقرہ فاقہ اور تنگیوں میں صبر سے کام لیتے ہیں اور جسمانی دکھوں اور مصائب میں بھی صبر سے کام لیتے ہیں۔ اس جگہ اَلْبَاسَآئِ سے مالی مشکلات اور ضَرَّاء سے جسمانی مشکلات اور امراض وغیرہ مراد ہیں اور بَاْس سے شدتِ حرب مراد ہے۔ گویا ادنیٰ سے اعلیٰ ابتلائوں کی طرف ترقی کی ہے اور بتایا ہے کہ وہ کسی حالت میں بھی صبر کا دامن اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ یہ لڑائیاں جن کا اس جگہ ذکر کیا گیا ہے دوقسم کی ہو سکتی ہیں ایک وہ جو بھائیوں بھائیوں میں ہوں اور دوسری وہ جو غیروں سے ہوں۔ اگر آپس میں جھگڑا ہو تو وہ اَلصَّابِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ وَ الضَّرَّآئِ کے مطابق اپنے حقوق کو خود چھوڑنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اور سچے ہو کر جھوٹوں کا ساتذ لل اختیار کرتے ہیں اور اگر غیروں سے ہو تو وہ بھاگتے نہیں بلکہ دلیری کے ساتھ ان کا مقابلہ کرتے اور قیام امن کے لئے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیتے ہیں۔
اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ صَدَ قُوْا۔ فرماتاہے یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے صدق و وفا کا نمونہ دکھایا۔ وَاُولٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ اور یہی لوگ مصائب اور دکھوں سے نجات پانے والے ہیں۔ ان کی یہ خصوصیت اس لئے بیان کی کہ انسان کو سب سے زیادہ تکلیف اپنے حقوق کو پامال ہوتے دیکھ کر ہوتی ہے۔ دوسرے سے حسن سلوک کو تو وہ احسان سمجھتا ہے مگر جب کوئی شخص اُسے دکھ پہنچاتا ہے تو وہ اپنی ہتک محسوس کرتا ہے۔ پس چونکہ یہ ان کی غیر معمولی قربانی تھی کہ انہوں نے خدا کے لئے دوسروں کے مظالم سہے اس لئے فرمایا کہ ایسے لوگوں کو میں خصوصیت کے ساتھ پیش کرتا ہوں۔ یہ سچے اور راستباز لوگ ہیں جو مجھ پر ایمان لائے ہیں یعنی انہوں نے اپنے ایمان کو عملی طور پر سچا کر کے دکھا دیا ہے۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جو مصائب سے بچنے والے ہیں۔ کیونکہ مصائب اگر آسمانی ہوں تو ان کا علاج یہ ہوتا ہے کہ لوگ خداتعالیٰ پر ایمان لائیں اور اس کی عبادت کریں اور اگر تمدنی مصائب ہوں تو ان کا علاج یہ ہوتا ہے کہ تمدنی قوانین کو مدنظر رکھیں۔ اور یہ لوگ ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے احکام پر بھی عمل کرنے والے ہیں اور تمدنی خرابیوں سے بھی بچنے والے ہیں۔ پس یہ لوگ دنیا میں کبھی ذلیل نہیں ہو سکتے۔ جو قوم ذلیل یاہلاک ہو گی وہ یا تو خداتعالیٰ کو چھوڑ کر ہلاک ہو گی یا تمدنی قوانین کو نظر انداز کر کے اپنی ہلاک مول لے گی۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ




عَذَاب’‘ اَلِیْم’‘ o
۹۲؎ حل لغات:۔ اَلْقِصَامُن: اَنْ یُّفْعَلَ بِہٖ مِثْلَ مَا فَعَلَہ‘ مِنْ قَتْلٍ اَوْقَطْعٍ اَوْضَرْبٍ اَوْ جَرْحٍ (لسان) عربی زبان میں قصاص کے معنے یہ ہیں کہ کسی شخص سے وہی سلوک کیا جائے جو اس نے قتل یا قطع یا ضرب یا زخم کرنے کی صورت میں دوسرے سے کیا ہے۔
تاج العروس میں لکھا ہے۔ اَلْقِصَاصُ اَلْقَتْلُ بِالْقَتْلِ وَالْجُرْحُ بِالْجُرْحِ کہ قصاص اس چیز کا نام ہے کہ قتل کے مقابلہ میں قتل اور زخم کے مقابلہ میں زخم کیا جائے۔
تفسیر:۔ بعض لوگ اپنی نادانی سے یہ سجھتے ہیں کہ اسلام نے قتل کے بارہ میں جوکچھ بیان کیا ہے صرف بائیبل کے تتبع میں کیا ہے خود اصولی رنگ میں اس بارہ میں کوئی ہدایت نہیں دی ۔ ان کے نزدیک یہودیوں کو جو یہ کہا گیا تھا کہ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَیْنَ بِالْعَیْنَ بِالْعَیقنِ وَ الْاَ نٰفَ بِالْاَ نْفِ وَالْاُ ذُنَ بِالْاُذُنِ وَالسِّنُّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوْحُ قِصَاص’‘(مائدہ آیت۴۶) یعنی جان کے بدلہ میں جان اور آنکھ کے بدلہ میں آنکھ اور ناک کے بدلہ میں ناک اور کان کے بدلہ میں کان اور دانت کے بدلہ میں دانت ار زخموں کے بدلہ میں زخم برابر کا بدلہ ہیں اس حکم کو قرآن کریم نے اس جگہ دُہرا دیا ہے مگر ان کا یہ خیال محض قلتِ تدبر کا نتیجہ ہے ۔ میرے نزدیک بنی نوع انسان کی مذہبی، سیاسی، تمدنی اور عائلی زندگی کے ساتھ تعلق رکھنے والا کوئی مسئلہ بھی ایسا نہیں جسے اسلام نے پوری وضاحت کے ساتھ بیان نہ کیا ہو۔ بیشک وہ پہلے مذاہب کی تعلیموں کا بھی بعض مقامات پر ذکر کرتا ہے مگر نفس مسئلہ پردہ پہلے خود روشنی ڈالتا ہے اور اس کے متعلق ایک جامع اور کامل تعلیم لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے اس کے بعد وہ غیر مذاہب ولوں پر حجت تمام کرنے یا انہیں شرمندہ کرنے کے لئے ان کی تعلیموں کو بھی ان کے سامنے پیش کرتا ہے۔ تاکہ ان کے دلوں میں یہ احساس پیدا ہو کہ مذہب کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہوئے انہوں نے اس کے احکام کو کس طرح پسِ پشت پھینک رکھا ہے۔ اسج گہ بھی قصاص کی بنی نوع انسان کو جو تعلیم دی گئی ہے یہ یہودیوں کی اتباع میں نہیں دی گئی بلکہ ان احکام کے سلسلہ میں دی گئی ہے جو اکیسویں رکوع سے دئے جا رہے ہیں۔ چنانچہ دیکھ لو پچھلی آیات میں بتلایا گیاتھا کہ کامل الایمان لوگوں کی علامات یہ ہوتی ہیں کہ وہ بَاْسَآئَ میں بھی صبر کرتے ہیں اور ضَرَّآئَ میں بھی صبر کرتے ہیں اور حِیْنَ البَاْس بھی صبر کرتے ہیں یعنی خواہ ان پر مالی مشکلات آئیں اور فقروفاقہ تک ان کی نوبت پہنچ جائے تب بھی وہ جادہ استقامت پر قائم رہتے ہیں اور خواہ جسمانی مشکلات آئیں اور بیماریاں ان کو گھیر لیں تب بھی وہ صبر کرتے ہیں۔ اور خواہ لڑائیوں میں مارے جائیں تب بھیی وہ دشمن سے مرعوب نہیں ہوتے۔ اس پر سوال پیدا ہوتا تھا کہ آخر یہ صبر کا سلسلہ کب تک لے گا۔ کیا لوگ ہمیں مارتے ہی چلے جائیں اور ہم خاموش بیٹھے رہیں اور اگر ایسا ہو تو ہماری زندگی کی کیا صورت ہو گئی؟ اس لئے فرمایا کہ تمہارا کام تو یہی ہے کہ تم صبر کرو لیکن کچھ اور لوگ جن کے سپرد حکومت کا نظام کیا گیا ہے ان کا فرض ہے کہ وہ ایسے ظالموں سے بدلہ لیں اور انہیں کیفر کردار تک پہنچائیں چنانچہ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلیٰ میں انہی لوگوں کو مخاطب کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ تم پر قصاص فرض کیا گیا ہے اسجگہ ’’تم‘‘ سے صرف حکام مراد ہیں جو لاء اینڈ آرڈر یعنی نظم و ضبط کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ عام لوگ مراد نہیں۔ اور کُتِبَ کہہ کر بتایا ہے کہ حکام کا فرض ہے کہ وہ قصاص لیں ۔ حکام کو یہ اختیار نہیں کہ وہ معاف کر دیں۔ الَصَّابِرِیْنَ فِی البَاْسَآئِ وَالضَّرَّآء وَحِیْنَ الْبَاسِ میں تو عوام مخاطب تھے مگر کُتِبَ عَلَیْکُمْ میں صرف حکام سے خطاب کیا گیا ہے کہ وہ قصاص لیں۔ اور فِی الْقَتْلٰی کہہ کر تصریح کر دی گئی ہے کہ اس میں جروح شامل نہیں۔ اور درحقیقت یہی وہ آیت ہے جس میں قتل کی سزا کے متعلق اسلامی تعلیم بیان کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ قتل کی سزا قتل ہے۔ اور یہ عام حکم ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فِی الْقَتْلیٰ فرمایا ہے کہ مقتولوں کے متعلق یہ حکم ہے یہ کوئی سوال نہیں کہ وہ مقتول کون ہو۔ اور کس قوم سے تعلق رکھتا ہو۔ اس آیت کے سوا قتل ِ عمد کی دنیوی سزا کا ذکر قرآن کریم کی کسی اور آیت میں نیہں ہے پس یہی آیت ہے جس پر اسلامی فقہ کی بنیاد ہے اور اس میں مسلمان اور غیر مسلمان میں کوئی امتیاز نہیں کیا گیا۔ نہ اس میں یہ ذکر ہے کہ کس کس آلہ سے قتل کرنے والے کی سزا قتل ہے بلکہ خواہ کسی آلہ سے کوئی شخص قتل کرے۔ اس کو قتل کیا جائیگا۔ بلکہ حدیثوں سے تو یہاں تک ثابت ہے کہ ایک قتل کے کیس میں بعض دفعہ ایک سے زیادہ افراد کو بھی مارا گیا۔ چنانچہ لکھا ہے کہ صَنْعَاء میں ایک شخص کو کئی لوگوں نے مل کر قتل کر دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سب کو جو تعداد میں سات تھے قتل کروادیا۔ اور فرمایا کہ اگر سارا شہر قتل میں شریک ہوتا تو میں سب کو قتل کرادیتا۔ (طحادی) اسی طرح حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ لَایَحِلُّ دَمُ اٍمْرِ ئٍ مُسْلِمٍ یَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاِنِّی رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَّابِاِحْدَیْ ثَلَاثٍ اَلثَّیِّبُ الزَّانِیْ وَالنَّفْسُ بِالنَّفْسِ وَالتَّارِکُ لِدِیْنِہِ الْمُفَارِقُ لِلْجَمَا عَۃِ(مسلم کتاب القصاص) یعنی صرف تین گناہ ایسے ہیں جن کی بنا پر مسلمان کو قتل کرنا جائز ہے ۔ اول شادی شدہ شخص ہو اور پھر زنا کرے۔ دوم کوئی شخص قاتل ثابت ہو جائے ۔ سوم جو شخص اسلام کو چھوڑ کر جماعت مسلمہ سے الگ ہو جائے۔ یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ صحیح مسلم میں تو صرف یہی الفاظ بیان کئے گئے ہیں مگر نسائی میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ رَجُل’‘ یَخْرُجُ مِنَ الْاِسْلَامِ ئُحَارِبُ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ وَ رَسُوْلَہ‘ فَیُقْتَلُ اَوْ یُصَلَّبُ اَوْ یُنْفیٰ مِنَ الْاَرضِ۔ (نسائی جلد ۲ کتاب تحریم الدم باب الصلب) یعنی وہ شخص جو اسلام کو چھوڑ کر مسلمانوں سے جنگ شروع کر دے۔ اس کے متعلق جائز ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے یا صلیب پر لٹکا دیا جائے یا اُسے جلا وطن کر دیا جائے۔یہ حدیث بتاتی ہے کہ عورت مرد کی کوئی خصوصیت نہیں بلکہ جو بھی قتل کریگا اسے قتل کیا جائیگا اور جان کے بدلہ جان لی جائیگی۔ اسی طرح مسند احمد بن جنبل بخاری۔ نسائی اور ابن ماجہ میں حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلیَّ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ قَتَلَ مُعَاھِدًا لَمْ یَرِحْ رَائِحَۃَ الْجَنَّۃِ یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص کسی کافر معاہد کو مار دے وہ جنت کی خوشبو نہیں سونکھے گا۔ اور یہی سزا قرآن کریم میں ایک مسلمان کے قاتل کی بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَنْ یَّقْتُلْ مُوْ مِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَآئُ ہ‘ جَھَنَّمَ خَالِدًا فِیْھَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہ‘ وَاَعَدَّ لَہ‘ عَذَابًا عَظِیْمًا(نساء آیت۹۴) یعنی جو شخص کسی مومن کو دیدہ دانستہ قتل کر دے اس کی سزا جہنم ہو گی وہ اس میں دیر تک رہتا چلا جائے گا اور اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہو گا اور اُسے اپنے قرب سے محروم کر دیگا اور اس کے لئے بہت بڑا عذاب تیار کریگا۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بھی اس کی تائید کرتا ہے ۔ چنانچہ ابو جعفر طحاوی اپنی کتاب ’’شرح معانی الاثار‘‘ میں لکھتے ہیں۔ اِنَّ النَّبِیَّ صِلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اُتِیَ بِرَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ قَدْ قَتَلَ مُعَاھِدًا مِنْ اَھْلِ الذِّمَّۃِ فَاَمَرَ بِہٖ فَضُرِبَ عُنُقُہ‘ وَقَالَ اَنَا اَوْلٰی مَنْ وَنٰی بِذِ مَّیِہٖ یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک مسلمان لایا گیا جس نے ایک معاہد کا فر کو جو اسلامی حکومت کی رعایا بن چکا تھا قتل کر دیا تھا آپ نے اس کے قتل کئے جانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ میں عہد پورا کرنے والوں میں سے سب سے زیادہ عہد کی نگہداشت رکھنے والا ہوں(نیل الاوطار جلد۶ صفحہ۲۸۳) اسی طرح طبرانی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت روایت کی ہے کہ ایک مسلمان نے ایک ذمی کو قتل کر دیا تو آپ نے اس مسلمان کے قتل کئے جانے کا حکم دے دیا۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ لَا یُقْتَلُ مُوْمِن’‘ بِکَافِرٍ کہ کوئی مومن کسی کافر کے بدلہ میں قتل نہیں کیا جائیگا۔ مگر ساری حدیث دیکھنے سے بات حل ہو جاتی ہے۔ حدیث کے اصل الفاظ یہ ہیں کہ لَا یُقْتَلُ مُوْمِن’‘ بِکَافِرٍ وَلَا ذُوْعَھْدًفِیْ عَھْدِہٖ۔ اس حدیث کا یہ دوسرا فقرہ کہ وَلَاذُوْ عَھْدٍفِیْ عَھْدِہٖ اس کے معنوں کو حل کر دیتا ہے اگر اس کے یہ معنے ہوں کہ کافر کے بدلہ میں مسلمان نہ مارا جائے تو پھر ذُوْ عَھْدٍ کے یہ معنے کرنے ہونگے کہ وَلَا ذُوْ عَھْدٍ بِکَافِرٍ کہ کسی ذوعہد کو بھی کافر کے بدلہ میں قتل نہ کیا جائے۔ حالانکہ اسے کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا۔ پس یہاں کافر سے مراد محارب کافر ہے نہ کہ عام کافر۔ تبھی فرمایا کہ ذمی کافر بھی محارب کافر کے بدلہ میں نہیں مارا جائیگا۔
اب ہم صحابہؓ کا طریق عمل دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ صحابہؓ بھی غیر مسلم قاتل کو قتل کی سزا ہی دیتے تھے۔ چنانچہ طبری جلد ۵ صفحہ۴۴ میں قماذبان ابن ہر مزان اپنے والد کے قتل کا واقعہ بیان کرتاہے ۔ ہرمزان ایک ایرانی ریئس اور مجوسی المذہب تھا اور حضرت عمر ؓ خلیفہ ثانی کے قتل کی سازش میں شریک ہونیکا شبہ اس پر کیا گیا تھا۔ اس پر بلا تحقیق جوش میں آکر عبید اللہ بن عمرؓ نے اس کو قتل کر دیا وہ کہتا ہے۔ کَانَتِ الْعَجْمُ بِالْمَدِیْنَۃِ یَسْتَرُوْحُ بَعْضپھَا اِلیٰ بَعْض، فَمَرَّ فیروز بِاَبِیْ وَمَعَہ‘ خَنْجَر‘ لَہ‘ رَاسَانِ فَتَنَارَ لَہ‘ مَنْہُ۔ وَقَالَ مَاتَمْنَعُ بِھٰذِہِ الْبِلَادِ فَقَالَ اَبُسُّ بِہٖ فَرَاہُ رَجُل’‘ فَلَمَّا اُصِیْبَ عُمَرُ قَالَ رَاَیْتُ ھٰذَا مَعَ الْھُرِ مَزَانِ دَفَعَہ‘ اِلیٰ فِیْرَوزفَاَقْبَلَ عُبَیْدُ اللّٰہِ فَقَتَلَہ‘ فَلَمَّاوُ لِّیَ عُثَمَانُ وَعَانِیْ فَاَمْکَنَنِیْ مِنْہُ ثُمَّ قَالَ یَابُنَیَّ ھٰذَا قَاتِلُ اَبِیْکَ وَاَنْتَ اَوْلیٰ بِہٖ مِنَّا فَاذْھَبْ فَاَقْتُلْہُ فَخَرَجْتُ بِہٖ وَ مَافِی الْارْضِ اَحَد’‘ اِلَّا مَعِی اِلّا اِنَّھُمْ یَطْلُبُوْنَ اِلَیَّ فِیْہِ فَقُلْتُ لَھُمْ اَلِیْ قَتْلُہ‘ قُالُوْا نَعَمْ وَسَبُّوْ عُبَیْدَ اللّٰہِ فَقُلْتُ اَفَلَکُمق اَنْ تَمْنَعُوْہُ قَالُوْ ا لَا وَسَبُّوۃ فَتَرَکْنُہ‘ لِلّٰہِ وَلَھُمْ۔ فَلعْتَمَلُوْنِیْ فَوَ اللّٰہِ مَابَلَغْتُ الْمَنْزِلَ اِلَّا عَلیٰ رُئُوْسِ الرِّجَالِ وَاَکُفِّھِمْ۔ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ایرانی لوگ مدینہ میں ایک دوسرے سے ملے جُلے رہتے تھے (جیسا کہ قاعدہ ہے کہ دوسرے ملک میں جاکر وطنیت نمایاں ہو جاتی ہے) ایک دن فیروز (قاتل عمرؓ خلیفہ ثانی) میرے باپ سے ملا اور اس کے پاس ایک خنجر تھا جو دونوں طرف سے تیز کیا ہوا تھا۔ میرے باپ نے اس خنجر کو پکڑ لیا اور اس سے دریافت کیا کہ اس ملک میں تو اس خنجر سے کیا کام لیتا ہے(یعنی یہ ملک تو امن کا ملک ہے اس میں ایسے ہتھیاروں کی کیا ضرورت ہے) اُس نے کہا کہ میں اس سے اونٹ ہنکانے کا کام لیتا ہوں۔ جب وہ دونوں آپس میں باتیں کر رہے تھے اُسوقت کسی نے ان کو دیکھ لیا اور جب حضرت عمرؓ مارے گئے تو اس نے بیان کیا کہ میں نے خود ہر مزان کو یہ خنجر فیروز کو پکڑاتے ہوئے دیکھا تھا۔اِس پر عبید اللہ(حضرت عمرؓ کے چھوٹے بیٹے)نے جا کر میرے باپ کو قتل کر دیا ۔ جب حضرت عثمانؓ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے مجھے بلایا اور عبیداللہ کو پکڑ کر میرے حوالے کر دیا اور کہا کہ اے میرے بیٹے! یہ تیرے باپ کا قاتل ہے اور تو ہماری نسبت اس پر زیادہ حق رکھتا ہے پس جا اور اس کو قتل کر دے میں نے اس کو پکڑ لیا اور شہر سے باہر نکلا۔ راستہ میں جو شخص مجھے ملتا میرے ساتھ ہو جاتا لیکن کوئی شخص مقابلہ نہ کرتا۔ وہ مجھ سے صرف اتنی درخواست کرتے تھے کہ میں اسے چھوڑ دوں۔ پس میں نے سب مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہا کہ کیا میرا حق ہے کہ میں اسے قتل کردوں۔ سب نے جواب دیا کہ ہاں تمہارا حق ہے کہ اسے قتل کر دو اور عبداللہ کو بھلا بُرا کہنے لگے کہ اس نے ایسا بُرا کام کیا ہے پرھ میں نے دریافت کیا کہ کیا تم لوگوں کو حق ہے کہ اسے مجھ سے چھڑالو انہوں نے کہا کہ ہرگز نہیں اور پھر عبداللہ کو بُرا بھلا کہا۔ کہ اس نے بلا ثبوت اس کے باپ کو قتل کر دیا اس پر میں نے خدا اور ان لوگوں کی خاطر اس کو چھور دیا۔ اور مسلمانوں نے فرطِ مسرت سے مجھے اپنے کندھوں پر اٹھالیا۔ اور خداتعالیٰ کی قسم میں اپنے گھر تک لوگوں کے سروں اور کندھوں پر پہنچا اور انہوں نے مجھے زمین پر قدم تک نہیں رکھنے دیا۔ اس روایت سے ثابت ہے کہ صحابہؓ کا طریق عمل بھی یہی رہا ہے کہ وہ غیر مسلم کے مسلم قاتل کو سزائے قتل دیتے تھے۔ اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ خواہ کسی ہتھیار سے کوئی شخص مارا جائے وہ مارا جائیگا۔ اسی طرح یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ قاتل کو گرفتار کرنے والی اور اس کو سزا دینے والی حکمومت ہی ہے۔ کیونکہ اس روایت سے ظاہر ہے کہ عبداللہ بن عمرؓ کو گرفتار بھی حضرت عثمانؓ نے ہی کیا اور اس کق قتل کے لئے ہر مزان کے بیٹے کے سپرد بھی انہوں نے ہی کیا۔ نہ ہرمزان کے کسی وارث نے اس پر مقدمہ چلایا اور نہ اس نے گرفتار کیا۔
اس جگہ اس شبہ کا ازالہ کردینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ قاتل کو سزا دینے کے لئے آیا مقتول کے وارثوں کے سپر دکرنا چاہیے جیسا کہ حضرت عثمانؓ نے کیا یا خود حکومت کو سزا دینی چاہیے۔ سو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ معاملہ ایک جزوی معاملہ ہے اس لئے اس کو اسلام نے ہر زمانہ کی ضرورت کے مطابق عمل کرنے کے لئے چھوڑ دیا ہے قوم انے تمدن اور حالات کے مطابق جس طریق کو زیادہ مفید دیکھے اختیار کر سکتی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دونوں طریق ہی خاص خاص حالات میں مفید ہوتے ہیں۔
اس کے بعد فرماتا ہے ۔ اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْاُنْثٰی بِالْاُنْثٰی۔ آزاد آزاد کے بدلہ میں غلام غلام کے بدلہ میں اور عورت عورت کے بدلہ میں قتل کی جائے ۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ آزاد مقتول کے بدلہ میں کسی آزاد کہ ہی قتل کیا جائے خواہ اس کا قاتل کئی غلام ہی ہو۔ اور غلام مقتول کے بدلہ میں کسی غلام کو ہی قتل کی جائے خواہ اس کا قاتل کوئی حُرّ ہو اور عورت مقتول کے بدلہ میں کسی عورت کو ہی قتل کیا جائے خواہ اس کا قاتل کوئی مرد ہو۔ کیونکہ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَامُن نِی الْقَتْلیٰ میں حکم پہلے بیان ہوچکا ہے۔ درحقیقت یہ جملہ مستائفہ ہے۔ اور جملہ مستائفہ اس لئے آتا ہے کہ پہلے جملہ میں جو سوال مقدر ہو اس کو بیان کئے بغیر نئے جملہ میں جواب دیا جائے اور بغیر عطف کے اس کو بیان کیا جائے(شرح مختصر معانی مولفہ ابن یعقوب و بہائوالدین جلد۳ مطبوعہ مصر صفحہ۵۴) اس جگہ بھی یہ جملہ ایک سوال مقدر کے جواب کے لئے لایا گیا ہے۔ اور اس میں عرب کی ان رسوم کا قلع قمع کیا یا ہے جو ان میں عام طور پر رائج تھیں۔ اور وہ سوال مقدر یہ ہے کہ کیا اس حکم سے عرب کا پہلا طریق موقوف ہو جائیگا؟ سو فرمایا کہ ہاں اور اس کی چند مثالیں بیان کر دیں کہ یہ سب موقوف ہیں۔ چنانچہ اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَ الْاُنْثٰی بِالْاُنْثیٰ میں ان کی صرف چندمثالیں بیان کی گئی ہیں نہ کہ کل رسوم گویا ھَلُّمَ جَرٍّا کی طرح کا یہ فقرہ ہے اور مراد یہ ہے کہ اس حکم کے ذریعہ وہ تمام امتیاز مٹا دیئے گئے ہیں جو زمانہ جاہلیت میں رائج تھے۔
اصل بات یہ ہے کہ عربوں میں بعض خاندانوں کو بڑا سمجھا جاتا تھا اور بعض کو چھوٹا ۔ بعض کو آزاد سمجھا جاتا تھا اور بعض کو غلام اور جب کسی سے کوئی جرم سرزد ہوتا ہے تو وہ لوگ یہ دیکھاکرتے تھے کہ آیا مجرم غلام ہے یا آزاد۔ اور اگر غلام ہے تو کسی بڑے آدمی کا غلام ہے یا چھوٹے کا۔ مرد ہے یا عورت اعلیٰ خاندان میں سے ہے یا ادنیٰ خاندان میں سے امیر ہے یا غریب۔ اور سزا میں ان تمام امور کو ملحوظ رکھا جاتا اور آزاد مردوں اور عورتوں کو وہ سزائیں نہ دی جائیں جو غلام مردوں اور عورتوں کو دی جاتی تھیں۔ اسی طرح اعلیٰ خاندانوں کے افراد کو وہ سزائیں نہیں دی جاتی تھیں جو ادنیٰ خاندانوں کے افراد کو دی جاتی تھیں۔ چونکہ اسلام نے کُتِبَ عَلَیْکُمْ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی میں یہ عام حکم دے دیا تھا کہ ہر ایک شخص جو قتل کی اجائے اس کا قاتل لازماً قتل ہو خواہ عورت مرد کو مارے یا مرد عورت کو مارے۔ خواہ آزاد غلام کو مارے یا غلام آزاد کہ مارے۔ خواہ ایک شخص کو جماعت مارے اور خواہ کافر معاہد کو مسلمان مارے اس لئے طبعی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ آئندہ قصاص کیا پہلے طریق پر بھی جو جاہلیت میں رائج تھا لیا جائیگا یا نہیں۔ سو اس کا جواب دیا کہ نہیں اور ہرگز نہیں۔ وہ امتیازات اب مٹائے جاتے ہیں۔ اور اس کے لئے صرف تین مثالیں دے دیں۔ باقی مثالیں اس نے چھوڑ دی ہیں۔ کیونکہ عربی زبان میں قاعدہ ہے کہ اگر کسی جگہ تین مثالیں بیان ہوں۔ تو اس جگہ ھَلُمَّ جَرًّا ساتھ مل جاتا ہے اور سب مثالیں انہی تین مثالوں میں شامل سمجھی جاتی ہیں۔ اس جگہ بھی تین مثالوں سے مراد ہر قسم کی مثال ہے اور یہ ہدایت دی گئی ہے کہ کواہ قاتل حُر اور مقتول عبد ہو یا قتل مرد اور مقتول عورت ہو یا قاتل عورت اور مقتول مرد ہو جو بھی قتل کرے اسے قتل کی سزا دو چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا عمل بھی اس کی تصدیق کرتا ہے آپ ؓ نے ایک عورت کے بدلہ میں مرد کوقتل کیا(مسلم جلد ۲ کتاب القصاص و نیل الاوطار جلد ۶ صفحہ۲۸۹) اسی طرح غلام کے بدلہ میں آزاد کے مارے جانیکا حکم دیا۔ جیسے سمرۃ ابن جندب کی روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مَنْ فَمَّلَ عَبْدَہُ قَتَلْنَا ہُ وَمَنْ جَدَعَہ‘ جَدَعْنَا ہُ یعنی جوشخص اپنے غلام کو قتل کرے گا ہم اسے اس کے بلدہ میں قتل کریں گے اور جوشخص اپنے غلام کے ہاتھ پائوں کاٹیگا۔ ہم اس کے بدلہ میں اس کے ہاتھ پائوں کاٹیں گے۔(ابن ماجہ ابواب الدیات باب ھل یقتل الحر بالعبد)
اس کے بعد فرمایا ہے فَمَنْ عُفِیَ لَہ‘ مِنْ اَخِیْہِ شَیْ ء’‘ فَاتِّبَاع’‘ بِالْمَعْرُوْفِ وَاَدَآء’‘ وَاَدَآء’‘ اِلَیْہِ بِاِحْسَانٍ یعنی اگر کسی مقتول کے وارث کسی مصلحت کے ماتحت قاتل کو اس کے جرم کا کچھ حصہ معاف کر دیں تو ان کو اختیار ہے۔
بعض لوگ اس سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ حکومت کو قاتل کے گرفتر کرنے یا اس کو سزا دینے کا کوئی اختیار نہیں بلکہ یہ تمام اختیار مقتول کے ورثاء کو حاصل ہے۔ مگر یہ درست نہیں بلکہ یہ تمام اختیار مقتول کے ورثاء کو حاصل ہے مگر یہ درست نہیں اس جگہ صرف یہ بتایا گیا ہے کہ اگر مقتول کے ورثاء احسان کے طور پر قاتل کو معاف کر دیں تو حکومت کو آن کی خواہش کا احترام کرنا چاہیے اس حق معافی کے سوا رشتہ داروں کا کوئی تعلق قاتل کے ساتھ نہیں ۔ قاتل کو گرفتار کرنا یا اس پر مقدمہ چلانا حکومت ہی کاکام ہے اور اُسی کے ذمہ ہے جیسا کہ کُتِبَ عَلَیْکُمْ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلیٰ میں حکومت کے ذمہ وار افسران کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کہ وہ قتل کے واقعات کے چھان بین کریں اور مجرم کو قرار واقعی سزا دلوائیں۔
اسلام نے مقتول کے وارثوں کو عفو کا جو اختیار کیا ہے اس کے متعلق کہاجا سکتا ہے کہ اس میں بعض دفعہ نقصانات کا بھی احتمال ہو سکتا ہے۔ مثلاً ہو سکتا ہے کہ کسی شخص کو اس کے وارث ہی قتل کروا دیں اور پھر قاتل کو معاف کردیں۔ یہ شبہ ایک معقول شبہ ہے۔ مگر اسلام نے اس قسم کے خدشات کا بھی ازالہ کر دیا ہے اور گو ایک طرف اس نے دو مخالف خاندانوں میں صلح کرانے کے لئے عفو کی اجازت دی ہے مگر دوسری طرف ایسی ناجائز کاروائیوں کی بھی روک تھام کر دی ہے۔ چنانچہ عفو کے ساتھ اس نے اصلاح کی شرط لگا دی جس کے معنے یہ ہیں کہ عفو اسی وقت جائز ہوتا ہے جب اس کے نتیجہ میں اصلاح کی اُمید ہو۔ اگر عفو باعثِ فساد ہے تو ایسا عفو ہر گز جائز نہیں اور حکومت باوجود وارثوں کے عفو کر دینے کے اپنے طور پر سزا دے سکتی ہے۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ کا ایک واقعہ جو طبری نے لکھا ہے بتاتا ہے کہ ابتدائے اسلام سے اس احتیاط پر عمل ہوتا چلا آیا ہے وہ واقعہ اس طرح ہے کہ عدل بن عثمان بیان کرتے ہیں۔ رَاَیْتُ عَلِیًّا عَمَّ خَارِ جًا مِنْ ھَمْدَانَ فَرَ اَ ی فِئَتَیْنِ تَقْتُلَانِ فَفَرَّقَ بَیْنَھُمَا ثُمَّ مَعنٰی فَسَمِعَ صَوْتًا یَا غَوْ ثًابِاللّٰہِ فَخَرَجَ یَحُضُّ نَحْوَہ‘ حَتّٰی سَمِعْتُ خَفْقَ فَعْلِہِ وَھُوَ یَقُوْلُ اَتَاکَ الْغَوْثُ فَاِذَا رَجُل’‘ یُلَا زِمُ رَجُلًًا فَقَالَ یَا اَمِیْرَ الْمُوْمِنِیْنَ بِعْتُ مِنْ ھٰذَا ثَوْ بًا بِتِسْعَۃِ وَرَاھِمَ وَشَرَطْتُ عَلَیْہِ اَنْ لَّا ُٰعْطِیَنِیق مَغْمُوْرًا وَلَا مَقْطُوْ مًا وَکَانَ شَرْ طُھُمْ یَوْ مَئِذٍ فَاَتَیْتُہ‘ بِھٰذِہِ الدَّرَاھِمِ لِیُبَدِّلَھَالِیْ فَاَ بیٰ فَلَزِ مْتُہ‘ فَلَطَمَنِیْ فَقَالَ اَبْدِ لْہُ فَقَالِ بِیّنَتَکَ عَلَی اللَّطْمَۃِ فَاَتَا ہُ بِالْبَیِّنَۃِ فَاَ قْعَدَہ‘ ثُمَّ قَالَ دُوْنَکَ فَاَقِصِّ فَقَالَ اِنِّیْ قَدْ عَفَوْتُ یَا اَمِیْرَا لْمُوْ مِنِیْنَ قَالَ اِنَّمَا اَرَدْتُ اَنْ اَعْتَاطَہُ فِیْ عَقِّکَ ثُمَ ضَرَبَ الرَّجُلَ نِسْعَ دُرَّاتٍ وَقَالَ ھٰذَا حَقُّ السُّلْطَانِ۔ یعنی میں نے دیکھا کہ حضرت علی ؓ ہمدان سے باہر مقیم تھے کہ اسی اثناء میں آپ نے دو گروہوں کو آپس میں لڑتے ہوئے دیکھا۔ اور آپ نے ان میں صلح کر ادی لیکن ابھی تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ آپ کو کسی شخص کی آواز آئی۔ کہ کوئی خدا کے لئے مدد کو آئے۔ پس آپ تیزی سے اُس آواز کی طرف دوڑے حتیٰ کہ آپ کے جوتوں کی آواز بھی آرہی تھی اور آپ کہتے چلے جاتے تھے کہ ’’مدد آگئی مد د آگئی۔‘‘ جب آپ اس جگہ کے قریب پہنچے تو آپ نے دیکھا کہ ایک آدمی دوسرے سے لپٹا ہوا ہے ۔جب اُس نے آپ کو دیکھا تو عرض کیا کہ اے امیر المومنین: میں نے اس شخص کے پاس ایک کپڑا نو درہم کو بیچا تھا اور شرط یہ تھی کہ کوئی روپیہ مشکوک پا کٹا ہوا نہ ہو۔ اور اس نے اس کو منظور کر لیا تھا۔ لیکن آج جو میں اس کو بعض ناقص روپے دینے کے لئے آیا تو اس نے بدلانے سے انکار کر دیا۔ جب میں پیچھے پڑا تو اس نے مجھے تھپڑ مارا۔ آپ نے مشتری سے کہا کہ اس کو روپے بدل دے پھر دوسرے شخص سے کہا کہ تھپڑ مارنے کا ثبوت پیش کر جب اس نے ثبوت دے دیا تو آپ نے مارنے والے کو بٹھا دیا اور اُسے کہا کہ اس سے بدلہ لے۔ اس نے کہا اے امیر المومنین! میں نے اس کو معاف کر دیا۔ آپ نے فرمایا تو نے تو اس کو معاف کر دیا مگر میں چاہتا ہوں کے تیرے حق میں احتیاط سے کام لوں۔ معلوم ہوتا ہے وہ شخص سادہ تھا اور پنے نفع نقصان کو نہیں سمجھ سکتا تھا اور پھر اس شخص کو ساتھ کوڑے مارے اور فرمایا اس شخص نے تو تجھے معاف کر دیا تھا مگر یہ سزا حکومت کی طرف سے ہے۔
غرض اسلام نے مظلوم کو یا بصورت مقتول اس کے ورثاء کو مجرم کا جرم معاف کردینے کی تو اجازت دی ہے مگر ساتھ ہی حکومت کو بھی اختیار دیا ہے کہ اگر وہ یہ محسوس کرے کہ مظلوم کم فہم ہے یا ظالم کو معاف کردینے سے اس کی دلیری اور شوخی اور بھی بڑھ جائے گی یا مقتول کے ولی اپنے نفع نقصان کو ی پبلک کے نفع نقصان کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے یا خود شریک جرم ہیں تو اس صورت میں باوجود ان کے معاف کر دینے کے خود مجرم کو سزا دے اور اس سے بہتر اور کونسی تجویز دنیا میں امن اور صلح کے قیام کی ہو سکتی ہے۔ اگر ایک طرف مجرموں کو معاف کر دینے سے خطرات بڑھ جاتے ہیں تو دوسری طرف ایسا بھی دیکھا جاتا ہے کہ ایک شخص جرم تو کر لیتا ہے مگر بعد میں وہ خود بھی سخت پشیمان ہوتا ہے اور اس کے رشتہ داروں کی بھی ایسی نازک حالت ہوتی ہے کہ رحم کا تقاضا ہوتا ہے کہ اُسے چھوڑ دیا جائے۔ اور خود جن لوگوں کے خلاف وہ جرم ہوتا ہے وہ بھی یا اُن کے ولی بھی چاہتے ہیں کہ اُس سے درگذر کریں۔ ایسی صورت میں دونوں کے تقاضا کو پورا کرنے کے لئے موجودہ تمدن نے کوئی علاج نہیں رکھا۔ صرف اسلام ہی ایسا مذہب ہے جس سے تیرہ سو سال پہلے سے ساتویں صدی کے تاریک تمدن میں ایسے اعلیٰ درجہ کے تمدن کی بنیاد رکھی جس کی نظیر بیسویں صدی کا دانا مدبر بھی پیش نہیں کر سکتا۔ لیکن جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے عفو سے کام لینا حاکم کا کام نہیں بلکہ مقتول کے اولیاء اور ورثاء کا کام ہے ، ہاں اگر حاکم مجاز دیکھے کہ عفواپنے اندر مضرات کے بعض پہلو رکھتا ہے تو وہ معافی کو کالعدم بھی قرار دے سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت علیؓ کے واقعہ سے ثابت کیا جا چکا ہے۔ لیکن اگر وہ شخص جسکا حق ہے قصاص لے معاف نہ کرنا چاہے تو حکام کا فرض ہے کہ وہ لازماً قصاص لیں۔ مِنْ اَخِیْہِ کہ کر اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ بعض اوقات دشمنی اور عداوت اور بُغض سے قتل نہیں ہوتا ہے اس لئے اَخِیْ کہہ کر قاتل کے لئے رحم کی تحریک کر دی کہ آخر وہ تمہارا بھائی ہے۔ اگر اُس سے نادانستہ طور پر غلطی ہو گئی ہے تو تم جانے دو۔ اور اُسے معاف کر دو۔ اِدھر قاتل کو بھی شرمندہ کیا کہ تجھے شرم نیہں آتی کہ تو نے اپنے بھائی کو قتل کیا ہے۔
شَیْ ء’‘ اس جگہ نکرہ کے طور پر استعمال ہوا ہے اور عربی زبان میں نکرہ تعظیم کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور تحقیر کے لئے بھی ۔ پس فَمَنْ عُفِیَ لَہ‘ مِنْ اَخِیْہِ شَیْ ء’‘ سے مراد کلی معافی بھی ہو سکتی ہے ور جزوی بھی یعنی قتل نہ کرنا دیت لے لینا یا دیت میں بھی کمی کر دینا جائز ہے اور قتل نہ کرنا اور دیت بھی نہ لینا جائز ہے۔ دونوں صورتوں میں سے جو بھی کوئی چاہے اختیار کر سکتا ہے اور اگر بعض ورثاء معاف کر دیں اور بعض نہ کریں تو قاتل کو قتل کی سزا نہیں دی جائیگی جیسے مقتول کے دو بیٹے ہوں ان میں سے ایک معاف کر دے اور دوسرا نہ کرے تو قاتل قتل نہیں ہو گا لیکن اگر حاکم سمجھے کے چونکہ وارث ہی شرارت سے مروانے والے ہیں۔ اس لیے وہ معاف کرتے ہیں تو حاکم معاف نہیں کرے گا۔ بلکہ انہیں سزا دے گا۔ اور وارثوں کی شرارت ثابت ہو جانے کی وجہ سے ان کے وارثت کا حق بھی زائل ہوجائیگا۔
فَاتِّبَاع’‘ بِالْمَعْرُوْفِ وَاَدَآء’‘ اِلَیْہِ بِاِحْسَانٍ میں یہ بتایا کہ دیت لینے والے کو چاہیے کہ مناسب رنگ میں دیت وصول کرے۔ یعنی اگر قاتل یکدم ادا نہیں کر سکتا تو وصول کرنے میں سختی نہ کرے بلکہ اُسے کچھ مہلت دے دے او ر دیت دینے والے کو چاہیے کہ وہ ادا کرنے میں سُستی یا شرارت نہ کرے بلکہ تکلیف اٹھا کر بھی دیت ادا کر دے اور کسی ناواجب تاخیر یا شرارت سے
وَلَکُمْ فِی تَتَّقُوْنَo
کام نہ لے۔
ذٰلِکَ تَّخْفِیْف’‘ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَرَحْمَۃ’‘۔ فرمایا یہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارے لئے آسانی پیدا کر دی گئی ہے اور اس ذریعہ سے اس نے تمہارے لئے اپنی رحمت کا سامان مہیا کیا ہے تمہیں چاہیے کہ اسے مدنظر رکھو اور خداتعالیٰ کے اس احسان کی قدر کرو۔
فَمَنِ اعْتَدٰی بَعْدَ ذٰلِکَ فَلَہ‘ عَذَاب’‘ اَلِیْم’‘ فرماتا ہے کہ اگر اس کے بعد میں کوئی زیادتی کریگا اور اِعْتَدٰی سے کام لیگا تو اس کے لئے درد ناک عذاب مقدر ہے۔ یعنی اگر مقتول کے ورثاء دیت بھی لے لیں اور موقعہ پا کر دوسرے کو بھی قتل کر دیں تو وہ کسی رحم کے مستحق نہیں ہونگے بلکہ انہیں لازماً سزا دی جائے گی۔ یعنی حکومت دوسرے فریق کو انہیں معاف کرنے کی اجازت بھی نہیں دیگی تاکہ اس قسم کی وحشیانہ حرکات قومی اور اخلاق کو نہ بگاڑیں اور لوگوں کے اندر قانون کا احترام قائم ہو۔
۹۳؎ حل لغات:۔ اَلْاَلْبَابَ جمع ہے۔ اس کا مفرد لُبّ’‘ کے معنے مغز کے ہیں۔ لیکن مراد عقل ہے۔
تفسیر:۔ فرماتا ہے ۔ اے عقلمندو! قصاص میں تمہارے لئے زندگی ہے۔ اسے کبھی نہ چھوڑنا۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ مرنے والا تو مر گیا اب اگر اس کے قاتل کو قتل کر دیا جائیگا۔ تو مقتول تو زندہ نہیں ہو سکتا پھر قصاص میں حیات کس طرح ہوئی؟ سو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر قاتل کو قتل نہ کیا جائے تو بالکل ممکن ہے کہ کل وہ کسی دوسرے کو قتل کر دے اور پرسوں کسی اور کو مار ڈالے اس لئے فرمایا کہ قصاص میں زندگی ہے۔ یعنی اگر قاتل سے قصاص نہ لیا جائیگا تو وہ تم میں سے کسی اور کی زندگی کا خاتمہ کر دے گا۔ لیکن اگر قاتل کو موت کی سزا دی جائے تو آئندہ قتل کے جرم کم ہو جائیںگے اور اس طرح کئی لوگوں کی جانیں بچ جائیںگی۔
پھر اس رنگ میں بھی قصاص حیات کا موجب ہے کہ جب قاتل کو سزا مل جاتی ہے تو رشتہ داروں کے دلوں میں سے بُغض اور کینہ نکل جاتا ہے اور مقتول کی عزت قائم ہو جاتی ہے اگر قاتل کو سزا نہ ملے تو رشتہ داروں کے دل میں بغض اور کینہ رہتا ہے یونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے آدمی کو قتل کر کے اس کی ذلت کی گئی ہے۔ پس قصاص مقتول کی عزت قائم کرنے کا بھی ایک ذریعہ ہے لیکن اس کے علاوہ میرے نزدیک اس آیت میں موجودہ زمانہ کے متعلق ایک پیشگوئی بھی پائی جاتی ہے ۔ عرب تو قصاص کے بڑی سختی سے پابند تھے ۔ یہاں تک کہ اگر باپ مارا جائے تو وہ پوتے سے بھی اس کابدلہ لے لیتے تھے۔ پس یہ ہدایت صرف ان کو نہیں ہو سکتی۔ بلکہ درحقیقت یہ آئندہ زمانہ کے لئے پیشگوئی ہے اور اس میں بتایا گیا ہے ۔ کہ ایک وقت آنے والا ہے جبکہ قصاص کو اڑانے کی تلقین کی جائیگی ۔اُس وقت تم مضبوطی سے اس تعلیم پر قائم رہنا جیسے آج کل بعض یوروپین ممالک میں اس قسم کی تحریکات وقتاً فوقتاً اٹھتی رہتی ہیں کہ موت کی سزا منسوخ ہونی چاہیے۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ اے عقلمندوں ان تحریکات کو کبھی قبول نہ کرنا ورنہ اس کے بہت سے مفاصد ظاہر ہونگے۔ اور تمہاری جانوں کی کوئی قیمت باقی نہیں رہے گی۔
آخر میںلَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ فرما کر اس طرف اشارہ فرمایا کہ ہم نے یہ حکم اسی لئے دیا ہے کہ تم قتل سے بچو۔ اور اس زندگی کو پائو جو قصاص کے نتیجہ میں حاصل وہتی ہے اگر تم قصاص کو چھوڑ دو گے تو نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہارا تمدن درہم برہم ہو جائیگا۔ پس تم اس بات
کُتِبَ عَلَیْکُمْ
عَلَی الْمُتَّقِیْنَo
سے بچو کہ تمہارا تمدن ٹوٹ جائے اور تمہار ا نظام درہم برہم ہو جائے او ر تمہاری جانوں اور مالوں کی کوئی قیمت باقی نہ رہے۔
پھر اس کے علاوہ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ کے ایک اور معنے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مجھے سمجھائے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ ان الفاظ میں یہ بتایا گیا ہے کہ زندگی کی تمہیں اس لئے ضرورت ہے کہ تم اور تقویٰ حاصل کر لو۔ گویا بتایا کہ بے فائدہ جان گنوانا اس لئے قابلِ احتراز ہے کہ یہ دنیا درالعمل ہے اس میں رہنے سے آخرت کا توشہ انسان جمع کر لیتا ہے پس اس کی حفاظت بھی ضروری ہے تاکہ تم تقویٰ حاصل کر سکو۔ غرض ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے وجہ بتا دی کہ مومن باوجود آخرت پر ایمان رکھنے کے زندگی کی کیوں قدر کرتا ہے۔
۹۴؎ حل لغات:۔ خَیْر’‘ا:مفردات میں لکھا ہے۔ وَقَوْلہ تَعَالیٰ اِنْ تَرَکَ خَیْرًا اَیْ مَالًا وَقَالَ بَعْضپ الْعُلَمَائِ لَایُقَالُ لَلْمَالِ خَیْر’‘ حَتّٰی یَکُوْنَ کَثِیْرًا وَمِنْ مَکَانٍ طَیِّبٍ۔یعنی اس آیات میں خَیْر’‘ سے مراد مال ہے اور بعض علماء کے نزدیک مال کو خَیْر’‘ اس وقت کہیں گے جب وہ زیادہ ہو اور نیک ذرائع سے کمایا ہو اہو۔(مفردات)
تفسیر:۔ اس آیتمیں اللہ تعالیٰ نے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے متعلق مرنے والے کو جو وصیت کرنے کا حکنم دیا ہے اس کے متعلق سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسی وصیت ہے جس کی تعلیم دی گئی ہے ۔ جبکہ شریعت نے خود احکام وراثت کو سورۃ نصاء میں تفصیلاً بیان کر دیا ہے اور ان کے نزول کے بعد رشتہ داروں کے نام وصیت کرنا بے معنی بن جاتا ہے ۔ سو اس کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ بعض لوگ تو کہتے ہیں کہ وصیت کے احکام چونکہ دوسری آیات میں نازل ہو چکے ہیں۔ اس لئے یہ آیت منسوخ ہے اب اِس پر کسی عمل کی ضرورت نہیں ۔ مگر ہمارے نزدیک قرآن کریم محض قلت تدبر کی بطنا پر ظہور میں آیا ہے ۔ جب مسلمانوں کو کسی آیت کا مفہوم پوری طرح سمجھ میں نہ آیا تو انہوں نے کہدیا کہ وہ منسوخ ہے ۔ اور اس طرح کئی کئی سوا ٓیات تک انہوں نے منسوخ قرار دے دیں ۔ اگر وہ سمجھتے کہ قرآن کریم کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف قابل عمل ہے تو وہ ہر آیت پر غور کرتے ۔ اور اگر اسے حل کرنے سے قاصر رہتے تو خدا تعالیٰ کے حضور جھکتے اوراس سے دعائیں کرتے کہ وہ اُن کی مدد کرے اور اپنے کلام کی حقیقت سمجھنے کی انہیں توفیق عطا فرمائے ۔ اور اگر وہ ایسا کرتے تو یقینا اللہ تعالیٰ اُن کی رہنمائی کے سامان پیدا فرما دیتا اور انہیں مشکل آیات کا حل نظر آجاتا ۔ مگر انہوں نے بدقسمتی سے یہ آسان راستہ اختیار کر لیا کہ جس آیت کا مطلب سمجھ نہ آیا اُسے منسوخ قرار دے دیا۔ یہی طریق انہوںنے یہاںبھی اختیار کر لیا ہے مگر اس اایت کے جو معنے ہم کرتے ہیں۔ اگر اس کے مدنظر رکھا جائے تو یہ حکم بڑا ہی پر حکمت نظر آتا ہے اور اسے منسوخ قرار دینے کی کوئی ضرورت پیش نہیں آتی۔ درحقیقت یہاں وصیت کا لفظ صرف عام تاکید کے معنوں میں استعمال ہوا ہے اور اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے والدین اور اقربین کے متعلق تو وصیت کرنیکا حکم دیا ہے مگر اولاد کو ترک کر دیا ہے ۔ حالانکہ قلبی تعلق کے لحاظ سے اولاد کا ذکر بھی ضرور ہونا چاہیے تھا ۔ یہ بات بتائی ہے کہ یہاں ماں کی تقسیم کا مسئلہ بیان نہیں کیا جا رہا بلکہ ایک عام تاکید کی جا رہی ہے اور اولاد کی بجائے والدین اور اقربین کا ذکر ا س لئے کیا گای ہے کہ اس آیت کا سیاق وسباق بتا رہا ہے کہ یہ حکم جنگ اور اس کے مشابہ دوسرے حالات کے متعلق ہے ۔ چنانچہ اس سے چند آیات پہلے الصَّابِرِیْنَ فِی الْبَاْ سَآ ئِ وَالضَّرَّآئِ وَا حِیْنَ الْبَاْسِ میں لڑائی کا ذکر آچکا ہے ۔ اسی طرح آگے چل کر وَقَا تِلُوْ افِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذْیَن یُقَاتِلُوْنَکُمْ میں پھر جنگ کا حکم دیا گیا ہے اور چانکہ جنگ میں بالعموم نوجوان شامل ہوتے ہیں۔ جن کے ہاں یا تو اوالاد ہوتی ہی نہیں یا چھوٹی عمر کی ہوتی ہے ۔اسلئے والدین اور اقربین کے حق میں وصیت کرنیکا حکم دیا۔ اور اولاد کا ذکر چھوڑدیا ۔اور یہ ہدایت فرمائی کہ جب کسی شخص کی موت کا وقت قریب آجائے یا وہ کسی ایسے خطرناک مقام کی طرف جانے لگے ۔ جہاں جانے کا نتیجہ ع۳ام حالات میں موت ہوا کرتا ہے ۔ اور پھر اُس کے پاس مال کثیر بھی ہو تو اُسے چاہیے کہ وہ وصیت کر دے کہ اُس کی جائیداد احکام الٰہیہ کے مطابق تقسیم کی جائے تاکہ بعد میں کوئی جھگڑا پیدا نہ ہو۔ اور یہ تاکید بجائے اس کے کہ کسی اور کو کی جائے اپنے رشتہ داروں کو کرے ۔ اور اگر مال کا کوئی حصہ صدقہ کرنا ہو تو اس کا بھی اظہار کر دے ۔میں سمجھتا ہوں اگر مسلمان اِس تعلیم پر عمل کرتے تو وہ رواج جو شرعی تقسیم وراثت کے خلاف اُن میں جاری رہا کبھی جاری نہ ہوتا ۔ جس ملک میں اسلامی شریعت کا نفاذ ہو وہاں تو کسی روض کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن ایسے ممالک جہاں رواج کا سوال پیدا ہو وہاں اس امر کی شدید ضرورت ہوتی ہے کہ مرنے والا اپنے والدین اور رشتہ داروں کے حق میں یہ وصیت کر جائے کہ اُن میں معروف کے مطابقت جائیداد تقسیم کی جائے ورنہ اُس کا مال رواجی مستحقوں کو مل جائیگا اوراصل مستحقین محروم رہ جائیں گے ۔ رہایہ سوال کہ معروف کیا ہے ؟سوایک تو احکام وراثت معروف ہیں اُن پر عمل کرنے کی تاکید ہونی چاہیے ۔دوسرے بعض حقوق ایسے ہیںجو احکام وراثت سے باہر ہیں ۔اور جن کو قاعدہ میں تو بیان نہیں کیا گیا مگر مذہبی اور اخلاقی طور پر انہیں پسند کیا گیا ہے اوراُن کے لیئے شریعت نے ۳/۱تک وصیت کردینے کا دروازہ کھلا رکھا ہے ۔ مثلاً اگر وہ چاہے تو کچھ روپیہ غربا ء کی بہبودی کیلئے وقف کر دے اور اس کی اپنے رشتہ داروں کو تاکید کر جائے ۔
اَلْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَاْلاَ قْرَبِیْنَ کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر اس کے ورثا ء کا فرہوں تو اُن کیلئے حسن سلوک کی وصیت کر جائے ۔کیونکہ ایسی صورت میں وصیت کے بغر کافروالدین یا دوسرے قریبی رشتہ داروں کو کچھ نہیں مل سکتا ۔ اگر وہ دیکھے کہ انہیں کچھ مال دے دینے سے فائدہ ہوگا تواُن کے متعلق تاکید کر دے کہ فلاں فلاں شخص کو مریے مال میں سے اس قدر حصہ ضڑور دیدیا جایئے اور اگر دیکھے کہ وہ اس روپیہ کو اسلام کے خلاف خرچ کر ینگے تو نہ دے ۔ کافر والدین یا اقربین کیلئے ورثہ نہیں رکھا گیا۔ ہاں وصیت کی گنجائش رکھی گئی ہے ۔ تاکہ اگر وہ اسلام کے خلاف اپنے مال کو استعمال کرنے والے ہوں تو انہیں مال نہ پہنچ سکے اور اگر جائز طور پر مدد کے مستحق ہوں تو اُن کی مدد کی جا سکے ۔
اِس آیت کا تیسرا مطلب یہ ہے کہ مرنے والا اپنے پوتوں اور اپنے بھائیوں کے بیٹوں کیلئے بھی کچھ وصیت کر جائے اور تاکہ اُن کی مدد ہو جائے ۔ اور شریعت کے کسی حکم کی بھی خلاف ورزی نہ ہو ۔کیونکہ اسلامی قانون کی رو سے اگر دادا کی زندگی میں اس کا بیٹا فوت ہو جائے تو پوتوں اور پوتیوں کو وراثت سے حصہ نہیں ملتا۔پس ایسی صورت میں اگر وہ اپنی جائیداد کے ۳/۱ حصہ میں سے اپنے پوتوں اور پوتیوں یا بھائیوں کے بیٹوں کو کچھ روپیہ دینا چاہے تو وہ ایسا کر سکتا ہے ۔
فَمَنْ بَدَّ لَہ‘
سَمِیْع’‘ عَلِیْم’‘o
(۴) جن ممالک میں اہپنے اپنے قانون رائج ہیں وہاں دو صورتیں ہیں ۔بعض تو ایسی جگہیں ہیں جہاں مرنے کے وقت کی وصیت کو ہی معتبر سمجھا جاتا ہے ۔ جیسے روس کا ملک ہے اور بعض جگہیں ایسی ہیں جہاں مرنے والے کی وصیت پر عمل نہیں ہوتا بلکہ حکومت نے جو قانون مقرر کیا ہوا ہو اس کے مطابق ورثہ تقسیم ہوتا ہے ۔ اگر ایسے ممالک ہوں جہاں مرنے والے کی وصیت تسلیم کی جاتی ہے تو اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ جن ورثاء کو رواج کے مطابق ورثہ نہیں مل سکتا انہیں وصیت کی وجہ سے شریعت کے مطابق حصہ مل جائیگا اور اسلامی تعلیم اُن ممالک میں بھی زندہ ہو جائیگی جن میں اسلامی حکومت نہیں مگر وہ مرنے والے کی وصیت پر عمل کرنا ضروری سمجھتے ہیں ۔ اور جہاں اسلامی قانون کے مطابق ورثہ تقسیم نہ ہو سکتا ہو وہاں خواہ جائز ورثاء کو ورثہ نہ مل سکے پھر بھی اس کے نتیجہ میں مسلمان اس گناہ سے بچ جائیں گے جو اس حکم کی خلاف ورزی کے ساتھ وابستہ ہے اور صرف وصیت تبدیل کرنے والے گنہگار قرار پائیں گے ۔مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس وصیت کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ وہ کسی وارث کو جس کا شریعت نے حصہ مقرر کر دیا ہے اس کے حق سے زیادہ دے دے ۔ رسول کریم صلے الہ علیہ وسلم نے اس سے بری سختی سے منع فرمایا ہے ۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے ۔اِنَّ اللّٰہَ اَعْطیٰ کُلَّ ذِیْ حَقٍّ حَقَّہٗ فَلَا وَصِیَّۃَ لِلْوَارِثِ (ترمذی)اللہ تعالیٰ نے ہر حق والے کا حق مقرر کر دیا ہے ۔اس لئے کسی وراث کیلئے جس کا اللہ تعالیٰ نے حصہ مقرر کر دیا ہے ۔ وصیت نہیں ہو سکتی ۔پس یہ آیت نہ منسوخ ہے ۔ نہ بلا ضرورت ۔بہت دفعہ مرنے کے بعد ورثا ء میں تقسیم مال پر جھگڑا ہو جاتا ہے اور بعض دفعہ غیر رشتہ دار بھی کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں اتنا روپیہ دینے کا اس نے وعدہ کیا تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہدایت دے دی کہ مرنیوالے کو وصیت کر دینی چاہیے تاکہ کوئی جھگڑا نہ ہوااور یہ سوال نہ اُٹھے کہ مرنے والے نے علاوہ رشتہ داروں کے اور وں کے حق میں بھی وصیت کی ہے ۔ اور یہ وصیت رشتہ داروں کے سامنے ہونی چاہیے ۔
اس آیت میں مال کیلئے خیر کا لفظ استعمال فرما کر اللہ تعالیٰ نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ نیک ذرائع سے کمایا ہوا مال ہی درحیقت مال ہے ۔ اس لئے تمہارا فرض ہے کہ تم ہمیشہ جائز طورپر کماو۔ اور حلال مال جمع کرنے کی کوشش کرو۔اگر ناجائز ذرائع اختیار کرو گے تو پھر وہ مال خیر نہیں رہیگا بلکہ شر بن جائیگا۔
اسی طرح اِنْ تَرَکَ خَیْراً میں یہ نصیحت فرمائی ہے کہ انسان اپنا تمام مال آخرپچھلوں کیلئے ہی چھوڑ جاتا ہے اور خود خالی ہاتھ دنیا سے اُٹھ جاتا ہے ۔ اور جب حالت یہ ہے تو اسے سوچنا چاہیے کہ وہ کیوں نا جائز مال کمائے جسے دوسرے کھائیں اور وہ خود دوزخ میں جائے ۔غرض اللہ تعالیٰ نے اِنْ تَرَکَ خَیْراً کے الفاظ استعمال فرما کر نصیحت کی ہے کہ ناجائز ذرائع سے کما کر اپنے پچھلوں کیلئے مال نہ چھوڑو بلکہ جائز ذرائع سے کماؤ۔ورنہ ناجائز ذرائع سے کمایا ہوا مال تو تمہارا ہے ہی نہیں ۔ تم نے اُس کی وصیت کیا کرنی ہے ۔
۹۵؎تفسیر :۔فرمایا۔ اگر کوئی شخص وصیت کرے اور بعد میں کئوی دوسرا شخص اس میں تغیر وتبدل کر دے تو اس صورت میں
فَمَنْ خَافَ مِنْ

غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘o
تمام تر گناہ اس شخص کی گردن پر ہے جس نے وصیت میں ترمیم و تنسیخ کی۔ یہ تغیر دو صورتوں میں ہو سکتا ہے ۔ ایک تو یہ کہ لکھا نے والا تو کچھ اور لکھا ئے ۔ مگر لکھنے والا شرارت سے کچھ اور لکھدے ۔ یعنی لکھوانے والے کی موجودگی میں ہی اُس کے سامنے تغیر وتبدل کر دے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وصیت کرنے والے کی وفات کے بعد اس میں تغیر و تبدل کر کے ۔یعنی وصیت میں جو کچھ کہا گیا ہو اس کے مطابق عمل نہ کرے بلکہ اُس کے خلاف چلے ۔ اِن دونوں صورتوں میں اس گناہ کا وبال صرف اُسی پر ہو گا جو اسے بدل دے ۔ (اِثْمُہٗ میں سبب مسبب کی جگہ استعمال کیا گیا ہے ۔ل اور مراد گناہ نہیں بلکہ گناہ کا وبال ہے )یہ االفاظ بتاتے ہیں کہ اس میں کسی قرآنی حکم کی طرف اشارہ ہے اور وہ حکم وراثت کا ہی ہے ۔ ورنہ اس کا کیا مطلب کہ بدلنے کا گناہ بدلنے والوں پر ہو گا ۔ وصیت کرنیوالے پر نہیں ہوگا ۔کیونکہ اگر اس وصیت کی تفصیلات شرعی نہیں تو بدلنے والے کو گناہ کیوں ہو ۔ اس کے گناہ ہگار ہونیکاسوال تبھی ہو سکتا ہے جبکہ کسی شرعی حکم کا خلاف ورزی ہو رہی ہو۔ اور وہ اسی طرح ہو سکتی ہے کہ مرنے والا تو یہ وصیت کر جائے۔ لیکن وارث کی وصیت پر عمل نہ کریں۔ ایسی صورت میں وصیت کرنے والا تو گناہ سے بچ جائے گا لیکن وصیت تبدیل کرنے والے وارث گناہگار قرار پائیں گے۔
۹۶؎ حل لغات:۔ جَنَفًا: جَنَفَ کا مصدر ہے اور جَنَفَ فِی الْوَصِیَّۃِ کے معنے ہیں مَالَ وَجَارَ یعنی اُس نے وصیت کرتے ہوئے نا انصافی کی اور عدل کے راستہ سے ہٹ گیا۔(اقرب)
تفسیر:۔ اب بتایا کہ اگر کسی شخص کو یہ معلوم ہو کہ موصی کی وصیت میں کوئی نقص ہے اور خوف ہو کہ اس سے فتنہ پیدا ہو گا تو وہ ورثاء کو جمع کر کے اگر ان کے درمیان صلح کر ادے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ جب اس نے شریعت کے مطابق اپنی جائیداد تقسیم کرنے کی ہدایت کی ہے تو ورثاء کو نقصان پہنچنے کا احتمال کس طرح ہو سکتا ہے کیونکہ شریعت پر عمل کرنے کے باوجود وصیت کرنے کی صورت میں بعض نقصانات کا بھی احتمال ہو سکتا ہے مثلاً اگر کوئی شخص 1/3حصہ کی وصیت کردے اور باقی وارث اتنے ہوں کہ بقیہ مال میں سے ان کو بہت کم حصہ ملتا ہو تو ایسی صورت میں اگروصیت کرنے والے اور ان رشتہ داروں کے درمیان جن کو نقصان پہنچنے یا جن کے نظر انداز کئے جانے کا امکان ہو صلح کر ادی جائے یا وہ شخص جن کے حق میں وصیت ہے ان کو باہمی سمجھوتے سے اس بات پر راضی کر لیا جائے کہ باوجود وصیت کے وہ ایک دوسرے کو اس کا حق ادا کردینگے تو یہ کوئی گناہ کی بات نہیں۔ اسے چاہیے کہ وصیت کرنے والے اور اس کے محبوب یا مبغوض ورثاء میں صلح کرادے تاکہ کوئی فتنہ پیدا نہ ہو۔
دوسری صورت یہ ہے کہ وصیت کرتے وقت اگر وصیت کرنے والا کسی فریق کو نقصان پہنچا رہا ہو اور جسے وصیت لکھوائی جا رہی ہو وہ سمجھتا ہو کہ بعض ورثاء سے اُس کی اَنْ بَنْ ہے۔ اور اس ناراضگی کی وجہ سے یہ ایسی وصیت کر رہا ہے تو اُسے سمجھا دے۔ اور
یٰٓاَ یُّھَاالَّذِیْنَ
تَتَّقْوْنَo
مرنے والے اور اس کے وارثوں میں صلح کرادے تو یہ کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں اور اللہ تعالیٰ یقینا بڑا بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
فَلَا اِثْمَ عَلَیْہِ سے یہ دھوکا نہیں کھانا چاہیے کہ اس قسم کی اصلاح اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی پسندیدہ کام نہیں بلکہ صرف ایک منفی نیکی ہے جس میں انسان کے گنہگار ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ الفاظ اس فعل کو صرف ایک منفی نیکی قرار دینے کے لئے استعمال نہیں کئے گئے بلکہ اس لئے استعمال کئے گئے ہیں کہ اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے بری وضاحت سے فرمایا تھا کہ فَمَنْ بَدَّ لَہ‘ بَعْدَ مَا سَمِعَہ‘ فَاِنَّمَا اِثْمَہ‘ عَلَی الَّذِیْنَ یُبَدِّ لُوْنَہ‘ یعنی جو شخص وصیت کو اس کے سننے کے بعد بدل دے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حضور گناہگار ہو گا۔ پس چونکہ اس سے پہلے وصیت میں تبدیلی کرنا اللہ تعالیٰ نے گناہ کا موجب قرار دیا تھا۔ اس لئے لازماً یہ خطرہ پیدا ہو سکتا تھا کہ بعض محتاط طبیعتیں کہیں اس طرف مائل نہ ہو جائیں کہ وصیت میں غلطی واقع ہونے کے باوجود پھر بھی اسکو تبدیل نہیں کرنا چاہیے تاکہ یہ تبدیلی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب نہ ہو۔ پس اس قسم کے خدشات کے ازالہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے زیر تفسیر آیت میں بتا دیا کہ اگ رواقعہ میں کوئی غلطی واقع ہو گئی ہو تو اس کو دور کردینا کوئی گناہ کی بات نہیں۔ بلکہ ایک ایسی نیکی ہے جو تمہیں اللہ تعالیٰ کے فضل کا مستحق بنا دیگی۔ چنانچہ آخر میں اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘ فرما کر اللہ تعالیٰ نے ایک طرف تو وصیت کرنے والے کو تسلی دی کہ اگر وہ اپنی غلطی کی اصلاح کر لے تو اللہ تعالیٰ اُسے معاف کر دے گا اوردوسرے طرف رَحِیْم’‘ فرما کر اس طرف اشارہ فرمایا کہ اگر کوئی شخص مداخلت کر کے وصیت کے نقائص کو دُور کرنے کی کوشش کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ رحم و کرم کا معاملہ کریگا اور اُسے اپنے فضلوں کا مورد بنائیگا۔ پس غَفُوْر’‘ کالفظ ان وصیت کرنے والوں کو بشارت دیتا ہے جو اپنی غلطی کی اصلاح کرلیں۔ اور رَحِیْم’‘ کا لفظ ان لوگوں کے موردِ انعام ہونے پر دلالت کرتا ہے جو وصیت کی کسی غلطی کو درست کرنے کی کوشش کریں۔
۹۷؎ حل لغات:۔ تَتَّقُوْنَ:اِتَّقٰی سے مضارع جمع مخاطب کا صیغہ ہے۔ اور تَقْوٰی کے معنے ہیں جَعْلَ النَّفْسِ فِیْ وَ قَایَۃٍ مِمَّا یُخَافُ۔۔۔ وَفِیْ تَعَارْفِ الشَّرْئِ حِفْظُ النَّفْسِ عَمَّا یُوْثِمْ(مفردات) یعنی اپنے نفس کو ایسی تمام چیزوں سے ایک ڈھال کے پیچھے محفوظ کر لیا جن سے خوف محسوس کیا جاتا ہے۔ اور شرعی نقطہ نگاہ سے تقْوٰی سے مراد گناہوں سے بچنا ہے۔ مزید تشریح کے لئے دیکھیں حل لغات سورہ بقرۃ۳؎۔
تفسیر:۔ فرماتا ہے ۔ اے مومنو!تم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے روزے رکھنے اسی طرح فرض کئے گئے ہیں جس طرح پہلی امتوں پر روزے رکھنے فرض کئے گئے تھے۔
دنیا میں بعض تکلیفیں ایسی ہوتی ہیں جو منفرد ہوتی ہیں۔ اکیلے انسان پر آتی ہیں اور وہ ان سے گھبراتا ہے۔ شکوہ کرتا ہے کہ میں ان تکالیف کے برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ لیکن بعض تکلیفیں ایسی ہوتی ہیں جن میں سارے لوگ شریک ہوتے ہیں۔ ان تکالیف پر جب کوئی انسان گھبراتا یا شکوہ کا اظہار کرتا ہے تو لوگ اُسے یہ کہہ کر تسلی دیا کرتے ہیں کہ میاں یہ دن سب پر آتے ہیں اور کوئی شخص یہ امید نہیں کر سکتا کہ وہ ان تکلیفوں سے بچ جائے ۔ مثلاً موت ہے موت ہر انسان پر آتی ہے۔ دنیا میں کوئی احمق سے احمق انسان بھی ایسا نہیں مل سکتا جو کہے کہ میں کوشش کر رہا ہوں کہ مجھ پر موت نہ آئے۔ موت اس پر ضرور آئے گی چاہیے جلدی آجائے یا دیر میں۔ پس کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مَنْ قَبْلِکُمْ کہہ کر خداتعالیٰ نے مسلمانوں کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ روزے ایسی نیکی ۔ ثواب اور قربانی ہیں جن میں سارے ہی ادیان شریک ہیں۔ اور انہوں نے خداتعالیٰ کے اس حکم کو پورا کیا ہے ۔ پھر کتنے افسوس کی بات ہے کہ وہ نیکی اور تقویٰ جس کے حصول کے لئے ساری قومیں کوشش کرتی رہی ہیں تم اس سے بچنے کی کوشش کرو۔ اگر یہ کوئی نیا حکم ہوتا اگر روزے صرف تم پرہی فرض ہوتے تو تم دوسرے لوگوں سے کہہ سکتے تھے کہ تم اسے کیا جانو۔ تم نے تو اس کا مزہ ہی نہیںچکھا۔ لیکن وہ لوگ جو اس دروازہ میں سے گذر چکے ہیں۔ اور جو اس بوجھ کو اٹھا چکے ہیں انہیں تم کیا جواب دو گے۔ لازماً مسلمانوں پر حجت اُنہی احکام میں ہوسکتی ہے جو پہلی قوموں کو بھی دیئے گئے اور انہوں نے ان احکام کو پورا کیا۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے مسلمانو! تم ہوشیار ہو جائے ہم تم پر روزے فرض کرتے ہیں۔ اور ساتھ ہی تمہیں بتا دیتے ہین کہ روزے پہلی قوموں پر بھی فرض کئے گئے تھے۔ اور انہوں نے اس حکم کو اپنی طاقت کے مطابق پورا کیا تھا اگر تم پر اعتراض کریں گی اور کہیں گی کہ ہمیں بھی خداتعالیٰ نے روزوں کا حکم دیا تھا اور ہم نے اُسے پورا کیا اب تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں تو تم اس حکم کو صحیح طور پر ادا نہیں کر رہے۔ غرض مسلمانوں کی غیرت اور ہمت بڑھانے کے لئے یہ کہا گیا ہے کہ روزے صرف تم پر ہی فرض نہیں کئے گئے بلکہ پہلی قوموں پر بھی فرض کئے گئے تھے۔ اور ان قوموں نے اپنی طاقت کے مطابق اس حکم کو پورا کیا تھا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ روزوں کی شکل میں اختلاف تھا اور وہ اختلاف آج تک نظر آتا ہے۔ کہیں اس قسم کے روزے ہوا کرتے تھے جنہیں وصال کہتے ہیں کہ درمیان میں سحری نہ کھانا۔اس قسم کے روزوں میں صرف شام کے وقت روزہ کشائی کی جاتی اور دوسری سحری نہ کھا کر متواتر آٹھ پہر روزہ رکھا جاتا۔
کہیں ایسے روزے ہوتے کہ روزہ کشائی بھی نہ ہوتی اور تین تین چارچار پانچ پانچ دن متواتر روزہ رکھا جاتا۔ ایسے روزے بھی پائے جاتے ہیں جن میں لوگوں کو ہلکی غذا کھانے کی اجازت دی گئی ہے مگر ٹھوس غذائوں سے منع کیا گیا ہے جیسے ہندئووں یا عیسائیوں میں روزے ہوتے ہیں۔ ہندئووں کے روزوں کے متعلق تو عام طور پر مشہور ہے کہ ان کا روزہ یہ ہوتا ہے کہ آگ کی پکی ہوئی چیز نہیں کھانی۔ اس کے علاوہ اگر وہ کئی سیر آم ، کیلے، اورنارنگیاں وغیرہ کھا جائیں تو ان کے روزہ میں فرق نہیں آتا۔ روٹی اور سالن کو چھوڑ کر باقی جو چیزچاہیں کھا لیں۔
پھر اس سے بھی آسان روزے رومن کیتھولک عیسائیوں میں پائے جاتے ہیں۔ آخر انہوں نے بھی کسی مذہبی روائت کی بنا پر ہی یہ روزے رکھنے شروع کئے ہونگے یا کسی حواری سے کوئی بات پہنچی ہو گئی اُن کا روزہ یہ ہوتا ہے کہ گوشت نہیں کھانا۔ اگر وہ آلو اُبال کر یا کدو کا بھرتنہ بنا کر اس کے ساتھ روٹی کھالیں تو ان کا روزہ نہیں ٹوٹتا البتہ اگر گوشت کی بوٹی ان کے معدہ میں چلی جائے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے پس روزوں کے متعلق بھی مختلف اقوم میں اختلاف پائے جاتے ہیں۔ اور اپنے اپنے زمانہ میں ان احکام میں اللہ تعالیٰ کی حکمتیں بھی پوشیدہ ہونگی۔ مثلاً جو قومیں کثرت سے گوشت کھانے والی ہوں وہ ان اخلاق سے رفتہ رفتہ محروم ہو جاتی ہین جو سبزی کے استعمال کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی اخلاقی اصلاح کے لئے اور انہیں یہ بتانے کے لئے کہ سبزی بھی غذا میں ضروری ہوتی ہے اگر اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دے دیا ہو کہ ہفتہ میں کم از کم ایک دن تم پر ایسا آنا چاہیے جب تم گوشت نہ کھائو۔ تو یہ نہایت پُر حکمت روزہ ہو جاتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں اسلام نے ہماری غذا کے متعلق یہ ایک عام حکم دے دیا ہے کہ گوشت بھی کھائو اور سبزیاں بھی کھائو۔ آگ پر پکی ہوئی چیزیں بھی استعمال کرو۔ اور جنہیں آگ نے نہ چُھوا ہو وہ بھی استعمال کر لو۔ غرض ہماری غذا میں اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی احتیاطیں جمع کر دی ہیں۔ لیکن پہلی قوموں کے لئے ممکن ہے اس قسم کی احتیاطیں ناقابلِ برداشت پابندیاں ہوں۔ اور ان کے اخلاق کی اصلاح کے لئے اس قسم کے روزے تجویز کئے گئے ہوں۔ مثلاً وہ قومیں جو جنگی ہوتی ہیں اور جن کا شکار پر گذارہ ہوتاہ ے وہ ایک عرصہ تک گوشت کھانے کی وجہ سے ایسے اخلاق سے عاری جاتی ہیں جو سبزی کھانے کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم دیدیا گیا ہو کہ وہ ہفتہ میں ایک دن گوشت کھانا چھوڑ دیں تو یقینا یہ روزہ ان کے لئے بہت مفید تھا۔ پس پہلی قوموں میں روزے تو تھے مگر شکل وہ نہ تھی جو اسلام میں ہے پس کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مَنْ قَبْلِکُمْ میں جو مشابہت پہلے لوگوں کے ساتھ بیان کی گئی ہے وہ کمیت اور کیفیت کے لحاظ سے نہیں بلکہ صرف فرضیت کے لحاظ سے ہے یعنی کَمَا کُتِبَ سے یہ مراد نہیں ہے کہ وہ ایسے ہی روزے رکھتے تھے جیسے مسلمان رکھتے ہیں۔ یا اُتنے ہی روزے رکھتے تھے جتنے مسلمان رکھتے تھے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ان پر بھی روزے فرض تھے اور تم پر بھی فرض کئے گئے ہیں گویا صرف فرضیت میں مشابہت ہے نہ کہ تفصیلات میں۔ چنانچہ انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا میں ـ’’روزہ‘‘ کے ماتحت لکھا ہے کہ:۔
IT WOULD BE DIFFICULT TO NAME ANY RELIGIOUS SYSTEM OF ANY DESCRIPTION IN WHICH IT IS WHOLLY UNRECOGNISED.
ٰیعنی دنیا کا کوئی باقاعدہ مذہب ایسا نہیں جس میں روزہ کا حکم نہ ملتا ہو۔ بلکہ ہر مذہب میں روزوں کا حکم موجود ہے۔ چنانچہ اس بارہ میں سب سے پہلے ہم یہودی مذہب کو دیکھتے ہیں۔ تورات میں لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب طور پر گئے تو انہوں نے چالیس۴۰ دن رات کا روزہ رکھا اور ان ایام میں انہوں نے نہ کچھ کھایا نہ کچھ پیا۔ چنانچہ لکھا ہے:۔
’’سو وہ (یعنی موسیٰ) چالیس۴۰ دن اور چالیس رات وہیں خدا وند کے پاس رہا اور نہ روٹی کھائی اور نہ پانی پیا۔‘‘ (خروج باب۳۴ آیت۲۸)
اسی طرح احبار باب۱۶ آیت۲۹ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر ساتویں مہینہ کی دسویں تاریخ کو ایک روزہ رکھنا یہود کے لئے ضروری قرار دیا گیا تھا۔ چنانچہ بنی اسرائیل ہمیشہ یہ روزے رکھتے رہے اور انبیاء بنی اسرائیل بھی اس کی تاکید کرتے رہے۔ زبور میں حضرت دائود فرماتے ہیں:۔
’’میں نے تو ان کی بیماری میں جب وہ بیمار تھے ٹاٹ اوڑھا اور روزے رکھ رکھ کر اپنی جان کو دُکھ دیا۔‘‘
(زبور باب ۳۵ آیت۱۳)
یسعیاہ بنی فرماتے ہیں:۔
’’ دیکھو تم اس مقصد سے روزہ رکھتے ہو کہ جھگڑا رگڑا کرو اور شرارت کے مکے مارو پس اب تم اس طرح کا روزہ نہیں رکھتے ہو کہ تمہاری آواز غالمِ بالا پر سُنی جائے۔‘‘
(یسعیاہ باب۵۸ آیت۴)
دانی ایل فرماتے ہیں:۔
’’ میں نے خداوند خدا کی طرف رخ کیا اور میں منت اور مناجات کر کے اور روزہ رکھ کر اور ٹاٹ اوڑھ کر ور راکھ پر بیٹھ کر اُس کا ظالب ہوا۔‘‘
(دانی ایل باب۹ آیت۳)
یو ایل نبی فرماتے ہیں:۔
’’خداوند کا روزِ عظیم نہایت خوفناک ہے۔ کون اس کی برداشت کر سکتا ہے۔ لیکن خداوند فرماتا ہے اب بھی پورے دل سے اور روزہ رکھ کر اور گریہ وزاری و ماتم کرتے ہوئے میری طرف رجوع لائے اور اپنے کپڑوں کو نہیں بلکہ دلوں کو چاک کر کے خداوند اپنے خدا کی طرف متوجہ ہو۔ کیونکہ وہ رحیم و مہربان قہر کرنے میں دھیما اور شفقت میں غنی ہے اور عذاب نازل کرنے سے باز رہتا ہے۔‘‘
(یو ایل باب ۲ آیت۱۱ تا۱۳)
یہودیت کے بعد عیسائیت کو دیکھا جائے تو اس میں بھی روزوں کا ثبوت ملتا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیحؑ کے متعلق انجیل بتاتی ہے کہ انہوں نے چالیس دن اور چالیس رات کا روزہ رکھا متی میں لکھا ہے:۔
’’ اور چالیس دن اور چالیس رات فاقہ کر کے آخر کو اُسے بھوک لگی‘‘ (متی باب ۴ آیت ۲)
اسی طرح حضرت مسیح نے اپنے حواریوں کو ہدایت دی کہ:۔
’’جب تم روزہ رکھو تو ریاکاروں کی طرح اپنی صورت اُداس نہ بنائو کیونکہ وہ اپنا منہ بگاڑتے ہیں تاکہ لوگ ان کو روزہ دار جانیں میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اجر پا چکے بلکہ جب تو روزہ رکھے تو اپنے سر میں تیل ڈال اور منہ دھو تاکہ آدمی نہیں بلکہ تیرا باپ جو پوشیدگی میں ہے تجھے روزدار جانے۔ اس صورت میں تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تجھے بدلہ دیگا۔‘‘ (متی باب۶ آیت۱۶ تا۱۸)
اِسی طرح ایک دفعہ جب حواری ایک بد روح کو نہ نکال سکے تو
’’ اُس کے شاگردوں نے تنہائی میں اس سے پوچھا کہ ہم اسے کیوں نہ نکال سکے تو اس نے ان سے کہا کہ یہ قسم دعا اور روزہ کے سوا کسی اور طرح نہیں نکل سکتی۔‘‘۱؎ (مرقس باب۹ آیت۲۸۔۲۹)
بد رُوح نکالنا حواریوں کی ایک اصلاح تھی ۔ وہ بیماریوں اور مختلف قسم کی خرابیوں کو دیو کہا کرتے تھے اور حضرت مسیح ؑ ناصری کے پاس آکر دروخواست کیا کرتے تھے کہ یہ دیو نکال دیں۔ ان کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ یہ بیماریوں یا خاص قسم کی دماغی
۱؎ یہ آیت موجودہ اناجیل سے نکال دی گئی ہے۔
خرابیاں دور کر دی جائیں۔ اس قسم کے بعض بیمار تھے جن کا حضرت مسیح ؑ ناصری نے علاج کیا اور وہ اچھے ہو گئے۔ اور جب ایک موقعہ پر حواری یاک بد رُوح کو نہ نکال سکے تو آپ نے فرمایا۔ کہ یہ دیو روزوں اور دعائوں کے بغیر نہیں نکلتے۔ یعنی کمالاتِ رُوحانیہ کا حصول روزوں اور دُعائوں کے ذریعہ ہی ہو سکتا ہے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کجہ وہی مسیحؑ ناصری جنہوں نے یہ کہا تھ اکہ بڑی بڑی بیماریاں روزوں اور دعائوں کے بغیر نہیں نکل سکتیں۔ انہی کی امت آج روزوں سے اتنی بے خبر ہے اور وہ اتنا کھاتے ہیں کہ شاید ایشیائی ہفتہ بھر میں اتنا نہیں کھاتے جتنا وہ ایک دن میں کھا جاتے ہیں۔ پس انہوں نے روزہ کیا رکھنا ہے وہ تو روزوں کے قریب بھی نہیں جاتے۔ سال بھر میں صرف تین دن ایسے ہوتے ہیں جن میں وہ روزہ رکھتے ہیں۔ لیکن ہندئووں کی طرح جیسے وہ روزہ میں صرف چولھے کی پکی ہوئی چیزیں نہیں کھاتے۔ مثلاً وہ پھلکا نہیں کھاتے۔ لیکن دودھ دو دو سیر پی جائیں گے۔ عیسائی سبھی صرف چند چیزوں سے پرہیز کرتے ہیں باقی سب کچھ کھاتے رہتے ہیں۔ اور سمجھتے ہیں کہ روزے ہو گئے۔ حالانکہ حضرت مسیح ؑ یہودیوں میں سے تھے اور یہودیوں میں روزہ بڑا مکمل ہوتا ہے اور پھر حضرت مسیح ؑ خود مانتے ہیں کہ کئی قسم کے دیو یعنی روحانی یا جسمانی بیماریوں ایسی ہیں جو روزہ رکھنے والے کی دعا سے دور ہو تی ہیں اس کے بغیر نہیں ہوتیں۔
یہودیت اور عیسائیت کے بعد ہندو مذہب کو دیکھا جائے تو ان میں بھی کئی قسم کے برت پائے جاتے ہیں اور ہر قسم کے برت کے متعلق الگ الگ شرائط اور قیود ہیں جن کا تفصیلی ذکر ان کی کتاب’’دھرم سندھو‘‘ میں پایا جاتا ہے۔ انسائیکلو پیڈیا برٹنیکا میں ہندو اور جین مت کے روزوں کا ذکر کیا گیا ہے اور رزتشتی مذہب کے متعلق بھی لکھا ہے کہ کنفیوشس نے اپنے پیروئوں کو روزے رکھنے کی تلقین کی تھی۔ (انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا جلد ۹ زیر لفظFASTING)
غرض روزہ روحانی ترقی کا ایک ایسا ذریعہ ہے جو تمام مذاہب میں مشترک طور پر نظر آتا ہے اور تمام اُمتیں روزوں سے برکتیں حاصل کرتی رہی ہیں۔ بلکہ آجکل تو ایک نئی قسم کا روزہ نکل آیا ہے کہ اگر کسی سے جھگڑا ہو تو کھانا پینا چھوڑ دیا۔ گاندھی جی نے انگریز کے مقابلہ میں اسی قسم کے کئی مرن برت رکھے تھے ۔ بہرحال مذاہب کی ایک لمبی تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ اللہ تعالیٰ کی رضاء حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے جس کی اہمیت مذہبی دنیا میں ہمیشہ تسلیم کی جاتی رہی ہے۔ مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ جس صورت اور شکل میں اسلام نے اس کو پیش کیا ہے وہ باقی مذاہب سے نرالی ہے ۔ اسلام میں روزوں کی یہ صورت ہے کہ ہر بالغ عاقل کو برابر ایک مہینہ کے روزے رکھنے کا حکم ہے سوائے اس صورت کے کہ کوئی شخص بیمار ہو یا اُسے بیماری کا یقین ہو یا سفر پر ہو یا بالکل بوڑھا اور کمزور ہو گیا ہو۔ ایسے لوگ جو بیمار ہوں یا سفر پر ہوں ان کے لئے حکم ہے کہ وہ دوسرے اوقات میں روزہ رکھیں۔ اور جو بالکل معذور ہو گئے ہوں ان کے لئے کوئی روزہ نہیں۔
روزہ کی صورت یہ ہے کہ پوپھٹنے سے لے کر سورج کے غروب ہونے تک انسان کوئی چیز نہ کھائے نہ پیئے نہ کم نہ زیادہ اور نہ مخصوص تعلقات کی طرف توجہ کرے۔ پو پھٹنے سے پہلے وہ کھانا کھا لے تاکہ اس کے جسم پر غیر معمولی بوجھ نہ پڑے۔ اور غروب آفتاب پر روزہ افطار کر دے۔ صرف شام کو ہی کھانا کھا کر متواتر روزے رکھنا ہماری شریعت نے نا پسند کیا ہے۔
اس جگہ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مَنْ قَبْلِکُمْ کے متعلق ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ صرف کسی قوم میں کسی رواج کا پایا جانا یا پہلوں میں کسی دستور کا ہونا اس امر کی دلیل نہیں ہو سکتا کہ آئندہ نسلیں بھی ضرور اس کا لحاظ رکھیں۔ بیسیوں باتیں ایسی ہیں جو پہلے لوگوں میں موجود تھیں لیکن دراصل وہ غلط تھیں۔ اور بیسیوں باتیں ایسی ہیں جو آج لوگوں میں پائی جاتی ہیں حالانکہ وہ بھی غلط ہیں پس محض اس وجہ سے کہ پہلی قومیں کوئی عبادت کرتی رہی ہیں یہ نتیجہ نکالنا کہ آئندہ بھی وہ کی جائے صحیح نہیں۔ قرآن کریم نے اس اعتراض کے وزن کو قبول کیا ہے اور بتایا کہ ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ پہلی اُمّتوں میں روزہ کا وجود اس کی فضیلت کی کوئی دلیل ہے بلکہ اس کے صرف یہ معنے یہں کہ تم پر یہ کوئی زائد بوجھ نہیں ڈالا گیا۔ بلکہ پہلوں پر بھی یہ بوجھ ڈالا گیا تھا۔ پس یہ روزوں کی فضیلت کی دلیل نہیں بلکہ روزوں کی اہمیت کی دلیل ہے۔ روزوں کی فضیلت اور اس کے فوائد پر لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ کے الفاظ میں روشنی ڈالی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ روزے تم پر اس لئے فرض کئے گئے ہیں لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن تاکہ تم بچ جائو ۔ اس کے کئی معنے ہو سکتے ہیں۔ مثلاً ایک معنی تو یہی ہیں کہ ہم نے تم پر اس لئے روزے فرض کئے ہیں تاکہ تم ان قوموں کے اعتراضوں سے بچ جائو جو روزے رکھتی رہی ہیں۔ جو بھوک اور پیاس کی تکلیف برداشت کرتی رہی ہیں۔ جو موسم کی شدت کو برداشت کر کے خداتعالیٰ کو خوش کرتی رہی ہیں۔ اگر تم روزے نہیں رکھو گے تو وہ کہیں گی تمہارا دعویٰ ہے کہ ہم باقی قوموں سے روحانیت میں بڑھ کر ہیں لیکن وہ تقویٰ تم میں نہیں جو دوسری قوموں میں پایا جاتا تھا۔ غرض اگر اسلام میں روزے نہ ہوتے تو باقی مسلمان دوسری قوموں کے سامنے ہدفِ ملامت بنے رہتے۔ عیسائی کہتے یہ بھی کوئی مذہب ہے اس میں روزے تو ہیں ہی نہیں جن سے قلوب کی صفائی ہوتی ہے جن کے ساتھ روحانی ساکھ بیٹھتی ہے جن کے ذریعہ انسان بدی سے بچتا ہے۔ یہودی کہتے ہیں کہ ہم نے سینکڑوں سال روزے رکھے لیکن مسلمانوں میں روزے نہیں۔ اسی طرح زرتشتی ہندو اور دوسری سب قومیں کہتیں۔ اسلام بھی کوئی مذہب ہے اس میں روزے نہیں۔ ہم روزے رکھتے ہیں اور اس طرح خداتعالیٰ کو خوش کرتے ہیں ۔ غرض ساری دنیا مسلمانوں کے مقابلہ میں آجاتی اور کہتی مسلمانوں میں روزے کیوں نہیں۔ پس فرمایا ۔ اے مسلمانو! ہم تم پر روزے فرض کرتے ہیں لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن تاکہ تم دشمن کے اعتراضات سے بچ جائو۔ اگر اسلام میں روزہ نہ ہوتا یا تم روزے نہ رکھتے تو غیر مذاہب والے تم پر جائز طور پر اعتراض کرتے اور تم ان کی نگاہوں میں غقیر ہو جاتے۔
لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنمیں دوسرا اشارہ اس امر کی طرف کیا گیا ہے کہ اس ذریعہ سے خداتعالیٰ روزہ دار کا محافظ ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اِتَّقَاء کے معنے ہیں ڈھال بنانا۔ وقایہ بنانا۔ نجات کا ذریعہ بنانا۔ پس اس آیت کے معنے یہ ہوئے کہ تم پر روزے رکھنے اس لئے فرض کئے گئے ہیں تاکہ تم خداتعالیٰ کو اپنی ڈھال بنا لو اور ہر شر سے اور ہر خیر کے فقدان سے محفوظ رہو۔ ضعف دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک تویہ کہ انسان کو کوئی شر پہنچ جائے اور دوسرے یہ کہ کوئی نیکی اس کے ہاتھ سے جاتی رہے۔ جیسے کسی کو کوئی مار بیٹھے تو یہ بھی ایک شر ہے۔ اور یہ بھی شر ہے کہ کسی کے ماںباپ اس سے ناراض ہو جائیں۔ حالانکہ اگر کسی کے والدین ناراض ہو کر اس کے گھر سے نکل جائیںتو بظاہر اس کا کوئی نقصان نظر نہیں آتا۔ بلکہ ان کے کھانے کا خرچ بچ سکتا ہے۔ لیکن ماں باپ کی رضا مندیایک خیر اور برکت ہے اور جب وہ ناراض ہو جائیں تو انسان ایک خیر سے محروم ہو جاتا ہے۔ اِتَّقَاء ان دونوں باتوں پر دلالت کرتا ہے اور متقی وہ ہے جسے ہر قسم کی خیر مل جائے اور وہ ہرقسم کی ذلت اور شر سے محفوظ رہے۔
اس سے آگے پھر شر کا دائرہ بھی ہر کام کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے مثلا اگر کوئی شخص گاڑی میں سفر کر رہا ہے تو اس کا شر سے محفوظ رہنا یہی ہے کہ اسے کوئی حادثہ پیش نہ آئے۔ اور وہ بحفاظت منزلِ مقصود پر پہنچ جائے۔ اسی طرح روزے کے سلسلہ میں بھی ایسے ہی خیر وشر مراد ہو سکتے ہیں جن کا روزے سے تعلق ہو۔ روزہ ایک دینی مسئلہ ہے یا بلحاظ صحتِ انسانی دنیوی امور سے بھی کسی حد تک تعلق رکھتا ہے پس لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن کے یہ معنے ہوئے کہ تا تم دینی اور دنیوی شُرور سے محفوظ رہو۔ دینی خیر و برکت تمہارے ہاتھ سے نہ جاتی رہے یا تمہاری صحت کو نقصان نہ پہنچ جائے۔کیونکہ بعض دفعہ روزے کئی قسم کے امراض سے نجات دلانے کا بھی موجب ہو جاتے ہیں۔
آجکل کی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ بڑھاپا یا ضعف آتے ہی اس وجہ سے ہیں کہ انسان کے جسم میں زائد مواد جمع ہو جاتے ہیں اور ان سے بیماری یا موت پیدا ہو تی ہے۔ بعض نادان تو اس خیال میں اس حد تک ترقی کر گئے ہیں کہ کہتے ہیں کہ جس دن ہم زائد مواد کوفنا کرنے میں کامیاب ہو گئے اس دن موت بھی دنیا سے اُٹھ جائیگی۔ یہ خیال اگرچہ احمقانہ ہے تاہم اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تھکان اور کمزوری وغیر ہ جسم میں زائد مواد جمع ہونے ہی سے پیدا ہوتی ہے۔ اورروزہ اس کے لئے بہت مفید ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ صحت کی حالت میں جب روزے رکھے جائیں تو دورانِ رمضان میں بے شک کچھ کوفت محسوس ہوتی ہے مگر رمضان کے بعد جسم میں ایک نئی قوت ار تروتازگی کا احسان ہونے لگتا ہے یہ فائدہ تو صحتِ جسمانی کے لحاظ سے ہے مگر روحانی لحاظ سے اس کا یہ فائدہ ہے کہ جو لوگ روزے رکھتے ہیں خداتعالیٰ ان کی حفاظت کا وعدہ کرتا ہے۔ اسی لئے روزوں کے ذکر کے بعد خداتعالیٰ نے دعائوں کی قبولیت کا ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ میں اپنے بندوں کے قریب ہوں اور ان کی دعائوں کو سنتا ہوں پس روزے خداتعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے والی چیز ہیں اور روزے رکھنے والا خداتعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے والی چیز ہیں اور روزے رکھنے والاخداتعالیٰ کو اپنی ڈھال بنا لیتا ہے جو اسے ہر قسم کے دکھوں اور شر ور سے محفوظ رکھتا ہے۔
پھر روزے کے ذریعہ دکھوں سے انسان اس طرح بھی بچتا ہے کہ (۱)جب وہ اپنے آپ کو خداتعالیٰ کے لئے تکلیف میں ڈالتا ہے تو خدتعالیٰ اس کے گناہوں کی سزا سے اُسے بچالیتا ہے۔ (۲) جب وہ فاقے رہ کر بھوک کی تکلیف محسوس کرتا ہے تو اپنے غریب بھائیوں کی خبر گیری کرتا ہے اور ان کا ہلاکت سے بچنا خود اُسے بھی ہلاکت سے بچا لیتا ہے کیونکہ بعض افرادِ قوم کے بچنے سے آخر ساری قوم کو فائدہ پہنچتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے دنوں میں بہت کثرت سے صدقہ و خیرات کیاکرتے تھے۔ احادیث میں آتا ہے کہ رمضان کے دنوں میں آپ تیز چلنے والی آندھی کی طرح صدقہ کیا کرتے تھے۔ اور درحقیقت یہ قومی ترقی کا ایک بہت بڑا گُر ہے کہ انسان اپنی چیزوں سے دوسروں کو فائدہ پہنچائے۔ تمام قسم کی تباہیاں اُسی وقت آتی ہیں جب کسی قوم کے افراد میں یہ احسان ہو جائے کہ ان کی چیزیں انہی کی ہیں دوسروں کا ان میں کوئی حق نہیں اور ان سے فائدہ اُٹھانے کا حق اُنہی کو ہے جن کو وہ چیزیں دی گئی ہیں۔ دنیا کے نظام کی بنیاد اس اصل پر ہے کہ میری چیز دورا ستعمال کرے۔ اور رمضان اس کی عادت ڈالتا ہے۔ روپیہ ہمارا ہے کھانے پینے کی چیزیں ہماری ہیں مگر حکم یہ ہے کہ دوسروں کو ان سے فائدہ پہنچائو۔ اور کھلائو۔ کیونکہ اس سے دنیا کے تمدن کی بنیاد قائم ہوتی ہے۔ پھر روزوں کے ذریعہ انسان ہلاکت سے اس طرح بھی محفوظ رہتا ہے کہ روزے انسان کے اندر مشقت برداشت کرنے کا مادہ پیدا کرتے ہیں۔ اور جو لوگ ہر قسم کی مشقت برداشت کرنے کے عادی ہوں وہ مشکلات کے آنے پر ہمت نہیں ہارتے بلکہ دلیری سے ان کا مقابلہ کرتے ہیں اور کامیابی حاصل کرتے ہیں۔
دنیوی گورنمنٹوں میں بھی ایک ریزروفوج ہوتی ہے جو سال میں ایک دو مہینے کام کرتی ہے اور جب جنگ کا موقعہ آتا ہے تو چونکہ اس کو مشق کروائی ہوئی ہوتی ہے اس لئے فوراً اسے بلوالیا جاتا ہے۔ چونکہ عام طور پر تمام مسلمان بارہ مہینے روزے نہیں رکھتے اور نہ ہی تہجد پڑھتے ہیں اس لئے رمضان میں خصوصیت کے ساتھ ہدایت فرما دی کہ تمام مسلمان اس ماہ میں روزوں کی مشق کریں جس طرح وہ فوج جو مشق کرتی رہیت ہے دشمن کی فوج سے شکست نہیں کھاتی اسی طرح جس قوم کے لوگ متقی اور نیک ہوتے ہیں اور جو خداتعالیٰ کے لئے ہر ایک چیز کو چھوڑنے والے ہوتے ہیں شیطان کی مجال نہیں ہوتی کہ ان کو زک دے سکے یہی وجہ ہے کہ جب تک تمام مسلمان روحانی سپاہی تھے شیطان نے ان پر کوئی حملہ نہیں کیا لیکن جب خال خال رہ گئے تو اس وقت ان پر حملہ کیا گیا۔ اور شیطان نے ان کے دل میں طرح طرح کے وسوسے ڈال کر ان کو تباہ کر دیا۔
پس روزے قوم میں قربانی کی عادت پید ا کرنے کا موجب ہوتے ہیں ۔ دین کی خدمت کے لئے بالعموم مومنوں کو گھروں سے نکلنا پڑتا ہے۔ اور تبلیغی جہاد میں کھانے پینے کی تکلیف کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے غرباء کو تو ایسی تکلیف برداشت کرنے کی عادت ہوتی ہے مگر امراء کو اس کی عادت نہیں ہوتی۔ پس روزوں کے ذریعہ ان کو بھی بھوک اور پیاس کی برداشت کی مشق کرائی جاتی ہے تاکہ جس دن خدتعوالیٰ کی طرف سے آواز آئے کہ اے مسلمانو! آئو اور خداتعالیٰ کی راہ میں جہاد کرو۔ تو وہ سب اکٹھے اُٹھ کھڑے ہوں اور خداتعالیٰ کی راہ میں بغیر کسی قسم کا بوجھ محسوس کئے اپنے آپ کو پیش کر دیں۔
پس روزوں کا یہ ایک بہت بڑا فائدہ ہے کہ اس کے ذریعہ انسان کو نیکی کے لئے مشقت برداشت کرنے کی عادت پیدا ہو جاتی ہے انسان دنیا میں کئی قسم کا کام کرتا ہے۔ وہ محنت و مشقت بھی کرتا ہے۔ وہ آوارگی بھی کرتا ہے وہ اِدھر اُدھر بھی پھرتا ہے وہ گپیں بھی ہانکتا ہے۔ بالکہ فارغ نہ انسانی دماغ رہتا ہے نہ اس کا جسم کچھ نہ کچھ کام انسان ضرور کرتا رہتا ہے۔ مگر بعض لغو کام ہوتے ہیں بعض مضر اور بعض مفید اور بعض بہت ہی اچھے ۔ لیکن رمضان انسان کو ایک ایسے کام کی عادت ڈالتا ہے جس کے نتیجہ میں اسے نیک کاموں میں مشقت برداشت کرنے کی عادت ہو جاتی ہے انسانی زندگی کی راحت اور آرام کی چیزین کیا ہوتی ہیں یہی کھانا پینا سونا اور جنسی تعلقات۔ تمدن کا اعلیٰ نمونہ جنسی تعلقات ہیں۔ جن سے دوستوں سے ملنا اور عزیزوں سے تعلقات رکھنا بھی شامل ہے۔ مگر جنسی تعلقات میں سب سے زیادہ قریبی تعلق میاںبیوی کا ہے پس انسانی آرام انہی چند باتوں میں مضمر ہے کہ وہ کھاتا ہے وہ پیتا ہے وہ سوتا ہے۔ اور وہ جنسی تعلقات قائم رکھتا ہے کسی صوفی نے کہا ہے کہ تصوف کی جان کم بولنا، کم کھانا اور کم سونا ہے اور رمضان اس تصوف کی ساری جان کا نچوڑ اپنے اندر رکھتا ہے کم سونا آپ ہی اس میں آجاتا ہے۔ کیونکہ رات کو تہجد کے لئے اُٹھنا پڑتا ہے ۔ کم کھانا بھی ظاہر بات ہے کیونکہ سارا دن فاقہ کرنا پڑتا ہے۔ اور جنسی تعلقات کی کمی بھی ظاہر ہے پھر کم بولنا بھی رمضان میں آجاتا ہے۔ اس لئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا۔ روزہ یہ نہیں کہ انسان اپنا منہ کھانے پینے سے بند رکھے بلکہ روزہ یہ ہے کہ لغو باتیں بھی نہ کرے۔ پس روزہ دار کیل ئے بیہودہ باتوں سے بچنا لڑائی جھگڑے سے بچنا اور اسی طرح کی اور لغو باتوں سے پرہیز کرنا بھی ضروری ہوتاہے۔ اس طرح کم بولنا بھی رمضان میں آگیا۔ گویا کم کھانا کم بولنا کم سونا اور جنسی تعلقات کم کرنا یہ چاروں باتیں رمضان میں آگئیں۔ اور یہ چاروں چیزیں نہایت ہی اہم ہیں۔ اور انسانی زندگی کا ان سے گہرا تعلق ہے پس جب ایک روزہ دار ان چاروں آرام و آسائش کے سامانوں میں کمی کرتا ہے تو اس میں مشقت برداشت کرنے کی عادت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ زندگی کے ہر دور میں مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرتا اور کامیابی حاصل کرتا ہے۔
پھر لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن میں ایک اور فائدہ یہ بتایا کہ روزہ رکھنے والا برائیوں اور بدیوں سے بچ جاتا ہے اور یہ غرض اس طرح پوری ہوتی ہے کہ دنیا سے انقطاع کی وجہ سے انسان کی روحانی نظر تیز ہو جاتی ہے اور وہ ان عیوب کو دیکھ لیتا ہے جو اسے پہلے نظر نہ آتے تھے۔ اسی طرح گناہوں سے انسان اس طرح بھی بچ جاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے روزہ اس چیز کا نام نہیں کہ کوئی شخص اپنا منہ بند رکھے اور سارا دن نہ کچھ کھائے اور نہ پیئے بلکہ روزہ یہ ہے کہ مونہہ کو کھانے پینے سے ہی نہ روکا جائے بلکہ اُسے ہر روحانی نقصان دہ اور ضر ررساں چیز سے بھی بچایا جائے نہ جھوٹ بولا جائے نہ گالیاں دی جائیں نہ غیبت کی جائے۔ نہ جھگڑا کیا جائے۔ اب دیکھو زبان پر قابو رکھنے کا حکم تو ہمیشہ کے لئے ہے۔ لیکن روزہ دار خاص طور پر اپنی زبان پر قابو رکھتا ہے۔ کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور اگر کوئی شخص ایک مہینہ تک اپنی زبان پر قابو رکھتا ہے تو یہ امر باقی گیارہ مہینوں میں بھی اس کے لئے حفاظت کا ایک ذریعہ بن جاتا ہے۔ اور اس طرح روزہ اُسے ہمیشہ کے لئے گناہوں سے بچا لیتا ہے۔
پھر لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنمیں روزوں کا ایک اور فائدہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس کے نتیجہ میں تقویٰ پر ثباتِ قسم حاصل ہوتا ہے اور انسان کو روحانیت کے اعلیٰ مدارج حاصل ہوتے ہیں۔ چنانچہ روزوں کے نتیجہ میں صرف امراء ہی اللہ تعالیٰ کا قرب حاسل نہیں کرتے بلکہ غرباء بھی اپنے اندر ایک نیا روحانی انقلاب محسوس کرتے ہیں اور وہ بھی اللہ تعالیٰ کے وصال سے لطف انداوز ہوتے ہیں غرباء بیچارے سارا سال تنگی سے گذارہ کرتے ہیں۔ اور بعض دفعہ انہیں کئی کئی فاقے بھی آجاتے ہیں اللہ تعالیٰ نے رمضان کے ذریعہ نہیں توجہ دلائی ہے کہ وہ ان فاقوں سے بھی ثواب حاصل کر سکتے ہیں۔ اور خداتعالیٰ کے لئے فاقوں کا اتنا بڑا ثواب ہے کہ حدیث میں آتا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اَلصَّوْ لِیْ وَاَنَا اُجْرٰی بِہٖ۔ یعنی ساری نیکیوں کے فوائد اور ثواب الگ الگ ہیں لیکن روزہ کی جزاء خود میری ذات ہے۔ اور خداتعالیٰ کے ملنے کے بعد انسان کو اور کیا چاہیے۔ غرض روزوں کے ذریعہ غربا کو یہ نکتہ بتایا گیا ہے کہ ان تنگیوں پر بھی اگر وہ بے صبر اور ناشکر ے نہ ہوں اور حرف شکایت زبان پر نا لائیں جیسا کہ بعض نادان کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہمیں خداتعالیٰ نے کیا دیا ہے کہ نمازیں پڑھیں اور روزے رکھیں تو یہی فاقے ان کے لئے نیکیاں بن جائیں گی۔ اور ان کا بدلہ خود خدا تعالیٰ ہو جائیگا۔ پس اللہ تعالیٰ نے روزوں کو غرباء کے لئے تسکین کا موجب بنایا ہے تاکہ وہ مایوس نہ ہوں او ریہ نہ کہیں کہ ہماری فقرو فاقہ کی زندگی کس کام کی ۔ اللہ تعالیٰ نے روزہ میںا نہیں یہ گر بتایا ہے کہ اگر وہ اس فقروفاقہ کی زندگی کو کداعتالیٰ کی رضاء کے مطاق گذراریں تو یہی انہیں خداتعالیٰ سے ملا سکتی ہے۔ دنیا میں اس قدر لوگ امیر نہیں جتنے غریب ہیں اور تمام دینی سلسلوں کی ابتداء بھی غرباء سے ہی ہوئی ہے اور انتہا بھی غرباء پر ہی ہوئی ۔ بلکہ قریباً تمام انبیاء بھی غرباء میں سے ہی ہوئے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کوئی بڑے آدمی نہ تھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوئی بڑے آدمی نہ تھے۔ حضرت مسیح موعو د علیہ السلام بھی کوئی امیر کبیر نہ تھے۔ آپ کی جائیداد کی قیمت قادیان کے ترقی کرنے کے باعث بڑھ گئی ورنہ اس کی قیمت خود آپ نے دس ہزار روپیہ لگائی تھی۔ اور اتنی مالیت کی جائیداد سے کونسی بڑی آمد ہوسکتی ہے۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام بھی بڑی آدمی نہ تھے ۔ اگرچہ انبیاء کو اللہ تعالیٰ بعد میںبڑا بنا دیتا ہے لیکن یہ سب کچھ بعد میں جفؒ کے طور پر ہوا۔ ابتداء میں تمام سلسلوں کے بانی غریب ہی ہوئے امراء اور بادشاہ نہیں ہوئے۔ بیشک درمیانی طبقہ کے لوگوں میں سے بھی بعض دفعہ انبیاء ہوتے رہے لیکن بادشاہ صرف چند ایک ہی ہوئے۔ جیسے حضرت دائود علیہ السلام یاحضرت سلیمان علیہ السلام۔ مگر یہ بھی ایسے نہیں ہیں کہ کسی سلسلہ کے بانی ہوں۔ بپھر دنیا کی اسی فیصد آبادی غریب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اتنی بڑی کثرت کی دلجوئی رمضان کے ذریعہ کی ہے اور بتایا ہے کہ یہ مت سمجھو کہ فاقہ کش کو خداتعالیٰ نہیں ملتا پس وہ غرباء جو سمجھتے ہیں کہ ان کی عمر رائیگاں گئی۔ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں رمضان کے ذریعہ بتایا ہے کہ وہ انہیں فاقوں میں سے گذر کر اللہ تعالیٰ کے بڑے بڑے فیوض حاصل کر سکتے ہیں بشرطیکہ فاقہ میں بھی وہ اللہ تعالیٰ کو نہ بھولیں اور اس کے متعلق اپنی زبان پ رکوئی حرفِ شکایت نہ لائیں۔ اس کے مقابلہ میں روزہ امیر لوگوں کے لئے تقویٰ کے حصول کا ذریعہ اس طرح ہوتا ہے کہ جب ایک انسان جس کے پاس کھانے پینے کے تمام سامان موجو دہوتے ہین محض اللہ تعالیٰ کی رجاء کے لئے اپنے آپ کو فاقہ میں ڈالتا ہے اور خداتعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے کچھ نہیں کھاتا۔ اور جو حلال چیزیں خداتعالیٰ نے اُسے دی ہیں انہیں بھی استعمال نہیں کرتا۔ اس کے گھر میں گھی، گوشت ، چاول وغیرہ کھانے کی تمام ضروریات موجو د ہوتی ہیں۔ مگر وہ خداتعالیٰ کے لئے انہیں ترک کر دیتا ہے تو اس کے دل میں خود بخود یہ جذبہ پیدا ہوتاہے کہ جب میں نے حلال چیزوں کو بھی خداتعالیٰ کی رضاء کے لئے چھوڑ دیا ہے تو میں ان چیزوں کی کیوں خواہش کرون جنہیں خداتعالیٰ نے حرام قرار دیاہوا ہے اس طرح اس کے اندر ضبطِ نفس کی قوت پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے قدم کو نیکیوں کے میدان میں بڑھاتا چلا جاتا ہے۔
روزوں کا ایک روحانی فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے انسان خداتعالیٰ سے مشابہت اختیار کرلیتا ہے ۔ خداتعالیٰ کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ نیندے سے پاک ہے۔ انسان ایسا تو نہیں کر سکتا کہ وہ اپنی نیند کو بالکل چھوڑ دے مگر وہ اپنی نیند کے ایک حصہ کو روزوں میں خداتعالیٰ کیلئے قربان ضرور کرتا ہے سحری کھانے کے لئے اُٹھتا ہے تہجد پڑھتا ہے ۔ عورتیں جو روزہ نہ رکھیں اور سحری کے انتظام کے لئے جاگتی ہیں۔ کچھ وقت دعائوں میں اور کچھ نماز میں صرف کرنا پڑتا ہے اور اس طرح رات کا بہت کم حصہ سونے کے لئے باقی رہ جاتا ہے اور کام کرنے والوں کے لئے تو گرمی کے موسم میں دو تین گھنٹے ہی نیند کے لئے باقی رہ جاتے ہیں ۔ اس طرح انسان کو اللہ تعالیٰ کھانے پینے سے پاک ہے۔ انسان کھانے پینا بالکل تو نہیں چھوڑ سکتا۔ مگر پھر بھی رمضان میں اللہ تعالیٰ سے وہ ایک قسم کی مشابہت ضرور پیدا کر لیتا ہے پھر جس طرح اللہ تعالیٰ سے خیر ہی خیر ظاہر ہوتا ہے اسی طرح انسان کو بھی روزوں میں خاص طور پر نیکیاں کرنے کا حکم ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ۔ جو شخص غیبت، چغلخوری اور بدگوئی وغیرہ بُری باتوں سے پرہیز نہیں کرتا اس کا روزہ نہیں ہوتا۔ گویا مومن بھی کوشش کرتا ہے کہ اس سے خیر ہی خیر ظاہر ہو۔ اور وہ غیبت اور لڑائی جھگڑے سے بچتا رہے۔ اس طرھ وہ اس حد تک خداتعالیٰ سے مشابہت پیدا کر لیتا ہے جس حد تک ہو سکتی ہے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ ہر چیز اپنی مثل کی طرف دوڑتی ہے۔ فارسی میں ضرب المثل ہے کہ
’’کند ہمجنس باہم جنس پرواز‘‘
پس روزہ کا ایک روحانی فائدہ یہ ہے کہ انسان کا خدا تعالیٰ سے اعلیٰ درجہ کا اتصال ہو جاتا ہے اور خداتعالیٰ خود اس کا محافظ بن جاتا ہے۔
پھر روزوں کا روحانی رنگ میں ایک یہ بھی فائدہ ہے کہ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا الہام انسانی قلب پر نازل ہوتا ہے اور اس کی کشفی نگاہ میں زیادہ جِلا اور نور پیدا ہوتا ہے درحقیقت اگر غور سے کام لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی عادت تو نہیں مگر اس میں عادت سے ایک مشابہت ضرور پائی جاتی ہے۔ انسان کی طرح اس کی آنکھیں تو نہیں مگر وہ بصیر ضرور ہے اس کے کان نہیں مگر وہ سمیع ضرور ہے اسی طرح گو اس میں کوئی عادت نہیں پائی جاتی مگر اس میں یہ بات ضروری پائی جاتی ہے کہ جب وہ ایک کام کرتا ہے تو اُسے دوہراتا ہے۔ انسان میں بھی یہ بات پائی جاتی ہے۔ بعض لوگوں کو ہاتھ یا پیر ہلانے کی عادت ہوتی ہے اور وہ انہیں بار بار ہلاتے ہیں اور عادت کے یہی معنے ہوتے ہیں کہ کوئی بات باربار کی جائے اور یہ بات اللہ تعالیٰ میں بھی ہے کہ جب وہ ایک خاص موقعہ پر اپنا فضل نازل کرتا ہے تواس موقعہ پر باربارفضل کرتاہے اللہ تعالیٰ کی اس صفت کے ماتحت چونکہ رمضان کے مہینہ میں قرآن کریم نازل ہوا تھا۔ اس لئے اگر اس رسولؐ کی اتباع کی جائے جس پر قرآن کریم نازل ہوا تو اللہ تعالیٰ کی عادت سے مشابہت رکھنے والی صفت کے ماتحت ان لوگوں کو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کی وجہ سے دنیا سے علیحدگی اختیار کرتے ہیں اور دنیا میں رہتے ہوئے بھی اس سے تعلقات نہیں رکھتے۔ کھانے پینے اور سونے میں کمی کرتے ہیں ۔ بے ہودہ گوئی وغیرہ سے پرہیز کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے الہام سے نوازتا اور ان پررویا صادقہ اور کشوفِ صحیحہ کا دروازہ کھول دیتا ہے اور اسرار غیبیہ سے مطلع کرتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام کا بھی ایک الہام ہے کہ
پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی
اس میں بھی وہی عادت والی بات بیان کی گئی ہے خداتعالیٰ نے ایک دفعہ بہار میں اپنی رحمت کی شان دکھائی تھی اس لئے جب پھر موسم بہار آتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کہتی ہے کہ اب کے میرے بندے کیا کہیں گے اس لئے ہم پھر اپنی شان دکھاتے ہیں۔ اور اگر بندے اس سے فائدہ اٹھائیں تو اگلی بہار میں پھر وہی انعام نازل ہوتا ہے غرض کلامِ الہٰی کو اگر درخت تصور کر لیا جائے تو جو صفتِ الہٰی عادت کے مشابہ ہے وہ ہر رمضان میں اسے جھنجھوڑتی ہے اس سے مومنوں کو تازہ بتازہ پھل حاصل ہوتے ہیں۔
پھر روزوں سے اس زنگ میں بھی روحانیت ترقی کرتی ہے کہ جب انسان خداتعالیٰ کے لئے کھانا پینا ترک کرتا ہے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ وہ خداتعالیٰ کے لئے اس کی راہ مین مرنے کو تیار ہے۔ اور جب وہ اپنی بیوی سے مخصوص تعلقات قطع کرتا ہے تو اس بات پر آمادگی کا اظہار کرتا ہے کہ وہ خداتعالیٰ کیل ئے اپنی نسل کو بھی قربان کر دینے کیلئے تیار ہے اور جب وہ روزوں میں ان دونوں اقسام کے نمونے کر دیتا ہے تو وہ خداتعالیٰ کی لقاء کا مستحق ہو جاتا ہے اور خداتعالیٰ سے تعلق قائم ہونے اور روحانیت کے مضبوط ہوجانے کی وجہ سے وہ شخص ہمیشہ کے لئے گمراہی سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
پھر رمضان کے ذریعہ استقلال کی عادت بھی ڈالی جاتی ہے کیونکہ یہ نیکی متواتر ایک عرصہ تک چلتی ہے۔ انسان دن میںکئی کئی مرتبہ کھانے کا عادی ہوتا ہے ۔ غرباء اور امراء شہری ار دیہاتی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق عام ایام میں کئی دفعہ کھاتے پیتے ہیں مگر رمضان میں تمام کھانے سمٹ سمٹا کر صرف دو بن جاتے ہیں۔ اسی طرح جہاںدوسرے ایام میں وہ ساری رات سوئے رہتے ہیں وہاں رمضان کے ایام میں انہیں تہجد اور سحری کے لئے اُٹھنا پڑتا ہے اور دن کو بھی قرآن کریم کی تلاوت میں اپنا کافی وقت صرف کرنا پڑتا ہے ۔ غرض رمضان کے ایام میں اپنی عادت کی بہت کچھ قربانی کرنی پڑتی ہے اور یہ قربانی ایک دن نہیں دو دن نہیں مگر متواتر ایک مہینہ تک بغیر ناغہ کے کرنی پڑتی ہے پس روزوں سے استقلال کا عظیم الشان سبق ملتا ہے۔ اور درحقیقت بغیر مستقل قربانیوں کے کوئی شخص خداتعالیٰ کو نہیں پا سکتا کیونکہ حقیقی محبت جوش دلانے سے تعلق نہیں رکھتی اور نہ وہ عارضی ہوتی ہے بلکہ حقیقی محبت استقلال سے تعلق رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلوم ہو اکہ آپ کی ایک بیوی نے چھت سے ایک رسہ اس لئے لٹکا رکھا ہے کہ جب نماز پڑھتے پڑھتے انہیں اونگھ آنے لگے تو اس کا سہارا لے لیں تو آپ نے فرمایا یہ کوئی عبادت نہیں۔ عبادت وہی ہے جسے انسان بشاشت سے ادا کر سکے۔ اور جس کے نتیجہ میں ایسا ملال پیدا نہ ہو۔ جو اس کے دوام اور استقلال کو قطع کرنیکا موجب بن جائے۔
اسی طرح روزوں کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعہ مومنوں کو ایک مہینہ تک اپنے جائز حقوق کو بھی ترک کرنے کی مشق کرائی جاتی ہے۔ انسان گیارہ مہینے حرام چھوڑنے کی مشق کرتا ہے مگر بارھویں مہینہ میں وہ حرام نہیں بلکہ حلال چھوڑنے کی مشق کرتا ہے ۔ یعنی روزوں کے علاوہ دوسرے ایام میں ہم یہ نمونہ دکھاتے ہیں کہ خداتعالیٰ کیلئے ہم کسی طرح حرام چھوڑسکتے ہیں۔ مگر روزوں کے ایام میں ہم یہ نمونہ دکھاتے ہیں کہ خداتعالیٰ کے لئے کس طرح حلال چھوڑ سکتے ہیں۔ اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حلال چھوڑنے کی عادت پیدا کئے بغیر دنیا میں حقیقی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ دنیا میں اکثر فساد اس لئے نہیں ہوتے کہ لوگ حرام چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتے بلکہ اکثر فساداس لئے ہوتے ہیں کہ لوگ حلال کو بھی ترک کرنے کیل ئے تیار نہیں ہوتے ۔ وہ لوگ بہت ہی کم ہیں جو ناجائز طور پر کسی کا حق دبائیں مگر وہ لوگ دنیا میں بہت زیادہ ہیں جو لڑائی اور جھگڑے کو پسند کرلیں گے مگر اپنا حق چھوڑنے کے لئے کبھی تیار نہیں ہونگے۔ سینکڑوں پاگل اور نادان دنیا میں ایسے ہیں جو اپنا حق حاصل کرنے کے لئے دنیا مین عظیم الشان فتنہ و فساد پیدا کر دیتے ہیں۔ اور اس بات کی کوئی پراوہ نہیں کرتے کہ دنیا کا امن برباد ہورہا ہے ۔حالانکہ اگر وہ ذاتی قربانی کریں تو بہت سے جھگڑے اور فساد مٹ سکتے ہیں اور نہایت خوشگوار امن قائم ہو سکتا ہے۔ پس رمضان کا مہینہ ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ تم صرف حرام ہی نہ چھوڑو بلکہ خداتعالیٰ کے لئے اگر ضرورت پڑ جائے تو حلال یعنی اپنا حق بھی چھوڑ دو۔ تاکہ دنیا میں نیکی قائم ہو اور خداتعالیٰ کا نام بلند ہو۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اسلامی عبادتیں اپنے اندر کئی قسم کے سبق رکھتی ہیں۔ بعض سبق ایسے ہوتے ہیں جو ہر عبادت سکھاتی ہے اور بعض سبق ایسے ہوتے ہیں جو ایک سے زیادہ عبادتوں کی نسبت سے پیدا ہوتے ہیں۔ اور بعض سبق ایسے ہیں جو ساری عبادتوں کی مجموعی حالت سے پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح خداتعالیٰ کے پیدا کردہ عالم میں ہمیں یہ نقشہ نظر آتا ہے کہ اس کا ہر فرد اپنے اندر ایک حقیقت رکھتا ہے پھر دو افراد مل کر اپنے اندر حقیقت رکھتے ہیں پھر دو سے زیادہ افراد مل کر اپنے اندر حقیقت رکھتے ہیں۔ پھر سارا عالم اپنے اندر ایک حقیقت رکھتا ہے یہی حال عبادتوں کا ہے۔ اور جس طرح قانونِ قدرت میں ایک ترتیب اور ربط موجود ہے اسی طرح عبادتوں میں بھی ربطِ ہے مگر یہ بات صرف شریعت اسلامیہ میں ہی پائی جاتی ہے باقی شرائع میں نہیں۔ ان میں نماز۔ زکوٰۃ اور روزہ کی قسم کی عبادتیں ہین۔ مگر ان کا آپس میں کوئی ربط نہیں۔ وہ ایسی ہی ہیں جیسے بکھری ہوئی اینٹیں۔ لیکن شریعت اسلامیہ کو اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس کا ہر حکم اپنے اندر ایک اور حکمت رکھتے ہیں۔ اس کی ایک مثال نماز اور روزہ ہے۔ نماز اپنی ذات میں ایک سبق رکھتی ہے اور روزہ بھی اپنی ذات میں ایک سبق رکھتا ہے۔ مگر پھر نماز اور روزہ مل کر ایک اور سبق رکھتے ہیں۔ اگر نماز نہ ہوتی صرف روزے ہوتے تو یہ سبق رہ جاتا ۔ اگر اگر روزے نہ ہوہتے صرف نماز ہی ہوتی تب بھی یہ سبق رہ جاتا۔ بیشک روزے اپنی ذات میں مفید ہیں اور نماز اپنی ذات میں مفید ہے جس طرح اسلام کی ساری عبادتیں اپنی اپنی ذات میں مفید ہیں لیکن نماز اور روزہ مل کر ایک نیا سبق دیتے ہیں جس کا میں اس موقعہ پر ذکر کر رہا ہوں۔
نماز کا اصل مقام طہارت ہے جسے وضو کی حالت کہتے ہیں۔ اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص وضو کر کے نماز کے لئے بیٹھ جات اہے وہ نماز ہی کی حالت میں ہوتا ہے ۔ نماز اس حالت کا انتہائی مقام ہے ۔ ورنہ اصل نماز مومن کی وہ قلبی کیفیت ہے جو وضو سے تعلق رکھتی ہے۔ اب یہ دیکھنا چاہیے کہ وجو کی کیا حقیقت ہے؟ وضو کے ذریعہ جو فعل ہم کرتے ہیں وہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ کوئی چیز جسم سے خارج نہ ہو خواہ وہ پیشاب پاخانہ کے رنگ میں خارج ہو خواہ مرد عورت کے تعلقات کے ذریعہ سے خارج ہو یا اور ایسے رنگوں سے خارج ہو جن سے طہارت کو نقصان پہنچتا ہے۔ غرض وضو کا مدار کسی چیز کے جسم سے نہ نکلنے پر ہے۔ اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ نماز کی طہارت کا مدار اس امر پر ہے کہ کوئی چیز جسم سے خارج نہ ہو۔ لیکن روزہ کی طہارت کا مدار اس امر پر ہے کہ کوئی چیز جسم کے اندر داخل نہ ہو۔ بیشک روزہ میں مرد و عورت کے تعلقات سے بھی روکا گیا ہے۔ مگر یہ اس لئے ہے کہ روزہ کی حالت میں انسان کی کلی توجہ اور طرف نہ ہو۔ ورنہ روزہ کا اصل مدار کسی چیز کیجسم میں داخل نہ ہو۔ ورنہ روزہ کا اصل مدار کسی چیز کے جسم میں داخل نہ ہونے پر ہے۔ اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ روزہ کا مدار اس امر پر ہے کہ کوئی چیز جسم میںداخل نہ ہو۔ اگر صرف نماز ہی ہوتی اور وضو صرف ظاہری صفائی ہوتا تو کہا جاتا کہ اس سے مراد صرف ہاتھ منہ اور پائوں کا دھونا ہے۔ اسی طرھ اگر روزہ ہوتا اور کوئی چھوٹی چھوٹی چیز کھالی جاتی تو کہا جاسکتا تھا کہ روزہ سے مراد فاقہ کرانا ہے۔ لیکن جسم سے کچھ خارج ہونے سے وضو کا باطل ہو جانا اور کسی چیز کے جسم میں داخل ہونے سے روزہ کا ٹوٹ جانا بتاتا ہے کہ کسی چیز کے خارج ہونے کا نماز سے اور کسی چیزکے اندر داخل ہونے کا روزہ سے تعلق ہے۔ اور ان دونوں کو ملا کر یہ لطیف بات نکلتی ہے کہ انسان طہارت میںاس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جبتک وہ دو احتیاطیں نہ کرے۔ یعنی بعض چیزین اپنے جسم سے نکلنے نہ دے اور بعض چیزیں داخل نہ ہونے دے۔ اگر ہم ان دو باتوں کا لحاظ رکھ لیں کہ بعض چیزوں کو جسم سے نکلنے نہ دیں اور بعض کو داخل نہ ہونے دیں تو طہارت کامل ہو جاتی ہے۔ نماز اور روزہ سے مجموعی طور پر انسان کو یہ گُر سکھایاگیا ہے کہ ہر انسان کو یہ امر مدنظر رکھنا چاہیے کہ بعض چیزوں کے جسم سے نکلنے کی وجہ سے وہ ناپاک ہو جاتا ہے ان کو نکلنے نہ دے اور بعض چیزوں کے جسم میں داخل ہونے کی وجہ سے وہ ناپاک ہو جاتا ہے انہیں داخل نہ ہونے دے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کونسی گندی چیزیںہیں جن کا نکلنا روحانیت کے لحاظ سے مضر ہوتا ہے۔ دنیا میں تو ہم دیکھتے ہیں کہ گند کا نکلنا ہی اچھا ہوتا ہے۔ کیا ایسے گند بھی ہیں جن کا نہ نکلنا اچھا ہوتا ہے۔ اس کے متعلق ہمیں قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض گند ایسے بھی ہیں جن کا نہ نکلنا ہی اچھا ہوتا ہے۔ مثلاً کسی کی طبیعت میں غصہ زیادہ ہے۔ اگر کسی موقعہ پر اسے سخت غصہ آگیا مگر وہ اسے نکلنے نہیں دیتا تو خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ نیک اور متقی انسان کو بھی غصہ آجاتا ہے مگر وہ اسے روک لیتا ہے۔ جیسے نماز کے وقت اس بات کا لحاظ رکھ لیتا ہے کہ اس وقت ایسی چیزیں ظاہر نہ ہوں جو وضو کو باطل کر دیں۔ بعض کیفیتیں ایسی ہوتی ہیں کہ وہ روک دینے سے کم نکلتی ہیں اور اگر انہیں نکلنے کے لئے آزاد چھوڑ دیا جائے تو بڑھ جاتی ہیں غصہ بھی ایسی ہی کیفیات میں سے ہے۔ ہمارے ہاں محاورہ بھی یہی ہے۔ کہتے ہیں کہ اب تو آپ نے غصہ نکال لیا ہے اب جانے دو۔ یعنی گالی گلوچ یا مار پیٹ کے ذریعہ سے غصہ کا اظہار کر لیا ہے۔ لیکن اگر وہ اسے دبالیتا اور روک لیتا تو وہ اس کے لئے نیکی بن جاتی ہے۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اگر کسی کے دل میں کوئی بُرا خیال پیدا ہو مگر وہ اسے روک لے اور اس پر عمل نہ کرے تو یہ اس کے لئے نیکی ہو جاتی ہے غرض قلب کے بعض ایسے ھالات ہوتے ہیں کہ اگر انہیں ظاہر کیا جائے تو طہارت باطل ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر ان کو دل ہی میں رکھیں تو نیکی بن جاتی ہے۔ یہ سبق نماز سے حاصل ہوتا ہے۔ دوسری چیز یہ ہے کہ کوئی چیز جسم میں داخل نہ ہونے دی جائے اس کی مثال جھوٹ ہے استہزاء چغلخوری اور غیبت وغیرہ کی باتیں ہیں۔ ان کا نہ سننا بھی نیکی ہوتا ہے۔ کیونکہ ایسی باتیں انسان کو روحانیت سے عاری کر دیتی ہیں پس اخلاقِ فاضلہ مکمل کرنے کے لئے ان دونوں کا خیال رکھناضروری ہوتا ہے۔ کہ بعض قسم کے گند و نکو باہر نہ نکلنے دیا جائے اور بعض کو اندر داخل نہ ہونے دیا جائے۔ روزہ ہمارے لئے یہ سبق رکھتا ہے کہ ہم ان تمام ناپاک اور گندی باتوں سے بچیں جن کو اپنے اندر داخل کرنے سے ہماری روحانیت باطل ہو جاتی ہے۔ اور ہم اللہ تعالیٰ کے قرب سے محروم ہو جاتے ہیں۔
اس سوال کا جواب کہ روزے صرف رمضان کے مہینہ میں ہی کیوں رکھوائے جاتے ہیں۔ سارے سال پر ان کو کیوں نہ پھیلا دیا گیا یہ ہے کہ جب تک تواتر اور تسلسل نہ ہو صحیح مشق نہیں ہوسکتی۔ ہر مہینہ میں اگر ایک دو دن کا روزہ رکھ دیا جاتا تو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا تھا ایک وقت کے کھانے میں تو بعض اوقات سیر وغیرہ کے باعث بھی کھانا نہیں کھایا جا سکتا۔ مگر کیا ا سے بھوک اور پیاس کو برداشت کرنے کی عادت ہو جاتی ہے؟ حکومت بھی فوجیوں سے متواتر مشق کراتی ہے۔ یہ نہیں کہ ہر مہینہ میں ایک دن ان کی مشق کے لئے رکھدے۔ غرض جو کام کبھی کبھی کیا جائے اس سے مشق نہیں ہو سکتی۔ مشق کے لئے مسلسل کام کرنا نہایت ضروری ہوتا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے پورے ایک ماہ کے روزے مقرر فرما دیئے تاکہ مومنوں کو خداتعالیٰ کیل ئے بھوکا پیاسا رہنے اور رات کو عبادت کیلئے اُٹھنے اور دن کو ذکرِ الہٰی اور قرآن کرنیکی عادت ہو اور ان کی روحانی صلاحیتیں ترقی کریں۔
غرض رمضان کا مہینہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص برکات اور خاص رحمتیں لے کر آتا ہے۔ یوں تو اللہ تعالیٰ کے انعام اور احسان کے دروازے ہر وقت ہی کھلے رہتے ہیں اور انسان جب چاہے ان سے حصہ لے سکتا ہے صرف مانگنے کی دیر ہوتی ہے ورنہ اس کی طرف سے دینے میں دیر نہیں لگتی کیونکہ خدا تعالیٰ اپنے بندہ کو کبھی نہیں چھوڑتا۔ ہاںبندہ خداتعالیٰ کو چھوڑ کر بعض دفعہ دوسروں کے دروازہ پر چلا جاتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگِ بدر کے بعد ایک عورت کو دیکھا کہ وہ پریشانی کے عالم میں اِدھر اُدھر پھر رہی تھی۔ اُسے جو بچہ بھی نظر آتا وہ اُسے اُٹھا کر اپنے گلے سے لگا لیتی اور پیار کر کے چھوڑ دیتی۔ آخر اسی طرح تلاش کرتے کرتے اُسے اپنا بچہ مل گیا اور وہ اُسے سے اطمینان کے ساتھ بیٹھ گئی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہؓ کو مخاطب کر کے فرمایا۔ اس عورت کو اپنا بچہ ملنے سے اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی اللہ تعالیٰ کو اپنے گمشدہ بندہ کے ملنے سے خوشی ہوتی ہے۔ سو اس رحیم و کریم ہستی سے تعلق پیدا کرنا کوئی مشکل امر نہیں۔ ہر گھڑی رمضان کی گھڑی ہو سکتی ہے اور ہر لمحہ قبولیت دُعا کا لمحہ بن سکتا ہے۔ اگر دیر ہوتی ہے تو بندہ کی طرف سے ہوتی ہے۔ لیکن یہ بھی اس کے احسانات میں سے ہی ہے کہ اس نے رمضان کا ایک مہینہ مقر ر کر دیا۔ تاکہ وہ لوگ جو خود نہیں اُٹھ سکتے ان کو ایک نظام کے ماتحت اُٹھنے کی عادت ہو جائے اور ان کی غفلتیں ان کی ہلاکت کا موجب نہ ہوں۔
پس یاد رکھو کہ روزے کوئی مصیبت نہیں ہیں ۔ اگر یہ کوئی دکھ کی چیزی ہوتی تو انسان کہہ سکتا تھا کہ میں دکھ میں کیوں پڑوں ۔ لیکن جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے روزے دکھوں سے بچانے اور گناہوں سے محفوظ رکھنے اور اللہ تعالیٰ کی لِقاء حاصل کرنے کا
اَیَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ


کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo
ایک ذریعہ ہیں۔ اور گوبظاہر یہ ہلاکت کا باعث معلوم ہوتے ہیں ۔ کیونکہ انسان فاقہ کرتا ہے۔ جاگتا ہے۔ بے وقت کھانا کھاتا ہے جسس سے معدہ خراب ہوجاتا ہے اور پھر ساتھ ہی اس کے یہ احکام بھی ہیں کہ صدقہ و خیرات زیادہ کرو۔ اور غرباء کی پرورش کا خیال رکھو۔ مگر یہی قربانیاں ہیں جو اُسے خداتعالیٰ کا محبوب بناتی ہیں۔ اور یہی قربانیاں ہیں جو قومی ترقی کا موجب بنتی ہیں۔
۹۸؎ تفسیر:۔ فرماتا ہے چند گنتی کے دن ہیں جن میں روزے رکھنا تم پر فرض کیا گیا ہے۔ ہاں جو تم میں سے بیمار یا مسافر ہو اس کے لئے اور دنوں میں اس تعداد کا پورا کرنا ضروری ہو گا۔
اَیَّا مًا مَّعْدُوْدَاتٍ اور فَعِدَّۃ’‘ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ کے الفاظ صاف طور پر بتاتے ہیں کہ یہ روزے جن کا حکم دیا جا رہا ہے نفلی نہیں بلکہ واجب ہیں۔ اسی لئے فرمایا کہ اگر کوئی بیمار یا مسافر ہو تو اُسے بہرحال بعد میں اس تعداد کو پورا کرنا ہوگا۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ جب رمضان کے دنوں میں میں بیمار تھا یا سفر پر گیا ہوا تھا تو اب رمضان کے بعد میں کیوں روزے رکھوں جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ میں رمضان المبارک کے روزوں کا ذکر نہیں بلکہ صرف عام طور پر روزے رکھنے کا ذکر ہے وہ غلطی پر ہیں۔ اگر ان کی یہ بات صحیح ہو تو فَعِدَّۃ’‘ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ کا کوئی مطلب ہی نہیں رہتا۔ اول تو اَیَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہاں صرف ایسے ہی روزوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جن کے لئے شریعت کی طرف سے بعض ایام مقرر ہیں ۔ دوسرے اَیّامٍ اُخَرَ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایام کسی خاص مہینہ سے متعلق ہیں۔ پس کُتِبَ عَلَیْکُمْ الصِّیَامُ سے عام نفلی روزے مراد لینا کسی طرح بھی درست نہیں ہو سکتا۔
پھر اس بارہ میں اللہ تعالیٰ یہ ہدایت دیتا ہے کہ جو شخص بیمار یا مسافر ہو اُسے بیماری اور سفر کی حالت میں روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔ بلکہ اور دنوں میں اس کمی کو پورا کرنا چاہیے۔ میں نے اپنے تجربہ کی بنا پر یہ بات دیکھی ہے کہ رمضان کے بارہ میں مسلمانوں میں افراط و تفریط سے کام لیا جاتا ہے۔ کئی تعلیم یافتہ لوگوں کو میں نے دیکھا ہے کہ وہ رمضان کی برکات کے قائل ہی نہیں اور بغیر کسی بیماری یا اور عذرِ شرعی کے روزہ کے تارک ہیں۔ اور دوسرے ول لوگ ہیں جو سارااسلام روزہ میں ہی محدود سمجھتے ہیں۔ اور ہر بیمار، کمزور، بوڑھے بچے حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت سے بھی یہی امید رکھتے ہیں کہ وہ ضرور روزہ رکھے خواہ بیماری بڑھ جائے یا صحت کو نقصان پہنچ جائے ۔ یہ دونوں افراط تفریط میں مبتلا ہیں۔ اسلام کا یہ ہرگز منشا نہیں کہ وہ انسان کو اس راستہ سے ہٹا دے جو اس کی کامیابی کا ہے۔ اگر تو شریعت چٹی ہوتی یا جرمانہ ہوتا تو پھر بے شک ہر شخص پر خواہ وہ کوئی بوجھ اُٹھا سکتا یانہ اٹھا سکتا اس کا اُٹھانا ضروری ہوتا۔ جیسے حکومت کی طرف سے جرمانہ کر دیا جائے تو اس وقت ی نہیں دیکھا جاتا کہ جس پر جرمانہ کیا گیا ہے اس میں ادا کرنے کی استطاعت بھی ہے یا نہیں بلکہ جس پر جرمانہ ہو اسے خواہ گھر بار بیچنا پڑے۔ بھوکا رہنا بڑے جرمانہ کی رقم ادا کرنا اس کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ مگر قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے احکام چٹی نہیں بلکہ وہ انسان کے اپنے فائدہ کے لئے ہیں۔ اور ان پر عمل کرنے سے خود انسان کو ہی آرام میسر آتا اور اُس کی ترقی کے راستے کھلتے ہیں۔ جن مذاہب نے شریعت کو چٹی قرار دیا ہے ان کے ماننے والوں کے لئے تو ضروی ہے کہ خواہ کچھ ہو وہ اپنے مذہبی احکام کو ضرور پورا کریں۔ لیکن جس مذہب کے احکام کی غرض محض انسانی فائدہ ہو اس میں نفع و نقصان کا موازنہ ہوتا ہے اور جو صورت زیادہ مفید ہو اسے اختیار کر لیا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اپنے بعض احکام کے سلسلہ میں بعض شرائط مقرر کر دی ہیں تاکہ اگر وہ شرائط کسی میں پائی جائیں تو وہ اس حکم پر عمل کرے اور اگر نہ پائی جائیں تو نہ کرے۔ یہ شرائط صرف جسمانی عبادت کے لئے ہی نہیں بلکہ مالی عبادت کے لئے بھی ہیں۔جیسے زکوٰۃ ہے اور وطنی قربانی اور اتصال و اتحاد کی کوشش کے لئے بھی ہیں۔ جیسے حج ہے اسی طرح اور جتنے مسائل و اسلام سے تعلق رکھتے ہییں اور جتنے احکام فرض ہیں ان سب کے لئے یہ شرط ہے کہ جب انسان کو طاقت ہو انہیں ضرور ادا کرے لیکن جب اس کے طاقت سے بات بڑھ جائے تو ہو معذور ہے اگر حج انسان کے مالدار ہونے اور امن و صحت کی شرط سے مشروط ہے۔ اگر زکوٰۃ کے لئے یہ شرط ہے کہ ایک خاص مقدار میں کسی کے پاس ایسا مال ہو جو اس کے ضروریات سے ایک سال بڑھا رہے۔ اگر نماز کے لئے یہ شرط ہے کہ جو کھڑا نہ ہو سکے بیٹھ کر اور جو بیٹھ نہ سکے وہ لیٹ کر نماز ادا کرے تو رمضان کے لئے بھی شرط ہے کہ اگرانسان مریض ہو۔ خواہ اسے مرض لاحق ہو چکا ہو یاا یسی حالت میں ہو جس میں روزہ رکھنا اسے یقینی طور پر مریض بنا سکتا ہو۔ جیسے حاملہ ہے یا دودھ پلانے والی عورت ہے یا ایسا بوڑھا شخص ہے جس کے قومیٰ مین انحطاط شروع ہو چکا ہے ای اتنا چھوٹا بچہ ہے جس کے قومیٰ نشوونما پا رہے ہیں تو اسے روزہ نہیں رکھنا چاہیے مسافر بیمار کا روزہ رکھنا ایسا ہی لگو ہے جیسے حائصنہ کا روزہ رکھنا۔ کون نہیں جانتا کہ حائصنہ کا روزہ رکھنا کوئی نیکی نہیں بلکہ بیوقوفی اور جہالت ہے یہی حال بیمار اور مسافر کا ہے۔ اس کے لئے بھی روزہ رکھنا نیکی نہیں۔ پھر وہ بچہ جس کے قومیٰ نشوونما پا رہے ہیں اور آئندہ پچاس ساٹھ سال کے لئے وہ طاقت کا ذخیرہ اپنے اندر جمع کر رہا ہے۔ اس کے لئے بھی روزہ رکھنا نیکی نہیں ہو سکتا۔ مگر جس میں طاقت ہے اور جو رمضان کا صحیح معنوں میں مخاطب ہے وہ اگر روزہ نہیں رکھتا تو گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔
یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ شریعت نے چھوٹی عمر کے بچوں کو روزہ رکھنے سے منع کیا ہے لیکن بلوغت کے قریب انہیں کچھ روزے رکھنے کی مشق ضرور کروانی چاہیے۔ مجھے جہاں تک یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے پہلا روزہ رکھنے کی اجازت بارہ یا تیرہ سال کی عمر میں دی تھی۔ لیکن بعض بے وقوف چھ سات سال کے بچوں سے روزے رکھواتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس کا ثواب ہو گا۔ یہ ثواب کا کام نہیں بلکہ ظلم ہے۔ کیونکہ یہ عمر نشوونما کی ہوتی ہے۔ ہاں ایک عمر وہ ہوتی ہے کہ بلوغت کے دن قریب ہوتے ہیں اور روزہ فرض ہونے والا ہوتا ہے اس وقت ان کو روزہ کی ضرور مشق کرانی چاہیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اجازت اور سنت کو اگر دیکھا جائے تو بارہ تیرہ سال کے قریب کچھ کچھ مشق کرانی چاہیے اور ہر سال چند روزے رکھوانے چاہیں۔ یہاں تک کہ اٹھارہ سال کی عمر ہو جائے جو میرے نزدیک روزہ کی بلوغت کی عمر ہے۔ مجھے پہلے سال صرف ایک روزہ رکھنے کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اجازت دی تھی۔ اس عمر میں تو صرف شوق ہوتا ہے۔ اس شوق کی وجہ سے بچے زیادہ روزے رکھنا چاہتے ہیں مگر یہ ماںباپ کا کام ہے کہ انہیں روکیں۔ پھر ایک عمر ایسی ہوتی ہے کہ اس میں چاہیے کہ بچوں کو جرات دلائیں کہ وہ کچھ روزے ضرور رکھیں۔ اور ساتھ ہی یہ بھی دیکھتے رہیں کہ وہ زیادہ نہ رکھیں۔ اور دیکھنے والوں کو بھی اس پر اعتراض نہ کرنا چاہیے کہ یہ سارے روزے کیوں نہیں رکھتا۔ کیونکہ اگر بچہ اس عمر میں سار ے روزے رکھیگا تو آئندہ نہیں رکھ سکے گا۔ اسی طرح بعض بچے خلقی لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے بعض لوگ اپنے بچوں کو میرے پاس ملاقات کے لئے لاتے ہیں تو بتاتے ہیں کہ اس کی عمر پندرہ سال ہے حالانکہ وہ دیکھنے میں سات آٹھ سال کے معلو م ہوتے ہیں میں سمجھتا ہوں ایسے بچے روزہ کے لئے شاید اکیس سال کی عمر میں بالغ ہوں۔ اس کے مقابلہ میں ایک مضبوط بچہ غالباً پندرہ سال کی عمر میں ہی اٹھارہ سال کے برابر ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر وہ میرے ان الفاظ ہی کو پکڑ کر بیٹھ جائے کہ روزہ کی بلوغت کی عمر اٹھارہ سال ہے تو نہ وہ مجھ پر ظلم کریگا او رنہ خداتعالیٰ پر بلکہ اپنی جان پر آپ ظلم کرے گا۔ اسی طرح اگر کوئی چھوٹی عمر کا بچہ پورے روزے نہ رکھے اور لوگ اس پر طعن کریں تو وہ اپنی جان پر ظلم کرینگے۔
بہرحال ان باتوں میں بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے جہاں شریعت روکتی ہے۔ وہان رک جانا چاہیے اور جہاں حکم دیتی ہے وہاں عمل کرنا چاہیے۔ مگر مسلمان اس وقت اعتدال کو ترک کر بیٹھے ہیں ان میں یا تو وہ لوگ ہیں جو روزہ ہی نہیں رکھتے اور یا وہ لوگ ہیں جو روزہ کے پابند ہیں کہ بیماری اور سفر میں بھی اسے ضروری سمجھتے ہیں۔ اوربعض تو اس میں اس قدر شدت اختیار کر لیتے ہیں کہ وہ چھوٹے بچوں سے بھی روزے رکھواتے ہیں اور اگر وہ توڑنا چاہیں تو توڑنے نہیں دیتے۔ ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں کہ سات سات آٹھ آٹھ سال کے بچوں نے روزے رکھے تو ماں باپ نے ان کی نگرانی کی کہ وہ روزہ توڑ نہ دیں یہاں تک کہ وہ مر گئے۔ بے شک روزہ کا ادب و احترام ان کے دلوں مین پیدا کرنا ضروری ہے اور انہیں بتانا چاہیے کہ اگر وہ سارا دن روزہ نہیں رکھ سکتے تو روزہ رکھیں ہی نہیں۔ لیکن یہ کہ اگر وہ رکھ لیں تو پھر توڑیں نہیں خواہ مرنے لگیں نہایت ظالمانہ فعل ہے اور اسلام کی تعلیم کے سراسر خلاف ہے۔
غرض ایک طرف تو مسلمانوں میں ایسے لو گ ہیں جو روزہ کے بارہ میں اس قدر سختی کرتے ہیں اور دوسری طرف ایسے لوگ ہیں جو روزوں کی ضرور ت ہی کے قائل نہیں بالخصوص تعلیم یافتہ طبقہ اسی خیال کا ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں میں نے اخبارات میں پڑھا تھا کہ ایک شخص ٹرکی یا مصر سے یہاں آیا ۔ وہ تقریریں کرتا پھرتا تھا کہ ایک اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس زمانہ میں ہوتے تو ضرور روزہ کی شکل بدل دیتے۔ اس لئے ہمیں بھی بدل دینی چاہیے کیونکہ وہ زمانہ اور تھا اور یہ اور ہے۔ اور اس کی صورت وہ یہ پیش کرتا تھا کہ روزہ کی حالت میں روٹی نہ کھائی جائے بلکہ کچھ کیک اور بسکٹ وغیرہ کھا لئے جائیں۔ غرض ایک طبقہ افراط کی طرف چلا گیا ہے تو دوسرا تفریط کی طرف ۔ حالانکہ اسلام ایک وسطی مذہب ہے او روہ جہاں بیمار اور مسافر کو اجازت دیتا ہے کہ وہ بیماری اور سفر کی حالت میں روزہ نہ رکھیں وہاں ہر بالغ اور باصحت مسلمان پر یہ واجب قرار دیتا ہے کہ وہ رمضان کے روزے رکھے اور ان مبارک ایام کو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور تسبیح و تحمید اور قرآن کریم کی تلاوت اور دعائوں اور ذکر الہٰی میں بسر کرے تاکہ اُسے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو۔
بہر حال روزہ کے بارہ میں شریعت نے نہایت تاکید کی ہے ۔ اور جہاں اس کے متعلق حد سے زیادہ تشدد ناجائز ہے وہاں حد سے زیادہ نرمی بھی ناجائز ہے۔ پس نہ تو اتنی سختی کرنی چاہیے کہ جان تک چلی جئے اور نہ اتنی نرمی اختیار کرنی چاہیے کہ شریعت کے احکام کی ہتک ہو اور ذمہ داری کو بہانوں سے ٹال دیا جائے۔ میں نے دیکھا ہے کئی لوگ محض کمزوری کے بہانہ کی وجہ سے روزے نہیںرکھتے اور بعض تو کہہ دیتے ہیں کہ اگر روزہ رکھا جائے تو پیچش ہو جاتی ہے۔ حالانکہ روزہ چھوڑنے کے لئے یہ کوئی کافی وجہ نہیں کہ پیچش ہو جایا کرتی ہے۔ جب تک پیچش نہ ہو انسان کے لئے روزہ رکھنا ضروری ہے۔ جب پیچش ہو جائے تو پھر بے شک چھوڑ دے۔ اسی طرح بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں روزہ رکھنے سے ضعف ہو جاتا ہے مگر یہ بھی کوئی دلیل نہیں۔ صرف اپس ضعف کی وجہ سے روزہ چھوڑنا ناجائز ہے جس میں ڈاکٹر روزہ رکھنے سے منع کرے۔ ورنہ یوں تو بعض لوگ ہمیشہ ہی کمزور رہتے ہیں تو کیا وہ کبھی بھی روزہ نہ رکھیں۔ میں اڑھائی تین سال کا تھا جب مجھے کالی کھانسی ہوئی تھی۔ اس وقت سے میر ی صحت خراب ہے۔ اگر ایسے ضعف کو بہانہ بنانا جائز ہو تومیرے لئے تو شاید ساری عمر میں ایک روزہ بھی رکھنے کا موقع نہیں تھا۔ضعف وغیرہ جسے روزہ چھوڑنے کا بہانا بنایا جاتا ہے اسی کی برداشت کی عادت ڈالنے کے لئے تو روزہ رکھایا جاتا ہے۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے قرآن کریم میں آتا ہے کہ نماز بدی اور بے حیائی سے روکتی ہے۔ اس پر کوئی شخص کہے کہ میں نماز اس لئے نہیں پڑھتا کہ اس کی وجہ سے بدی کرنے سے رک جاتا ہوں۔ پس روزہ کی تو غرض ہی یہی ہے کہ کمزوری کو برداشت کرنے کی عادات پیدا ہو ورنہ یوں تو کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ میں اس لئے روزہ نہیں رکھتا کہ مجھے بھوک اور پیاس کی تکلیف ہوتی ہے۔ حالانکہ اس قسم کی تکالیف کی برداشت کی عادت پیدا کرنے ہی کے لئے روزہ مقرر کیا گیا ہے۔ جو شخص روزہ رکھے کیا وہ چاہتا ہے کہ فرشتے سارا دن اس کے پیٹ میں کباب ٹھونستے رہیں۔ وہ جب بھی روزہ رکھے گا اسے بھوک اور پیاس ضرور برداشت کرنی پڑیگی۔ اور کچھ ضعف بھی ضرور ہو گا۔ اور اسی کمزوری اور ضعف کو برداشت کرنیکی عادت پیدا کرنے کیلئے روزہ رکھایا جاتا ہے۔ بے شک روزہ کی اور بھی حکمتیں ہیں جیسے ایک حکمت یہ ہے کہ روزہ رکھنے سے غرباء اور فاقہ زدہ لوگوں کی اعانت کی طرف توجہ پیدا ہو جاتی ہے مگر بہر حال روزہ اس لئے نہیں رکھا جاتا کہ انسان کو کوئی تکلیف ہی نہ ہو اور وہ کوئی ضعف محسوس نہ کرے بلکہ اس لئے رکھا جاتا ہے کہ اسے ضعف برادشت کرنے کی عادت پیدا ہو۔ پس ضعف کے خوف برداشت کرنے کی عادت پیدا ہو۔ پس ضعف کے خوف سے روزہ چھوڑنا ہرگز جائز نہیں۔ سوائے اس کے کہ کوئی بوڑھا ہو چکا ہو یا ڈاکٹر اس کے ضعف کو بھی بیماری قرار دے چکا ہو۔ ایسی صورت میں بیشک روزہ نہیں رکھنا چاہیے مگر ضعف کے متعلق ظاہری ڈیل ڈول اور صورت سے بھی کوئی نتیجہ نہیں نکالنا چاہیے ۔ بعض لوگ بظاہر موٹے تازے ہوتے ہیں اور چلتے پھرتے بھی ہیںل لیکن دراصل وہ بیمارہوتے ہیں۔ اور ان کے لئے روزہ رکھنا جائز نہیں ہوتا۔ بالخصوص جن لوگوں کو دل کی بیماری ہو۔ ایسے لوگوں کے لئے بھوک پیاس کا برداشت کرنا سخت خطرناک ہوتا ہے پس پس کمزوری یا ضعف کا فیصلہ بظاہر دیکھنے سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ یہ دیکھنا ہو گا کہ ڈاکٹر کیا کہتا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ ہمارے ملک میں بہت سے ڈاکٹر بھی دیانت داری سے کام نہیں لیتے۔ ذرا کوئی شخص دو چار بار جھک کر سلام کر دے تو جو چاہے ڈاکٹر سے لکھوالے ظاہر ہے کہ ایسے سرٹیفیکیٹ کا کیا اعتبار ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر حقیقی طور پر ڈاکٹر کسی کو مشورہ دے کہ اسے کے لئے روزہ رکھنا مضر ہے تو گو وہ بظاہر تندرست بھی نظر آئے اس کے لئے روزہ رکھنا جائز نہیں ہو گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بھی یہی فتویٰ ہے کہ بیمار اور مسافر کے لئے روزہ جائز نہیں ۔ چنانچہ آپ نے ایک دفعہ فرمایا:۔
’’جو شخص مریض اور مسافر ہونیکی حالت میں ماہِ ایام میں روزہ رکھتا ہے وہ خداتعالیٰ کے صریح حکم کی نافرمانی کرتا ہے خداتعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ بیمار اور مسافر روزہ نہ رکھے ۔ مرض سے صحت پا نے اور سفر ختم ہونے کے بعد روزے رکھے۔ خدا کے اس حکم پر عمل کرنا چاہیے۔ کیونکہ نجات فضل سے ہے نہ کہ اپنے اعمال کا زور دکھا کر کوئی نجات حاصل کر سکتا ہے۔ خداتعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ مرض تھوڑی ہو یا بہت اور سفر چھوٹا ہو یا لمبا بلکہ حکم عام ہے اور اس پر عمل کرنا چاہیے ۔ مریض یا مسافر اگر روزہ رکھیں گے تو ان پر حکم عدولی کا فتویٰ لازم آئیگا۔‘‘
(فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۱۳۲أ۱۳۳)
پھر فرمایا ہے۔ وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہ‘ فِدْیَۃ’‘ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ۔ اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کو بڑی دقت پیش آئی ہے۔ اور انہوں نے اس کے کئی معنے کئے ہیں۔ یہ دقت زیادہ تر اس وجہ سے پیش آئی ہے کہ یُطِیْقُوْنَہ‘ میں جو ہ‘ کی ضمیر استعمال ہوئی ہے اس کے مرجع کی تعیین میں اختلاف پایا جاتا ہے بعض نے اس کا مرجع صوم کو قرار دیا ہے اور بعض نے فِدْیَۃ’‘ طَعَاَمُ مِسْکِیْنٍ کو۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے اس مشکل کو ’’الفوذ الکبیر‘‘ میں اس طرح حل کیا ہے کہ یُطِیْقُوْنَہ‘ میں ہ‘ کی ضمیر فِدْیَۃ’‘ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ کی طرف گئی ہے اس پر یہ اعتراض پڑتا تھا کہ یہ اضماء قبل الذکر ہے یعنی ضمیر پہلے آ گئی ہے اور مرجع بعد میں ہے۔ حالانکہ مرجع پہلے ہونا چاہیے تھا اس کا جواب انہوں نے یہ دیا ہے کہ فدیہ کا مقام چونکہ نحوًا مقدم ہے یعنی وہ متدا ہے اس لئے اس کی ضمیر اس کے ذکر سے پہلے آسکتی ہے۔
دوسرا اعتراض یہ پڑتا تھا کہ فِدْیَۃ’‘ مونث ہے اور ضمیر مذکر۔ اس کا جواب انہوں نے یہ دیا ہے کہ فدیہ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ کا قائم مقام ہے اور وہ مذکر ہے ۔ اس لئے فدیہ کی طرف بھی مذکر کی ضمیر پھر سکتی ہے۔ اس بنا پر انہوں نے اس کے یہ معنے کئے ہیں کہ ان لوگوں پر جو فدیہ دینے کی طاقت رکھتے ہوں ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ دینا واجب ہے۔ ان کے نزدیک اس آیت میں صدقۃ الفطر کی طرف اشارہ ہے جو اسلام میں نماز عید سے پہلے ادا کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے تاکہ غرباء بھی عید کی خوشی میں شریک ہو سکیں۔
دوسرے معنے اس کے یہ کئے جاتے ہیں کہ مومنوں میں سے جو لوگ روزہ کی طاقت رکھتے ہیں وہ روزوں کے ساتھ ساتھ ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ بھی دے دیا کریں۔ لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل اور احادیث سے چونکہ یہ بات ثابت نہیں کہ روزہ دار فدیہ بھی دے اس لئے یہ معنے تسلیم نہیں کئے جا سکتے۔ اس کے علاوہ عقلی طور پر یہ معنے اس لئے بھی نا قابلِ قبول ہیں کہ فدیہ تو اس پر ہونا چاہیے جو روزنہ نہ رکھ سکے جو شخص باقاعدہ روزے رکھ رہا ہے اس پر فدیہ کیسا؟ ہاں اگر کوئی شخص اس شکریہ میں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس عبادت کے بجا لانے کی توفیق بخشی ہے روزہ رکھ کر ایک مسکین کو کھانا بھی دے دیا کرے تو وہ ثواب کا مستحق ہے کیونکہ اس نے روزہ بھی رکھا اور ایک مسکین کو کھانا بھی کھلایا۔ مگر بہرحال وہ ایک زائد نیکی ہو گی ۔ قرآن کریم کسی کو اس بات کا پابند قرار نہیں دیتا کہ وہ روزہ بھی رکھے او رایک مسکین کوکھانا بطور فدیہ بھی کھلائے۔
(۳) مفسرین نے اس آیت کے ایک معنے یہ کئے ہیں کہ یُطِیْقُوْنَہ‘ سے پہلے لَا محذوف ہے اور اصل عبارت یوں ہے کہ وَعَلَی الَّذِیْنَ لَا یُطِیْقُوْنَہ‘۔ اور ہ‘ کی ضمیر کا مرجع وہ صوم کو قرار دیتے ہیں یعنی وہ لوگ جو روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں وہ ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ دے دیا کریں وہ کہتے ہیں کہ اسجگہ لَا اُسی طر ح مخدوف ہے جس طرح آیت یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اَنْ تَضِلُّوْا(نساء آیت ۱۷۷) میں تَضِلُّوْا سے پہلے بھی لَا مخدوف ہے ا ور آیت کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ یہ باتیں اس لئے بیان کرتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہو جائو۔گو یہ بھی کہاجا سکتا ہے کہ یہاں لَا مقدر نہیں بلکہ ایک مضاف محذوف ہے اور اصل عبار ت یوں ہے کہ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ مَّخَافَۃَ اَنْ تَضِلُّوْا یعنی اللہ تعالیٰ تمہارے لئے یہ باتیں تمہارے گمراہ ہو جانے کے خدشہ کی بنا ء پر بیان کرتا ہے۔
(۴) بعض نے اس آیت کا یوں حل کیا ہے کہ عربی زبان میں اَطَاقَ کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ کسی شخص نے کام تو کیا مگر بہت مشکل اور مصیبت سے۔ گویا جب کوئی شخص اپنے نفس کو انتہائی مشقت میں ڈالے بغیر کوئی کام سر انجام دینے کی اپنے اندر طاقت نہ رکھتا ہو تو اس کے لئے اَطَاقَ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس مفہوم کے لحاظ سے اَلَّذیْنَ یُطِیْقُوْنَہ‘ سے وہ لوگ مراد ہیں جو روزہ سے سخت تکلیف اٹھاتے ہیں اور جن کی بدنی طاقت بالکل زائل ہو جاتی ہے بلکہ بعض دفعہ غشی تک نوبت پہنچ جاتی ہے جیسے بوڑھے یا دل کے مریض یا اعصابی کمزوری کے شکار یا حاملہ اور مرضعہ ۔ ایسے لوگ جو بظاہر تو بیمار نظر نہیں آتے لیکن روزے رکھنے سے بیمار ہو جاتے ہیں ان کو یہ اجازت دی گئی ہے کہ وہ روزے رکھنے کے بجائے ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ اپنی طرف سے دیدیا کریں۔ ان معنوں کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ علامہ قرطبی نے یُطِیْقُوْنَ کی ایک قرات یُطَوِّ قُوْنَ بھی بیان کی ہے۔ یعنی جو لوگ صرف مشقت سے روزہ نبھا سکتے ہیں۔ اور جن کی صحت روزے رکھنے سے غیر معمولی طور پر خراب ہو جاتی ہے وہ بیشک روزے نہ رکھیں ہاں ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ دیدیا کریں۔
میرے نزدیک چونکہ اَطَاقَ بابِ اِفعال میں سے ہے اور بابِ افعال کی ایک خاصیت یہ ہے کہ وہ سلب کے معنے دیتا ہے اس لئے وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہ‘ کے یہ معنے ہونگے کہ وہ لوگ جن کی طاقت کمزور ہو گئی ہے یعنی قریباً ضائع ہو گئی ہے وہ بیشک روزہ نہ رکھیں مگر چونکہ ان کا روزہ نہ رکھنا محض اجتہادی امر ہو گا مرض ظاہر کے نتیجہ میں نہیں ہو گا بلکہ صرف متوقع کمزوری کے نتیجہ میں ہو گا۔ اور اجتہاد میں غلطی پر پردہ ڈالنے کے لئے اگر ان کو فدیہ دینے کی طاقت ہو تو ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ ان دنوں میں دے دیا کرین تاکہ ان کی غلطی کے امکان کا کفارہ ادا ہوتا ہے۔
(۵) ایک اور معنے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھ پر کھولے ہیں وہ یہ ہیں کہ یُطِیْقُوْنَہ‘ میں ہ‘ کی ضمیر روزہ کی طرف پھرتی ہے اور مراد یہ ہے کہ وہ لوگ جن کی بیماری شدید ہے یا جن ک سفر پر مشقت ہے وہ تو بہرحال فَعِدَّۃ’‘ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ کے مطابق دوسرے ایام میں روزے رکھیں گے۔ لیکن وہ لوگ جو کسی معمولی مرض میں مبتلا ہیں یا کسی آسانی سے طے ہونے والے سفر پر نکلے ہیں اگر وہ طاقت رکھتے ہوں تو ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ بھی دے دیا کریں۔ اس وجہ سے کہ ممکن ہے انہوں نے روزہ چھوڑنے میں غلطی کی ہو۔ وہ اپنے آپ کو بیمار سمجھتے ہوں لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کی بیماری ایسی نہ ہو کہ وہ روزہ ترک کر سکیں۔ یا وہ اپنے آپ کو مسافر سمجھتے ہوں لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کا سفر سفر ہی نہ سمجھا گیا ہو۔ پس چونکہ ان کی رائے میں غلطی کا ہر وقت امکان ہے اس لئے ایسے بیماروں اور مسافروں کو چاہیے کہ ان میں سے جو لوگ روزہ کی طاقت رکھتے ہوں وہ دوسرے ایام میں فوت شدہ روزوں کو پورا کرنے کے علاوہ ایک مسکین کو کھانا بھی دے دیا کریں۔ تاکہ ان کی اس غلطی کا کفار ہو جائے۔ اور اگر یُطِیْقُوْنَہ‘ میں ہ‘ کی ضمیر کا مرجع فِدْیَۃ’‘ طَعَامُ مَسْکِیْنٍ کو ہی قرار دیا جائے۔ جیسا کہ شاہ ولی اللہ صاحبؒ نے لکھا ہے تو پھر بجائے اس کے کہ اس حکم کو صدقہ الفطر پر محمول کیا جائے۔ اس آیت کا فَمَنْ کَانَ مَنْکُمْ مَّرِ یضًا اَوْ عَلیٰ سَفَرٍ فَعِدَّۃ’‘ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ سے تعلق ہو گا اور اس کے یہ معنے ہونگے کہ اگرچہ مریض اور مسافر کو یہ اجازت ہے کہ وہ اور دنوں میں روزہ رکھ لیں لیکن ان میں سے وہ لوگ جن کو آسودگی حاصل ہو اور وہ ایک شخص کو کھانا کھلا سکتے ہوں۔ا نہیں چاہیے کہ ایک مسکین کا کھانا۔ بطور فدیہ رمضان دے دیا کریں۔ اگر طاقت نہ ہو تو پھر تو فدیہ رمضان دینے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن اگر طاقت ہو تو خواہ وہ بیمار ہوں یا مسافر انہیں ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ رمضان دینا چاہیے۔ اگر روک عارضی ہو اور وہ بعد میں دور ہو جائے روزہ تو بہر حال رکھنا ہو گا۔ فدیہ دیدینے سے روزہ اپنی ذات میں ساقط نہیں ہو جاتا بلکہ یہ محض اس بات کا فدیہ ہے کہ ان مبارک ایام میں وہ کسی جائز شرعی عذر کی بنا پر باقی مسلمانوں کے ساتھ مل کر یہ عبادت ادا نہیں کر سکے۔ آگے یہ عذر دو قسم کے ہوتے ہیں ایک عارضی اور ایک مستقل۔ فدیہ شرطِ استطاعت ان دونوں حالتوں میں دینا چاہیے۔ پھر جب عذر دور ہو جائے تو روزہ بھی رکھنا چاہیے۔ غرضیکہ خواہ کوئی فدیہ بھی دے دے۔ بہرحال سال دو سال یا تین سال کے بعد جب بھی اس کی صحت اجازت اسے پھر روزے رکھنے ہونگے۔ سوائے اس صورت کے کہ پہلے مرض عارضی تھا اور صحت ہونے کے بعد وہ ارادہ ہی کرتا رہا کہ آج رکھتا ہوں کل رکھتا ہوں کہ اس دوران میں اس کی صحت پھر مستقل طور پر خراب ہو جائے۔ باقی جو بھی کھانا کِھلانے کی طاقت رکھتا ہو اگر وہ مریض یا مسافر ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ رمضان میں ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ دے اور دوسرے ایام میں روزے رکھے یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا مذہب تھا اور آپ ہمیشہ فدیہ بھی دیتے تھے اور بعد میں روزے بھی رکھتے تھے اور اسی کی دوسروں کو تاکید فرمایا کرتے تھے۔
اس آیت میں جو اَلَّذِیْنَ کا لفظ استعمال ہوا ہے یہ دو کا بدل یعنی قائم مقام ہو سکتا ہے۔ اول ان مومنوں کا جن کا ذکریٰٓاَ یُّھَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْ اکُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِیَّامُ میں کیا گیا ہے ۔ دوم اُن لوگوں کو جن کا ذکر نَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ میں ہے ۔ اگر اسے یٰٓاَ یُّھَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ا کا بدل سمجھا جائے تو اس آیت کے یہ معنے ہو نگے کہ وہ لوگ جو ضعف کی وجہ سے روزے سے سخت تکلیف اُٹھاتے ہیں اور اپنے نفس پر بڑی مشقت برداشت کرتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ روزہ رکھنے کی بجائے ایک مسکین کا کھانا بطورفدیہ دے دیا کریں ۔اور اگر دوسرا بدل لیں تو اس کے یہ معنے ہونگے کہ وہ مریض اور مسافر جو فدیہ دینے کی طاقت رکھتے ہیں وہ فدیہ دے دیں اور پھر دوسرے دنوں میں روزے بھی رکھیں ۔کیونکہ بعض امراض ایسی ہوتی ہیں یا بعض سفر ایسے ہوتے ہیں جن میں یہ اشتباہ ہوتا ہے کہ آیا اس میں روزہ ترک کیا جا سکتا ہے یا نہیں ! حدیث میں آیا ہے کہ مشکوک اشیاء میں بھی محارم ہی کے نیچے ہوتی ہیں ۔کیونکہ جو مشکوک تک پہنچتا ہے وہ آہستہ آہستہ محارم تک بھی پہنچ جاتا ہے ۔ پس اگر یہ دونوں باتیں مشکوک ہوں تو ایسے مسافر اورمریض کو چاہیے کہ فدیہ دے دے اور رخصت سے فائدہ اٹھائے اور بعد میں روزے بھی رکھ لے ۔ اس میں ایسی بیماری والا جس کی بیماری مشتبہ ہو یا ایسا سفر والا جس کا سفر مشتبہ ہو مراد ہیں ۔ان میں سے جو لوگ طاقت رکھتے ہوں اُن پر فدیہ دینا لازم ہے ۔
شَھْررَمَضَانَ

فَعِدَّۃُٗ
کیونکہ ممکن ہے انہوں نے اپنے اجتہاد میں غلطی کی ہو ۔ اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہی مذہب تھا کہ ایسے لوگ دوسرے ایام میں روزہ رکھیں ۔ اور رمضان کے دنوں میں فدیہ دیں ۔
پھر فرماتا ہے ۔ فَمَنْ تَطَوَّ َع خَیْرً افَھُوَ خَیْرُٗ لَّہٗ جو شخص پوری بشاشت اور شوق کے ساتھ نیکی کا کوئی کام کرتا ہے تو خواہ وہ ابتداء میں تکلف کے ساتھ ہی ایسا کرے اور اسے اپنے نفس پر ایک رنگ میں بوجھ ہی محسوس ہو تب بھی اس کا نتیجہ اس کے لئے اچھا نکلیگا ۔ یعنی وہ نیکی اس کے لئے بہترین نتائج پیدا کرنے والی ثابت ہو گی ۔ عربی زبان میں تَطَوُّع کا لفظ اُس وقت استعمال ہوتا ہے جب اپنے نفس پر بوجھ ڈال کر کسی حکم کی اطاعت کی جائے ۔ اور تکلف سے بشاشت کا اظہار کیا جائے ۔پس فَمَنْ تَطَوَّ َع خَیْرً افَھُوَ خَیْرُٗ لَّہمیں اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جو شخص پورے شعر صدر کے ساتھ کسی نیکی میں حصہ نہ لے سکے اُسے چاہیے کہ کم از کم اپنے نفس پر بوجھ ڈالتے ہوئے ہی اس میں حصہ لے اور اپنے چہرہ پر تکلف سے بشاشت پیداکرے اس کا نتیجہ یہ وہ گا کہ اللہ تعالیٰ اس کیلئے خیر اوربرکت کے رستے کھول دیگا ۔یعنی نیکیوں میں ترقی کرتے کرتے اُسے ایسا مقام میسر آجائیگا کہ نیکی اس کی غذابن جائیگی اور تحریکات پر عمل اس کیلئے ایسا ہی آسان ہو جائیگا جیسے اعلیٰ درجہ کے مومنوں کیلئے آسان ہوتاہے ۔ لیکن اس کے علاوہ تَطَوُّعکے معنے محاورہ میں غیر واجب کا م کے نفلی طور پر کرنے کے بھی ہوتے ہیں ۔ اور امام راغب نے اپنی مشہور کتاب مفردات میں اس کی تصریح کی ہے ۔ اس لحاظ سے اس آیت کے یہ معنے ہونگے ۔ کہ جو شخص نفلی طور پر کوئی نیک کام کرے گا تو یہ اس کیلئے بہت بہتر ہو گا ۔یعنی رمضان میں روزے رکھنے یا ایک مسکین کو کھانا کھلانے کا حکم تو ہم نے دے دیا ہے لیکن اگر کوئی شخص ثواب کی نیت سے اس میں کوئی زیادتی کرنا ہے و اسے اس کا اختیار ہے ۔ مثلاً وہ اختیار رکھتا ہے کہ ایک کی بجائے دو مساکین کا کھانا بطور فدیہ دے دے ۔ یا وہ اختیار رکھتا ہے کہ روزہ بھی رکھے اور حصول ثواب کیلئے ایک مسکین کو کھانا بھی کھلاتا رہے ۔ یا رمضان کے روزوں کے علاوہ نفلی طور پر دوسرے ایام میں بھی روزے رکھے ۔ یہ سب حصول ثواب کے ذرائع ہیںجن میں ہر مومن اپنی اپنی طاقت کے مطابق حصہ لے کراللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکتا ہے ۔
پھر فرمایا ۔وَاَنْ تَصُوْمُوْاخَیْرُٗ لَکُمْ ۔ اس کے بعد لوگ یہ معنے کرتے ہیں ۔ کہ اگر تم روزہ رکھو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے ۔ مگر یہ صحیح نہیں ۔اگر یہ معنے ہوتے تواِنْ تَصُوْمُوْا کہناچاہیئے تھا۔نہ کہ َاَنْ تَصُوْمُوْا۔اس کے صحیح معنے یہ ہیں کہ اگر تم علم رکھتے ہوتو سمجھ سکتے ہو کہ روزہ رکھنا تمہارے لئے بہر حال بہتر ہے ۔ یعنی ہم نے جس حکم کیلئے یہ تمہید اُٹھائی ہے ۔ وہ کوئی حصول حکم نہیں بلکہ ایک غیر معملی خیر اور برکت رکھنے والا حکم ہے ۔ اس لئے تمہارا فرض ہے کہ تم اسے پوری توجہ سے سُنو اور اس پر عمل کرو۔
مِّنْ اَیَّامِ
تَشْکُرُوْنَo
۹۹؎ حل لغات:۔ ھُدًی:یہ مصدر ہے اور فاعل کے معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔ یعنی لوگوں کو ہدایت دینے والا (مزید تشریح کیلئے دیکھیں حل لغات سورہ بقرۃ ۳؎)
بَیِّنَاتٍ۔ جمع ہے اس کا مفرد اَلْبَیِّنَۃُ ہے ۔جس کے معنے ہیں اَلدَّلَالَۃُ الْوَاضِحَۃُ عَقَلِیَّۃً کَانُتْ اَوْ مَحْسُوْسَۃً یعنی واضح دلیل خواہ وہ عقلی ہو یا حس سے تعلق رکھتی ہو۔(مفردات)
تفسیر:۔ رمضان کا مہینہ ان مقدس ایما کی یاد دلاتا ہے جن میں قرآن کریم جیسی کامل کتاب کا دنیا میں نزول ہوا۔ ہو مبارک دن ۔وہ نیا کی سعادت کی ابتداء کے دن ۔ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اُسکی برکت کے دروازے کھولنے والے دن جب دنیا کی گھناونی شکل اس کے بد صورت چہرے اور اس کے اذیت پہنچانے والے اعمال سے تنگ آکر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غار حڑا میں جا کر اور دنیا سے منہ موڑ کر اور اپنے عزیز و اقارب کو چھوڑ کر صرف اپنے خدا کی یاد میں مصروف رہا کرتے تھے اور خیال کرتے ھتے کہ دنیا سے اس طرح بھاگ کر وہ اپنے فرض کو ادا کرینگے جسے ادا کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا کیا ہے۔ انہی تنہائی کی گھڑیوں میں انہی خدائی کے اوقات میں انہی غور وفکر کی ساعات میں رمضان کا مہینہ آپ پر آگیا ۔ اور جہاں تک معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے چوبیسویں رمضان کو ہو جو دنیا کو چھوڑ کر علیحدگی میں چلا گیا تھا اسے اس کے پیدا کرنے والے اُس کی تربیت کرنے والے اُس کو تعلیم دینے والے اور اس سے محبت کرنے والے خدا نے حکم دیا کہ جاؤ اور جا کر دنیا کو ہدایت کا راستہ دکھاؤ۔ اور بتایا کہ تم مجھے تنہائی میں اور غار حرا میں ڈھونڈتے ہو مگر میں تمہیں مکہ کی گلیوں اور ان کے شووروشغب میں ملوں گا۔ جاؤ اور اپنی قوم کو پیغام پہنچا دو کہ میں نے تم کو ادنیٰ حالت میں پیدا کر کے اور پھر ترقی دے کر اس لئے دنیا میں نہیں بھیجا کہ کھاؤ پیو اور مر جاؤ اور کوئی سوال تم سے نہ کیا جائے ۔
آپ اس آواز کو سن کر حیران رہ گئے ۔ آپ نے جبرائیل کو حیرت سے دیکھ کر کہا کہ ماانا بقاری ء ۔میں تو پڑھنا نہیں جناتا ۔یعنی اس قسم کا پیغام مجھے عجیب معلوم ہوتا ہے ۔ کیا یہ الفاظ میرے منہ سے مکہ والوں کے سامنے زیب دینگے ۔ کیا میری قوم ان کو قبول کرے گی اور سُنے گی ۔ مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو متواتر حکم دیا گیا کہ جاؤ اور پڑھو۔ جاؤاور پڑھو ۔جاؤاور پڑھو۔تب آپ نے اس آواز پر اس ارشاد کی تعمیل میں تنہائی کو چھوڑا اور جلوت اختیار کی ۔مگر وہ کیسی مجلس تھی ۔ وہ ایسی نہ تھی کہ جس میں ایک دوست بیٹھ کر دوسرے دوست کے سامنے اپنے شکوے بیان کرتا ہے ۔ ۔وہ ایسی مجلس نہ تھی جس میں دوست اپنے دوست کے خوش کر نیووالے حالات سنتا اور اس سے لطف اٹھاتا ہے ۔ وہ ایسی مجلس نہ تھی جس میں انسان اپنی ذہنی کوفت اور تھکان دور کرتا ہے ۔وہ قصوں کہانیوں والی مجلس نہ تھی ۔شعروشاعری کی مجلس نہ تھی ۔وہ ایسی مجلس نہ تھی جس میں مباغثات اور مناظرات ہوتے ہیں ۔ بلکہ وہ جلس ایسی تھی جس میں ایک طرف سے متواتر اور پیہم اخلاص کا اظہار ہوتا تھا تو دوسری طرف سے متواتر اور پیہم گالیاں ۔دُشنام ۔ڈراوے اور دھمکیاں ملتی تھیں ۔ وہ ایسی مجلس تھی جس میں ایک دفعہ جانے کے بعد دوسارے دن جانے کی خواہش باقی رہتی ۔وہ ایسی گالیٓں اور ایسے ارادے اور ایسی دھمکیاں ہوتی تھیں کہ ایک طرف اُن کے دینے والے سمجھتے تھے کہ اگر اس شخص میں کوئی حس باقی ہے تو کل اس منہ سے ایسی بات ہرگز نہیں نکلے گی ۔ وہ خوش ہوتے تھے کہ آج ہم نے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی زبان بند کر دی اوردوسری طرف جب خدا تعالیٰ کا سورج چڑھتا تو خداتعالیٰ کا یہ عاشق صادق خدا تعالیٰ کا پیغام مکہ والوں کو پہنچانے کے لیئے پھر نکل کھڑا ہوتا۔پھر تمام دن وہی گالیاں وہی دھمکیاں اور وہی ڈراوے ہوتے تھے اور اسی میں شام ہو جاتی ۔مگر جب رات کا پردہ ھائل ہوتا تو وہ سمجھتے کہ شاید آج یہ خاموش ہو گیا ہو گا۔مر وہ جس کے کانوں میں خدائی آواز گونج رہی تھی ۔ وہ مکہ والوں سے دب کر کیسے خاموش ہو جاتا اگر تو اس کی رات سوتے گزرتی ت وبے شک اس پیغٓم کو بھول جاتا ۔ مگر جب اُس کے سونے کی حالت جاگنے ہی کی ہوتی تو وہ کیسے بھول سکتا تھا ۔وہ سبق جو دوہرایا نہ جائے بیشک بھول سکتا ہے ۔ مگر جب آپ کی یہ حالت تھی کہ جو نہی سرہانے پر سر رکھا وہی اِقْرَئْ کی آواز آنی شروع ہو جاتی تو آپ کس طرح اس پیغام کو بھول جاتے ۔ پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو رمضان ہی میں یہ آواز آئی اور رمضان ہی میں آپ نے غار حرا سے باہر نکل کر لوگوں کو یہ تعلیم سنانی شروع کی ۔اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔
شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ اْلقُرْاٰنُ یعنی رمضان کہ مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اُترا۔ دوسری جگہ آتا ہے اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ وَمَآ اَدْرٰکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ ۔یعنی قرآن لیلۃ القدر میں اُترا گیا ہے ۔
رَمَضَان رَمَض سے نکلا ہے ۔جس کے معنے عربی زبان میں جلن اور سوزش کے ہیں ۔ خواہ وہ جلن دھوپ کی ہو خواہ بیماری کی ۔ اس لئے رَمَضَان کا مطلب یہ ہوا کہ ایسا موسم جس میں سختی کے اوقات اور ایام ہوں ۔ اور اِدھر فرمایا ۔ہم نے اسے رات کو اتارا ہے اور رات تاریکی اور مصیبت پر دلالت کرتی ہے ۔ پس ان دونوں آیتوں میں یہ بتایا گیا ہے ۔ کہ الہام کا نزول تکالیف اور مصائب کے ایام میں ہوا کرتاہے ۔ جب تک کوئی قوم مصائب اور شدائد سے دوچار نہیں ہوتی ۔جب تک اُس کے دن راتیں نہیں بن جاتے جب تک وہ بھوک اور پیاس کی شدت سے تکلیف نہیں اُٹھاتی اُس وقت تک خدا تعالیٰ کا کلام اُس پر نازل نہیں ہوسکتا۔ اور اس ماہ کے انتخاب میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہی بتایا ہے کہ اگر تم اپنے اوپر الہام الٰہی کا دروازہ کھولنا چاہتے ہوں تو ضروری ہے کہ تکالیف اور مصائب میں سے گذرو اِس کے بغیر الہام الٰہی کی نعمت تمہیں میسر نہیں آسکتی ۔ پس رمضان کلام الٰہی کو یاد کرانے کا مہینہ ہے ۔ اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ اس مہینہ میں قرآن کریم کی تلاوت زیادہ کرنی چاہیے ۔ اور اسی وجہ سے ہم بھی اس مہینہ میں درس قرآن کا انتظام کرتے ہیں۔ دوستوں کو چاہیے کہ اس مہینہ میں زیادہ سے زیادہ تلاوت کیا کریں اور قرآن کریم کے معانی پر غور کیا کریں تاکہ اُن کے اندر قربانی کی روح پیدا ہو جس کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی ۔ بہر حال یہ مہینہ بتاتا ہے کہ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ دنیا فتح کرے اُس کیلئے ضروری ہے کہ وہ غار حرا کی علیحدگیوں میں جائے ۔ دنیا چھوڑے بغیر نہیں مل سکتی ہے ۔ پہلے اس سے علیحدگی اختیار کرنی ضروری ہوتی ہے ۔ اس کے ملنے کا بیشک یہی طریق ہے کہ اپنے آپ کو دنیا کیلئے وقف کر دیا جائے۔ لیکن جو شخص خدا تعالیٰ کیلئے کا ہو کر اس پر قبضہ کرنا چاہے وہ اُسی صورت میں کر سکیگا جب اُسے چھوڑ دیگا دیکھو ۔ابوجہل نے دنیا کیلئے کوشش کی اور اُسے حاسل کیا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے چھوڑدیا اور پھر بھی وہ آپ کی مل گئی ۔ بلکہ ابو جہل سے زیادہ ملی۔ابوجہل زیادہ سے زیادہ مکہ کا ایک رئیس تھا ۔مگر آپ اپنی زندگی میں ہی سارے عرب کے بادشاہ ہو گئے اور آج ساری دنیا کے شہنشاہ ہیں۔ غرض جو دنیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی وہ ابو جہل کو کہاں حاصل ہوئی ۔ مگر ابو جہل کو جو کچھ حاصل ہوا وہ دنیا کمانے سے ملا لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کچھ ملا وہ دنیا چھوڑنے سے ملا ۔ پس روحانی جماعتوں کو دنیا چھوڑ دینے سے ملتی ہے ۔ اور دنیوی لوگوں کو دنیا کمانے سے لمتی ہے ۔ اور رمضان ہمیں توجہ دلاتا ہے کہ اگر تم اپنے مقصد میں کامیاب ہونا چاہتے ہو تو ضروری ہے کہ پہلے شدائد اور مصائب قبول کرو۔ راتوں کی تاریکیاں قبول کرو۔ اور ان چیزوں سے مت گھبراو ٔ ۔کیونکہ یہی قربانیاں تمہاری کامیابی کا ذریعہ ہیں۔
غرض رمضان ایک خاص اہمیت رکھنے والا مہینہ ہے ۔ اور جس شخص کے دل میں اسلام اور ایمان کی قدر ہوتی ہے ۔ وہ اس مہینہ کے آتے ہی اپنے دل میں ایک خاص حرکت اور اپنے جسم میں ایک خاص قسم کی کپکپاہٹ محسوس کلئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کتنی ہی صدیاں ہمارے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ سولم کے درمیان گذر جائیں ۔ کتنے ہی سال ہمیں اور انکو آپس میں جدا کرتے چلے جائیں کتنے ہی دنوں کا فاصلہ ہم میں اور ان میں حائل ہو تا چلا جائے لیکن جس وقت رمضان کا مہینہ آتا ہے تو یوں معلوم وہتا ہے کہ ان صدیوں اور سالوں کو اس مہینہ نے لپیٹ لپاٹ کر چھوڑتا سا کر کے رکھ دیا ہے ۔ اور ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ گئے ہیں ۔ بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی قریب نہیں چونکہ قرآن خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے اس لئے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس تمام فاصلہ کو رمضان نے سیمٹ سماٹ کر ہمیں خدا تعالیٰ کے قریب پہنچا دیا ہے ۔ وہ بُعد جو ایک انسان کو خدا تعالیٰ سے ہوتا ہے ۔ اور بُعد جو ایک مخلوق کو اپنے خالق سے ہوتا ہے ۔ وہ بُعد جو ایک کمزور اور نالائق ہستی کو زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے خڈا سے ہوتا ہے وہ یوں سمٹ جاتا ہے وہ یو مٹ جاتا ہے وہ یوں غائب ہو جاتا ہے جیسے سورج کی کرنوں سے رات کا اندھیرا ۔یہی وہ حالت ہے جسکے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ۔ اِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِ نِّیْ قَرِیْبُٗ ۔ جب رمضان کا مہینہ آئے۔اور میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں کہ میں انیہں کس طرح مل سکتا ہوں تو تُو انہیں کہدے کہ رمضان اور خدا میں کوئی فرق نہیں ۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں خدا اپنے بندوں کیلئے ظٓہر ہوا۔ اور اُس نے چاہا کہ پھر اپنے بندوں کو اپنے پاس کھینچ کر لے آئے ۔ اس کلام کے ذریعہ جو حبل اللہ ہے ۔ جو خدا کا دہ رسہ ہے جس کا ایک سِرا خدا کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا مخلوق کے ہاتھ میں اب یہ بندوں کا کام ہے کہ وہ اس رسہ پر چڑھ کر خدا تک پہنچ جائیں ۔
اب میں بتاتا ہوں کہشَھْرُرَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ اْلقُرْاٰنُ کے تین معنے ہو سکتے ہیں ۔
اول اس جگہ فی تعلیلیہ ہے اور آیت کے معنے یہ ہیں کہ رمضان کا مہینہ وہ ہے جس کے بارہ میں قرآن کریم اتارا گیا ہے ۔ یعنی رمضان المبارک کے روزوں کی اس قدر اہمیت ہے کہ ان کے بارہ میں قرآن کریم میں خاص طور پر احکام نازل کئے گئے ہیں۔ اور جس حکم کے بارہ میں قرآنی وحی نازل ہو اُس کے متعلق ہر شخص اندازہ لگا سکتا ہے کہ وہ کتنا اہم اور ضروری ہو گا۔ فی کے یہ معنے لغت سے بھی ثابت ہیں ۔چنانچہ عربی زبان میں کہتے ہیں تَکلَّمْتَ مَعَکَ فِیْ ھٰذَالْاَ مْرِ میں نے تجھ سے اس امر کے متعلق گفتگو کی ۔ اسی طرح قرآن کریم میں بھی اس کی مثال پائی جاتی ہے ۔ سورۃ یوسف میں اِمْرَ أۃُ الْعَزِیْز کے متعلق آتا ہے کہ اُس نے کہا فَدٰلِکُنَّ الَّذِیْ لُمْتَّنِیْ فِیْہِ (یوسف آیت ۳۳)یہ وہ شخص ہے جس کے بارہ میں تم نے مجھے ملامت کی ہے ۔ اسی طرح حدیث میں آتاہے ۔ عُذِّبَتْ اِمْرَ رائَ ۃٗ فِیْ عِرَّۃٍ حَبَسَتْھَا( بخاری جلد ۲ کتاب المساقاۃ) ایک عورت کو ایک بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا کیونکہ اُس نے اُسے بغیر کھلائے پلائے باندھ دیا تھا یہاں تک کہ وہ مر گئی ۔
دوسرے معنے یہ ہیں کہ رمضان ایسا مہینہ ہے جس میں قرآن کریم کے نزول کا آغاز ہوا ۔چنانچہ حدیثوں سے صاف طور پر ثابت ہے کہ قرآن کریم کا نزول رمضان کے مہینہ میں شروع ہوا۔ اور گو تاریخ کی تعیین میں اختلاف ہے لیکن محدثین عام طورپر ۲۴ تاریخ کی روایت کو مقدم بتاتے ہیں ۔ چنانچہ علامہ ابن حجر عسقلانی اور علامہ زرقانی دونوں نے اس روایت کو ترجیح دی ہے کہ قرآن کریم رمضان کی ۲۴ تاریخ کو اُترنا شروع ہوا تھا ۔(زرقانی شرح مواہب للدنیہ جلد اول صفحہ ۲۰۷وبحر محیط جلد ۲ صفحہ ۳۹)
تیسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ رمضان میں پورا قرآن اتارا گیاس ۔ جیسے احادیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں حضرت رضی اللہ عنہا سے فرمایا ۔اِنَّ جِبْرِیْلَ کَانَ یُعَارِ ضَنِیَ اْلقُرْاٰنَ فِیْ کُلِّ سَنَۃٍ مَرَّۃً وَ اِنَّہٗ عَارَ ضُنِیَ الْاٰنَ مَرَّ تَیْنِ (زرقانی شرح مواہب اللدنیہ جلد ۸ صفحہ ۲۵۰،صفحہ ۲۶۳)یعنی جبریل ہر سال رمضان کے مہینہ میں تمام قرآن کریم کا میرے ساتھ ایک دفعہ دور کیا کرتے تھے۔ مگر اس سال انہوں نے دو دفعہ دور کیا ہے جس سے میں سمجھتا ہوں کہ اب میری وفات کا وقت قریب ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں بھی قرآن نازل ہوا ہے مگر رمضان المبارک کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں جس حد تک قرآن کریم نازل ہو چکا ہوتا تھا جبریل اس کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر دور کیا کرتے تھے۔ گویا دوسرے الفاظ میں دوبارہ تمام قرآن کریم آپ پر نازل کیا جاتا۔ بخاری کتاب بدر الوحی میں بھی یہی مضمون بیان کیا گیا ہے ۔ چنانچہ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَجْوَدُ النَّاسِ وَکَانَ اَجْوَ دَ مَایِکُوْنُ فِیْ کُلٍّ لَیْلَۃٍ مِنْ رَمَضَانَ فَیْدَ ارِسُہُ الْقُرْاٰنَ فَلَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَجْوَدُ اِالْخَیْرِ مِنَ الرِّیْحِ الْمُرْسَلَۃِ۔ یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام لوگوں سے بڑھ کر سخی تھے اور زیادہ ترسخاوت آپ رمضان میں فرمایا کرتے تھے جبکہ جبریل آپ سے ملتے تھے۔ اور جبریل رمضان کے مہینہ میں ہررات آپ سے ملا کرتے تھے اور تمام قرآن کریم کا آپ کے ساتھ مل کر دور کیا کرتے تھے اُن دنوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بارش لانے والی ہوا سے بھی اپنے جود وکریم میں بڑھ جاتے تھے۔
ان حوالجات سے ثابت ہے کہ ابتدائے نزولِ قرآن میں رمضان کے مہینہ میںہوا اور پھر ہر رمضان میں جتنا قرآن اس وقت تک نازل ہو چکا ہوتا تھا جبریل دوبارہ نازل ہو کر اسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مل کر دوہراتے تھے۔ اس روایت کو مدنظر رکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ سارا قرآن کریم ہی رمضان میں نازل ہوا۔ بلکہ کئی حصے متعدد بار نازل ہوئے یہاں تک کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبعوث ہونے کے بعد اگر ۲۳ رمضان آئے تو بعض آیات ایسی تھیں جو ۲۳ بار نازل ہوئیں بعض ۲۲ بار نازل ہوئیں ۔ بعض ۲۱ بار اور بعض ۲۰ بار۔ اسی طرح جو آیات آخری سال نازل ہوئی وہ بھی دو دفعہ دہرائی گئیں۔ کیونکہ جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ آپ کی حیاتِ طیبہ کے آخری سال میں جبریل علیہ السلام نے دو دفعہ قرآن کریم آپ کے ساتھ دہرایا اور یہ بات قرآن کریم سے ثابت ہے کہ ملائکہ جو بھی کام کرتے ہیں وہ خداتعالیٰ کے حکم سے کرتے ہیں۔ اس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کہ جبریل علیہ السلام کا رمضان میں آپ کے ساتھ مل کر قرآن کریم کا دور کرنا نزول نہیں کہلا سکتا کیونکہ فرشتہ اُترتا ہی اسی وقت ہے جب اللہ تعالیٰ کا حکم ہو اور اسلامی زبان میں اس کے لئے نزول کی اصلاح ہی استعمال ہوتی ہے۔ پس اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُراٰنَ سے ایک یہ معنے بھی ہیں کہ اس مہینہ میں تمام قرآن کا نزول ہوا۔
یہ امر بھی یاد رکھنا چاہیے کہ رمضان اسلامی نام ہے اس مہینے کا پہلا نام زمانہ جاہلیت میں نائق ہوا کرتا تھا(فتح البیان)۔
ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی۔ چونکہ ھُدًی اور بِیِّنَاتٍ دونوں قرآن کریم کا حال ہیں۔ اس لئے اس کے معنے یہ ہوئے کہ یہ قرآن ایسا ہے کہ اول تو وہ ھُدًی ہے یعنی لوگوں کے لئے ہدایت کا موجب ہے دوم اس میں ہدایت کے دلائل ہیں یعنی وہ یونہی لوگوں کو نہیں کہتا کہ ایسا کرو اور ایسا نہ کرو بلکہ وہ دلائل بھی دیتا ہے ۔ اور لِلنَّاسِ کا لفظ رکھ کر بتایا کہ یہ تمام دنیا کے لوگوں کے لئے ہدایت کا موجب ہے صرف بعض لوگوں کے لئے نہیں۔ وَلْفُرْقَانَ اور پھر اس میں ایسے دلائل بھی جو حق اور باطل میں امتیاز کردیتے ہیں۔
فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ میں بتایا کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ رمضان کا مبارک مہینہ نصیب کرے اور وہ ان دنوں میں سفر میں بھی نہ ہو اور اس کی صحت بھی اچھی ہو اُسے چاہیے کہ وہ پورے مہینہ کے مسلسل روزے رکھے اور اپنے لئے خیر اور برکت کے زیادہ سے زیادہ سامان جمع کرے اور ان مبارک ایام کو سستی اور غفلت میں ضائع نہ کرے۔
پھر فرماتا ہے ۔یُرِیْدُ اللّٰہَ بِکُمُ الْئُسْرَ وَلَا ئُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ۔ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے تنگی نہیں چاہتا۔ یعنی ہم نے رمضان میں روزے اس لئے مقرر کئے ہیں کہ ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ تم ایمان لائو اور پھر اپنی زندگی تنگیوں میں بسر کرو۔ حالانکہ بظاہر یہ دکھائی دیتا ہے کہ ان دنوں مومنوں کو اپنے نفس پر زیادہ تنگی برداشت کرنی پڑتی ہے۔ درحقیقت اس آیت میں عظیم الشان نکتہ بتایا گیا ہے کہ خداعتالیٰ کے لئے بھوکا رہنا یا دین کے لیے قربانیاں کرنا انسان کے لئے کسی نقصان کا موجب نہیں بلکہ سراسر فائدہ کا باعث ہوتا ہے۔ جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ رمضان میں انسان بھوکا رہتا ہے وہ قرآن کریم کی تکذیب کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم بھوکے تھے ہم نے رمضان قرر کیاتاکہ تم روٹی کھائو۔ پس معلوم ہوا کہ روٹی وہی ہے جو خدا کھلاتا ہے اور اصل زندگی اسی سے وابستی ہے کہ انسان خدا کے لئے قربانی کر اور پھر جو کچھ ملے اسے خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوا کھائے۔ اس کے سوا جو روٹی ہے وہ دراصل کھانے والے کے لئے روحانی ہلاکت کا موجب ہوتی ہے۔ پس مومن کا فرض ہے کہ جو لقمہ بھی اس کے مونہہ میں جائے اس کے متعلق پہلے دیکھ لے کہ وہ کس کے لئے ہے اگر تو وہ خدا کے لئے ہے تو وہی روٹی ہے اور اگر نفس کے لئے ہے تو وہ روٹی نہیں بلکہ پتھر ہیں۔ اسی طرح جو کپڑا خدا کے لئے پہنا جائے وہی لباس ہے اور جو نفس کے لئے پہنتا ہے وہ ننگا ہے۔ دیکھو کیسے لطیف پیرا یہ میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ جب تک تم خدا کے لئے تکالیف اور مصائب برادشت نہ کرو تم کبھی سہولت حاصل نہیں کر سکتے۔ اس سے ان لوگوں کے خیال کا بھی ابطال ہو جاتا ہے جو بقول حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام رمضان کو موٹے ہونے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ بعض لوگوں کے لئے رمضان ایسا ہی ہوتا ہے جیسے گھوڑے کے لئے خوید۔ وہ ان دنوں خوب گھی مٹھائیاں اور مرغن اغذیہ کھاتے ہیں اور اس طرح موٹے ہو کر نکلتے ہیں جس طرح خوید کے بعد گھوڑا۔ یہ چیز بھی رمضان کی برکت کو کم کرنے والی ہے۔ اسی طرح افطاری میں تنوع اور سحری میں تکلفات بھی نہیں ہونے چاہیں اور یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ سارا دن بھوکے رہے ہیں اب پر خوری کر لیں ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں صحابہ کرام ؓ افطاری کے لئے کوئی تکلفات نہ کرتے تھے۔ کوئی کھجور سے کوئی نمک سے بعض پانی سے اور بعض روٹی سے افطار کر لیتے تھے۔ ہمارے لئے بھی ضروری ہے کہ ہم اس طریق کو پھر جاری کریں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہؓ کے نمونہ کو زندہ کریں۔
پھر فرماتا ہے وَلِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کرو۔ مفسرین نے اس کے یہ معنے کئے ہیں اور میں خود بھی کبھی کبھی یہ معنے کیا کرتا ہوں کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مہینہ بھر کے روزے مقرر کرنے کی وجہ بتائی ہے۔ اور فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رمضان کا مہینہ اس لئے مقرر کیا ہے تا دن پورے ہوجائیں ۔ اگر یونہی حکم دے دیتا کہ روزے رکھو تو کوئی دس رکھ لیتا کوئی بیس رکھ لیتا اور کوئی رکھتا ہی چلا جاتا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ایک مہینہ مقرر کر دیا تاکہ روحانی تکمیل کے لئے جس مدت کی ضرورت ہے اس کو تم پورا کر لو۔ یہ معنے بھی اپنی جگہ درست ہیں مگر اس کا ایک یہ مطلب بھی ہے کہ اصل زندگی انسان کی وہی ہے جو نیکی میں گذرے عمر کا وہ حصہ جو دنیا کے لئے گذر جاتا ہے ضائع چلا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے اس کے یہ معنے ہیں کہ ہم نے روزے اس لئے رکھے ہیں تاکہ تم اپنی حقیقی عمر پوری کر لو۔ جو لوگ دنیا حاصل کرنے میں ہی مصروف رہتے ہیں وہ قرآنی اصطلاح کے مطابق زندہ نہیں بلکہ مردہ ہوتے ہیں۔ اور مَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاَخِرَۃِ اَعْمَی۔ کے مطابق جو اس دنیا میں اندھا ہے وہ اگلے جہاں میں بھی اندھا ہی ہو گاپس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ کہ ہم نے روزے اس لئے مقرر کئے ہیں تا تم دنیا میں اپنی مقررہ عمر گذار لو چونکہ بنی نوع انسان کے لئے کھانا پینا لازمی ہے۔ اس لئے سارا سال تو روزے نہیں رکھے جا سکتے تھے اللہ تعالیٰ نے اس اصل کے مطابق کہ ایک نیکی کا ثواب کم سے کم دس گنا ملتا ہے ایک ماہ کے روزے مقرر کر دیئے اور اس طرح رمضان سارے سال کے روزوں کا قائم مقام ہو گیا۔گویا جس نے اس مہینہ میں روزے رکھ لئے اس نے سارے سال کے روزے رکھ لئے اور اس طرح اس کی زندگی واقعی زندگی ہو گئی۔
پھر فرماتا ہے وَلِتُکَبِّرُ و اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰ لکُمْ۔ یہ روزے اس لئے مقرر کئے گئے ہیں کہ تم اس بات پر اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تم کو ہدایت دی ہے۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزوں کی فضیلت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایاتھا شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُراٰنَ کہ رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے۔ اب ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے شَھْر کے مقابلہ میں وَلِتُکْمِلُواالْعِدَّۃَ کے الفاظ رکھ دیئے۔ اور بتایا کہ اگر ہم ایک مہینہ مقرر نہ کرتے تو کوئی کم روزے رکھتا اور کوئی زیادہ اور اس طرح وہ روحانی ترقی جو مہینہ بھر کے روزوں کے نتیجہ میں حاصل ہو سکتی ہے اسے وہ حاصل نہ کر سکتے۔
اس کے بعد اُنْزِل فِیْہِ الْقُرْاٰنَ کے مقابلہ میں وَ لِتُکَبِّرُوْ االلّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰ لکُمْ کے الفاظ رکھ کر بتایا کہ ہم نے کوئی اور مہینہ اس لئے مقرر نہیں کیا کہ نزول ِ قرآن کو یاد کر کے اس ماہ میں تمہارے دل میں خاص جوش پیدا ہو سکتا ہے۔ جب رمضان کا مہینہ آئیگا تو لازماً تمہیں یہ خیال بھی آئیگا کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں ہم پر خداتعالیٰ کا ایک بہت بڑا فضل قرآن کریم جیسی مقدس کتاب کی شکل میں نازل ہوا ہے اور تمہارا دل خود بخود اس مہینہ میں خداتعالیٰ کی بڑائی بیان کرنے کی طرف متوجہ ہو جائیگا۔
پھروَ لِتُکَبِّرُوْ االلّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰ لکُمْ میں اس امر کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ یہ دن اس لئے ہیں کہ تا اللہ تعالیی کی ہدایت پر تم اس کی تکبیر کرو یہ نہیں کہ تم شکوہ کرو کہ ہمیںبھوکا رکھا۔ بلکہ یہ سمجھو کہ بڑا احسان کیا کہ روزہ جیسی نعمت ہمیں عطا کی۔ یہاں مومن کا نقطہ نگاہ واضح کیا گیا ہے کہ اسے قربانی کا جو مو قعہ بھی ملے وہ اسے اللہ تعالیٰ کا فضل سمجھتا ہے۔ اور جس قوم کا یہ نقطہ نگاہ ہو جائے۔ اسے کوئی تباہ نہیں کر سکتا۔ وہ ضرور کامیاب ہو کر رہتی ہے۔ ایسی قوم حقیقی معنوں میں زندہ قوم ہو جاتی ہے۔ جب ایک شخص کے دل میں یہ خیال ہو کہ مجھ پر جو دینی ذمہ داریاں ہیں وہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی بڑائی کرے گا۔ اور جو شخص خداتعالیٰ کی بڑائی کرے خداتعالیٰ اس ی بڑائی کرتا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ تمہیں جو کوئی تحفہ دے تم اسے اس سے بہتر تحفہ دو۔ اور جب ہمیں یہ حکم دیاگیا ہے تو کیونکر ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خود ایسا نہ کرے۔ انسان اس کی خدمت میں تحفہ پیش کرے اور وہ اس سے بہتر تحفہ اسے نہ دے۔ پس جو شخص خداتعالیٰ کی بڑائی کرتا ہے خداتعالیٰ اس کی بڑائی کرتا ہے۔ مگر شرط یہی ہے کہ تکبیر صرف منہ سے نہ ہو ۔ جس تکبیر سے وہ خوش ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ گالیاں کھائو۔ ماریں کھائو۔ پتھر کھائو اور پھر بھی خداتعالیٰ کی تکبیر کرو کہ اس نے ہمیں یہ مواقع عطا کئے ہیں۔ گویا حقیقی تکبیر یہی ہے کہ جتنا زیادہ ظلم ہو اتنا ہی زیادہ انسان خداتعالیٰ کی طرف جھکے اور کہے کہ مجھ پر اس کے کتنے احسان ہو رہے ہیں جب اس پر کوئی مصیبت نازل ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کی تکبیر کرے اور اس کی بڑائی بیان کرے ایسے شخص کی تکبیر کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ یقییناً اس کو بڑھاتا ہے اور اس کی بڑائی کے سامان پیدا کرتا ہے۔ ورنہ صرف مُنہ کی تکبیر یں اس کے کسی کام نہیں آسکتیں۔
اس کے بعد فرمایا ولَعَلَّلُمْ تَشْکُرُوْنَ۔ یہ روزے ہم نے اس لئے مقرر کئے ہیں تاکہ تم اس کے شکر گذار بنو۔ یہ الفاظ اللہ تعالیٰ نے وَمَنْ کَانَ مَرِیْضاً اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃ’‘ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ کے مقابل میں رکھ کر اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ یہ سہولت ہم نے اس لئے رکھی ہے کہ تم شکر گذار بنو کہ خداتعالیٰ نے مدارجِ عالیہ کے حصول کے لئے ہمارے لئے کس قدر سہولتیں رکھ دی ہیں اور تمہاری جبینِ نیاز ہمیشہ اس کے حضور جھکی رہے۔
غرض ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے تین احکام دیئے ہیں اور تین ہی حکمتیں بیان فرمائی ہیں تین احکام تو یہ دیئے کہ (۱) مہینہ کے روزے رکھو (۲) رمضان میں رکھو (۳) مریض اور مسافر کو ان دنوں میں رخصت ہے۔ اس کے مقابل میں تین ہی حکمتیں بیان فرمائی (۱) کہا تھا کہ ایک مہینہ کے روزے رکھو اس کے لئے فرمایا کہ اگر ہم روزے مقرر نہ کرتے تو لوگ کم و بیش رکھتے اور اس طرح وہ تعداد پوری نہ ہوتی جو روحانی ترقی کے لئے ضروری ہے (۲) کہا تھا کہ رمضان میں روزے رکھو۔ اس پر کوئی کہہ سکتا تھا کہ رمضان کو کیوں مقرر کیا ہے جس مہینہ میں کوئی چاہتا رکھ لیتا اس لئے فرمایا کہ اس مہینہ میں قرآن کریم کا نزول یاد آکر خداتعالیٰ کو یاد کرنے کا جوش پیدا کرتا ہے اور اس مبارک مہینہ میں خداتعالیٰ کی عبادت اور ذکرِ الہٰی کی طرف تمہیں زیادہ توجہ پید ا ہوگئی۔ (۳) کہا تھا کہ بعض کے لئے رخصت ہے ۔ اس لئے وجہ یہ بتائی کہ ان آسانیوں کو دیکھ کر خداتعالیٰ کو ہمارا کتنا خیال ہے اس نے ہمارے فائدہ کے لئے حکم دیا۔ اور اس میں بھی ہمارے لئے آسانیاں پیدا کر دی ہیں۔ یہ عِدَّۃ’‘ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ کے مقابلہ میں فرمایا کہ یہ تخفیف اور سہولت اس لئے ہے کہ تم خداتعالیٰ کا شکر ادا کرو اور اس کی محبت سے اپنے سینہ و دل کو منور کرو۔ اسی طرح لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ میں اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ رمضان ہم نے اس لئے اُتارا ہے کہ تم شکر گذار بنو۔ یعنی ہر تکبر کے بعد شکر کرو کہ خدا نے اپنی تکبیر کی توفیق دی اور پھر اس بات کا شکر کرو کہ خداتعالیٰ نے اپنے شکر کی توفیق دی۔ اور پھر شکر کی توفیق ملنے پر شکر کرو۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے شکر کا ایسا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائیگا کہ انسان ہر وقت اس کے دروازہ پر گِرا رہے گا اور اس غلام کی طرح ہو جائے جو کسی صورت میں بھی اپنے آقا کو نہیں چھوڑتا۔
وَاِذَ سَاَلَکَ
یَرْشُدُوْنَo
۱۰۰؎ حل لغات:۔ اُجِیْبُ:اَحَابَ سے مضارع متکلم کاصیغہ ہے اور اَلْحِجَابَۃُ کے معنے یہں۔ اَلْعَطَاعُ مِنَ اللّٰہِ وَالطَّاعَۃُ مِنَ الْعَبْدِ (مفردات) یعنی اجابت اگر اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہو تو بخشش کرنے یا دینے کے معنے ہوتے ہیں اور اگر بندے کی طرف منسوب ہو تو اس کے معنے اطاعت کے ہیں۔ پس اُجِیْبُ کے معنے ہوئے میں سنکر بدلہ دیتا ہوں یا اسے قبول کرتاہوں۔
وَلْیُوْمِنُوْ ابِیَ: اٰمَنَ بِہٖ کے معنے ہیں (۱) اُسے مان لیا (۲) اس کی صفات کو تسلیم کر لیا ۔ پس وَلْیُوْ مِنُوْ اِلْی کے یہ معنے ہوئے کہ (۱) وہ مجھے مانیں اور (۲) میری صفات کو تسلیم کریں۔
لَعَلَّکُمْ: لَعَلَّ مِنْ اَخَوَاَتِ اِنَّ۔ لَعَلَّ اِنَّ کے اخوات میں سے ہے۔ وَذَکَرَ بَعْضُ الْمُفَسِّرِیْنَ اَنَّ رَدَلَّ مِنَ اللّٰہِ وَاجِب’‘ (مفردات) اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے آئے تو اس کے معنے یقین کے ہوتے ہیں ۔ نیز لَعَلَّ کی مزید تشریح کے لئے دیکھیں حل لغات سورہ بقرہ ۲۲؎۔
تفسیر:۔فرماتا ہے اے رسول! جب میرے بندے میرے متعلق تجھ سے سوال کریں اور پوچھیں کہ ہمارا خدا کہاں ہے ۔ جیسے عاشق پوچھتا پھرتا ہے کہ میرا محبوب کہاں ہے تو تو انہیں کہہ دے کہ تم گھبرائو نہیں میں تو تمہارے بالکل قریب ہوں۔ یہاں عِبَادِیْ سے رمراد عاشقانِ الہٰی ہی ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس طرح عاشق ہر جگہ دوڑا پھرتا ہے اور کہتا ہے کہ میرا معشوق کہاں ہے اسی طرح جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھیں تو تو انہیں کہہ دے کہ گھبرائو نہیں میں تمہارے قریب ہی ہوں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے عشاق کے دل کو توڑنا نہیں چاہتا۔
پھر فرمایا ہے۔ میرے قریب ہونیکا ثبوت یہ ہے کہ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَافِ۔ جب کوئی شخص کامل تڑپ اور سوز وگداز کے ساتھ مجھ سے دُعا کرتا ہے تو میں س کی دعا کو قبول کر لیتا ہوں۔ اور یہ ثبوت ہوتا ہے اس بات کا کہ میں قریب ہوں۔ اگر میں بعید ہوتا تو میں اس کی سجدے کی آہستہ آواز کو بھی کیسے سن سکتا۔ اور اگر میں بعید ہوتا تو اس کی گوشہ تنہائی میں بیٹھے ہوئے ہاتھ اُٹھا کر یا قیام کی صورت میں آہستہ آواز والی دُعا کیسے سُن لیتا۔ میرا اس دُعا کو سُن لینا بتاتا ہے کہ میں اس کے قریب ہوں۔
دوسری جگہ قرآن کریم میں خداتعالیٰ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ یعنی پاس ہونا تو الگ رہا جو انسان کی رگ ِ جان ہے ہم اس سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں اس کے معنے یہ ہوئے کہ وہ پاس ہی نہیں بلکہ انسان کے اندر بیٹھا ہوا ہے۔ اور یہ ظاہرہ ے کہ پاس بیٹھنے والا صرف وہ آواز سنتا ہے جو منہ سے کہی جائے اور جو اندر بیٹھا ہو وہ بات سنتا ہے جو دل سے کہی جائے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے لفظ قریب کی دوسری جگہ تشریح کر دی کہ قریب کا مفہوم یہ ہے کہ حبل الورید یعنی رگِ جان سے بھی میں زیادہ قریب ہوں اور میں ہر پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہوں خواہ وہ زبان سے کی گئی ہو یا دل میں کوئی خواہش پیدا ہوئی ہو کیونکہ میرا اس سے تعلق ایسا قریب ہے کہ میں اس کے دل میں بیٹھا ہوا ہوں۔
بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہہم نے تو بڑے اضطراب سے دعائیں کی تھیں مگر وہ قبول نہیں ہوئیں پھر یہ آیت کس طرح درست ثابت ہوئی ۔ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ بے شک اَلدَّاعِ کے ایک معنے ہر پکارنے والے کے بھی ہیں۔ مگر اس کے ایک معنے ایسے پکارنے والے کے بھی ہیں جس کا اوپر ذکر ہو رہاہے۔ اور مراد یہ ہے کہ وہ بندے جو مجھے ملنے کے اضطراب میں اور سب کچھ بھول جاتے ہیں اور مجھ سے صرف میرا قرب اور وصال چاہتے ہیں میں انکی دُعا کو سنتا اور انہیں انے قریب میں جگہ دیتا ہوں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے یہاں وَاِذَ ا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عِنِّیْ فرمایا ہے۔ یعنی وہ میرے بارے میں سوال کرتے یہں اس میں روٹی کا کہیں ذکرنہیں۔ نوکری کا کہیں ذکر نہیں بلکہ صرف غَنِّیْ فرمایا ہے عَنِ الْخُبْرِ یا عَنِ الْوَظِیْفَۃِ نہیں فرمایا۔ پس جو شخص خداتعالیٰ کا قرب مانگے اور وہ اسے نہ ملے اسے تو بے شک اعتراض ہو سکتا ہے لیکن دوسروں کے لئے اس میں کوئی اعتراض کی گنجائش نہیں۔
پھر اس آیت کی عبارت ایسی ہے کہ اس سے اضطراب اور گھبراہٹ کی طرف خاص طور پر اشارہ پایا جاتا ہے بعض مضامیں الفاظ سے ظاہر نہیں ہوتے لیکن ہو عبارت میں پنہاں ہوتے ہیں اور یہی حالت یہاں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میرے بندے میری طرف دوڑتے ہیں۔ ان کے اندر ایک اضطراب اور عشق پیدا ہوتا ہے اور وہ چلاتے ہیں کہ ہمارا خدا کہاں ہے تو تو ان سے کہدے کہ میں تمہاری طرح کے پکارنے والے کی پکار کو کبھی رد نہیں کرتا بلکہ اُسے ضرور سنتا اور قبول کرتا ہوں۔ ایک دوسری جگہ قرآن کریم میں یہ مضمون ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا۔ یعنی وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی پوری کوشش کرتے ہیں ہمیں اپنی ذات ہی کی قسم ہے کہ ہم ضرور ان کو اپنے رستوں کی طرف آنے کی توفیق بخش دیتے ہیں اس سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر مذہب اور علم کے آدمی کو اپنا رستہ دکھانے کے لئے تیار رہتا ہے۔ بشرطیکہ انسان اس کے لئے کوشش کرے۔ اور اس کی دُعا کو وہ ضرور سن لیتا ہے۔ باقی دعائوں کی قبولیت میں وہ انسان مصالح کو بھی مدنظر رکھتا ہے بعض دفعہ انسان جو چیز مانگتا ہے خداتعالیٰ کے علم میں وہ اس کے لئے مہلک ہوتی ہے۔ پھر بعض دفعہ ملازمت ایک ہوتی ہے اس کو مانگنے والے دو ہوتے ہیں اب ایک ملازمت دو کو تو نہیں مل سکتی ہو لازماً ایک ہی کو ملے گی۔ مگر وہ چیز جس کے بانٹنے کے باوجوس اس میں کوئی کمی نہیں آسکتی وہ خدتعالیٰ کی ذات ہے باقی تمام اشیاء محدود ہیں۔ اگر ایک چیز کے دو مانگنے والے سامنے آجائیں تو وہ لازماً زیادہ حقدار کو دی جائیگی یا اگر وہ مضر ہو تو گو اس کو کوئی اور حقدار نہ ہو مگر پھر بھی وہ اپنے مومن بندہ کو نہیں دیگا کیونکہ وہ دوست سے دشمنی کیونکر کر سکتا ہے اور کیسے ممکن ہے کہ جس چیز کے متعلق ہو جانتا ہے کہ آگ ہے وہ اپنے دوست کو دے دے ۔ غرض سب دعائوں کی قبولیت میں روکیں ہوتی ہیں مگر ایک دُعا ہے جس کے قبول ہونے میں کوئی روک نہیں اور جس کے لینے میں کوئی برائی نہیں۔ دنیا کی ہر چیز میں برائی ہو سکتی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ وَیَل’‘ لِّلْمُصَلِّیْنَ بعض نماز پڑھنے والوں کے لئے بھی ہلاکت ہے مگر خداتعالیٰ کو مانگنے میں کوئی ویل نہیں۔ کبھی ایسا نہیں ہو ا کہ خداتعالیٰ کسی سے اس لئے نہ ملے کہ وہ ہلاکت میں نہ پڑے یااس لئے نہ ملے کہ خداتعالیٰ کے وجود میں کمی نہ آجائے۔ جس طرح ہوا ہر ایک کے ناک میں جاتی ہے مگر اُس میں کمی نہیں ہوتی اسی طرح خداتعالیٰ ہر بندہ کو مل سکتا ہے اور پھر بھی اس میں کمی نہیں ہوتی۔ سورج کی شعاعوں سے سب مخلوق فائدہ اٹھاتی ہے۔ مگر ان میں کوئی کمی نہیں آتی چاند کی شعاعوں میں کوئی کمی نہیں آتی۔ تم چاند کی روشنی میں گھنٹوں بیٹھ کر لطف اٹھائو مگر اس کا نور پھر بھی اُتنے کا اتنا ہی رہیگا۔ یہی حال خدتعالیٰ کا ہے۔ بلکہ خداتعالیٰ تو ان سے بھی کامل ہے۔ ان چیزوں میں بھی ممکن ہے کوئی خفیف سے کمی ہو جاتی ہو۔ مگر خداتعالیٰ میں اتنی بھی نہیں ہوتی۔ اسی لئے وہ اپنے بندوں سے کہتا ہے کہ تم میری طرف آئو۔ پھر تم دیکھو گے کہ تم کس طرح تیزی سے قدم مارتے ہوئے اس راستہ پر چل پڑو گے جس سے خداتعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے اور باوجود یہ کہ وہ غیر مرئی ہے تم اس کو پالو گے اور اس کا وصال حاصل کر لو گے۔ درحقیقت اگر غور کیا جائے تو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی روحانی ترقی اور بندوں اور خدا کے باہمی اتصال کے لئے تین تغیرات کا ذکر فرمایا ہے جن کے بغیر کوئی انسان خداتعالیٰ تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔
سب سے پہلا تغیر جو کسی انسان کے دل میں پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ میں خداتعالیٰ سے ملوں اور س کا قرب حاصل کروں۔ مگر ظاہر ہے کہ صرف خواہش کا پیدا ہونا اسے خداتعالیٰ کے دربار تک نہیں پہنچا سکتا بلکہ ضروری ہوتا ہے کہ اسے کوئی ایسا ہاوی اور رہنما میسر آئے جو اسے اس مقصد میں کامیابی کا طریق بنائے۔ اور اس کی مشکلات کو دور کرے۔ اسلام اس فطری تقاضا کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ بیشک ان لوگوں کے دلوں میں یہ خواہش تو پیدا ہو گئی ہے کہ انہیں خدا ملنا چاہیے لیکن اب دوسرا تغیر ان میں یہ بھی پیدا ہو نا چاہیے کہ وہ تجھ سے پوچھیں یعنی ہدایت پانے اور خداتعالیٰ کو تلاش کرنے کے لئے انہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جانا چاہیے اور آپ سے اپنے محبوب حقیقی کا پتہ دریافت کرنا چاہیے جس طرح بیمار کی تندرستی کے لئے ایک تو اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ سمجھ لے کہ وہ بیمار ہے اور دوسرے اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اس ڈاکٹر کے پاس جائے جو اعلیٰ درجہ کا تجربہ کار ہو۔ اسی طرح خداتعالیٰ کو پانے کے لئے بھی ضروری ہے کہ نہ صرف خداتعالیٰ کو پانے کی سچی خواہش انسان کے دل میں پیدا ہو بلکہ وہ اس خواہش کے حصول کیل ئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء اختیار کر لے جو انسان کو خداتعالیٰ تک پہنچانے والے ہیں۔
پھر تیسری بات جو قرب الہٰی کے لئے ضروری ہے اور جس کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ان کا سوال عَنِّیْ ہو۔ یعنی ان کی غرض محض خدا تعالیٰ کو پانا ہو۔ لوگ کئی اغراض کے ماتحت مذہب میں داخل ہوتے ہیں۔ بعض لوگ محض ایک جماعت میں منسلک ہونے کے لئے داخل ہوتے ہیں بعض معاشرت یا تمدن کے خیال سے داخل ہوتے ہیں مگر فرمایا ان کا سچے مذہب میں داخل ہونا محض خداتعالیٰ کے وصال اور اس کے قرب کے حصول کے لئے ہو۔ کوئی اور خواہش اس کے پیچھے کام نہ کر رہی ہو۔ ہاں اگر دوسرے فوائد ضمنی طور پر حاصل ہو جائیں تو اور بات ہے لیکن اصل غرض محض خداتعالیٰ کا حصول ہونا چاہیے۔
پھر عربی زبان کا یہ قاعدہ ہے کہ جب اِذَا کے بعد ف آتی ہے تو اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ پہلے کام کے نتیجہ میں فلاں بات پیدا ہوئی۔ اس جگہ بھی اِذَا سَالَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ تَرِیْب’‘ کے یہ معنے ہیں کہ جب یہ تین باتیں جمع ہو جائیں۔ یعنی سوال کرنے والے سوال کریں کہ ہمیں خداتعالیٰ کی ضرورت ہے پھر تجھ سے سوال کریں فلاسفوں اور سائنسدانوں سے سوال نہ کریں ۔ عیسیٰ موسیٰ سے سوال نہ کریں بلکہ تیرے پاس آئیں قرآن کے پاس آئیں یا تیرے خلفاء کے پا س آئیں اور پھر وہ میری ذات کے متعلق سوال کریں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ میں ان کے قریب ہو جاتا ہوں اور انہیں اپنا چہرہ دکھا دیتا ہوں۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس کا جواب دینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ ہے کہ جب سورۃ ق میں جو کہ مکی سورۃ ہے خداتعالیٰ یہ فرما چکا تھا کہ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ(ق آیت ۱۷) ہم انسان سے اس کی رگ ِ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں تو پھر سورۃ بقرہ میں جو مدنی سورۃ ہے یہ فرمانے کی کیا ضرورت تھی کہ جب میرے بندے میرے متعلق تجھ سے سوال کریں تو تو ان کو یہ جواب دے دے کہ میں قریب ہوں۔ جب مکی آیت کے ذریعہ نہیں معلوم ہو چکا تھا کہ خداتعالیٰ بہت ہی قریب ہے تو پھر یہ سوال ہی کوئی نہیں کر سکتا تھا اس لئے اس آیت کے نازل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اور اگر کوئی سوال کرتا بھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسے یہ فرما سکتے تھے کہ خداتعالیٰ تو بتا چکا ہے کہنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْد ۔ لیکن قرآن کریم خداتعالیٰ کا کلام ہے۔ اور خداتعالیٰ کا کلام بلا ضرورت نہیں ہوا کرتا۔ پس معلوم ہوا کہ یہاں خداتعالیٰ کا سوال بیان کرنا اور پھر اس کا جواب دینا کوئی اور حکمت دیتا ہے۔ اور یہاں جو قریب کا لفظ استعمال ہوا ہے اس سے وہ قرب اور بُعد مراد نہیں جو عام طور پر سمجھا جاتا ہے ۔ کیونکہ اس کے متعلق تو اللہ تعالیٰ فرما چکا ہے کہ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْد۔ اگریہاں بھی یہی مراد ہوتی تو پھر یہ کیوں فرماتا کہ جب لوگ تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یہ جواب دیجیو۔ پس معلوم ہوا کہ اس جواب میں جو قریب کہا گیا ہے وہ بھی کوئی اور معنے رکھتے ہے۔
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ان دونوں آیتوں میں خدا تعالیٰ نے ایک عجیب فرق رکھا ہے۔ او روہ یہ کہ قرب اور بُعد ہمیشہ نسبت کے ساتھ ہوتا ہے ایک چیز ہمارے قریب ہوتی ہے مگر وہی دوسرے سے بعیدہوتی ہے۔ پس قریب اور بعید ایک نسبتی چیز ہے۔ جب ہم ایک چیز کو قریب کہتے ہیں تو ایک نسبت سے کہتے ہیں حالانکہ دوسری نسبت سے وہی چیز بعید ترین ہو سکتی ہے۔ سورہ ق میں جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ۔ وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہ‘ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلیْہِ مَنْ حَبْلِ الْوَرِیْہِ۔ کہ ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم اس کے دل میں جو وسوسہ ہوتا ہے اس کو بھی جانتے ہیں اور ہم اس کی رگِ جان سے بھی قریب تر ہیں۔ تو اس میں اِلَیْہِ کی نسبت سے اَقْرَبُ فرمایا ہے۔لیکن آیت وَاِذَ سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْب’‘ میں قَرِیْب’‘ کا لفظ کسی نسبت سے نہیں فرمایا۔بلکہ بلانسبت فرمایا ہے اور اس کی کوئی حد بندی نہیں کی۔ اس عدمِ حد بندی میں ایک لطیف نکتہ ہے اور وہ یہ کہ انسان جو اپنی ضرورت خداتعالیٰ کے حضور پیش کرتا ہے وہ مختلف اوقات میں مختلف اشیاء کے متعلق ہوتی ہے کبھی تو وہ انسانوں کے متعلق ہوتی ہے او رکبھی حیوانوں کے متعلق۔ کبھی جانداروں کے متعلق ہوتی ہے اور کبھی بے جانوں کے متعلق۔ کبھی خداتعالیٰ کے متعلق ہوتی ہے اور کبھی ملائکہ کے متعلق۔ کبھی اس دنیا کے متعلق ہوتی ہے اور کبھی اگلے جہان کے متعلق ۔ کبھی اس زمین پر رکھنے والی چیزوں کے متعلق ہوتی ہے اور کبھی آسمان کی چیزوں کے متعلق ہوتی ہے اور کبھی آسمان کی چیزوں کے متعلق۔ غرض انسان کی مختلف احتیاطیں ہیں اور ایسی وسیع ہیں کہ جن کی کوئی حد بندی نہیں ہو سکتی۔ لیکن انسان کی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ جب اسے کسی چیز کی طلب ہوتی ہے تو اس کے حاصل کرنے کے متعلق وہ کوئی ایسا ذریعہ تلاش کرتا ہے جو قریب ہو پھر قریب کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ ایک یہ بھی قریب ہے کہ کوئی ذریعہ جلد سے میسر جائے۔چنانچہ ہر انسان ایک مدعا حاصل کرنے کے لئے جو ذریعہ قریب دیکھتا ہے اس کو لے لیتا ہے۔ اور بعید کو چھوڑ دیتا ہے۔ مگر اس کے علاوہ قریب ایک اور رنگ میں بھی ہوتا ہے یعنی وہ ذریعہ جو مدعا اور منزل مقصود کے قریب تر پہنچا دے ۔ انسان اس ذریعہ کو اختیار کرتا ہے اور دوسروں کو چھوڑ دیتا ہے ۔ غرض بہت سے قریب ہیں جن کا کسی چیزمیں پایا جانا ہر انسان دیکھتا ہے ۔ اور جب وہ سارے قرب کسی میں پالیتا ہے تو اس کو اپنے مدعا کے حصول کے لئے چن لیتا ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا کہ وَاِذَ اسَالَکَ عِبَادِیْ عَنّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْب’‘ کہ انسان اپنے مختلف مقاصد کے لئے کوشش کرتا ہے اور ان کے لئے دیکھتا ہے کہ کونسا ذریعہ اختیار کروں جس سے جلد کامیان ہو جائوں۔ جب انسان ذرائع کو سوچتے سوچتے یہاں تک پہنچے کہ میں دُعا کر وں تو اس کو کہدو کہ اللہ قریب ہے۔ قَرِیْب’‘ اِلَیْہِ نہیں فرمایا۔ اس لئے کہ خداتعالیٰ نہ صرف انسان کے قریب ہے بلکہ ہر ایک چیز کے قریب ترین ہے اور وہ مدعا حاصل کرنے کا سب سے قریب ترین ذریعہ ہے۔ یوں قریب ہونا اور بات ہے۔ غرض خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہارے بھی قریب ہوں اور وہ مقصد جسے تم حاصل کرنا چاہتے ہو اس کے بھی قریب ہوں اور وہ مقصد جسے تم حاصل کرنا چاہتے ہو اس کے بھی قریب ہوں گویا اس آیت میں قربِ مکان کا ذکر نہیں بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ حصولِ مدعا کے لئے جتنے قربوں کی ضرورت ہے وہ سب خداتعالیٰ میں موجود ہیں مثلاً ایک شخص ولایت میں بیٹھا ہوا روپیہ کا محتاج ہے وہ وہاں سے ہمیں مدد کے لئے لکھتا ہے۔ اگر ہم اُسے روپیہ بھیجیں تو کئی دنوں کے بعد اُسے ملے گا لیکن اگر ہم اس کے لئے دُعا کریں تو ممکن ہے کہ ادھر ہمارے منہ سے دعا نکلے اور ادھر اللہ تعالیٰ اس کا کوئی انتظام کر دے۔ تو خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ میں قریب ہوں اگر کوئی مدد حاصل کرنا چاہتے ہو تو مجھ سے کہو۔ اور خداتعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کے لئے نہ ہاتھ ہلانے کی ضرور ت ہے نہ پائوں کیونکہ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ میں قریب ہوں۔ پھر وہ انسان ہی کے قریب نہیں بلکہ جس مدعا اور مقصد کو حاصل کرنا ہو اس کے بھی قریب ہے۔ ادھر انسان یہ کہتا ہے کہ الہٰی فلاں چیز مجھے مل جائے اور ادھر وہ چیز خواہ لاکھوں میل کے فاصلہ پر ہو خداتعالیٰ اس پراسی وقت قبضہ کر لیتا ہے۔ کہ یہ ہمارے فلاں بندہ کے لئے ہے۔ کیونکہ جس طرح خداتعالیٰ اس بندہ کے قریب ہے اسی طرح اس چیز کے بھی قریب ہے ۔ غرض کامیابی کے حصول کے لئے یہ ذریعہ سب سے بڑا اورسب سے زیادہ مفید ہے۔
پھر اِنِّیْ قَرِیْب’‘ کہہ کر ایک اور لطیف مضمون کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے اور وہ یہ کہ اگر میں تمہیں نظر نہیں آتا تو یہ نہ سمجھ لینا کے میں تم سے دور ہوں میں تو تمہارے بالکل قریب ہوں اور اسی وجہ سے تمہیں نظر نہیں آتا۔ کیونکہ صرف وہی چیز تمہیں نظر نہیں آتی جو زیادہ قریب ہو۔یہی وجہ ہے کہ انسان اپنے اندر کی آواز کو نہیں سن سکتا کانشنس اور ضمیر کی آواز آتی ہے مگر کان اسے نہیں سن سکتے۔ اس لئے کہ آواز بھی دور کی سنائی دیتی ہے جب ہم کوئی آواز سنتے ہیں تو اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ یہ آواز باہر سے ہو کر آئی ہے۔ کیونکہ کان کا پردہ قدرتی طور پر اس طرح بنایا گیا ہے کہ ہوا کا زور کان کے پردہ پر پڑتا ہے تو اس سے ایک حرکت پیدا ہوتی ہے ارتعاش کہ لہریں یعنی وائی بریشنزVIBRATIONS پیدا ہوتی ہے اور یہی وائی بریشنز دماغ میں جاتی ہے اور دماغ ان کو الفاظ میں بدل ڈالتا ہے یہی وائی بریشن ہیں جو ریڈیو کے والوز میں پڑتی ہے اور ریڈیو ان کو الفاظ میں بدل ڈالتا ہے ۔ انسانی بناوٹ میں ریڈیو کان ہے اور اعصاب دماگی والوز ہیں۔ ان کے ذریعہ جو حرکات دماغ میں منتقل ہوتی ہیں وہ وہاں سے آواز بن کر سُنائی دیتی ہیں۔ پس آواز کے معنے ہی باہر والی چیز کے ہوتے ہیں۔ جب آواز آتی ہے تو اس کے یہی معنے ہوتے ہیں کہ یہ باہر سے آئی ہے کیونکہ آواز آ ہی باہر سے سکتی ہے۔ اندرونی آواز جو سنائی دیتی ہے۔ مثلا پیٹ میں گُڑ گُڑ کی آواز آتی ہے تو دراصل اس کی بھی یہی وجہ ہے کہ وائی بریشن باہر اثر ڈالتی ہیں اور ہم وہ آواز سن لیتے ہیں۔ ورنہ حقیقت یہی ہے کہ جو اندر کی آواز ہوتی ہے اسے تم نہیں سن سکتے۔ کیونکہ وہ تمہارے زیادہ قریب ہوتی ہے۔ غرض جس طرح تم بہت بعید کی چیز کو نہیں دیکھ سکتے اور بہت قریب کی چیز کو بھی نہیں دیکھ سکتے۔ اسی طرح تم بعید کی آواز کو بھی نہیں سن سکتے اور قریب کی ااواز کو بھی نہیں سن سکتے جن لوگوں کو اس کا علم نہیں وہ اس پر تعجب کریں تو کریں۔ ورنہ یہ سب کچھ حرکات پر مبنی ہوتا ہے۔ جو کچھ تم سنتے ہو وہ بھی حرکات ہیں جن کو کان آواز میں دل ڈالتے ہیں اور جو کچھ تم دیکھتے ہو وہ بھی حرکات ہیں جن کو آنکھیں شکل میں تبدیل کر ڈالتی ہیں جو چیز تمہارے سامنے گڑی ہوتی ہے وہ تصویر نہیں ہوتی بلکہ وہ فیچرزFEATURESٰؑ نقش ہوتے ہیں جو آنکھوں کے ذریعہ دماغ میں جاتے ہیں اور وہ انہیں تصویر میں بدل ڈالتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آجکل ریڈیو سیٹ کے ذریعہ تصویریں بھی باہر جانے لگ پڑی ہیں۔ ان حرکات کے متعلق قاعدہ ہے کہ تمام حرکات خواہ وہ کان کی ہوں یا آنکھ کی ایک حد بندی کے اندر ہوتی ہیں یعنی ایک درجہ ان کا اعلیٰ ہوتا ہے اور ایک ادنیٰ ہوتا ہے ان دونوں کے درمیان جو چیز ہوتی ہے اسے آنکھ دیکھ سکتی ہے اور جو چیز اس حد بندی سے دور ہو اسے آنکھ نہیں دیکھ سکتی اسی طرح جو آواز اس حد بندی کے اندر ہوگئی اسے کان سن لے گا اور جو آواز اس حد بندی سے دور ہو گئی اس ے کان نہیں سن سکے گا۔ اور جو آواز اس حد بندی سے نیچے ہو گی اسے بھی کان نہیں سن سکتا۔
جو میں بہت سے آوازیں پیدا ہوتی رہتی ہیں جیسے بادلوں کے ااپس میں ٹکرانے کی آواز۔ یا اجرام فلکی کے آپس میں ٹکرانے کی آواز۔ لیکن وہ اتنی شدید ہوتی ہیں کہ ہم ان کی شدت کی وجہ سے انہیں نہیں سن سکتے۔ جس طرح کان میں یہ طاقت نہیں کہ وہ ایسی آواز سن سکے جو اس کی طاقت سے باہر ہو۔ یا وہ ایسی آواز سن سکے جو اس کی طاقت سے کم ہو اسی طرح جو نظارہ آنکھ کی طاقت سے زیادہ ہو وہ آنکھ نہیں دیکھ سکتی اور جو نظارہ اس کی طاقت سے کم ہو وہ بھی نہیں دیکھ سکتی۔ پس اِنِّیْ قَرِیْب’‘ کہہ کر اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ مجھ کو نہ دیکھنے کی یہ وجہ نہیں کہ میں تم سے دور ہوں میں تم سے دور نہیں بلکہ تمہارے اتنا قریب ہوں کہ تم مجھے زیادہ قریب ہونے کی وجہ سے دیکھ بھی نہیں سکتے اور نہ تم میری آواز سن سکتے ہو۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب انسان خداتعالیٰ کو دیکھتا ہی نہیں تو پھر وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِیْ قَرِیْب’‘ کہنے کا کیا مطلب ہوا؟ کیونکہ انسان پوچھتا تو اس کے متعلق ہے جو اُسے نظر آتا ہو۔ اس کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ کبھی سوال مبہم بھی ہوتا ہے۔ جیسے رات کو کوئی شخص سفر پر جا رہا ہو اور اسے خطرہ محسوس ہو تو وہ آواز دیتا ہے کہ کوئی ہے؟ اب اس کا یہ مطلب تو نہیں ہوتا کہ اسے کوئی انسان نظر آرہا ہوتا ہے بلکہ وہ اس خیال سے آواز دیتا ہے ک اگر کوئی شخص وہاں ہوتو آئے اور اس کی مدد کرے اور جنگل میں تنہائی اور اندھیرے کی وجہ سے جو گھبراہٹ اس پر طاری ہے وہ دور ہو جائے۔ اسی طرح اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب دنیا میں انسان تنہائی محسوس کرے اور سمجھے کہ مجھے کسی کی مدد کی ضرورت ہے اور خداتعالیٰ جو غیر مرئی ہے اس کے متعلق وہ کہے کہ اگر کوئی خدا ہے تو آئے اور میرے مدد کرے تو خداتعالیٰ کہتا ہے کہ تم میرے اُس بندے کو بتا دو کہ میں موجود ہوں اور پھر زیادہ دور بھی نہیں بلکہ میں تمہاراے قریب ہی ہوں۔ دُنیا میں پاس رہنے والا شخص بھی بعض اوقات مدد نہیں کرتا۔ بعض دفعہ تو وہ مدد کا ارادہ ہی نہیں کرتا اور کہتا ہے مرتا ہے تو مر ے مجھے اس کی مدد کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اور بعض اوقات وہ اپنے اندر زیادتی کرنے والے کے خلاف مدد کرنے کی طاقت نہیں پاتا۔ جیسے کوئی شیر گائوں میں آجائے او رکسی پر حملہ آور ہو تو دوسرے لوگ بجائے اس کی مدد کرنے کے بھاگ جاتے ہیں۔ لیکن یہاں ایسا نہیں ہوتا بلکہ اگر کوئی بندہ گھبرا کر آواز دے اور کہے کہ کوئی ہے؟ تو وہاں خدا موجود ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے بندے نے اگرچہ مبہم طور پر آواز دی ہے کہ شاید کوئی موجود ہو تو و بول پڑے لیکن میں اس کی مبہم پکار کو بھی اپنی طرف منسوب کر لیتا ہوں۔ اور سمجھتا ہوں کہ وہ مجھے ہی بُلا رہا ہے۔ میں بھول جاتا ہوں کہ جو کچھ وہ کہہ رہا ہے خیالی طور پر کہہ رہا ہے۔ میں اس وقت اگر مگر کو چھوڑ دیتا ہوں اور فوراً اس کی مدد کے لئے دوڑ پڑتا ہوں۔اس لئے اگر کوئی میرے متعلق سوال کرے تو اُسے بتا دو کہ میں قریب ہی ہوں۔ دور نہیں۔ بے شک دنیا میں بعض دفعہ کوئی دوسرا شخص قریب بھی ہوتا ہے تو پھر بھی وہ مدد کرنے کا ارادہ نہیں کرتا۔ یا اس کی مدد کی طاقت نہیں رکھتا لیکن میں تو یہ ارادہ کر کے بیٹھا ہوں کہ اس کی مدد کروں گا۔ اور پھر میرے اندر اس کی مدد کرنے کی طاقت بگھی ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ خداتعالیٰ صرف مسلمانوں ہی کی دعائیں نہیں سنتا بلکہ خواہ کوئی ہندو ہو یا عیسائی۔ سکھ ہو یا آریہ اگر وہ خداتعالیٰ کے حضور سچے دل سے گڑ گڑائے اور اپنی حالت زار پیش کر کے اس کی مدد چاہے تو خداتعالیٰ اس کی دُعا کو سنتا اور اسے قبول کرتا ہے۔ بے شک وہ ایک سچے مسلمان کی دُعائیں دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ قبول کرتا ہے۔ مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ اس نے اپنی رحمت کا دروازہ دنیا کی باقی قوموں اور افراد کے لئے بند کر رکھا ہے۔ بلکہ ہر شخص جو اس کے دروازہ پر جاتا ہے اور اس کے حضور گر جاتا ہے خداتعالیٰ اس پر رحم کرتا اور اس کی حاجات کو پورا فرماتا ہے وہ واضح الفاظ میں فرماتا ہے کہ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا ذَعَانِ۔ جب کوئی پکارنے والا اپنی مدد کے لئے مجھے آواز دیتا ہے تو میں اسکی پکار کا ضرور جواب دیتا ہوں۔ اور اسے اپنی بارگاہ سے کبھی خالی ہاتھ واپس نہیں کرتا۔
پھر فرماتا ہے فَلْیَسْتَجِیْبُوْلِیْ۔ جب میں تمہاری باتیں سنتا ہوں اور تمہاری دُعائیں قبول کرتا ہوں تو تمہیں بھی ایسا بن جانا چاہیے کہ تمہاری دُعائیں قبول ہوں۔ یہ مت خیال کرو کہ میں ہر ایک دُعا کو سنتا ہوں۔ میرے احکام کے خلاف جو دُعائیں ہونگی یا میرے مقرر کردہ فرائض کے خلاف ہونگی یا اخلاقی نظام کے خلاف ہونگی میں انہیں کیسے سن سکتا ہوں۔ کیا میں انہیں قبول کر کے اپنے رسول کو ہلاک کردوں۔ یا کیا میں انہیں قبول کر کے اخلاقی نظام کو توڑ ڈالوں۔ اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری دُعائیںبھی سنی جائیں تو چاہیے کہ تمہاری دُعا میرے نظام کے خلاف نہ ہو۔ تمہاری دُعا دین کے خلاف نہ ہو ۔ تمہاری دُعا اخلاقی نظام کے خلاف نہ ہو۔
کہتے ہیں کہ ایک عرب حج کے لئیے گیا تو وہ خانہ کعبہ میں کھڑے ہو کہ ایک دُعا کر رہا تھا اور وہ ایسی گندی تھی کہ اُسے سنکر پولیس نے اس کو قید کر لیا۔ وہ دُعا یہ کر رہا تھا کہ اے خدا! تو ایسا کر کہ میری محبوبہ کا خاوند اس سے نارا ض ہو جائے اور وہ مجھے مل جائے۔ گویا نعوذ باللہ خداتعالیٰ بھی اس کی بدکاری میں شریک ہو جائے۔
اسی طرح ایک دفعہ ایک چور نے بیان کیا کہ میں جب سیندھ لگانے لگتا ہوں تو دو رکعت نماز پڑھ لیتاہوں تاکہ چوری سے پہلے اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کر لوں اور مجھے اس کام میں کامیابی حاصل ہو۔ اخبارات میں عموماً اشتہارات چھپتے رہتے ہیں کہ ایسے تعویذ جن کو پاس رکھنے سے تم جس عورت کو چاہو بلا سکتے ہو۔ اس تعویذ کے اثر سے وہ عورت خود بخود تمہارے پاس آجائیگی۔ اور پھر کہتے ہیں کہ فلاں بزرگ ہے اسے خداتعالیٰ کا کلام آتا ہے۔ اس نے یہ تعویذ تیار کئے ہیں۔ یہ دین کے ساتھ تمسخر ہے۔ خداتعالیٰ بدکاریوں میں کبھی شریک نہیں ہوتا۔ کہنے والے بیشک ایسا کہتے ہیں مگر یہ غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِی وَلْمُوْسِوُا بِیْ۔ اگر میں نے کہا ہے کہ میں پکارنے والے کی پکار کو سُنتا ہوں تو اس س ے یہ نہ سمجھ لینا کہ میں ہر ایک پکار کو سن لیتا ہوں جس پکار کو میں سُنتا ہوں اس کے لئے دو شرطیں ہیں۔ اول میں اس کی پکار کو سنتا ہوں جو میری بھی سنے (۲) میں اس کی پکار سنتا ہوں جسے مجھ پر یقین ہو مجھ پر بدظنی نہ ہو۔ اگر دعا کرنے والے کو میری طاقتوں اور قوتوں پر یقین ہی نہیں تو میں اس کی پکار کو کیوں سنوں۔ پس قبولیت دعا کے لئے دو شرطیں ہیں جس دعا میں یہ دو شرطیں پائی جاتئیں گی وہی قبول ہو گی۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے یہاں اَلدَّاعِ فرمایا ہے جس کے معنے ہیں ایک خاص دعا کرنے والا۔ اور اس کے آگے وہ شرائط بتا دیں۔ جو اَلدَّاعِ میں پائی جاتی ہیں اور وہ یہ ہیں کہ وہ میری سُنے اور مجھ پر یقین رکھے ۔ یعنی وہ دُعا میرے مقرر کردہ اصولوں کے مطابق ہو۔ جائز ہو ناجائز نہ ہو۔ اخلاق کے مطابق ہو۔ سنت کے مطابق ہو۔ اگر کوئی شخص ایسی دعائیں کرے گا تو میں بھی اس کی دعائوں کو سنوں گا۔ لیکن اگر کوئی کہے کہ اے اللہ! میرا فلاں عزیز مر گیا ہے تو اُسے زندہ کر دے تو یہ دعا قرآن کے خلاف ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے خلاف ہے ۔جب اس نے قرآن کی ہی نہیں مانی ۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نہیں مانی تو خدا اس کی بات کیوں مان لے۔ پس فَلْیَسْتَجِیْبُوالِیْ وَلْیُوْ مِنُوْ ابِیْ۔ میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ تمہیں چاہیے کہ تم میری باتیں مانو اور مجھ پر یقین رکھو اگر تمہیں مجھ پر یقین نہیں ہے تو میں تمہاری دُعا کیسے سُن سکتا ہوں؟ پس قبولیت دُعا کے لئے دو شرطیں ہیں۔ اول فَلْیَسْتَجِیْبُوالِیْ تم میری باتیں مانو(۲)وَلْیُوْ مِنُوْ ابِیْ اور مجھ پر یقین رکھو۔ جو لوگ ان شرائط کو پورا نہیں کرتے وہ دیندار نہیں۔ وہ میرے احکام پر نہیں چلتے اس لئے میں بھی یہ وعدہ نہیں کرتا کہ میں ان کی ہر دُعا سُنوں گا۔ بیشک میں ان کی دُعائوں کو بھی سنتا ہوں مگر اس قانون کے ماتحت ان کی ہر دعا کو نہیں سنتا۔ لیکن جو شخص اس قانون پر چلتا ہے اور پھر دعائیں بھی کرتا ہے میں اس کی ہر دعا کو سنتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ بازار میں چند بنئے بیٹھے آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ کیا کوئی ایک پائو تلِ کھا سکتا ہو۔ وہ ایک پائو تکل کھانا بہت بڑا کام سمجھتے تھے ان میں سے ایک نے کہا جو ایک پائو تل کھال یا س کو میں پانچ روپے انعام دونگا۔ پس سے ایک زمین دار گزر رہا تھا اس نے جب سُنا کہ پائو تل کھانے پر شرط لگی ہوئی ہے تو اس کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی اس نے خیال کیا کہ بھلا ایک پائو تل کھانا کونسی بڑی بات ہے جس پر انعام دیا جائے۔ ضرور اس کے ساتھ کوئی اور شرط ہو گی۔ وہ آگے بڑھا اور پوچھا شاہ جی! ’’تل سلیاں سمیت کھانے نے کہ بغیر سلیاں دے۔‘‘ یعنی پھلیوں سمیت تلِ کھانے ہیں یا الگ کئے ہوئے بیج کھانے ہیں ۔ اس زمیندار کے نزدیک تو پائو تلِ کھانے کوئی چیز نہ تھی لیکن وہ سب بنئے تھے جو آدھا پھلکا کھانے کے عادی تھے۔ جب اس نے یہ کہ اکہ شاہ جی کیا تل پھلیوں سمیت کھانے ہیں تو اس بنئے نے کہا چوہدری صاحب آپ جائیے ہم تو آدمیوں کی باتیں کرتے ہیں۔[
اسی طرح اللہ تعالیٰ جہاں یہ کہتا ہے کہ میں پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہوں ۔ وہاں بھی وہ آدمیوں کا ہی ذکر کرتا ہے۔ جانوروں کا ذکر نہیں کرتا۔ وہ ہر پکارنے والے کی پکار کو نہیں سنتا۔ وہ صرف اس شخص کی پکار کو سنتا ہے جسے یہ احساس ہو کہ اللہ تعالیٰ پر ہی سب ذمہ داری نہیں بلکہ مجھ پر بھی کچھ ذمہ داری ہے۔ مثلاً اگر کوئی کہے کہ اے خدا! فلاں کی لڑکی مجھے اُدھال کر لا دے یا فلاں کا مال مجھے دے دے یا میرے فلاں شخص کی جان نکال دے تو خدا تعالیٰ اپنے آپ کو ان دُعائوں کا مخاطب نہیں سمجھتا پس فرمایا فَلْیَسْتَجِیْبُوالِیْمیں ہر اس دعا کو سنتا ہوں جس کا کرنے والا پورے طور پر میرے احکام پر عمل کرے اور پھر اُسے مجھ پر پورا یقین بھی ہو۔ اور جو ایسا کرتے ہیں وہ غلط دُعائیں مانگتے ہی نہیں کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہؓ ایسی دُعائیں مانگتے تھے کہ اے خدا فلاں کا مال ظالمانہ طور پر ہمیں دیدے ۔ پس خداتعالیٰ بھی یہاں انسانوں کا ذکر کرتا ہے حیوانوں کا نہیں اور فرمایا ہے کہ میں دُعائیں سنتا ہوں لیکن اس کے لئے دو شرطیں ہیں اول دُعا کرنے والا پورے طور پر میرے احکام پر عمل کرے۔ دوم اسے مجھ پر یقین بھی ہو۔ جب اسے مجھ پر یقین ہو گا تو اس کا اعتماد بھی دعا کی قبولیت کے لئے اکسا ئیگا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ آپ سب سے زیادہ کس کے لئے دُعائیں کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا میںسب سے زیادہ اس شخص کے لئے دعا کرتا ہوں جو مجھ آکر کہے کہ میرے لئے کوئی دعا کرنے والا نہیں آپ میرے لئے دعا کریں۔جب وہ مجھ پر اعتماد کرتا ہے حالانکہ وہ میرا وقف بھی نہیں ہوتا تو میں اس پر اعتماد کیوں نہ کروں۔ پس فرمایا۔ وَلْیُوْ مِنُوْابِیْ جو مجھ پر یقین رکھتا ہے اور میرے منشا کے مطابق دُعا کرتا ہے میں اس کی دعا کو قبول کرتا ہوں۔ لیکن جسے یقین نہ ہو اور وہ میرے منشاء کے مطابق دعا نہ کرتا ہو تو ا سکی دعا قبول نہیں ہو سکتی۔ اسی کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بھی اشارہ کرتی ہے کہ الَایَزَالُ ئُسْتَجَابُ لِنْعَبْدِ مَالَمْ یَدْعُ بِاِثْمٍ اَوْ قَطِیْعَۃِ رِحْمٍ مَالَمْ ئَسْتَعْجَلْ۔ قِیْلَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ مَا الْاِ سْتِعْجَالُ قَالَ یَقُوْلُ قَدْ دَعَوْتُ وَقَدْ دَعَوْتُ فَلَمْ اَرَی ئُسْتَجَابُ لِیْ فَیَسْتَحْسِرُ عِنْہُ ذَالِکَ وَیَدْعُ الدُّعَائَ(مسلم جلد ۲ کتاب الذکرو الدعاء)یعنی اللہ تعالیٰ اپنے ندے کی دعائوں کو قبول کرتا ہے جب تک کہ وہ قطع رحم اور گناہ کے متعلق نہ ہوں۔ مگر اس صورت میں نہیں کہ وہ جلدی کرے ۔ صحابہؓ نے پوچھا یا رسول اللہ ! جلدی سے کیا مرا دہے۔ آپ نے فرمایا وہ یہ کہنے لگتا ہے کہ میں نے بڑی دُعا کی مگر میں دیکھتاہوں کہ میری دُعا قبول نہیں ہوئی۔ پھر وہ دُعا سے تھک جاتا ہے اور دُعا چھوڑ بیٹھتا ہے۔ غرض دُعا کی قبولیت کے لئے ضروری ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان اور یقین رکھے اور مایوسی اس کے قریب بھہ نہ پھٹکے پھر فرماتا ہے ۔لَعَلَّھُمْ یَرْ شُدُوْنَ ۔ اس کے نتیجہ میں یقیناً وہ کامیاب ہونگے۔ رشد کے معنے ہوتے ہیں رستہ دکھائی دینا۔ پس لَعَلَّھُمْ رَرْشُدُوْنَ کے معنے ہیں کہ انہیں وہ رستہ مل جائیگا جو انہیں کامیابی تک پہنچا دیگا۔ لَعَلَّ کے معنے عام طور پر شاید کے ہوتے ہیں لیکن اس جگہ اس کے معنے شاید کے نہیں۔ یہاں یہ لفظ کلام الملوک کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ اور اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ ہمارا شاید بھی یقینی ہوتا ہے۔ چنانچہ بالعموم حکام کہہ دیتا ہے کہ اگر تم درخواست کرو تو حکومت غور کرے گی۔ لفظ شک کے ہوتے ہیں ۔لیکن دراصل وعدہ ہوتا ہے کہ ہم ضرور ایسا کر دیں گے ۔ لغت والے بھی لکھتے ہیں کہ جب لَعَلَّ کا لفظ خدا تعالیٰ کے لئے استعمال ہو تو اس وقت اس کے معنے یقین کے ہوتے ہیں۔ (مفردات راغب) پس لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ کے یہ معنے ہیں کہ ابھی تک تو مجھے ان تک آنا پڑتا ہے مگر جب وہ یہ مقام حاصل کر لیں گے تو پھر ان کے اندر یہ طاقت پیدا ہو جائیگی کہ وہ خود مجھ تک آسکیں گے۔ چنانچہ پہلے اِنِّیْ قَرِیْب’‘ کہہ کر بتایا تھا کہ میں ان کے پاس آتا ہوں مگر یَرْشُدُوْنَ کہہ کر بتایا کہ بندہ میں ترقی کرتے کرتے ایک قسم کی الوہیت کا رنگ پیدا ہو جاتا ہے پہلے اس کی مثال ایسی ہوتی ہے جیسے نابینا آدمی کے پاس اس کا دوست بیٹھا رہے ۔ مگر پھر یہ مقام حاصل ہو جاتا ہے جیسے نابینا کے سامنے اس کا محبوب بیٹھا ہو۔ یہی وہ مقام ہے جس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ عبادت کرتے وقت ہر انسان کو یہ محسوس کرنا چاہیے کہ وہ خداتعالیٰ کو دیکھ رہا ہے۔ یا کم سے کم وہ یہ سمجھے کہ خدا مجھ کو دیکھ رہا ہے۔ اب خدا تعالیٰ کے دیکھنے کے یہی معنے ہیں کہ وہ اس کے قریب ہو جاتا ہے ورنہ عیکھ تو وہ عرش سے بھی رہا ہے درھقیقت اس میں یہی بتایا گیا ہے کہ خداتعالیٰ اپنے بندہ کے اس قدر قریب آجاتا ہے کہ انسان یہ یقین کرنے لگ جاتا ہے کہ خداتعالیٰ اُسے دیکھ رہا ہے بلکہ اس سے ترقی کر کے وہ اس مقام کو بھی حاصل کر لیتا ہے جس میں وہ خود بھی خداتعالیٰ کو دیکھنے لگ جاتا ہے اور اعلیٰ درجہ کے کمالات روحانیہ تک پہنچ جاتا ہے۔
چونکہ اس آیت سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی روزوں کا ذکر ہے اس لئے اس آیت کے ذریعہ مومنوں کو اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ یوں تو اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہی اپنے بندوں کی دُعائیں سُنتا اور ان کی حاجات کو پورافرماتا ہے لیکن رمضان المبار کے ایام قبولیت دُعا کے لئے مخصوص ہیں۔ اس لئے تم ان دنوں سے فائدہ اُٹھائو اور خداتعالیٰ کے قریب ہونے کی کوشش کرو۔ ورنہ اگر رمضان کے مہینہ میں بھی تم خالی ہاتھ رہے تو تمہاری بد قسمتی میں کوئی شبہ نہیں ہو گا۔
دنیا میں ہر کام اپنے وقت کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے اگر اسوقت وہ کام کیا جائے تو جیسے اعلیٰ درجہ کے نتائج اس وقت مرتب ہوتے ہیں وہ دوسرے وقت میں نہیں ہوتے۔ تمام غلے اور ترکاریاں بونے کا ایک خاص وقت ہوتا ہے اگر اس وقت کو مدنظر نہ رکھا جائے تو کچھ بھی فائدہ نہیں ہوتا۔ مگر وہ وقت جادو یا ٹونے کی طرح نہیں ہوتا کہ اس کے آنے سے کوئی خاص اثر پیدا ہو جاتا ہے اس لئے وہ کام ہو جاتا ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ جس وقت کسی کامیابی کے سامان مہیا ہو جاتے ہیں تو وہی اس کے کرنے کا وقت ہوتا ہے اگر گیہوں کا دانہ ایک خاص وقت میں بونے سے اُگتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس وقت اس میں کوئی خاص بات پیدا ہو جاتی ہے بلکہ اس کے اُگنے کے لئے جو سامان ضروری ہوتے ہیں وہ اس وقت مہیا ہو جاتے ہیں اگر وہی سامان کسی دوسرے وقت مہیا ہو سکیں تو او وقت بھی وہ ضرور اُگ آئیگا۔ تو تمام کاموں کے لئے ضروری سامان مہیا ہونیگا ایک وقت مقرر ہے ۔ اسی طرح دُعا کے لئے بھی وقت مقرر ہیں ان وقتوں میں کی ہوئی دُعا بھی بہت بڑے نتائج پیدا کرتی ہے۔ جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اِتَّقُوْا دَعْوَۃَ الْمَظْلُوْمِ۔ مظلوم کی بد دعا سے ڈر و کیونکہ جب وہ ہر طرف مصائب ہی مصائب دیکھتا اور خداتعالیٰ کے سوا کوئی سہارا نہیں پاتا تو اس کی تمام تر توجہ خداتعالیٰ کی طرف پھر جاتی ہے اور وہ خداتعالیٰ کے آگے گِر پڑتا ہے اور اس وقت وہ جو بھی دعا کرتا ہے قبول ہو جاتی ہے کیونکہ دعا کے قبول ہونے کے سامانوں میں سے ایک اعلیٰ درجہ کا سامان یہ بھی ہے کہ انسان کی ساری توجہ ہر طرف سے ہٹ کر خداتعالیٰ ہی کی طرف ہو جائے۔ چونکہ مظلوم کی یہی حالت ہوتی ہے اس لئے اس کے لئے بھی یہ ایک موقعہ پیدا ہو جاتا ہے۔
اسی طرح دُعا کے قبول ہونے کے اوقات بھی ہیں۔ لیکن وہ ظاہری سامانوں کی حد بندیوں کے نیچے نہیں ہوتے بلکہ وہ انسانی قلوب کی خاص حالوتں ماور کیفیات سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں وہی انسان محسوس کر سکتا ہے جس پر وہ حالت وارد ہو۔ مگر دُعا کی قبولیت کا ایک او ر وقت بھی ہے جس کے معلوم کرنے کے لئے باریک قلبی کیفیات سے واقف ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی وہ وقت رمضان کا مہینہ ہے ۔ یہ آیت خداتعالیٰ نے روزوں کے ساتھ بیان کی ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ اس کا روزوں سے بہت گہرا تعلق ہے اور اس کے روزوں کے ساتھ بیان کرنے کی وجہ یہی ہے کہ جس طرح مظلوم کی ساری توجہ محدود ہو کر ایک ہی طرف یعنی خداتعالیٰ کی طرف لگ جاتی ہے اسی طرح ماہِ رمضان میں مسلمانوں کی توجہ خداتعالیٰ کی طرف ہو جاتی ہے۔ اور قاعدہ ہے کہ جب کوئی پھیلی ہوئی چیز محدود ہو جائے تو اس کا زور بہت بڑھ جاتا ہے جیسے دریا کا پات جہاں تنگ ہوتا ہے وہاں پانی کا بڑا زور ہوتا ہے اسی طرح رمضان کے مہینہ میں وہ اسباب پیدا ہو جاتے ہیں جو دعا کی قبولیت کا باعث بن جاتے ہیں ۔ اس مہینہ میں مسلمانوں میں ایک بہت بڑی جماعت ایسی ہوتی ہے جو راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتی ہے۔ پھر سحری کیلئے سب کو اُٹھانا پڑتا ہے اور اس طرح ہر ایک کو کچھ نہ کچھ عبادت کا موقعہ مل جاتا ہے۔ اس وقت لاکھوں انسانوں کی دُعائیں جب خداتعالیٰ کے حضور پہنچتی ہیں تو خداتعالیٰ ان کو رد نہیں کرتا۔ بلکہ انہیں قبول فرماتا ہے۔ اس وقت مومنوں کی جماعت ایک کرب کی حالت میں ہوتی پھر کس طرح ممکن ہے کہ ان کی دُعا قبول نہ ہو۔ درد اور کرب کی حالت کی دعا ضرور سنی جاتی ہے جیسے یوُنسؑ کی قوم کی حالت کو دیکھ کر خداتعالیٰ نے ان کو بخش دیا اور ان سے عذاب ٹل گیا اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ سب اکٹھے ہو کر خداتعالیٰ کے حضور جھک گئے تھے۔
اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ






لَعَلَّھُمْ یَتَّقُوْنَo
پس رمضان کا مہینہ دُعائوں کی قبولیت کے ساتھ نہایت گہرا تعلق رکھتا ہے یہی وہ مہینہ ہے جس میں دُعا کرنے والوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قَرِیْب’‘ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ اگر وہ قریب ہونے پر بھی نہ مل سکے تو اور کب مل سکیگا۔ جب بندہ اسے مضبوطی کے ساتھ پکڑ لیتا ہے اور اپنے عمل سے ثابت کر دیتا ہے کہ اب وہ خداتعالیٰ کا درچھوڑ کر اور کہیں نیہں جائیگا تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے دروازے اس پر کھل جاتے ہیں اور اِنِّیْ قَرِیْب’‘ کی آواز خود اس کے کانوں میں بھی آنے لگتی ہے جس کے معنے سوائے اس کے اور کیا ہو سکتے ہیں کہ خداتعالیٰ ہر وقت اس کے ساتھ رہتا ہے اور جب کوئی بندہ اس مقام تک پہنچ جائے تو اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اس نے خدا کو پالیا۔
۱۰۱؎ حل لغات:۔ رَفَث’‘: اَلرَّفَتُ کَلَام’‘ مُتَضَمِّن’‘ لِمَا ئُسْتَقْبَحُ ذِکْرُ ہ‘ مِنْ ذِکْرِ الْجَمَاعِ وَدَوَاعِیْہِ وَجَعَلَ کَنَا یَۃً عَنِ الْجَمَاعِ ۔
یعنی رَفَثَ کا لفظ جماع اور اس کے محرکات کے لئے کنایۃً استعمال ہوتا ہے۔ (مفردات)
لَبَاس’‘ لَّکُمْ: لِبَاس’‘ کے معنے اصل میں سِتْر’‘ کے ہیںیعنی ڈھانپنے والی چیز۔ مگر قراان کریم نے اس کے اور معنے بھی بتائے ہیں۔ چنانچہ سورہ اعراج میں لباس کے دو کام بتائے گئے ہیں فرماتا ہے۔ یَبَنِیْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوْارِیْ سَوْاٰتِکُمْ وَرِیْشًا(اعراف آیت ۲۷) یعنی اے بنی آدم! ہم نے تمہارے لئے لباس نازل کیا ہے جو تمہارے ننگ کو ڈھانکتا اور تمہیں زینت بخشتا ہے۔ لباس کا تیسرا کام ایک اور جگہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ جَعَلَ لَکُمْ سَرَابِیْلَ تَقِیْکُمُ الْحَرَّ وَسَرَابِیْلَ تَقِیْکُمْ بَاْسَکُمْ(نحل آیت ۸۲) اس نے تمہارے لئے گرمی سردی کے ضرر سے بچانے کے لئے سرابیل بنائے ہیں ۔ پس لباس کا تیسرا کام گرمی سردی کے ضر ر سے بچانا ہے۔
تَخْتَانُوْنَ: خَانَ یَخُوْنُ سے باب افتعال ہے۔ اور جمع مذکر حاضر کا صیغہ ہے ۔ اور اِخْتَانَہ‘ اِخْتِیَانًا کے معنے ہیں اُوْ تُمِنَ فَلَمْ یَنْصَھْ وَخَانَ الْعَھْدَ نَقَضَہ‘۔ یعنی اِخْتَافَ کے معنے ہیں امانت کا حق دار نہ کیا اور عہد کو توڑا(اقرب)
عَفَا عَنْکُمْـ: عَفَا عَنْہُ وَلَہ‘ ذَنْبَہ‘ وَعَنْ ذَنْبِہٖ صَفَحَ عَنْہُ وَتَرَکَ عُقُوْبَتَہ‘ وَ ھُوَ یَسْتَحِقُّھَا وَ اَعْرَضَ مُوَا خَذَ تِہٖ۔ یعنی عَفَا کے معنے ہیں (۱) اس کا قصور معاف کر دیا اور اس سے مواخذہ نہ کیا۔ (۲) اور عَفَااللّٰہُ عَنْ فُلَانٍ کے معنے ہیں مَحَا ذُنُوْبَہ‘ اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہ مٹا دیئے۔ (اقرب) (۳) وَقَدْ ئُسْتَعْمَلُ عَفَا اللّٰہُ عَنْکُمْ فِیْمَا لَمْ یَسْبَقْ بِہٖ ذَنْب’‘ وَلّا یُتَصَوَّرُ۔ عَفَا کا لفظ بعض دفعہ ایسے آدمی کے لئے بھی بولا جاتا ہے جس نے نہ کوئی گناہ کیا ہو اور نہ اس کے متعلق گناہ کا خیال ہو سکتا ہو(اقرب)
بَاشِرُوْ ھُنّ: باب مفاعلہ سے امر کا صیغہ ہے اور بَاشَرَ الْاَمْرَ کے معنے ہیں تَوَلَّاہُ بِنَفْسِہٖ اس نے خود کوئی کام کیا۔ وَبَاشَرَہُ النَّعِیْمُ: اَخَاضَ عَلَیْہِ حَتّٰی کَاَنَّہ‘ مَسَّ بَشْرَ تَہ‘۔ اور بَاشَرَ ہُ النَّعِیْمُ کے معنے ہیں اُسے اس کثرت سے نعمتیں حاصل ہوئیں کہ اس کے چمڑے کو چھونے لگیں۔ (اقرب) اور اَلْمُبَاشَرَۃُ کے معنے ہیں اَلْاِفْضَائُ بِالْبَشْرَ تَیْنِ۔ ہم صحبت ہونا(اقرب)
کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ۔ کَتَبَ لَہُ میں عام طور پر لام فائدہ کے لئے آتا ہے اور کتابت کے معنے مقدر کردینے اور فرض کر دینے کے ہیں۔ اس جگہ مقدر کر دینے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
مِنْ کے معنے اس جگہ امتیاز کے ہیں۔
عَاکِفُونَ: عَاکِف’‘ عَکَفَ سے اسم فاعل کا صیغہ ہے اور عَاکِفُوْنَ جمع کا صیغہ ہے۔ اور عَکَفَ کے معنے ہیں اَلْاِقْبَالُ عَلَی الشَّیْئِ وَ مُلَا زَمَتَہ‘ عَلٰی سَبِیْلِ التُعْظِیْمِ لَہ‘۔ یعنی کسی چیزک ی طرف پوری طرح متوجہ ہونا۔ اور اس کے ساتھ اس کی تعظیم کی خاطر تعلق قائم رکھنا یا اس میں رہنا۔ پس عَاکِفُوْنَ فِی الْمَسٰجِدِ کے معنے میں مسجدوں کا لازم پکڑنے والے اور ان میں بیٹھے رہنے والے۔
تفسیر:۔ فرماتا ہے روزوں کی راتوں میں تمہارے لئے اپنی عورتوں سے بے تکلف ہونا جائز ہے کیونکہ وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لبا س ہو۔
قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں لباس کے تین کام بتائے گئے ہیں اول ننگ ڈھانکنا۔ دوم زینت کا موجب ہونا۔ سوم سردی گرمی کے ضرر سے انسانی جسم کو بچانا۔ چنانچہ فرمایا ہے۔ یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَا سًا یُّوَارِیْ سَوْ اٰتِکُمْ وَرِیْشًا (اعراف آیت۲۷) یعنی اے آدم کی اولاد ہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا ہے جو تمہارے ننگ کو ڈھانکتا ہے اور تمہارے لئے زینت کا موجب بھی ہے۔ اسی طرح سورہ نحل میں فرماتا ہے۔ وَجَعَلَ لَکُمْ سَرَابِیْلَ تَقِیْکُمْ الْحَرَّ وَ سَرَابِیْلَ تَقِیْکُمْ بَاْسَکُمْ (نحل آیت ۸۲) یعنی اس نے تمہارے لئے کئی قسم کی قمیصیں بنائی ہیں جو تمہیں گرمی سردی سے بچاتی ہیں۔ اوربعض قمیضیں یعنی زر ہیں ایسی بھی ہیں جو تمہیں آپس کی جنگ کی سختی سے بچاتی ہیں۔ پس ھُنَّ لِبَاس’‘ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لَبَاس’‘ لَھُنَّ میں اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ مردوں اور عورتوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لئے ہمیشہ لباس کا کام دیں یعنی (۱) دوسرے کے عیب چھپائیں (۲) ایک دوسرے کے لئے زینت کا موجب بنیں (۳) پھر جس طرح لباس سردی گرمی کے ضر ر سے انسانی جسم کو محفوظ رکھتا ہے اسی طرح مرد عورت سُکھ دُکھ کی گھڑیوں میں ایک دوسرے کے کام آئیں۔ اور پریشانی کے عالم میں ایک دوسرے کی دلجمعی اور سکون کا باعث بنیں۔ غرض جس طرح لباس جسم کی حفاظت کرتا ہے اور اسے سرد ی گرمی کے اثرات سے بچاتا ہے اسی طرح انہیں ایک دوسرے کا محافظ ہونا چاہیے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی مثال دیکھ لو۔ انہوں نے شادی کے معًا بعد کس طرح اپنا سارا مال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا۔ تاکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو روپیہ نہ ہونے کی وجہ سے کوئی دقت پیش نہ آئے۔ اور آپ پورے اطمینان کے ساتھ خدمتِ خلق کے کاموں میں حصہ لیتے جائیں۔ یہ اہلی زندگی کو خوشگوار رکھنے کا کتنا شاندار نمونہ ہے جو انہوں نے پیش کیا۔
عَلِمَ اللّٰہُ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ فرماتا ہے اللہ تعالیٰ اس بات کو خوب جانتا ہے کہ تم اپنے نفسوں کے حقوق کو تلف کیا کرتے تھے اور ان کا پورا حق ادا نہیں کرتے تھے پس اس نے تم پر اپنے فضل سے توجہ کی اور تمہاری اس حالت کی اصلاح کر دی۔
یہ حق تلفی جس کی طرف اس آیت میں اشار ہ کیا گیا ہے درحقیقت اس والہانہ عشق کی وجہ سے تھی جو صحابہؓ کے دلوں میں عبادت اور ذکر الہٰی کے متعلق پایا جات تھا۔ انہوں نے جب رمضان کی برکات کا مشاہدہ کیا اور دیکھا کہ اللہ تعالیٰ ان دنوں میں آسمان سے اُتر آتا ہے اور بندوں پر اپنے انوار اور برکات کی بارش نازل کرتا ہے تو انہوں نے چاہا کہ وہ رمضان کی راتیں بھی ذکر الہٰی اور عبادت میں بسر کریں اور جنسی تعلقات سے بالا رہیں۔ اسی طرح کھانے پینے کے متعلق بھی بعض ناواجب قیود انہوں نے اپنے اوپر عاید کر رکھی تھیں۔ چنانچہ بخاری میں حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اس آیت کے نزول سے قبل صحابہؓ میں سے جب کوئی شخص افطاری سے قبل سو جاتا تو آنکھ کھلنے پر وہ نہ رات بھر کچھ کھاتا اور نہ اگلے دن کھاتا یہاں تک کہ پھر دوبارہ شام کا وقت آجاتا۔ ایک دفعہ ایک انصاری جو روزہ دار تھے انہوں نے افطاری کے قریب اپنی بیوی سے کچھ کھانے کے لئے مانگا۔ اس نے کہاکہ گھر میں تو کچھ نہیں مگر کہیں سے کچھ مانگ لاتی ہوں۔ انتے میں انہیں نیند آگئی او روہ سو گئے۔ بیوی باہر سے کھانا لے کر آئی تو چونکہ وہ سو چکے تھے نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ساری رات بھوکے رہے اور اگلے دن بھی ان کا روزہ ہی رہا۔ بارہ بجے کے قریب وہ شدت ضعف کی وجہ سے بیہوش ہو گئے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی اطلاع دی گئی تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلیٰ نَسَآئِکُمْ ھَنَّ لَبَاس’‘ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاس’‘ لَّھُنَّ اسی طرح یہ آیت نازل ہوئی کہ وَکُلُوْ ا وَاشْرَبُوْاحَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ (بخاری جلد اول کتاب الصوم) درحقیقتیہ پابندیاں یہود کی بعض رسوم کا نتیجہ تھیں ۔ یہود میں یہ رواج تھا کہ وہ ایٹونمنٹ ڈے یعنی یوم کفارہ کا جب روزہ رکھتے تو ایک صبح سے دوسری صبح تک نہ کچھ کھاتے نہ پیتے (جیوش انسائیکلوپیڈیا جلد ۵ صفحہ ۳۴۸)اُن کو دیکھ کر مسلمانوں کو بھی خیال پیدا ہوا کہ شاید جب آدمی سو جائے توا س کے بعد وہ کچھ نیں کھا سکتا۔ اسی طرح مر د عورت کے اختلاط کے متعلق خیال کرتے تھے کہ جس وقت کھانا منع ہو وہ بھی منع ہے ان خیالات کے وجہ سے اگر کوئی سو جاتا تو کھانا نہ کھاتا اور اپنی بیوی کے پاس بھی نہ جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ یہ بیفائدہ تکلیف ہے اس کی کچھ ضرورت نہیں صرف وہی پا بندی انسان کیلئے خیرو برکت کا موجب ہوتی ہے جو الٰہی منشاء کے مطابق ہو۔ ورنہ بلا ضرورت اپنے آپ کو مختلف قیدوں اور پابندیوں میں جکڑ تے چلے جانا اور درست نہیں ہوتا۔
فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَغَفَا عَنْکُمْ فرمایا کہ اب ہم نے تم پر رحم کر دیا ہے ۔ اور تمہارے لئے آسانی بہم پہنچادی ہے اس لئے خدا تعایلٰ کا سکر ادا کرو اور پہلے سے بھی زیادہ شوق اور مستعدی کے ساتھ نیک کاموں میں حصہ لو۔
اس سے معلوم ہوتا ہے ۔ کہ جب مومن بندے خدا تعالیٰ کی رضا ء کیلئے اپنے آپ کو کسی مشقت میں ڈالتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی رحمت جو ش میں آتی ہے اور وہ کسی نہ کسی شکل میں انسان کیلئے آسانیاں پیدا کر دیتا ہے ۔ گویا اُن کے اخلاص کا انہیں دم نقد فائدہ دے دیتا ہے ۔
پھر فرماتا ہے ۔ فَاْلٰٔنَ بَاشِرُدْھُنَّ وَاْبتَغُوْ امَا کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ ۔ کَتَبَ عَلَیْہِ اور کَتَبَ لَہٗ میں فرق ہے ۔ کَتَبَ عَلَیْہِ کے معنے ہوتے ہیں۔اُس پر فرض کیا گیا ہے ۔ اور کَتَبَ لَہکے منعے ہوتے ہیں اْس کیلئے کوئی انعام مقرر کیا گیا ہے ۔یا کوئی حق مقرر کیا گیا ہے ۔ (یا استعارۃً تقدیر مقررہ کے معنوں میں بھی آجاتا ہے )پاس اس آیت کے یہ معنی ہوئے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے جائز کیا ہے یا جن سے نہیں روکا اُن کے بے شک کرو۔ وہ تمہارا حق ہیں ۔ اُنکو چھوڑنے کی کوئی وجہ نہیں ۔یا یہ کہ جو اولاد اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے مقدر کر رکھی ہے ۔ اُس کی جستجو کرو یعنی جو طریق اولاد حاصل کرنیکا اُس نے مقرر کر رکھا ہے اسکے مطابق عمل کرو۔
اسی طرح وَاْبتَغُوْامَا کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْسے یہ بھی مراد ہے کہ اس مقدس مہینہ میں جو کچھ برکات خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے مقرر کر رکھی ہیں ان کے حصول کلیئے پوری کوشش کرو۔ پہلا طریق جو حقوق نفس کو تلف کرنے والا تھا اس کے نتیجہ میں ممکن تھا کہ تمہارے جسم کو کوئی نقصان پہنچ جاتا اور تم زیادہ محنت اور مشقت نہ کر سکتے ۔ مگر اب جبکہ ہم نے اس کی تلافی کر دی ہے اور تمہارے جسم کو بے جا کوفت سے بچال لیا ہے تمہارا فرض ہے کہ تم کمر ہمت باندھ کر خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اُن درجات عالیہ کی تلاس کرو جن کو خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے مقدر کر رکھا ہے ۔
وَکُلُوْ اوَاشْرَ بُوْ ا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمْ الْخَیْظُ اْلَا بْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَ سْوَ دِمِنَ الْفَجْرِ ۔فرماتا ہے تم اس وقت تک کھاؤ پیئو جب تک کہ تمہیں صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے ۔
جب یہ آیت نازل ہوئی تو احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صحابہ ؓ نے غلطی سے سیاہ اور سفید دھاگے اپنے پاس رکھنے شروع کر دئیے اور انہوں نے نے خیال کیا کہ ہمیں اس وقت تک کھانے پینے کی اجازت ہے جب تک کہ ہمیں سفید اور سیاہ دھاگے میں فرق نظر نہ آنے لگے ۔ چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عدیؓ رسول کریم صیل اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔اور انہپوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں نے سیاہ اور سفید دو دھاگے اپنے تکیہ کے نیچے رکھ دئیے ہیں تاکہ جب سیاہ اور سفید دھاگے میں فرق نظر آنے لگے تو مجھے معلوم ہو جائے کہ اب کھانا پینا چھوڑ دینا چاہیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی یہ بات سنکر فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے تمہارا تکیہ بہت چوڑا ہے کہ اُس کے نیچے خیط ابیض اور خیط اسود دونوں آگئے ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا ۔ اس سے مراد تو صرف رات کی سیاہی اور دن کی سفید ہے ۔ ظاہر ی دھاگے مراد نہیں ہیں (مسلم کتاب الصیام ) اسی طرح بعض اور صحابہ ؓ بھی سفید اور سیاہ دھاگے اپنے پاس رکھ لیتے تھے اور وہ اس وقت تک کھاتے پیتے رہتے ھتے جب تک کہ اہن دونوں میں انہیں فرق نظر نہ آجاتا۔ آکر اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ مِنَ الْفَجْرِ کے الفاظ نازل فرمائے تب انہیں معلوم ہوا کہ خیط ابیض اور خیط اسود سے سفید اور سیاہ دھاگے نہیں بلکہ اس سے صبح صادق اور صبح کا ذب کا فرق مراد ہے ۔
پنچاب میں میں بھی بعض زمیندار رمضان کی راتوں میں سفید اور سیاہ دھاگے اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔ اور چونکہ دھاگا اچھی روشنی میں نظر آتا ہے مدھم روشنی میں نظر نہیں آتا اس لئے وہ کافی روشنی ہونے تک کھاتے پیتے رہتے ہیں ۔بلکہ بعض لوگوں کی نظر چونکہ کمزور ہوتی ہے اس لئے ممکن ہے وہ دن چڑھنے کے بعد بھی اس آیت کی روسے کھاتے پینے کا جواز ثابت کر لیں کیونکہ انہیں سورج کی روشنی میں ہی اس فرق کا پتہ لگ سکتا ہے ۔بہر حال اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں خیط ابیض اور خیط اسود کے الفاظ استعارۃً استعمال فرمائے ہیں ۔ اور مراد یہ ہے کہ صرف اس وہم کی بنا پر کھانا پینا ترک نہیں کر دینا چاہیے کہ ممکن ہے صبح ہو گئی ہو۔ بلکہ اس کیلئے ضروری ہے کہ صبح صادق اور صبح کاذب میں امتیاز ہو اجائے اور پوپھٹ جائے ۔
ثُمَّ اَتِمُّو الصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ ۔اس جگہ لیل سے گہری تاریکی مراد نہیں بلکہ صرف سورج غروب ہونے کا وقت مراد ہے ۔ چنانچہ احادیث میں آتاہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔لَا یَزَالُ النَّاسُ بِخَیْرٍ مَا عَجَّلُو الْفِطْرَ (مسلم کتاب الصیام ) کہ جب تک لوگ سورج غروب ہوتے ہی روزہ افطار کرتے رہیں گے اُس وقت تک وہ خیر پر قائم رہیں گے ۔ یعنی احکام اسلامی کی حقیقی روح ان میں زندہ رہیگی ۔ ورنہ جب لوگ رسوم یا وہم سے کام لینے لگتے ہیںتو فرائض سے غافل ہو جاتے ہیں اور اُن کے اوہام انہیں دور ازسکار باتوں میں الجھا دیتے ہیں ۔ اور اُن کی حالت بالکل اس شخص کی سی ہو جاتی ہے ۔ جو نماز کی نیت باندھتے ہوئے اپنے وہم میں اس حد تک بڑھ گیا تھا کہ پہلے تو امام کو انگلی مار مار کر کہتا کہ پیچھے اس امام کے اور پھر رفتہ رفتہ اُس نے امام کو دھکے دینے شروع کر دئیے ۔ اِسی طرح جن لوگوں کاوہم بڑھ جاتا ہے وہ پہلے سورج کے غروب ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔ مگر چونکہ ابھی سُرخی باقی ہوتی ہے اس لئے اں کی تسلی نہیں ہوتی اور وہ زیادہ انتظار کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب گہری تاریکی چھا جائے تب افطاری کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب گہری تاریکی چھا جائے تب افطاری کرتے ہیں۔یہ طریق شریعت کے خلاف ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اَتِمُّو الصِیَّامَ اِلَی الَّیْلِ کا حکم دیا ہے ۔ اور لیل کا وقت سورج ڈوبنے سے لیکر سورج نکلنے تک ہے ۔ یہ مراد نہیں کہ جب تک اچھی طرح تاریکی نہ چھا جائے اس وقت تک تم روزہ افطار ہی نہ کرو۔
وَلَا تُبَاَ شِرُ وْھُنَّ وَاَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فِی الْمَسٰجِدِ ۔اس کے معتلق اختلاف ہوا ہے کہ آیا اعتکاف کی وجہ سے مباشرت ممنوع قرار دی گئی ہے ۔ یا مسجد کی حرمت کی وجہ سے ۔ میرے نزدیک اعتکاف کی وجہ سے مباشرت سے نہیں روکا گیا بلکہ مسجد کے احترام کی وجہ سے روکا گیا ہے ۔ جس کی طرف وَلَا تُبَاَ شِرُ وْھُنَّ وَاَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فِی الْمَسٰجِدکے الفاظ اشارہ کر رہے
وَلَا تَاْ کُلُوْآ

