• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

تفسیر کبیر ۔ تفسیر القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا محمود احمد رض ۔جلد 3 تا 4 یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
وَلَاتَقُوْ
تَشْعُرُوْنَo
وقت وہ فارم پُر کرتے ہیں جو داخلہ کیلئے محکمہ تعلیم کی طرف سے مقرر ہوتا ہے ۔امتحان کیلئے یونیورسٹی کا فارم پُر کرتے ہیںاور اس میں ذراسی غلطی ہونے سے بھی اُن کا دل دھڑکنے لگ جاتا ہے ۔ اور وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں کام خراب نہ ہو جائے ۔ مگر خدا تعالیٰ سے بغیر کوئی فارم پُر کرنے کے اور بغیر کسی شرط پر عمل کرنے کے یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ حضور اپنے ملائکہ کی فوج بھیجکر ہماری مدد کیجئے۔حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ یہاں بھی ایک فارم کی ضرورت ہے ۔ جب تک وہ فارم پُر کر کے اُسپر دستخط نہ کئے جائیں ۔اُس وقت تک خدا تعالیٰ کی نصرت شامل حال نہیں ہو سکتی اور وہ صبر اور صلوٰۃ کا فرم ہے ۔ جب تک صبر اور صلوٰ ۃ کے فارم پر دستخظ نہ کروگے تب تک خدا تعالیٰ کی مدد حاصل نہیں ہو سکے گی۔
اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ ۔اس جگہ اللہ تعالیٰ نے صلوٰۃ کے لفظ کو اُڑادیا ہے ۔ اور صرف َ مَعَ الصّٰبِرِیْنکے الفاظ رکھے ہیں۔ مَعَ اْلُمصَلِّیْنَ نہیں فرمایا ۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں صابر کا لفظ اپنے اندر استقلال کے معنے رکھتے ہے اور صابر کا لفظ صرف صبر کا قائم مقام نہیں بلکہ صبر اور صلوٰۃ دونوں کا قائم مقام ہے ۔پس اس کے صرف یہ معنے نہیں کہ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے بلکہ اسکے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ صبرو صلوٰۃ دونوں استقلال کے ساتھ قائم رہنے والوں کے ساتھ ہے ۔ کیونکہ دعا بھی وہی قبول ہوتی ہے جو استقلال سے کی جائے ۔ پس اللہ تعالیٰ صبر کرنیوالوں کے ساتھ رہے کہ یہ معنے ہیں ۔ کہ اگر صبر اور صلوٰۃ کے ذرائع کو استقلال سے استعمال کر و گے تو کامیاب ہو جاؤگے ۔
اِس آیت میں لوگوں کو نصیحت کی گئی ہے جو کچھ عرصہ تکلیف برداشت کرتے اور یہ کہنے لگے جاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ تو ہماری سُنتا ہی نہیں ۔ہم تو اُسے پکار پکار کر تھک گئے اب دعا کرنیکا کیا فائدہ ۔اور بعض لوگوں کو تو اس قدر ٹھوکر لگتی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی ہستی کے ہی منکر ہو جاتے ہیں۔پس اللہ تعالیٰ نے اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَکہہ کر بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد اسی کوحاصل ہوگی جو مشکلات کے وقت استقامت دکھا ئیگا اور صبر اور صلوٰ ۃ کے ذرائع کو استقلال سے استعمال کرتا چلا جائیگا۔
۶۹؎حل لغات:۔ لَا تَقُوْلُوْ الِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتُٗ۔جب قَالَ کے بعد صلہ کے طور پر لام آئے تو اُس کے معنے خطاب کے ہوتے ہیں۔ چنانچہ جب قَالَ لِفُلَافٍ کہیں تو اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ اُس نے فلاں کو کہا ۔ اِسی طرح قَالَ لِفُلَافٍکے یہ بھی معنے ہوتے ہیں کہ اُس کے حق میں کہا ۔ پس اس آیت میں دونوں معنے ہیں ۔ یہ بھی کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے راستے میں مارے جاتے ان کو مردہ مت کہواور یہ بھی کہ تم اُن کے بارہ میں یہ نہ کہو کہ وہ مردہ ہیں۔ اس آیت میں اَمْوَاتُٗ سے پہلے اور بَلْ کے بعد دونون جگہ ھُمْ محذوت ہے ۔ پس عبادت یوں ہوگی ھُمْ اَمْوَاتُٗ بَلْ ھُمْ لَحْیَآئُٗ۔
اَمْوَاتُٗکیلئے دیکھیں حل لغات سورۃ بقرۃ ۶۹؎یَّشْعُرُوْنَ :۔ دیکھیں حل لغات سورۃ بقرہ۱۵؎
تفسیر :۔ اِس آیت میں خدا تعالیٰ کی راہ میں شہید ہونیوالوں کو اس لئے زندہ کہا گیا ہے ۔ کہ اہل عرب میں یہ رواج تھا کہ جو لوگ ماریجائیں اور اُن کا بدلہ لے لیا جائے اُن کلئے تو وہ اَحْیَاء کا لفظ استعمال کرتے تھے اور اُن کو زندہ کہتے تھے ۔لیکن جن مقتولوں کا بدلہ نہ لیا جائے وہ انہیں اَمْوَاتُٗ یعنی مردے کہا جاتے تھے ۔یہ محاورہ اُن میں اس لئے رائج ہوا کہ عربوں میں یہ مشہور تھا کہ جو شخص ماراجائے اور اس کا بدلہ نہ لیا جائے اُس کی روح الو کی شکل میں آکر چیختی رہتی ہے اور جب اس کا بدلہ لے لیا جائے تب وہ آرام کرتی ہے ۔ اس سے ان میں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ جس مقتول کا بدلہ لے لیا جائے وہ زندہ ہوتا ہے ۔اور جس کا بدلہ نہ لیا جائے وہ مردہ ہوتا ہے ۔چنانچہ انہی معنوں میں ایک شاعر حارث بن حلزہ نے کہا ہے کہ ؎
اِنْ فَبِشْتُمْ مَا بَیْنَ مَلْحَۃَ فَالصَّاقِبٖ
فِیْھاَ ا لْاَ مْوَ تُ وَ ا لْاَ حْیَآء‘
(سبعہ معلقات قصیدہ نمبر۷)
اس میں شاعر فریق مخالفکو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ تم یہ سمجھتے ہو کہ تم بڑے شریف اور معزز ہو مگر ایسا ہرگز نہیں تم ملحہ اور صاقب کے درمیان جہاں ہمارے اور تمہارے در میان جنگ ہوئی تھی جائو اور وہاں قبریں کھود کر دیکھو تو اُن میں تمہیں کچھ مردے دکھائی دینگے اور کچھ زندہ۔ یعنی تم نے اپنی قوم کے مقتولوں کا بدلہ نہیں لیا۔ اس لئے وہ مردہ ہیں مگر ہمارے جو آدمی نکلیں گے وہ بزبان حال بتاتے جائیں گے کہ وہ زندہ ہیں کیونکہ ان کا بدلہ لے لیا گیا ہے۔ اس میں اس بارہ میں اتینی غیرت تھی کہ اگر کسی مقتول کا بدلہ نہ لیا جاتا تو وہ اُسے حد درجہ کے بے غیرتی سمجھتے تھے کیونکہ ان میں یہ روایت چلی آتی تھی کہ جس مقتول کا بدلہ نہ لیا جائے اس کی رُوح اُلو بن کر رات دن چیختی رہتی ہے اور جب اس کا بدلہ لے لیا جائے تب وہ نجات پاتی ہے۔ پس شاعر کہتا ہے کہ تم ہمارے باپ دادوں کی قبریں کھود کر دیکھو اور ان سے پوچھو کہ ان کا بدلہ الے لیا گیا ہے یا نہیں ہم نے انکی بجائے دشمن قبیلہ کے کئی کئی اشخاص مار دیئے ہیں۔ پس ہمارے باب دادا مرے نہیں بلکہ وہ زندہ ہیں۔ اگر اُن میں کچھ لوگ مرے ہوئے نظر آئیں تو وہمارے باپ دادا نہیں ہونگے بلکہ تمہارے باپ دادا ہونگے غرض جس مقتول کا بدلہ لے لیا جائے اہل عرب کے محاورہ کے مطابق وہ زندہ ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ جو مسلمان شہید ہو گئے ہیں تم انہیں مردہ مت کہو۔ وہ خداتعالیٰ کے زندہ سپاہی ہیں۔ اور خداتعالیٰ ان کا ضرور بدلہ لے گا۔ چنانچہ اگر ایک صحابیؓ مارا گیا تو اس کے مقابلہ پر مشرکوں کے پانچ پانچ آدمی مارے گئے۔ اور ہر جنگ میں کفار مسلمانوں کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہلاک ہوئے۔ سوائے جنگ ِ اُحد کے کہ اس میں بہت سے مسلمان مارے گئے تھے مگر اُن کا بدلہ بھی خداتعالیٰ نے دوسری جنگوں میں لے لیا۔
دوسرے معنی محاورہ میں اس کے یہ ہوتے ہیں کہ جس شخص کا کام جاری رکھنے والے لوگ پیچھے باقی ہوں اس کے نسبت بھی کہتے ہیں۔ مَامَاتَ کہ وہ مرا نہیں اور مردہ اسے کہتے ہیں جو مرے اور اس کا کوئی اچھا اور نیک قائم مقام نہ ہو۔ چنانچہ عبدالملک بادشاہ نے زہری کے ایک مدرسہ کا معائنہ کیا تو اس مدرسہ کے طلباء میں اصمعی بھی تھے جو بہت بڑے مشہور نجومی گزرے ہیں۔ بادشاہ نے اصمعی کا امتحان لیا اور اس سے کوئی سوال پوچھا تو اصمعی نے اس کا نہایت معقول جواب دیا۔ بادشاہ نے اس کا جواب سن کر خوش ہو کر زہری سے کہا کہا مَامَاتَ مَنْ خَلَفَ مِثْکَ کہ وہ شخص نہیں مرا جس نے ایسے لوگ پیچھے چھوڑے ہوں جیسا کہ تو نے چھوڑے ہیں۔ اس لحاظ سے اس آیت کے یہ معنے ہونگے کہ یہ لوگ مردہ نہیں کہلا سکتے کیونکہ جس کام کے لئے انہوں نے جان دی ہے اس کے چلانے والاے لوگ موجود ہیں۔ اور ایک کے مرنے پر دو اس کی جگہ لینے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ پس ان کے متعلق یہ نہ کہو کہ وہ مردہ ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اچھے قائم مقام پیدا کر دیئے ہیں۔ اور یہ لوگ اپنی تعداد میں پہلے سے بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ مردہ تو وہ ہوتا ہے جس کا بعد میں کوئی اچھا قائم مقام نہ ہو مگر ان کے تو بہت سے قائم مقام پیدا ہو گئے ہیں اور اائندہ بھی ایسا ہی ہو گا کہ ہم ان میں سے ایک ایک کی جگہ کئی کئی قائم مقام پیدا کرتے چلے جائیں گے اور وہ قوم کبھی مرتی نہیں جس کے افراد اپنے شہداء کی جگہ لیتے چلے جائیں جو قوم اپنے قائم مقام پیدا کرتی چلی جاتی ہے وہ خواہ کتنی بھی چھوٹی ہو اسے کوئی مار نہیں سکتا پس فرماتا ہے کہ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ مسلمان مارئے گئے ہیں مسلمان مرے نہیں بلکہ زندہ ہیں۔ اگر ان میں سے ایک مرتا ہے تو دوسرا اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ اگر جنگ بدر میں کچھ مسلمان مارتے گئے تو اُحد میں اس سے زیادہ کھڑے ہو گئے۔اُحد میں کچھ تکلیف پہنچی اور کچھ مسلمان مارے گئے تو غزوہ خندق میں اس سے زیادہ کھڑے ہو گئے۔ اور غزوہ خندق کے مقابلہ میں فتح مکہ کے موقعہ پر زیادہ لوگ آئے اور اگر فتح مکہ کے موقعہ پر ان کو کچھ نقصان پہنچاتو جنگ تبوک میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے کہیں زیادہ تعداد لے لگئے۔ غرض ہر قدم پر پہلے سے زیادہ قربانی کرنے والے لوگ اُن میں موجود ہوتے تھے۔ اور جو قوم قربانی کے اس مقام پر پہنچ جاتی ہے اُسے کوئی تباہ نہیں کر سکتا اور ایسی قوم وہی ہوتی ہے جسے خداتعالیٰ خود کھڑا کرتا ہے۔
تیسرے معنے محاورہ میں اس کے یہ ہوتے ہیں کہ وہ رنج و غم سے آزاد ہیں۔ یعنی جس کا آخری حال یہ ہوا ہے کہ وہ خداتعالیٰ کی راہ میں قتل کیا گیا۔ اُسے اگلے جہان میں کیا دُکھ پہنچنا ہے۔ پس چونکہ وہ خوش و خرم ہیں اور اس زندگی سے اعلیٰ زندگی پا چکے یہں اس لئے ان کو مردہ نہ کہو۔کیونکہ موت غم کی حالت پر دلالت کرتی ہے ورنہ قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد زندگی تو کافر و مومن سب کو ملیگی پس اُن کو مردہ نہ کہنے سے یہ منشاء ہے کہ مردہ کہنے میں دُکھ کا مفہوم پایا جاتا ہے حالانکہ وہ سُکھ میں ہیں اور اُن کو خداتعالیٰ کی طرف سے انعامات مل رہے یہں پھر انہیں مردہ کہنا کس طرح درست ہو سکتا ہے۔
چوتھے معنے اس کے یہ ہیں کہ شہید کو ایک اعلیٰ حیات مرنے کے بعد ہی مل جاتی ہے۔ جبکہ دوسرے لوگوں کو عرصہ تک ایک درمیانی حالت میں رہنا پڑتا ہے۔ بعض حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ شہید تین دن کے اندر اندر زندہ ہوجاتا ہے۔ اور اس کمال کو حاصل کر لیتا ہے جسے دوسرا شخص ایک لمنے عرصے میں حاصل کرتا ہے۔ پس فرماتا ہے ان لوگوں نے مرکر فوراً وہ زندگی حاصل کر لی ہے جس میں رُوح کو کمال حاصل ہو جاتا ہے ورنہ عام زندگی میں تو سب لوگ شریک ہوتے ہیں۔ حتیّٰ کہ ابوجہل کو بھی وہ زندگی حاصل ہو گی اگر وہ زندگی اُسے حاصل نہیں تو وہ جہنم میں کیسے جائیگا۔ پس زندگی تو مومن اور کافر دونوں کو حاصل ہوگی۔لیکن شہید چونکہ خداتعالیٰ کی خاطر اپنی زندگی دے دیتا ہے۔ اس لئے اُسے مرنے کے بعد ہی ایک اعلیٰ حیات مل جاتی ہے۔
پھر اس آیت میں شہید کو زندہ قرار دینے کی ایک یہ بھی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ راہ میں جان دینے میں مومن کو صرف یہی خدشہ ہوتا ہے کہ اگر میں مرگیا تو اعمال صالحہ سے محروم رہ جائوں گا۔ مثلاً ایک شخص کی عمر چالیس سال ہے ۔ اگر ساٹھ سال تک وہ اور زندہ رہتا تو اس عرصہ میں وہ ایک بہت سی نیکیاں کر سکتا تھا۔ پس موت کے راستہ میں صرف یہی ایک خیال اس کے لئے روک بن سکتا ہے ورنہ اگر وہ صحیح طور پر آخرت کو مقدم کرتا ہے تو کوئی دنیوی خیال اس کے راستہ میں روک بن ہی نہیں سکتا۔ یہی ایک خیال ہے جو اُسے جان دینے سے روک سکتا ہے کہ اتنی مدت کی نمازوں روزوں جہاد اور تبلیغ سے محروم رہ جائوں گا اس شبہ کی معقولیت کو اللہ تعالیٰ نے بھی تسلیم کیا ہے اور پھر اس کا جواب بھی دیا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَات’‘ بَلْ اَحْیَآء‘۔ تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان دینے والوں کو مُردہ مت کہو وہ مردہ نہیں بلکہ زندہ ہیں۔یعنی شہید کے اعمال کبھی ختم نیہں ہو سکتے وہ زندہ ہے اور اس کے اعمال ہمیشہ بڑھتے رہتے ہیں۔ اس نے خدا کے لئے اپنی جان قربان کر دی اور خدا نے نہ چاہا کہ اُس کے اعمال ختم ہو جائیں۔ کوئی دن نہیں گذرتا کہ تم نمازیں پڑھو اور ان کا ثواب تمہارے نام لکھا جائے اور شہید اُن سے محروم رہے کوئی رمضان نہیں گذرتا کہ تم اُسکے روزے رکھو اور اُن کا ثواب تمہارے نام لکھا جائے اور شہید اس سے محروم رہے۔ کوئی حج نہیں کہ تم تکلیف اٹھا کر اس کا ثواب حاصل کرو اور شہید اس ثواب سے محروم رہے غرض وہ لوگ وہی برکتیں حاصل کر رہے ہیں جو تم کر رہے ہو اور اس طرح خداتعالیٰ کے قرب میں بڑھتے چلے جا رہے ہیں جس طرح تم بڑھتے جا رہے ہو۔پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فلسفۂ موت و حیات پر نہایت لطیف رنگ میں روشنی ڈالی ہے۔ اور بتایا ہے کہ شہادت کا مقام حاصل کرنے والوں کو دائمی حیات حاصل ہوتی ہے ۔ چنانچہ دیکھ لو جس دن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو یزید کی فوجوں نے مارا ہو گا۔ وہ کس قدر خوش ہوئی ہونگی اور انہوں نے کس مسرت سے کہا ہو گا کہ لو یہ قصہ ختم ہو گیا۔ مگر کیا واقعہ میں وہ قصہ ختم ہو گیا؟ دنیا دیکھ رہی ہے کہ امام حسین ؓ آج بھی زندہ ہیں۔ مگر یزید کو اس وقت بھی مردہ سمجھا جاتا ہے اسی طرح جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے رستہ میں قربان ہوتا ہے تو اس کا خون رائیگاں نہیں جاتا بلکہ اس کی جگہ اللہ تعالیٰ ایک قوم لاتا اور اپنے سلسلہ میں داخل کرتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہوتے ہیں تم انہیں مردہ مت کہو کیونکہ وہ زندہ ہیں۔ خداتعالیٰ نے ان لوگوں کو زندہ اس لئے بھی کہا کہ جب ایک شخص کی جگہ دس کھڑے ہو گئے تو وہ مرا کہاں۔ اور جب وہ مرا نہیں تو اُسے مردہ کہنا کس طرح درست ہو سکتا ہے؟ پس اللہ تعالیٰ کے مقربین اور اس کی راہ میں شہید ہونے والے کبھی نہیں مرتے حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب پر لٹکائے گئے اور پھر وہ زندہ ہی صلیب سے اُتارے گئے گو جیسا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے بعض نے یہ بھی سمجھا کہ آپ مر گئے ہیں۔ مگر آپ کو صلیب پر لٹکانے والوں کا کیا انجام ہوا۔ اس صلیب پر لٹکانے کے جرم میں آج بھی جب کہ اس واقعہ پر انیس سو سال کا عرصلہ گذر چکا ہے یہود صلیب پر لٹکے ہوئے ہیں۔ حالانکہ پچاس ساٹھ سال کے بعد لوگ اپنے دادوں پڑدادوں کا نام تک بھول جاتا ہیں بیسیوں آدمی ہیں جو مجھ سے ملتیہ یں اور میں ان سے دریافت کرتا ہوں کہ آپ کے دادا کا کیا نام تھا تو وہ بتا نہیں سکتے۔ اور کہتے ہیں پتہ نہیں کیا نام تھا اور اگر دادا کا نام لوگ جانتے بھی ہوں تو سو سال پہلے کے آباء کو تو لاکھوں کروڑوں میں سے کوئی ایک جانتا ہے مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مارنے کی کوشش پر انیس سوسال گذر گئے اور آج تک یہودیوں کو پھانسیاں مل رہی ہیں۔ اسی طرح مکہ کے جن اکابر نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مارنا چاہا۔ کیا آج دنیا میں ان لوگوں کا کوئی نام لیوا ہے؟ اُحد کے مقام پر ابوسفیان نے آواز دی تھی اور کہا تھا کیا تم میں محمد( صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کو مارڈالا ہے ۔ پھر اس نے آواز دی۔ کیا تم میں ابو بکرؓ ہے؟ اور جب اس کا بھی جواب نہ ملا تو اس نے کہا ہم نے ابو بکرؓ کو بھی مار ڈالا ہے۔ پھر اس نے پوچھا کیا تم میں عمرؓ ہے؟ جب اس کا بھی جواب نہ ملا تو اس نے کہا ہم نے عمرؓ کو بھی مار ڈالا ہے ۔لیکن آج جائو اور دنیا کے کناروں پر اس آواز دینے والے کے ہمنوا کفار کے سردار ابوجہل کو بلائو اور آواز دو ۔ کہ کیا تم میں ابوجہل ہے۔ تو تم دیکھو گے کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نام پر تو کروڑوں آوازیں بلند ہونا شروع ہو جائیں گی اور ساری دنیا بول اُٹھیگی کہ ہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہم میں موجود ہیں کیونکہ آپکی نمائندگی کا شرف ہمیں حاصل ہے۔ لیکن ابوجہل کو بلانے پر تمہیں کسی گوشہ سے بھی آواز اٹھتی سنائی نہیں دیگی۔ ابوجہل کی اولاد آج بھی دنیا میں موجود ہے مگر کسی کو جرات نہیں کہ وہ یہ کہہ سکے کہ میں ابوجہل کی اولاد میں سے ہوں۔ شاید عتبہ اور شیبہ کی اولاد بھی آج دنیا میں موجود ہو۔ مگر کیا کوئی کہتا ہے کہ میں عتبہ اور شیبہ کی اولاد ہوں۔ پس خداتعالیٰ کی راہ میں مارے جانے والے کبھی نہیں مرتے بلکہ وہ قیامت تک زندہ رہتے ہیں اور آئندہ نسلیں ان کا نام لے لے کر ان کے لئے دعائیں کرتی ہیں ان کی خوبیوں کو یاد رکھتی ہیں اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ تحویل قبلہ کے متعلق مفسریں سے جو میں اختلاف رکھتا ہوں اس میں میں حق پر ہوں۔ اگر وہاں فتح مکہ مراد نہ لی جائے بلکہ تحویل قبلہ مراد لیں تو اس آیت کا یہاں کوئی تعلق ہی معلوم نہیں ہوتا۔ نماز اور قبلہ کے ذکر میں شہیداء کا ذکر کیسے آگیا۔ جنگ کے ساتھ شہداء کا ذکر قابلِ تسلیم بھی ہے لیکن تحویل قبلہ کے ساتھ اس کا ذکر بالکل بے جوڑ معلوم ہوتا ہے۔ پس یہ آیت اس بات کی تائید کرتی ہے کہ پہلی آیت وَمِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ سے مراد فتح مکہ ہی ہے کیونکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ اگر فتح مکہ کی غرض سے تمہیں لڑائیاں کرنی پڑیں تو گھبرانا نہیں کیونکہ اس میں تمہاری زندگی ہے اور جو لوگ مارے جائیں ان کو مردہ مت کہو۔ کیونکہ وہ زندہ ہیں اور جو لوگ اپنی نادانی سے اُن کو مردہ کہتے ہیں ان کے نفس میں اتنی حِس ہی نہیں کہ وہ اس کی اہمیت کو محسوس کریں اس میں ان معترضین کا بھی جواب ہے جو کہتے ہیں کہ لڑائیوں کی اور اپنی جانوں کو قربان کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو فرماتا ہے کہ تمہاری آنکھیں اس بینائی سے جو اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو عطا کی ہے محروم ہیں۔ تم کو کیا معلوم کہ اسلام کی فتح کی بنیاد انہی لوگوں کے ہاتھ سے رکھی جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں مارے جاتے ہیں ہاں مارے جانے والے اس کو خوب سمجھتے ہیں کہ ہمارے شہید ہونے سے اسلام کو کیا فائدہ ہو گا۔ چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک فعہ حضرت جابربن عبداللہ کو دیکھا کہ وہ بہت افسردہ اور غمگین کھڑے ہیں۔ آپ نے فرمایا تم کیوں غمگین ہو۔ انہوں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ ! میرے والد اُحد کی جنگ میں مارے گئے ہیں اور انہوں نے اپنے پیچھے بہت بڑا عیال اور قرضہ چھوڑا ہے اس لئے میں افسردہ ہوں ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا۔ کیا میں تمہیں خوشخبری نہ دوں کہ موت کے بعد تمہارے والد کے ساتھ کیا معاملہ ہوا۔ وہ خداتعالیٰ کے سامنے جب زندہ ہو کر حاضر ہوئے توا للہ تعالیٰ نے ان سے خو ش ہو کر بالمشافہ کلام کیا اور فرمایا۔ اے مریے بندے تو مجھ سے جو کچھ مانگنا چاہتا ہے مانگ میں تجھے دوںگا۔ انہوں نے عرض کیا حضور میری صرف اتنی ہی خواہش ہے کہ میں پھر زندہ ہو کر دنیا میں جائوں اور ااپ کیر اہ میں مارا جائوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں ایسا کر تو سکتا ہوں مگر میں یہ قانون بنا چکا ہوں کہ جو ایک دفعہ مر جائے اس کو دنیا میں واپس نہیں بھیجوں گا۔
(ترمذی جلد ۳ ابواب التفسیر سورہ آل عمران) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو سچا ایمان لاتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ہمارا مرنا قوم کو زندہ کرنے کا موجب ہو گا اور آخرت میں بھی ہمارے لئے بہت بڑا ثواب کا موجب ہو گا اس لئے وہ موت کو کوئی خوف والی چیز نہیں سمجھتے۔ وہ خداتعالیٰ کی رہ میں جان دے کر بھی زندہ ہوتے ہیں اور جانیں نہ دینے والے زندہ رہ کر بھی مردہ ہوتے ہیں۔چنانچہ ڈپٹی عبداللہ آتھم کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو انذاری پیشگوئی فرمائی تھی جب اس کی میعاد گذر گئی اور آتھم نہ مرا تو ظاہربین لوگوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ مرزا صاحب کی پیشگوئی جھوٹی نکلی۔ ایک دفعہ نواب صاحب بہاولپور کے دربار میں بھی بعض لوگوں نے ہنسی اڑانی شروع کر دی کہ مرزا صاحب کی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی اور آتھم ابی تک زندہ ہے اُس وقت دربار میں خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں والے بھی بیٹھے ہوئے تھے جن کے نواب صاحب مرید تھے۔باتوںباتوں میں نواب صاحب سے مونہہ سے بھی یہ فقرہ نکل گیا کہ ہاں! مرزا صاحب کی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی۔ اس پر خواجہ غلام فریم صاحب جوش میں آگئے۔ اور انہوں نے بڑے جلال سے فرمایا کہ کون کہتا ہے کہ آتھم زندہ ہے مجھے تو اس کی لاش نظر آرہی ہے اس پر نواب صاحب خاموش ہو گئے توبعض لوگوں ایسے بھی ہوتے ہیں جو بظاہر زندہ معلوم ہوتے ہیں لیکن حقیقتاً مردہ ہوتے ہیں۔ اور بعض مردہ نظر آتے ہیں لیکن حقیقتاً زندہ ہوتے ہیں۔ اور جو لوگ زندہ ہوتیہ یں ان میں سے ہزاروں روحانی نگاہ رکھنے والوں کو مرادہ دکھائی دیتے ہیں۔ کسی بزرگ کے متعلق لکھا ہے کہ وہ قبرستان میں رہتے تھے ایک دفعہ کسی نے ان سے کہا کہ آپ زندوں کو چھوڑ کر قبرستان میں کیوں آگئے ہیں۔ پس رُوحانی مردوں اور رُوحانی زندوں کو پہچاننا ہر ایک کا کام نہیں۔ مگر اس جگہ اللہ تعالیٰ نے ایک ظاہری علامت ایسی بتا دی ہے جس سے روحانی مردوں اور زندوں کو پہچاننے میں بڑی حد تک آسانی ہوتی ہے۔
وَلٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ۔ شعور وہ علم ہوتا ہے جو انسان کے اندر کی طرف سے باہر کو آتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص کسی دوسرے سے کوئی بات سن کر ایک نتیجہ قائم کرے تو وہ شعور نہیں کہلائیگا۔ وہ یہ نہیں کہہ سکیگا کہ میں نے شعور حاصل کر لیا۔ بلکہ یہ کہگا کہ مجھے علم ہو گیا۔ لیکن اگر اس کے نفس کے اندر سے وہ بات پیدا ہو تو وہ کہگا مجھے فلاں بات کا شعور ہوا۔ چنانچہ جب ایک بچہ بالغ ہو جاتا ہے تو کہتے ہیں کہوہ شعور کی عمر تک پہنچ گیا حالانکہ اس کو علم پہلے بھی حاصل ہوتا ہے بالوں کو شعار اسی لئے کہتے ہیں وہ اندر سے باہر کی طرف آتے ہین اور شعار لباس کو کہتے ہیں جو جسم کے ساتھ چمٹا ہوا ہوتا ہے اور شعر کو بھی اس لئے شعر کہتے ہیں کہ اس کے الفاظ اندر سے باہر آتے ہیں اور اس کا مضمون ایسا ہوتا ہے جو انسان کے اندرونی احساسات کا ترجمان ہوتا ہے اور اُسے پڑھ کر انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ یہ بات تو میرے اندر بھی پائی جاتی ہے۔ چنانچہ غالب اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ۔ ؎
دیکھنا تقریر کی لذت کہ ج اُس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ یہ باتیں کہ شہداء کو ایک اعلیٰ درجہ کی حیات حاصل ہے۔ یا ایک ایک شہید کی جگہ لینے کیلئے پچا پچاس ور سو سو آدمی آئیں گے یا دو رنج و غم سے کلی طور پرآزاد ہیں۔ یا ان کے خون رائیگاں نہیں جائیں گے انسانی شعور سے تعلق رکھتی ہیں اگر کوئی شخص فطرتِ صحیحہ پر غور کرنے کا عادی ہو تو وہ سمجھ سکتا ہے کہ اس دنیا میں کوئی چیز بھی قربانی کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔ ماں جب تک اپنی جان کی قربانی پیش نہیں کرتی اُسے بچہ حاصل نہیں ہوتا۔ دانہ جب تک خاک میں مل کر اپنی جان کو نہیں کھوتا وہ ایک سے ساتھ سو دانوں میں تبدیل نہیں ہوتا۔ اسی طرح کوئی قوم زندہ نہیں ہو سکتی جب تک اس کے افراد جانوں کو ایک بے حقیقت شیٗ سمجھ کر اُسے قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار نہ ہوں اور کوئی قوم زندہ نہیں رہ سکتی جب تک اس کے افراد کے دلوں میں اپنے شہداء کا پورا احترام نہ ہو۔ یہ ایک فطرتی آواز ہے جو شعور کے کانوں سے سنی جا سکتی ہے مگر جن لوگوں کو شعور حاصل نہیں۔ وہ بات بات پر اعتراض کرتے رہتے ہیں اور جب بھی کسی مالی یا جانی قربانی کا مطالبہ کیا جائے ان کے قدم لڑکھڑانے لگ جاتے ہیں۔ اور وہ ان لوگوں کو بیوقوف سمجھتے جو اپنے آپ کو قربانیوں کی آگ میں جھونکنے کے لئے آگے نکل آتے ہیں اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو نصیحت کرتا ہے کہ تم اپنے شعور سے کام لو اور شہدا ء کو مردہ کہہ کر ان کی بے حرمتی مت کرو۔ وہ مردہ نہیں بلکہ حقیقتاً وہی زندہ ہیں۔ کیونکہ تاریخ ان
وَلَنَبْلُوَ نَّکُمْ
وَبَشِّرِالصّٰبِرِیْنَo
کے نام کو زندہ رکھی گی اور آئندہ آنے والی نسلیں انہیں کے نقشِ قدم پر چلیں گی اور ان کے کارناموں کو یاد رکھیں گی اورہمیشہ ان کی بلندی درجات اور مغرفرت کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دُعائیں کرتی رہیں گی۔ تم اُسے زندہ سمجھتے ہو جو جسد عنصری کے ساتھ زندہ ہو حالانکہ زندہ وہ ہے جس نے مرکر اپنی قوم کو زندہ کر دیا اگر تمہیں شہداء بھی مردہ نظر آتے ہیں تو اس کے معنے یہ ہیں کہ تمہارا شعور ناقص ہے تم اس کی اصلاح کرو اور زندگی اور موت کے سلسلہ کو سمجھنے کی کوشش کرو۔
۷۰؎ حل لغات:۔ وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ: بَلَا ء’‘ کسی کے خیر اور شر کے ظاہر کرنے کو کہتے ہیں اور یہ ظاہر کرنا تین اگراض کے لئے ہوتا ہے۔ اول اپنا علم بڑھانے کے لئے جیسے اُستاد اپنے شاگرد کا اس غرض کے لئے امتحان لیتا ہے کہ اُسے معلوم ہو کہ طالب علم نے اپنا سبق یاد کیا ہے یا نہیں۔ دوم اس لئے کہ جس کو ابتلاء میں ڈالا گیا ہے اس کو معلوم ہو جائے کہ اس کی کیسی حالت ہے کیونکہ عام لوگ خود بھی نہیں جانتے کہ جلاں بات ہم میں ہے یا نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ ایک جگہ منافقوں کے متعلق فرماتا ہے وَمَایَخْدَعُوْنَ اِلَّا اَنْفُسَھُمْ وَمَا یَشْعُرُوْنَ(بقرۃ ع۲)یعنی منافق فسادی ہیں مگر وہ اس امر کو سمجھتے نہیں کہ ہم فساد کر رہے ہیں۔ سوم۔ اس لئے کہ دوسروں کو معلوم ہو جائے کہ اس شخص کی ایمانی حالت کیسی ہے۔ یہ مثال اعلیٰ درجہ کے لوگوں کی ہوتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم ؑسے سوال کیا تو اس کی غرض یہ تھی کہ فرشتوں کو معلوم ہو کہ آدم ؑ میں کیا کیا طاقتیں ہیں۔ خدا تعالیٰ چونکہ غلیم و خبیر ہے ۔ اس لئے جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے متعلق استعمال ہوتا ہے تو پچھلے دو مونوں میں استعمال ہوتا ہے۔ نہ کہ پہلے ہیں اگر ابتلاء نہ آئے تو انسان ایمان میں ترقی نہ کر سکے۔ اور اسے معلوم ہی نہ ہو کہ اس کے ایمان کی کیا حالت ہے۔(مزید تشریح کے لئے دیکھیں حل لغات سورۃ بقرہ۵۰؎)
ثَمَرات: اس کے معنے پھلوں کے بھی ہوتے ہیں اور کوششوں کے نتائج کے بھی۔
وَبَشِّرِالصّٰبِرِیِنْ: بشارت ایسی خبر کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے چہرہ پر اثر پڑے۔ خواہ وہ خوشی کی خبر ہو یا غم کی۔
تفسیر:۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے پانچ قسم کے ابتلائوں کا ذکر فرمایا ہے اور کہا ہے کہ ہم اپنی ذات کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ تم ان ابتلائوں میں سے گذرے بغیر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں کر سکتے۔ ایک ابتلاء تو یہ ہو گا کہ دشمنوں کے حملوں کا خوف تمہیں لاحق ہو گا۔ ساری قومیں تمہارے خلاف کھڑی ہو جائیں گی۔ اور تم یہ حملہ کریں گی۔ حکومتیں تم سے ناراض ہو جائیں گی۔ اور تمہیں مٹانے کی کوشش کرینگی۔ یہ چیزیں ایسی ہیں جن سے بزدل لوگ ڈر جاتے ہیں اور کہتے ہیں خدا جانے اب کیا ہو گا اور بہت سے لوگوں کے حوصلے اس خوف کی وجہ سے پست ہو جاتے ہیں ان کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں اور وہ یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ پبلک اور حکومت نے ہمارے خلاف جتھہ بنا لیا ہے یا پنچائت نے ہمارے خلاف فیصلہ کر دیا ہے۔
پھر اس سے ترقی ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ بھوک کے ذریعے مومنوں کے ثباتِ قسم کا امتحان لیتا ہے۔ بھوک کی تکلیف سے یہ مراد ہے کہ جب خداتعلایٰ کے مامور کی آواز پر ایک گروہ جمع ہو جاتا ہے تو لوگ ان کا بئیکاٹ کر دیتے ہیں۔ ملازمتوں سے برخواست کر دیتے ہیں۔ دوکانوں سے سودا نہیں دیتے۔ پیشہ وروں سے کام لینا بند کر دیتے ہیں گویا پہلے تو صرف دھمکیاں دیتے ہیں جن کی وجہ سے خوف لاحق ہوتا ہے کہ وہ کہیں نقصان نہ پہنچادیںمگر دوسرے قدم پر وہ عملی رنگ میںبھوک اور افلاس کے سامان پیدا کر دیتے ہیں مثلاً یہ کہ ان کو کوئی سودا نہیں دینا۔ ان کے پاس غلہ نہیں بیچنا جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب شعب ابی طالب میں محصور کر دیا گیا تو ہر قسم کے کھانے پینے کی چیزیں روک لی گئیں اور یہ بائیکاٹ کا سلسلہ ایک لمبے عرصے تک جاری رہا۔
پھر فرماتا ہے کہ ان مصائب کا سلسلہ یہیں تک محدود نہیں رہے گا بلکہ تمہارے مالوں کا لوٹنا بھی جائز قرار دے دیا جائیگا۔ گویا پہلے تو اپنے پاس سے مال واسباب اور سودا اور غلہ وغیرہ دینا بند کیا جائیگا اور پھر مومنوں کے پس جو کچھ اندوختہ ہو گا اُسے بھی لوٹنا جائز قرار دے دیا جائیگا۔ لیکن جب اس سے بھی کچھ نہیں بنتا تو پھر وہ مومنوں کی جانوں پر حملہ شروع کر دیتے ہیں۔لیکن جب وہ جان دینے سے بھی باز نہیں آتے تو ان کی اولادوں پر حملے کرنے لگ جاتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے ہمارے سالانہ جلسہ کے موقعہ پر بعض خبیث الطبع لوگ ایسے بھی آتے ہیں جو احمدیوں کے بچے اُٹھا کر لے جانے کی کوشش کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہا س ذریعہ سے جماعت کو دکھ پہنچائیں اسی طرح ثمرات کے نقصان سے یہ بھی مراد ہے کہ دشمن ان کی کوششوں میں رخنہ ڈالیں گے اور انہیں مکٹلف قسم کے منافع سے محروم کرنے کی کوشش کریں گے۔
یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ ادنیٰ درجہ کے مومنوں پر جو ابتلاء آتے ہیں وہ تو اس لئے آتے ہیں کہ انہیں معلوم ہو جائے کہ ان کی ایمانی حالت کیسی ہے۔ اور جو اعلیٰ درجہ کے مومنوں پر آتے ہیں وہ اس لئے آتے ہیں کہ دوسروں کو معلوم ہو جائے کہ ان کی کیا حالت ہے۔ عام طور پر لوگ اپنے متعلق خیال کرتے ہیں کہ انہیں ایمان میں ثباتِ قدم حاصل ہے مگر موقعہ آنے پر ان سے کزوری ظاہر ہو جاتی ہے اور ان کو معلوم ہو جاتا ہے کہ ہمارے اندر یہ یہ کمزوری ہے اور وہ اس کو دور کرنے کی وشش کرتے ہیں پھر ابتلاء آتا ہے تو انکو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے اندر فلاں نقص بھی موجود ہے اور وہ اُسے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں پھر ابتلاء آتا ہے تو ان کو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے اندر فلاں نقص بھی موجود ہے اور و ہ اُسے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح رفتہ رفتہ وہ کمال کو پہنچ جاتے ہیں۔ لیکن اعلیٰ درجہ کے لوگوں پر اس لئے ابتلاء لائے جاتے ہیں تاکہ دوسروں کو معلوم ہو جائے کہ یہ کیسے اعلیٰ مقام پر پہنچے ہوئے ہیں کہ کوئی مصیبت ان کے پائے ثبات میں لغزش پیدا نہیں کرتی۔ غرض بتایا کہ ہم تمہارے اندرونہ کو ظاہر کرنے کے لئے پانچ قسم کے ابتلاء تم پر وارد کرینگے۔ جن میں سے ایک خوف ہو گا جو بیرونی دکھ کا نام ہے دوسرا ابتلاء بھوک کا ہو گا۔ جو اندرونی تکلیف ہے۔گویا بعض کوبیرونی دکھوں اور تکالیف کے ذریعہ اور بعض کو اندرونی تکلیفوں کے ذریعہ سے ہم آزمائیں گے۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو لڑائی کے لئے تو تیار ہو جاتے ہیں مگر بھوک کو برداشت نہیں کر سکتے۔ فوجوں میں سپاہی لڑتے ہیں مگر چونکہ وہ بھوک کو برداشت نہیں کر سکتے۔ اس لئے انہیں چنے وغیرہ دیئے جاتے ہیں۔ مگر مومن کی یہ حالت نہیں ہوتی وہ خدا کے لئے بھوکا رہنے کو بھی تیار ہو جاتا ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ صحابہؓ کو باہر بھیجا تو ان میں سے کسی نے بھی یہ نہ پوچھا کہ ہم کھائینگے کیا۔ چنانچہ وہ پتے کھا کر گذارہ کرتے تھے۔ اسی طرح ایک دفعہ انہوں نے کھجوروں کی گٹھلیاں کھا کر گذارہ کیا۔ پس فرمایا ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ تم بہادر ہو یا نہیں اور یہ بھی کہ تم بھوک برداشت کرتے ہو یا نہیں۔
الَّذِیْنَ اِذَآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَo
پھر بعض لوگ بھوک اور خوف تو برداشت کر لیتے ہیں مگر مال کے خطرہ کو برداشت نہیں کر سکتے بعض مال کے خطرہ کو برداشت کر لیتے ہیں مگر جان کے خطرہ کو برداشت نہیں کر سکتے۔ پس فرماتا ہے تمہیں مالی اور جانی نقصانات بھی برداشت کرنے پڑیں گے اور بعض دفعہ اپنی کوششوں کے نتائج سے بھی محروم رہنا پڑیگا۔ ثمرات کے کم ہونے کی مثال اُحد کی جنگ ہے کہ ہو کفار سے لڑے بھی اور شہید بھی ہوئے مگر انہیں اس کا ثمرہ نہ ملا۔ اسی طرح ثمرات کے نقصان میں تجارت اور صنعت و حرفت وغیرہ کی بربادی بھی شامل ہے۔ جو جنگ کا ایک لازمی نتیجہ ہوتی ہے غرض بتایا کہ بعض دفعہ ایسا بھی ہو گا کہ تم کام کرو گے مگر اس کے فوائد تمہاری امیدوں کے مطابق نہیں نکلیںگے۔ مگر فرمایا وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ۔ وہ لوگ جو ان تمام ابتلائوں کو برداشت کرلیں گے اور ایمان پر مضبوطی سے قائم رہیں گے۔ ان کو کوئی ڈر نہیں۔ وہ کہتے ہیں لوگ ہمیں ڈراتے ہیں تو بے شک ڈرائیں۔ اگر ہمارا مقاطعہ کرتے ہیں تو بے شک کریں۔ اگر وہ ہمیں سودا سلف نہیںدیتے تو بے شک نہ دیںہم تو خداتعالیٰ کے رستے میں قربانیوں کرتے چلے جائیں گے۔ اسی طرح اگر وہ ہمارے مال لوٹنے پر آئے ہیں تو بے شک لوٹ لیں اور پھر جب وہ ان کی جانوں پر حملہ کرنا چاہتے ہیں توکہتے ہیں کہ تم ہمیں قتل کر کے ان کی تباہی کا سامان پیدا کرنا چاہتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اچھا تم یہ کام بھی کر کے دیکھ لو۔ ہمیں تمہارے ان کاموں کی بھی پروا نہیں۔ غرض ابتداء سے انتہا تک وہ ان کے ہر حملہ کے مقابلہ میں قائم رہتے ہیں اور یہی کہتے رہتے ہیں کہ جو کچھ تمہاری مرضی ہے کر کے دیکھ لو۔ تم ہمیں صداقت سے منحرف نہیں کر سکتے۔ جب وہ پانچوں قسم کے ابتلائوں سے پیچھے نہیں ہٹتے بلکہ ان میں ثابت قدم رہتے ہیں اور استقلال سے ان کو برداشت کرتے ہیں تو اللہ تعالیی انہیں بشارت دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ مبارک ہو تمہارے ایمان کی پختگی ثابت ہو گی۔ تم امتحان میں پاس ہو گئے اب تم اگلی جماعت کی تیاری کرو۔
اس آیت سے بھی پتہ لگتا ہے کہ مِنْ حِیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ میں قبلہ کی طرف منہ کرنے کا ذکر نہ تھا بلکہ فتح مکہ کا ذکر تھا۔ ورنہ قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے والوں کے ساتھ مارے جانے اور ان ابتلائوں میں پڑنے کا کیا تعلق تھا۔ اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ اس آیت میں یہی حکم دیا گیا تھا کہ تم نے مکہ فتح کرنا ہے۔ مگر وَلَنَبْلَُ نَّکُمْ بِشَیْ ئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ میں بتایا کہ کام آسانی سے نہیں ہو گا بلکہ تمہیں سخت تکالیف میں سے گذرنا ہو گا۔لیکن یہ تکالیف تمہارے لئے بہتر ہو نگی کیونکہ ان سے تمہارے ایمانوں کی پختگی ظاہر ہو جائیگی۔
۷۱؎ حل لغات:۔مُصِیْبَۃ’‘۔ ہمارے ملک میں مصیبت ان تکلیف دہ واقعات کو کہتے ہیں جو انسان کو پیش آتے ہیں۔ لیکن عربی زبان میں مصیبت ایسی چیز کو کہتے ہیں جو انسان کو بہر حال پہنچنے والی ہو۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان مشکلات سے بھاگتا اور ناپسندیدہ باتوں سے کنارہ کشی کرتا ہے۔ اور جو چیزیں اس کی خوشی اور مسرت کا باعث ہوتی ہیں اُن کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے پس جس چیز کی طرف انسان خود بخود جائے وہ پہنچنے والی نہیں کہلاسکتی۔لیکن جس سے انسان بھاگے اور وہ اُسے پکڑلے وہ پہنچنے والی کہلاتی ہے۔ اور چونکہ مصیبت سے ہر انسان بھاگنے کی کوشش کرتا ہے لیکن پھر بھی کوئی نہ کوئی مصیبت اسے آچمٹتی ہے۔ اس لئے عربی زبان میں ایسی چیز کو جو انسان کا پیچھا نہ چھوڑے اور اس کے پاس پہنچ کر رہے مصیبت کہتے ہیں۔ لیکن اُردو میں خالص اس کے وہی معنے رہ گئے ہیں جو عربی میں ضمنی تھے اور مصیبت صرف اس بات کو کہتے ہیں جو تکلیف دہ ہو۔
تفسیر:۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب مومن کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ جزع فزع کرنے کی بجائے پورے یقین اور ایمان کے ساتھ یہ کہتا ہے کہ ہم تو اللہ ہی کے ہیں اُسی کی طرف ہم لوٹنے والے ہیں۔ یہ وہ نمونہ ہے جس کی اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں سے امید رکھتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ جب انہیں کوئی تکلیف پہنچے تو وہ گھبرانے اور جزع فزع کرنے کی بجائے خداتعالیٰ پر توکل رکھیں اور اُسی کو حاضر ناظر سمجھتے ہوئے سچے دل سے یہ کہیں کہ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔ بظاہر یہ ایک چھوٹا سا فقرہ ہے مگر اپنے اندر نہایت وسیع مطالب رکھتا ہے۔
(۱) اس فقرے میں دو جملے ہیں۔ ایک تو اِنَّا لِلّٰہِہے یعنی ہم اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں۔ اور دوسراوَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَہے۔ یعنی ہم اُسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ پہلا جملہ اس مضمون پر دلالت کرتا ہے کہ کوئی مالک اپنی چیز کو اپنے ہاتھوں تباہ نہیں کرتا بلکہ اسے محفوظ رکھنے کو کوشش کرتا ہے وہ مالک برا ہی بیوقوف ہوگا جو اپنی چیز کو آپ تباہ کرنے کی کوشش کرے۔ پس اگر بندہ محض خدا کا ہو جائے اور اُسی کو اپنا حقیقی مالک سمجھے تو اس کے دل میں یہ وہم بھی نہیں آسکتا ہے کہ وہ چیز جو اللہ تعالیٰ نے مجھ سے واپس لے لی ہے۔ یا وہ مصائب جو مجھ پر نازل ہو رہے ہیں ان میں میری تباہی اور بربادی مقصود ہے۔ جو مومن یہ یقین رکھتا ہے کہ میں اللہ کا ہوں اور جس طرح ماں اپنے بچہ کو گود میں رکھتی ہے اسی طرح خداتعالیٰ نے بھی مجھے اپنی گود میں اٹھایا ہوا ہے وہ یہ تصور بھی کس طرح کر سکتا ہے کہ میں تباہ ہو جاونگا۔ اور میری تکلیف مجھ سے دور نہیں کی جائیں گی۔ محافظ کا تو فرض ہوتا ہے کہ وہ دوسرے کو ہر نقصان سے بچائے پھر اللہ تعالیٰ جوتمام محافظوں سے بڑا محافظ ہے کب کسی مومن کو تباہ کر سکتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ جب کوئی چیز اپنے بندے سے واپس لیتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ اس چیز کو تباہ کرنا چاہتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ اسے پہلے سے زیادہ بہتر جگہ میں رکھتا ہے۔ اس کی مثال باکل ایسی ہی ہے جیسے عورتیں انے گھروں کی صفائی کرتے وقت سامان وغیرہ کو ایک جگہ سے اُٹھا کر دوسری جگہ رکھ دیتی ہیں تم کبھی نہیں دیکھو گے کہ عورتیں اپنی چیزوں کو اِدھر اُدھر رکھیں تو وہ رونے لگ جائیں۔ یا مثلاً زمیندار کھیت میں بیج ڈالتا ہے تو بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے بیج کو ضائر کر رہا ہے مگر وہ روتا نہیں اس لئے کہ اس کا نتیجہ تباہی نہیں بلکہ ترقی ہوتا ہے۔ چنانچہ وہی بیج جب کچھ عرصلہ کے بعد اُسے لہلہاتے ہوئے کھیتوں کی شکل میں واپس ملتا ہے اتو اس کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح بندہ اگر یقین رکھے کہ اللہ تعالیٰ جو کچھ کریگا اُس میں میری بہتری ہو گی تو کبھی بھی جزع فزع اور بے صبری کا اظہار نہ کرے۔ جب انسان ایک خوبصورت عمارت بناتا اور پہلی عمارت کو توڑتا پھوڑتا ہے تو اُس پر روتا نہیں۔ بلکہ خوش ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر کپڑے کا دل اور اس کی آنکھیں ہوتیں تو جب درزی اُسے کاٹتا تو وہ رونے کی بجائے خوش ہوتا کہ یہ مجھے اچھا بنانے لگا ہے۔ یہی حال انسان کا ہے اگر انسان یہ یقین رکھے کہ خداتعالیٰ میرا مالک ہے اور وہ جو تبدیلی بھی کریگا میرے فائدے کے لئے کریگا تو وہ جزع فزع نہیں کر سکتا۔ ہاں غم کا اظہار کرنا صبر کے خلاف نہیں ہوتا۔ شادی کے وقت لڑکیاں اپنے گھروں کو رخصت ہوتی ہیں تو ماں باپ رونے لگ جاتے ہیں مگر یہ جزع فزع نہیں کہلاتا۔ کیونکہ غم درحقیقت ایک قدرتی احسا س ہے۔ جو مصیبت کے وقت ہر انسان کے اندر پیدا ہو جاتا ہے۔ اور اس کی علامت دل پر بوجھ ہونا اور آنکھوں میں آنسو آجانا ہے لیکن جزع فزع کرنے والا اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ خدا نے اُسے تباہ کر دیا ہے اور یہ چیز مومنانہ توکل اور ایمان کے بالکل خلاف ہے۔ پس اَنَّا لِلّٰہِ یہ بتاتا گیا ہے کہ مصیبت یا ابتلاء کے آنے پر کافر تو یہ سمجھتا ہے کہ میں مارا گیا لیکن مومن یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بلا میں بھی میرے لئے کوئی خیر اور برکت کا پہلو پوشیدہ رکھا ہو گا۔
(۲) اِنَّا لِلّٰہِ کے دوسرے معنے یہ ہیں کہ مومن کو جب کوئی نقصان پہنچتا ہے تو وہ جھٹ کہتا ہے کہ میرا تو اس چیز کے ساتھ صرف ایک عارضی تعلق تھا اصل تعلق تو خدا تعالیٰ کے ساتھ ہے اور اُسی کی کاطر اس چیز سے بھی میرا تعلق تھا اب اگر اُس نے اپنی کسی حکمت کے باعث یہ چاہا ہے کہ میرا اس چیز سے تعلق ٹوٹ جائے تو میں اس کے فعل پر کیوں اعتراض کروں۔ اس کی مثال حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی زندگی میں بھی ملتی ہے۔ ہمارا چھوٹا بھائی مبارک احمد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی فوت ہو گیا تھا۔ ماںباپ کو عموماً چھوٹے بچے بہت پیارے ہوتے ہیں اس لحاظ سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو اس سے بہت اُنس تھا اور پھر اس لئے بھی آپ اس سے زیادہ پیار کرتے تھے کہ وہ عموماً بیمار رہتا تھا۔ میری عمر جب وہ فوت ہوا اٹھاراہ سال کے قریب تھی اس کی آخری بیماری کے ایام میں اس کا علاج کرنے میں بہت سے معالج مصروف تھے مثلا حضرت خلیفہ المسیح اول رضی اللہ عنہ۔ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس روز صبح کی نماز پڑھ کر گھر آئے تو ساتھ ہی حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ اور ڈاکٹر صاحبان بھی آگئے۔ اس وقت اسے ضعف کی شکایت تھی۔ لیکن چہرہ سے اچھی حالت معلوم ہوتی تھی ڈاکٹروں نے اُسے دیکھ کر کہا کہ اب افاقہ معلوم ہوتا ہے۔ اور وہ مطمئن ہو گئے لیکن حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ چونکہ زیادہ تجربہ کار تھے اس لئے آپ نے فوراً معلوم کر لیا کہ بچہ کی حالت نازک ہے۔ انہو ں نے گھبرا کر فوراً نبض دیکھنی شروع کر دی۔ لیکن نبض کی حرکت معلوم نہ ہوئی۔ کیونکہ جوں جوں انسان موت کے قریب ہوتا جاتا ہے اس کی نبض پیچھے ہٹنی شروع ہو جاتی ہے۔ پھر آپ نے اس کی بغل میں ہاتھ رکھا وہاں بھی نبض نہ ملی ۔ جب حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ نبض نہیںملتی تو آپ نے گھبرا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ حضور جلدی مشک دیجیئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٹرنک میں سے مشک نکلالنے کے لئے تشریف لے گئے تو چونکہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بہت زیادہ محبت تھی اور آپ کو یہ بھی معلوم تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبارک احمد سے بہت پیار رکھتے ہیں اس لئے آپ نے جب دیکھا کہ مبارک احمد فوت ہو رہا ہے تو آپ کو اتنی گھبراہٹ ہوئی کہ آپ کھڑے بھی نہ رہ سکے ۔زمین پر بیٹھ گئے اور فرمایا حضور جلدی سے مشک لائیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس فقرہ سے سمجھ گئے کہ بچے کی حالت اچھی نہیں اور ویسے ہی بغیر مشک لئے واپس آگئے۔ اور فرمایا کیا بچہ فوت ہو گیا ہے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ ہاں حضور فوت ہو گیا ہے۔ آپ نے فوراً اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنپڑھا۔ اور بجائے کسی گھبراہٹ کا اظہار کرنے کے باہر کے احمدیوں کو خط لکھنے شروع کر دیئے کہ مومنوں پر ابتلاء آیا ہی کرتے ہیں۔ ان سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ بلکہ اپنے ایمان کو پختہ رکھنا چاہیے اور پھر لکھاکہ مبارک احمد کی وفات کے متعلق تو اللہ تعالیٰ نے پہلے سے مجھے خبر دے دی تھی کہ یہ چھوٹی عمر میں ہی اُٹھا لیا جائیگا۔ پس اس کے فوت ہونے سے خداتعالیٰ کی پیشگوئی پوری ہو گئی۔ پھر آپ نے اس کے کتبہ کے لئے جو اشعار لکھے۔ اُن میں سے ایک یہ بھی مصرع ہے کہ ع
بُلانے والا ہے سب سے پیارا اُسی پہ اے دل تو جان فد اکر
یہ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْن کا ہی ایک رنگ میں مفہوم رکھتاہے۔ غرض مومن کو جب کوئی نقصان پہنچتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرا تو کدا سے تعلق ہے اگر میرے کسی عزیز کو خداتعالیٰ نے اپنے پاس بُلا لینا مناسب سمجھا ہے تو مجھے اس پر کیا شکوہ ہو سکتا ہے اُسی کی چیز تھی اور وہی بلانے کا حق دار تھا پس۔ اِنَّا لِلّٰہِکے ایک تو یہ معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں تباہ نہیں کریگا اور دوسرے معنے یہ ہیں کہ ہمارا خدا راضی ہے اس میں ہم بھی راضی ہیں۔
(۳) تیسری بات جو قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے اَنَا لِلّٰہِ نہیں فرمایا بلکہ اِنَّا لِلّٰہِ فرمایا ہے تاکہ یہ اقرار صرف انفرادی رنگ میں نہ ہو بلکہ ہر انسان علیٰ وجہ البصیرت اس یقین پر قائم ہو کہ دنیا کی ہر چیز خدا تعالیٰ کی ہے اور ہمارا ان سے محض عارضی تعلق ہے۔ پس نہ صرف مجھے بلکہ دنیا کے کسی انسان کوبھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ خداتعالیٰ کے کسی فعل پر اعتراض کرے یا اس کی کسی تلخ قاش پر اپنا مونہہ بنانا شروع کر دے میثنوی رومی میں حضرت لقمانؓ کے متعلق جن کو بعض لوگ نبی بھی سمجھتے ہیں ایک واقعہ لکھا ہے کہ ہو ابھی چھوٹے ہی تھے کہ انہیں کسی نے ان کے والدین کی وفات کی وجہ سے غلام بنا لیا اور ایک تاجر کے پاس بیچ دیا۔ اس تاجر نے انہیں ذہین اور ہوشیار سمجھ کر ان سے غلاموں والا سلوک ترک کر دیا اور ان سے محبت کرنے لگا۔ ایک دن کسی نے اس کو تحفۃً ایک خربوزہ پیش کیا جو بظاہر بہت اچھا تھا۔ اس نے ایک قاش کاٹ کر حضرت لقمان کو دی۔ حضرت لقمان نے پھر مزے لے لے کر کھائی ۔ حتی کہ تاجر نے یہ سمجھ کر کہ یہ بڑا میٹھا خربوزہ ہے ایک قاش خود بھی چھکی تو اسے معلوم ہوا کہ نہایت کڑوا خربوزہ ہے۔ اس پر وہ حضرت لقمان کو خفا ہا کہ تم نے بتایا کیوںنہیں۔ اگر تم بتا تے تو میں تمہیں اور کڑوی قاشیں نہ کھلاتا۔ حضرت لقمان نے کہا کہ جس ہاتھ سے اتنی میٹھی قاشیں میں کھائی ہوئی تھیں کیا میں اتنا ہی بے شرم تھا کہ اس کی ایک دو قاشوں کو کڑوی سمجھ کر رد کر دیتا۔ تواِنَّالِلّٰہِ کا بھی یہی مفہوم ہے۔کہ وہ خدا جس نے ہمیں اتنی بڑی نعمتیں عطا کی ہوئی ہیں اگر اس نے کسی حکمت کے ماتحت ایک نعمت واپس لے لی ہے یا ہزاروں خوشیوں کے ہوتے ہوئے ایک مصیبت ہم پر آگئی ہے تو کیا ہوا سب کچھ تو اسی کا دیا ہوا ہے۔ اگر وہ اپنی مرضی سے ایک چیز واپس لے لیتا ہے تو اس پر جزع فزع کرنے سے زیادہ اور کیا حماقت ہو سکتی ہے۔
(۴) چوتھے معنے جو اس سے زیادہ اعلیٰ اور مومن کے مقام کے مطابق ہیں وہ یہ ہیں کہ نہ صرف سب کی سب نعمتیں اُسی کی ہیں اور وہی اس کا حقیقی مالک ہے اگر ایک نعمت اس نے واپس لے لی تو کیا ہوا۔ بلکہ ہمارے پاس جو کچھ باقی ہے اگر وہ بھی ہم سے لے لینا چاہے تو ہم باقی چیزیں بھی اس کی راہ میں دینے کے لئے تیار ہیں۔چنانچہ صحابہؓ کرم میں اس کی بہت سے مثالیں ملتی ہیں۔ حضر ت عثمان بن مظعونؓ ایک بڑے مخلص صحابی تھے اور مکی زندگی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان سے اتنی محبت تھی کہ ان کی وفات کے بعد جب آپؐ کے بیٹے حضرت ابراہیم ؓ فوت ہوئے تو آپؓ نے انہیں فرمایا کہ جا اپنے بھائی عثمان بن مظعونؓ کے پاس ۔ گویا ان کو بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا بیٹا قرار دیا۔ وہ کسی رئیس کے بیٹے ان کے والد فوت ہو گئے تو ان کے باپ کے کسی دوست نے ان کو اپنی پناہ میں لے لیا اور اعلان کر دیا کہ یہ میرے بھائی کا بیٹا ہے کوئی شخص اسے تکلیف نہ دے۔ چند دن تو وہ آزاد نہ طور پر پھرتے رہے اور انہیں کسی نے کوئی تکلیف نہ دی لیکن ایک دن انہوں نے دیکھا کہ بعض کمزور مسلمانوں اور غلاموں کو کفار سخت تکلیف دے رہے ہیں اور انہیں تپتی ریت پر لٹا کر دکھ دے رہے ہیں ان سے یہ نظارہ برداشت نہ ہو سکا تو فوراً گھر آکر اُس ریئس سے کہا کہ چچا مہربانی کر کے اپنی پناہ واپس لے لو۔ میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ دوسرے مسلمانوں کو تو لوگ سخت سے سخت سزائیں دیں اور میں مزے سے اِدھراُدھر پھروں۔ چنانچہ اُس ریئس نے اپنی اپنی پناہ کا اعلان منسوخ کر دیا۔ اسی اثناء میں لبید جو ایک بہت بڑا شاعر تھا(اور جو بعد میںمسلمان بھی ہو گیا) وہ مکہ میں آیا اور لوگوں نے اس کے اعزاز میں ایک مجلس مشاعرہ قائم کی۔ حضرت عثمان بن مظعونؓ اور وہ ریئس بھی وہیں تھے اکثر شعراء نے اپنے اپنے شعر پڑھے۔ پھر لبید کی باری آئی تو انہوں نے یہ شعر پڑھا کہ
اَلَا کُلُّ شَیْئٍ مَا خَلَا اللّٰہُ بَاطِل‘
یعنی سُنو! کہ ہر ایک چیز اللہ تعالیٰ کے سوا فنا ہونیوالی ہے ابھی انہوں نے یہ مصرع پڑھا ہی تھا کہ حضرت عثمان بن مظعونؓ بول اُٹھے کہ خوب کہا ٹھیک کہا۔ اس پر لبید کو غصہ آیا کہ کیا میں اتنا ہی حقیر ہوں کہ اس چھوٹے سے بچے کی تصدیق کا محتاج ہوں۔ اور اس نے اہل مجلس کو غیر دلائی کہ یہ کیا بدتہذیبی ہے جو تم لوگوں نے اختیار کر لی ہے کہ ایک بچہ مجھے داد دیتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے حضرت عثمان بن مظعون کو ڈانٹا اور کہا کہ خبردار آئندہ ایسا نہ کرنا۔ اس کے بعد انہوں نے دوسرا مصرع پڑھا ع
وَکُلُّ نَعِیْمٍ لَا مَحَا لَۃَ زَائِل‘
یعنی ہر نعمت ایک دن زائل ہونے والی ہے۔ اس پر حضرت عثمان بن مظعون پرھ بول اُٹھے اور کہنے لگے۔ یہ درست نہیں جنت کی نعمتیں کبھی زائل نہیں ہو نگی۔ لبید کو سخت غصہ آیا اور اس نے پھر لوگوں کو غیرت دلائی کہ تم نے میری بے عزتی کی ہے اب میں کوئی شعر نہیں پڑھوں گا۔ اس پر ایک شخص کو اتنا جوش آیا کہ اس نے اُٹھکر حضر ت عثمان بن مظعون کے منہ پر ایک مکا مارا جس کی وجہ سے ان کی ایک آنکھ نکل گئی۔ ان کے وہ ہمدرد ریئس جنہوں نے ان کو پناہ دے رکھی تھی وہ بھی وہی پاس بیٹھے تھے ۔ چونکہ وہ اتنی طاقت نہیں رکھتے تھے کہ دوسروں کے مقابلہ میں کھڑے ہو سکیں اس لئے انہوں نے حضرت عثمان بن مظعونؓ کو ہی ڈانٹنا شروع کر دیا۔ اور جس طرح کسی غریب عورت کے بچے کو کوئی امیر آدمی کا بچہ مار جائے تو وہ اپنے بچے کو ہی ڈانٹتی ہے اور کہتی ہے کہ تو گھر سے کیوں باہر نکلا تھا۔ اسی طرح انہوں نے بھی حضرت عثمان بن مظعونؓ کو ڈانٹنا شروع کیا کہ تجھے میں نے نہیں کہا تھا کہ میری پناہ سے نہ نکلو۔ اب دیکھا اس کا کیا نتیجہ نکلا۔ اس پر حضرت عثمان بن مظعونؓ نے جواب میں کہا چچا! آپ کو تو میری ایک آنکھ کے نکلنے کا افسوس ہے اور میری تو دوسری آنکھ بھی خداتعالیٰ کے راستے میں نکلنے کے لئے تیار ہے۔ تو حقیقی مومن قربانی سے گھبراتا نہیں بلکہ جب اس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے یا اس کی کوئی قیمتی متاع ضائع ہو جاتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ مرنے والا اور باقی رہنے والے ساب اس کے ہی ہیں۔ پس اگر وہ اللہ کی چیز تھی اورہ م بھی اسی کے ہیں تو اللہ تعالیٰ اگر اپنے ایک غلام کے پاس رکھوائی ہوئی امانت واپس لے گیا تو اسے شکوہ کیا کیا حق ہے۔ میں تو سب کچھ اس کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہوں۔
(۵) مگر یہ پہلا حصہ کچھ استفناء ظاہر کرتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر رحم فرما کر دوسرا حصہ اس کے ساتھ لگادیا کہ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ اور اس طرح اس تعزیت کو مکمل فرما دیا۔ پہلے فرمایا تھا کہ اگر ہم تم کو کوئی انعام دیتے ہیں اور پھر وہ انعام تم سے لے لیتے ہیں تو تمہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ میرے محسن نے فلاں چیز مجھے دی تھی اور میں اس سے پانچ سال یا دس سال یا بیس سال یا تیس سال یا چالیس سال یا پچاس سال تک فائدہ اٹھاتا رہا اس کے بعد وہ اپنی امانت مجھ سے کیوں لے گیا۔ اس بات پر اُسے شکوے کا کیا حق ہے۔ یہ تو اس کا احسان تھا کہ جتنی مدت وہ چیز اس کے پاس رہی اس سے وو پوری طرح فائدہ اُٹھاتا رہا۔ اب کے بعد فرماتا ہے کہ یاد رکھو اگر تمہارا کوئی عزیز ہم نے تم سے دُدا کر دیا ہے تو مومن کو یہ بھی تو سوچنا چاہیے کہ دنیا سے کسی کااُٹھ جانا دائمی جُدائی کا موجب تو نہیں ہوتا۔ اگر یہ دائمی جُدائی ہوتی اور فرض کرو کہ موت کے بعد کوئی زندگی نہ ہوتی۔ تب بھی کیا خدا کا حق نہیں تھا کہ جو چیز اُس نے دی ہے وہ اُسے واپس لے لے۔ لیکن وہ زائد وعدہ یہ کرتا ہے کہ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ۔ ایک شخص اگر خدا کی طرف گیا ہے تو ہم بھی ایک دن اُسی کی طرف چلے جائیں گے ۔فرق صرف یہ ہے کہ کسی نے پہلے سفر طے کر لیا اور کوئی بعد میں سفر کے لئے چل پڑیگا ورنہ منزل مقصود سب کی ایک ہی ہے اور جب منزل مقصود ایک ہے ہے تو اس میں گھبراہٹ کی کونسی بات ہے۔ بچے بعض دفعہ تعلیم حاصل کرنے کے لئے ولایت بھیج دیئے جاتے ہیں ۔ اب کسی کی زندگی کا کیا اعتبار ہوتاہ ے کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ ایک یا دو دن بھی اور زندہ رہیگا۔ نہ والدین جانتے ہیں کہ انہوں نے اتنا عرصہ زندہ رہنا ہے نہ لڑکے جانتے ہیں کہ ان کی زندگی کب تک ہے۔ مگر باوجود اس کے جب لڑکوں کو پڑھنے کے لئے ولایت بھیجا جاتا ہے تو پانچ پانچ چھ چھ دس دس سال تک مائیں صبر کرتی ہیں باپ صبر کرتے ہیں اور وہ گھبراہٹ سے کام نہیں لیتے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ آخر ہمارے بچے ایک دن آجائیںگے۔ یا اگر کسی سفر پر کوئی شخص پہلے چل پڑتا ہے اور دوسروں نے بھی وہیں جانا ہوتا ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ ہم چند دن مے بعد اُس سے جا ملیں گے جانا تو ہے ہی۔تو اللہ تعالیی فرماتا ہے کہ پہلے یہ اقرار کرو کہ خدا نے ہم پر جو احسان کیا ہے ہم اس کے شکر گذار ہیں پھر یہ بھی سمجھ لو کہ تم سارے ایک دن خدا کے پاس جمع ہونے والے ہو اور اس کے پاس پہنچ کر اکٹھے ہو جائو گے۔ پس فرماتا ہے کہ جب تم سارے ایک دن اکٹھے ہو تو خدا کے فعل پر شکوہ یاجزع فزع کتنی بڑی نادانی ہے۔ اگر تم جزع فزع کر وگے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہارا اپنے عزیزوں سے آخری اتصال کمزور ہو جائیگا۔ کیونکہ جس خُدا کے اختیار میں یہ ہے کہ وہ اگلے جہان میں سب کو اکٹھا کر دے اس کے اختیار میں یہ بھی ہے کہ وہ اگلے جہان میں بعض کو خدا جُدا رکھے۔ پس مومن کی اصل تعزیت اِنَّالَلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ہی ہے۔ باقی جہاں تک جسم کا تعلق ہے جسم جب کٹتا ہے تو ضرور دکھ پاتا ہے۔ صحابہؓ جنگوں میں شہید ہوئے اور اپنی خوشی سے شہید ہوئے۔ لیکن جہاں تک جسم کے کٹنے کا سوال ہے ان کو ضرور تکلیف ہوئی پس جسم بے شک دُکھ پاتا ہے مگر اللہ تعالیی کا بہت بڑا احسان ہوتا ہے اُس بندے پر جس کی رُوح خدا کے آستانہ پر جُھکی رہے اور اس سے کہے کہ اے میرے رب! مجھے کوئی شکوہ نہیں تو نے جو کچھ کیا ٹھیک کیا۔ یہی عین مصلحت تھی اور یہی چیز میرے لئے بہتر تھی۔ تیرا فعل بالکل درست ہے اور گو مجھے سمجھ میں نہ آئے مگر میں یہی کہتا ہوں کہ تیرا کوئی کام حکمت کے بغیر نہیں۔
(۶) پھر اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَمیں ایک اور مضمون بھی بیان کیا گیا ہے۔ اور وہ یہ کہ جب کوئی رنج انسان کو پہنچتا ہے۔ تو فطرت کہتی ہے کہ میرے اندر آخر کوئی کمزوری تھی ۔ تبھی تو مجھے یہ دُکھ پہنچا۔ اگر میں طاقتور ہوتا تو یہ دُکھ کیوں پہنچتا۔ اب اس دُکھ کو کوئی طاقتور ہی دُور کر سکتا ہے۔ غرض رنج ہمیشہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ کوئی بیرونی طاقت مد د کرے۔ اور جب انسانی ذہن کو فطرت اس طرف لے جاتی ہے کہ اب کوئی غیر طاقت ہی مدد کرے تو معًا اس کا دل اِدھر مائل ہوتا ہے۔ کہ الہ تعالیی کے سوا کون ہے جو اس دُکھ کو دُور کرے۔ چنانچہ اُس وقت وہ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا ہی ہوں اور میں اسی سے مدد مانگتا ہوں اس کے سوااور کون ہو سکتا ہے جو میری مدد کرے۔اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَکے بے شک یہ بھی معنے ہیں کہ آخر ہم نے بھی اللہ تعالیٰ کے پاس جانا ہے لیکن اس کے یہ معنے بھی ہیں کہ اگر ہم نے لوٹنا ہے تو خداتعالیٰ کی طرف لوٹنا ہے۔ اگرہم نے گریہ وزاری کرنی ہے تو اس کے سامنے ہی کرنی ہے۔ پس اسلام نے یہ سبق فطرت کے تقاضا کے عین مطابق دیا ہے جب کوئی رنج پہنچتا ہے تو یہ انسان کی کمزوری کی علامت ہوتی ہے اس لئے وہ اُسے خود دور نہیں کر سکتا ۔ وہ طبعًا یہ خیال کرتا ہے کہ اس کے دوست اور عزیز اس کی مدد کریں۔ مگر فرمایا یاد رکھو تمہارا سب سے بڑاعزیز اور دوست خداتعالیٰ ہے ۔ تم اس کے سامنے جھکو اور اس سے مدد طلب کرو۔ جو لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس سبق پر عمل کرتے ہیں وہ ناکام و نامراد نہیں رہتے۔ ناکام و نامراد وہی ہوتا ہے جو غیر بطعی فعل کرتا ہے۔ مثلاً رات کو ڈاکہ پڑتا ہے تو عقلمند شخص اپنے عزیزوں اور دوستوں کے پاس جاتا ہے اور اس سے مدد طلب کرتا ہے لیکن بیوقوف انسان دوڑ کر جنگل کی طرف چلا جاتا ہے حالانکہ جنگل میں اس کی مدد کرنے والا کوئی نہیں وہتا۔ اسی طرح روحانی دنیا میں ایک عقل مند انسان تو اللہ تعالیٰ کی طرف جاتا ہے لیکن بیوقوف یو نہی ہائے اماں ہائے اماں! کہتا رہتا ہے۔ اب صاف ظاہر ہے کہ اماں نے کیا کرنا ہے جو کچھ کرنا ہے خداتعالیٰ نے ہی کرنا ہے اور وہ خداتعالیٰ کے پاس جاتا نہیں وہ اس کے پاس جاتا ہے جو کچھ نہیں کر سکتا۔ پس انسان کا فرض ہے کہ جب اُسے کوئی رنج پہنچے تو وہ فوراًاِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہے۔ یعنی اگر مجھ پر مصیبت آگئی ہے تو بقول پنجابی بزرگوں کے ’’ملا کی دوڑ مسیت تک‘‘ میں نے تو خداتعالیٰ کے طرف جانا ہے اور اس سے مدد طلب کرنی ہے اور جب وہ ایسا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُسے اپنی برکات سے حصہ دیتا اور اس کے مصائب کو دور فرماتا ہے۔
(۷)اسی طرح اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہتامیں یہ لطیف مضمون بھی بیان کیا گیا ہے کہ ہم خداتعالیٰ کے غلام ہیں اور اُسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ پس اگر ہم صبر سے کام لیں گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں اس صدمہ کا بہتر بدلہ مل جائے گا۔ پھر ہمیں کسی جزع فزع کی کیا ضرورت ہے۔ گھبراہٹ صرف اسے ہو سکتی ہے جو یہ سمجھتا ہو ک دُکھوں اور تکالیف کے بدلہ میں کوئی جزا مقدر نہیں۔ مگر مومن تو سمجھتے ہیں کہ جب ہم خداتعالیٰ کے پاس جائینگے تو وہ ہمارے دکھوں کا بدلہ اپنے غیر معمولی انعامات کی شکل میں ہمیں عطا فرمائیگا۔ اور جب کوئی ایمان اور یقین کے اس اعلیٰ مقام پر فائز ہو تو اسے بے صبری دکھانے کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے صابرین کی تعریف فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ ہمارے نزدیک کون لوگ صابر ہیں۔ اسلام کے نزدیک صابرین کی یہ تعریف ہے کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو ان کی توجہ فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف پھر جاتی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اگر خدا ہے تو پھر مایوسی کیسی ایک بچہ جب ماں کی گود میں ہوتا ہے تو وہ کسی سے نہیں ڈرتا۔ اسی طرح وہ بھی اپنے ااپ کو خداتعالیٰ کی گود میں سمجھتے ہیں اس لئے کسی مصیبت کے آنے پر مایوس نہیں ہوتے۔ اور اگر صبر کے معنے بدی سے رُکنے کے سمجھے جائیں تو پھر اس آیت کے یہ معنے ہونگے کہ جب اُن پر کوئی ایسی تکلیف آتی ہے جس سے انسان بدی کی طرف مائل ہو تا ہے ۔ جیسے قحط ہے کہ اس میں لوگ چوریاں وغیرہ کرنے لگ جاتے ہیں۔ تب بھی وہ خداتعالیٰ ہی کی طرف توجہ کرتے ہیں اور اگر صبر سے مراد نیکی پر قائم رہنا ہو تو اس کے یہ معنے ہونگے کہ جب کوئی شیطانی تحریک انہیں نیکی سے منحرف کر نا چاہے تو اس وقت بھی وہ فوراً خداتعالیٰ کی طرف متوجہ ہوجاتے ہین اور اسی سے اپنے روحانی پیوند کا اظہار کرتے ہیں۔
غرض یہ بظاہر ایک چھوٹا سا جملہ ہے مگر اپنے اندر بڑے وسع مطالب رکھتا ہے۔ اور جو لوگ صاحب حال ہیں وہ جانتے ہیں کہ اس فقرہ کے کہنے سے جن تکالیف کا ازالہ ممکن ہو اُن کا تو ازالہ ہو جاتا ہے اور جن کا ازالہ ناممکن ہو ان کا نسان کو کسی اور رنگ میں بدلہ مل جاتا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ مردے اس دنیا مین واپس نہیں آتے۔ پس اگر کوئی شخص مرجاتا ہے تو اس سنت اور فیصلہ کے ماتحت وہ زندہ ہو کر اس دنیا میں واپس نہیں آسکتا۔ لیکن اگر یہ فقرہ پورے ایمان اور اخلاص کے ساتھ کہا جائے تو کہنے
اُولٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ

ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ o
والے کو کسی نہ کسی رنگ میں اس کا بدلہ ضرور مل جاتا ہے۔ اور اگر اسان کا کوئی ایسا نقصان ہو جائے جس کا بدلہ ملنا ممکن ہو مگر وہ پھر بھی نہ ملے تو اس کے متعلق یہ سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر خاص اس میں روک بن رہی ہے ورنہ اس کا بدلہ ضرور مل جاتا۔
۷۲؎ حل لغات:۔ صَلٰوۃ’‘:جیسا کہ اوپر حل لغات میں بتایا جا چکا ہے کیصَلٰوۃ’‘ کئی معنے ہیں۔ مگر جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال ہو تو اس کے معنے صرف مغفرت اور حسنِ ثناء کے ہوتیہ یں۔ عبادت کے معنے اس لئے چسپاں نہیں ہو سکتے کہ عبادت خداتعالیٰ کی کی جاتی ہے اس کی طرف سے آتی نہیں۔ اسی طرح رحمت کے معنے بھی یہاں چسپاں نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ صَلٰوۃ کے ساتھ ہی رحمت کا لفظ بھی آگیا ہے۔ پس اس جگہ اس کے معنے صرف یہ یہیں کہ ان لوگوں کو خداتعالیٰ کی طرف سے مغفرت حاصل ہو گی یا انہیں ثنائے جمیل عطا کی جائیگی۔
تفسیر:۔ اس آیت میں بتایا کہ جو لوگ ارضی اور سماوی آفات پر سچے دل سے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں اپنی مغفرت سے حصہ دیتا ہے یعنی وہ ان کے نقصانات کا ازالہ کرتا اور ان کی ناکامی کو کامیابی میں اوفر تکلیف کو راحت میں بدل دیتا ہے۔ اسی طرح اُن پر اللہ تعالیٰ کا فضل حسن ثناء کی صورت میں نازل ہوتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ ان کی نیک شہرت دنیا میں قائم کر دیتا ہے اور لوگوں کی زبانوں پر ان کا ذکر خیر جاری ہو جاتا ہے۔ چنانچہ دیکھ لو۔ مسلمانوں نے اسلام کی اشاعت کے لئے کتنی بری قربانیوں سے کام لیا تھا۔ انہوں نے اپنی جانوں اور مالوں اور اولادوں کو بلا دریغ قربان کر دیا اور کسی بڑی سے بری مصیبت کی وبھی پرواہ نہ کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج دشمنان اسلام تک بھی ان کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ وہ اسلام پر اعتراض کرتے ہیں مگر جب صحابہؓ کی قربانیوں کا ذکر آتا ہے تو وہ یہ تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ انہوں نے اپنے مذہب کی اشاعت کے لئے جو نمونہ دکھایا وہ یقینا بے مثال تھا۔ ایک فرانسیسی مورخ لکھتا ہے کہ مجھے سب سے زیادہ حیرت اس بات پر آتی ہے کہ ہمیں چند آدمی پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس مدینہ کی ایک ٹوٹی پھوٹی مسجد میں جس پرکھجور کی شاخوں کی چھت پڑی ہوئی تھی اور جو ذرا سی بارش سے بھی ٹپکنے لگ جاتی تھی آہستہ آہستہ سرگوشیاں کرتے دکھائی دیتے تھے۔ اور جب ہم ان کے قریب پہنچ کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ آپس میں کی اباتیں کر رہے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ آپس میں یہ باتیں کر رہے ہیں کہ ہم قیصر و کسریٰ کو کس طرح شکست دیں اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ چند سالوں کے اندر اندر واقعہ میں ایسا ہی ہو گیا۔ اور ان بے سرو سامان اور کمزور درویشوں نے قیصر و کسریٰ کی حکومتوں کو پاش پاش کر دیا۔ غرض اشد ترین دشمنوں نے بھی تسلیم کر لیا کہ مسلمانوں کو غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی تھی اور وہ ان کی تعریف کرنے پر مجبور ہو گئے۔
یہاں صَلٰوۃ اور رحمۃ کو اکٹھا کرنے میں یہ حکمت ہے کہ دنیا میں ھکومتوں کی طرف سے عزت افزائی کے دو ہی طریق مقرر ہیں ۔ یا تو کوئی خاص اعزاز بخشا جاتا ہے یا مادی رنگ میں کوئی انعام دیا جاتا ہے جیسے اعزازی طور پر لوگوں کو خطابات دیئے جاتے ہیں اور مادی طور پر انہیں مربعے وغیرہ دیئے جاتے ہیں۔ مگر گورنمنٹ کے خطابات تو بے حقیقت ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ وہ ایک ایسے شخص کو خان بہادر کا خطاب دے دیتی ہے جو بزدل ہوتا ہے اور چوہے سے بھی ڈر جاتا ہے۔ مگر خداتعالیٰ کی طرف سے جسے کوئی خطاب دیا جاتا ہے وہ اس کا سچ مچ اہل ہوتا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ لوگ دونوں طرف دھوکا کھا جاتے ہیں۔ وہ گورنمنٹ کے خانبہادروں کو کچھ بھی نہیں سمجھتے حالانکہ جب خداتعالیٰ کسی کو کوئی خطاب دیتا ہے تو اس کے اوصاف بھی اس میں پیدا کر دیتا ہے ۔ حضرت مسیح موعو د علیہ السلام کے زمانہ میں ایک شخص جو احمدی تھا مگر اس کے دماغ میں کچھ نقص تھا قادیان آیا۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہنے لگا کہ مجھے الہام ہوتا ہے کہ تو محمدؐ ہے تو موسیٰ ؑ ہے تو عیسیٰ ؑ ہے۔۔ آپ نے فرمایاکیا اس کے بعد تمہیں وہ کچھ ملتا ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ملا تھا یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہ ملا تھا یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ملا تھا۔ وہ کہنے لگا ملتا تو کچھ نہیں آپ نے فرمایا پھر یہ شیطانی الہام ہے ۔کیونکہ خداتعالیٰ تو یہ تمسخر نہیں کرتا نہ کہ کسی کو کوئی خطاب دے اور اس کے اوصاف اس میں پیدا نہ کرے۔ خداتعالیٰ تو جب کسی کو کوئی خطاب بخشتا ہے تو اس کے مطابق اُسے طاقتیں بھی دیتا ہے۔ یہ شیطان ہے جو تمہیں دیتا تو کچھ نہیں مگر تمہارا نام موسیٰ اور عیسیٰ اور محمدؐ رکھتا چلا جاتا ہے۔ غرض صلوٰۃ کا تعلق روحانی انعامات سے ہوتا ہے اور رحمت کا تعلق ان مادی انعامات سے ہوتا ہے جس ماحول سے تعلق رکھتے ہیں پس بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ ابتلائوں میں ثابت قدم رہنے والوں کو روحانی برکات سے بھی مستفیض کرتا ہے اور انہیں مادی فوائد اور ترقیات جو ماحول سے تعلق رکھتی ہیں وہ بھی عطا کرتاہے۔
وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ۔ اس جگہ ہدایت سے مراد صرف صراطِ مستقیم پر چلنا نہیں کیونکہ وہ تو پہلے ہی ہدایت یافتہ اور صراطِ مستقیم پر قائم ہوتے ہیں۔ یہاں یہ معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت کے راستہ پر لئے جائے گا اور وہ اپنے اخلاص اور ایمان میں آگے ہی آگے بڑھتے جائینگے۔
دوسرے معنے یہ ہیں کہ مشکلات اور مصائب میں اللہ تعالیٰ انہیں صحیح راستہ بتاتا جائیگا اور مشکلات کے ساتھ ساتھ ان کا حل بھی انہیں نظر آتا جائیگا۔
تیسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ بندہ جب سچے دل سے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہتا ہے اور مصائب پر صبر سے کام لیتا ہے تو مومن کی یہ حالت دیکھ کر اللہ تعالیٰ بھی عرش پر بیتاب ہو جاتا ہے۔ اور وہ اس محبت اور اخلاص کی جزا دینے کے لئے اُسے اپنی ہدایت کی راہوں پر چلاتے ہوئے منزلِ مقصود پر پہنچا دیتاہ ے۔ گویا صبر اور استقامت کے نتیجہ میں وہ منعم علیہ گروہ میں شامل ہو جاتا ہے اور وصلِ الہٰی کے دروازے اس پر کھول دیئے جاتے ہیں۔ غرض تین قسم کے انعامات کا اُن سے وعدہ کیا گیا ہے۔ (۱)اول ہدایت کی راہوں میں ترقی(۲) دوم مشکلات میں صحیح راہنمائی(۳) سوم خداتعالیٰ کا دائمی وصال۔ اور جن کو یہ فوائد حاصل ہوں ان کو اپنے کسی عارضی نقصان کا خیال بھی کس طرح آسکتا ہے۔
اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ

شَاکِر’‘ عَلِیْم’‘o
۷۳؎ حل لغات:۔ صَفَا: صَفَاۃ’‘ کی جمع ہے اور اس کے معنے ہیں سخت موٹے پتھر جن پر مٹی نہ ہو۔ اور کھیتی بھی نہ ہو سکے۔ صفا بیت اللہ کے پاس بڑے بڑے پتھروں کی ایک پہاڑی کا بھی نام ہے۔
اَلْمَرْوَۃَ: یہ مَرْو کا مفرد ہے اور مروہ ان سفید چھوٹے چھوٹے چمکتے ہوئے چقماتی صفت رکھنے والے پتھروں کو کہتے ہیں جن سے لوگ آگے نکالتے ہیں۔ مروہ بھی ایک پہاڑی کانام ہے جو بیت اللہ کے پاس ہے اور اس کی وجہ تسمید یہ ہے کہ یہ چھوٹے چھوٹے پتھروں سے بنی ہوئی ہے۔ غرض صفا اور مروہ دو پہاڑیوں کا نام ہے جو خانہ کعبہ کے پاس ہیں۔ اور اب خانہ کعبہ وسیع ہو کر انکو آ لگا ہے اور ایک دروازہ ان میں آکر کھلتا ہے ان پر ایک بازار ہے جو سوقِ صفا کہلاتا ہے اور شہر کا حصہ ہے اور اسی بازار میں اب سعی ہوتی ہے پہلے دونوں پہاڑیاں الگ الگ تھیں لیکن اب بھرتی پڑ کر مل گئی ہیں اور ایک ہی معلوم ہوتی ہیں صرف دو نشان لوگوں نے سعی کے لئے بنا رکھے ہیں جس سے سعی شروع کرنے اور ختم کرنے کا حال انسان کو معلوم ہوتا ہے۔
اِعْتَمَرَ:۔ اِعْتَمَرَالْمَکَافَ کے معنے ہوتے ہیں قَصَدَہ‘ وَ زَارَہ‘۔ کسی بزرگی رکھنے والے مکان کی طرف جانے کا قصد کیا۔ اور اس کی زیارت کی۔ اسی طرح کہتے ہیں اِتَّخَذْ نَا نَادِیًا نَعْتَمِرُہ‘۔ کہ ہم نے ایک ایسی مجلس قائم کی ہے جس میں ہم بار بار جاتے ہیں اور ہماری آپس میں ملاقات ہوتی ہے پس اعتماد کے اصل معنے کسی شہر کی زیارت یا کسی ایسے مکان کی طرف جانے کے ہیں جو اپنی بزرگی یا دوستوں کی ملاقات کے لحاظ سے قابلِ اعزاز ہو۔ لیکن شریعت میں طواف بیت اللہ اور صفا اور مروہ کی سعی کا نام ہے۔ اور یہ عبادت سال کے ہر حصہ میں ہو سکتی ہے لیکن حج کا ایک خاص وقت مقرر ہے اسی طرح حج اور عمرہ میں یہ فرق ہے کہ عمرہ میں وہیں سے احرام باندھ لیتے اور سر منڈا لیتے ہیں۔ لیکن حج میں مقرر جگہوں سے احرام باندھنا ضروری ہوتا ہے۔
جُنَاح’‘: جَنَحَ کے معنے ہوتے ہیں مَالَ یعنی جُھک گیا۔ پروں کو بھی اور بازوئوں کوبھی اسی لئے جناح کہتے ہیں اور گناہ کو بھی جناح اسی لئے کہتے ہیں کہ اس میں انسان بدی کی طرف جُھک جاتا ہے گناہ کا لفظ دراصل جناح کی ہی بگڑی ہوئی شکل ہے۔
یَطَّوَّفَ: طَوَّفَ حَوْلَ الشَّیْئِ وَبِہِ کے معنے ہیں طَافَ وَاَکْثَرَ الْمَشْیَ حَوْلَہُ اس نے کسی چیز کے ارد گرد چکر لگایا اور کثرت کے ساتھ گھوما (اقرب) طَافَ یَطُوْفُ بھی انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔چنانچہ لسان العرب میں لکھاہے طَافَ بِالْقَوْمِ وَ عَلَیْھِمْ کے معنے ہیں اِسْتَدَارَوَجَآئَ مِنْ نَوَاحِیْہِ اس نے چکر لگایا اور کناروں کی طرف سے اس کے پاس آیا انہی معنوں میں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ جنتیوںکی نسبت فرماتا ہے یَطُوْفُ عَلَیْھِمْ وِلْدَان’‘ مُّخَلَّدُوْنَ (واقعہ آیت۱۸) یعنی اُن کے پاس بار بار نوجوان خادم اُن کی خدمت کے لئے آئیں گے اس جگہ صفا اور مروہ کے گرد گھومنا مراد نہیں بلکہ بار بار اُن کے پاس جانا مراد ہے۔
تَطَوَّع کے معنے ہیں تَبَرَّعَ بِلَا قَصْدِ اُجْرَۃٍ بِاحْتِمَالِ مُشَقَّۃٍ کسی نیکی کو بغیر اُجرت اور بدلہ کی خواہش کے کرنا(۲) تکلیف اٹھا کر کوئی کام کرنا۔ اسی لئے والنٹیر کو عربی زبان میں مطاوع کہتے ہیں ۔کیونکہ وہ بغیر تنخواہ کے آنریری طو پر کام کرتا ہے۔
شَاِکِر’‘: جب یہ لفظ خداتعالیٰ کے لئے آئے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ وہ انعام نازل کرتا ہے یا حکم بجا لانے پر جزا دیتا ہے۔ اور جب یہ بندہ کے لئے آئے تو اُس وقت اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ بندہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کا شکر گزار ہوتا ہے۔
تفسیر:۔ اِنَّ الصَّفَاوَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِ اِللّٰہِ فرماتا ہے صفا اور مروہ دونوں پہاڑیاں یقینا اللہ تعالیٰ کے نشانات میں سے ہیں۔ یہ وہ پہاڑیاں ہیں جن کے درمیان حج اور عمرہ میں خانہ کعبہ کے طواف کے بعد سعی کی جاتی ہے او رسات دفعہ چکر لگایا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ چودہ دفعہ دوڑنا چاہیے۔ مگر یہ کمزور خیال ہے ۔ اصل میں سات دفعہ ہی سعی ہے اور یہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے صفا سے شروع کر کے مروہ پر جاتے ہیں اور وہاں سے صفا پرآتے ہیں۔ یہ سعی چونکہ حضرت ہاجرہ اور حضرت اسمٰعیل علیہما السلام کی یاد گار ہے اس لئے یہ پہاڑیاں اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا نشان ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا گیا تھا کہ اپنی بیوی ہاجرہ اور بچے اسمٰعیل کو عرب کی بے آب و گیاہ دادی میں چھوڑ آئو۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس حکم کی تعمیل کی اور حضرت ہاجرہ اور اسمٰعیل کو انہوں نے خانہ کعبہ کے پاس لا کر بسا دیا جہاں پانی کا ایک قطرہ اور گھاس کی ایک پتی تک نہ تھی۔ صرف ایک مشکیزہ پانی اور ایک تھیلی کھجوروں کی آپ نے انہیں دی اور پُرنم آنکھوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دُعائیں مانگتے ہوئے رخصت ہو گئے۔ جب پانی ختم ہوا تو حضرت اسماعیل علیہ السلام کو پیاس لگی۔ اور آخر شدت پیاس کی وجہ سے وہ تڑپنے لگ گئے حضڑت ہاجرہ سے اُن کی پیاس کی تکلیف دیکھی نی گئی۔ اور وہ پانی کی تلاش میں اِدھر اُدھر دوڑیں۔ مگر پانی نہ ملا۔ قریب ہی صفا پہاڑی تھی وہ دوڑ کر اُس پر چڑھ گئیں۔ کہ شاید کوئی شخص نظر آئے اور وہ اُس سے پانی مانگیں۔ مگر جب وہاں سے کوئی شخص دکھائی نہ دیا تو دوسری پہاڑی مروہ پر دوڑ کر چڑھ گئیں اور ہاں سے بھی کوئی آدمی نظر نہ آیا۔تو پھر صفا کی طرف آئیں اور اس طرھ انہوں نے سات چکر کاٹے۔ آخر چکر میں جب وہ مروہ پر تھیں ان کو ایک آواز آئی حضرت ہاجرہ نے پکار کر کہا۔کہ اے شخص جس کی یہ آواز ہے اگر تو ہماری مدد کر سکتا ہے تو کر۔ یہ آواز اللہ تعالیٰ کے ایک فرشتہ کی تھی۔ اُس نے کہا ہاجرہ جا اور دیکھ کہ اسمٰعیل کے پائوں کے نیچے خداتعالیٰ نے ایک چشمہ پھوڑ دیا ہے۔ چنانچہ وہ واپس آئیں اور انہوں نے دیکھا کہ جہاں حضرت اسمٰعیل علیہ السلام شدتِ پیاس کی وجہ سے تڑپ رہے تھے۔ وہاں پانی کا ایک چشمہ پھوٹ رہا ہے اور بڑے زور سے اس میں سے پانی نکل رہا ہے۔ زمزم کا کنواں وہی چشمہ ہے جو حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے لئے معجزانہ طور پر پھوڑا گیا تھا۔ چنانچہ اس چشمہ کی وجہ سے اس قدر ترقی ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے وہاں عظیم الشان شہر قائم کر دیا۔
غرض صفا اور مروہ کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جو لوگ صبر کرتے اور استقامت کے ساتھ خدمت دین میں حصہ لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو کبھی ضائع نہیں کرتا۔ وہ ہاجرہ اور اسمٰعیل کی طرف انہیں اپنے آسمانی نشانات دکھاتا اور دائمی زندگی اور غیر معمولی انعامات عطا کرتا ہے۔ اگر تم بھی صبر کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں بھی ایسے ہی انعامات سے نوایگا اور تمہیں بھی شعائر اللہ میں داخل کردیگا۔
فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا۔ چونکہ بعض لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ صفا اور مروہ پر جانا گناہ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لَاجُنَاحَ ورنہ یہ مراد نہیں کہ جائو یا نہ جائو تمہارا اختیار ہے ۔ کیونکہ حج اور عمرہ میں صفا اور مروہ کے درمیان سعی ضروری ہوتی ہے اسی طرح فَلَاجُنَاحَ کے یہ معنے ہیں کہ طواف جائز ہے۔ کیونکہ جب اس چیز کے متعلق جسے لوگ حرام جانیں فتویٰ دیا جائے تو اس وقت اس فقرہ کے معنے صرف اس خیال کی نفی کرنی ہوتی ہے نہ کہ اس کا جواز بتانا۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہی مذہب تھا کہ طواف ضروری ہے چنانچہ بخاری جلد اول باب و جوب الصفا و المروۃ وجعل من شائر اللہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے عروہ بن زبیر سے ایک روایت مروی ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ اس آیت سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ طواف جائز ہے ضروری نہیں۔ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ بِئْسَمَا قُلْتَ یَا بْنَ اُخقتِیْ اِنَّ ھٰذِہِ لَوْ کَانَتْ کَمَا اَوَّ لْتَھَا عَلَیْہِ کَانَتْ لَا جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ لَایَطَّوَّ فَ بِھِمَا۔یعنی اے میرے بھانجے تو نے یہ بہت ہی غلط استدلال کیا ہے۔ اگر یہ بات اسی رنگ میں ہوتی جیسا کہ تم کہہ رہے ہو تو عبارت یوں ہوتی کہ لَاجُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ لَا یَطَّوَّفَ وَسَلَّمَ الطَّوَافَ بَیْنَھُمَا فَلَیْسَ لِاَ حَدٍ اَنْ یَّتْرُکَ الطَّوَافَ بَیْنَھُمَا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت یہی تھی کہ آپ صفا اور مروہ کا طواف کیا کرتے تھے۔ پس کس شخص کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اس سنت کے خلاف معنی کرے بہر حال حضرت عمروہ بن زبیر جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے تھے ان کا یہی مذہب تھا کہ طواف ضروری نہیں۔ اسی طرح حضرت ابن عباس ؓ حضرت انؓ عطا اور مجاہد کابھی یہی قول ہے کہ طواف ضروری نہیں۔ امام احمد بن حنبل کا یہ مذہب ہے کہ یہ ضروری تو نہیں مگر کسی شخص کو نہیں چاہیے کہ وہ جان بوجھ کر طواف چھوڑے ہاں اگر بلا ارادہ چھوٹ جائے تو کوئی گناہ نہیں مگر مناسب یہی ہے کہ نہ چھوڑے امام شافعی اور مالک کے نزدیک صفا اور مروہ کا طواف واجب ہے اور ارکانِ حج میں سے ہے اور ثوری اور امام ابوحنیفہؓ کے نزدیک اگر کوئی چھوڑ دے اور بغیر طواف کئے حج پورا کرے تو اُس پر قربانی لازم ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّف بِھِمَا کہنے کی وجہ سے بتائی ہے کہ انصار مسلمان ہونے سے پہلے منات بُت کے لئے احرام باندھا کرتے تھے جس کی مشعل کے پاس لوگ عبادت کیا کرتے تھے اور اس زمانہ میں جو شخص احرام باندھتا وہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنے کو گناہ سمجھتا تھا۔ جب وہ لوگ مسلمان ہو گئے تو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارہ میں دریافت کیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہم صفا اور مروہ کی سعی گناہ سمجھا کرتے تھے لیکن اب اس کے متعلق کیا حکم ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی(بخاری کتاب الحج) پس چونہ اس وقت ایک جماعت ایسی تھی جو صفا اور مروہ کے درمیان طواف کرنے کو جائز نہیں سمجھتی تھی اس لئے اگر کوئی شخص یہ پوچھے کہ اس میں کوئی گناہ تو نہیں۔ تو اس کا جواب یہی ہو گا کہ کوئی گناہ نہیں۔ باقی رہا یہ سوال کہ یہ سعی صرف جائز ہے یا واجب تو یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن کریم نے صرف یہ بحث اُٹھائی ہے کہ جو لوگ اس کام کو غلطی اور گناہ قرار دیتے ہیں وہ درست نہیں کہتے ورنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے اس کا ضروری ہونا ثابت ہے ۔ پس لَا جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا کے یہ معنے نہیں ہیں کہ یہ کام اختیاری ہے کوئی کرے یا نہ کرے یا کرے بلکہ درحقیقت یہ نصیحت کا ایک طریق ہے کہ جب کسی ضرویر بات کی طرف انسان توجہ نہ کرے تو کہتے ہیں کہ یہ بات گناہ نہیں۔ یعنی تم نے جو ادھر توجہ نہیں کی تو شاید گناہ سمجھ کر نہیں کی حالانکہ یہ تو ضروری بات تھی ان معنوں کو سورۃ نساء کی یہ آیت بالکل حل کر دیتی ہے۔ کہ وَاِنِ امْرَاَ ۃ’‘ خَافَتْ مِنْ بَعْلِھَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَآ اَنْ یُّصْلِحَا بَیْنَھُمَا صُلْحَا بَیْنَھُمَا صُلْحًا وَالصُّلْحُ خَیْر’‘(نساء آیت ۱۲۹) یعنی اگر کوئی عورت اپنے خاوند کے نشوز یا اعراض سے ڈرتی ہو۔ تو اگر وہ آپس میں کسی طریق پر صلح کر لیں تو اس میں کوئی گناہ کی بات نہیں اور صلح بہت اچھی چیز ہے۔ اس آیت میں فَلَاجُنَاحَ عَلَیْھِمَا کے جو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ان کا بھی یہی مطلب ہے کہ میاںبیوی سوچیں کہ صلح سے رہنا کوئی گناہ نہیں ہے۔ اگر عورت کے قصور کی وجہ سے مرد کو غصہ ہے۔ تو وہ چھوڑ دے اور اگر عورت کا قصور نہیں تو مرد اپنی اصلاح کر لے۔ پس جس طرح اس آیت میں صلح کے متعلق فَلَا جُنَاحَ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اسی طرح فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا میں جہاں اسے ناجائز سمجھنے والوں کے خیال کی نفی کی گئی ہے وہاں لوگوں کو نصیحت بھی کی گئی ہے کہ صفا اور مروہ کا طواف کوئی گناہ کی بات نہیں یعنی تم جو ادھر تو جہ نہیں کر رہے تو شاید گناہ سمجھ کر نہیں کر رہے حالانکہ یہ تو ضروری بات ہے۔
وَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا میں اللہ تعالیٰ نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص نیکی کے کاموں میں اس لئے حصہ لیتا ہے کہ ان کے بدلہ میں اُسے کوئی چیز مل جائے تو یہ ایک سودا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سے سودا کرنا کوئی پسندیدہ فعل نہیں۔ عبادت تو انسان کو اللہ تعالیٰ کے ان احسانات کے شکر کے طور پر بجا لانی چاہیے جو اللہ تعالیٰ نے اُس پر کئے ہیں۔ نہ اس لئے کہ اگر میں نے عبادت نہ کی تو مجھے کوئی انعام نہیں ملیگا۔ عبادت کے مقابلہ میں انعام کی خواہش ایک ادنیٰ خواہش ہے۔ اصل مقام یہی ہے کہ انسان محض اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے بے پایاں احسانات کے شکر کے طور پر اپنا سر اُس کے حضور جھکا ئے اور رات دن اُس کی عبادت میں مشغول رہے۔ یہ امر یاد رکھنا چاہییے کہ وَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا کے الفاظ سے وجوب طواف کی نفی نہیں کی گئی بلکہ مراد یہ ہے کہ عمرہ جتنی بار کرو اتنا ہی زیادہ ثواب ملے گا۔ اسی طرح حج بھی اگر ایک سے زیادہ دفعہ کر سکو تو یہ بھی تمہارے لئے موجب ثواب ہو گا۔ گویا اس آیت میں وجوبِ طواف کی نفی نہیں بلکہ یہ تحریک کی گئی ہے کہ حج اور عمرہ دونوں باربار کرنے چاہیں اور بار بار ان مقامات مقدسہ کی زیارت کے لئے آتے رہنا چاہیے۔
فَاِنَّ اللّٰہَ شَاکِر’‘ عَلِیْم’‘۔ فرمایاتم خدا تعالیٰ سے دودا نہ کرو بلکہ اُسی پر سچا توکل رکھو ۔ وہ تمہاری نیکیوں کو کبھی ضائع نہیں کریگا اور تمہیں خود ان کی بہتر سے بہتر جزا دیگا ۔ وہ بہت قدردان اور بہت جاننے والا ہے ۔ شاکر کے ساتھ علیم کا اضافہ اس لئے فرمای اکہ اسنان کو جو جزائیں ملتی ہیں اُنکی کئی اقسام ہوتی ہیں۔ بعض جزائیں انسان کو تباہ کر دینے والی ہوتی ہیں اور بعض اس کیلئے مفید اور بابرکت ہوتی ہیں ۔ اگر کسی اندھے کو عینک لگانے کیلئے دی جائے یا کسی جذامی کو اچھے کپڑے دے دئیے جائیں گتو ہو چیزیں اُن کے کسی کام نہیں آسکتیں ۔ خواہ وہ کتنی قیمتی کیوں نہ ہوں ۔ اس لئے فرمایا میں تمہارے حالات کوخوب جانتا ہون اُنہی کے مطابق میں تمہیں انعام دو ںگااور تمہیں ایسی جزا دو نگا جو تمہیں دائمی طور پر فائدہ پہنچا نیوالی ہوگی۔
ترتیب وربط:۔ اِنَّ الصَّفَاوَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ والی آیت میں بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وَمِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ اْلَمسْجِدِ الْحًرامِ سے جو استدلال میں نے کیا تھا وہی صحیح ہے ۔ کیونکہ تحویل قبلہ کے
اِنَّ الَّذِیْنَ

اللّٰعِنُوْنَo
مسئلہ سے صفا اور مروہ کے شعائر ہونیکا کوئی تعلق نیہں اور پرھ مسلمان تو وہاں جاہی نہیں سکتے تھے کہ صفا اور مروہ کا خاص طور پر ذکر کیا جاتا ۔دراصل اس آیت میں بھی اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ تم فتح مکہ کی کوشش کرو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہارے لئے حج کا راستہ جائیگا ۔اور صفا اور مروہ پر جانا بھی تمہارے لئے ممکن ہو جائیگا۔
۷۴؎ حل لغات:۔ بَیِّنٰتُٗ ۔بَیِنَۃُٗ کی جمع ہے اوربَیِّنٰتُٗاُن براہین اور نشانات کو کہتے ہیںجو اپنی صداقت پر آپ شاہد ہوتے ہیں۔ (مزید تشریح کیلئے دیکھیں حل لُغات سورۃ نحل ۲۵؎)
ھُدٰ وہ تعلیمات جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں۔ اور انسان کو خدا تعالیٰ تک پہنچاتی ہیں۔
لَعْنَۃُٗ دور کرنے کو کہتے ہیں۔ یعنی کسی کو دھتکاریا جھڑک کر دور کر دینا ۔ یا اُسے پاس نہ آنے دینا۔
تفسیر:۔ لَا عِن’‘ کے معنے *** کرنے والے کے ہوتے ہیں۔ مگر *** کرنے والے دو قسم کے ہو سکتے ہیں۔ اول وہ شخص جسے دوسروں پر لعنتیں ڈالنے اور بُرا بھلا کہنے کی عادت ہو۔ یہ معنی یہاں چسپاں نہیں ہو سکتے کیونکہ جو شخص اپنے بھائیوں پر لعنتیں ڈالنے والا ہو وہ بد اخلاق اور منافق ہوتا ہے اور قرآن کریم کے خلاف عمل کرتا ہے۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ اس قسم کے بد اخلاق اور منافق ہوتا ہے اور قرآن کریم کے خلاف عمل کرتا ہے۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ اس قسم کے بد اخلاق اور منافق طبع لوگ خداتعالیٰ کا ساتھ دیں۔ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کا ظل نہیں ہوتے۔
لَا عِن’‘سے ایسا شخص بھی مراد ہو سکتا ہے جس کے سپرد اللہ تعالیٰ نے یہ کام کیا ہو اور وہ لوگ جن کو ایسے فرائض سپرد کئے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور مامورین ہوتے ہیں جو خداتعالیٰ کی طرف سے الہام پا کر یہ اعلان کر دیتے ہیں کہ فلاں شخص پر *** پڑے گی اور فلاں اس کے غضب کا شکار ہو گا۔ پس لَاعِنُوْن سے راد وہ ہستیاں ہیں جنہیں خداتعالیٰ کی طرف سے *** کرنے کا اختیار دیا جاتا ہے۔
اَلْکِتٰب سے مراد اس جگہ قرآن کریم ہے اور الناس سے مراد یہودی نہیں بلکہ مسلمان ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس جگہ اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جنگ کے اعلان کے ساتھ جو ابھی ہوا نہیں بلکہ اس کی طرف اشارے ہو رہے ہیں منافقوں کی منافقت ظاہر ہو جائیگی۔ چنانچہ فرماتا ہے یہ دشمن ایمان لوگ جن کے دلوں میںمنافقت ہے جب ان کو قربانی کے احکام سُنائے جاتے ہیں تو وہ ایسی تعلیموں کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ اس بات کی کیا ضرورت ہے کہ ان باتوں کو مخالفوں کے ٍسامنے پیش کیا جائے۔ اس قسم کے لوگ ہمیشہ علیحدگی میں کہا کرتے ہیں کہ مانا کہ یہ باتیں درست ہیں مگر ان کو دشمنوں کیسامنے پیش کرنے کی کیا ضرورت ہے لوگوں کی طرف سے خواہ مخواہ مخالفت ہو گی۔ غرض الہٰی سلسلوں میں جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے احکام نازل ہوتے ہیں جن پر عمل کرنا مخالفوں کی ناراضگی کا موجب ہوتا ہے تو ایسا طبقہ جو دوسروں کی ناراضگی کو زیادہ اہمیت دیتا ہے مداہنت سے کام لیکر ان کو چُھپا نا شروع کردیتا ہے تاکہ نہ لوگوں کو صحیح تعلیم کا علم ہو اور نہ ان کا جذبہ مخالفت بھڑکے اس قسم کی مداہنت کمزوری کے دور میں نہیں ہوتی۔ بلکہ طاقت اور غلبہ کے دور میں ہوتی ہے۔ جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب تک مکہ میں رہے منافقین کا کوئی فتنہ نہیں اُٹھا لیکن جب مدنی زندگی آئی اور اسلام نے طاقت پکڑنی شروع کر دی اور یہ اعلان ہونے لگے کہ جب تک مکہ فتح نہ ہو تم نے جنگ کو جاری رکھنا ہے تو جو لوگ کمزور ایمان والے تھے انہوں نے کافروں سے اپنی حفاظت کی طرح ڈالنی شروع کر دی اور کفار کے پاس جا جا کر اس رنگ میں باتیں کرنی شروع کیں کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) تو بڑے اچھے آدمی ہیں وہ تو نہیں چاہتے کہ لڑائی ہو مگر جو شیلی طبائع والے ان کو اُکساتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ لڑائی ہو جائے اسی طرح بعض لوگ کلام الہٰی پر پردہ ڈالتے اور اُسے چُھپاتے اور دشمنوں کو جا جا کر کہتے کہ تم تسلی رکھو تم پر کوئی تباہی نہیں آسکتی حالانکہ اگر کفار کے متعلق کوئی خبر دی جائے اور ان کو بتایانہ جائے کہ تمہارے متعلق اللہ تعالیٰ نے فلاں انذاری پیشگوئی کی ہے تو پیشگوئی کی شان اور اس کی عظمت قائم نہیں رہ سکتی۔ لیکن اگر پہلے سے کہہ دیا جائے کہ تم پر عذاب آئیگا۔ تمہاری سلامتی اسی میں ہے کہ تم توبہ کر لو تو عذاب کے آنے پر ان پر حجت قائم ہو سکتی ہے۔ اور عقلمندوں کے لئے ایک ایک بہت بڑانشان بن جاتا ہے لیکن منافق محض اس لئے کہ ہمارے تعلقات خراب نہ ہو جائیں ایسی باتوں کو چھپاتے ہیں اور ڈر کے مارے ظاہر نہیں کرتے ایسے لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ برکتوں سے کلی طور پر محروم رہیں گے اور اللہ تعالیٰ کی *** کے علاوہ جن لوگوں کو خداتعالیٰ نے *** کا اختیار دیا ہوا ہے وہ بھی ان پر *** ڈالیں گے ۔ جیسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور دوسرے مامورین نے بھی اپنے دشمنوں پر لعنتیں ڈالیں۔ بلکہ اب تک لوگ ان پر لعنتیں ڈالتے رہتے ہیں اور قیامت تک ان پر لعنتیں پڑتی رہیں گی۔
بعض لوگ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں بعض جگہ کئی کئی صفوں میں مخالفین پر *** ڈالی ہے۔ اور آپ متواتر *** *** *** لکھتے چلے گئے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ وہ خیال کرتے ہیں کہ آپ نے نعوذ باللہ انہیں گالیاں دی ہیں۔ حالانکہ آپ نے گالیاں نہیں دیں بلکہ ایک خدائی فیصلہ کا اعلان کیا ہے اور بتایا ہے کہ یہ لوگ اپنے بُرے اعمال کی وجہ سے خداتعالیٰ کی رحمت سے دُور چلے گئے ہیں۔ جس طرح ایک مجسٹریٹ اگر کسی مجرم کو چھ ماہ قید کی سزا دے تو اس سزا کو درست اور قابلِ قبول قرر دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر کوئی دوسرا شخص جسے گورنمنٹ نے فیصلہ کا کوئی اختیار نہ دیا ہو کسی مجرم کے متعلق یہ فیصلہ کرے کہ اُسے قید کر دیا جائے تو سب لوگ اُسے پاگل تصور کرتے ہیں۔ اسی طرح خداتعالیٰ کے انبیاء بھی رُوحانی عالم کے مجئسٹریٹ ہوتے ہیں۔ اگر وہ مجرموں کو مجرم قرار نہ دیں اور اُن کے بارہ میں اپنا فیصلہ نافذ نہ کریں تو وہ خود مجرم بنتے ہیں۔ پس اُن کا کسی پر *** ڈالنا قانون کے تابع ہوتا ہے اور ایسا کہنا اُن کے فرائضِ منصبی کے لحاظ سے ضروری ہوتا ہے لیکن دوسرے لوگ جو بلاوجہ لعنتیں ڈالتے رہتے ہیں وہ اپنی بداخلاقی اور کمینگی کا مظاہرہ کرتے ہیں کیونکہ خداتعالیٰ کی طرف سے اُنہیں دوسروں پر *** ڈالنے کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہوتا ۔
اِلَّا الَّذِیْنَ
التَّوََّابُ الرَّحِیْمُo
۷۵؎ تفسیر:۔ ہمارے ملک میں عام طور پر عام طور پر لوگ توجہ صرف اس بات کا نام سمجھتے ہیں کہ زبان سے ایک دو دفعہ یہ فقرہ دہرادیا جائے کہ میری توبہ اور وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر ہم ایسا کہہ دیں تو ہمارے سارے گناہ بخشے گئے۔ حالانکہ صرف منہ سے توبہ توبہ کہہ دینا اور اپنے اعمال میں کوئی تغیر پیدا نہ کرنا کسی انسان کو مغفرت کا مستحق نہیں بنا سکتا۔ توبہ درحقیقت تین باتوں کے مجموعے کا نام ہے۔ اول زبان سے اپنے قصور کا اعتراف کرنا۔ دوم اپنی غلطی کے متعلق دل میں ندامت پیدا ہونا۔ سوم جو قصور کیا ہے اس کا عملاً ازالہ کرنا ۔گویا جس مقام پر انسان غلطی کرنے سے پہلے کھڑا ہو اُسی مقام پر وہ رجوع کر کے آجئے اس قسم کی توبہ کوئی معمولی بات نہیں بلکہ ایک بہٹ بڑا انقلاب ہے جو انسانی روح میں واقع ہوتا ہے کیونکہ انسان کے دل میں اپنے گناہوں سے شدید نفرت کا جذبہ پیدا ہونا۔ اس کے اندر اللہ تعالیٰ کی محبت اور روحانیت کے حصول کی خواہش پیدا ہونا اس کے دل کا اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ وزاری کرتے ہوئے پگھل جانا۔ اس کی سفلی خواہشات پر ایک موت کا وارد ہو جانا ایسا ہی ہے جیسے اُس نے اپنے آپ کو خدا کے لئے صلیب پر لٹکا لیا۔ اور اپنی پہلی زندگی پر موت وارد کر لی۔ عیسائی لوگ جو اسلامی توبہ کی حقیقت سے ناواقف ہیں بالعموم اعتراض کیا کرتے ہیں کہ اسلام نے توبہ کا دروازہ کھول کر گناہ کا دروازہ کھول دیا ہے۔ حالانکہ اسلام جس توبہ کو پیش کرتا ہے وہ مکمل ہی نہیں ہو سکتی جب تک انسان زبان سے اپنے قصور کا اقرار اور دل سے اپنے فعل پر ندامت کا اظہار نہ کرے اور آئندہ اس سے مجتنب رہنے کا پختہ عہد کرتے ہوئے گذشتہ قصور کا ازالہ بھی نہ کرے۔ اور کون کہہ سکتا ہے کہ ایسی توبہ گناہ پر دلیری پیدا کر دیتی ہے۔ گناہ پر دلیری تو اُن کا یہ عقیدہ پیدا کرتا ہے کہ ہمارے تمام گناہ مسیح نے اٹھا لئے ہیں۔ اب ہمیں کسی فکر کی ضرورت نہیں لیکن وہ توبہ جسے اسلام پیش کرتا ہے اور جو گذشتہ افعال کے کلی ترک اور آئندہ کے لئے کلی طور پر نیکی کے راستہ کو اختیار کرنے اور خداتعالیٰ کی طرف صدق دل سے رجوع کرنے کے نام ہے وہ گناہ پر دلیری پیدا نہیں کر تی بلکہ گناہ کو بیخ دبُن سے اکھیڑ دیتی ہے اور انسان کو ایک نیا روحانی انسان بنا دیتی ہے۔ اس قسم کی توبہ کرنیوالوں کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو پوری طر ح خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے اور دل میں ندامت پیدا کرتے اور اپنے گناہ کو دور کرتے ہیں اور پھر یہیں تک بس نہیں کرتے بلکہ اَصْلُحُوْا وہ دوسروں سے بھی عیوب دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گویا ان میں اتنا تغیر پیدا ہو جاتا ہے اور انہیں بدیوں سے اتنا بُغض ہو جاتا ہے کہ وہ صرف اپنی اصلاح نہیں کرتے بلکہ دوسروں کی بدیوں کو بھی دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں وَبَیَّنُوْا اور نہ صرف اپنے گرد و پیش کی اصلاح کرتے ہیں بلکہ علی الاعلان دُنیا کے سامنے اس بات کو پیش کرتے ہیں کہ اسلام ہی سچا مذہب ہے اور اسی میں دنیا کی نجات ہے فَاُولٓئِکَ اَتُوْبُ عَلَیْھِمْ فرماتا ہے جب کوئی شخص ایسی توبہ کرتا ہے تو میں بھی فضل کے ساتھ اُس کی طرف رجوع کرتا ہوں۔
اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُ وْا

وَلَاھُمْ یُنْظَرُوْنَo
توبہ کا لفظ جب اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال ہو تو اس کے معنے رجوع برحمت ہونے اور فضل نازل کرنے کے ہوتیہ یں۔ لیکن جب بندے کے لئے یہ لفظ استعمال ہو تو اس کے معنی ندامت کا اظہار کرنے اور جرم کا اقرار کرنے اور خداتعالیٰ کی طرف جھک جانے کے ہوتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ اپنے جرم کا اقرار کر کے ندامت کا اظہار کریں اور خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کریں اور دوسروں کی بھی اصلاح کریں اور اسلام پر پوری مضبوطی سے قائم ہو جائیں۔ ایسے لوگوں کے قصور کو معاف کر کے میں پھر انکو اس مقام پر لا کھڑا کرتا ہوں جہاں وہ پہلے ہوتے ہیں اور پھر میں اپنے پُرانے طریق پر ان کے لئے فضلوں کا سلسلہ شروع کر دیتا ہوں کیونکہ میں بڑا شفقت کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہوں۔
۷۶؎ تفسیر:۔ فرماتا ہے ان توبہ کرنے والوں کے بالمقابل جو لوگ کفر کی حالت میں ہی مر گئے۔ ان پر خداتعالیٰ کی *** ہو گی۔ اسی طرح ملائکہ اور سارے انسانوں کی *** ہو گی۔
اس جگہ اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ سارے انسانوں کی اُن پر *** ہو گی اس میں اور پہلی آیت میں جس *** کا ذکر کیا گیا ہے اس میں یہ فرق ہے کہ پہلے تو اللہ تعالیٰ نے صرف خاص لوگوں کو *** کرنے کی اجازت دی تھی ۔ کیونکہ وہاں *** سے مراد اُن کی تباہی کی پیشگوئی تھی جو اللہ تعالیٰ کے انبیاء کیا کرتے ہیں۔ مگر یہاں اُن کے متعلق پیشگوئی کرنا مقصود نہیں ۔کیونکہ یہاں *** رکرنیوالوں میں سب لوگوں کو شامل کر لیا گیا ہے۔ اور سارے کے سارے لوگ تباہی کی پیشگوئیاں نہیں کیا کرتے ۔ پس یہاں وہ *** مراد ہے جو فطرتی طور پر انسان کے دل سے اٹھتی ہے مثلاً اگر ایک چور کے سامنے بھی اگر چوری کا ذکر ہو تو وہ فوراً کہہ اُٹھتا ہے کہ چور بہت بُرے ہوتے ہیں حالانکہ وہ خود اس فعل کا مرتکب ہوتاہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اُس کی فطرت اسے بُرا قرار دیتی ہے۔ اسی طرح یہاں *** کرنے سے یہ مراد ہے کہ کفار کے افعال پر ہر ایک شخص خواہ نیک ہو خواہ بد فطرتی طور پر *** کرتا ہے بلکہ ایک مجرم خواہ اپنی ذات کو بُرا نہ کہے مگر جرم کو ضرور بُرا کہے گا اور اسی کا نام *** ہے۔ خدا اور ملائکہ صفت انسان تو علی الاعلان *** کرتے ہیں لیکن باقی دنیا فطری اور اصولی طور پر *** کرتے ہے۔ جیسے کوئی قوم جھوٹ کو اچھا نہیں سمجھتی۔کوئی قوم غیبت چوری اور قتل وغیر ہ کو اچھا نہیں سمجھتی۔ ہاں انفرادی طور پر اگر کوئی ان کا ارتکاب کرے تو خود اس کا اپنا نفس اسے شرمندہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ تم نے بے ایمانی کا ارتکاب ہے۔ اس جگہ اسی قسم کی *** مراد ہے کہ خوہ اپنے فعل وہ وہ برا نہ کہیں مگر دوسروں کے اُسی قسم کے فعل کو دیکھ کر وہ ضرور بُرا کہتے ہیں چنانچہ کسی سے پوچھ کر دیکھ لو وہ یہی کہیگا کہ جھوٹ بُرا ہے غیبت بُری ہے چوری بُری ہے قتل بُرا ہے ظلم بُرا ہے ۔
وَاِلٰھُکُمْ اِلٰہ’‘ الرَّحِیْمُo
حالانکہ بعض دفعہ وہ خود ان جرائم کا مرتکب ہوتا ہے اسی طرح کوئی قوم بحیثیت قوم اندھیرے میں چھپ کر کسی کو مار ڈالنے کو اچھا نہیں سمجھتی ۔ کوئی قوم بحیثیت قوم چوری کو اچھا فعل نہیں سمجھتی کوئی قوم بحیثیت غیبت کو اچھا خیال نہیں کرتی۔ اسی طرح وہ افراد جو اس قسم کے کاموں کو کرتے وقت انہیں اچھا خیال کرتے ہیں وہ بھی دوسرے موقعہ پر انہیں بُرا اور ناجائز سمجھتے ہیں ۔ غرض یہ *** ایسی ہے جو کہیں نہیں مٹتی۔ کیونکہ انسانی فطر اس کی ہمنوا ہوتی ہے۔
پھر فرماتا ہے خٰلِدِیْنَ فِیْھَایہ قانون ایسا ہے جو ہمیشہ قائم رہیگا۔ کئی فلسفے اور تہذیبیں بدل گئیں مگر یورپ آج بھی یہی کہتا ہے کہ جھوٹ بُرا ہے ظلم بُرا ہے چوری پُری ہے غیبت بُری ہے۔ یہ *** قائم ہے اورہمیشہ قائم رہے گی۔ یونانی اور ایرانی فلسفہ بھی یہی کہتا ہے یوروپین فلسفہ بھی یہی کہتا ہے غرض یہ ایک نہ مٹنے والا اصل ہے اس میں کبھی تغیر نہیں آسکتا۔ کل اگر کوئی اور تہذیب آئیگی تو وہ بھی یہی کہے گی اس کے خلاف کوئی بات نہیں کہہ سکتی۔
لَایُخَفَّفُ عَنْھُمُ الْعَذَاَبُ وَلَاھُمْ یُنْظَرُوْنَ فرماتا ہے کہ جب منکرین انبیاء کا پیمانہ عمل لبریز ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ آسمانی عذاب میں جکڑے جاتے ہیں اور یہ عذاب ایسا ہوتا ہے کہ نہ تو اسے ہلکا کیا جاتا ہے اور نہ انہیں ڈھیل دی جاتا ہے ۔ ہاں عذاب کے آنے سے پہلے پہلے ان کے لئے موقعہ ہوتا ہے کہ وہ توبہ کر لیں ۔لیکن اگر وہ اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم سے کوئی فائدہ نہ اٹھائیں اور انکار پر کمر بستہ رہیں اور خدائی نشانات کی تضحیک کرتے رہیں تو ایک دن عذاب الہٰی کے کوڑے ان پر برسنے شروع ہوجاتے ہیں اور پھر ان کی شیخ و پکار بالکل عبث ہوتی ہے۔ چنانچہ دیکھ لو وہ لوگ جنہوں نے خداتعالیٰ کے فرستادوں کا مقابلہ کیا۔ ہزاروں سال گذرنے کے باوجود آج بھی ان پر *** پڑ رہی ہے۔ نمرود کو ہلاک ہوئے ہزاروں سال گذر گئے ہیں ۔ فرعون کو سمندر میں ڈوبے ہزاروں سال گذر گئے وہ فقیہی اور فریسی جنہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب پر لٹکایا تھا ان پر بھی دو ہزار سال گذر گئے ابوجہل کو جنگِ بدر میں ہلاک ہوئے بھی چودہ سو سال ہو گئے مگر آج بھی ہر شریف انسان نمرود کا نام لیتا ہے تو اس پر *** ڈالتا ہے فرعون کا نام لیتا ہے تو اس پر *** ڈالتا ہے فقیہیوں اور فریسیوں کا ذکر آتا ہے تو ان پر *** ڈالتا ہے ابوجہل کا ذکر آتا ہے تو ان پر *** ڈالتا ہے۔ اور پھر اگلے جہان میں جو انہیں عذاب دیا جا رہا ہے اس کا تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ غرض یہ عذاب برابر جاری ہے۔ کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فرستادوں کا مقابلہ کیا۔
۷۷؎ تفسیر:۔فرماتا ہے تمہارا خدا تو ایک ہی خدا ہے جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور پھر وہ رحمٰن اور رحیم ہے ایسی کامل صفات رکھنے والے خدا پر ایمان رکھتے ہوئے تمہیں اپنے دشمنوں سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے۔ تمہاری حفاظت کے لئے تمہارا خدا موجود ہے۔ پس تم اس پر توکل رکھو اور اُسی سے مدد مانگتے رہو۔ وہ تمہارا دشمن کو تم پر کبھی غالب نہیں آنے دیگا۔ اور خواہ تمہاری کشتی مشکلات کے بھنور میں کتنے بھی چکر کھائے پھر بھی وہ تمہیں اس میں سے نکال کر ساحل کامیابی پر پہنچا دے گا۔
مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میں نے رویا میں دیکھا کہ میں بہشتی مقبرہ سے ایک کشتی پر آرہا ہوں اور میرے ساتھ کچھ اور لوگ بھی ہیں۔ راستہ میں کثرت سے پانی ہے اور ایک طوفان سا آیا ہوا معلوم ہوتا ہے جب ہم پُل والی جگہ کے قریب پہنچے ۔جہاں صرف دو لکڑیاں لوگوں کے آنے جانے کے لئے رکھی رہتی تھیں تو وہاں میں کیا دیکھتا ہوں کہ کشتی بھنور میں پھنس گئی ہے اور چکر کھانے لگی ہے اس سے سب لوگ جو کشتی میں بیٹھے تھے ڈرنے لگے جب ان کی حالت مایوسی تک پہنچ گئی تو یکدم پانی میں سے ایک ہاتھ نکلا جس میں ایک تحریر تھی اور اس میں لکھا تھا کہ یہاں ایک پیر صاحب کی قبر ہے ان سے درخواست کرو تو کشتی بھنور میں سے نکل جائیگی۔ میں نے کہا۔ یہ تو شرک ہے میں اس کے لئے ہرگز تیار نہیں خواہ ہماری جان چلی جائے میں جوں جوں انکار کرتا گیا چکر بڑھتے گئے۔ اس پر میرے ساتھیوں میں سے بعض نے کہا کہ اس میں کیا حرج ہے۔ اور انہوں نے پیر صاحب کے نام ایک رقعہ لکھ کر بغیر میرے علم کے پانی میں ڈال دیا جب مجھے علم ہوا تو میں نے جوش سے کہا کہ یہ شرک ہے اور میں نے فوراً پانی میں چھلانگ لگا دی اور کود کر وہ کاغذ پکڑ لیا اور اُسے باہر لے آیا اور جونہی میں نے ایسا کیا کشتی بھنور میں سے نکل گئی۔ پس مومن پر خواہ کتنی بھی مشکلات آئیں اس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ پر توکل رکھے اور اُس کے سوا کسی اور کا خوف اپنے دل میں نہ پیدا ہونے دے۔
یہاں سوال ہو سکتا ہے کہ اچھا اگر وہی ایک معبود ہے تو ہمیں کیا معلوم کہ وہ ہم سے کیا معاملہ کریگا۔ اس لئے فرمایا کہ وہ رحمٰن اور رحیم ہے۔ وہ ہمیشہ محبت کا ہی معاملہ کرتا ہے اور بندہ کو نہیں چھوڑتا۔ سوائے اس کے کہ بندہ اُسے خود چھوڑ دے۔ وہ پہلے بغیر کسی عمل کے انسان پر اپنے بے انتہا فضل نازل کرتا ہے اور جب ان سا مانوں سے فائدہ اٹھاتا ہے تو رحیمیت کے ماتحت اس پر مزید احسان کرتا ہے۔ اور یہ سلسلہ چلتا چلا جاتا ہے۔ خداتعالیٰ کے رحمٰن و رحیم ہونے کی مثال درحقیقت اس بوڑھے کے کھجور لگانے کی سی ہے جس نے بادشاہ سے دو تین دفعہ کئی ہزار روپیہ انعام کے طور پر لے لیا تھا۔ بادشاہ کا خزانہ تو محدود تھا س لئے وہ منہ پھیر کر چلا گیا مگر ہمارے خدا کا خزانہ محدود نہیں ۔ ہمارا بادشاہ تو خود کہتا ہے کہ مجھ سے مانگو میں تمہیں دوں گا۔ اور پھر مانگتے چلے جائو تاکہ میں تمہیں دیتا چلا جائوں۔ غرض اللہ تعالیٰ نے انتہا فضل کرنیوالا اور بار بار رحم کرنے والا اس کے خزانے غیر محدود ہیں وہ کہتا ہے کہ تم پھر کام کرو تو میں پھر تمہیں انعام دونگا۔ پھر کرو تو میں پھر دونگا۔ اور ہمیشہ تمہیں اپنے انعامات سے حصہ دیتا چلا جائوںگا۔
اسجگہ اِلٰھُکُمْ سے جو شبہ پیدا ہوتا تھا کہ شاید کسی اور کا خدابھی ہو گا یا کئی خدا ہوتے ہون گے اس کا ازالہ لَااِلٰہَ اِلَّا ھُوَ سے کر دیا اور الرَحْمٰنُ الرَّحِیْمُ سے اس کی کامل صفات بیان کر کے مقلاً بھی کسی اور اِلٰہ کی ضرورت نہ رہنے دی۔
ترتیب وربط:۔ اوپر کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ ابراہیمی دعا کے مطابق ہم نے تمہارا منہ بیت اللہ کی طرف کر دیا اور پھر فتح مکہ پر اس نے خاص طور پر زور دیا اور بتایا کہ لوگ فتح مکہ کا انتظار کر رہے ہیں فتح ہونے پر وہ اسلام میں جوق در جوق داخل ہو جائیںگے اور چونکہ جنگوں میں کئی قسم کی تکالیف پیش آتی ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے صبر کی تلقین کی اور دعائیں مانگنے کی طرف توجہ دلائی اور ساتھ ہی حضرت اسمٰعیل علیہ السلام اور حضرت ہاجرہؓ کی قربانیوں کی مثال بیان کر کے اس حقیقت کو واضح کیا کہ جو لوگ خداتعالیٰ کے لئے قربانی کرتے ہیں اللہ تعالیٰ انکو کبھی ضائع نہیں کرتا پھر حج اور عمرہ اور صفا اور مروہ کے طواف کا ذکر کے کے اس طرف اشارہ فرمایا۔ کہ ہم نے جو تمہیں حج کا حکم دیا ہے تو ضڑور ہے کہ وہ وقت آئے کہ جس میں تم آسانی سے حج کر سکو۔ اور صفا اور مروہ کا طواف کر سکو۔ غرض ان آیات میں یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ مکہ ایک دن ضرور فتح ہو گا کیونکہ جب یہ آیات نازل ہو رہی تھیں اس وقت کفار مسلمانوں کو بیت اللہ کے قریب بھی نہیں آنے دیتے تھے۔ بلکہ اس کے کئی سال بعد بھی کفار نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو طواف نہیں کرنے دیا۔ مگر بتایا کہ ایک وقت آئیگا کہ مکہ پر تمہارا قبضہ ہو گا اور تمہیں حج اور عمرہ میں کسی قسم کی دقت کا سامنا پیش نہیں
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ




لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَo
پڑیگا۔ اور پھر آخر میں فرمایا کہ تمہارا خدا یک ہی خدا ہے اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور وہ رحمٰن اور رحیم ہے پس تمہیں اُسی سے تعلق رکھنا چاہیے۔ اور دشمنوں کی کثرت کو دیکھ کر گھبرانا نہیں چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ اپنی توحید کو دنیا میں قائم کریگا اور تمہیں اپنی رحمانیت اور رحیمیت کے نظارے دکھائیگا۔
۷۸؎ حل لغات:۔ اِخْتِلَاف’‘۔ یہ اِخْتَلَفَ کا مصدر ہے اور اِخْتَلَفَ زیْد’‘ عَمْرًد کے معنے ہیں کَانَ خَلِیْفَتُہ‘ یعنی زید عمرو کا قائم مقام ہوا۔وَجَعَلَہ‘ خَلْفَہ‘ اُسے اپنے پیچھے کیا۔ اسی طرھ اس کے ایک معنے ہیں اَخَذَہ‘ مِنْ خَلْفِہٖ۔ اُسے پیچھے سے پکڑا۔(اقرب)
مفردات امام راغب میں لکھا ہے اِنَّ نِی اخَتَلَفِ اللَّیْلِ وَالنَّھْارِ کے معنے ہیں فِیْ مَجِیْ ئِ کُلِّ وَاحِدٍ مِنْھَمَا خَلْفَ الْاٰخِرِ وَتَعَاقُبِھَا۔ یعنی رات اور ان کا ایک دوسرے کے آگے پیچھے آنا(مفردات)
اَلْفُلَک کے معنے ہیں اَلسَّفِیْنَۃُ۔ کشتی (اقرب) یہ لفظ مذکر بھی استعمال ہوتا ہے اور مونث بھی۔ اس طرح یہ لفظ واحد اور جمع دونوں طرح بولا جاتا ہے چنانچہ قرآن کریم میں دونوں کی مثالیں موجود ہیں۔ ایک جگہ آتا ہے اِذْ اَبَقَ اِلَی الْفُلْکِ الْمَشْحُوْنِ (الصافات آیت۱۴۱) یہ واحد کی مثال ہے۔ دوسری جگہ فرماتا ہے حِتّٰی اِذَا کُنْتُمْ فِی الْفُلْکِ وَجَرَیْنَ بِھِمْ بِرِ یْحٍ طَیِّبَۃٍ(یونس آیت۲۳) اس میں فُلْک کی طرف ھُمْ جو جمع کی ضمیر ہے پھیری گئی ہے گویا یہاں یہ لفظ جمع کے طور پر استعمال ہوا ہے۔
تفسیر:۔ پچھلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا تھا کہ اِلٰھُکُمْ اِلٰہ’‘ وَّ احِد’‘ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ یعنی تمہارا معبود اپنی ذات میں اکیالا اور واحد خدا ہے۔ اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور وہ بے انتہا کرم کرنیوالا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ اب اس رکوع میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمایت اور رحیمیت کے مختلف نظائر کا ذکر کرتے ہوئے اپنی ہستی کو ثبوت پیش کیا ہے ۔ چنانچہ سب سے پہلے وہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش کی طرف بنی نوع انسان کو توجہ دلاتا ہے۔ اور فرماتا ہے کہ اس پیدائش میں عقلمند قوم کے لئے بڑے بھاری نشان ہیں۔ یعنی اگر وہ سوچیں اور غور سے کام لیں تو اس امر کو بآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ آسمانوں اور زمین میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں جس کا انسانی زندگی کے ساتھ تعلق نہ ہو۔ اور یہ تمام چیزیں ایسی ہیں جن کے پیچھے صرف اللہ تعالیٰ کی رحمایت کا ہاتھ کام کر رہا ہے۔ انسان کی کسی کوشش اور عمل کا اس میں دخل نہیں چنانچہ دیکھ لو ہوا اور پانی اور سورج اور چاند اور ستارے انسان کے کسی عمل کے نتیجہ میں اسے نہیں ملے بلکہ محض اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت رحمایت کے ظہور کے طور پر ان کو بنی نوع انسان کی خدمت میں لگا رکھا ہے۔ اگر یہ چیزیں نہ ہوتیں تو انسان ایک لمحہ کیلئے بھی دنیا میں زندہ نہ رہ سکتا۔ پھر آسمانوں اور زمین میں اگر ایک معین قانون کام نہ کر رہا ہوتا اور ایک غیر متبدل نظام جاری نہ ہوتا تب بھی انسانی زندگی بے کار ہو کر رہ جاتی۔مگر اللہ تعالیٰ نے جہاں دنیا کی ہر چیز انسان کے فائدہ کے لئے بنائی وہاں اس نے ہرچیز کو ایک قانون کا بھی پابند بنا دیا تاکہ انسان بغیر کسی خطرہ کے ترقی کر سکے۔ اور زمین اور آسمان کی ہر چیز اس کی خدمت میں مصروف رہے اس حقیقت کو ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ اَلَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰت طِبَاقًاط مَاتَرٰی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوْتٍ ط فَارْجِعِ الْبَصَرَ لا ھَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْرٍہ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّ تَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَّ ھُوَ حَسِیْر’‘(سورۃ الملک آیت۴،۵)یعنی بہت برکت والا ہے وہ خدا جس نے ساتھ آسمان درجہ بدرجہ بنائے اور تو رحمٰن خدا کی پیدائش میں کوئی رخنہ نہیں دیکھتا ۔ تو اپنی آنکھ کو اِدھر اُدھر پھیر کر اچھی طرح دیکھ۔ کیا تجھے خدا کی مخلوق میں کسی جگہ بھی کوئی نقص نظر آتا ہے پھر بار بار اپنی نظر کو چکر دے آخر وہ تیری طرف نکام ہو کر لوٹ آئیگی او ر وہ تھکی ہوئی ہو گی۔ یعنی اُسے نظامِ عالم میں کوئی بھی خلافِ قانون بات یا نقص نظر نہیں آئیگا۔ غرض کارخانہ عالم کا ایک معین قانون سے وابستہ ہونا اور زمین آسمان اور سورج اور چاند اور ستاروں کاا س قانون کے ماتحت ہمیشہ چلتے چلے جانا اور کبھی اس میں کوئی انحراف واقع نہ ہونا ثابت کرتا ہے کہ اس کائنات کو بنانے والایقینا ایک خدا ہے۔ اگر ایک سے زیادہ بنانے والاے ہوتے جیسا کہ عیسائی تین خدائوں کے قائل ہیں توایک ہی قانون ہر جگہ کام کرتا دکھائی نہ دیتا بلکہ اس میں ضرور کوئی نہ کوئی رخنہ واقع ہو جاتا پس آسمانوں اور زمین کی پیدائش کی طرف توجہ دلا کر اللہ تعالیٰ نے اپنی ہستی کا ثبوت کر دیا کہ وہ رحمٰن ہے یعنی اپنی مخلوق پر بے انتہا کرم کریوالا اور انہیں ایسے انعامات سے فیضیاب کرنے والا ہے جن میں بندوں کی کسی کوشش یا عمل کا دخل نہیں۔ اسی طرح آسمانوں اور شمین کی پیدائش اس کی صفت رحیمیت کا بھی ثبوت ہے کیونکہ دنیا میں جب کوئی شخص خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین کے ماتحت کام کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بہتر سے بہتر نتائج پیدا کرتا ہے یہ کبھی نہیں ہوا کہ کسی نے زمین میں ہل چلایا ہو اور بیج ڈالا ہو اور پانی دیا ہو اور نگرانی کی ہو اور پھر اسے ایک دانہ کے بدلہ میں کئی کئی سو دانے نہ ملے ہوں۔ یا کسی نے صحیح محنت کی ہو اور وہ اپنی محنت کے پھل سے محروم رہا ہو۔ یہ دونوں صفات پہلو بہ پہلو چل رہی ہیں۔ رحمانیت کا بھی ظہور ہو رہا ہے اور رحیمیت کا بھی ظہور ہو رہا ہے اور ہر چیز اپنے وجود سے خداتعالیٰ کی طرف انگلی اُٹھا کر اس کی ہستی کا ثبوت پیش کر رہی ہے۔
درحقیقت اللہ تعالیٰ کی ہستی کا علم ایسا ہے جو دوسری چیزوں کے علم اور معرفت کے بعد حاصل ہوتا ہے کیونکہ وہ کلی علم ہے بعض چیزیں اپنی ذات میں نظر آنے والی ہوتیہ یں ان کے دیکھنے سے انسان کو ان کا علم ہو جات اہے۔ مثلاً بچہ کے سامنے اگرہم انگلی رکھیں اور قطع نظر اس سے کہ وہ اس قسم کی تفصیلات معلوم کرے کہ اُس انگلی کے پیچھے ایک پنجہ ہے اور اس پنجہ کے پیچھے ایک بازو ہے اور اس بازو کے پیچھے ایک کندھا ہے۔ وہ کندھا گردن کے واسطہ سے سر سے ملتا ہے اور اس سر میں ایک دماغ ہے جس کے حکم سے ان چیزون نے حرکت کی ہے اور پھر یہ انگلی میرے سامنے آئی ہے۔ وہ یہ سمجھ لے گا کہ اتنی لمبی اور اتنی موٹی ایک چیز میرے سامنے آگئی ہے پاس انگلی کا علم باقی علم کی ضرورت کا پابند نہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات کا علم کلی علم کے طور پر ہے اور جب تک جزئیات کا علم نہ ہو اس وقت تک کلی علم حاصل نہیں ہو سکتا ۔ ہم خداتعالیٰ تک اس کی مخلوقات کے ذریعے سے پہنچتے ہیں اور پھر اس میں بھی تکمیل کے بعد تکمیل اور وسعت کے بعد وسعت پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔ ایک چیز کے علم کے بعد دوسری چیز کا علم حاصل ہوتا ہے اور دوسری چیز کے بعد تیسری چیز کا ۔ اور تیسری چیز کے بعد چوتھی کا علم حاصل ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ مخلوق کی جزئیات کا علم ہوتے ہوتے انسان خداتعالیٰ تک معرفت پیدا کرتا جاتا ہے ایک ادنیٰ سے ادنیٰ انسان بھی اگر غور کرے تو اس کے لئے بھی خداتعالیٰ کی ہستی کی دلیل موجود ہے ۔ جیسے ایک اعرابی سے کسی نے پوچھا کہ تم خدا کو کیوں مانتے ہو تو وہ ہنس پڑا کہ میں اتنا پاگل تو نہیں ہوں کہ خدا کو بھی نہ پہچان سکوں۔ بکریوں کی مینگنیاں راستہ میں پڑی ہوئی ہوتی ہیں تو میں ان کو دیکھ کر سمجھ لیتا ہوں کہ یہاں سے بکری گذری ہے اونٹ کا پاخانہ پڑا ہوا ہو تو اُسے دیکھ کر میں سمجھ لیتا ہوں کہ ادھر سے اُونٹ گذرا ہے تو کیا اتنی وسیع دنیا کو دیکھ کر میں نہیں سمجھ سکتا کہ ایک خدا موجود ہے جو اس ساری دنیا کا خالق اور اس نظام کا پیدا کرنیوالا ہے۔ یہ ایک بسیط علم ہے جس پر فلسفیوں نے اعتراض کیا ہے کہ آخر اتفاقات بھی تو ہوتے ہیں ۔ اس لئے خالی خالی زمین و آسمان کی پیدائش اس بات کی دلیل نہیں ہو سکتی کہ ان کا کوئی خالق ہے۔ بعض چیزیں اتفاقا بھی ہو جاتی ہیں اور تمام لوگ کہتے ہیں کہ یہ اتفاقی بات ہے۔ قرآن مجید نے فلسفیوں اور مفکرین یورپ کے اس اعتراض کی تردید میں یہ دلیل دی ہے کہ خالی اس دنیا کا وجود بیشک خداتعالیٰ کے خالق ہونے کی مکمل دلیل نہیں اور تم اس کو اتفاقی کہہ سکتے تھے مگر اس تمام عالم میں ایک ترتیب کا پایاجانا اور ہرچیز کی دوسری چیز کے ساتھ جوڑ موجود ہونا یہ سب کچھ اتفاقی نہیں بلکہ اس دنیا کی ترتیب اور ہر چیز کا دوسری چیز کے ساتھ جوڑ اور ہر ذرہ کی حکمت یہ سب چیزیں اس بات کی دلیل ہیں کہ اس سارے نظام اور ساری دنیا کا پیدا کرنیوالا خدا موجود ہے جس نے حکمت کے ماتحت اس ساری دنیا کو پیدا کیا ہے اُس نے انسان کی آنکھ پیدا کی جس میں دیکھنے کی طاقت رکھی تو اس کے مقابل میں سورج کے اندر روشنی پیدا کی جس کے ذریعہ سے انسان دیکھتا ہے ناک پیدا کی جس سے انسان سونگھتا ہے تو اس کے مقابل میں خوشبو پیدا کی۔ کان پیدا کی جس سے انسان سنتا ہے تو اس کے مقابل میں ہوا میں یہ خصوصیت رکھی کہ وہ جنبش کرتی ہے اور اس کے ذریعہ سے کان تک آواز پہنچتی ہے ۔ اب کیا دیکھنے کے لئے آنکھ اگر اتفاقاً پیدا ہو گئی ہے تو اس کے مقابل میں سورج کی روشنی بھی اتفاقاً پیدا ہو گئی؟ سونگھنے کے لئے اگر ناک اتفاقاً پیدا ہو گئی تو کیا اس کے مقابل خوشبو بھی اتفاقاً پیدا ہو گئی؟ اگر سننے کے لئے کان اتفاقاً پیدا ہو گئے تو کیا اس کے مقابل میں ہوا کے اندر بھی جنبش کر کے کانوں تک آواز پہنچانے کی قابلیت اتفاقاً پیدا ہو گئی؟ پاس ان چیزوں کے اندر اگر کوئی جوڑ نہ وہوتا کوئی ترتیب نہ ہوتی اور کوئی حکمت نہ ہوتی تو انکو اتفاق کہا جاسکتا تھا لیکن دنیا کا کوئی ذرہ ایسا نہیں جس میں کوئی ترتیب نہ ہو کوئی ذرہ ایسا نہیں جس میں حکمت نہ ہو۔ کوئی چیزایسی نہیں جس کا کسی دوسری چیز سے جوڑ اور وابستگی نہ ہو تو ہم کس طرح مان لیں کے یہی ساری کی ساری چیزیں اور یہ سارے کا سارا نظام خود بخود اور اتفاقی ہے۔ مگر یہ دلیل اُسی صورت میں فائدہ دے سکتی ہے جب انسان بڑا ہو اور ان چیزوں پر غور کرے۔ آنکھوں سے دیکھ دل و دماغ سے سوچے ادھر ان چیزوں پر نگا ڈالنے ادھر اپنے دل کے جذبات پر غور کرے۔ سورج اور چاند کی روشنی کو دیکھے ہوا اور اس کے اثرات پر غور رکے۔ گرمی اور سردی کے اثرات کو دیکھے سبزیوں اور ترکاریوں کے پیدا ہونے اور ان کی خاصیتوں پر غور کرے جب تک وہ ان چیزوں پر غور کرنے اور ان سے نتیجہ نکالنے کی اہلیت نہیں رکھتا اس وقت تک وہ خدا تعالیٰ تک کس طرح پہنچ سکتا ہے؟ یہ بات خلافِ عقل ہے کہ ایک بچہ ان تمام چیزوں پر غور کر کے اس نتیجہ تک پہنچ جائے کہ ایک خدا موجود ہے۔ بچہ توسب سے پہلے اپنی ماں سے روشناس ہوتا ہے اور اسی کو سب کچھ سمجھتا ہے پھر جب اس کو پتہ لگتا ہے کہ ماں کو بھی سب چیزیں باپ ہی لا کر دیتا ہے تو پھر وہ باپ سے محبت کرتا ہے بڑا ہو کر جب اپنی گلی کے بچوں سے کھیلتا ہے تو پھر ان سے محبت کرتا ہے اگر اس کا کوئی دوست نہ ملے تو رونے لگ جاتا ہے اور اصرار کرتا ہے کہ میرے دوست کو بلائو اس کے بغیر میرا گذارہ نہیں۔ پھر کھانے پینے اور پہننے کی چیزوں کا شوق پیدا ہوتا ہے تو ان سے محبت کرتا ہے۔ اگر اُس کی مرضی کے مطابق کھانا نہ ملے یا مرضی کے مطابق کپڑا نہ ملے تو روٹھ جاتا ہے کہ میرا اس کے بغیر گذارہ نہیں پھر اور بڑا ہوتا ہے تو سیر وشکار سے محبت کرتا ہے اور ان چیزوں کے بغیر اپنی زندگی بے لطف سمجھتا ہے۔ غرض یہ چیزیں ایک ایک کر کے اس کے سامنے آتی ہیں اور ہر ایک کے متعلق وہ یہی اندازہ لگاتا ہے کہ اس کے بغیر میرا گذارہ نہیں۔ گویا وہی اس کا خدا ہوتا ہے۔ مگر پھر آہستہ آہستہ ان چیزوں کو چھوڑتا چلا جاتا ہے پہلے ماں سے محبت ہوتی ہے تو اُسی کو اپنا خدا سمجھتا ہے پھر باپ سے محبت ہوتی ہے تو اسی کو اپنا خدا سمجھتا ہے۔ پھربھائیوں اور دوستوں سے محبت سے محبت ہوتی ہے تو ان کو اپنا خدا سمجھتا ہے پھر کھانے پینے اور پہننے کی چیزوں سے محبت ہوتی ہے تو ان کو اپنا خدا سمجھتا ہے۔یہاں تک کہ جب عاقل و بالغ ہوجاتا ہے تو پھر اگر اس پر خدا کا فضل ہو جائے اچھا استاد مل جائے جو اسے علم سکھائے اور ماں باپ بھی اچھی طرح تربیت کرنے والے ہوں تب وہ ان تمام چیزوں کو چھوڑ کر حقیقی خدا کی طرف آجائیگا اور سمجھ لیگا کہ یہ سب نقلی خدا تھے جن کو میں نے اپنی خواہشات کے ماتحت سب کچھ سمجھ رکھا تھا۔ اصل خدا تو وہ ہے جو ان سب کا پیدا کرنیوالا ہے غرض پہلے غیر اللہ کی محبت انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میری زندگی کا سارا انحصار انہی پر ہے۔ لیکن ایک ایک کر کے پھر ان کو چھوڑتا چلا جاتا ہے پہلے ماں کی گود کو ہی سب کچھ سمجھتا ہے اور اس سے الگ ہونے میں اپنی ہلاکت سمجھتا ہے ۔ پھر بڑا ہوتا ہے تو بھائیوں اور دوستوں سے محبت کرنے لگتا ہے اور اپنی زندگی کا تمام سُکھ اور راحت انہیں کے ساتھ کھیلنے میں سمجھتا ہے جب ان کے ساتھ مل کر کھیل ریا ہو تو ماں کے بلانے پر بھی نہیں جاتا۔ اس کی ساری خوشی کھیلنے میں ہوتی ہے۔ پھر اور بڑا ہوتا ہے تو سیر و شکار سے محبت ہوتی ہے پھر صحن اور گلی میں کھیلنے کو بھول جاتا ہے اور اس کی ساری خوشیاں سیر وشکار میں مرکوز ہو جاتی ہیں اگر اس کو ان چیزوں سے روکا جائے تو اس میں اپنی ہلاکت سمجھتا ہے لیکن آہستہ آہستہ آپ ہی آپ ان سب کو چھوڑتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ جب بلوغت کو پہنچ جاتا ہے تو غور و فکر کے بعد خدا کی حقیقی شکل اس کو نظر آجاتی ہے اور ان تمام چیزوں کو لغو سمجھ کر چھوڑ دیتا ہے اسی ترتیب طبعی کے ماتحت مفسرین نے لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پہلے ایک ستارہ کو چمکتا ہوا دیکھا تو اس کو اپنا خدا سمجھ لیا۔ پھر چاند کو دیکھا کہ ستارہ سے بڑا اور اس سے زیادہ روشن ہے تو اس کو اپنا خدا سمجھ لیا۔ پھر سورج کو دیکھا کے ستارے اور چاند دونوں سے بہت بڑا اور اس سے زیادہ روشن ہے تو اس کو اپنا خدا سمجھ لیا۔ مگر جب ایک ایک کر کے سب چُھپ گئے تو آپ نے فرمایا اِنِّیْ وَجَّھْتُ وِجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ(انعام ع۹) یعنی میں نے تمام کج راہوں سے بچتے ہوئے اپنی توجہ اس خدا کی طرف پھیر دی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آخر میں آپ خدا تعالیٰ پر ایمان لے آئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق یہ واقعہ تو درست نہیں مگر مفسرین کا دماغ اس بات تک صحیح پہنچا ہے کہ انسان دماغ بغیر الہام کے جب ہدایت پاتا ہے تو ادنیٰ سے اعلیٰ تک جاتا ہے بچے کے نزدیک ابتداء میں اُس کی ماں ہی سب کچھ ہوتی ہے یا دوسرے لفظوں میں اُس کا خدا ہوتی ہے بلکہ اس کی ماں کی بھی خبر نہیں ہوتی وہ سب سے پہلے پستان ہی کو خدا سمجھتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ مجھے اس سے دودھ ملتا ہے اگر پستان نہ ملے تو روتا ہے پھر ماں کو پہچانتا ہے تو اس سے محبت کرتا ہے۔ پھر باپ کو پہچانتا ہے تو اس سے محبت کرتا ہے۔ پھر بھائی سے محبت کرتا ہے پھر ساتھ کھیلنے والوں سے محبت کرتا ہے گلی اور محلے والوں کو پہچانتا ہے تو اس سے محبت کرتا ہے پھر دوسری ضروریات کھانے پینے اور پہننے کی چیزوں سے محبت کرنے لگتا ہے اور ان میں سے ہر ایک کو اپنے اپنے مقام پر اپنا مقصود سمجھتا ہے ۔ مگر آہستہ آہستہ ان سب کو چھوڑتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ یہ چیزیں اسے خدا تک پہنچا دیتی ہیں۔ اگر سال یا چھ مہینے کے بچہ کے اندر بولنے اور سمجھنے کی طاقت ہوتی اور اُسے کہا جاتا کہ تُو بڑا ہو کر اپنی ماں کی گود کو چھوڑ دیگا تو وہ اس بات سے اتنا حیران ہوتا جتنا کہ ایک سائنسدان اس بات سے حیران ہوتاکہ اُسے کہا جائے آگ جلاتی نہیں بلکہ بجھاتی ہے یا سورج روشنی نہیں دیتا۔یا چاند کی روشنی مکتسب نہیں بلکہ آپ ہی آپ ہے ۔ غرض جس طرح ایک سائنسدان ان اوپر کی باتوں سے حیران ہوگا وہ بچہ بھی اگر اس کو یہ بات سمجھائی جا سکتی کہ ایک دن وہ اپنی ماں کی گود سے اُتر جائیگا اور اس کی رغبت اپنی ماں سے کم ہو جائیگی حیران ہو تا۔ اگر سات آٹھ سال کے بچہ کو یہ بات کہہ دی جائے کہ بڑا ہو کر تو ایک عورت سے شادی کرے گا اور اس سے تیری رغبت زیادہ ہو جائیگی اور تو اپنی ماں کو چھوڑ دیگا تو وہ کہیگا کہ میں ایسا پاگل تو نہیں ہوں کہ اپنی ماں کو چھوڑدوں وہ اور ہونگے جو ایسا کرتے ہیں میں تو کبھی اس طرح نہیں کرونگا۔ پس یہ ایک فطرتی چیز ہے کہ انسان مختلف وقتوں میں مختلف چیزوں سے رغبت کرتا ہے اور جس وقت وہ اس چیز سے رغبت کر رہا ہوتاہے اس وقت وہ یہ وہم بھی نہیں کر سکتا کہ ایک دن میں اس چیز کو چھوڑ دونگا۔ اور جب بڑا ہوتا ہے تو پھر اس بات کا اسے خیال بھی نہیں آتا کہ کسی وقت میں اس چیز سے رغبت رکھتا تھا اور اس کے بغیر اپنی زندگی حرام سمجھتا تھا۔ یہی معنے اَشْھَدُ اَنْ لَا اِلٰہَ اللّٰہ کے ہیں کہ پہلے انسان غیر اللہ کی طرف توجہ کرتا ہے جو بظاہر غیر اللہ کا راستہ ہے مگر اللہ تک پہنچنے کا اصل راستہ یہی ہے۔ اگر بچہ کے اندر پستان کی محبت نہ ہوتی تو اُس کے اندر ماں کی محبت بھی کبھی نہ ہوتی۔ اگر بچہ کو ماں سے محبت نہ ہوتی تو اس کو باپ سے بھی کبھی محبت نہ ہوتی۔ اگر بچہ کو باپ سے محبت نہ ہوتی تو اس کو بھائی اور بہنوں سے محبت نہ ہوتی تو اس کو دوستوں اور ساتھ کھیلنے والوں سے بھی کبھی محبت نہ ہوتی۔ اگو اگر اس کو اپنے اپنے وقت پر ان اشیاء سے رغبت نہ ہوتی تو سچی بات یہ ہے کہ خدا کو بھی اپنے وقت پر نہ پا سکتا۔ بات یہ ہے کہ انسان اپنی فطرت میں جو خلا محسوس کرتا ہے اُس کو پُر کرنے کے لئے وہ مختلف وقتوں میں مختلف چیزوں سے رغبت کرتا ہے کہ شاید یہ چیز میری ضرورت کو پورا کردے۔ جب اُس چیز سے اس کی تسلی نہیں ہوتی تو پھر دوسری چیز سے رغبت کرتا ہے کہ شاید اس چیز سے میری ضرورت پوری ہو جائے۔ جب اس سے بھی اسے طمانیت حاصل نہیں ہوتی تو پھر چوتھی چیز سے رغبت کرتا ہے کہ شاید یہی میرا مقصود ہو۔ یہاں تک کہ ایک ایک کر کے ان تمام چیزوں کو چھوڑتا چلا جاتا ہے اور آخر خداتک جا پہنچتا ہے اور جب اس کو اللہ مل جاتا ہے تو اس کو پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے اور پھر اس مقام سے نہیں ہلتا قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِنَّ اِلیٰ رَبِّکَ الْمُنتَھٰی(نجم آیت ۴۳) کہ ان تمام چیزوں میں سے جو غیر اللہ ہیں گذر کر ایک دن انسان اپنی منزل مقصود یعنی خدا تک پہنچتا ہے اور وہ فورا ہی اس منزل پر نہیں پہنچ جاتا بلکہ راستہ میں کئی چیزیں آتی ہیں جن کو بچپن کی وجہ سے خدا سمجھ لیتا ہے مگر آہستہ آہستہ اُن سب کو چھوڑتا چلا جاتا ہے اور ہر چیز اس کی انگلی پکڑ کر اُس کو خدا کے قریب کر دیتی ہے۔
زیر تفسیر آیت میں اللہ تعالیٰ نے اسی امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اگر تم نظامِ عالم پر غور کرو تو تمہیں ذرہ ذرہ میں خداتعالیٰ کو وجود نظر آئیگا۔ اور تمہیں اقرار کرنا پڑے گا کہ خداتعالیٰ نے زمین و آسمان اور ان کے درمیان جس قدر اشیاء پیدا کی ہیں ان تمام کو حق و حکمت کے ساتھ پیدا کیا ہے یعنی ان کی پیدائش بلاوجہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے کوئی بہت بڑا مقصد کام کر رہا ہے اور چونکہ وہ مقصد اس دنیا میں پورا ہوتانظر نہیں آتا۔ اس لئے ضروری ہے کہ انسانی زندگی اسی دنیا تک محدود نہ ہو تاکہ وہ اس نظام کی عظمت کے مطابق اس اعلیٰ مقام کو حاصل کر کے جس کے لئے اس کی پیدائش معرض، وجود میں آئی ہے ۔ اگر انسان کی زندگی صرف اس دنیا تک ختم ہو جانے والی ہوتی تو اس کے لئے اتنا بڑا نظام جاری کرنا جس کے اسرار کو علوم کی انتہائی ترقی کے باوجود ابھی تک سائنسدان بھی معلوم نہیں کر سکے ایک لغو اور خلافِ عقل فعل قرار پاتا ہے۔
مجھے یاد ہے ۱۹۴۶؁ء میں جب ہم نے قادیان میں ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے افتتاح کے لئے ڈاکٹر سرشانتی سرذب صاحب بھٹنا گر ڈاکٹر سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ گورنمنٹ آف انڈیا کو بلوایا تو انہوں نے تقریر کرتے ہوئے یہی کہا کہ آج سائنسدان کے غرور کا سار اس قدر نیچا ہو چکا ہے کہ وہ ہرگز یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ سائنس ان اشیاء کی بھی مناسب تشریح کر سکتی ہے جو ظاہری طور پر ہمیں نظر آتی ہیں اور جب زمین اور آسمان میں اس قدر اسرار پائے جاتے ہیں کہ سائنس اپنی تمام ترقی کے باوجود ابی مادیات میں سے بھی ایک بہت چھوٹے سے حصے کی تشریح کر سکی ہے تو پھر اس وسیع کائنات کو جس وجود کے لئے ایک خادم کے طور پر پیدا کیا گیا ہے اس کی پیدائش کو عبث قرار دینا کس طرح درست ہو سکتا ہے۔
پھر فرماتا ہے وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ۔ رات اور دن کے آگے پیچھے آنے میں بھی عقلمند لوگوں کے لئے بڑے بھاری نشان ہیں۔ اس جملہ میں اللہ تعالیٰ نے پھر اپنی رحمانیت کا ثبوت پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین پیدا کئے اور سورج اور چاند اور ستارے وغیرہ بنائے۔ اسی طرح اُس نے اپنی رحمانیت کے ماتحت یہ بھی انتظام کیا ہو اہے کہ رات اور دن کا ایک تسلسل جاری ہے۔ اور ہر رات کے بعد ایک دن کا ظہور ہوتا ہے۔ اگر رات نہ آتی تو انسان اپنی طاقتوں کو کھو بیٹھتا۔ اور اگر دن نہ چڑھتا تو انسانی زندگی بے کار ہو کر رہ جاتی۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کا ملہ کے ماتحت رات اور دن بنادیئے تاکہ انسان اپنی نیند پوری کر کے قویٰ میں تازگی حاصل کرے اور دن بھر کام کر کے اپنے آپ کو مفید وجود بنائے رات اور دن کی طرف توجہ دلا کر اللہ تعالیٰ نے روحانی رنگ میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ جس طرح خداتعالیٰ نے مادی ظلمت کو دور کرنے کے لئے انتظام کر رکھا ہے روحانی طور پر بھی ظلمت اور نور کا ایک سلسلہ جاری ہے اور اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر رکھے ہیں کہ جس کے نتیجہ میں روحانی ظلمتیں کا فور ہوتی رہتی ہیں۔ ان سامانوں میں سے ایک تو یہ ہے کہ ملائکہ انسانی قلوب میں نیک تحریکات کرتے رہتے ہیں اور انہیں ظلمات سے بچانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ لیکن جب بنی نوع انسان کی اکثریت ظلمت میں گرفتار ہو جائے اور ملکی تحریکات ان پر اثر نہ کریں اور شیطان ان پر تسلط جمالے تو اس وقت اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء اور مامورین کے ذریعہ ان کی ظلمتوں کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ لوگ روحانی عالم کے آفتاب و ماہتاب ہوتے ہیں اور ان پر ایمان لانے والے ستاروں کی طرح دنیا کی ہدایت کا موجب بنتے ہیں۔ غرض اِخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّھارِ میں اللہ تعالیٰ نے رحمانیت کے اس فیضان کی طرف توجہ دلائی ہے جس کے ڈریعہ ملائکہ اور انبیاء اور مامورین اور مجددین اور اولیاء وغیرہ بنی نوع انسان کو ظلمات سے نور کی طرف لے جاتے ہیں اور دنیا کو تباہ ہونے سے محفوظ رکھتے ہیں۔
وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ میں اس امر کی طرف اشارہ کیا کہ جیسے کشتیوں اور جہازوں کے بغیر تم سمندروں میں نہ ایک طرف کا مال دوسری طرف پہنچا سکتے ہو اور نہ وہاں سے کوئی مال اپنے استعمال کے لئے لاسکتے ہو ۔ اسی طرح خداتعالیٰ نے رُوحانی دنیا میں بھی بعض ایسے وجود بنائے ہیں جو لوگوں کے لئے کشتی کاکام دیتے ہیں وہ خداتعالیٰ کی طرف سے تمہارے لئے فیضان لاتے ہیں اور تمہیں زمین سے اُٹھا کر خداتعالیٰ تک پہنچا دیتے ہیں پھر جس طرح وہی شخص سمندری طوفانوں سے محفوظ رہ سکتا ہے جو کشتی میں سوار ہو اسی طرح روحانی بلائوں اور آفات سے بھی وہی شخص محفوظ رہ سکتا ہے جو اپنے زمانہ کے روحانی نجات دہندہ کی کشتی میں سوار ہو۔
وَمَااَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآئٍ میں اس طرف اشارہ فرمایا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ زمین کو حیاتِ تازہ بخشنے کے لئے آسمان سے پانی نازل فرماتا ہے اسی طرح وہ لوگوں کی روحانی تشنگی فرو رکرنے کے لئے آسمان سے ہی وحی نازل کیا کرتا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ لوگ جسمانی بارش کو تو قدر کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں لیکن جب آسمان سے وحی الہٰی کی بارش ہوتی ہے تو اس سے فائدہ اتھانے کی کوشش نہیں کرتے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دفعہ صحابہؓ سے وحی الہٰی کی بارش سے فائدہ اُٹھانے اور نہ اُٹھانیوالوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ دنیا میں تین قسم کے آدمی پائے جاتے ہیں کچھ تو ایسے ہوتے ہیں کہ جن کی مثال اچھی زمین کی طرح ہوتی ہے۔ جو نرم ہو پانی کو اپنے اندر جذب کرنے کی قابلیت رکھتی ہو اور پھر اچھی کھیتی اُگاسکتی ہو۔ جب بارش نازل ہوتی ہے تو وہ زمین بارش کے پانی کو سمیٹ لیتی اور اُسے اپنے اندر جذب کرلیتی ہے اور پھر زمین سے کھتی نکلتی اور لوگوں کے کام آتی ہے گویا وہ خود بھی پانی پیتی ہے اور باقی لوگوں کے کام آتی ہے گویا وہ خود بھی پانی پیتی ہے اور باقی لوگوں کے لئے بھی غذا مہیاکرتی ہے۔ اور دوسری قسم کے لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی مثال اس زمین کی طرح ہوتی ہے جو سخت ہو لیکن اپنے اندر نشیب رکھتی ہو۔ جب پانی گِرتا ہے تو وہ اس زمین میں جمع ہو جاتا ہے اور گو ایسی زمین خود پانی نہیں پیتی لیکن چونکہ وہ پانی کو جمع کر لیتی ہے اس لئے وہ پانی جانور پیتے ہیں آدمی استعمال کرتے ہیں اور اپنے کھیتوں کو اس پانی سے سیراب کرتے ہیں لیکن ایک تیسری قسم کے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کی مثال اس سخت اور پتھریلی زمین کی طرح ہوتی ہے جو نہ صرف سخت اور پتھریلی ہو بلکہ مسطح اور ہموار بھی ہو۔ اس میں کوئی گڑھا نہ ہو جب آسمان سے پانی نازل ہوتا ہے تو نہ وہ آپ پانی پیتی ہے کیونکہ وہ سخت اور پتھریلی ہوتی ہے اور نہ پانی جمع کرتی ہے کیونکہ وہ مسطح اور ہموار ہوتی ہے۔ پھر فرمایا پہلی مثال تو اس شخص کی ہے جو عالم باعمل ہو۔ وہ دین حاصل کرتا ہے اور نہ صرف خود اس کے احکام پر عمل کرتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاتا ہے اور ان کو عامل بنانے کی کوشش کرتا ہے گویا وہ عالم بھی ہوتا ہے اور عامل بھی ہوتا ہے۔ وہ تعلیم بھی حاصل کرتا ہے اور معلم بھی ہوتا ہے۔ لیکن تیسری قسم کا آدمی نہ عامل ہوتا ہے اور نہ معلم ہوتا ہے نہ خود فائدہ اٹھاتا ہے اور نہ دوسروں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ دوسری مثال بوجہ اس کے کہ دونوں مثالوں سے حل ہو جاتی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان نہیں فرمائی مگر ہر شخص ادنیٰ غور سے سمجھ سکتا ہے کہ دوسری مثال اس شخص کی ہے جو معلم تو ہے مگر عامل نہیں۔ وہ دین سیکھتا ہے اُس کے احکام سنتا ہے اس کی تعلیموں سے واقفیت رکھتا ہے مگر خود دیندار نہیں ہوتا۔ ایسا شخص چونکہ خدا اور اس کے رسول کی باتیں دوسروں تک پہنچاتا رہتا ہے اس لئے وہ بھی ایک مفید وجود ہوتا ہے گو ذاتی طور پر وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھاتا۔ بہر حال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تینوں قسم کے انسانوں کا ذکر فرمایا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ انبیاء کے آنے پر یہی تین گروہ دنیا میں نظر آتے ہیں یعنی کچھ تو ایسے لوگ ہوتے ہیں جو ان کی تعلیموں پر عمل کرتے ہیں اور وحی الہٰی کی بارش سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو اعراض سے کام لیتے ہیں اور انبیاء کا انکار کر دیتے ہیں۔ اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو دین کو سمجھتے تو ہیں مگر اپنی غفلت اور سستی کی وجہ سے اس پر عمل نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس جگہ مادی بارش کا ذکر فرماکر اس طرف توجہ دلائی ہے کہ جس طرح تم بارش سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہو۔ اسی طرح تمہارا فرض ہے کہ تم اس روحانی بارش سے بھی فائدہ اُٹھائو ہو محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ نازل ہوئی اور ان پتھروں کی طرح مت بنو جو بارش کا کوئی قطرہ اپنے اندر جذب نہیں کرتے۔ پھر جس طرح آسمان سے بارش برستی ہے توزمین کی اندرونی تہوں میں جو پانی مخفی ہوتا ہے اس میں بھی جو ش پیدا ہوتا ہے اور کنوئوں کا پانی بھی چڑھ آتا ہے اسی طرح انبیاء پر جب وحی الہٰی کی بارش نازل ہوتی ہے تو عوام الناس کو بھی کثرت کے ساتھ خوابیں آنی شروع ہو جاتی ہیں اور ان کی توجہ بھی خداتعالیٰ کی طرف پھر جاتی ہے چنانچہ اس زمانہ میں بھی ایسا ہی ہوا۔ اور حضرت مسیح موعو د علیہ السلام کی صداقت میں ہزار ہا لوگوں کو خوابیں آئیں میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس قسم کی خوابیں اکٹھی کی جائیں تو ایک بہت بڑی کتاب بن سکتی ہے۔
اسی طرح وحی الہٰی کے فیضان کے دائرہ کو اللہ تعالیٰ اس رنگ میں بھی وسیع کر دیتا ہے کہ جو لوگ انبیاء پر ایمان نہیں لاتے اللہ تعالیٰ ان کے دماغوں میں بھی ایک نئی روشنی پیدا کر دیتا ہے اور ان کی عقلیں تیز ہو جاتی ہیں ان کا فکر بلند ہو جاتا ہے ان کی فراست ترقی کرجاتی ہے اور ان کی دماغی صلاحیتیں زیادہ تیز ی سے اُبھرنے لگتی ہیں۔
پھر فرماتا ہے خداتعالیٰ کے نشانوں میں سے ایک یہ بھی نشان ہے کہ وَبَثَّ فِیْھَا مِنْ کُلِّ دَآبَۃٍ۔ اس نے زمین میں ہر قسم کے جانور پھیلا دیئے ہیں اس میں مادی جانوروں کے علاوہ ان لوگوں کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے جو انبیاء کے آنے سے پہلے مردہ کی سی حیثیت رکھتے ہیں اور ان میں روحانی زندگی کی کوئی رمق تک نظر نہیں آتی لیکن جب آسمانی صُور پُھونکا جاتا ہے تو اس وقت ایسے مردہ بھی زندہ ہو جاتے ہیں اور لولے لنگڑے بھی چلنے پھرنے لگ جاتے ہیں۔ پھر یہ لوگ جو مختلف نسلوں سے تعلق رکھتے ہیں اور مختلف علوم و فنون اور مختلف قابلیتوں کے مالک ہوتے ہیں نبی کی آواز پر لبیک کہنے کے بعد دین کی اشاعت کے لئے دنیا میں چاروں طرف پھیل جاتے ہیں اور اپنی تبلیغی جدوجہد سے لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگوں کو دین کی طرف کھینچ لاتے ہیں جو اس کے دین کی رونق اور تازگی کا موجب بنتے ہیں۔ ان معنوں کے لحاظ سے دَآبَّۃٍ سے ان مومنوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو زمین کی روحانی رونق اور آبادی کا باعث ہوتے ہیں اور جن سے موجودہ اور آئندہ نسلیں ہزاروں قسم کے مادی اور روحانی فوائد اُٹھاتی ہیں۔
وَتَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی صفتِ رحیمیت کا ثبوت پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ صفتِ رحمانیت کے ماتحت اللہ تعالیٰ کے جس قدر فیضان ہیں ان میں تو کافر بھی برابر کے شریک ہیں لیکن رحیمیت کے دائرہ میں جب مومن اور کافر کا مقابلہ ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی تائید مومنوں کو کامیاب کرتی اور کفار کو ان کے بد ارادوں میں ناکام کر دیتی ہے اس جگہ استعارہ کے طور پر ہوائوں سے وہ ہوائیں مراد ہیں جو خاص خاص وقتوں میں چلا کرتی ہیں خصوصاً وہ ہوائیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے چلیں اور جنہوں نے آپ کے انوار کو ساری دنیا میں پھیلا دیا مثلاً جنگِ بدر کے موقعہ پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ریت اور کنکریوں کی ایک مٹھی پھینکی تو اُسی وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسی تیز ہوا چلی جس نے مومنوں کی تائید کی۔ اور کفار کو ایسا بے دست و پا کر دی اکہ تھوڑی دیر میں ہی جنگ کا پانسہ پلٹ گیا اور کفار کے بڑے بڑے لیڈر خاک و خون میں تڑپنے لگے اور ان کے مسلح اور آزمودہ کار سپاہی میدان سے منہ پھیر کر بھاگ نکلے۔
پھر غزوہ احزاب میں بھی ایساہی ہوا اور خداتعالیٰ نے آپ کی تائید میں ہوا چلائی اور کفار بد حواس ہو کر بھاگ کھڑے ہوئے ۔ چنانچہ تاریخ میں لکھا ہے کہ ایک رات سخت آندھی چلی جس نے قناطوں کے پردے توڑ دیئے۔ چولھوں پر سے ہنڈیاں گرادیں اور بعض قبائل کی آگیں بُجھ گئیں۔ مشرکین عرب میں یہ رواج تھا کہ وہ ساری رات آگ جلائے رکھتے تھے اور اس کو نیک شگون سمجھتے تھے اور جس کی آگ بُجھ جاتی تھی وہ خیال کرتا تھا کہ آج کا دن میرے لئے منحوس ہے اور وہ اپنا خیمہ اٹھار کر لڑائی کے میدان سے پیچھے ہت جاتا تھا جن قبائل کی آگ بجھی انہوں نے اس رواج کے مطابق اپنے خیمے اٹھائے اور پیچھے کو چل پڑے۔ انکو دیکھ کر ارد گرد کے قبائل نے سمجھا کہ شاید یہود نے مسلمانوں کے ساتھ مل کر شبخون مار دیا ہے اور ہمارے آس پاس کے قبائل بھاگ رہے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے بھی جلدی جلدی اپنے ڈیرے سمیٹے اور میدان سے بھاگنا شروع کر دیا۔ ابوسفیان اپنے خیمہ میں آرام سے لیٹا تھا کہ اس واقعہ کی خبر اُسے بھی پہنچی وہ گھبرا کر اپنے بندھے ہوئے اونٹ پر چڑھ بیٹا اور اس کو ایڑیاں مارنی شروع کر دیں۔ آخر کسی نے اُسے توجہ دلائی کہ وہ یہ کیا حماقت کر رہا ہے اس پر اس کے اونٹ کی رسیاں کھولی گئیں اور وہ بھی اپنے ساتھیوں سمیت میدان سے بھاگ گیا۔
پھر ہوائوں کی طرح بارشیں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں برسیں اور بادلوں نے بھی آپ کا ساتھ دیا چنانچہ جنگِ بدر کے موقعہ پر جبکہ صحابہؓ کو پانی کی سخت ضرورت تھی اللہ تعالیٰ نے بارش نازل کر دی جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کو پانی بھی مل گیا اور ان کی زمین بھی جو ریتیلی تھی اور میدان جنگ بننے والی تھی سخت ہو گئی۔ اُدھر کافروں کی زمین جو سخت تھی بارش کی وجہ سے ایسی خراب ہو گئی کہ وہ اُس پر پھسلنے لگ گئے۔ اسی طرح مدینہ میں آپ کی دُعا کی برکت سے ایک دفعہ کئی دن بارش ہوتی رہی لیکن جب وہ بارش تکلیف کی صورت اختیار کرنے لگی اور مومنوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوا تو آپ ہی کی دُعا کی برکت سے وہ رُکی اور مدینہ سے ہٹ کر اردگرد کے علاقوں پر برسنے لگ گئی۔
اسی طرح جب مکہ والوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شدید مخالفت کی اور بار بار عذاب کا مطالبہ کیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان پر ویسا ہی سات سالہ قحط نازل فرمائے جیسا کہ اس نے یوسف کے زمانہ میں نازل کیا تھا۔ جنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ آپ کی اس بد دُعا کی وجہ سے حجاز میں ایسا شدید قحط پڑا کہ لوگوں کو مردار اور ہڈیاں اور چمڑے تک کھانے پڑے اور ان کی صحتیں اس قدر کمزور ہو گئیں کہ انہیں ہر وقت آنکھوں کے سامنے دھواں سا نظر آتا تھا اور یہ عذاب پورے سات سال تک ممتد رہا۔ آخر لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے درخواست کی کہ مضر یعنی قبائلِ حجاز کے لئے دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کی تکلیف کو دُور کرے۔ چنانچہ آپؓ نے دعا فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے بارشیں فرمائیں اور قحط دُور ہوا۔ بلکہ ایک روایت میں ذکر آتا ہے کہ خود ابوسفیان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا
وَمِنَ النَّاسِ


شَدِیْدُ الْعَذَابِo
کہ اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) تیری قوم ہلاک ہو گئی۔ دعا کر کہ اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف کو دُور کرے۔ چنانچہ آپ نے دُعا فرمائی اور یہ عذاب دُور ہوا(بخاری جلد ۳ کتاب اتفسیر القرآن سورۃ دُخان) یہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہوائیں بھی مسخر کر دی تھیں اور بادل بھی مسخر کر دیئے تھے اور کامل مومنوں کے لئے بھی وہ ایسا ہی کیا کرتا ہے بے شک ہوائیں ہمیشہ چلتی رہتی ہیں اور بارشیں ہمیشہ برستی رہتی ہیں مگر بدر اور احزاب کی ہوائوں نے بتا دیا کہ وہ مومنوں کے لئے بشارت اور کافروں کے لئے عذاب تھیں اسی طرح بارشیں بھی بے شک عام طور پر ہوتی رہتی ہیں مگر بدر اور مدینہ کی بارشوں نے بتا دیا کہ وہ مسخر شدہ تھیں اور مسخر شدہ بارشیں اور ہوائیں ہمیشہ مومنوں کی تائید اور کفار کی تذلیل کے لئے جاری ہوتی ہیں اور ایسے امور تقدیر خاص کے ماتحت جاری ہوتے ہیں۔
۷۹؎ حل لغات:۔ اَنْدَادًا : یہ نِدّ’‘ کی جمع ہے اور اَلنِّدُّ کے معنے ہیں اَلْمِثقلُ وَلَایَکُوْنُ اِلَّا مُخَالِفًا نِدّ مثل کو کہتے ہیں۔ اور یہ لفظ ہمیشہ مد مقابل کے لئے بولا جاتا ہے۔ یُقَالُ مَالَہ‘ نِدّ’‘ اَیْ مَالَہ‘ نَظِیْر’‘ کہا جاتا ہے کہ اس کا کوئی نِد نہیں یعنی اس کا کوئی نظیر نہیں اس کی جمع انداد آتی ہے۔
یہاں اَذْ۔ حِیْنَ کے معنے میں استعمال ہوا ہے اور حین کے معنے وقت کے ہیں۔
اسی طرح اسجگہ لَوْ کی جزاء محذوف ہے جو کہ یَعْلَمُوْا ہے۔ معنے اس طرح ہونگے کہ اگر یہ ظالم لوگ اس گھڑی کو جس میں اُن پر عذاب نازل ہو گا دیکھ لیں تو انہیں معلوم ہو جائے کہ سب قوت اللہ ہی کے لئے ہے۔
تفسیر:۔ قرآن کریم میں مشرکوں کے معبودوں کے لئے چار الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ (۱) نِدّ (۲) شریک (۳) اِلٰہ (۴)رب ۔اور یہ چاروں نام چار قسم کے شرکوں پر دلالت کرتے ہیں۔ نِدّ شریک فی الجوہر کو کہتے ہیں یعنی ایسی ہستی کو جس کی محض عبادت ہی مدنظر نہ ہو بلکہ جیسے خداتعالیٰ کی ذات ہے ویسے ہی اس چیز کو ازروئے ذات سمجھا جائے اور شریک وہ ہے جسے کاموں میں شریک باری تعالیٰ قرار دیا جائے خواہ بعض صفات میں یا کل صفات میں خواہ اس کی عبادت کی جائے یا نہ کی جائے اور اِلٰہ یعنی معبود کا لفظ جب خداتعالیٰ مشرکوں کی نسبت استعمال کرے تو اس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ جن کی تم عبادت کرتے ہو۔ یہ لفظ بھی نِد سے وسیع ہے کیونکہ عام طور پر وہ بھی اِلٰہ قرار دیئے جاتے ہیں جو خداتعالیٰ کے شریک فی الجوہر تسلیم نہیں کیے جاتے۔ جیسے ہندئوئوں وغیرہ کے دیوتا ہیں اور رب ان ہستیوں کو کہا جاتا ہے جن کی ہر ایک بات بلا تمیز خیر و شر مان لی جائے بغیر اس کے کہ لوگ ان کی عبادت کریں یا انہیں خداتعالیٰ کی صفات میں شریک قرار دیں۔ ان چاروں قسم کے شرکوں کی مثالیں بھی دنیا میں پائی جاتی ہیں۔ نِدّ قرار دینے والی مسیحی اقوام ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا قرار دیتی ہیں وہ انہیں صفاتِ الوہیت کی وجہ سے خدا قرار نہیں دیتیں بلکہ اس وجہ سے خدا قرار دیتی ہیں کہ ان کے نزدیک وہ ازلی ابدی ہیں۔یعنی وہ انہیں شریک فی الجوہر ہونے کے لحاظ سے کدا مانتی ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ خدائی کی وہ تمام صفات جو ذات کے لحاظ سے خداتعالیٰ میں موجود ہونی ضروری ہیں ان میں بھی پائی جاتی ہیں۔ یا جیسے پارسی لوگ دو الگ الگ خدائوں کے قائل ہیں۔ یزدان کو وہ روشنی کا خدا سمجھتے ہیں اور اہرمن کو تاریکی کا خدا قرار دیتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو بعض ہستیوں کو صرف شریک قرار دیتے ہیں یعنی بعض کاموں میں انہیں متصرف تو تسلیم کرتے ہیں لیکن ان کی پرستش نہیں کرتے گویا انہیں صرف شریک فی الصفات مانتے ہیں جیسا کہ عرب کے لوگ تھے وہ جنات وغیرہ کو حکم اور تصرف میں تو خداتعالیٰ کا شریک قرر دیتے تھے مگر انہیں معبود یا رب یا نِدّ خیال نہیں کرتے تھے صرف اُن کا یہ اعتقاد تھا کہ فلاں وادی میں جسے وہ سید الوادی قرار دیتے تھے جن متصرف ہے اور وہ اس میں آتا جاتا ہے۔ وہ اس کا ادب بھی کرتے تھے اور خداتعالیٰ کی طرفح اس سے ڈرتے بھی تھے لیکن اس کی عبادت نہیں کرتے تھے۔
اِلٰہ یعنی معبود کا لفظ نِدّ سے وسیع ہے۔ چنانچہ کئی لوگ ایسے ہیں جو بعض ہستیوں کو معبود تو سمجھتے ہیں اور اُن کی عبادت بھی کرتے ہیں مگر انہیں خدا تعالیٰ کا شریک فی الجوہر تسلیم نہیں کرتے ۔ جیسے ہندو اپنے دیوتائوں کی عبادت کرتے ہیں مگر اُن کو متصرف یا شریک فی الجوہر قرار نہیں دیتے ۔ اسی طرح ان میں ماں باپ کی عبادت بھی پائی جاتی ہے مگر ان کو شریک یا رب یا نِدّ نہیں سمجھا جاتا۔ چوتھا نام رب ہے اور گو اس کے اصل معنے پیدا کرکے کمال تک پہنچانے والے کے ہیں۔ مگر اصطلاح مذاہب میں ہر ایک مربی اور سردار کے لئے یہ لفظ بولا جاتا ہے اور اس سے ایسے لوگ مراد ہوتے ہیں جن کی ہر ایک بات بلاتمیز خیر و شر مان لی جائے۔جیسے گم گشتہ اقوام میں پیروں فقیروں کے متعلق اعتقادرکھا جاتا ہے۔ اسلام اجتہادی مسائل میں دوسروں کی اطاعت جائز قرار دیتا ہے لیکن جس شخص کی خدا اور انبیاء کے حکم کے خلاف نصوص صریحہ میں اطاعت کی جائے وہ گویا رب سمجھا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اِنَّخَذُوْا اَحْبَارَ ھُمْ وَرُحْبَانَہُمْ اَرْ بَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ(توبہ آیت ۳۱) یعنی یہود نے اپنے اھباء اور راہبوں کو خدا کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے۔
ان چاروں الفاظ میں سے اِلٰہ اور رب کے الفاظ تو خداتعالیٰ کے لئے بھی استعمال کر لئے جاتے ہیں لیکن نِدّ اور شریک کے الفاظ صرف معبود ان باطلہ کے لئے ہی استعمال ہوتے ہیں۔ اس تفصیل سے ظاہر ہے کہ جہاں نِدّ کا لفظ استعمال ہوگا وہاں شریک فی الجوہر مراد ہو گا۔(اگر جوہر میں مشابہت نہ ہو تو وہ چیز مثل کہلائیگی نِدّ نہیں۔) اور جس جگہ شریک کا لفظ استعمال ہو گا وہاں شریک فی الصفات مراد ہو گا خواہ اس کی عبادت کی جائے یا نہ کی جائے اور جہاں اِلٰہ یعنی معبود کا لفط ہو گا وہاں صرف عبادت کو مدنظر رکھا جائیگا۔ خواہ انہیں خدا کا شریک فی الجوہر تسلیم نی کیا جائے۔ اور جہاں رب کا لفظ استعمال ہو گا وہاں ایسی ہستیاں مراد ہونگی جن کی ہر ایک بات خیر و شر کی تمیز کے بغیر مان لی جائے اور خدا اور اس کے رسول کے احکام کی پرواہ نہ کی جائے قرآن کریم میں ان سب اقسام کے شریک کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے کہ قُلْ یَآ اَھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآ ئٍ بِیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَلَا نُشْرِکَ بِہٖ شُیْئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَاِنْتَوَ لَّوْا فَقُوْ لُو ا اشْھَدُوْ ابِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ۔(آل عمران آیت ۶۵)یعنی تو کہہ دے کہ اے اہل کتاب کم سے کم ایک ایسی بات کی طرف تو آجائو جو ہمارے اور تمہاراے درمیان مشترک ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کریں کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ہم آپس میں ایک دوسرے کے رب نہ بنایا کریں ۔لیکن اگر اس دعوتِ اتحاد کے بعد بھی وہ لوگ پھر جائیں تو ان سے کہدو کہ تم گواہ رہو کہ ہم خداتعالیٰ کے فرمانبردار ہیں۔ اس آیت میں (۱) لَانَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ (۲) وَلَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا (۳) وَلَا یَتَّحِذُ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْ بَابْا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ فرمایا کہ اِلٰہ یعنی معبود اور شریک اور رب تینوں اقسامِ شرک کی نفی تو صراحتًا کی گئی ہے۔ مگر نِدّ کی ضمنی طور پر نفی کی گئی ہے۔ کیونکہ نِدّ ان تینوں کے اندر شامل ہے۔ یعنی جو نِدّ ہو گا۔ وہ بغیر عبادت اور شرک فی الصفات اور اطاعتِ کامل کے نہیں ہو گا۔ اور جب غیر اللہ کی عبادت اور شریک فی الصفات اور رب بنانے کو گناہ قرار دے دیا گیا تو نِدّ کی خود بخود نفی ہو گئی لیکن اس کے علاوہ لَا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ سے بھی نِدّ کی نفی ہو جاتی ہے۔
غرض اسلام توحید کے جس بلند ترین مقام پر بنی نوع انسان کو پہنچانا چاہتا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان نہ تو کسی کو خداتعالیٰ کا شریک فی الجوہر سمجھے ۔ نہ کسی کو اس کے کام میں شریک قرار دے خواہ اس کی عبادت کی جائے یا نہ کی جائے۔ نہ غیر اللہ میں سے کسی کی پرستش کی جائے اور نہ خدا اور اس کے انبیاء کے احکام کے خلاف کسی کی اس طرح اطاعت کی جائے جس طرح خداتعالیٰ کی اطاعت کی جاتی ہے۔ یہ تمام چیزیں توحید حقیقی کے منافی ہیں۔
یُحِبُّوْنَھُمْ کَحُبِّ اللّٰہِ کے دو معنے ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ ان انداد سے ویسی ہی محبت کرتے ہیں جیسی خدا تعالیٰ سے کرنی چاسہیے اتنی ہی وہ اپنے انداد سے بھی کرتے ہیں۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ باوجود اس کے کہ وہ خداتعالیٰ سے بھی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں ان کے دلوں میں خداتعالیٰ سے کوئی حقیقی محبت نہیں پائی جاتی ۔پہلے معنے کے لحاظ سے تو دونوں سے ان کی محبت یکساں معلوم ہوتی ہے لیکن دوسرے معنے کو مدنظر رکھتے ہوئے واضح ہو جاتا ہے کہ ان کا خدا تعالیٰ سے محبت کا دعویٰ محض ایک لاف زنی ہے۔ ورنہ ان دونوں محبتوں میں بڑا بھاری فرق ہوتا۔
وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ کے بھی دو معنے ہیں ایک تو یہ کہ مومن مشرکوں کی نسبت خداتعالیٰ سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ یعنی جو محبت مشرکوں کو خداتعالیٰ سے ہے اس سے بہت زیادہ محبت مومن اپنے خدا سے کرتے ہیں۔ یا مشرک اپنے بتوں سے جو محبت کرتے ہیں اس سے بہت زیادہ محبت مومن اپنے خداتعالیٰ سے کرتے ہیں۔ اور دوسرے معنے یہ ہیں کہ مومن خداتعالیٰ کے سوا دوسری چیزوں سے جو محبت کرتے ہیں ان تمام چیزوں کی محبت کی نسبت وہ خداتعالیٰ سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں اور اگر دونوں محبتوں کا مقابلہ ہو جائے تو خداتعالیٰ کی محبت کا پہلو ہمیشہ بھاری ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے ایک دوسرے مقام پر اس محبت کی ان الفاظ میں تشریح فرمائی ہے کہ قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآئُ کُمْ وَاَبْنَآئُ کُمْ وَاِخْوَ انُکُمْ وَاَزْوَ اجُکُمْ وَ عَشِیْرَ تُکُمْ وَاَمْوَالُ اِقْتَرَ فْتُمُرْ ھَا وَتِجَارَۃ’‘ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَمَسٰکِنُ تَرْ ضَونَھَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمق مِنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِھَا دٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ ط وَاللّٰہُ لَایَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ(توبہ آیت۲۴)یعنی کہہ دے کہ اگر تمہارے باپ دادا اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں یا تمہارے خاوند اور تمہارے رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے کمائے ہیں اور تجارت جس کے بگڑ جانے سے تم ڈرتے ہو اور گھر جنہیں تم پسند کرتے ہو۔ خدا اور اس کے رسول سے اور خدا کے راستہ میں جہاد کرنے سے تمہیں زیادہ پیارے ہیں تو تم کو خدا سے کوئی محبت نہیں۔ تب تم اللہ تعالیٰ کے عذاب کا انتظار کرو۔ اور خداتعالیٰ ایسے نافرمانوں کو کبھی اپنا راستہ نہیںدکھاتا۔ یعنی کامل محبت کی علامت یہ ہے کہ انسان اس کی خاطر ہر ایک چیز کو قربان کر دے۔ اگر اس بات کے لئے وہ تیار نہیں تو منہ کی باتیں اس کے لئے کچھ بھی مفید نہیں یوں تو ہر شخص کہہ دیتا ہے کہ مجھے خدا سے محبت ہے اور اس کے رسول سے محبت ہے بلکہ مسلمان کہلانیوالا کوئی بھی شخص نہیں ہوگا جو یہ کہتا ہو کہ مجھے خدا سے اور اس کے رسول سے محبت نہیں ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس اقرار کا اثر اس کے اعمال پر اس کے جو روح پر اور اس کے اقوال پر کیا پڑتا ہے۔ وہ لوگ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اپنے آپ کوسرشار بتاتے ہیں ور آپ کی تعریف میں نعتیں پڑھتے اور سنتے رہتے ہیں بلکہ بعض تو خود بھی نعتیں کہتے ہیں۔ آپ کے احکام کی فرمانبرداری کی طرف ان کو کچھ بھی توجہ نہیں ہوتی وہ خداتعالیٰ کی محبت کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن اس سے ملنے کے لئے کوئی کوشش نہیں کرتے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اگر کسی کا کوئی عزیز آجائے تو وہ سو کام چھوڑ کر اس سے ملنے کے لئے جاتا ہے۔ اپنے دوستوں اور پیاروں کی ملاقات کا موقعہ ملے تو پھُولا نہیں سماتا۔ حکام کے حضور شرف بار یابی حاصل ہو تو اس کی گردن فخر سے اونچی ہو جاتی ہے لیکن لوگ خداتعالیٰ کی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں ااور نماز کے قریب بھی نہیں جاتے۔ یا نماز پڑھتے ہیں تو اس طرح کہ کبھی پڑھی کبھی نہ پڑھی۔ یا اگر باقاعدہ بھی پڑھی تو ایسی جلدی جلدی پڑھتے ہیں کہ معلوم نہیں ہوتا کہ سجدہ سے انہوں نے کب سر اٹھایا اور کب دوبارہ سجدہ کیا جس طرح مرغا چونچیں مار کر دانہ اٹھاتا ہے اسی طرح وہ بھی سجدہ کر لیتے ہیں نہ خشوع ہوتا ہے نہ خضوع۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے روزہ کا بدلہ اپنے آپ کو قرار دیا ہے۔ مگر لوگ خداتعالیٰ کی محبت کا دعویٰ کرتے ہوئے اس کا دامن پکڑنے کے لئے نہیں جاتے۔ اور اس کا قرب حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے ۔ خداتعالیٰ کی محبت ظاہر کرتے ہیں لیکن لوگوں کے حقوق دباتے ہیں۔ جھوٹ بولتے ہیں۔ بہتان باندھتے ہیں غیبتیں کرتے ہیں اللہ تعالیٰ سے عشق کا اظہار کرتے ہیں لیکن قرآن کریم کا مطالعہ اور اس پر غور کرنے کی توفیق ان کو نہیں ملتی۔ غرض محبت کا دعویٰ اور شے ہے اور حقیقی محبت اور شے ہے۔ قرآن کریم بتاتا ہے کہ انسان اس وقت تک کبھی سچا مومن نہیں بن سکتا جب تک وہ عملاً خداتعالیٰ سے ایسی محبت نہ کرے کہ اس کے مقابلہ میں نہ ماں باپ کی محبت ٹھہر سکے۔ نہ بیٹوں کی محبت ٹھہر سکے۔ نہ بھائیوں کی محبت ٹھہر سکے۔ نہ بیویوں کی محبت ٹھہر سکے نہ قبیلہ اور قوم کی محبت ٹھہر سکے۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک حدیث میں فرمایا ہے کہ ثَلَا ث’‘ مَنْ کُنَّ فِیْہِ وَجَدَ حَلَا وَۃَ الْاِیْمَانِ اَنْ یَکُوْنَ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہ‘ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِمَّا سِوَاھُمَا وَاَنْ یُّحِبَّ الْمَرْ ئَ لَا یُحِبُّہ‘ اِلَّا لِلّٰہِ وَاَنْ یَکْرَہَ اَنْ یَعُوْدَ فِی االْکُفْرِ کَمَا یَکْرَہُ اَنْ یُقْذَفَ فِی النَّارِ(بخاری جلد اول کتاب الایمان) یعنی جس شخص میں یہ تین باتیں پائی جائیں اس کے متعلق سمجھ لو کہ اُسے حلاوتِ ایمان حاصل ہو گئی ہے۔ اول یہ کہ خدا اور اس کا رسول اس کی نگاہ میں تمام ماسوا سے زیادہ محبوب ہو۔ دوم انسان دوسرے سے محض اللہ کے لئے محبت کرے سوم۔ ایمان لانے کے بعد وہ کفر کی طرف لوٹنا ایسا ہی ناپسند کرے جیسے آگ میں ڈالا جانا۔
وَلَوْ یَرْی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اِذْ یَرَدْنَ الْعَذَابَ میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ آج تو یہ لوگ
اَذْتَبَرَّ اَالَّذِیْنَ
بِھِمُ الْاَسْبَابُo
اسلام کی مخالفت کر رہے ہیں اور بتوں کو خداتعالیٰ کا شریک قرار دے رہے ہیں لیکن اگر یہی لوگ اس وقت کا نظارہ اپنے ذہنوں میں لا سکیں جب وہ عذاب کو دیکھنے گے تو انہیں سب کچھ بھول جائے اور انہیں معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کا شریک بنانا کوئی معمولی گناہ نہیں۔ اس وت تو یہ لا علمی اور جہالت کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں لیکن اگر یہ ُس وقت کا تصور کر سکیں جب ان پر اپنے معبودوں کی بے بضاعتی روشن ہو جائیگی تو وہ ایسا کبھی نہ کریں جیسا کہ فتح مکہ کے موقعہ ہر تمام کفار نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ ان کے معبود ان کے کسی کام نہ آئے بلکہ وہ توڑ پھوڑ کر پھینک دیئے گئے اور بیت اللہ کو خدائے واحد کی عبادت کے لئے پاک کر دیا گیا۔
اِذْ یَرَوْنَ الْعَذَابَ کی تشریح میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اخروی عذاب کی بھی تفصیل بیان فرمائی ہے جو کفار کو ملیگا اور بتایا ہے کہ انہیں تمثیلی طور پر سانپ اور بچھو اور اسی قسم کی اور خوفناک چیزیں نظر آئیں گی۔ جو درحقیقت انہی کے اعمال کی ایک شکل ہونگی۔ کیونکہ دنیا میں انہوں نے سانپوں کی طرح لوگوں ڈسا اور بچھوئوں کی طرف نیش زنی سے کام لیا اور درندوں کی طرح لوگوں کو چیرا پھاڑا اس لئے خداتعالیٰ کی سزا کے لئے سانپوں اور بچھوئوں کو ہی اُن پر مسلط کر دیگا اور انہیں اپنے اعمال کی سزا دیگا۔
یہ آیت اپنے مضمون کے لحاظ سے پہلی آیت سے نہایت گہرا تعلق رکھتی ہے۔ بلکہ درحقیقت یہ دونوں آیات ایک ہی مضمون کی حامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں یہ مضمون بیان فرمایا ہے کہ باوجود ان دلائل کے جو حق و باطل میں فرق کرینوالے ہیں اور باوجود اس کے کہ دنیا کا ذرہ ذرہ خداتعالیٰ کی وحدانیت کا ثبوت دے رہا ہے اور باوجود اس کے کہ یہ لوگ خداتعالیٰ کی تقدیر خاص کو بھی دیکھ رہے ہیں جو مومنوں کے حق میں جاری ہے پھر بھی یہ لوگ خداتعالیٰ کے نِد قرار دے رہے ہیں اور ان سے ایسی ہی محبت کرتے ہیں جیسی خداتعالیٰ سے کرنی چاہیے۔ اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ لوگ تباہ ہونے والے ہیں۔
۸۰؎ حل لغات:۔ تَبَّرَّأَ باب تفعل سے ماضی کا صیغہ ہے اور اس کے معنے ہیں تَخَلَّصَ یعنی اُس نے چھٹکارا حاصل کر لیا(اقرب) اور اَلتَّبَرِّی (مصدر) کے معنے ہیں اَلتَّغَصِّی مِمَّا یُکْرَ ہُ مُجَاوَرَتُہ‘ یعنی ناپسندیدہ چیز سے چھٹکارا حاصل کرنا(مفردات) پس آیت کے معنے یہ ہیں کہ وہ معبود اِن باطلہ یا وہ ہستیاں جنہیں خداتعالیٰ کا شریک قرار دیا جاتا ہے عبادت کرنے والوں کو ناپسندیدہ قرار دینگے۔ اور اپنے آپ کو پاک ٹھہرائیں گے اور کہیں گے کہ ہم تو ایسے اعمال کرنے والوں کے ساتھ نہ تھے۔
اَلَاسْبَابُ : سَبَب’‘ کی جمع ہے اور اَلسَّبَبُ کے معنے ہیں مَایُتَوَ صَّلُ بِہٖ اِلیٰ غَیْرِہٖ۔ وہ چیز جس کے ذریعہ سے غیر تک پہنچا جائے۔ اسی طرح اس کے معنے رستہ محبت اور قرابت کے بھی ہیں۔
وَقَالَ الَّذِیْنَ


مِنَ النَّارِo
تفسیر:۔ فرماتا ہے ایک زمانہ ایسا آئیگا کہ جن کو یہ لوگ نِد قرار دیتے ہیں وہ بھی اس وقت کہہ اُٹھیں گے کہ خدایا ہمارا دن ان سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اور اس طرح ان سے اپنی برات اور نفرت کا اظہار کرینگے اور خدائی عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔
وَتَقَطَّعَتْ بِھِمُ الْاَسْبَابَ۔ اور ان کی نجات کے تمام ذرائع منقطع ہو جائیں گے۔ یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ باء بمعنے عَنْ بھی آتی ہے اور باء بمعنے سبب بھی آتی ہے۔ اور با قعدیہ کے لئے بھی استعمال کی جاتی ہے یعنی فعل لازم کو متعدی بنانے کے لئے بھی استعمال کی جاتی ہے۔ پہلی صورت میں عَنْ کے مفہوم کو مدنظر رکھتے ہوئے اس آیت کا یہ مطلب ہو گا کہ ان کے اسباب ان سے کٹ جائیں گے یعنی وہ چیزیں جو ان کے پاس تھیں اور جن کی نسبت وہ خیال کیا کرتے تھے کہ ہم ان کی وجہ سے خداتعالیٰ تک پہنچ جائینگے یا وہ قرابتیں اور محبتیں جو رشتہ داری کی وجہ سے انہیںحاصل تھیں وہ سب کی سب کٹ جائینگی اور ان کے تمام سہارے جاتے رہیں گے۔
باء کے معنے سبب لینے کی صورت میں یہاں ایک محذوف ماننا پڑے گا اور عبادت یوں ہو گئی کہ وَتَقَطَّعَتْ بِسَبَبِ کُفْرِ ھِمُ الْاَسْبَابَ کہ ان کے کفر کی وجہ سے اُن کے تمام ذرائع کامیابی جاتے رہیں گے۔ اور وہ تباہ ہو جائیںگے۔
تیسری صورت میں اس کا یہ مطلب ہو گا کہ جن چیزوں کو وہ خداتعالیٰ کے وصال کا ذریعہ قرار دیتے ہیں یا وہ ضائع جن کو وہ خداتعالیٰ تک پہنچانیوالا سمجھتے ہیں وہی ان کو کاٹ دیں گے اور ان کی تباہی کا موجب بن جائیںگے۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے قرآن کریم میں ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَلَا تَتَّبِعُواالسُّبُلَ فَتَغَرَّقَ بِکُمْ مَنْ سَبِیْلِہٖ ط (انعام آیت۱۵۴) کہ تم مختلف راستوں کے پیچھے نہ پڑو۔ ورنہ وہ تمہیں صحیح راستہ سے منحرف کر دینگے اور تمہیں ادھر اُدھر لے جا کر تباہ کر دینگے۔
۸۱؎ حل لغات:۔ کَرَّۃً: اَلْکَرَّۃُ بِالْفَتْحِ اَلْمَرَّۃُ یعنی کرۃ کے معنے ایک دفعہ کے ہیں (اقرب) اَلْکَرُّ (مصدر) اَلْعَطْفُ عَلَی الشَّیْئِ کسی چیز کی طرف لوٹنا(مفردات)پس آیت کے معنے یہ ہونگے کہ وہ کہینگے کہ کاش ہمیں ایک دفعہ اور لوٹنے کا موقعہ مل جائے۔
تفسیر:۔ فرمایا اس دنیا میں تو تم خداتعالیٰ کے شریک بناتے اور اس کے نِدّ قرار دیتے ہو مگر وہاں جا کر تمہارا یہ حال ہو گا کہ تم واپس اس دنیا مین آنے کی خواہش کرو گے اور کہو گے ہم تو خیال کرتے تھے کہ یہ معبود ہمارے کام آئینگے مگر انہوں نے تو موقعہ پر آکر دھوکا دے دیا۔ اس لئے ہمیں ایک بار پھر دنیا میں لوٹا تاکہ ہم بھی اُن سے ایسا ہی بے وفائی کا سلوک کرسکیں۔
کَذٰلِکَ یُوِ یْھِمُ اللّٰہُ اَعْمَا لَھُمْ حَسَرَاتٍ عَلَیْھِمْ فرماتا ہے ہم اُن کے اعمال انہیں اس حال میں دکھائیں گے کہ وہ حَسَرَاتٍ ہونگے۔ یعنی وہ اعمال انہیں حسرتیں ہی حسرتیں نظر آئیں گے اور وہ حسرتیں ایسی ہونگی کہ جن کا وبال انہیں پر پڑیگا یعض حسرتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا غیروں پر اثر پڑتا ہے مگر فرماتا ہے وہ ایسی حسرتیں ہونگی جن کا اثر خود انہیں پر پڑے گا دوسروں پر نہیں۔ اس جگہ اگر حَسَرَاتٍ کو مفعول قرار دیا جائے تو رواتت قلبی مراد ہو گی اور معنے یہ ہونگے کہ وہ خداتعالیٰ سے کہیں گے کہ اگر ہمیں مبلغ بنا کر دنیا میں بھیج دیا جائے تو ہم وہاں جاکر شوربرپا کر دیں گے کہ خداتعالیٰ کا کوئی شریک نہیں۔
وَمَا ھُمْ بِخَارِ جِیْنَ مِنَ النَّار سے یہ دھوکا نہیں کھانا چاہیے کہ دوزخی آگ سے نکالے نہیں جائیں گے کیونکہ اس جگہ خداتعالیٰ کے سلوک کا ذکر نہیں بلکہ ان کی اپنی کیفیت کا ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ خود اپنی ذاتی جدوجہد اور کوشش سے اس میں سے نکل نہیں سکیں گے اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے اگر ہم کہیں کہ بیمار ایک قدم بھی نہیں چل سکتا اور پھر اسے دوسرے دن ہسپتال لے جایا جائے تو کوئی شخص یہ نہیں کہیگا کہ کل تو تم نے یہ کہا تھا کہ بیمار ایک قدم بھی نہیں چل سکتا اور آج تم اس کو ہسپتال داخل کر آئے ہو۔ کیونکہ ہمارایہ مطلب نہیں تھا کہ غیر بھی اُسے وہاں نہیں لیجا سکتے اسی طرح اس آیت میں جس چیز کی نفی کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ وہ خود دوزخ سے نہیں نکل سکیں گے ۔چنانچہ اس کی وجاحت قرآن کریم کی اس آیت سے بھی ہو جاتی ہے کہ کُلَّمَآ اَرَادُوْآ اَنْ یَّخْرُ جُوٰامِنْھَآاُعِیْدُ وْا فِیْھَا وَقِیْلَ لَھُمْ ذُوْ قُوْاعَذَابَ النَّارِ الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تُکَذِّبُوْنَ(سجدۃ آیت۲۱) یعنی جب کبھی وہ دوزخ سے نکلنے کا ارادہ کرینگے تو پھر اُسی کی طرف لوٹا دیئے جائیں گے اور انہیں کہا جائے گا کہ اب دوزخ کا وہ عذاب چکھو جس کو تم جھٹلا یا کرتے تھے۔ پس اس جگہ جس چیز کی نفی کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ وہ خود اس عذاب سے نکل نہیں سکیں گے۔ یہ نہیں کہا گیا کہ خداتعالیٰ بھی انہیں دوزخ سے نہیں نکالے گا اور انہیں دائمی عذاب میں مبتلا رکھے گا۔
دراصل اس بارہ میں بھی مومنوں اور کافروں میں بہت بڑا فرق رکھا گیا ہے ۔ مومنوں کے لئے تو جنت حق قرار دیا گیا ہے جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُوْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَ اَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ (توبہ آیت۱۱۱) یعنی اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جانین اور ان کے اموال اس وعدہ کے ساتھ خرید لئے ہیں کہ ان کو جنت ملے گی گویا یہ ایک سودا ہے جو ان کا خدا تعالیٰ سے ہو چکا۔ یوں تو کسی کا بھی خداتعالیٰ پر کوئی ذاتی حق نہیں مگر جس حق کو خداتعالیٰ خود تسلیم کرلے وہ تو حق ہی سمجھا جائیگا۔ مگر کافروں کے لئے فرمایا کہ اگر وہ دوزخ کی تکالیف کو برداشت نہ کرتے ہوئے اس میں سے نکلنا چاہیں گے تو نہیں نکل سکیں گے عربی زبان میں جو باء تاکید کے لئے آتی ہے اس کے معنے ہرگز کے ہوتے ہیں۔ پس اس جگہ وَمَا ھُمْ بِخٰرِجِیْنَ مِنَ النَّارِ میں تاکید کے معنے پائے جاتے ہیں۔ یعنی وہ اپنی ذاتی جد و جہد کے ساتھ جہنم میں سے ہرگز نکل نہیں سکیں گے۔ ہاں جب خداتعالیٰ چاہے گا تو انہیں دوزخ سے نکال لے گا۔ جیسا کہ حدیثوں میں آتا ہے کہ جہنم پر ایک زمانہ ایسا آئے گا جب کہ اُس میں کوئی بھی نہیں رہے گا اور ہوا اس کے دروازوں کو کھٹکھٹائے گی۔(کنز العمال جلد ۷ صفحہ ۲۴۵)
یٰٓاَ یُّھَا النَّاسُ
عَدُوّ’‘ مُّبِیْن’‘o
۸۲؎ حل لغات:۔ طَیَّبًا۔ طَابَ سے صفت مشبہ ہے اور طَیِّب’‘ کے معنے ہیں۔ اَلْحَلَالُ۔ حلال اور جب مَال’‘ طَیِّب’‘کہا جائے تو اس کے معنے ہوتے ہیں ایسا مال جو شرعی لحاظ سے حلا ل ہو(اقرب)
پھر لکھا ہے وَاَصْلُ الطَّیِّبِ مَاتَسْتَلِذُّہُ الْحَوَاسُّ وَمَا تَسْتَلِذُّہُ النَّفْسُ۔ اور درحقیقت طیب اس چیز کو کہتے ہیں جسے انسانی حواس لذیذ قرار دیں اور جس سے انسان کا دل لطف اندوز ہو۔ پس آیت کے یہ معنے ہونگے کہ ایسی چیزیں کھائو جو شرعی لحاظ سے حلال ہوں اور ظاہری لحاظ سے بھی تم انہیں لذیذ اور پسندیدہ سمجھو۔
خُطُوَات کے معنے ہیں طُرُق’‘ وَسُبُل’‘ رستے اور طریق۔ اس کا مفرد خُطْوَ ۃ’‘ ہے جس کے معنے مَابَیْنَ الْقَدَمَیْنِ کے ہیں یعنی دو قدموں کے درمیان کی جگہ اور فاصلہ(اقرب)
تفسیر:۔ اس رکوع سے اللہ تعالیٰ نے ابراہیمی پیشگوئی کے اس دوسرے پہلو کو بیان کرنا شروع کیا ہے کہ یُعَلِمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَ یعنی وہ نبی انہیں شریعت اور اس کے اسرار سے آگاہ کر ے گا۔ چنانچہ اس سلسلہ میں قرآن مجید نے سب سے پہلے حلال اور طیب کھانے کی تعلیم کو لیا ہے۔ کیونکہ انسانی اعمال اس کی ذہنی حالت کے تابع ہوتے ہیں اور ذہنی حالت غذا سے متاثر ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے لوگو! جو کچھ زمین میں ہے اُس میں سے حلال اور طیب اشیاء کا استقلال کرو۔ یعنی تم صرف یہی نہ دیکھا کرو کہ جو کچھ تم کھا رہے ہو وہ حلال ہے یا نہیں بلکہ یہ بھی دیکھ لیا کرو کہ وہ طیب بھی ہے یا نہیں اگر کسی چیز کا کھانا تمہارے مناسب حال نہ ہو خواہ اس لحاظ سے کہ وہ تمہاری صحت کے لئے مضر ہو یا اس لحاظ سے کہ ملکی اور قومی حالات کی وجہ سے تمہیں اس کے کھانے کی عادت نہ ہو یا اس وجہ سے کہ تمہاری طبیعت اس سے انقباض محسوس کرتی ہو۔ تو تم محض یہ دیکھ کر کہ شریعت نے اسے حلال قرار دیا ہے اسے مت کھائو۔ کیونکہ تمہارے لئے کھانے میں صرف حرام و حلال کا امتیاز مدنظر رکھنا ہی ضروری نہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ تم ایسی چیزوں کا انتخاب کیا کرو جو تمہاری طبیعت اور تمہارے ماحول اور تمہارے معمول کے مطابق ہوں اور جن کا کوئی مضر اثر تم پر پڑنے کا امکان نہ ہو۔ مثلاً نزلہ اور زکام اور کھانسی میں تُرش اشیاء کا استعمال کھانسی کو اور بھی بڑھا دیتا ہے اب اگر کوئی شخص کھانسی میں تُرش میوے استعمال کرتا ہے یا اسہال میں گوشت روٹی استعمال کرتا ہے توخواہ یہ چیزیں حلال کیوں نہ ہوں اس وجہ سے کہ وہ اس کے لئے ٹھیک نہیں ہیں ان کا استعمال اسے نقصان پہنچائیگا پس اس جگہ طیب کو حلال کے ساتھ لگا کر یہ بتایا ہے کہ صرف حلال کھانا ہی مومن کا کام نہیں بلکہ یہ دیکھنا بھی اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ چیز طیب ہو یعنی گندی اور سڑی ہوئی نہ ہو مضر صحت نہ ہو۔ جو ساتھ کھانا کھانے والے لوگ ہوں ان کی طبائع کے خلاف نہ ہو۔
وَلَا تَتَّبِعُوْا اخُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ۔ اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو ۔ یعنی ایسا نہ کرو کہ جس طرف شیطان جا
اِنَّمَا یَاْمُرُکُمْ
مَا لَاتَعْلَمُوْنَo
رہا ہے اُسی طرف تم بھی چلنا شروع کر دو۔ وہ تمہارا دشمن ہے اور دشمن سے ہمیشہ دُور رہنا چاہیے نہ کہ اُس کی پیروی کرنی چاہیے۔
کھانے پینے کے ذکر کے بعد شیطان کا ذکر کر کے اس بات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اگر تم حلال اور پھر حالا میں سے بھی طیب رزق چھوڑ دو گے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ تم شیطان کے پیچھے چل پڑوگے کیونکہ انسان جو کچھ کھاتا ہے اس سے جسم تیار ہوتا ہے اور ناجائز یا مضر اشیاء کے استعمال سے تیار شدہ جسم یقینا انسان کو بدی کی طرف لے جائیگا نیکی کی طرف نہیں لے جا سکتا۔
۸۳؎ حل لغات:۔ اِنَّمَا: (اِنَّ کے ساتھ مَا زائدہ ہے) لغت میں لکھا ہے اِذَا اُدْخِلَ عَلَیْہِ مَا یَبْطُلُ عَمَلُہ‘ وَیَقْتَضِیْ اِثْبَاتَ الْحُکْمِ وَصَرْ فِہٖ عَمَّا عَدَاہ‘۔ جب اِنَّ پر مَا داخل ہو جائے تو اس کا عمل باطل ہو جاتا ہے اور بعد میں مذکور چیز کے لئے کسی بات کو ثابت کرنے اور باقی (غیر مذکور) چیزوں سے اس بات کی نفی کرنے کا مقتضی ہوتا ہے۔ (مفردات)
اَلسُّوْئُ: کُلُّ مَا یُغَمُّ الْاِنْسَانَ مِنَ الْاُمُوْرِ الدُّ نْیوِ یَّۃِ وَالْاُخْرَوِیَّۃِ وَمِنَ الْاَ حْوَالِ النَّفْسِیَّۃ، وَالْبَدَنِیَّۃِ وَالْخَارِجَۃِ۔ یعنی اَلسُّوْئَ سے مراد وہ تمام غمزدہ کر دینے والی تکالیف ہیں جو انسان کو دنیوی اور اُخروی امور نیز رُوحانی اور جسمانی اور دوسرے حالات کی وجہ سے زندگی میں پیش آتی ہیں۔(مفرادت)
اَلْفَحْشَآء:۔ اَلْفَحْشَائُ وَالْفَاحِشَۃُ مَایَشْتَدُّ قُبْحُہ‘ مِنَ الذُّنُوْبِ ۔ وَالْبُخْلُ فِیْ اَدَا ئِ الذَّکوٰۃِ وَقِیْلَ کُلُّ مَا نَھَی اللّٰہُ عَنْہُ۔ یعنی فَحْشَاء اور فَاحِشَۃ سے مراد سخت بُرائی والا گناہ۔ زکوٰۃ کی ادائیگی میںبخل کرنا۔ اور بعض کے نزدیک ہر وہ کام ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہو۔(اقرب)
اَلْفُحْشُ وَالْفَحْشَا ئُ وَالْفَاحِشَۃُ مَا عَظُمَ قُبْحَہ‘ مِنَ الْاَ فْعَالِ وَالْاَ قْوَالِ۔ فحش۔ فحشاء اور فاحشہ سے ہر ایسا قول یا فعل مراد ہے جو بہت ہی بُرا ہو۔(مفردات)
تفسیر:۔ شیطان کے پیچھے چلنے کا ایک نتیجہ تو یہ ہوتا ہے کہ وہ ذاتی طور پر انسان کو مختلف قسم کی بُرائیوں میں مبتلا کر دیتا ہے جیسے بدظنی ہے یا جھوٹ ہے یا کینہ ہے یا جہالت ہے یا سُستی اور غفلت ہے یا بُزدلی ہے یا تکبر ہے یا بے غیرتی ہے یا ناشکری ہے یہ وہ بُرائیاں ہیں جن سے صرف انسان کی اپنی ذات کو نقصان پہنچتا ہے اور جن کی طرف سوء کے لفظ میں اشارہ کیا گیا ہے۔ لیکن جب انسان اپنی اصلاح نہیں کرتا تو دوسرا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ فحشاء یعنی ایسی بدیاں کرواتا ہے جن کا دوسرے لوگوں پر بھی اثر پڑتا ہے جیسے خیانت اور تہمت اور ظلم اور دھوکا اور قتل اور چوری اور مارپیٹ اور گالی اور ناواجب طرفداری اور رشوت وغیرہ ایسے جرائم ہیں جو دوسروں سے تعلق رکھتے ہیں پھر وہ بدیوں میں اور زیادہ بڑھاتا ہے اور آخر انسان کو خدا کے مقابلہ میں کھڑا کر دیتا ہے۔ یا انسان کے اندر ایسی بے حیائی پیدا کر دیتا ہے کہ اُسے دوسروں کے سامنے بھی برائیوں کے ارتکاب میں کوئی حجاب محسوس نہیں ہوتا۔ اور وہ بر ملا خدائی احکام
وَاِذَ اقِیْلَ

لَا یَھْتَدُوْنَo
کے خلاف لب کشائی شروع کر دیتا ہے یا اُس پر افتراء پروازی شروع کر دیتا ہے۔ گویا پہلے تو وہ ایسی بدیاں کرواتا ہے جن کا ضر صرف اس کی ذات تک محدود ہوتا ہے۔ پھر غیرتِ انسانی مٹتی ہے تو ایسی بدیاں کرواتا ہے جن سے دوسرے لوگ بھی متاثر ہوں۔ پھر اور ترقی کر کے اس کی زبان سے ایسی باتیں نکلواتا ہے جو خداتعالیٰ ی ہتک کرنے والی اور اس کا مضحکہ اڑانے والی ہوتی ہیں۔ اور اس طرح وہ درجہ بدرجہ انسان کو جہنم کی طرف لے جاتا ہے غرض شیطان کبھی یکدم بڑے گناہ پر انسان کو آمادہ نہیں کرتا۔ بلکہ اس کے وساوس کی یہ ترتیب ہوتی ہے کہ وہ پہلے چھوٹی بدی کا حکم دیتا ہے پھر بے حیائی پر آمادہ کرتا ہے۔ اور پھر خدا پر جھوٹ باندھنے کے لئے تیار کر دیتا ہے ۔ گویا چھوٹی نافرمانی سے شروع کر کے اُسے انتہا تک لے جاتا ہے۔
۸۴؎ تفسیر:۔ اس آیت میں بتایا کہ شیطان کی پیروی کرنے کا ایک یہ نتیجہ بھی نکلنا ہے کہ اگر لوگوں کو خداتعالیٰ کی بات ماننے کے لئے کہا جائے تو ان کی عقل ایسی ماری جاتی ہے کہ وہ کہدیتے ہیں کہ ہم تو اپنے باپ دادا کی بات مانین گے اور اُنہیں کے پیچھے چلیں گے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ نبوت فرمایا تو مکہ والوں نے آپ کا شدیدمقابلہ کیا ۔ وہ لوگ آخر کیوں مقابلہ کرتے تھے اس لئے کہ وہ کہتے تھے کہ کیا ہم اس مذہب کو چھوڑ دیں جس پر ہمارے آبائو اجداد قائم تھے۔ گویا وہ کسی چیز کے ذاتی حُسن کو نہیں دیکھتے تھے بلکہ صرف حسنِ اضافی اُن کے پیش نظر تھا اور باوجود اس کے کہ وہ جاہلانہ باتیں تھیں اُن لوگوں نے ان کے لئے اپنا مال اور اپنے عزیزوں اور اقرباء تک قربان کر دیئے تاکہ وہ چیزیں جو ان کی ہیں بچ جائیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے جواب میں فرماتا ہے کہ اگر تمہارے باپ دادا بیوقوف ہوں تو کیا پھر بھی تم وہی کچھ کرو گے جو وہ کرتے چلے آئے ہیں یعنی تمہارے باپ دادا تو اپنی بیوقوفی کی وجہ سے تباہ ہوئے تھے کیا تم بھی ان کے نقشِ قدم پر چل کر تباہ ہونا چاہتے ہو۔
ہمارے سلسلہ میں بھی لوگوں کے داخل ہونے میں سب سے بڑی روک یہی ہے کہ لوگ کہہ دیتے ہیں کہ کیا وہ باتیں جنہیں پہلے لوگ سالہا سال سے مانتے چلے آئیں ہیں ہم چھوڑدیں یہ تو بڑی مشکل بات ہے ۔ غرض اس آیت میں مخالفین اسلام کا سب سے بڑا عتراض یہ بیان فرمایا ہے کہ ہم تو اسی طریق کی پیروی کرینگے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا تھا اس جگہ قَالُوْا سے یہ مراد نہیں کہ وہ منہ سے بھی ایسا کہتے ہیں بہت لوگ منہ سے بھی کہتے ہیں لیکن بہت ہیں جو منہ سے نہیں کہتے مگر پھر بھی ان کا انکار کی وجہ یہی ہوتی ہے۔ اور قول کا لفظ ان معنوں میں عربی زبان میں استعمال ہو جاتا ہے۔ جیسے کہتے ہیں اِمْثَلَاَ الْحَوْضُ وَقَالَ قَطْنِیْ یعنی حوض بھر گیا اور اس نے زبان حال سے یہ کہا کہ بس بس۔ اس آیت میں بھی اسی محاورہ کے مطابق قول کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔
وَمَثَلُ الَّذِیْنَ
لَا یَعْقِلُوْنَo
اللہ تعالیٰ مخالفین اسلام کے اس اعتراض کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وہ اتنا تو سوچیں کہ اگر ان کے باپ دادے ایسے ہوں کہ وہ کچھ بھی عقل نہ رکھتے ہوں اور نہ راہ راست پر ہوں تو کیا پھر بھی وہ ان کے پیچھے چلتے چلے جائیں گے یعنی کسی کی اتباع دو ہی طرح ہوتی ہے یا تو وہ بڑا عقلمند ہو اور یا پھر خداتعالیٰ سے اُس نے ہدایت پائی ہوئی ہو۔ لیکن اگر ان دونوں باتوں میں سے کوئی بھی نہ ہو تو کیا پھربھی اُس کی اِتباع کی جاتی ہے؟ اور تمہارے باپ دادوں کی تعلیم ان دونوں امور سے خالی ہے نہ عقل کے مقابلہ میں ٹھہرتی ہے اور نہ آسمانی شہادت اُس کی تائید میں ہے یہ ایک عجیب بات ہے کہ لوگ اپنے باپ دادا سے دین کے بارے میں تو اختلاف نہیں کرنا چاہتے لیکن دنیوی امور کے بارہ میں وہ روزانہ اُن سے اختلاف کرتے ہیں ہزار ہا مثالیں اس امر کی پائی جاتی ہیں کہ دنیوی امور میں لوگوں نے اپنے باپ دادا کی اقتداء نہیں کی بلکہ انہوں نے صرف یہ دیکھا کہ اُن کا فائدہ کس امر میں ہے وہ روزانہ ریلوں میں چڑھتے ہیں اور کبھی یہ نہیں کہتے کہ ہمارے باپ دادا تو گدھوں پر سوار ہوتے تھے ہم ریل گاڑیاں پر کیوں سوار ہوں اسی طرح عقلی اور علمی باتوں میں ان کی پیروی نہیں کرتے بلکہ نئی روشنی کے علوم سے فائدہ اُٹھاتے اور ان کے پیچھے چلتے ہیں۔ مگر دین کا معاملہ ہو تو ان کے باپ دادے بڑے عقلمند بن جاتے ہیں۔ حالانکہ خود اُن کا عمل اس طریق کے خلاف گواہی دے رہا ہوتا ہے مگر ایسی صاف اور موٹی بات بھی جب انکے سامنے رکھی جاتی ہے تو وہ اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے اور صداقت سے منہ پھیر لیتے ہیں۔
۸۵؎ حل لغات:۔ یَنْعِقُ: نَعَقَ سے مضارع کا صیغہ ہے اور نَعَقَ الرَّاعِیْ بِغَنَمِہٖ کے معنے ہیں صَاح۔ بِھَاوَ زَجَرَھَا۔ چروا ہے نے اپنی بکریوں کو آواز دی اور اُن کو ڈانٹا۔ اور جب نَعَقَ الْغُرَابُ کہیں تو معنے ہونگے صَاحَ کوے نے کائیں کائیں کی۔ اور نَعَقَ الْمُؤَذِّنُ کے معنے ہیں رَفَعَ صَوْتَہ‘ بِالْاَ ذَانِ۔ موذن نے اذان کے لئے اپنی آواز بلند کی۔(اقرب)
نِدَآء’‘: اَلنِّدَائُ کے معنے ہیں رَفْعُ الصَّوْتِ وَ ظُھُوْرُ ہ‘۔ آواز کا بلند اور واضح ہونا۔(اقرب)
تفسیر:۔ زیرتفسیر آیت ایک تمثیلِ مرکب ہے جس میں حذفِ مضاف سے کام لیا گیا ہے اور دَاعِیٰ کا لفظ اس میں محذوف ہے۔ یعنی اصل عبارت یوں ہے کہ مَثَلُ دَاعِی الَّذِیْنَ کَفَرُوْ اکَمَثَلِ الَّذِیْ یَنْعِقُ یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کفار کے داعی ہیں ۔ آپ کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو جانوروں کو اپنی طرف بلانے کے لئے آواز دیتا ہے۔ مگر وہ جانور اُس کی آواز کے سوا اور کچھ نیہں سُنتے گویا یہ کفار بھی رات اور دن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام سُنتے ہیں اور صبح وہ شام انہیں وحی الہٰی اُنائی جاتی ہے۔ ہر وقت ان کے کانوں میں نیکی اور تقویٰ اور خدا ترسی کی باتیں ڈالی جاتی ہیں مگر یہ لوگ جانوروں کی طرح الفاظ تو سنتے ہیں اور آواز تو ان کے کانوں میں پڑتی ہے لیکن اس کی حقیقت کو نہیں سمجھتے اور اپنی پُرانی ڈگر پر چلتے چلے جاتے ہیں۔
اس تمثیل میں بتایا گیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کفار کے لئے ایک داعی کے طور پر ہیں۔ اور کفار آپ کے لئے ریوڑ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپؐ ان کو اپنی طرف بلاتے ہیں اور آپؐ کی دُعا اور نداء بھی وہ سنتے ہیں مگر وہ جانوروں کی طرح اس کی حقیقت کو نہیں سمجھتے گویا جانوروں کو بلانے والے کا سا حال ہمارے نبی کا ہوتا ہے کہ اس کی بات کو یہ لوگ سمجھتے نہیں۔ اس تشریح پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ مشبہ اور مشبہ بہٖ کے کل اجزاء میں مطابقت ہونی ضروری ہوتی ہے مگر وہ یہاں موجودنہیں اس کا جواب یہ ہے کہ تمثیلِ مرکب میں مشبہ اور مشبہ بہٖ کے تمام افراد میں مطابقت نہیں دیکھی جاتی بلکہ صرف اتنی بات دیکھی جاتی ہے کہ آیا ان میں کسی خاص بات میں مشابہت پائی جاتی ہے یا نہیں اور اگر ہو تو تشبیہ درست سمجھی جاتی ہے۔ چنانچہ سیبویہ کا یہی قول ہے کہ مرکب تمثیل میں تمام اجزاء مشبہ کا مشبہ بہٖ کے اجزاء کے مطابق ہونا ضروری نہیں بلکہ اس کے صرف بعض اجزاء کی مطابقت ہی کافی سمجھی جاتی ہے۔
ان معنوں پر ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کفار کی مثال بھیڑ بکریوں کی سی ہے تو بھیڑ بکریاں تو داعی کی آواز سنتی ہیں اور کفار بھی سُنتے ہیں پھر اُن کو صُمّ’‘ کیوں کہا گیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ صُمّ’‘ سے یہاں یہ مراد نہیں کہ وہ جسمانی طور پر بہرے ہیں بلکہ یہ مراد ہے کہ ان کے کان حق بات سننے سے قاصر ہیں اور صُمّ’‘ کے بعد بُکْم’‘ کے یہ معنے ہیں کہ وہ حق بات کہہ نہیں سکتے اسی طرح صُمّ’‘ سے مراد یہ ہے کہ وہ حق بات کو دیکھ نہیں سکتے اسی طرح صُمّ’‘ سے مراد یہ ہے کہ وہ حق بات سن نہیں سکتے گویا وہ آواز تو سنتے ہیں لیکن اس کی حقیقت نہیں سمجھتے اور نہ اس کے مطابق اپنے اندر تغیر پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں پس جہاں سُننے کا ذکر ہے وہاں یہ مراد ہے کہ وہ صرف الفاظ سُنتے ہیں اور جہاں نہ سُننے کا ذکر ہے وہاں حقیقت کا سُننا مراد ہے اور جہاں نہ سُننے کا ذکر ہے وہاں حقیقت کا سُننا مراد ہے اور حقیقت کے سمجھنے کی نفی سے دُعا اور نداء کے سننے کی نفی نہیں ہو سکتی۔ اور یا پھر صُمّ’‘ سے ایسے لوگ مراد ہیں جن سے کسی فائدہ کی امید نہ کی جاتی ہو کہ یہ معنے بھی لُغتاً ثابت ہیں چنانچہ اقرب الموارد جو لُغت کی مشہور کتاب ہے اس میں لکھا ہے اَلْاَ صُمُّ اَلْاَ صُمُّ اَیْضماً اَلرَّجُلُ لَا یُطْمَعُ فِیْہِ یعنی ایسے شخص کو بھی اصم کہتے ہیں جس سے کسی بھلائی کی اُمید نہ کی جا سکے۔
دوسرے معنے اس کے یہ یہں کہ ان کفار کی مثال جانوروں کی طرح ہے جن کو بلانے والا اپنی طرف بلاتا ہے اور جانور بلانے والے کی آواز سُن کر اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔۔ گو اس کے الفاظ کا مطلب اور مفہوم نہیں سمجھتے اس ی طرح یہ لوگ بھیڑ چال کے طور پر ایک دوسرے کی اتباع کرتے ہیں اوریہ کبھی غور نہیں کرتے کہ کہنے والا کیا کہتا ہے اور آیا اس پر عمل کرنا ان کے لئے مفید ہے یا مضر۔ وہ صرف اتنا دیکھتے ہیں کہ ہمارے سردار یا ہمارے لیڈر نے فلاں بات کہی ہے یا ہماری قوم یا برادری ایسا کہتی ہے۔ اس کے بعد وہ اپنی عقل و فہم اور تدبر کے تمام دروازے بند کر لیتے ہیں اور اندھا دھند اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں ۔ پس ان کی مثال جانوروں کی سی ہے کہ دوسرے کی بات سن کر یہ لوگ اس پر غور کرنے کے عادی نہیں بلکہ اندھی تقلید کے خوگر ہیں ۔ گویا ان کے کان بھی ہیں مگر یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ انہیں جس طرف بلایا جا رہا ہے وہ ہلاکت اور بربادی کی جگہ ہے یا امن اور سلامتی کا مقام ہے۔ ان کی زبانیں بھی ہیں مگر دلیری سے حق بات کہنے کی جرات کھو بیٹھی ہیں اور ان کی آنکھیں بھی ہیں مگر سلامتی کی راہ ان کو دکھائی نہیں دیتی۔
تیسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ ان کفار کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو چیختا اور چلاتا اور بتوں کو اپنی مدد کے لئے بلاتا
یَٓاَ یُّھَاالَّذِیْنَ
تَعْبُدُوْنَo
ہے اور اس کا بلانا دو طرح ہے ایک دعا کے ذریعہ سے دوسرا نداء کے ذریعہ سے۔ نداء ایسی آواز کو کہتے ہیں جو سنی جائے یا نہ سُنی جائے اور دعا اس آواز کو کہتے ہیں جو سنی جائے۔ فرماتا ہے وہ بت جن کو یہ لوگ اپنی مد دکے لئے پکارتے ہیں۔ وہ نہ ان کی دُعا سنتے ہیں نہ نداء۔ گویا ان کفار کا کام محض دعا اور نداء ہی ہے ورنہ جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ کچھ بھی نہیںسُنتے ۔ نہ دُعا سنتے ہیں نہ نداء سنتے ہیں اس لئے ان کے بلانے کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ اس صورت میں اِلَّا کو زائدہ تسلیم کرنا ڑیگا ار یا پھر یہ فقرہ اس طرح ہو گاک کہ لَا یَسْمَعُ اِلَّا ھُوَ یَدْ ھُوْا دُعَائً وَ نَدَائً۔ یعنی وہ بُت تو کچھ نہیں سنتے مگر وہ پکارنے والا برابر دُعائیں کئے چلا جاتا ہے اور آوازیں دیتا چلا جاتا ہے۔ ان معنوں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ چیختے چلاتے ہیں تو پھر وہ بُکْم’‘ کیسے ہوئے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بُکْم’‘ کے یہ معنے ہیں کہ وہ حقیقت کا اپنی زبان سے اقرار کرنے کے لحاظ سے گونگے ہیں۔ اور اس کی دلیل صُمّ’‘ اور عَمْی’‘ کے الفاظ ہیں جیسے صُمّ’‘ سے ایسے لوگ مراد ہیں جن کے کان حق بات کے سُننے سے بہرے ہیں اور عُمْی’‘ سے مراد حق کو نہ دیکھنے والاے لوگ ہیں اسی طرح بُکْم’‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جو روحانی نقطہ نگاہ سے گونگے ہیں۔ اور جو سچائی کا برملا اظہار کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اگر یہاں صرف بُکْم’‘ کا لفظ ہوتا تو اعتراض درست ہوتا۔ لیکن صُم’‘ اور عُمْی’‘ کے الفاظ نے صحیح معنے واضح کر دیئے۔
ترتیب و ربط:۔ اس آیت کا آیت ماقبل سے پہلے معنوں کے لحاظ سے یہ تعلق ہے کہ پہلی آیت میں خداتعالیٰ نے فرمایا تھا وَاِذَا قِیْلَ لَھُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَا اَلْفَیْنَا عَلَیْہِ اٰبَآئَ نَا کہ جب انہیں خداتعالیٰ کی طرف بلایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ جو کچھ خدا نے نازل کیا اس کی اتباع کرو تو وہ اُسے سنکر اعراض اختیار کر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو اُسی طریق کی اتباع کرینگے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا۔ گویا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انہیں دعوتِ حق دینا ایسا ہی ہے جیسے جانوروں کو اپنی طرف بلانا۔ یہ لوگ بھی آپ کی آواز سُنتے ہیں مگر سمجھتے نہیں کہ اس آواز پر لبیک کہنا کس قدر ضروری ہے اور وہ اپنے باپ دادا کے طریق پر چلتے چلے جاتے ہیں۔
دوسرے معنوں کے لحاظ سے اس آیت کا پہلی آیت سے یہ تعلق ہے کہ پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ اَوَلَوْ کَانَ اٰبَآئُ ھُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ شَیْئًا وَّ لَا یَھْتَدُوْنَ کہ یہ لوگ اپنے باپ دادا کے پیچھے چلنے کے تو بڑے دعوے کرتے ہیں لیکن ان کے باپ دادا اپنے بتوں کو پکارتے اور آوازیں دیتے تھک گئے اور کچھ بھی نتیجہ برآمد نہ ہوا ۔ ایسی صورت میں ان کا یہ کہنا کہ ہم اپنے باپ دادا ہی کی پیروی کر ینگے ایسا ہی ہے جیسے کہ کوئی بتوں کو بلائے اور اس کا بلانا بالکل بیکار ثابت ہو اور اُسے کوئی جواب نہ ملے پاس ان لوگوں کا بھی اپنے بتوں کے سامنے چیخنا چلانا انہیں کچھ فائدہ نہیں دے سکتا۔
۸۶؎ تفسیر:۔ جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے اسلامی شریعت نے صرف حلال چیزوں کے کھانے کا ہی حکم نہیں دیا بلکہ حلال میں سے بھی طیب اشیاء کے استعمال کرنے کی ہدایت فرمائی ہے اور یہ اسلام کی ایسی امتیازی خصوصیت ہے جس میں کوئی اور مذہب اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اسی طرح اس نے حلال کے مقابلہ میں صرف حرام کا درجہ ہی نہیں رکھا بلکہ اس سے اتر کر ا نے بعض چیزوں کو مکروہ بھی قرار دیا ہے اور مومنوں کے لئے ان کا استعمال ناپسند فرمایا ہے گویا چار مختلف مدارج ہیں جن کو مدنظر رکھنا ضروری ہوتا ہے اول طیب دوم حلال سوم حرام چہارم مکروہ۔ حلال ترقی کرتے کرتے طیب تک پہنچ جاتا ہے اور حرام گرتے گرتے مگروہ تک آجاتا ہے غرض اسلام اور دیگر مذاہب میں یہ فرق ہے کہ دوسرے مذاہب صرف حلال حرام تک اپنے آپ کو محدود رکھتے ہیں اور اسلام حلال اور حرام کے علاوہ بعض چیزوں کو طیب یا مکروہ بھی قرار دیتا ہے۔ اور یہ بھی بتاتا ہے کہ کونسی چیزیں بعض حالات میں حلال ہو جاتی ہیںگو اصل میں حرام ہوں اور کون سی چیزیں بعض حالات میں حرام ہو جاتی ہیں گو اصل میں حلال ہوں اور اس طرح موازنہ اشیاء کو قائم کرتا اور ایک لطیف باب گناہ اور نیکی کے امتیاز کے لئے کھول دیتا ہے مثلا ہماری شریعت میں لوگوں کو ایذاء دینے سے منع کیا گیا ہے۔ اب اگر حلال چیز سے کسی وقت دوسروں کو ایذاء پہنچ جائے تو اس وقت اس کا استعمال کرنا بھی حرام ہا جائیگا۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مَنْ اَکَلَ مِنْ ھٰذِہِ الشَّجَرِ یَعْنِی الثُوْمَ فَلَا یَاتِیَنَّ الْمَسَاجِدَ۔ (مسلم جلد اول کتاب المساجد) یعنی جو شخص کچے لہسن کا استعمال کر اسے چاہیے کہ مسجد میں نہ آئے۔ ایک دوسری حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وجہ بھی بیان فرمائی ہے کہ فَاِنَّ الْمَلَا ئِکَۃَ تَاَذّٰی مِمَّا تَآ ذّٰی مِنْہُ الْاِنْسُ کہ ملائکہ بھی ان چیزوں سے تکلیف محسوس کرتے ہیں جن سے انسان تکلیف محسوس کرتے ہیں۔(مسلم جلد اول کتاب المساجد) اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ باوجود اس کے کہ لہسن کھانا جائز ہے پھر بھی مساجد میں آنے کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لہسن اور پیاز وغیرہ کا کھانا ممنوع قرار دے دیا ۔ اور ایسے شخص کو نماز باجماعت سے بھی روک دیا۔ ورنہ نماز تو کسی صورت میں بھی چھوڑی نہیں جاسکتی اور اگر مسجد میں نماز نہیں پڑھے گا تو بہر حال اُسے گھر پر نماز پڑھنی پڑے گی۔ لیکن اس وجہ سے کہ وہ دوسروں کے لئے دُکھ اور تکلیف کا موجب نہ بنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا شخص اجتماعی عباردت سے الگ رہے تاکہ مومنوں کو تکلیف نہ ہو۔ غرض یہ اسلام کی ایک بہت بڑی خوبی ہے کہ اس نے نہ صرف حلت و حرمت کے مسائل بیان کئے بلکہ اس نے یہ بھی بتادیا ہے کہ کھانے کی چیزوں میں سے ادنیٰ درجہ کراہت کا ہے پس مومنوں کو حلال اور حرام پر ہی نظر نہیں رکھنی چاہیے بلکہ انہیں تقویٰ کی باریک راہیں اختیار کرتے ہوئے حلال میں سے بھی طیب چیزوں کو اختیار کرنا چاہیے اور حرام چیزیں تو الگ رہیں مکروہ چیزوں کے پاس پھٹکنے سے بھی احتراز کرنا چاہیے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حلال کی بجائے صرف طیب کا لفظ رکھا ہے جس کی وجہ ہے کہ یہاں خاص طور پر مومنوں کو مخاطب کیا گیا ہے یعنی اعلیٰ درجہ کے مومنوں کو۔ ورنہ اس رکوع کے شروع میں بھی یٰٓاَ یُّھَاالنَّاسُ کُلُوْامِمَّا فِی الْاَرْض، حَلٰلاً طَیِّبًا میں اَلنَّاسُ سے مراد مومن ہی تھے کیونکہ کفار کو قرآن کریم مسائل تفصیلی میں حکم نہیں دیتا۔ لیکن ہواں اَلنَّاسُ سے ادنیٰ درجہ کے مومن مراد تھے جو طبعی خواہشات کی طرف جھکنے والے تھے۔ اسی لئے وہاں ان کی کمزوریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ حکم دیا کہ کُلُوْا مِمَّا فِالْاَرْضِ حَلٰلاً طَیِّبًا یعنی جو کچھ حلال اور طیب ہے کھائو۔ کیونکہ ہو سکتا تھا کہ وہ صرف طیبات تک اپنے آپ کو محدود نہ رکھ سکتے بلکہ خالص حلت و حرمت کے دائرہ کے اندر ہی رہنا چاہیے اور زیادہ پابندیاں اپنے لئے برداشت نہ کر سکیں لیکن یہاں خاص درجہ کے مومنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے حکم یدا کہ کُلُوْامِنْ طَیِّبٰتِ مَارَزَ قْنٰکُمْ تم صرف وہ طیبات استعمال کرو جو ہم نے تمہیں عطا کی
اِنَّمَا حَرَّمَ

غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘o
ہیں۔ یہی وجہ ے کہ پہلے حکم کے نتیجہ میں فرمایا تھا کہ تم شیطان کے پیچھے چلنے سے بچ جائئو گے لیکن یہاں یہ فرمایا کہ اگر تم صرف طیبات ہی استعمال کر و گے تو اس کے نتیجہ میں تم اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لا سکو گے یعنی تمہیں ایسے نیک اعمال کی توفیق ملے گی جو تمہاری روح کو اللہ تعالیٰ کے آستانہ کی طرف کھینچ کر لے جائیں گے۔ جیسے دوسرے مقام پر وضاحتاً فرمایا کہ یٰٓاَ یَّھَاالرُّسُلُ کُلُوْامِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا(مومنوں آیت۵۲) یعنی اے ہمارے رسولو! تم طیبات کھائو اور مناسب حال اعمال بجا لائو۔ گویا اسلام نے انسانی اعمال اور اخلاق پر غذا کے اثرات کو واضح طور پر تسلیم فرمایا ہے اور مسلمانوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ اس نقطہ کو ہمیشہ مدنظر رکھیں اور غذائی معاملات میں طیبات کو ترجیح دیا کریں تاکہ ان کے اخلاق بھی متوازن رہیں اور ان میں ناواجب اونچ نیچ کا کوئی پہلو دکھائی نہ دے۔ غرض یہاں اعلیٰ درجہ کے ایمان کے مناسب حال کُلُوْامِنَ الطَّیِّبٰتِ فرمایا۔ اور جب انسان طیبات پر حصر کر لیگا تو نہ صرف یہ کہ وہ منہیات سے بچ جائیگا بلکہ وہ صالحات کی بھی توفیق پائیگا۔ پس اعلیٰ درجہ کے مومن کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر حلال بھی نہ کھائے بلکہ خاص طور پر طیب کو مدنظر رکھے یا پھر اس آیت میں صرف طیب کو اس لئے بیان کر دیا کہ حلال اسی میں آجاتا ہے۔
۸۷؎ حل لغات:۔ اَلْمَیْتَۃُ۔ اَلْمَیْتَۃُ مَالَمْ تَلْحَفْہُ الذَّکوٰۃُ۔ وَالْحَیَوَانُ الَّذِیْ یَمُوْتُ حَتْفَ اَنْغِہٖ(اقرب) اَلْمَیْتَہُ مَیْت’‘ کا مونث ہے۔ اور مَیْتَۃ’‘ سے مراد ہر ایسی چیز ہے جو بغیر کسی بیرونی سبب کے مرے اور اُسے ذبح نہ کیا جائے (اقرب) اور مَیْتَۃ’‘ سے مراد ہر ایسی چیز ہے جو بغیر کسی بیرونی سبب کے مرے اور اُسے ذبح نہ کیا جائے۔(اقرب)
اور شریعت اسلام کے نزدیک اُسے بھی مُردار ہی کہتے ہیں جو ذبح نہ ہو خواہ ایسا جانور خودبخود مر جائے یا کوئی دوسرا اُسے مار دے۔
دَم’‘ کے معنے کون کے ہیں اور اس سے مراد دِم مسفع، ہے جو ذبح کرنے سے بہ جاتا ہے۔ اندر کا خون مراد نہیں۔
اُضْطُرَّ:ضَرَّ سے باب افتعال کا ماضی مجہول کا صیغہ ہے اور اِضْطَرَّہ‘ اِلَیْہِ کے معنے ہیں اَحْوَجَہ‘ وَاَلْجَاہ‘ فَاضْطُرَّ بِصِیْغَۃِ الْمَجْھُوْلِ اَیْ اُلْجِیَٔ(اقرب) اضطرار کسی شخص کو ایسے کام پر مجبور کر دینے کو کہتے ہیں جو اس کے لئے باعث ضر ر ہو یا اُسے ناپسند ہو۔ یہ مجبوری خواہ بیرونی ہو جیسے تہد ید و تخویف یا اندرونی ہو جیسے قدرتی مطالبات اور طبعی حوائج یعنی بھوک وغیرہ ان دونوں میں سے کسی قسم کی مجبوری کے ماتحت انسان کام کرے تو اُسے اضطرار کہتے ہیں۔
بَاغٍ:بَغَیَ سے اسم فاعل کا صیغہ ہے اور اَلْبَغْیُ کے معنے ہیں(ا) اَلظُّلْمُ۔ ظلم (۲) اَلْجُرْمُ وَالْجِنَایَۃُ ۔ قصور (۳)اَلْعِصْیَانُ۔ نافرمانی (۴) کُلُّ مُجَاوَزَۃٍ وَاِفًرَاطٍ عَلَی الْمِقْدَارِ الَّذِیْ ھُوَ حَدُّ الشَّیْ ئِ فَھُوَ بَغْی’‘ ۔ کسی مقررہ حد سے تجاوز کرنا بھی بغی ہے(اقرب)
اور اَلْبَاغِی سے مراد ہے (۱) اَلطَّالِبُ۔ چاہنے والا (۲) اَلظَّالِمُ ظالم (۳) وَاَلْعَاصِی عَلَی اللّٰہِ وَالنَّاسِ۔ اور وہ شخص جو اللہ تعالیٰ اور لوگوں کی مخالفت میں کھڑا ہوجائے۔
عَادٍ: حد سے گذر جانے والا یعنی جو قانون پر عمل کرتے کرتے کچھ زیادتی یا کمی کر دے۔
اِثْم’‘:اس جگہ اس کے معنے سزا کے ہیں۔ سبب کو مسبب کی جگہ استعمال کیا گیا ہے۔ کیونکہ سزا کا سبب گناہ ہوتا ہے۔ (۲)اِثْم’‘ کے معنے گناہ کے بھی ہو سکتے ہیں ۔
اُھِلَّ: اَھَلَّ سے فعل ماضی مجہول کا صیغہ ہے اور اَھَلَّ الْھِلَالُ وَاُھِلَّ (مجھولًا) کے معنے ہیں ہلال ظاہر ہو گیا (۲)اَھَلَّ الْقَوْمُ الْھِلَالَ رَفَعُوْا اَصْوَا مَّھُمْ عِنْدَ رُوْیَتِہٖ۔ لوگوں نے ہلال پر آواز بلند کی (چاند کو ہلال اسی لئے کہتے ہیں کہ اس کے دیکھنے پر آواز بلند کی جاتی ہے)(۳) اور اَھَلَّ الصَّبِیُّ کے معنے ہیں رَفَعَ صَوْنَہُ بِالْبُکَائِ یعنی بچہ رونے لگا۔ (۴) اور اَھََلَّ الرَّجُلُ کہیں تو معنے ہونگے نَظَرَ اِلَی الْھِلَالِ آدمی نے ہلال دیکھا (۵) اور اَھَلَّ الشَّھْرُ کے معنے ہیں ظَھَرَ ھِلَا لُہ‘ نئے مہینے کا ہلال نکالا (۶) اَھَلَّ السَّیْفُ بِغُلَانٍ کے معنے ہیں قَطَعَ فِیْہِ تلوار نے اُسے کاٹ دیا۔ (۷) اَھَلَّ الْعَطْشَانُ کے معنے ہیں رَفَعَ لِسَانَہ‘ اِلیٰ لُھَاتِہٖ لِیَعْتَمِعَ لَہُ رِیْقُہ‘ یعنی پیاسے نے اپنی زبان تھوک سے تر کرنے کے لئے حلق کے قریب کی۔ (۸) اَھَلَّ اللّٰہُ السِّحَابَ کے معنے ہیں خداتعالیٰ نے بادل برسایا (۹) اَھَلَّ الشَّھْرَ کے ہیں رَایَ الْھِلَالَ چاند دیکھا۔ (۱۰) اَھَلَّ اْ لُملَبِیّ کے معنے ہیں رفَعَ صَوْنَہ‘ بِالتَّلْبِیَۃِ بُفَالَ اَھَلَّالْمُحْرِمُ بِالْحِجّ وَالْعُمْرَۃِ لَبّٰی وَرَفَعَ صَوْ تَہ‘۔ محرم نے حج اور عمرہ کے لئے تلبید کیا اور آواز بلند کی۔ (۱۱) اَھَلَّ فُلَان’‘ بِذِکْرِ اللّٰہِ کے معنے ہیں رَفَعَ صَوْتَہ‘ بِہٖ عِنْدَ نِعْمَۃ اَوْرُوْیَۃِ شَیْ ء یُعْجِبُہ‘ فلاں شخص نے کوئی نعمت دیکھ کر ذکر الہٰی کے لئے اپنی آواز بلند کی (۱۲) اَھَلَّ بِالنَّسْمِیَۃِ عَلیٰ الذَّ بِیْحَۃِ کے معنے ہیں کے معنے ہیں قَالَ بِسْمِ اللّٰہِ ذبح کے وقت اللہ کا نام لیا۔ وَمَا اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہکے معنے ہیں نُوْدِیَ عَلَیْہِ بِغَیْرِ اسْمِ اللّٰہِ عِنْدَ ذبْحِہٖ۔ جو جانور خداتعالیٰ کے سوا کسی اور کا نام لے کر ذبح کیا جائے(اقرب)
تفسیر:۔ یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ شریعت اسلامیہ میں جن اشیاء کے کھانے سے منع کیا گی اہے۔ وہ دو قسم کی ہیں اول حرام دوم ممنوع۔ لُغۃً توحرام کا لفظ دونوں قسموں پر حاوی ہے۔ لیکن قرآن کریم نے اس آیت میں صرف چار چیزوں کو ھرام قرار دیا ہے۔ یعنی مردار ، خون، سور کا گوشت اور وہ تمام چیزیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے نام سے نامزد کر دی اگیا ہو ان کے سوا بھی شریعت میں بعض اور چیزوں کے استعمال سے روکا گیا ہے۔ لیکن وہ چیزیں اشیاء ممنوعہ کی فہرست میں تو آئیں گی۔ قرآنی اصطلاح کے مطابق حرام نہیں ہونگی۔ جیسے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نَھیٰ عَنْ کُلِّ ذِیْ نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ وَعَنْ کُلِّ ذِیْ مِخْلَبٍ مِنَ الطَّیْرِ(مسلم جلد ۲ کتاب الصید والذبائح) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر کچلیوں والے درندے اور پنجوں والے پرندے کو کھانا ممنوع قرار دیا ہے۔ اسی طرح ایک حدیث میں آتا ہے کہ نَھٰی لُحُوْمِ الْحُمُرِ الْاِنْسِیَّۃ، یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے۔(مسلم جلد ۲ کتاب الصید دالذبائح)
یہ احکام اس آیت یا دوسری آیات کے مضمون کے مخالف نہیں ہیں۔ کیونکہ جس طرح اوامر کئی قسم کے ہیں بعض جرض ہیں بعض واجب ہیں اور بعض سنت ہیں۔ اسی طرح نہی بھی کئی اقسام کی ہے۔ ایک نہی محرمہ ہے اور یاک نہی مانعہ ہے اور ایک نہی تنزیہی ہے۔ پس حرام چار اشیاء ہیں باقی ممنوع ہیں اور ان سے بھی زیادہ وہ ہیں جن کے متعلق نہی تنزیہی ہے کہ انسان ان سے بچے حرام اور ممنوع میں وہی نسبت ہے جو فرض اور واجب میں ہے۔ پس جن اشیاء کو قرآن کریم نے حرام کہا ہے ان کی حرمت زیادہ سخت ہے اور جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے وہ حرمت میں ان سے نسبتا کم ہیں۔ اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے احکام میں ان کی مثال فرض اور واجب اور سنت کی سی ہے حرام تو بمزلہ فرض کے ہے اور منع بمنزلہ واجب کے جس طرح فرض اور واجب میں فرق ان کی سزائوں کے لحاظ سے کیا جاتا ہے اسی طرح جن اشیاء کی حرمت قرآن کریم میں آئی ہے اگر انسان اُن کو استعمال کرے گا تو اس کی سزا زیادہ سخت ہو گئی اور جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے ان کے استعمال سے اس سے کم درجہ کی سزا ملے گی لیکن بہر حال دونوں جرم قابل گرفت اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہوں گے حرام فعل کا ارتکاب کرنے سے انسان کے ایمان پر اثر پڑتا ہے اور اس کا نتیجہ لازماً بدی ہوتی ہے۔ لیکن دوسری چیزوں کے استعمال کا نتیجہ لازماً بدی اور بے ایمانی کے رنگ میں نہیں نکلتا۔ چنانچہ دیکھ لو ۔ مسلمانوں میں سے بعض ایسے فرقے جو ان اشیاء کو مختلف تاویلات کے ذریعے جائز سمجھتے اور انہیں کھالیتے ہیں جیسے مالکی ان کا اثر انکے ایمان پر نہیں پڑتا۔ اور ان میں نے ایمانی اور بدی پیدا نہیں ہوتی۔ بلکہ گذشتہ دور میں تو ان میں اولیاء اللہ بھی پیدا ہوتے رہے ہیں۔ لیکن خنزیر کا گوشت یا مردار کھانے والا کوئی شخص ولی اللہ نظر نہیں آئیگا۔ پس حرمت کے بھی مدارج ہیں اور ان چاروں حرام چیزوں کے سوا باقی تمام ممنوعات ہیں جن کو عام اصلاح میں حرام کہا جاتا ہے ورنہ قرآنی اصطلاح میں وہ حرام نہیں ہیں۔ دراصل ایک حرمت ایسی ہے۔ جو صرف لُغتاً حرمت کہلاتی ہے اس لحاظ سے ہر وہ چیز جس سے کسی دوسرے کو منع کر دیا جائے حرام کہلائیگی۔ جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی منع کی ہوئی چیز جس سے کسی دوسرے کو منع کر دیا جائے حرام کہلائیگی۔ جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی منع کی ہوئی چیزیں ہیں۔لیکن قرآنی اصطلاح میں صرف یہی چار چیزیں حرام ہیں۔
اس آیت میں مردار کھانے سے اللہ تعالیٰ نے اس لئے روکا ہے کہ مردار کا خون بہت سی زہروں پر مشتمل ہوتا ہے اور مُردار کی نسبت اغلب گمان یہی ہوتا ہے کہ وہ بیماری سے یا زہر سے یا زہریلے جانوروں کے کاٹے سے مرا ہو۔ اور یہ سب حالتیں ایسی ہیں کہ ان میں جانور کا گوشت استعمال کرنیکے قابل نہیں رہتا اور اگر گِر کر یا کسی ار صدمہ سے مرا ہو تب بھی قاعدہ ہے کہ سخت صدمہ کا اثر فوراً خون میں زہر پیدا کر دیتا ہے پس درحقیقت کھانے کے قابل صرف وہی گوشت ہوتا ہے جو ذبح کئے ہوئے جانور کا ہو۔ ورنہ اُس کا لازماً بد اثر ہو گا۔ اور یہ چیز صرف خیالی نہیں بلکہ موجودہ طب نے بھی ثابت کر دیا ہے کہ خواہ کوئی جانور عمر طبعی پا کر بوجہ بڈھا ہونے کے مرے یا کسی اونچے مقام سے گر کر ہلاک ہو یا کسی صدمہ سے جانبر نہ ہو سکے یا کسی بیماری کا شکار ہو اس کے کون میں کئی قسم کے خطرناک جراثیم اور کیڑے پیدا ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ میڈیکل جیورس پروڈنسMIDICAL JURISPRUDENCEجو ڈاکٹر کی ایک مشہور کتاب ہے اس میں لکھا ہے کہ مردہ کے گوشت میں بہت جلد کیڑے پیدا ہو جاتے ہیں جن سے ایسے زہر پیدا ہوتے ہیں جنہیںAL-KALIDES CADAVERICEیاPTOMAINES کہتے ہین۔ یہ زہر سخت مہلک ہوتے ہیں اور ان کا اثر کچلا اور ایڑوپین کے مشابہ ہوتا ہے (صفحہ۵۲۲)
اِسی طرح خون بھی مختلف قسم کے زہروں پر مشتمل ہوتا ہے اور صحت کے لئے سخت مضر چیز ہے۔ فزیالوجی والے لکھتے ہیں کہ کون انسانی بدن میں ایک ایسے گڑھے کی طرح ہوتا ہے جس میں بے حد مچھلیاں اور مینڈک اور کیڑے ہر وقت اپنی غذا بھی اُس سے لیتے ہوں اور اپنا فضلہ بھی اس میں پھینکتے ہوں۔ کیونکہ اس میں بے انتہا سیلز تیر رہے ہوتے ہیں اور ہروقت اُسے خراب کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ خون کا ہی کام ہے کہ وہ ٹشوز سے مردہ مادہ کو ان آرگنز تک لے جاتا ہے جو اُسے خون سے صاف اور علیٰحدہ کرتے ہیں۔ پس خون مختلف قسم کے زہروں اور ردی مادوں سے بھرا ہوا ہوتا ہے اور جسم کے اندر خداتعالیٰ نے اُس کے صاف کرنے کے لئے کئی سامان بنائے ہوئے ہیں لیکن جب وہ جسم سے باہر آجائے تو اُس کے زہر اُس کے اندر ہی رہ جاتے ہیں اور اس کا استعمال صحت کے لئے سخت مضر ہوتا ہے۔ اور چند منٹ میں خراب ہو جاتا ہے بلکہ ہوا کے کیڑے مل کر بہت جلد نشوونما پا جاتے ہیں۔ چنانچہ وہ گوشت جس سے خون دھویا جائے دیر تک رہتا ہے بہ نسبت اس کے جسے خون لگا ہوا ہو۔ پس خون کا بد اثر بھی ظاہر ہے۔
خنزیر کے گوشت کا اثر بھی انسان کے جسم اور اُس کے اخلاق پر نہایت بُرا پڑتا ہے۔ جسم پر تو اُس کا اس طرح گندہ اثر پڑتا ہے کہ اس کے گند اور کیچڑ میں رہنے اور گندی ذہنیت کو پسند کرنے کے سبب سے اس کے گوشت سے کئی قسم کی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ چنانچہ مسٹرJOHN ATHAN NICHOLSONُٓٓاپنی کتاب SWINE FLESH میں لکھتے ہیں :۔
‏IT IS EXCEPTIONAL EVIDENCE AGAINST THE HATEFUL HOG WHEN WE SY TAPE WORM, SCROFULA, CANCER AND ENEYSTER TRICHINA AND UNKNOWN AMONG STRICT JEWS. THEY NEVER TOUCH THE HOG FLESH.
یعنی سور کا گوشت کے متعلق ایک غیر معمولی عجیب شہادت یہ ہے کہ کدو دانیاور سِل کا مادہ یہودیوں کے اندر اس لئے پیدا نہیں ہوتا کہ وہ سور کا گوشت نہیں کھاتے۔ اگر ان کی یہ بات پوری طور پر تسلیم نہ بھی کی جائے تب بھی اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ سور خور قوموں میں یہ بیماریاں زیادہ ہوتی ہیں۔
سور کے گوشت سے ایک مہلک بیماری پیدا ہوتی ہے جسےTRICHINOSISکہتے ہیں۔ اس میں پہلے ہیضہ کی علامات ظاہر ہوتی ہیں پھر بخار ہوجاتا ہے پھر بدن میں درد شروع ہو جاتا ہے اور آخر میں نمونیا ہو جاتا ہے۔ میڈیکل جمیورس پروڈنس میں لکھا ہے کہ اس مرض کا کوئی علاج نہیں۔
اسی طرح سور کے گوشت سے آنتوں میں کیڑے پڑ جاتے ہیں جو کدو دانہ کے مشابہ ہوتے ہیں اور سالہا سال تک رہتے ہیں۔ ڈاکٹر ایف بٹلر ایم ۔ڈی۔ ایف ۔آر۔سی ۔پی اپنی کتاب ’’پریکٹس آف میڈیسن‘‘ میں لکھتے ہیں کہ سور میں یہ بیماری پاخانہ کھانے سے پیدا ہوتی ہے لیکن ان ضرروں سے بھی بڑھ کر بلکہ اصل باعث اس کی حرمت کا دو خرابیاں ہیں جو اخلاق میں پیدا ہوتی ہیں۔ صرف سورہی ایک ایسا جانور ہے جس میں نر کو نر پر پھاندنے کی عادت ہے پس وہ لوگ جو سور کا گوشت کھانے کے عادی ہیں ان میں بھی دیوٹی بڑھ جاتی ہے اور حیا کا مادہ کم ہو جاتا ہے۔
پھر اس میں شجاعت بھی نہیں ہوتی بلکہ تہور کی عادت ہوتی ہے جس وقت اپسے غصہ آجائے وہ آگے پیچھے نہیں دیکھتا بلکہ سیدھا حملہ کرتا ہے او راسی عادت کی وجہ سے شکار اسے جلد مار لیتا ہے۔ جب شکار ی اُسے گولی مارتا ہے تو وہ غصہ میں سیدھا حملہ کرتا ہے اور اس طرح جلدی گِر جاتا ہے۔ اسی طرح جو قوم سور کا گوشت کھانے والی ہوگی اس میں بھی شجاعت نہیں پائی جائیگی بلکہ تہور پایا جائیگا۔
بانی سلسلہ احمدیہ اپنی مشہور تصنیف’’اسلامی اصولوں کی فلاسفی‘‘ میں خنزیر کی حرمت کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:۔
’’ایک نکتہ اس جگہ یاد رکھنے کے قابل ہے اور وہ نکتہ یہ ہے کہ خنزیر جو حرام کیا گیا ہے خدا نے ابتداء سے اس کے نام میں ہی حرمت کی طرف اشارہ کیا ہے یونکہ خنزیر کا لفظ خنز اور اَر سے مرکب ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ میں اس کو فاسد اور خراب دیکھتا ہوں۔ خنز کے معنے بہت فاسد۔ آرٰ کے معنے دیکھتا ہوں پس اس جانور کا نام جو ابتداء سے خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کو ملا ہے وہی اس کی پلیدی پر دلالت کرتا ہے اور عجیب اتفاق یہ ہے کہ ہندی میں اس جانور کو سور کہتے ہیں یہ لفظ بھی سور اور اَر سے مرکب ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ میں اس کو بہت بُرا دیکھتا ہوں۔۔۔۔۔ اور یہ معنے جو اس لفظ کے ہیں یعنی بہت فاسد اس کی تشریح کی حاجت نہیں اس بات کا کس کو علم نہیں کہ یہ جانور اول درجہ کا نجاست خور اور نیز بے غیرت اور دیوث ہے۔ اب اس کے حرام ہونے کی وجہ ظاہر ہے کہ قانونِ قدرت یہی چاہتا ہے کہ ایسے پلید اور بد جانور کے گوشت کا اثر بدن اور روح پر پلید ہی ہو۔ کیونکہ ہم ثابت کر چکے ہیں کہ غذائوں کا بھی انسان کی روح پر ضرور اثر ہے۔ پس اس میں کیا شک ہے کہ ایسے بد کااثر بھی بد ہی پڑے گا جیسا کہ یونانی طبیبوں نے اسلام سے پہلے ہی یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس جانور کا گوشت بالخاصیت حیا کی قوت کو کم کرتا ہے اور دیوثی کو بڑھاتا ہے‘‘۔
(اسلامی اصول کی فلاسفی)
چوتھی چیز جسے حرام قرار دیا گیا ہے وہ ہے جوشرک کے طور پر ذبح کی جائے اور ا سکے قربان کرنے کا باعث خداتعالیٰ کے سوا اور ہستیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی خواہش ہو۔ چونکہ اس میں خدائے وحد لا شیرک کی ہتک کی جاتی ہے اور اس کی صفات دوسری ہستیوں کو دی جاتی ہیں اس لئے اس کو استعمال کرنا انسان کو بے غیرت بناتا ہے بلکہ درحقیقت ایسے جانور کو کھانا دلی ناپانی اور بے غیرتی کی علامت ہے۔ پس اسلام نے اس کو بھی حرام قرار دیا ہے۔ یہ حرمت اس کے بطعی نقصانات سے نہیں بلکہ دینی نقصانات کی وجہ سے ہے کیونکہ جو شخص کسی ایسے جانور کا گوشت کھاتا ہے جسے غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو وہ اس بات کا ثبوت بہم پہنچاتا ہے کہ اُسے خداتعالیٰ کی توحید سے کوئی محبت نہیں۔ وہ بظاہر خداتعالیٰ کی محبت کا دعویٰ کرتا ہے مگر اپنے باطن میں اس نے اور بھی کئی بُت چُھپا رکھے ہیں جن کی وہ پرستش کرتا ہے۔ پس اس کا کھانا اس کے دل کو ناپاک کرتا اور اُسے مشرکوں کا ہمرنگ بنا دیتا ہے۔
عیسائی لوگ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ اسلام نے تورات کی نقل کرتے ہوئے ان اشیاء کو حرام قرار دیا ہے کسی حکمت کی وجہ سے ان کو حرام قرار نہیں دیا۔ مگر ان کا یہ خیال بالکل غلط ہے ۔ کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کو تورات نے حرام کیا ہے مگر قرآن نے حرام نہیں کیا مثلاً اونٹ کو تورات میں حرام قرار دیا گیا ہے (احبار باب۱۱آیت۴) لیکن اسلام میں اس کا کھانا جائز ہے اگر کہو کہ عربوں کی خاطر اُسے حرام نہیں کیا گیا۔ تو میں کہتا ہوں کہ خرگوش کو بھی تورات میں حرام کیا گیا ہے (احبار باب۱۱ آیت۶) لیکن اسلام میں اس کا کھانا بھی جائز ہے۔ اگر اونٹ عربوں کی خاطر حلال کیا گیا تھا تو خرگوش کو حلال قرار دینے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ پھر اگر یہ احکام تورات کی ہی نقل ہوتے تو چاہیے تھا کہ تورات کے تمام احکام کو نقل کر لیا جاتا۔ مگر قرآن کریم نے اس کے بہت سے احکام کو چھوڑ دیا ہے۔ مثلا تورات نے مردار کھانے والے کے لئے یہ سزار مقرر کی ہے کہ وہ ناپاک ہو جائیگا اور کپڑے دھونے کے بعد بھی شام تک ناپاک رہیگا (احبار باب۱۱ آیت۳۹۔۴۰) لیکن قرآن کریم نے اس بے معنی بات کو چھوڑ دیا۔ پاس یہ کہنا کہ قرآن نے تورات کی نقل کی ہے واقعات کے لحاظ سے بالکل غلط بات ہے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ تورات تو حرمت کی کوئی وجہ بیان نہیں کی لیکن قرآن کریم حرمت کی وجہ بھی بتاتا ہے۔ چنانچہ خداتعالیٰ فرماتاہے ۔ قُلْ لَّآ اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُھَرَّ مًا مَّسْفُوْ حًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِیْرٍ فَاِنَّہُ رِجْس’‘ اَوْ فِسْقًا اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّکَ غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘ (انعام آیت۱۴۶)یعنی تو اس سے کہہ دے کے جو کچھ میری طرف نازل کیا گیا ہے میں تو اس میں اُس شخص پر جو کسی چیز کو کھانا چاہے سوائے مردار یا بہتے ہوئے خون یا سور کے گوشت کے کوئی چیز حرام نہیں پاتا۔ اس لئے کہ ان میں سے ہر ایک چیز نجس ہے یا میں فسق کو حرام پاتا ہوں۔ یعنی اس چیز کو جس پر خداتعالیٰ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو۔ لیکن جو شخص اس کے کھانے پر مجبور ہو جائے بغیر اس کے کہ وہ شریعت کا مقابلہ کرنے والا ہو یا حد سے نکلنے والا ہو یعنی وہ جان بوجھ کر ایسے موقعہ پر نہ گیا ہو یا کھاتے وقت ضرورت سے زیادہ نہ کھائے تو وہ یاد رکھے کہ تیرا رب یقینا بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے یعنی ایسا شخص اگر ان کھانوں کو کھالے تو اللہ تعالیٰ اُس کو اُن کے بد اثرات سے بچا لیگا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ مردہ اور بہا ہوا خون اور سور کا گوشت حرام کرنے کی وجہ ان کا تکلیف دہ ہونا ہے کیونکہ رجس کے معنے گند اور عذاب کے ہوتے ہیں پس مراد یہ ہے کہ یہ چیزیں گندی ہیں اور انسان کے لئے رُوحانی اور جسمانی طور پر موجب دکھ ہیں۔
اس کے علاوہ سورۃ مائدہ آیت ۴ اور سورۃ نحل آیت ۱۱۶ میں بھی حلال اور حرام اشیاء کا ذکر ہے اور سب میں یہی چیزیںبیان کی گئی ہیں۔ سوائے سورۃ مائدہ کے کہ وہاں مَیْتَۃ’‘ کی تشریح کر کے بتایا ہے کہ اس میں گلا گھونٹا ہوا یا لاٹھی سے مارا ہوا جانور یا سینگ لگنے سے مرا ہوا جانور یا وہ جانور جسے کسی درندے نے کھا لیا ہو وہ بھی مردار کے حکم میں شامل ہے۔
اُھِلَّ بِہٖ بِغَیْرِ اللّٰہِ کو اس نے علحیٰدہ بیان کیا ہے کہ اگرچہ اس سے ظاہری طور پر کوئی نقصان معلوم نہیں ہوتا مگر اس کے استعمال کرنے سے روحانی رنگ میں یہ بُرا نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان کے اندر باحت اور بے دینی پیدا ہو جاتی ہے اور خدتعالیٰ سے اس کا تعلق ٹوٹ جاتا ہے۔ پس بائیبل نے تو بغیر کوئی حکمت واضح کرنے کے بعض چیزوں کو حرام قرار دے دیا ۔ مگر قرآن کریم نے حرام کرنے کی وجہ بھی بتائی ہے پس یہ نہیں کہا جا سکتا کہ حلت و حرمت کے مسائل تورات سے نقل کر لئے گئے ہیں۔
فَمَن ِاضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ میں پہلی شرط تو یہ رکھی کہ یہ استثنیٰ صرف اس شخص کے لئے ہے جو مفطر ہو جائے اور اضطرار کے معنے کسی شخص کو کسی ایسے کام پر مجبور کر دینے کے ہیں جو اس کے لئے باعثِ ضر ر یا جسے وہ ناپسند کرتا ہو۔ اور یہ مجبوری دو قسم کی وہتی ہے ایک بیرونی تہدید و تخویف اور ایک اندرونی جیسے ہیجانِ جذبات اور مطالبات نیچر وغیرہ (مفردات راغب) دوسری شرط یہ رکھی کہ وہ عادی یعنی حد سے گذرنے والا نہ ہو۔ باغی کی مثال تو ایسی ہے جیسے کوئی پنے کسی عیسائی دوست کے گھر میں بیٹھا ہوا ہو اور وہ بے تکلفی سے گھر والوں سے کہے کہ مجھے کچھ کھانے کے لئے دو اور وہ سور کا گوشت سامنے رکھ دیں تو وہ اُسے بے تکلف کھناے لگ جائے۔ یہ بغاوت اور نافرمانی ہو گی۔ سور کا گوشت کھانا صر ف اُس وقت جائز ہو گا جب وہ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہو اور اُسے کھانے کے لئے سور کے گوشت کے سوا اور کوئی چیز کھانے کی میسر نہ آرہی ہو۔ کیونکہ اس وقت اس کے استعمال میں نقصان کم اور عدمِ استعمال میں نقصان زیادہ ہے لیکن اس کے ساتھ ہی وَلَا عَادٍ فرما کر بتا دیا کہ مضطر کو بھی کلی طور پر اجازت نہیں دی گئی کہ وہ پیٹ بھر کر کھانا کھا لے بلکہ صرف اتنا کھانے کی اجازت دی گئی ہے جس سے اس کی زندگی قائم رہ سکے اگر وہ ان حدود کا خیال رکھیگا تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔ لیکن اگر وہ اس خیال سے اکہ آج تو پہلی مرتبہ سور کا گوشت کھانے کا موقعہ ملا ہے خوب سیر ہو کر کھا لے تو یہ ناجائز ہو گا۔بہر حال اٖطرار تاویلی نہیں بلکہ حقیقی ہونا چاہیے تب ان چیزوں کا استعمال اس کے لئے جائز ہو گا۔
آخر میں فرمایا کہ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘ اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ایسی مجبوری کی حالت میں کھانے والے پر کوئی گناہ نہیں تو بخشنے کے کیا معنے ہوئے۔ اور اگر ایسی حالت میں کھانا بھی گناہ ہے تو پھر فَلَا اِثْمَ عَلَیْہِ کا کی امطلب ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم کی دوسری آیات سے پتہ لگتا ہے کہ انسان سے جو کمزوریاں سر زد ہوتی ہیں۔ چونکہ اس جگہ ایسے لوگوں کا ذکرکیا جا رہا تھا جنہیں مجبوری کی حالت میں لحمِ خنزیر وغیرہ استعمال کرنے کا اجازت دی گئی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘ فرما کر اس طرف توجہ دلائی کہ تمہارا اس حالت کو پہنچنا بتاتا ہے کہ تم تقویٰ کے اعلیٰ مقام پر فائز نہیں تھے ورنہ خداتعالیٰ تمہیں اس حالت سے بچا لیتا اور تمہارے رزق کے لئے غیب سے کوئی اور صورت پیدا فرما دیتا۔ آخر آج تک اُمتِ محمدیہ میں لاکھوں اولیاء اللہ گذرے ہیں کیا کسی ادنیٰ سے ادنیٰ ولی کے متعلق بھی یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ اُس پر ایسا فاقہ آیا کہ وہ مردار یا سور کا گوشت کھانے پر مجبور ہو گیا۔ اگر نہیںتو پھر ایسے شخص کو یہ محسوس کرنا چاہیے کہ اُس سے اپنی پہلی زندگی میں کوئی نہ کوئی قصور ایسا ضرور سرزد ہواہے جس کی پاداش میں اُسے یہ دن دیکھنا پڑا کہ وہ مومن کہلاتے ہئوے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں سے ہوتے ہوئے سور کا گوشت کھانے پر مجبور ہو گیا۔ بے شک ایسی حالت میں اُس کا بقدر ضرورت چند لقمے لے لینا اور موت سے اپنے آپ کو بچا لینا جائز ہے لیکن چونکہ اس کی یہ حالت کسی مخفی شامت اعمال کا نتیجہ ہو گی اس لئے اُسے چاہیے کہ وہ اپنے اعمال کا جائزہ لے کر اپنی گذشتہ کمزوریوں پر ندامت کے آنسو بہائے۔ خداتعالیٰ کے حضور توبہ اور استغفارء سے کام لے اور دُعا کرتا رہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی کمزوریوں کو معاف فرمائے اور ان پر پردہ ڈالے اور اُسے اپنی مغفرت کے دامن میں لے لے۔ اگر وہ سچے دل سے ایسا کریگا تو وہ اللہ تعالیٰ کو غفور اور رحیم پائے گا۔ اور آئندہ اس قسم کے حالات میں مبتلا ہونے سے محفوظ ہو جائے گا۔
ایک صحابی کا واقعہ ہے انہیں جنگ میں پکڑ کر اور قید کر کے قیصر کے پاس بھیجا گیا۔ اس نے چاہا کہ انہیں قتل کر دے۔ مگر
اِنَّ الَّذِیْنَ


عَذَاب’‘ اَلِیْم’‘o
اس کے مصاحبوں نے کہا کہ قتل نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ مسلمان بھی ہمارے قیدیوں کو قتل نہیں کرتے اور اگر عمرؓ کو پتہ لگ گیا کہ اُن کے ایک آدمی کہ قتل کیا گیا ہے تو وہ اس کا سختی سے انتقام لیں گے۔ قیصر نے کہا میں تو چاہتا ہوں کہ اسے ایسی سزا دوں جو دوسروں کے لئے باعثِ عبرت ہو۔ اس پر انہوں نے کہا۔ اسے سور کا گوشت کھلانا چاہیے۔ چنانچہ انوں نے اس صحابی کو چند دن بھوکا رکھا اور پھر سور کا گوشت کھانے کو دیا اس نے کھانے سے سختی سے انکار کر دیا وہ اُسے کھانے پر مجبور کر رہے تھے کہ قیصر کے سر میں شدید درد شروع ہوگئی جس کا اُن سے کوئی علاج نہ ہو سکا۔ اس کے مصاحبوں نے کہا کہ معلوم ہوتا ہے یہ اس شخص کو تکلیف دینے کی وجہ سے ہے۔ اخر یہ قرار پایا کہ مسلمانوں کے خلیفہ کو دُعا کے لئے لکھا جائے۔ اور چونکہ ایسی صورت میں ان کے لئے یہ مناسب نہ تھا کہ ایک مسلمان پر وہ ایسی سختی کریں ورنہ دعا مشکل تھی۔ اس لئے وہ مجبور ہو کر اُسے کھانا دینے لگے گئے پس جو لوگ ایمان میں پختہ ہوتے ہیں خداتعالیٰ ان پر ایسا موقعہ ہی نیہں لاتا کہ انہیں حرام چیز کھانی پڑے خداتعالیٰ خود ان کے لئے ہر قسم کی خیرو برکت کے سامان مہیا کر دیتا ہے۔
اس کادوسرا جواب یہ ہے کہ اگر کسی موقعہ پر انتہائی مجبوری کی وجہ سے مردار یا سور کا گوشت استعمال کر لیا جائے تو جن زہریلے اثرات کی وجہ سے شریعت نے ان چیزوں کو حرام قرار دیا ہے وہ بہر حال ایک مومن کے لئے بھی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان نتائج کا تدارک اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ انسان غفور اور رحیم خدا کا دامن مظبوطی سے پکڑے اور اُسے کہے کہ اے خدا میں نے تو تیری اجازت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی جان بچانے کے لئے اس زہریلے کھانے کو کھالیا ہے لیکن اب تو ہی فضل فرما اور ان مہلک اثرات سے میری روح اور جسم کو بچا جو اس کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اسی حکمت کے باعث آخر میں اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘ کہاگیا ہے۔تاکہ انسان مطمئن نہ ہوجائے بلکہ بعد میں بھی وہ اس کی تلافی کی کوشش کرتا رہے اور خداتعالیٰ سے اُس کی حفاظت طلب کرتا رہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے غالبًا شریعت کی اسی رخصت کو دیکھتے ہوئے ایک دفعہ فرمایا کہ اگر کسی حاملہ عورت کی حالت ایسی ہو جائے کہ مرد ڈاکٹر کی مدد کے بغیر اُس کا بچہ پیدا نہ ہو سکتا ہو اور وہ مرد ڈاکٹر کی مدد نہ لے اور اُسی حال میں مر جائے تو اس عورت کی موت خود کشی سمجھی جائے گی۔ اسی طرح انسان کی ایسی حالت ہو جائے کہ وہ بھوک کے مارے مرنے لگے اور وہ سور یا مردار کا گوشت کسی قدر کھالے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔
۸۸؎ تفسیر:۔ فرماتا ہے ۔ وہ لوگ جو اس عظیم الشان تعلیم کو چھپاتے ہیں جسے خدانے لوگوں کی ہدایت کے لئے اپنی کتاب میں نازل فرمایا ہے اور اس کے بدلہ میں دنیوی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ وہ اپنے پیٹوں میں آگ انڈیلتے ہیں۔ یہ آیت حلت و حرمت کے مسائل کے بیان کرنے کے معًا بعد لا کر اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جس طرح مردار اور خود اور سور کا گوشت تم پر حرام ہے اور جس طرح غیر اللہ کے نام پرذبح کیا ہوا جانور کھانا تمہارے لئے گناہ ہے اسی طرح یاد رکھو کہ خدا اور اس کے رسول کے احکام کو اپنی زندگی کا مقصد قرار دیے دینا اور خداتعالیٰ کو چھوڑ دینا بھی مُردار اور سور کا گوشت کھانے سے کم نہیں۔ جس طرح وہ حرام خور ی ہے اسی طرح یہ بھی حرامخوری ہے کہ انسان دین سے واقف ہوتے ہوئے کلمہ حق کہنتے سے احتراز کرے۔ اور ڈرے کہ اگر میں نے اپنے عقیدہ کو نہ چھپایا یا خدا اور اس کے رسول کے احکام پر بر ملا اظہار کر دیا تو میری ملازمت جاتی رہے گی یا میری تجارت ماری جائیگی یا میرے دوستوں کے حلقہ میں میری عزت کم ہو جائیگی۔ فرماتا ہے جو لوگ صحیح علم رکھنے کے بعد بھی منافقت سے کام لیتے ہیں اور دنیوی مفاد کو دینی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں وہ یاد رکھیں کہ وہ اپنے پیٹوں میں انگارے ڈال رہے ہیں۔
مَایَا کُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ اِلَّا النَّارَ۔ اس آیت میں بُطُوْن کا لفط تاکید کے لئے استعمال کیا گیا ہے اور فِیْ بُطُوْنِھِمْ میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ان کے بطون کے اندر آگ کا عذاب پیدا کیا جائے گا۔ یعنی انہیں اندرونی عذاب دیا جائیگا جو بیرونی عذاب سے زیادہ سخت ہوتا ہے اسی مفہوم کو ایک شاعر نے اس طرح ادا کیا ہے کہ ؎
دُخُوْلُ النَّارِ لِلْمَھْجُوْرِ خَیْر’‘
مِنَ الْھِجْرِ الَّذِیْ ھُوَ یَتَّقِیْہِ
لِاَنَّ دُخُوْ لَہ‘ فِی النَّارِ اَدْنٰی
عَذَابًا مِنْ دُخُوْلِ النَّارِ فِیْہِ
یعنی ایک مہجور انسان جو اپنے محبوب کے فراق میں نالہ و فریاد کر رہا ہو اس کا آگ میں داخل ہو جانا اس جدائی کی آگ سے زیادہ آسان ہوتا ہے جس سے وہ بچنا چاہتا ہے ۔ کیونکہ اس کا آگ کے اندر داخل ہونا اس سے کم تکلیف دہ ہے کہ آگ اس کے اندر داخل ہو جائے اور وہ اس کے رگ و ریشہ کو جلا کر راکھ کر دے۔ اسی محاورہ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ آگ میں داخل کئے جائیں گے بلکہ فرمایا کہ وہ آگ اپنے پیٹوں میں ڈال رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے لئے ایک اندرونی جہنم تیار کر رہے ہیں ۔ گویا اس آیت میں سبب کی جگہ مسبب استعمال ہوا ہے۔
وَلَایُکَلِّمُھُمُ اللّٰہُ یُوْمَ الْقِیٰمَۃِ۔ پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے قیامت کے دن کلام تک نہیں کرے گا۔ یہ ایک عظیم الشان نکتہ تھا۔ جسے افسوس کہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں نے فراموش کر دیا۔ فرماتا ہے اللہ تعالیٰ ان سے نہیں بولیگا۔ حالانکہ قیامت کا دن وہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کافروں سے بھی کلام کرے گا ۔ جیسا کہ دوسری جگہ قرآن کریم میں آتا ہے۔ وَیُوْمَ یُنَّادِیْھِمْ فَیَقُوْلَ مَاذَآ اَجَبْتُمُ الْمُرْسَلِیْنَ(قصص آیت۶۶) یعنی اس دن خداتعالیٰ کفار کو پکارے گا اور کہیگا تم نے میرے رسولوں کے پیغام کا کیا جواب دیا تھا ۔ پس قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ کا کفار سے بھی کلام کرنا ثابت ہے تو بعض لوگوں سے اس کا
اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ
عَلَی النَّارِo
منہ پھیر لینا اور ان سے کلام تک نہ کرنا بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے شدید ناراض ہو گا۔ ار وہ نہیں چاہیگا کہ ان سے زجر کے رنگ میں بھی کلام کرے ۔ گویا اللہ تعالیٰ کا کلام نہ کرنا اس کی ناراضگی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ مگر اس زمانہ کے مسلمان یہ کہتے ہیں کہ خداتعالیٰ کا اپنے بندوں سے کلام نہ کرنا نعوذباللہ ایک بڑی نعمت ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل امتِ محمدیہ کو حاصل ہوئی حالانکہ خیرِ اُمت کی علامت یہ ہونی چاہیے تھی کہ اللہ تعالیٰ اس نعمت کا دروازہ ان پر زیادہ سے زیادہ کھولتا اور پہلی قوموں سے بھی زیادہ نہیں شرفِ مکالمہ و مخاطبہ عطا فرماتا۔ مگر انہوں نے زحمت کو رحمت سمجھ لیا اور خداتعالیٰ سے دوری کو ایک انعام سمجھ کر اُسے حرز جان بنا لیا۔
اس آیت کا ایک یہ مفہوم بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے محبت کا کلام نہیں کریگا۔ اور یہ عام محاورہ ہے ہماری زبان میں بھی کہتے ہیں کہ میں تم سے بات نہیں کرونگا۔ اور مراد یہ ہوتی ہے کہ میں تم سے دوستانہ کلام نہیں کرونگا پس اس کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس روز ان سے دوستانہ کلام نہیں کریگا۔ بلکہ اس کا کلام ایسا ہی ہوگا جیسے ایک جج کسی مجرم کو سزا کاحکم سُناتے وقت کلام کرتا ہے ۔ مگر بہر حال خواہ کوئی معنے لئے جائیں خداتعالیٰ کا ترک گفتگو اس کی ناراضگی کی نشانی ہے۔ مگر مسلمان بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نعوذباللہ خداتعالیٰ کا اُمت محمدیہ پر یہ انعام نازل ہوا کہ اس نے ان سے کلام کرنا ترک کر دیا اور وحی اور الہام کے سلسلہ کو منقطع کر دیا۔
پھر فرمایا وَلَا یُزَکِّیْھِمْ۔ چونکہ اسلام کی رو سے کفار کو دوزخ میں ڈالنے کی غرض ہی یہی ہے کہ ان کا تزکیہ ہو اس لئے وَلَا ئُزَکِّیْھِمْ کے یہ معنے نہیں کہ وہ انہیں پاک نہیں کریگا۔ بلکہ یہ معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں پاک قرار نہیں دے گا۔
ترتیب وربط:۔ ان آیات میں مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے ساتھ ہی یہود کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے چنانچہ اِنَّمَا حَرَّ مَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃَ میں ان کے اس اعتراض کو دور کیا گیا ہے کہ یہ نبی ان چیزوں کو کیوں حلال کرتا ہے جو شریعت موسویہ میں حرام تھیں۔اگر یہ ان پیشگوئیوں کا مصداق ہے تو اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے بتایا کہیہ اعتراض قلتِ تدبر کا نتیجہ ہے۔ جو احکام کسی خاص وقت کے مناسب حال تھے ان کو دوام کا رنگ نہیں دیا جا سکتا تھا اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے یہود کے ہاں اونٹ حرام تھا۔ مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت حلال تھا۔ پس جس طرح موسیٰ علیہ السلام سے قبل بعض چیزیں حلال تھیں اور کئی انبیاء تک ان کو استعمال کرتے رہے مگر بعد میں ان کو حرام کر دی گیا۔ اسی طرح موسوی شریعت کے بعد بھی خداتعالیٰ اختیار رکھتا تھا کہ وہ بعض حرام سمجھی جانے والی چیزوں کو حلال کر دیتا۔ پس اس پر اعتراض کرنا نادانی کی علامت ہے۔
۸۹؎ حل لغات:۔ اِشْتَرٰی اور اَلضَّلٰلَۃَ کی حل لغات کے لئے دیکھیں تفسیر سورۃ بقرہ حل لغات۱۷؎
نیز اَلْھُدٰی کی حل لغات کیل ئے دیکھیں سورۃ البقرۃ حل لغات۳؎ اور ۷؎۔
ذٰلِکَ بِاَنَّ
شِقَاقٍم بَعِیْدٍo

تفسیر:۔ فرماتا ہے یہی لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کی بجائے گمراہی اور مغفرت کی بجائے عذاب کو اختیار کر لیا ہے۔ پس آگ کے عذاب پر ان کی برداشت تعجب انگیز ہے۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان پر کوئی جبر نہیں کیا بلکہ اُسے نیکی اور بدی کے اختیار کرنے پر کامل مقدرت بخشی ہے۔ اور پھر انبیاء کے ذریعہ اس نے بنی نوع انسان کو یہ بھی بتا دیا ہے کہ ہدایت کی اہے اور ضلالت کیا ہے اب یہ انسان کا اختیار ہے کہ وہ خداتعالیٰ کی عطا کر دہ عقل اور اس کے کلام سے فائدہ اٹھا کر ہدایت کی راہ اختیار کرے یا شیطان کے پیچھے چل کر ضلالت کو اختیار کر لے اگر وہ ضلالت کو ہدایت پر ترجیح دیتا ہے تو اس کے نتائج بھی طبعی طور پر اسے عذاب کی صورت میں برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی اس جسارت اور نابینائی پر تعجب کا اظہار کرتا ہے۔ اور فرماتا ہے فَمَا اَصْبَرَ ھُمْ عَلَی النَّارِ۔ جب انہوں نے مغفرت پر عذاب کو ترجیح دی ہے تو ان کو عذاب کو برداشت کر لینے کی جرات بڑی تعجب انگیز ہے۔
اس آیت کے متعلق یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کیا خداتعالیٰ بھی تعجب کا اظہار کیا کرتا ہے۔ سو اس کا جواب یہ ہے کہ بعض اوقات کلام میں حقیقی تعجب مراد نہیں ہوتا بلکہ اس سے یہ بتلانا مقصود ہوتا ہے کہ یہ کیسی بے وقوفی کر رہے ہیں کیا یہ بھی کوئی ایسی چیز تھی جسے اپنے اوپر وارد کر کے وہ صبر کرتے ۔ پس فَمَا اَصْبَرَ ھُمْ عَلَی النَّارِ کا یہ مطلب نہیں کہ یہ لوگ واقعہ میں بڑے صبر کرنے والے ہیں اور خداتعالیٰ ان کے صبر کی تعریف کر رہا ہے یا ان کے صبر پر تعجب کا اظہار کر رہا ہے بلکہ یہ تعریض ہے اور اس سے لوگوں کو یہ بتلانا مقصود ہے کہ ان بیوقوفوں کی موجودہ حالت بتاتی ہے کہ یہ لوگ عذاب پر بہت ہی صبر کرنیوالے ہیں۔ نہ یہ کہ عذاب پر وہ واقعہ میں صبر کرینگے کیونکہ معمولی عذاب بھی انسان کی قوتِ برداشت سے باہر ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ اگر مَا کو استفہامیہ قرار دیا جائے تو اس کے معنے یہ ہونگے کہ کس چیز نے انہیں آگ پر صبر کرنیوالا بنا دیا؟ اور اگرمَا کو فافیہ قرار دیا جائے تو پرھ اس آیت کے یہ معنے ہونگے کہ مَااَصْبَرَ ھُمُ اللّٰہُ عَلَی النَّارِ۔ اللہ تعالیٰ انہیں آگ پر صبر نہ دے۔یعنی خوب سزا دے اور وہ سزا ان کو اچھی طرح محسوس ہو۔
۹۰؎ حل لغات:۔شِقَاق’‘: شَاقَّ کا مصدر ہے اور شَاتہ‘ کے معنے ہیں خَالَفَہ‘ وَعَادَاہُ۔ وَحَقِیْقَتُہ‘ اَنَّ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْھُمَا فِیْ شِقٍّ غَیْرِ شِقِّ صَلِبِہٖ یعنی اس نے اس کے مخالفت اور دشمنی کی اور اس کی حقیقت معنے یہ ہیں کہ دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کی مخالف جانب سے آیا(اقرب)
تفسیر:۔ فرماتا ہے یہ عذاب انہیں اس وجہ سے ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بڑے بھاری احسانات سے کام لیتے ہوئے انہیں ایک ایسا قانون بخشا تھا جس کا ایک ایک حرف صداقت پر مشتمل ہے۔ مگر ان لوگوں نے انتہا درجہ کی عداوت اور دشمنی میں مبتلا ہونے کی وجہ
لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ




ھُمُ الْمُتَّقُوْنَo
سے اُسے ٹھکرا دیا۔ اور خدائی پیغام کے منکر بن گئے۔
شِقَاقٍ بَعِیْدٍ سے ایسی عداوت مراد ہے جو اپنی شدت میں انتہا درجہ تک پہنچی ہوئی ہو اور جس کا سلسلہ ایک طویل مدت تک بھی منقطع نہ ہو۔
۹۱؎ حل لغاتـ:۔ اَلْبِرُّ: اَلصِّلَۃُ وَ الطَّاعَۃُ وَالصِّدْقُ۔ بِرّ کے معنے صلہ رحمی اطاعت اور سچائی کے ہیں(اقرب)
مفرداتِ امام راغب میں لکھا ہے۔ اَلْبِرُّ: اَلتَّوَسُّعُ فِیْ فِعْلِ الْخَیْرِ۔ پھر لکھا ۔ بَرَّ الْعَبْدُ رَبَّہ‘ اَیْ تَوَ سَّعَ فِیْ طَاعَتِہٖ فَمِنَ اللّٰہِ تَعَالیٰ اَلثَّوَابُ وَفِی الْعَبْدِ الَطَّاعَۃُ۔ یعنی بِرّ کے معنے ہیں نیکی میں وسعت اختیار کرنا۔ چنانچہ بَرَّ الْعَبْدُ رَبَّہُ کے معنے ہیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں وسعت اختیار کی۔ برّ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہو تو اس سے مراد ثواب دینا ہے اوراگر بندے کی طرف منسوب ہو تو اس سے مراد اطاعت کرنا ہے۔
اَلْبَاسَآئُ کے معنے ہیں اَلشِّدَّۃُ شدت (۲) اِسْم’‘ الْحَرْبِ جنگ (۳) اَلْمُشَقَّۃُ وَالضَّرْبُ مشقت اور مار۔
اَلضَّرَّآء کے معنے ہیں(۱)اَلزَّمَانَۃُ قحط (۲) اَلشِّدَّۃُ سختی و مصیبت (۳) اَلنَّقْصُ فِی الْاِمْوَالِ وَالْا نْفُسِ مال اور افرادمیں کمی (۴) فَظِیْضُ السَّرَّآئِ یہ سَرَّاء یعنی فراخی کا اُلٹ ہے۔(اقرب)
اَلْبَاسُ: کے معنے ہیں (ا) اَلْفَقْرُ مالی مشکلات۔ (۲) اَلْعَذَابُ عذاب (۳) اَلشِّدَّۃ فِی الْحَرْبِ جنگ کی سختی (۴) اَلْقُوَّۃُ قوت ۔ قرآن کریم میں آتا ہے وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْہِ بَاْس’‘ شَدِیْد’‘ کہ ہم نے لوہے کو نازل کیا جس میں بڑی قوت ہے۔
تفسیر:۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نیکی اور تقویٰ کے متعلق اسلامی نقطہء نگاہ لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے اور بتایا کہ حقیقی نیکی کس چیز کا نام ہے۔ اگر غور سے کام لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ دنیا میں نیکی اور تقویٰ کے متعلق بہت کچھ اختلاف پایا جاتا ہے اور مختلف جماعتوں اور مختلف قوموں اور مختلف زمانہ کے لوگوں کے نزدیک نیکی کی تعریف مختلف رہی ہے۔ غرباء نیکی کی کچھ اور تعریف کرتے ہیں اور اُمراء کچھ اور کرتے ہیں۔ پھر ممالک کے لحاظ سے بھی نیکی کی تعریف میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ہندوستان میں حاجی بڑے نیک شمار ہوتے ہیں یہاںتک کہ ایک شخص خواہ صوم و صلوٰۃ اور دوسرے احکام شرعی کا کتنا ہی پابند کیوں نہ ہو لگ اس کے مقابلہ میں حاجی کو ترجیح دینگے خواہ اس نے سفر حج میں اپنے اوقات فضول اور لغو طور پر ہی ضائع کئے ہوں۔ اور حج کرنے کے بعد بھی اپنے اندر کوئی تغیر پیدا نہ کیا ہو۔ اور صوم و صلوٰۃ کا بھی چنداں پابند نہ ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک ریل کے سٹیشن پر ایک نابینا بڑھیا بیٹھی تھی کہ ایک شخص نے اس کی چادر اُٹھالی۔ بڑھیا کو جب پتہ لگا کہ چاردر غائب ہے تو اس نے آواز دی کر کہا۔ کہ بھائی حانی! مجھ غریب کی چادر کیوں لی ہے۔ میرے پاس تو اَور کوئی کپڑا نیہں میں تو سردی سے ٹھٹھر کر مر جائوں گی۔ وہ چادر تو اس شخص نے لا کر رکھ دی مگر پوچھا کہ تجھے کس طرح پتہ لگا کہ میں حاجی ہوں۔ بڑھیا نے جواب دیا کہ ایسے کام حاجی ہی کیا کرتے ہیں۔ اب دیکھو کووہ عورت اس سے واقف نہ تھی ار نہ اس کی آنکھیں سلامت تھیں مگر اس نے پہچان لیا کہ ایسی سنگدلی حاجی میں ہی پائی جاسکتی ہے لیکن باوجود اس کے پھر بھی عام طور پر ہمارے ملک میںحاجیوں کو بڑا نیک سمجھا جاتا ہے لیکن عرب میں جائو تو وہ لوگ حج کو نیکی قرار دینگے۔ بلکہ ان میں نیکی سخاوت کو سمجھا جائیگا۔ وہ لوگ اگر کسی کی نیکی کی تعریف کرینگے تو کہنگے کہ فلاں شخص بڑا نیک ہے کیونکہ بڑا سخی ہے۔ اسی طرح اب یورپ میں اسلام پھیلے تو وہاں روزے کو بڑی نیکی سمجھا جائیگا کیونکہ وہ لوگ کثرت سے کھانے پینے والے ہیں۔ پس جب ان کو کھانے پینے سے رکنا پڑے گا تو وہ حج اور زکوٰۃ اور نما زوغیرہ احکام شرعی کی بجا آوری کو اعلیٰ نیکی قرار دینے کی بجائے صرف روزہ رکھنے کو سب سے بڑی نیکی قرار دینگے۔ پھر ہمارے ملک میں یہ بھی بڑی نیکی خیال کی جاتی ہے کہ کوئی شخص نماز کا پابند ہو۔ ایسے شخص کے متعلق بھی لو گ کہتے ہیں کہ بڑا نیک ہے کیونکہ نماز پا بند ہے۔ لیکن صحابہؓ کے نزدیک کسی شخص کی نیکی کا معیار محض پابندی نماز نہیں تھا کیونکہ وہ لوگ نیکی کے اس اعلیٰ مقام پر کھڑے تھے جہاں صرف پابندے نماز کو بڑی نیکی قرار دینا ایسی ہی بات تھی جیسے کہا جائے جلاں شخص بڑا بہادر ہے کیونکہ وہ اپنے قدموں پر کھڑا ہو گیا ہے یا فلان شخص بڑا تیز نظر ہے کیونہک اس کی ماں جو اس کے پاس بیٹھی تھی اسے اس کی پہچان لیا ہے۔ یا فلاں شخص کا معدہ بڑا ہی مضبوط ہے کیونکہ اس نے ایک چنا ہضم کر لیا۔ پاس جیسا کہ بہادری تیز فطری اور مضبوطی معدہ کے یہ معیار نہایت مضحکہ خیز ہیں اسی طرح صحابہؓ کے نزدیک کسی شخص کی نیکی کا معیار محض پابندی نماز مضحکہ خیز تھا۔ کیونکہ وہ لوگ دین کے لئے بڑی بری قربانیاں اور سخت آزمائشوں کو نیکی سمجھتے تھے اور جس شخص میں یہ باتیں زیادہ پاتے تھے اس کو نیک سمجھتے تھے پس نیک اور نیکی کی تعریف ہر زمانہ ہر ملک ہر قوم میں جُدا جدا اور مختلف رہی ہے ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مشرق اور مغرب کی طرف منہ پھیرنا کوئی نیکی نہیں۔ اگر کوئی شخص قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتا ہے اور اُس کی نماز میں وہ اخلاص نہیں جو حقیقی نماز میں ہوتا ہے تو اسے قبلہ کی طرف منہ کر کے بھی کچھ حاصل نہیں ہو سکتا کیونکہ نیکی منہ کے کسی طرف پھیر لینے کا نام نہیں۔ بلکہ نیکی نام ہے اس کیفیت کا جو دل کے اندر پیدا ہوتی ہے اور ظاہری حرکات اس کیفیت کا ایک نشان ہیں۔ پس اگر ان ظاہری حرکات میں وہ چیز نہیں جس کا دل سے تعلق ہے تو یہ ظاہری حرکات کچھ چیز نہیں۔ محض قبلہ کی طرف رُخ کرنا یا نماز پڑھنا یا روزہ رکھنا یا حج کرنا یہ تمام باتیں دلی کیفیت نہ ہونے کے باعث ہیج ہوجاتی ہیں۔ کیونکہ یہ وہ ہتھیار ہیں جو بغیر اس قلبی کیفیت کے دُند اور ناکارہ ہوتے ہیں۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے ایک شخص کے پاس تلوار تو ہو مگر کُند ہو یا ہتھیار تو ہوں مگر زنگ خوردہ ہوں پس جس طرح ہتھیاروں کی قیمت ان کی تیزی اور صفائی سے وابستہ ہے اسی طرح ان اعمال کی قدروقیمت خداتعالیٰ کی نظر میں اُسی وقت ہوتی ہے جبکہ ان کے ذریعے خداتعالیٰ کی رضا جوئی مقصود ہو۔
اس آیت میں نیکی کی علامات بیان کی گئی ہیں اور بتایا گیا ہے کہ خداتعالیٰ کے نزدیک حقیقی نیکی کیا چیز ہے فرماتا ہے مشرق و مغرب کی طرف منہ کرنا نیکی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اخلاص اور سوز و گداز کی کیفیت بھی ہونی چاہیے اگر اس کے نتیجہ میں دُوائوں اور ذکرِ الہٰی کی عادت پیدا نہیں ہوتی اگر اس کے نتیجہ میں خداتعالیٰ کی مخلوق سے ہمدردی پیدا نہیں ہوتی۔ اگر اس کے نتیجہ میںیتیموں اور غریبوں اور مسکینوں کی محبت ترقی نہیں کرتی تو محض مشرق و مغرب کی طرف منہ کر لینا کوئی حقیقت نہیں رکھتا ۔ مشرق و مغرب کی طرف منہ پھیرنے کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس لئے ذکر فرمایا ہے کہ چند رکوع قبل اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ لِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَاَیْنَمَا تُوَ لُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ(آیت۱۱۶) یعنی اے مسلمانو! بے شک آج تم کمزور سمجھے جاتے ہولیکن یاد رکھو مشرق و مغرب سب اللہ کا ہی ہے ہم ایک دن ان لوگوں سے حکومت چھین کر تمہیں مشرق و مغرب کا حکمران بنا دینگے اور تم جس طرف بھی اپنے لشکر لے کر نکلو گے تم اللہ کے وجود کو جلوہ گر پائوگے یعنی قدم قدم پر تمہیں فتوحات نصیب ہو نگی اور قدم قدم پر خداتعالیٰ تمہارے لئے اپنے نشانات ظاہر فرمائیگا۔ پس چونکہ مسلمانوں کی دنیوی فتوحات کی پہلے پیشگوئی کی جا چکی ہے جس کے مطابق انہوں نے مشرق و مغرب کا حکمران بننا تھا۔ اور جب کسی قوم کو دنیوی فتوحات حاصل ہو جائیں تو اس بات کا شدید خطرہ ہوتا ہے کہ وہ کہیں دنیا کی طرف ہی نہ جھک جائے اور خداتعالیٰ سے مخلصانہ تعلق جو اس کی فتوحات کا مرکزی نقطہ ہوتا ہے اس کو نظر انداز نہ کر دے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مسلمانوں کو ان کی اعتقادی اور عملی اصلاح کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَ لُّوْا وُجُوْ ھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ۔ یعنی کامل نیکی یہ نہیں کہ تم مشرق و مغرب کے ملکوں پر اپنا تسلط جما لو اور فتوحات پر فتوحات حاصل کرتے چلے جائو بے شک یہ بھی اللہ تعالی کا ایک بڑا بھاری انعام ہے مگر کامل نیکی صرف مادی فتوحات کا نام نہیں بلکہ نام ہے اللہ تعالیٰ پر اور یوم آخرت پر اور ملائکہ پر اور قرآن کریم پر اور تمام نبیوں پر سچے دل سے ایمان لانیکا اور کامل نیکی نام ہے رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں اور سائلوں اور غلاموں کی آزادی کے لئے اپنے اموال خرچ کرنے کا ۔ اسی طرح کامل نیکی نام ہے نمازیں قائم کرنیکا اور زکوٰۃ دینے کا اور اپنے عہدوں کو پورا کرنے کا اور مالی مشکلات اور بیماریوں اور جنگ میں صبر اور استقامت سے کام لینے کا پس بے شک دنیوی فتوحات بھی حاصل کرو مگر اس بات کو مت بھولو کہ صرف ملکوں پر غلبہ حاصل کرنا تمہارا مقصود نہیں بلکہ تمہارا مقصد اللہ تعالیٰ سے کامل تعلق پیدا کرنا اور اس کی مخلوق کی سچی خدمت کرنا ہے اور یہی وہ غرض ہے جو ہر وقت تمہاری نظروں کے سامنے رہنی چاہیے اس کے بعد فرماتا ہے وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بَاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ۔ اس حصہ آیت کا لفظی ترجمہ یہ بنتا ہے کہ’’ نیکی وہ ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لایا‘‘ لیکن ظاہر ہے کہ یہ معنے درست نہیں۔ اَلْبِرَّ اسم ہے اور اس کے بعد ایسی خبر آنی چاہیے جو اس کے مطابق ہو۔ لیکن مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ اس کے مطابق نہیں ۔ اسلئے یہاں بعض الفاظ محذوف سمجھے جائیں گے۔ چنانچہ نحویوں نے اس کی تین توجیہات کی ہیں۔ اول مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ میں مَنْ سے پہلے بِرُّ کا لفظ محذوف ہے اور اصل عبارت یوں ہے کہ وَلٰکِنَّ الْبِرَّ بِرُّ مَنْ اٰمَنَ یعنی کامل نیکی تو اس شخص کی نیکی ہے جو اللہ پر اور یوم آخرت پر سچے دل سے ایمان لایا۔ عربی زبان میں بالعموم ایسا ہوتا ہے کہ مضاف کو حذف کر دیا جاتا ہے جیسے سورہ یوسف میں آتا ہے وَاسْئَلِ الْقَرْیَۃَ اس کے لفظی معنے یہ ہیں کہ بستی سے پوچھو۔حالانکہ بستی سے کوئی نہیں پوچھا کرتا بلکہ بستی والوں سے پوچھا کرتا ہے۔ پس جس طرح وَاسْئَلِ الْقَرْیَۃَ سے مراد وَاسْئَلْ اَھْلَ الْقَرْیَۃِ ہے اور اس جملہ میں اھل کا لفظ محذوف ہے۔ اسی طرح مِنْ اٰمَنَ سے پہلے بَرُّ کا لفظ محذوف ہے(سیبو یہ جلد اول صفحہ۱۰۸)
دوسری صورت یہ ہے کہ اَلْبِرُّ کو مصدر سمجھ کر اس کے معنے اسم فائل کے لئے جائیں اور عبارت کا مفہوم یہ نکالا جائے کہ وَلٰکِنَّ الْبَآرَّ مَنْ اٰمَنَ یعنی بڑا نیک اور محمد رسو ل اللہ ؐ کا کامل متبع وہ ہے جو اللہ اور آخرت کے دن پر اور کتبِ سماویہ پر اور سارے نبیوں پر ایمان لاتا ہے اور اپنے مال کو بوجود تنگی کے اللہ تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے غریبوں میں تقسیم کر تا رہتا ہے۔
تیسری صورت یہ ہے کہ اَلْبِرُّ کے لفظ سے پہلے ذُوْ کا کلمہ محذوف سمجھا جائے اور عبارت یوں ہو کہ وَلٰکِنْ ذَالْبِرِّمَنْ اٰمَنَ یعنی کامل نیکی رکھنے والا وہ شخص ہے جو اللہ پر ایمان لایا۔گویا اس آیت کے مفہوم کو تین صورتیں واضح کرتی ہیں اور آیت کے اگلے حصے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تینوںصورتیں ہی اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق ہیں۔ کیونکہ اس آیت کے بعد وَالْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عَاھَدُوْا وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ وَالضَّرَّآئِ کے الفاظ آتے ہیں اور اَلْمُوْفُونَ حالتِ رفع میں ہے اور اَلصَّابِرِیْنَ حالتِ نصب میں۔ اگر اَلْبَارَّ مَنْ اٰمَنَ یا ذَاالبِّرِ مَنْ اٰمَنَ والی ترکیب صحیح سمجھی جائے تو اَلْمُوْفُوْنَ مرفوع نہیں آسکتا۔اور اگر بِرُّ مَنْ اٰمَنَ صحیح سمجھا جائے تو الَصَّابِرِیْنَ حالت نصبی میں استعمال نہیں ہو سکتا۔ درحقیقت دو مختلف کلمات کو دو صورتوں میں استعمال کر کے یہ بتایا گیا ہے کہ یہاں تینوں صورتیں ترکیب کے لحاظ سے درست ہیں اور تینوں معنے ہی خداتعالیٰ کے منشا کے مطابق ہیں۔ بہر حال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نیکی کے لئے پہلی شرط جو کسی صورت میں بھی بدل نہیں سکتی یہ ہے کہ انسان کو ایمان باللہ حاصل ہو ۔ کبھی کوئی زمانہ ایسا نہیں آسکتا جس میں یہ کہا جا سکے کہ ایمان باللہ کی اب ضرورت نہیں رہی۔ دوسرے یوم آخرت پر ایمان ہو۔ یہ حکم بھی کبھی نہیںبدل سکتا ۔تیسرے ملائکہ پر ایمان ہو یہ صداقت بھی ہمیشہ سے چلی آئی ہے اور چلی جا ئیگی ۔چہارم کتاب یعنی وحی الہٰی پر ایمان ہو۔ اس جگہ الکتاب کا لفظ اللہ تعالیٰ نے واحد رکھا ہے۔ اس سے یہ غلط فہمی نیہں ہونی چاہیے کہ کسی ایک کتاب پر بھی ایمان لانا کافی ہے بلکہ الکتاب سے مراد یہ ہے کہ وہ ساری وحی الہٰی پر ایمان لانے والا ہو۔ خواہ کسی پہلے زمانہ میں نازل ہو چکی ہو۔ یا آئندہ نازل ہو۔ پنجم اسے نبیوں پر ایمان ہو۔ یہ پانچوں نیکیاں ایسی ہیں جن کے بغیر کبھی کوئی شخص روحانیت کا ادنیٰ سے ادنیٰ مقام بھی حاصل نہیں کر سکتا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اعمال کی طرف توجہ کی ہے اور سب سے پہلے مال خرچ کرنے کا ذکر فرمایا ہے مگر اس کے لئے بھی صرف اٰتَی الْمَالَ نہیں فرمایا کیونکہ اگر انسان ناجائز طور پر مال خرچ کر دے تو یہ نیکی نہیں بلکہ بدی ہے۔ اس لئے اٰتَی الْمَالَ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے عَلیٰ حُبِّہٖ رکھا اور حُبِّہٖ کی ضمیر مال کی طرف جا سکتی ہے اور اِیْتَائِ مال کی طر ف بھی جا سکتی ہے اور اس شخص کی طرف بھی جا سکتی ہے جسے مال دیا جاتا ہے اور خداتعالیٰ کی طرف بھی جا سکتی ہے۔ پہلی صورت میں اس کے یہ معنے ہونگے کہ اٰتَی الْمَالَ عَلیٰ حُبِّ الْمَالِ یعنی باوجود مال کے وہ اُسے خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرے۔ دوسری صورت میں اس کے یہ معنے ہیں کہ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّ اِیْتَا ئِ الْمَالِ۔ یعنی وہ اپنا مال چٹی سمجھ کر نہ دے بلکہ اُسے صدقہ و خیرات دینے کا شوق ہو۔ اور وہ اس نیکی میں ایک لذت محسوس کرتے ہوئے اپنا مال پیش کرے۔ تیسری صورت میں اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ جسے مال دے اسے ذلیل سمجھ کر نہ دے بلکہ اپنا بھائی سمجھ کر دے۔ اسی طرح اس کی عادات بگاڑنے کے لئے نہ دے بلکہ اس لئے دے کہ وہ اُسے اچھے کاموں میں لگائے۔ اورترقی کرے۔ چوتھی صورت میں اس کے یہ معنے ہیں کہ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّ اللّٰہِ ہو اللہ کی رضا اور اس کی محبت کے حصول کے لئے مال دے کوئی دنیوی مفاد یا شہرت اس کے پیچھے کام نہ کر رہی ہو۔ ان چار شرائط کے ساتھ مال خرچ کرنا کبھی ناپسندیدہ نہیں ہو سکتا۔ یا یوں سمجھ لو کہ یہ مال خرچ کرنے کے چار مدارج ہیں پہلا درجہ ادنیٰ ہے جس کی طرف قریب کی ضمیر پھر سکتی ہے۔ دوسرا درجہ ادنیٰ ہے جس کی طرف قریب کی ضمیر پھر سکتی ہے۔ دوسرا درجہ اس سے اعلیٰ ہے ۔ تیسرا درجہ اس سے بھی اعلیٰ ہے اور چوتھا درجہ سب سے اعلیٰ ہے۔ پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان کے دل میں مال کی محبت ہو اور پھر بھی وہ اسے خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرے۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ نیک کاموں میں روپیہ خرچ کرنے کی اُسے عادت ہو گئی ہو اور اس کا مزہ اس نے چکھا ہوا ہو جس کی وجہ سے وہ خود دلی شوق اور محبت سے اس قسم کی نیکیوں کی تلاش میں رہے۔ تیسرا درجہ یہ ہے کہ جسے مال دیا جائے اُسے اپنا بھائی سمجھ کر دیا جائے تاکہ وہ اُسے اچھے کاموں میں لگائے اور ترقی کرے لیکن پھر اس سے بھی اوپر ایک اور درجہ ہے اور وہ یہ کہ اس کے اس انفاق میں خالص اللہ تعالیٰ کی محبت کام کر رہی ہو۔ وہ اس وجہ سے مال خرچ نہ کرے کہ اسے مال خرچ کرنے کی عادت ہو چکی ہے یا اُسے اپنے غریب بھائیوں سے محبت ہے بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی رضا اس کے پیش نظر ہو اور اس کی خوشنودی کے حصول کے لئے وہ دوسروں سے حسنِ سلوک کرے۔ یہ سب سے اعلیٰ درجہ ہے اور اسے صوفیاء نے اتنا بڑھایا ہے کہ ان میں سے بعض نے یہاںتک کہا ہے کہ ہمیں نہ جنت کی ضروت ہے نہ دوزخ کی بلکہ صرف خداتعالیٰ کی ضرورت ہے ۔ اگر خداتعالیٰ دوزخ میں پڑنے سے ملتا ہو تو ہم اس میں بھی جانے کے لئے تیار ہیں ۔ یہ بہت بلند مقام ہے۔ کیونکہ اس مقام پر سوائے خداتعالیٰ کے اور کوئی چیز انسان کے سامنے نہیں رہتی صرف خدا ہی خدا رہ جاتا ہے اوفر اس کا حُسن انسان پر اس قدر ممستولی ہو جاتا ہے کہ اس کے سوا کوئی اور چیز اُسے نظر ہی نہیں آتی۔
اب سوال پیدا ہوتا تھا کہ وہ خدا کی محبت کے لئے کہاں خرچ کرے۔ سو اس کی تشریح بھی کر دی اور بتایا کہ (۱) وہ قرابت والوں کو دے اس لئے کہ انسان پر ان کا بڑا حق ہوتا ہے۔ مثلاً ماں پاب ہیں جو بچوں کی پرورش اور ان کی نگہداشت کے لئے اتنی بڑی قربانیاں کرتے ہیں جن کی مثال کسی اور جگہ نہیں مل سکتی۔ اسی طرح دوسرے رشتہ دا اس بات کے مستحق ہوتے ہیں کہ اگر وہ حاجت مد ہوںت و ان کی امداد کی جائے اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے۔ (۲) پھر فرمایا کہ وہ یتامیٰ کو دے چونکہ ان کی خبر گیری کرنیوالا کوئی نہیں ہوتا اس لئے ان کے حقوق کو مدنظر رکھنے کی تعلیم دی۔ (۳) تیسرے نمبر پر مساکین کو رکھا جن کے پاس اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے مال بھی نہیں ہوتا۔ اور وہ لوگوں کے سامنے دست سوال بھی دراز نہیں کرتے۔ گویا وہ اس آیت کے مصداق ہوتے ہیں کہ لَا یَسْئَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَانًا۔ وہ غربت کے باوجود اپنے اندر اخلاقی بلندی رکھتے ہیں اور اپنے و قار کو قائم رکھنے کے لئے دوزروں سے مانگنے کی ذلت برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔(۴) چوتھے نمبر پر مسافر کو رکھا۔ اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے غربت کی شرط نہیں لگائی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں غربت مسافروں کی امداد کرنا ضروری ہوتا ہے وہاں اگر کسی اسودہ حال مسافر کی مدد کرنی پڑے تو اس سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ممکن ہے وہ مالدار تو ہو مگر راستہ میں اس کا مال ضائع ہو گیا ہو۔ اگر ایسا ہو تو وہ بطور حق بھی لے سکتا ہے اور کوئی چیز گرد رکھ کر بھی اپنی ضرورت پوری کر سکتا ہے۔ اسی طرھ حکومت کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ ملکی اور غیر ملکی مسافروں اور سیاحوں کے لئے ہر قسم کی سہولتیں بہم پہنچائے اور ان کی مشکلات کو دور کرنے کی کوشش کرے۔ اس کے بعد پانچویں نمبر پر سائل کو رکھا۔ اس کی نسبت کہا جا سکتا ہے کہ اگر وہ غریب اورمفلس ہے تو اُسے ابن السبیل کہ اجا سکتا ہے کہ اگر وہ غریب اور مفلس ہے تو اُسے ابن السبیل کے بعد کیوں رکھا ہے۔
سو یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام نے سوال کرنا پسندیدہ قرار نہیں دیا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ جس شخص کے پاس ایک وقت کا کھانا ہے اور پھر بھی وہ سوال کرتا ہے وہ خداتعالیٰ کی ناراضگی مول لیتا ہے۔ اسی طرح حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غصہ آیا اور آپ نے اس سے آٹا چھین کر اونٹوں کے آگے ڈال دیا اور فرمایا اب مانگ آپ کی اس سے غرض یہ تھی کہ وہ لوگوں کے لئے بار نہ بنے بلکہ خود کام کرے اور دوسروں سے مانگ کر کھانے کی ذلت سے بچے پس چونکہ اسلام نے مانگ کر کھانا ناپسند کیا ہے اس لئے یہ بتانے کیلئے کہ سوال کرنا ایک ناپسندیدہ امر ہے مسائل کو سب سے آخر میں رکھا۔ اسلام چاہتا ہے کہ مسلمانوں میں اعلیٰ درجہ کے اخلاق پیدا ہوں اور بجائے اس کے کہ لوگ سوال کرتے پھریں۔ وہ خود لوگوں کی ضروریات کا پتہ لگا کر ان کو پورا کیا کریںتاکہ ان کے لئے سوال کرنے کی نوبت ہی نہ آئے۔
وَفِی الرِّقَاب۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر روپیہ خرچ کرنے کا ذکر کیا ہے جو قید میں پڑے ہوئے ہوں۔ اس جملہ میں ایک مضاف محذوف ہے جو فَکُ کا لفظ ہے۔ یعنی اصل عبارت یوں ہے کہ وَفِیْ فَکِّ الرِّقَابِ۔ اس گروہ کو پیچھے رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں میں زیادہ تر غیر مذاہب کے ہی قیدی ہو سکتے ہیں۔ اور قاعدہ ہے کہ اقرب کا حق دوسروں سے مقدم ہوتا ہے۔ ابن السبیل کو تو مہمان کے طور پر رکھا ہے کہ خواہ وہ کافر ہو اُسے بھی دو۔ مگر قیدی تو ایسے ہی لوگ ہونگے جو مسلمانوں کے مقابلہ میںلڑائی کے لئے آئے ہونگے۔ اس لئے فِی الرِّقَابِ کو بعد میں رکھا۔ لیکن یہ بھی اسلام کا کتنا بڑا احسان ہے کہ وہ اُسی شخص کے متعلق جو مسلمانوں کو مارنے کے لئے آیاتھا کہتا ہے کہ اسے روپیہ دے کر آزاد کرادو۔ اسی طرح فِی الرِّقَابِ میں قرضدار اور ضامن کو امداد دینا بھی شامل ہے۔ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے ہر قسم کے صدقات دیئے لیکن غلام آزاد کرنیکا موقعہ نہیں ملا میں جب حج کے لئے مکہ گیا تو آپ نے مجھے فرمایا کہ اگر سو دو سو روپیہ میں کوئی غلام مل جائے تو میری طرف سے آزاد کر دینا مگر مجھے کوئی غلام نہ ملا لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کی بھی توفیق عطا فرمادی۔ چنانچہ مرزا محمد اشرف صاحب محاسب صدر انجمن احمدیہ کی روایت ہے کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے دو غلام آزاد کر وا دیئے تھے۔
پھر فرماتا ہے وَاَتَامَ الصَّلوٰۃَ وَاٰتَی الذَّکوٰۃَ کامل نیک وہ شخص ہے جس نے نماز کو قائم رکھا اور زکوٰۃ دی۔ صلوٰۃ اور زکوٰۃ کے وسیع معنے ہیں۔ مگر شریعت نے ان کو اپنی ایک مخصوص اصطلاح نماز اور زکوٰۃ ہی مراد ہے۔ جن میں سے ایک خدا اور انسان کے تعلقات کو استوار کرتی اور دوسری انسان اور انسان کے باہمی تعلقات میں رابط قائم کرتی ہے۔ اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ صرف مال خرچ کرنے سے تم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل نہیں کر سکتے۔ بلکہ تمہارے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ تم نمازیں قائم کرو۔ اور زکوٰۃ ادا کرو۔ اور زکوٰۃ ادا کرو۔ گویا حقوق اللہ اور حقوق العباد کو جب تک ایک منظم رنگ میں ادا نہ کیا جائے اُس وقت تک انسان نیکی کا اعلیٰ مقام حاصل نہیں کر سکتا۔
پھر فرمایا۔ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عَاھَدُوْا وَالصَّابِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ وَالضَّرَّآئِ۔ نیکی اورتقویٰ کا اعلیٰ مقام جن لوگوں کو حاصل ہوتا ہے ان کی ایک علامت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ معاہدات کی پابندی کرتے ہیں اور اگر لوگ ان پر سختی کریں یاظلم سے کام لیں تو وہ صبر سے کام لیتے ہیں۔ گویا ایک طرف تو وہ اسلامی تمدن کو قائم کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں اور کبھی بدعہدی یا دھوکا بازی سے کام نہیں لیتے اور دوسری طرف اگر مذہبی قومی اور ملکی ضرورت کے لئے انہیں سختیاں بھی برداشت کرنی پڑیں تو وہ استقلال کے ساتھ ان کو برداشت کرتے ہیں اور استقامت کا اعلیٰ نمونہ دکھاتے ہیں۔ اس جگہ عہد سے مراد صرف زبانی عہد ہی نہیں بلکہ تمدن سے تعلق رکھنے والے تمام اہم مسائل بھی اس میں شامل ہیں۔ کیونکہ تمدن دنیا میں ایک دوسرے کے حقوق کی اسی رنگ میں حفاظت ہوتی ہے کہ ہر شخص سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنے دائرہ سے تجاوز نہ کرے اور دوسروں کے حقوق کو سلب کرنے کی کوشش نہ کرے۔ اور جب وہ ایسا کرتے ہیں تو تمدن کو قائم کرنے والے سمجھے جاتے ہیں اور اگر اس کے خلاف عمل کریں تو فتنہ و فساد پیدا کرنے والے قرار پاتے ہیں۔ اسلام چونکہ صلح و آشتی اور محبت کی فضا پیدا کرنا چاہتا ہے اس لئے اس نے کامل الایمان لوگوں کی یہ علامت بیان فرمائی ہے کہ وہ معاہدات کی سختی سے پابندی کرتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی بتایا کہ وَالصَّابِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ وَالضَّرَّآئِ وَھِیْنَ الْبَاْسِ۔ وہ فقرہ فاقہ اور تنگیوں میں صبر سے کام لیتے ہیں اور جسمانی دکھوں اور مصائب میں بھی صبر سے کام لیتے ہیں۔ اس جگہ اَلْبَاسَآئِ سے مالی مشکلات اور ضَرَّاء سے جسمانی مشکلات اور امراض وغیرہ مراد ہیں اور بَاْس سے شدتِ حرب مراد ہے۔ گویا ادنیٰ سے اعلیٰ ابتلائوں کی طرف ترقی کی ہے اور بتایا ہے کہ وہ کسی حالت میں بھی صبر کا دامن اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ یہ لڑائیاں جن کا اس جگہ ذکر کیا گیا ہے دوقسم کی ہو سکتی ہیں ایک وہ جو بھائیوں بھائیوں میں ہوں اور دوسری وہ جو غیروں سے ہوں۔ اگر آپس میں جھگڑا ہو تو وہ اَلصَّابِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ وَ الضَّرَّآئِ کے مطابق اپنے حقوق کو خود چھوڑنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اور سچے ہو کر جھوٹوں کا ساتذ لل اختیار کرتے ہیں اور اگر غیروں سے ہو تو وہ بھاگتے نہیں بلکہ دلیری کے ساتھ ان کا مقابلہ کرتے اور قیام امن کے لئے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیتے ہیں۔
اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ صَدَ قُوْا۔ فرماتاہے یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے صدق و وفا کا نمونہ دکھایا۔ وَاُولٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ اور یہی لوگ مصائب اور دکھوں سے نجات پانے والے ہیں۔ ان کی یہ خصوصیت اس لئے بیان کی کہ انسان کو سب سے زیادہ تکلیف اپنے حقوق کو پامال ہوتے دیکھ کر ہوتی ہے۔ دوسرے سے حسن سلوک کو تو وہ احسان سمجھتا ہے مگر جب کوئی شخص اُسے دکھ پہنچاتا ہے تو وہ اپنی ہتک محسوس کرتا ہے۔ پس چونکہ یہ ان کی غیر معمولی قربانی تھی کہ انہوں نے خدا کے لئے دوسروں کے مظالم سہے اس لئے فرمایا کہ ایسے لوگوں کو میں خصوصیت کے ساتھ پیش کرتا ہوں۔ یہ سچے اور راستباز لوگ ہیں جو مجھ پر ایمان لائے ہیں یعنی انہوں نے اپنے ایمان کو عملی طور پر سچا کر کے دکھا دیا ہے۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جو مصائب سے بچنے والے ہیں۔ کیونکہ مصائب اگر آسمانی ہوں تو ان کا علاج یہ ہوتا ہے کہ لوگ خداتعالیٰ پر ایمان لائیں اور اس کی عبادت کریں اور اگر تمدنی مصائب ہوں تو ان کا علاج یہ ہوتا ہے کہ تمدنی قوانین کو مدنظر رکھیں۔ اور یہ لوگ ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے احکام پر بھی عمل کرنے والے ہیں اور تمدنی خرابیوں سے بھی بچنے والے ہیں۔ پس یہ لوگ دنیا میں کبھی ذلیل نہیں ہو سکتے۔ جو قوم ذلیل یاہلاک ہو گی وہ یا تو خداتعالیٰ کو چھوڑ کر ہلاک ہو گی یا تمدنی قوانین کو نظر انداز کر کے اپنی ہلاک مول لے گی۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ




عَذَاب’‘ اَلِیْم’‘ o
۹۲؎ حل لغات:۔ اَلْقِصَامُن: اَنْ یُّفْعَلَ بِہٖ مِثْلَ مَا فَعَلَہ‘ مِنْ قَتْلٍ اَوْقَطْعٍ اَوْضَرْبٍ اَوْ جَرْحٍ (لسان) عربی زبان میں قصاص کے معنے یہ ہیں کہ کسی شخص سے وہی سلوک کیا جائے جو اس نے قتل یا قطع یا ضرب یا زخم کرنے کی صورت میں دوسرے سے کیا ہے۔
تاج العروس میں لکھا ہے۔ اَلْقِصَاصُ اَلْقَتْلُ بِالْقَتْلِ وَالْجُرْحُ بِالْجُرْحِ کہ قصاص اس چیز کا نام ہے کہ قتل کے مقابلہ میں قتل اور زخم کے مقابلہ میں زخم کیا جائے۔
تفسیر:۔ بعض لوگ اپنی نادانی سے یہ سجھتے ہیں کہ اسلام نے قتل کے بارہ میں جوکچھ بیان کیا ہے صرف بائیبل کے تتبع میں کیا ہے خود اصولی رنگ میں اس بارہ میں کوئی ہدایت نہیں دی ۔ ان کے نزدیک یہودیوں کو جو یہ کہا گیا تھا کہ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَیْنَ بِالْعَیْنَ بِالْعَیقنِ وَ الْاَ نٰفَ بِالْاَ نْفِ وَالْاُ ذُنَ بِالْاُذُنِ وَالسِّنُّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوْحُ قِصَاص’‘(مائدہ آیت۴۶) یعنی جان کے بدلہ میں جان اور آنکھ کے بدلہ میں آنکھ اور ناک کے بدلہ میں ناک اور کان کے بدلہ میں کان اور دانت کے بدلہ میں دانت ار زخموں کے بدلہ میں زخم برابر کا بدلہ ہیں اس حکم کو قرآن کریم نے اس جگہ دُہرا دیا ہے مگر ان کا یہ خیال محض قلتِ تدبر کا نتیجہ ہے ۔ میرے نزدیک بنی نوع انسان کی مذہبی، سیاسی، تمدنی اور عائلی زندگی کے ساتھ تعلق رکھنے والا کوئی مسئلہ بھی ایسا نہیں جسے اسلام نے پوری وضاحت کے ساتھ بیان نہ کیا ہو۔ بیشک وہ پہلے مذاہب کی تعلیموں کا بھی بعض مقامات پر ذکر کرتا ہے مگر نفس مسئلہ پردہ پہلے خود روشنی ڈالتا ہے اور اس کے متعلق ایک جامع اور کامل تعلیم لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے اس کے بعد وہ غیر مذاہب ولوں پر حجت تمام کرنے یا انہیں شرمندہ کرنے کے لئے ان کی تعلیموں کو بھی ان کے سامنے پیش کرتا ہے۔ تاکہ ان کے دلوں میں یہ احساس پیدا ہو کہ مذہب کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہوئے انہوں نے اس کے احکام کو کس طرح پسِ پشت پھینک رکھا ہے۔ اسج گہ بھی قصاص کی بنی نوع انسان کو جو تعلیم دی گئی ہے یہ یہودیوں کی اتباع میں نہیں دی گئی بلکہ ان احکام کے سلسلہ میں دی گئی ہے جو اکیسویں رکوع سے دئے جا رہے ہیں۔ چنانچہ دیکھ لو پچھلی آیات میں بتلایا گیاتھا کہ کامل الایمان لوگوں کی علامات یہ ہوتی ہیں کہ وہ بَاْسَآئَ میں بھی صبر کرتے ہیں اور ضَرَّآئَ میں بھی صبر کرتے ہیں اور حِیْنَ البَاْس بھی صبر کرتے ہیں یعنی خواہ ان پر مالی مشکلات آئیں اور فقروفاقہ تک ان کی نوبت پہنچ جائے تب بھی وہ جادہ استقامت پر قائم رہتے ہیں اور خواہ جسمانی مشکلات آئیں اور بیماریاں ان کو گھیر لیں تب بھی وہ صبر کرتے ہیں۔ اور خواہ لڑائیوں میں مارے جائیں تب بھیی وہ دشمن سے مرعوب نہیں ہوتے۔ اس پر سوال پیدا ہوتا تھا کہ آخر یہ صبر کا سلسلہ کب تک لے گا۔ کیا لوگ ہمیں مارتے ہی چلے جائیں اور ہم خاموش بیٹھے رہیں اور اگر ایسا ہو تو ہماری زندگی کی کیا صورت ہو گئی؟ اس لئے فرمایا کہ تمہارا کام تو یہی ہے کہ تم صبر کرو لیکن کچھ اور لوگ جن کے سپرد حکومت کا نظام کیا گیا ہے ان کا فرض ہے کہ وہ ایسے ظالموں سے بدلہ لیں اور انہیں کیفر کردار تک پہنچائیں چنانچہ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلیٰ میں انہی لوگوں کو مخاطب کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ تم پر قصاص فرض کیا گیا ہے اسجگہ ’’تم‘‘ سے صرف حکام مراد ہیں جو لاء اینڈ آرڈر یعنی نظم و ضبط کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ عام لوگ مراد نہیں۔ اور کُتِبَ کہہ کر بتایا ہے کہ حکام کا فرض ہے کہ وہ قصاص لیں ۔ حکام کو یہ اختیار نہیں کہ وہ معاف کر دیں۔ الَصَّابِرِیْنَ فِی البَاْسَآئِ وَالضَّرَّآء وَحِیْنَ الْبَاسِ میں تو عوام مخاطب تھے مگر کُتِبَ عَلَیْکُمْ میں صرف حکام سے خطاب کیا گیا ہے کہ وہ قصاص لیں۔ اور فِی الْقَتْلٰی کہہ کر تصریح کر دی گئی ہے کہ اس میں جروح شامل نہیں۔ اور درحقیقت یہی وہ آیت ہے جس میں قتل کی سزا کے متعلق اسلامی تعلیم بیان کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ قتل کی سزا قتل ہے۔ اور یہ عام حکم ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فِی الْقَتْلیٰ فرمایا ہے کہ مقتولوں کے متعلق یہ حکم ہے یہ کوئی سوال نہیں کہ وہ مقتول کون ہو۔ اور کس قوم سے تعلق رکھتا ہو۔ اس آیت کے سوا قتل ِ عمد کی دنیوی سزا کا ذکر قرآن کریم کی کسی اور آیت میں نیہں ہے پس یہی آیت ہے جس پر اسلامی فقہ کی بنیاد ہے اور اس میں مسلمان اور غیر مسلمان میں کوئی امتیاز نہیں کیا گیا۔ نہ اس میں یہ ذکر ہے کہ کس کس آلہ سے قتل کرنے والے کی سزا قتل ہے بلکہ خواہ کسی آلہ سے کوئی شخص قتل کرے۔ اس کو قتل کیا جائیگا۔ بلکہ حدیثوں سے تو یہاں تک ثابت ہے کہ ایک قتل کے کیس میں بعض دفعہ ایک سے زیادہ افراد کو بھی مارا گیا۔ چنانچہ لکھا ہے کہ صَنْعَاء میں ایک شخص کو کئی لوگوں نے مل کر قتل کر دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سب کو جو تعداد میں سات تھے قتل کروادیا۔ اور فرمایا کہ اگر سارا شہر قتل میں شریک ہوتا تو میں سب کو قتل کرادیتا۔ (طحادی) اسی طرح حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ لَایَحِلُّ دَمُ اٍمْرِ ئٍ مُسْلِمٍ یَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاِنِّی رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَّابِاِحْدَیْ ثَلَاثٍ اَلثَّیِّبُ الزَّانِیْ وَالنَّفْسُ بِالنَّفْسِ وَالتَّارِکُ لِدِیْنِہِ الْمُفَارِقُ لِلْجَمَا عَۃِ(مسلم کتاب القصاص) یعنی صرف تین گناہ ایسے ہیں جن کی بنا پر مسلمان کو قتل کرنا جائز ہے ۔ اول شادی شدہ شخص ہو اور پھر زنا کرے۔ دوم کوئی شخص قاتل ثابت ہو جائے ۔ سوم جو شخص اسلام کو چھوڑ کر جماعت مسلمہ سے الگ ہو جائے۔ یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ صحیح مسلم میں تو صرف یہی الفاظ بیان کئے گئے ہیں مگر نسائی میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ رَجُل’‘ یَخْرُجُ مِنَ الْاِسْلَامِ ئُحَارِبُ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ وَ رَسُوْلَہ‘ فَیُقْتَلُ اَوْ یُصَلَّبُ اَوْ یُنْفیٰ مِنَ الْاَرضِ۔ (نسائی جلد ۲ کتاب تحریم الدم باب الصلب) یعنی وہ شخص جو اسلام کو چھوڑ کر مسلمانوں سے جنگ شروع کر دے۔ اس کے متعلق جائز ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے یا صلیب پر لٹکا دیا جائے یا اُسے جلا وطن کر دیا جائے۔یہ حدیث بتاتی ہے کہ عورت مرد کی کوئی خصوصیت نہیں بلکہ جو بھی قتل کریگا اسے قتل کیا جائیگا اور جان کے بدلہ جان لی جائیگی۔ اسی طرح مسند احمد بن جنبل بخاری۔ نسائی اور ابن ماجہ میں حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلیَّ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ قَتَلَ مُعَاھِدًا لَمْ یَرِحْ رَائِحَۃَ الْجَنَّۃِ یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص کسی کافر معاہد کو مار دے وہ جنت کی خوشبو نہیں سونکھے گا۔ اور یہی سزا قرآن کریم میں ایک مسلمان کے قاتل کی بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَنْ یَّقْتُلْ مُوْ مِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَآئُ ہ‘ جَھَنَّمَ خَالِدًا فِیْھَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہ‘ وَاَعَدَّ لَہ‘ عَذَابًا عَظِیْمًا(نساء آیت۹۴) یعنی جو شخص کسی مومن کو دیدہ دانستہ قتل کر دے اس کی سزا جہنم ہو گی وہ اس میں دیر تک رہتا چلا جائے گا اور اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہو گا اور اُسے اپنے قرب سے محروم کر دیگا اور اس کے لئے بہت بڑا عذاب تیار کریگا۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بھی اس کی تائید کرتا ہے ۔ چنانچہ ابو جعفر طحاوی اپنی کتاب ’’شرح معانی الاثار‘‘ میں لکھتے ہیں۔ اِنَّ النَّبِیَّ صِلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اُتِیَ بِرَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ قَدْ قَتَلَ مُعَاھِدًا مِنْ اَھْلِ الذِّمَّۃِ فَاَمَرَ بِہٖ فَضُرِبَ عُنُقُہ‘ وَقَالَ اَنَا اَوْلٰی مَنْ وَنٰی بِذِ مَّیِہٖ یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک مسلمان لایا گیا جس نے ایک معاہد کا فر کو جو اسلامی حکومت کی رعایا بن چکا تھا قتل کر دیا تھا آپ نے اس کے قتل کئے جانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ میں عہد پورا کرنے والوں میں سے سب سے زیادہ عہد کی نگہداشت رکھنے والا ہوں(نیل الاوطار جلد۶ صفحہ۲۸۳) اسی طرح طبرانی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت روایت کی ہے کہ ایک مسلمان نے ایک ذمی کو قتل کر دیا تو آپ نے اس مسلمان کے قتل کئے جانے کا حکم دے دیا۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ لَا یُقْتَلُ مُوْمِن’‘ بِکَافِرٍ کہ کوئی مومن کسی کافر کے بدلہ میں قتل نہیں کیا جائیگا۔ مگر ساری حدیث دیکھنے سے بات حل ہو جاتی ہے۔ حدیث کے اصل الفاظ یہ ہیں کہ لَا یُقْتَلُ مُوْمِن’‘ بِکَافِرٍ وَلَا ذُوْعَھْدًفِیْ عَھْدِہٖ۔ اس حدیث کا یہ دوسرا فقرہ کہ وَلَاذُوْ عَھْدٍفِیْ عَھْدِہٖ اس کے معنوں کو حل کر دیتا ہے اگر اس کے یہ معنے ہوں کہ کافر کے بدلہ میں مسلمان نہ مارا جائے تو پھر ذُوْ عَھْدٍ کے یہ معنے کرنے ہونگے کہ وَلَا ذُوْ عَھْدٍ بِکَافِرٍ کہ کسی ذوعہد کو بھی کافر کے بدلہ میں قتل نہ کیا جائے۔ حالانکہ اسے کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا۔ پس یہاں کافر سے مراد محارب کافر ہے نہ کہ عام کافر۔ تبھی فرمایا کہ ذمی کافر بھی محارب کافر کے بدلہ میں نہیں مارا جائیگا۔
اب ہم صحابہؓ کا طریق عمل دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ صحابہؓ بھی غیر مسلم قاتل کو قتل کی سزا ہی دیتے تھے۔ چنانچہ طبری جلد ۵ صفحہ۴۴ میں قماذبان ابن ہر مزان اپنے والد کے قتل کا واقعہ بیان کرتاہے ۔ ہرمزان ایک ایرانی ریئس اور مجوسی المذہب تھا اور حضرت عمر ؓ خلیفہ ثانی کے قتل کی سازش میں شریک ہونیکا شبہ اس پر کیا گیا تھا۔ اس پر بلا تحقیق جوش میں آکر عبید اللہ بن عمرؓ نے اس کو قتل کر دیا وہ کہتا ہے۔ کَانَتِ الْعَجْمُ بِالْمَدِیْنَۃِ یَسْتَرُوْحُ بَعْضپھَا اِلیٰ بَعْض، فَمَرَّ فیروز بِاَبِیْ وَمَعَہ‘ خَنْجَر‘ لَہ‘ رَاسَانِ فَتَنَارَ لَہ‘ مَنْہُ۔ وَقَالَ مَاتَمْنَعُ بِھٰذِہِ الْبِلَادِ فَقَالَ اَبُسُّ بِہٖ فَرَاہُ رَجُل’‘ فَلَمَّا اُصِیْبَ عُمَرُ قَالَ رَاَیْتُ ھٰذَا مَعَ الْھُرِ مَزَانِ دَفَعَہ‘ اِلیٰ فِیْرَوزفَاَقْبَلَ عُبَیْدُ اللّٰہِ فَقَتَلَہ‘ فَلَمَّاوُ لِّیَ عُثَمَانُ وَعَانِیْ فَاَمْکَنَنِیْ مِنْہُ ثُمَّ قَالَ یَابُنَیَّ ھٰذَا قَاتِلُ اَبِیْکَ وَاَنْتَ اَوْلیٰ بِہٖ مِنَّا فَاذْھَبْ فَاَقْتُلْہُ فَخَرَجْتُ بِہٖ وَ مَافِی الْارْضِ اَحَد’‘ اِلَّا مَعِی اِلّا اِنَّھُمْ یَطْلُبُوْنَ اِلَیَّ فِیْہِ فَقُلْتُ لَھُمْ اَلِیْ قَتْلُہ‘ قُالُوْا نَعَمْ وَسَبُّوْ عُبَیْدَ اللّٰہِ فَقُلْتُ اَفَلَکُمق اَنْ تَمْنَعُوْہُ قَالُوْ ا لَا وَسَبُّوۃ فَتَرَکْنُہ‘ لِلّٰہِ وَلَھُمْ۔ فَلعْتَمَلُوْنِیْ فَوَ اللّٰہِ مَابَلَغْتُ الْمَنْزِلَ اِلَّا عَلیٰ رُئُوْسِ الرِّجَالِ وَاَکُفِّھِمْ۔ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ایرانی لوگ مدینہ میں ایک دوسرے سے ملے جُلے رہتے تھے (جیسا کہ قاعدہ ہے کہ دوسرے ملک میں جاکر وطنیت نمایاں ہو جاتی ہے) ایک دن فیروز (قاتل عمرؓ خلیفہ ثانی) میرے باپ سے ملا اور اس کے پاس ایک خنجر تھا جو دونوں طرف سے تیز کیا ہوا تھا۔ میرے باپ نے اس خنجر کو پکڑ لیا اور اس سے دریافت کیا کہ اس ملک میں تو اس خنجر سے کیا کام لیتا ہے(یعنی یہ ملک تو امن کا ملک ہے اس میں ایسے ہتھیاروں کی کیا ضرورت ہے) اُس نے کہا کہ میں اس سے اونٹ ہنکانے کا کام لیتا ہوں۔ جب وہ دونوں آپس میں باتیں کر رہے تھے اُسوقت کسی نے ان کو دیکھ لیا اور جب حضرت عمرؓ مارے گئے تو اس نے بیان کیا کہ میں نے خود ہر مزان کو یہ خنجر فیروز کو پکڑاتے ہوئے دیکھا تھا۔اِس پر عبید اللہ(حضرت عمرؓ کے چھوٹے بیٹے)نے جا کر میرے باپ کو قتل کر دیا ۔ جب حضرت عثمانؓ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے مجھے بلایا اور عبیداللہ کو پکڑ کر میرے حوالے کر دیا اور کہا کہ اے میرے بیٹے! یہ تیرے باپ کا قاتل ہے اور تو ہماری نسبت اس پر زیادہ حق رکھتا ہے پس جا اور اس کو قتل کر دے میں نے اس کو پکڑ لیا اور شہر سے باہر نکلا۔ راستہ میں جو شخص مجھے ملتا میرے ساتھ ہو جاتا لیکن کوئی شخص مقابلہ نہ کرتا۔ وہ مجھ سے صرف اتنی درخواست کرتے تھے کہ میں اسے چھوڑ دوں۔ پس میں نے سب مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہا کہ کیا میرا حق ہے کہ میں اسے قتل کردوں۔ سب نے جواب دیا کہ ہاں تمہارا حق ہے کہ اسے قتل کر دو اور عبداللہ کو بھلا بُرا کہنے لگے کہ اس نے ایسا بُرا کام کیا ہے پرھ میں نے دریافت کیا کہ کیا تم لوگوں کو حق ہے کہ اسے مجھ سے چھڑالو انہوں نے کہا کہ ہرگز نہیں اور پھر عبداللہ کو بُرا بھلا کہا۔ کہ اس نے بلا ثبوت اس کے باپ کو قتل کر دیا اس پر میں نے خدا اور ان لوگوں کی خاطر اس کو چھور دیا۔ اور مسلمانوں نے فرطِ مسرت سے مجھے اپنے کندھوں پر اٹھالیا۔ اور خداتعالیٰ کی قسم میں اپنے گھر تک لوگوں کے سروں اور کندھوں پر پہنچا اور انہوں نے مجھے زمین پر قدم تک نہیں رکھنے دیا۔ اس روایت سے ثابت ہے کہ صحابہؓ کا طریق عمل بھی یہی رہا ہے کہ وہ غیر مسلم کے مسلم قاتل کو سزائے قتل دیتے تھے۔ اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ خواہ کسی ہتھیار سے کوئی شخص مارا جائے وہ مارا جائیگا۔ اسی طرح یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ قاتل کو گرفتار کرنے والی اور اس کو سزا دینے والی حکمومت ہی ہے۔ کیونکہ اس روایت سے ظاہر ہے کہ عبداللہ بن عمرؓ کو گرفتار بھی حضرت عثمانؓ نے ہی کیا اور اس کق قتل کے لئے ہر مزان کے بیٹے کے سپرد بھی انہوں نے ہی کیا۔ نہ ہرمزان کے کسی وارث نے اس پر مقدمہ چلایا اور نہ اس نے گرفتار کیا۔
اس جگہ اس شبہ کا ازالہ کردینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ قاتل کو سزا دینے کے لئے آیا مقتول کے وارثوں کے سپر دکرنا چاہیے جیسا کہ حضرت عثمانؓ نے کیا یا خود حکومت کو سزا دینی چاہیے۔ سو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ معاملہ ایک جزوی معاملہ ہے اس لئے اس کو اسلام نے ہر زمانہ کی ضرورت کے مطابق عمل کرنے کے لئے چھوڑ دیا ہے قوم انے تمدن اور حالات کے مطابق جس طریق کو زیادہ مفید دیکھے اختیار کر سکتی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دونوں طریق ہی خاص خاص حالات میں مفید ہوتے ہیں۔
اس کے بعد فرماتا ہے ۔ اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْاُنْثٰی بِالْاُنْثٰی۔ آزاد آزاد کے بدلہ میں غلام غلام کے بدلہ میں اور عورت عورت کے بدلہ میں قتل کی جائے ۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ آزاد مقتول کے بدلہ میں کسی آزاد کہ ہی قتل کیا جائے خواہ اس کا قاتل کئی غلام ہی ہو۔ اور غلام مقتول کے بدلہ میں کسی غلام کو ہی قتل کی جائے خواہ اس کا قاتل کوئی حُرّ ہو اور عورت مقتول کے بدلہ میں کسی عورت کو ہی قتل کیا جائے خواہ اس کا قاتل کوئی مرد ہو۔ کیونکہ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَامُن نِی الْقَتْلیٰ میں حکم پہلے بیان ہوچکا ہے۔ درحقیقت یہ جملہ مستائفہ ہے۔ اور جملہ مستائفہ اس لئے آتا ہے کہ پہلے جملہ میں جو سوال مقدر ہو اس کو بیان کئے بغیر نئے جملہ میں جواب دیا جائے اور بغیر عطف کے اس کو بیان کیا جائے(شرح مختصر معانی مولفہ ابن یعقوب و بہائوالدین جلد۳ مطبوعہ مصر صفحہ۵۴) اس جگہ بھی یہ جملہ ایک سوال مقدر کے جواب کے لئے لایا گیا ہے۔ اور اس میں عرب کی ان رسوم کا قلع قمع کیا یا ہے جو ان میں عام طور پر رائج تھیں۔ اور وہ سوال مقدر یہ ہے کہ کیا اس حکم سے عرب کا پہلا طریق موقوف ہو جائیگا؟ سو فرمایا کہ ہاں اور اس کی چند مثالیں بیان کر دیں کہ یہ سب موقوف ہیں۔ چنانچہ اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَ الْاُنْثٰی بِالْاُنْثیٰ میں ان کی صرف چندمثالیں بیان کی گئی ہیں نہ کہ کل رسوم گویا ھَلُّمَ جَرٍّا کی طرح کا یہ فقرہ ہے اور مراد یہ ہے کہ اس حکم کے ذریعہ وہ تمام امتیاز مٹا دیئے گئے ہیں جو زمانہ جاہلیت میں رائج تھے۔
اصل بات یہ ہے کہ عربوں میں بعض خاندانوں کو بڑا سمجھا جاتا تھا اور بعض کو چھوٹا ۔ بعض کو آزاد سمجھا جاتا تھا اور بعض کو غلام اور جب کسی سے کوئی جرم سرزد ہوتا ہے تو وہ لوگ یہ دیکھاکرتے تھے کہ آیا مجرم غلام ہے یا آزاد۔ اور اگر غلام ہے تو کسی بڑے آدمی کا غلام ہے یا چھوٹے کا۔ مرد ہے یا عورت اعلیٰ خاندان میں سے ہے یا ادنیٰ خاندان میں سے امیر ہے یا غریب۔ اور سزا میں ان تمام امور کو ملحوظ رکھا جاتا اور آزاد مردوں اور عورتوں کو وہ سزائیں نہ دی جائیں جو غلام مردوں اور عورتوں کو دی جاتی تھیں۔ اسی طرح اعلیٰ خاندانوں کے افراد کو وہ سزائیں نہیں دی جاتی تھیں جو ادنیٰ خاندانوں کے افراد کو دی جاتی تھیں۔ چونکہ اسلام نے کُتِبَ عَلَیْکُمْ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی میں یہ عام حکم دے دیا تھا کہ ہر ایک شخص جو قتل کی اجائے اس کا قاتل لازماً قتل ہو خواہ عورت مرد کو مارے یا مرد عورت کو مارے۔ خواہ آزاد غلام کو مارے یا غلام آزاد کہ مارے۔ خواہ ایک شخص کو جماعت مارے اور خواہ کافر معاہد کو مسلمان مارے اس لئے طبعی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ آئندہ قصاص کیا پہلے طریق پر بھی جو جاہلیت میں رائج تھا لیا جائیگا یا نہیں۔ سو اس کا جواب دیا کہ نہیں اور ہرگز نہیں۔ وہ امتیازات اب مٹائے جاتے ہیں۔ اور اس کے لئے صرف تین مثالیں دے دیں۔ باقی مثالیں اس نے چھوڑ دی ہیں۔ کیونکہ عربی زبان میں قاعدہ ہے کہ اگر کسی جگہ تین مثالیں بیان ہوں۔ تو اس جگہ ھَلُمَّ جَرًّا ساتھ مل جاتا ہے اور سب مثالیں انہی تین مثالوں میں شامل سمجھی جاتی ہیں۔ اس جگہ بھی تین مثالوں سے مراد ہر قسم کی مثال ہے اور یہ ہدایت دی گئی ہے کہ کواہ قاتل حُر اور مقتول عبد ہو یا قتل مرد اور مقتول عورت ہو یا قاتل عورت اور مقتول مرد ہو جو بھی قتل کرے اسے قتل کی سزا دو چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا عمل بھی اس کی تصدیق کرتا ہے آپ ؓ نے ایک عورت کے بدلہ میں مرد کوقتل کیا(مسلم جلد ۲ کتاب القصاص و نیل الاوطار جلد ۶ صفحہ۲۸۹) اسی طرح غلام کے بدلہ میں آزاد کے مارے جانیکا حکم دیا۔ جیسے سمرۃ ابن جندب کی روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مَنْ فَمَّلَ عَبْدَہُ قَتَلْنَا ہُ وَمَنْ جَدَعَہ‘ جَدَعْنَا ہُ یعنی جوشخص اپنے غلام کو قتل کرے گا ہم اسے اس کے بلدہ میں قتل کریں گے اور جوشخص اپنے غلام کے ہاتھ پائوں کاٹیگا۔ ہم اس کے بدلہ میں اس کے ہاتھ پائوں کاٹیں گے۔(ابن ماجہ ابواب الدیات باب ھل یقتل الحر بالعبد)
اس کے بعد فرمایا ہے فَمَنْ عُفِیَ لَہ‘ مِنْ اَخِیْہِ شَیْ ء’‘ فَاتِّبَاع’‘ بِالْمَعْرُوْفِ وَاَدَآء’‘ وَاَدَآء’‘ اِلَیْہِ بِاِحْسَانٍ یعنی اگر کسی مقتول کے وارث کسی مصلحت کے ماتحت قاتل کو اس کے جرم کا کچھ حصہ معاف کر دیں تو ان کو اختیار ہے۔
بعض لوگ اس سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ حکومت کو قاتل کے گرفتر کرنے یا اس کو سزا دینے کا کوئی اختیار نہیں بلکہ یہ تمام اختیار مقتول کے ورثاء کو حاصل ہے۔ مگر یہ درست نہیں بلکہ یہ تمام اختیار مقتول کے ورثاء کو حاصل ہے مگر یہ درست نہیں اس جگہ صرف یہ بتایا گیا ہے کہ اگر مقتول کے ورثاء احسان کے طور پر قاتل کو معاف کر دیں تو حکومت کو آن کی خواہش کا احترام کرنا چاہیے اس حق معافی کے سوا رشتہ داروں کا کوئی تعلق قاتل کے ساتھ نہیں ۔ قاتل کو گرفتار کرنا یا اس پر مقدمہ چلانا حکومت ہی کاکام ہے اور اُسی کے ذمہ ہے جیسا کہ کُتِبَ عَلَیْکُمْ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلیٰ میں حکومت کے ذمہ وار افسران کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کہ وہ قتل کے واقعات کے چھان بین کریں اور مجرم کو قرار واقعی سزا دلوائیں۔
اسلام نے مقتول کے وارثوں کو عفو کا جو اختیار کیا ہے اس کے متعلق کہاجا سکتا ہے کہ اس میں بعض دفعہ نقصانات کا بھی احتمال ہو سکتا ہے۔ مثلاً ہو سکتا ہے کہ کسی شخص کو اس کے وارث ہی قتل کروا دیں اور پھر قاتل کو معاف کردیں۔ یہ شبہ ایک معقول شبہ ہے۔ مگر اسلام نے اس قسم کے خدشات کا بھی ازالہ کر دیا ہے اور گو ایک طرف اس نے دو مخالف خاندانوں میں صلح کرانے کے لئے عفو کی اجازت دی ہے مگر دوسری طرف ایسی ناجائز کاروائیوں کی بھی روک تھام کر دی ہے۔ چنانچہ عفو کے ساتھ اس نے اصلاح کی شرط لگا دی جس کے معنے یہ ہیں کہ عفو اسی وقت جائز ہوتا ہے جب اس کے نتیجہ میں اصلاح کی اُمید ہو۔ اگر عفو باعثِ فساد ہے تو ایسا عفو ہر گز جائز نہیں اور حکومت باوجود وارثوں کے عفو کر دینے کے اپنے طور پر سزا دے سکتی ہے۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ کا ایک واقعہ جو طبری نے لکھا ہے بتاتا ہے کہ ابتدائے اسلام سے اس احتیاط پر عمل ہوتا چلا آیا ہے وہ واقعہ اس طرح ہے کہ عدل بن عثمان بیان کرتے ہیں۔ رَاَیْتُ عَلِیًّا عَمَّ خَارِ جًا مِنْ ھَمْدَانَ فَرَ اَ ی فِئَتَیْنِ تَقْتُلَانِ فَفَرَّقَ بَیْنَھُمَا ثُمَّ مَعنٰی فَسَمِعَ صَوْتًا یَا غَوْ ثًابِاللّٰہِ فَخَرَجَ یَحُضُّ نَحْوَہ‘ حَتّٰی سَمِعْتُ خَفْقَ فَعْلِہِ وَھُوَ یَقُوْلُ اَتَاکَ الْغَوْثُ فَاِذَا رَجُل’‘ یُلَا زِمُ رَجُلًًا فَقَالَ یَا اَمِیْرَ الْمُوْمِنِیْنَ بِعْتُ مِنْ ھٰذَا ثَوْ بًا بِتِسْعَۃِ وَرَاھِمَ وَشَرَطْتُ عَلَیْہِ اَنْ لَّا ُٰعْطِیَنِیق مَغْمُوْرًا وَلَا مَقْطُوْ مًا وَکَانَ شَرْ طُھُمْ یَوْ مَئِذٍ فَاَتَیْتُہ‘ بِھٰذِہِ الدَّرَاھِمِ لِیُبَدِّلَھَالِیْ فَاَ بیٰ فَلَزِ مْتُہ‘ فَلَطَمَنِیْ فَقَالَ اَبْدِ لْہُ فَقَالِ بِیّنَتَکَ عَلَی اللَّطْمَۃِ فَاَتَا ہُ بِالْبَیِّنَۃِ فَاَ قْعَدَہ‘ ثُمَّ قَالَ دُوْنَکَ فَاَقِصِّ فَقَالَ اِنِّیْ قَدْ عَفَوْتُ یَا اَمِیْرَا لْمُوْ مِنِیْنَ قَالَ اِنَّمَا اَرَدْتُ اَنْ اَعْتَاطَہُ فِیْ عَقِّکَ ثُمَ ضَرَبَ الرَّجُلَ نِسْعَ دُرَّاتٍ وَقَالَ ھٰذَا حَقُّ السُّلْطَانِ۔ یعنی میں نے دیکھا کہ حضرت علی ؓ ہمدان سے باہر مقیم تھے کہ اسی اثناء میں آپ نے دو گروہوں کو آپس میں لڑتے ہوئے دیکھا۔ اور آپ نے ان میں صلح کر ادی لیکن ابھی تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ آپ کو کسی شخص کی آواز آئی۔ کہ کوئی خدا کے لئے مدد کو آئے۔ پس آپ تیزی سے اُس آواز کی طرف دوڑے حتیٰ کہ آپ کے جوتوں کی آواز بھی آرہی تھی اور آپ کہتے چلے جاتے تھے کہ ’’مدد آگئی مد د آگئی۔‘‘ جب آپ اس جگہ کے قریب پہنچے تو آپ نے دیکھا کہ ایک آدمی دوسرے سے لپٹا ہوا ہے ۔جب اُس نے آپ کو دیکھا تو عرض کیا کہ اے امیر المومنین: میں نے اس شخص کے پاس ایک کپڑا نو درہم کو بیچا تھا اور شرط یہ تھی کہ کوئی روپیہ مشکوک پا کٹا ہوا نہ ہو۔ اور اس نے اس کو منظور کر لیا تھا۔ لیکن آج جو میں اس کو بعض ناقص روپے دینے کے لئے آیا تو اس نے بدلانے سے انکار کر دیا۔ جب میں پیچھے پڑا تو اس نے مجھے تھپڑ مارا۔ آپ نے مشتری سے کہا کہ اس کو روپے بدل دے پھر دوسرے شخص سے کہا کہ تھپڑ مارنے کا ثبوت پیش کر جب اس نے ثبوت دے دیا تو آپ نے مارنے والے کو بٹھا دیا اور اُسے کہا کہ اس سے بدلہ لے۔ اس نے کہا اے امیر المومنین! میں نے اس کو معاف کر دیا۔ آپ نے فرمایا تو نے تو اس کو معاف کر دیا مگر میں چاہتا ہوں کے تیرے حق میں احتیاط سے کام لوں۔ معلوم ہوتا ہے وہ شخص سادہ تھا اور پنے نفع نقصان کو نہیں سمجھ سکتا تھا اور پھر اس شخص کو ساتھ کوڑے مارے اور فرمایا اس شخص نے تو تجھے معاف کر دیا تھا مگر یہ سزا حکومت کی طرف سے ہے۔
غرض اسلام نے مظلوم کو یا بصورت مقتول اس کے ورثاء کو مجرم کا جرم معاف کردینے کی تو اجازت دی ہے مگر ساتھ ہی حکومت کو بھی اختیار دیا ہے کہ اگر وہ یہ محسوس کرے کہ مظلوم کم فہم ہے یا ظالم کو معاف کردینے سے اس کی دلیری اور شوخی اور بھی بڑھ جائے گی یا مقتول کے ولی اپنے نفع نقصان کو ی پبلک کے نفع نقصان کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے یا خود شریک جرم ہیں تو اس صورت میں باوجود ان کے معاف کر دینے کے خود مجرم کو سزا دے اور اس سے بہتر اور کونسی تجویز دنیا میں امن اور صلح کے قیام کی ہو سکتی ہے۔ اگر ایک طرف مجرموں کو معاف کر دینے سے خطرات بڑھ جاتے ہیں تو دوسری طرف ایسا بھی دیکھا جاتا ہے کہ ایک شخص جرم تو کر لیتا ہے مگر بعد میں وہ خود بھی سخت پشیمان ہوتا ہے اور اس کے رشتہ داروں کی بھی ایسی نازک حالت ہوتی ہے کہ رحم کا تقاضا ہوتا ہے کہ اُسے چھوڑ دیا جائے۔ اور خود جن لوگوں کے خلاف وہ جرم ہوتا ہے وہ بھی یا اُن کے ولی بھی چاہتے ہیں کہ اُس سے درگذر کریں۔ ایسی صورت میں دونوں کے تقاضا کو پورا کرنے کے لئے موجودہ تمدن نے کوئی علاج نہیں رکھا۔ صرف اسلام ہی ایسا مذہب ہے جس سے تیرہ سو سال پہلے سے ساتویں صدی کے تاریک تمدن میں ایسے اعلیٰ درجہ کے تمدن کی بنیاد رکھی جس کی نظیر بیسویں صدی کا دانا مدبر بھی پیش نہیں کر سکتا۔ لیکن جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے عفو سے کام لینا حاکم کا کام نہیں بلکہ مقتول کے اولیاء اور ورثاء کا کام ہے ، ہاں اگر حاکم مجاز دیکھے کہ عفواپنے اندر مضرات کے بعض پہلو رکھتا ہے تو وہ معافی کو کالعدم بھی قرار دے سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت علیؓ کے واقعہ سے ثابت کیا جا چکا ہے۔ لیکن اگر وہ شخص جسکا حق ہے قصاص لے معاف نہ کرنا چاہے تو حکام کا فرض ہے کہ وہ لازماً قصاص لیں۔ مِنْ اَخِیْہِ کہ کر اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ بعض اوقات دشمنی اور عداوت اور بُغض سے قتل نہیں ہوتا ہے اس لئے اَخِیْ کہہ کر قاتل کے لئے رحم کی تحریک کر دی کہ آخر وہ تمہارا بھائی ہے۔ اگر اُس سے نادانستہ طور پر غلطی ہو گئی ہے تو تم جانے دو۔ اور اُسے معاف کر دو۔ اِدھر قاتل کو بھی شرمندہ کیا کہ تجھے شرم نیہں آتی کہ تو نے اپنے بھائی کو قتل کیا ہے۔
شَیْ ء’‘ اس جگہ نکرہ کے طور پر استعمال ہوا ہے اور عربی زبان میں نکرہ تعظیم کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور تحقیر کے لئے بھی ۔ پس فَمَنْ عُفِیَ لَہ‘ مِنْ اَخِیْہِ شَیْ ء’‘ سے مراد کلی معافی بھی ہو سکتی ہے ور جزوی بھی یعنی قتل نہ کرنا دیت لے لینا یا دیت میں بھی کمی کر دینا جائز ہے اور قتل نہ کرنا اور دیت بھی نہ لینا جائز ہے۔ دونوں صورتوں میں سے جو بھی کوئی چاہے اختیار کر سکتا ہے اور اگر بعض ورثاء معاف کر دیں اور بعض نہ کریں تو قاتل کو قتل کی سزا نہیں دی جائیگی جیسے مقتول کے دو بیٹے ہوں ان میں سے ایک معاف کر دے اور دوسرا نہ کرے تو قاتل قتل نہیں ہو گا لیکن اگر حاکم سمجھے کے چونکہ وارث ہی شرارت سے مروانے والے ہیں۔ اس لیے وہ معاف کرتے ہیں تو حاکم معاف نہیں کرے گا۔ بلکہ انہیں سزا دے گا۔ اور وارثوں کی شرارت ثابت ہو جانے کی وجہ سے ان کے وارثت کا حق بھی زائل ہوجائیگا۔
فَاتِّبَاع’‘ بِالْمَعْرُوْفِ وَاَدَآء’‘ اِلَیْہِ بِاِحْسَانٍ میں یہ بتایا کہ دیت لینے والے کو چاہیے کہ مناسب رنگ میں دیت وصول کرے۔ یعنی اگر قاتل یکدم ادا نہیں کر سکتا تو وصول کرنے میں سختی نہ کرے بلکہ اُسے کچھ مہلت دے دے او ر دیت دینے والے کو چاہیے کہ وہ ادا کرنے میں سُستی یا شرارت نہ کرے بلکہ تکلیف اٹھا کر بھی دیت ادا کر دے اور کسی ناواجب تاخیر یا شرارت سے
وَلَکُمْ فِی تَتَّقُوْنَo
کام نہ لے۔
ذٰلِکَ تَّخْفِیْف’‘ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَرَحْمَۃ’‘۔ فرمایا یہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارے لئے آسانی پیدا کر دی گئی ہے اور اس ذریعہ سے اس نے تمہارے لئے اپنی رحمت کا سامان مہیا کیا ہے تمہیں چاہیے کہ اسے مدنظر رکھو اور خداتعالیٰ کے اس احسان کی قدر کرو۔
فَمَنِ اعْتَدٰی بَعْدَ ذٰلِکَ فَلَہ‘ عَذَاب’‘ اَلِیْم’‘ فرماتا ہے کہ اگر اس کے بعد میں کوئی زیادتی کریگا اور اِعْتَدٰی سے کام لیگا تو اس کے لئے درد ناک عذاب مقدر ہے۔ یعنی اگر مقتول کے ورثاء دیت بھی لے لیں اور موقعہ پا کر دوسرے کو بھی قتل کر دیں تو وہ کسی رحم کے مستحق نہیں ہونگے بلکہ انہیں لازماً سزا دی جائے گی۔ یعنی حکومت دوسرے فریق کو انہیں معاف کرنے کی اجازت بھی نہیں دیگی تاکہ اس قسم کی وحشیانہ حرکات قومی اور اخلاق کو نہ بگاڑیں اور لوگوں کے اندر قانون کا احترام قائم ہو۔
۹۳؎ حل لغات:۔ اَلْاَلْبَابَ جمع ہے۔ اس کا مفرد لُبّ’‘ کے معنے مغز کے ہیں۔ لیکن مراد عقل ہے۔
تفسیر:۔ فرماتا ہے ۔ اے عقلمندو! قصاص میں تمہارے لئے زندگی ہے۔ اسے کبھی نہ چھوڑنا۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ مرنے والا تو مر گیا اب اگر اس کے قاتل کو قتل کر دیا جائیگا۔ تو مقتول تو زندہ نہیں ہو سکتا پھر قصاص میں حیات کس طرح ہوئی؟ سو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر قاتل کو قتل نہ کیا جائے تو بالکل ممکن ہے کہ کل وہ کسی دوسرے کو قتل کر دے اور پرسوں کسی اور کو مار ڈالے اس لئے فرمایا کہ قصاص میں زندگی ہے۔ یعنی اگر قاتل سے قصاص نہ لیا جائیگا تو وہ تم میں سے کسی اور کی زندگی کا خاتمہ کر دے گا۔ لیکن اگر قاتل کو موت کی سزا دی جائے تو آئندہ قتل کے جرم کم ہو جائیںگے اور اس طرح کئی لوگوں کی جانیں بچ جائیںگی۔
پھر اس رنگ میں بھی قصاص حیات کا موجب ہے کہ جب قاتل کو سزا مل جاتی ہے تو رشتہ داروں کے دلوں میں سے بُغض اور کینہ نکل جاتا ہے اور مقتول کی عزت قائم ہو جاتی ہے اگر قاتل کو سزا نہ ملے تو رشتہ داروں کے دل میں بغض اور کینہ رہتا ہے یونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے آدمی کو قتل کر کے اس کی ذلت کی گئی ہے۔ پس قصاص مقتول کی عزت قائم کرنے کا بھی ایک ذریعہ ہے لیکن اس کے علاوہ میرے نزدیک اس آیت میں موجودہ زمانہ کے متعلق ایک پیشگوئی بھی پائی جاتی ہے ۔ عرب تو قصاص کے بڑی سختی سے پابند تھے ۔ یہاں تک کہ اگر باپ مارا جائے تو وہ پوتے سے بھی اس کابدلہ لے لیتے تھے۔ پس یہ ہدایت صرف ان کو نہیں ہو سکتی۔ بلکہ درحقیقت یہ آئندہ زمانہ کے لئے پیشگوئی ہے اور اس میں بتایا گیا ہے ۔ کہ ایک وقت آنے والا ہے جبکہ قصاص کو اڑانے کی تلقین کی جائیگی ۔اُس وقت تم مضبوطی سے اس تعلیم پر قائم رہنا جیسے آج کل بعض یوروپین ممالک میں اس قسم کی تحریکات وقتاً فوقتاً اٹھتی رہتی ہیں کہ موت کی سزا منسوخ ہونی چاہیے۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ اے عقلمندوں ان تحریکات کو کبھی قبول نہ کرنا ورنہ اس کے بہت سے مفاصد ظاہر ہونگے۔ اور تمہاری جانوں کی کوئی قیمت باقی نہیں رہے گی۔
آخر میںلَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ فرما کر اس طرف اشارہ فرمایا کہ ہم نے یہ حکم اسی لئے دیا ہے کہ تم قتل سے بچو۔ اور اس زندگی کو پائو جو قصاص کے نتیجہ میں حاصل وہتی ہے اگر تم قصاص کو چھوڑ دو گے تو نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہارا تمدن درہم برہم ہو جائیگا۔ پس تم اس بات
کُتِبَ عَلَیْکُمْ
عَلَی الْمُتَّقِیْنَo
سے بچو کہ تمہارا تمدن ٹوٹ جائے اور تمہار ا نظام درہم برہم ہو جائے او ر تمہاری جانوں اور مالوں کی کوئی قیمت باقی نہ رہے۔
پھر اس کے علاوہ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ کے ایک اور معنے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مجھے سمجھائے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ ان الفاظ میں یہ بتایا گیا ہے کہ زندگی کی تمہیں اس لئے ضرورت ہے کہ تم اور تقویٰ حاصل کر لو۔ گویا بتایا کہ بے فائدہ جان گنوانا اس لئے قابلِ احتراز ہے کہ یہ دنیا درالعمل ہے اس میں رہنے سے آخرت کا توشہ انسان جمع کر لیتا ہے پس اس کی حفاظت بھی ضروری ہے تاکہ تم تقویٰ حاصل کر سکو۔ غرض ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے وجہ بتا دی کہ مومن باوجود آخرت پر ایمان رکھنے کے زندگی کی کیوں قدر کرتا ہے۔
۹۴؎ حل لغات:۔ خَیْر’‘ا:مفردات میں لکھا ہے۔ وَقَوْلہ تَعَالیٰ اِنْ تَرَکَ خَیْرًا اَیْ مَالًا وَقَالَ بَعْضپ الْعُلَمَائِ لَایُقَالُ لَلْمَالِ خَیْر’‘ حَتّٰی یَکُوْنَ کَثِیْرًا وَمِنْ مَکَانٍ طَیِّبٍ۔یعنی اس آیات میں خَیْر’‘ سے مراد مال ہے اور بعض علماء کے نزدیک مال کو خَیْر’‘ اس وقت کہیں گے جب وہ زیادہ ہو اور نیک ذرائع سے کمایا ہو اہو۔(مفردات)
تفسیر:۔ اس آیتمیں اللہ تعالیٰ نے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے متعلق مرنے والے کو جو وصیت کرنے کا حکنم دیا ہے اس کے متعلق سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسی وصیت ہے جس کی تعلیم دی گئی ہے ۔ جبکہ شریعت نے خود احکام وراثت کو سورۃ نصاء میں تفصیلاً بیان کر دیا ہے اور ان کے نزول کے بعد رشتہ داروں کے نام وصیت کرنا بے معنی بن جاتا ہے ۔ سو اس کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ بعض لوگ تو کہتے ہیں کہ وصیت کے احکام چونکہ دوسری آیات میں نازل ہو چکے ہیں۔ اس لئے یہ آیت منسوخ ہے اب اِس پر کسی عمل کی ضرورت نہیں ۔ مگر ہمارے نزدیک قرآن کریم محض قلت تدبر کی بطنا پر ظہور میں آیا ہے ۔ جب مسلمانوں کو کسی آیت کا مفہوم پوری طرح سمجھ میں نہ آیا تو انہوں نے کہدیا کہ وہ منسوخ ہے ۔ اور اس طرح کئی کئی سوا ٓیات تک انہوں نے منسوخ قرار دے دیں ۔ اگر وہ سمجھتے کہ قرآن کریم کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف قابل عمل ہے تو وہ ہر آیت پر غور کرتے ۔ اور اگر اسے حل کرنے سے قاصر رہتے تو خدا تعالیٰ کے حضور جھکتے اوراس سے دعائیں کرتے کہ وہ اُن کی مدد کرے اور اپنے کلام کی حقیقت سمجھنے کی انہیں توفیق عطا فرمائے ۔ اور اگر وہ ایسا کرتے تو یقینا اللہ تعالیٰ اُن کی رہنمائی کے سامان پیدا فرما دیتا اور انہیں مشکل آیات کا حل نظر آجاتا ۔ مگر انہوں نے بدقسمتی سے یہ آسان راستہ اختیار کر لیا کہ جس آیت کا مطلب سمجھ نہ آیا اُسے منسوخ قرار دے دیا۔ یہی طریق انہوںنے یہاںبھی اختیار کر لیا ہے مگر اس اایت کے جو معنے ہم کرتے ہیں۔ اگر اس کے مدنظر رکھا جائے تو یہ حکم بڑا ہی پر حکمت نظر آتا ہے اور اسے منسوخ قرار دینے کی کوئی ضرورت پیش نہیں آتی۔ درحقیقت یہاں وصیت کا لفظ صرف عام تاکید کے معنوں میں استعمال ہوا ہے اور اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے والدین اور اقربین کے متعلق تو وصیت کرنیکا حکم دیا ہے مگر اولاد کو ترک کر دیا ہے ۔ حالانکہ قلبی تعلق کے لحاظ سے اولاد کا ذکر بھی ضرور ہونا چاہیے تھا ۔ یہ بات بتائی ہے کہ یہاں ماں کی تقسیم کا مسئلہ بیان نہیں کیا جا رہا بلکہ ایک عام تاکید کی جا رہی ہے اور اولاد کی بجائے والدین اور اقربین کا ذکر ا س لئے کیا گای ہے کہ اس آیت کا سیاق وسباق بتا رہا ہے کہ یہ حکم جنگ اور اس کے مشابہ دوسرے حالات کے متعلق ہے ۔ چنانچہ اس سے چند آیات پہلے الصَّابِرِیْنَ فِی الْبَاْ سَآ ئِ وَالضَّرَّآئِ وَا حِیْنَ الْبَاْسِ میں لڑائی کا ذکر آچکا ہے ۔ اسی طرح آگے چل کر وَقَا تِلُوْ افِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذْیَن یُقَاتِلُوْنَکُمْ میں پھر جنگ کا حکم دیا گیا ہے اور چانکہ جنگ میں بالعموم نوجوان شامل ہوتے ہیں۔ جن کے ہاں یا تو اوالاد ہوتی ہی نہیں یا چھوٹی عمر کی ہوتی ہے ۔اسلئے والدین اور اقربین کے حق میں وصیت کرنیکا حکم دیا۔ اور اولاد کا ذکر چھوڑدیا ۔اور یہ ہدایت فرمائی کہ جب کسی شخص کی موت کا وقت قریب آجائے یا وہ کسی ایسے خطرناک مقام کی طرف جانے لگے ۔ جہاں جانے کا نتیجہ ع۳ام حالات میں موت ہوا کرتا ہے ۔ اور پھر اُس کے پاس مال کثیر بھی ہو تو اُسے چاہیے کہ وہ وصیت کر دے کہ اُس کی جائیداد احکام الٰہیہ کے مطابق تقسیم کی جائے تاکہ بعد میں کوئی جھگڑا پیدا نہ ہو۔ اور یہ تاکید بجائے اس کے کہ کسی اور کو کی جائے اپنے رشتہ داروں کو کرے ۔ اور اگر مال کا کوئی حصہ صدقہ کرنا ہو تو اس کا بھی اظہار کر دے ۔میں سمجھتا ہوں اگر مسلمان اِس تعلیم پر عمل کرتے تو وہ رواج جو شرعی تقسیم وراثت کے خلاف اُن میں جاری رہا کبھی جاری نہ ہوتا ۔ جس ملک میں اسلامی شریعت کا نفاذ ہو وہاں تو کسی روض کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن ایسے ممالک جہاں رواج کا سوال پیدا ہو وہاں اس امر کی شدید ضرورت ہوتی ہے کہ مرنے والا اپنے والدین اور رشتہ داروں کے حق میں یہ وصیت کر جائے کہ اُن میں معروف کے مطابقت جائیداد تقسیم کی جائے ورنہ اُس کا مال رواجی مستحقوں کو مل جائیگا اوراصل مستحقین محروم رہ جائیں گے ۔ رہایہ سوال کہ معروف کیا ہے ؟سوایک تو احکام وراثت معروف ہیں اُن پر عمل کرنے کی تاکید ہونی چاہیے ۔دوسرے بعض حقوق ایسے ہیںجو احکام وراثت سے باہر ہیں ۔اور جن کو قاعدہ میں تو بیان نہیں کیا گیا مگر مذہبی اور اخلاقی طور پر انہیں پسند کیا گیا ہے اوراُن کے لیئے شریعت نے ۳/۱تک وصیت کردینے کا دروازہ کھلا رکھا ہے ۔ مثلاً اگر وہ چاہے تو کچھ روپیہ غربا ء کی بہبودی کیلئے وقف کر دے اور اس کی اپنے رشتہ داروں کو تاکید کر جائے ۔
اَلْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَاْلاَ قْرَبِیْنَ کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر اس کے ورثا ء کا فرہوں تو اُن کیلئے حسن سلوک کی وصیت کر جائے ۔کیونکہ ایسی صورت میں وصیت کے بغر کافروالدین یا دوسرے قریبی رشتہ داروں کو کچھ نہیں مل سکتا ۔ اگر وہ دیکھے کہ انہیں کچھ مال دے دینے سے فائدہ ہوگا تواُن کے متعلق تاکید کر دے کہ فلاں فلاں شخص کو مریے مال میں سے اس قدر حصہ ضڑور دیدیا جایئے اور اگر دیکھے کہ وہ اس روپیہ کو اسلام کے خلاف خرچ کر ینگے تو نہ دے ۔ کافر والدین یا اقربین کیلئے ورثہ نہیں رکھا گیا۔ ہاں وصیت کی گنجائش رکھی گئی ہے ۔ تاکہ اگر وہ اسلام کے خلاف اپنے مال کو استعمال کرنے والے ہوں تو انہیں مال نہ پہنچ سکے اور اگر جائز طور پر مدد کے مستحق ہوں تو اُن کی مدد کی جا سکے ۔
اِس آیت کا تیسرا مطلب یہ ہے کہ مرنے والا اپنے پوتوں اور اپنے بھائیوں کے بیٹوں کیلئے بھی کچھ وصیت کر جائے اور تاکہ اُن کی مدد ہو جائے ۔ اور شریعت کے کسی حکم کی بھی خلاف ورزی نہ ہو ۔کیونکہ اسلامی قانون کی رو سے اگر دادا کی زندگی میں اس کا بیٹا فوت ہو جائے تو پوتوں اور پوتیوں کو وراثت سے حصہ نہیں ملتا۔پس ایسی صورت میں اگر وہ اپنی جائیداد کے ۳/۱ حصہ میں سے اپنے پوتوں اور پوتیوں یا بھائیوں کے بیٹوں کو کچھ روپیہ دینا چاہے تو وہ ایسا کر سکتا ہے ۔
فَمَنْ بَدَّ لَہ‘
سَمِیْع’‘ عَلِیْم’‘o
(۴) جن ممالک میں اہپنے اپنے قانون رائج ہیں وہاں دو صورتیں ہیں ۔بعض تو ایسی جگہیں ہیں جہاں مرنے کے وقت کی وصیت کو ہی معتبر سمجھا جاتا ہے ۔ جیسے روس کا ملک ہے اور بعض جگہیں ایسی ہیں جہاں مرنے والے کی وصیت پر عمل نہیں ہوتا بلکہ حکومت نے جو قانون مقرر کیا ہوا ہو اس کے مطابق ورثہ تقسیم ہوتا ہے ۔ اگر ایسے ممالک ہوں جہاں مرنے والے کی وصیت تسلیم کی جاتی ہے تو اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ جن ورثاء کو رواج کے مطابق ورثہ نہیں مل سکتا انہیں وصیت کی وجہ سے شریعت کے مطابق حصہ مل جائیگا اور اسلامی تعلیم اُن ممالک میں بھی زندہ ہو جائیگی جن میں اسلامی حکومت نہیں مگر وہ مرنے والے کی وصیت پر عمل کرنا ضروری سمجھتے ہیں ۔ اور جہاں اسلامی قانون کے مطابق ورثہ تقسیم نہ ہو سکتا ہو وہاں خواہ جائز ورثاء کو ورثہ نہ مل سکے پھر بھی اس کے نتیجہ میں مسلمان اس گناہ سے بچ جائیں گے جو اس حکم کی خلاف ورزی کے ساتھ وابستہ ہے اور صرف وصیت تبدیل کرنے والے گنہگار قرار پائیں گے ۔مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس وصیت کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ وہ کسی وارث کو جس کا شریعت نے حصہ مقرر کر دیا ہے اس کے حق سے زیادہ دے دے ۔ رسول کریم صلے الہ علیہ وسلم نے اس سے بری سختی سے منع فرمایا ہے ۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے ۔اِنَّ اللّٰہَ اَعْطیٰ کُلَّ ذِیْ حَقٍّ حَقَّہٗ فَلَا وَصِیَّۃَ لِلْوَارِثِ (ترمذی)اللہ تعالیٰ نے ہر حق والے کا حق مقرر کر دیا ہے ۔اس لئے کسی وراث کیلئے جس کا اللہ تعالیٰ نے حصہ مقرر کر دیا ہے ۔ وصیت نہیں ہو سکتی ۔پس یہ آیت نہ منسوخ ہے ۔ نہ بلا ضرورت ۔بہت دفعہ مرنے کے بعد ورثا ء میں تقسیم مال پر جھگڑا ہو جاتا ہے اور بعض دفعہ غیر رشتہ دار بھی کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں اتنا روپیہ دینے کا اس نے وعدہ کیا تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہدایت دے دی کہ مرنیوالے کو وصیت کر دینی چاہیے تاکہ کوئی جھگڑا نہ ہوااور یہ سوال نہ اُٹھے کہ مرنے والے نے علاوہ رشتہ داروں کے اور وں کے حق میں بھی وصیت کی ہے ۔ اور یہ وصیت رشتہ داروں کے سامنے ہونی چاہیے ۔
اس آیت میں مال کیلئے خیر کا لفظ استعمال فرما کر اللہ تعالیٰ نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ نیک ذرائع سے کمایا ہوا مال ہی درحیقت مال ہے ۔ اس لئے تمہارا فرض ہے کہ تم ہمیشہ جائز طورپر کماو۔ اور حلال مال جمع کرنے کی کوشش کرو۔اگر ناجائز ذرائع اختیار کرو گے تو پھر وہ مال خیر نہیں رہیگا بلکہ شر بن جائیگا۔
اسی طرح اِنْ تَرَکَ خَیْراً میں یہ نصیحت فرمائی ہے کہ انسان اپنا تمام مال آخرپچھلوں کیلئے ہی چھوڑ جاتا ہے اور خود خالی ہاتھ دنیا سے اُٹھ جاتا ہے ۔ اور جب حالت یہ ہے تو اسے سوچنا چاہیے کہ وہ کیوں نا جائز مال کمائے جسے دوسرے کھائیں اور وہ خود دوزخ میں جائے ۔غرض اللہ تعالیٰ نے اِنْ تَرَکَ خَیْراً کے الفاظ استعمال فرما کر نصیحت کی ہے کہ ناجائز ذرائع سے کما کر اپنے پچھلوں کیلئے مال نہ چھوڑو بلکہ جائز ذرائع سے کماؤ۔ورنہ ناجائز ذرائع سے کمایا ہوا مال تو تمہارا ہے ہی نہیں ۔ تم نے اُس کی وصیت کیا کرنی ہے ۔
۹۵؎تفسیر :۔فرمایا۔ اگر کوئی شخص وصیت کرے اور بعد میں کئوی دوسرا شخص اس میں تغیر وتبدل کر دے تو اس صورت میں
فَمَنْ خَافَ مِنْ

غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘o
تمام تر گناہ اس شخص کی گردن پر ہے جس نے وصیت میں ترمیم و تنسیخ کی۔ یہ تغیر دو صورتوں میں ہو سکتا ہے ۔ ایک تو یہ کہ لکھا نے والا تو کچھ اور لکھا ئے ۔ مگر لکھنے والا شرارت سے کچھ اور لکھدے ۔ یعنی لکھوانے والے کی موجودگی میں ہی اُس کے سامنے تغیر وتبدل کر دے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وصیت کرنے والے کی وفات کے بعد اس میں تغیر و تبدل کر کے ۔یعنی وصیت میں جو کچھ کہا گیا ہو اس کے مطابق عمل نہ کرے بلکہ اُس کے خلاف چلے ۔ اِن دونوں صورتوں میں اس گناہ کا وبال صرف اُسی پر ہو گا جو اسے بدل دے ۔ (اِثْمُہٗ میں سبب مسبب کی جگہ استعمال کیا گیا ہے ۔ل اور مراد گناہ نہیں بلکہ گناہ کا وبال ہے )یہ االفاظ بتاتے ہیں کہ اس میں کسی قرآنی حکم کی طرف اشارہ ہے اور وہ حکم وراثت کا ہی ہے ۔ ورنہ اس کا کیا مطلب کہ بدلنے کا گناہ بدلنے والوں پر ہو گا ۔ وصیت کرنیوالے پر نہیں ہوگا ۔کیونکہ اگر اس وصیت کی تفصیلات شرعی نہیں تو بدلنے والے کو گناہ کیوں ہو ۔ اس کے گناہ ہگار ہونیکاسوال تبھی ہو سکتا ہے جبکہ کسی شرعی حکم کا خلاف ورزی ہو رہی ہو۔ اور وہ اسی طرح ہو سکتی ہے کہ مرنے والا تو یہ وصیت کر جائے۔ لیکن وارث کی وصیت پر عمل نہ کریں۔ ایسی صورت میں وصیت کرنے والا تو گناہ سے بچ جائے گا لیکن وصیت تبدیل کرنے والے وارث گناہگار قرار پائیں گے۔
۹۶؎ حل لغات:۔ جَنَفًا: جَنَفَ کا مصدر ہے اور جَنَفَ فِی الْوَصِیَّۃِ کے معنے ہیں مَالَ وَجَارَ یعنی اُس نے وصیت کرتے ہوئے نا انصافی کی اور عدل کے راستہ سے ہٹ گیا۔(اقرب)
تفسیر:۔ اب بتایا کہ اگر کسی شخص کو یہ معلوم ہو کہ موصی کی وصیت میں کوئی نقص ہے اور خوف ہو کہ اس سے فتنہ پیدا ہو گا تو وہ ورثاء کو جمع کر کے اگر ان کے درمیان صلح کر ادے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ جب اس نے شریعت کے مطابق اپنی جائیداد تقسیم کرنے کی ہدایت کی ہے تو ورثاء کو نقصان پہنچنے کا احتمال کس طرح ہو سکتا ہے کیونکہ شریعت پر عمل کرنے کے باوجود وصیت کرنے کی صورت میں بعض نقصانات کا بھی احتمال ہو سکتا ہے مثلاً اگر کوئی شخص 1/3حصہ کی وصیت کردے اور باقی وارث اتنے ہوں کہ بقیہ مال میں سے ان کو بہت کم حصہ ملتا ہو تو ایسی صورت میں اگروصیت کرنے والے اور ان رشتہ داروں کے درمیان جن کو نقصان پہنچنے یا جن کے نظر انداز کئے جانے کا امکان ہو صلح کر ادی جائے یا وہ شخص جن کے حق میں وصیت ہے ان کو باہمی سمجھوتے سے اس بات پر راضی کر لیا جائے کہ باوجود وصیت کے وہ ایک دوسرے کو اس کا حق ادا کردینگے تو یہ کوئی گناہ کی بات نہیں۔ اسے چاہیے کہ وصیت کرنے والے اور اس کے محبوب یا مبغوض ورثاء میں صلح کرادے تاکہ کوئی فتنہ پیدا نہ ہو۔
دوسری صورت یہ ہے کہ وصیت کرتے وقت اگر وصیت کرنے والا کسی فریق کو نقصان پہنچا رہا ہو اور جسے وصیت لکھوائی جا رہی ہو وہ سمجھتا ہو کہ بعض ورثاء سے اُس کی اَنْ بَنْ ہے۔ اور اس ناراضگی کی وجہ سے یہ ایسی وصیت کر رہا ہے تو اُسے سمجھا دے۔ اور
یٰٓاَ یُّھَاالَّذِیْنَ
تَتَّقْوْنَo
مرنے والے اور اس کے وارثوں میں صلح کرادے تو یہ کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں اور اللہ تعالیٰ یقینا بڑا بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
فَلَا اِثْمَ عَلَیْہِ سے یہ دھوکا نہیں کھانا چاہیے کہ اس قسم کی اصلاح اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی پسندیدہ کام نہیں بلکہ صرف ایک منفی نیکی ہے جس میں انسان کے گنہگار ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ الفاظ اس فعل کو صرف ایک منفی نیکی قرار دینے کے لئے استعمال نہیں کئے گئے بلکہ اس لئے استعمال کئے گئے ہیں کہ اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے بری وضاحت سے فرمایا تھا کہ فَمَنْ بَدَّ لَہ‘ بَعْدَ مَا سَمِعَہ‘ فَاِنَّمَا اِثْمَہ‘ عَلَی الَّذِیْنَ یُبَدِّ لُوْنَہ‘ یعنی جو شخص وصیت کو اس کے سننے کے بعد بدل دے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حضور گناہگار ہو گا۔ پس چونکہ اس سے پہلے وصیت میں تبدیلی کرنا اللہ تعالیٰ نے گناہ کا موجب قرار دیا تھا۔ اس لئے لازماً یہ خطرہ پیدا ہو سکتا تھا کہ بعض محتاط طبیعتیں کہیں اس طرف مائل نہ ہو جائیں کہ وصیت میں غلطی واقع ہونے کے باوجود پھر بھی اسکو تبدیل نہیں کرنا چاہیے تاکہ یہ تبدیلی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب نہ ہو۔ پس اس قسم کے خدشات کے ازالہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے زیر تفسیر آیت میں بتا دیا کہ اگ رواقعہ میں کوئی غلطی واقع ہو گئی ہو تو اس کو دور کردینا کوئی گناہ کی بات نہیں۔ بلکہ ایک ایسی نیکی ہے جو تمہیں اللہ تعالیٰ کے فضل کا مستحق بنا دیگی۔ چنانچہ آخر میں اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘ فرما کر اللہ تعالیٰ نے ایک طرف تو وصیت کرنے والے کو تسلی دی کہ اگر وہ اپنی غلطی کی اصلاح کر لے تو اللہ تعالیٰ اُسے معاف کر دے گا اوردوسرے طرف رَحِیْم’‘ فرما کر اس طرف اشارہ فرمایا کہ اگر کوئی شخص مداخلت کر کے وصیت کے نقائص کو دُور کرنے کی کوشش کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ رحم و کرم کا معاملہ کریگا اور اُسے اپنے فضلوں کا مورد بنائیگا۔ پس غَفُوْر’‘ کالفظ ان وصیت کرنے والوں کو بشارت دیتا ہے جو اپنی غلطی کی اصلاح کرلیں۔ اور رَحِیْم’‘ کا لفظ ان لوگوں کے موردِ انعام ہونے پر دلالت کرتا ہے جو وصیت کی کسی غلطی کو درست کرنے کی کوشش کریں۔
۹۷؎ حل لغات:۔ تَتَّقُوْنَ:اِتَّقٰی سے مضارع جمع مخاطب کا صیغہ ہے۔ اور تَقْوٰی کے معنے ہیں جَعْلَ النَّفْسِ فِیْ وَ قَایَۃٍ مِمَّا یُخَافُ۔۔۔ وَفِیْ تَعَارْفِ الشَّرْئِ حِفْظُ النَّفْسِ عَمَّا یُوْثِمْ(مفردات) یعنی اپنے نفس کو ایسی تمام چیزوں سے ایک ڈھال کے پیچھے محفوظ کر لیا جن سے خوف محسوس کیا جاتا ہے۔ اور شرعی نقطہ نگاہ سے تقْوٰی سے مراد گناہوں سے بچنا ہے۔ مزید تشریح کے لئے دیکھیں حل لغات سورہ بقرۃ۳؎۔
تفسیر:۔ فرماتا ہے ۔ اے مومنو!تم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے روزے رکھنے اسی طرح فرض کئے گئے ہیں جس طرح پہلی امتوں پر روزے رکھنے فرض کئے گئے تھے۔
دنیا میں بعض تکلیفیں ایسی ہوتی ہیں جو منفرد ہوتی ہیں۔ اکیلے انسان پر آتی ہیں اور وہ ان سے گھبراتا ہے۔ شکوہ کرتا ہے کہ میں ان تکالیف کے برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ لیکن بعض تکلیفیں ایسی ہوتی ہیں جن میں سارے لوگ شریک ہوتے ہیں۔ ان تکالیف پر جب کوئی انسان گھبراتا یا شکوہ کا اظہار کرتا ہے تو لوگ اُسے یہ کہہ کر تسلی دیا کرتے ہیں کہ میاں یہ دن سب پر آتے ہیں اور کوئی شخص یہ امید نہیں کر سکتا کہ وہ ان تکلیفوں سے بچ جائے ۔ مثلاً موت ہے موت ہر انسان پر آتی ہے۔ دنیا میں کوئی احمق سے احمق انسان بھی ایسا نہیں مل سکتا جو کہے کہ میں کوشش کر رہا ہوں کہ مجھ پر موت نہ آئے۔ موت اس پر ضرور آئے گی چاہیے جلدی آجائے یا دیر میں۔ پس کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مَنْ قَبْلِکُمْ کہہ کر خداتعالیٰ نے مسلمانوں کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ روزے ایسی نیکی ۔ ثواب اور قربانی ہیں جن میں سارے ہی ادیان شریک ہیں۔ اور انہوں نے خداتعالیٰ کے اس حکم کو پورا کیا ہے ۔ پھر کتنے افسوس کی بات ہے کہ وہ نیکی اور تقویٰ جس کے حصول کے لئے ساری قومیں کوشش کرتی رہی ہیں تم اس سے بچنے کی کوشش کرو۔ اگر یہ کوئی نیا حکم ہوتا اگر روزے صرف تم پرہی فرض ہوتے تو تم دوسرے لوگوں سے کہہ سکتے تھے کہ تم اسے کیا جانو۔ تم نے تو اس کا مزہ ہی نہیںچکھا۔ لیکن وہ لوگ جو اس دروازہ میں سے گذر چکے ہیں۔ اور جو اس بوجھ کو اٹھا چکے ہیں انہیں تم کیا جواب دو گے۔ لازماً مسلمانوں پر حجت اُنہی احکام میں ہوسکتی ہے جو پہلی قوموں کو بھی دیئے گئے اور انہوں نے ان احکام کو پورا کیا۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے مسلمانو! تم ہوشیار ہو جائے ہم تم پر روزے فرض کرتے ہیں۔ اور ساتھ ہی تمہیں بتا دیتے ہین کہ روزے پہلی قوموں پر بھی فرض کئے گئے تھے۔ اور انہوں نے اس حکم کو اپنی طاقت کے مطابق پورا کیا تھا اگر تم پر اعتراض کریں گی اور کہیں گی کہ ہمیں بھی خداتعالیٰ نے روزوں کا حکم دیا تھا اور ہم نے اُسے پورا کیا اب تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں تو تم اس حکم کو صحیح طور پر ادا نہیں کر رہے۔ غرض مسلمانوں کی غیرت اور ہمت بڑھانے کے لئے یہ کہا گیا ہے کہ روزے صرف تم پر ہی فرض نہیں کئے گئے بلکہ پہلی قوموں پر بھی فرض کئے گئے تھے۔ اور ان قوموں نے اپنی طاقت کے مطابق اس حکم کو پورا کیا تھا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ روزوں کی شکل میں اختلاف تھا اور وہ اختلاف آج تک نظر آتا ہے۔ کہیں اس قسم کے روزے ہوا کرتے تھے جنہیں وصال کہتے ہیں کہ درمیان میں سحری نہ کھانا۔اس قسم کے روزوں میں صرف شام کے وقت روزہ کشائی کی جاتی اور دوسری سحری نہ کھا کر متواتر آٹھ پہر روزہ رکھا جاتا۔
کہیں ایسے روزے ہوتے کہ روزہ کشائی بھی نہ ہوتی اور تین تین چارچار پانچ پانچ دن متواتر روزہ رکھا جاتا۔ ایسے روزے بھی پائے جاتے ہیں جن میں لوگوں کو ہلکی غذا کھانے کی اجازت دی گئی ہے مگر ٹھوس غذائوں سے منع کیا گیا ہے جیسے ہندئووں یا عیسائیوں میں روزے ہوتے ہیں۔ ہندئووں کے روزوں کے متعلق تو عام طور پر مشہور ہے کہ ان کا روزہ یہ ہوتا ہے کہ آگ کی پکی ہوئی چیز نہیں کھانی۔ اس کے علاوہ اگر وہ کئی سیر آم ، کیلے، اورنارنگیاں وغیرہ کھا جائیں تو ان کے روزہ میں فرق نہیں آتا۔ روٹی اور سالن کو چھوڑ کر باقی جو چیزچاہیں کھا لیں۔
پھر اس سے بھی آسان روزے رومن کیتھولک عیسائیوں میں پائے جاتے ہیں۔ آخر انہوں نے بھی کسی مذہبی روائت کی بنا پر ہی یہ روزے رکھنے شروع کئے ہونگے یا کسی حواری سے کوئی بات پہنچی ہو گئی اُن کا روزہ یہ ہوتا ہے کہ گوشت نہیں کھانا۔ اگر وہ آلو اُبال کر یا کدو کا بھرتنہ بنا کر اس کے ساتھ روٹی کھالیں تو ان کا روزہ نہیں ٹوٹتا البتہ اگر گوشت کی بوٹی ان کے معدہ میں چلی جائے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے پس روزوں کے متعلق بھی مختلف اقوم میں اختلاف پائے جاتے ہیں۔ اور اپنے اپنے زمانہ میں ان احکام میں اللہ تعالیٰ کی حکمتیں بھی پوشیدہ ہونگی۔ مثلاً جو قومیں کثرت سے گوشت کھانے والی ہوں وہ ان اخلاق سے رفتہ رفتہ محروم ہو جاتی ہین جو سبزی کے استعمال کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی اخلاقی اصلاح کے لئے اور انہیں یہ بتانے کے لئے کہ سبزی بھی غذا میں ضروری ہوتی ہے اگر اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دے دیا ہو کہ ہفتہ میں کم از کم ایک دن تم پر ایسا آنا چاہیے جب تم گوشت نہ کھائو۔ تو یہ نہایت پُر حکمت روزہ ہو جاتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں اسلام نے ہماری غذا کے متعلق یہ ایک عام حکم دے دیا ہے کہ گوشت بھی کھائو اور سبزیاں بھی کھائو۔ آگ پر پکی ہوئی چیزیں بھی استعمال کرو۔ اور جنہیں آگ نے نہ چُھوا ہو وہ بھی استعمال کر لو۔ غرض ہماری غذا میں اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی احتیاطیں جمع کر دی ہیں۔ لیکن پہلی قوموں کے لئے ممکن ہے اس قسم کی احتیاطیں ناقابلِ برداشت پابندیاں ہوں۔ اور ان کے اخلاق کی اصلاح کے لئے اس قسم کے روزے تجویز کئے گئے ہوں۔ مثلاً وہ قومیں جو جنگی ہوتی ہیں اور جن کا شکار پر گذارہ ہوتاہ ے وہ ایک عرصہ تک گوشت کھانے کی وجہ سے ایسے اخلاق سے عاری جاتی ہیں جو سبزی کھانے کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم دیدیا گیا ہو کہ وہ ہفتہ میں ایک دن گوشت کھانا چھوڑ دیں تو یقینا یہ روزہ ان کے لئے بہت مفید تھا۔ پس پہلی قوموں میں روزے تو تھے مگر شکل وہ نہ تھی جو اسلام میں ہے پس کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مَنْ قَبْلِکُمْ میں جو مشابہت پہلے لوگوں کے ساتھ بیان کی گئی ہے وہ کمیت اور کیفیت کے لحاظ سے نہیں بلکہ صرف فرضیت کے لحاظ سے ہے یعنی کَمَا کُتِبَ سے یہ مراد نہیں ہے کہ وہ ایسے ہی روزے رکھتے تھے جیسے مسلمان رکھتے ہیں۔ یا اُتنے ہی روزے رکھتے تھے جتنے مسلمان رکھتے تھے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ان پر بھی روزے فرض تھے اور تم پر بھی فرض کئے گئے ہیں گویا صرف فرضیت میں مشابہت ہے نہ کہ تفصیلات میں۔ چنانچہ انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا میں ـ’’روزہ‘‘ کے ماتحت لکھا ہے کہ:۔
IT WOULD BE DIFFICULT TO NAME ANY RELIGIOUS SYSTEM OF ANY DESCRIPTION IN WHICH IT IS WHOLLY UNRECOGNISED.
ٰیعنی دنیا کا کوئی باقاعدہ مذہب ایسا نہیں جس میں روزہ کا حکم نہ ملتا ہو۔ بلکہ ہر مذہب میں روزوں کا حکم موجود ہے۔ چنانچہ اس بارہ میں سب سے پہلے ہم یہودی مذہب کو دیکھتے ہیں۔ تورات میں لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب طور پر گئے تو انہوں نے چالیس۴۰ دن رات کا روزہ رکھا اور ان ایام میں انہوں نے نہ کچھ کھایا نہ کچھ پیا۔ چنانچہ لکھا ہے:۔
’’سو وہ (یعنی موسیٰ) چالیس۴۰ دن اور چالیس رات وہیں خدا وند کے پاس رہا اور نہ روٹی کھائی اور نہ پانی پیا۔‘‘ (خروج باب۳۴ آیت۲۸)
اسی طرح احبار باب۱۶ آیت۲۹ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر ساتویں مہینہ کی دسویں تاریخ کو ایک روزہ رکھنا یہود کے لئے ضروری قرار دیا گیا تھا۔ چنانچہ بنی اسرائیل ہمیشہ یہ روزے رکھتے رہے اور انبیاء بنی اسرائیل بھی اس کی تاکید کرتے رہے۔ زبور میں حضرت دائود فرماتے ہیں:۔
’’میں نے تو ان کی بیماری میں جب وہ بیمار تھے ٹاٹ اوڑھا اور روزے رکھ رکھ کر اپنی جان کو دُکھ دیا۔‘‘
(زبور باب ۳۵ آیت۱۳)
یسعیاہ بنی فرماتے ہیں:۔
’’ دیکھو تم اس مقصد سے روزہ رکھتے ہو کہ جھگڑا رگڑا کرو اور شرارت کے مکے مارو پس اب تم اس طرح کا روزہ نہیں رکھتے ہو کہ تمہاری آواز غالمِ بالا پر سُنی جائے۔‘‘
(یسعیاہ باب۵۸ آیت۴)
دانی ایل فرماتے ہیں:۔
’’ میں نے خداوند خدا کی طرف رخ کیا اور میں منت اور مناجات کر کے اور روزہ رکھ کر اور ٹاٹ اوڑھ کر ور راکھ پر بیٹھ کر اُس کا ظالب ہوا۔‘‘
(دانی ایل باب۹ آیت۳)
یو ایل نبی فرماتے ہیں:۔
’’خداوند کا روزِ عظیم نہایت خوفناک ہے۔ کون اس کی برداشت کر سکتا ہے۔ لیکن خداوند فرماتا ہے اب بھی پورے دل سے اور روزہ رکھ کر اور گریہ وزاری و ماتم کرتے ہوئے میری طرف رجوع لائے اور اپنے کپڑوں کو نہیں بلکہ دلوں کو چاک کر کے خداوند اپنے خدا کی طرف متوجہ ہو۔ کیونکہ وہ رحیم و مہربان قہر کرنے میں دھیما اور شفقت میں غنی ہے اور عذاب نازل کرنے سے باز رہتا ہے۔‘‘
(یو ایل باب ۲ آیت۱۱ تا۱۳)
یہودیت کے بعد عیسائیت کو دیکھا جائے تو اس میں بھی روزوں کا ثبوت ملتا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیحؑ کے متعلق انجیل بتاتی ہے کہ انہوں نے چالیس دن اور چالیس رات کا روزہ رکھا متی میں لکھا ہے:۔
’’ اور چالیس دن اور چالیس رات فاقہ کر کے آخر کو اُسے بھوک لگی‘‘ (متی باب ۴ آیت ۲)
اسی طرح حضرت مسیح نے اپنے حواریوں کو ہدایت دی کہ:۔
’’جب تم روزہ رکھو تو ریاکاروں کی طرح اپنی صورت اُداس نہ بنائو کیونکہ وہ اپنا منہ بگاڑتے ہیں تاکہ لوگ ان کو روزہ دار جانیں میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اجر پا چکے بلکہ جب تو روزہ رکھے تو اپنے سر میں تیل ڈال اور منہ دھو تاکہ آدمی نہیں بلکہ تیرا باپ جو پوشیدگی میں ہے تجھے روزدار جانے۔ اس صورت میں تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تجھے بدلہ دیگا۔‘‘ (متی باب۶ آیت۱۶ تا۱۸)
اِسی طرح ایک دفعہ جب حواری ایک بد روح کو نہ نکال سکے تو
’’ اُس کے شاگردوں نے تنہائی میں اس سے پوچھا کہ ہم اسے کیوں نہ نکال سکے تو اس نے ان سے کہا کہ یہ قسم دعا اور روزہ کے سوا کسی اور طرح نہیں نکل سکتی۔‘‘۱؎ (مرقس باب۹ آیت۲۸۔۲۹)
بد رُوح نکالنا حواریوں کی ایک اصلاح تھی ۔ وہ بیماریوں اور مختلف قسم کی خرابیوں کو دیو کہا کرتے تھے اور حضرت مسیح ؑ ناصری کے پاس آکر دروخواست کیا کرتے تھے کہ یہ دیو نکال دیں۔ ان کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ یہ بیماریوں یا خاص قسم کی دماغی
۱؎ یہ آیت موجودہ اناجیل سے نکال دی گئی ہے۔
خرابیاں دور کر دی جائیں۔ اس قسم کے بعض بیمار تھے جن کا حضرت مسیح ؑ ناصری نے علاج کیا اور وہ اچھے ہو گئے۔ اور جب ایک موقعہ پر حواری یاک بد رُوح کو نہ نکال سکے تو آپ نے فرمایا۔ کہ یہ دیو روزوں اور دعائوں کے بغیر نہیں نکلتے۔ یعنی کمالاتِ رُوحانیہ کا حصول روزوں اور دُعائوں کے ذریعہ ہی ہو سکتا ہے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کجہ وہی مسیحؑ ناصری جنہوں نے یہ کہا تھ اکہ بڑی بڑی بیماریاں روزوں اور دعائوں کے بغیر نہیں نکل سکتیں۔ انہی کی امت آج روزوں سے اتنی بے خبر ہے اور وہ اتنا کھاتے ہیں کہ شاید ایشیائی ہفتہ بھر میں اتنا نہیں کھاتے جتنا وہ ایک دن میں کھا جاتے ہیں۔ پس انہوں نے روزہ کیا رکھنا ہے وہ تو روزوں کے قریب بھی نہیں جاتے۔ سال بھر میں صرف تین دن ایسے ہوتے ہیں جن میں وہ روزہ رکھتے ہیں۔ لیکن ہندئووں کی طرح جیسے وہ روزہ میں صرف چولھے کی پکی ہوئی چیزیں نہیں کھاتے۔ مثلاً وہ پھلکا نہیں کھاتے۔ لیکن دودھ دو دو سیر پی جائیں گے۔ عیسائی سبھی صرف چند چیزوں سے پرہیز کرتے ہیں باقی سب کچھ کھاتے رہتے ہیں۔ اور سمجھتے ہیں کہ روزے ہو گئے۔ حالانکہ حضرت مسیح ؑ یہودیوں میں سے تھے اور یہودیوں میں روزہ بڑا مکمل ہوتا ہے اور پھر حضرت مسیح ؑ خود مانتے ہیں کہ کئی قسم کے دیو یعنی روحانی یا جسمانی بیماریوں ایسی ہیں جو روزہ رکھنے والے کی دعا سے دور ہو تی ہیں اس کے بغیر نہیں ہوتیں۔
یہودیت اور عیسائیت کے بعد ہندو مذہب کو دیکھا جائے تو ان میں بھی کئی قسم کے برت پائے جاتے ہیں اور ہر قسم کے برت کے متعلق الگ الگ شرائط اور قیود ہیں جن کا تفصیلی ذکر ان کی کتاب’’دھرم سندھو‘‘ میں پایا جاتا ہے۔ انسائیکلو پیڈیا برٹنیکا میں ہندو اور جین مت کے روزوں کا ذکر کیا گیا ہے اور رزتشتی مذہب کے متعلق بھی لکھا ہے کہ کنفیوشس نے اپنے پیروئوں کو روزے رکھنے کی تلقین کی تھی۔ (انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا جلد ۹ زیر لفظFASTING)
غرض روزہ روحانی ترقی کا ایک ایسا ذریعہ ہے جو تمام مذاہب میں مشترک طور پر نظر آتا ہے اور تمام اُمتیں روزوں سے برکتیں حاصل کرتی رہی ہیں۔ بلکہ آجکل تو ایک نئی قسم کا روزہ نکل آیا ہے کہ اگر کسی سے جھگڑا ہو تو کھانا پینا چھوڑ دیا۔ گاندھی جی نے انگریز کے مقابلہ میں اسی قسم کے کئی مرن برت رکھے تھے ۔ بہرحال مذاہب کی ایک لمبی تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ اللہ تعالیٰ کی رضاء حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے جس کی اہمیت مذہبی دنیا میں ہمیشہ تسلیم کی جاتی رہی ہے۔ مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ جس صورت اور شکل میں اسلام نے اس کو پیش کیا ہے وہ باقی مذاہب سے نرالی ہے ۔ اسلام میں روزوں کی یہ صورت ہے کہ ہر بالغ عاقل کو برابر ایک مہینہ کے روزے رکھنے کا حکم ہے سوائے اس صورت کے کہ کوئی شخص بیمار ہو یا اُسے بیماری کا یقین ہو یا سفر پر ہو یا بالکل بوڑھا اور کمزور ہو گیا ہو۔ ایسے لوگ جو بیمار ہوں یا سفر پر ہوں ان کے لئے حکم ہے کہ وہ دوسرے اوقات میں روزہ رکھیں۔ اور جو بالکل معذور ہو گئے ہوں ان کے لئے کوئی روزہ نہیں۔
روزہ کی صورت یہ ہے کہ پوپھٹنے سے لے کر سورج کے غروب ہونے تک انسان کوئی چیز نہ کھائے نہ پیئے نہ کم نہ زیادہ اور نہ مخصوص تعلقات کی طرف توجہ کرے۔ پو پھٹنے سے پہلے وہ کھانا کھا لے تاکہ اس کے جسم پر غیر معمولی بوجھ نہ پڑے۔ اور غروب آفتاب پر روزہ افطار کر دے۔ صرف شام کو ہی کھانا کھا کر متواتر روزے رکھنا ہماری شریعت نے نا پسند کیا ہے۔
اس جگہ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مَنْ قَبْلِکُمْ کے متعلق ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ صرف کسی قوم میں کسی رواج کا پایا جانا یا پہلوں میں کسی دستور کا ہونا اس امر کی دلیل نہیں ہو سکتا کہ آئندہ نسلیں بھی ضرور اس کا لحاظ رکھیں۔ بیسیوں باتیں ایسی ہیں جو پہلے لوگوں میں موجود تھیں لیکن دراصل وہ غلط تھیں۔ اور بیسیوں باتیں ایسی ہیں جو آج لوگوں میں پائی جاتی ہیں حالانکہ وہ بھی غلط ہیں پس محض اس وجہ سے کہ پہلی قومیں کوئی عبادت کرتی رہی ہیں یہ نتیجہ نکالنا کہ آئندہ بھی وہ کی جائے صحیح نہیں۔ قرآن کریم نے اس اعتراض کے وزن کو قبول کیا ہے اور بتایا کہ ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ پہلی اُمّتوں میں روزہ کا وجود اس کی فضیلت کی کوئی دلیل ہے بلکہ اس کے صرف یہ معنے یہں کہ تم پر یہ کوئی زائد بوجھ نہیں ڈالا گیا۔ بلکہ پہلوں پر بھی یہ بوجھ ڈالا گیا تھا۔ پس یہ روزوں کی فضیلت کی دلیل نہیں بلکہ روزوں کی اہمیت کی دلیل ہے۔ روزوں کی فضیلت اور اس کے فوائد پر لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ کے الفاظ میں روشنی ڈالی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ روزے تم پر اس لئے فرض کئے گئے ہیں لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن تاکہ تم بچ جائو ۔ اس کے کئی معنے ہو سکتے ہیں۔ مثلاً ایک معنی تو یہی ہیں کہ ہم نے تم پر اس لئے روزے فرض کئے ہیں تاکہ تم ان قوموں کے اعتراضوں سے بچ جائو جو روزے رکھتی رہی ہیں۔ جو بھوک اور پیاس کی تکلیف برداشت کرتی رہی ہیں۔ جو موسم کی شدت کو برداشت کر کے خداتعالیٰ کو خوش کرتی رہی ہیں۔ اگر تم روزے نہیں رکھو گے تو وہ کہیں گی تمہارا دعویٰ ہے کہ ہم باقی قوموں سے روحانیت میں بڑھ کر ہیں لیکن وہ تقویٰ تم میں نہیں جو دوسری قوموں میں پایا جاتا تھا۔ غرض اگر اسلام میں روزے نہ ہوتے تو باقی مسلمان دوسری قوموں کے سامنے ہدفِ ملامت بنے رہتے۔ عیسائی کہتے یہ بھی کوئی مذہب ہے اس میں روزے تو ہیں ہی نہیں جن سے قلوب کی صفائی ہوتی ہے جن کے ساتھ روحانی ساکھ بیٹھتی ہے جن کے ذریعہ انسان بدی سے بچتا ہے۔ یہودی کہتے ہیں کہ ہم نے سینکڑوں سال روزے رکھے لیکن مسلمانوں میں روزے نہیں۔ اسی طرح زرتشتی ہندو اور دوسری سب قومیں کہتیں۔ اسلام بھی کوئی مذہب ہے اس میں روزے نہیں۔ ہم روزے رکھتے ہیں اور اس طرح خداتعالیٰ کو خوش کرتے ہیں ۔ غرض ساری دنیا مسلمانوں کے مقابلہ میں آجاتی اور کہتی مسلمانوں میں روزے کیوں نہیں۔ پس فرمایا ۔ اے مسلمانو! ہم تم پر روزے فرض کرتے ہیں لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن تاکہ تم دشمن کے اعتراضات سے بچ جائو۔ اگر اسلام میں روزہ نہ ہوتا یا تم روزے نہ رکھتے تو غیر مذاہب والے تم پر جائز طور پر اعتراض کرتے اور تم ان کی نگاہوں میں غقیر ہو جاتے۔
لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنمیں دوسرا اشارہ اس امر کی طرف کیا گیا ہے کہ اس ذریعہ سے خداتعالیٰ روزہ دار کا محافظ ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اِتَّقَاء کے معنے ہیں ڈھال بنانا۔ وقایہ بنانا۔ نجات کا ذریعہ بنانا۔ پس اس آیت کے معنے یہ ہوئے کہ تم پر روزے رکھنے اس لئے فرض کئے گئے ہیں تاکہ تم خداتعالیٰ کو اپنی ڈھال بنا لو اور ہر شر سے اور ہر خیر کے فقدان سے محفوظ رہو۔ ضعف دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک تویہ کہ انسان کو کوئی شر پہنچ جائے اور دوسرے یہ کہ کوئی نیکی اس کے ہاتھ سے جاتی رہے۔ جیسے کسی کو کوئی مار بیٹھے تو یہ بھی ایک شر ہے۔ اور یہ بھی شر ہے کہ کسی کے ماںباپ اس سے ناراض ہو جائیں۔ حالانکہ اگر کسی کے والدین ناراض ہو کر اس کے گھر سے نکل جائیںتو بظاہر اس کا کوئی نقصان نظر نہیں آتا۔ بلکہ ان کے کھانے کا خرچ بچ سکتا ہے۔ لیکن ماں باپ کی رضا مندیایک خیر اور برکت ہے اور جب وہ ناراض ہو جائیں تو انسان ایک خیر سے محروم ہو جاتا ہے۔ اِتَّقَاء ان دونوں باتوں پر دلالت کرتا ہے اور متقی وہ ہے جسے ہر قسم کی خیر مل جائے اور وہ ہرقسم کی ذلت اور شر سے محفوظ رہے۔
اس سے آگے پھر شر کا دائرہ بھی ہر کام کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے مثلا اگر کوئی شخص گاڑی میں سفر کر رہا ہے تو اس کا شر سے محفوظ رہنا یہی ہے کہ اسے کوئی حادثہ پیش نہ آئے۔ اور وہ بحفاظت منزلِ مقصود پر پہنچ جائے۔ اسی طرح روزے کے سلسلہ میں بھی ایسے ہی خیر وشر مراد ہو سکتے ہیں جن کا روزے سے تعلق ہو۔ روزہ ایک دینی مسئلہ ہے یا بلحاظ صحتِ انسانی دنیوی امور سے بھی کسی حد تک تعلق رکھتا ہے پس لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن کے یہ معنے ہوئے کہ تا تم دینی اور دنیوی شُرور سے محفوظ رہو۔ دینی خیر و برکت تمہارے ہاتھ سے نہ جاتی رہے یا تمہاری صحت کو نقصان نہ پہنچ جائے۔کیونکہ بعض دفعہ روزے کئی قسم کے امراض سے نجات دلانے کا بھی موجب ہو جاتے ہیں۔
آجکل کی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ بڑھاپا یا ضعف آتے ہی اس وجہ سے ہیں کہ انسان کے جسم میں زائد مواد جمع ہو جاتے ہیں اور ان سے بیماری یا موت پیدا ہو تی ہے۔ بعض نادان تو اس خیال میں اس حد تک ترقی کر گئے ہیں کہ کہتے ہیں کہ جس دن ہم زائد مواد کوفنا کرنے میں کامیاب ہو گئے اس دن موت بھی دنیا سے اُٹھ جائیگی۔ یہ خیال اگرچہ احمقانہ ہے تاہم اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تھکان اور کمزوری وغیر ہ جسم میں زائد مواد جمع ہونے ہی سے پیدا ہوتی ہے۔ اورروزہ اس کے لئے بہت مفید ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ صحت کی حالت میں جب روزے رکھے جائیں تو دورانِ رمضان میں بے شک کچھ کوفت محسوس ہوتی ہے مگر رمضان کے بعد جسم میں ایک نئی قوت ار تروتازگی کا احسان ہونے لگتا ہے یہ فائدہ تو صحتِ جسمانی کے لحاظ سے ہے مگر روحانی لحاظ سے اس کا یہ فائدہ ہے کہ جو لوگ روزے رکھتے ہیں خداتعالیٰ ان کی حفاظت کا وعدہ کرتا ہے۔ اسی لئے روزوں کے ذکر کے بعد خداتعالیٰ نے دعائوں کی قبولیت کا ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ میں اپنے بندوں کے قریب ہوں اور ان کی دعائوں کو سنتا ہوں پس روزے خداتعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے والی چیز ہیں اور روزے رکھنے والا خداتعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے والی چیز ہیں اور روزے رکھنے والاخداتعالیٰ کو اپنی ڈھال بنا لیتا ہے جو اسے ہر قسم کے دکھوں اور شر ور سے محفوظ رکھتا ہے۔
پھر روزے کے ذریعہ دکھوں سے انسان اس طرح بھی بچتا ہے کہ (۱)جب وہ اپنے آپ کو خداتعالیٰ کے لئے تکلیف میں ڈالتا ہے تو خدتعالیٰ اس کے گناہوں کی سزا سے اُسے بچالیتا ہے۔ (۲) جب وہ فاقے رہ کر بھوک کی تکلیف محسوس کرتا ہے تو اپنے غریب بھائیوں کی خبر گیری کرتا ہے اور ان کا ہلاکت سے بچنا خود اُسے بھی ہلاکت سے بچا لیتا ہے کیونکہ بعض افرادِ قوم کے بچنے سے آخر ساری قوم کو فائدہ پہنچتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے دنوں میں بہت کثرت سے صدقہ و خیرات کیاکرتے تھے۔ احادیث میں آتا ہے کہ رمضان کے دنوں میں آپ تیز چلنے والی آندھی کی طرح صدقہ کیا کرتے تھے۔ اور درحقیقت یہ قومی ترقی کا ایک بہت بڑا گُر ہے کہ انسان اپنی چیزوں سے دوسروں کو فائدہ پہنچائے۔ تمام قسم کی تباہیاں اُسی وقت آتی ہیں جب کسی قوم کے افراد میں یہ احسان ہو جائے کہ ان کی چیزیں انہی کی ہیں دوسروں کا ان میں کوئی حق نہیں اور ان سے فائدہ اُٹھانے کا حق اُنہی کو ہے جن کو وہ چیزیں دی گئی ہیں۔ دنیا کے نظام کی بنیاد اس اصل پر ہے کہ میری چیز دورا ستعمال کرے۔ اور رمضان اس کی عادت ڈالتا ہے۔ روپیہ ہمارا ہے کھانے پینے کی چیزیں ہماری ہیں مگر حکم یہ ہے کہ دوسروں کو ان سے فائدہ پہنچائو۔ اور کھلائو۔ کیونکہ اس سے دنیا کے تمدن کی بنیاد قائم ہوتی ہے۔ پھر روزوں کے ذریعہ انسان ہلاکت سے اس طرح بھی محفوظ رہتا ہے کہ روزے انسان کے اندر مشقت برداشت کرنے کا مادہ پیدا کرتے ہیں۔ اور جو لوگ ہر قسم کی مشقت برداشت کرنے کے عادی ہوں وہ مشکلات کے آنے پر ہمت نہیں ہارتے بلکہ دلیری سے ان کا مقابلہ کرتے ہیں اور کامیابی حاصل کرتے ہیں۔
دنیوی گورنمنٹوں میں بھی ایک ریزروفوج ہوتی ہے جو سال میں ایک دو مہینے کام کرتی ہے اور جب جنگ کا موقعہ آتا ہے تو چونکہ اس کو مشق کروائی ہوئی ہوتی ہے اس لئے فوراً اسے بلوالیا جاتا ہے۔ چونکہ عام طور پر تمام مسلمان بارہ مہینے روزے نہیں رکھتے اور نہ ہی تہجد پڑھتے ہیں اس لئے رمضان میں خصوصیت کے ساتھ ہدایت فرما دی کہ تمام مسلمان اس ماہ میں روزوں کی مشق کریں جس طرح وہ فوج جو مشق کرتی رہیت ہے دشمن کی فوج سے شکست نہیں کھاتی اسی طرح جس قوم کے لوگ متقی اور نیک ہوتے ہیں اور جو خداتعالیٰ کے لئے ہر ایک چیز کو چھوڑنے والے ہوتے ہیں شیطان کی مجال نہیں ہوتی کہ ان کو زک دے سکے یہی وجہ ہے کہ جب تک تمام مسلمان روحانی سپاہی تھے شیطان نے ان پر کوئی حملہ نہیں کیا لیکن جب خال خال رہ گئے تو اس وقت ان پر حملہ کیا گیا۔ اور شیطان نے ان کے دل میں طرح طرح کے وسوسے ڈال کر ان کو تباہ کر دیا۔
پس روزے قوم میں قربانی کی عادت پید ا کرنے کا موجب ہوتے ہیں ۔ دین کی خدمت کے لئے بالعموم مومنوں کو گھروں سے نکلنا پڑتا ہے۔ اور تبلیغی جہاد میں کھانے پینے کی تکلیف کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے غرباء کو تو ایسی تکلیف برداشت کرنے کی عادت ہوتی ہے مگر امراء کو اس کی عادت نہیں ہوتی۔ پس روزوں کے ذریعہ ان کو بھی بھوک اور پیاس کی برداشت کی مشق کرائی جاتی ہے تاکہ جس دن خدتعوالیٰ کی طرف سے آواز آئے کہ اے مسلمانو! آئو اور خداتعالیٰ کی راہ میں جہاد کرو۔ تو وہ سب اکٹھے اُٹھ کھڑے ہوں اور خداتعالیٰ کی راہ میں بغیر کسی قسم کا بوجھ محسوس کئے اپنے آپ کو پیش کر دیں۔
پس روزوں کا یہ ایک بہت بڑا فائدہ ہے کہ اس کے ذریعہ انسان کو نیکی کے لئے مشقت برداشت کرنے کی عادت پیدا ہو جاتی ہے انسان دنیا میں کئی قسم کا کام کرتا ہے۔ وہ محنت و مشقت بھی کرتا ہے۔ وہ آوارگی بھی کرتا ہے وہ اِدھر اُدھر بھی پھرتا ہے وہ گپیں بھی ہانکتا ہے۔ بالکہ فارغ نہ انسانی دماغ رہتا ہے نہ اس کا جسم کچھ نہ کچھ کام انسان ضرور کرتا رہتا ہے۔ مگر بعض لغو کام ہوتے ہیں بعض مضر اور بعض مفید اور بعض بہت ہی اچھے ۔ لیکن رمضان انسان کو ایک ایسے کام کی عادت ڈالتا ہے جس کے نتیجہ میں اسے نیک کاموں میں مشقت برداشت کرنے کی عادت ہو جاتی ہے انسانی زندگی کی راحت اور آرام کی چیزین کیا ہوتی ہیں یہی کھانا پینا سونا اور جنسی تعلقات۔ تمدن کا اعلیٰ نمونہ جنسی تعلقات ہیں۔ جن سے دوستوں سے ملنا اور عزیزوں سے تعلقات رکھنا بھی شامل ہے۔ مگر جنسی تعلقات میں سب سے زیادہ قریبی تعلق میاںبیوی کا ہے پس انسانی آرام انہی چند باتوں میں مضمر ہے کہ وہ کھاتا ہے وہ پیتا ہے وہ سوتا ہے۔ اور وہ جنسی تعلقات قائم رکھتا ہے کسی صوفی نے کہا ہے کہ تصوف کی جان کم بولنا، کم کھانا اور کم سونا ہے اور رمضان اس تصوف کی ساری جان کا نچوڑ اپنے اندر رکھتا ہے کم سونا آپ ہی اس میں آجاتا ہے۔ کیونکہ رات کو تہجد کے لئے اُٹھنا پڑتا ہے ۔ کم کھانا بھی ظاہر بات ہے کیونکہ سارا دن فاقہ کرنا پڑتا ہے۔ اور جنسی تعلقات کی کمی بھی ظاہر ہے پھر کم بولنا بھی رمضان میں آجاتا ہے۔ اس لئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا۔ روزہ یہ نہیں کہ انسان اپنا منہ کھانے پینے سے بند رکھے بلکہ روزہ یہ ہے کہ لغو باتیں بھی نہ کرے۔ پس روزہ دار کیل ئے بیہودہ باتوں سے بچنا لڑائی جھگڑے سے بچنا اور اسی طرح کی اور لغو باتوں سے پرہیز کرنا بھی ضروری ہوتاہے۔ اس طرح کم بولنا بھی رمضان میں آگیا۔ گویا کم کھانا کم بولنا کم سونا اور جنسی تعلقات کم کرنا یہ چاروں باتیں رمضان میں آگئیں۔ اور یہ چاروں چیزیں نہایت ہی اہم ہیں۔ اور انسانی زندگی کا ان سے گہرا تعلق ہے پس جب ایک روزہ دار ان چاروں آرام و آسائش کے سامانوں میں کمی کرتا ہے تو اس میں مشقت برداشت کرنے کی عادت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ زندگی کے ہر دور میں مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرتا اور کامیابی حاصل کرتا ہے۔
پھر لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن میں ایک اور فائدہ یہ بتایا کہ روزہ رکھنے والا برائیوں اور بدیوں سے بچ جاتا ہے اور یہ غرض اس طرح پوری ہوتی ہے کہ دنیا سے انقطاع کی وجہ سے انسان کی روحانی نظر تیز ہو جاتی ہے اور وہ ان عیوب کو دیکھ لیتا ہے جو اسے پہلے نظر نہ آتے تھے۔ اسی طرح گناہوں سے انسان اس طرح بھی بچ جاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے روزہ اس چیز کا نام نہیں کہ کوئی شخص اپنا منہ بند رکھے اور سارا دن نہ کچھ کھائے اور نہ پیئے بلکہ روزہ یہ ہے کہ مونہہ کو کھانے پینے سے ہی نہ روکا جائے بلکہ اُسے ہر روحانی نقصان دہ اور ضر ررساں چیز سے بھی بچایا جائے نہ جھوٹ بولا جائے نہ گالیاں دی جائیں نہ غیبت کی جائے۔ نہ جھگڑا کیا جائے۔ اب دیکھو زبان پر قابو رکھنے کا حکم تو ہمیشہ کے لئے ہے۔ لیکن روزہ دار خاص طور پر اپنی زبان پر قابو رکھتا ہے۔ کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور اگر کوئی شخص ایک مہینہ تک اپنی زبان پر قابو رکھتا ہے تو یہ امر باقی گیارہ مہینوں میں بھی اس کے لئے حفاظت کا ایک ذریعہ بن جاتا ہے۔ اور اس طرح روزہ اُسے ہمیشہ کے لئے گناہوں سے بچا لیتا ہے۔
پھر لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنمیں روزوں کا ایک اور فائدہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس کے نتیجہ میں تقویٰ پر ثباتِ قسم حاصل ہوتا ہے اور انسان کو روحانیت کے اعلیٰ مدارج حاصل ہوتے ہیں۔ چنانچہ روزوں کے نتیجہ میں صرف امراء ہی اللہ تعالیٰ کا قرب حاسل نہیں کرتے بلکہ غرباء بھی اپنے اندر ایک نیا روحانی انقلاب محسوس کرتے ہیں اور وہ بھی اللہ تعالیٰ کے وصال سے لطف انداوز ہوتے ہیں غرباء بیچارے سارا سال تنگی سے گذارہ کرتے ہیں۔ اور بعض دفعہ انہیں کئی کئی فاقے بھی آجاتے ہیں اللہ تعالیٰ نے رمضان کے ذریعہ نہیں توجہ دلائی ہے کہ وہ ان فاقوں سے بھی ثواب حاصل کر سکتے ہیں۔ اور خداتعالیٰ کے لئے فاقوں کا اتنا بڑا ثواب ہے کہ حدیث میں آتا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اَلصَّوْ لِیْ وَاَنَا اُجْرٰی بِہٖ۔ یعنی ساری نیکیوں کے فوائد اور ثواب الگ الگ ہیں لیکن روزہ کی جزاء خود میری ذات ہے۔ اور خداتعالیٰ کے ملنے کے بعد انسان کو اور کیا چاہیے۔ غرض روزوں کے ذریعہ غربا کو یہ نکتہ بتایا گیا ہے کہ ان تنگیوں پر بھی اگر وہ بے صبر اور ناشکر ے نہ ہوں اور حرف شکایت زبان پر نا لائیں جیسا کہ بعض نادان کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہمیں خداتعالیٰ نے کیا دیا ہے کہ نمازیں پڑھیں اور روزے رکھیں تو یہی فاقے ان کے لئے نیکیاں بن جائیں گی۔ اور ان کا بدلہ خود خدا تعالیٰ ہو جائیگا۔ پس اللہ تعالیٰ نے روزوں کو غرباء کے لئے تسکین کا موجب بنایا ہے تاکہ وہ مایوس نہ ہوں او ریہ نہ کہیں کہ ہماری فقرو فاقہ کی زندگی کس کام کی ۔ اللہ تعالیٰ نے روزہ میںا نہیں یہ گر بتایا ہے کہ اگر وہ اس فقروفاقہ کی زندگی کو کداعتالیٰ کی رضاء کے مطاق گذراریں تو یہی انہیں خداتعالیٰ سے ملا سکتی ہے۔ دنیا میں اس قدر لوگ امیر نہیں جتنے غریب ہیں اور تمام دینی سلسلوں کی ابتداء بھی غرباء سے ہی ہوئی ہے اور انتہا بھی غرباء پر ہی ہوئی ۔ بلکہ قریباً تمام انبیاء بھی غرباء میں سے ہی ہوئے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کوئی بڑے آدمی نہ تھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوئی بڑے آدمی نہ تھے۔ حضرت مسیح موعو د علیہ السلام بھی کوئی امیر کبیر نہ تھے۔ آپ کی جائیداد کی قیمت قادیان کے ترقی کرنے کے باعث بڑھ گئی ورنہ اس کی قیمت خود آپ نے دس ہزار روپیہ لگائی تھی۔ اور اتنی مالیت کی جائیداد سے کونسی بڑی آمد ہوسکتی ہے۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام بھی بڑی آدمی نہ تھے ۔ اگرچہ انبیاء کو اللہ تعالیٰ بعد میںبڑا بنا دیتا ہے لیکن یہ سب کچھ بعد میں جفؒ کے طور پر ہوا۔ ابتداء میں تمام سلسلوں کے بانی غریب ہی ہوئے امراء اور بادشاہ نہیں ہوئے۔ بیشک درمیانی طبقہ کے لوگوں میں سے بھی بعض دفعہ انبیاء ہوتے رہے لیکن بادشاہ صرف چند ایک ہی ہوئے۔ جیسے حضرت دائود علیہ السلام یاحضرت سلیمان علیہ السلام۔ مگر یہ بھی ایسے نہیں ہیں کہ کسی سلسلہ کے بانی ہوں۔ بپھر دنیا کی اسی فیصد آبادی غریب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اتنی بڑی کثرت کی دلجوئی رمضان کے ذریعہ کی ہے اور بتایا ہے کہ یہ مت سمجھو کہ فاقہ کش کو خداتعالیٰ نہیں ملتا پس وہ غرباء جو سمجھتے ہیں کہ ان کی عمر رائیگاں گئی۔ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں رمضان کے ذریعہ بتایا ہے کہ وہ انہیں فاقوں میں سے گذر کر اللہ تعالیٰ کے بڑے بڑے فیوض حاصل کر سکتے ہیں بشرطیکہ فاقہ میں بھی وہ اللہ تعالیٰ کو نہ بھولیں اور اس کے متعلق اپنی زبان پ رکوئی حرفِ شکایت نہ لائیں۔ اس کے مقابلہ میں روزہ امیر لوگوں کے لئے تقویٰ کے حصول کا ذریعہ اس طرح ہوتا ہے کہ جب ایک انسان جس کے پاس کھانے پینے کے تمام سامان موجو دہوتے ہین محض اللہ تعالیٰ کی رجاء کے لئے اپنے آپ کو فاقہ میں ڈالتا ہے اور خداتعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے کچھ نہیں کھاتا۔ اور جو حلال چیزیں خداتعالیٰ نے اُسے دی ہیں انہیں بھی استعمال نہیں کرتا۔ اس کے گھر میں گھی، گوشت ، چاول وغیرہ کھانے کی تمام ضروریات موجو د ہوتی ہیں۔ مگر وہ خداتعالیٰ کے لئے انہیں ترک کر دیتا ہے تو اس کے دل میں خود بخود یہ جذبہ پیدا ہوتاہے کہ جب میں نے حلال چیزوں کو بھی خداتعالیٰ کی رضاء کے لئے چھوڑ دیا ہے تو میں ان چیزوں کی کیوں خواہش کرون جنہیں خداتعالیٰ نے حرام قرار دیاہوا ہے اس طرح اس کے اندر ضبطِ نفس کی قوت پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے قدم کو نیکیوں کے میدان میں بڑھاتا چلا جاتا ہے۔
روزوں کا ایک روحانی فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے انسان خداتعالیٰ سے مشابہت اختیار کرلیتا ہے ۔ خداتعالیٰ کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ نیندے سے پاک ہے۔ انسان ایسا تو نہیں کر سکتا کہ وہ اپنی نیند کو بالکل چھوڑ دے مگر وہ اپنی نیند کے ایک حصہ کو روزوں میں خداتعالیٰ کیلئے قربان ضرور کرتا ہے سحری کھانے کے لئے اُٹھتا ہے تہجد پڑھتا ہے ۔ عورتیں جو روزہ نہ رکھیں اور سحری کے انتظام کے لئے جاگتی ہیں۔ کچھ وقت دعائوں میں اور کچھ نماز میں صرف کرنا پڑتا ہے اور اس طرح رات کا بہت کم حصہ سونے کے لئے باقی رہ جاتا ہے اور کام کرنے والوں کے لئے تو گرمی کے موسم میں دو تین گھنٹے ہی نیند کے لئے باقی رہ جاتے ہیں ۔ اس طرح انسان کو اللہ تعالیٰ کھانے پینے سے پاک ہے۔ انسان کھانے پینا بالکل تو نہیں چھوڑ سکتا۔ مگر پھر بھی رمضان میں اللہ تعالیٰ سے وہ ایک قسم کی مشابہت ضرور پیدا کر لیتا ہے پھر جس طرح اللہ تعالیٰ سے خیر ہی خیر ظاہر ہوتا ہے اسی طرح انسان کو بھی روزوں میں خاص طور پر نیکیاں کرنے کا حکم ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ۔ جو شخص غیبت، چغلخوری اور بدگوئی وغیرہ بُری باتوں سے پرہیز نہیں کرتا اس کا روزہ نہیں ہوتا۔ گویا مومن بھی کوشش کرتا ہے کہ اس سے خیر ہی خیر ظاہر ہو۔ اور وہ غیبت اور لڑائی جھگڑے سے بچتا رہے۔ اس طرھ وہ اس حد تک خداتعالیٰ سے مشابہت پیدا کر لیتا ہے جس حد تک ہو سکتی ہے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ ہر چیز اپنی مثل کی طرف دوڑتی ہے۔ فارسی میں ضرب المثل ہے کہ
’’کند ہمجنس باہم جنس پرواز‘‘
پس روزہ کا ایک روحانی فائدہ یہ ہے کہ انسان کا خدا تعالیٰ سے اعلیٰ درجہ کا اتصال ہو جاتا ہے اور خداتعالیٰ خود اس کا محافظ بن جاتا ہے۔
پھر روزوں کا روحانی رنگ میں ایک یہ بھی فائدہ ہے کہ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا الہام انسانی قلب پر نازل ہوتا ہے اور اس کی کشفی نگاہ میں زیادہ جِلا اور نور پیدا ہوتا ہے درحقیقت اگر غور سے کام لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی عادت تو نہیں مگر اس میں عادت سے ایک مشابہت ضرور پائی جاتی ہے۔ انسان کی طرح اس کی آنکھیں تو نہیں مگر وہ بصیر ضرور ہے اس کے کان نہیں مگر وہ سمیع ضرور ہے اسی طرح گو اس میں کوئی عادت نہیں پائی جاتی مگر اس میں یہ بات ضروری پائی جاتی ہے کہ جب وہ ایک کام کرتا ہے تو اُسے دوہراتا ہے۔ انسان میں بھی یہ بات پائی جاتی ہے۔ بعض لوگوں کو ہاتھ یا پیر ہلانے کی عادت ہوتی ہے اور وہ انہیں بار بار ہلاتے ہیں اور عادت کے یہی معنے ہوتے ہیں کہ کوئی بات باربار کی جائے اور یہ بات اللہ تعالیٰ میں بھی ہے کہ جب وہ ایک خاص موقعہ پر اپنا فضل نازل کرتا ہے تواس موقعہ پر باربارفضل کرتاہے اللہ تعالیٰ کی اس صفت کے ماتحت چونکہ رمضان کے مہینہ میں قرآن کریم نازل ہوا تھا۔ اس لئے اگر اس رسولؐ کی اتباع کی جائے جس پر قرآن کریم نازل ہوا تو اللہ تعالیٰ کی عادت سے مشابہت رکھنے والی صفت کے ماتحت ان لوگوں کو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کی وجہ سے دنیا سے علیحدگی اختیار کرتے ہیں اور دنیا میں رہتے ہوئے بھی اس سے تعلقات نہیں رکھتے۔ کھانے پینے اور سونے میں کمی کرتے ہیں ۔ بے ہودہ گوئی وغیرہ سے پرہیز کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے الہام سے نوازتا اور ان پررویا صادقہ اور کشوفِ صحیحہ کا دروازہ کھول دیتا ہے اور اسرار غیبیہ سے مطلع کرتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام کا بھی ایک الہام ہے کہ
پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی
اس میں بھی وہی عادت والی بات بیان کی گئی ہے خداتعالیٰ نے ایک دفعہ بہار میں اپنی رحمت کی شان دکھائی تھی اس لئے جب پھر موسم بہار آتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کہتی ہے کہ اب کے میرے بندے کیا کہیں گے اس لئے ہم پھر اپنی شان دکھاتے ہیں۔ اور اگر بندے اس سے فائدہ اٹھائیں تو اگلی بہار میں پھر وہی انعام نازل ہوتا ہے غرض کلامِ الہٰی کو اگر درخت تصور کر لیا جائے تو جو صفتِ الہٰی عادت کے مشابہ ہے وہ ہر رمضان میں اسے جھنجھوڑتی ہے اس سے مومنوں کو تازہ بتازہ پھل حاصل ہوتے ہیں۔
پھر روزوں سے اس زنگ میں بھی روحانیت ترقی کرتی ہے کہ جب انسان خداتعالیٰ کے لئے کھانا پینا ترک کرتا ہے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ وہ خداتعالیٰ کے لئے اس کی راہ مین مرنے کو تیار ہے۔ اور جب وہ اپنی بیوی سے مخصوص تعلقات قطع کرتا ہے تو اس بات پر آمادگی کا اظہار کرتا ہے کہ وہ خداتعالیٰ کیل ئے اپنی نسل کو بھی قربان کر دینے کیلئے تیار ہے اور جب وہ روزوں میں ان دونوں اقسام کے نمونے کر دیتا ہے تو وہ خداتعالیٰ کی لقاء کا مستحق ہو جاتا ہے اور خداتعالیٰ سے تعلق قائم ہونے اور روحانیت کے مضبوط ہوجانے کی وجہ سے وہ شخص ہمیشہ کے لئے گمراہی سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
پھر رمضان کے ذریعہ استقلال کی عادت بھی ڈالی جاتی ہے کیونکہ یہ نیکی متواتر ایک عرصہ تک چلتی ہے۔ انسان دن میںکئی کئی مرتبہ کھانے کا عادی ہوتا ہے ۔ غرباء اور امراء شہری ار دیہاتی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق عام ایام میں کئی دفعہ کھاتے پیتے ہیں مگر رمضان میں تمام کھانے سمٹ سمٹا کر صرف دو بن جاتے ہیں۔ اسی طرح جہاںدوسرے ایام میں وہ ساری رات سوئے رہتے ہیں وہاں رمضان کے ایام میں انہیں تہجد اور سحری کے لئے اُٹھنا پڑتا ہے اور دن کو بھی قرآن کریم کی تلاوت میں اپنا کافی وقت صرف کرنا پڑتا ہے ۔ غرض رمضان کے ایام میں اپنی عادت کی بہت کچھ قربانی کرنی پڑتی ہے اور یہ قربانی ایک دن نہیں دو دن نہیں مگر متواتر ایک مہینہ تک بغیر ناغہ کے کرنی پڑتی ہے پس روزوں سے استقلال کا عظیم الشان سبق ملتا ہے۔ اور درحقیقت بغیر مستقل قربانیوں کے کوئی شخص خداتعالیٰ کو نہیں پا سکتا کیونکہ حقیقی محبت جوش دلانے سے تعلق نہیں رکھتی اور نہ وہ عارضی ہوتی ہے بلکہ حقیقی محبت استقلال سے تعلق رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلوم ہو اکہ آپ کی ایک بیوی نے چھت سے ایک رسہ اس لئے لٹکا رکھا ہے کہ جب نماز پڑھتے پڑھتے انہیں اونگھ آنے لگے تو اس کا سہارا لے لیں تو آپ نے فرمایا یہ کوئی عبادت نہیں۔ عبادت وہی ہے جسے انسان بشاشت سے ادا کر سکے۔ اور جس کے نتیجہ میں ایسا ملال پیدا نہ ہو۔ جو اس کے دوام اور استقلال کو قطع کرنیکا موجب بن جائے۔
اسی طرح روزوں کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعہ مومنوں کو ایک مہینہ تک اپنے جائز حقوق کو بھی ترک کرنے کی مشق کرائی جاتی ہے۔ انسان گیارہ مہینے حرام چھوڑنے کی مشق کرتا ہے مگر بارھویں مہینہ میں وہ حرام نہیں بلکہ حلال چھوڑنے کی مشق کرتا ہے ۔ یعنی روزوں کے علاوہ دوسرے ایام میں ہم یہ نمونہ دکھاتے ہیں کہ خداتعالیٰ کیلئے ہم کسی طرح حرام چھوڑسکتے ہیں۔ مگر روزوں کے ایام میں ہم یہ نمونہ دکھاتے ہیں کہ خداتعالیٰ کے لئے کس طرح حلال چھوڑ سکتے ہیں۔ اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حلال چھوڑنے کی عادت پیدا کئے بغیر دنیا میں حقیقی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ دنیا میں اکثر فساد اس لئے نہیں ہوتے کہ لوگ حرام چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتے بلکہ اکثر فساداس لئے ہوتے ہیں کہ لوگ حلال کو بھی ترک کرنے کیل ئے تیار نہیں ہوتے ۔ وہ لوگ بہت ہی کم ہیں جو ناجائز طور پر کسی کا حق دبائیں مگر وہ لوگ دنیا میں بہت زیادہ ہیں جو لڑائی اور جھگڑے کو پسند کرلیں گے مگر اپنا حق چھوڑنے کے لئے کبھی تیار نہیں ہونگے۔ سینکڑوں پاگل اور نادان دنیا میں ایسے ہیں جو اپنا حق حاصل کرنے کے لئے دنیا مین عظیم الشان فتنہ و فساد پیدا کر دیتے ہیں۔ اور اس بات کی کوئی پراوہ نہیں کرتے کہ دنیا کا امن برباد ہورہا ہے ۔حالانکہ اگر وہ ذاتی قربانی کریں تو بہت سے جھگڑے اور فساد مٹ سکتے ہیں اور نہایت خوشگوار امن قائم ہو سکتا ہے۔ پس رمضان کا مہینہ ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ تم صرف حرام ہی نہ چھوڑو بلکہ خداتعالیٰ کے لئے اگر ضرورت پڑ جائے تو حلال یعنی اپنا حق بھی چھوڑ دو۔ تاکہ دنیا میں نیکی قائم ہو اور خداتعالیٰ کا نام بلند ہو۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اسلامی عبادتیں اپنے اندر کئی قسم کے سبق رکھتی ہیں۔ بعض سبق ایسے ہوتے ہیں جو ہر عبادت سکھاتی ہے اور بعض سبق ایسے ہوتے ہیں جو ایک سے زیادہ عبادتوں کی نسبت سے پیدا ہوتے ہیں۔ اور بعض سبق ایسے ہیں جو ساری عبادتوں کی مجموعی حالت سے پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح خداتعالیٰ کے پیدا کردہ عالم میں ہمیں یہ نقشہ نظر آتا ہے کہ اس کا ہر فرد اپنے اندر ایک حقیقت رکھتا ہے پھر دو افراد مل کر اپنے اندر حقیقت رکھتے ہیں پھر دو سے زیادہ افراد مل کر اپنے اندر حقیقت رکھتے ہیں۔ پھر سارا عالم اپنے اندر ایک حقیقت رکھتا ہے یہی حال عبادتوں کا ہے۔ اور جس طرح قانونِ قدرت میں ایک ترتیب اور ربط موجود ہے اسی طرح عبادتوں میں بھی ربطِ ہے مگر یہ بات صرف شریعت اسلامیہ میں ہی پائی جاتی ہے باقی شرائع میں نہیں۔ ان میں نماز۔ زکوٰۃ اور روزہ کی قسم کی عبادتیں ہین۔ مگر ان کا آپس میں کوئی ربط نہیں۔ وہ ایسی ہی ہیں جیسے بکھری ہوئی اینٹیں۔ لیکن شریعت اسلامیہ کو اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس کا ہر حکم اپنے اندر ایک اور حکمت رکھتے ہیں۔ اس کی ایک مثال نماز اور روزہ ہے۔ نماز اپنی ذات میں ایک سبق رکھتی ہے اور روزہ بھی اپنی ذات میں ایک سبق رکھتا ہے۔ مگر پھر نماز اور روزہ مل کر ایک اور سبق رکھتے ہیں۔ اگر نماز نہ ہوتی صرف روزے ہوتے تو یہ سبق رہ جاتا ۔ اگر اگر روزے نہ ہوہتے صرف نماز ہی ہوتی تب بھی یہ سبق رہ جاتا۔ بیشک روزے اپنی ذات میں مفید ہیں اور نماز اپنی ذات میں مفید ہے جس طرح اسلام کی ساری عبادتیں اپنی اپنی ذات میں مفید ہیں لیکن نماز اور روزہ مل کر ایک نیا سبق دیتے ہیں جس کا میں اس موقعہ پر ذکر کر رہا ہوں۔
نماز کا اصل مقام طہارت ہے جسے وضو کی حالت کہتے ہیں۔ اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص وضو کر کے نماز کے لئے بیٹھ جات اہے وہ نماز ہی کی حالت میں ہوتا ہے ۔ نماز اس حالت کا انتہائی مقام ہے ۔ ورنہ اصل نماز مومن کی وہ قلبی کیفیت ہے جو وضو سے تعلق رکھتی ہے۔ اب یہ دیکھنا چاہیے کہ وجو کی کیا حقیقت ہے؟ وضو کے ذریعہ جو فعل ہم کرتے ہیں وہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ کوئی چیز جسم سے خارج نہ ہو خواہ وہ پیشاب پاخانہ کے رنگ میں خارج ہو خواہ مرد عورت کے تعلقات کے ذریعہ سے خارج ہو یا اور ایسے رنگوں سے خارج ہو جن سے طہارت کو نقصان پہنچتا ہے۔ غرض وضو کا مدار کسی چیز کے جسم سے نہ نکلنے پر ہے۔ اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ نماز کی طہارت کا مدار اس امر پر ہے کہ کوئی چیز جسم سے خارج نہ ہو۔ لیکن روزہ کی طہارت کا مدار اس امر پر ہے کہ کوئی چیز جسم کے اندر داخل نہ ہو۔ بیشک روزہ میں مرد و عورت کے تعلقات سے بھی روکا گیا ہے۔ مگر یہ اس لئے ہے کہ روزہ کی حالت میں انسان کی کلی توجہ اور طرف نہ ہو۔ ورنہ روزہ کا اصل مدار کسی چیز کیجسم میں داخل نہ ہو۔ ورنہ روزہ کا اصل مدار کسی چیز کے جسم میں داخل نہ ہونے پر ہے۔ اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ روزہ کا مدار اس امر پر ہے کہ کوئی چیز جسم میںداخل نہ ہو۔ اگر صرف نماز ہی ہوتی اور وضو صرف ظاہری صفائی ہوتا تو کہا جاتا کہ اس سے مراد صرف ہاتھ منہ اور پائوں کا دھونا ہے۔ اسی طرھ اگر روزہ ہوتا اور کوئی چھوٹی چھوٹی چیز کھالی جاتی تو کہا جاسکتا تھا کہ روزہ سے مراد فاقہ کرانا ہے۔ لیکن جسم سے کچھ خارج ہونے سے وضو کا باطل ہو جانا اور کسی چیز کے جسم میں داخل ہونے سے روزہ کا ٹوٹ جانا بتاتا ہے کہ کسی چیز کے خارج ہونے کا نماز سے اور کسی چیزکے اندر داخل ہونے کا روزہ سے تعلق ہے۔ اور ان دونوں کو ملا کر یہ لطیف بات نکلتی ہے کہ انسان طہارت میںاس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جبتک وہ دو احتیاطیں نہ کرے۔ یعنی بعض چیزین اپنے جسم سے نکلنے نہ دے اور بعض چیزیں داخل نہ ہونے دے۔ اگر ہم ان دو باتوں کا لحاظ رکھ لیں کہ بعض چیزوں کو جسم سے نکلنے نہ دیں اور بعض کو داخل نہ ہونے دیں تو طہارت کامل ہو جاتی ہے۔ نماز اور روزہ سے مجموعی طور پر انسان کو یہ گُر سکھایاگیا ہے کہ ہر انسان کو یہ امر مدنظر رکھنا چاہیے کہ بعض چیزوں کے جسم سے نکلنے کی وجہ سے وہ ناپاک ہو جاتا ہے ان کو نکلنے نہ دے اور بعض چیزوں کے جسم میں داخل ہونے کی وجہ سے وہ ناپاک ہو جاتا ہے انہیں داخل نہ ہونے دے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کونسی گندی چیزیںہیں جن کا نکلنا روحانیت کے لحاظ سے مضر ہوتا ہے۔ دنیا میں تو ہم دیکھتے ہیں کہ گند کا نکلنا ہی اچھا ہوتا ہے۔ کیا ایسے گند بھی ہیں جن کا نہ نکلنا اچھا ہوتا ہے۔ اس کے متعلق ہمیں قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض گند ایسے بھی ہیں جن کا نہ نکلنا ہی اچھا ہوتا ہے۔ مثلاً کسی کی طبیعت میں غصہ زیادہ ہے۔ اگر کسی موقعہ پر اسے سخت غصہ آگیا مگر وہ اسے نکلنے نہیں دیتا تو خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ نیک اور متقی انسان کو بھی غصہ آجاتا ہے مگر وہ اسے روک لیتا ہے۔ جیسے نماز کے وقت اس بات کا لحاظ رکھ لیتا ہے کہ اس وقت ایسی چیزیں ظاہر نہ ہوں جو وضو کو باطل کر دیں۔ بعض کیفیتیں ایسی ہوتی ہیں کہ وہ روک دینے سے کم نکلتی ہیں اور اگر انہیں نکلنے کے لئے آزاد چھوڑ دیا جائے تو بڑھ جاتی ہیں غصہ بھی ایسی ہی کیفیات میں سے ہے۔ ہمارے ہاں محاورہ بھی یہی ہے۔ کہتے ہیں کہ اب تو آپ نے غصہ نکال لیا ہے اب جانے دو۔ یعنی گالی گلوچ یا مار پیٹ کے ذریعہ سے غصہ کا اظہار کر لیا ہے۔ لیکن اگر وہ اسے دبالیتا اور روک لیتا تو وہ اس کے لئے نیکی بن جاتی ہے۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اگر کسی کے دل میں کوئی بُرا خیال پیدا ہو مگر وہ اسے روک لے اور اس پر عمل نہ کرے تو یہ اس کے لئے نیکی ہو جاتی ہے غرض قلب کے بعض ایسے ھالات ہوتے ہیں کہ اگر انہیں ظاہر کیا جائے تو طہارت باطل ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر ان کو دل ہی میں رکھیں تو نیکی بن جاتی ہے۔ یہ سبق نماز سے حاصل ہوتا ہے۔ دوسری چیز یہ ہے کہ کوئی چیز جسم میں داخل نہ ہونے دی جائے اس کی مثال جھوٹ ہے استہزاء چغلخوری اور غیبت وغیرہ کی باتیں ہیں۔ ان کا نہ سننا بھی نیکی ہوتا ہے۔ کیونکہ ایسی باتیں انسان کو روحانیت سے عاری کر دیتی ہیں پس اخلاقِ فاضلہ مکمل کرنے کے لئے ان دونوں کا خیال رکھناضروری ہوتا ہے۔ کہ بعض قسم کے گند و نکو باہر نہ نکلنے دیا جائے اور بعض کو اندر داخل نہ ہونے دیا جائے۔ روزہ ہمارے لئے یہ سبق رکھتا ہے کہ ہم ان تمام ناپاک اور گندی باتوں سے بچیں جن کو اپنے اندر داخل کرنے سے ہماری روحانیت باطل ہو جاتی ہے۔ اور ہم اللہ تعالیٰ کے قرب سے محروم ہو جاتے ہیں۔
اس سوال کا جواب کہ روزے صرف رمضان کے مہینہ میں ہی کیوں رکھوائے جاتے ہیں۔ سارے سال پر ان کو کیوں نہ پھیلا دیا گیا یہ ہے کہ جب تک تواتر اور تسلسل نہ ہو صحیح مشق نہیں ہوسکتی۔ ہر مہینہ میں اگر ایک دو دن کا روزہ رکھ دیا جاتا تو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا تھا ایک وقت کے کھانے میں تو بعض اوقات سیر وغیرہ کے باعث بھی کھانا نہیں کھایا جا سکتا۔ مگر کیا ا سے بھوک اور پیاس کو برداشت کرنے کی عادت ہو جاتی ہے؟ حکومت بھی فوجیوں سے متواتر مشق کراتی ہے۔ یہ نہیں کہ ہر مہینہ میں ایک دن ان کی مشق کے لئے رکھدے۔ غرض جو کام کبھی کبھی کیا جائے اس سے مشق نہیں ہو سکتی۔ مشق کے لئے مسلسل کام کرنا نہایت ضروری ہوتا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے پورے ایک ماہ کے روزے مقرر فرما دیئے تاکہ مومنوں کو خداتعالیٰ کیل ئے بھوکا پیاسا رہنے اور رات کو عبادت کیلئے اُٹھنے اور دن کو ذکرِ الہٰی اور قرآن کرنیکی عادت ہو اور ان کی روحانی صلاحیتیں ترقی کریں۔
غرض رمضان کا مہینہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص برکات اور خاص رحمتیں لے کر آتا ہے۔ یوں تو اللہ تعالیٰ کے انعام اور احسان کے دروازے ہر وقت ہی کھلے رہتے ہیں اور انسان جب چاہے ان سے حصہ لے سکتا ہے صرف مانگنے کی دیر ہوتی ہے ورنہ اس کی طرف سے دینے میں دیر نہیں لگتی کیونکہ خدا تعالیٰ اپنے بندہ کو کبھی نہیں چھوڑتا۔ ہاںبندہ خداتعالیٰ کو چھوڑ کر بعض دفعہ دوسروں کے دروازہ پر چلا جاتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگِ بدر کے بعد ایک عورت کو دیکھا کہ وہ پریشانی کے عالم میں اِدھر اُدھر پھر رہی تھی۔ اُسے جو بچہ بھی نظر آتا وہ اُسے اُٹھا کر اپنے گلے سے لگا لیتی اور پیار کر کے چھوڑ دیتی۔ آخر اسی طرح تلاش کرتے کرتے اُسے اپنا بچہ مل گیا اور وہ اُسے سے اطمینان کے ساتھ بیٹھ گئی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہؓ کو مخاطب کر کے فرمایا۔ اس عورت کو اپنا بچہ ملنے سے اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی اللہ تعالیٰ کو اپنے گمشدہ بندہ کے ملنے سے خوشی ہوتی ہے۔ سو اس رحیم و کریم ہستی سے تعلق پیدا کرنا کوئی مشکل امر نہیں۔ ہر گھڑی رمضان کی گھڑی ہو سکتی ہے اور ہر لمحہ قبولیت دُعا کا لمحہ بن سکتا ہے۔ اگر دیر ہوتی ہے تو بندہ کی طرف سے ہوتی ہے۔ لیکن یہ بھی اس کے احسانات میں سے ہی ہے کہ اس نے رمضان کا ایک مہینہ مقر ر کر دیا۔ تاکہ وہ لوگ جو خود نہیں اُٹھ سکتے ان کو ایک نظام کے ماتحت اُٹھنے کی عادت ہو جائے اور ان کی غفلتیں ان کی ہلاکت کا موجب نہ ہوں۔
پس یاد رکھو کہ روزے کوئی مصیبت نہیں ہیں ۔ اگر یہ کوئی دکھ کی چیزی ہوتی تو انسان کہہ سکتا تھا کہ میں دکھ میں کیوں پڑوں ۔ لیکن جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے روزے دکھوں سے بچانے اور گناہوں سے محفوظ رکھنے اور اللہ تعالیٰ کی لِقاء حاصل کرنے کا
اَیَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ


کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo
ایک ذریعہ ہیں۔ اور گوبظاہر یہ ہلاکت کا باعث معلوم ہوتے ہیں ۔ کیونکہ انسان فاقہ کرتا ہے۔ جاگتا ہے۔ بے وقت کھانا کھاتا ہے جسس سے معدہ خراب ہوجاتا ہے اور پھر ساتھ ہی اس کے یہ احکام بھی ہیں کہ صدقہ و خیرات زیادہ کرو۔ اور غرباء کی پرورش کا خیال رکھو۔ مگر یہی قربانیاں ہیں جو اُسے خداتعالیٰ کا محبوب بناتی ہیں۔ اور یہی قربانیاں ہیں جو قومی ترقی کا موجب بنتی ہیں۔
۹۸؎ تفسیر:۔ فرماتا ہے چند گنتی کے دن ہیں جن میں روزے رکھنا تم پر فرض کیا گیا ہے۔ ہاں جو تم میں سے بیمار یا مسافر ہو اس کے لئے اور دنوں میں اس تعداد کا پورا کرنا ضروری ہو گا۔
اَیَّا مًا مَّعْدُوْدَاتٍ اور فَعِدَّۃ’‘ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ کے الفاظ صاف طور پر بتاتے ہیں کہ یہ روزے جن کا حکم دیا جا رہا ہے نفلی نہیں بلکہ واجب ہیں۔ اسی لئے فرمایا کہ اگر کوئی بیمار یا مسافر ہو تو اُسے بہرحال بعد میں اس تعداد کو پورا کرنا ہوگا۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ جب رمضان کے دنوں میں میں بیمار تھا یا سفر پر گیا ہوا تھا تو اب رمضان کے بعد میں کیوں روزے رکھوں جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ میں رمضان المبارک کے روزوں کا ذکر نہیں بلکہ صرف عام طور پر روزے رکھنے کا ذکر ہے وہ غلطی پر ہیں۔ اگر ان کی یہ بات صحیح ہو تو فَعِدَّۃ’‘ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ کا کوئی مطلب ہی نہیں رہتا۔ اول تو اَیَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہاں صرف ایسے ہی روزوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جن کے لئے شریعت کی طرف سے بعض ایام مقرر ہیں ۔ دوسرے اَیّامٍ اُخَرَ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایام کسی خاص مہینہ سے متعلق ہیں۔ پس کُتِبَ عَلَیْکُمْ الصِّیَامُ سے عام نفلی روزے مراد لینا کسی طرح بھی درست نہیں ہو سکتا۔
پھر اس بارہ میں اللہ تعالیٰ یہ ہدایت دیتا ہے کہ جو شخص بیمار یا مسافر ہو اُسے بیماری اور سفر کی حالت میں روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔ بلکہ اور دنوں میں اس کمی کو پورا کرنا چاہیے۔ میں نے اپنے تجربہ کی بنا پر یہ بات دیکھی ہے کہ رمضان کے بارہ میں مسلمانوں میں افراط و تفریط سے کام لیا جاتا ہے۔ کئی تعلیم یافتہ لوگوں کو میں نے دیکھا ہے کہ وہ رمضان کی برکات کے قائل ہی نہیں اور بغیر کسی بیماری یا اور عذرِ شرعی کے روزہ کے تارک ہیں۔ اور دوسرے ول لوگ ہیں جو سارااسلام روزہ میں ہی محدود سمجھتے ہیں۔ اور ہر بیمار، کمزور، بوڑھے بچے حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت سے بھی یہی امید رکھتے ہیں کہ وہ ضرور روزہ رکھے خواہ بیماری بڑھ جائے یا صحت کو نقصان پہنچ جائے ۔ یہ دونوں افراط تفریط میں مبتلا ہیں۔ اسلام کا یہ ہرگز منشا نہیں کہ وہ انسان کو اس راستہ سے ہٹا دے جو اس کی کامیابی کا ہے۔ اگر تو شریعت چٹی ہوتی یا جرمانہ ہوتا تو پھر بے شک ہر شخص پر خواہ وہ کوئی بوجھ اُٹھا سکتا یانہ اٹھا سکتا اس کا اُٹھانا ضروری ہوتا۔ جیسے حکومت کی طرف سے جرمانہ کر دیا جائے تو اس وقت ی نہیں دیکھا جاتا کہ جس پر جرمانہ کیا گیا ہے اس میں ادا کرنے کی استطاعت بھی ہے یا نہیں بلکہ جس پر جرمانہ ہو اسے خواہ گھر بار بیچنا پڑے۔ بھوکا رہنا بڑے جرمانہ کی رقم ادا کرنا اس کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ مگر قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے احکام چٹی نہیں بلکہ وہ انسان کے اپنے فائدہ کے لئے ہیں۔ اور ان پر عمل کرنے سے خود انسان کو ہی آرام میسر آتا اور اُس کی ترقی کے راستے کھلتے ہیں۔ جن مذاہب نے شریعت کو چٹی قرار دیا ہے ان کے ماننے والوں کے لئے تو ضروی ہے کہ خواہ کچھ ہو وہ اپنے مذہبی احکام کو ضرور پورا کریں۔ لیکن جس مذہب کے احکام کی غرض محض انسانی فائدہ ہو اس میں نفع و نقصان کا موازنہ ہوتا ہے اور جو صورت زیادہ مفید ہو اسے اختیار کر لیا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اپنے بعض احکام کے سلسلہ میں بعض شرائط مقرر کر دی ہیں تاکہ اگر وہ شرائط کسی میں پائی جائیں تو وہ اس حکم پر عمل کرے اور اگر نہ پائی جائیں تو نہ کرے۔ یہ شرائط صرف جسمانی عبادت کے لئے ہی نہیں بلکہ مالی عبادت کے لئے بھی ہیں۔جیسے زکوٰۃ ہے اور وطنی قربانی اور اتصال و اتحاد کی کوشش کے لئے بھی ہیں۔ جیسے حج ہے اسی طرح اور جتنے مسائل و اسلام سے تعلق رکھتے ہییں اور جتنے احکام فرض ہیں ان سب کے لئے یہ شرط ہے کہ جب انسان کو طاقت ہو انہیں ضرور ادا کرے لیکن جب اس کے طاقت سے بات بڑھ جائے تو ہو معذور ہے اگر حج انسان کے مالدار ہونے اور امن و صحت کی شرط سے مشروط ہے۔ اگر زکوٰۃ کے لئے یہ شرط ہے کہ ایک خاص مقدار میں کسی کے پاس ایسا مال ہو جو اس کے ضروریات سے ایک سال بڑھا رہے۔ اگر نماز کے لئے یہ شرط ہے کہ جو کھڑا نہ ہو سکے بیٹھ کر اور جو بیٹھ نہ سکے وہ لیٹ کر نماز ادا کرے تو رمضان کے لئے بھی شرط ہے کہ اگرانسان مریض ہو۔ خواہ اسے مرض لاحق ہو چکا ہو یاا یسی حالت میں ہو جس میں روزہ رکھنا اسے یقینی طور پر مریض بنا سکتا ہو۔ جیسے حاملہ ہے یا دودھ پلانے والی عورت ہے یا ایسا بوڑھا شخص ہے جس کے قومیٰ مین انحطاط شروع ہو چکا ہے ای اتنا چھوٹا بچہ ہے جس کے قومیٰ نشوونما پا رہے ہیں تو اسے روزہ نہیں رکھنا چاہیے مسافر بیمار کا روزہ رکھنا ایسا ہی لگو ہے جیسے حائصنہ کا روزہ رکھنا۔ کون نہیں جانتا کہ حائصنہ کا روزہ رکھنا کوئی نیکی نہیں بلکہ بیوقوفی اور جہالت ہے یہی حال بیمار اور مسافر کا ہے۔ اس کے لئے بھی روزہ رکھنا نیکی نہیں۔ پھر وہ بچہ جس کے قومیٰ نشوونما پا رہے ہیں اور آئندہ پچاس ساٹھ سال کے لئے وہ طاقت کا ذخیرہ اپنے اندر جمع کر رہا ہے۔ اس کے لئے بھی روزہ رکھنا نیکی نہیں ہو سکتا۔ مگر جس میں طاقت ہے اور جو رمضان کا صحیح معنوں میں مخاطب ہے وہ اگر روزہ نہیں رکھتا تو گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔
یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ شریعت نے چھوٹی عمر کے بچوں کو روزہ رکھنے سے منع کیا ہے لیکن بلوغت کے قریب انہیں کچھ روزے رکھنے کی مشق ضرور کروانی چاہیے۔ مجھے جہاں تک یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے پہلا روزہ رکھنے کی اجازت بارہ یا تیرہ سال کی عمر میں دی تھی۔ لیکن بعض بے وقوف چھ سات سال کے بچوں سے روزے رکھواتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس کا ثواب ہو گا۔ یہ ثواب کا کام نہیں بلکہ ظلم ہے۔ کیونکہ یہ عمر نشوونما کی ہوتی ہے۔ ہاں ایک عمر وہ ہوتی ہے کہ بلوغت کے دن قریب ہوتے ہیں اور روزہ فرض ہونے والا ہوتا ہے اس وقت ان کو روزہ کی ضرور مشق کرانی چاہیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اجازت اور سنت کو اگر دیکھا جائے تو بارہ تیرہ سال کے قریب کچھ کچھ مشق کرانی چاہیے اور ہر سال چند روزے رکھوانے چاہیں۔ یہاں تک کہ اٹھارہ سال کی عمر ہو جائے جو میرے نزدیک روزہ کی بلوغت کی عمر ہے۔ مجھے پہلے سال صرف ایک روزہ رکھنے کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اجازت دی تھی۔ اس عمر میں تو صرف شوق ہوتا ہے۔ اس شوق کی وجہ سے بچے زیادہ روزے رکھنا چاہتے ہیں مگر یہ ماںباپ کا کام ہے کہ انہیں روکیں۔ پھر ایک عمر ایسی ہوتی ہے کہ اس میں چاہیے کہ بچوں کو جرات دلائیں کہ وہ کچھ روزے ضرور رکھیں۔ اور ساتھ ہی یہ بھی دیکھتے رہیں کہ وہ زیادہ نہ رکھیں۔ اور دیکھنے والوں کو بھی اس پر اعتراض نہ کرنا چاہیے کہ یہ سارے روزے کیوں نہیں رکھتا۔ کیونکہ اگر بچہ اس عمر میں سار ے روزے رکھیگا تو آئندہ نہیں رکھ سکے گا۔ اسی طرح بعض بچے خلقی لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے بعض لوگ اپنے بچوں کو میرے پاس ملاقات کے لئے لاتے ہیں تو بتاتے ہیں کہ اس کی عمر پندرہ سال ہے حالانکہ وہ دیکھنے میں سات آٹھ سال کے معلو م ہوتے ہیں میں سمجھتا ہوں ایسے بچے روزہ کے لئے شاید اکیس سال کی عمر میں بالغ ہوں۔ اس کے مقابلہ میں ایک مضبوط بچہ غالباً پندرہ سال کی عمر میں ہی اٹھارہ سال کے برابر ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر وہ میرے ان الفاظ ہی کو پکڑ کر بیٹھ جائے کہ روزہ کی بلوغت کی عمر اٹھارہ سال ہے تو نہ وہ مجھ پر ظلم کریگا او رنہ خداتعالیٰ پر بلکہ اپنی جان پر آپ ظلم کرے گا۔ اسی طرح اگر کوئی چھوٹی عمر کا بچہ پورے روزے نہ رکھے اور لوگ اس پر طعن کریں تو وہ اپنی جان پر ظلم کرینگے۔
بہرحال ان باتوں میں بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے جہاں شریعت روکتی ہے۔ وہان رک جانا چاہیے اور جہاں حکم دیتی ہے وہاں عمل کرنا چاہیے۔ مگر مسلمان اس وقت اعتدال کو ترک کر بیٹھے ہیں ان میں یا تو وہ لوگ ہیں جو روزہ ہی نہیں رکھتے اور یا وہ لوگ ہیں جو روزہ کے پابند ہیں کہ بیماری اور سفر میں بھی اسے ضروری سمجھتے ہیں۔ اوربعض تو اس میں اس قدر شدت اختیار کر لیتے ہیں کہ وہ چھوٹے بچوں سے بھی روزے رکھواتے ہیں اور اگر وہ توڑنا چاہیں تو توڑنے نہیں دیتے۔ ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں کہ سات سات آٹھ آٹھ سال کے بچوں نے روزے رکھے تو ماں باپ نے ان کی نگرانی کی کہ وہ روزہ توڑ نہ دیں یہاں تک کہ وہ مر گئے۔ بے شک روزہ کا ادب و احترام ان کے دلوں مین پیدا کرنا ضروری ہے اور انہیں بتانا چاہیے کہ اگر وہ سارا دن روزہ نہیں رکھ سکتے تو روزہ رکھیں ہی نہیں۔ لیکن یہ کہ اگر وہ رکھ لیں تو پھر توڑیں نہیں خواہ مرنے لگیں نہایت ظالمانہ فعل ہے اور اسلام کی تعلیم کے سراسر خلاف ہے۔
غرض ایک طرف تو مسلمانوں میں ایسے لو گ ہیں جو روزہ کے بارہ میں اس قدر سختی کرتے ہیں اور دوسری طرف ایسے لوگ ہیں جو روزوں کی ضرور ت ہی کے قائل نہیں بالخصوص تعلیم یافتہ طبقہ اسی خیال کا ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں میں نے اخبارات میں پڑھا تھا کہ ایک شخص ٹرکی یا مصر سے یہاں آیا ۔ وہ تقریریں کرتا پھرتا تھا کہ ایک اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس زمانہ میں ہوتے تو ضرور روزہ کی شکل بدل دیتے۔ اس لئے ہمیں بھی بدل دینی چاہیے کیونکہ وہ زمانہ اور تھا اور یہ اور ہے۔ اور اس کی صورت وہ یہ پیش کرتا تھا کہ روزہ کی حالت میں روٹی نہ کھائی جائے بلکہ کچھ کیک اور بسکٹ وغیرہ کھا لئے جائیں۔ غرض ایک طبقہ افراط کی طرف چلا گیا ہے تو دوسرا تفریط کی طرف ۔ حالانکہ اسلام ایک وسطی مذہب ہے او روہ جہاں بیمار اور مسافر کو اجازت دیتا ہے کہ وہ بیماری اور سفر کی حالت میں روزہ نہ رکھیں وہاں ہر بالغ اور باصحت مسلمان پر یہ واجب قرار دیتا ہے کہ وہ رمضان کے روزے رکھے اور ان مبارک ایام کو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور تسبیح و تحمید اور قرآن کریم کی تلاوت اور دعائوں اور ذکر الہٰی میں بسر کرے تاکہ اُسے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو۔
بہر حال روزہ کے بارہ میں شریعت نے نہایت تاکید کی ہے ۔ اور جہاں اس کے متعلق حد سے زیادہ تشدد ناجائز ہے وہاں حد سے زیادہ نرمی بھی ناجائز ہے۔ پس نہ تو اتنی سختی کرنی چاہیے کہ جان تک چلی جئے اور نہ اتنی نرمی اختیار کرنی چاہیے کہ شریعت کے احکام کی ہتک ہو اور ذمہ داری کو بہانوں سے ٹال دیا جائے۔ میں نے دیکھا ہے کئی لوگ محض کمزوری کے بہانہ کی وجہ سے روزے نہیںرکھتے اور بعض تو کہہ دیتے ہیں کہ اگر روزہ رکھا جائے تو پیچش ہو جاتی ہے۔ حالانکہ روزہ چھوڑنے کے لئے یہ کوئی کافی وجہ نہیں کہ پیچش ہو جایا کرتی ہے۔ جب تک پیچش نہ ہو انسان کے لئے روزہ رکھنا ضروری ہے۔ جب پیچش ہو جائے تو پھر بے شک چھوڑ دے۔ اسی طرح بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں روزہ رکھنے سے ضعف ہو جاتا ہے مگر یہ بھی کوئی دلیل نہیں۔ صرف اپس ضعف کی وجہ سے روزہ چھوڑنا ناجائز ہے جس میں ڈاکٹر روزہ رکھنے سے منع کرے۔ ورنہ یوں تو بعض لوگ ہمیشہ ہی کمزور رہتے ہیں تو کیا وہ کبھی بھی روزہ نہ رکھیں۔ میں اڑھائی تین سال کا تھا جب مجھے کالی کھانسی ہوئی تھی۔ اس وقت سے میر ی صحت خراب ہے۔ اگر ایسے ضعف کو بہانہ بنانا جائز ہو تومیرے لئے تو شاید ساری عمر میں ایک روزہ بھی رکھنے کا موقع نہیں تھا۔ضعف وغیرہ جسے روزہ چھوڑنے کا بہانا بنایا جاتا ہے اسی کی برداشت کی عادت ڈالنے کے لئے تو روزہ رکھایا جاتا ہے۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے قرآن کریم میں آتا ہے کہ نماز بدی اور بے حیائی سے روکتی ہے۔ اس پر کوئی شخص کہے کہ میں نماز اس لئے نہیں پڑھتا کہ اس کی وجہ سے بدی کرنے سے رک جاتا ہوں۔ پس روزہ کی تو غرض ہی یہی ہے کہ کمزوری کو برداشت کرنے کی عادات پیدا ہو ورنہ یوں تو کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ میں اس لئے روزہ نہیں رکھتا کہ مجھے بھوک اور پیاس کی تکلیف ہوتی ہے۔ حالانکہ اس قسم کی تکالیف کی برداشت کی عادت پیدا کرنے ہی کے لئے روزہ مقرر کیا گیا ہے۔ جو شخص روزہ رکھے کیا وہ چاہتا ہے کہ فرشتے سارا دن اس کے پیٹ میں کباب ٹھونستے رہیں۔ وہ جب بھی روزہ رکھے گا اسے بھوک اور پیاس ضرور برداشت کرنی پڑیگی۔ اور کچھ ضعف بھی ضرور ہو گا۔ اور اسی کمزوری اور ضعف کو برداشت کرنیکی عادت پیدا کرنے کیلئے روزہ رکھایا جاتا ہے۔ بے شک روزہ کی اور بھی حکمتیں ہیں جیسے ایک حکمت یہ ہے کہ روزہ رکھنے سے غرباء اور فاقہ زدہ لوگوں کی اعانت کی طرف توجہ پیدا ہو جاتی ہے مگر بہر حال روزہ اس لئے نہیں رکھا جاتا کہ انسان کو کوئی تکلیف ہی نہ ہو اور وہ کوئی ضعف محسوس نہ کرے بلکہ اس لئے رکھا جاتا ہے کہ اسے ضعف برادشت کرنے کی عادت پیدا ہو۔ پس ضعف کے خوف برداشت کرنے کی عادت پیدا ہو۔ پس ضعف کے خوف سے روزہ چھوڑنا ہرگز جائز نہیں۔ سوائے اس کے کہ کوئی بوڑھا ہو چکا ہو یا ڈاکٹر اس کے ضعف کو بھی بیماری قرار دے چکا ہو۔ ایسی صورت میں بیشک روزہ نہیں رکھنا چاہیے مگر ضعف کے متعلق ظاہری ڈیل ڈول اور صورت سے بھی کوئی نتیجہ نہیں نکالنا چاہیے ۔ بعض لوگ بظاہر موٹے تازے ہوتے ہیں اور چلتے پھرتے بھی ہیںل لیکن دراصل وہ بیمارہوتے ہیں۔ اور ان کے لئے روزہ رکھنا جائز نہیں ہوتا۔ بالخصوص جن لوگوں کو دل کی بیماری ہو۔ ایسے لوگوں کے لئے بھوک پیاس کا برداشت کرنا سخت خطرناک ہوتا ہے پس پس کمزوری یا ضعف کا فیصلہ بظاہر دیکھنے سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ یہ دیکھنا ہو گا کہ ڈاکٹر کیا کہتا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ ہمارے ملک میں بہت سے ڈاکٹر بھی دیانت داری سے کام نہیں لیتے۔ ذرا کوئی شخص دو چار بار جھک کر سلام کر دے تو جو چاہے ڈاکٹر سے لکھوالے ظاہر ہے کہ ایسے سرٹیفیکیٹ کا کیا اعتبار ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر حقیقی طور پر ڈاکٹر کسی کو مشورہ دے کہ اسے کے لئے روزہ رکھنا مضر ہے تو گو وہ بظاہر تندرست بھی نظر آئے اس کے لئے روزہ رکھنا جائز نہیں ہو گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بھی یہی فتویٰ ہے کہ بیمار اور مسافر کے لئے روزہ جائز نہیں ۔ چنانچہ آپ نے ایک دفعہ فرمایا:۔
’’جو شخص مریض اور مسافر ہونیکی حالت میں ماہِ ایام میں روزہ رکھتا ہے وہ خداتعالیٰ کے صریح حکم کی نافرمانی کرتا ہے خداتعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ بیمار اور مسافر روزہ نہ رکھے ۔ مرض سے صحت پا نے اور سفر ختم ہونے کے بعد روزے رکھے۔ خدا کے اس حکم پر عمل کرنا چاہیے۔ کیونکہ نجات فضل سے ہے نہ کہ اپنے اعمال کا زور دکھا کر کوئی نجات حاصل کر سکتا ہے۔ خداتعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ مرض تھوڑی ہو یا بہت اور سفر چھوٹا ہو یا لمبا بلکہ حکم عام ہے اور اس پر عمل کرنا چاہیے ۔ مریض یا مسافر اگر روزہ رکھیں گے تو ان پر حکم عدولی کا فتویٰ لازم آئیگا۔‘‘
(فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۱۳۲أ۱۳۳)
پھر فرمایا ہے۔ وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہ‘ فِدْیَۃ’‘ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ۔ اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کو بڑی دقت پیش آئی ہے۔ اور انہوں نے اس کے کئی معنے کئے ہیں۔ یہ دقت زیادہ تر اس وجہ سے پیش آئی ہے کہ یُطِیْقُوْنَہ‘ میں جو ہ‘ کی ضمیر استعمال ہوئی ہے اس کے مرجع کی تعیین میں اختلاف پایا جاتا ہے بعض نے اس کا مرجع صوم کو قرار دیا ہے اور بعض نے فِدْیَۃ’‘ طَعَاَمُ مِسْکِیْنٍ کو۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے اس مشکل کو ’’الفوذ الکبیر‘‘ میں اس طرح حل کیا ہے کہ یُطِیْقُوْنَہ‘ میں ہ‘ کی ضمیر فِدْیَۃ’‘ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ کی طرف گئی ہے اس پر یہ اعتراض پڑتا تھا کہ یہ اضماء قبل الذکر ہے یعنی ضمیر پہلے آ گئی ہے اور مرجع بعد میں ہے۔ حالانکہ مرجع پہلے ہونا چاہیے تھا اس کا جواب انہوں نے یہ دیا ہے کہ فدیہ کا مقام چونکہ نحوًا مقدم ہے یعنی وہ متدا ہے اس لئے اس کی ضمیر اس کے ذکر سے پہلے آسکتی ہے۔
دوسرا اعتراض یہ پڑتا تھا کہ فِدْیَۃ’‘ مونث ہے اور ضمیر مذکر۔ اس کا جواب انہوں نے یہ دیا ہے کہ فدیہ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ کا قائم مقام ہے اور وہ مذکر ہے ۔ اس لئے فدیہ کی طرف بھی مذکر کی ضمیر پھر سکتی ہے۔ اس بنا پر انہوں نے اس کے یہ معنے کئے ہیں کہ ان لوگوں پر جو فدیہ دینے کی طاقت رکھتے ہوں ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ دینا واجب ہے۔ ان کے نزدیک اس آیت میں صدقۃ الفطر کی طرف اشارہ ہے جو اسلام میں نماز عید سے پہلے ادا کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے تاکہ غرباء بھی عید کی خوشی میں شریک ہو سکیں۔
دوسرے معنے اس کے یہ کئے جاتے ہیں کہ مومنوں میں سے جو لوگ روزہ کی طاقت رکھتے ہیں وہ روزوں کے ساتھ ساتھ ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ بھی دے دیا کریں۔ لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل اور احادیث سے چونکہ یہ بات ثابت نہیں کہ روزہ دار فدیہ بھی دے اس لئے یہ معنے تسلیم نہیں کئے جا سکتے۔ اس کے علاوہ عقلی طور پر یہ معنے اس لئے بھی نا قابلِ قبول ہیں کہ فدیہ تو اس پر ہونا چاہیے جو روزنہ نہ رکھ سکے جو شخص باقاعدہ روزے رکھ رہا ہے اس پر فدیہ کیسا؟ ہاں اگر کوئی شخص اس شکریہ میں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس عبادت کے بجا لانے کی توفیق بخشی ہے روزہ رکھ کر ایک مسکین کو کھانا بھی دے دیا کرے تو وہ ثواب کا مستحق ہے کیونکہ اس نے روزہ بھی رکھا اور ایک مسکین کو کھانا بھی کھلایا۔ مگر بہرحال وہ ایک زائد نیکی ہو گی ۔ قرآن کریم کسی کو اس بات کا پابند قرار نہیں دیتا کہ وہ روزہ بھی رکھے او رایک مسکین کوکھانا بطور فدیہ بھی کھلائے۔
(۳) مفسرین نے اس آیت کے ایک معنے یہ کئے ہیں کہ یُطِیْقُوْنَہ‘ سے پہلے لَا محذوف ہے اور اصل عبارت یوں ہے کہ وَعَلَی الَّذِیْنَ لَا یُطِیْقُوْنَہ‘۔ اور ہ‘ کی ضمیر کا مرجع وہ صوم کو قرار دیتے ہیں یعنی وہ لوگ جو روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں وہ ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ دے دیا کریں وہ کہتے ہیں کہ اسجگہ لَا اُسی طر ح مخدوف ہے جس طرح آیت یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اَنْ تَضِلُّوْا(نساء آیت ۱۷۷) میں تَضِلُّوْا سے پہلے بھی لَا مخدوف ہے ا ور آیت کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ یہ باتیں اس لئے بیان کرتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہو جائو۔گو یہ بھی کہاجا سکتا ہے کہ یہاں لَا مقدر نہیں بلکہ ایک مضاف محذوف ہے اور اصل عبار ت یوں ہے کہ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ مَّخَافَۃَ اَنْ تَضِلُّوْا یعنی اللہ تعالیٰ تمہارے لئے یہ باتیں تمہارے گمراہ ہو جانے کے خدشہ کی بنا ء پر بیان کرتا ہے۔
(۴) بعض نے اس آیت کا یوں حل کیا ہے کہ عربی زبان میں اَطَاقَ کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ کسی شخص نے کام تو کیا مگر بہت مشکل اور مصیبت سے۔ گویا جب کوئی شخص اپنے نفس کو انتہائی مشقت میں ڈالے بغیر کوئی کام سر انجام دینے کی اپنے اندر طاقت نہ رکھتا ہو تو اس کے لئے اَطَاقَ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس مفہوم کے لحاظ سے اَلَّذیْنَ یُطِیْقُوْنَہ‘ سے وہ لوگ مراد ہیں جو روزہ سے سخت تکلیف اٹھاتے ہیں اور جن کی بدنی طاقت بالکل زائل ہو جاتی ہے بلکہ بعض دفعہ غشی تک نوبت پہنچ جاتی ہے جیسے بوڑھے یا دل کے مریض یا اعصابی کمزوری کے شکار یا حاملہ اور مرضعہ ۔ ایسے لوگ جو بظاہر تو بیمار نظر نہیں آتے لیکن روزے رکھنے سے بیمار ہو جاتے ہیں ان کو یہ اجازت دی گئی ہے کہ وہ روزے رکھنے کے بجائے ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ اپنی طرف سے دیدیا کریں۔ ان معنوں کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ علامہ قرطبی نے یُطِیْقُوْنَ کی ایک قرات یُطَوِّ قُوْنَ بھی بیان کی ہے۔ یعنی جو لوگ صرف مشقت سے روزہ نبھا سکتے ہیں۔ اور جن کی صحت روزے رکھنے سے غیر معمولی طور پر خراب ہو جاتی ہے وہ بیشک روزے نہ رکھیں ہاں ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ دیدیا کریں۔
میرے نزدیک چونکہ اَطَاقَ بابِ اِفعال میں سے ہے اور بابِ افعال کی ایک خاصیت یہ ہے کہ وہ سلب کے معنے دیتا ہے اس لئے وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہ‘ کے یہ معنے ہونگے کہ وہ لوگ جن کی طاقت کمزور ہو گئی ہے یعنی قریباً ضائع ہو گئی ہے وہ بیشک روزہ نہ رکھیں مگر چونکہ ان کا روزہ نہ رکھنا محض اجتہادی امر ہو گا مرض ظاہر کے نتیجہ میں نہیں ہو گا بلکہ صرف متوقع کمزوری کے نتیجہ میں ہو گا۔ اور اجتہاد میں غلطی پر پردہ ڈالنے کے لئے اگر ان کو فدیہ دینے کی طاقت ہو تو ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ ان دنوں میں دے دیا کرین تاکہ ان کی غلطی کے امکان کا کفارہ ادا ہوتا ہے۔
(۵) ایک اور معنے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھ پر کھولے ہیں وہ یہ ہیں کہ یُطِیْقُوْنَہ‘ میں ہ‘ کی ضمیر روزہ کی طرف پھرتی ہے اور مراد یہ ہے کہ وہ لوگ جن کی بیماری شدید ہے یا جن ک سفر پر مشقت ہے وہ تو بہرحال فَعِدَّۃ’‘ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ کے مطابق دوسرے ایام میں روزے رکھیں گے۔ لیکن وہ لوگ جو کسی معمولی مرض میں مبتلا ہیں یا کسی آسانی سے طے ہونے والے سفر پر نکلے ہیں اگر وہ طاقت رکھتے ہوں تو ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ بھی دے دیا کریں۔ اس وجہ سے کہ ممکن ہے انہوں نے روزہ چھوڑنے میں غلطی کی ہو۔ وہ اپنے آپ کو بیمار سمجھتے ہوں لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کی بیماری ایسی نہ ہو کہ وہ روزہ ترک کر سکیں۔ یا وہ اپنے آپ کو مسافر سمجھتے ہوں لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کا سفر سفر ہی نہ سمجھا گیا ہو۔ پس چونکہ ان کی رائے میں غلطی کا ہر وقت امکان ہے اس لئے ایسے بیماروں اور مسافروں کو چاہیے کہ ان میں سے جو لوگ روزہ کی طاقت رکھتے ہوں وہ دوسرے ایام میں فوت شدہ روزوں کو پورا کرنے کے علاوہ ایک مسکین کو کھانا بھی دے دیا کریں۔ تاکہ ان کی اس غلطی کا کفار ہو جائے۔ اور اگر یُطِیْقُوْنَہ‘ میں ہ‘ کی ضمیر کا مرجع فِدْیَۃ’‘ طَعَامُ مَسْکِیْنٍ کو ہی قرار دیا جائے۔ جیسا کہ شاہ ولی اللہ صاحبؒ نے لکھا ہے تو پھر بجائے اس کے کہ اس حکم کو صدقہ الفطر پر محمول کیا جائے۔ اس آیت کا فَمَنْ کَانَ مَنْکُمْ مَّرِ یضًا اَوْ عَلیٰ سَفَرٍ فَعِدَّۃ’‘ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ سے تعلق ہو گا اور اس کے یہ معنے ہونگے کہ اگرچہ مریض اور مسافر کو یہ اجازت ہے کہ وہ اور دنوں میں روزہ رکھ لیں لیکن ان میں سے وہ لوگ جن کو آسودگی حاصل ہو اور وہ ایک شخص کو کھانا کھلا سکتے ہوں۔ا نہیں چاہیے کہ ایک مسکین کا کھانا۔ بطور فدیہ رمضان دے دیا کریں۔ اگر طاقت نہ ہو تو پھر تو فدیہ رمضان دینے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن اگر طاقت ہو تو خواہ وہ بیمار ہوں یا مسافر انہیں ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ رمضان دینا چاہیے۔ اگر روک عارضی ہو اور وہ بعد میں دور ہو جائے روزہ تو بہر حال رکھنا ہو گا۔ فدیہ دیدینے سے روزہ اپنی ذات میں ساقط نہیں ہو جاتا بلکہ یہ محض اس بات کا فدیہ ہے کہ ان مبارک ایام میں وہ کسی جائز شرعی عذر کی بنا پر باقی مسلمانوں کے ساتھ مل کر یہ عبادت ادا نہیں کر سکے۔ آگے یہ عذر دو قسم کے ہوتے ہیں ایک عارضی اور ایک مستقل۔ فدیہ شرطِ استطاعت ان دونوں حالتوں میں دینا چاہیے۔ پھر جب عذر دور ہو جائے تو روزہ بھی رکھنا چاہیے۔ غرضیکہ خواہ کوئی فدیہ بھی دے دے۔ بہرحال سال دو سال یا تین سال کے بعد جب بھی اس کی صحت اجازت اسے پھر روزے رکھنے ہونگے۔ سوائے اس صورت کے کہ پہلے مرض عارضی تھا اور صحت ہونے کے بعد وہ ارادہ ہی کرتا رہا کہ آج رکھتا ہوں کل رکھتا ہوں کہ اس دوران میں اس کی صحت پھر مستقل طور پر خراب ہو جائے۔ باقی جو بھی کھانا کِھلانے کی طاقت رکھتا ہو اگر وہ مریض یا مسافر ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ رمضان میں ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ دے اور دوسرے ایام میں روزے رکھے یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا مذہب تھا اور آپ ہمیشہ فدیہ بھی دیتے تھے اور بعد میں روزے بھی رکھتے تھے اور اسی کی دوسروں کو تاکید فرمایا کرتے تھے۔
اس آیت میں جو اَلَّذِیْنَ کا لفظ استعمال ہوا ہے یہ دو کا بدل یعنی قائم مقام ہو سکتا ہے۔ اول ان مومنوں کا جن کا ذکریٰٓاَ یُّھَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْ اکُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِیَّامُ میں کیا گیا ہے ۔ دوم اُن لوگوں کو جن کا ذکر نَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ میں ہے ۔ اگر اسے یٰٓاَ یُّھَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ا کا بدل سمجھا جائے تو اس آیت کے یہ معنے ہو نگے کہ وہ لوگ جو ضعف کی وجہ سے روزے سے سخت تکلیف اُٹھاتے ہیں اور اپنے نفس پر بڑی مشقت برداشت کرتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ روزہ رکھنے کی بجائے ایک مسکین کا کھانا بطورفدیہ دے دیا کریں ۔اور اگر دوسرا بدل لیں تو اس کے یہ معنے ہونگے کہ وہ مریض اور مسافر جو فدیہ دینے کی طاقت رکھتے ہیں وہ فدیہ دے دیں اور پھر دوسرے دنوں میں روزے بھی رکھیں ۔کیونکہ بعض امراض ایسی ہوتی ہیں یا بعض سفر ایسے ہوتے ہیں جن میں یہ اشتباہ ہوتا ہے کہ آیا اس میں روزہ ترک کیا جا سکتا ہے یا نہیں ! حدیث میں آیا ہے کہ مشکوک اشیاء میں بھی محارم ہی کے نیچے ہوتی ہیں ۔کیونکہ جو مشکوک تک پہنچتا ہے وہ آہستہ آہستہ محارم تک بھی پہنچ جاتا ہے ۔ پس اگر یہ دونوں باتیں مشکوک ہوں تو ایسے مسافر اورمریض کو چاہیے کہ فدیہ دے دے اور رخصت سے فائدہ اٹھائے اور بعد میں روزے بھی رکھ لے ۔ اس میں ایسی بیماری والا جس کی بیماری مشتبہ ہو یا ایسا سفر والا جس کا سفر مشتبہ ہو مراد ہیں ۔ان میں سے جو لوگ طاقت رکھتے ہوں اُن پر فدیہ دینا لازم ہے ۔
شَھْررَمَضَانَ