تَعْلَمُوْنَo
ہیں۔کہ مباشرت کی نفی اعتکاف کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ مساجد کی وجہ سے ہے ۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چہیے کہ مباشرت ملمں کو بھی کہتے ہیں ۔ اور احادیث سے ثابت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ایسی حالت میں جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اعتکاف میں بیٹھے ہوتے تھے آپ کا سر بھی پانی سے دھودیتی تھیںاور بالوں کی کنگھی بھی کر دیا کرتی تھیں (بخاری ابواب الاعتکاف)
پس اس جگہ مباشرت کی نہی سے محض مخصوص تعلقات یا اُس کے مبادی مراد ہیں جسم کو چھونا مراد نہیں۔
تِلْکَ حُدُ وْدُ اللّٰہِ فَلَا تَقْرَ بُوْھَا۔ فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں۔ تم اُن کے قریب بھی مت جاو تاکہ غلطی سے تمہارا قدم اللہ تعالیٰ کے محارم میں نہ جا پڑے ۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک دفعہ صحابہ ؓ کو اس امر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ دیکھو حلال بھی ظاہر ہے اور حرام بھی ظاہر ہے لیکن ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ امور بھی ہیں جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے ۔ پس جو شخص ان مشتبہ امور سے بچا اُس نے اپنے دین اور اپنی آبرو کو بچانے کیلئے بری احتیاط سے کام لیا۔ لیکن جو شخص ان مشتبہ امور میں جا پڑا وہ اس چروا ہے کی مانند ہے جو رکھ کے آس پاس اپنا ریوڑ چرارہا ہے۔ اور قریب ہے کہ اُس کا ریوڈ رکھ کے اندر چلا جائے ۔ پھر آپ نے نے فرمایا کہ اَلَا وَاِنَّ لِکُلِّ مَلِکٍ حِیً اَلَا اِنَّ حِیَ اللّٰہِ فِیْ اَرْضِہٖ مَحَارِمُہٗ ۔کان کھول کر سنو کہ ہر بادشاہ کی ایک رکھ ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی زمین میں اس کی رکھ اُس کی حرام کردہ چیزیں ہیں (بخاری الایمان باب فضل من اِسْتَبْرَأَ لدینہِ) پس محارم اللہ تعالیٰ کی رکھ ہوتے ہیں ۔اور اگر کوئی انسان اُن کے قریب جائے تو اس بات کا خطرہ ہوتا ہے کہ اُس کا قدم ڈگمگا جائے اور وہ ناجائز امور کا مرتکب ہو کر خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا موردبن جائے ۔پس اسل تقویٰ یہی ہے کہ انسان حدود اللہ کے قریب جانے سے بھی بچے تاکہ شیطان اُس کے قدم کو ڈگمگانہ دے ۔
کَذٰ لِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ اٰیٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَّقُوْنَ۔ اس میںآیات سے مراد احکام الٰہیہ ہیں۔ اور فرماتا ہے کہ ان احکام کی اصل غرض تمہارا اندر تقویٰ پیدا کرنا ہے ۔ پس تمہیں چاہیے کہ تم ہمیشہ تقوی اللہ کو محلوظ رکھو اور نہ صرف اللہ کی حدود کو نہ توڑو بلکہ شبہات کے بھی پرے رہنے کی کوشش کرو۔
مباد تمہارا قدم پھسل جائے اور تم تقویٰ سے دور چلے جاؤ۔
۱۰۲؎ حل لغات:۔ تَاکُلُوْا : اَکَلَ کے معنے کھانے کے ہوتے ہیں ۔لیکن جب غذا کے سوا اور چیزوں کے لئے یہ لفظ استعمال ہو تو اس کے معنے ہلاک کرنے یا فنا کر دینے کے ہوتے ہیں۔
تُدْلُوْا:اَدْلیٰ سے جمع مخاطب کا صیغہ ہے اور اَدْلیٰ اِدلَائً کے معنے ہیں اَرْسَلَ الدَّلْوَ فِی الْبِر، اس نے کوئیں میں ڈول ڈالا اور اَدْلیٰ فُلَا ن’‘ فِی فُلَافٍ کے معنے ہیں۔ قَالَ قَبِیْحًا اس نے کسی کے متعلق بُری بات کہی اور اَدْلیٰ بِحُجَّنِہٖ کے معنے ہیں اس نے اپنی دلیل پیش کی اور اَدْلیٰ اِلَیْہِ بِمَالٍ کے معنے ہیں۔ اس نے اُسے مال دیا۔(اقرب) تُدْلُوْا بِھَا اصل میں لَا تُدْلُوْ ابِھَا کے معنوں میں ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ (۱) ایک دوسرے کے مال حکام کے پاس نہ لے جائو۔ یعنی جھوٹے مقدمات بنا کر اُن کے مال نہ لو (۲) حاکموں کو بطور رشوت مال نہ دو۔
تفسیر:۔ اپنے مال کو تو انسان کھایا ہی کرتا ہے پس لَا تَاْکُلُوْا اَمْوَالَکُمْ سے مراد ہے کہ ایک دوسرے کے مال باطل کے ساتھ مت کھائو۔ انسان دوسرے کا ہل کئی طرح کھاتا ہے۔ اول جھوٹ بول کر ۔ دوم ناجائز ذرائع سے چھین کر۔ سوم سود کے ذریعہ سے۔ چہارام رشوت لے کر یہ سب امور باطل میں داخل ہیں۔
وَتُدْ لُوْا بِھَا اِلَی الْحُکِّامِ میں بتایا کہ جس طرح آپس میں ایک دوسرے کا مال کھانا ناجائز ہے۔ اسی طررح تم حکام کو بھی روپیہ کا لالچ نہ دو تاکہ اس ذریعہ سے تم دوسرے کا مال کھا سکو۔ اس آیت میں افسران بالا کو رشوت دینے کی ممانعت کی گئی ہے اور اُسے حرام اور ناجائز قرار دیا گیا۔
دوسرے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ اپنے مالوں کو حکام کے پاس نہ لے جائو تاکہ لوگوں کے مال کا ایک حصہ تم گناہ کے ذریعہ کھا جائو تاکہ لوگوں کے مال کا ایک حصہ تم گناہ کے ذریعہ مت کھا جائو۔یعنی ان کے متعلق جھوٹے مقدمات دائر نہ کرو۔ اور یہ نہ سمجھو کہ اگر حاکم انصاف کو ملحوظ نہ رکھتے ہوئے تمہیں کسی کا حق دلادے گا تو وہ تمہارے لئے جائز ہو جائیگا۔ کیونکہ دنیوی عدالتوں سے بالا ایک آسمانی عدالت بھی ہے اور جب اس نے اپنے قانون میں ایک چیز کو ناجائز قرار دے دیا ہے تو دنیا کی کوئی عدالت خواہ اُسے جائز بھی قرار دے دے وہ بہر حال ناجائز اور حرام ہی رہے گا۔
چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا فَمَنْ قَضَیْتُ لَہ‘ بِحَقَّ اَخِیْہِ شَیْئًا فَلَا یَاْ خُذُہ‘۔ فَاِنَّمَا اَقْطَعُ لَہ‘ قِطْعَۃً مِّنَ النَّارِ ۔ (بخاری جلد ۴ کتاب الاحکام) یعنی اگر میں کسی شخص کے لئے اس کے بھائی کے حق میں سے کسی چیز کا غلط فیصلہ کر دوں تو اُسے چاہیے کہ وہ اس کے لینے سے انکار کر دے کیونکہ میں اس کے لئے آگے کے ایک ٹکڑے کا فیصلہ کرتا ہوں۔
اسی طرح بخاری اور مسلم میں ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت آتی ہے کہ اَنَّہ‘ سَمِعَ خَصُوْمَۃً بِبَابِ حُجْرَتِہٖ فَخَرَجَ اِلَیْھِمْ فَقَالَ اِنَّمَا اَنَا بِشَر’‘ وَ اِنَّمَا یَاْ تِیْنِی الْخَصْمُ وَلَعَلَّ بَعْضَکُمْ اَنْ یَّکُوْنَ اَبْلَغَ مِنْ بَعْضٍ فَاَحْسِبُ اَنَّہ‘ صَادِق’‘ فَاَقْضِیَ لَہ‘ بِذٰلِکَ فَمَنْ قَضَیْتُ لَہ‘ بِحَقِّ مُسْلِمٍ فَاِنَّمَا ھِیَ قِطْعَۃ’‘ مِّنَ النَّارِ فَلْیَاْ خُذْ ھَااَوْیَنْرُکْھَا۔ (بخاری کتاب الاحکام) یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ اپنے مکان کے دروازہ پر کسی جھگڑے کی آواز سنی آپ شور سُن کر باہر تشریف لے آئے اور لوگوں سے فرمایا کہ دیکھو میں بھی ایک انسان ہوں۔ میرے پاس مقدمات والے آتے ہیں تو ممکن ہے کہ تم میں سے کوئی شخص دوسرے سے زیادہ چرب زبان ہو۔ اور میں اس کی باتوں کی وجہ سے خیال کرلوں کہ وہی سچا ہے اور میں اس کے حق میں فیصلہ کر دوں۔ پس اگر میں کوئی ایسای فیصلہ کر دوں تو جس شخص کیلئے میں کسی
یَسْئَلُوْنَکَ



لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo
مسلمان کے حق میں سے کسی چیز کا فیصلہ کروں اُسے سمجھ لینا چاہیے کہ وہ آگ کا ایک ٹکڑا ہے جو میں نے اُسے دیا ہے اور اسے اختیار ہے کہ وہ چاہے تو اس آگ کے ٹکڑا پر قبضہ کر لے اور چاہے تو اُسے چھوڑ دے۔
۱۰۴؎ حل لغات:۔ اَلْاَ ھِلَّۃ۔ ھَلَال’‘ کی جمع ہے ۔ وَقِیْلَ یُسَمّٰی ھِلَا لًا لِلَیْلَتَیْنِ اَوْ اِلیٰ ثَلَاثٍ اَوْ اِلیٰ سَبْعٍ۔ اور ہلال دوراتوں کے چاند کو کہتے ہیں۔ اسی طرح تین اور سات راتوں کے چاند کو ہلال کہا گیا ہے۔(اقرب الموارد)
مَوَاقِیْتُ: مِیْقَات’‘ کی جمع ہے اور اَلْمِیْقَاتُ کے معنے ہیں۔ اَلْوَقْتُ۔ وقت۔ وَقِیْلَ اَلْوَقْتُ الْمَغْرُوْبُ لِلْشَّیْئِ۔ اور کہا گیا ہے کہ میقات سے مراد وہ خاص وقت بھی ہے جو کسی کام کے لئے مقرر کیا جائے۔ وَالْمُوْعِدُ الَّذِیْ جُعِلَ لَہ‘ وَقْت’‘۔ اور میقات اس چیز کو بھی کہتے ہیں جس کے لئے کوئی وقت مقرر کیا گیا ہو۔ وَقَدْ یُسْتَعَارُ لَلْمَوْضِعِ الَّذِیْ جُعِلَ وَقْتًا لِشَّیْئِ۔ اور وہ خاص جگہ جہاں کوئی خاص کام وقت مقرر پر کیا جائے۔ اُسے بھی میقات کہتے ہیں۔(اقرب)
تفسیر: صحابہ کرامؓ نے جب دیکھ ا کہ کس طرح رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ ان کے قریب آجاتا اور ان کی دُعائوں کو قبول فرماتا ہے۔ تو ان کے دلوں میں شوق پیدا ہوا کہ وہ باقی مہینوں کے بارہ میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
سے سوال کریں تاکہ وہ ان کی برکات سے بھی مستفیض ہو سکیں۔ چنانچہ فرمایا کہ لوگ تجھ سے چاندوں کے بارہ میں سوال کرتے ہیں تو انہیں کہدے کہ ھِیَ مَوَ اقِیْتُ لِلنَّاسِ یہ لوگوں کے لئے وقت کا اندازہ کرن کا ایک ذریعہ ہیں۔ یعنی ہر قمری مہینہ اس لئے مقرر نہیں کیا گیا کہ اس کے ساتھ شریعت کے کسی خاص حکم کا تعلق ہے بلکہ ان مہینوں کا چاند کے ساتھ اس لئے تعلق رکھا گیا ہے کہ ان کے ذریعہ گذشتہ یا آئندہ کام کا وقت پہچانا جاتا ہے اور پھر لِلنَّاس ِ فرمایا کہ بتایا کہ عوام کے فائدہ کے لئے یہی چاند کے مہینے کام دیتے ہیں۔ ورنہ وہ حساب جس کی سورج کی گردش پر بنیاد ہے اس سے صرف علمی طبقہ ہی فائدہ اٹھا سکتا ہے عام لوگ اس سے فائدہ اُٹھانے کی استعداد نہیں رکھتے۔
پھر فرمایا وَالْحِجِّ۔ قمری مہینوں کا دوسرا فائدہ حج سے تعلق رکھتا ہے یعنی بوجہ اس کے کہ حج کا فریضہ قمری مہینہ میں ادا کیا جاتا ہے۔ یہ عبادت سارے سال میں چکر لگاتی رہتی ہے اور مختلف طبائع کے لوگ اور گرم سرد ممالک کے رہنے والے اپنی اپنی طبیعت اور اپنے اپنے حالات کے مطابق اس میں حصہ لے سکتے ہیں۔ اگر حج کسی شمسی مہینہ میں مقرر کر دیا جاتا تو لازماً وہ ہر سال ایک ہی مہینہ میں ہوتا۔ اور کئی لوگوں کے لئے حج کا فریضہ ادا کرنا ناممکن ہو جاتا۔ مگر اب حج کی عبادت سارے سال میں چکر لگاتی رہتی ہے اور ہر شخص اپنے اپنے حالات کے مطابق بیت اللہ کا سفر کر کے حج کی برکات سے مستفیق ہو سکتا ہے۔
ھِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اسلام کے نزدیک چاند ہی وقت کا اندازہ کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ کیونکہ قرآن کریم کی دوسری آیات میں سورج کو بھی وقت کا اندازہ کرنے کا ایک ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ سورۃ یونس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَآئً وَّ الْقَمَرَ نُوْرًا وَّ قَدَّرَہ‘ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْ ا عَد۔ دَ السِّنِیْنَ وَالْحِسَابَ (یونس آیت۶) یعنی وہ خدا ہی ہے جس نے سورج کو اپنی ذات میں ایک روشن وجود بنایا ہے اور چاند کو نور بنایا ہے جوسورج سے اکتسابِ نور کر رہا ہے۔ اسی طرح سورج افور چاند کی ہم نے منازل مقرر کر دی ہیں تاکہ تمہیں سالوں کی گنتی اور حساب معلوم ہوا کرے۔ پھر سور انعام میں فرماتا ہے ۔ فَالِقُ الْاِ صْبَاحِ وَجَعَلَ الَّیْلَ سَکَنًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا ط ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْرِ الْعَلِیْمِ(انعام آیت۹۷) یعنی خدا صبح کو ظاہر کرنے والا ہے اور اس نے رات کو سکون اور آرام کا موجب اور سورج اور چاند کو حساب کا ذریعہ بنایا اور یہ فیصلہ ایک غالب اور علم رکھنے والے خدا کا ہے۔
اسی طرح سورہ رحمٰن میں فرماتا ہے اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانِ(رحمن آیت۶) سورج اور چاند دونوں ایک حساب کے ماتحت کام کر رہے ہیں یعنی ان کی حرکات قانون سے آزاد نہیں بلکہ ایک معین اور مقرر ہ قانون کے مطابق ہیں۔ اور اسی مقررہ قانون کا یہ نتیجہ ہے کہ وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ یَسْجُدَانِ زمین کی روئیدگی اور سبزہ سب اپنے اُگنے ۔ نشوونما پانے اور پھل لانے میں سورج اور چاند کے پیچھے چلتے ہیں اور ان سے متاثر ہوتے ہیں۔
ان آیات قرآنیہ سے واضح ہے کہ تاریخ اور حساب کے ساتھ سورج اور چاند دونوں کا تعلق ہے۔ اور یہ علوم کبھی ظاہر نہیں ہو سکتے تھے اگر سورج اور چاند کا وجود نہ ہوتا۔ اگر سورج اور چاند نہ ہوتے تو دنوں اور سالوں کا اندازہ ہی نہ ہو سکتا۔ اس لئے کہ اندازہ اور فاصلہ معلوم کرنے کے لئے کسی مستقل چیز کا موجود ہونا ضروری ہوتا ہے۔ جیسے پٹواری حساب لگاتے ہیں تو کہتے ہیں فلاں زمین فلاں کنوئیں سے اتنے کرم کے فاصلے پر ہے یا فلاں درخت سے اتنے کرم کے فاصلے پر ہے۔ پس چونکہ کسی مستقل چیز کے بغیر فاصلہ کا معلوم کرنا ناممکن ہوتا ہے اس لئے اگر سورج اور چاند نہ ہوتے تو سالوں اور دنوں کا اندازہ بھی نہ ہو سکتا۔
اسلام نے اپنی عبادات میں سورج اور چاند دونوں سے وقت کے اندازے کئے ہیں۔ مثلاً دن بھر کی نمازوں کے اوقات اور روزہ کی ابتداء اور اس کی افطاری وغیرہ کا تعلق شمسی نظام کے ساتھ ہے۔لیکن جہاں عبادات کسی خاص مہینہ سے تعلق رکھتی ہیں وہاں قمری نظام سے کام لیا گیا ہے جیسے رمضان اور ایام حج کے لئے قمری مہینوں کو اختیار کیا گیا ہے تاکہ دونوں عبادتیں سال کے ہر حصہ میں چکر کھاتی رہیں۔ اور ایک مومن فخر کے ساتھ یہ کہہ سکے کہ اس نے سال کے ہر حصہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کی ہے۔ مثلاً رمضان کا انحصار چونکہ قمری مہینوں پر ہے ۔ اس لئے ۳۶ سال میں ایک دور ختم ہو جاتا ہے اور رمضان کبھی جنوری میں آجاتا ہے اور کبھی فروری میں کبھی مارچ میں اور کبھی اپریل میں اس طرح سال کے ۳۶۰ دنوں میں سے ہر دن ایسا ہوتا ہے جس میں انسان نے روزہ رکھا ہوتا ہے لیکن اگر شمسی مہینوں پر روزے مقرر ہوتے تو اگر ایک دفعہ جنوری میں روزے آتے تو پرھ ہمیشہ جنوری میں ہی روزے رکھنے پڑتے اور اس طرح عبادت کو وسعت حاصل نہ ہوتی۔ پس عبادت کو زیادہ وسیع کرنے کے لئے اور اس غرض کے لئے کہ انسان اپنی زندگی کے ہر لحظہ کے متعلق کہہ سکے کہ وہ اس نے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گذارا ہے۔ عبادت کا انحصار قمری مہینوں پر رکھا گیا ہے لیکن سال کے اختتام یا اس کے شروع ہونے کے لحاظ سے انسان دماغ سورج سے زیادہ تسلی پاتا ہے۔ بہر حال قمری اور شمسی دونوں نظام حساب کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ جہاں تک عوام الناس کا تعلق ہے وہ چاند کے مہینوں سے ہی زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کیونکہ شمسی نظام سے تعلق رکھنے والے حسابات ان کی علمی استعداد سے بالا ہوتے ہیں۔
وَلَیْسَ الْبِرَّ بِاَنْ قَاْتُواالْبُیُوْتَ مِنْ ظُھُوْرِھَا کہتے ہیں اسلام سے پہلے عربوں کا دستور تھا کہ جب وہ حج کے لئے احرام باندھ لیتے اور اس دوران میں انہیں گھر آنے کی ضرورت پیش آتی تو وہ دروازوں سے آنے کی بجائے گھروں کی پشت سے دیوار پھاند کر آتے تھے(بخاری کتاب التفسیر) ہو سکتا ہے کہ یہ آیت اسی کے متعلق ہو کہ تم ایسا نہ کرو مگر میرے نزدیک چونہ اس آیت سے پہلے گھروں کی پشت سے داخل ہونے کا کوئی ذکر نہیں۔ اس لئے اس آیت کے یہ معنی نہیں کہ تم گھروں میں ان کی پشت سے داخل نہ ہو بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر کام کو سر انجام دینے کے جو صحیح طریق مقرر کئے گئے ہیں تم ان سے کام لو ورنہ تمہیں کامیابی حاصل نہ ہو گی۔ چنانچہ دیکھ لو اس سے پہلے یہ سوال بیان کیا گیا ہے کہ رمضان میں تو ہم نے مشقت برداشت کی اور خداتعالیٰ ہمیں مل گیا۔ اب ہمیں بتایا جائے کہ باقی مہینوں میں ہم نفس کشی کے لئے کیا کریں اور کون کون سے طریق اختیار کریں۔ خداتعالیٰ نے بتایا کہ تمہاری خواہش تو نیک ہے مگر یہ یاد رکھو کہ خداتعالیٰ تک پہنچنے کا یہ ذریعہ نہیں کہ زیادہ تکلیف اٹھا ئو بلکہ حقیقی ذریعہ یہ ہے کہ جو طریق ہم نے نیکی میں تریقی کرنے کے تمہیں بتائے ہوئے ہیں تم ان پر عمل کرو۔ تمہیں خود بخود اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو جائیگا۔ اور اگر تم ایسا نہ کرو توتمہاری مثلا ایسی ہی ہو گی جیسے کوئی آقا اپنے ملازم کو بلائے اور وہ دیر کر کے آئے تو پوچھے تم دیر کر کے کیوں آئے ہو۔ اس پر وہ کہدے کہ دروازے سے نہیں آیا بلکہ دیوار پھاند کر آیا ہوں اور مجھے دیوار پھاند نے میں بہت دیر لگ گئی تھی اس لئے میں جلد ی نہیں پہنچ سکا۔ اگر وہ یہ جواب دے تو کیا تم سمجھ سکتے ہو کہ اس جواب سے اس کا آقا خوش ہو جائیگا۔ اور اُسے انعام دیگا اور کہہ گا کہ چونکہ یہ دیوار پھاند کر آیا ہے اور اس نے بڑی مشقت برداشت کی ہے اس لئے اسے ترقی دی جائے؟ اسی طرح خواہ مخواہ مشقت اُٹھا کر اپنی طرف سے نئی نئی راہیں ایجاد کرنا اور ان پر اپنا وقت ضائع کرنا اور اپنے قویٰ کو نقصان پہنچانا کوئی نیکی نہیں۔ نیکی یہ ہے کہ لوگ اپنے آسمانی آقا کی آواز پر لبیک کہیں اور اس راستہ کو اختیار کرین جو شریعت نے ان کے لئے قائم کر دیا ہے غرض اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ وہ طریق جو میں نے تمہیں بتائے ہوئے ہیں اگر ان کے ژریعہ سے تم میرے پاس آئو گے تو مجھ تک پہنچ سکو گے اور اگر اور ذرائع عمل میں لائو گے اور ان میں تمہیں بتائے ہوئے ہیں اگر ان کے ذریعہ سے تم میرے پاس آئو گے تو مجھ تک پہنچ سکو گے اور اگر اور ذرائع عمل میں لائو گے اور اُن میں تمہیں محنت بھی زیادہ کرنی پڑے تو یہ زیادہ محنت کرنا تمہیں خداتعالیٰ تک نہیں پہنچائیگا۔ جیسا کہ ہندئووں میں سے بعض اُلٹے لٹکے رہتے ہیں بعض اپنے ہاتھ کھڑے کر کے خشک کر لیتے ہیں۔ مگر انہیں خداتعالیٰ کی کوئی رضا حاصل نہیں ہوتی۔ اس کے مقابلہ میں مسلمان بھی عبادتیں کرتے ہیں جو مشقت میں ان سے بہت کم ہوتی ہیں لیکن پھر بھی وہ رضائے الہٰی کو حاصل کر لیتے ہیں۔
افسوس ہے کہ مسلمانوں نے بھی جیج اعوج کے دور میں بڑی بڑی مشقتیں اپنے نفس پر دارد کیں اور وہ غلط راستہ پر چلنے
ٓوَقَاتِلُوا فِیْ
یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَo
لگے۔ بیسیوں قسم کی چلہ کشیاں تھیں جو انہوں نے اختیار کر لیں اور بیسیوں قسم کے ذکر تھے جو انہوں نے خود ہی ایجاد کر لئے۔ اگر مسلمان اپنے آپ کو ان مشقتوں میں ڈالنے کی بجائے قرآن کریم کے احکام پر عمل کرتے تو وہ قرب الہٰی کی ان منازل کو دنوں میں طے کر لیتے جنہیں وہ سالوں میں بھی طے نہ کر سکے۔ بلکہ ان ریاضتوں کے نتیجہ میں ان میں سے کئی مسلوں اور مدقوق ہو کر مر گئے۔ کئی دیوانے ہو گئے اور کئی مر گی کا شکار ہو گئے۔
وَاْتُواالْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَا بِھَا وَاتَّقُوااللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ۔ اس میں بتایا کہ کامیابی ہمیشہ ابواب ہی کے ذریعہ اانے سے ہوا کرتی ہے۔ اگر تم ایسا نجیہں کرتے اور دروازوں میں سے داخل ہونے کی بجائے دیواریں پھاند کر اندر داخل ہونا چاہتے ہو تو تمہیں کبھی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ مثلاً لڑائی کے زمانہ میں اگر تم ہتھیاروں سے کام لینا نہ سیکھو اور جنگی فنون کی تربیت نہ لو بلکہ یونہی سینہ تان کر دشمن کے سامنے چلے جائو۔ تو تم کامیاب نہیں ہو سکتے۔ لیکن اگر چھوٹی سے چھوٹی تلوار بھی تمہارے پاس ہو یا تمہیں لاٹھی چلانا ہی آتا ہو تو تم قوم کے لئے مفید وجود بن سکتے ہو۔ پس کامیابی کے لئے ان ذرائع اور اسباب کو استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے مقرر کئے ہوئے ہیں۔ ورنہ اسے ناکامی کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ پھر وَاتَّقُوااللّٰہَ کہہ کر اس طرف ۹اشارہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے قانون اور اس کے نظام کی ہتک کرنا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے مقرر کئے ہوئے ہیں انہی کے مطابق چلو اپنے پاس سے نئے نئے طریق وضع نہ کرو۔ مثلاً رمضان کے مہینہ میں بیشک روزے رکھنا ایک بڑی نیکی ہے لیکن اگر اسی پر قیاس کرتے ہوئے کوئی شخص کسی اور مہینہ میں بھی تیس تیس روزے رکھنے شروع کر دے اور سمجھے کے وہ اس طرح اللہ تعالیٰ کو راضی کر لیگا تو وہ ایسا ہی ہو گا جیسے کوئی دوروازہ سے داخل نہ ہو بلکہ نقب لگا کر داخل ہو اور اندر جا کر کہے کہ دیکھئے میں کسی مشقت اٹھا کر آپ تک پہنچا ہوں۔ ایسے شخص کی کوئی تعریف نہیں کر سکتا بلکہ ہر شخص اسے ملامت کرے گا اور اس کے فعل کو قبلِ ندمت قرار دیگا۔
۱۰۵؎ تفسیر:۔ اب اللہ تعالیٰ نے دینی جنگوں کے احکام بیان کرنے شروع کئے ہیں۔ چنانچہ اس پہلی آیت میں ہی اللہ تعالیٰ نے وہ تمام شرائط بیان کر دی ہیں جن کو مذہبی جنگوں میں ملحوظ رکھنا ضروری ہوتا ہے ۔ چنانچہ فرمایا ہے اسے مسلمانو! ان کفار سے جو تم سے جنگ کر رہے یہں تم بھی محض اللہ تعالیٰ کی خاطر جس میں تمہارے اپنے نفس کا غصہ یا نفس کی ملونی شامل نہ ہو جنگ کرو اور یاد رکھو کہ جنگ میں بھی کوئی ظالمانہ فعل نہیں کرنا کیونکہ اللہ تعالیٰ ظالموں کو بہر حال پسند نہیںکرتا۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ جس جنگ کا مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے وہ صرف وہی ہے جو اول فی سبیل اللہ ہو۔ یعنی ذاتی لالچوں ، ذاتی حرصوں ملک کے فتح کرنے کی نیت یا اپنے رسوخ کو بڑھانے کی نیت سے نہ ہو بلکہ صرف خداتعالیٰ کے لئے ہو یعنی ان مشکلات کو دور کرنے کے لئے ہو جو خداتعالیٰ کی راہ میں اور اس کے دین کے راستہ میں پیدا کی گئی ہوں۔ اگر وہ دینی جنگ نہیں تو اُسے فی سبیل اللہ نہیں کہا جا سکتا۔ مسیحی مصنف فی سبیل اللہ کے الٖاط سے دھوکہ کھاتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ فی سبیل اللہ سے مراد زبردستی مسلمان بنانے کے ہوتے ہیں۔ حالانکہ یہ بالکل غلط ہے اس کے معنے تو یہ یہیں کہ صرف وہی جنگ جائز ہے جو خداتعالیٰ کے منشاء کے مطابق اور اس کی رضا چاہنے کے لئے ہو۔ چنانچہ اسی قسم کے الفاظ اسی سورۃ کی آیت نمبر۲۶۳ میں بھی استعمال کئے گئے ہیں۔ جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ لَا یُتْبِعُوْنَ مَآ اَنْفَقُوْا مَنَّاً وَّ لَآ اَذَیً لَّھُمْ اَجْرُ ھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَلَا خَوْف’‘ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَفُوْنَ۔ یعنی جو لوگ اپنے مالوں کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور پھر خرچ کرنے کے بعد نہ کسی رنگ میں احسان جتاتے ہیں اور نہ کسی قسم کی تکلیف دیتے ہیں ان کے رب کے پاس ان کے اعمال کا بدلہ محفوظ ہے اور نہ تو انہیں کسی قسم کا خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہونگے۔ اس آیت میں جو فی سبیل اللہ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں انہیں کی تشریح آیت نمبر۲۶۶ میں ان الفاظ میں کی گئی ہے کہ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمُ ابْتِغَآئَ مَرْمنَاتِ اللّٰہِ یعنی وہ لوگ اپنے اموال اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے خرچ کرتے ہیں۔
اسی طرح لسان العرب جو لغت کی مشہور کتاب ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ کُلُّ مَا اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖ مِنَ الْخَیْرِ فَھُوَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَیْ مِنَ الطُّرُقِ اِلَی اللّٰہِ یعنی ہر نیکی جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے راستوں میں سے ایک راستہ ہے جو انسان کو خداتعالیٰ تی پہنچا دیتا ہے۔ اور نہایۃ میں لکھا ہے۔ وَسَبِیْلِ اللّٰہِ عَامّ’‘ یَقَعُ عَلیٰ کُلِّ عَمَلٍ خَالِصٍ سُلِکَ بِہٖ طَرِیْقُ التَّقَرُّبِ اِلَی اللّٰہِ تَعَالیٰ بِاَدَامِ الْفَرَائِضِ وَالنَّوَافِلِ وَاَنْوَاعِ التَّطَّوُّعَاتِ یعنی سَبِیْلِ اللّٰہ ایک عام اصلاح ہے جس کا اطلاق ہر ایسے عمل نیک پر ہوتا ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی خوشنودی حاسل کی جاتی ہو۔ خواہ وہ فرائض کی ادائیگی کے ذریعہ ہو یا نوافل یا دوسری نیکیوں میں حصہ لینے کے ذریعہ ہو۔
پس قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کے یہ معنے نہیں کہ تم دوسروں کو زبردستی مسلمان بنانے کے لئے جنگ کرو۔ بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ جب کوئی قوم دین کے بارہ میں تم سے جنگ کرے اور تمہارا مقدس مذہب تم سے زبارستی چھڑانا چاہے تو اس وقت تمہارا فرض ہے کہ تم محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اور دینی مشکلات کو دور کرنے کے لئے دشمن سے جنگ کرو۔ پس اس میں کفار کو زبردستی مسلمان بناے کا کوئی ذکر نہیں بلکہ کفار کے اس جبر کو دور کرنے کا ذکر ہے جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے لئے مذہبی آزادی تک باقی نہیں رہی تھی۔
دوسری شرط اللہ تعالیٰ نے اس میں یہ بیان کی ہے کہ لڑائی صرف انہی لوگوں سے جائز ہے جو مسلمانوں کے مقابلہ میں ہتھیار اُٹھا چکے ہوں۔ جیسا کہ یُقَاتِلُوْ نَکُمْ کے الفاظ اس پر شاہد ہیں۔
تیسری شرط جو یُقَاتِلُوْ نَکُمْ میں بیان کی گئی ہے یہ ہے کہ تمہارے لئے صرف انہی سے جنگ کرنا جائز ہے جو تم سے لڑتے ہیں۔ یعنی جو لوگ باقاعدہ سپاہی نہیں اور لڑائی میں عملاً حصہ نہیں لیتے جیسے بچے بوڑھے عورتیں وغیرہ ان کو مارنا یا ان سے لڑائی کرنا جائز نہیں گویا سول آبادی کو لڑائی کے دائرہ سے کلیتہ باہر رکھا گیاہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تعلیم کی جو تشریح فرمائی ہے وہ ان احکام سے ظاہر ہے جو آپ اس وقت دیتے تھے جب آپ کسی کو کمانڈر بنا کر جنگ پر بھجواتے تھے۔ چنانچہ مسلم جلد ۲ کتاب الجہاد میں لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی لشکر یا دستہ فوج کا کسی کو افسر بنا کر بھجواتے تھے تو آپ اُسے اور دوسرے مسلمانوں کو نصیحت فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اور پھر فرماتے اُغْزُوْا بِسْمِ اللّٰہِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔ اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اور اللہ تعالیٰ کی خاطر جنگ کے لئے جائو۔ قَاتِلُوْ امَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ اس شخص کے ساتھ جنگ کر و جو اللہ تعالیٰ کا کفر اختیار کرے۔ اس کے یہ معنے نہیں کہ تم کافر سے لڑو بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ جس شخص سے تمہاری لڑائی ہے اگر وہ مسلمان ہو جائے تو پھر تم نے اس سے لڑنا نہیں تمہیں لڑائی کی صرف اس وقت تک اجازت ہے جب کفر اللہ کی شرط موجود ہے۔اگر کسی شخص نے لڑائی تو شروع کی مگر جب تمہارا لشکر پہنچا تو اس نے کہدیا کہ میں اسلام اختیار کرتا ہوں تو بس لڑائی ختم ہو جائیگی ۔ وَلَا تَغُلُّوا اور قطعی طور پر خیانت سے کام نہ لو۔وَلَا تَغْدِرُوا اور بد عہدی نہ کرو۔دھوکہ بازی سے کام نہ لو۔ اگر تم اپنے دشمن سے کوئی وعدہ کر لو تو بعد میں اُسے کسی بہانہ سے توڑنے کی کوشش نہ کرو۔ وَلَا تُمَثِّلُوْا اور تم مثلہ نہ کرو یعنی کفار اپنی رسم کے مطابق اگر مسلمان مقتولین کے ناک کان بھی کاٹ دیں تو بھی تم ان کے مردوں کے ساتھ یہ سلوک نہ کرو۔ وَلَا تَقْتُلُوْا وَلِیْدًا اور کسی نابالغ بچے کو نہ مارو کیونکہ وہ جنگ میں شامل نہیں ہوا۔ سیرتِ حلبیہ میں اس کے علاوہ بعض اور نصائح بھی درج ہیں۔ اس میں لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہؓ کو جنگ پ رجاتے وقت یہ نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ لَاتَقْتُلُوا اِمْرَئَ ۃً۔ کسی عورت کو نہیں مارنا۔ وَلا مُعْتَزِلًا بِصوْمَعَۃٍ۔ اور عبادت گاہوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو بھی نہیں مارنا۔کیونکہ گودہ ایک ایسی قوم کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں جو تمہاری مخالف ہے مگر وہ خدا کا نام لیتے ہیں پھر فرماتے وَلَا تَقْرَبُوْا نَخْلًا۔ کسی کھجور کے درخت کے قریب بھی نہ جانا یعنی کھجور کو نقصان پہنچانے کا خیال بھی نہ کرنا۔ کیونکہ اس سے ان کے رزق پر اثر پڑتا ہے اور تمہارا حملہ ان کے حملے کو دور رکھنے کی نیت سے ہے ان کو مستقل تباہ کرنے کی غرض سے نہیں۔وَلَا تَقْطَعُوْا شَجَرًا بلکہ کوئی درخت بھی نہ کاٹنا کیونکہ وہ غریبوں اور مسافروں کو سایہ دینے کے کام آتا ہے اور تم لڑنے کے لئے جا رہے ہو اس لئے نہیں جا رہے کہ وہ قوم سایہ سے بھی محروم ہو جائے۔ وَلَا تَھْدِ مُوْا بِنَائً۔ اسی طرح عمارتوں کو مت گِرائو۔ قلعہ کا انہدام ایک علیحٰدہ چیز ہے۔ وہ جنگ کے حملے کو روکنے کے لئے ہوتا ہے۔ مگر یہ جائز نہیں کہ کسی ملک کے باشندوں کے بے گھر کر دیا جائے اورا ن کے مکانوں کو گرادیا جائے یا انہیں آگ لگا دی جائے۔ اسی طرح آپ کی دوسری ہدایات میں ہے کہ ملک میں ڈر اور ہراس پیدا نہ کیا جائے۔ دنیوی حکومتیں جب کسی ملک میں داخل ہوتی ہیں تو اندھا دھند مظالم شروع کر دیتی ہیں محض اس لئے کہ حکومت کا رعب قائم ہو جائے۔ مگر اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب مفتوحہ ممالک میں جائو تو ایسے احکام جاری کرو جن سے لوگوں کو آسانی ہو تکلیف نہ ہو۔ اور فرمایا جب لشکر سڑکوں پر چلے تو اس طرح چلے کہ عام مسافروں کا راستہ نہ رکے ایک صحابیؓ کہتے ہیں ایک دفعہ لشکر اس طر نکلا کہ لوگوں کے لئے اپنے گھروں سے نکلنا اور راستہ چلنا مشکل ہو گیا اس پر آپ نے منادی کروائی کہ جس نے مکانوں کو بند کیا راستہ روکا اس کا جہاد جہاد نہیں رہیگا۔
غرض اسلام کہتا ہے کہ تم کو جنگ میں عورتوں کے مارنے کی اجازت نہیں تم کو بچوں کے مارنے کی اجازت نہیں ۔ تم کو بڈھوں کے مارنے کی اجازت نہیں۔ تم کو بد عہدی کر نے کی اجازت نہیں۔ تم کو دھوکا دینے کی اجازت نہیں۔ تم کو مقتولین کے ناک کان کاٹنے کی اجازت نہیں۔ تم کو پادریوں اور پنڈتوں اور گیانیوں کو مارنے کی اجازت نہیں۔ تم کو کوئی باغ اور درخت کاٹنے کی اجازت نہیں۔ تم کو کوئی عمارت گرانے کی یا اُسے آگ لگانے کی اجازت نہیں ور اگر کبھی ان ہدایات کی خلاف ورزی ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ عرب کے دستور کے مطابق عورتیں بھی لڑائی میں شامل ہوتی تھیں اور چونکہ وہ دوسروں کو قتل کرتی تھیں لازماً وہ خود بھی قتل کی جاتی تھیں مگر ایک موقعہ پر ایک لڑائی کے بعد جب ایک عورت کی لاش آپ نے دیکھی تو آپ کے چہرے پرغم اور غصہ کے آثار ظاہر ہوئے اور آپ نے فرمایا اسلام اس کو پسند نہیں کرتا یہ فعل اسلامی تعلیم کے خلاف ہوا ہے(بخاری جلد۲ کتاب الجہاد والسیر) اُحد کی جنگ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تلوار پیش کی اور فرمایا یہ تلوار میں اس شخص کو دونگا جو اس کا حق ادا کرنے کا وعدہ کرے۔ بہت سے لوگ اس تلوار کو لینے کے لئے کھڑے ہوئے آپ نے ابودجانہؓ انصاری کو وہ تلوار دی۔ لڑائی میں ایک جگہ مکہ والوں کے کچھ سپاہی ابودجانہؓ پر حملہ آور ہوئے۔ جب آپ نے ان سے لڑ رہے تھے تو ااپ نے دیکھ کہ ایک سپاہی سب سے زیادہ جوش کے ساتھ لڑائی میں حصہ لے رہا ہے۔ آپ نے تلوار اُٹھائی اور اس کی طرف لپکے لیکن پھر اس کو چھوڑ کر واپس آگئے۔ آپ کے کسی دوست نے پوچھا۔ آپ نے اُسے کیوں چھوڑ دیا۔ آپ نے جواب میں کہا۔ میں جب اس کے پاس گیا تو اس کے منہ سے ایک ایسا فقرہ نکلا جس سے مجھے معلوم ہواگیا کہ وہ مرد نہیں عورت ہے ان کے ساتھی نے کہا بہرحال وہ سپاہیوں کی طرح فوج میں لڑ رہی تھی۔ پھر آپ نے اُسے چھوڑا کیوں؟ ابودُجانہ ؓ نے کہا میرے دل نے برداشت نہ کیا کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی تلوار کو ایک کمزور عورت پر چلائوں۔ غرض آپ عورتوں کے ادب اور احترام کی ہمیشہ تعلیم دیتے تھے جس کی وجہ سے کفار کی عورتیں زیادہ دلیری سے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتی تھیں۔ مگر پھر بھی مسلمان ان باتوں کی برداشت کرتے چلے جاتے تھے۔ صرف ایک ہی عورت تھی جس نے شروع سے لیکر آخر تک اسلام کے خلاف جنگوں میں حصہ لیا اور مسلمان شہداء کے ناک اور کان کاٹ لینے میں بہت مشہور تھی یعنی ہندو۔ فتح مکہ کے وقت آپ نے صرف اس کے قتل کا حکم دیا مگر وہ باقی عورتوں کے ساتھ آئی اور مسلمان ہو گئی اور پھر آپ نے اُسے بھی کچھ نہیں کہا۔ کیونکہ آپ نے فرمایا توبہ نے اس کے سارے گناہوں کو دھو دیا ہے۔
چوتھی شرط وَلَا تَعْتُدُوْا اِنَّ اللّٰہِ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ کے الفاظ میں یہ بیان فرمائی کہ باوجود دشمن کے حملہ میں ابتداء کرنے کے لڑائی کو صرف اس حد تک محدود رکھنا چاہیے جس حد تک دشمن نے محدود رکھا ہے اور اسے وسیع کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ نہ علاقہ کے لحاظ سے اور نہ ذرائع جنگ کے لحاظ سے اور فرمایا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حد سے زیادہ گذر جانے والوں سے محبت نہیں کرتا یا یوں کہو کہ جو لوگ حد سے گذر جانے والے ہوں وہ کبھی خداتعالیٰ سے محبت نہیں کر سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا شخص طبعی طور پر اللہ تعالیٰ سے محبت کر ہی نہیں سکتا ۔کیونکہ وہ حق کا مطالبہ کرنے میں حد سے بڑھا ہوا ہوتا ہے۔ مثلاً کسی کو غصہ اا گیا اور اس نے دوسرے کو تھپڑ مار دیا تو اب یہ ایک غلطی تو ہے جس کی اُسے سزا ملنی چاہیے۔ مگر یہ سزا اتنی ہی ہو سکتی ہے کہ ہم اُسے بلائیں اور ڈانٹ دیں کہ تم نے فلاں کو تھپڑ کیوں مارا لیکن بعض طبیعتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جس شخص سے قصور سر زد ہوا ہو جب تک وہ اس کا قیمہ نہ کر لیں ان کی تسلی ہی نہیں ہوتی۔ اور پھر یہیں تک بس نہیں کرتے بلکہ چاہتے ہیں کہ جب وہ اگلے جہاں میں پہنچے تو وہاں بھی خدا اس کو دوزخ میں ڈالے اور اُسے ایسا عذاب دے جو کسی اور کو نہ دیا گیاہو حالانکہ خدا بڑا رحیم و کریم ہے وہ حد سے گذرنے والوں سے محبت نہیں کرتا اور نہ حد سے گذرنے والا خدا تعالیٰ سے محبت کر سکتا ہے۔ اس زمانہ میں بڑی بڑی طاقتیں اس بات کی مدعی ہیں کہ انہوں نے عدل و انصاف کو کمال تک پہنچا دیا ہے مگر ان کی حالت ہی ہے کہ وہ لڑائی میں ہر قسم کے جھوٹ اور ظلم اور دھوکا اور فریب سے کام لیتی ہیں اور جب تک دشمن کو پیس نہ لیں ان کے دل کی آگ ہی نہیں بجھتی کہیں گیسیں استعمال کی جاتی ہیں تو کہیں قیدیوں کو پکڑ کر لڑائی کے وقت اپنے آگے رکھا جاتا ہے۔ اسی طرح اور کئی ظالمانہ طریق اختیار کئے جاتے ہیں۔ مثلا یہ بھی اعتداء میں داخل ہے ۔ کہ دشمن کا لباس پہن کر یا اس کا نشان دکھا کر حملہ کر دیا جائے یا صلح کے بہانہ سے حملہ کیا جائے یہ تمام امور ناجائز اور اسلامی تعلیم کے خلاف ہیں۔ بہرحال اوپر کی دونوں آیات سے مندرجہ ذیل چھ امور کا استنباط ہوتا ہے۔
پہلی بات یہ مستنبط ہوتی ہے کہ غیر شرعی طریق سے جائز کام بھی ناجائز ہو جاتا ہے۔ کیونکہ فرماتا ہے کہ اپنے گھروں میں جن میں داخل ہونیکا تم کو ہر وقت اور پورا اختیار ہے ان میں بھی اگر تم دیواریں پھاند پھاند کر داخل ہو تو یہ امر خداتعالیٰ کے نزدیک نیکی نہیں سمجھا جا ئیگا۔ اس مثال سے یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر کام کے لئے ایک رستہ بنایا ہے۔ اگر تو انسان اس رستہ سے اس کام کو کرتا ہے تو اس کا کام نیکی قرار دیا جائیگا۔ لیکن اگر کام نیک ہو مگر اس کے کرنے کا طریق غلط ہو تو پھر وہ عمل نیک نہیں رہے گا۔ مثلاً نماز ایک نیکی ہے لیکن اگر کوئی شخص بغیر وضو کے نماز پڑھے یا پہلے نماز پڑھ لے بعد میں وضو کرے یا بے وقت نماز پڑھے تو باوجود اس کے کہ وہ نماز پڑھے گا جو ایک عبادت ہے وہ اللہ تعالیٰ کو خوش نہیں کر سکے گا بلکہ ایک بدی کا مرتکب ہو گا۔ بعینہٖ اسی طرح اظہار غضب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے غیرت کو ایک نیکی قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ خود بھی نہایت غیرت مند ہے اور وہ بری باتوں پر اظہار غضب بھی کرتا ہے لیکن غیرت کے جائز موقعہ پر بھی اگر کوئی شخص غیرت کا اظہار غلط طریق پر کرے اور شریعت اظہار غیرت یا اظہار غضب کا یہ طریق بتائے کہ اس جگہ سے مومن اُٹھ جائے مگر مومن اس جگہ سے بجائے اُٹھ جانے کے لڑنے لگے تو شریعت اس مومن کو بھی گنہگار قرار دے گی۔
دوسری بات جو اس آتی سے مستنبط ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ نیکی تقویٰ کا نام ہے ۔ یعنی نیک کام کو نیک راہ سے بجا لانا ۔ پس مومن کا فرض ہے کہ ہر گھر میں اس کے دروازہ سے داخل ہو یعنی ہر نیک کام کے لئے خداتعالیٰ نے جو طریق تجوریز کیا ہے اس طریق سے اس کام کو کرے۔ جو شخص اس طریق سے کام نہ کرے وہ نیک نہیں کہلا سکتا۔
تیسری بات جو مذکورہ بالا آیات سے مستنبط ہوتی ہے یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اوپر کے بتائے ہوئے راستہ میں ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ یعنی یہ حکم ہم نے یونہی نہیں دیئے ۔ تمہاری ترقی اور کامیابی بھی اسی طریق سے وابستہ ہے۔ کامیابی کا اس امر کے ساتھ وابستہ ہونا ایک ظاہر امر ہے جو راستے کسی عمارت میں داخل ہونے کے ہوں جب انسان ان راستوں سے داخل ہو تبھی وہ بغیر کسی تکلیف کے اپنے مدعا کو پاسکتا ہے۔ اگر ان راستوں سے داخل ہو تبھی وہ بغیر تکلیف کیااپنے مدعا کو پاسکتا ہے۔ اگر ان راستوں کو چھوڑ کر دیواریں پھاندنی شروع کر دے تو اس کی تکلیف بڑھ جائیگی اور اس کی حماقت کی بھی لوگ شکایت کرنے لگیں گے۔
چھوتھی بات اس آیت سے یہ مستبنط ہوتی ہے کہ کسی شخص پر جارحانہ حملہ کرنا خلاف شریعت ہے ۔چنانچہ آیت مذکورہ بالا میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اِلَّذِیْنَ یُقٰتِلُوْ نَکُمْ۔ یہ تو تمہارے لئے جائز ہے کہ اگر کوئی تم پر قاتلانہ حملہ کرے تو تم اپنا بجائو کرو۔ لیکن تمہارے لئے یہ جائز نہیں کہ تم خود کسی پر جا کر حملہ کرو۔
پانچواں استنباط ان آیات سے یہ ہو تا ہے کہ دفاع بھی وہ جائز ہے جو مقرر حدود کے اندر ہو۔ یعنی دفاع میں بھی انسان
وَاقْتُلُوْ ھُمْ حَیْثُ



غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘o
پوری طرح آزاد نہیں۔ اس کے لئے بھی قیود اور شرائط ہیں اور ان قیود اور شرائط سے آزاد ہو کر جو دفاع کیا جائے وہ بھی ناجائز اور حرام ہوتا ہے ۔ مثلاً کوئی شخص کسی کو تھپڑ مارے تو جس شخص کو تھپڑ مارا گیا ہے اس کے لئے یہ درست نہ ہو گا کہ اس تھپڑ کی سزا کے لئے دوسرے شخص کا سر پھوڑ دے۔
چھٹی بات اس آیت سے یہ مستنبط ہوتی ہے کہ اگر کوئی ان قیود کو توڑے تو باوجود مظلوم ہونے کے خداتعالیٰ کی نظروں سے وہ گر جائیگا۔ کیونکہ فرمایا ہے اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ اگر تم دفاع میں بھی اعتداء سے کام لو اور خداتعالیٰ کی مقررہ قیود کو نظر انداز کر دو تو تم اللہ تعالیٰ کی محبت کھو بیٹھو گے اور اس کی نصرت تم سے جاتی رہے گی۔
۱۰۶؎ حل لغات:۔ اَلْفِتْنَۃُ کے معنے ہیں (۱) اَلْعَذَابُ ۔ عذاب (۲) اَلْاِبْتِلَاء۔ ابتلاء (۳) اِخْتِلَافُ النَّاسِ فِی الْآٰ رَائِ وَمَا یَقَعُ بَیْنَھُمْ مِنَ الْقِتَالِ۔ وہ لڑائی جو اختلافِ اراء کی وجہ سے لوگوں میں پیدا ہو۔ (اقرب)
تفسیر:۔ مخالفین اسلام کے نزدیک اس آیت میںمسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جہاں کوئی کافر ملے اُسے مار ڈالو۔ مگر اس میں ہر گز یہ نہیں کہا گیا کہ جہاں کوئی کافر ملے اسے تہ تیغ کر دو۔ اس جگہ وَاقْتُلُوْ ھُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْ ھُمْ کے حکم کے ماتحت صرف وہ کفار آتے ہیں جن کا پہلے ذکر آچکا ہے اور جنہوں نے مسلمانوں سے عملاً جنگ شروع کر دی تھی ایسے لوگوں کے ساتھ لڑائی جاری رکھنے میں نہ اخلاقاً کوئی اعتراض ہو سکتا ہے اور نہ شرعًا۔ اور حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْ ھُمْ میں اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جہاں کہیں بھی تمہاری اور ان کی جنگ کے ذریعہ سے مٹھ بھیڑ ہو جائے وہاں تم ان سے جنگ کرو۔ یہ نہیں کہ اِکا دُکا ملنے پر حملہ کرتے پھرو۔ بلکہ تمہاری جنگ صرف باقاعدہ فوج کے ساتھ ہونی چاہیے۔ خواہ وہ فوج ہو جس نے مقابلہ میں ابتداء کی ہے یا اُسی فوج کا کوئی دوسرا حصہ ہو جو اس کی مدد کر رہا ہو۔
پھر فرمایا وَاَخْرِجُوْ ھُمْ مِّنْ حَیْثُ اَخْرَ جُوْ کُمْ اور تم بھی انیہں اس جگہ سے نکال دو جس جگہ سے انہوں نے تم کو نکالا ہے۔ ان الفاظ میں یہ پیشگوئی مخفی تھی کہ ایک زمانہ میں مسلمان ایسی طاقت حاصل کرلیں گے کہ وہی مقام جہاں سے انہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ کو نکلنے پر مجبور کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ اس میں مسلمانوں کو فاتحانہ طور پر داخل کرے گا۔ اور یا تو مسلمان کفار کے مظالم کا تختہ مشق بنے ہوئے تھے اور یا کفار مسلمانوں کی منتیں کرتے اور ان کے آگے ہاتھ جوڑتے دکھائی دینگے۔ اسی غلبہ کی طرف سورۃ توبہ میں بھی بَرَآئَ ۃ’‘ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖٓ اِلَی الَّذِیْنَ عَاھَدْ تُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ کے الفاظ میں اشارہ کیا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ مشرکین مکہ کہتے ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ تو یہ ہے کہ میں مکی نبی ہوں جس کی پیشگوئی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی تھی ۔ مگر یہ تو مکہ چھوڑ کر مدینہ چلا گیا ہے۔ پھر یہ پیشگوئی کس طرح پوری ہوئی۔ اللہ تعالیٰ اس کے جواب میں فرماتا ہے کہ اب خداتعالیٰ نے عرب کو فتح کر کے جس کے بغیر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں نہیں آسکتے تھے اس اعتراض کو دور کر دیا ہے اور آپؐ اور آپؐ کے ساتھی اس الزام سے بری ہو چکے ہیں اس کے بعد فرمایا فَسِیْحُوْا فِی الْاَرْضِ اَرْبَعَۃَ اَشْھُرٍ وَّ اعْلَمُوْآ اَنَّکُمْ غَیْرَ مُعْجِزِی اللّٰہَ۔ تم ملک عرب میں چار مہینے تک پھر کر دیکھ لو اور جان لو کہ تم اللہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کر سکتے یعنی اس سفر کے نتیجہ میں تمہیں اقرار کرنا پڑے گا کہ اسلام عرب کے کونہ کونہ پر غالب آچکا ہے۔ اور تمہارے تمام اعتراضات غلط ثابت ہو چکے ہیں۔ پس اَخْرِ جُوْ ھُمْ مِّنْ حَیْثُ اَخْرَ جُوْکُمْ میں اسی غلبہ کی پیشگوئی ہے اور مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ جس طرح انہوں نے تم کو ظالمانہ طور پر ملک سے نکالا ہے اسی طرح تم بھی ان کا تصرف وہاں سے ہٹا دو۔ اس جگہ اَخْرِ جُوْ ھُمْ سے ان کا نکالنا مراد نہیں۔ بلکہ ان کے تصرف کو مٹانا مرا دہے۔ کیونہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین مکہ کو وہاں سے نکالا نہیں بلکہ ان کی اولاد کو خود آپ نے مکہ میں رہنے کی اجازت دی۔ چنانچہ ابو جہل جو سب سے بڑا مشرک اور دشمن اسلام تھا فتح مکہ کے موقعہ پر اس کے بیٹے عکرمہ نے بھاگ کر ایبے سینیا جانے کا ارادہ کیا اور وہ مکہ سے چلا بھی گیا مگر اس کی بیوی ے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت حاصل کر لی اور وہ مکہ میں آزادنہ طور پر رہنے لگ گیا ۔پس چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل نے اس کی تشریح کر دی ہے اس لئے اَخْرِ جُوْ ھُمْ میں کفار کے جبری نکالنے کا کوئی حکم نہیں بلکہ وہاں سے ان کا تصرف دور کرنے کا ذکر ہے ۔ یا زیادہ سے زیادہ ایسے لوگوں کو نکالنے کا حکم ہے جو شریر ہوں اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں جاری رکھنے والے ہوں اور ایسے لوگوں کو دنیا کی ہر حکومت نکالتی ہے اور اس میں کسی قسم کا حرج نہیں سمجھتی۔
وَالْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ۔ پھر فرماتا ہے یاد رکھو قتل اور لڑائی کی نسبت دین کی وجہ سے کسی کو فتنہ میں ڈالنا زیادہ خطرناک گناہ ہے پس تم ایسای طریق مت اختیار کرو ۔ کیونکہ یہ بے دین لوگوں کا کام ہے۔
اس جگہ فتنہ سے مراد وہی دورِ آزمائش ہے جس میں سے مسلمان گذر رہے تھے۔ اور جس کا اس سے پہلے ان الفاظ میں ذکر آچکا ہے کہ کفار بالاوجہ محض دینی اختلاف کی وجہ سے مسلمانوں کو مارتے اور انہیںاپنے گھروں سے نکالتے ہیں۔ فرماتا ہے دین کی وجہ سے لوگوں کو دکھ دینا اور انہیں ان کے گھروں سے نکالنا دنیوی لڑائیوں اور عام سیاسی جنگوں کی نسبت کہ جن میں قومی حقوق وغیرہ کا سوال پیدا ہو جاتا ہے۔ بہت زیادہ ہولناک جرم ہے کیونکہ دنیا دین کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔
اور یہ بھی کہ فتنہ یعنی مومنوں کی تعذیب اس غرض سے کہ وہ پنے دین کو چھوڑ دیں قتل سے بڑھ کر ہے۔ کیا بلحاظ اس کے کہ دین کے معاملہ میں جان کچھ حقیقت نہیں رکھتی اور کیا بلحاظ اس کے کہ ایسے ظلم کا نتیجہ نہایت خطرناک فساد ہوتا ہے اور ذہنی آزادی جاتی رہتی ہے اور دلوں میں بغض پیدا ہو جاتا ہے۔ پس فرمایا کہ ان کو قتل کرنا کوئی ظلم نہیں کیونکہ قتال تو قتال سے ہی جائز ہو جاتا ہے اور یہ لوگ تو قتال سے بڑھ کر مذہبی دست اندازی اور مذہب کی خاطر تعزیب سے بھی کام لیتے یہں جو قتال سے بڑھ کر ہے۔
پھر اَلْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ میں اس طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ بیشک قتل ایک بہت بُرا فعل ہے۔ مگر فتنہ پیدا کرنا اس سے بھی زیادہ بُری چیز ہے کیونکہ اس سے لاکھوں بلکہ کڑوروں جانیں ضائع چلی جاتی ہیں۔ قتل کرنے سے تو صرف ایک یا چند جانیں ضائع ہوتی ہیں لیکن ایک فتنہ پر واز شخص بعض دفعہ ایسی بات کر دیتا ہے جس سے قومیں آپ میں لڑ پڑتی ہیں اور جماعتوں میں تفرقہ اور شقاق پیدا ہو جاتا ہے ۔ فتنہ باز لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے تو معمولی بات کہی تھی مگر ان کا ایک معمولی بات کہنا دراصل ایک زہر ہوتا ہے جس کا دور دور تک اثر پھیلتا ہے او رپھر اس سے خطرناک لڑائیاں شروع ہو جاتی ہں جن سے لاکھوں انسان موت کے گھاٹ اُتر جاتے ہیں۔ بیشک فتنہ شروع میں چھوٹا نظر آتا ہے مگر اس کا انجام بہت بڑا ہوتا ہے ۔ اسی لئے اسلام نے قتل سے بھی منع کیا ہے مگر فتنہ سے اس سے بھی زیادہ زور کے ساتھ منع کیا ہے۔ افسوس ہے کہ لوگ عام طور پر قتل سے تو بچنے کی کوشش کرتے ہیں مگر فتنہ سے بچنے کی کوشش نہیں کرتے حالانکہ جب تک لوگ یہ نہ سمجھیں کہ فتنہ قتل سے بھی بڑھ کر بُرا فعل ہے اس وقت تک دنیا میں امن قائم نہیںہ و سکتا۔
وَلَاتُقٰتِلُوْ ھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِالْحَرَامِ حَتّٰی یُقٰتِلُوْ کُمْ فِیْہِ۔ اب فرمات اہے کہ تم مسجد حرام کے پاس ان سے اس وقت تک جنگ نہ کرو جب تک کہ وہ خود جنگ کی ابتداء نہ کریں کیونکہ اس طرح حج اور عمرہ کے راستہ میں روک پیدا ہوتی ہے ۔ فَاِنْ قٰتَلُوْکُمْ فَاقْتُلُوْ ھُم ْہاں اگر وہ کود ایسی جنگ کی ابتداء کریں تو پھر تم مجبور ہو اور تمہیں جواب دینے کی اجازت ہے۔ گَذٰلِکَ جَزَآئُ الْکَافِرِیْنَ۔ اور جو لوگ عقل اور انصاف کے احکام کو رد کر دیتے ہیں ان کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرنا پڑتا ہے۔ اس آیت میں یہ ہدایت دی گئی کہ اس امر کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ مذہبی عبادتوں اور مذہبی فرائض کی ادائیگی میں روکیں پیدا نہ ہوں اگر دشمن کسی ایسی جگہ پر جنگ کی طرح نہ ڈالے جہاں جنگ کرنے سے مذہبی عبادتوں میں رخنہ پیدا ہوتا ہو تو مسلمانوں کو بھی اس جگہ جنگ نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن اگر دشمن خود مذہبی عبادت گاہوں کو لڑائی کا ذریعہ بنائے تو پھر مجبوری ہے۔
اس آیت میں اس طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ عبادتگاہوں کے اردگرد بھی لڑائی نیہں ہونی چاہیے ۔ کجا یہ کہ عبادت گاہوں پر براہ راست حملہ کیا جائے یا ان کو مسمار کیا جائے۔ یا ان کو توڑا جائے۔ ہاں اگر دشمن کود عبادت گاہوں کو لڑائی کا قلعہ بنا لے تو پھر ان کے نقصان کی ذمہ داری اس پر ہے مسلمانوں پر نہیں۔
فَاِنِ انْتَھَوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘ ہاں اگر انہیں ہوش آجائے اور وہ اس بات سے رُک جائیں تو اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا مہربان ہے یعنی اگر دشمن مذہبی مقامات میں لڑائی شروع کرنے کے بعد اس کے خطرناک نتائج کو سمجھ جائے اور مذہبی مقام سے نکل کر دوسری جگہ کو میدان جنگ بنالے تو مسلمانوں کو اس بہانہ سے ان کی مذہبی مقاموں کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے کہ اس جگہ پر پہلے ان کے دشمنوں نے لڑائی شروع کی تھی بلکہ فوراً ان مقامات کے ادب اور احترام کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے حملہ کا رُخ بدل دینا چاہیے۔
وَقٰتِلُوْھُمْ
عَلَے الظّٰلِمِیْنَo
۱۰۷؎ تفسیر:۔ فرماتا ہے چونکہ کفار تم سے لڑائی شروع کر چکے ہیں اس لئے تم بھی اس وقت تک لڑائی جاری رکھو جب تک کہ دین میں دخل اندازی کرنے کے طریق کو وہ چھوڑ نہ دیں۔ اور یہ تسلیم نہ کر لیں کہ دین کا معاملہ صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور اس میں جبر کرنا کسی انسان کے لئے جائز نہیں۔ اگر وہ یہ طریق اختیار کر لیں اور دین میں دخل اندازی سے باز آجائیں تو فوراً لڑائی بند کر دو کیونہ سزا صرف ظالموں کو دی جاتی ہے اور اگر وہ اس قسم کے ظلم سے باز آجائیں تو پھر ان سے لڑائی کرنا جائز نہیں ہو سکتا۔
یہ امر یاد رکھنا چا ہیے کہ پہلی دفعہ اللہ تعالیٰ نے اَلْفِتْنَۃُ فرمایا تھا اور کہا تھا کہ اَلْفِتْنَتُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ۔ مگر اس جگہ صرف فِتْنَۃ’‘ فرمایا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں فتنہ کفار اور قِتَال کا مقابلہ کرنا تاھ پاس معرفہ لانا ضروری تھا اور اس جگہ مقابلہ نہ تھا پس نکرہ لایا گیا تاکہ عظمتِ فتنہ پر دلالت کرے اور اس کے معنے یہ ہیں کہ تم اس وقت تک جنگ جاری رکھو جب تک کہ یہ عظیم الشان فتنہ دور نہ ہو جائے۔
بعض لوگوں نے اس کے یہ معنے کئے ہیں کہ تم یہاں تک لڑو کہ کفر باقی نہ رہے۔ لیکن یہ معنے غلط ہیں ۔ اس جگہ فتنہ سے مراد کفر نہیں بلکہ دین سے دخل اندازی ہے جس کا سورۃ الحج کی اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے کہ اُذِنَ لَلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا د وَاِنَّ اللّٰہَ عَلَی نَصْرِ ھِمْ لَقَدِیْرُ oلا اِلَّذِیْنَ اُخْرِجُوْامِنْ دِیَار ھِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ط وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسِ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّ مَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعَ وَّ صَلَوٰت’‘ وَّ مَسٰجِدُ یُذْ کَرْ فِیْھَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًاط (سورہ حج آیت ۴۰۔۴۱) یعنی اس لئے کہ مسلمانوں پر ظلم کیا گیا یعنی مسلمانوں جو جن سے دشمن نے لڑائی شروع کر رکھی ہے آج جنگ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ یقینا ان کی مدد کرنے پر قادر ہے۔ ہاں ان مسلمانوں کو جنگ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے جن کو ان کے گھروں سے بغیر کسی جرم کے نکال دیا گیا۔ ان کا صرف اتنا ہی جرم تھا (اگر یہ کوئی جرم ہے) کہ وہ کہتے تھے اللہ ہمارا رب ہے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ بعض ظالم لوگوں کو دوسرے عادل لوگوں کے ذریعہ سے ظلم سے روکتا نہ رہے تو گرجے عبارت گاہیں اور مسجدیں جن میں خدا تعالیٰ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے ظالموں کے ہاتھ سے تباہ ہو جائیں۔ پس دنیا میں مذہب کی آزادی قائم رکھنے کیلئے اللہ تعالیٰ مظلوموں کو اور ایسی قوموں کو جن کے خلاف دشمن پہلے جنگ کا اعلان کر دیتا ہے جنگ کی اجازت دیتا ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ لڑائی صرف اس وقت تک جاری رکھنی چاہیے جب تک فتنہ باقی رہے۔ یعنی لوگ تبدیل مذہب کے لئے ایک دوسرے کو مجبور کرتے رہیں ۔ اگر یہ حالات بدل جائیں مذہبی دست اندازی ختم ہو جائے اور دین کے معاملہ کو صرف ضمیر کامعاملہ قرار دیا جائے تو خواہ دشمن حملہ میں ابتداء کر چکا ہو سوائے دفاع کے اس کے ساتھ لڑائی نہیں کرنی
اَلشَّھْرُ الْحَرَامُ

مَعَ الْمُتَّقِیْنَo
چاہیے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہؓ کرام نے ابھی اس آیت کے یہی معنے سمجھے ہیں۔ چنانچہ بخاری میں آتا ہے کہ ایک شخص اس زمانہ میں جبکہ حضرت علی ؓاور معاویہؓ کے درمیان جنگ جاری تھی حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے پاس آکر کہنے لگا کہ آپ حضرت علیؓ کے زمانہ کی جنگوں میں کیوں شامل نہیں ہوتے حالانکہ قرآن کریم میں صاف حکم موجود ہے کہ وَقٰتِلُوْ ھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃ’‘۔ انہوں نے جواب دیا کہ فَعَلْنَا عَلیٰ عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلیَّ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَ کَانَ الْاِسْلَامُ قَلِیْلًا فَکَانَ الرَّجُلُ یُفْتَنُ فِیْ دِیْنِہٖ۔ اِمَّا قَتَلُوْہُ وَ اِمَّا یُعَذِّ بُوْہُ حَتَّی کَثُرَ الْاِسْلَامُ فَلَمْ تَکُنْ فِتْنَۃ’‘(بخار ی کتاب التفسیر) یعنی ہم نے یہ حکم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں پورا کر دیا ہے۔ جبکہ اسلام بہت قلیل تھا اور آدمی کو اس کے دین کی وجہ سے فتنہ میں ڈالا جاتا تھا یعنی یا تو اُسے قتل کیا جاتا تھا یا عذاب دیا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ اسلام پھیل گیا۔ پھر کسی کو فتنہ میں نہیں ڈالا جاتا تھا۔ اس سے صاف معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک فتنہ نہ رہنے سے یہ مراد ہے لوگ دینی معاملات میں جبرواکراہ سے ام نہ۰ لیں اور محض دین قبول کرنے کی وجہ سے نہ کسی کو قتل کریں۔ ور نہ کسی قسم کاعذاب دیں۔ اگر یہ معنے نہ ہوتے تو فَاِنِ انْتَھَوْا کیوں آتا۔ کیونکہ یہ تو لوگوں کے بتائے ہوئے معنوں کے خلاف پڑا ہے اور ہمارے معنوں کے مطابق ہے۔
وَیْکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ کے الفاظ نے بھی مذکورہ بالا حصہ کی تشریح کر دی اور بتا دیا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ دین کا اختیار کرنا اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہو جائے اور اس کے متعلق کسی کاور کا ڈر نہ ہو۔ گویا دین کے اختیار کرنے کے بارے میں ہرشخص کو کامل آزادی حاصل ہو جائے اور اگر لوگ مسلمان ہونا چاہیں تو وہ بغیر کسی خوف کے ہو سکیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس میں جبر کی تعلیم نیہں دی گئی۔ اگر جبر کی تعلیم ہوتی اور اس وقت تک جنگ جاری رکھنا ضروری ہوتا جب تک تمام لوگ مسلمان نہ ہو جائیں تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی مشرکوں سے صلح کے معاہدات نہ کرتے۔ پس یہ کہنا کہ اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ مشرکوں سے اس وقت تک لڑائی جاری رکھو جب تک کہ وہ مسلمان نہ ہو جائیں اور کفر اور شرک مٹ نہ جائے بالکل غلط ہے۔
۱۰۸؎ حل لغات:۔ اَلْحَرَامُ کے معنے ہیں اَلْمُمْنُوْعُ مِنْہُ۔ جس چیز سے روکا گیا ہو۔ (مفردات)
اِعْتَدُوْ ا عَلَیْہِ: عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ کسی فعل کے بدلہ کے لئے بھی وہی لفظ بولا جاتا ہے جو اس فعل کے لئے بولا جائے۔ چنانچہ صاحب مفردات نے اس موقعہ پر لکھا ہے کہ فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْ ا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا عْتَدٰی عَلَیْکُمْ اَیْ قَابِلُوْ ہُ بِحَسْبِ اِعْتِدَائِہٖ وَ تَجَاروِزُوْ ا اِلَیْہِ بِحَسْبِ تَجَاوُزِہٖ۔ یعنی اس کے معنے یہ ہیں کہ اسکی زیادتی کے مقابلہ میں اس کی زیادتی کے مطابق ہی سلوک کرو۔
وَاَنْفِقُوْا فِیْ
یُحِبُّ الْمُھْسِنِیْنَo
اس کا مفصل ذکر اَللّٰہُ یَسْتَھْزِیُٔ بِھِمْ(بقرہ آیت۱۶) میں گذر چکا ہے ۔ اس جگہ بھی جرم کے لئے جو لفظ بولا گیا ہے وہی سزا کیلئے لایا گیا ہے۔ پس اس کے معنے ظلم کے نہیں بلکہ ظلم کی سزا کے ہیں۔
تفسیر:۔ اس میں بتایا کہ اگر کفار حرمت والے مہینوں یعنی ذوالقعدہ۔ ذولحجہ، محرم اور رجب کا پاس کریں تو تم بھی کرو۔ اور اگر وہ نہ کریں۔ تو تمہارے لئے مجبوری ہے تم بھی مقابلہ میں اس وقت تک جنگ کر سکتے ہو جب تک کہ وہ اس سے باز نہ آجائیں۔
وَالْحُرُمٰتُ قِصَاص’‘۔ اس میں اصولی طور پر یہ تعلیم دی کہ جن چیزوں میں حرمت پائی جاتی ہے ان میں بھی قصاص کا طریق اختیار کیا جا سکتا ہے۔ یہ نہیں کہ کسی چیز کی حرمت قصاص کو بالکل باطل کر دے۔ چنانچہ آغے اس کی تشریح کر دی اور صاف طور پر فرمادیا کہ فَمَنِ اعْتدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَااعْتَدٰ عَلَیْکُمْ یعنی اگر وہ تم پر زیادتی کریں اور تمہارے مقدس مقامات کا پاس نہ کریں تو تمہارے لئے بھی جائز ہے کہ تم ان کی شرارت اور زیادتی کے مطابق نہیں سزا دو۔ اور ان کے کسی مقام کی تقدیس کی پروا نہ کرو کیونہ انہوں نے خود حرمت کو توڑا ہے۔ مگر ساتھ ہی فرمایا کہ وَاتَّقُواللّٰہَ وَاعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ ۔ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ اور جائز حد سے تجاوز نہ کرو۔ اور اس حقیقت کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھو کہ اللہ تعالیٰ متقی لوگوں کا ساتھ دیتا ہے۔ یعنی حرمات کی ہتک کا بدلہ لینے کی تو تنہیں اجازت ہے۔ مگر تقویٰ کا بلند مقام یہ ہے کہ تم اس حکم کو اپنے سامنے رکھو کہ فَمَنْ عَفٰی وَاَصْلَحَ فَاَ جْرُہ‘ عَلَی اللّٰہِ یعنی جو شخص دشمن کو معاف کر دے اور اس کی معافی کے نتیجہ میں دوسرے کی اصلاح ہوتی ہو تو وہ یقیناً ایک مستحسن کام کرتا ہے اور اس کا اجر اللہ تعالیٰ پر ہے۔
یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ عربی زبان میں بعض دفعہ جزائے جُرم کے لئے بھی وہی لفظ استعمال کر لیا جاتا ہے جو جرم کے متعلق استعمال ہو ا ہو۔ اسی قاعدہ کے مطابق یہاںفَمَنِ اعْتدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَااعْتَدٰ عَلَیْکُمْ کہا گیا ہے جس کے لفظی معنے تو یہ ہیں کہ جو شخص تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر اتنی ہی زیادتی کرو جتنی کہ تم پر کی گئی ہے۔ مگر مراد زیادتی کا بدلہ لینا ہے (اسکی تفصیل کے لیے دیکھیں تفسیر کبیر جلد اول صفحہ۱۶۶)
۱۰۹؎ تفسیر:۔ اس آیت کا مفہوم سمجھنے میں لوگوں کو بڑی غلط فہمی ہوئی ہے ۔ انہیں خداتعالیٰ کی رہ میں جہاں کوئی تکلیف پیش آتی ہے وہ فورًا کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے والی بات ہے ہم اس میں کس طرح حصہ لے سکتے ہیں۔ حالان اس کیہرگیز یہ معنے نہیں کہ جہاں موت کا ڈر ہو وہاں سے مسلمان کو بھاگ جانا چاہیے اور اسے بزدلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ جبدشمن سے لڑائیاں ہو رہی ہوں تو اس وقت اپنے مالوں کو خوب خرچ رکرو۔ اگر تم اپنے اموال کو روک لو گے تو اپنے ہاتھوں اپنی موت کا سامان پیدا کرو گے۔ چنانچہ احادیث میں حضرت ابو ایوب انصاری سے مروی ہے کہ انہوںنے اس وقت جب کہ وہ قسطنطنیہ فتح کرنے کیلئے گئے ہوئے تھے کہا کہ یہ آیت ہم انصار کے بارہ میں نازل ہوئی تھی اور پھر انہوں نے بتایا کہ پہلے توہم خداتعالیٰ کے رستہ میں اپنے اموال خوب خرچ کیا کرتے تھے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو تقویت اور عزت دی اور مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہوا تو قَلْنَا ھَلْ نُقِیْمُ فِیْ اَ مْوَالِنَا وَنُصْلِحْھَا (ابودائود جلد اول کتاب الجہاد) ہم نے کہا کہ اگر اب ہم اپنے مالوں کی حفاظت کریں اور اسے جمع کریں تو یہ اچھا ہو گا۔ اس وقت یہ آیت اُتری کہ تم اپنی جانوں کو ہلاکت میں ڈالنا چاہتے ہو۔ پس اپنے مالوں کو جمع نہ کرو۔ بلکہ انہیں اللہ تعالیٰ کے رستہ میں خوب خرچ کرو۔ ورنہ تمہاری جانیں ضائع چلی جائیں گی۔ دشمن تم پر چڑھ آئیں گے اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تم ہلاک ہو جائو گے۔
وَاَحْسِنُوْا: اور اپنے فرائض کو عمدگی سے ادا کرو یا اگر اللہ تعالیٰ نے تمہیں مالی وسعت عطا فرمائی ہے تو اپنے نادار اور غریب بھائیوں کے اخراجات بھی برداشت کرو اور نیکی کی نئی سے نئی راہیں تلاش کرتے رہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔
پھر اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے غرباء کی امداد کی طرف بھی توجہ دلائی ہے اور فرمایا ہے کہ تم زکوٰۃ اور عُشر وغیرہ مقررہ ٹیکس بھی دو مگر اس کے علاوہ ہم تم سے بعض طوعی ٹیکس بھی مانگتے ہیں۔ چنانچہ ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ اَنْفِقُوْ ا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔ ہمیشہ غرباء کی امداد کیلئے روپیہ دیتے رہو۔ وَلَاتُلْقْوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ اور اپنے نفسوں کو ہلاکت میں مت ڈالو۔ یعنی اے مالدارو! اگر تم اپنے زائد مال خوشی سے دے دو گے تو وہ تو زائد ہی ہیں تم کو کوئی حقیقی نقصان نہیں پہنچے گا۔ لیکن اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو ہلاک ہو جائو گے۔ یہ الفاظ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے زارِروس کے ساتھ ہونے والے واقعات کا پورا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا ہے۔ اور فرمایا ہے کہ اگر ایسا نہ کرو گے تو جو کچھ زرِ روس اور روسی امراء یا فرانس کے امراء کا حال ہوا وہی تمہارا ہو گا۔ آخر عوام ایک دن تنگ آکر لوٹ مار پر اُتر آئیں گے۔ اور شاہ پوری محاورہ کے مطابق دُعائے خیر پڑھ دیں گے۔ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس محاورہ کی تشریح یہ بیان کرتے تھے کہ ہمارے علاقے میں کچھ مدت پہلے زمیندار بنیئے سے قرض لیتے جاتے تھے اور بنیا بھی دیتا جاتا تھا کچھ عرصہ تک تو انہیں اس کا احساس نہ ہوتا۔ مگر جب سب علاقہ اس بنیئے کا مقروض ہو جاتا اور زمینداروں کی سب آمد اس کے قبضہ میں چلی جاتی تو یہ دیکھ کر اس علاقے کا کوئی بڑا زمیندار تمام چودھریوں کو اکٹھا کرتا اور کہتا کہ بتائو اس بنیئے کا قرض کتنا ہے۔ وہ بتاتے کہ اتنا قرض ہے اس پر وہ دریافت کرتا کہ اچھا پھر اس قرضے کے اترنے کا کوئی ذریعہ ہے یا نہیں وہ جواب دیتے کہ ہمیں تو کوئی ذریعہ نظر نہیں آتا۔ اس پر وہ کہتا کہ اچھا تو پھر ’’دُعائے خیر پڑھ دو‘‘۔ چنانچہ وہ سب دُعائے خیر پڑھ دیتے۔ اور اس کے بعد ہتھیار لے کر بنیئے کے مکان کی طرف چل پڑتے اور اُسے قتل کر دیتے اور اس کے بہی کھانے سب جلا دیتے۔
اللہ تعالیٰ اس آیت میں ایسی ہی حالت کی طرف اشارہ فرماتا ہے کہ دیکھو ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ اگر تمہارے پاس زائد مال ہو تو اُسے خداتعالیٰ کے راستہ میں خرچ کر دیا کرو۔ اور اپنی جانوں پر ہلاکت میں نہ ڈالو۔ یعنی بے شک کمائو تو خوشی سے مگر اس دولت کو اپنے گھر میں جمع نہ رکھا کرو۔ ورنہ کسی دن لوگ تمہارے خلاف اُٹھ کھڑے ہونگے اور تم ہلاک ہو جائو گے۔
پھر فرماتا ہے ۔ وَاَحْسِنُوْا۔ بلکہ اس سے بڑھ کر ہم تمہیں یہ حکم دیتے ہیں کہ تم نیکی کرو۔ اور وہ اس طرح کہ تم خود اپنی ضرورتوں کو کم کر کے اور مال بچا کر خداتعالیٰ کی راہ میں دے دیا کرو۔ مگر یاد رکھو کہ یہ عمل تم لوگوں سے ڈر کر نہ کرو بلکہ خوشی سے کرو۔ اگر تم ڈر کر کرو گے تو غریبوں کی مدد تو ہو جائے گی مگر خداتعالیٰ خوش نہیں ہو گا۔ لیکن اگر خوشی سے یہ قربانی کرو گے تو غریب بھی خوش ہونگے ۔ تم بھی ہلاکت سے بچ جائو گے اور خداتعالیٰ بھی تم پر خوش ہو گا۔
وَاَتِمُّواالْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ ط








پھر فرمایا ہے اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ اگر تمہارے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ پھر ہماری کمائی کا صلہ ہم کو کیا ملا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا صلہ مال سے زیادہ ملے گا۔ اور وہ تمہارے پیدا کرنے والے خدا کی محبت ہے۔ تمہاری دنیا کے ساتھ تمہاری عاقبت بھی درست ہو جائیگی۔
یہ معنے تو سیاقِ کلام کے لحاظ سے ہیں لیکن اس کے ایک معنے صرف اس ٹکڑہ آیت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ہیں کہ عبادات میں یا کھانے پینے میں یا محنت و مشقت میں یا صفائی و طہارت میں کبھی کوئی ایسی راہ احتیار نہ کرو۔جس کا نتیجہ تمہاری صحت یا تمہاری جان یا تمہاری عقل یا تمہارے اخلاق کے حق میں بُرا نکلے۔ تَھْلُکَۃ کا لفظ جو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے استعمال کیا ہے اس کے معنے کسی ایسے فعل کے ہوتے ہیں جس کا انجام ہلاکت ہو۔ اور نتیجہ بُرا نکلے۔ پس اس لفظ کے استعمال کرنے سے قرآن کریم نے اس طرف بھی اشارہ فرمایا ہے کہ اسلام دین یا عزت یا تمدن کی حفاظت کے لئے انسان کو اپنی جان خطرہ میں ڈالنے سے نہیںر وکتا بلکہ ایسے کاموں سے روکتا ہے جن کا کوئی نیک نتیجہ برآمد ہونے کی امید نہ ہو۔ اور جن میں انسان کی جان یا کسی اور مفید شے کے بلاوجہ برباد ہونیکا خطرہ ہو۔



شَدِیْدُ الْعِقَابِo
۱۱۰؎ تفسیر:۔ یہاں سے حج اور عمرہ کے احکام کا آغازہوتا ہے۔ حج اسلامی ارکان میں سے ایک اہم رُکن ہے۔ اور ہر شخص جو بیت اللہ کا حج کرنا چاہے ۔ اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ میقات پر پہنچنے کے بعد احرام باندھ لے۔ میقات ان مقامات کو کہتے ہیں جہاں پہنچنے پر اسلامی ہدایات کے مطابق حاجیوں کو احرام باندھنا پڑتا ہے۔ مدینہ منورہ کی طرف سے آنے والوں کے لئے ذوالحلیفہ شام کی طرف سے آنے والوں کے لئے جُحفہ۔ عراق کی طرف سے آنے والوں کے لئے ذات عرق۔ نجد کی طرف سے آنیوالوں کے لئے قرن المنازل اور یمن کی طرف سے آنے والوں کے لئے یلملم میقات مقرر ہیں۔ پاکستان سے جانے والوں کیلئے یلملم ہی میقات مقرر ہے اور حاجیوں کو جہاز میں ہی حرام باندھنا پڑتا ہے۔ جو لوگ ان میقات کے اندر رہتے ہیں انہیں احرام کے لئے بارہ جانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ اپنی اپنی جگہوں سے ہی احرام باندھ سکتے ہیں۔ احرام کا طریق یہ ہے کہ انسان حجمت بنو کر غسل کر کرے۔ خوشبو لگائے۔ اور اس کے بعد سلے ہوئے کپڑے اتار کر ایک چادر تہہ بند کے طور پر کمر سے باندھ لے اور دوسری چادر جس کے اوپر اوڑھ لے ۔ سر کو ننگا رکھے اور دور کعت نفل پڑھے اور اس کے بعد اپنے اوقات کا اکثر حصہ تکبیر و تلبیہ اور تسبیح و تحمید میں بسر کرے اور بار بار لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ اِنَّ الْحَمْدَ وَالنَّمَعْۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَاشَرِیکَ لَکَ لَبَّیْکَ کہتا رہے۔ ہر نماز کے بعد خصوصیت کے ساتھ بلند آواز کے ساتھ تلبیہ کہنا چاہیے۔ محرم کے لئے سِلے ہوئے کپڑے یعنی قمیض شلوار پاجامہ یا کوٹ وغیرہ پہننا۔ سر کو ڈھانپنا۔ جرابیں پہننا۔ خوشبو لگانا خوشبودار رنگوں سے رنگے کپڑے پہننا۔ سرمنڈوانا ناخن اتارنا جو میں نکالنا یا انکو مارنا جنگل کے کسی جانور کا شکار کرنا ۔ شکار کے جانور کو ذبح کرنا۔ کسی کو شکار کیلئے کہنا یا کسی شکاری کی مدد کرنا۔ شہوانی تعلقات قائم کرنا یا شہوانی گفتگو کرنا۔فحش کلامی کرنا یا فحش اشعار پڑھنا۔ فسق و فجور اور لڑائی جھگڑے میں حصلہ لینا۔ یہ سب امور ناجائز ہوتے ہیں۔ البتہ محرم غسل کر سکتا ہے کپرے دھو سکتا ہے اور دریائی جانور کا شکار بھی کر سکتا ہے۔ محرم عورت کے لئے بھی ان ہدایات کی پابندی ضروری ہے ۔ البتہ اُسے بے سلے کپڑے پہننے کی ضرورت نہیں۔ اُسے اپنا معمولی لباس یعنی قمیض پاجامہ اور دوپٹہ ہی رکھنا چاہیے البتہ وہ برقعہ نہیں اوڑھ سکتی۔
جب حاجی حدودِ حرم میں داخل ہو (یعنی مکہ معظمہ اور اس کے ارد گرد کے علاقہ میں جو حرم کہلاتا ہے) تو وہ آدابِ حرم کو ملحوظ رکھے۔ اور جب بیت اللہ پر پہلی مرتبہ نظر پڑے تو اللہ تعالیٰ کے حضور فوراًً دُعا کیلئے اپنے ہاتھ اُٹھا دے کیونکہ وہ قبولیت دُعا کا خاص وقت ہوتاہے اس کے بعد جب بیت اللہ کے پاس پہنچے تو حجرا سود سے خانہ کعبہ کا سات مرتبہ طواف کرے۔ طواف کرتے ہوئے اگر ممکن ہو تو ہر دفعہ حجرا سود کو بوسہ دینا چاہیے۔ اور اگر ممکن نہ ہو تو صرف ہاتھ سے اس کی طرف اشارہ کر دینابھی کافی ہے۔ طواف سے فارغ ہونے کے بعد دو رکعت نفل پڑھے اور پھر صفا اور مروہ کے درمیان ساتھ مرتبہ چکر لگائے۔ صفا سے مروہ تک ایک چکر شمار ہو گا اور مروہ سے صفا تک دوسرا پھر مکہ معظمہ میں ٹھہر کر ایام حج کا انتظار کر جب ذولحجہ کی آٹھویں تاریخ ہو تو وہ مکہ سے منیٰ چلا جائے اوروہاں پانچوں نمازیں پرھے پھروہاں سے دوسری صبح نماز فجر ادا کرنے کے بعد عرفات کی طرف ایسے وقت میں چلے کہ ہواں بعد زواں داخل ہو اور ظہر و عصر کی نمازیں وہاں جمع کر کے ادا کرے اور سورج کے ڈوبتے تک عرفات میں ہی رہے افور دعائوں اور عبادت میں اپنا وقت گذارے اس کے بعد مزدلفہ مقام میں آئے۔ جہاں مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کر کے پڑھے او وہاں رات بھر عبادت اور دعائوں میں بسر کرے۔ فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد سورج نکلنے سے پہلے مشعر الحرام پر جا کر دُعا کرے۔ اور وہاں سے سورج نکلنے سے پہلے ہی روانہ ہو کر منیٰ پہنچے اور وہاں جا کر جمرۃ العقبہ پر سات کنکریاں مارے اور ہر دفعہ کنکر پھینکنے کے ساتھ تکبیر کہے۔ مگر یہ کام سورج نکلنے کے بعد کرے۔ یہاں سے فارغ ہو کر قربانی کرے۔ سر منڈاوئے اور پھر اسی دن شام تک یا اگلے دن مکہ مکرمہ جا کر خانہ کعبہ کا طواف کرے۔ افضل یہ ہے کہ اسی دن شام تک جا کر کعبہ کا طواف کر آئے۔ پھر دوسرے دن منیٰ میں واپس آجائے۔ اور بعد زوال جمرۃ الدنیا۔ جمرۃ الوسطیٰ اور جمرۃ العقبہ پر سات سات پتھر مارے۔ اسی طرح تیسرے دن اور پھر چوتھے دن بھی جو ایام تشریق کہلاتے ہیں یعنی گیارھویں بارھویں اور تیرھویں ذوالحج کو تیرھویں تاریخ کو منیٰ سے واپس آجائے اور بیت اللہ کا طواف الوداع کرے۔ جو شخص یہ تمام مناسک بجا لانئے وہ فریضہ حج ادا کر لیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے حضور سر خرو ہو جاتا ہے۔
عمر ہ بھی یہی ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص حرم کے اندر رہنے والا ہو تو وہ حرم سے اور اگر باہر کا ہو تو میقات سے احرام باندھے خانہ کعبہ کا سات مرتبہ طواف کرے۔ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرے اور پھر حلق یا قصر کر دے۔ اور اگر قربانی کرنا چاہے تو قربانی بھی کر دے۔ لیکن عمرہ میں قربانی لازمی نہیںہوتی۔ حج اور عمرہ میں یہ فرق ہے کہ عمرہ کے لئے کسی خاص وقت یا مہینہ کی قید نہیں بلکہ وہ سال کے ہر حصہ میں ہو سکتا ہے جبکہ حج صرف شوال ۔ ذوالقعدہ اور ذولحج میں ہی کیا جا سکتا ہے۔ ترمذی میں حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عمرہ کے متعلق پوچھا کہ اَوَاجِبَۃ‘؟ کیا عمرہ واجب ہے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ لَا وَ اِنْ تَِعْتَمِرُوْ اخَیْر’‘ لَّکُمْ عمرہ اور واجب تو نہیں۔ لیکن اگر تم عمرہ کرو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔
فَاِنْ اُحْصِرْ تُمْ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْھَدْیِ۔ اس میں بتایا کہ اگر حج یا عمرہ کرنے والا کوئی شخص بیماری کی وجہ سے یا جنگ کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے راستہ میں ہی روک دیا جائے اور وہ مکہ مکرمہ جا کر حج یا عمرہ نہ کر سکے تو پھر جو قربانی بھی میسر آئے اُسے دے دینی چاہیے اور اس وقت تک احرام نہیں کھولنا چاہیے جب تک کہ قربانی محلہ نہ پہنچ جائے۔ یعنی اس جگہ پر جہاں قربانی نے ذبح ہونا ہے۔ ابن القاسم کا قول ہے کہ اگر قربانی ساتھ ہو تب قربانی دے ورنہ نہیں۔ اور جمہور کا قول ہے کہ جس جگہ روکا جائے وہیں قربانی کر دے اور سر منڈوا ڈالے جو سب سے آخر ی عمل ہے اس کے بعد احرام کھول دیا جاتا ہے (بحر محیط جلد ۲ صفحہ۷۳) امام شافعی اور امام مالک کے نزدیک بھی محلہ سے مراد وہی جگہ ہے جہاں حاجی کو روک دیا گیا ہو۔ لیکن امام ابو حنیفہ کے نزدیک حرم ہے۔
میرے نزدیک یہ جھگڑا فضول ہے کیونکہ اگر تو جنگ ہو اور دشمن نے اُسے روکا ہو تو وہ اس کی قربانی کو آگے کیسے جانے دیگا۔ ایسی صورت میں وہ جہاں روکا جائے وہیں قربانی کر کے حلق کر دے لیکن اگر بیماری کے سبب سے حاجی کو روکا گیا ہو اور وہ قربانی آگے بھجوا سکتا ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ قرنانی کے حرم پہنچنے تک سر نہ منڈوائے اور کوشش کرے کہ وہ حرم کے اندر ہی ذبح ہو۔ اس کے بعد حلق کر دے ۔ ضیمنی طور پر اس آیت میں اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا تھا کہ ایک وقت آنے والا ہے جب مسلمانوں کو بیت اللہ کی زیارت سے جبرًا روک دیا جائیگا لیکن اس کے بد اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو کفار پر فتح عطا فرمائیگا۔ اور وہ امن سے حج بیت اللہ کر سکیں گے۔ چنانچہ صلح حُدییبہ میں ایسا ہی ہوا۔ باوجود اس کے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صرف طواف کی نیت سے تشریف لے گئے تھے ۔ قریش نے اطلاع ملنے پر چیتوں کی کھالیں پہن لیں اور اپنی بیویوں اور بچوں کو ساتھ لے لیا اور قسمیں کھائیں کہ وہ مر جائیں گے مگر آپؐ کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دینگے۔ آخر یہ معاہد ہ طے پایا کہ اس سال مسلمان مکہ میں داخل ہوئے بغیر واپس چلے جائیں اور اگلے سال آکر طواف کر لیں۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام صحابہؓ واپس چلے گئے مگر ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ مکہ فتح ہو گیا اور مسلمان آزادی کے ساتھ آنے جانے لگے۔
فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ بِہٖٓ اَذًی مِّنْ رَّاسِہٖ فَفِدْ یَۃ’‘ مِّنْ صِیَامٍ اَوْ صَدَ قَۃٍ اَوْ نُسُکٍ۔ فرماتا ہے۔ اگر کوئی شخص تم میں سے بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو جس کی وجہ سے اُسے سر منڈوانا پڑے۔ جیسے اس کے سر میں جُوئیں پڑ جائیں یا پھوڑے نکل آئیں تو وہ سر منڈوا سکتا ہے۔ مگر اس صورت میں اسے صیام یا صدقہ یا قربانی کا فدیہ دینا پڑے گا۔ قرآن کریم نے فدیہ کی تینوں اقسام کو غیر معین رکھا ہے۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد سے اس کی تعیین ہو جاتی ہے حدیثوں میں آتا ہے کہ کعب بن عجرہؓ ایک صحابی تھے ان کے سر میں جُوئیں پڑ گئیں۔ اور ان کی اتنی کثرت ہو گئی کہ جو میں ان کے منہ پر گرتی تھیں وہ کہتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ کر فرمایا۔ اے کعب! تجھے ان جوئوں کی وجہ سے بہت تکلیف ہے تو سر منڈوا دے اور صُمْ ثَلَاثَۃَ اَیَّامٍ اَوْ اَطْعِمْ شَتَّۃَ مَسَاکِیْنَ اَوْ اُنْسُکْ شَاۃً۔ تو فدیہ کے طور پر تین دن کے روزے رکھ لے چھ مسکینوں کو کھانا کھلا دے یا ایک بکری کی قربانی دے دے۔
میرے نزدیک اس آیت میں جو فدیہ کی ترتیب ہے وہ امارت اور غربت کے لحاظ سے ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص غریب ہو تو وہ تین دن کے روزے رکھ لے۔ اگر متوسط درجہ کا ہو تو چھ مسکینوں کو کھانا کھلا دے اور اگر مالدار ہوت و قربانی دے دے۔ بہر حال قربانی مقدم ہے اور اس کے بعد صدقہ ہے اور اس کے بعد روزے ہیں اور یہ ترتیب درجہ کی بلندی کے لحاظ سے ہے ۔ یعنی ادنی ٰ فدیہ یہ ہے کہ چھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ اور اس سے اعلیٰ فدیہ یہ ہے کہ ایک قربانی دے دے۔ اور یہ حکم محصر مَحِلَّہُ تک ختم ہو گیا ہے۔
فَاِذَ اَمنْتُمْ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ اِلَی الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْھَدْیِ۔ فرماتا ہے جب جنگ ختم ہو جائے یا دوسری روکاوٹیں دور ہو جائیں تو اس کے بعد جو شخص عمرہ کو حج کے ساتھ ملا کر فائدہ اُٹھائے اور قرِان یا تمتع کر تو جو قربانی واجب ہے۔ لیکن اکیلے عمرہ یا حج میں واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔ اور اگر ان میں سے کسی کی نیت کر کے جائے اور کسی وجہ سے روکا جائے تو اس پر قربانی واجب ہو گی اور جب تک قربانی ذبح نہ ہو اس کے لئے ضروری ہو گا کہ وہ سر نہ منڈوائے ۔ ہاں اگر قربانی وہاں پہنچ نہ جائے اس وقت تک سر نہ منڈائے۔
غرض اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمتع اور قِران کی خصوصیات جو خالی حج اور خالی عمرہ کے مقابلہ میں ہیں بیان فرمائی ہیں۔ اور فَاِ ذَا اَمِنْتُمْ کے الفاظ اس لئے بڑھائے ہیں کہ اس حکم کو پہلے حکم کا حصہ نہ سمجھ لیا جائے۔ اس حکم کو احصار کے ذکر کے بعد اس لئے بیان کیا کہ اس صورت میں بلا احصار قربانی ہونی چاہیے اور حج اور عمرہ میں احصار سے قربانی ہوتی ہے ورنہ نہیں۔ اس لئے اس کو احصار کے ذکر کے بعد بیان کیا۔
اس جگہ تمتع اور قِران کی یہ خصوصیات بیان کی گئی ہیں کہ ان میں قربانی ضروری ہو گی خواہ احصار نہ ہی ہوا ہو۔ اور جسے اس کی توفیق نہ ہو وہ جیسا کہ اگلی آیت میں بیان کیا گیا ہے تین دن کے روزے مکہ میں اور سات دن کے روزے واپس آکر رکھے۔
فرماتا ہے فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَا مُ ثَلَاثَۃِ اَیَّامٍ فِی الْحَجِّ۔ (۱) بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ تین دن کے روزے ذولحج کی ساتویں ۔ آٹھویں اور نویں تاریک کو رکھے جائیں (۲) حضرت امام ابو حنیفہ ؓ کہتے ہیں کہ اگر وہ ان ایام میں روزے نہیںرکھیگا تو اس پر قربانی بھی واجب ہو گی (۳) بعض کہتے ہیں کہ روزے چونکہ قربانی کے بدلہ میں ہیں اس لئے حج کے بعدرکھنے چاہیں (۴) بعض کہتے ہیں کہ یہ روزے واپسی سے پہلے مکہ میں ہی رکھنے چاہیں (۵) بعض نے احرام عمرہ اور احرام حج کے درمیانی عرصہ میں روزے رکھنے کو کہا ہے۔ (بحر محیط جلد ۲ صفحہ۷۸) میری نزدیک یہ روزے ایام تشریق یعنی گیارھویں بارھویں اور تیرھویں ذولحجہ کو رکھنے چاہیں اور فِی الْحَجِّ سے مراد اس جگہ فِیْ اَیَّامٍ ہے۔ باقی سات روزے گھر پر بھی رکھے جا سکتے ہیں ۔ اس جگہ تِلْکَ عَشَرَ ۃ’‘ کَا مَلَۃ’‘ کا فقرہ اس لئے زائد کیا گیا ہے کہ وَسَبْعَۃٍ کی جگہ اَوْ نہ سمجھ لیا جائے اور غلطی سے یہ معنے نہ کر لئے جائیں کہ وہاں رکھے تو تین رکھ اور گھر رکھے تو سات رکھے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے آخر میں تِلْکَ عَشَرَ ۃ’‘ کَا مَلَۃ’‘ فرما کر بتا دیا کہ صرف تین یا سات روزے رکھنا مراد نہیں بلکہ پورے دس روزے رکھنے مراد ہیں یا یہ الفاظ تاکید کے لئے استعمال کئے گئے ہیں۔ اور تِلْکَ عَشَرَۃ’‘ کَامِلَۃ’‘ کے یہ معنے ہیں کہ یہ رعزے ثواب یا قربانی کے قام مقام ہونے کے لحاظ سے کامل فدیہ ہیں۔
ذٰلِکَ لَمَنْ لَّمْ یَکُنْ اَھْلُہ‘ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فرماتا ہے یہ حکم یعنی تمتع کا صرف باہر کے لوگوں کے لئے ہے کیونکہ ان کو آنے جانے میں تکلیف ہوتی ہے مکہ والے تو ہر وقت عمرہ کر سکتے ہیں ان کے لئے تمتع یا قران نہیں ہے۔
اس آیت کے بارہ میں مفسرین میں بہت کچھ اختلاف پایا جاتا ہے (۱) بعض کہتے ہیں کہ قربانی نہ ملنے کی صورت میں روزوں کا حکم صرف آفاقیوں کے لئے ہے مکہ والوں کے لئے نہیں۔ کیونکہ وہ تو اپنے شہر میں ہی قربانی مہیا کر سکتے ہیں۔ یہ امام شافعی کا مذہب ہے۔ (۲) بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ آیت روزوں کے متعلق ہے ۔ یعنی روزوں کا حکم اہل مکہ کے لئے نہیں بلکہ صرف باہر والوں کے لئے ہے۔ گویا انہوں نے صیام کو ذٰلِکَ کے ماتحت رکھا ہے۔ مگر میرے نزدیک یہ دونوں درست نہیں کیونکہ اس صورت میں مکہ والوں کو سہولت رہتی ہے (۳) امام ابو حنیفہ ؓ کہتے ہیں کہ اس سے تمتع اور قِران والے احکام مراد ہیںجن کا ذکر فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃ، اِلَی الْحَجِّ میں آچکا ہے اور ا سک یمعنے یہ ہیں کہ تمتع اور قِران اہل مکہ کے لئے جائز نہیں۔ میرے نزدیک امام ابو حنیفہ کے معنے زیادہ درست ہیں اور عقل بھی انہی کی تائید کر تی ہے۔ کیونکہ مکہ والے تو ہر وقت عمرہ کر سکتے ہیں۔
اس کے بعد حاَضِرِ الْمَسْجِدٍ الْحِرَامِ میں بھی اختلاف ہے کہ ان سے کون لوگ مراد ہیں (۱) حضرت ابن عباسؓ اور مجاہد کہتے ہیں کہ اس سے تمام اہل حرم مرا د ہیں (۲) عطاء کہتیہ یں کہ اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو ہر جہت سے مواقیت کے اندر
اَلْحَجُّ اَشْھُر’‘


یٰٓا ُولِی الْاَ لْبَابِo
رہتے ہیں (۳)زہری کہتے ہیں کہ ایک یا دو دن کے سفر تک رہنے والے مراد ہیں (۴)بعض کہتے ہیں کہ اس سے صرف اہل مکہ مراد ہیں اور یہی معنے زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتے ہیں۔
آخر میں فرمایا۔ وَاتَّقُو االلّٰہَ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو ۔ یعنی حج کی عبادت محض اس غرض کے لئے ہے کہ تمہارے دلوں میں تقویٰ پیداہو۔ اور تم ماسوی اللہ سے نظر ہٹا کر صرف اللہ تعالیٰ کو ہی اپنی ڈھال بنا لو۔ اگر حج بیت اللہ یا عمرہ سے کسی کو یہ مقصد حاصل نہیں ہوتا تو اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اس کا کوئی مخفی کبر اس کے سامنے آگیا ہے اسے چاہیے کہ خلوت کے کسی گوشہ میں اپنے خدا کے سامنے اپنے ماتھے کو زمین پر رکھ دے اور جس قدر خلوص بھی اس کے دل میں باقی رہ گیا ہو اس کی مدد سے گریہ و زاری کر یا کم سے کم گِریہ وزاری کی شکل بنائے اور خداتعالیٰ کے حضور جھک کر کہے کہ اے میرے خدا! لوگوں نے بیج بوئے اور ان کے پھل تیار ہونے لگے وہ خوش ہیں کہ ان کے اور ان کی نسلوں کے فائدہ کے لئے روحانی باغ تیار ہو رہے ہیں۔ پر اے میرے رب میں دیکھتا ہوں کہ جو بیج میں نے لگایا تھا اس میں سے تو کوئی روئیدگی بھی پیدا نہیں ہوئی ۔ نہ معلوم میرے کِبر کاکوئی پرندہ اُسے کھا گیا یا میری وحشت کا کوئی روئیدگی نکلنے نہ دی۔ اے خدا! اب میں کیا کروں کہ جب میرے پاس کچھ تھا میں نے بے احتیاطی سے اُسے اس طرح خرچ نہ کیا کہ نفع اٹھاتا ۔ مگر آج تو میرا دل خالی ہے ۔ میرے گھر میں ایمان کا کوئی دانہ نہیں کہ میں بوئوں اے خدا! میرے اس ضائع شدہ بیج کو پھر مہیا کر دے اور میری کھوئی ہوئی متاع ایمان مجھے واپس عطا کر۔ اور اگر میرا ایمان ضائع ہو چکا ہے تو تو اپنے خزانے سے اور اپنے ہاتھ سے اپنے اس دھتکارہے ہوئے بندہ کوایک رحمت کا بیج عطا فرماتاکہ میں اور میر نسلیں تیری رحمتوں سے محروم نہ رہ جائیں اور ہمارا قدم ہمارے سچی اور اعلیٰ قربانی کرنیوالے بھائیوں کے مقام سے پیچھے ہٹ کر نہ پڑے بلکہ تیرے مقبول بندوں کے کندھوں کے ساتھ ساتھ ہمارے کندھے ہوں۔
وَاعْلَمُوْ ااَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ العِقَابِ میں اس طرف توجہ دلائی کہ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے ہمیشہ خائف رہو اور اپنے تمام کاموں کی تقوی اللہ پر بنیاد رکھو ورنہ تمہارا پہلا ایمان بھی ضائع ہو جائیگا۔ اور تم خداتعالیٰ کی ناراضگی کے مورد بن جائو گے۔
۱۱۱؎ حل لغات:۔ رَفَثَ: مصدر ہے اور لانفی جنس کے بعد واقع ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ رَفَثَ سے مراد ہر ایسا کلام ہے جس کے اندر کوئی ایسی بات جس کے اندر جماع یا اس کے متعلقات کا ذکر ہو۔ (۲) جب اس کے بعد اِلیٰ صلہ ہو تو اس وقت کنایہ کے طور پر اس کے معنے جماع کے لئے جاتے ہیں (مفردات) اور طبری نے کہا ہے اَلرَّفَثُ اَللَّغْوُ مِنَ الْکَلَامِ (بحرِ محیط) رفث لغو اور بے ہودہ گفتگو کو بھی کہتے ہیں۔
فُسُوْقَ: فَسَقَ کا مصدر ہے اور فسوق کے معنے ہیں اللہ تعالیٰ کے حکم کو ترک کر دینا۔ (۲) نافرمانی (۳) سچے راستہ سے دوسری طرف جُھک جانا۔ (اقرب)
جِدَالَ: باب مفاعلہ سے مصدر ہے اور اس کے معنے جھگڑا کرنے کے ہیں۔
زَاد: جس چیز کو انسان بطور سفر خرچ اپنے ساتھ لے لے۔
اِتَّقُوْنِ: امر جمع کا صیغہ ہے جو وَقٰی سے باب افتعال کے مضارع کے صیغہ سے بنا ہے۔ اِتَّقَا ء (مصدر) جب اللہ تعالیٰ کے لئے آئے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ اس کا مفعول ہو تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ک اپنی حفاظت کا ذریعہ بنا لینا۔
تفسیر: اَلْحَجُّ اَشْھُر’‘ مَّعْلُوْمٰت’‘ میں اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ حج کے بارہ میں قرآن کریم نے کوئی نیا حکم نہیں دیا بلکہ اسی حکم کو قائم رکھا ہے جس حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں چلا آرہا ہے۔ اس وجہ سے حج کے مہینے بھی سب لوگوں کو معلوم ہیں یعنی شوال، ذوالقعدہ، اور ذوالحجہ۔ گو امام ابو حنیفہ ؓ اور امام شافعیؒ کے نزدیک ذوالحجہ کے صرف دس دن اشہرا الحج میں شامل ہیں۔ فَمَنْ فَرَضَ فِیْھِنَّ الْحَجِّ جو شخص ان مہینوں میں حج کو اپنے اوپر فرض کر کے چل پڑے۔ اُسے چاہیے کہ وہ اپنی زبان کو پاک رکھے اور کوئی ایسی بات نہ کرے جو جنسی جذبات کو ابرانگیختہ کرنے والی ہو۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ عشقیہ اشعار پڑھنا اس میں داخل نہیں۔ کیونکہ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ ایام حج میں جاہلیت کے اشعار پڑھے تھے۔ یہ روایت اگرچہ قرآن کریم کے اس واضح حکم کی موجودگی میں درست تسلیم نہیں کی جا سکتی۔ لیکن اگر مان بھی لیا جائے کہ انہوں نے ایسا کیا تھا تو امتدادِ زمانہ کی وجہ سے ہم نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے کس غرض کے ماتحت جاہلیت کے اشعار پڑھے تھے۔ ممکن ہے انہوں نے دوران گفتگو میں کسی دلیل کیل ئے پڑھے ہوں اور سننے والوں نے غلطی سے یہ سمجھ لیا ہو کہ وہ شوقیہ طور پر اس قسم کے اشعار پڑھ رہے ہیں۔ بہر حال اس قسم کا کلام خواہ وہ نظم میں ہو یا نثر میں اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اور ان دنوں کو اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اسکی عبادت میں صرف کرنا چاہیے۔ مگر اس ممانعت کے یہ بھی معنے نہیں کہ رفث۔ فسوق اور جدال دوسرے دنوں میں جائز ہے۔ بلکہ اس ممانعت میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکمت رکھی ہے کہ اگر کچھ عرصہ تک انسان اپنے نفس پر دبائو ڈال کر ایسے کام چھوڑ دے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُسے دوسرے دنوں میں بھی ان کو چھوڑنے کی توفیق مل جاتی ہے۔ کیونکہ مشق ہونے کی وجہ سے اس کے لئے سہولت پیدا ہو جاتیہے بعض دفعہ بشریٰ کمزوریوں کی وجہ سے انسان ایک لمبے وقت کے لئے کسی کام کو چھوڑنے کی ہمت نہیں کر سکتا۔ ایسی حالت میں اس کے اندار استعداد پیدا کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اسے کچھ وقت کے لئے اس کام سے روک دیا جائے۔ جب کچھ عرصہ تک رکا رہتا ہے تو اس کی ضبط کی طاقت بڑھ جاتی ہے۔ اور آہستہ آہستہ وہ کلی طور پر اس کام کو چھوڑنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ اسی نکتہ کو مدنظر رکھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ رمضان کے مہینہ میں اپنی کمزوریوں میں سے کسی ایک کمزوری پر غالب آنے کی کوشش کرے۔ اور مہینہ بھر اس سے بچتا رہے اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ خداتعالیٰ رمضان کے بعد بھی اس کی مدد کریگا۔ اور اسے ہمیشہ کے لئے اس بدی پر غالب آنے کی توفیق عطا فرما دیگا۔
یہاں رفٰث:فسوق اور جدال میں گناہوں کے چھوڑنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ رفث مرد عورت کے مخصوص تعلقات کو کہتے ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ بد کلامی کرنا۔ گالیاں دینا۔ گندی باتیں کرنا۔ قصے سُنانا۔ لغو اور بے ہودہ باتیں کرنا جسے پنجابی میں گپیں مارنا کہتے ہیں۔ یہ تمام امور بھی رفث میں ہی شامل ہیں۔ اور فسوق وہ گناہ ہیں جو خداتعالیٰ کی ذات سے تعلق رکھتے ہیں جن میں انسان اس کی اطاعت اور فرمانبرداری سے باہر نکل جاتا ہے۔ آخر میں جدال کا ذکر کیا ہے جو تعلقات باہمی کو توڑنے والی چیز ے ان تین الفاظ کے ذریعہ درحقیقت اللہ تعالیٰ نے تین اصلاحوں کی طرف توجہ دلائی ہے ۔ فرمایا ہے (۱) اپنی ذاتی اصلاح کرو اور اپنے دل کو ہر قسم کے گندے اور ناپاک میلانات سے پاک رکھو۔ (۲) اللہ تعالیٰ سے اپنا مخلصانہ تعلق رکھو (۳) انسانوں سے تعلقات محبت کو استعار رکھو۔ گویا یہ صرف تین بدیاں ہی نہیں جن سے روکا گیا ہے بلکہ تین قسم کی بدیاں ہیں جن سے باہر کوئی بدی نہیں رہتی۔ کیونہ بدی یا تو اپنے نفس سے تعلق رکھتی ہے یا خداتعالیٰ سے تعلق رکھتی ہے۔ اور یا پھر مخلوق سے تعلق رکھتی ہے۔ اور روحانیت کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ انسان اپنی ذاتی اصلاح کے بعد حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں بھی سرگرم رہے۔
وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْہُ اللّٰہُ۔ فرماتا ہے تمہیں ان باتوں کے چھوڑنے میں کئی قسم کی دقتیں پیش آئیں گی۔ مثلاً کسی شخص کو گالی دے دی جائے تو اس کیلئے صبر کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر تم خدا کے لئے ان پابندیوں کو اپنے اوپر عائد کر و گے اور نیکیوں میں حصہ لو گے تو تم جو بھی نیک کام کرو گے۔ اللہ تعالیٰ اسے ضرور ظاہر کر دیگا۔ خدا تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ نیکی کو پوشیدہ نہیں رہنے دیتا۔ گو بعض صورتوں میں نیکیوں پر پردہ بھی پڑا رہتا ہے مگر آخر کار نیکی ظاہر ہو کر رہتی ہے۔ اور دشمن بھی اس کو محسوس کئے بغیر نہیں رہتا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفوں کو ہی دیکھ لو۔ وہ آپؐ کو گالیاں دیتے تھے مگر ابو سفیان ہر قل کے سامنے آپؐ کو کوئی عیب بیان نہ کر سکا۔ صرف اتنا ہی کہہ سکا کہ اب ایک عہدہم میں اور اس میں ہوا ہے معلوم نہیں وہ اسے پورا کرتا ہے یا نہیں۔ تو فرمایا کہ تم جو نیکی بھی کرو گے خداتعالیٰ اُسے ضرور ظاہر کردے گا۔ اور لوگوں پر تمہارے اچھے کردار اور بلند اخلاق کا گہرا اثر پڑے گا۔
وَتَزَ وَّ دُوْا۔ فرمایا جب تم سفر کے لئے نکلو توہمیشہ اپنے ساتھ زادراہ لے لیا کرو۔ اسجگہ تَزَوَّ دُوْا سے دونوں زاد مراد ہو سکتے ہیں یہ بھی کہ آمدو رفت اور کھانے پینے کے اخراجات کا انتظام کر لیا کرو۔ اور یہ بھی کہ نیکی اور تقوی کا زاد ساتھ لو۔ چونکہ اس سے پہلے وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْہُ اللّٰہُ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے نیکیوں اور حسنات میں ترقی کرنے کی طرف خاص طور پر توجہ دلائی تھی اس لئے تَزَوَّدُوْا کہہ کر بتایا کہ حج اور عمرہ کا ثواب تو بہت بڑا ہے۔ مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ تم زیارت کعبہ کے شوق بھیک مانگتے ہوئے وہاں پہنچو۔ تمہارا کام یہ ہے کہ تم پہلے زادِ راہ کا انتظام کرو۔ اور جب آمد و رفت اور رہائش اور کھانے پینے وغیرہ کے تمام اخراجات کا انتظام ہو جائے تو اس کے بعد سفر کے لئے نکلو۔ فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی اور یاد رکھو کہ بہتر زاد رہ ہے جس سے تم سوال اور گناہ سے بچو۔
افسوس ہے اس زمانہ میں مسلمانوں میں عام طور پر یہ سمجھا جاتاہے کہ اسلام اس امر کی تعلیم دیتا ہے کہ انسان کو اسباب سے کام نہیں لینا چاہیے بلکہ اپنے تمام معاملات خداتعالیٰ پر چھوڑ دینے چاہیں۔ مگر یہ قطعًا غلط اور اسلامی تعلیم کے خلاف ہے اس لئے یہاں مسلمانوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ جب تم سفر کے لئے نکلو تو ضروری سامان اور زادِ راہ سے کبھی غفلت اختیار نہ کرو۔
فَاِذَآاَفَضْتُمْ

لَمِنَ الضَّآلِّیْنَo
لیکن تَزَ وَّ دُوْا کے ایک معنے یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ تم تقویٰ کا زاد لو۔ اور چونکہ تقویٰ کا زاد مخفی تھا اس لئے اسے فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَی کے الفاظ میں کھول کر بیان کر دیا اور بتایا کہ تقویٰ سب سے بہتر زد ہے جو آخرت کے سفر میں تمہاراے کام آنے والا ہے انہیں معنوں میں بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’وقت تھوڑا ہے اور کر عمر ناپیدا۔ تیز قدم اٹھائو کہ شام نزدیک ہے جو کچھ پیش کرنا ہے وہ باربار دیکھ لو ایسا نہ ہو کہ کچھ رہ جائے اور زیاں کاری کا موجب ہو یا سب گندی اور کھوٹی متاع ہو۔ جو شاہی دربار میں پیش کرنے کے لائق نہ ہو‘‘۔ (کشتی نوح)
چونکہ اس سے پہلے حج کا ذکر آچکا ہے اس لئے فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَی۔ فرما کر اللہ تعالیٰ نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اب حج سے تمہاری ذمہ داری بہت بڑھ گئی ہے تمہیں تقویٰ کا پہلے سے بہت زیادہ خیال رکھنا چاہیے جیسے صاف کپڑوں والا چھوٹے چھوٹے داغ اور دھبے سے بھی بچنے کی کوشش کیا کرتا ہے۔
پھر فرمایا ہے وَاتَّقُوْنِ یَا اُولِی الْاَلبَابِ۔ اے عقلمندوں اگر تم اپنے بچائو کا سامان کرنا چاہتے ہوتو میری طرف جھکو۔ اور صرف مجھے ہی اپنی حفاظت کا ذریعہ بنائو۔ باقی تمام ذرائع اس کے مقابلہ میں بالکل ہیچ ہیں۔
۱۱۲؎ حل لغات:۔ کَمَا کے معنے ’’جس طرح‘‘ کے بھی ہوتے ہیں۔ اور ’’اس لئے‘‘ کے بھی چنانچہ سیبویہ یہ کہتا ہے کَمَا اِنَّہُ لَا یَعْلَمُ تَجَاوَزَاللّٰہُ عَنْہُ کہ چونکہ وہ نہ جانتا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کا گناہ معاف کر دیا۔
اِنْ یہ اِنَّ سے مخففہ ہے اور اس کے معنے قریباً ’’گو‘‘ کے ہوتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ اِنْ نافیہ ہے یہ فتراء کا قول ہے۔ کَسائی کہتا ہے کہ اِنْ کے معنے قَدْ کے بھی ہوتے ہیں اور اس جگہ اس کے معنے قَدْ کے ہی ہیں۔
تفسیر:۔ فرماتا ہے تمہارے لئے یہ کوئی گناہ کی بات نہیں کہ حج کے ایام میں تم اپنے رب سے کوئی اور فضل بھی مانگ لو۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ فضل سے مراد اس جگہ تجارت ہے اور میرے نزدیک بھی یہ درست ہے مگر فضل سے صرف تجارت مراد لینا ایک وسیع مضمون کو محدود کر دینا ہے۔ درحقیقت آج اسلام کو جس بہت بڑی مصیبت کا سامنا ہے وہ یہ ہے کہ دنیا میں چاروں طرف کفر غالب ہے اور مسلمان جمود اور بے حسی کا شکار ہیں۔ ان کے دلوں میں یہ احساس پیدا نہیں ہوتا کہ وہ اسلام کی اشاعت کے لئے اس جنون سے کام لیں جس جنون سے قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں نے کام لیا تھا اور اسلام کو تھوڑے عرصہ میں ہی تمام معلومہ دنیا میں غالب کر دیا تھا پس حج کے ذکر کے ساتھ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ فرما کر میرے نزدیک اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ تم اس عظیم الشان اجتماع سے بعض دوسرے فوائد بھی حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اللہ تعالیٰ کا وہ فضل تلاش کرو جس کے نتیجہ میں مسلمان قعرِ مذلت سے نکل کر بامِ عروج پر پہنچ جائیں اور اسلام کی اشاعت کے لئے مختلف ممالک کے با اثر اور ممتاز افراد کے ساتھ مل کر ایسی سکیمیں سوچو جن کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہو جائے اوراسلام دنیا پر غالب آجائے۔ غرض اس فضل کو تلاش کرنا جس سے نتیجہ میں اسلام کو غلبہ حاصل ہو اللہ تعالیٰ نے ہمارا فرض قرار دیا ہے اور یہ جو فرمایا ہے کہ تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم خداتعالیٰ کا فضل تلاش کرو۔ یہ کلام کا ایک طریق ہے جس کا مقصد کسی اہم نیکی کی طرف متوجہ کرنا ہوتا ہے۔ اسی طریق کلام کو اس جگہ استعمال کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسے اچھے موقعہ کے ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی تلاش نہ کرنا کیا کوئی گناہ کی بات ہے کہ تم اسے چھوڑ رہے ہو۔ یعنی اس عظیم الشان اجتماع کے موقعہ کو جبکہ دنیا کے چاروں کناروں سے لوگ یہاں جمع ہیں غنیمت جانو اور اسے اپنے ہاتھ سے نہ جانے دو۔
یہ لَا جُنَاحَ بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ لَا جُنَاحَ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا میں لَاجُنَاحَ کا ستعمال کیا گیا ہے۔
فَاِذَا اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْکُرُوااللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعِرِ الْحَرَامِ۔ فرمایا جب تم عرفات سے واپس آئو تو مشعرالحرام کے پاس اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو۔ عرفات مکہ سے شمال مشرق کی طرف قریباً نو میل کے فاصلہ پر ایک وسیع میدان ہے جہاں ۹ ذولحجہ کو تمام حاجی جمع ہوتے ہیں یہاں ٹھہرنا اور عبادت کرنا اتنا اہم ہے کہ اگر کوئی شخص حج کے اور تمام مناسک ادا کرے مگر عرفات کے میدان میں نہ پہنچ سکے تو اس کا حج ہی نہیں ہوتا۔ اور مشعر الحرام مزدلفہ میں ایک چھوٹی سی پہاڑی کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم عرفات میں عبادت کر چکو اور وہاں سے واپس لوٹو تو مشعرالحرام کے پاس جو مزدلفہ میں ایک پہاڑی ہے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق تھا کہ آپ یہاں بھی دُعا کیا کرتے تھے مگر اب عام طور پر لوگ اس جگہ دُعا نہیں کرتے بلکہ اس جگہ کا پتہ لگانے میں بھی دقت محسوس ہوتی ہے چنانچہ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ۔ ہم نے اس کا پتہ لگانے کی بڑی کوشش کی مگر نہ لگا۔ اور یونہی دعا کر کے چل پڑے۔ معلوم ہوتا ہے یہ کوئی بڑی پہاڑی نہیں بلکہ ٹیلہ سا ہے۔ چونکہ وہاں ایسے کوئی ٹیلے ہیں اور مجمع بھی بہت ہوتا ہے اس لئے اس کا آسانی سے پتہ نہیں لگ سکتا۔
اس آیت میں اَفَضْتُمْ کا لفظ استعمال فرما کر اس امر کا بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ جب تم عرفات سے واپس لوٹو تو تمہارے قلوب اللہ تعالیٰ کی برکات اورا س کے انوار سے اس طرح معمور ہونے چاہیں جیسا کہ ایک برتن اپنے کناروں تک پانی سے بھرا ہوتا ہے۔ اور پھر اسی حالت میں جبکہ ساقی کو ثر کی روحانی شراب سے تمہارے جام لباب بھرے ہوئے ہوں تم مشعر الحرام کے پاس پہنچو اور اللہ تعالیٰ کو یاد رکرو۔ گویا روحانی انعامات کی وہ بارش جو عرفات میں تم پر نازل ہوئی ہے وہ تمہیں بہاتی ہوئی مشعر الحرام کی طرف لے جائے اور تمہیں اپنے محبوب کے قدموں تک پہنچا دے۔
وَاذْ کُرُوْہُ کَمَا ھَدٰ لکُمْ اس کے دو معنے ہیں۔ ایک یہ کہ اُذْکُرُوْہُ ذِکْرًا کَمَا ھَدٰ لکُمْ اس کا اس طرح ذکر کرو جس طرح اس نے تمہیں ہدایت دی ہے اور دوسرے یہ کہ اس کا ذکر کرو کیونکہ اس نے تم کو ہدایت دی ہے ان معنوں کے لحاظ سے اس جگہ کَمَا کا استعمال ایسا ہی ہے جیسا کَمَا اَنْزَلْنَا عَلَی الْمُقْتَسِمِیْنَ (حجر آیت ۹۱) میں کیا گیا ہے۔
وَاِنْ کُنْتُمْ مِنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الضَّآلِّیْنَ میں اِنْ مخففہ ہے اور اس کے معنے ’’گو‘‘ کے ساتھ ملتے ہیں۔ فرّاد نے کہا ہے کہ اس کے معنے نفی کے ہیں۔ اور لام کے معنے اِلَّا کے ہیں۔ یعنی ’’تم اس ہدایت سے پہلے نہ تھے مگر گمراہ‘‘۔ کسائی نے کہا ہے کہ اس کے معنے قَدْ کے ہیں اور لام زائد ہے ۔یعنی تم ضرور اس سے پہلے گمراہوں میں سے تھے۔
ثُمَّ اَفِیضُوْا مِنْ
غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘o
۱۱۳؎ حل لغات:۔اَفِیْضُوْا: اَفَاضَ بَفِیْضُ سے امر کا صیغہ ہے اور اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ کے معنے ہیں دَفَعْتُمْ مِنْھَا بِکَثْرَۃٍ تَشبِیْھًا بِفَیْضَ الْمَآئِ۔ یعنی تم وہاں سے کثرت سے چل پڑو۔ یہ معنے پانی کے کثرت سے بہنے کے ساتھ بطور تشبیہ کے ہیں (مفرداتِ راغب)
تفسیر:۔ اس آیت کے متعلق سوال پیدا ہوتا ہے کہ افاضہ تو ہو چکا پھر یہ کون سا نیا افاضہ ہے جس کے طرف اشارہ کیا گیا ہے یعنی عفرات سے تو لوٹ آئے پھر اور کہاں سے لوٹنے کا حکم دیا گیا ہے۔ سو یاد رکھنا چاہیے کہ کہ اس جگہ ثُم’‘ کے معنے ’’اور‘‘ کے ہیں۔ اور اس بات کو اس لئے دہرایا ہے کہ پہلے اسبارہ میں کوئی حکم نہ تھا بلکہ صرف اظہار واقعہ کیا گیا تھا۔ اب حکم نہ تھا بلکہ صرف اظہار واقعہ کیا گیا تھا۔ اب حکم دیا کہ جہاں سے دوسرے لوگ واپس لوٹتے رہے ہیں وہیں سے تم بھی لوٹو۔ اور یہ حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ قریش اور ان کے ساتھیوں کا طریق تھا کہ وہ مزولفہ سے آگے عرفات میں نہیں جاتے تھے۔ بلکہ مزولفہ ہی سے واپس چلے آتے تھے۔ اور اس کی وجہ وہ یہ قرار دیتے تھے کہ عرفات حدودِ حرم سے باہر ہے اس لئے ہم وہاں نہیں جائیں گے بلکہ مزدلوہ میں مشعرالحرام کے پاس ہی ٹھہریں گے جو حرم کے اندر ہے اور کہتے کہ ہم حرم کے باشندے ہین اس لئے ہم حرم سے باہر نہیں جا سکتے لیکن دوسرے قبائل عرفات میں جا کر حج کرتے تھے۔ اس لئے ان کو مخاطب کر کے فرمایا کہ جس طرح دوسرے لوگ عرفات میں جاتے اور پھر وہاں سے واپس آتے ہیں اسی طرح تم بھی وہاںجائو اور جس طرح وہ عرفات سے واپس آتے ہیں اسی طرح تم بھی واپس آئو۔ لیکن اگر ثُمَّ کے معنے ’’پھر‘‘ یا ’’تب‘‘ کے کئے جائیں تو اس صورت میں اس کا یہ مطلب ہو گا ۔ کہ پھر تم مزولفہ سے لوٹو جہاں سے سب لوگ واپس لوٹتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ قریش اور بنو کنانہ جو حمس یعنی بڑے پکے دیندار کہلاتے تھے وہ بھی یہیں سے واپس چلے جاتے تھے۔
مزولفہ سے لوٹنے کے متعلق یہ حکم ہے کہ تمام حاجی نماز پڑھ کر اور دُعا کر کے سورج نکلنے سے پہلے وہاں سے چلیں اور منیٰ میں سورج نکلنے کے بعد پہنچ جائیں۔ جہاں رمی جمار کی جاتی ہے۔ قربانیاں دی جاتی ہین اور احرام کی حالت ختم ہو جاتی ہے۔
یہ آیت چکڑالویوں پر بھی حجت ہے کیونکہ خداتعالیٰ نے خود اس جگہ کا نام نہیں بتایا ۔ پس تفسیر کیلئے سنت کا تفھص بھی ضروری ہے۔ پھر فرماتا ہے ۔ وَاسْتَغْفِرُوااللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘۔ تم ان مناسک کے ساتھ ساتھ استغفار بھی کرتے رہو کیونکہ حج ایک بہت بڑا ابتلاء بھی ہے۔ مجھ سے کئی لوگوں نے بیان کیا کہ ہم نے حج کیا اور ہمار ادل پہلے سے بھی زیادہ سخت ہو گیا۔ اسی طرح بہت سے لوگوں نے بیان کیا ککہ حج کے دنوں میں تو بڑا جوش ہوتا ہے مگر بعد میں دل پر بُرا اثر پڑتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حج میں ظاہر پر اسقدر زور ہے کہ اس کے مقابلہ میں باطن بہت حد تک پوشیدہ ہو جاتا ہے ۔ مثلاً وہاں حجرِ اسود کو بوسہ دیتے ہیں۔ صفا اور مروہ کے درمیان چکر لگاتے ہیں۔ بیت اللہ کا طواف کرتے ہیں۔ منیٰ میں تین ٹیلوں پر جواب برحیوں کی شکل
فَاِذَا قَضَیْتُمْ




عَذَابَ النَّارِo
میںہیں کنکر پھینکتے ہیں۔ اس لئے اگر ساتھ ساتھ استغفار نہ ہو تو دل پر زنگ لگ جاتا ہے اسی طرح وہاں پانچ پانچ گھنٹے بیٹھ کر عبادت کرنی پڑتی ہے۔ ہزاروں کے مجمع میں میں نے ایک شخص بھی ایسا نہیں دیکھا جو دُعا کرتا ہو۔ لوگ حج صرف اسقدر سمجھتے ہیں کہ خطیب جب کھڑا ہو تو اس کے رومال کے ساتھ رومال ہلا دیں۔ مگر مجھے خداتعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی اور میں نے وہاں کثرت سے دُعائیں کیں ۔ تو چونکہ یہ نماز کی طرح ایک معین عبادت نہیں اس لئے لوگ اس کی اہمیت محسوس نہیں کرتے۔ شریعت نے صرف ظاہر
بتا دیا ہے اور باطن کو انسان پر چھوڑ دیا ہے ۔ مگر وہاں یہ کیفیت ہوتی ہے کہ اکثر لوگ جانتے ہی نہیں کہ ہم نے یہاں دُعا یا عبادت کرنی ہے ۔ پس فرماتا ہے حج کے ایام میں تمہیں استغفار کی سخت ضرورت ہے۔ کیونکہ حج میں ظاہر زیادہ نمایاں ہے اور باطن جو جوہر عبادت ہے مخفی ہے۔ اگر انسان باطن کی طرف توجہ نہ کرے اور صرف ظاہر پر عمل کر کے سمجھ لے کہ اس نے شریعت کی اصل غرض کو پورا کر دیا ہے۔ تو اس کا دل زنگ آلود ہو جاتا ہے۔
۱۱۴؎ حل لغات:۔ اَوْ کے معنے ’’ یا‘‘ کے بھی ہوتے ہیں اور یہ لفظ اظہار ترقی کے لئے بھی ہوتا ہے۔ اسی طرح اَوْکا لفظ کسی چیز کو حقیر ظاہر کرنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔
اَشَدُّ۔ یہ ذکر کی صفت ہے جو بطور حال پہلے بیان کر دی گئی ہے۔
تفسیر:۔ فرماتا ہے جب تم اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق حج بیت اللہ کا فرض ادا کر چکو تو خداتعالیٰ کو اس طرح یاد کرو جس طرح تم اپنے باپ دادون کو دیاد کرتے ہو۔ اہل عرب میں دستور تھا کہ جب وہ حج سے فرغ ہو جاتے تو تین دن منیٰ میں مجالیس منعقد کر کے اپنے باپ دادوں کے کارنامے بیان کرتے اور اپنے اپنے قبیلہ کی بہادری شہرت اور سخاوت کی تعریف میں قصیدے پڑھتے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ لوگ تو اپنے باپ دادوں کی تعریف میں قصائد پڑھا کرتے تھے۔ مگر ہم تمہیں یہ ہدایت دیتے ہیں کہ جب تم مناسک حج کو ادا کر چکو تو تم خداتعالیٰ کو اس طرح یاد رکرو جیسے تم اپنے باپ دادوں کو یاد کرتے ہو۔ یعنی جس طرح ایک چھوٹا بچہ جو اپنی ماں سے جدا ہوتا ہے روتا اور چلاتا ہوا کہتا ہے کہ میں نے اپنی ماں کے پاس جانا ہے اس یطرح تم بھی بار بار خداتعالیٰ کا ذکر کرو تاکہ اس کی محبت تمارے رگ و ریشہ میں سرایت کر جائے۔ خداتعالیٰ ایک وارء الوراء ہستی ہے اس کا حسن براہ راست انسان کے سامنے نہیں آتا بلکہ کئی واسطوں کے ذریعہ سے آتا ہے۔ اگر اُس کے حسن کو الفاظ میں بیان کیا جائے اور پھر ہم اس پر غور کریں اور سوچیں تو آہستہ آہستہ معنوی طور پر اس کی شکل ہمارے سامنے آجاتی ہے۔ اگر تم مالک کا نام لو اور اس کی مالکیت کو ذہن میں لائو۔ قدوس کا نام لو اور اس کی ستاریت کو ذہن میں لائو۔ غفور کا نام لو اور اس کی غفوریت کو ذہن میں لائو۔ غفور کانام لو اور اس کی غوریت کو ذہن میں لائو تو یہ لازمی بات ہے کہ آہستہ آہستہ خداتعالیٰ کی ایک مکمل تصویر تمہارے سامنے آجائیگی۔ اور محبت کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ یا تو کسی کا وجود سامنے ہو۔ حضرت مسیح وعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے ایک شعر میں اسی حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ؎
دیدار گر نہیں ہے تو گفتار ہی سہی
حسن و جمال یار کے آثار ہی سہی
یعنی اگر محبوب خود سامنے نہیں آتا تو اس کی آواز تو سنائی دے اور اس کے حُسن کی کوئی نشانی تو نظر آئے۔ پس رب رحمٰن ۔ رحیم، مالک یوم الدین، ستار غفار، قدوس، مہیمن سلام، جبار، قہار اور دوسری صفاتِ الہٰیہ کو جب ہم اپنے ذہن میں بٹھا لیتے یہں تو خداتعالیٰ کی ایک تصویر ہمارے سامنے آجاتی ہے اور اس کے نتیجہ میں ہمارے دلوں میں اس کی محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ غرض صفاتِ الہیہ کے باربار دُہرانے اور توتر سے دُہرانے کے نتیجہ میں ہمارے دل میں محبت بنتی ہے اور اس تصویر کی وجہ سے ہی ہماری دل میں محبت پیدا ہوتی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس طرح بچوں کے دل میں اپنے ماں باپ کی ملاقات کا اشتیاق ہوتا ہے۔ اسیطرح تمہارا ابھی خداتعالیٰ کے ساتھ ایساہی روحانی تعلق ہونا چاہیے۔ گویا تمہارا چلن اور تمہارا آرام صرف خداتعالیٰ کے ساتھ ہی وابستہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ اسی پر تمہاری روحانی زندگی کا مدار ہے۔ اور حج کے بعد ذکر الہٰی کی طرف توجہ دلا کر اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ تمہارا خداتعالیٰ سے اب ایک روحانی پیوند قائم ہو چکا ہے۔ پس جس طرح ایک بچہ اپنے ماں باپ کے سایہ عاطفت میں اپنی زندگی کے دن بسر کرتا ہے اس طرح تم بھی خداتعالیٰ کی صفات کا آئینہ بنو اور اسی کے سایہ عاطفت میں اپنی زندگی کے دن بسر کرو۔
پھر فرماتا ہے۔ اَوْ اَشَدَّ ذِکْرًا ہم نے پہلے تو تمہیں یہ ہدایت دی ہے کہ تم خداتعالیٰ کو اس طرح یاد کرو جس طرح تم اپنے باپ دادوں کو یاد کرتے ہو۔ مگر ہمارا یہ حکم صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو روحانیت میں ابھی اعلیٰ مقام پر نہیں پہنچے۔ ورنہ جو لوگ اپنے ماں باپ کی محبت میں بھی اللہ تعالیٰ کی محبت کا ہاتھ پوشیدہ دیکھتے ہیں اور خداتعالیٰ کے مقابلہ میں ماں باپ کے تعلق کو بالکل ہیچ سمجھتے ہیں ۔ ان کو چاہیے کہ وہ خدتعالیٰ کا ایسے رنگ میں ذکر کریں کہ ان کے دنیوی تعلقات میں اس کی کوئی مثال دکھائی نہ دے اور ماںباپ کا ذکر اس کے مقابلہ میں بالکل ہیچ ہو جائے۔
فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقْوْلُ رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا وَمَا لَہ‘ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ۔ فرماتا ہے بعض لوگ ایسے ہین جو خداتعالیٰ سے صرف دنیا ہی مانگتے ہیں۔ جیسے عیسائی ہیں ۔وہ یہی دعا کرتے ہیں کہ ’’ہماری روز کی روٹی آج ہمیں دے‘‘(متی باب۶ آیت ۱۱) انہیں حرام و حلال سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ انہیں کسی چیز کے مفید یا مضر ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ان کا مطمع نظر محض دنیا طلبی ہوتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا کے ساتھ حَسَنَۃً کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ جس میں یہ اشارہ ہے کہ ایسے لوگ صرف دنیا پر جان دیتے ہیں۔ حالانکہ خالی دنیوی عزت جس کے ساتھ اخروی عزت نہ ہو ایک *** ہوتی ہے۔ جیسے یہود کو آجکل خالی دنیوی عزت ملی ہوئی ہے ۔ اسی طرھ عیسائیوں کو صرف دنیوی عزت ملی ہوئی ہے مگر اُخروی عزت سے انہیں کوئی حصہ نہیں ملا۔ اسی لئے فرمایا کہ وَمَالَہ‘ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ ایسے لوگوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ یعنی ہم انہیں دنیا تو دے دیتے ہیں مگر اُخروی انعامات میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ لیکن دوسری طرف خالی اُخروی عزت بھی ایک بے ثبوت چیزہوتی ہے۔ ثبوت والی چیز وہی ہوتی ہے جس میں دین اور دنیا دونوں اکٹھے ملیں۔ اسی لئے فرمایا کہ ایک اور گروہ ایسا ہے جو یہ دعا کرتا رہتا ہے کہ رَبَّنَا اٰتَنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ یعنی الہٰی ہمیں دنیا میں بھی عزت بخش اور آخرت میں بھی ہمارے مقام کو بلندکر۔ اگر ہمیں دنیا ملے تو ہم اسے اپنی ذات کے لئے استعمال نہ کریں بلکہ تیرے دین کی شوکت ظاہر کرنے کیلئے استعمال کریں اور تیری رضا اور خوشنودی کے لئے اُسے صرف کریں۔ اگر ایسا ہو تو پھر انسان کو دنیا میں بھی عزت ملتی ہے۔ اور خداتعالیٰ کے حضور بھی اس کا مرتبہ بڑھتا ہے۔ یہ دُعا جو اسلام نے ہمیں سکھائی ہے بظاہر بہت چھوٹی سی دعا ہے لیکن ہر قسم کی انسانی ضرورتوں پر حاوی ہے ۔انسان کہتا ہے رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً اے ہمارے رب ہم کو اس دنیا میں حسنہ کا جو لفظ استعمال فرمایا ہے یہ درست نہیں۔ حسنات کا لفظ استعمال کرنا چاہیے تھا جس کے معنے بہت سی نیکیوں کے ہیں مگر یہ اعتراض عربی زبان سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ اگر یہاں حسنات کا لفظ ہوتا تو اسکے معنے یہ ہوتے کہ ہمیں کچھ اچھی چیزیں ملیں لیکن حسنہ کے یہ معنے ہیں کہ ہمیں جو کچھ ملے خیر ہی ملے۔ پس رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً کے یہ معنے ہیں کہ اے ہمارے رب! دنیا میں ہم کو جو کچھ دے حسنہ دے ۔ روٹی دے تو حلال و طیب ہو پچنے والی ہو۔ کپڑا دے تو حال دے طیب دے ضرورت کے مطابق دے ننگ ڈھانکنے والا دے۔ پسندیدہ دے۔ بیوی دے تو ایسی دے جو ہمدرد ہو ہم خیال ہو دیندار ہو محبت کرنے والی ہو۔ نیکی میں تعاون کرنے والی ہو بچے پیدا کرنے والی ہو ان بچوں کو نیک تربیت کرنے والی ہو۔ مکان دے تو مبارک ہو۔ وہ بیماریوں والا گھر نہ ہو۔ سل دق اور ٹائیفائیڈ کے جراثیم اس میں نہ ہوں۔ کوئی چیز ایسی نہ ہو جو صحت پر بُرا اثر کرنے والی ہو۔ کوئی ہمسایہ ایسا نہ ہو جو دکھ دینے والا ہو۔ وہ ایسے محلہ میں نہ ہو جہاں کے رہنے والے بُرے ہوں۔ وہ ایسے شہر میں نہ ہو جسے تو مریے لئے اچھا نہ سمجھتا ہو۔ ہمیں حاکم دے تو ایسے دے جو رحمد دل ہوں۔ تقویٰ سے کام لینے والے ہوں۔ انصاف سے کام لینے والے ہوں۔ ماتحتوں سے محبت کرنے والے ہوں ۔ ہمیں اُستاد دے تو ایسے دے جو علم رکھنے والے اور اچھا پڑھانے والے ہوں۔ وہ شوق سے پڑھائیں وہ ظالم نہ ہوں۔ خرابیاں پیدا کرنے والے اور دوسروں کو ورغلانے والے نہ ہوں۔ دوست دے تو ایسے دے جو خیرخواہ ہوں ۔ محبت کرنے والے ہوں۔ مصیبت میں کام آنے والے ہوں۔ خوشی میں شریک ہونے والے ہوں۔ دکھوں میں ہاتھ بٹانے والے ہوں۔ غرض رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً اے ہمارے رب! دنیا میں ہم کو وہ چیز دے جو حسنہ ہو۔ پس یہاں حسنات کی بجائے حسنہ کا لفظ رکھ کر اس کے مفہوم کو خداتعالیٰ نے وسیع کر دیا ہے ۔ اور جب مومن یہ دعا کرتا ہے تو دوسرے الفاظ میں وہ یہ کہتا ہے کہ خدایا مجھے ہر وہ چیز دے جو میری ضرورت کے مطابق ہو اور پھر وہ چیز کے لئے اور الفاظ بھی استعمال ہو سکتے تھے۔ خداتعالیٰ نے وہ الفاظ استعمال نہیں کئے بلکہ حسنہ کا لفظ استعمال کیا ہے اس لئے یہ لفظ ظاہری اور باطنی ددنوں خوبیوں کے لحاظ سے اچھی ہو مگر ظاہری صورت کے لحاظ سے اچھی نہ ہو۔ مثلاً کسی شخص کی بیوی بڑی بااخلاق ہو ۔ مگر فرض کرو وہ نکٹی ہے یا اندھی ہے یا بہری ہے تو وہ حسنہ نہیں کہلائیگی حسنہ وہی بیوی کہلائیگی جس کے اخلاق بھی اچھے ہوں شکل بھی اچھی ہو ظاہر بھی اچھا ہو اور باطن بھی اچھا ہو۔ تو حسنہ کا لفظ ظاہری اور باطنی دونوں خوبیون پر دلالت کرتا ہے۔ اور مومن اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتا ہے کہ خدایا مجھے جو چیز بھی دے وہ ایسی ہو جو ظاہری اور باطنی دونوں خوبیاں رکھتی ہو۔
پھر فرمایا وَفِیْ الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً آخرت میں بھی ہمیں وہ چیز دے جو حسنہ ہو۔ یعنی وہ بھی ظاہر و باطن میں ہمارے لئے اچھی ہو۔ ممکن ہے کوئی کہے کہ آخرت میں تو ہر چیز اچھی ہوتی ہے۔ ہواں کی چیزوں کے لئے حسنہ کا لفظ کیوں استعمال کیا گیا ہے۔ سو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ بات غلط ہے۔ آخرت میں بھی بعض چیزیں ایسی ہین جو باطن میں اچھی میں مگر ظاہر میں بُری ہیں۔ مثلاً دوزخ ہے۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ دوزخ انسان کی اصلاح کا ذریعہ ہے۔ پس ایک لحاظ سے وہ اچھی چیز ہے۔ مگر ایک لحاظ سے وہ بری بھی ہے ۔ پس جب آخرت کے لئے خداتعالیٰ نے حسنہ کا لفظ رکھا تو اس لئے کہ تم یہ دُعا کرو کہ الہٰی ہماری اصلاح دوزخ سے نہ ہو بلکہ تیرے فضل سے ہو۔ اور آخرت میں ہمیں وہ چیز نہ دیجیئو جو صرف باطن میں ہی اچھی ہو۔ جیسے دوزخ باطن میں اچھا ہے کہ اس سے خداتعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ مگر ظاہر میں برا ہے ۔کیونکہ وہ عذاب ہے ۔ آخرت میں حسنہ صرف جنت ہے ۔ جس کا ظاہر بھی اچھا ہے اور جس کا باطن بھی اچھا ہے۔
پھر فرمایا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ ہم کو عذاب نار سے بچا۔ اس سے مراد وہی عذاب نار نہیں جو مرنے کے بعد ملے گا۔ یہ عذاب نار دنیا کے ساتھ بھی تعلق رکھنے والی دُعائوں کے بعد وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ کہا گیا ہے۔ پس وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ کے معنے یہ ہیں کہ ہمیں دنیا کے عذاب نار سے بھی بچا اور آخرت کے عذاب نار سے بھی محفوظ رکھ۔ ہم دیکھتے ہیں دنیا میں کئی لوگ عذاب نار میں گرفتار ہوتے ہیں۔ انیہں کئی قسم کے دُکھ ہوتے ہیں۔ تکلیفیں ہوتی ہیں۔ حسرتیں ہوتی ہیں۔ قسم قسم کے مصائب ہوتے ہیں مگر جب انسان اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ خدایا مجھے عذاب نار سے بچا۔ تو خداتعالیٰ اُسے اس عذاب سے بچا لیتا ہے۔ تب وہ چیزیں جو پہلے اس کے لئے نار تھیں جنت بن جاتی ہیں۔ [
اسی طرح اس سے مراد آخرت کا عذاب بھی ہے جس سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ دُعا سکھائی ہے۔ بظاہر یہ ایک مختصر سی دُعا ہے مگر بڑی جامع اور وسیع دعا ہے۔
عَذَابَ النَّارِ کے لحاظ سے دنیا کی لڑائی بھی مراد لی جا سکتی ہے ۔کیونکہ لڑائی بھی آگے کا ہی عذاب ہے۔ پس جو شخص یہ دُعا کرے گا کہ رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰ خِرَۃِ حَسَںَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ وہ گویا خدتعالیٰ کے بیان فرمودہ الفاظ میں یہ دعا کرے گا کہ الہٰی دنیا میں مجھ پر کوئی ساعت ایسی نہ آئے جو بُری ہو۔ لڑائی مجھے سے دُور رہے اور آگ کا عذاب میرے قریب نہ پہنچے۔
اگر کوئی سپاہی لڑائی میں شامل ہو اور وہ یہ دُعا کرے۔ تو اس کی دُعا کے یہ معنے ہوںگے۔ کہ اس لڑائی کے بد اثرات سے مجھے بچا ۔ بندوق کی گولی آئے تو وہ مس کر جائے۔ میرے دائیں نکل جائے یا بائیں کل جائے۔ اوپر نکل جائے یا نیچے نکل جائے۔
اُوْلٰٓئِکَ لَھُمْ نَصِیْب’‘
سَرِیْعُ الْحِسَابِoوَاذْکُرُوااللّٰہَ

تُحْشَرُوْنَo
بہر حال وہ مجھے نہ لگے۔ اور میں اس سے محفوظ رہوں پس یہ ایک جامع دُعا ہے جو اسلام نے سکھائی ہے اور جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑی کثرت سے پڑھا کرتے تھے۔
۱۱۵؎ تفسیر:۔ کسب کے معنے محنت کر کے کسی چیز کو حاصل کرنے کے ہوتے ہیں لیکن اس جگہ کَسَبُوْا کا لفظ اوپر والی دُعا کے لئے استعمال کیا گیا ہے ۔ اور کہا گیا ہے کہ جو کچھ انہوں نے کمایا اس سے ان کو حصہ ملے گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسب کا لفظ زبان یا دل کے مفعل پر بھی بولا جاتا ہے اور مراد یہ ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت کی نعماء طلب کرتے رہتے ہیں وہ اپنے اپنے اخلاص اور ایمان کے مطابق خداتعالیٰ سے اجر پائیں گے۔
وَاللّٰہُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ کا مطلب یہ ہے کہ نیکی اور بدی کی جزا میں کوئی دیر نہیں لگتی بلکہ ادھر عمل سرزد ہوتا ہے اور ادھر اس کی جزا ظاہر ہو جاتی ہے یعنی انسان کا ہر عمل اس کے جوارح پر فوراً اثر ڈال دیتا ہے۔ یہ مضمون قرآن کریم میں کئی جگہ بیان ہوا ہے اور حدیثوں میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے آپ فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص برا کام کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نشان پڑ جاتا ہے اور اگر وہ توبہ نہیں کرتا اور اس کے بد اعمال بڑھتے چلے جاتے ہیں تو یہ سہا نقطے بڑھتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ اس کا سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے۔ اور جب کوئی شخص نیک کام کرتا ہے تو ایک سفید نقطہ اس کے دل پر پڑ جاتا ہے اور جب اس کے بعد وہ متواتر نیک اعمال بجا لاتا ہے تو یہ سفید نقطے بڑھنے شروع ہو جاتے ہیں یہا ں تک کہ اس کا سارا دل منور ہو جاتا ہے۔
سَرِیْعُ الْحِسَابِ میں اللہ تعالیٰ کی اسی سنت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ہر کام کا اثر فوراً انسان کے دل پر پڑجاتا ہے۔ اور یہ بھی ایک قسم کا حساب ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے لیا جاتا ہے۔ تازہ تحقیقات سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ کوئی انسانی حرکت ایسی نہیں جو فضا میں محفوظ ہوجاتی ہے پس عمل اور اس کی جزایہ دو توام بھائی ہیں کہ ایک کے ساتھ دوسرا بھی ظہور میں آجاتا ہے۔
۱۱۶؎ تفسیر:۔ اس آیت میں جن مقررہ دنوں میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کا خصوصیت کے ساتھ حکم دیا گیا ہے وہ ایام تشریق ہیں یعنی ۱۱۔ ۱۲۔۱۳ ذولحجہ یا ایام منیٰ ہیں ۔جو دسویں تاریخ سے شروع ہوتے ہیں اور ۱۳ کو ختم ہو جاتے ہیں۔
فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یُوْمِیْنِ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ۔ فرماتا ہے جو شخص جلدی کرے اور دو دنوں میں ہی واپس چلا جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ۔ دراصل دسوین ذوالحجہ کے بعد رمی الجماد کے لئے تین دن رکھے گئے ہیں۔ مگر اجازت ہے کہ کوئی شخص دو دن کے بعد بھی لوٹ آئے ۔ اس بارہ میں امام ابو حنیفہ کا مذہب تو یہ ہے کہ ایام تشریق کے تیسرے دن صبح کے وقت جا سکتا ہے۔ لیکن بعض نے کہا ہے کہ دوسرے دن رمی الجماد کے بعد بھی جا سکتا ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر عصر کا وقت آجئے تو نہیں جا سکتا۔ اس سے پہلے جا سکتا ہے۔ گویا اس سے تیسرے دن کی رمی معاف ہو گئی۔ پھر بعض نے کہا ہے کہ جس نے تعجیل کی نیت کی اسے چاہیے کہ وہ یام النحر کو رمی کرے۔
پھر فرماتا ہے وَمَنْ تَاَخَّرَ فَلَآ اِثْمَ عَلَیہِ لِمَنِ اتَّقٰی۔ اور جو شخص پیچھے رہ جائے یعنی تیسرے دن رمی کر کے جائے۔ اسے بھی کوئی گنا ہ نہیں اور یہ وعدہ اس شخص کیلئے ہے جو تقویٰ اختیار کرے۔ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ لِمَنِ اتَّقٰی کا تعلق تعجمیل کے ساتھ ہے مگر میرے نزدیک اس کا تعلق نہ تعجیل کے ساتھ ہے نہ تاخیر کے ساتھ بلکہ لَا اِثْمَ عَلَیْہِ کے متعلق لَا اِثْمَ عَلَیْہِ کے ساتھ ہے ورنہ جو گنہگار ہے وہ تو گہنگار رہی ہے اس کے متعلق لَا اِثْمَ عَلَیْہِ کہنا تو درست ہی نہیں ہو سکتا۔ یہ نفی اِنْم صرف ایسے شخص کے لئے ہے جو متقی ہو۔ یعنی اگر وہ کسی اور طرح گنہگار نہیں تو اس تعجیل یا تاخیر سے گنہگار نہیں ہوتا۔
آخر میں وہ اتَّقُوا اللّٰہَ وَاعَلَمُوْا اَنَّکُمْ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ فرما کر اس طرف توجہ دلائی کہ ان مناسک کی اصل غرض یہ ہے کہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو۔ تمہارا بیت اللہ کا طواف کرنا حجراسود کو بوسہ دینا۔ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا۔ مزدلفہ منیٰ عرفات اور مشعرا لحرام میں اللہ تعالیٰ کا بکثرت ذکر کرنا۔ اور رمی الجماد کرنا۔ یہ سب اس غرض کے ہئے ہے کہ تمہارے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی سچی محبت پیدا ہو اور تم سمجھو کہ ایک دن تم اسی طرح اللہ تعالیٰ کے حضور اکٹھے ہونے والے ہو۔ پس اگر تم نے اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط رکھا اور اس کی رہ میں ہر قسم کی تکالیف کو برداشت کیا اور کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کیا تع جس طرح اللہ تعالیٰ نے ابراہیمؑ اور اسمٰعیل ؑ اور ہاجرہؓ کو برکت دی تھی۔ اُسی طرح وہ تمہیں بھی برکت عطا فرمائے گا اور تمہاری نسلوں کو بھی اپنی دائمی حفاظت اور پناہ میں لے گا۔ پس تقویٰ کو اپنا شعار بنائو اور اس دن کو یاد رکھو جب تم سب کو اپنے اعمال کی جواب دہی کے لئے خداعتالیٰ کے ضور حاضر ہونا پڑیگا۔
حج کے احکام تو ختم ہو گئے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان جگہوں میں جانے اور وہاں چکر لگانے کی کیا حکمتیں ہیں؟ سو یاد رکھنا چاہیے کہ میرے نزدیک اس کی ظاہری حکمتوں میں سے ایک بڑی حکمت یہ ہے کہ خداتعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا ہے اِنَّ اَوَّلَ بِیْتٍ وُّ ضِعَ لِلنَّاسِ اَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ(آل عمران آیت۹۷) کہ سب سے پہلا گھر جو تمام دنیا کے فائدہ کے لئے بنایا گیا تھا وہ ہے جو مکہ مکرمہ میں ہے اسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نہیں بنایا بلکہ یہ آدم کے زمانہ سے چلا آتا ہے (خواہ وہ کوئی آدم ہو) پس وُضِعَ لَلنَّاسِ میں پیشگوئی تھی کہ چونکہ خداتعالیٰ نے اسے ساری دُنیا کو اکٹھا کرنے کے لئے بنایا ہے اس لئے تمام لوگوں کو اس جگہ جمع کیا جائیگا چنانچہ اسی غرض کے لئے حج کی خاص تاریخیں مقرر کر دی گئیں۔ گویا دوسرے الفاظ میں تمام دنیا کے لوگ جمع ہو سکیں ۔گویا دوسرے الفاظ میں تمام دنیا کو اکٹھا کرنے اور جہان بھر کے اتقیاء او ر صلحاء کو جمع کرنے کے لئے خداتعالیٰ نے اپنے مائدہ روحانی پر لوگوں کو ایک عظیم الشان دعوت دی ہے تاکہ قومی اور ملکہ منافرت درمیان سے اُٹھ جائے اورباہمی تعلقات وسیع ہو جائیں۔ اور ایکدوسرے کی محبت ترقی کرے۔ اور یہ خیال کہ ہم فلاں قوم سے ہیں اور ہمار اغیر فلاں قوم سے ہے مٹ جائے۔ میرے نزدیک منیٰ میں لوگوں کے تین دن اسی لئے فارغ رکھے گئے ہیں کہ وہاں لوگ ذکر الہٰی اور عبادت میں اپنا وقت گذارنے کے علاوہ آپس میں ایک دوسرے سے ملیں اور حالات معلوم کریں قادیان اور ربوہ میں بھی لوگ مختلف اوقات میں آتے رہتے ہیں۔ مگر وہ تعلقات نہیں بڑھتے جو جلسہ سالانہ کے ایام میں بڑھتے ہیں۔ اگر حج سے یہ فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی جائے تو میرے نزدیک وہ تفرقے اور شقاق مٹ سکتے ہیں۔ جنہوں نے مسلمانوں کو کمزور کر رکھا ہے۔ اور ان کے درمیان اختلافِ عقائد کے باوجود زبردست اتحاد پیدا ہو سکتا ہے غرض حج گو ایک مذہبی عبادت ہے مگر اس میں روحانی فوائد کے علاوہ یہ ملی اور سیاسی غرض بھی ہے کہ مسلمانوں کے ذی اثر طبقہ میں سے ایک بڑی جماعت سال میں ایک جگہ جمع ہو کر تمام عالم کے مسلمانوں کی حالت سے واقف ہوتی رہے۔ اور ان میں اخوت اور محبت ترقی کرتی رہے اور انہیں ایک دوسرے کی مشکلات سے آگاہ ہونے اور آپس میں تعاون کرنے اور ایک دوسرے کی خوبیوں کو اخذ کرنے کا موقعہ ملتا رہے۔ گو افسوس ہے کہ اس غرض سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھایا جاتا۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حج سے یہی غرضتھی تو پھر مکہ مکرمہ میں ہی کیوں تمام مسلمانوں کا اجتماع کافی تھا عرفات منی ٰ اور مزدلفہ میں جانے کی کیا غرض ہے؟ سو یاد رکھنا چاہیے کہ عفرات منیٰ اور مزدلفہ میں جمع کرنے کی ایک حکمت تو یہ ہے کہ شہر میں اجتماع کی صورت نہیں ہوسکتی اور نہ لوگوں کا آپس میں صحیح رنگ میں میل جول ہو سکتا ہے۔ اس لئے خداتعالیٰ نے مسلمانوں کو کھلے میدانوں میں جمع ہونے کا حکم دیدیا تاکہ وہاں لوگ آسانی سے ایک دوسرے سے مل سکیں چونکہ جگہ بھی کھلی ہوتی ہے او ر وقت بھی فارغ ہوتا ہے اس لئے ایک دوسرے کو ملنے کا مدعا خوب اچھی طرح پورا ہو سکتا ہے لیکن اس کے علاوہ خداتعالیٰ نے مزدلفہ منیٰ اور عرفات کو اس شرف کے لئے س لئے چُنا ہے کہ عرفا ساحل سمندر کی طرف ہے اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں حضرت ابراہیم علیہ السلام اسی راستہ سے حضرت ہاجرہؓ اوراسمٰعیل ؑ کو چھوڑنے کے لئے شام سے تشریف لائے تھے۔ اور عرفات وہ مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ کی ان پر تجلی ظاہرہوئی ۔ اور مزدلفہ وہ مقام ہے جہاں آپ سے یہ وعدہ کیا گیاکہ اس قربانی کے بدلہ میں تجھے بہت بلند درجات عطا کئے جائیںگے اور منیٰ وہ مقام ہے جہاں حضرت ہاجرہؓ گھبرائی ہوئی پہنچتی تھیں مگر جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ میں خدا کے حکم سے تمہیں چھوڑ کر جا رہا ہوں تو انہوں نے کہا اِذًا لَّا یُضَیِّعُنَا۔ اگر یہ بات ہے تو اللہ تعالیٰ ہمیں کبھی ضائع نہیں کرے گا اور وہ واپس چلی گئیں۔ گویا شیطان ہمیشہ کے لئے مار دیا گیا۔ اسلئے یہاں شیطان کو کنکر مارے جاتے ہیںَ
پھر حج بیت اللہ کی ایک غرض شعارء اللہ کا احترام اور ان کی عظمت لوگوں کے دلوں میں قائم کرنا ہے۔ شعائر اللہ کے لفظ سے ظاہر ہے کہ یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کے نشانات میں سے ہیں۔ چونکہ دنیا میں کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کا ذہن صرف ظاہر سے باطن کی طرف منتقل ہوا کرتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے حج بیت اللہ میں ان کے سامنے ایسے نشانات رکھدیئے جو خداتعالیٰ کو یاد دلانے والے اور اس کی محبت دلوں میں تازہ کرنے ولاے ہیں۔ حج دراصل اس عظیم الشان قربانی کی یاد تازہ کر تا ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہاجرہؓ او راسمٰعیل ؑ کو بیت اللہ کے قریب ایک وادی غیر ذی زرع میں انتہائی بے سروسامانی کی حالت میں چھوڑ کر سرانجام دی تھی بعض لوگ غلطی سے یہ خیال کرتے ہیں کہ چونکہ وہ اپنے بچے حضرت اسمٰعیلؑ کی گردن پر چھُری پھیرنے کیلئے تیار ہو گئے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی یاد گھار حج کی صورت میں قائم کر دی۔ حالانکہ اگر یہ درست ہوتا تو چونکہ یہ واقعہ شام میں ہوا تھا۔ اس لئے حج کا اصل مقام شام ہوتا نہ کہ حجاز اور لوگوں وہاں جمع ہو کر خداتعالیٰ کی یاد کرتے اور کہتے ابراہیم نے کس قدر قربنی کی تھی۔ لیکن خداتعالیٰ حج کیلئے مکہ مکرمہ کو چُنا اور منیٰ اور مزولفہ اور عرفات میں جانا اور وہاں مناسک حج بجا لانا ضروری قرار دیا۔ پس میرے نزدیک حج کا تعلق آپکا چُھری پھیرنے کیلئے تیار ہو جانیوالے واقعہ سے نہیں بلکہ اس واقعہ سے ہے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت ہاجرہؓ اور اسمٰعیل ؑ کو خداتعالیٰ کے حکم کے ماتحت ایک ایسی وادی میں لا کر پھینک دیا جہاں پانی کا ایک قطرہ تک نہ تھا۔ اور کھانے کے لئے ایک دانہ تک نہ تھا جب انسان حج کے لئے جاتا ہے تو اس کی آنکھوں کے سامنے یہ نقشہ آجاتا ہے کہ کس طرح خداتعالیٰ کے لئے قربانی کرنے والے بچائے جاتے ہیں۔ اور ان کو اللہ تعالیٰ غیر معمولی عزت دیتا ہے۔ اور حج کرنے والے کے دل میں بھی خدتعالیٰ کی محبت بڑھتی اور اس کی ذات پر یقین ترقی کرتا ہے پھر وہ اپنے آپ کو اس گھر میں دیکھ کر جو ابتدائے دنیا سے خداتعالیٰ کی یاد کے لئے بنایا گیا ہے۔ ایک عجیب روحانی تعلق ان لوگوں سے محسوس کرتا ہے جو ہزاروں سال پہلے سے اس روحانی سلک میں پروئے چلے آتے ہیں جس میں یہ شخص پرویا ہوا ہے۔ یعنی خداتعالیٰ کی یاد اور اس کی محبت کا رشتہ جو سب کو باندھے ہوئے ہے خواہ وہ پرانے ہوں یا نئے اسی طرح بیت اللہ کو دیکھ کر خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کا نقشہ انسانی آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ اور اسے احساس ہوتا ہے کہ کس طرح خداتعالیٰ نے غیر معمولی طور پر چاروں طرف سے لوگوں کو اس گھر کے گرد جمع کر دیا ہے۔ جب انسان بیت اللہ کو دیکھتا ہے اور اس پر اس کی نظر پڑتی ہے تو اس کے دل پر ایک خاص اثر پڑتا ہے اور وہ قبولیت دعا کا ایک عجیب وقت ہوتا ہے۔ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ جب میں نے حج کیا تو میں نے ایک حدیث پڑھی ہوئی تھی کہ جب پہلے پہل خانہ کعبہ نظر آئے تو اس وقت جو دعا کی جائے وہ قبول ہو جاتی ہے۔ فرمانے لگے اس وقت میرے دل میںکئی دعائوں کی خواہش ہوئی لیکن میرے دل میں فوراً خیال پیدا ہوا کہ اگر میں نے یہ دعائیں مانگیں اور قبول ہو گئیں۔ اور پھر کوئی اور ضرورت پیش آئی تو پھر کیا ہو گا۔ پھر تو نہ حج ہو گاا ور نہ یہ خانہ کعبہ نظر آئیگا۔ کہنے لگے تب میں نے سوچ کر یہ نکالا کہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کروں کہ یا اللہ! میں جو دعا کیا کروں وہ قبول ہوا کرے۔ تاکہ آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے ۔ میں نے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ سے یہ بات سنی ہوئی تھی۔ جب میں نے حج کیا تو مجھے بھی وہ بات یاد آگئی۔ جونہی خانہ کعبہ نظر آیا ہمارے نانا جان نے ہاتھ اُٹھائے کہنے لگے دُعا کر لو۔ وہ کچھ اور دُعائیں مانگنے لگ گئے مگر میں نے تو یہی دُعا کی کہ یا اللہ! اس خانہ کعبہ کو دیکھنے کا مجھے روز روز کہاں موقعہ ملے گا۔آج عمر بھر میں قمست کے ساتھ موقع ملا ہے پس میری تو یہی دُعا ہے کہ تیرا اپنے رسول سے وعدہ ہے کہ اس کو پہلی دفعہ حج کے موقعہ پر دیکھ کر جو شخص دعا کریگا وہ قبول ہو گی میری دُعا تھج سے یہی ہے کہ ساری عمر میری دُعائیں قبول ہوتی رہیں۔ چنانچہ اس کے فضل اور احسان سے میں برابر یہ نظارہ دیکھ رہا ہوں کہ میری ہر دعا اس طرح قبول ہوتی ہے کہ شاید کسی اعلیٰ درجہ کے شکاری کا نشانہ بھی اس طرح نہیں لگتا۔
اسی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگاتے وقت جب انسان دیکھتا ہے کہ ہزاروں لوگ اس کے گرد چکر لگا رہے ہیں اور ہزاروں ہی اس کے گرد نمازیں پڑھ رہے ہیں تو اس کے دل میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ میں دنیا سے کٹ کر خداتعالیٰ کی طرف آگیا ہوں اور میرا بھی اب یہی کام ہے کہ میں اس کے حضور سربسجود رہوں۔ پھر سعی بین الصفا و المروۃ میں حضرت ہاجرہؓ کا واقعہ انسان کے سامنے آتا ہے اور اس کا دل اس یقین سے بھر جاتا ہے کہ انسان اگر جنگل میں بھی اللہ تعالیٰ کے لئے ڈیرہ لگا دے تو خدا تعالی اُسے کبھی ضائع نہیں کرتا۔ بلکہ اس کے لئے خود اپنے پاس سے سامان مہیا کرتا اور اُسے معجزات اور نشانات سے حصہ دیتا ہے پھر وہاں جتنے مقام شائع کا درجہ رکھتے ہیں ان کے بھی ایسے نام رکھ دیئے گئے ہیں کہ جن سے خداتعالیٰ کی طرف توجہ پیداہوتی ہے مثلا سب سے پہلے لوگ منیٰ میں جاتے ہیں یہ لفظ اُمْنِیْۃ سے نکلا ہے جس کے معنے آرزو اور مقصد کے یہں اور اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ لوگ اس جگہ محض خدا کو ملنے اور شیطان کامل نفرت اور علیحدگی کا اظہار کرنے کے لئے جاتے ہیں۔ پھر عرفات ہے جس میں اس بات کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ اب ہمیں خدا تعالیٰ کی پہچان اور اس کی معرفت حاصل وہ گئی ہے اور ہم اس سے مل گئے ہیں اس کے بعد مزدلفہ ہے جو قرب کے معنوں پر دلالت کرتا ہے اور جس میں اس بات کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ وہ مقصد جس کی ہم تلاش کر رہے ہیں وہ ہمارے قریب آ گیا ہے۔ اسی طرح مشعر الحرام جو ایک پہاڑی ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مخلصانہ عقیدت اور ابراہیم کے جذبات ہمارے دلوں میں پیدا کرتی ہے کیونکہ یہ وہ مقام ہے جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاص طور پر دعائیں فرمایا کرتے تھے۔ پھر مکہ مکرمہ ایسی جگہ ہے جہاں سوائے چند درختوں اور اذخر گھاس کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ ہر جگہ ریت ہی ریت اور کنکر ہی کنکر ہیں اور کچھ چھوٹی چھوٹی گھاٹیاں ہیں۔ غرض وہ ایک نہایت ہی خشک جگہ ہے نہ کوئی سبزہ ہے نہ باغ دنیا کی کشش رکھنے والی چیزوں میں سے وہاں کوئی بھی چیز نہیں۔ پس وہاںجانا صرف اللہ تعالیٰ کے لئے اور اس کے قرب اور رضا ء کے لئے ہی ہو سکتا ہے اور یہی غرض حج بیت اللہ کی ہے پھر احرام باندھنے میں بھی ایک خاص بات کی طرف اشارہ ہے اور وہ یہ کہ انسان کو یوم الحشر کا اندازہ ہو سکے کیونکہ جیسے کفن میں دو چاردریں ہوتی ہیں۔ احرام میں بھی دو ہی ہوتی ہیں۔ ایک جسم کے اوپر کے حصہ کے لئے اور دوسری نیچے کے حصہ کے لئے۔ پھر سر بھی ننگا ہوتا ہے اور عرفات وغیرہ میں یہی نظارہ ہوتا ہے۔ جب لاکھوں آدمی اس شکل میں وہاں جمع ہوتے ہیں توحشر کا نقشہ انسان کی آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا کہ ہم خداتعالیٰ کے سامنے ہیں اور کفن میں لپٹے ہوئے ابھی قبروں سے نکل کر اس کے سامنے حاضر ہوئے ہیں پھر حج بیت اللہ میں حضرت ابراہیم ؑ حضرت اسمٰعلؑ حضرت ہاجرہؓ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی واقعات زندگی انسان کی آنکھوں اور عرفان پیدا ہوتا ہے۔ یوں تو اور قوموں نے بھی اپنے بزرگوں کے واقعات تصویری زبان میں کھینچنے کی کوشش کی ہے جیسے ہندو و دسہرہ میں اپنے پُرانے تاریخی واقعات دہراتے ہیں مگر مسلمانوں کے سامنے خداتعالیٰ نے ان کے آبائو اجداد کے تاریخی واقعات کو اسی طرز پر رکھا ہے کہ اس سے پرانے واقعات کی یا د بھی تازہ ہو جاتی ہے۔ اور آئندہ پیش آنے والے حادثہ یعنی قیامت کا نقشہ بھی اانکھوں کیسامنے کھچ جاتا ہے اسی طرح رمی الجماد کی اصل غرض بھی شیطان سے بیزاری کا اظہار کرنا اور ان جماد کے نام بھی ھمرۃ الدنیا۔ جمرۃ الوسطیٰ اور جمرۃ العقبیٰ اس لئے رکھے گئے ہیں کہ انسان اس امر کا اقراء کرے کہ وہ دنیا میں بھی اپنے آپ کو شیطان سے دور رکھے گا اور عالم برزخ اور عالم عقبیٰ میں بھی ایسی حالت میں جائیگا کہ شیطان کو کائی اثر اُس کی روح پر نہیں ہو گا۔ اسی طرح ذبیحہ سے اس طرف توجہ دلائی جاتی ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو ہمیشہ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار رکھے اور جاب بھی اس کی طرف سے آواز آئے وہ فورا اپنا سر قربنی کے لئے جھکا دے اور اس کی راہ میں اپنی جان تک دینے سے بھی دریغ نہ کرے۔ پھر سات طواف سات سعی اور سات ہی رمی یہں۔ اس سات کے عدد میں روحانی مدارج کی تکمیل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ کہ اس کے بھی سات ہی درجے ہیں جن کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ چنانچہ سورہ مومنوں میں ان درجات کی تفصیل دی گئی ہے اسی طرح حجر اسود کہ بوسہ دینا بھی ایک تصویری
وَمِنَ النَّاسِ

اَلَدُّالْخِصَامِo
زبان ہے بوسہ کے ذریعہ انسان اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ میں اس وجود کو جس کو میں بوسہ دے رہا ہوں اپنے آپ سے جدارکھنا پسند نہیں کرتا بلکہ چاہتا ہوں کہ وہ میرے جسم کا ایک حصہ بن جائے۔ غرض حج ایک عظیم الشان عبادت ہے جو ایک سچے مومن کے لئے ہزاروں برکات اور انوار کا موجب بنتی ہے۔ مگر افسوس ہے کہ آجکل مسلمان صرف رسمی رنگ میں یہ فریضہ ادا کرنے کی وجہ سے اس کی برکات سے پوری طرح متمتع نہیں ہوتے۔
۱۱۷؎ حل لغات: مسَالَدُّ الْخِصَامِ: اَلَدّ لَدَّ یَلِدُّ سے اسم تفضیل کا صیغہ ہے اور اَلَدُّ کے معنے ہیںاَلشَّدِ یْدُ الْخُصُوْ مَۃِ۔ وہ دشمن جو دشمنی میں بہت بڑھا ہوا ہو۔ خِصَام’‘ یہ مصدر ہے جس کے معنے مجادلہ یعنی جھگڑے کے ہیں۔
تفسیر:۔ فرماتا ہے ۔ دنیا میں کچھ ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں کہ جب وہ کسی مجلس میں بیٹھ کر دنیا کی باتیں کرتے ہیں تو تم سمجھتے ہو واہ وا یہ کتنے عقلمند اور سمجھدار ہیں ۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ دنیا کے سارے علوم پر حاوی ہیں اور انکی عقل کو کوئی پہنچ نہیں سکتا اور پھر وہ اپنی دینداری کے متعلق اتنا یقین لوگوں کو دلاتے ہیں کہ کہتے ہیں خدا کی قسم ہمارے دل میں جو نیکیاں بھر ہوئی ہیں ان کو کوئی نہیں جانتا ہم سے مشورہ لیا جائے تو ہم یوں کر دیں گے دوں کردیں۔ مگر فرماتا ہے حقیقت کیا ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ بدتریں دشمن جوتمہارے ہو سکتے ہیں وہ ان سے بھی زیادہ جھگڑا لو اور خطرناک ہوتا ہے وہ ہوتا تمہارے ساتھ ہے وہ مسلمان کہلاتا ہے اور جب کسی مجلس میں بیٹھ جاتا ہے تو ساری مجلس پر چھا جاتا ہے اور اپنی دینداری او ر تقویٰ پر قسمیں کھاتا ہے اور کہتا ہے کہ میرا دل تو قوم کے لئے کھلا جا رہا ہے ۔ جب دیکھنے والا اسے دیکھتا ہے اورسننے والا اس کی باتیں سنتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ یہ قطب الاقطاب بیٹھا ہے مگر فرماتا ہے ۔ دنیا میں تمہارے یہودی بھی دشمن ہیں۔ عیسائی بھی دشمن ہین او رقومیں بھی دشمن ہیں مگر یہ ان سے بھی بڑا اور خطرناک دشمن ہوتا ہے بظاہر تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ نیکی اور تقویٰ کا ایک مجسمہ ہے لیکن معاملہ پرعکس ہوتا ہے وہ کوئی دینی نکتے بیان نہیں کرتا بلکہ دنیوی امور کے متعلق ایسی باتیں کرتا ہے جو بظاہر تو بڑی اچھی ہوتی ہیں مگر درحقیقت ان کی تہہ میں منافقت کام کر رہی ہوتی ہے۔ اور پرھا س کے جھوٹا ہونے کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھاتا چلا جاتا ہے اور کہتا ہے کہ خداگواہ ہے میرے دل میں تو اخلاص ہی اخلاص ہے اور میں تو محض اپنے دوستوں کی خیر خواہی اور بھلائی کی وجہ سے ایسا کر رہا ہوں۔ فرماتا ہے تم ایسے شخص کی چکنی چپڑی باتوں سے کبھی دھوکا نہ کھائو۔ اور جب بھی تمہیں کوئی ایسا شخص نظر آئے۔ فوراً لاحول پڑھ کر اس سے علیٰحدہ ہو جائو اور سمجھ لو کہ تمہارے سامنے ایک شیطان بیٹھا ہے جو قسمیں کھا کھا کر اور اپنی خیر خواہی کا لوگوں کو یقین دلا دلا کر انہیں دھوکا اور فریب دے رہا ہے۔
وَاِذَا تَوَلّٰی
لَایُحِبُّ الْفَسَادَo
۱۱۸؎ حل لغات:۔ تَوَلّٰی:وَلِیَ سے باب تفعل ہے اور اَلتَّوَلِّیْ کے معنے ہیں اَلْاِنْصِرَافُ بَالْبَدْنِ اَوِ الْقَوْلِ۔ بدن کے ساتھ پھر جانا یعنی پیٹھ پھیر لینا۔ مرتد ہو جاتا یا اپنی بات سے پھر جانا۔ حاکم اور والی بن جانا۔
اَلْحَرْثُـ: کے معنے ہیں مَایَسْتَنْبُتُ بِالْبَذْرِ وَالنَّوٰی وَالْغَرْسِ۔ یعنی جو چیز بیج گٹھلی یا پودے سے اُگائی جائے۔(اقرب)
نَسْل کے معنے ہیں (۱) عقب یعنی اولاد بیٹے بیٹیاں (۲) مخلوق (۳) اگلی نسل یعنی صرف بیٹوں تک نہیں بلکہ دس دس بیس بیس پشتوں تک جو اولاد چلتی ہے اُسے بھی نسل ہی کہتے ہیں۔
تفسیر:۔ فرمایا ایسے لوگوں کی حالت یہ ہوتی ہے کہ جب انہیں بادشاہت مل جاتی ہے یعنی وہ خداتعالیٰ کی پیدا کردہ طاقتوں سے کام لے کر حکومت پر قابض ہو جاتے ہیں تو بجائے اس کے کہ رعایا اور ملک کی خدمت کریں بجائے اس کے کہ لوگوں کے دلوں میں سکینت اور اطمینان پیدا کریں وہ ایسی تدابیر اختیار کرنی شروع کر دیتے ہیں جن سے قومیں قوموں سے قبیلے قبیلوں سے اور ایک مذہب کے لوگ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے لڑنے جھگڑنے لگ جاتے ہیں اور ملک میں طوائف الملوکی کی حالت پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی طرح وہ ایسے طریق اختیار کرتے ہیں جن سے ملک کی تمدنی اور اخلاقی حالت تباہ ہو جاتی ہے اور آئندہ نسلیں بیکار ہو جاتی ہیں۔ حرث کے لغوی معنے تو کھیتی کے ہیں مگر یہاں حرث کا لفظ استعارۃً وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اور بتایا گیا ہے کہ جتنے ذرائع ملک کی تمدنی حالت کو بہت بنانے والے ہوتے ہیں ان ذرائع کو اختیار کرنے کی بجائے وہ ایسے قوانین بناتے ہیں جن سے تمدن تباہ ہو۔ اقتصاد برباد ہو۔ مالی حالت میں ترقی نہ ہو۔ اس طرح وہ نسل ِ انسانی کی ترقی پر تبر رکھ دیتے ہیں۔ اور ایسے قوانین بناتے ہیں جن سے آئندہ پیدا ہونے والی نسلیں اپنی طاقتوں کو کھو بیٹھتی ہیں اور ایسی تعلیمات جن کو سیکھ کر وہ ترقی کر سکتی ہیں ان سے محروم ہو جاتی ہیں۔
پھر فرمایا ہے کہ وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الْفَسَادَ اللہ تعالیٰ فساد پسند نہیں کرتا۔ اس لئے ایسے بادشاہ اور حکمران خداتعالیٰ کی نگاہ میں مغضوب ہیں اور وہ ان کو نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کے نزدیک وہی بادشاہ صحیح معنوں میں بادشاہ کہلا سکتا ہے جو لوگوں کے لئے ہر قسم کا امن مہیا کرے۔ ان کی اقتصادی حالت کو درست کرے اور انکی جانوں کی حفاظت کرے۔ کیا بلحاظ صحت کا خیال رکھنے کے اور کیا بلحاظ اس کے کہ وہ غیر ضروری جنگیں نہ کرے اور اپنے ملک کے افراد کو بلاوجہ مرنے نہ دے ۔ گویا ہر قسم کے امن اور جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری اسلام کے نزدیک حکومت پر عاید ہوتی ہے۔ اور وہ اس امر کی پابند ہے کہ ملک کی ترقی اور رعایا کی بہبودی کا ہمیشہ خیال رکھے۔
وَاِذَ قِیْلَ لَہُ
وَلَبِئْسَ الْمِھَادُo
۱۱۹؎ حل لغات:۔اِتَّقِ: وَتَی یَقِی سے باب افتعال کا امر کا صیغہ ہے اس کے اصل معنے یہ ہیں کہ انسان اس چیز سے جو سامنے سے آرہی ہو بچنے کے لئے ہٹ جائے مگر یہ معنے اس جگہ چسپاں نہیں ہوتے کیونکہ انسان خداتعالیٰ سے نہیں بچ سکتا ۔ خواہ وہ کسی جگہ چلا جائے بہر حال دوسرے معنے ہی لینے پڑیں گے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی حفاظت کا ذریعہ بنا لے۔
اَخَذَ تْہُ : اَلْاَخُذُ کے معنے ہیں حَوْزُ الشَّیئِ وَتَحْسِیْلُہ‘۔۔۔۔۔ وَتَارَہْ بِالْقَھْرِ۔ کسی چیز کو زبردستی لے لینا یا حاصل کرنا یا پکڑ لینا (اقرب) اور اَخَذَ تْہُ بِکَنَا کے معنے ہیں حَمَلَتْہُ عَلیٰ کَذَا۔ اُسے کسی کام پر اکسا دیا یا اُس کی ترغیب دی۔
اَلْعِزَّۃُ: وَرُبَمَا اسْنُعِیْرَتِ الْعِزَّۃُ اِلْحَمِیَّۃِ و الْاَنْفَۃِ الْمَذْمُوْ مَۃِ۔ وَمِنْہُ فِی الْقُرٓاٰنِ وَاِذَ قِیْلَ لَہ‘ اتَّقِ اللّٰہَ اَخَذَتْہُ الْعِذَّۃُ الْعِذَّۃُ بَالْاِثْمِ (اقرب) یعنی بعض اوقات عَزۃ کا لفظ بطور استعارہ جھوٹی غیرت اور پچ کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ پس اَخَذَ تْہُ الْعِزَّۃُ بِالْاِثْمِ کے معنے یہ ہوئے کہ جھوٹی قومی غیرت نے اُسے گناہ کی خاطر گھیر لیا یا اُسے گناہ پر آمادہ کر دیا۔
جَھَنَّم: وَارُ الْعِقَابِ بَعْدَ الْمَوْتِ۔ یعنی جہنم موت کے بعد سزا کی جگہ کا نام ہے (اقرب) جہنم کے لئے قرآن کریم میں اور بھی کئی لفظ آتے ہیں۔ جیسے جَحِیْم۔ سَعِیْر۔ سَقَرْ ۔ لظَی وغیرہ۔
تفسیر:۔فرماتا ہے جب اُسے کہا جائے کہ تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ تم تو دو کوڑی کے بھی آڈمی نہیں تھے تمہیں تو جو کچھ ملا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے احسان کیو جہ سے ملا ہے ۔ تو اَخَذَتْہُ الْعِزَّۃُ بِالْاِثْمِ۔ اُسے اپنی جھوٹی عزت کی پچ گناہوں پر اور زیادہ دلیر ہوتی ہے۔ اس کے دونوں معنے ہو سکتے ہیں یہ بھی کہ اس کے پہلے گناہوں اور شاعت اعمال کی وجہ سے ہتک عزت کا جنون اس کے سرپر سوار ہو جاتا ہے اور اسے ہدایت سے اور زیادہ دور پھینک دیتا ہے۔ اور یہ بھی کہ اپنی عزت کی پچ اُسے گناہوں کے لئے پکڑلیتی ہے یعنی اس سے اور زیادہ گناہوں کا ارتکاب شروع کرا دیتی ہے۔ فرماتا ہے یہاں ممکن ہے تم لوگوں کو فریب دے لو لیکن آخر جہنم تمہارا ٹھکانہ ہے۔ وَلَبِئْسَ الْمِھَادِ۔اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے ۔ جہنم بے شک اگلے جہان میں ہے لیکن ایک جہنم ایسے انسانوں کے لئے اس جہان میں بھی پیدا کر دیا جاتا ہے جب شریف انسان مقابلہ میں کھڑے ہو جائیں تو انہیں ایسا جواب مل جاتا ہے کہ یہی دنیا ان کے لئے جہنم بن جاتی ہے افسوس ہے کہ دنیا میںبہت سے لوگ صرف اس لئے اپنی اصلاح نہیں کر سکتے کہ جب انہیں ان کی غلطی بتائی جائے او رکہا جائے کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ تو اپنی ہتک عزت کے خیال سے وہ دیوانہ نہ ہو کر بجائے نصیحت سے فائدہ اٹھانے کے ناصح کا مقابلہ کرنے لگ جاتے ہین مگر اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ جس کسی میں کوئی غلطی یا نقص دیکھے بازار میں کھڑے ہو کر اُسے تبنیہہ کرنا شروع کردے۔ سمجھانا ہمیشہ علیحدگی میں چاہیے۔ اور سمجھانے والے کو اپنی حیثیت اور
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ
بِالْعِبَادِo
قابلیت بھی دیکھنی چاہیے کہ وہ جس شخص کو سمجھانا چاہتا ہے اسے سمجھانے کی اہلیت بھی رکھتا ہے یا نہیں۔ تاکہ اس کا اُلٹا نتیجہ نہ نکلے غرض جہاں غلطی کرنے والوں کو برداشت کی طاقت اپنے اندر پیدا کرنی چاہیے اور سمجھانے والاے کی بات کو ٹھنڈے دل سے سنُنا چاہیے۔ وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ سمجھانے والا احتیاط سے کام لے۔ یہ نہ ہو کہ وہ جس کو چاہے لوگوں میں ذلیل کرنا شروع کر دے۔ اس مثال کو حج کے ساتھ اس لئے بیان کیا گیا ہے کہ حج کی بڑی غرض قومی تفرقوں کو مٹا کر اتفاق و اتحاد اور محبت و یگا نگت کے تعلقات کو بڑھانا ہے۔ مگر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دنیا میں لڑتے جھگڑتے اور فساد پیدا کرتے رہتے ہیں۔ انہیں متوجہ کیا گیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ساری دنیا کو ایک مرکز پر جمع کرنا چاہتا ہے تو انہیں بھی چاہیے کہ وہ اتفاق و اتحاد قائم رکھیں اور اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنے کینے اور بغض چھوڑدیں۔ درحقیقت صحیح معنوں میں حج کرنے والا صرف وہی شخص کہلا سکتا ہے جو اس قسم کے فتنہ و فساد سے مجتنب رہے۔لیکن جو شخص فساد کرتا اور بنی نوع انسان کو دکھ پہنچاتا ہے وہ اپنے عمل سے اس وحدت اور مرکزیت کو نقصان پہنچاتا ہے جس کو قائم کرنے کیلئے اسلام نے حج بیت اللہ کا حکم دیا ہے۔
۱۲۰؎ حل لغات:۔ یَشْریْ:شَریٰ سے مضارع کا صیغہ ہے اور شَرَیٰ کے معنے خریدنے اور بیچنے دونوں کے ہوتے ہیں۔(اقرب)
رَئُ وْف’‘: رَئوف’‘ فَعُوْل’‘ کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے۔ رَئُ وْف’‘ رَأ فَۃ’‘ سے ہے اور رافت کے معنے تکلیف کو دیکھ کر اس کے دور کرنے کی طرف توجہ کرنے کے ہیں۔ رافت اور رحمت دونوں ہم معنے لفظ ہیں مگر رحمت وسیع ہے اور رافت قدرے محدود ہے۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ کسی کو تکلیف میں دیکھ کر اُسے چھڑانا۔ پس رئوف کے معنے ہوئے تکلیف میں دیکھ کر چھڑانے والا۔ رحمت دُکھ و سکھ دونوں کے لئے ہوتی ہے۔ مگر رافت ہمیشہ دکھ پر ہی ہوتی ہے گویا رحمت عام ہے اور رافت خاص۔
تفسیر:۔ اس مثال میں بتایا کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو خداتعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنی جان تک کی پرواہ نہیں کرتے بلکہ اُسے بھی خداتعالیٰ کی راہ میں قربان کر دیتے ہیں اور جو لوگ خداتعالیٰ کے لئے اپنی جان کو بھی قربان کر دیتے ہیں اور جو لوگ خداتعالیٰ کے لئے اپنی جان کو بھی قربان کرنے پر تیار رہتے ہوں وہ دورسروں کو نقصان پہنچانے کیلئے کب کوئی قدم اُٹھا سکتے ہیں۔ یہ مثلال دیکر اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ تمہیں بھی آخر الذکر گروہ کا سا طریق اختیار کرنا چاہیے اور نہ صرف فتہنہ و فساد سے مجتبب رہنا چاہیے بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنی زندگیوں کو وقف کر دینا چاہیے۔
وَاللّٰہُ رَئْ وْف’‘ بِالْعِبَادِ اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑی شفقت کر نے والا ہے۔ اس کی شفقت کا تقاضا ہے کہ تم بھی فتنہ و فساد سے بچو ۔ اور اپنی زندگیوں کو بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے کاموں میں صرف کرو تاکہ تم بھی رئوف بالعباد خدا کے مظہر بن جائو۔
یٰٓاَ یُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوا
عَدُوّ’‘ مُّبِیْن’‘o
۱۲۱؎ حل لغات:۔ اَلسِّلْمُ کے معنے ہیں اَلصُّلحُ۔ اَلسَّلَامُ وَالْاِسْلَامُ (اقرب) یعنی (۱) صلح (۲) امن کو قائم کرنا (۳)اسلام۔
کَآفَّۃً۔ کَفّ’‘ کے معنے ہیں جمع کرنا۔ روکنا۔ پس کَآفَّۃ’‘ کے معنے جمع کرنے والے یاروکنے والے کے ہیں۔
تفسیر:۔ فرماتاہے۔ اے مومنو! تم سارے کے سارے پورے طور پر اسلام میں داخل ہو جائو اور اس کی اطاعت کا جوا اپنی گردنوں پر کامل طور پر کرھ لو۔ یا اے مسلمانو تم اطاعت اور فرمانبرداری کی ساری راہیں اختیار کرو۔ اور کوئی بھی حکم ترک نہ کرو۔ اس آیت میں کَآفَّۃً اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کا بھی حال ہو سکتا ہے اور اَلسِّلْمِ کا بھی۔ پہلی صورت میں اس کے یہ معنے ہیں کہ تم سب کے سب اسلام میں داخل ہو جائو یعنی تمہارا کوئی فرد بھی ایسا نہیں ہونا چاہیے جو اطاعت اور فرمانبرداری کے مقام پر کھڑا نہ ہو۔ یا جس میں بغاوت اور نشوز کے آثار پائے جاتے ہوں۔ دوسری صورت میں اس کے یہ معنے ہیں کہ تم پورے کا پورا سلام قبول کرو۔ یعنی اس کا کوئی حکم ایسا نہ ہو جس پر تمہارا عمل نہ ہو۔ یہ قربانی ہے جو اللہ تعالیٰ ہر مومن سے چاہتا ہے کہ انسان اپنی تمام آرزوئوں تمام خواہشوں اور تمام امنگوں کو خداتعالیٰ کے لئے قربان کر دے اور ایسا نہ کرے کہ جو اپنی مرضی ہو وہ تو کر لے اور جو نہ ہو وہ نہ کرے۔ یعنی اگر شریعت اس کو حق دلاتی ہو تو کہے میں شریعت پر چلتا ہوں اور اسی کے ماتحت فیصلہ ہونا چاہیے۔ لیکن اگر شریعت اس سے کچھ دلوائے اور ملکی قانون نہ دلوائے تو کہے کہ ملکی قانون کی رو سے فیصلہ ہونا چاہیے۔ یہ طریق حقیقی ایمان کے بالکل منافی ہے۔ چونکہ پچھلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے بتایا تھا کہ مسلمانوں میں بعض ایسے کمزور لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو قومی ترقی اور رفاہیت کے دور میں فتنہ و فساد پر اُتر آتے ہیں۔ اور وہ بھول جاتے ہیں کہ ہماری پہلی حالت کیا تھی او رپھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں کیا کچھ عطا کر دیا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو نصیحت فرماتا ہے کہ بے شک تم مومن کہلاتے ہو مگر تمہیںیاد رکھنا چاہیے کہ صرف مونہہ سے اپنے آپ کو مومن کہنا تمہیں نجات کا مستحق نہیں بنا سکتا۔ تم اگر نجات حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس کا طریق یہ ہے کہ اول ہر قسم کی منافقت اور بے ایمانی کو اپنے اندر سے دور کرنے کی کوشش کرو۔ اور قوم کے ہر فرد کو ایمان اور اطاعت کی مضبوط چٹان پر قائم کر دو۔ دوم صرف چندا حکام پر عمل کر کے خوش نہ ہو جائو۔ بلکہ خدا تعالیٰ کے تمام احکام پر عمل بجالائو۔ اور صفاتِ الہیہ کا مل مظہر بنے کی کوشش کرو۔
پھر فرماتا ہے وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ اِنَّہ‘ لَکُمْ عَدُوّ’‘ مُّبِیْن’‘۔ تم شیطان کے پیچھے نہ چلو کیونکہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ اس آیت میں خطوات کا لفظ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے کہ شیطان ہمیشہ قدم بقدم انسان کو گمراہی کی طرف لے جاتا ہے۔ وہ کبھی یکدم کسی انسان کو بڑے گناہ کی تحریک نہیں کرتا۔ بلکہ اسے بدی کی طرف صرف ایک قدم اٹھانیکی ترغیب دیتا ہے اور جب وہ ایک قدم اُٹھا لیتا ہے تو پھر دوسرا قدم اُٹھانیکی تحریک کرتا ہے اس طرح آہستہ آہستہ اور
فَاِنْ زَلَلْتُمْ
عَزِیْز’‘ حَکِیْم’‘o
ھَلْ یَنْظُرُوْنَ
تُرْجَعُ الْاُمُوْرُO
قدم بقدم اسے بڑے گناہوں میں ملوث کر دیتا ہے پس فرماتا ہے ہم تمہیں نصیحت کرتے ہیں کہ تمہاراصرف چند احکام پر عمل کر کے خوش ہوجانا اور باقی احکام کو نظر انداز کر کے سمجھ لینا کہ تم پکے مسلمان ہو ایک شیطانی وسوسہ ہے۔ اگر تم اسی طرح احکام الہیہ کو نظر انداز کرتے رہے تو رفتہ رفتہ جن احکام پر تمہارا اب عمل ہے ان احکام پر بھی تمہار ا عمل جاتا رہیگا۔ پس اپنے اعمال کا جائزہ لیتے رہو۔ اور شیطانی وساوس سے ہمیشہ بچنے کی کوشش کرو۔
۱۲۲؎ تفسیر:۔ فرماتا ہے اگر تم اپنی اصلاح نہیں کرو گے اور طاقت اور قوت حاصل کرنے کے بعد بنی نوع انسان کی خدمت کرنے کی بجائے ان پر ظلم کرنا شروع کروگے۔ اور انہیں مالی اور جسمانی نقصانات پہنچائو گے تو تمہیں یاد رکھنا چاہیے کہ تمہارے سر پر ایک غالب خدا موجود ہے جو تمہیں سزا دینے کی بھی طاقت رکھتا ہے اور تم سے تمہارا اقتدار بھی چین سکتا ہے۔ پس خداتعالیٰ سے ڈرو جو ایکدم میں تمہیں بادشاہ سے گدا اورامیر سے فقیر بنا سکتا ہے اور تمہاری عزت کو ذلت میں بدل سکتا ہے۔ مگر ساتھ ہی حکیم کہہ کر بتایا کہ اس کا کوئی فعل ظالمانہ نہیں ہوتا بلکہ اس کا ہر کام کے پیچھے بڑی بڑی حکمتیں کام کر رہی ہوتی ہیں ۔ پس اس کی سزا بھی ظالمانہ نہیں ہوتی بلکہ انسان اصلاح کے لئے ہوتی ہے۔ اگر لوگ اپنی درنگی چھوڑ دیں اور خداتعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کرلیں۔ اور بنی نوع انسان کی خدمتد اپنا شعار بنا لیں اور سچائی اور راستی اور دیانت اور امانت کو اختیار کر لیں اور ہر قسم کا کھوٹ اپنے دلوں سے نکال دیں اور پاک باطن اور نیک دل اور بااخلاق اور خدا ترس بن جائیں تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحم کرتا اور انکی تضرعات کو سنتا اور ان کی ناکامیوں اور ذلتوں کو کامیابیوں اور عزتوں میں بدل دیتا ہے۔
۱۲۳؎ تفسیر:۔ اس میں بتایا کہ یہ کفار جو مسلمانوں کی مخالفت کر رہے ہیں اور منافق جو ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہتے ہیں اور اسلام کی تباہی کے خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ بظاہر تو اس بات کے منتظر ہیں کہ کب وہ دن آئے کہ اسلام دنیا سے مٹ جائے اور خدائے واحد کی حکومت پر شیطانی طاقتیں غلبہ حاصل کر لیں لیکن درحقیقت اپنے عمل سے وہ صرف اس بات کے منتظر ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے پاس بادلوں کے خیالوں میں آئے۔ یعنی اپنی مخفی تدبیر سے ان کی ہلاکت اور بربادی کے سامان پیدا کر دے۔ وہ اس بات کے منتظر ہیں کہ آسمان سے اس کے فرشتے نازل ہوں جو انہیں کچل کر رکھ دیں۔ وہ اس بات کے منتظر ہیں کہ کوئی ایسا نشان ظاہر ہو
سَلْ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ

شَدِیْدُ الْعِقَابO
جس کے نتیجہ میں یہ روز روز کے جھگڑے مٹ جائیں اور خداتعالیٰ کا آخری فیصلہ ایک چمکتے ہوئے نشان کی صورت مین سب کو نظر آجائے۔ اور آخر ایک دن ایسا ہی ہوگا۔ خدا ان کی آنکھوں کے سامنے ظاہر ہو گا اور ان کی ہلاکت کی ساعت ان کے سروں پر منڈلانے لگے گی۔ چنانچہ جنگِ بدر میں خداتعالیٰ بادلوں میں سے ہی اپنا چہرہ ظاہر کیا۔ یعنی ابھی جنگ شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ بارش ہوئی جس سے کفار کو شدید نقصان اور مومنوں کو جنگی لحاظ سے عظیم الشان فائدہ پہنچا اور پھر مومنوں کی مدد اور کفار پر رُعب طاری کرنے کے لئے ملائکہ بھی دلوں پر نازل ہوئے۔ بلکہ جنگِ بدر میں کئی کفار نے ملائکہ کو اپنی آنکھوں سے بھی دیکھا۔ اور قُضِیَ الْاَمْرُ کے ماتحت عرب کے سردار چُن چُن کر مارے گئے۔ یہاں تک کہ وہ بھی جسے وہ سیدالوادی کہتے تھے دو انصاری لڑکوں کے ہاتھ سے مارا گیا۔ اور مکہ میں ایسا کہرام مچا کہ کوئی گھر نہ تھا جس میں ماتم نہیں پڑاہو۔ اور گو یہود اس کا براہ راست کوئی اثر نہیں پڑا مگر اس جنگ کے نتیجہ میں ہی ان کی شرارتیں ظاہر ہوئیں۔ اور آخر وہ مسلمانوں کے ہاتھوں ہلاک ہو گئے۔ غرض ان کا منہ مانگا نشان انہیں مل گیا اور ان کی شوکت کی جڑھ کاٹ کر رکھ دی گئی اور پھر یہی سلوک بعد میں پیدا ہونے والے دشمنوں سے بھی ہوتا رہا اور خداتعالیٰ انہیں اپنی قہری تجلی کے جلوے بار بار دکھاتا رہا یہاں تک کہ اسلام دنیا پر غالب آگیا۔
۱۲۴؎ تفسیر:۔میں ترتیب مضمون کو بیان کرتے ہوئے اوپر بتا چکا ہوں کہ اس جگہ یہود مخاطب ہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس پیشگوئی پر بحث ہو رہی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے متعلق تھی۔ اور آپ کو اس پیشگوئی کا مصداق ثابت کیا جارہا ہے۔ چنانچہ اسی تسلسل میں اللہ تعالیٰ نے وَمِنْ حِیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ میں فتح مکہ کی پیشگوئی کی۔ یہ پیشگوئی اس وقت کی گئی تھی جبکہ مکہ پر کفار کاغلبہ اور حکومت تھی اور مسلمان مدینہ میں پناہ ڈھونڈ رہے تھے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے الہام کے ذریعے بتایا کہہ ایک وقت آئیگا جب تم مکہ فتح کر لو گے اور تمہارے لئے حج بیت اللہ کے راستے بالکل کھل جائیں گے۔ پھر اسی ضمن میں صلح حدیبیہ کی بھی پیشگوئی کی کیونکہ بتایا کہ اگر تمہیں عمرہ سے روکا جائے تو تمہیں کیا کرنا چاہیے۔ گویا پہلے سے پیشکوئی کر دی کہ تمہیں ایک زمانہ میں عمرہ کرنے سے بھی روکا جائیگا۔
اسی طرح مَنْلَمْ یَکُنْاَھْلُہ‘ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَام میں یہ اشارہ مخفی تھا کہ مکہ ایک دن تمہارے لئے گھر کے طور پر بننے والا ہے۔ غرض ان آیات میں یہ بتایا گیا تھا کہ مکہ کے دروازے تمہارے لئے کھلنے والے ہیں۔ اور تم اس میں امن سے داخل ہو گے۔ چانچہ فتح مکہ سے پہلے ہی فرما دیا کہ فَاِذَا امِنْتُمْ جب تم امن میں آجائو تو ایسا کرو۔
زُیِّنَ لِلَّذِیْنَ

بِغَیْرِ حِسَابٍO
اب ان پیشگوئیوں کے ساتھ ہی بنی اسرائیل کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ تم ان سے پوچھو کہ ہم نے انہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کے کس قدر کھلے نشانات دکھائے ہیں اور یہ جو ہم نے فتح مکہ کی پیشگوئی کی ہے یہ بھی ایک زبردست نشان ہے جس سے ثابت ہو جائیگا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔ پس وہ لوگ جو خداتعالیٰ کی عظیم الشان نعمت یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اسلام کی ناقدری کرتے ہوئے اسے مٹانے کے درپے ہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ انہیں سخت سزا دیگا۔ چنانچہ فتح مکہ کے ساتھ ہی یہود کی بھی انتہائی ذلت ہوئی اور وہ بھی تباہ ہوتے چلے گئے۔
اس آیت کا ایک یہ مفہوم بھی ہو سکتا ہے کہ ہم نے یہود کو پہلے بھی بہت سے نعمتیں عطا فرمائی تھیں جن کی انہوں نے ناشکری کی مثلاً سب سے بڑی نعمت تو ان پر یہی نازل ہوئی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی ہدایت کے لئے متواتر انبیاء ان میں مبعوث فرمائے لیکن یہود نے ہمیشہ ان کی تکژیب کی اور ان کی مخالفت کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ یہاں تک کہ بعض انبیاء کو انہوں نے جان سے بھی مارڈالا۔ یہ خداتعالیٰ کی نعمت کی ایک عظیم الشان ناشکری تھی جو ان سے ظاہر ہوئی۔ اسی طرح عیسائیوں نے جو یہود کی ایک شاخ ہیں اس قدر ناشکری کی کہ شریعت کو *** قرار دیدیا۔ غرض یہود کی ان متوتر شرکشیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتِ نبوت ان سے واپس لے لی کیونکہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر نہیں کرتا الہٰی سنت کے مطابق وہ نعمتیں اس سے چھین لی جاتی ہیں اور اسے رنج و غم اور حسر ت ویاس کے لمبے عذاب میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔
۱۲۵؎ تفسیر:۔ فرمایا یہ لوگ ابھی اس پیشگوئی کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے۔ کیونکہ دنیا اپنی تمام دلفریبیوں اور عنائیوں کے ساتھ ان کے سامنے کھڑی ہے اور طاقت اور دولت کے نشہ نے ان کی نگاہوں کو ایسا خیرہ کر رکھا ہے کہ یہ لوگ سمجھتے ہیں ہم مسلمانوں سے کہاں شکست کھا سکتے ہیں بلکہ وہ ان پیشگوئیوں پر مسلمانوں سے تمسخر کرتے اور ان کا مضحکہ اُڑاتے ہیں اور انہیں طعنے دیتے ہیں کہ ہمیں تو نقدمل رہا ہے۔ تمہارا انعام کہاں ہے مگر ایک دن ان کو معلوم ہو جائیگا کہ ہم کس طرح مسلمان کو غلبہ عطا کرتے اور کفار کو نیچا دکھاتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا وَالَّذِیْنَ اتَّقَوْا فَوْقَھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ جب قیامت کا دن آئیگا تو متقی لوگ ان کفار پر غالب ہونگے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ فَوْقَھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ کا نظارہ اس قیامت کے دن بھی ہو گا۔ جو مرنے کے بعد آنے والا ہے جب کہ کفار دوزخ میں جائیں گے اور مومن جنت میں اور وہ ہمیشہ کے لئے جوق ہو جائیں گے کیونکہ آخرت میں مقابلہ تو ہے نہیں کہ دوزخی جنتیوں پر کسی وقت فوقیت لے جاسکیں۔ مگر اس قیامت کے دن سے لوگ نصیحت حاصل نہیں کر سکتے اور نہ اسے حجت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے اور اس آیت میں اس غلبہ کو بطور دلیل صداقت پیش کیا گیا ہے۔ پس اس آیت میں یومِ قیامت سے مراد وہی دن ہے جس دن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح حاصل ہوئی اور کفار کو شکست جس دن دنیا نے یہ عجیب نظارہ دیکھا کہ ہو جو اکیلا اور بے یارومددگار تھا اور قوم کے ظالموں کا نشانہ بنا ہوا تھا وہ تو حاکم ہو گیا اور جو ملک کے بادشاہ اور حکمران تھے محکوم اور ذلیل ہو گئے۔
وَالَّذِیْنَ اتَّقَوْا کے الفاظ میں مومنوں کو بھی اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ کفار پر حقیقی غلبہ حاصل کرنے کے لئے سب سے بڑی چیز کی تمہیں ضرورت ہے وہ تقویٰ ہے بیشک ایمان بھی ایک قیمتی دولت ہے لیکن اگر اس ایمان کے مطابق عل نہیں تو وہ خداتعالیٰ کی نگاہ میں کوئی قیمت نہیں رکھتا۔
واللّٰہُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآئُ بِغَیْرِ حِسَابٍ میں بغیر حساب کے الفاظ کفار کے لئے نہیں بلکہ مسلمانوں کے لئے ہیں۔ اور جب کوئی چیز بے حساب ملے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ بدلہ سے بہت زیادہ ہے۔ حساب کر کے تو جتنا کسی کا حق بنتا ہے اتنا ہی دیا جاتا ہے مگر بغیر حساب کے اسی صورت میں دیا جاتا ہے جب حق ہے زیادہ دیا جائے ۔ پس ان الفاظ میں یہ اشارہ مخفی ہے کہ مومنوں کو ان کے بدلہ سے بہت بڑھ چڑھ کر انعام ملیگا۔ دوسرے اس میں کفار کو بتایا کہ تم کو جو کچھ ملا ہے اس کے متعلق تو تم سے پوچھا جائے گا کہ کس کس طرح خرچ کیا ہے لیکن ان کو اس طرح ملے گا کہ ان سے حساب بھی نہیں لیا جائیگا۔ گویا تم کو تو ملازموں کی طرح ملا ہے اور تم اس میں خیانت کر کے سزا کے موردبنتے ہو۔ لیکن ان کو ہدیہ کے طور پر ملیگا۔ اور اس میں تصرف کا ان کو اختیار کامل ہو گا۔ دراصل سلوک دو قسم کا ہوتا ہے ایک دوستانہ اور دوسرا ملازمانہ ۔ چونکہ دوستی میں غیریت باقی نہیں رہتی اس لئے فرمایا کہ ہم مومنوں کو بغیر حساب دینگے اور ان سے ایسا سلوک کریں گے جو ایک دوست دوست سے کرتا ہے۔ چنانچہ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایکدفعہ فرمایا کہ میر امت میں سے سترہزار آدمی بغیر حساب کے جنت میں داخل ہونگے لیکن جس کے ساتھ غیریت کا معاملہ ہو اس سے سختی کے ساتھ حساب لیا جاتا ہے اور حساب ہی کے مطابق اسے معاوضہ دیا جاتا ہے۔ اسی لئے قرآن کریم میں کفار کے متعلق یہ الفاظ کہیں استعمال نہیں ہوئے کہ انہیں بغیر حساب دیا جائیگا۔ بلکہ ان کے متعلق جہاں بھی آیا ہے یہی آیا ہے کہ وَاللّٰہُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بھی ایک دفعہ فرمایا مَنْ نُوْقِشَ الْحِسَابَ عُذِّبَ یعنی وہ شخص جس کا سختی سے حساب لیا گیا وہ تباہ ہوا ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ بات سنی تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ کیا قرآن میں یہ نہیں آتا کہ فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًا اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ مومنوں کا بھی حساب ہو گا۔ آپ نے فرمایا حساب سے مراد یہ ہے کہ پوری طرح حساب لیا جائے۔ ورنہ مومن کا حساب تو محض سرسری ہو گا(بخاری کتاب الرقاق) پس مومنوں کو جو کچھ ملے گا بغیر حساب کے ہی ملے گا۔ اسی طرح بغیر حساب کے ایک یہ بھی معنے ہیں کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ ختم ہونے والا انعام ملے گا۔ اور چونکہ یہ آیت اس دنیا کے غلبہ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اس لئے وَاللّٰہُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآئُ بِغَیْرِ حِسَابٍ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ان کی قربانیوں سے بہت زیادہ اجر عطا فرمائیگا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی غلامی میں اس دنیا میں جو کچھ ملا وہ بے حساب ہی ملا۔ بے شک ان کی قربانیوں کی چمک بھی آنکھوں
کَانَ النَّاسُ







صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍO
کو خیرہ کرنے والی ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے جو انہیں دینی اور دنیوی رنگ میں غیر معمولی اجر عطا فرمایا وہ ان کی قربانیوں سے بہت زیادہ تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایک طرف تو مادی رنگ میں انہیں تختِ شاہی پر بٹھا دیا اور دوسری طرف روحانی رنگ میں انہیں ایسی برکات سے نوازا کہ رَضِیَ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ کا دائمی سرٹیفیکٹ انہیں حاصل ہو گیا۔
وَاللّٰہ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآئُ بِغَیْرِ حِسَابٍ میں کفار کے اس شبہ کا بھی ازالہ کیا گیا ہے کہ یہ مٹھی بھر مسلمان ہم پر کس طرح غالب آسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خداتعالیٰ جب کسی قوم پر اپنے انعامات نازل کرنا چاہے تو اسے بے حساب انعام دیا کرتا ہے۔ بے شک تم حساب کی رو سے یہی سمجھتے ہو کہ ایک شخص دو پر غالب نہیں آسکتا۔ مگر اللہ تعالیٰ کا سلوک مسلمانوں سے اس سے بالکل مختلف ہو گا۔ ان کا ایک شخص تمہارے دو پر ہی نہیں بلکہ ان کا ایک آدمی تمہارے دس آدمیوں پر بھی غالب آجائیگا۔ اور فتح و کامیابی کا پرچم لہراتے ہوئے واپس لوٹے گا۔
۱۲۶؎ تفسیر:۔ اس آیت کے متعلق بہت کچھ اختلاف پایا جاتا ہے اور لوگ حیران ہوتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے آیا یہ کہ لوگ ایک اُمت تھے یعنی سب نیک تھے پھر نبی آئے اور اختلاف ہو گیا۔ یا یہ کہ لوگ بدتھے اور نبی آئے۔ میرے نزدیک اس کے یہی معنے ہیں کہ لوگ بد تھے اور نبی آئے۔ اس کی دلیل قرآن کریم سے تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ نبی لوگوں کی خرابی پر ہی بھیجتا ہے خود اس آیت سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ لوگ بد تھے۔ کیونکہ فرمایا مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ ۔ نبی بشارتیں اور انذار لے کر آئے اور انذار کا ساتھ ہونا بتاتا ہے کہ خدا سے دور لوگ موجود تھے۔ دوسرا ثبوت اسی آیت سے یہ ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْ مَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ۔ وہ نبی اس لئے آئے کہ جس بات میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا اس میں فیصلہ کریں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسائل کے متعلق اختلاف موجو دتھا پس یہ بھی دلیل ہے کہ اُمَّۃً وَّاحِدَۃ’‘ سے یہ مراد نہیں کہ لوگ نیک تھے۔
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً کیوں کہا۔ سو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث میں آتا ہے کہ اَلْکُفْرُمِلَّۃ’‘ وَاحِدَۃ’‘ کُفر بھی ایک ہی ملت ہے۔ یعنی اصل الاصول کفر کا یہی ہے کہ خدا سے لوگوں کو دور کیا جائے جس طرح اسلام بھی ملتِ واحدہ ہے۔ یعنی سب اسلامی امتیں ایک ہیں۔کیونکہ ان کے اصول ایک ہیں۔ گو تفصیلِ شرائع میں اختلاف ہو۔ پس مَلَّۃٖ واحدہ کہنے سے مراد انکا اتفاق یا باہمی محبت بتانا مدنظر نہیں بلکہ یہ مد نظر ہے کہ سب کافر ہی کافر تھے نیک لوگ ان میں نہ تھے کیونکہ کفر کے مقابلہ میں دوسری جماعت در حقیقت مومنوں کی ہی ہوتی ہے۔ کافر آپس میں خواہ کتنے ہی مختلف الخیال ہوں پھر بھی اصل غرض جو خدا کا قرب پانا ہے اس کے متعلق سب کا ایک ہی رویہ ہوتا ہے اور سب اپنے اپنے دائرہ میں ایک ہی کام کر رہے ہوتے ہیں یعنی خدا سے لوگوں کو دور کردینا۔
یا یہ کہ کَانَ کے معنے ’’تھے‘‘ کے نہیں بلکہ ’’میں‘‘ کے ہیں۔ اور اس کا یہ مطلب ہے کہ انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے اُمَّۃ’‘ وَاحِدَۃ’‘ بنایا ہے۔ یعنی دوسرے حیوانات بھی اُمت ہیں پھر امت ِ واحدہ نہیں ہیں۔ انسان مدنیٰ الطبع ہے اور اس کو آپس میں مل کر رہنا پڑتا ہے اور اس کا لاذمی نتیجہ اختلاف اور شقاق پیدا ہونا ہے۔ بڑی نعمت کیساتھ بڑے خطرات بھی ہوتے ہیں کیونکہ ایک دوسرے کی بدیاںبھی انسان اخذ کر تا ہے۔ جب تمدن کے یہ نقائص بڑھ جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نبی بھیجتا ہے جو اختلاف کو دور کر دیں اور ملنے جلنے کی وجہ سے جو اختلاف پیدا ہو گیا ہے اور ضد کی وجہ سے لوگ اپناپنا دین بنا بیٹھے ہیں اس کی وہ اصلاح کریں۔ اگر کہا جائے کہ یہ معنے ہوتے تو چاہیے تھا کہ کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَتَشَاجَرُوْ وَاخْتَلَفُوْا فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیّٖنَ ہوتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ فَا نے اس امر پر دلالت کر دی ہے کہ پچھلی بات پہلی بات کے نتیجہ میں ہے اور یہ ظاہر ہے کہ اُمَّۃً وَاحِدَۃ ہونے کا نتیجہ نبیوں کی بعثت نہیں ہے۔ اس لئے یہاں لازماً مقدر تسلیم کرنا پڑیگا اور فِیْمَا اخْتَلَفُوْافِیْہِ اس مقدر کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔
وَاَنْزَلَ مَعَھُمُ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ اس جگہ اللہ تعالیٰ نے اَلْکُتُب نہیں کہا بلکہ اَلْکِتٰبِ کہا ہے جس میں جنس کتاب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ہر نبی کو کو ئی نہ کوئی کتاب ضرور دی جاتی ہے خواہ نئی ہو یا پرانی۔ یہ نہیں کہ ہر ایک کو الگ الگ کتاب ملے بعض لوگ اپنی نادانی سے یہ سمجھتے ہیں کہ ہر نبی کو الگ الگ کتاب دی جاتی ہے حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔ اور تاریخی طور پر اس کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جا سکتا بلکہ قرآن کریم کی کوئی آیت بھی اس مضمون کی تائید نہیں کرتی اگر اَنْزَلَ کے لفظ یہ استدلال کیا جائے کہ ہر نبی پر کتاب اُتری ہے تو یہ لفظ تو قرآن میں غیر انبیاء کے لئے بھی استعمال ہوا ہے۔ پھر وہاں بھی یہی مراد لینی پڑے گی کہ انہیں بھی کتاب ملی تھی حالانکہ اسے کوئی تسلیم نہیں کرتا۔ جیسے قرآن کریم میں آتا ہے وَقَالَتْ طَّآئِفَۃ’‘ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اَمِنْوْا بِالَّذِیْٓ اُنْزِلَ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَجْہَ النَّھَارِ وَاکُفْرُ وْآ اٰخِرَہُ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ(آل عمران آیت ۷۳) یعنی اہل کتاب میں سے ایک گروہ کہتا ہے کہ مومنوں پر جو کچھ نازل کیا گیا ہے اس پر دن کے ابتدائی حصہ میں تو ایمان لے آئو اور اس کے پچھلے حصہ میں اس سے انکار کر دو۔ شاید اس ذریعہ سے وہ بھی مرتد ہو کر اپنے دین کو چھوڑ دیں۔ حالانکہ ہر شخص جانتا ہے کہ جو کچھ نازل ہوا وہ مومنوں پر نازل نہیں ہوا تھا بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر نازل ہوا تھا۔ پس اَنْزَلَ کا لفظ یہ ثابت نہیں کرتا کہ ہر نبی پر مستقل طور پر کوئی کتاب نازل ہوئی ہے اور نہ اَلْکِتَاب کا لفظ ان کے دعویٰ کو ثابت کرتا ہے اگر ہر نبی صاحب کتاب جدیدہ ہوتا تو اَنْزَلَ مَعَھُمُ الْکِتٰبَ کہ بجائے اَنْزَلَ مَعَھُمُ الْکُتُبَ کہنا چاہیے تھا مگر خداتعالیٰ نے ایسا نہیں کیا کیونکہ نبی تو لاکھوں آئے مگر لاکھوں کتابیں نازل نہیں ہوئیں۔
درحقیقت اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہر نبی جب بھی مبعوث ہو ا ہے تو کسی نہ کسی کتاب کے ساتھ مبعوث ہوا ہے۔ یعنی وہ اس لئے بھیجا گیا تھا کہ خداتعالیٰ کی کتاب کو دنیا میں قائم کرے۔ یہاں اس امر کا کوئی ذکر نہیں کہ ہر نبی کو کوئی نجئی کتاب دی گئی تھی۔ بلکہ صرف کتاب دیئے جانے کا ذکر ہے۔ اور کتاب پرانی بھی ہوتی ہے اور نئی بھی۔ چنانچہ قرآن کریم نے ایک دوسرے مقام پر بتایا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد متواتر انبیاء آتے رہے۔ مگر ان کا کام صرف یہ تھا کہ وہ تورات کی ترویج کریں اور اس کے احکام پر لوگوں سے عمل کروائیں۔ پس یہ عقیدہ کہ ہر نبی ضرور کوئی نئی کتاب لاتا ہے نہ صرف قرآن کریم کے خلاف ہے بلکہ انبیاء کی ایک لمبی تاریخ بھی اس عقیدہ کو واضح طور پر رد کرتی ہے۔
لِیَحْکُمَ بِیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ۔ میں یَحْکُمَ کی ضمیر غائب کا مرجع اللہ تعالیٰ بھی ہو سکتا ہے۔ اور رسول اور کتاب بھی۔ یعنی اللہ تعالیٰ ان کے اختلافات کا فیصلہ کرے یا رسول فیصلہ کرے یا کتاب فیصلہ کرے۔ اس سے معلقم ہوتا ہے کہ انبیاء کے آنے سے پہلے بھی لوگوں میں اختلاف موجود ہوتا ہے جسے خدایا اس کا رسول یا اس کی کتاب آکر دُور کرتے ہیں۔ یہ ایک غلط خیال ہے جو لوگوں کے دلوں میں پایا جاتا ہے کہ انبیاء کے آنے کی وجہ سے اختلاف پیدا ہوتا ہے وہ اختلاف پیدا نہیں کرتے بلکہ اختلاف جو واقعہ ہو چکا ہوتا ہے اسے مٹا کر وحدت پیدا کرتے ہیں۔
وَمَااخْتَلَفَ فِیْہِ اِلَّا الَّذِیْنَ اُوْتُوْ ہُ مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَ تْھُمُ الْبَیِّنٰت سے پھر شبہ پیدا ہوتا ہے ۔ کہ اختلاف در حقیقت بعد میں ہی پیدا ہوا۔ پہلے اُن میں کوئی اختلاف نہ تھا مگر یہ درست نہیں ۔کیونکہ مَا جَآئَ تْھُمُ الْبَیِّنٰت کے بعد اِلَّا الَّذِیْنَ اُوْتُوْ ہُ رکھ کر بتادیا ہے ۔کہ یہ کتاب کا ذخر ہے ۔ ]پس اس آیت میں پہلے اختلاف کا ذکر نہیں بلکہ ایک اور اختلاف کا ذکر ہے ۔ جو نبیوں کی آمد سے پیدا ہوتا ہے ۔ پہلا اختلاف تو وہ تھا کہ جس کے باوجود اُن کو اُمَۃً وَّاحِدَۃً کہا تھا ۔لیکن اب صداقت کے متعلق اختلاف پیدا ہوا اور دلائل کے آنے کے بعد پیدا ہوا۔اگر یہ کہا جائے کہ اس اختلاف کا تو پہلے ذکر ہی نہیں ۔ پھر اس آیت کا یہاں کیا جوڑ ہے ۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ آیت ایک سوال مقدر کا جواب ہے ۔ جو پہلی آیت لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْ افِیْہِسے پیدا ہوتاہے ۔ اور وہ یہ تھا کہ اگر نبیوں کے بعثت کی غرض اختلاف کو مٹانا تھا تو پھر اُن کی بعثت کا کیا فائدہ ہوا انہوں نے تو آکر اور اختلاف پیدا کر دیا اس کا جواب اللہ تعالیٰ یہ دیتا ہے کہ یہ اخلاف اور پہلا اختلاف مختلف ہیں۔ پہلا اختلاف اسیا تھا کہ جیسے مختلف بیمار ہو ںاور دوا نہ ہو۔ اور دوسرا ایسا ہے کہ بیمار کو دوا دی جائے اور وہ نہ پیئے ۔پاس پہلا اختلاف مجبوری کا تھا اور اس کی تلافی ضروری تھی اور یہ اختلاف حق کے مقابلہ میں پیدا ہوا ہے ۔ بہر حاکل اب حق تو........آگیا ہے جس کا اگر لوگ چاہیں تو مان لیں پس پہلا اختلاف خرابی ہی خرابی پیدا کرتا تھا اور یہ اختلاف ایسا ہے کہ اس میں ہدایت کی اُمید ہے کینکہ حق موجود ہے ۔ اب اگر اختلاف ہے تو صرف ضد کی وجہ سے ہے ۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ اختلاف صرف اِلَّا الَّذِیْنَ اوتو ہ کو ہے ۔ یعنی اس تعلیم سے جو ہم نے بھیجی ہے صرف اُن لوگوں کو اختلاف ہے جن کی طرف وہ کتاب آئی ہے یا تعلیم یا نبی آیا ہے ۔جو دوسرے لوگ ہیں اُن کو اِس سے کوئی اختلاف نہیں اور یہ ثبوت ہے اس امر کا کہ اختلاف اُس نبی یا اُس کتاب یا اس تعلیم کے نتیجہ میں نہیں ہے ۔ کیونکہ اگر فی الواقعہ وہ تعلیم جو ہم نے بھیجی ہے یا نبی جو بھیجا ہے اختلاف کا موجب ہوتے تو جو لوگ بے تعلق ہیں مثلاً غیر اقوام جو اُن کی مخاطب نہیں یا بعد میں آنے والے لوگ ہو کیوں انکی تعلیم کی تعریف کرتے ۔ واقعہ میں اگر دیکھا جائے تو نبیوں کی مخالفت کا زمانہ جب گذر جاتا ہے ۔ تو لوگ اُن کی تعلیم کی بری تعریف کرتے ہیں۔جیسے اب مسیحؑ کی تعلیم کی لوگ تعریف کرتے ہیں ۔ ابراہیم ؑاور موسیٰ ؑ اور ذرتشت ؑ کی تمام اقوام تعریف کرتی ہیں ۔ حالانکہ اُس کتاب کی لوگ مخالفت کرتے ہیں ۔جس میں وہ مخاطب ہوں ۔پس معلوم ہوا کہ اصل وجہ تعلیم یا نبی نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ بات ہوتی ہے کہ ہم اس کی اطاعت کس طرح کریں ۔ یا ان احکام کو مان کر ہمارے آرام میں خلل آئیگا ۔جب دوسرے لوگ مخاطب ہوں تو خوب تعریف کرتے ہیں کہ واہ وہ! کیا اچھی تعلیم ہے۔
تیسری بات بَغْیًا بَیْنَھُمْ میں یہ بیان فرمائی کہ یہ اختلاف بھی درحقیقت اس کتاب کی وجہ سے نہیں پیدا ہوا بلکہ درحقیت پہلے اختلاف کا نتیجہ ہے ۔ نبی آنے سے پہلے جو شرکشی اور عداوت آپس میں لوگوں کی پیدا ہو چکی تھی وہی اس تعلیم کی مخالفت پر لوگوں کو آمادہ کر رہی ہے ۔ یا یہ سوال ہے کہ اس نبی کو ہم کیونکر مان لیں ؟ یا یہ کہ فلاں نے اِسے مان لیا ہے ۔ اب ہم کس طرح مان لیں ۔ یا یہ فلاں عقیدہ کی جو ہمارے دشمنوں کا ہے تائید کرتا ہے ۔ اس کو مان لیں تو اُن کے سامنے ہماری نظیریں نیچی ہو جائیں ۔جیسے حنفی کہتے ہیں کہ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہابیوں کی فلاں فلاں باتوں کی تائید کی ہے ۔ اس لئے ہم انہیں نہیں مانتے ۔اِسی طرںوہابی کہتے ہیں کہ چونکہ انہوں نے حنفیوں کی بعض باتوں کی تائید کی ہے ۔ اس لئے ہم ااپ کو قبول نہیں کر سکتے ۔ پس نبی کو ماننے کی وجہ وہ عداوت ہوتی ہے جو اس نبی کے آنے سے پہلے اُن میںموجود ہوتی ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ نبی کے آنے کے بعد ایک جماعت ایسی پیدا ہو اجاتی ہے جو اللہ تعالیٰ کو ماننے والی اور اس کے احکام پر عمل کرنے والی ہوتی ہے ۔ اس لئے گو اس کے آنے سے بھی اختلاف نظر آتا ہے ۔ لیکن روحانی نگاہ رکھنے والا جانتاہے کہ نبی کے آنے سے اختلاف کی قوت کم ہو جاتی ہے ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ سے دور رہنے والے لوگ گھٹ جاتے ہیں اور ایک بڑی جماعت ایسی پیدا ہو جاتی ہے جو خدائے واحد کی پرستار ہوتی ہے ۔غرض اختلاف اس کتاب کے سبب سے نہیں بلکہ پہلے اختلاف کے باعث لوگ اس سے اختلاف کرتے ہیںجو ان لوگوں کے اندر پہلے سے موجود تھا ۔یا یہ کہ وہ بَغْیْ جو بَیْنَھُمْ ہے ۔ یعنی ساری کی ساری اُنہی کے قبضہ میں ہے ۔ ہمارے رسولوں اور اُس کے اتباع میں اس کا کوئی حصہ نہیں وہ اس اختلاف کا باعث ہے اس سے الزام اور بھی سخت ہو جاتا ہے کہ یہ بغی کرتے ہیں باوجود اس کے کہ دوسری طرف سے اُن کی خیر خواہی اور ترقی کے سامان ہو رہے ہیں۔
چ۔ اس میں چوتھا جواب دیا ہے کہ اختلاف کا الزام نبیوں پر نہیں آسکتا اور وہ یہ کہ اُن کے آنے سے پہلے تو دیکھو کہ کوئی بھی حق کا ماننے والا نہ تھا ۔مگر اب ایک پارٹی تو حق کو مانتی ہے ۔پس اختلاف درحقیقت مٹ گیا پیدا نہ ہوا ۔ کیونکہ پہلے مثلاً ایک لاکھ
اَمْ ھَسِبْتُمْ


نَصْرَاللّٰہِ قَرِیْب’‘O
آدمی خدا تعالیٰ کے متعلق اٹکل پچو باتیں بنا رہے تھے ۔ اب ایک ہزار نے مان لیا اور ننا نوے ہزار نے نہ مانا تو اختلاف کم ہوا یا زیادہ۔ ایک ہزار آدمی اس خیالی اختلاف سے نکل کر یقین اور ثوق کے مقام پر کھڑے ہوئے جہاں سے اللہ تعالیٰ کے جلال کا مشاہدہ ہوتا ہے ۔پس اس آیت کے تشریح یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اس چیز کی طرف ہدایت دی جس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا یعنی جس کا ذکر وَمَا اخْتَلَفَ فِیْہِ اِلَّا الَّذِیْنَ اُوتُوْہُ میں ہوا تھا ۔ اخْتَلَفُوْ افِیْہِ مِنَ الْحَلِقْ میں فِیْہِ کی جوضمیر ہے الْحَلِقْاُس کی صفت ہے ۔ یعنی اُس چیز کی طرف جس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا اور جس کی صفت یہ ہے کہ وہ حق ہے یا حق میں سے یہ ۔ یا مِنْ بیان کیلئے ہے اور معنے یہ ہیں کہ ہدایت کی اُس چیز کی طرف جس کی نسبت لوگوں نے اختلاف کیا تھا حالانکہ وہ حق تھی۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ پہلے ہی مومن تھے تو ھَدَی اللّٰہُ کے کیا معنے ہوئے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کبھی پچھلی بات کا ذکر کرتے ہوئے موجودہ نام لے لیا کرتے ہیں جیسے کہتے ہیں یہ بادشاہ جب پیدا ہوا تو یوں ہوا ۔ حالانکہ وہ پیدائش کے وقت بادشاہ نہیں ہوتا۔ یا کہتے ہیں یہ عالم جب سول میں پڑھنے گیا ۔ پس الَّذِیْنَ اٰمِنُواُن کا موجودہ نام ہے جس کو پرانے واقعہ کو دہراتے وقت قارم رکھا ۔تاکہ اُن کا احترام قائم رہے اور اُن کی طرف کفر کسی وقت بھی منسوب نہ ہو۔ یا یہ کہ استعداد مخفی جو ُن کے اندر تھی اس کو مد نظر رکھتے ہوئے ا نہیں الَّذِیْنَ اٰمِنُو کہا گیا ہے ۔یعنی وہ جو مومن بننے والے تھے اور اس کیلئے سامان بہم پہنچا رہے تھے۔
فَھَدَی اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمِنُوْ الِمَا اخْتَلَفُوْ افِیْہِ مِنَ الْحَلِقمیں یہ مضمون بیان کیا گیا ہے کہ جب لوگوں نے کتاب الٰہی کی مخالفت کی تو اللہ تعالیٰ نے اُن سب وعدوں کو جو اس نبی کے ذریعہ سے اپنی قوم کے متعلق مٹھی بھر مومنوں کے حق میں پورا کر دیا اور مومنوں کو دو کامیابیاں دے دیں جو سب قوم کے لئے مقدر تھیں۔ اسی کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث میں بھی اشارہ ہے کہ ہر شخص کے دو گھر ہیں ایک جنت میں اور ایک دوزخ میں جب کوئی ظلم کرے تو اللہ تعالیٰ ظالم کا جنت کا گھر مومن کو اور اس کا دوذخ کا گھر کافر کو دے دیتا ہے۔ کفار نے چونکہ بلاوجہ کتابِ الہٰی کی مخالفت کی اور اس کے سبب سے مومنوں کو سخت دُکھ برادشت کرنے پڑے خداتعالیٰ نے حکم دے دیا کہ وہ انعامات جو ساری قوم کے لئے مقدر تھے وہ مٹھی بھر مسلمانوں کو دے دیئے جائیں اور باقی قوم کو بوجہ ظالم ہونے کے ان سے محروم کر دیا جائے۔
۱۲۷؎ حل لغات:۔ مَسَّتْھُمْ: مَسَّ الشَّیئَ کے معنے ہیں لَمَسَہ‘ وَاَفْضٰی اِلَیْہِ بِیَدِہٖ مِنْ غَیْرِ حَائِلٍ کسی چیز کو بغیر کسی درمیانی روک کے اس نے چُھوآ (اقرب)
بَاْسَآء: کے معنے ہیں اَلشِّدَّۃُ سختی وَاِسْم’‘ لِلْحَرْبِ وَالْمُشَقَّۃِ وَالضِّرْبِ۔ اور بَاْسَاء کے لفظ کا اطلاق جنگ اور مشقت اور جسمانی تکالیف پر بھی ہوتا ہے۔
ضَرَّآئُ کے معنے ہیں اَلذَّمَانَۃُ وَالشِّدَّۃُ قحط۔ اَلنَّفْصُ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ۔ مالی اور جانی نقصان۔
تفسیر:۔ اس آیت میں ان ابتلائوں کی طرف اشارہ ہے جو مسلمانوں پر آنے والے تھے۔ چونکہ اس سے پہلے یہ بتایا گیا تھا کہ جب دنیا پرضلالت چھا جاتی ہے تو اس وقت خداتعالیٰ کی طرف سے کوئی نبی آتا ہے جس کی لوگ مخالفت کرتے ہیں۔ اس لئے اب فرماتا ہے کہ تم یہ مت سمجھو کہ بغیر ابتلائوں کے تم ترقی کر جائو گے۔ تمہاری ترقی ابتلائوں کے آنے پر ہی موقوف ہے جیسا کہ پہلوں کی ترقی کا باعث بھی ابتلاء ہی ہوئے۔ چنانچہ اس کا نقشہ کھینچتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَسَّھُمُ الْبَاْسَآئُ وَالضَّرَّآ عُ وَزُلْزَلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہ‘ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ۔ ا نہیں مالی مشکلات بھی پیش آئیں اور جانی بھی اور وہ دوسرے پائوں تک ہلادیئے گئے اور ان پر ادقدر ابتلاء آئے کہ آخر اس وقت کے رسول اور مومنوں کو دُعا کی تحریک پیدا ہو گئی اور وہ پکار اُٹھے کہ اے خدا تیری مدد کہاں ہے۔ اس آیت کے متعلق سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور اس کے پاک بندے بھی کسی وقت اللہ تعالیٰ کی مدد سے ایسے مایوس ہو جاتے ہیں کہ انہیں مَتٰی نُصْرُ اللّٰہِ کہناپڑتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جس مایوسی کا تصور بادی النظر میں پیدا ہوتا ہے اس سے انبیاء اور ان پر ایمان لانے والے کلیۃً پاک ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّہ‘ لَایَاْیَٔسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْکَافِرُوْنَ(یوسف آیت ۸۸) کہ صرف کافر ہی خداتعالیٰ کی رحمت سے ناامید ہوتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ جب مَتٰی کا لفظ بولیں تو اس سے مراد مایوسی نہیں ہوتی بلکہ تعیین کے لئے ایک درخواست ہوتی ہے اور مقصد یہ ہوتا ہے کہ فلاں بات کے لئے ایک وقت مقرر فرماد یا جائے۔ ایسا ہی اس جگہ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ کے یہ معنے نہیں کہ وہ مایوسی کا شکار ہو کر ایسا کہتے ہیں بلکہ درحقیقت ان الفاظ میں وہ یہ درخواست کرتے ہیں کہ الہٰی اس بات کی تعیین فرمادی جائے کہ وہ مدد کب آئیگی ۔ گویا مزید اطمینان کے لئے وہ آنے والی نصرت سے وقت کی تعیین کروانا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مدد جلد نازل ہو۔ یہ دُعا کا ایک موثر طریق ہے اور اس میں یہ اشارہ مخفی ہے کہ ان پر اسقدر ابتلاء آئے کہ وہ ہلادیئے گئے اور ان میں دُعا کی تحریک پیدا ہو گئی۔ اور ابتلائوں کی بڑی غرض بھی ہی ہوتی ہے۔ کہ خداتعالیٰ سے تعلق مضبوط ہو جب مومنوں کو دعا کی تحریک ہوتی ہے تو خداتعالیٰ آسمان سے اپنی نصرتِ نازل فرما دیتا ہے۔ اور ان کے مصائب کا خاتمہ کر دیتا ہے۔
مگر اس کے علاوہ حتی کے معنے ’’گی‘‘ کے بھی ہوتے ہیں اور یہ معنے کُتب نحو اور قرآن کریم سے ثابت ہیں۔ مغنی اللبیب میںلکھا ہے ۔ وَمُرَاوِفَۃُ کَیِ التَّعْلِبْلِیَّۃِ حَتّٰی یعنی حَتّٰی کے معنے اس ’’گی‘‘ کے مترادف بھی ہوتے ہیں جو کسی بات کی وجہ بیان کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے یعنی اس حتیٰ سے پہلے جو بات ہوتی ہے وہ بعد میں آنے والی بات کے لئے بطور سبب کے ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں دوسری جگہ بھی حتی ان معنوں میں آیا ہے ۔ چنانچہ سورۃ منافقون میں آتا ہے۔ ھُمُ الَّذِیْنَ یَقْولُوْنَ لَا تُنْفِقُوْا عَلیٰ مَنْ عِنْدَ رُسُوْلِ اللّٰہِ حَتَّی یَنْفَضُّوْا(آیت ۸)یعنی جو لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پاس جمع ہیں ان پر خرچ نہ کرو۔ تاکہ وہ بھاگ جائیں۔ نحوی اس کی یہ مثال بھی دیتے ہیں کہ اَ سْلِمْ حَتّٰی تَدْ خُلَ الْجَنَّۃَ یعنی فرمانبرداری کرتا کہ تو جنت میں داخل ہو جائے۔ ان معنوں کے لحاظ سے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ زلزلہ جو کفار کے ہاتھوں سے ہم نے پیدا کیا اس کی غرض ہی یہ تھی کہ ہمارے بندے ہم سے مانگیں اور ہم ان کو دیں۔ پس مانگنے کی طرف توجہ پھیرنے اور اپنی قوتِ فضل کو ظاہر کرنے کے لئے اس وقت تک ہم چُپ رہے جب تک کہ ان کے دل میں دعا کی زور سے تحریک پیدا نہ ہوئی۔ اور یہ تحریک ہم نے خود کروائی تاکہ ایک طرف ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت بڑھے اور دوسری طرف جب اللہ تعالیٰ کی نصرت معجزانہ طور پر آئے تو ان کے ایمان پڑھیں اور کفار میں سے جو غور کرنے والے ہوں انہیں ہدایت حاصل ہو۔ چنانچہ فرماتا ہے کہ جب یہ غرض پوری ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرمادیتا ہے کہ لو اب ہماری مدد آگئی۔
ابتلائوں کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ خداتعالیٰ انسان کی ہمت عیکھ کر ابتلا ء ڈالتا ہے یہ نہیں ہوتا کہ وہ ایسے ابتلاء انسان پر ڈالے جن کے برداشت کرنے کی اس میں طاقت ہی نہ ہو۔ ہاں انسان ایسے ابتلائوں میں ضرور ڈالا جاتا ہے جن کے متعلق وہ غلطی سے خیال کرلیتا ہے کہ میں ان کو برداشت نہیں کر سکوں گا۔لیکن اس کا یہ خیال درست نہیں ہوتا وہ ان کو برداشت کرنے کی طاقت رکھتا ہے ۔ اسی لئے خداتعالیٰ نے فرما دیا ہے۔ کہ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وْسْعَھَا یعنی خداتعالیٰ کسی پر ایسا بوجھ نہیں ڈالتا جس کے اُٹھانے کی اس میں طاقت نہ ہو۔ بوجھ ہمیشہ وہی ڈالا جاتا ہے جس کے اُٹھانے کی انسان میں طاقت ہوتی ہے۔ سوائے اس کے کہ کسی قوم کو تباہ کرنے کا منشا ہو۔ ورنہ جو ابتلاء کسی جماعت کی ترقی کے لئے ہوتے ہیں وہ طاقت برداشت سے باہر نہیں ہوتے ہاں مومن بعض دفعہ خیال کر لیتا ہے کہ وہ اس کی طاقت سے بلا ہیں۔ مگر یہ اس کی غلطی ہوتی ہے جب مومن ایک ابتلاء کو برداشت کر لیتا ہے تو اُسے پتہ لگ جاتا ہے کہ اس کا ایمان کتنا مضبوط ہے پھر اور رنگ میں اس پر ابتلاء آتا ہے اور وہ اُسے بھی برداشت کر لیتا ہے اور اس کے دل میں کسی قسم کا شکوہ پیدا ہونے کی بجائے شکرو امتنان کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ کہ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے اتنی طاقت دی کہ میں نے اسے برداشت کر لیا تب اس کا ایمان اور بھی پختہ ہو جاتا ہے اور وہ اس سے بڑے بڑے ابتلاء برداشت کر نے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ غرض جوںجوں انسان دلیر ہوتا جاتا ہے آگے بڑھتا جاتا ہے اس طرح ایک تو اسے اپنے ایمان کی پختگی کا پتہ لگ جاتا ہے ۔ دوسرے قربانیوں کے میدان میں اُسے دوسروں سے آگے پڑھنے کا موقعہ مل جاتا ہے اور وہ ترقی کر جاتا ہے۔
غرض ابتلاء کے دو فائدے ہوتے ہیں ۔ اول یہ کہ انسان کو اپنی حالت کا پتہ لگتا ہے کہ خداتعالیٰ کی راہ میں اس کی جان کس قدر تکلیف اُٹھا سکتی ہے۔ دوسرے اس میں آگے قدم بڑھانے کی جرات پیدا ہوتی ہے۔ ان ابتلائوں کا آنا ایسا ضروری ہے کہ نبیوں کی کوئی جماعت ایسی نہیں ہوئی جس پر ابتلاء نہ آئے ہوں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ وہ جنت جس کی وسعت کا اندازہ بھی تم نہیں لگا سکتے تمہیں یونہی مل جائیگی یا وہ دنیوی کامیابیاں جن کا تمہیں وعدہ دیا جا رہا ہے بغیر قربانیوں کے تمہیں مل جائیگی اور تم پر وہ حالت نہیں گذرے گی جو پہلوں پر گذرتی رہی۔ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ وہ حالت ضرورآئیگی۔ اس لئے یہ مت خیال کرو کہ تم آسانی سے کامیاب ہو جائو گے۔ جب تک تم ان حالتوں میں سے نہیں گذرو گے جن میں سے پہلے لوگ گذرے اس وقت تک تمہیں کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ انہین بڑی بڑی تکالیف پہنچی تھیں جسمانی بھی اور مالی بھی۔ انہیں اپنی جائیدادیں چھوڑنی پڑیں ۔ رشتہ داروں کو ترک کرنا پڑا۔ فاقے کرنے پڑے۔ ماریں کھائیں۔ قتل ہوئے۔ غرض وہ کئی رنگ میں ہلائے گئے جس طرح زلزلہ سے عمارت کبھی دائیں طرف جھکنے لگتی ہے اور کبھی بائیں طرف اسی طرح دیکھنے والے ان کے متعلق یہی سمجھتے تھے کہ یہ اب گِرے کہ گِرے حتی کہ ان کی تکالیف بڑھتے بڑھتے اس حد تک پہنچ گئیں کہ دشمن نے یہ خٰال کر لیا کہ اب یہ گِر ہی گئے ہیں۔ اس وقت اللہ تعالیٰ کے رسول اور مومنوں نے دعائیں کرنی شروع کیں کہ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ۔ اے خدا! ابتالء اب اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ کی مدد آئے اور ہمیں کامیابی عطا کرے۔
مَتٰی نُصْرُ اللّٰہِ کے لفظی معنے چونکہ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مدد کب آئیگی۔ اس لئے جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ ان کو خداتعالیٰ کی مدد کے متعلق نعوذ باللہ شبہ پیدا ہو گیا تھا۔ کہ شاید وہ آئے یا نہ آئے۔ اس لئے انہوں نے کہا کہ خدا یا تیری مدد کب آئیگی۔ مگر یہ صحیح نہیں اول تو مَسَّھُمْ میں مَسَّ کا لفظ دومعنوں میں استعمال ہوا ہے ۔مگر یہ کہ عملاً ان کو مشکلات پہنچیں اور دوسرے یہ کہ وہ مشکلات دل پر اثر کرنے والی نہیں تھیں صرف سطحی تھیں ان کے دل مضبوط تھے پس جب مشکلات کے باوجود وہ بہادر دل تھے۔ تو ان کے متعلق کسی مایوسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔ دوسرے سوال کبھی التجاء کا رنگ بھی رکھتا ہے انسان کسی سے پوچھتا ہے کہ یہ بات آپ کب کرینگے۔ تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ نہیں کرینگے بلکہ یہ ہوتا ہے کہ کردیں۔ اسی طرح مجسٹریٹ سے جب پوچھا جاتا ہے کہ میری باری کب آئے گی تو اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ کبھی نہیں آئے گی۔ بلکہ یہ ہوتا ہے کہ آجئے۔
بدر کے موقعہ پر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی کہ اے خدا! اگر یہ مختصر سا گروہ بھی ہلاک ہو گیا تو دنیا میں تیری عبادت کون کریگا۔ تو اس کے یہ معنے نہیں تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذباللہ خداتعالیٰ پر یقین نیہں تھا بلکہ اس رنگ میں دُعا کر کے آپؐ نے خداتعالیٰ کی غیرت کو برانگیختہ کیا۔ اسی طرح حضرت مسیح ناصری علیہ السلام نے جب صلیب پر لٹکتے وقت کہا کہ ایلی ایلی اسبقتنی یعنی اے خدا! چاہیے تو یہ تھا کہ اس مصیبت کے وقت تو میری مدد کر کے آتا لیکن تو تو مجھے چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ تو آپ کا مطلب یہ نہیں تھا کہ خداتعالیٰ مصیبت کے وقت انہیں واقعہ میں چھوڑ گیا ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ میرا دل گھبرا رہا ہے آپ جلدی میری مدد کے لئے آجائیں پس اس رنگ میں جب دُعا کی جاتی ہے تو قبولیت دُعا پر حدِم یقین کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ خداتعالیٰ کو غیرت دلانے کے لئے ہوتی ہے اسی طرح جب مومن کہتے ہیں مَتٰی نَصْرُ اللّٰہ اے خدا! تیری مدد اور نصرت کب آئیگی تو خداتعالیٰ کہتا ہے سُنو۔ میری مدد آپہنچی۔ چنانچہ دیکھ لو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب فتح مکہ کے لئے تشریف لے گئے تو مکہ والوں کو خیال تک بھی نہیں تھا کہ آپ ان پر حملہ آور ہونگے۔ ابوسفیان خود آپ سے مدینہ میں مل کر آرہا تھا۔ جب لوگوں نے آپ کا لشکر دیکھا تو بعض نے کہا کہ یہ لشکر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہو گا۔ اس پر ابوسفیان نے کہا۔ تم پاگل تو نہیں ہو گئے میں ابھی مدینہ سے آرہا ہوں۔ وہاں کوئی لشکر تیار نہیں تھا۔ مگر اگلے ہی چار پانچ منٹ میں مسلمان آس کے پاس پہنچ گئے اور انہوں نے ابوسفیان کو گرفتار کر لیا اور دوسرے دن مکہ فتح ہو گیا۔ غرض خداتعالیٰ کی نصرت اچانک آتی اور مومنوں کو کامیاب کر دیتی ہے۔ عیسائیوں نے تین سو سال تک بڑے بڑے مصائب برداشت لیکن ایک دن انہوں نے سُنا کہ روم کا بادشاہ عیسائی ہو گیا ہے اورآئندہ سے ملک کا مذہب عیسائیت ہو گا اور اس اعلان کے ساتھ ہی ان کے تمام مصائب ختم ہو گئے۔
غرض مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ۔ میں یہ بتایا ہے کہ مومن دُعائیں کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ الہٰی ابتلاء بڑھ گئے ہیں۔ اب تیری مدد
یَسْئَلُوْنَکَ مَا ذَا


بِہٖ عَلِیْم’‘O
آجائے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلَا اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْب’‘۔ سُنو! خدا کی مدد قریب ہی ہے یعنی جب ابتلاء تمہاری ترقیاب کے لئے آئیں تو پھر تمہیں تباہ ہونے کا ڈر نہیں ہونا چاہیے۔ اگر تمہارے نفسوں میں خرابی ہے اور تم جانتے ہو کہ خداتعالیٰ تمہیں سزا دینا چاہتاہے تو پھر یقینا تمہارے لئے مدد نہیں آئیگی۔ لیکن اگرتمہارے نفسوں میں کوئی خرابی نہیں تمہارا ایمان مضبوط ہے تم تقویٰ کی راہ پر قدم مارہے ہو۔ وساوس پر تمہیں قابو حاصل ہے تو ابتلاء تمہارے لئے خوف و خطر کا باعث نہیں ہوسکتے۔ درحقیقت ایک سچے مومن پر جب ابتلاء آتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ اس ابتلاء کے ساتھ ہی خداتعالیٰ کی مدد بھی آرہی ہے۔ مولانا رومؒ نے اسی مضمون کو اس طرح بیان کیا ہے کہ
؎ ہر بلا کیں قوم را حق دادہ است
زیر آں گنجِ کرم بنہادہ است
یعنی جب کسی قوم پر کوئی آزمائش کا وقت آتا ہو خداتعالیٰ کی طرف سے اس کے نیچے انعامات کا ایک بہت بڑا خزانہ مخفی ہوتا ہے۔
پس ابتلاء کسی خطرہ کا موجب نہیں ہوتے بلکہ ابتلاء کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ خداتعالیٰ اور ترقی عطا کرے گا۔ ڈر اور خوف صرف اپنے نفس کی وجہ سے ہوتا ہے۔ پس ہمیشہ اپنے نفس پر غور کرتے رہنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ آیا اس میں کوئی ایسی بات تو پیدا نہیں ہو گئی جو تباہی کا باعث بن جائے۔ اگر اس میں وساوس پیدا نہیں ہوتے اگر ایمان مضبوط ہے اور دل شکر اور امتنان کے جذبات سے پر ہے تو انسان کو خوش ہونا چاہیے۔ کیونکہ ایسی حالت میں ابتلاء بہت بڑے انعامات کا پیش خیمہ ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ابتلاء آنے پر دل میں وساوس پیدا ہوں اورایمان میں کمزوری محسوس ہو تو سمجھ لو کہ یہ ابتلاء ترقی کا باعث نہیں بلکہ ہلاکت کا باعث ہیں۔ غرض اصل درحقیقی ایمان وہی ہوتا ہے جو ابتلائوں میں سے گذرنے کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ کیونکہ اسی کے نتیجہ میں ابدی زندگی حاصل ہوتی ہے۔
۱۲۸؎ تفسیر:۔ چونکہ گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا تھا کہ پہلے لوگوں پر بھی مالی اور جانی مشکلات آئی تھیں اور وہی ان کی قومی ترقی کا باعث ہوئیں جیسا کہ مَسَّھُمُ الْبَاْسَآئُ وَالضَّرَّآئُ کے الفاظ سے ظاہر ہے۔ اس لئے جب صحابہؓ نے یہ بات سنی تو ان کے دل بھی ان قربانیوں کے لئے بے تاب ہو گئے اور انہوں نے بے اختیار ہو کر روحانی ترقیات کے حصول کیلئے سوال کیا کہ یا رسول اللہ! اگر قومی ترقی کے لئے مالی قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے تو ہمیں بھی بتایا جائے کہ ہم کیا خرچ کریں تاکہ ہمارا قدم بھی عشق کے میدان میں کسی دوسرے سے پیچھے نہ رہے۔
دوسراسوال جانی قربانیوں کے متعلق ہو سکتا تھا۔ سو اس کا جواب کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ میں دیا گیا ہے جس سے قرآن کریم کی نہایت اعلیٰ درجہ کی ترتیب پر روشنی پڑتی ہے۔
اس آیت کے متعلق لوگ عام طور پر یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ سوال کچھ ہے اور جواب کچھ ہے ۔ پوچھا تو یہ گیا ہے کہ کیا خرچ کریں؟ اور جواب یہ دیا جاتا ہے کہ جو کچھ بھی اپنے اموال میںسے خرچ کرو۔ وہ فلاںفلاں کو دو۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اعتراض قلتِ مدبر کی وجہ سے ہے سوال کا جواب آیت میں موجود ہے جب اس نے فرمادیا کہ جو کچھ بھی تم اچھے مال سے خرچ کرو تو اس میں سائل کا جواب مکمل آگیا۔ اول یہ کہ کوئی حد بندی نہیں ۔ جتنے کی توفیق ہوا تنا خرچ کرو۔ دوم یہ ہے کہ اس امر کا لحاظ رکھو کہ جو خرچ کرو وہ طیب مال ہو۔ جو لوگ حرام کماتے ہیں اور اس میں سے خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کر کے سمجھتے یہں کہ ہم نے اپنے گناہ کا کفارہ کردیا وہ غلطی پر ہیں۔ خداتعالیٰ ایسے ہی مال کو قبول کرتا ہے جو اچھا۔۔۔۔۔۔ ہو۔ سوم یہ کہ صرف حلال نہیں دینا بلکہ طیب دینا ہے یعنی جس مال کو قبول کرنا اس شخص پر گراں نہ گذرے جس کو مال دیا جائے۔ ممکن ہے کوئی کہے کہ خیر کے معنے مال کے ہیں۔ اچھے مال کے معنے کہاں سے نکالے گئے ہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ خیر کے اصل معنے بہترین شے کے ہیں۔ اور مال کو اسی صورت میں خیر کہتے ہیں جب کہ وہ طیب ذرائع سے حاصل کیا گیا ہو۔ مفرادتِ راغب میں ہے ۔ وَقَالَ بَعْضپ الْعُلَمَائِ لَا یُقَالُ لَلْمَالِ خَیْر’‘ حَتّٰی یَکُوْنَ کَثِرًا وَمِنْ مَکَانٍ طَیِّبٍ یعنی مال کو خَیْراسی صورت میں کہیں گے جبکہ وہ زیاد ہو اور پاک ذرائع سے حاصل کیاگیا ہو۔ اور خود طیب ہو پس خیر کہنے سے یقینا قرآن کریم نے اسی طرف اشارہ کیا ہے کہ طیب اموال میں سے خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو۔اگر کہا جائے کہ اگر کوئی شخص حرام کماتا ہو لیکن صدقہ طیب مال سے دے تو کیا یہ اس حکم کے مطابق ہو گا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ تھوڑی سی گندگی بھی بہت سے پاکیزہ شے کو گندہ کر دیتی ہے۔ پس اگر کوئی شخص رشوت لیتا یاچوری کرتا یا ظالم سے دوسرے کا مال لیتا ہے تو خواہ اس قسم کا مال تھوڑا ہو اس کا سب مال گندہ ہو جائیگا اور وہ اس حکم کو پورا کرنے والا نہ ہوگا۔ غرض سوال کا مکمل جواب اسی آیت میں آگیا۔ ہاں اس سے زائد مضمون بھی بتا دیااگر خرچ کرو تو کہاں کہاں خرچ کرو۔ گویا اس طرف اشارہ کیا کہ خرچ کرنا اتنا مشکل نہیں جتنا کہ صحیح جگہ خرچ کرنا مشکل ہے۔ پس جو خرچ کرو۔ احتیاط سے کرو اور مستحقین کو دو۔ یہ قرآنی کمال ہے کہ وہ مختصر الفاظ میں وسیع مضمون بیان کردیتا ہے۔ دیکھو یہاں کتنے مختصر لفظوں میں سوال کا جواب بھی دے دیا۔ یہ بھی بتا دیا کہ مال حلال دو(طیب میں حلال کا مفہوم بھی شامل ہے) اور یہ بھی کہ حلال مال طیب بھی ہو۔ یہ نہیں کہ ٹوٹی ہوئی جوتی ہو جو کسی کام کی نہیں دیدی بیشک وہ اس کا مال ہے۔ بے شک اس کا دینا اسے حلال سے مگر وہ طیب نہیں۔ کیونکہ جسے دی گئی ہے اس کے کام کی نہیں۔ یا مثلاً ایک بھوکا کھانا مانگنے آیا ہے گھر میں کھانا تیار ہے مگر اُسے آتا دے دیا۔ یہ مال بھی ہے حلا ل بھی ہے۔ مگر بھوکے کی ضرورت کو پورا نہیں کرات۔ طیب یہ ہے کہ خود کم کھائے اسے پکا ہوا کھانا دے جسے وہ فوراً کھا سکے۔ یہ سب کچھ بتا کہ یہ بھی بتا دیا کہ فلاں فلاں جگہ مال خرچ کرنا زیادہ مناسب ہے۔ سبحان اللہ کیا معجزانہ اعجاز ہے۔ قرآن مجید میں ایسی مثالیں اور بھی ہیں کہ سوال کا جواب دے کر زائد مضمون بتا دیا ہے۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس قسم کا کلام فرماتے تھے۔ آپ سے کسی نے پوچھا کہ سمندر کا پانی کے بارہ میں کیا حکم ہے۔ آپ ؐ نے فرمایا ھُوَ الطَّھُوْرُ مَائُ ہ‘ وَ الْحِلُّ مَیْتَتُہ‘۔اس کاپانی پاک ہے اور اس کا مردہ حلال ہے یعنی سمندری جانور کو ذبح کرنے کی شرط نہیں۔ جیسے مچھلی، اب دیکھو یہاں سوال کا جواب بھی دیا ہے اور زائد مضمون بھی بتا دیا ہے۔
یہ امر بھی یاد رکھنا چاہیے کہ کیا خرچ کرنے کے الفاظ سے صدقہ کے اقسام کا دریافت کرنا بھی مراد ہو سکتا ہے۔ یعنی ہمارا خرچ کرنا کس کس موقعہ اور کن کن لوگوں کے لئے ہو۔ اور اس جگہ غالباً یہی مراد ہے۔ کیونکہ کمیت کے متعلق سوال آگے آتا ہے ۔ مَاذَا اسے سوال کبھی اُس چیز کے متعلق کیا جاتا ہے اور کبھی اس کی صفات کے متعلق۔ نحوی لکھتے ہیں کہ صفات کے متعلق صرف ذوی العقول کے بارہ میں سوال کیا جاتا ہے۔لیکن یہ حد بندی بالوجہ معلوم ہوتی ہے میرے نزدیک اس جگہ پوچھنے والا یہ نہیں پوچھتا کہ صدقہ کس چیز کا ہو۔ بلکہ یہ پوچھتا ہے کہ صدقہ کی صفات کیا ہوں۔ سوا للہ تعالیٰ نے جواب دے دیا کہ معین نہیں ہر اچھی چیز خرچ کرو۔ یعنی طیب مال سے ہو اور جتنی توفیق ہو اس قدر دیا جائے اور ساتھ ایک بات زائد بتا دی کہ تم اپنے ایمان یا اپنی حالت کے ماتحت جو کچھ خرچ کرو۔ یہاں یہاں خرچ کرو۔
پھر فرمایا وَمَا اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍفَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْم’‘۔ اللہ تعالیٰ کے قرب کے لئے تم کسی ایک نیکی پر حصر نہ کرو۔ بلکہ ہر قسم کی نیکیاں بجا لائو۔اور ہر خیر اور برکت کا دروازہ اپنے اوپر کھولنے کی کوشش کرو۔ کیونکہ تمہارے سامنے ایک لامتناہی زندگی ہے جس میں تمہاری روح نے قربِ الہٰی کی باریک درباریک روہوں پر چلنا ہے ۔ پس کس ایک یا چند نیکیوں پر اکتفاء نہ کرو۔ بلکہ خیر میں دوسروں سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو۔ اور اس امر پر یقین رکھو کہ ایک علیم ہستی تمہاری ہر حرکت اور سکون کو دیکھ رہی ہے۔ وہ تمہیں دنیا و آخرت میں اس کا بہترین اجر دیگی۔
۱۲۹؎ تفسیر:۔ اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ صحابہؓ لڑائی کو اس لئے نا پسند کرتے تھے کہ وہ نعوذباللہ بُزدل تھے۔ بلکہ ان کی ناپسندیدگی کہ وجہ صرف یہ تھی کہ مومن صلح پسند ہوتا ہے اور اس کی پہلی کوشش یہی ہوتی ہے کہ لڑائی نہ ہو اور صلح سے فیصلہ ہو جائے اور اگر وہ اپنے دشمن سے لڑتا ہے تو مجبوراً لڑتا ہے۔ صحابہؓ بھی دل سے صلح جوتھے اور وہ چاہتے تھے کہ اگر کُشت و خون کے بغیر یہ فتنہ دب سکے تو دب جائے مگر انہیں مجبوراً لڑائی لڑنی پڑی۔ پس یہ صحابہؓ کی تعریف ہے نہ کہ ان کی مذمت۔ یہ ان کی بُزدلی نہیں بلہ یہ قابل تعریف امر ہے کہ باوجود دشمنوں کے شرارتوں کے وہ یہی چاہتے تھے کہ کہ اگر صلح سے فیصلہ ہو جائے تو اچھا ہے۔ چنانچہ فرمایا۔ تم تو نہیں چاہتے تھے کہ لڑو۔ حالانکہ دشمن تم پر ظلم پر ظلم کر رہا تھا۔ اور تمہیں مار رہا تھا مگر میں جانتا تھا کہ یہ دشمن بغیر لڑائی کے باز آنے والے نہیں۔ اس لئے اب ان کی اصلاح کا یہی ذریعہ ہے کہ ان سے لڑا جائے اور انہیں انکے کئے کا مزا چکھایا جائے۔
عیسائیوں نے آیت سے دھوکا کھاتے ہوئے اعتراض کیا ہے کہ مسلمان چونکہ لڑائی سے ڈرتے تھے اس لئے معلوم ہوا کہ ہو بزدل اور ڈر پوک تھے۔ مگر صحابہؓ کو بزدلی کا طعنہ دینے والے عیسائی یہ نہیں دیکھتے کہ ان کے اپنے حواری کیسے بہادر اور دلیر تھے اور انہوں نے مسیح کی گرفتاری کے وقت کیسی جرات کا مظاہرہ کیا۔ انجیل گواہ ہے کہ کوئی ایک حواری بھی ایسا نہیں نکلا جس نے دلیری سے مسیح کا ساتھ دیا ہو بلکہ ایک حواری نے آپ پر تین دفعہ *** کی اور باقی سب اُس انتہائی نازک گھڑی میں آپ کو چھوڑ کر بھاگ گئے ۔ ایسے با ایمان اور دلیر حواریوں کو مقدس قرار دینے والے عیسائی اگر صحابہؓ پر اعتراض کریں تو ان کی عقل پر تعجب آتا ہے پھر عیسائیوں کی یہ ایک عجیب عادت ہے کہ صحابہؓ کے لڑائی پر جانے کا ذکر ہو تو بھی اعتراض کرتے ہیں اور نہ جانے کا ذکر ہو تب بھی اعتراض کرتے ہیں۔ جہاں غنیمت کا ذکر آتا ہے وہاں کہنے لگ جاتے ہیں کہ مسلمان بڑے لالچی تھے مال کی لالچ کے لئے لڑتے تھے اور اس موقعہ پر لکھتے ہیں کہ وہ بڑے بزدل تھے۔ لڑائی سے ڈرتے تھے حالانکہ اگر ان کی لڑائی لوٹ مار کے شوق کے لئے تھی تو پھر کراہت کیسی اور اگر کراہت تھی تو پھر شوق کیسا۔ اصل بات یہ ہے کہ غلط معنے کر کے انسان اضداء میں پھنس جاتاہے۔ بات وہی ہے جو میں نے بتائی ہے کہ مومن صلح پسند ہوتا ہے اسے اگر مجبور کیا جائے تو وہ لڑتا ہے ورنہ وہ یہی پسند کرتا ہے کہ لوگوں کی جانیں ضائع نہ ہوں۔
پھر فرماتا ہے۔ عَیسٰٓی اَنْ تَکْرَ ھُوْ ا شَیْئًا وَّ ھُوَ خَیْر’‘ لَّکُمْ وَسَعٰٓ اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ شَر’‘ لَّکُمْ درحقیقت انسانی علم اور سمجھ نہایت ہی محدود ہے اور ان دونوں کے محدود ہونے کی وجہ سے انسان بعض دفعہ ایک بات کو اپنے لئے مفید سمجھتا ہے۔ حالانکہ وہ اس کیلئے مضر ہوتی ہے اور بعض دفعہ وہ ایک بات کو اپنے لئے مضر خیال کرتا ہے حالاکہ وہ اس کے لئے مفید ہوتی ہے اور دونوں کے پیچھے یا جذبہ محبت کا ناجائز استعمال کام کر رہا ہوتا ہے یا جذبہ نفرت کا ناجائز استعمال کام کر رہا ہوتا ہے۔ یعنی بعض دفعہ تو شدید محبت کی وجہ سے وہ کسی چیز کے مضرات کو نہیں دیکھ سکتا اور بعض دفعہ شدید نفرت کی وجہ سے وہ دوسری چیز کے حسن کو دیکھنے سے قاصر رہتا ہے اور وہ یقینی طور پر کسی امر کے متعلق یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ آیا وہ میرے لئے مفید ہے یا مضر۔ اس حالت کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض دفعہ تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو لیکن حقیقتاً وہ تمہارے لئے مفید ہوتی ہے اور بعض دفعہ تم ایک چیز کو مفید خیال کرتے ہو حالانکہ وہ تمہارے لئے مضر ہوتی ہے تم کبھی کسی چیز سے فوائد حاصل کرنے کے لئے سامان مہیا کرتے ہو لیکن پھر بھی نتیجہ خراب نکلتا ہے ۔ جس کی وجہ صرف یہی ہوتی ہے کہ بعض ایسے سامان جن سے اچھا نتیجہ نکل سکتا تھا تمہاری نظر سے مخفی رہے پس جبکہ انسان کی ایسی حالت ہے کہ اس کی امید کے مطابق ہر وقت اچھے نتیجے نہیں نکلتے بلکہ بعض اوقات بُرے نتائج نکل آتے ہیں تو وہ کیا کرے۔ سو اس کا علاج یہی ہے کہ وہ خداتعالیٰ کے حضور گرے اور عاجزی سے یہ دعا کرے کہ اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ اے خدا ! مجھ کہ ہرامر میں خواہ وہ دینی ہو یا دنیوی صحیح اور سیدھا راستہ دکھاتا میں غلطیوں سے محفوظ رہوں۔ اور اپنی پسندیدگی یا ناپسندیدگی کو نہ دیکھے بلکہ مجت اور نفرت کے جذبات سے بالا ہوکر صرف اللہ تعالیٰ کی طرف اپنی نگاہ رکھے اور اس سے دعائیں کرتا رہے کہ وہ اسے سیدھا راستہ دکھائے اور اس سے دعائیں کرتا رہے کہ وہ اسے سیدھا راستہ دکھائے اور اپنی نیت اورارادہ کو اللہ تعالیٰ کے منشاء کے تابع کر دے۔ تب اس کے لئے کامیابی ہی کامیابی ہو گی اور خیر اور برکت کیدروازے اس کے لئے کھولے جائیں گے۔
آخر میں وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ کہہ کر بتایا کہ تم تو نہیں جانتے لیکن خداتعالیٰ تمام حالات کو جانتا ہے۔ یعنی تم کفار سے لڑائی کرنا رحم کے خلاف سمجھتے ہو۔ حالانکہ بعض دفعہ شریر کو سزا دینا اس کی اصلاح کے لئے ضروری ہوتا ہے اور اس کو چھوڑ دینا خود اس کیلئے اور دوسرے لوگوں کے لئے مضر ہوتا ہے۔ پس چونکہ یہ لوگ اب بغیر جنگ کے باز آنے والے نہیں اس لئے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان کا مقابلہ کیا جائے۔
یَسْعَلُوْکَ عَنِ الشَّھْرِ الْحَرَامِ





فِیْھَا خٰلِدُوْنَO
۱۳۰؎ تفسیر:۔ فرمایا یہ عزت والے مہینوں یعنی محرم، رجب، ذیقعدہ اور ذولحج کے متعلق تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ آیا ان میں لڑائی کرنا جائز ہے؟ یہ سوال کس طرح پیدا ہوا؟ اس کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے آئے تو اس کے بعد بھی مکہ ولوں کے جوشِ غضب میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی بلکہ انہوں نے مدینہ والوں کو دھمکیاں دینی شروع کر دیں کہ چونکہ تم نے ہمارے آدمیوں کو اپنے ہاں پناہ دی ہے اس لئے اب تمہارے لئے ایک ہی راہ ہے کہ یا تو تم ان سب کو قتل کر دو۔ یا مدینہ سے باہر نکال دو ورنہ ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہم مدینہ پر حملہ کر دیںگے اور تم سب کو قتل کر کے تمہاری عورتوں پر قبضہ کر لیں گے اور پھر انہوں نے صرف دھمکیوں پر ہی اکتفاء نہ کیا بلکہ مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ان ایام میں یہ کیفیت تھی کہ بسا اوقات آپؐ سار ی ساری رات جگ کر بسر کرتے تھے۔ اسی طرح صحابہ رضی اللہ عنہم رات کو ہتھیار باندھ کر سویا کرتے ھتے تاکہ رات کی تاریکی میں دشمن کہیں اچانک حملہ نہ کر دے۔ ان حالات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک طرف تو مدینہ کے قرب و جوار میں بسنے والے قبائل سے معاہدات کرنے شروع کر دیئے اور دوسری طرف ان خبروں کی وجہ سے کہ قریش حملہ کی تیاریاں کر رہے ہیں آپؐ نے ۲؁ء ہجری میں حضرت عبداللہ بن حجشؓ کو بارہ آدمیوں کے ساتھ نخلہ بھجوایا۔ اور انہیں ایک خط دی کر ارشاد فرمایا کہ اسے دو دن کے بعدکھولا جائے۔ حضرت عبداللہ بن حجشؓ نے دو دن کے بعد خط کھولا تو اس میں لکھا تھا کہ تم نخلہ میں قیام کرو۔ اور قریش کے حالات کا پتہ لگا کر ہمیں اطلاع دو۔ اتفاق ایسا ہوا کہ اس دوران میں قریش کا ایک چھوٹا سا قافلہ جو شام سے تجارت کا مال لے کر واپس آرہا تھا وہاں سے گذرا ۔ حضرت عبداللہ بن حجش ؓ نے ذاتی اجتہاد سے کام لے کر ان پر حملہ کر دیا۔ جس کے نتیجہ میں کفار میں سے ایک شخص عمروبن الحضرمی مارا گیا اور دو گفتار ہو ئے۔ اور مال غنیمت پر بھی مسلمانوں نے قبضہ کر لیا۔ جب انہوں نے مدینہ میں واپس آکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے اس واقعہ کا ذکر کیا تو آپؐ بہت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ میں نے تمہیں لڑائی کی اجازت نہیں دی تھی اور مالِ غنیمت کو بھی قبول کرنے سے انکار کر دیا ابنِ جریرؓ نے حضرت ابن عباسؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن حجشؓ اور ان کے ساتھیوں سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے یہ خیال کر لیا کہ ابھی رجب شروع نہیں ہوا۔ حالانکہ رجب کا مہینہ شروع ہو چکا تھا۔ وہ خیال کرتے رہے کہ ابھی۳۰ جمادی الثانی ہے۔ رجب کا آغاز نہیںہوا۔ بہر حال عمروبن الحضری کا ایک مسلمان کے ہاتھوں مارا جانا تھا کہ مشرکین نے شور مچا نا شروع کر دیا کہ اب مسلمانوں کو اس مقدس مہینوں کی حرمت کا بھی پاس نہیںرہا جن میں ہر قسم کی جنگ بند رہتی تھی۔ اللہ تعالیٰ اس آیت میں اسی اعتراض کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ بے شک ان مہینوں میں لڑائی کرنا سخت ناپسندیدہ امر ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک گناہ ہے لیکن اس سے بھی زیادہ ناپسندیدہ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے راستہ سے لوگوں کو روکا جائے۔ اور خداتعالیٰ کی توحید کا انکار کیا جائے اور مسجد حرام کو باطل کیا جائے۔ اور اس کے باشندوں کو بغیر کسی جرم کے محض اس لئے کہ وہ خدا ئے واحد پر ایمان لائے تھے اپنے گھروں سے نکال دیا جائے تمہیں ایک بات کا تو خیال آگیا مگر تم نے یہ نہ سوچا کہ تم خود کتنے بڑے جرائم کا ارتکاب کر رہے ہو اور خدااور اس کے رسول کا انکار کر کے اور مسجد حرام کی حرمت کو باطل کر کے اور اس کے رہنے والوں کو وہاں سے نکلا کر کتنے ناپسندیدہ افعال کے مرتکب ہوئے ہو جب تم خود ان قبیح حرکات کے مرتکب ہو چکے ہو۔ تو تم مسلمانوں پر کس مونہہ سے اعتراض کرتے ہو۔ ان سے تو صرف نادانستہ طور پر ایک غلطی ہوئی ہے۔ مگر تم تو جانتے بوجھتے ہوئے یہ سب کچھ کر رہے ہو۔
وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ علامہ ابو البقاء کے نزدیک بغیر اعادہ جار کے جر جائز نہیں اس لئے ان کا خیال ہے کہ یہ متعلق ہے فعل محذوف کا اور پورا جملہ یہ ہے وَصَدُّ عَنِ الْمَسْدِدِ الْحَرَامِ۔ کشاف نے بھی صَدّ’‘ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَام کے ہی معنے کئے ہیں۔ لیکن بعض کے نزدیک اَلْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کا عطف بِہٖ پر ہے اور ضمیر مجرور پر عطف بلا اعادہ جار کے برخلاف قول بصریوں کے جائز ہے۔ اہل عرب میں اس کی مثالیں بھی ملتی ہیں۔جیسے کہتے ہیں۔ مَافِیْھَا غَیْرُہ‘ وَفَرْسِہٖ۔ یعنی اس گھر میں اس کے اور اسکے گھوڑے کے سوا اور کوئی نہیں۔ اس مثلا میں فَرْسِہٖ کا عطف ضمیر مجرور پر کیا گیا ہے۔
پھر فرمایا۔ وَالْفِتْنَۃُ اَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ۔ فتنہ قتل سے بھی زیادہ سنگین جرم ہے۔ اس جگہ فتنہ سے وہی فتنہ مراد ہے جس کا لَایَزَ الُوْنَ یُقَاتِلُوْ نَکُمْ حَتّٰی یُرَدُّوْکُمْ عَنْ دِیْنَکُمْ میں ذکر آتا ہے۔ یعنی مسلمانوں کو مرتد کرنے اور انہیں اسلام سے منحرف کرنے کی سازشوں کا نام فتنہ رکھا گیا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ کفار تم سے ہمیشہ لڑتے رہیں گے تاکہ اگر ان کو طاقت ہو تو تم کو اپنے دین سے مرتد کر دیں۔ یعنی گو تمہارا مرتد کر دینا ان کی طاقت سے بارہ ہے مگر کفار کی غرض تم سے لڑنے کی یہی ہے کہ اگر ان کا بس چلے تو تمہیں مرتد کر دیں چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کفار اپنے بدارادوں میں تو خداتعالیٰ کے فضل سے ناکام رہے اور مسلمانوں پر فتح نہ پا سکے مگر اِکَّا دوکا آدمی جو ان کے قبضہ میں آ گیا انہوں نے اپنی طرف سے اس کو مرتد کرنے کی پوری پوری کوشش کی۔
اِنَّ الَّذِیْنَ

غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘O
چنانچہ بلالؓ ۔ ابو جندلؓ اور یاسرؓ کی مثالیں اس امر پر کافی سے زیادہ روشنی ڈالتی ہین۔ انہی جبراً مرتد کرنے کی کوششوں کے متعلق فرمایا ہے۔ کہ وَالْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ۔ قتل اور لڑائی کی نسبت دین کی وجہ سے کسی کو دکھ میں ڈالنا بہت زیادہ خطرناک گنا ہے۔
پھر فرماتا ہے کہ تم میں سے جو لوگ اپنے دین سے منحرف ہو جائیں اور کفر کی حالت میں ہی مر جائیں۔ ایسے لوگوں کے اعمال میں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اکارت چلے جائیں گے۔
حَبِطَتْ کے متعلق بعض لوگ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ جب کسی شخص نے کوئی عمل کر لیا۔ تو وہ ضائع کس طرح ہو گیا؟ اس اعتراض کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کا ذہن خَبِطَتْ کے اصل معنوں کی طرف نہیں جاتا۔ حَبِطَتْ کے اصل معنوں کا پتہ قرآن کریم کے ایک دوسرے مقام سے لگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ فاطر میں فرماتا ہے کہ مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْعِزَّۃَ فَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ جَمِیْعًا ط اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہُ ط(فاطر آیت ۱۱) یعنی جو شخص عزت چاہتا ہے اسے چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری اختیار کرے۔ کیونکہ تمام عزتیں خداتعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں اور اسی کی طرف پاکیزہ روحیں صعود کرتی ہیں اور عمل صالح یعنی ایمان کے مطابق عمل ان کو بلند کرتا ہے اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اعمال خداتعالیٰ کے حضور قبولیت کا جامہ پہن لیتے ہیں اور انسان کو اللہ تعلایٰ کا مقرب بنا دیتے ہیں۔ پس حَبِطَتْ اَعْمَا لُھُمْ کے یہ معنے ہیں کہ چونکہ ان کے اعمال خداتعالیٰ کے لئے نہیں تھے اس لئے وہ انہیں قبول نہیں کرے گا اور ان کی روحون کا صعود آسمان کی طرف نہیں ہوگا۔
اسی طر حَبِطَتْ اَعْمَا لُھُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰ خِرَۃِ کے یہ بھی معنے ہیں کہ خواہ ایمان لانے کے بعد کسی شخص کو اسلام کی بڑی بھاری خدمت کی توفیق ملی ہو پھر بھی اگر اس کا انجام کفر پر ہوا ہے تو اس کی پہلی دینی خدمات بھی رائیگاں چلی جائیں گی کیونکہ اس نے اپنے عمل سے ان خدمات کو باطل قرار دے دیا اورآخرت میں بھی اس کے وہ اعمال اس کے کسی کام نہیں آئیں گے۔ کیونکہ اس کا خاتمہ اچھا نہ ہوا۔
وَاُولٰئِکَ اَصْحٰبُ النَّار اور یہی لوگ دوزخ کی آگ میں پڑنے والے ہونگے۔ کیونکہ دنیا میں بھی انہوں نے اپنے ارتدار سے فتنے اور فساد کی آگ کو بھڑکایا تھا۔
۱۳۱؎ تفسیر:۔ چونکہ گذشتہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا ذکر کیا تھا جو ارتداد کی حالت میں ہی اس دنیا سے اُٹھ جائیں اور بتایا تھا کہ ایسے لوگوں کی اسلام کو مٹانے کی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہوں گی۔ اس لئے اب اللہ تعالیٰ ان کے مقابلہ میں ان لوگوں کا ذکر فرماتا ہے جن کو ارتداء کے بعد توبہ کی توفیق مل جائے۔ اور وہ پھر اسلام میں داخل ہو جائیں چونکہ ازنداد کا داغ ایک نہایت ہی بدنما داغ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے توبہ کیل ئے صرف ایمان لانا کافی قرارنہیں دیا بلکہ فرمایا کہ ایسے لوگوں کی توبہ اس وقت قبول ہو گئی جب ایمان لانے کے بعدوہ ہجرت اختیار کریں یعنی بزدلی اور اخفائے ایمان جیسی گندی عادتوں کو کلی طور پر ترک کردیں یا اس علاقہ سے نکل جائیں جہاں دینی معاملات میں جبر سے کام لیا جاتا ہو۔ اور پھر دین کی راہ میں ایک ننگی تلوار بن کر کھڑے ہو جائیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے راستہ میں مالی اور جانی جہاد کریں۔ اگر وہ ایسا کرینگے تو وہ یقیناً اللہ تعالیٰ کو غفور اور رحیم پائیں گے۔
تاریخ میں لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ایک دفعہ حضرت عمرؓ حج کے لئے مکہ تشریف لے گے۔ تو حج کے بعد آپ کی ملاقات کے لئے لوگوں نے آنا شروع کر دیا۔ انہی ملاقاتیوں میں مکہ کے روساء اور سردار انِ قریش کے بعض لڑکے بھی تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو بڑی عزت سے بٹھایا۔ اور ان سے مختلف باتیں پوچھتے رہے اتنے میں ایک غلام صحابی آیا۔ وہ غلام جو ابتدائے اسلام میں ان روساء عرب اور سرداران قریش کے باپ دادئوں کی جوتیاں کھایا کرتے تھے جنہیں وہ گالیوں میں گھسیٹتے اور اسلام قبول کرنے کی وجہ سے مار مار کر زخمی کر دیتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان نوجوانوں سے کہا۔ ذرا پیچھے ہٹ جائو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابی ہیں وہ پیچھے ہٹ گئے۔ اور صحابی قریب ہو کر حضرت عمرؓ سے باتیں کرنے لگ گئے۔ اتنے میں ایک اور صحابی آگیا۔ حضرت عمرؓ نے پھر ان نوجوانوں سے کہا۔ ذرا پیچھے ہٹ جائو او ران کے لئے جگہ چھوڑ دو۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابی ہیں۔ یہاں تک کہ ہوتے ہوتے وہ جوتیوں تک جا پہنچے۔ یہ دیکھ کر وہ مجلس سے اُٹھ کر باہر آگئے اور ایسی حالت میں آئے کہ انکی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے۔ انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کہا۔ کیا کبھی یہ خیال بھی آسکتا تھا کہ ہم کسی زمانہ میں اس قدر ذلیل ہو جائیں گے کہ وہ لوگ جو ہماری جوتیاں اُٹھانا اپنے لئے فخر کا موجب سمجھا کرتے تھے مجلس میں ایک ایک کر کے ہم سے آگے بٹھائے جائیں گے اور ہمیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا جائیگا۔ یہاں تک کہ ہوتے ہوتے ہم جوتیوں تک جا پہنچیں گے۔ گویا وہ جو ذلیل تھے معزز ہو گئے اور ہم جو معزز تھے ذلیل ہو گئے ۔ یہ تمام نوجوان اگرچہ ایماندار تھے مگر غصہ اور جوش میں ان کی زبان سے یہ الفاظ نکل گئے۔ لیکن ان میں سے ایک نوجوان جس کا ایمان زیادہ مضبوط تھا وہ کہنے لگا۔ بھائی تم نے بات تو ٹھیک کہی مگر اس کا ذمہ دار کون ہے۔ اور کس نے ہمارے باپ دادا سے کہا تھا کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شدید مخالفت کی تھی ۔ اس لئے آج ہماری یہ حالت ہے کہ ہم مجلس میں پیچھے ہٹا دیئے گئے۔ مگر وہ جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت کی تھی۔ جنہوں نے اپنی جانیں اور اپنے اموال آپ کی راہ میں قربان کر دیئے تھے ان میں سے گو بہت سے مارے گئے مگر اب بھی جو باقی ہیں ان کا حق ہے کہ ان کی عزت کی جائے۔ اور ان کو ہم سے زیادہ ادب کے مقام پر بٹھایا جائے۔ انہوں نے کہا یہ بات تو درست ہے مگر کیا اب اس ذلت کو مٹانے کا کوئی ذریعہ نہیں؟ یا کیا کوئی ایسی قربانی نہیں جو اس گناہ کا کفارہ ہو سکے؟اس پر اسی نے کہا چلو حضرت عمرؓ کے پاس ہی چلیں اور انہی سے اس کا علاج دریافت کریں۔ چنانچہ وہ پھر آپ کے مکان پر گئے اور دستک دی مجلس اسوقت تک برخواست ہو چکی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں اندر بلا لیا۔ اور کہا کس طرح آنا ہوا وہ آپ جانتے ہی ہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میں معذور تھا کیونکہ اس وقت جو لوگ میرے پاس آے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابی تھے اور میرے لئے ضروری تھا کہ میں ا نکی عزت و تکریم کرتا۔ انہوں نے کہا ہم اس بات کو خوب سمجھتے ہیں اور ہم
یَسْئَلُوْنَکَ