فَعِدَّۃُٗ
کیونکہ ممکن ہے انہوں نے اپنے اجتہاد میں غلطی کی ہو ۔ اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہی مذہب تھا کہ ایسے لوگ دوسرے ایام میں روزہ رکھیں ۔ اور رمضان کے دنوں میں فدیہ دیں ۔
پھر فرماتا ہے ۔ فَمَنْ تَطَوَّ َع خَیْرً افَھُوَ خَیْرُٗ لَّہٗ جو شخص پوری بشاشت اور شوق کے ساتھ نیکی کا کوئی کام کرتا ہے تو خواہ وہ ابتداء میں تکلف کے ساتھ ہی ایسا کرے اور اسے اپنے نفس پر ایک رنگ میں بوجھ ہی محسوس ہو تب بھی اس کا نتیجہ اس کے لئے اچھا نکلیگا ۔ یعنی وہ نیکی اس کے لئے بہترین نتائج پیدا کرنے والی ثابت ہو گی ۔ عربی زبان میں تَطَوُّع کا لفظ اُس وقت استعمال ہوتا ہے جب اپنے نفس پر بوجھ ڈال کر کسی حکم کی اطاعت کی جائے ۔ اور تکلف سے بشاشت کا اظہار کیا جائے ۔پس فَمَنْ تَطَوَّ َع خَیْرً افَھُوَ خَیْرُٗ لَّہمیں اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جو شخص پورے شعر صدر کے ساتھ کسی نیکی میں حصہ نہ لے سکے اُسے چاہیے کہ کم از کم اپنے نفس پر بوجھ ڈالتے ہوئے ہی اس میں حصہ لے اور اپنے چہرہ پر تکلف سے بشاشت پیداکرے اس کا نتیجہ یہ وہ گا کہ اللہ تعالیٰ اس کیلئے خیر اوربرکت کے رستے کھول دیگا ۔یعنی نیکیوں میں ترقی کرتے کرتے اُسے ایسا مقام میسر آجائیگا کہ نیکی اس کی غذابن جائیگی اور تحریکات پر عمل اس کیلئے ایسا ہی آسان ہو جائیگا جیسے اعلیٰ درجہ کے مومنوں کیلئے آسان ہوتاہے ۔ لیکن اس کے علاوہ تَطَوُّعکے معنے محاورہ میں غیر واجب کا م کے نفلی طور پر کرنے کے بھی ہوتے ہیں ۔ اور امام راغب نے اپنی مشہور کتاب مفردات میں اس کی تصریح کی ہے ۔ اس لحاظ سے اس آیت کے یہ معنے ہونگے ۔ کہ جو شخص نفلی طور پر کوئی نیک کام کرے گا تو یہ اس کیلئے بہت بہتر ہو گا ۔یعنی رمضان میں روزے رکھنے یا ایک مسکین کو کھانا کھلانے کا حکم تو ہم نے دے دیا ہے لیکن اگر کوئی شخص ثواب کی نیت سے اس میں کوئی زیادتی کرنا ہے و اسے اس کا اختیار ہے ۔ مثلاً وہ اختیار رکھتا ہے کہ ایک کی بجائے دو مساکین کا کھانا بطور فدیہ دے دے ۔ یا وہ اختیار رکھتا ہے کہ روزہ بھی رکھے اور حصول ثواب کیلئے ایک مسکین کو کھانا بھی کھلاتا رہے ۔ یا رمضان کے روزوں کے علاوہ نفلی طور پر دوسرے ایام میں بھی روزے رکھے ۔ یہ سب حصول ثواب کے ذرائع ہیںجن میں ہر مومن اپنی اپنی طاقت کے مطابق حصہ لے کراللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکتا ہے ۔
پھر فرمایا ۔وَاَنْ تَصُوْمُوْاخَیْرُٗ لَکُمْ ۔ اس کے بعد لوگ یہ معنے کرتے ہیں ۔ کہ اگر تم روزہ رکھو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے ۔ مگر یہ صحیح نہیں ۔اگر یہ معنے ہوتے تواِنْ تَصُوْمُوْا کہناچاہیئے تھا۔نہ کہ َاَنْ تَصُوْمُوْا۔اس کے صحیح معنے یہ ہیں کہ اگر تم علم رکھتے ہوتو سمجھ سکتے ہو کہ روزہ رکھنا تمہارے لئے بہر حال بہتر ہے ۔ یعنی ہم نے جس حکم کیلئے یہ تمہید اُٹھائی ہے ۔ وہ کوئی حصول حکم نہیں بلکہ ایک غیر معملی خیر اور برکت رکھنے والا حکم ہے ۔ اس لئے تمہارا فرض ہے کہ تم اسے پوری توجہ سے سُنو اور اس پر عمل کرو۔
مِّنْ اَیَّامِ
تَشْکُرُوْنَo
۹۹؎ حل لغات:۔ ھُدًی:یہ مصدر ہے اور فاعل کے معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔ یعنی لوگوں کو ہدایت دینے والا (مزید تشریح کیلئے دیکھیں حل لغات سورہ بقرۃ ۳؎)
بَیِّنَاتٍ۔ جمع ہے اس کا مفرد اَلْبَیِّنَۃُ ہے ۔جس کے معنے ہیں اَلدَّلَالَۃُ الْوَاضِحَۃُ عَقَلِیَّۃً کَانُتْ اَوْ مَحْسُوْسَۃً یعنی واضح دلیل خواہ وہ عقلی ہو یا حس سے تعلق رکھتی ہو۔(مفردات)
تفسیر:۔ رمضان کا مہینہ ان مقدس ایما کی یاد دلاتا ہے جن میں قرآن کریم جیسی کامل کتاب کا دنیا میں نزول ہوا۔ ہو مبارک دن ۔وہ نیا کی سعادت کی ابتداء کے دن ۔ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اُسکی برکت کے دروازے کھولنے والے دن جب دنیا کی گھناونی شکل اس کے بد صورت چہرے اور اس کے اذیت پہنچانے والے اعمال سے تنگ آکر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غار حڑا میں جا کر اور دنیا سے منہ موڑ کر اور اپنے عزیز و اقارب کو چھوڑ کر صرف اپنے خدا کی یاد میں مصروف رہا کرتے تھے اور خیال کرتے ھتے کہ دنیا سے اس طرح بھاگ کر وہ اپنے فرض کو ادا کرینگے جسے ادا کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا کیا ہے۔ انہی تنہائی کی گھڑیوں میں انہی خدائی کے اوقات میں انہی غور وفکر کی ساعات میں رمضان کا مہینہ آپ پر آگیا ۔ اور جہاں تک معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے چوبیسویں رمضان کو ہو جو دنیا کو چھوڑ کر علیحدگی میں چلا گیا تھا اسے اس کے پیدا کرنے والے اُس کی تربیت کرنے والے اُس کو تعلیم دینے والے اور اس سے محبت کرنے والے خدا نے حکم دیا کہ جاؤ اور جا کر دنیا کو ہدایت کا راستہ دکھاؤ۔ اور بتایا کہ تم مجھے تنہائی میں اور غار حرا میں ڈھونڈتے ہو مگر میں تمہیں مکہ کی گلیوں اور ان کے شووروشغب میں ملوں گا۔ جاؤ اور اپنی قوم کو پیغام پہنچا دو کہ میں نے تم کو ادنیٰ حالت میں پیدا کر کے اور پھر ترقی دے کر اس لئے دنیا میں نہیں بھیجا کہ کھاؤ پیو اور مر جاؤ اور کوئی سوال تم سے نہ کیا جائے ۔
آپ اس آواز کو سن کر حیران رہ گئے ۔ آپ نے جبرائیل کو حیرت سے دیکھ کر کہا کہ ماانا بقاری ء ۔میں تو پڑھنا نہیں جناتا ۔یعنی اس قسم کا پیغام مجھے عجیب معلوم ہوتا ہے ۔ کیا یہ الفاظ میرے منہ سے مکہ والوں کے سامنے زیب دینگے ۔ کیا میری قوم ان کو قبول کرے گی اور سُنے گی ۔ مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو متواتر حکم دیا گیا کہ جاؤ اور پڑھو۔ جاؤاور پڑھو ۔جاؤاور پڑھو۔تب آپ نے اس آواز پر اس ارشاد کی تعمیل میں تنہائی کو چھوڑا اور جلوت اختیار کی ۔مگر وہ کیسی مجلس تھی ۔ وہ ایسی نہ تھی کہ جس میں ایک دوست بیٹھ کر دوسرے دوست کے سامنے اپنے شکوے بیان کرتا ہے ۔ ۔وہ ایسی مجلس نہ تھی جس میں دوست اپنے دوست کے خوش کر نیووالے حالات سنتا اور اس سے لطف اٹھاتا ہے ۔ وہ ایسی مجلس نہ تھی جس میں انسان اپنی ذہنی کوفت اور تھکان دور کرتا ہے ۔وہ قصوں کہانیوں والی مجلس نہ تھی ۔شعروشاعری کی مجلس نہ تھی ۔وہ ایسی مجلس نہ تھی جس میں مباغثات اور مناظرات ہوتے ہیں ۔ بلکہ وہ جلس ایسی تھی جس میں ایک طرف سے متواتر اور پیہم اخلاص کا اظہار ہوتا تھا تو دوسری طرف سے متواتر اور پیہم گالیاں ۔دُشنام ۔ڈراوے اور دھمکیاں ملتی تھیں ۔ وہ ایسی مجلس تھی جس میں ایک دفعہ جانے کے بعد دوسارے دن جانے کی خواہش باقی رہتی ۔وہ ایسی گالیٓں اور ایسے ارادے اور ایسی دھمکیاں ہوتی تھیں کہ ایک طرف اُن کے دینے والے سمجھتے تھے کہ اگر اس شخص میں کوئی حس باقی ہے تو کل اس منہ سے ایسی بات ہرگز نہیں نکلے گی ۔ وہ خوش ہوتے تھے کہ آج ہم نے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی زبان بند کر دی اوردوسری طرف جب خدا تعالیٰ کا سورج چڑھتا تو خداتعالیٰ کا یہ عاشق صادق خدا تعالیٰ کا پیغام مکہ والوں کو پہنچانے کے لیئے پھر نکل کھڑا ہوتا۔پھر تمام دن وہی گالیاں وہی دھمکیاں اور وہی ڈراوے ہوتے تھے اور اسی میں شام ہو جاتی ۔مگر جب رات کا پردہ ھائل ہوتا تو وہ سمجھتے کہ شاید آج یہ خاموش ہو گیا ہو گا۔مر وہ جس کے کانوں میں خدائی آواز گونج رہی تھی ۔ وہ مکہ والوں سے دب کر کیسے خاموش ہو جاتا اگر تو اس کی رات سوتے گزرتی ت وبے شک اس پیغٓم کو بھول جاتا ۔ مگر جب اُس کے سونے کی حالت جاگنے ہی کی ہوتی تو وہ کیسے بھول سکتا تھا ۔وہ سبق جو دوہرایا نہ جائے بیشک بھول سکتا ہے ۔ مگر جب آپ کی یہ حالت تھی کہ جو نہی سرہانے پر سر رکھا وہی اِقْرَئْ کی آواز آنی شروع ہو جاتی تو آپ کس طرح اس پیغام کو بھول جاتے ۔ پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو رمضان ہی میں یہ آواز آئی اور رمضان ہی میں آپ نے غار حرا سے باہر نکل کر لوگوں کو یہ تعلیم سنانی شروع کی ۔اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔
شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ اْلقُرْاٰنُ یعنی رمضان کہ مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اُترا۔ دوسری جگہ آتا ہے اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ وَمَآ اَدْرٰکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ ۔یعنی قرآن لیلۃ القدر میں اُترا گیا ہے ۔
رَمَضَان رَمَض سے نکلا ہے ۔جس کے معنے عربی زبان میں جلن اور سوزش کے ہیں ۔ خواہ وہ جلن دھوپ کی ہو خواہ بیماری کی ۔ اس لئے رَمَضَان کا مطلب یہ ہوا کہ ایسا موسم جس میں سختی کے اوقات اور ایام ہوں ۔ اور اِدھر فرمایا ۔ہم نے اسے رات کو اتارا ہے اور رات تاریکی اور مصیبت پر دلالت کرتی ہے ۔ پس ان دونوں آیتوں میں یہ بتایا گیا ہے ۔ کہ الہام کا نزول تکالیف اور مصائب کے ایام میں ہوا کرتاہے ۔ جب تک کوئی قوم مصائب اور شدائد سے دوچار نہیں ہوتی ۔جب تک اُس کے دن راتیں نہیں بن جاتے جب تک وہ بھوک اور پیاس کی شدت سے تکلیف نہیں اُٹھاتی اُس وقت تک خدا تعالیٰ کا کلام اُس پر نازل نہیں ہوسکتا۔ اور اس ماہ کے انتخاب میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہی بتایا ہے کہ اگر تم اپنے اوپر الہام الٰہی کا دروازہ کھولنا چاہتے ہوں تو ضروری ہے کہ تکالیف اور مصائب میں سے گذرو اِس کے بغیر الہام الٰہی کی نعمت تمہیں میسر نہیں آسکتی ۔ پس رمضان کلام الٰہی کو یاد کرانے کا مہینہ ہے ۔ اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ اس مہینہ میں قرآن کریم کی تلاوت زیادہ کرنی چاہیے ۔ اور اسی وجہ سے ہم بھی اس مہینہ میں درس قرآن کا انتظام کرتے ہیں۔ دوستوں کو چاہیے کہ اس مہینہ میں زیادہ سے زیادہ تلاوت کیا کریں اور قرآن کریم کے معانی پر غور کیا کریں تاکہ اُن کے اندر قربانی کی روح پیدا ہو جس کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی ۔ بہر حال یہ مہینہ بتاتا ہے کہ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ دنیا فتح کرے اُس کیلئے ضروری ہے کہ وہ غار حرا کی علیحدگیوں میں جائے ۔ دنیا چھوڑے بغیر نہیں مل سکتی ہے ۔ پہلے اس سے علیحدگی اختیار کرنی ضروری ہوتی ہے ۔ اس کے ملنے کا بیشک یہی طریق ہے کہ اپنے آپ کو دنیا کیلئے وقف کر دیا جائے۔ لیکن جو شخص خدا تعالیٰ کیلئے کا ہو کر اس پر قبضہ کرنا چاہے وہ اُسی صورت میں کر سکیگا جب اُسے چھوڑ دیگا دیکھو ۔ابوجہل نے دنیا کیلئے کوشش کی اور اُسے حاسل کیا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے چھوڑدیا اور پھر بھی وہ آپ کی مل گئی ۔ بلکہ ابو جہل سے زیادہ ملی۔ابوجہل زیادہ سے زیادہ مکہ کا ایک رئیس تھا ۔مگر آپ اپنی زندگی میں ہی سارے عرب کے بادشاہ ہو گئے اور آج ساری دنیا کے شہنشاہ ہیں۔ غرض جو دنیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی وہ ابو جہل کو کہاں حاصل ہوئی ۔ مگر ابو جہل کو جو کچھ حاصل ہوا وہ دنیا کمانے سے ملا لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کچھ ملا وہ دنیا چھوڑنے سے ملا ۔ پس روحانی جماعتوں کو دنیا چھوڑ دینے سے ملتی ہے ۔ اور دنیوی لوگوں کو دنیا کمانے سے لمتی ہے ۔ اور رمضان ہمیں توجہ دلاتا ہے کہ اگر تم اپنے مقصد میں کامیاب ہونا چاہتے ہو تو ضروری ہے کہ پہلے شدائد اور مصائب قبول کرو۔ راتوں کی تاریکیاں قبول کرو۔ اور ان چیزوں سے مت گھبراو ٔ ۔کیونکہ یہی قربانیاں تمہاری کامیابی کا ذریعہ ہیں۔
غرض رمضان ایک خاص اہمیت رکھنے والا مہینہ ہے ۔ اور جس شخص کے دل میں اسلام اور ایمان کی قدر ہوتی ہے ۔ وہ اس مہینہ کے آتے ہی اپنے دل میں ایک خاص حرکت اور اپنے جسم میں ایک خاص قسم کی کپکپاہٹ محسوس کلئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کتنی ہی صدیاں ہمارے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ سولم کے درمیان گذر جائیں ۔ کتنے ہی سال ہمیں اور انکو آپس میں جدا کرتے چلے جائیں کتنے ہی دنوں کا فاصلہ ہم میں اور ان میں حائل ہو تا چلا جائے لیکن جس وقت رمضان کا مہینہ آتا ہے تو یوں معلوم وہتا ہے کہ ان صدیوں اور سالوں کو اس مہینہ نے لپیٹ لپاٹ کر چھوڑتا سا کر کے رکھ دیا ہے ۔ اور ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ گئے ہیں ۔ بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی قریب نہیں چونکہ قرآن خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے اس لئے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس تمام فاصلہ کو رمضان نے سیمٹ سماٹ کر ہمیں خدا تعالیٰ کے قریب پہنچا دیا ہے ۔ وہ بُعد جو ایک انسان کو خدا تعالیٰ سے ہوتا ہے ۔ اور بُعد جو ایک مخلوق کو اپنے خالق سے ہوتا ہے ۔ وہ بُعد جو ایک کمزور اور نالائق ہستی کو زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے خڈا سے ہوتا ہے وہ یوں سمٹ جاتا ہے وہ یو مٹ جاتا ہے وہ یوں غائب ہو جاتا ہے جیسے سورج کی کرنوں سے رات کا اندھیرا ۔یہی وہ حالت ہے جسکے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ۔ اِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِ نِّیْ قَرِیْبُٗ ۔ جب رمضان کا مہینہ آئے۔اور میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں کہ میں انیہں کس طرح مل سکتا ہوں تو تُو انہیں کہدے کہ رمضان اور خدا میں کوئی فرق نہیں ۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں خدا اپنے بندوں کیلئے ظٓہر ہوا۔ اور اُس نے چاہا کہ پھر اپنے بندوں کو اپنے پاس کھینچ کر لے آئے ۔ اس کلام کے ذریعہ جو حبل اللہ ہے ۔ جو خدا کا دہ رسہ ہے جس کا ایک سِرا خدا کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا مخلوق کے ہاتھ میں اب یہ بندوں کا کام ہے کہ وہ اس رسہ پر چڑھ کر خدا تک پہنچ جائیں ۔
اب میں بتاتا ہوں کہشَھْرُرَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ اْلقُرْاٰنُ کے تین معنے ہو سکتے ہیں ۔
اول اس جگہ فی تعلیلیہ ہے اور آیت کے معنے یہ ہیں کہ رمضان کا مہینہ وہ ہے جس کے بارہ میں قرآن کریم اتارا گیا ہے ۔ یعنی رمضان المبارک کے روزوں کی اس قدر اہمیت ہے کہ ان کے بارہ میں قرآن کریم میں خاص طور پر احکام نازل کئے گئے ہیں۔ اور جس حکم کے بارہ میں قرآنی وحی نازل ہو اُس کے متعلق ہر شخص اندازہ لگا سکتا ہے کہ وہ کتنا اہم اور ضروری ہو گا۔ فی کے یہ معنے لغت سے بھی ثابت ہیں ۔چنانچہ عربی زبان میں کہتے ہیں تَکلَّمْتَ مَعَکَ فِیْ ھٰذَالْاَ مْرِ میں نے تجھ سے اس امر کے متعلق گفتگو کی ۔ اسی طرح قرآن کریم میں بھی اس کی مثال پائی جاتی ہے ۔ سورۃ یوسف میں اِمْرَ أۃُ الْعَزِیْز کے متعلق آتا ہے کہ اُس نے کہا فَدٰلِکُنَّ الَّذِیْ لُمْتَّنِیْ فِیْہِ (یوسف آیت ۳۳)یہ وہ شخص ہے جس کے بارہ میں تم نے مجھے ملامت کی ہے ۔ اسی طرح حدیث میں آتاہے ۔ عُذِّبَتْ اِمْرَ رائَ ۃٗ فِیْ عِرَّۃٍ حَبَسَتْھَا( بخاری جلد ۲ کتاب المساقاۃ) ایک عورت کو ایک بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا کیونکہ اُس نے اُسے بغیر کھلائے پلائے باندھ دیا تھا یہاں تک کہ وہ مر گئی ۔
دوسرے معنے یہ ہیں کہ رمضان ایسا مہینہ ہے جس میں قرآن کریم کے نزول کا آغاز ہوا ۔چنانچہ حدیثوں سے صاف طور پر ثابت ہے کہ قرآن کریم کا نزول رمضان کے مہینہ میں شروع ہوا۔ اور گو تاریخ کی تعیین میں اختلاف ہے لیکن محدثین عام طورپر ۲۴ تاریخ کی روایت کو مقدم بتاتے ہیں ۔ چنانچہ علامہ ابن حجر عسقلانی اور علامہ زرقانی دونوں نے اس روایت کو ترجیح دی ہے کہ قرآن کریم رمضان کی ۲۴ تاریخ کو اُترنا شروع ہوا تھا ۔(زرقانی شرح مواہب للدنیہ جلد اول صفحہ ۲۰۷وبحر محیط جلد ۲ صفحہ ۳۹)
تیسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ رمضان میں پورا قرآن اتارا گیاس ۔ جیسے احادیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں حضرت رضی اللہ عنہا سے فرمایا ۔اِنَّ جِبْرِیْلَ کَانَ یُعَارِ ضَنِیَ اْلقُرْاٰنَ فِیْ کُلِّ سَنَۃٍ مَرَّۃً وَ اِنَّہٗ عَارَ ضُنِیَ الْاٰنَ مَرَّ تَیْنِ (زرقانی شرح مواہب اللدنیہ جلد ۸ صفحہ ۲۵۰،صفحہ ۲۶۳)یعنی جبریل ہر سال رمضان کے مہینہ میں تمام قرآن کریم کا میرے ساتھ ایک دفعہ دور کیا کرتے تھے۔ مگر اس سال انہوں نے دو دفعہ دور کیا ہے جس سے میں سمجھتا ہوں کہ اب میری وفات کا وقت قریب ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں بھی قرآن نازل ہوا ہے مگر رمضان المبارک کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں جس حد تک قرآن کریم نازل ہو چکا ہوتا تھا جبریل اس کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر دور کیا کرتے تھے۔ گویا دوسرے الفاظ میں دوبارہ تمام قرآن کریم آپ پر نازل کیا جاتا۔ بخاری کتاب بدر الوحی میں بھی یہی مضمون بیان کیا گیا ہے ۔ چنانچہ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَجْوَدُ النَّاسِ وَکَانَ اَجْوَ دَ مَایِکُوْنُ فِیْ کُلٍّ لَیْلَۃٍ مِنْ رَمَضَانَ فَیْدَ ارِسُہُ الْقُرْاٰنَ فَلَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَجْوَدُ اِالْخَیْرِ مِنَ الرِّیْحِ الْمُرْسَلَۃِ۔ یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام لوگوں سے بڑھ کر سخی تھے اور زیادہ ترسخاوت آپ رمضان میں فرمایا کرتے تھے جبکہ جبریل آپ سے ملتے تھے۔ اور جبریل رمضان کے مہینہ میں ہررات آپ سے ملا کرتے تھے اور تمام قرآن کریم کا آپ کے ساتھ مل کر دور کیا کرتے تھے اُن دنوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بارش لانے والی ہوا سے بھی اپنے جود وکریم میں بڑھ جاتے تھے۔
ان حوالجات سے ثابت ہے کہ ابتدائے نزولِ قرآن میں رمضان کے مہینہ میںہوا اور پھر ہر رمضان میں جتنا قرآن اس وقت تک نازل ہو چکا ہوتا تھا جبریل دوبارہ نازل ہو کر اسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مل کر دوہراتے تھے۔ اس روایت کو مدنظر رکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ سارا قرآن کریم ہی رمضان میں نازل ہوا۔ بلکہ کئی حصے متعدد بار نازل ہوئے یہاں تک کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبعوث ہونے کے بعد اگر ۲۳ رمضان آئے تو بعض آیات ایسی تھیں جو ۲۳ بار نازل ہوئیں بعض ۲۲ بار نازل ہوئیں ۔ بعض ۲۱ بار اور بعض ۲۰ بار۔ اسی طرح جو آیات آخری سال نازل ہوئی وہ بھی دو دفعہ دہرائی گئیں۔ کیونکہ جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ آپ کی حیاتِ طیبہ کے آخری سال میں جبریل علیہ السلام نے دو دفعہ قرآن کریم آپ کے ساتھ دہرایا اور یہ بات قرآن کریم سے ثابت ہے کہ ملائکہ جو بھی کام کرتے ہیں وہ خداتعالیٰ کے حکم سے کرتے ہیں۔ اس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کہ جبریل علیہ السلام کا رمضان میں آپ کے ساتھ مل کر قرآن کریم کا دور کرنا نزول نہیں کہلا سکتا کیونکہ فرشتہ اُترتا ہی اسی وقت ہے جب اللہ تعالیٰ کا حکم ہو اور اسلامی زبان میں اس کے لئے نزول کی اصلاح ہی استعمال ہوتی ہے۔ پس اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُراٰنَ سے ایک یہ معنے بھی ہیں کہ اس مہینہ میں تمام قرآن کا نزول ہوا۔
یہ امر بھی یاد رکھنا چاہیے کہ رمضان اسلامی نام ہے اس مہینے کا پہلا نام زمانہ جاہلیت میں نائق ہوا کرتا تھا(فتح البیان)۔
ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی۔ چونکہ ھُدًی اور بِیِّنَاتٍ دونوں قرآن کریم کا حال ہیں۔ اس لئے اس کے معنے یہ ہوئے کہ یہ قرآن ایسا ہے کہ اول تو وہ ھُدًی ہے یعنی لوگوں کے لئے ہدایت کا موجب ہے دوم اس میں ہدایت کے دلائل ہیں یعنی وہ یونہی لوگوں کو نہیں کہتا کہ ایسا کرو اور ایسا نہ کرو بلکہ وہ دلائل بھی دیتا ہے ۔ اور لِلنَّاسِ کا لفظ رکھ کر بتایا کہ یہ تمام دنیا کے لوگوں کے لئے ہدایت کا موجب ہے صرف بعض لوگوں کے لئے نہیں۔ وَلْفُرْقَانَ اور پھر اس میں ایسے دلائل بھی جو حق اور باطل میں امتیاز کردیتے ہیں۔
فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ میں بتایا کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ رمضان کا مبارک مہینہ نصیب کرے اور وہ ان دنوں میں سفر میں بھی نہ ہو اور اس کی صحت بھی اچھی ہو اُسے چاہیے کہ وہ پورے مہینہ کے مسلسل روزے رکھے اور اپنے لئے خیر اور برکت کے زیادہ سے زیادہ سامان جمع کرے اور ان مبارک ایام کو سستی اور غفلت میں ضائع نہ کرے۔
پھر فرماتا ہے ۔یُرِیْدُ اللّٰہَ بِکُمُ الْئُسْرَ وَلَا ئُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ۔ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے تنگی نہیں چاہتا۔ یعنی ہم نے رمضان میں روزے اس لئے مقرر کئے ہیں کہ ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ تم ایمان لائو اور پھر اپنی زندگی تنگیوں میں بسر کرو۔ حالانکہ بظاہر یہ دکھائی دیتا ہے کہ ان دنوں مومنوں کو اپنے نفس پر زیادہ تنگی برداشت کرنی پڑتی ہے۔ درحقیقت اس آیت میں عظیم الشان نکتہ بتایا گیا ہے کہ خداعتالیٰ کے لئے بھوکا رہنا یا دین کے لیے قربانیاں کرنا انسان کے لئے کسی نقصان کا موجب نہیں بلکہ سراسر فائدہ کا باعث ہوتا ہے۔ جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ رمضان میں انسان بھوکا رہتا ہے وہ قرآن کریم کی تکذیب کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم بھوکے تھے ہم نے رمضان قرر کیاتاکہ تم روٹی کھائو۔ پس معلوم ہوا کہ روٹی وہی ہے جو خدا کھلاتا ہے اور اصل زندگی اسی سے وابستی ہے کہ انسان خدا کے لئے قربانی کر اور پھر جو کچھ ملے اسے خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوا کھائے۔ اس کے سوا جو روٹی ہے وہ دراصل کھانے والے کے لئے روحانی ہلاکت کا موجب ہوتی ہے۔ پس مومن کا فرض ہے کہ جو لقمہ بھی اس کے مونہہ میں جائے اس کے متعلق پہلے دیکھ لے کہ وہ کس کے لئے ہے اگر تو وہ خدا کے لئے ہے تو وہی روٹی ہے اور اگر نفس کے لئے ہے تو وہ روٹی نہیں بلکہ پتھر ہیں۔ اسی طرح جو کپڑا خدا کے لئے پہنا جائے وہی لباس ہے اور جو نفس کے لئے پہنتا ہے وہ ننگا ہے۔ دیکھو کیسے لطیف پیرا یہ میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ جب تک تم خدا کے لئے تکالیف اور مصائب برادشت نہ کرو تم کبھی سہولت حاصل نہیں کر سکتے۔ اس سے ان لوگوں کے خیال کا بھی ابطال ہو جاتا ہے جو بقول حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام رمضان کو موٹے ہونے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ بعض لوگوں کے لئے رمضان ایسا ہی ہوتا ہے جیسے گھوڑے کے لئے خوید۔ وہ ان دنوں خوب گھی مٹھائیاں اور مرغن اغذیہ کھاتے ہیں اور اس طرح موٹے ہو کر نکلتے ہیں جس طرح خوید کے بعد گھوڑا۔ یہ چیز بھی رمضان کی برکت کو کم کرنے والی ہے۔ اسی طرح افطاری میں تنوع اور سحری میں تکلفات بھی نہیں ہونے چاہیں اور یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ سارا دن بھوکے رہے ہیں اب پر خوری کر لیں ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں صحابہ کرام ؓ افطاری کے لئے کوئی تکلفات نہ کرتے تھے۔ کوئی کھجور سے کوئی نمک سے بعض پانی سے اور بعض روٹی سے افطار کر لیتے تھے۔ ہمارے لئے بھی ضروری ہے کہ ہم اس طریق کو پھر جاری کریں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہؓ کے نمونہ کو زندہ کریں۔
پھر فرماتا ہے وَلِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کرو۔ مفسرین نے اس کے یہ معنے کئے ہیں اور میں خود بھی کبھی کبھی یہ معنے کیا کرتا ہوں کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مہینہ بھر کے روزے مقرر کرنے کی وجہ بتائی ہے۔ اور فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رمضان کا مہینہ اس لئے مقرر کیا ہے تا دن پورے ہوجائیں ۔ اگر یونہی حکم دے دیتا کہ روزے رکھو تو کوئی دس رکھ لیتا کوئی بیس رکھ لیتا اور کوئی رکھتا ہی چلا جاتا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ایک مہینہ مقرر کر دیا تاکہ روحانی تکمیل کے لئے جس مدت کی ضرورت ہے اس کو تم پورا کر لو۔ یہ معنے بھی اپنی جگہ درست ہیں مگر اس کا ایک یہ مطلب بھی ہے کہ اصل زندگی انسان کی وہی ہے جو نیکی میں گذرے عمر کا وہ حصہ جو دنیا کے لئے گذر جاتا ہے ضائع چلا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے اس کے یہ معنے ہیں کہ ہم نے روزے اس لئے رکھے ہیں تاکہ تم اپنی حقیقی عمر پوری کر لو۔ جو لوگ دنیا حاصل کرنے میں ہی مصروف رہتے ہیں وہ قرآنی اصطلاح کے مطابق زندہ نہیں بلکہ مردہ ہوتے ہیں۔ اور مَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاَخِرَۃِ اَعْمَی۔ کے مطابق جو اس دنیا میں اندھا ہے وہ اگلے جہاں میں بھی اندھا ہی ہو گاپس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ کہ ہم نے روزے اس لئے مقرر کئے ہیں تا تم دنیا میں اپنی مقررہ عمر گذار لو چونکہ بنی نوع انسان کے لئے کھانا پینا لازمی ہے۔ اس لئے سارا سال تو روزے نہیں رکھے جا سکتے تھے اللہ تعالیٰ نے اس اصل کے مطابق کہ ایک نیکی کا ثواب کم سے کم دس گنا ملتا ہے ایک ماہ کے روزے مقرر کر دیئے اور اس طرح رمضان سارے سال کے روزوں کا قائم مقام ہو گیا۔گویا جس نے اس مہینہ میں روزے رکھ لئے اس نے سارے سال کے روزے رکھ لئے اور اس طرح اس کی زندگی واقعی زندگی ہو گئی۔
پھر فرماتا ہے وَلِتُکَبِّرُ و اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰ لکُمْ۔ یہ روزے اس لئے مقرر کئے گئے ہیں کہ تم اس بات پر اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تم کو ہدایت دی ہے۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزوں کی فضیلت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایاتھا شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُراٰنَ کہ رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے۔ اب ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے شَھْر کے مقابلہ میں وَلِتُکْمِلُواالْعِدَّۃَ کے الفاظ رکھ دیئے۔ اور بتایا کہ اگر ہم ایک مہینہ مقرر نہ کرتے تو کوئی کم روزے رکھتا اور کوئی زیادہ اور اس طرح وہ روحانی ترقی جو مہینہ بھر کے روزوں کے نتیجہ میں حاصل ہو سکتی ہے اسے وہ حاصل نہ کر سکتے۔
اس کے بعد اُنْزِل فِیْہِ الْقُرْاٰنَ کے مقابلہ میں وَ لِتُکَبِّرُوْ االلّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰ لکُمْ کے الفاظ رکھ کر بتایا کہ ہم نے کوئی اور مہینہ اس لئے مقرر نہیں کیا کہ نزول ِ قرآن کو یاد کر کے اس ماہ میں تمہارے دل میں خاص جوش پیدا ہو سکتا ہے۔ جب رمضان کا مہینہ آئیگا تو لازماً تمہیں یہ خیال بھی آئیگا کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں ہم پر خداتعالیٰ کا ایک بہت بڑا فضل قرآن کریم جیسی مقدس کتاب کی شکل میں نازل ہوا ہے اور تمہارا دل خود بخود اس مہینہ میں خداتعالیٰ کی بڑائی بیان کرنے کی طرف متوجہ ہو جائیگا۔
پھروَ لِتُکَبِّرُوْ االلّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰ لکُمْ میں اس امر کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ یہ دن اس لئے ہیں کہ تا اللہ تعالیی کی ہدایت پر تم اس کی تکبیر کرو یہ نہیں کہ تم شکوہ کرو کہ ہمیںبھوکا رکھا۔ بلکہ یہ سمجھو کہ بڑا احسان کیا کہ روزہ جیسی نعمت ہمیں عطا کی۔ یہاں مومن کا نقطہ نگاہ واضح کیا گیا ہے کہ اسے قربانی کا جو مو قعہ بھی ملے وہ اسے اللہ تعالیٰ کا فضل سمجھتا ہے۔ اور جس قوم کا یہ نقطہ نگاہ ہو جائے۔ اسے کوئی تباہ نہیں کر سکتا۔ وہ ضرور کامیاب ہو کر رہتی ہے۔ ایسی قوم حقیقی معنوں میں زندہ قوم ہو جاتی ہے۔ جب ایک شخص کے دل میں یہ خیال ہو کہ مجھ پر جو دینی ذمہ داریاں ہیں وہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی بڑائی کرے گا۔ اور جو شخص خداتعالیٰ کی بڑائی کرے خداتعالیٰ اس ی بڑائی کرتا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ تمہیں جو کوئی تحفہ دے تم اسے اس سے بہتر تحفہ دو۔ اور جب ہمیں یہ حکم دیاگیا ہے تو کیونکر ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خود ایسا نہ کرے۔ انسان اس کی خدمت میں تحفہ پیش کرے اور وہ اس سے بہتر تحفہ اسے نہ دے۔ پس جو شخص خداتعالیٰ کی بڑائی کرتا ہے خداتعالیٰ اس کی بڑائی کرتا ہے۔ مگر شرط یہی ہے کہ تکبیر صرف منہ سے نہ ہو ۔ جس تکبیر سے وہ خوش ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ گالیاں کھائو۔ ماریں کھائو۔ پتھر کھائو اور پھر بھی خداتعالیٰ کی تکبیر کرو کہ اس نے ہمیں یہ مواقع عطا کئے ہیں۔ گویا حقیقی تکبیر یہی ہے کہ جتنا زیادہ ظلم ہو اتنا ہی زیادہ انسان خداتعالیٰ کی طرف جھکے اور کہے کہ مجھ پر اس کے کتنے احسان ہو رہے ہیں جب اس پر کوئی مصیبت نازل ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کی تکبیر کرے اور اس کی بڑائی بیان کرے ایسے شخص کی تکبیر کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ یقییناً اس کو بڑھاتا ہے اور اس کی بڑائی کے سامان پیدا کرتا ہے۔ ورنہ صرف مُنہ کی تکبیر یں اس کے کسی کام نہیں آسکتیں۔
اس کے بعد فرمایا ولَعَلَّلُمْ تَشْکُرُوْنَ۔ یہ روزے ہم نے اس لئے مقرر کئے ہیں تاکہ تم اس کے شکر گذار بنو۔ یہ الفاظ اللہ تعالیٰ نے وَمَنْ کَانَ مَرِیْضاً اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃ’‘ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ کے مقابل میں رکھ کر اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ یہ سہولت ہم نے اس لئے رکھی ہے کہ تم شکر گذار بنو کہ خداتعالیٰ نے مدارجِ عالیہ کے حصول کے لئے ہمارے لئے کس قدر سہولتیں رکھ دی ہیں اور تمہاری جبینِ نیاز ہمیشہ اس کے حضور جھکی رہے۔
غرض ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے تین احکام دیئے ہیں اور تین ہی حکمتیں بیان فرمائی ہیں تین احکام تو یہ دیئے کہ (۱) مہینہ کے روزے رکھو (۲) رمضان میں رکھو (۳) مریض اور مسافر کو ان دنوں میں رخصت ہے۔ اس کے مقابل میں تین ہی حکمتیں بیان فرمائی (۱) کہا تھا کہ ایک مہینہ کے روزے رکھو اس کے لئے فرمایا کہ اگر ہم روزے مقرر نہ کرتے تو لوگ کم و بیش رکھتے اور اس طرح وہ تعداد پوری نہ ہوتی جو روحانی ترقی کے لئے ضروری ہے (۲) کہا تھا کہ رمضان میں روزے رکھو۔ اس پر کوئی کہہ سکتا تھا کہ رمضان کو کیوں مقرر کیا ہے جس مہینہ میں کوئی چاہتا رکھ لیتا اس لئے فرمایا کہ اس مہینہ میں قرآن کریم کا نزول یاد آکر خداتعالیٰ کو یاد کرنے کا جوش پیدا کرتا ہے اور اس مبارک مہینہ میں خداتعالیٰ کی عبادت اور ذکرِ الہٰی کی طرف تمہیں زیادہ توجہ پید ا ہوگئی۔ (۳) کہا تھا کہ بعض کے لئے رخصت ہے ۔ اس لئے وجہ یہ بتائی کہ ان آسانیوں کو دیکھ کر خداتعالیٰ کو ہمارا کتنا خیال ہے اس نے ہمارے فائدہ کے لئے حکم دیا۔ اور اس میں بھی ہمارے لئے آسانیاں پیدا کر دی ہیں۔ یہ عِدَّۃ’‘ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ کے مقابلہ میں فرمایا کہ یہ تخفیف اور سہولت اس لئے ہے کہ تم خداتعالیٰ کا شکر ادا کرو اور اس کی محبت سے اپنے سینہ و دل کو منور کرو۔ اسی طرح لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ میں اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ رمضان ہم نے اس لئے اُتارا ہے کہ تم شکر گذار بنو۔ یعنی ہر تکبر کے بعد شکر کرو کہ خدا نے اپنی تکبیر کی توفیق دی اور پھر اس بات کا شکر کرو کہ خداتعالیٰ نے اپنے شکر کی توفیق دی۔ اور پھر شکر کی توفیق ملنے پر شکر کرو۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے شکر کا ایسا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائیگا کہ انسان ہر وقت اس کے دروازہ پر گِرا رہے گا اور اس غلام کی طرح ہو جائے جو کسی صورت میں بھی اپنے آقا کو نہیں چھوڑتا۔
وَاِذَ سَاَلَکَ
یَرْشُدُوْنَo
۱۰۰؎ حل لغات:۔ اُجِیْبُ:اَحَابَ سے مضارع متکلم کاصیغہ ہے اور اَلْحِجَابَۃُ کے معنے یہں۔ اَلْعَطَاعُ مِنَ اللّٰہِ وَالطَّاعَۃُ مِنَ الْعَبْدِ (مفردات) یعنی اجابت اگر اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہو تو بخشش کرنے یا دینے کے معنے ہوتے ہیں اور اگر بندے کی طرف منسوب ہو تو اس کے معنے اطاعت کے ہیں۔ پس اُجِیْبُ کے معنے ہوئے میں سنکر بدلہ دیتا ہوں یا اسے قبول کرتاہوں۔
وَلْیُوْمِنُوْ ابِیَ: اٰمَنَ بِہٖ کے معنے ہیں (۱) اُسے مان لیا (۲) اس کی صفات کو تسلیم کر لیا ۔ پس وَلْیُوْ مِنُوْ اِلْی کے یہ معنے ہوئے کہ (۱) وہ مجھے مانیں اور (۲) میری صفات کو تسلیم کریں۔
لَعَلَّکُمْ: لَعَلَّ مِنْ اَخَوَاَتِ اِنَّ۔ لَعَلَّ اِنَّ کے اخوات میں سے ہے۔ وَذَکَرَ بَعْضُ الْمُفَسِّرِیْنَ اَنَّ رَدَلَّ مِنَ اللّٰہِ وَاجِب’‘ (مفردات) اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے آئے تو اس کے معنے یقین کے ہوتے ہیں ۔ نیز لَعَلَّ کی مزید تشریح کے لئے دیکھیں حل لغات سورہ بقرہ ۲۲؎۔
تفسیر:۔فرماتا ہے اے رسول! جب میرے بندے میرے متعلق تجھ سے سوال کریں اور پوچھیں کہ ہمارا خدا کہاں ہے ۔ جیسے عاشق پوچھتا پھرتا ہے کہ میرا محبوب کہاں ہے تو تو انہیں کہہ دے کہ تم گھبرائو نہیں میں تو تمہارے بالکل قریب ہوں۔ یہاں عِبَادِیْ سے رمراد عاشقانِ الہٰی ہی ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس طرح عاشق ہر جگہ دوڑا پھرتا ہے اور کہتا ہے کہ میرا معشوق کہاں ہے اسی طرح جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھیں تو تو انہیں کہہ دے کہ گھبرائو نہیں میں تمہارے قریب ہی ہوں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے عشاق کے دل کو توڑنا نہیں چاہتا۔
پھر فرمایا ہے۔ میرے قریب ہونیکا ثبوت یہ ہے کہ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَافِ۔ جب کوئی شخص کامل تڑپ اور سوز وگداز کے ساتھ مجھ سے دُعا کرتا ہے تو میں س کی دعا کو قبول کر لیتا ہوں۔ اور یہ ثبوت ہوتا ہے اس بات کا کہ میں قریب ہوں۔ اگر میں بعید ہوتا تو میں اس کی سجدے کی آہستہ آواز کو بھی کیسے سن سکتا۔ اور اگر میں بعید ہوتا تو اس کی گوشہ تنہائی میں بیٹھے ہوئے ہاتھ اُٹھا کر یا قیام کی صورت میں آہستہ آواز والی دُعا کیسے سُن لیتا۔ میرا اس دُعا کو سُن لینا بتاتا ہے کہ میں اس کے قریب ہوں۔
دوسری جگہ قرآن کریم میں خداتعالیٰ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ یعنی پاس ہونا تو الگ رہا جو انسان کی رگ ِ جان ہے ہم اس سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں اس کے معنے یہ ہوئے کہ وہ پاس ہی نہیں بلکہ انسان کے اندر بیٹھا ہوا ہے۔ اور یہ ظاہرہ ے کہ پاس بیٹھنے والا صرف وہ آواز سنتا ہے جو منہ سے کہی جائے اور جو اندر بیٹھا ہو وہ بات سنتا ہے جو دل سے کہی جائے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے لفظ قریب کی دوسری جگہ تشریح کر دی کہ قریب کا مفہوم یہ ہے کہ حبل الورید یعنی رگِ جان سے بھی میں زیادہ قریب ہوں اور میں ہر پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہوں خواہ وہ زبان سے کی گئی ہو یا دل میں کوئی خواہش پیدا ہوئی ہو کیونکہ میرا اس سے تعلق ایسا قریب ہے کہ میں اس کے دل میں بیٹھا ہوا ہوں۔
بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہہم نے تو بڑے اضطراب سے دعائیں کی تھیں مگر وہ قبول نہیں ہوئیں پھر یہ آیت کس طرح درست ثابت ہوئی ۔ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ بے شک اَلدَّاعِ کے ایک معنے ہر پکارنے والے کے بھی ہیں۔ مگر اس کے ایک معنے ایسے پکارنے والے کے بھی ہیں جس کا اوپر ذکر ہو رہاہے۔ اور مراد یہ ہے کہ وہ بندے جو مجھے ملنے کے اضطراب میں اور سب کچھ بھول جاتے ہیں اور مجھ سے صرف میرا قرب اور وصال چاہتے ہیں میں انکی دُعا کو سنتا اور انہیں انے قریب میں جگہ دیتا ہوں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے یہاں وَاِذَ ا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عِنِّیْ فرمایا ہے۔ یعنی وہ میرے بارے میں سوال کرتے یہں اس میں روٹی کا کہیں ذکرنہیں۔ نوکری کا کہیں ذکر نہیں بلکہ صرف غَنِّیْ فرمایا ہے عَنِ الْخُبْرِ یا عَنِ الْوَظِیْفَۃِ نہیں فرمایا۔ پس جو شخص خداتعالیٰ کا قرب مانگے اور وہ اسے نہ ملے اسے تو بے شک اعتراض ہو سکتا ہے لیکن دوسروں کے لئے اس میں کوئی اعتراض کی گنجائش نہیں۔
پھر اس آیت کی عبارت ایسی ہے کہ اس سے اضطراب اور گھبراہٹ کی طرف خاص طور پر اشارہ پایا جاتا ہے بعض مضامیں الفاظ سے ظاہر نہیں ہوتے لیکن ہو عبارت میں پنہاں ہوتے ہیں اور یہی حالت یہاں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میرے بندے میری طرف دوڑتے ہیں۔ ان کے اندر ایک اضطراب اور عشق پیدا ہوتا ہے اور وہ چلاتے ہیں کہ ہمارا خدا کہاں ہے تو تو ان سے کہدے کہ میں تمہاری طرح کے پکارنے والے کی پکار کو کبھی رد نہیں کرتا بلکہ اُسے ضرور سنتا اور قبول کرتا ہوں۔ ایک دوسری جگہ قرآن کریم میں یہ مضمون ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا۔ یعنی وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی پوری کوشش کرتے ہیں ہمیں اپنی ذات ہی کی قسم ہے کہ ہم ضرور ان کو اپنے رستوں کی طرف آنے کی توفیق بخش دیتے ہیں اس سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر مذہب اور علم کے آدمی کو اپنا رستہ دکھانے کے لئے تیار رہتا ہے۔ بشرطیکہ انسان اس کے لئے کوشش کرے۔ اور اس کی دُعا کو وہ ضرور سن لیتا ہے۔ باقی دعائوں کی قبولیت میں وہ انسان مصالح کو بھی مدنظر رکھتا ہے بعض دفعہ انسان جو چیز مانگتا ہے خداتعالیٰ کے علم میں وہ اس کے لئے مہلک ہوتی ہے۔ پھر بعض دفعہ ملازمت ایک ہوتی ہے اس کو مانگنے والے دو ہوتے ہیں اب ایک ملازمت دو کو تو نہیں مل سکتی ہو لازماً ایک ہی کو ملے گی۔ مگر وہ چیز جس کے بانٹنے کے باوجوس اس میں کوئی کمی نہیں آسکتی وہ خدتعالیٰ کی ذات ہے باقی تمام اشیاء محدود ہیں۔ اگر ایک چیز کے دو مانگنے والے سامنے آجائیں تو وہ لازماً زیادہ حقدار کو دی جائیگی یا اگر وہ مضر ہو تو گو اس کو کوئی اور حقدار نہ ہو مگر پھر بھی وہ اپنے مومن بندہ کو نہیں دیگا کیونکہ وہ دوست سے دشمنی کیونکر کر سکتا ہے اور کیسے ممکن ہے کہ جس چیز کے متعلق ہو جانتا ہے کہ آگ ہے وہ اپنے دوست کو دے دے ۔ غرض سب دعائوں کی قبولیت میں روکیں ہوتی ہیں مگر ایک دُعا ہے جس کے قبول ہونے میں کوئی روک نہیں اور جس کے لینے میں کوئی برائی نہیں۔ دنیا کی ہر چیز میں برائی ہو سکتی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ وَیَل’‘ لِّلْمُصَلِّیْنَ بعض نماز پڑھنے والوں کے لئے بھی ہلاکت ہے مگر خداتعالیٰ کو مانگنے میں کوئی ویل نہیں۔ کبھی ایسا نہیں ہو ا کہ خداتعالیٰ کسی سے اس لئے نہ ملے کہ وہ ہلاکت میں نہ پڑے یااس لئے نہ ملے کہ خداتعالیٰ کے وجود میں کمی نہ آجائے۔ جس طرح ہوا ہر ایک کے ناک میں جاتی ہے مگر اُس میں کمی نہیں ہوتی اسی طرح خداتعالیٰ ہر بندہ کو مل سکتا ہے اور پھر بھی اس میں کمی نہیں ہوتی۔ سورج کی شعاعوں سے سب مخلوق فائدہ اٹھاتی ہے۔ مگر ان میں کوئی کمی نہیں آتی چاند کی شعاعوں میں کوئی کمی نہیں آتی۔ تم چاند کی روشنی میں گھنٹوں بیٹھ کر لطف اٹھائو مگر اس کا نور پھر بھی اُتنے کا اتنا ہی رہیگا۔ یہی حال خدتعالیٰ کا ہے۔ بلکہ خداتعالیٰ تو ان سے بھی کامل ہے۔ ان چیزوں میں بھی ممکن ہے کوئی خفیف سے کمی ہو جاتی ہو۔ مگر خداتعالیٰ میں اتنی بھی نہیں ہوتی۔ اسی لئے وہ اپنے بندوں سے کہتا ہے کہ تم میری طرف آئو۔ پھر تم دیکھو گے کہ تم کس طرح تیزی سے قدم مارتے ہوئے اس راستہ پر چل پڑو گے جس سے خداتعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے اور باوجود یہ کہ وہ غیر مرئی ہے تم اس کو پالو گے اور اس کا وصال حاصل کر لو گے۔ درحقیقت اگر غور کیا جائے تو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی روحانی ترقی اور بندوں اور خدا کے باہمی اتصال کے لئے تین تغیرات کا ذکر فرمایا ہے جن کے بغیر کوئی انسان خداتعالیٰ تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔
سب سے پہلا تغیر جو کسی انسان کے دل میں پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ میں خداتعالیٰ سے ملوں اور س کا قرب حاصل کروں۔ مگر ظاہر ہے کہ صرف خواہش کا پیدا ہونا اسے خداتعالیٰ کے دربار تک نہیں پہنچا سکتا بلکہ ضروری ہوتا ہے کہ اسے کوئی ایسا ہاوی اور رہنما میسر آئے جو اسے اس مقصد میں کامیابی کا طریق بنائے۔ اور اس کی مشکلات کو دور کرے۔ اسلام اس فطری تقاضا کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ بیشک ان لوگوں کے دلوں میں یہ خواہش تو پیدا ہو گئی ہے کہ انہیں خدا ملنا چاہیے لیکن اب دوسرا تغیر ان میں یہ بھی پیدا ہو نا چاہیے کہ وہ تجھ سے پوچھیں یعنی ہدایت پانے اور خداتعالیٰ کو تلاش کرنے کے لئے انہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جانا چاہیے اور آپ سے اپنے محبوب حقیقی کا پتہ دریافت کرنا چاہیے جس طرح بیمار کی تندرستی کے لئے ایک تو اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ سمجھ لے کہ وہ بیمار ہے اور دوسرے اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اس ڈاکٹر کے پاس جائے جو اعلیٰ درجہ کا تجربہ کار ہو۔ اسی طرح خداتعالیٰ کو پانے کے لئے بھی ضروری ہے کہ نہ صرف خداتعالیٰ کو پانے کی سچی خواہش انسان کے دل میں پیدا ہو بلکہ وہ اس خواہش کے حصول کیل ئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء اختیار کر لے جو انسان کو خداتعالیٰ تک پہنچانے والے ہیں۔
پھر تیسری بات جو قرب الہٰی کے لئے ضروری ہے اور جس کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ان کا سوال عَنِّیْ ہو۔ یعنی ان کی غرض محض خدا تعالیٰ کو پانا ہو۔ لوگ کئی اغراض کے ماتحت مذہب میں داخل ہوتے ہیں۔ بعض لوگ محض ایک جماعت میں منسلک ہونے کے لئے داخل ہوتے ہیں بعض معاشرت یا تمدن کے خیال سے داخل ہوتے ہیں مگر فرمایا ان کا سچے مذہب میں داخل ہونا محض خداتعالیٰ کے وصال اور اس کے قرب کے حصول کے لئے ہو۔ کوئی اور خواہش اس کے پیچھے کام نہ کر رہی ہو۔ ہاں اگر دوسرے فوائد ضمنی طور پر حاصل ہو جائیں تو اور بات ہے لیکن اصل غرض محض خداتعالیٰ کا حصول ہونا چاہیے۔
پھر عربی زبان کا یہ قاعدہ ہے کہ جب اِذَا کے بعد ف آتی ہے تو اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ پہلے کام کے نتیجہ میں فلاں بات پیدا ہوئی۔ اس جگہ بھی اِذَا سَالَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ تَرِیْب’‘ کے یہ معنے ہیں کہ جب یہ تین باتیں جمع ہو جائیں۔ یعنی سوال کرنے والے سوال کریں کہ ہمیں خداتعالیٰ کی ضرورت ہے پھر تجھ سے سوال کریں فلاسفوں اور سائنسدانوں سے سوال نہ کریں ۔ عیسیٰ موسیٰ سے سوال نہ کریں بلکہ تیرے پاس آئیں قرآن کے پاس آئیں یا تیرے خلفاء کے پا س آئیں اور پھر وہ میری ذات کے متعلق سوال کریں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ میں ان کے قریب ہو جاتا ہوں اور انہیں اپنا چہرہ دکھا دیتا ہوں۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس کا جواب دینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ ہے کہ جب سورۃ ق میں جو کہ مکی سورۃ ہے خداتعالیٰ یہ فرما چکا تھا کہ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ(ق آیت ۱۷) ہم انسان سے اس کی رگ ِ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں تو پھر سورۃ بقرہ میں جو مدنی سورۃ ہے یہ فرمانے کی کیا ضرورت تھی کہ جب میرے بندے میرے متعلق تجھ سے سوال کریں تو تو ان کو یہ جواب دے دے کہ میں قریب ہوں۔ جب مکی آیت کے ذریعہ نہیں معلوم ہو چکا تھا کہ خداتعالیٰ بہت ہی قریب ہے تو پھر یہ سوال ہی کوئی نہیں کر سکتا تھا اس لئے اس آیت کے نازل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اور اگر کوئی سوال کرتا بھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسے یہ فرما سکتے تھے کہ خداتعالیٰ تو بتا چکا ہے کہنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْد ۔ لیکن قرآن کریم خداتعالیٰ کا کلام ہے۔ اور خداتعالیٰ کا کلام بلا ضرورت نہیں ہوا کرتا۔ پس معلوم ہوا کہ یہاں خداتعالیٰ کا سوال بیان کرنا اور پھر اس کا جواب دینا کوئی اور حکمت دیتا ہے۔ اور یہاں جو قریب کا لفظ استعمال ہوا ہے اس سے وہ قرب اور بُعد مراد نہیں جو عام طور پر سمجھا جاتا ہے ۔ کیونکہ اس کے متعلق تو اللہ تعالیٰ فرما چکا ہے کہ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْد۔ اگریہاں بھی یہی مراد ہوتی تو پھر یہ کیوں فرماتا کہ جب لوگ تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یہ جواب دیجیو۔ پس معلوم ہوا کہ اس جواب میں جو قریب کہا گیا ہے وہ بھی کوئی اور معنے رکھتے ہے۔
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ان دونوں آیتوں میں خدا تعالیٰ نے ایک عجیب فرق رکھا ہے۔ او روہ یہ کہ قرب اور بُعد ہمیشہ نسبت کے ساتھ ہوتا ہے ایک چیز ہمارے قریب ہوتی ہے مگر وہی دوسرے سے بعیدہوتی ہے۔ پس قریب اور بعید ایک نسبتی چیز ہے۔ جب ہم ایک چیز کو قریب کہتے ہیں تو ایک نسبت سے کہتے ہیں حالانکہ دوسری نسبت سے وہی چیز بعید ترین ہو سکتی ہے۔ سورہ ق میں جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ۔ وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہ‘ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلیْہِ مَنْ حَبْلِ الْوَرِیْہِ۔ کہ ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم اس کے دل میں جو وسوسہ ہوتا ہے اس کو بھی جانتے ہیں اور ہم اس کی رگِ جان سے بھی قریب تر ہیں۔ تو اس میں اِلَیْہِ کی نسبت سے اَقْرَبُ فرمایا ہے۔لیکن آیت وَاِذَ سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْب’‘ میں قَرِیْب’‘ کا لفظ کسی نسبت سے نہیں فرمایا۔بلکہ بلانسبت فرمایا ہے اور اس کی کوئی حد بندی نہیں کی۔ اس عدمِ حد بندی میں ایک لطیف نکتہ ہے اور وہ یہ کہ انسان جو اپنی ضرورت خداتعالیٰ کے حضور پیش کرتا ہے وہ مختلف اوقات میں مختلف اشیاء کے متعلق ہوتی ہے کبھی تو وہ انسانوں کے متعلق ہوتی ہے او رکبھی حیوانوں کے متعلق۔ کبھی جانداروں کے متعلق ہوتی ہے اور کبھی بے جانوں کے متعلق۔ کبھی خداتعالیٰ کے متعلق ہوتی ہے اور کبھی ملائکہ کے متعلق۔ کبھی اس دنیا کے متعلق ہوتی ہے اور کبھی اگلے جہان کے متعلق ۔ کبھی اس زمین پر رکھنے والی چیزوں کے متعلق ہوتی ہے اور کبھی آسمان کی چیزوں کے متعلق ہوتی ہے اور کبھی آسمان کی چیزوں کے متعلق۔ غرض انسان کی مختلف احتیاطیں ہیں اور ایسی وسیع ہیں کہ جن کی کوئی حد بندی نہیں ہو سکتی۔ لیکن انسان کی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ جب اسے کسی چیز کی طلب ہوتی ہے تو اس کے حاصل کرنے کے متعلق وہ کوئی ایسا ذریعہ تلاش کرتا ہے جو قریب ہو پھر قریب کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ ایک یہ بھی قریب ہے کہ کوئی ذریعہ جلد سے میسر جائے۔چنانچہ ہر انسان ایک مدعا حاصل کرنے کے لئے جو ذریعہ قریب دیکھتا ہے اس کو لے لیتا ہے۔ اور بعید کو چھوڑ دیتا ہے۔ مگر اس کے علاوہ قریب ایک اور رنگ میں بھی ہوتا ہے یعنی وہ ذریعہ جو مدعا اور منزل مقصود کے قریب تر پہنچا دے ۔ انسان اس ذریعہ کو اختیار کرتا ہے اور دوسروں کو چھوڑ دیتا ہے ۔ غرض بہت سے قریب ہیں جن کا کسی چیزمیں پایا جانا ہر انسان دیکھتا ہے ۔ اور جب وہ سارے قرب کسی میں پالیتا ہے تو اس کو اپنے مدعا کے حصول کے لئے چن لیتا ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا کہ وَاِذَ اسَالَکَ عِبَادِیْ عَنّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْب’‘ کہ انسان اپنے مختلف مقاصد کے لئے کوشش کرتا ہے اور ان کے لئے دیکھتا ہے کہ کونسا ذریعہ اختیار کروں جس سے جلد کامیان ہو جائوں۔ جب انسان ذرائع کو سوچتے سوچتے یہاں تک پہنچے کہ میں دُعا کر وں تو اس کو کہدو کہ اللہ قریب ہے۔ قَرِیْب’‘ اِلَیْہِ نہیں فرمایا۔ اس لئے کہ خداتعالیٰ نہ صرف انسان کے قریب ہے بلکہ ہر ایک چیز کے قریب ترین ہے اور وہ مدعا حاصل کرنے کا سب سے قریب ترین ذریعہ ہے۔ یوں قریب ہونا اور بات ہے۔ غرض خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہارے بھی قریب ہوں اور وہ مقصد جسے تم حاصل کرنا چاہتے ہو اس کے بھی قریب ہوں اور وہ مقصد جسے تم حاصل کرنا چاہتے ہو اس کے بھی قریب ہوں گویا اس آیت میں قربِ مکان کا ذکر نہیں بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ حصولِ مدعا کے لئے جتنے قربوں کی ضرورت ہے وہ سب خداتعالیٰ میں موجود ہیں مثلاً ایک شخص ولایت میں بیٹھا ہوا روپیہ کا محتاج ہے وہ وہاں سے ہمیں مدد کے لئے لکھتا ہے۔ اگر ہم اُسے روپیہ بھیجیں تو کئی دنوں کے بعد اُسے ملے گا لیکن اگر ہم اس کے لئے دُعا کریں تو ممکن ہے کہ ادھر ہمارے منہ سے دعا نکلے اور ادھر اللہ تعالیٰ اس کا کوئی انتظام کر دے۔ تو خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ میں قریب ہوں اگر کوئی مدد حاصل کرنا چاہتے ہو تو مجھ سے کہو۔ اور خداتعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کے لئے نہ ہاتھ ہلانے کی ضرور ت ہے نہ پائوں کیونکہ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ میں قریب ہوں۔ پھر وہ انسان ہی کے قریب نہیں بلکہ جس مدعا اور مقصد کو حاصل کرنا ہو اس کے بھی قریب ہے۔ ادھر انسان یہ کہتا ہے کہ الہٰی فلاں چیز مجھے مل جائے اور ادھر وہ چیز خواہ لاکھوں میل کے فاصلہ پر ہو خداتعالیٰ اس پراسی وقت قبضہ کر لیتا ہے۔ کہ یہ ہمارے فلاں بندہ کے لئے ہے۔ کیونکہ جس طرح خداتعالیٰ اس بندہ کے قریب ہے اسی طرح اس چیز کے بھی قریب ہے ۔ غرض کامیابی کے حصول کے لئے یہ ذریعہ سب سے بڑا اورسب سے زیادہ مفید ہے۔
پھر اِنِّیْ قَرِیْب’‘ کہہ کر ایک اور لطیف مضمون کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے اور وہ یہ کہ اگر میں تمہیں نظر نہیں آتا تو یہ نہ سمجھ لینا کے میں تم سے دور ہوں میں تو تمہارے بالکل قریب ہوں اور اسی وجہ سے تمہیں نظر نہیں آتا۔ کیونکہ صرف وہی چیز تمہیں نظر نہیں آتی جو زیادہ قریب ہو۔یہی وجہ ہے کہ انسان اپنے اندر کی آواز کو نہیں سن سکتا کانشنس اور ضمیر کی آواز آتی ہے مگر کان اسے نہیں سن سکتے۔ اس لئے کہ آواز بھی دور کی سنائی دیتی ہے جب ہم کوئی آواز سنتے ہیں تو اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ یہ آواز باہر سے ہو کر آئی ہے۔ کیونکہ کان کا پردہ قدرتی طور پر اس طرح بنایا گیا ہے کہ ہوا کا زور کان کے پردہ پر پڑتا ہے تو اس سے ایک حرکت پیدا ہوتی ہے ارتعاش کہ لہریں یعنی وائی بریشنزVIBRATIONS پیدا ہوتی ہے اور یہی وائی بریشنز دماغ میں جاتی ہے اور دماغ ان کو الفاظ میں بدل ڈالتا ہے یہی وائی بریشن ہیں جو ریڈیو کے والوز میں پڑتی ہے اور ریڈیو ان کو الفاظ میں بدل ڈالتا ہے ۔ انسانی بناوٹ میں ریڈیو کان ہے اور اعصاب دماگی والوز ہیں۔ ان کے ذریعہ جو حرکات دماغ میں منتقل ہوتی ہیں وہ وہاں سے آواز بن کر سُنائی دیتی ہیں۔ پس آواز کے معنے ہی باہر والی چیز کے ہوتے ہیں۔ جب آواز آتی ہے تو اس کے یہی معنے ہوتے ہیں کہ یہ باہر سے آئی ہے کیونکہ آواز آ ہی باہر سے سکتی ہے۔ اندرونی آواز جو سنائی دیتی ہے۔ مثلا پیٹ میں گُڑ گُڑ کی آواز آتی ہے تو دراصل اس کی بھی یہی وجہ ہے کہ وائی بریشن باہر اثر ڈالتی ہیں اور ہم وہ آواز سن لیتے ہیں۔ ورنہ حقیقت یہی ہے کہ جو اندر کی آواز ہوتی ہے اسے تم نہیں سن سکتے۔ کیونکہ وہ تمہارے زیادہ قریب ہوتی ہے۔ غرض جس طرح تم بہت بعید کی چیز کو نہیں دیکھ سکتے اور بہت قریب کی چیز کو بھی نہیں دیکھ سکتے۔ اسی طرح تم بعید کی آواز کو بھی نہیں سن سکتے اور قریب کی ااواز کو بھی نہیں سن سکتے جن لوگوں کو اس کا علم نہیں وہ اس پر تعجب کریں تو کریں۔ ورنہ یہ سب کچھ حرکات پر مبنی ہوتا ہے۔ جو کچھ تم سنتے ہو وہ بھی حرکات ہیں جن کو کان آواز میں دل ڈالتے ہیں اور جو کچھ تم دیکھتے ہو وہ بھی حرکات ہیں جن کو آنکھیں شکل میں تبدیل کر ڈالتی ہیں جو چیز تمہارے سامنے گڑی ہوتی ہے وہ تصویر نہیں ہوتی بلکہ وہ فیچرزFEATURESٰؑ نقش ہوتے ہیں جو آنکھوں کے ذریعہ دماغ میں جاتے ہیں اور وہ انہیں تصویر میں بدل ڈالتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آجکل ریڈیو سیٹ کے ذریعہ تصویریں بھی باہر جانے لگ پڑی ہیں۔ ان حرکات کے متعلق قاعدہ ہے کہ تمام حرکات خواہ وہ کان کی ہوں یا آنکھ کی ایک حد بندی کے اندر ہوتی ہیں یعنی ایک درجہ ان کا اعلیٰ ہوتا ہے اور ایک ادنیٰ ہوتا ہے ان دونوں کے درمیان جو چیز ہوتی ہے اسے آنکھ دیکھ سکتی ہے اور جو چیز اس حد بندی سے دور ہو اسے آنکھ نہیں دیکھ سکتی اسی طرح جو آواز اس حد بندی کے اندر ہوگئی اسے کان سن لے گا اور جو آواز اس حد بندی سے دور ہو گئی اس ے کان نہیں سن سکے گا۔ اور جو آواز اس حد بندی سے نیچے ہو گی اسے بھی کان نہیں سن سکتا۔
جو میں بہت سے آوازیں پیدا ہوتی رہتی ہیں جیسے بادلوں کے ااپس میں ٹکرانے کی آواز۔ یا اجرام فلکی کے آپس میں ٹکرانے کی آواز۔ لیکن وہ اتنی شدید ہوتی ہیں کہ ہم ان کی شدت کی وجہ سے انہیں نہیں سن سکتے۔ جس طرح کان میں یہ طاقت نہیں کہ وہ ایسی آواز سن سکے جو اس کی طاقت سے باہر ہو۔ یا وہ ایسی آواز سن سکے جو اس کی طاقت سے کم ہو اسی طرح جو نظارہ آنکھ کی طاقت سے زیادہ ہو وہ آنکھ نہیں دیکھ سکتی اور جو نظارہ اس کی طاقت سے کم ہو وہ بھی نہیں دیکھ سکتی۔ پس اِنِّیْ قَرِیْب’‘ کہہ کر اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ مجھ کو نہ دیکھنے کی یہ وجہ نہیں کہ میں تم سے دور ہوں میں تم سے دور نہیں بلکہ تمہارے اتنا قریب ہوں کہ تم مجھے زیادہ قریب ہونے کی وجہ سے دیکھ بھی نہیں سکتے اور نہ تم میری آواز سن سکتے ہو۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب انسان خداتعالیٰ کو دیکھتا ہی نہیں تو پھر وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِیْ قَرِیْب’‘ کہنے کا کیا مطلب ہوا؟ کیونکہ انسان پوچھتا تو اس کے متعلق ہے جو اُسے نظر آتا ہو۔ اس کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ کبھی سوال مبہم بھی ہوتا ہے۔ جیسے رات کو کوئی شخص سفر پر جا رہا ہو اور اسے خطرہ محسوس ہو تو وہ آواز دیتا ہے کہ کوئی ہے؟ اب اس کا یہ مطلب تو نہیں ہوتا کہ اسے کوئی انسان نظر آرہا ہوتا ہے بلکہ وہ اس خیال سے آواز دیتا ہے ک اگر کوئی شخص وہاں ہوتو آئے اور اس کی مدد کرے اور جنگل میں تنہائی اور اندھیرے کی وجہ سے جو گھبراہٹ اس پر طاری ہے وہ دور ہو جائے۔ اسی طرح اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب دنیا میں انسان تنہائی محسوس کرے اور سمجھے کہ مجھے کسی کی مدد کی ضرورت ہے اور خداتعالیٰ جو غیر مرئی ہے اس کے متعلق وہ کہے کہ اگر کوئی خدا ہے تو آئے اور میرے مدد کرے تو خداتعالیٰ کہتا ہے کہ تم میرے اُس بندے کو بتا دو کہ میں موجود ہوں اور پھر زیادہ دور بھی نہیں بلکہ میں تمہاراے قریب ہی ہوں۔ دُنیا میں پاس رہنے والا شخص بھی بعض اوقات مدد نہیں کرتا۔ بعض دفعہ تو وہ مدد کا ارادہ ہی نہیں کرتا اور کہتا ہے مرتا ہے تو مر ے مجھے اس کی مدد کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اور بعض اوقات وہ اپنے اندر زیادتی کرنے والے کے خلاف مدد کرنے کی طاقت نہیں پاتا۔ جیسے کوئی شیر گائوں میں آجائے او رکسی پر حملہ آور ہو تو دوسرے لوگ بجائے اس کی مدد کرنے کے بھاگ جاتے ہیں۔ لیکن یہاں ایسا نہیں ہوتا بلکہ اگر کوئی بندہ گھبرا کر آواز دے اور کہے کہ کوئی ہے؟ تو وہاں خدا موجود ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے بندے نے اگرچہ مبہم طور پر آواز دی ہے کہ شاید کوئی موجود ہو تو و بول پڑے لیکن میں اس کی مبہم پکار کو بھی اپنی طرف منسوب کر لیتا ہوں۔ اور سمجھتا ہوں کہ وہ مجھے ہی بُلا رہا ہے۔ میں بھول جاتا ہوں کہ جو کچھ وہ کہہ رہا ہے خیالی طور پر کہہ رہا ہے۔ میں اس وقت اگر مگر کو چھوڑ دیتا ہوں اور فوراً اس کی مدد کے لئے دوڑ پڑتا ہوں۔اس لئے اگر کوئی میرے متعلق سوال کرے تو اُسے بتا دو کہ میں قریب ہی ہوں۔ دور نہیں۔ بے شک دنیا میں بعض دفعہ کوئی دوسرا شخص قریب بھی ہوتا ہے تو پھر بھی وہ مدد کرنے کا ارادہ نہیں کرتا۔ یا اس کی مدد کی طاقت نہیں رکھتا لیکن میں تو یہ ارادہ کر کے بیٹھا ہوں کہ اس کی مدد کروں گا۔ اور پھر میرے اندر اس کی مدد کرنے کی طاقت بگھی ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ خداتعالیٰ صرف مسلمانوں ہی کی دعائیں نہیں سنتا بلکہ خواہ کوئی ہندو ہو یا عیسائی۔ سکھ ہو یا آریہ اگر وہ خداتعالیٰ کے حضور سچے دل سے گڑ گڑائے اور اپنی حالت زار پیش کر کے اس کی مدد چاہے تو خداتعالیٰ اس کی دُعا کو سنتا اور اسے قبول کرتا ہے۔ بے شک وہ ایک سچے مسلمان کی دُعائیں دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ قبول کرتا ہے۔ مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ اس نے اپنی رحمت کا دروازہ دنیا کی باقی قوموں اور افراد کے لئے بند کر رکھا ہے۔ بلکہ ہر شخص جو اس کے دروازہ پر جاتا ہے اور اس کے حضور گر جاتا ہے خداتعالیٰ اس پر رحم کرتا اور اس کی حاجات کو پورا فرماتا ہے وہ واضح الفاظ میں فرماتا ہے کہ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا ذَعَانِ۔ جب کوئی پکارنے والا اپنی مدد کے لئے مجھے آواز دیتا ہے تو میں اسکی پکار کا ضرور جواب دیتا ہوں۔ اور اسے اپنی بارگاہ سے کبھی خالی ہاتھ واپس نہیں کرتا۔
پھر فرماتا ہے فَلْیَسْتَجِیْبُوْلِیْ۔ جب میں تمہاری باتیں سنتا ہوں اور تمہاری دُعائیں قبول کرتا ہوں تو تمہیں بھی ایسا بن جانا چاہیے کہ تمہاری دُعائیں قبول ہوں۔ یہ مت خیال کرو کہ میں ہر ایک دُعا کو سنتا ہوں۔ میرے احکام کے خلاف جو دُعائیں ہونگی یا میرے مقرر کردہ فرائض کے خلاف ہونگی یا اخلاقی نظام کے خلاف ہونگی میں انہیں کیسے سن سکتا ہوں۔ کیا میں انہیں قبول کر کے اپنے رسول کو ہلاک کردوں۔ یا کیا میں انہیں قبول کر کے اخلاقی نظام کو توڑ ڈالوں۔ اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری دُعائیںبھی سنی جائیں تو چاہیے کہ تمہاری دُعا میرے نظام کے خلاف نہ ہو۔ تمہاری دُعا دین کے خلاف نہ ہو ۔ تمہاری دُعا اخلاقی نظام کے خلاف نہ ہو۔
کہتے ہیں کہ ایک عرب حج کے لئیے گیا تو وہ خانہ کعبہ میں کھڑے ہو کہ ایک دُعا کر رہا تھا اور وہ ایسی گندی تھی کہ اُسے سنکر پولیس نے اس کو قید کر لیا۔ وہ دُعا یہ کر رہا تھا کہ اے خدا! تو ایسا کر کہ میری محبوبہ کا خاوند اس سے نارا ض ہو جائے اور وہ مجھے مل جائے۔ گویا نعوذ باللہ خداتعالیٰ بھی اس کی بدکاری میں شریک ہو جائے۔
اسی طرح ایک دفعہ ایک چور نے بیان کیا کہ میں جب سیندھ لگانے لگتا ہوں تو دو رکعت نماز پڑھ لیتاہوں تاکہ چوری سے پہلے اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کر لوں اور مجھے اس کام میں کامیابی حاصل ہو۔ اخبارات میں عموماً اشتہارات چھپتے رہتے ہیں کہ ایسے تعویذ جن کو پاس رکھنے سے تم جس عورت کو چاہو بلا سکتے ہو۔ اس تعویذ کے اثر سے وہ عورت خود بخود تمہارے پاس آجائیگی۔ اور پھر کہتے ہیں کہ فلاں بزرگ ہے اسے خداتعالیٰ کا کلام آتا ہے۔ اس نے یہ تعویذ تیار کئے ہیں۔ یہ دین کے ساتھ تمسخر ہے۔ خداتعالیٰ بدکاریوں میں کبھی شریک نہیں ہوتا۔ کہنے والے بیشک ایسا کہتے ہیں مگر یہ غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِی وَلْمُوْسِوُا بِیْ۔ اگر میں نے کہا ہے کہ میں پکارنے والے کی پکار کو سُنتا ہوں تو اس س ے یہ نہ سمجھ لینا کہ میں ہر ایک پکار کو سن لیتا ہوں جس پکار کو میں سُنتا ہوں اس کے لئے دو شرطیں ہیں۔ اول میں اس کی پکار کو سنتا ہوں جو میری بھی سنے (۲) میں اس کی پکار سنتا ہوں جسے مجھ پر یقین ہو مجھ پر بدظنی نہ ہو۔ اگر دعا کرنے والے کو میری طاقتوں اور قوتوں پر یقین ہی نہیں تو میں اس کی پکار کو کیوں سنوں۔ پس قبولیت دعا کے لئے دو شرطیں ہیں جس دعا میں یہ دو شرطیں پائی جاتئیں گی وہی قبول ہو گی۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے یہاں اَلدَّاعِ فرمایا ہے جس کے معنے ہیں ایک خاص دعا کرنے والا۔ اور اس کے آگے وہ شرائط بتا دیں۔ جو اَلدَّاعِ میں پائی جاتی ہیں اور وہ یہ ہیں کہ وہ میری سُنے اور مجھ پر یقین رکھے ۔ یعنی وہ دُعا میرے مقرر کردہ اصولوں کے مطابق ہو۔ جائز ہو ناجائز نہ ہو۔ اخلاق کے مطابق ہو۔ سنت کے مطابق ہو۔ اگر کوئی شخص ایسی دعائیں کرے گا تو میں بھی اس کی دعائوں کو سنوں گا۔ لیکن اگر کوئی کہے کہ اے اللہ! میرا فلاں عزیز مر گیا ہے تو اُسے زندہ کر دے تو یہ دعا قرآن کے خلاف ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے خلاف ہے ۔جب اس نے قرآن کی ہی نہیں مانی ۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نہیں مانی تو خدا اس کی بات کیوں مان لے۔ پس فَلْیَسْتَجِیْبُوالِیْ وَلْیُوْ مِنُوْ ابِیْ۔ میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ تمہیں چاہیے کہ تم میری باتیں مانو اور مجھ پر یقین رکھو اگر تمہیں مجھ پر یقین نہیں ہے تو میں تمہاری دُعا کیسے سُن سکتا ہوں؟ پس قبولیت دُعا کے لئے دو شرطیں ہیں۔ اول فَلْیَسْتَجِیْبُوالِیْ تم میری باتیں مانو(۲)وَلْیُوْ مِنُوْ ابِیْ اور مجھ پر یقین رکھو۔ جو لوگ ان شرائط کو پورا نہیں کرتے وہ دیندار نہیں۔ وہ میرے احکام پر نہیں چلتے اس لئے میں بھی یہ وعدہ نہیں کرتا کہ میں ان کی ہر دُعا سُنوں گا۔ بیشک میں ان کی دُعائوں کو بھی سنتا ہوں مگر اس قانون کے ماتحت ان کی ہر دعا کو نہیں سنتا۔ لیکن جو شخص اس قانون پر چلتا ہے اور پھر دعائیں بھی کرتا ہے میں اس کی ہر دعا کو سنتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ بازار میں چند بنئے بیٹھے آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ کیا کوئی ایک پائو تلِ کھا سکتا ہو۔ وہ ایک پائو تکل کھانا بہت بڑا کام سمجھتے تھے ان میں سے ایک نے کہا جو ایک پائو تل کھال یا س کو میں پانچ روپے انعام دونگا۔ پس سے ایک زمین دار گزر رہا تھا اس نے جب سُنا کہ پائو تل کھانے پر شرط لگی ہوئی ہے تو اس کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی اس نے خیال کیا کہ بھلا ایک پائو تل کھانا کونسی بڑی بات ہے جس پر انعام دیا جائے۔ ضرور اس کے ساتھ کوئی اور شرط ہو گی۔ وہ آگے بڑھا اور پوچھا شاہ جی! ’’تل سلیاں سمیت کھانے نے کہ بغیر سلیاں دے۔‘‘ یعنی پھلیوں سمیت تلِ کھانے ہیں یا الگ کئے ہوئے بیج کھانے ہیں ۔ اس زمیندار کے نزدیک تو پائو تلِ کھانے کوئی چیز نہ تھی لیکن وہ سب بنئے تھے جو آدھا پھلکا کھانے کے عادی تھے۔ جب اس نے یہ کہ اکہ شاہ جی کیا تل پھلیوں سمیت کھانے ہیں تو اس بنئے نے کہا چوہدری صاحب آپ جائیے ہم تو آدمیوں کی باتیں کرتے ہیں۔[
اسی طرح اللہ تعالیٰ جہاں یہ کہتا ہے کہ میں پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہوں ۔ وہاں بھی وہ آدمیوں کا ہی ذکر کرتا ہے۔ جانوروں کا ذکر نہیں کرتا۔ وہ ہر پکارنے والے کی پکار کو نہیں سنتا۔ وہ صرف اس شخص کی پکار کو سنتا ہے جسے یہ احساس ہو کہ اللہ تعالیٰ پر ہی سب ذمہ داری نہیں بلکہ مجھ پر بھی کچھ ذمہ داری ہے۔ مثلاً اگر کوئی کہے کہ اے خدا! فلاں کی لڑکی مجھے اُدھال کر لا دے یا فلاں کا مال مجھے دے دے یا میرے فلاں شخص کی جان نکال دے تو خدا تعالیٰ اپنے آپ کو ان دُعائوں کا مخاطب نہیں سمجھتا پس فرمایا فَلْیَسْتَجِیْبُوالِیْمیں ہر اس دعا کو سنتا ہوں جس کا کرنے والا پورے طور پر میرے احکام پر عمل کرے اور پھر اُسے مجھ پر پورا یقین بھی ہو۔ اور جو ایسا کرتے ہیں وہ غلط دُعائیں مانگتے ہی نہیں کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہؓ ایسی دُعائیں مانگتے تھے کہ اے خدا فلاں کا مال ظالمانہ طور پر ہمیں دیدے ۔ پس خداتعالیٰ بھی یہاں انسانوں کا ذکر کرتا ہے حیوانوں کا نہیں اور فرمایا ہے کہ میں دُعائیں سنتا ہوں لیکن اس کے لئے دو شرطیں ہیں اول دُعا کرنے والا پورے طور پر میرے احکام پر عمل کرے۔ دوم اسے مجھ پر یقین بھی ہو۔ جب اسے مجھ پر یقین ہو گا تو اس کا اعتماد بھی دعا کی قبولیت کے لئے اکسا ئیگا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ آپ سب سے زیادہ کس کے لئے دُعائیں کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا میںسب سے زیادہ اس شخص کے لئے دعا کرتا ہوں جو مجھ آکر کہے کہ میرے لئے کوئی دعا کرنے والا نہیں آپ میرے لئے دعا کریں۔جب وہ مجھ پر اعتماد کرتا ہے حالانکہ وہ میرا وقف بھی نہیں ہوتا تو میں اس پر اعتماد کیوں نہ کروں۔ پس فرمایا۔ وَلْیُوْ مِنُوْابِیْ جو مجھ پر یقین رکھتا ہے اور میرے منشا کے مطابق دُعا کرتا ہے میں اس کی دعا کو قبول کرتا ہوں۔ لیکن جسے یقین نہ ہو اور وہ میرے منشاء کے مطابق دعا نہ کرتا ہو تو ا سکی دعا قبول نہیں ہو سکتی۔ اسی کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بھی اشارہ کرتی ہے کہ الَایَزَالُ ئُسْتَجَابُ لِنْعَبْدِ مَالَمْ یَدْعُ بِاِثْمٍ اَوْ قَطِیْعَۃِ رِحْمٍ مَالَمْ ئَسْتَعْجَلْ۔ قِیْلَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ مَا الْاِ سْتِعْجَالُ قَالَ یَقُوْلُ قَدْ دَعَوْتُ وَقَدْ دَعَوْتُ فَلَمْ اَرَی ئُسْتَجَابُ لِیْ فَیَسْتَحْسِرُ عِنْہُ ذَالِکَ وَیَدْعُ الدُّعَائَ(مسلم جلد ۲ کتاب الذکرو الدعاء)یعنی اللہ تعالیٰ اپنے ندے کی دعائوں کو قبول کرتا ہے جب تک کہ وہ قطع رحم اور گناہ کے متعلق نہ ہوں۔ مگر اس صورت میں نہیں کہ وہ جلدی کرے ۔ صحابہؓ نے پوچھا یا رسول اللہ ! جلدی سے کیا مرا دہے۔ آپ نے فرمایا وہ یہ کہنے لگتا ہے کہ میں نے بڑی دُعا کی مگر میں دیکھتاہوں کہ میری دُعا قبول نہیں ہوئی۔ پھر وہ دُعا سے تھک جاتا ہے اور دُعا چھوڑ بیٹھتا ہے۔ غرض دُعا کی قبولیت کے لئے ضروری ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان اور یقین رکھے اور مایوسی اس کے قریب بھہ نہ پھٹکے پھر فرماتا ہے ۔لَعَلَّھُمْ یَرْ شُدُوْنَ ۔ اس کے نتیجہ میں یقیناً وہ کامیاب ہونگے۔ رشد کے معنے ہوتے ہیں رستہ دکھائی دینا۔ پس لَعَلَّھُمْ رَرْشُدُوْنَ کے معنے ہیں کہ انہیں وہ رستہ مل جائیگا جو انہیں کامیابی تک پہنچا دیگا۔ لَعَلَّ کے معنے عام طور پر شاید کے ہوتے ہیں لیکن اس جگہ اس کے معنے شاید کے نہیں۔ یہاں یہ لفظ کلام الملوک کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ اور اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ ہمارا شاید بھی یقینی ہوتا ہے۔ چنانچہ بالعموم حکام کہہ دیتا ہے کہ اگر تم درخواست کرو تو حکومت غور کرے گی۔ لفظ شک کے ہوتے ہیں ۔لیکن دراصل وعدہ ہوتا ہے کہ ہم ضرور ایسا کر دیں گے ۔ لغت والے بھی لکھتے ہیں کہ جب لَعَلَّ کا لفظ خدا تعالیٰ کے لئے استعمال ہو تو اس وقت اس کے معنے یقین کے ہوتے ہیں۔ (مفردات راغب) پس لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ کے یہ معنے ہیں کہ ابھی تک تو مجھے ان تک آنا پڑتا ہے مگر جب وہ یہ مقام حاصل کر لیں گے تو پھر ان کے اندر یہ طاقت پیدا ہو جائیگی کہ وہ خود مجھ تک آسکیں گے۔ چنانچہ پہلے اِنِّیْ قَرِیْب’‘ کہہ کر بتایا تھا کہ میں ان کے پاس آتا ہوں مگر یَرْشُدُوْنَ کہہ کر بتایا کہ بندہ میں ترقی کرتے کرتے ایک قسم کی الوہیت کا رنگ پیدا ہو جاتا ہے پہلے اس کی مثال ایسی ہوتی ہے جیسے نابینا آدمی کے پاس اس کا دوست بیٹھا رہے ۔ مگر پھر یہ مقام حاصل ہو جاتا ہے جیسے نابینا کے سامنے اس کا محبوب بیٹھا ہو۔ یہی وہ مقام ہے جس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ عبادت کرتے وقت ہر انسان کو یہ محسوس کرنا چاہیے کہ وہ خداتعالیٰ کو دیکھ رہا ہے۔ یا کم سے کم وہ یہ سمجھے کہ خدا مجھ کو دیکھ رہا ہے۔ اب خدا تعالیٰ کے دیکھنے کے یہی معنے ہیں کہ وہ اس کے قریب ہو جاتا ہے ورنہ عیکھ تو وہ عرش سے بھی رہا ہے درھقیقت اس میں یہی بتایا گیا ہے کہ خداتعالیٰ اپنے بندہ کے اس قدر قریب آجاتا ہے کہ انسان یہ یقین کرنے لگ جاتا ہے کہ خداتعالیٰ اُسے دیکھ رہا ہے بلکہ اس سے ترقی کر کے وہ اس مقام کو بھی حاصل کر لیتا ہے جس میں وہ خود بھی خداتعالیٰ کو دیکھنے لگ جاتا ہے اور اعلیٰ درجہ کے کمالات روحانیہ تک پہنچ جاتا ہے۔
چونکہ اس آیت سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی روزوں کا ذکر ہے اس لئے اس آیت کے ذریعہ مومنوں کو اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ یوں تو اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہی اپنے بندوں کی دُعائیں سُنتا اور ان کی حاجات کو پورافرماتا ہے لیکن رمضان المبار کے ایام قبولیت دُعا کے لئے مخصوص ہیں۔ اس لئے تم ان دنوں سے فائدہ اُٹھائو اور خداتعالیٰ کے قریب ہونے کی کوشش کرو۔ ورنہ اگر رمضان کے مہینہ میں بھی تم خالی ہاتھ رہے تو تمہاری بد قسمتی میں کوئی شبہ نہیں ہو گا۔
دنیا میں ہر کام اپنے وقت کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے اگر اسوقت وہ کام کیا جائے تو جیسے اعلیٰ درجہ کے نتائج اس وقت مرتب ہوتے ہیں وہ دوسرے وقت میں نہیں ہوتے۔ تمام غلے اور ترکاریاں بونے کا ایک خاص وقت ہوتا ہے اگر اس وقت کو مدنظر نہ رکھا جائے تو کچھ بھی فائدہ نہیں ہوتا۔ مگر وہ وقت جادو یا ٹونے کی طرح نہیں ہوتا کہ اس کے آنے سے کوئی خاص اثر پیدا ہو جاتا ہے اس لئے وہ کام ہو جاتا ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ جس وقت کسی کامیابی کے سامان مہیا ہو جاتے ہیں تو وہی اس کے کرنے کا وقت ہوتا ہے اگر گیہوں کا دانہ ایک خاص وقت میں بونے سے اُگتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس وقت اس میں کوئی خاص بات پیدا ہو جاتی ہے بلکہ اس کے اُگنے کے لئے جو سامان ضروری ہوتے ہیں وہ اس وقت مہیا ہو جاتے ہیں اگر وہی سامان کسی دوسرے وقت مہیا ہو سکیں تو او وقت بھی وہ ضرور اُگ آئیگا۔ تو تمام کاموں کے لئے ضروری سامان مہیا ہونیگا ایک وقت مقرر ہے ۔ اسی طرح دُعا کے لئے بھی وقت مقرر ہیں ان وقتوں میں کی ہوئی دُعا بھی بہت بڑے نتائج پیدا کرتی ہے۔ جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اِتَّقُوْا دَعْوَۃَ الْمَظْلُوْمِ۔ مظلوم کی بد دعا سے ڈر و کیونکہ جب وہ ہر طرف مصائب ہی مصائب دیکھتا اور خداتعالیٰ کے سوا کوئی سہارا نہیں پاتا تو اس کی تمام تر توجہ خداتعالیٰ کی طرف پھر جاتی ہے اور وہ خداتعالیٰ کے آگے گِر پڑتا ہے اور اس وقت وہ جو بھی دعا کرتا ہے قبول ہو جاتی ہے کیونکہ دعا کے قبول ہونے کے سامانوں میں سے ایک اعلیٰ درجہ کا سامان یہ بھی ہے کہ انسان کی ساری توجہ ہر طرف سے ہٹ کر خداتعالیٰ ہی کی طرف ہو جائے۔ چونکہ مظلوم کی یہی حالت ہوتی ہے اس لئے اس کے لئے بھی یہ ایک موقعہ پیدا ہو جاتا ہے۔
اسی طرح دُعا کے قبول ہونے کے اوقات بھی ہیں۔ لیکن وہ ظاہری سامانوں کی حد بندیوں کے نیچے نہیں ہوتے بلکہ وہ انسانی قلوب کی خاص حالوتں ماور کیفیات سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں وہی انسان محسوس کر سکتا ہے جس پر وہ حالت وارد ہو۔ مگر دُعا کی قبولیت کا ایک او ر وقت بھی ہے جس کے معلوم کرنے کے لئے باریک قلبی کیفیات سے واقف ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی وہ وقت رمضان کا مہینہ ہے ۔ یہ آیت خداتعالیٰ نے روزوں کے ساتھ بیان کی ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ اس کا روزوں سے بہت گہرا تعلق ہے اور اس کے روزوں کے ساتھ بیان کرنے کی وجہ یہی ہے کہ جس طرح مظلوم کی ساری توجہ محدود ہو کر ایک ہی طرف یعنی خداتعالیٰ کی طرف لگ جاتی ہے اسی طرح ماہِ رمضان میں مسلمانوں کی توجہ خداتعالیٰ کی طرف ہو جاتی ہے۔ اور قاعدہ ہے کہ جب کوئی پھیلی ہوئی چیز محدود ہو جائے تو اس کا زور بہت بڑھ جاتا ہے جیسے دریا کا پات جہاں تنگ ہوتا ہے وہاں پانی کا بڑا زور ہوتا ہے اسی طرح رمضان کے مہینہ میں وہ اسباب پیدا ہو جاتے ہیں جو دعا کی قبولیت کا باعث بن جاتے ہیں ۔ اس مہینہ میں مسلمانوں میں ایک بہت بڑی جماعت ایسی ہوتی ہے جو راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتی ہے۔ پھر سحری کیلئے سب کو اُٹھانا پڑتا ہے اور اس طرح ہر ایک کو کچھ نہ کچھ عبادت کا موقعہ مل جاتا ہے۔ اس وقت لاکھوں انسانوں کی دُعائیں جب خداتعالیٰ کے حضور پہنچتی ہیں تو خداتعالیٰ ان کو رد نہیں کرتا۔ بلکہ انہیں قبول فرماتا ہے۔ اس وقت مومنوں کی جماعت ایک کرب کی حالت میں ہوتی پھر کس طرح ممکن ہے کہ ان کی دُعا قبول نہ ہو۔ درد اور کرب کی حالت کی دعا ضرور سنی جاتی ہے جیسے یوُنسؑ کی قوم کی حالت کو دیکھ کر خداتعالیٰ نے ان کو بخش دیا اور ان سے عذاب ٹل گیا اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ سب اکٹھے ہو کر خداتعالیٰ کے حضور جھک گئے تھے۔
اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ






لَعَلَّھُمْ یَتَّقُوْنَo
پس رمضان کا مہینہ دُعائوں کی قبولیت کے ساتھ نہایت گہرا تعلق رکھتا ہے یہی وہ مہینہ ہے جس میں دُعا کرنے والوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قَرِیْب’‘ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ اگر وہ قریب ہونے پر بھی نہ مل سکے تو اور کب مل سکیگا۔ جب بندہ اسے مضبوطی کے ساتھ پکڑ لیتا ہے اور اپنے عمل سے ثابت کر دیتا ہے کہ اب وہ خداتعالیٰ کا درچھوڑ کر اور کہیں نیہں جائیگا تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے دروازے اس پر کھل جاتے ہیں اور اِنِّیْ قَرِیْب’‘ کی آواز خود اس کے کانوں میں بھی آنے لگتی ہے جس کے معنے سوائے اس کے اور کیا ہو سکتے ہیں کہ خداتعالیٰ ہر وقت اس کے ساتھ رہتا ہے اور جب کوئی بندہ اس مقام تک پہنچ جائے تو اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اس نے خدا کو پالیا۔
۱۰۱؎ حل لغات:۔ رَفَث’‘: اَلرَّفَتُ کَلَام’‘ مُتَضَمِّن’‘ لِمَا ئُسْتَقْبَحُ ذِکْرُ ہ‘ مِنْ ذِکْرِ الْجَمَاعِ وَدَوَاعِیْہِ وَجَعَلَ کَنَا یَۃً عَنِ الْجَمَاعِ ۔
یعنی رَفَثَ کا لفظ جماع اور اس کے محرکات کے لئے کنایۃً استعمال ہوتا ہے۔ (مفردات)
لَبَاس’‘ لَّکُمْ: لِبَاس’‘ کے معنے اصل میں سِتْر’‘ کے ہیںیعنی ڈھانپنے والی چیز۔ مگر قراان کریم نے اس کے اور معنے بھی بتائے ہیں۔ چنانچہ سورہ اعراج میں لباس کے دو کام بتائے گئے ہیں فرماتا ہے۔ یَبَنِیْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوْارِیْ سَوْاٰتِکُمْ وَرِیْشًا(اعراف آیت ۲۷) یعنی اے بنی آدم! ہم نے تمہارے لئے لباس نازل کیا ہے جو تمہارے ننگ کو ڈھانکتا اور تمہیں زینت بخشتا ہے۔ لباس کا تیسرا کام ایک اور جگہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ جَعَلَ لَکُمْ سَرَابِیْلَ تَقِیْکُمُ الْحَرَّ وَسَرَابِیْلَ تَقِیْکُمْ بَاْسَکُمْ(نحل آیت ۸۲) اس نے تمہارے لئے گرمی سردی کے ضرر سے بچانے کے لئے سرابیل بنائے ہیں ۔ پس لباس کا تیسرا کام گرمی سردی کے ضر ر سے بچانا ہے۔
تَخْتَانُوْنَ: خَانَ یَخُوْنُ سے باب افتعال ہے۔ اور جمع مذکر حاضر کا صیغہ ہے ۔ اور اِخْتَانَہ‘ اِخْتِیَانًا کے معنے ہیں اُوْ تُمِنَ فَلَمْ یَنْصَھْ وَخَانَ الْعَھْدَ نَقَضَہ‘۔ یعنی اِخْتَافَ کے معنے ہیں امانت کا حق دار نہ کیا اور عہد کو توڑا(اقرب)
عَفَا عَنْکُمْـ: عَفَا عَنْہُ وَلَہ‘ ذَنْبَہ‘ وَعَنْ ذَنْبِہٖ صَفَحَ عَنْہُ وَتَرَکَ عُقُوْبَتَہ‘ وَ ھُوَ یَسْتَحِقُّھَا وَ اَعْرَضَ مُوَا خَذَ تِہٖ۔ یعنی عَفَا کے معنے ہیں (۱) اس کا قصور معاف کر دیا اور اس سے مواخذہ نہ کیا۔ (۲) اور عَفَااللّٰہُ عَنْ فُلَانٍ کے معنے ہیں مَحَا ذُنُوْبَہ‘ اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہ مٹا دیئے۔ (اقرب) (۳) وَقَدْ ئُسْتَعْمَلُ عَفَا اللّٰہُ عَنْکُمْ فِیْمَا لَمْ یَسْبَقْ بِہٖ ذَنْب’‘ وَلّا یُتَصَوَّرُ۔ عَفَا کا لفظ بعض دفعہ ایسے آدمی کے لئے بھی بولا جاتا ہے جس نے نہ کوئی گناہ کیا ہو اور نہ اس کے متعلق گناہ کا خیال ہو سکتا ہو(اقرب)
بَاشِرُوْ ھُنّ: باب مفاعلہ سے امر کا صیغہ ہے اور بَاشَرَ الْاَمْرَ کے معنے ہیں تَوَلَّاہُ بِنَفْسِہٖ اس نے خود کوئی کام کیا۔ وَبَاشَرَہُ النَّعِیْمُ: اَخَاضَ عَلَیْہِ حَتّٰی کَاَنَّہ‘ مَسَّ بَشْرَ تَہ‘۔ اور بَاشَرَ ہُ النَّعِیْمُ کے معنے ہیں اُسے اس کثرت سے نعمتیں حاصل ہوئیں کہ اس کے چمڑے کو چھونے لگیں۔ (اقرب) اور اَلْمُبَاشَرَۃُ کے معنے ہیں اَلْاِفْضَائُ بِالْبَشْرَ تَیْنِ۔ ہم صحبت ہونا(اقرب)
کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ۔ کَتَبَ لَہُ میں عام طور پر لام فائدہ کے لئے آتا ہے اور کتابت کے معنے مقدر کردینے اور فرض کر دینے کے ہیں۔ اس جگہ مقدر کر دینے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
مِنْ کے معنے اس جگہ امتیاز کے ہیں۔
عَاکِفُونَ: عَاکِف’‘ عَکَفَ سے اسم فاعل کا صیغہ ہے اور عَاکِفُوْنَ جمع کا صیغہ ہے۔ اور عَکَفَ کے معنے ہیں اَلْاِقْبَالُ عَلَی الشَّیْئِ وَ مُلَا زَمَتَہ‘ عَلٰی سَبِیْلِ التُعْظِیْمِ لَہ‘۔ یعنی کسی چیزک ی طرف پوری طرح متوجہ ہونا۔ اور اس کے ساتھ اس کی تعظیم کی خاطر تعلق قائم رکھنا یا اس میں رہنا۔ پس عَاکِفُوْنَ فِی الْمَسٰجِدِ کے معنے میں مسجدوں کا لازم پکڑنے والے اور ان میں بیٹھے رہنے والے۔
تفسیر:۔ فرماتا ہے روزوں کی راتوں میں تمہارے لئے اپنی عورتوں سے بے تکلف ہونا جائز ہے کیونکہ وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لبا س ہو۔
قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں لباس کے تین کام بتائے گئے ہیں اول ننگ ڈھانکنا۔ دوم زینت کا موجب ہونا۔ سوم سردی گرمی کے ضرر سے انسانی جسم کو بچانا۔ چنانچہ فرمایا ہے۔ یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَا سًا یُّوَارِیْ سَوْ اٰتِکُمْ وَرِیْشًا (اعراف آیت۲۷) یعنی اے آدم کی اولاد ہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا ہے جو تمہارے ننگ کو ڈھانکتا ہے اور تمہارے لئے زینت کا موجب بھی ہے۔ اسی طرح سورہ نحل میں فرماتا ہے۔ وَجَعَلَ لَکُمْ سَرَابِیْلَ تَقِیْکُمْ الْحَرَّ وَ سَرَابِیْلَ تَقِیْکُمْ بَاْسَکُمْ (نحل آیت ۸۲) یعنی اس نے تمہارے لئے کئی قسم کی قمیصیں بنائی ہیں جو تمہیں گرمی سردی سے بچاتی ہیں۔ اوربعض قمیضیں یعنی زر ہیں ایسی بھی ہیں جو تمہیں آپس کی جنگ کی سختی سے بچاتی ہیں۔ پس ھُنَّ لِبَاس’‘ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لَبَاس’‘ لَھُنَّ میں اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ مردوں اور عورتوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لئے ہمیشہ لباس کا کام دیں یعنی (۱) دوسرے کے عیب چھپائیں (۲) ایک دوسرے کے لئے زینت کا موجب بنیں (۳) پھر جس طرح لباس سردی گرمی کے ضر ر سے انسانی جسم کو محفوظ رکھتا ہے اسی طرح مرد عورت سُکھ دُکھ کی گھڑیوں میں ایک دوسرے کے کام آئیں۔ اور پریشانی کے عالم میں ایک دوسرے کی دلجمعی اور سکون کا باعث بنیں۔ غرض جس طرح لباس جسم کی حفاظت کرتا ہے اور اسے سرد ی گرمی کے اثرات سے بچاتا ہے اسی طرح انہیں ایک دوسرے کا محافظ ہونا چاہیے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی مثال دیکھ لو۔ انہوں نے شادی کے معًا بعد کس طرح اپنا سارا مال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا۔ تاکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو روپیہ نہ ہونے کی وجہ سے کوئی دقت پیش نہ آئے۔ اور آپ پورے اطمینان کے ساتھ خدمتِ خلق کے کاموں میں حصہ لیتے جائیں۔ یہ اہلی زندگی کو خوشگوار رکھنے کا کتنا شاندار نمونہ ہے جو انہوں نے پیش کیا۔
عَلِمَ اللّٰہُ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ فرماتا ہے اللہ تعالیٰ اس بات کو خوب جانتا ہے کہ تم اپنے نفسوں کے حقوق کو تلف کیا کرتے تھے اور ان کا پورا حق ادا نہیں کرتے تھے پس اس نے تم پر اپنے فضل سے توجہ کی اور تمہاری اس حالت کی اصلاح کر دی۔
یہ حق تلفی جس کی طرف اس آیت میں اشار ہ کیا گیا ہے درحقیقت اس والہانہ عشق کی وجہ سے تھی جو صحابہؓ کے دلوں میں عبادت اور ذکر الہٰی کے متعلق پایا جات تھا۔ انہوں نے جب رمضان کی برکات کا مشاہدہ کیا اور دیکھا کہ اللہ تعالیٰ ان دنوں میں آسمان سے اُتر آتا ہے اور بندوں پر اپنے انوار اور برکات کی بارش نازل کرتا ہے تو انہوں نے چاہا کہ وہ رمضان کی راتیں بھی ذکر الہٰی اور عبادت میں بسر کریں اور جنسی تعلقات سے بالا رہیں۔ اسی طرح کھانے پینے کے متعلق بھی بعض ناواجب قیود انہوں نے اپنے اوپر عاید کر رکھی تھیں۔ چنانچہ بخاری میں حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اس آیت کے نزول سے قبل صحابہؓ میں سے جب کوئی شخص افطاری سے قبل سو جاتا تو آنکھ کھلنے پر وہ نہ رات بھر کچھ کھاتا اور نہ اگلے دن کھاتا یہاں تک کہ پھر دوبارہ شام کا وقت آجاتا۔ ایک دفعہ ایک انصاری جو روزہ دار تھے انہوں نے افطاری کے قریب اپنی بیوی سے کچھ کھانے کے لئے مانگا۔ اس نے کہاکہ گھر میں تو کچھ نہیں مگر کہیں سے کچھ مانگ لاتی ہوں۔ انتے میں انہیں نیند آگئی او روہ سو گئے۔ بیوی باہر سے کھانا لے کر آئی تو چونکہ وہ سو چکے تھے نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ساری رات بھوکے رہے اور اگلے دن بھی ان کا روزہ ہی رہا۔ بارہ بجے کے قریب وہ شدت ضعف کی وجہ سے بیہوش ہو گئے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی اطلاع دی گئی تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلیٰ نَسَآئِکُمْ ھَنَّ لَبَاس’‘ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاس’‘ لَّھُنَّ اسی طرح یہ آیت نازل ہوئی کہ وَکُلُوْ ا وَاشْرَبُوْاحَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ (بخاری جلد اول کتاب الصوم) درحقیقتیہ پابندیاں یہود کی بعض رسوم کا نتیجہ تھیں ۔ یہود میں یہ رواج تھا کہ وہ ایٹونمنٹ ڈے یعنی یوم کفارہ کا جب روزہ رکھتے تو ایک صبح سے دوسری صبح تک نہ کچھ کھاتے نہ پیتے (جیوش انسائیکلوپیڈیا جلد ۵ صفحہ ۳۴۸)اُن کو دیکھ کر مسلمانوں کو بھی خیال پیدا ہوا کہ شاید جب آدمی سو جائے توا س کے بعد وہ کچھ نیں کھا سکتا۔ اسی طرح مر د عورت کے اختلاط کے متعلق خیال کرتے تھے کہ جس وقت کھانا منع ہو وہ بھی منع ہے ان خیالات کے وجہ سے اگر کوئی سو جاتا تو کھانا نہ کھاتا اور اپنی بیوی کے پاس بھی نہ جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ یہ بیفائدہ تکلیف ہے اس کی کچھ ضرورت نہیں صرف وہی پا بندی انسان کیلئے خیرو برکت کا موجب ہوتی ہے جو الٰہی منشاء کے مطابق ہو۔ ورنہ بلا ضرورت اپنے آپ کو مختلف قیدوں اور پابندیوں میں جکڑ تے چلے جانا اور درست نہیں ہوتا۔
فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَغَفَا عَنْکُمْ فرمایا کہ اب ہم نے تم پر رحم کر دیا ہے ۔ اور تمہارے لئے آسانی بہم پہنچادی ہے اس لئے خدا تعایلٰ کا سکر ادا کرو اور پہلے سے بھی زیادہ شوق اور مستعدی کے ساتھ نیک کاموں میں حصہ لو۔
اس سے معلوم ہوتا ہے ۔ کہ جب مومن بندے خدا تعالیٰ کی رضا ء کیلئے اپنے آپ کو کسی مشقت میں ڈالتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی رحمت جو ش میں آتی ہے اور وہ کسی نہ کسی شکل میں انسان کیلئے آسانیاں پیدا کر دیتا ہے ۔ گویا اُن کے اخلاص کا انہیں دم نقد فائدہ دے دیتا ہے ۔
پھر فرماتا ہے ۔ فَاْلٰٔنَ بَاشِرُدْھُنَّ وَاْبتَغُوْ امَا کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ ۔ کَتَبَ عَلَیْہِ اور کَتَبَ لَہٗ میں فرق ہے ۔ کَتَبَ عَلَیْہِ کے معنے ہوتے ہیں۔اُس پر فرض کیا گیا ہے ۔ اور کَتَبَ لَہکے منعے ہوتے ہیں اْس کیلئے کوئی انعام مقرر کیا گیا ہے ۔یا کوئی حق مقرر کیا گیا ہے ۔ (یا استعارۃً تقدیر مقررہ کے معنوں میں بھی آجاتا ہے )پاس اس آیت کے یہ معنی ہوئے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے جائز کیا ہے یا جن سے نہیں روکا اُن کے بے شک کرو۔ وہ تمہارا حق ہیں ۔ اُنکو چھوڑنے کی کوئی وجہ نہیں ۔یا یہ کہ جو اولاد اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے مقدر کر رکھی ہے ۔ اُس کی جستجو کرو یعنی جو طریق اولاد حاصل کرنیکا اُس نے مقرر کر رکھا ہے اسکے مطابق عمل کرو۔
اسی طرح وَاْبتَغُوْامَا کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْسے یہ بھی مراد ہے کہ اس مقدس مہینہ میں جو کچھ برکات خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے مقرر کر رکھی ہیں ان کے حصول کلیئے پوری کوشش کرو۔ پہلا طریق جو حقوق نفس کو تلف کرنے والا تھا اس کے نتیجہ میں ممکن تھا کہ تمہارے جسم کو کوئی نقصان پہنچ جاتا اور تم زیادہ محنت اور مشقت نہ کر سکتے ۔ مگر اب جبکہ ہم نے اس کی تلافی کر دی ہے اور تمہارے جسم کو بے جا کوفت سے بچال لیا ہے تمہارا فرض ہے کہ تم کمر ہمت باندھ کر خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اُن درجات عالیہ کی تلاس کرو جن کو خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے مقدر کر رکھا ہے ۔
وَکُلُوْ اوَاشْرَ بُوْ ا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمْ الْخَیْظُ اْلَا بْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَ سْوَ دِمِنَ الْفَجْرِ ۔فرماتا ہے تم اس وقت تک کھاؤ پیئو جب تک کہ تمہیں صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے ۔
جب یہ آیت نازل ہوئی تو احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صحابہ ؓ نے غلطی سے سیاہ اور سفید دھاگے اپنے پاس رکھنے شروع کر دئیے اور انہوں نے نے خیال کیا کہ ہمیں اس وقت تک کھانے پینے کی اجازت ہے جب تک کہ ہمیں سفید اور سیاہ دھاگے میں فرق نظر نہ آنے لگے ۔ چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عدیؓ رسول کریم صیل اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔اور انہپوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں نے سیاہ اور سفید دو دھاگے اپنے تکیہ کے نیچے رکھ دئیے ہیں تاکہ جب سیاہ اور سفید دھاگے میں فرق نظر آنے لگے تو مجھے معلوم ہو جائے کہ اب کھانا پینا چھوڑ دینا چاہیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی یہ بات سنکر فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے تمہارا تکیہ بہت چوڑا ہے کہ اُس کے نیچے خیط ابیض اور خیط اسود دونوں آگئے ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا ۔ اس سے مراد تو صرف رات کی سیاہی اور دن کی سفید ہے ۔ ظاہر ی دھاگے مراد نہیں ہیں (مسلم کتاب الصیام ) اسی طرح بعض اور صحابہ ؓ بھی سفید اور سیاہ دھاگے اپنے پاس رکھ لیتے تھے اور وہ اس وقت تک کھاتے پیتے رہتے ھتے جب تک کہ اہن دونوں میں انہیں فرق نظر نہ آجاتا۔ آکر اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ مِنَ الْفَجْرِ کے الفاظ نازل فرمائے تب انہیں معلوم ہوا کہ خیط ابیض اور خیط اسود سے سفید اور سیاہ دھاگے نہیں بلکہ اس سے صبح صادق اور صبح کا ذب کا فرق مراد ہے ۔
پنچاب میں میں بھی بعض زمیندار رمضان کی راتوں میں سفید اور سیاہ دھاگے اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔ اور چونکہ دھاگا اچھی روشنی میں نظر آتا ہے مدھم روشنی میں نظر نہیں آتا اس لئے وہ کافی روشنی ہونے تک کھاتے پیتے رہتے ہیں ۔بلکہ بعض لوگوں کی نظر چونکہ کمزور ہوتی ہے اس لئے ممکن ہے وہ دن چڑھنے کے بعد بھی اس آیت کی روسے کھاتے پینے کا جواز ثابت کر لیں کیونکہ انہیں سورج کی روشنی میں ہی اس فرق کا پتہ لگ سکتا ہے ۔بہر حال اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں خیط ابیض اور خیط اسود کے الفاظ استعارۃً استعمال فرمائے ہیں ۔ اور مراد یہ ہے کہ صرف اس وہم کی بنا پر کھانا پینا ترک نہیں کر دینا چاہیے کہ ممکن ہے صبح ہو گئی ہو۔ بلکہ اس کیلئے ضروری ہے کہ صبح صادق اور صبح کاذب میں امتیاز ہو اجائے اور پوپھٹ جائے ۔
ثُمَّ اَتِمُّو الصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ ۔اس جگہ لیل سے گہری تاریکی مراد نہیں بلکہ صرف سورج غروب ہونے کا وقت مراد ہے ۔ چنانچہ احادیث میں آتاہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔لَا یَزَالُ النَّاسُ بِخَیْرٍ مَا عَجَّلُو الْفِطْرَ (مسلم کتاب الصیام ) کہ جب تک لوگ سورج غروب ہوتے ہی روزہ افطار کرتے رہیں گے اُس وقت تک وہ خیر پر قائم رہیں گے ۔ یعنی احکام اسلامی کی حقیقی روح ان میں زندہ رہیگی ۔ ورنہ جب لوگ رسوم یا وہم سے کام لینے لگتے ہیںتو فرائض سے غافل ہو جاتے ہیں اور اُن کے اوہام انہیں دور ازسکار باتوں میں الجھا دیتے ہیں ۔ اور اُن کی حالت بالکل اس شخص کی سی ہو جاتی ہے ۔ جو نماز کی نیت باندھتے ہوئے اپنے وہم میں اس حد تک بڑھ گیا تھا کہ پہلے تو امام کو انگلی مار مار کر کہتا کہ پیچھے اس امام کے اور پھر رفتہ رفتہ اُس نے امام کو دھکے دینے شروع کر دئیے ۔ اِسی طرح جن لوگوں کاوہم بڑھ جاتا ہے وہ پہلے سورج کے غروب ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔ مگر چونکہ ابھی سُرخی باقی ہوتی ہے اس لئے اں کی تسلی نہیں ہوتی اور وہ زیادہ انتظار کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب گہری تاریکی چھا جائے تب افطاری کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب گہری تاریکی چھا جائے تب افطاری کرتے ہیں۔یہ طریق شریعت کے خلاف ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اَتِمُّو الصِیَّامَ اِلَی الَّیْلِ کا حکم دیا ہے ۔ اور لیل کا وقت سورج ڈوبنے سے لیکر سورج نکلنے تک ہے ۔ یہ مراد نہیں کہ جب تک اچھی طرح تاریکی نہ چھا جائے اس وقت تک تم روزہ افطار ہی نہ کرو۔
وَلَا تُبَاَ شِرُ وْھُنَّ وَاَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فِی الْمَسٰجِدِ ۔اس کے معتلق اختلاف ہوا ہے کہ آیا اعتکاف کی وجہ سے مباشرت ممنوع قرار دی گئی ہے ۔ یا مسجد کی حرمت کی وجہ سے ۔ میرے نزدیک اعتکاف کی وجہ سے مباشرت سے نہیں روکا گیا بلکہ مسجد کے احترام کی وجہ سے روکا گیا ہے ۔ جس کی طرف وَلَا تُبَاَ شِرُ وْھُنَّ وَاَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فِی الْمَسٰجِدکے الفاظ اشارہ کر رہے
وَلَا تَاْ کُلُوْآ

تَعْلَمُوْنَo
ہیں۔کہ مباشرت کی نفی اعتکاف کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ مساجد کی وجہ سے ہے ۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چہیے کہ مباشرت ملمں کو بھی کہتے ہیں ۔ اور احادیث سے ثابت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ایسی حالت میں جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اعتکاف میں بیٹھے ہوتے تھے آپ کا سر بھی پانی سے دھودیتی تھیںاور بالوں کی کنگھی بھی کر دیا کرتی تھیں (بخاری ابواب الاعتکاف)
پس اس جگہ مباشرت کی نہی سے محض مخصوص تعلقات یا اُس کے مبادی مراد ہیں جسم کو چھونا مراد نہیں۔
تِلْکَ حُدُ وْدُ اللّٰہِ فَلَا تَقْرَ بُوْھَا۔ فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں۔ تم اُن کے قریب بھی مت جاو تاکہ غلطی سے تمہارا قدم اللہ تعالیٰ کے محارم میں نہ جا پڑے ۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک دفعہ صحابہ ؓ کو اس امر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ دیکھو حلال بھی ظاہر ہے اور حرام بھی ظاہر ہے لیکن ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ امور بھی ہیں جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے ۔ پس جو شخص ان مشتبہ امور سے بچا اُس نے اپنے دین اور اپنی آبرو کو بچانے کیلئے بری احتیاط سے کام لیا۔ لیکن جو شخص ان مشتبہ امور میں جا پڑا وہ اس چروا ہے کی مانند ہے جو رکھ کے آس پاس اپنا ریوڑ چرارہا ہے۔ اور قریب ہے کہ اُس کا ریوڈ رکھ کے اندر چلا جائے ۔ پھر آپ نے نے فرمایا کہ اَلَا وَاِنَّ لِکُلِّ مَلِکٍ حِیً اَلَا اِنَّ حِیَ اللّٰہِ فِیْ اَرْضِہٖ مَحَارِمُہٗ ۔کان کھول کر سنو کہ ہر بادشاہ کی ایک رکھ ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی زمین میں اس کی رکھ اُس کی حرام کردہ چیزیں ہیں (بخاری الایمان باب فضل من اِسْتَبْرَأَ لدینہِ) پس محارم اللہ تعالیٰ کی رکھ ہوتے ہیں ۔اور اگر کوئی انسان اُن کے قریب جائے تو اس بات کا خطرہ ہوتا ہے کہ اُس کا قدم ڈگمگا جائے اور وہ ناجائز امور کا مرتکب ہو کر خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا موردبن جائے ۔پس اسل تقویٰ یہی ہے کہ انسان حدود اللہ کے قریب جانے سے بھی بچے تاکہ شیطان اُس کے قدم کو ڈگمگانہ دے ۔
کَذٰ لِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ اٰیٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَّقُوْنَ۔ اس میںآیات سے مراد احکام الٰہیہ ہیں۔ اور فرماتا ہے کہ ان احکام کی اصل غرض تمہارا اندر تقویٰ پیدا کرنا ہے ۔ پس تمہیں چاہیے کہ تم ہمیشہ تقوی اللہ کو محلوظ رکھو اور نہ صرف اللہ کی حدود کو نہ توڑو بلکہ شبہات کے بھی پرے رہنے کی کوشش کرو۔
مباد تمہارا قدم پھسل جائے اور تم تقویٰ سے دور چلے جاؤ۔
۱۰۲؎ حل لغات:۔ تَاکُلُوْا : اَکَلَ کے معنے کھانے کے ہوتے ہیں ۔لیکن جب غذا کے سوا اور چیزوں کے لئے یہ لفظ استعمال ہو تو اس کے معنے ہلاک کرنے یا فنا کر دینے کے ہوتے ہیں۔
تُدْلُوْا:اَدْلیٰ سے جمع مخاطب کا صیغہ ہے اور اَدْلیٰ اِدلَائً کے معنے ہیں اَرْسَلَ الدَّلْوَ فِی الْبِر، اس نے کوئیں میں ڈول ڈالا اور اَدْلیٰ فُلَا ن’‘ فِی فُلَافٍ کے معنے ہیں۔ قَالَ قَبِیْحًا اس نے کسی کے متعلق بُری بات کہی اور اَدْلیٰ بِحُجَّنِہٖ کے معنے ہیں اس نے اپنی دلیل پیش کی اور اَدْلیٰ اِلَیْہِ بِمَالٍ کے معنے ہیں۔ اس نے اُسے مال دیا۔(اقرب) تُدْلُوْا بِھَا اصل میں لَا تُدْلُوْ ابِھَا کے معنوں میں ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ (۱) ایک دوسرے کے مال حکام کے پاس نہ لے جائو۔ یعنی جھوٹے مقدمات بنا کر اُن کے مال نہ لو (۲) حاکموں کو بطور رشوت مال نہ دو۔
تفسیر:۔ اپنے مال کو تو انسان کھایا ہی کرتا ہے پس لَا تَاْکُلُوْا اَمْوَالَکُمْ سے مراد ہے کہ ایک دوسرے کے مال باطل کے ساتھ مت کھائو۔ انسان دوسرے کا ہل کئی طرح کھاتا ہے۔ اول جھوٹ بول کر ۔ دوم ناجائز ذرائع سے چھین کر۔ سوم سود کے ذریعہ سے۔ چہارام رشوت لے کر یہ سب امور باطل میں داخل ہیں۔
وَتُدْ لُوْا بِھَا اِلَی الْحُکِّامِ میں بتایا کہ جس طرح آپس میں ایک دوسرے کا مال کھانا ناجائز ہے۔ اسی طررح تم حکام کو بھی روپیہ کا لالچ نہ دو تاکہ اس ذریعہ سے تم دوسرے کا مال کھا سکو۔ اس آیت میں افسران بالا کو رشوت دینے کی ممانعت کی گئی ہے اور اُسے حرام اور ناجائز قرار دیا گیا۔
دوسرے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ اپنے مالوں کو حکام کے پاس نہ لے جائو تاکہ لوگوں کے مال کا ایک حصہ تم گناہ کے ذریعہ کھا جائو تاکہ لوگوں کے مال کا ایک حصہ تم گناہ کے ذریعہ مت کھا جائو۔یعنی ان کے متعلق جھوٹے مقدمات دائر نہ کرو۔ اور یہ نہ سمجھو کہ اگر حاکم انصاف کو ملحوظ نہ رکھتے ہوئے تمہیں کسی کا حق دلادے گا تو وہ تمہارے لئے جائز ہو جائیگا۔ کیونکہ دنیوی عدالتوں سے بالا ایک آسمانی عدالت بھی ہے اور جب اس نے اپنے قانون میں ایک چیز کو ناجائز قرار دے دیا ہے تو دنیا کی کوئی عدالت خواہ اُسے جائز بھی قرار دے دے وہ بہر حال ناجائز اور حرام ہی رہے گا۔
چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا فَمَنْ قَضَیْتُ لَہ‘ بِحَقَّ اَخِیْہِ شَیْئًا فَلَا یَاْ خُذُہ‘۔ فَاِنَّمَا اَقْطَعُ لَہ‘ قِطْعَۃً مِّنَ النَّارِ ۔ (بخاری جلد ۴ کتاب الاحکام) یعنی اگر میں کسی شخص کے لئے اس کے بھائی کے حق میں سے کسی چیز کا غلط فیصلہ کر دوں تو اُسے چاہیے کہ وہ اس کے لینے سے انکار کر دے کیونکہ میں اس کے لئے آگے کے ایک ٹکڑے کا فیصلہ کرتا ہوں۔
اسی طرح بخاری اور مسلم میں ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت آتی ہے کہ اَنَّہ‘ سَمِعَ خَصُوْمَۃً بِبَابِ حُجْرَتِہٖ فَخَرَجَ اِلَیْھِمْ فَقَالَ اِنَّمَا اَنَا بِشَر’‘ وَ اِنَّمَا یَاْ تِیْنِی الْخَصْمُ وَلَعَلَّ بَعْضَکُمْ اَنْ یَّکُوْنَ اَبْلَغَ مِنْ بَعْضٍ فَاَحْسِبُ اَنَّہ‘ صَادِق’‘ فَاَقْضِیَ لَہ‘ بِذٰلِکَ فَمَنْ قَضَیْتُ لَہ‘ بِحَقِّ مُسْلِمٍ فَاِنَّمَا ھِیَ قِطْعَۃ’‘ مِّنَ النَّارِ فَلْیَاْ خُذْ ھَااَوْیَنْرُکْھَا۔ (بخاری کتاب الاحکام) یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ اپنے مکان کے دروازہ پر کسی جھگڑے کی آواز سنی آپ شور سُن کر باہر تشریف لے آئے اور لوگوں سے فرمایا کہ دیکھو میں بھی ایک انسان ہوں۔ میرے پاس مقدمات والے آتے ہیں تو ممکن ہے کہ تم میں سے کوئی شخص دوسرے سے زیادہ چرب زبان ہو۔ اور میں اس کی باتوں کی وجہ سے خیال کرلوں کہ وہی سچا ہے اور میں اس کے حق میں فیصلہ کر دوں۔ پس اگر میں کوئی ایسای فیصلہ کر دوں تو جس شخص کیلئے میں کسی
یَسْئَلُوْنَکَ



لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo
مسلمان کے حق میں سے کسی چیز کا فیصلہ کروں اُسے سمجھ لینا چاہیے کہ وہ آگ کا ایک ٹکڑا ہے جو میں نے اُسے دیا ہے اور اسے اختیار ہے کہ وہ چاہے تو اس آگ کے ٹکڑا پر قبضہ کر لے اور چاہے تو اُسے چھوڑ دے۔
۱۰۴؎ حل لغات:۔ اَلْاَ ھِلَّۃ۔ ھَلَال’‘ کی جمع ہے ۔ وَقِیْلَ یُسَمّٰی ھِلَا لًا لِلَیْلَتَیْنِ اَوْ اِلیٰ ثَلَاثٍ اَوْ اِلیٰ سَبْعٍ۔ اور ہلال دوراتوں کے چاند کو کہتے ہیں۔ اسی طرح تین اور سات راتوں کے چاند کو ہلال کہا گیا ہے۔(اقرب الموارد)
مَوَاقِیْتُ: مِیْقَات’‘ کی جمع ہے اور اَلْمِیْقَاتُ کے معنے ہیں۔ اَلْوَقْتُ۔ وقت۔ وَقِیْلَ اَلْوَقْتُ الْمَغْرُوْبُ لِلْشَّیْئِ۔ اور کہا گیا ہے کہ میقات سے مراد وہ خاص وقت بھی ہے جو کسی کام کے لئے مقرر کیا جائے۔ وَالْمُوْعِدُ الَّذِیْ جُعِلَ لَہ‘ وَقْت’‘۔ اور میقات اس چیز کو بھی کہتے ہیں جس کے لئے کوئی وقت مقرر کیا گیا ہو۔ وَقَدْ یُسْتَعَارُ لَلْمَوْضِعِ الَّذِیْ جُعِلَ وَقْتًا لِشَّیْئِ۔ اور وہ خاص جگہ جہاں کوئی خاص کام وقت مقرر پر کیا جائے۔ اُسے بھی میقات کہتے ہیں۔(اقرب)
تفسیر: صحابہ کرامؓ نے جب دیکھ ا کہ کس طرح رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ ان کے قریب آجاتا اور ان کی دُعائوں کو قبول فرماتا ہے۔ تو ان کے دلوں میں شوق پیدا ہوا کہ وہ باقی مہینوں کے بارہ میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
سے سوال کریں تاکہ وہ ان کی برکات سے بھی مستفیض ہو سکیں۔ چنانچہ فرمایا کہ لوگ تجھ سے چاندوں کے بارہ میں سوال کرتے ہیں تو انہیں کہدے کہ ھِیَ مَوَ اقِیْتُ لِلنَّاسِ یہ لوگوں کے لئے وقت کا اندازہ کرن کا ایک ذریعہ ہیں۔ یعنی ہر قمری مہینہ اس لئے مقرر نہیں کیا گیا کہ اس کے ساتھ شریعت کے کسی خاص حکم کا تعلق ہے بلکہ ان مہینوں کا چاند کے ساتھ اس لئے تعلق رکھا گیا ہے کہ ان کے ذریعہ گذشتہ یا آئندہ کام کا وقت پہچانا جاتا ہے اور پھر لِلنَّاس ِ فرمایا کہ بتایا کہ عوام کے فائدہ کے لئے یہی چاند کے مہینے کام دیتے ہیں۔ ورنہ وہ حساب جس کی سورج کی گردش پر بنیاد ہے اس سے صرف علمی طبقہ ہی فائدہ اٹھا سکتا ہے عام لوگ اس سے فائدہ اُٹھانے کی استعداد نہیں رکھتے۔
پھر فرمایا وَالْحِجِّ۔ قمری مہینوں کا دوسرا فائدہ حج سے تعلق رکھتا ہے یعنی بوجہ اس کے کہ حج کا فریضہ قمری مہینہ میں ادا کیا جاتا ہے۔ یہ عبادت سارے سال میں چکر لگاتی رہتی ہے اور مختلف طبائع کے لوگ اور گرم سرد ممالک کے رہنے والے اپنی اپنی طبیعت اور اپنے اپنے حالات کے مطابق اس میں حصہ لے سکتے ہیں۔ اگر حج کسی شمسی مہینہ میں مقرر کر دیا جاتا تو لازماً وہ ہر سال ایک ہی مہینہ میں ہوتا۔ اور کئی لوگوں کے لئے حج کا فریضہ ادا کرنا ناممکن ہو جاتا۔ مگر اب حج کی عبادت سارے سال میں چکر لگاتی رہتی ہے اور ہر شخص اپنے اپنے حالات کے مطابق بیت اللہ کا سفر کر کے حج کی برکات سے مستفیق ہو سکتا ہے۔
ھِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اسلام کے نزدیک چاند ہی وقت کا اندازہ کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ کیونکہ قرآن کریم کی دوسری آیات میں سورج کو بھی وقت کا اندازہ کرنے کا ایک ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ سورۃ یونس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَآئً وَّ الْقَمَرَ نُوْرًا وَّ قَدَّرَہ‘ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْ ا عَد۔ دَ السِّنِیْنَ وَالْحِسَابَ (یونس آیت۶) یعنی وہ خدا ہی ہے جس نے سورج کو اپنی ذات میں ایک روشن وجود بنایا ہے اور چاند کو نور بنایا ہے جوسورج سے اکتسابِ نور کر رہا ہے۔ اسی طرح سورج افور چاند کی ہم نے منازل مقرر کر دی ہیں تاکہ تمہیں سالوں کی گنتی اور حساب معلوم ہوا کرے۔ پھر سور انعام میں فرماتا ہے ۔ فَالِقُ الْاِ صْبَاحِ وَجَعَلَ الَّیْلَ سَکَنًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا ط ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْرِ الْعَلِیْمِ(انعام آیت۹۷) یعنی خدا صبح کو ظاہر کرنے والا ہے اور اس نے رات کو سکون اور آرام کا موجب اور سورج اور چاند کو حساب کا ذریعہ بنایا اور یہ فیصلہ ایک غالب اور علم رکھنے والے خدا کا ہے۔
اسی طرح سورہ رحمٰن میں فرماتا ہے اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانِ(رحمن آیت۶) سورج اور چاند دونوں ایک حساب کے ماتحت کام کر رہے ہیں یعنی ان کی حرکات قانون سے آزاد نہیں بلکہ ایک معین اور مقرر ہ قانون کے مطابق ہیں۔ اور اسی مقررہ قانون کا یہ نتیجہ ہے کہ وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ یَسْجُدَانِ زمین کی روئیدگی اور سبزہ سب اپنے اُگنے ۔ نشوونما پانے اور پھل لانے میں سورج اور چاند کے پیچھے چلتے ہیں اور ان سے متاثر ہوتے ہیں۔
ان آیات قرآنیہ سے واضح ہے کہ تاریخ اور حساب کے ساتھ سورج اور چاند دونوں کا تعلق ہے۔ اور یہ علوم کبھی ظاہر نہیں ہو سکتے تھے اگر سورج اور چاند کا وجود نہ ہوتا۔ اگر سورج اور چاند نہ ہوتے تو دنوں اور سالوں کا اندازہ ہی نہ ہو سکتا۔ اس لئے کہ اندازہ اور فاصلہ معلوم کرنے کے لئے کسی مستقل چیز کا موجود ہونا ضروری ہوتا ہے۔ جیسے پٹواری حساب لگاتے ہیں تو کہتے ہیں فلاں زمین فلاں کنوئیں سے اتنے کرم کے فاصلے پر ہے یا فلاں درخت سے اتنے کرم کے فاصلے پر ہے۔ پس چونکہ کسی مستقل چیز کے بغیر فاصلہ کا معلوم کرنا ناممکن ہوتا ہے اس لئے اگر سورج اور چاند نہ ہوتے تو سالوں اور دنوں کا اندازہ بھی نہ ہو سکتا۔
اسلام نے اپنی عبادات میں سورج اور چاند دونوں سے وقت کے اندازے کئے ہیں۔ مثلاً دن بھر کی نمازوں کے اوقات اور روزہ کی ابتداء اور اس کی افطاری وغیرہ کا تعلق شمسی نظام کے ساتھ ہے۔لیکن جہاں عبادات کسی خاص مہینہ سے تعلق رکھتی ہیں وہاں قمری نظام سے کام لیا گیا ہے جیسے رمضان اور ایام حج کے لئے قمری مہینوں کو اختیار کیا گیا ہے تاکہ دونوں عبادتیں سال کے ہر حصہ میں چکر کھاتی رہیں۔ اور ایک مومن فخر کے ساتھ یہ کہہ سکے کہ اس نے سال کے ہر حصہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کی ہے۔ مثلاً رمضان کا انحصار چونکہ قمری مہینوں پر ہے ۔ اس لئے ۳۶ سال میں ایک دور ختم ہو جاتا ہے اور رمضان کبھی جنوری میں آجاتا ہے اور کبھی فروری میں کبھی مارچ میں اور کبھی اپریل میں اس طرح سال کے ۳۶۰ دنوں میں سے ہر دن ایسا ہوتا ہے جس میں انسان نے روزہ رکھا ہوتا ہے لیکن اگر شمسی مہینوں پر روزے مقرر ہوتے تو اگر ایک دفعہ جنوری میں روزے آتے تو پرھ ہمیشہ جنوری میں ہی روزے رکھنے پڑتے اور اس طرح عبادت کو وسعت حاصل نہ ہوتی۔ پس عبادت کو زیادہ وسیع کرنے کے لئے اور اس غرض کے لئے کہ انسان اپنی زندگی کے ہر لحظہ کے متعلق کہہ سکے کہ وہ اس نے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گذارا ہے۔ عبادت کا انحصار قمری مہینوں پر رکھا گیا ہے لیکن سال کے اختتام یا اس کے شروع ہونے کے لحاظ سے انسان دماغ سورج سے زیادہ تسلی پاتا ہے۔ بہر حال قمری اور شمسی دونوں نظام حساب کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ جہاں تک عوام الناس کا تعلق ہے وہ چاند کے مہینوں سے ہی زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کیونکہ شمسی نظام سے تعلق رکھنے والے حسابات ان کی علمی استعداد سے بالا ہوتے ہیں۔
وَلَیْسَ الْبِرَّ بِاَنْ قَاْتُواالْبُیُوْتَ مِنْ ظُھُوْرِھَا کہتے ہیں اسلام سے پہلے عربوں کا دستور تھا کہ جب وہ حج کے لئے احرام باندھ لیتے اور اس دوران میں انہیں گھر آنے کی ضرورت پیش آتی تو وہ دروازوں سے آنے کی بجائے گھروں کی پشت سے دیوار پھاند کر آتے تھے(بخاری کتاب التفسیر) ہو سکتا ہے کہ یہ آیت اسی کے متعلق ہو کہ تم ایسا نہ کرو مگر میرے نزدیک چونہ اس آیت سے پہلے گھروں کی پشت سے داخل ہونے کا کوئی ذکر نہیں۔ اس لئے اس آیت کے یہ معنی نہیں کہ تم گھروں میں ان کی پشت سے داخل نہ ہو بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر کام کو سر انجام دینے کے جو صحیح طریق مقرر کئے گئے ہیں تم ان سے کام لو ورنہ تمہیں کامیابی حاصل نہ ہو گی۔ چنانچہ دیکھ لو اس سے پہلے یہ سوال بیان کیا گیا ہے کہ رمضان میں تو ہم نے مشقت برداشت کی اور خداتعالیٰ ہمیں مل گیا۔ اب ہمیں بتایا جائے کہ باقی مہینوں میں ہم نفس کشی کے لئے کیا کریں اور کون کون سے طریق اختیار کریں۔ خداتعالیٰ نے بتایا کہ تمہاری خواہش تو نیک ہے مگر یہ یاد رکھو کہ خداتعالیٰ تک پہنچنے کا یہ ذریعہ نہیں کہ زیادہ تکلیف اٹھا ئو بلکہ حقیقی ذریعہ یہ ہے کہ جو طریق ہم نے نیکی میں تریقی کرنے کے تمہیں بتائے ہوئے ہیں تم ان پر عمل کرو۔ تمہیں خود بخود اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو جائیگا۔ اور اگر تم ایسا نہ کرو توتمہاری مثلا ایسی ہی ہو گی جیسے کوئی آقا اپنے ملازم کو بلائے اور وہ دیر کر کے آئے تو پوچھے تم دیر کر کے کیوں آئے ہو۔ اس پر وہ کہدے کہ دروازے سے نہیں آیا بلکہ دیوار پھاند کر آیا ہوں اور مجھے دیوار پھاند نے میں بہت دیر لگ گئی تھی اس لئے میں جلد ی نہیں پہنچ سکا۔ اگر وہ یہ جواب دے تو کیا تم سمجھ سکتے ہو کہ اس جواب سے اس کا آقا خوش ہو جائیگا۔ اور اُسے انعام دیگا اور کہہ گا کہ چونکہ یہ دیوار پھاند کر آیا ہے اور اس نے بڑی مشقت برداشت کی ہے اس لئے اسے ترقی دی جائے؟ اسی طرح خواہ مخواہ مشقت اُٹھا کر اپنی طرف سے نئی نئی راہیں ایجاد کرنا اور ان پر اپنا وقت ضائع کرنا اور اپنے قویٰ کو نقصان پہنچانا کوئی نیکی نہیں۔ نیکی یہ ہے کہ لوگ اپنے آسمانی آقا کی آواز پر لبیک کہیں اور اس راستہ کو اختیار کرین جو شریعت نے ان کے لئے قائم کر دیا ہے غرض اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ وہ طریق جو میں نے تمہیں بتائے ہوئے ہیں اگر ان کے ژریعہ سے تم میرے پاس آئو گے تو مجھ تک پہنچ سکو گے اور اگر اور ذرائع عمل میں لائو گے اور ان میں تمہیں بتائے ہوئے ہیں اگر ان کے ذریعہ سے تم میرے پاس آئو گے تو مجھ تک پہنچ سکو گے اور اگر اور ذرائع عمل میں لائو گے اور اُن میں تمہیں محنت بھی زیادہ کرنی پڑے تو یہ زیادہ محنت کرنا تمہیں خداتعالیٰ تک نہیں پہنچائیگا۔ جیسا کہ ہندئووں میں سے بعض اُلٹے لٹکے رہتے ہیں بعض اپنے ہاتھ کھڑے کر کے خشک کر لیتے ہیں۔ مگر انہیں خداتعالیٰ کی کوئی رضا حاصل نہیں ہوتی۔ اس کے مقابلہ میں مسلمان بھی عبادتیں کرتے ہیں جو مشقت میں ان سے بہت کم ہوتی ہیں لیکن پھر بھی وہ رضائے الہٰی کو حاصل کر لیتے ہیں۔
افسوس ہے کہ مسلمانوں نے بھی جیج اعوج کے دور میں بڑی بڑی مشقتیں اپنے نفس پر دارد کیں اور وہ غلط راستہ پر چلنے
ٓوَقَاتِلُوا فِیْ
یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَo
لگے۔ بیسیوں قسم کی چلہ کشیاں تھیں جو انہوں نے اختیار کر لیں اور بیسیوں قسم کے ذکر تھے جو انہوں نے خود ہی ایجاد کر لئے۔ اگر مسلمان اپنے آپ کو ان مشقتوں میں ڈالنے کی بجائے قرآن کریم کے احکام پر عمل کرتے تو وہ قرب الہٰی کی ان منازل کو دنوں میں طے کر لیتے جنہیں وہ سالوں میں بھی طے نہ کر سکے۔ بلکہ ان ریاضتوں کے نتیجہ میں ان میں سے کئی مسلوں اور مدقوق ہو کر مر گئے۔ کئی دیوانے ہو گئے اور کئی مر گی کا شکار ہو گئے۔
وَاْتُواالْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَا بِھَا وَاتَّقُوااللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ۔ اس میں بتایا کہ کامیابی ہمیشہ ابواب ہی کے ذریعہ اانے سے ہوا کرتی ہے۔ اگر تم ایسا نجیہں کرتے اور دروازوں میں سے داخل ہونے کی بجائے دیواریں پھاند کر اندر داخل ہونا چاہتے ہو تو تمہیں کبھی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ مثلاً لڑائی کے زمانہ میں اگر تم ہتھیاروں سے کام لینا نہ سیکھو اور جنگی فنون کی تربیت نہ لو بلکہ یونہی سینہ تان کر دشمن کے سامنے چلے جائو۔ تو تم کامیاب نہیں ہو سکتے۔ لیکن اگر چھوٹی سے چھوٹی تلوار بھی تمہارے پاس ہو یا تمہیں لاٹھی چلانا ہی آتا ہو تو تم قوم کے لئے مفید وجود بن سکتے ہو۔ پس کامیابی کے لئے ان ذرائع اور اسباب کو استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے مقرر کئے ہوئے ہیں۔ ورنہ اسے ناکامی کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ پھر وَاتَّقُوااللّٰہَ کہہ کر اس طرف ۹اشارہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے قانون اور اس کے نظام کی ہتک کرنا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے مقرر کئے ہوئے ہیں انہی کے مطابق چلو اپنے پاس سے نئے نئے طریق وضع نہ کرو۔ مثلاً رمضان کے مہینہ میں بیشک روزے رکھنا ایک بڑی نیکی ہے لیکن اگر اسی پر قیاس کرتے ہوئے کوئی شخص کسی اور مہینہ میں بھی تیس تیس روزے رکھنے شروع کر دے اور سمجھے کے وہ اس طرح اللہ تعالیٰ کو راضی کر لیگا تو وہ ایسا ہی ہو گا جیسے کوئی دوروازہ سے داخل نہ ہو بلکہ نقب لگا کر داخل ہو اور اندر جا کر کہے کہ دیکھئے میں کسی مشقت اٹھا کر آپ تک پہنچا ہوں۔ ایسے شخص کی کوئی تعریف نہیں کر سکتا بلکہ ہر شخص اسے ملامت کرے گا اور اس کے فعل کو قبلِ ندمت قرار دیگا۔
۱۰۵؎ تفسیر:۔ اب اللہ تعالیٰ نے دینی جنگوں کے احکام بیان کرنے شروع کئے ہیں۔ چنانچہ اس پہلی آیت میں ہی اللہ تعالیٰ نے وہ تمام شرائط بیان کر دی ہیں جن کو مذہبی جنگوں میں ملحوظ رکھنا ضروری ہوتا ہے ۔ چنانچہ فرمایا ہے اسے مسلمانو! ان کفار سے جو تم سے جنگ کر رہے یہں تم بھی محض اللہ تعالیٰ کی خاطر جس میں تمہارے اپنے نفس کا غصہ یا نفس کی ملونی شامل نہ ہو جنگ کرو اور یاد رکھو کہ جنگ میں بھی کوئی ظالمانہ فعل نہیں کرنا کیونکہ اللہ تعالیٰ ظالموں کو بہر حال پسند نہیںکرتا۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ جس جنگ کا مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے وہ صرف وہی ہے جو اول فی سبیل اللہ ہو۔ یعنی ذاتی لالچوں ، ذاتی حرصوں ملک کے فتح کرنے کی نیت یا اپنے رسوخ کو بڑھانے کی نیت سے نہ ہو بلکہ صرف خداتعالیٰ کے لئے ہو یعنی ان مشکلات کو دور کرنے کے لئے ہو جو خداتعالیٰ کی راہ میں اور اس کے دین کے راستہ میں پیدا کی گئی ہوں۔ اگر وہ دینی جنگ نہیں تو اُسے فی سبیل اللہ نہیں کہا جا سکتا۔ مسیحی مصنف فی سبیل اللہ کے الٖاط سے دھوکہ کھاتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ فی سبیل اللہ سے مراد زبردستی مسلمان بنانے کے ہوتے ہیں۔ حالانکہ یہ بالکل غلط ہے اس کے معنے تو یہ یہیں کہ صرف وہی جنگ جائز ہے جو خداتعالیٰ کے منشاء کے مطابق اور اس کی رضا چاہنے کے لئے ہو۔ چنانچہ اسی قسم کے الفاظ اسی سورۃ کی آیت نمبر۲۶۳ میں بھی استعمال کئے گئے ہیں۔ جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ لَا یُتْبِعُوْنَ مَآ اَنْفَقُوْا مَنَّاً وَّ لَآ اَذَیً لَّھُمْ اَجْرُ ھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَلَا خَوْف’‘ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَفُوْنَ۔ یعنی جو لوگ اپنے مالوں کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور پھر خرچ کرنے کے بعد نہ کسی رنگ میں احسان جتاتے ہیں اور نہ کسی قسم کی تکلیف دیتے ہیں ان کے رب کے پاس ان کے اعمال کا بدلہ محفوظ ہے اور نہ تو انہیں کسی قسم کا خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہونگے۔ اس آیت میں جو فی سبیل اللہ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں انہیں کی تشریح آیت نمبر۲۶۶ میں ان الفاظ میں کی گئی ہے کہ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمُ ابْتِغَآئَ مَرْمنَاتِ اللّٰہِ یعنی وہ لوگ اپنے اموال اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے خرچ کرتے ہیں۔
اسی طرح لسان العرب جو لغت کی مشہور کتاب ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ کُلُّ مَا اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖ مِنَ الْخَیْرِ فَھُوَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَیْ مِنَ الطُّرُقِ اِلَی اللّٰہِ یعنی ہر نیکی جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے راستوں میں سے ایک راستہ ہے جو انسان کو خداتعالیٰ تی پہنچا دیتا ہے۔ اور نہایۃ میں لکھا ہے۔ وَسَبِیْلِ اللّٰہِ عَامّ’‘ یَقَعُ عَلیٰ کُلِّ عَمَلٍ خَالِصٍ سُلِکَ بِہٖ طَرِیْقُ التَّقَرُّبِ اِلَی اللّٰہِ تَعَالیٰ بِاَدَامِ الْفَرَائِضِ وَالنَّوَافِلِ وَاَنْوَاعِ التَّطَّوُّعَاتِ یعنی سَبِیْلِ اللّٰہ ایک عام اصلاح ہے جس کا اطلاق ہر ایسے عمل نیک پر ہوتا ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی خوشنودی حاسل کی جاتی ہو۔ خواہ وہ فرائض کی ادائیگی کے ذریعہ ہو یا نوافل یا دوسری نیکیوں میں حصہ لینے کے ذریعہ ہو۔
پس قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کے یہ معنے نہیں کہ تم دوسروں کو زبردستی مسلمان بنانے کے لئے جنگ کرو۔ بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ جب کوئی قوم دین کے بارہ میں تم سے جنگ کرے اور تمہارا مقدس مذہب تم سے زبارستی چھڑانا چاہے تو اس وقت تمہارا فرض ہے کہ تم محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اور دینی مشکلات کو دور کرنے کے لئے دشمن سے جنگ کرو۔ پس اس میں کفار کو زبردستی مسلمان بناے کا کوئی ذکر نہیں بلکہ کفار کے اس جبر کو دور کرنے کا ذکر ہے جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے لئے مذہبی آزادی تک باقی نہیں رہی تھی۔
دوسری شرط اللہ تعالیٰ نے اس میں یہ بیان کی ہے کہ لڑائی صرف انہی لوگوں سے جائز ہے جو مسلمانوں کے مقابلہ میں ہتھیار اُٹھا چکے ہوں۔ جیسا کہ یُقَاتِلُوْ نَکُمْ کے الفاظ اس پر شاہد ہیں۔
تیسری شرط جو یُقَاتِلُوْ نَکُمْ میں بیان کی گئی ہے یہ ہے کہ تمہارے لئے صرف انہی سے جنگ کرنا جائز ہے جو تم سے لڑتے ہیں۔ یعنی جو لوگ باقاعدہ سپاہی نہیں اور لڑائی میں عملاً حصہ نہیں لیتے جیسے بچے بوڑھے عورتیں وغیرہ ان کو مارنا یا ان سے لڑائی کرنا جائز نہیں گویا سول آبادی کو لڑائی کے دائرہ سے کلیتہ باہر رکھا گیاہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تعلیم کی جو تشریح فرمائی ہے وہ ان احکام سے ظاہر ہے جو آپ اس وقت دیتے تھے جب آپ کسی کو کمانڈر بنا کر جنگ پر بھجواتے تھے۔ چنانچہ مسلم جلد ۲ کتاب الجہاد میں لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی لشکر یا دستہ فوج کا کسی کو افسر بنا کر بھجواتے تھے تو آپ اُسے اور دوسرے مسلمانوں کو نصیحت فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اور پھر فرماتے اُغْزُوْا بِسْمِ اللّٰہِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔ اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اور اللہ تعالیٰ کی خاطر جنگ کے لئے جائو۔ قَاتِلُوْ امَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ اس شخص کے ساتھ جنگ کر و جو اللہ تعالیٰ کا کفر اختیار کرے۔ اس کے یہ معنے نہیں کہ تم کافر سے لڑو بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ جس شخص سے تمہاری لڑائی ہے اگر وہ مسلمان ہو جائے تو پھر تم نے اس سے لڑنا نہیں تمہیں لڑائی کی صرف اس وقت تک اجازت ہے جب کفر اللہ کی شرط موجود ہے۔اگر کسی شخص نے لڑائی تو شروع کی مگر جب تمہارا لشکر پہنچا تو اس نے کہدیا کہ میں اسلام اختیار کرتا ہوں تو بس لڑائی ختم ہو جائیگی ۔ وَلَا تَغُلُّوا اور قطعی طور پر خیانت سے کام نہ لو۔وَلَا تَغْدِرُوا اور بد عہدی نہ کرو۔دھوکہ بازی سے کام نہ لو۔ اگر تم اپنے دشمن سے کوئی وعدہ کر لو تو بعد میں اُسے کسی بہانہ سے توڑنے کی کوشش نہ کرو۔ وَلَا تُمَثِّلُوْا اور تم مثلہ نہ کرو یعنی کفار اپنی رسم کے مطابق اگر مسلمان مقتولین کے ناک کان بھی کاٹ دیں تو بھی تم ان کے مردوں کے ساتھ یہ سلوک نہ کرو۔ وَلَا تَقْتُلُوْا وَلِیْدًا اور کسی نابالغ بچے کو نہ مارو کیونکہ وہ جنگ میں شامل نہیں ہوا۔ سیرتِ حلبیہ میں اس کے علاوہ بعض اور نصائح بھی درج ہیں۔ اس میں لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہؓ کو جنگ پ رجاتے وقت یہ نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ لَاتَقْتُلُوا اِمْرَئَ ۃً۔ کسی عورت کو نہیں مارنا۔ وَلا مُعْتَزِلًا بِصوْمَعَۃٍ۔ اور عبادت گاہوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو بھی نہیں مارنا۔کیونکہ گودہ ایک ایسی قوم کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں جو تمہاری مخالف ہے مگر وہ خدا کا نام لیتے ہیں پھر فرماتے وَلَا تَقْرَبُوْا نَخْلًا۔ کسی کھجور کے درخت کے قریب بھی نہ جانا یعنی کھجور کو نقصان پہنچانے کا خیال بھی نہ کرنا۔ کیونکہ اس سے ان کے رزق پر اثر پڑتا ہے اور تمہارا حملہ ان کے حملے کو دور رکھنے کی نیت سے ہے ان کو مستقل تباہ کرنے کی غرض سے نہیں۔وَلَا تَقْطَعُوْا شَجَرًا بلکہ کوئی درخت بھی نہ کاٹنا کیونکہ وہ غریبوں اور مسافروں کو سایہ دینے کے کام آتا ہے اور تم لڑنے کے لئے جا رہے ہو اس لئے نہیں جا رہے کہ وہ قوم سایہ سے بھی محروم ہو جائے۔ وَلَا تَھْدِ مُوْا بِنَائً۔ اسی طرح عمارتوں کو مت گِرائو۔ قلعہ کا انہدام ایک علیحٰدہ چیز ہے۔ وہ جنگ کے حملے کو روکنے کے لئے ہوتا ہے۔ مگر یہ جائز نہیں کہ کسی ملک کے باشندوں کے بے گھر کر دیا جائے اورا ن کے مکانوں کو گرادیا جائے یا انہیں آگ لگا دی جائے۔ اسی طرح آپ کی دوسری ہدایات میں ہے کہ ملک میں ڈر اور ہراس پیدا نہ کیا جائے۔ دنیوی حکومتیں جب کسی ملک میں داخل ہوتی ہیں تو اندھا دھند مظالم شروع کر دیتی ہیں محض اس لئے کہ حکومت کا رعب قائم ہو جائے۔ مگر اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب مفتوحہ ممالک میں جائو تو ایسے احکام جاری کرو جن سے لوگوں کو آسانی ہو تکلیف نہ ہو۔ اور فرمایا جب لشکر سڑکوں پر چلے تو اس طرح چلے کہ عام مسافروں کا راستہ نہ رکے ایک صحابیؓ کہتے ہیں ایک دفعہ لشکر اس طر نکلا کہ لوگوں کے لئے اپنے گھروں سے نکلنا اور راستہ چلنا مشکل ہو گیا اس پر آپ نے منادی کروائی کہ جس نے مکانوں کو بند کیا راستہ روکا اس کا جہاد جہاد نہیں رہیگا۔
غرض اسلام کہتا ہے کہ تم کو جنگ میں عورتوں کے مارنے کی اجازت نہیں تم کو بچوں کے مارنے کی اجازت نہیں ۔ تم کو بڈھوں کے مارنے کی اجازت نہیں۔ تم کو بد عہدی کر نے کی اجازت نہیں۔ تم کو دھوکا دینے کی اجازت نہیں۔ تم کو مقتولین کے ناک کان کاٹنے کی اجازت نہیں۔ تم کو پادریوں اور پنڈتوں اور گیانیوں کو مارنے کی اجازت نہیں۔ تم کو کوئی باغ اور درخت کاٹنے کی اجازت نہیں۔ تم کو کوئی عمارت گرانے کی یا اُسے آگ لگانے کی اجازت نہیں ور اگر کبھی ان ہدایات کی خلاف ورزی ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ عرب کے دستور کے مطابق عورتیں بھی لڑائی میں شامل ہوتی تھیں اور چونکہ وہ دوسروں کو قتل کرتی تھیں لازماً وہ خود بھی قتل کی جاتی تھیں مگر ایک موقعہ پر ایک لڑائی کے بعد جب ایک عورت کی لاش آپ نے دیکھی تو آپ کے چہرے پرغم اور غصہ کے آثار ظاہر ہوئے اور آپ نے فرمایا اسلام اس کو پسند نہیں کرتا یہ فعل اسلامی تعلیم کے خلاف ہوا ہے(بخاری جلد۲ کتاب الجہاد والسیر) اُحد کی جنگ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تلوار پیش کی اور فرمایا یہ تلوار میں اس شخص کو دونگا جو اس کا حق ادا کرنے کا وعدہ کرے۔ بہت سے لوگ اس تلوار کو لینے کے لئے کھڑے ہوئے آپ نے ابودجانہؓ انصاری کو وہ تلوار دی۔ لڑائی میں ایک جگہ مکہ والوں کے کچھ سپاہی ابودجانہؓ پر حملہ آور ہوئے۔ جب آپ نے ان سے لڑ رہے تھے تو ااپ نے دیکھ کہ ایک سپاہی سب سے زیادہ جوش کے ساتھ لڑائی میں حصہ لے رہا ہے۔ آپ نے تلوار اُٹھائی اور اس کی طرف لپکے لیکن پھر اس کو چھوڑ کر واپس آگئے۔ آپ کے کسی دوست نے پوچھا۔ آپ نے اُسے کیوں چھوڑ دیا۔ آپ نے جواب میں کہا۔ میں جب اس کے پاس گیا تو اس کے منہ سے ایک ایسا فقرہ نکلا جس سے مجھے معلوم ہواگیا کہ وہ مرد نہیں عورت ہے ان کے ساتھی نے کہا بہرحال وہ سپاہیوں کی طرح فوج میں لڑ رہی تھی۔ پھر آپ نے اُسے چھوڑا کیوں؟ ابودُجانہ ؓ نے کہا میرے دل نے برداشت نہ کیا کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی تلوار کو ایک کمزور عورت پر چلائوں۔ غرض آپ عورتوں کے ادب اور احترام کی ہمیشہ تعلیم دیتے تھے جس کی وجہ سے کفار کی عورتیں زیادہ دلیری سے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتی تھیں۔ مگر پھر بھی مسلمان ان باتوں کی برداشت کرتے چلے جاتے تھے۔ صرف ایک ہی عورت تھی جس نے شروع سے لیکر آخر تک اسلام کے خلاف جنگوں میں حصہ لیا اور مسلمان شہداء کے ناک اور کان کاٹ لینے میں بہت مشہور تھی یعنی ہندو۔ فتح مکہ کے وقت آپ نے صرف اس کے قتل کا حکم دیا مگر وہ باقی عورتوں کے ساتھ آئی اور مسلمان ہو گئی اور پھر آپ نے اُسے بھی کچھ نہیں کہا۔ کیونکہ آپ نے فرمایا توبہ نے اس کے سارے گناہوں کو دھو دیا ہے۔
چوتھی شرط وَلَا تَعْتُدُوْا اِنَّ اللّٰہِ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ کے الفاظ میں یہ بیان فرمائی کہ باوجود دشمن کے حملہ میں ابتداء کرنے کے لڑائی کو صرف اس حد تک محدود رکھنا چاہیے جس حد تک دشمن نے محدود رکھا ہے اور اسے وسیع کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ نہ علاقہ کے لحاظ سے اور نہ ذرائع جنگ کے لحاظ سے اور فرمایا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حد سے زیادہ گذر جانے والوں سے محبت نہیں کرتا یا یوں کہو کہ جو لوگ حد سے گذر جانے والے ہوں وہ کبھی خداتعالیٰ سے محبت نہیں کر سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا شخص طبعی طور پر اللہ تعالیٰ سے محبت کر ہی نہیں سکتا ۔کیونکہ وہ حق کا مطالبہ کرنے میں حد سے بڑھا ہوا ہوتا ہے۔ مثلاً کسی کو غصہ اا گیا اور اس نے دوسرے کو تھپڑ مار دیا تو اب یہ ایک غلطی تو ہے جس کی اُسے سزا ملنی چاہیے۔ مگر یہ سزا اتنی ہی ہو سکتی ہے کہ ہم اُسے بلائیں اور ڈانٹ دیں کہ تم نے فلاں کو تھپڑ کیوں مارا لیکن بعض طبیعتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جس شخص سے قصور سر زد ہوا ہو جب تک وہ اس کا قیمہ نہ کر لیں ان کی تسلی ہی نہیں ہوتی۔ اور پھر یہیں تک بس نہیں کرتے بلکہ چاہتے ہیں کہ جب وہ اگلے جہاں میں پہنچے تو وہاں بھی خدا اس کو دوزخ میں ڈالے اور اُسے ایسا عذاب دے جو کسی اور کو نہ دیا گیاہو حالانکہ خدا بڑا رحیم و کریم ہے وہ حد سے گذرنے والوں سے محبت نہیں کرتا اور نہ حد سے گذرنے والا خدا تعالیٰ سے محبت کر سکتا ہے۔ اس زمانہ میں بڑی بڑی طاقتیں اس بات کی مدعی ہیں کہ انہوں نے عدل و انصاف کو کمال تک پہنچا دیا ہے مگر ان کی حالت ہی ہے کہ وہ لڑائی میں ہر قسم کے جھوٹ اور ظلم اور دھوکا اور فریب سے کام لیتی ہیں اور جب تک دشمن کو پیس نہ لیں ان کے دل کی آگ ہی نہیں بجھتی کہیں گیسیں استعمال کی جاتی ہیں تو کہیں قیدیوں کو پکڑ کر لڑائی کے وقت اپنے آگے رکھا جاتا ہے۔ اسی طرح اور کئی ظالمانہ طریق اختیار کئے جاتے ہیں۔ مثلا یہ بھی اعتداء میں داخل ہے ۔ کہ دشمن کا لباس پہن کر یا اس کا نشان دکھا کر حملہ کر دیا جائے یا صلح کے بہانہ سے حملہ کیا جائے یہ تمام امور ناجائز اور اسلامی تعلیم کے خلاف ہیں۔ بہرحال اوپر کی دونوں آیات سے مندرجہ ذیل چھ امور کا استنباط ہوتا ہے۔
پہلی بات یہ مستنبط ہوتی ہے کہ غیر شرعی طریق سے جائز کام بھی ناجائز ہو جاتا ہے۔ کیونکہ فرماتا ہے کہ اپنے گھروں میں جن میں داخل ہونیکا تم کو ہر وقت اور پورا اختیار ہے ان میں بھی اگر تم دیواریں پھاند پھاند کر داخل ہو تو یہ امر خداتعالیٰ کے نزدیک نیکی نہیں سمجھا جا ئیگا۔ اس مثال سے یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر کام کے لئے ایک رستہ بنایا ہے۔ اگر تو انسان اس رستہ سے اس کام کو کرتا ہے تو اس کا کام نیکی قرار دیا جائیگا۔ لیکن اگر کام نیک ہو مگر اس کے کرنے کا طریق غلط ہو تو پھر وہ عمل نیک نہیں رہے گا۔ مثلاً نماز ایک نیکی ہے لیکن اگر کوئی شخص بغیر وضو کے نماز پڑھے یا پہلے نماز پڑھ لے بعد میں وضو کرے یا بے وقت نماز پڑھے تو باوجود اس کے کہ وہ نماز پڑھے گا جو ایک عبادت ہے وہ اللہ تعالیٰ کو خوش نہیں کر سکے گا بلکہ ایک بدی کا مرتکب ہو گا۔ بعینہٖ اسی طرح اظہار غضب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے غیرت کو ایک نیکی قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ خود بھی نہایت غیرت مند ہے اور وہ بری باتوں پر اظہار غضب بھی کرتا ہے لیکن غیرت کے جائز موقعہ پر بھی اگر کوئی شخص غیرت کا اظہار غلط طریق پر کرے اور شریعت اظہار غیرت یا اظہار غضب کا یہ طریق بتائے کہ اس جگہ سے مومن اُٹھ جائے مگر مومن اس جگہ سے بجائے اُٹھ جانے کے لڑنے لگے تو شریعت اس مومن کو بھی گنہگار قرار دے گی۔
دوسری بات جو اس آتی سے مستنبط ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ نیکی تقویٰ کا نام ہے ۔ یعنی نیک کام کو نیک راہ سے بجا لانا ۔ پس مومن کا فرض ہے کہ ہر گھر میں اس کے دروازہ سے داخل ہو یعنی ہر نیک کام کے لئے خداتعالیٰ نے جو طریق تجوریز کیا ہے اس طریق سے اس کام کو کرے۔ جو شخص اس طریق سے کام نہ کرے وہ نیک نہیں کہلا سکتا۔
تیسری بات جو مذکورہ بالا آیات سے مستنبط ہوتی ہے یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اوپر کے بتائے ہوئے راستہ میں ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ یعنی یہ حکم ہم نے یونہی نہیں دیئے ۔ تمہاری ترقی اور کامیابی بھی اسی طریق سے وابستہ ہے۔ کامیابی کا اس امر کے ساتھ وابستہ ہونا ایک ظاہر امر ہے جو راستے کسی عمارت میں داخل ہونے کے ہوں جب انسان ان راستوں سے داخل ہو تبھی وہ بغیر کسی تکلیف کے اپنے مدعا کو پاسکتا ہے۔ اگر ان راستوں سے داخل ہو تبھی وہ بغیر تکلیف کیااپنے مدعا کو پاسکتا ہے۔ اگر ان راستوں کو چھوڑ کر دیواریں پھاندنی شروع کر دے تو اس کی تکلیف بڑھ جائیگی اور اس کی حماقت کی بھی لوگ شکایت کرنے لگیں گے۔
چھوتھی بات اس آیت سے یہ مستبنط ہوتی ہے کہ کسی شخص پر جارحانہ حملہ کرنا خلاف شریعت ہے ۔چنانچہ آیت مذکورہ بالا میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اِلَّذِیْنَ یُقٰتِلُوْ نَکُمْ۔ یہ تو تمہارے لئے جائز ہے کہ اگر کوئی تم پر قاتلانہ حملہ کرے تو تم اپنا بجائو کرو۔ لیکن تمہارے لئے یہ جائز نہیں کہ تم خود کسی پر جا کر حملہ کرو۔
پانچواں استنباط ان آیات سے یہ ہو تا ہے کہ دفاع بھی وہ جائز ہے جو مقرر حدود کے اندر ہو۔ یعنی دفاع میں بھی انسان
وَاقْتُلُوْ ھُمْ حَیْثُ



غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘o
پوری طرح آزاد نہیں۔ اس کے لئے بھی قیود اور شرائط ہیں اور ان قیود اور شرائط سے آزاد ہو کر جو دفاع کیا جائے وہ بھی ناجائز اور حرام ہوتا ہے ۔ مثلاً کوئی شخص کسی کو تھپڑ مارے تو جس شخص کو تھپڑ مارا گیا ہے اس کے لئے یہ درست نہ ہو گا کہ اس تھپڑ کی سزا کے لئے دوسرے شخص کا سر پھوڑ دے۔
چھٹی بات اس آیت سے یہ مستنبط ہوتی ہے کہ اگر کوئی ان قیود کو توڑے تو باوجود مظلوم ہونے کے خداتعالیٰ کی نظروں سے وہ گر جائیگا۔ کیونکہ فرمایا ہے اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ اگر تم دفاع میں بھی اعتداء سے کام لو اور خداتعالیٰ کی مقررہ قیود کو نظر انداز کر دو تو تم اللہ تعالیٰ کی محبت کھو بیٹھو گے اور اس کی نصرت تم سے جاتی رہے گی۔
۱۰۶؎ حل لغات:۔ اَلْفِتْنَۃُ کے معنے ہیں (۱) اَلْعَذَابُ ۔ عذاب (۲) اَلْاِبْتِلَاء۔ ابتلاء (۳) اِخْتِلَافُ النَّاسِ فِی الْآٰ رَائِ وَمَا یَقَعُ بَیْنَھُمْ مِنَ الْقِتَالِ۔ وہ لڑائی جو اختلافِ اراء کی وجہ سے لوگوں میں پیدا ہو۔ (اقرب)
تفسیر:۔ مخالفین اسلام کے نزدیک اس آیت میںمسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جہاں کوئی کافر ملے اُسے مار ڈالو۔ مگر اس میں ہر گز یہ نہیں کہا گیا کہ جہاں کوئی کافر ملے اسے تہ تیغ کر دو۔ اس جگہ وَاقْتُلُوْ ھُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْ ھُمْ کے حکم کے ماتحت صرف وہ کفار آتے ہیں جن کا پہلے ذکر آچکا ہے اور جنہوں نے مسلمانوں سے عملاً جنگ شروع کر دی تھی ایسے لوگوں کے ساتھ لڑائی جاری رکھنے میں نہ اخلاقاً کوئی اعتراض ہو سکتا ہے اور نہ شرعًا۔ اور حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْ ھُمْ میں اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جہاں کہیں بھی تمہاری اور ان کی جنگ کے ذریعہ سے مٹھ بھیڑ ہو جائے وہاں تم ان سے جنگ کرو۔ یہ نہیں کہ اِکا دُکا ملنے پر حملہ کرتے پھرو۔ بلکہ تمہاری جنگ صرف باقاعدہ فوج کے ساتھ ہونی چاہیے۔ خواہ وہ فوج ہو جس نے مقابلہ میں ابتداء کی ہے یا اُسی فوج کا کوئی دوسرا حصہ ہو جو اس کی مدد کر رہا ہو۔
پھر فرمایا وَاَخْرِجُوْ ھُمْ مِّنْ حَیْثُ اَخْرَ جُوْ کُمْ اور تم بھی انیہں اس جگہ سے نکال دو جس جگہ سے انہوں نے تم کو نکالا ہے۔ ان الفاظ میں یہ پیشگوئی مخفی تھی کہ ایک زمانہ میں مسلمان ایسی طاقت حاصل کرلیں گے کہ وہی مقام جہاں سے انہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ کو نکلنے پر مجبور کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ اس میں مسلمانوں کو فاتحانہ طور پر داخل کرے گا۔ اور یا تو مسلمان کفار کے مظالم کا تختہ مشق بنے ہوئے تھے اور یا کفار مسلمانوں کی منتیں کرتے اور ان کے آگے ہاتھ جوڑتے دکھائی دینگے۔ اسی غلبہ کی طرف سورۃ توبہ میں بھی بَرَآئَ ۃ’‘ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖٓ اِلَی الَّذِیْنَ عَاھَدْ تُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ کے الفاظ میں اشارہ کیا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ مشرکین مکہ کہتے ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ تو یہ ہے کہ میں مکی نبی ہوں جس کی پیشگوئی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی تھی ۔ مگر یہ تو مکہ چھوڑ کر مدینہ چلا گیا ہے۔ پھر یہ پیشگوئی کس طرح پوری ہوئی۔ اللہ تعالیٰ اس کے جواب میں فرماتا ہے کہ اب خداتعالیٰ نے عرب کو فتح کر کے جس کے بغیر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں نہیں آسکتے تھے اس اعتراض کو دور کر دیا ہے اور آپؐ اور آپؐ کے ساتھی اس الزام سے بری ہو چکے ہیں اس کے بعد فرمایا فَسِیْحُوْا فِی الْاَرْضِ اَرْبَعَۃَ اَشْھُرٍ وَّ اعْلَمُوْآ اَنَّکُمْ غَیْرَ مُعْجِزِی اللّٰہَ۔ تم ملک عرب میں چار مہینے تک پھر کر دیکھ لو اور جان لو کہ تم اللہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کر سکتے یعنی اس سفر کے نتیجہ میں تمہیں اقرار کرنا پڑے گا کہ اسلام عرب کے کونہ کونہ پر غالب آچکا ہے۔ اور تمہارے تمام اعتراضات غلط ثابت ہو چکے ہیں۔ پس اَخْرِ جُوْ ھُمْ مِّنْ حَیْثُ اَخْرَ جُوْکُمْ میں اسی غلبہ کی پیشگوئی ہے اور مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ جس طرح انہوں نے تم کو ظالمانہ طور پر ملک سے نکالا ہے اسی طرح تم بھی ان کا تصرف وہاں سے ہٹا دو۔ اس جگہ اَخْرِ جُوْ ھُمْ سے ان کا نکالنا مراد نہیں۔ بلکہ ان کے تصرف کو مٹانا مرا دہے۔ کیونہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین مکہ کو وہاں سے نکالا نہیں بلکہ ان کی اولاد کو خود آپ نے مکہ میں رہنے کی اجازت دی۔ چنانچہ ابو جہل جو سب سے بڑا مشرک اور دشمن اسلام تھا فتح مکہ کے موقعہ پر اس کے بیٹے عکرمہ نے بھاگ کر ایبے سینیا جانے کا ارادہ کیا اور وہ مکہ سے چلا بھی گیا مگر اس کی بیوی ے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت حاصل کر لی اور وہ مکہ میں آزادنہ طور پر رہنے لگ گیا ۔پس چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل نے اس کی تشریح کر دی ہے اس لئے اَخْرِ جُوْ ھُمْ میں کفار کے جبری نکالنے کا کوئی حکم نہیں بلکہ وہاں سے ان کا تصرف دور کرنے کا ذکر ہے ۔ یا زیادہ سے زیادہ ایسے لوگوں کو نکالنے کا حکم ہے جو شریر ہوں اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں جاری رکھنے والے ہوں اور ایسے لوگوں کو دنیا کی ہر حکومت نکالتی ہے اور اس میں کسی قسم کا حرج نہیں سمجھتی۔
وَالْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ۔ پھر فرماتا ہے یاد رکھو قتل اور لڑائی کی نسبت دین کی وجہ سے کسی کو فتنہ میں ڈالنا زیادہ خطرناک گناہ ہے پس تم ایسای طریق مت اختیار کرو ۔ کیونکہ یہ بے دین لوگوں کا کام ہے۔
اس جگہ فتنہ سے مراد وہی دورِ آزمائش ہے جس میں سے مسلمان گذر رہے تھے۔ اور جس کا اس سے پہلے ان الفاظ میں ذکر آچکا ہے کہ کفار بالاوجہ محض دینی اختلاف کی وجہ سے مسلمانوں کو مارتے اور انہیںاپنے گھروں سے نکالتے ہیں۔ فرماتا ہے دین کی وجہ سے لوگوں کو دکھ دینا اور انہیں ان کے گھروں سے نکالنا دنیوی لڑائیوں اور عام سیاسی جنگوں کی نسبت کہ جن میں قومی حقوق وغیرہ کا سوال پیدا ہو جاتا ہے۔ بہت زیادہ ہولناک جرم ہے کیونکہ دنیا دین کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔
اور یہ بھی کہ فتنہ یعنی مومنوں کی تعذیب اس غرض سے کہ وہ پنے دین کو چھوڑ دیں قتل سے بڑھ کر ہے۔ کیا بلحاظ اس کے کہ دین کے معاملہ میں جان کچھ حقیقت نہیں رکھتی اور کیا بلحاظ اس کے کہ ایسے ظلم کا نتیجہ نہایت خطرناک فساد ہوتا ہے اور ذہنی آزادی جاتی رہتی ہے اور دلوں میں بغض پیدا ہو جاتا ہے۔ پس فرمایا کہ ان کو قتل کرنا کوئی ظلم نہیں کیونکہ قتال تو قتال سے ہی جائز ہو جاتا ہے اور یہ لوگ تو قتال سے بڑھ کر مذہبی دست اندازی اور مذہب کی خاطر تعزیب سے بھی کام لیتے یہں جو قتال سے بڑھ کر ہے۔
پھر اَلْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ میں اس طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ بیشک قتل ایک بہت بُرا فعل ہے۔ مگر فتنہ پیدا کرنا اس سے بھی زیادہ بُری چیز ہے کیونکہ اس سے لاکھوں بلکہ کڑوروں جانیں ضائع چلی جاتی ہیں۔ قتل کرنے سے تو صرف ایک یا چند جانیں ضائع ہوتی ہیں لیکن ایک فتنہ پر واز شخص بعض دفعہ ایسی بات کر دیتا ہے جس سے قومیں آپ میں لڑ پڑتی ہیں اور جماعتوں میں تفرقہ اور شقاق پیدا ہو جاتا ہے ۔ فتنہ باز لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے تو معمولی بات کہی تھی مگر ان کا ایک معمولی بات کہنا دراصل ایک زہر ہوتا ہے جس کا دور دور تک اثر پھیلتا ہے او رپھر اس سے خطرناک لڑائیاں شروع ہو جاتی ہں جن سے لاکھوں انسان موت کے گھاٹ اُتر جاتے ہیں۔ بیشک فتنہ شروع میں چھوٹا نظر آتا ہے مگر اس کا انجام بہت بڑا ہوتا ہے ۔ اسی لئے اسلام نے قتل سے بھی منع کیا ہے مگر فتنہ سے اس سے بھی زیادہ زور کے ساتھ منع کیا ہے۔ افسوس ہے کہ لوگ عام طور پر قتل سے تو بچنے کی کوشش کرتے ہیں مگر فتنہ سے بچنے کی کوشش نہیں کرتے حالانکہ جب تک لوگ یہ نہ سمجھیں کہ فتنہ قتل سے بھی بڑھ کر بُرا فعل ہے اس وقت تک دنیا میں امن قائم نہیںہ و سکتا۔
وَلَاتُقٰتِلُوْ ھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِالْحَرَامِ حَتّٰی یُقٰتِلُوْ کُمْ فِیْہِ۔ اب فرمات اہے کہ تم مسجد حرام کے پاس ان سے اس وقت تک جنگ نہ کرو جب تک کہ وہ خود جنگ کی ابتداء نہ کریں کیونکہ اس طرح حج اور عمرہ کے راستہ میں روک پیدا ہوتی ہے ۔ فَاِنْ قٰتَلُوْکُمْ فَاقْتُلُوْ ھُم ْہاں اگر وہ کود ایسی جنگ کی ابتداء کریں تو پھر تم مجبور ہو اور تمہیں جواب دینے کی اجازت ہے۔ گَذٰلِکَ جَزَآئُ الْکَافِرِیْنَ۔ اور جو لوگ عقل اور انصاف کے احکام کو رد کر دیتے ہیں ان کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرنا پڑتا ہے۔ اس آیت میں یہ ہدایت دی گئی کہ اس امر کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ مذہبی عبادتوں اور مذہبی فرائض کی ادائیگی میں روکیں پیدا نہ ہوں اگر دشمن کسی ایسی جگہ پر جنگ کی طرح نہ ڈالے جہاں جنگ کرنے سے مذہبی عبادتوں میں رخنہ پیدا ہوتا ہو تو مسلمانوں کو بھی اس جگہ جنگ نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن اگر دشمن خود مذہبی عبادت گاہوں کو لڑائی کا ذریعہ بنائے تو پھر مجبوری ہے۔
اس آیت میں اس طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ عبادتگاہوں کے اردگرد بھی لڑائی نیہں ہونی چاہیے ۔ کجا یہ کہ عبادت گاہوں پر براہ راست حملہ کیا جائے یا ان کو مسمار کیا جائے۔ یا ان کو توڑا جائے۔ ہاں اگر دشمن کود عبادت گاہوں کو لڑائی کا قلعہ بنا لے تو پھر ان کے نقصان کی ذمہ داری اس پر ہے مسلمانوں پر نہیں۔
فَاِنِ انْتَھَوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘ ہاں اگر انہیں ہوش آجائے اور وہ اس بات سے رُک جائیں تو اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا مہربان ہے یعنی اگر دشمن مذہبی مقامات میں لڑائی شروع کرنے کے بعد اس کے خطرناک نتائج کو سمجھ جائے اور مذہبی مقام سے نکل کر دوسری جگہ کو میدان جنگ بنالے تو مسلمانوں کو اس بہانہ سے ان کی مذہبی مقاموں کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے کہ اس جگہ پر پہلے ان کے دشمنوں نے لڑائی شروع کی تھی بلکہ فوراً ان مقامات کے ادب اور احترام کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے حملہ کا رُخ بدل دینا چاہیے۔
وَقٰتِلُوْھُمْ
عَلَے الظّٰلِمِیْنَo
۱۰۷؎ تفسیر:۔ فرماتا ہے چونکہ کفار تم سے لڑائی شروع کر چکے ہیں اس لئے تم بھی اس وقت تک لڑائی جاری رکھو جب تک کہ دین میں دخل اندازی کرنے کے طریق کو وہ چھوڑ نہ دیں۔ اور یہ تسلیم نہ کر لیں کہ دین کا معاملہ صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور اس میں جبر کرنا کسی انسان کے لئے جائز نہیں۔ اگر وہ یہ طریق اختیار کر لیں اور دین میں دخل اندازی سے باز آجائیں تو فوراً لڑائی بند کر دو کیونہ سزا صرف ظالموں کو دی جاتی ہے اور اگر وہ اس قسم کے ظلم سے باز آجائیں تو پھر ان سے لڑائی کرنا جائز نہیں ہو سکتا۔
یہ امر یاد رکھنا چا ہیے کہ پہلی دفعہ اللہ تعالیٰ نے اَلْفِتْنَۃُ فرمایا تھا اور کہا تھا کہ اَلْفِتْنَتُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ۔ مگر اس جگہ صرف فِتْنَۃ’‘ فرمایا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں فتنہ کفار اور قِتَال کا مقابلہ کرنا تاھ پاس معرفہ لانا ضروری تھا اور اس جگہ مقابلہ نہ تھا پس نکرہ لایا گیا تاکہ عظمتِ فتنہ پر دلالت کرے اور اس کے معنے یہ ہیں کہ تم اس وقت تک جنگ جاری رکھو جب تک کہ یہ عظیم الشان فتنہ دور نہ ہو جائے۔
بعض لوگوں نے اس کے یہ معنے کئے ہیں کہ تم یہاں تک لڑو کہ کفر باقی نہ رہے۔ لیکن یہ معنے غلط ہیں ۔ اس جگہ فتنہ سے مراد کفر نہیں بلکہ دین سے دخل اندازی ہے جس کا سورۃ الحج کی اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے کہ اُذِنَ لَلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا د وَاِنَّ اللّٰہَ عَلَی نَصْرِ ھِمْ لَقَدِیْرُ oلا اِلَّذِیْنَ اُخْرِجُوْامِنْ دِیَار ھِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ط وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسِ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّ مَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعَ وَّ صَلَوٰت’‘ وَّ مَسٰجِدُ یُذْ کَرْ فِیْھَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًاط (سورہ حج آیت ۴۰۔۴۱) یعنی اس لئے کہ مسلمانوں پر ظلم کیا گیا یعنی مسلمانوں جو جن سے دشمن نے لڑائی شروع کر رکھی ہے آج جنگ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ یقینا ان کی مدد کرنے پر قادر ہے۔ ہاں ان مسلمانوں کو جنگ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے جن کو ان کے گھروں سے بغیر کسی جرم کے نکال دیا گیا۔ ان کا صرف اتنا ہی جرم تھا (اگر یہ کوئی جرم ہے) کہ وہ کہتے تھے اللہ ہمارا رب ہے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ بعض ظالم لوگوں کو دوسرے عادل لوگوں کے ذریعہ سے ظلم سے روکتا نہ رہے تو گرجے عبارت گاہیں اور مسجدیں جن میں خدا تعالیٰ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے ظالموں کے ہاتھ سے تباہ ہو جائیں۔ پس دنیا میں مذہب کی آزادی قائم رکھنے کیلئے اللہ تعالیٰ مظلوموں کو اور ایسی قوموں کو جن کے خلاف دشمن پہلے جنگ کا اعلان کر دیتا ہے جنگ کی اجازت دیتا ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ لڑائی صرف اس وقت تک جاری رکھنی چاہیے جب تک فتنہ باقی رہے۔ یعنی لوگ تبدیل مذہب کے لئے ایک دوسرے کو مجبور کرتے رہیں ۔ اگر یہ حالات بدل جائیں مذہبی دست اندازی ختم ہو جائے اور دین کے معاملہ کو صرف ضمیر کامعاملہ قرار دیا جائے تو خواہ دشمن حملہ میں ابتداء کر چکا ہو سوائے دفاع کے اس کے ساتھ لڑائی نہیں کرنی
اَلشَّھْرُ الْحَرَامُ

مَعَ الْمُتَّقِیْنَo
چاہیے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہؓ کرام نے ابھی اس آیت کے یہی معنے سمجھے ہیں۔ چنانچہ بخاری میں آتا ہے کہ ایک شخص اس زمانہ میں جبکہ حضرت علی ؓاور معاویہؓ کے درمیان جنگ جاری تھی حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے پاس آکر کہنے لگا کہ آپ حضرت علیؓ کے زمانہ کی جنگوں میں کیوں شامل نہیں ہوتے حالانکہ قرآن کریم میں صاف حکم موجود ہے کہ وَقٰتِلُوْ ھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃ’‘۔ انہوں نے جواب دیا کہ فَعَلْنَا عَلیٰ عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلیَّ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَ کَانَ الْاِسْلَامُ قَلِیْلًا فَکَانَ الرَّجُلُ یُفْتَنُ فِیْ دِیْنِہٖ۔ اِمَّا قَتَلُوْہُ وَ اِمَّا یُعَذِّ بُوْہُ حَتَّی کَثُرَ الْاِسْلَامُ فَلَمْ تَکُنْ فِتْنَۃ’‘(بخار ی کتاب التفسیر) یعنی ہم نے یہ حکم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں پورا کر دیا ہے۔ جبکہ اسلام بہت قلیل تھا اور آدمی کو اس کے دین کی وجہ سے فتنہ میں ڈالا جاتا تھا یعنی یا تو اُسے قتل کیا جاتا تھا یا عذاب دیا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ اسلام پھیل گیا۔ پھر کسی کو فتنہ میں نہیں ڈالا جاتا تھا۔ اس سے صاف معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک فتنہ نہ رہنے سے یہ مراد ہے لوگ دینی معاملات میں جبرواکراہ سے ام نہ۰ لیں اور محض دین قبول کرنے کی وجہ سے نہ کسی کو قتل کریں۔ ور نہ کسی قسم کاعذاب دیں۔ اگر یہ معنے نہ ہوتے تو فَاِنِ انْتَھَوْا کیوں آتا۔ کیونکہ یہ تو لوگوں کے بتائے ہوئے معنوں کے خلاف پڑا ہے اور ہمارے معنوں کے مطابق ہے۔
وَیْکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ کے الفاظ نے بھی مذکورہ بالا حصہ کی تشریح کر دی اور بتا دیا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ دین کا اختیار کرنا اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہو جائے اور اس کے متعلق کسی کاور کا ڈر نہ ہو۔ گویا دین کے اختیار کرنے کے بارے میں ہرشخص کو کامل آزادی حاصل ہو جائے اور اگر لوگ مسلمان ہونا چاہیں تو وہ بغیر کسی خوف کے ہو سکیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس میں جبر کی تعلیم نیہں دی گئی۔ اگر جبر کی تعلیم ہوتی اور اس وقت تک جنگ جاری رکھنا ضروری ہوتا جب تک تمام لوگ مسلمان نہ ہو جائیں تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی مشرکوں سے صلح کے معاہدات نہ کرتے۔ پس یہ کہنا کہ اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ مشرکوں سے اس وقت تک لڑائی جاری رکھو جب تک کہ وہ مسلمان نہ ہو جائیں اور کفر اور شرک مٹ نہ جائے بالکل غلط ہے۔
۱۰۸؎ حل لغات:۔ اَلْحَرَامُ کے معنے ہیں اَلْمُمْنُوْعُ مِنْہُ۔ جس چیز سے روکا گیا ہو۔ (مفردات)
اِعْتَدُوْ ا عَلَیْہِ: عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ کسی فعل کے بدلہ کے لئے بھی وہی لفظ بولا جاتا ہے جو اس فعل کے لئے بولا جائے۔ چنانچہ صاحب مفردات نے اس موقعہ پر لکھا ہے کہ فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْ ا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا عْتَدٰی عَلَیْکُمْ اَیْ قَابِلُوْ ہُ بِحَسْبِ اِعْتِدَائِہٖ وَ تَجَاروِزُوْ ا اِلَیْہِ بِحَسْبِ تَجَاوُزِہٖ۔ یعنی اس کے معنے یہ ہیں کہ اسکی زیادتی کے مقابلہ میں اس کی زیادتی کے مطابق ہی سلوک کرو۔
وَاَنْفِقُوْا فِیْ
یُحِبُّ الْمُھْسِنِیْنَo
اس کا مفصل ذکر اَللّٰہُ یَسْتَھْزِیُٔ بِھِمْ(بقرہ آیت۱۶) میں گذر چکا ہے ۔ اس جگہ بھی جرم کے لئے جو لفظ بولا گیا ہے وہی سزا کیلئے لایا گیا ہے۔ پس اس کے معنے ظلم کے نہیں بلکہ ظلم کی سزا کے ہیں۔
تفسیر:۔ اس میں بتایا کہ اگر کفار حرمت والے مہینوں یعنی ذوالقعدہ۔ ذولحجہ، محرم اور رجب کا پاس کریں تو تم بھی کرو۔ اور اگر وہ نہ کریں۔ تو تمہارے لئے مجبوری ہے تم بھی مقابلہ میں اس وقت تک جنگ کر سکتے ہو جب تک کہ وہ اس سے باز نہ آجائیں۔
وَالْحُرُمٰتُ قِصَاص’‘۔ اس میں اصولی طور پر یہ تعلیم دی کہ جن چیزوں میں حرمت پائی جاتی ہے ان میں بھی قصاص کا طریق اختیار کیا جا سکتا ہے۔ یہ نہیں کہ کسی چیز کی حرمت قصاص کو بالکل باطل کر دے۔ چنانچہ آغے اس کی تشریح کر دی اور صاف طور پر فرمادیا کہ فَمَنِ اعْتدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَااعْتَدٰ عَلَیْکُمْ یعنی اگر وہ تم پر زیادتی کریں اور تمہارے مقدس مقامات کا پاس نہ کریں تو تمہارے لئے بھی جائز ہے کہ تم ان کی شرارت اور زیادتی کے مطابق نہیں سزا دو۔ اور ان کے کسی مقام کی تقدیس کی پروا نہ کرو کیونہ انہوں نے خود حرمت کو توڑا ہے۔ مگر ساتھ ہی فرمایا کہ وَاتَّقُواللّٰہَ وَاعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ ۔ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ اور جائز حد سے تجاوز نہ کرو۔ اور اس حقیقت کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھو کہ اللہ تعالیٰ متقی لوگوں کا ساتھ دیتا ہے۔ یعنی حرمات کی ہتک کا بدلہ لینے کی تو تنہیں اجازت ہے۔ مگر تقویٰ کا بلند مقام یہ ہے کہ تم اس حکم کو اپنے سامنے رکھو کہ فَمَنْ عَفٰی وَاَصْلَحَ فَاَ جْرُہ‘ عَلَی اللّٰہِ یعنی جو شخص دشمن کو معاف کر دے اور اس کی معافی کے نتیجہ میں دوسرے کی اصلاح ہوتی ہو تو وہ یقیناً ایک مستحسن کام کرتا ہے اور اس کا اجر اللہ تعالیٰ پر ہے۔
یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ عربی زبان میں بعض دفعہ جزائے جُرم کے لئے بھی وہی لفظ استعمال کر لیا جاتا ہے جو جرم کے متعلق استعمال ہو ا ہو۔ اسی قاعدہ کے مطابق یہاںفَمَنِ اعْتدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَااعْتَدٰ عَلَیْکُمْ کہا گیا ہے جس کے لفظی معنے تو یہ ہیں کہ جو شخص تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر اتنی ہی زیادتی کرو جتنی کہ تم پر کی گئی ہے۔ مگر مراد زیادتی کا بدلہ لینا ہے (اسکی تفصیل کے لیے دیکھیں تفسیر کبیر جلد اول صفحہ۱۶۶)
۱۰۹؎ تفسیر:۔ اس آیت کا مفہوم سمجھنے میں لوگوں کو بڑی غلط فہمی ہوئی ہے ۔ انہیں خداتعالیٰ کی رہ میں جہاں کوئی تکلیف پیش آتی ہے وہ فورًا کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے والی بات ہے ہم اس میں کس طرح حصہ لے سکتے ہیں۔ حالان اس کیہرگیز یہ معنے نہیں کہ جہاں موت کا ڈر ہو وہاں سے مسلمان کو بھاگ جانا چاہیے اور اسے بزدلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ جبدشمن سے لڑائیاں ہو رہی ہوں تو اس وقت اپنے مالوں کو خوب خرچ رکرو۔ اگر تم اپنے اموال کو روک لو گے تو اپنے ہاتھوں اپنی موت کا سامان پیدا کرو گے۔ چنانچہ احادیث میں حضرت ابو ایوب انصاری سے مروی ہے کہ انہوںنے اس وقت جب کہ وہ قسطنطنیہ فتح کرنے کیلئے گئے ہوئے تھے کہا کہ یہ آیت ہم انصار کے بارہ میں نازل ہوئی تھی اور پھر انہوں نے بتایا کہ پہلے توہم خداتعالیٰ کے رستہ میں اپنے اموال خوب خرچ کیا کرتے تھے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو تقویت اور عزت دی اور مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہوا تو قَلْنَا ھَلْ نُقِیْمُ فِیْ اَ مْوَالِنَا وَنُصْلِحْھَا (ابودائود جلد اول کتاب الجہاد) ہم نے کہا کہ اگر اب ہم اپنے مالوں کی حفاظت کریں اور اسے جمع کریں تو یہ اچھا ہو گا۔ اس وقت یہ آیت اُتری کہ تم اپنی جانوں کو ہلاکت میں ڈالنا چاہتے ہو۔ پس اپنے مالوں کو جمع نہ کرو۔ بلکہ انہیں اللہ تعالیٰ کے رستہ میں خوب خرچ کرو۔ ورنہ تمہاری جانیں ضائع چلی جائیں گی۔ دشمن تم پر چڑھ آئیں گے اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تم ہلاک ہو جائو گے۔
وَاَحْسِنُوْا: اور اپنے فرائض کو عمدگی سے ادا کرو یا اگر اللہ تعالیٰ نے تمہیں مالی وسعت عطا فرمائی ہے تو اپنے نادار اور غریب بھائیوں کے اخراجات بھی برداشت کرو اور نیکی کی نئی سے نئی راہیں تلاش کرتے رہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔
پھر اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے غرباء کی امداد کی طرف بھی توجہ دلائی ہے اور فرمایا ہے کہ تم زکوٰۃ اور عُشر وغیرہ مقررہ ٹیکس بھی دو مگر اس کے علاوہ ہم تم سے بعض طوعی ٹیکس بھی مانگتے ہیں۔ چنانچہ ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ اَنْفِقُوْ ا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔ ہمیشہ غرباء کی امداد کیلئے روپیہ دیتے رہو۔ وَلَاتُلْقْوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ اور اپنے نفسوں کو ہلاکت میں مت ڈالو۔ یعنی اے مالدارو! اگر تم اپنے زائد مال خوشی سے دے دو گے تو وہ تو زائد ہی ہیں تم کو کوئی حقیقی نقصان نہیں پہنچے گا۔ لیکن اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو ہلاک ہو جائو گے۔ یہ الفاظ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے زارِروس کے ساتھ ہونے والے واقعات کا پورا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا ہے۔ اور فرمایا ہے کہ اگر ایسا نہ کرو گے تو جو کچھ زرِ روس اور روسی امراء یا فرانس کے امراء کا حال ہوا وہی تمہارا ہو گا۔ آخر عوام ایک دن تنگ آکر لوٹ مار پر اُتر آئیں گے۔ اور شاہ پوری محاورہ کے مطابق دُعائے خیر پڑھ دیں گے۔ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس محاورہ کی تشریح یہ بیان کرتے تھے کہ ہمارے علاقے میں کچھ مدت پہلے زمیندار بنیئے سے قرض لیتے جاتے تھے اور بنیا بھی دیتا جاتا تھا کچھ عرصہ تک تو انہیں اس کا احساس نہ ہوتا۔ مگر جب سب علاقہ اس بنیئے کا مقروض ہو جاتا اور زمینداروں کی سب آمد اس کے قبضہ میں چلی جاتی تو یہ دیکھ کر اس علاقے کا کوئی بڑا زمیندار تمام چودھریوں کو اکٹھا کرتا اور کہتا کہ بتائو اس بنیئے کا قرض کتنا ہے۔ وہ بتاتے کہ اتنا قرض ہے اس پر وہ دریافت کرتا کہ اچھا پھر اس قرضے کے اترنے کا کوئی ذریعہ ہے یا نہیں وہ جواب دیتے کہ ہمیں تو کوئی ذریعہ نظر نہیں آتا۔ اس پر وہ کہتا کہ اچھا تو پھر ’’دُعائے خیر پڑھ دو‘‘۔ چنانچہ وہ سب دُعائے خیر پڑھ دیتے۔ اور اس کے بعد ہتھیار لے کر بنیئے کے مکان کی طرف چل پڑتے اور اُسے قتل کر دیتے اور اس کے بہی کھانے سب جلا دیتے۔
اللہ تعالیٰ اس آیت میں ایسی ہی حالت کی طرف اشارہ فرماتا ہے کہ دیکھو ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ اگر تمہارے پاس زائد مال ہو تو اُسے خداتعالیٰ کے راستہ میں خرچ کر دیا کرو۔ اور اپنی جانوں پر ہلاکت میں نہ ڈالو۔ یعنی بے شک کمائو تو خوشی سے مگر اس دولت کو اپنے گھر میں جمع نہ رکھا کرو۔ ورنہ کسی دن لوگ تمہارے خلاف اُٹھ کھڑے ہونگے اور تم ہلاک ہو جائو گے۔
پھر فرماتا ہے ۔ وَاَحْسِنُوْا۔ بلکہ اس سے بڑھ کر ہم تمہیں یہ حکم دیتے ہیں کہ تم نیکی کرو۔ اور وہ اس طرح کہ تم خود اپنی ضرورتوں کو کم کر کے اور مال بچا کر خداتعالیٰ کی راہ میں دے دیا کرو۔ مگر یاد رکھو کہ یہ عمل تم لوگوں سے ڈر کر نہ کرو بلکہ خوشی سے کرو۔ اگر تم ڈر کر کرو گے تو غریبوں کی مدد تو ہو جائے گی مگر خداتعالیٰ خوش نہیں ہو گا۔ لیکن اگر خوشی سے یہ قربانی کرو گے تو غریب بھی خوش ہونگے ۔ تم بھی ہلاکت سے بچ جائو گے اور خداتعالیٰ بھی تم پر خوش ہو گا۔
وَاَتِمُّواالْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ ط








پھر فرمایا ہے اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ اگر تمہارے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ پھر ہماری کمائی کا صلہ ہم کو کیا ملا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا صلہ مال سے زیادہ ملے گا۔ اور وہ تمہارے پیدا کرنے والے خدا کی محبت ہے۔ تمہاری دنیا کے ساتھ تمہاری عاقبت بھی درست ہو جائیگی۔
یہ معنے تو سیاقِ کلام کے لحاظ سے ہیں لیکن اس کے ایک معنے صرف اس ٹکڑہ آیت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ہیں کہ عبادات میں یا کھانے پینے میں یا محنت و مشقت میں یا صفائی و طہارت میں کبھی کوئی ایسی راہ احتیار نہ کرو۔جس کا نتیجہ تمہاری صحت یا تمہاری جان یا تمہاری عقل یا تمہارے اخلاق کے حق میں بُرا نکلے۔ تَھْلُکَۃ کا لفظ جو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے استعمال کیا ہے اس کے معنے کسی ایسے فعل کے ہوتے ہیں جس کا انجام ہلاکت ہو۔ اور نتیجہ بُرا نکلے۔ پس اس لفظ کے استعمال کرنے سے قرآن کریم نے اس طرف بھی اشارہ فرمایا ہے کہ اسلام دین یا عزت یا تمدن کی حفاظت کے لئے انسان کو اپنی جان خطرہ میں ڈالنے سے نہیںر وکتا بلکہ ایسے کاموں سے روکتا ہے جن کا کوئی نیک نتیجہ برآمد ہونے کی امید نہ ہو۔ اور جن میں انسان کی جان یا کسی اور مفید شے کے بلاوجہ برباد ہونیکا خطرہ ہو۔



شَدِیْدُ الْعِقَابِo
۱۱۰؎ تفسیر:۔ یہاں سے حج اور عمرہ کے احکام کا آغازہوتا ہے۔ حج اسلامی ارکان میں سے ایک اہم رُکن ہے۔ اور ہر شخص جو بیت اللہ کا حج کرنا چاہے ۔ اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ میقات پر پہنچنے کے بعد احرام باندھ لے۔ میقات ان مقامات کو کہتے ہیں جہاں پہنچنے پر اسلامی ہدایات کے مطابق حاجیوں کو احرام باندھنا پڑتا ہے۔ مدینہ منورہ کی طرف سے آنے والوں کے لئے ذوالحلیفہ شام کی طرف سے آنے والوں کے لئے جُحفہ۔ عراق کی طرف سے آنے والوں کے لئے ذات عرق۔ نجد کی طرف سے آنیوالوں کے لئے قرن المنازل اور یمن کی طرف سے آنے والوں کے لئے یلملم میقات مقرر ہیں۔ پاکستان سے جانے والوں کیلئے یلملم ہی میقات مقرر ہے اور حاجیوں کو جہاز میں ہی حرام باندھنا پڑتا ہے۔ جو لوگ ان میقات کے اندر رہتے ہیں انہیں احرام کے لئے بارہ جانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ اپنی اپنی جگہوں سے ہی احرام باندھ سکتے ہیں۔ احرام کا طریق یہ ہے کہ انسان حجمت بنو کر غسل کر کرے۔ خوشبو لگائے۔ اور اس کے بعد سلے ہوئے کپڑے اتار کر ایک چادر تہہ بند کے طور پر کمر سے باندھ لے اور دوسری چادر جس کے اوپر اوڑھ لے ۔ سر کو ننگا رکھے اور دور کعت نفل پڑھے اور اس کے بعد اپنے اوقات کا اکثر حصہ تکبیر و تلبیہ اور تسبیح و تحمید میں بسر کرے اور بار بار لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ اِنَّ الْحَمْدَ وَالنَّمَعْۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَاشَرِیکَ لَکَ لَبَّیْکَ کہتا رہے۔ ہر نماز کے بعد خصوصیت کے ساتھ بلند آواز کے ساتھ تلبیہ کہنا چاہیے۔ محرم کے لئے سِلے ہوئے کپڑے یعنی قمیض شلوار پاجامہ یا کوٹ وغیرہ پہننا۔ سر کو ڈھانپنا۔ جرابیں پہننا۔ خوشبو لگانا خوشبودار رنگوں سے رنگے کپڑے پہننا۔ سرمنڈوانا ناخن اتارنا جو میں نکالنا یا انکو مارنا جنگل کے کسی جانور کا شکار کرنا ۔ شکار کے جانور کو ذبح کرنا۔ کسی کو شکار کیلئے کہنا یا کسی شکاری کی مدد کرنا۔ شہوانی تعلقات قائم کرنا یا شہوانی گفتگو کرنا۔فحش کلامی کرنا یا فحش اشعار پڑھنا۔ فسق و فجور اور لڑائی جھگڑے میں حصلہ لینا۔ یہ سب امور ناجائز ہوتے ہیں۔ البتہ محرم غسل کر سکتا ہے کپرے دھو سکتا ہے اور دریائی جانور کا شکار بھی کر سکتا ہے۔ محرم عورت کے لئے بھی ان ہدایات کی پابندی ضروری ہے ۔ البتہ اُسے بے سلے کپڑے پہننے کی ضرورت نہیں۔ اُسے اپنا معمولی لباس یعنی قمیض پاجامہ اور دوپٹہ ہی رکھنا چاہیے البتہ وہ برقعہ نہیں اوڑھ سکتی۔
جب حاجی حدودِ حرم میں داخل ہو (یعنی مکہ معظمہ اور اس کے ارد گرد کے علاقہ میں جو حرم کہلاتا ہے) تو وہ آدابِ حرم کو ملحوظ رکھے۔ اور جب بیت اللہ پر پہلی مرتبہ نظر پڑے تو اللہ تعالیٰ کے حضور فوراًً دُعا کیلئے اپنے ہاتھ اُٹھا دے کیونکہ وہ قبولیت دُعا کا خاص وقت ہوتاہے اس کے بعد جب بیت اللہ کے پاس پہنچے تو حجرا سود سے خانہ کعبہ کا سات مرتبہ طواف کرے۔ طواف کرتے ہوئے اگر ممکن ہو تو ہر دفعہ حجرا سود کو بوسہ دینا چاہیے۔ اور اگر ممکن نہ ہو تو صرف ہاتھ سے اس کی طرف اشارہ کر دینابھی کافی ہے۔ طواف سے فارغ ہونے کے بعد دو رکعت نفل پڑھے اور پھر صفا اور مروہ کے درمیان ساتھ مرتبہ چکر لگائے۔ صفا سے مروہ تک ایک چکر شمار ہو گا اور مروہ سے صفا تک دوسرا پھر مکہ معظمہ میں ٹھہر کر ایام حج کا انتظار کر جب ذولحجہ کی آٹھویں تاریخ ہو تو وہ مکہ سے منیٰ چلا جائے اوروہاں پانچوں نمازیں پرھے پھروہاں سے دوسری صبح نماز فجر ادا کرنے کے بعد عرفات کی طرف ایسے وقت میں چلے کہ ہواں بعد زواں داخل ہو اور ظہر و عصر کی نمازیں وہاں جمع کر کے ادا کرے اور سورج کے ڈوبتے تک عرفات میں ہی رہے افور دعائوں اور عبادت میں اپنا وقت گذارے اس کے بعد مزدلفہ مقام میں آئے۔ جہاں مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کر کے پڑھے او وہاں رات بھر عبادت اور دعائوں میں بسر کرے۔ فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد سورج نکلنے سے پہلے مشعر الحرام پر جا کر دُعا کرے۔ اور وہاں سے سورج نکلنے سے پہلے ہی روانہ ہو کر منیٰ پہنچے اور وہاں جا کر جمرۃ العقبہ پر سات کنکریاں مارے اور ہر دفعہ کنکر پھینکنے کے ساتھ تکبیر کہے۔ مگر یہ کام سورج نکلنے کے بعد کرے۔ یہاں سے فارغ ہو کر قربانی کرے۔ سر منڈاوئے اور پھر اسی دن شام تک یا اگلے دن مکہ مکرمہ جا کر خانہ کعبہ کا طواف کرے۔ افضل یہ ہے کہ اسی دن شام تک جا کر کعبہ کا طواف کر آئے۔ پھر دوسرے دن منیٰ میں واپس آجائے۔ اور بعد زوال جمرۃ الدنیا۔ جمرۃ الوسطیٰ اور جمرۃ العقبہ پر سات سات پتھر مارے۔ اسی طرح تیسرے دن اور پھر چوتھے دن بھی جو ایام تشریق کہلاتے ہیں یعنی گیارھویں بارھویں اور تیرھویں ذوالحج کو تیرھویں تاریخ کو منیٰ سے واپس آجائے اور بیت اللہ کا طواف الوداع کرے۔ جو شخص یہ تمام مناسک بجا لانئے وہ فریضہ حج ادا کر لیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے حضور سر خرو ہو جاتا ہے۔
عمر ہ بھی یہی ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص حرم کے اندر رہنے والا ہو تو وہ حرم سے اور اگر باہر کا ہو تو میقات سے احرام باندھے خانہ کعبہ کا سات مرتبہ طواف کرے۔ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرے اور پھر حلق یا قصر کر دے۔ اور اگر قربانی کرنا چاہے تو قربانی بھی کر دے۔ لیکن عمرہ میں قربانی لازمی نہیںہوتی۔ حج اور عمرہ میں یہ فرق ہے کہ عمرہ کے لئے کسی خاص وقت یا مہینہ کی قید نہیں بلکہ وہ سال کے ہر حصہ میں ہو سکتا ہے جبکہ حج صرف شوال ۔ ذوالقعدہ اور ذولحج میں ہی کیا جا سکتا ہے۔ ترمذی میں حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عمرہ کے متعلق پوچھا کہ اَوَاجِبَۃ‘؟ کیا عمرہ واجب ہے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ لَا وَ اِنْ تَِعْتَمِرُوْ اخَیْر’‘ لَّکُمْ عمرہ اور واجب تو نہیں۔ لیکن اگر تم عمرہ کرو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔
فَاِنْ اُحْصِرْ تُمْ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْھَدْیِ۔ اس میں بتایا کہ اگر حج یا عمرہ کرنے والا کوئی شخص بیماری کی وجہ سے یا جنگ کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے راستہ میں ہی روک دیا جائے اور وہ مکہ مکرمہ جا کر حج یا عمرہ نہ کر سکے تو پھر جو قربانی بھی میسر آئے اُسے دے دینی چاہیے اور اس وقت تک احرام نہیں کھولنا چاہیے جب تک کہ قربانی محلہ نہ پہنچ جائے۔ یعنی اس جگہ پر جہاں قربانی نے ذبح ہونا ہے۔ ابن القاسم کا قول ہے کہ اگر قربانی ساتھ ہو تب قربانی دے ورنہ نہیں۔ اور جمہور کا قول ہے کہ جس جگہ روکا جائے وہیں قربانی کر دے اور سر منڈوا ڈالے جو سب سے آخر ی عمل ہے اس کے بعد احرام کھول دیا جاتا ہے (بحر محیط جلد ۲ صفحہ۷۳) امام شافعی اور امام مالک کے نزدیک بھی محلہ سے مراد وہی جگہ ہے جہاں حاجی کو روک دیا گیا ہو۔ لیکن امام ابو حنیفہ کے نزدیک حرم ہے۔
میرے نزدیک یہ جھگڑا فضول ہے کیونکہ اگر تو جنگ ہو اور دشمن نے اُسے روکا ہو تو وہ اس کی قربانی کو آگے کیسے جانے دیگا۔ ایسی صورت میں وہ جہاں روکا جائے وہیں قربانی کر کے حلق کر دے لیکن اگر بیماری کے سبب سے حاجی کو روکا گیا ہو اور وہ قربانی آگے بھجوا سکتا ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ قرنانی کے حرم پہنچنے تک سر نہ منڈوائے اور کوشش کرے کہ وہ حرم کے اندر ہی ذبح ہو۔ اس کے بعد حلق کر دے ۔ ضیمنی طور پر اس آیت میں اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا تھا کہ ایک وقت آنے والا ہے جب مسلمانوں کو بیت اللہ کی زیارت سے جبرًا روک دیا جائیگا لیکن اس کے بد اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو کفار پر فتح عطا فرمائیگا۔ اور وہ امن سے حج بیت اللہ کر سکیں گے۔ چنانچہ صلح حُدییبہ میں ایسا ہی ہوا۔ باوجود اس کے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صرف طواف کی نیت سے تشریف لے گئے تھے ۔ قریش نے اطلاع ملنے پر چیتوں کی کھالیں پہن لیں اور اپنی بیویوں اور بچوں کو ساتھ لے لیا اور قسمیں کھائیں کہ وہ مر جائیں گے مگر آپؐ کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دینگے۔ آخر یہ معاہد ہ طے پایا کہ اس سال مسلمان مکہ میں داخل ہوئے بغیر واپس چلے جائیں اور اگلے سال آکر طواف کر لیں۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام صحابہؓ واپس چلے گئے مگر ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ مکہ فتح ہو گیا اور مسلمان آزادی کے ساتھ آنے جانے لگے۔
فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ بِہٖٓ اَذًی مِّنْ رَّاسِہٖ فَفِدْ یَۃ’‘ مِّنْ صِیَامٍ اَوْ صَدَ قَۃٍ اَوْ نُسُکٍ۔ فرماتا ہے۔ اگر کوئی شخص تم میں سے بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو جس کی وجہ سے اُسے سر منڈوانا پڑے۔ جیسے اس کے سر میں جُوئیں پڑ جائیں یا پھوڑے نکل آئیں تو وہ سر منڈوا سکتا ہے۔ مگر اس صورت میں اسے صیام یا صدقہ یا قربانی کا فدیہ دینا پڑے گا۔ قرآن کریم نے فدیہ کی تینوں اقسام کو غیر معین رکھا ہے۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد سے اس کی تعیین ہو جاتی ہے حدیثوں میں آتا ہے کہ کعب بن عجرہؓ ایک صحابی تھے ان کے سر میں جُوئیں پڑ گئیں۔ اور ان کی اتنی کثرت ہو گئی کہ جو میں ان کے منہ پر گرتی تھیں وہ کہتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ کر فرمایا۔ اے کعب! تجھے ان جوئوں کی وجہ سے بہت تکلیف ہے تو سر منڈوا دے اور صُمْ ثَلَاثَۃَ اَیَّامٍ اَوْ اَطْعِمْ شَتَّۃَ مَسَاکِیْنَ اَوْ اُنْسُکْ شَاۃً۔ تو فدیہ کے طور پر تین دن کے روزے رکھ لے چھ مسکینوں کو کھانا کھلا دے یا ایک بکری کی قربانی دے دے۔
میرے نزدیک اس آیت میں جو فدیہ کی ترتیب ہے وہ امارت اور غربت کے لحاظ سے ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص غریب ہو تو وہ تین دن کے روزے رکھ لے۔ اگر متوسط درجہ کا ہو تو چھ مسکینوں کو کھانا کھلا دے اور اگر مالدار ہوت و قربانی دے دے۔ بہر حال قربانی مقدم ہے اور اس کے بعد صدقہ ہے اور اس کے بعد روزے ہیں اور یہ ترتیب درجہ کی بلندی کے لحاظ سے ہے ۔ یعنی ادنی ٰ فدیہ یہ ہے کہ چھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ اور اس سے اعلیٰ فدیہ یہ ہے کہ ایک قربانی دے دے۔ اور یہ حکم محصر مَحِلَّہُ تک ختم ہو گیا ہے۔
فَاِذَ اَمنْتُمْ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ اِلَی الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْھَدْیِ۔ فرماتا ہے جب جنگ ختم ہو جائے یا دوسری روکاوٹیں دور ہو جائیں تو اس کے بعد جو شخص عمرہ کو حج کے ساتھ ملا کر فائدہ اُٹھائے اور قرِان یا تمتع کر تو جو قربانی واجب ہے۔ لیکن اکیلے عمرہ یا حج میں واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔ اور اگر ان میں سے کسی کی نیت کر کے جائے اور کسی وجہ سے روکا جائے تو اس پر قربانی واجب ہو گی اور جب تک قربانی ذبح نہ ہو اس کے لئے ضروری ہو گا کہ وہ سر نہ منڈوائے ۔ ہاں اگر قربانی وہاں پہنچ نہ جائے اس وقت تک سر نہ منڈائے۔
غرض اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمتع اور قِران کی خصوصیات جو خالی حج اور خالی عمرہ کے مقابلہ میں ہیں بیان فرمائی ہیں۔ اور فَاِ ذَا اَمِنْتُمْ کے الفاظ اس لئے بڑھائے ہیں کہ اس حکم کو پہلے حکم کا حصہ نہ سمجھ لیا جائے۔ اس حکم کو احصار کے ذکر کے بعد اس لئے بیان کیا کہ اس صورت میں بلا احصار قربانی ہونی چاہیے اور حج اور عمرہ میں احصار سے قربانی ہوتی ہے ورنہ نہیں۔ اس لئے اس کو احصار کے ذکر کے بعد بیان کیا۔
اس جگہ تمتع اور قِران کی یہ خصوصیات بیان کی گئی ہیں کہ ان میں قربانی ضروری ہو گی خواہ احصار نہ ہی ہوا ہو۔ اور جسے اس کی توفیق نہ ہو وہ جیسا کہ اگلی آیت میں بیان کیا گیا ہے تین دن کے روزے مکہ میں اور سات دن کے روزے واپس آکر رکھے۔
فرماتا ہے فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَا مُ ثَلَاثَۃِ اَیَّامٍ فِی الْحَجِّ۔ (۱) بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ تین دن کے روزے ذولحج کی ساتویں ۔ آٹھویں اور نویں تاریک کو رکھے جائیں (۲) حضرت امام ابو حنیفہ ؓ کہتے ہیں کہ اگر وہ ان ایام میں روزے نہیںرکھیگا تو اس پر قربانی بھی واجب ہو گی (۳) بعض کہتے ہیں کہ روزے چونکہ قربانی کے بدلہ میں ہیں اس لئے حج کے بعدرکھنے چاہیں (۴) بعض کہتے ہیں کہ یہ روزے واپسی سے پہلے مکہ میں ہی رکھنے چاہیں (۵) بعض نے احرام عمرہ اور احرام حج کے درمیانی عرصہ میں روزے رکھنے کو کہا ہے۔ (بحر محیط جلد ۲ صفحہ۷۸) میری نزدیک یہ روزے ایام تشریق یعنی گیارھویں بارھویں اور تیرھویں ذولحجہ کو رکھنے چاہیں اور فِی الْحَجِّ سے مراد اس جگہ فِیْ اَیَّامٍ ہے۔ باقی سات روزے گھر پر بھی رکھے جا سکتے ہیں ۔ اس جگہ تِلْکَ عَشَرَ ۃ’‘ کَا مَلَۃ’‘ کا فقرہ اس لئے زائد کیا گیا ہے کہ وَسَبْعَۃٍ کی جگہ اَوْ نہ سمجھ لیا جائے اور غلطی سے یہ معنے نہ کر لئے جائیں کہ وہاں رکھے تو تین رکھ اور گھر رکھے تو سات رکھے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے آخر میں تِلْکَ عَشَرَ ۃ’‘ کَا مَلَۃ’‘ فرما کر بتا دیا کہ صرف تین یا سات روزے رکھنا مراد نہیں بلکہ پورے دس روزے رکھنے مراد ہیں یا یہ الفاظ تاکید کے لئے استعمال کئے گئے ہیں۔ اور تِلْکَ عَشَرَۃ’‘ کَامِلَۃ’‘ کے یہ معنے ہیں کہ یہ رعزے ثواب یا قربانی کے قام مقام ہونے کے لحاظ سے کامل فدیہ ہیں۔
ذٰلِکَ لَمَنْ لَّمْ یَکُنْ اَھْلُہ‘ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فرماتا ہے یہ حکم یعنی تمتع کا صرف باہر کے لوگوں کے لئے ہے کیونکہ ان کو آنے جانے میں تکلیف ہوتی ہے مکہ والے تو ہر وقت عمرہ کر سکتے ہیں ان کے لئے تمتع یا قران نہیں ہے۔
اس آیت کے بارہ میں مفسرین میں بہت کچھ اختلاف پایا جاتا ہے (۱) بعض کہتے ہیں کہ قربانی نہ ملنے کی صورت میں روزوں کا حکم صرف آفاقیوں کے لئے ہے مکہ والوں کے لئے نہیں۔ کیونکہ وہ تو اپنے شہر میں ہی قربانی مہیا کر سکتے ہیں۔ یہ امام شافعی کا مذہب ہے۔ (۲) بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ آیت روزوں کے متعلق ہے ۔ یعنی روزوں کا حکم اہل مکہ کے لئے نہیں بلکہ صرف باہر والوں کے لئے ہے۔ گویا انہوں نے صیام کو ذٰلِکَ کے ماتحت رکھا ہے۔ مگر میرے نزدیک یہ دونوں درست نہیں کیونکہ اس صورت میں مکہ والوں کو سہولت رہتی ہے (۳) امام ابو حنیفہ ؓ کہتے ہیں کہ اس سے تمتع اور قِران والے احکام مراد ہیںجن کا ذکر فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃ، اِلَی الْحَجِّ میں آچکا ہے اور ا سک یمعنے یہ ہیں کہ تمتع اور قِران اہل مکہ کے لئے جائز نہیں۔ میرے نزدیک امام ابو حنیفہ کے معنے زیادہ درست ہیں اور عقل بھی انہی کی تائید کر تی ہے۔ کیونکہ مکہ والے تو ہر وقت عمرہ کر سکتے ہیں۔
اس کے بعد حاَضِرِ الْمَسْجِدٍ الْحِرَامِ میں بھی اختلاف ہے کہ ان سے کون لوگ مراد ہیں (۱) حضرت ابن عباسؓ اور مجاہد کہتے ہیں کہ اس سے تمام اہل حرم مرا د ہیں (۲) عطاء کہتیہ یں کہ اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو ہر جہت سے مواقیت کے اندر
اَلْحَجُّ اَشْھُر’‘


یٰٓا ُولِی الْاَ لْبَابِo
رہتے ہیں (۳)زہری کہتے ہیں کہ ایک یا دو دن کے سفر تک رہنے والے مراد ہیں (۴)بعض کہتے ہیں کہ اس سے صرف اہل مکہ مراد ہیں اور یہی معنے زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتے ہیں۔
آخر میں فرمایا۔ وَاتَّقُو االلّٰہَ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو ۔ یعنی حج کی عبادت محض اس غرض کے لئے ہے کہ تمہارے دلوں میں تقویٰ پیداہو۔ اور تم ماسوی اللہ سے نظر ہٹا کر صرف اللہ تعالیٰ کو ہی اپنی ڈھال بنا لو۔ اگر حج بیت اللہ یا عمرہ سے کسی کو یہ مقصد حاصل نہیں ہوتا تو اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اس کا کوئی مخفی کبر اس کے سامنے آگیا ہے اسے چاہیے کہ خلوت کے کسی گوشہ میں اپنے خدا کے سامنے اپنے ماتھے کو زمین پر رکھ دے اور جس قدر خلوص بھی اس کے دل میں باقی رہ گیا ہو اس کی مدد سے گریہ و زاری کر یا کم سے کم گِریہ وزاری کی شکل بنائے اور خداتعالیٰ کے حضور جھک کر کہے کہ اے میرے خدا! لوگوں نے بیج بوئے اور ان کے پھل تیار ہونے لگے وہ خوش ہیں کہ ان کے اور ان کی نسلوں کے فائدہ کے لئے روحانی باغ تیار ہو رہے ہیں۔ پر اے میرے رب میں دیکھتا ہوں کہ جو بیج میں نے لگایا تھا اس میں سے تو کوئی روئیدگی بھی پیدا نہیں ہوئی ۔ نہ معلوم میرے کِبر کاکوئی پرندہ اُسے کھا گیا یا میری وحشت کا کوئی روئیدگی نکلنے نہ دی۔ اے خدا! اب میں کیا کروں کہ جب میرے پاس کچھ تھا میں نے بے احتیاطی سے اُسے اس طرح خرچ نہ کیا کہ نفع اٹھاتا ۔ مگر آج تو میرا دل خالی ہے ۔ میرے گھر میں ایمان کا کوئی دانہ نہیں کہ میں بوئوں اے خدا! میرے اس ضائع شدہ بیج کو پھر مہیا کر دے اور میری کھوئی ہوئی متاع ایمان مجھے واپس عطا کر۔ اور اگر میرا ایمان ضائع ہو چکا ہے تو تو اپنے خزانے سے اور اپنے ہاتھ سے اپنے اس دھتکارہے ہوئے بندہ کوایک رحمت کا بیج عطا فرماتاکہ میں اور میر نسلیں تیری رحمتوں سے محروم نہ رہ جائیں اور ہمارا قدم ہمارے سچی اور اعلیٰ قربانی کرنیوالے بھائیوں کے مقام سے پیچھے ہٹ کر نہ پڑے بلکہ تیرے مقبول بندوں کے کندھوں کے ساتھ ساتھ ہمارے کندھے ہوں۔
وَاعْلَمُوْ ااَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ العِقَابِ میں اس طرف توجہ دلائی کہ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے ہمیشہ خائف رہو اور اپنے تمام کاموں کی تقوی اللہ پر بنیاد رکھو ورنہ تمہارا پہلا ایمان بھی ضائع ہو جائیگا۔ اور تم خداتعالیٰ کی ناراضگی کے مورد بن جائو گے۔
۱۱۱؎ حل لغات:۔ رَفَثَ: مصدر ہے اور لانفی جنس کے بعد واقع ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ رَفَثَ سے مراد ہر ایسا کلام ہے جس کے اندر کوئی ایسی بات جس کے اندر جماع یا اس کے متعلقات کا ذکر ہو۔ (۲) جب اس کے بعد اِلیٰ صلہ ہو تو اس وقت کنایہ کے طور پر اس کے معنے جماع کے لئے جاتے ہیں (مفردات) اور طبری نے کہا ہے اَلرَّفَثُ اَللَّغْوُ مِنَ الْکَلَامِ (بحرِ محیط) رفث لغو اور بے ہودہ گفتگو کو بھی کہتے ہیں۔
فُسُوْقَ: فَسَقَ کا مصدر ہے اور فسوق کے معنے ہیں اللہ تعالیٰ کے حکم کو ترک کر دینا۔ (۲) نافرمانی (۳) سچے راستہ سے دوسری طرف جُھک جانا۔ (اقرب)
جِدَالَ: باب مفاعلہ سے مصدر ہے اور اس کے معنے جھگڑا کرنے کے ہیں۔
زَاد: جس چیز کو انسان بطور سفر خرچ اپنے ساتھ لے لے۔
اِتَّقُوْنِ: امر جمع کا صیغہ ہے جو وَقٰی سے باب افتعال کے مضارع کے صیغہ سے بنا ہے۔ اِتَّقَا ء (مصدر) جب اللہ تعالیٰ کے لئے آئے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ اس کا مفعول ہو تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ک اپنی حفاظت کا ذریعہ بنا لینا۔
تفسیر: اَلْحَجُّ اَشْھُر’‘ مَّعْلُوْمٰت’‘ میں اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ حج کے بارہ میں قرآن کریم نے کوئی نیا حکم نہیں دیا بلکہ اسی حکم کو قائم رکھا ہے جس حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں چلا آرہا ہے۔ اس وجہ سے حج کے مہینے بھی سب لوگوں کو معلوم ہیں یعنی شوال، ذوالقعدہ، اور ذوالحجہ۔ گو امام ابو حنیفہ ؓ اور امام شافعیؒ کے نزدیک ذوالحجہ کے صرف دس دن اشہرا الحج میں شامل ہیں۔ فَمَنْ فَرَضَ فِیْھِنَّ الْحَجِّ جو شخص ان مہینوں میں حج کو اپنے اوپر فرض کر کے چل پڑے۔ اُسے چاہیے کہ وہ اپنی زبان کو پاک رکھے اور کوئی ایسی بات نہ کرے جو جنسی جذبات کو ابرانگیختہ کرنے والی ہو۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ عشقیہ اشعار پڑھنا اس میں داخل نہیں۔ کیونکہ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ ایام حج میں جاہلیت کے اشعار پڑھے تھے۔ یہ روایت اگرچہ قرآن کریم کے اس واضح حکم کی موجودگی میں درست تسلیم نہیں کی جا سکتی۔ لیکن اگر مان بھی لیا جائے کہ انہوں نے ایسا کیا تھا تو امتدادِ زمانہ کی وجہ سے ہم نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے کس غرض کے ماتحت جاہلیت کے اشعار پڑھے تھے۔ ممکن ہے انہوں نے دوران گفتگو میں کسی دلیل کیل ئے پڑھے ہوں اور سننے والوں نے غلطی سے یہ سمجھ لیا ہو کہ وہ شوقیہ طور پر اس قسم کے اشعار پڑھ رہے ہیں۔ بہر حال اس قسم کا کلام خواہ وہ نظم میں ہو یا نثر میں اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اور ان دنوں کو اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اسکی عبادت میں صرف کرنا چاہیے۔ مگر اس ممانعت کے یہ بھی معنے نہیں کہ رفث۔ فسوق اور جدال دوسرے دنوں میں جائز ہے۔ بلکہ اس ممانعت میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکمت رکھی ہے کہ اگر کچھ عرصہ تک انسان اپنے نفس پر دبائو ڈال کر ایسے کام چھوڑ دے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُسے دوسرے دنوں میں بھی ان کو چھوڑنے کی توفیق مل جاتی ہے۔ کیونکہ مشق ہونے کی وجہ سے اس کے لئے سہولت پیدا ہو جاتیہے بعض دفعہ بشریٰ کمزوریوں کی وجہ سے انسان ایک لمبے وقت کے لئے کسی کام کو چھوڑنے کی ہمت نہیں کر سکتا۔ ایسی حالت میں اس کے اندار استعداد پیدا کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اسے کچھ وقت کے لئے اس کام سے روک دیا جائے۔ جب کچھ عرصہ تک رکا رہتا ہے تو اس کی ضبط کی طاقت بڑھ جاتی ہے۔ اور آہستہ آہستہ وہ کلی طور پر اس کام کو چھوڑنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ اسی نکتہ کو مدنظر رکھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ رمضان کے مہینہ میں اپنی کمزوریوں میں سے کسی ایک کمزوری پر غالب آنے کی کوشش کرے۔ اور مہینہ بھر اس سے بچتا رہے اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ خداتعالیٰ رمضان کے بعد بھی اس کی مدد کریگا۔ اور اسے ہمیشہ کے لئے اس بدی پر غالب آنے کی توفیق عطا فرما دیگا۔
یہاں رفٰث:فسوق اور جدال میں گناہوں کے چھوڑنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ رفث مرد عورت کے مخصوص تعلقات کو کہتے ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ بد کلامی کرنا۔ گالیاں دینا۔ گندی باتیں کرنا۔ قصے سُنانا۔ لغو اور بے ہودہ باتیں کرنا جسے پنجابی میں گپیں مارنا کہتے ہیں۔ یہ تمام امور بھی رفث میں ہی شامل ہیں۔ اور فسوق وہ گناہ ہیں جو خداتعالیٰ کی ذات سے تعلق رکھتے ہیں جن میں انسان اس کی اطاعت اور فرمانبرداری سے باہر نکل جاتا ہے۔ آخر میں جدال کا ذکر کیا ہے جو تعلقات باہمی کو توڑنے والی چیز ے ان تین الفاظ کے ذریعہ درحقیقت اللہ تعالیٰ نے تین اصلاحوں کی طرف توجہ دلائی ہے ۔ فرمایا ہے (۱) اپنی ذاتی اصلاح کرو اور اپنے دل کو ہر قسم کے گندے اور ناپاک میلانات سے پاک رکھو۔ (۲) اللہ تعالیٰ سے اپنا مخلصانہ تعلق رکھو (۳) انسانوں سے تعلقات محبت کو استعار رکھو۔ گویا یہ صرف تین بدیاں ہی نہیں جن سے روکا گیا ہے بلکہ تین قسم کی بدیاں ہیں جن سے باہر کوئی بدی نہیں رہتی۔ کیونہ بدی یا تو اپنے نفس سے تعلق رکھتی ہے یا خداتعالیٰ سے تعلق رکھتی ہے۔ اور یا پھر مخلوق سے تعلق رکھتی ہے۔ اور روحانیت کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ انسان اپنی ذاتی اصلاح کے بعد حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں بھی سرگرم رہے۔
وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْہُ اللّٰہُ۔ فرماتا ہے تمہیں ان باتوں کے چھوڑنے میں کئی قسم کی دقتیں پیش آئیں گی۔ مثلاً کسی شخص کو گالی دے دی جائے تو اس کیلئے صبر کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر تم خدا کے لئے ان پابندیوں کو اپنے اوپر عائد کر و گے اور نیکیوں میں حصہ لو گے تو تم جو بھی نیک کام کرو گے۔ اللہ تعالیٰ اسے ضرور ظاہر کر دیگا۔ خدا تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ نیکی کو پوشیدہ نہیں رہنے دیتا۔ گو بعض صورتوں میں نیکیوں پر پردہ بھی پڑا رہتا ہے مگر آخر کار نیکی ظاہر ہو کر رہتی ہے۔ اور دشمن بھی اس کو محسوس کئے بغیر نہیں رہتا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفوں کو ہی دیکھ لو۔ وہ آپؐ کو گالیاں دیتے تھے مگر ابو سفیان ہر قل کے سامنے آپؐ کو کوئی عیب بیان نہ کر سکا۔ صرف اتنا ہی کہہ سکا کہ اب ایک عہدہم میں اور اس میں ہوا ہے معلوم نہیں وہ اسے پورا کرتا ہے یا نہیں۔ تو فرمایا کہ تم جو نیکی بھی کرو گے خداتعالیٰ اُسے ضرور ظاہر کردے گا۔ اور لوگوں پر تمہارے اچھے کردار اور بلند اخلاق کا گہرا اثر پڑے گا۔
وَتَزَ وَّ دُوْا۔ فرمایا جب تم سفر کے لئے نکلو توہمیشہ اپنے ساتھ زادراہ لے لیا کرو۔ اسجگہ تَزَوَّ دُوْا سے دونوں زاد مراد ہو سکتے ہیں یہ بھی کہ آمدو رفت اور کھانے پینے کے اخراجات کا انتظام کر لیا کرو۔ اور یہ بھی کہ نیکی اور تقوی کا زاد ساتھ لو۔ چونکہ اس سے پہلے وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْہُ اللّٰہُ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے نیکیوں اور حسنات میں ترقی کرنے کی طرف خاص طور پر توجہ دلائی تھی اس لئے تَزَوَّدُوْا کہہ کر بتایا کہ حج اور عمرہ کا ثواب تو بہت بڑا ہے۔ مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ تم زیارت کعبہ کے شوق بھیک مانگتے ہوئے وہاں پہنچو۔ تمہارا کام یہ ہے کہ تم پہلے زادِ راہ کا انتظام کرو۔ اور جب آمد و رفت اور رہائش اور کھانے پینے وغیرہ کے تمام اخراجات کا انتظام ہو جائے تو اس کے بعد سفر کے لئے نکلو۔ فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی اور یاد رکھو کہ بہتر زاد رہ ہے جس سے تم سوال اور گناہ سے بچو۔
افسوس ہے اس زمانہ میں مسلمانوں میں عام طور پر یہ سمجھا جاتاہے کہ اسلام اس امر کی تعلیم دیتا ہے کہ انسان کو اسباب سے کام نہیں لینا چاہیے بلکہ اپنے تمام معاملات خداتعالیٰ پر چھوڑ دینے چاہیں۔ مگر یہ قطعًا غلط اور اسلامی تعلیم کے خلاف ہے اس لئے یہاں مسلمانوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ جب تم سفر کے لئے نکلو تو ضروری سامان اور زادِ راہ سے کبھی غفلت اختیار نہ کرو۔
فَاِذَآاَفَضْتُمْ

لَمِنَ الضَّآلِّیْنَo
لیکن تَزَ وَّ دُوْا کے ایک معنے یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ تم تقویٰ کا زاد لو۔ اور چونکہ تقویٰ کا زاد مخفی تھا اس لئے اسے فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَی کے الفاظ میں کھول کر بیان کر دیا اور بتایا کہ تقویٰ سب سے بہتر زد ہے جو آخرت کے سفر میں تمہاراے کام آنے والا ہے انہیں معنوں میں بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’وقت تھوڑا ہے اور کر عمر ناپیدا۔ تیز قدم اٹھائو کہ شام نزدیک ہے جو کچھ پیش کرنا ہے وہ باربار دیکھ لو ایسا نہ ہو کہ کچھ رہ جائے اور زیاں کاری کا موجب ہو یا سب گندی اور کھوٹی متاع ہو۔ جو شاہی دربار میں پیش کرنے کے لائق نہ ہو‘‘۔ (کشتی نوح)
چونکہ اس سے پہلے حج کا ذکر آچکا ہے اس لئے فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَی۔ فرما کر اللہ تعالیٰ نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اب حج سے تمہاری ذمہ داری بہت بڑھ گئی ہے تمہیں تقویٰ کا پہلے سے بہت زیادہ خیال رکھنا چاہیے جیسے صاف کپڑوں والا چھوٹے چھوٹے داغ اور دھبے سے بھی بچنے کی کوشش کیا کرتا ہے۔
پھر فرمایا ہے وَاتَّقُوْنِ یَا اُولِی الْاَلبَابِ۔ اے عقلمندوں اگر تم اپنے بچائو کا سامان کرنا چاہتے ہوتو میری طرف جھکو۔ اور صرف مجھے ہی اپنی حفاظت کا ذریعہ بنائو۔ باقی تمام ذرائع اس کے مقابلہ میں بالکل ہیچ ہیں۔
۱۱۲؎ حل لغات:۔ کَمَا کے معنے ’’جس طرح‘‘ کے بھی ہوتے ہیں۔ اور ’’اس لئے‘‘ کے بھی چنانچہ سیبویہ یہ کہتا ہے کَمَا اِنَّہُ لَا یَعْلَمُ تَجَاوَزَاللّٰہُ عَنْہُ کہ چونکہ وہ نہ جانتا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کا گناہ معاف کر دیا۔
اِنْ یہ اِنَّ سے مخففہ ہے اور اس کے معنے قریباً ’’گو‘‘ کے ہوتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ اِنْ نافیہ ہے یہ فتراء کا قول ہے۔ کَسائی کہتا ہے کہ اِنْ کے معنے قَدْ کے بھی ہوتے ہیں اور اس جگہ اس کے معنے قَدْ کے ہی ہیں۔
تفسیر:۔ فرماتا ہے تمہارے لئے یہ کوئی گناہ کی بات نہیں کہ حج کے ایام میں تم اپنے رب سے کوئی اور فضل بھی مانگ لو۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ فضل سے مراد اس جگہ تجارت ہے اور میرے نزدیک بھی یہ درست ہے مگر فضل سے صرف تجارت مراد لینا ایک وسیع مضمون کو محدود کر دینا ہے۔ درحقیقت آج اسلام کو جس بہت بڑی مصیبت کا سامنا ہے وہ یہ ہے کہ دنیا میں چاروں طرف کفر غالب ہے اور مسلمان جمود اور بے حسی کا شکار ہیں۔ ان کے دلوں میں یہ احساس پیدا نہیں ہوتا کہ وہ اسلام کی اشاعت کے لئے اس جنون سے کام لیں جس جنون سے قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں نے کام لیا تھا اور اسلام کو تھوڑے عرصہ میں ہی تمام معلومہ دنیا میں غالب کر دیا تھا پس حج کے ذکر کے ساتھ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ فرما کر میرے نزدیک اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ تم اس عظیم الشان اجتماع سے بعض دوسرے فوائد بھی حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اللہ تعالیٰ کا وہ فضل تلاش کرو جس کے نتیجہ میں مسلمان قعرِ مذلت سے نکل کر بامِ عروج پر پہنچ جائیں اور اسلام کی اشاعت کے لئے مختلف ممالک کے با اثر اور ممتاز افراد کے ساتھ مل کر ایسی سکیمیں سوچو جن کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہو جائے اوراسلام دنیا پر غالب آجائے۔ غرض اس فضل کو تلاش کرنا جس سے نتیجہ میں اسلام کو غلبہ حاصل ہو اللہ تعالیٰ نے ہمارا فرض قرار دیا ہے اور یہ جو فرمایا ہے کہ تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم خداتعالیٰ کا فضل تلاش کرو۔ یہ کلام کا ایک طریق ہے جس کا مقصد کسی اہم نیکی کی طرف متوجہ کرنا ہوتا ہے۔ اسی طریق کلام کو اس جگہ استعمال کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسے اچھے موقعہ کے ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی تلاش نہ کرنا کیا کوئی گناہ کی بات ہے کہ تم اسے چھوڑ رہے ہو۔ یعنی اس عظیم الشان اجتماع کے موقعہ کو جبکہ دنیا کے چاروں کناروں سے لوگ یہاں جمع ہیں غنیمت جانو اور اسے اپنے ہاتھ سے نہ جانے دو۔
یہ لَا جُنَاحَ بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ لَا جُنَاحَ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا میں لَاجُنَاحَ کا ستعمال کیا گیا ہے۔
فَاِذَا اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْکُرُوااللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعِرِ الْحَرَامِ۔ فرمایا جب تم عرفات سے واپس آئو تو مشعرالحرام کے پاس اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو۔ عرفات مکہ سے شمال مشرق کی طرف قریباً نو میل کے فاصلہ پر ایک وسیع میدان ہے جہاں ۹ ذولحجہ کو تمام حاجی جمع ہوتے ہیں یہاں ٹھہرنا اور عبادت کرنا اتنا اہم ہے کہ اگر کوئی شخص حج کے اور تمام مناسک ادا کرے مگر عرفات کے میدان میں نہ پہنچ سکے تو اس کا حج ہی نہیں ہوتا۔ اور مشعر الحرام مزدلفہ میں ایک چھوٹی سی پہاڑی کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم عرفات میں عبادت کر چکو اور وہاں سے واپس لوٹو تو مشعرالحرام کے پاس جو مزدلفہ میں ایک پہاڑی ہے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق تھا کہ آپ یہاں بھی دُعا کیا کرتے تھے مگر اب عام طور پر لوگ اس جگہ دُعا نہیں کرتے بلکہ اس جگہ کا پتہ لگانے میں بھی دقت محسوس ہوتی ہے چنانچہ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ۔ ہم نے اس کا پتہ لگانے کی بڑی کوشش کی مگر نہ لگا۔ اور یونہی دعا کر کے چل پڑے۔ معلوم ہوتا ہے یہ کوئی بڑی پہاڑی نہیں بلکہ ٹیلہ سا ہے۔ چونکہ وہاں ایسے کوئی ٹیلے ہیں اور مجمع بھی بہت ہوتا ہے اس لئے اس کا آسانی سے پتہ نہیں لگ سکتا۔
اس آیت میں اَفَضْتُمْ کا لفظ استعمال فرما کر اس امر کا بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ جب تم عرفات سے واپس لوٹو تو تمہارے قلوب اللہ تعالیٰ کی برکات اورا س کے انوار سے اس طرح معمور ہونے چاہیں جیسا کہ ایک برتن اپنے کناروں تک پانی سے بھرا ہوتا ہے۔ اور پھر اسی حالت میں جبکہ ساقی کو ثر کی روحانی شراب سے تمہارے جام لباب بھرے ہوئے ہوں تم مشعر الحرام کے پاس پہنچو اور اللہ تعالیٰ کو یاد رکرو۔ گویا روحانی انعامات کی وہ بارش جو عرفات میں تم پر نازل ہوئی ہے وہ تمہیں بہاتی ہوئی مشعر الحرام کی طرف لے جائے اور تمہیں اپنے محبوب کے قدموں تک پہنچا دے۔
وَاذْ کُرُوْہُ کَمَا ھَدٰ لکُمْ اس کے دو معنے ہیں۔ ایک یہ کہ اُذْکُرُوْہُ ذِکْرًا کَمَا ھَدٰ لکُمْ اس کا اس طرح ذکر کرو جس طرح اس نے تمہیں ہدایت دی ہے اور دوسرے یہ کہ اس کا ذکر کرو کیونکہ اس نے تم کو ہدایت دی ہے ان معنوں کے لحاظ سے اس جگہ کَمَا کا استعمال ایسا ہی ہے جیسا کَمَا اَنْزَلْنَا عَلَی الْمُقْتَسِمِیْنَ (حجر آیت ۹۱) میں کیا گیا ہے۔
وَاِنْ کُنْتُمْ مِنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الضَّآلِّیْنَ میں اِنْ مخففہ ہے اور اس کے معنے ’’گو‘‘ کے ساتھ ملتے ہیں۔ فرّاد نے کہا ہے کہ اس کے معنے نفی کے ہیں۔ اور لام کے معنے اِلَّا کے ہیں۔ یعنی ’’تم اس ہدایت سے پہلے نہ تھے مگر گمراہ‘‘۔ کسائی نے کہا ہے کہ اس کے معنے قَدْ کے ہیں اور لام زائد ہے ۔یعنی تم ضرور اس سے پہلے گمراہوں میں سے تھے۔
ثُمَّ اَفِیضُوْا مِنْ
غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘o
۱۱۳؎ حل لغات:۔اَفِیْضُوْا: اَفَاضَ بَفِیْضُ سے امر کا صیغہ ہے اور اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ کے معنے ہیں دَفَعْتُمْ مِنْھَا بِکَثْرَۃٍ تَشبِیْھًا بِفَیْضَ الْمَآئِ۔ یعنی تم وہاں سے کثرت سے چل پڑو۔ یہ معنے پانی کے کثرت سے بہنے کے ساتھ بطور تشبیہ کے ہیں (مفرداتِ راغب)
تفسیر:۔ اس آیت کے متعلق سوال پیدا ہوتا ہے کہ افاضہ تو ہو چکا پھر یہ کون سا نیا افاضہ ہے جس کے طرف اشارہ کیا گیا ہے یعنی عفرات سے تو لوٹ آئے پھر اور کہاں سے لوٹنے کا حکم دیا گیا ہے۔ سو یاد رکھنا چاہیے کہ کہ اس جگہ ثُم’‘ کے معنے ’’اور‘‘ کے ہیں۔ اور اس بات کو اس لئے دہرایا ہے کہ پہلے اسبارہ میں کوئی حکم نہ تھا بلکہ صرف اظہار واقعہ کیا گیا تھا۔ اب حکم نہ تھا بلکہ صرف اظہار واقعہ کیا گیا تھا۔ اب حکم دیا کہ جہاں سے دوسرے لوگ واپس لوٹتے رہے ہیں وہیں سے تم بھی لوٹو۔ اور یہ حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ قریش اور ان کے ساتھیوں کا طریق تھا کہ وہ مزولفہ سے آگے عرفات میں نہیں جاتے تھے۔ بلکہ مزولفہ ہی سے واپس چلے آتے تھے۔ اور اس کی وجہ وہ یہ قرار دیتے تھے کہ عرفات حدودِ حرم سے باہر ہے اس لئے ہم وہاں نہیں جائیں گے بلکہ مزدلوہ میں مشعرالحرام کے پاس ہی ٹھہریں گے جو حرم کے اندر ہے اور کہتے کہ ہم حرم کے باشندے ہین اس لئے ہم حرم سے باہر نہیں جا سکتے لیکن دوسرے قبائل عرفات میں جا کر حج کرتے تھے۔ اس لئے ان کو مخاطب کر کے فرمایا کہ جس طرح دوسرے لوگ عرفات میں جاتے اور پھر وہاں سے واپس آتے ہیں اسی طرح تم بھی وہاںجائو اور جس طرح وہ عرفات سے واپس آتے ہیں اسی طرح تم بھی واپس آئو۔ لیکن اگر ثُمَّ کے معنے ’’پھر‘‘ یا ’’تب‘‘ کے کئے جائیں تو اس صورت میں اس کا یہ مطلب ہو گا ۔ کہ پھر تم مزولفہ سے لوٹو جہاں سے سب لوگ واپس لوٹتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ قریش اور بنو کنانہ جو حمس یعنی بڑے پکے دیندار کہلاتے تھے وہ بھی یہیں سے واپس چلے جاتے تھے۔
مزولفہ سے لوٹنے کے متعلق یہ حکم ہے کہ تمام حاجی نماز پڑھ کر اور دُعا کر کے سورج نکلنے سے پہلے وہاں سے چلیں اور منیٰ میں سورج نکلنے کے بعد پہنچ جائیں۔ جہاں رمی جمار کی جاتی ہے۔ قربانیاں دی جاتی ہین اور احرام کی حالت ختم ہو جاتی ہے۔
یہ آیت چکڑالویوں پر بھی حجت ہے کیونکہ خداتعالیٰ نے خود اس جگہ کا نام نہیں بتایا ۔ پس تفسیر کیلئے سنت کا تفھص بھی ضروری ہے۔ پھر فرماتا ہے ۔ وَاسْتَغْفِرُوااللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘۔ تم ان مناسک کے ساتھ ساتھ استغفار بھی کرتے رہو کیونکہ حج ایک بہت بڑا ابتلاء بھی ہے۔ مجھ سے کئی لوگوں نے بیان کیا کہ ہم نے حج کیا اور ہمار ادل پہلے سے بھی زیادہ سخت ہو گیا۔ اسی طرح بہت سے لوگوں نے بیان کیا ککہ حج کے دنوں میں تو بڑا جوش ہوتا ہے مگر بعد میں دل پر بُرا اثر پڑتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حج میں ظاہر پر اسقدر زور ہے کہ اس کے مقابلہ میں باطن بہت حد تک پوشیدہ ہو جاتا ہے ۔ مثلاً وہاں حجرِ اسود کو بوسہ دیتے ہیں۔ صفا اور مروہ کے درمیان چکر لگاتے ہیں۔ بیت اللہ کا طواف کرتے ہیں۔ منیٰ میں تین ٹیلوں پر جواب برحیوں کی شکل
فَاِذَا قَضَیْتُمْ




عَذَابَ النَّارِo
میںہیں کنکر پھینکتے ہیں۔ اس لئے اگر ساتھ ساتھ استغفار نہ ہو تو دل پر زنگ لگ جاتا ہے اسی طرح وہاں پانچ پانچ گھنٹے بیٹھ کر عبادت کرنی پڑتی ہے۔ ہزاروں کے مجمع میں میں نے ایک شخص بھی ایسا نہیں دیکھا جو دُعا کرتا ہو۔ لوگ حج صرف اسقدر سمجھتے ہیں کہ خطیب جب کھڑا ہو تو اس کے رومال کے ساتھ رومال ہلا دیں۔ مگر مجھے خداتعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی اور میں نے وہاں کثرت سے دُعائیں کیں ۔ تو چونکہ یہ نماز کی طرح ایک معین عبادت نہیں اس لئے لوگ اس کی اہمیت محسوس نہیں کرتے۔ شریعت نے صرف ظاہر
بتا دیا ہے اور باطن کو انسان پر چھوڑ دیا ہے ۔ مگر وہاں یہ کیفیت ہوتی ہے کہ اکثر لوگ جانتے ہی نہیں کہ ہم نے یہاں دُعا یا عبادت کرنی ہے ۔ پس فرماتا ہے حج کے ایام میں تمہیں استغفار کی سخت ضرورت ہے۔ کیونکہ حج میں ظاہر زیادہ نمایاں ہے اور باطن جو جوہر عبادت ہے مخفی ہے۔ اگر انسان باطن کی طرف توجہ نہ کرے اور صرف ظاہر پر عمل کر کے سمجھ لے کہ اس نے شریعت کی اصل غرض کو پورا کر دیا ہے۔ تو اس کا دل زنگ آلود ہو جاتا ہے۔
۱۱۴؎ حل لغات:۔ اَوْ کے معنے ’’ یا‘‘ کے بھی ہوتے ہیں اور یہ لفظ اظہار ترقی کے لئے بھی ہوتا ہے۔ اسی طرح اَوْکا لفظ کسی چیز کو حقیر ظاہر کرنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔
اَشَدُّ۔ یہ ذکر کی صفت ہے جو بطور حال پہلے بیان کر دی گئی ہے۔
تفسیر:۔ فرماتا ہے جب تم اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق حج بیت اللہ کا فرض ادا کر چکو تو خداتعالیٰ کو اس طرح یاد کرو جس طرح تم اپنے باپ دادون کو دیاد کرتے ہو۔ اہل عرب میں دستور تھا کہ جب وہ حج سے فرغ ہو جاتے تو تین دن منیٰ میں مجالیس منعقد کر کے اپنے باپ دادوں کے کارنامے بیان کرتے اور اپنے اپنے قبیلہ کی بہادری شہرت اور سخاوت کی تعریف میں قصیدے پڑھتے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ لوگ تو اپنے باپ دادوں کی تعریف میں قصائد پڑھا کرتے تھے۔ مگر ہم تمہیں یہ ہدایت دیتے ہیں کہ جب تم مناسک حج کو ادا کر چکو تو تم خداتعالیٰ کو اس طرح یاد رکرو جیسے تم اپنے باپ دادوں کو یاد کرتے ہو۔ یعنی جس طرح ایک چھوٹا بچہ جو اپنی ماں سے جدا ہوتا ہے روتا اور چلاتا ہوا کہتا ہے کہ میں نے اپنی ماں کے پاس جانا ہے اس یطرح تم بھی بار بار خداتعالیٰ کا ذکر کرو تاکہ اس کی محبت تمارے رگ و ریشہ میں سرایت کر جائے۔ خداتعالیٰ ایک وارء الوراء ہستی ہے اس کا حسن براہ راست انسان کے سامنے نہیں آتا بلکہ کئی واسطوں کے ذریعہ سے آتا ہے۔ اگر اُس کے حسن کو الفاظ میں بیان کیا جائے اور پھر ہم اس پر غور کریں اور سوچیں تو آہستہ آہستہ معنوی طور پر اس کی شکل ہمارے سامنے آجاتی ہے۔ اگر تم مالک کا نام لو اور اس کی مالکیت کو ذہن میں لائو۔ قدوس کا نام لو اور اس کی ستاریت کو ذہن میں لائو۔ غفور کا نام لو اور اس کی غفوریت کو ذہن میں لائو۔ غفور کانام لو اور اس کی غوریت کو ذہن میں لائو تو یہ لازمی بات ہے کہ آہستہ آہستہ خداتعالیٰ کی ایک مکمل تصویر تمہارے سامنے آجائیگی۔ اور محبت کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ یا تو کسی کا وجود سامنے ہو۔ حضرت مسیح وعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے ایک شعر میں اسی حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ؎
دیدار گر نہیں ہے تو گفتار ہی سہی
حسن و جمال یار کے آثار ہی سہی
یعنی اگر محبوب خود سامنے نہیں آتا تو اس کی آواز تو سنائی دے اور اس کے حُسن کی کوئی نشانی تو نظر آئے۔ پس رب رحمٰن ۔ رحیم، مالک یوم الدین، ستار غفار، قدوس، مہیمن سلام، جبار، قہار اور دوسری صفاتِ الہٰیہ کو جب ہم اپنے ذہن میں بٹھا لیتے یہں تو خداتعالیٰ کی ایک تصویر ہمارے سامنے آجاتی ہے اور اس کے نتیجہ میں ہمارے دلوں میں اس کی محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ غرض صفاتِ الہیہ کے باربار دُہرانے اور توتر سے دُہرانے کے نتیجہ میں ہمارے دل میں محبت بنتی ہے اور اس تصویر کی وجہ سے ہی ہماری دل میں محبت پیدا ہوتی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس طرح بچوں کے دل میں اپنے ماں باپ کی ملاقات کا اشتیاق ہوتا ہے۔ اسیطرح تمہارا ابھی خداتعالیٰ کے ساتھ ایساہی روحانی تعلق ہونا چاہیے۔ گویا تمہارا چلن اور تمہارا آرام صرف خداتعالیٰ کے ساتھ ہی وابستہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ اسی پر تمہاری روحانی زندگی کا مدار ہے۔ اور حج کے بعد ذکر الہٰی کی طرف توجہ دلا کر اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ تمہارا خداتعالیٰ سے اب ایک روحانی پیوند قائم ہو چکا ہے۔ پس جس طرح ایک بچہ اپنے ماں باپ کے سایہ عاطفت میں اپنی زندگی کے دن بسر کرتا ہے اس طرح تم بھی خداتعالیٰ کی صفات کا آئینہ بنو اور اسی کے سایہ عاطفت میں اپنی زندگی کے دن بسر کرو۔
پھر فرماتا ہے۔ اَوْ اَشَدَّ ذِکْرًا ہم نے پہلے تو تمہیں یہ ہدایت دی ہے کہ تم خداتعالیٰ کو اس طرح یاد کرو جس طرح تم اپنے باپ دادوں کو یاد کرتے ہو۔ مگر ہمارا یہ حکم صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو روحانیت میں ابھی اعلیٰ مقام پر نہیں پہنچے۔ ورنہ جو لوگ اپنے ماں باپ کی محبت میں بھی اللہ تعالیٰ کی محبت کا ہاتھ پوشیدہ دیکھتے ہیں اور خداتعالیٰ کے مقابلہ میں ماں باپ کے تعلق کو بالکل ہیچ سمجھتے ہیں ۔ ان کو چاہیے کہ وہ خدتعالیٰ کا ایسے رنگ میں ذکر کریں کہ ان کے دنیوی تعلقات میں اس کی کوئی مثال دکھائی نہ دے اور ماںباپ کا ذکر اس کے مقابلہ میں بالکل ہیچ ہو جائے۔
فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقْوْلُ رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا وَمَا لَہ‘ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ۔ فرماتا ہے بعض لوگ ایسے ہین جو خداتعالیٰ سے صرف دنیا ہی مانگتے ہیں۔ جیسے عیسائی ہیں ۔وہ یہی دعا کرتے ہیں کہ ’’ہماری روز کی روٹی آج ہمیں دے‘‘(متی باب۶ آیت ۱۱) انہیں حرام و حلال سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ انہیں کسی چیز کے مفید یا مضر ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ان کا مطمع نظر محض دنیا طلبی ہوتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا کے ساتھ حَسَنَۃً کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ جس میں یہ اشارہ ہے کہ ایسے لوگ صرف دنیا پر جان دیتے ہیں۔ حالانکہ خالی دنیوی عزت جس کے ساتھ اخروی عزت نہ ہو ایک *** ہوتی ہے۔ جیسے یہود کو آجکل خالی دنیوی عزت ملی ہوئی ہے ۔ اسی طرھ عیسائیوں کو صرف دنیوی عزت ملی ہوئی ہے مگر اُخروی عزت سے انہیں کوئی حصہ نہیں ملا۔ اسی لئے فرمایا کہ وَمَالَہ‘ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ ایسے لوگوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ یعنی ہم انہیں دنیا تو دے دیتے ہیں مگر اُخروی انعامات میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ لیکن دوسری طرف خالی اُخروی عزت بھی ایک بے ثبوت چیزہوتی ہے۔ ثبوت والی چیز وہی ہوتی ہے جس میں دین اور دنیا دونوں اکٹھے ملیں۔ اسی لئے فرمایا کہ ایک اور گروہ ایسا ہے جو یہ دعا کرتا رہتا ہے کہ رَبَّنَا اٰتَنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ یعنی الہٰی ہمیں دنیا میں بھی عزت بخش اور آخرت میں بھی ہمارے مقام کو بلندکر۔ اگر ہمیں دنیا ملے تو ہم اسے اپنی ذات کے لئے استعمال نہ کریں بلکہ تیرے دین کی شوکت ظاہر کرنے کیلئے استعمال کریں اور تیری رضا اور خوشنودی کے لئے اُسے صرف کریں۔ اگر ایسا ہو تو پھر انسان کو دنیا میں بھی عزت ملتی ہے۔ اور خداتعالیٰ کے حضور بھی اس کا مرتبہ بڑھتا ہے۔ یہ دُعا جو اسلام نے ہمیں سکھائی ہے بظاہر بہت چھوٹی سی دعا ہے لیکن ہر قسم کی انسانی ضرورتوں پر حاوی ہے ۔انسان کہتا ہے رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً اے ہمارے رب ہم کو اس دنیا میں حسنہ کا جو لفظ استعمال فرمایا ہے یہ درست نہیں۔ حسنات کا لفظ استعمال کرنا چاہیے تھا جس کے معنے بہت سی نیکیوں کے ہیں مگر یہ اعتراض عربی زبان سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ اگر یہاں حسنات کا لفظ ہوتا تو اسکے معنے یہ ہوتے کہ ہمیں کچھ اچھی چیزیں ملیں لیکن حسنہ کے یہ معنے ہیں کہ ہمیں جو کچھ ملے خیر ہی ملے۔ پس رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً کے یہ معنے ہیں کہ اے ہمارے رب! دنیا میں ہم کو جو کچھ دے حسنہ دے ۔ روٹی دے تو حلال و طیب ہو پچنے والی ہو۔ کپڑا دے تو حال دے طیب دے ضرورت کے مطابق دے ننگ ڈھانکنے والا دے۔ پسندیدہ دے۔ بیوی دے تو ایسی دے جو ہمدرد ہو ہم خیال ہو دیندار ہو محبت کرنے والی ہو۔ نیکی میں تعاون کرنے والی ہو بچے پیدا کرنے والی ہو ان بچوں کو نیک تربیت کرنے والی ہو۔ مکان دے تو مبارک ہو۔ وہ بیماریوں والا گھر نہ ہو۔ سل دق اور ٹائیفائیڈ کے جراثیم اس میں نہ ہوں۔ کوئی چیز ایسی نہ ہو جو صحت پر بُرا اثر کرنے والی ہو۔ کوئی ہمسایہ ایسا نہ ہو جو دکھ دینے والا ہو۔ وہ ایسے محلہ میں نہ ہو جہاں کے رہنے والے بُرے ہوں۔ وہ ایسے شہر میں نہ ہو جسے تو مریے لئے اچھا نہ سمجھتا ہو۔ ہمیں حاکم دے تو ایسے دے جو رحمد دل ہوں۔ تقویٰ سے کام لینے والے ہوں۔ انصاف سے کام لینے والے ہوں۔ ماتحتوں سے محبت کرنے والے ہوں ۔ ہمیں اُستاد دے تو ایسے دے جو علم رکھنے والے اور اچھا پڑھانے والے ہوں۔ وہ شوق سے پڑھائیں وہ ظالم نہ ہوں۔ خرابیاں پیدا کرنے والے اور دوسروں کو ورغلانے والے نہ ہوں۔ دوست دے تو ایسے دے جو خیرخواہ ہوں ۔ محبت کرنے والے ہوں۔ مصیبت میں کام آنے والے ہوں۔ خوشی میں شریک ہونے والے ہوں۔ دکھوں میں ہاتھ بٹانے والے ہوں۔ غرض رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً اے ہمارے رب! دنیا میں ہم کو وہ چیز دے جو حسنہ ہو۔ پس یہاں حسنات کی بجائے حسنہ کا لفظ رکھ کر اس کے مفہوم کو خداتعالیٰ نے وسیع کر دیا ہے ۔ اور جب مومن یہ دعا کرتا ہے تو دوسرے الفاظ میں وہ یہ کہتا ہے کہ خدایا مجھے ہر وہ چیز دے جو میری ضرورت کے مطابق ہو اور پھر وہ چیز کے لئے اور الفاظ بھی استعمال ہو سکتے تھے۔ خداتعالیٰ نے وہ الفاظ استعمال نہیں کئے بلکہ حسنہ کا لفظ استعمال کیا ہے اس لئے یہ لفظ ظاہری اور باطنی ددنوں خوبیوں کے لحاظ سے اچھی ہو مگر ظاہری صورت کے لحاظ سے اچھی نہ ہو۔ مثلاً کسی شخص کی بیوی بڑی بااخلاق ہو ۔ مگر فرض کرو وہ نکٹی ہے یا اندھی ہے یا بہری ہے تو وہ حسنہ نہیں کہلائیگی حسنہ وہی بیوی کہلائیگی جس کے اخلاق بھی اچھے ہوں شکل بھی اچھی ہو ظاہر بھی اچھا ہو اور باطن بھی اچھا ہو۔ تو حسنہ کا لفظ ظاہری اور باطنی دونوں خوبیون پر دلالت کرتا ہے۔ اور مومن اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتا ہے کہ خدایا مجھے جو چیز بھی دے وہ ایسی ہو جو ظاہری اور باطنی دونوں خوبیاں رکھتی ہو۔
پھر فرمایا وَفِیْ الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً آخرت میں بھی ہمیں وہ چیز دے جو حسنہ ہو۔ یعنی وہ بھی ظاہر و باطن میں ہمارے لئے اچھی ہو۔ ممکن ہے کوئی کہے کہ آخرت میں تو ہر چیز اچھی ہوتی ہے۔ ہواں کی چیزوں کے لئے حسنہ کا لفظ کیوں استعمال کیا گیا ہے۔ سو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ بات غلط ہے۔ آخرت میں بھی بعض چیزیں ایسی ہین جو باطن میں اچھی میں مگر ظاہر میں بُری ہیں۔ مثلاً دوزخ ہے۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ دوزخ انسان کی اصلاح کا ذریعہ ہے۔ پس ایک لحاظ سے وہ اچھی چیز ہے۔ مگر ایک لحاظ سے وہ بری بھی ہے ۔ پس جب آخرت کے لئے خداتعالیٰ نے حسنہ کا لفظ رکھا تو اس لئے کہ تم یہ دُعا کرو کہ الہٰی ہماری اصلاح دوزخ سے نہ ہو بلکہ تیرے فضل سے ہو۔ اور آخرت میں ہمیں وہ چیز نہ دیجیئو جو صرف باطن میں ہی اچھی ہو۔ جیسے دوزخ باطن میں اچھا ہے کہ اس سے خداتعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ مگر ظاہر میں برا ہے ۔کیونکہ وہ عذاب ہے ۔ آخرت میں حسنہ صرف جنت ہے ۔ جس کا ظاہر بھی اچھا ہے اور جس کا باطن بھی اچھا ہے۔
پھر فرمایا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ ہم کو عذاب نار سے بچا۔ اس سے مراد وہی عذاب نار نہیں جو مرنے کے بعد ملے گا۔ یہ عذاب نار دنیا کے ساتھ بھی تعلق رکھنے والی دُعائوں کے بعد وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ کہا گیا ہے۔ پس وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ کے معنے یہ ہیں کہ ہمیں دنیا کے عذاب نار سے بھی بچا اور آخرت کے عذاب نار سے بھی محفوظ رکھ۔ ہم دیکھتے ہیں دنیا میں کئی لوگ عذاب نار میں گرفتار ہوتے ہیں۔ انیہں کئی قسم کے دُکھ ہوتے ہیں۔ تکلیفیں ہوتی ہیں۔ حسرتیں ہوتی ہیں۔ قسم قسم کے مصائب ہوتے ہیں مگر جب انسان اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ خدایا مجھے عذاب نار سے بچا۔ تو خداتعالیٰ اُسے اس عذاب سے بچا لیتا ہے۔ تب وہ چیزیں جو پہلے اس کے لئے نار تھیں جنت بن جاتی ہیں۔ [
اسی طرح اس سے مراد آخرت کا عذاب بھی ہے جس سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ دُعا سکھائی ہے۔ بظاہر یہ ایک مختصر سی دُعا ہے مگر بڑی جامع اور وسیع دعا ہے۔
عَذَابَ النَّارِ کے لحاظ سے دنیا کی لڑائی بھی مراد لی جا سکتی ہے ۔کیونکہ لڑائی بھی آگے کا ہی عذاب ہے۔ پس جو شخص یہ دُعا کرے گا کہ رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰ خِرَۃِ حَسَںَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ وہ گویا خدتعالیٰ کے بیان فرمودہ الفاظ میں یہ دعا کرے گا کہ الہٰی دنیا میں مجھ پر کوئی ساعت ایسی نہ آئے جو بُری ہو۔ لڑائی مجھے سے دُور رہے اور آگ کا عذاب میرے قریب نہ پہنچے۔
اگر کوئی سپاہی لڑائی میں شامل ہو اور وہ یہ دُعا کرے۔ تو اس کی دُعا کے یہ معنے ہوںگے۔ کہ اس لڑائی کے بد اثرات سے مجھے بچا ۔ بندوق کی گولی آئے تو وہ مس کر جائے۔ میرے دائیں نکل جائے یا بائیں کل جائے۔ اوپر نکل جائے یا نیچے نکل جائے۔
اُوْلٰٓئِکَ لَھُمْ نَصِیْب’‘
سَرِیْعُ الْحِسَابِoوَاذْکُرُوااللّٰہَ