تَتَفَکَّرُوْنَO
جانتے ہیں کہاہمارے باپ دادا نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا انکار کر کے اپنے لئے بہت بڑی ذلت مول کے لی۔ مگر کیا کوئی ایسای طریق نہیں جس سے یہ ذلت مول لے لی۔ مگر کیا کوئی ایسا طریق نہیں جس سے یہ ذلت کا داغ ہماری پیشانیوں سے مٹ سکے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ چونکہ اس خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور وہ جانتے تھے کہ ان نوجوانوں کے باپ دادا کو کتنی بڑی عزت اور وجاہت حاصل تھی۔ یہاں تک کہ اسلام کی دشمنی کے زمانہ میں بھی اگر وہ کسی مسلمان کو پناہ دے دیتے تھے تو کسی شخص کو یہ جرات نہیں ہوتی تھی کہ وہ اس مسلمان کو دکھ پہنچا سکے اس لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں کے سامنے ایک ایک کر کے یہ واقعات آئے اور اس کا تصور کر کے ان پر رقت طاری ہو گئی اور بات کرنا آپ کے لئے مشکل ہو گیا۔ اور غلبہ رقت میں آپ نے صرف اپنا ہاتھ اُٹھایا اور شمال کی طرف جہاں شام میں ان دنوں عیسائیوں سے لڑائی ہو رہی تھی اشارہ کر کے کہا کہ اس کا علاج صرف وہاں ہے یعنی اب اس ذلت کا علاج ایک ہی ہے او روہ یہ ہے کہ اس جہاد میں شامل ہو کر اپنی جانیں دے دو۔ پھر خود بخود لوگ ان باتوں کو بھول جائیں گے۔ چنانچہ اسی وقت وہ لوگ وہاں سے اُٹھے اور اپنے اونٹوں پر سوار ہو کر شام کی طرف روانہ ہو گئے۔ وہ سات نوجوان تھے جو اس ذلت کو دور کرنے کے لئے جہا د میں شامل ہو ئیاور تاریخ بتاتی ہے کہ پھر ان نوجوانوں میں سے ایک بھی زندہ مکہ کی طرف واپس نہیں آیا۔ سب اسی جنگ میں شہید ہو ئے۔ جس طرح ان نوجوانوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی جانیں قربان کر کے رضاء الہٰی حاصل کی تھی ۔ اسی طرح ارتداد کے بعد اسی صورت میں توجہ قبول ہو سکتی ہے۔ جب زبان سے ایمان کا اظہار کیا جائے اور عمل سے ہجرت اختیار کی جائے۔ خواہ حقیقی رنگ میں یا معنوی رنگ میں۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کی راہ میں کفار سے جہاد کیا جائے یہی وہ ذرائع ہیں جن سے وہ رحمت الہٰی کے موردبن سکتے ہیں۔
۱۳۲؎ حل لغات:۔ اَلْخَمْرُ: اَلْخَمْرُ اِسْمُ کُلِّ مُسْکِرٍ خْامِرِ الْعَقْلِ(اقرب) خمر ہر ایک نشہ دینے والی چیز کو کہتے ہیں۔ جو عقل کو ڈھانپ دیتی ہے۔
اَلْمَیْسِرِ: یَسَرَسے مَفْعِل’‘ کا صیغہ ہے اور اَلْمَیْسِرِ کے معنے ہیں اَللَّعْبُ بِالْقَدَاحِ (۱)تیروں سے جُوا کھیلنا۔ (اَرْھُو۔ النَّرْدُ اَوْکُلُّ قِمَارٍ) اَوْ ھُوَ الْجُزُوْرُ الَّتِیْ کَانُوْا یَتَقَا مَرُوْنَ عَلَیْھَا (اقرب) (۲) نَرد یعنی شطرنج اور چوپٹ کو بھی میسر کہتے ہیں (۳) ہر قسم کا جوا بھی میسر کہلاتا ہے۔ (۴) میسر ان اونٹوں کو بھی کہتے ہیں جن پر لاٹری ڈالتے تھے۔
اَلْاِثْمُ: اَلْاَفْعَالُ الْمُبْطِلَۃُ عَنِ الْخِیْرِ۔ وہ کام جو نیکیوں سے روک دیں ان کو اِثْم’‘ کہتے ہیں (۲) اِثْم’‘ کا لفظ کبھی سزا اور تکلیف اور دکھ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ یعنی اپنے نتیجہ کے اعتبار سے تکلیف وغیرہ کے معنے دیتا ہے ۔ کیونکہ قاعدہ ہے کہ کبھی سبب کو مسسب کی جگہ استعمال کر لیتے ہیں ۔ چنانچہ قرآن کریم میں اسے دوسری جگہ ان عنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّ مَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُوْنَ وَمَنْ یَّضْعَلْ ذٰلِکَ یَلْ قَ اَثَامًا (فرقان آیت۲۹) اسجگہ یَلْقَ اَثَامًا کے یہ معنے ہیں کہ جو شخص یہ کام کریگا وہ سزا پائیگا۔
اَلْعَفْوَ: خِیَارُ الشَّیْئِ وَاَطْیَبُہ‘ بہتر سے بہتر اور پاک سے پاک چیز (۲) مَایَفْضُلُ عَنِ النَّفَقَۃِ وَلَا عَسَرَ عَلیٰ صَاحِبِہٖ فِیْ اعْطَا ئِہٖ۔ جو کسی کے خرچ سے بچ رہے اور دینے والے کو اس کے دینے میں تنگی محسوس نہ ہو۔ (۳) عَفْوُ الْمَالِ۔ وہ مال جو بغیر سوال کے دیا جائے۔ کہتے ہیں اَعْطَیْتُہ‘ عَفْوْا یا اَعْطَیْتُہ‘ عَفْرَ الْمَالِ۔ میں نے اُسے بغیر مانگے دیا۔(اقرب)
تفسیر:۔فرماتا ہے کہ لوگ تجھ سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں کہ کیا یہ جائز ہیں یا ناجائز۔ تو ان سے کہدے کہ شراب اور جوئے میں کچھ خرابیاں ہیں اور کچھ فوائد لیکن خرابیاں فوائد کی نسبت زیادہ ہیں۔ یہ کیا ہی لطیف جواب اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ ان کے سوال پر انہیں فوری طور پر منع نہیں کیا کہ تم شراب نہ پیو اور جوا نہ کھیلو۔ بلکہ فرمایا کہ ان میں فوائد تھوڑے اور نقصانات زیاد ہ۔ اب تم خود سوچ لو کہ تمہیں کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس جواب میں اصولی طور پر خداتعا لیٰ نے ہمارے لئے یہ قاعدہ بیان فرمایا دیا ہے کہ اگر کسی کام میں فائہد زیادہ ہو اور نقسان کم تو اسے اختیار کر لیا کرو۔ اور اگر نقصان زیادہ ہو اور فائدہ کم تو اسے کبھی اختیار نہ کرو۔ بالخصوص ایسا کام تو کبھی اختیار نہ کرو جس میں اِثْم’‘ کَبِیْر’‘ ہو۔ اِثْم’‘ کے معنے گناہ کے بھی ہیں اور اِثْم’‘ کے معنے نیکیوں سے محرومی کے بھی ہیں۔ گویا انسان کو کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جس کے نتیجہ میں اسے گناہ ہو۔ یا جس کے نتیجہ میں وہ نیکیوں سے محروم ہو جائے ۔ خواہ اس میں بظاہر کچھ فوائد بھی دکھائی دیتے ہوں۔
پھر مَنَافِعُ لَلنَّاسِ فرما کر اسلام نے ہمیں یہ بھی تعلیم دی ہے کہ خواہ تمہاری نگاہ میں کوئی چیز کتنی ہی خراب کیوں نہ ہو ۔ تمہارا فرض ہے کہ تم اس کی خوبیوں سے کلی طور پر انکار نہ کرو۔ جب شراب اور جوئے جیسی چیزیں بھی فوائد سے خالی نہیں تو دوسری ضور رساں چیزوں کو تم فوائد سے خالی کیوں سمجھتے ہو۔ بے شک تمہارا فرض ہے کہ تم ان کے ضر ر سے بچو۔ اور آئندہ نسلوں کو بچائو لیکن تمہاری بینائی ایسی نہیں ہونی چاہیے کہ وہ کسی چیز کا صرف تاریک پہلو ہی دیکھے بلکہ ہر چیز کا تاریک اور روشن دونوں پہلو سامنے رہنے چاہییں اور حسن کا اقرار کرنے میں تمہیں کبھی بخل سے کام نہیں لینا چاہیے۔
یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ سے یہ بھی ظاہر ہے کہ مسلمان اس بارہ میں خود آآکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے سوال کیا کرتے تھے ۔ حالانکہ عرب کے رہنے والے شراب پینے کے اس قدر عادی تھے کہ وہ اس پر فخر کیا کرتے تھے ۔ چنانچہ ایک عرب شاعر کہتا ہے
؎ اَلَا ھُبِّیْ بِصَحْنِکِ فَاسْبَحِیْنَا
فَلَا تُبْقِیْ خُمُوْرَ الْاَنْدَرِیَنَا
یعنی اے میری محبوبہ تو بیدار ہو۔ اور اپنے بڑے پیالے میں ہم کو صبوحی پلا۔ اور اس قدر پلا کہ علاقہ شام کے اندر شہر کے شراب فروشوں کی شراب میں سے کچھ بھی باقی نہ رہے۔ سب کی سب ہمیں پلادے۔ اسی طرح جنگوں کے موقعہ پر وہ خصوصیت سے شراب کا زیادہ استعمال کیا کرتے تھے تاکہ وہ نتائج سے بے پرواہ ہو کر لڑیں۔ اور عاقبت اندیشی کا خیال ان میں نہ رہے۔ مگر ایسے ماحول میں رہنے کے باوجود انہوں نے خود پوچھا کہ یا رسول اللہ! شراب اور جُوئے کے متعلق اللہ تعالیٰ کا کیا حکم ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ باوجود اس کے کہ ابھی شراب اور جوئے کی حرمت نازل نہیں ہو ئی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحبت میں رہنے کے بعد وہ محسوس کرتے تھے کہ یہ چیزیں قرب الہٰی میں روک ہیں۔ اور ان کے متعلق اللہ تعالیٰ کا کوئی واضح حکم نازل ہونا چاہیے۔ پس یہ سوال خود اپنی ذات میں صحابہ کرامؓ کی پاکیزگی ان کی بلندی اخلاق اور ان کے اعلیٰ کردار کا ایک زبردست ثبوت ہے۔ شراب اور جوا یہ دونوں چیزیں ایسی ہیں جن کے روکنے کے لئے دنیا میں بڑی بڑی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ مگر اسلام کے سوا اورکوئی مذہب ان کو روک نہیں سکا۔ صرف اسلام ہی ہے جسے اس میدان میں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ چنانچہ شراب کے متعلق اسلامی تعلیم کو جو وہ شراب کے متعلق دیتے ہیں بیان کرتے ہیں اور سب سے پہلے اسی مذہب کا ذکر کرتے ہیں جو سب سے قدیم مذہب ہونے کا مدعی ہے یعنی ویدک مذہب، ہندو مذہب کی شراب کے متعلق جو تعلین ہے اس کیل ئے ہمیں زیادہ چھان بین کی ضرورت نہیں اس مذہب کی بنا ویدوںپر ہے اور وید خود اس مسئلہ پر کافی سے زیادہ روشنی ڈالتے ہیں۔ ویدوں پر خصوصاً رگوید پر جو چاروں ویدوں میں سے اہم ہے ایک اجمالی نظر ڈالنے سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ شراب نہ صرف جائز ہے بلکہ اس کا استعمال بعض موقعوں پر ضروری اور موجب ثواب بتایاگیا ہے۔ اور ہند کی رشی اسے ایک مقدس اور پاک چیز قرار دیتے ہیں۔ وید کے منتر یکے بعد دیگرے ہماری آنکھوں کے سامنے اس سنجیدہ کوشش کا نقشہ کھینچ دیتے ہیں جو ہندوستان کا برگزیدہ پُجاری اپنے پرماتما کی توجہ کو کھینچنے کے لئے شراب کو پیش کر کے کرتا ہے۔ اور اگر غور سے دیکھا جائے تو معلو م ہوتا ہے کہ قدیم ہندوستان کے پجاری کی پوجا میں شراب کاد وسری چیزوں کی نسبت بہت زیادہ دخل تھا۔ وہ سوم کا رس نہ صرف خود پیتا ہے بلکہ اس کے ساتھ بہت سی پوجا کی چیزوں کو بھی نہلاتا ہے اور اندر اور دوسرے دیوتائوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے انکے سامنے بھی اسے پیش کرتا ہے۔ اسی طرح اتھروید میں اشونی کماردیوتائوں کی پوجا کے وقت جو منتر پڑھنے کے لئے بتائے گئے ہیں ان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ قدیم ایام کا ہندو پجاری اس چیزکو ایسا متبرک سمجھتا تھا کہ صرف خود ہی شراب کو استعمال نہ کرتا تھا بلکہ اپنے دیوتا سے بھی اس کے استعمال کی درخواست کرتا تھا۔ چنانچہ کانڈ نمبر۹ ادھیائے نمبر۱ منتر نمبر۱۷ میں لکھا ہے۔
’’اے اشونی کمارو! پہاڑوں میں، جنگلوں میں، جنگلی جڑی بوٹیوں میں جو مدھو(شراب) ہے اس وقت (یعنی یگیہ کی تقریب پر) جو کشیدگی کی جاتی ہے اس کا رس میرے اور آپ کیلئے ہو۔‘‘
اس منتر میں تو صرف دیوتا سے شراب کے استعمال کی درخواست ہی کی گئی ہے۔ مگر بلور کے بنائے ہوئے نیتر کی پوجا کے وقت اس سے بھی زیادہ یہ کام کیا جاتا ہے کہ اسے شراب سے غسل دیا جاتا ہے۔ گویا عملاً اسے شراب پلائی جاتی ہے۔ اور اس کے ساتھ اتھروید کا یہ منتر پڑھا جاتا ہے کہ
’’اے باور کے بنائے ہوئے نیتر! آپ ہمارے مہمان ہو کر ہمارے گھر میں رہیگا اور ہم آ پ کو گھی شراب شہد اور میٹھے میٹھے اسی طرح کے کھانے دیتے ہیں۔ آپ ہماری ہمیشہ بھلائی سوچتے رہا کریں۔ جیسے باپ اپنی اولاد کے لئے بہتری سوچتا رہتا ہے۔‘‘
(اتھروید کانڈ نمبر ۱۰ اوھیائے نمبر۶ منتر ۲۶،۲۷)
یہ دومنتر تو اس امر پر روشنی ڈالتے ہیں کہ قدیم ہند کا پجاری پوجا کے وقت اپنے دیوتا سے شراب پینے کی درخواست کرتا ہے اور خود شراب پیتا اور بلور کے نیتر کو شراب میں غوطہ دیتا ہے۔ مگر اس سے بھی زیادہ وضاحت اسی وید کے کانڈ نمبر۱۰ ادھیائے نمبر۱۰ اور منتر نمبر۱۰ میں ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دیوتا خود بھی اپنی کامیابی کی خوشی میں شراب کا استعمال کرتے یہں چنانچہ لکھا ہے:۔
’’اپنے دشمنوں کو قابو کر کے فتح حاصل کرنے کے لئے اندر سے شراب کے پیالے پیئے۔‘‘
اس زمانہ میں آریہ مت کے بعض ممبروں نے سوم کے رس اور اسی قسم کے اور الفاظ کی تشریح کرتے وقت یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وید میں شراب کا کوئی ذکر نہیں بلکہ گلو وغیرہ کے رس کاذکر ہے مگر جب ہم تمام کی تمام ہندو قوم کا طریق عمل دیکھتے ہیں اور ساتھ ہی اس بات کو مدنظر رکھتے ہیں کہ ہندو قوم کا میل جول کسی ایسی قوم سے جو شراب کی سخت عادی ہو کبھی لمبے عرصے تک اور پورے طور پر نہیں رہا جس سے خیال ہو سکے کہ دوسروں سے یہ عادات انہوں نے اخذ کر لی ہیں تو ہم کو ان تاویلات کے ماننے میں بہت کچھ تاتل ہوتا ہے۔ مگر جب ہم اتھرووید کے کانڈ نمبر۱۸ انوداک نمبر۱ سوکت نمبر۱ منتر ۴۸ کو دیکھتے ہیں تو ان تاویلات کا قبول کرنا ہمارے لئے بالکل ناممکن ہو جاتا ہے۔ اس میں ہم یہ لکھ ہو ا پاتے ہیں کہ:۔
’’ یہ سوم بہت ہی لذیذ اور خوش ذائقہ ہے اور کچھ میٹھا بھی اور کچھ تیز و تُرش بھی ہے ایسے سوم کو پینے والے اندر دیوتا کے مقابلہ پر جنگ میں کوئی دشمن نہیں ٹھہر سکتا۔‘‘
ان حوالہ جات سے ثابت ہوتا ہے کہ ہندو مذہب پورے طور پر شراب کے استعمال کی اجازت دیتا ہے۔ اور بعض عبادات میں اس کا استعمال ضروری قرار دیتا ہے ۔ ہندوئوں کا تمدن بھی اس نتیجہ کی تصدیق کرتا ہے اور ان کی تاریخ بھی اسکی صحت پر شاہد ہے۔
ایرانی مذہب کی تعلیم:۔ دوسرا قدیم مذہب ایرانیوں کا مذہب ہے ۔ ایرانی قوم ایک مسلسل اورلمبی تاریخ رکھتی ہے بلکہ تازہ تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ کوء تعجب نہیں اس کا تمدن دیدک سے بھی پرانا ہو۔ اس قوم کے مذہب قدیم و جدیدسے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس میں شراب جائز تھی۔ زردشتی مذہب کی واقفیت رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ زردشت کسی جدید مذہب کا بانی نہ تھا بلکہ اس نے قدیم ایرانی مذہب کو جو مرورزمانہ سے بہت کچھ بگڑ گیا تھا دوبارہ زندہ کیا تھا۔ پس ایرانی مذہب کا فتویٰ شراب کے متعلق معلوم کرنے کے لئے ہمیں زردشت کی بعثت سے پہلے اور بعد دونوں زمانوں پر نظر ڈالنی چاہیے۔ گو تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایرانی لوگ شراب بکثرت استعمال کرتے تھے مگر مذہبی طور پر وہ اس کو کیسا سمجھتے تھے اس کا پتہ ہمیں زردشتی کتب سے ہی ملتا ہے ۔ چنانچہ پہلوی کتب میں زردشت کی پیدائش کا بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کے والد یورو شامپ کو فرشتہ نے ایک شراب کا گلاس دیا جس کے پینے کے قریب زمانہ میں ہی اس کی بیوی دو عذونامی حاملہ ہوئی اور ایک ایسا لڑکا جنی جس نے مشرقی تاریخ میں ایک نیا انقلاب پیدا کرنا تھا۔
ایک مقدس انسان کی پیدائش کے لئے فرشتہ نے شراب کا گلاس انکے والد کو پلانا ایک ایسا واقعہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ زردشت کے زمانہ سے پہلے بھی شراب کا استعمال مذہباً نہ صرف جائز بلکہ مستحسن تھا۔
زردشت نے ایرانی مذہب میں جو اصلاح کی اس کی رو سے بھی شراب کا استعمال ایک مستحسن امر قرار دیا گیا۔ چنانچہ افرنجسن کی دعا جو زردشتی مذہب کے پادریوں کے پڑھے جانے کے لئے مخصوص ہیں ان کے پڑھے جانے کے وقت جو رسوم ادا کی جاتی ہیں ان میں بھی شراب کا دخل ہے۔ دستوران دعائوں کے پڑھنے کے وقت ایک قالین پر جسے زمین پر بچھایا ہوا ہوتا ہے بیٹھ جاتا ہے اور اس کے سامنے دھات کی تھالی یا کسی پودہ کے پتہ پر اس موسم کے اعلیٰ سے اعلیٰ میوہ جات اور پھول رکھے جاتے ہیں اور ساتھ ہی برتنوں میں تازہ دودھ اور شراب اور تازہ پانی اور شربت پڑا ہوتا ہے۔ غرض ایرانی مذاہب کے مطابق بھی شراب کا استعمال ایک مستحسن اور پسندیدہ فعل قرار دیا گیا ہے۔ اور بعض مذہبی رسوم کی ادائیگی کے وقت شراب کا استعمال یا اس کا پاس رکھنا ضروری قرار دی گیا ہے۔
شراب اور بائیبل:۔ تیسرا قدیم مذہب اسرائیلی مذہب ہے ۔ یہ مذہب بھی ہندو مذہب اور زردشتی مذہب کی طرح اپنا سلسلہ ابتدائے آفرنیش سے شروع کرتا ہے گو اس مذہب کی بنیاد حضرت موسیٰ ؑ نے رکھی ہے۔ مگر یہ ایک مسلسل سلسلہ تاریخ کے ذریعہ ابو البشر آدم علیہ السلام سے اپنا تعلق جا ملاتا ہے۔ اس مذہب کی تاریخ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ شراب کا استعمال ابتدا ئے آفرینش سے برابر چلا آیا ہے اور نہ صرف یہ کہ اسے کبھی برا نہیں سمجھا گیا بلکہ خود انبیاء علیہم السلام بھی اسے استعمال کرتے رہے ہیں۔ بائیبل کی کتاب پیدائش باب۹ آیت ۲۰ تا۲۳ میں لکھا ہے:۔
’’اور نوح کھیتی باڑی کرنے لگا اور اس نے ایک انگور کا باغ لگایا۔ اور اس کی مے پی کر نشہ میں آیا۔ اور اپنے ڈیرے کے اندر آپ کو ننگا کیا اور کنعان کے باپ حام نے اپنے باپ کو ننگا دیکھا۔ اور اپنے دو بھائیوں کو جو باہر تھے خبر دی۔ تب سم اور یافث نے ایک کپڑا لیا اور اپنے دونوں کاندھوں پر دھرا اور پچھلے پائوں جا کر اپنے باپ کی برہنگی کو چھپایا۔‘‘
یہ توحضرت نوح ؑ کا حال ہے۔ جو پہلے نبی ہیں جن کی تاریخ ایک حد تک۔۔۔۔۔ محفوظ ہے۔ اور جن کے بعد تاریخ ایک حد تک تفصیلی رنگ اختیار کر لیتی ہے۔ آپ کے بعد دوسرا مہتم بالشان زمانہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ہے ان کی نسبت ہم بائیبل کے باب۱۴ آیت ۱۸ میں پڑھتے ہیں کہ ملک صدق سالم کے بادشاہ نے ان کی دعوت میں روٹی اور مے پیش کی تھی۔ اسی طرح حضرت لوط کی نسبت پیدائش باب۹آیت۳۲، ۳۵ میں لکھا ہے کہ لوط کی لڑکیوں نے اپنے باپ کومے پلائی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں نہ صرف شراب منع نہ سمجھی جاتی تھی بلکہ ضروریات زندگی میں سے خیال کی جاتی تھی۔ کیونکہ یہ واقعہ عذاب کے بعد کا ہے۔ جس وقت کہ حضرت لوط اپنی دونوں لڑکیوں سمیت جنگل میں ایک غار میں رہتے تھے۔ اس وقت ان کے پاس شراب کا ہونا ظاہر کرتا ہے کہ بائیبل کے بیان کے مطابق اس وقت کے طرز معاشرت کے ماتحت انہوں نے ان چند ضروری اشاء میں جو وہ برباد ہونے والی بستی سے لیکر نکلے تھے شراب کا شامل کرنا بھی ضروری خیال کیا تھا۔ بنو اسرائیل میں نبوت کے منتقل ہونے میں بھی شراب کا بہت کچھ دخل ہے۔ کیونکہ جیسا کہ بائیبل کے بیان سے معلوم ہوتا ہے ابتداء بڑے لڑکے ہی وارث ہو اکرتے تھے اور انہی کی نسل سے شجرہ چلایا جاتا تھا۔ چنانچہ اس طریق کے مطابق حضرت اسحاق نے بھی اپنے بڑے لڑکے عیسو کو برکت دینی چاہی۔۔۔۔۔۔ مگر جیسا کہ پیدائش باب ۲۷ سے معلوم ہوتا ے کہ حضرت یعقوبؑ کی والدہ نے انکو کھانا پکا کر دیا۔ اور انہوں نے لذیذ کھانا کھالا کر اور عمدہ شراب پلا کر (آیت۲۵) اور اپنے آپ کو عیسو ظاہر کر کے ان سے اپنے حق میں دُعا کروالی۔ اور اس طرح نبوت عیسُو کے خاندان سے نکل کر یعقوب یعنی سرائیل کے خاندان میں آگئی۔ پس بنی اسرائیل اپنی روحانی ترقیات میں ایک حد تک مے کے بھی ممنون ہیں۔
پھر نہ صرف یہ کہ بائیبل کے بیان کے مطابق حضرت اسحاقؑ نے خود ہی مے پی۔ بلکہ حضرت یعقوبؑ کے حق میں بھی جن کو وہ اپنا بڑا لڑکا عیسو خیال کررہے تھے یہ دعا کی کہ خداتجھے اناج اور مے کی زیادتی بخشے(آیت ۲۸) جس کے ذریعے انہوں نے بنی اسرائیل کے لئے ہمیشہ شراب کا استعمال ضروری قرار دیدیا کیونکہ اگر وہ شراب کا استعمال ترک کر دیں۔ تو یہ دعا باطل جاتی ہے حضرت اسحاق کی اس دعا کو حضرت یعقوب نیبھی اپنی وفات کے وقت کی دعا سے اور تقویت دے دی۔ کیونکہ انہوں نے اپنے بیٹے یہود اور اس کی اولاد کے حق میں خبر دی ہے۔ کہ انکی آنکھیں شراب کے نشہ سے سُرخ رہیں گی۔ (پیدائش باب۴۹آیت۱۲) اس زمانہ کے بعد بنی اسرائیل کی تاریخ میں سب سے بڑا اور اہم زمانہ حضرت موسیٰ کا ۔۔۔۔۔ ہے۔ حضرت موسیٰ یہودی مذہب کے بانی ہیں۔ اور اپنے سے پہلے سب شریعتوں کے ناسخ ہیں۔ مگر جہاں انہوں نے ایسے بہت سے قانون اور رواج جو ان سے پہلے بنی اسرائیل میں رائج تھے موقوف کئے ہیں۔ شراب کے متعلق پہلے حکم کو تبدیل نہیں کیا بلکہ انہوںنے شراب کو خداوند کا چڑھاو اقرار دے کراس کو مقدس کہا ہے۔ کیونکہ جیسا کہ گنتی باب۱۸ آیت۱۲ سے معلوم ہوتا ہے اچھی سے اچھی شراب کا حضرت ہارونؑ اور ان کی اولاد کے لئے جن کو کہانت کا عہدہ سپر د کیا گیا تھا وعدہ کیا گیا ہے اور بنی اسرائیل کا فرض قرار دیا گیا ہے کہ وہ عمدہ شرابیں خداتعالیٰ کے نام پر معبد پر چڑھائیں جنہیں کاہن استعمال کریں۔
یہ وعدے جو اوپر بیان ہوئے ہیں صرف حضرت ہارون اور ان کی اولاد کے لئے ہیں۔ مگر دوسرے بنی اسرائیل کو بھی خالی نہیں چھوڑا۔ بلکہ ان کے لئے بھی حضرت موسیٰؑ سے خداتعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ اگر وہ خداتعالیٰ کے حکموں پر عمل کرینگے اور شریعت کی پابندی کرینگے تو ان کے لئے رحم کے پھل اور ان کی زمین کے پھل اور ان کے غلہ اور انکی مے اور ان کے تیل اور ان کی گائیوں کی بڑھتی اور ان کی بھیڑوں کے گلوں میں اس زمین پر جس کی بابت اس نے ان کے باپ دادوں سے قسم کر کے کہا کہ تجھ کو دونگا برکت بخشیگا۔(استثنا باب۷آیت ۱۳) اس حوالہ کے علاوہ تورات میں اور بھی کئی جگہ بنی سرائیل کے لئے شراب کی کثرت کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اور حضرت مسیح کی آمد تک جس قدر انبیاء اور سلاطین گذرے ہیں عموماً سب کے ذکروں میں شراب کا بیان ہے گویا ان کی تمام تاریخ سے شراب کا استعمال نہایت کثرت سے ثابت ہوتا ہے۔
حضرت موسیٰ کے بعد مذہبی دنیا میں عظیم الشان تبدیلی کر دینے والی ہستی جس کے بعد نبی عربی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سوا کوئی تغیر عظیم پیدا کرنیو الا انسان مبعوث نہیں ہوا حضرت مسیح ہیں۔ س وقت ان کے ماننے والوں کو دنیا میں ایک خاص مرتبہ اور عزت حاصل ہے۔ اور ان کی تعلیم کو نہایت کامل اور مکمل ظاہر کرتے ہیں۔ انہوں نے بھی شراب کے متعلق جو کچھ فتویٰ دیا ہے وہ اس کی تقدیس کا ہی ہے ۔ انجیل سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح شراب کی تقدیس کا ہی ہے۔ انجیل سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح شراب کو بُرا نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ خود اس کو استعمال کرتے تھے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ہو معجزانہ طور پر شراب بنا کر لوگوں کو پلاتے تھے۔ حضرت مسیح کو خود شراب استعمال کرنا تو متی باب ۲۶ آیت۲۹ سے ثابت ہے جہاں لکھا ہے کہ مسیح نے حواریوں سے کہا کہ
’’میں تم سے کہتا ہوں کہ انگور کے پھل کا رس پھر نجہ پیونگا اس دن تک کہ تمہارے ساتھ اپنے باپ کی بادشاہت میں نیا نہ ہوں۔‘‘
اور ان معجزانہ طور پر شراب بنانا او ردوسروں کو پلانا یوحنا باتب۲ آیت۳ تا ۱۰ سے ثابت ہوتا ہے ۔ ان آیات کا مضمون یہ ہے:۔
’’ اور جب مے گھٹ گئی۔ یسوع کی ماں نے اس سے کہا کہ ان کے پاس مے نہ رہی۔ یسوع نے اس سے کہا ۔ کہ اے عورت مجھے تجھ سے کیا کام میرا وقت ہنود نہیں آیا۔ اس کی ماں نے خادموں کو کہا۔ جو کچھ وہ تمہیں کہے سو کرو۔ اوروہاں پتھر کے چھ مٹکے طہارت کے لئے یہودیوں کے دستور کے مطابق دھرے تھیاور ہر یک میں دو یا تین من کی سمائی تھی۔ یسوع نے انہیں کہا۔ مٹکوں میں پانی بھرو۔ سو انہوں نے ان کو لبالب بھرا پھر اس نے انہیں کہا کہ اب نکالو۔ اور مجلس کے سردار پس لے جائو۔ اور دے لے گئے جب میر مجلس نے وہ پانی جو مے بن گیا تھا چکھا اور نہیں جانا کہ یہ کہاں سے تھا مگر چاکر کہ جنہوں نے وہ پانی نکالا تھا جانتے تھے تومیر مجلس نے دولہا کو بلایا اور اسے کہ اکہ ہر شخص پہلے اچھی مے خرچ کرتا ہے اور ناقص اسوقت کہ جب پی کے چھک گئے۔ پر تونے تو اچھی مے اب تک رکھ چھوڑی ہے۔‘‘
مذکورہ بالاحوالہ جات سے ثابت ہوتا ہے کہ ابتدائے عالم سے لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت تک تمام کے تمام مذاہب شراب کے جواز کا فتویٰ دیتے چلے آئے ہیں بلکہ اس کا استعمال بعض مذہبی رسوم میں بھی واجب رکھاجاتا رہا ہے اور اسے متربرک کاور مفید شے قرار دیا جاتا رہا ہے۔ ان مذاہب کی موجودگی اور ان کے رسوخ کے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مبعوث ہوئے اور آپ نے ان تمام مذاہب کی تعلیم کے خلاف اللہ تعالیٰ کا یہ حکم اپنے پیروئوں کو سنایا کہ یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیھِمَآاِثْم’‘ کَبِیْر’‘ وَمَنَا فِعُ لِلنَّاسِ وَاِثْمُھُمَآاَکْبَرُ مِنْ تَّفْعِھِمَا۔ یعنی لوگ تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ شراب اور جوئے کے متعلق کیا حکم ہے ؟ تو کہدے کہ ان میں نقصان بھی بہت ہے اور لوگوں کے لئے منافع بھی ہیں اور ان کا ضررر ان کے نفع سے زیادہ ہے۔
قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ سے بھی زیادہ زوردار الفاظ میں شراب کو منع کیا گیا ہے جیسا کہ فرماتا ہے یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْس’‘ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآئَ فِیٰ الْخَمْرِوَالْمَیْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِاللّٰہِ وَعَنِ الصَّلوٰۃِ۔ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَھُوْنَ وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُواالرَّسُوْلَ وَاحْذَرُوْا فَاِنْتَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْآ اَنَّمَا عَلیٰ رَسُوْلِنَاالْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ۔(مائدہآیت۹۱ تا۹۳) یعنی اسے مومنو شراب اور جوا اور چڑھاوے کی جگہیں اور لاٹری شیطانی کاموں میں سے ہیں۔ سو ان سے بچو۔ تاکہ تم کامیاب ہو جائو۔ شیطان سوائے اس کے اور کچھ نہیں چاہتا کہ تمارے درمیان شراب اور جوئے کے ذریعے عداوت اور بغض پیدا کر دے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اور نماز سے تم کو روکدے۔ پس کیا تم باز رہو گے۔ اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور وہمیشہ چوکس رہو۔ اور اگر تم باوجود سمجھانے کے پھر جائو تو خوب یاد رکھو کہ ہمارے رسول کا فرض صرف یہی ہے کہ تم لوگوں تک حق کو پہنچادے۔
ان آیات میں شراب کو قطعی طور پر منع کر دیا گیا ہے اور ایک مسلمان کے لئے اس چیز کا استعمال ہر گز جائز نہیں۔ میں بتا چکا ہوں کہ جس وقت یہ حکم اسلام نے دیا ہے اس وقت تک تمام مذاہب شراب کو نہ صرف یہ کہ برا نہیں قرار دیتے تھے بلکہ اس کے استعمال کو بالعموم اچھا سمجھتے تھے اور بعض مذاہب کی رسوم میں اس کا استعمال واجب تھا۔ ایسے موقعہ پر اسلام کا شراب کو منع فرمانا کوئی معمولی بات نہ تھی بلکہ اس زمانہکی طب بھی شراب کو ایک نہایت ہی مقوی اور اعلیٰ درجہ کی شے قرارد یتی تھی اور اس کا پینا صحتِ جسمانی کے لئے نہایت مفید قرار دیا جاتا تھا۔ مگر باوجود ان سب باتوں کے اسلام نے شراب کو منع فرمایا۔ اور قطعی طور پر اس کا استعمال ناجائز قرار دے دیا۔ اور یونہی بلا وجہ نہیں بلکہ دلائل کے ساتھ اور دلائل دیتے وقت بھی تعصب سے کام نہیں لیا بلکہ اس کے استعمال کو منع کرتے وقت یہ بھی اقرار کیا کہ اس میں فوائد بھی ہیں ممکن ہے بعض فلسفیوں نے اس کے استعمال کو بعض حالات میں ناپسند کیا ہو لیکن جس رنگ میں اسلام نے اس مسئلہ کو حل کیا ہے اور کسی نے نہیں کیا۔ مثلاً جینی مت جو درحقیقت مذہب نہیں ہے بلکہ ایک فلسفہ ہے اس میں بھی شراب کی ممانعت کا کچھ پتہ چلتا ہے۔ مگر کس بنا پر؟ کسی عقلی بنا پر نہیں ۔ کسی علمی بنا پر نہیں۔ کسی مدلل پیرا یہ میں نہیں بلکہ اس لئے کہ شراب کے تیار کرنے میں بہت سے کیڑوں کی جان جاتی ہے۔ ورچونکہ جان کا ہلاک کرنا جینی اصول کے ماتحت ناجائز ہے اس لئے شراب کا استعمال باکمال پیروئوں کو نہیں کرنا چاہیے ۔ یہ ممانعت درحقیقت نہ تو کلی ممانعت ہے اور نہ شراب پر بزاتہ نظر ڈال کر اور اس بات کو مدنظر رکھ کر کہ شراب کا اثر اس کے استعمال کرنے والوں پر کیا پڑیگا اس کا حکم دیا گیا ہے بلکہ صرف اس لئے کہ شراب کا استعمال جینی فلسفہ کے اس مرکزی اصل کے خلاف تھا کہ جیو ہتیا کسی طرح نہیں ہونی چاہیے ۔ اس کا استعمال ناپسند کیا گیا ہے۔ غرض اسلام تمام مذاہب میں سے بلکہ تمام تعلیموں مین سے شراب کے منع کرنے اور بادلائل طور پر منع کرنے میں منفرد ہے۔ اور ایسے وقت میں اس نے شراب سے اپنے پیروئوں کو منع کیا ہے جبکہ لوگ ابھی اس مناعی کے حکم کو پورے طور پر سمجھنے کے بھی قابل نہیں تھے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ قرآن کریم نے صاف بتایا تھا کہ شراب کے نقصانات اس کے منافع سے زیادہ ہیں۔ مسلمان اطباء اپنی کتب میں برابر شراب کی تعریفیں اور خوبیاں بیان کرتے رہے ہاور اس کثرت سے بیان کرتے رہے کہ انکی کتب کو پڑھ کر حیرت آتی ہے۔ چنانچہ میں اسجگہ صرف موجز کی کسی قدر عبارت مختصراً بیان کر دیتا ہوں جو ایک عام درسی کتاب ہے۔ اس کتاب کا مسلمان مصنف شراب کے وصف کو یوں بیان کرتا ہے:۔
’’اور چاہیے کہ مجلس شراب کے اردگرد منظر لذیذ ہو۔ پھول ہوں۔ پیارے دوست ہوں عمدہ خوشبو ئیں ہوں۔ دل خوش کن راگ ہو اور ہرغم پہنچانے ولی اور دل کو تنگ کرنیوالی چیز کو دور کر دینا چاہیے۔ مثلاً بغل کی بو، بوسیدہ لباس، غم و غصہ اور شراب نہا کر اور عمدہ کپڑے پہن کر اور سراور داڑھی کے بال کھلے چھوڑ کر اور ناخن کٹوا کر پینی چاہیے۔ اور یہ بھی چاہیے کہ جس مقام پر شراب پی جائے وہ ہوادار اور کھلا ہو۔ اور جاری پانی کے کنارے پر ہو۔ اور اس وقت لطیفہ گو دوست ساتھ ہوں کیونکہ شراب نفسانی قوتوں کو تحریک کرتی ہے اور تمام شہوات کو اُبھارتی ہے پس جب کوئی قوت اپنے مطلب کو نہیں پاتی توتکلیف محسوس کرتی ہے اور منقبض ہو جاتی ہے پس نفس شراب کی طرف پورے شوق سے راغب نہیں ہوتا۔ اور نہ پورے طور پر اسے ہضم کرتا ہے ۔ پس شراب ک نفع کم ہوتا ہے بلکہ بعض اوقات شراب کا پینا بیگار ہو جاتا ہے اور شراب پینے سے نفع کی نسبت نقصان زیادہ ہو جاتا ہے۔‘‘
راب کی نسبت یہ رائے ساتویں صدی ہجری کے ایک مصری مسلمان مصنف کی ہے اور اس سے قیاس کی اجا سکتا ہے کہ باوجود سات سو سال کی علمی ترقی کے مسلمان بھی شراب کی مضرت کو علمی طور پر سمجھنے سے قاصر رہے ہیں۔ اور اس وقت تک کی تحقیقات سے مجبور ہو کر لکھتے رہے ہیں کہ شراب کا نفع اس کی مضرتوں سے زیادہ ہے حالانکہ قرآن شریف صاف فرما چکا ہے کہ اس کا نقصان اس کے نفع سے زیادہ ہے۔ غرض قرآن کریم نے آج سے تیرہ سو سال پہلے جو تعلیم شراب کے متعلق تمام مذاہب کے برخلاف دی تھی اور جس طرح دی تھی وہاں انسانی عقل نہیں پہنچ سکتی تھی۔ حتیٰ کہ باوجود قرآن کریم کے بیان کے خود مسلمان اطباء علمی طور پر شراب کی مضرت کو ثابت نہیں کر سکے اور ان کو مجبوراً اس امر کا اقرار کرنا پڑا کہ شراب ایک نہایت ہی نفع رساں شے ہے۔
زمانہ پر زمانہ گذرتا گیا اور صدی ک بعد صدی آتی گئی مگر شراب کے متعلق وہی تحقیق رہی جو ہزاروں سال سے چلی آتی تھی کہ شراب ایک عمدہ شے ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اس تحقیق کی اور بھی تصدیق ہوتی گئی اور اگر کسی علم کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ خداتعالیٰ کے کلام کی تکذیب کر سکے تو کہا جا سکتا ہے کہ علم طب نہایت دلیری سے قرآن کریم کے اس ارشاد کی تکذیب صدیوں تک کرتا رہا۔ یونانی طب کے دور ختم ہونے اور طب جدید کے دور شروع ہونے پر اور ہزاروں تحقیقاتوں کو تو ردی کر کے پھینک دیا گیا۔ لیکن شراب کی خوبیوں کے اظہار پر پہلے سے بھی زیادہ زور دیا جانے لگا۔ اگر طب قدیم تندرست آدمی کی صحت کے قیام اور کمزور کی طاقت بڑھانے کیلئے شراب کے استعمال کو مفید قرار دیتی تھی طب جدید نے بعض خطرناک قسم کے مریضوں کا علاج ہی برانڈی تجویز کیا اور اس کے فوائد پر اس قدر زور دیا جانے لگا کہ کوئی ہسپتال مکمل نہیں سمجھا جاتا تھا جس میں برانڈی کی چند بوتلیں نہ رکھی گئی ہوں۔ اور شراب کو آبِ حیات قرار دیا جانے لگا۔ اور بعض لوگ علی الاعلان کہنے لگے کہ جب تک شراب کو اسلام جائز نہ قرار دے دنیا کا اسلام کیطرف جھکنا ناممکن امر ہے۔ مگر باوجود ان تمام تحقیقاتوں اور طبعی شہادتوں کے قرآن کریم کا یہ فیصلہ روشن حروف میں چمک رہا تھا کہ شراب کی مضر میں اس کے فوائد سے زیادہ ہیں۔ اور باوجود زمانہ کی ناموافق رائے کے کوئی شخص اس فیصلہ کو بدل نہیں سکتا تھا۔ کیونکہ قرآن کریم خدا کا کلام اور آخری شریعت ہے جس کے بعد کوئی اور شریعت نہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کہ شراب کی مضرتیں صرف جسم انسانی تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کا اثر اخلاق پر بھی پڑتا ہے اور بہت پڑتا ہے جیساکہ خود قرآن کریم نے سورۃ مائدہ میں اس کی طرف ان الفاظ میں اشارہ بھی فرمایا ہے کہ شیطان تمہارے درمیان شراب اور جوئے کے ذریعے عداوت اور بُغض پید ا کرنا چاہتا ہے مگر کتنے لوگ ہیں جو کھانے پینے کی چیزوں کے ان اثرات کی طرف جو اخلاق پر ہوتے ہیں توجہ کرنے کے لئے تیار ہوں۔ اور اس زمانہ میں تو ایک بہت بڑی مشکل یہ بھی پیدا ہو ئی تھی کہ تمدن اور تہذیب کی خرابی اور زوال اور انحظاط کے باعث وہ قوم جو راب سے مجتنب ہے اپنے اخلاق میں بہت ہی گر گئی تھی۔ پس مقابلہ کیا جاتا تو کس طرح اور چند مثالوں سے کبھی کوئی مسئلہ پوری طرح صاف نہیں ہو سکتا۔ جو امر قوموں سے تعلق رکھتا ہو اس کے حل کرنے کے لئے قوموں کی ہی مثالیں درکار ہوتی ہیں اور ان کا بہم پہنچانا ناممکن ہو رہاتھا۔ پس علمی طور پر علم طب کے ذریعے ہی اس پر روشنی پڑتی تھی اور اس مسئلہ کا پورے طور پر فیصلہ ہو سکتا تھا۔
قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اس کا ایک ایک لفظ جس قدر معانی پر دلالت کرتا ہے ان تمام معانی کی صداقت خداتعالیٰ خود ظاہر کرتا ہے اور زور آور نشانوں سے ثابت کرتا ہے ہاں بعض معانی کی صداقت ہمیشہ سے ثابت چلی آتی ہے۔ تاکہ ہر زمانہ کے لوگوں کے لئے وہ حجت ہو۔ اور بعض معانی کی صداقت وہ آہستہ آہستہ مختلف زبانوں میں ثابت کرتا ہے۔ تا معلوم ہو کہ قرآن کریم خدا کا کلام ہے اور کسی انسان کا اس کی تالیف میں دخل نہیں کیونکہ اس میں وہ باتیں ہیں جو اس زانہ کے علوم سے تعلق نہیں رکھتیں۔ شراب کے حکم کے متعلق بھی یہ دونوں پہلو اختیار کئے گئے تھے۔ اس کی اخلاقی مضرتیں تو ہر زمانہ میں ثابت کی جا سکتی تھیں۔ گو لوگ اس کی طرف پوری توجہ کریں یا نہ کریں۔ اور گو بعض زمانوں میں بہ نسبت دوسرے زمانوں کے ان کا ثابت کرنا زیادہ مشکل ہو ۔لیکن شراب پینے کی چیز ہے اور پینے کی چیزوں کا پہلا اثر جسم انسانی پر پڑتا ہے اورا ن اشیاء کے متعلق طبعًا لوگوں کی توجہ بھی ایسے ہی اثرات کے معلوم کرنے کی طرف پھرتی ہے۔ پس اس حکم کی اہمیت اور خوبی اسی وقت پورے طور پر منکشف ہو سکتی تھی جبکہ اس کے جسمانی اثرات کی مضرتیں بھی روز روشن کی طرح ثاب ہوں۔ اور پھر اس کے نفع سے زیادہ ثابت ہوں۔ اس اظہار ِ حقیقت کا بھی آخر وقت آگیا اور اللہ تعالیٰ نے انسان کو بعض ایسی ایجادوں کی توفیق دی جن کے ذریعہ سے انسان نہایت باریک اؑصاب اور ریشوں پر مختلف ادویات اور اغذیہ اور تغیرات موسم اور احساسات کا جو اثر ہوسکتا ہے اسے معلوم کرنے کے قابل ہو گیا۔ ان ایجادوں نے جہاں اور عظیم الشان تغیرات پیدا کئے ہواں شراب کے متعلق بھی قدیم علمی تحقیقات کی غلطی کو ثابت کر دیا اور اکثر علماء طب کو اس بات کا اقرار کرنا پڑا کہ اس کے ضرر اس کے نفعوں سے زیادہ ہیں اس قدیم اور مستحکم خیال کے بدل دینے کا فخر علم النفس کے ایک ماہر کرپن کو حاصل ہے جس نے اپنے بعض ہم کٰالوں ی مدد سے کوشش کر کے اس امر کو ثابت کر دیا کہ شراب کی چھوٹی سے چھوٹی مقدار کے ایک ہی دفعہ کے استعمال سے بھی انسانی دماغ کے باریک ریشوں اور الیٰ درجہ کے علمی مرکزوں کو نقصان پہنچ جاتا ہے اسی طرح ہاج نے بھی الکوہل کے اس اثر کے متعلق تجربات کئے جو پٹھوں پر پڑتا ہے۔ اور وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ شراب کے استعمال سے برداشت اور ذکاوت اور صبر کی قوتوں کو نہایت سخت نقصان پہنچتا ہے۔ مسٹر الیگزینڈر برائس ایم۔ڈی ۔ڈی۔پی۔ایچ جو ماہر علم الاغذیہ ہیں شراب کے متعلق اپنی تحقیقات ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:۔
’’ اس میں کچھ شبہ اب باقی نہیں رہا کہ شراب درحقیقت ایک نہات سخت زہر ہے جو باریک ریشوں کو تباہ کر دیتا ہے پہلے تو یہ اپنا خواب آور اثر ظاہر کرتا ہے اور آہستہ آہستہ تحلیل کرنا شروع کر دیتا ہے۔ خصوصاً اعصاب کو سخت نقصان پہنچاتا ہے ۔ درحقیقت اس کا حق نہیں کہ اسے مقوی ادویہ میں شامل کیا جائے کیونکہ یہ صرف ایک ایسی دوائی ہے جو ایک عارضی تحریک کر دیتی ہے مگر اس کے بعد ایک طویل عرصہ تک ضعف رہتا ہے۔ قریبا تمام سمجھدار ڈاکٹروں کی رائے اب یہی ہو گئی ہے کہ صحب یں اس کی قطعًا کوئی ضرورت نہیں ۔ اور اگر بیماری کے علاج میں اس کا فائدہ بالکل مشتبہ نہ سمجھا جائے تو بھی یہ بات تو متحقق ہے کہ یہ اس قابل ہے کہ اس کی جگہ عموماً دوسری ایسی دوائیں استعمال کی جائیں جو اس سے کم ضرر رساں ہیں۔‘‘
ان انکشافات کا اثر لازمی طور پر علم طب پر پڑنا تھا اور پڑا۔ چنانچہ۱۹۰۰؁ء سے برابر علم طب کے ماہروں کی توجہ اس طرف پھرنی شروع ہو گئی جکہ شراب کے استعمال کو کم کیا جائے۔ چنانچہ ایڈنبرگ کے ایک ہسپتال میں جہاں ۱۸۹۱؁ء میں فی مریض اوسطاً نو روپیہ کی شراب خرچ ہوئی تھی ۱۹۰۰؁ء میںکل ۱۲آنے کی خرچ ہوئی۔ اس تجربہ کی کامیابی نے ان کی توجہ کو اور بھی کھینچا اور ۱۹۰۹؁ء میں سرتھامس فریرز نے جو بہت بڑے ڈاکٹروں میں سے ہیں اپنے زیر علاج مریضوں کو ایک ماشہ شراب بھی استعمال نہیں کرائی۔ اب اب بہت سے ہسپتال اس قسم کے تجارب کر رہے ہیں اور سوائے چند شدید بیماریوں مثلاً نمونیا خناق اور محرقہ کے بہت کم استعمال کی جا جاتی ہے۔ اور تندرستوں کے لئے بھی اس کا استعمال اب مضر سمجھا جاتا ہے ۔ غرض قرآن کریم کے فیصلہ کے تیرہ سو سال بعد دنیا پر اب آکر روشن ہو ا ہے کہ شراب کے ضرر اس کے فوائد سے بہت زیادہ ہیں۔ اور علمی طور پر یہ بات تحقیق کو پہنچ گئی ہے اور اب وہ لوگ جو اچھی بات کے قبول کرنے کیلئے کسی رسم یا عادت یا خیال یا اصول کی پرواہ نہیں کرتے اپنی غلطی کی اصلاح کی فکر کر رہے ہیں ۔ وہ لوگ اپنی کوشش میں کامیاب ہونگے یا عادات رسم اور پرانے مذہبی خیالات غالب آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ مگر یہ بات ظاہر ہے کہ یہ جدوجہد اور جدید علمی تحقیق اس امر کو روز روش کی طرح ثابت کر رہی ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم باقی تمام مذہاب کی تعلیمیوں پر ایک زبردست فوقیت رکھتی ہے۔ حتیٰ کہ اس کے بعض احکام کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے جوتمام دیگر مذاہب کے برخلاف دیتا ہے دنیا کو تیرہ سو سال کی تحقیق کی ضرورت پیش آتی ہے اور اس لمبی تحقیق کے بعد ہزاروں دھکے کھا کر وہ اسی نتیجہ پر پہنچتی ہے کہ جو حکم اسلام نے دیا تھا وہی درست اور صحیح تھا۔
ایک میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ شراب کے معاملہ میں نہ صرف بلحاظ تعلیم کے اسلام کو دیگر ادیان پر تفوق حاصل ہے بلکہ بلحاظ تاثیر کے بھی دیگر ادیان پر اور تمام اخلاقی تحریکوں پر اسے تفوق حاصل ہے۔ جن لوگوں نے شرابیوں کی حالت کا کبھی غور سے مطالعہ کیا ہے اور ایسے لوگوں سے ان کو واسطہ پڑا ہے جنہیں شراب کی عادت ہو چکی ہو۔ وہ اس امر کو خوب اچھی طرح جانتے یہں کہ شراب کی عادت جن لوگوں کو پڑ جاتی ہے ان کے لئے اس کا چھوڑنا سخت مشکل ہوتا ہے ۔ بلکہ دوسرے نشوں کے برخلاف شراب میں ایک یہ بھی خصوصیت ہے کہ جن لوگوں کو اس کی سخت عادت پڑ جاتی ہے ان کو اس سے ایک قسم کا مجنونانہ لگائو ہو جاتا ہے جو ورثہ کے طور پر ان کی اولاد میں بھی منتقل ہو جاتا ہے اور ایسے لوگ جب تک شراب میں مخمور نہ رہیں۔ ان کو چین نیہں آتا اور اس کے حاصل کرنے کے لئے سخت سے سخت جرم سے بھی پرہیز نہیں کرتے۔ پس شراب کی عادت کا چھڑادینا کوئی معمولی بات نہیں۔ میں بتا چکا ہوں کہ صرف اسلام ہی ایک مذہب ہے جس نے نہایت عمدگی سے اور دلائل کے ستھ شراب کی ممانعت اپنے پیروئوں کو کی ہے۔ اور باقی سب ادیان نہ صرف یہ کہ شراب کے استعمال سے اپنے پیروئوں کو روکتے نہیں بلکہ ان میں سے بعض مذاہب نے اس کا استعمال مذہبی رسوم کے اندر داخل کر رکھا ہے لیکن میں یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ باوجود اس اجازت کے بلکہ بعض صورتوں میں حکم کے ان مذاہب کے بڑے بڑے آمیوں نے شراب کی مضرتوں کو دیکھ کر یہ بھی محسوس کر لیا تھا کہ اگر شراب کا استعمال اسی طرح جاری رہا تو ان کی قومیں کیا بلحاظ صحت و تندرستی کے اور کیا بلحاظ اخلاق و آداب کے بہت گر جائیں گی۔ چنانچہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائے عالم سے ہی ایسے لوگ ہوتے چلے آئے ہیں جو یہ تحریک کرتے رہے ہیں کہ شراب کا استعمال کم کیا جائے۔ اور اعتددال کو ہر حالت میں مدنظر رکھا جائے۔ تمام مشرقی ممالک کی ترایخ(اور یہی ممالک پرانے زمانہ میں تہذیب و تمند کے جھنڈے کوبلند کرنے والے تھے) اس بات پر شاہد ہے کہ قدیم سے قدیم زمانہ سے ہندوستان، ایران، چین۔ فلسطین ۔مصر۔یونان اور کارتھج کے علماء مذہبی فلاسفر اور مقنن بدستی سے دور کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ لیکن ان کی کوششوں کا کیا نتیجہ نکلا یہی کہ اگر بعض آدمیوں نے کچھ مدت کے لئے شراب کا استعمال کم کر دیا تو کچھ عرصلہ کے بعد پھر تما م کا تمام ملک اس ’’آپ حیات‘‘ سے اپنی روح کو تازہ کرنے کے لئے دوڑپڑا۔ امریکہ کو ہی دیکھ لو۔ امریکہ میں شراب نوشی کے انسداد کے لئے حکمومت نے کتنی کوششیں کیں۔ لیکن چونکہ ایمان ان لوگوں کے دلوں میں نہیں تھا بلکہ ممانعتِ شراب کے پیچھے صرف ایک قانون کا م کر رہا تھا اس لئے یہ تحریک ناکام رہی۔ ہزار ہا موتیں صرف اس وجہ سے واقعہ ہوئیں کہ لوگ شراب پینے کے شوق میں سپرٹ لی لیتے اور سپرٹ میں چونکہ زہر یلی چیزوں کی آمیزش ہوتی ہے اس لئے کئی اندھے ہو جاتے اور کئی مر جاتے۔ پھر امریکہ میںنصف سے زیادہ ایسے لوگ تھے جو باہر سے ناجائز طور پر شرابیں منگواتے اور پیتے ۔ گورنمنٹ کا قانون تھا کہ ڈاکٹر کے سرٹیفیکیٹ کے بعغیر کسی شخص کو شراب نہیں مل سکتی اس قانون کی وجہ سے ہزاروں ڈاکٹروں کی آمدنیاں پہلے سے کئی گنا بڑھ گئیں وہ فیس لے کر سرٹیفیکیٹ دے دیتے کہ فلاں شخص کا معدہ کمزور ہے اور کوئی ایسی بیماری ہے اسے پینے کیلئے شراب ملنی چاہیے۔ غرض ہزاروں ڈاکٹروں کا گذارہ محض اسی قسم کے سر ٹیفیکیٹوں پر ہو گیا اور باوجود شراب نوشی کے خلاف قانون بن جنے کے لوگ کئی قسم کے حیلوں سے کوشش کرتے کہ کسی طرح قانون شکنی کریں۔ غرض کسی ملک میں کسی مدبر کسی مقنن کسی واعظ اور کسی فلاسفر کی کوشش کا یہ نتیجہ نہیں نکلا کہ لوگوں نے واقعہ میں شراب کم کر دی ہو۔ اور وہ س عہد پر قائم رہے ہوں۔ اگر ایکی جماعت نے اس کا استعمال کم کر دیا تع دوسرے نے اس کی کسر پوری کر دی۔ شراب بہر حال اپنے مرکز پر قائم رہی اور اسے کوئی شخص اپنی جگہ سے نہ ہلا سکا۔
اب آئو اور اس کے مقابلہ میں تاثیر کو دیکھو جو انسدادِ شراب نوشی کے متعلق اسلام کو حاصل ہے اسلام اس وقت دنیا میں آیا جبکہ علم و سائینس کا رواج دنیا میں بہت کم تھا۔ یونانی علوم اپنی ترقی کی انتہا کو پہنچ کر مسیحی پادریوں کی سعی سے گوشہ گمنامی میں جا بیٹھے تھے اور سوائے معدودے چند آدمیوں کے دوسرے ولگ ان سے ناواقف تھے۔ خصوصاً ایشیائے و چک پر جس کا ان علوم کی ترقی میں خاص حصہ تھا سخت اندھیراچھا یا ہوا تھا۔ ہندوستانی فلسفہ بھی تنزل پر تھا۔ ایران بھی اخلاقی اور علمی طور پر انحطاط کی طرف قدم زن تھا۔ اور عربوں کی حالت توسخت ناگفتہ بہ تھی۔ حجازی عربوں میں پڑھنا لکھنا ہی بہت بڑا علم تھا۔ اور اس جن کے واقف بھی چند آدمیوں سے زیادہ نہ تھے۔ علم الاخلاق ان کے ہاں وہی تھا جو ان کے شاروں نے اپنے شعروں میں نظم کیا اور علم طب ان کیہاں وہی تھا جو ان کی بڑی بوڑھیاں بطور صدری نسخوں کے یکے بعد دیگرے ایک دوسری کو سناتی چلی آئی تھیں۔ اور وہ علم الاخلاق جس کی طرف ان کیشاعروں نے راہنمائی کی ہے یہی ہے کہ شراب انسان کے اخلاق کو اعلیٰ کرتی ہے اور اسے دلیر اور سخی بناتی ہے اور یہی دو خصائل ہیں جن کی رب پر واہ کرتا تھا۔ اس کے نزدیک تمام علم الاخلاق انہیں دو صفات میں مرکوز تھا۔ اور ان کا علمِ طب بھی انکو یہی ہدایت کرتا تھا کہ ہر مرض کا علاج شراب کا جام ہے پس عرب اپنے علوم کے لحاظ سے شراب سے متنضر نہیں بلکہ اس کا دلدادہ تھا۔ ہ رعرب شراب کا عادی تھا۔ اور عادی بھی ایسا کہ اس کے روز مرہ کے شغلوں کو پڑھو شراب کے ذکر سے ان کی کوئی نظم خالی نظر نہیں آتی۔ عرب کا مشہور شاعر طرفہ جو اپنی زبان کی خوبی اورمضامین کی بلندی کی وجہ سے عرب کا دوسرے نمبر کا شاعت سمجھا جاتا ہے لکھتا ہے:۔ ؎
وَاِنْ تَبْغِنِیْ فِیْ حَلْقَۃِ الْقَوْمِ تُلْفِنِیْ
وَاِنْ تَقْقَنِصْنِیْ فِی الْحَوَانِیْتِ تَصْتَدِیْ
کَرِیْم’‘ یُرَوِّیْ نَفْسَہ‘ فِیْ حَیَاتِہٖ
سَتَعْلَمُ اِنْ مِتْنَا غَدًا اَیُّنَا المصَّدِیْ
یعنی اگر تو میری تلاش قوم کی مجلس شوریٰ میں کرے تو تو مجھے وہاں پائیگا۔ یعنی میں باوجود نو عمر ہونیکے قوم کا معتمد ہوں(یہ صرف بیس سال کی عمر مین مارا گیا تھا) اور اگر تو مجھے شراب کی دو کانوں پر تلاش کرے تو وہاں بھی مجھے پائیگا۔ یعنی دو ہی مقام ہیں جہاں میں مل سکتا ہوں اپنی دانائی کی وجہ سے قوم کی مجلس شوریٰ میں مجھے جانا پڑتا ہے اور اپنی شراب نوشی کی وجہ سے شراب خانوں پر میرا پھیرا ہوتا رہتا ہے ۔ پھر کہتا ہے میں اور شریف النفس ہوں کہ اپنے نفس کو میں نے اس زندگی میں سیراب کر دیا ہے۔ اور اگر اے دوستوہم مر جائیں تو تم کو بعد مرون معلوم ہو جائیگا کہ کون پیاسا ہے۔ یعنی میں اس قدر شراب پینے والا ہوں کہ مرنے کے بعد بھی نشہ میں ہی اٹھوں گا۔ طرفہ کی یہ باتیں باتیں ہی نہیں بلکہ وہ اس پر عمل پیرا بھی تھا۔ چنانچہ عرب کے بادشاہ عمر و بن ہند نے جب اس کے بعض اشعار پر جو اس نے بادشاہ کی ہجو میں کہے تھے ناراض ہو کر عین اس کے عنفو انِ شباب میں اس کے قتل کا حکم اپنے والئی بحران کو لکھا اور اس نے طرفہ سے دریافت کیا کہ وہ اپنے لئے بہترین طریقہ موت کا چُنے۔ تو اس نے یہ پسند کیا کہ اس کے پاس بہت سی شراب رکھدی جائے اور اسی کو پیتے وقت اس کی رگوں کا خون نکال کر اسے قتل کر دیا جائے۔
اسی طرح عرب کا ایک شاعر ابو ممجن ثقفی اپنے بیٹے کو وصیت کرتے ہوئے کہتا ہے ؎
اِذَامِتُّ فَادْفْنِّیْ اِلیٰ اَصْلِ کَرْمَۃٍ
تُرَوِّی عِظَامِیْ بَعْدَ مَوْتِیْ عُرُوْ قُھَا
وَلَا تُدْفِنِّیْ الْفَلَاۃِ فَاِنَّنِیْ
اَخَافُ اِذَا مَامِتُّ اَنْ لَّا اَذُوْقَھَا
یعنی جب میں مر جائوں تو مجھے انگور کے درختوں کے پاس دفن کیجییو تاکہ اس کی جڑیں میری ہڈیوں کو سیراب کرتی رہیں اور مجھ جنگل میں دفن نہ کیجیئو۔ تا ایسا نہ ہو کہ مرنے ے بعد میں شراب سے محروم رہ جائوں۔ (کتاب الشعر و الشعراء لا بن قتیبہ)
شعراء کے کلام کے علاوہ لغتِ عرب بھی عرب کے شراب پر شیدائی ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ عربی زبان میں شراب کے نام اس کثرت سے پائے جاتے ہیں کہ انکو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ اور کسی زبان میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ تمدن عرب بھی اس بات کا شاہد ہے کہ عرب شراب نوشی میں نہ صرف کامل تھا بلکہ باقی تمام دنیا سے بڑھا ہوا تھا۔ کیونکہ عرب میں شراب کشید کرنے کا طریق بہت قدیم زمانہ میں دریافت کر لیا گیا تھا۔ چنانچہ انسائیکلو پیڈیا برمٹنیکا میں لکھا ہے:۔
’’معلوم ہوتا ہے کہ قدیم زمانہ کے لوگوں کو شراب کے کشید کرنے کا طریق معموم تھا اور تاریخی کے زمانوں میں عرب لوگ شراب کے کشید کرنے کا کام کیا کرتے تھے۔‘‘
اس تاریخی شہادت معلوم ہوتا ہے کہ عرب قدیم زمانہ میں شراب بنانے اور اس کے استعمال کرنے میں سب سے آگے تھے۔ بلکہ وہ دنیا کے لئے کشید گردہ شراب کی جو خمیر سے تیار کردہ شراب سے زیادہ سخت اور زیادہ عادی بنا دینے والی ہے اکیلی منڈی بنا ہوا تھا یہ ملک تھا جس میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مبعوث ہوئے۔ اور یہ قوم تھی جس سے شراب چھڑانے کا انہوں نے ارادہ کیا۔ اس ارادہ کے پورا کرنے کیلئے انہوں نے کیا تدابیر اختیار کیں۔ اور ان کا کیا نتیجہ نکلا یہ ایک حیرت انگیز تاریخی واقعہ ہے جس پر تمام عقلیں دنگ ہیں اور کل دانا انگشت بدنداں۔ اس شراب کے نشہ میں مخمور رہنے والی قوم اور شراب کو اپنا ایک ہی دل لگی کا ذریعہ سمجھنے والی جماعت میں ایک دن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نکلتے ہیں۔ اور مختصر اور صاف لفظوں میں خداتعالیٰ کا یہ حکم سنا دیتے ہیں کہ شراب کے نقصانات چونکہ اس کے نفع سے زیادہ ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے آئندہ کے لئے اس کو حرام کر دیا ہے پس ہر ایک مسلمان کو چاہیے کہ اس سے پرہیز کرے اور اس کا بنانا۔ بیچنا ۔ پینا اور پلانا ترک کر دے۔ اور اس حکم کو سن کر وہ شراب کے شیدائی اپنا سر نیچا کر لیتے ہیں۔ اور ایک شخص کے منہ سے بھی اس کے خلاف آواز نہیں نکلتی۔ ہر ایک ان میں سے شرح صدر سے اس حکم کو قبول کر لیتا ہے اور اس وقت کے بعد شراب کا گلاس کسی ایک فرد کے منہ کے قریب بھی نہیں جاتا۔ وہ لوگ مہلت نہیں مانگتے قلت و کثرت کا سوال نہیں اٹھاتے۔ کیونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان کو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ جس چیز کی زیادتی حرام ہے اس کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے۔ ان میں لیکچروں کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ شراب کی بُرائیاں ذہن نشین کرنے کی حاجت نہیں ہوتی ۔کیونکہ اسلام نے ان کے ذہنوں کو ایسی جلا دے دی تھی کہ حق بات کی طرف توجہ دلانا ان کے لئے کافی ہوتا تھا۔ اور تعصب اور خودبینی سے انکو اس قدر دور کر دیا تھا کہ اپنی غلطیاں خودبخود ان کی آنکھوں کے سامنے آجاتی تھیں۔ پس کسی لیکچرار کے لیکچر یا میجک لنٹرن کی تصاویر کی ان کی ضرورت نہ تھی۔ ان کے لئے صرف ایک اشارہ کافی تھا۔ ایک لفظ بس تھا۔ اور سب معاملہ آپ ہی آپ انکے لئے واضح ہو گیا۔ ان کا اپنا نفس ان کے لئے لیکچرار تھا اور گوشہ ہائے داماغ میجک لنٹرن کے پردے۔ جن پر وہ عقل کی آنکھوں کے ساتھ خوب اچھی طرح ان بدمستیوں کے نظاروں کو دیکھ سکتے تھے جو شراب نوشی کے نتیجہ میں ظاہر ہوتے ہیں۔ وہ جھوٹی تصویروں کے محتاج نہ تھے سچا نقشہ ان کی رہنمائی کے لئے کافی تھا۔ اسلام کے اس دوحرفہ حکم کا جو اثر شراب نوشی پر ہوا اس کی بہترین مثال ذیل کا واقعہ ہے جو مسلم مسند احمد بن جنبل اور ابن جریر کی روایات سے ماخوذ ہے۔
حضرت انس ؓ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے خدام میں سے تھے اور مدینہ کے رہنے والے تھے۔ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دن ابوطلحہ کے مکان پر مجلس شراب لگی ہوئی تھی اور بہت سے دوست جمع تھے۔ میں شراب پلا رہاتھا۔ دور پر دور چل رہا تھا۔ اور نشہ کی۔۔۔۔۔ وجہ سے ان کے سر جھکنے لگے تھے کہ اتنے میں گلی میں کسی نے آواز دی کہ شراب حرام کی گئی ہے۔ بعض لوگوں نے کہا کہ اُٹھ کر دریافت کرو کہ یہ بات درست بھی ہے یا نہیں۔ مگربعض دوسروں نے کہ کہ نہیں پہلے چراب بہا دو پھر دیکھا جائے گا۔ اور مجھے حکم دیا کہ میں شراب کو برتن توڑ کر شراب بہادوں چنانچہ میں نے ایک سونٹا مار کر وہ گھڑا جس میں شراب تھی توڑ دیا اور اس کے بعد وہ لوگ کبھی شراب کے نزدیک نہیں گئے۔
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کااثر لوگوں کے دلوں پر کیا تھا۔ مجلس شراب میں جبکہ لوگ نشہ میں ہیں۔ ایک شخص کے خبر دینے پر بلا تحقیق شراب کا بہا دینا کوئی معمولی بات نہیں۔ اس کی اہمیت کو وہ اقوام زیادہ سمجھ سکتی ہیں جو شراب کی عادی ہیں۔ کوینکہ جب دور سے دیکھنے والے ان کی اس حالت کو عجیب حیرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو خود ان کے دل ضرور اس حالت کی خصوصیت کو اچھی طرح محسوس کرتے ہونگے۔ اس واقعہ کو دوسرے مذاہب اور دوسرے تمدنوں اور قونین کے اثرات کے ساتھ مل کر دیکھو کہ کیا دونوں میں زمین وآسمان کا فرق نہیں؟ آج جبکہ سائنس اور علومِ طبعیہ شراب کی مضرت کو ثابت کر رہے ہیں اور شراب کے ترک کرنے میں ملکی بہبودی اور مالی فراخی کی بھی امید ہے پھر بھی لوگ شراب چھوڑنے کے لئے تیار نہیں لیکن عرب کا مخمور مسلم ایک راستہ پر چلنے والے کی اکیلی آواز سن کر کہ شراب حرام کی گئی ہے شراب کے مٹکوں کو توڑ کر مدینہ کی گلیوں میں شراب کا دریا بہا دیتا ہے۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ اٰل مُحَمَّدٍوَ بَارِکْ وَسَلِّمْ۔ اِنَّکَ حَمِیْد’‘ مَّجِیْد’‘۔
دوسر ی چیز جس سے اس آیت میں روکا گیا ہے وہ جوا ہے جوا بھی اہل عرب کی گھٹی میں رچا ہوا تھا۔ چنانچہ انہوں نے جب کوئی بڑی دعوت کرنی ہوتی تو اس کے اخراجات کے لئے یہ انتظا م کرتے کہ تمام امراء مل کر جوا کھیلتے اور جو ہار جاتا اس پر اس خرچ کی ذمہ داری ڈال دی جاتی ۔ اسی طرح جنگوں کے موقعہ پر وہ قرعہ اندازی سے کام لیتے اور جس امیر آدمی کا نام نکلتا اس کا فرض قرار دیا جاتا کہ وہ لڑنے والوں کے کھانے پینے کا انتظام کرے۔ اور انکو شراب مہیا کر کے دے۔ گویا یہ جنگی اخراجات پورا کرنے کا ایک ذریعہ تھا۔ مگر اللہتعالیٰ نے اس سے بھی مسلمانوں کو منع فرمادیا کیونکہ جس طرح شراب جسم اور اخلاق اور روحانیت کو تباہ کرنے والی چیز ہے اسی طرح جوا بھی اخلاق اور تمدن کو تباہ کرنے والی چیز ہے جُوئے کا عادی انسان اگر جتیتا ہے تو اور ہزاروں گھروں کی بربادی کا موجب ہو کر پھر جوئے باز میں زمین اور روپیہ لٹانے کی عادت پیدا ہو جاتی ہے۔ شاید ہی کوئی جوئے باز ایسا ہو گا جو روپیہ کو سنبھال کر رکھتا ہو۔ بالعموم جوئے باز بے پرواہی سے اپنے مال کو لٹاتے ہیں اور ایک طرف تو اور لوگوں کو برباد کرتے ہیں اور دوسری طرف اپنے مال سے فائدہ نہیں اٹھاتے کیونہ روپیہ کمانے میں انیہں کوئی محنت نہیں کرنی پڑتی۔ پھر جوا عقل اور فکر کو بھی کمزور کر دیتا ہے۔ اور جوئے باز عادتاً ایسی چیزوں کے تباہ کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے جنہیں کوئی دوسرا عقلمند تباہ کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتا۔
یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ۔ جب شراب سے جو سپاہیوں میں تہور پیدا کرنے کا ایک بڑا ذریعہ تھا اور جوئے سے جو لوٹ مار ا طریق تھا اور جس سے وہ لوگ جنگی اخراجات پورا کیا کرتے تھے۔ روک دیا گیا توب جائے اس کے کہ ان کے دلوں میں کوئی انقباض پیدا ہوتا انہوں نے قربانیوں کی راہ میں ایک اور قدم آگے بڑھایا۔ اور جائز ذرائع سے کمائے ہوئے اموال کے متعلق بھی یہ پوچھنا شروع کر دیا کہ انہیں خداتعالیٰ کی راہ میں کس نسبت سے خرچ کرنا چاہیے چونکہ پہلے بھی ایک ایسا ہی سوال گزر چکا ہے اس لئے یاد رکھنا چاہیے کہ وہاں اقسام صدقہ کے متعلق سوال تھا اور یہاں کمیت کے متعلق سوال ہے یعنی جب جُوا بھی منع کر دیا گیا تو ان کے دلوں میں سوال پیدا ہوا کہ اب لازماً ہمیں زیادہ قربانی کی ضرورت ہو ئی۔ سو ہم کیا خرچ کریں۔ کیا سب کچھ یا کسی اور نسبت سے ؟گویا جس حد تک ہمیں اپنے اموال خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے چاہیں اس پر روشنی ڈالی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں صرف ایک لفظ عفو استعمال فرمایا ہے جس کے ایک معنے اس مال کے ہیں جو ضروری اخراجات سے بچ جائے ۔ اور جس کے دینے سے انسان کو کسی قسم کی تکلیف محسوس نہ ہو۔ دوسرے معنے عَفْو’‘ کے خِیَارُ الشَّیْ ئِ وَاَطْیَبُہ‘ کے ہیں۔ یعنی سب سے اچھی اور پاکیزہ شے اور تیسرے معنے عَفْو’‘ کے بغیر مانگے دینے کے ہیں۔ مفسرین نے اس آیت کے کئی معنے لکھے ہیں ایک تو یہ کہ اس جگہ جہاد میں اموال خرچ کرنے کا حکم ہے۔ صدقات مراد نہیں گویا ان کے نزدیک زیر تفسیر آیت کے یہ معنے ہیں کہ جب جہاد درپیش ہو تو اپنی ضروریات سے زائد مال تمام کا تمام جہاد کے لئے دے دو۔ دوسرے معنے اس کے یہ کئے جاتے ہیں کہ یہاں جہاد کا نہیں بلکہ صدقات کا ذکر ہے۔ اور پھر عَفو’‘ کے لحاظ سے اس کے کئی معنے کرتے ہیں (۱) بعض کہتے ہیں کہ عفو کے معنے ضروت سے زائد مال کے ہیں۔ چنانچہ ابتدائے اسلام میں سال بھر کے نفقہ سے جو کچھ بچ رہتا اس کے فی سبیل اللہ خرچ کرنے کا مسلمانوں کو حکم تھا۔ مگر آیت زکوٰۃ کے نازل ہونے پر یہ حکم موقوف ہو گیا۔ گویا ان کے نزدیک یہ آیت اب منسوخ ہو چکی ہے (۲) دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ یہ زکوٰۃ کے متعلق حکم ہے اور مجملاً بیان ہوا ہے اس کی تفصیل دوسری جگہوں سے معلوم ہوتی ہے (۳) ایک اور جماعت عفو کے معنے اس مال کے کرتی ہے جس کا خرچ کرنا بوجھ معلوم نہ ہو۔ (۴) بعض نے کہا ہے کہ س کے معنے درمیانی خرچ کے ہیں یعنی نہ بالکل کم خرچ کرو اور نہ حد سے زیادہ (۵) پھر بعض نے کہا ہے کہ عفو کے معنے بہتر اور پاک مال کے ہیں۔ اور اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اچھے اور پاک مال میں سے خرچ کرو۔ یہ نہیں کہ پُرانی اشیاء کہ اچھے اور پاک مال میں سے خرچ کرو۔ یہ نہیں کہ پُرانی اشیاء یا دوسروں کے اموال اٹھا کر دے دو۔ (۶) بعض نے کہا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ صدقہ و خیرات خوب دل کھول کر کرو۔
جس جماعت نے اس آیت کے یہ معنے کئے ہیں کہ جو ضرورت سے زائد بچے اسے خرچ کرو اس نے بھی اسے یا تو جہاد پرچسپاں کیا ہے یا منسوخ قرار دیا ہے۔ اور وہ اس بات پر مجبور بھی تھے کیونکہ وہ صحابہ رضوان اللہ علیہہم کے عمل اور اُمتِ اسلامیہ کے طریق کو اس کے خلاف دیکھتے تھے۔ا حادیث بھی اس بات کی تائید کرتی ہے کہ اپنے اخراجات نکال کر باقی سارا مال تقسیم کر دینا اسلامی حکم نہیں۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں۔ یَجِیُْٗی اَحَدُکُمْ بِمَالِیٖ کُلِّہٖ یَتَصَدَّقُ بِہٖ وَیَجْلِسُ یَتَکَفَّفُ النَّاسَ اِنَّمَا الصَّدَ قَۃُ عَنْ ظَھْرِ غِنًی (کشاف) یعنی تم میں سے بعض لوگ اپنا سارا مال صدقہ کے لئے لے آتے ہیں اور پھر لوگوں کے آگے سوال کیلئے ہاتھ پھیلا دیتے ہیں۔ صدقہ صرف زائد مال سے ہوتا ہے۔ سی طرح فرماتے ہیں لَاَنْتَذَرَ وَرَشَتُکَ اَغْنِیَائَ خَیْر’‘ مِنْ اَنْ تَذَرَھُمْ عَالَۃً یَتَکَفَّفُوْنَ النَّاسَ(ترمذی) یعنی اگر تو اپنے ورثاء کو دولتمند چھوڑ جائے تو یہ زیادہ اچھا ہے بہ نسبت اس کے کہ تو ان کو غریب چھوڑ جائے۔ ار وہ لوگووں کے آگے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ حضر سعد بن ابی وقاص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے دو ثلث مال کے تقسیم کر دینے کی اجازت چاہی مگر آپ نے انہیں منع فرمایا پھر انہوں نے آدھا مال تقسیم کرنا چاہا۔ تو اس سے بھی منع فرمایا ۔ پھر انہوں نے تیسرے حصہ کے تقسیم کر دینے کی اجازت چاہی تو اس حصہ کی آپؐ نے اجازت دے دی مگر ساتھ ہی فرمایا ۔ اَلثُّلُثُ وَالثُّلُثُ کَثِیْر’‘ یعنی تیسرے حصہ کی وصیت کر دو گو ثلث بھی کثیر ہے غرض یہ خیال کہ اسلام کا یہ حکم ہے کہ جو مال ضرورت سے زائد بچے اُسے تقسیم کر دینا چاہیے۔ بالکل خلاف اسلام اور خلاف عمل ِ صحابہؓ ہے جن میں سے بعض کی وفات پر لاکھوں۔۔۔۔روپیہ ان کے ورثاء میں تقسیم کیا گیا ۔ پھر اگر اسلام کا یہی حکم تھا تو زکوٰۃ کا حکم دینے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ جب سب مال جو ضرورت سے زائد ہو تقسیم کرن دینے کا حکم ہے تو زکوٰۃ مقرر کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اور پھر ضرورت سے بچے ہوئے کی اصطلاح خود مبہم ہے۔ بعض لوگ جو کچھ ان کو مل جائے گو لاکھوں روپیہ ہی کیوں نہ ہو خرچ کر دیتے ہیں اور ضرورت سے زائد ان کے خیال میں کوئی مال ہوتا ہی نہیں۔ پھر بعض لوگ اپنا سب مال تجارت وگیرہ میں لگائے رکھتے ہیں۔ ان کے پاس بھی ضرورت سے زیادہ نہیں بچ سکتا۔ عقلاً بھی یہ خیال بالکل باطل ہے کیونکہ جب تک ایک جماعت ایسے لوگوں کی نہ ہو جو مالدار ہوں عام ملکی ترقی نہیں ہو سکتی اور غرباء کو بھی نقصان پہنچتا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض روحانی لوگ اپنے اموال کو حتی الوسع غرباء کی خدمت میں خرچ کرتے ہیں اور اسے اسلام نے منع نہیں کیا۔ بلکہ پسند کیا ہے مگر یہ بات غلط ہے کہ اسلام نے اس امر کا حکم دیا ہے کہ دنیا میں مالی مساوات قائم کی جائے۔ اور ضرورت سے زیادہ مال لوگ لازماً خرچ کر دیا کریں۔ اگر یہ اصل تسلیم کیا جائے تو یہ اصل بھی مقرر کرنا پڑے گا کہ ضرور سے مراد عام حالتِ ملکی کے مطابق اخراجات ہونگے ورنہ اگر اس بات کی اجازت دے دی جائے کہ ہر شخص اپنی ضرورت کا خود فیصلہ کرے تو پھر بھی مساوات نہیں رہے گی۔ کوئی شخص اعلیٰ سے اعلیٰ کھانوں اور عمدہ سے عمدہ کپڑوں اور وسیع اور کھلے اور آراستہ و پیراستہ مکانوں اور خوشنما چمنوں اور میوہ دار باغوں کے لئے روپیہ رکھ کر باقی اگر پچیگا تو غربا ء میں بانٹ دے گا۔ اور غریب بیچارے معمولی لباس پہننے اور جھونپڑیوں میں رہنے پر مجبور ہونگے۔ اصل بات یہ ہے کہ اسلام کے احکام کے مطابق ہر مسلمان حکومت کا یہ فرض ہے کہ اس کے ملک کے باشندے فاقہ سے نہ رہیں اور ان کے قابلِ ستر مقامات کے لئے کپڑا مہیا کیا جائے گویا انسانی زندگی کی پوری طرح حفاظت کر ے۔ اس کے لئے وہ امراء سے شریعت کے حکم کے مطابق مال لے کر غرباء پر خرچ کرتی ہے اس سے زیادہ جو کچھ خرچ کیا جائے وہ امراء کی اپنی مرضی پر منحصر ہے ہاں اگر زکوٰۃ دینے کے بعد بھی کوئی شخص فاقہ سے مرتا ہوا کسی کو نظر آئے تو اس کا فرض ہے کہ اس کی جان بچانیکی پوری کوشش کرے۔ اس دعویٰ کا ثبوت اس حدیث سے ملتا ہے کہ ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے دریافت کیا کہ اسلام کیا ہے ۔آپؐ نے اسے اسلام کے اصولی احکام بتائے۔ اور ان میں زکوٰۃ کا مسئلہ بھی بیان فرمایا۔ یہ سب کچھ سن کر اس شخص نے کہا کہ میں اس سے نہ زیادہ کرونگا نہ کم اس پر آپ نے فرمایا کہ اگر اس نے اس قول کو پورا کر دیا تو یہ کامیاب ہو گیا۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ غرباء کی مدد کے لئے زکوٰۃ سے زیادہ دینا کسی پر فرض نہیں۔ ہاں اگر کوئی زیادہ دے تو یہ اس کی نیکی ہے۔
دراصل اس آیت میں تین قسم کے لوگوں کے لئے تین مختلف احکام دیئے گے ہیں۔ اور یہ تینوں احکام عفو کے لفظ کے اندر شام ہیں۔ پہلا حکم جو ادنیٰ درجہ کا ایمان رکھنے والوں کے لئے ہے وہ تو یہ ہے کہ تم اس قدر خرچ کرو کہ بعد میں تمہارے دین اور ایمان کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ ہم نے دیکھاہے بعض لوگ جوش میں آکر بہت سا روپیہ دینی ضروریات کے لئے صرف کر دیتے ہیں لیکن بعد میں جب انہیں مالی مشکلات محسوس ہوتی ہیں تو اعتراض کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے یہ ہدایت دی ہے کہ جس نے کل اپنے ایمان سے ہاتھ دھونا ہے اسے چاہیے کہ وہ آج ہی اپنا ہاتھ نہ پھیلائے کہ بعد میں یہ انفاق اس کے لئے ٹھوکر کا موجب بن جائے۔
دوسرا حکم ان سے اعلیٰ درجہ کے لوگوں کو یہ دیا کہ تمہارا جو اچھے سے اچھا مال ہے اسے تم خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو۔ اور (۳) جو لوگ اس سے بھی اوپر درجہ کے ہیں انہیں یہ حکم دیا کہ وہ بغیر کسی کے سوال کے خود ہی اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے اموال دے دیا کریں۔ گویا ان سے کسی کو مانگنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آنی چاہیے بلکہ انہیں خودبخود مذہبی او قومی ضروریات کا خیال رکھنا چاہیے۔ اور ہمیشہ اس کے لئے اپنے اموال خرچ کرتے رہنا چاہیے۔
کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَتَفَکَّرُوْنَ فِی الدُّنْیَا و َالْاٰخِرَۃِ۔ کَذٰلِکَ میں ک واحد کی علامت آیا ہے حالانکہ لَکُمْ بتاتا ہے کہ مخاطب بہت سے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی جگہ قرآن کریم میں واحد کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے اور مراد جمع ہوتی ہے۔ ابوحیان کہتے ہیں وَھِیَ لُغَۃُ الْعَرَبِ یُخَاطِبُوْنَ الْجِمْعَ بِخِطَابِ الْوَاحِدِ
فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِط


عَزِیْز’‘ حَکِیْم’‘O
(بحرمحیط جلد ۲ صفحہ۱۵۹) یعنی یہ اہل عرب کا محاورہ ہے کہ وہ بعض دفعہ جمع کے لئے واحد کا صیغہ استعمال کرتے ہیں۔ جیسے کہتے ہیں قَدْکَثُرَ الدِّرْھَمُ وَالدِّیْنَارُ۔ اسی طرح کہتے ہیں قَدْ کَثُرَ الدِّیْناَرُ۔ اسی طرح کہتے ہیں فَقُلْنَا اَسْلِمُوْا اِنَّا اَخُوْکُمْ ہم نے کہا تم مسلمان ہوجائو ہم تمہارے بھائی ہیں۔ یعنی اِخْوَکُمْ ہم نے کہا تم مسلمان ہو جائے ہم تمہارے بھائی ہیں۔ یعنی اِخْوَانُکُمْ کہنے کی بجائے اَخُوْکُمْ کہہ دیا گیا۔ اسی طرح کہتے ہیں کُلُوْافِیْ نِصْفِ بَطْنِکُمْ تَعِیْشُوْا تم نصف بھوک رکھ کر کھائو۔ تم زندہ رہو گے۔ (الصاجی لاحمدبن فارس صفحہ۱۸۰)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ شرعی احکام کا چونکہ ایک اثر دنیوی زندگی پر پڑتا ہے اور ایک اخروی زندگی پر ۔ اس لئے ہم اپنے احکام کو واضح طور پر بیان کرتے ہیں تاکہ تم ان پر غور کر سکو۔ اور تم جو بھی قدم اٹھا اعلیٰ درجہ البصیرت اٹھائو۔ اندھا دُھند کسی بات کو نہ مانو۔
لَعَلَّکُمْ تَتَفَکَّرُوْنَ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃٖ کا اشارہ اِثْمُھُمَا اَکْبَرُ مِنْ نَفْعِھِمَا کی طرف بھی ہو سکتا ہے کہ بے شک شراب اور جُوئے میں بعض قسم کے فوائد بھی ہیںمگر ان میں ضرر زیادہ ہیں۔ دنیوی نقطہ نگاہ سے بھی اور دینی نقطہ نگاہ سے بھی۔ اسی طرح دوسرے احکام بھی تمہارے فائدہ کے لئے دیئے گئے ہیں۔ پس تمہارا کام ہے کہ تم غوروفکر سیکام لے کر وہ راہ اختیار کرو جودینی اور دنیوی دونوں رنگ میں تمہیں کامیابی کی منزل کی طرف لے جانے والی ہو۔
۱۳۳؎ حل لغات:۔ اَعْنَتَ کے معنے ہیں وہ کام سپرد کرنا جس کی طاقت اور برداشت نہ ہو کہتے ہیں اَعْنَتَ الرَّاکِبُ الدَّآبَّۃَ اَیْ حَمَلَھَا مَالَا تَحْتَمِلُہ‘ (اقرب) سوار نے سواری وغیرہ کو ایسے کام پر لگایا جس کی اسے طاقت نہ تھی۔
تفسیر:۔ فرماتا ہے لوگ تجھ سے یتامیٰ کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ تو ان سے کہہ دے کہ ان کی اصلاح اور ترقی کو مدنظر رکھنا بڑا اچھا کام ہے اوراگر تم ان سے مل جل کررہو تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ آخر وہ تمہارے بھائی ہیں اور بھائیوں کے ساتھ مل کر رہنا بڑی اچھی بات ہے۔ اور اللہ تعالیٰ فساد کرنے والے کو اصلاح کرنے والے کے مقابلہ میں خوب جانتا ہے۔
یتامیٰ کے متعلق آج دنیا میں بڑاظلم ہو رہا ہے۔ یا تو ان پر حد سے زیادہ سختی کی جاتی ہے اور یا پھر حد سے زیادہ پیار کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ بگڑ جاتے ہین حالانکہ نہ ان پر زیادہ سکتی کرنی چاہیے اور نہ اتنا پیار کرنا چاہیے کہ خواہ وہ کچھ کریں یہ کہدیا جائے کہ اسے کچھ نہیں کہنا۔ اس کا باپ مرا ہوا ہے۔ عام طور پر لوگ ان کو لاوارث پا کر یا تو حد سے زیادہ سختی کرتے ہیں یا پھر حد سے زیادہ نرمی لوگ جھوٹے رحم سے کام لے کر انہیں کچھ نہیں کہتے اور اس طرح وہ بچے جو یتیم رہ جاتے ہیں بگڑ جاتے اور ان کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ تم ہر بات میں ان کی اصلاح کو مدنظر رکھو۔ اور درمیانی راہ اختیار کرو۔ قرآن کریم میں ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ یتامیٰ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو ان کی طرف توجہ نہیں کرتے انہیں یہ تو سوچنا چاہیے کہ کیا یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ خود مرجائیں اور اپنے بچوں کو یتیم چھوڑ جائیں(سورۃ نساء آیت۱۰) اس رنگ میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ یتامیٰ کی پرورش اور ان کی نگہداشت ایک اہم ترین جرض ہے لوگ اگر مرنے سے ڈرتے ہیں تو محض اس وجہ سے کہ وہ دیکھتے ہیں فلاں شخص مر گیا اور اس کے بچے دربدر بھیک مانگتے پھر رہے ہیں یا ان بچوں کو کسی نے ملازم رکھ لیا ہے تو وہ بات بات پر ان کو بوٹ سے ٹھوکریں مارتا اور ان کے مونہہ پر تھپڑ رسید کرتا ہے وہ روتے ہیں چیختے ہیں چلاتے ہیں مگر ان کی آہ وزاری اس کیدل پر کوئی اثر نہیں کرتی۔ یہ حالات دیکھ کر وہ بھی موت سے گھبراتا ہہے اورسمجھتا ہے کہ اگر مین مر گیا تو میرے بچوں کے ساتھ بھی لوگ ایسا ہی سلوک کرینگے۔ لیکن اگر قومی کیریکٹر ایسا اعلیٰ درجہ کا بن جائے کہ جب کوئی شخص مرے تو اس کے بچوں کے متعلق ساری قوم میں ایک زبردست جذبہ اخوت پیدا ہو جائے اور ہر شخص کہے کہ ان بچوں کو میرے سپرد کیا جائے میں اپنے بچوں کی طرح ان کی پرورش کروں گا تو موت کا ڈر ہر شخص کے دل سے نکل جائے اور وہ سمجھنے لگ جائے کہ اگر میں مر گیا تب بھی میری قوم کے افراد ایسے اچھے ہیں کہ وہ میرے بچوں کی میری طرح ہی خبر گیری کریں گیااور انہیں تھپڑوں اور بوٹ کی ٹھوکروں کا نشانہ نہیں بنائیں گے۔ پس یتامیٰ کی خبر گیری اور بیوائوں سے حسنِ سلوک یہ دو ایسی چیزیں ہیں جو قوم میں موجود نہ ہو بلکہ اس کے برعکس اس کے افراد کا نمونہ یہ ہو کہ وہ یتامیٰ تو رکھتے ہوں مگر ملازم بنا کر بلکہ ملازموں سے بھی بدترحالت میں اور وہ ذرا ذرا سی بات پر ان کو تھپڑ مارنے کے لئے تیار ہو جاتے ہوں تو کون شخص ہے جس کا مرنے کو دل چاہے گا۔ ہر شخص ڈرے گا ہرشخص موت سے گھبرائیگا اور سمجھ یگا کہ میری موت میرے بچوں کی موت ہے۔ میر ی موت میری بیوی کی موت ہے میں مروں تو کس طرح اور جان دوں تو کیوں پس ضروری ہے کہ ساری قوم کا یہ کیریکٹر بن جائے کہ جب کوئی شخص فوت ہو تو یہ سوال نہ ہو کہ کون اس کے بچوں کی پرورش کریگا۔ بلکہ لوگ خود دوڑتے ہوئے جائیں اور ان بچوں کو اپنے سینہ سے لگاتے ہوئے اپنے گھروں میں لے آئیں اورا پنے بچوں کی طرح بلکہ اپنے بچوں سے بھی بڑھ کر ان سے محبت اور پیار اور نرمی اور شفقت کا سلوک کریں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانے کا واقعہ ہے ایک بچہ یتیم رہ گیا۔ تو بعض صحابہؓ میں آپس میں لڑائی شروع ہو گئی ایک کہتا میں اس کی پرورش کرونگا۔ دوسراکہتا ہے اس کی پرورش کرونگا۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس یہ معاملہ پہنچا تو آپ نے فرمایا کہ بچہ سامنے کرو۔ او ر وہ جس کو پسند کرے اس کے سپر د کر دو۔ مگر آج یہ حالت ہے کہ اگر کوئی شخص مرنے لگتا ہے تو اسے اپنی زندگی کی آخری گھڑیوں میں سب سے بڑا فکر اور اضطراب یہی ہوتا ہے کہ میرے بعد میرے بیوی بچوں کا کیا بنے گا۔ کون ان کی پرورش کرے گا۔ کون ان کی نگہداشت کریگا کون ان کی طر ف محبت اور پیا ر کی نگاہ سے دیکھے گا۔ اور جب وہ شخص مر جاتا ہے اور اس کے بچوں کی پرورش کا سوال سامنے آتا ہے تو ایک شخص کہتا ہے کہ مرا دل چاہتا ہے کہ بچہ لے لوں مگر کیا کروں مجھ پر بوجھ بڑا ہے ۔ دوسراکہتا ہے منشاء تو میرا بھی یہی تھا مگر مشکلات بہت ہیں۔ تیسرا کہتا ہے میں بھی یہ ثواب حاصل کرنا چاہتا ہوں مگر بہت مجبوری ہے۔ اس طرح ایک ایک کر کے ہر شخص اس بوجھ سے بھاگنے کی کوشش کرتا ہے لیکن صحابہؓ میں یہ بات نہیں تھی وہ بھاگتے نہیں تھے بلکہ خوشی سے اس ثواب کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے جب کسی قوم میں یہ جذبہ پیدا ہو جائے کہ وہ یتامیٰ و مساکین کی خبر گیری کرنے لگ جائے ان کا احترام افراد قوم کے دلوں میں پیدا ہو جائے۔ ان کی پرورش میں انہیں سکون اور راحت حاصل ہو اور وہ یتیموں کو ایسا ہی سمجھیں جیسے ان کے اپنے بچے ہیں تواس وقت ایمان کے بغیر بھی وہ قوم بہادر بن جاتی ہے۔ اور جب اس کے ساتھ کسی کو حیات بعد الموت پر ایمان بھی ہو اور زندہ خدا پر توکل ہو تو پھر تو یہ دو چیزیں مل کر اس کے دل کو ایسا مضبوط بنا دیتی ہیں کہ موت کا ڈر اس کے قریب بھی نہیں آتا۔ یوروپین قوموں میں اگر ہمیں دلیری نظر آتی ہے تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نوجوانوں کے اندر یہ احساس پایا جاتا ہے کہ اگرہم مر گئے تو ہماری قوم یتامیٰ و بیوگان کی خبر گیری کریگی۔ یہی وجہ ہے کہ مرنے والا موت کی ذرا بھی پروا نہیں کرتا وہ جاتا ہے اور اپنھی جان کو قربان کر دیتا ہے۔ ایمان اور چیز ہے وہ زیادہ تر انہی لوگوں کو حاصل ہوتا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ کے نبی پر تازہ بتازہ ایمان لانا نصیب ہو۔ مگر قومی کیریکٹر کی اس نگ میں مضبوطی ایمان کے بغیر بھی افرادِ قوم کو بہادر اور نڈر بنا دیا کرتی ہے۔
وَاِنْ تُخَا لِطُو ھُمْ فَاِخْوَانُکُمْ۔ فرمایا اگر تم انہیں اپنے ساتھ ملا لو یعنی کھانے پینے تجار اور دوسرے کام کاج میں ان کو اپنے ساتھ ملا لو تو وہ تمہارے بھائی ہی ہیں۔ تم ایسا کر سکتے ہو۔ مگر بھائی کہہ کر ذمہ داریاں بھی بتا دیں کہ ان کے ساتھ وہ معاملہ ہونا چاہیے جو ایک بڑا بھائی اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ کرتا ہے۔ بڑا بھائی جس کے سپرد چھوٹے بھائیوں کی نگرانی ہوتی ہے وہ اسی طرح کرتا ہے کہ ان کے مال کی حفاظت کرتا ہے۔ انہیں کھلاتا پلاتا ہے اور بڑے ہونے پر ان کا مال کی حفاظت کرتا ہے انہیں کھلاتا پلاتا ہے اور بڑے ہونے پر ان کا مال ان کو دے دیتا ہے اسی طرح یتامیٰ کو بھائی کہہ کر توجہ دلائی کہ چھوٹے بھائیوں سے لینے کی امید نجہ رکھو بلکہ انہیں اپنے پاس سے بھی کچھ دینا چاہیے۔ اور ان کے ساتھ وہی معاملہ ہونا چاہیے جو بھائیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔
وَاللّٰہُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَمِنَ الْمُصْلِحِ میں اس طرف اشارہ فرمایا کہ اگر تم مصلح بن کر فساد کی بنیاد ڈالو گے اور یتامیٰ کے ساتھ ناردا سلوک کر کے انہیں دکھ پہنچائو گے یا ناواجب پیار کر کے انہیں خراب کرو گے تو دونوں صورتوں میں خداتعالیٰ کے سامنے تم جواب دہ ہو گئے۔
وَلَوْشَآئَ اللّٰہُ لَاَعْنَتَکُمْ اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ایسا حکم دے دیتا جس کے نتیجہ میں تمہیں تکلیف ہوتی یعنی وہ کہدیتا کہ یتامیٰ کا مال بھی الگ رکھو اور ان کا خرچ بھی برداشت کرو۔ لیکن اس نے رحم سے کام لیا اور تمہاری سہولت کو اس نے مدنظر رکھا اس سہولت کا یہ نتیجہ نہیں نکلنا چاہیے کہ تم یتامیٰ کی تربیت کا خیال نہ رکھویا ان کے اموال کو غصب کرنے کی کوشش کرو۔
اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْز’‘ حَکِیْم’‘۔ اس میں عزیز اور حکیم کی صفات کا ذکر کر کے پھر دو امور کی طرف توجہ دلائی ایک طرف تو اس امر کی طرف کہ یتیم میں طاقت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے حقوق دوسروں سے لے سکے۔ اس کے متعلق فرمایا کہ اگر وہ عَزِیْز نہیں تو خداتعالیٰ تو عزیز اور غالب ہے جس طرح تم یتیم پر غالب ہو تمہارے اوپر بھی کوئی غالب ہستی ہے۔ اگر تم اس کے حقوق کو تلف کرو گے یا ناجائز سختی اوردبائو سے کام لو گے یا اس کا مال کھائو گے تو خداتعالیٰ تمہیں پکڑے گا پھر فرمایا تھا کہ یتیم سے نرمی کرو اور اس کا مال اپنے مال کے ساتھ ملا لو۔ اس کے متعلق فرمایا کہ اللہ تعالیٰ حکیم ہے تمہیں بھی حکمت سے کام لینا چاہیے اور جس بات میں فائدہ ہو وہی اختیار کرنی چاہیے۔
وَلَا تَنْکِحُواالْمُشْرِکٰتِ




یَتَذَکَّرُوْنَO
ترتیب وربط:۔ اوپر کی آیات کے ساتھ ان آیات کا رب یہ ہے کہ جنگ کے احکام کے سلسلہ میں قدرتی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ اس کے نتیجہ میں بہت لوگ شہید ہو جائیں گے اور ان کے بچے یتیم ہو جائیں گے ایسی صورت میں ان سے کیا سلوک کیا جائے؟ اللہ تعالیٰ نے زیر تفسیر آیات میں اس سوال کا جواب دے دیا۔ اور اس طرح تمام مضمون ایک لڑی میں پرو دیا ۔ درحقیقت قرآنی مضامین کی ترتیب عام کتب کی ترتیب کے مطابق نہیں بلکہ طبعی ترتیب ہے وہ اپنے مضامین میں جو ترتیب رکھتا ہے وہ اس ترتیب سے علیٰحدہ ہے جو انسان اپنی کتابوں میں رکھتے ہیں۔ قرآن کریم اس چیز کو جو سب سے پہلے بیان ہونی ضروری ہو بیان کرتا ہے اور پھر اس کے متعلق انسانی قلب میں پیدا ہونیوالے تمام وساوس اور شبہات کا ازالہ کرتا ہے ۔ مثلاً جنگ ہے اس کے متعلق جو سوال پیدا ہونگے ان کو بیان کریگا پھر ان سے جو سوال پیدا ہوگا وہ بیان کرتا چلا جائیگا اور چونکہ ایسے سوالات طبعی ہوتے ہیں اس لئے ان کے جوابات کا قلوب پر خاص اثر پڑتا ہے اسی طبعی ترتیب سے اس جگہ بھی کام لیا گیا ہے ۔ چنانچہ جنگ کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے شراب اور جوئے کا ذکر کر دیا جو جنگ سے براہ راست تعلق رکھنے والی چیزیں تھیں اور جب جوئے سے اخراجات جنگ پورے کرنیکے طریق سے روک دیا تو طبعی طور پر یہ سوال پیدا ہوا کہ پھر یہ اخراجات کس طرح پورے ہونگے اس کے لئے بتایا کہ ضرویات زندگی پوری کرینگے بعد جو رقم بچ رہے۔ وہ خرچ کرنی چاہیے پھر ایک ہی لفظ عفو استعمال کر کے اس میں مختلف مدارج کا ذکر کر کے بتایا کہ ادنیٰ درجہ کونسا ہے اور اعلیٰ درجہ کونسا۔ اس کے بعد یتامیٰ کے حقوق کے لے لیا۔ کیونکہ جنگ کے بعد لازماً اس سوال نے اہمیت اختیار کرلینی تھی۔ غرض قرآن کریم کا یہ کمال ہے کہ اس نے اپنے مضامین میں ایک ایسی اعلیٰ درجہ کی ترتیب رکھی ہے جو فطرت انسانی کے عین مطابق ہے ادھر ایک سوال فطرت انسانی میں پیدا ہوتا ہے اور ادھر قرآن کریم میں اس کا جواب موجود ہوتا ہے۔
۱۳۴؎ حل لغات:۔ لَاتنْکِحُوا: فَکحَ یَنْکِحُ سے جمع مخاطب نہی کا صیغہ ہے اور نَکَحَ الْمَرْاٰۃُ کے معنے ہیں تَزَوَّجَھَا اس نے عورت سے شادی کر لی(اقرب)
تفسیر:فرماتا ہے۔مشرک عو ر تو ںسے اُس وقت تک نکاح نہ کرو جب تک کے وہ مسلمان نہ ھوجائیں۔ یعنی اگر جنگ میں مشرک عورتیں آئیںتو تم اُن سے نکاح نہ کرو۔ ہاں اگر وہ ایمان لے آیئںتو پھر بے شک اُن سے نکاح کر سکتے ہو۔ یہ حکم بھی جنگ کے احکام کے سلسلہ میں ہی دیا گیا ہے کیونکہ ایام جنگ میں مسلمان اپنے گھروںسے بہت دور ہوتے ہیں۔ اور ہو سکتا ھے کہ اُن میں سے کسی کو مشرکہ عورت سے شادی کرنے کا خیال آجائے۔
وَلَاَمَتۃُ مُّوَْمِنَتۃٌ خَیْرُمِّنْ مُّشْرِکَتہٍ میں مومن لونڈی کو حُّرہ مشرکہ سے اچھا ٹھرایا ہے۔ کیونکہ مومند کاتوصرف جسم ہی غلامی میں ہوتا ہے مگرحُّرہ مشرکہ کی رُوح شیطان کی غلامی میں ہوتی ہے۔ اور جسم کی غلامی رُوح کے مُقابلہ میں کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتی۔ اِسی طرح حکم دیاکہ مومن عورتیں مشرکوں کے نکاح میں نہ دویہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں۔
پھر فرماتا ہے کہ ہم نے یہ حکم اس لئے دیا ہے کہ وہ لوگ آگ کی طرف بلاتے ہیں۔یعنی جب مشرکہ عورت مسلمان کے گھر میں آئیگی۔ یا مسلمان عورت مشرک سے بیاہی جائیگی تو چونکہ میاں بیوی کے تعلقات کاایک دوسرے پرگہرا اثر ہوتا ہے۔ اس لئے اُن کے یہ تعلقات انہیںدین سے منحرف کرنے والے ثابت ہونگے۔ پس مشرک عورتوں یا مردوں سے تعلقات پیدا نہ کرو۔ ورنہ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ تمہیںخدائے واحد سے منحرف کرنے کی کوشیش کریں گے۔ اور اس طرح تمہیںجہنّم کی طرف لے جائیں گے۔ حالانکہ اللّٰہ تعالٰے تمہیںجنّت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے۔جنّت وہ جگہ ہے جہاںدلوںمیں سے ہرقسم کا کینہ نکل جائیگا۔مگرمشرک مرد اورمومن عورت یا مشرک عورت اورمومن مرد کبھی ایک نکتہ پر متحد نہیںہو سکتے۔کیونکہ توحیداور شرک دونوں میں بُعدالمشرقین ہے۔ اور جب ان میں مذہبی عقائد اور تمدّن اور تہذیب کے لحاظ سے اتحاد ہی نہیں شہو گا۔ تو اُن کی اہلی زندگی خوشگوار کس طرح ہو سکتی ہے۔
یہ امریاد رکھنا چاہیئے کہ شرعی اصطلاح میں مشرک سے مرادصرف وہ لوگ ہیں جن کی کوئی شریعت نہ ہو۔ اہِل کتاب اس حکم میں شامل نہیں ہیں۔
بِاذِْنِہٖ کا لفظ جو اسجگہ بڑھایا گیا ہے ہمیشہ ایسی صورت میں استعمال ہوتا ہے جب اللہ تعالی کسی چیز کے اپنی طرف سے سامان پیدا کرے۔ خواہ وہ سامان تقدیر عام کے ماتحت ہوں یا تقدیر خاص کے ماتحت۔مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ قانون قدرت کو توڑ کر خدا تعالٰی کوئی کام کرتا ہے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے خاص حکم سے اس کام کو سرانجام دینے کے سامان مہیا فرماتا ہے۔ قرآن کریم میں جہاں جہاں یہ لفظ استعمال ہوا ہے انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
آخر میں یُبَیِّنُ اٰیٰتِہِ لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَذَ کَّرٌوْنَ فرما کر اس طرف توجہ دلائی کہ ہم نے قانونِِ نکاح تمہارے سا منے بیا ن کر دیا ہے۔اب تنہا روکام یہ ہے کہ تم اِس قانو ن کو مدّنظررکھو اور جنگ میں بھی جبکہ دشمن کی عدا و ت انسا ن کو نا بینا کر دیتی ہے اللہ تعالیٰ کی ہد ا یت کے ما تحت چلنے کی کو شش کرو۔
وَیَسْئَلُوْنَکَ


الْمُتَطَھِّرِیْنَo

۱۳۵؎ حل نعا ت:۔اَلْمَحِِِِیْضُ:اَلْحَیْضُ وَدَقْتُ ا لْحَیْضِ وَمَوْ ضَعُہ‘۔الحیض کے معنے(۱) حیض(۲) ایا م حیض اور (۳)حیض کی جگہ کے ہیں۔(مغردا ت)اَذًی:اَ لْاَزٰی مَا یٰصِلُا لَیٰ لْحَیَوا نِ امِنَالصر رِاَزٰی کے معنے ہر ایسے ضر ر کے ہیں جو کسی ذی روح کو پہنچے۔وَ قَوْلُہ‘یَسْئَلُو نَکَ عَنِ لْمَحِیْضِ قُلْ ھَوَاَذًی نَسَمَّی ذَ لِ کَ اَ ذًی بِاِعْتِبَا رِ الشَّرْ عِ وَبَاِعْتِبَا رِالطِّبِّ عَلیٰ حَسْبِ مَا یَذْکُوُہ‘اَصْحَا بُ ھٰذِہِ الصَّنَاعَۃِ۔اور قر آ ن کریم کی آ یا ت میں اسے اَذًی ایک تو شر عی نقطہ نگا ہ کے کہا گیا ہے۔دوسر ے طبّی لحا ظ سے بھی اسے نقصا ن رسا ںقر ا ر دیا گیا ہے۔ جیسا کہ تما م اظّبا ء سے بیا ن کر تے چلے آ ئے ہیں۔(مفر دا ت)
اِعْتِزَال کے معنے ہیں ا یک طر ف ہو جا تا۔
تَطَھَّرْنَ۔تَطَھَّرَتِ الْمَرْاَتہُ کے معنے ہو تے ہیں اَغْتَسَلَت۔عو ر ت نے غسل کیا۔(اقر ب)
تفسیر:جب مر د و عور ت کا نکا ح کے ذر یعے تعلق قا ئم ہو جا ئے تو اس کے بعد جو ں جو ں ازوا جی ذمہ داریا ں سا منے آ تی ہیں انسا نی قلب میں مختلف قسم کے سوالات پیدا ہو تے رہتے ہیں جن کا حل کر نا ضر و ر ی ہو تا ہے۔اس جگہ اسی قسم کے ایک سوا ل کا ذکر کر تے ہوئے اس کا جوا ب دیا گیا ہے۔فر ما تا ہے لو گ ایام حیض کے با رہ میں تجھ سے سوا ل کر تے ہیں کہ ایّا م میں مخصوص تعلقا ت قا ئم کئے جا سکتے ہیںیا نہیں۔ فر ما تا ہے تو انہیں کہ دے کہ حیض تو ا یک نجا ست ہے۔پس تمہیں چا ہیئے کہ ان ایا م میں جنسی تعلقا ت سے پر ہیز رکھو۔اور اس وقت تک اس پر قا ئم رہو۔ جب تک کہ وہ نہا دھو کر پا ک صا ف نہ ہو جا ئیں۔
اسجگہ لَا تَقْرَ بُوْھُنَّ کے یہ معنے نہیں کہ اِن اَیام میں عور تو ن کو چھو نا یا ہا تھ لگانا یا اُ ن کے پا س بیٹھنا بھی منع ہے۔بلکہ اس سے صر ف مخصو ص تعلقا ت کی نفی کی گئی ہے۔ ورنہ حضر ت عا ئشہ رضی اللّٰہ عنہافر ما تی ہیں کہ ر سو ل کر یم ﷺایا م حیض میں بھی اُ ن سے پیا ر کر لیتے اور انہیں اپنے پا س بیٹھا لیا کر تے تھے۔فقہاء میں اس امر کے متعلق اختلا ف پا یا جا تا ہے کہ خو ن حیض بند ہو نے کے بعد مخصو ص تعلقا ت قا ئم کئے جا سکتے ہیں یا نہا نے کے بعد اور اس با رہ میں کچھ تو ایک طر ف چلے گئے ہیں اور کچھ دوسر ے طرف۔ لیکن اصل با ت یہ ہے کہ حیض بند ہو جانے کے بعد عو رت کے پا س جا نا جا ئزہو جاتا ہے۔مگراللہ تعالیٰکو پسند یہی ہے کہ نہا نے دھو نے کے بعد یہ تعلق قا ئم کیا جائے۔
تطہر کے لئے ر سو ل کر یمﷺنے فر ما یا ہے کہ جب عورت ایّا م حیض سے فا ر غ ہوتو مشک پا نی میں حل کر کے اور اس سے روئی بھگو کر اندرونی ا عضاء کے صفا ئی کر لیا کر ئے۔اور طبّی طو ر پر ثا بت ہے کہ ایسا کیا جائے تو عورت کی صحت اور آئندہ اولاد پر اس کا نہا یت خو شگوا ر اثر پڑتا ہے۔
فَاْ تُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ اَمَرَکُمُ اللّٰہُ میںحَیْثُ ظر فِ مکا ں ہے اور مر اد یہ ہے کہ تم عورتوں کے پا س اسجگہ سے آو جس جگہ کے آنے کا اس نے حکم دیا ہوا ہے۔اور وہ یہی ہے جو فَا لْاٰنَ بَا شِرُوْھُنَّ وَابْتَغُوْ ا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ میں بیا ن کیا گیا ہے یعنی اللّٰہ تعا لیٰ نے اولا د حاصل کر نے کا جو طبٰی طر یق مقرر کر رکھا ہے اس کے مطا بق عمل کر و۔ اور اللّٰہ تعا لٰے نے جو اولاد تمہا رے لئے مقرر کر ر کھی ہے اس کی جستجو کر و۔ گو یا عو رتو ں سے تم ایسا ہی تعلق رکھو جس کے نتیجہ میں اولا د پیدا ہو۔کوئی غیر نظر ی طر یق اختیا ر نہ کرو۔
یُحِبُ التَّوَابِیْنَ میں اللّٰہ تعالٰے نے ایک تو اس امرکی طر ف تو جہ دلا ئی ہے کہ اگر تم سے کبھی کوئی گنا ہ سر زد ہو جا ئے تو اس کے فو راً بعد تمہا ر ے دل میں اس گنا ہ پر ندامت پیدا ہو نی چا ہیے اور تمہیں اس سے تو بہ کر نے چا ہیے کیو نکہ اللّٰہ تعا لٰے توبہ کر نیوالو ں سے محبت کر تا ہے۔دو سرے تو اب اس شخص کو بھی کہتے ہیں جو بار بار خدا تعالٰے کے درگاہ میں جاتا اور اس سے دُعا ئیںکر تا رہے۔اِس لحا ظ سے یُحِبُ التَّوَابِیْنَ کے یہ معنے ہیں کہ وہ لو گ جو یقین رکھتے ہیں کہ ہما ر ے تما م کا م دعاوںسے و ا بستہ ہیں۔ اور قدم قدم پر وہ خدا تعا لٰے کے طر ف رجو ع کر تے اور اس سے مدد طلب کر تے ہیں وہ با لآخر اللّٰہ تعا لٰے کی محبت حا صل کر نے میں کا میا ب ہو جا تے ہیںگو یا گناہو ں پر ندا مت اور تو بہ کا اظہا ر اور ہر مشکل گھڑی میں اللّٰہ تعا لٰے کی طر ف ر جو ع یہ دو ذرائع ایسے ہیں جن سے خدا تعا لٰی کی محبت کا دروازہ انسا ن کے لئے کھل جا تا ہے۔اَسی طر ح یُحِبُّاْلمُتَطَھِّرِیْنَ میں بھی دوامور کی طر ف تو جہ دلا ئی گئی ہے ایک تو اسی امر کی طر ف کہ اللّٰہ تعا لٰے صفا ئی رکھنے وا لو ں سے محبت کر تا ہے۔درحقیقت نظا فت پسندی انسا نی تقاضو ں میں سے ایک اہم تقا ضا ہے جسم کو صا ف رکھنا۔مُنّہ کو صا ف رکھنا۔ کپڑوں کو صا ف ر کھنا ۔اور ایسی اشیاء کااستعما ل کر نا جو نا ک کی قو ت کو صد مہ پہنچا نے والی نہ ہو ں۔ بلکہ اس کے لئے مو جب را حت ہوں۔اس تقا ضا کو لوگو ں نے غلطی سے نیکی اور تقٰوی کی اعلٰٰی را ہو ں پر چلنے وا لوں کے طر یق کے خلاف سمجھ لیا تھا۔ اور ایک ایسی راہ اختیا ر کر لی تھی جس کے نتیجہ میں یا تو خدا تعا لٰی کے پیدا کردہ طیب اشیاء کو استعمال کر کے گنہگا ر قرا ر پا ئیں۔ رسول کر یمﷺ نے اس بنا وٹی نیکی اور جھو ٹے تقٰو ی کی چا در کو بھی چا ک کر دیا ۔اور حکم دیا کہ اللّٰہ تعا لٰے خو د پا ک ہے اور پا ک رہنے والو ں کو پسند کر تا ہے۔چنا نچہ آ پ اکثر غسل فر ما تے۔پھرکئی امو ر کے سا تھ غسل آ پ نے وا جب قرار دے دیا چو نکہ انسا ن اپنے گھر کے اشغا ل کی وجہ سے صفا ئی میں سُستی کر بیٹھتا ہے اس لئے آ پؐ نے خدا تعا لٰے کے حکم سے میاں بیوی کے تعلقات کے سا تھ غسل کو وا جب قر ار دیا ۔اِسی طر ح پا نچو ں نما زوں سے پہلے آ پ ان اعضا ء کو دھو تے جو عا م طو ر پر گر دو غبار کو محل بنتے رہتے ہیں۔اور دوسروں کو بھی اس امر پر عمل پیرا ہو نے کا حکم دیتے۔ کپڑے کی صفا ئی کو آ پ پسند فر ما تے۔جمہ کے دن دُھلے ہوئے کپڑے پہن کر آ نے کا حکم دیتے اور خو شبو کو خو د بھی پسندفرماتے اور اجتماع کے مو ا قع
نِسَآئُوکُمْ

الْمُوْمِنیْنَ o
کے لئے بھی خو شبو لگا نا پسند فر ما تے۔جہا ںاجتما ع ہو نا ہو چو نکہ وہا ں مختلف قسم کے لو گ جمع ہو تے ہیں اور متعدی بیما ریو ں کے پھیلنے کا خطر ہ ہو تا ہے اسلئے آ پ وہا ں خو شبودار مصا لحہ جا ت جلا نے اور ان جگہو ں کو صا ف رکھنے کا حکم دیتے۔ بد بو دار اشیاء سے پر ہیز فر ما تے۔اور دوسر وں کو بھی اس سے رو کتے کہ بد بودار اشیاء کھا کر ا جتما ع کے جگہوں میں نہ آئیں۔ غر ض جسم کی صفا ئی۔لبا س کی پا کیزگی۔ اور نا ک کے احسا س کا آ پ پو را خیال رکھتے۔ اور دوسر و ں کو بھی ایسا ہی کر نے کا حکم دیتے۔ ہا ں یہ ضر ور فر ما تے کہ جسم کی صفا ئی میں اسقدر منہمک نہ ہو جا و کہ رُوح کی صفا ئی کا خیا ل ہی نہ رہے۔اور لبا س کی پا کیزگی کا اس قدر خیا ل نہ رکھو کہ ملک و ملت کی خدمت سے محروم ہو جاو اور غر یب لو گو ں کی صحبت سے احتر ا ز کر نے لگو۔اور کھا نے میں اس قدر احتیا ط نہ کر و کہ ضر و ری غذا ئیں تر ک ہو جا ئیں۔ ہا ں یہ خیا ل رکھوکہ اہلِ مجلس کو تکلیف نہ ہو تا کہ اچھے شہر ی بنو۔ اور لو گ تمہا ری صحبت کو نا گو ا ر نہ سمجھیں بلکہ اسے پسند کریں اور اس کی جستجو کر یں۔ غر ض لوگو ں نے تو کہا کہ صفا ئی اور خو شبو سے بچو کہ وہ جسم کو پا ک مگر دل کو نا پا ک کر تی ہے۔لیکن اسلا م نے کہا یُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْنَ۔ خدا تعا لٰے ظا ہر ی اور با طنی صفا ئی رکھنے وا لو ں کو پسند کر تا ہے گو یا اسلا م نے اپنے اس اعلا ن سے عیسا ئیو ں اور ہندووں کے ان تما م فر قوں کا رد کر دیا جن میں بزرگا نِ دین کے لئے پا ک و صا ف رہنا اور خو شبو کا استعما ل با لکل حرام سمجھا جا تا تھا اور جن میں گندے اور بد بودار لبا س کے ایک بہت بڑی علا مت سمجھی جا تی تھی۔اسلام نے اس نظر یہ کو با طل قر ار دیتے ہو ئے بتا یا کہاللہ تعالیٰایسے ہی لوگو ںسے محبت رکھتا ہے جواللہ تعالیٰکے طر ف بار با ر رجو ع کر نے والے بھی ہو ں اور اُ سکا جسم اور لبا س بھی صا ف ستھر ا ہو اور وہ ہر قسم کی غلا ظت سے دور ہنے وا لے ہوں۔ان معنو ں کے لحا ظ سے یُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْنَ کہ کر اس طر ف تو جہ دلا ئی کہ خدا تعا لٰی کو یہی پسند ہے کہ جب عورتیں غسل کر لیں تب اُن کے سا تھ صحبت کی جا ئے اس سے پہلے ان کے پا س جا نا یُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْنَ کے خلا ف ہے۔
مُتَعَھِّر کے دو سرے معنے تکلیف کیسا تھ پا کیزگی اختیا ر کر نیوا لے کے ہیں۔ اس لحا ظ سے یُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْنَ میں اس طر ف اشا رہ کیا گیا ہے کہ خدا تعا لٰی ان لو گو ں سے محبت کر تا ہے جو اسکے ہم جنس بننے کی کو شش کر تے ہیں۔ پس خدا تعا لٰی کی جو صفا ت قر آن کر یم میں بیا ن ہو ئی ہیں تم اُ ن کی نقل کر نے کی کو شش کر و۔ تم حّی نہیں بن سکتے لیکن تم بیما ر کا علا ج کر کے حّي کی نقل تو کر سکتے ہو۔ تم مُمِیْت نہیں بن سکتے لیکن تم بدی کا خا تمہ کر کے ممیت کی نقل تو کر سکتے ہو تم خا لق نہیں بن سکتے۔ لیکن تم اچھی اولا د پیدا کر کے خا لق کی نقل تو کر سکتے ہو۔ پس فر ما تا اگر تم میری محبت حا صل کر نا چا ہتے ہو تو تم میر ی نقل کر نا شر و ع کر دو اور میر ی صفا ت کو اپنے اند ر پیدا کر و اسکے نتیجہ میں تم سے محبت کر نے لگ جا و نگا۔
۱۳۶؎ حل نعا ت:۔اَنّی کے معنے اَ یْنَ مِنْ اَ یْنَ اور کَیْْفَ کے ہیں۔ یعنی ’’جہا ں‘‘۔ ’’جہا ںسے‘‘۔ ’’حب‘‘ اور ’’ جس طرح‘‘ (اقر ب)
تفسیر:۔ اِس آ یت میں عو رت کو کھیتی قر ا ر دے کراللہ تعالیٰنے بنی نو ع انسان کو اس امر کی طر ف تو جہ دلا ئی ہے کہ(۱) تم اپنی کھیتی کو پھلدار بنا نے کی کو شش کر و۔اِسی کی طر ف رسو ل کر یم ﷺ کی یہ حد یث بھی اشا رہ فر ما تی ہے کہ تَزَدَّجُواالْوُدُوْدَ فَاِنِّی مُکَا ثِر’‘ بِکُمُ اُ لُامَمَ(ابو داود و نسا نی۔ کتا ب النکا ح)یعنی تم ایسی عورتوں کے سا تھ شا دی کیا کر و جو زیا دہ اولا د پیدا کر نے وا لی اور اپنے خا وندوں کے سا تھ محبت کر نے والی ہو ں۔کیو نکہ میں دوسر ے نبیو ں کی اُمتو ں کے مقا بل پر اپنی امّت کی کثر ت پر قیا مت کے دن فخر کر و نگا۔
(۲)عو رتو ں سے ایسا سلو ک کر و کہ نہ اُ ن کی طا قت ضا ئع ہو ۔ اور نہ تمہا ری۔ اگر کھیتی میں بیج زیا دہ ڈال دیا جا ئے تو۔بیج خر اب ہو جا تا ہے۔ اور اگر کھیتی سے پے در پے کا م لیا جا ئے تو کھیتی خر ا ب ہو جا تی ہے۔ پس ہرکا م ایک حد کے اندر کر و۔ جس طر ح عقلمند انسا ن سو چ سمجھ کر کھیتی کے کا م لیتا ہے۔اس آیت سے یہ بھی نکل آیا کہ بعض حا لا ت میں بر تھ کنٹرول بھی جا ئز ہے۔چنا چہ کھیتی میں سے اگر ایک فصل کاٹ کر معًا دوسری بو دی جا ئے تو دوسر ی فصل اچھی نہیں ہو تی۔ اور تیسری اس سے بھی زیا دہ خراب ہو تی ہے اسلا م نے اولا د پیدا کر نے سے روکا نہیں بلکہ خو د فر ما یا ہے کہ قَدِّمُوْالِاَنْفُسِکُمْ تم اپنی عو رتو ں کے پا س اِس لئے جا و کہ آ گے نسل چلے اور تمہا ری یا دگار قا ئم رہے لیکن سا تھ ہی بتا دیا کہ کھیتی کے متعلق خدا تعا لٰی کے جس قا نو ن کی تم پابندی کر تے ہو اسی کو اولاد پیدا کر نے میں بھی مّد نظر رکھو۔ اگر عو ر ت کی صحت مخدو ش ہو یا بچہ کی پر ورش اچھی طر ح نہ ہر تی ہو تو اس وقت اولاد پیدا کر نے کے فعل کو روک دو۔
(۳)یہ بھی بتایا کہ عو رت سے ایسا تعلق رکھو جس کے نتیجہ میں اولاد پیدا ہو۔اس سے خلافِ وضع فطرر فعل کی مما نعت نکل آ ئی۔ چو نکہ قر آ ن کر یم خدا تعا لٰی کا کلا م ہے اس لئے وہ با ت کو اُسی حد تک ننگا کر تا ہے جس حد تک اخلا ق کو کوئی نقصا ن نہ پہنچتا ہو۔ لو گ اَنّٰی شِئْتُمْ سے غلط استدا ل کر تے ہیں۔ حا لا نکہ یہ الفا ظ کہ کر تو خدا تعا لٰی نے ڈرا یا ہے کہ یہ تمہا ری کھیتی ہے اب جس طر ح چا ہوسلو ک کر و۔ لیکن یہ نصحیت یادرکھو کہ اپنے لئے بھلا ئی کا سا ما ن ہی پیدا کر نا۔ورنہ اس کا خمیا زہ بھگتو گے۔ لوگ جب اپنی لڑ کیو ں کی شا دی کر تے ہیں تو لڑ کے وا لو ں سے عمو ماً کہا کر تے ہیں کہ ہم نے اپنی بیٹی تمہیں دیدی ہے ۔ اب جیسا چا ہو اِس سے سلوک کر و۔اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا ہے کہ تم بے شک اِسے جوتیاں مارا کرو۔ بلکہ مطلب یہ ہوتاہے کہ تم یہ تمہاری چیز ہے اس سنبھا ل کر رکھنا۔ پس اَنّٰی شِئْتُم کا یہ مطلب لے لیا کہ’’اَنھے واہ‘‘ یعنی اندھا دھند کرو۔ آ ریو ں نے خصو صیت سے اس آ یت پر اعتر ا ض کیا ہے کہ اسلا م نے مر دوعو رت کے تعلقات کے با رہ میں اپنے متبعین کو غیر فطری طر یق اختیا ر کر نے کی اجا زت دی ہے حالانکہ ان کا یہ خیا ل با لکل غلط ہے۔اَنّٰی شِئْتُمْ کے یہ معنے نہیں کہ اب خلا ف وضع فطر ی فعل بھی تمہا رے لئے جا ئز ہو گیا ہے۔بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ جب تمہا ری بیویاں تمہارے لئے کھیتی کی حیثیت رکھتی ہیں تو اب تمہا را اختیا ر ہے کہ تم جس طر ح چاہو اُن سے سلو ک کر و۔ یعنی چا ہو تو اپنی کھیتی کو تباہ کر لو اور چا ہو تو اس سے ایسے فو ائد حا صل کرو جن سے دنیا میں بھی تم نیک نامی حا صل کر و اور آ خر ت میں بھی اپنی روح کو خو ش کر سکو۔
دنیا میں کو ئی احمق زمنیدار ہی ہوگا جو نا قص بیج استعما ل کر ے یا بیج ڈا لنے کے بعد کھیتی کے نگرا نی نہ کر ئے۔ اوراچھی فصل حا صل کر نے کی کو شش نہ کر ے۔ مگر عو رتو ں کے معا ملہ میں با لعمو م اس اصو ل کو نظر اندا ر کر دیا جا تا ہے اور نہ تو جسما نی اور اخلا قی لحا ظ سے بیج کی صحیح طو ر پر حفا ظت کی جا تی ہے نہ عو رت کی صحت اور اُ سکی ضر و ر یا ت کا خیا ل رکھا جا تا ہے اور نہ بچو ں کی صحیح رنگ میں
وَلَاتَجْعَلُو
سَمِیْع’‘ عَلِیْم’‘o
تربیت کی جا تی ہے جس کا نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ مر دوں کی صحت کو بھی نقصا ن پہنچتا ہے اور عو رت کی صحت بھی بر با د ہو جا تی ہے اور بچے بھی قو م کا مفید وجو د ثا بت نہیں ہو تے۔اللّٰہ تعا لٰے نے اس آ یت میں بنی نو ع انسان کو اِسی اہم نکتہ کی طر ف تو جہ دلا ئی ہے اور فر ما یا ہے کہ جس طر ح تم اپنی کھیتی کی حفا ظت کرتے ہواور اعلٰی درجہ کی فصل پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہواسی طرح تمہارا فرض ہے کہ تم عورت کی بھی حفاظت کرواورآ ہندہ نسل کی تعلیم و تر بیت کی طر ف خاص طو ر پر تو جہ دو تا کہ تمہا ری کھیتی سے ایسا روحا نی غلہ پیدا ہو جو دنیا کے کا م آئے اور انہیں ایک نئی زندگی بخشے۔
وَقَدِّمُوْالِاَنْفُسِکُمْ میں بتا یا کہ تم وہ کا م کر و جس کا آ ئندہ نتیجہ تمہا رے لئے اچھا نکلے۔ یعنی طبّی لحا ظ سے بھی اور نسلی لحا ظ سے بھی۔یہ حصّہ وَابْتَغُوْامَاکَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ کے مشا بہ ہے اور مرا د یہ ہے کہ آ ج کے بچے کل کے با پ بننے وا لے ہیں۔ اس لئے تم ایسی اولا د پیدا کرو جو تمہا رے نا م کو روشن کرنے والی ہو اور آ خر ت میں بھی تمہا ری عزت اور نیک نا می کا مو جب ہو۔
اسی طر ح اس کے ایک معنے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ دنیا بھی ایک کھیتی ہے جس سے آ خر ت میں کا م آ نے وا لا غلہ پیدا ہو تا ہے۔ اس لئے تمہیں چا ہیے جی اِس کھیتی کی طر ف بھی اپنی نگا ہ رکھو اور ایسے اعما ل بجا لا و کہ جس طر ح ایک دا نہ سے سا ت با لیں اور ہر با ل میں سو سو دانہ پیدا ہو تا ہے۔ اسی طر ح تمہا را ایک ایک عمل خدا تعا لٰی کے ہزاروں ہزار انعا ما ت کو تمہا ری طر ف کھینچ لا نے والا ہو۔
۱۳۷؎ حل لغا ت:۔ عُرْضَۃً:مَا یُجْعَلُ مَعْرَضاًلِلشًیْئِ۔ایسی چیز کو کہتے ہیں جسے کسی دوسری چیز کا نشا نہ بنا لیا جا ئے۔ اسی طر ح عر ضہ اس چیز کو بھی کہتے ہیں جسے ضرورت کے پو را کر نے کا ایک ذریعہ بنا لیا جا ئے۔کہتے ہیں اَلْبَعِیْرُعُرْضَۃ’‘لِّلسَّفَر سفر پیش آئے تو اونٹ عُرضہ بن جاتا ہے۔ مُراد یہ ہے کہ اُس کے ذریعہ سفر کی تکلیف کو دُور کیا جاتا ہے (مفردات) اِسی طرح عُرضہ حِیْلَۃٌ نیِ الْمُصَارَعَۃِ کُشتی کے داو پیچ کو بھی کہتے ہیں (اقرب)
اَیْمَانٌ : جمع ہے اس کا مفرد یَمِیْنٌ ہے۔ اور یَمِیْنٌ کے معنے ہیں۔ (۱)دائیں جہت یا دایاں حصّہ جسم (۲) قسم (۳) برکت (۴) قوت (اقرب) اور محاورہ میں اس شے کو بھی کہتے ہیں جس کے بارہ میں قسم کھائی جائے۔
رسول کریم ﷺنے حضرت عبد الرحٰمن بن سمرۃؓسے فرمایا۔ اِذَا حَلَفْتَ عَلٰیٰ یَمِیْنٍ فَرَائَ یْتَ خَیْرً امِّنْھَا فَاْتِ الَّذِیْ ھُوَ خَیْرٌوَکَفِّرْ عَنْ یَمِیْنِکَ یعنی جب تو کسی چیز کے بارہ میں قسم کھائے (اس کے لئے آپؐنے لفظ یَمِیْن استعمال فرمایا)اور اس کے بعد اُس سے اچھا کام تجھے سُوجھ جائے تو تُو وہ کام جو بہتر ہے اختیار کر اور اپنی قسم کاکفارہ دے دے۔ (کشاف)
تفسیر:۔ فرماتا ہے۔ اللہ تعالٰی کو اپنی قسموں کانشانہ نہ بناو۔ یعنی جس طرح ایک شخص نشانہ پر بار بار تیر مارتا ہے اسی طرح تم بار بار خدا تعالٰے کی قسمیں نہ کھا یا کرو۔ کہ ہم یوں کر دینگے اور ووں کر دینگے۔
اَنْ تَبَرُّوْاوَتَتَّقُوْاوَتُصْلِحُوْابَیْنَ النَّاسِ یہ ایک نیا اور الگ فقرہ ہے۔ جو مبتداء ہے خبرمخدوف کا۔ اور خبر مخدوف اَمْثَلُ وَاَوْلٰی ہے۔یعنی بِرُّکُمْ وَ تَقْوٰلکُمْ وَاِصْلاَحُکُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَمْثَلُ وَاَوْلٰی اِ س کے معنے یہ ہیں کہ تمہا را نیکی اور تقوٰی اختیا رکر نا اور اصلا ح بین النا س کرنا زیا دہ اچھا ہے۔صر ف قسمیں کھا تے رہنا کہ ہم ایسا کر دینگے کو ئی درست طر یق نہیں۔ تمہیں چاہیے کہ قسمیں کھا نے کی بجا ئے کا م کر کے دکھا و۔پہلے قسمیں کھانے کی کیا ضرورت ہے۔ زجاؔ ج جو مشہر ر نحو ی اور ادیب گذرے ہیں۔ انہو ں نے یہی معنے کئے ہیں۔
دو سر ے معنے اس کے یہ ہیں کہ اللہ تعا لیٰ کو روک نہ بنا و اُن چیزوں کے لئے جن پر تم قسم کھا تے ہو۔ یعنی بَرّ کر نا تقوٰی کر نا اور اصلا ح بین الناس کر نا۔ اِس صو رت میں یہ تینو ں اَیْمَان کا عطفِ بیا ن ہیں اور اَیْمَا ن کے معنے قسمو ں کے نہیں بلکہ اُ ن چیزو ں کے ہیں جن پر قسم کھائی جا تی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اپنا پیچھا چھڑا نے کے لئے نیک کا م کی قسم نہ کھا لیا کرو۔ تا کہ یہ کہ سکو کہ کیا کروں چو نکہ میں قسم کھا چکا ہو ں۔ اس لئے نہیں کر سکتا۔ مثلاً کسی ضر ورت مند نے روپیہ ما نگا تو کہ دیا کہ میںنے تو قسم کھا لی ہے کہ آئندو میں کسی کو قر ض نہیں دوں گا ۔علا مہّ ابو حیا ن کہتے ہیں کہ اس فقرہ کو ایْمَا ن کا عطفِ بیا ن بنا نے کی بجا ئے بدل بنا نا اچھا ہے۔ کیو نکہ عطفِ بیان اکثر اَغْلام (یعنی کسی چیز کا معتین نام) ہوتے ہیں۔ بہرحال دونوں صورتوںمیں اس کے معنے یہ ہیں کہ اگر کوئی نیکی اور تقوٰی اور اصلاح بین الناس کے کام کیلئے تمہیںکہے تو تم یہ نہ کہوکہ میں نے تو قسم کھائی ہوئی ہے مَیں یہ کام نہیں کر سکتا۔
تیسرے معنے یہ ہیں کہ اس ڈر سے کہ تمہیں نیکی کرنی پڑے گی خدا تعالے کو اپنی قسموں کا نشانہ نہ بناو۔ اس صورت میں اَنْ تَبَرُّدْا مفعول لِاَجْلہٖ ہے اور اس سے پہلے کَرَاھَۃً مقدّر ہے۔ اور مُراد یہ ہے کہ اگر اچھی باتیں نہ کرنے کی قسمیں کھاو گے تو ان خوبیوں سے محروم ہو جاوگے اس لئے نیکی تقٰوی اور اصلاح بین الناس کی خاطر اس لغو طریق سے بچتے رہو۔ درحقیقت یہ سب معنے آپس میں ملتے جلتے ہیں۔ صرف عربی عبارت کی مشکل کو مختلف طریق سے حل کیا گیا ہے۔جس بات پر سب مفسّرین متفق ہیں وہ یہ ہے کہ اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ نہ کرو کہ خداتعالٰے کو اپنی قسموں کا نشانہ بنالو۔یعنی اُٹھے اور قسم کھا لی۔ یہ ادب کے خلاف ہے اور جو شخص اس عادت میں مبتلا ہو جاتا ہے وہ بسا اوقات نیک کاموں کے بارہ میں بھی قسمیں کھا لیتا ہے کہ میں ایسا نہیں کرونگا۔ اور اس طرح یا تو بے ادبی کا اور یانیکی سے محرومی کا شکار ہو جاتا ہے۔ یا یہ کہ بعض اچھے کاموں کے متعلق قسمیں کھا کر خدا تعالٰے کو ان کے لئے روک نہ بنا لو۔ اِن معنوں کی صورت میں داو پیچ والے معنے خوب چسپا ں ہوتے ہیں۔ اور مطلب یہ ہے کہ بعض لوگ صدقہ و خیرات سے بچنے کے لئے چالیں چلتے ہیں اور داو کھیلتے ہیں اور بعض خدا تعالٰے کی قسم کو جان بچانے کا ذریعہ بتا تے ہیں۔ گویا دوسرے سے بچنے اور اُسے پچھاڑنے میں جو داو استعمال کئے جاتے ہیں اُن میں سے ایک خداتعالٰے کی قسم بھی ہوتی ہے۔ پس فرماتا ہے۔ اللہ تعالٰی کے نام کو ایسے ذلیل حیلوں کے طورپر استعمال نہ کیا کرو۔ میرے نزدیک سب سے اچھی تشریح علاّمہ ابو حیان کی ہے کہ خدا تعالٰی کو اپنے احسان اور نیکی وغیرہ کے آگے روک بنا کر کھڑا نہ کر دیا کرو۔
وَاللّہُ سَمِیْحٌ عَلِیْمٌ میں بتایا کہ اگر تمہیں نیکی اور تقوٰی اور اصلاح بِین الناسِ کے کام میں مشکلات پیش آئیں تو خدا تعالٰے سے ان کا دفعیہ چاہو اور ہمیشہ دُعاوں سے کام لیتے رہو۔ کیونکہ یہ کام دُعاوں کے بغیر سرانجام نہیں پا سکتے۔ اور پھر یہ بھی یاد رکھو
لاَایُوَاخِذُکُمُ
غَفُوْرٌحَلِیْمٌo
کہ اللہ تعالٰی علیم بھی ہے۔ اگر تم اُس کی طرف جھکو گے تو وہ اپنے علم میں سے تمہیں علم عطا فرمائیگا اور نیکی اور تقوٰی کے بارہ میں تمارا قدم صرف پہلی سیڑھی پر نہیں رہیگا بلکہ علمِ لدنّی سے بھی تمہیں حصّہ دیا جائیگا۔
۱۳۸؎ حل لغات:۔ حَلِیَٓمٌ حِلْم سے ہے اور اس کے معنے صبر کر نے والے کے بھی ہوتے ہیں اور اِ سی طر ح اِ س کے معنے بُر با د کے بھی ہیں ۔یعنی جس میں طیش نہ ہو۔ یونہی جو ش میں آ کر اندھا دھند کا م نہ کر تا ہو۔ حِلْم جہا لت اور بیوقو فی کے مخا لف معنے بھی دیتا ہے۔ اور علم اور سمجھ کے بھی نیز اس کے معنے عقل کے بھی ہیں۔(اقرب)
تفسیر:۔ فر ما تا ہے۔ اللہ تعا لٰی لغو قسمو ں پر تم سے کو ئی مو اخدہ نہیں کر یگا۔ اسجگہ لغو قسموں سے تین قسم کی قسمیںمرا د ہیں۔ آول عا دت کے طو ر پر قسمیں کھا نا۔ یعنی ہر وقت وَاللّٰہ۔بِا اللّٰہ۔ تُم تَا اللّٰہ کہتے رہنا۔ دوم ایسی قسم جس کا کھا نے والا یقین رکھتا ہو کہ وہ درست ہے لیکن اس کا یقین غلط ہو۔مثلاً کسی شخص کے متعلق قسم کھا نا کہ وہ وہا ں ہے حا لا نکہ ہو سکتا ہے کہ وہ اس کے آ نے کے بعد وہا ں سے چلا گیا ہو۔ سو م ایسی قسم جو شد ید غصہ کے وقت کھا ئی جا ئے۔ جب ہو ش ا حوا س ٹھکا نے نہ ہو ں یا حرا م شے کے استعما ل یا فر ض و وا جب عمل کے تر ک کے متعلق کسی وقتی جو ش کے ما تحت قسمیں لغو ہیں اور ان کے تو ڑنے پر کو ئی کفا رہ نہیں۔چو نکہ پہلی آ یت میںاللہ تعالیٰنے قسمو ں سے روکا تھا اس لئے اب بتا یا کہ مو ا خزہ صر ف ایسی قسموں پر ہو گا جن کو لغوٖ قرار نہ دیا جا سکے۔مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ چو نکہ مو اخذہ نہیں ہو گا اِس لئے اب کسی اختیا ط کی بھی ضر ورت نہیںبیشک رات دن لغو قسمیں کھا تے رہو۔ کیو نکہ اللّٰہ تعالٰی نے مو منو ں کے متعلق یہ بھی بیا ن فر ما یا ہے کہ وَالَّذِیْنَ ھُمْ ھَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ (مومنوں آیت۴) مو منوں لغو با تو ں سے بھی پر ہیز کر تے ہیں۔ پس لغو قسمیں کھا نے والا یقیناً مخطی یا گہنگا رہے اوراُسے اپنے گنا ہ پر تو بہ اور ندا مت کا اظہا ر کر نا چا ہیے۔ ہا ںاُن کے تو ڑنے پر کسی کفا رہ کی ضر و رت نہیں۔اِ سی مفہو م کو ادا کر نے کے لئیاللہ تعالیٰنے لا یُئُوا خِذُ کُمْ کے الفا ظ بیا ں فر ماتے ہیں۔ یعنی اگر وقتی جو ش کے ما تحت ایسی قسم کھا ئی جا ئے تو گنا ہ نہ ہوگا ہا ں اگر جا ن بو جھ کر کو ئی شخص ایسی قسم کھا ئے تو اُسے یقیناً گنا ہ ہو گا۔
بعض لوگو ں نے لَایُئَواخِدُ کے معنے لَا بَاْ سَ بِہِ یالاَحَرَجَ فِیْ ذٰلِکَ کے کئے ہیں کہ اسمیں کوئی حر ج نہیں۔ مگر یہ صحیح نییں۔ یہا ں پر ایک تو مو اخذہ کی نفی کی ہے اور دوسر ے لغو قسموں سے پر ہیز کی تا کید کی ہے۔
وَلٰکِنْ یُّئَواخِذُکُمْ بِمَاکَسَبَتْ قُلُوْ بُکُمْ میں گذشۃ تینو ں قسموں کی نفی کر دی گئی ہے کیو نکہ قسم بھی عا دتاً ہو یا غصّہ اور بے احتیا طی سے ہو ان میں سے کو ئی قسم بھی عمداً نہیں ہو تی بلکہ بعض وقت تو انسا ن کو پتہ بھی نہیں لگتا اور وہ قسم کھا جا تا ہے۔ پس کسب قلب سے مرا د یہی ہے کہ عمداً قسم کھا ئی جا ئے۔ ایک و ا قعہ کے متعلق وہ سمجھتا ہوکہ یو ں ہے مگر پھر اس کے خلا ف قسم کھا جا ئے۔ ایسی قسم کا کفارہ اللّٰہ تعالٰی نے سو رہ ما ئدہ میں اِ ن الفا ظ میں بیا ن فر ما یا ہے کہ فَکَفَّا رَتُہ‘اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیْنَ مِنْ
لِلَّذِیْنَ یُئْولُوْنَ
سَمِیعُ عَلِیْم’‘o
اَوْسَطِ مَاتُظْعِمُوْنَ اَھْلِیْکُمْ اَوْکِسْوَتُھُمْ اَوْتَحْرِیْرُرَ قَبَۃً ط فَمَنْ لَمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ ط ذٰ لِکَ کَفَّارَۃُ اَیْمَا نِکُمْ اِذَ ا حَلَفْتُمْ ط(ما ئد ہ آ یت ۹۰) یعنی قسم تو ڑنے کا کفا رہ دس مسا کین کو متوسط درجہ کا کھا نا کھلا نا ہے۔ایسا کھلا نا جو تم اپنے گھر وا لو ں کو کھلا تے ہو۔ یا اُ ن کے لئے لبا س مہیا کر نا ہے۔ یا ایک غلا م کو آ زاد کر نا ہے۔لیکن جسے اس با ت کی تو فیق نہ ہو اُس پر یتن دن کے روزے وا جب ہیں۔ یہ تمہا ری قسمو ں کا کفا رہ ہے جبکہ تم قسم کھانے کے نعد انہیں تو ڑ دو۔
یہا ں ایک سوا ل پیدا ہو تا ہے کہ آ یا قر آن کر یم کی قسم کھا نا جا ئز ہے یا نہیں اس کا جوا ب یہ ہے کہ اگر ملکی رواج کو مد نظر رکھ کر قر آ ن کر یم کی قسم کھا ئی جائے تو میر ے نزدیک جا ئز ہے۔ کیو نکہ مد مقا بل پر قر آ ن کر یم کی قسم کھا نے سے غیر معمو لی اثر پڑ تا ہے۔
یُئَواخِذُکُمْ بِمَاکَسَبَتْ قُلُوْبُکُمْ سے یہ بھی معلو م ہو تا ہے کہ جس شخص کے دل میں بد اخلاقی کے خیا لا ت آ تے ہیں۔ مثلاً اپنے بھائی کی نسبت بد ظنّی کا خیال پیدا ہو تا ہے۔ یا تکبّر یا حسد یا نفرت کا جذبہ پیدا ہو تا ہے۔ لیکن وہ اس خیا ل کو دبا لیتا ہے تو اس کا یہ خیا ل یا جذبہ بد اخلا قی نہیں سمجھا جا ئیگا۔ کیو نکہ ایسا شخص درحقیقت بد اخلا قی کا مقا بلہ کر تا ہے اور تعر یف کا مستحق ہے، اسی طر ح جس شخص کے دل میں ایک آ نی خیا ل نیکی کا آ ئے یا آ نی طو ر پر حسن سلو ک کی طر ف اس کی طبیعت ما ئل ہو لیکن وہ اس کو بڑھنے نہ دے تو ایسا شخص بھی صا حب اخلا ق نہیں سمجھا جائیگا گو اُس کے اِ س وقتی جذبہ کو بھی قا بلِ تعر یف قر ار دیا جا ئیگا کیو نکہ اخلا ق وہ ہیں جو انسا ن کے ارادہ کا نتیجہ ہوں لیکن مزکو رہ با لا دونوں صو رتو ں میں اچھے یا بُر ے خیا لا ت ارادہ کا نتیجہ نہیں ہر تے بلکہ بیرونی اثر ات کے نتیجہ میں بلا ارادہ پیدا ہو جا تے اور اُسی وقت زا ئل ہو جاتے ہیں۔اس نکتہ کو قر آ ن کر یم نے اِن الفا ظ میں بیا ن فر ما یا ہے کہ یُّئَواخِذُکُمْ بِمَاکَسَبَتْ قُلُوْ بُکُم۔اللہ تعالیٰ تم کو صرف ان خیالات پر پکڑے گا جو ارادہ اور فکر کے ماتحت پیدا ہوتے ہیں ۔ اور انکو فوراً اپنے دل سے نکال دیتے ہو۔ رسول کریمﷺ اس کی تشریح یوں فرماتے ہیں کہ اچانک بد خیال پیدا ہونے پر جو شخص اس خیال کو اپنے دل سے نکال دیتا ہے اور اس پر عمل نہیں کرتا ایسا شخص نیکی کا کام کرتا ہے ۔اور اجر کا مستحق ہے آپ فرما تے ہیں وَ اِنْ ھَمَّ بِسَیِّئَۃٍ فَلَمْ یَعْمَلھَاکَتَبَ اللّٰہُ عِنْدَہُ حَسَنَۃً کَامِلَۃً (بخاری)اگر کسی شخص کے دل میں برا خیال پیدا ہو اور وہ اس کو دبا لے اور اس کے مطابق عمل نہ کرے تو اللہ تعالٰی اس کے حق میں ایک پوری نیکی لکھے گا۔ یعنی بدخیال کے دبانے کی وجہ سے اس کو نیک بدلہ ملیگا۔
وَاللَّہُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ میں غفور کے لفظ سے بتا دیا کہ اگر تم ایسی قسموں سے اجتناب کروگے اور توبہ کروگے توہم تمہیںبخش دیں گے۔ اور حلیم کہ کر اس طرف توجہ دلائی کہ ہم نے لغو قسموں پر اس لئے گرفت نہیں کی کہ اگر ہم ان قسموں پر گرفت کرنا شروع کر دیں تو تمہارا بچنا مشکل ہو جائے۔
۱۳۹؎ حل لغات:۔ اِیْلَاء: اٰلٰی یُوْلِیْ اِیْلاَئً:قسم کھانا۔ یہ اَلَاسے نکلا ہے جس کے معنے کسی کام میں کمی یا تاخیر کرنے کے ہیں۔ اوراِیْلَاء قرآن کریم کے محاورہ میں اُس قسم کو کہتے ہیں جو اس بات پر کھائی جائے کہ مرد اپنی بیوی سے کوئی تعلق نہ رکھے گا (مفردات) چونکہ اس قسم میں عورت کے حق کا اتلاف ہے اس لئے اسے اِیْلاَء کہا گیا۔
فَآئُ وْا: فَائَ یَفِیْ ئُ فَیْئاً: لوٹ آیا۔
فَائَ الْاَمْرَ اَیْ رَجَعَ اِلَیْہِ(اقرب) اس بات کی طرف لوٹ آیا۔ فَائَ کالفظ نیک امور کی طرف لوٹنے کے متعلق استعمال ہوتا ہے۔ (مفردات) اصل میں اس کے معنے تعاون اور امداد باہمی کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ ملکر کام کرنے کے ہوتے ہیں۔اور سایہ کو بھی فَيْء کہتے ہیں۔کیونکہ وہ سوچ کے ساتھ ادھر سے اُدھر ہوتا رہتا ہے ان دونوں معنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے فَائَ بالعموم اچھے معنوں میں استعمال ہونے لگا ہے۔
تفسیر:۔ ایلاء کے معنے قسم کے ہیں لیکن اصطلاحی طور پر کسی شخص کا قسم کھا کر اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کر لینا ایلاء کہلاتا ہے ۔ عرب میں یہ رواج تھا کہ بعض لوگ اپنی بیویوں کی طرف سے عائد شدہ ذمہ داریوں سے آزاد ہو جاتے تھے۔ کیونکہ انکے خیال میں قسم کو پورا کرنے کی ذمہ داری سے مقدم ہے۔ پس جب کہ خدا تعالی ٰکی قسم روک بن گئی تو ان کے خیال کے مطابق عورت کے حقوق کا ادا نہ کرنا کوئی گناہ نہ رہا۔یہ گندہ خیال اب بھی دنیا میں موجود ہے۔ بلکہ مسلمانوں میں بھی ایسے لوگ ہیں جو یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ ہم بیویوں سے تعلق نہیں رکھیں گے۔ لیکن انہیںطلاق بھی نہیں دیتے ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر کوئی شخص ایسا کر بیٹھے تو اسے یاد رکھنا چاہیئے کہ اسے چار مہینے کی مہلت دی جاتی ہے اس عرصہ میں وہ صلح کرلے توبہتر ورنہ جیساکہ اگلی آیت میں ہے پھر قاضی طلاق کافیصلہ کردیگا۔ اس آ یت میں اﷲ تعالیٰ نے عورت کو معلقہ چھوڑنے کے خلاف فیصلہ فرمایا ہے۔ مر د زیادہ سے زیادہ مدت نکاح میںچار ماہ تک کے لئے عورت سے علٰیحدہ رہنے کا عہد کر سکتا ہے اور اگر کوئی شخص چار ما ہ سے زائدعرصہ کے لئے زائدعرصہ کے لئے قسم کھائے تو عورت کاحق ہے کہ خلع کرا لے۔ ایسی صورت میںطلاق واقعہ نہیں ہوتی۔ کیونکہ اسکا حکم آگے مذکور ہے۔لیکن عورت کوخلع کاحق حاصل ہوجاتا ہے۔ اور اگر کوئی شخص تھوڑی تھوڑی مدت کے لئے ایلاء کرے مثلاً دس دن کیلئے ایلاء کیا اورپھر رجوع کرلیا۔تب بھی اس کے لئے مجموعی طور پر چارماہ کی ہی مدت مقرر ہے۔ اگروہ چار ماہ کے بعد ایلاء کریگا ۔تووہ ایلاء ناجائز ہو گا۔ اورعورت علیحدگی کی حقدارہو گی ۔ بعض لوگ عورت کودکھ دینے کے لئے تھوڑی تھوڑی مدت مقررکرتے رہتے ہیں تاکہ نہ چار ماہ ختم ہوں اور نہ عورت علیٰحدہ ہومگر ان کایہ خیال غلط ہے اس قسم کی ایلاء کی مدت بھی صرف چار ماہ ہی ہے۔ جب ایام قطع تعلق کا مجموعہ چار ماہ ہو جائے گا۔ تو لازماً عورت علیٰحدگی کی حق دارہو گی۔ فقہاء کااس آیت کے احکام کی تفصیلات میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اگر مدت گزر جائے اور مرد عورت سے نہ مباشرت کرے اور نہ زبان سے رجوع کرے تو قاضی دونوں میں علیٰحدگی کروادیگا۔ یہ امام مالک کا قول ہے۔ لیکن امام ابو حنیفہ رحمتہ اﷲ کہتے ہیں کہ چار ماہ کے ختم ہونے سے پہلے رجوع ضروری ہے۔اگر چار ماہ کے اندر رجوع نہ کرے تو اس مدت کے گزرنے کے بعد عورت کو خود بخود طلاق ہو جائیگی۔ افضل یہی ہے۔ لیکن محتاط امام مالک کافتویٰ ہے امام شافعی اورامام احمد بن حنیل کے نزدیک چار ماہ گذرنے پراگرکوئی شخص رجوع نہ کرے تواسے قاضی مجبورکرے گا۔ کہ رجوع کرے یاطلاق دے۔ یہ بھی قر یباً امام مالک کے قول سے ملتا ہے اگر مرد دونوں باتوںسے کوئی بھی نہ کرے گا ۔ تو قاضی اس کیطرف سے طلاق دلا دے گا۔ امام نخعی کا قول ہے کہ یہ رجوع پوشیدہ جائز نہیں نہ اشارہ سے بلکہ قول سے ہونا چاہئے ۔ اور گواہوں کی موجودگی
وَالْمُطَلَّقٰتُ