تُحْشَرُوْنَo
بہر حال وہ مجھے نہ لگے۔ اور میں اس سے محفوظ رہوں پس یہ ایک جامع دُعا ہے جو اسلام نے سکھائی ہے اور جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑی کثرت سے پڑھا کرتے تھے۔
۱۱۵؎ تفسیر:۔ کسب کے معنے محنت کر کے کسی چیز کو حاصل کرنے کے ہوتے ہیں لیکن اس جگہ کَسَبُوْا کا لفظ اوپر والی دُعا کے لئے استعمال کیا گیا ہے ۔ اور کہا گیا ہے کہ جو کچھ انہوں نے کمایا اس سے ان کو حصہ ملے گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسب کا لفظ زبان یا دل کے مفعل پر بھی بولا جاتا ہے اور مراد یہ ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت کی نعماء طلب کرتے رہتے ہیں وہ اپنے اپنے اخلاص اور ایمان کے مطابق خداتعالیٰ سے اجر پائیں گے۔
وَاللّٰہُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ کا مطلب یہ ہے کہ نیکی اور بدی کی جزا میں کوئی دیر نہیں لگتی بلکہ ادھر عمل سرزد ہوتا ہے اور ادھر اس کی جزا ظاہر ہو جاتی ہے یعنی انسان کا ہر عمل اس کے جوارح پر فوراً اثر ڈال دیتا ہے۔ یہ مضمون قرآن کریم میں کئی جگہ بیان ہوا ہے اور حدیثوں میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے آپ فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص برا کام کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نشان پڑ جاتا ہے اور اگر وہ توبہ نہیں کرتا اور اس کے بد اعمال بڑھتے چلے جاتے ہیں تو یہ سہا نقطے بڑھتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ اس کا سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے۔ اور جب کوئی شخص نیک کام کرتا ہے تو ایک سفید نقطہ اس کے دل پر پڑ جاتا ہے اور جب اس کے بعد وہ متواتر نیک اعمال بجا لاتا ہے تو یہ سفید نقطے بڑھنے شروع ہو جاتے ہیں یہا ں تک کہ اس کا سارا دل منور ہو جاتا ہے۔
سَرِیْعُ الْحِسَابِ میں اللہ تعالیٰ کی اسی سنت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ہر کام کا اثر فوراً انسان کے دل پر پڑجاتا ہے۔ اور یہ بھی ایک قسم کا حساب ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے لیا جاتا ہے۔ تازہ تحقیقات سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ کوئی انسانی حرکت ایسی نہیں جو فضا میں محفوظ ہوجاتی ہے پس عمل اور اس کی جزایہ دو توام بھائی ہیں کہ ایک کے ساتھ دوسرا بھی ظہور میں آجاتا ہے۔
۱۱۶؎ تفسیر:۔ اس آیت میں جن مقررہ دنوں میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کا خصوصیت کے ساتھ حکم دیا گیا ہے وہ ایام تشریق ہیں یعنی ۱۱۔ ۱۲۔۱۳ ذولحجہ یا ایام منیٰ ہیں ۔جو دسویں تاریخ سے شروع ہوتے ہیں اور ۱۳ کو ختم ہو جاتے ہیں۔
فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یُوْمِیْنِ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ۔ فرماتا ہے جو شخص جلدی کرے اور دو دنوں میں ہی واپس چلا جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ۔ دراصل دسوین ذوالحجہ کے بعد رمی الجماد کے لئے تین دن رکھے گئے ہیں۔ مگر اجازت ہے کہ کوئی شخص دو دن کے بعد بھی لوٹ آئے ۔ اس بارہ میں امام ابو حنیفہ کا مذہب تو یہ ہے کہ ایام تشریق کے تیسرے دن صبح کے وقت جا سکتا ہے۔ لیکن بعض نے کہا ہے کہ دوسرے دن رمی الجماد کے بعد بھی جا سکتا ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر عصر کا وقت آجئے تو نہیں جا سکتا۔ اس سے پہلے جا سکتا ہے۔ گویا اس سے تیسرے دن کی رمی معاف ہو گئی۔ پھر بعض نے کہا ہے کہ جس نے تعجیل کی نیت کی اسے چاہیے کہ وہ یام النحر کو رمی کرے۔
پھر فرماتا ہے وَمَنْ تَاَخَّرَ فَلَآ اِثْمَ عَلَیہِ لِمَنِ اتَّقٰی۔ اور جو شخص پیچھے رہ جائے یعنی تیسرے دن رمی کر کے جائے۔ اسے بھی کوئی گنا ہ نہیں اور یہ وعدہ اس شخص کیلئے ہے جو تقویٰ اختیار کرے۔ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ لِمَنِ اتَّقٰی کا تعلق تعجمیل کے ساتھ ہے مگر میرے نزدیک اس کا تعلق نہ تعجیل کے ساتھ ہے نہ تاخیر کے ساتھ بلکہ لَا اِثْمَ عَلَیْہِ کے متعلق لَا اِثْمَ عَلَیْہِ کے ساتھ ہے ورنہ جو گنہگار ہے وہ تو گہنگار رہی ہے اس کے متعلق لَا اِثْمَ عَلَیْہِ کہنا تو درست ہی نہیں ہو سکتا۔ یہ نفی اِنْم صرف ایسے شخص کے لئے ہے جو متقی ہو۔ یعنی اگر وہ کسی اور طرح گنہگار نہیں تو اس تعجیل یا تاخیر سے گنہگار نہیں ہوتا۔
آخر میں وہ اتَّقُوا اللّٰہَ وَاعَلَمُوْا اَنَّکُمْ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ فرما کر اس طرف توجہ دلائی کہ ان مناسک کی اصل غرض یہ ہے کہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو۔ تمہارا بیت اللہ کا طواف کرنا حجراسود کو بوسہ دینا۔ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا۔ مزدلفہ منیٰ عرفات اور مشعرا لحرام میں اللہ تعالیٰ کا بکثرت ذکر کرنا۔ اور رمی الجماد کرنا۔ یہ سب اس غرض کے ہئے ہے کہ تمہارے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی سچی محبت پیدا ہو اور تم سمجھو کہ ایک دن تم اسی طرح اللہ تعالیٰ کے حضور اکٹھے ہونے والے ہو۔ پس اگر تم نے اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط رکھا اور اس کی رہ میں ہر قسم کی تکالیف کو برداشت کیا اور کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کیا تع جس طرح اللہ تعالیٰ نے ابراہیمؑ اور اسمٰعیل ؑ اور ہاجرہؓ کو برکت دی تھی۔ اُسی طرح وہ تمہیں بھی برکت عطا فرمائے گا اور تمہاری نسلوں کو بھی اپنی دائمی حفاظت اور پناہ میں لے گا۔ پس تقویٰ کو اپنا شعار بنائو اور اس دن کو یاد رکھو جب تم سب کو اپنے اعمال کی جواب دہی کے لئے خداعتالیٰ کے ضور حاضر ہونا پڑیگا۔
حج کے احکام تو ختم ہو گئے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان جگہوں میں جانے اور وہاں چکر لگانے کی کیا حکمتیں ہیں؟ سو یاد رکھنا چاہیے کہ میرے نزدیک اس کی ظاہری حکمتوں میں سے ایک بڑی حکمت یہ ہے کہ خداتعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا ہے اِنَّ اَوَّلَ بِیْتٍ وُّ ضِعَ لِلنَّاسِ اَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ(آل عمران آیت۹۷) کہ سب سے پہلا گھر جو تمام دنیا کے فائدہ کے لئے بنایا گیا تھا وہ ہے جو مکہ مکرمہ میں ہے اسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نہیں بنایا بلکہ یہ آدم کے زمانہ سے چلا آتا ہے (خواہ وہ کوئی آدم ہو) پس وُضِعَ لَلنَّاسِ میں پیشگوئی تھی کہ چونکہ خداتعالیٰ نے اسے ساری دُنیا کو اکٹھا کرنے کے لئے بنایا ہے اس لئے تمام لوگوں کو اس جگہ جمع کیا جائیگا چنانچہ اسی غرض کے لئے حج کی خاص تاریخیں مقرر کر دی گئیں۔ گویا دوسرے الفاظ میں تمام دنیا کے لوگ جمع ہو سکیں ۔گویا دوسرے الفاظ میں تمام دنیا کو اکٹھا کرنے اور جہان بھر کے اتقیاء او ر صلحاء کو جمع کرنے کے لئے خداتعالیٰ نے اپنے مائدہ روحانی پر لوگوں کو ایک عظیم الشان دعوت دی ہے تاکہ قومی اور ملکہ منافرت درمیان سے اُٹھ جائے اورباہمی تعلقات وسیع ہو جائیں۔ اور ایکدوسرے کی محبت ترقی کرے۔ اور یہ خیال کہ ہم فلاں قوم سے ہیں اور ہمار اغیر فلاں قوم سے ہے مٹ جائے۔ میرے نزدیک منیٰ میں لوگوں کے تین دن اسی لئے فارغ رکھے گئے ہیں کہ وہاں لوگ ذکر الہٰی اور عبادت میں اپنا وقت گذارنے کے علاوہ آپس میں ایک دوسرے سے ملیں اور حالات معلوم کریں قادیان اور ربوہ میں بھی لوگ مختلف اوقات میں آتے رہتے ہیں۔ مگر وہ تعلقات نہیں بڑھتے جو جلسہ سالانہ کے ایام میں بڑھتے ہیں۔ اگر حج سے یہ فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی جائے تو میرے نزدیک وہ تفرقے اور شقاق مٹ سکتے ہیں۔ جنہوں نے مسلمانوں کو کمزور کر رکھا ہے۔ اور ان کے درمیان اختلافِ عقائد کے باوجود زبردست اتحاد پیدا ہو سکتا ہے غرض حج گو ایک مذہبی عبادت ہے مگر اس میں روحانی فوائد کے علاوہ یہ ملی اور سیاسی غرض بھی ہے کہ مسلمانوں کے ذی اثر طبقہ میں سے ایک بڑی جماعت سال میں ایک جگہ جمع ہو کر تمام عالم کے مسلمانوں کی حالت سے واقف ہوتی رہے۔ اور ان میں اخوت اور محبت ترقی کرتی رہے اور انہیں ایک دوسرے کی مشکلات سے آگاہ ہونے اور آپس میں تعاون کرنے اور ایک دوسرے کی خوبیوں کو اخذ کرنے کا موقعہ ملتا رہے۔ گو افسوس ہے کہ اس غرض سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھایا جاتا۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حج سے یہی غرضتھی تو پھر مکہ مکرمہ میں ہی کیوں تمام مسلمانوں کا اجتماع کافی تھا عرفات منی ٰ اور مزدلفہ میں جانے کی کیا غرض ہے؟ سو یاد رکھنا چاہیے کہ عفرات منیٰ اور مزدلفہ میں جمع کرنے کی ایک حکمت تو یہ ہے کہ شہر میں اجتماع کی صورت نہیں ہوسکتی اور نہ لوگوں کا آپس میں صحیح رنگ میں میل جول ہو سکتا ہے۔ اس لئے خداتعالیٰ نے مسلمانوں کو کھلے میدانوں میں جمع ہونے کا حکم دیدیا تاکہ وہاں لوگ آسانی سے ایک دوسرے سے مل سکیں چونکہ جگہ بھی کھلی ہوتی ہے او ر وقت بھی فارغ ہوتا ہے اس لئے ایک دوسرے کو ملنے کا مدعا خوب اچھی طرح پورا ہو سکتا ہے لیکن اس کے علاوہ خداتعالیٰ نے مزدلفہ منیٰ اور عرفات کو اس شرف کے لئے س لئے چُنا ہے کہ عرفا ساحل سمندر کی طرف ہے اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں حضرت ابراہیم علیہ السلام اسی راستہ سے حضرت ہاجرہؓ اوراسمٰعیل ؑ کو چھوڑنے کے لئے شام سے تشریف لائے تھے۔ اور عرفات وہ مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ کی ان پر تجلی ظاہرہوئی ۔ اور مزدلفہ وہ مقام ہے جہاں آپ سے یہ وعدہ کیا گیاکہ اس قربانی کے بدلہ میں تجھے بہت بلند درجات عطا کئے جائیںگے اور منیٰ وہ مقام ہے جہاں حضرت ہاجرہؓ گھبرائی ہوئی پہنچتی تھیں مگر جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ میں خدا کے حکم سے تمہیں چھوڑ کر جا رہا ہوں تو انہوں نے کہا اِذًا لَّا یُضَیِّعُنَا۔ اگر یہ بات ہے تو اللہ تعالیٰ ہمیں کبھی ضائع نہیں کرے گا اور وہ واپس چلی گئیں۔ گویا شیطان ہمیشہ کے لئے مار دیا گیا۔ اسلئے یہاں شیطان کو کنکر مارے جاتے ہیںَ
پھر حج بیت اللہ کی ایک غرض شعارء اللہ کا احترام اور ان کی عظمت لوگوں کے دلوں میں قائم کرنا ہے۔ شعائر اللہ کے لفظ سے ظاہر ہے کہ یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کے نشانات میں سے ہیں۔ چونکہ دنیا میں کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کا ذہن صرف ظاہر سے باطن کی طرف منتقل ہوا کرتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے حج بیت اللہ میں ان کے سامنے ایسے نشانات رکھدیئے جو خداتعالیٰ کو یاد دلانے والے اور اس کی محبت دلوں میں تازہ کرنے ولاے ہیں۔ حج دراصل اس عظیم الشان قربانی کی یاد تازہ کر تا ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہاجرہؓ او راسمٰعیل ؑ کو بیت اللہ کے قریب ایک وادی غیر ذی زرع میں انتہائی بے سروسامانی کی حالت میں چھوڑ کر سرانجام دی تھی بعض لوگ غلطی سے یہ خیال کرتے ہیں کہ چونکہ وہ اپنے بچے حضرت اسمٰعیلؑ کی گردن پر چھُری پھیرنے کیلئے تیار ہو گئے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی یاد گھار حج کی صورت میں قائم کر دی۔ حالانکہ اگر یہ درست ہوتا تو چونکہ یہ واقعہ شام میں ہوا تھا۔ اس لئے حج کا اصل مقام شام ہوتا نہ کہ حجاز اور لوگوں وہاں جمع ہو کر خداتعالیٰ کی یاد کرتے اور کہتے ابراہیم نے کس قدر قربنی کی تھی۔ لیکن خداتعالیٰ حج کیلئے مکہ مکرمہ کو چُنا اور منیٰ اور مزولفہ اور عرفات میں جانا اور وہاں مناسک حج بجا لانا ضروری قرار دیا۔ پس میرے نزدیک حج کا تعلق آپکا چُھری پھیرنے کیلئے تیار ہو جانیوالے واقعہ سے نہیں بلکہ اس واقعہ سے ہے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت ہاجرہؓ اور اسمٰعیل ؑ کو خداتعالیٰ کے حکم کے ماتحت ایک ایسی وادی میں لا کر پھینک دیا جہاں پانی کا ایک قطرہ تک نہ تھا۔ اور کھانے کے لئے ایک دانہ تک نہ تھا جب انسان حج کے لئے جاتا ہے تو اس کی آنکھوں کے سامنے یہ نقشہ آجاتا ہے کہ کس طرح خداتعالیٰ کے لئے قربانی کرنے والے بچائے جاتے ہیں۔ اور ان کو اللہ تعالیٰ غیر معمولی عزت دیتا ہے۔ اور حج کرنے والے کے دل میں بھی خدتعالیٰ کی محبت بڑھتی اور اس کی ذات پر یقین ترقی کرتا ہے پھر وہ اپنے آپ کو اس گھر میں دیکھ کر جو ابتدائے دنیا سے خداتعالیٰ کی یاد کے لئے بنایا گیا ہے۔ ایک عجیب روحانی تعلق ان لوگوں سے محسوس کرتا ہے جو ہزاروں سال پہلے سے اس روحانی سلک میں پروئے چلے آتے ہیں جس میں یہ شخص پرویا ہوا ہے۔ یعنی خداتعالیٰ کی یاد اور اس کی محبت کا رشتہ جو سب کو باندھے ہوئے ہے خواہ وہ پرانے ہوں یا نئے اسی طرح بیت اللہ کو دیکھ کر خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کا نقشہ انسانی آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ اور اسے احساس ہوتا ہے کہ کس طرح خداتعالیٰ نے غیر معمولی طور پر چاروں طرف سے لوگوں کو اس گھر کے گرد جمع کر دیا ہے۔ جب انسان بیت اللہ کو دیکھتا ہے اور اس پر اس کی نظر پڑتی ہے تو اس کے دل پر ایک خاص اثر پڑتا ہے اور وہ قبولیت دعا کا ایک عجیب وقت ہوتا ہے۔ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ جب میں نے حج کیا تو میں نے ایک حدیث پڑھی ہوئی تھی کہ جب پہلے پہل خانہ کعبہ نظر آئے تو اس وقت جو دعا کی جائے وہ قبول ہو جاتی ہے۔ فرمانے لگے اس وقت میرے دل میںکئی دعائوں کی خواہش ہوئی لیکن میرے دل میں فوراً خیال پیدا ہوا کہ اگر میں نے یہ دعائیں مانگیں اور قبول ہو گئیں۔ اور پھر کوئی اور ضرورت پیش آئی تو پھر کیا ہو گا۔ پھر تو نہ حج ہو گاا ور نہ یہ خانہ کعبہ نظر آئیگا۔ کہنے لگے تب میں نے سوچ کر یہ نکالا کہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کروں کہ یا اللہ! میں جو دعا کیا کروں وہ قبول ہوا کرے۔ تاکہ آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے ۔ میں نے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ سے یہ بات سنی ہوئی تھی۔ جب میں نے حج کیا تو مجھے بھی وہ بات یاد آگئی۔ جونہی خانہ کعبہ نظر آیا ہمارے نانا جان نے ہاتھ اُٹھائے کہنے لگے دُعا کر لو۔ وہ کچھ اور دُعائیں مانگنے لگ گئے مگر میں نے تو یہی دُعا کی کہ یا اللہ! اس خانہ کعبہ کو دیکھنے کا مجھے روز روز کہاں موقعہ ملے گا۔آج عمر بھر میں قمست کے ساتھ موقع ملا ہے پس میری تو یہی دُعا ہے کہ تیرا اپنے رسول سے وعدہ ہے کہ اس کو پہلی دفعہ حج کے موقعہ پر دیکھ کر جو شخص دعا کریگا وہ قبول ہو گی میری دُعا تھج سے یہی ہے کہ ساری عمر میری دُعائیں قبول ہوتی رہیں۔ چنانچہ اس کے فضل اور احسان سے میں برابر یہ نظارہ دیکھ رہا ہوں کہ میری ہر دعا اس طرح قبول ہوتی ہے کہ شاید کسی اعلیٰ درجہ کے شکاری کا نشانہ بھی اس طرح نہیں لگتا۔
اسی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگاتے وقت جب انسان دیکھتا ہے کہ ہزاروں لوگ اس کے گرد چکر لگا رہے ہیں اور ہزاروں ہی اس کے گرد نمازیں پڑھ رہے ہیں تو اس کے دل میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ میں دنیا سے کٹ کر خداتعالیٰ کی طرف آگیا ہوں اور میرا بھی اب یہی کام ہے کہ میں اس کے حضور سربسجود رہوں۔ پھر سعی بین الصفا و المروۃ میں حضرت ہاجرہؓ کا واقعہ انسان کے سامنے آتا ہے اور اس کا دل اس یقین سے بھر جاتا ہے کہ انسان اگر جنگل میں بھی اللہ تعالیٰ کے لئے ڈیرہ لگا دے تو خدا تعالی اُسے کبھی ضائع نہیں کرتا۔ بلکہ اس کے لئے خود اپنے پاس سے سامان مہیا کرتا اور اُسے معجزات اور نشانات سے حصہ دیتا ہے پھر وہاں جتنے مقام شائع کا درجہ رکھتے ہیں ان کے بھی ایسے نام رکھ دیئے گئے ہیں کہ جن سے خداتعالیٰ کی طرف توجہ پیداہوتی ہے مثلا سب سے پہلے لوگ منیٰ میں جاتے ہیں یہ لفظ اُمْنِیْۃ سے نکلا ہے جس کے معنے آرزو اور مقصد کے یہں اور اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ لوگ اس جگہ محض خدا کو ملنے اور شیطان کامل نفرت اور علیحدگی کا اظہار کرنے کے لئے جاتے ہیں۔ پھر عرفات ہے جس میں اس بات کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ اب ہمیں خدا تعالیٰ کی پہچان اور اس کی معرفت حاصل وہ گئی ہے اور ہم اس سے مل گئے ہیں اس کے بعد مزدلفہ ہے جو قرب کے معنوں پر دلالت کرتا ہے اور جس میں اس بات کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ وہ مقصد جس کی ہم تلاش کر رہے ہیں وہ ہمارے قریب آ گیا ہے۔ اسی طرح مشعر الحرام جو ایک پہاڑی ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مخلصانہ عقیدت اور ابراہیم کے جذبات ہمارے دلوں میں پیدا کرتی ہے کیونکہ یہ وہ مقام ہے جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاص طور پر دعائیں فرمایا کرتے تھے۔ پھر مکہ مکرمہ ایسی جگہ ہے جہاں سوائے چند درختوں اور اذخر گھاس کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ ہر جگہ ریت ہی ریت اور کنکر ہی کنکر ہیں اور کچھ چھوٹی چھوٹی گھاٹیاں ہیں۔ غرض وہ ایک نہایت ہی خشک جگہ ہے نہ کوئی سبزہ ہے نہ باغ دنیا کی کشش رکھنے والی چیزوں میں سے وہاں کوئی بھی چیز نہیں۔ پس وہاںجانا صرف اللہ تعالیٰ کے لئے اور اس کے قرب اور رضا ء کے لئے ہی ہو سکتا ہے اور یہی غرض حج بیت اللہ کی ہے پھر احرام باندھنے میں بھی ایک خاص بات کی طرف اشارہ ہے اور وہ یہ کہ انسان کو یوم الحشر کا اندازہ ہو سکے کیونکہ جیسے کفن میں دو چاردریں ہوتی ہیں۔ احرام میں بھی دو ہی ہوتی ہیں۔ ایک جسم کے اوپر کے حصہ کے لئے اور دوسری نیچے کے حصہ کے لئے۔ پھر سر بھی ننگا ہوتا ہے اور عرفات وغیرہ میں یہی نظارہ ہوتا ہے۔ جب لاکھوں آدمی اس شکل میں وہاں جمع ہوتے ہیں توحشر کا نقشہ انسان کی آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا کہ ہم خداتعالیٰ کے سامنے ہیں اور کفن میں لپٹے ہوئے ابھی قبروں سے نکل کر اس کے سامنے حاضر ہوئے ہیں پھر حج بیت اللہ میں حضرت ابراہیم ؑ حضرت اسمٰعلؑ حضرت ہاجرہؓ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی واقعات زندگی انسان کی آنکھوں اور عرفان پیدا ہوتا ہے۔ یوں تو اور قوموں نے بھی اپنے بزرگوں کے واقعات تصویری زبان میں کھینچنے کی کوشش کی ہے جیسے ہندو و دسہرہ میں اپنے پُرانے تاریخی واقعات دہراتے ہیں مگر مسلمانوں کے سامنے خداتعالیٰ نے ان کے آبائو اجداد کے تاریخی واقعات کو اسی طرز پر رکھا ہے کہ اس سے پرانے واقعات کی یا د بھی تازہ ہو جاتی ہے۔ اور آئندہ پیش آنے والے حادثہ یعنی قیامت کا نقشہ بھی اانکھوں کیسامنے کھچ جاتا ہے اسی طرح رمی الجماد کی اصل غرض بھی شیطان سے بیزاری کا اظہار کرنا اور ان جماد کے نام بھی ھمرۃ الدنیا۔ جمرۃ الوسطیٰ اور جمرۃ العقبیٰ اس لئے رکھے گئے ہیں کہ انسان اس امر کا اقراء کرے کہ وہ دنیا میں بھی اپنے آپ کو شیطان سے دور رکھے گا اور عالم برزخ اور عالم عقبیٰ میں بھی ایسی حالت میں جائیگا کہ شیطان کو کائی اثر اُس کی روح پر نہیں ہو گا۔ اسی طرح ذبیحہ سے اس طرف توجہ دلائی جاتی ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو ہمیشہ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار رکھے اور جاب بھی اس کی طرف سے آواز آئے وہ فورا اپنا سر قربنی کے لئے جھکا دے اور اس کی راہ میں اپنی جان تک دینے سے بھی دریغ نہ کرے۔ پھر سات طواف سات سعی اور سات ہی رمی یہں۔ اس سات کے عدد میں روحانی مدارج کی تکمیل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ کہ اس کے بھی سات ہی درجے ہیں جن کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ چنانچہ سورہ مومنوں میں ان درجات کی تفصیل دی گئی ہے اسی طرح حجر اسود کہ بوسہ دینا بھی ایک تصویری
وَمِنَ النَّاسِ

اَلَدُّالْخِصَامِo
زبان ہے بوسہ کے ذریعہ انسان اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ میں اس وجود کو جس کو میں بوسہ دے رہا ہوں اپنے آپ سے جدارکھنا پسند نہیں کرتا بلکہ چاہتا ہوں کہ وہ میرے جسم کا ایک حصہ بن جائے۔ غرض حج ایک عظیم الشان عبادت ہے جو ایک سچے مومن کے لئے ہزاروں برکات اور انوار کا موجب بنتی ہے۔ مگر افسوس ہے کہ آجکل مسلمان صرف رسمی رنگ میں یہ فریضہ ادا کرنے کی وجہ سے اس کی برکات سے پوری طرح متمتع نہیں ہوتے۔
۱۱۷؎ حل لغات: مسَالَدُّ الْخِصَامِ: اَلَدّ لَدَّ یَلِدُّ سے اسم تفضیل کا صیغہ ہے اور اَلَدُّ کے معنے ہیںاَلشَّدِ یْدُ الْخُصُوْ مَۃِ۔ وہ دشمن جو دشمنی میں بہت بڑھا ہوا ہو۔ خِصَام’‘ یہ مصدر ہے جس کے معنے مجادلہ یعنی جھگڑے کے ہیں۔
تفسیر:۔ فرماتا ہے ۔ دنیا میں کچھ ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں کہ جب وہ کسی مجلس میں بیٹھ کر دنیا کی باتیں کرتے ہیں تو تم سمجھتے ہو واہ وا یہ کتنے عقلمند اور سمجھدار ہیں ۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ دنیا کے سارے علوم پر حاوی ہیں اور انکی عقل کو کوئی پہنچ نہیں سکتا اور پھر وہ اپنی دینداری کے متعلق اتنا یقین لوگوں کو دلاتے ہیں کہ کہتے ہیں خدا کی قسم ہمارے دل میں جو نیکیاں بھر ہوئی ہیں ان کو کوئی نہیں جانتا ہم سے مشورہ لیا جائے تو ہم یوں کر دیں گے دوں کردیں۔ مگر فرماتا ہے حقیقت کیا ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ بدتریں دشمن جوتمہارے ہو سکتے ہیں وہ ان سے بھی زیادہ جھگڑا لو اور خطرناک ہوتا ہے وہ ہوتا تمہارے ساتھ ہے وہ مسلمان کہلاتا ہے اور جب کسی مجلس میں بیٹھ جاتا ہے تو ساری مجلس پر چھا جاتا ہے اور اپنی دینداری او ر تقویٰ پر قسمیں کھاتا ہے اور کہتا ہے کہ میرا دل تو قوم کے لئے کھلا جا رہا ہے ۔ جب دیکھنے والا اسے دیکھتا ہے اورسننے والا اس کی باتیں سنتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ یہ قطب الاقطاب بیٹھا ہے مگر فرماتا ہے ۔ دنیا میں تمہارے یہودی بھی دشمن ہیں۔ عیسائی بھی دشمن ہین او رقومیں بھی دشمن ہیں مگر یہ ان سے بھی بڑا اور خطرناک دشمن ہوتا ہے بظاہر تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ نیکی اور تقویٰ کا ایک مجسمہ ہے لیکن معاملہ پرعکس ہوتا ہے وہ کوئی دینی نکتے بیان نہیں کرتا بلکہ دنیوی امور کے متعلق ایسی باتیں کرتا ہے جو بظاہر تو بڑی اچھی ہوتی ہیں مگر درحقیقت ان کی تہہ میں منافقت کام کر رہی ہوتی ہے۔ اور پرھا س کے جھوٹا ہونے کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھاتا چلا جاتا ہے اور کہتا ہے کہ خداگواہ ہے میرے دل میں تو اخلاص ہی اخلاص ہے اور میں تو محض اپنے دوستوں کی خیر خواہی اور بھلائی کی وجہ سے ایسا کر رہا ہوں۔ فرماتا ہے تم ایسے شخص کی چکنی چپڑی باتوں سے کبھی دھوکا نہ کھائو۔ اور جب بھی تمہیں کوئی ایسا شخص نظر آئے۔ فوراً لاحول پڑھ کر اس سے علیٰحدہ ہو جائو اور سمجھ لو کہ تمہارے سامنے ایک شیطان بیٹھا ہے جو قسمیں کھا کھا کر اور اپنی خیر خواہی کا لوگوں کو یقین دلا دلا کر انہیں دھوکا اور فریب دے رہا ہے۔
وَاِذَا تَوَلّٰی
لَایُحِبُّ الْفَسَادَo
۱۱۸؎ حل لغات:۔ تَوَلّٰی:وَلِیَ سے باب تفعل ہے اور اَلتَّوَلِّیْ کے معنے ہیں اَلْاِنْصِرَافُ بَالْبَدْنِ اَوِ الْقَوْلِ۔ بدن کے ساتھ پھر جانا یعنی پیٹھ پھیر لینا۔ مرتد ہو جاتا یا اپنی بات سے پھر جانا۔ حاکم اور والی بن جانا۔
اَلْحَرْثُـ: کے معنے ہیں مَایَسْتَنْبُتُ بِالْبَذْرِ وَالنَّوٰی وَالْغَرْسِ۔ یعنی جو چیز بیج گٹھلی یا پودے سے اُگائی جائے۔(اقرب)
نَسْل کے معنے ہیں (۱) عقب یعنی اولاد بیٹے بیٹیاں (۲) مخلوق (۳) اگلی نسل یعنی صرف بیٹوں تک نہیں بلکہ دس دس بیس بیس پشتوں تک جو اولاد چلتی ہے اُسے بھی نسل ہی کہتے ہیں۔
تفسیر:۔ فرمایا ایسے لوگوں کی حالت یہ ہوتی ہے کہ جب انہیں بادشاہت مل جاتی ہے یعنی وہ خداتعالیٰ کی پیدا کردہ طاقتوں سے کام لے کر حکومت پر قابض ہو جاتے ہیں تو بجائے اس کے کہ رعایا اور ملک کی خدمت کریں بجائے اس کے کہ لوگوں کے دلوں میں سکینت اور اطمینان پیدا کریں وہ ایسی تدابیر اختیار کرنی شروع کر دیتے ہیں جن سے قومیں قوموں سے قبیلے قبیلوں سے اور ایک مذہب کے لوگ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے لڑنے جھگڑنے لگ جاتے ہیں اور ملک میں طوائف الملوکی کی حالت پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی طرح وہ ایسے طریق اختیار کرتے ہیں جن سے ملک کی تمدنی اور اخلاقی حالت تباہ ہو جاتی ہے اور آئندہ نسلیں بیکار ہو جاتی ہیں۔ حرث کے لغوی معنے تو کھیتی کے ہیں مگر یہاں حرث کا لفظ استعارۃً وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اور بتایا گیا ہے کہ جتنے ذرائع ملک کی تمدنی حالت کو بہت بنانے والے ہوتے ہیں ان ذرائع کو اختیار کرنے کی بجائے وہ ایسے قوانین بناتے ہیں جن سے تمدن تباہ ہو۔ اقتصاد برباد ہو۔ مالی حالت میں ترقی نہ ہو۔ اس طرح وہ نسل ِ انسانی کی ترقی پر تبر رکھ دیتے ہیں۔ اور ایسے قوانین بناتے ہیں جن سے آئندہ پیدا ہونے والی نسلیں اپنی طاقتوں کو کھو بیٹھتی ہیں اور ایسی تعلیمات جن کو سیکھ کر وہ ترقی کر سکتی ہیں ان سے محروم ہو جاتی ہیں۔
پھر فرمایا ہے کہ وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الْفَسَادَ اللہ تعالیٰ فساد پسند نہیں کرتا۔ اس لئے ایسے بادشاہ اور حکمران خداتعالیٰ کی نگاہ میں مغضوب ہیں اور وہ ان کو نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کے نزدیک وہی بادشاہ صحیح معنوں میں بادشاہ کہلا سکتا ہے جو لوگوں کے لئے ہر قسم کا امن مہیا کرے۔ ان کی اقتصادی حالت کو درست کرے اور انکی جانوں کی حفاظت کرے۔ کیا بلحاظ صحت کا خیال رکھنے کے اور کیا بلحاظ اس کے کہ وہ غیر ضروری جنگیں نہ کرے اور اپنے ملک کے افراد کو بلاوجہ مرنے نہ دے ۔ گویا ہر قسم کے امن اور جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری اسلام کے نزدیک حکومت پر عاید ہوتی ہے۔ اور وہ اس امر کی پابند ہے کہ ملک کی ترقی اور رعایا کی بہبودی کا ہمیشہ خیال رکھے۔
وَاِذَ قِیْلَ لَہُ
وَلَبِئْسَ الْمِھَادُo
۱۱۹؎ حل لغات:۔اِتَّقِ: وَتَی یَقِی سے باب افتعال کا امر کا صیغہ ہے اس کے اصل معنے یہ ہیں کہ انسان اس چیز سے جو سامنے سے آرہی ہو بچنے کے لئے ہٹ جائے مگر یہ معنے اس جگہ چسپاں نہیں ہوتے کیونکہ انسان خداتعالیٰ سے نہیں بچ سکتا ۔ خواہ وہ کسی جگہ چلا جائے بہر حال دوسرے معنے ہی لینے پڑیں گے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی حفاظت کا ذریعہ بنا لے۔
اَخَذَ تْہُ : اَلْاَخُذُ کے معنے ہیں حَوْزُ الشَّیئِ وَتَحْسِیْلُہ‘۔۔۔۔۔ وَتَارَہْ بِالْقَھْرِ۔ کسی چیز کو زبردستی لے لینا یا حاصل کرنا یا پکڑ لینا (اقرب) اور اَخَذَ تْہُ بِکَنَا کے معنے ہیں حَمَلَتْہُ عَلیٰ کَذَا۔ اُسے کسی کام پر اکسا دیا یا اُس کی ترغیب دی۔
اَلْعِزَّۃُ: وَرُبَمَا اسْنُعِیْرَتِ الْعِزَّۃُ اِلْحَمِیَّۃِ و الْاَنْفَۃِ الْمَذْمُوْ مَۃِ۔ وَمِنْہُ فِی الْقُرٓاٰنِ وَاِذَ قِیْلَ لَہ‘ اتَّقِ اللّٰہَ اَخَذَتْہُ الْعِذَّۃُ الْعِذَّۃُ بَالْاِثْمِ (اقرب) یعنی بعض اوقات عَزۃ کا لفظ بطور استعارہ جھوٹی غیرت اور پچ کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ پس اَخَذَ تْہُ الْعِزَّۃُ بِالْاِثْمِ کے معنے یہ ہوئے کہ جھوٹی قومی غیرت نے اُسے گناہ کی خاطر گھیر لیا یا اُسے گناہ پر آمادہ کر دیا۔
جَھَنَّم: وَارُ الْعِقَابِ بَعْدَ الْمَوْتِ۔ یعنی جہنم موت کے بعد سزا کی جگہ کا نام ہے (اقرب) جہنم کے لئے قرآن کریم میں اور بھی کئی لفظ آتے ہیں۔ جیسے جَحِیْم۔ سَعِیْر۔ سَقَرْ ۔ لظَی وغیرہ۔
تفسیر:۔فرماتا ہے جب اُسے کہا جائے کہ تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ تم تو دو کوڑی کے بھی آڈمی نہیں تھے تمہیں تو جو کچھ ملا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے احسان کیو جہ سے ملا ہے ۔ تو اَخَذَتْہُ الْعِزَّۃُ بِالْاِثْمِ۔ اُسے اپنی جھوٹی عزت کی پچ گناہوں پر اور زیادہ دلیر ہوتی ہے۔ اس کے دونوں معنے ہو سکتے ہیں یہ بھی کہ اس کے پہلے گناہوں اور شاعت اعمال کی وجہ سے ہتک عزت کا جنون اس کے سرپر سوار ہو جاتا ہے اور اسے ہدایت سے اور زیادہ دور پھینک دیتا ہے۔ اور یہ بھی کہ اپنی عزت کی پچ اُسے گناہوں کے لئے پکڑلیتی ہے یعنی اس سے اور زیادہ گناہوں کا ارتکاب شروع کرا دیتی ہے۔ فرماتا ہے یہاں ممکن ہے تم لوگوں کو فریب دے لو لیکن آخر جہنم تمہارا ٹھکانہ ہے۔ وَلَبِئْسَ الْمِھَادِ۔اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے ۔ جہنم بے شک اگلے جہان میں ہے لیکن ایک جہنم ایسے انسانوں کے لئے اس جہان میں بھی پیدا کر دیا جاتا ہے جب شریف انسان مقابلہ میں کھڑے ہو جائیں تو انہیں ایسا جواب مل جاتا ہے کہ یہی دنیا ان کے لئے جہنم بن جاتی ہے افسوس ہے کہ دنیا میںبہت سے لوگ صرف اس لئے اپنی اصلاح نہیں کر سکتے کہ جب انہیں ان کی غلطی بتائی جائے او رکہا جائے کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ تو اپنی ہتک عزت کے خیال سے وہ دیوانہ نہ ہو کر بجائے نصیحت سے فائدہ اٹھانے کے ناصح کا مقابلہ کرنے لگ جاتے ہین مگر اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ جس کسی میں کوئی غلطی یا نقص دیکھے بازار میں کھڑے ہو کر اُسے تبنیہہ کرنا شروع کردے۔ سمجھانا ہمیشہ علیحدگی میں چاہیے۔ اور سمجھانے والے کو اپنی حیثیت اور
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ
بِالْعِبَادِo
قابلیت بھی دیکھنی چاہیے کہ وہ جس شخص کو سمجھانا چاہتا ہے اسے سمجھانے کی اہلیت بھی رکھتا ہے یا نہیں۔ تاکہ اس کا اُلٹا نتیجہ نہ نکلے غرض جہاں غلطی کرنے والوں کو برداشت کی طاقت اپنے اندر پیدا کرنی چاہیے اور سمجھانے والاے کی بات کو ٹھنڈے دل سے سنُنا چاہیے۔ وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ سمجھانے والا احتیاط سے کام لے۔ یہ نہ ہو کہ وہ جس کو چاہے لوگوں میں ذلیل کرنا شروع کر دے۔ اس مثال کو حج کے ساتھ اس لئے بیان کیا گیا ہے کہ حج کی بڑی غرض قومی تفرقوں کو مٹا کر اتفاق و اتحاد اور محبت و یگا نگت کے تعلقات کو بڑھانا ہے۔ مگر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دنیا میں لڑتے جھگڑتے اور فساد پیدا کرتے رہتے ہیں۔ انہیں متوجہ کیا گیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ساری دنیا کو ایک مرکز پر جمع کرنا چاہتا ہے تو انہیں بھی چاہیے کہ وہ اتفاق و اتحاد قائم رکھیں اور اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنے کینے اور بغض چھوڑدیں۔ درحقیقت صحیح معنوں میں حج کرنے والا صرف وہی شخص کہلا سکتا ہے جو اس قسم کے فتنہ و فساد سے مجتنب رہے۔لیکن جو شخص فساد کرتا اور بنی نوع انسان کو دکھ پہنچاتا ہے وہ اپنے عمل سے اس وحدت اور مرکزیت کو نقصان پہنچاتا ہے جس کو قائم کرنے کیلئے اسلام نے حج بیت اللہ کا حکم دیا ہے۔
۱۲۰؎ حل لغات:۔ یَشْریْ:شَریٰ سے مضارع کا صیغہ ہے اور شَرَیٰ کے معنے خریدنے اور بیچنے دونوں کے ہوتے ہیں۔(اقرب)
رَئُ وْف’‘: رَئوف’‘ فَعُوْل’‘ کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے۔ رَئُ وْف’‘ رَأ فَۃ’‘ سے ہے اور رافت کے معنے تکلیف کو دیکھ کر اس کے دور کرنے کی طرف توجہ کرنے کے ہیں۔ رافت اور رحمت دونوں ہم معنے لفظ ہیں مگر رحمت وسیع ہے اور رافت قدرے محدود ہے۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ کسی کو تکلیف میں دیکھ کر اُسے چھڑانا۔ پس رئوف کے معنے ہوئے تکلیف میں دیکھ کر چھڑانے والا۔ رحمت دُکھ و سکھ دونوں کے لئے ہوتی ہے۔ مگر رافت ہمیشہ دکھ پر ہی ہوتی ہے گویا رحمت عام ہے اور رافت خاص۔
تفسیر:۔ اس مثال میں بتایا کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو خداتعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنی جان تک کی پرواہ نہیں کرتے بلکہ اُسے بھی خداتعالیٰ کی راہ میں قربان کر دیتے ہیں اور جو لوگ خداتعالیٰ کے لئے اپنی جان کو بھی قربان کر دیتے ہیں اور جو لوگ خداتعالیٰ کے لئے اپنی جان کو بھی قربان کرنے پر تیار رہتے ہوں وہ دورسروں کو نقصان پہنچانے کیلئے کب کوئی قدم اُٹھا سکتے ہیں۔ یہ مثلال دیکر اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ تمہیں بھی آخر الذکر گروہ کا سا طریق اختیار کرنا چاہیے اور نہ صرف فتہنہ و فساد سے مجتبب رہنا چاہیے بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنی زندگیوں کو وقف کر دینا چاہیے۔
وَاللّٰہُ رَئْ وْف’‘ بِالْعِبَادِ اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑی شفقت کر نے والا ہے۔ اس کی شفقت کا تقاضا ہے کہ تم بھی فتنہ و فساد سے بچو ۔ اور اپنی زندگیوں کو بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے کاموں میں صرف کرو تاکہ تم بھی رئوف بالعباد خدا کے مظہر بن جائو۔
یٰٓاَ یُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوا
عَدُوّ’‘ مُّبِیْن’‘o
۱۲۱؎ حل لغات:۔ اَلسِّلْمُ کے معنے ہیں اَلصُّلحُ۔ اَلسَّلَامُ وَالْاِسْلَامُ (اقرب) یعنی (۱) صلح (۲) امن کو قائم کرنا (۳)اسلام۔
کَآفَّۃً۔ کَفّ’‘ کے معنے ہیں جمع کرنا۔ روکنا۔ پس کَآفَّۃ’‘ کے معنے جمع کرنے والے یاروکنے والے کے ہیں۔
تفسیر:۔ فرماتاہے۔ اے مومنو! تم سارے کے سارے پورے طور پر اسلام میں داخل ہو جائو اور اس کی اطاعت کا جوا اپنی گردنوں پر کامل طور پر کرھ لو۔ یا اے مسلمانو تم اطاعت اور فرمانبرداری کی ساری راہیں اختیار کرو۔ اور کوئی بھی حکم ترک نہ کرو۔ اس آیت میں کَآفَّۃً اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کا بھی حال ہو سکتا ہے اور اَلسِّلْمِ کا بھی۔ پہلی صورت میں اس کے یہ معنے ہیں کہ تم سب کے سب اسلام میں داخل ہو جائو یعنی تمہارا کوئی فرد بھی ایسا نہیں ہونا چاہیے جو اطاعت اور فرمانبرداری کے مقام پر کھڑا نہ ہو۔ یا جس میں بغاوت اور نشوز کے آثار پائے جاتے ہوں۔ دوسری صورت میں اس کے یہ معنے ہیں کہ تم پورے کا پورا سلام قبول کرو۔ یعنی اس کا کوئی حکم ایسا نہ ہو جس پر تمہارا عمل نہ ہو۔ یہ قربانی ہے جو اللہ تعالیٰ ہر مومن سے چاہتا ہے کہ انسان اپنی تمام آرزوئوں تمام خواہشوں اور تمام امنگوں کو خداتعالیٰ کے لئے قربان کر دے اور ایسا نہ کرے کہ جو اپنی مرضی ہو وہ تو کر لے اور جو نہ ہو وہ نہ کرے۔ یعنی اگر شریعت اس کو حق دلاتی ہو تو کہے میں شریعت پر چلتا ہوں اور اسی کے ماتحت فیصلہ ہونا چاہیے۔ لیکن اگر شریعت اس سے کچھ دلوائے اور ملکی قانون نہ دلوائے تو کہے کہ ملکی قانون کی رو سے فیصلہ ہونا چاہیے۔ یہ طریق حقیقی ایمان کے بالکل منافی ہے۔ چونکہ پچھلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے بتایا تھا کہ مسلمانوں میں بعض ایسے کمزور لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو قومی ترقی اور رفاہیت کے دور میں فتنہ و فساد پر اُتر آتے ہیں۔ اور وہ بھول جاتے ہیں کہ ہماری پہلی حالت کیا تھی او رپھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں کیا کچھ عطا کر دیا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو نصیحت فرماتا ہے کہ بے شک تم مومن کہلاتے ہو مگر تمہیںیاد رکھنا چاہیے کہ صرف مونہہ سے اپنے آپ کو مومن کہنا تمہیں نجات کا مستحق نہیں بنا سکتا۔ تم اگر نجات حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس کا طریق یہ ہے کہ اول ہر قسم کی منافقت اور بے ایمانی کو اپنے اندر سے دور کرنے کی کوشش کرو۔ اور قوم کے ہر فرد کو ایمان اور اطاعت کی مضبوط چٹان پر قائم کر دو۔ دوم صرف چندا حکام پر عمل کر کے خوش نہ ہو جائو۔ بلکہ خدا تعالیٰ کے تمام احکام پر عمل بجالائو۔ اور صفاتِ الہیہ کا مل مظہر بنے کی کوشش کرو۔
پھر فرماتا ہے وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ اِنَّہ‘ لَکُمْ عَدُوّ’‘ مُّبِیْن’‘۔ تم شیطان کے پیچھے نہ چلو کیونکہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ اس آیت میں خطوات کا لفظ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے کہ شیطان ہمیشہ قدم بقدم انسان کو گمراہی کی طرف لے جاتا ہے۔ وہ کبھی یکدم کسی انسان کو بڑے گناہ کی تحریک نہیں کرتا۔ بلکہ اسے بدی کی طرف صرف ایک قدم اٹھانیکی ترغیب دیتا ہے اور جب وہ ایک قدم اُٹھا لیتا ہے تو پھر دوسرا قدم اُٹھانیکی تحریک کرتا ہے اس طرح آہستہ آہستہ اور
فَاِنْ زَلَلْتُمْ
عَزِیْز’‘ حَکِیْم’‘o
ھَلْ یَنْظُرُوْنَ
تُرْجَعُ الْاُمُوْرُO
قدم بقدم اسے بڑے گناہوں میں ملوث کر دیتا ہے پس فرماتا ہے ہم تمہیں نصیحت کرتے ہیں کہ تمہاراصرف چند احکام پر عمل کر کے خوش ہوجانا اور باقی احکام کو نظر انداز کر کے سمجھ لینا کہ تم پکے مسلمان ہو ایک شیطانی وسوسہ ہے۔ اگر تم اسی طرح احکام الہیہ کو نظر انداز کرتے رہے تو رفتہ رفتہ جن احکام پر تمہارا اب عمل ہے ان احکام پر بھی تمہار ا عمل جاتا رہیگا۔ پس اپنے اعمال کا جائزہ لیتے رہو۔ اور شیطانی وساوس سے ہمیشہ بچنے کی کوشش کرو۔
۱۲۲؎ تفسیر:۔ فرماتا ہے اگر تم اپنی اصلاح نہیں کرو گے اور طاقت اور قوت حاصل کرنے کے بعد بنی نوع انسان کی خدمت کرنے کی بجائے ان پر ظلم کرنا شروع کروگے۔ اور انہیں مالی اور جسمانی نقصانات پہنچائو گے تو تمہیں یاد رکھنا چاہیے کہ تمہارے سر پر ایک غالب خدا موجود ہے جو تمہیں سزا دینے کی بھی طاقت رکھتا ہے اور تم سے تمہارا اقتدار بھی چین سکتا ہے۔ پس خداتعالیٰ سے ڈرو جو ایکدم میں تمہیں بادشاہ سے گدا اورامیر سے فقیر بنا سکتا ہے اور تمہاری عزت کو ذلت میں بدل سکتا ہے۔ مگر ساتھ ہی حکیم کہہ کر بتایا کہ اس کا کوئی فعل ظالمانہ نہیں ہوتا بلکہ اس کا ہر کام کے پیچھے بڑی بڑی حکمتیں کام کر رہی ہوتی ہیں ۔ پس اس کی سزا بھی ظالمانہ نہیں ہوتی بلکہ انسان اصلاح کے لئے ہوتی ہے۔ اگر لوگ اپنی درنگی چھوڑ دیں اور خداتعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کرلیں۔ اور بنی نوع انسان کی خدمتد اپنا شعار بنا لیں اور سچائی اور راستی اور دیانت اور امانت کو اختیار کر لیں اور ہر قسم کا کھوٹ اپنے دلوں سے نکال دیں اور پاک باطن اور نیک دل اور بااخلاق اور خدا ترس بن جائیں تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحم کرتا اور انکی تضرعات کو سنتا اور ان کی ناکامیوں اور ذلتوں کو کامیابیوں اور عزتوں میں بدل دیتا ہے۔
۱۲۳؎ تفسیر:۔ اس میں بتایا کہ یہ کفار جو مسلمانوں کی مخالفت کر رہے ہیں اور منافق جو ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہتے ہیں اور اسلام کی تباہی کے خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ بظاہر تو اس بات کے منتظر ہیں کہ کب وہ دن آئے کہ اسلام دنیا سے مٹ جائے اور خدائے واحد کی حکومت پر شیطانی طاقتیں غلبہ حاصل کر لیں لیکن درحقیقت اپنے عمل سے وہ صرف اس بات کے منتظر ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے پاس بادلوں کے خیالوں میں آئے۔ یعنی اپنی مخفی تدبیر سے ان کی ہلاکت اور بربادی کے سامان پیدا کر دے۔ وہ اس بات کے منتظر ہیں کہ آسمان سے اس کے فرشتے نازل ہوں جو انہیں کچل کر رکھ دیں۔ وہ اس بات کے منتظر ہیں کہ کوئی ایسا نشان ظاہر ہو
سَلْ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ

شَدِیْدُ الْعِقَابO
جس کے نتیجہ میں یہ روز روز کے جھگڑے مٹ جائیں اور خداتعالیٰ کا آخری فیصلہ ایک چمکتے ہوئے نشان کی صورت مین سب کو نظر آجائے۔ اور آخر ایک دن ایسا ہی ہوگا۔ خدا ان کی آنکھوں کے سامنے ظاہر ہو گا اور ان کی ہلاکت کی ساعت ان کے سروں پر منڈلانے لگے گی۔ چنانچہ جنگِ بدر میں خداتعالیٰ بادلوں میں سے ہی اپنا چہرہ ظاہر کیا۔ یعنی ابھی جنگ شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ بارش ہوئی جس سے کفار کو شدید نقصان اور مومنوں کو جنگی لحاظ سے عظیم الشان فائدہ پہنچا اور پھر مومنوں کی مدد اور کفار پر رُعب طاری کرنے کے لئے ملائکہ بھی دلوں پر نازل ہوئے۔ بلکہ جنگِ بدر میں کئی کفار نے ملائکہ کو اپنی آنکھوں سے بھی دیکھا۔ اور قُضِیَ الْاَمْرُ کے ماتحت عرب کے سردار چُن چُن کر مارے گئے۔ یہاں تک کہ وہ بھی جسے وہ سیدالوادی کہتے تھے دو انصاری لڑکوں کے ہاتھ سے مارا گیا۔ اور مکہ میں ایسا کہرام مچا کہ کوئی گھر نہ تھا جس میں ماتم نہیں پڑاہو۔ اور گو یہود اس کا براہ راست کوئی اثر نہیں پڑا مگر اس جنگ کے نتیجہ میں ہی ان کی شرارتیں ظاہر ہوئیں۔ اور آخر وہ مسلمانوں کے ہاتھوں ہلاک ہو گئے۔ غرض ان کا منہ مانگا نشان انہیں مل گیا اور ان کی شوکت کی جڑھ کاٹ کر رکھ دی گئی اور پھر یہی سلوک بعد میں پیدا ہونے والے دشمنوں سے بھی ہوتا رہا اور خداتعالیٰ انہیں اپنی قہری تجلی کے جلوے بار بار دکھاتا رہا یہاں تک کہ اسلام دنیا پر غالب آگیا۔
۱۲۴؎ تفسیر:۔میں ترتیب مضمون کو بیان کرتے ہوئے اوپر بتا چکا ہوں کہ اس جگہ یہود مخاطب ہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس پیشگوئی پر بحث ہو رہی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے متعلق تھی۔ اور آپ کو اس پیشگوئی کا مصداق ثابت کیا جارہا ہے۔ چنانچہ اسی تسلسل میں اللہ تعالیٰ نے وَمِنْ حِیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ میں فتح مکہ کی پیشگوئی کی۔ یہ پیشگوئی اس وقت کی گئی تھی جبکہ مکہ پر کفار کاغلبہ اور حکومت تھی اور مسلمان مدینہ میں پناہ ڈھونڈ رہے تھے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے الہام کے ذریعے بتایا کہہ ایک وقت آئیگا جب تم مکہ فتح کر لو گے اور تمہارے لئے حج بیت اللہ کے راستے بالکل کھل جائیں گے۔ پھر اسی ضمن میں صلح حدیبیہ کی بھی پیشگوئی کی کیونکہ بتایا کہ اگر تمہیں عمرہ سے روکا جائے تو تمہیں کیا کرنا چاہیے۔ گویا پہلے سے پیشکوئی کر دی کہ تمہیں ایک زمانہ میں عمرہ کرنے سے بھی روکا جائیگا۔
اسی طرح مَنْلَمْ یَکُنْاَھْلُہ‘ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَام میں یہ اشارہ مخفی تھا کہ مکہ ایک دن تمہارے لئے گھر کے طور پر بننے والا ہے۔ غرض ان آیات میں یہ بتایا گیا تھا کہ مکہ کے دروازے تمہارے لئے کھلنے والے ہیں۔ اور تم اس میں امن سے داخل ہو گے۔ چانچہ فتح مکہ سے پہلے ہی فرما دیا کہ فَاِذَا امِنْتُمْ جب تم امن میں آجائو تو ایسا کرو۔
زُیِّنَ لِلَّذِیْنَ

بِغَیْرِ حِسَابٍO
اب ان پیشگوئیوں کے ساتھ ہی بنی اسرائیل کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ تم ان سے پوچھو کہ ہم نے انہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کے کس قدر کھلے نشانات دکھائے ہیں اور یہ جو ہم نے فتح مکہ کی پیشگوئی کی ہے یہ بھی ایک زبردست نشان ہے جس سے ثابت ہو جائیگا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔ پس وہ لوگ جو خداتعالیٰ کی عظیم الشان نعمت یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اسلام کی ناقدری کرتے ہوئے اسے مٹانے کے درپے ہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ انہیں سخت سزا دیگا۔ چنانچہ فتح مکہ کے ساتھ ہی یہود کی بھی انتہائی ذلت ہوئی اور وہ بھی تباہ ہوتے چلے گئے۔
اس آیت کا ایک یہ مفہوم بھی ہو سکتا ہے کہ ہم نے یہود کو پہلے بھی بہت سے نعمتیں عطا فرمائی تھیں جن کی انہوں نے ناشکری کی مثلاً سب سے بڑی نعمت تو ان پر یہی نازل ہوئی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی ہدایت کے لئے متواتر انبیاء ان میں مبعوث فرمائے لیکن یہود نے ہمیشہ ان کی تکژیب کی اور ان کی مخالفت کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ یہاں تک کہ بعض انبیاء کو انہوں نے جان سے بھی مارڈالا۔ یہ خداتعالیٰ کی نعمت کی ایک عظیم الشان ناشکری تھی جو ان سے ظاہر ہوئی۔ اسی طرح عیسائیوں نے جو یہود کی ایک شاخ ہیں اس قدر ناشکری کی کہ شریعت کو *** قرار دیدیا۔ غرض یہود کی ان متوتر شرکشیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتِ نبوت ان سے واپس لے لی کیونکہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر نہیں کرتا الہٰی سنت کے مطابق وہ نعمتیں اس سے چھین لی جاتی ہیں اور اسے رنج و غم اور حسر ت ویاس کے لمبے عذاب میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔
۱۲۵؎ تفسیر:۔ فرمایا یہ لوگ ابھی اس پیشگوئی کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے۔ کیونکہ دنیا اپنی تمام دلفریبیوں اور عنائیوں کے ساتھ ان کے سامنے کھڑی ہے اور طاقت اور دولت کے نشہ نے ان کی نگاہوں کو ایسا خیرہ کر رکھا ہے کہ یہ لوگ سمجھتے ہیں ہم مسلمانوں سے کہاں شکست کھا سکتے ہیں بلکہ وہ ان پیشگوئیوں پر مسلمانوں سے تمسخر کرتے اور ان کا مضحکہ اُڑاتے ہیں اور انہیں طعنے دیتے ہیں کہ ہمیں تو نقدمل رہا ہے۔ تمہارا انعام کہاں ہے مگر ایک دن ان کو معلوم ہو جائیگا کہ ہم کس طرح مسلمان کو غلبہ عطا کرتے اور کفار کو نیچا دکھاتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا وَالَّذِیْنَ اتَّقَوْا فَوْقَھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ جب قیامت کا دن آئیگا تو متقی لوگ ان کفار پر غالب ہونگے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ فَوْقَھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ کا نظارہ اس قیامت کے دن بھی ہو گا۔ جو مرنے کے بعد آنے والا ہے جب کہ کفار دوزخ میں جائیں گے اور مومن جنت میں اور وہ ہمیشہ کے لئے جوق ہو جائیں گے کیونکہ آخرت میں مقابلہ تو ہے نہیں کہ دوزخی جنتیوں پر کسی وقت فوقیت لے جاسکیں۔ مگر اس قیامت کے دن سے لوگ نصیحت حاصل نہیں کر سکتے اور نہ اسے حجت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے اور اس آیت میں اس غلبہ کو بطور دلیل صداقت پیش کیا گیا ہے۔ پس اس آیت میں یومِ قیامت سے مراد وہی دن ہے جس دن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح حاصل ہوئی اور کفار کو شکست جس دن دنیا نے یہ عجیب نظارہ دیکھا کہ ہو جو اکیلا اور بے یارومددگار تھا اور قوم کے ظالموں کا نشانہ بنا ہوا تھا وہ تو حاکم ہو گیا اور جو ملک کے بادشاہ اور حکمران تھے محکوم اور ذلیل ہو گئے۔
وَالَّذِیْنَ اتَّقَوْا کے الفاظ میں مومنوں کو بھی اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ کفار پر حقیقی غلبہ حاصل کرنے کے لئے سب سے بڑی چیز کی تمہیں ضرورت ہے وہ تقویٰ ہے بیشک ایمان بھی ایک قیمتی دولت ہے لیکن اگر اس ایمان کے مطابق عل نہیں تو وہ خداتعالیٰ کی نگاہ میں کوئی قیمت نہیں رکھتا۔
واللّٰہُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآئُ بِغَیْرِ حِسَابٍ میں بغیر حساب کے الفاظ کفار کے لئے نہیں بلکہ مسلمانوں کے لئے ہیں۔ اور جب کوئی چیز بے حساب ملے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ بدلہ سے بہت زیادہ ہے۔ حساب کر کے تو جتنا کسی کا حق بنتا ہے اتنا ہی دیا جاتا ہے مگر بغیر حساب کے اسی صورت میں دیا جاتا ہے جب حق ہے زیادہ دیا جائے ۔ پس ان الفاظ میں یہ اشارہ مخفی ہے کہ مومنوں کو ان کے بدلہ سے بہت بڑھ چڑھ کر انعام ملیگا۔ دوسرے اس میں کفار کو بتایا کہ تم کو جو کچھ ملا ہے اس کے متعلق تو تم سے پوچھا جائے گا کہ کس کس طرح خرچ کیا ہے لیکن ان کو اس طرح ملے گا کہ ان سے حساب بھی نہیں لیا جائیگا۔ گویا تم کو تو ملازموں کی طرح ملا ہے اور تم اس میں خیانت کر کے سزا کے موردبنتے ہو۔ لیکن ان کو ہدیہ کے طور پر ملیگا۔ اور اس میں تصرف کا ان کو اختیار کامل ہو گا۔ دراصل سلوک دو قسم کا ہوتا ہے ایک دوستانہ اور دوسرا ملازمانہ ۔ چونکہ دوستی میں غیریت باقی نہیں رہتی اس لئے فرمایا کہ ہم مومنوں کو بغیر حساب دینگے اور ان سے ایسا سلوک کریں گے جو ایک دوست دوست سے کرتا ہے۔ چنانچہ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایکدفعہ فرمایا کہ میر امت میں سے سترہزار آدمی بغیر حساب کے جنت میں داخل ہونگے لیکن جس کے ساتھ غیریت کا معاملہ ہو اس سے سختی کے ساتھ حساب لیا جاتا ہے اور حساب ہی کے مطابق اسے معاوضہ دیا جاتا ہے۔ اسی لئے قرآن کریم میں کفار کے متعلق یہ الفاظ کہیں استعمال نہیں ہوئے کہ انہیں بغیر حساب دیا جائیگا۔ بلکہ ان کے متعلق جہاں بھی آیا ہے یہی آیا ہے کہ وَاللّٰہُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بھی ایک دفعہ فرمایا مَنْ نُوْقِشَ الْحِسَابَ عُذِّبَ یعنی وہ شخص جس کا سختی سے حساب لیا گیا وہ تباہ ہوا ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ بات سنی تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ کیا قرآن میں یہ نہیں آتا کہ فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًا اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ مومنوں کا بھی حساب ہو گا۔ آپ نے فرمایا حساب سے مراد یہ ہے کہ پوری طرح حساب لیا جائے۔ ورنہ مومن کا حساب تو محض سرسری ہو گا(بخاری کتاب الرقاق) پس مومنوں کو جو کچھ ملے گا بغیر حساب کے ہی ملے گا۔ اسی طرح بغیر حساب کے ایک یہ بھی معنے ہیں کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ ختم ہونے والا انعام ملے گا۔ اور چونکہ یہ آیت اس دنیا کے غلبہ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اس لئے وَاللّٰہُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآئُ بِغَیْرِ حِسَابٍ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ان کی قربانیوں سے بہت زیادہ اجر عطا فرمائیگا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی غلامی میں اس دنیا میں جو کچھ ملا وہ بے حساب ہی ملا۔ بے شک ان کی قربانیوں کی چمک بھی آنکھوں
کَانَ النَّاسُ







صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍO
کو خیرہ کرنے والی ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے جو انہیں دینی اور دنیوی رنگ میں غیر معمولی اجر عطا فرمایا وہ ان کی قربانیوں سے بہت زیادہ تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایک طرف تو مادی رنگ میں انہیں تختِ شاہی پر بٹھا دیا اور دوسری طرف روحانی رنگ میں انہیں ایسی برکات سے نوازا کہ رَضِیَ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ کا دائمی سرٹیفیکٹ انہیں حاصل ہو گیا۔
وَاللّٰہ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآئُ بِغَیْرِ حِسَابٍ میں کفار کے اس شبہ کا بھی ازالہ کیا گیا ہے کہ یہ مٹھی بھر مسلمان ہم پر کس طرح غالب آسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خداتعالیٰ جب کسی قوم پر اپنے انعامات نازل کرنا چاہے تو اسے بے حساب انعام دیا کرتا ہے۔ بے شک تم حساب کی رو سے یہی سمجھتے ہو کہ ایک شخص دو پر غالب نہیں آسکتا۔ مگر اللہ تعالیٰ کا سلوک مسلمانوں سے اس سے بالکل مختلف ہو گا۔ ان کا ایک شخص تمہارے دو پر ہی نہیں بلکہ ان کا ایک آدمی تمہارے دس آدمیوں پر بھی غالب آجائیگا۔ اور فتح و کامیابی کا پرچم لہراتے ہوئے واپس لوٹے گا۔
۱۲۶؎ تفسیر:۔ اس آیت کے متعلق بہت کچھ اختلاف پایا جاتا ہے اور لوگ حیران ہوتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے آیا یہ کہ لوگ ایک اُمت تھے یعنی سب نیک تھے پھر نبی آئے اور اختلاف ہو گیا۔ یا یہ کہ لوگ بدتھے اور نبی آئے۔ میرے نزدیک اس کے یہی معنے ہیں کہ لوگ بد تھے اور نبی آئے۔ اس کی دلیل قرآن کریم سے تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ نبی لوگوں کی خرابی پر ہی بھیجتا ہے خود اس آیت سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ لوگ بد تھے۔ کیونکہ فرمایا مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ ۔ نبی بشارتیں اور انذار لے کر آئے اور انذار کا ساتھ ہونا بتاتا ہے کہ خدا سے دور لوگ موجود تھے۔ دوسرا ثبوت اسی آیت سے یہ ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْ مَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ۔ وہ نبی اس لئے آئے کہ جس بات میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا اس میں فیصلہ کریں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسائل کے متعلق اختلاف موجو دتھا پس یہ بھی دلیل ہے کہ اُمَّۃً وَّاحِدَۃ’‘ سے یہ مراد نہیں کہ لوگ نیک تھے۔
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً کیوں کہا۔ سو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث میں آتا ہے کہ اَلْکُفْرُمِلَّۃ’‘ وَاحِدَۃ’‘ کُفر بھی ایک ہی ملت ہے۔ یعنی اصل الاصول کفر کا یہی ہے کہ خدا سے لوگوں کو دور کیا جائے جس طرح اسلام بھی ملتِ واحدہ ہے۔ یعنی سب اسلامی امتیں ایک ہیں۔کیونکہ ان کے اصول ایک ہیں۔ گو تفصیلِ شرائع میں اختلاف ہو۔ پس مَلَّۃٖ واحدہ کہنے سے مراد انکا اتفاق یا باہمی محبت بتانا مدنظر نہیں بلکہ یہ مد نظر ہے کہ سب کافر ہی کافر تھے نیک لوگ ان میں نہ تھے کیونکہ کفر کے مقابلہ میں دوسری جماعت در حقیقت مومنوں کی ہی ہوتی ہے۔ کافر آپس میں خواہ کتنے ہی مختلف الخیال ہوں پھر بھی اصل غرض جو خدا کا قرب پانا ہے اس کے متعلق سب کا ایک ہی رویہ ہوتا ہے اور سب اپنے اپنے دائرہ میں ایک ہی کام کر رہے ہوتے ہیں یعنی خدا سے لوگوں کو دور کردینا۔
یا یہ کہ کَانَ کے معنے ’’تھے‘‘ کے نہیں بلکہ ’’میں‘‘ کے ہیں۔ اور اس کا یہ مطلب ہے کہ انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے اُمَّۃ’‘ وَاحِدَۃ’‘ بنایا ہے۔ یعنی دوسرے حیوانات بھی اُمت ہیں پھر امت ِ واحدہ نہیں ہیں۔ انسان مدنیٰ الطبع ہے اور اس کو آپس میں مل کر رہنا پڑتا ہے اور اس کا لاذمی نتیجہ اختلاف اور شقاق پیدا ہونا ہے۔ بڑی نعمت کیساتھ بڑے خطرات بھی ہوتے ہیں کیونکہ ایک دوسرے کی بدیاںبھی انسان اخذ کر تا ہے۔ جب تمدن کے یہ نقائص بڑھ جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نبی بھیجتا ہے جو اختلاف کو دور کر دیں اور ملنے جلنے کی وجہ سے جو اختلاف پیدا ہو گیا ہے اور ضد کی وجہ سے لوگ اپناپنا دین بنا بیٹھے ہیں اس کی وہ اصلاح کریں۔ اگر کہا جائے کہ یہ معنے ہوتے تو چاہیے تھا کہ کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَتَشَاجَرُوْ وَاخْتَلَفُوْا فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیّٖنَ ہوتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ فَا نے اس امر پر دلالت کر دی ہے کہ پچھلی بات پہلی بات کے نتیجہ میں ہے اور یہ ظاہر ہے کہ اُمَّۃً وَاحِدَۃ ہونے کا نتیجہ نبیوں کی بعثت نہیں ہے۔ اس لئے یہاں لازماً مقدر تسلیم کرنا پڑیگا اور فِیْمَا اخْتَلَفُوْافِیْہِ اس مقدر کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔
وَاَنْزَلَ مَعَھُمُ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ اس جگہ اللہ تعالیٰ نے اَلْکُتُب نہیں کہا بلکہ اَلْکِتٰبِ کہا ہے جس میں جنس کتاب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ہر نبی کو کو ئی نہ کوئی کتاب ضرور دی جاتی ہے خواہ نئی ہو یا پرانی۔ یہ نہیں کہ ہر ایک کو الگ الگ کتاب ملے بعض لوگ اپنی نادانی سے یہ سمجھتے ہیں کہ ہر نبی کو الگ الگ کتاب دی جاتی ہے حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔ اور تاریخی طور پر اس کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جا سکتا بلکہ قرآن کریم کی کوئی آیت بھی اس مضمون کی تائید نہیں کرتی اگر اَنْزَلَ کے لفظ یہ استدلال کیا جائے کہ ہر نبی پر کتاب اُتری ہے تو یہ لفظ تو قرآن میں غیر انبیاء کے لئے بھی استعمال ہوا ہے۔ پھر وہاں بھی یہی مراد لینی پڑے گی کہ انہیں بھی کتاب ملی تھی حالانکہ اسے کوئی تسلیم نہیں کرتا۔ جیسے قرآن کریم میں آتا ہے وَقَالَتْ طَّآئِفَۃ’‘ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اَمِنْوْا بِالَّذِیْٓ اُنْزِلَ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَجْہَ النَّھَارِ وَاکُفْرُ وْآ اٰخِرَہُ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ(آل عمران آیت ۷۳) یعنی اہل کتاب میں سے ایک گروہ کہتا ہے کہ مومنوں پر جو کچھ نازل کیا گیا ہے اس پر دن کے ابتدائی حصہ میں تو ایمان لے آئو اور اس کے پچھلے حصہ میں اس سے انکار کر دو۔ شاید اس ذریعہ سے وہ بھی مرتد ہو کر اپنے دین کو چھوڑ دیں۔ حالانکہ ہر شخص جانتا ہے کہ جو کچھ نازل ہوا وہ مومنوں پر نازل نہیں ہوا تھا بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر نازل ہوا تھا۔ پس اَنْزَلَ کا لفظ یہ ثابت نہیں کرتا کہ ہر نبی پر مستقل طور پر کوئی کتاب نازل ہوئی ہے اور نہ اَلْکِتَاب کا لفظ ان کے دعویٰ کو ثابت کرتا ہے اگر ہر نبی صاحب کتاب جدیدہ ہوتا تو اَنْزَلَ مَعَھُمُ الْکِتٰبَ کہ بجائے اَنْزَلَ مَعَھُمُ الْکُتُبَ کہنا چاہیے تھا مگر خداتعالیٰ نے ایسا نہیں کیا کیونکہ نبی تو لاکھوں آئے مگر لاکھوں کتابیں نازل نہیں ہوئیں۔
درحقیقت اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہر نبی جب بھی مبعوث ہو ا ہے تو کسی نہ کسی کتاب کے ساتھ مبعوث ہوا ہے۔ یعنی وہ اس لئے بھیجا گیا تھا کہ خداتعالیٰ کی کتاب کو دنیا میں قائم کرے۔ یہاں اس امر کا کوئی ذکر نہیں کہ ہر نبی کو کوئی نجئی کتاب دی گئی تھی۔ بلکہ صرف کتاب دیئے جانے کا ذکر ہے۔ اور کتاب پرانی بھی ہوتی ہے اور نئی بھی۔ چنانچہ قرآن کریم نے ایک دوسرے مقام پر بتایا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد متواتر انبیاء آتے رہے۔ مگر ان کا کام صرف یہ تھا کہ وہ تورات کی ترویج کریں اور اس کے احکام پر لوگوں سے عمل کروائیں۔ پس یہ عقیدہ کہ ہر نبی ضرور کوئی نئی کتاب لاتا ہے نہ صرف قرآن کریم کے خلاف ہے بلکہ انبیاء کی ایک لمبی تاریخ بھی اس عقیدہ کو واضح طور پر رد کرتی ہے۔
لِیَحْکُمَ بِیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ۔ میں یَحْکُمَ کی ضمیر غائب کا مرجع اللہ تعالیٰ بھی ہو سکتا ہے۔ اور رسول اور کتاب بھی۔ یعنی اللہ تعالیٰ ان کے اختلافات کا فیصلہ کرے یا رسول فیصلہ کرے یا کتاب فیصلہ کرے۔ اس سے معلقم ہوتا ہے کہ انبیاء کے آنے سے پہلے بھی لوگوں میں اختلاف موجود ہوتا ہے جسے خدایا اس کا رسول یا اس کی کتاب آکر دُور کرتے ہیں۔ یہ ایک غلط خیال ہے جو لوگوں کے دلوں میں پایا جاتا ہے کہ انبیاء کے آنے کی وجہ سے اختلاف پیدا ہوتا ہے وہ اختلاف پیدا نہیں کرتے بلکہ اختلاف جو واقعہ ہو چکا ہوتا ہے اسے مٹا کر وحدت پیدا کرتے ہیں۔
وَمَااخْتَلَفَ فِیْہِ اِلَّا الَّذِیْنَ اُوْتُوْ ہُ مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَ تْھُمُ الْبَیِّنٰت سے پھر شبہ پیدا ہوتا ہے ۔ کہ اختلاف در حقیقت بعد میں ہی پیدا ہوا۔ پہلے اُن میں کوئی اختلاف نہ تھا مگر یہ درست نہیں ۔کیونکہ مَا جَآئَ تْھُمُ الْبَیِّنٰت کے بعد اِلَّا الَّذِیْنَ اُوْتُوْ ہُ رکھ کر بتادیا ہے ۔کہ یہ کتاب کا ذخر ہے ۔ ]پس اس آیت میں پہلے اختلاف کا ذکر نہیں بلکہ ایک اور اختلاف کا ذکر ہے ۔ جو نبیوں کی آمد سے پیدا ہوتا ہے ۔ پہلا اختلاف تو وہ تھا کہ جس کے باوجود اُن کو اُمَۃً وَّاحِدَۃً کہا تھا ۔لیکن اب صداقت کے متعلق اختلاف پیدا ہوا اور دلائل کے آنے کے بعد پیدا ہوا۔اگر یہ کہا جائے کہ اس اختلاف کا تو پہلے ذکر ہی نہیں ۔ پھر اس آیت کا یہاں کیا جوڑ ہے ۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ آیت ایک سوال مقدر کا جواب ہے ۔ جو پہلی آیت لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْ افِیْہِسے پیدا ہوتاہے ۔ اور وہ یہ تھا کہ اگر نبیوں کے بعثت کی غرض اختلاف کو مٹانا تھا تو پھر اُن کی بعثت کا کیا فائدہ ہوا انہوں نے تو آکر اور اختلاف پیدا کر دیا اس کا جواب اللہ تعالیٰ یہ دیتا ہے کہ یہ اخلاف اور پہلا اختلاف مختلف ہیں۔ پہلا اختلاف اسیا تھا کہ جیسے مختلف بیمار ہو ںاور دوا نہ ہو۔ اور دوسرا ایسا ہے کہ بیمار کو دوا دی جائے اور وہ نہ پیئے ۔پاس پہلا اختلاف مجبوری کا تھا اور اس کی تلافی ضروری تھی اور یہ اختلاف حق کے مقابلہ میں پیدا ہوا ہے ۔ بہر حاکل اب حق تو........آگیا ہے جس کا اگر لوگ چاہیں تو مان لیں پس پہلا اختلاف خرابی ہی خرابی پیدا کرتا تھا اور یہ اختلاف ایسا ہے کہ اس میں ہدایت کی اُمید ہے کینکہ حق موجود ہے ۔ اب اگر اختلاف ہے تو صرف ضد کی وجہ سے ہے ۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ اختلاف صرف اِلَّا الَّذِیْنَ اوتو ہ کو ہے ۔ یعنی اس تعلیم سے جو ہم نے بھیجی ہے صرف اُن لوگوں کو اختلاف ہے جن کی طرف وہ کتاب آئی ہے یا تعلیم یا نبی آیا ہے ۔جو دوسرے لوگ ہیں اُن کو اِس سے کوئی اختلاف نہیں اور یہ ثبوت ہے اس امر کا کہ اختلاف اُس نبی یا اُس کتاب یا اس تعلیم کے نتیجہ میں نہیں ہے ۔ کیونکہ اگر فی الواقعہ وہ تعلیم جو ہم نے بھیجی ہے یا نبی جو بھیجا ہے اختلاف کا موجب ہوتے تو جو لوگ بے تعلق ہیں مثلاً غیر اقوام جو اُن کی مخاطب نہیں یا بعد میں آنے والے لوگ ہو کیوں انکی تعلیم کی تعریف کرتے ۔ واقعہ میں اگر دیکھا جائے تو نبیوں کی مخالفت کا زمانہ جب گذر جاتا ہے ۔ تو لوگ اُن کی تعلیم کی بری تعریف کرتے ہیں۔جیسے اب مسیحؑ کی تعلیم کی لوگ تعریف کرتے ہیں ۔ ابراہیم ؑاور موسیٰ ؑ اور ذرتشت ؑ کی تمام اقوام تعریف کرتی ہیں ۔ حالانکہ اُس کتاب کی لوگ مخالفت کرتے ہیں ۔جس میں وہ مخاطب ہوں ۔پس معلوم ہوا کہ اصل وجہ تعلیم یا نبی نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ بات ہوتی ہے کہ ہم اس کی اطاعت کس طرح کریں ۔ یا ان احکام کو مان کر ہمارے آرام میں خلل آئیگا ۔جب دوسرے لوگ مخاطب ہوں تو خوب تعریف کرتے ہیں کہ واہ وہ! کیا اچھی تعلیم ہے۔
تیسری بات بَغْیًا بَیْنَھُمْ میں یہ بیان فرمائی کہ یہ اختلاف بھی درحقیقت اس کتاب کی وجہ سے نہیں پیدا ہوا بلکہ درحقیت پہلے اختلاف کا نتیجہ ہے ۔ نبی آنے سے پہلے جو شرکشی اور عداوت آپس میں لوگوں کی پیدا ہو چکی تھی وہی اس تعلیم کی مخالفت پر لوگوں کو آمادہ کر رہی ہے ۔ یا یہ سوال ہے کہ اس نبی کو ہم کیونکر مان لیں ؟ یا یہ کہ فلاں نے اِسے مان لیا ہے ۔ اب ہم کس طرح مان لیں ۔ یا یہ فلاں عقیدہ کی جو ہمارے دشمنوں کا ہے تائید کرتا ہے ۔ اس کو مان لیں تو اُن کے سامنے ہماری نظیریں نیچی ہو جائیں ۔جیسے حنفی کہتے ہیں کہ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہابیوں کی فلاں فلاں باتوں کی تائید کی ہے ۔ اس لئے ہم انہیں نہیں مانتے ۔اِسی طرںوہابی کہتے ہیں کہ چونکہ انہوں نے حنفیوں کی بعض باتوں کی تائید کی ہے ۔ اس لئے ہم ااپ کو قبول نہیں کر سکتے ۔ پس نبی کو ماننے کی وجہ وہ عداوت ہوتی ہے جو اس نبی کے آنے سے پہلے اُن میںموجود ہوتی ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ نبی کے آنے کے بعد ایک جماعت ایسی پیدا ہو اجاتی ہے جو اللہ تعالیٰ کو ماننے والی اور اس کے احکام پر عمل کرنے والی ہوتی ہے ۔ اس لئے گو اس کے آنے سے بھی اختلاف نظر آتا ہے ۔ لیکن روحانی نگاہ رکھنے والا جانتاہے کہ نبی کے آنے سے اختلاف کی قوت کم ہو جاتی ہے ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ سے دور رہنے والے لوگ گھٹ جاتے ہیں اور ایک بڑی جماعت ایسی پیدا ہو جاتی ہے جو خدائے واحد کی پرستار ہوتی ہے ۔غرض اختلاف اس کتاب کے سبب سے نہیں بلکہ پہلے اختلاف کے باعث لوگ اس سے اختلاف کرتے ہیںجو ان لوگوں کے اندر پہلے سے موجود تھا ۔یا یہ کہ وہ بَغْیْ جو بَیْنَھُمْ ہے ۔ یعنی ساری کی ساری اُنہی کے قبضہ میں ہے ۔ ہمارے رسولوں اور اُس کے اتباع میں اس کا کوئی حصہ نہیں وہ اس اختلاف کا باعث ہے اس سے الزام اور بھی سخت ہو جاتا ہے کہ یہ بغی کرتے ہیں باوجود اس کے کہ دوسری طرف سے اُن کی خیر خواہی اور ترقی کے سامان ہو رہے ہیں۔
چ۔ اس میں چوتھا جواب دیا ہے کہ اختلاف کا الزام نبیوں پر نہیں آسکتا اور وہ یہ کہ اُن کے آنے سے پہلے تو دیکھو کہ کوئی بھی حق کا ماننے والا نہ تھا ۔مگر اب ایک پارٹی تو حق کو مانتی ہے ۔پس اختلاف درحقیقت مٹ گیا پیدا نہ ہوا ۔ کیونکہ پہلے مثلاً ایک لاکھ
اَمْ ھَسِبْتُمْ


نَصْرَاللّٰہِ قَرِیْب’‘O
آدمی خدا تعالیٰ کے متعلق اٹکل پچو باتیں بنا رہے تھے ۔ اب ایک ہزار نے مان لیا اور ننا نوے ہزار نے نہ مانا تو اختلاف کم ہوا یا زیادہ۔ ایک ہزار آدمی اس خیالی اختلاف سے نکل کر یقین اور ثوق کے مقام پر کھڑے ہوئے جہاں سے اللہ تعالیٰ کے جلال کا مشاہدہ ہوتا ہے ۔پس اس آیت کے تشریح یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اس چیز کی طرف ہدایت دی جس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا یعنی جس کا ذکر وَمَا اخْتَلَفَ فِیْہِ اِلَّا الَّذِیْنَ اُوتُوْہُ میں ہوا تھا ۔ اخْتَلَفُوْ افِیْہِ مِنَ الْحَلِقْ میں فِیْہِ کی جوضمیر ہے الْحَلِقْاُس کی صفت ہے ۔ یعنی اُس چیز کی طرف جس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا اور جس کی صفت یہ ہے کہ وہ حق ہے یا حق میں سے یہ ۔ یا مِنْ بیان کیلئے ہے اور معنے یہ ہیں کہ ہدایت کی اُس چیز کی طرف جس کی نسبت لوگوں نے اختلاف کیا تھا حالانکہ وہ حق تھی۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ پہلے ہی مومن تھے تو ھَدَی اللّٰہُ کے کیا معنے ہوئے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کبھی پچھلی بات کا ذکر کرتے ہوئے موجودہ نام لے لیا کرتے ہیں جیسے کہتے ہیں یہ بادشاہ جب پیدا ہوا تو یوں ہوا ۔ حالانکہ وہ پیدائش کے وقت بادشاہ نہیں ہوتا۔ یا کہتے ہیں یہ عالم جب سول میں پڑھنے گیا ۔ پس الَّذِیْنَ اٰمِنُواُن کا موجودہ نام ہے جس کو پرانے واقعہ کو دہراتے وقت قارم رکھا ۔تاکہ اُن کا احترام قائم رہے اور اُن کی طرف کفر کسی وقت بھی منسوب نہ ہو۔ یا یہ کہ استعداد مخفی جو ُن کے اندر تھی اس کو مد نظر رکھتے ہوئے ا نہیں الَّذِیْنَ اٰمِنُو کہا گیا ہے ۔یعنی وہ جو مومن بننے والے تھے اور اس کیلئے سامان بہم پہنچا رہے تھے۔
فَھَدَی اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمِنُوْ الِمَا اخْتَلَفُوْ افِیْہِ مِنَ الْحَلِقمیں یہ مضمون بیان کیا گیا ہے کہ جب لوگوں نے کتاب الٰہی کی مخالفت کی تو اللہ تعالیٰ نے اُن سب وعدوں کو جو اس نبی کے ذریعہ سے اپنی قوم کے متعلق مٹھی بھر مومنوں کے حق میں پورا کر دیا اور مومنوں کو دو کامیابیاں دے دیں جو سب قوم کے لئے مقدر تھیں۔ اسی کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث میں بھی اشارہ ہے کہ ہر شخص کے دو گھر ہیں ایک جنت میں اور ایک دوزخ میں جب کوئی ظلم کرے تو اللہ تعالیٰ ظالم کا جنت کا گھر مومن کو اور اس کا دوذخ کا گھر کافر کو دے دیتا ہے۔ کفار نے چونکہ بلاوجہ کتابِ الہٰی کی مخالفت کی اور اس کے سبب سے مومنوں کو سخت دُکھ برادشت کرنے پڑے خداتعالیٰ نے حکم دے دیا کہ وہ انعامات جو ساری قوم کے لئے مقدر تھے وہ مٹھی بھر مسلمانوں کو دے دیئے جائیں اور باقی قوم کو بوجہ ظالم ہونے کے ان سے محروم کر دیا جائے۔
۱۲۷؎ حل لغات:۔ مَسَّتْھُمْ: مَسَّ الشَّیئَ کے معنے ہیں لَمَسَہ‘ وَاَفْضٰی اِلَیْہِ بِیَدِہٖ مِنْ غَیْرِ حَائِلٍ کسی چیز کو بغیر کسی درمیانی روک کے اس نے چُھوآ (اقرب)
بَاْسَآء: کے معنے ہیں اَلشِّدَّۃُ سختی وَاِسْم’‘ لِلْحَرْبِ وَالْمُشَقَّۃِ وَالضِّرْبِ۔ اور بَاْسَاء کے لفظ کا اطلاق جنگ اور مشقت اور جسمانی تکالیف پر بھی ہوتا ہے۔
ضَرَّآئُ کے معنے ہیں اَلذَّمَانَۃُ وَالشِّدَّۃُ قحط۔ اَلنَّفْصُ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ۔ مالی اور جانی نقصان۔
تفسیر:۔ اس آیت میں ان ابتلائوں کی طرف اشارہ ہے جو مسلمانوں پر آنے والے تھے۔ چونکہ اس سے پہلے یہ بتایا گیا تھا کہ جب دنیا پرضلالت چھا جاتی ہے تو اس وقت خداتعالیٰ کی طرف سے کوئی نبی آتا ہے جس کی لوگ مخالفت کرتے ہیں۔ اس لئے اب فرماتا ہے کہ تم یہ مت سمجھو کہ بغیر ابتلائوں کے تم ترقی کر جائو گے۔ تمہاری ترقی ابتلائوں کے آنے پر ہی موقوف ہے جیسا کہ پہلوں کی ترقی کا باعث بھی ابتلاء ہی ہوئے۔ چنانچہ اس کا نقشہ کھینچتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَسَّھُمُ الْبَاْسَآئُ وَالضَّرَّآ عُ وَزُلْزَلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہ‘ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ۔ ا نہیں مالی مشکلات بھی پیش آئیں اور جانی بھی اور وہ دوسرے پائوں تک ہلادیئے گئے اور ان پر ادقدر ابتلاء آئے کہ آخر اس وقت کے رسول اور مومنوں کو دُعا کی تحریک پیدا ہو گئی اور وہ پکار اُٹھے کہ اے خدا تیری مدد کہاں ہے۔ اس آیت کے متعلق سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور اس کے پاک بندے بھی کسی وقت اللہ تعالیٰ کی مدد سے ایسے مایوس ہو جاتے ہیں کہ انہیں مَتٰی نُصْرُ اللّٰہِ کہناپڑتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جس مایوسی کا تصور بادی النظر میں پیدا ہوتا ہے اس سے انبیاء اور ان پر ایمان لانے والے کلیۃً پاک ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّہ‘ لَایَاْیَٔسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْکَافِرُوْنَ(یوسف آیت ۸۸) کہ صرف کافر ہی خداتعالیٰ کی رحمت سے ناامید ہوتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ جب مَتٰی کا لفظ بولیں تو اس سے مراد مایوسی نہیں ہوتی بلکہ تعیین کے لئے ایک درخواست ہوتی ہے اور مقصد یہ ہوتا ہے کہ فلاں بات کے لئے ایک وقت مقرر فرماد یا جائے۔ ایسا ہی اس جگہ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ کے یہ معنے نہیں کہ وہ مایوسی کا شکار ہو کر ایسا کہتے ہیں بلکہ درحقیقت ان الفاظ میں وہ یہ درخواست کرتے ہیں کہ الہٰی اس بات کی تعیین فرمادی جائے کہ وہ مدد کب آئیگی ۔ گویا مزید اطمینان کے لئے وہ آنے والی نصرت سے وقت کی تعیین کروانا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مدد جلد نازل ہو۔ یہ دُعا کا ایک موثر طریق ہے اور اس میں یہ اشارہ مخفی ہے کہ ان پر اسقدر ابتلاء آئے کہ وہ ہلادیئے گئے اور ان میں دُعا کی تحریک پیدا ہو گئی۔ اور ابتلائوں کی بڑی غرض بھی ہی ہوتی ہے۔ کہ خداتعالیٰ سے تعلق مضبوط ہو جب مومنوں کو دعا کی تحریک ہوتی ہے تو خداتعالیٰ آسمان سے اپنی نصرتِ نازل فرما دیتا ہے۔ اور ان کے مصائب کا خاتمہ کر دیتا ہے۔
مگر اس کے علاوہ حتی کے معنے ’’گی‘‘ کے بھی ہوتے ہیں اور یہ معنے کُتب نحو اور قرآن کریم سے ثابت ہیں۔ مغنی اللبیب میںلکھا ہے ۔ وَمُرَاوِفَۃُ کَیِ التَّعْلِبْلِیَّۃِ حَتّٰی یعنی حَتّٰی کے معنے اس ’’گی‘‘ کے مترادف بھی ہوتے ہیں جو کسی بات کی وجہ بیان کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے یعنی اس حتیٰ سے پہلے جو بات ہوتی ہے وہ بعد میں آنے والی بات کے لئے بطور سبب کے ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں دوسری جگہ بھی حتی ان معنوں میں آیا ہے ۔ چنانچہ سورۃ منافقون میں آتا ہے۔ ھُمُ الَّذِیْنَ یَقْولُوْنَ لَا تُنْفِقُوْا عَلیٰ مَنْ عِنْدَ رُسُوْلِ اللّٰہِ حَتَّی یَنْفَضُّوْا(آیت ۸)یعنی جو لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پاس جمع ہیں ان پر خرچ نہ کرو۔ تاکہ وہ بھاگ جائیں۔ نحوی اس کی یہ مثال بھی دیتے ہیں کہ اَ سْلِمْ حَتّٰی تَدْ خُلَ الْجَنَّۃَ یعنی فرمانبرداری کرتا کہ تو جنت میں داخل ہو جائے۔ ان معنوں کے لحاظ سے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ زلزلہ جو کفار کے ہاتھوں سے ہم نے پیدا کیا اس کی غرض ہی یہ تھی کہ ہمارے بندے ہم سے مانگیں اور ہم ان کو دیں۔ پس مانگنے کی طرف توجہ پھیرنے اور اپنی قوتِ فضل کو ظاہر کرنے کے لئے اس وقت تک ہم چُپ رہے جب تک کہ ان کے دل میں دعا کی زور سے تحریک پیدا نہ ہوئی۔ اور یہ تحریک ہم نے خود کروائی تاکہ ایک طرف ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت بڑھے اور دوسری طرف جب اللہ تعالیٰ کی نصرت معجزانہ طور پر آئے تو ان کے ایمان پڑھیں اور کفار میں سے جو غور کرنے والے ہوں انہیں ہدایت حاصل ہو۔ چنانچہ فرماتا ہے کہ جب یہ غرض پوری ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرمادیتا ہے کہ لو اب ہماری مدد آگئی۔
ابتلائوں کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ خداتعالیٰ انسان کی ہمت عیکھ کر ابتلا ء ڈالتا ہے یہ نہیں ہوتا کہ وہ ایسے ابتلاء انسان پر ڈالے جن کے برداشت کرنے کی اس میں طاقت ہی نہ ہو۔ ہاں انسان ایسے ابتلائوں میں ضرور ڈالا جاتا ہے جن کے متعلق وہ غلطی سے خیال کرلیتا ہے کہ میں ان کو برداشت نہیں کر سکوں گا۔لیکن اس کا یہ خیال درست نہیں ہوتا وہ ان کو برداشت کرنے کی طاقت رکھتا ہے ۔ اسی لئے خداتعالیٰ نے فرما دیا ہے۔ کہ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وْسْعَھَا یعنی خداتعالیٰ کسی پر ایسا بوجھ نہیں ڈالتا جس کے اُٹھانے کی اس میں طاقت نہ ہو۔ بوجھ ہمیشہ وہی ڈالا جاتا ہے جس کے اُٹھانے کی انسان میں طاقت ہوتی ہے۔ سوائے اس کے کہ کسی قوم کو تباہ کرنے کا منشا ہو۔ ورنہ جو ابتلاء کسی جماعت کی ترقی کے لئے ہوتے ہیں وہ طاقت برداشت سے باہر نہیں ہوتے ہاں مومن بعض دفعہ خیال کر لیتا ہے کہ وہ اس کی طاقت سے بلا ہیں۔ مگر یہ اس کی غلطی ہوتی ہے جب مومن ایک ابتلاء کو برداشت کر لیتا ہے تو اُسے پتہ لگ جاتا ہے کہ اس کا ایمان کتنا مضبوط ہے پھر اور رنگ میں اس پر ابتلاء آتا ہے اور وہ اُسے بھی برداشت کر لیتا ہے اور اس کے دل میں کسی قسم کا شکوہ پیدا ہونے کی بجائے شکرو امتنان کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ کہ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے اتنی طاقت دی کہ میں نے اسے برداشت کر لیا تب اس کا ایمان اور بھی پختہ ہو جاتا ہے اور وہ اس سے بڑے بڑے ابتلاء برداشت کر نے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ غرض جوںجوں انسان دلیر ہوتا جاتا ہے آگے بڑھتا جاتا ہے اس طرح ایک تو اسے اپنے ایمان کی پختگی کا پتہ لگ جاتا ہے ۔ دوسرے قربانیوں کے میدان میں اُسے دوسروں سے آگے پڑھنے کا موقعہ مل جاتا ہے اور وہ ترقی کر جاتا ہے۔
غرض ابتلاء کے دو فائدے ہوتے ہیں ۔ اول یہ کہ انسان کو اپنی حالت کا پتہ لگتا ہے کہ خداتعالیٰ کی راہ میں اس کی جان کس قدر تکلیف اُٹھا سکتی ہے۔ دوسرے اس میں آگے قدم بڑھانے کی جرات پیدا ہوتی ہے۔ ان ابتلائوں کا آنا ایسا ضروری ہے کہ نبیوں کی کوئی جماعت ایسی نہیں ہوئی جس پر ابتلاء نہ آئے ہوں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ وہ جنت جس کی وسعت کا اندازہ بھی تم نہیں لگا سکتے تمہیں یونہی مل جائیگی یا وہ دنیوی کامیابیاں جن کا تمہیں وعدہ دیا جا رہا ہے بغیر قربانیوں کے تمہیں مل جائیگی اور تم پر وہ حالت نہیں گذرے گی جو پہلوں پر گذرتی رہی۔ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ وہ حالت ضرورآئیگی۔ اس لئے یہ مت خیال کرو کہ تم آسانی سے کامیاب ہو جائو گے۔ جب تک تم ان حالتوں میں سے نہیں گذرو گے جن میں سے پہلے لوگ گذرے اس وقت تک تمہیں کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ انہین بڑی بڑی تکالیف پہنچی تھیں جسمانی بھی اور مالی بھی۔ انہیں اپنی جائیدادیں چھوڑنی پڑیں ۔ رشتہ داروں کو ترک کرنا پڑا۔ فاقے کرنے پڑے۔ ماریں کھائیں۔ قتل ہوئے۔ غرض وہ کئی رنگ میں ہلائے گئے جس طرح زلزلہ سے عمارت کبھی دائیں طرف جھکنے لگتی ہے اور کبھی بائیں طرف اسی طرح دیکھنے والے ان کے متعلق یہی سمجھتے تھے کہ یہ اب گِرے کہ گِرے حتی کہ ان کی تکالیف بڑھتے بڑھتے اس حد تک پہنچ گئیں کہ دشمن نے یہ خٰال کر لیا کہ اب یہ گِر ہی گئے ہیں۔ اس وقت اللہ تعالیٰ کے رسول اور مومنوں نے دعائیں کرنی شروع کیں کہ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ۔ اے خدا! ابتالء اب اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ کی مدد آئے اور ہمیں کامیابی عطا کرے۔
مَتٰی نُصْرُ اللّٰہِ کے لفظی معنے چونکہ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مدد کب آئیگی۔ اس لئے جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ ان کو خداتعالیٰ کی مدد کے متعلق نعوذ باللہ شبہ پیدا ہو گیا تھا۔ کہ شاید وہ آئے یا نہ آئے۔ اس لئے انہوں نے کہا کہ خدا یا تیری مدد کب آئیگی۔ مگر یہ صحیح نہیں اول تو مَسَّھُمْ میں مَسَّ کا لفظ دومعنوں میں استعمال ہوا ہے ۔مگر یہ کہ عملاً ان کو مشکلات پہنچیں اور دوسرے یہ کہ وہ مشکلات دل پر اثر کرنے والی نہیں تھیں صرف سطحی تھیں ان کے دل مضبوط تھے پس جب مشکلات کے باوجود وہ بہادر دل تھے۔ تو ان کے متعلق کسی مایوسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔ دوسرے سوال کبھی التجاء کا رنگ بھی رکھتا ہے انسان کسی سے پوچھتا ہے کہ یہ بات آپ کب کرینگے۔ تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ نہیں کرینگے بلکہ یہ ہوتا ہے کہ کردیں۔ اسی طرح مجسٹریٹ سے جب پوچھا جاتا ہے کہ میری باری کب آئے گی تو اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ کبھی نہیں آئے گی۔ بلکہ یہ ہوتا ہے کہ آجئے۔
بدر کے موقعہ پر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی کہ اے خدا! اگر یہ مختصر سا گروہ بھی ہلاک ہو گیا تو دنیا میں تیری عبادت کون کریگا۔ تو اس کے یہ معنے نہیں تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذباللہ خداتعالیٰ پر یقین نیہں تھا بلکہ اس رنگ میں دُعا کر کے آپؐ نے خداتعالیٰ کی غیرت کو برانگیختہ کیا۔ اسی طرح حضرت مسیح ناصری علیہ السلام نے جب صلیب پر لٹکتے وقت کہا کہ ایلی ایلی اسبقتنی یعنی اے خدا! چاہیے تو یہ تھا کہ اس مصیبت کے وقت تو میری مدد کر کے آتا لیکن تو تو مجھے چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ تو آپ کا مطلب یہ نہیں تھا کہ خداتعالیٰ مصیبت کے وقت انہیں واقعہ میں چھوڑ گیا ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ میرا دل گھبرا رہا ہے آپ جلدی میری مدد کے لئے آجائیں پس اس رنگ میں جب دُعا کی جاتی ہے تو قبولیت دُعا پر حدِم یقین کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ خداتعالیٰ کو غیرت دلانے کے لئے ہوتی ہے اسی طرح جب مومن کہتے ہیں مَتٰی نَصْرُ اللّٰہ اے خدا! تیری مدد اور نصرت کب آئیگی تو خداتعالیٰ کہتا ہے سُنو۔ میری مدد آپہنچی۔ چنانچہ دیکھ لو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب فتح مکہ کے لئے تشریف لے گئے تو مکہ والوں کو خیال تک بھی نہیں تھا کہ آپ ان پر حملہ آور ہونگے۔ ابوسفیان خود آپ سے مدینہ میں مل کر آرہا تھا۔ جب لوگوں نے آپ کا لشکر دیکھا تو بعض نے کہا کہ یہ لشکر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہو گا۔ اس پر ابوسفیان نے کہا۔ تم پاگل تو نہیں ہو گئے میں ابھی مدینہ سے آرہا ہوں۔ وہاں کوئی لشکر تیار نہیں تھا۔ مگر اگلے ہی چار پانچ منٹ میں مسلمان آس کے پاس پہنچ گئے اور انہوں نے ابوسفیان کو گرفتار کر لیا اور دوسرے دن مکہ فتح ہو گیا۔ غرض خداتعالیٰ کی نصرت اچانک آتی اور مومنوں کو کامیاب کر دیتی ہے۔ عیسائیوں نے تین سو سال تک بڑے بڑے مصائب برداشت لیکن ایک دن انہوں نے سُنا کہ روم کا بادشاہ عیسائی ہو گیا ہے اورآئندہ سے ملک کا مذہب عیسائیت ہو گا اور اس اعلان کے ساتھ ہی ان کے تمام مصائب ختم ہو گئے۔
غرض مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ۔ میں یہ بتایا ہے کہ مومن دُعائیں کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ الہٰی ابتلاء بڑھ گئے ہیں۔ اب تیری مدد
یَسْئَلُوْنَکَ مَا ذَا


بِہٖ عَلِیْم’‘O
آجائے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلَا اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْب’‘۔ سُنو! خدا کی مدد قریب ہی ہے یعنی جب ابتلاء تمہاری ترقیاب کے لئے آئیں تو پھر تمہیں تباہ ہونے کا ڈر نہیں ہونا چاہیے۔ اگر تمہارے نفسوں میں خرابی ہے اور تم جانتے ہو کہ خداتعالیٰ تمہیں سزا دینا چاہتاہے تو پھر یقینا تمہارے لئے مدد نہیں آئیگی۔ لیکن اگرتمہارے نفسوں میں کوئی خرابی نہیں تمہارا ایمان مضبوط ہے تم تقویٰ کی راہ پر قدم مارہے ہو۔ وساوس پر تمہیں قابو حاصل ہے تو ابتلاء تمہارے لئے خوف و خطر کا باعث نہیں ہوسکتے۔ درحقیقت ایک سچے مومن پر جب ابتلاء آتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ اس ابتلاء کے ساتھ ہی خداتعالیٰ کی مدد بھی آرہی ہے۔ مولانا رومؒ نے اسی مضمون کو اس طرح بیان کیا ہے کہ
؎ ہر بلا کیں قوم را حق دادہ است
زیر آں گنجِ کرم بنہادہ است
یعنی جب کسی قوم پر کوئی آزمائش کا وقت آتا ہو خداتعالیٰ کی طرف سے اس کے نیچے انعامات کا ایک بہت بڑا خزانہ مخفی ہوتا ہے۔
پس ابتلاء کسی خطرہ کا موجب نہیں ہوتے بلکہ ابتلاء کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ خداتعالیٰ اور ترقی عطا کرے گا۔ ڈر اور خوف صرف اپنے نفس کی وجہ سے ہوتا ہے۔ پس ہمیشہ اپنے نفس پر غور کرتے رہنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ آیا اس میں کوئی ایسی بات تو پیدا نہیں ہو گئی جو تباہی کا باعث بن جائے۔ اگر اس میں وساوس پیدا نہیں ہوتے اگر ایمان مضبوط ہے اور دل شکر اور امتنان کے جذبات سے پر ہے تو انسان کو خوش ہونا چاہیے۔ کیونکہ ایسی حالت میں ابتلاء بہت بڑے انعامات کا پیش خیمہ ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ابتلاء آنے پر دل میں وساوس پیدا ہوں اورایمان میں کمزوری محسوس ہو تو سمجھ لو کہ یہ ابتلاء ترقی کا باعث نہیں بلکہ ہلاکت کا باعث ہیں۔ غرض اصل درحقیقی ایمان وہی ہوتا ہے جو ابتلائوں میں سے گذرنے کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ کیونکہ اسی کے نتیجہ میں ابدی زندگی حاصل ہوتی ہے۔
۱۲۸؎ تفسیر:۔ چونکہ گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا تھا کہ پہلے لوگوں پر بھی مالی اور جانی مشکلات آئی تھیں اور وہی ان کی قومی ترقی کا باعث ہوئیں جیسا کہ مَسَّھُمُ الْبَاْسَآئُ وَالضَّرَّآئُ کے الفاظ سے ظاہر ہے۔ اس لئے جب صحابہؓ نے یہ بات سنی تو ان کے دل بھی ان قربانیوں کے لئے بے تاب ہو گئے اور انہوں نے بے اختیار ہو کر روحانی ترقیات کے حصول کیلئے سوال کیا کہ یا رسول اللہ! اگر قومی ترقی کے لئے مالی قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے تو ہمیں بھی بتایا جائے کہ ہم کیا خرچ کریں تاکہ ہمارا قدم بھی عشق کے میدان میں کسی دوسرے سے پیچھے نہ رہے۔
دوسراسوال جانی قربانیوں کے متعلق ہو سکتا تھا۔ سو اس کا جواب کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ میں دیا گیا ہے جس سے قرآن کریم کی نہایت اعلیٰ درجہ کی ترتیب پر روشنی پڑتی ہے۔
اس آیت کے متعلق لوگ عام طور پر یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ سوال کچھ ہے اور جواب کچھ ہے ۔ پوچھا تو یہ گیا ہے کہ کیا خرچ کریں؟ اور جواب یہ دیا جاتا ہے کہ جو کچھ بھی اپنے اموال میںسے خرچ کرو۔ وہ فلاںفلاں کو دو۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اعتراض قلتِ مدبر کی وجہ سے ہے سوال کا جواب آیت میں موجود ہے جب اس نے فرمادیا کہ جو کچھ بھی تم اچھے مال سے خرچ کرو تو اس میں سائل کا جواب مکمل آگیا۔ اول یہ کہ کوئی حد بندی نہیں ۔ جتنے کی توفیق ہوا تنا خرچ کرو۔ دوم یہ ہے کہ اس امر کا لحاظ رکھو کہ جو خرچ کرو وہ طیب مال ہو۔ جو لوگ حرام کماتے ہیں اور اس میں سے خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کر کے سمجھتے یہں کہ ہم نے اپنے گناہ کا کفارہ کردیا وہ غلطی پر ہیں۔ خداتعالیٰ ایسے ہی مال کو قبول کرتا ہے جو اچھا۔۔۔۔۔۔ ہو۔ سوم یہ کہ صرف حلال نہیں دینا بلکہ طیب دینا ہے یعنی جس مال کو قبول کرنا اس شخص پر گراں نہ گذرے جس کو مال دیا جائے۔ ممکن ہے کوئی کہے کہ خیر کے معنے مال کے ہیں۔ اچھے مال کے معنے کہاں سے نکالے گئے ہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ خیر کے اصل معنے بہترین شے کے ہیں۔ اور مال کو اسی صورت میں خیر کہتے ہیں جب کہ وہ طیب ذرائع سے حاصل کیا گیا ہو۔ مفرادتِ راغب میں ہے ۔ وَقَالَ بَعْضپ الْعُلَمَائِ لَا یُقَالُ لَلْمَالِ خَیْر’‘ حَتّٰی یَکُوْنَ کَثِرًا وَمِنْ مَکَانٍ طَیِّبٍ یعنی مال کو خَیْراسی صورت میں کہیں گے جبکہ وہ زیاد ہو اور پاک ذرائع سے حاصل کیاگیا ہو۔ اور خود طیب ہو پس خیر کہنے سے یقینا قرآن کریم نے اسی طرف اشارہ کیا ہے کہ طیب اموال میں سے خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو۔اگر کہا جائے کہ اگر کوئی شخص حرام کماتا ہو لیکن صدقہ طیب مال سے دے تو کیا یہ اس حکم کے مطابق ہو گا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ تھوڑی سی گندگی بھی بہت سے پاکیزہ شے کو گندہ کر دیتی ہے۔ پس اگر کوئی شخص رشوت لیتا یاچوری کرتا یا ظالم سے دوسرے کا مال لیتا ہے تو خواہ اس قسم کا مال تھوڑا ہو اس کا سب مال گندہ ہو جائیگا اور وہ اس حکم کو پورا کرنے والا نہ ہوگا۔ غرض سوال کا مکمل جواب اسی آیت میں آگیا۔ ہاں اس سے زائد مضمون بھی بتا دیااگر خرچ کرو تو کہاں کہاں خرچ کرو۔ گویا اس طرف اشارہ کیا کہ خرچ کرنا اتنا مشکل نہیں جتنا کہ صحیح جگہ خرچ کرنا مشکل ہے۔ پس جو خرچ کرو۔ احتیاط سے کرو اور مستحقین کو دو۔ یہ قرآنی کمال ہے کہ وہ مختصر الفاظ میں وسیع مضمون بیان کردیتا ہے۔ دیکھو یہاں کتنے مختصر لفظوں میں سوال کا جواب بھی دے دیا۔ یہ بھی بتا دیا کہ مال حلال دو(طیب میں حلال کا مفہوم بھی شامل ہے) اور یہ بھی کہ حلال مال طیب بھی ہو۔ یہ نہیں کہ ٹوٹی ہوئی جوتی ہو جو کسی کام کی نہیں دیدی بیشک وہ اس کا مال ہے۔ بے شک اس کا دینا اسے حلال سے مگر وہ طیب نہیں۔ کیونکہ جسے دی گئی ہے اس کے کام کی نہیں۔ یا مثلاً ایک بھوکا کھانا مانگنے آیا ہے گھر میں کھانا تیار ہے مگر اُسے آتا دے دیا۔ یہ مال بھی ہے حلا ل بھی ہے۔ مگر بھوکے کی ضرورت کو پورا نہیں کرات۔ طیب یہ ہے کہ خود کم کھائے اسے پکا ہوا کھانا دے جسے وہ فوراً کھا سکے۔ یہ سب کچھ بتا کہ یہ بھی بتا دیا کہ فلاں فلاں جگہ مال خرچ کرنا زیادہ مناسب ہے۔ سبحان اللہ کیا معجزانہ اعجاز ہے۔ قرآن مجید میں ایسی مثالیں اور بھی ہیں کہ سوال کا جواب دے کر زائد مضمون بتا دیا ہے۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس قسم کا کلام فرماتے تھے۔ آپ سے کسی نے پوچھا کہ سمندر کا پانی کے بارہ میں کیا حکم ہے۔ آپ ؐ نے فرمایا ھُوَ الطَّھُوْرُ مَائُ ہ‘ وَ الْحِلُّ مَیْتَتُہ‘۔اس کاپانی پاک ہے اور اس کا مردہ حلال ہے یعنی سمندری جانور کو ذبح کرنے کی شرط نہیں۔ جیسے مچھلی، اب دیکھو یہاں سوال کا جواب بھی دیا ہے اور زائد مضمون بھی بتا دیا ہے۔
یہ امر بھی یاد رکھنا چاہیے کہ کیا خرچ کرنے کے الفاظ سے صدقہ کے اقسام کا دریافت کرنا بھی مراد ہو سکتا ہے۔ یعنی ہمارا خرچ کرنا کس کس موقعہ اور کن کن لوگوں کے لئے ہو۔ اور اس جگہ غالباً یہی مراد ہے۔ کیونکہ کمیت کے متعلق سوال آگے آتا ہے ۔ مَاذَا اسے سوال کبھی اُس چیز کے متعلق کیا جاتا ہے اور کبھی اس کی صفات کے متعلق۔ نحوی لکھتے ہیں کہ صفات کے متعلق صرف ذوی العقول کے بارہ میں سوال کیا جاتا ہے۔لیکن یہ حد بندی بالوجہ معلوم ہوتی ہے میرے نزدیک اس جگہ پوچھنے والا یہ نہیں پوچھتا کہ صدقہ کس چیز کا ہو۔ بلکہ یہ پوچھتا ہے کہ صدقہ کی صفات کیا ہوں۔ سوا للہ تعالیٰ نے جواب دے دیا کہ معین نہیں ہر اچھی چیز خرچ کرو۔ یعنی طیب مال سے ہو اور جتنی توفیق ہو اس قدر دیا جائے اور ساتھ ایک بات زائد بتا دی کہ تم اپنے ایمان یا اپنی حالت کے ماتحت جو کچھ خرچ کرو۔ یہاں یہاں خرچ کرو۔
پھر فرمایا وَمَا اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍفَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْم’‘۔ اللہ تعالیٰ کے قرب کے لئے تم کسی ایک نیکی پر حصر نہ کرو۔ بلکہ ہر قسم کی نیکیاں بجا لائو۔اور ہر خیر اور برکت کا دروازہ اپنے اوپر کھولنے کی کوشش کرو۔ کیونکہ تمہارے سامنے ایک لامتناہی زندگی ہے جس میں تمہاری روح نے قربِ الہٰی کی باریک درباریک روہوں پر چلنا ہے ۔ پس کس ایک یا چند نیکیوں پر اکتفاء نہ کرو۔ بلکہ خیر میں دوسروں سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو۔ اور اس امر پر یقین رکھو کہ ایک علیم ہستی تمہاری ہر حرکت اور سکون کو دیکھ رہی ہے۔ وہ تمہیں دنیا و آخرت میں اس کا بہترین اجر دیگی۔
۱۲۹؎ تفسیر:۔ اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ صحابہؓ لڑائی کو اس لئے نا پسند کرتے تھے کہ وہ نعوذباللہ بُزدل تھے۔ بلکہ ان کی ناپسندیدگی کہ وجہ صرف یہ تھی کہ مومن صلح پسند ہوتا ہے اور اس کی پہلی کوشش یہی ہوتی ہے کہ لڑائی نہ ہو اور صلح سے فیصلہ ہو جائے اور اگر وہ اپنے دشمن سے لڑتا ہے تو مجبوراً لڑتا ہے۔ صحابہؓ بھی دل سے صلح جوتھے اور وہ چاہتے تھے کہ اگر کُشت و خون کے بغیر یہ فتنہ دب سکے تو دب جائے مگر انہیں مجبوراً لڑائی لڑنی پڑی۔ پس یہ صحابہؓ کی تعریف ہے نہ کہ ان کی مذمت۔ یہ ان کی بُزدلی نہیں بلہ یہ قابل تعریف امر ہے کہ باوجود دشمنوں کے شرارتوں کے وہ یہی چاہتے تھے کہ کہ اگر صلح سے فیصلہ ہو جائے تو اچھا ہے۔ چنانچہ فرمایا۔ تم تو نہیں چاہتے تھے کہ لڑو۔ حالانکہ دشمن تم پر ظلم پر ظلم کر رہا تھا۔ اور تمہیں مار رہا تھا مگر میں جانتا تھا کہ یہ دشمن بغیر لڑائی کے باز آنے والے نہیں۔ اس لئے اب ان کی اصلاح کا یہی ذریعہ ہے کہ ان سے لڑا جائے اور انہیں انکے کئے کا مزا چکھایا جائے۔
عیسائیوں نے آیت سے دھوکا کھاتے ہوئے اعتراض کیا ہے کہ مسلمان چونکہ لڑائی سے ڈرتے تھے اس لئے معلوم ہوا کہ ہو بزدل اور ڈر پوک تھے۔ مگر صحابہؓ کو بزدلی کا طعنہ دینے والے عیسائی یہ نہیں دیکھتے کہ ان کے اپنے حواری کیسے بہادر اور دلیر تھے اور انہوں نے مسیح کی گرفتاری کے وقت کیسی جرات کا مظاہرہ کیا۔ انجیل گواہ ہے کہ کوئی ایک حواری بھی ایسا نہیں نکلا جس نے دلیری سے مسیح کا ساتھ دیا ہو بلکہ ایک حواری نے آپ پر تین دفعہ *** کی اور باقی سب اُس انتہائی نازک گھڑی میں آپ کو چھوڑ کر بھاگ گئے ۔ ایسے با ایمان اور دلیر حواریوں کو مقدس قرار دینے والے عیسائی اگر صحابہؓ پر اعتراض کریں تو ان کی عقل پر تعجب آتا ہے پھر عیسائیوں کی یہ ایک عجیب عادت ہے کہ صحابہؓ کے لڑائی پر جانے کا ذکر ہو تو بھی اعتراض کرتے ہیں اور نہ جانے کا ذکر ہو تب بھی اعتراض کرتے ہیں۔ جہاں غنیمت کا ذکر آتا ہے وہاں کہنے لگ جاتے ہیں کہ مسلمان بڑے لالچی تھے مال کی لالچ کے لئے لڑتے تھے اور اس موقعہ پر لکھتے ہیں کہ وہ بڑے بزدل تھے۔ لڑائی سے ڈرتے تھے حالانکہ اگر ان کی لڑائی لوٹ مار کے شوق کے لئے تھی تو پھر کراہت کیسی اور اگر کراہت تھی تو پھر شوق کیسا۔ اصل بات یہ ہے کہ غلط معنے کر کے انسان اضداء میں پھنس جاتاہے۔ بات وہی ہے جو میں نے بتائی ہے کہ مومن صلح پسند ہوتا ہے اسے اگر مجبور کیا جائے تو وہ لڑتا ہے ورنہ وہ یہی پسند کرتا ہے کہ لوگوں کی جانیں ضائع نہ ہوں۔
پھر فرماتا ہے۔ عَیسٰٓی اَنْ تَکْرَ ھُوْ ا شَیْئًا وَّ ھُوَ خَیْر’‘ لَّکُمْ وَسَعٰٓ اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ شَر’‘ لَّکُمْ درحقیقت انسانی علم اور سمجھ نہایت ہی محدود ہے اور ان دونوں کے محدود ہونے کی وجہ سے انسان بعض دفعہ ایک بات کو اپنے لئے مفید سمجھتا ہے۔ حالانکہ وہ اس کیلئے مضر ہوتی ہے اور بعض دفعہ وہ ایک بات کو اپنے لئے مضر خیال کرتا ہے حالاکہ وہ اس کے لئے مفید ہوتی ہے اور دونوں کے پیچھے یا جذبہ محبت کا ناجائز استعمال کام کر رہا ہوتا ہے یا جذبہ نفرت کا ناجائز استعمال کام کر رہا ہوتا ہے۔ یعنی بعض دفعہ تو شدید محبت کی وجہ سے وہ کسی چیز کے مضرات کو نہیں دیکھ سکتا اور بعض دفعہ شدید نفرت کی وجہ سے وہ دوسری چیز کے حسن کو دیکھنے سے قاصر رہتا ہے اور وہ یقینی طور پر کسی امر کے متعلق یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ آیا وہ میرے لئے مفید ہے یا مضر۔ اس حالت کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض دفعہ تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو لیکن حقیقتاً وہ تمہارے لئے مفید ہوتی ہے اور بعض دفعہ تم ایک چیز کو مفید خیال کرتے ہو حالانکہ وہ تمہارے لئے مضر ہوتی ہے تم کبھی کسی چیز سے فوائد حاصل کرنے کے لئے سامان مہیا کرتے ہو لیکن پھر بھی نتیجہ خراب نکلتا ہے ۔ جس کی وجہ صرف یہی ہوتی ہے کہ بعض ایسے سامان جن سے اچھا نتیجہ نکل سکتا تھا تمہاری نظر سے مخفی رہے پس جبکہ انسان کی ایسی حالت ہے کہ اس کی امید کے مطابق ہر وقت اچھے نتیجے نہیں نکلتے بلکہ بعض اوقات بُرے نتائج نکل آتے ہیں تو وہ کیا کرے۔ سو اس کا علاج یہی ہے کہ وہ خداتعالیٰ کے حضور گرے اور عاجزی سے یہ دعا کرے کہ اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ اے خدا ! مجھ کہ ہرامر میں خواہ وہ دینی ہو یا دنیوی صحیح اور سیدھا راستہ دکھاتا میں غلطیوں سے محفوظ رہوں۔ اور اپنی پسندیدگی یا ناپسندیدگی کو نہ دیکھے بلکہ مجت اور نفرت کے جذبات سے بالا ہوکر صرف اللہ تعالیٰ کی طرف اپنی نگاہ رکھے اور اس سے دعائیں کرتا رہے کہ وہ اسے سیدھا راستہ دکھائے اور اس سے دعائیں کرتا رہے کہ وہ اسے سیدھا راستہ دکھائے اور اپنی نیت اورارادہ کو اللہ تعالیٰ کے منشاء کے تابع کر دے۔ تب اس کے لئے کامیابی ہی کامیابی ہو گی اور خیر اور برکت کیدروازے اس کے لئے کھولے جائیں گے۔
آخر میں وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ کہہ کر بتایا کہ تم تو نہیں جانتے لیکن خداتعالیٰ تمام حالات کو جانتا ہے۔ یعنی تم کفار سے لڑائی کرنا رحم کے خلاف سمجھتے ہو۔ حالانکہ بعض دفعہ شریر کو سزا دینا اس کی اصلاح کے لئے ضروری ہوتا ہے اور اس کو چھوڑ دینا خود اس کیلئے اور دوسرے لوگوں کے لئے مضر ہوتا ہے۔ پس چونکہ یہ لوگ اب بغیر جنگ کے باز آنے والے نہیں اس لئے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان کا مقابلہ کیا جائے۔
یَسْعَلُوْکَ عَنِ الشَّھْرِ الْحَرَامِ





فِیْھَا خٰلِدُوْنَO
۱۳۰؎ تفسیر:۔ فرمایا یہ عزت والے مہینوں یعنی محرم، رجب، ذیقعدہ اور ذولحج کے متعلق تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ آیا ان میں لڑائی کرنا جائز ہے؟ یہ سوال کس طرح پیدا ہوا؟ اس کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے آئے تو اس کے بعد بھی مکہ ولوں کے جوشِ غضب میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی بلکہ انہوں نے مدینہ والوں کو دھمکیاں دینی شروع کر دیں کہ چونکہ تم نے ہمارے آدمیوں کو اپنے ہاں پناہ دی ہے اس لئے اب تمہارے لئے ایک ہی راہ ہے کہ یا تو تم ان سب کو قتل کر دو۔ یا مدینہ سے باہر نکال دو ورنہ ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہم مدینہ پر حملہ کر دیںگے اور تم سب کو قتل کر کے تمہاری عورتوں پر قبضہ کر لیں گے اور پھر انہوں نے صرف دھمکیوں پر ہی اکتفاء نہ کیا بلکہ مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ان ایام میں یہ کیفیت تھی کہ بسا اوقات آپؐ سار ی ساری رات جگ کر بسر کرتے تھے۔ اسی طرح صحابہ رضی اللہ عنہم رات کو ہتھیار باندھ کر سویا کرتے ھتے تاکہ رات کی تاریکی میں دشمن کہیں اچانک حملہ نہ کر دے۔ ان حالات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک طرف تو مدینہ کے قرب و جوار میں بسنے والے قبائل سے معاہدات کرنے شروع کر دیئے اور دوسری طرف ان خبروں کی وجہ سے کہ قریش حملہ کی تیاریاں کر رہے ہیں آپؐ نے ۲؁ء ہجری میں حضرت عبداللہ بن حجشؓ کو بارہ آدمیوں کے ساتھ نخلہ بھجوایا۔ اور انہیں ایک خط دی کر ارشاد فرمایا کہ اسے دو دن کے بعدکھولا جائے۔ حضرت عبداللہ بن حجشؓ نے دو دن کے بعد خط کھولا تو اس میں لکھا تھا کہ تم نخلہ میں قیام کرو۔ اور قریش کے حالات کا پتہ لگا کر ہمیں اطلاع دو۔ اتفاق ایسا ہوا کہ اس دوران میں قریش کا ایک چھوٹا سا قافلہ جو شام سے تجارت کا مال لے کر واپس آرہا تھا وہاں سے گذرا ۔ حضرت عبداللہ بن حجش ؓ نے ذاتی اجتہاد سے کام لے کر ان پر حملہ کر دیا۔ جس کے نتیجہ میں کفار میں سے ایک شخص عمروبن الحضرمی مارا گیا اور دو گفتار ہو ئے۔ اور مال غنیمت پر بھی مسلمانوں نے قبضہ کر لیا۔ جب انہوں نے مدینہ میں واپس آکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے اس واقعہ کا ذکر کیا تو آپؐ بہت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ میں نے تمہیں لڑائی کی اجازت نہیں دی تھی اور مالِ غنیمت کو بھی قبول کرنے سے انکار کر دیا ابنِ جریرؓ نے حضرت ابن عباسؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن حجشؓ اور ان کے ساتھیوں سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے یہ خیال کر لیا کہ ابھی رجب شروع نہیں ہوا۔ حالانکہ رجب کا مہینہ شروع ہو چکا تھا۔ وہ خیال کرتے رہے کہ ابھی۳۰ جمادی الثانی ہے۔ رجب کا آغاز نہیںہوا۔ بہر حال عمروبن الحضری کا ایک مسلمان کے ہاتھوں مارا جانا تھا کہ مشرکین نے شور مچا نا شروع کر دیا کہ اب مسلمانوں کو اس مقدس مہینوں کی حرمت کا بھی پاس نہیںرہا جن میں ہر قسم کی جنگ بند رہتی تھی۔ اللہ تعالیٰ اس آیت میں اسی اعتراض کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ بے شک ان مہینوں میں لڑائی کرنا سخت ناپسندیدہ امر ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک گناہ ہے لیکن اس سے بھی زیادہ ناپسندیدہ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے راستہ سے لوگوں کو روکا جائے۔ اور خداتعالیٰ کی توحید کا انکار کیا جائے اور مسجد حرام کو باطل کیا جائے۔ اور اس کے باشندوں کو بغیر کسی جرم کے محض اس لئے کہ وہ خدا ئے واحد پر ایمان لائے تھے اپنے گھروں سے نکال دیا جائے تمہیں ایک بات کا تو خیال آگیا مگر تم نے یہ نہ سوچا کہ تم خود کتنے بڑے جرائم کا ارتکاب کر رہے ہو اور خدااور اس کے رسول کا انکار کر کے اور مسجد حرام کی حرمت کو باطل کر کے اور اس کے رہنے والوں کو وہاں سے نکلا کر کتنے ناپسندیدہ افعال کے مرتکب ہوئے ہو جب تم خود ان قبیح حرکات کے مرتکب ہو چکے ہو۔ تو تم مسلمانوں پر کس مونہہ سے اعتراض کرتے ہو۔ ان سے تو صرف نادانستہ طور پر ایک غلطی ہوئی ہے۔ مگر تم تو جانتے بوجھتے ہوئے یہ سب کچھ کر رہے ہو۔
وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ علامہ ابو البقاء کے نزدیک بغیر اعادہ جار کے جر جائز نہیں اس لئے ان کا خیال ہے کہ یہ متعلق ہے فعل محذوف کا اور پورا جملہ یہ ہے وَصَدُّ عَنِ الْمَسْدِدِ الْحَرَامِ۔ کشاف نے بھی صَدّ’‘ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَام کے ہی معنے کئے ہیں۔ لیکن بعض کے نزدیک اَلْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کا عطف بِہٖ پر ہے اور ضمیر مجرور پر عطف بلا اعادہ جار کے برخلاف قول بصریوں کے جائز ہے۔ اہل عرب میں اس کی مثالیں بھی ملتی ہیں۔جیسے کہتے ہیں۔ مَافِیْھَا غَیْرُہ‘ وَفَرْسِہٖ۔ یعنی اس گھر میں اس کے اور اسکے گھوڑے کے سوا اور کوئی نہیں۔ اس مثلا میں فَرْسِہٖ کا عطف ضمیر مجرور پر کیا گیا ہے۔
پھر فرمایا۔ وَالْفِتْنَۃُ اَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ۔ فتنہ قتل سے بھی زیادہ سنگین جرم ہے۔ اس جگہ فتنہ سے وہی فتنہ مراد ہے جس کا لَایَزَ الُوْنَ یُقَاتِلُوْ نَکُمْ حَتّٰی یُرَدُّوْکُمْ عَنْ دِیْنَکُمْ میں ذکر آتا ہے۔ یعنی مسلمانوں کو مرتد کرنے اور انہیں اسلام سے منحرف کرنے کی سازشوں کا نام فتنہ رکھا گیا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ کفار تم سے ہمیشہ لڑتے رہیں گے تاکہ اگر ان کو طاقت ہو تو تم کو اپنے دین سے مرتد کر دیں۔ یعنی گو تمہارا مرتد کر دینا ان کی طاقت سے بارہ ہے مگر کفار کی غرض تم سے لڑنے کی یہی ہے کہ اگر ان کا بس چلے تو تمہیں مرتد کر دیں چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کفار اپنے بدارادوں میں تو خداتعالیٰ کے فضل سے ناکام رہے اور مسلمانوں پر فتح نہ پا سکے مگر اِکَّا دوکا آدمی جو ان کے قبضہ میں آ گیا انہوں نے اپنی طرف سے اس کو مرتد کرنے کی پوری پوری کوشش کی۔
اِنَّ الَّذِیْنَ

غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘O
چنانچہ بلالؓ ۔ ابو جندلؓ اور یاسرؓ کی مثالیں اس امر پر کافی سے زیادہ روشنی ڈالتی ہین۔ انہی جبراً مرتد کرنے کی کوششوں کے متعلق فرمایا ہے۔ کہ وَالْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ۔ قتل اور لڑائی کی نسبت دین کی وجہ سے کسی کو دکھ میں ڈالنا بہت زیادہ خطرناک گنا ہے۔
پھر فرماتا ہے کہ تم میں سے جو لوگ اپنے دین سے منحرف ہو جائیں اور کفر کی حالت میں ہی مر جائیں۔ ایسے لوگوں کے اعمال میں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اکارت چلے جائیں گے۔
حَبِطَتْ کے متعلق بعض لوگ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ جب کسی شخص نے کوئی عمل کر لیا۔ تو وہ ضائع کس طرح ہو گیا؟ اس اعتراض کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کا ذہن خَبِطَتْ کے اصل معنوں کی طرف نہیں جاتا۔ حَبِطَتْ کے اصل معنوں کا پتہ قرآن کریم کے ایک دوسرے مقام سے لگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ فاطر میں فرماتا ہے کہ مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْعِزَّۃَ فَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ جَمِیْعًا ط اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہُ ط(فاطر آیت ۱۱) یعنی جو شخص عزت چاہتا ہے اسے چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری اختیار کرے۔ کیونکہ تمام عزتیں خداتعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں اور اسی کی طرف پاکیزہ روحیں صعود کرتی ہیں اور عمل صالح یعنی ایمان کے مطابق عمل ان کو بلند کرتا ہے اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اعمال خداتعالیٰ کے حضور قبولیت کا جامہ پہن لیتے ہیں اور انسان کو اللہ تعلایٰ کا مقرب بنا دیتے ہیں۔ پس حَبِطَتْ اَعْمَا لُھُمْ کے یہ معنے ہیں کہ چونکہ ان کے اعمال خداتعالیٰ کے لئے نہیں تھے اس لئے وہ انہیں قبول نہیں کرے گا اور ان کی روحون کا صعود آسمان کی طرف نہیں ہوگا۔
اسی طر حَبِطَتْ اَعْمَا لُھُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰ خِرَۃِ کے یہ بھی معنے ہیں کہ خواہ ایمان لانے کے بعد کسی شخص کو اسلام کی بڑی بھاری خدمت کی توفیق ملی ہو پھر بھی اگر اس کا انجام کفر پر ہوا ہے تو اس کی پہلی دینی خدمات بھی رائیگاں چلی جائیں گی کیونکہ اس نے اپنے عمل سے ان خدمات کو باطل قرار دے دیا اورآخرت میں بھی اس کے وہ اعمال اس کے کسی کام نہیں آئیں گے۔ کیونکہ اس کا خاتمہ اچھا نہ ہوا۔
وَاُولٰئِکَ اَصْحٰبُ النَّار اور یہی لوگ دوزخ کی آگ میں پڑنے والے ہونگے۔ کیونکہ دنیا میں بھی انہوں نے اپنے ارتدار سے فتنے اور فساد کی آگ کو بھڑکایا تھا۔
۱۳۱؎ تفسیر:۔ چونکہ گذشتہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا ذکر کیا تھا جو ارتداد کی حالت میں ہی اس دنیا سے اُٹھ جائیں اور بتایا تھا کہ ایسے لوگوں کی اسلام کو مٹانے کی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہوں گی۔ اس لئے اب اللہ تعالیٰ ان کے مقابلہ میں ان لوگوں کا ذکر فرماتا ہے جن کو ارتداء کے بعد توبہ کی توفیق مل جائے۔ اور وہ پھر اسلام میں داخل ہو جائیں چونکہ ازنداد کا داغ ایک نہایت ہی بدنما داغ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے توبہ کیل ئے صرف ایمان لانا کافی قرارنہیں دیا بلکہ فرمایا کہ ایسے لوگوں کی توبہ اس وقت قبول ہو گئی جب ایمان لانے کے بعدوہ ہجرت اختیار کریں یعنی بزدلی اور اخفائے ایمان جیسی گندی عادتوں کو کلی طور پر ترک کردیں یا اس علاقہ سے نکل جائیں جہاں دینی معاملات میں جبر سے کام لیا جاتا ہو۔ اور پھر دین کی راہ میں ایک ننگی تلوار بن کر کھڑے ہو جائیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے راستہ میں مالی اور جانی جہاد کریں۔ اگر وہ ایسا کرینگے تو وہ یقیناً اللہ تعالیٰ کو غفور اور رحیم پائیں گے۔
تاریخ میں لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ایک دفعہ حضرت عمرؓ حج کے لئے مکہ تشریف لے گے۔ تو حج کے بعد آپ کی ملاقات کے لئے لوگوں نے آنا شروع کر دیا۔ انہی ملاقاتیوں میں مکہ کے روساء اور سردار انِ قریش کے بعض لڑکے بھی تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو بڑی عزت سے بٹھایا۔ اور ان سے مختلف باتیں پوچھتے رہے اتنے میں ایک غلام صحابی آیا۔ وہ غلام جو ابتدائے اسلام میں ان روساء عرب اور سرداران قریش کے باپ دادئوں کی جوتیاں کھایا کرتے تھے جنہیں وہ گالیوں میں گھسیٹتے اور اسلام قبول کرنے کی وجہ سے مار مار کر زخمی کر دیتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان نوجوانوں سے کہا۔ ذرا پیچھے ہٹ جائو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابی ہیں وہ پیچھے ہٹ گئے۔ اور صحابی قریب ہو کر حضرت عمرؓ سے باتیں کرنے لگ گئے۔ اتنے میں ایک اور صحابی آگیا۔ حضرت عمرؓ نے پھر ان نوجوانوں سے کہا۔ ذرا پیچھے ہٹ جائو او ران کے لئے جگہ چھوڑ دو۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابی ہیں۔ یہاں تک کہ ہوتے ہوتے وہ جوتیوں تک جا پہنچے۔ یہ دیکھ کر وہ مجلس سے اُٹھ کر باہر آگئے اور ایسی حالت میں آئے کہ انکی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے۔ انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کہا۔ کیا کبھی یہ خیال بھی آسکتا تھا کہ ہم کسی زمانہ میں اس قدر ذلیل ہو جائیں گے کہ وہ لوگ جو ہماری جوتیاں اُٹھانا اپنے لئے فخر کا موجب سمجھا کرتے تھے مجلس میں ایک ایک کر کے ہم سے آگے بٹھائے جائیں گے اور ہمیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا جائیگا۔ یہاں تک کہ ہوتے ہوتے ہم جوتیوں تک جا پہنچیں گے۔ گویا وہ جو ذلیل تھے معزز ہو گئے اور ہم جو معزز تھے ذلیل ہو گئے ۔ یہ تمام نوجوان اگرچہ ایماندار تھے مگر غصہ اور جوش میں ان کی زبان سے یہ الفاظ نکل گئے۔ لیکن ان میں سے ایک نوجوان جس کا ایمان زیادہ مضبوط تھا وہ کہنے لگا۔ بھائی تم نے بات تو ٹھیک کہی مگر اس کا ذمہ دار کون ہے۔ اور کس نے ہمارے باپ دادا سے کہا تھا کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شدید مخالفت کی تھی ۔ اس لئے آج ہماری یہ حالت ہے کہ ہم مجلس میں پیچھے ہٹا دیئے گئے۔ مگر وہ جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت کی تھی۔ جنہوں نے اپنی جانیں اور اپنے اموال آپ کی راہ میں قربان کر دیئے تھے ان میں سے گو بہت سے مارے گئے مگر اب بھی جو باقی ہیں ان کا حق ہے کہ ان کی عزت کی جائے۔ اور ان کو ہم سے زیادہ ادب کے مقام پر بٹھایا جائے۔ انہوں نے کہا یہ بات تو درست ہے مگر کیا اب اس ذلت کو مٹانے کا کوئی ذریعہ نہیں؟ یا کیا کوئی ایسی قربانی نہیں جو اس گناہ کا کفارہ ہو سکے؟اس پر اسی نے کہا چلو حضرت عمرؓ کے پاس ہی چلیں اور انہی سے اس کا علاج دریافت کریں۔ چنانچہ وہ پھر آپ کے مکان پر گئے اور دستک دی مجلس اسوقت تک برخواست ہو چکی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں اندر بلا لیا۔ اور کہا کس طرح آنا ہوا وہ آپ جانتے ہی ہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میں معذور تھا کیونکہ اس وقت جو لوگ میرے پاس آے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابی تھے اور میرے لئے ضروری تھا کہ میں ا نکی عزت و تکریم کرتا۔ انہوں نے کہا ہم اس بات کو خوب سمجھتے ہیں اور ہم
یَسْئَلُوْنَکَ



تَتَفَکَّرُوْنَO
جانتے ہیں کہاہمارے باپ دادا نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا انکار کر کے اپنے لئے بہت بڑی ذلت مول کے لی۔ مگر کیا کوئی ایسای طریق نہیں جس سے یہ ذلت مول لے لی۔ مگر کیا کوئی ایسا طریق نہیں جس سے یہ ذلت کا داغ ہماری پیشانیوں سے مٹ سکے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ چونکہ اس خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور وہ جانتے تھے کہ ان نوجوانوں کے باپ دادا کو کتنی بڑی عزت اور وجاہت حاصل تھی۔ یہاں تک کہ اسلام کی دشمنی کے زمانہ میں بھی اگر وہ کسی مسلمان کو پناہ دے دیتے تھے تو کسی شخص کو یہ جرات نہیں ہوتی تھی کہ وہ اس مسلمان کو دکھ پہنچا سکے اس لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں کے سامنے ایک ایک کر کے یہ واقعات آئے اور اس کا تصور کر کے ان پر رقت طاری ہو گئی اور بات کرنا آپ کے لئے مشکل ہو گیا۔ اور غلبہ رقت میں آپ نے صرف اپنا ہاتھ اُٹھایا اور شمال کی طرف جہاں شام میں ان دنوں عیسائیوں سے لڑائی ہو رہی تھی اشارہ کر کے کہا کہ اس کا علاج صرف وہاں ہے یعنی اب اس ذلت کا علاج ایک ہی ہے او روہ یہ ہے کہ اس جہاد میں شامل ہو کر اپنی جانیں دے دو۔ پھر خود بخود لوگ ان باتوں کو بھول جائیں گے۔ چنانچہ اسی وقت وہ لوگ وہاں سے اُٹھے اور اپنے اونٹوں پر سوار ہو کر شام کی طرف روانہ ہو گئے۔ وہ سات نوجوان تھے جو اس ذلت کو دور کرنے کے لئے جہا د میں شامل ہو ئیاور تاریخ بتاتی ہے کہ پھر ان نوجوانوں میں سے ایک بھی زندہ مکہ کی طرف واپس نہیں آیا۔ سب اسی جنگ میں شہید ہو ئے۔ جس طرح ان نوجوانوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی جانیں قربان کر کے رضاء الہٰی حاصل کی تھی ۔ اسی طرح ارتداد کے بعد اسی صورت میں توجہ قبول ہو سکتی ہے۔ جب زبان سے ایمان کا اظہار کیا جائے اور عمل سے ہجرت اختیار کی جائے۔ خواہ حقیقی رنگ میں یا معنوی رنگ میں۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کی راہ میں کفار سے جہاد کیا جائے یہی وہ ذرائع ہیں جن سے وہ رحمت الہٰی کے موردبن سکتے ہیں۔
۱۳۲؎ حل لغات:۔ اَلْخَمْرُ: اَلْخَمْرُ اِسْمُ کُلِّ مُسْکِرٍ خْامِرِ الْعَقْلِ(اقرب) خمر ہر ایک نشہ دینے والی چیز کو کہتے ہیں۔ جو عقل کو ڈھانپ دیتی ہے۔
اَلْمَیْسِرِ: یَسَرَسے مَفْعِل’‘ کا صیغہ ہے اور اَلْمَیْسِرِ کے معنے ہیں اَللَّعْبُ بِالْقَدَاحِ (۱)تیروں سے جُوا کھیلنا۔ (اَرْھُو۔ النَّرْدُ اَوْکُلُّ قِمَارٍ) اَوْ ھُوَ الْجُزُوْرُ الَّتِیْ کَانُوْا یَتَقَا مَرُوْنَ عَلَیْھَا (اقرب) (۲) نَرد یعنی شطرنج اور چوپٹ کو بھی میسر کہتے ہیں (۳) ہر قسم کا جوا بھی میسر کہلاتا ہے۔ (۴) میسر ان اونٹوں کو بھی کہتے ہیں جن پر لاٹری ڈالتے تھے۔
اَلْاِثْمُ: اَلْاَفْعَالُ الْمُبْطِلَۃُ عَنِ الْخِیْرِ۔ وہ کام جو نیکیوں سے روک دیں ان کو اِثْم’‘ کہتے ہیں (۲) اِثْم’‘ کا لفظ کبھی سزا اور تکلیف اور دکھ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ یعنی اپنے نتیجہ کے اعتبار سے تکلیف وغیرہ کے معنے دیتا ہے ۔ کیونکہ قاعدہ ہے کہ کبھی سبب کو مسسب کی جگہ استعمال کر لیتے ہیں ۔ چنانچہ قرآن کریم میں اسے دوسری جگہ ان عنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّ مَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُوْنَ وَمَنْ یَّضْعَلْ ذٰلِکَ یَلْ قَ اَثَامًا (فرقان آیت۲۹) اسجگہ یَلْقَ اَثَامًا کے یہ معنے ہیں کہ جو شخص یہ کام کریگا وہ سزا پائیگا۔
اَلْعَفْوَ: خِیَارُ الشَّیْئِ وَاَطْیَبُہ‘ بہتر سے بہتر اور پاک سے پاک چیز (۲) مَایَفْضُلُ عَنِ النَّفَقَۃِ وَلَا عَسَرَ عَلیٰ صَاحِبِہٖ فِیْ اعْطَا ئِہٖ۔ جو کسی کے خرچ سے بچ رہے اور دینے والے کو اس کے دینے میں تنگی محسوس نہ ہو۔ (۳) عَفْوُ الْمَالِ۔ وہ مال جو بغیر سوال کے دیا جائے۔ کہتے ہیں اَعْطَیْتُہ‘ عَفْوْا یا اَعْطَیْتُہ‘ عَفْرَ الْمَالِ۔ میں نے اُسے بغیر مانگے دیا۔(اقرب)
تفسیر:۔فرماتا ہے کہ لوگ تجھ سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں کہ کیا یہ جائز ہیں یا ناجائز۔ تو ان سے کہدے کہ شراب اور جوئے میں کچھ خرابیاں ہیں اور کچھ فوائد لیکن خرابیاں فوائد کی نسبت زیادہ ہیں۔ یہ کیا ہی لطیف جواب اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ ان کے سوال پر انہیں فوری طور پر منع نہیں کیا کہ تم شراب نہ پیو اور جوا نہ کھیلو۔ بلکہ فرمایا کہ ان میں فوائد تھوڑے اور نقصانات زیاد ہ۔ اب تم خود سوچ لو کہ تمہیں کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس جواب میں اصولی طور پر خداتعا لیٰ نے ہمارے لئے یہ قاعدہ بیان فرمایا دیا ہے کہ اگر کسی کام میں فائہد زیادہ ہو اور نقسان کم تو اسے اختیار کر لیا کرو۔ اور اگر نقصان زیادہ ہو اور فائدہ کم تو اسے کبھی اختیار نہ کرو۔ بالخصوص ایسا کام تو کبھی اختیار نہ کرو جس میں اِثْم’‘ کَبِیْر’‘ ہو۔ اِثْم’‘ کے معنے گناہ کے بھی ہیں اور اِثْم’‘ کے معنے نیکیوں سے محرومی کے بھی ہیں۔ گویا انسان کو کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جس کے نتیجہ میں اسے گناہ ہو۔ یا جس کے نتیجہ میں وہ نیکیوں سے محروم ہو جائے ۔ خواہ اس میں بظاہر کچھ فوائد بھی دکھائی دیتے ہوں۔
پھر مَنَافِعُ لَلنَّاسِ فرما کر اسلام نے ہمیں یہ بھی تعلیم دی ہے کہ خواہ تمہاری نگاہ میں کوئی چیز کتنی ہی خراب کیوں نہ ہو ۔ تمہارا فرض ہے کہ تم اس کی خوبیوں سے کلی طور پر انکار نہ کرو۔ جب شراب اور جوئے جیسی چیزیں بھی فوائد سے خالی نہیں تو دوسری ضور رساں چیزوں کو تم فوائد سے خالی کیوں سمجھتے ہو۔ بے شک تمہارا فرض ہے کہ تم ان کے ضر ر سے بچو۔ اور آئندہ نسلوں کو بچائو لیکن تمہاری بینائی ایسی نہیں ہونی چاہیے کہ وہ کسی چیز کا صرف تاریک پہلو ہی دیکھے بلکہ ہر چیز کا تاریک اور روشن دونوں پہلو سامنے رہنے چاہییں اور حسن کا اقرار کرنے میں تمہیں کبھی بخل سے کام نہیں لینا چاہیے۔
یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ سے یہ بھی ظاہر ہے کہ مسلمان اس بارہ میں خود آآکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے سوال کیا کرتے تھے ۔ حالانکہ عرب کے رہنے والے شراب پینے کے اس قدر عادی تھے کہ وہ اس پر فخر کیا کرتے تھے ۔ چنانچہ ایک عرب شاعر کہتا ہے
؎ اَلَا ھُبِّیْ بِصَحْنِکِ فَاسْبَحِیْنَا
فَلَا تُبْقِیْ خُمُوْرَ الْاَنْدَرِیَنَا
یعنی اے میری محبوبہ تو بیدار ہو۔ اور اپنے بڑے پیالے میں ہم کو صبوحی پلا۔ اور اس قدر پلا کہ علاقہ شام کے اندر شہر کے شراب فروشوں کی شراب میں سے کچھ بھی باقی نہ رہے۔ سب کی سب ہمیں پلادے۔ اسی طرح جنگوں کے موقعہ پر وہ خصوصیت سے شراب کا زیادہ استعمال کیا کرتے تھے تاکہ وہ نتائج سے بے پرواہ ہو کر لڑیں۔ اور عاقبت اندیشی کا خیال ان میں نہ رہے۔ مگر ایسے ماحول میں رہنے کے باوجود انہوں نے خود پوچھا کہ یا رسول اللہ! شراب اور جُوئے کے متعلق اللہ تعالیٰ کا کیا حکم ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ باوجود اس کے کہ ابھی شراب اور جوئے کی حرمت نازل نہیں ہو ئی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحبت میں رہنے کے بعد وہ محسوس کرتے تھے کہ یہ چیزیں قرب الہٰی میں روک ہیں۔ اور ان کے متعلق اللہ تعالیٰ کا کوئی واضح حکم نازل ہونا چاہیے۔ پس یہ سوال خود اپنی ذات میں صحابہ کرامؓ کی پاکیزگی ان کی بلندی اخلاق اور ان کے اعلیٰ کردار کا ایک زبردست ثبوت ہے۔ شراب اور جوا یہ دونوں چیزیں ایسی ہیں جن کے روکنے کے لئے دنیا میں بڑی بڑی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ مگر اسلام کے سوا اورکوئی مذہب ان کو روک نہیں سکا۔ صرف اسلام ہی ہے جسے اس میدان میں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ چنانچہ شراب کے متعلق اسلامی تعلیم کو جو وہ شراب کے متعلق دیتے ہیں بیان کرتے ہیں اور سب سے پہلے اسی مذہب کا ذکر کرتے ہیں جو سب سے قدیم مذہب ہونے کا مدعی ہے یعنی ویدک مذہب، ہندو مذہب کی شراب کے متعلق جو تعلین ہے اس کیل ئے ہمیں زیادہ چھان بین کی ضرورت نہیں اس مذہب کی بنا ویدوںپر ہے اور وید خود اس مسئلہ پر کافی سے زیادہ روشنی ڈالتے ہیں۔ ویدوں پر خصوصاً رگوید پر جو چاروں ویدوں میں سے اہم ہے ایک اجمالی نظر ڈالنے سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ شراب نہ صرف جائز ہے بلکہ اس کا استعمال بعض موقعوں پر ضروری اور موجب ثواب بتایاگیا ہے۔ اور ہند کی رشی اسے ایک مقدس اور پاک چیز قرار دیتے ہیں۔ وید کے منتر یکے بعد دیگرے ہماری آنکھوں کے سامنے اس سنجیدہ کوشش کا نقشہ کھینچ دیتے ہیں جو ہندوستان کا برگزیدہ پُجاری اپنے پرماتما کی توجہ کو کھینچنے کے لئے شراب کو پیش کر کے کرتا ہے۔ اور اگر غور سے دیکھا جائے تو معلو م ہوتا ہے کہ قدیم ہندوستان کے پجاری کی پوجا میں شراب کاد وسری چیزوں کی نسبت بہت زیادہ دخل تھا۔ وہ سوم کا رس نہ صرف خود پیتا ہے بلکہ اس کے ساتھ بہت سی پوجا کی چیزوں کو بھی نہلاتا ہے اور اندر اور دوسرے دیوتائوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے انکے سامنے بھی اسے پیش کرتا ہے۔ اسی طرح اتھروید میں اشونی کماردیوتائوں کی پوجا کے وقت جو منتر پڑھنے کے لئے بتائے گئے ہیں ان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ قدیم ایام کا ہندو پجاری اس چیزکو ایسا متبرک سمجھتا تھا کہ صرف خود ہی شراب کو استعمال نہ کرتا تھا بلکہ اپنے دیوتا سے بھی اس کے استعمال کی درخواست کرتا تھا۔ چنانچہ کانڈ نمبر۹ ادھیائے نمبر۱ منتر نمبر۱۷ میں لکھا ہے۔
’’اے اشونی کمارو! پہاڑوں میں، جنگلوں میں، جنگلی جڑی بوٹیوں میں جو مدھو(شراب) ہے اس وقت (یعنی یگیہ کی تقریب پر) جو کشیدگی کی جاتی ہے اس کا رس میرے اور آپ کیلئے ہو۔‘‘
اس منتر میں تو صرف دیوتا سے شراب کے استعمال کی درخواست ہی کی گئی ہے۔ مگر بلور کے بنائے ہوئے نیتر کی پوجا کے وقت اس سے بھی زیادہ یہ کام کیا جاتا ہے کہ اسے شراب سے غسل دیا جاتا ہے۔ گویا عملاً اسے شراب پلائی جاتی ہے۔ اور اس کے ساتھ اتھروید کا یہ منتر پڑھا جاتا ہے کہ
’’اے باور کے بنائے ہوئے نیتر! آپ ہمارے مہمان ہو کر ہمارے گھر میں رہیگا اور ہم آ پ کو گھی شراب شہد اور میٹھے میٹھے اسی طرح کے کھانے دیتے ہیں۔ آپ ہماری ہمیشہ بھلائی سوچتے رہا کریں۔ جیسے باپ اپنی اولاد کے لئے بہتری سوچتا رہتا ہے۔‘‘
(اتھروید کانڈ نمبر ۱۰ اوھیائے نمبر۶ منتر ۲۶،۲۷)
یہ دومنتر تو اس امر پر روشنی ڈالتے ہیں کہ قدیم ہند کا پجاری پوجا کے وقت اپنے دیوتا سے شراب پینے کی درخواست کرتا ہے اور خود شراب پیتا اور بلور کے نیتر کو شراب میں غوطہ دیتا ہے۔ مگر اس سے بھی زیادہ وضاحت اسی وید کے کانڈ نمبر۱۰ ادھیائے نمبر۱۰ اور منتر نمبر۱۰ میں ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دیوتا خود بھی اپنی کامیابی کی خوشی میں شراب کا استعمال کرتے یہں چنانچہ لکھا ہے:۔
’’اپنے دشمنوں کو قابو کر کے فتح حاصل کرنے کے لئے اندر سے شراب کے پیالے پیئے۔‘‘
اس زمانہ میں آریہ مت کے بعض ممبروں نے سوم کے رس اور اسی قسم کے اور الفاظ کی تشریح کرتے وقت یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وید میں شراب کا کوئی ذکر نہیں بلکہ گلو وغیرہ کے رس کاذکر ہے مگر جب ہم تمام کی تمام ہندو قوم کا طریق عمل دیکھتے ہیں اور ساتھ ہی اس بات کو مدنظر رکھتے ہیں کہ ہندو قوم کا میل جول کسی ایسی قوم سے جو شراب کی سخت عادی ہو کبھی لمبے عرصے تک اور پورے طور پر نہیں رہا جس سے خیال ہو سکے کہ دوسروں سے یہ عادات انہوں نے اخذ کر لی ہیں تو ہم کو ان تاویلات کے ماننے میں بہت کچھ تاتل ہوتا ہے۔ مگر جب ہم اتھرووید کے کانڈ نمبر۱۸ انوداک نمبر۱ سوکت نمبر۱ منتر ۴۸ کو دیکھتے ہیں تو ان تاویلات کا قبول کرنا ہمارے لئے بالکل ناممکن ہو جاتا ہے۔ اس میں ہم یہ لکھ ہو ا پاتے ہیں کہ:۔
’’ یہ سوم بہت ہی لذیذ اور خوش ذائقہ ہے اور کچھ میٹھا بھی اور کچھ تیز و تُرش بھی ہے ایسے سوم کو پینے والے اندر دیوتا کے مقابلہ پر جنگ میں کوئی دشمن نہیں ٹھہر سکتا۔‘‘
ان حوالہ جات سے ثابت ہوتا ہے کہ ہندو مذہب پورے طور پر شراب کے استعمال کی اجازت دیتا ہے۔ اور بعض عبادات میں اس کا استعمال ضروری قرار دیتا ہے ۔ ہندوئوں کا تمدن بھی اس نتیجہ کی تصدیق کرتا ہے اور ان کی تاریخ بھی اسکی صحت پر شاہد ہے۔
ایرانی مذہب کی تعلیم:۔ دوسرا قدیم مذہب ایرانیوں کا مذہب ہے ۔ ایرانی قوم ایک مسلسل اورلمبی تاریخ رکھتی ہے بلکہ تازہ تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ کوء تعجب نہیں اس کا تمدن دیدک سے بھی پرانا ہو۔ اس قوم کے مذہب قدیم و جدیدسے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس میں شراب جائز تھی۔ زردشتی مذہب کی واقفیت رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ زردشت کسی جدید مذہب کا بانی نہ تھا بلکہ اس نے قدیم ایرانی مذہب کو جو مرورزمانہ سے بہت کچھ بگڑ گیا تھا دوبارہ زندہ کیا تھا۔ پس ایرانی مذہب کا فتویٰ شراب کے متعلق معلوم کرنے کے لئے ہمیں زردشت کی بعثت سے پہلے اور بعد دونوں زمانوں پر نظر ڈالنی چاہیے۔ گو تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایرانی لوگ شراب بکثرت استعمال کرتے تھے مگر مذہبی طور پر وہ اس کو کیسا سمجھتے تھے اس کا پتہ ہمیں زردشتی کتب سے ہی ملتا ہے ۔ چنانچہ پہلوی کتب میں زردشت کی پیدائش کا بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کے والد یورو شامپ کو فرشتہ نے ایک شراب کا گلاس دیا جس کے پینے کے قریب زمانہ میں ہی اس کی بیوی دو عذونامی حاملہ ہوئی اور ایک ایسا لڑکا جنی جس نے مشرقی تاریخ میں ایک نیا انقلاب پیدا کرنا تھا۔
ایک مقدس انسان کی پیدائش کے لئے فرشتہ نے شراب کا گلاس انکے والد کو پلانا ایک ایسا واقعہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ زردشت کے زمانہ سے پہلے بھی شراب کا استعمال مذہباً نہ صرف جائز بلکہ مستحسن تھا۔
زردشت نے ایرانی مذہب میں جو اصلاح کی اس کی رو سے بھی شراب کا استعمال ایک مستحسن امر قرار دیا گیا۔ چنانچہ افرنجسن کی دعا جو زردشتی مذہب کے پادریوں کے پڑھے جانے کے لئے مخصوص ہیں ان کے پڑھے جانے کے وقت جو رسوم ادا کی جاتی ہیں ان میں بھی شراب کا دخل ہے۔ دستوران دعائوں کے پڑھنے کے وقت ایک قالین پر جسے زمین پر بچھایا ہوا ہوتا ہے بیٹھ جاتا ہے اور اس کے سامنے دھات کی تھالی یا کسی پودہ کے پتہ پر اس موسم کے اعلیٰ سے اعلیٰ میوہ جات اور پھول رکھے جاتے ہیں اور ساتھ ہی برتنوں میں تازہ دودھ اور شراب اور تازہ پانی اور شربت پڑا ہوتا ہے۔ غرض ایرانی مذاہب کے مطابق بھی شراب کا استعمال ایک مستحسن اور پسندیدہ فعل قرار دیا گیا ہے۔ اور بعض مذہبی رسوم کی ادائیگی کے وقت شراب کا استعمال یا اس کا پاس رکھنا ضروری قرار دی گیا ہے۔
شراب اور بائیبل:۔ تیسرا قدیم مذہب اسرائیلی مذہب ہے ۔ یہ مذہب بھی ہندو مذہب اور زردشتی مذہب کی طرح اپنا سلسلہ ابتدائے آفرنیش سے شروع کرتا ہے گو اس مذہب کی بنیاد حضرت موسیٰ ؑ نے رکھی ہے۔ مگر یہ ایک مسلسل سلسلہ تاریخ کے ذریعہ ابو البشر آدم علیہ السلام سے اپنا تعلق جا ملاتا ہے۔ اس مذہب کی تاریخ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ شراب کا استعمال ابتدا ئے آفرینش سے برابر چلا آیا ہے اور نہ صرف یہ کہ اسے کبھی برا نہیں سمجھا گیا بلکہ خود انبیاء علیہم السلام بھی اسے استعمال کرتے رہے ہیں۔ بائیبل کی کتاب پیدائش باب۹ آیت ۲۰ تا۲۳ میں لکھا ہے:۔
’’اور نوح کھیتی باڑی کرنے لگا اور اس نے ایک انگور کا باغ لگایا۔ اور اس کی مے پی کر نشہ میں آیا۔ اور اپنے ڈیرے کے اندر آپ کو ننگا کیا اور کنعان کے باپ حام نے اپنے باپ کو ننگا دیکھا۔ اور اپنے دو بھائیوں کو جو باہر تھے خبر دی۔ تب سم اور یافث نے ایک کپڑا لیا اور اپنے دونوں کاندھوں پر دھرا اور پچھلے پائوں جا کر اپنے باپ کی برہنگی کو چھپایا۔‘‘
یہ توحضرت نوح ؑ کا حال ہے۔ جو پہلے نبی ہیں جن کی تاریخ ایک حد تک۔۔۔۔۔ محفوظ ہے۔ اور جن کے بعد تاریخ ایک حد تک تفصیلی رنگ اختیار کر لیتی ہے۔ آپ کے بعد دوسرا مہتم بالشان زمانہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ہے ان کی نسبت ہم بائیبل کے باب۱۴ آیت ۱۸ میں پڑھتے ہیں کہ ملک صدق سالم کے بادشاہ نے ان کی دعوت میں روٹی اور مے پیش کی تھی۔ اسی طرح حضرت لوط کی نسبت پیدائش باب۹آیت۳۲، ۳۵ میں لکھا ہے کہ لوط کی لڑکیوں نے اپنے باپ کومے پلائی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں نہ صرف شراب منع نہ سمجھی جاتی تھی بلکہ ضروریات زندگی میں سے خیال کی جاتی تھی۔ کیونکہ یہ واقعہ عذاب کے بعد کا ہے۔ جس وقت کہ حضرت لوط اپنی دونوں لڑکیوں سمیت جنگل میں ایک غار میں رہتے تھے۔ اس وقت ان کے پاس شراب کا ہونا ظاہر کرتا ہے کہ بائیبل کے بیان کے مطابق اس وقت کے طرز معاشرت کے ماتحت انہوں نے ان چند ضروری اشاء میں جو وہ برباد ہونے والی بستی سے لیکر نکلے تھے شراب کا شامل کرنا بھی ضروری خیال کیا تھا۔ بنو اسرائیل میں نبوت کے منتقل ہونے میں بھی شراب کا بہت کچھ دخل ہے۔ کیونکہ جیسا کہ بائیبل کے بیان سے معلوم ہوتا ہے ابتداء بڑے لڑکے ہی وارث ہو اکرتے تھے اور انہی کی نسل سے شجرہ چلایا جاتا تھا۔ چنانچہ اس طریق کے مطابق حضرت اسحاق نے بھی اپنے بڑے لڑکے عیسو کو برکت دینی چاہی۔۔۔۔۔۔ مگر جیسا کہ پیدائش باب ۲۷ سے معلوم ہوتا ے کہ حضرت یعقوبؑ کی والدہ نے انکو کھانا پکا کر دیا۔ اور انہوں نے لذیذ کھانا کھالا کر اور عمدہ شراب پلا کر (آیت۲۵) اور اپنے آپ کو عیسو ظاہر کر کے ان سے اپنے حق میں دُعا کروالی۔ اور اس طرح نبوت عیسُو کے خاندان سے نکل کر یعقوب یعنی سرائیل کے خاندان میں آگئی۔ پس بنی اسرائیل اپنی روحانی ترقیات میں ایک حد تک مے کے بھی ممنون ہیں۔
پھر نہ صرف یہ کہ بائیبل کے بیان کے مطابق حضرت اسحاقؑ نے خود ہی مے پی۔ بلکہ حضرت یعقوبؑ کے حق میں بھی جن کو وہ اپنا بڑا لڑکا عیسو خیال کررہے تھے یہ دعا کی کہ خداتجھے اناج اور مے کی زیادتی بخشے(آیت ۲۸) جس کے ذریعے انہوں نے بنی اسرائیل کے لئے ہمیشہ شراب کا استعمال ضروری قرار دیدیا کیونکہ اگر وہ شراب کا استعمال ترک کر دیں۔ تو یہ دعا باطل جاتی ہے حضرت اسحاق کی اس دعا کو حضرت یعقوب نیبھی اپنی وفات کے وقت کی دعا سے اور تقویت دے دی۔ کیونکہ انہوں نے اپنے بیٹے یہود اور اس کی اولاد کے حق میں خبر دی ہے۔ کہ انکی آنکھیں شراب کے نشہ سے سُرخ رہیں گی۔ (پیدائش باب۴۹آیت۱۲) اس زمانہ کے بعد بنی اسرائیل کی تاریخ میں سب سے بڑا اور اہم زمانہ حضرت موسیٰ کا ۔۔۔۔۔ ہے۔ حضرت موسیٰ یہودی مذہب کے بانی ہیں۔ اور اپنے سے پہلے سب شریعتوں کے ناسخ ہیں۔ مگر جہاں انہوں نے ایسے بہت سے قانون اور رواج جو ان سے پہلے بنی اسرائیل میں رائج تھے موقوف کئے ہیں۔ شراب کے متعلق پہلے حکم کو تبدیل نہیں کیا بلکہ انہوںنے شراب کو خداوند کا چڑھاو اقرار دے کراس کو مقدس کہا ہے۔ کیونکہ جیسا کہ گنتی باب۱۸ آیت۱۲ سے معلوم ہوتا ہے اچھی سے اچھی شراب کا حضرت ہارونؑ اور ان کی اولاد کے لئے جن کو کہانت کا عہدہ سپر د کیا گیا تھا وعدہ کیا گیا ہے اور بنی اسرائیل کا فرض قرار دیا گیا ہے کہ وہ عمدہ شرابیں خداتعالیٰ کے نام پر معبد پر چڑھائیں جنہیں کاہن استعمال کریں۔
یہ وعدے جو اوپر بیان ہوئے ہیں صرف حضرت ہارون اور ان کی اولاد کے لئے ہیں۔ مگر دوسرے بنی اسرائیل کو بھی خالی نہیں چھوڑا۔ بلکہ ان کے لئے بھی حضرت موسیٰؑ سے خداتعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ اگر وہ خداتعالیٰ کے حکموں پر عمل کرینگے اور شریعت کی پابندی کرینگے تو ان کے لئے رحم کے پھل اور ان کی زمین کے پھل اور ان کے غلہ اور انکی مے اور ان کے تیل اور ان کی گائیوں کی بڑھتی اور ان کی بھیڑوں کے گلوں میں اس زمین پر جس کی بابت اس نے ان کے باپ دادوں سے قسم کر کے کہا کہ تجھ کو دونگا برکت بخشیگا۔(استثنا باب۷آیت ۱۳) اس حوالہ کے علاوہ تورات میں اور بھی کئی جگہ بنی سرائیل کے لئے شراب کی کثرت کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اور حضرت مسیح کی آمد تک جس قدر انبیاء اور سلاطین گذرے ہیں عموماً سب کے ذکروں میں شراب کا بیان ہے گویا ان کی تمام تاریخ سے شراب کا استعمال نہایت کثرت سے ثابت ہوتا ہے۔
حضرت موسیٰ کے بعد مذہبی دنیا میں عظیم الشان تبدیلی کر دینے والی ہستی جس کے بعد نبی عربی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سوا کوئی تغیر عظیم پیدا کرنیو الا انسان مبعوث نہیں ہوا حضرت مسیح ہیں۔ س وقت ان کے ماننے والوں کو دنیا میں ایک خاص مرتبہ اور عزت حاصل ہے۔ اور ان کی تعلیم کو نہایت کامل اور مکمل ظاہر کرتے ہیں۔ انہوں نے بھی شراب کے متعلق جو کچھ فتویٰ دیا ہے وہ اس کی تقدیس کا ہی ہے ۔ انجیل سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح شراب کی تقدیس کا ہی ہے۔ انجیل سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح شراب کو بُرا نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ خود اس کو استعمال کرتے تھے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ہو معجزانہ طور پر شراب بنا کر لوگوں کو پلاتے تھے۔ حضرت مسیح کو خود شراب استعمال کرنا تو متی باب ۲۶ آیت۲۹ سے ثابت ہے جہاں لکھا ہے کہ مسیح نے حواریوں سے کہا کہ
’’میں تم سے کہتا ہوں کہ انگور کے پھل کا رس پھر نجہ پیونگا اس دن تک کہ تمہارے ساتھ اپنے باپ کی بادشاہت میں نیا نہ ہوں۔‘‘
اور ان معجزانہ طور پر شراب بنانا او ردوسروں کو پلانا یوحنا باتب۲ آیت۳ تا ۱۰ سے ثابت ہوتا ہے ۔ ان آیات کا مضمون یہ ہے:۔
’’ اور جب مے گھٹ گئی۔ یسوع کی ماں نے اس سے کہا کہ ان کے پاس مے نہ رہی۔ یسوع نے اس سے کہا ۔ کہ اے عورت مجھے تجھ سے کیا کام میرا وقت ہنود نہیں آیا۔ اس کی ماں نے خادموں کو کہا۔ جو کچھ وہ تمہیں کہے سو کرو۔ اوروہاں پتھر کے چھ مٹکے طہارت کے لئے یہودیوں کے دستور کے مطابق دھرے تھیاور ہر یک میں دو یا تین من کی سمائی تھی۔ یسوع نے انہیں کہا۔ مٹکوں میں پانی بھرو۔ سو انہوں نے ان کو لبالب بھرا پھر اس نے انہیں کہا کہ اب نکالو۔ اور مجلس کے سردار پس لے جائو۔ اور دے لے گئے جب میر مجلس نے وہ پانی جو مے بن گیا تھا چکھا اور نہیں جانا کہ یہ کہاں سے تھا مگر چاکر کہ جنہوں نے وہ پانی نکالا تھا جانتے تھے تومیر مجلس نے دولہا کو بلایا اور اسے کہ اکہ ہر شخص پہلے اچھی مے خرچ کرتا ہے اور ناقص اسوقت کہ جب پی کے چھک گئے۔ پر تونے تو اچھی مے اب تک رکھ چھوڑی ہے۔‘‘
مذکورہ بالاحوالہ جات سے ثابت ہوتا ہے کہ ابتدائے عالم سے لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت تک تمام کے تمام مذاہب شراب کے جواز کا فتویٰ دیتے چلے آئے ہیں بلکہ اس کا استعمال بعض مذہبی رسوم میں بھی واجب رکھاجاتا رہا ہے اور اسے متربرک کاور مفید شے قرار دیا جاتا رہا ہے۔ ان مذاہب کی موجودگی اور ان کے رسوخ کے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مبعوث ہوئے اور آپ نے ان تمام مذاہب کی تعلیم کے خلاف اللہ تعالیٰ کا یہ حکم اپنے پیروئوں کو سنایا کہ یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیھِمَآاِثْم’‘ کَبِیْر’‘ وَمَنَا فِعُ لِلنَّاسِ وَاِثْمُھُمَآاَکْبَرُ مِنْ تَّفْعِھِمَا۔ یعنی لوگ تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ شراب اور جوئے کے متعلق کیا حکم ہے ؟ تو کہدے کہ ان میں نقصان بھی بہت ہے اور لوگوں کے لئے منافع بھی ہیں اور ان کا ضررر ان کے نفع سے زیادہ ہے۔
قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ سے بھی زیادہ زوردار الفاظ میں شراب کو منع کیا گیا ہے جیسا کہ فرماتا ہے یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْس’‘ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآئَ فِیٰ الْخَمْرِوَالْمَیْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِاللّٰہِ وَعَنِ الصَّلوٰۃِ۔ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَھُوْنَ وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُواالرَّسُوْلَ وَاحْذَرُوْا فَاِنْتَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْآ اَنَّمَا عَلیٰ رَسُوْلِنَاالْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ۔(مائدہآیت۹۱ تا۹۳) یعنی اسے مومنو شراب اور جوا اور چڑھاوے کی جگہیں اور لاٹری شیطانی کاموں میں سے ہیں۔ سو ان سے بچو۔ تاکہ تم کامیاب ہو جائو۔ شیطان سوائے اس کے اور کچھ نہیں چاہتا کہ تمارے درمیان شراب اور جوئے کے ذریعے عداوت اور بغض پیدا کر دے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اور نماز سے تم کو روکدے۔ پس کیا تم باز رہو گے۔ اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور وہمیشہ چوکس رہو۔ اور اگر تم باوجود سمجھانے کے پھر جائو تو خوب یاد رکھو کہ ہمارے رسول کا فرض صرف یہی ہے کہ تم لوگوں تک حق کو پہنچادے۔
ان آیات میں شراب کو قطعی طور پر منع کر دیا گیا ہے اور ایک مسلمان کے لئے اس چیز کا استعمال ہر گز جائز نہیں۔ میں بتا چکا ہوں کہ جس وقت یہ حکم اسلام نے دیا ہے اس وقت تک تمام مذاہب شراب کو نہ صرف یہ کہ برا نہیں قرار دیتے تھے بلکہ اس کے استعمال کو بالعموم اچھا سمجھتے تھے اور بعض مذاہب کی رسوم میں اس کا استعمال واجب تھا۔ ایسے موقعہ پر اسلام کا شراب کو منع فرمانا کوئی معمولی بات نہ تھی بلکہ اس زمانہکی طب بھی شراب کو ایک نہایت ہی مقوی اور اعلیٰ درجہ کی شے قرارد یتی تھی اور اس کا پینا صحتِ جسمانی کے لئے نہایت مفید قرار دیا جاتا تھا۔ مگر باوجود ان سب باتوں کے اسلام نے شراب کو منع فرمایا۔ اور قطعی طور پر اس کا استعمال ناجائز قرار دے دیا۔ اور یونہی بلا وجہ نہیں بلکہ دلائل کے ساتھ اور دلائل دیتے وقت بھی تعصب سے کام نہیں لیا بلکہ اس کے استعمال کو منع کرتے وقت یہ بھی اقرار کیا کہ اس میں فوائد بھی ہیں ممکن ہے بعض فلسفیوں نے اس کے استعمال کو بعض حالات میں ناپسند کیا ہو لیکن جس رنگ میں اسلام نے اس مسئلہ کو حل کیا ہے اور کسی نے نہیں کیا۔ مثلاً جینی مت جو درحقیقت مذہب نہیں ہے بلکہ ایک فلسفہ ہے اس میں بھی شراب کی ممانعت کا کچھ پتہ چلتا ہے۔ مگر کس بنا پر؟ کسی عقلی بنا پر نہیں ۔ کسی علمی بنا پر نہیں۔ کسی مدلل پیرا یہ میں نہیں بلکہ اس لئے کہ شراب کے تیار کرنے میں بہت سے کیڑوں کی جان جاتی ہے۔ ورچونکہ جان کا ہلاک کرنا جینی اصول کے ماتحت ناجائز ہے اس لئے شراب کا استعمال باکمال پیروئوں کو نہیں کرنا چاہیے ۔ یہ ممانعت درحقیقت نہ تو کلی ممانعت ہے اور نہ شراب پر بزاتہ نظر ڈال کر اور اس بات کو مدنظر رکھ کر کہ شراب کا اثر اس کے استعمال کرنے والوں پر کیا پڑیگا اس کا حکم دیا گیا ہے بلکہ صرف اس لئے کہ شراب کا استعمال جینی فلسفہ کے اس مرکزی اصل کے خلاف تھا کہ جیو ہتیا کسی طرح نہیں ہونی چاہیے ۔ اس کا استعمال ناپسند کیا گیا ہے۔ غرض اسلام تمام مذاہب میں سے بلکہ تمام تعلیموں مین سے شراب کے منع کرنے اور بادلائل طور پر منع کرنے میں منفرد ہے۔ اور ایسے وقت میں اس نے شراب سے اپنے پیروئوں کو منع کیا ہے جبکہ لوگ ابھی اس مناعی کے حکم کو پورے طور پر سمجھنے کے بھی قابل نہیں تھے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ قرآن کریم نے صاف بتایا تھا کہ شراب کے نقصانات اس کے منافع سے زیادہ ہیں۔ مسلمان اطباء اپنی کتب میں برابر شراب کی تعریفیں اور خوبیاں بیان کرتے رہے ہاور اس کثرت سے بیان کرتے رہے کہ انکی کتب کو پڑھ کر حیرت آتی ہے۔ چنانچہ میں اسجگہ صرف موجز کی کسی قدر عبارت مختصراً بیان کر دیتا ہوں جو ایک عام درسی کتاب ہے۔ اس کتاب کا مسلمان مصنف شراب کے وصف کو یوں بیان کرتا ہے:۔
’’اور چاہیے کہ مجلس شراب کے اردگرد منظر لذیذ ہو۔ پھول ہوں۔ پیارے دوست ہوں عمدہ خوشبو ئیں ہوں۔ دل خوش کن راگ ہو اور ہرغم پہنچانے ولی اور دل کو تنگ کرنیوالی چیز کو دور کر دینا چاہیے۔ مثلاً بغل کی بو، بوسیدہ لباس، غم و غصہ اور شراب نہا کر اور عمدہ کپڑے پہن کر اور سراور داڑھی کے بال کھلے چھوڑ کر اور ناخن کٹوا کر پینی چاہیے۔ اور یہ بھی چاہیے کہ جس مقام پر شراب پی جائے وہ ہوادار اور کھلا ہو۔ اور جاری پانی کے کنارے پر ہو۔ اور اس وقت لطیفہ گو دوست ساتھ ہوں کیونکہ شراب نفسانی قوتوں کو تحریک کرتی ہے اور تمام شہوات کو اُبھارتی ہے پس جب کوئی قوت اپنے مطلب کو نہیں پاتی توتکلیف محسوس کرتی ہے اور منقبض ہو جاتی ہے پس نفس شراب کی طرف پورے شوق سے راغب نہیں ہوتا۔ اور نہ پورے طور پر اسے ہضم کرتا ہے ۔ پس شراب ک نفع کم ہوتا ہے بلکہ بعض اوقات شراب کا پینا بیگار ہو جاتا ہے اور شراب پینے سے نفع کی نسبت نقصان زیادہ ہو جاتا ہے۔‘‘
راب کی نسبت یہ رائے ساتویں صدی ہجری کے ایک مصری مسلمان مصنف کی ہے اور اس سے قیاس کی اجا سکتا ہے کہ باوجود سات سو سال کی علمی ترقی کے مسلمان بھی شراب کی مضرت کو علمی طور پر سمجھنے سے قاصر رہے ہیں۔ اور اس وقت تک کی تحقیقات سے مجبور ہو کر لکھتے رہے ہیں کہ شراب کا نفع اس کی مضرتوں سے زیادہ ہے حالانکہ قرآن شریف صاف فرما چکا ہے کہ اس کا نقصان اس کے نفع سے زیادہ ہے۔ غرض قرآن کریم نے آج سے تیرہ سو سال پہلے جو تعلیم شراب کے متعلق تمام مذاہب کے برخلاف دی تھی اور جس طرح دی تھی وہاں انسانی عقل نہیں پہنچ سکتی تھی۔ حتیٰ کہ باوجود قرآن کریم کے بیان کے خود مسلمان اطباء علمی طور پر شراب کی مضرت کو ثابت نہیں کر سکے اور ان کو مجبوراً اس امر کا اقرار کرنا پڑا کہ شراب ایک نہایت ہی نفع رساں شے ہے۔
زمانہ پر زمانہ گذرتا گیا اور صدی ک بعد صدی آتی گئی مگر شراب کے متعلق وہی تحقیق رہی جو ہزاروں سال سے چلی آتی تھی کہ شراب ایک عمدہ شے ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اس تحقیق کی اور بھی تصدیق ہوتی گئی اور اگر کسی علم کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ خداتعالیٰ کے کلام کی تکذیب کر سکے تو کہا جا سکتا ہے کہ علم طب نہایت دلیری سے قرآن کریم کے اس ارشاد کی تکذیب صدیوں تک کرتا رہا۔ یونانی طب کے دور ختم ہونے اور طب جدید کے دور شروع ہونے پر اور ہزاروں تحقیقاتوں کو تو ردی کر کے پھینک دیا گیا۔ لیکن شراب کی خوبیوں کے اظہار پر پہلے سے بھی زیادہ زور دیا جانے لگا۔ اگر طب قدیم تندرست آدمی کی صحت کے قیام اور کمزور کی طاقت بڑھانے کیلئے شراب کے استعمال کو مفید قرار دیتی تھی طب جدید نے بعض خطرناک قسم کے مریضوں کا علاج ہی برانڈی تجویز کیا اور اس کے فوائد پر اس قدر زور دیا جانے لگا کہ کوئی ہسپتال مکمل نہیں سمجھا جاتا تھا جس میں برانڈی کی چند بوتلیں نہ رکھی گئی ہوں۔ اور شراب کو آبِ حیات قرار دیا جانے لگا۔ اور بعض لوگ علی الاعلان کہنے لگے کہ جب تک شراب کو اسلام جائز نہ قرار دے دنیا کا اسلام کیطرف جھکنا ناممکن امر ہے۔ مگر باوجود ان تمام تحقیقاتوں اور طبعی شہادتوں کے قرآن کریم کا یہ فیصلہ روشن حروف میں چمک رہا تھا کہ شراب کی مضر میں اس کے فوائد سے زیادہ ہیں۔ اور باوجود زمانہ کی ناموافق رائے کے کوئی شخص اس فیصلہ کو بدل نہیں سکتا تھا۔ کیونکہ قرآن کریم خدا کا کلام اور آخری شریعت ہے جس کے بعد کوئی اور شریعت نہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کہ شراب کی مضرتیں صرف جسم انسانی تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کا اثر اخلاق پر بھی پڑتا ہے اور بہت پڑتا ہے جیساکہ خود قرآن کریم نے سورۃ مائدہ میں اس کی طرف ان الفاظ میں اشارہ بھی فرمایا ہے کہ شیطان تمہارے درمیان شراب اور جوئے کے ذریعے عداوت اور بُغض پید ا کرنا چاہتا ہے مگر کتنے لوگ ہیں جو کھانے پینے کی چیزوں کے ان اثرات کی طرف جو اخلاق پر ہوتے ہیں توجہ کرنے کے لئے تیار ہوں۔ اور اس زمانہ میں تو ایک بہت بڑی مشکل یہ بھی پیدا ہو ئی تھی کہ تمدن اور تہذیب کی خرابی اور زوال اور انحظاط کے باعث وہ قوم جو راب سے مجتنب ہے اپنے اخلاق میں بہت ہی گر گئی تھی۔ پس مقابلہ کیا جاتا تو کس طرح اور چند مثالوں سے کبھی کوئی مسئلہ پوری طرح صاف نہیں ہو سکتا۔ جو امر قوموں سے تعلق رکھتا ہو اس کے حل کرنے کے لئے قوموں کی ہی مثالیں درکار ہوتی ہیں اور ان کا بہم پہنچانا ناممکن ہو رہاتھا۔ پس علمی طور پر علم طب کے ذریعے ہی اس پر روشنی پڑتی تھی اور اس مسئلہ کا پورے طور پر فیصلہ ہو سکتا تھا۔
قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اس کا ایک ایک لفظ جس قدر معانی پر دلالت کرتا ہے ان تمام معانی کی صداقت خداتعالیٰ خود ظاہر کرتا ہے اور زور آور نشانوں سے ثابت کرتا ہے ہاں بعض معانی کی صداقت ہمیشہ سے ثابت چلی آتی ہے۔ تاکہ ہر زمانہ کے لوگوں کے لئے وہ حجت ہو۔ اور بعض معانی کی صداقت وہ آہستہ آہستہ مختلف زبانوں میں ثابت کرتا ہے۔ تا معلوم ہو کہ قرآن کریم خدا کا کلام ہے اور کسی انسان کا اس کی تالیف میں دخل نہیں کیونکہ اس میں وہ باتیں ہیں جو اس زانہ کے علوم سے تعلق نہیں رکھتیں۔ شراب کے حکم کے متعلق بھی یہ دونوں پہلو اختیار کئے گئے تھے۔ اس کی اخلاقی مضرتیں تو ہر زمانہ میں ثابت کی جا سکتی تھیں۔ گو لوگ اس کی طرف پوری توجہ کریں یا نہ کریں۔ اور گو بعض زمانوں میں بہ نسبت دوسرے زمانوں کے ان کا ثابت کرنا زیادہ مشکل ہو ۔لیکن شراب پینے کی چیز ہے اور پینے کی چیزوں کا پہلا اثر جسم انسانی پر پڑتا ہے اورا ن اشیاء کے متعلق طبعًا لوگوں کی توجہ بھی ایسے ہی اثرات کے معلوم کرنے کی طرف پھرتی ہے۔ پس اس حکم کی اہمیت اور خوبی اسی وقت پورے طور پر منکشف ہو سکتی تھی جبکہ اس کے جسمانی اثرات کی مضرتیں بھی روز روشن کی طرح ثاب ہوں۔ اور پھر اس کے نفع سے زیادہ ثابت ہوں۔ اس اظہار ِ حقیقت کا بھی آخر وقت آگیا اور اللہ تعالیٰ نے انسان کو بعض ایسی ایجادوں کی توفیق دی جن کے ذریعہ سے انسان نہایت باریک اؑصاب اور ریشوں پر مختلف ادویات اور اغذیہ اور تغیرات موسم اور احساسات کا جو اثر ہوسکتا ہے اسے معلوم کرنے کے قابل ہو گیا۔ ان ایجادوں نے جہاں اور عظیم الشان تغیرات پیدا کئے ہواں شراب کے متعلق بھی قدیم علمی تحقیقات کی غلطی کو ثابت کر دیا اور اکثر علماء طب کو اس بات کا اقرار کرنا پڑا کہ اس کے ضرر اس کے نفعوں سے زیادہ ہیں اس قدیم اور مستحکم خیال کے بدل دینے کا فخر علم النفس کے ایک ماہر کرپن کو حاصل ہے جس نے اپنے بعض ہم کٰالوں ی مدد سے کوشش کر کے اس امر کو ثابت کر دیا کہ شراب کی چھوٹی سے چھوٹی مقدار کے ایک ہی دفعہ کے استعمال سے بھی انسانی دماغ کے باریک ریشوں اور الیٰ درجہ کے علمی مرکزوں کو نقصان پہنچ جاتا ہے اسی طرح ہاج نے بھی الکوہل کے اس اثر کے متعلق تجربات کئے جو پٹھوں پر پڑتا ہے۔ اور وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ شراب کے استعمال سے برداشت اور ذکاوت اور صبر کی قوتوں کو نہایت سخت نقصان پہنچتا ہے۔ مسٹر الیگزینڈر برائس ایم۔ڈی ۔ڈی۔پی۔ایچ جو ماہر علم الاغذیہ ہیں شراب کے متعلق اپنی تحقیقات ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:۔
’’ اس میں کچھ شبہ اب باقی نہیں رہا کہ شراب درحقیقت ایک نہات سخت زہر ہے جو باریک ریشوں کو تباہ کر دیتا ہے پہلے تو یہ اپنا خواب آور اثر ظاہر کرتا ہے اور آہستہ آہستہ تحلیل کرنا شروع کر دیتا ہے۔ خصوصاً اعصاب کو سخت نقصان پہنچاتا ہے ۔ درحقیقت اس کا حق نہیں کہ اسے مقوی ادویہ میں شامل کیا جائے کیونکہ یہ صرف ایک ایسی دوائی ہے جو ایک عارضی تحریک کر دیتی ہے مگر اس کے بعد ایک طویل عرصہ تک ضعف رہتا ہے۔ قریبا تمام سمجھدار ڈاکٹروں کی رائے اب یہی ہو گئی ہے کہ صحب یں اس کی قطعًا کوئی ضرورت نہیں ۔ اور اگر بیماری کے علاج میں اس کا فائدہ بالکل مشتبہ نہ سمجھا جائے تو بھی یہ بات تو متحقق ہے کہ یہ اس قابل ہے کہ اس کی جگہ عموماً دوسری ایسی دوائیں استعمال کی جائیں جو اس سے کم ضرر رساں ہیں۔‘‘
ان انکشافات کا اثر لازمی طور پر علم طب پر پڑنا تھا اور پڑا۔ چنانچہ۱۹۰۰؁ء سے برابر علم طب کے ماہروں کی توجہ اس طرف پھرنی شروع ہو گئی جکہ شراب کے استعمال کو کم کیا جائے۔ چنانچہ ایڈنبرگ کے ایک ہسپتال میں جہاں ۱۸۹۱؁ء میں فی مریض اوسطاً نو روپیہ کی شراب خرچ ہوئی تھی ۱۹۰۰؁ء میںکل ۱۲آنے کی خرچ ہوئی۔ اس تجربہ کی کامیابی نے ان کی توجہ کو اور بھی کھینچا اور ۱۹۰۹؁ء میں سرتھامس فریرز نے جو بہت بڑے ڈاکٹروں میں سے ہیں اپنے زیر علاج مریضوں کو ایک ماشہ شراب بھی استعمال نہیں کرائی۔ اب اب بہت سے ہسپتال اس قسم کے تجارب کر رہے ہیں اور سوائے چند شدید بیماریوں مثلاً نمونیا خناق اور محرقہ کے بہت کم استعمال کی جا جاتی ہے۔ اور تندرستوں کے لئے بھی اس کا استعمال اب مضر سمجھا جاتا ہے ۔ غرض قرآن کریم کے فیصلہ کے تیرہ سو سال بعد دنیا پر اب آکر روشن ہو ا ہے کہ شراب کے ضرر اس کے فوائد سے بہت زیادہ ہیں۔ اور علمی طور پر یہ بات تحقیق کو پہنچ گئی ہے اور اب وہ لوگ جو اچھی بات کے قبول کرنے کیلئے کسی رسم یا عادت یا خیال یا اصول کی پرواہ نہیں کرتے اپنی غلطی کی اصلاح کی فکر کر رہے ہیں ۔ وہ لوگ اپنی کوشش میں کامیاب ہونگے یا عادات رسم اور پرانے مذہبی خیالات غالب آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ مگر یہ بات ظاہر ہے کہ یہ جدوجہد اور جدید علمی تحقیق اس امر کو روز روش کی طرح ثابت کر رہی ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم باقی تمام مذہاب کی تعلیمیوں پر ایک زبردست فوقیت رکھتی ہے۔ حتیٰ کہ اس کے بعض احکام کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے جوتمام دیگر مذاہب کے برخلاف دیتا ہے دنیا کو تیرہ سو سال کی تحقیق کی ضرورت پیش آتی ہے اور اس لمبی تحقیق کے بعد ہزاروں دھکے کھا کر وہ اسی نتیجہ پر پہنچتی ہے کہ جو حکم اسلام نے دیا تھا وہی درست اور صحیح تھا۔
ایک میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ شراب کے معاملہ میں نہ صرف بلحاظ تعلیم کے اسلام کو دیگر ادیان پر تفوق حاصل ہے بلکہ بلحاظ تاثیر کے بھی دیگر ادیان پر اور تمام اخلاقی تحریکوں پر اسے تفوق حاصل ہے۔ جن لوگوں نے شرابیوں کی حالت کا کبھی غور سے مطالعہ کیا ہے اور ایسے لوگوں سے ان کو واسطہ پڑا ہے جنہیں شراب کی عادت ہو چکی ہو۔ وہ اس امر کو خوب اچھی طرح جانتے یہں کہ شراب کی عادت جن لوگوں کو پڑ جاتی ہے ان کے لئے اس کا چھوڑنا سخت مشکل ہوتا ہے ۔ بلکہ دوسرے نشوں کے برخلاف شراب میں ایک یہ بھی خصوصیت ہے کہ جن لوگوں کو اس کی سخت عادت پڑ جاتی ہے ان کو اس سے ایک قسم کا مجنونانہ لگائو ہو جاتا ہے جو ورثہ کے طور پر ان کی اولاد میں بھی منتقل ہو جاتا ہے اور ایسے لوگ جب تک شراب میں مخمور نہ رہیں۔ ان کو چین نیہں آتا اور اس کے حاصل کرنے کے لئے سخت سے سخت جرم سے بھی پرہیز نہیں کرتے۔ پس شراب کی عادت کا چھڑادینا کوئی معمولی بات نہیں۔ میں بتا چکا ہوں کہ صرف اسلام ہی ایک مذہب ہے جس نے نہایت عمدگی سے اور دلائل کے ستھ شراب کی ممانعت اپنے پیروئوں کو کی ہے۔ اور باقی سب ادیان نہ صرف یہ کہ شراب کے استعمال سے اپنے پیروئوں کو روکتے نہیں بلکہ ان میں سے بعض مذاہب نے اس کا استعمال مذہبی رسوم کے اندر داخل کر رکھا ہے لیکن میں یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ باوجود اس اجازت کے بلکہ بعض صورتوں میں حکم کے ان مذاہب کے بڑے بڑے آمیوں نے شراب کی مضرتوں کو دیکھ کر یہ بھی محسوس کر لیا تھا کہ اگر شراب کا استعمال اسی طرح جاری رہا تو ان کی قومیں کیا بلحاظ صحت و تندرستی کے اور کیا بلحاظ اخلاق و آداب کے بہت گر جائیں گی۔ چنانچہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائے عالم سے ہی ایسے لوگ ہوتے چلے آئے ہیں جو یہ تحریک کرتے رہے ہیں کہ شراب کا استعمال کم کیا جائے۔ اور اعتددال کو ہر حالت میں مدنظر رکھا جائے۔ تمام مشرقی ممالک کی ترایخ(اور یہی ممالک پرانے زمانہ میں تہذیب و تمند کے جھنڈے کوبلند کرنے والے تھے) اس بات پر شاہد ہے کہ قدیم سے قدیم زمانہ سے ہندوستان، ایران، چین۔ فلسطین ۔مصر۔یونان اور کارتھج کے علماء مذہبی فلاسفر اور مقنن بدستی سے دور کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ لیکن ان کی کوششوں کا کیا نتیجہ نکلا یہی کہ اگر بعض آدمیوں نے کچھ مدت کے لئے شراب کا استعمال کم کر دیا تو کچھ عرصلہ کے بعد پھر تما م کا تمام ملک اس ’’آپ حیات‘‘ سے اپنی روح کو تازہ کرنے کے لئے دوڑپڑا۔ امریکہ کو ہی دیکھ لو۔ امریکہ میں شراب نوشی کے انسداد کے لئے حکمومت نے کتنی کوششیں کیں۔ لیکن چونکہ ایمان ان لوگوں کے دلوں میں نہیں تھا بلکہ ممانعتِ شراب کے پیچھے صرف ایک قانون کا م کر رہا تھا اس لئے یہ تحریک ناکام رہی۔ ہزار ہا موتیں صرف اس وجہ سے واقعہ ہوئیں کہ لوگ شراب پینے کے شوق میں سپرٹ لی لیتے اور سپرٹ میں چونکہ زہر یلی چیزوں کی آمیزش ہوتی ہے اس لئے کئی اندھے ہو جاتے اور کئی مر جاتے۔ پھر امریکہ میںنصف سے زیادہ ایسے لوگ تھے جو باہر سے ناجائز طور پر شرابیں منگواتے اور پیتے ۔ گورنمنٹ کا قانون تھا کہ ڈاکٹر کے سرٹیفیکیٹ کے بعغیر کسی شخص کو شراب نہیں مل سکتی اس قانون کی وجہ سے ہزاروں ڈاکٹروں کی آمدنیاں پہلے سے کئی گنا بڑھ گئیں وہ فیس لے کر سرٹیفیکیٹ دے دیتے کہ فلاں شخص کا معدہ کمزور ہے اور کوئی ایسی بیماری ہے اسے پینے کیلئے شراب ملنی چاہیے۔ غرض ہزاروں ڈاکٹروں کا گذارہ محض اسی قسم کے سر ٹیفیکیٹوں پر ہو گیا اور باوجود شراب نوشی کے خلاف قانون بن جنے کے لوگ کئی قسم کے حیلوں سے کوشش کرتے کہ کسی طرح قانون شکنی کریں۔ غرض کسی ملک میں کسی مدبر کسی مقنن کسی واعظ اور کسی فلاسفر کی کوشش کا یہ نتیجہ نہیں نکلا کہ لوگوں نے واقعہ میں شراب کم کر دی ہو۔ اور وہ س عہد پر قائم رہے ہوں۔ اگر ایکی جماعت نے اس کا استعمال کم کر دیا تع دوسرے نے اس کی کسر پوری کر دی۔ شراب بہر حال اپنے مرکز پر قائم رہی اور اسے کوئی شخص اپنی جگہ سے نہ ہلا سکا۔
اب آئو اور اس کے مقابلہ میں تاثیر کو دیکھو جو انسدادِ شراب نوشی کے متعلق اسلام کو حاصل ہے اسلام اس وقت دنیا میں آیا جبکہ علم و سائینس کا رواج دنیا میں بہت کم تھا۔ یونانی علوم اپنی ترقی کی انتہا کو پہنچ کر مسیحی پادریوں کی سعی سے گوشہ گمنامی میں جا بیٹھے تھے اور سوائے معدودے چند آدمیوں کے دوسرے ولگ ان سے ناواقف تھے۔ خصوصاً ایشیائے و چک پر جس کا ان علوم کی ترقی میں خاص حصہ تھا سخت اندھیراچھا یا ہوا تھا۔ ہندوستانی فلسفہ بھی تنزل پر تھا۔ ایران بھی اخلاقی اور علمی طور پر انحطاط کی طرف قدم زن تھا۔ اور عربوں کی حالت توسخت ناگفتہ بہ تھی۔ حجازی عربوں میں پڑھنا لکھنا ہی بہت بڑا علم تھا۔ اور اس جن کے واقف بھی چند آدمیوں سے زیادہ نہ تھے۔ علم الاخلاق ان کے ہاں وہی تھا جو ان کے شاروں نے اپنے شعروں میں نظم کیا اور علم طب ان کیہاں وہی تھا جو ان کی بڑی بوڑھیاں بطور صدری نسخوں کے یکے بعد دیگرے ایک دوسری کو سناتی چلی آئی تھیں۔ اور وہ علم الاخلاق جس کی طرف ان کیشاعروں نے راہنمائی کی ہے یہی ہے کہ شراب انسان کے اخلاق کو اعلیٰ کرتی ہے اور اسے دلیر اور سخی بناتی ہے اور یہی دو خصائل ہیں جن کی رب پر واہ کرتا تھا۔ اس کے نزدیک تمام علم الاخلاق انہیں دو صفات میں مرکوز تھا۔ اور ان کا علمِ طب بھی انکو یہی ہدایت کرتا تھا کہ ہر مرض کا علاج شراب کا جام ہے پس عرب اپنے علوم کے لحاظ سے شراب سے متنضر نہیں بلکہ اس کا دلدادہ تھا۔ ہ رعرب شراب کا عادی تھا۔ اور عادی بھی ایسا کہ اس کے روز مرہ کے شغلوں کو پڑھو شراب کے ذکر سے ان کی کوئی نظم خالی نظر نہیں آتی۔ عرب کا مشہور شاعر طرفہ جو اپنی زبان کی خوبی اورمضامین کی بلندی کی وجہ سے عرب کا دوسرے نمبر کا شاعت سمجھا جاتا ہے لکھتا ہے:۔ ؎
وَاِنْ تَبْغِنِیْ فِیْ حَلْقَۃِ الْقَوْمِ تُلْفِنِیْ
وَاِنْ تَقْقَنِصْنِیْ فِی الْحَوَانِیْتِ تَصْتَدِیْ
کَرِیْم’‘ یُرَوِّیْ نَفْسَہ‘ فِیْ حَیَاتِہٖ
سَتَعْلَمُ اِنْ مِتْنَا غَدًا اَیُّنَا المصَّدِیْ
یعنی اگر تو میری تلاش قوم کی مجلس شوریٰ میں کرے تو تو مجھے وہاں پائیگا۔ یعنی میں باوجود نو عمر ہونیکے قوم کا معتمد ہوں(یہ صرف بیس سال کی عمر مین مارا گیا تھا) اور اگر تو مجھے شراب کی دو کانوں پر تلاش کرے تو وہاں بھی مجھے پائیگا۔ یعنی دو ہی مقام ہیں جہاں میں مل سکتا ہوں اپنی دانائی کی وجہ سے قوم کی مجلس شوریٰ میں مجھے جانا پڑتا ہے اور اپنی شراب نوشی کی وجہ سے شراب خانوں پر میرا پھیرا ہوتا رہتا ہے ۔ پھر کہتا ہے میں اور شریف النفس ہوں کہ اپنے نفس کو میں نے اس زندگی میں سیراب کر دیا ہے۔ اور اگر اے دوستوہم مر جائیں تو تم کو بعد مرون معلوم ہو جائیگا کہ کون پیاسا ہے۔ یعنی میں اس قدر شراب پینے والا ہوں کہ مرنے کے بعد بھی نشہ میں ہی اٹھوں گا۔ طرفہ کی یہ باتیں باتیں ہی نہیں بلکہ وہ اس پر عمل پیرا بھی تھا۔ چنانچہ عرب کے بادشاہ عمر و بن ہند نے جب اس کے بعض اشعار پر جو اس نے بادشاہ کی ہجو میں کہے تھے ناراض ہو کر عین اس کے عنفو انِ شباب میں اس کے قتل کا حکم اپنے والئی بحران کو لکھا اور اس نے طرفہ سے دریافت کیا کہ وہ اپنے لئے بہترین طریقہ موت کا چُنے۔ تو اس نے یہ پسند کیا کہ اس کے پاس بہت سی شراب رکھدی جائے اور اسی کو پیتے وقت اس کی رگوں کا خون نکال کر اسے قتل کر دیا جائے۔
اسی طرح عرب کا ایک شاعر ابو ممجن ثقفی اپنے بیٹے کو وصیت کرتے ہوئے کہتا ہے ؎
اِذَامِتُّ فَادْفْنِّیْ اِلیٰ اَصْلِ کَرْمَۃٍ
تُرَوِّی عِظَامِیْ بَعْدَ مَوْتِیْ عُرُوْ قُھَا
وَلَا تُدْفِنِّیْ الْفَلَاۃِ فَاِنَّنِیْ
اَخَافُ اِذَا مَامِتُّ اَنْ لَّا اَذُوْقَھَا
یعنی جب میں مر جائوں تو مجھے انگور کے درختوں کے پاس دفن کیجییو تاکہ اس کی جڑیں میری ہڈیوں کو سیراب کرتی رہیں اور مجھ جنگل میں دفن نہ کیجیئو۔ تا ایسا نہ ہو کہ مرنے ے بعد میں شراب سے محروم رہ جائوں۔ (کتاب الشعر و الشعراء لا بن قتیبہ)
شعراء کے کلام کے علاوہ لغتِ عرب بھی عرب کے شراب پر شیدائی ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ عربی زبان میں شراب کے نام اس کثرت سے پائے جاتے ہیں کہ انکو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ اور کسی زبان میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ تمدن عرب بھی اس بات کا شاہد ہے کہ عرب شراب نوشی میں نہ صرف کامل تھا بلکہ باقی تمام دنیا سے بڑھا ہوا تھا۔ کیونکہ عرب میں شراب کشید کرنے کا طریق بہت قدیم زمانہ میں دریافت کر لیا گیا تھا۔ چنانچہ انسائیکلو پیڈیا برمٹنیکا میں لکھا ہے:۔
’’معلوم ہوتا ہے کہ قدیم زمانہ کے لوگوں کو شراب کے کشید کرنے کا طریق معموم تھا اور تاریخی کے زمانوں میں عرب لوگ شراب کے کشید کرنے کا کام کیا کرتے تھے۔‘‘
اس تاریخی شہادت معلوم ہوتا ہے کہ عرب قدیم زمانہ میں شراب بنانے اور اس کے استعمال کرنے میں سب سے آگے تھے۔ بلکہ وہ دنیا کے لئے کشید گردہ شراب کی جو خمیر سے تیار کردہ شراب سے زیادہ سخت اور زیادہ عادی بنا دینے والی ہے اکیلی منڈی بنا ہوا تھا یہ ملک تھا جس میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مبعوث ہوئے۔ اور یہ قوم تھی جس سے شراب چھڑانے کا انہوں نے ارادہ کیا۔ اس ارادہ کے پورا کرنے کیلئے انہوں نے کیا تدابیر اختیار کیں۔ اور ان کا کیا نتیجہ نکلا یہ ایک حیرت انگیز تاریخی واقعہ ہے جس پر تمام عقلیں دنگ ہیں اور کل دانا انگشت بدنداں۔ اس شراب کے نشہ میں مخمور رہنے والی قوم اور شراب کو اپنا ایک ہی دل لگی کا ذریعہ سمجھنے والی جماعت میں ایک دن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نکلتے ہیں۔ اور مختصر اور صاف لفظوں میں خداتعالیٰ کا یہ حکم سنا دیتے ہیں کہ شراب کے نقصانات چونکہ اس کے نفع سے زیادہ ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے آئندہ کے لئے اس کو حرام کر دیا ہے پس ہر ایک مسلمان کو چاہیے کہ اس سے پرہیز کرے اور اس کا بنانا۔ بیچنا ۔ پینا اور پلانا ترک کر دے۔ اور اس حکم کو سن کر وہ شراب کے شیدائی اپنا سر نیچا کر لیتے ہیں۔ اور ایک شخص کے منہ سے بھی اس کے خلاف آواز نہیں نکلتی۔ ہر ایک ان میں سے شرح صدر سے اس حکم کو قبول کر لیتا ہے اور اس وقت کے بعد شراب کا گلاس کسی ایک فرد کے منہ کے قریب بھی نہیں جاتا۔ وہ لوگ مہلت نہیں مانگتے قلت و کثرت کا سوال نہیں اٹھاتے۔ کیونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان کو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ جس چیز کی زیادتی حرام ہے اس کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے۔ ان میں لیکچروں کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ شراب کی بُرائیاں ذہن نشین کرنے کی حاجت نہیں ہوتی ۔کیونکہ اسلام نے ان کے ذہنوں کو ایسی جلا دے دی تھی کہ حق بات کی طرف توجہ دلانا ان کے لئے کافی ہوتا تھا۔ اور تعصب اور خودبینی سے انکو اس قدر دور کر دیا تھا کہ اپنی غلطیاں خودبخود ان کی آنکھوں کے سامنے آجاتی تھیں۔ پس کسی لیکچرار کے لیکچر یا میجک لنٹرن کی تصاویر کی ان کی ضرورت نہ تھی۔ ان کے لئے صرف ایک اشارہ کافی تھا۔ ایک لفظ بس تھا۔ اور سب معاملہ آپ ہی آپ انکے لئے واضح ہو گیا۔ ان کا اپنا نفس ان کے لئے لیکچرار تھا اور گوشہ ہائے داماغ میجک لنٹرن کے پردے۔ جن پر وہ عقل کی آنکھوں کے ساتھ خوب اچھی طرح ان بدمستیوں کے نظاروں کو دیکھ سکتے تھے جو شراب نوشی کے نتیجہ میں ظاہر ہوتے ہیں۔ وہ جھوٹی تصویروں کے محتاج نہ تھے سچا نقشہ ان کی رہنمائی کے لئے کافی تھا۔ اسلام کے اس دوحرفہ حکم کا جو اثر شراب نوشی پر ہوا اس کی بہترین مثال ذیل کا واقعہ ہے جو مسلم مسند احمد بن جنبل اور ابن جریر کی روایات سے ماخوذ ہے۔
حضرت انس ؓ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے خدام میں سے تھے اور مدینہ کے رہنے والے تھے۔ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دن ابوطلحہ کے مکان پر مجلس شراب لگی ہوئی تھی اور بہت سے دوست جمع تھے۔ میں شراب پلا رہاتھا۔ دور پر دور چل رہا تھا۔ اور نشہ کی۔۔۔۔۔ وجہ سے ان کے سر جھکنے لگے تھے کہ اتنے میں گلی میں کسی نے آواز دی کہ شراب حرام کی گئی ہے۔ بعض لوگوں نے کہا کہ اُٹھ کر دریافت کرو کہ یہ بات درست بھی ہے یا نہیں۔ مگربعض دوسروں نے کہ کہ نہیں پہلے چراب بہا دو پھر دیکھا جائے گا۔ اور مجھے حکم دیا کہ میں شراب کو برتن توڑ کر شراب بہادوں چنانچہ میں نے ایک سونٹا مار کر وہ گھڑا جس میں شراب تھی توڑ دیا اور اس کے بعد وہ لوگ کبھی شراب کے نزدیک نہیں گئے۔
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کااثر لوگوں کے دلوں پر کیا تھا۔ مجلس شراب میں جبکہ لوگ نشہ میں ہیں۔ ایک شخص کے خبر دینے پر بلا تحقیق شراب کا بہا دینا کوئی معمولی بات نہیں۔ اس کی اہمیت کو وہ اقوام زیادہ سمجھ سکتی ہیں جو شراب کی عادی ہیں۔ کوینکہ جب دور سے دیکھنے والے ان کی اس حالت کو عجیب حیرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو خود ان کے دل ضرور اس حالت کی خصوصیت کو اچھی طرح محسوس کرتے ہونگے۔ اس واقعہ کو دوسرے مذاہب اور دوسرے تمدنوں اور قونین کے اثرات کے ساتھ مل کر دیکھو کہ کیا دونوں میں زمین وآسمان کا فرق نہیں؟ آج جبکہ سائنس اور علومِ طبعیہ شراب کی مضرت کو ثابت کر رہے ہیں اور شراب کے ترک کرنے میں ملکی بہبودی اور مالی فراخی کی بھی امید ہے پھر بھی لوگ شراب چھوڑنے کے لئے تیار نہیں لیکن عرب کا مخمور مسلم ایک راستہ پر چلنے والے کی اکیلی آواز سن کر کہ شراب حرام کی گئی ہے شراب کے مٹکوں کو توڑ کر مدینہ کی گلیوں میں شراب کا دریا بہا دیتا ہے۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ اٰل مُحَمَّدٍوَ بَارِکْ وَسَلِّمْ۔ اِنَّکَ حَمِیْد’‘ مَّجِیْد’‘۔
دوسر ی چیز جس سے اس آیت میں روکا گیا ہے وہ جوا ہے جوا بھی اہل عرب کی گھٹی میں رچا ہوا تھا۔ چنانچہ انہوں نے جب کوئی بڑی دعوت کرنی ہوتی تو اس کے اخراجات کے لئے یہ انتظا م کرتے کہ تمام امراء مل کر جوا کھیلتے اور جو ہار جاتا اس پر اس خرچ کی ذمہ داری ڈال دی جاتی ۔ اسی طرح جنگوں کے موقعہ پر وہ قرعہ اندازی سے کام لیتے اور جس امیر آدمی کا نام نکلتا اس کا فرض قرار دیا جاتا کہ وہ لڑنے والوں کے کھانے پینے کا انتظام کرے۔ اور انکو شراب مہیا کر کے دے۔ گویا یہ جنگی اخراجات پورا کرنے کا ایک ذریعہ تھا۔ مگر اللہتعالیٰ نے اس سے بھی مسلمانوں کو منع فرمادیا کیونکہ جس طرح شراب جسم اور اخلاق اور روحانیت کو تباہ کرنے والی چیز ہے اسی طرح جوا بھی اخلاق اور تمدن کو تباہ کرنے والی چیز ہے جُوئے کا عادی انسان اگر جتیتا ہے تو اور ہزاروں گھروں کی بربادی کا موجب ہو کر پھر جوئے باز میں زمین اور روپیہ لٹانے کی عادت پیدا ہو جاتی ہے۔ شاید ہی کوئی جوئے باز ایسا ہو گا جو روپیہ کو سنبھال کر رکھتا ہو۔ بالعموم جوئے باز بے پرواہی سے اپنے مال کو لٹاتے ہیں اور ایک طرف تو اور لوگوں کو برباد کرتے ہیں اور دوسری طرف اپنے مال سے فائدہ نہیں اٹھاتے کیونہ روپیہ کمانے میں انیہں کوئی محنت نہیں کرنی پڑتی۔ پھر جوا عقل اور فکر کو بھی کمزور کر دیتا ہے۔ اور جوئے باز عادتاً ایسی چیزوں کے تباہ کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے جنہیں کوئی دوسرا عقلمند تباہ کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتا۔
یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ۔ جب شراب سے جو سپاہیوں میں تہور پیدا کرنے کا ایک بڑا ذریعہ تھا اور جوئے سے جو لوٹ مار ا طریق تھا اور جس سے وہ لوگ جنگی اخراجات پورا کیا کرتے تھے۔ روک دیا گیا توب جائے اس کے کہ ان کے دلوں میں کوئی انقباض پیدا ہوتا انہوں نے قربانیوں کی راہ میں ایک اور قدم آگے بڑھایا۔ اور جائز ذرائع سے کمائے ہوئے اموال کے متعلق بھی یہ پوچھنا شروع کر دیا کہ انہیں خداتعالیٰ کی راہ میں کس نسبت سے خرچ کرنا چاہیے چونکہ پہلے بھی ایک ایسا ہی سوال گزر چکا ہے اس لئے یاد رکھنا چاہیے کہ وہاں اقسام صدقہ کے متعلق سوال تھا اور یہاں کمیت کے متعلق سوال ہے یعنی جب جُوا بھی منع کر دیا گیا تو ان کے دلوں میں سوال پیدا ہوا کہ اب لازماً ہمیں زیادہ قربانی کی ضرورت ہو ئی۔ سو ہم کیا خرچ کریں۔ کیا سب کچھ یا کسی اور نسبت سے ؟گویا جس حد تک ہمیں اپنے اموال خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے چاہیں اس پر روشنی ڈالی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں صرف ایک لفظ عفو استعمال فرمایا ہے جس کے ایک معنے اس مال کے ہیں جو ضروری اخراجات سے بچ جائے ۔ اور جس کے دینے سے انسان کو کسی قسم کی تکلیف محسوس نہ ہو۔ دوسرے معنے عَفْو’‘ کے خِیَارُ الشَّیْ ئِ وَاَطْیَبُہ‘ کے ہیں۔ یعنی سب سے اچھی اور پاکیزہ شے اور تیسرے معنے عَفْو’‘ کے بغیر مانگے دینے کے ہیں۔ مفسرین نے اس آیت کے کئی معنے لکھے ہیں ایک تو یہ کہ اس جگہ جہاد میں اموال خرچ کرنے کا حکم ہے۔ صدقات مراد نہیں گویا ان کے نزدیک زیر تفسیر آیت کے یہ معنے ہیں کہ جب جہاد درپیش ہو تو اپنی ضروریات سے زائد مال تمام کا تمام جہاد کے لئے دے دو۔ دوسرے معنے اس کے یہ کئے جاتے ہیں کہ یہاں جہاد کا نہیں بلکہ صدقات کا ذکر ہے۔ اور پھر عَفو’‘ کے لحاظ سے اس کے کئی معنے کرتے ہیں (۱) بعض کہتے ہیں کہ عفو کے معنے ضروت سے زائد مال کے ہیں۔ چنانچہ ابتدائے اسلام میں سال بھر کے نفقہ سے جو کچھ بچ رہتا اس کے فی سبیل اللہ خرچ کرنے کا مسلمانوں کو حکم تھا۔ مگر آیت زکوٰۃ کے نازل ہونے پر یہ حکم موقوف ہو گیا۔ گویا ان کے نزدیک یہ آیت اب منسوخ ہو چکی ہے (۲) دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ یہ زکوٰۃ کے متعلق حکم ہے اور مجملاً بیان ہوا ہے اس کی تفصیل دوسری جگہوں سے معلوم ہوتی ہے (۳) ایک اور جماعت عفو کے معنے اس مال کے کرتی ہے جس کا خرچ کرنا بوجھ معلوم نہ ہو۔ (۴) بعض نے کہا ہے کہ س کے معنے درمیانی خرچ کے ہیں یعنی نہ بالکل کم خرچ کرو اور نہ حد سے زیادہ (۵) پھر بعض نے کہا ہے کہ عفو کے معنے بہتر اور پاک مال کے ہیں۔ اور اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اچھے اور پاک مال میں سے خرچ کرو۔ یہ نہیں کہ پُرانی اشیاء کہ اچھے اور پاک مال میں سے خرچ کرو۔ یہ نہیں کہ پُرانی اشیاء یا دوسروں کے اموال اٹھا کر دے دو۔ (۶) بعض نے کہا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ صدقہ و خیرات خوب دل کھول کر کرو۔
جس جماعت نے اس آیت کے یہ معنے کئے ہیں کہ جو ضرورت سے زائد بچے اسے خرچ کرو اس نے بھی اسے یا تو جہاد پرچسپاں کیا ہے یا منسوخ قرار دیا ہے۔ اور وہ اس بات پر مجبور بھی تھے کیونکہ وہ صحابہ رضوان اللہ علیہہم کے عمل اور اُمتِ اسلامیہ کے طریق کو اس کے خلاف دیکھتے تھے۔ا حادیث بھی اس بات کی تائید کرتی ہے کہ اپنے اخراجات نکال کر باقی سارا مال تقسیم کر دینا اسلامی حکم نہیں۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں۔ یَجِیُْٗی اَحَدُکُمْ بِمَالِیٖ کُلِّہٖ یَتَصَدَّقُ بِہٖ وَیَجْلِسُ یَتَکَفَّفُ النَّاسَ اِنَّمَا الصَّدَ قَۃُ عَنْ ظَھْرِ غِنًی (کشاف) یعنی تم میں سے بعض لوگ اپنا سارا مال صدقہ کے لئے لے آتے ہیں اور پھر لوگوں کے آگے سوال کیلئے ہاتھ پھیلا دیتے ہیں۔ صدقہ صرف زائد مال سے ہوتا ہے۔ سی طرح فرماتے ہیں لَاَنْتَذَرَ وَرَشَتُکَ اَغْنِیَائَ خَیْر’‘ مِنْ اَنْ تَذَرَھُمْ عَالَۃً یَتَکَفَّفُوْنَ النَّاسَ(ترمذی) یعنی اگر تو اپنے ورثاء کو دولتمند چھوڑ جائے تو یہ زیادہ اچھا ہے بہ نسبت اس کے کہ تو ان کو غریب چھوڑ جائے۔ ار وہ لوگووں کے آگے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ حضر سعد بن ابی وقاص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے دو ثلث مال کے تقسیم کر دینے کی اجازت چاہی مگر آپ نے انہیں منع فرمایا پھر انہوں نے آدھا مال تقسیم کرنا چاہا۔ تو اس سے بھی منع فرمایا ۔ پھر انہوں نے تیسرے حصہ کے تقسیم کر دینے کی اجازت چاہی تو اس حصہ کی آپؐ نے اجازت دے دی مگر ساتھ ہی فرمایا ۔ اَلثُّلُثُ وَالثُّلُثُ کَثِیْر’‘ یعنی تیسرے حصہ کی وصیت کر دو گو ثلث بھی کثیر ہے غرض یہ خیال کہ اسلام کا یہ حکم ہے کہ جو مال ضرورت سے زائد بچے اُسے تقسیم کر دینا چاہیے۔ بالکل خلاف اسلام اور خلاف عمل ِ صحابہؓ ہے جن میں سے بعض کی وفات پر لاکھوں۔۔۔۔روپیہ ان کے ورثاء میں تقسیم کیا گیا ۔ پھر اگر اسلام کا یہی حکم تھا تو زکوٰۃ کا حکم دینے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ جب سب مال جو ضرورت سے زائد ہو تقسیم کرن دینے کا حکم ہے تو زکوٰۃ مقرر کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اور پھر ضرورت سے بچے ہوئے کی اصطلاح خود مبہم ہے۔ بعض لوگ جو کچھ ان کو مل جائے گو لاکھوں روپیہ ہی کیوں نہ ہو خرچ کر دیتے ہیں اور ضرورت سے زائد ان کے خیال میں کوئی مال ہوتا ہی نہیں۔ پھر بعض لوگ اپنا سب مال تجارت وگیرہ میں لگائے رکھتے ہیں۔ ان کے پاس بھی ضرورت سے زیادہ نہیں بچ سکتا۔ عقلاً بھی یہ خیال بالکل باطل ہے کیونکہ جب تک ایک جماعت ایسے لوگوں کی نہ ہو جو مالدار ہوں عام ملکی ترقی نہیں ہو سکتی اور غرباء کو بھی نقصان پہنچتا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض روحانی لوگ اپنے اموال کو حتی الوسع غرباء کی خدمت میں خرچ کرتے ہیں اور اسے اسلام نے منع نہیں کیا۔ بلکہ پسند کیا ہے مگر یہ بات غلط ہے کہ اسلام نے اس امر کا حکم دیا ہے کہ دنیا میں مالی مساوات قائم کی جائے۔ اور ضرورت سے زیادہ مال لوگ لازماً خرچ کر دیا کریں۔ اگر یہ اصل تسلیم کیا جائے تو یہ اصل بھی مقرر کرنا پڑے گا کہ ضرور سے مراد عام حالتِ ملکی کے مطابق اخراجات ہونگے ورنہ اگر اس بات کی اجازت دے دی جائے کہ ہر شخص اپنی ضرورت کا خود فیصلہ کرے تو پھر بھی مساوات نہیں رہے گی۔ کوئی شخص اعلیٰ سے اعلیٰ کھانوں اور عمدہ سے عمدہ کپڑوں اور وسیع اور کھلے اور آراستہ و پیراستہ مکانوں اور خوشنما چمنوں اور میوہ دار باغوں کے لئے روپیہ رکھ کر باقی اگر پچیگا تو غربا ء میں بانٹ دے گا۔ اور غریب بیچارے معمولی لباس پہننے اور جھونپڑیوں میں رہنے پر مجبور ہونگے۔ اصل بات یہ ہے کہ اسلام کے احکام کے مطابق ہر مسلمان حکومت کا یہ فرض ہے کہ اس کے ملک کے باشندے فاقہ سے نہ رہیں اور ان کے قابلِ ستر مقامات کے لئے کپڑا مہیا کیا جائے گویا انسانی زندگی کی پوری طرح حفاظت کر ے۔ اس کے لئے وہ امراء سے شریعت کے حکم کے مطابق مال لے کر غرباء پر خرچ کرتی ہے اس سے زیادہ جو کچھ خرچ کیا جائے وہ امراء کی اپنی مرضی پر منحصر ہے ہاں اگر زکوٰۃ دینے کے بعد بھی کوئی شخص فاقہ سے مرتا ہوا کسی کو نظر آئے تو اس کا فرض ہے کہ اس کی جان بچانیکی پوری کوشش کرے۔ اس دعویٰ کا ثبوت اس حدیث سے ملتا ہے کہ ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے دریافت کیا کہ اسلام کیا ہے ۔آپؐ نے اسے اسلام کے اصولی احکام بتائے۔ اور ان میں زکوٰۃ کا مسئلہ بھی بیان فرمایا۔ یہ سب کچھ سن کر اس شخص نے کہا کہ میں اس سے نہ زیادہ کرونگا نہ کم اس پر آپ نے فرمایا کہ اگر اس نے اس قول کو پورا کر دیا تو یہ کامیاب ہو گیا۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ غرباء کی مدد کے لئے زکوٰۃ سے زیادہ دینا کسی پر فرض نہیں۔ ہاں اگر کوئی زیادہ دے تو یہ اس کی نیکی ہے۔
دراصل اس آیت میں تین قسم کے لوگوں کے لئے تین مختلف احکام دیئے گے ہیں۔ اور یہ تینوں احکام عفو کے لفظ کے اندر شام ہیں۔ پہلا حکم جو ادنیٰ درجہ کا ایمان رکھنے والوں کے لئے ہے وہ تو یہ ہے کہ تم اس قدر خرچ کرو کہ بعد میں تمہارے دین اور ایمان کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ ہم نے دیکھاہے بعض لوگ جوش میں آکر بہت سا روپیہ دینی ضروریات کے لئے صرف کر دیتے ہیں لیکن بعد میں جب انہیں مالی مشکلات محسوس ہوتی ہیں تو اعتراض کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے یہ ہدایت دی ہے کہ جس نے کل اپنے ایمان سے ہاتھ دھونا ہے اسے چاہیے کہ وہ آج ہی اپنا ہاتھ نہ پھیلائے کہ بعد میں یہ انفاق اس کے لئے ٹھوکر کا موجب بن جائے۔
دوسرا حکم ان سے اعلیٰ درجہ کے لوگوں کو یہ دیا کہ تمہارا جو اچھے سے اچھا مال ہے اسے تم خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو۔ اور (۳) جو لوگ اس سے بھی اوپر درجہ کے ہیں انہیں یہ حکم دیا کہ وہ بغیر کسی کے سوال کے خود ہی اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے اموال دے دیا کریں۔ گویا ان سے کسی کو مانگنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آنی چاہیے بلکہ انہیں خودبخود مذہبی او قومی ضروریات کا خیال رکھنا چاہیے۔ اور ہمیشہ اس کے لئے اپنے اموال خرچ کرتے رہنا چاہیے۔
کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَتَفَکَّرُوْنَ فِی الدُّنْیَا و َالْاٰخِرَۃِ۔ کَذٰلِکَ میں ک واحد کی علامت آیا ہے حالانکہ لَکُمْ بتاتا ہے کہ مخاطب بہت سے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی جگہ قرآن کریم میں واحد کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے اور مراد جمع ہوتی ہے۔ ابوحیان کہتے ہیں وَھِیَ لُغَۃُ الْعَرَبِ یُخَاطِبُوْنَ الْجِمْعَ بِخِطَابِ الْوَاحِدِ
فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِط


عَزِیْز’‘ حَکِیْم’‘O
(بحرمحیط جلد ۲ صفحہ۱۵۹) یعنی یہ اہل عرب کا محاورہ ہے کہ وہ بعض دفعہ جمع کے لئے واحد کا صیغہ استعمال کرتے ہیں۔ جیسے کہتے ہیں قَدْکَثُرَ الدِّرْھَمُ وَالدِّیْنَارُ۔ اسی طرح کہتے ہیں قَدْ کَثُرَ الدِّیْناَرُ۔ اسی طرح کہتے ہیں فَقُلْنَا اَسْلِمُوْا اِنَّا اَخُوْکُمْ ہم نے کہا تم مسلمان ہوجائو ہم تمہارے بھائی ہیں۔ یعنی اِخْوَکُمْ ہم نے کہا تم مسلمان ہو جائے ہم تمہارے بھائی ہیں۔ یعنی اِخْوَانُکُمْ کہنے کی بجائے اَخُوْکُمْ کہہ دیا گیا۔ اسی طرح کہتے ہیں کُلُوْافِیْ نِصْفِ بَطْنِکُمْ تَعِیْشُوْا تم نصف بھوک رکھ کر کھائو۔ تم زندہ رہو گے۔ (الصاجی لاحمدبن فارس صفحہ۱۸۰)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ شرعی احکام کا چونکہ ایک اثر دنیوی زندگی پر پڑتا ہے اور ایک اخروی زندگی پر ۔ اس لئے ہم اپنے احکام کو واضح طور پر بیان کرتے ہیں تاکہ تم ان پر غور کر سکو۔ اور تم جو بھی قدم اٹھا اعلیٰ درجہ البصیرت اٹھائو۔ اندھا دُھند کسی بات کو نہ مانو۔
لَعَلَّکُمْ تَتَفَکَّرُوْنَ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃٖ کا اشارہ اِثْمُھُمَا اَکْبَرُ مِنْ نَفْعِھِمَا کی طرف بھی ہو سکتا ہے کہ بے شک شراب اور جُوئے میں بعض قسم کے فوائد بھی ہیںمگر ان میں ضرر زیادہ ہیں۔ دنیوی نقطہ نگاہ سے بھی اور دینی نقطہ نگاہ سے بھی۔ اسی طرح دوسرے احکام بھی تمہارے فائدہ کے لئے دیئے گئے ہیں۔ پس تمہارا کام ہے کہ تم غوروفکر سیکام لے کر وہ راہ اختیار کرو جودینی اور دنیوی دونوں رنگ میں تمہیں کامیابی کی منزل کی طرف لے جانے والی ہو۔
۱۳۳؎ حل لغات:۔ اَعْنَتَ کے معنے ہیں وہ کام سپرد کرنا جس کی طاقت اور برداشت نہ ہو کہتے ہیں اَعْنَتَ الرَّاکِبُ الدَّآبَّۃَ اَیْ حَمَلَھَا مَالَا تَحْتَمِلُہ‘ (اقرب) سوار نے سواری وغیرہ کو ایسے کام پر لگایا جس کی اسے طاقت نہ تھی۔
تفسیر:۔ فرماتا ہے لوگ تجھ سے یتامیٰ کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ تو ان سے کہہ دے کہ ان کی اصلاح اور ترقی کو مدنظر رکھنا بڑا اچھا کام ہے اوراگر تم ان سے مل جل کررہو تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ آخر وہ تمہارے بھائی ہیں اور بھائیوں کے ساتھ مل کر رہنا بڑی اچھی بات ہے۔ اور اللہ تعالیٰ فساد کرنے والے کو اصلاح کرنے والے کے مقابلہ میں خوب جانتا ہے۔
یتامیٰ کے متعلق آج دنیا میں بڑاظلم ہو رہا ہے۔ یا تو ان پر حد سے زیادہ سختی کی جاتی ہے اور یا پھر حد سے زیادہ پیار کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ بگڑ جاتے ہین حالانکہ نہ ان پر زیادہ سکتی کرنی چاہیے اور نہ اتنا پیار کرنا چاہیے کہ خواہ وہ کچھ کریں یہ کہدیا جائے کہ اسے کچھ نہیں کہنا۔ اس کا باپ مرا ہوا ہے۔ عام طور پر لوگ ان کو لاوارث پا کر یا تو حد سے زیادہ سختی کرتے ہیں یا پھر حد سے زیادہ نرمی لوگ جھوٹے رحم سے کام لے کر انہیں کچھ نہیں کہتے اور اس طرح وہ بچے جو یتیم رہ جاتے ہیں بگڑ جاتے اور ان کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ تم ہر بات میں ان کی اصلاح کو مدنظر رکھو۔ اور درمیانی راہ اختیار کرو۔ قرآن کریم میں ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ یتامیٰ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو ان کی طرف توجہ نہیں کرتے انہیں یہ تو سوچنا چاہیے کہ کیا یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ خود مرجائیں اور اپنے بچوں کو یتیم چھوڑ جائیں(سورۃ نساء آیت۱۰) اس رنگ میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ یتامیٰ کی پرورش اور ان کی نگہداشت ایک اہم ترین جرض ہے لوگ اگر مرنے سے ڈرتے ہیں تو محض اس وجہ سے کہ وہ دیکھتے ہیں فلاں شخص مر گیا اور اس کے بچے دربدر بھیک مانگتے پھر رہے ہیں یا ان بچوں کو کسی نے ملازم رکھ لیا ہے تو وہ بات بات پر ان کو بوٹ سے ٹھوکریں مارتا اور ان کے مونہہ پر تھپڑ رسید کرتا ہے وہ روتے ہیں چیختے ہیں چلاتے ہیں مگر ان کی آہ وزاری اس کیدل پر کوئی اثر نہیں کرتی۔ یہ حالات دیکھ کر وہ بھی موت سے گھبراتا ہہے اورسمجھتا ہے کہ اگر مین مر گیا تو میرے بچوں کے ساتھ بھی لوگ ایسا ہی سلوک کرینگے۔ لیکن اگر قومی کیریکٹر ایسا اعلیٰ درجہ کا بن جائے کہ جب کوئی شخص مرے تو اس کے بچوں کے متعلق ساری قوم میں ایک زبردست جذبہ اخوت پیدا ہو جائے اور ہر شخص کہے کہ ان بچوں کو میرے سپرد کیا جائے میں اپنے بچوں کی طرح ان کی پرورش کروں گا تو موت کا ڈر ہر شخص کے دل سے نکل جائے اور وہ سمجھنے لگ جائے کہ اگر میں مر گیا تب بھی میری قوم کے افراد ایسے اچھے ہیں کہ وہ میرے بچوں کی میری طرح ہی خبر گیری کریں گیااور انہیں تھپڑوں اور بوٹ کی ٹھوکروں کا نشانہ نہیں بنائیں گے۔ پس یتامیٰ کی خبر گیری اور بیوائوں سے حسنِ سلوک یہ دو ایسی چیزیں ہیں جو قوم میں موجود نہ ہو بلکہ اس کے برعکس اس کے افراد کا نمونہ یہ ہو کہ وہ یتامیٰ تو رکھتے ہوں مگر ملازم بنا کر بلکہ ملازموں سے بھی بدترحالت میں اور وہ ذرا ذرا سی بات پر ان کو تھپڑ مارنے کے لئے تیار ہو جاتے ہوں تو کون شخص ہے جس کا مرنے کو دل چاہے گا۔ ہر شخص ڈرے گا ہرشخص موت سے گھبرائیگا اور سمجھ یگا کہ میری موت میرے بچوں کی موت ہے۔ میر ی موت میری بیوی کی موت ہے میں مروں تو کس طرح اور جان دوں تو کیوں پس ضروری ہے کہ ساری قوم کا یہ کیریکٹر بن جائے کہ جب کوئی شخص فوت ہو تو یہ سوال نہ ہو کہ کون اس کے بچوں کی پرورش کریگا۔ بلکہ لوگ خود دوڑتے ہوئے جائیں اور ان بچوں کو اپنے سینہ سے لگاتے ہوئے اپنے گھروں میں لے آئیں اورا پنے بچوں کی طرح بلکہ اپنے بچوں سے بھی بڑھ کر ان سے محبت اور پیار اور نرمی اور شفقت کا سلوک کریں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانے کا واقعہ ہے ایک بچہ یتیم رہ گیا۔ تو بعض صحابہؓ میں آپس میں لڑائی شروع ہو گئی ایک کہتا میں اس کی پرورش کرونگا۔ دوسراکہتا ہے اس کی پرورش کرونگا۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس یہ معاملہ پہنچا تو آپ نے فرمایا کہ بچہ سامنے کرو۔ او ر وہ جس کو پسند کرے اس کے سپر د کر دو۔ مگر آج یہ حالت ہے کہ اگر کوئی شخص مرنے لگتا ہے تو اسے اپنی زندگی کی آخری گھڑیوں میں سب سے بڑا فکر اور اضطراب یہی ہوتا ہے کہ میرے بعد میرے بیوی بچوں کا کیا بنے گا۔ کون ان کی پرورش کرے گا۔ کون ان کی نگہداشت کریگا کون ان کی طر ف محبت اور پیا ر کی نگاہ سے دیکھے گا۔ اور جب وہ شخص مر جاتا ہے اور اس کے بچوں کی پرورش کا سوال سامنے آتا ہے تو ایک شخص کہتا ہے کہ مرا دل چاہتا ہے کہ بچہ لے لوں مگر کیا کروں مجھ پر بوجھ بڑا ہے ۔ دوسراکہتا ہے منشاء تو میرا بھی یہی تھا مگر مشکلات بہت ہیں۔ تیسرا کہتا ہے میں بھی یہ ثواب حاصل کرنا چاہتا ہوں مگر بہت مجبوری ہے۔ اس طرح ایک ایک کر کے ہر شخص اس بوجھ سے بھاگنے کی کوشش کرتا ہے لیکن صحابہؓ میں یہ بات نہیں تھی وہ بھاگتے نہیں تھے بلکہ خوشی سے اس ثواب کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے جب کسی قوم میں یہ جذبہ پیدا ہو جائے کہ وہ یتامیٰ و مساکین کی خبر گیری کرنے لگ جائے ان کا احترام افراد قوم کے دلوں میں پیدا ہو جائے۔ ان کی پرورش میں انہیں سکون اور راحت حاصل ہو اور وہ یتیموں کو ایسا ہی سمجھیں جیسے ان کے اپنے بچے ہیں تواس وقت ایمان کے بغیر بھی وہ قوم بہادر بن جاتی ہے۔ اور جب اس کے ساتھ کسی کو حیات بعد الموت پر ایمان بھی ہو اور زندہ خدا پر توکل ہو تو پھر تو یہ دو چیزیں مل کر اس کے دل کو ایسا مضبوط بنا دیتی ہیں کہ موت کا ڈر اس کے قریب بھی نہیں آتا۔ یوروپین قوموں میں اگر ہمیں دلیری نظر آتی ہے تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نوجوانوں کے اندر یہ احساس پایا جاتا ہے کہ اگرہم مر گئے تو ہماری قوم یتامیٰ و بیوگان کی خبر گیری کریگی۔ یہی وجہ ہے کہ مرنے والا موت کی ذرا بھی پروا نہیں کرتا وہ جاتا ہے اور اپنھی جان کو قربان کر دیتا ہے۔ ایمان اور چیز ہے وہ زیادہ تر انہی لوگوں کو حاصل ہوتا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ کے نبی پر تازہ بتازہ ایمان لانا نصیب ہو۔ مگر قومی کیریکٹر کی اس نگ میں مضبوطی ایمان کے بغیر بھی افرادِ قوم کو بہادر اور نڈر بنا دیا کرتی ہے۔
وَاِنْ تُخَا لِطُو ھُمْ فَاِخْوَانُکُمْ۔ فرمایا اگر تم انہیں اپنے ساتھ ملا لو یعنی کھانے پینے تجار اور دوسرے کام کاج میں ان کو اپنے ساتھ ملا لو تو وہ تمہارے بھائی ہی ہیں۔ تم ایسا کر سکتے ہو۔ مگر بھائی کہہ کر ذمہ داریاں بھی بتا دیں کہ ان کے ساتھ وہ معاملہ ہونا چاہیے جو ایک بڑا بھائی اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ کرتا ہے۔ بڑا بھائی جس کے سپرد چھوٹے بھائیوں کی نگرانی ہوتی ہے وہ اسی طرح کرتا ہے کہ ان کے مال کی حفاظت کرتا ہے۔ انہیں کھلاتا پلاتا ہے اور بڑے ہونے پر ان کا مال کی حفاظت کرتا ہے انہیں کھلاتا پلاتا ہے اور بڑے ہونے پر ان کا مال ان کو دے دیتا ہے اسی طرح یتامیٰ کو بھائی کہہ کر توجہ دلائی کہ چھوٹے بھائیوں سے لینے کی امید نجہ رکھو بلکہ انہیں اپنے پاس سے بھی کچھ دینا چاہیے۔ اور ان کے ساتھ وہی معاملہ ہونا چاہیے جو بھائیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔
وَاللّٰہُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَمِنَ الْمُصْلِحِ میں اس طرف اشارہ فرمایا کہ اگر تم مصلح بن کر فساد کی بنیاد ڈالو گے اور یتامیٰ کے ساتھ ناردا سلوک کر کے انہیں دکھ پہنچائو گے یا ناواجب پیار کر کے انہیں خراب کرو گے تو دونوں صورتوں میں خداتعالیٰ کے سامنے تم جواب دہ ہو گئے۔
وَلَوْشَآئَ اللّٰہُ لَاَعْنَتَکُمْ اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ایسا حکم دے دیتا جس کے نتیجہ میں تمہیں تکلیف ہوتی یعنی وہ کہدیتا کہ یتامیٰ کا مال بھی الگ رکھو اور ان کا خرچ بھی برداشت کرو۔ لیکن اس نے رحم سے کام لیا اور تمہاری سہولت کو اس نے مدنظر رکھا اس سہولت کا یہ نتیجہ نہیں نکلنا چاہیے کہ تم یتامیٰ کی تربیت کا خیال نہ رکھویا ان کے اموال کو غصب کرنے کی کوشش کرو۔
اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْز’‘ حَکِیْم’‘۔ اس میں عزیز اور حکیم کی صفات کا ذکر کر کے پھر دو امور کی طرف توجہ دلائی ایک طرف تو اس امر کی طرف کہ یتیم میں طاقت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے حقوق دوسروں سے لے سکے۔ اس کے متعلق فرمایا کہ اگر وہ عَزِیْز نہیں تو خداتعالیٰ تو عزیز اور غالب ہے جس طرح تم یتیم پر غالب ہو تمہارے اوپر بھی کوئی غالب ہستی ہے۔ اگر تم اس کے حقوق کو تلف کرو گے یا ناجائز سختی اوردبائو سے کام لو گے یا اس کا مال کھائو گے تو خداتعالیٰ تمہیں پکڑے گا پھر فرمایا تھا کہ یتیم سے نرمی کرو اور اس کا مال اپنے مال کے ساتھ ملا لو۔ اس کے متعلق فرمایا کہ اللہ تعالیٰ حکیم ہے تمہیں بھی حکمت سے کام لینا چاہیے اور جس بات میں فائدہ ہو وہی اختیار کرنی چاہیے۔
وَلَا تَنْکِحُواالْمُشْرِکٰتِ




یَتَذَکَّرُوْنَO
ترتیب وربط:۔ اوپر کی آیات کے ساتھ ان آیات کا رب یہ ہے کہ جنگ کے احکام کے سلسلہ میں قدرتی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ اس کے نتیجہ میں بہت لوگ شہید ہو جائیں گے اور ان کے بچے یتیم ہو جائیں گے ایسی صورت میں ان سے کیا سلوک کیا جائے؟ اللہ تعالیٰ نے زیر تفسیر آیات میں اس سوال کا جواب دے دیا۔ اور اس طرح تمام مضمون ایک لڑی میں پرو دیا ۔ درحقیقت قرآنی مضامین کی ترتیب عام کتب کی ترتیب کے مطابق نہیں بلکہ طبعی ترتیب ہے وہ اپنے مضامین میں جو ترتیب رکھتا ہے وہ اس ترتیب سے علیٰحدہ ہے جو انسان اپنی کتابوں میں رکھتے ہیں۔ قرآن کریم اس چیز کو جو سب سے پہلے بیان ہونی ضروری ہو بیان کرتا ہے اور پھر اس کے متعلق انسانی قلب میں پیدا ہونیوالے تمام وساوس اور شبہات کا ازالہ کرتا ہے ۔ مثلاً جنگ ہے اس کے متعلق جو سوال پیدا ہونگے ان کو بیان کریگا پھر ان سے جو سوال پیدا ہوگا وہ بیان کرتا چلا جائیگا اور چونکہ ایسے سوالات طبعی ہوتے ہیں اس لئے ان کے جوابات کا قلوب پر خاص اثر پڑتا ہے اسی طبعی ترتیب سے اس جگہ بھی کام لیا گیا ہے ۔ چنانچہ جنگ کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے شراب اور جوئے کا ذکر کر دیا جو جنگ سے براہ راست تعلق رکھنے والی چیزیں تھیں اور جب جوئے سے اخراجات جنگ پورے کرنیکے طریق سے روک دیا تو طبعی طور پر یہ سوال پیدا ہوا کہ پھر یہ اخراجات کس طرح پورے ہونگے اس کے لئے بتایا کہ ضرویات زندگی پوری کرینگے بعد جو رقم بچ رہے۔ وہ خرچ کرنی چاہیے پھر ایک ہی لفظ عفو استعمال کر کے اس میں مختلف مدارج کا ذکر کر کے بتایا کہ ادنیٰ درجہ کونسا ہے اور اعلیٰ درجہ کونسا۔ اس کے بعد یتامیٰ کے حقوق کے لے لیا۔ کیونکہ جنگ کے بعد لازماً اس سوال نے اہمیت اختیار کرلینی تھی۔ غرض قرآن کریم کا یہ کمال ہے کہ اس نے اپنے مضامین میں ایک ایسی اعلیٰ درجہ کی ترتیب رکھی ہے جو فطرت انسانی کے عین مطابق ہے ادھر ایک سوال فطرت انسانی میں پیدا ہوتا ہے اور ادھر قرآن کریم میں اس کا جواب موجود ہوتا ہے۔
۱۳۴؎ حل لغات:۔ لَاتنْکِحُوا: فَکحَ یَنْکِحُ سے جمع مخاطب نہی کا صیغہ ہے اور نَکَحَ الْمَرْاٰۃُ کے معنے ہیں تَزَوَّجَھَا اس نے عورت سے شادی کر لی(اقرب)
تفسیر:فرماتا ہے۔مشرک عو ر تو ںسے اُس وقت تک نکاح نہ کرو جب تک کے وہ مسلمان نہ ھوجائیں۔ یعنی اگر جنگ میں مشرک عورتیں آئیںتو تم اُن سے نکاح نہ کرو۔ ہاں اگر وہ ایمان لے آیئںتو پھر بے شک اُن سے نکاح کر سکتے ہو۔ یہ حکم بھی جنگ کے احکام کے سلسلہ میں ہی دیا گیا ہے کیونکہ ایام جنگ میں مسلمان اپنے گھروںسے بہت دور ہوتے ہیں۔ اور ہو سکتا ھے کہ اُن میں سے کسی کو مشرکہ عورت سے شادی کرنے کا خیال آجائے۔
وَلَاَمَتۃُ مُّوَْمِنَتۃٌ خَیْرُمِّنْ مُّشْرِکَتہٍ میں مومن لونڈی کو حُّرہ مشرکہ سے اچھا ٹھرایا ہے۔ کیونکہ مومند کاتوصرف جسم ہی غلامی میں ہوتا ہے مگرحُّرہ مشرکہ کی رُوح شیطان کی غلامی میں ہوتی ہے۔ اور جسم کی غلامی رُوح کے مُقابلہ میں کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتی۔ اِسی طرح حکم دیاکہ مومن عورتیں مشرکوں کے نکاح میں نہ دویہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں۔
پھر فرماتا ہے کہ ہم نے یہ حکم اس لئے دیا ہے کہ وہ لوگ آگ کی طرف بلاتے ہیں۔یعنی جب مشرکہ عورت مسلمان کے گھر میں آئیگی۔ یا مسلمان عورت مشرک سے بیاہی جائیگی تو چونکہ میاں بیوی کے تعلقات کاایک دوسرے پرگہرا اثر ہوتا ہے۔ اس لئے اُن کے یہ تعلقات انہیںدین سے منحرف کرنے والے ثابت ہونگے۔ پس مشرک عورتوں یا مردوں سے تعلقات پیدا نہ کرو۔ ورنہ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ تمہیںخدائے واحد سے منحرف کرنے کی کوشیش کریں گے۔ اور اس طرح تمہیںجہنّم کی طرف لے جائیں گے۔ حالانکہ اللّٰہ تعالٰے تمہیںجنّت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے۔جنّت وہ جگہ ہے جہاںدلوںمیں سے ہرقسم کا کینہ نکل جائیگا۔مگرمشرک مرد اورمومن عورت یا مشرک عورت اورمومن مرد کبھی ایک نکتہ پر متحد نہیںہو سکتے۔کیونکہ توحیداور شرک دونوں میں بُعدالمشرقین ہے۔ اور جب ان میں مذہبی عقائد اور تمدّن اور تہذیب کے لحاظ سے اتحاد ہی نہیں شہو گا۔ تو اُن کی اہلی زندگی خوشگوار کس طرح ہو سکتی ہے۔
یہ امریاد رکھنا چاہیئے کہ شرعی اصطلاح میں مشرک سے مرادصرف وہ لوگ ہیں جن کی کوئی شریعت نہ ہو۔ اہِل کتاب اس حکم میں شامل نہیں ہیں۔
بِاذِْنِہٖ کا لفظ جو اسجگہ بڑھایا گیا ہے ہمیشہ ایسی صورت میں استعمال ہوتا ہے جب اللہ تعالی کسی چیز کے اپنی طرف سے سامان پیدا کرے۔ خواہ وہ سامان تقدیر عام کے ماتحت ہوں یا تقدیر خاص کے ماتحت۔مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ قانون قدرت کو توڑ کر خدا تعالٰی کوئی کام کرتا ہے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے خاص حکم سے اس کام کو سرانجام دینے کے سامان مہیا فرماتا ہے۔ قرآن کریم میں جہاں جہاں یہ لفظ استعمال ہوا ہے انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
آخر میں یُبَیِّنُ اٰیٰتِہِ لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَذَ کَّرٌوْنَ فرما کر اس طرف توجہ دلائی کہ ہم نے قانونِِ نکاح تمہارے سا منے بیا ن کر دیا ہے۔اب تنہا روکام یہ ہے کہ تم اِس قانو ن کو مدّنظررکھو اور جنگ میں بھی جبکہ دشمن کی عدا و ت انسا ن کو نا بینا کر دیتی ہے اللہ تعالیٰ کی ہد ا یت کے ما تحت چلنے کی کو شش کرو۔
وَیَسْئَلُوْنَکَ


الْمُتَطَھِّرِیْنَo

۱۳۵؎ حل نعا ت:۔اَلْمَحِِِِیْضُ:اَلْحَیْضُ وَدَقْتُ ا لْحَیْضِ وَمَوْ ضَعُہ‘۔الحیض کے معنے(۱) حیض(۲) ایا م حیض اور (۳)حیض کی جگہ کے ہیں۔(مغردا ت)اَذًی:اَ لْاَزٰی مَا یٰصِلُا لَیٰ لْحَیَوا نِ امِنَالصر رِاَزٰی کے معنے ہر ایسے ضر ر کے ہیں جو کسی ذی روح کو پہنچے۔وَ قَوْلُہ‘یَسْئَلُو نَکَ عَنِ لْمَحِیْضِ قُلْ ھَوَاَذًی نَسَمَّی ذَ لِ کَ اَ ذًی بِاِعْتِبَا رِ الشَّرْ عِ وَبَاِعْتِبَا رِالطِّبِّ عَلیٰ حَسْبِ مَا یَذْکُوُہ‘اَصْحَا بُ ھٰذِہِ الصَّنَاعَۃِ۔اور قر آ ن کریم کی آ یا ت میں اسے اَذًی ایک تو شر عی نقطہ نگا ہ کے کہا گیا ہے۔دوسر ے طبّی لحا ظ سے بھی اسے نقصا ن رسا ںقر ا ر دیا گیا ہے۔ جیسا کہ تما م اظّبا ء سے بیا ن کر تے چلے آ ئے ہیں۔(مفر دا ت)
اِعْتِزَال کے معنے ہیں ا یک طر ف ہو جا تا۔
تَطَھَّرْنَ۔تَطَھَّرَتِ الْمَرْاَتہُ کے معنے ہو تے ہیں اَغْتَسَلَت۔عو ر ت نے غسل کیا۔(اقر ب)
تفسیر:جب مر د و عور ت کا نکا ح کے ذر یعے تعلق قا ئم ہو جا ئے تو اس کے بعد جو ں جو ں ازوا جی ذمہ داریا ں سا منے آ تی ہیں انسا نی قلب میں مختلف قسم کے سوالات پیدا ہو تے رہتے ہیں جن کا حل کر نا ضر و ر ی ہو تا ہے۔اس جگہ اسی قسم کے ایک سوا ل کا ذکر کر تے ہوئے اس کا جوا ب دیا گیا ہے۔فر ما تا ہے لو گ ایام حیض کے با رہ میں تجھ سے سوا ل کر تے ہیں کہ ایّا م میں مخصوص تعلقا ت قا ئم کئے جا سکتے ہیںیا نہیں۔ فر ما تا ہے تو انہیں کہ دے کہ حیض تو ا یک نجا ست ہے۔پس تمہیں چا ہیئے کہ ان ایا م میں جنسی تعلقا ت سے پر ہیز رکھو۔اور اس وقت تک اس پر قا ئم رہو۔ جب تک کہ وہ نہا دھو کر پا ک صا ف نہ ہو جا ئیں۔
اسجگہ لَا تَقْرَ بُوْھُنَّ کے یہ معنے نہیں کہ اِن اَیام میں عور تو ن کو چھو نا یا ہا تھ لگانا یا اُ ن کے پا س بیٹھنا بھی منع ہے۔بلکہ اس سے صر ف مخصو ص تعلقا ت کی نفی کی گئی ہے۔ ورنہ حضر ت عا ئشہ رضی اللّٰہ عنہافر ما تی ہیں کہ ر سو ل کر یم ﷺایا م حیض میں بھی اُ ن سے پیا ر کر لیتے اور انہیں اپنے پا س بیٹھا لیا کر تے تھے۔فقہاء میں اس امر کے متعلق اختلا ف پا یا جا تا ہے کہ خو ن حیض بند ہو نے کے بعد مخصو ص تعلقا ت قا ئم کئے جا سکتے ہیں یا نہا نے کے بعد اور اس با رہ میں کچھ تو ایک طر ف چلے گئے ہیں اور کچھ دوسر ے طرف۔ لیکن اصل با ت یہ ہے کہ حیض بند ہو جانے کے بعد عو رت کے پا س جا نا جا ئزہو جاتا ہے۔مگراللہ تعالیٰکو پسند یہی ہے کہ نہا نے دھو نے کے بعد یہ تعلق قا ئم کیا جائے۔
تطہر کے لئے ر سو ل کر یمﷺنے فر ما یا ہے کہ جب عورت ایّا م حیض سے فا ر غ ہوتو مشک پا نی میں حل کر کے اور اس سے روئی بھگو کر اندرونی ا عضاء کے صفا ئی کر لیا کر ئے۔اور طبّی طو ر پر ثا بت ہے کہ ایسا کیا جائے تو عورت کی صحت اور آئندہ اولاد پر اس کا نہا یت خو شگوا ر اثر پڑتا ہے۔
فَاْ تُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ اَمَرَکُمُ اللّٰہُ میںحَیْثُ ظر فِ مکا ں ہے اور مر اد یہ ہے کہ تم عورتوں کے پا س اسجگہ سے آو جس جگہ کے آنے کا اس نے حکم دیا ہوا ہے۔اور وہ یہی ہے جو فَا لْاٰنَ بَا شِرُوْھُنَّ وَابْتَغُوْ ا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ میں بیا ن کیا گیا ہے یعنی اللّٰہ تعا لیٰ نے اولا د حاصل کر نے کا جو طبٰی طر یق مقرر کر رکھا ہے اس کے مطا بق عمل کر و۔ اور اللّٰہ تعا لٰے نے جو اولاد تمہا رے لئے مقرر کر ر کھی ہے اس کی جستجو کر و۔ گو یا عو رتو ں سے تم ایسا ہی تعلق رکھو جس کے نتیجہ میں اولا د پیدا ہو۔کوئی غیر نظر ی طر یق اختیا ر نہ کرو۔
یُحِبُ التَّوَابِیْنَ میں اللّٰہ تعالٰے نے ایک تو اس امرکی طر ف تو جہ دلا ئی ہے کہ اگر تم سے کبھی کوئی گنا ہ سر زد ہو جا ئے تو اس کے فو راً بعد تمہا ر ے دل میں اس گنا ہ پر ندامت پیدا ہو نی چا ہیے اور تمہیں اس سے تو بہ کر نے چا ہیے کیو نکہ اللّٰہ تعا لٰے توبہ کر نیوالو ں سے محبت کر تا ہے۔دو سرے تو اب اس شخص کو بھی کہتے ہیں جو بار بار خدا تعالٰے کے درگاہ میں جاتا اور اس سے دُعا ئیںکر تا رہے۔اِس لحا ظ سے یُحِبُ التَّوَابِیْنَ کے یہ معنے ہیں کہ وہ لو گ جو یقین رکھتے ہیں کہ ہما ر ے تما م کا م دعاوںسے و ا بستہ ہیں۔ اور قدم قدم پر وہ خدا تعا لٰے کے طر ف رجو ع کر تے اور اس سے مدد طلب کر تے ہیں وہ با لآخر اللّٰہ تعا لٰے کی محبت حا صل کر نے میں کا میا ب ہو جا تے ہیںگو یا گناہو ں پر ندا مت اور تو بہ کا اظہا ر اور ہر مشکل گھڑی میں اللّٰہ تعا لٰے کی طر ف ر جو ع یہ دو ذرائع ایسے ہیں جن سے خدا تعا لٰی کی محبت کا دروازہ انسا ن کے لئے کھل جا تا ہے۔اَسی طر ح یُحِبُّاْلمُتَطَھِّرِیْنَ میں بھی دوامور کی طر ف تو جہ دلا ئی گئی ہے ایک تو اسی امر کی طر ف کہ اللّٰہ تعا لٰے صفا ئی رکھنے وا لو ں سے محبت کر تا ہے۔درحقیقت نظا فت پسندی انسا نی تقاضو ں میں سے ایک اہم تقا ضا ہے جسم کو صا ف رکھنا۔مُنّہ کو صا ف رکھنا۔ کپڑوں کو صا ف ر کھنا ۔اور ایسی اشیاء کااستعما ل کر نا جو نا ک کی قو ت کو صد مہ پہنچا نے والی نہ ہو ں۔ بلکہ اس کے لئے مو جب را حت ہوں۔اس تقا ضا کو لوگو ں نے غلطی سے نیکی اور تقٰوی کی اعلٰٰی را ہو ں پر چلنے وا لوں کے طر یق کے خلاف سمجھ لیا تھا۔ اور ایک ایسی راہ اختیا ر کر لی تھی جس کے نتیجہ میں یا تو خدا تعا لٰی کے پیدا کردہ طیب اشیاء کو استعمال کر کے گنہگا ر قرا ر پا ئیں۔ رسول کر یمﷺ نے اس بنا وٹی نیکی اور جھو ٹے تقٰو ی کی چا در کو بھی چا ک کر دیا ۔اور حکم دیا کہ اللّٰہ تعا لٰے خو د پا ک ہے اور پا ک رہنے والو ں کو پسند کر تا ہے۔چنا نچہ آ پ اکثر غسل فر ما تے۔پھرکئی امو ر کے سا تھ غسل آ پ نے وا جب قرار دے دیا چو نکہ انسا ن اپنے گھر کے اشغا ل کی وجہ سے صفا ئی میں سُستی کر بیٹھتا ہے اس لئے آ پؐ نے خدا تعا لٰے کے حکم سے میاں بیوی کے تعلقات کے سا تھ غسل کو وا جب قر ار دیا ۔اِسی طر ح پا نچو ں نما زوں سے پہلے آ پ ان اعضا ء کو دھو تے جو عا م طو ر پر گر دو غبار کو محل بنتے رہتے ہیں۔اور دوسروں کو بھی اس امر پر عمل پیرا ہو نے کا حکم دیتے۔ کپڑے کی صفا ئی کو آ پ پسند فر ما تے۔جمہ کے دن دُھلے ہوئے کپڑے پہن کر آ نے کا حکم دیتے اور خو شبو کو خو د بھی پسندفرماتے اور اجتماع کے مو ا قع
نِسَآئُوکُمْ

الْمُوْمِنیْنَ o
کے لئے بھی خو شبو لگا نا پسند فر ما تے۔جہا ںاجتما ع ہو نا ہو چو نکہ وہا ں مختلف قسم کے لو گ جمع ہو تے ہیں اور متعدی بیما ریو ں کے پھیلنے کا خطر ہ ہو تا ہے اسلئے آ پ وہا ں خو شبودار مصا لحہ جا ت جلا نے اور ان جگہو ں کو صا ف رکھنے کا حکم دیتے۔ بد بو دار اشیاء سے پر ہیز فر ما تے۔اور دوسر وں کو بھی اس سے رو کتے کہ بد بودار اشیاء کھا کر ا جتما ع کے جگہوں میں نہ آئیں۔ غر ض جسم کی صفا ئی۔لبا س کی پا کیزگی۔ اور نا ک کے احسا س کا آ پ پو را خیال رکھتے۔ اور دوسر و ں کو بھی ایسا ہی کر نے کا حکم دیتے۔ ہا ں یہ ضر ور فر ما تے کہ جسم کی صفا ئی میں اسقدر منہمک نہ ہو جا و کہ رُوح کی صفا ئی کا خیا ل ہی نہ رہے۔اور لبا س کی پا کیزگی کا اس قدر خیا ل نہ رکھو کہ ملک و ملت کی خدمت سے محروم ہو جاو اور غر یب لو گو ں کی صحبت سے احتر ا ز کر نے لگو۔اور کھا نے میں اس قدر احتیا ط نہ کر و کہ ضر و ری غذا ئیں تر ک ہو جا ئیں۔ ہا ں یہ خیا ل رکھوکہ اہلِ مجلس کو تکلیف نہ ہو تا کہ اچھے شہر ی بنو۔ اور لو گ تمہا ری صحبت کو نا گو ا ر نہ سمجھیں بلکہ اسے پسند کریں اور اس کی جستجو کر یں۔ غر ض لوگو ں نے تو کہا کہ صفا ئی اور خو شبو سے بچو کہ وہ جسم کو پا ک مگر دل کو نا پا ک کر تی ہے۔لیکن اسلا م نے کہا یُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْنَ۔ خدا تعا لٰے ظا ہر ی اور با طنی صفا ئی رکھنے وا لو ں کو پسند کر تا ہے گو یا اسلا م نے اپنے اس اعلا ن سے عیسا ئیو ں اور ہندووں کے ان تما م فر قوں کا رد کر دیا جن میں بزرگا نِ دین کے لئے پا ک و صا ف رہنا اور خو شبو کا استعما ل با لکل حرام سمجھا جا تا تھا اور جن میں گندے اور بد بودار لبا س کے ایک بہت بڑی علا مت سمجھی جا تی تھی۔اسلام نے اس نظر یہ کو با طل قر ار دیتے ہو ئے بتا یا کہاللہ تعالیٰایسے ہی لوگو ںسے محبت رکھتا ہے جواللہ تعالیٰکے طر ف بار با ر رجو ع کر نے والے بھی ہو ں اور اُ سکا جسم اور لبا س بھی صا ف ستھر ا ہو اور وہ ہر قسم کی غلا ظت سے دور ہنے وا لے ہوں۔ان معنو ں کے لحا ظ سے یُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْنَ کہ کر اس طر ف تو جہ دلا ئی کہ خدا تعا لٰی کو یہی پسند ہے کہ جب عورتیں غسل کر لیں تب اُن کے سا تھ صحبت کی جا ئے اس سے پہلے ان کے پا س جا نا یُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْنَ کے خلا ف ہے۔
مُتَعَھِّر کے دو سرے معنے تکلیف کیسا تھ پا کیزگی اختیا ر کر نیوا لے کے ہیں۔ اس لحا ظ سے یُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْنَ میں اس طر ف اشا رہ کیا گیا ہے کہ خدا تعا لٰی ان لو گو ں سے محبت کر تا ہے جو اسکے ہم جنس بننے کی کو شش کر تے ہیں۔ پس خدا تعا لٰی کی جو صفا ت قر آن کر یم میں بیا ن ہو ئی ہیں تم اُ ن کی نقل کر نے کی کو شش کر و۔ تم حّی نہیں بن سکتے لیکن تم بیما ر کا علا ج کر کے حّي کی نقل تو کر سکتے ہو۔ تم مُمِیْت نہیں بن سکتے لیکن تم بدی کا خا تمہ کر کے ممیت کی نقل تو کر سکتے ہو تم خا لق نہیں بن سکتے۔ لیکن تم اچھی اولا د پیدا کر کے خا لق کی نقل تو کر سکتے ہو۔ پس فر ما تا اگر تم میری محبت حا صل کر نا چا ہتے ہو تو تم میر ی نقل کر نا شر و ع کر دو اور میر ی صفا ت کو اپنے اند ر پیدا کر و اسکے نتیجہ میں تم سے محبت کر نے لگ جا و نگا۔
۱۳۶؎ حل نعا ت:۔اَنّی کے معنے اَ یْنَ مِنْ اَ یْنَ اور کَیْْفَ کے ہیں۔ یعنی ’’جہا ں‘‘۔ ’’جہا ںسے‘‘۔ ’’حب‘‘ اور ’’ جس طرح‘‘ (اقر ب)
تفسیر:۔ اِس آ یت میں عو رت کو کھیتی قر ا ر دے کراللہ تعالیٰنے بنی نو ع انسان کو اس امر کی طر ف تو جہ دلا ئی ہے کہ(۱) تم اپنی کھیتی کو پھلدار بنا نے کی کو شش کر و۔اِسی کی طر ف رسو ل کر یم ﷺ کی یہ حد یث بھی اشا رہ فر ما تی ہے کہ تَزَدَّجُواالْوُدُوْدَ فَاِنِّی مُکَا ثِر’‘ بِکُمُ اُ لُامَمَ(ابو داود و نسا نی۔ کتا ب النکا ح)یعنی تم ایسی عورتوں کے سا تھ شا دی کیا کر و جو زیا دہ اولا د پیدا کر نے وا لی اور اپنے خا وندوں کے سا تھ محبت کر نے والی ہو ں۔کیو نکہ میں دوسر ے نبیو ں کی اُمتو ں کے مقا بل پر اپنی امّت کی کثر ت پر قیا مت کے دن فخر کر و نگا۔
(۲)عو رتو ں سے ایسا سلو ک کر و کہ نہ اُ ن کی طا قت ضا ئع ہو ۔ اور نہ تمہا ری۔ اگر کھیتی میں بیج زیا دہ ڈال دیا جا ئے تو۔بیج خر اب ہو جا تا ہے۔ اور اگر کھیتی سے پے در پے کا م لیا جا ئے تو کھیتی خر ا ب ہو جا تی ہے۔ پس ہرکا م ایک حد کے اندر کر و۔ جس طر ح عقلمند انسا ن سو چ سمجھ کر کھیتی کے کا م لیتا ہے۔اس آیت سے یہ بھی نکل آیا کہ بعض حا لا ت میں بر تھ کنٹرول بھی جا ئز ہے۔چنا چہ کھیتی میں سے اگر ایک فصل کاٹ کر معًا دوسری بو دی جا ئے تو دوسر ی فصل اچھی نہیں ہو تی۔ اور تیسری اس سے بھی زیا دہ خراب ہو تی ہے اسلا م نے اولا د پیدا کر نے سے روکا نہیں بلکہ خو د فر ما یا ہے کہ قَدِّمُوْالِاَنْفُسِکُمْ تم اپنی عو رتو ں کے پا س اِس لئے جا و کہ آ گے نسل چلے اور تمہا ری یا دگار قا ئم رہے لیکن سا تھ ہی بتا دیا کہ کھیتی کے متعلق خدا تعا لٰی کے جس قا نو ن کی تم پابندی کر تے ہو اسی کو اولاد پیدا کر نے میں بھی مّد نظر رکھو۔ اگر عو ر ت کی صحت مخدو ش ہو یا بچہ کی پر ورش اچھی طر ح نہ ہر تی ہو تو اس وقت اولاد پیدا کر نے کے فعل کو روک دو۔
(۳)یہ بھی بتایا کہ عو رت سے ایسا تعلق رکھو جس کے نتیجہ میں اولاد پیدا ہو۔اس سے خلافِ وضع فطرر فعل کی مما نعت نکل آ ئی۔ چو نکہ قر آ ن کر یم خدا تعا لٰی کا کلا م ہے اس لئے وہ با ت کو اُسی حد تک ننگا کر تا ہے جس حد تک اخلا ق کو کوئی نقصا ن نہ پہنچتا ہو۔ لو گ اَنّٰی شِئْتُمْ سے غلط استدا ل کر تے ہیں۔ حا لا نکہ یہ الفا ظ کہ کر تو خدا تعا لٰی نے ڈرا یا ہے کہ یہ تمہا ری کھیتی ہے اب جس طر ح چا ہوسلو ک کر و۔ لیکن یہ نصحیت یادرکھو کہ اپنے لئے بھلا ئی کا سا ما ن ہی پیدا کر نا۔ورنہ اس کا خمیا زہ بھگتو گے۔ لوگ جب اپنی لڑ کیو ں کی شا دی کر تے ہیں تو لڑ کے وا لو ں سے عمو ماً کہا کر تے ہیں کہ ہم نے اپنی بیٹی تمہیں دیدی ہے ۔ اب جیسا چا ہو اِس سے سلوک کر و۔اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا ہے کہ تم بے شک اِسے جوتیاں مارا کرو۔ بلکہ مطلب یہ ہوتاہے کہ تم یہ تمہاری چیز ہے اس سنبھا ل کر رکھنا۔ پس اَنّٰی شِئْتُم کا یہ مطلب لے لیا کہ’’اَنھے واہ‘‘ یعنی اندھا دھند کرو۔ آ ریو ں نے خصو صیت سے اس آ یت پر اعتر ا ض کیا ہے کہ اسلا م نے مر دوعو رت کے تعلقات کے با رہ میں اپنے متبعین کو غیر فطری طر یق اختیا ر کر نے کی اجا زت دی ہے حالانکہ ان کا یہ خیا ل با لکل غلط ہے۔اَنّٰی شِئْتُمْ کے یہ معنے نہیں کہ اب خلا ف وضع فطر ی فعل بھی تمہا رے لئے جا ئز ہو گیا ہے۔بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ جب تمہا ری بیویاں تمہارے لئے کھیتی کی حیثیت رکھتی ہیں تو اب تمہا را اختیا ر ہے کہ تم جس طر ح چاہو اُن سے سلو ک کر و۔ یعنی چا ہو تو اپنی کھیتی کو تباہ کر لو اور چا ہو تو اس سے ایسے فو ائد حا صل کرو جن سے دنیا میں بھی تم نیک نامی حا صل کر و اور آ خر ت میں بھی اپنی روح کو خو ش کر سکو۔
دنیا میں کو ئی احمق زمنیدار ہی ہوگا جو نا قص بیج استعما ل کر ے یا بیج ڈا لنے کے بعد کھیتی کے نگرا نی نہ کر ئے۔ اوراچھی فصل حا صل کر نے کی کو شش نہ کر ے۔ مگر عو رتو ں کے معا ملہ میں با لعمو م اس اصو ل کو نظر اندا ر کر دیا جا تا ہے اور نہ تو جسما نی اور اخلا قی لحا ظ سے بیج کی صحیح طو ر پر حفا ظت کی جا تی ہے نہ عو رت کی صحت اور اُ سکی ضر و ر یا ت کا خیا ل رکھا جا تا ہے اور نہ بچو ں کی صحیح رنگ میں
وَلَاتَجْعَلُو
سَمِیْع’‘ عَلِیْم’‘o
تربیت کی جا تی ہے جس کا نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ مر دوں کی صحت کو بھی نقصا ن پہنچتا ہے اور عو رت کی صحت بھی بر با د ہو جا تی ہے اور بچے بھی قو م کا مفید وجو د ثا بت نہیں ہو تے۔اللّٰہ تعا لٰے نے اس آ یت میں بنی نو ع انسان کو اِسی اہم نکتہ کی طر ف تو جہ دلا ئی ہے اور فر ما یا ہے کہ جس طر ح تم اپنی کھیتی کی حفا ظت کرتے ہواور اعلٰی درجہ کی فصل پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہواسی طرح تمہارا فرض ہے کہ تم عورت کی بھی حفاظت کرواورآ ہندہ نسل کی تعلیم و تر بیت کی طر ف خاص طو ر پر تو جہ دو تا کہ تمہا ری کھیتی سے ایسا روحا نی غلہ پیدا ہو جو دنیا کے کا م آئے اور انہیں ایک نئی زندگی بخشے۔
وَقَدِّمُوْالِاَنْفُسِکُمْ میں بتا یا کہ تم وہ کا م کر و جس کا آ ئندہ نتیجہ تمہا رے لئے اچھا نکلے۔ یعنی طبّی لحا ظ سے بھی اور نسلی لحا ظ سے بھی۔یہ حصّہ وَابْتَغُوْامَاکَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ کے مشا بہ ہے اور مرا د یہ ہے کہ آ ج کے بچے کل کے با پ بننے وا لے ہیں۔ اس لئے تم ایسی اولا د پیدا کرو جو تمہا رے نا م کو روشن کرنے والی ہو اور آ خر ت میں بھی تمہا ری عزت اور نیک نا می کا مو جب ہو۔
اسی طر ح اس کے ایک معنے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ دنیا بھی ایک کھیتی ہے جس سے آ خر ت میں کا م آ نے وا لا غلہ پیدا ہو تا ہے۔ اس لئے تمہیں چا ہیے جی اِس کھیتی کی طر ف بھی اپنی نگا ہ رکھو اور ایسے اعما ل بجا لا و کہ جس طر ح ایک دا نہ سے سا ت با لیں اور ہر با ل میں سو سو دانہ پیدا ہو تا ہے۔ اسی طر ح تمہا را ایک ایک عمل خدا تعا لٰی کے ہزاروں ہزار انعا ما ت کو تمہا ری طر ف کھینچ لا نے والا ہو۔
۱۳۷؎ حل لغا ت:۔ عُرْضَۃً:مَا یُجْعَلُ مَعْرَضاًلِلشًیْئِ۔ایسی چیز کو کہتے ہیں جسے کسی دوسری چیز کا نشا نہ بنا لیا جا ئے۔ اسی طر ح عر ضہ اس چیز کو بھی کہتے ہیں جسے ضرورت کے پو را کر نے کا ایک ذریعہ بنا لیا جا ئے۔کہتے ہیں اَلْبَعِیْرُعُرْضَۃ’‘لِّلسَّفَر سفر پیش آئے تو اونٹ عُرضہ بن جاتا ہے۔ مُراد یہ ہے کہ اُس کے ذریعہ سفر کی تکلیف کو دُور کیا جاتا ہے (مفردات) اِسی طرح عُرضہ حِیْلَۃٌ نیِ الْمُصَارَعَۃِ کُشتی کے داو پیچ کو بھی کہتے ہیں (اقرب)
اَیْمَانٌ : جمع ہے اس کا مفرد یَمِیْنٌ ہے۔ اور یَمِیْنٌ کے معنے ہیں۔ (۱)دائیں جہت یا دایاں حصّہ جسم (۲) قسم (۳) برکت (۴) قوت (اقرب) اور محاورہ میں اس شے کو بھی کہتے ہیں جس کے بارہ میں قسم کھائی جائے۔
رسول کریم ﷺنے حضرت عبد الرحٰمن بن سمرۃؓسے فرمایا۔ اِذَا حَلَفْتَ عَلٰیٰ یَمِیْنٍ فَرَائَ یْتَ خَیْرً امِّنْھَا فَاْتِ الَّذِیْ ھُوَ خَیْرٌوَکَفِّرْ عَنْ یَمِیْنِکَ یعنی جب تو کسی چیز کے بارہ میں قسم کھائے (اس کے لئے آپؐنے لفظ یَمِیْن استعمال فرمایا)اور اس کے بعد اُس سے اچھا کام تجھے سُوجھ جائے تو تُو وہ کام جو بہتر ہے اختیار کر اور اپنی قسم کاکفارہ دے دے۔ (کشاف)
تفسیر:۔ فرماتا ہے۔ اللہ تعالٰی کو اپنی قسموں کانشانہ نہ بناو۔ یعنی جس طرح ایک شخص نشانہ پر بار بار تیر مارتا ہے اسی طرح تم بار بار خدا تعالٰے کی قسمیں نہ کھا یا کرو۔ کہ ہم یوں کر دینگے اور ووں کر دینگے۔
اَنْ تَبَرُّوْاوَتَتَّقُوْاوَتُصْلِحُوْابَیْنَ النَّاسِ یہ ایک نیا اور الگ فقرہ ہے۔ جو مبتداء ہے خبرمخدوف کا۔ اور خبر مخدوف اَمْثَلُ وَاَوْلٰی ہے۔یعنی بِرُّکُمْ وَ تَقْوٰلکُمْ وَاِصْلاَحُکُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَمْثَلُ وَاَوْلٰی اِ س کے معنے یہ ہیں کہ تمہا را نیکی اور تقوٰی اختیا رکر نا اور اصلا ح بین النا س کرنا زیا دہ اچھا ہے۔صر ف قسمیں کھا تے رہنا کہ ہم ایسا کر دینگے کو ئی درست طر یق نہیں۔ تمہیں چاہیے کہ قسمیں کھا نے کی بجا ئے کا م کر کے دکھا و۔پہلے قسمیں کھانے کی کیا ضرورت ہے۔ زجاؔ ج جو مشہر ر نحو ی اور ادیب گذرے ہیں۔ انہو ں نے یہی معنے کئے ہیں۔
دو سر ے معنے اس کے یہ ہیں کہ اللہ تعا لیٰ کو روک نہ بنا و اُن چیزوں کے لئے جن پر تم قسم کھا تے ہو۔ یعنی بَرّ کر نا تقوٰی کر نا اور اصلا ح بین الناس کر نا۔ اِس صو رت میں یہ تینو ں اَیْمَان کا عطفِ بیا ن ہیں اور اَیْمَا ن کے معنے قسمو ں کے نہیں بلکہ اُ ن چیزو ں کے ہیں جن پر قسم کھائی جا تی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اپنا پیچھا چھڑا نے کے لئے نیک کا م کی قسم نہ کھا لیا کرو۔ تا کہ یہ کہ سکو کہ کیا کروں چو نکہ میں قسم کھا چکا ہو ں۔ اس لئے نہیں کر سکتا۔ مثلاً کسی ضر ورت مند نے روپیہ ما نگا تو کہ دیا کہ میںنے تو قسم کھا لی ہے کہ آئندو میں کسی کو قر ض نہیں دوں گا ۔علا مہّ ابو حیا ن کہتے ہیں کہ اس فقرہ کو ایْمَا ن کا عطفِ بیا ن بنا نے کی بجا ئے بدل بنا نا اچھا ہے۔ کیو نکہ عطفِ بیان اکثر اَغْلام (یعنی کسی چیز کا معتین نام) ہوتے ہیں۔ بہرحال دونوں صورتوںمیں اس کے معنے یہ ہیں کہ اگر کوئی نیکی اور تقوٰی اور اصلاح بین الناس کے کام کیلئے تمہیںکہے تو تم یہ نہ کہوکہ میں نے تو قسم کھائی ہوئی ہے مَیں یہ کام نہیں کر سکتا۔
تیسرے معنے یہ ہیں کہ اس ڈر سے کہ تمہیں نیکی کرنی پڑے گی خدا تعالے کو اپنی قسموں کا نشانہ نہ بناو۔ اس صورت میں اَنْ تَبَرُّدْا مفعول لِاَجْلہٖ ہے اور اس سے پہلے کَرَاھَۃً مقدّر ہے۔ اور مُراد یہ ہے کہ اگر اچھی باتیں نہ کرنے کی قسمیں کھاو گے تو ان خوبیوں سے محروم ہو جاوگے اس لئے نیکی تقٰوی اور اصلاح بین الناس کی خاطر اس لغو طریق سے بچتے رہو۔ درحقیقت یہ سب معنے آپس میں ملتے جلتے ہیں۔ صرف عربی عبارت کی مشکل کو مختلف طریق سے حل کیا گیا ہے۔جس بات پر سب مفسّرین متفق ہیں وہ یہ ہے کہ اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ نہ کرو کہ خداتعالٰے کو اپنی قسموں کا نشانہ بنالو۔یعنی اُٹھے اور قسم کھا لی۔ یہ ادب کے خلاف ہے اور جو شخص اس عادت میں مبتلا ہو جاتا ہے وہ بسا اوقات نیک کاموں کے بارہ میں بھی قسمیں کھا لیتا ہے کہ میں ایسا نہیں کرونگا۔ اور اس طرح یا تو بے ادبی کا اور یانیکی سے محرومی کا شکار ہو جاتا ہے۔ یا یہ کہ بعض اچھے کاموں کے متعلق قسمیں کھا کر خدا تعالٰے کو ان کے لئے روک نہ بنا لو۔ اِن معنوں کی صورت میں داو پیچ والے معنے خوب چسپا ں ہوتے ہیں۔ اور مطلب یہ ہے کہ بعض لوگ صدقہ و خیرات سے بچنے کے لئے چالیں چلتے ہیں اور داو کھیلتے ہیں اور بعض خدا تعالٰے کی قسم کو جان بچانے کا ذریعہ بتا تے ہیں۔ گویا دوسرے سے بچنے اور اُسے پچھاڑنے میں جو داو استعمال کئے جاتے ہیں اُن میں سے ایک خداتعالٰے کی قسم بھی ہوتی ہے۔ پس فرماتا ہے۔ اللہ تعالٰی کے نام کو ایسے ذلیل حیلوں کے طورپر استعمال نہ کیا کرو۔ میرے نزدیک سب سے اچھی تشریح علاّمہ ابو حیان کی ہے کہ خدا تعالٰی کو اپنے احسان اور نیکی وغیرہ کے آگے روک بنا کر کھڑا نہ کر دیا کرو۔
وَاللّہُ سَمِیْحٌ عَلِیْمٌ میں بتایا کہ اگر تمہیں نیکی اور تقوٰی اور اصلاح بِین الناسِ کے کام میں مشکلات پیش آئیں تو خدا تعالٰے سے ان کا دفعیہ چاہو اور ہمیشہ دُعاوں سے کام لیتے رہو۔ کیونکہ یہ کام دُعاوں کے بغیر سرانجام نہیں پا سکتے۔ اور پھر یہ بھی یاد رکھو
لاَایُوَاخِذُکُمُ
غَفُوْرٌحَلِیْمٌo
کہ اللہ تعالٰی علیم بھی ہے۔ اگر تم اُس کی طرف جھکو گے تو وہ اپنے علم میں سے تمہیں علم عطا فرمائیگا اور نیکی اور تقوٰی کے بارہ میں تمارا قدم صرف پہلی سیڑھی پر نہیں رہیگا بلکہ علمِ لدنّی سے بھی تمہیں حصّہ دیا جائیگا۔
۱۳۸؎ حل لغات:۔ حَلِیَٓمٌ حِلْم سے ہے اور اس کے معنے صبر کر نے والے کے بھی ہوتے ہیں اور اِ سی طر ح اِ س کے معنے بُر با د کے بھی ہیں ۔یعنی جس میں طیش نہ ہو۔ یونہی جو ش میں آ کر اندھا دھند کا م نہ کر تا ہو۔ حِلْم جہا لت اور بیوقو فی کے مخا لف معنے بھی دیتا ہے۔ اور علم اور سمجھ کے بھی نیز اس کے معنے عقل کے بھی ہیں۔(اقرب)
تفسیر:۔ فر ما تا ہے۔ اللہ تعا لٰی لغو قسمو ں پر تم سے کو ئی مو اخدہ نہیں کر یگا۔ اسجگہ لغو قسموں سے تین قسم کی قسمیںمرا د ہیں۔ آول عا دت کے طو ر پر قسمیں کھا نا۔ یعنی ہر وقت وَاللّٰہ۔بِا اللّٰہ۔ تُم تَا اللّٰہ کہتے رہنا۔ دوم ایسی قسم جس کا کھا نے والا یقین رکھتا ہو کہ وہ درست ہے لیکن اس کا یقین غلط ہو۔مثلاً کسی شخص کے متعلق قسم کھا نا کہ وہ وہا ں ہے حا لا نکہ ہو سکتا ہے کہ وہ اس کے آ نے کے بعد وہا ں سے چلا گیا ہو۔ سو م ایسی قسم جو شد ید غصہ کے وقت کھا ئی جا ئے۔ جب ہو ش ا حوا س ٹھکا نے نہ ہو ں یا حرا م شے کے استعما ل یا فر ض و وا جب عمل کے تر ک کے متعلق کسی وقتی جو ش کے ما تحت قسمیں لغو ہیں اور ان کے تو ڑنے پر کو ئی کفا رہ نہیں۔چو نکہ پہلی آ یت میںاللہ تعالیٰنے قسمو ں سے روکا تھا اس لئے اب بتا یا کہ مو ا خزہ صر ف ایسی قسموں پر ہو گا جن کو لغوٖ قرار نہ دیا جا سکے۔مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ چو نکہ مو اخذہ نہیں ہو گا اِس لئے اب کسی اختیا ط کی بھی ضر ورت نہیںبیشک رات دن لغو قسمیں کھا تے رہو۔ کیو نکہ اللّٰہ تعالٰی نے مو منو ں کے متعلق یہ بھی بیا ن فر ما یا ہے کہ وَالَّذِیْنَ ھُمْ ھَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ (مومنوں آیت۴) مو منوں لغو با تو ں سے بھی پر ہیز کر تے ہیں۔ پس لغو قسمیں کھا نے والا یقیناً مخطی یا گہنگا رہے اوراُسے اپنے گنا ہ پر تو بہ اور ندا مت کا اظہا ر کر نا چا ہیے۔ ہا ںاُن کے تو ڑنے پر کسی کفا رہ کی ضر و رت نہیں۔اِ سی مفہو م کو ادا کر نے کے لئیاللہ تعالیٰنے لا یُئُوا خِذُ کُمْ کے الفا ظ بیا ں فر ماتے ہیں۔ یعنی اگر وقتی جو ش کے ما تحت ایسی قسم کھا ئی جا ئے تو گنا ہ نہ ہوگا ہا ں اگر جا ن بو جھ کر کو ئی شخص ایسی قسم کھا ئے تو اُسے یقیناً گنا ہ ہو گا۔
بعض لوگو ں نے لَایُئَواخِدُ کے معنے لَا بَاْ سَ بِہِ یالاَحَرَجَ فِیْ ذٰلِکَ کے کئے ہیں کہ اسمیں کوئی حر ج نہیں۔ مگر یہ صحیح نییں۔ یہا ں پر ایک تو مو اخذہ کی نفی کی ہے اور دوسر ے لغو قسموں سے پر ہیز کی تا کید کی ہے۔
وَلٰکِنْ یُّئَواخِذُکُمْ بِمَاکَسَبَتْ قُلُوْ بُکُمْ میں گذشۃ تینو ں قسموں کی نفی کر دی گئی ہے کیو نکہ قسم بھی عا دتاً ہو یا غصّہ اور بے احتیا طی سے ہو ان میں سے کو ئی قسم بھی عمداً نہیں ہو تی بلکہ بعض وقت تو انسا ن کو پتہ بھی نہیں لگتا اور وہ قسم کھا جا تا ہے۔ پس کسب قلب سے مرا د یہی ہے کہ عمداً قسم کھا ئی جا ئے۔ ایک و ا قعہ کے متعلق وہ سمجھتا ہوکہ یو ں ہے مگر پھر اس کے خلا ف قسم کھا جا ئے۔ ایسی قسم کا کفارہ اللّٰہ تعالٰی نے سو رہ ما ئدہ میں اِ ن الفا ظ میں بیا ن فر ما یا ہے کہ فَکَفَّا رَتُہ‘اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیْنَ مِنْ
لِلَّذِیْنَ یُئْولُوْنَ
سَمِیعُ عَلِیْم’‘o
اَوْسَطِ مَاتُظْعِمُوْنَ اَھْلِیْکُمْ اَوْکِسْوَتُھُمْ اَوْتَحْرِیْرُرَ قَبَۃً ط فَمَنْ لَمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ ط ذٰ لِکَ کَفَّارَۃُ اَیْمَا نِکُمْ اِذَ ا حَلَفْتُمْ ط(ما ئد ہ آ یت ۹۰) یعنی قسم تو ڑنے کا کفا رہ دس مسا کین کو متوسط درجہ کا کھا نا کھلا نا ہے۔ایسا کھلا نا جو تم اپنے گھر وا لو ں کو کھلا تے ہو۔ یا اُ ن کے لئے لبا س مہیا کر نا ہے۔ یا ایک غلا م کو آ زاد کر نا ہے۔لیکن جسے اس با ت کی تو فیق نہ ہو اُس پر یتن دن کے روزے وا جب ہیں۔ یہ تمہا ری قسمو ں کا کفا رہ ہے جبکہ تم قسم کھانے کے نعد انہیں تو ڑ دو۔
یہا ں ایک سوا ل پیدا ہو تا ہے کہ آ یا قر آن کر یم کی قسم کھا نا جا ئز ہے یا نہیں اس کا جوا ب یہ ہے کہ اگر ملکی رواج کو مد نظر رکھ کر قر آ ن کر یم کی قسم کھا ئی جائے تو میر ے نزدیک جا ئز ہے۔ کیو نکہ مد مقا بل پر قر آ ن کر یم کی قسم کھا نے سے غیر معمو لی اثر پڑ تا ہے۔
یُئَواخِذُکُمْ بِمَاکَسَبَتْ قُلُوْبُکُمْ سے یہ بھی معلو م ہو تا ہے کہ جس شخص کے دل میں بد اخلاقی کے خیا لا ت آ تے ہیں۔ مثلاً اپنے بھائی کی نسبت بد ظنّی کا خیال پیدا ہو تا ہے۔ یا تکبّر یا حسد یا نفرت کا جذبہ پیدا ہو تا ہے۔ لیکن وہ اس خیا ل کو دبا لیتا ہے تو اس کا یہ خیا ل یا جذبہ بد اخلا قی نہیں سمجھا جا ئیگا۔ کیو نکہ ایسا شخص درحقیقت بد اخلا قی کا مقا بلہ کر تا ہے اور تعر یف کا مستحق ہے، اسی طر ح جس شخص کے دل میں ایک آ نی خیا ل نیکی کا آ ئے یا آ نی طو ر پر حسن سلو ک کی طر ف اس کی طبیعت ما ئل ہو لیکن وہ اس کو بڑھنے نہ دے تو ایسا شخص بھی صا حب اخلا ق نہیں سمجھا جائیگا گو اُس کے اِ س وقتی جذبہ کو بھی قا بلِ تعر یف قر ار دیا جا ئیگا کیو نکہ اخلا ق وہ ہیں جو انسا ن کے ارادہ کا نتیجہ ہوں لیکن مزکو رہ با لا دونوں صو رتو ں میں اچھے یا بُر ے خیا لا ت ارادہ کا نتیجہ نہیں ہر تے بلکہ بیرونی اثر ات کے نتیجہ میں بلا ارادہ پیدا ہو جا تے اور اُسی وقت زا ئل ہو جاتے ہیں۔اس نکتہ کو قر آ ن کر یم نے اِن الفا ظ میں بیا ن فر ما یا ہے کہ یُّئَواخِذُکُمْ بِمَاکَسَبَتْ قُلُوْ بُکُم۔اللہ تعالیٰ تم کو صرف ان خیالات پر پکڑے گا جو ارادہ اور فکر کے ماتحت پیدا ہوتے ہیں ۔ اور انکو فوراً اپنے دل سے نکال دیتے ہو۔ رسول کریمﷺ اس کی تشریح یوں فرماتے ہیں کہ اچانک بد خیال پیدا ہونے پر جو شخص اس خیال کو اپنے دل سے نکال دیتا ہے اور اس پر عمل نہیں کرتا ایسا شخص نیکی کا کام کرتا ہے ۔اور اجر کا مستحق ہے آپ فرما تے ہیں وَ اِنْ ھَمَّ بِسَیِّئَۃٍ فَلَمْ یَعْمَلھَاکَتَبَ اللّٰہُ عِنْدَہُ حَسَنَۃً کَامِلَۃً (بخاری)اگر کسی شخص کے دل میں برا خیال پیدا ہو اور وہ اس کو دبا لے اور اس کے مطابق عمل نہ کرے تو اللہ تعالٰی اس کے حق میں ایک پوری نیکی لکھے گا۔ یعنی بدخیال کے دبانے کی وجہ سے اس کو نیک بدلہ ملیگا۔
وَاللَّہُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ میں غفور کے لفظ سے بتا دیا کہ اگر تم ایسی قسموں سے اجتناب کروگے اور توبہ کروگے توہم تمہیںبخش دیں گے۔ اور حلیم کہ کر اس طرف توجہ دلائی کہ ہم نے لغو قسموں پر اس لئے گرفت نہیں کی کہ اگر ہم ان قسموں پر گرفت کرنا شروع کر دیں تو تمہارا بچنا مشکل ہو جائے۔
۱۳۹؎ حل لغات:۔ اِیْلَاء: اٰلٰی یُوْلِیْ اِیْلاَئً:قسم کھانا۔ یہ اَلَاسے نکلا ہے جس کے معنے کسی کام میں کمی یا تاخیر کرنے کے ہیں۔ اوراِیْلَاء قرآن کریم کے محاورہ میں اُس قسم کو کہتے ہیں جو اس بات پر کھائی جائے کہ مرد اپنی بیوی سے کوئی تعلق نہ رکھے گا (مفردات) چونکہ اس قسم میں عورت کے حق کا اتلاف ہے اس لئے اسے اِیْلاَء کہا گیا۔
فَآئُ وْا: فَائَ یَفِیْ ئُ فَیْئاً: لوٹ آیا۔
فَائَ الْاَمْرَ اَیْ رَجَعَ اِلَیْہِ(اقرب) اس بات کی طرف لوٹ آیا۔ فَائَ کالفظ نیک امور کی طرف لوٹنے کے متعلق استعمال ہوتا ہے۔ (مفردات) اصل میں اس کے معنے تعاون اور امداد باہمی کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ ملکر کام کرنے کے ہوتے ہیں۔اور سایہ کو بھی فَيْء کہتے ہیں۔کیونکہ وہ سوچ کے ساتھ ادھر سے اُدھر ہوتا رہتا ہے ان دونوں معنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے فَائَ بالعموم اچھے معنوں میں استعمال ہونے لگا ہے۔
تفسیر:۔ ایلاء کے معنے قسم کے ہیں لیکن اصطلاحی طور پر کسی شخص کا قسم کھا کر اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کر لینا ایلاء کہلاتا ہے ۔ عرب میں یہ رواج تھا کہ بعض لوگ اپنی بیویوں کی طرف سے عائد شدہ ذمہ داریوں سے آزاد ہو جاتے تھے۔ کیونکہ انکے خیال میں قسم کو پورا کرنے کی ذمہ داری سے مقدم ہے۔ پس جب کہ خدا تعالی ٰکی قسم روک بن گئی تو ان کے خیال کے مطابق عورت کے حقوق کا ادا نہ کرنا کوئی گناہ نہ رہا۔یہ گندہ خیال اب بھی دنیا میں موجود ہے۔ بلکہ مسلمانوں میں بھی ایسے لوگ ہیں جو یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ ہم بیویوں سے تعلق نہیں رکھیں گے۔ لیکن انہیںطلاق بھی نہیں دیتے ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر کوئی شخص ایسا کر بیٹھے تو اسے یاد رکھنا چاہیئے کہ اسے چار مہینے کی مہلت دی جاتی ہے اس عرصہ میں وہ صلح کرلے توبہتر ورنہ جیساکہ اگلی آیت میں ہے پھر قاضی طلاق کافیصلہ کردیگا۔ اس آ یت میں اﷲ تعالیٰ نے عورت کو معلقہ چھوڑنے کے خلاف فیصلہ فرمایا ہے۔ مر د زیادہ سے زیادہ مدت نکاح میںچار ماہ تک کے لئے عورت سے علٰیحدہ رہنے کا عہد کر سکتا ہے اور اگر کوئی شخص چار ما ہ سے زائدعرصہ کے لئے زائدعرصہ کے لئے قسم کھائے تو عورت کاحق ہے کہ خلع کرا لے۔ ایسی صورت میںطلاق واقعہ نہیں ہوتی۔ کیونکہ اسکا حکم آگے مذکور ہے۔لیکن عورت کوخلع کاحق حاصل ہوجاتا ہے۔ اور اگر کوئی شخص تھوڑی تھوڑی مدت کے لئے ایلاء کرے مثلاً دس دن کیلئے ایلاء کیا اورپھر رجوع کرلیا۔تب بھی اس کے لئے مجموعی طور پر چارماہ کی ہی مدت مقرر ہے۔ اگروہ چار ماہ کے بعد ایلاء کریگا ۔تووہ ایلاء ناجائز ہو گا۔ اورعورت علیحدگی کی حقدارہو گی ۔ بعض لوگ عورت کودکھ دینے کے لئے تھوڑی تھوڑی مدت مقررکرتے رہتے ہیں تاکہ نہ چار ماہ ختم ہوں اور نہ عورت علیٰحدہ ہومگر ان کایہ خیال غلط ہے اس قسم کی ایلاء کی مدت بھی صرف چار ماہ ہی ہے۔ جب ایام قطع تعلق کا مجموعہ چار ماہ ہو جائے گا۔ تو لازماً عورت علیٰحدگی کی حق دارہو گی۔ فقہاء کااس آیت کے احکام کی تفصیلات میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اگر مدت گزر جائے اور مرد عورت سے نہ مباشرت کرے اور نہ زبان سے رجوع کرے تو قاضی دونوں میں علیٰحدگی کروادیگا۔ یہ امام مالک کا قول ہے۔ لیکن امام ابو حنیفہ رحمتہ اﷲ کہتے ہیں کہ چار ماہ کے ختم ہونے سے پہلے رجوع ضروری ہے۔اگر چار ماہ کے اندر رجوع نہ کرے تو اس مدت کے گزرنے کے بعد عورت کو خود بخود طلاق ہو جائیگی۔ افضل یہی ہے۔ لیکن محتاط امام مالک کافتویٰ ہے امام شافعی اورامام احمد بن حنیل کے نزدیک چار ماہ گذرنے پراگرکوئی شخص رجوع نہ کرے تواسے قاضی مجبورکرے گا۔ کہ رجوع کرے یاطلاق دے۔ یہ بھی قر یباً امام مالک کے قول سے ملتا ہے اگر مرد دونوں باتوںسے کوئی بھی نہ کرے گا ۔ تو قاضی اس کیطرف سے طلاق دلا دے گا۔ امام نخعی کا قول ہے کہ یہ رجوع پوشیدہ جائز نہیں نہ اشارہ سے بلکہ قول سے ہونا چاہئے ۔ اور گواہوں کی موجودگی
وَالْمُطَلَّقٰتُ





عزیز حکیمo
اس کے لئے ضروری ہے ۔ غرض قرآن کریم عورت کو کَالمُعَلّقَۃ چھوڑنے سے منع کرتا ہے ۔ اور جو چھوڑے اسے مجبور کرتا ہے کہ یا صلح کرے یا اسے طلاق دے دے ۔ غفور کے لفظ سے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ بغیر کسی جائز عذر کے اس قسم کی قسم کھانا اور عورت کو دق کرنا گناہ کی بات ہے ۔ تمہیں ایسے فعل سے توبہ کرنی چاہئے اور عورت کودق نہیں کرنا چاہئے ۔ وَ اِن عَزَمُوالطَّلاق میں بتایا کہ اگرمرد طلاق دینے کا پختہ ارادہ کر لیں تو اﷲبھی سننے والا اور جاننے وا لا ہے۔ سَمِیْع’‘کے لفظ سے ڈرایا کہ اگر وہ اپنی بیوی سے نا انصا فی کر یگا۔ تو اسے یا د رکھنا چا ہیے کہ ور اس کے بد نتا ئج سے بچ نہیں سکتا۔ کیونکہاللہ تعالیٰاُس کی بیو ی کی فر یا د کُوسُننے وا لا ہے۔ اور عَلِیْم’‘ میں بتا یا کہ جو خیالا ت تمہا رے دلو ں کے اندر ہیںاللہ تعالیٰان کو بھی خو ب جا نتا ہے اور انہی کے مطابق تم سے معا ملہ کر یگا۔اس لئے تم اپنے معاملات میں ہو شیا ر رہو۔تم دنیا کو تو دھوکا دے سکتے ہو مگر خدا تعالٰی کو نہیں۔
چو نکہ اسجگہ عو رت سے حسن سلو ک کو حکم دیا ہے۔ اس لئے اگر کو ئی شخص قسم کھا لیتا ہے کہ میں اپنی بیوی سے حسن سلوک نہیں کر ونگا تو یہ قسم بھی اس پہلی قسم ہے کی طرح ہو گی۔ جس کا ذکر لَاتَجْعَلُوا اللّٰہَ عُرْضَۃً لِاَّیْمَانِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْاوَتَتَّقُوْا میں کیا گیا ہے۔
۱۴۰؁تفسیر:۔ اب اللہ تعالٰی طلاق کے مسائل بیان فرماتا ہے اور اس بارہ میں سب سے پہلی ہدایت یہ دیتا ہے کہ جن عورتوں کو اُن کے خاوند طلاق دے دیں۔ انہیں اپنے آپ کو قردء تک روکے رکھنا چاہیے۔
قُرُدْء سے کیا مُراد ہے؟اس بارہ میں اُمت محمدیہ میں دو گروہ پائے جاتے ہیں۔ خلفاء اربعہ یعنی حضرت ابوبکرؓ۔ حضرت عمرؓ۔ حضرت عثمانؓ۔ اور حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ اِس سے حیض مُراد ہے۔ حضرت عبداللّٰہ بن مسعودؓ اور امام ابو حنفیہؒ کی بھی یہی رائے ہے۔لیکن حضرت عائشہؓ۔ حضرت عبداللّٰہ بن عمرؓ۔ حضرت زید بن ثابتؓ۔ حضرت امام مالکؒ اورحضرت امام شافعیؒ کہتے ہیں کہ اس سے طہر مراد ہے۔ حضرت محی الدین ابنِ عربیؒ لکھتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ خواب میں رسول کریمﷺکودیکھا اور آپ سے عرض کیا کہ یارسول اللّٰہ ایل عرب توٖقُرء سے حیض بھی مُراد لیتے ہیں اور طہر بھی۔ اللّٰہ تعالٰے کا اس سے کیا منشاء ہے۔ رسول کریم ﷺ نے جو جواب دیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے دونوں کو صحیح قرار دیا ہا ں ترجیح آپ نے طُہر کو دی(فتو حا ت مکیہ جلد ۴۔با ب ۵۴۰۔ صفحہ ۴۱۰ْْْْْْْ/۴۰۹)
عدت کی حکمت با لکل و اضح ہے۔ اس عرصہ میں خا وند کو سو چنے اور غو ر کر نے کا کا فی وقت مل جا تاہے ۔ اور اگر اس کے دل اپنی بیوی کی کچھ بھی محبت ہو تو وہ رجوع کر سکتا ہے۔
وَلَا یَحِلُّ لَھُنَّ اَنْ یَّکْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ فِيْ اَرْحَا مِھِنَّ میں عو رت کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر وہ حا ملہ ہو تو مرد کو بتا دے۔ کیو نکہ بسا اوقا ت ایسا ہو تا ہے کہ اگر عو رت حا ملہ ہو تو اس کی وجہ سے پھر محبت قا ئم ہو جا تی ہے اور میا ں بیو ی میں صلح کی صو رت پیدا ہو جا تی ہے۔
وَ بَعُوْ لَتُھُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّھِنَّ فِيْ ذٰ لِکَ میں ذٰلِکَ کا اشا رہ مدت تر بُّص کی طر ف ہے۔ اوراللہ تعالیٰنے بتا یا ہے کہ اگر عدت کے دوران خا وند اپنی عو رت سے دوبا رہ تعلقا ت قا ئم کرنا چا ہے تو اس میں کسی کو روک نہیں بننا چا ہیے۔ اس ہدا یت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عا م طور پر عو رت کے رشتہ دار کہ دیا کر تے ہیں کہ چو نکہ خا وند نے اپنی بیو ی سے اچھا سلوک نہیں کیا اور اسے ایک دفعہ طلا ق دے دی ہے اس لئے اب ہم اس سے تعلق قا ئم رکھنے کے لئے تیا ر نہیں۔اللہ تعالیٰفر ما تا ہے کہ عو رت کے رشتہ داروں کو میا ںبیوی کے تعلقا ت میں روک نہیں بننا چا ہیے۔اگر خا وند اپنی غلطی کو محسو س کر تے ہوئے رجو ع کر ناچاہتا ہے تو وہ کسی اور کی نسبت اس عو رت کا زیا دہ حقدار ہے اور وہ عدت میں اپنی عو رت کو وا پس لوٹا سکتا ہے۔
پھر وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّزِیْ عَلَیْھِنَّ بِا لْمَعْرُ وْفِ میں عا م قا نو ن بتا یا کہ مر دوں اور عو رتو ں کے حقوق بحیثیت انسان ہونے کے بر ا بر ہیں جس طرح عو رتو ں کے لئے ضر وری ہے کہ وہ مر دوں کے حقو ق کا خیا ل رکھیں۔ اسی طر ح مر دوں کے لئے بھی ضر و ری ہے کہ وہ عورتوں کے حقوق ادا کر یں۔
رسو ل کر یمﷺ کی بعثت سے پہلے عو رتوں کے کو ئی حقو ق تسلیم ہی نہیں کئے جا تی تھے بلکہ انہیں ما لو ں اور جا ئیدادوں کی طر ح ایک منتقل ہونے والا ورثہ خیا ل کیا جا تا تھا۔اور اُن کی پیدا ئش کو صر ف مر د کی خو شی کا مو جب قرا ر دیا جا تا تھا۔ حتّٰی کہ مسیحی جو اپنے آ پ کو حقو قِ نِسوا ب کے بڑے حا می کہتے ہیں اُن کے پا ک نوشتوں میں بھی عو رت کی نسبت لکھا تھا۔
’‘البتہ مرد کو اپنا سرڈھا نکنا نہ چا ہیے کیو نکہ وہ خدا کی صو رت اور اُس کا جلا ل ہے مگر عو رت مردکا جلا ل ہے’‘ (کر نتھیوں باب ۱۱ آ یت۷)
اسی طر ح لکھا تھا:۔
’‘ اور میں اجا زت نہیں دیتا کہ عو رت دکھا ئے’‘ (تمطا وس با ب ۲آ یت ۱۲)
صر ف اسلا م ہی ایک ایسا مذہب ہے جس میں عو رتوں کی انسا نیت کو نما یا ں کر کے دکھا یا ۔ اور رسول کر یمﷺ ہی وہ پہلے انسا ن ہیں جنہو ں نے عو رتوں کے بلحاظ انسا نیت بر ابر کے حقوق قا ئم کئے۔ اور وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّزِیْ عَلَیْھِنَّ بِا لْمَعْرُ وْفِ کی تفسیر لوگوں کے اچھی طر ح ذہن نشین کی۔ آ پ کے کلا م میں عو رتو ں کے سا تھ حسن سلو ک اور ان کے حقو ق اور ان کی قا بلیتوں کے متعلق جس قدر ارشا دا ت پا ئے جا تے ہیں ان کا دسواں حصّہ بھی کسی اور مذہبی پیشوا کی تعلیم میں نہیں ملتا۔آ ج سا ری دنیا میں یہ شو ر مچ رہا ہے کہ عو رتوں کوان کے حقوق دینے چا ہیں اور بعض مٖغر ب زدہ نو جوا ن تو یہا ں تک کہ دیتے ہیں کہ عو رتوں کو حقوق عیسا ئیت نے ہی دئیے ہیں حا لا نکہ عورتوں کے حقوق کے سلسلہ میں اسلا م نے جو وسیع تعلیم دی ہے عیسا ئیت کے تعلیم اس کے پا سنگ بھی نہیں۔
عر بو ں میں رواج تھا کہ ورثہ میں اپنی ما ؤں کو بھی تقسیم کر لیتے تھے۔ مگر اسلام نے خو د عو رت کو وا رت قرا ر دیا۔ بیوی کو خا وند کا۔ بہن کو با پ کا اور بعض صورتوں میں بہن کو بھا ئی کا بھی۔
غرض فر ما یا وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّزِیْ عَلَیْھِنَّ بھی انسانی حقوق کا جہا ں تک سوا ل ہے عورتوںکو بھی ویسا ہی حق حاصل ہے جیسے مر دوں کو۔ ان دونوں میں کو ئی فر ق نہیںاللہ تعالیٰنے جس طرح مردوں اور عو رتو ں کو یکساں احکا م دئیے ہیں اسی طر ح انعا ما ت میں بھی انہیں یکسا ں شر یک قرار دیا ہے۔ اور جن نعما ء کے مر د مستحق ہو نگے اسلا می تعلیم کے ما تحت قیا مت کے دن وہی انعا ما ت عو رتوں کو بھی ملیں گے۔ غر ضاللہ تعالیٰنے نہ اس دنیا میں انکی کوئی حق تلفی کی ہے اور نہ اگلے جہاں میں انہیں کسی انعام سے محروم رکھاہے۔ ہاں آپ نے اس بات کا بھی اعلان فرمایا کہ وَلِلرَّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَۃ یعنی حقوق کے لحاظ سے تو مرد و عورت میں کوئی فرق نہیں لیکن انتظامی لحاظ سے مردوں کو عورتوں پر ایک حقِ فوقیت حاصل ہے اس کی ایسی ہی مثال جیسے ایک مجسٹریٹ انسان ہونے کے لحاظ سے تو عام انسانوں جیسے حقوق رکھتا ہے اور جس طرح ایک ادنیٰ سے ادنیٰ انسان کو بھی ظلم اور تعدی کی اجازت نہیں اُسی طرح مجسٹریٹ کو بھی نہیں۔ مگر پھر بھی وہ بحیثیت مجسٹریٹ اپنے ماتحتوں پر فوقیت رکھتاہے۔ اور اُسے قانون کے مطابق دوسروں کو سزا دینے کے اخیتار حاصل ہوتے ہیں۔ اِسی طرح تمدنی اور مذہبی معاملات میں مرد و عورت دونوں کے حقوق برابر ہیں۔ لیکن مردوں کو اللہ تعالیٰ نے قوام ہونے کی وجہ سے فضیلت عطا فرمائی ہے لیکن دوسری طرف اسنے عورتوں کو استمالتِ قلب کی ایسی طاقت دیدی ہے جس کی وجہ سے وہ بسا اوقات مردوں پر غالب آجاتی ہیں۔ بنگلہ کی جادوگر عورتیں تو جیسا کہ عام طور پر مشہور ہے مردوں پر جادو سا کر دیتی ہیں۔ پس جہاں مرد کو عورت پر ایک رنگ میں فوقیت دی گئی ہے۔ وہاں عورت کو استمالتِ قلب کی طاقت عطا فرما کرمرد پر غلبہ دے دیا گیا ہے ۔ جس کی وجہ سے بسا اوقات عورتیں مردوں پر اس طرح حکومت کرتی ہیں کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ سب کاروبار انہیں کے ہاتھ میں ہے۔ دراصل ہر شخص کی الگ الگ رنگ کی حکومت ہوتی ہے۔ جہاں تک احکام شرعی اور نظام کے قیام کا سوال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر فضیلت دے دی ہے مثلاًشر عیت کا یہ حکم ہے کہ کوئی لڑکی اپنے ماں باپ کی اجازت کے بغیر شادی نہیںکر سکتی ۔یہ حکم ایسا ہے جو اپنے اندر بہت فوائد رکھتا ہے ۔یورپ میںہزاروں مثالیںاسیی پائی جاتی ہیںکہ بعض لوگ دھوکے باز اور فریبی تھے مگر اس وجہ سے کہ وہ خوش و ضع نوجوان تھے انہوں نے بڑے بڑے گھرانوں کی لڑکیوں سے شادیاں کر لیں اور بعد میں کئی قسم کی خرابیاں پیدا ہوئیں ۔ لیکن ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہوتا کیونکہ رشتہ کی تجویز کے وقت باپ غور کرتا ہے والدہ غور کرتی ہے ۔ بھائی سوچتے ہیں رشتہ دار تحتیق کرتے ہیں اور اس طرح جو بات طے ہوتی ہے وہ بلعموم ان نقائص سے پاک ہوتی ہے جو یورپ
اَلطَّلاَقُ مَرَّتٰنِ



ھُمُ الظَّلِمُونْO
میں نظر آتے ہیں یورپ میں تو یہ نقص اس قدر زیادہ ہے کہ جرمنی کے سابق شہنشاہ کی بہن نے اسی ناواقفی کی وجہ سے ایک باورچی سے شادی کرلی اسکی وضع قطع اچھی تھی اور اس نے مشہوریہ کر دیا تھا کہ وہ روس کا شہزادہ ہے جب شادی ہو گئی توبعد میں پتہ چلا کہ وہ تو کہیں باورچی کا کام کیا کرتا تھا ۔ یہ واقعات سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے مردوں کے تو قو ام ہونے کے متعلق جو کچھ فیصلہ کیا ہے وہ بالکل درست ہے۔ شر یعت کا اس سے یہ منشا نہیں کہ عو رتوں پر ظلم ہو یا ان کی کو ئی حق تلفی ہو بلکہ شر یعت کا اس امتیا ز سے یہ منشا ہے کہ جن با تو ں کو نقصا ن نہیں پہنچ سکتا ہے ان میں عو رتوں کو نقصا ن پہنچ سکتا ان میں عو رتوں کو نقصا ن سے محفوظ رکھا جا ئے۔ اسی وجہ سے جن با تو ں میں عو رتو ں کو کو ئی نقصا ن نہیں پہنچ سکتا ان میں ان کا حق خدا تعا لٰی نے خو د ہی انہیں دے دیا ہے۔ پس قر آ ن کر یم نے جوکچھ کہا ہے وہ اپنے اندر بہت بڑی حکمتیں اور مصا لح رکھتا ہے۔
اگر دنیا ان کے خلا ف عمل کر رہی ہے تو وہ کئی قسم کے نقصا نا ت بھی بر دا شت کر رہی ہے جو اس با ت کا ثبو ت ہیں کہ اسلا م کے خلا ف عمل پیرا ہو نا کبھی نیک نتا ئج کا حا صل نہیں ہو سکتا۔
آ خر میں وَ اللّٰہ ُعَزِ یْز’‘ حَکِیْم ’‘فر ما کر اس طر ف تو جہ دلا ئی۔ کہ یاد رکھو عو رتوں پر جو فو قیت ہم نے تمہیں دی ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم اس سے نا جا ئز فا ئد ہ اٹھا ؤ۔ اور ان کے حقو ق کو پا ما ل کر ناشر وع کر دو۔دیکھو تم پر بھی ایک حا کم ہے جوعز یز ہے ۔ یعنی اصل حکو مت خدا تعا لٰی کی ہے اس لئے چا ہیے کہ مر د اس حکو مت سے نا جا ئز فائدہ نہ اٹھائے۔ اور حکیم کہ کر اس طر ف تو جہ دلا ئی کہ ضبط و نظم کے معا ملا ت میں جو اخیتا ر ہم نے مر دوں کو دیا ہے۔ یہ سرا سر حکمت پر مبنی ہے ورنہ گھر وں کا امن بر با د ہو جاتا۔چو نکہ میاں بیوی نے مل کر رہنا ہو تا ہے اور نظا م اس وقت تک قا ئم نہیں رہ سکتا جب تک کہ ایک کو فو قیت نہ دے جا ئے اس لئے نہ فو قیت مر د کو دی گئی ہے اور اس کی ایک اور و جہاللہ تعالیٰنے دو سر ی جگہ یہ بیا ن فر ما ئی ہے کہ چو نکہ مر د اپنا روپیہ عو رتوں پر خرچ کر تے ہیں اس لئے انتظا می امور میں انہیں عورتوں پرفو قیت حا صل ہے(نساء آ یت ۳۵)
۱۴۱؎ تفسیر:۔ اَلطَّلاَ قُ مَرَّ قٰنِِ سے مرا د یہ ہے کہ ایسی طلا ق جس میں خا وند کو رجوع کا حق حا صل ہے صر ف دو دفعہ ہی ہو سکتی ہے۔ یہ نہیں کہ عو رت کو تنگ کر نے کے لئے اسے بار بار طلا ق دیتا رہے۔ اور جب عدت ختم ہر نے کا وقت قر یب آ ئے تو رجوع کر لے احکا م دینیہ کے سا تھ یہ ایک نا پا ک تمسخر ہے جس کی اسلا م ہر گز اجا زت نہیں دیتا۔
احا دیث میں صر احتاًذکر آ تا ہے کہ رسو ل کر یم ﷺ کے زما نہ میں ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ لَا اُطَلِقُکِ اَبَدًا وَلَااٰدِیْکِ اَبَدً یعنی نہ تو میں تجھے کبھی طلا ق دو نگا اور نہ اپنے گھر میں بسا ؤنگا۔ عورت نے پو چھا۔وَکَیْفَ ذَلِکَ یہ کس طر ح ہو سکتا ہے۔ اس پر اس نے کہا اُطَلِّقُ حَتّٰی اِذَاَتٰی اَجَلُکِ رَا جَعْتُکِ میں تجھے طلا ق دونگا۔ اور جب تیر ی عد ت ختم ہو نے کے قر یب پہنچے گی تو رجوع کر لونگا۔ اگلی دفعہ پھر ایسا کرونگا اور پھر رجوع کر لو گا۔ اسطرح نہ تجھے بساؤ گا اور نہ علیحدہ ہونے دونگا۔ وہ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اُس نے اس واقعہ کا آپ سے ذکر کیا۔ اس پر اللّٰہ تعالٰے نے یہ آیت نازل فرمائی کہ اَلطَّلَاقُ مُرَّتٰنِ یعنی وہ طلاق جس میں مرد کو رجوع کا حق حاصل ہے صرف دو دفعہ ہے اس سے زیادہ نہیں (تفسیر ابن کثیرہر حاشیہ فتح البیان جلد ۲ ۹۴؁) اس حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ دو طلاقوں تک تومرد کو رجو ع کا حق حاصل رہتا ہے لیکن تیسری طلاق کے بعد اُسے رجوع کاکوئی حق نہیں رہتا۔ اور یہ دوطلاقیں بھی بیک وقت نہیں دی جا سکتیں بلکہ یکے بعد دیگرے دی جاتی ہیں جس کی طرف مَرَّتٰنِ کا لفظ اشارہ کرتا ہے جس کے معنے مَرَّۃً بَعْدَ مَرَّۃًکے ہیں۔ یعنی ایک ہی دفعہ طلاقیں نہ دی جائیں بلکہ باری باری دی جائیںاور ہر طلاق کی مدت جیسا کہ اوپر کی آیت میں گذرچکاہے تیںقروء ہے خواوہ ہر مہینے میں ایک طلاق دے یا شروع میں ایک دفعہ دے۔ اس سے طلاق کے لحاظ سے کو ئی فرق نہیں پڑتا۔ فقہاء نے ہر مہینے طلاق دینے کی طرف اس لئے توجہ دلائی ہے کہ اس طرح بار بار انسان کو رجوع کرنے کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے۔میرے نزدیک خواہ انسان ایک دفعہ طلاق دے یا ہر مہینے طلاق دے وہ ایک ہی طلاق سمجھی جائیگی۔ اور عدت گذرنے کے بعد پھر خاوند نکاح کرسکیگا۔ اِس قسم کی طلاقیں صرف دوجائز ہیں یعنی طلاق دینا اور عدت کے بعد دوبارہ نکاح کر لینا۔ اگر دو ہو جائیں تو اس کے بعد پھر اگر وہ تیسری مرتبہ طلاق دے دے تو ایسے شخص کے لئے اس عورت سے دوبارہ نکاح جائزنہیں جبتک کہ وہ باقاعدہ اور شرعی نکاح دوسرے شخص سے نہ کر چکی ہو جو حقیقی نکاح ہے حلالہ نہیں۔ کیونکہ حلالہ کا وجود اسلام میں نہیں ملتا۔ غرض اَلطَّلاَقُ سے مُراد وہ طلاق ہے جس کی عدت گذر چکی ہے وہ طلاق نہیں جس پر عدت نہ گذری ہو۔ اس میں رجوع ہو سکتا ہے جس پر عدت گذرچکی ہو اس میں دو دفعہ نکاح ہوسکتا ہے۔تیسری دفعہ نہیں۔
بیشک بعض حدیثیں اور بعض فقہا ء کے اقوال اس کے خلاف نظر آتے ہیں۔لیکن قرآن کریم کے الفاظ اَلطَّلاَقُ مَرَّتٰنِ بلکل واضع ہیں اور اس س پہلی آیت وَاْلمُطَلَّقَاتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِھِنَّ ثَلَاثَۃَ قُرُوْئٍ دَلَایَحِلُّ لَھُنَّ اَنْ یَّکْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ فَیْ اَرْحَامِھِنَّ اِنْ کُنَّ یُؤْمَنَّ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ بَعُوْلَتُھُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّ ھِنَّ فِیْ ذٰلِکَ اِنْ اَرَادُوْآ اِصْلاَحًا۔ واضع کرتی ہے کہ زمانہ طلاق قروء تک جاتا ہے اس عرصہ میں انسان بغیر نکاح کے رجوع کر سکتا ہے اور اَلطَّلاَقُ مَرَّتٰنِ کے چند آیات بعد کی آیت وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَلاَ تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ لَذْوَاجَھُنَّ اِذَاتَرَاضَوْابَیْنَھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ بتاتی ہے۔ کہ طلاق کی مدت گذر جانے کے بعد خاوند دوبارہ نکاح کر سکتا ہے۔درمیانی آیت اَلطَّلاَقُ مَرَّتٰن اس پہلی قسم کی طلاق کی طرف اشارہ کرتی ہے اورپہلی قسم کی طلاق یہی ہے کہ تین قروء تک رجوع جائز ہے اور تین قروء کے بعد نکاح جائز ہے۔
غرض آیت اَلطَّلاَقُ مَرَّتٰن بتاتی ہے کہ ایسی طلاق دو دفعہ ہو سکتی ہے جس کے صاف معنے یہ ہیںکہ طلاق کے بعد عدت گذر جانے کی صورت میں خاوند کو دو دفعہ دوبارہ نکاح کا حق حاصل ہے۔ ایسے دو واقعات کے بعد اگر پھر بھی انسان طلاق دیدے تو اس کو نکاح کا حق حاصل نہیں رہتا بلکہ اسے عرصہ مدت میں رجوع کا بھی حق حاصل نہیں۔ پھر یہ حق اس کو تبھی حاصل ہو گا جبکہ وہ عورت کسی دوسرے شخص سے باقاعدہ نکاح کرے اور وہ مرد اس کو کسی وجہ سے طلاق دیدے۔ فَاِمْسَا کُ بِمَعْرُوفٍ لَوْ تَسْرِیْحٍ بِاَحْسَانٍٍ میں بتایا کہ ان دو طلاقوں کے بعد یا تو عورت کو معروف طریق کے بطابق اپنے گھروں میں بسا لو اوریا پھر حسنِ سلوک کے ساتھ رخصت کر دو۔ تَسْرِیْحُ بِاَحْسَاْنٍ کے متعلق رسول کریم ﷺ کی بھی ایک تشریح احادیث میں بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ ابنِؔ ابی حاتم نے ابی ؔ زرین سے روایت کی ہے کہ جاء وَجَلُ اِلٰی النَّبِیِّ ﷺ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اﷲ ! اَرَئَ یْتَ قَوْلَ اﷲِعَزَّ وَ جَلَّ فَاِمْسَاکَ َبِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحُ‘ بِاَحْسَاْنٍ اَیْنَ الثَالِثَۃِ قَالَ التَّسْرِیْحُ‘ بِاَحْسَاْنٍ۔ یعنی رسول کریم کی خدمت میں ایک شخص آیا۔اور اس نے عرض کیا کہ یا رسولاﷲ! دو طلاقیں توقرآن میں بیان ہوئی ہیں۔ تیسری کہاں سے آئی ؟آپ نے فرمایا ۔ اَوْتَسْرِیْحُ‘ بِاِحْسَاْنٍ جو آیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ْتَسْرِیْحُ‘ بِاِحْسَاْنٍ کوآپ نے تیسری طلاق قرار دیا ہے۔ اس جگہ احسان کا لفظ رکھ کر اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ عورت کو رخصت کرتے وقت اس کے ساتھ احسان کامعاملہ کرنا چاہئے۔ مثلاً اس کے حق سے زائد مال اسے دیدیا جائے اور اسے عزت کے ساتھ روانہ کیا جائے۔بعض صحابہ ؓ کے متعلق آتا ہے کہ انہوں نے اپنی بیویوں کوطلاق دی تو انہیں دس دس ہزار روپیہ تک دے دیا۔ پھر فرمایا وَلَا یَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَاْخُذُوْامِتَااٰتَیْتُمُوْحُنَّ شَیْئاً۔ تمہارے لئے یہ ہرگز جائز نہیں کہ اگر کوئی مال یا جائیداد تم انہیں دے چکے ہو تو طلاق کے بعد ان سے واپس لے لو۔ یہ آیت بلصراحت بتاتی ہے کہ طلاق کے بعد عورت سے زیورات اور پارچات وغیرہ واپس نہیں لئے جا سکتے۔ نہ مال واپس لیا جا سکتا ہے ۔ نہ کوئی جائداد جو اسے دی جا چکی ہو واپس لی جا سکتی ہے ۔ بلکہ مرد اگرمہر ادا نہ کر چکا ہو تو طلاق کی صورت میںوہ مہر بھی اسے ادا کرنا پڑیگا۔ لیکن اسکے بعد ایک استثنیٰ رکھا ہے اورکہا ہے کہ اگر وہ صورت پیدا ہو تو پھر جائز ہے۔ چنانچہ فرمایا اِلَّا اَنْ یَّخَافَا اَلَّایُقِیْمَا حُدُودَ اللّٰہِ۔سوائے اس کے کہ ان دونوں کو خوف ہو کہ وہ خدا تعالیٰ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے یعنی مرد عورت کے حقوق ادا نہ کر سکیگا ۔ اورعورت مرد کے حقوق ادا نہ کر سکے گی ۔ اس صورت میں اس کا حکم اور ہے۔ جو فَاِنْ خِفْتُمْ سے شروع ہوتا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے۔فَاِنْخَفْتُمْاَلَّایُقِیْمَا حُدُودَ اللّٰہِ فَلَا جُنَاحَ عَلِیْھُمَاْفِیْمَاافّْتَدَتْبَہِ۔ یعنی اس صورت میں اگر تمہاری رائے بھی یہی ہو کہ دونوں فریق ایک دوسرے کو نقصان پہنچائی نگے یعنی قضا نے بھی دیکھ لیا کہ فی الواقعہ دونوں کا قصور ہے صرف مرد ہی کا قصور نہیں ہے۔ بلکہ عورت بھی قصور وار ہے تو اس صورت میں اگر عورت سے کچھ دلوا کر ان میں جدائی کروا دی جائے جسے اصطلاحاً خلع کہتے ہیں تو اس میں کوئی گناہ نہیں ہو گا۔
یہ ایک عجیب با ت ہے کہ اس آ یت میں تَاْخُذُوْا کی ضمیر اور طر ف گئی ہے اور طرف حا لا نکہ جملہ ایک ہی ہے۔ یعنی تَاْخُذُوْا سے مرا د خا وند ہیں۔ اور خِفْتُمْ سے مراد محکمہ قضا ء سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں۔ اسے اصطلا ح میں انتشار ضما ئر کہتے ہیں۔ اورنحوی اسے جا ئز قرا ر دیتے ہیں۔ غر ض فَاِ نْ خِفْتُمْ میں بتا یا کہ اگر حکا م اس با ت کا فیصلہ کر یں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ عو رت راضی نہیں اور اس کی نا رضا مندی کی وجہ سے مر د بھی عدل نہ رکھ سکیگا تو عو رت اگر کچہ دینا چا ہے تو مرد کو اجا زت ہے کہ لیکراسے طلا ق دے دے۔ چنا نچہ اس کے متعلق احا دیث میں رسول کر یمﷺ کے زما نہ کے ایک وا قعہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ جس سے اس مسئلہ پر روشنی پڑ تی ہے۔ ابن ما جہ اور نسا ئی میں آ تا ہے کہ ثابت بن قیس بن شما س کی بیوی( یعنی عبد اللّٰہ بن ابی بن سلول کی بیٹی) رسو ل کر یمﷺ کی خد مت میں حا ضر ہو ئی۔ اور اس نے عر ض کیا کہ یا رسول اللّٰہ مجھے اپنے خا وند سے اس قدر نفر ت ہے کہ اگر وہ مجھ سے حسن سلو ک بھی کر ے۔ تب بھی میں اس کی طر ف تو جہ نہیں کر سکتی اور سو ائے اس نفر ت کے مجھے اس سے اور کو ئی شکا یت نہیں۔ رسول کر یمﷺ نے اس کے خا وند کو بلا یا۔ اور اس سے دریا فت فر ما یا کہ تم نے اسے کچھ دیا ہوا ہے اس نے عرض کیا کہ ایک با غ ہے جو میں نے اسے دیا ہوا ہے۔ رسول کر یمﷺ نے عورت کو فر ما یا اَتَرُدِّیْن عَلَیْہِ حَدِ یْقَتَہ‘ کہ کیا تو اس کا با غ اسے وا پس کر سکتی ہے؟ قَا لَتْ نَعَمْ اس نے کہا ہاں! یا رسول کر یمﷺ نے عو رت کو فر ما یا اَتَرُ دِّیْن عَلَیْہِ حَدِ یْقَتَہ‘ کہ کیا تو اس کا با غ اسے واپس کرسکتی ہے؟قَا لَتْ نَعَمْ اس نے کہا ہا ں ! یا رسول اللّٰہ!میں با غ وا پس کر دو نگی۔ فَاَمَرَہ‘ رَسُوْلُ اللّٰہِ اَنْ یَّاْ خُذَ الْحَدِ یْقَۃَ وَلَا یَزِ یْدَ عَلَیْھَا(نسا ئی) اس پر رسول اللّٰہﷺ نے اسے حکم دیا کہ وہ اس سے اپنا با غ واپس لے لے اور اس سے زیا دہ کچھ نہ لے۔ دوسر ی روایت میں ذکر آ تا ہے کہ اس عورت نے کہا یا رسو ل اللّٰہﷺ!میں تو زیا دہ دینے کے لئے بھی تیا ر ہوں۔
رسول کریمﷺ نے فر ما یا۔اَمَّا الزِّیَا ذَۃُ فَلَا۔ کہ زیا دہ ہر گر نہیں۔ بعض روایتوں میں آتا ہے کہ یہ حبیبہؔ بنت سہیل کا وا قعہ ہے۔ بہر حا ل رسو ل کر یمﷺ نے وہ با غ اس سے وا پس کروا دیا اور عورت کو طلا ق دلوا دی اور مر د کو اس سے زیا دہ لینے کی اجا ذت نہ دے۔ اس سے معلو م ہوا کہ صرف خا وند کاما ل اسے واپس دلوا یا جا سکتا ہے اور کچھ نہیں۔
اسجگہ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَا دو وجو د کی بنا پر کہاںگیا ہے۔ اول اس لئے کہ اس سے پہلے لَیَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَا خُذُ وْامِمَّا اٰتَیْتُمُوْ ھُنَّ شَیْائً فر ما کر عو رت سے ما ل لینا گنا ہ قرار دیا تھا۔ پس چو نکہ یہ شبہ پڑتا تھا کہ کہیں اس صو رت میں بھی ما ل لینا گنا ہ نہ ہو۔ اسلئے فلََا جُنَاحَ عَلَیْھِمَااسئے فر ما یا کہ عور ت کا کچھ دیکر اور یہ گنا ہ ہے۔ جیسا کے جدا ئی کے شو ق پر دلا لت کر تا ہے اور یہ گنا ہ ہے۔ جیسا کہ ابن جر یر نے ثونا ن سے روا یت کی ہے کہ رسول کر یم ﷺ نے فر ما یا۔اَيُّ مَا امْرَ اَُۃٍ سَا لََتْ زَوْجَھَا الطَّلَا قَ مِنْ غَیْرِ بَئْا سٍ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْھَا رَائِحَۃَ الْجَنَّۃِ( جلد ۲ صفحہ۲۲۵) یعنی جو عورت بغیر کسی معقول وجہ کے اپنے خا وند سے طلاق ما نگے۔ اس پر جنت کی خوشبو حرا م ہے۔ سو فر ما یا کہ اگر کو ئی حقیقی مجبو ری پیش آجا ئے تو اس صورت سے کچھ روپیہ لے کر چھو ڑنا اس کے لا لچ پر دلا لت کر تا ہے اور یہ بھی گنا ہ ہے۔ پس چو نکہ دونو ں طر ف گنا ہ کا شبہ ہو سکتا تھا۔ اس لئے بتا یا کہ قا ضی کی تحقیق کے بعد ااس طر یق پر جدا ئی منا سب سمجھی جائے اور ایک شحص فیصلہ کر دے کہ یہی طر یق منا سب ہے تو پھر دونوں کو کو ئی گنا ہ نہیں ہو گا۔
تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلَا تَعْتَدُ وْ ھَا۔ فر مایا ہے یہاللہ تعالیٰکی مقرر کر دہ حد یں ہیں اور تمہا را فرض ہے کہ تم ان حدود سے اپنا قد م باہر مت رکھو۔ مگر افسوس ہے مسلما نوں نے اس حکم کی یہا ں تک خلا ف ورزی کی کہ انہو ں نے کہ دیا کہ اگر ایک مجلس میں اکٹھی تین طلاقیں بھی دے دی جا ئیں۔ تب بھی طلا ق بتّہ وا قع ہو جا تی ہے۔ حا لا نکہ یہ سوا ل خو د رسول کر یمﷺ کی خد مت میں پیش ہوا اور آ پ سے پو چھا گیا کہ کیا یہ ایک ہی طلا ق سمجھی جا ئیگی! تو آ پؐنے فر ما یا۔یہ ایک ہی طلا ق ہے۔ چو نکہ حضرت ابن عبا س ؓ سے روایت ہے کہ طَلَّقَ رَکَا نَۃُ زَوْجَہ‘ ثَلَا ثًا فِیْ مَجْلِسٍ وَاحِدٍ فَحَزَنَ عَلَیْہِ حُزْنًا شَدِ یْدًا فَسَئَا لَہ‘ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ کَیْفَ طَلَّقْتُھَا ثَلَاثًًًا فِیْ مَجْلِسٍ وَاحِدٍ قَالَ اِنَّمَا تِلْکَ طَلْقَۃ‘ وَا حِدَۃ’‘ فَا رْ تَّجِعْھَا۔( ابو داء ود با ب نسخ المر جعتہ بعد التطلیقا ت الثلا ث) یعنی ایک شخص رکا نہ نے اپنی بیوی کو ایک ہی وقت مین تین طلا قیں دے دیں جب یہ معا ملہ رسول کریمﷺ کے سا منے پیش ہوا تو آپ نے دریا فت فر ما یا کہ تو نے اپنی بیوی کو کس طر ح طلا ق دی بھی ۔ اس نے کہا۔ میں نے اسے ایک ہی وقت میں تین طلا قیں دے دی تھیں۔ آ پؐنے فر ما یا۔ یہ ایک ہی طلا ق ہے ۔اس لئے تم رجو ع کر لو اسی طر ح نسا ئی میں محمود بن لبید سے روا یت ہے کہ اُخْبِرَرَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺعَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ اِمْرَ ائَ تُہ‘ ثَلَاثَ تَطْلِیْقَا تٍ جَمِیْعًا فَغَضِبَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ ثُمَّ قَا لَ اَیَلْعَبُ بِکِتَا بِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ وَاَنََا بَیْنَ اَظْھُرِ کُمْ(نسا ئی با ب الثلا ث الجموعتہ وَ مَا نیہ من التغلیظ) یعنی رسول کریمﷺ کو خبر دی گئی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک ہی دفعہ تین طلا قیں دے دی ہیں۔ اس پر رسول کر یمﷺ نے بہت نا را ضگی کا اظہار کیا اور فر ما یا۔ ابھی تو میں تم میں مو جو د ہوں۔ کیا میری موجودگی میں وہاللہ تعالیٰکی کتا ب سے کھیلتا ہے۔ اسی طر ح حضر ت ابن عبا سؓ سے روا یت ہے کہ کَانَ الطَّلَاقُ عَلیٰ عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہﷺ وَ ربَیْ بَکْرٍ وَ سَنَتَیْنِ مِنْ خِلَا فَۃِ عُمَرَؓ طلََاقُ الثَّالَا ثِ وَ احِدَۃ ً فَقَا لَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّا بِ اِنَّ النَّا سَ قَدِا سْتَعْجَلُوْ افِیْ اَمْرٍ کَانَتْ لَھُمْ فِیْہٍ اَنَاۃ’‘ فَلَوْ اَمْضَیْنَاہُ عَلَیْھِمْ فَاَ مْضَاہُ عَلَیْھِمْ(مسلم با ب طلا ق الثلا ث)یعنی آنحضر تﷺ اور حضرت ابو بکر ؓ کی خلا فت کے زما نہ میں اور حضرت عمرؓ کی خلا فت کے ابتدائی دو سا ل تک ایک وقت میں تین طلا قیں ایک ہی بطلا ق تسلیم کی جا تی تھی۔ لیکن حضرت عمرؓ نے یہ دیکھ کر کہ لو گ طلا قوں کو ایک معمولی با ت سمجھنے لگ گئے ہیں اور انہوں نے ایک ایسے معا ملہ میں جس میں انہیں بہت غور اور سو چ بچا ر سے کا م لینے کا حکم تھا جلد بازی شر وع کر دے ہے وقتی طو رپریہ فیصلہ فر ما دیا کہ آ ئندہ اگر کسی نے اکھٹی تین طلا قیں دیں تو اس کی تین طلا قیںہی تصور ہو نگی۔
اما م ابن قیم نے اعلا مالمو قعین جلد ۲ صفہ ۲۴ تا ۲۶ میں اس مسئلہ کو وضا حت سے بیا ن کیا ہے۔ بد قسمتی سے ہما رے ملک میں بھی اسلا می تعلیم سے نا وا قفیت کی وجہ یہ رواج ہے کہ معمو لی معمولی جھگڑوں پر لو گ اپنی بیویوں سے کہ دیتے ہیں کہ تمہیں تین طلا ق۔ تمہیں تین ہزار طلا ق۔تمہیں تین کڑور طلاق تمہیںارب طلاق۔ حا لا نکہ اسلام نے اس بیو قو فی کی اجا زت نہیں دی۔ اور پھر آ جکل کے وہ لوگ جو شر یعت کے پورے واقف نہیں کہ دیتے ہیں کہ تین دفعہ یکد م طلا ق دینے کے بعدعورت سے دوبارہ نکا ح نہیں ہو سکتا۔ حا لا نکہ یہ طلا ق شر عی لحا ظ سے ایک ہی طلا ق ہے اور عدت گررنے کے بعد عورت سے دوبا رہ نکا ح ہو سکتا ہے لیکن جیسا کہ میں نے بتا یا ہے حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں جب اس قسم کے واقعات کثرت سے ہونے لگے تو آ پ نے فر ما یا کہ اب اگر کو ئی شخص اپنی بیوی کو بیک وقت ایک سے زیا دہ طلا قیں دیگا تو میں سزا کے طور پر اس کی بیوی کو اس پر نا جا ئز قرار دے دو نگا۔ جب آ پ پر یہ سوا ل ہوا کہ رسول کریمﷺ نے تو ایسا حکم نہیں دیا۔ پھر آ پ نے ایسا کیوں کیا ہے تو آ پ نے فر ما یا۔ رسول کر یم ﷺ کا یہ منشاء تھاکہ اس قسم کی طلا قیں رک جا ئیں۔ مگر چو نکہ تم لوگ اس قسم کی طلاق دینے سے رکتے نہیں اس لئے میں سزا کے طور پر اس قسم کی طلا ق کو جا ئز قرار دے دو نگا۔ چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا۔ اور آ پ کا ایسا کرنا ایک وقتی مصلحت کے ما تحت تھا۔ اور صرف سزا کے طورپر تھا مستقل کے طور پر نہیں تھا۔ بہر حا ل طلا ق ایک ایسی چیز ہے جسے رسول کر یمﷺ نے اَبْغَضُ الْحَلَال قرار دیا ہے۔یعنی جا ئز اور حلال چیزوں میں سے سب سے زیادہ مکر دہ اور نا پسندیدہ چیز۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیوی زند گی مین انسا ن کے لئے جو چیزیں ضروری اور لا زمی ہیں اور جن کے زریعہ انسا ن آ رام اور سکینت حا صل کر سکتا ہے وہ میا ںبیوی کے تعلقات ہیں۔ میا ں بیوی کے تعلقات سے جو سکون اور آ رام انسا ن کو حاصل ہو تا ہے وہ اسے اور کسی ذریعہ سے حا صل نہیں ہو سکتا۔ قر آن کر یم میں اللّٰہ تعالٰی نے ان وجودوں کو ایک دوسرے کے لئے مودت اور رحمت کا موجب قرار دیا ہے۔ اسی طر ح با ئیبل میں آ تا ہیاللہ تعالیٰنے آ دم کے لئے حوّا پیدا کی تا کہ وہ آ دم کے لئے آ رام اور سکون کاموجب ہو۔ یعنی حوّا کے بغیر آ دم کے لئے تسکین اور آ رام کی صورت اور کوئی نہ تھی۔ لیکن یہی دو وجود جو ایک دوسرے کے لئے تسکین اور را حت کا مو جب ہیں کبھی کبھی انہیں لڑا ئی اور جھگڑے کا مو جب بنا لیا جا تا ہے اور راحت اور سکون کی بجا ئے انسا ن کے لئے اس کا مد مقا بل یعنی خا وند کے لئے بیوی اور بیوی کے لئے خا وند دنیا میں سب سے زیا دہ تکلیف دینے کامو جب بن جا تا ہے۔ ہزاروں خا دند ایسے ہیں جو اپنی بیویوں کے لئے بد تر ین عزاب ہو تے ہیں ۔ اور ہزاروں بیو یا ں ایسی ہیں جو اپنے خا وندوں کے لئے بد تر ین عزاب ہو تی ہیں۔ ایسے مواقع کے لئے اسلا م کا حکم ہے کہ مر د عورت کو طلاق دے دے یا عورت مرد سے خلع کر الے۔ لیکن طلا ق اور خلع سے پہلے اسلا م نے کچھ احکا م بیان کئے ہیں جن کو مدنظر رکھنا مر د اور عورت اور قا ضیوں کا فر ض قرا ر دیا گیا ہے تا کہ طلا ق یا خلع عا م نہ ہو جا ئے۔ رسول کر یمﷺ فر ماتے ہیں:۔ اِنَّ اَبْعَضَ الْحَلَالِ عِنْدَاللّٰہِ الطَّلَاقُ یعنی حلال چیزوں میں سے سب سے زیا دہ نا پسند یدہ چیز خدا تعا لٰے کے نزدیک طلاق ہے۔ جب طلاق حلال چیزوں میں سے سب سے زیا دہ نا پسندیدہ ہے تو ایک مو من جس کے دل میںاللہ تعالیٰکی محبت ہے وہ اس چیز کے کس طرح قریب جا سکتا ہے جس کے متعلق وہ سمجھتا ہو کہ یہ اللّّٰہ تعا لٰی کو سخت نا پسند ہے، ہر کا م جو جا ئز ہے ضروری نہیں کہ اسے کیا بھی جا ئے۔ ہر شخص جا نتا ہے کہ بنا رس۔ کلکتہ مداس یا بمبئی وغیرہ جانا حلال ہے لیکن کتنے ہیں جو ان جگہوںمیں گئے ہیں اگر حلال کے ہی معنے ہیں کہ اسے ضرور کیا جا ئے ۔ توپھر تو یہ ہو نا چا ہیے تھا کہ جن لو گوں کے پا س ان شہروں میں جا نے کے لئے روپیہ نہ تھا۔ وہ اپنی جا ئیدادیں بیچ ڈالتے اور اس حلال کا م کوضرور سر انجا م دیتے۔ لیکن لو گوں کا اس پر عمل نہ کر نا بتاتا ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کو جو با ت حلال ہے ضروری نہیں کہ اس پر عمل بھی کیا جا ئے۔ بلکہ منا سب مو قعہ اور محل کا خیا ل رکھنابھی ضروری ہوتا ہے اگر ایک حلال کام کے کر نے سے نا پسند یدگی کے ساما ن پیدا ہو تے ہوں۔ تو اس کا م سے بہر حال اجتناب کیا جا ئیگا۔ مثلاً پیاز کھانا حلا ل ہے لیکن مسجد میں پیاز کھا کر جانا منع ہے۔ اسی طرح انسا ن کے لئے یہ حلال ہے کہ وہ سبز رنگ کا کپڑا پہنے یا لُودے رنگ کا کپڑا پہنے یا زرد رنگ کا کپڑا پہنے۔ لیکن اگر کسی کا دوست کہے کہ یہ زرد رنگ کا کپٹراخر ید لو۔ تو وہ کہتا ہے مجھے زرد رنگ اچھا نہیں لگتا۔ کیونکہ اس کے نزدیک حلال وہ چیز ہے جو اس کی پسند کے مطا بق ہو اور اس کی طبیعت کو اچھی لگتی ہو۔کھا نے کے متعلقاللہ تعالیٰکا حکم ہے کہ حلال اور طیّب چیزیں کھاؤ۔ لیکن بعض لو گ بیگن نہیں کھا تے بعض لو گ کدو کوپسند نہیں کر تے۔ اگر ان سے پو چھا جا ئے کہ آ پ بینگن کیو ں نہیں کھا تے تو وہ کہتے ہیں ہمیں پسند نہیں یا دوسرے شخص سے پو چھا جا ئے کہ آ پ کدو کیوں نہیں کھا تے تو وہ کہتا ہے کہ میر ی بیوی اس کو نا پسند کرتی ہے۔ اسی طرح جو لو گ مکا ن تیا ر کر تے ہیں وہ اپنے مزاج اور طبیعت کے مطا بق مکا ن بنا تے ہیں۔ کو ئی ایک منزلہ مکا ن بناتا ہے۔ کو ئی دو منزلہ اور کو ئی سہ منز لہ۔ کو ئی مکا ن میں با غیچہ لگا نا پسند کر تا ہے اور کو ئی بغیر با غیچہ کے رہنے دیتا ہے۔ اب یہ سا ری چیزیں حلال ہو تی ہیں۔ لیکن وہ سب پر عمل نہیں کر تا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ ہر حلال با ت پر عمل کر نا ضروری نہیں ۔ لیکن جب بیوی کو طلاق دینے کا معا ملہ پیش آ جا ئے تو یہ کہتے ہو ئے کہ بیوی کو طلاق دینا جا ئز ہے فوراً بے سوچے سمجھے اسے طلا ق دے دی جا تی ہے۔ حا لا نکہ بعض حلال چیزیں انسا ن اپنے نفس کی خا طر بعض اپنے دوستوں کی خا طر اور بعض سو سا ئٹی کی خا طر ہمیشہ چھو ڑتا رہتا ہے درحقیقت ایسے مو قعہ پر ایک مو من کی حا لت یہ ہو تی ہے کہ وہ اس حلال کو خداتعالٰی کی خا طر چھو ڑ دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ چو نکہ یہ کا م میرے خدا کو پسند نہیں اس لئے میں یہ کا م نہیں کر تا تا میرا خدا مجھ پر نا راض نہ ہو۔ پس رُ شد و ہدا یت یہ نہیں کہ طلاق کو عا م کیا جا ئے۔ بلکہ ر‘شد و ہدا یت یہ ہے کہ طلاق سے بچنے کی کوشش کی جا ئے۔ حلال کے معنے یہ ہیں کہ چا ہو تو کرسکتے ہو۔ یہ قانو ن کے لحا ظ سے منع نہیںلیکن تمہیں دوسروں کے خیا لات دوسروں کے خیا لات۔ دوسروں کے جزبات۔ دوسروں کی ہمدردی اور دوسروں کے پیارکو بھی ملحوظ رکھنا چائیے جس حلال پر عمل کرنے سے دوسروںکے خیالات۔ دوسروںکے جذبات۔ دوسروںکی ہمدردی اور دوسروں کے پیار کاخو ن ہوتا ہو۔ وہ حلال نہیں بلکہ ایسا حلال ایک جہت سے حلال ہے اور دوسری جہت سے حرام ہے ۔ جب لوگ اپنے دوستوں کی نا راضگی اور قوم کی نا را ضگی کا خیال رکھتے ہیں تو کیا خدا تعا لٰٰی کی نا را ضگی ہی ایسی چیز ہے جس سے انسا ن کو بے پرواہ ہر جانا چا ہیے۔ کیا خدا تعا لٰٰی کا وجود ہی ایسا کمزور ہے کہ جس کی نا راضگی انسا ن کے لئے قا بل اعتبار نہیں۔ جب دنیوی اور سفلی عشق رکھنے والے لوگ اپنے محبوب کی چھو ٹی سے چھو ٹی خفگی سے بھی ڈرتے ہیں۔ اور اس کو نا راض ہو نے کا موقعہ نہیں دیتے۔ تو ایک مومن رسول کر یمﷺ کی یہ حد یث پڑھ کر یا سن کر کہ اِنَّ اَبْغَضَ الْحَلَالِ عِنْدَاللّٰہِ الطَّلَاقُ کس طرح آ سا نی سے یہ جرأت کر سکتا ہے کہ اس کی خلاف ورزی کر ے۔ جب شریعت کہتی ہے کہ تم اس اَبْغَضُ الْحَلَال کو اخیتار کرنے سے پر ہیز کرو تو ہر مومن کا فرض ہے کہ وہ ایسے امور میںکمی پیدا کرنے کی کو شش کرے۔ اور اس با ت کو میا ں بیوی کے تعلقات کی کشیدگی کے وقت بھول نہ جا ئے۔
یہ با ت بھی یا د رکھنی چا ہیے کہ طلاق اور خلع درحقیقت ایک ہی معنے رکھتے ہیں۔ اگر مرد عورت کو چھو ڑتا ہے تو وہ طلاق ہو جا ئیگی اور اگر عورت میاں سے یہ مطا لبہ کرے کہ وہ اسے آ زاد کر دے تہ وہ خلع کہاجائیگا اور خلع بھی اَبْغَضُ الْحَلَال کے ما تحت ہی آئیگا۔ جہا ں تک نسوا نی حقوق کا سوا ل ہے۔ خلع کا مسئلہ مسلما ن بالکل بھو ل چکے تھے۔ جس کی وجہ سے عورتوں کے لئے ازحد مشکلات کا سا منا تھا۔ احمدیت نے ان کے اس حق کو قا یم کیا اور عورتوں کو ان تکا لیف سے نجا ت دی جو ان حقوق کی عدم موجودگی کی وجہ سے ان کو پہنچی تھیں۔ لیکن سا تھ ہی اس حدیث کے مضمون کو بھی لو گو ں کے سامنے بو ضاحت بیا ن کیا کہ ان دونوں رستوں کو اخیتار کر نااللہ تعالیٰ کے نزدیک اَبْغَضُ الْحَلَال ہے ۔ قر آ ن کریم کا حکم ہے کہ جب میا ں بیوی میں کو ئی جھگڑا پیدا ہو جا ئے تو اس کو دُور کر نے کے لئے حکم مقرر کئے جا ہیں۔ جو کو شش کر یںکہ ان کی رنجش دور ہو جا ئے اور وہ پہلے کی طرح پیار اور محبت کی زندگی بسر کرنے لگیں۔ لیکن اگر ایسے ہی حا لات پیدا ہو جا ئیں کہ صلح کی کو ئی صورت نہ ہو سکے تو بھی خلع کی صورت میں قا ضی کے سپرد یہ معا ملہ کیا جا ئے اور وہ اس کا فیصلہ کر ے۔ بہر حال یہ امر اچھی طرح یا د کھنا چا ہیے کہ زرا زرا سے بات پر خلع اور طلاق تک نوبت پہنچا دینا نہایت افسوس ناک امر ہے اور یہ اتنا بھیانک اور نا پسندیدہ طر یق ہے کہ ہر شریف آ دمی کو اس سے نفرت ہو نی چا ہیے۔
فَاِنْ طَلَّقَھَا


یَعْلَمُوْنَo
۱۴۲؎ تفسیر:۔ پہلے فَاِ مْسَا ک’‘ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْع’‘ م بِاِحْسَانٍ میں دو صورتیں بیا ن کی تھیں۔ اب طلاق وا لی صورت کو علیٰحدہ بیان کر تا ہے۔ اور فر ما تا ہے کہ اگر تیسری طلاق بھی وا قع ہو جائے تو اس صورت میں وہ عورت اس مرد کے لئے جا ئز نہیں ہو گی ہا ں اگر وہ عورت کسی دوسرے مرد سے شادی کرے اور پھر دوسرا بھی اسے طلاق دیدے یا فوت ہو جا ئے اور پھر وہ پہلا شحص اور یہ عورت یقین رکھتے ہوں کہ وہ حدود اللّٰہ کو قا ئم رکھ سکیں گے تو پھر ان دونوں کا آپس مین نکاح ہو سکتا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ سے روا یت ہے کہ طَلَّقَ رَجُل’‘ اِمْرَأتَہ‘ ثَلاََا ثًا ۔فَتَزَ وَّجْھَا رَجُل’‘ ثُمَّ طَلَّقَھَا قَبْلَ اَنْ یَّدْ خُلَ عَلَیْھَا فَاَ رَادَ زَوْجُھَا الْا وَّلُ اَنْ یَتَزَوَّجَھَا فَسُئِلَ رُسوْلُ اللّٰہِﷺ عَنْ ذْلِکَ فَقَالَ لَا حَتّٰی یَزُوْقَ اْلاَخَرُمِنْ عُسَیْلَتَھَا مَا ذَاقَ اْلاَوَّلُ(مسلم کتا ب الطلاق) یعنی ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں اور پھر اس کے بیوی نے ایک اور شخص سے نکا ح کر لیا۔ مگر اس نے بھی شا دی سے قبل اسے طلاق دے دی۔ اس پر اس کے پہلے خاوند نے چا ہا کہ وہ دوبارہ اس عورت سے نکا ح کر لے اور اسکے متعلق رسول کریمﷺ سے سوا ل کیا گیا کہ کیا وہ اس عورت سے نکا ح کر سکتا ہے۔ آ پ نے فر ما یا نہیں۔ جب تک دوسرا خا وند اس سے صحبت نہ کر ے۔ اور پھر کسی وجہ سے اسے طلا ق نہ دیدے وہ پہلے کیلئے جا ئز نہیں ہو سکتی۔ غرض دوسرے خا وند کا ہم صحبت ہونا شرط ہے اسکے بغیر وہ پہلے خاوند کے عقد میں نہیں آ سکتی۔ مسلما نو ں نے اپنے تنزل کے دور میں جہا ں اور بہت سی خلا فِ اسلام رسوم اپنے اندر دا خل کر لے تھیں وہا ں انہوں نے حلالہ جیسی گندی رسم بھی اپنے اندر جا ری کر لی۔ یعنی انہوں نے طلاق بتہ کے بعد عورت کو اپنے پہلے خا وند کے نکا ح میں لانے کا یہ نرا لا ڈھنگ نکا لا کہ مطلقہ عورت سے کسی غیر شخص کا صرف ایک رات کیلئے نکا ح کر دیا جاتا اور وہ اس سے ہم صحبت ہو تا اور صبح اٹھ کر وہ اس عورت کو طلاق دیدیتا تا کہ وہ اپنے پہلے خا وند سے دوبارہ نکا ح کر سکے۔ گو یا اس نکاح کا ڈھونگ صرف اس لئے رچایا جا تا کہ پہلے خا وند سے اس کا نکا ح کیا جا سکے۔ مگر اسلا م اس طریق کو نا جائز قرار دیتا ہے اور حلالہ کرنے اور کر وانے وا لوں پر *** ڈالتا ہے۔ چنا نچہ احا دیث میں آ تا ہے کہ رسول کریمﷺ نے فر ما یا لَعَنَ اللّٰہُ الْمُحَلِّلَ وَا لْمُحَلِّلَ لَہ‘(تر مزی با ب فی المحلل وا المحلل لہٰ) یعنی اللہ تعالیٰحلا لہ کر نیوا لے پر بھی اور جس کیلئے حلا لہ کیا گیا ہو اس پر بھی *** ڈا لتا ہے پس حلا لہ کی اسلا م میں کوئی جگہ نہیں اسلا می قا نون یہی ہے کہ تین طلا ق کے بعد عورت کسی اور مرد با قاعدہ شا دی کر ے اور اپنی زندگی اسکے گھر میں گزارے پھر اگر کسی وجہ سے وہ بھی طلا ق دیدے یا وفات پا جا ئے تو عورت اپنے پہلے خا وند سے نئے مہر اور ولی کی رضا مندی سے دوبارہ نکا ح کرسکتی ہے۔ اسکے بغیر نہیں۔
وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ




شَیْ ئٍ عَلِیْم’‘o
۱۴۳؎ حل لغات:۔ھُزُ وًا مصدر ہے اور اس کئے معنے ہنسی کر نے کے ہیں۔ اس آیت میں یا تو مصدر بمعنے مفعول ہے یعنی جس سے ہنسی کی جا ئے۔ یا مصدر منا لغہ کیلئے ہے کیو نکہ بعض اوقات مصدر مبا لغہ کے معنوں میں بھی استعما ل ہو تا ہے۔ یا حزف مضا ف ہے۔ یعنی ہنسی کا مقام۔
تفسیر:۔ اس آ یت میں طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ سے مراد طلاق رجعی ہے اور بَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ کے دو معنے ہیں۔ اول میعاد کے ختم ہو نے کے قریب پہنچ جا نا (۲) مدت کا ختم ہو جا نا ۔ اسجگہ پہلے معنے مراد ہیں اور مطب یہ ہے کہ جب دوسری طلا ق کے بعد عدت ختم ہو نے لگے تو تمہیں رجوع کا اخیتار ہے ۔فَاَمْسِکُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ سَرِّ حُوْ ھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ میں دوبا رہ اس مسئلہ پر زور دیا کہ عورتوں سے دو ہی قسم کے سلوک کر نیکا حکم ہے۔ یا تو انہیں مناسب رنگ میں اپنے پا س رکھ لو۔ یا منا سب رنگ میں رخصت کر دو۔ یہ نہ ہو کہ تم اس نیت کے ساتھ رجو ع کر و کہ بعد میں پھر اسے دکھ دینے کا ایک مو قعہ تمہا رے ہا تھ آ جا ئیگا۔ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلَک فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہ‘ اور جو شخص عورت کو دکھ دینے کیلئے ایسا کر یگا وہ بظاہر تو اپنی بیوی کو دکھ دے رہا ہو گا لیکن درحقیقت اپنی جا ن پر ظلم کر رہا ہو گا۔ اس لحا ظ سے بھی کہ وہ عورت پر ظلم کرکے اپنی شقا وت ملبی کا ثبوت لو گو ں کے لئے مہیا کر یگا۔
وَاذْکُرُو انِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَمَا اَنْزَلَ عَلَیْکُم ْمِّنَ الْکِتٰبِ وَاْ لحِکْمَۃِ۔ فر ما یا دوسری قوموں کو تو یہ تعلیم نصیب ہی نہیں ہو ئی۔ تمہیں یہ پا ک تعلیم دہ گئی ہے جس کی با ت حکمت پرمبنی ہے۔ تمہا را فرض ہے کہ تم اس پر عمل کر و۔ اوراللہ تعالیٰکا شکر بجا لاؤ۔ کہ اس نے دوسری قوموں کی طرح تمہیں ٹھوکریں کھا نے سے بچا لیا ہے ۔ اگر تم نے اس بابرکت تعلیم سے فا ئدہ نہ اٹھا یا اور تم بھی اپنی نفسا نی خو اہشا ت کے پیچھے پڑ گئے تو تم سے زیا دہ بد قسمت اور کو ن ہو گا۔ تمہیں چا ہیے کہ تم ان احکا م اور ہدا یات پر عمل کر و اور وہ طریق اخیتار نہ کرو جو تقویٰ کے خلا ف ہو۔
وَاِذَ اطَلَّقْتُمُ


لَا تَعْلَمُوْنَo
۱۴۴؎ حل لغات:۔ تُعْضُلُوْ ھُنّ:۔ عَضَلَ عَلَیْہِ عَضْلاً کے معنے ہیں۔ ضَیَّقَ عَلَیْہِ وَجَبَسَہ‘ وَمَنَتَہ‘۔(اقرب) یعنی کسی پر نا وا جب تنگی ڈالنا۔ اس کو روکے رکھنا اور اسے دوسرے کا موں سے منع کر دینا۔ ان معنوں کے لحا ظ سے لَا تَعْضُلُوْ ھُنَّ کا تر جمہ یہ ہو گا۔ کہ ان کو بنگ مت کر و۔ یا بند نہ کر و۔ یا روکو نہیں۔
اَزْکیٰ کے معنے اَنْفَعُ کے بھی ہیں اور (۲) زیا دہ پا کیزہ کے بھی ہیں۔
تفسیر:۔ اس آ یت میں بَلَغْ کے وہ معنے نہیں جو پہلے بیا ن ہو ئے ہیں بلکہ اس جگہ میعا د کے ختم ہو نے کے معنے ہیں۔ اور اَجَل سے حر یت وا لی مدت مرا د ہے۔ کہ جب وہ عدت پوری کر لیں اور آ زادی کے زما نہ میں آ جا ہیں فَلَا تَعْضُلُوْ ھُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَاجھُنَّ میں ازوا ج کے متعلق اختلا ف ہوا ہے۔(۱) بعض کہتے ہیں کہ اس سے پہلا خا وند مراد ہے اور مطلب یہ ہے کہ اس سے صلح کر لے۔ اس مفہوم کو مد نظر رکھتے ہو ئے طَلَّقْتُمْ سے مراد طلاق رجعی ہو گی تین طلا قیں مراد نہ ہو نگی۔(۲) بعض کہتے ہیں کہ خاوند سے مرا د آئندہ ہو نے والا خا وند ہے، اس صورت میں طَلَقْتُمْ سے مراد طلاق با ئن ہو گی۔ وہ کہتے ہیں کہ چو نکہ پہلے با ئن طلاق کاذکر ہو چکا ہے اس لئے اب یہاں خا وند سے مراد نیا خا وند ہے۔ پہلا خا وند نہیں۔ مگر میرے نزدیک دونوں معنے ہو سکتے ہیں۔ کیو نکہ دنیا میں دونوں قسم کے لو گ پا ئے جاتے ہیں۔ بعض لو گ تو ایسے ہو تے ہیں کہ اگر کسی جھگڑے کے بعد ان کے خا ندان کی مستورات دوبارہ اپنے پہلے خا وندوں کے گھروں میں بسنا چا ہیں تو وہ روک بن کر کھڑے ہو جا تے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ اب اس مرد سے تعلق قائم رکھنا ہما ری غیرت کے خلا ف ہے یا کہتے ہیں کہ آ گے ہی بہت بد نا می ہو چکی ہے۔ اب کب تک طلا قیں ہو تی چلی جا ئیں گی۔اللہ تعالیٰنے انہیں نصحیت فر ما ئی ہے کہ ایسے مرد اور ایسی عورتیں جب آ پس میں دوبارہ نکا ح پر را ضی ہو جا ئیں تو عورتوں کے رشتہ دار انہیں بد نامی وغیرہ کے خیا ل سے یا خا وند کے پچھلے اعمال پر نا را ضگی کے سبب سے اپنے سا بق خاوندوں سے نکا ح کر نے سے روکیں نہیں۔
اس کے مقا بل میں بعض لو گ اپنی بیویوں کو طلا ق دیکر بھی ان کا پیچھا نہیں چھو ڑتے۔ اور اگر وہ کسی اور جگہ نکا ح کر نا چا ہیں تو اس میں سو سو روڑے اٹکا نے کی کو شش کر تے ہیں۔ اور عورت کی بر ائیا ں دوسروں کے سا منے بیا ن کر تے ہیں تا کہ وہ بھی
لَا تُضَآ رَّ



تَعْمَلُوْنَ بَصِیْر’‘o
متنضر ہو جا ہئیں اور عورت کے نکا ح میں روک وا قع ہو جا ئے۔ رؤساء با لعموم ایسا ہی کیا کر تے ہیں۔ وہ طلاق بھی دے دیتے ہیں اور عورتوں کو اور جگہ نکا ح بھی نہیں کر نے دیتے۔ پس فلَاَ تَعْضُلُوْھُنَّ سے یہ بھی مرا د ہے کہ دوسرے نکا ح کے متعلق عورتوں کے راستہ میں روکیں مت ڈالو۔ اور یہ بھی کہ اگر طلا ق رجعی کی عدت ختم ہو جا نے کے بعد عورت اپنے پہلے خا وند سے نکا ح کے زریعے پھر تعلق قا ئم کر نا چا ہے۔ تو اس کے رشتہ داروں کو روک نہیں بننا چا ہیے۔ مگر لَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ سے یہ مراد نہیںکہ وہ عورت خو د بخود جس سے چا ہے بغیر ولی کی وسا طت کے نکاح کر لے۔ ولی کا ہو نا بہر حال ضروری ہے، اور اگر ولی نہ ما نیں توحکومت کی معرفت نکا ح کر لے۔
اسجگہ سوا ل پیدا ہو تا ہے کہ کیا عورت کے ولی کسی حد تک بھی عورت کو روک سکتے ہیں۔ یا کسی مر حلہ پر بھی انہیں یہ حق حا صل نہیں۔ اسکے متعلق اما م مالکؒ اور امام شا فعیؒ کہتے ہیں کہ ایک دو مو قعو ں تک تو اویسا ء روک ڈال سکتے ہیں لیکن اگر وہ انکار ہی کر تے چلے جا ئیں اور کسی سے بھی اس کی شا دی نہ ہو نے دیں تو یہ انکے لئے جا ئز نہیں ہو گا ۔ گو یا ایک دو خوا ہشمندوں سے روکنا تو احتیاط میں شا مل سمجھا جائیگا۔ لیکن ان کو اتنا وسیع اخیتار نہیں ہو گا کہ جہا ں اور جب بھی وہ عورت نکا ح کر نا چاہے اسے روک دیں۔ (۲) بعض کہتے ہیں کہ اگر بڑا ولی اجا زت نہ دے تو دوسرے ولی کے ذریعے وہ اپنا نکا ح کرا سکتی ہے۔(۳) بعض کہتے ہیں کہ بلا جا ئز ولیوں یا سلطان کے نکاح جا ئز نہیں اور یہی درست ہے۔ ہا ں اگر ولی کسی صورت میں بھی رضا مند نہ ہوں تو وہ حاکم وقت اور قا ضی کے زریعہ کسی دوسری جگہ جہا ں وہ اجا زت دے نکا ح کرا سکتی ہے یا قا ضی کی معرفت اولیاء پر دباؤ ڈال سکتی ہے کہ وہ روکیں نہ ڈالیں۔
ذٰلِکُمْ اَزْکیٰ لَکُمْ وَاَطْھَرُ میں بتا یا کہ یہ قا نو ن تمہا رے لئے دینی اور دنیوی دونوں لحاظ سے بڑا مفید اور با بر کت ہے۔ یعنی تمدنی نقطہ نگا ہ سے بھی اس قانو ں کی متا بعت تمہا رے اندر پا کیزگی کی روح پیدا کر نے والا ہے۔
۱۴۵؎ حل لغا ت:۔ تَسْتَرْ ضِعُوْا: اِسْتَرْ ضَعَ کے معنے ہیں طلب مُرْ ضِعَۃً اُس نے دودھ پلا نے والی عورت کو طلب کیا۔اور اِسْتَرْ ضَعَ وَالِدُہ‘ کے معنے ہیں وا لد نے اپنے بچہ کو کسی اور سے دودھ پلوا لیا۔ اور اِسْتَرْ ضَعَتِ الْمَرْأَۃُ الطِّفْلَ کے معنے ہیں اِتَّخَذَتْ مُرْ ضِیِِعَۃً لَھَا۔ اس نے دودھ پلا نے کیلئے دایہ کو رکھ لیا۔
تفسیر:۔ چو نکہ حَوْ لَیْنِ کَا مِلَیْنِ سے یہ دھو کا لگ سکتا تھا کہ دو سال تک رضاعت ضروری ہے اس لئے لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَا عَۃَ فر ما کر بتا دیا کہ اس سے کم مدّت بھی ہو سکتی ہے۔لیکن اس میں دو سا ل سے زیا دوہ کی نفی بھی کر دی گئی ہے کیو نکہ کاملین کا لفظ بتا تا ہے کہ دو سال سے زیا دہ دودھ پلا نا جا ئز نہیں۔
وَعَلَی الْمَوْ لُوْ دِلَہ‘ رِزْقُھُنَّ وَکِسْوَ تُھُنَّ بِا لْمَعْرَوْفِ میں کھا نے اور کپڑے سے مرا د تما م اخرا جا ت ہیں نہ کہ صرف روٹی اور لباس۔ اور معروف سے مراد با پ کی مقدرت ہے کہ امیر اپنی طا قت کے مطا بق دے اور غریب اپنی طا قت کے مطا بق۔اسجگہ عا م دودھ پلا نے وا لی عورتوں کا ذکر نہیں بلکہ ماؤں کا ذکر ہے۔ اور یہ ذکر طلاق کے ضمن میں کیا گیا ہے۔ اگر دودھ پلانے والی عورت کو طلا ق دے جا ئے تو بچہ کی خا طر عورت کے لئے یہ ضروری ہے کہ بچے کو دودھ مقررہ مدت تک پلا ئے اور اس کے بدلہ میں خا وند پر فرض ہے کہ عا م مزدور عورت کی طرح نہیں بلکہ اپنی تو فیق کے مطا بق اسے خرچ دے کیو نکہ یہ امر عورت کے جزبا ت کو ٹھیس پہنچانے والا ہو گا کہ ایک طرف تو اسے مجبور کیا جا ئے کہ وہ طلا ق دے بعد بھی بچہ کو دودھ پلا تی رہے۔ اور دوسری طرف اسے ایسی حا لت میں رکھا جا ئے جو پہلی حا لت سے ادنی ہو اور اس کے لئے زلت کا مو جب ہو۔ مگر اس کے سا تھ ہی لَا تُکَلََََّفُ نَفْس’‘ اِلَّا وُسْعَھَاکہ کر اس طرف اشا رہ فر مادیا کہ مر د سے یہ مطا لبہ کر نا کہ وہ اپنی طا قت سے زیا دہ خرچ کر ے۔ یہ بھی نا منا سب ہے اور عورت سے یہ مطا لبہ کر نا کہ وہ ایک نو کر کی طرح طلا ق کے بعد ایک عرصہ گھر میں گزار دے۔ یہ بھی نا منا سب ہے۔
لَا تُضَآ رَّ وَا لِدَۃَّ م بِوَ لَدِ ھَا کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ ما ں اپنے بچہ کی وجہ سے با پ کو ضرر نہ دے اور یہ بھی کہ ما ں اپنے بچے کی وجہ سے ضرر نہ دی جا ئے اس آ یت میں مر د اور عورت دونو ںکو یہ نصحیت کی گئی ہے کہ بچہ کو ایک دوسرے پا دباؤ ڈا لنے کا ذریعہ نہ بنا ؤ بہت سے نا دا ن اس حرکت کے مر تکب ہو تے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ یا تو بچے ہلا ک ہو جا تے ہیں یا انکی تر بیت خراب ہو تی ہے۔ اس قسم کا فعل درحقیت قتلِ اولاد کے مشا بہ ہے۔ اور قرآ ن کر یم نے اس سے روک کر آ ئندہ اولا دوں پر احسان عظیم کیا ہے۔
وَعَلَی لْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِکَ کا عطف وَعَلَی الْمَوْ لُوْ دِ لَّہ‘ رِزْقُھُنَّ وَ کِسْوَ تُھُنَّ بِا لْمَعْرُوْفِ پر ہے ۔ اس میںاللہ تعالیٰنے ایک عجیب حق قا ئم کیا ہے جو تمدن کی صورت ہی بدل دیتا ہے۔ اور حکم دیا ہے کہ اگر با پ مر جا ئے تو با پ کے جو ورثاء ہو ں ۔ ان پر بچہ کو دودھ پلا نے وا لی عورت کا خرچ ہو گا۔ گو یا ورثہ کے سا تھ بو جھ بٹا نے کا کا م بھی ان کے سپرد کر دیا۔ خواہ انہیں ترکہ ملا ہو یا نہیں ملا ہو۔ تھوڑا ہو یا بہت۔چنا نچہ فر ما یا وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِکَ۔ وارث پر بھی ویسا ہی حق ہے جیسا کہ با پ پر یعنی با پ کا وارث خوا ہ لڑکا ہو خواہ کو ئی قریبی رشتہ دار اس پر یہ خرچ وا جب ہو گا۔ یعنی اس کی پر ورش کر نا احسا ن کے طور پر نہیں ہو گا۔۔ بلکہ ایک حق کے طور پر ہو گا جواللہ تعالیٰکی طرف سے اس پر وا جب کیا گیا ہے ۔ اور یہ بھی مطلب ہے کہ اس بچہ کے حصہ میں سے خر چ دیا جا سکتا ہے۔ بہر حال اس آ یت میںاللہ تعالیٰنے تمدن کی ایک نئی بنیا د رکھی ہے۔ کہ کمزور بچوں کی تربیت بطورحق ورثاء پر ڈال دی ہے۔یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جب دودھ پلا یا جا چکے تو پھر وہ بچوںکو لا وارث چھو ڑ دیں بلکہ اس حق کو بلو غث تک ممتد کر نا پڑے گا اور ان کا فرض ہو گا کہ وہ بچہ کے کھا نے اور لبا س کے اخراجا ت کے علا وہ اس کے تعلیمی اخرا جات بھی با لغ ہو نے تک پورے کر یں اور اس کی اعلیٰ درجہ کی تر بیت مد نظر رکھیں تا کہ وہ قوم کا ایک مفید وجود بن سکے۔ بعض لو گ کہتے ہیں کہ یہ خرچ نسبتی طور پر تما م ورثاء پر پڑے گا۔ اور بعض کہتے ہیں کہ صرف سب سے بڑھ کر حق وارثت رکھنے والا شخص اسکا ذمہ دار ہو گا۔ خواہ اسے ترکہ میں سے کچھ ملا ہو یا نہ ملا ہو۔
فَاِ نْ اَرَادَافِصَالاً عَنْ تَرَا ضٍ رمِّنْھُمَا وَ تَشَاوُرٍ فَلَا جُنَا حَ عَلَیْھِمَا سے معلوم ہو تا ہے کہ بچے کے متعلق دودھ پلا نے یا چھڑانے کا فیصلہ قر آ ن کر یم نے نہ مر د کے اخیتا ر میں رکھا ہے نہ عورت کے اختیار میں بلکہ دونوں کومشترکہ اختیار دیا ہے ۔ شا ید تما م شرا ئع کی تاریخ میں یہ منفرد مثا ل ہے کہ اس طرح اہلی معا ملا ت میںمیا ں بیوی کو ایک مقا م پر کھڑا کر کے برا بر کے اختیار دیئے گئے ہیں۔ ہا ں یہ شرط ضرور ہے کہ دودھ پلا نے کی جو مدت قرآن کر یم نے مقرر کی ہے اس سے زیا دہ دیر تک دودھ پلا نے پر نہ خا وند مجبور کر سکتا ہے نہ عورت زور دے سکتی ہے۔جب طلا ق کے بعد بھی عورت کے جذبات کا اسقدر خیال رکھنے پر خا وند کو مجبو ر کیا گیا ہے تو ظا ہر ہے کہ جو عورت نکا ح میں ہو ان امور میں اس کے جذبات کا خیال رکھنا اسلام کے نذدیک کس قدر ضروری ہو گا۔
وَاِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْ ضِعُوْٓا اَوْلَا دَکُمْ فَلَََاجُنَاحَ عَلَیْکُمْ اِذَ اسَلَّمْتُمْ مَّآ اٰتَیْتُمْ بٍا لْمَعْرُوْفِ میں بتا یا کہ بچوں کو دوسروں سے دودھ پلوا نا حقوق پدری کے خلا ف نہیں نہ حقوق ما دری کے خلا ف کہ اس کو گنا ہ سمجھو گنا ہ تب ہو گا اگر بلا اجرت دینے کے ظلماً کسی سے یہ کا م لو۔ کیو نکہ اس صورت میں تم نے دو گنا ہ کئے ایک تو دوسرے کا ما ل لینے کا اور ایک بچہ کے حقوق ادا نہ کر نے کا۔انہی معنوں سے لَا جُنَا حَ کے معنے حل ہو تے ہیں۔ اس سے معلوم ہو تا ہے کہ بچے کے حقوق بطور حق کے ہیں اور ان میں کمی کر نا مو جب گنا ہ ہو تا ہے۔
اِذَا سَلَّمْتُمْ مَآاٰتَیْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ کے متعلق سوا ل پیدا ہو تا ہے کہ یہ تو بظاہر ایک بے معنی فقرہ معلو م ہو تا ہے۔کیو نکہ اس کے لفظی معنے یہ بنتے ہیں کہ جب تم دے دو جوتم دے چکے ہو۔ حالا نکہ جو معا وضہ ایک دفعہ دے دیا گیا ہو اسکے دوبا رہ دینے کا سوا ل ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس مشکل کو دیکھتے ہو ئے بعض لو گ کہتے ہیں کہ اس سے ثا بت ہو تا ہے کہ مر ضعہ کی مذدوری پہلے دینی ضروری ہے مگر میرے نذ دیک اس سے مذدوری پہلے دینا ثا بت نہیں کیو نکہ سَلَّمَ کے معنے صرف سپر د کرنے کے ہی نہیں ہو تے بلکہ اس کے معنے را ضی ہو نے کہ بھی ہو تے ہیں۔ چنا نچہ عربی زبا ن میں سَلَّمَ بِہ کے معنے ہو تے ہیں رَضِیَ وہ اس سے را ضی ہو کیا۔ قر آ ن کر یم میںبھی یہ لفظ ان معنو ں میں استعمال ہوا ہے جیسا کہاللہ تعالیٰفر ماتا ہے فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُئو مِنُوْ نَ حتَیّٰ یُحَکِّمُوْ کَ فَیْھَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِٓیْ اَنْفُسِھِمْ حَرَ جًٍا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْاتَسْلِیْمًا( سو رۃ نسا ء آ یت ۶۶) یعنی تیرے رب کی قسم جب تک وہ ہر اس با ت میںجس کے متعلق انہیں جھگڑا ہو جا ئے وہ تجھے حکم نہ بنا ئیں اور پھر جو فیصلہ تو کر ے اس سے وہ اپنے نفوس میںکسی قسم کی تنگی محسوس نہ کر یں اور پورے طور پر را ضی نہ ہو جا ئیں اس وقت تک وہ ہر گز مو من نہیں ہو نگے، ان معنوں کو مد نظر رکھتے ہو ئے اِذَا سَلَّمْتُمْ کے یہ معنے ہو نگے کہ جب تم دودھ پلا نے وا لیوں کو منا سب حق دینے پر رضا مند ہو جا ؤ اور تمہا ری نیت یہ ہو کہ تم اتنی رقم بہر حا ل دے دو گے تو پھرکسی دوسری عورت سے دودھ پلوا نے میں کو ئی حرج نہیں ۔ گو یا ایتان
وَا لَّذِیْنَ



بالمعروف پر با ہم رضا مند ہو جا نے کے بعد اگر کسی اور سے دودھ پلوا لو تو کو ئی گنا ہ نہ ہو گا۔ ان معنوں کے لحا ظ سے اُجرت کا پہلے دینا ضروری نہیں ۔ مگر اجر ت کا پہلے مقرر ہر جانا بہر حال ضروری ہے۔لیکن اگر سَلَّمْتُمْ کے معنے سپر د کر نے کے بھی لئے جا ئیں تب بھی اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ پہلے اجر ت سپرد کرو تب دودھ پلوا نا جا ئز ہو گا بلکہ یہاں ایک قا عدہ بیا ن ہوا ہے، اور وہ یہ کہ اگر اجرت سپر د نہ کرو گے تو گنا ہ ہو گا گو یا اِذَاسَلَّمْتُمْ فلا جُنَا حَ عَلَیْکُمْ کے سا تھ ہے نہ کہ تَسْتَزْضِعُوْا کے سا تھ۔ مگر سَلَّمْتُمْ کے معنے حل کر نے کے بعد بھی یہ سوا ل قا ئم رہتا ہے کہ اس جگہ اٰتَیْتُمْ کا لفظ استعما ل کیا گیا ہے جس کے لفظی معنے ہیں ’’تم نے دے دیا ہے‘‘ یا ’’ تم دے چکے ہو‘‘۔ اس لحا ظ سے اس کے معنے یہ بنتے ہیں کہ جب تم اس حق پر رضا مند ہو جا ؤ جو تم دے چکے ہو۔ اور ظا ہر ہے کہ یہ ایک بے معنے فقرہ بن جا تا ہے۔ سویاد رکھنا چا ہیے کہ عر بی زبان میں کبھی ما ضی کا صیغہ قطعی فیصلہ پر دلا لت کر نے کے لئے بھی استعمال کیا جا تا ہے۔ جیسیاللہ تعالیٰفرماتا ہے ۔ اِذَا قُمْتُمْ اِلَیٰ الصَّلٰوۃِ فَا غْسِلُوْا وُجُوْ ھَکُمْ وَ اَیْدِ یَکُمْ اِلَی الْمَرَا فِق (سورہ مائدہ آ یت۷)
جب تم نما ز کے لئے کھڑے ہو تو اپنے مو نہوں کو اور اپنے پا تھو ں کو کہنیوں تک دھو لیا کرو۔ حا لا نکہ وُضو نما ز کے لئے کھڑے ہو نے سے پہلے کیا جاتا ہے۔ نہ کہ کھڑے ہو تے وقت۔ پس یہاں یہی مراد ہے کہ جب تم نما ز کا پختہ ارادہ کر لو تو پہلے وُ ضو کر لیا کر و۔ اور یہی اٰتَیْتُمْ کے معنے ہیں ۔ کہ جو کچھ تم اسے دینے کو پختہ فیصلہ کر چکے ہو۔ اگر اس کے یہ معنے نہ کئے جا ئیں تو آ یت کا یہ مطلب نکلتا ہے کہ پہلا روپیہ جو تم اسے دے چکے ہو وہ اسے پھر دے دو۔یعنی اگر پہلے سو روپیہ سے چکے تھے تو پھر اور سو روپیہ دیدو حا لانکہ اسے کوئی بھی تسلیم نہیں کر تا۔ درحقیقت اس کے یہی معنے ہیں کہ اگر تم اپنے بچوں کو کسی دوسری عورت سے دودھ پلوا نا چا ہو تو اس میں کو ئی حرج نہیں بشر طیکہ تم نے اسے جو کچھ دینے کا پختہ فیصلہ کیا ہے اس پر پورے طور پر قا ئم ہو جا ؤ اور اس میں کسی قسم کی حیل و حجت سے کا م نہ لو۔
اس آ یت میں یہ سبق دیا گیا ہے کہ حق الخد مت کے لئے ضروری ہو تا ہے کہ اس کے ادا کرنے کا انسا ن ایسا عہد کر ے کہ گو یا ادا کرہی دیا ہے اور با لمعروف کہ کر اس امر کی طرف تو جہ دلا ئی ہے کہ حق الخدمت ادا کر نے میں معروف کو مد نظر رکھنا ضروری ہو تا
تَعْمَلُوْنَ خَبِیْر’‘o
ہے ۔ یعنی معا وضہ ملک کی اقتصا دی حا لت کے مطا بق ادا کیا جا ئے۔ اس قدر کم نہ ہو کہ اسوقت کی اقتصا دی حا لت کے مطا بق اس سے دودھ پلا نے وا لی عورت کا گزارہ ہی نہ ہو سکے۔ اسی طر ح ما لمعروف میں اس امر کی طر ف اشارہ کیا گیا ہے کہ اگر تمہا ری مالی حالت عا م لو گو ں سے اچھی ہو تہ نہ صرف پہلی حد بندی کو مد نظر رکھو بلکہ اس سے زائد یہ امر بھی مدنظررکھو کہ ایسا حق الخدمت ادا کرو۔ جو تمہاری اپنی ما لی حالت کے مطا بق گزارہ کے لئے کا فی ہو۔ لیکن اگر ہو سکے تو اس سے زیا دہ دو اور صرف زما نہ کے حا لا ت کے مطا بق ہی نہ دو بلکہ اپنی ما لی حا لت کو مد نظر رکھتے ہو ئے ایسا معاوضہ دو جو تمہا رے حا لات کے مطا بق ہو۔
۱۴۶؎ حل لغات:۔ یَتَرَ بَّصْنَ میں منتدا محذوف ہے۔ یعنی حُکْمُ اَزْوَاجِھِمْ اَنْ یَّتَرَ بَّصْنَ اَوْ اَزْوَاجُھُمْ یَتَرَ بَّصْنَ یعنی حُکْمُ اَزْوَاجِھِمْ مبتدا ہے جو محذوف ہے اور اَنْ یَّتَرَ بَّصْنَ اُس کی خبر ہے۔
تفسیر:۔ اس آ یت سے استدلال کر تے ہو ئے بعض لو گ کہتے ہیں کہ اگر چا ر ماہ دس دن کی عدّت گذرنے کے بعد عورتیں اپنے مستقبل کے متعلق کو ئی قدم اٹھا ئیں۔ تو مردوں پر تو کو ئی گناہ نہ ہو گا لیکن عورتوں پر گنا ہ ہو گا کیو نکہ دوسری جگہاللہ تعالیٰفر ما تا ہے کہ مَتَا عاً اِلیَ الْحَوْلِ غَیْرَ اِخْرَاجٍ یعنی عورتوںکو اپنے گھروں سے ایک سال تک کوئی شخص نکا لنے کا مجا ذ نہیں۔ لیکن میر ے نذ دیک یہ با ت درست نہیں کہ ایسی صورت میں عورتوں پر گنا ہ ہے کیو نکہ اسی آ یت میں اس کے بعد باِ لْمَعْرُوْفِ کا لفظ آ یا ہے جس سے صا ف ثا بت ہے کہ اگر وہ نکا ح ثا نی کرلیں تو یہ صرف جا ئز ہی نہیں بلکہ ایک پسند یدہ اور قا بل ستا ئش فعل ہے۔ اگر گنا ہ ہو تا تو باِ لْمَعْرُوْف کا لفظ استعمال نہ کئے جاتے ۔ کیو نکہ معروف کے معنے را ئج الوقت قا نو ن یا فطرتی جذبہ یا عقلِ عا مہ کے مطا بق کسی کا م کے کر نے کے ہو تے ہیں۔ اور جو کا م قا نو ن کے مطا بق ہو یا فطر تی جذ بہ کے مطا بق ہر یا انسا نی عقل اس کا تقا ضا کر تی ہو اس کا م کو کو ئی دانا شخص بُرا قرار نہیں دے سکتا۔ در حقیقت یہ آ یت ان لوگو ں کے لئے زجر ہے جوہ بیوہ عورتوں کو نکا ح ثا نی سے روکتے ہیں فر ما تا ہے۔ اگر وہ نکا ح کر لیں تو کیا تم پر کو ئی گنا ہ ہے ۔ یعنی ہرگز کو ئی گناہ نہیں۔ پھر تم انہیں نکاح سے کیوں رو کتے ہو۔ وہ اپنے نغوس کے متعلق جو کچھ فیصلہ کر یں اس کا وہ حق رکھتی ہیں ۔ہا ں اس میں یہ اشا رہ ضرور پا یا جا تا ہے کہ اگر وہ کو ئی غیر معروف کا م کر یں اور احکام و الیاء انہیں یہ روکیں تو یہ گنا ہ ہو گا۔
بیوہ کے لئے چا ر ما ہ دس دن کی مدت مقرر کر نے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اگر عورت حا ملہ ہو تو اس عرصہ میں جنین میں حر کت پیدا ہو جا تی ہے اور اسے حمل کا یقینی طور پر علم ہوجا تا ہے۔ جس کے نتیجہ میں ضروری ہو ا ہے کہ وہ نکا ح کے لئے وضع حمل تک انتظار کرے۔
وَلَاجُنَا حَ




غَفُوْ ر’‘ حَلِیْم’‘o
۱۴۷؎ حل لغات:۔عَرَّ ضْتُمْ: عَرَّ ضْتُ لَہ‘ وَعَرَّ ضْتُ بِہ تَعْرِ یْضًا کے معنے ہیں اِذَا قُلْتَ قَوْلًا وَاَنْتَ تُعْنِیْہِ فَا لتَّعْرِیْضُ ضِدُّ التَّصْرِ یْحِ مِنَ الْقَوْلِ( اقرب) یعنی تعر یض ایسے کلا م کوکہتے ہیں جو تصریح کے مخا لف ہو۔ اور صرف اشارۃً ایسی بات کہی جائے جس کا اصل مفہوم کہنے والا ہی سمجھتا ہو۔
صا حب مفر دات لکھتے ہیں۔ اَلتَّعْرِیْضُ کَلَا م’‘ لَہ‘ وَ جْھَانِ مِنْ صِدْ قٍ وکِذْبٍ اَوْ ظَا ھِرٍ وَ بَا طِنٍ یعنی تعریض ایسے کلام کو کہتے ہیں جس کے صدق اور کزب یا ظا ہر اور با طن کے لحا ظ سے دو مفہوم سمجھے جا سکیں۔
تَعْزِ مُوْا: عَزَ مَ الْاَ مْرَ وَعَلَیْہِ کے معنے ہیں عَقَدَ الضَّمِیْرَ عَلَیْہِ۔کسی با ت کا پختہ ارادہ کر لیا۔
تفسیر:۔ فر ماتا ہے اس میں کو ئی حرج نہیں کہ تم ان عورتوں سے نکا ح کے سلسلہ میں کو ئی بات اشارۃٍ کہ دو۔ مثلا ً کسی بیوہ سے کہ دیا کہ مشورہ سے کام کر نا بہتر ہو گا۔آ پکواگر کو ئی ضرورت محسوس ہو تو میں ہمدردانہ مشورہ کے لئے حا ضر ہوں۔ اب لفظ مشورہ عا م ہے خوا ہ وہ اپنے لئے ہو یا کسی اور کے لئے۔ اس طرح با ت بھی مخفی رہتی ہے اور اشا رۃً اس کا اظہار بھی ہو جا تا ہے۔ اسی طر ح ارادہء نکا ح کو اپنے دل میں مخفی رکھنا بھی جائز ہے۔ تا وقت یکہ چا ر ما ہ اور دس دن کے میعا د نہ گزر جا ئے۔
لاَ تُوَاعِدُوْ ھُنَّ سِرًّ اِلَّا اَنْ تَقُوْلُوْاقَوْ لًا مَّعْرُ وْفًا میں عورتوں سے خفیہ معا ہدہ نکا ح کی کلی مما نعت کر تے ہو ئے
لَاجُنَاحَ عَلَیْکُمْ


الْمُحْسِنیْنَo
قو ل معروف کی اجا زت دی گئی ہے ۔ مگر قول معروف سے شادی کی درخوا ست مراد نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس پر یہ اثر ہو کہ یہ شخص میرا خیر خوا ہ ہے۔ اورمیں اس سے ضرورت پر مفید مشورہ لے سکتی ہوں۔ ورنہ یہ مطلب نہیں کہ اسے صا ف طور پر نکا ح کے لئے کہ دیاجا ئے ایسا کہنا پر گز جا ئز نہیں۔ چنا نچہ فر ما تا ہے۔ وَلَا تَعْزِمُوْاعُقْدَۃَ النِّکَاحِ تم دو نو ں مل کر اس امر کا فیصلہ نہ لو کہ عدت کے بعد ہم آپس میں نکا ح کر لیں گے۔ اس سے پہلے اَوْکْنَنْتُمْ فِٓیْ اَنْفُسِکُمْ تو مر دوں کو سمجھا یا کہ وہ شادی کے متعلق عورتوں کے سا منے پورا اظہا ر نہ کر یں۔ ہا ں اگر وہ دل میں نیت رکھیں تو اس میں کو ئی حر ج نہیں۔ مگر اسجگہ عورتوں کو بھی منع کر دیا ہے کہ اگر وہ مر دوں کی با ت کو سمجھ جا ئیں تو فوراً ہا ں نہ کر دیں۔ بلکہ وہ بھی خا مو ش رہیں اور اپنے ارادہء نکا ح کا ان کے سا منے اظہا ر نہ کر یں۔اللہ تعالیٰنے یہ ذکر اس لئے کیا ہے کہ عا م طور پرلو گ ایسے امور میں احتیاط سے کا م نہیں لیتے اور نفسا نی جو شوں سے دب جا تے ہیں۔اللّٰہ تعا لٰی فر ماتا ہے کہ عدت کے اندر تمہارا نکا ح کے متعلق آپس میں کو ئی فیصلہ کر لینا قطعی طور پر ناجائز ہے۔
اس کے بعد فر ما تا ہے وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا فِٓیْ اَنْفُسِکُمْ فَاحْذَرُوْہُ تمہا رے دلوں میں جو کچھ ہے۔ اسے خو ب جا نتا ہے۔ پس تم اس سے ڈرو۔ اور سمجھ لو کہ کسی اور کو پتہ ہریا نہ ہواللہ تعالیٰکو تو پتہ ہے اس لئے تم چو کس رہو اور احکام الہٰی کی خلا ف ورزی کر نے کی جرأ ت نہ کر و۔
یا یہ کہ لَاتَعْزِ مُوْاعُقْدَۃَ لنِّکّاحِ میں دوسرا حکم ہے اور وَاعْلَمُٓوْا اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا فِٓیْ اَنْفُسِکُمْ فَا حْذَ رُوْہُ میں لاَتُوَاعِرُوْھُنَّ سِوْاً کے حکم کے سلسلہ میں یہ بتا یا گیا ہے کہتم ان سے کو ئی مخفی معاہدہ نہ کر و۔ کیو نکہاللہ تعالیٰتمہا رے دل کی باتوں تک کو جا نتا ہے۔
وَاعْلَمُٓوْ ا اَنَّ اللّٰہ َغَفُوْر’‘ حَلِیْم’‘ کا یہ مطلب نہیں کہ اگر ان احکا م کی خلا ف ورزی ہو جا ئے تو تماللہ تعالیٰکو غَفُوْر حَلِیْم’‘ پا ؤ گے۔ بلکہ اس میں لَاتَعْزِمُوْاعُقْدَۃَ النِّکَا حِ کی حکمت بتا ئی ہے۔ کہ چو نکہاللہ تعالیٰپردہ پو ش ہے اور وہ انسان کی کمزوری سے وا قف ہے۔ اس لئے اس نے صرف چا ر ما ہ دس دن کی عدت مقرر کی ہے۔ زیا دہ سخت احکا م اس نے نہیں دئیے۔ اور حلیم کہ کر بتا یا کہاللہ تعالیٰدانا ہے۔وہ جا نتا ہے کہ اس غرض کے لئے کس قدر انتظار کر نا ضر وری ہے۔ اگر اس قسم کے احکا م نہ دئیے جا تے تو تمدّن میں کئی قسم کی خرا بیا ں پیدا ہو جا تیں اور سو سا ئٹی کا نظام درہم بر ہم ہو جا تا۔ پس اس خیال سے کہ نکا ح تقویٰ کا ایک ذریعہ ہے۔ جلدی نہ کر و۔اللّٰہ تعا لیٰ اس امر کو بہتر سمجھتا ہے کہ تمہا رے لئے کس قدر دیر منا سب ہے۔
۱۴۸؎ حل لغا ت:۔ اَلْمُوْ سِعُ: اَوْسَعَ سے اسم فا عل ہے ۔ اور اَوْسَعَ الرَّجُلُ کے معنے ہیں صَارَ ذَا سَعَۃٍ وَ غَنِیً وہ آدمی وسعت والا ہو گیا۔ یا غنی ہو گیا۔ اور اَوْسَعَ اللّٰہُ عَلٰی فلُاَنٍ کے معنے ہیں اَغْنَاہُاللہ تعالیٰنے اسے غنی کر دیا۔ ( اقرب)
اَلْمُقْتِرِ: اَقْتَرَسے اسم فا عل ہے ۔اور اَقْتَرَ عَلیٰ عَیَالِہ کے معنے ہیں قَلَّ مَا لُہ‘ وَافْتَقَرَ اُ س کا مال کم ہوگیا اور وہ محتا ج ہو گیا۔ اور اَقْتَقَرَ اللّٰہُ رِزْقَہ‘ کے معنے ہیں ضَیَّقَہ‘ وَ قَلَّلَہ‘۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا ما ل کم کر دیا اور اسے تنگ دست کر دیا۔
تفسیر:۔ اب طلاق کے متعلق اللہ تعالیٰبعض اور احکا م بیا ن فر ما تا ہے ۔طلاق کے پہلی صورت تو یہ تھی کہ میاں بیوی میں کو ئی شدید اختلا ف پیدا ہوا اور طلاق وا قع ہو گئی۔ مگر بعض ایسی بھی عورتیں ہو تی ہیں کہ میاں بیوی ابھی اکٹھے بھی ہو نے نہیں پا تے کہ طلاق وا قع ہو جا تی ہے۔ مثلاً نکا ح کے معًا بعد ایسے گوا ہ مل گئے جنہو ں نے ایسی گوا ہیا ں دیں جن سے نکاح کی حر مت ثا بت ہو گئی۔ یا کم سے کم نکا ح کی کر اہت پیدا ہو گئی۔ مثلاً ادھوری گوا ہی ایسی مک گئی کہ یہ عورت خا وند کی رضا عی بہن ہے ۔پس گووہ ادھوری گوا ہی ہو مگر خا وند کے دل میں کر ہت تو پیدا ہر جا ئے گی۔ اور اس قسم کی گوا ہیا ں بعض دفعہ مک جا تی ہیں ۔ پس ایک صورت تو یہ ہے جس میں چھو نے سے بھی پہلے طلاق دینے کی ضرورت پیش آ جا تی ہے۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ نکا ح کے بعد دونوں خا ندانوں کے بعض اکا بر جن کو پہلے اس تعلق کا علم نہ ہوا ہو فیصلہ دے دیں کہ ہما رے آ پس کے تعلقا ت ایسے ہیں کہ تم دونو ں آ پس میں نبھا نہیں کر سکو گے۔ اس لئے بہتر ہے کہ عورت کو طلاق دے دو اور وہ چھوڑ نے سے پہلے اُسے طلا ق دے دے۔
اَوْ تَفْرِضُوْالَھُناَّ فَرِیْضَۃً سے پتہ لگتا ہے کہ ایسا نکاحجس میں کوئی مہر مقرہ مہ کیا گیا ہو وہ بھی جائزہوتا ہے لیکن جیسا کہ اسلامی فقہاء نے تصریح کی ہے خواہ مہر کی تعیین نہ کی گئی ہو یہ ضرورسمجھا جائیگا۔ کہ مہر مقرر ہے اور اس کی تعیین مہر بالمثل سے کی جائیگی۔ یعنی اسی حیثیت کے خاندان کے دوسرے افراد کو دیکھا جائیگا کہ اُن کا کیا مہر ہے اور وہی مہر اس عورت کا قرار دیاجائیگا۔
اس کے بعد اللّٰہ تعالٰے یہ ہدایت دیتاہے کہ مَتِّعُوْھُنَّج عَلَی الْمُوْسِعِِ قَدَرُہ‘ وَعَلَی الْمُقْتِرِ قَدَرُہ‘ مَتَا عًا بِالْمَعْرُوْفِ حَقْاً عَلَی الْمُحْسِنِیْنَ۔ اگر تم عورتوں کو اُن کے چھونے سے پہلے طلاق دے دو یا ایسی صورت میں طلاق دو کہ تم نے اُن کا مہر مقرر نہ کیا ہو تو دونوں صورتوں میں تمہارا فرض ہو گا کہ تم اُن سے حسنِ سلوک کرو اور انہیں مناسب رنگ میں کچھ سامان دے دو۔ مالی وسعت رکھنے والا اپنی طاقت کے مطابق اس کام میں حصہ لے اور تنگدست اپنے حالات کو مدنظر رکھ کر حصہ لے اور یہ صرف طوی نیکی نہیں بلکہ حَقّاً عَلَی الْمُحْسِنِیْنَ نیکی اور تقوٰی سے کام لینے والوں پر ہم نے واجب کر دیا ہے کہ وہ عورتوں کو حسن سلوک ک ساتھ رخصت کریں۔
احادیث میں آتا ہے کہ ایک انصاری نے ایک عورت سے شادی کی مگر اس کا مہر مقرر نہ کیا۔ ثُمَّ طَلَّقَھَا قَبْلَ اَنْ یَمَسَّھَا۔ پھر مجامعت سے قبل اُسے طلاق دیدی۔جب یہ معاملہ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں پہنچا تو آپ نے اُس سے پوچھا کہ کیا تم نے احسان کے طور پر اسے کوئی چیز بھی دی ہے اُس نے کہا۔ یا رسول اللَّہ ! میرے پاس تو کچھ بھی نہیں۔ آپ نے فرمایا۔ مَتِّعْھَا بِقَلَنْسَوَتِکَ اگر تمہارے پاس اور کوئی چیز نہیں تو اپنی ٹوپی ہی اُتار کر اس کے حوالے کردو۔ (تفسیربحرمحیط جلد۲ ۲۳۳؁ ) اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عورتوں کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا کس قدر حکم ہے۔ کہ اگراور کوئی چیز نہ ہو تو مرد کو چاہیے کہ وہ اپنی ٹوپی یاپگڑی ہی اُتار کر اُسے دے دے اور خالی ہاتھ نہ جانے دے۔
لیکن اگر اس بارے میں کوئی جھگڑا پیدا ہوتو چونکہ قرآن کریم نے اصولی طور پرفیصلہ فرما دیا ہے کہ جھگڑے کی صورت میں
وَاِنْ طَلَّقْتُمُوْھُنَّ مِنْ



تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌo
اولی الامر کی طرف رجوع کیا کرو۔ اس لئے اختلاف کی صورت میں قاضی کے پاس فیصلہ لے جانا چاہیے وہ حالات دیکھ کر فیصلہ دے گا کہ خاوندنے اپنی حیثیت کے مطابق عورت کو اُس کا حق ادا کیا ہے یا نہیں۔
۱۴۹؎ تفسیر:۔ پہلے یہ بتایا تھاکہ اگر مہر مقررنہ ہو اور طلاق کی ضرورت پیش ّجائے تو کیا کرنا چائیے۔اب یہ بتاتاہے کہ اگر مہر تو مقرر ہو چکاہو مگر میا ں بیوی کا تعلق قائم نہ ہوا ہو اور طلاق کی نو بت آجائے۔ توکیا کرنا چاہیے۔ فرماتا ہے ایسی صورت میں طلاق دیتے وقت تمہیں نصف مہر ادا کرنا پڑے گا۔
مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْھُنَّ کے متعلق اختلاف ہوا ہے کہ مُسّ سے کیا مُراد ہے۔(۱) بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد میاں بیوی کا آمنے سامنے ہو جانا یا ایک دوسرے کے پاس بیٹھنامراد ہے مخصوص تعلقات مراد نہیں۔(۲) لیکن بعض کہتے ہیں کہ مَسّ سے مراد مخصوص تعلقات ہیں۔ کیونکہ چُھونا محاورہ کے طور پر صحبت کے لئے ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ میرے نزدیک اس کی تشریح رسول کریم ﷺ کے ایک واقعہ سے ہو جاتی ہے۔
جب عرب فتح ہوا اور اسلام پیلنے لگا تو کندہ قبیلہ کی ایک عورت جس کا اسمآء یا امیٓمہ نام تھااوروہ جونیہ یا بنت الجون بھی کہلاتی تی اُس کا بھائی لقمان رسول کریم ﷺ کی خدمت میں اپنی قوم کی طرف سے بطور وفد حاضرہوا اور اس موقع پر اُس نے یہ بھی خواہش کی کہ اپنی ہمشیرہ کی شادی رسول کریم ﷺ سے کر دے اور بالمشافہ رسول کریم ﷺ سے درخواست بھی کر دی کہ میری ہمشیرہ جو پہلے ایک رشتہ دار سے بیاہی ہوئی تھی اب بیوہ ہے نہایت خوبصورت اور لائق ہے آپ اس سے شادی کر لیں۔ رسولکریم ﷺکو چونکہ قبائل عرب کا اتحاد منظور تھاآپ نے اسکی یہ دعوت منظور کرلی اور فرمایا ساڑھے بارہ اوقیہ چاندی پر نکاح پڑھ دیا جائے۔ اُس نے کہا۔ یا رسول اللّٰہ! ہم معززلوگ ہیں مہر تھوڑا ہے آپ نے فرمایا۔ اس سے زیادہ میںنے اپنی کسی بیوی یا لڑکی کا مہر نہیں باندھا۔ جب اُس نے رضا مندی کا اظہار کر دیا تو نکاح پڑھا گیااور اُس نے رسول کریم ﷺسے درخواست کی کہ کسی آدمی کو بھیج کر اپنی بیوی منگوا لیجیئے۔ آپ نے ابآاسیدؓکو اس کام پر مقرر کیا۔ وہ تشریف لے کئے۔ جونیہٓ نے اُن کو اپنے گھر بلایا تو آپ نے کہا۔ رسول کریمﷺ کی بیویوں پر عجاب نازل ہو چکاہے۔ اِس پر اُس نے دوسری ہدایات دریافت کیں۔ جو آپ نے بتا دیں۔ اور اونٹ پر بٹھا کر مدینہ لے آئے۔ اور ایک مکان میں جس کے گر دکھجوروں کے درخت بھی تھے لاکر اتارا۔ اُس کے ساتھ اُسکی دایہ بھی اُس کے رشتہ داروں نے روانہ کی تھی۔ جسطرح ہمارے ملک میں ایک بے تکلف نوکر ساتھ جاتی ہے تاکہ اُسے کسی قسم کی تکلیف نہ ہو ۔ چونکہ یہ عورت حسین مشہور تھی اوریو ں بھی عورتوں کو دلہن دیکھنے کا شوق ہوتا ہے مدینہ کی عورتیں اس کو دیکھنے گئیں۔ اور اس عورت کے بیان کے مطابق کسی عورت نے اُس کو سکھا دیا کہ رُعب پہلے دن ہی ڈالا جاتا ہے۔ جب رسول کریم ﷺ تیرے پاس آئیں تو کہ دیجیئوکہ میں آپ سے اللّٰہ کی پنا ہ مانگتی ہوں، اِس پر وہ تیرے زیادہ گرویدہ ہو جائیں گے۔ اگر یہ بات اس عورت کی بنائی ہو ئی نہیں تو کچھ تحجب نہیں کہ کسی منافق نے اپنی بیوی یا اور کسی رشتہ دار کے ذریعہ یہ شرارت کی ہو۔ غرض جب اس کی آمد کی اطلاع رسول ﷺ کو ملی تو آپ اس گھر کی طرف تشریف لے گئے جو اس کے لئے مقرر کیا گیا تھا۔ احادیث میں لکھا ہے۔کہ فَلَمَّا دَخَلَ عَلَیْھَا النَّبِیُّ صَلَّٰی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ ھِبِیْ نَفْسَکِ ِلِیْ قَالَتْ وَ ھَلْ تَھَبُ الْمَلِکَۃُ نَفْسَھَا لِلسُّوْقَۃِ قَالَ فَاَھْوٰی بِیَِدِہٖ یَضَعُ یَدَہ‘ عَلَیْھَا لِتَسْکُنَ فَقَالَتْ اَعُوْذُ بِاللَّہِ مِنْکَ فَقَالَ قَدْ عُذْتِ بِمَعَاذٍ۔ ثُمَّ خَرَجَ عَلَیْنَافَقَالَ یَا اَبَا اُسَیْدٍ اُکْسُھَا رَازِ قِیَّتَیْنِ وَاَلْحِقْھَا بِاَھْلِھَا(بخاری کتاب الطلاق)جب رسول کریم ﷺ اس کے پاس تشریف لائے تو آپ نے اُسے فرمایا۔کہ تو اپنا نفس مجھے ہبہ کر دے اُس نے جواب دیا کہ کیا ملکہ بھی اپنے آپ کو عام آدمیوں کے سپرد کیا کرتی ہے؟ ابو اُسید کہتے ہیں کہ اس پر رسول کریم ﷺ نے اِس خیال سے کہ اجنبیت کی وجہ سے گھبرا رہی ہے اُسے تسلی دینے کے لئے س پر اپنا ہاتھ رکھا۔ آپ نے اپنا ہاتھ ابھی رکھاہی تھا کہ اُس نے یہ نہایت ہی گندہ اور نامعقول فقرہ کہہ دیاکہ میں تجھ سے اللَّہ تعالی کی پناہ مانگتی ہوں۔ چونکہ نبی خداتعالٰی کا نام سُنکر ادب کی رُوح سے بھر جاتا ہے اور اُس کی عظمت کا متوالا ہوتا ہے۔ اُس کے اِس فقرہ پر آپ نے فوراً فرمایا کہ تو نے ایک بڑی ہستی کا واسطہ دیا ہے اور اس کی پناہ مانگی ہے جو بڑا پناہ دینے والا ہے اس لئے میں تیری درخواست کو قبول کرتاہوں۔ چناچہ آپ اُسی وقت باہر تشریف لے آئے اور فرمایا۔ اے ابا اسیدؓ! اِسے دو چادریں دے دو اور اسے اِس کے گھر والوں کے پاس پہنچا دو۔ چناچہ اس کے بعد اُسے مہر کے حصہ کے علاوہ بطور احسان دو رازقی چادریں دینے کا آپ نے حکم دیا تا کہ قرآن کریم کے حکم وَلَا تَنْسَوُاالْفَضْلَ بَیْنَکُمْ پورا ہو۔جو ایسی عورتوں کے متعلق ہے جن کو بلا صحبت طلاق دے دی جائے اور آپ نے اُسے رخصت کردیا اور ابو اسیدؓ ہی اُس کو اُس کے گھر پہنچا آئے۔ اُس کے قبیلہ کے لوگوں پر یہ با ت نہایت شاق گذری اور انہوں نے اُس کو ملامت کی مگر وہ یہی جواب دیتی رہی کہ یہ میری بد بختی ہے اور بعض دفعہ اُس نے یہ بھی کہا کہ مجھے ورغلایا گیا تھااور کہا گیا تھا کہ جب رسولکریم ﷺتیرے پاس آئیں تو تم پرے ہٹ جا نا۔ اور نفرت کا اظہار کرنا۔ اس طرح اُن پر تمہارارعب قائم ہو جائیگا۔ معلوم نہیں یہ ہی وجہ ہوئی یا کوئی اور بہر حال اُس نے نفرت کا اظہارکیا اور رسول کریم ﷺ اس سے علیحدہ ہوگئے اوراُسے رخصت کر دیا۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مَسّ سے مراد صرف چھونا نہیں بلکہ مخصوص تعلقات کا قائم ہوجانا ہے۔ ورنہ لغوی معنوں کے لحاظ سے تورسول کریمﷺ نے اُس پر اپنا ہاتھ رکھ دیا تھا اور آپ اُسے چھو چکے تھے۔
اِلاَّاَنْ یَعْفُوْنَ اَوْ یَعْفُوَ الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ الّنِکَاحِ کے متعلق بھی اختلاف ہوا ہے کہ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ الّنِکَاح سے کون مراد ہے۔ بعض کہتے ہیں اس سے خاوند مراد ہے کیونکہ نکاح ہو جانے کے بعد اُس کی گرہ خاوند کے ہاتھ میں ہوتی ہے اس صورت میں خاوند کا عفو کرنا یہ ہوگا کہ وہ نصف مہر کی بجائے سارا مہر دیدے لیکن بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد عورت کے ولی ہیں اور ان کو اس بات کا اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اگر چاہیںتونصف مہربھی نہ لیں۔ اُن کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ اِس طرح ہوتی ہے کہ کسی عورت کا نکاح اُس وقت تک نہیں ہو سکتاجب تک کہ اس کے ولی اجازت نہدیں۔ بعض لوگوں نے اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ اِس سے خاوند مراد نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اس نے تو مہر دینا ہے اور دینے کو معاف کرنا نہیں کہتے۔ لیکنان کا یہ اعتراض عربی زبان سے نا واقفیت پر دلالت کرتا ہے اس لئیکہ عفوکے معنے زیادہ دینے کے بھی ہوتے ہیںچنانچہ عربی زبان میں کہتے ہیں عَفَا فُلاَنُ الشَّعْرَ اور اس کے معنے یہ ہوتے ہیں ککہ فلان شخص نے بال بڑھالئے ہیں اسی طرح رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے اِعْفُو اللُّحٰی اور اس کے معنے ہیں۔ ڈاڑھیا ں بڑھاؤ۔ پھر عربکے رسم ورواج سے بھی معلوم ہوتا ہے۔ کہ وہ لوگ مہر پہلے دے دیا کرتے تھے۔پس خاوند کاعفو کرنا یہ ہوگاکہ وہ باقی نصف واپس نہ لے۔ اس لحاظ سے اس کے معنے یہ ہوئے کہ طلاق دیتے وقت یا تو کچھ بڑھا کر دویا یہ کہ آدھا جو تم دے چکے ہو وہ بھی واپس نہ لو۔ اور پہلے لوگ یہ دونوں معنے مراد لیتے آئے ہیں۔ چنانچہ قاضی شریح کہتے ہیں اَناَ اَعْفُوْاعَنْ مُھُرِ ر بَنِی مُرَّۃَوَ اِنْ کَدِھْنَ کہ میں اپنی قوم نبی مرو کی عورتوں کا مہر معاف کردونگا۔ اگرچہ وہ نا پسند ہی کرتی رہیں۔(بحر محیط جلد۲ ۲۳۶؁)دراصل یہاں عورتوں کی کراہت اور عدم کراہت کا کوئی سوال نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ اگر عورت اس قابل نہہو کہ معاف کر سکے، مثلاً ایسی بالغ نہ ہو جسکو مال پر تصرف حاصل ہوتا ہے تو ایسی صورت میں اگر ولی عفو کا اعلا ن کر دے تو یہ عورت کا ہی اعلان سمجھا جائیگا۔ اس کے متعلق عورت سے الگ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
اس برح جبٓیربن مطعم ایک صحابی ہیں۔اُن کا ایک عورت سے نکاح ہوا جب انہوں نے اسے طلاق دی تو جو کچھ مہر ھا اُسے دے دیا اور پھر اس سے بھی زیادہ دیا۔اور کہا اَناَ اَحَقُّ بِالْعَفْوِ کہ میں عفو کرنے کا زیادہ حقدار ہوں۔گویازیادہ دینے کاانہوں نے عفو قرار دیا۔
وَاَنْ تَعْفُوْآاَقْرَبُ لِلتَّقْویٰ میں مرد عورت ولی سب مراد ہیں۔اور یہ قاعدہ بتایا تیا ہے کہ ایسے موقعوں پر اپنا حق چھوڑنابہ نسبت اپنا حق طلب کرنے کے زیادہ افضل ہوتا ہے اور تقویٰ کا یہی تقاضاہوتاہے۔ مگر افسوس ہے کہ لوگ اس کا خیال نہیں رکھتے اور ہمیشہ اپنے حقوق کا مطالبہ پیش کرتے اور اس پر لڑتے جھگڑتے ہیں۔ دوسرے پر احسان کرنے کی طرف اپنا قدم نہیں بڑھاتے حالانکہ اللّٰہ تعالٰے واضع طور پر فرماتا ہے کہ تمہارا معاف کردینا تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔ یعنی عورت یہ خیال کرے کہ میں اپنے خاوند کے ہہاں آباد تو ہوئی نہیں ۔ اگر اسے مہر معاف کردوں تو کیا حرج ہے۔اسی طرح مرد یہ خیال کرے کہ گویہ عورت میرے ہہاں آباد نہیں ہوئی لیکن میری طرف منسوب تو ہوئی ہے۔اس لئے میں ہی کچھ زیادہ دے دوں۔ اِسی طرح ولی کو چاہیے کہ وہ ایسے رنگ میں فیصلہ کرائے کہ کوئی فتنہ پیدا نہ ہو۔
وَلاَتَنْسَوُ الْفَضْلَ بَیْنَکُمْ میں نسیان کے معنے بھولنے کے نہیں بلکہ چھوڑنے کے ہیں۔ جیسے اللّٰہ تعالٰی ایک دوسرے مقام پر فرماتا ہے کہ نَسُوا اللّٰہَ فَنَسِیَھُمْ (توبہ آیت ۶۷) انہوں نے اللہ کو چھوڑدیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالے نے
حَافِظُوْاعَلَی قٰنِتِیْنَo
بھی اُن کو ترک کر دیا۔ اور فضل سے مراد ایسا فعل ہے جس سے انسان دوسرے پر فضیلت حاصل کر لے۔ پس لَاتَنْسَوُاالْفَضْلَ بَیْنَکُمْ میں اللہ تعالے نے یہ نصیحتفرمائی ہے کہ آپس میں معاملہ کرتے وقت تم میں سے ہر فرد کو ہمیشہ یہ کوشش کرنی چاہیئے کہ وہ نیکی اور احسان اور مروّت میں ایک دوسرے پر فضیلت لے جائے اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے۔
اِنَّ اللَّہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ۔ اللّٰہ تعالٰی تمہارے کاموںکو دیکھتا ہے وہ تمہاری نیکی ضائع نہیں کرے گا بلکہ تمہیں اس کا اچھے سے اچھا بدلہ دیگا۔ پس چائیے کہ تم ان احکام کو ملحوظ رکھواور ان پر عمل کر کے اللّٰہ تعالٰے کی رضا حاصل کرو۔
۱۵۰ حل لغات:۔ اَلْمُقُنُوْتُ کے معنے ہیں اَلطَّاعَۃُ اطاعت۔ اَلْقِیَامُ فِی الصَّلٰوۃِ نماز کے لئے کھڑا ہو نا۔ اَلدُّعَائُ دُعا۔اَلْخُشُوْعُ وَخَفْضُ الْجَنَاحِ وَسَکُوْنُ اْلاَطْرَافِ وَ تَرْکُ اْلاِلْتِفَاتِ مِنْ رَھَبِ اللّٰہِ۔ اللّٰہ تعالٰی کے خوف سے کامل عجزوانکساراور ادب اور سکوناور ماسوی اللّٰہ کو بھُلا کر کام کرنا۔ (اقرب)
تفسیر:۔ شادی بیاہکے ذکر کے سلسلہ میں اب اللّہ تعالٰی نمازوںکا ذکر فرماتا ہے۔ کیونکہ بالعموم شادی کی وجہ سے لوگ نمازوں میں بہت کچھ سُست ہو جاتے ہیں وہ اول تو رات کو زیادہ دیر بیدار رہتے ہیں جس کی وجہ سے تہجداور فجر کی باجماعت نمازمیں ان سے غفلت ہو جاتی ہے۔ اور پھر دن کو بھی گھریلو مصروفیات انہیں نمازوںکی طرف توجہ کرنے نہیں دیتیں۔ پس چونکہ شادی کے سِلسلہ میں عبادت میں بہت کچھ نقص واقع ہو جاتا ہے کیونکہ انسان کے مشاغل بڑھ جاتے ہیںکیا بلحاظ آپس کے تعلقات کے اور کیا بلحاظ بچوں کی دیکھ بھال کے اور کیا بلحاظ سامان خوردونوش وغیرہ مہیا کرنے کے اِسی طرح طہارت کے نقائص بھی پیدا ہو جاتے ہیں اس لئے فرمایا کہ تمہاری گھریلو مصروفیات بے شک بڑھ جائینگی۔تمہیں روزی کمانے کے لئے پہلے سے زیادہ تگ و دو کرنی پڑیگی اور تمہاری توجہ میں یکسوئی نہیں رہے گی۔ مگر دیکھنا تم نمازوں میں سُستی نہ کرنا خصوصاً نماز وسطٰی کا ہمیشہ خیال رکھنا۔
یہ نمازوسطٰی کونسی ہے اس کے متعلق لوگوں میں بہت کچھ اختلاف پاتا جاتا ہے۔ (۱) بعض نے اسے تعجد کی نماز قرار دیا ہے اور میرا خیال بھی نماز تہجدکی طرف ہی جاتا ہے۔ جو شام اور صبح کے درمیان آتی ہے۔(۲) بعض کہتے ہیںکہ صلوۃ وسطٰی سے وہ نماز مراد ہے۔جو کام کے درمیان آجائے۔
اِس کے علاوہ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے عصرکی نمازکوبھی صلوۃ وسطی قراردیا ہے۔ چنانچہ ترمذی اور بخاری میں سمرۃؓ سے روایت آتی ہے کہ جنگ احزاب میں جب کفار نے رسول کریم ﷺ کو عصر کی نماز سے روکاتو آپ نے فرمایا۔ خدا ان کے گھروں اور ان کی قبروں کو آگ سے بھرے انہوں نے ہمیں صلوۃٰ وسطیٰ سے روک دیا ہے۔(بخاری کتاب تفسیر القرآن) مگر میرے نزدیک اِن حدیثوں سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ صلوۃٰ وسطی سے وہی نماز مراد ہے جو کام کے درمیان آجائے کیونکہ جنگ احزاب میں بھی عصر کی نماز دوران جنگ میں آگئی تھی۔ اور ممکن ہے اسی وجہ سے رسول کریمﷺ نے اسے صلوۃٰوسطیٰ قرار دیا ہو۔
وسطیٰکے معنے افضل واعلیٰ کے بھی ہوتے ہیں۔ اس لئے جس نماز کو انسان زیادہ مشاغل ترک کر کے پڑھے وہی نماز اس
فَاِنْ خِفْتُمْ
تَعْلَمُوْ نَo
کے لئے صلوۃٰوسطی ہو گی اور اُس کے لئے زیادہ برکات اور انوار کی حامل ہوگی۔اس مفہوم کو مد نظر رکھتے ہوئے اوپر کے معنوں کی تائید ہوتی ہے۔
میر ے نذدیک حَا فِظُوْا میںایک اور امر کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔حَا فِظُوْا باب مفا علہ سے ہے جس میں اشتراک پا یا جا تا ہے۔پس اس میں خدا تعا لٰی نے مر د و عورت دونو ں کو یہ نصحیت کی ہے کہ اب نکا ح کے بعد تم آ پس میں میاں بیوی اب گئے ہو۔ تم دونوں مک کر نما زوں کے متعلق ایک دوسرے کی نگرانی کر و۔ خصوصاً نما ز وسطیٰ یعنی تہجد کے متعلق۔ چنا نچہ حدیث میں آ تا ہے کہ اگر تہجد کے نما ز کے لئے خا وند کی آ نکھ کھلے تو بیوی کو جگا دے اور اگر وہ نہ اٹھے تو پا نی کا ایک ہلکا سا چھینٹا اس کے منہ پر مارے۔ اور اگر بیوی کی آ نکھ کھلے تو وہ میاں کو جگا دے اور اگر وہ نہ اُٹھے تو وہ میاں کو جگا دے اور اگر وہ نہ اُٹھے تو وہ بھی پا نی کاایک ہلکا سا چھینٹا اس کے منہ پر مارے۔ جب تہجد کی نما ز کے لئے رسول کر یمﷺ نے انقدر تا کید فر ما ئی ہے تو اور نما زوں کی نگہداشت کا حکم خود بخود وا ضح ہو گیا۔ پس گو محا قطت کے معنے عا م طور پر نگرا نی کے ہو تے ہیں مگر دراصل اس میں وہ خا صہ ملحوظ ہے جو باب مفا علہ کا ہے اور جس کی رو سے اس کا یہ مطلب ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی نگرا نی کریں۔ اور عبا دت میں ایک دوسرے کے لئے تر قی کا مو جب بنیں۔
قُوْ مُوْ اِللّٰہِ قٰنِتِیْنَ کے معنے یہ ہیں کہ نما ز میں تمہارا خیال کسی اور طرف نہ ہو بلکہ پورے خلو ص اور اطا عت اور تبتل تا م کے سا تھاللہ تعالیٰکی عبا دت کرو۔ اس حکم کے نازل ہو نے سے پہلے صحا بہ ؓ بعض دفعہ نما ز میں آپس میں بات چیت بھی کر لیا کر تے تھے۔ مگر پھر اس حکم کے نتیجہ میں انہو ں نے خا موشی اختیار کر لی۔
۱۵۱؎ تفسیر:۔ اس آ یت میں نما ز کی اہمیت پر زیا دہ زور دینے کیلئے فر مایا میاں بیوی کے تعلقات کیا چیز ہیں۔ اگر تمہا رے پیچھے تمہیں پکڑ نے کیلئے کو ئی دشمن آ رہا ہو اور تم بھا گ رہے ہو تو خواہ تم سوار ہو یا پیا دو تو بھی تم نما ز کو نہ چھو ڑو۔ بلکہ اسی حا لت میں پڑھ لو۔ گو یا نماز میں غفلت اور سستی کسی صورت میں بھی جا ئز نہیں۔ حتیّ کہ سخت خطرہ کی حا لت میں بھی جو صلٰو ۃ الخو ف کے خطرہ سے بھی بڑھ کر ہوجو عین جنگ میں ہو تی ہے تمہا رے لئے یہ جائز نہیں کہ تم نما ز چھوڑ دو۔ بلکہ جس حالت میں بھی ہو نما ز ادا کرو۔ چنا نچہ بخا ری میں حضرت عبد اللّٰہ بن عمر ؓ کے متعلق بیان کیا گیا ہے کہ ان سے صلٰوۃ خو ف کے متعلق سوال کیا گیا۔ تو انہوں نے اس کا طر یق بتایا۔ اور پھر فر ما یا کہ اگر اس سے بھی زیادہ خو ف کی حا لت ہو تو پھر پیدل یا سوارجس حا لت میں بھی ہو تمنما ز پڑ ھ لو۔ اور حضرت نا فع جو اس کے رادی ہیں وہ کہتے ہیں کہ سمجھتا ہوںحضرت عبد اللّٰہ بن عمر ؓ نے یہ با ت رسول کر یم ﷺ سے ہی سُنی ہے۔( بخا ری کتا ب تفسیر القرآن)اس سے معلو م ہو تا ہے کہ خود رسول کر یم ﷺ نے بھی اس آ یت میں صلٰو ۃ خو ف وا لی حا لت سے بھی زیا دہ خطرہ
وَالَّذِ یْنَ
عَزِیْز’‘ حَکِیْم’‘o
والی حا لت مرا د لی ہے، صلٰوۃ خو ف مے تو با قا عدہ ایک اما م کی اقتدار میں نما ز ادا کی جا تی ہے ( سو رۃ نساء آ یت ۱۰۳)مگر یہ حا لت ایسی ہے جس میں اتنی مہلت بھی نہ مل سکے اور دوڑتے اور بھا گتے ہو ئے نما ز پڑ ھنی پڑ ے۔مثلاً اسلا می فو ج کا ایک سپا ہی دشمن کے ح الا ت معلو م کر نے کے لئے گیا تھا۔ اس کا دشمن کو علم ہو گیا۔ وہ گھو ڑے کو دوڑا تا ہوا واپس آ رہا ہے اور پچا س سا ٹھ سپا ہی ااس کے تعاقب میں ہیں۔ کہ راستہ میں نما ز کا وقت آ گیا۔ اب اگر وہ ٹھہر جا تا ہے یا گھو ڑے سے اُتر کر نما ز پڑھنے لگ جا تا ہے تو اس کا لا زمی نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ پکڑا جا ئیگا اور اسلا می لشکر ان معلو مات سے محروم رہ جا ئیگا جن کو یہ مہیا کر نے کے لئے اُسے بھجوا یا گیا۔ پس چو نکہ اس کا جا ن بچا کر اسلا می لشکر میں پہنچنا ضر وری ہے۔ اس لئے اسے اجا زت ہو گی کہ وہ گھو ڑے پر بیٹھے بیٹھے نماز پڑھتا چلا جا ئے۔ جس طرح چاہے نما ز پڑ ھ لے۔ مثلاً گھو ڑا دوڑاتے نما ز کے کلما ت دہرا تا جائے۔ رکو ع کا وقت آ ئے تو زرا سا سر جھکا لے اور ایک دو دفعہ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم کہ دے۔ ذرا اور سر جھکا دے تو اسے سجدہ سمجھ لے۔ اس طرح جلدی جلدی نما ز پڑھ کر فا رغ ہو جا ئے ۔ ایسی حالت میں با وجو د اس کے کہ اس کی ایک ٹا نگ گھو ڑے کے ایک طرفہوگی اور دوسری ٹا نگ دوسری طرف پھر بھی اس کی نماز ہو جا ئیگی۔ اور اگر اس کا منہ قبلہ کی طرف نہیں ہو گا تب بھی نما ز ہو جا ئے گی۔ہاں اگر مو قعہ مل سکے تو نماز شروع کر تے ہو ئے قبلہ کی طرف مُنہ کر لیا جا ئے۔ پھر خوا ہ کسی طرف مُنہ ہو جا ئے۔ غرض خو ف کے وقت نما ز کو اپنی مقررہ شکل سے بدل کر پڑ ھنا جا ئز ہے۔ چا ہے انسا ن گھو ڑے پر بیٹھے بیٹھے پڑھ لے۔ چا ہے اشارے سے پڑھ لے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک شخص دشمن کے سا منے بندوق تا نے کھڑا ہو۔ اور نما ز کا وقت آ جا ئے۔ ایسی صورت میں اُ س کے لئے جا ئز ہو گا کہ وہ بندوق بھی سنبھا لے رکھے دشمن پر فا ئر بھی کر تا جا ئے اور نما ز کی عبا رتیں بھی دہر اتا جا ئے۔ بلکہ یہ نما ز خو ف کی حا لت میں شہروں میں رہتے ہو ئے بھی پڑھی جا سکتی ہے۔مثلاً فر ض کرو ایک ملک کی دوسرے ملک سے لڑا ئی ہر جا تی ہے اُس وقت وہ سر حدی شہر وں یا دیہا ت میں رہنے والے جو لو گ ہونگے اُن کے لئے جا ئز ہو گا کہ اگر زور کا حملہ ہو تو وہ کھڑے کھڑے نما ز کی عبا رتیں دہر اتے جا ئیں اور سا تھ ہی دشمن پر گولیا ں بر ساتے جا ئیں۔
فَا ذَآ مِنْتُمْ فَا ذْ کُرُ واللّٰہَ کَمَا عَلَّمَکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْ نُوْا تَعْلَمُوْنَ۔ ہا ں جب خو ف کی حالت جا تی ہے اور تم امن میں آ جا ؤ تو پھر تمہیں اسی طر ح نما ز پڑ ھنی چا ہیے جس طرح قُوْمُوْالِلّٰہِ قٰنِتِیْنَ میں حکم دیا گیا ہے یعنی خا مو شی اور بغیر ضروری حر کت کے ۔ کَمَا عَلَّمَکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْ نُوْ ا تَعْلَمُوْ نَ کے معنے ہیں جسطر ح اس نے تمکو سکھا یا ہے یا اس لئے یا د کر و کہ اس نے تمہیں وہ کچھ سکھا یا ہے جو تم پہلے نہ جا نتے تھے۔ اِن الفا ظ میں قرآن کریم نے دنیا کے سا منے یہ دعوٰی پیش کیا ہے۔ اس کتا ب کے ذریعے لو گوں کو وہ روحانی علو م سکھا ئے گئے ہیں جو اس سے پہلے اور کسی مذ ہب کی الہا می کتا ب نے بیان نہیں کئے۔
۱۵۲ تفسیر:۔ وَ صِیَّۃ’‘ مصدر ہے اور اس سے پہلے یُوْ صُوْنَ مخدوف سمجھا جائیگا۔ یعنی وہ وصیت کر جا ئیں۔ مَتَا عًا دوسرا مصدر ہے اس سے پہلے بھی اَنْ مَتِّعُوْ مُنَّ مخدوف ہے۔ اور معنے یہ ہیں کہ اپنے بیو یو ں کے حق میں وصیت کر جا ئیں کہ بعد میں وہ لو گ جن کے پا تھ میں وصیت کا اجراء ہے انہیں ایک سا ل تک فا ئدہ پہنچا ئیں۔ اس کے بعد غَیْرَ اِخْرَاجٍ کے الفا ظ ہیں ۔ جو بدل ہیں مَتَا عًا کا پس معنٰی یہ ہو ئے کہ فا ئدہ پہنچا نے سے ہما ری مراد یہ ہے کہ ان کا گھروں سے نہ نکا لیں۔ بلکہ با و جو د اس کے کہ مکا ن کسی اور وا رث کے حصّہ میں آ یا ہو بیو یو ں کو ایک سال تک اس میں رہنے کا حق حا صل ہے۔ اس کے یہ معنے نہیں کہ عورت خو د بھی مکا ن سے نہیں جا سکتی۔ عورت عدت کے بعد اپنی مر ضی سے اور اپنے فا ئد ہ کے لئے جا نا چا ہے تو جا سکتی ہے۔ سال بھر کی شرط صرف عورت کے آرام اور فا ئدہ کے لئے لگا ئی گئی ہے اور اس سے وارثوں کو پا بند کیا گیا ہے۔ عورت پر پا بندی صرف ایا م عدت گک گھر میں رہنے کی ہے بعد میں اس حکم سے فا ئدہ اٹھانا یا نہ اٹھا نا اس کے اختیار میں ہے۔
یہ امر کہ اس ایک سال میں عدت شا مل ہے یا نہیں۔ اس بارہ میں اختلا ف پا یا جا تا ہے۔ لیکن میر ے نذدیک جس با ت میں عورت کا فا ئدہ ہو اسے تسلیم کر نا چا ہیے اور وہ صورت یہی ہے کہ عدت کے بغیر ایک سال تک عورت کو گھر میں رہنے دیا جائے ۔ مگر افسوس ہے کہ اس حکم کی پا بندی نہ تو مر نے والے کی رشتہ دار کر تے ہیں اور نہ عورتیں۔ اگر تو عورت کے بچے ہو ں تو پھر رشتہ دار کچھ عر صہ تک صبر کر تے ہیں لیکن اگر بچے نہ ہوں تو چند ماہ کے بعد ہی مر نے والے رشتہ دار مکا ن اور جا ئداد کی تقسیم کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ حا لا نکہ اس مکا ن میں ایک سال تک عورت کو رہنے دینا ضروری ہو تا ہے۔ اور اللّٰہ تعا لٰٰی نے اس کی سخت تا کید فر ما ئی ہے۔
بعض نے کہا ہے کہ یہ آ یت احکا م میراث کے ذریعہ منسوخ ہو گئی ہے مگر یہ بالکل غلط ہے بیوہ کا اپنے خا وند کی جائیداد میں جو حصہ رکھا گیا ہے اسکے سا تھ اسکا جو ئی تعلق نہیں یہ ایک الگ حکم ہے جس میں جا ئیداد کے حصہ کے علا وہ عورت کیلئے سال بھر کے نان و نفقہ اور رہا ئش کا انتظام ضروری قرار دیا گیا ہے۔
فَاِنْ خَرَ جْنَ فَلَََا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْھَا فَعَلْنَ فِیْ اَنْفُسِھِنَّ مِنْ مَّعْرُوْفٍ میں بتا یا کہ ہما را یہ منشاء نہیں کہ تم ایک سال تک انکو پکڑکر رکھو بلکہ بطب یہ ہے کہ تمہا ری طرف سے ایک سال کے عرصہ تک انہیں کھلی اجا ز ہو نی چا ہیے کہ وہ آ زادانہ طور پر اپنے گھر میں رہیں ہا ں اگر وہ سال کے اندر ہی مکا ن چھوڑ دیں تو تم انہیں جا نے دو۔عدت میںتو خو د ان کا کہنا بھی ممنو عہے لیکن اس کے بعد ان کا خود نکلنا گناہ نہیں۔پس اس آ یت کو آ یت عدت سے منسوخ سمجھنا بھی غلطی ہے۔ یہ ان سے نیک سلوک کر نے کا ایک زائد حکم دیاگیا ہے۔ کیو نکہ فوراً ان کا نیا گھر بنا نا یا نکا حکرنامشکل ہو تا ہے چا ر ماہ دس دن تک تو وہ خود نہیں نکل سکتیں۔ اس کے بعد ایک سال مزید تک انکو نکا لا نہیں جا سکتا ہا ں وہ خود چا ہیں تو نکل سکتی ہیں کیو نکہ اللّٰہ تعا لٰٰی نے ان کے فعل کو معروف کہا ہے۔
معروف کا لفظ قر آ ن کر یم میں بہت دفعہ آ یا ہے۔ یہ عرف سے نکلا ہے اوار س کے معنے ہیں پہچا نا ہوا۔ مفردات امام راغب میں لکھا ہے۔ اَلْمَعْرُوْفُ اِسْم’‘ لِکُلِّ فِعْلٍ یُعْرَفُ بِالْعَقْلِ وَا لشَّرْعِ حُسْنُہ‘ یعنی معروف ہر اس فعل کو کہتے ہیں جس کی خوبی عقل و شرع سے پہچا نی جائے۔پس جب کو ئی فعل شرع کے لحا ظ سے معروف ہو تو وہ مطا بق قا نو ن فعل کہلا ئیگا۔ اور جب عقل عامہ سے اس کی خو بی پہچا نی جا ئے تو اسے مطا بق دستور کہیں گے کیو نکہ جس امر کی خو بی ہر انسا ن پہچا نتا ہے اس کا رواج بنی نوع انسا ن میں پا یا جاتا ہے اور جب کسی امر کی خو بی کسی خا ص فر د کی عقل سے پہچا نی جائیگی تو اسے منا سب حا ل یا مطا بق حال کہیں گے کیو نکہ افراد کے سا تھ انہی بیکیوں کا تعلق ہوتا ہے جو خا ص ان کے حا لات سے متعلق ہوں۔
وَلِلْمُطَلَّقٰتِ
تَعْقِلُوْنَo
اَلَمْ َترَاِلَی الَّذِیْنَ
پس معروف کے معنے قا نون یا قو می رواج کے مطا بق کے ہو تے ہیں لیکن اسجگہ اس کے معنے پسندیدہ اور بہتر کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ خوا ہ عدت کے بعد عورتیں نکا ح کر لیں خواہ اپنے وا لدین یا دوسرے رشتہ داروں کے ہا ں چلی جا ئیں یا کو ئی ملاذمت اخیتا ر کر لیں تم پر کو ئی اعتراض نہیں۔ تمہیں اس حکم کی رو سے یہ نہیں چا ہیے کہ انہیں روکو۔
۱۵۳؎ تفسیر:۔ طلاق کے مضمو ن کوختم کر تے ہو ئے اللّٰہ تعا لٰٰی نے مطلقات سے حسن سلوک کے حکم کو پھر دہرایا ہے۔ چو نکہ عام طور پر مطلقات سے نا را ضگی ہو تی ہے اس لئے فر مایا۔ تمہیں ان سے اچھا سلو ک کر نا چا ہیے اور پچھلی آ یتوں پر اس کا عطف کر کے یہ بھی بتا دیاکہ مطلقہ عورتوں کو بھی اگر عر صہ عدت سے زیا دہ گھر میں رہنے کی ضرورت ہو تو رہنے دیا جا ئے اور انکو بھی انکے منا سب حال فا ئدہ پہنچا نا چا ہیے۔ یہ متقیوںپر حق قرا ر دیا گیا ہے۔ پس مطلقہ عورت سے بھی بے مر وتی نہیںکر نی چا ہیے اور اس کو عدت کے فوراً بعد گھر سے نہیں نکا ل دیناچا ہیے۔ بلکہ بطر یق احسا ن اسے مو قعہ دینا چا ہیے تا کہ وہ اطمینا ن سے نقل مکا نی کا انتظار کرسکے۔
مسلمانوں پر تعجب ہے کہ اللّٰہ تعا لٰٰی تو مطلقہ عورتوں سے مہر کے علا وہ حسن سلوک کرنے کا بھی ارشاد فر ماتا ہے اور مسلمان عورتوں کے مہر تک بھی کھا جا تے ہیں۔ اگراس حکم پر عمل کیا جا ئے تو کس قدر فسا د اور جھگڑے دور ہو جا ئیں۔ اور طلا ق جو صرف مجبو ری میں حلال ہے اس تلخی کے پیدا کر نے کامو جب نہ ہو جس کا مو جب وہ اب ہو رہی ہے۔ بلکہ دونو ں فر یق محسوس کر یں کہ مجبو ری سے علیٰد گی اختیار کی گئی ہے۔ ورنہ آ پس میں کو ئی تلخی یا بد مزگی نہیں ہے۔
پھر فرمایا کَذٰلِکَ یُبَیّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ۔ اللّٰہ تعالٰی اپنے احکام تمہارے فائدہ کے لئے اسی طرح کھول کر بیان کرتا ہے۔ تاکہ تم خطاؤں اور کمزوریوں سے بچو۔ اٰیٰۃٌ کے عام معنے علامت کے ہوتے ہیں۔ لیکن قرآن کریم میں کہیں خداتعالٰے نے اپنی طرف توجہ دلانے والی باتوں کو۔ کہیں ایمان کی طرف راہنمائی کرنے والی باتوں کو۔ کہیں عذاب سے بچانے والی باتوں کو آیات کہا ہے۔ اسجگہ آیات سے وہ احکام مرادہیںجو صحیح تمدن کہ طر راہنمائی کرتے ہیں۔ اور بتایا گیا ہے کہ شریعت کے بیان کرنے میں یہ امر ہر جگہ مدنظر رکھا گیاہے۔ کہ تمام ضروری امور کے متعلق تعلیم آجائے اور ایسے رنگ میں بیان کر دی جائے کہ بنی نوع انسان بدیوں اور کمزوریوں سے بچ جائیںجس پر تَعْقِلُوْنَ کا لفظ دلالت کرتا ہے۔
لَایَشْکُرُوْنَo

۱۵۴؎ تفسیر:۔ فرماتا ہے کیا تجھے ان لوگوںکی خبر نہیںپہنچی جوموت سے بچنے کے لئے اپنے گھروںسے ایسی حالت میں نکلے تھے جبکہ وہ ھزاروںکی تعداد میں تھے اس پر اللّٰہ تعالٰی نے ان سے کہا کہ اگر تم موت سے بچنا چاہتے ہو تو اس کا علاج یہ ہے کہ تم مر جاؤ۔چنانچہ اُس موت کے بعداللّہ تعالٰی نے پھرانہیں زندہ کردیا۔
یہ لوگ کون تھے جو اپنے گھروں سے موت کے ڈر کی وجہ سے نکلے اور جن کو خداتعالے نے کہا کہ مرجاؤ؟ اور پھر یہ کون لوگ تھے جنہیں موت کے بعد اللہ تعالی نے حیات نوعطافرمائی۔ سو یاد رکھنا چائیے کہ یہ بنی اسرائیل تھے و موت کے ڈر کی وجہ سے ملک مصرج سے نکلتے تھے۔ چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس آیت میں جتنی باتیں بیان کہ ہیں وہ سب کی سب بنی اسرائیل کے واقعات میں دکھائی دیتی ہیں۔ موت کے ڈر کا ذکر اس آیت میںکیا گیاہے کہ وَاِذْنَجَّیْنٰکُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعِوْنَ یَسُوْمُوْنَکُمْ سُوْٓئَ اْلعَذَابِ یُذَبّحُوْنَ اَبْنَآئَ کُمْ وَ یَسْتَحْیُوْنَ نِسَآئَ کُمْ (بقرہ آیت۵۰) یعنی اس وقت کو یا د کر جبکہ ہم نے تم کو فرعون کی قوم سے اس حا لت میں نجا ت دی کہ وہ تمہیں بد تر ین عذاب دے رہی تھی۔ وہ تمہا رے لڑکو ں کو قتل کر دیتی تھی اور تمہا ری عورتوں کو زندہ رکھتی تھی۔ اور گھروں سے نکلنے کا ذکر اس آ یت میںکیا گیا ہے کہ:۔ وَاَ وْ حَیْنَٓا اِلی مُوْ سیٰٓ اَنْ اَسْرِبِعِبَادِیْٓ اِنَّکُمْ مُتَّبَعُوْنَ(شعراء آ یت۵۳) یعنی ہم نے مو سٰیؑ کی طر ف وحی کی کہ میرے بندوں کو را توں رات نکا ل کر لے جا۔ اور میں نے اسے یہ بھی بتا دیا کہ تمہا را پیچھا کے اجا ئیگا۔
وَھُمْ اُلُوْف’‘ والی علا مت بھی بنی اسرا ئیل پر ہی چسپا ں ہو تی ہے۔ کیو نکہ جب وہ مصر سے نکلے تو اسوقت وہ صرف چند ہزار ہی تھے۔ اس میںکو ئی شبہ نہیں کہ پیدا ئش باب ۴۶آ یت ۲۷ میں لکھا ہے کہ بنی اسرا ئیل جب مصر میں آئے تو صرف ۷۰ تھے لیکن تورات ہمیں یہ بھی بتا تی ہے کہ ۲۱۵ سال کے بعد مو سٰی کے زما نہ میں ان کی تعداد اس قدر بڑھ گئی کہ عورتوں اور بچوں کو نکا ل کر وہ چھ لا کھ کے قریب پہنچ گئے۔ چنا نچہ خروچ باب ۱۲ آ یت ۳۷ میں لکھا ہے:۔
’’اور بنی اسرا ئیل نے رعمیس سے مسکا ت تک پیدل سفر کیا۔ اور با ل بچوں کو چھوڑ کر وہ کو ئی چھ لا کھ مر د تھے۔‘‘
اسی طر ح گنتی باب ۱آیت ۴۶ میں ان کی تعداد چھ لا کھ تین ہزار پا نچ سو پچا س بتا ئی گئی ہے ۔ اگر مردوں کی تعداد کو ملحوظ رکھ کر عورتوں اور بچوںکو بھی شاملکر لیا جائے تو کل تعداد ۲۵لاکھ کے قریب پہنچ جاتی ہے مگر۲۱۵ سالکے عرصہ میںسترآدمیوں کا ۲۵لاکھ تک پہنچ جانا با لکل عولکے خلاف بات ہے اورپھر واقعہکے بھی خلاف ہے حضرت موسیٰؑ نے جب مصرسے کنعان کیطرف ہجرت کی تو وہچالیس سال تک جنگلوں میںرہے توکیا پچیس لاکھ آدمیوںکی روٹی کاانتظام چالیس سال تک ان جنگلوں میں ہو سکتا تھا بے شک بائیبل میں آتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان کے لئے آسمان سے بٹیر اتارے اورزمین میںترنجین پیدا کر دی۔ لیکن بابئیبل کے بیان کے مطابق یہخوراک سارے عرصہ کیلئے مہیانہیں ہوئی تھی۔ پھر دوسرے عرصہ میں اتنے آدمیوں کے لئے خوراک کہاں سے لاتے تھے۔ پھر بائیبل سے ہی معلومہوتا ہے کہ وہ ایک ایک چشمہ سے پانی بھی پی لیتے تھے۔اب کیا کوئی عقل تسلیم کر سکتی ہے کہ ایک ایک چشمہ سے پچیس لاکھ آدمی سیراب ہو سکتا ہے؟دراصل اس بیان میں سخت مبالغہ سے کاملیا گیا ہے حقیقت وہی ہے جو قرآن کریم نے بیان کی ہے کہ نبی اسرائیل جو فرعون کے ظلم سے ڈر کر بھاگے تھیان کی تعدادصرف چندہزارتھی۔ ورنہ پچیس لاکھ یہودی فلسطین کے چھوٹے چھوٹے قبائل سے ڈر کس طرح سکتے تھے۔ فلسطین کی آبادی تو اپنی شان و شوکت کے زمانہ میں بھی ۲۵ - ۳۰ لاکھ سے زیادہ نہیں بڑھی ۔ بلکہ اس زمانہ میں بھی تقسیم سے پہلے اس کی آبادی اٹھارہ لاکھ کے قریب تھی پرانے زمانہ میں جبکہ خوراک ادھر ادھر پہنچانے کے سامان مفقود تھے غیر زرعی علاقوں میں بڑی آبادی ہو ہی نہیں سکتیتھی ۔ پس موسیٰؑ کے وقت میں یقیناً سارے فلسطین کی آبادی چند ہزارافراد پر مشتمل ہو گی۔ چنانچہ بنی اسرائیل اور انکے دشمنوں کی لڑائیوں میں ہمیشہ سینکڑوں اور ہزاروں افراد کا ہی پتہ لگتا ہے۔ اگر موسیٰؑ کے ساتھ ۲۵ لاکھ آدمی فلسطین میں آئے تھے تو سفر کا زمانہ تو الگ رہا حکومت کے زمانے میں بھی ان کی خوراک کا انتظام نہ ہو سکتا تھا اور لڑائی کا تو ذکر ہی کیا ہے یہ لوگ تو اپنے کند ھوں کے دھکوں سے ہی ان چند ہزار افراد سے فلسطین کو خالی کرا سکتے تھے جو ان سے پہلے وہاں بس رہے تھے ۔ پس وَ ھُمْ اُلُوْف’‘ میں جن لو گوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ بنی اسرا ئیل ہی ہیں۔
چو تھی با ت اس آ یت میں یہ بیا ن کی گئی ہے کہاللہ تعالیٰنے انہیں کہا کہ تم مر جا ؤ۔ اس امر کا ذکر بھی قرآ ن کر یم نے ایک دوسری جگہ ان الفا ظ میں کیا ہے کہ قَالَ فَاِ نَّھَا مُحَرَّمَۃ’‘ عَلَیْھِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃًج یَِتِیْھُوْنَ فِی الْاَرْضِ ط فَلَاتَاْ سَ عَلَی الْقَوْمِہ اْلفٰسِقِیْنَ( ما ئدہ آ یت ۲۷) یعنی جب مو سٰی کی نا فر ما نی کر تے ہو ئے بنی اسرا ئیل نے لڑائی کر نے سے انکا ر کر دیا تواللہ تعالیٰنے فر ما یا کہ انہیں اب اس ملک سے چا لیس سال کے لئے محروم کر دیا گیا ہے۔ وہ زمین میں سرگردان پھر تے رہیں گے پس تو با غی لو گو ں پر اقسوس نہ کر۔
پا نچویں با ت یہ بیا ن کی گئی ہے کہاللہ تعالیٰنے انہیں موت کے بعد پھر زندہ کر دیا۔ اسے اللہ تعالیٰنے دوسری جگہ ان الفا ظ میں بیا ن کیا ہے کہ وَاِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْ سٰی لَنْ نُّؤْمِنَ لَکَ حَتّٰی نَر یَ اللّٰہَ جَھْرَۃً فَاَ خَذَ تْکُمُ الصَّاعِقَۃُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ ہ ثُمَّ بَعَثْنٰکُمْ مِنْ بَعْدِ مَوْ تِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ۔(بقرہ آ یت ۵۶,۵۷) یعنی اس وقت کو بھی یا د کر و جب تم نے کہا تھا کہ اے موسٰی! ہم تیری با ت ہرگز نہیں مانیں گے جب تک ہم اللہ تعالیٰکو آ منے سا منے نہ دیکھ لیں۔اس پر تمہیں ایک مہلک عذاب نے پکڑ لیا اور تم اپنی آ نکھ سے اپنے فعل کا انجا م دیکھ رہے تھے۔ پھر ہم نے تمہا ری ہلا کت کے بعد تہمیں اس لئے اٹھا یا کہ شکر گذار بنو۔
میرے نذدیک اس آ یت میں نر ی اللّٰہَ جَھْرَۃً سے مراد اُن کا فَلذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکُ فَقَا تلِآَ اِنَّا ھٰھُنَا قٰعِدُوْنَ ( ما ئد ہ آ یت ۲۵) اولا جملہ ہے ۔ اس کے بعد انہیں چا لیس سال کی سزا ملی۔ جو صا عقہ تھی۔ غرض اَلَمْ تَرَ اِلَی اَلّذِیْنَ خَرَ جُوْا مِنْ دَیَارِھِمْ وَھُمْ اُلُوْاف’‘ حَذَرَاْلمَوْتِ سے مراد بنی اسرا ئیل ہی ہیں جو فر عون کے متو اتر مظالم کا تختہ مشق بنے ہو ئے تھے۔ اور ہلا کت کے گڑھے میں گر ے ہو ئے تھے۔ ان کے لڑ کے مارے جا تے تھے اور قومی زندگی با لکل تبا ہ ہو چکی تھی۔اللّٰہ تعا لٰی ان کو ملک مصر سے بچا کرلا یا ۔ اور فلسطین ک اان سے وعدہ کیا۔ اور حکم دے اکہ دشمن سے لڑو اور فتح حا صل کر لو۔ مگر وہ اپنی نا دا نی سے کہ اُٹھے کہ یٰمُوْ سٰیٓ اَنَّا لَنْ نَدْ خُلَھَآ اَبَدًامَّا دَامُوْ فِیْھَا فَا ذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَا تلِآَ اِنَّا ھٰھُنَا قٰعِدُوْن َ(مائدہ آیت ۲۵) یعنی اے مو سٰی:جب تک وہ لوگ اس میں مو جو د ہیں ہم اُس سر زمین مین کبھی دا خل نہیں ہو نگے۔ اس لئے تو اور تیرا رب دونو ں جا ؤ اور ان سے جنگ کرو تو یہیں بیٹھے رہیں گے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ اللہ تعالیٰنے ان پر مو ت نا زل کی ۔ یعنی وہ چا لیس سال تک اللہ تعالیٰکی نا را ضگیوں کا مورد رہے۔ اس کے بعد ان کی اگلی نسل جب جوان ہو ئی اور اس نے اللہ تعالیٰکے منشا کے ما تحت قر با نیوں سے کا م لیا تواللہ تعالیٰنے انکو زندہ کر دیا۔ یعنی کغان کے دروازے ان کے لئے کھل گئے اور حکومت پر انہوں نے قبضہ کر لیا۔ اسی طرف ثُمَّ اَحْیَا ھُمْ میں اشارہ کے گیا ہے۔ اور اسی طرف ثُمّ بَعَثْنٰکُمْ مِنْ بَعْدِ مَوْ تِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُ وْنَ میں اشارہ تھا۔
فَقَالَ لَھُمُ اللّٰہُ مُوْتُوْا میں اسطرف بھی اشا رہ پا یا جا تا ہے کہ جب وہ اپنے گھروں سے مو ت کے خوف سے نکلے اور انہوں نے چا ہا کہ وہ زندگی حا صل کریں تو ان کی اس خواہش لوپورا کر نے کے لئے اللہ تعالیٰنے انہیں جو تدبیر بتا ئی وہ یہ تھی کہ تم اپنے لئے مو ت اختیار کر و۔ ایک ایسی قوم جو مو ت سے بچنے کے لئے گھروں سے نکلی تھی۔ اسے قردتی طور پر یہ علاج بہت عجیب نظر آ یا۔ وہ لو گ جنہوں نے اپنا وطن خواہ وہ اختیار کردہ ہی ہو۔ املا ک خواہ تھوڑے ہی ہو ں۔ اپنی عزت یا رتبہ خواہ قلیل ہی ہو۔ اپنے جلیس اور ہم صحبت دوست اور وہ ملک جس کی وہ زبان سمجھتے تھے صرف اسلئے کہ انہیں زندگی ملے اور وہ مو ت سے بچ سکیں کُلی طور پر چھوڑدیا۔ وہ اللہ تعالیٰکے منشاء کے ما تحت ایک ایسے ملک کی طرف چلے گئے جہا ن کی زبان وہ نہیں جانتے تھے جہا ں انکی کو ئی جا ئیداد نہیں تھی۔ جہا ں کے لو گ ان کی دیا نت سے اور یہ لو گ انکی دیا نت سے واقف نہ تھے۔جہاں کے لوگوں کی نگا ہ میں ان کے چھو ٹے بڑے میں کو ئی تمیز نہ تھی ۔ یہ قربا نی کوئی معمولی قربا نی نہ تھی۔ یہ قربا نی صرف اس لئے کہ گئی تھی کہ انہیں جان بہت پیاری تھیی ورنہ وہ اس ملک کو چھوڑتے ہی کیو ں؟مگر جب وہ وہاں پہنچے تو خدا تعالیٰ سے انہوں نے سوال کیا کہ وہ زندگی کہاں ہے جس کا ہمیں وعدہ دیا گیا تھا اﷲ تعالیٰ نے فرمایا تم موت قبول کرو۔ پھر زندہ ہو جائو گے ۔ وہ لوگ حیران ہوئے کہ یہ ہمیں کیا کہا جا رہا ہے ۔ کیونکہ جو پیالہ فرعون انہیں لا رہا تھا وہی اﷲ تعالیٰ نے انہیں دیا فرعوںن نے فیصلہ کیا تھاکہ وہمر جائیںمگر انہوں نے کہا ہمزندہرہنا چاہتے ہیں اور ہمخدا تعالیٰسے فریاد کرینگے لیکن جب انہوں نے خدا تعالیٰ سے فریاد کی تو وہاں سے بھی ان کو یہی جواب ملا کہ مر جائو۔ انہیں دونوں جگہوں سے موت ہی کا پیالہملا۔ وہ حیران تھے کہ فرعون کو دوست سمجھیں یا خدا تعالیٰ کو دشمن۔ فرعون انہیں زندہ کرنا چاہتا تھا یا خدا تعالیٰ انہیں مارنا چاہتا ہے کیونکہ دونوں پیالوں پر موت لکھی ہوئی تھی۔ وہ گھبرائے۔ ان میں سے کمزوروں نے کہا کہ ہمتو موت سے بچنے کیلئے آئے تھے اگر یہی پیالہ ہمیں پیتا ہوتا تو وہیں کیوں نہ پی لیتے اتنی تکالیف برداشت کرنیکی کیا ضرورت تھی۔ ہم اس پیالہ کو پینے کے لیے تیار نہیں ہم سے دھوکا کیا گیا ہے اگر موت ہی ہمیں ملنی تھی تو کیوں ہم سے زندگی کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اتنی امیدیں دلانیکے بعد ہمیں قوم میں کیوں شرمندہ کرایا۔ وہ ہنسیں گے کہ بیوقوف موت سے بھاگے تھے وہاں بھی موت ہی نصیب ہوئی۔ وہ اس مشکل کو حل نہ کر سکے سوائے اس کے کہ ان میں سے کمزوروں نے کہا کہ ہم یہ پیالہ پینے کے لئے تیا ر نہیں۔ عزت کی زندگی جس کا ہم سے وعدہ تھا وہ ہمیں دو۔ یہ حضرت موسیٰؑ کی قوم تھی۔ فرعون انہیںتباہ کرنا چاہتا تھا حضرت موسیٰؑ نے ان سے کہا تمہارے سب لڑکے مارے جائیں گے اور لازماً لڑکیا ں وغیروں سے بیاہی جائیںگیاورتمہاری نسلمٹ جائیگی اورغیروں کی نسل جاری ہوجائیگی۔تم اس موت سے بچو ۔ اورذلت کی زندگی برداشت نہ کرو۔ خداتعالیٰ نے بتایاکہ حیات کا پیالہ تمہارے لئے کنعان کیشرزمینمیں تیار ہے چنانچہ انہوں نے گھر بار چھوڑا ۔ مال جو اٹھایا نہگیاوہیں چھوڑا عزت سے ہاتھ دھوئے ۔ ایک باقاعدہ حکومت کاآرام کھویا۔ وہ نکلے اور چل پڑے۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے وَھُمْ اُلُوْفـُ وہ چند ہزار تھے۔ جو اپنے گھروںسے نکلے ان میں بہت سی عورتیں اور بچے بھی ہونگے۔ عام طور پر صرف پانچواں حصہ بالغ مرد ہوتے ہیں پھر ان میں کچھ بوڑھے بھی ہونگے متمدن اقوام مین چھ فیصدی مرد جنگکے قابل ہوتے ہیں۔ اور غیر متمدن قوموںمیںسولہ فیصدی۔ اگر وہ پچاس ہزار بھی ہوں تو ان میں زیادہ سے زیادہ آٹھ ہزار لڑائی کے قابل مرد ہونگے۔ اور وہ بھی نا تجربہ کار۔ پتھیرے بھلا کیا جانے کہ چنگکیا ہوتی ہے انہوں نے کہا لائو۔ وہ ملک جس کا ہمسے وعدہ کیا گیا تھا ۔ اس پر ایک زبردست قوم کے لوگ جن کے چہرے خون سے بھرے ہوئے تھے ۔ جنہیں اگر دائیں طرف عرب کے جنگجوئوں سے مقابلہ کرنا پڑتا تو بائیں طرف یونانیوں سے ۔ نہزیب کے گہوارہ میں پلی ہوئی تین قوموں یانانیوں ایریانیوں اور مصریوں سے انہیں واسطہ پڑتا ۔ وہ تینوں کے طریق کار سے واقف تھے وہ خود بھی مہزب اور بڑے بڑے شہروں میں رہنے والے تھے۔اور بنی اسرائیل سے قریباً دس گنا تھے۔ حضرت موسیٰؑ نے یہ جنگنو اور خونخوار قوم دکھا کر کہا کہ اس قوم کو مار دو پھر حکومت تمہارے ہاتھ آجائیگی بنی اسرائیل پر حیرت کا اظہار کرنا آسان ہے لیکن ذرا سوچو۔ تمہارا ایک دوست تمہاری دعوت کرے۔ وقت مقررہ پر وہ تمہیں بلا کرلے جائے اور جب وہ بازار میں پہنچے تو ایک بڑے ہوٹل میں چلا جائے۔جہاں ہر ایک چیز پانچ چھ گنا قیمت پر ملتی ہو اور کہے کہ یہ ہوٹل ہے اس میں آپ آٹھ دس روپے خرچ کر کے کھانا کھا سکتے ہیں۔ اور دوسری طرف ایک ایسا مکان بھی ہے جہاں سے کھانوں کی خوشبو آ رہی ہے ۔ آپ اس کے اندر گھس جائیں مالک مکان کا سر لٹھ سے پھوڑ دیں اور کھانا لے لیں اس جواب کو سنکر تمہاری کیا حالت ہوگی۔ تم اس کو ذلیل کرنے والا تمسخر خیال کرو گے اور اس دوست سے ناراض ہو جائو گے۔ شاید تم میں سے جو شیلے ایسے دوست پر حملہ ہی کر بیٹھیں یہی حالت یہاں ہوئی۔ سینکڑوں میل سے حضرت موسیٰؑ اپنی قوم کو اس عودہ پر کہ وہاں انہیں بادشاہت ملے گی لائے۔ مگر ہوں پہنچکر انہیں کہ دیا کہ کنعان پر قابض قوم کو مار دو۔ اور ان سے حکومت چھین لو۔ اس جہالت کو دیکھ کر جو بنی اسرائیل میں اس وقت پھیلی ہوئی تھی خیال کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اس جواب پر سر پیٹ لیا ہو گا۔ وہ حضرت موسیٰ ؑ کی طرف دیکھتے ہونگے کہ تم نے عودے کیا کئے تھے اور اب کہ کیا رہے ہو۔ وہ کہتے ہونگے کہ وہیںہمیںکیوں نہ کہ دیا کہ فرعون کا سر اڑا دو۔ اور اس سے حکومت چھین لو۔ وہاں پر تو ہم یہ کر بھی سکتے تھے کیونکہ ہمارے آدمی فرعون کے گھروں میں کام کرتے تھے وزراء ہمارے واقف تھے اور کئی سہولتیں ہمیں میسر تھیں ۔ لیکن یہاں پر زبان اور ہے اس لئے ہم جاسوسی بھی تو نہیں کر سکتے ۔ وہ ذرائع ہمیں یہاں میسر نہیں ان لوگوں کو مارنا بھلا کونسا آسان کام تھا کہ تم ہمیں وہاں سے نکال لائے اور یہاں آکر کہ دیا کہ ان کو مارو۔ اور ملک پر قبضہ کرلو۔ یہ خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا لیکن خدا تعالیٰ انہیں نظر نہ آتا تھا۔ ورنہ وہ اس سے ہی جگھڑا کرتے ۔ حضرت موسیٰؑ انہیں نظر نہیں آتے تھے اس لیے انہی کو وہ مخاطب کرتے تھے اوربطاہر حالات انہوں نے شرافت سے ہی کاملیا۔ ورنہ وہ حضرت موسیٰ ؑ پر حملہ آور ہوتے۔ کہ تم نے ہمارے ساتھ نعوذ بااللّہ دھوکا کیا ہے۔ بائیبل میں آتا ہے کہ وہ روئے پیٹے اور بچوں کی طرح روٹھ گئے۔
قر آ ن کریم فر ما تا ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ اے مو سٰے! اِذْھَبْ اَنْتَ وَ رَبُّکَ فَقَا تِلَا اِنَّا ھٰھُنَا قٰعِدُوْنَ۔ (مائدہ آیت۲۵) ہما رے مدِ مقا بل ایک تجر بہ کار اور جنگجو قوم ہے۔ ان کے پاس اسلحہ بھی ہم سے زیادہ ہے وہ اپنی وطن میں ہیں اور راستوں سے اچھی طرح وا قف ہیں۔ہمیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کا تعا قب کیسے کر یں وہ محفوظ قلعوں میںہیں اور ہم جنگلو ں میں۔تم نے ہنسے وعدہ کیا تھا کہ ہمیں بادشا ہت دو گے اس لئے ہم توہا تھ نہیں اٹھا ئیں گے اور یہیںبیٹھے رہیں گے۔تم اور تمہا را خدا جاؤ اور ملک فتح کر کے ہمیں دے دو۔
بظا ہر معلو م ہو تا ہے کہ حضرت مو سٰیؑ نے انسے جو وعدہ کیا تھا اسے انہوں نے لفظاً پو را نہیں کیا۔ لیکن جب ہم اس وا قعہ کوایک اور نقطہ نگا ہ سے دیکھتے ہیں تو اس کی شکل ہی بدل جا تی ہے۔ رسول کریمﷺ نے مکہ کی فتح پر انصار سے مخا طب ہر کر فرما یا اے انصار! کیا تم نے یہ کہا ہے کہ خو ن تو ہما ری تلوا روں سے ٹپک رہا ہے اور مالِ غنیمت مہا جر ین میں تقسیم کر دیا گیا ہے ۔ انہوں نے عرض کیا۔ حضور ہم میں سے ایک نوجوان نے نا دانی سے ایسا کہ دے اہے ۔ آ پؐ نے فر ما یا ۔ تم کہ سکتے ہو کہ محمد(ﷺ) کو ہم نے بے درپا یا۔ ہم نے اسے اپنے گھر میںجگہ دی۔ اُس کے بھا ئی اُس کے خون کے پیا سے تھے۔ ہم اس کے آ گے پیچھے لڑے۔دنیا میں اس کا پیغا م پہنچا یا۔ پھر جب فتح ہو ئی تو اس نے مال اپنی قوم میں تقسیم کر دیا اور ہیمں کچھ نہ دیا۔ لیکن اگر تم چا ہو تو یہ بھی کہ سکتے ہو کہ محمد(ﷺ) نے ہمیں قربِ الہٰی حا صل کر یا۔ تقویٰ جیسی نعمت دی ۔ خداتعالٰی کی محبت دی اور پھر اللہ تعالیٰنے اپنی فضل سے اسے فتح دی۔ اور خدا ئی فوجوں نے مکہ فتح کیا۔مکہ اُس کاپیدا ئشی مقا م تھا اور مہا جر ین کا وطن۔انہیں تو قع تھی کہ مکہ فتح کرکے وہ اپنے گھروں پر قبضہ کر لیںگے مگر مکہ مکر مہ وا لے تو چند اونٹ لے گئے اور ہم اپنے سا تھ رسول اللّٰہ کو لے آے۔ یہی دونو ںرُخ یہا ں ہیں۔ اگر حکو مت کے رنگ میںکوئی تغیر خدا تعا لٰی کومنظور نہیں تھا اور وہ ایسی ہی حکو مت پسند کر تا جیسی فر عون کی تھی تو فر عون سے حکومت چھین کر بنی اسر ئیل کو کیوں دینا چا ہتا۔ خدا تعالٰی تو ایسی قوم کو با دشا ہت دینا چا ہتا تھا جو اخلا ق کی خو شنما حکو مت قا ئم کر تی۔ خدا تعا لٰی بھی اسر ائیل کو ایسی زندگی نہیں دینا چا ہتا تھاجو ختم ہو جاتی۔ ایسی زندگی تو چمار بھی دیتا ہے جبکہ وہ بچہ پیدا کرتا ہے۔ بلکہ خدا تعا لٰی انہیں ایسی زندگی دینا چاہتا تھا جو کو ئی اور نہیں دے سکتا تھا۔ خدا تعا لٰی انہیں اخلا ق فا ضلہ کہ ہمیشہ کی زندگی دینا چا ہتا تھاجوفر عون انہیں نہیں دے سکتا تھا۔ اور ایسی زندگی بغیر تربیت اور قر با نی کی عا دت کے انہیں نیہں مل سکتی تھی ۔ خدا تعا لٰی انہیں اپنے تا زہ نشا نو ں کے سا تھ زندہ کر نا چا ہتا تھا تا ان میں سے ہر ایک دس دس کے مقا بل میں کھڑا ہو۔ پھر خدا تعا لٰی ان کی اصلا ح ہوتی اور اس طر ح ان کو حقیقی زند گی ملتی گو یا پیا لے دونوں موت کے تھے۔لیکن فر عون کے پیا لہ میں شربت بھی مو ت کا تھا اور خدا تعا لٰی کے پیا لہ میں زند گی کا ۔ یہ فر ق تھا جسے وہ سمجھ نہ سکے۔ اگر وہ فر عون کا پیا لہ پی لیتے تو ہمیشہ کے لئے مو ت ملتی۔ لیکن وہ خدا تعا لٰی کا پیا لہ پی لیتے تو وقتی مو ت ہو تی جس کے بعد ہمیشہ کے لئے انہیں زندگی مل جا تی۔ مگر انہوں نے اس فر ق کو نہ سمجھا اور خداتعا لٰی کا پیش کر دہ مو ت کا پیا لہ پینے سے بھی اسی طر ح انکا ر کر دیا جس طرح فر عون کا پیا لہ پینے سے انکا ر کیا تھا۔ تب خدا تعا لٰی نے انہیں فر ما یا مُوْ تُوْ ا تم اپنے ہا تھی سے مو ت لینے لینے سے انکا ر کر تے ہو اب ہم خود تمہیں مو ت دیتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے فر عو نکی دی ہو ئی و ت اور اپنی دی ہو ئی مو ت میں فر ق رکھا۔ وہ لو گ گھر سے تو اللّٰہ تعا لٰی کے وعدہ پر اعتبار کر کے ہی نکلے تھے اسلئے اللہ تعالیٰنے کچھ عر صہ کی موت کے بعد انہیں پھر زندگی دے دی اور اس طر ح اس وعدہ کو پورا کر دیا۔
یہ ایک چھوٹی سی آیت ہے لیکن اس میں اللہ تعالی نے قومی جدوجہد کا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا ہے۔ دعا ئے ابرا ہیمی میں رسول کر یم ﷺ کے چا ر کا م بتا ئے گئے تھے۔ یَتْلُوْ ا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِیٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ یُزَ کیِّھِمْ(بقرۃآ یت۱۳۰) اول آ یا ت الہی سنانے کاکام ۔ دوم تعلیم کتاب کاکام۔ سو م تعلیم حکمت کاکام۔چہارم تزکیہ نفوس کاکام۔ یہ آ یت یُعَلِّمُھُمُ اْلحِکْمَۃَ کے ما تحت ہے۔ یہا ں قومو ں کی تر قی کے ذرائع بیا ن کئے گئے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰنے اسجگہ مثا ل دے کر بتا یا ہے کہ قو میں کس طر ح تر قی کیاکرتی ہیں ۔جب بھی کسی قو مکو مو ت کا ڈر ہو تو اس کا یہی علاجہے کہ یا تو وہ اپنے ہا تھ سے مو ت قبول کر ے یا خدا تعالٰی کے ہا تھ سے مو ت قبول کر ے۔ اپنے ہا تھ سے موت قبول کرنے میں کئی آسانیاں ہوتی ہیں ۔ حضرت مسیح موعودؑ فرمایا کرتے تھے کہ جب تم اپنے ہاتھ سے ابلاء لو تو تم اسے کم کر سکتے ہو۔ جیسے سردی میں وضو کے لئے پانی کی ٹھنڈک کو تم دورکر سکتے ہو۔ اسی طرح جنگ میں تم بخوشی موت قبول کرتے ہو لیکن تم اس سے بچائو کے لئے تلوار ہاتھ میں پکڑ لیتے ہو اور بدن پر زرہ پہن لیتے ہو تاکہ جہاں تک ہو سکے موت کے اثر کو کم کر دو۔اگر تم زخمی ہو تو علاج کر سکتے ہو۔ لیکن خدا تعالیٰ کی دی ہوئی موت سے تم کوئی بچائو نہیں کر سکتے خدا تعالیٰ کا قانون کام کرتا چلا جاتا ہے ۔ اور وہ یہ نہیں دیکھتا کہ اس طرح تکلیف کم ہو گی یا زیادہ مثلاً ہیضہ یا طاعون کی وبائیں بلا لحاظ مارتی چلی جاتی ہیں لیکن تم خود ایک چیز کی تکلیف کو کم کر سکتے ہو۔ مثلاً کانٹا چبھ جائے تو تم اسے اپنے ہاتھ سے نکالنے کی کوشش کرتے ہو۔ کیونکہ دوسرے سے تمہیں یہ توقع نہیں ہو سکتی کہ وہ اس تکلیف کو کم کرنے کی ویسی ہی کوشش کرے گا۔ جیسی تم کر سکتے ہو۔ پس جب قوم کی موت آتی ہے ۔ تو اس کا علاج زندہ رہنا نہیں بلکہ موت قبول کرنا ہوتا ہے۔
دینا میں تین قسم کی قومیں ہوتی ہیں ایک تووہ جو موت کو خود قبول کر لیتی ہیں۔ اور بعد میں انہیں ہمیشہ کے لئے زندگی مل جاتی ہے۔ جیسے رسول کریم ﷺ کے ساتھی تھے۔ صحابہ ؓ کے سامنے موت پیش ہوئی اور انہوں نے اسے قبول کر لیا۔ جس کے نتیجہ میں انہیں ہمیشہ کی زندگی مل گئی۔ جنگ بدر کے موقعہ پر تمام صحابہؓ رسول کریمﷺ کے ساتھ نہیں گئے تھے کیونکہ رسول کریمﷺ نے بعض مصالح کی بناء پر انہیں جنگ کی خبر نہیں دی تھی گو آپ کو اس کا علم تھا ۔ مگر جب رسول کریم ﷺ نے مدینہ سے باہر جا کر لڑنے کا ارادہ فرمایا۔ تو آپؐ نے انصار اورمہاجرین کو جمع کیا۔ اور فرمایا۔اے لوگو! مجھے مشورہ دو کہ اب کیا کرنا چاہئے اس پر مہاجرین کھڑے ہوئے اور انہوں نے عرض کیا یارسول ﷺ مشورہ کا کیا سوال ہے۔ ہم لڑنیکے لئے حاضر ہیں مگر جب کوئی مہاجر کھڑے ہوئے اور انہوںنے عرض کیا یا رسول اللّہ مشورہ کا کیا سوال ہے۔ ہملڑنیکے لئے حاضر ہیں۔ مگر جب کوئی مہاجر بیٹھ جاتا آپ پھر فرماتے کہاے لوگو۔ مجھے مشورہ دو۔ جب آپؐ نے بار بار یہ الفاظ دہرائے۔تو انصار سمجھ گئے کہآپ کا اشارہ ہماری طرف ہے۔ توانصار سمجھ گئے کہ آپ کا اشارہ ہماری طرف ہے۔ چنانچہ ایک انصاری کھڑے ہوئے اور انہوںنے عرض کیاکہ یارسول اللّہ! آ پؐ کی مرا دشاید ہم انصارسے ہے۔ آ پؐ نے فر ما یا۔ ہا ں۔ اُس نے کہا۔ یا رسول اللّٰہ! شا ید آ پ کا اشارہ اُس معا ہدہ کی طر ف ہے جو ہجر ت کے وقت ہم نے آ پ سے کیا تھا۔ کہ مدینہ کے انر ر رہ کر تو ہم دشمن کا مقابلہ کر ینگے مگر مد ینہ سے پا ہر آ پ کی حفا ظت کے ذمہ دار نہیں ہو نگے۔ آ پؐ نے فر ما یا۔تم ٹھیک سمجھے میرا اشارہ اسی طرف ہے۔ اس نے کہا یا رسول اللّٰہ! بیشک ہما را یہ معا ہدہ تھا کہ ہممد ینہ سے باہر نہیں لڑ یں گے۔ لیکن یا رسول اللّٰہ! وہ ابتدائی زما نہ تھا۔ اب خدا کا نور ہمنے خود اترتے دیکھ لیا ہے۔ اب یہ نہیں ہو سکتا کہ آ پ میدا نِ جنگ میں جا ئیں اور ہم نہ جا ئیں۔ ہم ان انصار کی طرف سے بھی جو علم نہ ہو نے کی وجہ سے مدینہ میں رہ گئے ہیں حضور کو یقین دلا تے ہیںکہ اگر وہ بھی یہا ں مو جو د ہو تے تو ضرور آ پ کے سا تھ جنگ میں شا مل ہو تے پھر اُس نے کہ ا۔ یا رسول اللّٰہ! اب معا ہدا ت کاکیا سو ال ہے۔آ پ ہمیں حکم دیں کہ سمندر میں گھو ڑے ڈال دو تو ہم سمندر میں گھو ڑے ڈا لنے کیلئے بھی تیار ہیں اور اگر لڑائی ہو ئی تو یا رسول اللّٰہ ہم آ پ کے دا ئیں بھی لڑیں گے اور با ئیں بھی لڑیں گے اور آ گے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور کو ئی شخص آ ہ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے۔ یہ فقرہ صحا بہ ؓ کو اسقدر پسند تھا کہ ایک صحا بی جو چو دہ یا اٹھا رہ جنگوں
وَقَا تِلُوْ ا فِیْ سَمِیْع’‘ عَلِیْم’‘o
میںشریک ہو ئے کہا کر تے تھے۔ کہ با وجو د اس کے کہ مجھے اتنی جنگوں میں شمو لیت کا فخر حا صل ہے میرے نذ دیک اُس صحا بی کا یہ فقرہ میری سار ی لڑائیوں سے بہتر تھا۔کاش یہ میرے منہ سے نکلتا۔
غر ض ایک تو یہ قوم تھی جنہو ں نے بخو شی موت کو قبول کے اور اس کے مظا بق اس سے سلو ک ہوا۔ دو سری قوم حضرت موسٰی ؑ کی تھی ۔اللّٰہ تعا لٰی نے اس سے زندگی کا وعدہ کیا۔ اور اس نے وعدہ کے ایفاء کا لفظاً مطا لبہ کیا انہوں نے کہا تم ہم کو زندگی دینے کا وعدہ پر لائے تھے۔ تم نے ہمیں با دشا ہت دینے کا وعدہ کیا تھا تم وہ ملک لے کر ہمیں دے دو۔ ہم لڑ کر ملک لینے کے لئے تیا ر نہیں۔ اس پر خدا تعا لٰی نے انہیں مو ت دیدی اور چالیس سال تک اس ملک سے محروم کر دیا۔ مگر چو نکہ زندگی کا وعدہ بھی تھا۔ اس لئے پھر زندگی بھی دیدی۔لیکن اسوقت جب کہ وہ نسل جس نے خود مو ت لینے سے انکا ر کر دیا تھا بیا با نوں میں ہلا ک ہو چکی تھی۔ خدا تعالٰی نے اِنَّا ھٰھُنَا قٰعِدُوْنَ کہنے والوںکے بچوں کو جنہوں نے یہ فقرہ نہیں کہا تھا۔ اٹھا یا اور زندگی کا وعدہ ان کے زما نہ میں پورا کر دیا۔ چنا نچہ ثُمَّ اَحْیَا ھُمْ میں اسی امر کی طرف اشارہ ہے۔
تیسری قسم کی قوم وہ ہو تی ہے جس سے کو ئی وعدہ نہیں ہو تا۔ یہ قوم جب مو ت کے مو نہ میں آ تی ہے تو اس سے سلوک اس کی اپنی ہمت کے مطا بق ہو تا ہے کبھی اپنی کو شش سے ایسی قوم بچ جا تی ہے اور کبھی ہلاک ہو جاتی ہے۔ غرض اس آ یت میںاللہ تعالیٰنے یہ ایک عجیب نکتہ بتا یا ہے کہ غلا م قوم اور مغلو ب لوگ کبھی زندگی نہیں پا سکتے جب تک کہ پہلے اپنے لئے مو ت کو اختیار نہ کر لیں۔
وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّا سِ لاَ یَشْکُرُوْنَ میں بھی یہ بتا یا کہ خدا تعا لٰی جو مجا ہدات بتا تا ہے وہ قومی ترقی کے لئے ضروری ہو تے ہیں۔ مگر لو گ ان پر شور مچا دیتے ہیں کہ ہم مر گئے۔ بو جھو ں میں دب گئے حا لا نکہ فا ئدہ ان کااپنا ہوتاہے۔
۱۵۵؎ تفسیر:۔ فر ما تا ہے۔ اے امّت محمدیہ تم اُ س قو م کی حا لت کو دیکھو جسے مو سٰی ؑ مصر سے حا صل ہو۔ لیکن جب انہیں اپنے دشمنوں سے جو اُ ن کے ملک پر قا بض تھی لڑنے کے لئے کہا گیا تو انہوں نے انکا ر کر دیا۔ اسپر خدا تعا لٰی نے انہیں اس ملک کو حکو مت سے چا لیس سا ل تک کے لئے محروم کر دیا اور وہ جبگلو میں بھٹک بھٹک کر مر گئے۔ غرض با وجو د اس کے کہ مو ت ان کو اپنے گھروں میں بھی آ نی تھی انہوں نے خداتعا لٰی کی راہ میں موت کا پیا لہ پینے سے انکا ر کر دیا اور تبا ہ ہو گئے۔ خدا تعا لٰی فر ما تا ہے کہ تمہیں اس قوم کے حا لات سے عبرت ضا صل کر نی چا ہیے اور خدا تعا لٰی کی راہ میں جہا د کر نے سے کبھی انکار نہیں کر نا چا ہیے۔ جو قوم موت سے ڈرتی ہے وہ دنیا میں کبھی زندہ نہیں رہ سکتی کیو نکہ مو ت سے ڈرنا ہی اُسے موت کا شکار بنا دیتا ہے۔
وَاعْلَمُوْ ا اَنَّ اللّٰہَ سَمِیْع’‘ عَلِیْم’‘ میںبتا یاکہ بے شک تم کمزور اور بے سروسا مان ہو۔ اور تمہارا دشمن بڑا تجر بہ کار اور سارے سا ما ن سے مسلح ہے مگراللہ تعالیٰسمیع ہے وہ تمہاری دعا ؤں کو سنے گا۔ اور وہ علیم ہے یعنی ان مشکلا ت کو بھی جا نتا ہے جو تمہیں پیش آ ئیں گی۔ اس لئے تم پر بھروسہ رکھو وہ تمہار ی دعا ؤں کو سنیگا اور تمہیں دشمن کے مقا بلہ میں کامیا بی و کامرا نی عطا فر ما ئیگا۔
مَنْ ذَالَّذِیْ
تُرْجَعُوْنَo
۱۵۶ ؎ حل لغات:۔ یُقْرِ ضُ: اَقْرَضَ سے مضا رع وا حد مزکر غا ئب کا صیغہ ہے اور اس کے معنے قرض دینے کے بھی ہیں اور کاٹ کر الگ کر دینے کے بھی چنا نچہ اَقْرَضَہ‘ کے یہ بھی معنے ہیںکہ قَطَعَ لَہ‘ قِطْعَۃً اُس کے لئے ایک ٹکڑہ کا ت کر الگ کر دیا۔ اور یہ بھی کہ اَعْطَا ہُ قَرْ ضاً اُسے قرض دیا۔(اقرب)
لسا ن العرب میں لکھا ہے۔ اَلْقَرْضُ: اَلْقَطْعُ وَ ھُوَ مَا اَسْلَفَہ‘ مِنْ اَحْسَا نٍ اَوْمِنْ اَسَا ئَ ۃٍ یعنی ہر وہ عمل جسے انسا ن اپنے آ گے بھیجے خواہ وہ نیک ہو یا بد اُسے قرض کہتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ اس سے مراد مال ہی ہو۔ چنا نچہ اُمیّہ کا شعر ہے؎
کُلُّ امْرِئیٍ سَوْفَ یُجْزیٰ قَرْضَہً
حَسَنًا اَوْسَیِِِِِِِّئًا مَدِ یْنًا مِثْلَ مَا دَانَ
یعنی ہر شخص کو اس کے قرض کا بدلہ ملیگا خواہ وہ اچھا ہویا برا اور وہ اپنے کئے کی جزاء پا ئیگا۔
اَلْقَرْضُ کُلُّ اَمْرِیُتَجَا ریٰ بِہِ مِنَ النَّاسِ۔ ہر ایسا فعل جس کا انسا ن کو بدلہ دیا جائے قرض کہلاتا ہے قَرَضْتُہ‘ کے معنے ہیںجَا زَیْتُہ‘ میں نے اُسے بدلہ دیا ۔ تَقُوْ لُ الْعَرَبُ لَکَ عِنْدِی قَرَض’‘ حَسَن’‘ وَ قَرَض’‘ سَیِِّئی’‘۔ عرب کہتے ہیں کہ تیرا میرے ساتھ اچھا معا ملہ ہے، میں نے اس کا بدلہ دینا ہے۔ اسی طرح یہ بھی کہتے ہیں کہ تیرا معا ملہ میرے ساتھ برُا ہے میںح نے اس کا بدلہ دینا ہے۔ ۔ اسی طرح یہ بھی کہتے ہیں کہ تیرا معا ملہ میرے سا تھ بُرا ہے میں نے اس کا بدلہ دینا ہے۔ وَاَصْلُ الْقَرْضِ مَایُعْطِیْہِ الرَّ جُلُ اَوْ یَفْعَلُہ‘ یُجَا زٰی عَلَیْہِ وَاللّٰہُ لَا یَسْتَقْرِضُ مِنْ عِوَضٍ وَلٰکِنَّہ‘ یَبْلُوْ عِبَا دَہ‘۔ا صل قرض یہ ہے کہ انسان کسی کو کوئی چیز دے یا ایسا کام کرے جس کا اُسے بدلہ دیا جا ئے۔ کہتے ہے خدا تعا لٰی عوض کے بدلہ میں نہیں لیتا بلکہ وہ اپنے بندوں کی آ زما ئش کر تا ہے ۔ لبید کہتا ہے؎
وَاِذَا جُوْ زِیْتَ قَرْضًا فَاَ جْزِہ
اِنَّمَا یُجْزَی الْفَتٰی لَیْسَ الْجَمَل‘
کہجب تجھے قر ض دیا جا ئے تو تُو اس کا بدلہ دے۔کیو نکہ بہا در آ دمی ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔ اونٹ نہیں دیا کر تے۔ یعنی تُو ایسا نہ بن کہ لو گ تجھ سے معا ملہ کر یں تو تُو اُن سے اچھا معا ملہ نہ کرے۔
اِ سی طرح کہتے ہیں۔ اَلْقَرْضُ فِیْ قَوْلِہ تَعا لٰی مَنْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا اِسْم’‘ لَیْسَ بِمَصْدَرٍ وَلَوْ کَانَ مَصْدَرًا لَکَانَ اِقْرَاضًا وَلٰکِنَّ الْقَرْضَ کُلُّ مَایُلْتَمَسُ عَلَیْہِ الْجَزَآئُ کہ قر ض کا لفظ اِس آ یت میں اسم ہے نہ کہ مصدر۔ اگر ہو تا تو اَقْرَاض ہو نا چا ہیے تھا۔مگر یہا ں قَرْض ہے۔ جس کے معنے ہر دو چیز جس پر انسا ن بدلہ چا ہے۔
اخفش کہتا ہے۔ یَقْرِضُ اللّٰہَ: یَفْعَلُ فِعْلاً حَسَنًا فِیْ اِتِّبَاعٍ اَمْرِہ یُقَالُ لِکُلِّ مَنْ فَعَلَ اِلَیْہِ خَیْرًا لَقَدْ اَحْسَنْتَ قَرْضِیْ کہ یہ محا ورہ ہے کہ جس آ دمی سے اچھا سلوک کیا جا ئے۔ وہ کہتا ہے تو نے مجھے اچھا قر ض دے اہے یعنی اچھا معا ملہ کیا ہے یا یوں کہتے ہیں کہ لَقَدْ اَقْرَ ضْنتَنِیْ قَرْ ضًا حَسَنًا اَیْ اَدَّیْتَ اَلِيَّ خَیْرًا تو نے مجھے قر ضہ حسنہ دیا ہے۔ یعنی میرے سا تھ بُری نیکی کی ہے۔ ان معنوں کی رو سے زیر تفسیر آ یت کا مفہوم یہ ہو گا کہ (۱) کو ن ہے جواللہ تعالیٰکے احکا م کی اطا رت کرے ایسی صورت میں کہ وہاللہ تعالیٰسے اُس کی جزاء کی اُ مید رکھے۔(۲) کو ن ہے جو اپنے ما ل کا ایک حصہ کا ٹکرااللہ تعالیٰکی راہ میں دے۔ گو یا دونوں معنوں کی رہ سے غرض یہ ہو گی کہاللہ تعالیٰکی اتباع کر ے اور اپنے ما ل کا ایک حصہ کا ٹ کر اس کی راہ میں خر چ کرے۔
اَضْعَا ف’‘: ضِعْف’‘ کی جمع ہے۔اور ضِعْفً کے معنے عربی زبا ن میں کئی ہیں۔(۱)محض بڑھا دینا(۲) جتنی چیز ہو اتنی ہی اور بڑ ھا دینا یعنی دوگنا کر دینا۔(۳) کہتے ہیں کہ یہ کم از کم افزائش ہے بڑی حد مقرر نہیں کی جا سکتی خوا ہ اُسے کروڑ گنا بڑھا دیا جا ئے۔ کروڑ گنا بھی اضعاف میں داخل ہے۔یہ جملہ ہے تو سوا لیہ مگر تحر یص کا فا ئدہ دیتا ہے۔ اس کی اصل عبا رت یوں ہو گی اَیُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا فَیُضَا عِفَہ‘ لَہ یا ھَلْ مِنْ مُّقْرِضٍ فَیُضَا عِفَہ‘
تفسیر:۔ جیسا کہ حل لغا ت میں بتا یا جا چکا ہے اس آ یت کے معنے یہ ہیں کہ تم میں سے کون ہے جو اپنے ما لکا ایک عمدہ حصہ کاٹ کراللہ تعالیٰکو دیدے تا کہ وہ اُسے خو د دینے والے کے فا ئدے کے لئے بڑھائے اور اُسے تر قی دیتا چلا جا ئے۔ اس آ یت میں نہایت لطیف پیرا یہ میں مو منوں کواللہ تعالیٰکے لئے اپنے اموا لی خرچ کر نے کی نصحیت کی گئی ہے اور بتا یا گے اہے کہ اول تو ہم تم سے سا را ما ل نہیں ما نگتے بلکہ ما ل کا صرف ایک حصہ ما نگتے ہیں اور پھر ما نگتے بھی اس لئے ہیں کہ تم ایک روپیہ دو تو تمہیں اس کا دس گنا اجر دیا جا ئے گا۔ خدا تعا لٰی کی محبت اور اُس کی رضا حا صل کر نیکا اس سے زیا دہ سہل اور آ سان طریق اور کیا ہو سکتا ہے۔
یہ بھی یاد رکھنا چا ہیے کہ انسا ن جب خدا تعا لٰی کے لئے اپنا ما ل خرچ کر ے تو اسے تین با تیں خا ص طور پر ملحوظ رکھنی چا ہئیں۔ اول اُس کے دل میں صدقہ و خیرا ت کرتے وقت کوئی انقباض پیدا نہ ہو۔ بلکہ وہ پوری بشاشت اور خوش دلی کے سا تھ اُس میں حصہ لے۔ دوم جسے کو ئی چیز دہ جا ئے اُس ہر احسا ن نہ جتا یا جا ئے اور نہ اس کے نتیجہ میں اس پر کو ئی نا وا جب بو جھ ڈالا جا ئے بلکہ یہ سمجھا جا ئے کہ خدا تعالٰی نے مجھے اس نیکی کی تو فیق دے کر در حقیقت مجھ ہر احسا ن کیاہے۔ سوم جو چیز دی جا ئے وہ اپنے مال کا بہترین حصہ ہو۔یہ تینوں امور مندرجہ ذیل آ یتوں سے مستنبط ہو تے ہیں۔
اللّٰہ تعا لٰی منا فقوں کے متعلق فر ماتا ہے :۔ وَلَا یُنْفِقُوْنَ اِلَّا وَھُمْ کَا رِھُوْنَ(توبہ آیت۵۴)
وہ خدا تعالٰی کی راہ میں کرا ہت اور نا پسند ید گی کے سا تھ اپنے ما ل خرچ کر تے ہیں۔ اسی طرح فا ما تاہے:۔ اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ نِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ لاَ یُتْبِعُوْنَ مَا اَنْفَقُوْامَنًّا وَّلَا ٓاَذیً(بقرہ آیت ۲۶۳) مومن وہ ہیں جو اپنے ما لوں کیاللہ تعالیٰکی راہ میں خرچ کر نے کے بعد نہ تو کسی رنگ میں دوسروں پراحسان جتلا تے ہیں اور نہ انہیں کسی قسم کی تکلیف دیتے ہیں۔پھر فر ما تا ہے۔ لَنْ تَنَا لُو الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْ امِمَّا تُحِبُّوْنَ۔(اٰل عمران آ یت ۹۳) تم کا مل نیکی کا مقام ہر گز نہیںپا سکتے جب تک کہ تم اپنی پسند یدہ اشیا ء میں سے خرچ نہ کرو۔
پس مَنْ ذَاالَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًاحَسَنًا کا مطلب یہ ہے کہ کیا تم میں سے کو ئی جو اپنے مالکا اچھے سے اچھا ٹکڑا الگ کر کیاللہ تعالیٰکی راہ میں دے جس کے دیتے وقت نہ تو اس کے دل میں انقبا ض پیدا ہو اور نہ اس کے بعد وہ دوسروں پر احسا ن جتلا ئے یا ان کے لئے کسی قسم کی تکلیف کا مو جب بنے۔ اور یقیناً یاد رکھو کہ جو لاگ ایسا کر یں گے اللّٰہ تعا لٰی انہیں اس نیکی کا بہتر سے بہتر اجر عنا یت فر ما ئیگا۔ اور ان کا ایک ایک عمل ان کے لئے ہزاروں گنا برکا ت کا مو جب ہو گا۔
مَنْ ذَاالَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًاحَسَنًا؟ بظا ہر تو ایک سوال ہے مگر اس کی غرض لوگوں کو تحر یص و تر غیب دلا نا ہے۔ اور مطلب یہ ہے کہ کیاکو ئی ہے جو اللہ تعالیٰکے را ستہ میں اپنا مال خرچ کر ے اور اللہ تعالیٰاس کے مال کو بڑھا ئے اور اسے اپنے قرب میں جگہ دے۔
اِس آ یت کے ایک یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ تم اللہ تعالیٰکے بندوں کو قرض حسنہ دیا کرو۔ یعنی اس کے بندوں سے حسن سلوک کرو اور جو غریب ہیں ان کی مدد کرو۔ کیونکہ اللّہ تعالیٰ کو تو کسی نے نہیں دینا بندوں ہی کو دینا ہوتا ہے۔ بعض دفعہ بندوں کو دینے کا نام بھی خدا تعالیٰ کو دنیا رکھا جاتا ہے۔ جیسے حدیثوں میں آتا ہے کہ قیامت کے دن خدا تعالیٰ بعض لوگوں سے کہے گا۔ کہ اے ابن آدم میںبیمار ہوا لیکن تو نے میری عیادت نہ کی ۔ میں بھوکا رہا اور میں نے کھانا بھی مانگا مگر تو نے مجھے کھانا نہ کھلایا میں پیا سا رہا اور تجھ سے پانی بھی مانگا مگر تو نے مجھے پانی نہ پلایا۔ اس کے بعد حدیث میں آتا ہے۔ کہ بندہ خدا تعالیٰ سے پوچھیگا کہ اے اللّہ! تو کب بیمار ہوا۔ کہ میں نے تیری عیادت نہ کی۔ تو نے کب مجھ سے پانی مانگا۔ کہ میں نے تجھے پانی نہ پلایا۔ تو نے کب مجھ سے کھانا مانگا کہ میں نے تجھے نہ کھلایا۔ اسپر خدا تعالیٰ فرمائیگا۔ کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا مگر تو نے اس کی بیمار پرسی نہ کی میرے فلاں بندہ نے تجھ سے کھانا مانگا مگر تو نے اسے کھانا نہ کھلایا۔ میرے فلاں بندہ نے تجھ سے پانی مانگا مگر تو نے اسے پانی نہ پلایا۔ (مسلم جلد۲کتاب البروالصلۃ والآداب باب فی فضل عیادۃ المریض)پس خدا تعالیٰ کو قرض دینے کا ایک یہ بھی مفہوم ہے کہ اس کے بندوں سے نیک سلوک کیا جائے اور ان کی مالی پریشانیوں کو دور کرنے میں حصہ لیا جائے۔ عیسائیوں نے اس حدیث پر اعتراض کیا ہے۔ حالانکہ اس حدیث کے الفاظ بعینہٖ انجیل میں بھی آئے ہیں ۔ وہاں لکھا ہے۔ "تب بادشاہ انہیں جو اس کے داہنے ہیں کہیگا۔ اے میرے باپ کے مبارک لوگو۔ اس بادشاہت کو جو دنیا کی بنیاد ڈالنے سے تمہارے لئے تیار کی گئی میراث میں لو کیونکہ میں بھوکا تھا۔ تم نے مجھے کھانا کھلایا میں پیاسا تھا۔ تم نے مجھے پانی پلایا۔ میں پردیسی تھا تم نے مجھے کپڑا پہنایا۔ بیمار تھا تم نے میری عیادت کی۔ قید میں تھا تم میرے پاس آئے۔ اس وقت راست باز اسے جواب میں کہیں گے۔اے خداوند کب ہم نے تجھے بھوکادیکھا۔ اور کھانا کھلایا۔ پیاسا دیکھا اور پانی پلایا۔ کب ہم نے تجھے پردیسی دیکھا اور اپنے گھر میں اتارا یا ننگا دیکھا اور کپڑا پہنایا۔ ہم کب تجھے بیمار یا قید میں دیکھ کر تیرے پاس آئے۔ تب بادشاہ انسے جواب میں کہے گا۔ میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں ۔ کہ جب تم نے میرے ان سب سے چھوٹے بھائیوں میں سے ایک کے ساتھ کیا۔ تومیرے ساتھ کیا۔ تب وہ بائیں طرف والوں سے بھی یہی کہے گا۔ اے ملعونو! میرے سامنے سے اس ہمیشہ کی آگ میںجائو۔ جو شیطان اور اس کے فرشتوں کے لئے تیار کی گئی۔کیونکہ میںبھوکا تھا پر تم نے کھانے کو نہ دیا۔ پیاساتھا تم نے مجھے پانی نہ پلایا۔ پردیسی تھا تم نے مجھے اپنے گھرمیں نہ اتارا۔ ننگا تھا تم نے مجھے کپڑا نہ پہنایا۔ بیمار اور قید میں تھا تم نے میری خبر نہ لی۔ تب وہ بھی اسے جواب میں کہیں گے۔ اے خدا وند کب ہم نے تجھے بھوکا یا پیاسا یا پردیسی یا ننگا یا بیمار یا قیدی دیکھا اور تیری خدمت نہ کی۔ تب وہ انہیں جواب میں کہے گا۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں ۔ کہ جب تم نے میرے ان سب سے چھوٹے بھائوں میں سے ایک کے ساتھ نہ کیا تو میرے ساتھ بھی نہ کیا۔" (متی باب ۲۵ آیت ۳۵تا۴۵)۔ انجیل کے اس حوالہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعض دفعہ بندوں کو دینا خدا تعالیٰ کو دینا کہلاتا ہے۔ پس مَنْ ذَاالَّذِیْ یُقْرِضُ اللّہَ سے مَنْ ذَاالَّذِیْ یُقْرِضُ عِبَادَ اللّہِ مراد ہے۔ اور چونکہ اس سے پہلے وَقَاتِلُوْافِیْ سَبِیْلِ اللّہِ میں جہاد کا حکم دیا گیا ہے۔ اس لئے اس کے معنی یہ ہیں کہ لڑائوں کے ایام میں بعض کو مالی نقصان پہنچیں گے۔ تم کو چاہئے کہ انہیں قرض دیکر انکے حالات درس کرو۔ یہ قرض گویا تم خدا تعالیٰ کو دو گے۔ اور یاد رکھو ۔ کہ جو شخص خدا تعالیٰ کے لئے ایک دانہ بھی خرچ کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ اسے بڑھاتا ہے اور اتنا بڑھاتا ہے کہ کسی کو اس کی امید بھی نہیں ہوتی۔ حضرت ابراہیم ؑ کو دیکھو۔ انہوںنے اپنا ایک بیٹا خدا تعالیٰ کے لئے قربان کیا اور خداتعالیٰ نے انکو اس کے بدلہ میں اتنی اولاد دینے کا وعدہ دیا جس کا آسمان کے ستاروں کیطرحشمار ہی نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح حضرت اسمعٰیل ؑ نے خدا تعالیٰ کے لئے ایک بے آب و گیارہ جنگل میںرہنا منظور کیا۔ جس کے بدلہ میں ان کو یہ مرتبہ ملا کہ اولین و آخرین کے سردار ھضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ان کی نسل میں سے پیدا ہوئے۔ پس فرماتا ہے کہ تمیہ مت گمانکرو کہ تمہاری قربانیاں ضائع چلی جایئں گی۔ خدا تعالیٰ نیاس کے بدلہ میں تمہارے لئے جو انعام مقرر کیا ہے وہ تمہارے وہم و گمان سے بھی بالا ہے۔
فَیُضَاعِفُہ‘ اَضْعَا فًا کَثِیْرَۃً پر بعض لوگوں نے اعتراض کیاہے کہ اَضْعَا فاً کس طر ح آسکتا ہے۔یہا ں تو ضِعَافاً آنا چا ہیے تھا۔ اس کا بعض نے یہ جواب دے اہے کہ چو نکہ تعداد انوا ع کی طرف اشارہ کر نا مدّنظر تھا۔اس لئے اَضْعَافاً رکھا گیا ہے، ضِعَا فاً سے تو صرف یہی مرا د ہو سکتا تھا کہ وہ اُسے کئی گنُے بڑھا ئیگا۔ مگر اَضْعَا فاً میں اس با ت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ بڑھائیگا بھی اور یہ زیادتی کئی قسم کی ہو گی۔پس تعداد انواع کے اظہار کے لئے ضِعَافاً کی بجا ئے اَضْعَا فاً جمع لا ئی گئی ہے۔
وَاللّٰہُ یَقْبِضُ وَیَبْصُطُ میں تو ایک تو اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جس طرح تمہارے دوسرے بھا ئیوں پر مصیبت آ ئی ہے اسی طرح تم پر بھی آ سکتی ہے۔ کیو نکہ تنگی اور کشائش کے دور بدلتے رہتے ہیں اس لئے ان کی مدد کر نا تمہارا اوّلین فرض ہے۔
دوسریاللہ تعالیٰنے ان الفا ظ میں پہلے جملہ کی مزید تشریح کر دی ہے کہ اللّٰہ تعا لٰی کے فرض لینے کا مطلب ہے۔ فر ما یا۔اللّٰہ تعا لٰی کی یہ سنت ہے کہ وہ پہلے اپنے بندوںکا مال لیتا ہے اور پھر اُس کو بڑھا تا اور ترقی دیتا ہے۔پس جب تک بندہ قربا نی نہ کر ے اس وقت تک خدا تعا لٰی کی وہ خا ص فضل بھی نا زل نہیں ہوتا جس کی طرف یَبْصُطُ کا لفظ اشارہ کر رہا ہے۔ یَقْبِضُ وَیَبْصُطُ کے ایک معنے یہ بھی ہیں کہاللہ تعالیٰکی یہ سنت ہے کہ وہ تنگی بھی لاتا ہے اور کشائش بھی پیدا کر تا ہے اور جب دونوں اس کے اختیار میں ہیں تو پھر جو بھی اس کے احکا م پر چلیگا اُس کے لئے وہ بسط پیدا کر یگا اور جو اس کی نافرمانی کر یگا اس کیلئے وہ قبض یعنی عذاب کی صورت پیدا کر دیگا۔
اسی طرح اس کے ایک یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ دنیا میں انسا نکی دو ہی حالتیں ہو تی ہیں یا تو قبض کی حا لت ہو تی ہے یا بسط کی۔ چنانچہ رسول کر یمﷺ کی خدمت میں ایک دفعہ ایک صحا بیؓ حا ضر ہو ئے ۔ اور انہوں نے کہا۔یا رسول اللّٰہ! میں تو منافق ہون۔ رسول کر یمﷺ نے فر مایا۔ تم تو مومن ہو تم اپنے آ پ کو منا فق کیوںسمجھتے ہو۔ اس صحا بی ؓ نے کہا یا رسول اللّٰہ ﷺ! میں جب
اَلَمْ تَرَاِلَی