عزیز حکیمo
اس کے لئے ضروری ہے ۔ غرض قرآن کریم عورت کو کَالمُعَلّقَۃ چھوڑنے سے منع کرتا ہے ۔ اور جو چھوڑے اسے مجبور کرتا ہے کہ یا صلح کرے یا اسے طلاق دے دے ۔ غفور کے لفظ سے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ بغیر کسی جائز عذر کے اس قسم کی قسم کھانا اور عورت کو دق کرنا گناہ کی بات ہے ۔ تمہیں ایسے فعل سے توبہ کرنی چاہئے اور عورت کودق نہیں کرنا چاہئے ۔ وَ اِن عَزَمُوالطَّلاق میں بتایا کہ اگرمرد طلاق دینے کا پختہ ارادہ کر لیں تو اﷲبھی سننے والا اور جاننے وا لا ہے۔ سَمِیْع’‘کے لفظ سے ڈرایا کہ اگر وہ اپنی بیوی سے نا انصا فی کر یگا۔ تو اسے یا د رکھنا چا ہیے کہ ور اس کے بد نتا ئج سے بچ نہیں سکتا۔ کیونکہاللہ تعالیٰاُس کی بیو ی کی فر یا د کُوسُننے وا لا ہے۔ اور عَلِیْم’‘ میں بتا یا کہ جو خیالا ت تمہا رے دلو ں کے اندر ہیںاللہ تعالیٰان کو بھی خو ب جا نتا ہے اور انہی کے مطابق تم سے معا ملہ کر یگا۔اس لئے تم اپنے معاملات میں ہو شیا ر رہو۔تم دنیا کو تو دھوکا دے سکتے ہو مگر خدا تعالٰی کو نہیں۔
چو نکہ اسجگہ عو رت سے حسن سلو ک کو حکم دیا ہے۔ اس لئے اگر کو ئی شخص قسم کھا لیتا ہے کہ میں اپنی بیوی سے حسن سلوک نہیں کر ونگا تو یہ قسم بھی اس پہلی قسم ہے کی طرح ہو گی۔ جس کا ذکر لَاتَجْعَلُوا اللّٰہَ عُرْضَۃً لِاَّیْمَانِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْاوَتَتَّقُوْا میں کیا گیا ہے۔
۱۴۰؁تفسیر:۔ اب اللہ تعالٰی طلاق کے مسائل بیان فرماتا ہے اور اس بارہ میں سب سے پہلی ہدایت یہ دیتا ہے کہ جن عورتوں کو اُن کے خاوند طلاق دے دیں۔ انہیں اپنے آپ کو قردء تک روکے رکھنا چاہیے۔
قُرُدْء سے کیا مُراد ہے؟اس بارہ میں اُمت محمدیہ میں دو گروہ پائے جاتے ہیں۔ خلفاء اربعہ یعنی حضرت ابوبکرؓ۔ حضرت عمرؓ۔ حضرت عثمانؓ۔ اور حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ اِس سے حیض مُراد ہے۔ حضرت عبداللّٰہ بن مسعودؓ اور امام ابو حنفیہؒ کی بھی یہی رائے ہے۔لیکن حضرت عائشہؓ۔ حضرت عبداللّٰہ بن عمرؓ۔ حضرت زید بن ثابتؓ۔ حضرت امام مالکؒ اورحضرت امام شافعیؒ کہتے ہیں کہ اس سے طہر مراد ہے۔ حضرت محی الدین ابنِ عربیؒ لکھتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ خواب میں رسول کریمﷺکودیکھا اور آپ سے عرض کیا کہ یارسول اللّٰہ ایل عرب توٖقُرء سے حیض بھی مُراد لیتے ہیں اور طہر بھی۔ اللّٰہ تعالٰے کا اس سے کیا منشاء ہے۔ رسول کریم ﷺ نے جو جواب دیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے دونوں کو صحیح قرار دیا ہا ں ترجیح آپ نے طُہر کو دی(فتو حا ت مکیہ جلد ۴۔با ب ۵۴۰۔ صفحہ ۴۱۰ْْْْْْْ/۴۰۹)
عدت کی حکمت با لکل و اضح ہے۔ اس عرصہ میں خا وند کو سو چنے اور غو ر کر نے کا کا فی وقت مل جا تاہے ۔ اور اگر اس کے دل اپنی بیوی کی کچھ بھی محبت ہو تو وہ رجوع کر سکتا ہے۔
وَلَا یَحِلُّ لَھُنَّ اَنْ یَّکْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ فِيْ اَرْحَا مِھِنَّ میں عو رت کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر وہ حا ملہ ہو تو مرد کو بتا دے۔ کیو نکہ بسا اوقا ت ایسا ہو تا ہے کہ اگر عو رت حا ملہ ہو تو اس کی وجہ سے پھر محبت قا ئم ہو جا تی ہے اور میا ں بیو ی میں صلح کی صو رت پیدا ہو جا تی ہے۔
وَ بَعُوْ لَتُھُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّھِنَّ فِيْ ذٰ لِکَ میں ذٰلِکَ کا اشا رہ مدت تر بُّص کی طر ف ہے۔ اوراللہ تعالیٰنے بتا یا ہے کہ اگر عدت کے دوران خا وند اپنی عو رت سے دوبا رہ تعلقا ت قا ئم کرنا چا ہے تو اس میں کسی کو روک نہیں بننا چا ہیے۔ اس ہدا یت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عا م طور پر عو رت کے رشتہ دار کہ دیا کر تے ہیں کہ چو نکہ خا وند نے اپنی بیو ی سے اچھا سلوک نہیں کیا اور اسے ایک دفعہ طلا ق دے دی ہے اس لئے اب ہم اس سے تعلق قا ئم رکھنے کے لئے تیا ر نہیں۔اللہ تعالیٰفر ما تا ہے کہ عو رت کے رشتہ داروں کو میا ںبیوی کے تعلقا ت میں روک نہیں بننا چا ہیے۔اگر خا وند اپنی غلطی کو محسو س کر تے ہوئے رجو ع کر ناچاہتا ہے تو وہ کسی اور کی نسبت اس عو رت کا زیا دہ حقدار ہے اور وہ عدت میں اپنی عو رت کو وا پس لوٹا سکتا ہے۔
پھر وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّزِیْ عَلَیْھِنَّ بِا لْمَعْرُ وْفِ میں عا م قا نو ن بتا یا کہ مر دوں اور عو رتو ں کے حقوق بحیثیت انسان ہونے کے بر ا بر ہیں جس طرح عو رتو ں کے لئے ضر وری ہے کہ وہ مر دوں کے حقو ق کا خیا ل رکھیں۔ اسی طر ح مر دوں کے لئے بھی ضر و ری ہے کہ وہ عورتوں کے حقوق ادا کر یں۔
رسو ل کر یمﷺ کی بعثت سے پہلے عو رتوں کے کو ئی حقو ق تسلیم ہی نہیں کئے جا تی تھے بلکہ انہیں ما لو ں اور جا ئیدادوں کی طر ح ایک منتقل ہونے والا ورثہ خیا ل کیا جا تا تھا۔اور اُن کی پیدا ئش کو صر ف مر د کی خو شی کا مو جب قرا ر دیا جا تا تھا۔ حتّٰی کہ مسیحی جو اپنے آ پ کو حقو قِ نِسوا ب کے بڑے حا می کہتے ہیں اُن کے پا ک نوشتوں میں بھی عو رت کی نسبت لکھا تھا۔
’‘البتہ مرد کو اپنا سرڈھا نکنا نہ چا ہیے کیو نکہ وہ خدا کی صو رت اور اُس کا جلا ل ہے مگر عو رت مردکا جلا ل ہے’‘ (کر نتھیوں باب ۱۱ آ یت۷)
اسی طر ح لکھا تھا:۔
’‘ اور میں اجا زت نہیں دیتا کہ عو رت دکھا ئے’‘ (تمطا وس با ب ۲آ یت ۱۲)
صر ف اسلا م ہی ایک ایسا مذہب ہے جس میں عو رتوں کی انسا نیت کو نما یا ں کر کے دکھا یا ۔ اور رسول کر یمﷺ ہی وہ پہلے انسا ن ہیں جنہو ں نے عو رتوں کے بلحاظ انسا نیت بر ابر کے حقوق قا ئم کئے۔ اور وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّزِیْ عَلَیْھِنَّ بِا لْمَعْرُ وْفِ کی تفسیر لوگوں کے اچھی طر ح ذہن نشین کی۔ آ پ کے کلا م میں عو رتو ں کے سا تھ حسن سلو ک اور ان کے حقو ق اور ان کی قا بلیتوں کے متعلق جس قدر ارشا دا ت پا ئے جا تے ہیں ان کا دسواں حصّہ بھی کسی اور مذہبی پیشوا کی تعلیم میں نہیں ملتا۔آ ج سا ری دنیا میں یہ شو ر مچ رہا ہے کہ عو رتوں کوان کے حقوق دینے چا ہیں اور بعض مٖغر ب زدہ نو جوا ن تو یہا ں تک کہ دیتے ہیں کہ عو رتوں کو حقوق عیسا ئیت نے ہی دئیے ہیں حا لا نکہ عورتوں کے حقوق کے سلسلہ میں اسلا م نے جو وسیع تعلیم دی ہے عیسا ئیت کے تعلیم اس کے پا سنگ بھی نہیں۔
عر بو ں میں رواج تھا کہ ورثہ میں اپنی ما ؤں کو بھی تقسیم کر لیتے تھے۔ مگر اسلام نے خو د عو رت کو وا رت قرا ر دیا۔ بیوی کو خا وند کا۔ بہن کو با پ کا اور بعض صورتوں میں بہن کو بھا ئی کا بھی۔
غرض فر ما یا وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّزِیْ عَلَیْھِنَّ بھی انسانی حقوق کا جہا ں تک سوا ل ہے عورتوںکو بھی ویسا ہی حق حاصل ہے جیسے مر دوں کو۔ ان دونوں میں کو ئی فر ق نہیںاللہ تعالیٰنے جس طرح مردوں اور عو رتو ں کو یکساں احکا م دئیے ہیں اسی طر ح انعا ما ت میں بھی انہیں یکسا ں شر یک قرار دیا ہے۔ اور جن نعما ء کے مر د مستحق ہو نگے اسلا می تعلیم کے ما تحت قیا مت کے دن وہی انعا ما ت عو رتوں کو بھی ملیں گے۔ غر ضاللہ تعالیٰنے نہ اس دنیا میں انکی کوئی حق تلفی کی ہے اور نہ اگلے جہاں میں انہیں کسی انعام سے محروم رکھاہے۔ ہاں آپ نے اس بات کا بھی اعلان فرمایا کہ وَلِلرَّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَۃ یعنی حقوق کے لحاظ سے تو مرد و عورت میں کوئی فرق نہیں لیکن انتظامی لحاظ سے مردوں کو عورتوں پر ایک حقِ فوقیت حاصل ہے اس کی ایسی ہی مثال جیسے ایک مجسٹریٹ انسان ہونے کے لحاظ سے تو عام انسانوں جیسے حقوق رکھتا ہے اور جس طرح ایک ادنیٰ سے ادنیٰ انسان کو بھی ظلم اور تعدی کی اجازت نہیں اُسی طرح مجسٹریٹ کو بھی نہیں۔ مگر پھر بھی وہ بحیثیت مجسٹریٹ اپنے ماتحتوں پر فوقیت رکھتاہے۔ اور اُسے قانون کے مطابق دوسروں کو سزا دینے کے اخیتار حاصل ہوتے ہیں۔ اِسی طرح تمدنی اور مذہبی معاملات میں مرد و عورت دونوں کے حقوق برابر ہیں۔ لیکن مردوں کو اللہ تعالیٰ نے قوام ہونے کی وجہ سے فضیلت عطا فرمائی ہے لیکن دوسری طرف اسنے عورتوں کو استمالتِ قلب کی ایسی طاقت دیدی ہے جس کی وجہ سے وہ بسا اوقات مردوں پر غالب آجاتی ہیں۔ بنگلہ کی جادوگر عورتیں تو جیسا کہ عام طور پر مشہور ہے مردوں پر جادو سا کر دیتی ہیں۔ پس جہاں مرد کو عورت پر ایک رنگ میں فوقیت دی گئی ہے۔ وہاں عورت کو استمالتِ قلب کی طاقت عطا فرما کرمرد پر غلبہ دے دیا گیا ہے ۔ جس کی وجہ سے بسا اوقات عورتیں مردوں پر اس طرح حکومت کرتی ہیں کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ سب کاروبار انہیں کے ہاتھ میں ہے۔ دراصل ہر شخص کی الگ الگ رنگ کی حکومت ہوتی ہے۔ جہاں تک احکام شرعی اور نظام کے قیام کا سوال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر فضیلت دے دی ہے مثلاًشر عیت کا یہ حکم ہے کہ کوئی لڑکی اپنے ماں باپ کی اجازت کے بغیر شادی نہیںکر سکتی ۔یہ حکم ایسا ہے جو اپنے اندر بہت فوائد رکھتا ہے ۔یورپ میںہزاروں مثالیںاسیی پائی جاتی ہیںکہ بعض لوگ دھوکے باز اور فریبی تھے مگر اس وجہ سے کہ وہ خوش و ضع نوجوان تھے انہوں نے بڑے بڑے گھرانوں کی لڑکیوں سے شادیاں کر لیں اور بعد میں کئی قسم کی خرابیاں پیدا ہوئیں ۔ لیکن ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہوتا کیونکہ رشتہ کی تجویز کے وقت باپ غور کرتا ہے والدہ غور کرتی ہے ۔ بھائی سوچتے ہیں رشتہ دار تحتیق کرتے ہیں اور اس طرح جو بات طے ہوتی ہے وہ بلعموم ان نقائص سے پاک ہوتی ہے جو یورپ
اَلطَّلاَقُ مَرَّتٰنِ



ھُمُ الظَّلِمُونْO
میں نظر آتے ہیں یورپ میں تو یہ نقص اس قدر زیادہ ہے کہ جرمنی کے سابق شہنشاہ کی بہن نے اسی ناواقفی کی وجہ سے ایک باورچی سے شادی کرلی اسکی وضع قطع اچھی تھی اور اس نے مشہوریہ کر دیا تھا کہ وہ روس کا شہزادہ ہے جب شادی ہو گئی توبعد میں پتہ چلا کہ وہ تو کہیں باورچی کا کام کیا کرتا تھا ۔ یہ واقعات سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے مردوں کے تو قو ام ہونے کے متعلق جو کچھ فیصلہ کیا ہے وہ بالکل درست ہے۔ شر یعت کا اس سے یہ منشا نہیں کہ عو رتوں پر ظلم ہو یا ان کی کو ئی حق تلفی ہو بلکہ شر یعت کا اس امتیا ز سے یہ منشا ہے کہ جن با تو ں کو نقصا ن نہیں پہنچ سکتا ہے ان میں عو رتوں کو نقصا ن پہنچ سکتا ان میں عو رتوں کو نقصا ن سے محفوظ رکھا جا ئے۔ اسی وجہ سے جن با تو ں میں عو رتو ں کو کو ئی نقصا ن نہیں پہنچ سکتا ان میں ان کا حق خدا تعا لٰی نے خو د ہی انہیں دے دیا ہے۔ پس قر آ ن کر یم نے جوکچھ کہا ہے وہ اپنے اندر بہت بڑی حکمتیں اور مصا لح رکھتا ہے۔
اگر دنیا ان کے خلا ف عمل کر رہی ہے تو وہ کئی قسم کے نقصا نا ت بھی بر دا شت کر رہی ہے جو اس با ت کا ثبو ت ہیں کہ اسلا م کے خلا ف عمل پیرا ہو نا کبھی نیک نتا ئج کا حا صل نہیں ہو سکتا۔
آ خر میں وَ اللّٰہ ُعَزِ یْز’‘ حَکِیْم ’‘فر ما کر اس طر ف تو جہ دلا ئی۔ کہ یاد رکھو عو رتوں پر جو فو قیت ہم نے تمہیں دی ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم اس سے نا جا ئز فا ئد ہ اٹھا ؤ۔ اور ان کے حقو ق کو پا ما ل کر ناشر وع کر دو۔دیکھو تم پر بھی ایک حا کم ہے جوعز یز ہے ۔ یعنی اصل حکو مت خدا تعا لٰی کی ہے اس لئے چا ہیے کہ مر د اس حکو مت سے نا جا ئز فائدہ نہ اٹھائے۔ اور حکیم کہ کر اس طر ف تو جہ دلا ئی کہ ضبط و نظم کے معا ملا ت میں جو اخیتا ر ہم نے مر دوں کو دیا ہے۔ یہ سرا سر حکمت پر مبنی ہے ورنہ گھر وں کا امن بر با د ہو جاتا۔چو نکہ میاں بیوی نے مل کر رہنا ہو تا ہے اور نظا م اس وقت تک قا ئم نہیں رہ سکتا جب تک کہ ایک کو فو قیت نہ دے جا ئے اس لئے نہ فو قیت مر د کو دی گئی ہے اور اس کی ایک اور و جہاللہ تعالیٰنے دو سر ی جگہ یہ بیا ن فر ما ئی ہے کہ چو نکہ مر د اپنا روپیہ عو رتوں پر خرچ کر تے ہیں اس لئے انتظا می امور میں انہیں عورتوں پرفو قیت حا صل ہے(نساء آ یت ۳۵)
۱۴۱؎ تفسیر:۔ اَلطَّلاَ قُ مَرَّ قٰنِِ سے مرا د یہ ہے کہ ایسی طلا ق جس میں خا وند کو رجوع کا حق حا صل ہے صر ف دو دفعہ ہی ہو سکتی ہے۔ یہ نہیں کہ عو رت کو تنگ کر نے کے لئے اسے بار بار طلا ق دیتا رہے۔ اور جب عدت ختم ہر نے کا وقت قر یب آ ئے تو رجوع کر لے احکا م دینیہ کے سا تھ یہ ایک نا پا ک تمسخر ہے جس کی اسلا م ہر گز اجا زت نہیں دیتا۔
احا دیث میں صر احتاًذکر آ تا ہے کہ رسو ل کر یم ﷺ کے زما نہ میں ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ لَا اُطَلِقُکِ اَبَدًا وَلَااٰدِیْکِ اَبَدً یعنی نہ تو میں تجھے کبھی طلا ق دو نگا اور نہ اپنے گھر میں بسا ؤنگا۔ عورت نے پو چھا۔وَکَیْفَ ذَلِکَ یہ کس طر ح ہو سکتا ہے۔ اس پر اس نے کہا اُطَلِّقُ حَتّٰی اِذَاَتٰی اَجَلُکِ رَا جَعْتُکِ میں تجھے طلا ق دونگا۔ اور جب تیر ی عد ت ختم ہو نے کے قر یب پہنچے گی تو رجوع کر لونگا۔ اگلی دفعہ پھر ایسا کرونگا اور پھر رجوع کر لو گا۔ اسطرح نہ تجھے بساؤ گا اور نہ علیحدہ ہونے دونگا۔ وہ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اُس نے اس واقعہ کا آپ سے ذکر کیا۔ اس پر اللّٰہ تعالٰے نے یہ آیت نازل فرمائی کہ اَلطَّلَاقُ مُرَّتٰنِ یعنی وہ طلاق جس میں مرد کو رجوع کا حق حاصل ہے صرف دو دفعہ ہے اس سے زیادہ نہیں (تفسیر ابن کثیرہر حاشیہ فتح البیان جلد ۲ ۹۴؁) اس حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ دو طلاقوں تک تومرد کو رجو ع کا حق حاصل رہتا ہے لیکن تیسری طلاق کے بعد اُسے رجوع کاکوئی حق نہیں رہتا۔ اور یہ دوطلاقیں بھی بیک وقت نہیں دی جا سکتیں بلکہ یکے بعد دیگرے دی جاتی ہیں جس کی طرف مَرَّتٰنِ کا لفظ اشارہ کرتا ہے جس کے معنے مَرَّۃً بَعْدَ مَرَّۃًکے ہیں۔ یعنی ایک ہی دفعہ طلاقیں نہ دی جائیں بلکہ باری باری دی جائیںاور ہر طلاق کی مدت جیسا کہ اوپر کی آیت میں گذرچکاہے تیںقروء ہے خواوہ ہر مہینے میں ایک طلاق دے یا شروع میں ایک دفعہ دے۔ اس سے طلاق کے لحاظ سے کو ئی فرق نہیں پڑتا۔ فقہاء نے ہر مہینے طلاق دینے کی طرف اس لئے توجہ دلائی ہے کہ اس طرح بار بار انسان کو رجوع کرنے کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے۔میرے نزدیک خواہ انسان ایک دفعہ طلاق دے یا ہر مہینے طلاق دے وہ ایک ہی طلاق سمجھی جائیگی۔ اور عدت گذرنے کے بعد پھر خاوند نکاح کرسکیگا۔ اِس قسم کی طلاقیں صرف دوجائز ہیں یعنی طلاق دینا اور عدت کے بعد دوبارہ نکاح کر لینا۔ اگر دو ہو جائیں تو اس کے بعد پھر اگر وہ تیسری مرتبہ طلاق دے دے تو ایسے شخص کے لئے اس عورت سے دوبارہ نکاح جائزنہیں جبتک کہ وہ باقاعدہ اور شرعی نکاح دوسرے شخص سے نہ کر چکی ہو جو حقیقی نکاح ہے حلالہ نہیں۔ کیونکہ حلالہ کا وجود اسلام میں نہیں ملتا۔ غرض اَلطَّلاَقُ سے مُراد وہ طلاق ہے جس کی عدت گذر چکی ہے وہ طلاق نہیں جس پر عدت نہ گذری ہو۔ اس میں رجوع ہو سکتا ہے جس پر عدت گذرچکی ہو اس میں دو دفعہ نکاح ہوسکتا ہے۔تیسری دفعہ نہیں۔
بیشک بعض حدیثیں اور بعض فقہا ء کے اقوال اس کے خلاف نظر آتے ہیں۔لیکن قرآن کریم کے الفاظ اَلطَّلاَقُ مَرَّتٰنِ بلکل واضع ہیں اور اس س پہلی آیت وَاْلمُطَلَّقَاتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِھِنَّ ثَلَاثَۃَ قُرُوْئٍ دَلَایَحِلُّ لَھُنَّ اَنْ یَّکْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ فَیْ اَرْحَامِھِنَّ اِنْ کُنَّ یُؤْمَنَّ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ بَعُوْلَتُھُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّ ھِنَّ فِیْ ذٰلِکَ اِنْ اَرَادُوْآ اِصْلاَحًا۔ واضع کرتی ہے کہ زمانہ طلاق قروء تک جاتا ہے اس عرصہ میں انسان بغیر نکاح کے رجوع کر سکتا ہے اور اَلطَّلاَقُ مَرَّتٰنِ کے چند آیات بعد کی آیت وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَلاَ تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ لَذْوَاجَھُنَّ اِذَاتَرَاضَوْابَیْنَھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ بتاتی ہے۔ کہ طلاق کی مدت گذر جانے کے بعد خاوند دوبارہ نکاح کر سکتا ہے۔درمیانی آیت اَلطَّلاَقُ مَرَّتٰن اس پہلی قسم کی طلاق کی طرف اشارہ کرتی ہے اورپہلی قسم کی طلاق یہی ہے کہ تین قروء تک رجوع جائز ہے اور تین قروء کے بعد نکاح جائز ہے۔
غرض آیت اَلطَّلاَقُ مَرَّتٰن بتاتی ہے کہ ایسی طلاق دو دفعہ ہو سکتی ہے جس کے صاف معنے یہ ہیںکہ طلاق کے بعد عدت گذر جانے کی صورت میں خاوند کو دو دفعہ دوبارہ نکاح کا حق حاصل ہے۔ ایسے دو واقعات کے بعد اگر پھر بھی انسان طلاق دیدے تو اس کو نکاح کا حق حاصل نہیں رہتا بلکہ اسے عرصہ مدت میں رجوع کا بھی حق حاصل نہیں۔ پھر یہ حق اس کو تبھی حاصل ہو گا جبکہ وہ عورت کسی دوسرے شخص سے باقاعدہ نکاح کرے اور وہ مرد اس کو کسی وجہ سے طلاق دیدے۔ فَاِمْسَا کُ بِمَعْرُوفٍ لَوْ تَسْرِیْحٍ بِاَحْسَانٍٍ میں بتایا کہ ان دو طلاقوں کے بعد یا تو عورت کو معروف طریق کے بطابق اپنے گھروں میں بسا لو اوریا پھر حسنِ سلوک کے ساتھ رخصت کر دو۔ تَسْرِیْحُ بِاَحْسَاْنٍ کے متعلق رسول کریم ﷺ کی بھی ایک تشریح احادیث میں بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ ابنِؔ ابی حاتم نے ابی ؔ زرین سے روایت کی ہے کہ جاء وَجَلُ اِلٰی النَّبِیِّ ﷺ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اﷲ ! اَرَئَ یْتَ قَوْلَ اﷲِعَزَّ وَ جَلَّ فَاِمْسَاکَ َبِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحُ‘ بِاَحْسَاْنٍ اَیْنَ الثَالِثَۃِ قَالَ التَّسْرِیْحُ‘ بِاَحْسَاْنٍ۔ یعنی رسول کریم کی خدمت میں ایک شخص آیا۔اور اس نے عرض کیا کہ یا رسولاﷲ! دو طلاقیں توقرآن میں بیان ہوئی ہیں۔ تیسری کہاں سے آئی ؟آپ نے فرمایا ۔ اَوْتَسْرِیْحُ‘ بِاِحْسَاْنٍ جو آیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ْتَسْرِیْحُ‘ بِاِحْسَاْنٍ کوآپ نے تیسری طلاق قرار دیا ہے۔ اس جگہ احسان کا لفظ رکھ کر اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ عورت کو رخصت کرتے وقت اس کے ساتھ احسان کامعاملہ کرنا چاہئے۔ مثلاً اس کے حق سے زائد مال اسے دیدیا جائے اور اسے عزت کے ساتھ روانہ کیا جائے۔بعض صحابہ ؓ کے متعلق آتا ہے کہ انہوں نے اپنی بیویوں کوطلاق دی تو انہیں دس دس ہزار روپیہ تک دے دیا۔ پھر فرمایا وَلَا یَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَاْخُذُوْامِتَااٰتَیْتُمُوْحُنَّ شَیْئاً۔ تمہارے لئے یہ ہرگز جائز نہیں کہ اگر کوئی مال یا جائیداد تم انہیں دے چکے ہو تو طلاق کے بعد ان سے واپس لے لو۔ یہ آیت بلصراحت بتاتی ہے کہ طلاق کے بعد عورت سے زیورات اور پارچات وغیرہ واپس نہیں لئے جا سکتے۔ نہ مال واپس لیا جا سکتا ہے ۔ نہ کوئی جائداد جو اسے دی جا چکی ہو واپس لی جا سکتی ہے ۔ بلکہ مرد اگرمہر ادا نہ کر چکا ہو تو طلاق کی صورت میںوہ مہر بھی اسے ادا کرنا پڑیگا۔ لیکن اسکے بعد ایک استثنیٰ رکھا ہے اورکہا ہے کہ اگر وہ صورت پیدا ہو تو پھر جائز ہے۔ چنانچہ فرمایا اِلَّا اَنْ یَّخَافَا اَلَّایُقِیْمَا حُدُودَ اللّٰہِ۔سوائے اس کے کہ ان دونوں کو خوف ہو کہ وہ خدا تعالیٰ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے یعنی مرد عورت کے حقوق ادا نہ کر سکیگا ۔ اورعورت مرد کے حقوق ادا نہ کر سکے گی ۔ اس صورت میں اس کا حکم اور ہے۔ جو فَاِنْ خِفْتُمْ سے شروع ہوتا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے۔فَاِنْخَفْتُمْاَلَّایُقِیْمَا حُدُودَ اللّٰہِ فَلَا جُنَاحَ عَلِیْھُمَاْفِیْمَاافّْتَدَتْبَہِ۔ یعنی اس صورت میں اگر تمہاری رائے بھی یہی ہو کہ دونوں فریق ایک دوسرے کو نقصان پہنچائی نگے یعنی قضا نے بھی دیکھ لیا کہ فی الواقعہ دونوں کا قصور ہے صرف مرد ہی کا قصور نہیں ہے۔ بلکہ عورت بھی قصور وار ہے تو اس صورت میں اگر عورت سے کچھ دلوا کر ان میں جدائی کروا دی جائے جسے اصطلاحاً خلع کہتے ہیں تو اس میں کوئی گناہ نہیں ہو گا۔
یہ ایک عجیب با ت ہے کہ اس آ یت میں تَاْخُذُوْا کی ضمیر اور طر ف گئی ہے اور طرف حا لا نکہ جملہ ایک ہی ہے۔ یعنی تَاْخُذُوْا سے مرا د خا وند ہیں۔ اور خِفْتُمْ سے مراد محکمہ قضا ء سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں۔ اسے اصطلا ح میں انتشار ضما ئر کہتے ہیں۔ اورنحوی اسے جا ئز قرا ر دیتے ہیں۔ غر ض فَاِ نْ خِفْتُمْ میں بتا یا کہ اگر حکا م اس با ت کا فیصلہ کر یں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ عو رت راضی نہیں اور اس کی نا رضا مندی کی وجہ سے مر د بھی عدل نہ رکھ سکیگا تو عو رت اگر کچہ دینا چا ہے تو مرد کو اجا زت ہے کہ لیکراسے طلا ق دے دے۔ چنا نچہ اس کے متعلق احا دیث میں رسول کر یمﷺ کے زما نہ کے ایک وا قعہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ جس سے اس مسئلہ پر روشنی پڑ تی ہے۔ ابن ما جہ اور نسا ئی میں آ تا ہے کہ ثابت بن قیس بن شما س کی بیوی( یعنی عبد اللّٰہ بن ابی بن سلول کی بیٹی) رسو ل کر یمﷺ کی خد مت میں حا ضر ہو ئی۔ اور اس نے عر ض کیا کہ یا رسول اللّٰہ مجھے اپنے خا وند سے اس قدر نفر ت ہے کہ اگر وہ مجھ سے حسن سلو ک بھی کر ے۔ تب بھی میں اس کی طر ف تو جہ نہیں کر سکتی اور سو ائے اس نفر ت کے مجھے اس سے اور کو ئی شکا یت نہیں۔ رسول کر یمﷺ نے اس کے خا وند کو بلا یا۔ اور اس سے دریا فت فر ما یا کہ تم نے اسے کچھ دیا ہوا ہے اس نے عرض کیا کہ ایک با غ ہے جو میں نے اسے دیا ہوا ہے۔ رسول کر یمﷺ نے عورت کو فر ما یا اَتَرُدِّیْن عَلَیْہِ حَدِ یْقَتَہ‘ کہ کیا تو اس کا با غ اسے وا پس کر سکتی ہے؟ قَا لَتْ نَعَمْ اس نے کہا ہاں! یا رسول کر یمﷺ نے عو رت کو فر ما یا اَتَرُ دِّیْن عَلَیْہِ حَدِ یْقَتَہ‘ کہ کیا تو اس کا با غ اسے واپس کرسکتی ہے؟قَا لَتْ نَعَمْ اس نے کہا ہا ں ! یا رسول اللّٰہ!میں با غ وا پس کر دو نگی۔ فَاَمَرَہ‘ رَسُوْلُ اللّٰہِ اَنْ یَّاْ خُذَ الْحَدِ یْقَۃَ وَلَا یَزِ یْدَ عَلَیْھَا(نسا ئی) اس پر رسول اللّٰہﷺ نے اسے حکم دیا کہ وہ اس سے اپنا با غ واپس لے لے اور اس سے زیا دہ کچھ نہ لے۔ دوسر ی روایت میں ذکر آ تا ہے کہ اس عورت نے کہا یا رسو ل اللّٰہﷺ!میں تو زیا دہ دینے کے لئے بھی تیا ر ہوں۔
رسول کریمﷺ نے فر ما یا۔اَمَّا الزِّیَا ذَۃُ فَلَا۔ کہ زیا دہ ہر گر نہیں۔ بعض روایتوں میں آتا ہے کہ یہ حبیبہؔ بنت سہیل کا وا قعہ ہے۔ بہر حا ل رسو ل کر یمﷺ نے وہ با غ اس سے وا پس کروا دیا اور عورت کو طلا ق دلوا دی اور مر د کو اس سے زیا دہ لینے کی اجا ذت نہ دے۔ اس سے معلو م ہوا کہ صرف خا وند کاما ل اسے واپس دلوا یا جا سکتا ہے اور کچھ نہیں۔
اسجگہ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَا دو وجو د کی بنا پر کہاںگیا ہے۔ اول اس لئے کہ اس سے پہلے لَیَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَا خُذُ وْامِمَّا اٰتَیْتُمُوْ ھُنَّ شَیْائً فر ما کر عو رت سے ما ل لینا گنا ہ قرار دیا تھا۔ پس چو نکہ یہ شبہ پڑتا تھا کہ کہیں اس صو رت میں بھی ما ل لینا گنا ہ نہ ہو۔ اسلئے فلََا جُنَاحَ عَلَیْھِمَااسئے فر ما یا کہ عور ت کا کچھ دیکر اور یہ گنا ہ ہے۔ جیسا کے جدا ئی کے شو ق پر دلا لت کر تا ہے اور یہ گنا ہ ہے۔ جیسا کہ ابن جر یر نے ثونا ن سے روا یت کی ہے کہ رسول کر یم ﷺ نے فر ما یا۔اَيُّ مَا امْرَ اَُۃٍ سَا لََتْ زَوْجَھَا الطَّلَا قَ مِنْ غَیْرِ بَئْا سٍ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْھَا رَائِحَۃَ الْجَنَّۃِ( جلد ۲ صفحہ۲۲۵) یعنی جو عورت بغیر کسی معقول وجہ کے اپنے خا وند سے طلاق ما نگے۔ اس پر جنت کی خوشبو حرا م ہے۔ سو فر ما یا کہ اگر کو ئی حقیقی مجبو ری پیش آجا ئے تو اس صورت سے کچھ روپیہ لے کر چھو ڑنا اس کے لا لچ پر دلا لت کر تا ہے اور یہ بھی گنا ہ ہے۔ پس چو نکہ دونو ں طر ف گنا ہ کا شبہ ہو سکتا تھا۔ اس لئے بتا یا کہ قا ضی کی تحقیق کے بعد ااس طر یق پر جدا ئی منا سب سمجھی جائے اور ایک شحص فیصلہ کر دے کہ یہی طر یق منا سب ہے تو پھر دونوں کو کو ئی گنا ہ نہیں ہو گا۔
تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلَا تَعْتَدُ وْ ھَا۔ فر مایا ہے یہاللہ تعالیٰکی مقرر کر دہ حد یں ہیں اور تمہا را فرض ہے کہ تم ان حدود سے اپنا قد م باہر مت رکھو۔ مگر افسوس ہے مسلما نوں نے اس حکم کی یہا ں تک خلا ف ورزی کی کہ انہو ں نے کہ دیا کہ اگر ایک مجلس میں اکٹھی تین طلاقیں بھی دے دی جا ئیں۔ تب بھی طلا ق بتّہ وا قع ہو جا تی ہے۔ حا لا نکہ یہ سوا ل خو د رسول کر یمﷺ کی خد مت میں پیش ہوا اور آ پ سے پو چھا گیا کہ کیا یہ ایک ہی طلا ق سمجھی جا ئیگی! تو آ پؐنے فر ما یا۔یہ ایک ہی طلا ق ہے۔ چو نکہ حضرت ابن عبا س ؓ سے روایت ہے کہ طَلَّقَ رَکَا نَۃُ زَوْجَہ‘ ثَلَا ثًا فِیْ مَجْلِسٍ وَاحِدٍ فَحَزَنَ عَلَیْہِ حُزْنًا شَدِ یْدًا فَسَئَا لَہ‘ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ کَیْفَ طَلَّقْتُھَا ثَلَاثًًًا فِیْ مَجْلِسٍ وَاحِدٍ قَالَ اِنَّمَا تِلْکَ طَلْقَۃ‘ وَا حِدَۃ’‘ فَا رْ تَّجِعْھَا۔( ابو داء ود با ب نسخ المر جعتہ بعد التطلیقا ت الثلا ث) یعنی ایک شخص رکا نہ نے اپنی بیوی کو ایک ہی وقت مین تین طلا قیں دے دیں جب یہ معا ملہ رسول کریمﷺ کے سا منے پیش ہوا تو آپ نے دریا فت فر ما یا کہ تو نے اپنی بیوی کو کس طر ح طلا ق دی بھی ۔ اس نے کہا۔ میں نے اسے ایک ہی وقت میں تین طلا قیں دے دی تھیں۔ آ پؐنے فر ما یا۔ یہ ایک ہی طلا ق ہے ۔اس لئے تم رجو ع کر لو اسی طر ح نسا ئی میں محمود بن لبید سے روا یت ہے کہ اُخْبِرَرَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺعَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ اِمْرَ ائَ تُہ‘ ثَلَاثَ تَطْلِیْقَا تٍ جَمِیْعًا فَغَضِبَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ ثُمَّ قَا لَ اَیَلْعَبُ بِکِتَا بِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ وَاَنََا بَیْنَ اَظْھُرِ کُمْ(نسا ئی با ب الثلا ث الجموعتہ وَ مَا نیہ من التغلیظ) یعنی رسول کریمﷺ کو خبر دی گئی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک ہی دفعہ تین طلا قیں دے دی ہیں۔ اس پر رسول کر یمﷺ نے بہت نا را ضگی کا اظہار کیا اور فر ما یا۔ ابھی تو میں تم میں مو جو د ہوں۔ کیا میری موجودگی میں وہاللہ تعالیٰکی کتا ب سے کھیلتا ہے۔ اسی طر ح حضر ت ابن عبا سؓ سے روا یت ہے کہ کَانَ الطَّلَاقُ عَلیٰ عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہﷺ وَ ربَیْ بَکْرٍ وَ سَنَتَیْنِ مِنْ خِلَا فَۃِ عُمَرَؓ طلََاقُ الثَّالَا ثِ وَ احِدَۃ ً فَقَا لَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّا بِ اِنَّ النَّا سَ قَدِا سْتَعْجَلُوْ افِیْ اَمْرٍ کَانَتْ لَھُمْ فِیْہٍ اَنَاۃ’‘ فَلَوْ اَمْضَیْنَاہُ عَلَیْھِمْ فَاَ مْضَاہُ عَلَیْھِمْ(مسلم با ب طلا ق الثلا ث)یعنی آنحضر تﷺ اور حضرت ابو بکر ؓ کی خلا فت کے زما نہ میں اور حضرت عمرؓ کی خلا فت کے ابتدائی دو سا ل تک ایک وقت میں تین طلا قیں ایک ہی بطلا ق تسلیم کی جا تی تھی۔ لیکن حضرت عمرؓ نے یہ دیکھ کر کہ لو گ طلا قوں کو ایک معمولی با ت سمجھنے لگ گئے ہیں اور انہوں نے ایک ایسے معا ملہ میں جس میں انہیں بہت غور اور سو چ بچا ر سے کا م لینے کا حکم تھا جلد بازی شر وع کر دے ہے وقتی طو رپریہ فیصلہ فر ما دیا کہ آ ئندہ اگر کسی نے اکھٹی تین طلا قیں دیں تو اس کی تین طلا قیںہی تصور ہو نگی۔
اما م ابن قیم نے اعلا مالمو قعین جلد ۲ صفہ ۲۴ تا ۲۶ میں اس مسئلہ کو وضا حت سے بیا ن کیا ہے۔ بد قسمتی سے ہما رے ملک میں بھی اسلا می تعلیم سے نا وا قفیت کی وجہ یہ رواج ہے کہ معمو لی معمولی جھگڑوں پر لو گ اپنی بیویوں سے کہ دیتے ہیں کہ تمہیں تین طلا ق۔ تمہیں تین ہزار طلا ق۔تمہیں تین کڑور طلاق تمہیںارب طلاق۔ حا لا نکہ اسلام نے اس بیو قو فی کی اجا زت نہیں دی۔ اور پھر آ جکل کے وہ لوگ جو شر یعت کے پورے واقف نہیں کہ دیتے ہیں کہ تین دفعہ یکد م طلا ق دینے کے بعدعورت سے دوبارہ نکا ح نہیں ہو سکتا۔ حا لا نکہ یہ طلا ق شر عی لحا ظ سے ایک ہی طلا ق ہے اور عدت گررنے کے بعد عورت سے دوبا رہ نکا ح ہو سکتا ہے لیکن جیسا کہ میں نے بتا یا ہے حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں جب اس قسم کے واقعات کثرت سے ہونے لگے تو آ پ نے فر ما یا کہ اب اگر کو ئی شخص اپنی بیوی کو بیک وقت ایک سے زیا دہ طلا قیں دیگا تو میں سزا کے طور پر اس کی بیوی کو اس پر نا جا ئز قرار دے دو نگا۔ جب آ پ پر یہ سوا ل ہوا کہ رسول کریمﷺ نے تو ایسا حکم نہیں دیا۔ پھر آ پ نے ایسا کیوں کیا ہے تو آ پ نے فر ما یا۔ رسول کر یم ﷺ کا یہ منشاء تھاکہ اس قسم کی طلا قیں رک جا ئیں۔ مگر چو نکہ تم لوگ اس قسم کی طلاق دینے سے رکتے نہیں اس لئے میں سزا کے طور پر اس قسم کی طلا ق کو جا ئز قرار دے دو نگا۔ چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا۔ اور آ پ کا ایسا کرنا ایک وقتی مصلحت کے ما تحت تھا۔ اور صرف سزا کے طورپر تھا مستقل کے طور پر نہیں تھا۔ بہر حا ل طلا ق ایک ایسی چیز ہے جسے رسول کر یمﷺ نے اَبْغَضُ الْحَلَال قرار دیا ہے۔یعنی جا ئز اور حلال چیزوں میں سے سب سے زیادہ مکر دہ اور نا پسندیدہ چیز۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیوی زند گی مین انسا ن کے لئے جو چیزیں ضروری اور لا زمی ہیں اور جن کے زریعہ انسا ن آ رام اور سکینت حا صل کر سکتا ہے وہ میا ںبیوی کے تعلقات ہیں۔ میا ں بیوی کے تعلقات سے جو سکون اور آ رام انسا ن کو حاصل ہو تا ہے وہ اسے اور کسی ذریعہ سے حا صل نہیں ہو سکتا۔ قر آن کر یم میں اللّٰہ تعالٰی نے ان وجودوں کو ایک دوسرے کے لئے مودت اور رحمت کا موجب قرار دیا ہے۔ اسی طر ح با ئیبل میں آ تا ہیاللہ تعالیٰنے آ دم کے لئے حوّا پیدا کی تا کہ وہ آ دم کے لئے آ رام اور سکون کاموجب ہو۔ یعنی حوّا کے بغیر آ دم کے لئے تسکین اور آ رام کی صورت اور کوئی نہ تھی۔ لیکن یہی دو وجود جو ایک دوسرے کے لئے تسکین اور را حت کا مو جب ہیں کبھی کبھی انہیں لڑا ئی اور جھگڑے کا مو جب بنا لیا جا تا ہے اور راحت اور سکون کی بجا ئے انسا ن کے لئے اس کا مد مقا بل یعنی خا وند کے لئے بیوی اور بیوی کے لئے خا وند دنیا میں سب سے زیا دہ تکلیف دینے کامو جب بن جا تا ہے۔ ہزاروں خا دند ایسے ہیں جو اپنی بیویوں کے لئے بد تر ین عزاب ہو تے ہیں ۔ اور ہزاروں بیو یا ں ایسی ہیں جو اپنے خا وندوں کے لئے بد تر ین عزاب ہو تی ہیں۔ ایسے مواقع کے لئے اسلا م کا حکم ہے کہ مر د عورت کو طلاق دے دے یا عورت مرد سے خلع کر الے۔ لیکن طلا ق اور خلع سے پہلے اسلا م نے کچھ احکا م بیان کئے ہیں جن کو مدنظر رکھنا مر د اور عورت اور قا ضیوں کا فر ض قرا ر دیا گیا ہے تا کہ طلا ق یا خلع عا م نہ ہو جا ئے۔ رسول کر یمﷺ فر ماتے ہیں:۔ اِنَّ اَبْعَضَ الْحَلَالِ عِنْدَاللّٰہِ الطَّلَاقُ یعنی حلال چیزوں میں سے سب سے زیا دہ نا پسند یدہ چیز خدا تعا لٰے کے نزدیک طلاق ہے۔ جب طلاق حلال چیزوں میں سے سب سے زیا دہ نا پسندیدہ ہے تو ایک مو من جس کے دل میںاللہ تعالیٰکی محبت ہے وہ اس چیز کے کس طرح قریب جا سکتا ہے جس کے متعلق وہ سمجھتا ہو کہ یہ اللّّٰہ تعا لٰی کو سخت نا پسند ہے، ہر کا م جو جا ئز ہے ضروری نہیں کہ اسے کیا بھی جا ئے۔ ہر شخص جا نتا ہے کہ بنا رس۔ کلکتہ مداس یا بمبئی وغیرہ جانا حلال ہے لیکن کتنے ہیں جو ان جگہوںمیں گئے ہیں اگر حلال کے ہی معنے ہیں کہ اسے ضرور کیا جا ئے ۔ توپھر تو یہ ہو نا چا ہیے تھا کہ جن لو گوں کے پا س ان شہروں میں جا نے کے لئے روپیہ نہ تھا۔ وہ اپنی جا ئیدادیں بیچ ڈالتے اور اس حلال کا م کوضرور سر انجا م دیتے۔ لیکن لو گوں کا اس پر عمل نہ کر نا بتاتا ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کو جو با ت حلال ہے ضروری نہیں کہ اس پر عمل بھی کیا جا ئے۔ بلکہ منا سب مو قعہ اور محل کا خیا ل رکھنابھی ضروری ہوتا ہے اگر ایک حلال کام کے کر نے سے نا پسند یدگی کے ساما ن پیدا ہو تے ہوں۔ تو اس کا م سے بہر حال اجتناب کیا جا ئیگا۔ مثلاً پیاز کھانا حلا ل ہے لیکن مسجد میں پیاز کھا کر جانا منع ہے۔ اسی طرح انسا ن کے لئے یہ حلال ہے کہ وہ سبز رنگ کا کپڑا پہنے یا لُودے رنگ کا کپڑا پہنے یا زرد رنگ کا کپڑا پہنے۔ لیکن اگر کسی کا دوست کہے کہ یہ زرد رنگ کا کپٹراخر ید لو۔ تو وہ کہتا ہے مجھے زرد رنگ اچھا نہیں لگتا۔ کیونکہ اس کے نزدیک حلال وہ چیز ہے جو اس کی پسند کے مطا بق ہو اور اس کی طبیعت کو اچھی لگتی ہو۔کھا نے کے متعلقاللہ تعالیٰکا حکم ہے کہ حلال اور طیّب چیزیں کھاؤ۔ لیکن بعض لو گ بیگن نہیں کھا تے بعض لو گ کدو کوپسند نہیں کر تے۔ اگر ان سے پو چھا جا ئے کہ آ پ بینگن کیو ں نہیں کھا تے تو وہ کہتے ہیں ہمیں پسند نہیں یا دوسرے شخص سے پو چھا جا ئے کہ آ پ کدو کیوں نہیں کھا تے تو وہ کہتا ہے کہ میر ی بیوی اس کو نا پسند کرتی ہے۔ اسی طرح جو لو گ مکا ن تیا ر کر تے ہیں وہ اپنے مزاج اور طبیعت کے مطا بق مکا ن بنا تے ہیں۔ کو ئی ایک منزلہ مکا ن بناتا ہے۔ کو ئی دو منزلہ اور کو ئی سہ منز لہ۔ کو ئی مکا ن میں با غیچہ لگا نا پسند کر تا ہے اور کو ئی بغیر با غیچہ کے رہنے دیتا ہے۔ اب یہ سا ری چیزیں حلال ہو تی ہیں۔ لیکن وہ سب پر عمل نہیں کر تا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ ہر حلال با ت پر عمل کر نا ضروری نہیں ۔ لیکن جب بیوی کو طلاق دینے کا معا ملہ پیش آ جا ئے تو یہ کہتے ہو ئے کہ بیوی کو طلاق دینا جا ئز ہے فوراً بے سوچے سمجھے اسے طلا ق دے دی جا تی ہے۔ حا لا نکہ بعض حلال چیزیں انسا ن اپنے نفس کی خا طر بعض اپنے دوستوں کی خا طر اور بعض سو سا ئٹی کی خا طر ہمیشہ چھو ڑتا رہتا ہے درحقیقت ایسے مو قعہ پر ایک مو من کی حا لت یہ ہو تی ہے کہ وہ اس حلال کو خداتعالٰی کی خا طر چھو ڑ دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ چو نکہ یہ کا م میرے خدا کو پسند نہیں اس لئے میں یہ کا م نہیں کر تا تا میرا خدا مجھ پر نا راض نہ ہو۔ پس رُ شد و ہدا یت یہ نہیں کہ طلاق کو عا م کیا جا ئے۔ بلکہ ر‘شد و ہدا یت یہ ہے کہ طلاق سے بچنے کی کوشش کی جا ئے۔ حلال کے معنے یہ ہیں کہ چا ہو تو کرسکتے ہو۔ یہ قانو ن کے لحا ظ سے منع نہیںلیکن تمہیں دوسروں کے خیا لات دوسروں کے خیا لات۔ دوسروں کے جزبات۔ دوسروں کی ہمدردی اور دوسروں کے پیارکو بھی ملحوظ رکھنا چائیے جس حلال پر عمل کرنے سے دوسروںکے خیالات۔ دوسروںکے جذبات۔ دوسروںکی ہمدردی اور دوسروں کے پیار کاخو ن ہوتا ہو۔ وہ حلال نہیں بلکہ ایسا حلال ایک جہت سے حلال ہے اور دوسری جہت سے حرام ہے ۔ جب لوگ اپنے دوستوں کی نا راضگی اور قوم کی نا را ضگی کا خیال رکھتے ہیں تو کیا خدا تعا لٰٰی کی نا را ضگی ہی ایسی چیز ہے جس سے انسا ن کو بے پرواہ ہر جانا چا ہیے۔ کیا خدا تعا لٰٰی کا وجود ہی ایسا کمزور ہے کہ جس کی نا راضگی انسا ن کے لئے قا بل اعتبار نہیں۔ جب دنیوی اور سفلی عشق رکھنے والے لوگ اپنے محبوب کی چھو ٹی سے چھو ٹی خفگی سے بھی ڈرتے ہیں۔ اور اس کو نا راض ہو نے کا موقعہ نہیں دیتے۔ تو ایک مومن رسول کر یمﷺ کی یہ حد یث پڑھ کر یا سن کر کہ اِنَّ اَبْغَضَ الْحَلَالِ عِنْدَاللّٰہِ الطَّلَاقُ کس طرح آ سا نی سے یہ جرأت کر سکتا ہے کہ اس کی خلاف ورزی کر ے۔ جب شریعت کہتی ہے کہ تم اس اَبْغَضُ الْحَلَال کو اخیتار کرنے سے پر ہیز کرو تو ہر مومن کا فرض ہے کہ وہ ایسے امور میںکمی پیدا کرنے کی کو شش کرے۔ اور اس با ت کو میا ں بیوی کے تعلقات کی کشیدگی کے وقت بھول نہ جا ئے۔
یہ با ت بھی یا د رکھنی چا ہیے کہ طلاق اور خلع درحقیقت ایک ہی معنے رکھتے ہیں۔ اگر مرد عورت کو چھو ڑتا ہے تو وہ طلاق ہو جا ئیگی اور اگر عورت میاں سے یہ مطا لبہ کرے کہ وہ اسے آ زاد کر دے تہ وہ خلع کہاجائیگا اور خلع بھی اَبْغَضُ الْحَلَال کے ما تحت ہی آئیگا۔ جہا ں تک نسوا نی حقوق کا سوا ل ہے۔ خلع کا مسئلہ مسلما ن بالکل بھو ل چکے تھے۔ جس کی وجہ سے عورتوں کے لئے ازحد مشکلات کا سا منا تھا۔ احمدیت نے ان کے اس حق کو قا یم کیا اور عورتوں کو ان تکا لیف سے نجا ت دی جو ان حقوق کی عدم موجودگی کی وجہ سے ان کو پہنچی تھیں۔ لیکن سا تھ ہی اس حدیث کے مضمون کو بھی لو گو ں کے سامنے بو ضاحت بیا ن کیا کہ ان دونوں رستوں کو اخیتار کر نااللہ تعالیٰ کے نزدیک اَبْغَضُ الْحَلَال ہے ۔ قر آ ن کریم کا حکم ہے کہ جب میا ں بیوی میں کو ئی جھگڑا پیدا ہو جا ئے تو اس کو دُور کر نے کے لئے حکم مقرر کئے جا ہیں۔ جو کو شش کر یںکہ ان کی رنجش دور ہو جا ئے اور وہ پہلے کی طرح پیار اور محبت کی زندگی بسر کرنے لگیں۔ لیکن اگر ایسے ہی حا لات پیدا ہو جا ئیں کہ صلح کی کو ئی صورت نہ ہو سکے تو بھی خلع کی صورت میں قا ضی کے سپرد یہ معا ملہ کیا جا ئے اور وہ اس کا فیصلہ کر ے۔ بہر حال یہ امر اچھی طرح یا د کھنا چا ہیے کہ زرا زرا سے بات پر خلع اور طلاق تک نوبت پہنچا دینا نہایت افسوس ناک امر ہے اور یہ اتنا بھیانک اور نا پسندیدہ طر یق ہے کہ ہر شریف آ دمی کو اس سے نفرت ہو نی چا ہیے۔
فَاِنْ طَلَّقَھَا


یَعْلَمُوْنَo
۱۴۲؎ تفسیر:۔ پہلے فَاِ مْسَا ک’‘ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْع’‘ م بِاِحْسَانٍ میں دو صورتیں بیا ن کی تھیں۔ اب طلاق وا لی صورت کو علیٰحدہ بیان کر تا ہے۔ اور فر ما تا ہے کہ اگر تیسری طلاق بھی وا قع ہو جائے تو اس صورت میں وہ عورت اس مرد کے لئے جا ئز نہیں ہو گی ہا ں اگر وہ عورت کسی دوسرے مرد سے شادی کرے اور پھر دوسرا بھی اسے طلاق دیدے یا فوت ہو جا ئے اور پھر وہ پہلا شحص اور یہ عورت یقین رکھتے ہوں کہ وہ حدود اللّٰہ کو قا ئم رکھ سکیں گے تو پھر ان دونوں کا آپس مین نکاح ہو سکتا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ سے روا یت ہے کہ طَلَّقَ رَجُل’‘ اِمْرَأتَہ‘ ثَلاََا ثًا ۔فَتَزَ وَّجْھَا رَجُل’‘ ثُمَّ طَلَّقَھَا قَبْلَ اَنْ یَّدْ خُلَ عَلَیْھَا فَاَ رَادَ زَوْجُھَا الْا وَّلُ اَنْ یَتَزَوَّجَھَا فَسُئِلَ رُسوْلُ اللّٰہِﷺ عَنْ ذْلِکَ فَقَالَ لَا حَتّٰی یَزُوْقَ اْلاَخَرُمِنْ عُسَیْلَتَھَا مَا ذَاقَ اْلاَوَّلُ(مسلم کتا ب الطلاق) یعنی ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں اور پھر اس کے بیوی نے ایک اور شخص سے نکا ح کر لیا۔ مگر اس نے بھی شا دی سے قبل اسے طلاق دے دی۔ اس پر اس کے پہلے خاوند نے چا ہا کہ وہ دوبارہ اس عورت سے نکا ح کر لے اور اسکے متعلق رسول کریمﷺ سے سوا ل کیا گیا کہ کیا وہ اس عورت سے نکا ح کر سکتا ہے۔ آ پ نے فر ما یا نہیں۔ جب تک دوسرا خا وند اس سے صحبت نہ کر ے۔ اور پھر کسی وجہ سے اسے طلا ق نہ دیدے وہ پہلے کیلئے جا ئز نہیں ہو سکتی۔ غرض دوسرے خا وند کا ہم صحبت ہونا شرط ہے اسکے بغیر وہ پہلے خاوند کے عقد میں نہیں آ سکتی۔ مسلما نو ں نے اپنے تنزل کے دور میں جہا ں اور بہت سی خلا فِ اسلام رسوم اپنے اندر دا خل کر لے تھیں وہا ں انہوں نے حلالہ جیسی گندی رسم بھی اپنے اندر جا ری کر لی۔ یعنی انہوں نے طلاق بتہ کے بعد عورت کو اپنے پہلے خا وند کے نکا ح میں لانے کا یہ نرا لا ڈھنگ نکا لا کہ مطلقہ عورت سے کسی غیر شخص کا صرف ایک رات کیلئے نکا ح کر دیا جاتا اور وہ اس سے ہم صحبت ہو تا اور صبح اٹھ کر وہ اس عورت کو طلاق دیدیتا تا کہ وہ اپنے پہلے خا وند سے دوبارہ نکا ح کر سکے۔ گو یا اس نکاح کا ڈھونگ صرف اس لئے رچایا جا تا کہ پہلے خا وند سے اس کا نکا ح کیا جا سکے۔ مگر اسلا م اس طریق کو نا جائز قرار دیتا ہے اور حلالہ کرنے اور کر وانے وا لوں پر *** ڈالتا ہے۔ چنا نچہ احا دیث میں آ تا ہے کہ رسول کریمﷺ نے فر ما یا لَعَنَ اللّٰہُ الْمُحَلِّلَ وَا لْمُحَلِّلَ لَہ‘(تر مزی با ب فی المحلل وا المحلل لہٰ) یعنی اللہ تعالیٰحلا لہ کر نیوا لے پر بھی اور جس کیلئے حلا لہ کیا گیا ہو اس پر بھی *** ڈا لتا ہے پس حلا لہ کی اسلا م میں کوئی جگہ نہیں اسلا می قا نون یہی ہے کہ تین طلا ق کے بعد عورت کسی اور مرد با قاعدہ شا دی کر ے اور اپنی زندگی اسکے گھر میں گزارے پھر اگر کسی وجہ سے وہ بھی طلا ق دیدے یا وفات پا جا ئے تو عورت اپنے پہلے خا وند سے نئے مہر اور ولی کی رضا مندی سے دوبارہ نکا ح کرسکتی ہے۔ اسکے بغیر نہیں۔
وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ




شَیْ ئٍ عَلِیْم’‘o
۱۴۳؎ حل لغات:۔ھُزُ وًا مصدر ہے اور اس کئے معنے ہنسی کر نے کے ہیں۔ اس آیت میں یا تو مصدر بمعنے مفعول ہے یعنی جس سے ہنسی کی جا ئے۔ یا مصدر منا لغہ کیلئے ہے کیو نکہ بعض اوقات مصدر مبا لغہ کے معنوں میں بھی استعما ل ہو تا ہے۔ یا حزف مضا ف ہے۔ یعنی ہنسی کا مقام۔
تفسیر:۔ اس آ یت میں طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ سے مراد طلاق رجعی ہے اور بَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ کے دو معنے ہیں۔ اول میعاد کے ختم ہو نے کے قریب پہنچ جا نا (۲) مدت کا ختم ہو جا نا ۔ اسجگہ پہلے معنے مراد ہیں اور مطب یہ ہے کہ جب دوسری طلا ق کے بعد عدت ختم ہو نے لگے تو تمہیں رجوع کا اخیتار ہے ۔فَاَمْسِکُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ سَرِّ حُوْ ھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ میں دوبا رہ اس مسئلہ پر زور دیا کہ عورتوں سے دو ہی قسم کے سلوک کر نیکا حکم ہے۔ یا تو انہیں مناسب رنگ میں اپنے پا س رکھ لو۔ یا منا سب رنگ میں رخصت کر دو۔ یہ نہ ہو کہ تم اس نیت کے ساتھ رجو ع کر و کہ بعد میں پھر اسے دکھ دینے کا ایک مو قعہ تمہا رے ہا تھ آ جا ئیگا۔ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلَک فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہ‘ اور جو شخص عورت کو دکھ دینے کیلئے ایسا کر یگا وہ بظاہر تو اپنی بیوی کو دکھ دے رہا ہو گا لیکن درحقیقت اپنی جا ن پر ظلم کر رہا ہو گا۔ اس لحا ظ سے بھی کہ وہ عورت پر ظلم کرکے اپنی شقا وت ملبی کا ثبوت لو گو ں کے لئے مہیا کر یگا۔
وَاذْکُرُو انِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَمَا اَنْزَلَ عَلَیْکُم ْمِّنَ الْکِتٰبِ وَاْ لحِکْمَۃِ۔ فر ما یا دوسری قوموں کو تو یہ تعلیم نصیب ہی نہیں ہو ئی۔ تمہیں یہ پا ک تعلیم دہ گئی ہے جس کی با ت حکمت پرمبنی ہے۔ تمہا را فرض ہے کہ تم اس پر عمل کر و۔ اوراللہ تعالیٰکا شکر بجا لاؤ۔ کہ اس نے دوسری قوموں کی طرح تمہیں ٹھوکریں کھا نے سے بچا لیا ہے ۔ اگر تم نے اس بابرکت تعلیم سے فا ئدہ نہ اٹھا یا اور تم بھی اپنی نفسا نی خو اہشا ت کے پیچھے پڑ گئے تو تم سے زیا دہ بد قسمت اور کو ن ہو گا۔ تمہیں چا ہیے کہ تم ان احکا م اور ہدا یات پر عمل کر و اور وہ طریق اخیتار نہ کرو جو تقویٰ کے خلا ف ہو۔
وَاِذَ اطَلَّقْتُمُ


لَا تَعْلَمُوْنَo
۱۴۴؎ حل لغات:۔ تُعْضُلُوْ ھُنّ:۔ عَضَلَ عَلَیْہِ عَضْلاً کے معنے ہیں۔ ضَیَّقَ عَلَیْہِ وَجَبَسَہ‘ وَمَنَتَہ‘۔(اقرب) یعنی کسی پر نا وا جب تنگی ڈالنا۔ اس کو روکے رکھنا اور اسے دوسرے کا موں سے منع کر دینا۔ ان معنوں کے لحا ظ سے لَا تَعْضُلُوْ ھُنَّ کا تر جمہ یہ ہو گا۔ کہ ان کو بنگ مت کر و۔ یا بند نہ کر و۔ یا روکو نہیں۔
اَزْکیٰ کے معنے اَنْفَعُ کے بھی ہیں اور (۲) زیا دہ پا کیزہ کے بھی ہیں۔
تفسیر:۔ اس آ یت میں بَلَغْ کے وہ معنے نہیں جو پہلے بیا ن ہو ئے ہیں بلکہ اس جگہ میعا د کے ختم ہو نے کے معنے ہیں۔ اور اَجَل سے حر یت وا لی مدت مرا د ہے۔ کہ جب وہ عدت پوری کر لیں اور آ زادی کے زما نہ میں آ جا ہیں فَلَا تَعْضُلُوْ ھُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَاجھُنَّ میں ازوا ج کے متعلق اختلا ف ہوا ہے۔(۱) بعض کہتے ہیں کہ اس سے پہلا خا وند مراد ہے اور مطلب یہ ہے کہ اس سے صلح کر لے۔ اس مفہوم کو مد نظر رکھتے ہو ئے طَلَّقْتُمْ سے مراد طلاق رجعی ہو گی تین طلا قیں مراد نہ ہو نگی۔(۲) بعض کہتے ہیں کہ خاوند سے مرا د آئندہ ہو نے والا خا وند ہے، اس صورت میں طَلَقْتُمْ سے مراد طلاق با ئن ہو گی۔ وہ کہتے ہیں کہ چو نکہ پہلے با ئن طلاق کاذکر ہو چکا ہے اس لئے اب یہاں خا وند سے مراد نیا خا وند ہے۔ پہلا خا وند نہیں۔ مگر میرے نزدیک دونوں معنے ہو سکتے ہیں۔ کیو نکہ دنیا میں دونوں قسم کے لو گ پا ئے جاتے ہیں۔ بعض لو گ تو ایسے ہو تے ہیں کہ اگر کسی جھگڑے کے بعد ان کے خا ندان کی مستورات دوبارہ اپنے پہلے خا وندوں کے گھروں میں بسنا چا ہیں تو وہ روک بن کر کھڑے ہو جا تے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ اب اس مرد سے تعلق قائم رکھنا ہما ری غیرت کے خلا ف ہے یا کہتے ہیں کہ آ گے ہی بہت بد نا می ہو چکی ہے۔ اب کب تک طلا قیں ہو تی چلی جا ئیں گی۔اللہ تعالیٰنے انہیں نصحیت فر ما ئی ہے کہ ایسے مرد اور ایسی عورتیں جب آ پس میں دوبارہ نکا ح پر را ضی ہو جا ئیں تو عورتوں کے رشتہ دار انہیں بد نامی وغیرہ کے خیا ل سے یا خا وند کے پچھلے اعمال پر نا را ضگی کے سبب سے اپنے سا بق خاوندوں سے نکا ح کر نے سے روکیں نہیں۔
اس کے مقا بل میں بعض لو گ اپنی بیویوں کو طلا ق دیکر بھی ان کا پیچھا نہیں چھو ڑتے۔ اور اگر وہ کسی اور جگہ نکا ح کر نا چا ہیں تو اس میں سو سو روڑے اٹکا نے کی کو شش کر تے ہیں۔ اور عورت کی بر ائیا ں دوسروں کے سا منے بیا ن کر تے ہیں تا کہ وہ بھی
لَا تُضَآ رَّ



تَعْمَلُوْنَ بَصِیْر’‘o
متنضر ہو جا ہئیں اور عورت کے نکا ح میں روک وا قع ہو جا ئے۔ رؤساء با لعموم ایسا ہی کیا کر تے ہیں۔ وہ طلاق بھی دے دیتے ہیں اور عورتوں کو اور جگہ نکا ح بھی نہیں کر نے دیتے۔ پس فلَاَ تَعْضُلُوْھُنَّ سے یہ بھی مرا د ہے کہ دوسرے نکا ح کے متعلق عورتوں کے راستہ میں روکیں مت ڈالو۔ اور یہ بھی کہ اگر طلا ق رجعی کی عدت ختم ہو جا نے کے بعد عورت اپنے پہلے خا وند سے نکا ح کے زریعے پھر تعلق قا ئم کر نا چا ہے۔ تو اس کے رشتہ داروں کو روک نہیں بننا چا ہیے۔ مگر لَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ سے یہ مراد نہیںکہ وہ عورت خو د بخود جس سے چا ہے بغیر ولی کی وسا طت کے نکاح کر لے۔ ولی کا ہو نا بہر حال ضروری ہے، اور اگر ولی نہ ما نیں توحکومت کی معرفت نکا ح کر لے۔
اسجگہ سوا ل پیدا ہو تا ہے کہ کیا عورت کے ولی کسی حد تک بھی عورت کو روک سکتے ہیں۔ یا کسی مر حلہ پر بھی انہیں یہ حق حا صل نہیں۔ اسکے متعلق اما م مالکؒ اور امام شا فعیؒ کہتے ہیں کہ ایک دو مو قعو ں تک تو اویسا ء روک ڈال سکتے ہیں لیکن اگر وہ انکار ہی کر تے چلے جا ئیں اور کسی سے بھی اس کی شا دی نہ ہو نے دیں تو یہ انکے لئے جا ئز نہیں ہو گا ۔ گو یا ایک دو خوا ہشمندوں سے روکنا تو احتیاط میں شا مل سمجھا جائیگا۔ لیکن ان کو اتنا وسیع اخیتار نہیں ہو گا کہ جہا ں اور جب بھی وہ عورت نکا ح کر نا چاہے اسے روک دیں۔ (۲) بعض کہتے ہیں کہ اگر بڑا ولی اجا زت نہ دے تو دوسرے ولی کے ذریعے وہ اپنا نکا ح کرا سکتی ہے۔(۳) بعض کہتے ہیں کہ بلا جا ئز ولیوں یا سلطان کے نکاح جا ئز نہیں اور یہی درست ہے۔ ہا ں اگر ولی کسی صورت میں بھی رضا مند نہ ہوں تو وہ حاکم وقت اور قا ضی کے زریعہ کسی دوسری جگہ جہا ں وہ اجا زت دے نکا ح کرا سکتی ہے یا قا ضی کی معرفت اولیاء پر دباؤ ڈال سکتی ہے کہ وہ روکیں نہ ڈالیں۔
ذٰلِکُمْ اَزْکیٰ لَکُمْ وَاَطْھَرُ میں بتا یا کہ یہ قا نو ن تمہا رے لئے دینی اور دنیوی دونوں لحاظ سے بڑا مفید اور با بر کت ہے۔ یعنی تمدنی نقطہ نگا ہ سے بھی اس قانو ں کی متا بعت تمہا رے اندر پا کیزگی کی روح پیدا کر نے والا ہے۔
۱۴۵؎ حل لغا ت:۔ تَسْتَرْ ضِعُوْا: اِسْتَرْ ضَعَ کے معنے ہیں طلب مُرْ ضِعَۃً اُس نے دودھ پلا نے والی عورت کو طلب کیا۔اور اِسْتَرْ ضَعَ وَالِدُہ‘ کے معنے ہیں وا لد نے اپنے بچہ کو کسی اور سے دودھ پلوا لیا۔ اور اِسْتَرْ ضَعَتِ الْمَرْأَۃُ الطِّفْلَ کے معنے ہیں اِتَّخَذَتْ مُرْ ضِیِِعَۃً لَھَا۔ اس نے دودھ پلا نے کیلئے دایہ کو رکھ لیا۔
تفسیر:۔ چو نکہ حَوْ لَیْنِ کَا مِلَیْنِ سے یہ دھو کا لگ سکتا تھا کہ دو سال تک رضاعت ضروری ہے اس لئے لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَا عَۃَ فر ما کر بتا دیا کہ اس سے کم مدّت بھی ہو سکتی ہے۔لیکن اس میں دو سا ل سے زیا دوہ کی نفی بھی کر دی گئی ہے کیو نکہ کاملین کا لفظ بتا تا ہے کہ دو سال سے زیا دہ دودھ پلا نا جا ئز نہیں۔
وَعَلَی الْمَوْ لُوْ دِلَہ‘ رِزْقُھُنَّ وَکِسْوَ تُھُنَّ بِا لْمَعْرَوْفِ میں کھا نے اور کپڑے سے مرا د تما م اخرا جا ت ہیں نہ کہ صرف روٹی اور لباس۔ اور معروف سے مراد با پ کی مقدرت ہے کہ امیر اپنی طا قت کے مطا بق دے اور غریب اپنی طا قت کے مطا بق۔اسجگہ عا م دودھ پلا نے وا لی عورتوں کا ذکر نہیں بلکہ ماؤں کا ذکر ہے۔ اور یہ ذکر طلاق کے ضمن میں کیا گیا ہے۔ اگر دودھ پلانے والی عورت کو طلا ق دے جا ئے تو بچہ کی خا طر عورت کے لئے یہ ضروری ہے کہ بچے کو دودھ مقررہ مدت تک پلا ئے اور اس کے بدلہ میں خا وند پر فرض ہے کہ عا م مزدور عورت کی طرح نہیں بلکہ اپنی تو فیق کے مطا بق اسے خرچ دے کیو نکہ یہ امر عورت کے جزبا ت کو ٹھیس پہنچانے والا ہو گا کہ ایک طرف تو اسے مجبور کیا جا ئے کہ وہ طلا ق دے بعد بھی بچہ کو دودھ پلا تی رہے۔ اور دوسری طرف اسے ایسی حا لت میں رکھا جا ئے جو پہلی حا لت سے ادنی ہو اور اس کے لئے زلت کا مو جب ہو۔ مگر اس کے سا تھ ہی لَا تُکَلََََّفُ نَفْس’‘ اِلَّا وُسْعَھَاکہ کر اس طرف اشا رہ فر مادیا کہ مر د سے یہ مطا لبہ کر نا کہ وہ اپنی طا قت سے زیا دہ خرچ کر ے۔ یہ بھی نا منا سب ہے اور عورت سے یہ مطا لبہ کر نا کہ وہ ایک نو کر کی طرح طلا ق کے بعد ایک عرصہ گھر میں گزار دے۔ یہ بھی نا منا سب ہے۔
لَا تُضَآ رَّ وَا لِدَۃَّ م بِوَ لَدِ ھَا کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ ما ں اپنے بچہ کی وجہ سے با پ کو ضرر نہ دے اور یہ بھی کہ ما ں اپنے بچے کی وجہ سے ضرر نہ دی جا ئے اس آ یت میں مر د اور عورت دونو ںکو یہ نصحیت کی گئی ہے کہ بچہ کو ایک دوسرے پا دباؤ ڈا لنے کا ذریعہ نہ بنا ؤ بہت سے نا دا ن اس حرکت کے مر تکب ہو تے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ یا تو بچے ہلا ک ہو جا تے ہیں یا انکی تر بیت خراب ہو تی ہے۔ اس قسم کا فعل درحقیت قتلِ اولاد کے مشا بہ ہے۔ اور قرآ ن کر یم نے اس سے روک کر آ ئندہ اولا دوں پر احسان عظیم کیا ہے۔
وَعَلَی لْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِکَ کا عطف وَعَلَی الْمَوْ لُوْ دِ لَّہ‘ رِزْقُھُنَّ وَ کِسْوَ تُھُنَّ بِا لْمَعْرُوْفِ پر ہے ۔ اس میںاللہ تعالیٰنے ایک عجیب حق قا ئم کیا ہے جو تمدن کی صورت ہی بدل دیتا ہے۔ اور حکم دیا ہے کہ اگر با پ مر جا ئے تو با پ کے جو ورثاء ہو ں ۔ ان پر بچہ کو دودھ پلا نے وا لی عورت کا خرچ ہو گا۔ گو یا ورثہ کے سا تھ بو جھ بٹا نے کا کا م بھی ان کے سپرد کر دیا۔ خواہ انہیں ترکہ ملا ہو یا نہیں ملا ہو۔ تھوڑا ہو یا بہت۔چنا نچہ فر ما یا وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِکَ۔ وارث پر بھی ویسا ہی حق ہے جیسا کہ با پ پر یعنی با پ کا وارث خوا ہ لڑکا ہو خواہ کو ئی قریبی رشتہ دار اس پر یہ خرچ وا جب ہو گا۔ یعنی اس کی پر ورش کر نا احسا ن کے طور پر نہیں ہو گا۔۔ بلکہ ایک حق کے طور پر ہو گا جواللہ تعالیٰکی طرف سے اس پر وا جب کیا گیا ہے ۔ اور یہ بھی مطلب ہے کہ اس بچہ کے حصہ میں سے خر چ دیا جا سکتا ہے۔ بہر حال اس آ یت میںاللہ تعالیٰنے تمدن کی ایک نئی بنیا د رکھی ہے۔ کہ کمزور بچوں کی تربیت بطورحق ورثاء پر ڈال دی ہے۔یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جب دودھ پلا یا جا چکے تو پھر وہ بچوںکو لا وارث چھو ڑ دیں بلکہ اس حق کو بلو غث تک ممتد کر نا پڑے گا اور ان کا فرض ہو گا کہ وہ بچہ کے کھا نے اور لبا س کے اخراجا ت کے علا وہ اس کے تعلیمی اخرا جات بھی با لغ ہو نے تک پورے کر یں اور اس کی اعلیٰ درجہ کی تر بیت مد نظر رکھیں تا کہ وہ قوم کا ایک مفید وجود بن سکے۔ بعض لو گ کہتے ہیں کہ یہ خرچ نسبتی طور پر تما م ورثاء پر پڑے گا۔ اور بعض کہتے ہیں کہ صرف سب سے بڑھ کر حق وارثت رکھنے والا شخص اسکا ذمہ دار ہو گا۔ خواہ اسے ترکہ میں سے کچھ ملا ہو یا نہ ملا ہو۔
فَاِ نْ اَرَادَافِصَالاً عَنْ تَرَا ضٍ رمِّنْھُمَا وَ تَشَاوُرٍ فَلَا جُنَا حَ عَلَیْھِمَا سے معلوم ہو تا ہے کہ بچے کے متعلق دودھ پلا نے یا چھڑانے کا فیصلہ قر آ ن کر یم نے نہ مر د کے اخیتا ر میں رکھا ہے نہ عورت کے اختیار میں بلکہ دونوں کومشترکہ اختیار دیا ہے ۔ شا ید تما م شرا ئع کی تاریخ میں یہ منفرد مثا ل ہے کہ اس طرح اہلی معا ملا ت میںمیا ں بیوی کو ایک مقا م پر کھڑا کر کے برا بر کے اختیار دیئے گئے ہیں۔ ہا ں یہ شرط ضرور ہے کہ دودھ پلا نے کی جو مدت قرآن کر یم نے مقرر کی ہے اس سے زیا دہ دیر تک دودھ پلا نے پر نہ خا وند مجبور کر سکتا ہے نہ عورت زور دے سکتی ہے۔جب طلا ق کے بعد بھی عورت کے جذبات کا اسقدر خیال رکھنے پر خا وند کو مجبو ر کیا گیا ہے تو ظا ہر ہے کہ جو عورت نکا ح میں ہو ان امور میں اس کے جذبات کا خیال رکھنا اسلام کے نذدیک کس قدر ضروری ہو گا۔
وَاِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْ ضِعُوْٓا اَوْلَا دَکُمْ فَلَََاجُنَاحَ عَلَیْکُمْ اِذَ اسَلَّمْتُمْ مَّآ اٰتَیْتُمْ بٍا لْمَعْرُوْفِ میں بتا یا کہ بچوں کو دوسروں سے دودھ پلوا نا حقوق پدری کے خلا ف نہیں نہ حقوق ما دری کے خلا ف کہ اس کو گنا ہ سمجھو گنا ہ تب ہو گا اگر بلا اجرت دینے کے ظلماً کسی سے یہ کا م لو۔ کیو نکہ اس صورت میں تم نے دو گنا ہ کئے ایک تو دوسرے کا ما ل لینے کا اور ایک بچہ کے حقوق ادا نہ کر نے کا۔انہی معنوں سے لَا جُنَا حَ کے معنے حل ہو تے ہیں۔ اس سے معلوم ہو تا ہے کہ بچے کے حقوق بطور حق کے ہیں اور ان میں کمی کر نا مو جب گنا ہ ہو تا ہے۔
اِذَا سَلَّمْتُمْ مَآاٰتَیْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ کے متعلق سوا ل پیدا ہو تا ہے کہ یہ تو بظاہر ایک بے معنی فقرہ معلو م ہو تا ہے۔کیو نکہ اس کے لفظی معنے یہ بنتے ہیں کہ جب تم دے دو جوتم دے چکے ہو۔ حالا نکہ جو معا وضہ ایک دفعہ دے دیا گیا ہو اسکے دوبا رہ دینے کا سوا ل ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس مشکل کو دیکھتے ہو ئے بعض لو گ کہتے ہیں کہ اس سے ثا بت ہو تا ہے کہ مر ضعہ کی مذدوری پہلے دینی ضروری ہے مگر میرے نذ دیک اس سے مذدوری پہلے دینا ثا بت نہیں کیو نکہ سَلَّمَ کے معنے صرف سپر د کرنے کے ہی نہیں ہو تے بلکہ اس کے معنے را ضی ہو نے کہ بھی ہو تے ہیں۔ چنا نچہ عربی زبا ن میں سَلَّمَ بِہ کے معنے ہو تے ہیں رَضِیَ وہ اس سے را ضی ہو کیا۔ قر آ ن کر یم میںبھی یہ لفظ ان معنو ں میں استعمال ہوا ہے جیسا کہاللہ تعالیٰفر ماتا ہے فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُئو مِنُوْ نَ حتَیّٰ یُحَکِّمُوْ کَ فَیْھَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِٓیْ اَنْفُسِھِمْ حَرَ جًٍا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْاتَسْلِیْمًا( سو رۃ نسا ء آ یت ۶۶) یعنی تیرے رب کی قسم جب تک وہ ہر اس با ت میںجس کے متعلق انہیں جھگڑا ہو جا ئے وہ تجھے حکم نہ بنا ئیں اور پھر جو فیصلہ تو کر ے اس سے وہ اپنے نفوس میںکسی قسم کی تنگی محسوس نہ کر یں اور پورے طور پر را ضی نہ ہو جا ئیں اس وقت تک وہ ہر گز مو من نہیں ہو نگے، ان معنوں کو مد نظر رکھتے ہو ئے اِذَا سَلَّمْتُمْ کے یہ معنے ہو نگے کہ جب تم دودھ پلا نے وا لیوں کو منا سب حق دینے پر رضا مند ہو جا ؤ اور تمہا ری نیت یہ ہو کہ تم اتنی رقم بہر حا ل دے دو گے تو پھرکسی دوسری عورت سے دودھ پلوا نے میں کو ئی حرج نہیں ۔ گو یا ایتان
وَا لَّذِیْنَ



بالمعروف پر با ہم رضا مند ہو جا نے کے بعد اگر کسی اور سے دودھ پلوا لو تو کو ئی گنا ہ نہ ہو گا۔ ان معنوں کے لحا ظ سے اُجرت کا پہلے دینا ضروری نہیں ۔ مگر اجر ت کا پہلے مقرر ہر جانا بہر حال ضروری ہے۔لیکن اگر سَلَّمْتُمْ کے معنے سپر د کر نے کے بھی لئے جا ئیں تب بھی اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ پہلے اجر ت سپرد کرو تب دودھ پلوا نا جا ئز ہو گا بلکہ یہاں ایک قا عدہ بیا ن ہوا ہے، اور وہ یہ کہ اگر اجرت سپر د نہ کرو گے تو گنا ہ ہو گا گو یا اِذَاسَلَّمْتُمْ فلا جُنَا حَ عَلَیْکُمْ کے سا تھ ہے نہ کہ تَسْتَزْضِعُوْا کے سا تھ۔ مگر سَلَّمْتُمْ کے معنے حل کر نے کے بعد بھی یہ سوا ل قا ئم رہتا ہے کہ اس جگہ اٰتَیْتُمْ کا لفظ استعما ل کیا گیا ہے جس کے لفظی معنے ہیں ’’تم نے دے دیا ہے‘‘ یا ’’ تم دے چکے ہو‘‘۔ اس لحا ظ سے اس کے معنے یہ بنتے ہیں کہ جب تم اس حق پر رضا مند ہو جا ؤ جو تم دے چکے ہو۔ اور ظا ہر ہے کہ یہ ایک بے معنے فقرہ بن جا تا ہے۔ سویاد رکھنا چا ہیے کہ عر بی زبان میں کبھی ما ضی کا صیغہ قطعی فیصلہ پر دلا لت کر نے کے لئے بھی استعمال کیا جا تا ہے۔ جیسیاللہ تعالیٰفرماتا ہے ۔ اِذَا قُمْتُمْ اِلَیٰ الصَّلٰوۃِ فَا غْسِلُوْا وُجُوْ ھَکُمْ وَ اَیْدِ یَکُمْ اِلَی الْمَرَا فِق (سورہ مائدہ آ یت۷)
جب تم نما ز کے لئے کھڑے ہو تو اپنے مو نہوں کو اور اپنے پا تھو ں کو کہنیوں تک دھو لیا کرو۔ حا لا نکہ وُضو نما ز کے لئے کھڑے ہو نے سے پہلے کیا جاتا ہے۔ نہ کہ کھڑے ہو تے وقت۔ پس یہاں یہی مراد ہے کہ جب تم نما ز کا پختہ ارادہ کر لو تو پہلے وُ ضو کر لیا کر و۔ اور یہی اٰتَیْتُمْ کے معنے ہیں ۔ کہ جو کچھ تم اسے دینے کو پختہ فیصلہ کر چکے ہو۔ اگر اس کے یہ معنے نہ کئے جا ئیں تو آ یت کا یہ مطلب نکلتا ہے کہ پہلا روپیہ جو تم اسے دے چکے ہو وہ اسے پھر دے دو۔یعنی اگر پہلے سو روپیہ سے چکے تھے تو پھر اور سو روپیہ دیدو حا لانکہ اسے کوئی بھی تسلیم نہیں کر تا۔ درحقیقت اس کے یہی معنے ہیں کہ اگر تم اپنے بچوں کو کسی دوسری عورت سے دودھ پلوا نا چا ہو تو اس میں کو ئی حرج نہیں بشر طیکہ تم نے اسے جو کچھ دینے کا پختہ فیصلہ کیا ہے اس پر پورے طور پر قا ئم ہو جا ؤ اور اس میں کسی قسم کی حیل و حجت سے کا م نہ لو۔
اس آ یت میں یہ سبق دیا گیا ہے کہ حق الخد مت کے لئے ضروری ہو تا ہے کہ اس کے ادا کرنے کا انسا ن ایسا عہد کر ے کہ گو یا ادا کرہی دیا ہے اور با لمعروف کہ کر اس امر کی طرف تو جہ دلا ئی ہے کہ حق الخدمت ادا کر نے میں معروف کو مد نظر رکھنا ضروری ہو تا
تَعْمَلُوْنَ خَبِیْر’‘o
ہے ۔ یعنی معا وضہ ملک کی اقتصا دی حا لت کے مطا بق ادا کیا جا ئے۔ اس قدر کم نہ ہو کہ اسوقت کی اقتصا دی حا لت کے مطا بق اس سے دودھ پلا نے وا لی عورت کا گزارہ ہی نہ ہو سکے۔ اسی طر ح ما لمعروف میں اس امر کی طر ف اشارہ کیا گیا ہے کہ اگر تمہا ری مالی حالت عا م لو گو ں سے اچھی ہو تہ نہ صرف پہلی حد بندی کو مد نظر رکھو بلکہ اس سے زائد یہ امر بھی مدنظررکھو کہ ایسا حق الخدمت ادا کرو۔ جو تمہاری اپنی ما لی حالت کے مطا بق گزارہ کے لئے کا فی ہو۔ لیکن اگر ہو سکے تو اس سے زیا دہ دو اور صرف زما نہ کے حا لا ت کے مطا بق ہی نہ دو بلکہ اپنی ما لی حا لت کو مد نظر رکھتے ہو ئے ایسا معاوضہ دو جو تمہا رے حا لات کے مطا بق ہو۔
۱۴۶؎ حل لغات:۔ یَتَرَ بَّصْنَ میں منتدا محذوف ہے۔ یعنی حُکْمُ اَزْوَاجِھِمْ اَنْ یَّتَرَ بَّصْنَ اَوْ اَزْوَاجُھُمْ یَتَرَ بَّصْنَ یعنی حُکْمُ اَزْوَاجِھِمْ مبتدا ہے جو محذوف ہے اور اَنْ یَّتَرَ بَّصْنَ اُس کی خبر ہے۔
تفسیر:۔ اس آ یت سے استدلال کر تے ہو ئے بعض لو گ کہتے ہیں کہ اگر چا ر ماہ دس دن کی عدّت گذرنے کے بعد عورتیں اپنے مستقبل کے متعلق کو ئی قدم اٹھا ئیں۔ تو مردوں پر تو کو ئی گناہ نہ ہو گا لیکن عورتوں پر گنا ہ ہو گا کیو نکہ دوسری جگہاللہ تعالیٰفر ما تا ہے کہ مَتَا عاً اِلیَ الْحَوْلِ غَیْرَ اِخْرَاجٍ یعنی عورتوںکو اپنے گھروں سے ایک سال تک کوئی شخص نکا لنے کا مجا ذ نہیں۔ لیکن میر ے نذ دیک یہ با ت درست نہیں کہ ایسی صورت میں عورتوں پر گنا ہ ہے کیو نکہ اسی آ یت میں اس کے بعد باِ لْمَعْرُوْفِ کا لفظ آ یا ہے جس سے صا ف ثا بت ہے کہ اگر وہ نکا ح ثا نی کرلیں تو یہ صرف جا ئز ہی نہیں بلکہ ایک پسند یدہ اور قا بل ستا ئش فعل ہے۔ اگر گنا ہ ہو تا تو باِ لْمَعْرُوْف کا لفظ استعمال نہ کئے جاتے ۔ کیو نکہ معروف کے معنے را ئج الوقت قا نو ن یا فطرتی جذبہ یا عقلِ عا مہ کے مطا بق کسی کا م کے کر نے کے ہو تے ہیں۔ اور جو کا م قا نو ن کے مطا بق ہو یا فطر تی جذ بہ کے مطا بق ہر یا انسا نی عقل اس کا تقا ضا کر تی ہو اس کا م کو کو ئی دانا شخص بُرا قرار نہیں دے سکتا۔ در حقیقت یہ آ یت ان لوگو ں کے لئے زجر ہے جوہ بیوہ عورتوں کو نکا ح ثا نی سے روکتے ہیں فر ما تا ہے۔ اگر وہ نکا ح کر لیں تو کیا تم پر کو ئی گنا ہ ہے ۔ یعنی ہرگز کو ئی گناہ نہیں۔ پھر تم انہیں نکاح سے کیوں رو کتے ہو۔ وہ اپنے نغوس کے متعلق جو کچھ فیصلہ کر یں اس کا وہ حق رکھتی ہیں ۔ہا ں اس میں یہ اشا رہ ضرور پا یا جا تا ہے کہ اگر وہ کو ئی غیر معروف کا م کر یں اور احکام و الیاء انہیں یہ روکیں تو یہ گنا ہ ہو گا۔
بیوہ کے لئے چا ر ما ہ دس دن کی مدت مقرر کر نے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اگر عورت حا ملہ ہو تو اس عرصہ میں جنین میں حر کت پیدا ہو جا تی ہے اور اسے حمل کا یقینی طور پر علم ہوجا تا ہے۔ جس کے نتیجہ میں ضروری ہو ا ہے کہ وہ نکا ح کے لئے وضع حمل تک انتظار کرے۔
وَلَاجُنَا حَ




غَفُوْ ر’‘ حَلِیْم’‘o
۱۴۷؎ حل لغات:۔عَرَّ ضْتُمْ: عَرَّ ضْتُ لَہ‘ وَعَرَّ ضْتُ بِہ تَعْرِ یْضًا کے معنے ہیں اِذَا قُلْتَ قَوْلًا وَاَنْتَ تُعْنِیْہِ فَا لتَّعْرِیْضُ ضِدُّ التَّصْرِ یْحِ مِنَ الْقَوْلِ( اقرب) یعنی تعر یض ایسے کلا م کوکہتے ہیں جو تصریح کے مخا لف ہو۔ اور صرف اشارۃً ایسی بات کہی جائے جس کا اصل مفہوم کہنے والا ہی سمجھتا ہو۔
صا حب مفر دات لکھتے ہیں۔ اَلتَّعْرِیْضُ کَلَا م’‘ لَہ‘ وَ جْھَانِ مِنْ صِدْ قٍ وکِذْبٍ اَوْ ظَا ھِرٍ وَ بَا طِنٍ یعنی تعریض ایسے کلام کو کہتے ہیں جس کے صدق اور کزب یا ظا ہر اور با طن کے لحا ظ سے دو مفہوم سمجھے جا سکیں۔
تَعْزِ مُوْا: عَزَ مَ الْاَ مْرَ وَعَلَیْہِ کے معنے ہیں عَقَدَ الضَّمِیْرَ عَلَیْہِ۔کسی با ت کا پختہ ارادہ کر لیا۔
تفسیر:۔ فر ماتا ہے اس میں کو ئی حرج نہیں کہ تم ان عورتوں سے نکا ح کے سلسلہ میں کو ئی بات اشارۃٍ کہ دو۔ مثلا ً کسی بیوہ سے کہ دیا کہ مشورہ سے کام کر نا بہتر ہو گا۔آ پکواگر کو ئی ضرورت محسوس ہو تو میں ہمدردانہ مشورہ کے لئے حا ضر ہوں۔ اب لفظ مشورہ عا م ہے خوا ہ وہ اپنے لئے ہو یا کسی اور کے لئے۔ اس طرح با ت بھی مخفی رہتی ہے اور اشا رۃً اس کا اظہار بھی ہو جا تا ہے۔ اسی طر ح ارادہء نکا ح کو اپنے دل میں مخفی رکھنا بھی جائز ہے۔ تا وقت یکہ چا ر ما ہ اور دس دن کے میعا د نہ گزر جا ئے۔
لاَ تُوَاعِدُوْ ھُنَّ سِرًّ اِلَّا اَنْ تَقُوْلُوْاقَوْ لًا مَّعْرُ وْفًا میں عورتوں سے خفیہ معا ہدہ نکا ح کی کلی مما نعت کر تے ہو ئے
لَاجُنَاحَ عَلَیْکُمْ


الْمُحْسِنیْنَo
قو ل معروف کی اجا زت دی گئی ہے ۔ مگر قول معروف سے شادی کی درخوا ست مراد نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس پر یہ اثر ہو کہ یہ شخص میرا خیر خوا ہ ہے۔ اورمیں اس سے ضرورت پر مفید مشورہ لے سکتی ہوں۔ ورنہ یہ مطلب نہیں کہ اسے صا ف طور پر نکا ح کے لئے کہ دیاجا ئے ایسا کہنا پر گز جا ئز نہیں۔ چنا نچہ فر ما تا ہے۔ وَلَا تَعْزِمُوْاعُقْدَۃَ النِّکَاحِ تم دو نو ں مل کر اس امر کا فیصلہ نہ لو کہ عدت کے بعد ہم آپس میں نکا ح کر لیں گے۔ اس سے پہلے اَوْکْنَنْتُمْ فِٓیْ اَنْفُسِکُمْ تو مر دوں کو سمجھا یا کہ وہ شادی کے متعلق عورتوں کے سا منے پورا اظہا ر نہ کر یں۔ ہا ں اگر وہ دل میں نیت رکھیں تو اس میں کو ئی حر ج نہیں۔ مگر اسجگہ عورتوں کو بھی منع کر دیا ہے کہ اگر وہ مر دوں کی با ت کو سمجھ جا ئیں تو فوراً ہا ں نہ کر دیں۔ بلکہ وہ بھی خا مو ش رہیں اور اپنے ارادہء نکا ح کا ان کے سا منے اظہا ر نہ کر یں۔اللہ تعالیٰنے یہ ذکر اس لئے کیا ہے کہ عا م طور پرلو گ ایسے امور میں احتیاط سے کا م نہیں لیتے اور نفسا نی جو شوں سے دب جا تے ہیں۔اللّٰہ تعا لٰی فر ماتا ہے کہ عدت کے اندر تمہارا نکا ح کے متعلق آپس میں کو ئی فیصلہ کر لینا قطعی طور پر ناجائز ہے۔
اس کے بعد فر ما تا ہے وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا فِٓیْ اَنْفُسِکُمْ فَاحْذَرُوْہُ تمہا رے دلوں میں جو کچھ ہے۔ اسے خو ب جا نتا ہے۔ پس تم اس سے ڈرو۔ اور سمجھ لو کہ کسی اور کو پتہ ہریا نہ ہواللہ تعالیٰکو تو پتہ ہے اس لئے تم چو کس رہو اور احکام الہٰی کی خلا ف ورزی کر نے کی جرأ ت نہ کر و۔
یا یہ کہ لَاتَعْزِ مُوْاعُقْدَۃَ لنِّکّاحِ میں دوسرا حکم ہے اور وَاعْلَمُٓوْا اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا فِٓیْ اَنْفُسِکُمْ فَا حْذَ رُوْہُ میں لاَتُوَاعِرُوْھُنَّ سِوْاً کے حکم کے سلسلہ میں یہ بتا یا گیا ہے کہتم ان سے کو ئی مخفی معاہدہ نہ کر و۔ کیو نکہاللہ تعالیٰتمہا رے دل کی باتوں تک کو جا نتا ہے۔
وَاعْلَمُٓوْ ا اَنَّ اللّٰہ َغَفُوْر’‘ حَلِیْم’‘ کا یہ مطلب نہیں کہ اگر ان احکا م کی خلا ف ورزی ہو جا ئے تو تماللہ تعالیٰکو غَفُوْر حَلِیْم’‘ پا ؤ گے۔ بلکہ اس میں لَاتَعْزِمُوْاعُقْدَۃَ النِّکَا حِ کی حکمت بتا ئی ہے۔ کہ چو نکہاللہ تعالیٰپردہ پو ش ہے اور وہ انسان کی کمزوری سے وا قف ہے۔ اس لئے اس نے صرف چا ر ما ہ دس دن کی عدت مقرر کی ہے۔ زیا دہ سخت احکا م اس نے نہیں دئیے۔ اور حلیم کہ کر بتا یا کہاللہ تعالیٰدانا ہے۔وہ جا نتا ہے کہ اس غرض کے لئے کس قدر انتظار کر نا ضر وری ہے۔ اگر اس قسم کے احکا م نہ دئیے جا تے تو تمدّن میں کئی قسم کی خرا بیا ں پیدا ہو جا تیں اور سو سا ئٹی کا نظام درہم بر ہم ہو جا تا۔ پس اس خیال سے کہ نکا ح تقویٰ کا ایک ذریعہ ہے۔ جلدی نہ کر و۔اللّٰہ تعا لیٰ اس امر کو بہتر سمجھتا ہے کہ تمہا رے لئے کس قدر دیر منا سب ہے۔
۱۴۸؎ حل لغا ت:۔ اَلْمُوْ سِعُ: اَوْسَعَ سے اسم فا عل ہے ۔ اور اَوْسَعَ الرَّجُلُ کے معنے ہیں صَارَ ذَا سَعَۃٍ وَ غَنِیً وہ آدمی وسعت والا ہو گیا۔ یا غنی ہو گیا۔ اور اَوْسَعَ اللّٰہُ عَلٰی فلُاَنٍ کے معنے ہیں اَغْنَاہُاللہ تعالیٰنے اسے غنی کر دیا۔ ( اقرب)
اَلْمُقْتِرِ: اَقْتَرَسے اسم فا عل ہے ۔اور اَقْتَرَ عَلیٰ عَیَالِہ کے معنے ہیں قَلَّ مَا لُہ‘ وَافْتَقَرَ اُ س کا مال کم ہوگیا اور وہ محتا ج ہو گیا۔ اور اَقْتَقَرَ اللّٰہُ رِزْقَہ‘ کے معنے ہیں ضَیَّقَہ‘ وَ قَلَّلَہ‘۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا ما ل کم کر دیا اور اسے تنگ دست کر دیا۔
تفسیر:۔ اب طلاق کے متعلق اللہ تعالیٰبعض اور احکا م بیا ن فر ما تا ہے ۔طلاق کے پہلی صورت تو یہ تھی کہ میاں بیوی میں کو ئی شدید اختلا ف پیدا ہوا اور طلاق وا قع ہو گئی۔ مگر بعض ایسی بھی عورتیں ہو تی ہیں کہ میاں بیوی ابھی اکٹھے بھی ہو نے نہیں پا تے کہ طلاق وا قع ہو جا تی ہے۔ مثلاً نکا ح کے معًا بعد ایسے گوا ہ مل گئے جنہو ں نے ایسی گوا ہیا ں دیں جن سے نکاح کی حر مت ثا بت ہو گئی۔ یا کم سے کم نکا ح کی کر اہت پیدا ہو گئی۔ مثلاً ادھوری گوا ہی ایسی مک گئی کہ یہ عورت خا وند کی رضا عی بہن ہے ۔پس گووہ ادھوری گوا ہی ہو مگر خا وند کے دل میں کر ہت تو پیدا ہر جا ئے گی۔ اور اس قسم کی گوا ہیا ں بعض دفعہ مک جا تی ہیں ۔ پس ایک صورت تو یہ ہے جس میں چھو نے سے بھی پہلے طلاق دینے کی ضرورت پیش آ جا تی ہے۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ نکا ح کے بعد دونوں خا ندانوں کے بعض اکا بر جن کو پہلے اس تعلق کا علم نہ ہوا ہو فیصلہ دے دیں کہ ہما رے آ پس کے تعلقا ت ایسے ہیں کہ تم دونو ں آ پس میں نبھا نہیں کر سکو گے۔ اس لئے بہتر ہے کہ عورت کو طلاق دے دو اور وہ چھوڑ نے سے پہلے اُسے طلا ق دے دے۔
اَوْ تَفْرِضُوْالَھُناَّ فَرِیْضَۃً سے پتہ لگتا ہے کہ ایسا نکاحجس میں کوئی مہر مقرہ مہ کیا گیا ہو وہ بھی جائزہوتا ہے لیکن جیسا کہ اسلامی فقہاء نے تصریح کی ہے خواہ مہر کی تعیین نہ کی گئی ہو یہ ضرورسمجھا جائیگا۔ کہ مہر مقرر ہے اور اس کی تعیین مہر بالمثل سے کی جائیگی۔ یعنی اسی حیثیت کے خاندان کے دوسرے افراد کو دیکھا جائیگا کہ اُن کا کیا مہر ہے اور وہی مہر اس عورت کا قرار دیاجائیگا۔
اس کے بعد اللّٰہ تعالٰے یہ ہدایت دیتاہے کہ مَتِّعُوْھُنَّج عَلَی الْمُوْسِعِِ قَدَرُہ‘ وَعَلَی الْمُقْتِرِ قَدَرُہ‘ مَتَا عًا بِالْمَعْرُوْفِ حَقْاً عَلَی الْمُحْسِنِیْنَ۔ اگر تم عورتوں کو اُن کے چھونے سے پہلے طلاق دے دو یا ایسی صورت میں طلاق دو کہ تم نے اُن کا مہر مقرر نہ کیا ہو تو دونوں صورتوں میں تمہارا فرض ہو گا کہ تم اُن سے حسنِ سلوک کرو اور انہیں مناسب رنگ میں کچھ سامان دے دو۔ مالی وسعت رکھنے والا اپنی طاقت کے مطابق اس کام میں حصہ لے اور تنگدست اپنے حالات کو مدنظر رکھ کر حصہ لے اور یہ صرف طوی نیکی نہیں بلکہ حَقّاً عَلَی الْمُحْسِنِیْنَ نیکی اور تقوٰی سے کام لینے والوں پر ہم نے واجب کر دیا ہے کہ وہ عورتوں کو حسن سلوک ک ساتھ رخصت کریں۔
احادیث میں آتا ہے کہ ایک انصاری نے ایک عورت سے شادی کی مگر اس کا مہر مقرر نہ کیا۔ ثُمَّ طَلَّقَھَا قَبْلَ اَنْ یَمَسَّھَا۔ پھر مجامعت سے قبل اُسے طلاق دیدی۔جب یہ معاملہ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں پہنچا تو آپ نے اُس سے پوچھا کہ کیا تم نے احسان کے طور پر اسے کوئی چیز بھی دی ہے اُس نے کہا۔ یا رسول اللَّہ ! میرے پاس تو کچھ بھی نہیں۔ آپ نے فرمایا۔ مَتِّعْھَا بِقَلَنْسَوَتِکَ اگر تمہارے پاس اور کوئی چیز نہیں تو اپنی ٹوپی ہی اُتار کر اس کے حوالے کردو۔ (تفسیربحرمحیط جلد۲ ۲۳۳؁ ) اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عورتوں کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا کس قدر حکم ہے۔ کہ اگراور کوئی چیز نہ ہو تو مرد کو چاہیے کہ وہ اپنی ٹوپی یاپگڑی ہی اُتار کر اُسے دے دے اور خالی ہاتھ نہ جانے دے۔
لیکن اگر اس بارے میں کوئی جھگڑا پیدا ہوتو چونکہ قرآن کریم نے اصولی طور پرفیصلہ فرما دیا ہے کہ جھگڑے کی صورت میں
وَاِنْ طَلَّقْتُمُوْھُنَّ مِنْ



تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌo
اولی الامر کی طرف رجوع کیا کرو۔ اس لئے اختلاف کی صورت میں قاضی کے پاس فیصلہ لے جانا چاہیے وہ حالات دیکھ کر فیصلہ دے گا کہ خاوندنے اپنی حیثیت کے مطابق عورت کو اُس کا حق ادا کیا ہے یا نہیں۔
۱۴۹؎ تفسیر:۔ پہلے یہ بتایا تھاکہ اگر مہر مقررنہ ہو اور طلاق کی ضرورت پیش ّجائے تو کیا کرنا چائیے۔اب یہ بتاتاہے کہ اگر مہر تو مقرر ہو چکاہو مگر میا ں بیوی کا تعلق قائم نہ ہوا ہو اور طلاق کی نو بت آجائے۔ توکیا کرنا چاہیے۔ فرماتا ہے ایسی صورت میں طلاق دیتے وقت تمہیں نصف مہر ادا کرنا پڑے گا۔
مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْھُنَّ کے متعلق اختلاف ہوا ہے کہ مُسّ سے کیا مُراد ہے۔(۱) بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد میاں بیوی کا آمنے سامنے ہو جانا یا ایک دوسرے کے پاس بیٹھنامراد ہے مخصوص تعلقات مراد نہیں۔(۲) لیکن بعض کہتے ہیں کہ مَسّ سے مراد مخصوص تعلقات ہیں۔ کیونکہ چُھونا محاورہ کے طور پر صحبت کے لئے ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ میرے نزدیک اس کی تشریح رسول کریم ﷺ کے ایک واقعہ سے ہو جاتی ہے۔
جب عرب فتح ہوا اور اسلام پیلنے لگا تو کندہ قبیلہ کی ایک عورت جس کا اسمآء یا امیٓمہ نام تھااوروہ جونیہ یا بنت الجون بھی کہلاتی تی اُس کا بھائی لقمان رسول کریم ﷺ کی خدمت میں اپنی قوم کی طرف سے بطور وفد حاضرہوا اور اس موقع پر اُس نے یہ بھی خواہش کی کہ اپنی ہمشیرہ کی شادی رسول کریم ﷺ سے کر دے اور بالمشافہ رسول کریم ﷺ سے درخواست بھی کر دی کہ میری ہمشیرہ جو پہلے ایک رشتہ دار سے بیاہی ہوئی تھی اب بیوہ ہے نہایت خوبصورت اور لائق ہے آپ اس سے شادی کر لیں۔ رسولکریم ﷺکو چونکہ قبائل عرب کا اتحاد منظور تھاآپ نے اسکی یہ دعوت منظور کرلی اور فرمایا ساڑھے بارہ اوقیہ چاندی پر نکاح پڑھ دیا جائے۔ اُس نے کہا۔ یا رسول اللّٰہ! ہم معززلوگ ہیں مہر تھوڑا ہے آپ نے فرمایا۔ اس سے زیادہ میںنے اپنی کسی بیوی یا لڑکی کا مہر نہیں باندھا۔ جب اُس نے رضا مندی کا اظہار کر دیا تو نکاح پڑھا گیااور اُس نے رسول کریم ﷺسے درخواست کی کہ کسی آدمی کو بھیج کر اپنی بیوی منگوا لیجیئے۔ آپ نے ابآاسیدؓکو اس کام پر مقرر کیا۔ وہ تشریف لے کئے۔ جونیہٓ نے اُن کو اپنے گھر بلایا تو آپ نے کہا۔ رسول کریمﷺ کی بیویوں پر عجاب نازل ہو چکاہے۔ اِس پر اُس نے دوسری ہدایات دریافت کیں۔ جو آپ نے بتا دیں۔ اور اونٹ پر بٹھا کر مدینہ لے آئے۔ اور ایک مکان میں جس کے گر دکھجوروں کے درخت بھی تھے لاکر اتارا۔ اُس کے ساتھ اُسکی دایہ بھی اُس کے رشتہ داروں نے روانہ کی تھی۔ جسطرح ہمارے ملک میں ایک بے تکلف نوکر ساتھ جاتی ہے تاکہ اُسے کسی قسم کی تکلیف نہ ہو ۔ چونکہ یہ عورت حسین مشہور تھی اوریو ں بھی عورتوں کو دلہن دیکھنے کا شوق ہوتا ہے مدینہ کی عورتیں اس کو دیکھنے گئیں۔ اور اس عورت کے بیان کے مطابق کسی عورت نے اُس کو سکھا دیا کہ رُعب پہلے دن ہی ڈالا جاتا ہے۔ جب رسول کریم ﷺ تیرے پاس آئیں تو کہ دیجیئوکہ میں آپ سے اللّٰہ کی پنا ہ مانگتی ہوں، اِس پر وہ تیرے زیادہ گرویدہ ہو جائیں گے۔ اگر یہ بات اس عورت کی بنائی ہو ئی نہیں تو کچھ تحجب نہیں کہ کسی منافق نے اپنی بیوی یا اور کسی رشتہ دار کے ذریعہ یہ شرارت کی ہو۔ غرض جب اس کی آمد کی اطلاع رسول ﷺ کو ملی تو آپ اس گھر کی طرف تشریف لے گئے جو اس کے لئے مقرر کیا گیا تھا۔ احادیث میں لکھا ہے۔کہ فَلَمَّا دَخَلَ عَلَیْھَا النَّبِیُّ صَلَّٰی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ ھِبِیْ نَفْسَکِ ِلِیْ قَالَتْ وَ ھَلْ تَھَبُ الْمَلِکَۃُ نَفْسَھَا لِلسُّوْقَۃِ قَالَ فَاَھْوٰی بِیَِدِہٖ یَضَعُ یَدَہ‘ عَلَیْھَا لِتَسْکُنَ فَقَالَتْ اَعُوْذُ بِاللَّہِ مِنْکَ فَقَالَ قَدْ عُذْتِ بِمَعَاذٍ۔ ثُمَّ خَرَجَ عَلَیْنَافَقَالَ یَا اَبَا اُسَیْدٍ اُکْسُھَا رَازِ قِیَّتَیْنِ وَاَلْحِقْھَا بِاَھْلِھَا(بخاری کتاب الطلاق)جب رسول کریم ﷺ اس کے پاس تشریف لائے تو آپ نے اُسے فرمایا۔کہ تو اپنا نفس مجھے ہبہ کر دے اُس نے جواب دیا کہ کیا ملکہ بھی اپنے آپ کو عام آدمیوں کے سپرد کیا کرتی ہے؟ ابو اُسید کہتے ہیں کہ اس پر رسول کریم ﷺ نے اِس خیال سے کہ اجنبیت کی وجہ سے گھبرا رہی ہے اُسے تسلی دینے کے لئے س پر اپنا ہاتھ رکھا۔ آپ نے اپنا ہاتھ ابھی رکھاہی تھا کہ اُس نے یہ نہایت ہی گندہ اور نامعقول فقرہ کہہ دیاکہ میں تجھ سے اللَّہ تعالی کی پناہ مانگتی ہوں۔ چونکہ نبی خداتعالٰی کا نام سُنکر ادب کی رُوح سے بھر جاتا ہے اور اُس کی عظمت کا متوالا ہوتا ہے۔ اُس کے اِس فقرہ پر آپ نے فوراً فرمایا کہ تو نے ایک بڑی ہستی کا واسطہ دیا ہے اور اس کی پناہ مانگی ہے جو بڑا پناہ دینے والا ہے اس لئے میں تیری درخواست کو قبول کرتاہوں۔ چناچہ آپ اُسی وقت باہر تشریف لے آئے اور فرمایا۔ اے ابا اسیدؓ! اِسے دو چادریں دے دو اور اسے اِس کے گھر والوں کے پاس پہنچا دو۔ چناچہ اس کے بعد اُسے مہر کے حصہ کے علاوہ بطور احسان دو رازقی چادریں دینے کا آپ نے حکم دیا تا کہ قرآن کریم کے حکم وَلَا تَنْسَوُاالْفَضْلَ بَیْنَکُمْ پورا ہو۔جو ایسی عورتوں کے متعلق ہے جن کو بلا صحبت طلاق دے دی جائے اور آپ نے اُسے رخصت کردیا اور ابو اسیدؓ ہی اُس کو اُس کے گھر پہنچا آئے۔ اُس کے قبیلہ کے لوگوں پر یہ با ت نہایت شاق گذری اور انہوں نے اُس کو ملامت کی مگر وہ یہی جواب دیتی رہی کہ یہ میری بد بختی ہے اور بعض دفعہ اُس نے یہ بھی کہا کہ مجھے ورغلایا گیا تھااور کہا گیا تھا کہ جب رسولکریم ﷺتیرے پاس آئیں تو تم پرے ہٹ جا نا۔ اور نفرت کا اظہار کرنا۔ اس طرح اُن پر تمہارارعب قائم ہو جائیگا۔ معلوم نہیں یہ ہی وجہ ہوئی یا کوئی اور بہر حال اُس نے نفرت کا اظہارکیا اور رسول کریم ﷺ اس سے علیحدہ ہوگئے اوراُسے رخصت کر دیا۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مَسّ سے مراد صرف چھونا نہیں بلکہ مخصوص تعلقات کا قائم ہوجانا ہے۔ ورنہ لغوی معنوں کے لحاظ سے تورسول کریمﷺ نے اُس پر اپنا ہاتھ رکھ دیا تھا اور آپ اُسے چھو چکے تھے۔
اِلاَّاَنْ یَعْفُوْنَ اَوْ یَعْفُوَ الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ الّنِکَاحِ کے متعلق بھی اختلاف ہوا ہے کہ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ الّنِکَاح سے کون مراد ہے۔ بعض کہتے ہیں اس سے خاوند مراد ہے کیونکہ نکاح ہو جانے کے بعد اُس کی گرہ خاوند کے ہاتھ میں ہوتی ہے اس صورت میں خاوند کا عفو کرنا یہ ہوگا کہ وہ نصف مہر کی بجائے سارا مہر دیدے لیکن بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد عورت کے ولی ہیں اور ان کو اس بات کا اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اگر چاہیںتونصف مہربھی نہ لیں۔ اُن کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ اِس طرح ہوتی ہے کہ کسی عورت کا نکاح اُس وقت تک نہیں ہو سکتاجب تک کہ اس کے ولی اجازت نہدیں۔ بعض لوگوں نے اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ اِس سے خاوند مراد نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اس نے تو مہر دینا ہے اور دینے کو معاف کرنا نہیں کہتے۔ لیکنان کا یہ اعتراض عربی زبان سے نا واقفیت پر دلالت کرتا ہے اس لئیکہ عفوکے معنے زیادہ دینے کے بھی ہوتے ہیںچنانچہ عربی زبان میں کہتے ہیں عَفَا فُلاَنُ الشَّعْرَ اور اس کے معنے یہ ہوتے ہیں ککہ فلان شخص نے بال بڑھالئے ہیں اسی طرح رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے اِعْفُو اللُّحٰی اور اس کے معنے ہیں۔ ڈاڑھیا ں بڑھاؤ۔ پھر عربکے رسم ورواج سے بھی معلوم ہوتا ہے۔ کہ وہ لوگ مہر پہلے دے دیا کرتے تھے۔پس خاوند کاعفو کرنا یہ ہوگاکہ وہ باقی نصف واپس نہ لے۔ اس لحاظ سے اس کے معنے یہ ہوئے کہ طلاق دیتے وقت یا تو کچھ بڑھا کر دویا یہ کہ آدھا جو تم دے چکے ہو وہ بھی واپس نہ لو۔ اور پہلے لوگ یہ دونوں معنے مراد لیتے آئے ہیں۔ چنانچہ قاضی شریح کہتے ہیں اَناَ اَعْفُوْاعَنْ مُھُرِ ر بَنِی مُرَّۃَوَ اِنْ کَدِھْنَ کہ میں اپنی قوم نبی مرو کی عورتوں کا مہر معاف کردونگا۔ اگرچہ وہ نا پسند ہی کرتی رہیں۔(بحر محیط جلد۲ ۲۳۶؁)دراصل یہاں عورتوں کی کراہت اور عدم کراہت کا کوئی سوال نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ اگر عورت اس قابل نہہو کہ معاف کر سکے، مثلاً ایسی بالغ نہ ہو جسکو مال پر تصرف حاصل ہوتا ہے تو ایسی صورت میں اگر ولی عفو کا اعلا ن کر دے تو یہ عورت کا ہی اعلان سمجھا جائیگا۔ اس کے متعلق عورت سے الگ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
اس برح جبٓیربن مطعم ایک صحابی ہیں۔اُن کا ایک عورت سے نکاح ہوا جب انہوں نے اسے طلاق دی تو جو کچھ مہر ھا اُسے دے دیا اور پھر اس سے بھی زیادہ دیا۔اور کہا اَناَ اَحَقُّ بِالْعَفْوِ کہ میں عفو کرنے کا زیادہ حقدار ہوں۔گویازیادہ دینے کاانہوں نے عفو قرار دیا۔
وَاَنْ تَعْفُوْآاَقْرَبُ لِلتَّقْویٰ میں مرد عورت ولی سب مراد ہیں۔اور یہ قاعدہ بتایا تیا ہے کہ ایسے موقعوں پر اپنا حق چھوڑنابہ نسبت اپنا حق طلب کرنے کے زیادہ افضل ہوتا ہے اور تقویٰ کا یہی تقاضاہوتاہے۔ مگر افسوس ہے کہ لوگ اس کا خیال نہیں رکھتے اور ہمیشہ اپنے حقوق کا مطالبہ پیش کرتے اور اس پر لڑتے جھگڑتے ہیں۔ دوسرے پر احسان کرنے کی طرف اپنا قدم نہیں بڑھاتے حالانکہ اللّٰہ تعالٰے واضع طور پر فرماتا ہے کہ تمہارا معاف کردینا تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔ یعنی عورت یہ خیال کرے کہ میں اپنے خاوند کے ہہاں آباد تو ہوئی نہیں ۔ اگر اسے مہر معاف کردوں تو کیا حرج ہے۔اسی طرح مرد یہ خیال کرے کہ گویہ عورت میرے ہہاں آباد نہیں ہوئی لیکن میری طرف منسوب تو ہوئی ہے۔اس لئے میں ہی کچھ زیادہ دے دوں۔ اِسی طرح ولی کو چاہیے کہ وہ ایسے رنگ میں فیصلہ کرائے کہ کوئی فتنہ پیدا نہ ہو۔
وَلاَتَنْسَوُ الْفَضْلَ بَیْنَکُمْ میں نسیان کے معنے بھولنے کے نہیں بلکہ چھوڑنے کے ہیں۔ جیسے اللّٰہ تعالٰی ایک دوسرے مقام پر فرماتا ہے کہ نَسُوا اللّٰہَ فَنَسِیَھُمْ (توبہ آیت ۶۷) انہوں نے اللہ کو چھوڑدیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالے نے
حَافِظُوْاعَلَی قٰنِتِیْنَo
بھی اُن کو ترک کر دیا۔ اور فضل سے مراد ایسا فعل ہے جس سے انسان دوسرے پر فضیلت حاصل کر لے۔ پس لَاتَنْسَوُاالْفَضْلَ بَیْنَکُمْ میں اللہ تعالے نے یہ نصیحتفرمائی ہے کہ آپس میں معاملہ کرتے وقت تم میں سے ہر فرد کو ہمیشہ یہ کوشش کرنی چاہیئے کہ وہ نیکی اور احسان اور مروّت میں ایک دوسرے پر فضیلت لے جائے اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے۔
اِنَّ اللَّہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ۔ اللّٰہ تعالٰی تمہارے کاموںکو دیکھتا ہے وہ تمہاری نیکی ضائع نہیں کرے گا بلکہ تمہیں اس کا اچھے سے اچھا بدلہ دیگا۔ پس چائیے کہ تم ان احکام کو ملحوظ رکھواور ان پر عمل کر کے اللّٰہ تعالٰے کی رضا حاصل کرو۔
۱۵۰ حل لغات:۔ اَلْمُقُنُوْتُ کے معنے ہیں اَلطَّاعَۃُ اطاعت۔ اَلْقِیَامُ فِی الصَّلٰوۃِ نماز کے لئے کھڑا ہو نا۔ اَلدُّعَائُ دُعا۔اَلْخُشُوْعُ وَخَفْضُ الْجَنَاحِ وَسَکُوْنُ اْلاَطْرَافِ وَ تَرْکُ اْلاِلْتِفَاتِ مِنْ رَھَبِ اللّٰہِ۔ اللّٰہ تعالٰی کے خوف سے کامل عجزوانکساراور ادب اور سکوناور ماسوی اللّٰہ کو بھُلا کر کام کرنا۔ (اقرب)
تفسیر:۔ شادی بیاہکے ذکر کے سلسلہ میں اب اللّہ تعالٰی نمازوںکا ذکر فرماتا ہے۔ کیونکہ بالعموم شادی کی وجہ سے لوگ نمازوں میں بہت کچھ سُست ہو جاتے ہیں وہ اول تو رات کو زیادہ دیر بیدار رہتے ہیں جس کی وجہ سے تہجداور فجر کی باجماعت نمازمیں ان سے غفلت ہو جاتی ہے۔ اور پھر دن کو بھی گھریلو مصروفیات انہیں نمازوںکی طرف توجہ کرنے نہیں دیتیں۔ پس چونکہ شادی کے سِلسلہ میں عبادت میں بہت کچھ نقص واقع ہو جاتا ہے کیونکہ انسان کے مشاغل بڑھ جاتے ہیںکیا بلحاظ آپس کے تعلقات کے اور کیا بلحاظ بچوں کی دیکھ بھال کے اور کیا بلحاظ سامان خوردونوش وغیرہ مہیا کرنے کے اِسی طرح طہارت کے نقائص بھی پیدا ہو جاتے ہیں اس لئے فرمایا کہ تمہاری گھریلو مصروفیات بے شک بڑھ جائینگی۔تمہیں روزی کمانے کے لئے پہلے سے زیادہ تگ و دو کرنی پڑیگی اور تمہاری توجہ میں یکسوئی نہیں رہے گی۔ مگر دیکھنا تم نمازوں میں سُستی نہ کرنا خصوصاً نماز وسطٰی کا ہمیشہ خیال رکھنا۔
یہ نمازوسطٰی کونسی ہے اس کے متعلق لوگوں میں بہت کچھ اختلاف پاتا جاتا ہے۔ (۱) بعض نے اسے تعجد کی نماز قرار دیا ہے اور میرا خیال بھی نماز تہجدکی طرف ہی جاتا ہے۔ جو شام اور صبح کے درمیان آتی ہے۔(۲) بعض کہتے ہیںکہ صلوۃ وسطٰی سے وہ نماز مراد ہے۔جو کام کے درمیان آجائے۔
اِس کے علاوہ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے عصرکی نمازکوبھی صلوۃ وسطی قراردیا ہے۔ چنانچہ ترمذی اور بخاری میں سمرۃؓ سے روایت آتی ہے کہ جنگ احزاب میں جب کفار نے رسول کریم ﷺ کو عصر کی نماز سے روکاتو آپ نے فرمایا۔ خدا ان کے گھروں اور ان کی قبروں کو آگ سے بھرے انہوں نے ہمیں صلوۃٰ وسطیٰ سے روک دیا ہے۔(بخاری کتاب تفسیر القرآن) مگر میرے نزدیک اِن حدیثوں سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ صلوۃٰ وسطی سے وہی نماز مراد ہے جو کام کے درمیان آجائے کیونکہ جنگ احزاب میں بھی عصر کی نماز دوران جنگ میں آگئی تھی۔ اور ممکن ہے اسی وجہ سے رسول کریمﷺ نے اسے صلوۃٰوسطیٰ قرار دیا ہو۔
وسطیٰکے معنے افضل واعلیٰ کے بھی ہوتے ہیں۔ اس لئے جس نماز کو انسان زیادہ مشاغل ترک کر کے پڑھے وہی نماز اس
فَاِنْ خِفْتُمْ
تَعْلَمُوْ نَo
کے لئے صلوۃٰوسطی ہو گی اور اُس کے لئے زیادہ برکات اور انوار کی حامل ہوگی۔اس مفہوم کو مد نظر رکھتے ہوئے اوپر کے معنوں کی تائید ہوتی ہے۔
میر ے نذدیک حَا فِظُوْا میںایک اور امر کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔حَا فِظُوْا باب مفا علہ سے ہے جس میں اشتراک پا یا جا تا ہے۔پس اس میں خدا تعا لٰی نے مر د و عورت دونو ں کو یہ نصحیت کی ہے کہ اب نکا ح کے بعد تم آ پس میں میاں بیوی اب گئے ہو۔ تم دونوں مک کر نما زوں کے متعلق ایک دوسرے کی نگرانی کر و۔ خصوصاً نما ز وسطیٰ یعنی تہجد کے متعلق۔ چنا نچہ حدیث میں آ تا ہے کہ اگر تہجد کے نما ز کے لئے خا وند کی آ نکھ کھلے تو بیوی کو جگا دے اور اگر وہ نہ اٹھے تو پا نی کا ایک ہلکا سا چھینٹا اس کے منہ پر مارے۔ اور اگر بیوی کی آ نکھ کھلے تو وہ میاں کو جگا دے اور اگر وہ نہ اُٹھے تو وہ میاں کو جگا دے اور اگر وہ نہ اُٹھے تو وہ بھی پا نی کاایک ہلکا سا چھینٹا اس کے منہ پر مارے۔ جب تہجد کی نما ز کے لئے رسول کر یمﷺ نے انقدر تا کید فر ما ئی ہے تو اور نما زوں کی نگہداشت کا حکم خود بخود وا ضح ہو گیا۔ پس گو محا قطت کے معنے عا م طور پر نگرا نی کے ہو تے ہیں مگر دراصل اس میں وہ خا صہ ملحوظ ہے جو باب مفا علہ کا ہے اور جس کی رو سے اس کا یہ مطلب ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی نگرا نی کریں۔ اور عبا دت میں ایک دوسرے کے لئے تر قی کا مو جب بنیں۔
قُوْ مُوْ اِللّٰہِ قٰنِتِیْنَ کے معنے یہ ہیں کہ نما ز میں تمہارا خیال کسی اور طرف نہ ہو بلکہ پورے خلو ص اور اطا عت اور تبتل تا م کے سا تھاللہ تعالیٰکی عبا دت کرو۔ اس حکم کے نازل ہو نے سے پہلے صحا بہ ؓ بعض دفعہ نما ز میں آپس میں بات چیت بھی کر لیا کر تے تھے۔ مگر پھر اس حکم کے نتیجہ میں انہو ں نے خا موشی اختیار کر لی۔
۱۵۱؎ تفسیر:۔ اس آ یت میں نما ز کی اہمیت پر زیا دہ زور دینے کیلئے فر مایا میاں بیوی کے تعلقات کیا چیز ہیں۔ اگر تمہا رے پیچھے تمہیں پکڑ نے کیلئے کو ئی دشمن آ رہا ہو اور تم بھا گ رہے ہو تو خواہ تم سوار ہو یا پیا دو تو بھی تم نما ز کو نہ چھو ڑو۔ بلکہ اسی حا لت میں پڑھ لو۔ گو یا نماز میں غفلت اور سستی کسی صورت میں بھی جا ئز نہیں۔ حتیّ کہ سخت خطرہ کی حا لت میں بھی جو صلٰو ۃ الخو ف کے خطرہ سے بھی بڑھ کر ہوجو عین جنگ میں ہو تی ہے تمہا رے لئے یہ جائز نہیں کہ تم نما ز چھوڑ دو۔ بلکہ جس حالت میں بھی ہو نما ز ادا کرو۔ چنا نچہ بخا ری میں حضرت عبد اللّٰہ بن عمر ؓ کے متعلق بیان کیا گیا ہے کہ ان سے صلٰوۃ خو ف کے متعلق سوال کیا گیا۔ تو انہوں نے اس کا طر یق بتایا۔ اور پھر فر ما یا کہ اگر اس سے بھی زیادہ خو ف کی حا لت ہو تو پھر پیدل یا سوارجس حا لت میں بھی ہو تمنما ز پڑ ھ لو۔ اور حضرت نا فع جو اس کے رادی ہیں وہ کہتے ہیں کہ سمجھتا ہوںحضرت عبد اللّٰہ بن عمر ؓ نے یہ با ت رسول کر یم ﷺ سے ہی سُنی ہے۔( بخا ری کتا ب تفسیر القرآن)اس سے معلو م ہو تا ہے کہ خود رسول کر یم ﷺ نے بھی اس آ یت میں صلٰو ۃ خو ف وا لی حا لت سے بھی زیا دہ خطرہ
وَالَّذِ یْنَ
عَزِیْز’‘ حَکِیْم’‘o
والی حا لت مرا د لی ہے، صلٰوۃ خو ف مے تو با قا عدہ ایک اما م کی اقتدار میں نما ز ادا کی جا تی ہے ( سو رۃ نساء آ یت ۱۰۳)مگر یہ حا لت ایسی ہے جس میں اتنی مہلت بھی نہ مل سکے اور دوڑتے اور بھا گتے ہو ئے نما ز پڑ ھنی پڑ ے۔مثلاً اسلا می فو ج کا ایک سپا ہی دشمن کے ح الا ت معلو م کر نے کے لئے گیا تھا۔ اس کا دشمن کو علم ہو گیا۔ وہ گھو ڑے کو دوڑا تا ہوا واپس آ رہا ہے اور پچا س سا ٹھ سپا ہی ااس کے تعاقب میں ہیں۔ کہ راستہ میں نما ز کا وقت آ گیا۔ اب اگر وہ ٹھہر جا تا ہے یا گھو ڑے سے اُتر کر نما ز پڑھنے لگ جا تا ہے تو اس کا لا زمی نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ پکڑا جا ئیگا اور اسلا می لشکر ان معلو مات سے محروم رہ جا ئیگا جن کو یہ مہیا کر نے کے لئے اُسے بھجوا یا گیا۔ پس چو نکہ اس کا جا ن بچا کر اسلا می لشکر میں پہنچنا ضر وری ہے۔ اس لئے اسے اجا زت ہو گی کہ وہ گھو ڑے پر بیٹھے بیٹھے نماز پڑھتا چلا جا ئے۔ جس طرح چاہے نما ز پڑ ھ لے۔ مثلاً گھو ڑا دوڑاتے نما ز کے کلما ت دہرا تا جائے۔ رکو ع کا وقت آ ئے تو زرا سا سر جھکا لے اور ایک دو دفعہ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم کہ دے۔ ذرا اور سر جھکا دے تو اسے سجدہ سمجھ لے۔ اس طرح جلدی جلدی نما ز پڑھ کر فا رغ ہو جا ئے ۔ ایسی حالت میں با وجو د اس کے کہ اس کی ایک ٹا نگ گھو ڑے کے ایک طرفہوگی اور دوسری ٹا نگ دوسری طرف پھر بھی اس کی نماز ہو جا ئیگی۔ اور اگر اس کا منہ قبلہ کی طرف نہیں ہو گا تب بھی نما ز ہو جا ئے گی۔ہاں اگر مو قعہ مل سکے تو نماز شروع کر تے ہو ئے قبلہ کی طرف مُنہ کر لیا جا ئے۔ پھر خوا ہ کسی طرف مُنہ ہو جا ئے۔ غرض خو ف کے وقت نما ز کو اپنی مقررہ شکل سے بدل کر پڑ ھنا جا ئز ہے۔ چا ہے انسا ن گھو ڑے پر بیٹھے بیٹھے پڑھ لے۔ چا ہے اشارے سے پڑھ لے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک شخص دشمن کے سا منے بندوق تا نے کھڑا ہو۔ اور نما ز کا وقت آ جا ئے۔ ایسی صورت میں اُ س کے لئے جا ئز ہو گا کہ وہ بندوق بھی سنبھا لے رکھے دشمن پر فا ئر بھی کر تا جا ئے اور نما ز کی عبا رتیں بھی دہر اتا جا ئے۔ بلکہ یہ نما ز خو ف کی حا لت میں شہروں میں رہتے ہو ئے بھی پڑھی جا سکتی ہے۔مثلاً فر ض کرو ایک ملک کی دوسرے ملک سے لڑا ئی ہر جا تی ہے اُس وقت وہ سر حدی شہر وں یا دیہا ت میں رہنے والے جو لو گ ہونگے اُن کے لئے جا ئز ہو گا کہ اگر زور کا حملہ ہو تو وہ کھڑے کھڑے نما ز کی عبا رتیں دہر اتے جا ئیں اور سا تھ ہی دشمن پر گولیا ں بر ساتے جا ئیں۔
فَا ذَآ مِنْتُمْ فَا ذْ کُرُ واللّٰہَ کَمَا عَلَّمَکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْ نُوْا تَعْلَمُوْنَ۔ ہا ں جب خو ف کی حالت جا تی ہے اور تم امن میں آ جا ؤ تو پھر تمہیں اسی طر ح نما ز پڑ ھنی چا ہیے جس طرح قُوْمُوْالِلّٰہِ قٰنِتِیْنَ میں حکم دیا گیا ہے یعنی خا مو شی اور بغیر ضروری حر کت کے ۔ کَمَا عَلَّمَکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْ نُوْ ا تَعْلَمُوْ نَ کے معنے ہیں جسطر ح اس نے تمکو سکھا یا ہے یا اس لئے یا د کر و کہ اس نے تمہیں وہ کچھ سکھا یا ہے جو تم پہلے نہ جا نتے تھے۔ اِن الفا ظ میں قرآن کریم نے دنیا کے سا منے یہ دعوٰی پیش کیا ہے۔ اس کتا ب کے ذریعے لو گوں کو وہ روحانی علو م سکھا ئے گئے ہیں جو اس سے پہلے اور کسی مذ ہب کی الہا می کتا ب نے بیان نہیں کئے۔
۱۵۲ تفسیر:۔ وَ صِیَّۃ’‘ مصدر ہے اور اس سے پہلے یُوْ صُوْنَ مخدوف سمجھا جائیگا۔ یعنی وہ وصیت کر جا ئیں۔ مَتَا عًا دوسرا مصدر ہے اس سے پہلے بھی اَنْ مَتِّعُوْ مُنَّ مخدوف ہے۔ اور معنے یہ ہیں کہ اپنے بیو یو ں کے حق میں وصیت کر جا ئیں کہ بعد میں وہ لو گ جن کے پا تھ میں وصیت کا اجراء ہے انہیں ایک سا ل تک فا ئدہ پہنچا ئیں۔ اس کے بعد غَیْرَ اِخْرَاجٍ کے الفا ظ ہیں ۔ جو بدل ہیں مَتَا عًا کا پس معنٰی یہ ہو ئے کہ فا ئدہ پہنچا نے سے ہما ری مراد یہ ہے کہ ان کا گھروں سے نہ نکا لیں۔ بلکہ با و جو د اس کے کہ مکا ن کسی اور وا رث کے حصّہ میں آ یا ہو بیو یو ں کو ایک سال تک اس میں رہنے کا حق حا صل ہے۔ اس کے یہ معنے نہیں کہ عورت خو د بھی مکا ن سے نہیں جا سکتی۔ عورت عدت کے بعد اپنی مر ضی سے اور اپنے فا ئد ہ کے لئے جا نا چا ہے تو جا سکتی ہے۔ سال بھر کی شرط صرف عورت کے آرام اور فا ئدہ کے لئے لگا ئی گئی ہے اور اس سے وارثوں کو پا بند کیا گیا ہے۔ عورت پر پا بندی صرف ایا م عدت گک گھر میں رہنے کی ہے بعد میں اس حکم سے فا ئدہ اٹھانا یا نہ اٹھا نا اس کے اختیار میں ہے۔
یہ امر کہ اس ایک سال میں عدت شا مل ہے یا نہیں۔ اس بارہ میں اختلا ف پا یا جا تا ہے۔ لیکن میر ے نذدیک جس با ت میں عورت کا فا ئدہ ہو اسے تسلیم کر نا چا ہیے اور وہ صورت یہی ہے کہ عدت کے بغیر ایک سال تک عورت کو گھر میں رہنے دیا جائے ۔ مگر افسوس ہے کہ اس حکم کی پا بندی نہ تو مر نے والے کی رشتہ دار کر تے ہیں اور نہ عورتیں۔ اگر تو عورت کے بچے ہو ں تو پھر رشتہ دار کچھ عر صہ تک صبر کر تے ہیں لیکن اگر بچے نہ ہوں تو چند ماہ کے بعد ہی مر نے والے رشتہ دار مکا ن اور جا ئداد کی تقسیم کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ حا لا نکہ اس مکا ن میں ایک سال تک عورت کو رہنے دینا ضروری ہو تا ہے۔ اور اللّٰہ تعا لٰٰی نے اس کی سخت تا کید فر ما ئی ہے۔
بعض نے کہا ہے کہ یہ آ یت احکا م میراث کے ذریعہ منسوخ ہو گئی ہے مگر یہ بالکل غلط ہے بیوہ کا اپنے خا وند کی جائیداد میں جو حصہ رکھا گیا ہے اسکے سا تھ اسکا جو ئی تعلق نہیں یہ ایک الگ حکم ہے جس میں جا ئیداد کے حصہ کے علا وہ عورت کیلئے سال بھر کے نان و نفقہ اور رہا ئش کا انتظام ضروری قرار دیا گیا ہے۔
فَاِنْ خَرَ جْنَ فَلَََا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْھَا فَعَلْنَ فِیْ اَنْفُسِھِنَّ مِنْ مَّعْرُوْفٍ میں بتا یا کہ ہما را یہ منشاء نہیں کہ تم ایک سال تک انکو پکڑکر رکھو بلکہ بطب یہ ہے کہ تمہا ری طرف سے ایک سال کے عرصہ تک انہیں کھلی اجا ز ہو نی چا ہیے کہ وہ آ زادانہ طور پر اپنے گھر میں رہیں ہا ں اگر وہ سال کے اندر ہی مکا ن چھوڑ دیں تو تم انہیں جا نے دو۔عدت میںتو خو د ان کا کہنا بھی ممنو عہے لیکن اس کے بعد ان کا خود نکلنا گناہ نہیں۔پس اس آ یت کو آ یت عدت سے منسوخ سمجھنا بھی غلطی ہے۔ یہ ان سے نیک سلوک کر نے کا ایک زائد حکم دیاگیا ہے۔ کیو نکہ فوراً ان کا نیا گھر بنا نا یا نکا حکرنامشکل ہو تا ہے چا ر ماہ دس دن تک تو وہ خود نہیں نکل سکتیں۔ اس کے بعد ایک سال مزید تک انکو نکا لا نہیں جا سکتا ہا ں وہ خود چا ہیں تو نکل سکتی ہیں کیو نکہ اللّٰہ تعا لٰٰی نے ان کے فعل کو معروف کہا ہے۔
معروف کا لفظ قر آ ن کر یم میں بہت دفعہ آ یا ہے۔ یہ عرف سے نکلا ہے اوار س کے معنے ہیں پہچا نا ہوا۔ مفردات امام راغب میں لکھا ہے۔ اَلْمَعْرُوْفُ اِسْم’‘ لِکُلِّ فِعْلٍ یُعْرَفُ بِالْعَقْلِ وَا لشَّرْعِ حُسْنُہ‘ یعنی معروف ہر اس فعل کو کہتے ہیں جس کی خوبی عقل و شرع سے پہچا نی جائے۔پس جب کو ئی فعل شرع کے لحا ظ سے معروف ہو تو وہ مطا بق قا نو ن فعل کہلا ئیگا۔ اور جب عقل عامہ سے اس کی خو بی پہچا نی جا ئے تو اسے مطا بق دستور کہیں گے کیو نکہ جس امر کی خو بی ہر انسا ن پہچا نتا ہے اس کا رواج بنی نوع انسا ن میں پا یا جاتا ہے اور جب کسی امر کی خو بی کسی خا ص فر د کی عقل سے پہچا نی جائیگی تو اسے منا سب حا ل یا مطا بق حال کہیں گے کیو نکہ افراد کے سا تھ انہی بیکیوں کا تعلق ہوتا ہے جو خا ص ان کے حا لات سے متعلق ہوں۔
وَلِلْمُطَلَّقٰتِ
تَعْقِلُوْنَo
اَلَمْ َترَاِلَی الَّذِیْنَ
پس معروف کے معنے قا نون یا قو می رواج کے مطا بق کے ہو تے ہیں لیکن اسجگہ اس کے معنے پسندیدہ اور بہتر کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ خوا ہ عدت کے بعد عورتیں نکا ح کر لیں خواہ اپنے وا لدین یا دوسرے رشتہ داروں کے ہا ں چلی جا ئیں یا کو ئی ملاذمت اخیتا ر کر لیں تم پر کو ئی اعتراض نہیں۔ تمہیں اس حکم کی رو سے یہ نہیں چا ہیے کہ انہیں روکو۔
۱۵۳؎ تفسیر:۔ طلاق کے مضمو ن کوختم کر تے ہو ئے اللّٰہ تعا لٰٰی نے مطلقات سے حسن سلوک کے حکم کو پھر دہرایا ہے۔ چو نکہ عام طور پر مطلقات سے نا را ضگی ہو تی ہے اس لئے فر مایا۔ تمہیں ان سے اچھا سلو ک کر نا چا ہیے اور پچھلی آ یتوں پر اس کا عطف کر کے یہ بھی بتا دیاکہ مطلقہ عورتوں کو بھی اگر عر صہ عدت سے زیا دہ گھر میں رہنے کی ضرورت ہو تو رہنے دیا جا ئے اور انکو بھی انکے منا سب حال فا ئدہ پہنچا نا چا ہیے۔ یہ متقیوںپر حق قرا ر دیا گیا ہے۔ پس مطلقہ عورت سے بھی بے مر وتی نہیںکر نی چا ہیے اور اس کو عدت کے فوراً بعد گھر سے نہیں نکا ل دیناچا ہیے۔ بلکہ بطر یق احسا ن اسے مو قعہ دینا چا ہیے تا کہ وہ اطمینا ن سے نقل مکا نی کا انتظار کرسکے۔
مسلمانوں پر تعجب ہے کہ اللّٰہ تعا لٰٰی تو مطلقہ عورتوں سے مہر کے علا وہ حسن سلوک کرنے کا بھی ارشاد فر ماتا ہے اور مسلمان عورتوں کے مہر تک بھی کھا جا تے ہیں۔ اگراس حکم پر عمل کیا جا ئے تو کس قدر فسا د اور جھگڑے دور ہو جا ئیں۔ اور طلا ق جو صرف مجبو ری میں حلال ہے اس تلخی کے پیدا کر نے کامو جب نہ ہو جس کا مو جب وہ اب ہو رہی ہے۔ بلکہ دونو ں فر یق محسوس کر یں کہ مجبو ری سے علیٰد گی اختیار کی گئی ہے۔ ورنہ آ پس میں کو ئی تلخی یا بد مزگی نہیں ہے۔
پھر فرمایا کَذٰلِکَ یُبَیّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ۔ اللّٰہ تعالٰی اپنے احکام تمہارے فائدہ کے لئے اسی طرح کھول کر بیان کرتا ہے۔ تاکہ تم خطاؤں اور کمزوریوں سے بچو۔ اٰیٰۃٌ کے عام معنے علامت کے ہوتے ہیں۔ لیکن قرآن کریم میں کہیں خداتعالٰے نے اپنی طرف توجہ دلانے والی باتوں کو۔ کہیں ایمان کی طرف راہنمائی کرنے والی باتوں کو۔ کہیں عذاب سے بچانے والی باتوں کو آیات کہا ہے۔ اسجگہ آیات سے وہ احکام مرادہیںجو صحیح تمدن کہ طر راہنمائی کرتے ہیں۔ اور بتایا گیا ہے کہ شریعت کے بیان کرنے میں یہ امر ہر جگہ مدنظر رکھا گیاہے۔ کہ تمام ضروری امور کے متعلق تعلیم آجائے اور ایسے رنگ میں بیان کر دی جائے کہ بنی نوع انسان بدیوں اور کمزوریوں سے بچ جائیںجس پر تَعْقِلُوْنَ کا لفظ دلالت کرتا ہے۔
لَایَشْکُرُوْنَo