تک آپ کی مجلس میں بیٹھارہتا ہوں یوں معلوم ہوتا ہے کہ دوزخ اور جنت میرے سا منے ہیں۔ اور خشیت الہٰی کا زور ہو تا ہے۔ لیکن جب میں اپنے گھر جاتا ہوں تو وہ حالت قائم نہیں رہتی۔ رسول کریمﷺ نے فر مایا۔یہی توخالص ایمان ہے۔پھر آ پؐ نے فرمایا۔ اگر انسا ن ایک ہی حالت پر رہے تو وہ مر نہ جائے۔ غرض قبض و بسط دونوں حا لتیں انسا ن پر آ تی رہتی ہیں اگر انسا ن کی پر وقت ایک قسم کی حالت رہے تو اگر جسما نی طور پر نہیں تو دماغی طور پر وہ یقینًا مرجائیگا اور پا گل ہو جائیگا۔ مجنونوں اور عقلمندوں میں یہی فر ق ہوتا ہے کہ مجنونپر ایک ہی حا لت ہمیشہ طاری رہتی ہے۔ اور عقلمندوں پر اتار چڑھا ؤ آ تا رہتا ہے مجنون ایک ہی قسم کے خیا لات میں مبتکا رہتا ہے لیکن عقلمند شخص کے خیا لات ایک قسم کے نہیں رہتے۔ غرض قبض وبسط کی حا لتیں انسا ن کے ساتھ لا زم کر دی گئی ہیں کبھی اس کے اندر بسط کی لہر پیدا ہوتی ہے اور وہ دین کے لئے سب کچھ قر با ن کر نے کیلئے تیار ہو جاتا ہے۔ اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ حساب کر نے بیٹھ جاتا ہے کہ میں کتنی قرنا نی کر سکتا ہوں۔ یہ حسا ب کر نیوالی حالت قبض کی حالت ہو تی ہے اور جب کو ئی شخص سب کچھ دینے کیلئے تیار ہو جا تا ہے اور اس میں خوشی محسوس کر تا ہے تو وہ بسط کی حا لت ہوتی ہے۔پس فرمایا کہ تم دونوں حا لتوں میں خدا تعالٰی کی راہ میں اپنے اموال خرچ کرو۔ کیو نکہ تنگی بھی عا رضی چیز ہے اور فراخی بھی عا رضی۔ اور چو نکہ سوال ہو سکتا تھا کہ اگر خداتعالٰی کے پاس ہما را مال بڑھتا رہتا ہے تو اس کا ہمیں کے افا ئدہ اس لئے فر ما یا کہ وَاِلَیْہِ تُرْ جَعُوْنَ۔ اصل گھر توتمہارا وہی ہے۔ پس جو کچھ تم ہما رے پاس بھیجتے ہو ہم اسے بڑھا تے رہتے ہیں ۔جب تم آ ؤ گے تو خدا تعا لٰی نے تمہارا مال بہت بڑھا رکھا ہو گا۔ اور وہ تمہیںمل جائیگا ۔ جیسے کو ئی ملا زم با ہر جاتا ہے تو روپیہ اپنے گھر بھیجتا رہتا ہے اور اس کی بیوی اسے جمع کر تی رہتی ہے۔مگر خدا تعا لٰی صرف جمع ہی نہیں کر تا بلکہ اسے بڑھا تا بھی رہتا ہے۔پس اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ میں بتا یا کہ آ خر ایک دن تم نے خدا کی طرف لوٹنا ہے۔ جہا ں ایک دائمی زندگی تمہارا انتظار کر رہی ہے۔پس عا رضی چیزوںکی وجہ سے اپنی دائمی زندگی کو نقصان مت پہنچاؤ اور جس قدر بھی نیکی میں حصہ لے سکتے ہو لو۔
قرآن کر یم کا کمال دیکھو کہ اس میں نفس اور اموا ل کی تر بیت کیسے عجیب طور پر رکھی گئی ہے۔چو نکہ جنگ میںسب سے پہلے سپا ہی کاوجو د ضروریہو تا ہے جو قوم اور ملت کے لئے اپنی جا نکی با زی لگا دیتا ہے۔اس لئیاللہ تعالیٰنے قَا تِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کا حکم دے کر مع منوں سے ان کی جان کا مطا لبہ کیا۔ اس کے بعد دوسرا سوال خزانہ کی مضبوطی کا ہو تا ہے۔ کیو نکہ جب کوئی قوم میدانِ جہا د میں نکلتی ہے تو ملک کے خزانہ پر جنگی اخراجات کا غیر معمولی بار پڑ جاتا ہے۔ اور اس کمی کو پورا کر نا ضروری ہوتا ہے۔ ورنہ جنگ زیا دہ دیر تک نہیں لڑی جا سکتی۔ اسی حکمت کے ما تحتاللہ تعالیٰنے دوسرے نمبر پر مالی قربانیوں کی تحریک فر مادی اور اسطرح قومی اور مذہبی استحکام کے لئے جاب اور مالکی قر با نیوں کو ایک بنیادی حیثیت دے کر ان کی طبعی تر تیب بھی قا ئم کر دہ کہ پہلا درجہ جا نی قربانیوں کا ہے اور دوسرا درجہ مالی قربا نیوں کا۔


بِا الظَّلِمِیْْنَo
۱۵۷؎ حل لغات:۔ مَلَا’‘: اس کے اصل معنے بھر دینے کے ہیں ۔کہتے ہیں۔ مَلَاَ اْلِا نَا ئَ باِ ْلْمَائِ اُس نے بر تن کو پا نی سے بھر دیا۔ مُلِئَی رُعْبًا اُس کا دل خوف سے بھر گیا۔ اَلْمَلَاُ کے معنے ہیں۔ سرداران قوم۔ بڑے آ دمی کیو نکہ جب مجلس میں بڑا آ دمی آجاتا ہے تو کہتے ہیں۔ اب مجلس بھر گئی ہے۔ اب کسی کی ضرورت نہیں رہی۔ غرباء خواہ پچا س بیٹھے ہو ئے ہوں جب تک بڑا آ دمی نہ آ جائے تب تک یہی کہتے ہیں کہ ابھی رونق نہیں ہوئی۔ اور اس وقت تک کام بھی شروع نہیںکر تے جب تک کہ وہ آ نہ جائے۔ اس لئے مَلَاَ ئَ بڑے لوگوں کی مجلس کوبھر دیتے ہیں۔ اسی طرح ان کے خوف یا محبت کی وجہ سے بھی لوگوں کے دل بھرے ہو ئے ہیں۔
ھَلْ عَسَیْتُمْ: عَسٰی بعض جگہ تو امکان کیلئے آ تا ہے اور بعض جگہ تو قع کے لئے جب یہ لفظ خدا تعا لٰی کے لئے استعمال ہو تو امکان کی طرف اشارہ ہو تا ہے یعنی اس امر کو بعید مت سمجھو۔
مَا لَنَا: یہ عربی کا محاورہ ہے جس کا مطلب یہ ہو تا ہے کہ ہمیں کیا ہو گیا ہے۔
تفسیر:۔ گزشتہ آ یا ت میںاللہ تعالیٰنے بنی اسرا ئیل کا ایک واقعہ بیا ن کر کے مسلما نو ں کونصحیت کی تھی کہ تم خدا کے لئے موت قبول کر نے سے کبھی انکا ر نہ کرنا اب ایک اور واقعہ بیا ن فر ماتا ہے جو بنی اسرائیل کے سرداروں کے سا تھ تعلق رکھتا ہے کہ انہوں نے دشمن سے لڑائی کر نے کے لئے ایک با دشاہ بنا ئے جا نے کی اپنے نبی کے سا منے درخواست پیش کی اور کہا کہ دشمن کی طرف سے ہم پر متواتر ظلم کے اجا رہا ہے ہمیں اپنے مکا نوں اور جا ئیدادوں سے بے دخل کیا گیا ہے اور ہمیں اپنے بچوں سے بھی جُدا کر دیا گیا ہے۔ اب ہم پر ایک با دشاہ مقرر کے اجا ئے تا کہ ہم خدا تعا لٰی کے راستہ میں جہاد کریں۔
یہاں مِنْ بَعْدِ مُوْسٰی کے الفا ظ سے فوراً بعد مراد نہیں کیو نکہ فوراً بعد حضرت یوسعؑ ہو ئے تھی جو نبی بھی تھے اور با دشاہ بھی ۔ اور یہ واقعہ جیسا کہ آ گے چل کر بیا ن کیا جائیگا کئی سو سال بعد ہوا۔
ھَلْ عَسَیْتُمْ میں اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ اس بات کا امکان ہے کہ اگر تمپر جنگ فرض کی گئی تو تم انکار کر دو۔ چنانچہ اسنے کہا کہ تم پہلے اپنے دلوں کو ٹٹول لو ایسا نہ ہو کہ لڑائی فر ض کی جائے اور تم انکارکرکے گناہگار بنو۔
َوقَدْ اُخْرِ جْنَا مِنْ دِیَارِنَا وَ اَبْنَآئِ نَا کے یہ معنی ہیں کہ ہمیں اپنے گھروں سے بھی نکالاگیا اور اپنے بیٹوں سے بھی جدا کے اگیا۔ یعنی ہما ری زمینوں اور مکا نا ت پر بھی قبضہ کر لیا گیا اور ہما رے بیٹے بھی قتل کئے گئے یا مکا نا ت کے ساتھ بیٹے بھی انہوں نے چھین لئے۔ اور جب ہم نیاللہ تعالیٰکے راستہ میں اس قدر تکالیف برداشت کی ہیں تو اب ہم لڑائی کر نے سے کیوں انکار کر ینگے۔ اِ ن الفا ظ سے صاف معلوم ہو تا ہے کہ یہ کسی بعد کے زما نہ کی بات ہے۔ ورنہ حضرت مو سٰیؑ کے زما نہ میں تو بنی اسرائیل کی
وَقَالَ لَھُمْ



وَاسِع’‘ عَلِیْم’‘o
یہ حالت تھی کہ انہوں نے حضرت مو سٰیؑ سے صاف طور ہر کہ دیا تھا کہ اے موسٰی! تو اور تیرا رب دونوں جا ؤ اور دشمنوں سے لڑتے پھرو۔ ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔ لیکن اس مو قعہ پر انہوں نے یہ جواب نہیں دیا ۔ بلکہ کہا کہ ہم جہاد میں کیوں حصہ نہیں لیں گے جب کہ ہیمں اپنے گھروں سے بھی نکا لا گیا اور اپنے بچوں سے بھی علیٰحدہ کیا گیا۔ اس میںکوئی شبہ نہیں کہ جب لڑائی کاوقت آ یاتو جیسا کہ اگلی آ یات سے واضح ہے ان میں بہت سے لوگ متزلزل ہو گئے۔مگر بہر حال انہوں نے شروع میں لڑنے سے انکار نہیں کیا۔بلکہ خود خواہش کی کہ ہم پر کو ئی با دشاہ مقرر کیاجائے۔ تا کہ دشمن کے مظالم کا انسداد ہو۔یہ بات بتا تی ہے کہ ان آ یات میںجس واقعہ کا ذکر ہے وہ حضرت مو سٰیؑ کے زما نہ سے بہت بعد کا ہے۔ ورنہ حضرت موسٰیؑ کے زما نہ میں تو انہوں نے انکار نہیں کیا بلکہ اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ ہم پر کو ئی بادشاہ مقرر کیا جا ئے تا کہ ہم خدا تعالٰی کے راستہ میں اپنے دشمنوں سے لڑائی کر یں۔
۱۵۸؎ تفسیر:۔ بنی اسرا ئیل نے جب درخواست کی کہ ہمارے لئے ایک با دشاہ مقرر کیا جائے جسکی کما ن میں ہم دشمنوں سے جنگ کریں تو ان کا خیال تھا کہ انہی میں سے کسی کو بادشاہ مقرر کردیا جا ئیگا۔ لیکن چونکہ اللّٰہ تعالٰی نے ان کا امتحان لینا چاہتا تھا۔ اس لئے ان کی منشاء کے خلاف ایک شخص کو با دشاہ مقرر کر دیا۔۔۔۔۔۔۔ اِ سپر اُن کی مخفی ایما نی کمزوری ظاہر ہو گئی اور انہوں نے اعتراض کر نے شروع کر دئیے کہ اسے کیوں بادشاہ بنا دیا گیا ہے اور پھر انہوں نے اپنے اس اعتراض کو تقویت دینے کے لئے کہا۔(۱) ہمارے مقا بلہ میں اسے کوئی ظاہری وجاہت حاصل نہیں۔ہم اعلٰی خا ندان سے تعلق رکتھے ہیں اور یہ ادنٰی خا ندان میں سے ہے اس لئے بادشاہت ہمارا حق تھا نہ کہ اس کا۔(۲) یہ ما لی لحاظ سے غربت میں مبتلا ہے حا لا نکہ با دشاہتکے لئے دولت کی ضرورت ہو تی ہے۔ پس ہم اسے با دشاہ تسلیم کر نے کے لئے تیار نہیں۔
قَالَ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰہُ عَلَیْکُمْ۔ اُن کے نبی نے پہلی بات کا تو یہ جواب دیا کہ اس کے انتخاب میں خدائی ہا تھ ہے اور بڑائی اِسی طرح ظاہرہو تئی ہے ۔کہ خدا تعالٰی ایک شخص کو دوسروں کے مقا بلہ میںچن لیتا ہے اور پھر اُسے مخا لفت کے با وجود کامیاب کر دیتا ہے۔ اِسی طرح طالوت کو خدا تعالیٰ نے تم میں سے چن لیا ہے اور اس طرح اسے بزرگی اور برتری حاصل ہو گئی ہے۔
دوسرا سوال اُن کا یہ تھا کہ وہ مالدارنہیں اس کے جواب میں بتا یا کہ زَادَہ‘ بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَ الْجِسْمِ خدا تعا لیٰ نے اسے علمی لحاظ سے بہت فراخی عطا فر ما ئی ہو۔علم کے لفظ سے اس طرف اشارہ فر ما یاکہ دنیا میں مال علم کے ذریعہ ہی کما یا جا تا ہے اور علم اسے تم سے بہت زیا دہ حاصل ہے ورنہ بیو قوف آ دمی تو اپنے با پ دادا کی کما ئی کو بھی تبا ہ کر دیتا ہے۔ پس خدا تعالٰی نے اسے جو علم بخشا ہے اس کے ذریعہ وہ بہت کچھ مال کما لیگا۔ اسی طرح اس کی علمی بر تری کا ذکر کر کے اس طرف بھی اشارہ فر ما یا کہ صرف دولت کی وجہ سے کو ئی حکومت کا اہل نہیں ہو سکتا۔ بلکہ اس کے لئے تنظیمی صلا حیتوں کی بھی ضرورت ہو تی ہے اور حکومتی اوصاف کا بھی پا یا جا نا ضروری ہو تا ہے۔ اور یہ تمام با تیں اسے تم سے زیادہ حا صل ہیں ۔ اسے حکومت کر نے کا ڈھب بھی آ تا ہے اور سیاسیات سے بھی خوب واقف ہے۔ اس لئے صرف مالی کمزوری دیکھ کر اعتراض نہ کرو۔ اس کے اندر جو مخفی جو ہر ہیں وہ انے وقت پر ظاہر ہونگے۔
پھر جسم کے لحاظ سے بتا یا کہ تم لڑائی کر نا چا ہتے تھے۔ اس کا جسم بھی خوب مضبوط ہے اور اسکی جسما نی طاقتیں اعلٰی درجہ کی ہیں۔اس میں ہمت اور استقلال اور ثبات اور شجا عت کا مادہ پا یا جاتا ہے۔ پس اس سے زیا دہ اور کون موزون ہو سکتا ہے۔یہ مراد نہیں کہوہ موٹا تازہ ہے۔بلکہ مراد یہ ہے کہ مضبوط اور دلیر ہے اور اس میں قوت برداشت اور قر بانی کا مادہ زیادہ پا یا جاتا ہے۔ چنا نچہ لوگ کہا کر تے ہیں۔ اَلْمَرْ ئُ بِاَ صْغَرَ یْہِ بِقَلْبِہ وَلِسَا نِہ۔یعنی انسان کی تمام طاقت اُس کی دو چھوٹی سی چیزوں پر موقوف ہے ایک دل پر اور ایک اُس کی زبان پر۔ اور یہی سچے خلفاء کی علا مت ہو تی ہے۔ حضرت عمر ؓ جب خلیفہ نہ تھے تو حضرت ابو بکر ؓ سے کہنے لگے کہ لو گ زکٰوۃ نہیں دیتے تو جا نے دیں۔ اس وقت ان سے جنگ کر نا مسلما نوں کیلئے کمزوری کا با عث ہو گا۔ مگر جب اپنی خلا فت کا زما نہ آیا تو کتنے بڑے بڑے کام کئے ۔ دراصل ہمت و استقلال اور استقامت ایک بہت بڑا نشان ہے جو خدا تعالٰی کی طرف سے سچے خلفاء کو عطا کرا جاتا ہے۔
وَاللّٰہُ یُئْو تِیْ مُلْکَہ‘ من یَّشَآئُ میں بتا یا کہ اگر تمہارے سوال صحیح بھی مان لئے جائیں تو بھی تمہارا کو ئی حق نہیں کہ اعتراض کر و۔ کیو نکہ فیصلہ ہمیشہ ما لک ہی کیا کر تا ہے اور جب ملک خدا کا ہے تو وہ جسے چاہے دے اس میں کسی کو چون وچرا کی کیا مجال ہے ۔جب ہم مالک کی اجا زت سے ملک اس کے سپر د کر تے ہیں تو پھر تم کو اعتراض کرنے کا کیا حق ہے؟ دنیا میں یہ تسلیم شدہ اصل ہے کہ اگر کسی چیز کی ملکیت کے بارہ میں اختلاف ہو جا ئے تو اس با رہ میں اصل مالک کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔پس جب خدا نے اُسے اِس غرض کے لئے منتخب فر ما لیا ہے اور اصل حکومت خدا تعالٰی ہی کی ہے تو تمہارا کے احق ہے کہ تم اعتراضات کرو۔اِن الفا ظ سے متر شح ہو تا ہے انہوں نے پھر کوئی سوال کر نا تھا کہ اگر اسے علم دیا گیا ہے تو وہ کو نسا علم ہے یا کو نسی استقامت ہے جو اس نے دکھا ئی۔ اس لئے پہلے ہی اس کا جواب دیدیا کہ وَاللّٰہُ یُئْو تِیْ مُلْکَہ‘ من یَّشَآئُ ۔یعنی آ راء میں تو ہمیشہ اختلاف ہو تا ہے مگر جو مالک ہو اس کی رائے مقدم سمجھی جاتی ہے۔پھر خدا تعالٰی تمہاری رائے کے پیچھے کیوں چلے۔ خصوصاً جبکہ قہ واسع اور علیم ہے۔ اس میں بتا یا کہ اگر تم مال کے متعلق کہو کہ اس کے پاس نہیں تو ہم واسع ہیں ہم اسے وسعت دے دینگے۔ اگر کہو کہ یہ حکومت کر نیکا اہل نہیں تو ہم خوب جا نتے ہیں کہ با دشاہت کا اہل کو ن ہے۔پس اگر تم نے لڑنا ہی ہے تو جاؤ خدا سے لڑو۔ خدا کا ملک تھا اُس نے
وَ قَالَ لَھُمْ


مُئْو مِنِیْنَo
جسے چاہا دے دیا۔
اِس آیت سے ظاہر ہے کہ رسول کریمﷺ سے پہلے آ نے والے انبیاء چونکہ کا مل شریعت لے کر نہیں آ ئے تھے اس لئے جب اصلاح خلق کیلئے الہا م کی ضرورت ہو تی تھی تو کسی نبی کو کھڑا کر دیا جا تا تھا۔ اور اُسے نبوت کا مقام براہ راست حا صل ہو تا تھا۔ اور جب نظام میں خلل واقع ہو تا تو کسی کو بادشاہ بنا دیا جاتا۔ گویا چونکہ لو گوں کو ابھی اس قدر ذہنی ارتقاء حاصل نہیں ہوا تھا کہ وہ اپنی اصلاح کے لئے جدہ جہد کر سکتے اس لئے نہ صرف انبیاء کواللہ تعالیٰبراہ راست مقام بنوت عطا فر ما تا بلکہ سلوک بھی خدا تعالٰی کی طرف سے ہی مقرر کئے جا تے تھے ۔جیسا کہ اس آیت سے ظاہر ہے وہ انتخا بی نہیں ہوتے تھے بلکہ یا تو ورثہ کے طور پر وہ حکومت حا صل کر تے تھے۔ یا بنی انہیں خداتعالٰی کے حکم کے ما تحت با دشاہ مقرر کر دیتے۔ مگر رسول کر یم ﷺ چونکہ ایک کامل تعلیم لیکر آئے تھے اور آ پ کی قوم زیادہ اعلٰی درجہ کی تھی اس لئے آ پ کے بعد مستقل انبیاء کی ضرورت نہ رہی اور اس کے سا تھ ہی ملو کیت کی ادنٰی صورت کو بھی اُڑا دیا گیا۔ اور اسکی ایک کا مل صورت پیدا کر دی گئی۔ اور انتخاب کو پہلی شرط قرار دیا گیا۔ اس طرح قومی حقوق کو محفوظ کیا گیا۔جو پہلے با دشاہوںکی صورت میں محفوظ نہ تھا۔
۱۵۹؎ حل لغات:۔ بَقِیَّۃ’‘: یہ لفظ ایسی چیز پر بولا جاتا ہے جو اعلٰی درجہ کی ہو۔ چنا نچہ جب کہیں فُلاَن’‘ بَقِیَّۃُ قَوْمِہ تو اس کے معنے ہو تے ہیں ھَوَ مِنْ خِیَارِھِمْ۔ وہ قوم کے شرفاء اور اچھے لو گوں میں سے ہے۔
قرآن کریم میں بھی یہ لفظ اِن معنوں میں استعمال ہوا ہے چنا نچہ فر ماتا ہے۔ وَالْبٰقِیٰتُ الصَّلِحٰتُ خَیْر’‘ حِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَّ خَیْر’‘مَّرَدًّا (مریم آ یت ۷۷) یعنی اچھے اور نیک اعمال خدا تعا لٰی کے حضور ثواب خا صل کر نے کے لحا ظ سے بھی اور انجا م کر لحا ظ سے بھی سب سے بہتر شے ہیں ۔
قر آنکریم میں یہ لفظ عقل پر بھی بو لا گیا ہے جیسے آ تا ہے۔ فَلَوْ لَا کَانَ مِنَ الْقُرُوْنِ مِنْ قَبْلِکُمْ لُو لُوْ ا بَقِیَّۃٍ یَّنْھَوْنَ عَنِ الْفَسَارِ فِی الْاَرْضِ( ھود آ یت ۱۱۷) یعنی کیوں ان قوموں میں سے جوتم سے پہلے زما نہ میں تھیں ایسے عقل مند لوگ نہ نکلے جو لو گوں کو ملک میں بگاڑ پیدا کر نے سے روکتے۔ چو نکہ عقل خیر ہی کے معنے رکھتی ہے اور انسان کے لئے مفید ہو تی ہے اور وہ اس کے زریعہ سے با قی رہتا ہے۔ اس لئے اُسے بھی بقیہ کہتے ہیں۔
تَرَ کَ اٰلُ مُوْ سٰی وَاٰلُ ھٰرُوْن۔ تر کہ سے مراد عام طور پر ورثہ ہو تا ہے لیکن تر کہ سے مراد دوسروں کی اعلٰی صفا ت کا حا مل ہو نا بھی ہو تا ہے ۔ جیسا کہ قرآن کریم میںآتا ہے۔ یَرِ ثُنِیْ وَ یَرِ ثُ مِنْ اٰلِ یَعْقَوْ بَ( مریم آ یت ۷) یعنی اے خدا: مجھے اپنے پاس سے وارث دے جو میرا بھی وارث ہو اور سارے بنی اسرائیل کا بھی ۔ سارے بنی اسرائیل کا وارث تو وہ ظاہری طورپر نہیں ہو سکتا تھا۔پس مراد یہیہے کہ اٰلِ معقوب کی جو نیکیاں ہیں وہ اس میںبھی پیدا ہون اور وہ ان کا وارث ہو۔ اس لحاظ سے اس آ یت کے معنے یہ ہو نگے کہ جو نیک دستور پہلے لو گ چھوڑ گئے ہیں اُن کا وارث ہو۔
تَحْمِلُہ‘: حَمَلَہ‘ عَلٰی کَذَا کے معنے ہیں اَغْرَاہُ اُسے کسی کا م پر اکسا یا۔ اِسی طرح اس کے معنے اٹھا نے کے بھی ہیں۔
تفسیر:۔ گذشتہ آ یا ت میں اس زمانہ کے نبی طا لوت پر اعتراض کر نے والوں کو یہ جواب دیا تھا کہ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰہُ عَلَیْکُمْ وَزَادَہ‘ بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَ الْجِسْمِ۔ یعنی مخفی طا قتوں کواللہ تعالیٰہی جا نتا ہے۔ اور جب اس نے طا لوت کو چنا ہے۔ تو یقیناً وہ تم سے افضل ہے۔ دوسرے دولت کے زور سے با دشاہت نہیں ہو تی بلکہ عل اور قربانی کی طا قت سے ہوتی ہے۔ سوان دونوں باتوں میںوہ تم سے بڑھا ہوا ہے ۔ سو ان دونوں باتوں میں وہ تم سے بڑھا ہوا ہے۔ وہ تم سے زیادہ علوم جا نتا ہے اور خداتعالٰی کی راہ میں اپنے جسم کو انتہا ئی ابتلا ؤں میں ڈالنے کے لئے تیار ہے۔ اباس آیت میں بتایا گیا ہے کہ ان کے نبی نے انہیں کہاکہ اس انتخاب کے منجا نب اللّٰہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ تمہیں ایک ایسا تا بوت ملیگا جس میں تمہارے رب کی طرف سے سکینت ہو گی اور اس چیز کا بقیہ ہوگا جسے مو سٰیؓ اور ہارونؑ کی آ ل نے اپنے پیچھے چھوڑا۔ اور فر شتے اُسے اُٹھا ئے ہو ئے ہو نگے۔
مفسرین نے تا بوت سے مراد بنی اسرائیل کا وہ خاص صندوق لیا ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کے اندر تورات کا اصل نسخہ اور موسٰیؑ اور ہارونؑ کے تبّر کات محفوظ تھے۔ اور بنی اسرائیل سفر و حضر میں اُسے اپنے سا تھ رکھتے تھے۔ کیو نکہ وہ اُسے بڑا متبرک سمجھتے تھے۔
بائیبل میں بھی اس تا بوت کا ان الفاظ میں ذکر آ تاہے۔
’’ وے شطیم کی لکڑی کا ایک صندوق بنا ویں جس کی لمبا ئی اڈھا ئی ہا تھ اور چوڑائی ڈیڈ ھ ہاتھ اور اونچا ئی ڈیڈھ ہا تھ ہو وے۔‘‘ (خروج ۱۰/۲۵)
مگر تعجب ہے قرآن کریم تو کہتا ہے کہ اس تا بوت کو فر شتے اٹھا ئے ہوئے ہو نگے۔ مگر بائیبل بتا تی ہے کہ ایک دفعہ دشمن نے ایسا حملہ کے کہ وہ یہ بات بھی اٹھا کر لے گئے۔ چنانچہ لکھا ہے:۔
اور جب لوگ لشکر گاہ میں پھر آئے تھے تب اسارئیل کو بزرگوں نے کہا کہ خداوند نے ہم کو فلسیتوں کے سا منے کیوں شکست دی۔ آ ؤ ہم خدا کے عہد کا صندوق سیلا سے اپنے پاس لے آ ئیں تا کہ وہ ہمارے درمیان ہو کے ہم کو ہمارے دشمنوں ک ے ہاتھوں سے رہا ئی دیوے۔ سو انہوں نے سیلا میں لو گ بھیجے تا کہ وہ رب الا فواج ک ے عہد کے صندوق کو جو کر دبیوں کے درمیا ن دھرارہتا ہے وہاں سے لے آویں اور عیلی کے دونوں بیٹے حفنی اور فیخاں خدا کے عہد کے صندوق پا س وہاں حاضر تھے۔ اور جب خدا وند کے عہد کا صندوق لشکر گاہ میں آ پہنچا۔ تو اسرائیلی خوب للکارے۔ ایسا کہ زمین لرز گئی اور فلستیوں نے جو للکارنے کی آ واز سنی تو بو لے کہ ان عبرا نیوں کی لشکر گاہ میں کیسی للکا رنے کی آ واز ہے۔ پھر انہوں نے معلوم کر لیا کہ خدا وند کا صندوق لشکر گاہ میں آ پہنچا۔ سو فلستی ڈر گئے کہ انہوں نے کہا۔ خدا لشکر گاہ میں آ یا ہے۔ اور بولے ہم پر وا ویلا ہے اس لئے کہ اس سے پہلے ایسا کبھی نہ ہوا۔ ہم پر واویلا ہے۔ ایسے خدا ئے قادر کے ہاتھ سے ہمیں کون بچائیگا۔ یہ وہ خدا ہے جس نے مصریوں کو میدان میں ہر ایک قسم کی بلا سے مارا۔ اے فلستیو! تم مضبوط ہو اور مردانگی کرو۔ تا کہ تم عبرانیوں کے بندے نہ بنو جیسے کہ وے تمہارے بندے بنے بلکہ مرد کی طرح بہادری کرو اور لڑو۔ سو فلستی لڑے اور بنی اسرائیل نے شکست کھائی اور ہر ایک اپنے اپنے خیمے کا بھا گا۔ اور وہاں نہا یت بڑی خونر یزی ہوئی کہ تیس ہزار اسرائیلی پیا دے مارے پڑے۔ اور خدا کا صندوق لُو ٹا گیا۔‘‘( اسموایل باب ۴آیت ۳ تا ۱۱)
سو اگر تو یہاں تا بوت سے مراد وہی تا بوت ہو۔ تو وہ ان کے لئے کسی خوشی کا موجب نہیں ہو سکتا تھا۔ اور نہ ہی اس سے ان کو کوئی تسلی ہو سکتی تھی کیو نکہ اس کی مو جو دگی میں وہ شکست کھا چکے تھے۔ حا لا نکہ اس سے پہلے ان کو تا بوت پر اس قدر یقین تھا کہ جب ان کے سب سے بڑے کا ہن کو معلوم ہوا کہ تا بوت دشمنوں کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے تو وہ گر پڑا اور وہیں مر گیا۔ لیکن قرآن کر یم نے جس تا بوت کا ذکر کے اہے اس کے متعلق کہا ہے کہ وہ ان کے لئے تسکین کا مو جب ہو گا۔ پس یہ تا بوت وہ نہیں ہو سکتا۔ بلکہ اس تا بوت سے یقیناً کچھ اور مراد ہے اس غرض کے لئے جب ہم لغت کو دیکھتے ہین تو ہمیں معلوم ہو تا ہے کہ تا بوت کے عام معنے تو صندوق کے اور کشتی کے ہو تے ہیں(اقراب) لیکن استعارۃً اُسے دل کے معنے میں بھی استعمال کیاجاتا ہے۔ جس کی تائید اس امر سے ہو تی ہے کہ عربی زبان میں انسانی قلب کو بَیْتُ الْحِکْمَۃِ اور وِعَا ئُ الْحِکْمَۃِ اور صَنْدُوْقُ الْحِکْمَۃِ کہنے کے علا وہ تَا بُوْتُ الْحِکْمَۃِ بھی کہتے ہیں(مفردات راغب) اسی طرح لسان العرب کا یہ حوالہ بھی اس کی تا ئید کر تا ہے کہ مَا اَوْدَعْتُ شَیْئًا تَا بُوْتِیْ فَقَدْ تُہ‘ مَیں نے اپنے تا بوت یعنی دل میںکوئی ایسی بات نہیں رکھی کہ بعد میں اسے گم کر دیا ہو۔ یعنی مَیں مستقل مزاج ہوں۔ جو بات دل میں بیٹھ گئی سو بیٹھ گئی۔ نیز تا ج العروس میں لکھا ہے۔ اَلتَّا بُوْتُ اَلْاَ ضْلَاعُ وَ مَا تَحْوِیْہِ کَا لْقَلْبِ وَالْکَبِدِ وَغَیْرِ ھِمَا تَشْبِیْھًا بِا لصَّنْدُوْقِ الَّذِیْ یُحْرَزُ فِیْہِ الْمَتَا عُ۔ یعنی تا بوت کے معنے پسلیوں والے حصہ جسم کے ہیں جس میں دل اور جگر وغیرہ اعضاء ہیں۔ اور اس کے حصہ جسم کو تا بوت اس لئے کہتے ہیں کہ وہ بھی صندوق کی طرح ہو تا ہے جس میں سا مان محفوظ رکھا جاتا ہے ۔ اور کسی علمی یا ایما نی یا راز کی بات کو تا بوت میں رکھنے کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ گو یا وہ سینہ میں لکھی گئی ہے ۔ اور ایسی محفوظ ہو گئی ہے جیسے کوئی چیز صندوق میں رکھ دی جائے۔ وَ فِیْ اَحْکَامِ الْاَسَاسِ اَلتَّا بُوْتُ: اَلْقَلْبُ اور کتاب احکام الاساس میں بھی تا بوت کے معنے دل کے لکھے ہیں اسی طرح مرادات میں لکھا ہے:۔ قِیْلَ عِبَارَۃ’‘ عَنِ الْقَلْبِ وَالسَّکِیْنَۃِ وَعَمَّا فِیْہِ مِنَ الْعِلْمِ۔ یعنی کبھی لفظ تا بوت کو استعارۃً دل کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے الفاظ قر آ نیہ صاف دلا لت کر رہے ہیں کہ اسجگہ تا بوت سے مراد دل ہے ۔ کیو نکہ فر ماتا ہے اس تا بوت میں تمہارے رب کی طرف سے سکینت ہے۔ اب یہ ظا ہر ہے کہ سکینت دل میں ہوئی ہے نہ کہ صندوق مرا دلیا جا ئے تو یہ قرآنی تعلیم کے خلاف ہو گا۔ کیو نکہاللہ تعالیٰفر ماتا ہے کہ وَمَا مَنَعَ النَّا سَ اَنْ یُّئْوٓمِنُوْآ اِذْجَآ ئَ ھُمُ الْھُدٰی اِلَّآ اَنْ قَا لُوْ آبَعَثَ اللّٰہُ بَشَرًارَّسُوْلاًo قُلْ لَّوْ کَا نَ فِی الْاَرْضِ مَلئِکَۃ’‘ یَّمْشُوْنَ مُطْمَئِنِّیْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْھِمْ مِّنَ الْسَّمَآئِ مَلَکًا رَّسُوْلًاo ( بنی اسرا ئیل آ یت ۹۵۔۹۶) مخالفین کو ہدا یت الٰی پر ایما ن لا نے سے صرف یہ بات روکتی ہے کہ اللّٰہ تعالٰی نے بشر رسول کیو ں بھیجا ہے ۔ تو کہہ کہ اگر زمین میں فرشتے امن سے چلتے پھرتے تو ہم فر ستوں کو رسول بنا کر بھیجا کر تے ۔ اس آ یت سے ظاہر ہے کہ ملا ئکہ اس طرح لو گوں میں چلتے پھر تے نہیں ہیں جس طرح انسا ن چلتے پھر تے ہیں ۔پس چو نکہ ظاہری تا بوت کی صورت میں ما ننا پڑتا ہے کہ فر شتے اُسے اُ ٹھا کر ساتھ سا تھ لئے پھر تے تھے۔ اور یہ قر آ نی تعلیم کے خلا ف ہے۔ اس لئے تا بوت سے مراد اسجگہ د ہی ہیں۔ جنہیں فرشتے اٹھا تے تھے اور ہمت بڑھا تے تھے ۔ کیو نکہ حَمَلَہ‘ عَلٰی کَذَا کے معنے اَغْرَاہُ کے ہیں یعنی اکسا نا اور جوش دلا نا(اقرب) پس معنے یہ ہو ئے کہ اَتَباع طا لو ت کو فر شتے قر بانیوں پر آ ما دہ کر یں گے۔ اور ان کی نصرت ہر شخص کے سا تھ ہو گی۔ چنا نچہ مورخین کا اِس بات پر اتفاق ہے کہ طا لوت کا لشکر بہت ہی کم تھا اور ایسے قلیل التعداد لشکر کا کثیر افواج پر غا لب آ نا سوا ئے خاص نصرت الٰی اور ملا ئکہ کی تا ئید کے نا ممکن تھا۔
ضمنی طور پر اس آ یت سے یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ ملا ئکہ سے فیوض حا صل کرنے کا ایک یہ بھی طریق ہے کہ اللہ تعالیٰکے قا ئم کر دہ خلفا ء سے مخلصا نہ تعلق قا ئم رکھا جا ئے اور ان کی اطا عت کی جا ئے ۔ چنا نچہ اس جگہ طا لوت کے انتخاب میں خدا ئی ہا تھ کا ثبوت یہی پیش کیا گیا ہے۔ کہ تمہیں خدا تعا لٰی کی طر ف سے نئے دل ملیں گے جن میں سکینت کا نز ول ہو گا۔ خدا تعالٰی کے ملا ئکہ ان دلوں کو اٹھا ے ہو ہو نگے۔ گو یا طا لوت کے سا تھ تعلق پیدا کر نے کے نتیجہ بلند ہو جا ئیں کی۔ تمہارے ایمان اور یقین میں اضا فہ ہو جا ئیگا۔ ملا ئکہ تمہاری تا ئید کے لئے کھڑے ہو جا ئیں گے اور تمہارے دلوں میں استقا مت اور قر با نی کی روح پھو نکتے رہیں گے۔ پس سچے خلفاء سے تعلق رکھنا ملا ئکہ سے تعلق پیدا کر دیتا اور انسا ن کو انوار الہیہ کا مہبط بنا دیتا ہے۔
اب بَقِیَّۃ’‘ مِّمَّا تَرَکَ اٰلُ مُوْ سٰی وَ اٰلُ ھٰرُوْنَ کا حل کر نا با قی رہ گیا۔ سو یا د رکھنا چاہیے کہ بَقِیَّۃ’‘ کے معنے جیسا کہ حل لغات میں بتا یا جا چکا ہے اعلٰی شے کے ہوتے ہیں۔پس بَقِیَّۃ’‘ مِّمَّا تَرَکَ اٰلُ مُوْ سٰی وَ اٰلُ ھٰرُوْنَ سے مراد وہ اخلا ق فا ضلہ ہیں جو حضرت موسٰیؑ اور حضرت ہا رونؑ کے متبعین اور آ پ کے مقربین سے ظاہر ہو تے تھے۔ اور آ یت کا مفہوم یہ ہے کہ تمہارے دل ان خو بیوں کے وارث ہو نگے جو آ لِ مو سٰیؑ اور آل ہا رونؑ نے دُعا کر تے ہوئے کہا تھ اکہ الٰہی مجھے ایک ایسا لڑکا عطا فرمایا یَرِ ثُنِیْ وَ یَرِثُ مِنْ اٰلِ یَعْقُوْبَ(مریم عٰ) جو میرا اور آلِ یعقوب کا وارث ہو۔ اور مطلب یہ تھا کہ ان کے اخلا ق حسنہ اور جوبیوں کا وارث ہو نہ یہ کہ اُن کی جا ئیداد کا وارث ہو۔ کیو نکہ حضرت یعقوب ؑ کو وفات پا ئے قر یباً ایک سو پشت گزر چکی تھی۔ غرض بَقِیَّۃ’‘ مِّمَّا تَرَکَ اٰلُ مُوْسٰی وَ اٰلَ ھٰرُوْنَ سے یہ مراد ہے کہ طا لو ت کے سا تھیوں میں وہی اخلا ق فا ضلہ اللّٰہ تعا لٰٰی پیدا کر دے گا جو آل مو سٰیؑ اور آ ل ہا رون میں تھے۔
آ ل مو سٰی و اٰل ہا رون سے یہ مراد نہیں کہ ان دونوں کہ الگ الگ اُمتیں تھیں۔ یہ بات تو با لبداہت با طل ہے ایک قوم میں اور ایک وقت میں اور ایک شریعت پر عمل کر نے والی دو اُمتیں کس طرح ہو سکتی ہیں۔ اس کا مطلب اہل یعنی اقارب سے ہے اور مراد یہ ہے کہ ان دونوں نبیوں کی اولادوں میں جو خو بیاں تھیں وہ ان میں بھی آ جائیں گی۔ اگر کہو کہ اہل میں خو بی ہو تا ضروری نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ بَقِیَّۃ’‘ کے لفظ نے بتا دیا ہے کہ اس جگہ خو بیاں ہراد ہیں۔ دوسرے با ئیبل کی کتا ب خروج باب ۴۰ آ یت ۱۲ تا۱۵ سے معلوم ہو تا ہے کہ اللہ تعالی ٰنے حضرت مو سٰی ؑ کو حکم دیا تھا کہ ہارون کو مقدس لباس پہنا یا جائے اور نہ صرف اس کی عزت
فَلَمَّا فَصَلَ






الصّٰبِرِیْنَo

افزائی کی جائے لکہ اس کی تمام اولاد کی عزت کر نا بھی بنی اسرائیل پر فرض قرار دیا جا ئے۔ اور عبا دت گا ہوں کا انتظام ان کے سپر د کیا جا ئے۔ چنا نچہ لکھا ہے:۔
’’ جیسے ان کے باپ کو مسح کر ے۔ ویسے ہی ان کو بھی مسح کر نا۔ تا کہ وہ میرے لئے کاہن کی خدمت کر انجام دیں۔ اور ان کا مسح ہو تا ان کے لئے نسل در نسل ابدہی کہا نت کا نشان ہو گا۔‘‘
پس بے شک ہر اہل میں خو بیوں کا مو جود ہونا ضروری نہیں مگر مو سٰیؑ اور ہارونؑ کے متعلقین اور ان کے خا ص متبعین میں اللّٰہ تعا لٰٰی نے اعلٰی درجہ کے اخلا ق یقینی طور پر دریعت کر دئیے تھے۔ اور طا لو ت کے خدائی انتخاب کا یہ ثبوت بتا یا گیا تھا کہ اللّٰہ تعا لٰٰی نے روحا نیت آ ل مو سٰیؑ اور آل ہارونؑ میں رکھی تھی اور جب بلند اخلا ق اور کر دار کا انہوں نے مظاہرہ کیا تھا وہی تقویٰ اور وہی روحا نیت اور وہی بلند اخلا قی طا لوت کے ساتھیوں میںبھی پیدا کر دی جا ئیگی اور یہ اس بات کا ثبوت ہو گا کہ جس شخص کی انہوں نے متا بعت اخیتار کی ہے وہ خدا تعا لٰی کا فر ستارہ ہے۔
۱۶۰؎ حل لغات:۔ اِغْتَرَفَ غُرْنَۃً بِیَدِہ غر قہ کا لفظ چو نکہ کئی معنوں میں استعمال ہو تا ہے اس لئے اس کے ساتھ یَد’‘ بمعنی ہاتھ رکھ دیا گیا ہے جس کی وجہ سے اس کے معنے محدود ہو گئے ہیں۔ پس اِغْتَرَفَ غُرْ فَۃً کے معنے اسجگہ صرف چلو بھر لینے کے ہی ہیں۔
کَمْ : یہ لفظ اسجگہ کثرت کے اظہار کیلئے استعمال ہوا ہے۔ یعنی کتنے ہی ایسے گروہ ہیں جو قلیل ہو نے کے با وجود دوسروں پر غالب آئے۔لیکن بعض لو گو ں نے کہا ہے کہ ضروری نہیں کہ اس سے کثرت مراد ہو بلکہ کسی قدر تعداد کا پایا جا نا بھی کا فی ہے خواہ ایسے گر وہوں کی تعداد تھوڑی ہی ہو۔
فِئَۃ’‘: جما عت کو کہتے ہیں۔ یہ لفظ فَاَ ئَ سے نکلا ہے جس کے معنے جھکنے کے ہیں۔ چو نکہ جما عت بھی ایک دوسرے کی مدد پر بھی بھروسہ کر تی ہے۔ اور اس کے افراد بھی ایک دوسرے کی طرف جھکتے ہیں۔ اگر ایک کو دکھ ہو تو وہ دوسرے پر اعتماد کر تا ہے اس لئے اسے فِئَۃ’‘ کہتے ہیں۔
بَرَ زَ: کے معنے ہیں خَرَجَ۔ با ہر نکلا۔ّ اقرب)
اَفْرِ غْ عَلَیْنَا صَبْرًا:۔ فَرَ غَ کے معنے ہیں۔ بہا دیا۔ انڈیل دیا۔پس اَفْرِ غْ عَلَیْنَا صَبْرًا کے معنے یہ ہو نگے کہ ہمیں صبر میں وافر حصہ دے یعنی ایسا ہو کہ ہم کا مل طور پر صبر کرنے والے ہوں۔ اور ہماری کسی حرکت سے جزع فزع ظاہر نہ ہو۔
تفسیر:۔ جب طا لوت اپنے لشکر کو لے کر جا لوت کے مقا بلہ میں نکلے تو اللّٰہ تعالٰی نے ان کاایک نہر کے ذریعے پھر امتحان لیا۔تا کہ جو کمزور ایمان والے ہیں وہ الگ ہو جائیں اور صرف وہی لوگ دشمن کے مقا بلہ میں صف آ راء ہوں جو کامل الا یمان ہوں اور جب کی تا ئید میں ملا ئکہ کام کر رہے ہوں۔ نہر کا تر جمہ ندی کیا گیا ہے۔ لیکن ھاء کی زبر سے جب یہ لفظ ہو تو اس کے دو معنے ہو تے ہیں۔ ندی بھی اور فر اخی اور وسعت بھی ( مفردات) اس آ یت میں یہ دونوں معنے لگ سکتے ہیں۔ اگر فر اخی اور دسعت کے معنے لئے جا ئیں تو آ یت کا یہ مطلب ہو گا کہاللہ تعالیٰنے با دشاہ کے ذریعہ سے فو جیوں کو اس امر کی اطلا ع دی کہ تمہارا امتحان مال و دولت کی فرا خی سے لیا جا ئیگا۔ اگر تم مال و دولت کے پیچھے پڑ گئے تو خدا تعا لٰی کا کام نہ ہو سکیگا۔ اور اگر تم مال و دولت سے متا ثر نہ ہوئے تو تم کو کا میا بی ہو گی۔ اس صورت میں فَمَنْ شَرِبَ مِنْہُ وغیرہ الفا ظ مجا زی معنو ں میں سمجھے جائینگے لیکن چو نکہ ظاہری رنگ میں بھی طا لوت کے سا تھیوں کا ایک نہر کے ذریعہ سے امتحان لیا گیا تھا۔ا س لئے ظاہری معنے لینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
چو نکہ جنگ میں جلدی اور تیز حرکت کی ضرورت ہو تی ہے۔ اور پیٹ کا پا نی سے بھر لینا تیز حرکت سے انسان کو محروم کر دیتا ہے اس لئیاللہ تعالیٰنے انہیں حکم دے اکہ ہلکے پیٹ رہو۔ اور پانی کم پیئو۔ تا کہ جنگ میں عمدگی سے کام کر سکو۔ مگر اکثر لو گو ں نے اس حکمت کو نہ سمجھا اور خوب پیٹ پھر کر پا نی پیا۔ اور بہت تھوڑی سی قعداد نے جو با ئیبل کے بیا ن کے مطا بق صرف تین سو تھی جنگی ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یو نہی چند گھونت پا نی پیا تا کہ لڑائی کے وقت وہ اچھی طرح کام کر سکیں۔اللہ تعالیٰنے انکی قر بانیوں کا بدلہ دینے کے لئے اور ان کے اخلا ص پر فتح ہو اور حکم دے اکہ انہی تین سو کو جنگ میں شا مل کیا جائے۔ باقی کو نہیں چنا نچہ انہی تین سو کو طا لوت نے جنگ میں شا مل کیا اوراللہ تعالیٰنے انہی کو ہا تھ پر فتح عطا فر ما ئی۔
کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَ ۃً بِاِ ذْنِ اللّٰہِ میں بتا یا گیا ہے کہ کتنی ہی چھو ٹی چھو ٹی جماعتیں ہو تی ہیں جواللہ تعالیٰکو فضل کے ما تحت بڑی بڑی جما عتوں پر غال ب آ جا یا کر تی ہیں۔ اس غلبہ کی وجہ یہی ہو تی ہے کہ ان میں پر قر بانی اورایثار کا ما دہ ہوتا ہے وہ اپنا وقت ضا ئع کر نے کی بجا ئے اُسے مفید کاموں میں صرف کرنے کے عادی ہو تے ہیں۔ اُن میں دیا نت بھی ہو تی ہے۔ صداقت بھی ہو تی ہے۔ محنت کی عادت بھی ہو تی ہے پھر ان کے حو صلے بلند ہوتے ہیں۔ان کے ارادے پختہ ہو تے ہیں اور
وَلَمَّا بَرَزُو

عَلَی الْعٰلَمِیْنَo
ان کے مقا بل میں جو لوگ کھڑے ہو تے ہیں۔ وہ ان اوصاف سے خا لی ہو تے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قلیل غالب آ جاتے ہیں اور کثیر مغلوب ہو جا تے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ایک ایک آ دمی جس میں ایثار کا مادہ ہو تا ہے۔ درجنوں پر بھاری ہوتا ہے۔ پا گل کوہی دیکھ لو۔ لوگ اس کا قا بلہ کر نے سے گھبراتے ہیں۔ حا لا نکہ وہ اکیلا ہوت ا ہے۔ اسکی وجہ یہی ہے کہ لو گ ڈرتے ہیں کہ انہیں چوٹ نہ آ جا ئے۔انکو زخم نہ لگ جا ئے ۔ اور وہ اپنی طا قت کو صرف ایک حد تک استعمال کرتے ہیں۔ لیکن پا گل کے لئے چوٹ اور زخم بلکہ موت کا بھی کو ئی سوال نہیں ہوتا۔ اس لئے وہ اپنی طا قت اس حد تک استعمال کر تا ہے جس حد تک ایک سمجھ دار انسان استعمال کر نے کیلئے تیار نہیں ہوتا۔ اور وہ اکیلا ہو نے کے باوجود دوسروں پر غالب آ جاتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی جماعت کے افراد میں قر بانی اور ایثار کا مادہ ہو اور وہ دین کے لئے اپنے اندر مجنو نا نہ رنگ رکھتے ہوں اور وہ اپنی محنت اور قر بانی کو اس حد تک پہنچا دیں کہ جس حد تک پہنچا نے سے دوسرے لوگ کھبرا تے ہوں تو پھر ان کے ایک ایک آ دمی کے مقا بلہ میں دس دس پندرہ پندرہ بلکہ نیس بیس آ دمی بھی ہیچ ہو جا تے ہیں۔جنگ بدر میں ایسا ہی ہوا اور مسلما نوں کی ایک چھوٹی سی جماعت اپنے سے کئی گنا بڑی جما عت پر غالب آ گئی۔
۱۶۱؎ حل لغات:۔ اُنْصُرْ نا:نَصَرَ الْمَظْلُوْ مَ کے معنے ہو تے ہیں اَعَا نَہ‘ اُ س نے مظلوم کی مدد کی۔ اور نَصَرَ فُلَان’‘ عَلٰٰی عَدُوِّہ کے معنے نَجَّا ہُ مِنْہُ وَخَلَّصَہ‘ وَ اَعَا نَہ‘ وَ قَوَّ اہُ عَلَیْہِ۔ اسے دشمن سے نجا ت دی۔ اُس کے پنجے سے چھڑایا اُس کی مدد کی اور اسپر غلبہ بخشا (اقرب)
تفسیر:۔ فر ما تاہے جب مقا بلہ ہوا تو طا لوت اور اس کے سا تھیوں نے جا لوت اور اس کے لشکر کواللہ تعالیٰکے اذن کے ما تحت شکست دیدی۔
مفردات میں لکھا ہے کہ اذن کے معنے اجا زت اور علم کے ہو تے ہیں۔ نیز لکھا ہے کہ وَ مَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْل’‘ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِ ذْنِ اللّٰہِ میں اذن سے مراد اس کی مشیت اور حکم ہے۔ اسی طرح لکھا ہے کہ اذن میں مشیت کا پا یا جا نا ضروری ہو تا ہے جو علم کے لئے ضروری نہیں۔ ہاں اذن میں رضا کا ہو تا ضروری نہیں صرف مشیت ہی کا ہو ضروری ہے ۔ اسجگہ اذن سے مراد مشیت ہی ہے۔ یعنیاللہ تعالیٰکے منشاء اور اس کے ارادہ کے مطابق طا لوت نے جا لوت کو شکست دے دی۔
یہ کیا وا قعہ ہے جس کا گزستہ رکوع سے ذکر چلا آ رہا ہے ۔ اسبارہ میں بہت کچھ اختلاف پایا جاتا ہے یہا ں تک کہ عیسا ئیوں نے بھی اعتراض کیا ہے کہ قرآن نے دو مختلف زما نوں کے وا قعات کو اکٹھا بیان کر دیا ہے۔ پرانے مفسرین کا خیال تھا کہ اس کا مصداق سا ؤل ہے جو ایک با دشاہ تھا جسے سموایل نبی کی طرف سے مقرر کیا گیا تھا۔ اور جا لوت اس کے دشمنوں میں سے تھا۔ اس میں کو ئی شبہ نہیں کہ با ئیبل میں سا ؤل کے قدوقا مت کا خا ص طور پر ذکر دیا گیا ہے۔اور لکھا ہے کہ:۔
’’ بنی اسرا ئیل کے درمیان ا‘س سے خوبصورت کو ئی شخص نہ تھا۔ وہ ایسا قدآ ور تھا کہ لو گ اس کے کندھے تک آ تے تھے۔‘‘(ء اسموایل باب۹ آیت۲)
اور یہ بھی ذکر آ تا ہے کہ وہ ایک ادنٰی قبیلہ کے ساتھ تعلق رکھتا تھا۔(ء۱ سموایل باب ۹ آیت ۲۱)۔ مگر با ئیبل سے ہی ثابت ہے کہ خدا تعالٰٰی سا ؤل سے نا راض ہوا اور اس نے بنی اسرا ئیل کی بادشاہت اس سے چھین لی۔(ء۱ سموایل باب ۱۵ ۲۶)
اسی طرح با ئیبل سے یہ بھی ثابت ہے کہ ساؤل نے فلستیوں کے مقا بلہ میں شکست فا ش کھا ئی اور انہوں نے اس کے تین بیٹوں کو مار ڈالا۔ اور وہ خود بھی خود کشی کر کے مر گیا۔(ء۱ سمو ایل باب ۳۱ آ یت ۱تا ۵)
حا لا نکہ قر آ ن کریم یہ کہتا ہے کہ فر شتے اس کی مدد کر تے تھے۔ گو یا اسے فتح حا صل ہو تی تھی۔ پس اگر ساؤل کو ہی اس کا مصدق قرار دیا جا ئے تو قر آ نی علا مات اس پر چسپاں نہیں ہو تیں۔ میں نے جب اس واقعہ پر غور کیا تو مجھے وہ معنے پسند آ ئے جس پر دشمنوں نے اپنی نا دانی سے اعتراض کیا ہے۔ ان کا اعتراض یہ ہے کہ قرآن کریم نے دو علٰیحدہ علٰیحدہ زما نوں کے وا قعات کو ملا کر بیا ن کر دے اہے۔ اور مفسرین نے یہ کو شش کی ہے کہ وہ داؤد اور جا لوت اور طالوت کا ایک ہی زما نہ ثابت کریں۔ سا ؤل پر وہ اس وا قعہ کو اس لئے بھی چسپاں کر تے ہیں کہ وہ لمبے قد کا تھا اور دشمن کے ایک بڑے پہلوان کا نا م جا تی جو لیت( یعنی جا لوت) تھا۔(ء۱ سموایل باب ۱۷ آیت ۴) مگر میرے نزدیک کسی شخص کی تعیین کر نے سے پہلے ضروری ہے کہ قر آ ن کریم کے بیان کر دہ وا قعات پر یکجائی نظر ڈالی جائے۔
قرآن کر یم میں اس واقعہ کے متعلق پہلی بات یہ بیان کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا اُخْرِجْنَا مِنْ دِیَارِ نَا وَاَ بْنَآ ئِ نَا ہم اپنے گھروں اور اپنے بیٹوں سے علٰیحدہ کئے گئے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ قوم جس کا یہا ں ذکر ہے اپنے گھروں سے نکا لی گئی تھی۔دوم ان پر ایک ایسا شخص بادشاہ بنا یا گیا تھا جو کسی اعلٰی خا ندان یا شا ہی نسل میں سے نہیں تھا۔سوم وہ ایسا شخص تھا جس کیاللہ تعالیٰمدد کر تا تھا اور جس کے سا تھی بھی منصور ہن اللّٰہ تھے اور ان کے پاس ایک تا بوت تھا۔ چہا رم ایک نہر کے ذریعہ ان کی آ زمائش ہو ئی تھی ۔ پنجم ان کی اور ان کے دشمنوں کی تعداد میں بڑا بھا ری قرق تھا۔ ان کی تعداد دشمن کے مقا بلہ میں بہت ہی تھوڑی تھی اور پھر اس آ زمائش کی وجہ سے اس کی جماعت اور بھی کم ہو گئی۔ ششم با وجود اس کے کہ اس کی فوج دشمن کی فو ج سے کم تھی وہ دشمن پر غالب آیا۔
ان میں سے بعض با تیں بیشک سا ؤل پر بھی چسپاں ہوتی ہیں۔ مثلاً سا ؤل کے مقرر کر نے میں ایک نبی کا دخل تھا۔ ساؤل کو اپنے دشمنوں کا نام جا لوت بھی تھا۔ مگر میرے نذ دیک اس میں جو با تیں وزنی ہیں اور جن کی وجہ سے ساؤل کی بجا ئے کسی اور شخص کی تلا ش ہما رے لئے ضروری ہے وہ یہ ہیں۔
اول۔ اس میں مِنْ بَعْدِ مُوْسٰی کے الفا ظ آ تے ہیں میرا ذہن ان الفا ظ سے اس طرف منتقل ہو تا ہے کہ اس میں کسی ایسے زما نہ کا ذکر ہے۔ جہاں سے بنی اسرائیل کی تا ریخ شروع ہو تی ہے۔ ورنہ داؤد کے ذکر سے بنی اسرائیل تو وہ آ پ ہی ثا بت ہو جاتے ہیں۔ پھر مِنْ بَعْدِ مُوْ سٰی کہنے کی کیا ضرورت تھی۔پس درحقیقت یہ الفا ظ ان کی قومی تا ریخ کی طرف اشارہ کر نے کے لئے لا ئے گئے ہیں۔
دوم۔ تَحْمِلُہُ الْمَلٰٓئِکَۃُ کے الفا ظ سے ظاہر ہے کہ اسے ہمیشہ فتح ہی حاصل ہو تی تھی۔ مگر ساؤل کو تو شکستیں بھی ہو ئیں اور پھر اس کا انجا م نہا تے حسر ت ناک ہوا۔ حالا نکہ قر آ ن کر یم کے بیان کے مطا بق ضروری ہے کہ اک کا مصداق ہمیشہ فتح ما تا رہا ہو۔
سوم۔ اسجگہ مُبْتَلِیْکُمْ بِنَھَرٍ آ یا ہے اور بتا یا گیا ہے کہ ان لو گوں کی ایکنہر کے ذریعہ آ زما ئش کی گئی تھی مگر سا ؤل کے زما نہ میں کسی نہر کے ذریعہ لو گوں کا امتحان لئے جا نے کا بائیبل میں کوئی ذکر نہیں آ تا۔ پس ہمیں اس شخص کی تلا س کے ساتھ نہر کے واقعہ کو بھی نظر انداز نہیں کر نا چا ہیے۔
یہ عجیب بات ہے کہ با ئیبل ایک نہر کا ذکر ضرور کر تی ہے اور یہ بھی کہتی ہے کہ اس کے ذریعہ ایک قوم کی آ زما ئش کی گئی ۔ ان کو ساف طور پر کہا گیا تھا کہ تم اس سے پا نی نہ پیئو۔مگر اکثر لو گوں نے پا نی پی لیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پا نی پینے وا لے پیچھے رہ گئے اور نہ پینے والے حملہ کر کے دشمن پر غالب آ گئے۔ گو یا قر آ نی بیان کی تصدیق ہو جاتی ہے مگر ساؤل کے زما نہ میں با ئیبل ایسا کوئی واقعہ بیان نہیں کرتی۔
عیسا ئیوں نے اس وا قعہ پر اعتراض کر تے ہوئے لکھا ہے کہ یہ جد عون کا وا قعہ ہے اور جد عون اور دا ؤد میں دو سو سال کا فا صلہ ہے۔ مگر قر آن نے ان دونوں وا قعات کو ملا کر بیان کر دیا ہے۔ گو یا ان کے نذدیک قر آن کریم کا یہ کہنا کہ قَتَلَ دَاؤدُ جَا لُوْتَ داؤد نے جا لوت کو قتل کیا غلط ہے۔ کیو نکہ داؤد اور جا لوت میں دو سو سال کا فر ق تھا اور اس لحاظ سے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ داؤد جا لوت کو قتل کر سکتے۔ میرے نذدیک جد عون کا وا قعہ جو با ئیبل نے بیان کیا ہے اور قرآ ن کریم کے بیان کر دہ وا قعہ میں صرف اس قدر فر ق ہے کہ بائیبل نے یہ نہیں بتا یا کہ اسے کسی نبی نے مقرر کیا تھا۔ بلکہ اس میں صرف اتنا لکھا ہے کہ خدا تعالٰی نے بنی اسرائیل کے پاس ایک نبی بھیجا جس نے انہیں کہا کہ خداتعالٰی فر ماتا ہے کہ میں نے تمہیں کہا تھا کہ ۔
’’ تم ان امور یوں کے دیوتاؤں سے جن کے ملک میں بستے ہو مت ڈرنا پر تم نے میری بات نہ مانی۔‘‘(قضاۃ باب ۶ آیت ۱۰)
اورپھر یہ ذکر کیا گیا ہے کہ جدعون کو خدا تعالٰی کا فر شتہ دکھا ئی دیا اور اس نے کہا کہ اُٹھ اور مد یا نیوں کے ہاتھ سے بنی اسرائیل کو چھڑا۔(قضا ۃ باب۶ آ یت ۱۵) با قی تمام واقعات جو قر آن کریم نے بیان کئے ہیں وہ با ئیبل میں مو جو د ہیں۔
یہ امر یا د رکھنا چا ہیے کہ حضرت مو سٰیؑ کی وفات کا زمانہ ۱۴۵۱ قبل مسیح ہے۔ اور جدعون کا وا قعہ مو سٰی ؑ کی و فات کے بعد ۱۲۶۶ قبل مسیح میں ہوا۔ گو یا ان دونوں میں دو سو سال کا فا صلہہے۔ اور انسا ئیکلو پیڈیا ببلیکا میں لکھا ہے کہ اسوقت جب بنی اسرائیل مصر سے آئے کنعان میں وہ ایک قوم نہیں بنے بلکہ الگ الگ قبیلوں نے جدا جدا زمینوں میں اپنی ریا ستیں قا تم کر لی تھیں۔ اس وقت ان میں کوئی با دشاہت قا ئم نہیں ہوئی۔نہ ان میں فو جیںتھیں اور نہ ان کا کوئی با دشاہ تھا۔پھر بائیبل میں ۱۲۵۶ قبل مسیح کے متعلق لکھا ہے۔
’’ بنی اسارائیل نے خدا وند کے آ گے بدی کی تب خدا وند نے انہیں سات برس تک مد یا نیوں کے قبضہ میں کر دیا۔ اور مد یا نیوں کا ہاتھ بنی اسرائیل پر قوی ہوا اور مد یا نیوں کے سبب بنی اسرائیل نے اپنے لئے پہاڑوں میں کھوہ اور غار میں مضبوط مکا ن بنا ئے۔‘‘( قاضیوں باب ۶ آیت ۱ء۲)
یہ وا قعہ بعینہ اُخْرِ جْنَا مِنْ دِیَارِنَا وَ اَبْنَآئِ نا سے ملتا جلتا ہے۔ آگے لکھا ہے:۔
’’ جب بنی اسرائیل کچھ بوتے تھے تو مد یا نی اور عما لیقی اور اہل مشرق ان پر چڑھ آ تے تھے اور ان کے مقا بل ڈیرے لگا کر غزہ تک کھیتوں کی پیدا وار کو بر باد کر ڈالتے۔ اور بنی اسرائیل کے لئے نہ تو کچھ معاش نہ بھیڑ بکری نہ گا ئے بیل نہ گدھا چھوڑتے۔‘‘(قا ضیوں باب ۶ آیت ۴)
اس کے بعد لکھا ہے:۔
’’ جو اسرائیل مدیانیوں کے سبب نہایت مسکین ہوئے۔ اور بنی اسرائیل خدا وند کے آ گے چلا ئے۔‘‘(قاضیوں باب ۶ آیت ۶)
’’ اور جب بنی اسرائیل مدیانیوں کے سبب سے خدا وند سے فر یاد کر نے لگے تو خداوند نے بنی اسرائیل پاس ایک نبی بھیجا جس نے انہیں کہا کہ خدا وند اسرائیل کا خدا یوں فر ماتا ہے کہ میں تم کو مصر سے چھڑا لایا۔ اور میں نے مصریوں کے ہاتھ سے اور ان سب کے ہاتھ سے جو تمہیں ستاتے تھے۔ چھڑایا اور تمہارے سا منے سے انہیں دفع کیا اور ان کا ملک تمکو دیا اور میں نے تم کو کہا کہ خدا وند تمہارا خدا میں ہوں سو تم ان اموریوں کے معبودوں سے کہ جن کے ملک میں بستے ہو مت ڈرو۔ پر تم میری آ واز کے شنوا نہ ہوئے۔‘‘( قا ضیوں باب۶ آیت ۸ تا ۱۰)
اس حوالہ میں ایک نبی کا ذکر تو ہوا ہے مگر یہ ذکر نہیں کہ اس نبی نے کوئی بادشاہ مقرر کیا ہو۔ صرف اتنا ذکر ہے کہ پھر خدا وند کا فرشتہ آیا۔۔۔۔۔ اور اس وقت جدعون نے کے کو لھو کے گہوں جھا ڑ رہا تھا۔ کہ مدیا نیوں کے ہاتھ سے نہیں بچاوے۔ سو خدا وند کا فرستہ اسے دکھائی دیا اور اس سے کہا کہ خدا وند تیرے ساتھ ہے۔ اے بہا در پہلوان! جدعون نے اسے کہا۔ اے ما لک میرے! اگر خدا وند ہمارے ساتھ ہے تو ہم پریہ سب خا دثے کیوں پڑے اور کہاں ہیں اس کی دے سب قدرتیں جو ہمارے باپ دادوں نے ہم سے بیان کیں۔ اورکہا کیا خدا وند ہم کو مصر سے نہیں نکال لایا۔لیکن اب خداوند نے ہم کو چھوڑ دیا۔ تب خدا وند نے اس پر نگاہ کی اور کہا کہ اپنی اس قوت کے ساتھ جاکہ تو بنی اسرا ئیل کو مدیا نیوں کے ہاتھ سے رہا ئی دیگا۔ کیا میں تجھے نہیں بھیجتا اور اس نے اسے کہا ۔ اے میرے مالک! میں کس طرح بنی اسرائیل کو بچا ؤں۔ دیکھ کہ میرا گھرانا منسی میں حقیر ہے اور میں اپنے باپ دادوں کے گھرانے میں سب سے چھوٹا ہوں تب خدا وند نے اسے فر مایا کہ میں تیرے ساتھ ہونگا۔ اور تو مدیانیوں کو ایک ہی آ دمیکی طرح مادلیگا۔‘‘(قضاۃباب۶آیت۱۱تا ۱۶)
قر آن کر یم بھی جُنُوْد کا لفظ آ تا ہے اور با ئیبل بھی بتا تی ہے کہ وہاں مدیا نی۔ عمالیقی اور مشرقی تین قو میں موجود تھیں۔ پھرلکھا ہے:۔
’’ تب خدا وند نے جد عون کو فر ما یا کہ لوگ ہنوز زیادہ ہیں۔ سو تو انہیں پا نی پاس نیچے لا کہ وہاں میں تیری خا طر انہیں آ زمائیگا۔‘‘(قضا ۃ باب ۷ آیت ۴)
’’ سو و ان لو گوں کو پا نی پاس نیچے لایا۔ اور خداوند نے جدعون کو فر مایا کہ جو شخص پا نی چیڑ چیڑ کر کے کتّے کی ما نند پیوے تو ہر ایک ایسے کو علٰحیدہ رکھ۔ اورویسے ہر ایک کو بھی جو اپنے گھٹنوں پر جھک کے پیوے۔ سو جنہوں نے اپنا ہاتھ اپنے منہ کے پاس لا کے چیڑ چیڑ کر کے پیا۔ وہ گنتی میں تین سو مرد تھے۔۔۔۔ تب خداوند نے جدعون کو کہا کہ میں ان تین سو آ دمیوں سے جنہوں نے چیڑ چیڑ کر کے پیا تجھے رہائی بخشونگا۔ اور مدیانیوں کو تیرے ہاتھ مین دونگا۔ اور باقی سب لو گوں میں ہر ایک کو اس کے مکان پرپھر جانے دو۔ تب ان لو گوں نے اپنا تو شہ اور اپنے نر سنگے ہاتھوں میں اٹھا ے اور با قی سب بنی اسرائیل میں سے ہر ایک کو اس کے خیمے میں بھیجا اور ان تین سو کو اپنے پاس رکھا۔ اور مدیانیوں کا لشکر اس کے نیچے وادی میں تھا۔‘‘(قضا ۃ باب ۷آیت ۴تا ۸)
آ خر میں مد یا نیوں سے نجات پا نے کا ذکر ہے۔ اور وہ اس طرح کہ جدعون کے ساتھ تین سو آدمی رہ گئے جن کو ساتھ لے کر وہ لڑا اور فتح حاصل کی۔ یہ سارا واقعہ قرآن کریم سے حرف بحرف ملتا ہے۔ اور اس کی بخاری کی ایک روایت سے بھی تائید ہو تی ہے۔ براء بن عازبؓ بیا ن کر تے ہیں کہ کُنَّا اَصْحَابُ مُحَمَّدًﷺ نَتَحَدَّثُ اَنَّ عِدَّۃَ اَصْحَابِ بَدْرٍعَلٰی عِدَّۃِ اَصْحَا بِ طَا لُوْتَ الَّذِیْنَ جَا وَزُوْامَعَہ ُالنَّھْرَوَلَمْ یُجَا وِزْ مَعَہ‘ اِلَّا مُئْومِن’‘ بِضْعَۃُعَشَرَوَثَلاَثُ مِا ئَۃٍ۔ یعنی ہم محمد رسول اللّٰہﷺ کے اصحاب ایک دوسرے سے باتیں کیا کرتے تھے۔ کہ بدر والوں کی تعداد طالوت کے ساتھیوں کی تعداد کے مطا بق تھی جو اس کے ساتھ نہر سے گزرے تھے اور انکے ساتھ تین سو دس سے کچھ اوپر مو من تھے۔(بخا ری کتا ب المغاری باب عدۃ اصعاب بدر)
اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں تو اس کا نام طالوت آ یا ہے اور بائیبل کے حوالہ میں جد عون نام آ یا ہے۔ ان میں مطا بقت کس طرح ہے۔ سو پہلے میں جدعون کو لیتا ہوں۔
یہ عجیب بات ہے کہ جدعون کے لفظ کے بھی وہی معنے ہیں جو عربی زبان میں طالوت کے ہیں۔ جدعون کے معنے عبرانی زبان میں طالوت کے ہیں۔ جد عون ایسے شخص کو کہتے ہیں جو اپنے مخالف کو کاٹ ڈالتا اور زمین پر گرا دیتا ہے۔ بائیبل میں جدعون کو زبر دست سورما اور بہادر پہلوان کے نام سے پکارا گیا ہے۔ (دیکھو قضاۃ باب ۶ آ یت۱۱) اور طا لوت جو جدعون کا صفاتی نام ہے اس کے بھی یہی معنے ہیں کیو نکہ طَالَ کے معنے دوسروں سے بلند اور بڑائی والا ہو جا نے کے ہیں۔پس طا لوت کے معنے ہیں جو دوسرے سے درجہ اوربڑائی میں اونچا ہو گیا تھا۔ اور دوسروں کو اس نے نیچا کر دیاتھا۔ گو یا اس نام میں بتا یا گیا ہے کہ پہلے تو وہ ادنٰی اور معمولی درجہ کا آ دمی تھا مگر پھر بڑا ہو گیا اور خدا تعا لٰی نے اس کو اونچا کر دیا۔ اور اس قسم کے صفا تی نام قرآن کریم میں بعض اور جگہ بھی استعمال ہوئے۔ مثلاًاللہ تعالیٰخود رسول کریم ﷺ کی نسبت فر ما تاے۔ وَ اَنَّہ‘ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللّٰہِ یَدْ عُوْ ہُ کَا دُوْ ا یَکُوْ نُوْنَ عَلَیْہِ لِبَدًا۔(جن آیت ۲۰) یعنی جباللہ تعالیٰکا بندہ محمد رسول اللّٰہ ﷺ اسکی طرف بلا نے کے لئے کھڑا ہو تا ہے تو مکہ کے لوگ اس پر جھپٹ کر آ گر تے ہیں۔ اسجگہ عبد اللّٰہ رسول کریمﷺ کا صفاتی نام ہے۔ اسی طرح طالوت بھی جد عون کا صفا تی نام ہے اور دونوں ہم معنی الفا ظ ہیں۔
اب صرف جا لوت لا لفظ تحقیق طلب رہ گیا ۔ سو یاد رکھنا چا ہیے کہ جالوت بھی ایک صفا تی نام ہے جو کسی ایک شخص کا نہیں بلکہ ایک گر وہ کا نام ہے جس کا کام ملک میں فساد کر نا اور ڈاکے ڈالنا تھا۔ جا لوت کا انگریزی زبان میں گو لیتھ کہتے ہیں۔ اور گو لیتھ کے معنے انگر یزی ہیں۔destroyer spirits, Sunning کے ہیں۔ یعنی تبا ہی اور بر بادی ڈھا نے اور لوٹ مار نچا نیوالی روحیں۔ جو اِدھر اُ دھر پھر تی ہوں۔ اور جا ئل جو اصل میں جا لوت ہے اس قوم کو کہتے ہیں جو ہر طرف قتل وغارت اور تبا ہی و بر بادی کا بازار گر م کر نے والی ہوں۔با ئیبل سے بھی ثابت ہے کہ جدعون کا دشمن ایک آ وارہ گرد گروہ تھا جو ملک میں فساد پھیلاتا پھر تا تھا۔ چنا نچہ لکھا ہے کہ وہ لوگ جب حملہ کر تے تھے تو سب کچھ بر باد کر دیتے تھے۔پس یہاں جا لوت سے کو ئی ایک شخص مرا دنہیں بلکہ ایک گروہ مراد ہے۔ جس نے بنی اسرائیل پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا۔ بائیبل بتا تی ہے کہ جد عون نے ان کو شکست دی اور اس کے بعد ستر سال تک اس کی حکومت رہی۔ یعنی چا لیس سال تک وہ خود حکومت کر رہا اور تیس سال تک اس کا بیٹا۔ اور اس کے نتیجہ میں متحدہ قومیت کی روح یہود میں تر قی کر گئی۔
اس کے بعد فر ما تا ہے۔ وَقَتَلَ دَاؤدُ جَا لُوْتَ داؤد نے جا لوت کو قتل کر دیا۔یہاں جدعون کے واقعہ کے تسلسل میں ایک نیا واقعہ حضرت داؤدؑ کا بیان کیا گیا ہے۔اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت داؤد ؑ کا واقعہ جد عون کے واقعہ سے بہت کچھ ملتا ہے جدعون کے وقت فلسطینیوں نے اسرائیل کو فلسطین سے نکالنے کی بے شک کو شش کی تھی۔ اور جدعون نے ان کا مقا بلہ کیا اور انہیںشکست دی۔ لیکن وہ ابتدائی کو شش تھی جو حضرت داؤدؑ کے زما نہ میں آ کر ختم ہوئی۔ اور انہوں نے دشمن کو کلی طور پر تباہ وبرباد کر دیا۔پس اس واقعہ کو مشابہت مضمون کی وجہ سے اس کے سا تھ بیان کیا گیا ہے۔ ورنہ پہلا جد عون کا واقعہ ہے۔ اوریہ داؤد کا واقعہ ہے اور دونوں میں دو سو سال کا فاصلہ ہے۔
اب صرف ایک سوال حل طلب رہ جاتا ہے۔ اور وہ یہ کہ بائیبل کی رو سے تو داؤد نے جا لوت کو قتل کیا تھا۔(ء۱ سمو ایل باب ۱۷ آ یت ۵۰تا۵۱) لیکن قرآن کریم نے جد عون کے واقعہ میں بھی جا لوت کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ وَ لَمَّا بَرَزُوْ لِجَا لُوْتَ وَ جُنُوْ دِہ قَا لُوْا رَبَّنَآا اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِّتْ اَقْدَا مَنَا وَ انْصُرْ نَا عَلَٰی الْقَوْ مِ الْکٰفِرِیْنَ یعنی جب وہ جا لوت اور اس کی فو جوں کے مقابلہ کیلئے نکلے۔ تو انہوں نے کہا۔ اے ہمارے ربّ! ہم پر قوت برداشت نازل کر اور ہمارے قدموں کو ثبات بخش اور کفار کے خلاف ہماری تائید اور نصرت فر ما۔
اِس کے متعلق یاد رکھنا چا ہیے کہ جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے۔جا لوت ایک صفاتی نام ہے۔ اور اس سے مراد ایسا گروہ ہے جو ملک میں فساد کرتاپھرے اور چونکہ جدعون کا دشمن بھی ایک آ وارہ گرد گروہ تھا جو ملک میں فساد پھیلا تا پھر تا تھا اور حضرت داؤدؑ نے ملک میںامن قائم کر نے کے لئے جس دشمن کا مقابلہ کیا وہ بھی آ وارہ گرد اور فسادی تھا۔ اِس لئے دونوں کے دشمنوں کو صفاتی لحاظ سے جا لوت کہا گیا ہے۔ اور ان دونوں کا اکٹھا ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ جد عون کے ہاتھ سے تو دشمن گو صرف شکست ہوئی تھی مگر داؤدؑ کے ہاتھوں ان کی کلّی تباہی ہوئی اور آپ نے انہیں نیست و نا بود کر دیا۔ گو یا دشمن کے مقا بلہ کی ابتدأ جد عون سے ہوئی اور اسکا انتہاء داؤد ؑ پر ہوا۔ اسی لئے قرآن کریم میں قَتَلَ دَاؤدُ جَا لُوْتَ کے الفاظ آئے ہیں ۔ کہ داؤد نے جا لوت کا خا تمہ کر دیا ۔ اور طا لوت اور اس کے ساتھیوں کے متعلق صرف ھَزَ مُوْ ھُمْ بِاِذْنِ اللّٰہِ کے الفاظ آئے ہیں۔ یعنی انہوں نے اپنے دشمنوں کو شکست دی۔
تا ریخ سے ثا بت ہے کہ جد عون نے ۱۲۵۶ قبل مسیح میں مخا لفوں کو شکست دی اور ۱۱۶۱ قبل مسیح تک اسکی اور اس کے بیٹے کی حکو مت رہی۔ اس کے بعد ۱۰۵۰؁ قبل مسیح میں بنی اسرائیل کا کنعان پر داؤد کے ذریعے قبضہ ہوا۔ غرض جد عون اور داؤد کے اکٹھا ذکر کر نے اور ان دونوں کے واقعات کو ملا کر بیان کر نے کی یہی وجہ ہے کہ جدعون وہ پہلا شخص ہے جس نے بنی اسرائیل کے دشمنوں کا
تلْکَ اٰیٰتُ اللّٰہِ الْمُرْسَلِیْنَo
مقا بلہ کیا۔ اور یہود میں متحدہ قومیت کی روح پھو نکی۔ اور داؤدؑ آ خری شخص ہیں جن کے ہاتھوں دشمن کی کلّی تباہی ہوئی غرض جدعون پہلا نقطہ ہے اور داؤد آ خری نقطہ۔
وَلَوْ لَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضھُمْ بِبَعْضً لَفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَلَکِنَّ اللّٰہَ ذُوْفَضْلٍ عَلَٰی الْعَالَمِیْنَ۔ میں بتا یا کہ اگر ہم شہریروں کابعض دوسرے انسانوں کے ذریعے قلع قمع نہ کر تے تو دنیا میں فساد برپا ہو جاتا۔
یہ اس لئے فر ما یا کہ جد عون اور داؤد دونوں کی جنگیں مذہبی تھیں۔ کیا نکہ ان کے دشمن ان کی عبادت گاہیں گرا کر ان کی جگہ اپنی عبادتگاہیں بنا دیتے تھے۔جیسا کہ جد عون کے متعلق قا ضیوں باب ۶ اور داؤد کی نسبت ء۲ سموایل سے ثابت ہے۔
چو نکہ اسلام کو بھی مذہبی جنگوں کا سا منا کرنا تھا اس لئے اللّٰہ تعالٰی نے جدعون اور داؤد کے واقعات پیش کر کے مسلمانوں کو تو جہ دلائی کہ اب تم بھی کھڑے ہو جاؤ اور شریروں کا مقابلہ کرو۔ اور دنیا میں نیکی اور تقویٰ پھیلاؤ۔ کیو نکہ بحروبّر میں فساد بر پا ہو چکا ہے۔ اور اس امر کو یادرکھو کہ جس طرح اللّٰہ تعالٰی نے جدعون اور داؤد کو مدد دی تھی اسی طرح اب اس کی معجزانہ نصرت تمہارے لئے ظاہر ہو گی۔ کیو نکہ ایسا یہ ہو تو دنیا تباہ ہو جائے اور امن کبھی قائم نہ ہو۔
ِ۱۲۶؎ تفسیر:۔ فر ماتا ہے طا لوت اور داؤد کے واقعات ہم نے قصہ کے رنگ میںبیان نہیں کئے بلکہ یہ پیشنگو ئیاں ہیں جن کا ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ محمدﷺ کے ساتھ بھی یہی واقعات پیش آ نے والے ہیں اور ان کو بھی وہی نصرت اور تائید حاصل ہو گی جو پہلے انبیائؑ کو حاصل تھی۔ اور س طرح دنیا پر طاہر ہو جائے گا کہ محمدﷺ خدا تعالٰی کے سچے فرستادہ اور اس کے بر گزیدہ رسول ہیں۔




تِلْکَ الرُّسُلُ





مَا یُرِیْدُo
۱۶۳؎ تفسیر:۔ فر ما تاہے۔ یہ رسول جنکا اوپر ذکر کے اگیا ہے ایسے ہیںکہ ان میں سے بعض کو ہم نے بعض پر فضیلت دی تھی۔یعنی ان میں سے بعضاللہ تعالیٰکے حضور زیادہ بلند مقام رکھتے تھے اور بعض نسبتاً کم۔یہ اس لئے کہا گیا ہے کہ پچھلے انبیاء کے ذکر پر طبعی طور پر یہ سوال ہو سکتا تھا کہ پہلے انبیاء تو ایک ایک قوم کی طرف مبعوث ہوئے تھے اور ان کا مقابلہ بھی صرف اپنی اپنی قوم کے افراد سے تھا۔کو ئی عالمگیر مخالفت انکی نہیں ہوئی۔ لیکن آنحضرتﷺ کا تو یہ دعویٰ ہے کہ میں ساری دنیا کے لئے بشیر ونزیر بنا کر بھیجا گیا ہوں۔پھر آ پ ساری دنیا کے مقابلہ میں کس طرح فتح پا سکتے ہیں اس کے جواب میں اللّٰہ تعالٰی فر ماتا ہے کہ پہلے رسولوں میں بھی توآپس درجہ اور مقام کے لحاظ سے فرق تھا۔ یہ تو نہیں کہ سب ایک ہی درجہ رکھتے تھے۔ آ خر کمال کے بھی ہزاروں درجے ہیں اور خود انبیاء میں بھی مدارج فضیلت میں فرق ہوتا ہے۔ پس ان میں سے ہو نے کے یہ معنے نہیںکہ ان جیسا ہی درجہ ہو۔ اور کو ئی فضیلت نہ ہو۔ مثلاً حضرت داؤد ؑ جن کا یہاں ذکر کیا گیاہے وہ نبی ہو نے کے علاوہ بادشاہ بھی تھے۔ اور اس طرح ان کو بعض انبیاء کے مقابلہ میں ایک ظاہری فضیلت حاصل تھی۔ اسی طرح آ نحضرتﷺ کو بھی فضیلت عطا کی گئی۔ مگر داؤد کی فضیلت تو صرف چند بنیوںپر تھی۔ اور آنحضرتﷺ کی فضیلت سب انبیاء پر ہے۔ بلکہ آپ نے تو یہاں تک فر مایا کہ اگر موسٰیؑ اور عیسٰیؑ بھی میرے زمانہ میں زندہ ہوتے تو وہ میری اطاعت کرتے۔
مِنْھُمْ مِنْ کَلَّمَ اللّٰہُ سے بعض لوگوں نے بالمشافہ گفتگو کر نا مراد لیا ہے۔یعنی ایسے طریق پر کلام کر تا کہ درمیان میں جبرائیلی واسطہ نہ ہو۔ مگر میرے نزدیکمِنْھُمْ مِنْ کَلَّمَ اللّٰہُ سے تشریعی انبیاء مراد ہیں اس لئے کہ کلام تو ہر ایک رسول سے ہوتا ہے ۔ بغیر کلام کے وہ نبی کیو نکر ہو سکتا ہے اور درجہ بھی ہر ایک کا بلند ہوتا ہے۔لیکن جب مقابلہ ہو تو اس کے یہی معنے ہو نگے کہ بعض کو شریعت دی اور بعض کو صرف نبوت کا درجہ دیا گیا۔جیسے حضرت عیسٰیؑ ہیں ان کو شریعت نہیں دی گئی محض نبوت عطا کی گئی ہے۔ اس کا ثبوت قرآن کریم سے بھی ملتا ہے اللّٰہ تعالٰی حضرت مو سٰی ؑ کی نسبت فر ما تاہے وَ کَلَّمَ اللّٰہُ مُوْ سٰی تَکْلِیْمًا( نسا ء آیت ۱۶۵) اللّٰہ تعالٰی نے موسٰی سے خوب اچھی طرح کلام کیا۔
یہ کہ کَلَّمَ اللّٰہُ کے معنے شریعت کے ہیں اس کا ثبوت ایک حدیث سے بھی ملتا ہے۔ امام احمدؒ نے ابوذرؓ سے روایت کی ہے کہ رسول کریمﷺ نے فر مایا۔پہلے نبی آدم تھے۔وہ کہتے ہیں میں نیکہا کہ وَنِبّی’‘ کَانَ۔ کیا وہ نبی تھے؟ آ پ نے فر ما یا۔ ہاں! نَبِیّ ’‘مُکَلَّم’‘( تفسیر فتح البیان جلد اول ص۳۳۳) وہ مکلَّیم نبی تھے۔اس سے معلوم ہوا کہ بعض نبی مکلَّیم نہیں ہو تے۔ اور چو نکہ اللّٰہ تعا لٰٰی نے کلا م تو سب انبیاء سے کیا ہے اس لئے اس جگہ کلام سے مرا د کلام شریعیت ہے۔ اور رَ فَعَ بَعْضَھُمْ دَرَجٰتٍ کے معنے یہ ہیں کہ بعض کو شر لعیت نہیں دی۔ ہاں نبوت کے درجہ رفیع پر ان کو سر فراز فر ما یا۔ جیسے دوسری جگہ فر ما تاہے وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَٰی الْکِتٰبَ وَ قَفَّیْنَا مِنْ بَعْدِ ہ بِا لرُّسُلِ۔(بقرہ آیت ۸۸) یعنی ہم نے مو سٰیؑ کو کتا ب دی اور اس کے بعد ہم نے اس کی تعلیم کی اشاعت کیلئے پے درپے انبیاء بھیجے۔یہ تمام انبیاء غیر تشر یعی تھے جو مو سوی شر لعیت کے تا بع تھے۔
پھر فر ماتا ہے وَ اٰتَیْنَا عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ الْبَیْنٰتِ وَاَیَّدْ نٰہُ بِرُ وْحِ الْقُدُسِ ہم نے عیسٰی بن مریم کو کھلے کھلے نشانات دئیے اور روح القدس کے ساتھ اس کی تا ئید کی۔ اس جگہ یہ نکتہ یاد رکھنے اولا ہے کہ اس سورۃ میں چو نکہ یہود مخاطب ہیں۔ اس لئے حضرت مسیحؑ کے ذکر کے سا تھ ہی ان کی بعض صفات بھی بتا دی جا تی ہیں تا کہ دشمن پر حجت ہو۔ اس سے ان کی کسی خا ص فضیلت کا اظہار مقصور نہیں ہوتا۔ جیسا کہ مسیحیوں نے سمجھا ہے۔
اَیَّدْ نٰہُ بِرُ وْحِ الْقُدُسِ فر ما کر اس امر کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ حضرت مسیحؑ کو ئی نئی شرلعیت نہیں لائے تھے بلکہ انہوں نے تورات کے بعض مضامین کو نما یاں طور پر دنیا کے سا منے پیش کیا تھا اور روح القدس سے اللّٰہ تعا لٰٰی نے ان کی تائید فر ما ئی تھی۔ کیونکہ گو مو سوی دور میں شر لعیت کی تکمیل ہو گئی تھی لیکن آ ہستہ آ ہستہ لو گوں کی نگاہ مغز ست ہٹ کر صرف چھلکے کی طرف آ گئی۔ پس حضرت عیسٰٰیؑ آئے تا کہ ایک طرف تو تورات کے احکام پر عمل کر ئیں جیسا کہ انہوں نے خود کہا ہے:۔
’’ یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتا بوں کو منسو خ کر نے آ یا ہوں۔ منسوخ کر نے نہیں بلکہ پورا کر نے آ یا ہوں‘‘۔(متی باب ۵ آ یت ۱۷)
اور دوسری طر ف وہ لوگ جو با لکل اس کے چھلکے کو پکڑ کر بیٹھ گئے تھے ضروری تھا کہ ان کی اصلاح کی جاتی ۔ اور اس نکتہ کو کھول کر بیان کیا جاتا کہ ظاہری شرلیعت اس دنیا کی زندگی کو درست کر نے کے لئے ہے ۔ ورنہ اصل چیز صرف با طنی صفائی اورپا کیزگی اور تقدس ہے۔ سواللہ تعالیٰنے حضرت عیسٰیؑ سے یہ کام لیا۔ انہوں نے ایک طرف تو مو سوی احکام کو دوبارہ اصل شکل میں قائم کیا اور دوسری طرف جو لاگ قشر کی اتباع کر نے اولے تھے انہیں بتا یا کہ اس ظاہر کا ایک با طن ہے ۔ اگر اس کا خیال نہ رکھا جائے تو ظاہر *** بن جاتا ہے۔ نما زیں بڑی اچھی چیز ہیں لیکن اگر تم صرف ظاہری نماز ہی پڑھو گے اور با طنی نہیں پڑھو گے تو وہ نماز تمہارے لئے
یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ


*** بن جا ئیگی روزہ بڑی اچھی چیز ہے لیکن اگر تم ظاہری روزہ کے سا تھ با طنی روزہ نہ رکھو گے تو یہ ظاہری روزہ *** بن جا ئیگا یہ وہی بات ہے جو قرآن کریم میں اللّٰہ تعالٰی نے ان الفاظ میں بیان فر مائی ہے کہ وَیْل’‘ لِّلْمُصَلِّیْنَ( ما عون آیت۵) یعنی بعض نمازیں پڑھنے والے ایسے ہیں کہ نماز ان کے لئے ویل اور *** بن جا تی ہے۔ مسلمانوں کو رسول کریمﷺ نے چو نکہ پوری بات کھول کر بتا نا بھی حضرت عیسٰیؑ کی پیشگوئی کے مطا بق تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ جب وہ روح حق آ ئے تو وہ تمہیں ساری سچائی کی راہ بتا ئے گی اس لئے کہ وہ اپنی نہ کہے گی بلکہ جو کچھ سنے گی سو کہے گی(یو حنا باب ۱۶ آیت ۱۳) بہر حال رسول کریمﷺ کے بات کو واضح کر نے کی وجہ سے با وجود اس کے کہ آ پ نے بھی وہی بات کہی تھی جوحضرت مسیحؑ نے کہی تھی مسلمانوں کو دھو کا نہ لگا۔ اور انہوں نے شر لعیت کو *** نہ قرار دیا۔ بلکہ صرف اس عمل پر شر لعیت کو *** قراد دیا۔ جس کے ساتھ دل کا تقدس اور اخلاص اور تقویٰ شامل نہ ہو۔ مگر مسیحیوں نے حضرت مسیحؑ کے کلام سے دھوکا کھا یا۔ اور جب ان کی روحانیت کمزور ہوئی تو انہوں نے اپنی کمزوری کے اثر کے ماتحت غلط تاویلوں کا راستہ اختیار کر لیا۔ اور شرلعیت کو *** قراد دینے لگے اور یہ خیال نہ کیا کہ اگر وہ *** ہے تو حضرت عیسٰیؑ اور ان کے حواری روزے کیوں رکھتے تھے۔ عبادتیں کیو کر تے تھے۔ ان امور سے صاف پتہ لگرا ہے کہ وہ ظاہری عبادت کو *** نہیں سمجھتے تھے بلکہ یہ سمجھتے تھے کہ اگر ظاہر کے ساتھ باطن کی اصلاح نہ کی جا ئے تو وہ ظاہر *** بن جاتا ہے۔
غر ض اَیَّدْ نٰہُ بِرُوْحِ الْقُدْسِ کے یہ معنے ہیں کہ حضرت عیسٰیؑ پر پا کیزگئی قلب کے خاص راز ظاہر کئے گئے تھے اور قروسیت اور با طنی تعلیم پر زور دینے کے لئے ان کو خا ص طور پر کم دیا گیا تھا۔ اور ظاہری احکام کی با طنی حکمتیں انہیں سمجھا ئی گئی تھیں۔ گویا ان کے دور میں تصوف نے زما نہ بلو غت میں قدم رکھنا شروع کر دیا تھا۔
وَلَوْ شَآئَ اللّٰہُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِیْنَ مِنْ بَعْدِ ھِمْ مِّنْ بَعْدِ مَاجَآئَ تْھُمُ وَلٰکِنِ اخْتَلَفُوْا میں بتا یا کہ اتنے نبیوں کے واقعات دیکھنے کے بعد چاہیے تو یہ تھا کہ یہ لوگ سنبھل جاتے اور آ ئندہ ان کے بارہ میں کو ئی مخالفانہ رویہ اخیتار نہ کرتے۔لیکن اس رسول کے آ نے پر انہوں نے پھر اختلاف کیا۔ اور بعض تو ایمان لے آئے اور بعض نے انکار کر دیا۔
وَلَوْشَآئَ اللّٰہُ مَا اقْتَتَلُوْ اوَلَکِنَّ اللّٰہَ یَفْعَلُ مَا یُرِ یْدُ۔ اور اگر اللّٰہ چا ہتا یعنی لو گوں کو جبراً ہدایت دینا چا ہتا۔ تو کوئی اختلاف نہ ہو تا۔مگر چو نکہ انسان کی پیدا ئش کی غرض ہی یہی تھی کہ اسے آ زاد نہ طور پر نیکی اور بدی میں حصہ لینے کا مو قعہ دیاجائے اوراللّٰہ تعا لٰٰی یہ فیصلہ فر ما چکا تھا کہ ہم انسان کو خیر کی بھی مقدرت دینگے اور شرکی بھی ۔ اور پھر جو رستہ وہ اختیار کریگا اس کے مطا بق ہم اسے نیک یا بد جزا دیں گے۔ اس لئے وہ اس فیصلہ کے مطا بق کام کرتا چلا جاتا ہے اور لو گاں کے اعتراضوں کی پرواہ نہیں کرتا۔
الظّٰلِمُوْنَo
۱۶۴؎ حل لغات:۔ خُلَّۃ’‘:۔ اَلْخُلَّۃُ کے معنے ہیں اَلصَّدَاتَۃُ دوستی اور محبت اور تَخَلَّلَتِ الْقَلْبِکے معنے ہیں۔ دَخَلَتْ خِلٰلَہ‘ وہ دوستی اور محبت جو دل کے اندر گھس کر اس کے سورا خوں میں داخل ہو جائے۔(مجمع الجا ر) الْخَلِیْلُ مَنْ خُلَّتُہ‘ مَقْصُوْرَۃ’‘ عَلٰی حُبِّ اللّٰہِ تَعَا لٰی فَلَیْسَ فِیْھَا لِغَیْرِ ہ مُتَّسَع’‘ وَلَا شِرْکَۃ’‘ مِنْ مَحَابِّ الدُّنْیَا وَالْاَخِرَۃِ( مجمع البحار) خلیل اُسے کہتے ہیں جس کی محبت صرف اللّٰہ تعالٰی ہی کے سا تھ ہو اور اس کے دم میں اس محبت کے سوا اور کسی کی محبت نہ ہو۔ حدیث میں آ نحضرتﷺ کا یہ قول درج ہے کہ اِنِّیْ اَبْرَئُ مِنْ کُلِّ ذِیْ خُلَّۃٍ مِنْ خُلَّتِہ لَوْ کُنْتُ مُتَّخِذً اخَلِیْلاً لَاتَّخَذْتُ اَبَا بَکْرٍ۔ یعنی میں ہر شخص کی دوستی سے براء ت کا اظہار کر تا ہوں اور صرف خدا تعالٰی کی طرف تو جہ کر تا ہوں ۔ اگر دنیا میں مَیں کسی کو خلیل بنا تا تو ابو بکرؓ کو بنا تا۔
شَفَا عَۃ’‘: شَفَعَ سے نکلا ہے اور شَفَعََ کے معنے جفت کے ہیں۔ یُقَالُ شَفَعَ الْعَدَدَ وَشَفَعَ الصَّلٰٰوۃَ صَیَّرَھَا شَفَعًا۔ یعنی شَفَعَ الْعَدَدَ کے معنے ہیں عدد کو جفت بنا یا اور شَفَعَ الصَّلٰو ۃَ کے معنے ہیں نماز کو جوڑا بنا دیا۔
تفسیر:۔ اس آ یت سے ظا ہر ہے کہ اسلام نے صرف زکوٰ ۃ اور مال غنیمت کے اموال سے ہی غرباء اور مسا کین کی امداد کے لئے ایک فنڈ مقرر کر ے پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ مسلما نوں کو عام طور پر بھی غر یبوں اور نا داروں کے لئے صدقہ و خیرات کر نے کی بار بار تا کید فر ما ئی ہے۔ اور بتا یا ہے کہ تمہارے سا تھ تر قیات کے جو وعدے کئے گئے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے کہیں یہ نہ سمجھ لینا کہ ہمیں اب مزید قر با نیوں کی ضرورت نہیں قربانیوں تمہیں قدم قدم پر کر نی پڑیں گی اور قدم قدم پر تمہں اپنے اموال خدا تعالٰی کی راہ میں خر چ کر نے پڑیں گے۔
لَا بَیْع’‘ فِیْہِ وَلَا خُلَّۃ’‘ وَلَا شَفَا عَۃ’‘ میں جس بیع کی طرف اشارہ ہے اس کا ذکر دوسری جگہاللہ تعالیٰنے ان الفا ظ میں فر مایا ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ اشْتَریٰ مِنَ الْمُئْو مِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَ اَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ( تو بہ آ یت ۱۱۱) یعنی اللّٰہ تعالٰٰی نے مو منوں سے ایک بیع کی ہے اور وہ یہ کہ ان کے مالوں اور جا نوں کو جنت دیکر خرید لیا ہے۔ پس فر ما یا خدا تعالٰی تم سے یہ بیع کر تا ہے۔مگر یہ بیع اسی دنیا میں ہو گی اس دن نہیں ہو گی۔
وَ لَاخُلَّۃ’‘ میں بتا یا کہ قیا مت کے دن خدا تعالٰی کے سوا سب خلیل جا تے رہیں گے۔یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم مین تو دوسری جگہ آ تا ہے۔ اَلْاَخِلَّآئُ یَوْمَئِذٍ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ عَدُ وّ’‘ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَ( زخرف آیت ۶۸) یعنی متقیوں کے سوا تمام خلیل ایک دوسرے کے دشمن ہو نگے۔ پھر جب متقیوں کی دوستی رہے گی تو لَاخُلَّۃ’‘ کا کیا مطلب ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ متقی چو نکہ خدا تعالٰی کو ہی اپنا خلیل سمجھتے ہیں اس لئے ان کی دوستی خدا تعالٰٰی کی دوستی میں شا مل ہو گی اس کا کو ئی علٰیحدہ وجود نہیں ہو گا جو وَلَاخُلَّۃ’‘ کے منا فی ہو۔ اصل مضمو ن جس کی طرفاللہ تعالیٰ کے لو گوں کو توجہ دلائی ہے وہ یہ ہے کہ آ ج اگر خدا تعالٰی کو خلیل بنا نا ہے تو بنا لو ورنہ اس دن وہ خلیل نہیں بنے گا۔ اور آج جنکو تم اپنا خلیل بنا رہے ہو ان کی خلت اور دوستی اس دن تمہارے کسی کام نہیں آ ئیگی۔ بلکہ تم ان کے دشمن بن جاؤ گے۔ صرف متقی ہی ایسے ہو نگے جو اپنے خلیل کے دشمن نہیں ہو نگے۔ کیو نکہ مومن کا خلیل خدا تعالٰی ہو تا ہے۔پس وَلَاخُلَّۃ’‘ سے مراد وہ خلت ہے جو خدا تعالٰی کے مقا بلہ میں کسی دوسرے سے کی جائے۔
وَلَا شَفَا عَۃ’‘ میں بتا یا سا تھی بنا لو۔ ورنہ وہاں تمہیں کو ئی سا تھی نہیں ملیگا۔ دوسری جگہ فر ما تا ہے۔ وَ اَنْذِرْ بِہِ الَّذِیْنَ یَخَا فُوْنَ اَنْ یُّحْسَرُوْ آاِلٰی رَبِّھِمْ لَیْسَ لھُمْ مِّنْ دُوْنِہ وَ لِيّ’‘ وَّ لَا شَفِیْع’‘ لَّعَلَّھُمْ یَتَّقُوْنَ( انعام آیت۵۲) یعنی تو اس کلام کے ذریعہ سے ان لو گوں کو جو اس بات سے ڈرتے ہیں کہ انہیں ان کے رب کی طرف اکٹھا کر کے لے جایا جائیگا جب کہ اس کے سوا نہ ان کا کو ئی مدد گار ۔۔۔۔ ہو گا اور نہ کو ئی سفا رشی اس لئے ڈرا کہ وہ تقویٰ اختیار کر یں۔
اسی طرح ایک اور جگہ فر ماتا ہے۔وَ ذَکِّرْ بِہٓ اَنْ تُبْسَلَ نَفْس’‘ بِمَا کَسَبَتْo لَیْسَ لَھَا مِنْ دَوْنِ اللّٰہِ وَلِیّ’‘ وَّّ لَا شَفِع’‘ وَ اِنْ تَعْدِلْ کُلَّ عَدْلٍ لَّا یُئْوخَذْ مِنْھَا(انعام آیت۷۱) یعنی تو اس کلام الہٰی کے ذریعہ سے نصحیت کر۔تا ایسا نہ ہو کہ کسی جان کو اس کے کمائے ہوئے کے سبب سے اس طرح ہلاکت میں ڈال دیا جائے کہ خدا تعالٰی کے سوا اس کا نہ کوئی مددگار ہو اور نہ شفیع۔ اور اگر وہ ہر ایک قسم کا بدلہ بھی دیں۔ تو ان سے قبول نہیں کا جائے گا۔
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا میں خدا تعالٰی کو دلی اور شفیع بنا نیوالوں کو تو اس دن شفاعت کا حق پہنچیگا لیکن دوسروں کو نہیں اور نہ انکے حق میں شفاعت قبول ہو گی۔ خدا تعالٰی کو شفیع اسلئے قرار دیا کہ اسکی اجا زت کے بغیر شفاعت نہیں ہو سکتی پس اصل شفیع وہی ہے فرما تا ہے یَوْمَئِدٍ لَّا تَنْفَعُ الشَّفَا عَۃُ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَ رَضِیَ لَہ‘ قَوْ لًا(طٰہٰ آیت ۱۱۰) یعنی اسدن شفا عت سوائے اسکے جس کے حق میں شفاعت کر نیکی اجا زت رحمٰن خدا دیگا اور جس کے حق میں بات کہنے کو وہ پسند کریگا اور کسی کو نفع نہیں دیگی۔ اس سے ثابت ہو تا ہے کہ وہاں شفاعت با لا ذن ہو گی۔ خدا تعالٰی کے اذن کے بغیر شفاعت کا حق نہیں ہو گا۔ دوسری جگہ فر ما تا ہے۔یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَ مَا خَلْفَہُمْ وَلَا یَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی وَ ھُمْ مِّنْ خَشْیَتِہ مُشْفِقُوْنَ(انبیاء آ یت ۲۹) یعنی خدا تعالٰی اس کو بھی جا نتا ہے جو انہیں آ ئندہ پیش آ نیوالا ہے اور جو وہ پیچھے چھوڑ آئے ہیں اور وہ سوائے اسکے جس کے لئے خدا نے یہ بات پسند کی ہو کسی کیلئے شفاعت نہیں کر تے اور وہ اس کے خوف سے لندتے رہتے ہیں۔پھر اس آ یت سے اگلی آ یت میں فر ماتا ہے مَنْ ذَاالَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہ‘ اِلَّا بِاِ ذْنِہ( سورۃ بقرہ آیت ۲۵۶) یعنی کون ہے جو اس کی اجا زت کے بغیر اس کے حضور کسی کی سفارش کرے۔
بیشک خد یثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قیا مت کے دن آنحضرت ﷺ اور انبیاء سا بقین کے علاوہ آنحضرتﷺ کے بعض امتی بھی شفاعت کر ینگے۔ لیکن ان حدیثوں کے بارے میں میری تشریح یہ ہے کہ امت محمدیہ میں ایسے افراد کی شفاعت صرف ظللی ہو گی اصل شفع آ نحضرتﷺ ہی ہو نگے۔ وہ محمد رسول اللّٰہﷺ سے سفا رش کے ینگے اور آپ اللّٰہ تعالٰٰی سے ۔ با نی سِلسلہٰ احمد یہ نے بھی اسی عقیدہ کی تو ضیح فر ما ئی ہے آپ اپنی کتاب کشتی توح میں فر ما تے ہیں۔
’’ نوع انسان کیلئے روئے زمین پر اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفٰےﷺ۔ سو تم کو شش کرو کہ سچی محبت اس جا ہ و جلال کے نبی کے ساتھ رکھو۔ اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو۔ تا آ سمان پر تم نجا ت یا فتہ لکھے جاؤ۔‘‘
بہر حال جب تک کو ئی انسان اللّٰہ اور اس کے رسول سے و اصل نہ ہو جائے اور ان کو اپنا جوڑا نہ بنا لے اس وقت تک اسے کسی قسم کی شفاعت میسر نہیں آ ئیگی۔
اَللّٰہُ لَآ اِ لٰہ




الْعَظِیْمُo
وَ الْکٰفِرُ وْنَ عُلُم الظّٰلِمُوْنَ میںبتا یا کہ یہ ظلم نہیں بلکہ ظلم کفار نے خود اپنی جا نوں پر کیا ہے۔
۱۶۵؎ حل لغات:۔ اَلْحَیُّ: کامل حیات والا۔ اللّٰہ تعالٰٰی کے لئے جب اَلْحَيُّ آ تا ہے تو الف لام کمال کے معنے دیتا ہے اور اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اللّٰہ تعالٰٰی حیاتِ کاملہ رکھتا ہے یعنی ایسی حیات جو اپنے قیام میں کسی اور کی محتا ج نہیں۔ اسے کسی اور نے زندگی نہیں بخشی بلکہ اس کی ذات ازلی اور ابدی طور پر زندہ ہے۔
اَلْقَیُّوْمُ: قَامّ سے نکلا ہے جس کے معنے کھڑے ہو نے کے ہیں۔ اسی سے قَیِّم’‘ نکلا ہے جس کے معنے نگران اور متولّی کے ہیں اور قَیِّم’‘ مُسْتَقِیْم’‘ کو بھی کہتے ہیں۔ اَمْر’‘ قَیِّم’‘ ایسا امر جس میں کوئی کبھی نہ ہو بلکہ درست اور ٹھیک ہو۔
اَلْقَیُّوْمُ اور اَلْقَیَّامُ کے معنے ہیں جو اپنی ذات میں قا ئم ہے اور اس کی کو ئی ابتداء نہیں (اقرب) اَلْقَیُّوْمُ صرف اسی کو نہیں کہتے جو اپنی ذات میں قا ئم ہو بلکہ اس کے معنوں میں دوسرے کو قائم رکھنا اور اس کی حفاظت کر نا بھی شامل ہے۔ مفردات میں لکھا ہے۔اَلْقَائِمُ: اَلْحَا فِظُ بِکُلِّ شَیْ ئٍ وَ الْمُعْطِیْ لَہ‘ مَا بِہ قِوَ امُہ‘ یعنی جو اپنی ذات میں قا ئم ہو اور ہر چیز کا نگران ہو اور اسے وہ طاقت عطا کرے جس سے وہ قائم ہو اور ہر چیز کا نگرانہو اور اسے وہ طاقت عطا کرے جس سے وہ قائم رہ سکے۔ غر ض اشیاء میں وہ طاقتیں یدا کر نا جن سے ان کے اجزاء جڑے رہتے ہیں اور اپنے مفوضہ کاموں کو بجا لاتے ہیں قَیُّوْم سے متعلق ہے۔ اور اللّٰہ تعالٰٰی اَلْقَیُّوْمُ ہے۔ نہ صرف اس لئے کہ وہ خود قا ئم ہے بلکہ اس لئے بھی کہ دوسری سب اشیاء اس کی پیدا کردہ طاقتوں سے قا ئم رہتی ہیں۔ اَلْقَیُّوْمُ کی صفت اجرام فلکی میں کشش ثقل کے وجود اور خور دبینی ذرات کے ایک دوسرے اتصال اور ایک دوسرے سے اوغام اور ایک دوسرے کے گر د گھو منے وغیرہ افعال پر لطیف رنگ میں اشارہ کر تی ہے۔
سِنَۃ’‘:۔ اَلسِّنَۃُ مِنَ الْوَ سْنِ۔ سِنَۃ کا لفظ وَسْن سے نکلا ہے اور وَسَنَ الرَّجُلُ کے معنے ہو تے ہیں اَخَذَہ‘ ثِقْلُ النَّوْمِ۔ اسے گہری نیند نے آ پکڑا جس کی علامت اونگھ ہوتی ہے۔ پس سِنَۃ’‘ سے مراد وہ اونگھ ہے جو نیند کے غلبہ کی وجہ سے آنے لگے۔
اَلنَّوْمُ: معمولی نیند جو انسان کے بے اختیار نہ کردے۔
اَلْکُرْ سِیُّ: کِرْسی سے نکلا ہے جس کے معنے متفر ق اجزاء کے اکٹھا ہو نے کے ہو تے ہیں۔ کہتے ہیں کَرَ سْتُ بِنَائً۔ میں عمارت بنائی،یعنی اینٹوں پر اینٹیں رکھیں۔ اور کُرْسِی’‘ علم کو بھی کہتے ہیں اور حکومت کو بھی (مفردات) اس لفظ کی اصل سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل مین اس کے معنے جمع کر نے اور اکٹھا کر نے کے ہیں۔ اور چو نکہ علم بھی پراگندہ اجزاء کو جمع کر لیتی ہے اس لئے اسے بھی کر سی کہتے ہیں۔
تفسیر:۔ ان آ یات میں پہلی بات جس کی طرف انسان کو متوجہ کیا گیا ہے اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ہے یعنی اے انسان! خدا کو دیکھ کہ صرف ہی تیرا معبود ہے اس کے سوا اور آدمی تیرا معبود نہیں ہے۔
دنیا میں ہر ایک چیز کی قدر اس کی کم یا بی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ مثلاً پا نی ایک بہت ضروری چیز ہے مگر لوگ اسے سنبھال کر نہیں رکھتے۔کیو نکہ وہ جا نتے ہیں کہ جس وقت اس کی ضرورت پڑے گی اسی وقت مل جائیگا ۔ ہوا صحت کے لئے کیسی ضروری چیز ہے مگر کو ئی انسان اس کو سنبھال لتا نہین کیو نکہ وہ جانتا ہے کہ جب اس کی ضرورت ہو گی و خود ہی ناک اور منہ کے راستے اندر چلی جائیگی۔ لیکن یہی پا نی جس کی عام طور پر قدر نہیں کی جاتی اور کو ئی قیمتی چیز معلوم نہیں ہوتی ایک ایسے جنگل میں جہاں پا نی کا نام و نشان نہ ہو نہا یت قیمتی ہو جاتا ہے اور اگر اس وقت کسی کے پاس ایک گلا س پانی ہو تو وہ بہت بڑی قیمت پر بھی کسی کو نہیں دیتا ۔ تو ہر چیز کی قیمت اس کی ضرورت کے مطا بق گھٹتی بڑھتی ہے ۔ دیکھو غلہ جس وقت زیادہ ہوتا ہے اس وقت سستا ہوتا ہے اور جب کم ہو تا ہے تو مہنگا ہو جاتا ہے اسی طرح اگر دنیا میں کئی خدا ہوتے تو کو ئی کہ سکتا تھا کہ ایک نہ ملا تو اور مل جائیگا۔ مگر فر مایا۔صر ف ایک ہی اللّٰہ ہے ۔ اگر کو ئی کہے کہ اس کو چھوڑ کر کسی اور کی تلا ش کر لو نگا تو ایسا نہیں ہو سکتا کیو نکہ اللّٰہ ایک ہی ہے دو نہیں۔ تین نہیں۔ چار نہیں یا ہزاروں لاکھوں نہیں ۔ جب ایک ہی اللّٰہ ہے تو اس کو چھوڑ کر اور کہاں جاؤ گے ۔پھر ہر وقت تمہیں اس کی ضرورت ہے اور ہر لمحہ تم اس کے محتاج ہو۔ دنیا میں لوگ بعض دفعہ با دشاہوں کو ناراض کر لیتے ہیں اور وہ جا نتے ہیں کہ کیا ہوا اگر یہ با دشا ہ نا راض ہو گیا ہے تو اس کے ملک کو چھوڑ کر دوسرے کے ملک میں چلے جا ئیں گے چین کا بادشاہ اگر ظالم ہے تو انگلستان میں پناہ لے سکتا ہے ۔لیکن اللّٰہ تعالٰٰی سے بھاگ کر وہ کہاں جائیگا۔ کیو نکہ کو ئی زمین ایسی نہیں جو خدا کے قبضہ میں نہ ہو۔ پھر کوئی دوسرا خدا نہیں کہ انسان اس کی مدد حاصل کر نے کی کو شش کرے۔ ہندوؤں کا خیال ہے کہ کئی خدا ہیں اور ان کے خدا ؤں میں جھگڑے بھی ہو تے رہتے ہیں۔ چنا نچہ مشہور ہے کہ شِوْ نے ایک آ دمی پر ناراض ہو کر اسے مار ڈالا ۔ لیکن وہ بر ہما خدا کا پیارا تھا اس نے کہا ہم پیدا کر نے والے ہیں ہم اس کو زندہ کر لیں گے چنا نچہ بر ہما نے اسے زندہ کر دیا ۔ مگر شو نے اسے پھر مار دیا۔ اور بر ہما نے پھر اسے زندہ کر دیا۔ غرض شو اسے مارتے جاتے ار بر ہما زندہ کر تے جا تے۔یہی ان کا جھگڑا لگا رہا۔ یہ ہندوؤں کے خیا لات ہیں۔ مگر ہمارے ہاں تو ایسے خدا ہی نہیں ہیں کہ ایک مارے اور دوسرا زندہ کرے۔ ایک نا راض ہو تو دوسرا راضی ہو جائے۔ دیکھو ایک ملا زم اپنے آ قا کو جواب دے سکتا ہے کہ میں تمہاری ملا زمت نہیں کرتا کیو نکہ اسے دوسری جگہ ملازمت مل جاتی ہے ۔ مگر ہم خدا تعالٰی کو یہ نہیں کہ سکتے کیو نکہ وہ ایک ہی آ قا ہے اور اس کے سوا اور کو ئی آ قا نہیں۔پھر ہمارا خدا ایک زندہ خاد ہے اور ہمیشہ زندہ رہیگا و ہ آ دم کے زما نہ میں بھی زندہ تھا ور نوحؑ کے زما نہ میں بھی زندہ تھا۔ وہ ابراہیمؑ کے زما نہ میں بھی زندہ تھا۔ وہ مو سٰیؑ کے زمانہ میں بھی زندہ تھا۔ وہ عیسٰیؑ جت ز ما نہ میں بھی زندہ تھا۔ وہ محمد رسول اللّٰہﷺ کے زما نہ میں بھی زندہ تھا اور وہ آ ج بھی زندہ ہے اور اگر دنیا اور ہزار سال تک قا ئم رہے گی تو ہزار سال تک اور اگر ایک کڑور سال تک قائم رہے گی تو ایک ارب سال تک وہ اپنی زندگی کے نشا نات دکھاتا چلا جائیگا۔ کیونکہ وہ حَیيّ و قَیُّوْمُ خدا ہے اور وہ لَا تَاْ خِذُہ‘ وسِنَۃً وَّ لا نَوْ م’‘ کا مصداق ہے ۔ اسپر اونگھ اور نیند ہی نہیں آ تی تو اس کے زندہ نشانات کا سلسلہ کس طرح ختم ہو سکات ہے۔ جب ایسے خدا سے انسان اپنا تعلق پیدا کر لیتا ہے تو اس کی ضرورتوں کا وہ آپ کفیل ہو جاتا ہے اور ہمیشہ اسکی تا ئید کے لئے اپنے غیر معمولی نشا نات ظاہر کر تاہے۔
ہم نے دیکھا ہے حضرت خلیفہ اوّلؓ کے پاس اگثر لوگ اپنی اما نتیں رکھواتے تھے اور آپ اس میں سے ضرورت پر خرچکر تے رہتے تھے۔ آ پ جر ما یا کر تے کہ اللّٰہ تعالٰٰی ہمیں اپنے فضل سے اس طرح رزق دیتا رہتاہے بعض دفعہ ہم نے دیکھا کہ اما نت رکھوا نے والا آ پ کے پاس آتا اور کہتا ہے مجھے روپیہ کی ضرورت ہے۔ میری اما نت مجھے واپس دیدی جائے۔ آٓپ کی طییعت بڑی سادہ تھی۔ اور معمو لی سے معمولی کا غذ کو بھی آ پ ضا ئع کر نا آپ پسند نہیں فر ماتے تھے۔ جب کی نے مطا لبہ کر نا توآپ نے ردی سا کا غذ اٹھا نا اور اس پر اپنے گھروالوں کو لکھد ینا کہ اما نت میں سے دو سو روپیہ بھجو ا دیا جائے ۔ اندر سے بعض دفعہ جوا ب آ تا کہ روپیہ تو خرچ ہو چکا ہے یا اتنے روپے ہیں اور انتے روپوں کی کمی ہے۔ آپ نے اسے فر ما نا کہ ذرا ٹھہر جاؤ۔ ابھی روپیہ آ جاتا ہے ۔ اتنے میں ہم نے دیکھنا کہ کو ئی شخص دھو تی باندھے ہوئے جوبا گڑھ یا بمبئی کا رہنے والا چلا آ رہا ہے اور ا نے آ کر اتنا ہی روپیہ آپ کو پیش کر دینا۔
ایک دن تو لطیفہ ہوا کسی نے اپنا روپیہ ما نگا اس دن آ پ کے پا س کو ئی رپیہ نہیں تھا۔ مگر اسی وقت ایک شخص علاج کیلئے آ گیا۔ اور اس نے ایک پڑیہ میں کچھ رقم لپیٹ کر آ پ کے سامنے رکھدی۔ حافظ روشن علی صا حبؓ کو علم تھا کہ روپیہ ما نگنے والا کتنا روپیہ مانگتا ہے آ پ نے حافظ صا حبؓ سے فر ما یا دیکھو اس میں کتنی رقم ہے۔ انہوں نے گنا تو کہنے لگے بس اتنی ہی رقم ہے جتنی رقم کی حضور کو ضرور تھی۔ آ پ نے فر ما یا یہ اس کو دے دو۔ اسی طرح آ پ ایک پرانے بزرگ کا وا قعہ سنا یا کر تے تھے کہ ایک دفعہ ایک قر ضخواہ ان کے پا س آ گیا۔ اور اس نے کہا کہ آپ نے میری اتنی رقم دینی ہے اور اس پر اتنا عرصہ گذر چکا ہے اب آپ میرا روپیہ ادا کر دیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے پاس تو ہے نہیں جب آ ئیگا دیدونگا۔ وہ کہنے لگا۔ تم بڑے بزرگ بنے پھرتے ہو اور قر ض لے کر ادا نہیں کرتے یہ کہاں کی شرافت ہے۔ اتنے میں وہاں ایک حلوا بیچنے والا لڑکا آ گیا۔ انہوں نے اس سے کہا کہ آ ٹھ آنے کا حلوہ دیدو۔ لڑکے نے حلوہ دیدیا اور انہوں نے وہ حلوہ اس قارض کو کھلا دیا۔ لڑکا کہنے لگا کہ میرے پیسے میرے حوالے کیجئیے۔ وہ کہنے لگے تم آ ٹھ آ نے مانگتے ہو اور میر ے پاس تو دو آ نے بھی نہیں۔ وہ لڑکا شور مچا نے لگ گیا۔ یہ دیکھ کر وہ قرض خواہ کہنے لگا کہ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ میری رقم تو ماری ہی تھی اس غریب کی اٹھنی بھی ہضم کر لی۔ غرض دو دونوں شور مچا تے رہے اور وہ بزرگ اطمینان سے اپنی جگہ بیٹھے رہے۔ اتنے میں ایک شخص آ یا اور اس نے اپنی جیب میں سے ایک بڑیہ نکال کر انہیں پیش کی۔ اور کہا کہ فلاں جیب میں سے ایک پڑیہ نکال کر پیش کی۔ اور کہا کہ فلاں امیر نے آ پ کو نذرانہ بھیجا ہے۔ انہوں نے اسے کھو لا تو اس میں روپے تو اتنے ہی تھے جتنے قر ضخواہ ما نگتا تھا مگر اس میں اٹھنی نہیں تھی۔ کہنے لگے۔ یہ میری پڑ یہ نہیں اسے واپس لے جاؤ۔ یہ سنتے ہی اس کا رنگ فق ہو گیا۔ اور اس نے جھٹ اپنی جیب سے ایک دوسری پڑ یہ نکالی اور کہنے لگا مجھ سے غلطی ہو گئی ہے ۔ آ پ کی پڑ یہ یہ ہے۔ انہوں نے اسے کھو لا ۔ تو اس میں اتنے ہی روپے تھے جو قار ض ما نگ رہا تھا اور ایک اٹھنی بھی تھی ۔ انہوں نے دونوں کا بلا یا۔ اور وہ روپے انہیں دے دئیے۔ غر ض زندہ خدا اپنے بندوں کی تا ئید میں ہمیشہ اپنے نشا نات دکھا تا رہتا ہے۔
پھر وہ اَلْقَیُّوْم ہے۔ کو ئی کہ سکتا ہے کہ اب تو میرا یہ آ قا ہے لیکن پہلے میں فلاں کے پاس ملازم رہ چکا ہوں۔ اس لئے اس کا بھی مجھ پر احسان ہے اور میرے لئے اس کی قدر کرنا بھی ضروری ہے ۔ خدا تعالٰی فر ما تا ہے کہ میں تمہارا آج خدا نہیں بنا بلکہ ہمیشہ قا ئم رہنے والا اور تمہیں قا ئم رکھنے والا ہوں۔ اس لئے تم پر میرا ہی احسان ہے کسی اور کا احسان نہیں۔
پھر فر ماتا ہے لاَ تَاْ خُذُہ‘ سِنَۃً وَّلَا نَوْم’‘ ممکن ہے کو ئی کہے کہ مان لیا خدا ایک ہی ہے اس کے سوا اور کوئی نہیں۔ وہ ہمیشہ زندہ ہے ۔ اور وہی ہمارا پہلے آ قا تھا اور وہی اب بھی ہے۔مگر ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ خدا کو نیند آ ئے اور وہ سو جائے۔ اور اس وقت اس کی جگہ اس کے درباری کام کریں۔ اس لئے انہین بھی خو ش رکھنا چاہیے اور ان کی بھی خو شامد کر نی چا ہیے۔ اللّٰہ تعالٰی فر ما تا ہے۔ تمہارا وہ اللّٰہ ہے کہ اس کو کبھی اونگھ اور نیند نہیں آ تی تم اس کو دنیوی با دشا ہوں اور حا کموں کی طر ح نہ سمجھو۔جہاں تمہیں درباریوں کی خو شامد کر نی پڑتی ہے۔ تمہارا خدا ایسا نہیں کہ کبھی اسے اونگھ آ ئے یا وہ سو جائے۔ وہ ہر وقت جا گیا ہے اور ہر ایک بات کا خود نگران ہے۔
اس میںاللّٰہ تعالٰی نے کیا ہی لطیف بات بیان فر مائی ہے فر ما تا ہے۔اَ تَاْ خُذُہ‘ سِنَۃً وَّلَا نَوْم’‘ کہ اس کو نہ اونگھ آ تی ہے نہ نیند۔ تر تیب کلام کا یہ قا عدہ ہے کہ پہلے چھو ٹی باتو ں کا ذکر ہو تا ہے۔ پھر بڑی بات کا ۔ اگر اس کے خلاف کے اجائے تو کلام غلط ہو جاتا ہے۔مثلاً یہ تو کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص سخت بیمار نہیں تھا بلکہ وہ تو کچھ بھی بیمار م نہ تھا۔لیکن اگر یہ کہا جائے کہ فلاں شخص کچھ بیمار نہیں تھا بلکہ وہ تو زیادہ بیمار بھی نہ تھا تو فقرہ غلط ہو جاتا ہے ۔ کیو نکہ پہلے بڑا اور پھر چھو ٹا درجہ بیان کیا جاتا ہے۔ مگر یہاںاللہ تعالیٰفر ما تا ہے کہ نہ اسے اونگھ آ تی ہے اور نہ نیند۔ حالا نکہ جب اونگھ کی نفی کر دی گئی تھی تو نیند کی خود ہی نفی ہو جاتی ہے۔ پھر نیند کی نفی کی کیا ضرورت تھی؟ سو یاد رکھنا چا ہیے کہ اس میں ایک حکمت ہے۔ اور وہ یہ کہ سِنَۃ’‘ اس کو کہتے ہیں کہ جب سخت نیند کی وجہ سے انسان کی آ نکھیں بند ہو جائیں۔ چنا نچہ جب انسان کو بہت زیادہ نیند آ ئی ہو ئی ہو اس وقت اونگھ آ تی ہے۔ اور جب تک نیند کی غلبہ نہ ہو اونگھ نہیں آ تی۔ تو فر ما یا کہ خدا تعالٰی کو کبھی اونگھ نہیں آ تی کہ کام کر نیکی وجہ سے وہ تھک گیا ہو۔ اور اس پر نیند کا ایسا غلبہ ہو کہ اس کی آ نکھیں بند ہو گئی ہوں اور نہ اسے معمولی ییند آ تی ہے۔ غر ض تر تیب بیان کے لحا ظ سے سِنَۃ’‘ کا ہی پہلے ذکر آ نا ضروری تھا۔ اور نوم کا بعد میں۔
پھر فر ما یا۔ لَہ‘ مَا فِی الَّسمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ تمہارا آ قا ایسا ہے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب کچھ اسی کا ہے۔ ایسی صورت میں تم اس کے مقا بلہ میں کسی اور کو اپنا آ قا کس طر ح بنا سکتے ہو۔پھر بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم خدا تعالٰی کے سوا اور کسی کی عبادت تو نہیں کر تے ہاں دوسروں کو بیازیں دیتے اور ان سے مرادیں ما نگتے ہیں ۔ کیو نکہ وہ خدا تعا لٰی کے مقرب ہیں ۔ اور وہ خدا تعالٰی کے حضور ہماری شفاعت کریں گے۔ خدا تعالٰی فر ما تا ہے مَنْ ذَاالَّذِ یْ یَشْفَعُ عِنْدَہ‘ٓ اِلَّا بِاِ ذْ نِہ۔ ہمارے حکم کے بغیر تو کو ئی شفا عت ہی نہیں کر سکتا۔ پس تمہاری یہ امید بھی غلط ہے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود ؑ سے بڑ ھ کر اور کو ن ہے ۔لیکن حضرت مسیع مو عودؑ نے ایک دفعہ جب نواب محمد علی خان صاحبؓ کے لڑ کے عبد الر حیم خان کیلئے جبکہ وہ شد ید بیمار تھا دُعا کی تو الہام ہوا کہ ’’ تقدیر مبرم ہے اور ہلا کت مقدر۔‘‘ آ پ کو خیال آ یا کہ نواب صا حب سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر قا دیان آ رہے ہیں۔ ان کا لڑ کا فوت ہو گیا تو انہیں ابتلاء نہ آ جا ئے ۔ اس لئے آ پ نے خدا تعالٰی کے حضور عرض کیا کہ الہٰی میں اس لڑ کے کی صحت کے لئے شفا عت کر تا ہوں۔اس پر آپ کو بڑے زور سے الہا م ہوا۔ مَنْ ذَاالَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہ‘ٓ اِلَّا بِاِ ذْ نِہ۔ یعنی تم کو ن ہو جو میری اجا زت کے بغیر شفا عت کر تے ہو۔ اب دیکھو حضرت مسیح مو عو دؑ کتنے بڑے انسان تھے۔تیرہ سو سال سے زنیا آ پ کی منتظر تھی ۔مگر وہ بھی سفارش کر تا ہے تواللہ تعالیٰفر ما تا ہے کہ تم کو ن ہو کہ بلا اجا زت سفارس کرو۔ حضرت مسیح مو عودؑ فر ما یا کر تے تھے کہ جب مجھے یہ الہا م ہوا۔ تو مین گر پڑا اور بدن پر رعشہ طا ری ہو گیا اور قر یب تھا کہ میری جان نکل جا تی۔ لیکن جب یہ حا لت ہو ئی تو اللّٰہ تعالٰی نے فر ما یا۔ اِنَّکَ اَنْتَ الْمُجَازُ: اچھا: اب ہم شفا عت کی اجازت دیتے ہیں۔ چنا نچہ آپ نے شفاعت کی ۔ اور عند الرحیم خان اچھے ہو گئے۔ غر ض جب مسیح موعودؑ جیسے انسان کو۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰکہتا ہے کہ تم کون ہو جو بلا اذن سفارش کرو تو اور لو گوں کی کیا حیثیت ہے کہ کسی کی سفارش کر سکیں۔
حد یثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قیا مت کے دن آ نحضرت ﷺ کو اِذن ہو گا تب آ پ سفا رش کر ینگے پھر کیسا نا دان ہے وہ شخص جو سمجھتا ہے کہ فلاں میری سفا رش کر دیگا۔
پھر ایک اور بات رہ جا تی ہے اور وہ یہ کہ کو ئی کہ سکتا ہے کہ مانا شفا عت بلا اجا زت نہیں ہو سکتی ۔ لیکن با دشاہ کے جس طر ح درباری ہو تے ہیں اور ان کے ذریعہ بادشاہ تک رسا ئی حاصل کر کے فا ئدہ اٹھا یا جا تاہے۔ اسی طرح اللّٰہ تعالٰی کے بھی درباری ہو نے چا ہیں۔اللہ تعالیٰفرما تا ہے ۔ ان احمقوں کواتنا بھی پتہ نہیں کہ دنیا کے با دشاہ کیوں درباری رکھتے ہیں ۔ وہ تو اس لئے رکھتے ہیں کہ انہیں ان سے حا لات معلوم کر نے کی ضرورت ہو تی ہے کیو نکہ با دشا ہ نہیں جا نتا کہ ملک مے کیا ہو رہا ہے لیکناللہ تعالیٰتو تمہاری اگلی پچھلی سا ری با تیں جا نتا ہے۔پھر اس کو درباری رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ یَعْلَمُ مَابَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَ مَا خَلْفَھُمْ کے دو معنے ہیں ۔ ایک یہ کہاللہ تعالیٰاس کو بھی جا نتا ہے جو آ گے ہو نا ہے اور اسے بھی جا نتا ہے جو لوگ پیچھے کر چکے ہیں۔ دوسرے معنے یہ ہیں کہاللہ تعالیٰان کا موں کو بھی جا نتا ہے جو وہ کر رہے ہیں اور ان کا موں کو بھی جا نتا ہے جو انہیں کر نے چا ہیے تھے۔لیکن انہوں نے ترک کر دئیے۔ پھر اسے کیا ضرورت ہے کہ درباری رکھے۔
وَ لَا یُحِیِْطُوْنَ بِشَیْ ئٍ مِّنْ عِلْمِہٓ اِلَّا بِمَا شَآئَ۔ پھر اس کے علوم کا کو ئی شخص احا طہ نہیں کر سکتا کسی کو اس کی حقیقت اپنی کو شش سے معلوم نہیں ہو سکتی ہاں جس کو وہ آپ ہی بتا دے اور کس قدر بتا دے وہ اتنا ہی جا نتا ہے اس سے زیادہ نہیں۔ اس آ یت میں خدا تعالٰی نے صاف طورپر بتا دیا ہے کہ خدا تعالٰی کے علم کا کو ئی احا طہ نہیں کر سکتا۔ نہ آ نحضرتﷺ تمام بنیوں کے سرادار اوراللہ تعالیٰکے محبوب ہیں بلکہ آ پکی اتباع کربیوالا بھی خدا تعالٰی کا محبوب ہو جا تا ہے مگر با و جود اس کے آ پ خدا تعالٰی کی مخلوق اور اسی کے محتاج تھے۔پس آ پ کے اندر وہی صفات رہیں گی جو بندوں میں ہو تی ہیں اور وہ صفات کبھی نہیں آ سکتیں جو خدا نے صرف اپنے لئے مخصوص کی ہو ئی ہیں۔
لاَ یُحِیِْطُوْنَ بِشَیْ ئٍ مِّنْ عِلْمِہٓ اِلَّا بِمَا شَآء میں اس امر کی طر ف بھی تو جہ دلائی گئی ہے کہاللہ تعالیٰکے قرب کی راہیں اتنی غیر محدود ہیں کہ انہیں کلی طور پر طے کر نیکا کو ئی انسان خیال بھی نہیں کر سکات۔ جب کوئی بندہاللہ تعالیٰکے قرب میں بڑ ھتا ہے اور وہ اپنے مقام کے مطا بق اس کے انوار و بر کات کو اپنے اندر جزب کر لیتا ہے تواللہ تعالیٰاپنے فضل سے اس پر اپنی دوسری تجلّی کے قا بل ہو گیا ہے۔ تو اس پر اپنی تیسری تجلّی ظاہر کر تا ہے اور وہ خدا تعالٰی کے قر ب میں بڑھتا چلا جا تال ہے۔
رسول کر یم ْﷺ نے اس کیفیت کو ایک نہا یت ہی لطیف مثال کے سا تھ وا ضح فر ما یا ہے۔ آپ فر ما تے ہیں کہ جو شخص دوزخ میں سب سے پیچھے رہ جا ئیگا ۔اللہ تعالیٰاسے کہیگا کہ ما نگو مجھ سے کیا ما نگتے ہو ل وہ کہیگا بس یہی ما نگتا ہوں کہ مجھے دوزخ سے نکال دیا جائے ۔اللّٰہ تعا لٰی فر ما ئیگا کہ اچھا۔ اور وہ اسے دوزخ سے نکال لیگا۔ جس سے اسے بہت خوشی ہو گی۔ لیکن کچھ روز کے بعد اسے دور ایک سر سبز و شا داب درخت نظر آ ئیگا اور اس کے دل میں لا لچ پیدا ہو گا کہ اگر میں وہاں پہنچ کر اس کے نیچے بیٹھ سکوں تو کیا اچھا ہو۔ کچھ مدت تک تو وہ اس خیال کے اظہار سے رکے گا۔ مگر آ خراللہ تعالیٰسے کہیگا کہ ہے تو بڑی بات لیکن اگر آ پ مجھ پر رحم کر کے اس درخت کے نیچے بیٹھنے دیں تو بہت مہر بانی ہو گی ۔اللّٰہ تعا لٰی اس کی بات کو مان لیگا اور اس درخت کے نیچے اسے پہنچا دیگا۔ آ خر جب وہ اس درخت کے نیچے کچھ عرصہ تک راحت حاصل لر لیگا تو پھراللہ تعالیٰامتحان کے لئے اس سے بہتر درخت اس سے کچھ فاصلے پر ظاہر کے گا۔ اور پھر وہ لا لچ کر ے گا کہ وہ اس کے نیچے بیٹھے کچھ مدت تک تو وہ اپنے نفس کی اس خواہش کو بر داشت کر ے گا اور کہیگا کہ میں اباللہ تعالیٰسے یہ سوال کس طرح کروں۔لیکن آ خر وہ درخواست کر ہی دیگا اور کہیگا کہ آ ئندہ اور کچھ نہ مانگونگا۔ تب خداتعالٰی اسے وہاں لے جا ئیگا۔ اورپھر وہ دور سے جنت کا دروازہ دیکھیگا اور آ خر اس سے با ہر رہنا برداشت نہیں کریگا۔ اور خدا تعالٰی سے کہیگا کہ مجھے اس جنت کے دروازہ کے آ گے تو بٹھا دے میں اندر جانے کی درخواست نہیں کر تا۔ صرف با ہر بیٹھا دے وہیں سے لطف حاصل کر لو نگا۔اللہ تعالیٰاس سے پو چھیگا کیا تو اس کے بعد تو کچھ نہیں ما نگہیگا۔ بندہ کہیگا نہیں اسپراللہ تعالیٰاسے جنت کے دروازے پر بٹھا دے گا لیکن وہاں اسے کس طر ح چین حاصل ہو سکتا ہے آ خر وہ بے تاب ہو کر کہیگا کہ یا اللّٰہ مجھے دروازہ کے اندر کی طرف بٹھا دے۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ مجھے جنت کی نعماء دے۔ میں صرف یہ کہتا ہوں کہ دروازہ کے اندر بٹھا دے اس پراللہ تعالیٰہنسیگا اور کہیگا کہ میرے بندہ کی حرص کہیں ختم نہیں ہوتی۔جاؤ جنت میں داخل ہو جاؤ اور کہاں چا ہو رہو۔ غرضیکہ پہلیاللہ تعالیٰایک ہلکی سی تجلّی دکھاتا ہے اور اسے دیکھ کر جب ملا ئکہ صفت انسان بے تاب ہو جاتا ہے اور دعا ئیں کرتا ہے کہ خدایا تو مجھے کا مل تجلی دکھا تو پھراللہ تعالیٰاسے دوسرے مقام کی پہلے ہلکی سی تجلی دکھا تا ہے اور پھر پوری تجلی اور یہ سلسلہ اسی طرح بڑھتا چلا جاتا ہے ۔بہر حالاللہ تعالیٰکی ہستی غیر محدود ہے اور کوئی شخص اس کا احا طہ نہیں کر سکتا۔
پھر فر ما تا ہے وَ سِعَ کُرْ سِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ۔اللہ تعالیٰکا علم آ سمان اور زمین کو گھیر ے ہوے ہے ۔ یعنی اسے ہر چیز کا انتہا ئی علم ہے۔ اورکوئی چیز ایسی نہیں جو اس کے علم سے با ہر ہو۔ انسانی علم با لکل محدود ہو تا ہے۔ بعض اوقات وہ ایک چیز کے متعلق یہ سمجھتا ے کہ وہ اچھی ہے لیکن اس کا نتیجہ خراب ہوتا ہے جیسے خضرت مسیح مو عودؑ کو میر عباس علی لدھیا نوی کے متعلق ایک وقت علم دیا گیا کہ وہ نیک ہے تو آ پ کو اس کے انجام کا علم نہیں تھا اس لئے آپ کو پتہ نہ لگا کہ ایک دن وہ مر مد ہو جائیگا۔لیکن بعد میںاللہ تعالیٰنے آپ کو اس کا علم دے دیا۔غرض انسانی علم بہت ہی محدود ہے صرف خدا تعالٰی ہی کا مل علم رکھتا ہے جو سب پر حا ویہے۔ اور کو ئی شخص اس کے علوم کا احا طہ نہیں کر سکتا ۔
پھر وَ سِعَ کُرْ سِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ میں سا ئنس کے اس عظیم الشان نکتہ کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ کا ئنات عالم کی لمبا ئی کا اندازہ اللّٰہ تعالٰی کے سوا کو ئی نہیں جا نتا۔ اس زما نہ میں جس حد تک علم ہیت میں تر قی ہو چکی ہے۔ اتنیپہلے کبھی نہیں ہو ئی۔ آ ج دنیا کی لمبا ئی کا اندازہ میلوں میں نہیں لگا یا جاتا۔ مثلاً یہ نہیں کہا جاتا کہ ایک زمین سے دوسری زمین تک اتنے میل کا فا صلہ ہے بلکہ اس لمبائی کا اندازہ روشنی کی رفتار سے لگا یا جا تا ہے۔ روشنی ایک سیکنڈ میں ایک لاکھ اسی ہزار میل چلتی ہے۔ اور دنیا کی وسعت کا اندازہ اس نور کی روشنی سے لگا تے ہیں ۔ گویا یہ بھی اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْض(نور آ یت ۳۶) کی صدا قت کا ثبوت ہے ۔ کیو نکہ اس آ یت میں بتا یا گیا تھا کہ زمین و آ سمان کی وسعت کا اندازہ تم کسی چیز سے نہیں لگا سکتے صرف نور اور اس کی رفتار سے ہی لگا سکتے ہو۔ غرض جب ایک سیکنڈ میں روشنی ایک لاکھ اسی ہزار میل چلتی ہے۔ تو ایک منٹ میںایک کروڑ آ ٹھ لاکھ میل چلے گی۔ پھر اسے ایک گھنٹہ کے ساتھ ضرب دو تو یہ ۶۴ کروڑ ۸۰ لاکھ میل بنتے ہیں۔ ان میلوں کو ایک دن کی روشنی کا حساب لگا نے کے لئے ۲۴ سے ضرب دیں تو یہ ۱۵ ارب ۵۵ کروڑ ۲۰ لاکھ میل رفتار بن جاتی ہے۔ اب پھر ایک سال کی رفتار کا حساب لگا نے کے لئے ۳۶۰ دنوں سے ضرب دیں تو ۵۵ کھرب ۷۶ ارب ۷۲ کروڑ میل بنتے ہیں ۔ یہ حساب صرف روشنی کے ایک سال کی لمبا ئی کا ہو تا ہے۔ لیکن دنیا کی لمبا ئی علم ہیت والے روشنی کے تین ہزار سال قراد دیتے تھے۔ پس ان اعداد کو تین ہزار سال سے ضرب دینی ہو گی۔اب اس کا حاصل ضرب جو نکلے وہ حسا بی لحاظ سے در حقیقت نا قا بل اندازہ ہی ہو جا تا ہے ۔ کیو نکہ اربوں کے اوپر کا حساب در حقیقت حساب ہی نہیں سمجھا جا تا۔ مگر یہ حساب یہیں ختم نہیں ہو گیا۔ جوں جون نئے آ لات دریا فت ہو رہے ہیںیہ اندازے بھی غلط ثا بت ہو رہے ہیں۔پہلی جنگ عظیم کے بعد یہ قرار دیا گیا کہ دنیا کی لمبائی روشنی کے چھ ہزار سال کے برابر ہے۔ مگر اس کے بعد تحقیق ہو ئی کہ یہ سب باتیں غلط ہیں ۔ہم دنیا کی لمبائی کا اندازہ ہی نہیں لگا سکتے۔ کیو نکہ جس طر ح بچہ کا قد بڑ ھتا ہے اسی طرح دنیا بھی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اور اب اس کی لمبا ئی روشنی کے بارہ ہزار سالوں کے برابر سمجھی جا تی ہے۔
اس کی طر ف قرآ ن کریم کی اس آ یت میں بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ وَالْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُہ‘ یَوْمَ الْقَیٰمَۃِ وَ السَّمٰوٰاتُ مَطْوِیّٰت’‘ بِیَمِیْنِہٖ( ز مر آ یت ۶۸) یعنی سب کی سب زمین اس کی مملو کہ ہے ۔ اور آ سمان اور زمین دونوں قیامت کے دن اس کے دائیں ہا تھ میں لپٹے ہو ئے ہو نگے۔ اور چیز کدا کی مٹھی میں ہوا س کا اندازہ انسان کہاں لگا سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب انسان کا علم اندازے کے قریب قریب پہنچنے لگتا ہے تو خدا تعالٰی کائنات کو اور زیادہ بڑھا دیتا ہے۔ غرض اس نئے علم سے وَ سِعَ کُرْ سِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ کی صداقت کا سا ئینس نے اقرار کر لیا ہے۔ اور دنیا اس حقیقت کو تسلیم کر چکی ہے کہ زمین و آ سمان کی وسعت کا اندازہ خدا تعالٰی کے سوا اور کو ئی نہیںکر سکتا۔
وَ لَا یَئُوْدُہ‘ حِفْظُھُمَ۔پھر کو ئی کہ سکتا ہے کہ ا للّٰہ تعا لٰی نے دنیا کا علم حا صل کر نے کے لئے تو اپنے درباری مقرر کئے ہو نگے تا کہ وہ اس کا ہاتھ بٹا ئیں۔ فر ما یا اللّٰہ کو اس کی بھی ضرورت نہیں۔ وہ سب کام خود کر رہا ہے اور ا للّٰہ تعا لٰی کی طا قت ایسی وسیع ہے کہ کو ئی چیز اس کے قبضہ سے با ہر نہیں۔ اور نہ کسی چیز کا انتظام اس کو تھکا سکتا ہے۔
اب ایک ہی اعتراض رہ جاتا ہے۔ اور وہ یہ کہ مانا خدا کو علم کے لئے اور مدد کے لئے کسی کی ضرورت نہیں مگر شان و شو کت
لَآ اِکْرَہَ

سَمِیْع’‘ عَلِیْم’‘o
بھی تو کوئی چیز ہے اس کے اظہار کیلئے ہی اس نے درباری مقرر کئے ہو نگے۔ اس اعتراض کو وَ ھُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ کہ کر رد فر ما دیا۔ یعنی وہ بہت بڑا ہے اور کو ئی چیز نہیں جو اس کے سا تھ مل کر اس کے رتبہ کو بڑھا سکے۔جو چیز خدا کے ساتھ ملے گی اس کا اپنا ہی رتبہ بڑھیگا۔ نہ کہ خدا کا۔پس یہ خیال کر نا کہ ا للّٰہ تعا لٰی نے شان و شوکت کے لئے درباری مقرر کئے ہو نگے ٹھیک نہیں۔ وہ بہت بلند اور بڑی شان رکھنے والا ہے۔
عَلِیّ’‘ میں اس کی رفعت اور بلندی کی طر ف اور عَظِیْم’‘ میں اس کی طا قتیں کی وسعت کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ یہ وہ خدا ہے جو اسلام پیش کر تا ہے۔ اگر ایسے خدا کے ہوتے ہوئے کو ئی کسی اور طرف جائے تو کتنے بڑے افسوس کی بات ہے۔ اگر کسی شخص کو نہایت عمدہ کھا نا ملے۔ اور وہ اسے چھوڑ کر نجا ست کی طرف دوڑے۔ اگر کسی شخص کو عمدہ کپڑا ملے اور وہ اسے چھوڑ کر میلی کچیلی لنگو ٹی باندہ لے تو بتاؤ کے اوہ دانا اور عقلمند کہلا نے کے قابل ہو گا ۔ نہیں اور ہر گز نہیں۔ دانا وہی ہے جو بہتر چیز کو پسند کرے۔پس ا للّٰہ تعا لٰی سے نہتر اور کو ئی نہیں۔
۱۶۶؎ حل لغات:۔ رُشْد’‘: رشد کے معنے ہیں صداقت پر استقلال سے قائم رہنا نیز یہ غَیّ’‘ کے اضداد میں سے ہے۔(اقرب)
اَلْغَیُّ کے معنی ہیں اَلضَّلٰلَۃُ۔ گمراہی۔ اَلْھَلَآ لَۃُ۔ تباہی۔ اَلْخَیْبَۃُ: ناکا می،( اقرب)
اَلطَّا غُوْتُ: طَغٰی سے نکلا ہے جس کے معنے ہر ایسی چیز کے ہیں جو حد سے نکل جا ئے۔ اور سر کش ہو جائے طا غوت کے ان معنوں میں شیطان بھی شا مل ہے۔ کیو نکہ وہ انسا ن کو سر کشی کی طرف لے جا تا ہے۔ اور اس میں وہ انسان بھی شا مل ہیں۔ جو لو گوں کو خدا تعالٰی سے دور کر تے ہیں۔
اِسْتِمْسَاک کے معنے ہین پکڑنے کے ہیں۔
اَلْعُرْ وَۃُ:۔ اَلْعُرْوَۃُ مِنَ الدَّ لْوِ وَ الْکُوْزِ الْمِقْبَضُ اَیْ اُذُ نُھُمَا۔ یعنی عروہ ڈول یا لو ٹے کے دستہ کو کہتے ہیں جس سے اسے پکڑا جا تا ہے ۔ اسی طرح عروہ کے معنے مَا یُوْ ثَقُ بِہٖ کے بھی ہیں۔ یعنی ایسی چیز جس پر اعتبار کیا جائے۔ گویا ہر ایسی چیز جس پر سہارا لیا جائے یا جس پر اعتماد کیا جا سکے وہ عروہ کہلاتی ہے۔ اسی طرح عروہ اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو کبھی ضا ئع نہ ہو نے والی ہو چنا نچہ عروہ اس گھاس کو کہتے ہیں جو ہمیشہ ہرار ہے اور عروہ کے معنے اَلنَّفِیْسُ مِنَ الْمَا لِ کے بھی ہیں۔ یعنی اچھا اور بہتر ین مال۔(اقرب)
تفسیر:۔ یہ عجیبب بات ہے کہ اسلام پر یہ اعتراض کیا جا تا ہے کہ وہ جبر سے دین پھیلا نے کی تعلیم دیتا ہے حا لا نکہ اسلام اگر ایک طرف جہاد کے لئے مسلما نوں کو تیار کر تا ہے جیسا کہ اس سورۃ میں وہ فر ما چکا ہے کہ قَا تِلُوْ ا فِیْ سَبَیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقٰتِلُوْ نَکُمْ( بقرہ آیت نمبر ۱۹۱) یعنی تم ا للّٰہ تعا لٰی کی راہ میں ان لو گوں سے جنگ کر و جو تم سے جنگ کر تے ہیں ۔ تو دوسری طرف وہ یہ بھی فر ما تا ہے کہ لَا اِکْرَ اہَ فِی الدِّیْنِ۔ یعنی جنگ کا جو حکم تمہیں دیا گیا ہے اس سے یہ نہیں سمجھنا چا ہیے کہ لو گو ں کو مسلمان بنا نے کے لئے جبر کر نا جا ئز ہو گیا ہے۔ بلکہ جنگ کا یہ حکم محض دشمن کے شر سے بچنے اور اس کے مفا سد کو دور کر نے کے لئے دیا گیا ہے۔ اگر اسلا م میں جبر جا ئز ہو تا تو یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ قرآن کریم ایک طر ف تو مسلما نوں کو لڑا ئی کا حکم دیتا اور دوسری طر ف اسی سورۃ میں یہ فر ما دیتا کہ دین کے لئے جبر نہ کرو۔ کیا اس کا وا ضح الفا ظ میں یہ مطلب نہیں کہ اسلام دین کے معا ملہ میں دوسروں پر جبر کر نا کسی صورت میں بھی جا ئز قرار نہیں دیتا پاس یہ آ یت دین کے معا ملہ میں ہر قسم کے جبر کو یہ صرف نا جا ئز قرار دیتی ہے بلکہ جس مقام پر یہ آ یت وا قع ہے اس سے بھی صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام جبر کے با لکل خلاف ہے۔ پس عیسا ئی مستشر قین کا یہ اعتراض با لکل غلط ہے کہ اسلا م تلوار کے ذریعہ غیر مذ اہب والوں کو اسلام میں داخل کر نے کا حکم دیتا ہے حقیقت یہ ہے کہ اسلام ہی وہ سب سے پہلا مذہب ہے جس نے سنیا کے سا منے یہ تعلیم پیش کی کہ مذہب کے معا ملہ میں ہر شخص کو آ زادی حا صل ہے اور دین کے بارہ میں کسی پر کوئی جبر نہیں۔
قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْخَیِّ یہ جملہ مستا نفہ ہے یعنی اس سے پہلے ایک جملہ مقدر ہے جس کا یہ جوا ب دیا گیا ہے ۔ چو نکہ ا للّٰہ تعا لٰی نے یہ فر ما یا تھا کہ دین کے لئے جبر جائز نہیں ۔اس لئے سوال پیدا ہوتا تھا کہ جب دین ایک اعلٰی درجہ کی چیز ہے تو کیوں اس کے لئے لو گوں پر جبر نہ کیا جائے۔ اور انہیں بزور اس نعمت سے متمع نہ کیا جائے۔ا للّٰہ تعا لٰی اس سوال کے جواب میں فر ما تا ہے جب گمراہی اور ہدایت ظا ہر ہو گئی ہے تو اب جبر کی ضرورت نہیں۔ صرف ہدایت کا پیش رک دینا تمہارا کام ہے۔ کیو نکہ جو حق بات تھی وہ گمراہی اور ضلالت کے با لمقا بل پورے طور پر ظا ہر ہو گئی ہے ۔ غرض اس آیت میں خدا تعا لٰی نے وجہ بیان ر مائی ہے کہ کیوں اسلام کو جبر کی ضرورت نہیں۔ فر ما تا ہے ۔ جبر اس وقت ہو تا ہے ۔جب کو ئی بات دلیل سے ثا بت نہ ہو سکے۔یا جس کو سمجھا یا جائے۔ وہ سمجھنے کے قا بل نہ ہو۔ مثلاً ایک بچہ کی عقل چو نکہ کمزور ہوتی ہے۔ اس لئے بسا اوقات اس کی مر ضی کے خلا ف اور جبر کر نیوالے کی مر ضی کے موا فق کام کر نے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ لیکن اس بچہ میں جب عقل آ جا تی ہے تو پھر وہ اپنے آ پ ہی سمجھ جاتا ہے اور اپنے نفع اور نقصان کو سوچ سکتا ہے۔ اس حالت میں اس پر کو ئی جبر نہیں کر تا۔ اسلام کے متعلق ا للّٰہ تعا لٰی فر ما تا ہے کہ اس میں ہر قسم کے دلائل کو کھول کر بیان کر دیا گیا ہے ۔ اس لئے اسے منوانے کے لئے کسی پر جبر کر نے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ اسلام تو اس بات پر *** بھیجتا ہے کہ کسی مذ ہب کو بغیر سو چے سمجھے ڈر یا لالچ کی وجہ سے قبول کیا جائے۔ چنا نچہ قرآ ن کریم میں ا للّٰہ تعا لٰی فر ما تا ہے اِذَا جَآ ئَ کَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَا لُوْ انَشْھَدُ اِنَّکَ لَرَسُوْلَہ‘ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ اِنَّکَ لَرَ سُوْلُہ‘ ط وَ اللّٰہُ یَشْھَدُ اِنَّ الُمُنٰفِقِیْنَ لَکٰذِبُوْنَo (منا فقون آ یت۲) یعنی منا فق جب تیرے پاس آ تے ہیں تو کہتے ہیں ہم گو اہی دیتے ہین کہ تو اللّٰہ کا رسول ہے۔ اور اللّٰہ جا نتا ہے کہ تو اللّٰہ کا رسول ہے۔ مگر اللّٰہ یہ گواہی دیا ہے کہ یہ منا فق جھو ٹے ہیں۔ اگر اسلام کے پھیلا نے کے لئے تلوار چلانا جائز ہوتا۔ تو کیا وہ لوگ جو اسلام لے آ ئے تھے مگر دل میں منا فق تھے ان کا ذکر قرآن کریم ان الفاظ میں کر تا جو اوپر بیان ہو ئے ہیں۔ کیو نکہ اس صورت میںتو یہ لوگ گو یا قر آ نی تعلیم کا نتیجہ ہوتے۔ کون اُمید کر سکتا ہے کہ تلوار کے ساتھ وہ مخلص لو گوں کی جماعت پیدا کرے گا۔ پس یہ بات بالکل غلط ہے کہ اسلام تلوار کے ذریعہ سے غیر مذاہب والوں کو اسلام میں داخل کر نے کا حکم دیتا ہے۔
اسی طرح فر ما تا ہے وَ قَا تِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِ یْنَ یُقَا تِلُوْ نَکُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ۔( بقرہ آ یت ۱۹۱)یعنی دین کی لڑائی ان لو گو ں سے لڑؤ جو تم سے لڑتے ہیں ۔ مگر یہ خیال تکھنا کہ زیادتی نہ کر بیٹھو۔پس جبکہ اسلام صرف ان لوگوں سے دینی جنگ کر نے کا حکم دیتا ہے جو دین کے نام سے مسلمانوں سے جنگ کریں اور مسلمانوں کو جبراً اسلام سے پھیر نا چاہیں۔ اور ان کے متعلق بھی یہ حکم دیتا ہے کہ زیا دتی نہ کرو بلکہ اگر وہ باز آ جا ئیں تو تم بھی اس قسم کی لڑائی کو چھوڑ دو تو پھر یہ کیو نکہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام کا حکم ہے کہ غیر مذ اہت والوں سے اپنے مذہت کی اشا عت کے لئے جنگ کرو۔ا للّٰہ تعا لٰی تو مختلف مذہبوں کے مٹانے کے لئے نہیں بلکہ مختلف مذاہب کی حفا ظت کے لئے جنگ کر حکم دیتا ہے۔جیسا کہ وہ فر ما تا ہے۔ اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا ط وَ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِ ھِمْ لَقَدِ یْرُ o ا لَّذِیْنَ اُخْرِ جُوْامِنْ دِیَارِھِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ یَّقُوْ لُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّ مَتْ صَوَامِعُ و بِیَع’‘ وَّ صَلَوٰن’‘ وَّ مَسٰجِدُ یُذْ کرُ فِیْھَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًا وَ لَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُ ہ‘ ط اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِ یّ’‘ عَزِیْز’‘( الحج آ یت ۴۰ ۔۴۱) یعنی ان لو گو ں کو جنسے جنگ کی جا تی ہے جنگ کی اس وجہ سے اجازت دی جا تی ہے کہ ان پر ظلم کیا گیا ہے اوراللہ تعالیٰان کی مدد پر قادر ہے۔ یہ وہ لو گ ہیں جو اپنے گھروں سے بلا قصور نکا لے گئے ہیں ۔ ان کا کو ئی قصور نہ تھا سوا ئے اس کے کہ وہ کہتے تھے کہ اللّٰہ ہمارا ربّ ہے۔ اور اگراللہ تعالیٰبعض لو گو ں کے ذریعہ سے بعض کا ہا تھ نہ روکتا تو مسیحیوں کے معبد اور را ہبوں کے خلو ت خا نے اور یہود کی عبادتگا ہیں اور مسجد یں جن میںاللہ تعالیٰکا نام کثرت سے لیا جا تا ہے گرا دی جاتیں۔ اور یقیناًاللہ تعالیٰاس کی مدد کرے گا جو اس کے دین کی تا ئید کر ے گا اوراللہ تعالیٰبہت طاقتور اورغالب ہے۔ یہ آ یات کس قدر کھلے الفاظ میں بتا تی ہیں کہ مد ہبی جنگیں تبھی جا ئز ہیں جبکہ کو ئی قوم رَبُّنَا اللّٰہَ کہنے سے روکے ۔ یعنی دین میں دخل دے اور چا ہے کہ دوسری اقوام کے معا بد گرائے جائیں اور ان سے ان کا مذ ہب چھڑدایا جائے۔ یا ان کو قتل کیا جائے۔ ایسی صور ت میں اسلام اس قوم سے جنگ کی اجا زت دیتا ہے۔ کیو نکہ اسلام دنیا میں بطور شا ہد اور محا فظ کے آ یا ہے ہ کہ بطور جا بر اور ظا لم کے۔
فَمَنْ یَّکْفُرْ بِا لطَّا غُوْتِ کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چا ہیے کہ کفر کے معنے صرف انکار کر نے کے ہو تے ہیں خواہ و کسی چیز کا انکار ہو۔ قرآ ن کریم میں یہ لفظ اچھے معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے اور برے معنوں میں بھی۔ اس جگہ یہ لفظ اچھے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اوراللہ تعالیٰفر ما تا ہے کہ جو لوگ شیطا نوں اور شیطا نی لو گوں کی باتیں ما ننے سے قطعی طو ر پر انکار کر دیتے ہیں اوراللہ تعالیٰپر سچے دل سے ایمان لے آ تے ہیں وہ ایک مضبوط چٹان پر قا تم ہو جاتے ہیں ۔لیکن اس کے مقا بلہ میں قرآ ن کریم میں یَکْفُرُوْنَ بِا للّٰہِ( نسا ء آ یت ۱۵۱) بھی آ تا ہے کہ کچھ لوگاللہ تعالیٰکا انکار کر تے ہیں ۔پس جہاں تک اس لفظ کے ظاہر کا تعلق ہے۔ یہ نہ بُرا ہے نہ اچھا ہے۔اصل معنے تو اس کے ڈھا نپ دینے کے ہو تے ہیں۔ بدی کا ڈھا نپنا بھی کفر کہلا ئیگا اور نیکی کا ڈھا نپنا
اَللّٰہُ وَ لِیُّ الَّذِیْنَ

بھی کفر کہلا ئیگا۔ بدی کا چھپا نا بھی کفر کہلا ئیگا اور نیکی کا چھپا نا بھی کفر کہلا ئیگا۔لیکن چو نکہ کثرت سے قر آ ن کریم میں یہ لفظ نیکی کے انکار کے متعلق استعمال ہوا ہے اس لئے جب کسی قر ینہ کے بغیر یہ لفظ استعمال ہو تو اس کے معنے برے ہی کئے جاتے ہیں۔ جس طرح مومن کے معنتے بھی ایسے ہی ہیں لیکن وہ زیادہ تر نیکی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس لئے جب مو من کا لفظ بغیر کسی قرینہ لء استعمال ہو تو اس کے معنے ہمیشہ نیک کے ہی کئے جا ئیں گے۔ حا لانکہ قر آن کریم میں مو من کا لفظ بھی بر ے معنوں میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ فر ما تاہے۔ یُئْو مِنُوْنَ بِا لْجِبْتِ وَ الطَّا غُوْتِ۔ (نسا ء آ یت ۵۲) وہ بے فا ئدہ با توں اور حد سے بڑھنے والوں پر ایمان رکھتے ہیں ۔ اس جگہ فَمَنْ یَّکْفُرْ بِا لطَّا غُوْتِ میں طا غوت کا کفر کر نے سے اس کی ذات کا انکار مراد نہیں بلکہ یہ مرا دہے کہ اس کی بات نہ ما نے۔ اس کے مقا بلہ میںاللہ تعالیٰنے ایمان کا لفظ رکھا ہے جس کے معنے خدا تعالٰی کی بات ما ننے کے ہیں۔ اور فر ما یا ہے کہ جو شخص طا غوت کا انکار کر تا ہے ۔ اوراللّٰہ تعا لٰی پر ایمان لا تا ہے وہ ایسے مضبوط کڑے کو پکڑ لیتا ہے جو کبھی ٹوٹتا ہی نہیں۔ اگر انکار کے معنے کسی شے کی ذات کا انکار کے لئے جائیں تو اس آ یت کے یہ معنے ہو نگے کہ ہلا کت سے دہی شخص نچتا ہے جو شیطان کے وجود کا انکار کرے اوراللہ تعالیٰکے وجود کا اقرار کرے۔ حالانکہ یہ معنے سرا سر غلط ہیں۔ کیو نکہ قر آ ن کریم صاف طور پر خدا تعالٰی کے وجو د کا بھی اقرار کر تا ہے اور شیطان کے وجود کا بھی اقرار کر تا ہے۔ پس اقرار اور ایمان سے اس آیت میں یہی مراد ہے کہ وہ شیطان کی با توں کو رد کر تا اور خدا تعالٰی کی با توں کو ما نتا ہے ایسے شخص کے متعلقاللہ تعالیٰفر ما تاہے کہ فَقَدِا سْتَمْسَکَ بِا لْعُرْ وَۃِ الْوُ ثْقٰی۔ عروہ کے معنے دستہ کے بھی ہو تے ہیں جس پر اعتبار کیا جائے اور عروہ کے معنے ایسی چیز کو بھی کہتے ہیں جس کی طرف انسان ضرورت کے وقت رجوع کرے۔ اور عر وہ اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو ہمیشہ قا تم رہے اور کبھی ضا ئع نہ ہو ۔ اور عروہ بہترین مال کو بھی کہتے ہیں (۱) اگر عروہ کے معنے دستہ کے لئے جا ئیں تو اس آ یت کا یہ مطلب ہو گا کہ دین کو خدا تعالٰی نے ایک ایسی لطیف چیز قرار دیا ہے جو کسی بر تن میں پڑی ہوئی ہو اور محفوظ ہو اور انسا ن نے اس پر تن کا دستہ پکڑ کر اسے اپنے قبضہ میں کر لیا ہو(۲) پھر عروہ کہ کر اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ دین ایک ایسی چیز ہے جس کا انسا ن سہارا لے لیتا ہے تا کہ اسے گر نے کا ڈر نہ ہے۔ جیسے سیڑ ھیون پر چڑھنے کے لئے انسان کو رسہ کی ضرورت پڑتی ہے اور وہ اسے پکڑ لیتا ہے۔ اسی طرح دین بھی اس فسہ کی طر ح ایک سہارا ہے۔ اسے مضبوط مکڑ لینے سے گر نے کا ڈر نہیں رہتا۔(۳) عروہ کہ کر یہ بھی بتا یا کہ اگر انسان اسے مضبوطی سے پکڑ لے تو وہ ہر مصیبت کے وقت اس کے کام آتا ہے۔
(۴) عروہ میں اس طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ صرف دین ہی انسا ن کے کام آ نے والی چیز ہے۔ اس جہان میں بھی اور اگلے جہان میں بھی۔با قی تمام تعلقات عارضی ہو تے ہیں اور مصیبت کے آ نے پر ایک ایک کر کے کٹ جاتے ہیں ۔ بیشک انسان اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو بھی اپنا بہترین رفیق قرار دیتا ہے ۔ لیکن بسا اوقات ان سے کمزوری یا بے وفائی طا ہر ہو جاتی ہے اور اسے معلوم ہو
خٰلِدُوْنَo
جاتا ہے کہ حقیقی تعلقات وہی ہیںجن کی بنیادیں دین اور مذہب پر استوار کی جائیں اور انہی میں بر کت ہوتی ہے۔
۱۶۷؎ تفسیر: فر ما تا ہے۔ اللّٰہ مو منوں کا دوست اور مددگار رہے۔ اور وہ ایمان لانے والوں کو اندھیروں سے روشنی کی طر ف لاتا ہے۔ عر بی زبان کے محا ورہ میں کا میابی کی طرف لے جا نے کو ظلمت سے نور کی طرف لے جانے سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ خواہ وہ کامیابی جسما نی ہو یا روحانی۔
پس اس سے مراد مو منوں کی جماعت کو ہر قسم کی روحا نی اور جسما نی کامیابیوں کی طرف لے جا نا اور انہیں ہر قسم کی نا کا میوں اور تکا لیف سے نجا ت دلا نا ہے۔
وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ آ اَوْلِیٰٓئُھُمُ الطَّا غُوْتُ یُخْرِ جُوْ نَھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ۔ یہاں طا غوت سے مراد ہو لوگ ہیں جو شیطا ن کے قا ئم مقام ہو تے ہیں۔ وہ لوگوں کو اس تھوڑی بہت ہدایت سے بھی جس پر وہ قا ئم ہو تے ہیں دور پھینک دیتے ہیں۔ یہ مت خیال کر و کہ کفار میں نور کہاں سے آ یا۔ رسول کریم ﷺ نے جب دعویٰ نہیںکیا تھا۔ اس وقت ابو جہل ایسا بُرا نہیں تھا جیسا کہ اس وقت تھا جب کہ وہ مارا گیا۔بات یہ ہے کہ صداقت کے انکار سے انسان کے قلب پر زنگ لگ جا ات ہے اور ہو تے ہو تے وہ تھوڑا بہت نور جو اس کے دل میں ہو تا ے وہ بھی جا تا رہتا ہے۔ حضرت مسیح مو عود ؑ کی بعثت سے پہلے اپنے ممبر وں پر کھڑے ہو ہو کر یہ شعر پڑھا کر تے تھے کہ ؎
مو سٰی کجا عیسٰی کجا اس بات کا ہے سب کو غم
مگر اب ان کی کتا بوں سے یہ شعر غا ئب ہو گیا ہے۔ اسی طرح ان میںرسول کریمﷺ کے نبوت کا اعتقاد رکھنے والے لو گ بھی مو جود تھے۔ جیسا کہ مولوی محمد قا سم صا حب نا نو توی ہیں ۔ انہوں نے اپنی کتا ب تحذ یر الناس میں صاف لکھا ہے کہ بغیر سر یعت کے نبی ہو سکتا ہے۔مگر اب سب لو گ اس کا انکار کر رہے ہیں۔ پس نبی کے آ نے سے پہلے بعض لو گو ں کے عقا ئد اچھے ہو تے ہیں مگر جب وہ نبی کا انکار کر دیتے ہیں اور انہیں ان کے پہلے عقیدہ کی رو سے پکڑا جا تا ہے تو وہ اپنا پہلو بچا نے کے لئے اس کا بھی انکار کر دیتے ہیں ۔ لیکن جو شخص صداقت کو قبول کر تا ہے وہ زور بروز اپنے ایمان میں بڑھتا چلا جاتا ہے ۔
میں اوپر بتا چکا ہون کہ یُخْرِ جُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ میں خدا تعالٰی نے یہ بیان فرما یا ہے کہ جو ہو گااللہ تعالیٰکے ہو جاتے ہیں ان کواللہ تعالیٰبحیثیت قوم ترقی کی طر ف لے جاتا ہے۔ مگر چو نکہ دنیا میں انسان کو قدم قدم پر مشکلات پیش آتی رہتے ہیں جن کو دیکھ کر بعض لوگو ں کو یہ دھو کا لگ جاتا ہے کہ اگراللہ تعالیٰنے مو منوں کی کا میا بی کا وعدہ کیا ہے تو پھر اہیں مشکلات کیوں پیش آ تی ہیں۔ اس لئے یاد رکھنا چا ہیے کہ یہ وعدے قوی طور پر کئے گئے ہیں نہ کہ الفرادی طور پر ۔پس انفرادی تکا لیف اور مشکلات کو اس وعدہ کے خلاف نہیں سمجھنا چاہیے۔ اگر کو ئی شخص مارا جا تاہے لیکن اس کے مر نے سے قوم کو فا ئدہ پہنچتا ہے تو وہ مر تا نہیں بلکہ زندہ ہو تا ہے۔ ورنہ ظاہری تکا لیف کو دیکھا جا ئے تو حضرت امام حسینؑ بھی شہید کر دئیے گئے تھے۔ مگر وہ نا کام نہیں ہو ئے
بلکہ اپنے مقصد میںکا میاب ہو ئے اور جس اصول کی خا طر انہوں نے قربانی پیش کی تھی وہ اصول آ ج بھی قا ئم ہے اور قیامت تک
اَلَمْ تَرَاِ لَی




الظَّلِمِیْنَo
قائم رہیگا۔ اسی طرح یعض انبیاء بھی شہید ہوئے۔ مثلاً حضرت یحییٰ ؑ کے متعلق حضرت مسیح مو عودؑ نے صاف لکھا ہے کہ وہ مارے گئے تھے۔ پس جب نبی بھی مارا جا سکتا ہے تو اور کون ہے جو اس قسم کی تکا لیف سے محفوظ رہے۔ پش کسی فرد کا مارا جانا قوم کی نا کامی کی دلیل نہیں ہوتی ۔ جیسے حضرت امام حسینؓ بیشک مارے گئے مگر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یز ید کو کوئی بھی اچھا نہیں کہتا اور امام حسینؓ کی سب عزت کر تے ہیں اور ان کا نام بڑے ادب اور احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے اور ان کی بڑی تعظیم کی جاتی ہے۔
اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّا رِھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ۔ اوپر بتا یا تھا کہ اسلام کے لئے جبر کر نے کی ضرورت نہیں کیو نکہ ہدایت گمراہی کے مقابلہ میں ممتا ز ہو چکی ہے۔ اور جنگ کا حکم تہیں اس لئے دیا گیا ہے کہ دشمن تم پر حمل کر رہا ہے۔ اب اس آ یت میں بتا یا کہ تمہارا انجام اچھا ہو گا اور تمہارے مخا لفوں کا بُرا۔ خدا تعالٰی تمہیں کامیاب کرے گا اور تمہارے دشمنوں کو ایسی تبا ہیوں سے دو چار کریگا جن سے وہ ہمیشہ غیظ و غضب کی آگ میں جلتے رہیں گے اور اپنے چاروں طرف دوزح ہی دوزخ پا ئینگیجس سے نکلنے کا انہیں کو ئی راستہ نظر نہیں آ ئیگا۔
۱۶۸؎ حل لغات:۔ حَآجَّ: حَآجَّہ‘ کے معنے ہیں خَا صَمَہ‘(اقرب) اس سے جھگڑا کر نے لگ گیا۔ حَآ جَّ کا لفظ قرآن کریم میں جتنی جگہ استعمال ہوا ہے بُرے معنوں میں ہی استعمال ہوا ہے سوائے ایک جگہ کے کہ وہاں اس کے ایک اور معنے لئے جا سکتے ہیں ۔ لغت والے بھی یہی لکھتے ہیں کہ یہ لفظ اچھے معنوں میں استعمال نہیں ہوتا۔ پس اس کے معنے ہیں کج بحشی۔ مجا دلہ۔ مکابرہ۔
مُلْکُ کے معنے بادشاہت کے بھی ہیں اور ملک کے بھی ہیں۔
اِحْیَا ء’‘ کے معنے ہیں زندہ کر نا۔ خو شی پہنچا نا۔ نمو کی طا قت دینا۔ آ باد کر نا۔
اِمَا تَۃ’‘ کے معنے ہیں مردہ کر نا۔رنج پہنچا نا ۔ نمو کی طا قت نکال ڈالنا۔
بُھِتَ کے معنے ہیں چہرہ لا رنگ اڑ گیا۔ گھبرا گیا مُنّہ بند ہو گیا اور کو ئی جواب نہ بن سکا۔
تفسیر:۔ اس آ یت کے متعلق مفسرین کا خیال ہے کہ حضرت ابرا ہیمؑ اور ایک کافر با دشاہ میں جس کا نام نمرود بیان کیا جا تا ہے ہستی باری تعا لٰی پر بحث ہو ئی تھی ۔ جب حضرت ابراہیمؑ نے اسے کہا کہ میرا رب وہ ہے جو زندہ کر تا اور مارتا ہے۔ تو اس نے کہا کہ ایسا تو میں بھی کر لیتا ہوں۔ چنا نچہ اس نے چند قیدی منگوا ئے جن میں سے بعض کو اس نے چھوڑ دیا اور بعض کو قتل کر دیا۔ یہ دیکھ کر حضرت ابراہیمؑ نے سمجھا کہ میری پہلی دلیل تو گار گر نہیں ہو ئی اب میںکوئی اور دلیل پیش کروں۔ چنا نچہ انہوں نے کہا کہ میرا رب وہ ہے جو سورج کو مشرق سے لاتا ہے اگر تو بھی رب ہے تو اسے مغرب سے لے آ۔ اس پر وپہ خا موش ہو گیا اور حضرت ابرا ہیم ؑ غا لب آ گئے۔ مگرمیرے نذ دیک ان کی یہ قیاس آ رائی درست نہیں۔ کیو نکہ اس طرح تو دونوں ہی خا موش ہو گئے تھے۔ پہلے سوال پر حضرت ابراہیم ؑ خا موش ہو گئے اور دوسرے سوال پر وہ خا موش ہو گیا۔ پس میرے نذدیک یہ تو جیہ صحیح نہیں کیو نکہ اگر یہی مراد ہوتی اور وہ ایسا ہی جھو ٹا اور کذاب تھا ار اپنے آپ کو خدا بنا رہا تھا تو وہ یہ جواب بھی دے سکتا تھا کہ سورج کو مشرق سے توہی لا رہا ہوں ۔ تم اپنے خدا کو کہو کہ وہ اسے مغرب سے لے آئے۔ مگر اس نے یہ نہیں کہا۔ بلکہ قر آن کریم بتا تا ہے کہ وہ خا موش ہو گیا اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں تھا ۔بلکہ بات دراصل کچھ اور تھی ۔ ورنہ بحث میں تو کو ئی چپ ہوا ہی نہیں کرتا۔ لوگ بیہودہ باتوں پر بھی بحث کر تے چلے جاتے ہیں ۔ حتٰی کہ اس امر پر بھی بحث کر تے ہیں کہ انسان کا وجود ہے یا نہیں۔ اور لوگ پھر بھی خا موش نہیں ہوتے۔لیکن وہ خا موش ہو گیا۔ اس سے صا ف معلوم ہوتا ہے کہ وہ کو ئی ایسی بات تھی جس کے متعلق اس نے سمجھا کہ اگر میں نے اس کا جواب دیا تو میں مصیبت میں پھنس جاؤنگا۔ اس لئے سوائے خامو شی کے اس کے لئے اور کو ئی چارہ نہ رہا۔
جیوش انسا ئیکلو پیڈیا میں اس بحث کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے کہ جب
’’ حضرت ابراہیمؑ اس با دشاہ کے سامنے جسکا نام نمرود تھا پیش ہوئے تو اس نے کہا کیا تو نہیں جانتا کہ میں خدا ہوں اور دنیا کا حا کم ہوں اور میں ہی مارتا اور زندہ کر تا ہوں چو نکہ ان کا سن سے بڑا خدا سورج دیوتا سمجھا جاتا تھا اور اسے آ قا بھی کہا جاتا تھا۔ حضرت ابراہیمؑ نے اسے کہا کہ اگر تو خدا اور دنیا کا حا کم ہے تو کیوں سورج کو مغرب سے نکال کر مشرق کی طرف نہیں چڑھا تا۔ اگر تو خدا اور دنیا کا حا کم ہے تو مجھے بتا کہ میرے دل میں اس وقت کیا ہے اور یہ کہ میرا آئندہ کے احال ہو گا۔ اس پر نمرود کی زبان بند ہو گئی اور وہ حیران رہ گیا ۔حضرت ابراہیمؑ نے اپنی بات کو جاری رکھا۔ اور کہا کہ تو کس نس کا بیٹا ہے اور اسی طرح کا ایک فانی وجود ۔ تو اپنے باپ کو موت سے نہیں بچا سکا اورنہ خود اس سے بچ سکتا ہے۔‘‘
جیوش انسا ئیکلو پیڈیا زیر لفظ ابرا ہا م)
اسی طرح طا لمو د میں بھی حضرت ابرا ہیمؑ کی اس بحث کا ذکر کیا گیا ہے ۔لیکن طا لمود اور قر آ ن کریم کے بیان میں فرق ہے ۔ قرآ ن کریم میں زندہ کر نے اور مارے کا ذکر پہلے سے اور سورج کی تبدیلی کا ذکر پیچھے لیکن طا لمود میں سورج کی تبدیلی کا ذکر پہلے ہے اور احیا ء و اما نت کا بعد میں۔ دوسرے طالمود میں لکھا ہے کہ جب حضرت ابراہیم ؑ نمردو بادشاہ کے سامنے پیش ہوئے تو اس نے آپ کو کہ اکہ تو بتوں کی پو جا کیوں نہیں کرتا انہوں نے کہا۔ جن کو آ گ جلا دیتی ہے ان کی کیا پو جا کروں۔ اس نے کہا پھر آگ کی کیوں نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا ۔جسے پا نی بجھا دیتا ہے ۔ اس کی کیا پو جا کروں۔ اس نے کہا ۔پھر پا نی کی کیوں نہیںکرتا۔ انہوں نے کہا ۔ پا نی کو تو بادل لاتا ہے ۔ اس نے کہا پھر بادلون کی کیوں نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا ۔ ان کو ہوا اڑا لے جاتی ہے۔ اس نے کہا ۔پھر ہوا ہی کی کر۔ انہوں نے کہا ۔ انسان اس سے بھی بچا ؤ کر لیتا ہے اور بچ جاتا ہے اور وہ اس پر غالب نہیں آ تی۔ اس نے کہا پھر مجھے پو جو۔ کیو نکہ میں انسا نوں کا خدا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ تمہارے اختیار میں تو کچھ بھی نہیں۔
یہ بحث جس کا طا لمود میں ذکر کیا گیا ہے خود اپنی ذات میں اس کا ثبوت ہے کہ سورج کا ذکر پہلے نہیں ہوا بلکہ پہلے احیاء اورا ما نت کا ہی ذکر ہوا ہے ورنہ سورج کے ذکر کے نعد تو بحث آ گے چل ہی نہیں سکتی تھی کیو نکہ سورج ان میں سب سے بڑا دیتا سمجھا جاتا تھا اور اس کو ہر قسمکی کا میا بیوں اور نا کا میوں اور تر قی اور منزل کا اصل باعث قراد دیا جاتا تھا۔ چنا نچہ نیلسنز انسا ئیکلو پیڈیا میں لکھا ہے کہ میرے ڈاک انکا بڑا خدا تھاجسے سورج کی شعاع یا دن کی روسنی سمجھا جاتا تھا ۔ اور اسے بنی نوع انسان کی تر قی اور تنزل کا اصل با عث قراد دیا جاتا تھا۔ ( دیکھو نیلسنز انسا ئیکلو پیڈیا زیر لفظ ببلو نیا)
پھر عقلاً بھی قر آن کریم کا کلام ہی درست ثا بت ہوتا ہے اول اس لئے کہ بحث میں نیچے سے اوپر تر قی ہوتی ہے۔پس موت اور حیات کا ذکر لا زماً سورج سے پہلے ہونا چاہیے نہ کہ بعد میں۔ دوسرے درمیان میں نمرود کے جپ ہو جانیکا ذکر بتا تا ہے کہ یہ وا قعہ سب سے آ خر میں ہوا۔ ییسرے نمرود کے سا منے پیش تو حضرت ابراہیمؑ بتوں کے توڑنے کے جرم میں ہوئے تھے۔ اس ا یہ سوال کہ میں خدا ہوں معلوم ہوتا ہے کہ بعد میں بحث کے دوران میں پیدا ہوا ہے۔ ورنہ بے جوڑ کلام ہو جاتا ہے ۔قرآن کریم یہی بتا تاہے کہ بحث فِیْ رَبِّہٖ تھی۔ یعنی خدا ئے واحد کو بارہ میں۔
بحث میں با دشاہ نے کہیں کہ دیا کہ دیکھ میں تجھے تباہ کر دوں گا کیو نکہ میں حاکم ہوں۔ آپ نے فر ما یا تباہی یا آ بادی تو خدا کے اختیار میں ہے۔ اس پر اس نے اس احیاء اور اما نت کو اپنی طرف منسوب کیا۔ اور کہا کہ نہیں میرے اختیار میں ہے۔ آپ نے جھٹ اس کو پہلی بحث کے مطا بق پکڑا کہ پھر سورج عبث ہوا۔ اور وہ چپ ہو گیا۔
اس واقعہ کے نا موں وغیرہ میں گو فر ق ہے لیکن یہو دی تا ریخ میں اس وا قعہ کو جس طرز پر بیان کیا گیا ہے اس اسے صاف معلوم ہوتا ے کہ یہی وا قعہ ہے جس کی طرف قرآن کریم اشارہ کرتا ہے اور جس پر اَلَمْ تَرَ کے الفا ظ بھی دلالت کر تے ہیں ۔کیو نکہ اَلَمْ تَرَ کے ساتھ کسی بے نشان واقعہ کی طرف اشارہ نہیں کیا جا سکتا ۔ مگر یہودی بیان حسب معمول آ گے پیچھے ہو گیا ہے۔
طالمود میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کی نمرود سے یہ بحث کنعان میں آنے سے پہلے ہو ئی تھی ۔ میرے نذدیک حضرت ابراہیمؑ نے نمرود سے جو یہ کہا کہ رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ میرا رب وہ ہے جو زندہ کر تا اور مارتا ہے تو اس سے ان کی مراد ظا ہری موت اور حیات نہیں تھی۔ بلکہ کا میابی اور نا کامی ۔ اور عزت اور ذلت ، اور آ بادی اور بر بادی مراد تھی۔ چو نکہ آ پ سیاللہ تعالیٰکا یہ وعدہ ہو چکا تھا کہ وہ آپ کو کنعان کا ملک دیگا۔ اور آپ کی اولاد کو غیر معمولی ترقی حا صل ہو گی۔اس لٔے وآپ نے فرمایا کہ میرا رب وہ ہے جوحیا ٔ اور امانت کی صفت اپنے اندر رکھتا ہے۔وہ جس کو چاہتا ہے عزّت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلیل کر دیتا ہے۔جس کو چاہتا ہے کامیاب کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ناکام کر دیتا ہے۔اور جس کو چاہتا ہے غلبہ دیتا ہیاور جس کو چاہتا ہے شکست دے دیتا
اَوْکَا لَّذِیْ






ہے۔اِسپر اُس نے کہا اَنَا اُحْیٖ وَ اُمِیْتُ۔یہ بات تو میرے اختیار میں بھی ہے کہ میں جسے چاہوں ترقی دے دوں اور جسے چاہوں ذلیل کر دوں۔
جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے سورج ان کا سب سے بڑا دیوتا سمجھا جاتا تھا۔اور بادشا بھی اُس کی پرستش کرتا تھا۔اس لے حضرت ابراہیمؑ نے اُسے جواب میں کہا کہ خدا تعالٰی نے تو یہ سلسلہ جاری کیا ہوا ہے کہ وہ سورج کو مشرق سے چرہاتا ہے اور اس طرح دنیا کو نفع پہنچاتا ہے۔ لیکن اگر دنیا کو نفع پہنچانا تیرے اختیار میں ہے تو یہ جو سورج چڑھا ہوا ہے اِس کو مغرب سے مشرق کی طرف لوٹا دے۔وہ دن کا وقت تھا اور سورج چڑھا ہوا تھا۔حضرت ابراہیمؑ نے کہا اسے واپس لوٹا دے یعنی اسے پیچھے کو لے جا یا یہ کہا کہ اسے مغرب سے چڑھا لا گایا انہوں نے اسے کہا کہ اس پر اپنی حکومت قائم کرکے دکھا۔ حضرت ابراہیمؑ کا مدّعا یہ تھا کہ اگر دنیا کا نفع و نقصان تمہارے پا تھ میں ہے تو پھر سورج کیا کر تا ہے اور اگر سورج نفع و نقصان پہنچا تا ہے تو نفع و نقصان پہنچا نے اور مالک ہو نے کا تمہارا دعویٰ با طل ہے ۔ اس پر جیسا کہ تا ریخ بتا تی ہے۔ وہ مبہوت ہو کر لا جواب ہو گیا۔ کیونکہ اگر وہ جواب دیتاتو وہ یہ کہتا کہ میں نفع و نقصان نہیں پہنچا سکتا بلکہ سورج ہی پہنچا تاہے اور تر قی اور تنزل اسی کے اختیار میں ہے میرے اختیار میں نہیں۔ اور اگر وہ ایسا کہتا تو اس سے اس کا دعویٰ با طل ہو جاتا کہ اَنَا اُحْیٖ وَ اُمِیْتُ۔ اور اگر وہ یہ کہتا کہ میں ہی یہ تمام کام کر تا ہوں سورج نہیں کرتا اور نفع نقصان بھی میرے ہی اختیار میں ہے سورج کے اختیار میں نہیں تو اس پر اس کی قوم دشمن ہو جاتی کیو نکہ وہ سورج کی پر ستش کر تی تھی بلکہ وہ خود بھی سورج کا پر ستار تھا۔ اس وجہ سے وہ کو ئی جواب نہ دے سکا۔ اور خا موس ہو گیا۔
کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْر’‘o
اس واقعہ میں اللّٰہ تعالٰی نے اَللّٰہُ وَ لِیّپ الَّذِ یْنَ اٰمَنُوْ ا یُخْرِ جُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ کا ثبوت دیا ہے اور بتا یا ہے کہ ہم اپنے بندوں کی مشکلات میں کس طرح ان کی مد کر تے اور انہیں ظلمات سے نور کی طرف اور نا کا میوں سے کا میا بیوں کی طرف لے جاتے ہیں۔
۱۶۹؎ حل لغات:۔ اَوْکَا لَّذِیْ: کاف مثال کیلئے بھی آ تا ہے اور تا کید کے لئے بھی ۔ اسی طرح تشبیہ اور تمثیل کے لئے بھی آتا ہے ۔ یہاں پہلے معنوں کے لئے ہے۔
خَا وِیَۃ’‘: خَو یٰ یَخْرِیْ خِوَائً سے نکلا ہے ۔ کہتے ہیں خَوَی الْبَیْتَ: سَقَطَ وَ تَھَدَّمَْ۔ گھر گِر گیا۔ فَرَغَ وَخَلَا۔ گھر خا لی ہو گیا اور ویران ہو گیا۔
بَلْ: حرف ہے جو اضراب کے معنے دیتا ہے۔ یعنی بات کو پھیر کر دوسری طرف لے جانا۔ یہ اضراب دو طرح کی ہو تا ہے ایک تو انکار کی غرض سے جیسے قرآن کر یم میں آ تا ہے وَ قَا لُوْ اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَ لَدً اسُبْحَا نَہ‘ بَلْ عِبَاد’‘ مُّکْرَ مُوْنَ۔(انبیاء آ یت ۲۷) یعنی مشرک کہتے ہیں کہ رحمٰن خدا نے اپنا بیٹا بنا لیا ہے ۔ لیکن یہ بات غلط ہے جن کو یہ لو گ خدا کا بیٹا کہتے ہیں وہ اللّٰہ تعالٰی کے معزز بندے ہیں ۔اضراب کی دوسری قسم میں ایک غرض سے دوسری غرض کی طرف مضمو ن کو پھیر نا مقصود ہو تا ہے۔ بَلْ سے پہلے جملہ کی تردید مدّ نظر نہیں ہو تی۔ اس آیت میں بھی بَلْ سے پہلے کی بات بھی درست ہے اور بعد کی بھی صرف ایک نئے مضمون کی طرف متو جہ کیا گیا ہے۔
تُنْشِزُھَا: نَشَزَ کے معنے ہیں اِرْتَفَعَ اُٹھا۔ اور اَنْشَزَہ‘ کے معنے ہیں رَفَعَہ‘ اسے اٹھا یا یا کھڑا کیا۔ پس نُنْشِزُ ھَا کے معنے ہیں ہم ان کو کھڑا کر تے ہیں۔ یا ہم انہیں اُٹھا تے ہیں۔
تفسیر:۔ مفسّر ین کہتے ہیں کہ یہ عزیز نبی کا وا قعہ ہے۔ وہ ایک دفعہ ایک تبا ہ شدہ بستی کے پاس سے گزرے تو امکنہوں نے اس کی تبا ہی اور خستہ حا لی کو دیکھ کر کہا کہ خدا تعالٰی اس بستی میں رہنے والوں کو ان کی موت کے بعد کس طرح زندہ کرے گا۔ اس پرخدا تعالٰی نے انہیں مار ڈالا اور وہ سو سال تک اسی حالت میں مردہ پڑے رہے۔ اس عرصہ میں اللّٰہ تعالٰی نے اس بستی کے لو گوں کو آ باد کر دیا اور انہیں زندہ کر کے دکھا دیا کہ خدا تعالٰی کیسا قادر ہے اور وہ مردوں کو کس طرح زندہ کیا کر تا ہے۔ جب وہ سو سال کے بعد زندہ ہو کر اُٹھ بیٹھے تو خدا تعالٰی نے انہیں کہا کہ اپنے کھا نے کو دیکھ کہ وہ بھی ابھی تک سڑا نہیں اورپھر اس نے ان کے گدھے کو بھی زندہ کر دیا اور اس کی گلی سڑی ہڈیوں پر گو شت پو ست چڑھا دیا۔
میرے نذ دیک اگر یہ وا قعہ اسی طرح ہوا ہو جس طرح مفسرین بیان کر تے ہیں تو خود اس آیت کے مختلف ٹکڑے اس بیان کو با طل قراد دیتے ہیں چنا نچہ پہلی بات جو ان معنوں کو رد کر تی ہے وہ اَنَّی یَحْیٖ ھٰذِہٖ اللّہُ بَعْدَ مَوْتِھَاْ کے الفاظ ہیں۔یہ الفاظ متاتے ہیں کہ اس نبی کا سوال صرف بستی کے متعلق تھا کہ اللّہ تعالیٰ اسے کس طرح زندہ کریگا۔ یہ سوال نہیں تھا کہ مردے کس طرح زندہ ہونگے۔ اگر مردوں کے زندہ ہونیکا سوال ہوتا تو کیا ان کے سامنے روزانہ کئی لوگ مرتے نہیں تھے۔ اور جب وہ روزانہ یہ نظارہ دیکھتے تھے کہ لوگ مر کر زندہ نہیں ہوتے تو اس دن ایک تباہ شدہ مستی کو دیکھ کر ان کے دل میں مردوں کے زندہ ہونے کے متعلق کیسے سوال پیدا ہو گیا۔ اور اگر ان کا سوال صرف بستی کے مردہ ہونے سے اس کا اجڑنا اور زندہ ہونے سے اس کا آباد ہونا ہی مراد ہواکرتا ہے۔ مردوں کے زندہ ہونے سے اس سوال کا کوئی تعلق نہیں۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ اَنَّٰی سے مراد "کب تک" ہے یا "کیسے " ہے۔ اگر کسی سوال کرنے والے کے جواب میں "سو سال " کا لفظ بولا جائے تو اس کے یہی معنے ہونگے کہ سائل کا سوال "کب تک" کا ہے "کیسے" کا نہیں۔ ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ سائل تو یہ سوال کرے کہیہ بستی کس طرح زندہ ہو گی اور جواب یہ دیا جائے کہ سو سال کے بعد زندہ ہو جائے گی۔ سو سال کے الفاظ صاف طور پر بتا رہے ہیں کہ سوالکب کے متعلق ہے نہ کہ کیفیت کے متعلق ۔ اس کے بعد اللّہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ فَاَمَاتَہُ اللّہُ مِاَئۃَعَامٍ ثُمَّ بَعَثَہ'۔ اللّہ تعالیٰ نے اسے سو سال تک مارے رکھا پھر زندہ کر دیا۔اب سوال یہ ہے کہ ان کے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا گیا۔ اگر تو حضرت عزیز کی یہ غرض تھی کہ وہ دیکھیں کہ مردے کس طرح زندہ ہوتے ہین تو ان کو مار کر پھر زندہ کر دینے سے یہ غرض پوری نہیں ہو سکتی تھی۔ کہ مردہ کس طرح زندہ ہو ا کرتا ہیے۔ اور اگر ان کی دوبارہ حیات سے اللّہ تعالیٰ کا منشاء پورا ہو گیا تھا تو پھر وَالْظُرْاِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنْشِزُھَا پر یہ اعتراض پڑتا ہے۔کہ اللّہ تعالیٰ نے صرف گدھے کو ہی مار کر اور پھر اسے زندہ کر کے انہیں اپنی قدرت کا نظارہ کیوں نہ دکھا دیا۔ خود انہیں سو سال تک کیوں مارے رکھا۔ آخر اپنی موت سے تو اس بات کا پتہ نہیں لگتا کہ اللّہ تعالیٰ مردوں کو بھی زندہ کر سکتا ہے۔ یہ تو دوسرے کو دیکھ کر ہی پتہ لگتاہے۔ اور جب اللّہ تعالیٰ نے انکے گدھے کو بھی مارنا تھا تو پھر ان کو مارنے کی کیا ضرورت تھی؟ اسی طرح سوال یہ ہے کہ انہوں نے کونسی بات پوچھی تھی جس کا جواب یہ دیا گیا کہ اُنْظِرْ اِلیٰ طَعَامِکَ وَشَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّہ‘۔ ان ک اسوال تو یہ تھا کہ مستی کس طرح زندہ ہو گی ۔ مگر جواب یہ دیا گیا کہ تو اپنے کھانے اور پینے کے سامان کی طرف دیکھ کہ وہ سڑا نہیں۔ پس اول تو ھٰذِہٖ کا لفظ بتلاتا ہے کہ اسجگہ لوگوں کے مرنے اور دوبارہ ذندہ ہونیکا کوئی سوال نہیں بلکہ صرف شہر کی آبادی اور اس کی دوبارہ حیات کا سوال تھا۔ دوسرے مِائَۃَ عَامٍ میں بتلا دیا کہ اَنّٰی کے ساتھ " کب " کا سوال کیا گیا تھا نہ کہ " کیسے " کا ۔ یعنی سوال کیفیت کے متعلق نہ تھا بلکہ زمانہ کے متعلق تھا۔ غرض مفسرین کے بیان کردہ واقعہ پر کئی اعراضات پڑتے ہیں۔ پہلا اعتراض تو یہی ہے کہ اللّہ تعالیٰ نے عزیز کو کیوں مارا۔ اگر وہ نبی تھا تو یہ اس کے سوال کا اچھا جواب دیا کہ اسے سو سال تک مارے رکھا۔ اس عرصہ میں اس کے بیوی پچے بھی مر گئے اور اسے ایک صدی کع بعد غیر لوگوںمیں زندہ کر کے بٹھلا دیا۔ اس شخص کو مار کر ذندہ کرنے کی غرض زیادہ سے زیادہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اللّہ تعالیٰ اس طرح مردوں کو زندہ کیا کرتا ہے ۔ مگر سوال یہ ہے کہ پھر گدھے کو گوشت پوست چرھانے کی کیا ضرورت تھی۔ پھر یہ سنت اللّہ کے بھی خلاف ہے کہ کسی مردہ کو زندہ کیا جائے۔ اور پھر اگر خدا تعالیٰ نے انہیں سو سال تک مارے رکھا تو اس کے ثبوت میں یہ نہیں کہنا چاہئے تھا کہ کھانا پینا تو الگ رہا دنیا ہی بدل چکی ہے جواس بات کا ثبوت ہے کہ تو سو سال تک واقعہ میں مرا رہا تھا۔مگر اس کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ غرض ان تمام امور پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مفسرین نے اس واقعہ کو جس رنگ میں پیش کیا ہے وہ درست نہیں ۔ اب میں اس واقوہ کی وہ حقیقت بیان کرتا ہوں جو میرے نزدیک درست ہے ۔ اللّہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تو اس شخص کی طرف دیکھ جو ایک بستی یا گائوں پر سے ایسی حالت میں کہ وہ اپنی چٖھتوں پر گرا پڑا تھا گذرا اور اس نے سوال کیا کہ الیٰ یہ بستی اپنی ویرانی کے بعد کب آباد ہو گی ۔ اس پر اللّہ تعالیٰ نے اسے سو سال تک مارے رکھا (یعنی خواب میں ) اور پھر اسے اٹھایا۔ اور اس سے پوچھا کہ تو کتنی دیر تک رہا ہے ۔ اس نے کہا ایک دن یا دن کا کچھ حصہ ۔ اللّہ تعالیٰ نے فرمایا یہ بات تو درست ہے لیکن اس کے علاوہ ہم تجھے ایک اور بات بھی بتاتے ہیں کہ تو سو سال تک بھی رہا ہے ۔ تیری بات کے سچا ہونیکا تو ثبوت یہ ہے کہ تو اپنے کھانے اور پانی کو دیکھ وہ سڑا نہیں ۔ لیکن میری بات کے سچا ہونیکا ثبوت یہ کہ ہم نے تجھے کشفی حالت میں سو سال کا نظارہ دکھایا ہے اور جب یہ روئیا پورا ہو گا اس وقت ولگوں کو تسلیمکرنا پڑیگا کہ تیرا خدا کے ساتھ سچا تعلق تھا۔ جب اس پر یہ حقیقت روشن ہو گئی۔ تو اس نے کہا میں ایمان لاتا ہوںکہ اللّہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اوراس کے آگے یہ کچھ بھی مشکل نہیں کہ وہ ایسی اجڑی ہوئی مستی کو اپنے فضل سے پھر دوبارہ آباد کر دے۔ حضرت خلیفئہ اولؓ اس بستی سے ہروشلممراد لیا کرتے تھے ۔ جسے بخت نصر نے تباہ کر دیا تھا اور فرمایا کرتے تھے کہ وہ آدمی جویروشلم کے پاس سے گزرا حزقیل نبی تھا۔جس پر خدا تعالیٰ نے اسبات کاانکشاف کیا کہ ایک سو سال تک یہ شہر دوبارہ آباد ہو جائیگا۔ یہاںاس بستی کے متعلق خَاوِیَۃ" عَلیٰ عُرُوشِہَا کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔جس کے معنی یہ ہیںکہ وہ گائوں اپنی چھتوںپر گرا ہوا تھا۔ یعنی پہلے چھتیںگریں اور پھر ان پر دیواریں گر گئیں ۔ کیونکہ جو مکان عدماستعمال کی وجہ سے گریںبلعمومپہلے ان کی چھتیںگرتی ہیں ۔ کیونکہ چھتوں میں لکڑی ہوتی ہے اور لکڑی کو دیمک لگ جاتی ہے جبچھتیںگر جاتی ہیں تو پھر بارش کی وجہ سے ننگی دعواریں بھی گرنے لگتی ہیں اور اس صورت میں وہ دیواریں چھتوں پر آ گرتی ہیں ۔ اسی حالت کو واضح کرنے کے لئے خَاوِیَۃ" عَلیٰ عُرُوشِہَا کے الفاظ استعمال فرمائے گئے ہیں۔ ورنہ جو مکان زلزلہ غیرہ کی قسم کے حادثات سے گرتے ہیں۔ انکی دعواریں پہلے گرتی ہیں اور چھت ان پر آگرتی ہے ۔ ان الفاظ میں ایک لطیف اشارہ اس بات کی طرف کیا گیا ہے کہ اس گائوں کی ویرانی کا سبب زلزلہ وغیرہ نہ تھا۔ بلکہ اس کے باشندوں کا شہر چھوڑ کر چلا جانا اسکا موجبتھا۔ بہر حال ھزقیل بنی کے دل میںہرووشلمکی بربادی دیکھ کر یہ سوال پیداہوا کہ خدا تعالیٰ اس بستی کو کب زندہ کرے گا۔ بستی کو زندہ کرنے کے یہ معنی نہیں کو مردہ لوگ کس طرح زندہ ہونگے۔ بلکہ اس کا مطلبوہی ہے جو دوسریجگہ بستیوں کو زندہ کرنے کے متعلق قرآن کریم نے بیان کیا ہے ۔ فرما تا ہے ۔ وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآئِ مَآئً طَھُوْرًالِّنُحْیِیَ بِہٖ بَلْدَۃَ مَّیْتًاوَّنُسْقِیَہ‘مِمَّاخَلَقْنَآاَنْعَامًاوَّاَنَامِیَ کَثِیْرًا (فرقان آیت ۵۰۰۴۹)یعنی ہم نے بادل سے پاک و صاف پانی اتارا ہے ۔ تاکہ اس کے ذریعہ ہم مردہ ملک کو زندہ کریں اور اسی طرح اس پانی سے اپنے پیدا کیے ہوئے چارپائیوں اور بہت سے انسانوں کو سیراب کریں ۔ اسی طرح ایک اور جگہ فرماتا ہے ۔ وَاُحْیَیْنَابِہٖ بَلْدَۃًمَّیْتَا(ق آیت ۱۲) ہمبارش کے ذریعہ مردہ شہر کو زندہ کیا کرتے ہیں ۔ پس مردہ شہر کو زندہ کرنے کے معنی ویران شہر کو آباد اور خوشحال کرنے کے ہوتے ہیں۔ حضرت حزقیل نے بھی یہی سوال کیا کہ الٰہییہ شہر کب آباد ہوگا؟ اللّہ تعالٰی نے انہیں رئویا میں بتایا کہ سو سال کے عرصہ میں آباد ہو جائے گا۔ یہ رئویا جس کا قرآن کریم نے ذکر کیا ہے حزقیل بنی کی کتاب میں بھی پائی جاتی ہے صرف اتنا فرق ہے کہ حقیل بنی کی کتاب میں سو سال کی میعادکا ذکر نہیں۔ یہ قرآن کریم کی صداقت اور اس کے کامل ہونیکا ایک زبردست ثبوت ہے کہ جو ضروری امور پچھلی کتب میں بیان نہیں ہوئے قرآن کریم نے انکو بھی بیانکر دیا ہے اور اس طرح ان کی کمی کو پورا کر دیا ہے ۔ بہر حال حزقیل باب ۳۷ میں لکھا ہے ۔ " خدا وند کا ہاتھ مجھ پر تھا اور اس نے مجھے خداوند کی روح میں اٹھا لیا اوراس وادی میں جو ہڈیوں سے بھر پور تھی مجھے اتار دیا اور مجھے ان کے آس پاس چو گرد پھرا یا ۔ اور دیکھ دے وادی کے میدان میں بہت تھیں اور دیکھ دے نہایت سوکھی تھیں ۔ اور اس نے مجھے کہا کہ اے آدمزاد کیا یہ ہڈیاں بھی سکتی ہین۔ میں نے جواب میں کہا کہ اے خدا وند تو ہی جانتا ہے ۔ پھر اس نے مجھ سے کہا کہ تو ان ہڈیوں کے اوپر نبوت کر اور ان سے کہہ کہ اسے سوکھی ہڈیو! تم خدا وند کا کلام سنو۔ خداوند یہودا ان ہڈیوں کو یوں فرماتا ہے کہ دیکھ میں تمہارے اندر میں روح داخل کروں گا۔ اور تم جیو گے۔ اور جانو گے کہ میں خداوند ہوں ۔سو میں نے حکم کے بموجب نبوت کی۔ اور جب میں نبوت کرتا تھاتو ایک شور ہوا۔ اور دیکھ ایک جنبش اورہڈیاں آپس میں مل گئیں۔ ہر ایک ہڈی اپنی ہڈی سے اور جو میں نے نگاہ کی تو دیکھ نسیں اور گوشت ان پرچڑھ آئے اور چمڑے کی ان پر پوشش ہو گئی۔ پر ان میں روح نہ تھی ۔ تب اس نے مجھے کہا کہ نبوت کر۔تو ہوا سے نبوت کر۔ اے آدم زاد! اور ہوا سے کہہ کہ خداوند یہوداں یوںکہتا ہے کہ اے سانس! تو چاروںہوائوںمیںسے آ۔اور ان مقتولوںپر بھونک کہ دے جئییں۔ سو میں نے حکم کے بموجب نبوت کی اور ان میں روح آئی اور سے جی اٹھے اور اپنے پائوںپر کھڑے ہوئے۔ ایکنہایت پڑا لشکر۔ تب اس نے مجھ سے کہا کہ اے آدم زادیہ ہڈیاںسارے اسرائیل ہیں۔دیکھ یہ کہتے ہیں کہ ہماری ہڈیاں سوکھ گئیں اور ہماری امید جاتی رہی ۔ ہم تو بلکل بلکل فنا ہو گئے۔ اس لئے تو نبوت کر اور ان سے کہہ کہ خداوند یہوداں یو ں کہتا ہے کہ دیکھ اے‘ میرے لوگو میں تمہاری قبروں کو کھولوں گا۔ اور تمہیں تمہاری قبروں سے باہر نکالوں گا تب جانوگے کہ خدا وند میں ہوں اور میں اپنی روح تم میں ڈالوں گااورتم جیئو گے۔ اور میں تم کو تمہاری سر زمین میں بسائوں گا۔ تبتم جانو گے کہ مجھے خداوند نے کہااور پورا کیا۔" (حزقیل باب۳۷)
یہ پیشگوئی ہے جو ھزقیل بنی نے کی ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ تو اس وقت بابل میں قید تھے۔ وہ اس بستی کے پاس سے کب گندے۔ سو اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ ہو سکتا ہے یہگزرنا بھی خواب میں ہی ہو ۔ جیسا کہ بائیبل کے الفاظ سے ظاہر ہے ۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ بنو کد نضر جو بابل کا بادشاہ تھا اس نے ۵۸۶ قبل مسیح یروشلم پر حملہ کر کے اسے فتح کر لیا تھا ۔ اور اس کا ایک صہ گرا دیا تھا۔ وہ وہاں کے بادشاہ اور اس کے خاندان کے تمام افراد کو پکڑ کر اپنے نلک میں لے گیا۔ اسی طرح شہر کے تمام شرفاء اور بڑے بڑے کا ریگروں کو بھی قید کر کے لے گیا۔ اور سوائے چند رذیل لوگوں کے وہاں کوئی باقی نہ رہا۔ حضرت حزقیل بھی ان قیدیوں میں ہی تھے جنہیں بنو کد نضر نے گرفتا کیا۔ ان کے متعلق بحث ہوئی ہے کہ انہیں اس نے کیوں پکڑا۔ اور مئورخین نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ چونکہ وہ لوگوں کو ترٖغیب دیتے تھے کہ بنو کد نضر کا مقابلہ کرو۔ اور اپنے ملک کو نہ چھوڑو اس لئے وہ ان کو بھی قیدکر کے لے گیا۔ پرانی تاریخوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ جن شہروں کو گراتے اورویران کرتے تھے وہان کے قیعیوں کو وہ ان کے اوپر سے گزارتے تھے تاکہ انہیں اپنی زلت اور بیچارگی کا احساس ہو۔ میرے نزدیک جب وہ پکرے گئے اور یروشلم کے اوپر سے گزارے گئے اس وقت انہوں نے اس کے متعلق خدا تعالٰی کے حضور عرض کیا کہ خدایا یہکیا ہو گیا ہے ۔ شہر گرا دیا گیا ہے ۔ سب بڑے بڑے لوگ قید کر کے لے جائے جا رہے ہیں ۔ ایسی خطرناک تبایہ کے بعد اب یہ شہر دوبارہ کب آباد ہو گا۔ وَھِیَ خَاوِیَۃ"عَلٰی عُرُوشِہَاْ کے الفاظ بھی اسی امر پر دلالت کرتے ہیں کہ یروشلم کے تباہ ہوتے ہی ان کے دل میں خیال پیدا ہواجب کہ گری ہوئی چھتیں انہیں نظر آ رہی تھیں۔ ورنہ بعد میں تو لوگ سا مان اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ اس وقت ان کے دل یہ خیال گزرا کہ الٰہی یہ شہر دوبارہ کب آباد ہو گا۔ ہم تو سب قید ہو کر جا رہے ہیں۔ اس پر اللّٰہ تعا لٰٰی نے اسکو سو سال کی موت کا نظارہ دکھا یا۔ یعنی کشفی رنگ میں انہیں ایسا محسوس ہوا کہ وہ فوت ہو گئے ہین اور سو سال کے بعد پھر زندہ ہوئے ہیں۔ اور خوا بوں میں ایسا ہونا کو ئی تعجب انگیز امر نہیں۔ انسان خواب میں مر تا بھی ہے اور مختلف قسم کے نظارے بھی دیکھتا ہے۔ حضرت حز قیل چو نکہ اپنی قوم کے نبی تھے ۔اس لئے ان پر کشفی رنگ میں مو ت کی کیفیت وارد کر نے سے مرا د درحقیقت بنی اسرائیل کی موت تھی اور اللّٰہ تعا لٰٰی اس ذریعہ سے انہیں یہ بتا نا چاہتا تھا کہ بنی اسرائیل سو سال تک غلامی اور ادبار کی حالت میں رہیں گے اس کے بعد انکو ایک نئی زندگی عطا کی جا ئیگی اور وہ اپنے شہر میں وا پس آ جا ئینگے۔
اس میں کو ئی شبہ نہیں کہ اس جگہ رویا کا کو ئی لفظ نہیں۔ مگر قر آ ن کریم کا یہ طریق ہے کہ وہ بعض دفعہ رؤیا کا تو ذکر کر تا ہے مگر رؤیا کا لفظ استعمال نہیں کرتا۔ چنا نچہ حضرت یو سف ؑ نے اپنے والد حضرت یعقوبؑ کو جب بتا یا کہ میں نے دیکھا ہے کہ چاند اور سورج وغیرہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں تو انہوں نے رؤیا کا لفظ استعمال نہیں کیا۔پس یہ ضروری نہیں ہو تا کہ خواب کے ذکرمیں خواب کا لفظ بھی استعمال کیا جائے۔
جب وہ یہ نظارہ دیکھ چکے تو ان کو اٹھایا گیا۔ یعنی ان کی کشفی حالت جاتی رہی۔ اور خدا تعالٰی نے ان سے پو چھا کہ کَمْ لَبِثْتَ بتا تو کتنے عرصہ تک اس حالت میں رہا انہوں نے عر ض کیا لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ۔ میں تو صرف ایک دن یا دیک کا کچھ حصہ رہا ہوں۔ محا ورہ میں اس کے یہ معنے ہیں کہ اچھی طرح معلوم نہیں ۔ چنا نچہ یہ محاورہ قرآن کریم میں بعض دوسرے مقا مات پر بھی استعمال کیا گیا ہے۔ فر ما تا ہے۔کَمْ لَبِثْتُمْ فِی الْاَرْضِ عَدَدَ سِنِیْنَ قَا لُوْ الِبَثْنَا یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍٍ فَسْئَلِ الْعٰدِّیْنَ( مو منون آ یت ۱۱۳،۱۱۴) یعنی اللّٰہ تعالٰی کفار سے فر ما ئے گا کہ تم زمین میںکتنے سال رہے ہو۔ وہ کہیں گے ہم ایک دن یا دن کا کچھ حصہ رہے ہیں۔ تو گننے والوں سے پو چھ لے یعنی ہم بہت تھوڑا عر صہ رہے ہیں یا ہمیں معلوم نہیں کہ کتنا عرصہ رہے۔ حضرت حزقیل کا یہ جواب ادب کے طور پر تھا۔ کہ معلوم نہیں اللّٰہ تعالٰی کا اس سوال سے کیا منشز ہے۔ یونی بات تو ظاہر ہے کچھ دیر ہی سو یا ہوں۔ قَالَ بَلْ لَبِثْتَ مِا ئَۃَ عَامٍ۔ اللّٰہ تعالٰی نے فر ما یا کہ اس بات کے علاوہ جو تیرے دل میں ہے ہم ایک اور بات بھی بتاتے ہیں ۔ اور وہ یہ کہ تو سو سال تک رہا ہے۔ یہاں بَلْ میں پہلے قول کی نفی نہیں کی گئی۔ بلکہ ایک اور بات بیان کی گئی ہے۔ جسے قر آن کریم میں اللّٰہ تعالٰی نے فر ما یا ہے۔ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَ کّٰی وَ ذَکَوَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی۔ بَلْ تُئْو ثِرُ وْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَ الْاٰ خِرَۃُ خَیْر’‘ وَّ اَبْقٰی( اعلٰی) یعنی جع شخص پاک بنے گا وہ یقیناً کامیان ہو گا بشر طیکہ اس نے اپنے رب کا نام لیا اور نماز پڑھتا رہا۔ مگر مخا لفو! تم ورلی زندگی کو آ خرت پر تر جیح دیتے ہو۔ حا لا نکہ آ خرت کہیں زیادہ بہتر اور دیر پا ہے۔ اس آ یت میں بَلْ سے پہلے کی بات بھی درست ہے اور بعد کی بھی ۔ اسی طرح اس آیت میں بَلْ کے لفظ سے حضرت حز قیل کے اس خیال کی کہ وہ دن یا دن کا کچھ حصہ اس حالت میں رہے تر دید مد نظر نہیں بلکہ اس کے علاوہ ایک اور مضمون کی طرف ان کے ذہن کا انتقال کیا ہے اور بتا یا ہے کہ ایک نقطہ نگاہ سے دیکھوتو تم نے سو سال اس حالت میں گزارے ہیں۔مگر چونکہ نبی کا قول بھی اپنی جگہ درست تھا اس لئے اس خیال سے کہ نبی خدا تعالیٰ کے قول کو مقدم رکھ کر اپنے خیال کو غلط نہ قرار دیدے اللّہ تعالٰی نے ساتھ ہی فرما دیا کہ ہم تمہارے خیال کو رد نہیں کرتے۔ وہ بھی درست ہے ۔ چنانچہ دیکھو تمہاراکھانااچھی حالت میں ہے سڑا نہیں اور تمہارا گد ھا بھیتندرست اپنی جگہ پر کھڑا ہے جس سے ثابت ہوا کہتمہارا خیال بھی کہ تمصرف چند حنٹے اس ھالت میں رہے ہو اپنی جگہ درست ہے ۔ ورنہ جو سو سال تک واقعہ میں مرا رہا ہو اسے یہ ہیں کہا جاتا کہ اپنا کھانا دیکھ وہ سڑانہیں۔ اور پھر فرمایا کہ یہ رویا ہم نے اس لیے دکھائی دیا تاکہ ہم تجھے لوگوں کیلئے ایک نشان بنائیں اب تو ان مردہ ہڈیوں کی طرف دیکھ کہ ہم ان کو کس طرح کھڑا کرتے ہیں اور ان پر گوشت پوست چڑھاتے ہیں۔ اس کشف اور الہام کے ذریعہ اللّہ تعالٰی نے انہیں خوشخبری دی کہ ایک سو سال تک یہ شہرآباد ہو جائیگا۔ چنانچہ ٹھیک سو سال کے
وَاِذْقَالِ



عَزَیْز’‘حَکِیْم’‘o
بعد اللّہ تعالٰی نے اس شہر کی ترقی اور آبادی کی صورت پیدا کر دی ۔ یروشلم کی تباہی دو دفعہ ہوئی ہے ایک دفعہ ۵۹۷ قبل مسیھ میں اور دوسری دفعہ یروشلم کی بغاوت پر ۵۸۶ قبل مسیح میں یر وہ شلم کی دوبارہ بنیاد رکھی گئی اور تیس سال تک تعمیر جاری رہی جس کے نتیجہ میں ۴۸۹ قبل مسیح میں یر وشلم صحیح طور پر آ باد ہوا۔ پس درمیانی فا صلہ قر یباً سو سال(۹۸سال) کا ہی ثا بت ہوتا ہے۔
وَ انْظُرْ اِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنْشِزُ ھَا ثُمَّ نَکْسُوْ ھَا لَحْمًا کے الفاظ یہود کے اس قول کے مطا بق استعمال کئے گئے ہیں جس کا حز قیل نبی کی کتا ب میں بھی ذکر آ تا ہے کہ ’’ ہماری ہڈیاں سو کھ گئیں اورہماری امید جا تی رہی ۔ ہم تو بالکل فنا ہو گئے(حز قیل باب ۳۷ آ یت ۱۱) اللّٰہ تعالٰی نے انکو بتا یا کہ تم ایک بار پھر زندہ ہو گے اور پھر اپنی کھو ئی ہوئی طا قت اور عظمت حا صل کرو گے۔ غرض اس واقعہ کے متعلق با ئیبل سے رؤیا بھی مل گیا۔ بنی اسرا ئیل کی ہڈیوں پر گو شت کا چڑھا یا جا نا بھی ثابت ہو گیا۔ اسی طرح حزقیل نبی کو پکڑ کر لے جا نا بھی ثابت ہو گیا۔ حز قیل نبی کوپہلے تو صدمہ ہوا کہ یہ کیا ہو گیا ہے مگر جب اللّٰہ تعالٰی نے انکو بتا یا کہ یہ ہمیشہ کی تبا ہی نہیں تو انہوں نے کہا اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْر’‘۔ خدا یا اب میری سلّی ہو گئی ہے ۔ اور گو بظاہر ان حالات کا بد لنا نا ممکن نظر آ تا ہے مگر یہ بات یقیناً ہو کر رہے گی۔ اور خدا تعالٰی دوبارہ اس شہر اور قوم کو تر قی عطا فرمائے گا۔
۱۷۰؎ حل لغات:۔ صُرْ ھُنَّ:۔ صُرْکے ساتھ جب الٰی کا صلہ آ جا ئے تو اس کے معنے اپنی طرف مائل کر لینے کے ہو تے ہیں۔ کا ٹنے کے نہیں ہو تے۔ ہاں جب یہ لفظ اِلٰی کے صلہ سے خالی ہو تو اس وقت اس کے معنی کاٹنے کے ہی ہوتے ہیں۔ چنانچہ کہتے ہیں۔ صَارَالشَّیْء قَطَعَہ‘۔اسے کاٹ دیا ۔ پس صُرْھُنَّ اِلَیْکَ کے معنی ہیں۔ ان کو اپنے ساتھ سِدھالے۔(اقرب)
تفسیر:۔ فرماتا ہے تم اس واقعہ کو بھی یاد کرو جب ابراہیمؑ نے کہا تھا۔ کہ اے میرے رب ! مجھے بتا کہ تو مردے کس طرح زندہ کرتا ہے ۔ اللّٰہ تعالٰی نے فرمایا کیا تو ایمان نہیں لا چکا؟ حضرت ابراہیمؑ نے اَوَلَمْ تُئوْمِنْ کے جواب میں بَلٰی کہا۔ جس سے اس عقیدہ کا اظہار مقصود ہے کہ اللّٰہ تعالٰی مردے زندہ کر سکتا ہے ۔ اور میں اس بات پر ایمان رکھتا ہوں کہ وہ ایسا کر سکتا ہے گویا انہوں نے اس کے متعلق کسی شک کا اظہار نہیں کیا بلکہ اقرار کیا کہ اللّٰہ تعالٰی یہ کام کر سکتا ہے اور مجھے اس پر کامل ایمان حاصل ہے ۔
بَلٰی کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ اس سے پہلے خواہ نفی ہو یا اثبات اس سے مراد "ہاں" ہی ہوتی ہے ۔ اگر اس جگہ نَعَمْ کا لفظ ہوتا تو اس کے یہ معنی بھی ہو سکتے تھے کہ ہاں مجھے ایمان نہیں ہے ۔ مگر اسجگہ بَلٰی کا لفظ رکھا گیا ہے ۔ جس سے یہ شبہ دور ہو گیا کیونکہ کے معنی ہو صورت میں اثبات ہی کے ہوتے ہیں ۔ ایمان کے بعد لٰکِن کا لفظ رکھا گیا ہے ۔ جو استدراک کیلئے آتا ہے یعنی اس سے مراد یہ ہے کہ مجھے ایمان تو ہے کہ اللّٰہ تعالٰی مردے زندہ کر سکتا ہے لیکن میں اس سے ایک زائد بات چاہتا ہوں ۔ اور وہ یہ کہ میرے دل کو بھی اطمینان حاصل ہو جائے کہ تو میری قومہٖ کے ساتھ ایسا سلوک کرے گا۔ جیسے ایک شخص جو بیمار ہو۔ اسے ایمان تو ہو سکتا ہے کہ خدا تعالٰی بیماروں کو اچھا کر سکتا ہے ۔ لیکن اطمینان نہیں ہو سکتا کہ اسے بھی اچھا کریگا۔ یہ اطمینان خدا کے بتانے سے ہی ہو سکتا ہے۔ یا مثلاً ہر شخص جانتا ہے کہ بھوک کے بعد لوگ سیر ہو جایا کر تے ہیں۔ مگر کیا س سے ایک فاقہ زدہ کو یہ یقین ہو جائیگا کہ مجھے بھی کھانا مل جائیگا اور میں سیر ہو جائوں گا ۔ پس ایمان تو امر غیب کے متعلق ہوتا ہے جو انسان کی آنکھوں سے اوجھل ہوتا ہے ۔ اورکسی چیز کے ہونے یا ہو سکنے کے متعلق اس کے یقنین کاملکو ظاہر کرتا ہے ۔ لیکن اطمینان کا لفظ دو چیزوں کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ایک شک ے مقابلہ میں۔ دوسرے کرب و اضطراب کے مقابلہ میں ۔ وہ اطمینان جو شک کے مقابلہ میں ہوتا ہے ۔ وہ یہاں مراد نہیں ۔ بلکہ وہی اطمینان مراد ہے ۔ جو کرب اور اضطراب کے مقابلہ میں ہوتا ہے ۔ کیونکہ اس سے پہلے اثبات ایمان موجود ہے ۔ حضرت ابراہیمؑ کا ایمان تھا کہ خدا تعالٰی احیاء موتٰی کر سکتا ہے مگر وہ اپنی قوم کے متعلق بھی یہ اطمینان حاصل کرنا چاہتے تھے کہ اس پر الٰہی فضل نازل ہو گا اور وہ بھی زندہ قوم بن جائیگی۔
اللّٰہ تعالٰی نے فرمایا۔ تو چار پرندے لے اور ان کو اپنے ساتھ سدھا لے ۔ پھر ہر ایک پہاڑ پر ان میں سے ایک ایک حصہ رکھ دے ۔ پھر انہیں بلا۔ وہ تیری طرف تیزی کے ساتھ چلے آئیں گے ۔ اور جان لے کہ اللّٰہ تعالٰی بڑا غالب اورحکمت والا ہے ۔ لوگ اس آیت کے یہ معنی کرتے ہیں کہ چار پرندے پکڑ کر ان کا قیمہ کر لے ۔اور ان کو اپنی طرف لے لے ۔ لیکن یہ بلکل غلط اور محاورہ کے خلاف معنی ہیں ۔کیا کوئی شخص قیمہ کر کے اسے اپنی طرف بھی لیا کرتا ہے ۔ پس یہ کوئی معنی نہیں کہ قیمہ کر کے اسے اپنی طرف لے لے ۔ اس کے یہی معنی ہیں کہ توان کو اپنے ساتھ سدھالے (مفدات واقرب الموارد)
جُزْئً ا کے متعلق بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ لفظ بتلاتا ہے کہ یہاںقیمہ کرنا ہی مراد ہے ۔ مگر یہ بھی غلط ہے،۔ جز کے معنے ایک پرندے کے ٹکڑے کے نہیں بلکہ چاروں پرندوں کا جزء مراد ہے جو ایک کا عدد ہے ۔ اس کی مثال قرآن کریم کی اس آیت سے ملتی ہے کہ اِنَّ جَھَّنَمَ لَمَوْْعِدُھُمْ اَجْمَعِیْنَ.لَھَاسَبْعَۃُاَبْوَابٍ.لِکُلِّ بَابٍ مِّنْھُمْ جُزْئُ‘مَّقْسُوْمُ‘۔ (حجرآیت۴۴۔۴۵) یعنی جہنم سب کفار کے لئے مقررہ جگہ ہے ۔ اس کے سات دروازے ہونگے اور ہر دروازہ کے لئے کفار کا ایکحصہ مقرر ہو گا۔ اسجگہ جُزْئُ‘ کا لفظ ہی استعمال ہوا ہے ۔ لیکن کوئی شخص یہمعنی نہیں کرتا کہ کفار کا قیمہ کر کے اس قیمہ کا تھوڑا تھوڑا حصہ سب دروازوں میں ڈال دیا جائیگا۔ بلکہ سب مفسرین متفق ہیںکہ اس سے مراد یہ ہے کہ کچھ دوسرے سے اور کچھ تیسرے سے اور کچھ چوتھے سے۔ پس سورہ حجر کی اس آیت نے بتلا دیا کہ جب جزء کالفظ ایک جماعت پر بولا جائے تو اس سے اسجماعت کے افراد مرادہوتے ہیں ۔ اور انہی معنوں میں جزء کا لفظ اس آیت میں استعمال ہوا ہے اور مراد ہر پرندہ کا جزء نہیں بلکہ چار کاجزء ہے ۔ اور معنی
مَثَلُ الَّذِیْنَ

یَّشَآئُ
یہ ہیں کہ ہر چوٹی پر ایک ایک پرندہ رکھدے۔
یہ واقعہ جس کا اوپر ذکر کیا گیاہے ۔ اگر ظاہری ہوتاتو اس پر بہت سے اعتراض پڑتے ہیں۔ اوّل یہ کہ احیاء موتٰی کے ساتھ پرندوںکے سدھانے کا کیاتعلق۔دوم۔ چار پرندے لینے کے کیا معنے؟ کیا ایک سے یہ غرض پوری نہ ہوتی تھی؟ سوم ؔپہاڑوں پر رکھنے کا کیا فائدہ کیاکسی اور جگہ رکھنے سے کام نہ چلتا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ ظاہری کلام نہیں بلکہ مجازی کلام ہے ۔ حضرت ابراہیمؑ نے اللّٰہ تعالٰی سے دعا کی کہ الٰہی احیاء موتٰی کا جو کامتو نے میرے سپرد کیا ہے ۔اسے پورا کر کے دکھا۔ اور مجھے بتا کہ میری قوم میںزندگی کی روحکس طرح پیدا ہو گی جبکہ میں بڈھا ہوں ۔ اور کام بہت اہم ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب ہم نے وعدہ کیا ہے تو یہ کام ہو کر رہیگا۔ حضرت ابراہیم ؑ نے عرض کیا کہ ہو تو ضرور رہیگا۔ مگر میں اپنے اطمینان کے لئے پوچھتا ہوں کہ یہمخالف حالات کس طرح بدلیں گے ۔ اللّٰہ تعالٰی نے فرمایا۔ تو چار پرندے لیکر سدھا۔ اور ہر ایک کو پہاڑ پر رکھدے۔ پھر ان کع بلا۔ اور دیکھ کہ وہ کس طرح تیری طرف دوڑے چلے آتے ہیں۔ یعنی اپنی اولاد میں سے چار کی تربیت کر وہ تیری آواز پر لبیک کہتے ہوئے۔اس احیاء کے کام کی تکمیل کریںگے۔ یہ چار روحانی پرندے حضرت اسماعیلؔ ۔ حضرت اسحاق حضرت یعقوبؔ اور حضرت یوسفؑ ہیں۔ ان میں دو کی حضرت ابراہیمؑ نے براہ راست تربیت کی اور دو کی بالواسطہ پہاڑ پر رکھنے کے معنی بھی یہی تھے کہ ان کی نہایت اعلٰی تربیت کر کیونکہ وہ بہت پڑے درجہ کے ہونگے۔ گویا پہاڑ پر رکھنے میں ان کے رفیع الدرجات ہونے کی طرف اشارہ ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ بلندیوں کی چوٹیوںتک جا پہنچیں گے۔ اسی طرح چار پرندوں کو علیحدہ علیحدہ چار پہاڑوںپر رکھنے سے یہ معنے تھے۔ کہ یہ احیاے چار علٰیحدہ علٰیحدہ وقتوں میں ہو گا۔ غرض اس طرح احیاء قومی کا وہ نقشہ جو حضرت ابراہیمؑ کے قریب زمانہ میں ظاہر ہونے والا تھاانہیں بتا دیا گیا۔ اسی طرح بعد کے زمانہ کے لئے بھی اس میں حضرت ابراہیمؑ کی قوم کی چار ترقیوں کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔ حضرت ابراہیمؑ نے اللّٰہ تعالٰی سے یہ عرض کیا تھا کہ آپ مردوں کو کس طرح زندہ کرتے ہیں؟آپ نے جواب دیا کہ ایمان تو ہے وَلٰکِنْ لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ۔یہ زبان کا ایمان ہے، میں دیکھتا ہوں کہ آ مر دوں کو زندہ کر تے ہیں اور اقرار کر نا پڑتا ہے کہ کر تے ہیں مگر دل کہتا ہے کہ یہ طا قت میری اولاد کی نسبت بھی استعمال ہو۔ میں چا ہتا ہوں کہ یہ نشان اپنے نفس میں بھی دیکھوں اس پراللہ تعالیٰنے فر ما یا کہ تمہاری قوم چار دفعہ مردہ ہو گی اور ہم اسے چار دفعہ زندہ کریں گے۔
چنا نچہ ایک دفعہ حضرت موسٰے ؑ کے زما نہ میں۔ ان کے ذریعہ حضرت ابراہیمؑ کی آواز بلند ہوئی۔ اور یہ مردہ زندہ ہوا۔پھر حضرت عیسٰیؑ کے ذریعہ حضرت ابراہیمؑ کی آ واز بلند ہوئی۔ اوریہ مردہ زندہ ہوا۔ پھر آ نحضرتؐ کے ذریعہ وہی آ واز بلند ہوئی اور اس
وَاللّٰہُ وَاسِعُٗ عَلِیْمُٗ o
مردہ قوم کی زندگی ملی۔ اور چو تھی بار حضرت مسیح مو عودؑ کے ذریعہ ابراہیمی آ واز پھیلی اور وہی مردہ زندہ ہوا۔ چا ر دفعہ ابراہیمی نسل کو
حضرت ابراہیم ؑ نے آ وازیں دیں اور چا روں دفعہ وہ دوڑ کر جمع ہو گئی۔
پہلا پر ندہ جسے حضرت ابراہیمؑ نے بلا یا اور اطمینا ن قلب حا صل کیا وہ مو سوی اُمّت تھی دوسرا پر ندہ عیسوی اُمت تھی۔ تیسرا پر ندہ آ نحضرتؐ کے جلا نی ظہور کی حا مل اور مظہر محمدی جما عت تھی۔ اور چو تھا پر ندہ آ پ ؐ کے جما لی ظہور کی مظہر جماعت احمدیہ ہے۔ جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰنے حضرت ابراہیم ؑ کے قلب کو راحت پہنچائی اور آ پ نے کہا کہ واقعی میرا خڈا زندہ کرنے والا ہے بَلٰی وَلٰکِنْ لِّیَطْمِٔنَّ قَلْبِی کا بھی یہی مطلب تھا کہ حضور زبان تو اقرار کرتی ہے ۔ اور میں ہر روز دیکھتا ہوں کہ آپ مردوں کو زندہ کرتے ہیں۔ اس کا مجھے کس طرح انکار ہو سکتا ہے ۔ لیکن اگر میری اولاد ہدایت نہ پائے تو مجھے اطمینان قلب حاصل نہیں ہو سکتا۔ پس اطمیان قلب کیلئے میں نشان مانگتا ہوں ۔میری عقل وفکر میرے ہوش وحواس اور میرا مشاہدہ کہتا ہے کہ آپ مردوں کو زندہ کرتے ہیں۔ مگر دل کہتا ہے کہ میں خود کیا تعریف کروں جب تک یہ پتہ نہ لگے کہ میری اولاد میں بھی یہ نشان ظاہر ہو گا۔ خدا تعالیٰ نے انہیں بتایا کہ تمہاری اوالد کو چار دفعہ زندہ کیا جائے گا۔ اور چار بار اُس پر خاص فضل نازل ہو گا۔ چنانچہ ایک دفعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت ۔دوسری دفعہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت ۔تیسری دفعہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے وقت اور چوتھی دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد پر خدا تعالیٰ نے اپنا خاص فضل نازل کیا ۔ اور انیہں روحانی لحاظ سے زندہ کر دیا غرص اس میں قریب اور بعیاد دونوں زمانوں کیلئے پیشگوئی کی گئی تھی ۔ جو اپنے اپنے وقت میں بری شان سے پوری ہوئی ۔ اور خداتعالیٰ کا عزیز اور حکیم ہونا ظاہر ہوگیا ۔
۱۷۱؎حل لغات:۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
تفسیر کبیر ۔ تفسیر القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا محمود احمد رض ۔جلد 3۔ یونی کوڈ

اَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمَط
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالنــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــاصر
کچھ ’’تفسیر کبیر‘‘ کے متعلق
سورۂ یونس سے سورۂ کہف تک کے تفسیری نوٹ شائع ہورہے ہیں۔ میں نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی ہے کہ قرآن کریم کا صحیح مفہوم پیش کروں اور مجھے یقین ہے کہ اس تفسیر کا بہت سا مضمون میرے غور کا نتیجہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا عطیہ ہے مگر بہرحال چونکہ میرے دماغ نے بھی اس کام میں حصہ لیا ہے اس لئے ممکن ہے کہ کوئی بات اس میں ایسی ہو جو قرآن کریم کے منشاء کو پوری طرح واضح نہ کرتی ہو۔ اس لئے میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ اپنے کلام کی خوبیوں سے اپنے بندوں کو نفع پہنچائے اور انسانی غلطیوں کے نقصان سے محفوظ رکھے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق عطاء فرمائی تو انشاء اللہ اگلی جلد سورۂ فاتحہ سے شروع کی جائے گی۔ یہ جلد پہلے اس لئے شائع کی گئی ہیکہ ان سورتوں کے متعلق میرے ایک درس کے نوٹ اڑھائی سو صفحات تک چھپ چکے تھے اور ان کے ضائع ہونے کا ڈر تھا۔ پس مناسب سمجھا گیا کہ پہلے سورۂ یونس سے سورۂ کہف تک تفسیری نوٹوں پر مشتمل جلد شائع ہو۔ اور اگر اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے تو بعد میں قرآن کریم کی بقیہ سورتوں کے تفسیری نوٹ شروع سے ترتیب وار شائع کئے جائیں۔
میں نے تفسیری نوٹوں کو لکھتے ہوئے اس امر کو مدنظر رکھا ہے کہ آیات اور سورتوں کی ترتیب اچھی طرح ذہن نشین ہو جائے۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں انشاء اللہ تعالیٰ قرآن کریم کے معانی کا ایک سلسلہ پوری ترتیب کے ساتھ پڑھنے والے کی سمجھ میں آجائے گا۔ اور وہ کسی سورۃ یا کسی آیت کو بے جوڑ نہ سمجھے گا۔ ترتیب کا مضمون ان مضامین میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے خاص طور پر سمجھائے ہیں وَلَا یُحِیْطُ اَحَدٌ بِشَیئٍ مِنْ عِلْمِ اللّٰہِ اِلَّا بِمَا شَائَ وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں قرآن کریم کے سات بطن ہیں اور ہر بطن کے کئی کئی معانی ہیں۔ اس صورت میں قرآن کریم کی کوئی ایسی تفسیر لکھنا جو سب معانی پر مشتمل ہو ناممکن ہے اور جو شخص کہے کہ اس نے قرآن کی مکمل تفسیر لکھ دی ہے دیوانہ ہے یا جاہل۔ جو شخص میرے ان نوٹوں کی نسبت کوئی ایسی بات منسوب کرے میں اس سے بری ہوں۔
میرے نزدیک ان نوٹوں کی خوبی یہی بہت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر فضل فرما کر موجودہ زمانہ کی ضرورتوں کے متعلق بہت کچھ انکشاف فرمایا ہے۔ مگر ہر زمانہ کی ضرورت الگ ہوتی ہے اور ہر زمانہ کی ضرورت کے مطابق قرآن کریم میں علوم موجود ہیں۔ جو اپنے موقعہ پر کھولے جاتے ہیں۔ پہلے مفسرین نے اپنے زمانہ کی ضرورتوں کے مطابق بہت بڑی خدمت قرآن کریم کی کی ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اگر وہ دو غلطیاں نہ کرتے تو ان کی تفاسیر دائمی خوبیاں رکھتیں۔ (۱) منافقوں کی باتوں کو جو انہوں نے مسلمانوں میں مل کر شائع کیں ان تفاسیر میں جگہ دے دی گئی ہے اور اس وجہ سے بعض مضامین اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے لئے ہتک کا موجب ہو گئے ہیں۔ (۲)انہوں نے یہودی کتب پر بہت کچھ اعتبار کیا ہے اور ان میں سے بھی مصدقہ بائبل پر نہیں بلکہ یہود کی روایات پر، اور اس طرح دشمنوں کو اعتراض کا موقعہ دے دیا ہے۔ اگر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا کہ لَاتُصَدِّقُوْھُمْ وَلَاتُکَذِّبُوْھُمْ ان کے ذہن میں رہتا تو یہ مشکل پیش نہ آتی۔ بہرحال ان دو غلطیوں کو چھوڑ کر جو محنت اور خدمت ان لوگوں نے کی ہے اللہ تعالیٰ ہی ان کی جزا ہوسکتا ہے۔
دو اور غلطیاں بھی ان سے ہوئی ہیں۔ مگر میں سمجھتا ہوں وہ زمانہ کے اثر کے نیچے تھیں۔ ایک بعض آیات کو منسوخ قرار دینا۔ دوسرے مضامینِ قرآن کی ترتیب کو خاص اہمیت نہ دینا۔ مگر میرے نزدیک باوجود زمانہ کی رو کے خلاف ہونے کے اس بارہ میں انہوں نے مفید جدوجہد ضرور کی ہے اور بالعموم (گو اصولی طور پر نہیں) آیات زیربحث کو غیرمنسوخ ثابت کرنے کے لئے محقق مفسرین نے ضرور کوشش کی ہے۔ اسی طرح مطالب کی ترتیب کے متعلق بھی بہت زور لگایا ہے۔
میرے نزدیک ان محقق مفسرین میں علماء ابن کثیر، علامہ ابوحیان صاحب، محیط اور علامہ زمخشری صاحبِ کشاف خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ گو آخرالذکر پر اعتزال کا داغ ہے۔ طبری نے تفسیر کے متعلق روایات جمع کرنے میں خاص کام کیا ہے اور علامہ ابوالبقاء نے اعرابِ قرآن کے متعلق اِمْلَاء مَا مَنَّ بِہِ الرَّحْمٰنُ لکھ کر ایک احسانِ عظیم کیا ہے۔
گذشتہ صدی کی کوششوں میں سے تفسیر روح المعانی علوم نقلیہ کی جامع کتاب ہے مگر تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ بالعموم وہ روایت کو اپنے الفاظ میں درج کر دیتے ہیں مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سی تفاسیر کا خلاصہ اس میں آجاتا ہے۔
اب میں ان ماخذوں کا ذکر کرتا ہوں جن سے مجھے نفع ہوا اور سب سے پہلے اس ازلی ابدی ماخذ علوم کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس سے سب علوم نکلتے ہیں اور جس کے باہر کوئی علم نہیں۔ وہ علیم وہ نور ہی سب علم بخشتا ہے اسی نے اپنے فضل سے مجھے قرآن کریم کی سمجھ دی اور اس کے بہت سے علوم مجھ پر کھولے اور کھولتا رہتا ہے۔ جو کچھ ان نوٹوں میں لکھا گیا ہے ان علوم میں سے ایک حصہ ہے سُبْحَانَ اللّٰہ وَالْحَمْدُلِلّٰہِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّابِاللّٰہ۔
دوسرا ماخذ قرآنی علوم کا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے۔ آپؐ پر قرآن نازل ہوا اور آپؐ نے قرآن کو اپنے نفس پر وارد کیا۔ حتیٰ کہ آپؐ قرآنِ مجسم ہو گئے۔ آپؐ کی ہر حرکت اور آپؐ کا ہر سکون قرآن کی تفسیر تھے۔ آپؐ کا ہر خیال اور ہر ارادہ قرآن کی تفسیر تھا۔ آپؐ کا ہر احساس اور ہر ہر جذبہ قرآن کی تفسیر تھا۔ آپؐ کی آنکھوں کی چمک میں قرآنی نور کی بجلیاں تھیں اور آپؐ کے کلمات قرآن کے باغ کے پھول ہوتے تھے۔ ہم نے اس سے مانگا اور اس نے دیا۔ اس کے احسان کے آگے ہماری گردنیں خم ہیں۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔
پھر اس زمانہ کے لئے علومِ قرآنیہ کا ماخذ حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعودؑ اور مہدی مسعود کی ذات علیہ الصلوٰۃ والسلام ہے جس نے قرآن کے بلند و بالا درخت کے گرد سے جھوٹی روایات کی اکاس بیل کو کاٹ کر پھینکا اور خدا سے مدد پاکر اس جنتی درخت کو سینچا اور پھر سرسبزوشاداب ہونے کا موقعہ دیا۔ الحمدللہ ہم نے اس کی رونق کو دوبارہ دیکھا اور اس کے پھل کھائے اور اس کے سائے کے نیچے بیٹھے۔ مبارک وہ جو قرآنی باغ کا باغبان بنا۔ مبارک وہ جس نے اسے پھر سے زندہ کیا۔ اور اس کی خوبیوں کو ظاہر کیا۔ مبارک وہ جو خداتعالیٰ کی طرف سے آیا اور خداتعالیٰ کی طرف چلا گیا۔ اس کا نام زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔
مجھے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے علوم سے بہت کچھ دیا ہے اور حق یہ ہے کہ اس میں میرے فکر یا میری کوشش کا دخل نہیں۔ وہ صرف اس کے فضل سے ہے۔ مگر اس فضل کے جذب کرنے میں حضرت استاذی المکرم مولوی نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح اولؓ کا بہت سا حصہ ہے۔ میں چھوٹا تھا اور بیمار رہتا تھا۔ وہ مجھے پکڑ کے اپنے پاس بٹھا لیتے تھے اور اکثر یہ فرماتے تھے کہ میاں تم کو پڑھنے میں تکلیف ہوگی۔ میں پڑھتا جاتا ہوں تم سنتے جاؤ۔ اور اکثر اوقات خود ہی قرآن پڑھتے۔ خود ہی تفسیر بیان کرتے۔ اس کے علوم کی چاٹ مجھے انہوں نے لگائی اور اس کی محبت کا شکار بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے بنایا۔ بہرحال وہ عاشقِ قرآن تھے اور ان کا دل چاہتا تھا کہ سب قرآن پڑھیں۔ مجھے قرآن کا ترجمہ پڑھایا اور پھر بخاری کا۔ اور فرمانے لگے او میاں! سب دنیا کے علوم آ گئے۔ ان کے سوا جو کچھ ہے یا زائد یا ان کی تشریح ہے۔ یہ بات ان کی بڑی سچی تھی۔ جب تک قرآن و حدیث کے متعلق انسان کا یہ یقین نہ ہو علومِ قرآنیہ سے حصہ نہیں لے سکتا۔
میں آخر میں ان سب کام کرنے والوں کے لئے جنہوں نے نوٹوں کی طباعت میں حصہ لیا ہے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان پر اپنا فضل فرمائے انہوں نے رات دن محنت کرکے اس کام کو تھوڑے سے وقت میں ختم کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کی محنت اور قربانی کا بدلہ اپنے پاس سے دے۔ آمین۔
پھر اسے پڑھنے والو۔ میں آپ سے کہتا ہوں قرآن پڑھنے پڑھانے اور عمل کرنے کے لئے ہے۔ پس ان نوٹوں میں اگر کوئی خوبی پاؤ تو انہیں پڑھو پڑھاؤ اور پھیلاؤ۔ عمل کراؤ اور عمل کرنے کی ترغیب دو۔ یہی اور یہی ایک ذریعہ اسلام کے دوبارہ احیاء کا ہے۔ اے اپنی فانی اولاد سے محبت کرنے والو! اور خداتعالیٰ سے ان کی زندگی چاہنے والو! کیا اللہ تعالیٰ کی اس یادگار اور اس تحفہ کی روحانی زندگی کی کوشش میں حصہ نہ لو گے۔ تم اس کو زندہ کرو وہ تم کو اور تمہاری نسلوں کو ہمیشہ کی زندگی بخشے گا۔ اٹھو کہ ابھی وقت ہے۔ دوڑو کہ خدا کی رحمت کا دروازہ ابھی کھلا ہے اللہ تعالیٰ آپ لوگوں پر بھی رحم فرمائے اور مجھ پر بھی کہ ہر طرح بے کس بے بس اور پرشکستہ ہوں۔ اگر مجرم بنے بغیر اس کے دین کی خدمت کا کام کرسکوں تو اس کا بڑا احسان ہوگا۔ یَاسَتَّارُ یَاغَفَّارُ اِرْحَمْنِیْ یَااَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ۔
مرزا محمود احمد
۲۰؍ماہ فتح ۱۳۱۹ ہش ۲۰؍ذیقعدہ ۱۳۵۹؁ دسمبر ۱۹۴۰ء
الفہرست
نام سورۃ نمبر صفحہ
سورۃ یونس ۲
سورۃ ہود ۱۳۹
سورۃ یوسف ۲۷۳
سورۃ رعد ۳۷۵
سورۃ ابراہیم ۴۳۷
اَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمَ ط
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
قرآن کریم میں حکم ہے کہ اس کے پڑھنے سے پہلے اعوذ پڑھ لینی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فاذاقرئت القران فاستعذ باللہ (نحل ع۱۳ آیت ۹۹) کہ جب تو قرآن پڑھنے لگے تو اس سے پہلے اللہ تعالیٰ سے استعاذہ کرلیا کر یعنی ہر قسم کے شرور کے مقابلہ کے لئے خداتعالیٰ کی مدد اور اس کی پناہ مانگ لیا کر۔ پناہ دو قسم کی ہوا کرتی ہے۔ ایک پناہ ہوتی ہے اس بات سے کہ کوئی شر ہمیں نہ پہنچ جائے۔ اور ایک پناہ ہوتی ہے اس بات سے کہ کوئی خیر ہمارے ہاتھوں سے نہ نکل جائے۔ فاذاقرئت القران فاستعذ باللہ کے حکم میں دونو قسم کی پناہ شامل ہے۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ اپنے دل کی کسی بیماری کی وجہ سے یا کسی بد صحبت کی وجہ سے یا کسی گناہ کی سزا کی وجہ سے یہ اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم جو قرآن کریم میں بیان کی گئی ہے تمہارے ہاتھوں سے نکل جائے۔ یا یہ کہ اس تعلیم کے صحیح طور پر سمجھنے سے تم قاصر رہو۔ اور کوئی شر کا پہلو تمہارے لئے پیدا ہو جائے۔ اس استعاذہ کو عملی صورت دینے کے لئے جو دعا سکھلائی گئی ہے وہ اعوذباللہ من الشیطن الرجیم۔ کی دعا ہے۔
بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس حکم سے آخر میں اعوذ پڑھنے کا حکم نکلتا ہے نہ کہ شروع میں۔ چنانچہ قرآن کریم کے آخر میں ہی اعوذ کی دونو سورتیں یعنی سورۃ الفلق اور سورۃ الناس رکھی گئی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر انسان آخر میں بھی اعوذ پڑھے تو اور بھی اچھی بات ہے مگر سنت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ابتداء میں اعوذ کا پڑھنا چونکہ ثابت ہے اس لئے اس حکم سے زیادہ تر قرآن کریم کے شروع کرنے سے پہلے اعوذ پڑھنا مراد لیا جائے گا۔ چنانچہ جبیر بن مطعمؓ سے بیہقی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کی ہے۔ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم لما دخل فی الصلوۃ کبر ثم قال اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم۔ یعنی تکبیر کے بعد تلاوت سے پہلے آپؐ اعوذ پڑھا کتے تھے۔ ابوداؤد نے ابوسعیدؓ سے روایت کی ہے کہ نماز کی ابتداء میں تسبیح و تحمید کے بعد تلاوت سے پہلے آپؐ اعوذ پڑھتے تھے۔ ابوداؤد میں حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ آیات افک کی تلاوت سے پہلے آپ نے اعوذ پڑھا (درمنثور)۔
الفاظ قرآنی بھی اس کے مخالف نہیں۔ کیونکہ قرا کے معنی پڑھنا شروع کرنے اور ختم کرنے دونوں کے ہوسکتے ہیں۔
سورۃ یونس مکیۃ وھی مائۃ وتسع ایاتٍ دون البسملۃ واحد عشر رکوعا
(۱) یہ سورۃ مکی ہے۔ گو بعض لوگوں نے اس کی بعض آیتوں کو مدنی قرار دیا ہے مگراصل بات یہ ہے کہ ان لوگوں کی رائے واقعات پر مبنی نہیں۔ بلکہ صرف مضامین پر قیاس کرکے ہے۔ اور اس قسم کی رائے یقینی نہیں ہوتی۔
(ب) اس سورۃ کا نام یونس ہے اور اس کی وجہ یہ نہیں، جیسا کہ بعض لوگوں خیال کیا ہے کہ اس میں حضرت یونس کا ذکر ہے۔ بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سورۃ کا مضمون یونس کے واقعہ پر مبنی ہے۔ قرآن کریم میں جو بعض انبیاء یا اشیاء کے ناموں پر سورتوں کا نام ہوتا ہے تو بلاوجہ نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ اس سورۃ کا مضمون اس خاص شخص کے مذکور واقعہ پر یا اس چیز کے حالات پر مبنی ہے جس کے نام پر اس کا نام رکھا گیا ہے۔
(ج) سورتوں کے شروع میں جو رکوعوں کی یا آیتوں کی تعداد دی جاتی ہے اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ رکوع رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنائے ہیں۔ یا یہ کہ آیتوں کی تعداد آپ نے بتائی ہے۔ رکوع بہت بعد میں بنائے گئے ہیں اور آیات کی گنتی کے متعلق بھی اختلاف ہے اور اس کی بنیاد نحوی قواعد پر ہے۔ کسی شخص نے کسی مقام پر مضمون کو مکمل قرار دے لیا ہے اور کسی نے کسی جگہ پر۔ اور اس کی وجہ سے آیتوں کی تعداد میں ائمہ میں اختلاف ہو گیا ہے۔ اور یہ اختلاف تین قسم کا ہے۔ بعض نے سورۃ کی آیتوں کی تعداد میں تو اتفاق کیا ہے مگر آیتوں کی حد بندی میں اختلاف کیا ہے یعنی جسے ایک نے دو آیتیں قرار دیا ہے دوسرے نے ایک قرار دے لیا ہے اور جسے دوسرے نے دو قرار دیا ہے اسے اس نے ایک قرار دے لیا ہے۔ دوسرا اختلاف یہ ہے کہ بعض نے بعض سورتوں کی آیتوں کی معروف تعداد سے کم تعداد بتائی ہے۔ اور تیسرا یہ اختلاف ہے کہ بعض جگہ بعض علماء نے آیتوں کی معروف تعداد سے زیادہ تعداد بتائی ہے۔ اس وجہ سے قرآن کریم کی کل آیات کے متعلق بھی اختلاف ہو گیا ہے۔ کوئی زیادہ آیتیں بتاتا ہے کوئی کم۔
حقیقت کے نہ سمجھنے کی وجہ سے یا لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے بہت سے مسیحی مصنفوں نے یا دوسرے دشمنانِ اسلام نے اس امر کو قرآن کریم کے غیر محفوظ ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ مثلاً جنہوں نے آیتوں کی تعداد زیاہ بتائی ہے ان کا حوالہ دے کر وہ کہہ دیتے ہیں کہ دیکھو پہلے اس قدر آیات ہوتی تھیں موجودہ قرآن میں اس قدر لکھی ہیں۔ معلوم ہوا کہ اس قدر آیات کم ہو گئی ہیں۔ یا کم والی روایت کو لے کر کہہ دیا کہ موجودہ قرآن میں اس قدر آیات ہیں۔ پہلے بزرگوں نے اس قدر لکھی ہیں معلوم ہوا کچھ آیتیں زائد ہو گئی ہیں۔ حالانکہ یہ صریح دھوکا اور غلط بیانی ہے۔ جو لوگ آیتوں کی تعداد زیادہ بتاتے ہیں وہ یہ نہیں کہتے کہ مضمون موجودہ مضمون سے زیادہ تھا بلکہ صرف یہ کہتے ہیں کہ فلاں فلاں حصہ آیت کو جو ایک آیت قرار دیا گیا ہے اسے ایک آیت نہ سمجھو۔ اور جو کم کہتے ہیں وہ بھی اسی بنا پر کہتے ہیں۔ کہ فلاں فلاں آیتوں کو جو تم دو آیتیں بناتے ہو ان کو دو آیتیں نہ سمجھو۔ ایک ہی آیت سمجھو لیکن وہ یہ ہرگ نہیں کہتے کہ اصل میں قرآن کریم کا مضمون تھوڑا تھا اور اب زیادہ کر دیا گیا ہے۔ مثلاً سورہ فاتحہ ہے۔ بعض اسے آٹھ آیتیں قرار دیتے ہیں اور بعض سات۔ آٹھ کہنے والے کوئی اور آیت شامل نہیں کرتے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ بسم اللہ الگ آیت ہے۔ اور الحمدللہ سے سات آیتیں گناتے ہیں۔ اور بسم اللہ کو ملا کر آٹھ قرار دیتے ہیں۔ بعض اور ہیں جو بسم اللہ کو پوری آیت نہیں قرار دیتے بلکہ الحمدللہ رب العلیمن سے ملا کر ایک آیت قرار دیتے ہیں۔ پس باوجود آیتوں کی تعداد میں اختلاف کے مسلمانوں میں قرآن کریم کے مضمون کے متعلق اختلاف نہیں ہے۔ اور یہ کوئی بھی نہیںکہتا کہ موجودہ قرآن کریم میں کوئی ٹکڑا ایسا ہے جو قرآن کریم کا جزو نہیں ہے۔ اور کسی نے ملا دیا ہے۔ پس تعداد کا اختلاف کچھ حقیقت نہیں رکھتا۔ یہ ایک ذوقی اختلاف ہے۔ اور اس سے دشمنانِ اسلام کا فائدہ اٹھانا خود ان کی اپنی بے وقوفی پر دلالت کرتا ہے۔
دیگر مطالب کے بیان کرنے سے پہلے میں اس تعلق کی نسبت کچھ کہنا چاہتا ہوں جو سورۂ یونس اور اس کے بعد کی سورتوں کو ان سے پہلی سورتوں کے ساتھ ہے۔ میں نے جہاں تک غور کیا ہے قرآن کریم میں نہ صرف ہر آیت کو دوسری آیت کے مضمون کے ساتھ رابطہ ہے بلکہ ہر سورہ اپنے سے پہلی اور پچھلی سورتوں کے مضمون سے وابستہ ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کمال ہے کہ بعض سورتوں کے مجموعوں کا دوسری سورتوں کے مجموعوں سے بھی تعلق ہے اور اس طرح ایک زبردست اتصال ہے جو سورہ فاتحہ کی بسم اللہ سے لے کر سورۃ الناس کی آیت من الجنۃ والناس تک پایا جاتا ہے۔ دشمن کہتا ہے کہ قرآن کریم بے ترتیب ہے۔ لیکن حق یہ ہے کہ نہ صرف قرآن کریم کے مضمون میں ایک مکمل ترتیب ہے بلکہ قرآن کریم کی سورتیں ایک سے زیادہ طریق سے باہم وابستہ ہیں۔ اور ان کی ترتیب کو دیکھ کر قرآن کریم کے معجزانہ کلام ہونے میں کوئی شبہ ہی نہیں رہ جاتا۔ اس مضمون کی طرف اس جگہ توجہ دلانے کی یہ ضرورت پیش آئی ہے کہ بعض مجبوریوں کی وجہ سے پہلے دس پاروں کے نوٹ بعد میں شائع کرنے پڑے ہیں۔ پس ضرورت تھی کہ اس جگہ اس مضمون کے متعلق ایک مختصر نوٹ دے دیا جاتا تاکہ پڑھنے والوں کے ذہن میں خلش باقی نہ رہ جائے۔
یاد رکھنا چاہئے کہ سورۂ یونس کو پہلی سورۃ کے مضمون سے تین تعلق ہیں۔ اول اس سورۃ کا تسلسل پہلی سورۃ سے جو یہ ہے کہ سورہ توبہ کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے دو مضامین کا ذکر فرمایا تھا۔ (۱) واذا ماانزلت سورۃ نظر بعضھم الی بعضٍ ھل یرالم من احدٍ ثم انصرفوا صرف اللہ قلوبہم۔ یعنی جب کوئی سورۃ اترتی ہے تو ان (منافقوں) میں سے بعض دوسروں کی طرف دیکھتے ہیں (یہ اشارہ کرتے ہوئے) کہ کیا کوئی تمہیں دیکھتا تو نہیں پھر اٹھ کر (مجلس سے) چلے جاتے ہیں۔ خدا بھی ان کے دلوں کو حق سے محروم کر دے گا۔ (۲) لقد جاء کم رسول من انفسکم عزیز علیہ ما عنتم یقینا تمہارے پاس تمہی میں سے ایک ایسا رسول آچکا ہے جس پر تمہارا مصائب میں مبتلا ہونا شاق گزرتا ہے۔ غرض سورہ توبہ کے اختتام پر پہلے کتاب کے نزول اور اس کی تکذیب کا اور پھر رسول کی آمد اور اس سے فائدہ اٹھانے کا ذکر تھا۔ اسی طرح سورہ یونس کے ابتداء میں انہی دونو امور کا اس ترتیب سے ذکر شروع کیا ہے کہ پہلے کتاب کی اہمیت بتائی کہ تلک ایات الکتاب الحکیم اور پھر رسول کا ذکر فرمایا اکان للناس عجبا ان اوحینا الی رجل منہم۔
دوسرا تعلق سورہ یونس کا سورہ توبہ سے یہ ہے کہ سورہ یونس کا مضمون پورے طور پر سورہ توبہ کے مضمون کو مکمل کرتا ہے۔ اور وہ اس طرح کہ سورۂ توبہ میں جو دراصل الگ سورۃ نہیں ہے بلکہ سورۂ انفال کا حصہ ہے اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا تھا کہ اب اسلام کی ترقی کا وقت آ گیا ہے اور خداتعالیٰ کے وعدے بڑے زور شور سے پورے ہونے لگے ہیں پس چاہئے کہ لوگ اپنے دلوں کی صفائی کرکے خداتعالیٰ کے حضور میں جھک جائیں۔ تا ان کی توبہ قبول ہو۔ چونکہ بعض لوگوں کے دلوں میں کثرت گناہ کی وجہ سے یہ شبہ پیدا ہو جاتا ہے کہ شاید ہماری توبہ بھی اس قبول نہ ہوسکے۔ اس لئے سورۂ یونس میں اس مضمون پر بحث کی کہ اللہ تعالیٰ کا رحم غالب ہے۔ وہ ہر صورت میں بندے پر رحم کرتا ہے۔ ہاں اسے کامل توبہ کا نمونہ دکھانا چاہئے۔
تیسرا تعلق سورہ یونس کو پہلی تمام سورتوں سے یہ ہے کہ سورہ بقرہ سے لے کر سورہ توبہ تک آٹھ یا ہماری تحقیق کے مطابق سات سورتیں ہیں (سورۂ توبہ الگ سورۃ نہیں بلکہ سورہ انفال کا حصہ ہے اور بوجہ عظمت مضمون کے الگ لکھوائی گئی ہے) ان سورتوں کا مضمون ایک قسم کا ہے۔ اس کے بعد سورۂ یونس سے لے کر سورۂ کہف تک ایک سلسلہ مضمون کا ہے اور یہ دونوں سلسلے مضمون کے ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں۔ پہلی آٹھ سورتوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کو پیش کرکے اور آپ کے کام کو دکھا کر اسلام کی صداقت کو ثابت کیا گیا ہے۔ اور اسلام کے پیش کردہ عقائد کی برتری اور اس کی تعلیم کی خوبی اور اس کے وسیع عرفان اور اس کی تعلیم کی حکمتوں اور اس کے غیرمعمولی نیک اثر کو سامنے رکھ کر لوگوں کو اس کے قبول کرنے کی دعوت دی گئی ہے مگر سورہ یونس اور اس کے ساتھ کی سورتوں میں دلائل عقلیہ اور منہاج نبوت پر اور پہلے انبیاء کے دعووں اور ان کے حالات کی طرف توجہ دلا کر نبوت اور اس کی ضرورت، مذہب اور اس کی اہمیت اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور اس کے اغراض کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ پس سلسلہ مضمون ایک ہی ہے۔ صرف فرق یہ ہے کہ پہلے سلسلے میں ان پیشگوئیوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت یا اس سے پہلے دیگر انبیاء کی طرف سے کروائی گئی تھیں اور وقت پر پوری ہوئیں۔ اور دوسرے سلسلہ میں اصولی رنگ میں اور منہاج نبوت کے ذریعہ سے اسلام کو پیش کیا گیا ہے۔
یاد رکھنا چاہئے کہ پہلا سلسلہ سورتوں کا مدنی ہے۔ ان میں سے صرف دو مکی ہیں۔ یعنی سورہ انعام اور سورۂ اعراف۔ لیکن یہ سورتیں ہجرت کے بالکل قریب نازل ہوئی ہیں۔ اور اس وجہ سے مدنی سورتوں کی طرح ہی سمجھنی چاہئیں۔ سورہ یونس اور اس کے ساتھ کی سورتیں سب کی سب مکی ہیں۔ اور ان میں سے بعض وسطی زمانہ کی اور بعض ہجرت کے قریب کی ہیں۔ پس یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں ان مدنی سورتوں کو پہلے کیوں رکھا گیا ہے۔ اور مکی سورتوں کو بعد میں کیوں رکھا گیا ہے۔ اگر پہلی سورتوں کو مضمون کے لحاظ سے پہلے ہی پڑھنا مناسب تھا تو کیوں خداتعالیٰ نے ان کو پہلے نازل نہ کیا اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر ایک کام حکمت سے پر ہوتا ہے۔ چونکہ نبی کے پہلے مخاطبوں اور بعد میں آنے والوں کی ضرورتوں میں فرق ہوتا ہے۔ اس لئے قرآن کریم کے نزول کی ترتیب اور تحریر کی ترتیب میں فرق رکھا گیا ہے۔ نزول کی ترتیب ان لوگوں کے حالات کو مدنظر رکھ کر ہے جو قرآن کریم کے پہلے مخاطب تھے اور جمع کی ترتیب ان لوگوں کو مدنظر رکھ کر ہے جو بعد میں آنے والے تھے۔ اب یہ امر ظاہر ہے کہ جب کوئی تشریعی نبی دعویٰ کرے گا تو اس وقت اس کی تعلیم یا اس کی پیش گوئیوں کا پورا ہونا زیربحث نہیں ہوگا۔ کیونکہ نہ تو شروع میں تعلیم مکمل صورت میں لوگوں کے سامنے ہو گی نہ ابھی پیشگوئیوں کے پورا ہونے کا وقت آیا ہوگا۔ پس شروع زمانہ میں لوگ ان امور پر بحث نہیں کریں گے۔ بلکہ سب سے پہلے اس کے ساتھ بحث اس امر پر ہوگی کہ وہ کیسا خدا ہے جس کی طرف سے ہونے کا وہ دعویٰ کرتا ہے۔ اس کی کیا صفات ہیں۔ اس کی کیا طاقتیں ہیں۔ کیا الہام کوئی حقیقت رکھتا ہے۔ انسان کو الہام کی کیا ضرورت ہے۔ اور اس قسم کے اور سوالات ہوں گے جن کی طرف لوگ توجہ کریں گے۔ پس کلام الٰہی لازماً انہی امور پر مشتمل ہوگا جن کی طرف اس زمانہ کے لوگوں نے توجہ کرنی ہے اور نیز پیش گوئیوں پر جو آئندہ اس کے صدق دعویٰ پر دلیل ہوں اسی طرح شریعت کے بعض ابتدائی مسائل بتائے جائیں گے۔
(۲) دوسرا زمانہ ایسا آئے گا کہ لوگ اس کے دعویٰ کی حقیقت کو سمجھ کر اس کی مخالفت پر آمادہ ہوں گے۔ اور اس کی آمد کو عبث قرار دیں گے۔ اور اس کے عقائد جو وہ خداتعالیٰ کے متعلق یا ایک مذہبی نظام کے متعلق بیان کرتا ہو اسے رد کر دیں گے اور کچھ لوگ مان بھی لیں گے۔ اس وقت اس امر کی ضرورت ہو گی کہ اس کی آمد کی غرض کو بتایا جائے اور پہلی تاریخ کی شہادت سے اس کے دعویٰ کو سنۃ اللہ کے مطابق بتایا جائے۔ اور عام عقلی دلائل اس کے دعویٰ کی تائید میں بتائے جائیں۔ اور پہلے انبیاء کے حالات سے سبق لینے کی طرف لوگوں کو توجہ دلائی جائے اور شریعت کی بعض تفصیلات بتائی جائیں اور ماننے والوں کو ان کے فرائض سے اور کامیابی کے لئے جدوجہد کے اصول سے آگاہ کیا جائے۔
(۳) پھر اس کے بعد تیسرا زمانہ وہ ہوگا کہ اس میں شریعت مکمل کرکے اس کو بطور حجت کے پیش کیا جائے۔ور جو پیش گوئیاں پوری ہو چکی ہوں ان کو پیش کرکے مخالفین کو قائل کیا جائے۔ غرض خود اس نبی کے اپنے کام پیش کرکے بتایا جائے کہ یہ سچا ہے جھوٹا نہیں۔ اور جو کام کرچکا ہے وہی اس امر کا ثبوت ہے کہ اسے ماننے میں دنیا کی بہتری ہے۔
لیکن پہلے زمانہ کے بعد جو لوگ آئیں گے وہ مذہب سے ایسے ناواقف نہ ہوں گے جیسے کہ پہلے زمانہ کے لوگ۔ ان کے سامنے ایک قائم شدہ جماعت ہو گی۔ جس کے دعویٰ سے ایک حد تک وہ واقف ہوں گے ان کے سامنے سب سے پہلا سوال یہی ہوگا کہ اس مدعی کے دعویٰ کو کیوں تسلیم کیا جائے اس کی تعلیم دوسری تعلیموں کے مقابلہ میں کیوں قابل قبول ہے اور اس کے کیا کام ہیں۔ جب ان امور کو سمجھ کر کوئی شخص مذہب کی حقانیت کو سمجھ جائے گا تو دوسرے نمبر پر علم کی زیادتی کے لئے اسے یہ ضرورت ہو گی کہ منہاج نبوت کی بناء پر اصولی رنگ میں بھی وہ صداقت کو سمجھ لے اور اس کے بعد پھر دوسرے امور کی طرف اس کی توجہ پھرے گی۔
پس اس طبعی تقاضا کو مدنظر رکھتے ہوئے قرآن کریم کے نزول کی ترتیب اور ہے اور اس کے جمع کی ترتیب اور۔ نزول کی ترتیب پہلے زمانہ کے لوگوں کی ضرورت کو مدنظر رکھ کر ہے اور جمع کی ترتیب بعد میں آنے والوں کی ضرورت کو مدنظر رکھ کر ہے۔ اور یہ بات خود ایک ایسی بین فضیلت ہے جو صاحب بصیرت کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِO
ترجمہ
(میں) اللہ کا نام لے کر (شروع کرتا ہوں) جو بے حد کرم کرنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔
یہ آیت جو ہر سورت کے پہلے آئی ہے ایک پیشگوئی کو یاد دلاتی ہے۔ وہ پیشگوئی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ہے اور کتاب استثناء باب ۱۹ آیت۱۸ میں بیان کی گئی ہے۔ اور اس کی تفصیل کتاب خروج باب ۱۹و۲۰ میں مذکور ہے۔ خروج میں لکھا ہے کہ خداتعالیٰ نے موسیٰؑ سے کہا کہ بنی اسرائیل کو پاک کرکے سینا کے نیچے لاکھڑا کر تاکہ وہ سنیں کہ میں تجھ سے کلام کرتا ہوں۔ پہلے تو وہ پہاڑ کے پاس کھڑے رہیں لیکن جب قرناء کی آواز بہت بلند ہو تو ادھر آجائیں۔ حضرت موسیٰ جب وہاں گئے اور خدا کا کلام نازل ہوا تو ساتھ اس کے بجلی چمکی اور دھواں اٹھا اور گرج ہوئی تو لوگ ڈر کر دور کھڑے ہو گئے۔ جب موسیٰ ان کے پاس واپس آگئے تو انہوں نے انہیں کہا کہ ’’تو ہی ہم سے بول اور ہم سنیں لیکن خدا ہم سے نہ بولے کہیں ہم مر نہ جائیں۔‘‘ موسیٰؑ نے لوگوں کو کہا کہ تم مت ڈرو۔ اس لئے کہ خدا آیا ہے کہ تمہیں امتحان کرے۔ اور تاکہ اس کا خوف تمہارے سامنے ظاہر ہو کہ تم گناہ نہ کرو۔ تب وے لوگ دور ہی کھڑے رہے۔ اور موسیٰؑ کالی بدلی کے جس میں خدا تھا نزدیک گیا (خروج باب۲۰ آیت ۱۹ تا ۲۱) حضرت موسیٰؑ نے خدا سے جاکر عرض کی الٰہی میری قوم تو تیرے پاس نہیں آتی تب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو وحی ہوئی۔ ’’انہوں نے جو کچھ کہا سو اچھا کہا۔ میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے فرماؤں گا وہ سب ان سے کہے گا۔ اور ایسا ہوگا کہ جو کوئی میری باتوں کو جنہیں وہ میرا نام لے کے کہے گا نہ سنے گا تو میں اس کا حساب اس سے لوں گا۔ (استثناء ۱۸/۱۸)
اس پیشگوئی میں بتایا گیا تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کے بعد ایک نبی ان کا مثیل ہوکر آئے گا۔ اور وہ جب خدا کا کلام سنائے گا تو کہے گا کہ میں خدا کا نام لے کر یہ کلام سناتا ہوں۔ ’’خدا کا نام لے کر‘‘ سناتا ہوں کا ترجمہ عربی زبان میں بسم اللہ ہے۔ پس بسم اللہ ہر یہودی اور عیسائی کو توجہ دلاتی ہے کہ اگر تم اس کتاب کو رد کرو گے تو موسیٰؑ کی پیشگوئی کے بموجب پکڑے جاؤ گے۔ اتنے واضح لفظوں میں یہ پیشگوئی تھی مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اسے نہ یہودیوں نے سمجھا نہ عیسائیوں نے۔ یہاں تک کہ قرآن کریم میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نازل ہوئی۔ تب پتہ لگا کہ اس کا مفہوم کیا تھا۔ موسیٰ کی پیشگوئی کے الفاظ ’’اور ایسا ہوگا کہ جو کوئی میری باتوں کو جو وہ میرا نام لے کے کہے گا نہ سنے گا تو میں اس کا حساب اس سے لوں گا۔‘‘ صاب بتاتے ہیں کہ بسم اللہ کے الفاظ اس کے ہر نئے کلام کے پہلے ہوں گے۔ پس بسم اس کا ہر سورۃ سے پہلے آنا اس پیشگوئی کے مطابق ہے اور اس پر تکرار کا اعتراض خصوصاً ان اقوام کے منہ سے جو موسیٰؑ کی پیرو ہیں بالکل زیب نہیں دیتا۔
مسیحیوں کی طرف سے یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ یہ آیت پہلی کتب سے نقل کی گئی ہے۔ راڈول لکھتا ہے کہ یہ کلمہ یہودی الاصل ہے (ویری صفحہ ۲۸۶ جلد اول) ویری لکھتا ہے کہ ’’یہ امر قریباً یقینی ہے کہ یہ کلمہ محمد (صلعم) نے یہودیوں اور صابیوں سے مستعار لیا ہے۔ آخرالذکر ہمیشہ اپنی تحریروں سے پہلے یہ لکھا کرتے تھے ’’بنام یزداں بخشائش گر داد گر‘‘ (ویری صفحہ ۲۸۹ جلد اول) پادری سنٹ کلیرٹسڈل صاحب نے اپنی کتاب ینابیع الاسلام میں اس عبارت کو زردشتیوں کی طرف منسوب کیا ہے اور لکھا ہے کہ کتاب دساتیر میں ہر نبی کے صحیفے سے پہلے یہ عبارت ہے کہ بنام ایزد بخشائش گر مہربان دادگر (اردو ترجمہ ینابیع الاسلام صفحہ ۱۲۷) اب یہ عجیب بات ہے کہ تین مسیحی مصنف اس آیت کو مسروقہ ثابت کرنے کے لئے تین سرچشمے اس کے بیان کرتے ہیں۔ ایک یہودیوں کو اس کا سرچشمہ بناتا ہے دوسرا صابیوں کو، تیسرا زردشتیوں کو۔ اس قدر کوشش ان لوگوں کی اس آیت کو مسروقہ ثابت کی بتاتی ہے کہ اس آیت کی عظمت کے تو یہ لوگ بھی قائل ہیں اورنہ صرف اس قدر لکھ دیتے کہ اس آیت کے مضمون میں کوئی خاص بات نہیں ہے۔ پھر سوال یہ ہے کہ تینوں سرچشموں میں سے اصل سرچشمہ کون سا ہے۔ جب تین سرچشمے ہیں تو ان میں سے کون سے چور ہیں اور کون سا اصل ہے۔ آیا یہودیوں نے زردشتیوں یا صابیوں سے چرایا ہے یا برعکس معاملہ ہے۔ سب سے بڑھ کر لطیفہ یہ ہے کہ یہودیوں میں اس کلمہ کے استعمال کا ایک بھی حوالہ نہیں دیا گیا اور نہ وہ الفاظ نقل کئے گئے ہیں کہ جن میں یہودی اس آیۃ کو استعمال کرتے تھے بلکہ باوجود اس کے کہ مسیحیت یہودیت کی شاخ ہے اور یہودی کتب گویا مسیحیوں کی اپنی مذہبی کتب ہیں پھر بھی مسیحی مصنف یہودی کتب کا تو حوالہ نہیں دے سکتے اور نہ ان کے الفاظ نقل کرسکے۔ لیکن زردشتیوں اور صابیوں کی کتب کے حوالے انہوں نے نقل کر دیئے ہیں۔ مگر یہ حوالے خود مشکوک ہیں۔ کیونکہ زردشتی ان کتب کو وضعی قرار دیتے ہیں۔ اور کوئی تعجب نہیں کہ وہ سب یا ان کے بعض حصے اسلام کے بعد بنائے گئے ہوں۔
لیکن اگر انہیں صحیح بھی تسلیم کرلیا جائے تب بھی قرآن کریم پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ کیونکہ قرآن کریم کا یہ دعویٰ ہی نہیں کہ یہ آیت پہلی دفعہ قرآن کریم میں نازل ہوئی ہے بلکہ وہ خود تسلیم کرتا ہے کہ یہ آیت اس سے پہلے بھی دنیا میں موجود تھی۔ چنانچہ سورہ نمل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حضرت سلیمان نے جو خط ملکۂ سبا کو لکھا تھا اس میں بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی درج تھا۔ پس اگر یہ ثابت ہو جائے کہ یہود یا زردشتیوں یا صابیوں یا کسی اور قوم میں یہ آیت پہلے سے موجود تھی تو بھی کوئی حرج نہیں۔ کیونکہ قرآن کریم خود تسلیم کرتا ہے کہ یہ آیت حضرت سلیمان کو معلوم تھی اور جو آیت حضرت سلیمان کو معلوم تھی وہ اور انبیاء اور ان کے متبعین کو بھی معلوم ہوسکتی ہے۔ صرف فرق یہ ہے کہ قرآن کریم میں یہ آیت عربی میں نازل ہوئی اور پہلی قوموں میں ان کی اپنی زبانوں میں مگر باایں ہمہ قرآن کریم میں اس آیت کی موجودگی نقل نہیں کہلاسکتی۔ کیونکہ قرا؟ٓن کریم میں اس آیت کا وجود ایک پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے ہے۔ اور جو کلام کسی نئی غرض کے لئے دوہرایا جائے اور کسی خاص فائدہ کے لئے لایا جائے وہ نقل یا چوری ہرگز نہیں کہلاتا۔ موسیٰؑ کی پیشگوئی تھی کہ (۱) بنی اسمٰعیل میں سے ایک نبی آئے گا۔ (۲) اس کو موسیٰ کی طرح شریعت دی جائے گی (۳) وہ جو نیا مضمون بھی خداتعالیٰ کی طرف سے پاکر دنیا کے سامنے پیش کرے گا اس سے پہلے یہ کہہ لے گا کہ میں خداتعالیٰ کا نام لے کر اس کلام کو شروع کرتا ہوں۔ (۴) اگر کوئی جھوٹا انسان اس پیشگوئی کو اپنے پر چسپاں کرنا چاہے گا تو وہ ہلاک ہو جائے گا۔ (۵) اور جو اس پیشگوئی کے مصداق کا انکار کرے گا وہ بھی ہلاک کیا جائے گا۔ اب بتاؤ اس پیشگوئی کا مصداق سوائے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سوائے قرآن کریم کے اور کون ہے۔ پس قرآن کریم میں ہر سورت سے پہلے بسم اللہ موسیٰ علیہ السلام کی پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے ہے۔ مگر کیا یہ امر وساتیر کے متعلق ثابت کیا جاسکتا ہے۔ کیا ان کے مصنف بنی اسمٰعیل میں سے تھے۔ یا موسیٰ کی طرح شریعت لائے تھے یا ان کی وحی سے پہلے بسم اللہ لکھا ہوا ہوتا تھا۔ وہ تو ایک تاریخ کی کتاب ہے جس میں انبیاء کا حال ہے۔ اور موسیٰ کی پیشگوئی میں یہ شرط ہے کہ اس نبی کے ہر مستقل حصۂ وحی سے پہلے بسم اللہ ہو۔ غرض باوجود اس کے کہ بسم اللہ پہلے انبیاء کی امتوں میں مروج تھی۔ قرآن کریم میں اس کا وجود تکرار یا چوری نہیں کہلاسکتا۔ کیونکہ وہ خود تسلیم کرتا ہے کہ اس سے پہلے بسم اللہ تھی اور اس لئے کہ اس میں بسم اللہ موسیٰ کی پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے آئی ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہوتا تو موسیٰ علیہ السلام کی پیشگوئی جھوٹی جاتی۔
۲؎ الٓرٰ
۲؎
حروف مقطعات اپنے اندر بہت سے راز رکھتے ہیں۔ ان میں سے بعض راز بعض ایسے افراد کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں جن کا قرآن کریم سے ایسا گہرا تعلق ہے کہ ان کا ذکر قرآن کریم میں ہونا چاہئے۔ لیکن اس کے علاوہ یہ الفاظ قرآن کریم کے بعض مضامین ے لئے قفل کا بھی کام دیتے ہیں۔ کوئی پہلے ان کو کھولے تب ان مضامین تک پہنچ سکتا ہے۔ جس جس حد تک ان کے معنوں کو سمجھتا جائے اسی حد تک قرآن کریم کا مطلب کھلتا جائے گا۔
میری تحقیق یہ بتاتی ہے کہ جب حروف مقطعات بدلتے ہیں تو مضمون قرآن جدید ہو جاتا ہے اور جب کسی سورت کے پہلے حروف مقطعات استعمال کئے جاتے ہیں تو جس قدر سورتیں اس کے بعد ایسی آتی ہیں جن کے پہلے مقطعات نہیں ہوتے ان میں ایک ہی مضمون ہوتا ہے۔ اسی طرح جن سورتوں میں وہی حروف مقطعات دہرائے جاتے ہیں وہ ساری سورتیں مضمون کے لحاظ سے ایک ہی لڑی میں پروئی ہوئی ہوتی ہیں۔
میں بتا چکا ہوں کہ میری تحقیق میں سورہ بقرہ سے لے کر سورہ توبہ تک ایک ہی مضمون ہے۔ یہ سب سورتیں الٓم سے تعلق رکھتی ہیں۔ سورۂ بقرہ الم سے شروع ہوتی ہے۔ پھر سورہ آل عمران بھی الم سے شروع ہوتی ہے۔ پھر سورہ نساء، سورہ مائدہ اور سورہ انعام حروفِ مقطعات سے خالی ہیں۔ اور اس طرح گویا پہلی سورتوں کے تابع ہیں۔ جن کی ابتداء الم سے ہوئی ہے۔ ان کے بعد سورۂ اعراف المٓصٓ سے شروع ہوتی ہے اس میں بھی وہی الم موجود ہے۔ ہاں حرف ص کی زیادتی ہوئی ہے۔ اس کے بعد سورہ انفال اور برارہ حروف مقطعات سے خالی ہیں۔ پس سورۂ برارۃ تک الم کا مضمون چلتا ہے۔ سورہ اعراف میں جو ص بڑھایا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ حرف تصدیق کی طرف لے جاتا ہے۔ سورہ اعراف انفال اور توبہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی اور اسلام کی ترقی کا ذکر کیا گیا ہے۔ سورۂ اعراف میں اصولی طور پر اور انفال اور توبہ میں تفصیلی طور پر تصدیق کی بحث ہے اس لئے وہاں صٓ کو بڑھادیا گیا ہے۔
سورہ یونس سے الم کی بجائے الر شروع ہو گیا ہے۔ الٓ تو وہی رہا اور مٓ کو بدل کر ر کر دیا۔ پس یہاں مضمون بدل گیا۔ اور فرق یہ ہوا کہ بقرہ سے لے کر توبہ تک تو علمی نقطہ نگاہ سے بحث کی گئی تھی اور سورۂ یونس سے لے کر سورہ کہف تک واقعات کی بحث کی گئی ہے۔ اور واقعات کے نتائج پر بحث کو منحصر رکھا گیا ہے۔ اس لئے فرمایا کہ الٓر یعنی انااللہ اری۔ میں اللہ ہوں جو سب کچھ دیکھتا ہوں۔ اور تمام دنیا کی تاریخوں پر نظر رکھتے ہوئے اس کلام کو تمہارے سامنے رکھتا ہوں۔ غرض ان سورتوں میں رؤیت کی صفت پر زیادہ بحث کی گئی ہے اور پہلی سورتوں میں علم کی صفت پر زیادہ بحث تھی۔
میں فی الحال اس جگہ اختصاراً اتنی بات کہہ دینا چاہتا ہوں کہ حروف مقطعات کے متعلق بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ یہ بے معنی ہیں اور انہیں یونہی رکھ دیا گیا ہے۔ مگر ان لوگوں کی تردید خود حروفِ مقطعات ہی کر رہے ہیں۔ چنانچہ جب ہم تمام قرآن پر ایک نظر ڈال کر یہ کہتے ہیں کہ کہاں کہاں حروف مقطعات استعمال ہوئے ہیں تو ان میں ایک ترتیب نظر آتی ہے۔ سورہ بقرہ الم سے شروع ہوتی ہے۔ پھر سورۂ آل عمران الم سے شروع ہوتی ہے۔ پھر سورۂ نساء سورۂ مائدہ سورۂ انعام حروف مقطعات سے خالی ہیں پھر سورۂ اعراف المص سے شروع ہوتی ہے۔ اور سورہ انفال اور برارۃ خالی ہیں۔ ان کے بعد سورۂ یونس، سورۂ ہود، سورۂ یوسف الر سے شروع ہوتی ہیں۔ اور سورۂ رعد میں م بڑھا کر الٓمٓرٰ کر دیا گیا ہے۔ لیکن جہاں المصٓ میں صٓ آخر میں رکھا یہاں مٓ کو رٰ سے پہلے رکھا گیا ہے۔ حالانکہ اگر کسی مقصد کو مدنظر رکھے بغیر زیادتی کی جاتی تو چاہئے تھا کہ میم کو جو زائد کیا گیا تھا راء کے بعد رکھا جاتا۔ میم کو الٓرٰ کے درمیان رکھ دینا بتاتا ہے کہ ان حروف کے کوئی خاص معنی ہیں۔ اور جب ہم دیکھتے ہیں کہ پہلے الٓمٓ کی سورتیں ہیں اور اس کے بعد الٓرٰ کی تو صاف طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ مضمون کے لحاظ سے میم کو راء پر تقدم حاصل ہے۔ اور سورۂ رعد میں میم اور راء جب اکٹھے کر دیئے گئے ہیں تو میم کو راء سے پہلے رکھنا اس امر کو بالکل واضح کر دیتا ہے کہ یہ سب حروف خاص معنی رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان حروف کو جو معنی تقدم رکھتے ہیں ہمیشہ مقدم ہی رکھا جاتا ہے۔ سورۂ رعد کے بعد ابراہیم اور حجر میں الٓرٰ استعمال کیا گیا ہے۔ لیکن نحل بنی اسرائیل اور کہف میں مقطعات استعمال نہیں ہوئے۔ اور یہ سورتیں گویا پہلی سورتوں کے مضامین کے تابع ہیں۔ ان کے بعد سورۂ مریم ہے جس میں کٓہٰیٰعٓصٓ کے حروف استعمال کئے گئے ہیں۔ سورۂ مریم کے بعد سورہ طٰہٰ ہے اور اس میں طٰہٰ کے حروف استعمال کئے گئے ہیں۔ اس کے بعد انبیاء، حج، مومنون، نور اور فرقان میں حروف مقطعات چھوڑ دیئے گئے ہیں۔ گویا یہ سورتیں طٰہٰ کے تابع ہیں۔ آگے سورۂ شعراء طٰسٓمٓ سے شروع کی گئی ہے گویا طاء کو قائم رکھا گیا ہے اور ھاء کی جگہ س اور میم لائے گئے ہیں۔ اس کے بعد سورۂ نمل ہے۔ جو طٰسٓ سے شروع ہوتی ہے۔ اس میں سے میم کو اڑا دیا گیا ہے۔ اور طاء اور س قائم رکھے گئے ہیں۔ اس کے بعد سورہ قصص کی ابتداء پھر طٰسٓمٓ سے کی گئی ہے۔ گویا میم کے مضمون کو پھر شامل کر لیا گیا ہے۔ اس کے بعد سورۂ عنکبوت کو پھر الٓمٓ سے شروع کیا گیا ہے اور دوبارہ علم الٰہی کے مضمون کو نئے پیرایہ اور نئی ضرورت کے ماتحت شروع کیا گیا ہے۔ (اگرچہ میں ترتیب پر اس وقت بحث نہیں کررہا لیکن اگر کوئی کہے کہ الٓمٓ دوبارہ کیوں لایا گیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ سورہ بقرہ سے الٓمٓ کے مخاطب کفار تھے اور یہاں سے الٓمٓ کے مخاطب مومن ہیں۔) سورہ عنکبوت کے بعد سورہ روم، سورہ لقمان اور سورہ سجدہ کو بھی الٓمٓ سے شروع کیا گیا ہے۔ ان کے بعد سورہ احزاب، سبا، فاطر بغیر مقطعات کے ہیں۔ اور گویا پہلی سورتوں کے تابع ہیں۔ ان کے بعد سورہ یسٓ ہے۔ جس کو یس کے حروف سے شروع کیا گیا ہے۔ اس کے بعد سورہ صافات بغیر مقطعات کے ہے۔ اس کے بعد سورہ صٓ حرف صٓ سے شروع کی گئی ہے۔ پھر سورۂ زمر حروف مقطعات سے خالی اور پہلی سورت کے تابع ہے۔ اس کے بعد سورہ مومن حٰمٓ سے شروع کی گئی ہے۔ اس کے بعد سورہ حم سجدہ کو بھی حٰمٓ سے شروع کیا گیا ہے۔ پھر سورہ شوریٰ کو بھی حٰمٓ سے شروع کیا گیا ہے لیکن ساتھ حروف عٓسٓقٓ بڑھائے گئے ہیں۔ اس کے بعد سورۂ زخرف ہے اس میں بھی حٰمٓ کے حروف ہی استعمال کئے گئے ہیں۔ پھر سورہ دخان، جاثیہ اور احقاف بھی حٰمٓ سے شروع ہوتی ہیں۔ ان کے بعد سورہ محمد، فتح اور حجرات بغیر مقطعات کے ہیں اور پہلی سورتوں کے تابع ہیں۔ سورہ قٓ صرف ق سے شروع ہوتی ہے۔ اور قرآن کریم کے آخر تک ایک ہی مضمون چلا جاتا ہے۔
یہ ترتیب بتارہی ہے کہ یہ حروف یونہی نہیں رکھے گئے۔ پہلے الٓمٓ آتا ہے۔ پھر الٓمٓصٓ آتا ہے۔ جس میں صٓ کی زیادتی کی جاتی ہے۔ پھر الٓمٓرٰٓ آتا ہے کہ جس میں ص پر چار اور حروف کی زیادتی ہے۔ پھر طٰہٰ لایا جاتا ہے اور پھر اس میں کچھ تبدیلی کرکے طٰسٓمٓ کر دیا جاتا ہے۔ یہ ایک ہی قسم کے الفاظ کا متواتر لانا اور بعض کو بعض جگہ بدل دینا بعض جگہ اور رکھ دینا بتاتا ہے کہ خواہ یہ حروف کسی کی سمجھ میں آئیں یا نہ آئیں جس نے انہیں رکھا ہے کسی مطلب کے لئے ہی رکھا ہے۔ اگر یونہی رکھے جاتے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ کہیں ان کو بدل دیا جاتا، کہیں زائد کر دیا جاتا، کہیں کم کر دیا جاتا۔
علاوہ مذکورہ بالا دلائل کے خود مخالفین اسلام کے ہی ایک استدلال سے یہ مستنبط ہوتا ہے کہ مقطعات کچھ معنی رکھتے ہیں۔ مخالفین اسلام کہتے ہیں کہ قرآن کریم کی سورتوں کی ترتیب ان کی لمبائی اور چھوٹائی کے سبب سے ہے۔ اب اگر یہ صحیح ہے تو کیا یہ عجیب بات نہیں کہ باوجود اس کے کہ سورتیں اپنی لمبائی اور چھوٹائی کے سبب سے آگے پیچھے رکھی گئی ہیں ایک قسم کے حروف مقطعات اکٹھے آتے ہیں۔ الٓمٓ کی سورتیں اکٹھی آگئی ہیں۔ الٓرٰ کی اکٹھی۔ طٰہٰ اور اس کے مشترکات کی اکٹھی۔ پھر الٓمٓ کی اکٹھی۔ حٰمٓ کی اکٹھی۔ اگر سورتیں ان کے حجم کے مطابق رکھی گئی ہیں تو کیا یہ عجیب بات نہیں معلوم ہوتی کہ حروف مقطعات ایک خاص حجم پر دلالت کرتے ہیں۔ اگر صرف یہی تسلیم کیا جائے تب بھی اس کے معنی یہ ہوں گے کہ حروف مقطعات کے کچھ معنی ہیں۔ خواہ یہی معنی ہوں کہ وہ سورت کی لمبائی اور چھوٹائی پر دلالت کرتے ہیں۔ مگر حق یہ ہے کہ ایک قسم کے حروف مقطعات کی سورتوں کا ایک جگہ پر جمع ہوجانا بتاتا ہے کہ ان کے معنوں میں اشتراک ہے اور یہ حروف سورتوں کے لئے بطور کنجیوں کے ہیں۔
میرے نزدیک حروف مقطعات کے معنوں کے لئے ہمیں قرآن کریم ہی کی طرف دیکھنا چاہئے۔ پہلی سورتوں میں الٓمٓ آیا تھا۔ چنانچہ سورہ بقرہ کے پہلے یہی حروف تھے اور ان کے بعد ذلک الکتب لاریب فیہ ھدی للمتقین کا جملہ تھا۔ اس کے بعد آل عمران میں الٓمٓ آیا۔ جس کے بعد اللہ لا الہ الاھوالحی القیوم۔ نزل علیکم الکتب بالحق آیا۔ یاد رکھنا چاہئے کہ حق اور لاریب کے دراصل ایک ہی معنی ہیں پس بقرہ میں بھی الٓمٓ کے بعد ایسی کتاب کا ذکر تھا جس میں ریب نہ ہو اور اس جگہ بھی۔ پھر اعراف میں الٓمٓصٓ آیا اور اس کے بعد کتاب انزل الیک فلا یکن فی صدرک حرج منہ لتنذر بہ وذکری للمؤمنین۔ کی آیت رکھی گئی۔ گویا یہاں بھی لاریب فیہ والی کتاب کا ذکر ہوا ہے۔ کیونکہ فلایکن فے صدرک حرج لاریب فیہ کتاب پر ہی دلالت کرتا ہے۔ ان ابتدائی سورتوں کے بعد وقفہ دے کر عنکبوت الٓمٓ سے شروع ہوتی ہیے۔ فرماتا ہے الٓمٓ احسب الناس ان یترکون ان یقولوا امنا وھم لا یفتنون ولقد فتنا الذین من قبلھم فلیعلمن اللہ الذین صدقوا ولیعلمن الکاذبین ان آیات میں بھی ایک یقینی کتاب کا ذکر کیا گیا ہے۔ چنانچہ امتحان شک اور ریب کے دور کرنے پر ہی دلالت کرتا ہے۔ پاس اس سورت میں بھی وہی مضمون ہے جو سورہ بقرہ وغیرہ میں تھا۔ مگر بقرہ میں انسان بحیثیت مجموعی مخاطب تھے اور یہاں مومنوں سے کہا گیا ہے کہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ابھی شک تمہارے دلوں میں باقی ہو۔ اور ہم تم سے معاملہ کاملین والا شروع کردیں۔ سورۂ روم میں بھی یہی مضمون ہے۔ گو بہت باریک ہو گیا ہے۔ فرماتا ہے الٓمٓ۔ غلبت الروم فی ادنی الارض وھم من بعد غلبھم سیغلبون۔ خداتعالیٰ کا کلام روم کے متعلق نازل ہوا ہے۔ اور وہ ضرور پورا ہوکر رہے گا۔ گویا بجائے سب کتاب کی طرف اشارہ کرنے کے ایک خاص حصہ کی طرف اشارہ ہے۔ اور اس کے یقنی ہونے پر زور دیا ہے جیسا کہ من اور س کے حروف سے ظاہر ہے۔
سورہ روم کے بعد سورہ لقمان الم سے شروع ہوتی ہے۔ اس میں فرماتا ہے۔ الٓمٓ۔ تلک آیات الکلتاب الحکیم۔ لھدی ورحمۃ للمحسنین الذین یقیمون الصلوۃ ویؤتون الزکوۃ وھم بالاخرۃ ھم یوقنون۔ اولئک علی ھدی من ربھم والئک ھم المفلحون۔ اس سورۃ میں بھی حکیم کا لفظ استعمال کرکے ایک یقینی امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اور گویا بقرہ کے ابتدائی مضمون کو دہرا دیا گیا ہے۔ اس کے بعد سورۂ سجدہ ہے۔ اس میں آتا ہے الٓمٓ تنزیل الکتب لاریب فیہ من رب العلمین۔ یہاں بھی ایک بے ریب کتاب کا ذکر ہے۔ پس ان سب آیات سے ظاہر ہے کہ جہاں الٓمٓ آتا ہے اس کے بعد ایک خاص مضمون آتا ہے اور ایک یقینی علم کے نزول کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ اب اس امر کی موجودگی میں کس طرح سمجھ لیا جائے کہ یہ الفاظ یونہی رکھ دیئے گئے ہیں۔ پس حق یہی ہے کہ الٓمٓ کے حروف ازالہ شک اور یقین پر دلالت کرنے کے لئے آتے ہیں۔ اور وہ چیز جس سے شک دور ہوتا اور یقین پیدا ہوتا ہے کامل علم ہی ہوتا ہے۔ پس الٓمٓ کے معنی یہی ہیں کہ انااللہ اعلم۔ میں اللہ ہوں جو سب سے زیادہ جاننے والا ہوں۔ پس اگر شک کو دور کرنا اور یقین حاصل کرنا چاہتے ہو تو میرے کلام کی طرف توجہ کرو۔ اور میری کتاب کو پڑھو۔
اب میں الٓر کو لیتا ہوں۔ ان حروف سے جو سورتیں شروع ہوتی ہیں اگر ان پر غور کیا جائے تو وہ بھی ایک ہی مضمون سے شروع ہوتی ہیں۔ سورۂ یونس میں آتا ہے الٓرٰ۔ تلک آیات الکتاب الحکیم اکان للناس عجبا ان اوحینا الی رجل منھم ان انذر الناس وبشرالذین امنوا ان لھم قدم صدق عند ربھم قال الکفرون ان ھذا لساحر مبین۔ پھر سورۂ ہود میں آتا ہے الٓرٰ۔ کتب احکمت ایاتہ ثم فصلت من لدن حکیم خبیر۔ الا تعبدوا الا اللہ اننی لکم منہ نذیر وبشیر وان استغفروا ربکم ثم توبوا الیہ یمتعکم متاعا حسنا الی اجلٍ مسمی ویوت کل ذی فضل فضلہ وان تولوا افانی اخاف علیکم عذاب یومٍ کبیر پھر سورہ یوسف میں آتا ہے الٓرٰ تلک ایات الکتاب المبین۔ انا انزلناہ قرء نا عربیا لعلکم تعقلون نحن نقص علیک احسن القصص بما اوحینا الیک ھذا القراٰن وان کنت من قبلہ لمن الغفلین۔ پھر سورہ رعد میں آتا ہے الٓمٓرٰ۔ تلک ایت الکتاب والذین انزل الیک من ربک الحق ولکن اکثرالناس لا یؤمنون۔ اللہ الذین رفع السموت بغیر عمدٍ ترونھا ثم استویٰ علی العرش وسخر الشمس والقمر کل یجری لاجلٍ مسمے یدبر الامر یفصل ایات لعلکم بلقاء ربکم توقنون یہاں میم کا بھی اور راء کا بھی مضمون آ گیا۔ پھر سورۂ ابراہیم میں آتا ہے الٓرٰ۔ کتاب انزلناہ الیک لتخرج الناس من الظلمات الی النور باذن ربھم الی صراط العزیز الحمد اللہ الذی لہ ما فی السموت وما فی الارض ودیل للکافرین من عذاب شدید پھر سورۂ حجر میں آتا ہے الٓرٰ تلک ایت الکتاب وقراٰن مبین۔ ربما یودالذین کفروا لو کانوا مسلمین۔ وما اھلکنا من قریۃ الا ولھا کتاب معلوم۔ ماتسبق من امۃ اجلھا وما یستأخرون۔ ان سب مقامات پر مجموعی نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں دو مضامین پر زور دیا گیا ہے ایک پرانی تاریخ پر۔ جس میں سے خاص طور پر شریروں کو سزا ملنے کے مضمون کو منتخب کرلیا گیا ہے اور دوسرے پیدائش عالم کے مضمون پر۔ سورۂ یونس میں استفہام انکاری کے استعمال سے بتایا گیا ہے کہ نذیر و بشیر انبیاء ہمیشہ ہی آتے رہے ہیں۔ سورہ ہود میں اول تو یہ قاعدہ بتایا ہے کہ کوئی قوم ایک ہی حالت پر قائم نہیں رہتی بلکہ ایک دائرہ کے اندر چکر لگاتی ہے۔ اور پیدائش عالم کا ذکر کرکے بتایا کہ دنیا کی ترقی قانون ارتقاء کے ماتحت ہے۔ اس کے بعد سورۂ یوسف میں صاف الفاظ میں تاریخ عالم کی طرف اشارہ کیا ہے۔ سورۂ رعد میں چونکہ میم زائد تھا اس میں الم اور الرٰ دونوں مضمونوں کو جمع کر دیا ہے اور پہلے تو میم کی مناسبت سے ایک یقینی کلام کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس کے بعد پیدائش عالم کا مطالعہ کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ سورہ ابراہیم میں پھر قانونِ قدرت کا مطالعہ کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اور بتایا ہے کہ اسے دیکھو اس میں تمہیں ایک بیدار آقا کا ہاتھ نظر آئے گا۔ سورۂ حجر میں پھر پچھلی تاریخ کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اب یہ امر ظاہر ہے کہ واقعات اور قانون کا تعلق دیکھنے سے ہے۔ حقیقت تک وہی پہنچ سکتا ہے جس کی آنکھوں کے سامنے واقعات ہوں۔ یا جس کی آنکھوں کے سامنے کوئی قانون ظاہر ہو رہا ہو پس ان سورتوں کا رویہ کے ساتھ تعلق ہے۔ اور الر میں یہی دعویٰ کیا گیا ہے۔ کہ میں اللہ دیکھتا ہوں۔ نہ تو پرانی تاریخ میری نظر سے پوشیدہ ہے اور نہ قانونِ قدرت کا اجراء۔
یا پیدائش عالم میری نگہ سے مخفی ہے۔ پس روئت سے تعلق رکھنے والے امور میں بھی میری ہی ہدایت کافی ہوسکتی ہے۔
ایک اور بات بھی حروف مقطعات کے متعلق یاد رکھنی چاہئے کہ گو حروفِ مقطعات کے مضامین حروف کے اختلاف سے بدلتے رہتے ہیں لیکن ایک امر میں سب حروف مشترک ہیں اور وہ یہ کہ جو سورتیں حروف مقطعات سے شروع ہوتی ہیں ان کے مضمون کی ابتداء وحی الٰہی کے ذکر سے ہوتی ہے۔ اکثر میں تو صاف الفاظ میں کتاب یا قرآن کا لفظ ہی استعمال ہوا ہے اور چند ایک میں کسی پرانی کتاب کی طرف اشارہ ہے۔ جیسے سورۂ مریم میں۔ یا کسی خاص کلام کی طرف اشارہ ہے۔ جیسا سورۂ روم میں۔
۲ تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْحَکِیْمِO
ترجمہ
یہ کامل (اور) پرحکمت کتاب کی آیتیں ہیں۔
۳؎ حل لغات
تلک۔ اسم اشارہ ہے۔ اور دور کی چیز کی طرف اشارہ کرنے کے لئے آتا ہے۔ ال حرفِ تعریف ہے اور اس کے مختلف معنوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جس لفظ پر یہ آئے اس کے متعلق یہ بتاتا ہے کہ وہ اپنی جنس میں سے کامل وجود ہے۔
آیات
آیۃ کی جمع ہے۔ جس کے معنی علامات، نشان اور دلیل کے ہوتے ہیں۔ قرآن کریم کے ہر اک ایسے ٹکڑے کو جسے کسی لفظی نشان کے ساتھ دوسرے سے جدا کر دیا گیا ہو آیۃ کہتے ہیں (تاج)
میرے نزدیک قرآنِ کریم میں وارد فقروں کا نام آیۃ اسی حکمت سے رکھا گیا ہے کہ تا لوگ یہ سمجھ لیں کہ قرآن کریم کے مضامین میں مکمل ترتیب ہے اور ہر فقرہ دوسرے فقرہ کے معانی کے لئے بطور دلیل ہے۔ بغیر اس کے مدنظر رکھے مطلب پوری طرح نہیں سمجھ میں آسکتا۔ دوسرے اس لئے بھی کہ ہر ہر ٹکڑہ خداتعالیٰ کا ایک نشان ہے۔ عیسائی اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن نے معجزات کا دعویٰ نہیں کیا۔ حالانکہ قرآن کریم تو اپنے ہر فقرہ کا نام آیت رکھ کر اسے معجزات پر مشتمل بلکہ خود معجزہ قرار دیتا ہے۔
الکتاب۔ مصدر یہ لفظ دراصل کتب کی مصدر ہے) کَتَبَ الْکَتِیْبَۃَ جمعھا۔ لشکر کو جمع کر لیا۔ کَتَبَ السقاء۔ خرزہ بسیرین۔ چمڑے کی تینوں کے ساتھ اسے سی دیا۔ (تاج) انہی معنوں کی رو سے کتاب کتاب کہلاتی ہے۔ کیونکہ اس میں مضامین کو جمع کر دیا جاتا ہے اور مختلف اوراق کو ایک جگہ اکٹھا کرکے سی دیا جاتا ہے۔ کتاب کے معنی اس خالی کاغذوں کے مجموہ کے بھی ہوتے ہیں جس پر کچھ لکھا جائے اور کتاب تحریر کو بھی کہتے ہیں اور کتاب کے معنی فرض اور حکم اور اندازہ کے بھی ہوتے ہیں۔ اور کتاب خط کو بھی کہتے ہیں۔ (اقرب)
حکیم۔ عالم، صاحب الحکمۃ، یعنی حکمت والا۔ المتقن للامور۔ تمام کاموں کو اچھی طرح کرنے والا۔ جس کے کاموں کو کوئی بگاڑ نہ سکے۔ (اقرب) المحکم۔ یعنی مضبوط۔ (مفود) حکمۃ کے معنی ہیں۔ عدل، علم، علم، نبوت مایمنع من الجمالۃ۔ یعنی ہر وہ بات جو جہالت سے روکے۔ کل کلامٍ موافقٍ للحق۔ ہر وہ کلام جو سچائی کے مطابق ہو۔ بعض کے نزدیک اس کے معنی وضع الشیء فی موضعہ کے ہیں۔ یعنی ہر امر کو اس کے مناسب حال طور پر استعمال کرنا۔ اور صواب الامرو سدارہ بات کی حقیقت اور اس کا مغز۔ (اقرب)
حکم۔ جو حکیم کا مادہ ہے۔ اس کے معنی ہیں منع منعًا لاصلاحٍ۔ اصلاح کی خاطر کسی کو کسی کام سے روکنا۔ اور اسی وجہ سے جانور کی لگام کو حکمۃ کہتے ہیں۔ ایک شاعر کہتا ہے ؎
ابنی حنیفۃ احکموا سفہاء کم
اے بنی حنیفہ اپنے بیوقوفوں کو سمجھاؤ اور بری باتوں سے روکو۔ (مفردات)
تفسیر
اس آیت میں خیرالکما ماقل و دل کا پورا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ لفظ تھوڑے ہیں لیکن اس قدر وسیع معانی پر مشتمل ہیں کہ قرآن کریم کے کمالات کا خاکہ کھینچ دیتے ہیں۔ الفاظ کے جو معنی اوپر لکھے گئے ہیں ان پر غور کرو اور دیکھو کہ کس قدر وسیع مطالب کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ یہ آیتیں ایسی کتاب کی ہیں جو اپنے اندر علوم رکھتی ہیں۔ عدل کی تعلیم دیتی ہیں جہالت سے روکتی ہے۔ تمام سچائیاں اس میں پائی جاتی ہیں۔ محل اور موقع کے لحاظ سے تعلیم دیتی ہے۔ لوگوں کی اصلاح کی غرض سے تعلیم دیتی ہے۔ اس میں بڑی پکی باتیں ہیں۔ عربی زبان کی وسعت دیکھو۔ ایک لفظ میں کتنے دعویٰ کر دیئے ہیں۔ اور بتایا ہے کہ یہ ہیں ہمارے کام۔ پس اب تم کو یہ دیکھنا چاہئے کہ واقع میں اس میں یہ باتیں پائی جاتی ہیں یا نہیں۔ اگر پائی جاتی ہیں تو پھر اس کا انکار خلاف عقل و دانش ہوگا۔ مگر کون کہہ سکتا ہے کہ قرآن کریم میں یہ امور نہیں پائے جاتے۔
تلک کے متعلق کہا گیا ہے کہ اس کے ساتھ بعید کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ اور ایت الکتب تو بعید نہیں۔ جن کی طرف بظاہر اشارہ ہے۔ پس سوال یہ ہے کہ تلک کا لفظ جو اشارہ بعید کے لئے ہے۔ یہاں پر کیوں لایا گیا ہے۔ بعض نے اس کے متعلق کہا ہے کہ تورات وغیرہ پہلی کتابوں میں اس کتاب کی نسبت پہلے سے خبر دی ہوئی تھی۔ پس تلک کے ساتھ ان مبشر آیات کیط رف اشارہ ہے جن میں اس کلام پاک کی خبر دی گئی تھی۔ اور بتایا ہے کہ وہ مبشرات اس کتاب کی آیتیں ہیں۔ یعنی ان کا وجود اس کتاب کی آیتوں کے ذریعہ سے پورا ہوتا ہے۔ اور بعض کا یہ خیال ہے کہ خدا نے پہلے مکمل کتاب لکھ چھوڑی تھی۔ اس میں سے وہ وقتاً فوقتاً آیتیں اتارتا رہتا ہے۔ پس ان کے نزدیک تلک کا اشارہ اس پہلی مکمل شدہ کتاب کی آیتوں کی طرف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ جس طرح مشارٌ الیہ کے بُعد مکانی کے بتانے کے لئے بلک آتا ہے ایسا ہی اس کے درجہ کے بُعد کے اظہار کے لئے بھی آتا ہے۔ اور یہاں پر درجہ کے بُعد اور تعظیم کے لئے اس لفظ کے ساتھ اشارہ کیا گیا ہے۔
یہ سب مفہوم اپنی اپنی جگہ پر ٹھیک ہیں۔ مگر میرے نزدیک ایک اور مفہوم بھی ہے جو درجہ والی بات سے ملتا ہے مگر اس سے کسی قدر الگ بھی ہے۔ اور وہ یہ کہ آگے آتا ہے اکان للناس عجبا کیا لوگ اسے عجیب بات یعنی انہونی بات سمجھتے ہیں۔ انہونی یا عجیب بات اسی کو کہتے ہیں جسے انسان بعیدازقیاس سمجھتا ہے۔ل پس اگلی آیت سے معلوم ہوا کہ کفار قرآن کریم کے مضمون کو بعیدازقیاس باتیں قرار دیا کرتے تھے۔ اس لئے مخاطبین کے عقیدہ کے مطابق تعیرضاً فرمایا کہ وہ انہونی بات (یعنی جسے تم انہونی خیال کرتے ہو) ایک نہایت ہی پختہ کتاب کی آیتیں ہیں۔ یعنی بجائے اس کے کہ انہونی ہوں ان سے زیادہ کوئی اور بات یقینی ہو ہی نہیں سکتی۔ پس تلک کا لفظ ان کے استبعاد کو مدنظر رکھتے ہوئے استعمال کیا گیا ہے۔ ایک دوسری جگہ قرآن کریم میں آتا ہے انھم پرونہ بعیدا ونرٰلہ قریبا (معارج ع۱) جس کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ وہ لوگ اسے مستبعد خیال کرتے ہیں اور ہمارے نزدیک وہ امر یقینی ہے۔ غرض جس چیز کے متعلق تعجب اور استبعاد ہو۔ وہ بھی دور کی سمجھی جاتی ہے۔ پس ان لوگوں کے خیالات کے مطابق فرمایا کہ وہ چیز جو تمہیں دور کی نظر آتی ہے اور جسے تم بعیدازعقل سمجھتے ہو اسے دور کی نہ سمجھو۔ وہ تو اس کتاب حکیم کی آیتیں ہیں۔ اور بہرحال پوری ہوکر رہیں گی۔
۳ اَکَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَیْنِآ اِلٰی رَجُلٍ مِنْھُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّھِمْ ط قَالَ الْکٰفِرُوْنَ اِنَّ ھٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِیْنٌO
ترجمہ
کیا لوگوں کے نزدیک ہمارا ان میں سے ایک شخص پر (یہ) وحی کرنا کہ لوگوں کو ہوشیار کر اور جو لوگ ایمان لائے ہیں انہیں بشارت دے کہ ان کے لئے ان کے رب کے حضور میں ایک ظاہر و باطن طور پر کامل درجہ ہے (ایسا) عجیب (امر) تھا (کہ) ان کافروں نے کہہ دیا کہ یہ شخص یقینا یقینا کھلا کھلا دھوکہ باز ہے۔
۴؎ حل لغات
العجب۔ انکارما یرد علیک یعنے جب کوئی ایسا امر پیش آئے کہ اس کے ماننے میں طبیعت کو انقباض اور انکار ہو تو اس حالت انکار کو عجب کہتے ہیں۔ استطرافہ۔ پیش آمدہ امر کو پسند کرنے کو بھی عجب کہتے ہیں۔ روعۃ تعتری الانسان عند استعظام الشیء۔ یعنی اس حالت رعب کو بھی عجب کہتے ہیں جو انسان پر کسی چیز کو بہت ہی بڑا سمجھنے کے وقت طاری ہوتی ہے۔ ومن اللہ۔ الرضی اور جب اللہ کی طرف اس لفظ کو منسوب کیا جاوے تو اس کے معنی پسندیدگی کے ہوتے ہیں۔ (اقرب)
الرجل: خلاف المرأۃ یعنی مرد۔ الکامل فی الرجولیہ وہ شخص جس میں مردوں والے کمالات بدرجہ اتم پائے جائیں۔ (اقرب)
اوحینا:- وحی سے ہے وحی کے معنی مفردات راغب میں لکھے ہیں۔ اصل الوحی۔ الاشارۃ السریعۃ وحی کے اصل معنی تیزی سے اشارہ کرنے کے ہیں۔ لفظ وحی کلام الٰہی کی ان تمام قسموں کے لئے بولتے ہیں جن کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنی مرضی سے مطلع فرماتا ہے۔ میرے نزدیک وحی کا لفظ اس کلام کے لئے اسی بناء پر چنا گیا ہے کہ علوم روحانیہ الفاظ میں پوری طرح بیان نہیں ہوسکتے۔ صرف ان کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے۔ پس خود اس نام سے ہی کلام کی رفعت کی طرف اشارہ کر دیا گیا ہے۔ اَنْذِرْ. اَنْذَرَ کا صیغۂ امر ہے۔ اس کی مصدر انذار ہے اور الفاظ نَذْر، نُذْر، نُذُر اور نَذِیر بھی اس معنی میں آتے ہیں۔ کہتے ہیں اَنْذَرَہٗ بِالْاَمْرِ۔ اَعْمَلَہٗ وَحَذَّرَہ مِنْ عَوَاقِبِہ قَبْل حلولہ یعنی کسی امر کی حقیقت سے اسے آگاہ کیا۔ اور اس امر کے نتائج کے ظاہر ہونے سے پہلے اسے ہوشیار کر دیا اور کہتے ہیں اَنْذَرَہٗ خَوْفَہٗ فِیْ اِبْلَاغِہٖ یُقَالُ اَنْذَرْتُ القوم سیر العدو الیھم فنذروا یعنی انذرہ کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ خبر پہنچاتے ہوئے خوب ہوشیار کیا چنانچہ جب کہتے ہیں انذرت القوم سیر العدو تو اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ میں نے قوم کو دشمن کی پیش قدمی سے خوب ہوشیار کیا۔ اور اس کا فعل لازم یا مضارع نذر ہے جس کے معنی ہیں وہ ہوشیار ہو گیا۔ (اقرب)
القدم:- الرجل۔ پاؤں۔ السابقۃ فی الامر خیرا کان اوشرا۔ کسی بات میں کمال کا حاصل ہونا۔ خواہ بری بات ہو یا اچھی۔ کہتے ہیں لفلان فی کذا قدم صدق اوقدم سوئٍ۔ فلاں شخص کو فلاں اچھی بات میں کمال حاصل ہے۔ یا فلاں بری بات میں کمال حاصل ہے۔
اَلْقَدَمُ۔ الرجل لہ مرتبۃ فی الخیر۔ قدم اس شخص کو بھی کہتے ہیں جسے کسی اچھی بات میں کوئی خاص درجہ حاصل ہو۔ القدم۔ الشجاع۔ قدم بہادر (مرد یا عورت) کو بھی کہتے ہیں۔ اور کہتے ہیں وضع القدم فی عملہ اس نے اس کام کو شروع کر دیا۔ (اقرب) الصّدق:- یعبرعن کل فعلٍ فاضلٍ ظاہرًا وباطنًا باصّدق فیضاف الیہ ذلک الفعل الذی یوصف بہ نحو قولہ تعرفی مقعد صدق وانَّ لَھُمْ قَدَمَ صدقٍ وَاجْعَلْ لی لِسَانَ صِدْقٍ فی الخریْنَ (مفرد) صدق سے مراد ہر وہ فعل ہوتا ہے جو ظاہر و باطن میں خوبی رکھتا ہو۔ اور جس فعل کی صدق کو صفت بنانا ہو اس کو صدق کی طرف مضاف کر دیتے ہیں۔ جیسے کہ قرآن کریم میں ہے۔ فی مقعد صدق (قمر ع ۳) فلاں شخص ظاہر و باطن طور پر اچھی جگہ میں ہے۔ یا ان لھم قدم صدق انہیں ظاہر و باطن طور پر اچھا درجہ حاصل ہے۔ یا واجعل لی لسان صدق فی الاخرین۔ (شعراء ع ۵) مجھے ظاہر و باطن طور پر اچھی تعریف حاصل ہو۔ یعنی میرا ذکر خیر کے ساتھ صرف لوگوں کی زبان پر ہی نہ ہو بلکہ واقع میں بھی میرے نیک کام دنیا میں قائم رہیں۔ اور میری تعریف جھوٹی نہ ہو یعنی لوگ غلو کرکے مجھ سے شرک نہ کرنے لگ جائیں۔ یا فرمایا ہے کہ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ (بنی اسرائیل ع ۹) مجھے اس طرح کا داخلہ عطا ہو جو ظاہر و باطن میں اچھا ہو اور میں اس طرح اپنے شہر سے نکلوں کہ جو ظاہر و باطن میں اچھا ہو۔ یعنی اس میں بزدلی اور کمزوری ایمان کا کوئی شائبہ نہ ہو۔ اورا س کے نتائج نہایت اعلیٰ ہوں۔ (سٰحِر۔ اسم فاعل ہے۔ اور سَحَرَ سے نکلا ہے۔ اس کے مصدر سِحْر کے معنی ہیں۔ کلُّ ما لَطُفَ ماخذہ ودقَّ۔ ہر وہ چیز جس کا ماخذ یا جڑ نہایت باریک اور پوشیدہ ہو۔ الفساد فساد۔ اخراج الباطل فی صورۃ الحق۔ جھوٹ کو سچ کی شکل میں پیش کرنا واطلاقہ علی ما یفعلہ من الحیل حقیقۃ لغویۃ ومنہ ان من البیان لسحرًا اور اس لفظ کا استعمال حیلوں اور فریبوں پر *** کے اصلی معنوں کے مطابق ہے۔ اور اسی کے مطابق کہتے ہیں کہ بعض کلام بھی سحر ہوتا ہے۔ (اقرب)
مفسرین نے لکھا ہے اس آیت کے نزول کا سبب یہ ہے کہ کفار نے طنزاً کہا کہ لم یجداللہ رسولا الا یتیم ابی طالب کہ خدا تعالیٰ کو ابوطالب کے یتیم کے سوا اور کوئی رسول نہ ملا۔ کہتے ہیں اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل کی اور بتایا کہ یہ کوئی قابل تعجب باقت نہیں۔
نزول کے اسباب مقرر کرنا تو خیر ایک ذوقی امر ہے۔ قرآن کریم کی آیات تو بہرحال اترنی ہی تھیں۔ مگر اس تاریخی واقعہ سے یہ بات ضرور معلوم ہوجاتی ہے کہ کفار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کس نظر سے دیکھتے تھے۔ اور آپ کی تحقیر کرنے کے لئے کیسے کیسے مضمون ایجاد کرتے تھے۔ ابوطالب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے۔ اور دادا کی وفات کے بعد آپ ان کی کفالت میں آگئے تھے۔ ان کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو منسوب کرنا اور آپ کے والد کی طرف منسوب نہ کرنا اس کے صرف یہ معنی تھے کہ آپؐ پر طعن کریں۔ کہ ایسا غریب آدمی جس کو ایک اور شخص نے پالا تھا۔ بھلا خدا کا رسول ہوسکتا ہے۔ نادانوں نے یہ تو نہ سوچا کہ حضرت ابوطالب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے کوئی غیر نہ تھے۔ باپ کی عدم موجودگی میں چچا کے گھر پلنے کا بچہ کو اخلاقاً حق ہوتا ہے۔ کیونکہ اہلی زندگی کی بنادی ہی اس قدیم عہد پر ہے کہ ایک دوسرے کا مصیبت کے وقت میں نائب بنے گا۔ چنانچہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کو پالا۔ اگر ابوطالب کا کوئی بیٹا رہ جاتا اور عبداللہ زندہ ہوتے تو وہ ان کے گھر پلتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے والد عبداللہ بھی غریب تھے اور صرف غربت کا اظہار ان کی طرف آپ کو منسوب کرکے بھی ہوسکتا تھا۔ مگر انہوں نے ابوطالب کا یتیم کہہ کر اس امر کا اظہار کرنا چاہا کہ یہ شخص دوسروں کے ٹکڑوں پر پلنے والا ہمیں بادشاہت کے وعدے دلاتا ہے۔
تفسیر:
کفار کو اس پر تعجب تھا کہ انہی میں سے ایک آدمی پر کس طرح وحی آگئی۔ گری ہوئی قوموں میں یہ احساس ہمیشہ ہی ہوا کرتا ہے کہ ہم میں سے بڑے آدمی نہیں پیدا ہوسکتے۔ گویا کفار اپنی حالت سے ایسے مایوس ہوگئے تھے کہ وہ یقین ہی نہیں کرسکتے تھے کہ ان کا علاج ان کے اندر موجود ہے۔ ان کا خیال تھا کہ ان کو بڑھانے اور ترقی دینے اور ان کا علاج کرنے کے لئے باہر سے کسی کو آنا چاہئے۔ یہی حال آج کل بہت سے مسلمانوں کا ہے۔ وہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰؑ ہی آسمان سے آکر ہمیں ذلت اور ادبار سے نکالیں گے۔ ہم میں سے ایسا شخص نہیں پیدا ہوسکتا جو ہمارا علاج کرے۔ اس امر میں انہیں پہلی قوموں سے کس قدر موافقت حاصل ہے وہی مایوسی ہے اور وہی طریقِ علاج۔
وہ لوگ جو قومی ترقی کے لئے یا تو امنگ ہی نہ رکھتے تھے یا یہ سمجھتے تھے کہ خارجی علاج کے بغیر کچھ نہیں بن سکتا جب ان میں سے ان کے بھائی نے دعویٰ کیا کہ میں ہی تمہارا علاج کروں گا اور ترقی کی طرف لے جاؤں گا تو ان کی حیرت کی حد نہ رہی۔ وہ حیران ہو گئے۔ کہ جو بات ناممکن تھی اسے ممکن کرنے کا اس نے کیونکر دعویٰ کر لیا۔
دوسری بات جو ان کے لئے حیرت انگیز بن گئی یہ تھی کہ اس مدعی کا دعویٰ ہے کہ مجھے لوگوں کو ہوشیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یعنی بعض پرانی باتوں کو چھوڑ دو اور بعض نئی باتوں کو اختیار کرو۔ ایسے لوگوں کے لئے ہمیشہ یہ بات قابل تعجب ہوا کرتی ہے کہ رسول کہتے ہیں کہ موجودہ نظام کو توڑ دو۔ اور نیا نظام اختیار کرو۔
کفار کی یہ دونوں باتیں متضاد ہیں۔ ایک طرف تو ان میں اتنی مایوسی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے علاج کے لئے ہم میں سے کوئی نہیں آسکتا اور دوسری طرف وہ اس بات پر لڑتے ہیں کہ ہمارا نظام کیوں بدلتے ہو۔ یہ گری ہوئی قوموں کی حالت ہوتی ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ نہ کچھ چھوڑنا پڑے اور نہ کچھ کرنا پڑے۔ ایک شخص باہر سے آکر ان کے موجودہ نظام کو قائم رکھتے ہوئے انہیں ترقی کی طرف لے جائے۔ انہیں نہ تعلیم حاصل کرنی پڑے نہ محنت و مشقت کرنی پڑے نہ بری باتوں کو چھوڑنا پڑے۔ بلکہ ایک شخص باہر سے آئے اور دوسروں کو مار دے اور سب کچھ انہیں حاصل ہو جائے۔ وہ یہ نہیں خیال کرتے کہ اگر ان کا پہلا نظام درست ہوتا تو ذلت اور ادبار میں وہ پڑتے ہی کیوں؟ پس ان کا موجودہ نظام توڑ کر ہی کام چل سکے گا۔
تیسری بات قابل تعجب ان کے لئے یہ تھی کہ وبشرالذین امنوا ان لھم قدم صدق عندربھم میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ میرے کہنے پر چل کر جو لوگ اس نظام کو بدلا لیں گے وہ ترقی کر جائیں گے۔ حالانکہ ان کے نزدیک اول تو وہ لوگ بہترین دماغ کے نہ تھے۔ بلکہ ادنیٰ درجہ کے تھے۔ دوم وہ لوگ قوم کی مخالفت پر کھڑے تھے۔ سوم ناممکن بات کو ممکن بنادینے کا دعویٰ کرتے تھے۔ چونکہ کوئی قوم اسی وقت ترقی کرسکتی ہے کہ اس کے کام کرنے والے لوگ بہترین دماغ کے ہوں۔ اس کا آپس میں اتحاد ہو۔ اور وہ ایسے مقاصد کے لئے کھڑی ہو جن کا حاصل کرنا ممکن ہو۔ اور مسلمانوں کو وہ ان سب باتوں سے محروم سمجھتے تھے۔ اس لئے تعجب کرتے تھے کہ یہ کس طرح کامیاب ہو جائیں گے۔ یہ کیونکر پہلے نظام کو توڑ دیں گے۔ اور اس کی جگہ ایک اور نظام ایسا قائم کریں گے جو ظاہر اور باطن طور پر اچھا ہوگا۔ جس سے یہ بادشاہ بن جائیں گے اور روحانی طور پر ان کا اللہ تعتالیٰ سے تعلق ہوجائے گا۔ عندربھم اس لئے فرمایا کہ روحانی اور جسمانی دونوں ترقیاں ضروری ہوتی ہیں۔ پس اس ہستی کی طرف نسبت دے کر جس کے قبضہ میں یہ دونوں ترقیاں ہیں کامل کامیابی کی طرف اشارہ کر دیا۔ ان ھذا لسحر مبین۔ کفار نے اوپر کی بات کو سن کر کہا کہ یہ شخص باتیں خوب بناتا ہے۔ حتیٰ کہ جھوٹ کو سچ کر دکھاتا ہے۔
اور انسانی فطرت کو اپیل کرکے جو ڈرنے والے ہیں ان کو ڈرا کر جو لالچی ہیں انہیں لالچ دلا کر اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی اعتراض آج کل مسیحی مصنف کرتے ہیں۔اور کہتے ہیں کہ عرب کے جاہلوں کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوف دلا کر یا لالچ دلا کر اپنے ساتھ ملا لیا۔ حالانکہ کفار کا اعتراض بتاتا ہے کہ یہ نکتہ ان عرب کے جاہلوں کو بھی معلوم تھا پھر وہ کس طرح دھوکہ میں آگئے۔ حق یہ ہے کہ تشابھت قلوبھم دونو کے دل مل گئے ہیں۔ ورنہ وہ کون سا مذہب ہوگا جو ہ کہے کہ جو مجھے مانے گا دوزخ میں جائے گا اور جو نہ مانے گا جنت حاصل کرے گا۔ اگر سچائی کے ماننے کے انعامات کا ذکر لالچ ہے تو کوئی سچائی بغیر لالچ کے نہیں ہوسکتی۔ یہ لوگ حضرت مسیحؑ کے متعلق کیا کہیں گے جنہوں نے جنت کی کنجیوں کا وعدہ پطرف کو دیا اور اعلان کیا کہ ہر ایک کو جو اس کی تعلیم پر نہیں چلتا وہ خدا کی بادشاہت سے محروم رہے گا اور ماننے والوں کے لئے انعامات کے وعدے کئے۔ (متی ب۱۶، ب۱۸، ب۱۹)
۴ اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ یُدَبِّرُ الْاَمْرَ ط مَا مِنْ شَفِیْعٍ اِلَّا مِنْم بَعْدِ اِذْنِہٖ ط ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہُ ط اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَO
ترجمہ
تمہارا رب یقینا اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ وقتوں میں پیدا کیا پھر عرش پر قرار فرما ہوا۔ وہ ہر امر کا انتظام کرنا ہے (اس کے حضور میں) کوئی بھی (کسی کا) شفیع نہیں (ہوسکتا) مگر ہان اس کی اجاز ت کے بعد۔ وہ (مذکورہ بالا صفات والا) ہے (اور وہی ہے) تمہارا رب اس لئے تم اس کی عبادت کرو۔ کیا تم پھر (بھی باوجود ان باتوں کے) نصیحت حاصل نہیں کروگے۔
۵؎ حلِ لغات
الرَّبُّ۔ مالک، آقا یا مطاع مستحق یا صاحب الشئے یعنی کسی چیز والا۔ رَبَّ الشیء۔ جَمَعَہٗ اس چیز کو جمع کیا مَلَکَہٗ اس کا مالک ہوا۔ القومَ ساسَھم وکان فوقھم قوم پر حکومت اور سیاست کی۔ النِّعْمَۃَ: زَادَھا نعمت کو بڑھایا۔ الامرَ: اَصْلَحَہٗ وَاَتَمَّہٗ کام کو درست اور مکمل کیا۔ الدُّھْنَ: طَیَّبَہٗ واَجَادَہٗ۔ تیل میں عمدگی اور خوبی پیدا کی۔ الصبیَّ: رَبَّاہ حَتّٰی اَدْرَکَ بچہ کی تربیت کی حتیٰ کہ وہ اپنے کمال کو پہنچ گیا۔ (اقرب)
اَللّٰہُ۔ اسم باری الوجود (اقرب) تمام موجودات کو ہستی بخشنے والی ذات کا نام۔ خَلَقَ: الادیمَ: قدّرَرٗ قبل ان یقطعَہٗ۔ کھال کو کاٹنے سے پہلے اس کی اس شکل کا اندازہ کیا جس کے مطابق اسے کاٹنے کا رادہ ہے۔ الشیء:- اُوجَدَہٗ واَبْدَعَہٗ علی غیر مثالٍ سبق۔ پیدا کیا۔ عدم سے وجود بخشا۔ ایجاد کیا۔ اختراع کیا۔ الافِک:- افتراہ اپنے پاس سے بات گھڑ لی۔ الکلامَ وغیرَہٗ:- صَنَعَہٗ تیار کیا۔ لشیء: ملّسَہٗ وَلَیَّنَہٗ ہموار اور صاف کیا۔ العُوْد: سوّاہ درست اور ہموار کیا (اقرب) السَّمٰوٰت۔ سمائٌ کی جمع ہے۔ السّماء۔ آسمان۔ کل ماعلاک فاظَلَّکَ۔ ہر اوپر سے سایہ ڈالنے والی چیز۔ سقف کل شیء وبیتٍ چھت رواق البیت برآمدہ۔ ظہھرالفرس گھوڑے کی پیٹھ۔ السحابٌ۔ بادل۔ المطرُ بارش۔ المطرۃ الجیّدۃ ایک دفعہ کی برسی ہوئی عمدہ بارش۔ العشب سبزہ و گیاہ (اقرب) الارض:- کرۂ زمین۔ کلّ ماسفل ہر نیچے کی چیز (اقرب) ایَّامٌ:- یوم کی جمع ہے۔ الیوم من طلوع الفجر الی غروب الشمس۔ دن کا وقت الوقت مطلقا۔ مطلق وقت جو بھی اور جتنا بھی ہو (اقرب) اسْتَوٰی: اعتَدَل۔ اعتدال اختیار کیا۔ الطعامُ: نَضَجَ پک کر تیار ہو گیا۔ العودُ من اعوجاجٍ:- استقما کجی دور ہوکر سیدھا اور درست ہو گیا۔ الرجل: انتھی سبابہٗ وبلغ اشدۃ اور اربعین سنَۃً واستقام امرہٗ نشوونما کے کمال کو پہنچ گیا۔ اپنی جسمانی ترقی کا کمال پالیا۔ اس کے امور کو درستی حاصل ہو گئی۔ علی ظھر دابۃ: استقرّ قرار پذیر ہو گیا۔ متمکن ہو گیا۔ علیہ: استونی وظَھَرَ استیلا اور غلبہ پالیا۔ لہ والیہ: قَصَدَ متوجہ ہوا۔ (اقرب) عَرَشَ عرشا: بنٰی بنائً من خشب لکڑی کی عمارت بنائی۔ البیتَ: بناء تعمیر کیا۔ الکرمَ: رَفَعَ دوالیہ علی الخشب۔ بیل کو قرینے سے لگائی ہوئی لکڑیوں پر چڑھایا (اقرب) العرش سریر الملک اورنگ شاہی۔ العز۔ عزت و غلبہ۔ قوام الامر معاملات اور امور کی درستی کا ذریعہ اور مدار۔ رکن الشیء سہارا۔ من البیت سقفہ چھت۔ الخیمۃ خیمہ۔ البیت الذی یستظلُّ بِہٖ سایہ کا کام دینے والا گھر شبہ بیتٍ من جدید یجعل فوقہ الثمام جھونپڑی (اقرب) یُدَبِّرُ۔ تدبیر سے فعل مضارع ہے۔ دبرالاَمْرَ: نظر فی عاقبتہ وتفکر انجام اندیشی کی اور سوچا۔ اعتنی بہ اس کی طرف توجہ دی اور اس کا اہتمام کیا۔ رتبہ ونظمہ ترتیب دی۔ الوالی اقطاعہ: اَحْسَنَ سیاستھا عمدہ نگرانی اور انتظام کیا۔ الحدیث نقلہ عن غیرہ نقلاً بیان کیا۔ علی ھلاکہ: احتال علیہ وسطی فیہ۔ ہلاک کرنے کی کوشش کی (اقرب) الامر: طلب احداث شیء۔ طلب انشاء شیء او فعلہ کسی چیز یا کسی کام کو وجود میں لانے یا کرنے کا مطالبہ کرنا۔ الحال حالت۔ الشان معاملہ۔ بات، الشیء چیز، بات (اقرب) اذنُ مصدر ہے۔ اَذِنَ بِہٖ: عَلِمَ جان لینا۔ بہٖ ولَہٗ:- اباح اجازت دی (اقرب) اعْبُدُوْا۔ فعل امر ہے۔ اس کی مصدر عبادۃ، عبودۃ عبودیۃ ہے۔ عَبَدَلہ تألہ تمام تر کوشش کے ساتھ پرستش میں لگ گیا۔ عَبَدَاللّٰہَ طاعٍ لہ وخَضَع وذَلَّ وخَدَمَہ والتزم شرائع دینہ ووحدہ اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار بن گیا۔ اپنے آپ کو اسی ایک کا بنا کر اس کے احکام کا پابند ہو گیا۔ (اقرب) تذکرون صیغہ جمع مذکر مخاطب فعل مضارع معروف ہے۔ تذکر الشیء: یاد کیا۔ (اقرب) نصیحت اور تعلیم کو قبول کیا۔ (تاج)
ترتیب:
قرآن کریم کی عادت ہے کہ جس آیت کے مضمون کے متعلق کوئی سوال پیدا ہوتا ہے اس کا جواب اگلی آیت یا اگلی آیات میں دے دیتا ہے۔ اور بسااوقات اس اعتراض کو بیان بھی نہیں کرتا۔ صرف جواب ہی دے دیتا ہے۔ گویا وہ پڑھنے والے کے ذہن کے افکار میں اور قرآن کریم کے مضامین میں ایک کڑی بنا دیتا ہے۔ اور اس طرح پڑھنے والا یوں محسوس کرتا ہے کہ جو سوال اس کے ذہن میں آتا ہے قرآن کریم اس کا جواب ساتھ کے ساتھ دیتا جاتا ہیے۔ جو لوگ اس کے اس لطیف پیرایہ سے ناواقف ہیں وہ ایسے مقامات پر کہہ دیا کرتے ہیں کہ اس کی آیات میں ترتیب نہیں۔ حالانکہ اصل نقص ان کے تدبر کا ہوتا ہے۔ اس آیت میں بھی ایک سوال کا جواب دیا گیا ہے جو پہلی آیت سے پیدا ہوتا تھا۔ اور وہ یہ کہ مسلمان ترقی کس طرح کریں گے۔ ان کی ترقی کے سامان تو کوئی نظر نہیں آتے۔
تفسیر
چونکہ پہلی آیت میں مسلمانوں کے لئے ایک پائیدار کامیابی کی بشارت دی تھی اور ایسے وقت میں دی تھی جبکہ مسلمانوں کے لئے ان کے گھروں میں بھی امن نہ تھا۔ اور سب ملک دشمن تھا اس لئے قدرتاً یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ ایسے حالات میںمسلمان کس طرح ترقی کرسکتے ہیں۔ پس یہ وعدے صرف دھوکا دینے کے لئے ہیں۔ چنانچہ یہ سوال کفار کے دلوں میں پیدا ہوا اور انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ساحر کہا۔ یعنی فریب کی باتیں کرنے والا۔ پس اس کا جواب اس آیت میں دیا گیا کہ ضروری نہیں کہ ہر امر کی ابتداء ہی میں اس کی ترقی کے سامان اپنی مکمل صورت میں نظر آجائیں۔ روحانی عالم بھی جسمانی عالم کی طرح ہوتا ہے۔ آخر زمین و آسمان کو بھی تو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔ اگر اس کی طرف سے آنے والے کلما کے لئے ضروری ہے کہ اس کی تکمیل کے سامان فوراً پیدا ہوجائیں تو چاہئے تھا کہ زمین و آسمان بھی فوراً پیدا ہوجاتے۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ ان کی پیدائش چھ دوروں میں ہوئی ہے۔ (علم طبقات الار سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک دور لاکھوں کروڑوں سال کا تھا) پس جس طرح آسمان و زمین کا باریک اور غیرمرئی ذرات سے ایک لمبے عرصہ میں پیدا ہونا اس بات کی علامت نہیں کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے پیدا نہیں کیا۔ اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوے کے ساتھ ہی اسلام کی تکمیل کے سامانوں کا پیدا نہ ہونا اس امر کی علامت نہیں کہ اس کی تکمیل مشکوک ہے اور اس کی بنیاد خداتعالیٰ نے نہیں ڈالی۔ الٰہی کاموں کی بنیاد ہمیشہ ایسے سامانوں سے رکھی جاتی ہے جو انسانی نظر سے پوشیدہ ہوتے ہیں۔
یُدبّرَ الاَمْرَ کہہ کر یہ بھی بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی نسبت جو کن فیکون کے الفاظ آتے ہیں یعنی وہ کہتا ہے ہوجا پس ہوجاتا ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ اپنے حکموں کو فوراً پورا کرواتا ہے۔ وقت کی حدبندی نہیں کرتا۔ بلکہ اس کے احکام بھی تدبیر پر مشتمل ہوتے ہیں۔ یعنی باریک اومخفی تدابیر سے کام لے کر وہ نتائج پیدا کرتا ہے۔ اور تدبیر کے معنی ہی یہ ہیں کہ اسباب میں ایسا تغیر کیا جائے کہ طبعی نتائج منشاء کے مطابق پیدا ہوجائیں۔
مامن شفیع میں اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے والا وجود صرف اس کے حکم سے ہی کھڑا ہوسکتا ہے۔ اپنے پاس سے کوئی شخص اس رتبہ کو نہیں پاسکتا۔ پس یہ کس طرح ممکن تھا کہ ایسے تاریک زمانہ میں اللہ تعالیٰ کسی کو اپنا اذن دے کر نہ کھڑا کرتا اور اپنے بندوں کو یونہی چھوڑ دیتا۔ اس آیت میں بعض امور قابل تشریح ہیں۔ ان کی تشریح میںذیل میں کرتا ہوں۔
فی ستۃ ایام میں یوم سے مراد یہاں سورج سے تعلق رکھنے والا دن نہیں۔ مجاہد احمد بن حنبل۔ ابن عباس بروایت ضحاک (تفسیر ابن کثیر سورہ اعراف زیر آیۃ فی ستۃ ایام) اور زید بن ارقم (روح المعانی سورہ اعراف زیر آیۃ فی ستۃ ایام) کا مذہب ہے کہ ایک ایک دن سے مراد ہزار ہزار سال ہے۔ گویا ان کے نزدیک زمین و آسمان چھ ہزار سال میں پیدا ہوئے ہیں۔ یہ بات انہوں نے اس آیۃ سے اخذ کی ہے۔ ان یوما عند ربک کالف سنۃ مما تعدون۔ (حض ع۶) خدا کے نزدیک ایک ایک دن ہزار ہزار سال کا ہے۔ یوم کے معنی جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے عربی میں مطلق وقت کے بھی ہوتے ہیں۔ اور یہی معنی یہاں لگتے ہیں کیونکہ دن رات زمین کے سورج کے سامنے گھومنے کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں۔ اور اس آیۃ میں سورج اور چاند اور زمین کی پیدائش کا ذکر ہے۔ پس اس وقت یہ دن رات ہوتے ہی نہ تھے۔ اس لئے یہاں مراد وقت ہے نہ کہ صبح و شام والا دن۔ پس ان کا یہ استدلال صحیح معلوم ہوتا ہے۔ مگر یہ جو انہوں نے کہا ہے کہ یہ یوم ہزار ہزار سال ہی کا تھا یہ صحیح نہیں۔ قرآن مجید نے تو یہ بھی کہا ہے کہ تعرج الملئکۃ والروح الیہ فی یوم کان مقدارہ خمسین الف سنۃ: (سورہ معارج ع ۱) کہ خدا کا ایک دن پچاس ہزار سال کا بھی ہوتا ہے۔ اگر یہ دن یہاں مراد لیں تو زمین و آسمان کی پیدائش کا عرصہ تین لاکھ سال بنتا ہے۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ کیا یہ ضروری ہے کہ خداتعالیٰ نے اپنے سارے دن ہمیں بتائے ہوں۔ اگر ہزار سال کا یا پچاس ہزار سال کا اس کا دن ہوتا ہے تو ممکن ہے لاکھ یا پچاس لاکھ یا کروڑ یا ارب سال کا بھی اس کا کوئی دن ہوتا ہو۔ سائنس سے پتہ لگتا ہے کہ اربوں سال زمن و آسمان کے بننے میں لگے۔ اور حضرت محی الدین صاحب ابن عربی کے ایک کشف سے بھی ایسا ہی پتہ لگتا ہے۔ پس حق یہی ہے کہ ہم اس عرصہ کی حدبندی ابھی پوری طرح نہیں کرسکتے۔ صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ بعض تغیرات ہزار ہزار سال میں ہوئے۔ بعض پچاس پچاس ہزار سال میں۔ بعض اس سے بھی بہت زیادہ عرصہ میں۔
حدیث میں پیدائش عالم کی ایک تفصیل آتی ہے۔ اس کا ذکر کردینا بھی یہاں ضروری ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ اخذرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدی وقال خلق اللہ التربۃ یوم السبت وخلق الجبال فیھا یوم الاحد وخلق الشجر فیھا یوم الاثنین وخلق المکروہ یوم الثلاثاء وخلق النور یوم الاربعاء وبث فیھا الدواب یوم الخمیس وخلق الدم بعد العصر یوم الجمعۃ اخر الخلق فی اخر الساعۃ من ساعات الجمعۃ فی مابین العصر الی اللیل۔ (تفسیر ابن کثیر زیرآیۃ فی ستۃ ایام سورۃ اعراف)
نسائی نے بھی اس کو بیان کیا ہے مگر دوسرے راویوں کی روایت سے۔ بخاری اور بعض دوسرے محققین کے نزدیک یہ حدیث مرفوع نہیں۔ بلکہ ابوہریرہؓ نے اسے کعب الاحبار سے سنا ہے۔ اس حدیث کی رو سے ہفتہ کے دن زمین کو پیدا کیا۔ اتوار کے دن پہاڑ پیدا کئے۔ پیر کے دن درخت، منگل کے دن مصیبتیں اور بلائیں۔ بدھ کو نور اور برکتیں، جمعرات کو حیوان، جمعہ کے دن عصر سے شام تک دن کی آخری گھڑی میں آدم کو۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اس امر کی تصدیق کی ہے آدم جمعہ کے دن عصر کے بعد پیدا ہوئے۔ اور اس سے اپنے متعلق استدلال کیا ہے۔ (خطبہ الہامیہ ضمیمہ (ب) و صفحہ ۱۲۳)
بائبل میں پیدائش عالم کا ذکرا س طرح ہے۔ خدا کی روح پانیوں پر جنبش کرتی تھی۔ اس کے بعد خدا نے اجالا پیدا کرکے اندھیرے اور اجالے کو پیدا کیا اور یہ پہلا دن ہوا۔ اور پھر خدا نے پانیوں کے درمیان فضا بنائی اور فضا کو آسمان کہا اور یہ دوسرا دن ہوا۔ پھر پانی سب اکٹھے ہو گئے اور خشکی نکل آئی۔ تو وہ زمین ہو گئی۔ اور جمع شدہ پانی سمندر ہو گئے۔ اور پھر سبزیاں و نباتات بنائیں اور یہ تیسرا دن ہوا۔ پھر چاند اور سورج اور ستارے پیدا کئے اور یہ چوتھا دن ہوا۔ پھر رینگنے والے جانور اور پرندے پیدا کئے اور یہ پانچواں دن ہوا۔ اس کے بعد مویشی، کیڑے مکوڑے اور جنگلی جانور پیدا کئے اور سب سے آخر انسان کو اپنی صورت پر اور اپنی مانند پیدا فرمایا۔ اور یہ چھٹا دن ہوا۔ (پیدائش باب اول)
قرآن کریم میں سورۂ حٰم سجدہ ع۲ میں چھ دنوں کی تشریح اس طرح کی گئی ہے۔ قُلْ اَئِنّکُمْ لَتَکْفُرُوْنَ بِالَّذِیْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِیْ یَوْمَیْنِ وَتَجْعَلُوْنَ لَہٗٓ اَنْدَادًاط ذٰلِکَ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ۔ وَجَعَلَ فِیْھَا رَوَاسِیَ مِنْ فَوْقِھَا وَبَارَکَ فِیْھَا وَقَدَّرَ فِیْھَآ اَقْوَاتَھَا فِیْٓ اَرْبَعَۃِ اَیَّامٍ۔ سَوَآئً لِّلسَّآئِلِیْنَ۔ ثُمَّ اسْتَوٰٓی اِلَی السَّسَآئِ وَھِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَھَ وَلِلْاَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا اَوْ کَرْھًاط قَالَتَآ اَتَیْنَا طَآئِعِیْنَ فَقَضٰھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ فِیْ یَوْمَیْنِ وَاَوْحٰی فِیْ کُلِّ سَمَآئٍ اَمْرَھَا وَزَیَّنَّا السَّمَآئَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ وَحِفْظًا ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیمِO ان آیات کا یوں ترجمہ بنتا ہے کیا تم انکار کرتے ہو اس خدا کا جس نے زمین کو دو دنوں میں بنایا۔ اور اس کے شریک قرار دیتے ہو۔ وہ ہے رب العٰلمین اور اس نے پہاڑ بنائے ہیں زمین کے اوپر اور برکتیں ڈالیں اس میں اور رزق رکھا یہ سب کچھ اس نے چار دن میں کیا اور یہ جو اب سب قسم کے سائلوں کے لئے برابر تسلی دینے والا ہے۔ (یعنی ایسے الفاظ میں جواب دیا گیا ہے کہ ایک عام آدمی بھی اس کو سمجھ سکتا ہے اور ایک علم طبقات الارض کا ماہر بھی اس سے تسلی پاسکتا ہے) اور آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو کہ دخانی حالت میں تھا۔ اور اسے اور زمین کو کہا کہ ہمارے حضور میں حاضر ہو جاؤ۔ پسند ہو یا ناپسند۔ انہوں نے کہا ہم خوشی سے حاضر ہوتے ہیں۔ پس کامل طور پر بنایا ان کو دو دنوں میں سات آسمانوں کی صورت میں اور ہر آسمان میں اس کے مفوضہ کام کی قابلیت رکھی اور سب سے ورلے آسمان کو روشن ستاروں کے ساتھ مزین کیا۔ یہ اس خدا کا اندازہ ہے جو غالب اور خوب جاننے والا ہے۔
اس آیت میں ثم داد کے معنی میں آیا ہے اور اس کے معنی ’’اور‘‘ کے ہیں اور اس کے پہلے جو مضمون بیان ہوا ہے وہ درحقیقت بعد کا ہے۔ ثم کے ذریعہ سے پہلی بات کی صرف تشریح کی ہے۔ بعض لوگوں نے ان آیات پر اعتراض کیا ہے کہ یہاں آٹھ یوم بنتے ہیں۔ خلق الارض دو دن میں۔ خزانوں اور غذاؤں کا پیدا کرنا چار دن میں اور سات آسمانوں کا بنانا دو دن میں۔ اس کا جواب مفسرین نے یہ دیا ہے کہ جہاں فی اربعۃ ایام فرمایا ہے اس جگہ چار نئے دن مراد نہیں۔ بلکہ زمین کی پیدائش میں جو دودن فرمائے تھے ان کو ملا کر چار دن فرمائے ہیں۔ اور مطلب یہ ہے کہ خزانے اور غذائیں دودن میں پیدا کیں۔ اور پہلے دن ملا کر یہ کل چار دن ہوئے۔
میرے نزدیک یہ معنی گو زبان کے قواعد کے لحاظ سے درست ہیں مگر اس آیت کے مطالب کے لحاظ سے درست نہیں معلوم ہوتے۔ اس جگہ زمین و آسمان کو چھ دن میں پیدا کرنے کا ذکر نہیں ہے۔ بلکہ پیدائش کے مدارج بیان کئے گئے ہیں اور بتایا گیا ہے کہ زمین دو وقتوں یعنی دو دوروں میں پیدا ہوئی ہے اور اس کے بعد چار وقتوں یعنی دوروں میں اس کے اندر کی وہ قابلیتیں پیدا ہوئی ہیں جو انسان کے بقاء اور ترقی کے لئے ضروری تھیں۔ اور یہ ذکر نہیں کہ اس زمانہ میں اس کے ساتھ ساتھ اور کوئی چیز نہیں بنی۔ اور آسمان کے متعلق جو آیا ہے کہ وہ دو وقتوں میں بنا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ پہلے چھ دنوں کے بعد بنا۔ بلکہ اس میں صرف یہ بتایا گیا ہے کہ اس کے مکمل ہونے پر بھی دو دور گزرے تھے گووہ الگ دور نہ تھے بلکہ زمین کی پیدائش کا جو زمانہ تھا وہی آسمانوں کا بھی تھا۔ پس کل روز چھ ہی رہے۔ آٹھ نہ ہوئے۔ علم طبقات الارض سے بھی یہی ثابت ہے کہ پیدائش عالم ایک ہی وقت میں ہوئی ہے۔ زمین بھی اور باقی سیارے بھی ایک ہی وقت میں تکمیل کے مدارج طے کررہے تھے۔ یہ نہیں کہ زمین پہلے بنی اور پھر دوسرے سیارے یا یہ کہ سیارے پہلے بنے اور پھر زمین۔ پس جو ہر زمین کے بننے کا وقت اسی وقت اس کا آسمان بھی بن رہا تھا۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اس جگہ اس بات کا ذکر نہیں کیا گیا کہ آسمان اجرام کی اندرونی قابلیتیں کس قدر عرصہ میں بنیں۔
اب رہا یہ سوال کہ یہ یوم یعنی وقت کس کس قدر عرصہ کے تھے۔ سو اس کے متعلق یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس کی تعیین خداتعالیٰ نے نہیں کی اور اس وجہ سے ہم بھی نہیں کرتے۔ علم طبقات الارض اور علم ہیئت سے جو امور یقینی طور پر معلوم ہوں ان سے ہم اندازہ کرسکتے ہیں یا اگر کسی شخص کو اللہ تعالیٰ کشف کے ذریعہ سے کچھ بتا دے تو وہ ایک اندازہ کرسکتا ہے۔ ورنہ ہم صرف یہ یقین رکھیں گے کہ دو عظیم الشان دور آسمان و زمین کی پیدائش پر گزرے ہیں۔ اور یہ سوال کہ ان میں سے ہر اک دور کس قدر عرصہ کا تھا۔ اسے ہم خداتعالیٰ پر چھوڑ دیں گے۔ اصل بات یہ ہے کہ علم ہیئت اور علم طبقات الارض میں بھی قرآنی اصطلاح کے مطابق ایک عظیم الشان تغیر کو عرصہ سے تعبیر کیا گیا ہے اور انگریزی میں سے (PERIOD) کے نام سے موسوم کرتے ہیں جو مفہوم (PERIOD) یعنی عرصہ کا علم ہیئت اور علم طبقات الارض میں ہوتا وہی مفہوم یوم کا قرآنی آیات میں ہے۔
اس آیت سے اور بعض دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیدائش عالم میں یہ سنت مقرر کی ہے کہ ہر چیز کی تکمیل ساتویں درجہ پر ہوتی ہے۔ چھ درجے خلق کے ہوتے ہیں اور ساتواں تکمیل کا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ اس آیت میں ارشارہ فرماتا ہے کہ یہ روحانی عالم بھی چھ دوروں میں تکمیل کو پہنچے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ آپ کے دعویٰ کے بعد پہلی حالت دخان کی تھی یعنی سوائے تاریکی اور دھند کے کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ آپ کی بعثت سے بجائے دنیا کو کچھ فائدہ پہنچنے کے الٹا کچھ نقصان ہی ہوا ہے اور تفرقہ اور جنگ زیادہ ہو گیا ہے۔ سب دعاوی بھی مثل دخان کے تھے کہ کوئی ٹھوس چیز ابھی نظر نہ آتی تھی۔ اس کے بعد دوسرا دور آیا کہ وہ دخان کچھ کچھ سمٹنے لگا۔ کچھ آدمی آپ پر ایمان لے آئے اور لوگوں کو معلوم ہونے لگا کہ یہ سلسلہ بھی ایک علیحدہ ہستی بن رہا ہے۔ اس کے بعد اندرونی تغیرات شروع ہوئے۔ اور جس طرح زمین میں زلازل وغیرہ آتے ہیں اسی طرح اسلام کے خلاف جوش پیدا ہوا۔ اور زلازل کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اور پھراس کے بعد اسلام کے پہاڑ یعنی ابوبکر، عمر و عثمان و علیؓ وغیرہم لوگ تیار ہوئے۔ یہ لوگ انہی الازل کے سبب سے ممتاز ہوئے۔ اگر زلازل نہ آتے تو ان کے جوہر بھی نہ کھلتے اور یہ بھی اس مقام کو نہ پہنچتے اس کے بعد پانچواں دور یہ آیا کہ جس طرح زمین میں نبات پیدا کرنے کی قابلیت پیدا ہوئی تھی آپ کی تعلیم بھی سرسبز و شاداب نظرآنے لگی اور لوگ محسوس کرنے لگے کہ یہ ایک خوش گوار تعلیم ہے۔ اور مختلف علاقوں میں پھیلنے لگی۔ اس کے بعد جس طرح زمین میں حیوانات پیدا ہونے لگے تھے اسلام کے اندر قوت و طاقت پیدا ہو گئی۔ اور پھر اس نے دشمنوں کے حملوں کا دفاع شروع کردیا۔ آخر ساتواں یعنی تکمیل کا دور یہ آیا کہ جس طرح زمین پر انسان پیدا ہوا تھا اور اس نے کل عالم پر حکومت شروع کی تھی خداتعالیٰ نے اسلام کو غلبہ اور طاقت بخشی اور اس کی شریعت جاری ہو گئی اور دنیا پرا س نے حکومت کرنی شروع کر دی۔
گویا انسان کامل کا دور شروع ہوا۔ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ یُدَبِّرُ الْاَمْرہ سے اس طرف اشارہ کیا کہ جس طرح وہاں پیدائش عالم کے بعد خداتعالیٰ عرش پر قرار فرما ہوا تھا اسی طرح یہاں ہوگا۔ یعنی اسلام کے قیام کے بعد اللہ تعالیٰ مقام تنزل کی طرف رجوع کرے گا اور صرف اسلام ہی کے ذریعے سے آیندہ روحانی ترقیات حاصل ہوں گی جس طرح عالم مادی کے پیدا کرنے کے بعد ہر اک کام قوانین نیچر کی وساطت سے ہوتا ہے اور عام حالات میں خداتعالیٰ براہ راست کوئی تغیر نہیں فرماتا۔
دوم مَامِنْ شَفِیْعِ اِلَّا مِنْ بَعْدِ اِذْنِہٖ کا حصہ قابل تشریح ہے۔ شفیع شفع سے نکلا ہے۔ اس کے معنی ہیں دو کر دینا۔ چنانچہ کہتے ہیں شفع العدد والصلٰوۃ۔ ایک کو دو کر دیا یا ایک رکعت پڑھ کر ایک اور پڑھی۔ اور اسے دو رکعت بنا دیا۔ اور ناقۃ شافعۃٌ اس اونٹنی کو کہتے ہیں کہ جس کے پیٹ میں بھی بچہ ہو۔ اور اس کے ساتھ بھی بچہ ہو۔ گویا وہ اپنے پہلے بچہ کو دو بنا دیتی ہے۔ لیکن صرف ایک کو دو بنا دینا اس لفظ سے نہیں نکلتا۔ بلکہ یہ شرط بھی ہے کہ ضمّ الشیء الی مثلہٖ ہو۔ یعنی اس قسم کی چیز ملائی جائے یہ نہیں کہ کوئی اونٹ کے ساتھ ایک گھوڑا کھڑا کر دے اور کہہ دے کہ شفعت الناقۃ اونٹ کے ساتھ اونٹ ہی ملایا جائے تب ہی شفع کا لفظ استعمال ہوگا۔ ان معنوں کو مدنظر رکھنے سے شفاعت کا مسئلہ بالکل حل ہو جاتا ہے۔ اور ان لوگوں کی غلطی ظاہر ہو جاتی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ شفاعت سے گنہ میں ترقی ہوتی ہے اور لوگ عمل چھوڑ دیتے ہیں۔ کیونکہ شافع یا شفیع کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ دو ہم جنس کو آپس میں ملائے۔ پس گنہ گار اور بدکار کو نیکوں سے ملانا تواس کے مفہوم میں شامل ہی نہیں۔ بلکہ اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ جسے خداتعالیٰ نے شفیع بنایا ہو وہ بدکاروں کو نیک بنا بنا کر پہلی نیک جماعتوں کے ساتھ ملائے یہ معنی اس دنیا کے لحاظ سے ہیں دوسرے معنی اس کے یہ ہیں کہ آخری فیصلہ کے دن جو لوگ ایک بڑی حد تک نیک ہوں صرف بعض خامیاں ان میں ہوں جو ان کو کاملین میں شامل ہونے سے روک رہی ہوں اور اللہ تعالیٰ کا فضل چاہتا ہو کہ ان کی ان چھوٹی چھوٹی خامیوں کو نظرانداز کرکے اور ان کی اس جدوجہد کو مدنظر رکھ کر جو وہ اپنی تکمیل کے لئے کرتے رہے ہیں انہیں کاملین میں ہی شامل کر دے تو خداتعالیٰ سے اذن پاکر امت کا نبی خداتعالیٰ سے سفارش کرے کہ ان کی تھوڑی تھوڑی خامیوں کو نظرانداز کرکے ہمارے ساتھ ہی شامل سمجھا جائے۔ یہ معنی اگلے جہان کے متعلق ہیں۔ اور شفاعت کے لئے شرط ہے کہ اذن سے ہو اور اذن بھی اسی شخص کے متعلق ملے گا جو شخص دل سے تو کاملین کے ساتھ ہو اور اس نے کامل بننے کی پوری کوشش کی ہو مگر بعض خامیاں اس میں رہ گئی ہوں۔ ایسے شخص کے حق میں شفعت ہرگز گنہ کو بڑھاتی نہیں بلکہ کامل ہونے کی خواہش کو تیز کرتی ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں پڑ سکتا۔
سوم عرش کا لفظ تشریح طلب ہے۔ عرش کے متعلق لوگوں میں بہت کچھ اختلاف ہے۔ بعض لوگ اسے ایک جسم قرار دیتے ہیں۔ بعض اس کی حقیقت سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں اور صرف لفظ پر ایمان لانا کافی سمجھتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چشمۂ معرفت میں عرش کی حقیقت پر ایک لطیف بحث کی ہے اور بتایا ہے کہ عرش درحقیقت صفات تنزیہیہ کا نام ہے جو ازلی اور غیر مبدل ہیں ان کا ظہور صفات تشبیہیہ کے ذریعہ سے ہوتا ہے۔ اور وہ حامل عرش کہلاتی ہیں جیسے کہ قرآن کریم میں آتا ہے وَیَحْمِدُ عَرْشَ رَبِّکَ فَوْقَھُمْ یَوْمَئِذٍ ثَمَانِیۃٌ قیامت کے دن تیرے رب کا عرش آٹھ (امور) اپنے اوپر اٹھائے ہوں گے۔ یعنی آٹھ صفات کے ذریعہ سے ان کا ظہور ہورہا ہوگا۔ جیسا کہ اس وقت چار صفات سے ہوتا ہے۔ یعنی رب العالمین، رحمن، رحیم اور مالک یوم الدین کے ذریعہ سے۔ چونکہ صفات الٰہیہ کا ظہور فرشتوں کے ذریعہ سے ہوتا ہے اس لئے یہاں ھُم کی ضمیر استعمال کی گئی ہے) جس طرح بادشاہ اپنی جلالت شان کا اظہار عرش پر بیٹھ کر کرتے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ کی اصل عظمت ذوالعرش ہونے میں ہے۔ یعنی صفات تنزیہیہ کے ذریعہ سے جن میں کوئی مخلوق اس سے ایک ذرہ بھر بھی مشابہت نہیں رکھتی۔
بعض لوگوں نے قرآن کریم کی بعض آیات سے یہ دھوکا کھایا ہے کہ عرش مخلوق ہے۔ جیسے مثلاً یہ آیت ہے۔ اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہٗ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّھِمْ الٰیۃ (سورۃ مومن ع۱) وہ کہتے ہیں کہ عرش کو جب کسی نے اٹھایا ہوا ہے تو معلوم ہوا وہ ایک مخلوق شئے ہے۔ لیکن یہ استعلال درست نہیں۔ کیونکہ حمل کے معنی صرف کسی مادی چیز کے اٹھانے کے ہی نہیں ہوتے بلکہ اس کے معنی اس کی حقیقت کے اظہار کے بھی ہوتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَالَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَن یَّحْمِْلْھَا وَاَشْفَقْنَ مِنْھَا وَحَمَلَھَا الْاِنْسَانُ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَھُوْلًا (احاب ع ۹) یعنی ہم نے اس امانت (شریعت) کو آسمان اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا۔ مگر انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اس کو اٹھا لیا۔ وہ یقینا اپنے نفس پر ظلم کرنے والا ہے۔ اور نتائج سے بے پرواہ ہے۔ اس جگہ امانت کے اٹھانے کا ذکر ہے جس کے صرف یہ معنی ہیں کہ وہ اس پر عمل کرکے اس کے نتائج اور اس کی خوبیوں کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی طرح عرش کے اٹھانے کے یہ معنی ہیں کہ عرش کی حقیقت کو وہ ظاہر کرتے ہیں۔ اور یہ ظاہر بات ہے کہ خداتعالیٰ کی صفات تنزیہیہ کو انسان نہیں پہنچ سکتا۔ سوائے اس طریق کے کہ اس کی صفات تشبیہیہ کے ذریعہ سے اس کا علم ہو۔ پس صفات تشبیہیہ صفات تنزیہیہ کی حامل ہیں۔ اور ان کی حقیقت سے انسان کو آگاہ کرتی ہیں۔ مثلاً خداتعالیٰ کے سب خوبیوں کے جامع ہونے کا علم ہمیں صرف ان صفات کے ذریعہ سے ہوسکتا ہے جو انسانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ جیسے اس کا رب ہونا، رحمن ہونا، رحیم ہونا، مالک یوم الدین ہونا۔ اور یہ سب صفات تشبیہیہ ہیں۔ کہ انسانی اخلاق بھی ان کے ہم شکل پائے جاتے ہیں۔ اور پھر یہ صفات مخلوق سے تعلق رکھتی ہیں۔ اور اس لئے ان کے جلوے عارضی ہوتے ہیں۔ لیکن اگر یہ صفات نہ ہوتیں تو اللہ تعالیٰ کے کامل الصفات ہونے کا کسی قسم کا ادراک بھی خواہ کتنا ہی ادنیٰ ہو ہمیں حاصل نہ ہوسکتا۔
ایک اور آیت بھی ہے جس سے عرش کے مخلوق ہونے کا استدلال کیا جاتا ہے اور وہ یہ ہے۔ قل من رب السمٰوٰت السبع ورب العرش العظیم۔ سیقولون للہ الایۃ (مومنون ع۵) یعنی پوچھو کہ ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کا رب کون ہے۔ وہ ضرور جواب میں کہیں گے کہ اللہ۔ اس سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ جب خداتعالیٰ رب العرش ہے تو معلوم ہوا کہ وہ عرش کا خالق ہے لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ رب کے صرف خالق کے ہی معنی نہیں ہوتے بلکہ صاحب کے بھی ہوتے ہیں۔ جیسے رب المال۔ پس رب العرش کے معنی ’’والے‘‘ کے ہیں یعنی عرش والا۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ دوسری جگہ فرماتا ہے ذوالرحمۃ (کہف ع۸) خداتعالیٰ رحمت والا ہے۔ اور اسی طرح فرمایا ہے قل للہ العزۃ جمیعا (فاطر ع ۴) حالانکہ رحمت اور عزت دونوں اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں۔ اور نہ ذوالرحمت کہنے سے رحمت مخلوق ثابت ہوتی ہے اور نہ للہ العزۃ کہنے سے عزۃ مخلوق ثابت ہوتی ہے۔ پس رب العرش کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ صفات تنزیہیہ بھی رکھتا ہے جس طرح کہ وہ صفات تشبیہیہ رکھتا ہے۔ صفات تشبیہیہ کی طرف سمٰوٰت کی پیدائش سے اشارہ کیا ہے۔
رہا یہ سوال یہ رب کا لفظ ذو یا صاحب کی جگہ کیوں استعمال کیا ہے سو اس میں بھی ایک حکمت ہے۔ اور وہ یہ کہ بعض نادان فلسفی اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ خیال رکھتے ہیں کہ وہ علت العلل ہے۔ اس کی صفات اپنے طور پر اضطراری رنگ میں ظاہر ہوتی رہتی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کے مجموعہ کی نسبت رب کا لفظ استعمال کرکے جو تصرف پر دلالت کرتا ہے بتایا ہے کہ اس کی صفات اضطراری نہیں ہیں۔ بلکہ اس کے ارادے کے ماتحت ہیں جس رنگ میں اس کا کامل ارادہ اور بے عیب مشیت چاہتی ہے ان کا اظہار ہوتا ہے۔ پس اس لفظ کے استعمال سے اس نے ایک بہت بڑے اعتراض کا رد کر دیا ہے اور اسلامی عقیدہ کو ظاہر کر دیا ہے۔
تیسری آیت جس سے استدلال کیا جاتا ہے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وھوالذی خلق السمٰوٰت والارض فی ستۃ ایام وکان عرشہ علی الماء لیبلوکم ایکم احسن عملًا (ہود ع۱) یعنی وہ خدا ہی ہے کہ جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا ہے۔ اور اس کا عرش پانی پر ہے تاکہ وہ یہ امر ظاہر کرے کہ تم میں سے کون عمل میں سب سے بہتر ہے۔ چونکہ اس جگہ پانی پر عرش بتایا ہے اس لئے معلوم ہوا کہ عرش مخلوق ہے۔ مگر یاد رکھنا چاہئے کہ پانی سے مراد اس جگہ پانی نہیں ہے کیونکہ خلق السمٰوت والارض سے پہلے عرش کا پانی پر ہونا درست نہیں۔ اس لئے کہ پانی تو سمٰوٰت وارض کا ایک جزو ہے۔ اور ان کی پیدائش کے بعد کی شئی ہے۔ اور اگر خلق السمٰوٰت کے بعد سمجھا جائے کہ مادی طور پر عرش پانی پر ہے تو اس کا بھی کوئی مطلب نہیں معلوم دیتا۔ ہمیں عرش پانی پر نظر آتا ہے نہ اس کی کوئی علامت نظر آتی ہے۔ حالانکہ حکیم ہستی کا ہر کلام حکمت پر مشتمل ہوتا ہے اور جس چیز کا نہ ہم سے کوئی تعلق ہے اور نہ اس سے ہمیں کوئی واسطہ ہے اس کے ذکر سے کیا فائدہ ہوسکتا ہے۔ اس کے بیان سے تو اللہ تعالیٰ کی عظمت شان کا بھی کوئی اظہار نہیں ہوتا۔ کیونکہ اس کی حقیقت سے ہمیں بے خبر رکھا گیا ہے۔ پس نہ پانی سے مراد یہاں پانی ہے اور نہ عرش سے مراد کوئی مخلوق شئے۔ بلکہ پانی سے مراد الہامی زبان کے مطابق کلام الٰہی ہے اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ خداتعالیٰ کا عرش کلام الٰہی پر رکھا ہوا ہے۔ یعنی اس کی عظمت شان کو انسان نہیں سمجھ سکتا۔ مگر اس کی صفات تنزیہیہ جب کلام الٰہی کے ذریعہ سے تشبیہی رنگ اختیار کرتی ہیں تب انسان اس کی شان کا ایک اندازہ لگا سکتا ہے۔ اور اسی وجہ سے اس کے بعد فرمایا کہ یہ ہم نے اس لئے کیا ہے کہ تاہم یہ دیکھ لیں کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے۔ الہام کے نزول اور صفات تشبیہیہ کا تو تعلق انسان کے اعمال سے ہے۔ لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ ایک نظر نہ آنے والا تخت اگر پانی پر رکھا ہوا ہو تو اس سے ہمارے اعمال کے اچھے یا برے ہونے کا کوئی امتحان ہوسکتا ہے یا اس بیان سے ہم کسی قسم کا کوئی فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔
عقلاً بھی یہ تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ عرش کوئی مخلوق چیز ہو کیونکہ یہ بات بالکل خلاف عقل ہے کہ دنیا کی پیدائش کے بعد خداتعالیٰ کو کسی تخت کی ضرورت پیش آگئی۔ جو خدا ہمیشہ سے بغیر تخت کے حکومت کرسکتا تھا اور آئندہ بھی بغیر تخت کے حکومت کرسکتا تھا اگر اظہار شان مراد ہو تو اظہار شان تو نظر آنے والی چیز سے ہوسکتی ہے جس کو انسان دیکھتا ہی نہیں نہ اس کی علامت ہی کو دیکھتا ہے اس سے اظہار شان ہو ہی نہیں سکتا۔
اس امر کا ثبوت کہ عرش سے مراد صفات تنزیہیہ ہیں یہ آیت بھی ہے کہ لاالہ الا ھو رب العرعش الکریم (مومنون ع۶) اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ عرش کریم کو توحید باری کے ثابت کرنے میں ایک خاص تعلق ہے اور یہ امر ظاہر ہے کہ توحید کا اعلیٰ اصلی اور حقیقی ثبوت اللہ تعالیٰ کی صفات تنزیہیہ ہی ہیں کیونکہ صفات تشبیہیہ میں مخلوق شریک ہوجاتی ہے۔ اور ایک کمزور عقل والے انسان کے لئے بہت سے افہام و تفہیم کی ضرورت پیش آتی ہے۔
۵ اِلَیْہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیْعًاط وَعَدَاللّٰہِ حَقًّاط اِنَّہٗ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاوَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ بِالْقِسْطِ ط وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَھُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِیْمٍ وَعَذَابٌ اَلِیْمٌم بِمَا کَانُوْا یَکْفُرُوْنَO
ترجمہ
اسی کی طرف تم سب کو لوٹ کر جانا ہے (یہ) اللہ (تعالیٰ) کا وعدہ ہے (جو) پورا ہوکر رہنے والا (ہے) وہ یقینا مخلوق کو پیدا کرتا ہے پھر اسے لوٹاتا ہے تاکہ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک (اور مناسب حال) کام کئے انہیں اجر میں کامل حصہ دے۔ اور جن لوگوں نے کفر (اختیار) کیا ان کے لئے ایک تو پینے کی ایک چیز یعنی کھولتا ہوا پانی ہوگا اور (دوسرے) ایک دردناک عذاب ہوگا۔ کیونکہ وہ کفر کرتے (چلے جاتے) تھے۔
۶؎ حل لغات:
مَرْجِع رَجَع سے نکلا ہے اور اس کا مصدر ہے اور اس کے معنی لوٹنے کے ہیں۔ دوسرا مصدر اس کا رجوع ہے جو عام طور پر اردو میں استعمال ہوتا ہے۔ یَبْدَئُ بَدَئَ سے ہے۔ اور اس کے مختلف معنے ہیں۔ بَدَئَ بالشئی افتتحہٗ۔ کسی چیز کا افتتاح کیا۔ بَدَء بفلان قدمہ فلاں شخص کی طرف پہلے متوجہ ہوا یا اس کا کام پہلے کیا۔ بَدَء الشئی اخذ فیہ اوقدم فی الفعل۔ یعنی اس کام کو کرنے لگا یا اس کو اور کاموں سے پہلے کرنا شروع کیا۔ بَدَء الشئی انشاہٗ واخترعہ۔ اس چیز کو پیدا کی اور اس کو ایجاد کیا۔ بدء اللہ تعالیٰ الخلق خلقھم مخلوق کو پیدا کیا۔ بدء من ارضہ۔ خرج منھا وتغرب اپنی زمین سے نکل گیا اور دوسرے ملکوں میں چلا گیا۔ (اقرب)
الخلق۔ الفطرۃ۔ پیدا کرنا۔ الناس۔ لوگ (اقرب) المخلوق۔ خلق کے معنی مخلوق کے بھی ہوتے ہیں (مفردات) یُعِیْدُہٗ اعادہ سے ہے اس کے معنے ہیں ارْجعہٗ اسے لوٹا دیا۔ اَلْکَلَام کَرَّرہٗ جب کلام کے متعلق آئے تو اس کے معنی ہوتے ہیںاس دوہرایا فلان لا یعید ولا یبدیء اذا لم تکن لہ حیلۃ۔ کہتے ہیں فلان لا یعید ولا یبدی جب وہ بالکل بے بس ہو (اقرب) الصالحات صالح کی جمع ہے۔ جو صَلَح سے نکلا ہے۔ صالح کے معنی ہوتے ہیں فساد سے پاک اور بامصلحت مناسب حال القسط العدل۔ قسط کے معنی عدل و انصاف کے ہوتے ہیں اور یہ ان مصادر میں سے ہے جنہیں صفت کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں۔ کہتے ہیں۔ رجل قسط انصاف والا آدمی اور یہ لفظ مفرد اور جمع دونوں کی صفت کے طور پر استعمال ہوسکتا ہے۔ الحصۃ والنصیب اس کے معنی حصہ اور نصیب کے بھی ہوتے ہیں۔ اور نصف صاع کے وزن کو بھی قسط کہتے ہیں (اقرب)
الشراب کل ما یشرب من المائعات حلالا کان اوحراما (اقرب) ہر پینے کی چیز خواہ حلال ہو یا حرام الحمیم القریب الذی تہتم بامرہ۔ وہ قریبی جس کی ضروریات کے تم کفیل ہوتے ہو۔ الصدیق۔ دوست۔ احماء اس کی جمع ہے اور اس کے معنی الماء الحاء اور الماء البارد کے بھی ہوتے ہیں۔ یعنی گرم پانی کے بھی ہوتے ہیں اور سرد پانی کے بھی۔ اس وقت اس کی جمع حمائم آتی ہے۔ اسی طرح اس کے معنی القیظ یعنی سخت گرمی اور المطرالذی یاتی بعد اشتداد الحد۔ وہ بارش جو سخت گرمی کے بعد آئے۔ اور العرق پسینہ بھی ہیں۔ (اقرب)
تفسیر
وعداللہ حقا اصل میں وعدکم اللہ وعدا حقا ہے۔ فعل کو محذوف کرکے مصدر کو فاعل کی طرف مضاف کر دیا گیا ہے۔ پس اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تم سے ایک پختہ وعدہ کیا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ ایک تو انسان کو اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ اسے اپنی ظاہری آزادی کو دیکھ کر دھوکا نہیں کھانا چاہئے۔ آخر اس کا واسطہ اللہ تعالیٰ سے پڑے گا۔ دوسرے یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے انبیاء ہی آخر میں کامیاب ہوں گے۔ کیونکہ
اللہ تعالیٰ نے انسان کو قرب کے لئے پیدا کیا ہے جیسا کہ فرمایا وما خلقت الجن والانس الالیعبدون جن و انسان کو میں نے صرف اپنا عبد بننے کے لئے پیدا کیا ہے۔ اسی وعدہ کی طرف وعداللہ حقا میں اشارہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ آخرکار سب انسان اللہ تعالیٰ کو پالیں گے اور نبیوں کی بعثت کی اصل غرض پوری ہوکر رہے گی۔ انہ یبدء الخلق ثم یعیدہ میں بھی دونون طرف اشارہ ہے اس طرف بھی کہ مرنے کے بعد انسان کو اللہ تعالیٰ پھر زندگی دے گا اور اس طرف بھی کہ اللہ تعالیٰ نئی نئی مخلوق پیدا کرتا چلا جاتا ہے تاکہ نیکوں کے کام ضائع نہ ہوں۔ کیونکہ اگر کوئی خیر کا کام کرے اور اس کے بعد کوئی مخلوق نہ ہو تو اس کے کام سے کون فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ مخلوق پیدا کرتا چلا جاتا ہے اور پچھلے لوگ پہلوں کے کام سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور پہلوں کے لئے ثواب کا موجب بنتے ہیں۔
اس آیۃ میں جو عمل صالح کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان میں فردی اور قومی ترقی کا ایک بہت بڑا نکتہ ہے۔ لوگ اس کا ترجمہ نیک عمل کرتے ہیں مگر اس کے معنی نیک عمل کے نہیں ہیں۔ بلکہ نیک عمل اور مناسب حال عمل کے ہیں۔ یعنی عمل نیک بھی ہو اور ہو بھی موقع کے مطابق۔ مثلاً یہ نہ ہو کہ جہاد کے لئے جارہا ہو اور روزے رکھنے لگے۔ روزے ایک نیک عمل ہیں مگر جہاد کو جاتے وقت مناسب حال نہیں ہیں۔ اسی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جہاد کے موقع پر فرمایا کہ آج بے روزہ روزہ داروں سے بڑھ گئے کیونکہ روزہ دار بوجہ روزہ کی تکلیف کے کیمپ کا انتظام نہ کرسکے اور بے روزوں نے فوراً کیمپ کو تیار کرلیا اور حق یہ ہے کہ فردی اور قومی ترقی ہر عمل خیر سے نہیں ہوتی بلکہ عمل صالح سے ہوتی ہے۔ مسلمانوں نے اس نکتہ کو نہیں سمجھا اور جس وقت اسلام کو سخت جلاد عقلی کی ضرورت تھی اس وقت ان کے مذہبی آدمی مصلے بچھا کر اور تسبیحیں پکڑ کر گھروں میں بھیٹھے رہے اور ان اعمال سے غافل رہے جو کہ قومی ترقی کے لئے ضروری تھے۔ ان کا کام تھا کہ مسلمانوں میں عملی قوت پیدا کرنے کی کوشش کرتے اور ان کے اخلاق کو درست کرتے اور علوم جدیدہ کے حاصل کرنے کی ترغیب دیتے اور ان میں اتحاد عمل پیدا کرتے مگر انہوں نے ایسا نہ کیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی نمازیں اور رزے اسلام اور مسلمانوں کو ہلاکت سے نہ بچا سکے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ تھا کہ عمل صالح کے نتیجہ میں کامیابی ملتی ہے۔ اور ان لوگوں کے اعمال گو مذہب کے مطابق تھے مگر مناسب حال نہ تھے پس خداتعالیٰ کا قانون توڑنے کی توجہ سے انہوں نے اور دوسرے سب مسلمانوں نے بھی نقصان اٹھایا۔
۶ ھُوَالَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَائً وَالْقَمَرَ نُوْرًا وَّقَدَّرَہٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَالسِّنِیْنَ وَالْحِسَابَ ط مَا خَلَقَ اللّٰہُ ذٰلِکَ اِلَّا بِالْحَقِّ ج یُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَO
ترجمہ
وہی ہے جس نے سورج کو ذاتی روشنی (والا) اور چاند کو نور (والا) بنایا ہے اور ایک اندازہ کے مطابق اس کی منزلیں بنائی ہیں تاکہ تمہیں سالوں کی گنتی اور حساب معلوم ہو اس (سلسلہ) کو اللہ (تعالیٰ) نے حق (وحکمت) کے ساتھ ہی پیدا کیا ہے وہ ان آیات کو علم والے لوگوں کے لئے تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہے۔
۷؎ حل لغات
ضیاء کو عربی محاورہ کے لحاظ سے نور سے زیادہ طاقتور سمجھا جاتا ہے۔ دوسرے ضیاء اور ضوء اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ذات میں روشن ہوتی ہے اور نور کا لفظ اس چیز پر بولا جاتا ہے جس کی روشنی غیر سے حاصل شدہ ہو (اقرب) ضیاء ضاء کا مصدر بھی ہے جس کے معنی روشن کر دینے یا روشن ہونے (متعدی و لازم) کے ہوتے ہیں۔ اور ضیاء جمع بھی ہے ضوء کی۔ جیسے سوط کی جمع سیاط (اقرب) نور کے معنی اس فرق کے علاوہ جو اوپر ذکر ہوچکا ہے یعنی وہ روشنی جو کسی چیز سے مکتسب ہو اور بھی کئی آتے ہیں۔ (ق) ظلمت کے خلاف کا نام نور ہے اور کبھی یہ لفظ ضیاء کے معنوں میں بھی استعمال ہو جاتا ہے۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا ہے وسراجا منیرا (احزاب ع۶) (۲) نور ضیاء کی شعاع کو بھی کہتے ہیں۔ یعنی جو چیز اپنی ذات میں روشن ہے اس کی روشنی کے انعکاس کو بھی نور کہتے ہیں۔ (۳) اور نور ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ سے دوسری چیزیں نظرآنے لگ جائیں۔ یعنی منورٌ جیسے فرمایا۔ اللہ نورالسمٰوٰت والارض (۴) ہر وہ چیز جس سے دوسری چیزوں کی پوری حقیقت کھل جائے۔ اس کو بھی نور کہہ دیتے ہیں۔ (۵) اور نور کے معنی وسم کے بھی ہیں یعنی رونق کے۔ ہمارے ملک میں بھی کہتے ہیں کہ فلاں کے چہرہ پر بڑا نور ہے۔ یعنی آچار برکت و عزت ہیں۔ (اقرب) یفصل فصل کا مضارع ہے۔ جس کے معنی ہیں جملہ فصولا متمایزۃ کسی چیز کو الگ الگ ٹکڑوں میں کر دیا۔ اور جب یہ لفظ کلام کے متعلق استعمال ہو تو اس کے معنی ہوتے ہیں بینہ یعنی اسے اچھی طرح کھول کر بیان کر دیا۔ اور فَصَّلَ اَجْمَلَ کی ضد بھی ہوتا ہے یعنی اس میں کسی قسم کا اخفاء یا اجمال نہ رہنے دیا۔ (اقرب) فرمایا ھوالذی جعل الشمس ضیاء والقمر نورا۔ وہ خدا ہی ہے جس نے سورج کو ضیاء بنایا یعنی ذاضیاء (روشنی والا) بنایا اور چناد کو نور یعنی ذانور (نور والا) بنایا۔ قدرہ اصل میں لام کے صلہ کے ساتھ آتا ہے۔ اور قدرلَہٗ بولتے ہیں۔ یعنی اس کے لئے یہ چیز اندازہ کر دی یا اس کے لئے یہ چیز مقرر کر دی تو قدرہ کے معنی قدرلہٗ کے ہوں گے۔ یعنی چاند کے لئے منازل مقرر کر دیں۔ مگر کبھی کبھی محاوہ میں قدر کا لفظ جعل اور صَیَّر کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اور یہ الفاظ آپس میں ملتے جلتے ہیں۔ اور اس صورت میں ہم لام مقدر نہ نکالیں گے۔ بلکہ جیسے وہاں ذاضیائٍ اور ذا نور مراد ہے اسی طرح یہاں ذامنازل مراد ہوگا۔ یعنی اس (ذامنازل) کو جعل کا مفعول ثانی قرار دیں گے۔ اور معنی یہ ہو جائیں گے کہ ان میں سے ہر ایک کو منزلوں والا بنایا ہے۔ ہٗ کی ضمیر دونوں طرف جاتی ہے۔ یعنی سورج اور چاند دونوں کے لئے منازل مقرر ہیں۔ سورج بھی درحقیقت حرکت کرتا ہے۔ گو زمین کے گرد گول حرکت نہیں کرتا جیسا کہ پہلے زمانے کے لوگ سمجھتے تھے۔ تحقیقات جدیدہ سے یہ ثابت ہے کہ سورج نہیں بلکہ زمین گھومتی ہے لیکن تاہم سورج اپنے سیاروں سمیت کسی طرف کو جارہا ہے اور ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ حرکت کتنی لمبی ہے۔ ممکن ہے کہ یہ حرکت ایک نہایت وسیع دائرہ کی صورت میں ہو جس کا اندازہ لاکھوں سالوں میں بھی نہ کیا جاسکتا ہو۔
تفسیر
فرمایا لتعلموا عدد السنین والحساب۔ دیکھو یہاں کیسی لطیف بات بیان فرمائی ہے۔ ہر حرکت کا اندازہ کرنے کے لئے اس کے مقابل کی چیزوں کی نسبت ہی معیار ہوا کرتی ہے۔ مثلاً ہم ریل میں سفر کریں اور جس رفتار سے ریل چل رہی ہو اسی رفتار سے تمام اردگرد کی چیزیں بھی حرکت کریں۔ تو ہمیں ذرا بھی محسوس نہ ہوگا کہ ہم نے حرکت کی ہے۔ بلکہ جہاں بیٹھے تھے وہیں اپنے آپ کو سمجھیں گے۔ تو گویا چلنے کی کیفیت نسبت ہی سے معلوم ہوتی ہے۔ اگر نسبت موجود نہ ہوتی تو کیفیت بھی معلوم نہ ہوسکتی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لتعلموا عدد السنین والحساب کہ ہم نے سورج اور چاند کی منازل اس لئے مقرر کی ہیں تاکہ تم عدد سنین اور حساب کو جان سکو۔ یعنی ان خارجی وجودوں کی حرکت کو دیکھ کر معلوم کرسکو کہ تم پر ایک زمانہ گزر گیا ہے اور تم اس جگہ پر نہیں رہے۔ جہاں پہلے تھے اگر یہ فرق نہ ہوتا یعنی زمین سے باہر کوئی اور کرہ نہ ہوتا جو حرکت کرتا اور کبھی کہیں اور کبھی کہیں نظر آتا تو کبھی بھی ہم میں زمانہ کا احساس پیدا نہیں ہوسکتا تھا۔ اور اگر وہ کرہ خود ایک خاص قانون کے ماتحت حرکت نہ کرتا یا اس کے گرد دوسرے کرہ جات ایک خاص قانون کے ماتحت حرکت نہ کرتے تو وقت کے احساس کو خاص اندازوں میں تقسیم کرنا ناممکن ہو جاتا۔ پس تمام تاریخ اور حساب کا معاملہ سورج اور چاند سے تعلق رکھتا ہے۔ ایک کی اپنی گردس سے اور دوسرے کے گرد دوسرے سیاروں کی گردش سے۔ چاند زمین کے گرد گھومتا ہے اور اس سے مہینوں اور ہفتوں کا نادازہ ہوتا ہے اور سورج کے گرد زمین گھومتی ہے اور اسی طرح اس کے سامنے گھومتی ہے۔ اس سے دنوں اور سالوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ حساب کا تعلق بھی سیاروں کی گردش سے نہایت گہرا ہے۔
اس میں ایک لطیف مذہبی نکتہ بیان فرمایا ہے اور وہ یہ کہ سنین سے محنت کے اندازے معلوم ہوتے ہیں۔ اور حساب سے نتیجہ کا پتہ لگتا ہے۔ ہر کام میں دو اندازے ہوا کرتے ہیں۔ اول یہ کہ کتنی محنت کی دوسرے یہ کہ کیا نتیجہ نکلا ہے۔ اگر یہ دو اندازے مدنظر نہ رکھے جائیں تو لوگ مقابلہ میں پورے نہیں اترسکتے۔ مثلاً ایک شخص ایک سال میں ایک کپڑا بنتا ہے اور دوسرا دو گھنٹے میں تو پہلا دوسرے کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ غرض محنت اور نتیجے کے توازن سے ہی کسی کام کی کامیابی یا ناکامی کا حال معلوم ہوتا ہے اور یہ دونوں باتیں سورج اور چاند سے متعلق ہیں۔ پھر جس طرح جسمانی طور پر سورج اور چاند مقرر ہیں تاکہ عدد سنین اور حساب کو ظاہر کریں اسی طرح روحانی طور پر بھی سورج اور چاند ہوتے ہیں یعنی انبیاء۔ وہ مذہبی طور پر عددسنین و حساب ظاہر کرتے ہیں۔ یعنی ان کے ذریعہ سے ہی روحانی دنیا میں محنت اور اس کے نتائج کا احساس پیدا ہوتا ہے اور وقت کی قیمت قوم کو معلوم ہوتی ہے۔ نبیوں کے بغیر مذہبی دنیا میں کوئی حقیقی احساس پیدا ہی نہیں ہوسکتا۔ اور روحانی ترقیات کے اندازوں سے دنیا بالکل بے خبر رہتی ہے۔ بعینہٖ جس طرح سورج اور چاند کے بغیر ظاہری دنیا وقت کے احساس سے اور اس کے اندازوں سے واقف نہیں ہوسکتی۔ چوڑھوں کو دیکھ لو یا اسی قسم کی دوسری ادنیٰ قوم کو۔ ان میں انسانی پیدائش کی غرض و غایت کا احساس ہی مٹ گیا ہے۔ ہزاروں سال سے وہ اس حالت میں ہیں لیکن روحانیت بلکہ دنیوی ترقی تک کا احساس ان میں نہیں ہے۔ انہیں کہا بھی جائے تو کہتے ہیں کہ قسمت ہے گویا وہ ایک نہ ختم ہونے والی رات کے اثر کے نیچے غافل پڑے ہیں۔ پس انبیاء دنیا کے لئے بطور سورج کے اور بطور چاند کے ہوتے ہیں۔ وہ فطرۃ انسانی کی مخفی ترقی کو اور اس کے ارتقاء کو ظاہر کرتے ہیں۔ اور ان سے علم حاصل کرکے لوگ روحانی دنیا کی ترقی کی خبر پاتے اور اس کے مطابق عمل کرتے اور نتائج پیدا کرتے ہیں۔ اور ان کے بغیر روحانی دنیا میں کوئی ترقی نہیں ہوسکتی۔
الا بالحق یعنی اس نے زمین و آسمان کو فضول اور یونہی بے فائدہ نہیں پیدا کیا۔ اس کو شوق نہ تھا کہ کرہ پر کرہ بناتا چلا جاتا۔ اس نے یہ سب کچھ پائدار مقصد کے لئے پیدا کیا ہے۔ پس جسمانی سورج کی طرح روحانی سورج بھی چاہئے تھا۔ یفصل الاٰیات لقوم یعلمون۔ وہ اپنی آیات بیان فرماتا ہے اس سے فائدہ صرف وہی لوگ اٹھا سکتے ہیں جو اس نظام عالم کا علم رکھتے ہیں۔ جو سورج چاند کے منازل کو جانتے ہیں۔ کیونکہ جس شخص کو ان تغیرات کا علم ہی نہیں وہ عددسنین اور حساب کو کیسے سمجھ سکتا ہے۔ قاعدہ کی بات ہے کہ جس چیز کا انسان کو علم نہ ہو اس سے وہ فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ اسی طرح روحانی دنیا میں بھی کوئی شخص فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ جب تک روحانی علوم کو نہیں سیکھتا۔ اور ان کی حقیقت پر غور نہیں کرتا۔
۷ اِنَّ فَی اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ وَمَا خَلَقَ اللّٰہُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَّقُوْنَO
ترجمہ
رات اور دن کے آگے پیچھے آنے میں اور جو کچھ اللہ (تعالیٰ) نے آسمانوں اور زمین میں پیدا کیا ہے (اس میں) متقی لوگوں کے لئے یقینا یقینا بہت سے نشان ہیں۔
۸؎ حل لغات
اختلاف کے دو معنے ہوتے ہیں۔ (ق) ضد اتفاق۔ یعنی عدم اتفاق (۲) اختلف زیدٌ عمرًا کان خلیفتہ۔ زید عمر کا خلیفہ ہوا۔ اس آیت میں پچھلے معنی ہیں۔ یعنی رات کے بعد دن کا آنا اور دن کے بعد رات کا آنا۔
تفسیر
پہلی آیت اور اس آیت میں یتقرن اور یعلمون کا فرق کر دیا گیا ہے۔ پہلی آیت میں بتلایا تھا کہ علم والے لوگوں کے لئے نشان ہیں اور اس میں فرمایا ہے کہ تقویٰ رکھنے والوں کے لئے آیات ہیں۔ اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ دن اور رات کے اختلاف کو جانتا تو ہر شخص ہے ایک چوہڑے کو بھی معلوم ہے کہ یہ دن ہے اور یہ رات ہے۔ مگر اس سے فائدہ اٹھانا تقویٰ پر موقوف ہے۔ متقی ہی اس تغیر اور اختلاف سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ مگر پہلی آیت میں منازل شمس و قمر کا ذکر ہے اور ان کا جاننا علم سے تعلق رکھتا ہے۔ پس فائدہ بھی عالم ہی اٹھاسکتا ہے۔ اس لئے وہاں یعلمون رکھا اور اس جگہ یتقون فرمایا۔ اور فرماتا ہے کہ رات اور دن بے شک دونوں مفید چیزیں ہیں اور ان کا سلسلہ بھی چل رہا ہے کبھی رات آٹی ہے اور کبھی دن۔ یہی حال قوموں کا ہوتا ہے کہ ان پر کبھی رات آتی ہے اور کبھی دن۔ مگر جس قوم پر رات ہی رات رہے وہ ترقی نہیں کرسکتی۔ اور اسی طرح یہ بھی اللہ تعالیٰ کی سنت کے خلاف ہے کہ کسی قوم پر ہمیشہ دن ہی دن رہے۔ کیونکہ انسان اپنے اعمال میں کبھی یکساں نہیں رہ سکتا۔ جوں جوں نبیوں سے بعد ہوتا جائے گا اور زیادہ زمانہ گزرتا جائے گا تاریکی ہوتی جائے گی جیسے سورج سے دور ہونے کی وجہ سے ہم پر رات پڑ جاتی ہے ورنہ سورج کہیں چلا نہیں جاتا۔ پس کوئی قوم اس بات سے خوش نہ ہوجائے کہ رات اور دن کا آنا جانا لازمی ہے۔ کیونکہ روحانی دنیا میں بھی گو رات کا آنا لازمی ہے مگر اس کا دور کرنا بھی انسان کے اختیار میں ہے۔ بے شک ترقی اور تنزل قوموں کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ مگر تنزل کو دور کرنا اور ترقی کے حصول کے لئے کوشش کرنا بھی ضروری ہے۔ زندگی پیدا کرنے کے لئے جدوجہد کا چھوڑ دینا اور رات کو ایک طبعی اور خودبخود دور ہوجانے والی چیز سمجھ لینا غلطی ہے۔ متقی انسان رات کے وقت کو دیکھ کر کوشش کرتے ہیں کہ ان کی قوم پر سورج چڑھے۔ اور نبی آکر یہی تعلیم دیتے ہیں کہ اپنے دروازے کھولو اور سورج چڑھا لو۔ اس بات پر مطمئن نہ ہوجاؤ کہ تنزل قوموں کے ساتھ لگا ہی ہوا ہے۔ کسب کا تعلق نہار سے ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ماجرحتم بالنھار (انعام ع۷) پس اگرچہ رات قدرتی اور مفید چیز ہے مگر بغیر دن کے مَاخَلَق اللہ فی السمٰوٰت والارض سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا۔ تمام کام دن سے تعلق رکھتے ہیں۔ کانوں کا کھودنا، زراعت تجارت وغیرہ سب کسب دن سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ اور وہ سورج سے پیدا ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطبوں سے فرماتا ہے کہ تم بھی اس روحانی سورج (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) سے تعلق پیدا کرو تا تمہاری قوم پر دن چڑھے اور رات دور ہو۔ کیونکہ سورج سے تعلق پیدا کئے بغیر یہ بات ناممکن ہے۔
۸ اِنَّ الَّذِیْنَ لَایَرْجُوْنَ لِقَائَ نَا وَرَضُوْا بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَاطْمَاَنُّوْا بِھَا وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ اٰیٰتِنَا غٰفِلُوْنَO
۹ اُولٰٓئِکَ مَاْوٰلھُمُ النَّارُ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَO
ترجمہ
جو لوگ ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے اور اس ورلی زندگی پر راضی ہوگئے ہیں اور اس پر انہوں نے اطمینان پکڑ لیا ہے اور (پھر) جو لوگ ہمارے نشانوں (کی طرف) سے غافل ہو گئے ہیں ان (سب) کا ٹھکانا ان کی (اپنی) کمائی کی وجہ سے یقینا (دوزخ کی) آگ ہے۔
۹ ؎ حل لغات
یرجون رجاء میں سے فعل مضارع ہے۔ عربی زبان میں رجاء کا لفظ دو معنوں میں مستعمل ہوتا ہے۔ اَصّل بہٖ۔ اس کی امید رکھی۔ خافہ۔ اس سے ڈرا (اقرب) عام طور پر امید کے معنوں میں آتا ہے۔ اور خوف کے لئے کم۔ مگر آتا ضرور ہے۔ لقآء لَقِیَ یَلْقٰی اور لاقٰی یلاقی ہر دو باب کا مصدر ہے۔ پہلے باب میں اس کے معنی ہوں گے اسقبلہ آگے ہو کر ملا۔ راہ اسے دیکھا۔ اور دوسرے باب میں اس کے معنے ہوں گے قَابَلَہٗ اس کے آمنے سامنے ہوا (اقرب) وفی المغرب وقد غلب اللقاء فی الحرف اور مغرب میں لکھا ہے کہ لقاء کا لفظ زیادہ تر جنگ کے معنوں میں استعمال ہونے لگا ہے (اقرب) اطمئن الی کذا۔ سکن واٰمن لہ۔ ٹھہر گیا اور مطیع ومنقاد ہو گیا۔ (اقرب) مأویٰ اویٰ یأوی ماوی سے نکلا ہے اور اس کا اسم ظرف ہے۔ اوٰ الیٰ کذاب انضمّ الیہ۔ اس سے لپٹ گیا (مفردات) ماویٰ اس مقام کو کہتے ہیں کہ جہاں انسان اترے اور اسے اپنی حفاظت کی جگہ سمجھے۔ کیونکہ ایسی جگہ سے انسان گویا لپٹ جاتا ہے۔ کسب الشیء۔ جمعہ اس چیز کو جمع کرلیا۔ الاثم تحملہٗ گناہ کو جان بوجھ کر اختیار کرلیا۔ مالا وعلما طلبہٗ ورتحہٗ مال یا علم کو طلب کیا اور نفع بخش بنایا (اقرب)
تفسیر
قرآن کریم کا یہ کمال ہے کہ وہ ایسے الفاظ استعمال فرماتا ہے جو باوجود اختصار کے وسیع مطالب پیدا کردیتے ہیں۔ اور چونکہ اس غرض کو پورا کرنے میں عربی زبان بہت کچھ ممد ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس زبان کو قرآن کریم کی زبان ہونے کا شرف بخشا ہے۔ اس آیت میں دیکھو کہ عذاب میں مبتلا ہونے کے اسباب کو لایرجون لقاء نا کے الفاظ میں بیان فرمایا ہے جیسا کہ میں اوپر بیان کر چکا ہوں رجاء کے دو معنے ہیں امید اور خوف اسی طرح لقاء کے دو معنی ہیں۔ شوق سے آگے ہوکر ملنا۔ یا جنگ و جدال۔ اب فطرۃ انسانی پر غور کرکے دیکھ لو تمام انسانی ترقیات یا امید سے وابستہ نظر آئیں گی یا خوف سے۔ کامل عمل یا خوف سے پیدا ہوتا ہے یا امید سے۔ بعض لوگ اس لئے کام کرتے ہیں کہ انہیں کچھ مل جائے۔ اور بعض اس لئے کہ وہ دکھ نہ پائیں۔ قرآن مجید نے ایک ہی فقرہ میں دونوں فطرتوں کو مخاطب کرلیا ہے اور فرماتا ہے کہ اے وہ فطرۃ جو امید کے لئے کام کرتی ہے تو ہمارے ملنے کی امید کیوں نہیں رکھتی۔ اور اس امید کے مطابق کیوں عمل نہیں کرتی۔ اگر تو امید سے دور رہے گی تو بجائے ترقی کرنے کے تنزل کے عمیق گڑھوں میں گر جائے گی۔ اور انہی الفاظ میں دوسری فطرت کو بھی مخاطب کرلیا ہے کہ اے وہ فطرت جو ڈر سے کام کیا کرتی ہے تو ہماری سزا سے بچنے کے لئے کیوں کوشش نہیں کرتی۔ اور اس سے کیوں نہیں ڈرتی۔ ورنہ یاد رکھ کہ ایسے ایسے ابتلاء تیرے سامنے ہیں کہ جن کی برداشت تیری طاقت سے زیادہ ہوگی گویا قرآن مجید نے ایک ہی لفظ سے پیار سے ماننے والی اور خوف سے اطاعت کرنے والی دونوں فطرتوں کی تسلی کردی۔
اس آیت میں رضوا بالحیوۃ الدنیا واطمأنوا بہا فرماکر دنیوی ترقیات کے متعلق اپنا نقطۂ نگاہ واضح کر دیا ہے۔ کہ اسلام دنیوی ترقیات کا مخالف نہیں۔ جس امر کا وہ مخالف ہے وہ یہ ہے کہ انسان دنیا پر اکتفا کرلے اور خدا تعالیٰ کی محبت اس کے دل سے نکل جائے۔ دوسرے یہ کہ وہ دنیا کے حصول کے بعد مزید ترقی کا خیال ترک کر دے اور اس پر ٹھہر جائے اور اطمینان پکڑ لے جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ اطمینا کے معنی سکون کے ہوتے ہیں یعنی حرکت کے ترک کر دینے کے۔ مطمئن اسے کہتے ہیں جو خیال کرتا ہے کہ اس نے اپنے مقصد کو پالیا۔ اور اس نے جہاں پہنچنا تھا وہاں پہنچ گیا۔ اور آگے چلنا اس نے بند کر دیا۔ اور مزید ترقی کی کوششیں اس نے چھوڑ دیں۔ اصل بات یہ ہے کہ رضا دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک رضا وہ ہوتی ہے جس کے بعد انسان کو آئندہ کوشش کا بھی خیال رہتا ہے۔ وقتی طور پر تو وہ راضی ہو جاتا ہے لیکن آئندہ زیادہ کے حصول کی کوشش کا ارادہ اس میں باقی ہوتا ہے۔ دوسری وہ رضا جس کے بعد آئندہ کسی کوشش کا خیال اس کے دل میں نہیں رہتا۔ اس جگہ وہ اطمأنوا بہا فرما کر دوسری رضاء کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ جو دنیا پر اطمینان کے اتھ راضی ہو جاتا ہے اور ہمیں بھول جاتا ہے اور اخروی ترقیات کو نظرانداز کر دیتا ہے وہ ہمارے الزام کے نیچے ہے نہ کہ مجرد دنیوی ترقیات کرنے والا۔ کیونکہ دنیوی ترقیات تو خود انعامات الٰہیہ میں سے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ دعا سکھاتا ہے ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار۔ جو دنیوی ترقیات اخروی ترقیات سے وابستہ ہوں وہ انعامات الٰہیہ میں سے ہیں۔ اور ان کو مانگنا مومن کے فرائض میں سے ہے۔
اس سے آگے چل کر مضمون کو اور بھی واضح کر دیا ہے اور والذین ھم عن ایاتنا غافلون فرماکر بتایا ہے کہ یہ لوگ جن پر ہم ناراض ہیں وہ ہیں کہ جو دنیا میں اس قدر منہمک ہوجاتے ہیں کہ خداتعالیٰ کے کلام اور اس کے نبیوں اور اس کی شرائع کی تحقیر کرنے لگ جاتے ہیں۔ اور ان سے آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔ اور اس طرح اپنی ہدایت کے دروازے بند کرلیتے ہیں۔ کیونکہ ان کے دلوں کے زندگ خدا ہی کی ہدایت سے دور ہوسکتے تھے۔ وہ اپنے آپ کو ان سے بالا سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ اور اس طرح آئندہ کے لئے بھی ان کے ہدایت پانے کی امید نہیں رہتی۔
تیسرا نکتہ جو اس آیت میں یاد رکھنے کے قابل ہے یہ ہے کہ اس میں گناہ اور سزا کی حقیقت پر ایک لطیف روشنی ڈالی گئی ہے۔ گنہ کے متعلق تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حقیقی گناہ جس کی سزا ملتی ہے وہ ہے جو مکسوب ہو۔ اور کسب کے معنی جیسا کہ لغت سے ثابت کیا جاچکا ہے جمع کرنے اور جان بوجھ کر کرنے کے ہیں۔ پس کسب کے لفظ سے دو اشارے کئے گئے ہیں ایک تو یہ کہ گناہ گار وہ ہے جو جان بوجھ کر گناہ کی آلائش میں گرتا ہے۔ اگر خطاء اوار نسیان سے کوئی برا فعل انسان سے صادر ہوجاتا ہے تو وہ حقیقی گنہ نہیں اور ایسا انسان شریعت اسلامیہ کی اصلاح میں گنہ گار نہیںکہلائے گا اور دوسرا اشارہ یہ کیا گیا ہے کہ گناہ گار کے لئے ضروری ہے کہ وہ گناہ کو جمع کرے یعنی تواتر سے گناہ میں مبتلا ہو۔ اگر تواتر نہ ہو یعنی انسان گودیدہ و دانستہ ہی گنہ کرے مگر اس کے فعل کے بعد پشیمان ہوکر اسے چھوڑ دے اور توبہ کرے تو وہ بھی گناہ گار نہیں ہوگا۔ کیونکہ کسب کے معنوں میں جمع کرنا بھی شامل ہے۔ اور تواتر پر یہ لفظ دلالت کرتا ہے۔
پس ان معنوں کی رو سے اسلامی شریعت میں سزا کے قابل مجرم وہی ہوگا جو دیدہ و دانستہ جرم کرے اور بعد میں اس سے تائب نہ ہوا ہو۔ چنانچہ ایک دوسری آیت میں اس کی تشریح ان الفاظ میں ہے اَلَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ کَبٰئِرَ الْاِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ اِلَّا اللَّمَمَ اِنَّ رَبَّکَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَۃِ (نجم ع۲) جو لوگ بڑے گناہوں اور کھلے عیبوں سے بچتے ہیں سوائے اس کے کہ وہ مرتکب ہو کر بعد میں اس کو چھوڑ بیٹھے ہوں (انہیں اللہ تعالیٰ جزا دے گا)۔ تیرا رب یقینا وسیع مغفرت والا ہے۔ سزا کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مأوٰھم النار۔ ان کا مأویٰ نار ہوگا۔ مأویٰ جیسا کہ بتایا گیا ہے پناہ کی جگہ اور اس مقام کو کہتے ہیں جس سے انسان چمٹ جاتا ہے۔ اب یہ عجیب بات ہے کہ آگ کو پناہ کی جگہ اور چمٹ رہنے کا مقام قرار دیا جائے۔ مگر تھوڑے غور سے معلوم ہوسکتا ہے کہ اس جگہ الٰہی سزا کی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی سزا دکھ دینے کے لئے نہیں بلکہ علاج کے لئے ہوتی ہے۔ اور جس طرح علاج کی تکلیف کو انسان برا سمجھتا ہے مگر آخر اسی میں اپنی بہتری سمجھ کر اسے قبول کرتا ہے اسی طرح جب عذاب کی حقیقت کا انکشاف گناہ گاروں پر پوری طرح ہوجائے گا تو وہ اس نار کو جس میں ان کو ڈالا جائے گا اپنا ماویٰ خیال کریں گے یعنی حقیقی عذاب سے نجاب کا ذریعہ جو کہ خداوند تعالیٰ کی ناراضگی اور اس سے دوری ہے۔ پس ماویٰ کا لفظ استعمال کرکے بتایا ہے کہ عذاب دکھ میں ڈالنے کا ذریعہ نہیں بلکہ پاک کرنے کا ذریعہ ہے ارو صرف وہی ایک ذریعۂ نجات و تطہیر ہے۔
عذاب اخروی کا نام نار اس لئے رکھا گیا ہے کہ دنیا دو مظاہر کا مجموعہ ہے ناری اور نوری۔ خداتعالیٰ سے تعلق نور کی طرف لے جاتا ہے جو ٹھنڈک اور خوشی کا موجب ہوتا ہے اور دنیا کی طرف جھک جانا نار کی طرف لے جاتا ہے۔ کیونکہ بدی ایک آگ ہے جو اسے اختیار کرلیتا ہے اس کے لئے اسی کے مشابہ مقام تجویز کیا گیا ہے۔
۱۰ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ یَھْدِیْھِمْ رَبُّھُمْ بِاِیْمَانِھِمْ ج تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھِمُ الْاَنْھٰرُ فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِO
ترجمہ
جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک (اور مناسب حال) عمل کئے انہیں ان کا رب ان کے ایمان کی وجہ سے (کامیابی کیے راستہ کی طرف) ہدایت دے گا (اور) آسائش والی جنتوں میں انہی کے (تصرف کے) نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔
۱۰؎ حل لغات
تحت کا لفظ فوق کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے۔ یعنی اس کے معنی نیچے کے ہوتے ہیں اور اسفل کا لفظ بھی نیچے کے معنوں میں آتا ہے۔ مگر ان دونوں میں ایک فرق ہے۔ اسفل س کو کہتے ہیں جو کسی چیز کا نچلا حصہ ہو مگر تحت اسی چیز کے نچلے حصہ کو نہیں کہتے بلکہ اس جہت کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز کے نیچے کی ہو۔ ہاں کبھی کبھی اسفل کا لفظ تحت کے معنوں میں بھی بولا جاتا ہے۔ نیز یہ لفظ رذیل اور ماتحت لوگوں کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے لاتقوم الساعۃ حتے یظہر التحوت۔
یعنی قیامت نہیں آئے گی جب تک غرباء اور مزدور لوگ غالب آکر حکومتوں پر قابض نہ ہوجائیں۔ قرب قیامت کا زمانہ مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ ہے پس اس حدیث میں بالشویک حکومت کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی مسیح موعودؑ کے کامل ظہور کا زمانہ نہ آئے گا جب تک کہ محنتی لوگ سرمایہ داروں پر اور مزدور لوگ حکومتوں پر غالب نہ ہوجائیں گے۔ یعنی وہ بادشاہ نہ بن جائیں گے۔ اور سرمایہ دار ان کے ماتحت نہ ہوجائیں گے۔ ان معنوں کے رو سے من تحتھم الانھار کے یہ معنی ہوئے کہ ان کے قبضہ میں نہریں ہوں اور وہ ان کی اپنی ملکیت ہوں گی۔ کیونکہ عمل ان کے اپنے تھے جس طرح اس دنیا میں افسران انہار زمینداروں کو لوٹتے ہیں یا انہیں سرکاری ٹیکس ادا کرنے پڑتے ہیں وہاں ایسا نہ ہوگا۔ بلکہ نہریں ان کی اپنی ملکیت ہوں گی۔ النعیم۔ عام طور پر لوگ اس کے معنی غلط سمجھتے ہیں۔ اور وہ اسے نعمت کی جمع قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ بلکہ النعیم کے معنی (۱) عطیہ (اقرب) یا (۲) النعمۃ الکثیرۃ یعنی بہت سے نعمت کے ہوتے ہیں (مفردات)
تفسیر
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اصل ہدایت ایمان کے سبب سے ملتی ہے۔ خالی عمل کچھ چیز نہیں۔ جب تک اس کے ساتھ دل کی اصلاح نہ ہو۔ ایک شخص چوری کا پورا ارادہ رکھتا ہو مگر اسے چوری کا موقع نہ ملے تو وہ دیانت دار نہیں کہلا سکتا۔ اسی طرح دل تو غیراللہ کے خوف سے پر ہو مگر ظاہر میں اسے سجدہ نہ کرے تو وہ شخص موحد نہیں کہلا سکتا۔ بعض نادان یہ خیال کرتے ہیں کہ اسلام عمل پر زور نہیں دیتا۔ بلکہ صرف ایمان کو پیش کرتا ہے حالانکہ یہ بات درست نہیں۔ اسلام جس بات پر زور دیتا ہے وہ یہ ہے کہ عمل کے ساتھ دل کی پاکیزگی بھی ضروری ہے۔ اگر دل پاک نہیں اور عمل کا ساتھ نہیں دیتا تو ایسا ایمان کچھ فائدہ نہیں دے سکتا۔ اور کون عقل مند اس امر کا انکار کرسکتا ہے کہ اصل پاکیزگی دل کی اور خیالات کی پاکیزگی ہے۔ جب دل پاک ہوجاتا ہے تو ممکن ہی نہیں ہوتا کہ اعمال اس کی اتباع نہ کریں۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ انسان لوگوں کے خوف سے عمل اور قسم کے کرے مگر یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ انسان لوگوں کے خوف سے اپنے خیالات کو بدل لے۔ دل پر دوسرے انسانوں کا تصرف نہیں ہوتا۔ زبردست بادشاہوں کے قبضہ سے بھی دل بالا ہے۔ پس ایسی چیز پر اللہ تعالیٰ نے ہدایت کا مدار رکھا ہے جو خود انسان کے قبضہ میں ہے۔ اور دوسرے لوگوں کا اس میں دخل نہیں۔
بایمانہم کہہ کر اس امر کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے کہ جزاء ایمانب کے مطابق ہوگی۔ یعنی ظاہری عمل میں گو وہ شخص برابر ہوں لیکن وہ اخلاص اور محبت جو عمل کے پیچھے ہے اس سے جزاء میں فرق آجائے گا۔ یہ بھی ایک زبردست نکتہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابوبکر کو تم پر فضیلت اس چیز کے سبب سے ہے جو اس کے دل میں ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص نمازیں زیادہ پڑھتا ہے اور روزے بھی زیادہ رکھتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو ایک دوسرا شخص جذب کرلیتا ہے اس کی وجہ اس کے دل کی حالت ہوتی ہے۔ حقیقی پاکیزگی اور اخلاص جسے زیادہ حاصل ہوتا ہے اس کے تھوڑے عمل زیادہ فوائد کو کھینچ لیتے ہیں۔ درحقیقت اس شخص کے سب اعمال ہی عبادت بن جاتے ہیں۔ کیونکہ اس کے بظاہر دنیوی نظر آنے والے اعمال بھی خدا ہی کے لئے ہوتے ہیں۔ اور بنی نوع انسان کی ہمدردی اس کی ہر حرکت کا موجب ہوتی ہے۔
۱۱ دَعْوٰلھُمْ فِیْھَا سُبْحٰنَکَ اَللّٰھُمَّ وَتَحِیَّتُھُمْ فِیْھَا سَلٰمٌ ج وَاٰخِرُ دَعْوٰلھُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَO
ترجمہ
ان (جنتوں) میں (خدا تعالیٰ کے حضور) ان کی پکار اے اللہ (ہم) تیری تسبیح (کرتے ہیں) ہوگی۔ اور (ان کی ایک دوسرے کے لئے دعا (تمہارے لئے ہمیشہ کی) سلامتی (ہو) ہوگی۔ اور ان کی دعا کا آخری حصہ یہ ہوگا کہ ہر (قسم کی) تعریف اللہ (تعالیٰ) ہی کو سزاوار ہے۔
۱۱؎ حل لغات
دعوٰی۔ پکار اور آواز کے معنوں میں استعمال ہوتاہے۔ تحیۃ کے معنی ہیں سلام۔ جیسے ہم آپس میں السلام علیکم کہتے ہیں۔ بق۔ اسلامۃ من الاٰفات۔ بلاؤں سے محفوظ رہنا۔ الملک بادشاہت یہ معنی اس وجہ سے پید ہو گئے ہیں کہ جب کوئی شخص بادشاہ بنایا جاتا تھا تو لوگ کہتے تھے نال فلان التحیۃ کہ فلاں شخص کو سلام کا مقام حاصل ہو گیا ہے یعنی وہ سلام جو بادشاہوں سے مخصوص تھا۔ اور وہ ہیبت اللعن کے الفاظ تھے۔ جاہلیت کے زمانہ میں جو بادشاہ ہوتا اس کے ساتھ کلام کرتے وقت یہ الفاظ بولے جاتے تھے جن کے معنی یہ ہیں کہ خداتعالیٰ تجھے ہر قسم کے اعتراض اور شکست سے بچائے۔ التحیۃ من اللہ الا کرام والاحسان۔ یعنی جب کہا جائے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے کسی مخلوق کو تحیہ حاصل ہوا ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اسے عزت دی گئی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس پر احسان کیا ہے۔ (اقرب) سلام کے کئی معنی ہیں۔ اسم من التسلیم۔ باب تفصیل سے اسم مصدر ہے اور اس کے معنی سلامتی دینے کے ہیں۔ انقیاد یعنی فرمانبرداری۔ سلام خدا کا نام بھی ہے۔ کیونکہ وہ تمام عیبوں اور نقصوں سے پاک ہے۔ (الحشر ع۴)
تفسیر
اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ مومن جب اخروی انعامات پائیں گے تو پہلے تو بے اختیار ان کے منہ سے سبحانک اللہم نکلے گا۔ یعنی اے اللہ تو ہر عیب سے پاک ہے۔ (۲) دوسرے وہ آپس میں سلام کریں گے یا ان کو خدا کی طرف سے سلام ملے گا۔ (۳) تیسرے ان کا آخری کلام یہ ہوگا کہ وہ الحمدللہ رب العٰلمین کہیں گے۔ یہ جو فرمایا کہ وہ جنت میں جاتے ہی سبحانک اللہم کہیں گے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں ان پر حقائق اشیاء کھل جائیں گے۔ مومن دنیا میں سبحانک اللہم کہتا ہے مگر اس جگہ یہ صرف اعتقادی رنگ میں ہوتا ہے۔ وہ کئی دفعہ آم کا چھلکا پڑا دیکھتا ہے اور اسے فضول سمجھتا ہے۔ یا رات کو ایک کیڑا س کے بستر میں آ گھستا ہے وہ اس کی حکمت نہیں جان سکتا۔ لیکن تاہم وہ سبحانک اللہم کہتا ہے۔ ایسا ہی وہ جنگل میں جھاڑیاں دیکھتا ہے جن میں بعض کانٹے دار ہیں اور بعض بے کانٹے۔ ایسا ہی بعض درخست ان کے پتے ان کی شاخیں دیکھت ہے اور ان کی حکمت نہیں جانتا۔ وہ یہ سمجھ کر یہ کوئی حکمت ہوگی سبحان اللہ کہہ دیتا ہے۔ کیونکہ ہم اس دنیا میں قیاس کرلیتے ہیں کہ جب بعض چیزوں میں اس کی حکمت نظر آتی ہے تو باقی چیزوں میں بھی ضرور حکمت ہوگی۔ نیز خدا کا سچا کلام بتلاتا ہے کہ خدا بے عیب ہے۔ ہم ایمان لاتے ہیں۔ اگرچہ کروڑوں چیزیں ایسی ہیں جن کی حکمت ہمیں معلوم نہیں مگر باوجود اس کے سبحان اللہ کہتے رہتے ہیں۔ لیکن جنت میں جو سبحانک اللہم کہا جائے گا وہ علم کی بناء پر ہوگا۔ وہاں انسان پر کھل جائے گا کہ دنیا میں ہر ایک حقیر سے حقیر چیز یا چھوٹے سے چھوٹا واقعہ ایک سبب اور ایک اثر رکھتا تھا۔ اور دنیا اور دنیاوالوں کی ترقی یا تنزل یا فائدہ یا نقصان پراثر کر رہا تھا۔ اور چونکہ اس دنیا کے اعمال اگلے جہان میں مجسم ہوں گے اس لئے اس دنیا کی ہر اک چیز کی حقیقت انسان کو معلوم ہوجائے گی۔ اور وہ علم کی بناء پر جان لے گا کہ اس دنیا میں کوئی چیز بھی بے حقیقت نہ تھی۔ بلکہ کوئی حرکت بھی بے حقیقت نہ تھی۔ پس بے اختیار ہوکر سبحانک اللہھم اس کے منہ سے نکل جائے گا۔ اور چونکہ دنیا کی تمام تکالیف حقائق اشیاء کے عدم علم کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ حکمت نہ جاننے کی وجہ سے سنکھیا کی مقررہ مقدار سے زیادہ استعمال کرکے لوگ تکلیف اٹھاتے ہیں۔ یا مثلاً آگ کھانا پکانے کے لئے بنائی گئی ہے لیکن ایک بچہ اسے اپنے کپڑوں میں لگالیتا ہے اور مر جاتا ہے۔
غرض تمام بیماریاں اور تکلیفیں چیزوں کی حکمتوں کے نہ جاننے کی وجہ سے آتی ہیں۔ لیکن جنت میں چونکہ سب حقیقتیں کھل جائیں گی اور حکمتیں معلوم ہوجائیں گی اس لئے حقیقی سلام یعنی کامل سلامتی بھی حاصل ہو جائے گی۔ کیونکہ حکمتوں کے جان لینے کی وجہ سے وہ چیزوں کی مضرت سے بچ جائیں گے۔ اور مصیبت اور آفت سے چھوٹ جائیں گے۔ اس لئے سبحان اللہ کے بعد جو کشف الحقائق ہو جانے پر فوراً ان کے منہ سے علی وجہ البصیرۃ نکلے گا وہ یہ بھی پکار اٹھیں گے کہ یہاں تو سلامتی ہی سلامتی ہے کیونکہ وہ علم کامل کی وجہ سے چیزوں کے غلط استعمال سے بچ جائیں گے۔ اور ان کا صحیح استعمال کرکے فائدہ اٹھائیں گے اور جب سلامتی حاصل ہو جائے گی تو بے اختیار الحمدللہ کہیں گے کہ خداتعالیٰ نے یہ مرتبہ اور مقام ہمیں عطا فرمایا کہ ہر قسم کے کمالات ہمیں مل گئے اور ہمارے سب اعمال کے سب نتائج اب اچھے ہی اچھے نکلتے ہیں۔
اس جگہ اگر یہ سوال ہو کہ انہوں نے الحمدللہ رب العٰلمین کیوں کہا۔ خالی الحمدللہ کیوں نہ کہہ دیا۔ حالانکہ یہ کافی تھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ رب العٰلمین ساتھ لگانے کی مختلف وجوہ ہیں۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ تمام چیزوں کی حکمتوں کو جاننا اور ان سے فائدہ پہنچانا رب العٰلمین کا ہی کام ہے جو تمام دنیا کی ضروریات کو جانتا ہے۔ مثلاً ایک گرم ملک میں گرمی کی تکلیف کو دیکھ کر اگر کوئی کہے کہ یہ بڑی مصیبت ہے اور شکایت کرے تو یہ اس لئے ہوگا کہ وہ نہیں جانتا کہ اس گرمی سے ہی ہزاروں چیزوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ ان حکمتوں کو رب العٰلمین ہی سمجھ سکتا ہے۔ جس کا ہر چیز سے تعلق ہے اور ہر چیز کی حاجتوں کو پورا کرنا جس کا کام ہے۔ پس اگلے جہان میں جانے پر جب مومنوں کو تمام حقیقتوں اور حکمتوں سے آگاہی ہوجائے گی تو وہ کہیں گے الحمدللہ رب العالمین۔ بے شک ہم اپنے محدود علم کی وجہ سے دنیا کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے تھے۔ کیونکہ رب العٰلمین خدا ہی ہے جس کی نظر میں سب کچھ ہے باریک در باریک حقیقت سے واقف ہوسکتا ہے سو ہم اس کی حمد کرتے ہیں۔
۱۲ وَلَوْیُعَجِّلُ اللّٰہُ لِلنَّاسِ الشَّرَّا سْتِعْجَالَھُمْ بِالْخَیْرِ لَقُضِیَ اِلَیْھِمْ اَجَلُھُمْ ط فَنَذَرُالَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَائَ نَا فِیْ طُغْیَانِھِمْ یَعْمَھُوْنَO
ترجمہ
اور اگر اللہ (تعالیٰ) لوگوں پر (ان کے اعمال کی) بدی (کا نتیجہ) ان کے مال کو جلد چاہنے کی طرح جلد وارد کرتا تو ان کی (زندگی کے اختتام کی) میعاد ان پر لائی جاچکی ہوتی (مگر چونکہ ہم نے ایسا پسند نہیں کیا) اس لئے ہم ان لوگوں جو ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے اس حالت میں چھوڑ رہے ہیں کہ وہ اپنی سرکشی میں سرگردان پھررہے ہیں۔
۱۲؎ حل لغات
استعجلہ۔ حثہ۔ اسے کام پر آمادہ کیا۔ امرہ ان یعجل۔ اسے جلدی کرنے کے لئے کہا۔ طلب عجلتہ ولم یصر الی وقتہ۔ کسی کام کے لئے کوشش کی کہ وقت سے پہلے ہو جائے۔ مرفلان یستعجل ای یکلف نفسہ العجلۃ۔ یعنی اپنی طبیعت پر زور ڈال کر تیزی سے چلا۔ استعجل فلانا سبقہ وتقدمہ۔ فلاں شخص سے آگے نکل گیا۔ (اقرب) الخیر وجد ان الشئے علے کمالاتہ اللائقۃ۔ کسی چیز کا اس کے مناسب حال کمالات کے ساتھ پایا جانا۔ المال مطلقا۔ خالی مال کو بھی بعض وقت خیر کہہ لیتے ہیں۔ الخیل۔ بہت سے گھوڑوں کو بھی خیر کہہ لیتے ہیں۔ خیر اس شخص کو بھی کہتے ہیں کہ جس میں ہر قسم کے کمالات بہ کثرت پائے جائیں (اقرب) قضٰی الیہ الامر۔ انہاہ وَابَلَغَہٗ۔ اس تک اس چیز کو پہنچا دیا (اقرب) اور جب کسی بات کے متعلق ہو تو اس بات کے سنا دینے کے معنی ہوں گے۔ اور جب کسی چیز کے متعلق ہو تو اس کے معنی اس چیز کے پہنچا دینے کے ہوں گے۔ پس اقضی الیہم الاجل کے معین ہوں گے ان تک ان کی موت پہنچا دی۔ یعنی انہیں ہلاک کر دیا۔ الاجل۔ مرۃ الشئی ووقتہ الذی یحل فیہ۔ اجل اس وقت کو کہتے ہیں جس میں کوئی کام ہونا ہو۔ کہتے ہیں ضربت لہ اجلًا۔ میں نے اس کے واسطے فلاں کام کے لئے ایک مدت مقرر کر دی ہے۔ (اقرب) طغیان مصدر ہے ظَغِیَ یَطْغٰی یَاطَغٰی یَطْغی کی اور اس کے علاوہ طغًے اور طِغْیانًا کی صورت پر بھی اس کی مصدر آتی ہے۔ طغٰے کے معنی ہیں جاوز القدر والحد۔ اندازہ اور حد سے باہر ہو گیا۔ طغے الکافر غلا فی الکفر۔ کفر میں زیادہ بڑھ گیا۔ فلانٌ۔ اسرن فی المعاصی والظلم گناہ اور ظلم میں حد سے بڑھ گیا۔ الماء۔ ارفتع۔ پانی اونچا ہو گیا۔ طغیانی اور سیلاب آگیا (اقرب) یعمھون۔ عمہ سے مضارع کا صیغہ ہے۔ کہتے ہیں عمہ الرجل۔ جس کے معنی ہیں تردد فی الضلال وتحیر فی منازعۃ او طریقٍ۔ وہ شخص گمراہی کی حالت میں حیران پھرتا رہا۔ یا جھگڑے میں یا راستہ میں حیران رہ گیا۔ کہ اصل حقیقت یا اصل راستہ کون سا ہے۔ اور یہ بھی محاورہ ہے کہ جب کسی کو دلیل نہ سوجھے یا بات نہ آئے تو اس حالت کو بھی عَمَہٌ کہتے ہیں۔ جیسا کہ لکھا ہے العمہ ان لا یعرف الحجۃ۔ عمہ کے معنی یہ ہیں کہ انسان کو دلیل نظر نہ آئے۔ اس کا اسم فاعل عامِہٌ ہے اور اس کی جمع عُمّہ اور صیغہ مبالغہ عمِہٌ ہے۔ جس کی جمع عَمِہون ہے۔ عَمی کا لفظ جو قرآن کریم میں آتا ہے اور جس سے اَعْمٰی کا لفظ بنا ہے اس کے معنی بھی اندھے پن کے ہیں مگر زمخشری کا قول ہے کہ وہ عَمِہ سے علم ہے۔ اعمٰی اس شخص کو کہتے ہیں جو آنکھ کا یا عقل کا اندھا ہو۔ مگر عامِہٌ صرف اس کو کہتے ہیں جو عقل کا اندھا ہو۔ آنکھ کے اندھے کو عامِہٌ نہیں کہتے (اقرب) پس معنی یہ ہوئے کہ اپنی ظالمانہ زیادتیوں میں سرگردان پھرتے ہیں اور پھرتے رہیں گے۔ اور ان کی عقلیں ماری ہوئی ہیں۔ اور ماری رہیں گی۔
تفسیر
اس آیت کے پہلے حصہ کے متعلق بہت اختلاف ہے کہ اس کے کیا معنی ہیں۔ اور جلدی سے شر پہنچانے اور خیر طلب کرنے کا کیا مطلب ہے۔ بعض لوگوں نے استعجالہم بالخیر کے یہ معنی کئے ہیں کہ جس طرح وہ شر طلب کررہے ہیں اسی طرح اگر ہم بھی جلدی سے انہیں شر پہنچا دیں تو ان کا فیصلہ ہو جائے لیکن یہ معنی عقل کے خلاف ہیں۔ اگر خیر سے مراد شر ہوتی تو اللہ تعالیٰ شر ہی کا لفظ استعمال نہ فرما دیتا۔ اصل دقت مطلب کے بیان کرنے میں یہ پیش آتی ہے کہ ان کے خیر کو طلب کرنے پر خداتعالیٰ انہیں شر پہنچانے کا ذکر کیوں فرماتا ہے۔ نیکی کے طلب کرنے پر تو انعام ملنا چاہئے تھا۔ مگر یہ دقت اس لئے پڑی ہے کہ خیر کے سب معنوں پر غور نہیں کیا گیا۔ اور نہ استعجال کے سب معنوں پر۔ اگر خیر کے معنی مطلق مال کے لئے جاتے تو یہ دقت نہ ہوتی کیونکہ اس صورت میں اس آیت کے یہ معنی بنتے کہ جس طرح یہ لوگ دنیوی اموال کے جمع کرنے میں ہی لگے ہوئے ہیں اور خداتعالیٰ کی طرف توجہ نہیں کرتے اگر اللہ تعالیٰ بھی اس کے بدلہ میں ان کو سزا دیتا چلا جاتا تو ان کا فیصلہ ہو جاتا۔ مگر خداوند تعالیٰ انہیں ڈھیل دیتا اور توبہ کا موقعہ دیتا ہے۔ تاکہ جو اصلاح کرنا چاہیں کر لیں اور ان معنوں پر کوئی اعتراض نہیں پیدا ہوتا۔ جو شخص اپنی تمام توجہ دنیا کے اموال کے جمع کرنے پر ہی خرچ کرتا ہے وہ یقینا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو بھڑکاتا ہے۔ دوسرے معنی اس کے یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے خیر کے معاملہ میں بڑھا ہوا اور آگے نکلا ہوا ہے اگر اسی طرح وہ لوگوں کو عذاب بھی دیتا چلا جاتا تو ان کا فیصلہ ہو جاتا مگر وہ خیر میں تو انسانوں سے آگے نکلا ہوا ہے اور عذاب پہنچانے میں دھیما ہے۔ ان معنوں کے رو سے ھُمْ کی ضمیر فاعل کی ضمیر نہیں بلکہ مفعول کی ضمیر سمجھی جائے گی برخلاف پہلے معنوں کے ان میں استعجالھم میں ھُمْ کی ضمیر فاعلی ضمیر تسلیم کی گئی تھی۔ اور یہ دونوں باتیں عربی زبان کے لحاظ سے جائز ہیں۔
استعجالھم بالخیر میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرنے کی فرصت ہی نہیں ملتی۔ وہ اپنی ساری توجہ دنیا کے اموال کے جمع کرنے میں ہی صرف کررہے ہیں۔ کیونکہ جب کسی کو کسی کام کے لئے جلدی ہوتی ہے تو وہ دوسرے کام کی طرف مطلقاً توجہ نہیں کرتا۔ اور اگر کوئی اسے کسی اور کام کی طرف توجہ دلائے بھی تو وہ یہی جواب دے کر چلا جائے گا کہ مجھے جلدی ہے۔ یہ آیت درحقیقت ان کے اس سوال کا جواب ہے کہ اگر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کی طرف سے ہیں تو ہم لوگ عذاب سے جلد کیوں تباہ نہیں کر دیئے جاتے۔ فرمایا عذاب تو آئے گا مگر اس مہلت کی غرض یہ ہے کہ تا کچھ اور لوگ مان لیں۔
میں یہ پہلے بتا چکا ہوں کہ قرآن کریم اکثر اوقات سوال کو حذف کر جاتا ہے اور جواب سے ہی سوال کی طرف اشارہ کر دیتا ہے اس آیت نے صاف طور پر واضح کر دیا ہے کہ اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ والی آیت میں کفار کے جلد فیصلہ کرنے کا ہی جواب تھا۔ پس یہ سب آیات بالکل ترتیب کے ساتھ ایک ہی سوال کے جواب کے لئے آئی ہیں۔
فنذرالذین سے یہ بتایا ہے کہ اگر ہم عذاب دینے میں عجلت کرتے تو لازماً لوگ گمراہی پر خاتمہ ہونے کے سبب سے طغیان اور گمراہی میں پڑے رہتے۔ مگر ہمارا یہ طریق نہیں ہے۔ ہم تو ہدایت دینا چاہتے ہیں۔ اس وجہ سے فوراً نہیں پکڑتے تاکہ جس قدر لوگ بچ سکیں بچ جائیں۔
۱۳ وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْبِہٖٓ اَوْقَاعِدًا اَوْقَائِمًاج فَلَمَّا کَشَفْنَا عَنْہُ ضُرَّہٗ مَرَّکَاَنْ لَّمْ یَدْعُنَآ اِلٰی ضُرٍّ مَّسَّہٗ ط کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلْمُسْرِفِیْنَ مَاکَانُوْا یَعْمَلُوْنَO
ترجمہ
اور جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اپنے پہلو کے بل (لیٹا ہوا) یا بیٹھا یا کھڑا ہمیں پکارتا ہے۔ پھر جب ہم اس کی تکلیف کو اس سے دور کر دیتے ہیں تو وہ (اس طرح سے کترا کر) گذر جاتا ہے (کہ) گویا اس نے کسی تکلیف (کے دور کرنے) کے لئے جو اسے پہنچی تھی ہمیں نہیں پکارا (تھا)۔ اسی طرح تمام حد سے بڑھ جانے والوں کو جو کچھ وہ کیا کرتے ہیں خوبصورت کرکے دکھلایا گیا ہے۔
۱۳؎ حل لغات
مسرف۔ اَسْرَفَ کا اسم فاعل ہے۔ کہتے ہیں اسرف المال۔ بذرہ۔ مال کو یونہی بکھیر دیا۔ ضائع کر دیا۔ جاوزالحد وافرط فیہ اس کے خرچ میں حد سے بڑھ گیا اور زیادتی سے کام لیا۔ اور اسرف کے معنی خطا کے بھی ہیں یعنی غلطی کی۔ اور جہل کے بھی۔ یعنی اس سے اس طرح علیحدگی کی کہ گویا جانتا ہی نہیں۔ اور غَفَلَ کے بھی ہوتے ہیں یعنی اس سے غفلت کی (اقرب)
تفسیر
دعانا لجنبہ الآیۃ میں صدمہ کی مختلف حالتوں کا ذکر کیا ہے۔ لجنبہٖ کو سجدہ یا شدت خوف سے گر جانے کی حالت کا قائم مقام رکھا ہے۔ کیونکہ جب انسان کو سخت تکلیف ہو تو اس کے پاؤں لڑکھڑانے لگ جاتے ہیں۔ اور وہ گر جاتا ہے۔ اسی طرح قاعدًا او قائمًا ان کی سخت گھبراہٹ اور پریشانی بتانے کے لئے رکھا گیا ہے۔ کیونکہ ایسے وقت میں انسان کبھی اٹھ کر کھڑا ہو جاتا ہے اور کبھی بیٹھ جاتا ہے اور اسے کسی ایک حالت پر قرار نہیں آتا۔ اور ایک جگہ ٹک نہیں سکتا۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ فی الواقع کھڑا ہو یا بیٹھا ہو۔
اس آیت میں فرماتا ہے کہ یہ لوگ یوں تو زور دیتے رہتے ہیں کہ اگر یہ رسول سچا ہے تو ہم پر عذاب کیوں نہیں آتا لیکن اگر کبھی عذاب چھو بھی ج ائے تو سخت گھبرا جاتا ہیں اور سب صبر و قرار جاتا رہتا ہے۔
مرّکان لم یدعنا میں اللہ تعالیٰ نے کفار کی حالت بتا کر ہمیں اسلامی اخلاق سکھائے ہیں کہ جب کسی کو مدد کے لئے بلاؤ تو اس سے جدا ہوتے وقت پہلے اس سے اجازت طلب کرو پھر شکریہ ادا کرو۔ پھر جاؤ۔ کیونکہ یہ بڑی بدتہذیبی ہے کہ کسی کو مدد کے لئے بلایا جائے مگر اس کا شکریہ بھی ادا نہ کیا جائے۔
زین للمسرفین میں اخلاق کے کئی نکتے بیان کئے ہیں۔ اول یہ کہ کسی کی نیت پر حملہ نہ کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ کفار کے متعلق فرماتا ہے ان کو ان کے اعمال خوبصورت کرکے دکھائے گئے۔ ان کو مسرف قرار دے کر بھی ان کی نیت پر حملہ نہیں کرتا بلکہ فرماتا ہے کہ ان کو نظر ہی ایسا آتا ہے۔ ان کی عقل ہی کمزور ہو گئی ہے۔ پس کیا ہی تعجب ہے ان مسلمانوں پر جو قلیل سے قلیل اختلاف پر فوراً دوسرے کی نیت پر حملہ کر دیتے ہیں۔ اس جگہ اگر یہ سوال ہو کہ جب ان کی عقل میں ہی ایسا آتا ہے تو ان کو سزا کس بات کی۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ سزا کی وجہ بھی انہی الفاظ میں موجود ہے۔ کیونکہ یہ نہیں فرمایا کہ ہر ایک کو برے اعمال خوبصورت کرکے دکھائے جاتے ہیں۔ بلکہ یہ فرمایا ہے کہ مسرف کو اس کے برے اعمال خوبصورت کرکے دکھائے جاتے ہیں۔ پس اسراف کی صفت چونکہ انہوں نے خود پیدا کی تھی اس لئے اس کے نتائج کے بھی وہ خود ذمہ دار ہیں۔ خواہ وہ نتائج ان کی مرضی کے مطابق ہوں یا نہ ہوں۔ اور اس وجہ سے وہ سزا سے بھی بچ نہیں سکتے۔
دوسرا نکتہ اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نیت کی دلیل ہر جگہ قابل قبول نہیں ہوتی۔ بعض دفعہ نیت کی درستی اور شرارت کی عدم موجودگی کے وقت بھی سزا دی جاتی ہے۔ جیسا کہ اس آیت میں ذکر ہے کہ نیت کو درست تسلیم کرتے ہوئے سزا کا اعلان کیا ہے۔ یہ بات اس وقت ہوتی ہے جب نیت اپنے ہی اعمال کی وجہ سے خراب ہو گئی ہو یا یہ کہ نیت کا بدلنا اپنی طاقت میں ہو اور نہ بدلنے۔ جیسے کم علمی اگرچہ ایک ایک عذر ہے لیکن اگر صرف سستی کی وجہ سے ہو تو قابل سزا ہے۔ ایسے شخص سے کہا جائے گا کہ کیوں سستی کی۔ اور علم حاصل کرنے کی کوشش کیوں نہ کی۔ طبعی قانون میں تو نیت کا بالکل دخل ہی نہیں ہوتا۔ خواہ کسی نیت سے کوئی شخص زہر کھائے وہ ضرور ہلاک ہو جائے گا۔ شریعت میں ایک حد تک لحاظ رکھا جاتا ہے۔
۱۴ وَلَقَدْ اَھْلَکْنَا الْقُرُوْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا وَجَآئَ تْھُمْ رُسُلُھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ وَمَا کَانُوْا لِیُؤْمِنُوْاط کَذٰلِکَ نَجْزِی الْقَوْمَ الْمُجْرِمِیْنَO
ترجمہ
اور یقینا یقینا ہم تم سے پہلے قوموں کے بعد قوموں کو جب انہوں نے ظلم کیا اور ان کے پاس ان کے رسول کھلے نشان لے کر آئے اور (پھر بھی) وہ بالکل ایمان نہ لائے ہم ہلاک کر چکے ہیں ہم مجرم لوگوں کو اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں۔
۱۴؎ حل لغات
القرون۔ القرن کی جمع ہے۔ اس کے کئی معنی ہیں۔ کل امۃ ہلکت فلم یبق منھم احد ہر ایسی قوم جو تمام کی تمام ہلاک ہوئی اور اس میں سے کوئی بھی باقی نہ رہا۔ الوقت من الزمان زمانہ کے ایک حصہ کو بھی قرن کہتے ہیں۔ اھل زمان واحدٍ ایک زمانہ یا ایک نسل کے لوگوں کو بھی قرن کہتے ہیں۔ امۃ بعد امۃ۔ زمانہ کے دور کو بھی کہتے ہیں۔ اور اس سے یہ بتایا جاتا ہے کہ ایک قوم دوسری قوم کے بعد آرہی ہے۔ عربی کا ایک محاورہ قرن الشیطان بھی ہے اور اس کے بھی دو معنی ہیں۔ المتبعون لرأیہٖ۔ شیطانی لوگ۔ تسلطہ۔ شیطان کا تسلط (اقرب) فما کانوا یؤمنوا کا جو جملہ اس آیت میں ہے اس کے معنی اردو زبان کے محاوہ کے مطابق یہ ہوں گے کہ انہوں نے ایمان لانے کی طرف توجہ بھی نہ کی۔
تفسیر
شروع دنیا سے قوموں کے بعد قومیں ہلاک ہوتی چلی آئی ہیں۔ ایک مثال نہیں دو نہیں تین نہیں کہ لوگ بھول جائیں۔ قوموں کے بعد قومیں آئیں اور ہلاک کی گئیں پھر کس قدر نادانی ہے کہ کوئی قوم اپنی ترقی اور ثروت پر نازاں ہو اور اپنی تباہی کی ساعت کو بھول جائے۔
اس آیت سے بعض الٰہی قانون معلوم ہوتے ہیں۔ اول یہ کہ عذاب الٰہی ظالم پر آٹا ہے۔ بغیر ظلم کے عذاب نہیں آتا۔ کیونکہ فرماتا ہے کہ جس قدر قومیں پہلے ہلاک ہوئی ہیں ظالم ہو جانے کے سبب سے یعنی دینی یا دنیاوی احکام کو نظرانداز کر دینے کے سبب سے ہلاک ہوئی ہیں۔ دوسرے یہ کہ باوجود ظالم ہونے کے بھی کوئی قرن ہلاک نہیں ہوتی جب تک اس کے پاس رسول نہ آجائیں۔ اور اسے اس کی غلطیوں پر متنبہ نہ کر دیں۔ کیونکہ فرمایا کہ سب قوموں کو ہم نے اسی وقت ہلاک کیا جب کہ ظالم ہوجانے کے بعد ان کے پاس رسول بھی آ گئے۔ اور انہوں نے ان کی بات مانے سے بھی انکار کر دیا۔
کذلک نجزی القوم المجرمین۔ یعنی جب تک کوئی قوم ظلم نہ کرے اور پھر اسے نبی بھیج کر متنبہ نہ کر دیا جائے اس وقت تک ہم کسی قوم پر عذاب نہیں بھیجا کرتے۔ پس اس جگہ بھی رحم پر زور دینا مقصود ہے نہ کہ عذاب پر۔ کیونکہ فرمایا ہم تو کسی قوم کو بدیوں میں مبتلا دیکھ کر ان پر اپنا رحم نبی کی صورت میں نازل کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی بدکرداریوں کے بد نتائج سے محفوظ ہوکر اس نبی کی اتباع کرکے ہمارے انعامات کے وارث ہوں لیکن وہ اس کی مخالفت کے خطرناک جرم کے مرتکب ہو کر اپنے آپ کو عذاب کا مستحق بنا لیتے ہیں۔ تعجب آتا ہے کہ اس زمانہ کے لوگ اپنے منہ سے عذاب کا اقرار کرتے ہیں مگر نبی کے آنے کو تسلیم نہیں کرتے۔
عذاب دو طرح کے ہوتے ہیں (۱) طبعی (۲) شرعی۔ شرعی عذاب کے لئے یہ شرطیں ہیں۔ کہ لوگ ظلم کریں۔ اور نبی مبعوث ہو تب عذاب آوے۔ مگر طبعی عذاب کے لئے یہ شرط نہیں بلکہ جو قوم دنیوی طور پر کمزور اور ترقی کے اسباب سے غافل ہوگی اس کو ہلاک کر دیا جائے گا۔ ان کی ہلاکت کا موجب ان کی دنیوی کمزوری ہو گی نہ کہ خدا کی محبت کی کمی۔
شرعی عذاب کی پہچان اس طرح ہوجاتی ہے کہ اس کے اندر بعض غیرمعمولی باتیں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً عذاب کی صورت اور اس کا رنگ ڈھنگ ایسا ہو جو عام طور سے کبھی طبعی عذاب کی صورت میں نہ پایا جائے۔ مثلاً اس کے متعلق پہلے سے پیشگوئیوں کے ذریعہ سے خبر دی جائے۔ یا غیرمعمولی طور پر قانون قدرت میں انقلاب پیدا ہو مثلاً یک دفعہ زلزلے پر زلزلے شروع ہو جائیں۔ بیماریاں قحط اور دوسری قسم کے مصائب ایک ہی وقت میں جمع ہو جائیں۔ ان صورتوں میں ماننا پڑے گا کہ وہ تغیرات جو دنیا میں ہورہے ہیں شرعی عذاب ہیں اور ضرور کوئی رسول مبعوث ہوا ہے۔
ان شرعی عذابوں کے علاوہ طبعی عذاب ہمیشہ دنیا پر آتے رہتے ہیں۔ پس ان لوگوں کے دھوکے میں نہیں آنا چاہئے جو کہتے ہیں کہ فلاں وقت فلاں قوم تباہ ہوئی۔ ان کی بادشاہت جاتی رہی۔ اس وقت ان میں کون سا نبی آیا تھا۔ حالانکہ قوموں کی تباہی اور بادشاہوں کی بربادی ایک طبعی امر ہے۔ ان لوگوں کا جواب یہ ہے کہ پہلے تم یہ ثابت کرو کہ یہ عذاب غیرطبعی تھا۔ اور پھر بتاؤ کہ اس وقت کوئی نبی نہ تھا۔ مگر یہ بات وہ ہرگز ثابت نہیں کرسکتے۔ یہ امر بھی یاد رکھنا چاہئے کہ عذاب کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ قرن پر آئے۔ یعنی ایک پوری امت پر نازل ہو۔ نہ کہ بعض حصۂ قوم پر۔ افراد یا مجموعہ افراد پر تو ہر زمانہ میں عذاب آتا رہتا ہے۔ حتیٰ کہ نبی کے زمانہ میں بھی اس کی جماعت کے بعض افراد پر عذاب آتا رہتا ہے۔
۱۵ ثُمَّ جَعَلْنٰکُمْ خَلٰٓئِفَ فِی الْاَرْضِ مِنْ بَعْدِھِمْ لِنَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُوْنَO
ترجمہ
پھر ان کے بعد ہم نے تمہیں زمین میں (ان کا) جانشین بنایا تاکہ ہم دیکھیں کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔
۱۵؎ حل لغات
خلائف۔ اور خلفاء لفظ خلیفہ کی جمع ہے۔ اس کے معنی ہیں من یَّخْلُفُ غیرہ ویقوم مقامہ۔ جو کسی کے پیچھے آئے اور اس کی جگہ لے۔ السلطان الاعظم الذی لیس فوقہ امام (اقرب) سب سے بڑا بادشاہ جس پر اور کوئی حکمران نہ ہو۔
تفسیر
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اعمال تو قائم مقام بناتے وقت ہی دیکھ لئے گئے تھے کیونکہ ہر قوم جو دوسری قوم کے بعد آئے گی اور اس کی خلیفہ بنائی جائے گی وہ لازماً پہلوں کی نسبت اچھی ہو گی۔ تبھی تو وہ خلیفہ بنائی گئی۔ اور پہلی کو تباہ کیا گیا۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ قائم مقام قوم بعض اور باتوں میں پہلی سے ادنیٰ ہو مثلاً پہلی قوم فن معماری میں کمال رکھتی ہو بعد میں آنے والی قوم ویسی نہ ہو۔ مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ جس امر میں اسے قائم مقام بنایا گیا ہے اس میں وہ پہلی سے کمزور ہو۔ پس جب ایک قوم کو قائم مقام بنایا ہی اس لئے گیا تھا کہ وہ عمل میں پہلی سے اچھی تھی تو اس کا مطلب کیا ہوا۔ کہ ہم اس لئے جانشین بناتے ہیں کہ دیکھیں تم کیسے عمل کرتے ہو۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ عمل دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ عمل جو انسان کو نعمت کا مستحق بناتے ہیں۔ اور دوسرے وہ عمل جو نعمت کے ملنے کے بعد اس کو قائم رکھنے کے لئے کرنے ضروری ہوتے ہیں۔ کئی طالبعلم طالبعلمی میں ہوشیار ہوتے ہیں مگر جب زندگی کی کشمکشوں میں پڑتے ہیں تو بالکل نکمے ثابت ہوتے ہیں۔ یہی قوموں کا حال ہوتا ہے۔ بعض قومیں شان و شوکت کے ملنے سے پہلے بہت اچھا نمونہ دکھاتی ہیں مگر جب حکومت مل جاتی ہے تو نیکی کے معیار کو قائم رکھنا ان کے لئے مشکل ہو جاتا ہے۔
دوسرے اس جملہ کو اس لئے بھی بڑھایا گیا ہے کہ انسانی اعمال دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک خود عمل صالح اور ایک وہ عمل جو عمل صالح کو قائم رکھتے ہیں۔ اس جملہ کے بڑھانے سے یہ بھی مطلب ہے کہ تمہاری ذاتی نیکیوں کی وجہ سے ہم نے تم کو خلفاء فی الارض بنایا تھا۔ اس کے بعد ہم یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ تم ان اعمال کو کس طرح بجالاتے ہو۔ جو نیکی کے محافظ ہوتے ہیں حق یہی ہے کہ نیک اعمال سے بہت زیادہ مشکل وہ اعمال ہوتے ہیں جو نیکی کو قائم رکھنے والے ہوتے ہیں۔ قوموں کی تباہی کا باعث ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ ترقی کے لئے تو کوشش کرتی ہیں مگر اس کو قائم رکھنے کے لئے کوشش نہیں کرتیں۔ اپنے تقویٰ کا خیال رکھتی ہیں مگر اولاد کے اخلاق کی طرف پوری توجہ نہیں کرتیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کا نیکی کا معیار گرنے لگتا ہے۔ حتیٰ کہ آخر میں لفظ رہ جاتے ہیں اور حقیقت مفقود ہوجاتی ہے۔ اور چونکہ یہ تغیر کئی نسلوں میں ہوتا ہے اس کا احساس بھی پیدا نہیں ہوتا۔ اور آخر قوم تباہی کے گڑھے میں گر جاتی ہے۔ پس اس جملہ میں اسی طرف توجہ دلائی ہے کہ اب ہم دیکھیں گے کہ تم اپنی خلافت کتنی دیر تک قائم رکھتے ہو۔
اگر مسلمان اس بے مثل نکتہ کا خیال رکھتے تو آج ان کا یہ حال نہ ہوتا۔ انہوں نے ایک وقت اپنی اولادوں کی تربیت کے فرض سے کوتاہی کی اور ان کی ناجائز محبت ان پر غالب آگئی یا انہوں نے شادیوں میں احتیاط سے کام نہ لیا اور ایسی عورتوں کو اپنے گھروں میں لائے جو اسلامی تربیت کی قابلیت نہیں رکھتی تھیں اور وہ عظیم الشان عمارت جو صحابہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں تیار ہوئی تھی اپنی بنیادوں پر گر گئی۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ اگر آگے ہی کو وہ قوم جسے خداتعالیٰ نے اسلام کی ترقی کے لئے چنا ہے اس امر کا خیال رکھے تو انشاء اللہ دنیا میں ایک زبردست تغیر پیدا ہوسکتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس فرض کی طرف ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے کلکم راعٍ وکلکم مسئول عن رعیتہ۔ تم میں سے ہر ایک شخص علاوہ اپنی ذات کی ذمہ داری کے بعض دوسرے وجودوں کا بھی ذمہ دار ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے صرف یہی نہیں پوچھے گا کہ تم نے کیا عمل کئے بلکہ یہ بھی پوچھے گا کہ جن کی ذمہ داری تمہارے سر پر تھی انہیں تم نے کس قابل بنایا۔ پس خالی اپنے نفس کی طہارت انسان کے کام نہیں آسکتی۔
۱۶ وَاِذَا تُتْلٰی عَلَیْھِمْ اٰیَاتُنَا بَیِّنٰتٍ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرجُوْنَ لِقَآئَ نَا ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَیْرِھٰذَآاَوْ بَدِّلْہُ ط قُلْ مَا یَکُوْنُ لِیْ اَنْ اُبَدِّلَہٗ مِنْ تِلْقَآئِ ی نَفْسِیْ ج اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰیٓ اِلَیَّ ج اِنِّیْٓ اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍo
ترجمہ
اور جب انہیں ہماری روشن آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو جو لوگ ہمارے ملنے کی امید نہیں رکھتے وہ کہہ دیتے ہیں کہ (اے محمد) تو اس کے سوا کوئی اور قرآن لے آیا اس میں (ہی کچھ) تغیر و تبدل کر دے تو (انہیں) کہہ (کہ یہ) میرا کام نہیں کہ میں اس میں اپنی طرف سے (کوئی) تغیر (وتبدل) کردوں۔ میں (تو) جو (کچھ) مجھ پر وحی (سے حکم نازل) کیا جاتا ہے (فقط) اسی کی پیروی کرتا ہوں۔ اور اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو (اس صورت میں) میں ایک بڑے (ہولناک) دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔
۱۶؎ حل لغات
تلاالکام تلاوۃ قرء ہ۔ یعنی کسی اور کا کلام یا اپنا لکھا ہوا کلام یاد سے یا تحریر سے پڑھ کر سنایا (اقرب) ان الفاظ کا ترجمہ ’’ان پر پڑھی جاتی ہیں‘‘ کرنا اردو محاوہ کے خلاف ہے اور پڑھنے والا اس کا صحیح مطلب نہیں سمجھ سکتا۔ لایرجون لقاء نا کے معنی کے لئے دیکھو۔ یونس آیت نمبر۸ مایکون لی۔ میرے لئے کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔ التلقاء اسم من اللقاء ویتوسع فیہ فیستعمل ظرفا لمکان اللقاء والمقابلۃ فَیُنْصَبُ علے الظّرفیۃ یقال تَوَجّہ تلقاء النار وجلس تلقاء فلان ای حذاء ہ (اقرب) یعنی تلقاء لقاء کا اسم ہے لیکن اس کے معنوں کو وسیع بھی کر لیا جاتا اور اسے مقابل کی جگہ کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس وقت اسے ظرف قرار دے کر نصیب دیتے ہیں۔ کہتے ہیں توجہ تلقاء النار اس نے آگ کی طرف منہ کیا۔ یا جلس تلقاء فلان۔ فلاں شخص کے سامنے بیٹھا۔ جب یہ لفظ نفس کی طرف مضاف ہو تو عِنْد کے معنوں میں آتا ہے کہتے ہیں۔ من تلقاء نفسے ای من عند نفسی۔ یعنی اپنی مرضی سے کام کیا۔ کسی کے مجبور کرنے سے نہیں کیا۔ (اقرب)
تفسیر
اس آیت میں بینات کا لفظ آیات کا حال مؤکد ہے۔ جس کا ترجمہ نعت کی طرح کیا جاتا ہے اور اکثر مقامات پر انبیاء کے ذریعہ سے جو نشانات یا کلام دنیا کو سنایا جاتا ہے اس کے لئے بینات کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ آیات دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک محض آیات۔ دوسری آیات بینات۔ دنیا کا ہر ذرہ ایک آیت ہے۔ کیونکہ عقلاً وہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ میرا پیدا کرنے والا موجود ہے۔ لیکن ہم یہ امر اپنے قیاس سے معلوم کرتے ہیں۔ وہ دلیل خود اس امر کی طرف اشارہ نہیں کرتی۔ کہ میں اس غرض سے پیدا کی گئی ہوں۔ مگر وہ آیات جو انبیاء کی معرفت آتی ہیں ان کے ساتھ یہ امر بھی واضح کر دیا جاتا ہے کہ وہ امور غیبیہ پر بطور دلالت کے نازل کی گئی ہیں۔ اور اصل مقصود ان سے ہستی باری کا ثبوت ، نبیوں کی شہافدت، صفات الٰہیہ کے ظہور کی حقیقت بعثت مابعد الموت کا انکشاف ہے۔ پس چونکہ ان آیات کے متعلق صاف کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ ایمانی امور کے لئے بطور گواہ کے ہیں۔ ان کا نام برخلاف قانون قدرت کی آیات کے آیات بینات رکھا جاتا ہے۔ مثلاً وبائیں ایک آیت ہیں۔ لیکن وہ وباء جس کی نبی پہلے سے خبر دیتا ہے اور لوگوں کو ہوشیار کر دیتا ہے کہ دوسری صداقت کے ثبورت کے طور پر ظاہر ہو گی۔ آیت ہی نہیں بلکہ آیۂ بینہ ہے۔ کہ عام وباء کی نسبت زیادہ وضاحت سے اپنے مقصد کو ظاہر کررہی ہے۔
منکر لوگ ان آیات بینات کو سن کر بجائے فائدہ اٹھانے کے دو مطالبے کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس قرآن کی بجائے اور قرآن لے آؤ۔ دوسرا یہ کہ اگر یہ نہ کر سکو تو کم سے کم اس میں تبدیلی کر دو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ مطالبات ان کے دل کی سختی اور زنگ آلودگی کے سبب سے ہیں۔ کیونکہ ان کے پاس نشانات تو آ چکے ہیں مگر باوجود ان نشانات کے انہوں نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ پس معلوم ہوا کہ ان کا مقصد فائدہ اٹھانا نہیں ہے بلکہ بوجہ اس کے کہ دل ایمان سے خالی ہیں ہنسی اور شرارت مقصود ہے اور چاہتے ہیں کہ نشانات کا جو اثر پبلک پر پڑا ہے اس کو دور کر دیں۔
الذین لایرجون لقاء نا کے جملہ سے صاف ثابت ہے کہ نشانات کو دیکھ کر عوام میں سے بعض کے دل نرم ہو گئے ہیں۔ ان کی اس حالت کو دیکھ کر ائمۃ الکفر کو فکر پڑتی ہے اور وہ ایسی چال چلنا چاہتے ہیں جس سے لوگوں کے جذبات پھر مخالفت میں ابھر پڑیں۔ اور آخر مصلح کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ انسانی فطرت صلح کے طریق کو پسند کرتی ہے۔ اور صلح کے مطالبہ پر امور متنازعہ فیہا کی اہمیت کو بسااوقات نظرانداز کر کے صرف اس امر کو اپنے ذہن میں جما لیتی ہے کہ خواہ کچھ قربانی کرنی پڑے صلح کرلینی چاہئے۔ وہ لوگ بھی یہی چال چلتے ہیں۔ اور درمیانی راہ پر آجانے کی دعوت دیتے ہیں۔ اور اول تو مطالبہ یہ پیش کرتے ہیں کہ اس قرآن کی بجائے کوئی اور قرآن لے آؤ یعنی تم بڑے کام کرنے والے ہو اپنی نئی تعلیم پیش نہ کرو۔ قوم کے لیڈر بن کر اسی کے خیالات کے مطابق کام کرو۔ تو ہم سب لوگ تمہارے پیچھے چلنے کو تیار ہیں۔ اس طرح ملک کا فساد دور ہو جائے گا۔ اور بھائی سے بھائی جدا نہ ہوگا۔ اور اگر تم ایسا پسند نہیں کرتے تو دوسری تجویز ہم یہ پیش کرتے ہیں کہ کم سے کم ایسے مضامین کو بیچ میں سے اڑا دو جن سے تمہاری قوم کو رنج ہوتا ہے۔ مثلاً شرک کے خلاف تعلیم یا قومی رسوم کے خلاف تعلیم۔ اس تجویز کے پیش کرتے وقت آئمۃ الکفر خوب جانتے ہیں کہ آپ ان امور کو تو مان نہیں سکتے پس لوگوں کے جذبات پھر بھڑک اٹھیں گے کہ یہ کس قدر تنگ خیال آدمی ہے۔ کہ قوم اور ملک میں اتحاد پیدا کرنے کے لئے اپنے بعض خیالات چھوڑنے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتا۔ اور یہ بھول جائیں گے کہ بے شک قوم اور ملک ایک اہم چیز ہیں لیکن سچائی ان سے بھی اہم ہے۔ اور یہ بھی خیال نہ کریں گے کہ قوم کا تنزل تو ان سچائیوں کے انکار کی وجہ سے ہے پس وہ صلح کس فائدہ کی۔ جس میں ان سچائیوں کو چھپایا جائے جن پر قومی ترقی کا انحصار ہے۔ اور اس طرح قوم کو ہمیشہ کے لئے کامیابی کے راستہ سے پھرا دیا جائے۔ آہ یہ خیال ہمیشہ تنزل کی طرف جانے والی اقوام میں راسخ ہوتا ہے کہ انہیں ان کے موجودہ نظام کو بدلے بغیر ترقی نصیب ہو جائے۔ اور وہ ہمیشہ مصلحین کے خلاف یہی رویہ اختیار کرتی ہیں کہ قومی صلح کو باقی سب امور پر ترجیح دیتی ہیں۔ حالانکہ اس سے زیادہ جھوٹ اور کوئی نہیں ہوتا کہ ایک گری ہوئی قوم میں حقیقی صلح ہو۔ قرآن کریم فرماتا ہے قلوبھم شتی۔ ان کے دل پھٹے ہوئے ہیں اس کے باوجود وہ سب فساد کا الزام اپنے وقت کے مصلحوں پر لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہوں نے فساد ڈال دیا۔ اور قومی صلح کے نام سے صداقتوں کی قربانی میں اخفاء کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جسے کوئی راست باز انسان قبول نہیں کرکستا۔ اور اس سے دشمنانِ حق کو اس کے خلاف لوگوں کو بھڑکانے کا موقع مل جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح آج کل مسلمانوں میں ہو رہا ہے۔ مگر افسوس کہ باوجود قرآن کریم میں اس حقیقت کے واضح کر دینے کے وہ اپنی حالت کو سمجھتے نہیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے۔
اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ائمۃ الکفر کی اس تدبیر کے جواب میں ارشاد فرماتا ہے کہ تو ان سے کہہ دے کہ میں اپنی طرف سے اس تعلیم کو کیسے بدل سکتا ہوں۔ تم جانتے ہو کہ میرا یہ دعویٰ نہیں کہ میں اپنی عقل سے اس تعلیم کو پیش کرتا ہوں۔ اگر میری عقل کا سوال ہوتا تو بے شک کہا جاسکتا کہ ایک فرد کی عقل کو قوم کی عقل کے تابع کر دیا جائے مگر یہ تو اللہ تعالیٰ کا تجویز کردہ نسخہ ہے۔ اس میں تبدیلی نسخہ کی غلطی کی وجہ سے تو ہو نہیں سکتی ہاں صرف اس طرح ہوسکتی ہے کہ تم لوگ اپنی حالتوں کو بدل لو۔ اس فقرہ میں اس بات کی طرف بھی ایک لطیف اشارہ فرمایا ہے کہ الٰہی تعلیم انسانی حالت کے مطابق ہوتی ہے۔ اور وہی اصلاح اور علاج کا بہترین ذریعہ ہوتی ہے۔ اس لئے فرمایا کہ اگر میں اسے اپنے پاس سے بدل دوں تو اس بات کا بہت بڑا نقصان ہو گا کیونکہ صرف یہی تعلیم تمہاری اصلاح کرسکتی ہے۔ پس اس میں تبدیلی کرنا یقینا اصلاح نہیں ہوگا بلکہ تکلیف دہ ہوگا دوسرے اس سے یہ بھی مرا دہوسکتی ہے کہ اس میں جو تمہاری تباہی، بربادی اور عذاب کی خبریں دی جاتی ہیں اور تم انہیں ناپسند کرتے ہو اور انہیں بدلنے کے لئے کہتے ہو جب تم میں تبدیلی پیدا ہو جائے گی تو یہ تمام خبریں خود بخود بدل جائیں گی۔ اور اس وقت تم کو ترقی، کامیابی اور غلبہ کی بشارات کا وارث بنا دیا جائے گا۔ گویا یہ خبریں تب ہی بدلیں گی جب تمہاری حالت بدلے گی۔ میرا کام نہیں کہ ان کو خود بدلوں۔
دوسرے معنی یہ ہیں کہ میں اپنے پاس سے نہیں بدل سکتا۔ جب تک خدا نہ بدلے۔ کیونکہ میں تو صرف وحی الٰہی کی پیروی کرنے والا ہوں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ کیا نبی وحی کے بغیر کوئی کام نہیں کرتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بغیر کے کرتا بھی ہے اور نہیں بھی کرتا۔ جب ہم کہتے ہیں کہ وہ بغیر وحی کے کوئی کام نہیں کرتا تو اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ وہ محبت الٰہی میں اس قدر گداز ہوتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ اسے وحی الٰہی سے ہی بعض کاموں میں عقل سے کام لینے کا حکم نہ دے تو وہ کچھ بھی بغیر وحی کے نہ کرے۔ لیکن چونکہ وحی الٰہی ہی اسے کہتی ہے کہ وہ استنباط اور استخراج کے طریقے کو جاری رکھے اس لئے وہ عقل سے بھی کام لیتا ہے۔ اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ نبی استنباط سے کام نہیں لیتا صرف وحی کا ہی تابع ہوتا ہے اور چونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت استنباط بھی کرتا ہے اس لئے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ انستباط سے بھی کام لیتا ہے لیکن یہ ہرگز درست نہ ہوگا کہ ہم یہ سمجھ لیں کہ نبی جو کچھ کہتا یا کرتا ہے صرف وحی سے کہتا اور کرتا ہے۔ کیونکہ اس طرح ان اجتہادی غلطیوں کا جو انبیاء سے ہوتی رہتی ہیں کوئی جواب نہ ہوگا۔ اور نبی کو نعوذباللہ من ذلک خداتعالیٰ کی وحی کے خلاف عمل کرنے والا سمجھنا پڑے گا۔ جیسے مثلاً یہ آیت عفاللہ عنک لم اذنت لھم حتی یتبین لک الذین صدقوا وتعلم الکاذبین (توبہ ع۷) اللہ تعالیٰ تجھ پر فضل کرے تو نے کیوں (تبوک کے غزوہ میں جانے سے اجازت مانگنے والوں کو) اجازت دی جب تک کہ تجھ پر سچوں کی حقیقت نہ ظاہر ہوجاتی اور جھوٹوں کا جھوٹ نہ کھل جاتا۔ اب اگر یہ سمجھا جائے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر اک کام خداتعالیٰ کی وحی سے کرتے تھے تو نعوذباللہ یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس موقع پر آپ نے وحی الٰہی کے خلاف کام کیا۔
ہاں اس آیت کے ایک اور معنی بھی ہوسکتے ہیں اور وہ یہ کہ اس جگہ قرآن مجید کا ذکر ہے اور انہوں نے ائت بقران غیرھذا ہی کہا ہے اس لئے الا مایوحی الی بھی قرآن مجید کے متعلق تمام باتیں وحی الٰہی سے کرتا ہوں اور اس میں خود کوئی دخل نہیں دیتا۔ لہٰذا میں کوئی تبدیلی یا تغیر نہیں کرسکتا۔ اس آیت سے ان لوگوں کا رد بھی ہو جاتا ہے جو کہتے ہیں کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کا ہر سورۃ سے پہلے لکھنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ہے نہ کہ وحی سے۔ یا ترتیب قرآن اور سورتوں کے نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود رکھے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ آپ کی طرف سے فرماتا ہے کہ قرآن مجید کے متعلق میں ہر بات کو وحی سے ہی طے کرتا ہوں اور یہ کہنا کہ بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو وحی الٰہی سے ایسا کرتے تھے مگر صحابہ نے اپنی مرضی سے بعض تغیرات کر دیئے بالکل ہی عقل کے خلاف ہے۔ کیونکہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حق نہیں تھا تو صحابہ کو کیسے یہ حق حاصل ہو سکتا تھا۔ اور وہ سوائے اس کے کہ نعوذباللہ انہیں مرتد قرار دیا جائے کب ایسا کرسکتے تھے۔
اس آیت پر مسیحی مصنف اعتراض کرتے ہیں کہ ان اتبع الا مایوحی الی اور مایکون لی ان ابدلہ میں نسخ قرآن کے مسئلہ پر جو اعتراض پڑتا تھا اس سے بچنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اور جواب یہ دیا گیا ہے کہ اس کا مجھ پر الزام نہیں آسکتا۔ یہ تو جو کچھ ہوتا ہے خداتعالیٰ کے حکم سے ہوتا ہے۔
لیکن یہ خیال بالکل فضول ہے کیونکہ اس جگہ پر نسخ کا جواز نہیں نکلتا۔ بلکہ یہ آیت تو بتاتی ہے کہ نسخ قرآن مجید میں کبھی ہوا ہی نہیں کیونکہ کفار جو بدلہٗ کا مطالبہ کرتے تھے ان کی غرض اس سے یہ تو نہ تھی کہ وہ تبدیلی کے بعد مان لیں گے۔ بلکہ ان کی صرف یہ غرض تھی کہ بعد میں اعتراض کریں کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا کلام ہے جبھی تو حسب منشاء تبدیلی کرلیتے ہیں اور اگر نہ بدلیں گے تو قوم کو اکسائیں گے کہ یہ شخص قوم کی صلح اور اتحاد کو پسند نہیں کرتا۔ لیکن اگر پہلے ہی قرآن کریم میں نسک ہوا کرتا تھا تو انہیں اس مکارانہ تدبیر کے اختیار کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ وہ پہلے نسخ جو قرآن کریم میں ہو چکے تھے ان پر اعتراض کر دیتے۔ پس یہ آیت اس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن مجید میں نسخ بالکل نہیں ہوا۔
یہ عجیب بات ہے کہ وضاعوں نے ایسی روایات تو بنالیں کہ فلاں آیت اب نہیں ملتی یا فلاں سورۃ کا پتہ نہیں چلتا لیکن ایسی روایات بنانے کی طرف کسی کا ذہن ہی نہیں گیا کہ قرآن مجید کی فلاں آیت منسوخ ہو گئی اور اس کی جگہ فلاں آیت رکھی گئی ہے۔
انی اخاف ان عصیت ربی عذاب یوم عظیم کے یہ معنی نہیں کہ اگر مجھے ڈر نہ ہتا کہ عذاب عظیم پہنچے گا تو میں تبدیلی یا تغیر کر دیتا کیونکہ آیت کے یہ الفاظ نہیں کہ مجھ پر عذاب نازل ہوگا۔ اس سے میں ڈرتا ہوں۔ بلکہ یہ فرمایا ہے کہ اگر میں ایسا کروں تو یوم عظیم کا عذاب آجائے گا۔ اور یوم عظیم کا عذاب قومی عذاب ہوتا ہے کیونکہ وہ وسیع ہوتا ہے اور دنیا پر ایک مستقل اثر چھوڑ جاتا ہے۔ پس اس آیت میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے جو تعلیم آتی ہے وہ خود لوگوں کے فائدہ کے لئے ہوتی ہے۔ اور تمام ترقی اس سے وابستہ ہوتی ہے۔ پس اگر اس تعلیم میں تبدیلی کر دی جائے تو اس کا نقصان خود ملک اور قوم کو پہنچے گا اور قوم کی تباہی کا دن آجائے گا۔ پس اس کے بدلنے میں قوم کی خیرخواہی نہیں ہے۔ بلکہ اس کے قائم کرنے میں قوم اور ملک کی خیرخواہی ہے۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی بیمار ڈاکٹر سے کہے کہ اس نسخہ کی فلاں دوائی بدل دو تب میں کھاؤں گا تو ڈاکٹر کہے کہ میں ڈرتا ہوں کہ یہ نسخہ بدلنے سے تکلیف ہوگی۔ تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اگر تکلیف کا خیال نہ ہوتا تو میں اس کو بدل دیتا بلکہ اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ نسخہ یہی مفید ہے۔
۱۷ قُلْ لَّوْ شَآئَ اللّٰہُ مَاتَلَوْتُہٗ عَلَیْکُمْ وَلَآ اَدْرٰلکُمْ بِہٖ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ ط اَفَلَا تَعْقِلُوْنَo
ترجمہ
(اور) تو (انہیں) کہہ کہ اگر اللہ (تعالیٰ) کی (یہی) مشیت ہوتی (کہ اس کی جگہ کوئی اور تلعیم دی جائے) تو میں اسے پڑھ کر تمہیں نہ سناتا اور نہ وہ (ہی) تمہیں اس (تعلیم) سے آگاہ کرتا۔ چنانچہ اس سے پہلے میں ایک عرصہ دراز تم میں گذار چکا ہوں۔ کیا پھر (بھی) تم عقل سے کام نہیں لیتے۔
۱۷؎ حل لغات
درٰی یَدْری دَرْیا ودرایئتر علمہ۔ دری کے معنی ہوتے ہیں۔ اسے جان لیا (اقرب) ادری بہ اعلمہ بہ۔ اسے اس کا علم دیا۔ (اقرب) لبث بالمکان یلبث لبثا ولبثا ولباثا۔ مکث و اقام۔ مکان میں رہا یا ٹھہرا۔ قد کا لفظ جب ماضی پر آئے تو اس کے معنی کو حال کے قریب کر دیتا ہے۔ پس اس آیت کے یہ معنی ہوئے کہ میں تم میں نبوت کے زمانہ تک رہتا چلا آیا ہوں کہیں غائب نہیں ہوا۔
تفسیر
یعنی جیسا کہ تم اس کے بدلنے کے لئے کہتے ہو اگر اس کا بدلنا مفید ہوتا اور دوسرا نسخہ کام آسکتا تو وہ نسخہ پہلے ہی کیوں نہ آجاتا۔ اس کو بھیجنے کی کیا ضرورت تھی۔ اس آیت سے نسخ کے عقیدہ پر سخت حملہ ہوتا ہے۔ نسخ صرف احکام میں ہوسکتا ہے۔ وہ بھی صرف اس لئے کہ بعض اوقات ایک حکم مفید ہوتا ہے۔ بعض اوقات دوسرا۔ لیکن اگر حالات کے بدلنے کے بغیر نسخ ہو جائے تو ماننا پڑے گا کہ وہ پہلی تعلیم اپنی ذات میں مفید نہ تھی۔ اور اس کا پیش کرنا ہی غلط تھا۔ اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہلواتا ہے کہ تو ان سے کہہ دے کہ اگر تعلیم مفید نہ ہوتی بلکہ کوئی اور تعلیم تمہاری حلت کی اصلاح کرسکتی تو خداتعالیٰ کی طرف سے حکم پاکر میں اس تعلیم کو کیوں تمہیں سناتا اور خداتعالیٰ کیوں یہ تعلیم بھیجتا۔
فقد لبثت فیکم عمرا من قبلہ۔ میں ایک بہت بڑا اصل مدعی نبوت کی صداقت کے پہچاننے کا بیان کیا گیا ہے۔ بلکہ ہر شخص کے حالات کی پرکھ اس اصل پر ہوسکتی ہے۔ بشرطیکہ اس کے معنوں کو ناجائز وسعت نہ دے دی جائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ وہ نبوت یا قرآن کریم کے نزول کے زمانہ سے پہلے زمانہ کو بطور شہادت کفار کے سامنے پیش کریں کہ اس میں میری زندگی صداقت کا ایک اعلیٰ نمونہ رہی ہے۔ اور اس زمانہ اور نبوت کے زمانہ میں کوئی وقفہ نہیں پڑا۔ میں تمہاری نظروں سے غائب نہیں رہا۔ کہ تم خیال کرو کہ اس عرصہ میں میں بگڑ گیا ہوں گ۔ جب تم تسلیم کرتے ہو کہ عمر بھر میں پکا راستباز رہا ہوں اور امین کہلاتا رہا ہوں تو ان اعمال کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے انعام ملنا چاہئے تھا نہ یہ کہ میں یکدم ایک ہی رات میں جھوٹا اور فریبی ہو جاتا۔ کس طرح ممکن ہے کہ جو شخص شام تک سب سے بڑا سچا ہو صبح ہونے تک دنیا کا سب سے بڑا جھوٹا ہو جائے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے والے سے زیادہ جھوٹا اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ جو شخص بندوں پر جھوٹ نہیں باندھتا وہ خدا تعالیٰ پر کس طرح جھوٹ باندھ سکتا ہے۔
انسانی فطرت کا قاعدہ ہے کہ اس میں انتہائی تغیر خواہ نیکی کی طرف ہو یا بدی کی طرف یک لخت نہیں ہوتا بلکہ ایسے تغیر کے لئے ایک عرصہ چاہئے۔ لیکن آیت کے الفاظ بتارہے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوئے اور آپ کی تمام عمر آپ کے ہم وطنوں کے لئے ایک کھلی کتاب کی طرح تھی۔ پس اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کو مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ تم ہمارے رسول کی طرف جھوٹ تو وہ منسوب کرتے ہو جو سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ یعنی خدا پر افترا کرنا۔ لیکن اس کے نشوونما کے لئے کسی عرصہ کا ثبوت نہیں دے سکتے بلکہ اس کے برخلاف تم خود تسلیم کرتے ہو کہ یہ رسول دعویٰ نبوت کی گھڑی تک تمہارے درمیان رہتا رہا ہے اور اس گھڑی تک تم اس کو نیک پاک امین اور راستباز ہی قرار دیتے رہے ہو۔ پھر تم کس طرح کہہ سکتے ہو کہ یہ شخص اپنے پاس سے جھوٹ بنا کر تم کو یہ تعلیم دے رہا ہے۔
من قبلہ کہہ کر یہ بتایا گیا ہے کہ دعوائے نبوت کے بعد کے اعتراض قابل التفات نہیں۔ کیونکہ اس وقت مخالفت کے باعث دشمنی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس نکتہ کو ہرقل بادشاہ روم نے بھی خوب سمجھا تھا۔ کیونکہ جب اس نے ابوسفیان سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چال چلن کے متعلق شہادت طلب کی تو اس سے یہی مطالبہ کیا تھا کہ آپ کا چال چلن اس دعویٰ سے پہلے تمہارے نزدیک کیسا تھا۔
افلاتعقلون۔ کہہ کر بتایا ہے کہ اس کے خلاف بات کہنا عقل کے خلاف ہے کیونکہ یہ بات علم النفس سے ثابت ہے کہ فوری تغیر دو اسباب کے بغیر نہیں ہوتے یا تو جسمانی تغیر کے سبب سے جیسے کہ کسی انسان کے دماغ کو چوٹ وغیرہ کے ذریعہ سے کوئی صدمہ پہنچ جائے جس سے اس کا حافظہ جاتا رہے۔ یا اخلاق بگڑ جائیں۔ یا اخلاق کی اصلاح ہو جائے۔ یا پھر کسی عظیم الشان روحانی تغیر سے یکدم تغیر ہوتا ہے۔ جیسا کہ مثلاً بعض دفعہ کسی انسان کو کوئی عظیم الشان صدمہ پہنچتا ہے تو اس کی وجہ سے مایوسی کا پہلو اختیار کرکے بدی کی طرف جھک جاتا ہے۔ یا کسی عظیم الشان صداقت کا انکشاف ہوتا ہے تو اس کی وجہ سے یک دم نیکی طرف راغب ہو جاتا ہے۔ ان دو تغیرات کے بغیر انسان میں فوری تغیر نہیں ہوتا۔ بلکہ تدریجی تغیرات ہوتے ہیں۔ لیکن تاریخ سے ہرگز ثابت نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قسم کا کوئی واقعہ پیش آیا ہو۔ نہ جسمانی طور پر نہ روحانی طور پر۔ کیونکہ نبوت سے ایک عرصہ پہلے آپ دنیا کو ترک کرکے علیحدہ عبادت کرنے کے عادی تھے۔ اور اپنے اہل وطن سے مایوس نہ تھے۔ بلکہ ان کے ہم درد اور خیر خواہ تھے۔ اور ان کی ترقی کے لئے کوشش کرتے تھے۔ پس ان حالات میں بالکل خلاف عقل ہوگا اگر یہ کہا جائے کہ کل تک تو بے شک یہ شخص نیکی کا ایک اعلیٰ نمونہ تھا مگر آج بدترین جھوٹا انسان ہو گیا ہے۔
اس زمانہ کے مامور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس آیت سے استدلال کیا ہے اور افسوس کہ آپ کے مخالف بھی ویسی ہی باتوں میں مشغول رہے ہیں۔ جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف۔ کاش لوگ غور کرتے کہ وہی شخص جو بدترین دشمنوں کے نزدیک بھی دعوائے مسیحیت سے پہلے اسلام کا سب سے بڑا خادم اور راستبازی کا ایک بے نظیر نمونہ تھا وہ یک دم اس قدر کیوں بگڑ گیا کہ اس نے خداتعالیٰ پر افتراء کرنا شروع کر دیا۔
قرآن شریف کی اس دلیل کے متعلق بعض تاریخی واقعات حسب ذیل ہیں۔ ترمذی کتاب التفسیر میں آتا ہے کہ ابوجہل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو ہوئی جس میں ابوجہل نے کہا انا لانکذبک بل نکذب بماجئت بہ۔ ہم تجھ کو جھوٹا قرار نہیں دیتے بلکہ اس تعلیم کی تکذیب کرتے ہیں جو تو لے کر آیا ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ نبوت کے دعوے کے بعد بھی مخالفین کو یہ دلیری نہ تھی کہ بعثت سے پہلے زمانہ کے متعلق آپ پر کوئی الزام لگائیں۔ بلکہ شروع شروع میں آپ کو جھوٹا کہنے سے پرہیز کرتے تھے۔ بعد میں آہستہ آہستہ جھوٹا کہنے لگ گئے۔
نضر ابن الحارث کا واقعہ لکھا ہے (اور یہ ان نو۹ دشمنوں میں سے ہے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا منصوبہ کیا تھا) کہ ایک دفعہ کفار آپس میں منشورہ کررہے تھے کہ حج کے موقعہ پر باہر سے آنے والے لوگوں کو ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کیا کہیں گے۔ ایک نے ان میں سے کہا کہ ہم کہہ دیں گے یہ شخص جھوٹا ہے تو النضر بن الحارث کھڑا ہو گیا اور جوش کے ساتھ کہا قد کان محمدؐ فیکم غلاما حدثًا ارضا کم فیکم واصدقکم حدیثا واعظمکم امانَۃً حتّٰی اذا رأیتم فی صدغیہ الشیب وجاء کم بما جاء کم بہ قلتم ساحرٌ لا واللہ ماھو بساحر۔ یعنی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) تمہارے درمیان جوان ہوا۔ اس کے اخلاق پسندیدہ تھے۔ تم میں سب سے زیادہ سچا تھا۔ نہایت امین تھا۔ وہ اسی حالت میں رہا۔ یہاں تک کہ تم نے اس کی کنپٹیوں میں سفید بال دیکھے۔ یعنی وہ ادھیڑ عمر کو پہنچ گیا۔ اس وقت جب اس نے اپنی تعلیم کو تمہارے سامنے پیش کیا تو تم کہنے لگے جھوٹا ہے جھوٹا ہے۔ خدا کی قسم وہ جھوٹا نہیں ہے۔ یعنی لوگ ہرگز تسلیم نہیں کریں گے کہ وہ جھوٹا ہے۔ (شفاء قاضی عیاض)
اس روایت میں کئی لطیف باتیں بیان ہوئی ہیں۔ اول یہ کہ اس میں ساری عمر پر بحث کی گئی ہے۔ یعنی جوانی سے لے کر ادھیڑ عمر تک بچپن کے زمانہ کو چھوڑ دیا ہے۔ کیونکہ اس پر کوئی عقلمند اعتراض ہی نہیں کیا کرتا۔ دوسری خوبی اس میں یہ ہے کہ آپ کے اخلاق اور آپ کی خصوصیات تفصیلاً بیان کی گئی ہیں۔ تیسری خوبی یہ ہے کہ ایک ایسے دشمن کی طرف سے روایت ہے کہ جو اس کے بعد آپ کے قتل کے واقعہ میں شامل ہوا اور کفر کی حالت میں ہی مارا گیا۔ چوتھی خوبی اس میں یہ ہے کہ اس سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا کیسا گہرا نقش ان کے دلوں پر تھا۔ کہ ایک دشمن اپنے گھر میں ایسا فقرہ کہتا ہے کہ جو حقیقت کے لحاظ سے ابوبکرؓ جیسے انسان کے منہ سے نکلنا چاہئے۔ یعنی لا واللہ ماھو بساحر معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاقی نقش اس ے دل پر غالب آگیا۔ اور اسکی عداوت دب گئی۔ اور وہ مجبور ہو گیا کہ اس صداقت کا اس قدر پرزور الفاظ میں علانیہ اقرار کرے۔
بخاری باب بدرالوحی میں حضرت خدیجہؓ کا قول آتا ہے۔ کلاواللہ مایخزیک اللہ ابدا انک لتصل الرحم وتحمل الکل وتکسب المعدوم وتقری الضیف وتعین علی نوائب الحق۔ کہ اللہ تجھ کو رسوا نہ کرے گا۔ کیونکہ تو صلہ رحمی کرتا اور لوگوں کے بوجھ اٹھاتا، نایاب خوبیوں کو پیدا کرتا، مہمان نوازی کرتا اور مصیبت زدوں کی مدد کرتا ہے۔ یہ شہادت آپ کی پہلی زندگی کے متعلق آپ کی بیوی کی ہے جو انسان کے اخلاق کی بہترین گواہ ہوا کرتی ہے۔
پھر بخاری میں ابوسفیان سے روایت آتی ہے کہ جب ہرقل کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تبلیغی خط پہنچا تو اس نے تلاش کروایا کہ عرب کا کوئی آدمی ملے جس سے ہم اس مدعی کے حالات دریافت کریں۔ آخر ابوسفیان اور اس کا قافلہ جو تجارت کے لئے وہاں گیا ہوا تھا دربار میں حاضر کیا گیا۔ ہرقل نے ابوسفیان کے ساتھیوں کو اس کے پیچھے کھڑا کر دیا اور کہا کہ اگر یہ جھوٹ بولے تو فوراً بتا دینا۔ اس سلسلہ گفتگو میں ہرقل نے ابوسفیان سے پوچھا فھل کنتم تہتمونہ بالکذب قبل ان یقول ماقالہ قلت لا۔ کہ کیا تم الوگ اس کے دعوے سے پہلے اسے جھوٹا سمجھتے تھے۔ ابوسفیان کہتا ہے میں نے کہا نہیں۔ ایک روایت میں ابوسفیان نے ذکر کیا ہے کہ میرا دل چاہتا تھا کہ اس جگہ کچھ جھوٹ بول دوں مگر پھر ڈرا کہ ساتھی اس جھوٹ کا اظہار کر دیں گے۔ (بخاری باب بدء الوحی)
اسی طرح جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو انذر عشیرتک الاقربین (شعراء آیت ۲۱۷) کا حکم ہوا تو آپ پہاڑ کے اوپر چڑھ گئے۔ اور تمام قبائل کو جمع کرکے فرمایا ارئیتکم لواخبرتکم ان خیلا بالوادی ترید ان تغیر علیکم اکنتم مصدقی قالوا نعم ماجرینا علیکم الاصدقا (بخاری کتاب التفسیر سورہ شعراء) آپ نے فرمایا کہ اگر میں تم سے یہ کہوں کہ کوہ ابوقبیس کے پیچھے ایک لشکر ہے جو تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا تم میری بات مان لو گے؟ انہوں نے کہا ہاں۔ کیونکہ ہم نے جب بھی آپ سے معاملہ پڑا ہے آپ کو سچا ہی پایا ہے۔ مکہ کے حالات سے باخبر لوگ جانتے ہیں کہ آپ کا یہ مطالبہ بڑا سخت تھا کیونکہ مکہ کے لوگوں کے جانور وادی میں چرا کرتے تھے۔ اور وہ ایسا علاقہ ہے کہ اس میں لشکر کا چھپ رہنا ناممکن ہے۔ پس کفار کا کہنا کہ اس ناممکن بات کو بھی تم اگر ہم سے بیان کرو گے تو ہم تمہیں سچا ہی قرار دیں گے۔ بتاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ صرف کفار سچا کہا کرتے تھے بلکہ وہ آپ کی طرف جھوٹ منسوب کرنا ناممکن قرار دیتے تھے۔ ایسا ہی ایک اور شدید دشمن آپ کا امیہ ابن خلف تھا۔ اس کا یہ قول ہے واللہ مایکذب محمدؐ اذا حدث خدا کی قسم جب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) بات کرتے ہیں تو سچ ہی کہتے ہیں جھوٹ نہیں بولتے۔ (بخاری باب علامات النبوۃ) یہ بعض ر وایات میں جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فقد لبثت فیکم عمرا کا دعویٰ واضح ہو جاتا ہے۔
بعض مسیحی مصنفوں نے اس آیت پر اعتراض کیا ہے۔ چنانچہ ریورنڈ ویری صاحب جو ان میں سے قرآن کے مفسر ہیں اس آیت کے نیچے سیل (ایک دوسرا انگریز جو قرآن کا مترجم تھا) کا حوالہ دے کر لکھتے ہیں کہ اس نے لکھا ہے کہ جب اس عمر تک میں تمہارے اندر رہا ہوں اور نہ میں نے کسی سے پڑھا نہ علماء کی مجلس میں بیٹھا اور نہ کبھی شعر یا خطبہ کہا تو اب اس بڑھاپے کی عمر میں میری نسبت کس طرح خیال کیا جاسکتا ہے کہ یہ عبارتیں میری اپنی تصنیف ہیں۔ اس پر پادری ویری صاحب اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ (۱) کیا یہ عجیب بات نہیں کہ علیٰؓ کے ساتھ ایک ہی گھر میں پل کر علی تو تعلیم پائے مگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نہ پائیں۔ دوم کیا یہ تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ سالوں تک ایک اہم تجارتی کام کرنے کے باوجود انہیں لکھنا نہ آتا ہو۔ سوم آخری سالوں میں آپؐ یقینا پڑھنا جانتے تھے۔ کیونکہ حدیث میں آتا ہے کہ آپؐ نے حضرت معاویہ جو آپ کے کاتبوں میں سے ایک کاتب تھے حکم دیا کہ ’’ب‘‘ سیدھی ڈالو۔ اور ’’س‘‘ کے دندانوں کو واضح کرو۔ چہارم انہوں نے اپنی وفات سے پہلے قلم دوات منگائی تھی۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لکھنا جانتے تھے۔ اب سوال یہ ہوتا ہے کہ یہ فن کتابت انہوں نے کب سیکھا تھا۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ خدا نے انہیں اسی طرح سکھایا تھا جس طرح الہام سکھایا تھا۔ یعنی الہاماً لکھنا پڑھنا بتایا تھا۔ اور وہ اس کی سند میں اقرأ باسم ربک الذی خلق کو پیش کرتے ہیں۔ یہ لکھ کر ویری صاحب کہتے ہیں کہ یہ رائے کہ وہ لکھنا پڑھنا جانتے تھے تو ان کی رائے ہے اور اس آیت سے ثابت ہے کہ آپ کو پڑھنا لکھنا آتا تھا۔ لیکن یہ امر یہاں سے نہیں نکلتا کہ ان کو یہ علم معجزانہ طور پر سکھایا گیا تھا۔ اور نہ یہ نکلتا ہے کہ اس سے پہلے وہ لکھنا پڑھنا نہ جانتے تھے۔ پھر ویری صاحب لکھتے ہیں۔ اگر کوئی یہ پیش کرے کہ آپ لکھنے کے لئے کاتب رکھا کرتے تھے تو اس دلیل سے ثابت نہیں ہوتا کہ آپ کو لکھنا نہ آتا تھا۔ کیونکہ کاتبوں کا رکھنا اس وقت کے بڑے بڑے عالموں میں رائج تھا۔ پھر پادری ویری صاحب خود ہی سوال اٹھاتے ہیں کہ پھر یہ خیال کہاں سے پیدا ہو گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو لکھنا نہ آتا تھا۔ اس کا جواب وہ یہ دیتے کہ اس کی وجہ یہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے قرآن مجید میں النبی الامی آتا ہے۔ اس الامی کے لفظ سے مسلمانوں کو دھوکا لگا ہے۔ کہ آپ ان پڑھ تھے۔ حالانکہ اس لفظ کے استعمال کی وجہ یہ تھی کہ یہود عربوں کو اُمّی کہا کرتے تھے۔ اس لئے النبی الامی کے معنی قرآن میں یہ تھے کہ غیر اسرائیلی اور غیر یہودی نبی۔ پھر وہ لکھتے ہیں کہ یہ جو غلط فہمی ہوئی کہ آپ امی (ان پڑھ) ہیں اس سے آپ کے دعویٰ کے پھیلنے میں بڑی مدد ملی۔ کیونکہ یہ قرآن کریم کے معجز نما ہونے کی دلیل بن گیا۔ حالانکہ مجموعی نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ بچپن سے ہی پڑھے ہوئے تھے۔
یہ ویری صاحب کے اعتراضات کا خلاصہ ہے۔ اب ان کا جواب حسب ذیل ہے۔ (۱) آیت کی تفسیر میں میں بتاچکا ہوں کہ اس آیت میں آپ کے پڑھنے لکھنے کی طرف اشارہ نہیں۔ بلکہ پاکیزہ زندگی کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ سیاق و سباق سے ظاہر ہے۔ کفار کا یہ سوال نہ تھا کہ آپ اس کتاب کی تحریر کو بدل دیں۔ بلکہ یہ مطالبہ تھا کہ اس کی تعلیم کو بدل دیں۔ اور جواب میں خداتعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ اسے لکھنا نہیں آتا بلکہ یہ کہا ہے کہ خداتعالیٰ چاہتا تو اس تعلیم کو یہ رسول پیش نہ کرتا اور خداتعالیٰ اس تعلیم کو نازل نہ کرتا۔ پس اس جگہ لکھنے یا نہ لکھنے کا سوال ہی نہیں۔ نہ کفار نے اس جگہ یہ سوال کیا ہے۔ کہ یہ تعلیم تم اپنے ہاتھ سے لکھتے ہو۔ کہ اس کے جواب میں لکھنے کا سوال اٹھایا جاتا۔ ان کا مطالبہ تو یہ تھا کہ اس تعلیم کو بدل دو اور ان کی غرض یہ تھی کہ اگر یہ بدل دیں گے تو ان کا جھوٹا ہونا ثابت ہوگا نہ بدلیں گے تو ہم قوم کو جوش دلائیں گے کہ دیکھو قومی اتحاد کے لئے یہ اتنی قربانی بھی نہیں کرسکتا۔ پہس جب آیت کے وہ معنی ہی نہیں جو پادری صاحب نے سمجھے ہیں تو اعتراض خودبخود ہی باطل ہو گیا۔ لیکن بفرض محال اگر یہ ہی سمجھ للیا جائے کہ اس آیت میں آپ کے علم کتابت کے جاننے یا نہ جاننے کا سوال اٹھایا گیا ہے تو بھی پادری صاحب کے اعتراض فضول اور بودے ہیں۔