۱۵۴؎ تفسیر:۔ فرماتا ہے کیا تجھے ان لوگوںکی خبر نہیںپہنچی جوموت سے بچنے کے لئے اپنے گھروںسے ایسی حالت میں نکلے تھے جبکہ وہ ھزاروںکی تعداد میں تھے اس پر اللّٰہ تعالٰی نے ان سے کہا کہ اگر تم موت سے بچنا چاہتے ہو تو اس کا علاج یہ ہے کہ تم مر جاؤ۔چنانچہ اُس موت کے بعداللّہ تعالٰی نے پھرانہیں زندہ کردیا۔
یہ لوگ کون تھے جو اپنے گھروں سے موت کے ڈر کی وجہ سے نکلے اور جن کو خداتعالے نے کہا کہ مرجاؤ؟ اور پھر یہ کون لوگ تھے جنہیں موت کے بعد اللہ تعالی نے حیات نوعطافرمائی۔ سو یاد رکھنا چائیے کہ یہ بنی اسرائیل تھے و موت کے ڈر کی وجہ سے ملک مصرج سے نکلتے تھے۔ چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس آیت میں جتنی باتیں بیان کہ ہیں وہ سب کی سب بنی اسرائیل کے واقعات میں دکھائی دیتی ہیں۔ موت کے ڈر کا ذکر اس آیت میںکیا گیاہے کہ وَاِذْنَجَّیْنٰکُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعِوْنَ یَسُوْمُوْنَکُمْ سُوْٓئَ اْلعَذَابِ یُذَبّحُوْنَ اَبْنَآئَ کُمْ وَ یَسْتَحْیُوْنَ نِسَآئَ کُمْ (بقرہ آیت۵۰) یعنی اس وقت کو یا د کر جبکہ ہم نے تم کو فرعون کی قوم سے اس حا لت میں نجا ت دی کہ وہ تمہیں بد تر ین عذاب دے رہی تھی۔ وہ تمہا رے لڑکو ں کو قتل کر دیتی تھی اور تمہا ری عورتوں کو زندہ رکھتی تھی۔ اور گھروں سے نکلنے کا ذکر اس آ یت میںکیا گیا ہے کہ:۔ وَاَ وْ حَیْنَٓا اِلی مُوْ سیٰٓ اَنْ اَسْرِبِعِبَادِیْٓ اِنَّکُمْ مُتَّبَعُوْنَ(شعراء آ یت۵۳) یعنی ہم نے مو سٰیؑ کی طر ف وحی کی کہ میرے بندوں کو را توں رات نکا ل کر لے جا۔ اور میں نے اسے یہ بھی بتا دیا کہ تمہا را پیچھا کے اجا ئیگا۔
وَھُمْ اُلُوْف’‘ والی علا مت بھی بنی اسرا ئیل پر ہی چسپا ں ہو تی ہے۔ کیو نکہ جب وہ مصر سے نکلے تو اسوقت وہ صرف چند ہزار ہی تھے۔ اس میںکو ئی شبہ نہیں کہ پیدا ئش باب ۴۶آ یت ۲۷ میں لکھا ہے کہ بنی اسرا ئیل جب مصر میں آئے تو صرف ۷۰ تھے لیکن تورات ہمیں یہ بھی بتا تی ہے کہ ۲۱۵ سال کے بعد مو سٰی کے زما نہ میں ان کی تعداد اس قدر بڑھ گئی کہ عورتوں اور بچوں کو نکا ل کر وہ چھ لا کھ کے قریب پہنچ گئے۔ چنا نچہ خروچ باب ۱۲ آ یت ۳۷ میں لکھا ہے:۔
’’اور بنی اسرا ئیل نے رعمیس سے مسکا ت تک پیدل سفر کیا۔ اور با ل بچوں کو چھوڑ کر وہ کو ئی چھ لا کھ مر د تھے۔‘‘
اسی طر ح گنتی باب ۱آیت ۴۶ میں ان کی تعداد چھ لا کھ تین ہزار پا نچ سو پچا س بتا ئی گئی ہے ۔ اگر مردوں کی تعداد کو ملحوظ رکھ کر عورتوں اور بچوںکو بھی شاملکر لیا جائے تو کل تعداد ۲۵لاکھ کے قریب پہنچ جاتی ہے مگر۲۱۵ سالکے عرصہ میںسترآدمیوں کا ۲۵لاکھ تک پہنچ جانا با لکل عولکے خلاف بات ہے اورپھر واقعہکے بھی خلاف ہے حضرت موسیٰؑ نے جب مصرسے کنعان کیطرف ہجرت کی تو وہچالیس سال تک جنگلوں میںرہے توکیا پچیس لاکھ آدمیوںکی روٹی کاانتظام چالیس سال تک ان جنگلوں میں ہو سکتا تھا بے شک بائیبل میں آتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان کے لئے آسمان سے بٹیر اتارے اورزمین میںترنجین پیدا کر دی۔ لیکن بابئیبل کے بیان کے مطابق یہخوراک سارے عرصہ کیلئے مہیانہیں ہوئی تھی۔ پھر دوسرے عرصہ میں اتنے آدمیوں کے لئے خوراک کہاں سے لاتے تھے۔ پھر بائیبل سے ہی معلومہوتا ہے کہ وہ ایک ایک چشمہ سے پانی بھی پی لیتے تھے۔اب کیا کوئی عقل تسلیم کر سکتی ہے کہ ایک ایک چشمہ سے پچیس لاکھ آدمی سیراب ہو سکتا ہے؟دراصل اس بیان میں سخت مبالغہ سے کاملیا گیا ہے حقیقت وہی ہے جو قرآن کریم نے بیان کی ہے کہ نبی اسرائیل جو فرعون کے ظلم سے ڈر کر بھاگے تھیان کی تعدادصرف چندہزارتھی۔ ورنہ پچیس لاکھ یہودی فلسطین کے چھوٹے چھوٹے قبائل سے ڈر کس طرح سکتے تھے۔ فلسطین کی آبادی تو اپنی شان و شوکت کے زمانہ میں بھی ۲۵ - ۳۰ لاکھ سے زیادہ نہیں بڑھی ۔ بلکہ اس زمانہ میں بھی تقسیم سے پہلے اس کی آبادی اٹھارہ لاکھ کے قریب تھی پرانے زمانہ میں جبکہ خوراک ادھر ادھر پہنچانے کے سامان مفقود تھے غیر زرعی علاقوں میں بڑی آبادی ہو ہی نہیں سکتیتھی ۔ پس موسیٰؑ کے وقت میں یقیناً سارے فلسطین کی آبادی چند ہزارافراد پر مشتمل ہو گی۔ چنانچہ بنی اسرائیل اور انکے دشمنوں کی لڑائیوں میں ہمیشہ سینکڑوں اور ہزاروں افراد کا ہی پتہ لگتا ہے۔ اگر موسیٰؑ کے ساتھ ۲۵ لاکھ آدمی فلسطین میں آئے تھے تو سفر کا زمانہ تو الگ رہا حکومت کے زمانے میں بھی ان کی خوراک کا انتظام نہ ہو سکتا تھا اور لڑائی کا تو ذکر ہی کیا ہے یہ لوگ تو اپنے کند ھوں کے دھکوں سے ہی ان چند ہزار افراد سے فلسطین کو خالی کرا سکتے تھے جو ان سے پہلے وہاں بس رہے تھے ۔ پس وَ ھُمْ اُلُوْف’‘ میں جن لو گوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ بنی اسرا ئیل ہی ہیں۔
چو تھی با ت اس آ یت میں یہ بیا ن کی گئی ہے کہاللہ تعالیٰنے انہیں کہا کہ تم مر جا ؤ۔ اس امر کا ذکر بھی قرآ ن کر یم نے ایک دوسری جگہ ان الفا ظ میں کیا ہے کہ قَالَ فَاِ نَّھَا مُحَرَّمَۃ’‘ عَلَیْھِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃًج یَِتِیْھُوْنَ فِی الْاَرْضِ ط فَلَاتَاْ سَ عَلَی الْقَوْمِہ اْلفٰسِقِیْنَ( ما ئدہ آ یت ۲۷) یعنی جب مو سٰی کی نا فر ما نی کر تے ہو ئے بنی اسرا ئیل نے لڑائی کر نے سے انکا ر کر دیا تواللہ تعالیٰنے فر ما یا کہ انہیں اب اس ملک سے چا لیس سال کے لئے محروم کر دیا گیا ہے۔ وہ زمین میں سرگردان پھر تے رہیں گے پس تو با غی لو گو ں پر اقسوس نہ کر۔
پا نچویں با ت یہ بیا ن کی گئی ہے کہاللہ تعالیٰنے انہیں موت کے بعد پھر زندہ کر دیا۔ اسے اللہ تعالیٰنے دوسری جگہ ان الفا ظ میں بیا ن کیا ہے کہ وَاِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْ سٰی لَنْ نُّؤْمِنَ لَکَ حَتّٰی نَر یَ اللّٰہَ جَھْرَۃً فَاَ خَذَ تْکُمُ الصَّاعِقَۃُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ ہ ثُمَّ بَعَثْنٰکُمْ مِنْ بَعْدِ مَوْ تِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ۔(بقرہ آ یت ۵۶,۵۷) یعنی اس وقت کو بھی یا د کر و جب تم نے کہا تھا کہ اے موسٰی! ہم تیری با ت ہرگز نہیں مانیں گے جب تک ہم اللہ تعالیٰکو آ منے سا منے نہ دیکھ لیں۔اس پر تمہیں ایک مہلک عذاب نے پکڑ لیا اور تم اپنی آ نکھ سے اپنے فعل کا انجا م دیکھ رہے تھے۔ پھر ہم نے تمہا ری ہلا کت کے بعد تہمیں اس لئے اٹھا یا کہ شکر گذار بنو۔
میرے نذدیک اس آ یت میں نر ی اللّٰہَ جَھْرَۃً سے مراد اُن کا فَلذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکُ فَقَا تلِآَ اِنَّا ھٰھُنَا قٰعِدُوْنَ ( ما ئد ہ آ یت ۲۵) اولا جملہ ہے ۔ اس کے بعد انہیں چا لیس سال کی سزا ملی۔ جو صا عقہ تھی۔ غرض اَلَمْ تَرَ اِلَی اَلّذِیْنَ خَرَ جُوْا مِنْ دَیَارِھِمْ وَھُمْ اُلُوْاف’‘ حَذَرَاْلمَوْتِ سے مراد بنی اسرا ئیل ہی ہیں جو فر عون کے متو اتر مظالم کا تختہ مشق بنے ہو ئے تھے۔ اور ہلا کت کے گڑھے میں گر ے ہو ئے تھے۔ ان کے لڑ کے مارے جا تے تھے اور قومی زندگی با لکل تبا ہ ہو چکی تھی۔اللّٰہ تعا لٰی ان کو ملک مصر سے بچا کرلا یا ۔ اور فلسطین ک اان سے وعدہ کیا۔ اور حکم دے اکہ دشمن سے لڑو اور فتح حا صل کر لو۔ مگر وہ اپنی نا دا نی سے کہ اُٹھے کہ یٰمُوْ سٰیٓ اَنَّا لَنْ نَدْ خُلَھَآ اَبَدًامَّا دَامُوْ فِیْھَا فَا ذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَا تلِآَ اِنَّا ھٰھُنَا قٰعِدُوْن َ(مائدہ آیت ۲۵) یعنی اے مو سٰی:جب تک وہ لوگ اس میں مو جو د ہیں ہم اُس سر زمین مین کبھی دا خل نہیں ہو نگے۔ اس لئے تو اور تیرا رب دونو ں جا ؤ اور ان سے جنگ کرو تو یہیں بیٹھے رہیں گے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ اللہ تعالیٰنے ان پر مو ت نا زل کی ۔ یعنی وہ چا لیس سال تک اللہ تعالیٰکی نا را ضگیوں کا مورد رہے۔ اس کے بعد ان کی اگلی نسل جب جوان ہو ئی اور اس نے اللہ تعالیٰکے منشا کے ما تحت قر با نیوں سے کا م لیا تواللہ تعالیٰنے انکو زندہ کر دیا۔ یعنی کغان کے دروازے ان کے لئے کھل گئے اور حکومت پر انہوں نے قبضہ کر لیا۔ اسی طرف ثُمَّ اَحْیَا ھُمْ میں اشارہ کے گیا ہے۔ اور اسی طرف ثُمّ بَعَثْنٰکُمْ مِنْ بَعْدِ مَوْ تِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُ وْنَ میں اشارہ تھا۔
فَقَالَ لَھُمُ اللّٰہُ مُوْتُوْا میں اسطرف بھی اشا رہ پا یا جا تا ہے کہ جب وہ اپنے گھروں سے مو ت کے خوف سے نکلے اور انہوں نے چا ہا کہ وہ زندگی حا صل کریں تو ان کی اس خواہش لوپورا کر نے کے لئے اللہ تعالیٰنے انہیں جو تدبیر بتا ئی وہ یہ تھی کہ تم اپنے لئے مو ت اختیار کر و۔ ایک ایسی قوم جو مو ت سے بچنے کے لئے گھروں سے نکلی تھی۔ اسے قردتی طور پر یہ علاج بہت عجیب نظر آ یا۔ وہ لو گ جنہوں نے اپنا وطن خواہ وہ اختیار کردہ ہی ہو۔ املا ک خواہ تھوڑے ہی ہو ں۔ اپنی عزت یا رتبہ خواہ قلیل ہی ہو۔ اپنے جلیس اور ہم صحبت دوست اور وہ ملک جس کی وہ زبان سمجھتے تھے صرف اسلئے کہ انہیں زندگی ملے اور وہ مو ت سے بچ سکیں کُلی طور پر چھوڑدیا۔ وہ اللہ تعالیٰکے منشاء کے ما تحت ایک ایسے ملک کی طرف چلے گئے جہا ن کی زبان وہ نہیں جانتے تھے جہا ں انکی کو ئی جا ئیداد نہیں تھی۔ جہا ں کے لو گ ان کی دیا نت سے اور یہ لو گ انکی دیا نت سے واقف نہ تھے۔جہاں کے لوگوں کی نگا ہ میں ان کے چھو ٹے بڑے میں کو ئی تمیز نہ تھی ۔ یہ قربا نی کوئی معمولی قربا نی نہ تھی۔ یہ قربا نی صرف اس لئے کہ گئی تھی کہ انہیں جان بہت پیاری تھیی ورنہ وہ اس ملک کو چھوڑتے ہی کیو ں؟مگر جب وہ وہاں پہنچے تو خدا تعالیٰ سے انہوں نے سوال کیا کہ وہ زندگی کہاں ہے جس کا ہمیں وعدہ دیا گیا تھا اﷲ تعالیٰ نے فرمایا تم موت قبول کرو۔ پھر زندہ ہو جائو گے ۔ وہ لوگ حیران ہوئے کہ یہ ہمیں کیا کہا جا رہا ہے ۔ کیونکہ جو پیالہ فرعون انہیں لا رہا تھا وہی اﷲ تعالیٰ نے انہیں دیا فرعوںن نے فیصلہ کیا تھاکہ وہمر جائیںمگر انہوں نے کہا ہمزندہرہنا چاہتے ہیں اور ہمخدا تعالیٰسے فریاد کرینگے لیکن جب انہوں نے خدا تعالیٰ سے فریاد کی تو وہاں سے بھی ان کو یہی جواب ملا کہ مر جائو۔ انہیں دونوں جگہوں سے موت ہی کا پیالہملا۔ وہ حیران تھے کہ فرعون کو دوست سمجھیں یا خدا تعالیٰ کو دشمن۔ فرعون انہیں زندہ کرنا چاہتا تھا یا خدا تعالیٰ انہیں مارنا چاہتا ہے کیونکہ دونوں پیالوں پر موت لکھی ہوئی تھی۔ وہ گھبرائے۔ ان میں سے کمزوروں نے کہا کہ ہمتو موت سے بچنے کیلئے آئے تھے اگر یہی پیالہ ہمیں پیتا ہوتا تو وہیں کیوں نہ پی لیتے اتنی تکالیف برداشت کرنیکی کیا ضرورت تھی۔ ہم اس پیالہ کو پینے کے لیے تیار نہیں ہم سے دھوکا کیا گیا ہے اگر موت ہی ہمیں ملنی تھی تو کیوں ہم سے زندگی کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اتنی امیدیں دلانیکے بعد ہمیں قوم میں کیوں شرمندہ کرایا۔ وہ ہنسیں گے کہ بیوقوف موت سے بھاگے تھے وہاں بھی موت ہی نصیب ہوئی۔ وہ اس مشکل کو حل نہ کر سکے سوائے اس کے کہ ان میں سے کمزوروں نے کہا کہ ہم یہ پیالہ پینے کے لئے تیا ر نہیں۔ عزت کی زندگی جس کا ہم سے وعدہ تھا وہ ہمیں دو۔ یہ حضرت موسیٰؑ کی قوم تھی۔ فرعون انہیںتباہ کرنا چاہتا تھا حضرت موسیٰؑ نے ان سے کہا تمہارے سب لڑکے مارے جائیں گے اور لازماً لڑکیا ں وغیروں سے بیاہی جائیںگیاورتمہاری نسلمٹ جائیگی اورغیروں کی نسل جاری ہوجائیگی۔تم اس موت سے بچو ۔ اورذلت کی زندگی برداشت نہ کرو۔ خداتعالیٰ نے بتایاکہ حیات کا پیالہ تمہارے لئے کنعان کیشرزمینمیں تیار ہے چنانچہ انہوں نے گھر بار چھوڑا ۔ مال جو اٹھایا نہگیاوہیں چھوڑا عزت سے ہاتھ دھوئے ۔ ایک باقاعدہ حکومت کاآرام کھویا۔ وہ نکلے اور چل پڑے۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے وَھُمْ اُلُوْفـُ وہ چند ہزار تھے۔ جو اپنے گھروںسے نکلے ان میں بہت سی عورتیں اور بچے بھی ہونگے۔ عام طور پر صرف پانچواں حصہ بالغ مرد ہوتے ہیں پھر ان میں کچھ بوڑھے بھی ہونگے متمدن اقوام مین چھ فیصدی مرد جنگکے قابل ہوتے ہیں۔ اور غیر متمدن قوموںمیںسولہ فیصدی۔ اگر وہ پچاس ہزار بھی ہوں تو ان میں زیادہ سے زیادہ آٹھ ہزار لڑائی کے قابل مرد ہونگے۔ اور وہ بھی نا تجربہ کار۔ پتھیرے بھلا کیا جانے کہ چنگکیا ہوتی ہے انہوں نے کہا لائو۔ وہ ملک جس کا ہمسے وعدہ کیا گیا تھا ۔ اس پر ایک زبردست قوم کے لوگ جن کے چہرے خون سے بھرے ہوئے تھے ۔ جنہیں اگر دائیں طرف عرب کے جنگجوئوں سے مقابلہ کرنا پڑتا تو بائیں طرف یونانیوں سے ۔ نہزیب کے گہوارہ میں پلی ہوئی تین قوموں یانانیوں ایریانیوں اور مصریوں سے انہیں واسطہ پڑتا ۔ وہ تینوں کے طریق کار سے واقف تھے وہ خود بھی مہزب اور بڑے بڑے شہروں میں رہنے والے تھے۔اور بنی اسرائیل سے قریباً دس گنا تھے۔ حضرت موسیٰؑ نے یہ جنگنو اور خونخوار قوم دکھا کر کہا کہ اس قوم کو مار دو پھر حکومت تمہارے ہاتھ آجائیگی بنی اسرائیل پر حیرت کا اظہار کرنا آسان ہے لیکن ذرا سوچو۔ تمہارا ایک دوست تمہاری دعوت کرے۔ وقت مقررہ پر وہ تمہیں بلا کرلے جائے اور جب وہ بازار میں پہنچے تو ایک بڑے ہوٹل میں چلا جائے۔جہاں ہر ایک چیز پانچ چھ گنا قیمت پر ملتی ہو اور کہے کہ یہ ہوٹل ہے اس میں آپ آٹھ دس روپے خرچ کر کے کھانا کھا سکتے ہیں۔ اور دوسری طرف ایک ایسا مکان بھی ہے جہاں سے کھانوں کی خوشبو آ رہی ہے ۔ آپ اس کے اندر گھس جائیں مالک مکان کا سر لٹھ سے پھوڑ دیں اور کھانا لے لیں اس جواب کو سنکر تمہاری کیا حالت ہوگی۔ تم اس کو ذلیل کرنے والا تمسخر خیال کرو گے اور اس دوست سے ناراض ہو جائو گے۔ شاید تم میں سے جو شیلے ایسے دوست پر حملہ ہی کر بیٹھیں یہی حالت یہاں ہوئی۔ سینکڑوں میل سے حضرت موسیٰؑ اپنی قوم کو اس عودہ پر کہ وہاں انہیں بادشاہت ملے گی لائے۔ مگر ہوں پہنچکر انہیں کہ دیا کہ کنعان پر قابض قوم کو مار دو۔ اور ان سے حکومت چھین لو۔ اس جہالت کو دیکھ کر جو بنی اسرائیل میں اس وقت پھیلی ہوئی تھی خیال کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اس جواب پر سر پیٹ لیا ہو گا۔ وہ حضرت موسیٰ ؑ کی طرف دیکھتے ہونگے کہ تم نے عودے کیا کئے تھے اور اب کہ کیا رہے ہو۔ وہ کہتے ہونگے کہ وہیںہمیںکیوں نہ کہ دیا کہ فرعون کا سر اڑا دو۔ اور اس سے حکومت چھین لو۔ وہاں پر تو ہم یہ کر بھی سکتے تھے کیونکہ ہمارے آدمی فرعون کے گھروں میں کام کرتے تھے وزراء ہمارے واقف تھے اور کئی سہولتیں ہمیں میسر تھیں ۔ لیکن یہاں پر زبان اور ہے اس لئے ہم جاسوسی بھی تو نہیں کر سکتے ۔ وہ ذرائع ہمیں یہاں میسر نہیں ان لوگوں کو مارنا بھلا کونسا آسان کام تھا کہ تم ہمیں وہاں سے نکال لائے اور یہاں آکر کہ دیا کہ ان کو مارو۔ اور ملک پر قبضہ کرلو۔ یہ خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا لیکن خدا تعالیٰ انہیں نظر نہ آتا تھا۔ ورنہ وہ اس سے ہی جگھڑا کرتے ۔ حضرت موسیٰؑ انہیں نظر نہیں آتے تھے اس لیے انہی کو وہ مخاطب کرتے تھے اوربطاہر حالات انہوں نے شرافت سے ہی کاملیا۔ ورنہ وہ حضرت موسیٰ ؑ پر حملہ آور ہوتے۔ کہ تم نے ہمارے ساتھ نعوذ بااللّہ دھوکا کیا ہے۔ بائیبل میں آتا ہے کہ وہ روئے پیٹے اور بچوں کی طرح روٹھ گئے۔
قر آ ن کریم فر ما تا ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ اے مو سٰے! اِذْھَبْ اَنْتَ وَ رَبُّکَ فَقَا تِلَا اِنَّا ھٰھُنَا قٰعِدُوْنَ۔ (مائدہ آیت۲۵) ہما رے مدِ مقا بل ایک تجر بہ کار اور جنگجو قوم ہے۔ ان کے پاس اسلحہ بھی ہم سے زیادہ ہے وہ اپنی وطن میں ہیں اور راستوں سے اچھی طرح وا قف ہیں۔ہمیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کا تعا قب کیسے کر یں وہ محفوظ قلعوں میںہیں اور ہم جنگلو ں میں۔تم نے ہنسے وعدہ کیا تھا کہ ہمیں بادشا ہت دو گے اس لئے ہم توہا تھ نہیں اٹھا ئیں گے اور یہیںبیٹھے رہیں گے۔تم اور تمہا را خدا جاؤ اور ملک فتح کر کے ہمیں دے دو۔
بظا ہر معلو م ہو تا ہے کہ حضرت مو سٰیؑ نے انسے جو وعدہ کیا تھا اسے انہوں نے لفظاً پو را نہیں کیا۔ لیکن جب ہم اس وا قعہ کوایک اور نقطہ نگا ہ سے دیکھتے ہیں تو اس کی شکل ہی بدل جا تی ہے۔ رسول کریمﷺ نے مکہ کی فتح پر انصار سے مخا طب ہر کر فرما یا اے انصار! کیا تم نے یہ کہا ہے کہ خو ن تو ہما ری تلوا روں سے ٹپک رہا ہے اور مالِ غنیمت مہا جر ین میں تقسیم کر دیا گیا ہے ۔ انہوں نے عرض کیا۔ حضور ہم میں سے ایک نوجوان نے نا دانی سے ایسا کہ دے اہے ۔ آ پؐ نے فر ما یا ۔ تم کہ سکتے ہو کہ محمد(ﷺ) کو ہم نے بے درپا یا۔ ہم نے اسے اپنے گھر میںجگہ دی۔ اُس کے بھا ئی اُس کے خون کے پیا سے تھے۔ ہم اس کے آ گے پیچھے لڑے۔دنیا میں اس کا پیغا م پہنچا یا۔ پھر جب فتح ہو ئی تو اس نے مال اپنی قوم میں تقسیم کر دیا اور ہیمں کچھ نہ دیا۔ لیکن اگر تم چا ہو تو یہ بھی کہ سکتے ہو کہ محمد(ﷺ) نے ہمیں قربِ الہٰی حا صل کر یا۔ تقویٰ جیسی نعمت دی ۔ خداتعالٰی کی محبت دی اور پھر اللہ تعالیٰنے اپنی فضل سے اسے فتح دی۔ اور خدا ئی فوجوں نے مکہ فتح کیا۔مکہ اُس کاپیدا ئشی مقا م تھا اور مہا جر ین کا وطن۔انہیں تو قع تھی کہ مکہ فتح کرکے وہ اپنے گھروں پر قبضہ کر لیںگے مگر مکہ مکر مہ وا لے تو چند اونٹ لے گئے اور ہم اپنے سا تھ رسول اللّٰہ کو لے آے۔ یہی دونو ںرُخ یہا ں ہیں۔ اگر حکو مت کے رنگ میںکوئی تغیر خدا تعا لٰی کومنظور نہیں تھا اور وہ ایسی ہی حکو مت پسند کر تا جیسی فر عون کی تھی تو فر عون سے حکومت چھین کر بنی اسر ئیل کو کیوں دینا چا ہتا۔ خدا تعالٰی تو ایسی قوم کو با دشا ہت دینا چا ہتا تھا جو اخلا ق کی خو شنما حکو مت قا ئم کر تی۔ خدا تعا لٰی بھی اسر ائیل کو ایسی زندگی نہیں دینا چا ہتا تھاجو ختم ہو جاتی۔ ایسی زندگی تو چمار بھی دیتا ہے جبکہ وہ بچہ پیدا کرتا ہے۔ بلکہ خدا تعا لٰی انہیں ایسی زندگی دینا چاہتا تھا جو کو ئی اور نہیں دے سکتا تھا۔ خدا تعا لٰی انہیں اخلا ق فا ضلہ کہ ہمیشہ کی زندگی دینا چا ہتا تھاجوفر عون انہیں نہیں دے سکتا تھا۔ اور ایسی زندگی بغیر تربیت اور قر با نی کی عا دت کے انہیں نیہں مل سکتی تھی ۔ خدا تعا لٰی انہیں اپنے تا زہ نشا نو ں کے سا تھ زندہ کر نا چا ہتا تھا تا ان میں سے ہر ایک دس دس کے مقا بل میں کھڑا ہو۔ پھر خدا تعا لٰی ان کی اصلا ح ہوتی اور اس طر ح ان کو حقیقی زند گی ملتی گو یا پیا لے دونوں موت کے تھے۔لیکن فر عون کے پیا لہ میں شربت بھی مو ت کا تھا اور خدا تعا لٰی کے پیا لہ میں زند گی کا ۔ یہ فر ق تھا جسے وہ سمجھ نہ سکے۔ اگر وہ فر عون کا پیا لہ پی لیتے تو ہمیشہ کے لئے مو ت ملتی۔ لیکن وہ خدا تعا لٰی کا پیا لہ پی لیتے تو وقتی مو ت ہو تی جس کے بعد ہمیشہ کے لئے انہیں زندگی مل جا تی۔ مگر انہوں نے اس فر ق کو نہ سمجھا اور خداتعا لٰی کا پیش کر دہ مو ت کا پیا لہ پینے سے بھی اسی طر ح انکا ر کر دیا جس طرح فر عون کا پیا لہ پینے سے انکا ر کیا تھا۔ تب خدا تعا لٰی نے انہیں فر ما یا مُوْ تُوْ ا تم اپنے ہا تھی سے مو ت لینے لینے سے انکا ر کر تے ہو اب ہم خود تمہیں مو ت دیتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے فر عو نکی دی ہو ئی و ت اور اپنی دی ہو ئی مو ت میں فر ق رکھا۔ وہ لو گ گھر سے تو اللّٰہ تعا لٰی کے وعدہ پر اعتبار کر کے ہی نکلے تھے اسلئے اللہ تعالیٰنے کچھ عر صہ کی موت کے بعد انہیں پھر زندگی دے دی اور اس طر ح اس وعدہ کو پورا کر دیا۔
یہ ایک چھوٹی سی آیت ہے لیکن اس میں اللہ تعالی نے قومی جدوجہد کا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا ہے۔ دعا ئے ابرا ہیمی میں رسول کر یم ﷺ کے چا ر کا م بتا ئے گئے تھے۔ یَتْلُوْ ا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِیٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ یُزَ کیِّھِمْ(بقرۃآ یت۱۳۰) اول آ یا ت الہی سنانے کاکام ۔ دوم تعلیم کتاب کاکام۔ سو م تعلیم حکمت کاکام۔چہارم تزکیہ نفوس کاکام۔ یہ آ یت یُعَلِّمُھُمُ اْلحِکْمَۃَ کے ما تحت ہے۔ یہا ں قومو ں کی تر قی کے ذرائع بیا ن کئے گئے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰنے اسجگہ مثا ل دے کر بتا یا ہے کہ قو میں کس طر ح تر قی کیاکرتی ہیں ۔جب بھی کسی قو مکو مو ت کا ڈر ہو تو اس کا یہی علاجہے کہ یا تو وہ اپنے ہا تھ سے مو ت قبول کر ے یا خدا تعالٰی کے ہا تھ سے مو ت قبول کر ے۔ اپنے ہا تھ سے موت قبول کرنے میں کئی آسانیاں ہوتی ہیں ۔ حضرت مسیح موعودؑ فرمایا کرتے تھے کہ جب تم اپنے ہاتھ سے ابلاء لو تو تم اسے کم کر سکتے ہو۔ جیسے سردی میں وضو کے لئے پانی کی ٹھنڈک کو تم دورکر سکتے ہو۔ اسی طرح جنگ میں تم بخوشی موت قبول کرتے ہو لیکن تم اس سے بچائو کے لئے تلوار ہاتھ میں پکڑ لیتے ہو اور بدن پر زرہ پہن لیتے ہو تاکہ جہاں تک ہو سکے موت کے اثر کو کم کر دو۔اگر تم زخمی ہو تو علاج کر سکتے ہو۔ لیکن خدا تعالیٰ کی دی ہوئی موت سے تم کوئی بچائو نہیں کر سکتے خدا تعالیٰ کا قانون کام کرتا چلا جاتا ہے ۔ اور وہ یہ نہیں دیکھتا کہ اس طرح تکلیف کم ہو گی یا زیادہ مثلاً ہیضہ یا طاعون کی وبائیں بلا لحاظ مارتی چلی جاتی ہیں لیکن تم خود ایک چیز کی تکلیف کو کم کر سکتے ہو۔ مثلاً کانٹا چبھ جائے تو تم اسے اپنے ہاتھ سے نکالنے کی کوشش کرتے ہو۔ کیونکہ دوسرے سے تمہیں یہ توقع نہیں ہو سکتی کہ وہ اس تکلیف کو کم کرنے کی ویسی ہی کوشش کرے گا۔ جیسی تم کر سکتے ہو۔ پس جب قوم کی موت آتی ہے ۔ تو اس کا علاج زندہ رہنا نہیں بلکہ موت قبول کرنا ہوتا ہے۔
دینا میں تین قسم کی قومیں ہوتی ہیں ایک تووہ جو موت کو خود قبول کر لیتی ہیں۔ اور بعد میں انہیں ہمیشہ کے لئے زندگی مل جاتی ہے۔ جیسے رسول کریم ﷺ کے ساتھی تھے۔ صحابہ ؓ کے سامنے موت پیش ہوئی اور انہوں نے اسے قبول کر لیا۔ جس کے نتیجہ میں انہیں ہمیشہ کی زندگی مل گئی۔ جنگ بدر کے موقعہ پر تمام صحابہؓ رسول کریمﷺ کے ساتھ نہیں گئے تھے کیونکہ رسول کریمﷺ نے بعض مصالح کی بناء پر انہیں جنگ کی خبر نہیں دی تھی گو آپ کو اس کا علم تھا ۔ مگر جب رسول کریم ﷺ نے مدینہ سے باہر جا کر لڑنے کا ارادہ فرمایا۔ تو آپؐ نے انصار اورمہاجرین کو جمع کیا۔ اور فرمایا۔اے لوگو! مجھے مشورہ دو کہ اب کیا کرنا چاہئے اس پر مہاجرین کھڑے ہوئے اور انہوں نے عرض کیا یارسول ﷺ مشورہ کا کیا سوال ہے۔ ہم لڑنیکے لئے حاضر ہیں مگر جب کوئی مہاجر کھڑے ہوئے اور انہوںنے عرض کیا یا رسول اللّہ مشورہ کا کیا سوال ہے۔ ہملڑنیکے لئے حاضر ہیں۔ مگر جب کوئی مہاجر بیٹھ جاتا آپ پھر فرماتے کہاے لوگو۔ مجھے مشورہ دو۔ جب آپؐ نے بار بار یہ الفاظ دہرائے۔تو انصار سمجھ گئے کہآپ کا اشارہ ہماری طرف ہے۔ توانصار سمجھ گئے کہ آپ کا اشارہ ہماری طرف ہے۔ چنانچہ ایک انصاری کھڑے ہوئے اور انہوںنے عرض کیاکہ یارسول اللّہ! آ پؐ کی مرا دشاید ہم انصارسے ہے۔ آ پؐ نے فر ما یا۔ ہا ں۔ اُس نے کہا۔ یا رسول اللّٰہ! شا ید آ پ کا اشارہ اُس معا ہدہ کی طر ف ہے جو ہجر ت کے وقت ہم نے آ پ سے کیا تھا۔ کہ مدینہ کے انر ر رہ کر تو ہم دشمن کا مقابلہ کر ینگے مگر مد ینہ سے پا ہر آ پ کی حفا ظت کے ذمہ دار نہیں ہو نگے۔ آ پؐ نے فر ما یا۔تم ٹھیک سمجھے میرا اشارہ اسی طرف ہے۔ اس نے کہا یا رسول اللّٰہ! بیشک ہما را یہ معا ہدہ تھا کہ ہممد ینہ سے باہر نہیں لڑ یں گے۔ لیکن یا رسول اللّٰہ! وہ ابتدائی زما نہ تھا۔ اب خدا کا نور ہمنے خود اترتے دیکھ لیا ہے۔ اب یہ نہیں ہو سکتا کہ آ پ میدا نِ جنگ میں جا ئیں اور ہم نہ جا ئیں۔ ہم ان انصار کی طرف سے بھی جو علم نہ ہو نے کی وجہ سے مدینہ میں رہ گئے ہیں حضور کو یقین دلا تے ہیںکہ اگر وہ بھی یہا ں مو جو د ہو تے تو ضرور آ پ کے سا تھ جنگ میں شا مل ہو تے پھر اُس نے کہ ا۔ یا رسول اللّٰہ! اب معا ہدا ت کاکیا سو ال ہے۔آ پ ہمیں حکم دیں کہ سمندر میں گھو ڑے ڈال دو تو ہم سمندر میں گھو ڑے ڈا لنے کیلئے بھی تیار ہیں اور اگر لڑائی ہو ئی تو یا رسول اللّٰہ ہم آ پ کے دا ئیں بھی لڑیں گے اور با ئیں بھی لڑیں گے اور آ گے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور کو ئی شخص آ ہ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے۔ یہ فقرہ صحا بہ ؓ کو اسقدر پسند تھا کہ ایک صحا بی جو چو دہ یا اٹھا رہ جنگوں
وَقَا تِلُوْ ا فِیْ سَمِیْع’‘ عَلِیْم’‘o
میںشریک ہو ئے کہا کر تے تھے۔ کہ با وجو د اس کے کہ مجھے اتنی جنگوں میں شمو لیت کا فخر حا صل ہے میرے نذ دیک اُس صحا بی کا یہ فقرہ میری سار ی لڑائیوں سے بہتر تھا۔کاش یہ میرے منہ سے نکلتا۔
غر ض ایک تو یہ قوم تھی جنہو ں نے بخو شی موت کو قبول کے اور اس کے مظا بق اس سے سلو ک ہوا۔ دو سری قوم حضرت موسٰی ؑ کی تھی ۔اللّٰہ تعا لٰی نے اس سے زندگی کا وعدہ کیا۔ اور اس نے وعدہ کے ایفاء کا لفظاً مطا لبہ کیا انہوں نے کہا تم ہم کو زندگی دینے کا وعدہ پر لائے تھے۔ تم نے ہمیں با دشا ہت دینے کا وعدہ کیا تھا تم وہ ملک لے کر ہمیں دے دو۔ ہم لڑ کر ملک لینے کے لئے تیا ر نہیں۔ اس پر خدا تعا لٰی نے انہیں مو ت دیدی اور چالیس سال تک اس ملک سے محروم کر دیا۔ مگر چو نکہ زندگی کا وعدہ بھی تھا۔ اس لئے پھر زندگی بھی دیدی۔لیکن اسوقت جب کہ وہ نسل جس نے خود مو ت لینے سے انکا ر کر دیا تھا بیا با نوں میں ہلا ک ہو چکی تھی۔ خدا تعالٰی نے اِنَّا ھٰھُنَا قٰعِدُوْنَ کہنے والوںکے بچوں کو جنہوں نے یہ فقرہ نہیں کہا تھا۔ اٹھا یا اور زندگی کا وعدہ ان کے زما نہ میں پورا کر دیا۔ چنا نچہ ثُمَّ اَحْیَا ھُمْ میں اسی امر کی طرف اشارہ ہے۔
تیسری قسم کی قوم وہ ہو تی ہے جس سے کو ئی وعدہ نہیں ہو تا۔ یہ قوم جب مو ت کے مو نہ میں آ تی ہے تو اس سے سلوک اس کی اپنی ہمت کے مطا بق ہو تا ہے کبھی اپنی کو شش سے ایسی قوم بچ جا تی ہے اور کبھی ہلاک ہو جاتی ہے۔ غرض اس آ یت میںاللہ تعالیٰنے یہ ایک عجیب نکتہ بتا یا ہے کہ غلا م قوم اور مغلو ب لوگ کبھی زندگی نہیں پا سکتے جب تک کہ پہلے اپنے لئے مو ت کو اختیار نہ کر لیں۔
وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّا سِ لاَ یَشْکُرُوْنَ میں بھی یہ بتا یا کہ خدا تعا لٰی جو مجا ہدات بتا تا ہے وہ قومی ترقی کے لئے ضروری ہو تے ہیں۔ مگر لو گ ان پر شور مچا دیتے ہیں کہ ہم مر گئے۔ بو جھو ں میں دب گئے حا لا نکہ فا ئدہ ان کااپنا ہوتاہے۔
۱۵۵؎ تفسیر:۔ فر ما تا ہے۔ اے امّت محمدیہ تم اُ س قو م کی حا لت کو دیکھو جسے مو سٰی ؑ مصر سے حا صل ہو۔ لیکن جب انہیں اپنے دشمنوں سے جو اُ ن کے ملک پر قا بض تھی لڑنے کے لئے کہا گیا تو انہوں نے انکا ر کر دیا۔ اسپر خدا تعا لٰی نے انہیں اس ملک کو حکو مت سے چا لیس سا ل تک کے لئے محروم کر دیا اور وہ جبگلو میں بھٹک بھٹک کر مر گئے۔ غرض با وجو د اس کے کہ مو ت ان کو اپنے گھروں میں بھی آ نی تھی انہوں نے خداتعا لٰی کی راہ میں موت کا پیا لہ پینے سے انکا ر کر دیا اور تبا ہ ہو گئے۔ خدا تعا لٰی فر ما تا ہے کہ تمہیں اس قوم کے حا لات سے عبرت ضا صل کر نی چا ہیے اور خدا تعا لٰی کی راہ میں جہا د کر نے سے کبھی انکار نہیں کر نا چا ہیے۔ جو قوم موت سے ڈرتی ہے وہ دنیا میں کبھی زندہ نہیں رہ سکتی کیو نکہ مو ت سے ڈرنا ہی اُسے موت کا شکار بنا دیتا ہے۔
وَاعْلَمُوْ ا اَنَّ اللّٰہَ سَمِیْع’‘ عَلِیْم’‘ میںبتا یاکہ بے شک تم کمزور اور بے سروسا مان ہو۔ اور تمہارا دشمن بڑا تجر بہ کار اور سارے سا ما ن سے مسلح ہے مگراللہ تعالیٰسمیع ہے وہ تمہاری دعا ؤں کو سنے گا۔ اور وہ علیم ہے یعنی ان مشکلا ت کو بھی جا نتا ہے جو تمہیں پیش آ ئیں گی۔ اس لئے تم پر بھروسہ رکھو وہ تمہار ی دعا ؤں کو سنیگا اور تمہیں دشمن کے مقا بلہ میں کامیا بی و کامرا نی عطا فر ما ئیگا۔
مَنْ ذَالَّذِیْ
تُرْجَعُوْنَo
۱۵۶ ؎ حل لغات:۔ یُقْرِ ضُ: اَقْرَضَ سے مضا رع وا حد مزکر غا ئب کا صیغہ ہے اور اس کے معنے قرض دینے کے بھی ہیں اور کاٹ کر الگ کر دینے کے بھی چنا نچہ اَقْرَضَہ‘ کے یہ بھی معنے ہیںکہ قَطَعَ لَہ‘ قِطْعَۃً اُس کے لئے ایک ٹکڑہ کا ت کر الگ کر دیا۔ اور یہ بھی کہ اَعْطَا ہُ قَرْ ضاً اُسے قرض دیا۔(اقرب)
لسا ن العرب میں لکھا ہے۔ اَلْقَرْضُ: اَلْقَطْعُ وَ ھُوَ مَا اَسْلَفَہ‘ مِنْ اَحْسَا نٍ اَوْمِنْ اَسَا ئَ ۃٍ یعنی ہر وہ عمل جسے انسا ن اپنے آ گے بھیجے خواہ وہ نیک ہو یا بد اُسے قرض کہتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ اس سے مراد مال ہی ہو۔ چنا نچہ اُمیّہ کا شعر ہے؎
کُلُّ امْرِئیٍ سَوْفَ یُجْزیٰ قَرْضَہً
حَسَنًا اَوْسَیِِِِِِِّئًا مَدِ یْنًا مِثْلَ مَا دَانَ
یعنی ہر شخص کو اس کے قرض کا بدلہ ملیگا خواہ وہ اچھا ہویا برا اور وہ اپنے کئے کی جزاء پا ئیگا۔
اَلْقَرْضُ کُلُّ اَمْرِیُتَجَا ریٰ بِہِ مِنَ النَّاسِ۔ ہر ایسا فعل جس کا انسا ن کو بدلہ دیا جائے قرض کہلاتا ہے قَرَضْتُہ‘ کے معنے ہیںجَا زَیْتُہ‘ میں نے اُسے بدلہ دیا ۔ تَقُوْ لُ الْعَرَبُ لَکَ عِنْدِی قَرَض’‘ حَسَن’‘ وَ قَرَض’‘ سَیِِّئی’‘۔ عرب کہتے ہیں کہ تیرا میرے ساتھ اچھا معا ملہ ہے، میں نے اس کا بدلہ دینا ہے۔ اسی طرح یہ بھی کہتے ہیں کہ تیرا معا ملہ میرے ساتھ برُا ہے میںح نے اس کا بدلہ دینا ہے۔ ۔ اسی طرح یہ بھی کہتے ہیں کہ تیرا معا ملہ میرے سا تھ بُرا ہے میں نے اس کا بدلہ دینا ہے۔ وَاَصْلُ الْقَرْضِ مَایُعْطِیْہِ الرَّ جُلُ اَوْ یَفْعَلُہ‘ یُجَا زٰی عَلَیْہِ وَاللّٰہُ لَا یَسْتَقْرِضُ مِنْ عِوَضٍ وَلٰکِنَّہ‘ یَبْلُوْ عِبَا دَہ‘۔ا صل قرض یہ ہے کہ انسان کسی کو کوئی چیز دے یا ایسا کام کرے جس کا اُسے بدلہ دیا جا ئے۔ کہتے ہے خدا تعا لٰی عوض کے بدلہ میں نہیں لیتا بلکہ وہ اپنے بندوں کی آ زما ئش کر تا ہے ۔ لبید کہتا ہے؎
وَاِذَا جُوْ زِیْتَ قَرْضًا فَاَ جْزِہ
اِنَّمَا یُجْزَی الْفَتٰی لَیْسَ الْجَمَل‘
کہجب تجھے قر ض دیا جا ئے تو تُو اس کا بدلہ دے۔کیو نکہ بہا در آ دمی ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔ اونٹ نہیں دیا کر تے۔ یعنی تُو ایسا نہ بن کہ لو گ تجھ سے معا ملہ کر یں تو تُو اُن سے اچھا معا ملہ نہ کرے۔
اِ سی طرح کہتے ہیں۔ اَلْقَرْضُ فِیْ قَوْلِہ تَعا لٰی مَنْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا اِسْم’‘ لَیْسَ بِمَصْدَرٍ وَلَوْ کَانَ مَصْدَرًا لَکَانَ اِقْرَاضًا وَلٰکِنَّ الْقَرْضَ کُلُّ مَایُلْتَمَسُ عَلَیْہِ الْجَزَآئُ کہ قر ض کا لفظ اِس آ یت میں اسم ہے نہ کہ مصدر۔ اگر ہو تا تو اَقْرَاض ہو نا چا ہیے تھا۔مگر یہا ں قَرْض ہے۔ جس کے معنے ہر دو چیز جس پر انسا ن بدلہ چا ہے۔
اخفش کہتا ہے۔ یَقْرِضُ اللّٰہَ: یَفْعَلُ فِعْلاً حَسَنًا فِیْ اِتِّبَاعٍ اَمْرِہ یُقَالُ لِکُلِّ مَنْ فَعَلَ اِلَیْہِ خَیْرًا لَقَدْ اَحْسَنْتَ قَرْضِیْ کہ یہ محا ورہ ہے کہ جس آ دمی سے اچھا سلوک کیا جا ئے۔ وہ کہتا ہے تو نے مجھے اچھا قر ض دے اہے یعنی اچھا معا ملہ کیا ہے یا یوں کہتے ہیں کہ لَقَدْ اَقْرَ ضْنتَنِیْ قَرْ ضًا حَسَنًا اَیْ اَدَّیْتَ اَلِيَّ خَیْرًا تو نے مجھے قر ضہ حسنہ دیا ہے۔ یعنی میرے سا تھ بُری نیکی کی ہے۔ ان معنوں کی رو سے زیر تفسیر آ یت کا مفہوم یہ ہو گا کہ (۱) کو ن ہے جواللہ تعالیٰکے احکا م کی اطا رت کرے ایسی صورت میں کہ وہاللہ تعالیٰسے اُس کی جزاء کی اُ مید رکھے۔(۲) کو ن ہے جو اپنے ما ل کا ایک حصہ کا ٹکرااللہ تعالیٰکی راہ میں دے۔ گو یا دونوں معنوں کی رہ سے غرض یہ ہو گی کہاللہ تعالیٰکی اتباع کر ے اور اپنے ما ل کا ایک حصہ کا ٹ کر اس کی راہ میں خر چ کرے۔
اَضْعَا ف’‘: ضِعْف’‘ کی جمع ہے۔اور ضِعْفً کے معنے عربی زبا ن میں کئی ہیں۔(۱)محض بڑھا دینا(۲) جتنی چیز ہو اتنی ہی اور بڑ ھا دینا یعنی دوگنا کر دینا۔(۳) کہتے ہیں کہ یہ کم از کم افزائش ہے بڑی حد مقرر نہیں کی جا سکتی خوا ہ اُسے کروڑ گنا بڑھا دیا جا ئے۔ کروڑ گنا بھی اضعاف میں داخل ہے۔یہ جملہ ہے تو سوا لیہ مگر تحر یص کا فا ئدہ دیتا ہے۔ اس کی اصل عبا رت یوں ہو گی اَیُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا فَیُضَا عِفَہ‘ لَہ یا ھَلْ مِنْ مُّقْرِضٍ فَیُضَا عِفَہ‘
تفسیر:۔ جیسا کہ حل لغا ت میں بتا یا جا چکا ہے اس آ یت کے معنے یہ ہیں کہ تم میں سے کون ہے جو اپنے ما لکا ایک عمدہ حصہ کاٹ کراللہ تعالیٰکو دیدے تا کہ وہ اُسے خو د دینے والے کے فا ئدے کے لئے بڑھائے اور اُسے تر قی دیتا چلا جا ئے۔ اس آ یت میں نہایت لطیف پیرا یہ میں مو منوں کواللہ تعالیٰکے لئے اپنے اموا لی خرچ کر نے کی نصحیت کی گئی ہے اور بتا یا گے اہے کہ اول تو ہم تم سے سا را ما ل نہیں ما نگتے بلکہ ما ل کا صرف ایک حصہ ما نگتے ہیں اور پھر ما نگتے بھی اس لئے ہیں کہ تم ایک روپیہ دو تو تمہیں اس کا دس گنا اجر دیا جا ئے گا۔ خدا تعا لٰی کی محبت اور اُس کی رضا حا صل کر نیکا اس سے زیا دہ سہل اور آ سان طریق اور کیا ہو سکتا ہے۔
یہ بھی یاد رکھنا چا ہیے کہ انسا ن جب خدا تعا لٰی کے لئے اپنا ما ل خرچ کر ے تو اسے تین با تیں خا ص طور پر ملحوظ رکھنی چا ہئیں۔ اول اُس کے دل میں صدقہ و خیرا ت کرتے وقت کوئی انقباض پیدا نہ ہو۔ بلکہ وہ پوری بشاشت اور خوش دلی کے سا تھ اُس میں حصہ لے۔ دوم جسے کو ئی چیز دہ جا ئے اُس ہر احسا ن نہ جتا یا جا ئے اور نہ اس کے نتیجہ میں اس پر کو ئی نا وا جب بو جھ ڈالا جا ئے بلکہ یہ سمجھا جا ئے کہ خدا تعالٰی نے مجھے اس نیکی کی تو فیق دے کر در حقیقت مجھ ہر احسا ن کیاہے۔ سوم جو چیز دی جا ئے وہ اپنے مال کا بہترین حصہ ہو۔یہ تینوں امور مندرجہ ذیل آ یتوں سے مستنبط ہو تے ہیں۔
اللّٰہ تعا لٰی منا فقوں کے متعلق فر ماتا ہے :۔ وَلَا یُنْفِقُوْنَ اِلَّا وَھُمْ کَا رِھُوْنَ(توبہ آیت۵۴)
وہ خدا تعالٰی کی راہ میں کرا ہت اور نا پسند ید گی کے سا تھ اپنے ما ل خرچ کر تے ہیں۔ اسی طرح فا ما تاہے:۔ اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ نِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ لاَ یُتْبِعُوْنَ مَا اَنْفَقُوْامَنًّا وَّلَا ٓاَذیً(بقرہ آیت ۲۶۳) مومن وہ ہیں جو اپنے ما لوں کیاللہ تعالیٰکی راہ میں خرچ کر نے کے بعد نہ تو کسی رنگ میں دوسروں پراحسان جتلا تے ہیں اور نہ انہیں کسی قسم کی تکلیف دیتے ہیں۔پھر فر ما تا ہے۔ لَنْ تَنَا لُو الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْ امِمَّا تُحِبُّوْنَ۔(اٰل عمران آ یت ۹۳) تم کا مل نیکی کا مقام ہر گز نہیںپا سکتے جب تک کہ تم اپنی پسند یدہ اشیا ء میں سے خرچ نہ کرو۔
پس مَنْ ذَاالَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًاحَسَنًا کا مطلب یہ ہے کہ کیا تم میں سے کو ئی جو اپنے مالکا اچھے سے اچھا ٹکڑا الگ کر کیاللہ تعالیٰکی راہ میں دے جس کے دیتے وقت نہ تو اس کے دل میں انقبا ض پیدا ہو اور نہ اس کے بعد وہ دوسروں پر احسا ن جتلا ئے یا ان کے لئے کسی قسم کی تکلیف کا مو جب بنے۔ اور یقیناً یاد رکھو کہ جو لاگ ایسا کر یں گے اللّٰہ تعا لٰی انہیں اس نیکی کا بہتر سے بہتر اجر عنا یت فر ما ئیگا۔ اور ان کا ایک ایک عمل ان کے لئے ہزاروں گنا برکا ت کا مو جب ہو گا۔
مَنْ ذَاالَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًاحَسَنًا؟ بظا ہر تو ایک سوال ہے مگر اس کی غرض لوگوں کو تحر یص و تر غیب دلا نا ہے۔ اور مطلب یہ ہے کہ کیاکو ئی ہے جو اللہ تعالیٰکے را ستہ میں اپنا مال خرچ کر ے اور اللہ تعالیٰاس کے مال کو بڑھا ئے اور اسے اپنے قرب میں جگہ دے۔
اِس آ یت کے ایک یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ تم اللہ تعالیٰکے بندوں کو قرض حسنہ دیا کرو۔ یعنی اس کے بندوں سے حسن سلوک کرو اور جو غریب ہیں ان کی مدد کرو۔ کیونکہ اللّہ تعالیٰ کو تو کسی نے نہیں دینا بندوں ہی کو دینا ہوتا ہے۔ بعض دفعہ بندوں کو دینے کا نام بھی خدا تعالیٰ کو دنیا رکھا جاتا ہے۔ جیسے حدیثوں میں آتا ہے کہ قیامت کے دن خدا تعالیٰ بعض لوگوں سے کہے گا۔ کہ اے ابن آدم میںبیمار ہوا لیکن تو نے میری عیادت نہ کی ۔ میں بھوکا رہا اور میں نے کھانا بھی مانگا مگر تو نے مجھے کھانا نہ کھلایا میں پیا سا رہا اور تجھ سے پانی بھی مانگا مگر تو نے مجھے پانی نہ پلایا۔ اس کے بعد حدیث میں آتا ہے۔ کہ بندہ خدا تعالیٰ سے پوچھیگا کہ اے اللّہ! تو کب بیمار ہوا۔ کہ میں نے تیری عیادت نہ کی۔ تو نے کب مجھ سے پانی مانگا۔ کہ میں نے تجھے پانی نہ پلایا۔ تو نے کب مجھ سے کھانا مانگا کہ میں نے تجھے نہ کھلایا۔ اسپر خدا تعالیٰ فرمائیگا۔ کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا مگر تو نے اس کی بیمار پرسی نہ کی میرے فلاں بندہ نے تجھ سے کھانا مانگا مگر تو نے اسے کھانا نہ کھلایا۔ میرے فلاں بندہ نے تجھ سے پانی مانگا مگر تو نے اسے پانی نہ پلایا۔ (مسلم جلد۲کتاب البروالصلۃ والآداب باب فی فضل عیادۃ المریض)پس خدا تعالیٰ کو قرض دینے کا ایک یہ بھی مفہوم ہے کہ اس کے بندوں سے نیک سلوک کیا جائے اور ان کی مالی پریشانیوں کو دور کرنے میں حصہ لیا جائے۔ عیسائیوں نے اس حدیث پر اعتراض کیا ہے۔ حالانکہ اس حدیث کے الفاظ بعینہٖ انجیل میں بھی آئے ہیں ۔ وہاں لکھا ہے۔ "تب بادشاہ انہیں جو اس کے داہنے ہیں کہیگا۔ اے میرے باپ کے مبارک لوگو۔ اس بادشاہت کو جو دنیا کی بنیاد ڈالنے سے تمہارے لئے تیار کی گئی میراث میں لو کیونکہ میں بھوکا تھا۔ تم نے مجھے کھانا کھلایا میں پیاسا تھا۔ تم نے مجھے پانی پلایا۔ میں پردیسی تھا تم نے مجھے کپڑا پہنایا۔ بیمار تھا تم نے میری عیادت کی۔ قید میں تھا تم میرے پاس آئے۔ اس وقت راست باز اسے جواب میں کہیں گے۔اے خداوند کب ہم نے تجھے بھوکادیکھا۔ اور کھانا کھلایا۔ پیاسا دیکھا اور پانی پلایا۔ کب ہم نے تجھے پردیسی دیکھا اور اپنے گھر میں اتارا یا ننگا دیکھا اور کپڑا پہنایا۔ ہم کب تجھے بیمار یا قید میں دیکھ کر تیرے پاس آئے۔ تب بادشاہ انسے جواب میں کہے گا۔ میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں ۔ کہ جب تم نے میرے ان سب سے چھوٹے بھائیوں میں سے ایک کے ساتھ کیا۔ تومیرے ساتھ کیا۔ تب وہ بائیں طرف والوں سے بھی یہی کہے گا۔ اے ملعونو! میرے سامنے سے اس ہمیشہ کی آگ میںجائو۔ جو شیطان اور اس کے فرشتوں کے لئے تیار کی گئی۔کیونکہ میںبھوکا تھا پر تم نے کھانے کو نہ دیا۔ پیاساتھا تم نے مجھے پانی نہ پلایا۔ پردیسی تھا تم نے مجھے اپنے گھرمیں نہ اتارا۔ ننگا تھا تم نے مجھے کپڑا نہ پہنایا۔ بیمار اور قید میں تھا تم نے میری خبر نہ لی۔ تب وہ بھی اسے جواب میں کہیں گے۔ اے خدا وند کب ہم نے تجھے بھوکا یا پیاسا یا پردیسی یا ننگا یا بیمار یا قیدی دیکھا اور تیری خدمت نہ کی۔ تب وہ انہیں جواب میں کہے گا۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں ۔ کہ جب تم نے میرے ان سب سے چھوٹے بھائوں میں سے ایک کے ساتھ نہ کیا تو میرے ساتھ بھی نہ کیا۔" (متی باب ۲۵ آیت ۳۵تا۴۵)۔ انجیل کے اس حوالہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعض دفعہ بندوں کو دینا خدا تعالیٰ کو دینا کہلاتا ہے۔ پس مَنْ ذَاالَّذِیْ یُقْرِضُ اللّہَ سے مَنْ ذَاالَّذِیْ یُقْرِضُ عِبَادَ اللّہِ مراد ہے۔ اور چونکہ اس سے پہلے وَقَاتِلُوْافِیْ سَبِیْلِ اللّہِ میں جہاد کا حکم دیا گیا ہے۔ اس لئے اس کے معنی یہ ہیں کہ لڑائوں کے ایام میں بعض کو مالی نقصان پہنچیں گے۔ تم کو چاہئے کہ انہیں قرض دیکر انکے حالات درس کرو۔ یہ قرض گویا تم خدا تعالیٰ کو دو گے۔ اور یاد رکھو ۔ کہ جو شخص خدا تعالیٰ کے لئے ایک دانہ بھی خرچ کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ اسے بڑھاتا ہے اور اتنا بڑھاتا ہے کہ کسی کو اس کی امید بھی نہیں ہوتی۔ حضرت ابراہیم ؑ کو دیکھو۔ انہوںنے اپنا ایک بیٹا خدا تعالیٰ کے لئے قربان کیا اور خداتعالیٰ نے انکو اس کے بدلہ میں اتنی اولاد دینے کا وعدہ دیا جس کا آسمان کے ستاروں کیطرحشمار ہی نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح حضرت اسمعٰیل ؑ نے خدا تعالیٰ کے لئے ایک بے آب و گیارہ جنگل میںرہنا منظور کیا۔ جس کے بدلہ میں ان کو یہ مرتبہ ملا کہ اولین و آخرین کے سردار ھضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ان کی نسل میں سے پیدا ہوئے۔ پس فرماتا ہے کہ تمیہ مت گمانکرو کہ تمہاری قربانیاں ضائع چلی جایئں گی۔ خدا تعالیٰ نیاس کے بدلہ میں تمہارے لئے جو انعام مقرر کیا ہے وہ تمہارے وہم و گمان سے بھی بالا ہے۔
فَیُضَاعِفُہ‘ اَضْعَا فًا کَثِیْرَۃً پر بعض لوگوں نے اعتراض کیاہے کہ اَضْعَا فاً کس طر ح آسکتا ہے۔یہا ں تو ضِعَافاً آنا چا ہیے تھا۔ اس کا بعض نے یہ جواب دے اہے کہ چو نکہ تعداد انوا ع کی طرف اشارہ کر نا مدّنظر تھا۔اس لئے اَضْعَافاً رکھا گیا ہے، ضِعَا فاً سے تو صرف یہی مرا د ہو سکتا تھا کہ وہ اُسے کئی گنُے بڑھا ئیگا۔ مگر اَضْعَا فاً میں اس با ت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ بڑھائیگا بھی اور یہ زیادتی کئی قسم کی ہو گی۔پس تعداد انواع کے اظہار کے لئے ضِعَافاً کی بجا ئے اَضْعَا فاً جمع لا ئی گئی ہے۔
وَاللّٰہُ یَقْبِضُ وَیَبْصُطُ میں تو ایک تو اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جس طرح تمہارے دوسرے بھا ئیوں پر مصیبت آ ئی ہے اسی طرح تم پر بھی آ سکتی ہے۔ کیو نکہ تنگی اور کشائش کے دور بدلتے رہتے ہیں اس لئے ان کی مدد کر نا تمہارا اوّلین فرض ہے۔
دوسریاللہ تعالیٰنے ان الفا ظ میں پہلے جملہ کی مزید تشریح کر دی ہے کہ اللّٰہ تعا لٰی کے فرض لینے کا مطلب ہے۔ فر ما یا۔اللّٰہ تعا لٰی کی یہ سنت ہے کہ وہ پہلے اپنے بندوںکا مال لیتا ہے اور پھر اُس کو بڑھا تا اور ترقی دیتا ہے۔پس جب تک بندہ قربا نی نہ کر ے اس وقت تک خدا تعا لٰی کی وہ خا ص فضل بھی نا زل نہیں ہوتا جس کی طرف یَبْصُطُ کا لفظ اشارہ کر رہا ہے۔ یَقْبِضُ وَیَبْصُطُ کے ایک معنے یہ بھی ہیں کہاللہ تعالیٰکی یہ سنت ہے کہ وہ تنگی بھی لاتا ہے اور کشائش بھی پیدا کر تا ہے اور جب دونوں اس کے اختیار میں ہیں تو پھر جو بھی اس کے احکا م پر چلیگا اُس کے لئے وہ بسط پیدا کر یگا اور جو اس کی نافرمانی کر یگا اس کیلئے وہ قبض یعنی عذاب کی صورت پیدا کر دیگا۔
اسی طرح اس کے ایک یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ دنیا میں انسا نکی دو ہی حالتیں ہو تی ہیں یا تو قبض کی حا لت ہو تی ہے یا بسط کی۔ چنانچہ رسول کر یمﷺ کی خدمت میں ایک دفعہ ایک صحا بیؓ حا ضر ہو ئے ۔ اور انہوں نے کہا۔یا رسول اللّٰہ! میں تو منافق ہون۔ رسول کر یمﷺ نے فر مایا۔ تم تو مومن ہو تم اپنے آ پ کو منا فق کیوںسمجھتے ہو۔ اس صحا بی ؓ نے کہا یا رسول اللّٰہ ﷺ! میں جب
اَلَمْ تَرَاِلَی


تک آپ کی مجلس میں بیٹھارہتا ہوں یوں معلوم ہوتا ہے کہ دوزخ اور جنت میرے سا منے ہیں۔ اور خشیت الہٰی کا زور ہو تا ہے۔ لیکن جب میں اپنے گھر جاتا ہوں تو وہ حالت قائم نہیں رہتی۔ رسول کریمﷺ نے فر مایا۔یہی توخالص ایمان ہے۔پھر آ پؐ نے فرمایا۔ اگر انسا ن ایک ہی حالت پر رہے تو وہ مر نہ جائے۔ غرض قبض و بسط دونوں حا لتیں انسا ن پر آ تی رہتی ہیں اگر انسا ن کی پر وقت ایک قسم کی حالت رہے تو اگر جسما نی طور پر نہیں تو دماغی طور پر وہ یقینًا مرجائیگا اور پا گل ہو جائیگا۔ مجنونوں اور عقلمندوں میں یہی فر ق ہوتا ہے کہ مجنونپر ایک ہی حا لت ہمیشہ طاری رہتی ہے۔ اور عقلمندوں پر اتار چڑھا ؤ آ تا رہتا ہے مجنون ایک ہی قسم کے خیا لات میں مبتکا رہتا ہے لیکن عقلمند شخص کے خیا لات ایک قسم کے نہیں رہتے۔ غرض قبض وبسط کی حا لتیں انسا ن کے ساتھ لا زم کر دی گئی ہیں کبھی اس کے اندر بسط کی لہر پیدا ہوتی ہے اور وہ دین کے لئے سب کچھ قر با ن کر نے کیلئے تیار ہو جاتا ہے۔ اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ حساب کر نے بیٹھ جاتا ہے کہ میں کتنی قرنا نی کر سکتا ہوں۔ یہ حسا ب کر نیوالی حالت قبض کی حالت ہو تی ہے اور جب کو ئی شخص سب کچھ دینے کیلئے تیار ہو جا تا ہے اور اس میں خوشی محسوس کر تا ہے تو وہ بسط کی حا لت ہوتی ہے۔پس فرمایا کہ تم دونوں حا لتوں میں خدا تعالٰی کی راہ میں اپنے اموال خرچ کرو۔ کیو نکہ تنگی بھی عا رضی چیز ہے اور فراخی بھی عا رضی۔ اور چو نکہ سوال ہو سکتا تھا کہ اگر خداتعالٰی کے پاس ہما را مال بڑھتا رہتا ہے تو اس کا ہمیں کے افا ئدہ اس لئے فر ما یا کہ وَاِلَیْہِ تُرْ جَعُوْنَ۔ اصل گھر توتمہارا وہی ہے۔ پس جو کچھ تم ہما رے پاس بھیجتے ہو ہم اسے بڑھا تے رہتے ہیں ۔جب تم آ ؤ گے تو خدا تعا لٰی نے تمہارا مال بہت بڑھا رکھا ہو گا۔ اور وہ تمہیںمل جائیگا ۔ جیسے کو ئی ملا زم با ہر جاتا ہے تو روپیہ اپنے گھر بھیجتا رہتا ہے اور اس کی بیوی اسے جمع کر تی رہتی ہے۔مگر خدا تعا لٰی صرف جمع ہی نہیں کر تا بلکہ اسے بڑھا تا بھی رہتا ہے۔پس اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ میں بتا یا کہ آ خر ایک دن تم نے خدا کی طرف لوٹنا ہے۔ جہا ں ایک دائمی زندگی تمہارا انتظار کر رہی ہے۔پس عا رضی چیزوںکی وجہ سے اپنی دائمی زندگی کو نقصان مت پہنچاؤ اور جس قدر بھی نیکی میں حصہ لے سکتے ہو لو۔
قرآن کر یم کا کمال دیکھو کہ اس میں نفس اور اموا ل کی تر بیت کیسے عجیب طور پر رکھی گئی ہے۔چو نکہ جنگ میںسب سے پہلے سپا ہی کاوجو د ضروریہو تا ہے جو قوم اور ملت کے لئے اپنی جا نکی با زی لگا دیتا ہے۔اس لئیاللہ تعالیٰنے قَا تِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کا حکم دے کر مع منوں سے ان کی جان کا مطا لبہ کیا۔ اس کے بعد دوسرا سوال خزانہ کی مضبوطی کا ہو تا ہے۔ کیو نکہ جب کوئی قوم میدانِ جہا د میں نکلتی ہے تو ملک کے خزانہ پر جنگی اخراجات کا غیر معمولی بار پڑ جاتا ہے۔ اور اس کمی کو پورا کر نا ضروری ہوتا ہے۔ ورنہ جنگ زیا دہ دیر تک نہیں لڑی جا سکتی۔ اسی حکمت کے ما تحتاللہ تعالیٰنے دوسرے نمبر پر مالی قربانیوں کی تحریک فر مادی اور اسطرح قومی اور مذہبی استحکام کے لئے جاب اور مالکی قر با نیوں کو ایک بنیادی حیثیت دے کر ان کی طبعی تر تیب بھی قا ئم کر دہ کہ پہلا درجہ جا نی قربانیوں کا ہے اور دوسرا درجہ مالی قربا نیوں کا۔


بِا الظَّلِمِیْْنَo
۱۵۷؎ حل لغات:۔ مَلَا’‘: اس کے اصل معنے بھر دینے کے ہیں ۔کہتے ہیں۔ مَلَاَ اْلِا نَا ئَ باِ ْلْمَائِ اُس نے بر تن کو پا نی سے بھر دیا۔ مُلِئَی رُعْبًا اُس کا دل خوف سے بھر گیا۔ اَلْمَلَاُ کے معنے ہیں۔ سرداران قوم۔ بڑے آ دمی کیو نکہ جب مجلس میں بڑا آ دمی آجاتا ہے تو کہتے ہیں۔ اب مجلس بھر گئی ہے۔ اب کسی کی ضرورت نہیں رہی۔ غرباء خواہ پچا س بیٹھے ہو ئے ہوں جب تک بڑا آ دمی نہ آ جائے تب تک یہی کہتے ہیں کہ ابھی رونق نہیں ہوئی۔ اور اس وقت تک کام بھی شروع نہیںکر تے جب تک کہ وہ آ نہ جائے۔ اس لئے مَلَاَ ئَ بڑے لوگوں کی مجلس کوبھر دیتے ہیں۔ اسی طرح ان کے خوف یا محبت کی وجہ سے بھی لوگوں کے دل بھرے ہو ئے ہیں۔
ھَلْ عَسَیْتُمْ: عَسٰی بعض جگہ تو امکان کیلئے آ تا ہے اور بعض جگہ تو قع کے لئے جب یہ لفظ خدا تعا لٰی کے لئے استعمال ہو تو امکان کی طرف اشارہ ہو تا ہے یعنی اس امر کو بعید مت سمجھو۔
مَا لَنَا: یہ عربی کا محاورہ ہے جس کا مطلب یہ ہو تا ہے کہ ہمیں کیا ہو گیا ہے۔
تفسیر:۔ گزشتہ آ یا ت میںاللہ تعالیٰنے بنی اسرا ئیل کا ایک واقعہ بیا ن کر کے مسلما نو ں کونصحیت کی تھی کہ تم خدا کے لئے موت قبول کر نے سے کبھی انکا ر نہ کرنا اب ایک اور واقعہ بیا ن فر ماتا ہے جو بنی اسرائیل کے سرداروں کے سا تھ تعلق رکھتا ہے کہ انہوں نے دشمن سے لڑائی کر نے کے لئے ایک با دشاہ بنا ئے جا نے کی اپنے نبی کے سا منے درخواست پیش کی اور کہا کہ دشمن کی طرف سے ہم پر متواتر ظلم کے اجا رہا ہے ہمیں اپنے مکا نوں اور جا ئیدادوں سے بے دخل کیا گیا ہے اور ہمیں اپنے بچوں سے بھی جُدا کر دیا گیا ہے۔ اب ہم پر ایک با دشاہ مقرر کے اجا ئے تا کہ ہم خدا تعا لٰی کے راستہ میں جہاد کریں۔
یہاں مِنْ بَعْدِ مُوْسٰی کے الفا ظ سے فوراً بعد مراد نہیں کیو نکہ فوراً بعد حضرت یوسعؑ ہو ئے تھی جو نبی بھی تھے اور با دشاہ بھی ۔ اور یہ واقعہ جیسا کہ آ گے چل کر بیا ن کیا جائیگا کئی سو سال بعد ہوا۔
ھَلْ عَسَیْتُمْ میں اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ اس بات کا امکان ہے کہ اگر تمپر جنگ فرض کی گئی تو تم انکار کر دو۔ چنانچہ اسنے کہا کہ تم پہلے اپنے دلوں کو ٹٹول لو ایسا نہ ہو کہ لڑائی فر ض کی جائے اور تم انکارکرکے گناہگار بنو۔
َوقَدْ اُخْرِ جْنَا مِنْ دِیَارِنَا وَ اَبْنَآئِ نَا کے یہ معنی ہیں کہ ہمیں اپنے گھروں سے بھی نکالاگیا اور اپنے بیٹوں سے بھی جدا کے اگیا۔ یعنی ہما ری زمینوں اور مکا نا ت پر بھی قبضہ کر لیا گیا اور ہما رے بیٹے بھی قتل کئے گئے یا مکا نا ت کے ساتھ بیٹے بھی انہوں نے چھین لئے۔ اور جب ہم نیاللہ تعالیٰکے راستہ میں اس قدر تکالیف برداشت کی ہیں تو اب ہم لڑائی کر نے سے کیوں انکار کر ینگے۔ اِ ن الفا ظ سے صاف معلوم ہو تا ہے کہ یہ کسی بعد کے زما نہ کی بات ہے۔ ورنہ حضرت مو سٰیؑ کے زما نہ میں تو بنی اسرائیل کی
وَقَالَ لَھُمْ



وَاسِع’‘ عَلِیْم’‘o
یہ حالت تھی کہ انہوں نے حضرت مو سٰیؑ سے صاف طور ہر کہ دیا تھا کہ اے موسٰی! تو اور تیرا رب دونوں جا ؤ اور دشمنوں سے لڑتے پھرو۔ ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔ لیکن اس مو قعہ پر انہوں نے یہ جواب نہیں دیا ۔ بلکہ کہا کہ ہم جہاد میں کیوں حصہ نہیں لیں گے جب کہ ہیمں اپنے گھروں سے بھی نکا لا گیا اور اپنے بچوں سے بھی علیٰحدہ کیا گیا۔ اس میںکوئی شبہ نہیں کہ جب لڑائی کاوقت آ یاتو جیسا کہ اگلی آ یات سے واضح ہے ان میں بہت سے لوگ متزلزل ہو گئے۔مگر بہر حال انہوں نے شروع میں لڑنے سے انکار نہیں کیا۔بلکہ خود خواہش کی کہ ہم پر کو ئی با دشاہ مقرر کیاجائے۔ تا کہ دشمن کے مظالم کا انسداد ہو۔یہ بات بتا تی ہے کہ ان آ یات میںجس واقعہ کا ذکر ہے وہ حضرت مو سٰیؑ کے زما نہ سے بہت بعد کا ہے۔ ورنہ حضرت موسٰیؑ کے زما نہ میں تو انہوں نے انکار نہیں کیا بلکہ اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ ہم پر کو ئی بادشاہ مقرر کیا جا ئے تا کہ ہم خدا تعالٰی کے راستہ میں اپنے دشمنوں سے لڑائی کر یں۔
۱۵۸؎ تفسیر:۔ بنی اسرا ئیل نے جب درخواست کی کہ ہمارے لئے ایک با دشاہ مقرر کیا جائے جسکی کما ن میں ہم دشمنوں سے جنگ کریں تو ان کا خیال تھا کہ انہی میں سے کسی کو بادشاہ مقرر کردیا جا ئیگا۔ لیکن چونکہ اللّٰہ تعالٰی نے ان کا امتحان لینا چاہتا تھا۔ اس لئے ان کی منشاء کے خلاف ایک شخص کو با دشاہ مقرر کر دیا۔۔۔۔۔۔۔ اِ سپر اُن کی مخفی ایما نی کمزوری ظاہر ہو گئی اور انہوں نے اعتراض کر نے شروع کر دئیے کہ اسے کیوں بادشاہ بنا دیا گیا ہے اور پھر انہوں نے اپنے اس اعتراض کو تقویت دینے کے لئے کہا۔(۱) ہمارے مقا بلہ میں اسے کوئی ظاہری وجاہت حاصل نہیں۔ہم اعلٰی خا ندان سے تعلق رکتھے ہیں اور یہ ادنٰی خا ندان میں سے ہے اس لئے بادشاہت ہمارا حق تھا نہ کہ اس کا۔(۲) یہ ما لی لحاظ سے غربت میں مبتلا ہے حا لا نکہ با دشاہتکے لئے دولت کی ضرورت ہو تی ہے۔ پس ہم اسے با دشاہ تسلیم کر نے کے لئے تیار نہیں۔
قَالَ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰہُ عَلَیْکُمْ۔ اُن کے نبی نے پہلی بات کا تو یہ جواب دیا کہ اس کے انتخاب میں خدائی ہا تھ ہے اور بڑائی اِسی طرح ظاہرہو تئی ہے ۔کہ خدا تعالٰی ایک شخص کو دوسروں کے مقا بلہ میںچن لیتا ہے اور پھر اُسے مخا لفت کے با وجود کامیاب کر دیتا ہے۔ اِسی طرح طالوت کو خدا تعالیٰ نے تم میں سے چن لیا ہے اور اس طرح اسے بزرگی اور برتری حاصل ہو گئی ہے۔
دوسرا سوال اُن کا یہ تھا کہ وہ مالدارنہیں اس کے جواب میں بتا یا کہ زَادَہ‘ بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَ الْجِسْمِ خدا تعا لیٰ نے اسے علمی لحاظ سے بہت فراخی عطا فر ما ئی ہو۔علم کے لفظ سے اس طرف اشارہ فر ما یاکہ دنیا میں مال علم کے ذریعہ ہی کما یا جا تا ہے اور علم اسے تم سے بہت زیا دہ حاصل ہے ورنہ بیو قوف آ دمی تو اپنے با پ دادا کی کما ئی کو بھی تبا ہ کر دیتا ہے۔ پس خدا تعالٰی نے اسے جو علم بخشا ہے اس کے ذریعہ وہ بہت کچھ مال کما لیگا۔ اسی طرح اس کی علمی بر تری کا ذکر کر کے اس طرف بھی اشارہ فر ما یا کہ صرف دولت کی وجہ سے کو ئی حکومت کا اہل نہیں ہو سکتا۔ بلکہ اس کے لئے تنظیمی صلا حیتوں کی بھی ضرورت ہو تی ہے اور حکومتی اوصاف کا بھی پا یا جا نا ضروری ہو تا ہے۔ اور یہ تمام با تیں اسے تم سے زیادہ حا صل ہیں ۔ اسے حکومت کر نے کا ڈھب بھی آ تا ہے اور سیاسیات سے بھی خوب واقف ہے۔ اس لئے صرف مالی کمزوری دیکھ کر اعتراض نہ کرو۔ اس کے اندر جو مخفی جو ہر ہیں وہ انے وقت پر ظاہر ہونگے۔
پھر جسم کے لحاظ سے بتا یا کہ تم لڑائی کر نا چا ہتے تھے۔ اس کا جسم بھی خوب مضبوط ہے اور اسکی جسما نی طاقتیں اعلٰی درجہ کی ہیں۔اس میں ہمت اور استقلال اور ثبات اور شجا عت کا مادہ پا یا جاتا ہے۔ پس اس سے زیا دہ اور کون موزون ہو سکتا ہے۔یہ مراد نہیں کہوہ موٹا تازہ ہے۔بلکہ مراد یہ ہے کہ مضبوط اور دلیر ہے اور اس میں قوت برداشت اور قر بانی کا مادہ زیادہ پا یا جاتا ہے۔ چنا نچہ لوگ کہا کر تے ہیں۔ اَلْمَرْ ئُ بِاَ صْغَرَ یْہِ بِقَلْبِہ وَلِسَا نِہ۔یعنی انسان کی تمام طاقت اُس کی دو چھوٹی سی چیزوں پر موقوف ہے ایک دل پر اور ایک اُس کی زبان پر۔ اور یہی سچے خلفاء کی علا مت ہو تی ہے۔ حضرت عمر ؓ جب خلیفہ نہ تھے تو حضرت ابو بکر ؓ سے کہنے لگے کہ لو گ زکٰوۃ نہیں دیتے تو جا نے دیں۔ اس وقت ان سے جنگ کر نا مسلما نوں کیلئے کمزوری کا با عث ہو گا۔ مگر جب اپنی خلا فت کا زما نہ آیا تو کتنے بڑے بڑے کام کئے ۔ دراصل ہمت و استقلال اور استقامت ایک بہت بڑا نشان ہے جو خدا تعالٰی کی طرف سے سچے خلفاء کو عطا کرا جاتا ہے۔
وَاللّٰہُ یُئْو تِیْ مُلْکَہ‘ من یَّشَآئُ میں بتا یا کہ اگر تمہارے سوال صحیح بھی مان لئے جائیں تو بھی تمہارا کو ئی حق نہیں کہ اعتراض کر و۔ کیو نکہ فیصلہ ہمیشہ ما لک ہی کیا کر تا ہے اور جب ملک خدا کا ہے تو وہ جسے چاہے دے اس میں کسی کو چون وچرا کی کیا مجال ہے ۔جب ہم مالک کی اجا زت سے ملک اس کے سپر د کر تے ہیں تو پھر تم کو اعتراض کرنے کا کیا حق ہے؟ دنیا میں یہ تسلیم شدہ اصل ہے کہ اگر کسی چیز کی ملکیت کے بارہ میں اختلاف ہو جا ئے تو اس با رہ میں اصل مالک کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔پس جب خدا نے اُسے اِس غرض کے لئے منتخب فر ما لیا ہے اور اصل حکومت خدا تعالٰی ہی کی ہے تو تمہارا کے احق ہے کہ تم اعتراضات کرو۔اِن الفا ظ سے متر شح ہو تا ہے انہوں نے پھر کوئی سوال کر نا تھا کہ اگر اسے علم دیا گیا ہے تو وہ کو نسا علم ہے یا کو نسی استقامت ہے جو اس نے دکھا ئی۔ اس لئے پہلے ہی اس کا جواب دیدیا کہ وَاللّٰہُ یُئْو تِیْ مُلْکَہ‘ من یَّشَآئُ ۔یعنی آ راء میں تو ہمیشہ اختلاف ہو تا ہے مگر جو مالک ہو اس کی رائے مقدم سمجھی جاتی ہے۔پھر خدا تعالٰی تمہاری رائے کے پیچھے کیوں چلے۔ خصوصاً جبکہ قہ واسع اور علیم ہے۔ اس میں بتا یا کہ اگر تم مال کے متعلق کہو کہ اس کے پاس نہیں تو ہم واسع ہیں ہم اسے وسعت دے دینگے۔ اگر کہو کہ یہ حکومت کر نیکا اہل نہیں تو ہم خوب جا نتے ہیں کہ با دشاہت کا اہل کو ن ہے۔پس اگر تم نے لڑنا ہی ہے تو جاؤ خدا سے لڑو۔ خدا کا ملک تھا اُس نے
وَ قَالَ لَھُمْ


مُئْو مِنِیْنَo
جسے چاہا دے دیا۔
اِس آیت سے ظاہر ہے کہ رسول کریمﷺ سے پہلے آ نے والے انبیاء چونکہ کا مل شریعت لے کر نہیں آ ئے تھے اس لئے جب اصلاح خلق کیلئے الہا م کی ضرورت ہو تی تھی تو کسی نبی کو کھڑا کر دیا جا تا تھا۔ اور اُسے نبوت کا مقام براہ راست حا صل ہو تا تھا۔ اور جب نظام میں خلل واقع ہو تا تو کسی کو بادشاہ بنا دیا جاتا۔ گویا چونکہ لو گوں کو ابھی اس قدر ذہنی ارتقاء حاصل نہیں ہوا تھا کہ وہ اپنی اصلاح کے لئے جدہ جہد کر سکتے اس لئے نہ صرف انبیاء کواللہ تعالیٰبراہ راست مقام بنوت عطا فر ما تا بلکہ سلوک بھی خدا تعالٰی کی طرف سے ہی مقرر کئے جا تے تھے ۔جیسا کہ اس آیت سے ظاہر ہے وہ انتخا بی نہیں ہوتے تھے بلکہ یا تو ورثہ کے طور پر وہ حکومت حا صل کر تے تھے۔ یا بنی انہیں خداتعالٰی کے حکم کے ما تحت با دشاہ مقرر کر دیتے۔ مگر رسول کر یم ﷺ چونکہ ایک کامل تعلیم لیکر آئے تھے اور آ پ کی قوم زیادہ اعلٰی درجہ کی تھی اس لئے آ پ کے بعد مستقل انبیاء کی ضرورت نہ رہی اور اس کے سا تھ ہی ملو کیت کی ادنٰی صورت کو بھی اُڑا دیا گیا۔ اور اسکی ایک کا مل صورت پیدا کر دی گئی۔ اور انتخاب کو پہلی شرط قرار دیا گیا۔ اس طرح قومی حقوق کو محفوظ کیا گیا۔جو پہلے با دشاہوںکی صورت میں محفوظ نہ تھا۔
۱۵۹؎ حل لغات:۔ بَقِیَّۃ’‘: یہ لفظ ایسی چیز پر بولا جاتا ہے جو اعلٰی درجہ کی ہو۔ چنا نچہ جب کہیں فُلاَن’‘ بَقِیَّۃُ قَوْمِہ تو اس کے معنے ہو تے ہیں ھَوَ مِنْ خِیَارِھِمْ۔ وہ قوم کے شرفاء اور اچھے لو گوں میں سے ہے۔
قرآن کریم میں بھی یہ لفظ اِن معنوں میں استعمال ہوا ہے چنا نچہ فر ماتا ہے۔ وَالْبٰقِیٰتُ الصَّلِحٰتُ خَیْر’‘ حِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَّ خَیْر’‘مَّرَدًّا (مریم آ یت ۷۷) یعنی اچھے اور نیک اعمال خدا تعا لٰی کے حضور ثواب خا صل کر نے کے لحا ظ سے بھی اور انجا م کر لحا ظ سے بھی سب سے بہتر شے ہیں ۔
قر آنکریم میں یہ لفظ عقل پر بھی بو لا گیا ہے جیسے آ تا ہے۔ فَلَوْ لَا کَانَ مِنَ الْقُرُوْنِ مِنْ قَبْلِکُمْ لُو لُوْ ا بَقِیَّۃٍ یَّنْھَوْنَ عَنِ الْفَسَارِ فِی الْاَرْضِ( ھود آ یت ۱۱۷) یعنی کیوں ان قوموں میں سے جوتم سے پہلے زما نہ میں تھیں ایسے عقل مند لوگ نہ نکلے جو لو گوں کو ملک میں بگاڑ پیدا کر نے سے روکتے۔ چو نکہ عقل خیر ہی کے معنے رکھتی ہے اور انسان کے لئے مفید ہو تی ہے اور وہ اس کے زریعہ سے با قی رہتا ہے۔ اس لئے اُسے بھی بقیہ کہتے ہیں۔
تَرَ کَ اٰلُ مُوْ سٰی وَاٰلُ ھٰرُوْن۔ تر کہ سے مراد عام طور پر ورثہ ہو تا ہے لیکن تر کہ سے مراد دوسروں کی اعلٰی صفا ت کا حا مل ہو نا بھی ہو تا ہے ۔ جیسا کہ قرآن کریم میںآتا ہے۔ یَرِ ثُنِیْ وَ یَرِ ثُ مِنْ اٰلِ یَعْقَوْ بَ( مریم آ یت ۷) یعنی اے خدا: مجھے اپنے پاس سے وارث دے جو میرا بھی وارث ہو اور سارے بنی اسرائیل کا بھی ۔ سارے بنی اسرائیل کا وارث تو وہ ظاہری طورپر نہیں ہو سکتا تھا۔پس مراد یہیہے کہ اٰلِ معقوب کی جو نیکیاں ہیں وہ اس میںبھی پیدا ہون اور وہ ان کا وارث ہو۔ اس لحاظ سے اس آ یت کے معنے یہ ہو نگے کہ جو نیک دستور پہلے لو گ چھوڑ گئے ہیں اُن کا وارث ہو۔
تَحْمِلُہ‘: حَمَلَہ‘ عَلٰی کَذَا کے معنے ہیں اَغْرَاہُ اُسے کسی کا م پر اکسا یا۔ اِسی طرح اس کے معنے اٹھا نے کے بھی ہیں۔
تفسیر:۔ گذشتہ آ یا ت میں اس زمانہ کے نبی طا لوت پر اعتراض کر نے والوں کو یہ جواب دیا تھا کہ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰہُ عَلَیْکُمْ وَزَادَہ‘ بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَ الْجِسْمِ۔ یعنی مخفی طا قتوں کواللہ تعالیٰہی جا نتا ہے۔ اور جب اس نے طا لوت کو چنا ہے۔ تو یقیناً وہ تم سے افضل ہے۔ دوسرے دولت کے زور سے با دشاہت نہیں ہو تی بلکہ عل اور قربانی کی طا قت سے ہوتی ہے۔ سوان دونوں باتوں میںوہ تم سے بڑھا ہوا ہے ۔ سو ان دونوں باتوں میں وہ تم سے بڑھا ہوا ہے۔ وہ تم سے زیادہ علوم جا نتا ہے اور خداتعالٰی کی راہ میں اپنے جسم کو انتہا ئی ابتلا ؤں میں ڈالنے کے لئے تیار ہے۔ اباس آیت میں بتایا گیا ہے کہ ان کے نبی نے انہیں کہاکہ اس انتخاب کے منجا نب اللّٰہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ تمہیں ایک ایسا تا بوت ملیگا جس میں تمہارے رب کی طرف سے سکینت ہو گی اور اس چیز کا بقیہ ہوگا جسے مو سٰیؓ اور ہارونؑ کی آ ل نے اپنے پیچھے چھوڑا۔ اور فر شتے اُسے اُٹھا ئے ہو ئے ہو نگے۔
مفسرین نے تا بوت سے مراد بنی اسرائیل کا وہ خاص صندوق لیا ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کے اندر تورات کا اصل نسخہ اور موسٰیؑ اور ہارونؑ کے تبّر کات محفوظ تھے۔ اور بنی اسرائیل سفر و حضر میں اُسے اپنے سا تھ رکھتے تھے۔ کیو نکہ وہ اُسے بڑا متبرک سمجھتے تھے۔
بائیبل میں بھی اس تا بوت کا ان الفاظ میں ذکر آ تاہے۔
’’ وے شطیم کی لکڑی کا ایک صندوق بنا ویں جس کی لمبا ئی اڈھا ئی ہا تھ اور چوڑائی ڈیڈ ھ ہاتھ اور اونچا ئی ڈیڈھ ہا تھ ہو وے۔‘‘ (خروج ۱۰/۲۵)
مگر تعجب ہے قرآن کریم تو کہتا ہے کہ اس تا بوت کو فر شتے اٹھا ئے ہوئے ہو نگے۔ مگر بائیبل بتا تی ہے کہ ایک دفعہ دشمن نے ایسا حملہ کے کہ وہ یہ بات بھی اٹھا کر لے گئے۔ چنانچہ لکھا ہے:۔
اور جب لوگ لشکر گاہ میں پھر آئے تھے تب اسارئیل کو بزرگوں نے کہا کہ خداوند نے ہم کو فلسیتوں کے سا منے کیوں شکست دی۔ آ ؤ ہم خدا کے عہد کا صندوق سیلا سے اپنے پاس لے آ ئیں تا کہ وہ ہمارے درمیان ہو کے ہم کو ہمارے دشمنوں ک ے ہاتھوں سے رہا ئی دیوے۔ سو انہوں نے سیلا میں لو گ بھیجے تا کہ وہ رب الا فواج ک ے عہد کے صندوق کو جو کر دبیوں کے درمیا ن دھرارہتا ہے وہاں سے لے آویں اور عیلی کے دونوں بیٹے حفنی اور فیخاں خدا کے عہد کے صندوق پا س وہاں حاضر تھے۔ اور جب خدا وند کے عہد کا صندوق لشکر گاہ میں آ پہنچا۔ تو اسرائیلی خوب للکارے۔ ایسا کہ زمین لرز گئی اور فلستیوں نے جو للکارنے کی آ واز سنی تو بو لے کہ ان عبرا نیوں کی لشکر گاہ میں کیسی للکا رنے کی آ واز ہے۔ پھر انہوں نے معلوم کر لیا کہ خدا وند کا صندوق لشکر گاہ میں آ پہنچا۔ سو فلستی ڈر گئے کہ انہوں نے کہا۔ خدا لشکر گاہ میں آ یا ہے۔ اور بولے ہم پر وا ویلا ہے اس لئے کہ اس سے پہلے ایسا کبھی نہ ہوا۔ ہم پر واویلا ہے۔ ایسے خدا ئے قادر کے ہاتھ سے ہمیں کون بچائیگا۔ یہ وہ خدا ہے جس نے مصریوں کو میدان میں ہر ایک قسم کی بلا سے مارا۔ اے فلستیو! تم مضبوط ہو اور مردانگی کرو۔ تا کہ تم عبرانیوں کے بندے نہ بنو جیسے کہ وے تمہارے بندے بنے بلکہ مرد کی طرح بہادری کرو اور لڑو۔ سو فلستی لڑے اور بنی اسرائیل نے شکست کھائی اور ہر ایک اپنے اپنے خیمے کا بھا گا۔ اور وہاں نہا یت بڑی خونر یزی ہوئی کہ تیس ہزار اسرائیلی پیا دے مارے پڑے۔ اور خدا کا صندوق لُو ٹا گیا۔‘‘( اسموایل باب ۴آیت ۳ تا ۱۱)
سو اگر تو یہاں تا بوت سے مراد وہی تا بوت ہو۔ تو وہ ان کے لئے کسی خوشی کا موجب نہیں ہو سکتا تھا۔ اور نہ ہی اس سے ان کو کوئی تسلی ہو سکتی تھی کیو نکہ اس کی مو جو دگی میں وہ شکست کھا چکے تھے۔ حا لا نکہ اس سے پہلے ان کو تا بوت پر اس قدر یقین تھا کہ جب ان کے سب سے بڑے کا ہن کو معلوم ہوا کہ تا بوت دشمنوں کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے تو وہ گر پڑا اور وہیں مر گیا۔ لیکن قرآن کر یم نے جس تا بوت کا ذکر کے اہے اس کے متعلق کہا ہے کہ وہ ان کے لئے تسکین کا مو جب ہو گا۔ پس یہ تا بوت وہ نہیں ہو سکتا۔ بلکہ اس تا بوت سے یقیناً کچھ اور مراد ہے اس غرض کے لئے جب ہم لغت کو دیکھتے ہین تو ہمیں معلوم ہو تا ہے کہ تا بوت کے عام معنے تو صندوق کے اور کشتی کے ہو تے ہیں(اقراب) لیکن استعارۃً اُسے دل کے معنے میں بھی استعمال کیاجاتا ہے۔ جس کی تائید اس امر سے ہو تی ہے کہ عربی زبان میں انسانی قلب کو بَیْتُ الْحِکْمَۃِ اور وِعَا ئُ الْحِکْمَۃِ اور صَنْدُوْقُ الْحِکْمَۃِ کہنے کے علا وہ تَا بُوْتُ الْحِکْمَۃِ بھی کہتے ہیں(مفردات راغب) اسی طرح لسان العرب کا یہ حوالہ بھی اس کی تا ئید کر تا ہے کہ مَا اَوْدَعْتُ شَیْئًا تَا بُوْتِیْ فَقَدْ تُہ‘ مَیں نے اپنے تا بوت یعنی دل میںکوئی ایسی بات نہیں رکھی کہ بعد میں اسے گم کر دیا ہو۔ یعنی مَیں مستقل مزاج ہوں۔ جو بات دل میں بیٹھ گئی سو بیٹھ گئی۔ نیز تا ج العروس میں لکھا ہے۔ اَلتَّا بُوْتُ اَلْاَ ضْلَاعُ وَ مَا تَحْوِیْہِ کَا لْقَلْبِ وَالْکَبِدِ وَغَیْرِ ھِمَا تَشْبِیْھًا بِا لصَّنْدُوْقِ الَّذِیْ یُحْرَزُ فِیْہِ الْمَتَا عُ۔ یعنی تا بوت کے معنے پسلیوں والے حصہ جسم کے ہیں جس میں دل اور جگر وغیرہ اعضاء ہیں۔ اور اس کے حصہ جسم کو تا بوت اس لئے کہتے ہیں کہ وہ بھی صندوق کی طرح ہو تا ہے جس میں سا مان محفوظ رکھا جاتا ہے ۔ اور کسی علمی یا ایما نی یا راز کی بات کو تا بوت میں رکھنے کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ گو یا وہ سینہ میں لکھی گئی ہے ۔ اور ایسی محفوظ ہو گئی ہے جیسے کوئی چیز صندوق میں رکھ دی جائے۔ وَ فِیْ اَحْکَامِ الْاَسَاسِ اَلتَّا بُوْتُ: اَلْقَلْبُ اور کتاب احکام الاساس میں بھی تا بوت کے معنے دل کے لکھے ہیں اسی طرح مرادات میں لکھا ہے:۔ قِیْلَ عِبَارَۃ’‘ عَنِ الْقَلْبِ وَالسَّکِیْنَۃِ وَعَمَّا فِیْہِ مِنَ الْعِلْمِ۔ یعنی کبھی لفظ تا بوت کو استعارۃً دل کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے الفاظ قر آ نیہ صاف دلا لت کر رہے ہیں کہ اسجگہ تا بوت سے مراد دل ہے ۔ کیو نکہ فر ماتا ہے اس تا بوت میں تمہارے رب کی طرف سے سکینت ہے۔ اب یہ ظا ہر ہے کہ سکینت دل میں ہوئی ہے نہ کہ صندوق مرا دلیا جا ئے تو یہ قرآنی تعلیم کے خلاف ہو گا۔ کیو نکہاللہ تعالیٰفر ماتا ہے کہ وَمَا مَنَعَ النَّا سَ اَنْ یُّئْوٓمِنُوْآ اِذْجَآ ئَ ھُمُ الْھُدٰی اِلَّآ اَنْ قَا لُوْ آبَعَثَ اللّٰہُ بَشَرًارَّسُوْلاًo قُلْ لَّوْ کَا نَ فِی الْاَرْضِ مَلئِکَۃ’‘ یَّمْشُوْنَ مُطْمَئِنِّیْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْھِمْ مِّنَ الْسَّمَآئِ مَلَکًا رَّسُوْلًاo ( بنی اسرا ئیل آ یت ۹۵۔۹۶) مخالفین کو ہدا یت الٰی پر ایما ن لا نے سے صرف یہ بات روکتی ہے کہ اللّٰہ تعالٰی نے بشر رسول کیو ں بھیجا ہے ۔ تو کہہ کہ اگر زمین میں فرشتے امن سے چلتے پھرتے تو ہم فر ستوں کو رسول بنا کر بھیجا کر تے ۔ اس آ یت سے ظاہر ہے کہ ملا ئکہ اس طرح لو گوں میں چلتے پھر تے نہیں ہیں جس طرح انسا ن چلتے پھر تے ہیں ۔پس چو نکہ ظاہری تا بوت کی صورت میں ما ننا پڑتا ہے کہ فر شتے اُسے اُ ٹھا کر ساتھ سا تھ لئے پھر تے تھے۔ اور یہ قر آ نی تعلیم کے خلا ف ہے۔ اس لئے تا بوت سے مراد اسجگہ د ہی ہیں۔ جنہیں فرشتے اٹھا تے تھے اور ہمت بڑھا تے تھے ۔ کیو نکہ حَمَلَہ‘ عَلٰی کَذَا کے معنے اَغْرَاہُ کے ہیں یعنی اکسا نا اور جوش دلا نا(اقرب) پس معنے یہ ہو ئے کہ اَتَباع طا لو ت کو فر شتے قر بانیوں پر آ ما دہ کر یں گے۔ اور ان کی نصرت ہر شخص کے سا تھ ہو گی۔ چنا نچہ مورخین کا اِس بات پر اتفاق ہے کہ طا لوت کا لشکر بہت ہی کم تھا اور ایسے قلیل التعداد لشکر کا کثیر افواج پر غا لب آ نا سوا ئے خاص نصرت الٰی اور ملا ئکہ کی تا ئید کے نا ممکن تھا۔
ضمنی طور پر اس آ یت سے یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ ملا ئکہ سے فیوض حا صل کرنے کا ایک یہ بھی طریق ہے کہ اللہ تعالیٰکے قا ئم کر دہ خلفا ء سے مخلصا نہ تعلق قا ئم رکھا جا ئے اور ان کی اطا عت کی جا ئے ۔ چنا نچہ اس جگہ طا لوت کے انتخاب میں خدا ئی ہا تھ کا ثبوت یہی پیش کیا گیا ہے۔ کہ تمہیں خدا تعا لٰی کی طر ف سے نئے دل ملیں گے جن میں سکینت کا نز ول ہو گا۔ خدا تعالٰی کے ملا ئکہ ان دلوں کو اٹھا ے ہو ہو نگے۔ گو یا طا لوت کے سا تھ تعلق پیدا کر نے کے نتیجہ بلند ہو جا ئیں کی۔ تمہارے ایمان اور یقین میں اضا فہ ہو جا ئیگا۔ ملا ئکہ تمہاری تا ئید کے لئے کھڑے ہو جا ئیں گے اور تمہارے دلوں میں استقا مت اور قر با نی کی روح پھو نکتے رہیں گے۔ پس سچے خلفاء سے تعلق رکھنا ملا ئکہ سے تعلق پیدا کر دیتا اور انسا ن کو انوار الہیہ کا مہبط بنا دیتا ہے۔
اب بَقِیَّۃ’‘ مِّمَّا تَرَکَ اٰلُ مُوْ سٰی وَ اٰلُ ھٰرُوْنَ کا حل کر نا با قی رہ گیا۔ سو یا د رکھنا چاہیے کہ بَقِیَّۃ’‘ کے معنے جیسا کہ حل لغات میں بتا یا جا چکا ہے اعلٰی شے کے ہوتے ہیں۔پس بَقِیَّۃ’‘ مِّمَّا تَرَکَ اٰلُ مُوْ سٰی وَ اٰلُ ھٰرُوْنَ سے مراد وہ اخلا ق فا ضلہ ہیں جو حضرت موسٰیؑ اور حضرت ہا رونؑ کے متبعین اور آ پ کے مقربین سے ظاہر ہو تے تھے۔ اور آ یت کا مفہوم یہ ہے کہ تمہارے دل ان خو بیوں کے وارث ہو نگے جو آ لِ مو سٰیؑ اور آل ہا رونؑ نے دُعا کر تے ہوئے کہا تھ اکہ الٰہی مجھے ایک ایسا لڑکا عطا فرمایا یَرِ ثُنِیْ وَ یَرِثُ مِنْ اٰلِ یَعْقُوْبَ(مریم عٰ) جو میرا اور آلِ یعقوب کا وارث ہو۔ اور مطلب یہ تھا کہ ان کے اخلا ق حسنہ اور جوبیوں کا وارث ہو نہ یہ کہ اُن کی جا ئیداد کا وارث ہو۔ کیو نکہ حضرت یعقوب ؑ کو وفات پا ئے قر یباً ایک سو پشت گزر چکی تھی۔ غرض بَقِیَّۃ’‘ مِّمَّا تَرَکَ اٰلُ مُوْسٰی وَ اٰلَ ھٰرُوْنَ سے یہ مراد ہے کہ طا لو ت کے سا تھیوں میں وہی اخلا ق فا ضلہ اللّٰہ تعا لٰٰی پیدا کر دے گا جو آل مو سٰیؑ اور آ ل ہا رون میں تھے۔
آ ل مو سٰی و اٰل ہا رون سے یہ مراد نہیں کہ ان دونوں کہ الگ الگ اُمتیں تھیں۔ یہ بات تو با لبداہت با طل ہے ایک قوم میں اور ایک وقت میں اور ایک شریعت پر عمل کر نے والی دو اُمتیں کس طرح ہو سکتی ہیں۔ اس کا مطلب اہل یعنی اقارب سے ہے اور مراد یہ ہے کہ ان دونوں نبیوں کی اولادوں میں جو خو بیاں تھیں وہ ان میں بھی آ جائیں گی۔ اگر کہو کہ اہل میں خو بی ہو تا ضروری نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ بَقِیَّۃ’‘ کے لفظ نے بتا دیا ہے کہ اس جگہ خو بیاں ہراد ہیں۔ دوسرے با ئیبل کی کتا ب خروج باب ۴۰ آ یت ۱۲ تا۱۵ سے معلوم ہو تا ہے کہ اللہ تعالی ٰنے حضرت مو سٰی ؑ کو حکم دیا تھا کہ ہارون کو مقدس لباس پہنا یا جائے اور نہ صرف اس کی عزت
فَلَمَّا فَصَلَ






الصّٰبِرِیْنَo

افزائی کی جائے لکہ اس کی تمام اولاد کی عزت کر نا بھی بنی اسرائیل پر فرض قرار دیا جا ئے۔ اور عبا دت گا ہوں کا انتظام ان کے سپر د کیا جا ئے۔ چنا نچہ لکھا ہے:۔
’’ جیسے ان کے باپ کو مسح کر ے۔ ویسے ہی ان کو بھی مسح کر نا۔ تا کہ وہ میرے لئے کاہن کی خدمت کر انجام دیں۔ اور ان کا مسح ہو تا ان کے لئے نسل در نسل ابدہی کہا نت کا نشان ہو گا۔‘‘
پس بے شک ہر اہل میں خو بیوں کا مو جود ہونا ضروری نہیں مگر مو سٰیؑ اور ہارونؑ کے متعلقین اور ان کے خا ص متبعین میں اللّٰہ تعا لٰٰی نے اعلٰی درجہ کے اخلا ق یقینی طور پر دریعت کر دئیے تھے۔ اور طا لو ت کے خدائی انتخاب کا یہ ثبوت بتا یا گیا تھا کہ اللّٰہ تعا لٰٰی نے روحا نیت آ ل مو سٰیؑ اور آل ہارونؑ میں رکھی تھی اور جب بلند اخلا ق اور کر دار کا انہوں نے مظاہرہ کیا تھا وہی تقویٰ اور وہی روحا نیت اور وہی بلند اخلا قی طا لوت کے ساتھیوں میںبھی پیدا کر دی جا ئیگی اور یہ اس بات کا ثبوت ہو گا کہ جس شخص کی انہوں نے متا بعت اخیتار کی ہے وہ خدا تعا لٰی کا فر ستارہ ہے۔
۱۶۰؎ حل لغات:۔ اِغْتَرَفَ غُرْنَۃً بِیَدِہ غر قہ کا لفظ چو نکہ کئی معنوں میں استعمال ہو تا ہے اس لئے اس کے ساتھ یَد’‘ بمعنی ہاتھ رکھ دیا گیا ہے جس کی وجہ سے اس کے معنے محدود ہو گئے ہیں۔ پس اِغْتَرَفَ غُرْ فَۃً کے معنے اسجگہ صرف چلو بھر لینے کے ہی ہیں۔
کَمْ : یہ لفظ اسجگہ کثرت کے اظہار کیلئے استعمال ہوا ہے۔ یعنی کتنے ہی ایسے گروہ ہیں جو قلیل ہو نے کے با وجود دوسروں پر غالب آئے۔لیکن بعض لو گو ں نے کہا ہے کہ ضروری نہیں کہ اس سے کثرت مراد ہو بلکہ کسی قدر تعداد کا پایا جا نا بھی کا فی ہے خواہ ایسے گر وہوں کی تعداد تھوڑی ہی ہو۔
فِئَۃ’‘: جما عت کو کہتے ہیں۔ یہ لفظ فَاَ ئَ سے نکلا ہے جس کے معنے جھکنے کے ہیں۔ چو نکہ جما عت بھی ایک دوسرے کی مدد پر بھی بھروسہ کر تی ہے۔ اور اس کے افراد بھی ایک دوسرے کی طرف جھکتے ہیں۔ اگر ایک کو دکھ ہو تو وہ دوسرے پر اعتماد کر تا ہے اس لئے اسے فِئَۃ’‘ کہتے ہیں۔
بَرَ زَ: کے معنے ہیں خَرَجَ۔ با ہر نکلا۔ّ اقرب)
اَفْرِ غْ عَلَیْنَا صَبْرًا:۔ فَرَ غَ کے معنے ہیں۔ بہا دیا۔ انڈیل دیا۔پس اَفْرِ غْ عَلَیْنَا صَبْرًا کے معنے یہ ہو نگے کہ ہمیں صبر میں وافر حصہ دے یعنی ایسا ہو کہ ہم کا مل طور پر صبر کرنے والے ہوں۔ اور ہماری کسی حرکت سے جزع فزع ظاہر نہ ہو۔
تفسیر:۔ جب طا لوت اپنے لشکر کو لے کر جا لوت کے مقا بلہ میں نکلے تو اللّٰہ تعالٰی نے ان کاایک نہر کے ذریعے پھر امتحان لیا۔تا کہ جو کمزور ایمان والے ہیں وہ الگ ہو جائیں اور صرف وہی لوگ دشمن کے مقا بلہ میں صف آ راء ہوں جو کامل الا یمان ہوں اور جب کی تا ئید میں ملا ئکہ کام کر رہے ہوں۔ نہر کا تر جمہ ندی کیا گیا ہے۔ لیکن ھاء کی زبر سے جب یہ لفظ ہو تو اس کے دو معنے ہو تے ہیں۔ ندی بھی اور فر اخی اور وسعت بھی ( مفردات) اس آ یت میں یہ دونوں معنے لگ سکتے ہیں۔ اگر فر اخی اور دسعت کے معنے لئے جا ئیں تو آ یت کا یہ مطلب ہو گا کہاللہ تعالیٰنے با دشاہ کے ذریعہ سے فو جیوں کو اس امر کی اطلا ع دی کہ تمہارا امتحان مال و دولت کی فرا خی سے لیا جا ئیگا۔ اگر تم مال و دولت کے پیچھے پڑ گئے تو خدا تعا لٰی کا کام نہ ہو سکیگا۔ اور اگر تم مال و دولت سے متا ثر نہ ہوئے تو تم کو کا میا بی ہو گی۔ اس صورت میں فَمَنْ شَرِبَ مِنْہُ وغیرہ الفا ظ مجا زی معنو ں میں سمجھے جائینگے لیکن چو نکہ ظاہری رنگ میں بھی طا لوت کے سا تھیوں کا ایک نہر کے ذریعہ سے امتحان لیا گیا تھا۔ا س لئے ظاہری معنے لینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
چو نکہ جنگ میں جلدی اور تیز حرکت کی ضرورت ہو تی ہے۔ اور پیٹ کا پا نی سے بھر لینا تیز حرکت سے انسان کو محروم کر دیتا ہے اس لئیاللہ تعالیٰنے انہیں حکم دے اکہ ہلکے پیٹ رہو۔ اور پانی کم پیئو۔ تا کہ جنگ میں عمدگی سے کام کر سکو۔ مگر اکثر لو گو ں نے اس حکمت کو نہ سمجھا اور خوب پیٹ پھر کر پا نی پیا۔ اور بہت تھوڑی سی قعداد نے جو با ئیبل کے بیا ن کے مطا بق صرف تین سو تھی جنگی ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یو نہی چند گھونت پا نی پیا تا کہ لڑائی کے وقت وہ اچھی طرح کام کر سکیں۔اللہ تعالیٰنے انکی قر بانیوں کا بدلہ دینے کے لئے اور ان کے اخلا ص پر فتح ہو اور حکم دے اکہ انہی تین سو کو جنگ میں شا مل کیا جائے۔ باقی کو نہیں چنا نچہ انہی تین سو کو طا لوت نے جنگ میں شا مل کیا اوراللہ تعالیٰنے انہی کو ہا تھ پر فتح عطا فر ما ئی۔
کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَ ۃً بِاِ ذْنِ اللّٰہِ میں بتا یا گیا ہے کہ کتنی ہی چھو ٹی چھو ٹی جماعتیں ہو تی ہیں جواللہ تعالیٰکو فضل کے ما تحت بڑی بڑی جما عتوں پر غال ب آ جا یا کر تی ہیں۔ اس غلبہ کی وجہ یہی ہو تی ہے کہ ان میں پر قر بانی اورایثار کا ما دہ ہوتا ہے وہ اپنا وقت ضا ئع کر نے کی بجا ئے اُسے مفید کاموں میں صرف کرنے کے عادی ہو تے ہیں۔ اُن میں دیا نت بھی ہو تی ہے۔ صداقت بھی ہو تی ہے۔ محنت کی عادت بھی ہو تی ہے پھر ان کے حو صلے بلند ہوتے ہیں۔ان کے ارادے پختہ ہو تے ہیں اور
وَلَمَّا بَرَزُو

عَلَی الْعٰلَمِیْنَo
ان کے مقا بل میں جو لوگ کھڑے ہو تے ہیں۔ وہ ان اوصاف سے خا لی ہو تے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قلیل غالب آ جاتے ہیں اور کثیر مغلوب ہو جا تے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ایک ایک آ دمی جس میں ایثار کا مادہ ہو تا ہے۔ درجنوں پر بھاری ہوتا ہے۔ پا گل کوہی دیکھ لو۔ لوگ اس کا قا بلہ کر نے سے گھبراتے ہیں۔ حا لا نکہ وہ اکیلا ہوت ا ہے۔ اسکی وجہ یہی ہے کہ لو گ ڈرتے ہیں کہ انہیں چوٹ نہ آ جا ئے۔انکو زخم نہ لگ جا ئے ۔ اور وہ اپنی طا قت کو صرف ایک حد تک استعمال کرتے ہیں۔ لیکن پا گل کے لئے چوٹ اور زخم بلکہ موت کا بھی کو ئی سوال نہیں ہوتا۔ اس لئے وہ اپنی طا قت اس حد تک استعمال کر تا ہے جس حد تک ایک سمجھ دار انسان استعمال کر نے کیلئے تیار نہیں ہوتا۔ اور وہ اکیلا ہو نے کے باوجود دوسروں پر غالب آ جاتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی جماعت کے افراد میں قر بانی اور ایثار کا مادہ ہو اور وہ دین کے لئے اپنے اندر مجنو نا نہ رنگ رکھتے ہوں اور وہ اپنی محنت اور قر بانی کو اس حد تک پہنچا دیں کہ جس حد تک پہنچا نے سے دوسرے لوگ کھبرا تے ہوں تو پھر ان کے ایک ایک آ دمی کے مقا بلہ میں دس دس پندرہ پندرہ بلکہ نیس بیس آ دمی بھی ہیچ ہو جا تے ہیں۔جنگ بدر میں ایسا ہی ہوا اور مسلما نوں کی ایک چھوٹی سی جماعت اپنے سے کئی گنا بڑی جما عت پر غالب آ گئی۔
۱۶۱؎ حل لغات:۔ اُنْصُرْ نا:نَصَرَ الْمَظْلُوْ مَ کے معنے ہو تے ہیں اَعَا نَہ‘ اُ س نے مظلوم کی مدد کی۔ اور نَصَرَ فُلَان’‘ عَلٰٰی عَدُوِّہ کے معنے نَجَّا ہُ مِنْہُ وَخَلَّصَہ‘ وَ اَعَا نَہ‘ وَ قَوَّ اہُ عَلَیْہِ۔ اسے دشمن سے نجا ت دی۔ اُس کے پنجے سے چھڑایا اُس کی مدد کی اور اسپر غلبہ بخشا (اقرب)
تفسیر:۔ فر ما تاہے جب مقا بلہ ہوا تو طا لوت اور اس کے سا تھیوں نے جا لوت اور اس کے لشکر کواللہ تعالیٰکے اذن کے ما تحت شکست دیدی۔
مفردات میں لکھا ہے کہ اذن کے معنے اجا زت اور علم کے ہو تے ہیں۔ نیز لکھا ہے کہ وَ مَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْل’‘ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِ ذْنِ اللّٰہِ میں اذن سے مراد اس کی مشیت اور حکم ہے۔ اسی طرح لکھا ہے کہ اذن میں مشیت کا پا یا جا نا ضروری ہو تا ہے جو علم کے لئے ضروری نہیں۔ ہاں اذن میں رضا کا ہو تا ضروری نہیں صرف مشیت ہی کا ہو ضروری ہے ۔ اسجگہ اذن سے مراد مشیت ہی ہے۔ یعنیاللہ تعالیٰکے منشاء اور اس کے ارادہ کے مطابق طا لوت نے جا لوت کو شکست دے دی۔
یہ کیا وا قعہ ہے جس کا گزستہ رکوع سے ذکر چلا آ رہا ہے ۔ اسبارہ میں بہت کچھ اختلاف پایا جاتا ہے یہا ں تک کہ عیسا ئیوں نے بھی اعتراض کیا ہے کہ قرآن نے دو مختلف زما نوں کے وا قعات کو اکٹھا بیان کر دیا ہے۔ پرانے مفسرین کا خیال تھا کہ اس کا مصداق سا ؤل ہے جو ایک با دشاہ تھا جسے سموایل نبی کی طرف سے مقرر کیا گیا تھا۔ اور جا لوت اس کے دشمنوں میں سے تھا۔ اس میں کو ئی شبہ نہیں کہ با ئیبل میں سا ؤل کے قدوقا مت کا خا ص طور پر ذکر دیا گیا ہے۔اور لکھا ہے کہ:۔
’’ بنی اسرا ئیل کے درمیان ا‘س سے خوبصورت کو ئی شخص نہ تھا۔ وہ ایسا قدآ ور تھا کہ لو گ اس کے کندھے تک آ تے تھے۔‘‘(ء اسموایل باب۹ آیت۲)
اور یہ بھی ذکر آ تا ہے کہ وہ ایک ادنٰی قبیلہ کے ساتھ تعلق رکھتا تھا۔(ء۱ سموایل باب ۹ آیت ۲۱)۔ مگر با ئیبل سے ہی ثابت ہے کہ خدا تعالٰٰی سا ؤل سے نا راض ہوا اور اس نے بنی اسرا ئیل کی بادشاہت اس سے چھین لی۔(ء۱ سموایل باب ۱۵ ۲۶)
اسی طرح با ئیبل سے یہ بھی ثابت ہے کہ ساؤل نے فلستیوں کے مقا بلہ میں شکست فا ش کھا ئی اور انہوں نے اس کے تین بیٹوں کو مار ڈالا۔ اور وہ خود بھی خود کشی کر کے مر گیا۔(ء۱ سمو ایل باب ۳۱ آ یت ۱تا ۵)
حا لا نکہ قر آ ن کریم یہ کہتا ہے کہ فر شتے اس کی مدد کر تے تھے۔ گو یا اسے فتح حا صل ہو تی تھی۔ پس اگر ساؤل کو ہی اس کا مصدق قرار دیا جا ئے تو قر آ نی علا مات اس پر چسپاں نہیں ہو تیں۔ میں نے جب اس واقعہ پر غور کیا تو مجھے وہ معنے پسند آ ئے جس پر دشمنوں نے اپنی نا دانی سے اعتراض کیا ہے۔ ان کا اعتراض یہ ہے کہ قرآن کریم نے دو علٰیحدہ علٰیحدہ زما نوں کے وا قعات کو ملا کر بیا ن کر دے اہے۔ اور مفسرین نے یہ کو شش کی ہے کہ وہ داؤد اور جا لوت اور طالوت کا ایک ہی زما نہ ثابت کریں۔ سا ؤل پر وہ اس وا قعہ کو اس لئے بھی چسپاں کر تے ہیں کہ وہ لمبے قد کا تھا اور دشمن کے ایک بڑے پہلوان کا نا م جا تی جو لیت( یعنی جا لوت) تھا۔(ء۱ سموایل باب ۱۷ آیت ۴) مگر میرے نزدیک کسی شخص کی تعیین کر نے سے پہلے ضروری ہے کہ قر آ ن کریم کے بیان کر دہ وا قعات پر یکجائی نظر ڈالی جائے۔
قرآن کر یم میں اس واقعہ کے متعلق پہلی بات یہ بیان کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا اُخْرِجْنَا مِنْ دِیَارِ نَا وَاَ بْنَآ ئِ نَا ہم اپنے گھروں اور اپنے بیٹوں سے علٰیحدہ کئے گئے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ قوم جس کا یہا ں ذکر ہے اپنے گھروں سے نکا لی گئی تھی۔دوم ان پر ایک ایسا شخص بادشاہ بنا یا گیا تھا جو کسی اعلٰی خا ندان یا شا ہی نسل میں سے نہیں تھا۔سوم وہ ایسا شخص تھا جس کیاللہ تعالیٰمدد کر تا تھا اور جس کے سا تھی بھی منصور ہن اللّٰہ تھے اور ان کے پاس ایک تا بوت تھا۔ چہا رم ایک نہر کے ذریعہ ان کی آ زمائش ہو ئی تھی ۔ پنجم ان کی اور ان کے دشمنوں کی تعداد میں بڑا بھا ری قرق تھا۔ ان کی تعداد دشمن کے مقا بلہ میں بہت ہی تھوڑی تھی اور پھر اس آ زمائش کی وجہ سے اس کی جماعت اور بھی کم ہو گئی۔ ششم با وجود اس کے کہ اس کی فوج دشمن کی فو ج سے کم تھی وہ دشمن پر غالب آیا۔
ان میں سے بعض با تیں بیشک سا ؤل پر بھی چسپاں ہوتی ہیں۔ مثلاً سا ؤل کے مقرر کر نے میں ایک نبی کا دخل تھا۔ ساؤل کو اپنے دشمنوں کا نام جا لوت بھی تھا۔ مگر میرے نذ دیک اس میں جو با تیں وزنی ہیں اور جن کی وجہ سے ساؤل کی بجا ئے کسی اور شخص کی تلا ش ہما رے لئے ضروری ہے وہ یہ ہیں۔
اول۔ اس میں مِنْ بَعْدِ مُوْسٰی کے الفا ظ آ تے ہیں میرا ذہن ان الفا ظ سے اس طرف منتقل ہو تا ہے کہ اس میں کسی ایسے زما نہ کا ذکر ہے۔ جہاں سے بنی اسرائیل کی تا ریخ شروع ہو تی ہے۔ ورنہ داؤد کے ذکر سے بنی اسرائیل تو وہ آ پ ہی ثا بت ہو جاتے ہیں۔ پھر مِنْ بَعْدِ مُوْ سٰی کہنے کی کیا ضرورت تھی۔پس درحقیقت یہ الفا ظ ان کی قومی تا ریخ کی طرف اشارہ کر نے کے لئے لا ئے گئے ہیں۔
دوم۔ تَحْمِلُہُ الْمَلٰٓئِکَۃُ کے الفا ظ سے ظاہر ہے کہ اسے ہمیشہ فتح ہی حاصل ہو تی تھی۔ مگر ساؤل کو تو شکستیں بھی ہو ئیں اور پھر اس کا انجا م نہا تے حسر ت ناک ہوا۔ حالا نکہ قر آ ن کر یم کے بیان کے مطا بق ضروری ہے کہ اک کا مصداق ہمیشہ فتح ما تا رہا ہو۔
سوم۔ اسجگہ مُبْتَلِیْکُمْ بِنَھَرٍ آ یا ہے اور بتا یا گیا ہے کہ ان لو گوں کی ایکنہر کے ذریعہ آ زما ئش کی گئی تھی مگر سا ؤل کے زما نہ میں کسی نہر کے ذریعہ لو گوں کا امتحان لئے جا نے کا بائیبل میں کوئی ذکر نہیں آ تا۔ پس ہمیں اس شخص کی تلا س کے ساتھ نہر کے واقعہ کو بھی نظر انداز نہیں کر نا چا ہیے۔
یہ عجیب بات ہے کہ با ئیبل ایک نہر کا ذکر ضرور کر تی ہے اور یہ بھی کہتی ہے کہ اس کے ذریعہ ایک قوم کی آ زما ئش کی گئی ۔ ان کو ساف طور پر کہا گیا تھا کہ تم اس سے پا نی نہ پیئو۔مگر اکثر لو گوں نے پا نی پی لیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پا نی پینے وا لے پیچھے رہ گئے اور نہ پینے والے حملہ کر کے دشمن پر غالب آ گئے۔ گو یا قر آ نی بیان کی تصدیق ہو جاتی ہے مگر ساؤل کے زما نہ میں با ئیبل ایسا کوئی واقعہ بیان نہیں کرتی۔
عیسا ئیوں نے اس وا قعہ پر اعتراض کر تے ہوئے لکھا ہے کہ یہ جد عون کا وا قعہ ہے اور جد عون اور دا ؤد میں دو سو سال کا فا صلہ ہے۔ مگر قر آن نے ان دونوں وا قعات کو ملا کر بیان کر دیا ہے۔ گو یا ان کے نذدیک قر آن کریم کا یہ کہنا کہ قَتَلَ دَاؤدُ جَا لُوْتَ داؤد نے جا لوت کو قتل کیا غلط ہے۔ کیو نکہ داؤد اور جا لوت میں دو سو سال کا فر ق تھا اور اس لحاظ سے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ داؤد جا لوت کو قتل کر سکتے۔ میرے نذدیک جد عون کا وا قعہ جو با ئیبل نے بیان کیا ہے اور قرآ ن کریم کے بیان کر دہ وا قعہ میں صرف اس قدر فر ق ہے کہ بائیبل نے یہ نہیں بتا یا کہ اسے کسی نبی نے مقرر کیا تھا۔ بلکہ اس میں صرف اتنا لکھا ہے کہ خدا تعالٰی نے بنی اسرائیل کے پاس ایک نبی بھیجا جس نے انہیں کہا کہ خداتعالٰی فر ماتا ہے کہ میں نے تمہیں کہا تھا کہ ۔
’’ تم ان امور یوں کے دیوتاؤں سے جن کے ملک میں بستے ہو مت ڈرنا پر تم نے میری بات نہ مانی۔‘‘(قضاۃ باب ۶ آیت ۱۰)
اورپھر یہ ذکر کیا گیا ہے کہ جدعون کو خدا تعالٰی کا فر شتہ دکھا ئی دیا اور اس نے کہا کہ اُٹھ اور مد یا نیوں کے ہاتھ سے بنی اسرائیل کو چھڑا۔(قضا ۃ باب۶ آ یت ۱۵) با قی تمام واقعات جو قر آن کریم نے بیان کئے ہیں وہ با ئیبل میں مو جو د ہیں۔
یہ امر یا د رکھنا چا ہیے کہ حضرت مو سٰیؑ کی وفات کا زمانہ ۱۴۵۱ قبل مسیح ہے۔ اور جدعون کا وا قعہ مو سٰی ؑ کی و فات کے بعد ۱۲۶۶ قبل مسیح میں ہوا۔ گو یا ان دونوں میں دو سو سال کا فا صلہہے۔ اور انسا ئیکلو پیڈیا ببلیکا میں لکھا ہے کہ اسوقت جب بنی اسرائیل مصر سے آئے کنعان میں وہ ایک قوم نہیں بنے بلکہ الگ الگ قبیلوں نے جدا جدا زمینوں میں اپنی ریا ستیں قا تم کر لی تھیں۔ اس وقت ان میں کوئی با دشاہت قا ئم نہیں ہوئی۔نہ ان میں فو جیںتھیں اور نہ ان کا کوئی با دشاہ تھا۔پھر بائیبل میں ۱۲۵۶ قبل مسیح کے متعلق لکھا ہے۔
’’ بنی اسارائیل نے خدا وند کے آ گے بدی کی تب خدا وند نے انہیں سات برس تک مد یا نیوں کے قبضہ میں کر دیا۔ اور مد یا نیوں کا ہاتھ بنی اسرائیل پر قوی ہوا اور مد یا نیوں کے سبب بنی اسرائیل نے اپنے لئے پہاڑوں میں کھوہ اور غار میں مضبوط مکا ن بنا ئے۔‘‘( قاضیوں باب ۶ آیت ۱ء۲)
یہ وا قعہ بعینہ اُخْرِ جْنَا مِنْ دِیَارِنَا وَ اَبْنَآئِ نا سے ملتا جلتا ہے۔ آگے لکھا ہے:۔
’’ جب بنی اسرائیل کچھ بوتے تھے تو مد یا نی اور عما لیقی اور اہل مشرق ان پر چڑھ آ تے تھے اور ان کے مقا بل ڈیرے لگا کر غزہ تک کھیتوں کی پیدا وار کو بر باد کر ڈالتے۔ اور بنی اسرائیل کے لئے نہ تو کچھ معاش نہ بھیڑ بکری نہ گا ئے بیل نہ گدھا چھوڑتے۔‘‘(قا ضیوں باب ۶ آیت ۴)
اس کے بعد لکھا ہے:۔
’’ جو اسرائیل مدیانیوں کے سبب نہایت مسکین ہوئے۔ اور بنی اسرائیل خدا وند کے آ گے چلا ئے۔‘‘(قاضیوں باب ۶ آیت ۶)
’’ اور جب بنی اسرائیل مدیانیوں کے سبب سے خدا وند سے فر یاد کر نے لگے تو خداوند نے بنی اسرائیل پاس ایک نبی بھیجا جس نے انہیں کہا کہ خدا وند اسرائیل کا خدا یوں فر ماتا ہے کہ میں تم کو مصر سے چھڑا لایا۔ اور میں نے مصریوں کے ہاتھ سے اور ان سب کے ہاتھ سے جو تمہیں ستاتے تھے۔ چھڑایا اور تمہارے سا منے سے انہیں دفع کیا اور ان کا ملک تمکو دیا اور میں نے تم کو کہا کہ خدا وند تمہارا خدا میں ہوں سو تم ان اموریوں کے معبودوں سے کہ جن کے ملک میں بستے ہو مت ڈرو۔ پر تم میری آ واز کے شنوا نہ ہوئے۔‘‘( قا ضیوں باب۶ آیت ۸ تا ۱۰)
اس حوالہ میں ایک نبی کا ذکر تو ہوا ہے مگر یہ ذکر نہیں کہ اس نبی نے کوئی بادشاہ مقرر کیا ہو۔ صرف اتنا ذکر ہے کہ پھر خدا وند کا فرشتہ آیا۔۔۔۔۔ اور اس وقت جدعون نے کے کو لھو کے گہوں جھا ڑ رہا تھا۔ کہ مدیا نیوں کے ہاتھ سے نہیں بچاوے۔ سو خدا وند کا فرستہ اسے دکھائی دیا اور اس سے کہا کہ خدا وند تیرے ساتھ ہے۔ اے بہا در پہلوان! جدعون نے اسے کہا۔ اے ما لک میرے! اگر خدا وند ہمارے ساتھ ہے تو ہم پریہ سب خا دثے کیوں پڑے اور کہاں ہیں اس کی دے سب قدرتیں جو ہمارے باپ دادوں نے ہم سے بیان کیں۔ اورکہا کیا خدا وند ہم کو مصر سے نہیں نکال لایا۔لیکن اب خداوند نے ہم کو چھوڑ دیا۔ تب خدا وند نے اس پر نگاہ کی اور کہا کہ اپنی اس قوت کے ساتھ جاکہ تو بنی اسرا ئیل کو مدیا نیوں کے ہاتھ سے رہا ئی دیگا۔ کیا میں تجھے نہیں بھیجتا اور اس نے اسے کہا ۔ اے میرے مالک! میں کس طرح بنی اسرائیل کو بچا ؤں۔ دیکھ کہ میرا گھرانا منسی میں حقیر ہے اور میں اپنے باپ دادوں کے گھرانے میں سب سے چھوٹا ہوں تب خدا وند نے اسے فر مایا کہ میں تیرے ساتھ ہونگا۔ اور تو مدیانیوں کو ایک ہی آ دمیکی طرح مادلیگا۔‘‘(قضاۃباب۶آیت۱۱تا ۱۶)
قر آن کر یم بھی جُنُوْد کا لفظ آ تا ہے اور با ئیبل بھی بتا تی ہے کہ وہاں مدیا نی۔ عمالیقی اور مشرقی تین قو میں موجود تھیں۔ پھرلکھا ہے:۔
’’ تب خدا وند نے جد عون کو فر ما یا کہ لوگ ہنوز زیادہ ہیں۔ سو تو انہیں پا نی پاس نیچے لا کہ وہاں میں تیری خا طر انہیں آ زمائیگا۔‘‘(قضا ۃ باب ۷ آیت ۴)
’’ سو و ان لو گوں کو پا نی پاس نیچے لایا۔ اور خداوند نے جدعون کو فر مایا کہ جو شخص پا نی چیڑ چیڑ کر کے کتّے کی ما نند پیوے تو ہر ایک ایسے کو علٰحیدہ رکھ۔ اورویسے ہر ایک کو بھی جو اپنے گھٹنوں پر جھک کے پیوے۔ سو جنہوں نے اپنا ہاتھ اپنے منہ کے پاس لا کے چیڑ چیڑ کر کے پیا۔ وہ گنتی میں تین سو مرد تھے۔۔۔۔ تب خداوند نے جدعون کو کہا کہ میں ان تین سو آ دمیوں سے جنہوں نے چیڑ چیڑ کر کے پیا تجھے رہائی بخشونگا۔ اور مدیانیوں کو تیرے ہاتھ مین دونگا۔ اور باقی سب لو گوں میں ہر ایک کو اس کے مکان پرپھر جانے دو۔ تب ان لو گوں نے اپنا تو شہ اور اپنے نر سنگے ہاتھوں میں اٹھا ے اور با قی سب بنی اسرائیل میں سے ہر ایک کو اس کے خیمے میں بھیجا اور ان تین سو کو اپنے پاس رکھا۔ اور مدیانیوں کا لشکر اس کے نیچے وادی میں تھا۔‘‘(قضا ۃ باب ۷آیت ۴تا ۸)
آ خر میں مد یا نیوں سے نجات پا نے کا ذکر ہے۔ اور وہ اس طرح کہ جدعون کے ساتھ تین سو آدمی رہ گئے جن کو ساتھ لے کر وہ لڑا اور فتح حاصل کی۔ یہ سارا واقعہ قرآن کریم سے حرف بحرف ملتا ہے۔ اور اس کی بخاری کی ایک روایت سے بھی تائید ہو تی ہے۔ براء بن عازبؓ بیا ن کر تے ہیں کہ کُنَّا اَصْحَابُ مُحَمَّدًﷺ نَتَحَدَّثُ اَنَّ عِدَّۃَ اَصْحَابِ بَدْرٍعَلٰی عِدَّۃِ اَصْحَا بِ طَا لُوْتَ الَّذِیْنَ جَا وَزُوْامَعَہ ُالنَّھْرَوَلَمْ یُجَا وِزْ مَعَہ‘ اِلَّا مُئْومِن’‘ بِضْعَۃُعَشَرَوَثَلاَثُ مِا ئَۃٍ۔ یعنی ہم محمد رسول اللّٰہﷺ کے اصحاب ایک دوسرے سے باتیں کیا کرتے تھے۔ کہ بدر والوں کی تعداد طالوت کے ساتھیوں کی تعداد کے مطا بق تھی جو اس کے ساتھ نہر سے گزرے تھے اور انکے ساتھ تین سو دس سے کچھ اوپر مو من تھے۔(بخا ری کتا ب المغاری باب عدۃ اصعاب بدر)
اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں تو اس کا نام طالوت آ یا ہے اور بائیبل کے حوالہ میں جد عون نام آ یا ہے۔ ان میں مطا بقت کس طرح ہے۔ سو پہلے میں جدعون کو لیتا ہوں۔
یہ عجیب بات ہے کہ جدعون کے لفظ کے بھی وہی معنے ہیں جو عربی زبان میں طالوت کے ہیں۔ جدعون کے معنے عبرانی زبان میں طالوت کے ہیں۔ جد عون ایسے شخص کو کہتے ہیں جو اپنے مخالف کو کاٹ ڈالتا اور زمین پر گرا دیتا ہے۔ بائیبل میں جدعون کو زبر دست سورما اور بہادر پہلوان کے نام سے پکارا گیا ہے۔ (دیکھو قضاۃ باب ۶ آ یت۱۱) اور طا لوت جو جدعون کا صفاتی نام ہے اس کے بھی یہی معنے ہیں کیو نکہ طَالَ کے معنے دوسروں سے بلند اور بڑائی والا ہو جا نے کے ہیں۔پس طا لوت کے معنے ہیں جو دوسرے سے درجہ اوربڑائی میں اونچا ہو گیا تھا۔ اور دوسروں کو اس نے نیچا کر دیاتھا۔ گو یا اس نام میں بتا یا گیا ہے کہ پہلے تو وہ ادنٰی اور معمولی درجہ کا آ دمی تھا مگر پھر بڑا ہو گیا اور خدا تعا لٰی نے اس کو اونچا کر دیا۔ اور اس قسم کے صفا تی نام قرآن کریم میں بعض اور جگہ بھی استعمال ہوئے۔ مثلاًاللہ تعالیٰخود رسول کریم ﷺ کی نسبت فر ما تاے۔ وَ اَنَّہ‘ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللّٰہِ یَدْ عُوْ ہُ کَا دُوْ ا یَکُوْ نُوْنَ عَلَیْہِ لِبَدًا۔(جن آیت ۲۰) یعنی جباللہ تعالیٰکا بندہ محمد رسول اللّٰہ ﷺ اسکی طرف بلا نے کے لئے کھڑا ہو تا ہے تو مکہ کے لوگ اس پر جھپٹ کر آ گر تے ہیں۔ اسجگہ عبد اللّٰہ رسول کریمﷺ کا صفاتی نام ہے۔ اسی طرح طالوت بھی جد عون کا صفا تی نام ہے اور دونوں ہم معنی الفا ظ ہیں۔
اب صرف جا لوت لا لفظ تحقیق طلب رہ گیا ۔ سو یاد رکھنا چا ہیے کہ جالوت بھی ایک صفا تی نام ہے جو کسی ایک شخص کا نہیں بلکہ ایک گر وہ کا نام ہے جس کا کام ملک میں فساد کر نا اور ڈاکے ڈالنا تھا۔ جا لوت کا انگریزی زبان میں گو لیتھ کہتے ہیں۔ اور گو لیتھ کے معنے انگر یزی ہیں۔destroyer spirits, Sunning کے ہیں۔ یعنی تبا ہی اور بر بادی ڈھا نے اور لوٹ مار نچا نیوالی روحیں۔ جو اِدھر اُ دھر پھر تی ہوں۔ اور جا ئل جو اصل میں جا لوت ہے اس قوم کو کہتے ہیں جو ہر طرف قتل وغارت اور تبا ہی و بر بادی کا بازار گر م کر نے والی ہوں۔با ئیبل سے بھی ثابت ہے کہ جدعون کا دشمن ایک آ وارہ گرد گروہ تھا جو ملک میں فساد پھیلاتا پھر تا تھا۔ چنا نچہ لکھا ہے کہ وہ لوگ جب حملہ کر تے تھے تو سب کچھ بر باد کر دیتے تھے۔پس یہاں جا لوت سے کو ئی ایک شخص مرا دنہیں بلکہ ایک گروہ مراد ہے۔ جس نے بنی اسرائیل پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا۔ بائیبل بتا تی ہے کہ جد عون نے ان کو شکست دی اور اس کے بعد ستر سال تک اس کی حکومت رہی۔ یعنی چا لیس سال تک وہ خود حکومت کر رہا اور تیس سال تک اس کا بیٹا۔ اور اس کے نتیجہ میں متحدہ قومیت کی روح یہود میں تر قی کر گئی۔
اس کے بعد فر ما تا ہے۔ وَقَتَلَ دَاؤدُ جَا لُوْتَ داؤد نے جا لوت کو قتل کر دیا۔یہاں جدعون کے واقعہ کے تسلسل میں ایک نیا واقعہ حضرت داؤدؑ کا بیان کیا گیا ہے۔اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت داؤد ؑ کا واقعہ جد عون کے واقعہ سے بہت کچھ ملتا ہے جدعون کے وقت فلسطینیوں نے اسرائیل کو فلسطین سے نکالنے کی بے شک کو شش کی تھی۔ اور جدعون نے ان کا مقا بلہ کیا اور انہیںشکست دی۔ لیکن وہ ابتدائی کو شش تھی جو حضرت داؤدؑ کے زما نہ میں آ کر ختم ہوئی۔ اور انہوں نے دشمن کو کلی طور پر تباہ وبرباد کر دیا۔پس اس واقعہ کو مشابہت مضمون کی وجہ سے اس کے سا تھ بیان کیا گیا ہے۔ ورنہ پہلا جد عون کا واقعہ ہے۔ اوریہ داؤد کا واقعہ ہے اور دونوں میں دو سو سال کا فاصلہ ہے۔
اب صرف ایک سوال حل طلب رہ جاتا ہے۔ اور وہ یہ کہ بائیبل کی رو سے تو داؤد نے جا لوت کو قتل کیا تھا۔(ء۱ سمو ایل باب ۱۷ آ یت ۵۰تا۵۱) لیکن قرآن کریم نے جد عون کے واقعہ میں بھی جا لوت کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ وَ لَمَّا بَرَزُوْ لِجَا لُوْتَ وَ جُنُوْ دِہ قَا لُوْا رَبَّنَآا اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِّتْ اَقْدَا مَنَا وَ انْصُرْ نَا عَلَٰی الْقَوْ مِ الْکٰفِرِیْنَ یعنی جب وہ جا لوت اور اس کی فو جوں کے مقابلہ کیلئے نکلے۔ تو انہوں نے کہا۔ اے ہمارے ربّ! ہم پر قوت برداشت نازل کر اور ہمارے قدموں کو ثبات بخش اور کفار کے خلاف ہماری تائید اور نصرت فر ما۔
اِس کے متعلق یاد رکھنا چا ہیے کہ جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے۔جا لوت ایک صفاتی نام ہے۔ اور اس سے مراد ایسا گروہ ہے جو ملک میں فساد کرتاپھرے اور چونکہ جدعون کا دشمن بھی ایک آ وارہ گرد گروہ تھا جو ملک میں فساد پھیلا تا پھر تا تھا اور حضرت داؤدؑ نے ملک میںامن قائم کر نے کے لئے جس دشمن کا مقابلہ کیا وہ بھی آ وارہ گرد اور فسادی تھا۔ اِس لئے دونوں کے دشمنوں کو صفاتی لحاظ سے جا لوت کہا گیا ہے۔ اور ان دونوں کا اکٹھا ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ جد عون کے ہاتھ سے تو دشمن گو صرف شکست ہوئی تھی مگر داؤدؑ کے ہاتھوں ان کی کلّی تباہی ہوئی اور آپ نے انہیں نیست و نا بود کر دیا۔ گو یا دشمن کے مقا بلہ کی ابتدأ جد عون سے ہوئی اور اسکا انتہاء داؤد ؑ پر ہوا۔ اسی لئے قرآن کریم میں قَتَلَ دَاؤدُ جَا لُوْتَ کے الفاظ آئے ہیں ۔ کہ داؤد نے جا لوت کا خا تمہ کر دیا ۔ اور طا لوت اور اس کے ساتھیوں کے متعلق صرف ھَزَ مُوْ ھُمْ بِاِذْنِ اللّٰہِ کے الفاظ آئے ہیں۔ یعنی انہوں نے اپنے دشمنوں کو شکست دی۔
تا ریخ سے ثا بت ہے کہ جد عون نے ۱۲۵۶ قبل مسیح میں مخا لفوں کو شکست دی اور ۱۱۶۱ قبل مسیح تک اسکی اور اس کے بیٹے کی حکو مت رہی۔ اس کے بعد ۱۰۵۰؁ قبل مسیح میں بنی اسرائیل کا کنعان پر داؤد کے ذریعے قبضہ ہوا۔ غرض جد عون اور داؤد کے اکٹھا ذکر کر نے اور ان دونوں کے واقعات کو ملا کر بیان کر نے کی یہی وجہ ہے کہ جدعون وہ پہلا شخص ہے جس نے بنی اسرائیل کے دشمنوں کا
تلْکَ اٰیٰتُ اللّٰہِ الْمُرْسَلِیْنَo
مقا بلہ کیا۔ اور یہود میں متحدہ قومیت کی روح پھو نکی۔ اور داؤدؑ آ خری شخص ہیں جن کے ہاتھوں دشمن کی کلّی تباہی ہوئی غرض جدعون پہلا نقطہ ہے اور داؤد آ خری نقطہ۔
وَلَوْ لَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضھُمْ بِبَعْضً لَفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَلَکِنَّ اللّٰہَ ذُوْفَضْلٍ عَلَٰی الْعَالَمِیْنَ۔ میں بتا یا کہ اگر ہم شہریروں کابعض دوسرے انسانوں کے ذریعے قلع قمع نہ کر تے تو دنیا میں فساد برپا ہو جاتا۔
یہ اس لئے فر ما یا کہ جد عون اور داؤد دونوں کی جنگیں مذہبی تھیں۔ کیا نکہ ان کے دشمن ان کی عبادت گاہیں گرا کر ان کی جگہ اپنی عبادتگاہیں بنا دیتے تھے۔جیسا کہ جد عون کے متعلق قا ضیوں باب ۶ اور داؤد کی نسبت ء۲ سموایل سے ثابت ہے۔
چو نکہ اسلام کو بھی مذہبی جنگوں کا سا منا کرنا تھا اس لئے اللّٰہ تعالٰی نے جدعون اور داؤد کے واقعات پیش کر کے مسلمانوں کو تو جہ دلائی کہ اب تم بھی کھڑے ہو جاؤ اور شریروں کا مقابلہ کرو۔ اور دنیا میں نیکی اور تقویٰ پھیلاؤ۔ کیو نکہ بحروبّر میں فساد بر پا ہو چکا ہے۔ اور اس امر کو یادرکھو کہ جس طرح اللّٰہ تعالٰی نے جدعون اور داؤد کو مدد دی تھی اسی طرح اب اس کی معجزانہ نصرت تمہارے لئے ظاہر ہو گی۔ کیو نکہ ایسا یہ ہو تو دنیا تباہ ہو جائے اور امن کبھی قائم نہ ہو۔
ِ۱۲۶؎ تفسیر:۔ فر ماتا ہے طا لوت اور داؤد کے واقعات ہم نے قصہ کے رنگ میںبیان نہیں کئے بلکہ یہ پیشنگو ئیاں ہیں جن کا ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ محمدﷺ کے ساتھ بھی یہی واقعات پیش آ نے والے ہیں اور ان کو بھی وہی نصرت اور تائید حاصل ہو گی جو پہلے انبیائؑ کو حاصل تھی۔ اور س طرح دنیا پر طاہر ہو جائے گا کہ محمدﷺ خدا تعالٰی کے سچے فرستادہ اور اس کے بر گزیدہ رسول ہیں۔




تِلْکَ الرُّسُلُ





مَا یُرِیْدُo
۱۶۳؎ تفسیر:۔ فر ما تاہے۔ یہ رسول جنکا اوپر ذکر کے اگیا ہے ایسے ہیںکہ ان میں سے بعض کو ہم نے بعض پر فضیلت دی تھی۔یعنی ان میں سے بعضاللہ تعالیٰکے حضور زیادہ بلند مقام رکھتے تھے اور بعض نسبتاً کم۔یہ اس لئے کہا گیا ہے کہ پچھلے انبیاء کے ذکر پر طبعی طور پر یہ سوال ہو سکتا تھا کہ پہلے انبیاء تو ایک ایک قوم کی طرف مبعوث ہوئے تھے اور ان کا مقابلہ بھی صرف اپنی اپنی قوم کے افراد سے تھا۔کو ئی عالمگیر مخالفت انکی نہیں ہوئی۔ لیکن آنحضرتﷺ کا تو یہ دعویٰ ہے کہ میں ساری دنیا کے لئے بشیر ونزیر بنا کر بھیجا گیا ہوں۔پھر آ پ ساری دنیا کے مقابلہ میں کس طرح فتح پا سکتے ہیں اس کے جواب میں اللّٰہ تعالٰی فر ماتا ہے کہ پہلے رسولوں میں بھی توآپس درجہ اور مقام کے لحاظ سے فرق تھا۔ یہ تو نہیں کہ سب ایک ہی درجہ رکھتے تھے۔ آ خر کمال کے بھی ہزاروں درجے ہیں اور خود انبیاء میں بھی مدارج فضیلت میں فرق ہوتا ہے۔ پس ان میں سے ہو نے کے یہ معنے نہیںکہ ان جیسا ہی درجہ ہو۔ اور کو ئی فضیلت نہ ہو۔ مثلاً حضرت داؤد ؑ جن کا یہاں ذکر کیا گیاہے وہ نبی ہو نے کے علاوہ بادشاہ بھی تھے۔ اور اس طرح ان کو بعض انبیاء کے مقابلہ میں ایک ظاہری فضیلت حاصل تھی۔ اسی طرح آ نحضرتﷺ کو بھی فضیلت عطا کی گئی۔ مگر داؤد کی فضیلت تو صرف چند بنیوںپر تھی۔ اور آنحضرتﷺ کی فضیلت سب انبیاء پر ہے۔ بلکہ آپ نے تو یہاں تک فر مایا کہ اگر موسٰیؑ اور عیسٰیؑ بھی میرے زمانہ میں زندہ ہوتے تو وہ میری اطاعت کرتے۔
مِنْھُمْ مِنْ کَلَّمَ اللّٰہُ سے بعض لوگوں نے بالمشافہ گفتگو کر نا مراد لیا ہے۔یعنی ایسے طریق پر کلام کر تا کہ درمیان میں جبرائیلی واسطہ نہ ہو۔ مگر میرے نزدیکمِنْھُمْ مِنْ کَلَّمَ اللّٰہُ سے تشریعی انبیاء مراد ہیں اس لئے کہ کلام تو ہر ایک رسول سے ہوتا ہے ۔ بغیر کلام کے وہ نبی کیو نکر ہو سکتا ہے اور درجہ بھی ہر ایک کا بلند ہوتا ہے۔لیکن جب مقابلہ ہو تو اس کے یہی معنے ہو نگے کہ بعض کو شریعت دی اور بعض کو صرف نبوت کا درجہ دیا گیا۔جیسے حضرت عیسٰیؑ ہیں ان کو شریعت نہیں دی گئی محض نبوت عطا کی گئی ہے۔ اس کا ثبوت قرآن کریم سے بھی ملتا ہے اللّٰہ تعالٰی حضرت مو سٰی ؑ کی نسبت فر ما تاہے وَ کَلَّمَ اللّٰہُ مُوْ سٰی تَکْلِیْمًا( نسا ء آیت ۱۶۵) اللّٰہ تعالٰی نے موسٰی سے خوب اچھی طرح کلام کیا۔
یہ کہ کَلَّمَ اللّٰہُ کے معنے شریعت کے ہیں اس کا ثبوت ایک حدیث سے بھی ملتا ہے۔ امام احمدؒ نے ابوذرؓ سے روایت کی ہے کہ رسول کریمﷺ نے فر مایا۔پہلے نبی آدم تھے۔وہ کہتے ہیں میں نیکہا کہ وَنِبّی’‘ کَانَ۔ کیا وہ نبی تھے؟ آ پ نے فر ما یا۔ ہاں! نَبِیّ ’‘مُکَلَّم’‘( تفسیر فتح البیان جلد اول ص۳۳۳) وہ مکلَّیم نبی تھے۔اس سے معلوم ہوا کہ بعض نبی مکلَّیم نہیں ہو تے۔ اور چو نکہ اللّٰہ تعا لٰٰی نے کلا م تو سب انبیاء سے کیا ہے اس لئے اس جگہ کلام سے مرا د کلام شریعیت ہے۔ اور رَ فَعَ بَعْضَھُمْ دَرَجٰتٍ کے معنے یہ ہیں کہ بعض کو شر لعیت نہیں دی۔ ہاں نبوت کے درجہ رفیع پر ان کو سر فراز فر ما یا۔ جیسے دوسری جگہ فر ما تاہے وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَٰی الْکِتٰبَ وَ قَفَّیْنَا مِنْ بَعْدِ ہ بِا لرُّسُلِ۔(بقرہ آیت ۸۸) یعنی ہم نے مو سٰیؑ کو کتا ب دی اور اس کے بعد ہم نے اس کی تعلیم کی اشاعت کیلئے پے درپے انبیاء بھیجے۔یہ تمام انبیاء غیر تشر یعی تھے جو مو سوی شر لعیت کے تا بع تھے۔
پھر فر ماتا ہے وَ اٰتَیْنَا عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ الْبَیْنٰتِ وَاَیَّدْ نٰہُ بِرُ وْحِ الْقُدُسِ ہم نے عیسٰی بن مریم کو کھلے کھلے نشانات دئیے اور روح القدس کے ساتھ اس کی تا ئید کی۔ اس جگہ یہ نکتہ یاد رکھنے اولا ہے کہ اس سورۃ میں چو نکہ یہود مخاطب ہیں۔ اس لئے حضرت مسیحؑ کے ذکر کے سا تھ ہی ان کی بعض صفات بھی بتا دی جا تی ہیں تا کہ دشمن پر حجت ہو۔ اس سے ان کی کسی خا ص فضیلت کا اظہار مقصور نہیں ہوتا۔ جیسا کہ مسیحیوں نے سمجھا ہے۔
اَیَّدْ نٰہُ بِرُ وْحِ الْقُدُسِ فر ما کر اس امر کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ حضرت مسیحؑ کو ئی نئی شرلعیت نہیں لائے تھے بلکہ انہوں نے تورات کے بعض مضامین کو نما یاں طور پر دنیا کے سا منے پیش کیا تھا اور روح القدس سے اللّٰہ تعا لٰٰی نے ان کی تائید فر ما ئی تھی۔ کیونکہ گو مو سوی دور میں شر لعیت کی تکمیل ہو گئی تھی لیکن آ ہستہ آ ہستہ لو گوں کی نگاہ مغز ست ہٹ کر صرف چھلکے کی طرف آ گئی۔ پس حضرت عیسٰٰیؑ آئے تا کہ ایک طرف تو تورات کے احکام پر عمل کر ئیں جیسا کہ انہوں نے خود کہا ہے:۔
’’ یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتا بوں کو منسو خ کر نے آ یا ہوں۔ منسوخ کر نے نہیں بلکہ پورا کر نے آ یا ہوں‘‘۔(متی باب ۵ آ یت ۱۷)
اور دوسری طر ف وہ لوگ جو با لکل اس کے چھلکے کو پکڑ کر بیٹھ گئے تھے ضروری تھا کہ ان کی اصلاح کی جاتی ۔ اور اس نکتہ کو کھول کر بیان کیا جاتا کہ ظاہری شرلیعت اس دنیا کی زندگی کو درست کر نے کے لئے ہے ۔ ورنہ اصل چیز صرف با طنی صفائی اورپا کیزگی اور تقدس ہے۔ سواللہ تعالیٰنے حضرت عیسٰیؑ سے یہ کام لیا۔ انہوں نے ایک طرف تو مو سوی احکام کو دوبارہ اصل شکل میں قائم کیا اور دوسری طرف جو لاگ قشر کی اتباع کر نے اولے تھے انہیں بتا یا کہ اس ظاہر کا ایک با طن ہے ۔ اگر اس کا خیال نہ رکھا جائے تو ظاہر *** بن جاتا ہے۔ نما زیں بڑی اچھی چیز ہیں لیکن اگر تم صرف ظاہری نماز ہی پڑھو گے اور با طنی نہیں پڑھو گے تو وہ نماز تمہارے لئے
یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ


*** بن جا ئیگی روزہ بڑی اچھی چیز ہے لیکن اگر تم ظاہری روزہ کے سا تھ با طنی روزہ نہ رکھو گے تو یہ ظاہری روزہ *** بن جا ئیگا یہ وہی بات ہے جو قرآن کریم میں اللّٰہ تعالٰی نے ان الفاظ میں بیان فر مائی ہے کہ وَیْل’‘ لِّلْمُصَلِّیْنَ( ما عون آیت۵) یعنی بعض نمازیں پڑھنے والے ایسے ہیں کہ نماز ان کے لئے ویل اور *** بن جا تی ہے۔ مسلمانوں کو رسول کریمﷺ نے چو نکہ پوری بات کھول کر بتا نا بھی حضرت عیسٰیؑ کی پیشگوئی کے مطا بق تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ جب وہ روح حق آ ئے تو وہ تمہیں ساری سچائی کی راہ بتا ئے گی اس لئے کہ وہ اپنی نہ کہے گی بلکہ جو کچھ سنے گی سو کہے گی(یو حنا باب ۱۶ آیت ۱۳) بہر حال رسول کریمﷺ کے بات کو واضح کر نے کی وجہ سے با وجود اس کے کہ آ پ نے بھی وہی بات کہی تھی جوحضرت مسیحؑ نے کہی تھی مسلمانوں کو دھو کا نہ لگا۔ اور انہوں نے شر لعیت کو *** نہ قرار دیا۔ بلکہ صرف اس عمل پر شر لعیت کو *** قراد دیا۔ جس کے ساتھ دل کا تقدس اور اخلاص اور تقویٰ شامل نہ ہو۔ مگر مسیحیوں نے حضرت مسیحؑ کے کلام سے دھوکا کھا یا۔ اور جب ان کی روحانیت کمزور ہوئی تو انہوں نے اپنی کمزوری کے اثر کے ماتحت غلط تاویلوں کا راستہ اختیار کر لیا۔ اور شرلعیت کو *** قراد دینے لگے اور یہ خیال نہ کیا کہ اگر وہ *** ہے تو حضرت عیسٰیؑ اور ان کے حواری روزے کیوں رکھتے تھے۔ عبادتیں کیو کر تے تھے۔ ان امور سے صاف پتہ لگرا ہے کہ وہ ظاہری عبادت کو *** نہیں سمجھتے تھے بلکہ یہ سمجھتے تھے کہ اگر ظاہر کے ساتھ باطن کی اصلاح نہ کی جا ئے تو وہ ظاہر *** بن جاتا ہے۔
غر ض اَیَّدْ نٰہُ بِرُوْحِ الْقُدْسِ کے یہ معنے ہیں کہ حضرت عیسٰیؑ پر پا کیزگئی قلب کے خاص راز ظاہر کئے گئے تھے اور قروسیت اور با طنی تعلیم پر زور دینے کے لئے ان کو خا ص طور پر کم دیا گیا تھا۔ اور ظاہری احکام کی با طنی حکمتیں انہیں سمجھا ئی گئی تھیں۔ گویا ان کے دور میں تصوف نے زما نہ بلو غت میں قدم رکھنا شروع کر دیا تھا۔
وَلَوْ شَآئَ اللّٰہُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِیْنَ مِنْ بَعْدِ ھِمْ مِّنْ بَعْدِ مَاجَآئَ تْھُمُ وَلٰکِنِ اخْتَلَفُوْا میں بتا یا کہ اتنے نبیوں کے واقعات دیکھنے کے بعد چاہیے تو یہ تھا کہ یہ لوگ سنبھل جاتے اور آ ئندہ ان کے بارہ میں کو ئی مخالفانہ رویہ اخیتار نہ کرتے۔لیکن اس رسول کے آ نے پر انہوں نے پھر اختلاف کیا۔ اور بعض تو ایمان لے آئے اور بعض نے انکار کر دیا۔
وَلَوْشَآئَ اللّٰہُ مَا اقْتَتَلُوْ اوَلَکِنَّ اللّٰہَ یَفْعَلُ مَا یُرِ یْدُ۔ اور اگر اللّٰہ چا ہتا یعنی لو گوں کو جبراً ہدایت دینا چا ہتا۔ تو کوئی اختلاف نہ ہو تا۔مگر چو نکہ انسان کی پیدا ئش کی غرض ہی یہی تھی کہ اسے آ زاد نہ طور پر نیکی اور بدی میں حصہ لینے کا مو قعہ دیاجائے اوراللّٰہ تعا لٰٰی یہ فیصلہ فر ما چکا تھا کہ ہم انسان کو خیر کی بھی مقدرت دینگے اور شرکی بھی ۔ اور پھر جو رستہ وہ اختیار کریگا اس کے مطا بق ہم اسے نیک یا بد جزا دیں گے۔ اس لئے وہ اس فیصلہ کے مطا بق کام کرتا چلا جاتا ہے اور لو گاں کے اعتراضوں کی پرواہ نہیں کرتا۔
الظّٰلِمُوْنَo
۱۶۴؎ حل لغات:۔ خُلَّۃ’‘:۔ اَلْخُلَّۃُ کے معنے ہیں اَلصَّدَاتَۃُ دوستی اور محبت اور تَخَلَّلَتِ الْقَلْبِکے معنے ہیں۔ دَخَلَتْ خِلٰلَہ‘ وہ دوستی اور محبت جو دل کے اندر گھس کر اس کے سورا خوں میں داخل ہو جائے۔(مجمع الجا ر) الْخَلِیْلُ مَنْ خُلَّتُہ‘ مَقْصُوْرَۃ’‘ عَلٰی حُبِّ اللّٰہِ تَعَا لٰی فَلَیْسَ فِیْھَا لِغَیْرِ ہ مُتَّسَع’‘ وَلَا شِرْکَۃ’‘ مِنْ مَحَابِّ الدُّنْیَا وَالْاَخِرَۃِ( مجمع البحار) خلیل اُسے کہتے ہیں جس کی محبت صرف اللّٰہ تعالٰی ہی کے سا تھ ہو اور اس کے دم میں اس محبت کے سوا اور کسی کی محبت نہ ہو۔ حدیث میں آ نحضرتﷺ کا یہ قول درج ہے کہ اِنِّیْ اَبْرَئُ مِنْ کُلِّ ذِیْ خُلَّۃٍ مِنْ خُلَّتِہ لَوْ کُنْتُ مُتَّخِذً اخَلِیْلاً لَاتَّخَذْتُ اَبَا بَکْرٍ۔ یعنی میں ہر شخص کی دوستی سے براء ت کا اظہار کر تا ہوں اور صرف خدا تعالٰی کی طرف تو جہ کر تا ہوں ۔ اگر دنیا میں مَیں کسی کو خلیل بنا تا تو ابو بکرؓ کو بنا تا۔
شَفَا عَۃ’‘: شَفَعَ سے نکلا ہے اور شَفَعََ کے معنے جفت کے ہیں۔ یُقَالُ شَفَعَ الْعَدَدَ وَشَفَعَ الصَّلٰٰوۃَ صَیَّرَھَا شَفَعًا۔ یعنی شَفَعَ الْعَدَدَ کے معنے ہیں عدد کو جفت بنا یا اور شَفَعَ الصَّلٰو ۃَ کے معنے ہیں نماز کو جوڑا بنا دیا۔
تفسیر:۔ اس آ یت سے ظا ہر ہے کہ اسلام نے صرف زکوٰ ۃ اور مال غنیمت کے اموال سے ہی غرباء اور مسا کین کی امداد کے لئے ایک فنڈ مقرر کر ے پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ مسلما نوں کو عام طور پر بھی غر یبوں اور نا داروں کے لئے صدقہ و خیرات کر نے کی بار بار تا کید فر ما ئی ہے۔ اور بتا یا ہے کہ تمہارے سا تھ تر قیات کے جو وعدے کئے گئے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے کہیں یہ نہ سمجھ لینا کہ ہمیں اب مزید قر با نیوں کی ضرورت نہیں قربانیوں تمہیں قدم قدم پر کر نی پڑیں گی اور قدم قدم پر تمہں اپنے اموال خدا تعالٰی کی راہ میں خر چ کر نے پڑیں گے۔
لَا بَیْع’‘ فِیْہِ وَلَا خُلَّۃ’‘ وَلَا شَفَا عَۃ’‘ میں جس بیع کی طرف اشارہ ہے اس کا ذکر دوسری جگہاللہ تعالیٰنے ان الفا ظ میں فر مایا ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ اشْتَریٰ مِنَ الْمُئْو مِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَ اَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ( تو بہ آ یت ۱۱۱) یعنی اللّٰہ تعالٰٰی نے مو منوں سے ایک بیع کی ہے اور وہ یہ کہ ان کے مالوں اور جا نوں کو جنت دیکر خرید لیا ہے۔ پس فر ما یا خدا تعالٰی تم سے یہ بیع کر تا ہے۔مگر یہ بیع اسی دنیا میں ہو گی اس دن نہیں ہو گی۔
وَ لَاخُلَّۃ’‘ میں بتا یا کہ قیا مت کے دن خدا تعالٰی کے سوا سب خلیل جا تے رہیں گے۔یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم مین تو دوسری جگہ آ تا ہے۔ اَلْاَخِلَّآئُ یَوْمَئِذٍ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ عَدُ وّ’‘ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَ( زخرف آیت ۶۸) یعنی متقیوں کے سوا تمام خلیل ایک دوسرے کے دشمن ہو نگے۔ پھر جب متقیوں کی دوستی رہے گی تو لَاخُلَّۃ’‘ کا کیا مطلب ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ متقی چو نکہ خدا تعالٰی کو ہی اپنا خلیل سمجھتے ہیں اس لئے ان کی دوستی خدا تعالٰٰی کی دوستی میں شا مل ہو گی اس کا کو ئی علٰیحدہ وجود نہیں ہو گا جو وَلَاخُلَّۃ’‘ کے منا فی ہو۔ اصل مضمو ن جس کی طرفاللہ تعالیٰ کے لو گوں کو توجہ دلائی ہے وہ یہ ہے کہ آ ج اگر خدا تعالٰی کو خلیل بنا نا ہے تو بنا لو ورنہ اس دن وہ خلیل نہیں بنے گا۔ اور آج جنکو تم اپنا خلیل بنا رہے ہو ان کی خلت اور دوستی اس دن تمہارے کسی کام نہیں آ ئیگی۔ بلکہ تم ان کے دشمن بن جاؤ گے۔ صرف متقی ہی ایسے ہو نگے جو اپنے خلیل کے دشمن نہیں ہو نگے۔ کیو نکہ مومن کا خلیل خدا تعالٰی ہو تا ہے۔پس وَلَاخُلَّۃ’‘ سے مراد وہ خلت ہے جو خدا تعالٰی کے مقا بلہ میں کسی دوسرے سے کی جائے۔
وَلَا شَفَا عَۃ’‘ میں بتا یا سا تھی بنا لو۔ ورنہ وہاں تمہیں کو ئی سا تھی نہیں ملیگا۔ دوسری جگہ فر ما تا ہے۔ وَ اَنْذِرْ بِہِ الَّذِیْنَ یَخَا فُوْنَ اَنْ یُّحْسَرُوْ آاِلٰی رَبِّھِمْ لَیْسَ لھُمْ مِّنْ دُوْنِہ وَ لِيّ’‘ وَّ لَا شَفِیْع’‘ لَّعَلَّھُمْ یَتَّقُوْنَ( انعام آیت۵۲) یعنی تو اس کلام کے ذریعہ سے ان لو گوں کو جو اس بات سے ڈرتے ہیں کہ انہیں ان کے رب کی طرف اکٹھا کر کے لے جایا جائیگا جب کہ اس کے سوا نہ ان کا کو ئی مدد گار ۔۔۔۔ ہو گا اور نہ کو ئی سفا رشی اس لئے ڈرا کہ وہ تقویٰ اختیار کر یں۔
اسی طرح ایک اور جگہ فر ماتا ہے۔وَ ذَکِّرْ بِہٓ اَنْ تُبْسَلَ نَفْس’‘ بِمَا کَسَبَتْo لَیْسَ لَھَا مِنْ دَوْنِ اللّٰہِ وَلِیّ’‘ وَّّ لَا شَفِع’‘ وَ اِنْ تَعْدِلْ کُلَّ عَدْلٍ لَّا یُئْوخَذْ مِنْھَا(انعام آیت۷۱) یعنی تو اس کلام الہٰی کے ذریعہ سے نصحیت کر۔تا ایسا نہ ہو کہ کسی جان کو اس کے کمائے ہوئے کے سبب سے اس طرح ہلاکت میں ڈال دیا جائے کہ خدا تعالٰی کے سوا اس کا نہ کوئی مددگار ہو اور نہ شفیع۔ اور اگر وہ ہر ایک قسم کا بدلہ بھی دیں۔ تو ان سے قبول نہیں کا جائے گا۔
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا میں خدا تعالٰی کو دلی اور شفیع بنا نیوالوں کو تو اس دن شفاعت کا حق پہنچیگا لیکن دوسروں کو نہیں اور نہ انکے حق میں شفاعت قبول ہو گی۔ خدا تعالٰی کو شفیع اسلئے قرار دیا کہ اسکی اجا زت کے بغیر شفاعت نہیں ہو سکتی پس اصل شفیع وہی ہے فرما تا ہے یَوْمَئِدٍ لَّا تَنْفَعُ الشَّفَا عَۃُ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَ رَضِیَ لَہ‘ قَوْ لًا(طٰہٰ آیت ۱۱۰) یعنی اسدن شفا عت سوائے اسکے جس کے حق میں شفاعت کر نیکی اجا زت رحمٰن خدا دیگا اور جس کے حق میں بات کہنے کو وہ پسند کریگا اور کسی کو نفع نہیں دیگی۔ اس سے ثابت ہو تا ہے کہ وہاں شفاعت با لا ذن ہو گی۔ خدا تعالٰی کے اذن کے بغیر شفاعت کا حق نہیں ہو گا۔ دوسری جگہ فر ما تا ہے۔یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَ مَا خَلْفَہُمْ وَلَا یَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی وَ ھُمْ مِّنْ خَشْیَتِہ مُشْفِقُوْنَ(انبیاء آ یت ۲۹) یعنی خدا تعالٰی اس کو بھی جا نتا ہے جو انہیں آ ئندہ پیش آ نیوالا ہے اور جو وہ پیچھے چھوڑ آئے ہیں اور وہ سوائے اسکے جس کے لئے خدا نے یہ بات پسند کی ہو کسی کیلئے شفاعت نہیں کر تے اور وہ اس کے خوف سے لندتے رہتے ہیں۔پھر اس آ یت سے اگلی آ یت میں فر ماتا ہے مَنْ ذَاالَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہ‘ اِلَّا بِاِ ذْنِہ( سورۃ بقرہ آیت ۲۵۶) یعنی کون ہے جو اس کی اجا زت کے بغیر اس کے حضور کسی کی سفارش کرے۔
بیشک خد یثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قیا مت کے دن آنحضرت ﷺ اور انبیاء سا بقین کے علاوہ آنحضرتﷺ کے بعض امتی بھی شفاعت کر ینگے۔ لیکن ان حدیثوں کے بارے میں میری تشریح یہ ہے کہ امت محمدیہ میں ایسے افراد کی شفاعت صرف ظللی ہو گی اصل شفع آ نحضرتﷺ ہی ہو نگے۔ وہ محمد رسول اللّٰہﷺ سے سفا رش کے ینگے اور آپ اللّٰہ تعالٰٰی سے ۔ با نی سِلسلہٰ احمد یہ نے بھی اسی عقیدہ کی تو ضیح فر ما ئی ہے آپ اپنی کتاب کشتی توح میں فر ما تے ہیں۔
’’ نوع انسان کیلئے روئے زمین پر اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفٰےﷺ۔ سو تم کو شش کرو کہ سچی محبت اس جا ہ و جلال کے نبی کے ساتھ رکھو۔ اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو۔ تا آ سمان پر تم نجا ت یا فتہ لکھے جاؤ۔‘‘
بہر حال جب تک کو ئی انسان اللّٰہ اور اس کے رسول سے و اصل نہ ہو جائے اور ان کو اپنا جوڑا نہ بنا لے اس وقت تک اسے کسی قسم کی شفاعت میسر نہیں آ ئیگی۔
اَللّٰہُ لَآ اِ لٰہ




الْعَظِیْمُo
وَ الْکٰفِرُ وْنَ عُلُم الظّٰلِمُوْنَ میںبتا یا کہ یہ ظلم نہیں بلکہ ظلم کفار نے خود اپنی جا نوں پر کیا ہے۔
۱۶۵؎ حل لغات:۔ اَلْحَیُّ: کامل حیات والا۔ اللّٰہ تعالٰٰی کے لئے جب اَلْحَيُّ آ تا ہے تو الف لام کمال کے معنے دیتا ہے اور اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اللّٰہ تعالٰٰی حیاتِ کاملہ رکھتا ہے یعنی ایسی حیات جو اپنے قیام میں کسی اور کی محتا ج نہیں۔ اسے کسی اور نے زندگی نہیں بخشی بلکہ اس کی ذات ازلی اور ابدی طور پر زندہ ہے۔
اَلْقَیُّوْمُ: قَامّ سے نکلا ہے جس کے معنے کھڑے ہو نے کے ہیں۔ اسی سے قَیِّم’‘ نکلا ہے جس کے معنے نگران اور متولّی کے ہیں اور قَیِّم’‘ مُسْتَقِیْم’‘ کو بھی کہتے ہیں۔ اَمْر’‘ قَیِّم’‘ ایسا امر جس میں کوئی کبھی نہ ہو بلکہ درست اور ٹھیک ہو۔
اَلْقَیُّوْمُ اور اَلْقَیَّامُ کے معنے ہیں جو اپنی ذات میں قا ئم ہے اور اس کی کو ئی ابتداء نہیں (اقرب) اَلْقَیُّوْمُ صرف اسی کو نہیں کہتے جو اپنی ذات میں قا ئم ہو بلکہ اس کے معنوں میں دوسرے کو قائم رکھنا اور اس کی حفاظت کر نا بھی شامل ہے۔ مفردات میں لکھا ہے۔اَلْقَائِمُ: اَلْحَا فِظُ بِکُلِّ شَیْ ئٍ وَ الْمُعْطِیْ لَہ‘ مَا بِہ قِوَ امُہ‘ یعنی جو اپنی ذات میں قا ئم ہو اور ہر چیز کا نگران ہو اور اسے وہ طاقت عطا کرے جس سے وہ قائم ہو اور ہر چیز کا نگرانہو اور اسے وہ طاقت عطا کرے جس سے وہ قائم رہ سکے۔ غر ض اشیاء میں وہ طاقتیں یدا کر نا جن سے ان کے اجزاء جڑے رہتے ہیں اور اپنے مفوضہ کاموں کو بجا لاتے ہیں قَیُّوْم سے متعلق ہے۔ اور اللّٰہ تعالٰٰی اَلْقَیُّوْمُ ہے۔ نہ صرف اس لئے کہ وہ خود قا ئم ہے بلکہ اس لئے بھی کہ دوسری سب اشیاء اس کی پیدا کردہ طاقتوں سے قا ئم رہتی ہیں۔ اَلْقَیُّوْمُ کی صفت اجرام فلکی میں کشش ثقل کے وجود اور خور دبینی ذرات کے ایک دوسرے اتصال اور ایک دوسرے سے اوغام اور ایک دوسرے کے گر د گھو منے وغیرہ افعال پر لطیف رنگ میں اشارہ کر تی ہے۔
سِنَۃ’‘:۔ اَلسِّنَۃُ مِنَ الْوَ سْنِ۔ سِنَۃ کا لفظ وَسْن سے نکلا ہے اور وَسَنَ الرَّجُلُ کے معنے ہو تے ہیں اَخَذَہ‘ ثِقْلُ النَّوْمِ۔ اسے گہری نیند نے آ پکڑا جس کی علامت اونگھ ہوتی ہے۔ پس سِنَۃ’‘ سے مراد وہ اونگھ ہے جو نیند کے غلبہ کی وجہ سے آنے لگے۔
اَلنَّوْمُ: معمولی نیند جو انسان کے بے اختیار نہ کردے۔
اَلْکُرْ سِیُّ: کِرْسی سے نکلا ہے جس کے معنے متفر ق اجزاء کے اکٹھا ہو نے کے ہو تے ہیں۔ کہتے ہیں کَرَ سْتُ بِنَائً۔ میں عمارت بنائی،یعنی اینٹوں پر اینٹیں رکھیں۔ اور کُرْسِی’‘ علم کو بھی کہتے ہیں اور حکومت کو بھی (مفردات) اس لفظ کی اصل سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل مین اس کے معنے جمع کر نے اور اکٹھا کر نے کے ہیں۔ اور چو نکہ علم بھی پراگندہ اجزاء کو جمع کر لیتی ہے اس لئے اسے بھی کر سی کہتے ہیں۔
تفسیر:۔ ان آ یات میں پہلی بات جس کی طرف انسان کو متوجہ کیا گیا ہے اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ہے یعنی اے انسان! خدا کو دیکھ کہ صرف ہی تیرا معبود ہے اس کے سوا اور آدمی تیرا معبود نہیں ہے۔
دنیا میں ہر ایک چیز کی قدر اس کی کم یا بی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ مثلاً پا نی ایک بہت ضروری چیز ہے مگر لوگ اسے سنبھال کر نہیں رکھتے۔کیو نکہ وہ جا نتے ہیں کہ جس وقت اس کی ضرورت پڑے گی اسی وقت مل جائیگا ۔ ہوا صحت کے لئے کیسی ضروری چیز ہے مگر کو ئی انسان اس کو سنبھال لتا نہین کیو نکہ وہ جانتا ہے کہ جب اس کی ضرورت ہو گی و خود ہی ناک اور منہ کے راستے اندر چلی جائیگی۔ لیکن یہی پا نی جس کی عام طور پر قدر نہیں کی جاتی اور کو ئی قیمتی چیز معلوم نہیں ہوتی ایک ایسے جنگل میں جہاں پا نی کا نام و نشان نہ ہو نہا یت قیمتی ہو جاتا ہے اور اگر اس وقت کسی کے پاس ایک گلا س پانی ہو تو وہ بہت بڑی قیمت پر بھی کسی کو نہیں دیتا ۔ تو ہر چیز کی قیمت اس کی ضرورت کے مطا بق گھٹتی بڑھتی ہے ۔ دیکھو غلہ جس وقت زیادہ ہوتا ہے اس وقت سستا ہوتا ہے اور جب کم ہو تا ہے تو مہنگا ہو جاتا ہے اسی طرح اگر دنیا میں کئی خدا ہوتے تو کو ئی کہ سکتا تھا کہ ایک نہ ملا تو اور مل جائیگا۔ مگر فر مایا۔صر ف ایک ہی اللّٰہ ہے ۔ اگر کو ئی کہے کہ اس کو چھوڑ کر کسی اور کی تلا ش کر لو نگا تو ایسا نہیں ہو سکتا کیو نکہ اللّٰہ ایک ہی ہے دو نہیں۔ تین نہیں۔ چار نہیں یا ہزاروں لاکھوں نہیں ۔ جب ایک ہی اللّٰہ ہے تو اس کو چھوڑ کر اور کہاں جاؤ گے ۔پھر ہر وقت تمہیں اس کی ضرورت ہے اور ہر لمحہ تم اس کے محتاج ہو۔ دنیا میں لوگ بعض دفعہ با دشاہوں کو ناراض کر لیتے ہیں اور وہ جا نتے ہیں کہ کیا ہوا اگر یہ با دشا ہ نا راض ہو گیا ہے تو اس کے ملک کو چھوڑ کر دوسرے کے ملک میں چلے جا ئیں گے چین کا بادشاہ اگر ظالم ہے تو انگلستان میں پناہ لے سکتا ہے ۔لیکن اللّٰہ تعالٰٰی سے بھاگ کر وہ کہاں جائیگا۔ کیو نکہ کو ئی زمین ایسی نہیں جو خدا کے قبضہ میں نہ ہو۔ پھر کوئی دوسرا خدا نہیں کہ انسان اس کی مدد حاصل کر نے کی کو شش کرے۔ ہندوؤں کا خیال ہے کہ کئی خدا ہیں اور ان کے خدا ؤں میں جھگڑے بھی ہو تے رہتے ہیں۔ چنا نچہ مشہور ہے کہ شِوْ نے ایک آ دمی پر ناراض ہو کر اسے مار ڈالا ۔ لیکن وہ بر ہما خدا کا پیارا تھا اس نے کہا ہم پیدا کر نے والے ہیں ہم اس کو زندہ کر لیں گے چنا نچہ بر ہما نے اسے زندہ کر دیا ۔ مگر شو نے اسے پھر مار دیا۔ اور بر ہما نے پھر اسے زندہ کر دیا۔ غرض شو اسے مارتے جاتے ار بر ہما زندہ کر تے جا تے۔یہی ان کا جھگڑا لگا رہا۔ یہ ہندوؤں کے خیا لات ہیں۔ مگر ہمارے ہاں تو ایسے خدا ہی نہیں ہیں کہ ایک مارے اور دوسرا زندہ کرے۔ ایک نا راض ہو تو دوسرا راضی ہو جائے۔ دیکھو ایک ملا زم اپنے آ قا کو جواب دے سکتا ہے کہ میں تمہاری ملا زمت نہیں کرتا کیو نکہ اسے دوسری جگہ ملازمت مل جاتی ہے ۔ مگر ہم خدا تعالٰی کو یہ نہیں کہ سکتے کیو نکہ وہ ایک ہی آ قا ہے اور اس کے سوا اور کو ئی آ قا نہیں۔پھر ہمارا خدا ایک زندہ خاد ہے اور ہمیشہ زندہ رہیگا و ہ آ دم کے زما نہ میں بھی زندہ تھا ور نوحؑ کے زما نہ میں بھی زندہ تھا۔ وہ ابراہیمؑ کے زما نہ میں بھی زندہ تھا۔ وہ مو سٰیؑ کے زمانہ میں بھی زندہ تھا۔ وہ عیسٰیؑ جت ز ما نہ میں بھی زندہ تھا۔ وہ محمد رسول اللّٰہﷺ کے زما نہ میں بھی زندہ تھا اور وہ آ ج بھی زندہ ہے اور اگر دنیا اور ہزار سال تک قا ئم رہے گی تو ہزار سال تک اور اگر ایک کڑور سال تک قائم رہے گی تو ایک ارب سال تک وہ اپنی زندگی کے نشا نات دکھاتا چلا جائیگا۔ کیونکہ وہ حَیيّ و قَیُّوْمُ خدا ہے اور وہ لَا تَاْ خِذُہ‘ وسِنَۃً وَّ لا نَوْ م’‘ کا مصداق ہے ۔ اسپر اونگھ اور نیند ہی نہیں آ تی تو اس کے زندہ نشانات کا سلسلہ کس طرح ختم ہو سکات ہے۔ جب ایسے خدا سے انسان اپنا تعلق پیدا کر لیتا ہے تو اس کی ضرورتوں کا وہ آپ کفیل ہو جاتا ہے اور ہمیشہ اسکی تا ئید کے لئے اپنے غیر معمولی نشا نات ظاہر کر تاہے۔
ہم نے دیکھا ہے حضرت خلیفہ اوّلؓ کے پاس اگثر لوگ اپنی اما نتیں رکھواتے تھے اور آپ اس میں سے ضرورت پر خرچکر تے رہتے تھے۔ آ پ جر ما یا کر تے کہ اللّٰہ تعالٰٰی ہمیں اپنے فضل سے اس طرح رزق دیتا رہتاہے بعض دفعہ ہم نے دیکھا کہ اما نت رکھوا نے والا آ پ کے پاس آتا اور کہتا ہے مجھے روپیہ کی ضرورت ہے۔ میری اما نت مجھے واپس دیدی جائے۔ آٓپ کی طییعت بڑی سادہ تھی۔ اور معمو لی سے معمولی کا غذ کو بھی آ پ ضا ئع کر نا آپ پسند نہیں فر ماتے تھے۔ جب کی نے مطا لبہ کر نا توآپ نے ردی سا کا غذ اٹھا نا اور اس پر اپنے گھروالوں کو لکھد ینا کہ اما نت میں سے دو سو روپیہ بھجو ا دیا جائے ۔ اندر سے بعض دفعہ جوا ب آ تا کہ روپیہ تو خرچ ہو چکا ہے یا اتنے روپے ہیں اور انتے روپوں کی کمی ہے۔ آپ نے اسے فر ما نا کہ ذرا ٹھہر جاؤ۔ ابھی روپیہ آ جاتا ہے ۔ اتنے میں ہم نے دیکھنا کہ کو ئی شخص دھو تی باندھے ہوئے جوبا گڑھ یا بمبئی کا رہنے والا چلا آ رہا ہے اور ا نے آ کر اتنا ہی روپیہ آپ کو پیش کر دینا۔
ایک دن تو لطیفہ ہوا کسی نے اپنا روپیہ ما نگا اس دن آ پ کے پا س کو ئی رپیہ نہیں تھا۔ مگر اسی وقت ایک شخص علاج کیلئے آ گیا۔ اور اس نے ایک پڑیہ میں کچھ رقم لپیٹ کر آ پ کے سامنے رکھدی۔ حافظ روشن علی صا حبؓ کو علم تھا کہ روپیہ ما نگنے والا کتنا روپیہ مانگتا ہے آ پ نے حافظ صا حبؓ سے فر ما یا دیکھو اس میں کتنی رقم ہے۔ انہوں نے گنا تو کہنے لگے بس اتنی ہی رقم ہے جتنی رقم کی حضور کو ضرور تھی۔ آ پ نے فر ما یا یہ اس کو دے دو۔ اسی طرح آ پ ایک پرانے بزرگ کا وا قعہ سنا یا کر تے تھے کہ ایک دفعہ ایک قر ضخواہ ان کے پا س آ گیا۔ اور اس نے کہا کہ آپ نے میری اتنی رقم دینی ہے اور اس پر اتنا عرصہ گذر چکا ہے اب آپ میرا روپیہ ادا کر دیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے پاس تو ہے نہیں جب آ ئیگا دیدونگا۔ وہ کہنے لگا۔ تم بڑے بزرگ بنے پھرتے ہو اور قر ض لے کر ادا نہیں کرتے یہ کہاں کی شرافت ہے۔ اتنے میں وہاں ایک حلوا بیچنے والا لڑکا آ گیا۔ انہوں نے اس سے کہا کہ آ ٹھ آنے کا حلوہ دیدو۔ لڑکے نے حلوہ دیدیا اور انہوں نے وہ حلوہ اس قارض کو کھلا دیا۔ لڑکا کہنے لگا کہ میرے پیسے میرے حوالے کیجئیے۔ وہ کہنے لگے تم آ ٹھ آ نے مانگتے ہو اور میر ے پاس تو دو آ نے بھی نہیں۔ وہ لڑکا شور مچا نے لگ گیا۔ یہ دیکھ کر وہ قرض خواہ کہنے لگا کہ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ میری رقم تو ماری ہی تھی اس غریب کی اٹھنی بھی ہضم کر لی۔ غرض دو دونوں شور مچا تے رہے اور وہ بزرگ اطمینان سے اپنی جگہ بیٹھے رہے۔ اتنے میں ایک شخص آ یا اور اس نے اپنی جیب میں سے ایک بڑیہ نکال کر انہیں پیش کی۔ اور کہا کہ فلاں جیب میں سے ایک پڑیہ نکال کر پیش کی۔ اور کہا کہ فلاں امیر نے آ پ کو نذرانہ بھیجا ہے۔ انہوں نے اسے کھو لا تو اس میں روپے تو اتنے ہی تھے جتنے قر ضخواہ ما نگتا تھا مگر اس میں اٹھنی نہیں تھی۔ کہنے لگے۔ یہ میری پڑ یہ نہیں اسے واپس لے جاؤ۔ یہ سنتے ہی اس کا رنگ فق ہو گیا۔ اور اس نے جھٹ اپنی جیب سے ایک دوسری پڑ یہ نکالی اور کہنے لگا مجھ سے غلطی ہو گئی ہے ۔ آ پ کی پڑ یہ یہ ہے۔ انہوں نے اسے کھو لا ۔ تو اس میں اتنے ہی روپے تھے جو قار ض ما نگ رہا تھا اور ایک اٹھنی بھی تھی ۔ انہوں نے دونوں کا بلا یا۔ اور وہ روپے انہیں دے دئیے۔ غر ض زندہ خدا اپنے بندوں کی تا ئید میں ہمیشہ اپنے نشا نات دکھا تا رہتا ہے۔
پھر وہ اَلْقَیُّوْم ہے۔ کو ئی کہ سکتا ہے کہ اب تو میرا یہ آ قا ہے لیکن پہلے میں فلاں کے پاس ملازم رہ چکا ہوں۔ اس لئے اس کا بھی مجھ پر احسان ہے اور میرے لئے اس کی قدر کرنا بھی ضروری ہے ۔ خدا تعالٰی فر ما تا ہے کہ میں تمہارا آج خدا نہیں بنا بلکہ ہمیشہ قا ئم رہنے والا اور تمہیں قا ئم رکھنے والا ہوں۔ اس لئے تم پر میرا ہی احسان ہے کسی اور کا احسان نہیں۔
پھر فر ماتا ہے لاَ تَاْ خُذُہ‘ سِنَۃً وَّلَا نَوْم’‘ ممکن ہے کو ئی کہے کہ مان لیا خدا ایک ہی ہے اس کے سوا اور کوئی نہیں۔ وہ ہمیشہ زندہ ہے ۔ اور وہی ہمارا پہلے آ قا تھا اور وہی اب بھی ہے۔مگر ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ خدا کو نیند آ ئے اور وہ سو جائے۔ اور اس وقت اس کی جگہ اس کے درباری کام کریں۔ اس لئے انہین بھی خو ش رکھنا چاہیے اور ان کی بھی خو شامد کر نی چا ہیے۔ اللّٰہ تعالٰی فر ما تا ہے۔ تمہارا وہ اللّٰہ ہے کہ اس کو کبھی اونگھ اور نیند نہیں آ تی تم اس کو دنیوی با دشا ہوں اور حا کموں کی طر ح نہ سمجھو۔جہاں تمہیں درباریوں کی خو شامد کر نی پڑتی ہے۔ تمہارا خدا ایسا نہیں کہ کبھی اسے اونگھ آ ئے یا وہ سو جائے۔ وہ ہر وقت جا گیا ہے اور ہر ایک بات کا خود نگران ہے۔
اس میںاللّٰہ تعالٰی نے کیا ہی لطیف بات بیان فر مائی ہے فر ما تا ہے۔اَ تَاْ خُذُہ‘ سِنَۃً وَّلَا نَوْم’‘ کہ اس کو نہ اونگھ آ تی ہے نہ نیند۔ تر تیب کلام کا یہ قا عدہ ہے کہ پہلے چھو ٹی باتو ں کا ذکر ہو تا ہے۔ پھر بڑی بات کا ۔ اگر اس کے خلاف کے اجائے تو کلام غلط ہو جاتا ہے۔مثلاً یہ تو کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص سخت بیمار نہیں تھا بلکہ وہ تو کچھ بھی بیمار م نہ تھا۔لیکن اگر یہ کہا جائے کہ فلاں شخص کچھ بیمار نہیں تھا بلکہ وہ تو زیادہ بیمار بھی نہ تھا تو فقرہ غلط ہو جاتا ہے ۔ کیو نکہ پہلے بڑا اور پھر چھو ٹا درجہ بیان کیا جاتا ہے۔ مگر یہاںاللہ تعالیٰفر ما تا ہے کہ نہ اسے اونگھ آ تی ہے اور نہ نیند۔ حالا نکہ جب اونگھ کی نفی کر دی گئی تھی تو نیند کی خود ہی نفی ہو جاتی ہے۔ پھر نیند کی نفی کی کیا ضرورت تھی؟ سو یاد رکھنا چا ہیے کہ اس میں ایک حکمت ہے۔ اور وہ یہ کہ سِنَۃ’‘ اس کو کہتے ہیں کہ جب سخت نیند کی وجہ سے انسان کی آ نکھیں بند ہو جائیں۔ چنا نچہ جب انسان کو بہت زیادہ نیند آ ئی ہو ئی ہو اس وقت اونگھ آ تی ہے۔ اور جب تک نیند کی غلبہ نہ ہو اونگھ نہیں آ تی۔ تو فر ما یا کہ خدا تعالٰی کو کبھی اونگھ نہیں آ تی کہ کام کر نیکی وجہ سے وہ تھک گیا ہو۔ اور اس پر نیند کا ایسا غلبہ ہو کہ اس کی آ نکھیں بند ہو گئی ہوں اور نہ اسے معمولی ییند آ تی ہے۔ غر ض تر تیب بیان کے لحا ظ سے سِنَۃ’‘ کا ہی پہلے ذکر آ نا ضروری تھا۔ اور نوم کا بعد میں۔
پھر فر ما یا۔ لَہ‘ مَا فِی الَّسمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ تمہارا آ قا ایسا ہے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب کچھ اسی کا ہے۔ ایسی صورت میں تم اس کے مقا بلہ میں کسی اور کو اپنا آ قا کس طر ح بنا سکتے ہو۔پھر بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم خدا تعالٰی کے سوا اور کسی کی عبادت تو نہیں کر تے ہاں دوسروں کو بیازیں دیتے اور ان سے مرادیں ما نگتے ہیں ۔ کیو نکہ وہ خدا تعا لٰی کے مقرب ہیں ۔ اور وہ خدا تعالٰی کے حضور ہماری شفاعت کریں گے۔ خدا تعالٰی فر ما تا ہے مَنْ ذَاالَّذِ یْ یَشْفَعُ عِنْدَہ‘ٓ اِلَّا بِاِ ذْ نِہ۔ ہمارے حکم کے بغیر تو کو ئی شفا عت ہی نہیں کر سکتا۔ پس تمہاری یہ امید بھی غلط ہے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود ؑ سے بڑ ھ کر اور کو ن ہے ۔لیکن حضرت مسیع مو عودؑ نے ایک دفعہ جب نواب محمد علی خان صاحبؓ کے لڑ کے عبد الر حیم خان کیلئے جبکہ وہ شد ید بیمار تھا دُعا کی تو الہام ہوا کہ ’’ تقدیر مبرم ہے اور ہلا کت مقدر۔‘‘ آ پ کو خیال آ یا کہ نواب صا حب سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر قا دیان آ رہے ہیں۔ ان کا لڑ کا فوت ہو گیا تو انہیں ابتلاء نہ آ جا ئے ۔ اس لئے آ پ نے خدا تعالٰی کے حضور عرض کیا کہ الہٰی میں اس لڑ کے کی صحت کے لئے شفا عت کر تا ہوں۔اس پر آپ کو بڑے زور سے الہا م ہوا۔ مَنْ ذَاالَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہ‘ٓ اِلَّا بِاِ ذْ نِہ۔ یعنی تم کو ن ہو جو میری اجا زت کے بغیر شفا عت کر تے ہو۔ اب دیکھو حضرت مسیح مو عو دؑ کتنے بڑے انسان تھے۔تیرہ سو سال سے زنیا آ پ کی منتظر تھی ۔مگر وہ بھی سفارش کر تا ہے تواللہ تعالیٰفر ما تا ہے کہ تم کو ن ہو کہ بلا اجا زت سفارس کرو۔ حضرت مسیح مو عودؑ فر ما یا کر تے تھے کہ جب مجھے یہ الہا م ہوا۔ تو مین گر پڑا اور بدن پر رعشہ طا ری ہو گیا اور قر یب تھا کہ میری جان نکل جا تی۔ لیکن جب یہ حا لت ہو ئی تو اللّٰہ تعالٰی نے فر ما یا۔ اِنَّکَ اَنْتَ الْمُجَازُ: اچھا: اب ہم شفا عت کی اجازت دیتے ہیں۔ چنا نچہ آپ نے شفاعت کی ۔ اور عند الرحیم خان اچھے ہو گئے۔ غر ض جب مسیح موعودؑ جیسے انسان کو۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰکہتا ہے کہ تم کون ہو جو بلا اذن سفارش کرو تو اور لو گوں کی کیا حیثیت ہے کہ کسی کی سفارش کر سکیں۔
حد یثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قیا مت کے دن آ نحضرت ﷺ کو اِذن ہو گا تب آ پ سفا رش کر ینگے پھر کیسا نا دان ہے وہ شخص جو سمجھتا ہے کہ فلاں میری سفا رش کر دیگا۔
پھر ایک اور بات رہ جا تی ہے اور وہ یہ کہ کو ئی کہ سکتا ہے کہ مانا شفا عت بلا اجا زت نہیں ہو سکتی ۔ لیکن با دشاہ کے جس طر ح درباری ہو تے ہیں اور ان کے ذریعہ بادشاہ تک رسا ئی حاصل کر کے فا ئدہ اٹھا یا جا تاہے۔ اسی طرح اللّٰہ تعالٰی کے بھی درباری ہو نے چا ہیں۔اللہ تعالیٰفرما تا ہے ۔ ان احمقوں کواتنا بھی پتہ نہیں کہ دنیا کے با دشاہ کیوں درباری رکھتے ہیں ۔ وہ تو اس لئے رکھتے ہیں کہ انہیں ان سے حا لات معلوم کر نے کی ضرورت ہو تی ہے کیو نکہ با دشا ہ نہیں جا نتا کہ ملک مے کیا ہو رہا ہے لیکناللہ تعالیٰتو تمہاری اگلی پچھلی سا ری با تیں جا نتا ہے۔پھر اس کو درباری رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ یَعْلَمُ مَابَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَ مَا خَلْفَھُمْ کے دو معنے ہیں ۔ ایک یہ کہاللہ تعالیٰاس کو بھی جا نتا ہے جو آ گے ہو نا ہے اور اسے بھی جا نتا ہے جو لوگ پیچھے کر چکے ہیں۔ دوسرے معنے یہ ہیں کہاللہ تعالیٰان کا موں کو بھی جا نتا ہے جو وہ کر رہے ہیں اور ان کا موں کو بھی جا نتا ہے جو انہیں کر نے چا ہیے تھے۔لیکن انہوں نے ترک کر دئیے۔ پھر اسے کیا ضرورت ہے کہ درباری رکھے۔
وَ لَا یُحِیِْطُوْنَ بِشَیْ ئٍ مِّنْ عِلْمِہٓ اِلَّا بِمَا شَآئَ۔ پھر اس کے علوم کا کو ئی شخص احا طہ نہیں کر سکتا کسی کو اس کی حقیقت اپنی کو شش سے معلوم نہیں ہو سکتی ہاں جس کو وہ آپ ہی بتا دے اور کس قدر بتا دے وہ اتنا ہی جا نتا ہے اس سے زیادہ نہیں۔ اس آ یت میں خدا تعالٰی نے صاف طورپر بتا دیا ہے کہ خدا تعالٰی کے علم کا کو ئی احا طہ نہیں کر سکتا۔ نہ آ نحضرتﷺ تمام بنیوں کے سرادار اوراللہ تعالیٰکے محبوب ہیں بلکہ آ پکی اتباع کربیوالا بھی خدا تعالٰی کا محبوب ہو جا تا ہے مگر با و جود اس کے آ پ خدا تعالٰی کی مخلوق اور اسی کے محتاج تھے۔پس آ پ کے اندر وہی صفات رہیں گی جو بندوں میں ہو تی ہیں اور وہ صفات کبھی نہیں آ سکتیں جو خدا نے صرف اپنے لئے مخصوص کی ہو ئی ہیں۔
لاَ یُحِیِْطُوْنَ بِشَیْ ئٍ مِّنْ عِلْمِہٓ اِلَّا بِمَا شَآء میں اس امر کی طر ف بھی تو جہ دلائی گئی ہے کہاللہ تعالیٰکے قرب کی راہیں اتنی غیر محدود ہیں کہ انہیں کلی طور پر طے کر نیکا کو ئی انسان خیال بھی نہیں کر سکات۔ جب کوئی بندہاللہ تعالیٰکے قرب میں بڑ ھتا ہے اور وہ اپنے مقام کے مطا بق اس کے انوار و بر کات کو اپنے اندر جزب کر لیتا ہے تواللہ تعالیٰاپنے فضل سے اس پر اپنی دوسری تجلّی کے قا بل ہو گیا ہے۔ تو اس پر اپنی تیسری تجلّی ظاہر کر تا ہے اور وہ خدا تعالٰی کے قر ب میں بڑھتا چلا جا تال ہے۔
رسول کر یم ْﷺ نے اس کیفیت کو ایک نہا یت ہی لطیف مثال کے سا تھ وا ضح فر ما یا ہے۔ آپ فر ما تے ہیں کہ جو شخص دوزخ میں سب سے پیچھے رہ جا ئیگا ۔اللہ تعالیٰاسے کہیگا کہ ما نگو مجھ سے کیا ما نگتے ہو ل وہ کہیگا بس یہی ما نگتا ہوں کہ مجھے دوزخ سے نکال دیا جائے ۔اللّٰہ تعا لٰی فر ما ئیگا کہ اچھا۔ اور وہ اسے دوزخ سے نکال لیگا۔ جس سے اسے بہت خوشی ہو گی۔ لیکن کچھ روز کے بعد اسے دور ایک سر سبز و شا داب درخت نظر آ ئیگا اور اس کے دل میں لا لچ پیدا ہو گا کہ اگر میں وہاں پہنچ کر اس کے نیچے بیٹھ سکوں تو کیا اچھا ہو۔ کچھ مدت تک تو وہ اس خیال کے اظہار سے رکے گا۔ مگر آ خراللہ تعالیٰسے کہیگا کہ ہے تو بڑی بات لیکن اگر آ پ مجھ پر رحم کر کے اس درخت کے نیچے بیٹھنے دیں تو بہت مہر بانی ہو گی ۔اللّٰہ تعا لٰی اس کی بات کو مان لیگا اور اس درخت کے نیچے اسے پہنچا دیگا۔ آ خر جب وہ اس درخت کے نیچے کچھ عرصہ تک راحت حاصل لر لیگا تو پھراللہ تعالیٰامتحان کے لئے اس سے بہتر درخت اس سے کچھ فاصلے پر ظاہر کے گا۔ اور پھر وہ لا لچ کر ے گا کہ وہ اس کے نیچے بیٹھے کچھ مدت تک تو وہ اپنے نفس کی اس خواہش کو بر داشت کر ے گا اور کہیگا کہ میں اباللہ تعالیٰسے یہ سوال کس طرح کروں۔لیکن آ خر وہ درخواست کر ہی دیگا اور کہیگا کہ آ ئندہ اور کچھ نہ مانگونگا۔ تب خداتعالٰی اسے وہاں لے جا ئیگا۔ اورپھر وہ دور سے جنت کا دروازہ دیکھیگا اور آ خر اس سے با ہر رہنا برداشت نہیں کریگا۔ اور خدا تعالٰی سے کہیگا کہ مجھے اس جنت کے دروازہ کے آ گے تو بٹھا دے میں اندر جانے کی درخواست نہیں کر تا۔ صرف با ہر بیٹھا دے وہیں سے لطف حاصل کر لو نگا۔اللہ تعالیٰاس سے پو چھیگا کیا تو اس کے بعد تو کچھ نہیں ما نگہیگا۔ بندہ کہیگا نہیں اسپراللہ تعالیٰاسے جنت کے دروازے پر بٹھا دے گا لیکن وہاں اسے کس طر ح چین حاصل ہو سکتا ہے آ خر وہ بے تاب ہو کر کہیگا کہ یا اللّٰہ مجھے دروازہ کے اندر کی طرف بٹھا دے۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ مجھے جنت کی نعماء دے۔ میں صرف یہ کہتا ہوں کہ دروازہ کے اندر بٹھا دے اس پراللہ تعالیٰہنسیگا اور کہیگا کہ میرے بندہ کی حرص کہیں ختم نہیں ہوتی۔جاؤ جنت میں داخل ہو جاؤ اور کہاں چا ہو رہو۔ غرضیکہ پہلیاللہ تعالیٰایک ہلکی سی تجلّی دکھاتا ہے اور اسے دیکھ کر جب ملا ئکہ صفت انسان بے تاب ہو جاتا ہے اور دعا ئیں کرتا ہے کہ خدایا تو مجھے کا مل تجلی دکھا تو پھراللہ تعالیٰاسے دوسرے مقام کی پہلے ہلکی سی تجلی دکھا تا ہے اور پھر پوری تجلی اور یہ سلسلہ اسی طرح بڑھتا چلا جاتا ہے ۔بہر حالاللہ تعالیٰکی ہستی غیر محدود ہے اور کوئی شخص اس کا احا طہ نہیں کر سکتا۔
پھر فر ما تا ہے وَ سِعَ کُرْ سِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ۔اللہ تعالیٰکا علم آ سمان اور زمین کو گھیر ے ہوے ہے ۔ یعنی اسے ہر چیز کا انتہا ئی علم ہے۔ اورکوئی چیز ایسی نہیں جو اس کے علم سے با ہر ہو۔ انسانی علم با لکل محدود ہو تا ہے۔ بعض اوقات وہ ایک چیز کے متعلق یہ سمجھتا ے کہ وہ اچھی ہے لیکن اس کا نتیجہ خراب ہوتا ہے جیسے خضرت مسیح مو عودؑ کو میر عباس علی لدھیا نوی کے متعلق ایک وقت علم دیا گیا کہ وہ نیک ہے تو آ پ کو اس کے انجام کا علم نہیں تھا اس لئے آپ کو پتہ نہ لگا کہ ایک دن وہ مر مد ہو جائیگا۔لیکن بعد میںاللہ تعالیٰنے آپ کو اس کا علم دے دیا۔غرض انسانی علم بہت ہی محدود ہے صرف خدا تعالٰی ہی کا مل علم رکھتا ہے جو سب پر حا ویہے۔ اور کو ئی شخص اس کے علوم کا احا طہ نہیں کر سکتا ۔
پھر وَ سِعَ کُرْ سِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ میں سا ئنس کے اس عظیم الشان نکتہ کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ کا ئنات عالم کی لمبا ئی کا اندازہ اللّٰہ تعالٰی کے سوا کو ئی نہیں جا نتا۔ اس زما نہ میں جس حد تک علم ہیت میں تر قی ہو چکی ہے۔ اتنیپہلے کبھی نہیں ہو ئی۔ آ ج دنیا کی لمبا ئی کا اندازہ میلوں میں نہیں لگا یا جاتا۔ مثلاً یہ نہیں کہا جاتا کہ ایک زمین سے دوسری زمین تک اتنے میل کا فا صلہ ہے بلکہ اس لمبائی کا اندازہ روشنی کی رفتار سے لگا یا جا تا ہے۔ روشنی ایک سیکنڈ میں ایک لاکھ اسی ہزار میل چلتی ہے۔ اور دنیا کی وسعت کا اندازہ اس نور کی روشنی سے لگا تے ہیں ۔ گویا یہ بھی اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْض(نور آ یت ۳۶) کی صدا قت کا ثبوت ہے ۔ کیو نکہ اس آ یت میں بتا یا گیا تھا کہ زمین و آ سمان کی وسعت کا اندازہ تم کسی چیز سے نہیں لگا سکتے صرف نور اور اس کی رفتار سے ہی لگا سکتے ہو۔ غرض جب ایک سیکنڈ میں روشنی ایک لاکھ اسی ہزار میل چلتی ہے۔ تو ایک منٹ میںایک کروڑ آ ٹھ لاکھ میل چلے گی۔ پھر اسے ایک گھنٹہ کے ساتھ ضرب دو تو یہ ۶۴ کروڑ ۸۰ لاکھ میل بنتے ہیں۔ ان میلوں کو ایک دن کی روشنی کا حساب لگا نے کے لئے ۲۴ سے ضرب دیں تو یہ ۱۵ ارب ۵۵ کروڑ ۲۰ لاکھ میل رفتار بن جاتی ہے۔ اب پھر ایک سال کی رفتار کا حساب لگا نے کے لئے ۳۶۰ دنوں سے ضرب دیں تو ۵۵ کھرب ۷۶ ارب ۷۲ کروڑ میل بنتے ہیں ۔ یہ حساب صرف روشنی کے ایک سال کی لمبا ئی کا ہو تا ہے۔ لیکن دنیا کی لمبا ئی علم ہیت والے روشنی کے تین ہزار سال قراد دیتے تھے۔ پس ان اعداد کو تین ہزار سال سے ضرب دینی ہو گی۔اب اس کا حاصل ضرب جو نکلے وہ حسا بی لحاظ سے در حقیقت نا قا بل اندازہ ہی ہو جا تا ہے ۔ کیو نکہ اربوں کے اوپر کا حساب در حقیقت حساب ہی نہیں سمجھا جا تا۔ مگر یہ حساب یہیں ختم نہیں ہو گیا۔ جوں جون نئے آ لات دریا فت ہو رہے ہیںیہ اندازے بھی غلط ثا بت ہو رہے ہیں۔پہلی جنگ عظیم کے بعد یہ قرار دیا گیا کہ دنیا کی لمبائی روشنی کے چھ ہزار سال کے برابر ہے۔ مگر اس کے بعد تحقیق ہو ئی کہ یہ سب باتیں غلط ہیں ۔ہم دنیا کی لمبائی کا اندازہ ہی نہیں لگا سکتے۔ کیو نکہ جس طر ح بچہ کا قد بڑ ھتا ہے اسی طرح دنیا بھی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اور اب اس کی لمبا ئی روشنی کے بارہ ہزار سالوں کے برابر سمجھی جا تی ہے۔
اس کی طر ف قرآ ن کریم کی اس آ یت میں بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ وَالْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُہ‘ یَوْمَ الْقَیٰمَۃِ وَ السَّمٰوٰاتُ مَطْوِیّٰت’‘ بِیَمِیْنِہٖ( ز مر آ یت ۶۸) یعنی سب کی سب زمین اس کی مملو کہ ہے ۔ اور آ سمان اور زمین دونوں قیامت کے دن اس کے دائیں ہا تھ میں لپٹے ہو ئے ہو نگے۔ اور چیز کدا کی مٹھی میں ہوا س کا اندازہ انسان کہاں لگا سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب انسان کا علم اندازے کے قریب قریب پہنچنے لگتا ہے تو خدا تعالٰی کائنات کو اور زیادہ بڑھا دیتا ہے۔ غرض اس نئے علم سے وَ سِعَ کُرْ سِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ کی صداقت کا سا ئینس نے اقرار کر لیا ہے۔ اور دنیا اس حقیقت کو تسلیم کر چکی ہے کہ زمین و آ سمان کی وسعت کا اندازہ خدا تعالٰی کے سوا اور کو ئی نہیںکر سکتا۔
وَ لَا یَئُوْدُہ‘ حِفْظُھُمَ۔پھر کو ئی کہ سکتا ہے کہ ا للّٰہ تعا لٰی نے دنیا کا علم حا صل کر نے کے لئے تو اپنے درباری مقرر کئے ہو نگے تا کہ وہ اس کا ہاتھ بٹا ئیں۔ فر ما یا اللّٰہ کو اس کی بھی ضرورت نہیں۔ وہ سب کام خود کر رہا ہے اور ا للّٰہ تعا لٰی کی طا قت ایسی وسیع ہے کہ کو ئی چیز اس کے قبضہ سے با ہر نہیں۔ اور نہ کسی چیز کا انتظام اس کو تھکا سکتا ہے۔
اب ایک ہی اعتراض رہ جاتا ہے۔ اور وہ یہ کہ مانا خدا کو علم کے لئے اور مدد کے لئے کسی کی ضرورت نہیں مگر شان و شو کت
لَآ اِکْرَہَ

سَمِیْع’‘ عَلِیْم’‘o
بھی تو کوئی چیز ہے اس کے اظہار کیلئے ہی اس نے درباری مقرر کئے ہو نگے۔ اس اعتراض کو وَ ھُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ کہ کر رد فر ما دیا۔ یعنی وہ بہت بڑا ہے اور کو ئی چیز نہیں جو اس کے سا تھ مل کر اس کے رتبہ کو بڑھا سکے۔جو چیز خدا کے ساتھ ملے گی اس کا اپنا ہی رتبہ بڑھیگا۔ نہ کہ خدا کا۔پس یہ خیال کر نا کہ ا للّٰہ تعا لٰی نے شان و شوکت کے لئے درباری مقرر کئے ہو نگے ٹھیک نہیں۔ وہ بہت بلند اور بڑی شان رکھنے والا ہے۔
عَلِیّ’‘ میں اس کی رفعت اور بلندی کی طر ف اور عَظِیْم’‘ میں اس کی طا قتیں کی وسعت کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ یہ وہ خدا ہے جو اسلام پیش کر تا ہے۔ اگر ایسے خدا کے ہوتے ہوئے کو ئی کسی اور طرف جائے تو کتنے بڑے افسوس کی بات ہے۔ اگر کسی شخص کو نہایت عمدہ کھا نا ملے۔ اور وہ اسے چھوڑ کر نجا ست کی طرف دوڑے۔ اگر کسی شخص کو عمدہ کپڑا ملے اور وہ اسے چھوڑ کر میلی کچیلی لنگو ٹی باندہ لے تو بتاؤ کے اوہ دانا اور عقلمند کہلا نے کے قابل ہو گا ۔ نہیں اور ہر گز نہیں۔ دانا وہی ہے جو بہتر چیز کو پسند کرے۔پس ا للّٰہ تعا لٰی سے نہتر اور کو ئی نہیں۔
۱۶۶؎ حل لغات:۔ رُشْد’‘: رشد کے معنے ہیں صداقت پر استقلال سے قائم رہنا نیز یہ غَیّ’‘ کے اضداد میں سے ہے۔(اقرب)
اَلْغَیُّ کے معنی ہیں اَلضَّلٰلَۃُ۔ گمراہی۔ اَلْھَلَآ لَۃُ۔ تباہی۔ اَلْخَیْبَۃُ: ناکا می،( اقرب)
اَلطَّا غُوْتُ: طَغٰی سے نکلا ہے جس کے معنے ہر ایسی چیز کے ہیں جو حد سے نکل جا ئے۔ اور سر کش ہو جائے طا غوت کے ان معنوں میں شیطان بھی شا مل ہے۔ کیو نکہ وہ انسا ن کو سر کشی کی طرف لے جا تا ہے۔ اور اس میں وہ انسان بھی شا مل ہیں۔ جو لو گوں کو خدا تعالٰی سے دور کر تے ہیں۔
اِسْتِمْسَاک کے معنے ہین پکڑنے کے ہیں۔
اَلْعُرْ وَۃُ:۔ اَلْعُرْوَۃُ مِنَ الدَّ لْوِ وَ الْکُوْزِ الْمِقْبَضُ اَیْ اُذُ نُھُمَا۔ یعنی عروہ ڈول یا لو ٹے کے دستہ کو کہتے ہیں جس سے اسے پکڑا جا تا ہے ۔ اسی طرح عروہ کے معنے مَا یُوْ ثَقُ بِہٖ کے بھی ہیں۔ یعنی ایسی چیز جس پر اعتبار کیا جائے۔ گویا ہر ایسی چیز جس پر سہارا لیا جائے یا جس پر اعتماد کیا جا سکے وہ عروہ کہلاتی ہے۔ اسی طرح عروہ اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو کبھی ضا ئع نہ ہو نے والی ہو چنا نچہ عروہ اس گھاس کو کہتے ہیں جو ہمیشہ ہرار ہے اور عروہ کے معنے اَلنَّفِیْسُ مِنَ الْمَا لِ کے بھی ہیں۔ یعنی اچھا اور بہتر ین مال۔(اقرب)
تفسیر:۔ یہ عجیبب بات ہے کہ اسلام پر یہ اعتراض کیا جا تا ہے کہ وہ جبر سے دین پھیلا نے کی تعلیم دیتا ہے حا لا نکہ اسلام اگر ایک طرف جہاد کے لئے مسلما نوں کو تیار کر تا ہے جیسا کہ اس سورۃ میں وہ فر ما چکا ہے کہ قَا تِلُوْ ا فِیْ سَبَیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقٰتِلُوْ نَکُمْ( بقرہ آیت نمبر ۱۹۱) یعنی تم ا للّٰہ تعا لٰی کی راہ میں ان لو گوں سے جنگ کر و جو تم سے جنگ کر تے ہیں ۔ تو دوسری طرف وہ یہ بھی فر ما تا ہے کہ لَا اِکْرَ اہَ فِی الدِّیْنِ۔ یعنی جنگ کا جو حکم تمہیں دیا گیا ہے اس سے یہ نہیں سمجھنا چا ہیے کہ لو گو ں کو مسلمان بنا نے کے لئے جبر کر نا جا ئز ہو گیا ہے۔ بلکہ جنگ کا یہ حکم محض دشمن کے شر سے بچنے اور اس کے مفا سد کو دور کر نے کے لئے دیا گیا ہے۔ اگر اسلا م میں جبر جا ئز ہو تا تو یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ قرآن کریم ایک طر ف تو مسلما نوں کو لڑا ئی کا حکم دیتا اور دوسری طر ف اسی سورۃ میں یہ فر ما دیتا کہ دین کے لئے جبر نہ کرو۔ کیا اس کا وا ضح الفا ظ میں یہ مطلب نہیں کہ اسلام دین کے معا ملہ میں دوسروں پر جبر کر نا کسی صورت میں بھی جا ئز قرار نہیں دیتا پاس یہ آ یت دین کے معا ملہ میں ہر قسم کے جبر کو یہ صرف نا جا ئز قرار دیتی ہے بلکہ جس مقام پر یہ آ یت وا قع ہے اس سے بھی صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام جبر کے با لکل خلاف ہے۔ پس عیسا ئی مستشر قین کا یہ اعتراض با لکل غلط ہے کہ اسلا م تلوار کے ذریعہ غیر مذ اہب والوں کو اسلام میں داخل کر نے کا حکم دیتا ہے حقیقت یہ ہے کہ اسلام ہی وہ سب سے پہلا مذہب ہے جس نے سنیا کے سا منے یہ تعلیم پیش کی کہ مذہب کے معا ملہ میں ہر شخص کو آ زادی حا صل ہے اور دین کے بارہ میں کسی پر کوئی جبر نہیں۔
قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْخَیِّ یہ جملہ مستا نفہ ہے یعنی اس سے پہلے ایک جملہ مقدر ہے جس کا یہ جوا ب دیا گیا ہے ۔ چو نکہ ا للّٰہ تعا لٰی نے یہ فر ما یا تھا کہ دین کے لئے جبر جائز نہیں ۔اس لئے سوال پیدا ہوتا تھا کہ جب دین ایک اعلٰی درجہ کی چیز ہے تو کیوں اس کے لئے لو گوں پر جبر نہ کیا جائے۔ اور انہیں بزور اس نعمت سے متمع نہ کیا جائے۔ا للّٰہ تعا لٰی اس سوال کے جواب میں فر ما تا ہے جب گمراہی اور ہدایت ظا ہر ہو گئی ہے تو اب جبر کی ضرورت نہیں۔ صرف ہدایت کا پیش رک دینا تمہارا کام ہے۔ کیو نکہ جو حق بات تھی وہ گمراہی اور ضلالت کے با لمقا بل پورے طور پر ظا ہر ہو گئی ہے ۔ غرض اس آیت میں خدا تعا لٰی نے وجہ بیان ر مائی ہے کہ کیوں اسلام کو جبر کی ضرورت نہیں۔ فر ما تا ہے ۔ جبر اس وقت ہو تا ہے ۔جب کو ئی بات دلیل سے ثا بت نہ ہو سکے۔یا جس کو سمجھا یا جائے۔ وہ سمجھنے کے قا بل نہ ہو۔ مثلاً ایک بچہ کی عقل چو نکہ کمزور ہوتی ہے۔ اس لئے بسا اوقات اس کی مر ضی کے خلا ف اور جبر کر نیوالے کی مر ضی کے موا فق کام کر نے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ لیکن اس بچہ میں جب عقل آ جا تی ہے تو پھر وہ اپنے آ پ ہی سمجھ جاتا ہے اور اپنے نفع اور نقصان کو سوچ سکتا ہے۔ اس حالت میں اس پر کو ئی جبر نہیں کر تا۔ اسلام کے متعلق ا للّٰہ تعا لٰی فر ما تا ہے کہ اس میں ہر قسم کے دلائل کو کھول کر بیان کر دیا گیا ہے ۔ اس لئے اسے منوانے کے لئے کسی پر جبر کر نے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ اسلام تو اس بات پر *** بھیجتا ہے کہ کسی مذ ہب کو بغیر سو چے سمجھے ڈر یا لالچ کی وجہ سے قبول کیا جائے۔ چنا نچہ قرآ ن کریم میں ا للّٰہ تعا لٰی فر ما تا ہے اِذَا جَآ ئَ کَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَا لُوْ انَشْھَدُ اِنَّکَ لَرَسُوْلَہ‘ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ اِنَّکَ لَرَ سُوْلُہ‘ ط وَ اللّٰہُ یَشْھَدُ اِنَّ الُمُنٰفِقِیْنَ لَکٰذِبُوْنَo (منا فقون آ یت۲) یعنی منا فق جب تیرے پاس آ تے ہیں تو کہتے ہیں ہم گو اہی دیتے ہین کہ تو اللّٰہ کا رسول ہے۔ اور اللّٰہ جا نتا ہے کہ تو اللّٰہ کا رسول ہے۔ مگر اللّٰہ یہ گواہی دیا ہے کہ یہ منا فق جھو ٹے ہیں۔ اگر اسلام کے پھیلا نے کے لئے تلوار چلانا جائز ہوتا۔ تو کیا وہ لوگ جو اسلام لے آ ئے تھے مگر دل میں منا فق تھے ان کا ذکر قرآن کریم ان الفاظ میں کر تا جو اوپر بیان ہو ئے ہیں۔ کیو نکہ اس صورت میںتو یہ لوگ گو یا قر آ نی تعلیم کا نتیجہ ہوتے۔ کون اُمید کر سکتا ہے کہ تلوار کے ساتھ وہ مخلص لو گوں کی جماعت پیدا کرے گا۔ پس یہ بات بالکل غلط ہے کہ اسلام تلوار کے ذریعہ سے غیر مذاہب والوں کو اسلام میں داخل کر نے کا حکم دیتا ہے۔
اسی طرح فر ما تا ہے وَ قَا تِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِ یْنَ یُقَا تِلُوْ نَکُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ۔( بقرہ آ یت ۱۹۱)یعنی دین کی لڑائی ان لو گو ں سے لڑؤ جو تم سے لڑتے ہیں ۔ مگر یہ خیال تکھنا کہ زیادتی نہ کر بیٹھو۔پس جبکہ اسلام صرف ان لوگوں سے دینی جنگ کر نے کا حکم دیتا ہے جو دین کے نام سے مسلمانوں سے جنگ کریں اور مسلمانوں کو جبراً اسلام سے پھیر نا چاہیں۔ اور ان کے متعلق بھی یہ حکم دیتا ہے کہ زیا دتی نہ کرو بلکہ اگر وہ باز آ جا ئیں تو تم بھی اس قسم کی لڑائی کو چھوڑ دو تو پھر یہ کیو نکہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام کا حکم ہے کہ غیر مذ اہت والوں سے اپنے مذہت کی اشا عت کے لئے جنگ کرو۔ا للّٰہ تعا لٰی تو مختلف مذہبوں کے مٹانے کے لئے نہیں بلکہ مختلف مذاہب کی حفا ظت کے لئے جنگ کر حکم دیتا ہے۔جیسا کہ وہ فر ما تا ہے۔ اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا ط وَ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِ ھِمْ لَقَدِ یْرُ o ا لَّذِیْنَ اُخْرِ جُوْامِنْ دِیَارِھِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ یَّقُوْ لُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّ مَتْ صَوَامِعُ و بِیَع’‘ وَّ صَلَوٰن’‘ وَّ مَسٰجِدُ یُذْ کرُ فِیْھَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًا وَ لَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُ ہ‘ ط اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِ یّ’‘ عَزِیْز’‘( الحج آ یت ۴۰ ۔۴۱) یعنی ان لو گو ں کو جنسے جنگ کی جا تی ہے جنگ کی اس وجہ سے اجازت دی جا تی ہے کہ ان پر ظلم کیا گیا ہے اوراللہ تعالیٰان کی مدد پر قادر ہے۔ یہ وہ لو گ ہیں جو اپنے گھروں سے بلا قصور نکا لے گئے ہیں ۔ ان کا کو ئی قصور نہ تھا سوا ئے اس کے کہ وہ کہتے تھے کہ اللّٰہ ہمارا ربّ ہے۔ اور اگراللہ تعالیٰبعض لو گو ں کے ذریعہ سے بعض کا ہا تھ نہ روکتا تو مسیحیوں کے معبد اور را ہبوں کے خلو ت خا نے اور یہود کی عبادتگا ہیں اور مسجد یں جن میںاللہ تعالیٰکا نام کثرت سے لیا جا تا ہے گرا دی جاتیں۔ اور یقیناًاللہ تعالیٰاس کی مدد کرے گا جو اس کے دین کی تا ئید کر ے گا اوراللہ تعالیٰبہت طاقتور اورغالب ہے۔ یہ آ یات کس قدر کھلے الفاظ میں بتا تی ہیں کہ مد ہبی جنگیں تبھی جا ئز ہیں جبکہ کو ئی قوم رَبُّنَا اللّٰہَ کہنے سے روکے ۔ یعنی دین میں دخل دے اور چا ہے کہ دوسری اقوام کے معا بد گرائے جائیں اور ان سے ان کا مذ ہب چھڑدایا جائے۔ یا ان کو قتل کیا جائے۔ ایسی صور ت میں اسلام اس قوم سے جنگ کی اجا زت دیتا ہے۔ کیو نکہ اسلام دنیا میں بطور شا ہد اور محا فظ کے آ یا ہے ہ کہ بطور جا بر اور ظا لم کے۔
فَمَنْ یَّکْفُرْ بِا لطَّا غُوْتِ کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چا ہیے کہ کفر کے معنے صرف انکار کر نے کے ہو تے ہیں خواہ و کسی چیز کا انکار ہو۔ قرآ ن کریم میں یہ لفظ اچھے معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے اور برے معنوں میں بھی۔ اس جگہ یہ لفظ اچھے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اوراللہ تعالیٰفر ما تا ہے کہ جو لوگ شیطا نوں اور شیطا نی لو گوں کی باتیں ما ننے سے قطعی طو ر پر انکار کر دیتے ہیں اوراللہ تعالیٰپر سچے دل سے ایمان لے آ تے ہیں وہ ایک مضبوط چٹان پر قا تم ہو جاتے ہیں ۔لیکن اس کے مقا بلہ میں قرآ ن کریم میں یَکْفُرُوْنَ بِا للّٰہِ( نسا ء آ یت ۱۵۱) بھی آ تا ہے کہ کچھ لوگاللہ تعالیٰکا انکار کر تے ہیں ۔پس جہاں تک اس لفظ کے ظاہر کا تعلق ہے۔ یہ نہ بُرا ہے نہ اچھا ہے۔اصل معنے تو اس کے ڈھا نپ دینے کے ہو تے ہیں۔ بدی کا ڈھا نپنا بھی کفر کہلا ئیگا اور نیکی کا ڈھا نپنا
اَللّٰہُ وَ لِیُّ الَّذِیْنَ

بھی کفر کہلا ئیگا۔ بدی کا چھپا نا بھی کفر کہلا ئیگا اور نیکی کا چھپا نا بھی کفر کہلا ئیگا۔لیکن چو نکہ کثرت سے قر آ ن کریم میں یہ لفظ نیکی کے انکار کے متعلق استعمال ہوا ہے اس لئے جب کسی قر ینہ کے بغیر یہ لفظ استعمال ہو تو اس کے معنے برے ہی کئے جاتے ہیں۔ جس طرح مومن کے معنتے بھی ایسے ہی ہیں لیکن وہ زیادہ تر نیکی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس لئے جب مو من کا لفظ بغیر کسی قرینہ لء استعمال ہو تو اس کے معنے ہمیشہ نیک کے ہی کئے جا ئیں گے۔ حا لانکہ قر آن کریم میں مو من کا لفظ بھی بر ے معنوں میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ فر ما تاہے۔ یُئْو مِنُوْنَ بِا لْجِبْتِ وَ الطَّا غُوْتِ۔ (نسا ء آ یت ۵۲) وہ بے فا ئدہ با توں اور حد سے بڑھنے والوں پر ایمان رکھتے ہیں ۔ اس جگہ فَمَنْ یَّکْفُرْ بِا لطَّا غُوْتِ میں طا غوت کا کفر کر نے سے اس کی ذات کا انکار مراد نہیں بلکہ یہ مرا دہے کہ اس کی بات نہ ما نے۔ اس کے مقا بلہ میںاللہ تعالیٰنے ایمان کا لفظ رکھا ہے جس کے معنے خدا تعالٰی کی بات ما ننے کے ہیں۔ اور فر ما یا ہے کہ جو شخص طا غوت کا انکار کر تا ہے ۔ اوراللّٰہ تعا لٰی پر ایمان لا تا ہے وہ ایسے مضبوط کڑے کو پکڑ لیتا ہے جو کبھی ٹوٹتا ہی نہیں۔ اگر انکار کے معنے کسی شے کی ذات کا انکار کے لئے جائیں تو اس آ یت کے یہ معنے ہو نگے کہ ہلا کت سے دہی شخص نچتا ہے جو شیطان کے وجود کا انکار کرے اوراللہ تعالیٰکے وجود کا اقرار کرے۔ حالانکہ یہ معنے سرا سر غلط ہیں۔ کیو نکہ قر آ ن کریم صاف طور پر خدا تعالٰی کے وجو د کا بھی اقرار کر تا ہے اور شیطان کے وجود کا بھی اقرار کر تا ہے۔ پس اقرار اور ایمان سے اس آیت میں یہی مراد ہے کہ وہ شیطان کی با توں کو رد کر تا اور خدا تعالٰی کی با توں کو ما نتا ہے ایسے شخص کے متعلقاللہ تعالیٰفر ما تاہے کہ فَقَدِا سْتَمْسَکَ بِا لْعُرْ وَۃِ الْوُ ثْقٰی۔ عروہ کے معنے دستہ کے بھی ہو تے ہیں جس پر اعتبار کیا جائے اور عروہ کے معنے ایسی چیز کو بھی کہتے ہیں جس کی طرف انسان ضرورت کے وقت رجوع کرے۔ اور عر وہ اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو ہمیشہ قا تم رہے اور کبھی ضا ئع نہ ہو ۔ اور عروہ بہترین مال کو بھی کہتے ہیں (۱) اگر عروہ کے معنے دستہ کے لئے جا ئیں تو اس آ یت کا یہ مطلب ہو گا کہ دین کو خدا تعالٰی نے ایک ایسی لطیف چیز قرار دیا ہے جو کسی بر تن میں پڑی ہوئی ہو اور محفوظ ہو اور انسا ن نے اس پر تن کا دستہ پکڑ کر اسے اپنے قبضہ میں کر لیا ہو(۲) پھر عروہ کہ کر اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ دین ایک ایسی چیز ہے جس کا انسا ن سہارا لے لیتا ہے تا کہ اسے گر نے کا ڈر نہ ہے۔ جیسے سیڑ ھیون پر چڑھنے کے لئے انسان کو رسہ کی ضرورت پڑتی ہے اور وہ اسے پکڑ لیتا ہے۔ اسی طرح دین بھی اس فسہ کی طر ح ایک سہارا ہے۔ اسے مضبوط مکڑ لینے سے گر نے کا ڈر نہیں رہتا۔(۳) عروہ کہ کر یہ بھی بتا یا کہ اگر انسان اسے مضبوطی سے پکڑ لے تو وہ ہر مصیبت کے وقت اس کے کام آتا ہے۔
(۴) عروہ میں اس طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ صرف دین ہی انسا ن کے کام آ نے والی چیز ہے۔ اس جہان میں بھی اور اگلے جہان میں بھی۔با قی تمام تعلقات عارضی ہو تے ہیں اور مصیبت کے آ نے پر ایک ایک کر کے کٹ جاتے ہیں ۔ بیشک انسان اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو بھی اپنا بہترین رفیق قرار دیتا ہے ۔ لیکن بسا اوقات ان سے کمزوری یا بے وفائی طا ہر ہو جاتی ہے اور اسے معلوم ہو
خٰلِدُوْنَo
جاتا ہے کہ حقیقی تعلقات وہی ہیںجن کی بنیادیں دین اور مذہب پر استوار کی جائیں اور انہی میں بر کت ہوتی ہے۔
۱۶۷؎ تفسیر: فر ما تا ہے۔ اللّٰہ مو منوں کا دوست اور مددگار رہے۔ اور وہ ایمان لانے والوں کو اندھیروں سے روشنی کی طر ف لاتا ہے۔ عر بی زبان کے محا ورہ میں کا میابی کی طرف لے جا نے کو ظلمت سے نور کی طرف لے جانے سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ خواہ وہ کامیابی جسما نی ہو یا روحانی۔
پس اس سے مراد مو منوں کی جماعت کو ہر قسم کی روحا نی اور جسما نی کامیابیوں کی طرف لے جا نا اور انہیں ہر قسم کی نا کا میوں اور تکا لیف سے نجا ت دلا نا ہے۔
وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ آ اَوْلِیٰٓئُھُمُ الطَّا غُوْتُ یُخْرِ جُوْ نَھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ۔ یہاں طا غوت سے مراد ہو لوگ ہیں جو شیطا ن کے قا ئم مقام ہو تے ہیں۔ وہ لوگوں کو اس تھوڑی بہت ہدایت سے بھی جس پر وہ قا ئم ہو تے ہیں دور پھینک دیتے ہیں۔ یہ مت خیال کر و کہ کفار میں نور کہاں سے آ یا۔ رسول کریم ﷺ نے جب دعویٰ نہیںکیا تھا۔ اس وقت ابو جہل ایسا بُرا نہیں تھا جیسا کہ اس وقت تھا جب کہ وہ مارا گیا۔بات یہ ہے کہ صداقت کے انکار سے انسان کے قلب پر زنگ لگ جا ات ہے اور ہو تے ہو تے وہ تھوڑا بہت نور جو اس کے دل میں ہو تا ے وہ بھی جا تا رہتا ہے۔ حضرت مسیح مو عود ؑ کی بعثت سے پہلے اپنے ممبر وں پر کھڑے ہو ہو کر یہ شعر پڑھا کر تے تھے کہ ؎
مو سٰی کجا عیسٰی کجا اس بات کا ہے سب کو غم
مگر اب ان کی کتا بوں سے یہ شعر غا ئب ہو گیا ہے۔ اسی طرح ان میںرسول کریمﷺ کے نبوت کا اعتقاد رکھنے والے لو گ بھی مو جود تھے۔ جیسا کہ مولوی محمد قا سم صا حب نا نو توی ہیں ۔ انہوں نے اپنی کتا ب تحذ یر الناس میں صاف لکھا ہے کہ بغیر سر یعت کے نبی ہو سکتا ہے۔مگر اب سب لو گ اس کا انکار کر رہے ہیں۔ پس نبی کے آ نے سے پہلے بعض لو گو ں کے عقا ئد اچھے ہو تے ہیں مگر جب وہ نبی کا انکار کر دیتے ہیں اور انہیں ان کے پہلے عقیدہ کی رو سے پکڑا جا تا ہے تو وہ اپنا پہلو بچا نے کے لئے اس کا بھی انکار کر دیتے ہیں ۔ لیکن جو شخص صداقت کو قبول کر تا ہے وہ زور بروز اپنے ایمان میں بڑھتا چلا جاتا ہے ۔
میں اوپر بتا چکا ہون کہ یُخْرِ جُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ میں خدا تعالٰی نے یہ بیان فرما یا ہے کہ جو ہو گااللہ تعالیٰکے ہو جاتے ہیں ان کواللہ تعالیٰبحیثیت قوم ترقی کی طر ف لے جاتا ہے۔ مگر چو نکہ دنیا میں انسان کو قدم قدم پر مشکلات پیش آتی رہتے ہیں جن کو دیکھ کر بعض لوگو ں کو یہ دھو کا لگ جاتا ہے کہ اگراللہ تعالیٰنے مو منوں کی کا میا بی کا وعدہ کیا ہے تو پھر اہیں مشکلات کیوں پیش آ تی ہیں۔ اس لئے یاد رکھنا چا ہیے کہ یہ وعدے قوی طور پر کئے گئے ہیں نہ کہ الفرادی طور پر ۔پس انفرادی تکا لیف اور مشکلات کو اس وعدہ کے خلاف نہیں سمجھنا چاہیے۔ اگر کو ئی شخص مارا جا تاہے لیکن اس کے مر نے سے قوم کو فا ئدہ پہنچتا ہے تو وہ مر تا نہیں بلکہ زندہ ہو تا ہے۔ ورنہ ظاہری تکا لیف کو دیکھا جا ئے تو حضرت امام حسینؑ بھی شہید کر دئیے گئے تھے۔ مگر وہ نا کام نہیں ہو ئے
بلکہ اپنے مقصد میںکا میاب ہو ئے اور جس اصول کی خا طر انہوں نے قربانی پیش کی تھی وہ اصول آ ج بھی قا ئم ہے اور قیامت تک
اَلَمْ تَرَاِ لَی




الظَّلِمِیْنَo
قائم رہیگا۔ اسی طرح یعض انبیاء بھی شہید ہوئے۔ مثلاً حضرت یحییٰ ؑ کے متعلق حضرت مسیح مو عودؑ نے صاف لکھا ہے کہ وہ مارے گئے تھے۔ پس جب نبی بھی مارا جا سکتا ہے تو اور کون ہے جو اس قسم کی تکا لیف سے محفوظ رہے۔ پش کسی فرد کا مارا جانا قوم کی نا کامی کی دلیل نہیں ہوتی ۔ جیسے حضرت امام حسینؓ بیشک مارے گئے مگر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یز ید کو کوئی بھی اچھا نہیں کہتا اور امام حسینؓ کی سب عزت کر تے ہیں اور ان کا نام بڑے ادب اور احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے اور ان کی بڑی تعظیم کی جاتی ہے۔
اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّا رِھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ۔ اوپر بتا یا تھا کہ اسلام کے لئے جبر کر نے کی ضرورت نہیں کیو نکہ ہدایت گمراہی کے مقابلہ میں ممتا ز ہو چکی ہے۔ اور جنگ کا حکم تہیں اس لئے دیا گیا ہے کہ دشمن تم پر حمل کر رہا ہے۔ اب اس آ یت میں بتا یا کہ تمہارا انجام اچھا ہو گا اور تمہارے مخا لفوں کا بُرا۔ خدا تعالٰی تمہیں کامیاب کرے گا اور تمہارے دشمنوں کو ایسی تبا ہیوں سے دو چار کریگا جن سے وہ ہمیشہ غیظ و غضب کی آگ میں جلتے رہیں گے اور اپنے چاروں طرف دوزح ہی دوزخ پا ئینگیجس سے نکلنے کا انہیں کو ئی راستہ نظر نہیں آ ئیگا۔
۱۶۸؎ حل لغات:۔ حَآجَّ: حَآجَّہ‘ کے معنے ہیں خَا صَمَہ‘(اقرب) اس سے جھگڑا کر نے لگ گیا۔ حَآ جَّ کا لفظ قرآن کریم میں جتنی جگہ استعمال ہوا ہے بُرے معنوں میں ہی استعمال ہوا ہے سوائے ایک جگہ کے کہ وہاں اس کے ایک اور معنے لئے جا سکتے ہیں ۔ لغت والے بھی یہی لکھتے ہیں کہ یہ لفظ اچھے معنوں میں استعمال نہیں ہوتا۔ پس اس کے معنے ہیں کج بحشی۔ مجا دلہ۔ مکابرہ۔
مُلْکُ کے معنے بادشاہت کے بھی ہیں اور ملک کے بھی ہیں۔
اِحْیَا ء’‘ کے معنے ہیں زندہ کر نا۔ خو شی پہنچا نا۔ نمو کی طا قت دینا۔ آ باد کر نا۔
اِمَا تَۃ’‘ کے معنے ہیں مردہ کر نا۔رنج پہنچا نا ۔ نمو کی طا قت نکال ڈالنا۔
بُھِتَ کے معنے ہیں چہرہ لا رنگ اڑ گیا۔ گھبرا گیا مُنّہ بند ہو گیا اور کو ئی جواب نہ بن سکا۔
تفسیر:۔ اس آ یت کے متعلق مفسرین کا خیال ہے کہ حضرت ابرا ہیمؑ اور ایک کافر با دشاہ میں جس کا نام نمرود بیان کیا جا تا ہے ہستی باری تعا لٰی پر بحث ہو ئی تھی ۔ جب حضرت ابراہیمؑ نے اسے کہا کہ میرا رب وہ ہے جو زندہ کر تا اور مارتا ہے۔ تو اس نے کہا کہ ایسا تو میں بھی کر لیتا ہوں۔ چنا نچہ اس نے چند قیدی منگوا ئے جن میں سے بعض کو اس نے چھوڑ دیا اور بعض کو قتل کر دیا۔ یہ دیکھ کر حضرت ابراہیمؑ نے سمجھا کہ میری پہلی دلیل تو گار گر نہیں ہو ئی اب میںکوئی اور دلیل پیش کروں۔ چنا نچہ انہوں نے کہا کہ میرا رب وہ ہے جو سورج کو مشرق سے لاتا ہے اگر تو بھی رب ہے تو اسے مغرب سے لے آ۔ اس پر وپہ خا موش ہو گیا اور حضرت ابرا ہیم ؑ غا لب آ گئے۔ مگرمیرے نذ دیک ان کی یہ قیاس آ رائی درست نہیں۔ کیو نکہ اس طرح تو دونوں ہی خا موش ہو گئے تھے۔ پہلے سوال پر حضرت ابراہیم ؑ خا موش ہو گئے اور دوسرے سوال پر وہ خا موش ہو گیا۔ پس میرے نذدیک یہ تو جیہ صحیح نہیں کیو نکہ اگر یہی مراد ہوتی اور وہ ایسا ہی جھو ٹا اور کذاب تھا ار اپنے آپ کو خدا بنا رہا تھا تو وہ یہ جواب بھی دے سکتا تھا کہ سورج کو مشرق سے توہی لا رہا ہوں ۔ تم اپنے خدا کو کہو کہ وہ اسے مغرب سے لے آئے۔ مگر اس نے یہ نہیں کہا۔ بلکہ قر آن کریم بتا تا ہے کہ وہ خا موش ہو گیا اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں تھا ۔بلکہ بات دراصل کچھ اور تھی ۔ ورنہ بحث میں تو کو ئی چپ ہوا ہی نہیں کرتا۔ لوگ بیہودہ باتوں پر بھی بحث کر تے چلے جاتے ہیں ۔ حتٰی کہ اس امر پر بھی بحث کر تے ہیں کہ انسان کا وجود ہے یا نہیں۔ اور لوگ پھر بھی خا موش نہیں ہوتے۔لیکن وہ خا موش ہو گیا۔ اس سے صا ف معلوم ہوتا ہے کہ وہ کو ئی ایسی بات تھی جس کے متعلق اس نے سمجھا کہ اگر میں نے اس کا جواب دیا تو میں مصیبت میں پھنس جاؤنگا۔ اس لئے سوائے خامو شی کے اس کے لئے اور کو ئی چارہ نہ رہا۔
جیوش انسا ئیکلو پیڈیا میں اس بحث کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے کہ جب
’’ حضرت ابراہیمؑ اس با دشاہ کے سامنے جسکا نام نمرود تھا پیش ہوئے تو اس نے کہا کیا تو نہیں جانتا کہ میں خدا ہوں اور دنیا کا حا کم ہوں اور میں ہی مارتا اور زندہ کر تا ہوں چو نکہ ان کا سن سے بڑا خدا سورج دیوتا سمجھا جاتا تھا اور اسے آ قا بھی کہا جاتا تھا۔ حضرت ابراہیمؑ نے اسے کہا کہ اگر تو خدا اور دنیا کا حا کم ہے تو کیوں سورج کو مغرب سے نکال کر مشرق کی طرف نہیں چڑھا تا۔ اگر تو خدا اور دنیا کا حا کم ہے تو مجھے بتا کہ میرے دل میں اس وقت کیا ہے اور یہ کہ میرا آئندہ کے احال ہو گا۔ اس پر نمرود کی زبان بند ہو گئی اور وہ حیران رہ گیا ۔حضرت ابراہیمؑ نے اپنی بات کو جاری رکھا۔ اور کہا کہ تو کس نس کا بیٹا ہے اور اسی طرح کا ایک فانی وجود ۔ تو اپنے باپ کو موت سے نہیں بچا سکا اورنہ خود اس سے بچ سکتا ہے۔‘‘
جیوش انسا ئیکلو پیڈیا زیر لفظ ابرا ہا م)
اسی طرح طا لمو د میں بھی حضرت ابرا ہیمؑ کی اس بحث کا ذکر کیا گیا ہے ۔لیکن طا لمود اور قر آ ن کریم کے بیان میں فرق ہے ۔ قرآ ن کریم میں زندہ کر نے اور مارے کا ذکر پہلے سے اور سورج کی تبدیلی کا ذکر پیچھے لیکن طا لمود میں سورج کی تبدیلی کا ذکر پہلے ہے اور احیا ء و اما نت کا بعد میں۔ دوسرے طالمود میں لکھا ہے کہ جب حضرت ابراہیم ؑ نمردو بادشاہ کے سامنے پیش ہوئے تو اس نے آپ کو کہ اکہ تو بتوں کی پو جا کیوں نہیں کرتا انہوں نے کہا۔ جن کو آ گ جلا دیتی ہے ان کی کیا پو جا کروں۔ اس نے کہا پھر آگ کی کیوں نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا ۔جسے پا نی بجھا دیتا ہے ۔ اس کی کیا پو جا کروں۔ اس نے کہا ۔پھر پا نی کی کیوں نہیںکرتا۔ انہوں نے کہا ۔ پا نی کو تو بادل لاتا ہے ۔ اس نے کہا پھر بادلون کی کیوں نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا ۔ ان کو ہوا اڑا لے جاتی ہے۔ اس نے کہا ۔پھر ہوا ہی کی کر۔ انہوں نے کہا ۔ انسان اس سے بھی بچا ؤ کر لیتا ہے اور بچ جاتا ہے اور وہ اس پر غالب نہیں آ تی۔ اس نے کہا پھر مجھے پو جو۔ کیو نکہ میں انسا نوں کا خدا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ تمہارے اختیار میں تو کچھ بھی نہیں۔
یہ بحث جس کا طا لمود میں ذکر کیا گیا ہے خود اپنی ذات میں اس کا ثبوت ہے کہ سورج کا ذکر پہلے نہیں ہوا بلکہ پہلے احیاء اورا ما نت کا ہی ذکر ہوا ہے ورنہ سورج کے ذکر کے نعد تو بحث آ گے چل ہی نہیں سکتی تھی کیو نکہ سورج ان میں سب سے بڑا دیتا سمجھا جاتا تھا اور اس کو ہر قسمکی کا میا بیوں اور نا کا میوں اور تر قی اور منزل کا اصل باعث قراد دیا جاتا تھا۔ چنا نچہ نیلسنز انسا ئیکلو پیڈیا میں لکھا ہے کہ میرے ڈاک انکا بڑا خدا تھاجسے سورج کی شعاع یا دن کی روسنی سمجھا جاتا تھا ۔ اور اسے بنی نوع انسان کی تر قی اور تنزل کا اصل با عث قراد دیا جاتا تھا۔ ( دیکھو نیلسنز انسا ئیکلو پیڈیا زیر لفظ ببلو نیا)
پھر عقلاً بھی قر آن کریم کا کلام ہی درست ثا بت ہوتا ہے اول اس لئے کہ بحث میں نیچے سے اوپر تر قی ہوتی ہے۔پس موت اور حیات کا ذکر لا زماً سورج سے پہلے ہونا چاہیے نہ کہ بعد میں۔ دوسرے درمیان میں نمرود کے جپ ہو جانیکا ذکر بتا تا ہے کہ یہ وا قعہ سب سے آ خر میں ہوا۔ ییسرے نمرود کے سا منے پیش تو حضرت ابراہیمؑ بتوں کے توڑنے کے جرم میں ہوئے تھے۔ اس ا یہ سوال کہ میں خدا ہوں معلوم ہوتا ہے کہ بعد میں بحث کے دوران میں پیدا ہوا ہے۔ ورنہ بے جوڑ کلام ہو جاتا ہے ۔قرآن کریم یہی بتا تاہے کہ بحث فِیْ رَبِّہٖ تھی۔ یعنی خدا ئے واحد کو بارہ میں۔
بحث میں با دشاہ نے کہیں کہ دیا کہ دیکھ میں تجھے تباہ کر دوں گا کیو نکہ میں حاکم ہوں۔ آپ نے فر ما یا تباہی یا آ بادی تو خدا کے اختیار میں ہے۔ اس پر اس نے اس احیاء اور اما نت کو اپنی طرف منسوب کیا۔ اور کہا کہ نہیں میرے اختیار میں ہے۔ آپ نے جھٹ اس کو پہلی بحث کے مطا بق پکڑا کہ پھر سورج عبث ہوا۔ اور وہ چپ ہو گیا۔
اس واقعہ کے نا موں وغیرہ میں گو فر ق ہے لیکن یہو دی تا ریخ میں اس وا قعہ کو جس طرز پر بیان کیا گیا ہے اس اسے صاف معلوم ہوتا ے کہ یہی وا قعہ ہے جس کی طرف قرآن کریم اشارہ کرتا ہے اور جس پر اَلَمْ تَرَ کے الفا ظ بھی دلالت کر تے ہیں ۔کیو نکہ اَلَمْ تَرَ کے ساتھ کسی بے نشان واقعہ کی طرف اشارہ نہیں کیا جا سکتا ۔ مگر یہودی بیان حسب معمول آ گے پیچھے ہو گیا ہے۔
طالمود میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کی نمرود سے یہ بحث کنعان میں آنے سے پہلے ہو ئی تھی ۔ میرے نذدیک حضرت ابراہیمؑ نے نمرود سے جو یہ کہا کہ رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ میرا رب وہ ہے جو زندہ کر تا اور مارتا ہے تو اس سے ان کی مراد ظا ہری موت اور حیات نہیں تھی۔ بلکہ کا میابی اور نا کامی ۔ اور عزت اور ذلت ، اور آ بادی اور بر بادی مراد تھی۔ چو نکہ آ پ سیاللہ تعالیٰکا یہ وعدہ ہو چکا تھا کہ وہ آپ کو کنعان کا ملک دیگا۔ اور آپ کی اولاد کو غیر معمولی ترقی حا صل ہو گی۔اس لٔے وآپ نے فرمایا کہ میرا رب وہ ہے جوحیا ٔ اور امانت کی صفت اپنے اندر رکھتا ہے۔وہ جس کو چاہتا ہے عزّت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلیل کر دیتا ہے۔جس کو چاہتا ہے کامیاب کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ناکام کر دیتا ہے۔اور جس کو چاہتا ہے غلبہ دیتا ہیاور جس کو چاہتا ہے شکست دے دیتا
اَوْکَا لَّذِیْ






ہے۔اِسپر اُس نے کہا اَنَا اُحْیٖ وَ اُمِیْتُ۔یہ بات تو میرے اختیار میں بھی ہے کہ میں جسے چاہوں ترقی دے دوں اور جسے چاہوں ذلیل کر دوں۔
جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے سورج ان کا سب سے بڑا دیوتا سمجھا جاتا تھا۔اور بادشا بھی اُس کی پرستش کرتا تھا۔اس لے حضرت ابراہیمؑ نے اُسے جواب میں کہا کہ خدا تعالٰی نے تو یہ سلسلہ جاری کیا ہوا ہے کہ وہ سورج کو مشرق سے چرہاتا ہے اور اس طرح دنیا کو نفع پہنچاتا ہے۔ لیکن اگر دنیا کو نفع پہنچانا تیرے اختیار میں ہے تو یہ جو سورج چڑھا ہوا ہے اِس کو مغرب سے مشرق کی طرف لوٹا دے۔وہ دن کا وقت تھا اور سورج چڑھا ہوا تھا۔حضرت ابراہیمؑ نے کہا اسے واپس لوٹا دے یعنی اسے پیچھے کو لے جا یا یہ کہا کہ اسے مغرب سے چڑھا لا گایا انہوں نے اسے کہا کہ اس پر اپنی حکومت قائم کرکے دکھا۔ حضرت ابراہیمؑ کا مدّعا یہ تھا کہ اگر دنیا کا نفع و نقصان تمہارے پا تھ میں ہے تو پھر سورج کیا کر تا ہے اور اگر سورج نفع و نقصان پہنچا تا ہے تو نفع و نقصان پہنچا نے اور مالک ہو نے کا تمہارا دعویٰ با طل ہے ۔ اس پر جیسا کہ تا ریخ بتا تی ہے۔ وہ مبہوت ہو کر لا جواب ہو گیا۔ کیونکہ اگر وہ جواب دیتاتو وہ یہ کہتا کہ میں نفع و نقصان نہیں پہنچا سکتا بلکہ سورج ہی پہنچا تاہے اور تر قی اور تنزل اسی کے اختیار میں ہے میرے اختیار میں نہیں۔ اور اگر وہ ایسا کہتا تو اس سے اس کا دعویٰ با طل ہو جاتا کہ اَنَا اُحْیٖ وَ اُمِیْتُ۔ اور اگر وہ یہ کہتا کہ میں ہی یہ تمام کام کر تا ہوں سورج نہیں کرتا اور نفع نقصان بھی میرے ہی اختیار میں ہے سورج کے اختیار میں نہیں تو اس پر اس کی قوم دشمن ہو جاتی کیو نکہ وہ سورج کی پر ستش کر تی تھی بلکہ وہ خود بھی سورج کا پر ستار تھا۔ اس وجہ سے وہ کو ئی جواب نہ دے سکا۔ اور خا موس ہو گیا۔
کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْر’‘o
اس واقعہ میں اللّٰہ تعالٰی نے اَللّٰہُ وَ لِیّپ الَّذِ یْنَ اٰمَنُوْ ا یُخْرِ جُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ کا ثبوت دیا ہے اور بتا یا ہے کہ ہم اپنے بندوں کی مشکلات میں کس طرح ان کی مد کر تے اور انہیں ظلمات سے نور کی طرف اور نا کا میوں سے کا میا بیوں کی طرف لے جاتے ہیں۔
۱۶۹؎ حل لغات:۔ اَوْکَا لَّذِیْ: کاف مثال کیلئے بھی آ تا ہے اور تا کید کے لئے بھی ۔ اسی طرح تشبیہ اور تمثیل کے لئے بھی آتا ہے ۔ یہاں پہلے معنوں کے لئے ہے۔
خَا وِیَۃ’‘: خَو یٰ یَخْرِیْ خِوَائً سے نکلا ہے ۔ کہتے ہیں خَوَی الْبَیْتَ: سَقَطَ وَ تَھَدَّمَْ۔ گھر گِر گیا۔ فَرَغَ وَخَلَا۔ گھر خا لی ہو گیا اور ویران ہو گیا۔
بَلْ: حرف ہے جو اضراب کے معنے دیتا ہے۔ یعنی بات کو پھیر کر دوسری طرف لے جانا۔ یہ اضراب دو طرح کی ہو تا ہے ایک تو انکار کی غرض سے جیسے قرآن کر یم میں آ تا ہے وَ قَا لُوْ اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَ لَدً اسُبْحَا نَہ‘ بَلْ عِبَاد’‘ مُّکْرَ مُوْنَ۔(انبیاء آ یت ۲۷) یعنی مشرک کہتے ہیں کہ رحمٰن خدا نے اپنا بیٹا بنا لیا ہے ۔ لیکن یہ بات غلط ہے جن کو یہ لو گ خدا کا بیٹا کہتے ہیں وہ اللّٰہ تعالٰی کے معزز بندے ہیں ۔اضراب کی دوسری قسم میں ایک غرض سے دوسری غرض کی طرف مضمو ن کو پھیر نا مقصود ہو تا ہے۔ بَلْ سے پہلے جملہ کی تردید مدّ نظر نہیں ہو تی۔ اس آیت میں بھی بَلْ سے پہلے کی بات بھی درست ہے اور بعد کی بھی صرف ایک نئے مضمون کی طرف متو جہ کیا گیا ہے۔
تُنْشِزُھَا: نَشَزَ کے معنے ہیں اِرْتَفَعَ اُٹھا۔ اور اَنْشَزَہ‘ کے معنے ہیں رَفَعَہ‘ اسے اٹھا یا یا کھڑا کیا۔ پس نُنْشِزُ ھَا کے معنے ہیں ہم ان کو کھڑا کر تے ہیں۔ یا ہم انہیں اُٹھا تے ہیں۔
تفسیر:۔ مفسّر ین کہتے ہیں کہ یہ عزیز نبی کا وا قعہ ہے۔ وہ ایک دفعہ ایک تبا ہ شدہ بستی کے پاس سے گزرے تو امکنہوں نے اس کی تبا ہی اور خستہ حا لی کو دیکھ کر کہا کہ خدا تعالٰی اس بستی میں رہنے والوں کو ان کی موت کے بعد کس طرح زندہ کرے گا۔ اس پرخدا تعالٰی نے انہیں مار ڈالا اور وہ سو سال تک اسی حالت میں مردہ پڑے رہے۔ اس عرصہ میں اللّٰہ تعالٰی نے اس بستی کے لو گوں کو آ باد کر دیا اور انہیں زندہ کر کے دکھا دیا کہ خدا تعالٰی کیسا قادر ہے اور وہ مردوں کو کس طرح زندہ کیا کر تا ہے۔ جب وہ سو سال کے بعد زندہ ہو کر اُٹھ بیٹھے تو خدا تعالٰی نے انہیں کہا کہ اپنے کھا نے کو دیکھ کہ وہ بھی ابھی تک سڑا نہیں اورپھر اس نے ان کے گدھے کو بھی زندہ کر دیا اور اس کی گلی سڑی ہڈیوں پر گو شت پو ست چڑھا دیا۔
میرے نذ دیک اگر یہ وا قعہ اسی طرح ہوا ہو جس طرح مفسرین بیان کر تے ہیں تو خود اس آیت کے مختلف ٹکڑے اس بیان کو با طل قراد دیتے ہیں چنا نچہ پہلی بات جو ان معنوں کو رد کر تی ہے وہ اَنَّی یَحْیٖ ھٰذِہٖ اللّہُ بَعْدَ مَوْتِھَاْ کے الفاظ ہیں۔یہ الفاظ متاتے ہیں کہ اس نبی کا سوال صرف بستی کے متعلق تھا کہ اللّہ تعالیٰ اسے کس طرح زندہ کریگا۔ یہ سوال نہیں تھا کہ مردے کس طرح زندہ ہونگے۔ اگر مردوں کے زندہ ہونیکا سوال ہوتا تو کیا ان کے سامنے روزانہ کئی لوگ مرتے نہیں تھے۔ اور جب وہ روزانہ یہ نظارہ دیکھتے تھے کہ لوگ مر کر زندہ نہیں ہوتے تو اس دن ایک تباہ شدہ مستی کو دیکھ کر ان کے دل میں مردوں کے زندہ ہونے کے متعلق کیسے سوال پیدا ہو گیا۔ اور اگر ان کا سوال صرف بستی کے مردہ ہونے سے اس کا اجڑنا اور زندہ ہونے سے اس کا آباد ہونا ہی مراد ہواکرتا ہے۔ مردوں کے زندہ ہونے سے اس سوال کا کوئی تعلق نہیں۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ اَنَّٰی سے مراد "کب تک" ہے یا "کیسے " ہے۔ اگر کسی سوال کرنے والے کے جواب میں "سو سال " کا لفظ بولا جائے تو اس کے یہی معنے ہونگے کہ سائل کا سوال "کب تک" کا ہے "کیسے" کا نہیں۔ ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ سائل تو یہ سوال کرے کہیہ بستی کس طرح زندہ ہو گی اور جواب یہ دیا جائے کہ سو سال کے بعد زندہ ہو جائے گی۔ سو سال کے الفاظ صاف طور پر بتا رہے ہیں کہ سوالکب کے متعلق ہے نہ کہ کیفیت کے متعلق ۔ اس کے بعد اللّہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ فَاَمَاتَہُ اللّہُ مِاَئۃَعَامٍ ثُمَّ بَعَثَہ'۔ اللّہ تعالیٰ نے اسے سو سال تک مارے رکھا پھر زندہ کر دیا۔اب سوال یہ ہے کہ ان کے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا گیا۔ اگر تو حضرت عزیز کی یہ غرض تھی کہ وہ دیکھیں کہ مردے کس طرح زندہ ہوتے ہین تو ان کو مار کر پھر زندہ کر دینے سے یہ غرض پوری نہیں ہو سکتی تھی۔ کہ مردہ کس طرح زندہ ہو ا کرتا ہیے۔ اور اگر ان کی دوبارہ حیات سے اللّہ تعالیٰ کا منشاء پورا ہو گیا تھا تو پھر وَالْظُرْاِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنْشِزُھَا پر یہ اعتراض پڑتا ہے۔کہ اللّہ تعالیٰ نے صرف گدھے کو ہی مار کر اور پھر اسے زندہ کر کے انہیں اپنی قدرت کا نظارہ کیوں نہ دکھا دیا۔ خود انہیں سو سال تک کیوں مارے رکھا۔ آخر اپنی موت سے تو اس بات کا پتہ نہیں لگتا کہ اللّہ تعالیٰ مردوں کو بھی زندہ کر سکتا ہے۔ یہ تو دوسرے کو دیکھ کر ہی پتہ لگتاہے۔ اور جب اللّہ تعالیٰ نے انکے گدھے کو بھی مارنا تھا تو پھر ان کو مارنے کی کیا ضرورت تھی؟ اسی طرح سوال یہ ہے کہ انہوں نے کونسی بات پوچھی تھی جس کا جواب یہ دیا گیا کہ اُنْظِرْ اِلیٰ طَعَامِکَ وَشَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّہ‘۔ ان ک اسوال تو یہ تھا کہ مستی کس طرح زندہ ہو گی ۔ مگر جواب یہ دیا گیا کہ تو اپنے کھانے اور پینے کے سامان کی طرف دیکھ کہ وہ سڑا نہیں۔ پس اول تو ھٰذِہٖ کا لفظ بتلاتا ہے کہ اسجگہ لوگوں کے مرنے اور دوبارہ ذندہ ہونیکا کوئی سوال نہیں بلکہ صرف شہر کی آبادی اور اس کی دوبارہ حیات کا سوال تھا۔ دوسرے مِائَۃَ عَامٍ میں بتلا دیا کہ اَنّٰی کے ساتھ " کب " کا سوال کیا گیا تھا نہ کہ " کیسے " کا ۔ یعنی سوال کیفیت کے متعلق نہ تھا بلکہ زمانہ کے متعلق تھا۔ غرض مفسرین کے بیان کردہ واقعہ پر کئی اعراضات پڑتے ہیں۔ پہلا اعتراض تو یہی ہے کہ اللّہ تعالیٰ نے عزیز کو کیوں مارا۔ اگر وہ نبی تھا تو یہ اس کے سوال کا اچھا جواب دیا کہ اسے سو سال تک مارے رکھا۔ اس عرصہ میں اس کے بیوی پچے بھی مر گئے اور اسے ایک صدی کع بعد غیر لوگوںمیں زندہ کر کے بٹھلا دیا۔ اس شخص کو مار کر ذندہ کرنے کی غرض زیادہ سے زیادہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اللّہ تعالیٰ اس طرح مردوں کو زندہ کیا کرتا ہے ۔ مگر سوال یہ ہے کہ پھر گدھے کو گوشت پوست چرھانے کی کیا ضرورت تھی۔ پھر یہ سنت اللّہ کے بھی خلاف ہے کہ کسی مردہ کو زندہ کیا جائے۔ اور پھر اگر خدا تعالیٰ نے انہیں سو سال تک مارے رکھا تو اس کے ثبوت میں یہ نہیں کہنا چاہئے تھا کہ کھانا پینا تو الگ رہا دنیا ہی بدل چکی ہے جواس بات کا ثبوت ہے کہ تو سو سال تک واقعہ میں مرا رہا تھا۔مگر اس کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ غرض ان تمام امور پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مفسرین نے اس واقعہ کو جس رنگ میں پیش کیا ہے وہ درست نہیں ۔ اب میں اس واقوہ کی وہ حقیقت بیان کرتا ہوں جو میرے نزدیک درست ہے ۔ اللّہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تو اس شخص کی طرف دیکھ جو ایک بستی یا گائوں پر سے ایسی حالت میں کہ وہ اپنی چٖھتوں پر گرا پڑا تھا گذرا اور اس نے سوال کیا کہ الیٰ یہ بستی اپنی ویرانی کے بعد کب آباد ہو گی ۔ اس پر اللّہ تعالیٰ نے اسے سو سال تک مارے رکھا (یعنی خواب میں ) اور پھر اسے اٹھایا۔ اور اس سے پوچھا کہ تو کتنی دیر تک رہا ہے ۔ اس نے کہا ایک دن یا دن کا کچھ حصہ ۔ اللّہ تعالیٰ نے فرمایا یہ بات تو درست ہے لیکن اس کے علاوہ ہم تجھے ایک اور بات بھی بتاتے ہیں کہ تو سو سال تک بھی رہا ہے ۔ تیری بات کے سچا ہونیکا تو ثبوت یہ ہے کہ تو اپنے کھانے اور پانی کو دیکھ وہ سڑا نہیں ۔ لیکن میری بات کے سچا ہونیکا ثبوت یہ کہ ہم نے تجھے کشفی حالت میں سو سال کا نظارہ دکھایا ہے اور جب یہ روئیا پورا ہو گا اس وقت ولگوں کو تسلیمکرنا پڑیگا کہ تیرا خدا کے ساتھ سچا تعلق تھا۔ جب اس پر یہ حقیقت روشن ہو گئی۔ تو اس نے کہا میں ایمان لاتا ہوںکہ اللّہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اوراس کے آگے یہ کچھ بھی مشکل نہیں کہ وہ ایسی اجڑی ہوئی مستی کو اپنے فضل سے پھر دوبارہ آباد کر دے۔ حضرت خلیفئہ اولؓ اس بستی سے ہروشلممراد لیا کرتے تھے ۔ جسے بخت نصر نے تباہ کر دیا تھا اور فرمایا کرتے تھے کہ وہ آدمی جویروشلم کے پاس سے گزرا حزقیل نبی تھا۔جس پر خدا تعالیٰ نے اسبات کاانکشاف کیا کہ ایک سو سال تک یہ شہر دوبارہ آباد ہو جائیگا۔ یہاںاس بستی کے متعلق خَاوِیَۃ" عَلیٰ عُرُوشِہَا کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔جس کے معنی یہ ہیںکہ وہ گائوں اپنی چھتوںپر گرا ہوا تھا۔ یعنی پہلے چھتیںگریں اور پھر ان پر دیواریں گر گئیں ۔ کیونکہ جو مکان عدماستعمال کی وجہ سے گریںبلعمومپہلے ان کی چھتیںگرتی ہیں ۔ کیونکہ چھتوں میں لکڑی ہوتی ہے اور لکڑی کو دیمک لگ جاتی ہے جبچھتیںگر جاتی ہیں تو پھر بارش کی وجہ سے ننگی دعواریں بھی گرنے لگتی ہیں اور اس صورت میں وہ دیواریں چھتوں پر آ گرتی ہیں ۔ اسی حالت کو واضح کرنے کے لئے خَاوِیَۃ" عَلیٰ عُرُوشِہَا کے الفاظ استعمال فرمائے گئے ہیں۔ ورنہ جو مکان زلزلہ غیرہ کی قسم کے حادثات سے گرتے ہیں۔ انکی دعواریں پہلے گرتی ہیں اور چھت ان پر آگرتی ہے ۔ ان الفاظ میں ایک لطیف اشارہ اس بات کی طرف کیا گیا ہے کہ اس گائوں کی ویرانی کا سبب زلزلہ وغیرہ نہ تھا۔ بلکہ اس کے باشندوں کا شہر چھوڑ کر چلا جانا اسکا موجبتھا۔ بہر حال ھزقیل بنی کے دل میںہرووشلمکی بربادی دیکھ کر یہ سوال پیداہوا کہ خدا تعالیٰ اس بستی کو کب زندہ کرے گا۔ بستی کو زندہ کرنے کے یہ معنی نہیں کو مردہ لوگ کس طرح زندہ ہونگے۔ بلکہ اس کا مطلبوہی ہے جو دوسریجگہ بستیوں کو زندہ کرنے کے متعلق قرآن کریم نے بیان کیا ہے ۔ فرما تا ہے ۔ وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآئِ مَآئً طَھُوْرًالِّنُحْیِیَ بِہٖ بَلْدَۃَ مَّیْتًاوَّنُسْقِیَہ‘مِمَّاخَلَقْنَآاَنْعَامًاوَّاَنَامِیَ کَثِیْرًا (فرقان آیت ۵۰۰۴۹)یعنی ہم نے بادل سے پاک و صاف پانی اتارا ہے ۔ تاکہ اس کے ذریعہ ہم مردہ ملک کو زندہ کریں اور اسی طرح اس پانی سے اپنے پیدا کیے ہوئے چارپائیوں اور بہت سے انسانوں کو سیراب کریں ۔ اسی طرح ایک اور جگہ فرماتا ہے ۔ وَاُحْیَیْنَابِہٖ بَلْدَۃًمَّیْتَا(ق آیت ۱۲) ہمبارش کے ذریعہ مردہ شہر کو زندہ کیا کرتے ہیں ۔ پس مردہ شہر کو زندہ کرنے کے معنی ویران شہر کو آباد اور خوشحال کرنے کے ہوتے ہیں۔ حضرت حزقیل نے بھی یہی سوال کیا کہ الٰہییہ شہر کب آباد ہوگا؟ اللّہ تعالٰی نے انہیں رئویا میں بتایا کہ سو سال کے عرصہ میں آباد ہو جائے گا۔ یہ رئویا جس کا قرآن کریم نے ذکر کیا ہے حزقیل بنی کی کتاب میں بھی پائی جاتی ہے صرف اتنا فرق ہے کہ حقیل بنی کی کتاب میں سو سال کی میعادکا ذکر نہیں۔ یہ قرآن کریم کی صداقت اور اس کے کامل ہونیکا ایک زبردست ثبوت ہے کہ جو ضروری امور پچھلی کتب میں بیان نہیں ہوئے قرآن کریم نے انکو بھی بیانکر دیا ہے اور اس طرح ان کی کمی کو پورا کر دیا ہے ۔ بہر حال حزقیل باب ۳۷ میں لکھا ہے ۔ " خدا وند کا ہاتھ مجھ پر تھا اور اس نے مجھے خداوند کی روح میں اٹھا لیا اوراس وادی میں جو ہڈیوں سے بھر پور تھی مجھے اتار دیا اور مجھے ان کے آس پاس چو گرد پھرا یا ۔ اور دیکھ دے وادی کے میدان میں بہت تھیں اور دیکھ دے نہایت سوکھی تھیں ۔ اور اس نے مجھے کہا کہ اے آدمزاد کیا یہ ہڈیاں بھی سکتی ہین۔ میں نے جواب میں کہا کہ اے خدا وند تو ہی جانتا ہے ۔ پھر اس نے مجھ سے کہا کہ تو ان ہڈیوں کے اوپر نبوت کر اور ان سے کہہ کہ اسے سوکھی ہڈیو! تم خدا وند کا کلام سنو۔ خداوند یہودا ان ہڈیوں کو یوں فرماتا ہے کہ دیکھ میں تمہارے اندر میں روح داخل کروں گا۔ اور تم جیو گے۔ اور جانو گے کہ میں خداوند ہوں ۔سو میں نے حکم کے بموجب نبوت کی۔ اور جب میں نبوت کرتا تھاتو ایک شور ہوا۔ اور دیکھ ایک جنبش اورہڈیاں آپس میں مل گئیں۔ ہر ایک ہڈی اپنی ہڈی سے اور جو میں نے نگاہ کی تو دیکھ نسیں اور گوشت ان پرچڑھ آئے اور چمڑے کی ان پر پوشش ہو گئی۔ پر ان میں روح نہ تھی ۔ تب اس نے مجھے کہا کہ نبوت کر۔تو ہوا سے نبوت کر۔ اے آدم زاد! اور ہوا سے کہہ کہ خداوند یہوداں یوںکہتا ہے کہ اے سانس! تو چاروںہوائوںمیںسے آ۔اور ان مقتولوںپر بھونک کہ دے جئییں۔ سو میں نے حکم کے بموجب نبوت کی اور ان میں روح آئی اور سے جی اٹھے اور اپنے پائوںپر کھڑے ہوئے۔ ایکنہایت پڑا لشکر۔ تب اس نے مجھ سے کہا کہ اے آدم زادیہ ہڈیاںسارے اسرائیل ہیں۔دیکھ یہ کہتے ہیں کہ ہماری ہڈیاں سوکھ گئیں اور ہماری امید جاتی رہی ۔ ہم تو بلکل بلکل فنا ہو گئے۔ اس لئے تو نبوت کر اور ان سے کہہ کہ خداوند یہوداں یو ں کہتا ہے کہ دیکھ اے‘ میرے لوگو میں تمہاری قبروں کو کھولوں گا۔ اور تمہیں تمہاری قبروں سے باہر نکالوں گا تب جانوگے کہ خدا وند میں ہوں اور میں اپنی روح تم میں ڈالوں گااورتم جیئو گے۔ اور میں تم کو تمہاری سر زمین میں بسائوں گا۔ تبتم جانو گے کہ مجھے خداوند نے کہااور پورا کیا۔" (حزقیل باب۳۷)
یہ پیشگوئی ہے جو ھزقیل بنی نے کی ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ تو اس وقت بابل میں قید تھے۔ وہ اس بستی کے پاس سے کب گندے۔ سو اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ ہو سکتا ہے یہگزرنا بھی خواب میں ہی ہو ۔ جیسا کہ بائیبل کے الفاظ سے ظاہر ہے ۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ بنو کد نضر جو بابل کا بادشاہ تھا اس نے ۵۸۶ قبل مسیح یروشلم پر حملہ کر کے اسے فتح کر لیا تھا ۔ اور اس کا ایک صہ گرا دیا تھا۔ وہ وہاں کے بادشاہ اور اس کے خاندان کے تمام افراد کو پکڑ کر اپنے نلک میں لے گیا۔ اسی طرح شہر کے تمام شرفاء اور بڑے بڑے کا ریگروں کو بھی قید کر کے لے گیا۔ اور سوائے چند رذیل لوگوں کے وہاں کوئی باقی نہ رہا۔ حضرت حزقیل بھی ان قیدیوں میں ہی تھے جنہیں بنو کد نضر نے گرفتا کیا۔ ان کے متعلق بحث ہوئی ہے کہ انہیں اس نے کیوں پکڑا۔ اور مئورخین نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ چونکہ وہ لوگوں کو ترٖغیب دیتے تھے کہ بنو کد نضر کا مقابلہ کرو۔ اور اپنے ملک کو نہ چھوڑو اس لئے وہ ان کو بھی قیدکر کے لے گیا۔ پرانی تاریخوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ جن شہروں کو گراتے اورویران کرتے تھے وہان کے قیعیوں کو وہ ان کے اوپر سے گزارتے تھے تاکہ انہیں اپنی زلت اور بیچارگی کا احساس ہو۔ میرے نزدیک جب وہ پکرے گئے اور یروشلم کے اوپر سے گزارے گئے اس وقت انہوں نے اس کے متعلق خدا تعالٰی کے حضور عرض کیا کہ خدایا یہکیا ہو گیا ہے ۔ شہر گرا دیا گیا ہے ۔ سب بڑے بڑے لوگ قید کر کے لے جائے جا رہے ہیں ۔ ایسی خطرناک تبایہ کے بعد اب یہ شہر دوبارہ کب آباد ہو گا۔ وَھِیَ خَاوِیَۃ"عَلٰی عُرُوشِہَاْ کے الفاظ بھی اسی امر پر دلالت کرتے ہیں کہ یروشلم کے تباہ ہوتے ہی ان کے دل میں خیال پیدا ہواجب کہ گری ہوئی چھتیں انہیں نظر آ رہی تھیں۔ ورنہ بعد میں تو لوگ سا مان اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ اس وقت ان کے دل یہ خیال گزرا کہ الٰہی یہ شہر دوبارہ کب آباد ہو گا۔ ہم تو سب قید ہو کر جا رہے ہیں۔ اس پر اللّٰہ تعا لٰٰی نے اسکو سو سال کی موت کا نظارہ دکھا یا۔ یعنی کشفی رنگ میں انہیں ایسا محسوس ہوا کہ وہ فوت ہو گئے ہین اور سو سال کے بعد پھر زندہ ہوئے ہیں۔ اور خوا بوں میں ایسا ہونا کو ئی تعجب انگیز امر نہیں۔ انسان خواب میں مر تا بھی ہے اور مختلف قسم کے نظارے بھی دیکھتا ہے۔ حضرت حز قیل چو نکہ اپنی قوم کے نبی تھے ۔اس لئے ان پر کشفی رنگ میں مو ت کی کیفیت وارد کر نے سے مرا د درحقیقت بنی اسرائیل کی موت تھی اور اللّٰہ تعا لٰٰی اس ذریعہ سے انہیں یہ بتا نا چاہتا تھا کہ بنی اسرائیل سو سال تک غلامی اور ادبار کی حالت میں رہیں گے اس کے بعد انکو ایک نئی زندگی عطا کی جا ئیگی اور وہ اپنے شہر میں وا پس آ جا ئینگے۔
اس میں کو ئی شبہ نہیں کہ اس جگہ رویا کا کو ئی لفظ نہیں۔ مگر قر آ ن کریم کا یہ طریق ہے کہ وہ بعض دفعہ رؤیا کا تو ذکر کر تا ہے مگر رؤیا کا لفظ استعمال نہیں کرتا۔ چنا نچہ حضرت یو سف ؑ نے اپنے والد حضرت یعقوبؑ کو جب بتا یا کہ میں نے دیکھا ہے کہ چاند اور سورج وغیرہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں تو انہوں نے رؤیا کا لفظ استعمال نہیں کیا۔پس یہ ضروری نہیں ہو تا کہ خواب کے ذکرمیں خواب کا لفظ بھی استعمال کیا جائے۔
جب وہ یہ نظارہ دیکھ چکے تو ان کو اٹھایا گیا۔ یعنی ان کی کشفی حالت جاتی رہی۔ اور خدا تعالٰی نے ان سے پو چھا کہ کَمْ لَبِثْتَ بتا تو کتنے عرصہ تک اس حالت میں رہا انہوں نے عر ض کیا لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ۔ میں تو صرف ایک دن یا دیک کا کچھ حصہ رہا ہوں۔ محا ورہ میں اس کے یہ معنے ہیں کہ اچھی طرح معلوم نہیں ۔ چنا نچہ یہ محاورہ قرآن کریم میں بعض دوسرے مقا مات پر بھی استعمال کیا گیا ہے۔ فر ما تا ہے۔کَمْ لَبِثْتُمْ فِی الْاَرْضِ عَدَدَ سِنِیْنَ قَا لُوْ الِبَثْنَا یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍٍ فَسْئَلِ الْعٰدِّیْنَ( مو منون آ یت ۱۱۳،۱۱۴) یعنی اللّٰہ تعالٰی کفار سے فر ما ئے گا کہ تم زمین میںکتنے سال رہے ہو۔ وہ کہیں گے ہم ایک دن یا دن کا کچھ حصہ رہے ہیں۔ تو گننے والوں سے پو چھ لے یعنی ہم بہت تھوڑا عر صہ رہے ہیں یا ہمیں معلوم نہیں کہ کتنا عرصہ رہے۔ حضرت حزقیل کا یہ جواب ادب کے طور پر تھا۔ کہ معلوم نہیں اللّٰہ تعالٰی کا اس سوال سے کیا منشز ہے۔ یونی بات تو ظاہر ہے کچھ دیر ہی سو یا ہوں۔ قَالَ بَلْ لَبِثْتَ مِا ئَۃَ عَامٍ۔ اللّٰہ تعالٰی نے فر ما یا کہ اس بات کے علاوہ جو تیرے دل میں ہے ہم ایک اور بات بھی بتاتے ہیں ۔ اور وہ یہ کہ تو سو سال تک رہا ہے۔ یہاں بَلْ میں پہلے قول کی نفی نہیں کی گئی۔ بلکہ ایک اور بات بیان کی گئی ہے۔ جسے قر آن کریم میں اللّٰہ تعالٰی نے فر ما یا ہے۔ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَ کّٰی وَ ذَکَوَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی۔ بَلْ تُئْو ثِرُ وْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَ الْاٰ خِرَۃُ خَیْر’‘ وَّ اَبْقٰی( اعلٰی) یعنی جع شخص پاک بنے گا وہ یقیناً کامیان ہو گا بشر طیکہ اس نے اپنے رب کا نام لیا اور نماز پڑھتا رہا۔ مگر مخا لفو! تم ورلی زندگی کو آ خرت پر تر جیح دیتے ہو۔ حا لا نکہ آ خرت کہیں زیادہ بہتر اور دیر پا ہے۔ اس آ یت میں بَلْ سے پہلے کی بات بھی درست ہے اور بعد کی بھی ۔ اسی طرح اس آیت میں بَلْ کے لفظ سے حضرت حز قیل کے اس خیال کی کہ وہ دن یا دن کا کچھ حصہ اس حالت میں رہے تر دید مد نظر نہیں بلکہ اس کے علاوہ ایک اور مضمون کی طرف ان کے ذہن کا انتقال کیا ہے اور بتا یا ہے کہ ایک نقطہ نگاہ سے دیکھوتو تم نے سو سال اس حالت میں گزارے ہیں۔مگر چونکہ نبی کا قول بھی اپنی جگہ درست تھا اس لئے اس خیال سے کہ نبی خدا تعالیٰ کے قول کو مقدم رکھ کر اپنے خیال کو غلط نہ قرار دیدے اللّہ تعالٰی نے ساتھ ہی فرما دیا کہ ہم تمہارے خیال کو رد نہیں کرتے۔ وہ بھی درست ہے ۔ چنانچہ دیکھو تمہاراکھانااچھی حالت میں ہے سڑا نہیں اور تمہارا گد ھا بھیتندرست اپنی جگہ پر کھڑا ہے جس سے ثابت ہوا کہتمہارا خیال بھی کہ تمصرف چند حنٹے اس ھالت میں رہے ہو اپنی جگہ درست ہے ۔ ورنہ جو سو سال تک واقعہ میں مرا رہا ہو اسے یہ ہیں کہا جاتا کہ اپنا کھانا دیکھ وہ سڑانہیں۔ اور پھر فرمایا کہ یہ رویا ہم نے اس لیے دکھائی دیا تاکہ ہم تجھے لوگوں کیلئے ایک نشان بنائیں اب تو ان مردہ ہڈیوں کی طرف دیکھ کہ ہم ان کو کس طرح کھڑا کرتے ہیں اور ان پر گوشت پوست چڑھاتے ہیں۔ اس کشف اور الہام کے ذریعہ اللّہ تعالٰی نے انہیں خوشخبری دی کہ ایک سو سال تک یہ شہرآباد ہو جائیگا۔ چنانچہ ٹھیک سو سال کے
وَاِذْقَالِ



عَزَیْز’‘حَکِیْم’‘o
بعد اللّہ تعالٰی نے اس شہر کی ترقی اور آبادی کی صورت پیدا کر دی ۔ یروشلم کی تباہی دو دفعہ ہوئی ہے ایک دفعہ ۵۹۷ قبل مسیھ میں اور دوسری دفعہ یروشلم کی بغاوت پر ۵۸۶ قبل مسیح میں یر وہ شلم کی دوبارہ بنیاد رکھی گئی اور تیس سال تک تعمیر جاری رہی جس کے نتیجہ میں ۴۸۹ قبل مسیح میں یر وشلم صحیح طور پر آ باد ہوا۔ پس درمیانی فا صلہ قر یباً سو سال(۹۸سال) کا ہی ثا بت ہوتا ہے۔
وَ انْظُرْ اِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنْشِزُ ھَا ثُمَّ نَکْسُوْ ھَا لَحْمًا کے الفاظ یہود کے اس قول کے مطا بق استعمال کئے گئے ہیں جس کا حز قیل نبی کی کتا ب میں بھی ذکر آ تا ہے کہ ’’ ہماری ہڈیاں سو کھ گئیں اورہماری امید جا تی رہی ۔ ہم تو بالکل فنا ہو گئے(حز قیل باب ۳۷ آ یت ۱۱) اللّٰہ تعالٰی نے انکو بتا یا کہ تم ایک بار پھر زندہ ہو گے اور پھر اپنی کھو ئی ہوئی طا قت اور عظمت حا صل کرو گے۔ غرض اس واقعہ کے متعلق با ئیبل سے رؤیا بھی مل گیا۔ بنی اسرا ئیل کی ہڈیوں پر گو شت کا چڑھا یا جا نا بھی ثابت ہو گیا۔ اسی طرح حزقیل نبی کو پکڑ کر لے جا نا بھی ثابت ہو گیا۔ حز قیل نبی کوپہلے تو صدمہ ہوا کہ یہ کیا ہو گیا ہے مگر جب اللّٰہ تعالٰی نے انکو بتا یا کہ یہ ہمیشہ کی تبا ہی نہیں تو انہوں نے کہا اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْر’‘۔ خدا یا اب میری سلّی ہو گئی ہے ۔ اور گو بظاہر ان حالات کا بد لنا نا ممکن نظر آ تا ہے مگر یہ بات یقیناً ہو کر رہے گی۔ اور خدا تعالٰی دوبارہ اس شہر اور قوم کو تر قی عطا فرمائے گا۔
۱۷۰؎ حل لغات:۔ صُرْ ھُنَّ:۔ صُرْکے ساتھ جب الٰی کا صلہ آ جا ئے تو اس کے معنے اپنی طرف مائل کر لینے کے ہو تے ہیں۔ کا ٹنے کے نہیں ہو تے۔ ہاں جب یہ لفظ اِلٰی کے صلہ سے خالی ہو تو اس وقت اس کے معنی کاٹنے کے ہی ہوتے ہیں۔ چنانچہ کہتے ہیں۔ صَارَالشَّیْء قَطَعَہ‘۔اسے کاٹ دیا ۔ پس صُرْھُنَّ اِلَیْکَ کے معنی ہیں۔ ان کو اپنے ساتھ سِدھالے۔(اقرب)
تفسیر:۔ فرماتا ہے تم اس واقعہ کو بھی یاد کرو جب ابراہیمؑ نے کہا تھا۔ کہ اے میرے رب ! مجھے بتا کہ تو مردے کس طرح زندہ کرتا ہے ۔ اللّٰہ تعالٰی نے فرمایا کیا تو ایمان نہیں لا چکا؟ حضرت ابراہیمؑ نے اَوَلَمْ تُئوْمِنْ کے جواب میں بَلٰی کہا۔ جس سے اس عقیدہ کا اظہار مقصود ہے کہ اللّٰہ تعالٰی مردے زندہ کر سکتا ہے ۔ اور میں اس بات پر ایمان رکھتا ہوں کہ وہ ایسا کر سکتا ہے گویا انہوں نے اس کے متعلق کسی شک کا اظہار نہیں کیا بلکہ اقرار کیا کہ اللّٰہ تعالٰی یہ کام کر سکتا ہے اور مجھے اس پر کامل ایمان حاصل ہے ۔
بَلٰی کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ اس سے پہلے خواہ نفی ہو یا اثبات اس سے مراد "ہاں" ہی ہوتی ہے ۔ اگر اس جگہ نَعَمْ کا لفظ ہوتا تو اس کے یہ معنی بھی ہو سکتے تھے کہ ہاں مجھے ایمان نہیں ہے ۔ مگر اسجگہ بَلٰی کا لفظ رکھا گیا ہے ۔ جس سے یہ شبہ دور ہو گیا کیونکہ کے معنی ہو صورت میں اثبات ہی کے ہوتے ہیں ۔ ایمان کے بعد لٰکِن کا لفظ رکھا گیا ہے ۔ جو استدراک کیلئے آتا ہے یعنی اس سے مراد یہ ہے کہ مجھے ایمان تو ہے کہ اللّٰہ تعالٰی مردے زندہ کر سکتا ہے لیکن میں اس سے ایک زائد بات چاہتا ہوں ۔ اور وہ یہ کہ میرے دل کو بھی اطمینان حاصل ہو جائے کہ تو میری قومہٖ کے ساتھ ایسا سلوک کرے گا۔ جیسے ایک شخص جو بیمار ہو۔ اسے ایمان تو ہو سکتا ہے کہ خدا تعالٰی بیماروں کو اچھا کر سکتا ہے ۔ لیکن اطمینان نہیں ہو سکتا کہ اسے بھی اچھا کریگا۔ یہ اطمینان خدا کے بتانے سے ہی ہو سکتا ہے۔ یا مثلاً ہر شخص جانتا ہے کہ بھوک کے بعد لوگ سیر ہو جایا کر تے ہیں۔ مگر کیا س سے ایک فاقہ زدہ کو یہ یقین ہو جائیگا کہ مجھے بھی کھانا مل جائیگا اور میں سیر ہو جائوں گا ۔ پس ایمان تو امر غیب کے متعلق ہوتا ہے جو انسان کی آنکھوں سے اوجھل ہوتا ہے ۔ اورکسی چیز کے ہونے یا ہو سکنے کے متعلق اس کے یقنین کاملکو ظاہر کرتا ہے ۔ لیکن اطمینان کا لفظ دو چیزوں کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ایک شک ے مقابلہ میں۔ دوسرے کرب و اضطراب کے مقابلہ میں ۔ وہ اطمینان جو شک کے مقابلہ میں ہوتا ہے ۔ وہ یہاں مراد نہیں ۔ بلکہ وہی اطمینان مراد ہے ۔ جو کرب اور اضطراب کے مقابلہ میں ہوتا ہے ۔ کیونکہ اس سے پہلے اثبات ایمان موجود ہے ۔ حضرت ابراہیمؑ کا ایمان تھا کہ خدا تعالٰی احیاء موتٰی کر سکتا ہے مگر وہ اپنی قوم کے متعلق بھی یہ اطمینان حاصل کرنا چاہتے تھے کہ اس پر الٰہی فضل نازل ہو گا اور وہ بھی زندہ قوم بن جائیگی۔
اللّٰہ تعالٰی نے فرمایا۔ تو چار پرندے لے اور ان کو اپنے ساتھ سدھا لے ۔ پھر ہر ایک پہاڑ پر ان میں سے ایک ایک حصہ رکھ دے ۔ پھر انہیں بلا۔ وہ تیری طرف تیزی کے ساتھ چلے آئیں گے ۔ اور جان لے کہ اللّٰہ تعالٰی بڑا غالب اورحکمت والا ہے ۔ لوگ اس آیت کے یہ معنی کرتے ہیں کہ چار پرندے پکڑ کر ان کا قیمہ کر لے ۔اور ان کو اپنی طرف لے لے ۔ لیکن یہ بلکل غلط اور محاورہ کے خلاف معنی ہیں ۔کیا کوئی شخص قیمہ کر کے اسے اپنی طرف بھی لیا کرتا ہے ۔ پس یہ کوئی معنی نہیں کہ قیمہ کر کے اسے اپنی طرف لے لے ۔ اس کے یہی معنی ہیں کہ توان کو اپنے ساتھ سدھالے (مفدات واقرب الموارد)
جُزْئً ا کے متعلق بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ لفظ بتلاتا ہے کہ یہاںقیمہ کرنا ہی مراد ہے ۔ مگر یہ بھی غلط ہے،۔ جز کے معنے ایک پرندے کے ٹکڑے کے نہیں بلکہ چاروں پرندوں کا جزء مراد ہے جو ایک کا عدد ہے ۔ اس کی مثال قرآن کریم کی اس آیت سے ملتی ہے کہ اِنَّ جَھَّنَمَ لَمَوْْعِدُھُمْ اَجْمَعِیْنَ.لَھَاسَبْعَۃُاَبْوَابٍ.لِکُلِّ بَابٍ مِّنْھُمْ جُزْئُ‘مَّقْسُوْمُ‘۔ (حجرآیت۴۴۔۴۵) یعنی جہنم سب کفار کے لئے مقررہ جگہ ہے ۔ اس کے سات دروازے ہونگے اور ہر دروازہ کے لئے کفار کا ایکحصہ مقرر ہو گا۔ اسجگہ جُزْئُ‘ کا لفظ ہی استعمال ہوا ہے ۔ لیکن کوئی شخص یہمعنی نہیں کرتا کہ کفار کا قیمہ کر کے اس قیمہ کا تھوڑا تھوڑا حصہ سب دروازوں میں ڈال دیا جائیگا۔ بلکہ سب مفسرین متفق ہیںکہ اس سے مراد یہ ہے کہ کچھ دوسرے سے اور کچھ تیسرے سے اور کچھ چوتھے سے۔ پس سورہ حجر کی اس آیت نے بتلا دیا کہ جب جزء کالفظ ایک جماعت پر بولا جائے تو اس سے اسجماعت کے افراد مرادہوتے ہیں ۔ اور انہی معنوں میں جزء کا لفظ اس آیت میں استعمال ہوا ہے اور مراد ہر پرندہ کا جزء نہیں بلکہ چار کاجزء ہے ۔ اور معنی
مَثَلُ الَّذِیْنَ

یَّشَآئُ
یہ ہیں کہ ہر چوٹی پر ایک ایک پرندہ رکھدے۔
یہ واقعہ جس کا اوپر ذکر کیا گیاہے ۔ اگر ظاہری ہوتاتو اس پر بہت سے اعتراض پڑتے ہیں۔ اوّل یہ کہ احیاء موتٰی کے ساتھ پرندوںکے سدھانے کا کیاتعلق۔دوم۔ چار پرندے لینے کے کیا معنے؟ کیا ایک سے یہ غرض پوری نہ ہوتی تھی؟ سوم ؔپہاڑوں پر رکھنے کا کیا فائدہ کیاکسی اور جگہ رکھنے سے کام نہ چلتا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ ظاہری کلام نہیں بلکہ مجازی کلام ہے ۔ حضرت ابراہیمؑ نے اللّٰہ تعالٰی سے دعا کی کہ الٰہی احیاء موتٰی کا جو کامتو نے میرے سپرد کیا ہے ۔اسے پورا کر کے دکھا۔ اور مجھے بتا کہ میری قوم میںزندگی کی روحکس طرح پیدا ہو گی جبکہ میں بڈھا ہوں ۔ اور کام بہت اہم ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب ہم نے وعدہ کیا ہے تو یہ کام ہو کر رہیگا۔ حضرت ابراہیم ؑ نے عرض کیا کہ ہو تو ضرور رہیگا۔ مگر میں اپنے اطمینان کے لئے پوچھتا ہوں کہ یہمخالف حالات کس طرح بدلیں گے ۔ اللّٰہ تعالٰی نے فرمایا۔ تو چار پرندے لیکر سدھا۔ اور ہر ایک کو پہاڑ پر رکھدے۔ پھر ان کع بلا۔ اور دیکھ کہ وہ کس طرح تیری طرف دوڑے چلے آتے ہیں۔ یعنی اپنی اولاد میں سے چار کی تربیت کر وہ تیری آواز پر لبیک کہتے ہوئے۔اس احیاء کے کام کی تکمیل کریںگے۔ یہ چار روحانی پرندے حضرت اسماعیلؔ ۔ حضرت اسحاق حضرت یعقوبؔ اور حضرت یوسفؑ ہیں۔ ان میں دو کی حضرت ابراہیمؑ نے براہ راست تربیت کی اور دو کی بالواسطہ پہاڑ پر رکھنے کے معنی بھی یہی تھے کہ ان کی نہایت اعلٰی تربیت کر کیونکہ وہ بہت پڑے درجہ کے ہونگے۔ گویا پہاڑ پر رکھنے میں ان کے رفیع الدرجات ہونے کی طرف اشارہ ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ بلندیوں کی چوٹیوںتک جا پہنچیں گے۔ اسی طرح چار پرندوں کو علیحدہ علیحدہ چار پہاڑوںپر رکھنے سے یہ معنے تھے۔ کہ یہ احیاے چار علٰیحدہ علٰیحدہ وقتوں میں ہو گا۔ غرض اس طرح احیاء قومی کا وہ نقشہ جو حضرت ابراہیمؑ کے قریب زمانہ میں ظاہر ہونے والا تھاانہیں بتا دیا گیا۔ اسی طرح بعد کے زمانہ کے لئے بھی اس میں حضرت ابراہیمؑ کی قوم کی چار ترقیوں کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔ حضرت ابراہیمؑ نے اللّٰہ تعالٰی سے یہ عرض کیا تھا کہ آپ مردوں کو کس طرح زندہ کرتے ہیں؟آپ نے جواب دیا کہ ایمان تو ہے وَلٰکِنْ لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ۔یہ زبان کا ایمان ہے، میں دیکھتا ہوں کہ آ مر دوں کو زندہ کر تے ہیں اور اقرار کر نا پڑتا ہے کہ کر تے ہیں مگر دل کہتا ہے کہ یہ طا قت میری اولاد کی نسبت بھی استعمال ہو۔ میں چا ہتا ہوں کہ یہ نشان اپنے نفس میں بھی دیکھوں اس پراللہ تعالیٰنے فر ما یا کہ تمہاری قوم چار دفعہ مردہ ہو گی اور ہم اسے چار دفعہ زندہ کریں گے۔
چنا نچہ ایک دفعہ حضرت موسٰے ؑ کے زما نہ میں۔ ان کے ذریعہ حضرت ابراہیمؑ کی آواز بلند ہوئی۔ اور یہ مردہ زندہ ہوا۔پھر حضرت عیسٰیؑ کے ذریعہ حضرت ابراہیمؑ کی آ واز بلند ہوئی۔ اوریہ مردہ زندہ ہوا۔ پھر آ نحضرتؐ کے ذریعہ وہی آ واز بلند ہوئی اور اس
وَاللّٰہُ وَاسِعُٗ عَلِیْمُٗ o
مردہ قوم کی زندگی ملی۔ اور چو تھی بار حضرت مسیح مو عودؑ کے ذریعہ ابراہیمی آ واز پھیلی اور وہی مردہ زندہ ہوا۔ چا ر دفعہ ابراہیمی نسل کو
حضرت ابراہیم ؑ نے آ وازیں دیں اور چا روں دفعہ وہ دوڑ کر جمع ہو گئی۔
پہلا پر ندہ جسے حضرت ابراہیمؑ نے بلا یا اور اطمینا ن قلب حا صل کیا وہ مو سوی اُمّت تھی دوسرا پر ندہ عیسوی اُمت تھی۔ تیسرا پر ندہ آ نحضرتؐ کے جلا نی ظہور کی حا مل اور مظہر محمدی جما عت تھی۔ اور چو تھا پر ندہ آ پ ؐ کے جما لی ظہور کی مظہر جماعت احمدیہ ہے۔ جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰنے حضرت ابراہیم ؑ کے قلب کو راحت پہنچائی اور آ پ نے کہا کہ واقعی میرا خڈا زندہ کرنے والا ہے بَلٰی وَلٰکِنْ لِّیَطْمِٔنَّ قَلْبِی کا بھی یہی مطلب تھا کہ حضور زبان تو اقرار کرتی ہے ۔ اور میں ہر روز دیکھتا ہوں کہ آپ مردوں کو زندہ کرتے ہیں۔ اس کا مجھے کس طرح انکار ہو سکتا ہے ۔ لیکن اگر میری اولاد ہدایت نہ پائے تو مجھے اطمینان قلب حاصل نہیں ہو سکتا۔ پس اطمیان قلب کیلئے میں نشان مانگتا ہوں ۔میری عقل وفکر میرے ہوش وحواس اور میرا مشاہدہ کہتا ہے کہ آپ مردوں کو زندہ کرتے ہیں۔ مگر دل کہتا ہے کہ میں خود کیا تعریف کروں جب تک یہ پتہ نہ لگے کہ میری اولاد میں بھی یہ نشان ظاہر ہو گا۔ خدا تعالیٰ نے انہیں بتایا کہ تمہاری اوالد کو چار دفعہ زندہ کیا جائے گا۔ اور چار بار اُس پر خاص فضل نازل ہو گا۔ چنانچہ ایک دفعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت ۔دوسری دفعہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت ۔تیسری دفعہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے وقت اور چوتھی دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد پر خدا تعالیٰ نے اپنا خاص فضل نازل کیا ۔ اور انیہں روحانی لحاظ سے زندہ کر دیا غرص اس میں قریب اور بعیاد دونوں زمانوں کیلئے پیشگوئی کی گئی تھی ۔ جو اپنے اپنے وقت میں بری شان سے پوری ہوئی ۔ اور خداتعالیٰ کا عزیز اور حکیم ہونا ظاہر ہوگیا ۔
۱۷۱؎حل لغات:۔​
 
Top