پہلی دلیل کہ حضرت علیؓ کے ساتھ ایک ہی گھر میں پل کر کس طرح ممکن تھا کہ علیؓ تو تعلیم پائیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نہ پائیں کوئی دلیل نہیں۔ اور صرف اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ریورنڈ ویری صاحب تاریخ سے بالکل ناواقف ہیں۔ جو لوگ تاریخ کا تھوڑا سا بھی علم رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عمر میں قریباً انتیس۲۹ سال کا فرق تھا۔ اس قدر فرق جن کی عمر میں ہو ان کی نسبت یہ کہنا کہ وہ ایک ساتھ ایک گھر میں تربیت پارہے تھے ایک ایسی بعیدازعقل بات ہے کہ جسے غالباً پادری ویری اور ان کی طرح کے چند لوگ ہی جو تاریخ اسلامی سے ناواقف ہیں صحیح سمجھ سکتے ہوں گے۔
جس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی حضرت خدیجہؓ سے ہو چکی تھی اور آپ ان کے گھر میں آ چکے تھے۔ اور خدیجہؓ نے اپنا سب مال آپ کے سپرد کر دیا تھا۔ اور آپ ایک مالدار رئیس کی حیثیت پاچکے تھے۔ پس ایک جگہ دونوں کا تربیت پانا ایک بے دلیل اور خلاف عقل دعویٰ ہے۔ لطف یہ ہے کہ تاریخ ہمیں پادری صاحب کے اس دعویٰ کے بالکل خلاف بتاتی ہے۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کے ساتھ ایک گھر میں پرورش نہیں پائی۔ بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں پرورش پائی تھی۔ کیونکہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوطالب کی حالت غربت کو دیکھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی کو بچپن میں ہی اپنے گھر میں لے آئے تھے۔ اور حضرت علیؓ نے آپ ہی کے گھر پرورش پائی تھی۔ علی لایام فی خلفاء الاسلام صفحہ ۱۹۶) پس اگر حضرت علیؓ نے اوائل عمر میں ہی لکھنا پڑھنا سیکھا تھا تو یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کا نتیجہ تھا۔ اور کوئی عقلمند نہیں کہہ سکتا کہ کس طرح ممکن ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی کو تعلیم دلائی تھی تو آپ کے چچا نے آپ کو تعلیم نہ دلائی ہو۔ تعلیم دلانا تو زمانہ کے حالات اور مربی کے اپنے خیالات پر منحصر ہوتا ہے اور یہاں زمانہ بھی مختلف ہے اور مربی بھی الگ الگ ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تعلیم کے رائج کرنے کا شوق تھا۔ آپ نے تعلیم دلائی۔ آپ کے دادا اور چچا کو اپنے زمانہ کے دستور کے مطابق شوق نہ تھا انہوں نے کوشش نہ کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شوق تعلیم کا یہ حال تھا کہ بڑی عمر میں کئی صحابہ نے تعلیم حاصل کی۔ حتیٰ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بڑی عمر میں مدینہ جاکر عبرانی سیکھی۔
دوسری دلیل
اگر آپ لکھنا نہ جانتے تو اتنے بڑے اہم تجارتی کام کو کس طرح کرسکتے۔ یہ اعتراض بھی یورپ کی موجودہ حالت پر قیاس کرکے کیا گیا ہے۔ ایشیا میں اب بھی ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں کہ بغیر تعلیم کے لوگ بڑے بڑے تجارتی کام کرتے ہیں۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ مکہ کے لوگ لکھنے کو زیادہ اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ اور صرف چند لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ لیکن تاجر سینکڑوں تھے۔ تجارت کے لئے قافلے کے قافلے جایا کرتے تھے۔ پس یہ کہنا کہ جو تاجر جاتے تھے پڑھے ہوئے ہوتے تھے غلط اور قیاس مع الفارق ہے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خدیجہؓ نے ایک غلام میسرہ نامی جو پڑھا لکھا تھا آپ کے ساتھ کر دیا تھا۔ پس اس سے یہ دلیل اور بھی کمزور ہو جاتی ہے۔
حضرت معاویہؓ کے متعلق جو کہا گیا ہے کہ ان کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سؔ اور بؔ ٹھیک لکھنے کے لئے کہا۔ اول تو یہ حدیث ایسی معتبر نہیں۔ بنوامیہ اور بنوعباس میں اس قدر دشمنی تھی کہ بنوعباس کے زمانہ میں بہت سے ایسی روایات گھڑی گئی ہیں جن میں یہ بتانا مقصود ہے کہ یہ لوگ علم کی طرف راغب نہ تھے اور کچھ لیاقت و قابلیت نہ رکھتے تھے۔ لیکن اگر یہ حدیث صحیح بھی ہو تو ایک شخص جو ہدایات دینے اور قرآن لکھوانے کا دیر سے عادی ہو چکا ہو اس کے لئے س اور ب کے لئے ہدایات دینا کچھ مشکل نہیں۔ اور نہ اس کے لئے پڑھنے کی شرط ہے۔ بالکل ممکن ہے کسی شخص نے کسی وقت کسی تحریر کے پڑھنے میں دیر کی ہو اور آپ نے پوچھا ہو کہ دیر کی کیا وجہ ہے تو اس نے عرض کیا ہو کہ س کے دندانے ملے ہوئے تھے یا ب لمبی نہ تھی اس لئے جلدی پڑھا نہ گیا۔ تو آپ نے سمجھ لیا کہ س کے دندانے کھلے ہونے چاہئیں۔ اور ب لمبی ہونی چاہئے۔ اور اس وجہ سے معاویہ کو آپ نے ہدایت دی ہو تا کہ تحریر مشتبہ نہ ہوجائے۔ ہمارے ملک میں عورتیں روٹی پکاتی ہیں۔ مرد بعض دفعہ انہیں کہہ دیتے ہیں کہ گول دائرہ بناؤ۔ اب کوئی اس سے یہ سمجھ لے کہ شاید ہم بڑے اچھے روٹی پکانے والے ہیں کیونکہ ہم ہدایت دے رہے ہیں تو یہ اس کی غلطی ہوگی۔ پس س کے دندانوں کو کھلا کرنے اور ب کو لمبا کرنے کا حکم دینے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضور لکھنا جانتے تھے۔
آپ کے قلم دوات منگانے سے استدلال کرنا بھی غلط ہے۔ کیونکہ قلم دوات حضور ساری عمر منگاتے رہے۔ جب قرآن مجید لکھواتے تھے تو قلم دوات منگواتے تھے۔ اس سے یہ کیونکر ثابت ہو گیا کہ آپ لکھنا بھی جانتے تھے۔
اقرأ باس ربک کی آیت بھی کوئی دلیل نہیں کہ آپ لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ کیونکہ قرأت کے معنی صرف لکھا ہوا پڑھنے ہی کے نہیں ہیں۔ بلکہ دوسرے کی بات کو دوہرانے کے لئے بھی یہ لفظ آتا ہے۔ جو شخص قرآن مجید کو زبانی اچھی طرح پڑھتا ہو اس کی نسبت خواہ وہ اندھا ہو عربی زبان میں کہیں گے ھو یحسن قرأۃ القران۔ پس اقرأ سے لکھا ہوا پڑھنے کا استدلال کرنا کسی صورت میں درست نہیں۔ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلی قرآنی وحی ہوئی اور حضرت جبریل نے آپ سے اقرأ کہا تو اس وقت اس نے کوئی تحریر آپ کے سامنے نہیں رکھی تھی پس اقرأ کے یہ معنی نہیں کہ دیکھ کر پڑھ۔ بلکہ یہ معنی ہیں کہ جو میں کہتا ہوں اسے دہرا۔
ریورنڈ ویری صاحب کا یہ استدلال بھی کہ لوگوں کو امی کے لفظ سے دھوکا لگ گیا ایک عجیب استدلال ہے۔ حیرت کا مقام ہے کہ ہر وقت آپ کے سامنے رہنے سے تو لوگوں کو یہ معلوم نہ ہوسکا کہ آپ لکھنا پڑھنا جانتے ہیں لیکن ایک امی کے لفظ سے ان کو یقین ہو گیا کہ آپ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے۔ سوال یہ ہے کہ آیا آپ کے سامنے والوں کو دھوکا لگا تھا یا بعد میں آنے والوں کو۔ اگر کہو سامنے والوں کو تو ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے کہ آپ لکھنا پڑھنا جانتے ہیں کیسے دھوکا لگ سکتا تھا اور اگر کہو بعد والوں کو دھوکا لگا تو سوال یہ ہے کہ دلیل تو یہ دی گئی ہے کہ لوگوں نے یہ خیال کرکے کہ آپ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے اور پھر بھی ایسی کتاب بنالی ہے یہ سمجھ لیا کہ یہ ایک معجزانہ کمال ہے اور معجزہ کے طور پر قرآن کریم کو صحابہ کے زمانہ سے پیش کیا جاتا ہے۔ پس اگر اس کے معجزہ ہونے کی یہی دلیل تھی تو صحابہ جو جانتے تھے کہ آپ لکھنا پڑھنا جانتے ہیں کس دلیل پر اسے معجزہ قرار دیا کرتے تھے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ عرب تو آپ کی زندگی میں مسلمان ہو گئے تھے۔ اور وہی عربی زبان کے معجزہ کو سمجھ سکتے تھے۔ پس ان پر تو اس دھوکے کا کوئی اثر نہ ہو سکتا تھا۔ اور بعد میں آنے والے عجمی عربی زبان کے کمالات کو سوائے شاذو نادر کے سمجھ نہیں سکتے تھے۔ پس اس دھوکے سے ان پر کوئی اثر نہیں پڑ سکتا تھا۔ پھر اس غلط فہمی سے قرآن کریم کے معجزہ ہونے کا نتیجہ کس نے نکالا۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ امی کے معنی عربی زبان میں ان پڑھ کے بھی ہیں اور اصل معنی ماں سے نسبت رکھنے والے کے ہیں اور اسی وجہ سے اس کے معنی ان پڑھ کے بھی ہیں کیونکہ وہ ویسا ہی رہتا ہے جیسا کہ پیدا ہوا۔ اور میرے نزدیک پاکیزہ کے بھی ہیں۔ کیونکہ نوزائیدہ بچہ پاک ہوتا ہے اور انہی معنوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔
یہودی لوگ جو عربوں کو امی کہہ کر پکارتے تھے تو حقارت کے طور پر ان کے جاہل ہونے کی طرف اشارہ کرنے کے لئے استعمال کرتے تھے۔ اب کیا یہ بات کوئی عقلمند تسلیم کرسکتا ہے کہ قرآن کریم میں یہ لفظ اپنے اصلی معنوں میں تو استعمال نہیں ہوا لیکن ان معنوں میں استعمال ہوا ہے جسے ایک دشمن قوم حقارت کے لئے استعمال کیا کرتی تھی۔ قرآن کریم کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی کالم سمجھ لو پھر بھی کیا عقل اجازت دیتی ہے کہ آپ اپنی اور اپنی قوم کی نسبت اس لفظ کو ان تحقیر آمیز معنوں میں استعمال کرتے۔ جو یہودیوں میں رائج تھے۔
پادری صاحب کی آخری دلیل کہ اس زمانہ میں علماء کاتب رکھا کرتے تھے ایک اور شدید تاریخی غلطی ہے۔ پادری صاحب نے عباسی خلافت کے زمانہ کا کوئی واقعہ پڑھ کر اس سے زمانہ جاہلیت پر استدلال کر لیا۔ حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نہ عرب میں کوئی علماء ہوتے تھے نہ وہ کاتب رکھا کرتے تھے۔ یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جس کی تائید میں قومی رواج تو الگ رہا ایک مثال بھی مسیحی مؤرخ نہیں پیش کرسکے۔ مکہ کے ایک ہی عالم کا ذکر تاریخ میں ہے یعنی ورقہ بن نوفل۔ اور وہ خود لکھا کرتے تھے ان کا کوئی کاتب نہ تھا۔ افسوس ہے کہ مسیحی مصنف اپنے تعصب میں تاریخی حقائق بھی اپنے پاس سے بنا لیتے ہیں۔
۱۸ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْ کَذَّبَ بِاٰیٰتِہٖ ط اِنَّہٗ لَایُفْلِحُ الْمُجْرِمُوْنَo
ترجمہ
پھر (تم ہی بتاؤ کہ) جو اللہ (تعالیٰ) پر بہتان باندھے یا اس کے نشانات کو جھٹلائے اس سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا۔ (غرض) یہ یقینی بات ہے کہ مجرم لوگ کامیاب نہیں ہوتے۔
۱۸؎ حل لغات
افتری۔ فہی سے نکلا ہے جس کے معنی کاٹنے کے ہیں۔ افتری علیہ الکذب اختلقہٗ (اقرب) افتری کے معنی یہ ہیں کہ بات اپنے پاس سے بنا کر کسی کی طرف منسوب کر دی۔ اصل معنی وہی کاٹنے کے ہیں۔ یعنی جان بوجھ کر ایک بات کاٹ لیتا ہے۔ افلح۔ فازو ظفر بما طلب۔ اپنے مقصود کو پالیا۔ افلح بالشئی عاش بہ۔ فلاں چیز کے ذریعہ سے خوش زندگی پائی افلح زید نحج فی سعید واصاب فی عملہ اپنی کوشش میں کامیاب ہوا۔
مجرمون۔ مجرم کی جمع ہے۔ اور اَجْرَمَ سے نکلا ہے۔ اَجْرَمَ کے معنی ہیں اَذْنَبَ گناہ کیا۔ عَظُمَ جُرْمُہٗ اس کا گنہ بہت بڑا تھا۔ اَجْرَمَ علیہ الجریۃ جب کہا جائے تو اس کے معنی ہوتے ہیں اس پر ظلم کیا۔ (اقرب)
تفسیر
اس آیت میں دو حقیقتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک تو یہ کہ الٰہی قانون میں دو قسم کے لوگ سزا سے نہیں بچ سکتے۔ ایک تو وہ جو اپنے پاس سے کلام بنائیں اور اسے خداتعالیٰ کی طرف منسوب کریں۔ اور دوسرے وہ لوگ جو خداتعالیٰ کی طرف سے کلام لانے والوںکا مقابلہ کریں۔ دوسرے یہ بتایا ہے کہ اس قسم کے لوگ جو خداتعالیٰ پر جھوٹ بنانے والے ہوں اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوتے یعنی جس امر کو وہ اپنی بعثمت کا مدعا قرار دیتے ہیں اور جو تعلیم لے کر وہ دنیا میں آتے ہیں وہ مدعا پورا نہیں ہوتا۔ اور وہ تعلیم دنیا میں نہیں پھیلتی۔
قرآن کریم میں اکثر جگہ افتراء کے ذکر میں کذب کو بطور قید لایا گیا ہے۔ یعنی جو شخص جھوٹا افتراء کرتے ہیں ان کو فلاں فلاں سزا ملتی ہے۔ حالانکہ افتراء خود جرم ہے اس کے متعلق میرا یہ خیال ہے کہ اگر افتراء صحیح ہو اور اس میں کذباً والی شرط نہ پائی جائے تو شاید ایسا شخص اس مقررہ عذاب میں گرفتار نہ ہو جس کا اس آیت میں ذکر ہے۔ گو مجرم وہ ضرور ہے اور سزاء ضرور پائے گا۔ جیسے مثلاً اگر کوئی شخص یہ کہے کہ مجھے رؤیا ہوئی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں تو اگر اسے خواب نہ آئی ہوگی تو وہ مفتری ہوگا مگر چونکہ جو بات اس نے بتائی ہے وہ اپنی ذات میں سچی ہے اور اس کے خواب بنانے سے دنیا کو کوئی نقصان نہیں پہنچا بلکہ یہ اس کا ذتی جھوٹ ہے اور اس سے اپنا تقویٰ اس نے برباد کیا ہے اس لئے اس آیت کے ماتحت اسے سزا نہیں ملے گی۔ بلکہ جھوٹ بولنے کی جو عام سزا ہے اس کے ماتحت وہ پکڑا جائے گا۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اس جگہ اللہ تعالیٰ یہ نے بتایا ہے کہ مفتری مفلح نہیں ہوتا۔ یعنی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوتا۔ یہ نہیں فرمایا کہ اس کے ساتھ کوئی جماعت نہیں ملتی۔ یا یہ کہ اسے دولت حاصل نہیں ہوتی۔ بالکل ممکن ہے کہ ایک شخص جو مفتری ہو دولت مند ہو جائے۔ یا ایک جماعت اسے قبول کرلے کیونکہ کوئی شخص صرف اس مقصد کو لے کر کھڑا نہیں ہوتا کہ وہ کچھ لوگوں کو اپنے ساتھ ملا لے گا۔ ہر مدعی کوئی نہ کوئی روحانی مقصد بتاتا ہے۔ یا شریعت کا چلانا یا پچھلی شریعت کو قائم کرنا۔ پس جب تک وہ اس حقیقی مقصد میں کامیاب نہیں ہوتا وہ کامیاب نہیں کہلاسکتا۔ یہ معیار ایسا زبردست ہے کہ کوئی جھوٹا نبی اس سے فائدہ ہی نہیں اٹھا سکتا اور سچے نبیوں کو بھی یہ معیار ہر اعتراض سے محفوظ رکھتا ہیے۔ مثلاً حضرت یحییٰ مارے گئے تو یہ امر ان کے مقصد کے خلاف نہیں۔ اور وہ غیرمفلح نہیں کہلاسکتے۔ ان کا مقصد حضرت مسیح سے لوگوں کو شناسا کرادینا تھا۔ جو پورا ہو گیا۔ گو وہ مارے گئے۔ پس ان کی موت ان کے مفلح ہونے کی راہ میں روک نہیں۔ وہ ایک عالم برزخ تھے۔ اور لوگوں کی طبائع کو مسیح کو قبولیت کے لئے تیار کرنے کی غرض سے آئے تھے۔ یہ کام انہوں نے کر دیا۔ اور یہودی اسی زمانہ میں مسیح کی آمد کا انتظار کرنے لگ گئے۔ چنانچہ ان کی سب جماعت حضرت مسیح پر ایمان لے آئی اور ان کا کوئی الگ سلسلہ باقی نہ رہا۔
پھر دوسری طرف یہ معیار جھوٹے مدعیوں کے دعوے کو بھی رد کرتا ہے۔ مثلاً بہاء اللہ کو لے لو۔ اگر بالفرض ان کو مدعی نبوت و رسالت مان بھی لیا جائے اور ان کے مرید بھی لاکھوں ہوں تب بھی یہ ان کی صداقت کا ثبوت نہیں۔ کیونکہ ان کا مقصد شریعت اسلامی کو ناقص بتاکر بہائی شریعت کو اس کی جگہ قائم کرنا تھا اور یہ مقصد ایک دن کے لئے بھی اور ایک گھر میں بھی پورا نہ ہوا۔ بلکہ قرآن مجید پہلے سے بھی زیادہ مقبول ہو رہا ہے۔ اور بہت سے یورپین بھی جو پہلے اسے جھوٹا سمجھتے تھے اب اسے سچا کہہ رہے ہیں۔
بہاء اللہ جس شریعت کو منسوخ کرنے آئے تھے وہ تو آج اور بھی زیادہ مقبول ہورہی ہے مگر ان کی اپنی شریعت طاق نسیان پر پڑی ہے۔ اب اگر سارا امریکہ بھی بہائی ہوجائے تب بھی بہاء اللہ اس وقت تک مفلح نہیں کہلاسکتے جب تک کہ بہائی تعلیم دنیا میں قائم نہ ہوجائے غرض اَفْلَحَ کے لفظ نے سچوں کو اعتراض سے بچا لیا اور جھوٹوں کی کامیابی کی حقیقت کھول دی۔
۱۹ وَیَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَالَایَضُرُّھُمْ وَلَایَنْفَعُھُمْ وَیَقُوْلُوْنَ ھٰؤُلَآئِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَاللّٰہِ ط قُلْ اَتُنَبِّئُوْنَ اللّٰہَ بِمَا لَایَعْلَمُ فِی السَّمٰوٰتِ وَلَا فِی الْاَرْضِ ط سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَo
ترجمہ
اور یہ (لوگ) اللہ (تعالیٰ) کو چھوڑ کر ایسی چیز کی پرستش کرتے ہیں جو نہ انہیں نقصان دیتی ہے اور نہ نفع پہنچاتی ہے۔ اور کہتے ہیں (کہ) یہ (ہمارے معبود) اللہ کے حضور میں ہمارے شفیع ہیں تو (انہیں) کہہ (کہ) کیا تم اللہ (تعالیٰ) کو وہ (بات) بتاتے ہو جس کے متعلق نہ آسمانوں میں (پائے جانے کا) اسے علم ہے اور نہ (ہی ) زمین میں (کہیں اس کے وجود کا کوئی پتہ) وہ پاک ہے۔ اور ان کے شریک ٹھہرانے سے وہ بالاتر ہے۔
۱۹؎ حل لغات
دون تفیض فوق نیچے بمعنی اسفل نچلا اور بمعنی امام آگے و بمعنی وراء پیچھے اور بمعنی فوق اوپر و بمعنی غیر سوائے و بمعنی الشریف قابل عزت و بمعنی الخسیس حقیر۔ (اقرب)
ھٰؤلآء۔ اسم اشارہ قریب بصیغہ جمع۔ یہ ذوی العقول کے لئے مخصوص ہے۔ تنبئون باب تفصیل سے فعل مضارع ہے۔ اس کا مادہ نبأٌ ہے۔ جس کے معنی خبر کے ہیں۔ کلیات ابی البقاء میں ہے کہ یہ لفظ کسی معمولی خبر کے لئے نہیں بولا جاتا۔ بلکہ جس امر کو کسی وجہ سے اہمیت اور خاص وقعت حاصل ہو اسی کے لئے اطلاق پاتا ہے۔ اور اسی رنگ میں ہر مقام پر قرآن کریم میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ (اقرب) سبحان اللہ ای ابریٔ اللہ من السوء براء ۃ۔ سبحان کے معنی عیوب سے پاک سمجھنے اور پاک کرنے کے ہیں (اقرب) یشرکون۔ اشرک کا فعل مضارع ہے جس کے معنی ہیں جمل لہ شریکا۔ کسی کو کسی کا شریک قرار دیا اور حصہ دار ٹھہرایا۔ (اقرب)
تفسیر
شرک کا باعث اصل میں انسانی پیدائش کے مقصد کو نہ سمجھنا ہے۔ مشرک خدا پر بھی بدظنی کرتا ہے اور اپنے نفس پر بھی۔ شرک کے عقیدہ کی بنیاد ہی اس اصل پر ہے کہ خداتعالیٰ تک ہم بغیر واسطہ کے نہیں پہنچ سکتے اور نہ وہ ہم تک بغیر واسطہ کے پہنچ سکتا ہے۔ اسلام اس تعلیم کے بالکل خلاف ہے۔ وہ نہ خدا پر بدظنی کرنے کی اجازت دیتا ہے اور نہ اپنے نفس کی طاقتوں سے مایوسی کی۔ خداتعالیٰ نے بندہ کو اپنے تک پہنچنے کے لئے پیدا کیا ہے اور وہ اپنے اور اس کے درمیان کسی حائل ہونے والی ہستی کو برداشت نہیں کرسکتا۔
اتنبئون اللہ بمالا یعلم میں شرک کے متعلق کیا ہی لطیف جواب فرمایا ہے کہ اگر خداتعالیٰ کی طرف سے آسمان میں یا زمین میں کوئی شفیع ہوتا تو اس کا اعلان خدا کی طرف سے ہونا چاہئے تھا۔
عہدہ دار کی تعیین گورنمنٹ گزٹ سے ظاہر کی جاتی ہے۔ فرمایا بجائے اس کے کہ خدا کی طرف سے علم آتا تم لوگ اعلان کرتے ہو کہ فلاں خد کا شریک ہو گیا ہے۔ جبکہ تمام نبی بھی جو صرف پیغام بر ہونے کی حیثیت رکھتے ہیں ہمیشہ خداتعالیٰ کے حکم کے ماتحت کھڑے کئے جاتے ہیں۔ تو شریک جو خداتعالیٰ کی بادشاہت میں تمہارے نزدیک ساجھی ہیں۔ کس طرح تمہارے ہاتھوں بنائے جاسکتے ہیں اور الہامی دلیل سے ان کا عہدہ قائم نہیں کیا جاتا پس معلوم ہوا کہ شریک کا علم پہلے تم کو ہوتا ہے اور تم اس کا علم خداتعالیٰ کو دیتے ہو۔ ایک پتھر کو لیتے ہو اور ایک جگہ رکھ کر اسے خدا قرار دے دیتے ہو۔ یا ایک کمزور آدمی کو لیتے ہو اور اسے خدائی طاقتیں عطا کر دیتے ہو۔ آسمان اور زمین دونوں کو اس لئے شامل کیا کہ بعض شریک آسمان میں قرار دیئے جاتے ہیں اور بعض زمین میں اس کے بعد سبحانہ سے یہ بتایا کہ انسان کو ایک مقصد کے لئے پیدا کرکے پھر راستہ میں روکیں رکھ دینا اور روکیں بھی ایسی کہ ان کو معلوم کرنے کے لئے کوئی الہامی ہدایت ساتھ نہ ہو ایک کامل ہستی کی شان کے خلاف ہے۔ اس کے تو یہ معنی ہوں گے کہ وہ اپنا کام آپ باطل کرتا ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ بے عیب ہے اس لئے وہ اس بات سے بھی بالا ہے اور وہ ایسا نہیں کرسکتا۔
۲۰ وَمَاکَانَ النَّاسُ اِلَّآ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَاخْتَلَفُوْْاط وَلَوْلَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّکَ لَقُضِیَ بَیْنَھُمْ فِیْمَا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَO
ترجمہ
اور (تمام) لوگ ایک گروہ (بنے ہوئے) تھے پھر انہوں نے آپس میں اختلاف (پیدا) کر لیا۔ اور جو بات تیرے رب کی طرف سے (بہ صورت وعدہ) آچکی ہے اگر وہ (مانع) نہ ہوتی تو جس (امر) میں وہ اختلاف کررہے ہیں اس کے متعلق ان کے درمیان (کبھی کا) فیصلہ (صادر) کیا جاچکا ہوتا۔
۲۰؎ حل لغات
الامۃ۔ الجماعۃ (جماعت، مجتمع گروہ) الجیل من کل حیٍ قوم (اقرب) الطریقۃ۔ طریقہ۔ الدین۔ مذہب۔ الحین۔ وقت القامۃ قدس اختلف منذ اتفق ایک دوسرے سے اختلاف کیا زید عمرا کان خلیفتہ جانشین بنا جعلہ خلفہ دوسرے کو اپنے پیچھے کر دیا اخذہ من خلفہ پیچھے سے پکڑا الی الخلاء ترد دالیہ اقرب بار بار گیا اور آیا۔ الکلمۃ۔ اللفظ لفظ کل ما ینطق بہ الانسان جو کچھ بھی کہا اور بولا جائے (اقرب) قضٰی قضٰی بین الخصمین حَکَمَ وفصل فیصلہ کیا اقرب
تفسیر
لوگوں کے ایک امۃ ہونے کے کئی معنے ہیں۔ (۱) ہم نے تو لوگوں کو ابتداء میں ایک ہی راہ پر چلایا تھا پھر وہ بگڑ گئے۔ جس کے معنی یہ ہوئے کہ ہم نے تو انسان کے اندر ہدایت کا مادہ رکھا تھا اور صحیح راستہ بھی بتا دیا تھا مگر انسان خود ہی اس راستہ کو چھوڑ کر گمراہی کی طرف چل پڑا۔ ان معنوں سے یہ بھی نتیجہ نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بندے کو ہدایت کے لئے پیدا کیا ہے۔ تبھی تو اسے ہدایت دی۔ اگر دوزخ کے لئے پیدا کیا ہوتا جیسا کہ بعض لوگ آیات قرآنی کو نہ سمجھتے ہوئے خیال کرتے ہیں تو ابتداء میں انسانوں کو جہنمی راہ پر چلانا چاہئے تھا۔ پھر ان میں سے جو نکل کر جنتی بن جاتے انہیں جنت میں داخل کر دیا جاتا۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔
(۲) لوگ ہمیشہ نبیوں کے ذریعہ سے ایک طریقہ پر قائم کئے جاتے ہیں۔ ہم نبی بھیج کر انہیں راہ راست پر لاتے ہیں۔ مگر وہ پھر اختلاف کر بیٹھتے ہیں۔ اگر ہم نے یہ وعدہ نہ یا ہوتا کہ عذاب بغیر تنبیہہ کے نہ آئے گا تو ہم انہیں ہلاک کر دیتے۔ مگر وعدہ ہے۔ اس لئے ہم پھر نبی بھیجتے ہیں۔ پھر وہ لوگ ان کو مان کر ان کے ہاتھوں پر جمع ہوجاتے ہیں۔ اور پھر کچھ عرصہ کے بعد اختلاف کر بیٹھتے ہیں۔ ان معنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یاد رکھنا چاہئے کہ نبی کے ذریعہ سے قائم شدہ اتحاد کو مٹانے والا دنیا کی تباہی کو بلاتا ہے۔ اس لئے وہ سخت عذاب کا مستحق ہے۔ (۳) لوگ ہمیشہ ایک ہی راہ اختیار کرتے ہیں۔ پہلے لوگوں نے بھی نبیوں کی مخالفت کی اور ان کے ساتھ توافق نہ کیا۔ اب یہ بھی ویسا ہی کرتے ہیں۔ اگر ہمارا یہ فیصلہ نہ ہوتا کہ انسان کو ہدایت کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور رحم غالب رہے گا تو اس جرم کی وجہ سے ان کا فیصلہ ہی کردیتے۔
۲۱ وَیَقُوْلُوْنَ لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ اٰیَۃٌ مِّنْ رَبِّہٖ ج فَقُلْ اِنَّمَا الْغَیْبُ لِلّٰہِ فَانْتَظِرُوْاج اِنِّیْ مَعَکُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَO
ترجمہ
اور وہ کہتے ہیں کہ اس (رسول( پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشان نہیں اتارا گیا۔ اس لئے تو (انہیں) کہہ (کہ اس) غیب (کی بات کا علم) اللہ (تعالیٰ) ہی کے پاس ہے۔ اس لئے تم (اس کا) انتظار کرو میں (بھی) تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں۔
۲۱؎ حل لغات
الغیب کل ما غاب عنک ہر پوشیدہ چیز۔ السر (راز) ماغاب عن العیون (آنکھوں سے پوشیدہ چیز) (اقرب)
تفسیر
اس جگہ من ربہ بینۃ کے قائم مقام ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو دلیل آتی ہے وہ بینہ ہوتی ہے یعنی وہ اپنے مطلب کی طرف خود بلاتی ہے گویا بولتی ہوئی دلیل ہوتی ہے۔ ہمیشہ سے انبیاء کے دشمن کہتے آئے ہیں کہ ان کے ساتھ کوئی دلیل نہیں اتری۔ کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ یہ سورۃ تو شروع ہی تلک ایات الکتٰب الحکیم سے ہوتی ہے۔ (یعنی یہ کتاب حکیم کی آیات ہیں) مگر مخالفین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ اس پر کوئی آیت نہیں اتری۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آیات ہر شخص کو نظر نہیں آیا کرتیں۔ ان کے دیکھنے کے لئے بھی خشیت اللہ کی آنکھ کی ضرورت ہے۔ ورنہ کس طرح ممکن تھا کہ آیات کے نازل ہونے کے بعد بھی وہ یہ مطالبہ کرتے کہ اس پر اگر آیات نازل ہوتیں تو کیا اچھا ہوتا۔ آج بھی بانئے سلسلۂ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخالف علماء یہی کہا کرتے ہیں کہ اگر ان پر کوئی آیت اترتی تو ہماری عقل ماری تھی کہ نہ مانتے۔ مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کی بھی تو عقل نہ ماری ہوئی تھی کہ انہوں نے نہ مانا۔ ان کے راستہ میں بھی یہی روک تھی کہ انہوں نے خداتعالیٰ کے خوف سے کام نہ لیا۔ پس ان کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیا۔ یہ بات بھی یاد رکھنے والی ہے کہ جب کفار کی طرف سے آیت کا مطالبہ ہو تو اس کے معنی عذاب ہی کے ہوتے ہیں۔ بجز اس جگہ کے جہاں وہ آیۃ کی تشریح کر دیں۔ پس اس آیت میں ان کی یہ مراد بھی ہوسکتی ہے کہ خدا کی طرف سے اس کی تائید میں کوئی عذاب کیوں نہیں آتا۔
انما الغیب للہ کے فقرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ پیشگوئیوں میں وقت کی تعیین کی ضرورت نہیں ہوا کرتی۔ اگر اس کی ضرورت ہوتی تو یہ نہ کہا جاتا کہ عذاب کی پیشگوئی کے وقت کا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔ بلکہ ان کے سوال کے جواب میں اس وقت سے ان کو آگاہ کیا جاتا مگر اللہ تعالیٰ نے ایسا نہیں کیا۔ یہی کہہ دیا ہے کہ وقت کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے۔ جب وہ وقت آئے گا وہ خود حقیقت کو ظاہر کر دیگا۔ اس آیۃ سے ان لوگوں کو اپنے خیالات کی اصلاح کرنی چاہئے کہ جو یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ پیشگوئی کے ساتھ وقت کی تعیین ہونی ضروری ہے جب ایک امر غیرمعمولی طور پر اتفاق اور حادثہ کے شبہ سے بالا رہتے ہوئے پورا ہوجائے تو اس کے ماننے میں کسی سعید انسان کو انکار نہیں ہونا چاہئے۔ اور وقت کی پخ لگانا صرف ضد اور ہٹ دھرمی کو ظاہر کرتا ہے۔
انی معکم من المنتظرین۔ کہہ کر کافروں کو جو عذاب کا مطالبہ کرتے تھے نہایت لطیف جواب دیا ہے۔ کہ عذاب کے جلدی نہ آنے سے گھبراہٹ تو مجھے ہونی چاہئے تھی جو آئے دن تمہارے ظلموں کا نشانہ بن رہا ہوں نہ کہ تم لوگوں کو جو آرام سے گھروں میں بیٹھے ہو۔ مجھے مارا اور پیٹا جاتا ہے۔ گھر سے باہر نکلنے سے روکا جاتا ہے مگر میں اطمینان سے انتظار کرتا ہوں اور گھبرا تم رہے ہو کہ عذاب کیوں جلدی نہیں آتا۔ نادانو! جب میں انتظار کرتا ہوں تو تمہارے لئے انتظار کرنا کیوں دوبھر ہو رہا ہے۔
۲۲ وَاِذَا اَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَۃً مِّنْم بَعْدِ ضَرَّآئَ مَسَّتْھُمْ اِذَالَھُمْ مَّکْرٌ فِیْ اٰیَاتِنَاط قُلِ اللّٰہُ اَسْرَعُ مَکْرًاط اِنَّ رُسُلُنَا یَکْتُبُوْنَ مَاتَمْکُرُوْنَo
ترجمہ
اور جب لوگوں کو کسی تکلیف کے بعد جو انہیں پہنچی ہو ہم کسی (قدر اپنی) رحمت (کا مزہ) چکھاتے ہیں تو جھٹ ہمارے نشانوں کے متعلق ان کی طرف سے کوئی (نہ کوئی مخالفنہ) تدبیر ہونے لگتی ہے۔ تو (انہیں) کہہ (کہ اس کے مقابل پر) اللہ کی تدبیر (اس سے کہیں) زیادہ جلد (کارگر) ہوا کرتی ہے۔ (اور) تم جو تدابیر (بھی) کرتے ہو۔ ہمارے فرستادے (اسے) لکھتے (رہتے ہیں)
۲۲؎ حل لغات
اذقنا۔ اذاقہ سے نکلا ہے جو آگے ذاق سے نکلا ہے۔ ذاق المکروہ۔ نزل بہ فقاساہ۔ اس پر مصیبت نازل ہوئی۔ اور اس نے سہی۔ ویستعمل الذوق فیما یحمدویکرہ۔ اور ذوق کا لفظ اچھی اور بری دونوں باتوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے۔ اذاقہ کے معنی ہیں صیرہ یذوق۔ اسے چکھایا یا پہنچایا (اقرب) الضراء الشدۃ۔ سختی۔ النقص فی الاموال والانفس مال میں یا جانوں میں کمی کا واقع ہونا۔ الزمانۃ یعنی آفت و مصیبت۔ کسی عضو کا کٹ جانا۔ یا ضائع ہوجانا اور ضراء اسم مؤنٹ ہے اس کا مذکر کوئی نہیں (اقرب)
المکر۔ الغرۃ۔ دھوکہ۔ جزاء المکر۔ یسمٰی بہٖ کما سمی جزاء السیئۃ السیئۃ مجازا علی مقابلۃ اللفظ باللفظ فریب کے بدلہ کو بھی مکر کہتے ہیں اور اس کا نام مکر اسی طرح رکھا گیا ہے جس طرح سیئۃ کے بدلہ کو سیئۃ مجازاً کہتے ہیں۔ عرب کے عام دستور کے مطابق کسی فعل کے مقابل پر اس کے بدلہ کے ذکر کے لئے بھی اسی فعل کا لفظ استعمال کرلیتے ہیں (اقرب) مکراللہ فلانا جازاہ علی المکر۔ اللہ تعالیٰ نے فلاں شخص کو اس کے مکر کا بدلہ دیا قیل المکر صرف الانسان عن مقصد بحیلۃ۔ مکر کے اصل معنی یہ بھی بیان کئے گئے ہیں کہ کسی شخص کو کسی تدبیر کے ذریعہ سے اس کے مقصد سے دور کر دینا اور ہٹا دینا۔ وھونوعان محمود یقصد فیہ الخیر ومذموم یقصد فیہ الشر (اس کی دو قسمیں ہیں) ایک محمود جس میں بھلائی مقصود ہوتی ہے دوسری مذموم جس میں برائی مقصود ہوتی ہے۔ (اقرب)
تفسیر
اس سے دو آیات پہلے فرمایا تھا کہ چونکہ انسان کو ہم نے رحمت کے لئے ہی پیدا کیا ہے اس لئے ہم اپنے عہد کی وجہ سے لوگوں پر رحمت ہی کرتے ہیں۔ اس کے بعد کی آیت میں فرمایا کہ لوگ عذاب مانگتے ہیں مگر باوجود ان کے مطالبہ کے ہم عذاب فوراً نہیں بھیجتے۔ بلکہ انتظار کے بعد بھیجتے ہیں تاکہ جنہوں نے ہدایت پانی ہے پالیں۔ اب اس آیت میں فرماتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ ہم عذاب دیر سے بھیجتے ہیں بلکہ عذاب بھیجنے کا ہمارا طریقہ بھی یہی ہے کہ عذاب یک دم نہیں آتا بلکہ کسی قدر عذاب آجاتا ہے پھر ہم اس عذاب کو ہٹا دیتے ہیں تاکہ لوگ یہہ سمجھ جائیں کہ عذاب انکار نبوت کی وجہ سے آسکتا ہے۔ اور آئے گا اور اپنے ناپسندیدہ رویہ اور بے وجہ ظلم سے باز آجائیں۔ لیکن شریر طبع لوگ پھر بھی نصیحت نہیں حاصل کرتے۔ بلکہ عذاب کے وقت تو کسی قدر ڈر جاتے ہیں۔ مگر جس وقت عذاب میں کمی ہوتی ہے معاً پھر ہمارے کلام اور ہمارے نشانات کے خلاف تدابیر اختیار کرنے لگتے ہیں۔ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تدبیر تو بہت جلد نافذ ہوجاتی ہے مگر وہ خود ہی اپنی تدبیر کو روکے رکھتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ نہ تو ان لوگوں کے کام مجھے بھول سکتے ہیں کہ فوراً بدلہ دینے کی ضرورت ہو اور نہ ان کی سزا پر قابو پانے کا کوئی خاص وقت ہوتا ہے کہ وہ سمجھے کہ اس وقت سزا دے دوں ورنہ پھر مشکل ہوگی۔ وہ ہر وقت سزا دے سکتا ہے اور کوئی بات اس کی نظر سے پوشیدہ نہیں ہوتی۔
اس آیت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انسانی فطرت ایسی ہے کہ جب اسے آرام پہنچے تو وہ یہ خیال کرنے لگتا ہے کہ اب رحمت ہمیشہ ہی رہے گی حالانکہ اگر آرام کے وقت انسان تکلیف کی گھڑیوں کا خیال کرے تو بہت آرام میں رہ سکتا ہے۔ افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اس گر کو نہ سمجھا اور آج اس ذلت کو پہنچ رہے ہیں۔ بلکہ اب بھی وہ اس اصل کو یاد نہیں رکھتے اور اپنے روپیہ اور مال کا خیال نہیں رکھتے اور اسراف سے کام لیتے ہیں یا پھر ایسے بخل سے کام لیتے ہیں کہ جو نتیجہ کے لحاظ سے ایسا ہی تباہ کن ہوتا ہے جیسا کہ اسراف۔
دوسرے اس آیت میں کفار کے پہلے سوال کا جواب بھی دیا گیا ہے۔ کفار کا سوال تھا کہ اگر یہ سچا ہے تو آیت یعنی عذاب کیوں نہیں آتا۔ اس کا جواب دیکہ عذاب تو کئی آچکے ہیں۔ مگر چونکہ ہم اپنی سنت کے مطابق اس کے بعد رحمت بھیج دیتے ہیں تم لوگ اپنی شقاوت کی وجہ سے عذاب کو بھول جاتے ہو۔ اور پھر عذاب کا مطالبہ کرنے لگتے ہو۔ افسوس کہ اس مرض میں اس وقت مسلمان بھی مبتلا ہیں۔ آفت پر آفت ان پر ٹوٹ رہی ہے۔ لیکن خداتعالیٰ کی سنت کے مطابق جب رحمت کی ساعت درمیان میں آجاتی ہے تو وہ پھر غافل ہوجاتے ہیں اور اپنی نجات کی فکر سے آزاد ہوجاتے ہیں۔
قل اللہ اسرع مکرا میں بتایا ہے کہ تمہاری تدبیروں کا اثر تو نکلتے ہی نکلے گا۔ مگر خدا کی تدبیریں تمہاری تدبیروں سے پہلے ہی اثر دکھائیں گی۔ تم جو تدابیر کرتے ہو ان کے نتائج تمہارے خلاف ساتھ ساتھ مترتب ہوتے جاتے ہیں۔ جوں جوں تم تدبیریں کرتے ہو کے ساتھ ان کے توڑ پیدا کرتے جاتے ہیں۔ لیکن ہماری تدابیر ایسی سریع ہوتی ہیں کہ تمہارے ہوشیار ہونے سے پہلے ان کے نتائج نکل آتے ہیں۔
بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ خداتعالیٰ کی طرف سے جب عذاب آتا ہے تو ظالم کے ساتھ نیک کیوں پس جاتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ یہ نہیں جانتے کہ چند لوگوں کی ہدایت کے لئے لاکھوں شریروں کو بھی تو امن دیا جاتا ہے اگر ظالموں کے ساتھ بعض نیک لوگوں کو بھی تکلیف پہنچتی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان مدنی الطبع ہے۔ مدنی الطبع ہونے کی وجہ سے ایک کا اثر دوسرے پر پڑتا ہے اور ایک کے دکھ سکھ میں دوسرے کو بھی ایک حد تک شریک ہونا پڑتا ہے۔ پس جب عذاب آتا ہے تو جس قوم پر عذاب آتا ہے اس کے ساتھ رہنے والوں کو ان کی معیت کی وجہ سے کچھ نہ کچھ تکلیف اٹھانی پڑتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں رحمت کو اپنی طرف منسوب کیا ہے لیکن ضرار کو نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رحمت خدا کی طرف سے آتی ہے اور ضرار انسانی اعمال کے نتیجہ میں آتی ہے۔
اذالھم مکرنیٓ ایاتنا میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ہم ان پر احسان کرتے ہیں اور وہ الٹے اس احسان کو ہمارے خلاف استعمال کرنے لگتے ہیں۔ مثلاً ہم اموال وغیرہ انہیں دیتے ہیں تو وہ ان اموال کو ہمارے رسول اور ہماری تعلیم کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔
۲۳ ھُوَالَّذِیْ یُسِیِّرُکُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِط حَتّٰی اِذَا کُنْتُمْ فِی الْفُلْکَ ج وَجَرَیْنَ بِھِمْ بِرِیْحٍ طَیِّبَۃٍ وَّفَرِحُوْا بِھَا جَآئَ تْھَا رِیْحٌ عَاصِفٌ وَّجَآئَ ھُمُ الْمَوْجُ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ وَّظَنُّوْا اَنَّھُمْ اُحِیْطُ بِھِمْ لا دَعَوُا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ ج لَئِنْ اَنْجَیْتَنَا مِنْ ھٰذِہٖ لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیْنَO
ترجمہ
وہ (خدائے کریم) وہی ہے کہ جو تمہیں (توفیق دے کر) خشکی اور تری میں چلاتا ہے۔ (یہاں تک کہ جب تم (لوگ) کشتیوں میں (سوار) ہوتے ہو اور وہ عمدہ ہوا کے ذریعہ سے ان (لوگوں) کو (بھی) لے کر چل رہی ہوتی ہیں اور وہ ان پر اترا رہے ہوتے ہیں تو ان پر ایک (تند) تیز ہوا آجاتی ہے۔ اور ہر طرف سے موج (پر موج) ان پر (چڑھ) آتی ہے۔ اور وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ (اب) وہ ہلاکت (کے منہ) میں آگئے ہیں تو (ایسے وقت میں) وہ اللہ (تعالیٰ) کو اس کے لئے (اپنی) اطاعت کو خالص کرتے ہوئے پکارتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ اے اللہ) اگر تو نے ہمیں اس (مصیبت) سے نجات دی تو ہم ضرور ہی (تیرے) شکرگزاروں (کے زمرہ) میں (داخل) ہو جائیں گے۔
۲۳؎ حل لغات
سیر۔ سار کے باب تفعیل سے ہے اور اس کے معنی چلانے کے ہیں۔ اور سار کے معنی ہیں چلا۔ الفلک۔ السفینۃ۔ کشتی یُؤَنَّثُ ویُذَکَّرُ۔ یہ لفظ کبھی مؤنث استعمال ہوتا ہے اور کبھی مذکر۔ اور واحد کے لئے بھی اور جمع کے لئے بھی یہی لفظ استعمال ہوتا ہے۔ (اقرب)
عاصف عَصَفَ یَعْصِف عصفًا سے نکلا ہے۔ عصف الزرع جزہ قبل ان یدرک۔ اس نے کھیت اس کے پکنے سے پہلے کاٹ دیا۔ عَصَفَتِ الریح تَعْصِفُ عَصَفًا و عصوفًا اشتدآت۔ ہوا تیز ہو گئی۔ والعاصفُ المائل من کل شئی۔ ٹیڑھی چیز۔ (اقرب) ظن کے معنی یقین کرنے کے بھی ہوتے ہیں اور گمان کے بھی۔ الظن ھوالاعتقاد الراجح مع احتمال النقیض ویستعمل فی الیقین و الشک (اقرب) یعنی ظن کے معنی عام طور پر غالب خیال کے ہوتے ہیں جس کے ساتھ اس کے خلاف کا احتما بھی ہوتا ہے۔ اور نیز یہ لفظ یقین کے اور شک کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ احاطہ بالامر احدق بہ من جوانبہ اسے ہر طرف سے گھیر لیا۔ احیط بہ دنا ھلاکہ اس کی ہلاکت کا وقت آ گیا۔ (اقرب) الدین۔ الجزاء والمکافات۔ بدلہ الطاعۃ اطاعت۔ الذل۔ ذلت ماتحتی۔ الحساب۔ محاسبہ۔ القھروا الغلبۃ والاستعلاء۔ کامل غلبہ۔ والسلطان والملک والحکم بادشاہت اور حکومت۔ التدبیر۔ تدبیر۔ انتظام واسمٌ لجمع مایعبدبہ اللہ۔ تمام وہ طریق جن سے کوئی قوم خداتعالیٰ کی عبادت کرتی ہے۔ الملۃ مذہب و کیش۔ یعنی شریعت۔ الورع۔ نیکی۔ القضاء فیصلہ (اقرب) اس لفظ کے بعض معانی جو یہاں چسپاں نہ ہوتے تھے چھوڑ دیئے گئے ہیں۔
تفسیر
اس آیت میں بتایا ہے کہ سلسلہ سزا اور فضل کا برابر چلتا جاتا ہے۔ اور دوسری طرف سے بھی شرارت کا جب آرام ہو اور ناقص رجوع کا جب سزا کا وقت ہو۔ لیکن یہ لوگ کبھی خیال نہیں کرعتے کہ جس طرح نرم ہوا ہی کسی وقت سخت ہوکر ہلاکت کا موجب ہوجاتی ہے کہیں یہ فضل ہی ہماری تباہی کی صورت اختیار نہ کرے۔ اور معترضین کو خشکی اور تری کے حالات کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اور پھر مثال کے طور پر سمندر کے سفر کو لیا ہے کیونکہ پانی کو الہام الٰہی سے مناسبت ہے اور بتایا ہے کہ سمندروں میں جس طرح نرم ہوا کسی وقت طوفان بن جاتی ہے اسی طرح انبیاء کے مخالفوں کو جو وقفہ ملتا ہے اسے عذاب کا دور ہوجانا نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ ڈرنا چاہئے کہ یہ سکون کسی سخت طوفان کا پیش خیمہ نہ ہو۔ اور بتایا ہے کہ جب ایسا عذاب آتا ہے تو تم لوگوں کے دل نرم ہو جاتے ہیں اور تم خیال کرتے ہو کہ تدبیر اللہ تعالیٰ ہی کی چلتی ہے اور آئندہ اصلاح کے بڑے بڑے اقرار کرتے ہو۔ لیکن کیا یہ حالت ہمیشہ قائم رہتی ہے؟ اس کا جواب اگلی آیت میں دیا ہے۔ آیت کو شروع خطاب کی ضمیروں سے کیا تھا لیکن اس جملہ میں غائب کی ضمیر استعمال کی ہے۔ اس میں ایک لطیف اشارہ ہے اور وہ یہ کہ پہلے حصہ میں چونکہ مومن و کافر سب شامل تھے سب ہی کے لئے خداتعالیٰ نے خشکی و تری کے سفروں کے سامان پیدا کئے ہیں۔ اس لئے وہاں تو تم کہہ کر مسلمانوں کو بھی شامل رکھا لیکن اس جگہ یہ بتایا ہے کہ پھر ایک حصہ ناشکرگزاری کی طرف مائل ہو جاتا ہے اس وجہ سے ضمیر بدل دی اور فرمایا کہ جب انہیں لے کر کشتیاں چلتی ہیں تو پھر وہ یہ نمونہ دکھاتے ہیں کہ عذاب کے وقت تو رجوع دکھاتے ہیں اور فضل کے وقت روگردانی کرتے ہیں۔
۲۴ فَلَمَّا اَنْجَیْنٰھُمْ اِذَاھُمْ یَبْغُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ ط یٰٓاَیُّھَاالنَّاسُ اِنَّمَا بَغْیُکُمْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ لا مَّتَاعَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاز ثُمَّ اِلَیْنَا مَرْجِعُکُمْ فَنُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَo
ترجمہ
پھر جب وہ انہیں (اس سے) نجات دے کر خشکی پر پہنچاتا ہے تو جھٹ وہ زمین میں ناحق سرکشی کرنے لگتے ہیں (اے لوگو) تمہارا صرف ورلی زندگی کو چاہنا تمہارے نفسوں پر (وبال بن کر) پڑے گا۔ پھر ہماری طرف تمہاری واپسی ہوگی تب جو (کچھ کہ) تم کرتے رہے ہوگے ہم اس سے تمہیں آگاہ کریں گے۔
۲۴؎ حل لغات
بغٰی۔ یَبْغِیْ بَغْیًا وَبُغَائً وَّ بِغْیَۃً۔ طلبہ اسے طلب کیا۔ ڈھونڈا۔ الامۃ زنت جب لونڈی کے متعلق آئے تو اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ اس نے زنا کیا۔ فلان عداعن الحق۔ واستطال وظلمہ جب کہا جائے فلاں شخص نے بغاوت کی ہے تو اس کے معنی ہوں گے کہ اس نے انصاف کو چھوڑ کر دوسرے شخص پر ظلم کیا۔ (اقرب) المتاع۔ کل ماینتفع بہ من الحرائج کالطعام واثاث البیت واسلع وہ تمام اشیاء جن سے ضرورت کے وقت فائدہ اٹھایا جاتا ہے متاع کہلاتی ہے۔ جیسے کھانا، گھر کا سامان فروخت کی چیزیں وغیرہ۔ وقیل ما ینتفع بہ من عروض الدنیا قلیلھا وکثیرھا ماسوے القضۃ والذھب اور بعض کے نزدیک دنیا کا سب سامان جس سے نفع اٹھایا جاتا ہے وہ متاع ہے خواہ تھوڑا ہو خواہ بہت۔ سوائے سونے چاندی کے۔ وعرفا کل مایلبسہ الناس ویبسطہ اور عرف عام میں متاع ان کپڑوں کو کہتے ہیں جو انسان پہنتا ہے یا فرش وغیرہ جو بچھائے جاتے ہیں۔ وفی الکلیات المتاع والمتعۃ ماینتفع بہ انتفاعا قلیلا غیرباق بل یقضی عن قریب یعنی کلیات میں ہے کہ متاع اور متعہ اس چیز کو کہتے ہیں جس سے قلیل فائدہ حاصل کیا جاتا ہو۔ اور جس کا فائدہ مستقل نہ ہو بلکہ جلدی ختم ہو جائے۔ اصل المتاع مایتبلغ بہ من الزاد متاع اصل میں وہ زاد ہے کہ جس کے ذریعہ سے منزل مقصود تک پہنچا جائے۔ (اقرب)
تفسیر
فرماتا ہے کہ مصیبت کے وقت تو تم رجوع کا وعدہ کرتے ہو لیکن جب ہم مصائب کو ٹلا دیتے ہیں تو پھر تم فساد اور ظلم کی راہ اختیار کرلیتے ہو۔ مگر اس قدر نہیں سمجھتے کہ وہ فساد اور وہ ظلم خود تمہارے ہی خلاف پڑتا ہے۔ کیونکہ شریعت کے احکام کوئی چٹی نہیں ہیں کہ ان سے بچ کر انسان یہ خیال کرلے کہ میں ایک مصیبت سے بچ گیا ہوں بلکہ وہ تو انسان کو ہلاکت سے بچانے کے لئے آتے ہیں۔ پس جو ان سے بچتا ہے اور دور بھاگتا ہے اس کا نقصان خود اسے ہیہ ہوتا ہے اور جس وقت وہ اپنی کامیابی پر فخر کررہا ہوتا ہے تو مستقبل اس کے بدانجام پر روتا ہے۔
انمابغیکم علی انفسکم میں اسی طرف اشارہ ہے کہ اسلام شریعت کو *** نہیں بلکہ رحمت قرار دیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ صرف وہی احکام دیتا ہے جو انسان کے نفع کے لئے ہوں۔ پس ان سے بھاگنا خود انسان کے لئے تباہی کا موجب ہوتا ہے۔ جیسے کوئی شخص طبیب کے نسخہ کے خلاف کرے تو اس کی بیماری بڑھے گی۔ اور وہ تکلیف اٹھائے گا۔
متاع الحیوۃ الدنیا سے اس سوال کوا جواب دیا ہے کہ شریعت کو توڑ کر اور نبیوں کی مخالفت کرکے کیوں انسان بعض وقت ترقی بھی کرتا ہے اور اسے فائدہ بھی پہنچ جاتا ہے جواب یہ دیا ہے کہ بعض اعمال کرنے کے وقت لذیذ معلوم ہوتے ہیں مگر جب کچھ عرصہ کے بعد ان کا نتیجہ نکلتا ہے تو وہ تکلیف دہ ہوتا ہے مثلاً ایک بدپرہیز بیمار جس وقت بدپرہیزی کرتا ہے تو اس وقت تو وہ لذت ہی حاصل کررہا ہوتا ہے اگر اس وقت اسے تکلیف ہو تو وہ بدپرہیزی کرے ہی کیوں۔ لیکن بعد میں جب بیماری بڑھتی ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے دنیوی اموال کا نام متاع رکھ کر اس امر کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ وہ دنیا کے اموال اور سامان درحقیقت زادراہ کے طور پر ہیں۔ جس طرح وہ شخص جو زادراہ کو ضائع کر دے نقصان اٹھاتا ہے۔ اسی طرح وہ شخص جو ان اموال کو بچائے اس غرض میں استعمال کرنے کے جس کے لئے وہ پیدا کئے گئے ہیں دوسری اغراض میں خرچ کردیتا ہے۔ نقصان اٹھاتا ہے اور اپنی زندگی کے مقصد یعنی لقاء الٰہی سے محروم رہ جاتا ہے۔
۲۵ اِنَّمَا مَثَلُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا کَمَائٍ اَنْزَلْنٰہُ مِنَ السَّمَآئِ فَاخْتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ مِمَّا یَاْکُلُ النَّاسُ وَالْاَنْعَامُ ط حَتّٰیٓ اِذَا اَخَذَتِ الْاَرْضُ زُخْرُفَھَا وَازَّیَّنَتْ وَظَنَّ اَھْلُھَا اَنَّھُمْ قٰدِرُوْنَ عَلَیْھَا لا اَتٰھَآ اَمْرُنَا لَیْلًا اَوْنَھَارًا فَجَعَلْنٰھَا حَصِیْدًا کَاَنْ لَّمْ تَغْنَ بِالْاَمْسِ ط کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَO
ترجمہ
اس ورلی زندگی کی حالت (تو) اس پانی کی طرح ہے جسے ہم نے بادل سے برسایا پھر اس کے ساتھ زمین کی روئیدگی جسے آدمی اور (نیز) چار پائے کھاتے ہیںمل (کر یکجان ہو) گئی یہاں تک کہ جب زمین نے (اس کے ذریعہ سے) اپنی کمال درجہ کی زینت کو پالیا اور خوبصورت ہو گئی اور اس کے مالکوں نے سمجھ لیا کہ (اب) وہ اس پر قابو یافتہ ہیں تو اس پر دن کو یا رات کو (عذاب کے متعلق) ہمارا حکم آ گیا اور ہم نے اسے ایسا کر دیا کہ گویا وہ ایک کٹا ہوا کھیت ہے گویا (یہاں) کل (کچھ) تھا (ہی) نہیں (غرض) جو لوگ سوچ سے کام لیتے ہیں ان کے لئے ہم اسی طرح پر (اپنی) آیات کو کھول کر بیان کرتے ہیں۔
۲۵؎ حل لغات
الْمَثَلُ۔ الشبہ والنظیر۔ مشابہ اور نظیر۔ الصفۃ حالت بیان۔ الحجۃ دلیل ثبوت۔ الحدیث بات۔ القول السائر ضرب المثل (اقرب) اختلط خلط میں سے باب افتعال کی ماضی ہے۔ اس کے معنی ہیں امتزج مل جل گیا۔ الجمل سمن موٹا ہو گیا۔ الظلام اعتکو سخت تاریک ہو گیا (اقرب) انعام۔ نَعَم کی جمع ہے۔ اس کے معنی ہیں الابل اونٹ۔ الشاۃ بکری و قیل خاص بالابل یعنی بعض کے نزدیک نعم صرف اونٹ کے لئے خاص ہے۔ قال ابوعبیدۃ النعم الجمال فقط۔ یؤنث و یذکر۔ ابوعبیدہ کا قول ہے کہ نعم صرف اونٹوں کو کہتے ہیں اور یہ لفظ مذکر و مؤنث دونوں طرح استعمال ہوتا ہے وقیل یطلق الانعام علی ھذہ الثلاثۃ الابل والبقر والغنم۔ واذا تفردت البقر والغنم لم تسم الانعام اور بعض کے نزدیک اونٹ گائے بکری ان تینوں کے متعلق جب اکٹھا ذکر ہو تو نعم بول سکتے ہیں۔ اور اگر اکیلی بکریاں ہوں یا گائے اور بکریاں ہوں یا اکیلی گائے ہوں تو ان کے لئے نعم کا لفظ نہیں بول سکتے۔ (اقرب) الذخرف۔ الذعب سونا کمال حسن الشئی کسی چیز کی خوبصورتی کا کمال۔
الزخرف من الارض الوان نباتھا۔ جب زمین کے متعلق یہ لفظ بولیں تو اس کی سبزیوں کے اقسام اور رنگ مراد ہوتے ہیں (اقرب) الحصید۔ مقطوع بالمناجل۔ جسے درانتیوں سے کاٹا جائے المستاصل جڑ سے اکھاڑی ہوئی چیز (اقرب) غَنِیَ بالمکان اقام بہ مکان میں ٹھہرا۔ لم تغن نہ ٹھہرا۔ گویا اس کا وجود ہی نہ تھا۔
تفسیر
یہ ایک تمثیل ہے فرمایا کہ ورلی زندگی کی حالت بالکل پانی کی سی ہے۔ جیسے پانی آسمان سے اترتا ہے اور اس سے زمین میں رنگارنگ کی سبزیاں پیدا ہوتی ہیں۔ کوئی تو انسانوں کے کھانے کے کام آتی ہے اور کوئی حیوانوں کے۔ اس شادابی کو دیکھ کر انسان بجائے اس کے کہ وہ یہ سمجھے کہ یہ سب کچھ خدا کے فضل سے ہوا ہے یہ خیال کرنے لگتا ہے کہ یہ ہماری ہی طاقت اور ہنر سے پیدا ہوا ہے جس وقت اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہو جاتا ہے کہ میں ان کے اگانے پر قادر ہوں تو اتاھا امرنا۔ اچانک ہمارا عذاب آجاتا ہے جو اس کو تباہ کر دیتا ہے۔ وہ تو یہ دعویٰ کرتا تھا کہ میں خود اگاتا تھا۔ لیکن عذاب آنے کے وقت اس کو محفوظ بھی نہیں رکھ سکتا۔ یعنی جب اقوام میں کبر اور خودپسندی پیدا ہوتی ہے تو ان کی تباہی کا وقت آجاتا ہے۔
اس آیت میں روحانی کلام کو پانی سے مشابہت دی ہے کلام الٰہی جب نازل ہوتا ہے تو دنیا میں تغیرات پیدا ہونے لگ جاتے ہیں۔ اور قسم قسم کے علوم نکلنے لگتے ہیں۔ جیسے قرآن کریم کے نزول کے بعد، اولیاء، محدث، فلسفی وغیرہ ہر قسم کے اہل علم انسان پیدا ہو گئے۔ یہاں تک کہ جب وہ زمانہ آیا کہ مسلمانوں نے سمجھ لیا کہ انہم قادرون علیہا کہ یہ علوم انہوں نے خود ہی ایجا کئے ہیں تو وہی مسلمان جو بڑے بڑے ماہر علوم سمجھے جاتے تھے ذلیل ہو گئے۔ حق تو یہ ہے کہ جو موجب بھی خدا کی طرف سے آتا ہے وہی تغیر پیدا کرتا ہے اور جب وہ موجب نظروں سے دور ہو جاتا ہے تو لوگ خیال کرنے لگ جاتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہماری طرف سے ہو رہا ہے۔
فکر کے معنی ہیں ماضی کے حالات کے تسلسل کو ذہن میں قائم رکھنا۔ پس فرمایا کہ جو لوگ گزشتہ حالات کو ذہن میں رکھتے ہیں وہی فائدہ اٹھاتے ہیں اور جو اس تسلسل کو قائم نہیں رکھتے وہ فائدہ نہیں اٹھاتے۔
اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ ہر اک قوم میں خواہ وہ انبیاء سے کس قدر بھی قریب کیوں نہ ہو اچھے برے آدمی پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن جب تک خشیت قائم رہتی ہے اور اللہ تعالیٰ پر توکل رہتا ہے قوم ہلاک نہیں ہوتی۔ مگر جب قوم میں خودپسندی اور کبر پیدا ہو جائے تو وہ تباہ کر دی جاتی ہے۔ پس نبی کا مقابلہ نہ کرو کہ یہ خودپسندی کی علامت ہے اور خودپسند تباہ کر دیا جاتا ہے۔
اس جگہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے جو کلام نازل ہوتا ہے اس سے لوگ برے اور بھلے دونوں قسم کے نتائج پیدا کرلیتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کی غرض اس کلام کے نازل کرنے سے یہی ہوتی ہے کہ لوگ اس سے حقیقی آرام کی جگہ کو حاصل کرلیں۔
۲۶ وَاللّٰہُ یَدْعُوْآ اِلٰی دَارِالسَّلَامِ ج وَیَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍO
ترجمہ
اور اللہ (تعالیٰ) سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے اور جسے پسند کرتا ہے (اسے) ایک سیدھی راہ پر چلا (کر منزل مقصود پر پہنچا) دیتا ہے۔
۲۶؎ حل لغات
السلام اس کے معنی پہلے آچکے ہیں۔ دارالسلام جنت کو بھی کہتے ہیں۔ (اقرب)
تفسیر
اللہ پر توکل کرنے والے کی حالت مستقل ہوتی ہے۔ سب اشیاء اس کی سلامتی چاہتی ہیں۔ کامل مطیع کے لئے لوگ دعائیں کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ دنیا کے لئے مفید ہوتا ہے۔ سلام کے معنی اطاعت کے بھی ہیں۔ اس صورت میں معنی یہ ہوئے کہ اس کو فرمانبرداری کے مقام پر کھڑا کر دیتا ہے یعنے اللہ تعالیٰ اسے حال سے نکال مقام تک لے آتا ہے۔ اور چونکہ سلام کے معنی جنت کے بھی ہیں اس لئے یہ معنی بھی ہوئے کہ اس کو جنت کا وارث کر دیتا ہے اور سلام چونکہ خدا کا نام بھی ہے اس لئے دارالسلام تک پہنچانے کے یہ معنی بھی ہوئے کہ اس کو اپنے لقا کا وارث کر دیتا ہے۔
ویھدی من یشاء الی صراط مستقیم یعنی جلد سے جلد اسے کامیاب کر دیتا ہے۔ کیونکہ سیدھا راستہ سب سے چھوٹا ہوتا ہے۔ یہ انبیاء اور اولیاء کا مقام ہے۔ بعض کو آواز دیتا ہے اور بعض کے پاس آپ آ کر انہیں ساتھ لے جاتا ہے۔ یہ موہبت کا مقام ہے۔
۲۷ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰی وَزِیَادَۃٌَط وَلَایَرْھَقُ وُجُوْھَھُمْ قَتَرٌ وَّلَاذِلَّۃٌط اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِج ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَO
ترجمہ
ان لوگوں کے لئے جنہوں نے نیکو کاری اختیار کی بہترین انجام ہوگا اور (اس پر) مزید (انعامات بھی) اور ان کے چہروں پر نہ غبار چھائے گا اور نہ ذلت (کے آثار ہوں گے) یہ لوگ جنت (میں رہنے) والے ہیں اور وہ اس میں رہا کریں گے۔
۲۷؎ حل لغات
الحسنی۔ عند السوء بدی کے مقابل کی حالت۔ العاقبۃ الحسنۃ۔ اچھا انجام الظفر۔ فتح۔ الشحاذۃ۔ چستی اور ہوشیاری النظرالی اللہ۔ للہ تعالیٰ کی رویت (اقرب)
رَھِق یَرْھَقُ۔ رَھْقًا سَفِہَ بیوقوفی کی۔ دکب الر والظلم برائی اور ظلم کا مرتکب ہوا۔ غشی المحارم ناجائز کام کئے۔ کذب جھوٹ بولا۔ عجل جلدی کی۔ رھق فلانا غشیہ ولحقہ۔ اس کے پاس گیا۔ اور اس سے جاملا۔ کہتے ہیں رھقت الکلاب الصید کتوں نے شکار کو جالیا۔ اور بعض کہتے ہیں دنامنہ۔ سوائٌ اخذہ اولم یاخذہ قریب ہو گیا۔ خواہ اسے پکڑا ہو یا نہ (اقرب) القتر۔ الغبرۃ۔ غبار (اقرب) الدخان الساطع من الشواء والعود ونحوھما۔ جس چیز کو بھونا جائے۔ اس کا دھواں یا لکڑی کا یا ایسی ہی اور چیزوں کا دھواں (مفردات)
الذلۃ۔ ذَلَّ یَذُلُّ ذُلًّا۔ ضد صَحُبَ یقال ذلت لہ القوا فی سہلت۔ ذل مشکل یا سخت ہوا کے مخالف معنی دیتا ہے۔ چنانچہ کہتے ہیں ذلت لہ القوا فی یعنی قوافی اس کے ذہن میں آسانی سے آتے گئے (اقرب) ذلیل کو ذلیل اس لئے کہتے ہیں کہ ایسے شخص پر ظلم کرنا لوگوں کے لئے آسان ہوتا ہے۔
۲۸ وَالَّذِیْنَ کَسَبُوا السَّیِّاٰتِ جَزَآئُ سَیِّئَۃٍ بِمِثْلِھَالا وَتَرْھَقُھُمْ ذِلَّۃٌط مَالَھُمْ مِّنَ اللّٰہِ مِنْ عَاصِمٍ ج کَاَنَّمَآ اُغْشِیَتْ وُجُوْھُھُمْ قِطَعًا مِّنَ الَّیْلِ مُظْلِمًاط اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِج ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَO
ترجمہ
اور جنہوں نے بدیاں کی ہوں گی (ان کے لئے )بدی کا بدلہ اس (بدی) کے برابر ہوگا اور انہیں ذلت پونہنچے گی اور کوئی بھی انہیں اللہ (کے عذاب) سے بچانے والا نہیں ہوگا (اور ان کی حالت ایسی ہوگی) گویا ان کے مونہوں پر رات کے کئی (کئی) تاریک حصے ڈال دیئے گئے ہیں۔ یہ (لوگ) آگ (میں رہنے) والے ہیں وہ اس میں رہا کریں گے۔
تفسیر
للذین احسنوا کے معنی یہ ہوئے کہ مومنوں کا انجام نیک ہوگا۔ ان کو کامیابیاں ملیں گی۔ اللہ تعالیٰ ان کے اندر چستی اور تیزی پیدا کر دیگا۔ وزیادۃ یعنی خود خدا ان کو مل جائے گا۔ اور وہ ہر قسم کی ذلت اور بدنامی سے محفوظ ہوں گے۔ اور لوگوں سے دبیں گے نہیں یعنی یہ نہیں ہوگا کہ غلاموں کی طرح لوگوں کی نقل کریں بلکہ ان کو اللہ ایسا بنائے گا کہ لوگ ان کی نقل کریں گے۔
۲۸؎ حل لغات
عاصم اسم فاعل ہے۔ عصم سے عصم الشئی۔ مَنَعَہ روک کر محفوظ کر دیا۔ حفظہ حفاظت کرکے بچا لیا۔ القطع۔ لقطعۃ من الیل رات کا ایک حصہ اور قطعۃ کی جمع بھی ہے جس کے معنی ہیں الحصہ من الشئی کسی چیز کا کوئی ایک حصہ۔ خالدون خلد سے اسم فاعل کا صیغہ ہے خلد بالمکان والی المکان۔ اقام روپڑا۔ (اقرب)
تفسیر
ایک تو اس جگہ یہ بتایا ہے کہ گو نیکی کی جزاء عمل سے زیادہ ملتی ہے۔ مگر بدی کی جزا اللہ تعالیٰ عمل سے زائد نہیں دیتا۔ بلکہ اس کے مطابق دیتا ہے۔ دوسرے یہ بتایا ہے کہ خداتعالیٰ کا قانون توڑنے والے اعلیٰ ہمتوں سے محروم ہوتے ہیں۔ اور صرف نقال رہ جاتے ہیں۔ خود ان میں اقدام اور ایجاد کی طاقت نہیں رہتی۔ ان کے نزدیک تمام ترقیات کی جڑھ دوسروں کی نقل ہوتی ہے۔ ان کی امیدوں میں کبھی اس خیال کو جگہ نہیں ملتی کہ وہ دنیا کی راہ نمائی کریں اور لوگ ان کے پیچھے چلیں۔ تیسرے یہ بتایا ہے کہ ایسی گری ہوئی حالت سے انسان خود نہیں اٹھ سکتا۔ بیرونی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن یہ لوگ چونکہ خداتعالیٰ کو بھی ناراض کرلیتے ہیں اس لئے بیرونی مدد سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔ چوتھے یہ بتایا کہ بدی آخر ظاہر ہو کر رہتی ہے اور ظلم چھپ نہیں سکتا۔ پس دنیا بھی ان کی کمزوریوں سے واقف ہوجاتی ہے۔ نیز اس طرف بھی اشارہ فرمایا ہے کہ اگر یہ لوگ خداتعالیٰ کی رضا کے لئے مظالم اور بدیوں سے نہیں بچتے تو کم سے کم اس امر کا ہی خیال کریں کہ یہ اپنی ذلت کا سامان پیدا کررہے ہیں۔
۲۹ وَیَوْمَ نَحْشُرُھُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا مَکَانَکُمْ اَنْتُمْ وَشُرَکَاؤُکُمْ ج فَزَیَّلْنَا بَیْنَھُمْ وَقَالَ شُرَکَاؤُھُمْ مَّاکُنْتُمْ اِیَّانَا تَعْبُدُوْنَO
ترجمہ
اور (اے لوگو! اس دن کو یاد کرو) جس ہم ان سب کو جمع کریں گے پھر جنہوں نے شرک کیا (ہوگا) انہیں ہم کہیں گے (کہ پرے ہٹ کر) اپنی جگہ پر (کھڑے رہو) تم بھی اور تمہارے (بنائے ہوئے خدائی کے) حصہ دار (بھی) پھر ہم ان میں آپس میں بھی جدائی ڈال دیں گے اور ان کے (بنائے ہوئے خدا کے) شریک (انہیں) کہیں گے (کہ) تم ہماری عبادت (تو ہرگز) نہیں کرتے تھے۔
۲۹؎ حل لغات
مکانک۔ یہ محاورہ ہے۔ اس کے معنی ہیں اپنی جگہ پر ٹھہرے رہو۔ زیلہ فرقہ پراگندہ کر دیا۔ (اقرب)
تفسیر
اس جگہ اللہ تعالیٰ نے اس عظیم الشان اجتماع کا ذکر فرمایا ہے جو ایک دن سب صداقتوں کے ظاہر کرنے کا موجب ہوگا۔ مگر جس کا سمجھنا اس دنیا میں بھی عقل خداداد سے آسان اور سہل ہے۔
یاد رکھنا چاہئے کہ اس آیت میں ان شرکاء کا ذکر ہے جنہیں لوگوں نے زبردستی ان کے علم کے بغیر خداتعالیٰ کا شریک مقرر کر چھوڑا ہے جیسے ملائکہ یا حضرت کرشن۔ رامچندر، عیسیٰ علیہ السلام اور امام حسن اور امام حسین سید عبدالقادر جیلانی وغیرہھم رضی اللہ عنہم۔ کیونکہ اگلی آیت سے ثابت ہے کہ وہ شرکاء خداتعالیٰ کو گواہ کے طور پر پیش کریں گے۔ کہ انہیں اس شریک بنانے کے فعل سے بالکل بے خبری تھی۔ زیلنابینھم سے بھی اس جگہ یہی مراد ہے کہ اس موقع پر ثابت ہو جائے گا کہ یہ حضرات ان مشرکوں سے کسی قسم کا تعلق نہ رکھتے تھے۔ اور ان کی طرف منسوب ہونے والی جماعتیں جو شرک میں مبتلا تھیں جھوٹ سے کام لے رہی تھیں۔
پہلے اپنی اپنی جگہ کھڑا ہونے کا حکم بتایا ہے پھر تفرقہ کا۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ پہلے مشرکوں کو اپنا دعویٰ ثابت کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ جب ان کا دعویٰ بے دلیل رہے گا تو اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جن کو معبود بنایا جاتا تھا بری قرار دے کر الگ کر دے گا اور اس وقت وہ لوگ خوشی سے اپنی براء ت کا اظہار کریں گے۔ اگر یہ سوال ہو کہ اس جگہ معبودوں سے مراد اگر وہ ہیں جو عبادت سے بے خبر ہیں تو ان معبودوں کا ذکر کیوں نہیں کیا جو خود شرک کے بانی ہوتے ہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایسے لوگ خود مشرک ہیں۔ اور اس وجہ سے مشرکین میں ان کا ذکر آگیا ہے۔ اس جگہ صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ رسول کریمؐ کے مخالفین جو شرک کے عقیدہ کو اس دلیل کے ذریعہ سے ثابت کرتے ہیں کہ پہلے انبیاء اور اولیاء اس کی تائید میں ہیں درست نہیں۔ اور اس کا رد یوں کیا ہے کہ ان کی تائید کا ثبوت تمہارے پاس کوئی نہیں ہے۔ وہ لوگ ہرگز اس کی تائید میں نہیں ہیں۔ یہ تمہارے اپنے منہ کے دعوے ہیں۔
۳۰ فَکَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیْدًام بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ اِنْ کُنَّا عَنْ عِبَادَتِکُمْ لَغٰفلِیْنَO
ترجمہ
پس تمہارے درمیان اور ہمارے درمیان (خود) اللہ (تعالیٰ) کافی گواہ ہے۔ ہم تمہاری پرستش سے یقینا بے خبر تھے۔
۳۰؎
یہاں اللہ تعالیٰ نے کیا عجیب نقشہ کھینچا ہے۔ فرماتا ہے ایک دن ایسا آنے والا ہے کہ ہم سب کو اکٹھا کریں گے اور شرکاء اور مشرکین کو کہیں گے کہ اپنی اپنی جگہ پر ٹھہرے رہو۔
یہ آیت حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات پر بھی دلالت کرتی ہے کیونکہ اس سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام قیامت تک ان لوگوں کے افعال سے جو انہیں خدا کا شریک قرار دیتے ہیں ناواقف ہوں گے لیکن اگر ان کو زندہ تسلیم کیا جائے اور یہ سمجھا جائے کہ وہ اس دنیا میں دوبارہ آئیں گے تو کس طرح ممکن ہے کہ وہ قیامت میں نعوذباللہ من ذلک جھوٹ بولیں گے کہ مجھے تو خبر بھی نہیں کہ یہ لوگ مجھے اللہ تعالیٰ کا شریک مقرر کرتے تھے۔
۳۱ ھُنَالِکَ تَبْلُوْا کُلُّ نَفْسٍ مَا اَسْلَفَتْ وَرُدُّوْآ اِلَی اللّٰہِ مَوْلٰھُمُ الْحَقِّ وَضَلَّ عَنْھُمْ مَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَo
ترجمہ
(تب) وہاں ہر ایک شخص جو کچھ اس نے (اپنے لئے) بویا ہوگا اس کا امتحان کرے گا اور انہیں ان کے سچے مالک اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹا (کر) لایا جائے گا اور جو کچھ وہ (اپنے پاس سے) گھڑتے تھے وہ (سب) انہیں بھول جائے گا۔
۳۱؎ حل لغات
بلاہ۔ یبلوہ بلائً و بلوًا۔ جربہ واختبرہ۔ اس کا تجربہ کیا اور اس کی حقیقت معلوم کی (اقرب) المولی۔ المالک۔ مالک۔ المعتق آزاد کرنے والا۔ الصاحب۔ ساتھی۔ آقا الحلیف۔ معاہد۔ الرب۔ رب۔ الولی کارساز۔ المنعم۔ محسن۔ المحب محبت کرنے والا۔ القریب۔ رشتہ دار (اقرب) الحق۔ ضد الباطل جھوٹ کے خلاف چیز یعنی سچ۔ الامرالمقضی ہوکر رہنے والی بات۔ العدل انصاف۔ الملک۔ مالکیت۔ الموجود الثابت۔ موجود اور ثابت شدہ چیز۔ الیقین بعد الشک شک کے بعد یقین کا آنا۔ الموت موت (اقرب) ضل یضل ضد اھتدی یعنی ہدایت کے خلاف حالت پر ہو گیا۔ اور دین اور حق کو نہ پایا۔ ضل عنہ یضل یلم یھتد الیہ۔ اس طرف راہ نہیں پائی۔ ضل یضل (ضاد کی زبر سے) فلان الطریق۔ و عن الطریق۔ لم یھتد الیہ۔ راستہ نہ پایا۔ یہی معنی ہوتے ہیں۔ جب داریا منزل یا ہر اپنی جگہ پر قائم رہنے والی چیز کا اس کے بعد مذکور ہو۔ ضل الرجل فی الدین ضلالا وضلالۃ۔ ضد اھتدی۔ اس شخص نے دین کے معاملہ میں درست راہ نہیں پائی۔ ضل فلان الفرس۔ اس کا گھوڑا کھویا گیا۔ ضل عن کذا ضاع۔ ضائع ہو گیا۔ ضل الماء فی الدین خفی و غاب۔ پانی دودھ میں مل گیا۔ اور غائب ہو گیا۔ ضل فلان فلانا نسیہ۔ اس شخص کو بھول گیا۔ ضل الناسی غاب عنہ حفظ الشئی بھول گیا۔ اس کے ذہن سے بات نکل گئی۔ ضل سعیہ عمل عملا لم یعد علیہ نفعہ۔ ایسا کام کیا جس کا اسے کوئی نفع نہ ہوا (اقرب)
تفسیر
بتایا کہ ہر کام کی حقیقت اس کی سب کیفیات کے ساتھ اسی دنیا میں معلوم نہیں ہوتی۔ بعض اشیاء کی حقیقت بالکل اور بعض کی پورے طور پر اگلے جہان میں ہی کھلے گی۔ اور اس وجہ سے اصل فیصلہ بھی وہیں ہوگا۔ اور جو اصل مالک ہے وہ فیصلہ کرے گا۔ا ور بوجہ حقیقت کے کھل جانے کے سب جھوٹ بھول جائیں گے۔
مولٰھم الحق کہہ کر ایک تو ان تمام معانی کی طرف اشارہ فرمایا ہے جو اس لفظ مولا کے ہیں۔ اور دوسرے اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ وہ عادل قائم بذاتہ اور منعم خدا کو چھوڑ کر کہاں جاسکتے ہیں۔ اور ایسی ہستی کے عذاب سے کیونکر بچ سکتے جو ہمیشہ قائم رہنے والی ہے۔ ضدعنھم میں دو باتیں بتائی ہیں ایک تو یہ کہ وہ خود اپنے اعمال کو بھول جائیں گے کیونکہ جب انسان کو اپنے قصور کا علم ہوتا ہے تو وہ اسے بھلانے کی کوشش کرتا ہے۔ دوسرے یہ کہ ان اعمال کا انہیں کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔
۳۲ قُلْ مَنْ یَّرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ اَمَّنْ یَّمْلِکُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَمَنْ یُّخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَمَنْ یُّدَبِّرُ الْاَمْرَط فَسَیَقُوْلُوْنَ اللّٰہُ ج فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَo
ترجمہ
تو (ان سے) کہ (کہ بتاؤ) آسمان اور زمین سے تمہیں کون روزی دیتا ہے۔ یا (یہ کہ) کانوں اور آنکھوں پر کون قابو رکھتا ہے اور کون (ایک) مردہ (چیز) میں سے زندہ (چیز) نکالتا اور زندہ (چیز) میں سے مردہ (چیز) نکالتا ہے اور کون (اس) تمام امر کا انتظار کرتا ہے۔ اس پر وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ (تعالیٰ کرتا ہے) تب (انہیں) کہہ (کہ پھر وجہ) کیا (ہے کہ) پھر (بھی) تم تقویٰ اختیار نہیں کرتے۔
۳۲؎
چند ہی ایسی جگہیں ہیں جہان عیسائی مفسروں نے تعریف کی ہے۔ ان مقامات میں سے ایک یہ بھی ہے۔
ویری صاحب لکھتے ہیں کہ اس آیت میں توحٰد کی تائید میں بہت زبردست دلیلیں دی گئی ہیں۔ اور لکھا ہے کہ اسلام کی کامیابی کا ایک بہت بڑا ذریعہ یہ تعلیم ہے۔ لیکن تعجب ہے کہ اسی منہ سے پھر پادری صاحبان اسلام کی کامیابی کو تلوار اور لالچ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اور کبھی اس کی بزعم خود گری ہوئی اخلاقی تعلیم کی طرف۔
اس آیت میں خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ زمین و آسمان دونون سے رزق آتا ہے یعنی ایک جگہ کا رزق کافی نہیں ہوتا۔ اگر پانی برستا رہے اور زمین میں اگانے کی طاقت نہ ہو تو یہ کافی نہیں۔ اسی طرح اگر پانی نہ برسے یا اس کے برسنے میں دیر ہوجائے تو زمین کی اگانے کی طاقت کافی نہیں ہوتی۔ اسی طرح خالی عقل انسان کی روحانی ہدایت کے لئے کافی نہیں۔ انسانی دماغ زمین کے مشابہ ہے جب تک اس پر الہام کی بارش نہ برسے وہ کبھی بھی روحانی روئیدگی جو روحانی غذا کا کام دے پیدا نہیں کرسکتا۔ پس تم لوگ کس طرح دعوے کرسکتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے الہام کے بغیر آپ ہی آپ تم خداتعالیٰ کو پا لو گے۔ عقل بے شک ضروری شئے ہے مگر جس طرح انکھ بغیر سورج کی روشنی کے نہیں دیکھ سکتی وہ بھی بغیر الہام کے صحیح نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتی۔
پھر فرمایا تمہارے کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے۔ اگر ان کا کوئی اور مالک ہو اور ہدایت دینا کسی اور کام ہو تو بے شک تم کہہ سکتے ہو کہ ہدایت دینے والے نے پرواہ نہیں کی۔ اور روحانی کانوں اور آنکھوں کے لئے ان کا کام مہیا نہیں کیا۔ لیکن جس نے کان اور آنکھیں دی ہیں اگر اسی کا کام ہدایت دینا ہے تو کیا یہ بے وقوفی کی بات نہیں ہوگی کہ وہ کان اور آنکھیں تو پیدا کرے لیکن جو کام ان سے لینا ہے اس کا انتظام وہ نہ کرے۔
اسی طرح فرماتا ہے دیکھو کون زندہ کو مردہ اور مردہ کو زندہ کررہا ہے۔ یعنی اچھوں سے برے اور بروں سے اچھے پیدا ہورہے ہیں۔یا مردوں سے زندہ نکل رہے ہیں۔ زمین میں کھاد ڈالتے ہیں جو فضلہ یعنی مردہ چیز ہوتی ہے لیکن اس سے سبز کھیتی نکل آتی ہے۔ اسی طرح سبز کھیتی فضلہ بن کر مردہ ہو جاتی ہے۔ جب یہ کام تمہیں نظر آرہا ہے اور تم دیکھ رہے ہو تو تم کس طرح امید کرتے ہو کہ خدا تعالیٰ انکار پر فوراً لوگوں کو سزا دے دے۔ اور اصلاح کا موقع نہ دے۔ جب ایک بظاہر مردہ چیز سے زندگی کے سامان پیدا ہونے لگتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ایک مردہ دل سے کسی وقت روحانی زندگی کا چشمہ نہ پھوٹ پڑے۔ اور جب یہ امکان باقی ہے تو اللہ تعالیٰ کیوں نہ لوگوں کو ڈھیل دے تاکہ جو لوگ زندہ ہونے والے ہیں وہ زندہ ہو جائیں۔ پھر فرماتا ہے دیکھو ومن یدبر الامر۔ کون تدبیر کررہا ہے۔ تمام کام کون چلاتا ہے۔ وہ کہیں گے اللہ۔ پھر کیا یہ عجیب بات نہیں کہ جس کے سپرد کام چلانا ہو وہ اسے تباہ کر دے۔ مشین پر کام کرنے کے لئے جو آدمی مقرر ہوتا ہے وہ مشین کو چلایا کرتا ہے یا تباہ کرتا ہے۔ کوئی دانا اپنی چیز کو تباہ کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ بلکہ اس سے کام لینے کی کوشش کرتا ہے۔ پس ان سے پوچھو کہ خدا تعالیٰ اس کارخانۂ عالم کو جس میں اس کی قدرت کا ظہور ہورہا ہے کیوں جلدی اور عجلت سے تباہ کردے؟ اسے تو اس کارخانہ کو بچانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ نہ کہ تباہ کرنے کی۔ یہ اس اعتراض کا جواب دیا ہے کہ جب انذار کی خبر دی گئی تھی تو کیور وہ فوراً پوری نہیں کی گئی۔
اتقا کے معنی ہیں کسی کو اپنے بچاؤ کا ذریعہ بنانا۔ پس افلاتتقون کا یہ مطلب ہے کہ صداقت کے ان اصول کو دیکھ کر تم خدا کو اپنا محافظ کیوں نہیں بناتے۔ یعنی جب تمام قانونِ قدرت میں رحم کا اور ڈھیل کا پہلو غالب نظر آٹا ہے تو تمہیں چاہئے تھا کہ تم اس سے فائدہ اٹھا کر اللہ تعالیٰ سے صلح کرنے کی کوشش کرتے نہ یہ کہ بار بار عذاب پر زور دیتے۔
اس آیت کی ترتیب پر غور کرو کیسی بے نظیر ہے۔ اول رزق کا ذکر فرمایا ہے جو بقائے حیات کا موجب ہوتا ہے۔ پھر کان اور آنکھ کا ذکر کیا ہے جو عقل کا ذریعہ ہیں۔ پھر موت اور حیات کا ذکر کیا ہے جو قوت عملیہ پر دلالت کرتی ہے۔ جو عقل کے بعد آتی ہے۔ پھر تدبیر کا ذکر کیا ہے جس کی اعمال کے شروع کرنے پر ضرورت ہوتی ہے۔ کیونکہ تدبیر کے معنی ہی یہ ہیں کہ مختلف اعمال میں صحیح نظام قائم رکھا جائے۔ غرض انسان کی پیدائش کے مقصد کو پورا کرنے کے لئے جن چار ذرائع کی ضرورت ہے ان چاروں کو علی الترتیب پیش کیا ہے۔ اور پوچھا ہے کہ بتاؤ کہ کوئی نادان ایسا ہوگا کہ جو حیات پیدا کرے پھر احساس پیدا کرے۔ پھر قوت عملیہ پیدا کرے۔ پھر اعمال کے لئے ایک نظام مقرر کرے اور پھر یہ سب کچھ پیدا کرکے انسان کو چھوڑ کر الگ ہو جائے اور ان اسباب کو کسی خاص مقصد کے لئے لگانے کی ہدایت نہ دے۔ ہر اک جو ذرہ بھر بھی عقل رکھتا ہو سمجھ سکتا ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا۔ جو ہستی ان چار امور کو پیدا کرے گی وہ ضرور ان امور کے لئے کوئی خاص مقصد بھی مقرر کرے گی۔ پس یہ امر خیال میں بھی نہیں لایا جاسکتا کہ اللہ تعالیٰ بغیر رہنمائی کے بندوں کو چھوڑ دے گا۔ اور الہام اور وحی سے ان کو ممتاز نہ کرے گا۔ یا پھر ہدایت کا موقع دینے سے پہلے ہی ان کو ہلاک اور تباہ کر دے گا۔ اگر اس قدر جلد عذاب دینا اسے مطلوب ہوتا تو اس قدر لطیف سلسلہ کو پیدا ہی کیوں کرتا۔
اس آیت میں شرک کا رد بھی ہے اور بتایا ہے کہ جب اصولی طور پر تم تسلیم کرتے ہو کہ رزق دینے والا قوائے انسانیہ پیدا کرنے والا حیات و ممات پیدا کرنے والا اور تدبیر امور کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے تو پھر کن وجوہ پر تم یہ دعویٰ پیش کرتے ہو کہ فلاں فلاں کام فلاں معبود باطل نے کیا ہے۔ جب یہ تمام امور خدا تعالیٰ ہمیشہ سے کرتا ہے تو ان امور کے خاص خاص ظہوروں کو تم کس طرح کسی اور ہستی کی طرف منسوب کرسکتے ہو۔ خدا تعالیٰ جب ہمیشہ سے مردوں سے زندے پیدا کرتا چلا آیا ہے تو کس طرح یہ کہہ سکتے ہو کہ فلاں بچہ فلاں فلاں بت نے یا فلاں معبود نے دیا ہے۔ جو ہمیشہ سے دیتا چلا آیا ہے کیون نہ کہا جائے کہ اسی نے یہ بچہ بھی دیا ہے۔ مردہ سے زندہ نکالنئے سے اس جگہ یہ مراد نہیں کہ حیات مردہ چیز سے پیدا ہوسکتی ہے۔ اس جگہ بحث بظاہر مردہ نظر آنے والی چیزوں سے زندگی کے پیدا ہوجانے کی ہے۔
۳۳ فَذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمُ الْحَقُّ ج فَمَا ذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ فَاَلّٰی تُصْرَفُوْنَO
ترجمہ
پس وہ اللہ (تعالیٰ) ہی (کی ہستی) ہے (جو ایسا کرتی ہے) (اور وہی) تمہارا (حقیقی) رب (ہے) پھر حق کو چھوڑ کر گمراہی کے سواء کیا (حاصل ہوسکتا) ہے۔ پھر کس طرح تم (اور اور طرف) پھیرے جارہے ہو۔
۳۳ حل لغات
الصلال۔ الھلاک ہلاکت الفضیحۃ رسوائی الباطل جھوٹ ضد الھدٰی (گمراہی) (اقرب)
علامہ ابوحیان بحرمحیط میں لکھتے ہیں الحق والضلال لاواسطۃ بینھما۔ اذھما نقیضان فمن یخطئی الحق وقع فی الضلال (جلد ۵ صفحہ ۱۵۴) حق اور ضلال کے درمیان کوئی واسطہ نہیں۔ کیونکہ وہ ایک دوسرے کی نقیض ہیں۔ اس لئے جو شخص حق کو چھوڑے گا وہ ضرور باطل میں جا پڑے گا۔ پس بعدالحق کے معنی ہوئے ’’حق کو چھوڑ دو‘‘۔
تفسیر
اس آیت میں ربکم الحق فرمایا ہے اور آیت نمبر ۳۰ میں مولٰھم الحق فرمایا تھا۔ کیونکہ وہاں جزاء و سزاء کا ذکر تھا اور یہاں تکمیل مدارج کا ذکر ہے۔ اور تکمیل مدارج کے مطابق رب کی صفت ہی ہے کیونکہ اس کے معنی ہیں پیدا کرکے تکمیل تک پہنچانے والا۔ پس اس آیت میں پہلی آیت کے مضمون کی طرف اشارہ کرکے بتایا گیا ہے کہ وہ خدا جو انسان کو اس طرح درجہ بدرجہ ترقی دے کر کمال تک پہنچاتا ہے اس کو چھوڑ کر دوسرے ذرائع کو اختیار کرنا نادانی ہے۔ ربکم کی صفت الحق بیان فرماکر بتایا ہے کہ رب دو قسم کے ہوسکتے ہیں۔ ایک وہ جو ربوبیت تو کرتے ہیں مگر فانی ہوتے ہیں۔ ان کی ربوبیت ناقص ہوتی ہے۔ اور ایک ایسا رب ہوسکتا ہے جو قائم بالذات ہو اور فنا سے پاک۔ وہی اصل ربوبیت کرنے والا ہے۔ پس فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نہ صرف رب ہے بلکہ ازلی ابدی بھی ہے۔ اس لئے اس کی ربوبیت جس قدر کامل ہوسکتی ہے اور کسی وجو د کی نہیں ہوسکتی اور اسے چھوڑ کر دوسروں کو اختیار کرنا۔ گویا ہلاکت کی طرف جانا ہے۔
۳۴ کَذٰلِکَ حَقَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ عَلَی الَّذِیْنَ فَسَقُوْآ اَنَّھُمْ لَایُؤْمِنُوْنَO
ترجمہ
اسی طرح جن لوگوں نے فسق اختیار کای ہے۔ ان پر تیرے رب کا فرمودہ پورا ہوا ہے کہ وہ ایمان نہیں لاتے۔
۳۴؎ حل لغات
الکلمۃ اللفظ لفظ کل ما ینطق بدالانسان مفردا کان اومرکبا جو کچھ بولا جائے خواہ مفرد ہو یامرکب (اقرب) فسق الرجل فسقا ترک امراللہ۔ اللہ کی نافرمانی کی۔ عصی نافرمان ہو گیا۔ چجارعن قصد السبیل۔ درست راہ سے روگردان ہو گیا۔ فجر۔ بدکردار ہو گیا۔ خرج عن طریق الحق۔ حق کی راہ سے الگ ہو گیا۔ لرطبۃ عن قشرھا خرجت گابھا چھلکے سے باہر آگیا۔ (اقرب)
تفسیر
یعنے جس طرح یہ ثابت ہے کہ حق کے بعد سوائے گمراہی اور ہلاکت کے کچھ نہیں۔ اسی طرح یہ بھی ثابت ہے کہ جو لوگ فسق کرتے ہیں یعنی اطارعت سے نکل جاتے ہیں ان کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ وہ ایمان نہیں لاتے۔ اس آیت سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو ہدایت سے محروم کر دیتا ہے۔ بلکہ اس جگہ یہ بتایا گیا ہے کہ یہ الٰہی قانون ہے کہ جو غلط راستہ پر چلے گمراہی میں ترقی کرے اور جو نیک راسہ پر چلے نیکی میں ترقی کرے اور اگر انسانی پیدائش کا کوئی مقصد ہے تو اس قانون کا ہونا بھی ضروری تھا ورنہ دنیا میں اندھیرا پڑ جاتا۔ کہ ظلم کرنے والے اعلیٰ مدارج روحانیہ حاصل کرجاتے۔ اور نیک گمراہ ہوجاتے۔ جس شخص کے سامنے دلائل پر دلائل پیش کئے جائیں اور وہ انہیں تسلیم نہ کرے کس طرح جائز ہے۔ کہ اس کو خداتعالیٰ زبردستی گمراہ کرتا ہے۔ ہاں اپنے دل کی حالت انسان بدل لے تو خدا تعالیٰ کا معاملہ بھی اس کے ساتھ فوراً بدل جائے گا۔
قرآن کریم کیسا محبت بھرا کلام ہے بات بات کے لئے اول تو دلائل دیتا ہے پھر ساتھ اس کے محبت بھرے جذبات کے ساتھ اپنی حالت کو بدلنے کی طرف توجہ دلاتا ہے۔
۳۵ قُلْ ھَلْ مِنْ شُرَکَآئِکُمْ مَّنْ یَّبْدَؤُاالْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ ط قُلِ اللّٰہُ یَبْدَؤُاالْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ فَاَنّٰی تُؤْفَکُوْنَO
ترجمہ
تو (انہیں) کہہ (کہ) کیا تمہارے (قراردادہ) شریکوں میں سے کوئی (بھی ایسا ) ہے جو پہلی بار پیدا کرتا ہو( اور) پھر اسی (پیدائش) کو دہراتا ہو تو (انہیں) کہہ (کہ) اللہ (تعالیٰ) ہی ہے جو پہلی بار پیدا کرتا ہے (اور) پھر اس (پیدائش) کو دہراتا ہے۔ پھر تمہیں کس طرف کو پھرایا جارہا ہے۔
۳۵؎
…… اس آیت میں شرک کی تردید میں ایک بہت بڑی دلیل پیش کی گئی ہے۔ جسے عام طور پر لوگوں نے سمجھا نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خلق کا ثبوت اعادہ ہوتا ہے یعنی مخلوق کا دہرانا۔ ورنہ ہر شخص دعویٰ کرسکتا ہے کہ میں خالق ہوں آج اگر کوئی شخص اٹھے اور کہے کہ میں نے دنیا پیدا کی ہے تو اس کا رد اس طرح ہوسکتا ہے کہ اس کو کہا جائے کہ پھ پیدا کرکے دکھاؤ۔ غرض اعادہ ہی عمل پر قدرت رکھنے کا ثبوت ہوتا ہے۔ پس فرماتا ہے کہ ہم صف خلق کو پیش نہیں کرتے۔ کہ کوئی کہہ دے کہ حضرت عیسیٰؑ نے یا اور کسی وجود نے بھی پیدا کیا ہے۔ بلکہ ہم اعادہ کو پیش کرتے ہیں۔ اعادہ میں دو باتیں ہوتی ہیں اول اس سے فوری طور پر امتحان ہوتا ہے۔ دوم اعادہ ازلی قانون کو بھی بتاتا ہے۔ مثلاً غلہ سے غلہ پیدا ہوتا چلا آرہا ہے۔ آج اگر زید خدا بن بیٹھے اور خالق ہونے کا دعویٰ کرے تو اسے کہا جائے گا کہ غلہ تو اول سے پیدا ہورہا ہے اور تم اب پیدا ہوئے ہو۔ غرض معبودانِ باطلہ محدود زمانہ سے چلے ہیں۔ اور خداتعالیٰ کے قوانین پہلے سے چل رہے ہیں۔ اس لئے سوال ہوسکتا ہے کہ وہ کام جو ایک مقررہ قانون کے ماتحت ہمیشہ سے ہوتے چلے آئے ہیں تمہاری طرف کس طرح منسوب ہوسکتے ہیں۔ پس فرمایا کہ یہ خلق اور اعادہ کا سلسلہ کس نے بنایا ہے۔ اگر کہو کہ اللہ تعالیٰ نے تو بتاؤ کہ جب خداتعالیٰ نے ازل سے پیدائش کے بعض قانون مقررہ فرما چھوڑے تھے اور ان کے ماتحت پیدائش عالم ہورہی ہے۔ تو تمہارے معبودانِ باطلہ کا دخل اس میں کہاں سے ثابت ہوا اور اس کی ضرورت کیا تھی؟
اس آیت میں ا س طرف بھی اشارہ ہے کہ جس بادشاہ نے ایک بظاہر غیرمتناہی سلسلہ مخلوق کا پیدا کیا ہے وہ اس کی ہدایت دوسروں پر کس طرح چھوڑ سکتا تھا۔ یا ایک زمانہ کے لوگوں کو ہدایت دے کر بعد کی نسلوں کو کس طرح محروم رکھ سکتا تھا۔ اگر پیدا کرنے والا اور ہوتا اور سلسلہ پہیدئش کا جاری رکھنے والا اور تب تو کہہ سکتے تھے کہ پیدا کرنے والے نے ابتداء آفرینش میں ہدایت دے دی اور سلسلۂ تناسل کے جاری رکھنے والے نے پرواہ نہ کی۔ مگر جب پیدا کرنے والا اور سلسلہ پیدائش کو جاری رکھنے والا ایک ہی رب ہے تو بعد میں آنے والی نسلوں کو وہ ہدایت سے کس طرح محروم کرسکتا تھا۔
۳۶ قُلْ ھَلْ مِنْ شُرَکَآئِکُمْ مَّنْ یَّھْدِیْٓ اِلَی الْحَقِّ ط قُلِ اللّٰہُ یَھْدِیْ لِلْحَقِّ ط اَفَمَنْ یَّھْدِیْٓ اِلَی الْحَقِّ اَحَقُّ اَنْ یُّتَّبَعَ اَمَّنْ لَّایَھِدِّیْٓ اِلَّآ اَنْ یُّھْدٰی ج فَمَا لَکُمْ قف کَیْفَ تَحْکُمُوْنَO
ترجمہ
تو (ان سے یہ بھی) کہہ (کہ) کیا تمہارے (بنائے ہوئے) شریکوں میں سے کوئی (بھی ایسا) ہے جو حق کی طرف (لوگوں کی) رہنمائی کرتا ہو (وہ تو اس سوال کا کیا جواب دیں گے) تو خود ہی (ان سے) کہہ (کہ) اللہ (تعالیٰ ہی ہے جو) حق کی طرف (لوگوں کی) رہنمائی کرتا ہے۔ پس کیا وہ (خدا) جو حق کی طرف رہنائی کرتا ہے اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اس (کے احکام) کی پیروی کی جائے۔ یا وہ (فرضی خدا) جو کہ سوائے اس (صورت) کے کہ اسے (ہدایت کا) راستہ دکھایا جاوے (خود بھی) راہ نہیں پاتا۔ پھر تمہیں یہ کیا (ہو گیا) ہے؟ تم کیسے فیصلے کرتے ہو۔
۳۶؎ حل لغات
یھدی ھدی میں سے باب افتعال کا فعل مضارع ہے۔ اس میں ت کو ساکن کرکے د میں ادغام کیا گیا ہے۔ جو لفظ یہتدی کا دوسرا طریق تلفظ ہے۔ اس کی ماضی اہتدی ہے۔ جس کے معنی ہیں بتائے ہوئے۔ راستہ کو اختیار کیا۔ اقرب میں ہے اھتدی اھتداء مطاوع ھدی یعنی بتائی ہوئی ہدایت کو قبول کیا (اقرب)
تفسیر
یعنی اگر خداتعالیٰ ہدایت نہیں دیتا تو کیا تمہارے معبود ہدایت دیتے ہیں۔ اگر وہ ہدایت دینے ہوں تو بے شک تم کہہ سکتے ہو کہ اب خداتعالیٰ نے ہدایت کا کام ان کے سپرد کر چھوڑا ہے۔ مگر کیا ایک مثال بھی اس کی پیش
کرسکتے ہو کہ کسی بت یا معبود باطل کی طرف سے کوئی شریعت یا ہدایت نامہ آیا ہے یہ عجیب بات ہے کہ شرک تو دنیا میں بہت پھیل رہا ہے مگر ایک کتاب بھی دنیا میں موجود نہیں جسے دنیا کی ہدایت کا دعویٰ ہو اور جس کی نسبت یہ کہا گیا ہو کہ کسی بت یا کسی معبود باطل نے اسے بطور وحی کسی پر اتارا ہے۔ ہر قسم کے جھوٹ بنے ہیں مگر ایسی کتاب کا جھوٹا دعویٰ کسی نے نہیں کیا۔ پس جب جھوٹے طور پر بھی کسی بت کی طرف ہدایت منسوب نہیں تو کیا وجہ ہے کہ مشرک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کے آنے کا انکار کرتے ہیں۔ آخر جس نے پیدا کیا ہے ضرور ہے کہ اپنے بندوں کی ہدایت کا کوئی سامان کرے۔ ساتھ ہی شرک کا بھی رد فرمادیا۔ کہ افمناَفَمَنْ یَّھْدِیْٓ اِلَی الْحَقِّ اَحَقُّ اَنْ یُّتَّبَعَ اَمَّنْ لَّایَھِدِّیْٓ اِلَّآ اَنْ یُّھْدٰی وہ جو حق کی طرف ہدایت دیتا ہے وہ اس قابل ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے یا وہ جسے جب تک ہدایت نہ دی جائے خود بھی ہدایت نہیں پاسکتا۔
ہدایت سے مراد اس جگہ روحانی امور کی ہدایت بھی ہوسکتی ہے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ پر چلانا بھی اور یہ معنی بتوں پر صادق آتے ہیں کہ جن کو لوگ ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ رکھ دیتے ہیں۔ من یھدی الی الحق سے مراد میرے نزدیک انبیاء بھی ہوسکتے ہیں کیونکہ وہ بھی ہدایت دینے کے لئے آتے ہیں۔ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ انبیء اس قابل ہیں کہ ان کی پیروی کی جائے یا وہ بت یا ان کے پجاری جو خود ہدایت کے محتاج ہیں۔ اور نبیوں کی تعلیم کے مقابل پر کوئی ایسی تعلیم نہیں پیش کرسکتے جو ان کے معبودوں نے اتاری ہو۔
۳۷ وَمَایَتَّبِعُ اَکْثَرُھُمْ اِلَّا ظَنًّاط اِنَّ الظَّنَّ لَایُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًاط اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ م بِمَا یَفْعَلُوْنَO
ترجمہ
اور ان میں سے اکثر (اپنے) وہم کے سواء (اور کسی چیز) کی پیروی نہیں کرتے (حالانک) وہم حق کی جگہ کچھ بھی کام نہیں دیتا۔ جو کچھ یہ (لوگ) کرتے ہیں (اسے) اللہ (تعالیٰ) یقینا خوب جانتا ہے۔
۳۷؎ حل لغات
الظن ھو الاعتقاد الراجح مع احتمال النقیض۔ ویستعمل فی الیقین والشک یعنی ظن کے معنی زیادہ تر خیال غالب کے ہوتے ہیں۔ اور بعض وقت یقین کے معنوں میں اور بعض دفعہ شک کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ ویکون اسما ومصدرا۔ اور یہ لفظ اسمی معنی یعنی غالب خیال یا یقین یا شک پر بھی بولا جاتا ہے۔ اور مصدری معنی یعنی غالب خیال رکھنے یا یقین کرنے یا شک کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اغنی عنہ غناء فلانٍ ناب عنہ واجزاہ جو فائدہ فلاں شخص سے حاصل ہونا متوقع تھا وہی فائدہ پہنچایا۔ اور اس کی نیابت کی۔ مااغنی شیئا ای لم ینفع شیئا فی مھم ولم یکف دتۃ کچھ فائدہ نہ دیا۔ (اقرب)
تفسیر
ظن کے تین معنی ہوتے ہیں۔ (ا) غالب گمان (۲) شک (۳) یقین۔ اس جگہ ظن شک کے معنوں میں آیا ہے۔ کیونکہ حق اور غالب گمان کبھی ٹکرایا نہیں کرتے۔ غالب گمان جو دلائل پر مبنی ہوتا ہے اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب حق مخفی ہو۔ جب حق ظاہر ہو تو پھر غالب گمان کا کوئی موقع ہی نہیں ہوتا۔ اس وقت تو صرف ظنون فاسدہ ہی حق کے مقابل پر ڈٹے رہتے ہیں۔ کیونکہ ان کی بنیاد دلیل پر نہیں ہوتی ضد پر یا کمزوری نفس پر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ
فرماتا ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ محض اوہام کی بناء پر مشرکانہ خیالات میں مبتلا ہیں ورنہ معبودانِ باطلہ کی طرف سے کوئی ہدایت تامہ تو آیا نہیں۔ اور یہ جو فرمایا کہ اکثر لوگ اوہام کی وجہ سے شرک میں مبتلا ہیں اس سے یہ مراد نہیں کہ بعض لوگ شرک کو بدلائل مانتے ہیں بلکہ اس سے یہ مراد ہے کہ بعض تو لالچ اور حرص سے یا ضد سے شرک میں مبتلا ہیں گو دل میں خوب جانتے ہیں کہ شرک کا عقیدہ جھوٹا ہے۔ لیکن اکثر لوگ واقعہ میں شرک کو صحیح سمجھتے ہیں۔ مگر ان کا یہ یقین حقیقی نہیں ہوتا۔ جو دلائل پر یا مشاہدہ پر مبنی ہو۔ بلکہ صرف اوہام پر اس کی بنیاد ہوتی ہے۔ اگر وہ اصولی طور پر غور کریں تو اس وہم سے چھٹ سکتے ہیں۔
اس آیت میں پھر قرآن کریم نے اس صداقت کا اظہار کیا ہے کہ اپنے مخالف لوگوں کو بددیانت اور جھوٹا نہیں کہنا چاہئے۔ اکثر لوگ واقعہ میں اپنے مذہب کو سچا سمجھتے ہیں گو اس پر یقین کی وجہ بھی ان کے نفس کی کمزوری سے پیدا ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ سچائی کے معلوم کرنے کی پوری کوشش نہیں کرتے اور سستی سے کام لیتے ہیں۔
۳۸ وَمَاکَانَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ اَنْ یُّفْتَرٰی مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلٰکِنْ تَصْدِیْقَ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِ وَتَفْصِیْلَ الْکِتٰبِ لَارَیْبَ فِیْہِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَO
ترجمہ
اور اس قرآن کا اللہ (تعالیٰ) کے سواء (کسی اور) کی طرف سے جھوٹے طور پر بنا لیا جانا (ممکن ہی نہیں ہوسکتا بلکہ یہ (تو) اس (کلام الٰہی) کی تصدیق (کرتا) ہے جو اس کے سامنے (موجود ) اور کتاب (الٰہی) کی تفصیل (بیان کرتا ہے) اس میں کچھ بھی شک نہیں ہے (اور یہ) تمام جہانوں کے رب کی طرف سے (نازل شدہ) ہے۔
۳۸؎ حل لغات
انحرف یجئی علی اربعۃ اوجہ۔ اھدھا ان تکون حرفامصدر یاناصبا للمضارع فتکون مع صلتھا علی حسب مایطلبہا العامل (اقرب) یعنی ان چار طرح کا ہوتا ہے۔ اول یہ کہ وہ فعل سے پہلے آکر اسے مصدر کے معنی میں کر دیتا ہے اور حسب موقعہ و محل جزو کلام بنتا ہے۔ التصدیق نسبۃ الصدق بالقلب واللسان الی القائل سچا سمجھا یا سچا ظاہر کرنا۔ صدقہ ضد کذبہ سچا قرار دیا۔ سچا بتایا (اقرب) فصل الشئی جعلہ فصولا متمائزۃ کسی چیز یا کسی بات کے کئی حصے قرار دے کر انہیں ایک دوسرے سے ممتاز کرکے دکھایا۔ الکلام بینہ واضح اور روشن کیا۔ (اقرب)
تفسیر
اس سے پہلے تو یہ مضمون بیان ہو رہا تھا کہ ضروری ہے کہ خداتعالیٰ اپنے بندوں کی ہدایت کے لئے کلام بھیجے اور یہ کہ اس کے سواء انسان یا معبودان باطلہ میں یہ طاقت نہیں ہے کہ وہ روحانی ہدایت نامہ بناسکیں۔ اور واقعہ بھی یہ ہے کہ کسی معبود باطل نے ایسا ہدایت نامہ نہیں نازل کیا۔ اب اصول بحث سے سوال زیر بحث کی طرف توجہ کی ہے۔ اور اس مخصوص سوال کو لیا ہے کہ کیا قرآن کریم انسانی کلام ہوسکتا ہے اور جواب یہ دیا ہیے کہ نہیں۔ اس آیت میں نہایت لطیف بحث قرآن کریم کے خداتعالیٰ کی طرف سے ہونے کے متعلق کی ہے۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ مفسرین نے اس کی خوبیوں کی طرف پوری توجہ نہیں کی اور بہت محدود روشنی اس پر ڈالی ہے۔
اس آیت میں پانچ زبردست ثبوت قرآن کریم کے منجاب اللہ ہونے کے متعلق دیئے ہیں۔ اول ثبوت یہ دیا ہے کہ یہ کتاب ایسے مضامین پر مشتمل ہے جو بندہ اپنے طور پر معلوم ہی نہیں کرسکتا۔ صرف خدا تعالیٰ ہی بتاسکتا ہے۔ کیونکہ فرمایا کہ یہ قرآن خداتعالیٰ کی مدد کے بغیر بنایا ہی نہ جاسکتا تھا۔ جس سے صاف اشارہ کر دیا کہ اس میں وہ مضامین ہیں جو صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ان امور میں سے جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا ایک غیبیہ ہیں یعنی آئندہ زمانہ کی پیشگوئیاں۔ چنانچہ اسی سورۃ میں ہے فقل انما الغیب للہ تو کہہ دے کہ غیب کا علم صرف اللہ کو ہے۔ پس جو کلام ایسے امور پر مشتمل ہو جسے خداتعالیٰ کے سوا کوئی نہیںبتا سکتا اس کے منجانب اللہ ہونے میں کیا شبہ ہوسکتا ہے۔
تعجب ہے کہ اس حصہ آیت پر ریورنڈ ویری نے بحوالہ برنکینز نوٹس آن اسلام اپنی تفسیر میں اعتراض کیا ہے کہ یہ بے دلیل دعویٰ ہے صرف یہ کہہ دیا ہے کہ یہ قرآن خدا کے سوا کوئی نہیں بتاسکتا تھا۔ اور یہ نہیں بتایا کہ کیوں مجھے افسوس ہے کہ ریورنڈ ویری زبان کی ان باریک خوبیوں کے علم سے بالکل محروم ہیں جن کے بغیر کوئی زبان زبان کہلانے کی مستحق ہی نہیں ہوسکتی۔ اور خصوصاً عربی زبان تو اس کمال میں خصوصیت کھتی ہے کہ وہ تھوڑے الفاظ میں زیادہ مضمون بیان کردیتی ہے۔
اس آیت میں ھذا کا لفظ اس دعویٰ کو واضح کر دیتا ہے اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ قرآن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں بنا سکتا تھا۔ بلکہ یہ فرمایا ہے کہ اس قرآن کو حالانکہ قرآن ایک ہی کتاب ہے دو کتابوں کا نام قرآن نہیں کہ ’’اس‘‘ کے لفظ کے لانے کی ضرورت ہوتی۔ ’’اس‘‘ کا لفظ اس اشارہ کے لئے لایا گیا ہے کہ کتاب اپنے مطالب کے لحاظ سے اس قدر بلند ہے کہ اسے کوئی انسان بنا ہی نہیں سکتا۔ اور یہ فقرہ بے دلیل نہیں ہے بلکہ دلیل پر مشتمل ہے اور اس آیت میں صاف بتایا گیا ہے کہ اس کے اندر بعض باتیں ایسی ہیں جو صرف خداتعالیٰ کی طرف سے آسکتی ہیں۔ اور قرآن کریم کے دیکھنے سے معلوم ہوسکتا ہے کہ وہ باتیں کون سی ہیں۔ پس انہی باتوں کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے۔ ہر زبان میں اس قسم کے جملے استعمال کئے جاتے ہیں۔ مثلاً اردو میں بھی اس قسم کے فقرے بولے جاتے ہیں۔ کہ کیا یہ شخص جھوٹا ہوسکتا ہے یا کیا یہ بات غلط ہوسکتی ہے۔ اور کوئی عقلمند ایسا نہ ہوگا جو یہ کہے کہ یہ فقرہ بے دلیل ہے کیونکہ ایسے فقروں کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ ان کی بعض مشہور عام خوبیاں جن کے خاص طور پر بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہر شخص انہیں جانتا ہے ایسی ہیں کہ انہیں مدنظر رکھتے ہوئے ممکن نہیں کہ وہ شخص جھوٹا ہو یا وہ بات غلط ہو۔ صرف ’’اس‘‘ کے لفظ سے یہ سب مضمون پیدا کرلیا جاتا ہے۔ غرض ھذا کا لفظ اس آیت کے مطلب کو بالکل واضح کر دیتا ہے۔ مگر بعض مسیحی مشنری بغیر عربی زبان کی باریکیوں سے واقف ہونے کے قلم اٹھا لیتے ہیں اور خود بھی غلطیوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور ان ناواقف لوگوں کو بھی مبتلا کرتے ہیں جو ان پر اعتبار کرتے ہیں۔ کاش کہ وہ بعض غیرمتعصب مستشرقین سے ہی مشورہ کرلیا کرتے۔
دوسری دلیل قرآن کریم کے کامل روحانی ہدایت نامہ ہونے کی یہ دی ہے کہ جس طرح اس کی اپنی پیشگوئیاں اس کے من دون اللہ ہونے کے خیال کو غلط ثابت کرتی ہیں اسی طرح پہلے انبیاء کی پیشگوئیاں بھی اس خیال کو غلط ثابت کرتی ہیں کیونکہ پہلے انبیاء کا کلام بھی اس کی تصدیق کرتا ہے اور اس میں بھی اس کے متعلق بہت سی پیشگوئیاں ہی۔ اگ اسے تسلیم نہ کرو گے تو سب انبیاء کو جھوٹا قرار دینا ہوگا کیونکہ ان کی وہ پیشگوئیاں جو اس کے متعلق ہیں غلط تسلیم کرنی ہوں گی۔
قرآن کریم کا یہ طریقہے کہ بجائے پہلوں کو پچھلوں کا مصدق قرار دینے کے پچھلوں کو پہلوں کا مصدق قرار دیتا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح حضرت یحییٰ وغیرہم انبیاء کی نسبت اسی رنگ میں اس نے ذکر کیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ گو پہلوں کی پیشگوئیاں پیچھے آنے والوں کی نسبت ہوتی ہیں مگر بعد میں آنے والے انبیاء ان پیشگوئیوں کو پورا کرکے پہلے انبیاء کی صداقت پر مہر لگاتے ہیں۔ اس حقیقت کے بیان کرنے کا بہترین طریق وہی ہے جو قرآن کریم نے اختیار کیا ہے۔ کیونکہ یہ کہنا کہ اس نبی کے یا اس کلام کے پہلے انبیاء مصدق ہیں اس قدر مؤثر نہیں ہوسکتا جس در یہ کہنا کہ اس کلام کے ذریعہ سے ہی پہلے نبی کی تصدیق ہوتی ہے۔ ورنہ اسے جھوٹا ماننا پڑتا ہے اس دلیل کے آگے پہلے انبیاء کے اتباع کو فوراً دبنا پڑتا ہے۔
مسیحی مشنریوں نے اس قسم کی آیات سے ایک انوکھا استدلال کیا ہے اور وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ان آیات سے یہ نکلتا ہے کہ قرآن کریم موجودہ توراۃ و انجیل کو انسانی دستبرد سے پاک قرار دیتا ہے۔ حالانکہ یہ کہنا کہ یہ کلام پہلے کلام کا مصدق ہے صرف یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ خداتعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا تھا۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ وہ اب تک محفوظ بھی ہے ایک ایسا نتیجہ ہے جو الفاظ سے زائد ہے اور زائد نتیجہ نکالنا درست نہیں ہوتا۔ قرآن کریم توراۃ اور انجیل کی تحریف کے حوالہ جات سے بھرا ہوا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اس پر ایک زبردست شاہد ہے۔ اگر واقعہ میں ان آیات کا وہ مطلب ہوتا جو یہ لوگ بتاتے ہیں تو اس وقت کے مسیحی اور یہودی اس پر اعتراض کرتے لیکن ایسا اعتراض ان کی طرف سے بالکل ثابت نہیں ہے بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ یہود کی کتب میں جو باتیں ہیں ان کی نہ تصدیق کرو نہ تکذیب کرو۔ اگر ان کتب کو غیرمحرف سمجھا جاتا تو ان کی تصدیق سے کیوں روکا جاتا۔
باقی رہا یہ کہ قرآن کریم نے ان کتب کا حوالہ دیا ہے سو یہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ وہ کتب محرف نہیں ہیں۔ سب دنیا تاریخی کتب کا حوالہ دیتی ہے اور کوئی عقلمند کسی تاریخی کتاب کو شروع سے آخر تک صحیح نہیں سمجھتا۔ حوالہ سے مراد صرف اس خاص واقعہ کی تصدیق ہوتی ہے نہ کہ سب کتاب کی۔
تیسری دلیل یہ دی ہے کہ قرآن کریم پہلی کتب کی تفصیل کرتا ہے۔ یہ بھی ایک زبردست ثبوت قرآن کریم کی صداقت کا ہے۔ بغیر قرآن کریم کے مضامین سے مدد لینے کے کوئی پہلی کتاب حل نہیں ہوسکتی۔ توراۃ انجیل، وید ژند، اوستا سب کتب میں توحید، صفات باری کے ظہور، وحی، نبوت، بعدالموت امور اخلاق امور روحانیہ وغیرہا کے متعلق بحثیں ہیں۔ لیکن کوئی کتاب بھی ان امور کو واضح کرکے بیان نہیں کرتی بلکہ قرآن کریم کی مدد سے ان کو حل کرنا پڑتا ہے۔ توحید سب سے بڑا اہم مسئلہ ہے۔ اسی کو لے لو۔ ان سب کتب میں اس کا ذکر ہوگا مگر بالاجمال۔ چنانچہ قرآن کریم سے پہلے کی جو کتب توحید کے متعلق ان کتب کے پیرووں نے لکھی ہیں یا جو مضامین لکھے ہیں انہیں پڑھ کر دیکھ لو وہ توحید کے متعلق بہت ہی ناقص معلومات دیتی ہیں مگر قرآن کریم کے بعد ان کے پیرووں کی کتب کا رنگ ہی اور ہو گیا ہے۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ قرآنی مطالب کے پھیلنے سے ان لوگوں پر اصل حقیقت کھلی اور ان کی مدد سے انہوں نے اپنے مذہب کے عقائد کی تشریح کی۔ نبوت کا مسئلہ ایسا اہم مسئلہ ہے لیکن توراۃ اور انجیل اور دوسری کتب اس کے متعلق اس حد تک خاموش ہیں کہ ان کے پیرو اب تک نہیں بتا سکتے کہ نبی سے مراد ان کی کتب میں کن لوگوں سے ہے۔ مگر قرآن کریم نے اس مضمون کو بھی خوب واضح کیا ہے۔ یہی دوسرے اہم مسائل کا حال ہے۔ پس اس آیۃ میں بتایا گیا ہے کہ پہلی کتب کے مطالب کی تفصیل اس کتاب سے ملتی ہے۔ اگر تم اس کتاب کا انکار کرو گے تو ماننا پڑے گا کہ خداتعالیٰ وہ باتیں اپنی کتب میں بیان نہ کرسکا جو اس شخص نے ایک چھوٹی سی کتاب میں بیان کردیں۔ پس یا اسے سچا ماننا پڑے گا یا پہلی کتب کو بھی جھوٹا ماننا پڑے گا۔
چوتھی دلیل یہ دی ہے کہ اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے۔ یعنی یہ کتاب اپنے دلائل خود بیان کرتی ہے۔ کسی کی مدد کی محتاج نہیں۔ اس میں مضامین ایسے رنگ میں بیان ہوئے ہیں کہ جو شخص ان پر پورے طور پر تدبر کرے اسے ساتھ کے ساتھ دلائل ملتے جاتے ہیں اور شک اس کتاب کی وجہ سے پیدا نہیں ہوتا کیونکہ یہ خود دلائل بیان کردیتی ہے۔ بلکہ شک اگر پیدا ہوتا ہے تو انسان کی اپنی غفلت اور سستی کی وجہ سے اور یہ امر بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ کتاب خداتعالیٰ کی طرف سے ہے کیونکہ یہ بات کسی انسان کی طاقت میں نہیں ہے کہ وہ امور غیبیہ کو پورے طور پر ثابت کرسکے کیونکہ ان میں سے کئی خالی عقلی دلیل سے ثابت نہیں ہوسکتے۔ بلکہ اس کے ساتھ مشاہدہ کی دلیل کے بھی محتاج ہوتے ہیں۔ اور امور غیبیہ کے لئے مشاہدہ کے سامان پیدا کر دیتا انسان کی طاقت سے بالا ہے اور صرف خداتعالیٰ کے لئے ممکن ہے کہ امور غیبیہ کے لئے ایسے ثبوت بہم پہنچا دے جو مشاہدہ کا رنگ رکھتے ہوں۔ مثلاً الہام ایک امر غیبی ہے ایک انسان عقلی دلیلیں تو دے سکتا ہے لیکن الہام کا دروازہ کسی کے لئے نہیں کھول سکتا۔ نہ اس کا وعدہ کرسکتا ہے۔ مگر خدائی کلام یہ کرسکتا۔ وہ یہ دعویٰ بھی کرسکتا ہے کہ میرے ساتھ تعلق رکھنے والوں پر الہام کا دروازہ کھولا جائے گا۔ اور اس کے اس دعویٰ کی تصدیق خداتعالیٰ کے فعل سے بھی ہوسکتی ہے۔ پس جو کلام کلام الٰہی کے نازل ہونے کے ثبوت میں یہ دلیل پیش کرے کہ یہ عجیب بات نہیں۔ اب بھی کلام الٰہی نازل ہوتا ہے اور ہوتا رہے گا اور سینکڑوں لوگ اس کے ذریعہ سے کلام الٰہی کو سنیں گے۔ اس کے خدائی کلام ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ بندہ کی طاقت میں نہیں ہے کہ ایسے ثبوت بہم پہنچا سکے اور شک کا اس طرح قلع قمع کرسکے۔
پانچویں دلیل یہ دی ہے کہ یہ کلام رب العٰلمین خدا کی طرف سے ہے۔ یعنی اس کی تعلیم میں خداتعالیٰ کی طرف سے رب العٰلمین کی صفت ظاہر ہوئی ہے کسی قوم یا کسی زمانہ سے مخصوص نہیں جس طرح کہ پہلی کتب ہوتی تھیں۔ بلکہ سب اقوام اور سب زمانوں کے لئے ہے اور ہر زمانہ کی ضرورتوں اور اس کے مفاسد کا اس میں خیال رکھا گیا ہے اور یہ امر بھی کسی انسان کی طاقت میں نہیں کہ وہ سب اقوام اور سب زمانوں کا خیال رکھ سکے۔ انسان تو اپنے گردوپیش کے حالات سے متاثر ہوتا ہے اور اپنی ان ضرورتوں کا خیال رکھتا ہے جو اس کے سامنے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ایسی تعلیم آسکتی ہے جو ہر زمانہ اور ہر قوم کے لئے یکساں مفید ہو۔ اور زمانہ کے تغیرات اس پر کوئی اثر نہ ڈال سکیں۔ اور انسانی فطرت کے تمام تقاضوں اور تمام احساسات کا اس میں خیال رکھا گیا ہو۔ قرآن کریم میں یہ خوبی پائی جاتی ہے وہ یکساں طور پر تمام انسانی طبائع کا لحاظ رکھتا ہے۔ نہ اس میں یہ تعلیم ہے کہ تو صرف رحم ہی کئے جا اور نہ یہ کہ تو معاف ہی نہ کر۔ بلکہ یہ تعلیم ہے کہ تو رحم کے موقع پر رحم کر اور سزا کے موقع پر سزا دے۔ اسی طرح تمام تعلیمات اس کی ایسی ہیں کہ ان میں تمام طبائع اور تمام زمانوں کا لحاظ رکھا گیا ہے اور جاہل اور عالم کا خیال رکھا گیا ہے۔ اور یہ ایک زبردست ثبوت اس کے خدا کا کلام ہونے کا ہے۔ فتبارک اللہ احسن الخالقین۔
۳۹ اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰلہُ ط قُلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّثلِہٖ وَادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَo
ترجمہ
کیا وہ کہتے ہیں کہ اس (شخص) نے اسے (اپنی طرف سے) گھڑ لیا ہے۔ تو (انہیں) کہہ (کہ) اگر تم (اس بیان میں) سچے ہو تو اس جیسی کوئی ایک (ہی) سورت لے آؤ۔ اور اللہ (تعالیٰ) کے سوا جس (کسی کو بھی بلانے) کی تمہیں طاقت ہو (اپنی مدد کے لئے) بلالو۔
۳۹؎ حل لغات
السورۃ۔ المنزلۃ مرتبہ الرفعۃ بلندی مرتبہ۔ الفض۔ فضیلت۔ الشرف عظمت و بزرگی۔ ماطال من البناء الی جھۃ السماء وحسن بلند اور خوبصورت عمارت۔ العلامۃ دلیل و نشان۔ القطعۃ المستقلۃ۔ مستقل حصہ (اقرب)
تفسیر
یعنی باوجود ان خوبیوں کے جو اوپر بیان ہوئیں یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا افتراء ہے۔ اگر ان خوبیوں والا کلام افتراء ہوسکتا ہے تو پھر کیوں یہ لوگ ایسا کلام بناکر پیش نہیں کرتے۔ اس آیت میں قرآن کریم نے تحدی کی ہے مگر افسوس کہ مفسرین نے اس کی پوری حقیقت کو نہیں سمجھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی حقیقت پر روشنی ڈالی ہے۔ اور بتایا ہے کہ اس دعویٰ میں صرف زبان کو نہیں بلکہ قرآن کریم کی سب خوبیوں کو پیش کیا گیا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس دعویٰ سے یہ مراد ہے کہ جو کوئی کلام بنا کر اس کے مقابل پر پیش کرے گا وہ ہلاک ہو جائے گا۔
میرے نزدیک جیسا کہ میں اوپر لکھ چکا ہوں مفسرین نے اس مضمون کی حقیقت کو جو اس جگہ بیان ہوا ہے نہیں سمجھا۔ یہ مضمون مختلف الفاظ میں کئی مقام پر بیان ہوا ہے۔ اور لوگوں نے غلطی سے یہ خیال کیا ہے کہ مختلف زمانوں میں قرآن کریم نے اپنے دعویٰ کو بدلا ہے۔ کبھی پورے قرآن کریم کی مثال لانے کو کہا ہے۔ کبھی دس سورتوں کی مثال لانے کو اور کبھی ایک سورۃ کی مثال لانے کو۔ مگر میرے نزدیک یہ درست نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان سب جگہوں پر الگ الگ مضمون بیان ہوا ہے۔ اور مختلف طریق پر مثال لانے کا مطالبہ کیا ہے۔ مثلاً اس آیت میں جو یہ دعویٰ ہے کہ فأتوا بسورۃ مثلہ اس سے مراد سارا قرآن کریم نہیں ہے بلکہ مراد اوپر کی آیت ہے اور سورت سے مراد اس جگہ علامت ہے یعنی دلیل اور یہ پوچھا گیا ہے کہ جو دلیلیں ہم نے اوپر دی ہیں اگر یہ کلام انسانی کلام ہے تو کسی انسانی کلام میں وہ پانچوں دلیلیں جمع کرے دکھانا تو بڑی بات ہے تم ایسا انسانی کلام ہی پیش کر دو جس میں ان میں سے ایک دلیل ہی پائی جاتی ہو۔ مگر ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اوپر کی بیان کردہ دلیلوں اور صداقت کی علامتوں میں سے ایک علامت بھی کسی انسانی کلام میں نہیں پائی جاسکتی۔ اور یہ دعویٰ قرآن کریم کا ایسا ہے کہ اس کا جواب نہ اب تک کوئی دے سکا ہے اور نہ آئندہ دے سکے گا۔ اب بھی یہ تحدی موجود ہے اس زمانہمیں کوئی شخص ان پانچ علامتوں والا کلام تو الگ رہا ان مین سے ایک علامت والا کلام ہی بنا کر قرآن کریم کے مقابل پیش کر دے۔ تو ہم قرآن کریم کے دعوے کو باطل سمجھ لیں گے۔ مگر زمین و آسمان ٹل جائیں کوئی شخص ایسا نہیں کرسکتا۔ یہ پانچوں علامتیں صرف اور صرف خداتعالیٰ کے کلام میں پائی جاسکتی ہیں۔ کوئی بندہ ان میں خداتعالیٰ کی نقل نہیں کر سکتا۔ اگر سورۃ سے مراد سورۃ ہی لی جائے تب بھی اس سے مراد یہ ہوگی کہ جس قسم کا کلام ہم نے اوپر پیش کیا ہے ایسی کوئی سورۃ بنا کر پیش کرو۔ لیکن اس صورت میں معنوں میں وہ وسعت نہیں رہتی۔ جو اون معنوں میں ہے کیوں کہ ان معنوں میں ان مطالب کا پوری سورۃ کا مطالبہ کیا ہے اور پہلے معنوں میں مذکورہ بالا دلیلوں میں سے کسی ایک دلیل کا۔ باقی مقامات جن میں اس دعویٰ کو دوسرے الفاظ میں پیش کیا گیا ہے ان کے متعلق انشاء اللہ تعالیٰ سورہ ہود میں تفصیل سے بیان کیا جائے گا۔
وادعوا من استطعتم من دون اللہ کے جملہ سے اس مضمون کو اور بھی زور دار کردیا ہے کہ خود ہی زور نہ لگاؤ بلکہ اپنے لیڈروں اور معبودان باطلہ کو بھی بلا لو اور پھر دیکھو کہ تم کیسے ناکام رہتے ہو۔ تا دنیا پر بھی یہ ثابت ہو جائے کہ جس کتاب کو تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتے ہو اسے تم اور تمہارے لیڈر اور تمہارے معبود بھی مل کر نہیں بناسکتے۔
۴۰ بَلْ کَذَّبُوْا بِمَالَمْ یُحِیْطُوْا بِعِلْمِہٖ وَلَمَّا یَاْتِھِمْ تَاْوِیْلُہٗ ط کَذٰلِکَ کَذَّبَ الَُّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الظّٰلِمِیْنَO
ترجمہ
(مگر ان کا یہ خیال درست نہیں) بلکہ (حقیقت میں) انہوں نے (ایک) ایسی چیز کو جھٹلا دیا ہے جس کا (انہوں نے پورا علم حاصل (ہی) نہیں کیا تھا اور نہ (ہی) ابھی اس کی حقیقت ان پر ظاہر ہوئی تھی۔ جو لوگ ان سے پہلے تھے انہوں نے (بھی) اسی طرح جھٹلایا تھا۔ پھر دیکھ (کہ) ان ظالموں کا کیا انجام ہوا تھا۔
۴۰؎ حل لغات
التاویل۔ الظن بامداد۔ کسی کلام کے مطلب و مدعا کی نسبت ظن غالب بیان احد محتملات الفظ۔ کسی لفظ کے کئی احتمالی معانی میں سے کسی ایک کی تعیین کرنا۔ العاقبۃ انجام۔ اول الشئی رجعہ۔ لوٹایا۔ الکلام دبرہ و تدرہ وفسرہ تدبر کیا اور اس کا صحیح مطلب نکالا۔ الرویا عبرھا تعبیر کی۔ (اقرب)
تفسیر
جو افتراء افتراء کہتے رہتے ہیں ان کی بات پر تعجب نہیں کرنا چاہئے۔ انسان جب کسی بات کو سمجھ نہیں سکتا تو اسے غلط قرار دے دیا کرتا ہے۔ یہ بھی جب قرآن کریم کے مطالب کو نہ پہنچ سکے اور اپنے متداول علوم اور رائج قانون کے اسے خلاف پایا تو جھٹ اس کا انکار کر بیٹھے۔ زمخشری کا قول ہے بل سارعوا الی التکذیب بالقران وفاجؤہ فی بدیھۃ السماع قبل ان یفھموہ ویعلموا کنہ امرہ (بحرمحیط)۔ یعنی انہوں نے قرآن کے جھٹلانے میں جلدی کی اور اس کے سمجھنے اور اس کی حقیقت معلوم کرنے سے پہلے ہی اس کا مقابلہ شروع کر دیا۔
ولما یأتہم تاویلہ۔ ابن عطیہ کہتے ہیں اس کے یہ معنی ہیں کہ ابھی انجام ظاہر نہیں ہوا اور وعید پورے نہیں ہوئے کہ پہلے ہی انہوں نے شور مچا دیا۔
یہ شور ان لوگوں کا نیا نہ تھا بلکہ پہلے انبیاء کے مخالفین بھی ایسا ہی کرتے چلے آئے ہیں۔ بلکہ حق کا مقابلہ کرنے والے ہمیشہ ایسا ہی کرتے ہیں۔ اس وقت کا انتظار نہیں کرتے جب حقیقت کے انکشاف کا وقت آئے۔ اور وہ پہلے ہی انکار شروع کر دیتے ہیں۔
اگر یہ سوال کیا جائے کہ اگر ایک لمبے عرصہ تک انبیاء کی بعض بتوں کی حقیقت کے انکشاف کا انتظار ضروری ہے تو پھر ان پر ابتداء دعویٰ میں ایمان لانا تو درست نہ ہوا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس جگہ یہ ذکر نہیں کہ ایسے ثبوت نبیوں کے پاس نہیں ہوتے۔
جن کی مدد سے انسان ابتداء ہی میں انہیں مان سکے۔ بلکہ یہ ذکر ہے کہ وہ لوگ جو بعض صداقتوں سے فائدہ نہیں اٹھاتے بلکہ بعض خاص امور کو اہمیت دے دیتے ہیں۔ ان کا کم سے کم فرض ہے یہ ہے کہ وہ اس وقت تک تکذیب تو نہ کریں اگر وہ ثابت شدہ حقائق کو تسلیم نہیں کرتے تو ان کا یہ حق بھی تو نہیں کہ جن امور کے متعلق انہیں شبہ ہے ان کی حقیقت کے اظہار سے پہلے ان پر اعتراض شروع کر دیں۔
کذلک کذب الذین من قبلہم بعض پہلے لوگ بھی نبیوں سے اسی طرح کرتے چلے آئے ہیں۔ یونہی شور مچا دیتے تھے۔
ریورنڈ ویری صاحب نے بحوالہ مسٹر برنکمین اعتراض کیا ہے کہ جب اہل مکہ کو پورا علم نہیں ہوا تھا اور انہوں نے شور مچا دیا تھا تو پھر ان کا کیا قصور تھا مگر ویری صاحب نے یہ نہیں سمجھا کہ پورا علم حاصل نہ ہونا اور بات ہے اور نہ ہوسکنا اور بات ہے۔ قرآن کریم یہ نہیں کہتا کہ انہیں پورا علم حاصل نہیں ہوسکتا تھا۔ بلکہ یہ کہتا ہے کہ انہوں نے پورا علم حاصل نہ کیا تھا۔ اور جب انہوں نے پیش کردہ باتوں پر غور ہی نہیں کیا اور صرف رجل منہم کہہ کر انکار کر دیا تو وہ الزام سے کیونکر بری ہوسکتے تھے۔
۴۱ وَمِنْھُمْ مَّنْ یُؤْمِنُ بِہٖ وَمِنْھُمْ مَّنْ لَّایُؤْمِنُ بِہٖ ط وَرَبُّکَ اَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِیْنَO
ترجمہ
اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو اس پر ایمان لے آئیں گے۔ ار ان میں سے بعض ایسے ہیں جو اس پر ایمان نہیں لائیں گے اور تیرا رب فساد کرنے والوں کو خوب جانتا ہے۔
۴۱؎
یعنی باوجود ان لوگوں کی اس حالت کے یہ سب لوگ ہدایت سے محروم نہیں رہیں گے۔ بلکہ بعض لوگ اپنی حالت کو بدل کر ایمان لائیں گے اور صرف وہ لوگ ہدایت سے محروم رہیں گے جو آخر تک فساد پر مصر رہیں گے۔ گویا بتلایا کہ ڈھیل کی وجہ موجود ہے اور وہ یہ کہ صرف عقلی امکان ہی نہیں ہے کہ کفار مکہ میں سے بعض لوگ ڈھیل پاکر ایمان لاسکتے ہیں۔ بلکہ ہمارا علم ہمیں بتاتا ہے کہ فی الواقع بھی ان منکروں میں سے بعض لوگ ایمان لے آئیں گے۔ اس وجہ سے ہم فوراً عذاب نہیں دیتے بلکہ ڈھیل دے رہے ہیں۔
یہ کیسی زبردست پیشگوئی ہے جو اپنے وقت پر پوری ہوئی۔ اگر اہل مکہ شروع مخالفت میں ہی تبہ کر دیئے جاتے تو خالد بن ولید عمرو بن عاص عکرمہ اور اور ایسے ہی جلیل القدر بطل اسلام کہاں سے پیدا ہوتے۔
۴۲ وَاِنْ کَذَّبُوْکَ فَقُلْ لِّیْ عَمَلِیْ وَلَکُمْ عَمَلُکُمْ ج اَنْتُمْ بَرِیْٓئُوْنَ مِمَّآ اَعْمَلُ وَاَنَا بَرِیْٓ ئٌ مِمَّا تَعْمَلُوْنَO
ترجمہ
اور اگر وہ تجھے جھٹلائیں تو (انہیں) کہہ (کہ) میرا کیا (خود) میرے لئے (مفید یا مضر) ہوگا اور تمہارا کیا تمہارے لئے۔ جو کچھ میں کرتا ہوں اس سے تم بری (الذمہ) ہو اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے میں بری (الذمہ) ہوں۔
۴۲؎ حل لغات
بریٔ منہ۔ یبرء براء ۃ تخلص وسلم بچ گیا۔ بے تعلق رہا۔ محفوظ رہا۔ بریٔ من المرض برئً بالفم واھل الحجاز یقولون یرء بالفتح نقہ وتعافی وشفی صحت یاب ہو گیا۔ (اقرب)
تفسیر
فرمایا کہ اگر تم میری تکذیب کرتے ہو اور مجھے جھٹلاتے ہو تو بے شک ایسا کرو کیونکہ تم میں اور مجھ میں اختلاف ہے۔ تم اور کام کررہے ہو اور میں اور کام کررہا ہوں۔ اور اختلاف کی صورت میں ہر فریق کو حق ہے کہ دوسرے کی بات کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرے۔ لکن بات اسی حد تک ہی رہنی چاہئے۔ ایک دوسرے کو اس کی مرضی کے خلاف اپنی بات منوانے پر مجبور نہیں کرنا چاہئے۔ چنانچہ جب میں تمہیں مجبور نہیں کرتا تو تم مجھے کیوں مجبور کرتے ہو۔
پہلی آیت میں جو اعلم بالمفسدین کہا تھا اس آیت میں اسی کی طرف اشارہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ جب تمہاری جماعت الگ اور ہماری جماعت الگ۔ تمہارے کام علیحدہ اور ہمارے کام جدا۔ اور ہر ایک اس بات کو جانتا ہے تو پھر فساد اور جبر تک نوبت کیوں پہنچائی جائے۔ کیونکہ جبر تو اس صورت میں ہوسکتا ہے جبکہ ایک کی وجہ سے دوسرے پر حرف آٹا ہو۔ لیکن اس جگہ میرے یا میری جماعت کے کاموں کی وجہ سے تم پر کوئی حرف نہیں آسکتا۔ اور تمہارے کاموں کی وجہ سے مجھ پر کوئی حرف نہیں آسکتا۔ پس جبر ناجائز ہے۔
اس جگہ سے ایک مسئلہ نکلتا ہے کہ اپنی قوم کے آدمی پر ایک حد تک جبر کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے قوم بدنام ہوتی ہے۔ چنانچہ اس کے ماتحت جب ہم اپنی جماعت کے بعض لوگوں کی غلطی پر جرمانہ وغیرہ کی سزاء مقرر کرتے ہیں تو بعض نادان اسے پیرپرستی قرار دیتے اور شور مچاتے ہیں۔ حالانکہ اس آیت سے ثابت ہے کہ اپنی جماعت کے لوگوں پر ایک حد تک جبر ہوسکتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص احمدی کہلاتا ہوا ڈاکہ زنی کی وارداتیں کرتا ہے یا نمازیں چھوڑ بیٹھتا ہے تو چونکہ اس سے ساری جماعت کی بدنامی ہوتی ہے اس لئے ہمارا حق ہے کہ اس شخص کو اصلاح کے لئے مجبور کریں۔ ہاں اگر وہ احمدیت سے ہی انکار کرکے جدا ہوجائے یا اپنا کوئی نیا فرقہ بنالے تو پھر ہمارا اس پر کوئی حق نہ ہوگا۔ غرض انتم بریئون ممااعمل میں بتایا ہے کہ میرے اور تمہارے الگ الگ گروہ ہیں۔ میرے کاموں کی وجہ سے تم پر الزام نہیں آئے گا اس لئے جبر یا فساد کی کوئی وجہ نہیں۔
اس آیت کے دوسرے معنی یہ بھی ہیں کہ میرے اور تمہارے عمل بالکل ممتاز ہیں۔ ان میں کوئی تشابہ نہیں ہے۔ نتیجہ خود بتادے گا کہ کس کے عمل صحیح اور خدا کے ہاں مقبول تھے۔ عمل کے متشابہ ہونے کی صورت میں صحیح طور سے نہیں کہہ سکتے کہ خرابی یا ترقی کس سبب سے پیدا ہوئی۔ لیکن جب کوئی تشابہ ہی نہ ہو تو فوراً پتہ لگ سکتا ہے کہ نتیجہ اس قوم کے مخصوص اعمال کا ہے۔
۴۳ وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّسْتَمِعُوْنَ اِلَیْکَ ط اَفَاَنْتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ وَلَوْکَانُوْا لَایَعْقِلُوْنَO
ترجمہ
اور ان (لوگوں) میں سے (بعض ایسے) ہیں جو تیری (باتوں کی) طرف (ہر وقت) کان رکھتے ہیں (تو) پھر کیا تو ایسے بہروں کو اگرچہ وہ عقل سے کام (ہی) نہ لیتے ہوں (اپنی بات) سنوا لے گا۔
۴۳؎ حل لغات
صم اصم کی جمع ہے صم الرجل صما وصمما السدت اذنہ وثقل سمعہ فھوا صم بہرہ الاصم ایضاً الرجل لایطمع فیہ ولا یرد عن ھواہ۔ ایسا شخص جس کے راہ راست پر آنے کی امید نہ کی جاسکے۔ اور نہ اسے ہواپرستی سے روکا جاسکے (اقرب)
تفسیر
اس آیت اور اگلی آیت میں مخالفین اسلام کے انکار کی حقیقت کو بیان فرمایا ہے۔ کہ ان کا انکار کسی دلیل یا معقول بات پر مبنی نہیں ہے۔ صرف ضد کی وجہ سے ہے وہ بظاہر تیری باتیں سنتے ہیں مگر درحقیقت ان کی تمام توجہ اعتراض پیدا کرنے کی طرف ہوتی ہے۔ نیز فرمایا کہ بہرہ اگر عقلمند ہو تو اسے بھی اشارہ سے سمجھایا جاسکتا ہے مگر ان کی حالت تو بے وقوف بہرہ کی سی ہے جو اشارے بھی نہیں سمجھتا۔
۴۴ وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّنْظُرُ اِلَیْکَ ط اَفَاَنْتَ تَھْدِی الْعُمْیَ وَلَوْکَانُوْا لَایُبْصِرُوْنَO
ترجمہ
اور ان میں سے بعض ایسے (بھی) ہیں جو تیری طرف (نظریں گاڑ کر) دیکھتے (رہتے) ہیں (تو) کیا پھر تو ان اندھوں کی اگرچہ وہ بصیرت (بھی) نہ رکھتے ہو راہنمائی کرلے گا۔
۴۴؎ حل لغات
عمی اعمٰی کی جمع ہے۔ اس کا فعل عَمِیَ ہے۔ عَمی ذھب بصرہ کلہ من عینیہ کلیتھما بکلی آنکھوں سے اندھا ہو گیا۔ ذنونٌ ذھب بصر قلبہ وجھل دل کا اندھا اور بصیرت سے کورا ہو گیا۔ غوی بدراہ ہو گیا۔ (اقرب)
تفسیر
ترجمہ والے عام طور پر یہاں غلطی کرجاتے ہیں اور لایبصرون کے معنی ’’نہیں دیکھتے‘‘ کر دیتے ہیں۔ حالانکہ جب انہیں پہلے اندھا قرار دیا جاچکا تو پھر لایبصرون کے معنی نہ دیکھنے والے کرنا کیونکر درست ہوسکتے ہیں۔ بلکہ جس طرح سے کہ پہلے انہیں بہرے قرار دے کر عقل کی نفی کی تھی ایسا ہی یہاں پر انہیں اندھے بتا کر بصارت کی نہیں بلکہ بصیرت کی نفی کی ہے۔ کیونکہ اندھے ہونے کے باوجود بھی اگر ان میں بصیرت ہو تو وہ ہدایت حاصل کرسکتے ہیں۔
اس آیت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ محض ظاہر کو دیکھ کر فیصلہ نہیں کرنا چاہئے۔ ظاہر پر نظر رکھنے والا بعض اوقات کہہ اٹھتا ہے کہ یہ کافر ہیں۔ ان پر عذاب کیوں نازل نہیں ہوتا۔ حالانکہ ان دشمنوں میں بھی ایسے لوگ ہیں جو عقل رکھتے ہیں اور ان کے ہدایت پانے کی امید کی جاسکتی ہے۔ اور دوسری طرف بعض آدمی ماننے والے خیال کئے جاسکتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں وہ ایسے ہیں جو سنتے ہوئے نہیں سنتے اور دیکھتے ہوئے نہیں دیکھتے۔ بلکہ ان کی نظر ہمیشہ اعتراض کی طرف رہتی ہے۔ نہ ان میں عقل ہے نہ بصیرت اسی وجہ سے رعذاب اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ دوسرا شخص ظاہر سے دھوکا کھانے کی وجہ سے اس کو غلط طور پر وارد کرسکتا ہے۔ ان معنوں کے رو سے یہ آیتیں وربک اعلم بالمفسدین کی تفسیر ہیں۔ یعنی انسان ظاہر پر نظر ڈال کر غلطی کرسکتا ہے مگر خداتعالیٰ حقیقت کو جانتا ہے۔
۴۵ اِنَّ اللّٰہَ لَایَظْلِمُ النَّاسَ شَیْئًا وَّلٰکِنَّ النَّاسَ اَنْفُسَہُمْ یَظْلِمُوْنَO
ترجمہ
اللہ (تعالیٰ کی شان) یقینا (ایسی ہے کہ وہ) لوگوں پر کچھ بھی ظلم نہیں کرتا۔ بلکہ لوگ اپنی جانوں پر (آپ ہی) ظلم کرتے ہیں۔
۴۵؎
اس آیت میں کیا ہی لطیف بات بیان فرمائی ہے جس طرح ٹیپ کا مصرعہ دل پر پڑتا ہے اسی طرح یہ آیت ہے۔ فرمایا ہم جنہوں نے نبی بھیجا ہم تو منکروں کو ڈھیل دے رہے ہیں۔ اور نہیں چاہتے کہ یہ لوگ جلد ہلاک ہوں۔ لیکن یہ لوگ عذاب کی جلدی کرتے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ ان پر ظلم ہو یعنی ان کے لئے حصول ہدایت کا ابھی موقع باقی ہو۔ اور عذاب آجائے مگر یہ لوگ قولاً یا عملاً عذاب کے لئے شور مچاتے ہیں۔
اس آیت میں ان تمام آیتوں کا جواب دے دیا گیا ہے جن سے لوگ یہ نکالا کرتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے ہی بندوں کے دلوں پر مہر کردی ہے یا تقدیر کے مسئلہ کے ماتحت کردیتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے ہی چور اور ڈاکو بنادیئے ہیں۔ کیونکہ یہ تمام باتیں ظلم پر مبنی اور ہدایت سے دور لے جانے والی ہیں مگر اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ خداتعالیٰ بالکل ظلم نہیں کرتا بلکہ ہدایت پانے کے لئے جس قدر ممکن ہوسکے موقع دیتا ہے۔
۴۶ وَیَوْمَ یَحْشُرُھُمْ کَاَنْ لَّمْ یَلْبَثُوْآ اِلَّا سَاعَۃً مِّنَ النَّھَارِ یَتَعَارَفُوْنَ بَیْنَھُمْ ط قَدْ خَسِرَالَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِلِقَآئِ اللّٰہِ وَمَاکَانُوْا مُھْتَدِیْنَo
ترجمہ
اور جس دن وہ انہیں ایسی حالت میں جمع کرے گا کہ (وہ محسوس کرتے ہوں گے کہ) گویا وہ دن کی ایک ساعت کے سوا (دنیا میں) نہیں رہے تھے (اس دن) وہ ایک دوسرے (کی حالت) کو معلوم کرلیں گے (یاد رکھو کہ) جن لوگوں نے اللہ (تعالیٰ) کے حضور پیش ہونے (کے وعدہ) کو جھٹلایا اور وہ ہدایت کو قبول کرنے والے نہیں بنے انہوں نے نقصان (ہی) اٹھایا۔
۴۶؎ حل لغات
الساعۃ۔ ستون۔ دقیقۃ۔ ایک گھنٹہ یا ساٹھ منٹ۔ الوقت الحاضر۔ اسی وقت۔ عبارۃ من جزء قلیل من النھار او اللیل۔ دن یا رات کا کچھ تھوڑا سا حصہ۔ یتعاونون عرف میں سے باب تفاعل کا فعل مضارع ہے۔ تعارف القوم عرف بعضہم بعضا۔ ایک دوسرے کو پہچانا۔ ایک دوسرے کے متعلق آگاہی حاصل کی۔ (اقرب)
تفسیر
کذبوا بلقاء اللہ میں یہ فرمایا کہ اگر وہ خوف سے ماننے والے ہوتے تو بھی لقاء کی یاد سے ڈر جاتے۔ اور اگر محبت سے ماننے والے ہوتے تو بھی وہ اس میں ترقی کرتے اور ان کی اطاعت پہلے سے زیادہ ہوتی۔
ساعۃ من النہار کے معنوں میں لوگوں کو بڑی غلطی لگی ہے۔ اس کے معنی دن کی ایک گھڑی کرکے پھر وہ اس بات کے پیچھے پڑ گئے ہیں کہ کون سی گھڑی اور کتنی بڑی گھڑی۔ اور پھر تطبیق دینے کے لئے انہیں اور بھی مشکل پیش آئی ہے۔ قرآن شریف میں متعدد جگہ کفار کے دنیا میں ٹھہرنے کو ساعۃ من النہار ہی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ لیکن ان تمام جگہوں میں ان کے ٹھہرنے کا وقت بتانا مراد نہیں۔ بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ ان کی زندگی خواب غفلت میں ہی گزری ہے۔ جس کی یہ وجہ ہے کہ نہار یعنی دن کا وقت کام کرنے کا ہوتا ہے اور کفار چونکہ اپنے اوقات کا بیشتر حصہ دنیا کمانے میں ہی گزارتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے سے بالکل غافل رہتے ہیں اس لئے ان کے متعلق یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ وہ ان کا نہایت ہی قلیل حصہ دنیا میں رہے ہیں۔ خواہ بظاہر وہ لاکھوں برس ہی دنیا میں کیوں نہ رہے ہوں کیونکہ اس وقت سے انہوں نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ اور جس کام کے لئے وہ دنیا میں آئے تھے اس کے لئے انہوں نے اسے استعمال نہیں کیا۔ اس لئے ان کے دن بھی راتیں ہی ہو گئے اور وہ گویا دن کی ایک گھڑی بھر ہی دنیا میں رہے ہیں۔
پس ان الفاظ میں لمبے عرصہ تک ٹھہرنے کا رد نہیں بلکہ ان کے کام کے زمانہ کو چھوٹا کرکے بتانا مقصود ہے۔ اگر مقدار بتانا مدنظر ہوتا تو نہا کی کوئی خصوصیت نہ تھی۔ رات سے بھی وقت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ غرض یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا میں تو ان کی آنکھوں پر پردے چھائے ہوئے ہیں لیکن قیامت کو ان پر پورا انکشاف ہو جائے گا کہ وہ نکمے پڑے رہے اور سوئے رہے اور کوئی کام نہیں کیا۔
یتعارفون بینھم یعنی وہ ایک دوسرے کی حقیقت سے آگاہ ہو جائیں گے۔ اس دنیا میں تو لوگ باوجود آپس کے سخت اختلاف کے انبیاء کے مقابلہ میں جمع ہو جاتے ہیں اور ان کی مخالفت میں بڑا حصہ لینے لگتے ہیں اور انہیں برا بھلا کہنا شروع کردیتے ہیں لیکن قیامت کے دن ان سب پر حقیقت آشکار ہو جائے گی اور وہ سمجھ لیں گے کہ ہم آپس میں بھی ایک دوسرے کو دھوکا دیتے رہے ہیں وہ اس دن پھوٹ ، تفرقہ اور فضیحت کو محسوس کریں گے۔
مفسرین نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ آپس میں پہچان لیں گے۔ یعنی بیٹا باپ کو اور باپ بیٹے کو شناخت کرلے گا مگر اس مضمون کے بیان کرنے کی کوئی ضرورت معلوم نہیں ہوتی۔ اصل بات یہ ہے کہ انہوں نے اس آیت پر غور نہیں کیا۔ معرفت کے معنی صرف ظاہری صورت کو پہچان لینے کے نہیں ہوتے بلکہ حقیقت کے جان لینے کے بھی ہوتے ہیں اور یہی اس جگہ مراد ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی کہا کرتے ہیں کہ میں نے آپ کو پہچان لیا ہے یعنی آپ کی حقیقت جان لی ہے۔ اسی طرح قیامت کو یا جب خدائی فیصلہ اس دنیا میں ظاہر ہوگا اس وقت ان لوگوں کو معلوم ہوگا کہ نبیوں کی خیرخواہی کیسی تھی۔ اور ان کی کیا قدر تھی اور ان کے دوستوں کی حالت اور قیمت کیا تھی۔
کذبوا بلقاء اللہ میں یہ بتایا ہے کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی ملاقات کی تکذیب کا نتیجہ ہے۔ مسلمانوں نے بھی آج اس بات کو چھوڑ دیا ہے۔ اس لئے وہ گررہے ہیں۔ اگر انسان کو یہ مدنظر رہے کہ خدا مل سکتا ہے تو خوف رکھنے والی طبیعت میں ڈر پیدا ہوجاتا ہے اور محبت رکھنے والا دل اپنے محبوب سے ملنے کی امید میں تڑپ جاتا ہے۔ پس یہ ایک زبردست قوت محرکہ یا موٹو پاور ہے یہی جاتی رہے تو نتیجہ بجز غفلت کے اور کیا ہوسکتا ہے۔
۴۷ وَاِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُھُمْ اَوْنَتَوَفَّیَنَّکَ فَاِلَیْنَا مَرْجِعُھُمْ ثُمَّ اللّٰہُ شَھِیْدٌ عَلٰی مَایَفْعَلُوْنَO
ترجمہ
اور جس (عذاب کے بھیجنے) کا ہم ان سے وعدہ کرتے ہیں اگر ہم اس کا کوئی حصہ (تیرے سامنے بھیج کر) تجھے دکھا دیں (تو تو بھی دیکھ لے گا) اور (اگر) ہم (اس گھڑی سے پہلے) تجھے وفات دے دیں تو تجھے مابعد الموت اس کی حقیقت معلوم ہوجائے گی کیونکہ بہرحال انہیں ہماری طرف لوٹنا ہے۔ پھر ( یہ بات بھی تو ہے کہ) جو کچھ وہ کرتے ہیں اس سے اللہ تعالیٰ آگاہ ہے۔
۴۷؎ حل لغات
اما اصل میں ان ما ہے۔ ما زائدہ ہے۔ زائدہ ایک اصطلاح ہے۔ جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ حرف یا لفظ پہلے لفظ یا حرف کے معنوں کی تاکید کرتا اور ان میں قوت اور زیادتی پیدا کرتا ہے۔ اور اس کے بڑھنے سے کلام کے اندر ایک نئی خاصیت پیدا ہوجاتی ہے۔ جو اس کے اصل مفہوم کو زیادہ زوردار بنادیتی ہے۔ ان کے ساتھ ما کے بڑھنے سے اس کے معنی میں جو زیادتی پیدا ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اکیلا ان تو محض ایک احتمال کا اظہار کرتا ہے۔ (خواہ وہ واقعی ہو یا خود پیدا کردہ) جس کے ساتھ توقع کا پایا جانا ضروری نہیں ہوتا اور اما ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے جہاں توقع بھی ہو۔ یعنی لفظ ما لفظ ان کے ظاہر کردہ احتمال کو زوردار بناکر اس کے متعلق توقع کا اظہار بھی کرتا ہے۔ نتوفین باب تفعل سے فعل مضارع ہے جس کاماخذ وفاۃ ہے۔ چنانچہ کلیات ابی البقاء میں لفظ توفی کے ذیل میں ہے والفعل من الوفاۃ اور وفات کے معنی موت کے ہیں۔ (اقرب) توفی اللہ زیدا قبض روحہ۔ اس کی جان نکال لی۔ اسے وفات دے دی۔ اس کی روح کو قبض کرلیا۔ توفی فلان مجہولا قبضت روحہ ومات۔ اس کی جان نکال لی گئی اور وہ مر گیا۔ فاللہ المتوفی والعبد المتوفی۔ غرض ان معنوں میں اس کے استعمال کے وقت اس کا فاعل اللہ اور مفعول بندہ ہوتا ہے۔ (اقرب)
تفسیر
عام طور پر عربی سے ناواقف لوگ اس آیۃ کا ترجمہ کرنے میں غلطی کرجاتے ہیں۔ اصل میں یہ دو الگ الگ جملے ہیں۔ واما نرینک بعض الذی نعدھم تک ایک جملہ ہے۔ اور اونتفینک دوسرا جملہ۔ پہلے جملہ کے معنی یہ ہیں کہ اگر ہم دکھادیں تجھے بعض ان میں سے جو ہم ان سے وعدہ کرتے ہیں۔ یعنی وہ غیب کی خبریں جو ہم نے ان کے متعلق تجھے بتائی ہیں۔ ان کا بعض حصہ تیری زندگی میں پورا کر دیں تو تو ان کو دیکھ لے گا۔ اس جگہ پر ترھا محذوف ہے۔ اور اس جملہ میں وعیدی پیشگوئیاں مراد ہیں۔ جیسا کہ ان کے الفاظ سے ظاہر ہے کیونکہ کافروں سے خداتعالیٰ نے انعامات کا وعدہ نہیں کیا تھا۔
اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ وعدہ کا لفظ وعدہ اور وعیدو دونوں کے لئے استعمال ہوجاتا ہے لیکن وعید کا لفظ عذاب کی پیشگوئی کے لئے خاص ہے۔
اونتوفینک یا ہم تجھے وفات دے دیں۔ اور وہ وعید تجھے نہ دکھائیں۔ تو تجھ پر آخرت میں ہم ان کی حقیقت ظاہر کر دیں گے۔ اس جگہ پر فنریک ھذاہ فی الاخرۃ محذوف ہے یعنی اس صورت میں ہم ان پیشگوئیوں کا انجام تجھے آخرت میں دکھا دیں گے۔ عربی قاعدہ کے رو سے ایسے مواقع پر حذف بالاتفاق جائز ہے۔ باقی رہا یہ سوال کہ کیونکر معلوم ہوا کہ یہی الفاظ محذوف ہیں۔ سو یہ بات اگلے فقرہ فالینا مرجعہم سے ظاہر ہے ان الفاظ میں بتایا گیا ہے کہ اس تبدیلی سے کوئی نقصان نہ ہوگا۔ کیونکر آخر یہ لوگ ہمارے پاس آئیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کی حقیقت کو وہاں ان پر ظاہر کر دے گا۔
اس آیت میں کفار کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ تم لوگ تو عذاب کے متعلق جلدی کرتے رہتے ہو لیکن اللہ تعالیٰ کی سنت تو یہ ہے کہ وہ نہ صرف عذاب لانے میں دیر کرتا ہے بلکہ بعض دفعہ وہ عذاب کی خبروں کو ٹلا بھی دیتا ہے۔
یہ آیت وعیدی پیشگوئیاں کے ٹل جانے کے ثبوت میں بنیاد کے طور پر ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام وعیدی پیشگوئیوں کے ٹلنے کے ثبوت میں اس آیت کو سب سے مقدم رکھا کرتے تھے۔ اور باقی آیات کو اس کی تائید میں پیش کیا کرتے تھے۔ اس آیت سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ (۱) یہ کہ پیشگوئیاں شرطی بھی ہوتی ہیں۔ کیونکہ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ یام ہم ایسا کریں گے یا ایسا (۲) یہ کہ بعض پیشگوئیاں ٹل بھی جاتی ہیں کیونکہ فرماتا ہے کہ اگر بعض ہم تجھ کو دکھلائیں گے تو تو دیکھ لے گا۔ بعض کا لفظ دلالت کرتا ہے کہ اس جگہ ان پیشگوئیوں کا ذکر ہے جن کے پورا ہونے کا وقت آپ کی زندگی میں رکھا گیا تھا۔ کیونکہ جن پیشگوئیوں کا وقت آپ کی وفات کے بعد تھا وہ تو آپ کے زمانہ میں پوری ہی نہ ہونی تھیں۔ اس سے یہ امکان نکلتا ہے کہ کوئی بھی کوئی بھی عزاب کی پیشگوئی تیرے وقت میں پوری نہ ہو کیونکہ ہوسکتا ہے کہ سب لوگ ایمان لے آئیں اور عذاب کی ضرورت ہی نہ رہے۔ یہ خدتعالیٰ کی قدرت کا اظہار ہے ورنہ سارے لوگ مانا نہیں کرتے۔ علاوہ ازیں اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ پیشگوئیوں کے لئے کوئی خاص وقت مقرر کرنا شرط نہیں کیونکہ اس جگہ وقت بہت وسیع ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تک چلا گیا ہے۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اس آیت میں یہ بھی ظاہر کر دیا گیا ہے کہ ٹلنے والی پیشگوئی وہ ہوتی ہے جو جزئی ہو۔ اصولی پیشگوئی نہیں ٹلا کرتی۔ مثلاً کوئی ہم سے کہے کہ کتب اللہ لاغلن انا ورسلی والی پیشگوئی ٹل جائے گی تو ہم کہیں گے کہ نہیںکیونکہ قرآن کریم نے فعدھم کی شرط لگائی ہے یعنی جو ہم ان سے وعدہ کرتے ہیں پس اس سے مراد صرف وہی وعید ہوسکتا ہے جو کسی خاص نبی کی قوم سے کیا گیا ہو۔ نہ وہ جو سب رسولوں کے ساتھ مجموعی طور پر ہو۔ اور لاغلبن والے وعدہ میں سب انبیاء شریک ہیں کسی خاص بنی سے یہ وعدہ مخصوص نہیں ہے۔ غرض تفصیلی پیشگوئی ٹل سکتی ہے اصولی وعدے یا وعید نہیں ٹلا کرتے۔ اس آیت سے آج کل کے بعض نئے مدعیوں کی تردید ہوجاتی ہے۔ جو پیشگوئی کرتے ہیں کہ ہم غالب آئیں گے۔ لیکن جب غلبہ نہیں ہوتا تو کہہ دیتے ہیں کہ وہ پیش گوئی ٹل گئی ہے۔
۴۸ وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلٌج فَاِذَا جَآئَ رَسُوْلُھُمْ قُضِیَ بَیْنَھُمْ بِالْقِسْطِ وَھُمْ لَایُظْلَمُوْنَO
ترجمہ
اور ہر ایک قوم کے لئے ایک (نہ ایک) رسول (کا آنا ضروری ہوتا ہے) ہے۔ پس جب ان کا رسول آتا ہے تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جاتا ہے اور ان پر (کوئی) ظلم نہیں کیا جاتا۔
۴۸؎ حل لغات
امۃ کے کئی معنی ہیں۔ الجماعۃ۔ جماعت۔ الجلیل من کل حیٍ قبیلہ کا بڑا حصہ۔ الطریقۃ۔ طریقہ۔ الدین مذہب۔ الحین وقت۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے ولئن اخرناعنھم العذاب الی امۃ معدودۃ۔ (ہود ع۱) القامۃ قد (اقرب) گویا یہ لفظ زمان و مکان دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
تفسیر
اس زمانہ کے بعض بدعتیوں نے اس آیت کے عجیب معنی کئے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ ہر امت کے لئے ایک ہی رسول ہوا کرتا ہے اس لئے امت محمدیہ میں کوئی دوسرا رسول نہیں آسکتا۔ یہ بات بالبداہت باطل ہے۔ اس آیت میں رسول کے وجود پر زور دیا گیا ہے نہ کہ تعداد پر یعنی یہ بتایا گیا ہے کہ امت بغیر رسول کے نہیں ہوسکتی نہ یہ کہ امت میں ایک ہی رسول آتا ہے۔ اور یہ بات واقعات کے بھی خلاف ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہی حضرت ہارون بھی رسول تھے اور دونوں کے مخاطب ایک تھے۔ اس آیت کے صاف معنی یہ ہیں کہ ہر مذہبی جماعت کی ابتداء رسول کے ذریعہ سے ہوتی ہے۔ میرے نزدیک چونکہ اس میں ابتدائٍ امۃ کا ذکر ہے اس لئے رسول سے مراد صاحب شریعت نبی ہے۔ کیونکہ امت کی ابتداء شرعی رسولوںکے ہاتھوں ہی سے کی جاتی ہے۔
قُضِیَ بَیْنَھُم’ بِال’قِسْطِ وَھُمْ لَایُظْلِمُوْن یعنی جو انبیاء کی جماعت میں شامل ہونے کے قابل ہوتا ہے وہ شامل کر لیا جاتا ہے۔ اور جو اپنے اپ کو اس قابل نہیں بناتا وہ ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ اس آیت میں کفار کو یہ بتایا گیا کہ کوئی قوم خدا کے فضلوں اور اس کی برکتوں کی وارث نہیں ہوتی جب تک کہ رسول کے ساتھ وابستگی و تعلق پیدا نہ کرے۔ یہ امید نہ رکھو کہ تم یونہی ترقی کر جاؤ گے۔ اگر ترقی کرنا چاہتے ہو تو اس رسول سے سچی وابستگی اور پکا تعلق پیدا کرو ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے۔
۴۹ وَیَقُوْلُوْنَ مَتٰی ھٰذَا الْوَعْدُ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَO
ترجمہ
اور وہ کہتے ہیں (کہ) اگر تم لوگ سچے ہو تو یہ وعدہ کب (پورا ہوگا۔
۴۹؎
ضدی آدمی کی بھی عجیب حالت ہوتی ہے۔ پچھلی آیت میں ضمناً یہ ذکر تھا کہ نبی سے جدا ہونا ہلاکت کا موجب ہوتا ہے۔ مگر باوجود اس کے کہ عذاب کی شرائط اور اس میں ڈھیل پڑھنے کی وجوہ تفصیل سے پہلے بیان ہوچکی تھیں وہ اس ضمنی ذکر پر سب پہلی باتیں بھول جاتے ہیں۔ اور جھٹ سوال کر دیتے ہیں ہ اچھا وہ عذاب کب آئے گا وہ سوائے تباہی کے نشان کے اور کسی نشان پر تشفی نہیں پاتے۔ افسوس کہ آج کل مسلمانوں کا بھی یہی حال ہورہا ہے۔ وہ صداقت کے نشانات کے طورپر ہمیشہ عذاب طلب کرتے ہیں۔
۵۰ قُلْ لَّآ اَمْلِکُ لِنَفْسِیْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا اِلَّا مَاشَآئَ اللّٰہُ ط لِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌط اِذَا جَآئَ اَجَلُھُمْ فَلَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَۃً وَّلَا یَسْتَقْدِمُوْنَO
ترجمہ
تو (انہیں) کہہ (کہ) میں (تو) اللہ (تعالیٰ) کی مشیت کے سوا (خود) اپنے حق میں (بھی) نہ کسی نقصان پر قابو رکھتا ہوں اور نہ کسی نفع پر (ہاں یہ درست ہے کہ) ہر ایک قوم (کے مستوجب عذاب قرار پانے) کے لئے ایک میعاد مقرر ہوتی ہے (اور) جب وہ آجاتی ہے تو (اس وقت وہ نہ کوئی گھڑی (اس سے) پیچھے رہ (کر اس سے بچ) سکتے ہیں اور نہ (ہی) آگے بڑھ کر اس سے خلاصی پاسکتے ہیں۔
۵۰
اوپر کی آیت میں جو مطالبہ تھا اس کا ایک اور لطیف طریق پر جواب دیا ہے اور فرمایا ہے کہ میں تو اپنے نفس کے ضرر اور نفع کا بھی مالک نہیں۔ میں تمہارے اس عذاب کے مطالبہ کو کس طرح پورا کرسکتا ہوں۔
یہ آیت اور اس قسم کی دوسری آیات کس وضاحت سے ثابت کرتی ہیں کہ قرآن کریم کی غرض صرف توحید کا اثبات ہے وہ کسی انسان کو خداتعالیٰ کے برابر کھڑا نہیں کرتا۔ خواہ وہ خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کیوں نہ ہوں۔
لکل امۃ اجل سے کفر کی امۃ مراد ہے۔ لکل امۃ رسول والی امۃ مراد نہیں۔ اور مطلب اس کا یہ ہے کہ کفر کی جماعتوں پر ایک زمانہ ضرور ایسا آتا ہے کہ ان کا سلسلہ بند کرکے نبی کے ذریعہ سے ایک نیا سلسلہ جاری کر دیا جاتا ہے۔ یعنی گو میرے اختیار میں عذاب دینا نہیں لیکن چونکہ خداتعالیٰ کا یہ قاعدہ ہے کہ ہر ایک قوم ایک خاص مدت تک ترقی کرتی ہے اور جب وہ اپنی حالت کو بدل لیتی ہے تو تباہ کر دی جاتی ہے۔ اس لئے میں یہ جانتا ہوں کہ تم اس حالت پر قائم نہیں رہ سکتے۔ ضرور ہے کہ تم کو تباہ کرکے صداقت کا دور شروع کر دیا جائے۔
۵۱ قُلْ اَرَئَ یْتُمْ اِنْ اَتٰکُمْ عَذَابُہٗ بَیَاتًا اَوْ نَھَارًا مَاذَا یَسْتَعْجِلُ مِنْہُ الْمُجْرِمُوْنَO
ترجمہ
تو (انہیں) کہہ (کہ بھلا) بتاؤ (تو سہی کہ) اگر اس کا عذاب ان کو دفعۃً یا ان کو (تمہارے دیکھتے دیکھتے) تم پر آجائے تو مجرم لوگ اس سے کیونکر بھاگ سکیں گے۔
۵۱؎ حل لغات
اَرَاَیتم کے لفظی معنی ہیں کا تم نے دیکھا۔ لیکن عربی محاورہ میں اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اخبرونی مجھے بتاؤ تو سہی (اقرب) البیات اسم من بیت العدو کا لکالم من کلم۔ بیات کے معنی تبییت کے ہیں۔ جو بیت کی مصدر ہے۔ بیت الامر عملہ او دبرہ لیلا۔ بیّت کے معنی ہیں رات کو کام کیا۔ یا رات کو اس کی تدبیر کی۔ القوم والعدۃ اوقع بھم لیلا من دون ان یعلموا۔ جب قوم اس کی مفعول ہو تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ رات کے وقت بغیر ان کی اطلاع کے ان پر حملہ کر دیا۔ شب خون مارا۔ (اقرب)
تفسیر
اس آیت میں عجیب نکتہ بیان فرمایا ہے کہ تم کو یہ بحث نہ کرنی چاہئے کہ عذاب آج آئے گا یا کل یا کب آئے گا۔ بلکہ دیکھا یہ چاہئے کہ تم عذاب کے مستحق ہو یا نہیں۔ اگر مستحق ہو تو سمجھ لینا چاہئے کہ آج نہیں تو کل ضرور عذاب میں مبتلا ہو گے۔ اور اس صورت میں تمہیں اپنی حالت کو بدل کر عذاب دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اور اگر تم سمجھتے ہو کہ تم عذاب کے مستحق نہیں ہو تو بجائے یہ کہنے کے کہ عذاب کب آئے گا یہ ثبوت پیش کرنا چاہئے کہ تمہارے اعمال اور تمہاری حالت عذاب کی مستحق ہی نہیں۔ اس لئے عذاب آہی نہیں سکتا۔
بیاتا اونھارا کے الفاظ میں ایک لطیف اشارہ اہل مکہ کی تباہی کی طرف کیا ہے۔ ان کے لئے دن کے وقت بھی عذاب مقدر تھا اور رات کے وقت بھی۔ بدر کے موقع پر وہ دن کے وقت تباہ کئے گئے۔ جو سب سے پہلی اصلی جنگ ہے اور جنگ احزاب کے موقع پر جو حقیقی طور پر آخری جنگ تھی رات کے وقت ان کی تباہی کے سامان پیدا کئے گئے۔ اس آیت میں رات کے عذاب کو مقدم اس لئے کیا گیا ہے کہ اس عذاب سے ان کا بالکل خاتمہ ہو جانے والا تھا۔
یستعجل منہ میں ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف بھی پھر سکتی ہے اور عذاب کی طرف بھی۔
۵۲ اَثُمَّ اِذَا مَاوَقَعَ اٰمَنْتُمْ بِہٖ ط آٰلْئٰنَ وَقَدْ کُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْنَO
ترجمہ
کیا پھر (بعد میں یعنی) جب وہ آجائے گا (تو اس وقت ) تم اس پر ایمان لاؤ گے (اس کا کچھ فائدہ نہیں ہوسکتا۔ اس وقت تو تم سے کہا جائے گا کہ) کیا اب (تم ایمان لاتے ہو) حالانکہ (اس کے آنے تک) تم اس کے جلد آنے کا مطالبہ کرتے رہے ہو۔
۵۲؎
یعنی نشان کی غرض تو فائدہ اٹھانا ہوتی ہے۔ لیکن تم لوگ جو عذاب طلب کرتے ہو تمہاری کیا غرض ہے۔ کیا عذاب آنے پر ایمان لاؤ گے۔ لیکن اس وقت کا ایمان نفع نہیں دیا کرتا۔ بلکہ اس وقت تو یہ کہا جاتا ہے کہ اب ایمان کا فائدہ نہیں۔ اب تو اس عذاب کے چکھنے کا وقت ہے جس کے جلدی نازل ہونے کا تم مطالبہ کیا کرتے تھے۔
عذاب مانگنے والوں کے رد میں یہ کیسی زبردست دلیل ہے۔ نشان تو فائدے کے لئے ہوتے ہیں۔ لیکن عذاب کا نشان اس کے لئے جو عذاب مانگتا ہے فائدہ کا موجب نہیں ہوسکتا۔ ہاں دوسروں کو نفع دیتا ہے۔ مگر ایک شخص جو خود تباہ ہوجائے اور خداتعالیٰ کے قرب سے محروم ہو جائے تو اسے دوسروں کے نفع پانے سے جو کہ خود مشکوک ہے کیا فائدہ۔
۵۳ ثُمَّ قِیْلَ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ذُوْقُوْا عَذَابَ الْخُلْدَ ج ھَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا بِمَا کُنْتُمْ تَکْسِبُوْنَO
ترجمہ
پھر جن لوگوں نے ظلم کیا ہوگا انہیں کہا جائے گا (کہ اب) تم قائم رہنے والا عذاب پاؤ۔ تمہیں بدلہ میں اس کے سوا جو تم (خود) کماتے تھے کچھ نہیں دیا جاتا۔
۵۳؎ حل لغات
الخلد۔ خلد کے معنی عربی زبان میں یہ ہوتے ہیں کہ البقاء باقی رہنا۔ الدوام چلتے ہی چلے جانا۔ (اقرب) خَلَدَ یَخْلُدُ خُدُوْدًا دَامَ و۔بَقِیَ۔ خلد کا فعل خَلَد ہے جس کے معنی ہیں رہا۔ دائم رہا۔ باقی رہا۔ الرجل خلد او خلود ابطاء عنہ الشیب وقد اسن۔ جب اس کا فاعل انسان ہو اور اس کی مصدر خَلْد یا خلود ہو تو ا سکے یہ معنی ہوتے ہیں کہ اس آدمی کی عمر زیادہ ہو گئی اور بڑھاپا نہ آیا۔
وبالمکان والی المکان اقام بہ اور جب اس کے بعد ب یا الی آئے تو اس کے معنی ہوتے ہیں فلاں مکان میں ٹھہرا۔ خلد الی الارض لصق بہا واطمئن الیہا اور اس کے بعد ایک معنی یہ بھی ہیں کہ وہ زمین سے چمٹ گیا اور س پر مطمئن ہو گیا۔ (اقرب)
تفسیر
عذاب الخلد کے یہ معنی ہوئے کہ وہ عذاب آئے گا جو ٹک جائے گا۔ اور تم سے چمٹ جائے گا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کبھی ہٹے گا نہیں اور وہ غیر مقطوع ہو گا۔ بلکہ عذاب کے تعلق کی مضبوطی کو ظاہر کیا گیا ہے۔ یعنی جب عذاب آئے گا تو ہٹایا نہ جائے گا جس طرح صاحب مکان جب آجائے تو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ جاؤ یہاں گنجائش نہیں۔ اسی طرح وہ عذاب ہوگا کہ اسے رد نہ کیا جاسکے گا۔
۵۴ وَیَسْتَنْبِئُوْنَکَ اَحَقٌّ ھُوَط قُلْ اِیْ وَرَبِّیْٓ اِنَّہٗ لَحَقٌّ ط وَمَآ اَنْتُمْ بَمُعْجِزِیْنَO
ترجمہ
اور وہ تجھ سے دریافت کرتے ہیں (کہ) کیا وہ عذاب سچ مچ واقع ہوگا۔ تو (انہیں) کہہ (کہ) ہاں۔ مجھے اپنے رب کی قسم ہے (کہ) وہ یقینا واقع ہونے والا ہے اور تم (ایسا کرنے سے خداتعالیٰ کو) عاجز نہیں کرسکتے۔
۵۴ حل لغات
ای حرف جواب۔ یعنی نَعَم۔ ہاں ولا نفع الا قبل القسم۔ یہ ہمیشہ قسم سے پہلے واقع ہوتا ہے۔ (اقرب)
تفسیر
جب شریر آدمی بالکل بند ہو جاتا ہے تو ہنسی کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ فرمایا کہ جب یہ لوگ ان دلائل سے عاجز آجائیں گے تو ہنسی کرنے لگیں گے اور بڑی سنجیدہ شکلیں بنا کر پوچھیں گے کہ کیا یہ باتیں سچی ہیں تو ان کی ہنسی کی پرواہ نہ کیجئو۔ اور کہہ دیجئو کہ ہاں میں اپنے رب کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ باتیں سچی ہیں۔ اس جگہ سوال سے مراد قومی عذاب کے متعلق سوال ہے۔ جیسا کہ دوسری جگہ ہے عم یتسائلون عن النبا العظیم۔ (عم ع۱)
لفظ ربی میں رب کی صفت کی قسم کھاکر خداتعالیٰ نے ان لوگوں کے سامنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وقت کی حالت کو بطور دلیل پیش کیا ہے۔ اور وہ اس طرح پر کہ کفار کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ دیکھو خداتعالیٰ نے اسے رسول بنا کر کس طرح آہستہ آہستہ ترقی دی ہے۔ اور بتدریج وہ اسے بڑھا رہا ہے۔ اور تمہارے زور کو کم کررہا ہے پس اس سے تم بآسانی سمجھ سکتے ہو کہ ایک وقت آئے گا کہ یہ جیت جائے گا اور تم ہار جاؤ گے۔ اس لئے تمہارا اس پیشگوئی پر تمسخر اڑانا تمہاری کم عقلی پر دلیل ہے ورنہ اگر ذرہ سی بھی عقل سے کام لو تو تم کو اس کے صحیح ہونے میں ذرہ بھی شبہ نہیں ہوسکتا۔
۵۵ وَلَوْ اَنَّ لِکُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ مَا فِی الْاَرْضِ لَافْتَدَتْ بِہٖ ط وَاَسَرُّوا النَّدَامَۃَ لَمَّا رَاَوُاالْعَذَابَ ج وَقُضِیَ بَیْنَھُمْ بِالْقِسْطِ وَھُمْ لَایُظْلَمُوْنَO
ترجمہ
اور اگر ایسا ہوتا کہ جو کچھ زمین میں (پایا جاتا) ہے وہ سب کا سب ہر ایسے شخص کا ہوتا جسے ظلم کیا ہے تو وہ ضرور اس کے ذریعہ سے اپنے آپ کو (عذاب سے) چھوڑاتا۔ اور جب وہ (اس ) عذاب کو دیکھیں گے تو وہ (اپنی) شرمندگی کو چھپائیں گے۔ اور ان کے درمیان انصاف سے فیصلہ کر دیا جائے گا۔ اور ان پر (کوئی) ظلم نہیں کیا جائے گا۔
۵۵؎ حل لغات
اسروالندامۃ کے دو معنی ہوسکتے ہیں۔ ندامت کو چھپائیں گے۔ یا یہ کہ ان کید لوں میں ندامت پیدا ہو جائے گی۔ اقرب میں ہے اسرالسر کتمہ۔ اسے چھپایا۔ اظھرہ اسے ظاہر کیا۔ ضد یہ لفظ دو متضاد معنی دیتا ہے۔
تفسیر
انسانی فطرت اس قسم کی ہے کہ سزا کا اس پر دو قسم کا اثر ہوتا ہے۔ بعض شخص سزا پر کڑ جاتے ہیں اور مقابلہ کرتے ہیں۔ اور بعض لوگ بالکل گر جاتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہماری سزا ایسی نہیں کہ اس کا اثر مشکوک ہو۔ بلکہ اس کا اثر یقینی ہوتا ہے اور ہر اک شخص خواہ کوئی ہو ہمارے عذاب کی برداشت سے عاجز آجاتا ہے۔ اور کسی میں بھی تکبر باقی نہیں رہتا۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان جو سزائیں دیتے ہیں ان کا اثر صرف جسم پر پڑتا ہے اور دل کو وہ مرعوب کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ صرف بزدل آدمی اپنی کمزور فطرت کے ماتحت مرعوب ہوتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ چونکہ دلوں پر بھی قابض ہے اس کی سزا نہ صرف جسم پر نازل ہوتی ہے بلکہ دلوں پر بھی اور اس طرح دلوں کو پاک کیا جاتا ہے۔ پس فرمایا کہ ہماری سزا جب نازل ہوتی ہے تو دل بھی مرعوب ہو جاتے ہیں۔ اور جس پر عذاب نازل ہو وہ ہر قسم کی قربانی کرکے اپنے آپ کو بچانے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ ظاہری سبب بھی خداتعالیٰ کی سزا سے مرعوب ہونے کا موجود ہوتا ہے جو یہ ہے کہ خداتعالیٰ کی سزا ہمیشہ مناسب موقع پر نازل ہوتی ہے۔ اور اس وجہ سے اس کی صحت کے دل قائل ہوتے ہیں۔ انسانی سزا غلط بھی ہوتی اور اور ایسے موقع پر ہی دل مقابلہ کے لئے تیار ہو تا ہے۔ جب وہ سزا کو ظالمانہ سمجھے۔ پس خداتعالیٰ کے عادل ہونے کے سبب سے دل اس کے انصاف کو محسوس کرتے ہیں اور اپنے کئے پر نادم ہوتے ہیں۔ اور جب ندامت پیدا ہو تو انسان اپنے فعل کے ازالہ کی کوشش کرتا ہے۔
یہ بھی مطلب اس آیت کا نکلتا ہے کہ خداتعالیٰ کا عذاب انہی پر آتا ہے جو اس کی تعلیم کا مقابلہ کرتے ہیں اور جو لوگ سچائی کا مقابلہ کریں ان کا کوئی ایسا آئیڈیل یا مقصد عالی نہیں ہوتا۔ جس کی خاطر وہ قربانی کررہے ہوں۔ بلکہ ادنیٰ خواہشات ہی ان کی مخالفت کی محرک ہوتی ہیں۔ اور یہ قاعدہ ہے کہ جو لوگ کوئی مقصد عالی نہیں رکھتے وہ بڑی قربانی بھی نہیں کرسکتے اور کمینگی اور دنایت ان کے دلوں میں پیدا ہو جاتی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جن پر ہمارا عذاب آتا ہے وہ چونکہ ادنیٰ خواہشات کے شکار ہوتے ہیں بلند حوصلگی نہیں دکھاسکتے اور تکلیف کے وقت ہر اک چیز کو قربان کرکے اپنے آپ کو بچانا چاہتے ہیں یعنی وہ چیزیں جنہیں انسان اپنی جان دے کر بھی بچاتا ہے یعنی قومی عزت وغیرہ وہ انہیں بھی قربان کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں اور یہ ثبوت ہوتا ہے ان کی غلطی پر ہونے کا۔ اگر وہ حق پر ہوتے تو کبھی ایسا کمینہ فعل نہ کرتے۔
۵۶ اَلَآ اِنَّ لِلّٰہِ مَافِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط اَلَآ اِنَّ وَعْدَاللّٰہِ حَقٌّ وَلٰکِنَّ اَکْثَرُھُمْ لَایَعْلَمُوْنَO
ترجمہ
سنو جو کچھ آسمانوں اور زمین میں (پایا جاتا) ہے وہ سب (کا سب ) یقینا اللہ (تعالیٰ) ہی کا ہے۔ سنو اللہ (تعالیٰ) کا وعدہ یقینا پورا ہونے والا ہے۔ مگر ان میں سے اکثر (لوگ) نہیں جانتے۔
۵۶
زمین و آسمان اور جو کچھ اس میں ہے سب خدا تعالیٰ کا ہے۔ اسے یا اس کے نیک بندوں کو فدیئے دے کر خوش کرنے کی کوشش بالکل لغو ہوتی ہے۔ وہ اپنے مقصد کو پورا کرنے کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اہل مکہ نے چاہا کہ شرک کے خلاف وعظ کو روکیں۔ اورع اس کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر قسم کی لالچ دی لیکن آپ نے یہی جواب دیا کہ خواہ سورج کو میرے دائیں اور چاند کو بائیں لاکھڑا کرو میں تو شرک کے خلاف وعظ کرنا نہیں چھوڑوں گا۔ اور اس طرح توحید کی کامیابی کے دن کو پیچھے نہیں ڈالوں گا اسی طرح جب ایران نے مسلمانوں سے جنگ شروع کی اور اس کا جواب دینے کے لئے اسلامی لشکر ایران کے علاقہ میں گھس گیا تو ایرانیوں نے روپیہ دے کر صلح کرنی چاہی لیکن خداتعالیٰ کے وعدے پورے کرنے کے لئے مسلمانوں نے ان کے اموال کو ٹھکرا دیا۔
اصل بات یہ ہے کہ دنیا کے بادشاہ چونکہ خودمحتاج ہوتے ہیں فدیوں پر خوش ہوجاتے ہیں۔ لیکن خداتعالیٰ تو اموال کا خالق ہے اس کے سامنے فدیئے کچھ حیثیت نہیں رکھتے۔ سوائے اس کے کہ خود اپنے نفس کی قربانی ہو۔ اور وہ بھی اس لئے قبول کی جاتی ہے کہ وہ قربانی انسان کے نفس کو پاک کرنے کا موجب ہوتی ہے۔
۵۷ ھُوَیُحْیٖ وَیُمِیْتُ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَO
ترجمہ
اللہ وہ زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اور اسی کی طرف تمہیں لوٹایا جائے گا۔
۵۷؎
یہ تعجب کرتے ہیں کہ ہم میں ایک شخص کھڑا ہوکر کس طرح کامیاب ہوسکتا ہے۔ لیکن نہیں دیکھتے کہ روزانہ دنیا میں ترقی اور تنزل کے نظارے نظر آرہے ہیں۔ پھر کیا خدا کا رسول ہی کامیاب نہ ہوگا جس کی طرف یہ بھی اور دوسری مخلوق بھی فیصلہ کے لئے پیش کی جاتی ہے۔
۵۸ یٰٓاَ یُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَشِفَآئٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْر وَھُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَO
ترجمہ
اے لوگو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے یقینا ایک (ایسی کتاب جو سراسر) نصیحت (ہے) اور (ہر) اس (بیماری) کے لئے جو سینوں میں (پائی جاتی) ہو شفاء (کا سامان ہے) اور ایمان لانے والوں کے لئے ہدایت اور رحمت (ہے) آئی ہے۔
۵۸؎ حل لغات
الموعظۃ نصیحت وعظ کا اسم مصدر ہے۔ وعظہ نصیحہ وذکرہ مایلین القلوب من الثواب والعقاب۔ ایسی نصیحت کی جو دل کو نرم کر دے۔ کہیں سزا کی باتیں بتابتا کر اور کہیں کامیابی کے رستے بتا بتا کر۔ خلیل نحوی ادیب نے وعظ کے معنی ھوالتذکیر بالخیر فیما یرق لہ القلب کئے ہیں یعنی وعظ ایسی باتوں کے یاد دلانے کو کہتے ہیں جن کے سننے سے دل میں نرمی پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔
الموعظۃ کلام الواعظم من النصح والحث والانذار موعظۃ اس کلام کو کہتے ہیں جو نہایت اخلاص پر مبنی ہو۔ اور نیک باتوں کی طرف ترغیب دے اور بری باتوں سے ڈرائے۔ (اقرب)
تفسیر
پہلے تو ایک لطیف پیرایہ میں یہ نصیحت کی کہ عذاب کی خواہش نہیں کرنی چاہئے۔ پس تم عذاب نہ مانگو۔ پھر مختلف طریقوں سے انہیں عذاب کی حکمتیں سمجھائی ہیں اور اب فرمایا کہ آؤ ہم تم کو بتائیں کہ یہ محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کس طرح کامیاب ہوگا۔ اس کی کامیابی کا راز فوجوں میں اور مال میں اور جتھے میں پوشیدہ نہیں ہے بلکہ اس کی کامیابی تمام تر اس کتاب کے کمالات سے وابستہ ہے جو اسے ملی ہے۔ ایسی باکمال کتاب کا مقابلہ دیر تک نہیں کیا جاسکتا۔ آخر انسان اسی کی طرف لوٹنے پر مجبور ہوتا ہے۔ جو کتاب اسے ملی ہے وہ موعظہ ہے۔ یعنی (ا) اس میں لوگوں کے فائدے کی باتیں ہیں جو اخلاص سے پر ہیں۔ اور اخلاص کا کلام آخر دل پر اثر کرکے ہی رہتا ہے۔ جس وقت تم غور کرو گے کہ اس کلام میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی فائدہ بالکل نہیں اس کے ذریعہ سے مال یا عزت یا دبدبہ یا حکومت کچھ بھی اسے مطلوب نہیں بلکہ اس پر عمل کرنے میں صرف تمہارا ہی فائدہ ہے۔ تو خودبخود اس کی طرف توجہ کرو گے۔ (ب) دوسرے اس کے مطالب ایسے ہیں کہ جو دل کو نرم کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی خشیت پر اس قدر زور ہے کہ سنگدل سے سنگدل انسان بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ (ج) اس میں تمہاری ترقی اور کامیابی کے گر بتائے گئے ہیں اور انہیں پیش بھی ایسے رنگ میں کیا گیا ہے کہ جس سے نفرت اور ضد نہ پیدا ہو بلکہ دل کو موہ لینے والا طریق اختیار کیا گیا ہے۔
(۲) دوسرے یہ کتاب دلی شبہات کے لئے شفاء ہے۔ انسان خواہ کس قدر ہی گر جائے اس کی فطرت کبھی کبھی اس کے دل میں صداقت کے لئے تڑپ پیدا کر ہی دیتی ہے۔ اور حقیقت کے معلوم کرنے کی خواہش اس کے دل میں پیدا ہوہی جاتی ہے۔ اور خداتعالیٰ اور الہام اور دعا اور معاد اور ایسے ہی دیگر امور کے متعلق وہ ایک اطمینان چاہتا ہے لیکن جھوٹے مذاہب یا نامکمل اور بگڑے ہوئے مذہب اس کی تسلی نہیں کرسکتے بلکہ ان سے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا ہونے لگتے ہیں اور اس وت انسان خواہش کرتا ہے کہ کاش کوئی ایسی راہ ہو کہ دل ان شبہات سے پاک ہوسکے۔ اس وقت تم اس کلام میں تسلی پاؤ گے اور دیکھو گے کہ کس طرح امور ایمانیہ کے متعلق تمام شبہات کو یہ دور کرتا ہے اور خودبخود دل اس کی طرف مائل ہوں گے۔
(۳) شبہات کے دور کرنے کے علاوہ انسان جب بزرگان دین کے حالات پڑھتا ہے اور معلوم کرتا ہے کہ کس طرح وہ لوگ ایک اعلیٰ یقین اور قرب الٰہی کے مقام پر پہنچے ہوئے تھے اور دین کی باریکیاں ان کو بتائی گئی تھیں اس وقت اس کا دل خواہش کرتا ہے کہ کاش میرا علمی ایمان بھی مشاہدہ کی صورت میں بدل جائے۔ اور میں بھی اپنی آنکھوں سے ان امور کو دیکھوں جن کو پہلے بزرگ دیکھتے چلے آئے ہیں۔ یہ خواہش بھی بہت سے لوگوں کے دلوں کو بے تاب کئے رکھتی ہے۔ پس اس حالت میں مبتلا لوگ بھی اس کتاب میں تسلی پائیں گے۔ اور حقیقی ہدایت ان کو ملے گی۔ جو بندہ کو خداتعالیٰ سے ملا دیتی ہے۔ اور جب لوگ دیکھیں گے کہ اس کتاب پر چل کر خدا مل سکتا ہے بغیر اس کے نہیں تو خود بخود اس کے قبول کرنے کی طرف متوجہ ہوں گے۔
(۴) بعض لوگ ایسی موٹی عقل کے ہوتے ہیں کہ وہ علوم اور وجدان کی باریکیوں کی تہ تک نہیں پہنچ سکتے۔
مگر مادی ترقیات ان کی توجہ کو کھینچ لیتی ہیں۔ سو ایسے لوگوں کی ہدایت کے لئے اس کتاب کے ساتھ خداتعالیٰ کے خاص فضل بھی وابستہ ہیں جو لوگ اس پر ایمان لائیں گے ان پر اللہ تعالیٰ خاص فضل کرے گا اور ان کو دنیوی ترقیات بھی عطا فرمائے گا۔ پس عوام الناس جو چیز کی حقیقت دیکھنے کے بجائے اس کے اثرات اور نتائج کو دیکھا کرتے ہیں ان ترقیات کو دیکھ کر جو اسلام سے وابستہ ہیں اسلام میں داخل ہوں گے اور انہی انعامات کو حاصل کرنے کے خواہش مند ہوں گے۔ یہ چار امور ایسے ہیں کہ اگر ان پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اسلام کی ترقی بلکہ کل سچے دینوں کی ترقی انہی کے ذریعہ سے ہوئی ہے جو بہت ہی حساس لوگ تھے انہوں نے محض اس کی مخلصانہ تعلیم کو دیکھ کر ہی فائدہ اٹھا لی۔ا جو ان سے سخت تھے انہوں نے عقلی دلائل سے تسلی پائی۔ جو ان سے بھی سخت تھے انہوں نے مسلمانوں کی اخلاقی حالت میں تبدیلی اور تعلق باللہ کی حالت کو دیکھ کر نصیحت حاصل کی جو اور بھی سخت تھے انہوں نے اسلام کی ترقیات کو دیکھ کر اس کی سچائی کا یقین کیا اور فوج در فوج اسلام میں داخل ہو گئے۔
لمافی الصدور۔ اس پر لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ خیالات تو دماغ میں پیدا ہوتے ہیں۔ پس سینوں والی بات یا دل کی بات کو اچھا کرنے کے کیا معنی ہوئے۔ سو اس کا جواب یہ ہے کہ روحانی امور دل کے ساتھ ایک باریک تعلق رکھتے ہیں اور تمام روحانی لوگوں کا تجربہ ہے کہ دل کا روحانیات کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے۔ جس طرح روح کا علم مادیات سے معلوم نہیں ہوسکتا اور اس کا تعقل جو جسم سے ہے وہ دریافت نہیں ہوسکتا اسی طرح یہ بات بھی مادی قواعد سے دریافت نہیں ہوسکتی کہ دل سے روح کا کیا تعلق ہے۔ پس اس معاملہ میں ہمیں تجربہ کاروں کے مشاہدہ پر یقین کرنا پڑے گا جو بالاتفاق اس امر کے گواہ ہیں کہ دل کا تعلق روحانی امور سے ضرور ہے۔ اور خیالات کا دماغ میں پیدا ہونا اس کے مخالف نہیں کیونکہ بالکل ممکن ہے کہ خون کے بعض تغیرات خیالات کے اچھے ہونے یا برے ہونے پر خاص اثر رکھتے ہوں اور خون کا تعلق چونکہ دل سے ہے اس طرح دل بھی ایک مخفی اثر خیالات پر ڈالتا ہوا ور یہ ظاہر ہے کہ خوراک کا اثر انسان کے خیالات پر پڑتا ہے۔ اور وہ اثر خون کے سوا اور کسی طرح نہیں پڑ سکتا۔ پس ان معنوں میں دل بھی خیالات کا ایک منبع کہلا سکتا ہے۔ چنانچہ اس مضمون کو قرآن کریم نے ایک دوسری جگہ بیان بھی کیا ہے اور غذا کا نیک اعمال کے ساتھ گہرا تعلق بتایا ہے۔ چنانچہ فرمایا یایھا الرسل کلوا من الطیبات واعملوا صالحا یعنی پاکیزہ خوراک اعمال صالحہ کی توفیق کا ایک ذریعہ ہے۔
۵۹ قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَبِرَحْمِتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْاط ھُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَO
ترجمہ
تو (ان سے) کہہ (کہ یہ سب کچھ) اللہ (تعالیٰ) کے فضل سے اور اس کی محبت سے (وابستہ) ہے پس اسی پر انہیں خوشی منانا چاہئے۔ جو (مال) وہ جمع کررہے ہیں اس سے یہ (نعمت کہیں زیادہ بہتر ہے۔
۵۹
یعنی یہ نعمت جو اوپر بیان ہوئی ہے صرف خداتعالیٰ کے فضل سے حاصل ہوسکتی ہے کوئی انسان اپنے زور سے اسے حاصل نہیں کرسکتا۔ پس جو شخص خداتعالیٰ پر یقین رکھتا ہے اسے چاہئے کہ ظاہری دولت اور جتھے پر گھمنڈ نہ کرے۔ کہ یہ چیزیں خدا کے فضل سے حاصل ہونے والی چیزوں کے مقابلہ میں کچھ بھی ہستی نہیں رکھتیں۔ بلکہ اس کا فخر اور اس کی خوشی انہی امور کے متعلق ہونی چاہئے جن کی صحت اور جن کے فائدے کا خداتعالیٰ خود ضامن ہو۔
ھوخیر میں ھو کی ضمیر فضل کی طرف بھی جاسکتی ہے اور فضل اور رحمت کے حاصل ہونے کے متعلق بھی ہوسکتی ہے اور اس سے مراد قرآن کریم بھی ہوسکتا ہے۔ جس کا اوپر ذکر ہوا ہے اور مراد یہ ہے کہ تم اپنے اموال اور جتھوں پر گھمنڈ کرکے پوچھتے ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس طرح کامیابی ہوگی۔ مگر یاد رکھو کہ جو ہتھیار اسے ملا ہے یعنی قرآن کریم وہ تمہارے سب اموال و اولاد پر بھاری ہے۔ اور ان سے بہتر ہے اور اس کتاب کے مقابلہ پر تمہاری دولت و حشمت کچھ بھی نہ کرسکے گی یہی جیتے گا۔
کیا ہی عظیم الشان سچائی بتائی ہے کہ سچائیاں مادیات پر غالب ہوتی ہیں۔ ایک وقت میں سچائی سب سے کمزور نظر آتی ہے لیکن آخر وہ سب چیزوں پر غالب ہو کر رہتی ہے۔ اگر لوگ اس نکتہ کو سمجھیں تو مادی اشیاء کو صداقتوں پر کبھی ترجیح نہ دیں۔
۶۰ قُلْ اَرَئَ یْتُمْ مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ لَکُمْ مِّنْ رِّزْقٍ فَجَعَلْتُمْ مِّنْہُ حَرَامًا وَّحَلٰلًاط قُلْ آٰللّٰہُ اَذِنَ لَکُمْ اَمْ عَلَی اللّٰہِ تَفْتَرُوْنَO
ترجمہ
تو (ان سے) کہہ (کہ) کیا تم نے اس بات کو (بھی کبھی سوچ کر) دیکھا ہے کہ اللہ (تعالیٰ) نے تمہارے لئے (آسمان سے رزق اتارا پھر تم نے اس میں (کچھ) حرام اور (کچھ) حلال ٹھہرادیا۔ تو (ان سے) کہہ (کہ) کیا اللہ (تعالیٰ) نے تمہیں (اس بات کی) اجازت دی ہے۔یا تم اللہ (تعالیٰ) پر افترا کرتے ہو۔
۶۰؎ حل لغات
ارء یتم کے بعد ما مصدر یہ یا موصور کا آنا اور اس کے بعد پھر استفہام کا آنا بتاتا ہے کہ اس جگہ ارء یتم بمعنی اخبرونی نہیں ہے۔ بلکہ اپنے اصلی معنی استفہامی میں ہے۔
تفسیر
چونکہ پہلے یہ بتایا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ کتاب ملی ہے جو لوگوں کے دلوں کے شکوک کو بدل دے گی اب اس کے ثبوت میں ایک حکم بیان فرمتا ہے جو کفار میں رائج تھا اور جس کو لوگ صرف اس وجہ سے مانتے تھے کہ باپ دادا سے سنتے چلے آئے ہیں ورنہ عقلیں اس کو تسلیم کرنے کے تیار نہ تھیں۔ اور وہ حلت و حرمت کا حکم تھا۔ کھانا پینا انسان کی پہلی ضرورتوں میں سے ہے اور اس کے متعلق صحیح رہنمائی کرنا مذہب کا پہلا فرض ہے۔ لیکن کفار مکہ کے پاس بلکہ دنیا بھر کے پاس اس کے متعلق کوئی صحیح راہنمائی نہ تھی جس چیز کو چاہا حرام کر دیا اور جس چیز کو چاہا حلال کر دیا۔ نہ کوئی قانون تھا نہ قاعدہ۔ اس بے اصولی تعلیم کو کون سی عقل تسلیم کرسکتی ہے۔ آخر حرمت کے لئے کوئی طبی یا اخلاقی یا مذہبی دلیل چاہئے۔ کسی چیز کو یا طبی نقائص کی وجہ سے حرام کیا جاسکتا ہے یا اخلاقی نقائص کی وجہ سے یا پھر روحانی امور کے سبب سے لیکن بلا کسی وجہ کے ہی حرام کر دیان اور آپ ہی حلال کر دینا خداتعالیٰ کی پیدائش کو باطل قرار دینا ہے۔ اور اس حلت و حرمت کے قواعد کے متعلق ضرور انسانوں کے دلوں میں شکوک پیدا ہوں گے۔ مگر ان شکوک کو سوائے اس مذہب کے کون دور کرسکتا ہے۔ جس نے حلال و حرام کے قواعد مقرر کئے ہیں اور ان قواعد کے رو سے کہ جن کو ہر عقل سلیم تسلیم کرسکتی ہے۔ وہ مختلف اشیاء کو حلال یا حرام قرار دیتا ہے۔ اسلام کو تمام دیگر مذاہب پر یہ بھی فضیلت حاصل ہے کہ حلال و حرام کے اس نے قواعد مقرر کئے ہیں اور بلاوجہ صرف اظہار حکومت کے لئے اس نے چیزوں کو حلال یا حرام نہیں قرار دیتا۔
اس جگہ اس امر کی طرف بھی اشارہ ہے کہ آخر اسلام کی مخالفت کی وجہ کیا ہے۔ وہ کون سی چیز ہے جو وہ تم سے چھڑواتا ہے لیکن وہ مفید ہے۔ اپنی حلال و حرام ہی کی تعلیم لے لو۔ کیا وہ اس قابل ہے کہ اس کے چھڑوانے پر اس قدر واویلا کیا جائے۔ اگر قرآن نہ بھی آتا تب بھی ایسی بیہودہ تعلیم کو تم آخر چھوڑ ہی دیتے۔ پس اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر تمہیں خوش ہونا چاہئے نہ کہ ناراض۔
اس آیت میں ولیتہم متعدی بیک مفعول ہے۔ جو مآ ہے اور جائز ہے کہ متعدی بدو مفعول ہو اور اس میں دو سرا قل اور ہمزہ سے پہلے قل اور ہمزہ کی تاکید کے لئے آئے ہوں اور رئیتہم کا مفعول ثانی اذن لکم ہو اور ام منقطعہ ہو۔
۶۱ وَمَاظَنُّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِط اِنَّ اللّٰہَ لَذُوْفَضْلٍ عَلَی النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَایَشْکُرُوْنَO
ترجمہ
اور جو لوگ اللہ (تعالیٰ) پر جھوٹ باندھتے ہیں ان کا قیامت کے دن کے متعلق کیا خیال ہے۔ اللہ (تعالیٰ) لوگوں پر یقینا (بہت ہی بڑے) انعام کرنے والا ہے مگر ان میں سے اکثر (لوگ) شکر نہیں کرتے۔
۶۱؎ حل لغات
یوم القیامۃ میں یوم ظرف کی وجہ سے منصوب ہے۔ اور فی اس جگہ محذوف ہے۔ یعنی قیامت کے دن (قیامت کے متعلق) ان کا کیا گمان ہوگا۔
تفسیر
یعنی اگر خداتعالیٰ پر ایمان ہو تو انسان اس پر جھوٹ کب بول سکتا ہے۔ پس ان امور کو جزوی قرار دے کر حقیر نہیں سمجھا چاہئے۔ یہ علامتیں ہیں اس امر کی کہ قیامت پر ایمان نہیں رہا۔ اور اللہ تعالیٰ کی صفات نظر سے اوجھل ہو گئی ہیں۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ خداتعالیٰ ایسے فضل کے سامان پیدا کرے اور یہ لوگ ان کی ناقدری کریں۔ اور عقل کے خلاف ڈھکوسلوں کو خداتعالیٰ کی بھیجی ہوئی تعلیم پر ترجیح دیں۔
ایک معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ اس جگہ ان کے مذہب کی خرابی اور خلاف عقل ہونے کی دوسری دلیل دی ہے۔ یعنی قیامت کا انکار۔ اور بتایا ہے کہ قیامت کا انکار محض اس وجہ سے ہوتا ہے کہ گناہگار فطرت اس دن کا خیال کرکے کانپتی ہے۔ جب اسے سزا ملے گی۔ اس لئے وہ اس کا انکار ہی کر دیتی ہے۔ حالانکہ انکار سے حقائق نہیں بدل جاتے۔ لیکن فرماتا ہے کہ یہ امر بھی عقل کے خلاف ہے کیونکہ قیامت کا وجود تو اللہ تعالیٰ نے ترقیات کے لئے بنایا ہے نہ دکھ دینے کے لئے۔ امتحان مدارس میں اس لئے رکھا جاتا ہے کہ بچے اس کی وجہ سے محنت سے کام کریں۔ بے شک بعض فیل ہو جاتے ہیں مگر امتحان کی غرض فیل کرنا نہیں بلکہ پاس کرنا ہے۔ پس جو شخص امتحان کو برا کہتا ہے وہ نادان ہے۔ اسے کس نے کہا ہے کہ وہ ویل ہو جائے وہ کوشش کرے کہ پاس ہو۔ آپ ہی فیل ہونے کے سامان پیدا کرنااورپھر امتحان کے نتائج سے ڈر کر اس کا سرے سے ہی انکار کر دینا تو اور بھی غافل اور سست کر دے گا اور تباہی سے بچائے گا نہیں بلکہ تباہی کی طرف دھکیل دے گا۔
۶۲ وَمَاتَکُوْنُ فَیْ شَأْنٍ وَّمَاتَتْلُوْا مِنْہُ مِنْ قُرْاٰنٍ وَّلَا تَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ اِلَّا کُنَّا عَلَیْکُمْ شُھُوْدًا اِذْ تُفِیْضُوْنَ فِیْہِ ط وَمَا یَعزُبُ عَنْ رَّبِّکَ مِنْ مِّثْقَالَ ذَرَّۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَآئِ وَلآَ اَصْغَرَ مِنْ ذٰلِکَ وَلَآ اَکْبَرَ اِلَّا فِی کِتٰبٍ مُّبِیْنٍO
ترجمہ
اور تو نہ (کبھی) کسی کام میں م(مشغول) ہوتا ہے اور نہ تو اس (کتاب) میں سے کوئی حصہ قرآن پڑھتا ہے اور نہ (ہی) تم (لوگ) کوئی (اور) کام کرتے ہو۔ مگر (اس حال میں کہ) جب تم اس میں تیزی سے مشغول ہوتے ہو تو ہم تمہیں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اور زمین یا آسمان میں کوئی (ایک) ذرہ بھر چیز (بھی) تیرے رب (کی نظر) سے پوشیدہ نہیں ہوتی۔ اور نہ (ہی) کوئی (ذرہ سے) چھوٹی چیز ہے اور نہ (ہی اس سے) کوئی بڑی چیز ہے جو (ہر ایک حقیقت کو) روشن کری دینے والی ایک کتاب میں (مذکور اور موجود ) نہ ہو۔
۶۲؎ حل لغات
الشأن۔ الخطب ای ماعظم من الاحوال والامور۔ اہم کام یا اہم بات۔ اہمیت رکھنے والی حالت۔ الحال۔ حالت۔ صورت، صورتِ حال۔ الامر۔ معاملہ۔ بات۔ ومن شانہ کذا۔ ای من طبعہ وخلقہ کذا طبعی بات۔ عادت۔ معمول (اقرب)۔ اس آیت میں پہلے معنی زیادہ چسپاں ہوتے ہیں۔ اور اس میں اہم کاموں سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائض منصبی اور دینی مشاغل ہیں۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اہم کام یہی تھا۔ تفیضون کی ماضی افاض ہے۔ افاض الماء علی جسدہ۔ افرغہ انڈیلا ڈالا۔ افاض دمعہ سکبہ بھایا۔ افاض الناس من عرفاتٍ۔ اندفعوا ورجعو۔ تفرقوا واسرعوا منہا الی مکان اخر۔ واپس ہو کر چلے گئے۔ تیزی کے ساتھ منتشر ہو گئے۔ افاضل القوم فی الحدیث۔ اندفعوا واسرعوا۔ باتوں میں لگ گئے۔ افاض فلان الاناء۔ ملاء حتی فاض۔ اس قدر لبریز کر دیا کہ بہ پڑا۔ افاضل القداح وبالقداح وعلی القداح۔ ضرب بہا جوا کھیلا۔ افاضل باشیئی دفع بہ ورفی پھینکا۔ افاض القوم علی الرجل۔ غلبوہ۔ دبا لیا۔ ماافاض بکلمۃ ماافصح بہا۔ خوب وضاحت سے بولا۔ (اقرب) یہ لفظ عام طور پر باتوں کے متعلق آتا ہے مگر یہاں پر عمل اور قول دونوں کے متعلق آیا ہے کیونکہ یہ عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ جب دو چیزوں کے لئے جدا جدا فعل ہوں تو کبھی قاعدہ تغلیب کے ماتحت ایک کو دوسرے کے تابع بنا کر دونوں کے لئے ایک ہی فعل لایا جاتا ہے۔ جیسے چار پائے کو چارہ دینے کے لئے علف آتا ہے۔ اور پانی دینے کے لئے اسقا آتا ہے مگر بجائے علفت الدابۃ تبسنا و اسقیتہ ماء کے علفت الدابۃ تبنا وماء بول دیتے ہیں۔ پس اسی کے مطابق یہاں قول و عمل ہر دو کے لئے تفیضون ہی استعمال کیا گیا ہے۔ عزب الشئی عنہ یعذب ویعذب عذوبا۔ بعد وغاب وخفی۔ دور ہوا۔ غائب ہوا۔ چھپا۔ یقال عزب عنہ علمہ۔ ای غاب۔ اس کا علم جاتا رہا۔ غائب ہو گیا۔ عزب الرجل۔ ذھب چلا گیا۔ (اقرب) المثقال ما یوزنہ بہ تولنے کا بٹہ وغیرہ۔ مثقالہ الشئی۔ میزانہ من مثلہ برابر۔ الذرۃ واحدۃ الذو۔ صغار النمل چھوٹی چیونٹیاں۔ الھیاء المنبث فی الھواء ہوا میں ملا ہوا باریک غبار۔
تفسیر
ماتتلوا منہ میں ضمیر مجرور کا مرجع قرآن کریم بھی ہوسکتا ہے اور اس صورت میں اس کے معنی یہ ہوں گے کہ تو نہیں پڑھتا قرآنکا کوئی حصہ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ قد جاء تکم میںجس چیز کی آمد کی خبر دی گئی ہے اس کی طرف معناً ضمیر پھرتی ہو اور مراد یہ ہو کہ جو کلام ان لوگوں کی طرف قرآن کریم کی شکل میں آیا ہے اس میں سے تو جو کچھ پڑھتا ہے اور ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف بھی جاسکتی ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تو پڑھتا ہے۔
یہ آیت بہت عجیب ہے۔ اس سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے خداوند تعالیٰ عرش عظیم سے خطاب فرمارہا ہے۔ ایک طرف تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنین کی جماعت ہے اور دوسری طرف مخالفین بیٹھے ہیں۔ پہلے حصہ آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کو مخاطب کرتا ہے پھر مخالفین کی طرف توجہ کرتا ہے اور فرماتا ہے وماتعملون من عمل الا کنا علیکم شہودا۔ تم کوئی کام نہیں کرتے جس پر ہم نگران نہ ہوں۔
اصغر کالفظ تو اس لئے لایا گیا ہے کہ چھوٹی چیز نظر سے غائب ہوسکتی ہے۔ مگر اکبر کا لفظ کیوں لایا گیا ہے۔ سرسری نگہ سے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا یہ تابع مہمل ہے۔ لیکن حقیقتاً ایسا نہیں۔ کیونکہ کبھی بڑی چیز بھی ادراک سے غائب ہو جاتی ہے۔ مثلاً آنکھ کے سامنے ایک بڑا پہاڑ آجائے تو اس کا صرف تھوڑا سا حصہ نظر اسکتا ہے۔ معلوم ہوا کہ صغیر ہونے کی وجہ سے بھی چیز غائب ہوسکتی ہے اور کبیر ہونے کی وجہ سے بھی۔ اس لئے فرمایا کہ اس کی نظر اس قدر وسیع ہے کہ کوئی بڑی سے بڑی چیز بھی اس سے غائب نہیں ہوسکتی۔ اور اتنا لطیف ہے کہ کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی اس سے اوجھل نہیں ہوسکتی۔ علمی نظر سے اگر دیکھا جائے تو آنکھ اور کان کی مثال سے یہ امر خوب روشن ہو جاتا ہے علم النفس کے ماہروں کی تحقیق سے ثابت ہے کہ دیکھنا اور سننا کچھ حرکات متوالیہ متواترہ پر منحصر ہے۔ جنہیں وائبریشنز کہتے ہیں۔ آنکھ اور کان دونوں کے لئے ایک حد مقرر ہے۔ ایک حد سے کم حرکات کو آنکھ نہیں دیکھ سکتی اور نہ ایک حد سے زیادہ کو۔ یہی حال کان کا ہے جو حرکت کہ ایک سیکنڈ میں تیس سے کم ہو کان اسے نہیں سن سکتے لیکن جو حرکت کہ سیکنڈ میں چالیس سے بڑھ جاے اسے بھی کان نہیں سن سکتے۔ پس علمی طور پر یہ بات ثابت ہے کہ بعض چیزیں بڑی ہوکر بھی آنکھ یا کان کے ادراک سے نکل جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمارے ساتھ یہ معاملہ نہیں۔ ہر چیز خواہ بڑی ہو یا چھوٹی ہمارے علم میں رہتی ہے۔
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ گو تم دونوں فریق میں سے ایک خداتعالیٰ کے دین پر ایمان لانے والا اور ایک مومن ہے لیکن دونوں فریق کو یاد رکھنا چاہئے کہ صرف صداقت کو مان لینا کافی نہیں ہوتا۔ بلکہ جزائے اعمال کے وقت نیت اور طریق عمل کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے۔ پس ہر وقت انسان کو اپنے نفس کا معائنہ کرنا چاہئے۔ کسی عظیم الشان کام کا کرنا یا خداتعالیٰ کے کلام کو پڑھ کر سنانا اپنی ذات میں کافی نہیں بلکہ یہ بھی دیکھا جائے گا کہ کس نیت سے اس کام کو کیا جاتا ہے یا کلام کو پڑھ کر سنایا جاتا ہے اور کس طریق پر کیا جاتا یا پڑھا جاتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ نیت خراب ہو یا ہوسکتا ہے کہ تبلیغ میں کوئی ایسا رنگ اختیار کیا جائے کہ لوگ بجائے قریب آنے کے دور ہو جائیں۔ اور انہیں ضد پیدا ہوجائے پس تم یہ خیال نہ کرو کہ ہم دین کا کام کرتے ہیں کیونکہ یہ بھی دیکھا جائے گا کہ تم اس کام کو کس طرح کرتے ہو۔ کیا لوگوں کو دین سے اور بھی دور تو نہیں کررہے۔
یاد رکھنا چاہئے کہ گو اس جگہ الفاظ میں ایک شخص مخاطب ہے مگر مراد سب مسلمان ہیں۔ اور بتایا گیا ہے کہ اس وقت دو قوموں میں مقابلہ شروع ہے۔ ایک طرف ہماری قائم کردہ جماعت ہے اور دوسری طرف کفار کی جماعت ہے ہم نے اپنی جماعت کا پاس اس لئے نہیں کرنا کہ وہ ہماری ہے۔ بلکہ نیت کو دیکھنا ہے۔ پس اے قرآن پڑھنے والو اگر تم نے نیک نیتی اور حکمت سے قرآن ان کو نہ سنایا اور اس وجہ سے انہوں نے انکار کیا تو ہم تمہیں پکڑیں گے کیونکہ اس انکار کے ذمہ دار تم ہو گے۔ لیکن اگر تم اپنی طرف سے اشاعت قرآن کریم کے فرض کو باحسن وجوہ ادا کیا تو اے انکار کرنے والو ہم تمہیں پکڑیں گے۔ گویا اسی طرف اشارہ فرمایا کہ ہم صرف عمل کو ہی نہیں دیکھتے بلکہ اسباب اور موحیات کو بھی دیکھتے ہیں۔
۶۳ اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لَاخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَO
ترجمہ
سنو جو (لوگ) اللہ (تعالیٰ) سے سچی محبت رکھنے والے ہیں ان پر نہ کوئی خوف (مستولی ہوتا) ہے اور نہ وہ غمگین رہتے ہیں۔
۶۳؎ حل لغات
الا یہ تنبیہ کے لئے اور ہوشیار کرنے کے لئے آیا ہے۔ گویا کہ فرماتا ہے کہ اچھی طرح سن رکھو۔ اس جگہ اس کے معنی خبردار کرنا اردو محاوہ کے لحاظ سے صحیح نہیں۔ کیونکہ خبردار ڈرانے کے لئے آتا ہے۔ مگر یہاں تو ایک مبارک مضمون ہے۔ کیونکہ اولیاء کو خوخبری دی گئی ہے۔ اس لئے خبردار رکھنے کا موقع نہیں۔ اس لئے اس کا ترجمہ ’’سنو‘‘ کیا گیا ہے۔
تفسیر
لاخوف علیہم کے معنوں میں لوگوں نے غلطی کی ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان پر کوئی خوف نہیں آتا۔ حالانکہ عربی زبان میں خفت و علیک کے معنی ہوتے ہیں کہ میں ڈرا کہ تجھ کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ اور خفت علی نفسی کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ میں ڈرا کہ مجھے کوئی نقصان نہ پہنچ جائے۔ اس جگہ اس محاوہ کے مطابق یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ صرف فرق یہ ہے کہ نسبت کو حذف کر دیا گیا ہے۔ اور مراد یہ ہے کہ لایخافون علی انفسہم یعنی اپنے نفس کے متعلق یقین رکھتے ہیں کہ انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ نہ یہ کہ کوئی خطرہ انہیں پیش نہیں آئے گا۔
ولاھم یحزنون سے یہ بتایا کہ ان کو ماضی کا بھی صدمہ نہ ہوگا۔ اس فقرہ میں اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اولیاء اللہ کو اللہ تعالیٰ ان غلطیوں کے صدمات سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔ جو اعلیٰ مقامات کے حصول سے پہلے وہ کرچکے ہیں کیا ہی محفوظ مقام ہے دنیا کی کوئی طاقت آئندہ اور ماضی کا ذمہ نہیں لے سکتی۔ صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے جس سے تعلق پیدا کرکے انسان کامل چین پاسکتا ہے۔ مگر افسوس کہ لوگ اسی طرف سب سے کم توجہ کرتے ہیں۔ اور اپنے دردوں کا علاج ان دروازوں سے تلاش کرتے ہیں جہاں سے سوائے مایوسی کے کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔ بعض جگہ جو انبیاء کی نسبت خوف اور حزن کا لفظ استعمال ہوا ہے اس جگہ خوف اور حزن ان کی اپنی ذات کے متعلق نہیں ہوتا بلکہ دوسروں کی نسبت ہوتا ہے اور دوسروں کی نسبت خوف اور حزن کا پیدا ہونا عذاب نہیں کہلاسکتا۔ بلکہ یہ تو ایک اعلیٰ درجہ کی نیکی ہے کہ انسان دوسروں کی مصیبت کو اپنی مصیبت سمجھے۔ اور ان کے درد میں شریک ہو۔ انہی معنوں کے رو سے حزن اپنی ذات کے متعلق نہ تھا۔ بلکہ اپنی اولاد کی نسبت تھا۔ جو گنہ گار ہوکر خدا سے دور جارہی تھی۔ اور یہ حزن عین رحمت تھا۔ اسی طرح حضرت زکریا کی نسبت آتا ہے انی خفت الموالی من ورائی۔ اپنے بعد میں اپنے رشتہ داروں سے ڈرتا ہوں کہ میرے کام کو خراب نہ کردیں۔ یہ خوف بھی ثواب کا موجب اور نیکی کا اعلیٰ نمونہ ہے کیونکہ یہ خوف اپنی ذات کی نسبت نہیں بلکہ اس امر کے متعلق ہے کہ لوگ گمراہ نہ ہوجائیں۔
۶۴ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَO
ترجمہ
(یعنی وہ لوگ) جو ایمان لائے اور تقویٰ کو (ہمیشہ) لازم حال رکھتے تھے۔
۶۴؎
اس آیت میں اولیاء کی صفت بتائی ہے کہ وہ ایمان میں کامل اور تقویٰ کا اعلیٰ نمونہ ہوتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ولایت کی تشریح فرمائی ہے اور وہ گویا اس آیت کی تفسیر ہے۔ پس میں اسے بھی اس جگہ بیان کر دیتا ہوں آپ فرماتے ہیں اذا کان یوم القیامۃ یؤتی باھل ولایۃ اللہ فیقومون بین یدی اللہ عزوجل ثلاثۃ اصنان۔ فیؤتی برجل من الصنف الاول فیقول عبدی لماذا عملت فیقول یارب خلقت الجنۃ واشجارھا وثمارھا وانھارھا وحورھا ونعیمھا ومااعدرت لاھل طاعتک فیہا فاسہرت لیلی واظمأت نہاری شوقا الیہا قال فیقول اللہ تعالی عبدی انما عملت للجنۃ ھٰذہ الجنۃ فادخلھا ومن فضلی علیک الی قداعتقتک من النار ومن فضلی علیک ان ادخلک جنتی فیدخل ھوومن معہ الجنۃ قال ثم یؤتی برجل من الصنف الثانی فیقول عبدی لماذا عملت فیقول یارب خلقت نارا وخلقت اغلالا وخلقت سعیرھا وسمومھا ویحمسومھا ومااعددت لاعدائک واھل معصیتک فیھا فاسھرت لیلی واظمأت نھاری خوفا منھا فیقول عبدی انما عملت ذلک خوفا من ناری فانی قداعتقتک من النار ومن فضلی علیک ان ادخلک جنتی فیدخل ھو ومن معہ الجنۃ ثم یؤتی برجل من الصنف الثالث فیقول عبدی لماذا عملت فیقول حبالک وشوقا الیک وعزتہ قداسہرت لیلی واظمات نھاری شوقا الیک وحیا لک فیقول تبارک وتعالی انما عملت حبا لی وشوقا الی فیتجلی لہ الرب جل جلالہ فیقول ھاانا ذا فانظر الی ثم یقولی من فضلی علیک ان اعتقک من النار وابیحک جنتی وازیرک ملائکتی واسلم علیکم بنفسی فیدخل ھو ومن معہ الجنۃ۔ یعنی جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ تعالٰی کے اولیاء کو لایا جاوے گا اور وہ خداتالیٰ کے سامنے پیش ہوں گے۔ اور تین قسموں میں انہیں تقسیم کیا جائے گا۔ پہلے ایک قسم کا ایک آدمی لایا جائے گا۔ اسے اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ اے میرے بندے تو نے (نیک) اعمال کس وجہ سے کئے تھے۔ وہ عرض کرے گا۔ کہ اے میرے رب آپ نے جنت پیدا کی اور اس کے درخت اور پھل پیدا کئے اور نہریں پیدا کیں اور اس کی حوریں اور اس کی نعمتیں اور جو کچھ بھی آپ نے اپنی اطاعت کرنے والوں کے لئے طیار کیا ہے سب کچھ بنایا۔ پس میں نے ان چیزوں کو حاصل کرنے کے لئے شب بیداری کی اور دن کو روزے رکھے۔ اس پر خداتعالیٰ اسے فرمائے گا اے میرے بندے تو نے صرف جنت کی خاطر نیک اعمال کئے سو یہ جنت ہے اس میں داخل ہو جا۔ اور یہ میرا فضل ہی ہے کہ میں نے تجھ کو آگ سے آزاد کردیا اور یہ بھی فضل ہے کہ میں تجھے جنت میں داخل کروں گا۔ پس وہ اور اس کے ساتھی جنت میں داخل ہوجائیں گے۔ پھر دوسری قسم کے آدمیوں میں سے ایک آدمی لایا جائے گا۔ اس سے بھی اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ اے میرے بندے تو نے نیک اعمال کس غرض سے کئے تھے۔ وہ جواب دے گا کہ اے میرے رب تو نے دوزخ پیدا کی اور اس کی بیڑیاں اور اس کی شعلہ زن آگ اور اس کی بادسموم اور گرم پانی۔ اور جو کچھ بھی تو نے اپنے نافرمانوں اور دشمنوں کے لئے تیار کیا ہے پیدا کیا ہے۔ پس میں نے ان چیزوں سے ڈرتے ہوئے شب بیداری کی اور دن کو روزے رکھے۔ اس پر خدا تعالیٰ فرمائے گا اے میرے بندے تو نے یہ کام صرف میری آگ سے ڈرتے ہوئے کئے تھے۔ پس میں نے تجھے آگ سے آزاد کیا۔ اور اپنے فضل سے تجھے جنت میں داخل کروں گا۔ پس وہ اپنے ساتھیوں سمیت جنت میں داخل ہو جاوے گا۔ اس کے بعد تیسری قسم کے لوگوں میں سے ایک آدمی کو لایا جائے گا۔ اس سے خداتعالیٰ پوچھے گا اے میرے بندے تو نے (نیک) کام کس وجہ سے کئے تھے۔ وہ جواب دے گا اے میرے رب تیری محبت کی وجہ سے اور تیرے ملنے کے اشتیاق میں۔ تیری عزت کی قسم میں راتوں کو جاگا اور دن کو میں نے روزے رکھے۔ صرف تیرے اشتیاق اور تیری محبت میں پس مبارک اور بلند و بالا خدا اسے فرمائے گا اے میرے بندے تو نے یہ تمام نیک کام میری محبت اور میری ملاقات کے شوق کی وجہ سے کئے تھے سو اپنا بدلہ لے اور اللہ جل جلالہ اس شخص کے لئے خاص تجلی فرمائے گا اور سارے پردوں کو اپنے چہرے سے دور کر دے گا اور اس کے سامنے آجائے گا۔ اور کہے گا اے میرے بندے لے میں یہ موجود ہوں۔ میری طرف دیکھ۔ پھر فرمائے گا میں نے اپنے فضل سے تجھے آگ سے آزا دکیا۔ اور جنت کو تیرے لئے جائز کرتا ہوں۔ اور فرشتوں کو تیرے پاس بھیجوں گا۔ اور میں خود تجھے سلام کہوں گا۔ پس وہ اپنے ساتھیوں سمیت جنت میں داخل ہو جائے گا۔ (ابن کثیر ج ۵ صفحہ ۱۲۲ برحاشیہ فتح البیان)
یہ جو اس حدیث میں آتا ہے کہ ہر قسم کے لوگوں میں سے ایک شخص آگے بڑھایا جائے گا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کے لوگوں میں سے جو کامل ترین اصناف میں سے ہوگا اس سے اللہ تعالیٰ کلام کرے گا۔ اور گویا بطور نمائندہ کے اپنے حضور میں اسے بلائے گا۔ آخری جماعت جو سب سے کامل جماعت اور ولایت کے اعلیٰ سے اعلیٰ مقامات کو پہنچی ہوئی ہے اس کلے قائم مقام یقینا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہوں گے کیونکہ آپ ہی وہ شخص ہوں گے جنہوں نے وفات کے وقت نہایت بے تابی سے کہا الرفیق الاعلیٰ الرفیق الاعلیٰ۔ یعنی میں اپنے رب سے ملنا چاہتا ہوں۔ اپنے رب سے ملنا چاہتا ہوں۔
اولیاء اللہ کے مختلف مدارج کے متعلق اور بھی بعض حدیثیں آئی ہیں۔ چنانچہ ایک روایت ابوداؤد میں آئی ہے۔ ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا من عباداللہ عباد یغبطہم الانبیاء والشہداء قیل من ھم یارسول اللہ لعلنا نحبہم قال ھم قوم تحابوا فی اللہ من غیر اموال ولاانساب۔ وجوھہم نور علی منابر من نور لایخافون اذا خاف الناس ولا یحزنون اذا حزن الناس (ابوداؤد بہ حوالہ ابن کثیر جلد ۵ زیر آیت ہٰذا) یہ حدیث تفسیر ابن جریر میں بھی آئی ہے۔ صرف راویوں کا فرق ہے۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خداتعالیٰ کے بندوں میں سے بعض ایسے بندے ہیں جن پر انبیاء اور شہداء بھی رشک کرتے ہیں۔ اس پر صحابہ کرام نے عرض کی یارسول اللہ وہ کون ہیں تاکہ ہم بھی ان سے محبت کریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ وہ لوگ ہیں جو صرف خداتعالیٰ کی خاطر آپس میں محبت کرتے ہیں۔ مال یا رشتہ داری اس محبت کا موجب نہیں ہوتی۔ (کیا ہی عجیب زمانہ تھا کہ صحابہ نیکوں سے محبت کی خواہش کرتے تھے لیکن آج کل نیکوں سے لوگ بغض رکھتے ہیں) ان لوگوں کی علامت یہ ہے کہ ان کے چہرے منور ہوں گے نورانی ممبروں پروہ بیٹھے ہوں گے۔ دوسری ان کی علامت یہ ہے کہ جب لوگوں پر خوف آتا ہے تو وہ نڈر ہوتے ہیں۔ اور جب لوگ اپنی گزشتہ باتوں پر جزع فزع کررہے ہوتے ہیں تو وہ امن میں ہوتے ہیں۔
اس حدیث میں اولیاء اللہ بننے کا طریق بتایا ہے اور وہ یہ کہ انسان خداتعالیٰ کی خاطر نبی کے ہاتھ پر جمع ہونے والی جماعت سے محبت کرے اور انبیاء کی باتوں سے نڈر ہو۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ دعا کرو۔ خداتعالیٰ ہمیں ان لوگوں میں سے بنائے۔ ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ ان جیسے بننے کا یہ طریق ہے کہ آپس میں دلوں کے بغض نکال دیں۔ اور تفرقہ کو چھوڑ دیں۔ اور مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت سے رابطۂ اتحاد پیدا کریں۔ دنیا سے نہ ڈریں اور نہ مصائب سے گھبرائیں۔
نبیوں کے رشک کرنے کا جو اس حدیث میں ذکر ہے اس سے یہ دھوکا نہیں کھانا چاہئے کہ نبی ان لوگوں سے ادنیٰ درجہ کے ہوتے ہیں بلکہ رشک سے مراد یہ ہے کہ نبی چاہتے ہیں کہ ایسے لوگ ہمارے متبعین میں سے بکثرت ہوں۔ نہ یہ کہ وہ خود ایسے ہوجائیں کیونکہ کوئی نبی نہیں ہوسکتا جس میں یہ صفت پہلے ہی سے نہ پائی جائے۔
۶۵ لَھُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِط لَاتَبْدِیْلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ ط ذٰلِکَ ھُوَالْفَوْزُ الْعَظِیْمُO
ترجمہ
ان کے لئے (اس) ورلی زندگی میں (بھی خداتعالیٰ کی طرف سے) بشارت (پانے کا انعام مقرر) ہے۔ اور بعد والی (زندگی) میں بھی۔ اللہ (تعالیٰ) کی (فرمودہ) باتوں میں (قطعاً) کوئی تبدیلی نہیں (ہوسکتی) یہی (وہ کامیابی ہے جو بڑی) عظیم الشان کامیابی (کہلا سکتی) ہے۔
۶۵؎
حدیث میں اس بشریٰ کی کئی تشریحیں آئی ہیں۔
اول عن ابی الدرداء عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی قولہ لھم البشری فی الحیٰوۃ الدنیا وفی الاٰخرۃ۔ قال الرؤیا الصالحۃ یراھا المسلم اوتری لہ۔ ترجمہ ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت لہم البشری فی الحوۃ الدنیا وی فی الاخرۃ کے متعلق فرمایا کہ اس بشریٰ سے رویا صالحہ مراد ہے۔ جسے مومن اپنے متعلق خود دیکھتا ہے یا اس کے حق میں کوئی دوسرا شخص دیکھتا ہے۔
دوم
تفسیر ابن جریر میں ابوالدرداء سے روایت آئی ہے۔ سالہ رجلٌ عن ھٰذہ الایۃ فقال سئلت عن شئی ماسمعت احدا سأل عنہ بعد رجلٍ سأل عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال ھی الرویا الصالحۃ یراھا الرجل المسلم او تری لہ بشراہ فی الحیوۃ الدنیا وبشراہ فی الاخرۃ یعنی ایک شخص نے ابوالدرداء سے اس آیت کے معنی پوچھے۔ انہوں نے (اس پر خوش ہوکر) کہا۔ آپ نے ایسی بات پوچھی ہے جو اس سے پہلے ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھی تھی۔ جس کے بعد میں نے کسی اور سے یہ سوال نہیں سنا تھا۔ آپ نے جواباً فرمایا تھا کہ اس سے مراد رویا صالحہ ہے۔ جو ایک مسلمان شخص (خود) دیکھتا ہے یا اس کے متعلق کوئی اور دیکھتا ہے۔ پس یہ اس زندگی میں بھی اس کے لئے بشارت ہے اور آخرت میں بھی اس کے لئے بشارت ہے۔
سوم عبادۃ بن الصامت سے روایت ہے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کے متعلق پوچھا۔ آپ نے فرمایا کہ تم سے پہلے کبھی کسی نے یہ سوال نہیں کیا تلک الرویا الصالحۃ یراھا الرجل او تری لہ یعنی اس سے مراد رویا صالحہ ہے جسے انسان خود دیکھے یا اس کے متعلق کوئی دوسرا دیکھے۔
چہارم۔ ایک اور روایت میں ہے۔ یراھا العبد المؤمن فی المنام اوتری لہ یعنی اس سے مراد رویا صالحہ ہے جسے خدا کا مومن بندہ خواب میں خود (اپنے متعلق) دیکھتا ہے یا اس کے متعلق کوئی اور دیکھتا ہے۔
پنجم۔ عبادۃ بن الصامت کی ایک اور روایت ہے کہ لقد عرفنا بشری الاخرۃ الجنۃ فما بشری الدنیا قال الریا الصالحۃ یراھا العبد او تری لہ وھی جزء من اربعۃ واربعین جزء او سبعین جزء من النبوۃ۔ یعنی ہمیں آخرت کی بشریٰ کے متعلق تو علم ہو گیا ہے کہ اس سے مراد جنت ہے۔ مگر دنیا کی بشریٰ کیا ہے آپ نے فرمایا وہ رویا صالحہ ہے جو بندہ دیکھتا ہے۔ یا اس کی خاطر کسی اور کو دکھائی جاتی ہے اور وہ نبوت کا چوالیسواں یا سترھواں حصہ ہے۔ (ابن کثیر)
ششم۔ اسی طرح صحابہ کے اس سوال پر کہ الرجل یعمل العمل ویحمدہ الناس علیہ ویثنون علیہ بہ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تلک عاجل بشری المؤمن۔ یعنی ایک شخص عمل کرتا ہے اور لوگ اس کی وجہ سے اس کی تعریف اور ثناء کرتے ہیں کیا اسی کو اس کی نیکی کا بدلہ سمجھ لیا جائے۔ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن کو جو نیک بدلے ملنے والے ہیں انہی میں سے یہ ایک دنیوی بدلہ ہے۔
ہفتم۔ عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ الرؤیا الصالحۃ یبشرہ المؤمن من تسعۃ واربعین جزء من النبوۃ۔ من رای فلیختبربہا ومن رای سوی ذلک فانما ھومن الشیطان لیحزنہ فینفث عن یسارہ (ابن کثیر زیر آیت لہم البشری) یعنی عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ اس سے مراد خواب ہے۔ اور یہ انچاسواں حصہ نبوت کا ہے۔ پس جو ایسی خواب دیکھے وہ بے شک دوسرے کو بتدادے۔ اور جو اس کے سوا یعنی بری خواب دیکھے اس کی وہ خواب شیطان کی طرف سے ہے تاکہ اس کو غم میں مبتلا کرے۔ پس اسے چاہئے کہ بائیں طرف تھوک دے اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بری خواب کا بیان کرنا ناپسندیدہ ہے۔
بعض لوگوں نے غلطی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وحی کو بھی اسی قسم کا قرار دیا ہے۔ لیکن یہ غلط ہے کیونکہ ان خوابوں کے دیکھنے والوں کی بعض خوابوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شیطانی بھی قرار دیا ہے۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تو خداتعالیٰ نے مامور کیا تھا جس کی کوئی خواب یا کوئی الہام شکی نہیں ہوسکتا۔ اور آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ مجھے اپنے لہام پر ایسا ہی یقین ہے جیسا کہ قرآن کریم پر۔ پس جو لوگ الہام کے منکر ہیں احادیث سے ان کو الہام کی ضرورت کا قائل کیا جاسکتا ہے۔ مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ اس قسم کے الہام سے بالا کوئی اور چیز نہیں ہوتی۔ ہاں یہ سچ ہے کہ مبشرات کا لفظ عام ہے۔ اسے انبیاء کے الہامات کے لئے بھی بول سکتے ہیں۔ اور اولیاء کے الہام پر بھی۔ پس یہ آیت سب قسم کے الہاموں کی خبر دیتی ہے۔ ان میں سے جو صحابہ سے تعلق رکھتے تھے رسول کریم صلعم نے بیان کر دیئے۔
لَاتَبْدِیل لکلمٰتِ اللّٰہ میں دو باتیں بتائی گئی ہیں۔ اول یہ کہ یہ خداتعالیٰ کا قدیم قانون ہے اور چونکہ قدیم سے یہ قانون ہے اس لئے اب بھی ایسا ہوگا۔
دوم یہ کہ یہ وعدہ ہمارا ایسا ہے کہ جس کے متعلق ہم یہ فیصلہ کرچکے ہیں کہ وہ بدلے گا نہیں۔ یعنی بعض امور غیبیہ کلمات اللہ میں شامل نہیں ہوتے۔ اور وہ بدل جاتے ہیں۔ لیکن بعض امور غیبیہ کلمات اللہ کہلاتے ہیں اور وہ ہرگز نہیں بدلا کرتے۔ ذلک ھوالفوز العظیم یعنی خداتعالیٰ سے بشارت کا ملنا ہی بڑی کامیابی ہوتا ہے یا یہ کہ کلمات اللہ کا تبدیل نہ ہونا یہی بڑی کامیابی ہے۔ دونوں معنی لئے جاسکتے ہیں۔ بشارت کا کامیابی ہونا تو ظاہر ہی ہے۔ کلمات اللہ کا نہ بدلنا بھی کامیابی کا بہت بڑا گر ہے۔ دینی امور میں بھی اور دنیوی امور میں بھی۔ چنانچہ سائنس کی بنیاد ہی ایسے قوانین پر ہے جو نہیں بدلتے۔ قوانین نیچر بدلتے رہتے تو دنیا ہرگز ترقی نہ کرسکتی۔ اور ایجادات کا سلسلہ ہرگز نہ چلتا۔ آگ جلاتی ہے۔ پانی سیراب کرتا ہے۔ بجلی تباہ کرتی ہے۔ ہر ایک چیز کے قوانین علیحدہ علیحدہ ہیں اور یہ بدلتے نہیں ہیں۔ اگر یہ بدل جاتے اور کبھی ایسا ہوتا کہ کوئی آگ جلانے لگتا تو آگ جلنے کی بجائے پانی پیدا ہو جاتا۔ اور آٹا ہی بھیگ جاتا یا لوگ پنکھا چلاتے تو آج پیدا ہوجاتی تو دنیا کبھی قدرت کے ذخیروں سے فائدہ اٹھانے کی طرف توجہ نہ کرتی۔ اور نظام عالم تباہ ہوجاتا۔ پس خداتعالیٰ کے نہ بدلنے والے قوانین ہی کامیابی کی جڑ ہیں۔ انہی کے راز معلوم کرکے دنیا ترقی کررہی ہے۔
۶۶ وَلَایَحْزُنْکَ قَوْلُھُمْ اِنَّ الْعِزَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیْعًاط ھُوَالسَّمِیْعُ الْعَلِیْمُO
ترجمہ
اور (چاہئے کہ) ان کی (کوئی مخالفانہ) بات تمہیں غمگین نہ کرنے پائے (کیونکہ) غلبہ بکلی اللہ (تعالیٰ) کا (ہی حصہ) ہے (اور) وہ خوب سننے والا (اور) خوب جاننے والا ہے۔
۶۶؎
پہلے تو فرمایا تھا کہ اولیاء اللہ پر غم ہی نہیں آتا۔ لیکن اب فرمایا کہ اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تجھے ان کی بات غم میں نہ ڈالے۔ اس کی وجہ وہی ہے جو اوپر بیان ہوچکی ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حزن آپ کا ذاتی نہ تھا بلکہ آپ کا غم خداتعالیٰ پر اعتراضوں کی وجہ سے تھا۔ تو فرمایا کہ اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تجھے ان کی بات غم میں نہ ڈالے۔ عزت تو خدا کی لونڈی ہے۔ جیسا کہ اللہ کے نام سے ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ لام ملک پر دلالت کرتا ہے۔ تم کیوں کرتے ہو ان کے اعتراض تو فضول ہیں۔
اس آیت سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ ایک طرف تو یہ آیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزگی پر دلالت کرتی ہے کہ آپ خداتعالیٰ پر اعتراضوں کی وجہ سے غم کرتے تھے اور دوسری طرف یہ آیت بتاتی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خداتعالیٰ کو کس قدر محبت ہے۔ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو خداتعالیٰ کی ذات پر اعتراض کرنے سے غم کرتے ہیں مگر خداتعالیٰ کی یہ شفقت ہے کہ تسلی دیتا ہے کہ آپ غم نہ کریں وہ سمیع (بہت سننے والا اور علیم بہت جاننے والا ہے) جب وہ دیکھے گا کہ ان اعتراضوں سے جو نتیجہ نکلتا ہے اور اس کی عظمت کو نقصان پہنچتا ہے تو وہ خود ہی ان اعتراضات کو مٹا دے گا۔ تجھے غم کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
۶۷ اَلَآ اِنَّ لِلّٰہِ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ ط وَمَا یَتَّبِعُ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ شُرَکَآئَ ط اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ ھُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَO
ترجمہ
سنو جو (فرد مخلوق بھی) آسمانوں کے اندر (پایا جاتا) ہے اور جو (بھی) زمین میں (موجود) ہے (ہر ایک) اللہ (تعالیٰ) ہی کا ہے اور جو لوگ اللہ (تعالیٰ) کے سواء (اور اور چیزوں) کو پکارتے ہیں وہ (دراصل) شریکوں کی پیروی نہیں کرتے (بلکہ حق یہ ہے کہ) وہ (اپنے) وہم کے سواء کسی (چیز) کی (بھی) پیروی نہیں کرتے۔ اور وہ صرف تخمینوں (اور ڈھکونسلوں) سے کام لیتے ہیں۔
۶۷؎ حل لغات
ما۔ ای شئی کے معنی میں بھی آتا ہے۔ یعنی کیا چیز اور نافیہ ہوکر بھی آتا ہے۔ یعنی نہیں۔ پس اس کے ایک معنی یہ ہوئے کہ کس چیز کی اتباہ کرتے ہیں۔ پس لوگ جو خداتعالیٰ کے سوا اوروں کو پکارتے اور شریک قرار دیتے ہیں اور دوسرے یہ کہ یہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے سواء اور چیزوں کو پکارنے والے ہیں یہ شرکاء کی اتباع نہیں کرتے۔ کیونکہ شریک تو کوئی ہے ہی نہیں۔ یہ تو اپنی خواہشوں کی پیروی کرتے ہیں۔ گویا پہلے معنی کے لحاظ سے ان کے شرکاء کی حقارت کا اظہار ہے اور دوسرے میں نفی کہ ہمارا شریک تو کوئی ہے ہی نہیں۔
خَرَصَ یَخْرُصُ خَرْصًا۔ کذب جھوٹ بولا۔ خرص فیہ۔ حدس وقال بالظن ڈھکوسلا مار دیا۔ یا صرف گمان کی بناء پر ایک بات کہہ دی۔ یہاں دونوں معنی ہوسکتے ہیں۔ یہ بھی کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں اور یہ بھی کہ وہ صرف وہموں کی بنا پر بات کرتے ہیں۔
تفسیر
اس آیت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دو طرح تسلی دلائی ہے۔ اول یہ کہ جب سزا دینا خداتعالیٰ کے قبضہ میں ہے تو پھر تمہیں حد سے زیادہ غم نہیں ہونا چاہئے۔ بے شک ان لوگوں کی حالت پر غم کرو۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی خیال رکھو کہ ان کا فیصلہ ایک قادر خدا کے ہاتھ میں ہے۔ وہ سزا دینے پر بھی اور اصلاح کرنے پر بھی قادر ہے۔ دوسرے یہ بتایا ہے کہ جس امر پر یہ لوگ قائم ہیں اس کی تو حقیقت ہی کچھ نہیں۔ پس آج نہیں تو کل ان کے مشرکانہ عقائد آپ ہی آپ مٹ جائیں گے۔ بے حقیقت شے حقیقت کے مقابلہ پر آکر کب تک ٹھہر سکتی ہے۔
۶۸ ھُوَالَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الَّیْلَ لِتَسْکُنُوْا فِیْہِ وَالنَّھَارَ مُبْصِرًاط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّسْمَعُوْنَO
ترجمہ
وہ (لاشریک ہستی) وہ (ذات پاک) ہے جس نے تمہارے لئے رات کو اس لئے (تاریک) بنایا ہے کہ تم اس میں آرام پاؤ۔ اور (بالمقابل) دن کو (کام کاج کے لئے روشن (بنایا ہے) جو لوگ (حق بات کو) سنتے (اور اس سے فائدہ اٹھاتے) ہیں ان کے لئے اس (نظام) میں یقینا کئی ایک نشان ہیں۔
۶۸؎ حل لغات
سَکَنَ یَسْکُنُ سُکُوْنًا قر۔ ٹھہرا رہا۔ سکن فلان دارہ وسکن فیھا سکعا وسکنا۔ استوطنھا واقام بہا۔ رہائش اختیار کی۔ سکن الیھا ارتاح راحت پائی۔ جمعیت خاطر حاصل کی۔ سکن عنہ الوجع۔ فارقہ درد تھم گیا۔ دور ہو گیا۔ (اقرب) مبصرا ابصر سے نکلا ہے جس کے معنی راہ کے بھی ہیں۔ یعنی اسے دیکھا۔ا ور جَعَلَ بصیرا کے بھی ہیں۔ یعنی اسے دیکھنے والا بنا دیا۔ (اقرب) اس جگہ دوسرے معنی مراد ہیں۔
تفسیر
متحرک بالارادہ کا اپنی حرکت کو بند کرنا ہمیشہ مزید طاقت و قوت کے حصول کے لئے ہوتا ہے۔ درحقیقت تکان کو اللہ تعالیٰ نے اسی بات کے بتانے کے لئے پیدا کیا ہے کہ تا مخلوق کو معلمو ہوجائے کہ پھر اسے غذا کی ضرورت ہے۔ جب کسی چیز کو غذا کی ضرورت ہوتی ہیت و اس کے اندر حرکت سے منافرت پیدا ہوجاتی ہے۔ اور یہ گویا اس کے لئے ایک تنبیہہ ہوتی ہے کہ اب تمہیں غذا لینی چاہئے۔ اور رات چونکہ کام کے چھوڑنے پر ایک رنگ میں مجبور کردیتی ہے اس لئے وہ گویا باعثِ سکون ہوتی ہے۔
رات کا ذکر اس جگہ بطور تمثیل کے لایا گیا ہے۔ رات انسان کی جسمانی قوتوں کو پھر نشوونما کا موقع دینے کے لئے بنائی گئی ہے۔
اسی طرح قوموں میں جمود اور جہالت کی حالت ان کے قومی اخلاق کو پھر درست کرنے کا موجب ہوجاتی ہے۔ اور ایک عرصہ تک باطل رہنے کے بعد پھر اقوام نئے جوش سے اٹھتی ہیں۔ اسی طرح دن کی تمثیل دی کہ دن بعد میں اس لئے چڑھتا ہے کہ ان حاصل شدہ طاقتوں کو استعمال کیا جائے۔ پس مخاطبین رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی چاہئے کہ اس نکتہ کو مدنظر رکھتے ہوئے اب جبکہ ان کے لئے دن چڑھایا گیا ہے اپنی حالت کو بدلیں اور سورج کی روشنی سے فائدہ اٹھائیں۔ اسی طرف اشارہ کرنے کے لئے اس جگہ رات کا ذکر پہلے کیا ہے اور دن کا بعد میں۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ آخر میں دن کا ذکر تھا۔ اور اس کے ساتھ مبصرا فرما کر دیکھنے کی طرف اشارہ فرمایا تھا۔ پھر باوجود اس کے آیت کو ان فی ذلک لایات لقوم یسمعون پر کیوں ختم کیا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس لفظ سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ باوجود اس کے کہ تمہارے لئے روحانی سورج چڑھا دیا گیا ہے تم ابھی تاریکی میں پڑے ہوئے ہو اور دیکھنے کے قابل نہیں ہوئے پس کم سے کم کانوں سے تو سن لو تاکہ دوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھا کر ہی زندگی پاسکو۔
۶۹ قَالُوااتَّخَذَاللّٰہُ وَلَدًا سُبْحٰنَہٗ ط ھُوَالْغَنِیُّ ط لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ط اِنْ عِنْدَکُم مِّنْ سُلْطٰنٍ بِھٰذَاط اَتَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ مَالَاتَعْلَمُوْنَO
ترجمہ
(اور) انہوں نے (تو یہ بھی) کہہ دیا ہے (کہ) اللہ (تعالیٰ) نے (بھی) اپنے لئے) اولاد اختیار کی ہے۔ اس کی تسبیح (کرو) وہ نہایت (ہی) بے نیاز ہے۔ جو کچھ آسمانوں میں (پایا جاتا) ہے اور جو کچھ زمین میں (موجود) ہے (سب) اسی کا ہے۔ اس (دعویٰ) کا تمہارے پاس کوئی بھی ثبوت نہیں ہے (پھر) کیا تم اللہ (تعالیٰ) کی طرف وہ بات) منسوب کرتے ہو جس کی بابت تم (کچھ بھی) علم نہیں رکھتے۔
۶۹؎ حل لغات
السلطان۔ الحجۃ دلیل محکم۔ التسلط۔ غلبہ اقتدار۔ قدرۃ الملک حکومت۔ الوالی۔ حاکم الملک بادشاہ (اقرب)
تفسیر
چونکہ یہ فرمایا تھا کہ کفار کی تباہی کے سامان تو خود اس تعلیم میں پنہاں ہیں جس پر وہ چلتے ہیں۔ اس لئے اب اس کی وضاحت کے لئے شرک کے عقیدہ کا بطلا بھی کر دیا۔ اور شرک کی اقسام میں سے اس کو چن لیا جو مہذب اقوام میں رائج تھا۔ اور جس کو سب عقائد سے زیادہ طاقت حاصل تھی یعنی اللہ کے بندہ کو اس کا بیٹا قرار دینا۔ دوسرے باقی اقسام کے شرکوں میں تو مشرک صرف یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ ہمارے معبود ہمیں اللہ تعالیٰ کے قریب کر دیں گے مگر بیٹا قرار دینے میں ایک چیز کو الوہیت میں شریک قرار دیا جاتا ہے۔
اس عقیدے کے رو میں چار دلیلیں پیش کی ہیں۔ اول سبحانہ دوم۔ ھوالغنی۔ سوم لہ ما فی السموت وما فی الارض۔ چہارم ان عندکم من سلطن بہٰذا۔ یعنی شرک کی کوئی دلیل نہ ہونا۔
سبحانہ میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ عیب سے پاک ہے۔ اور ولد کا ماننا اس کو عیب میں ملوث قرار دینا ہے۔ کیونکہ بیٹے کے ہونے کے لئے شہوات کی ضرورت ہے اور یہ عیب ہے۔ دوم بیٹے کے لئے باپ میں موت کی قابلیت کی شرط ہے اور یہ بھی عیب ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آئندہ نسل انہی چیزوں کی چلتی ہے جو اپنے وقت سے پہلے فنا ہوجاتی ہیں۔ زمین اور سورج میں سے آگے کوئی اور وجود نہیں نکلتا۔ کیونکہ ان کی جس عرصہ تک کے لئے ضرورت ہے اس وقت تک وہ قائم رہیں گے۔ لیکن درخت انسان حیوان چونکہ اس وقت سے پہلے فنا ہوجاتے ہیں جب تک کہ ان کی ضرورت ہے ان کی نسل کا سلسلہ چلتا ہے۔ تاکہ فنا ہونے والوں کی جگہ دوسرے وجود لے لیں۔ پس کسی چیز کی نسل کا ہونا اس کے فنا ہونے پر دلالت کرتا ہے۔
دوسرے سلسلۂ تناسل شہوت پر بھی دلالت کرتا ہے۔ اور شہوت خود ایک نقص ہے۔ کیونکہ شہوت جسم کی کسی زیادتی پر دلالت کرتی ہے۔ جسے جسم میں محفوظ نہ رکھا جاسکے۔ پس اس سے باہر ایک اور چیز پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ سبحان ہے۔ پس ایسی بات اس کی طرف منسوب نہیں کی جاسکتی۔
دوسری دلیل یہ دی کہ وہ غنی ہے۔ کسی کی مدد کا محتاج نہیں۔ اس لفظ سے ایک دوسری دلیل شرک کے جواز کی رد کردی۔ اور وہ یہ ہے کہ گو نسل کی اصل غرض فناء کے نقصان کو روکنا ہے لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اپنے کاموں میں مدد حاصل کرنے کے لئے اپنی زندگی میں ہی مددگار کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن فرمایا کہ اللہ تعالیٰ غنی ہے۔ کسی کی مدد کا محتاج نہیں۔ پس اس لحاظ سے بھی اس کے ہاں بیٹے کا وجود تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔
تیسری دلیل یہ دی کہ لہ مافی السموت وما فی الارض بعض دفعہ انسان شروع میں کوئی چیز بنا لیتا ہے لیکن بعد میں وہ اس کی طاقت سے نکل جاتی ہے۔ اور اسے سنبھال نہیں سکتا۔ لیکن فرمایا کہ اس کو نظام قائم کرنے کے لئے بھی کسی کی مدد کی ضرورت نہیں۔
چوتھی دلیل شرک کے رد میں یہ دی کہ اِنْ عِنْدَکُمْ مِنْ سُلْطان بِہٰذا۔ کیا تمہارے پاس شرک کی تائید میں کوئی دلیل ہے ہرگز نہیں۔ پس اس کا بے دلیل ہونا ثبوت ہے اس بات کا کہ خداتعالیٰ کا کوئی بیٹا نہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ باوجود ہر قسم کا زور مارنے کے شرک کی کوئی دلیل پیدا نہیں ہوسکی۔ اصولی اور فلسفیانہ بحثیں مشرک کرتے رہتے ہیں۔ لیکن جن چیزوں کو شریک قرار دیتے ہیں ان کی تائید میں کوئی دلیل پیش نہیں کرسکتے۔
اتقولون علی اللہ مالا تعلمون والی دلیل کو سورۂ رعد میں امتنبونہ بمالایعلم فی الارض کے الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ مگر یہاں پر اتقولون علی اللہ مالا تعلمون کے الفاظ میں بیان فرمایا اس اختلاف الفاظ کی وجہ یہ ہے کہ اس سورۃ میں تو اس طرف اشارہ کیا ہے کہ شرک جہالت کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے نہ کہ کسی دلیل کی وجہ سے۔ اور سورہ رعد میں یہ بتایا ہے کہ شرک کے عقیدہ سے اللہ تعالیٰ پر جہالت کا الزام آتا ہے کہ گویا وہ تو معبودوں کے وجود کا اعلان نہ کرسکا۔ ان لوگوں نے اپنے علم کے زور سے ان کے خدا ہونے کا پتہ لگا لیا۔
۷۰ قُلْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ لَایُفْلِحُوْنَO
۷۱ مَتَاعٌ فِی الدُّنْیَا ثُمَّ اِلَیْنَا مَرْجَعُھُمْ ثُمَّ نُذِیْقُھُمُ الْعَذَابَ الشَّدِیْدَ بِمَا کَانُوْا یَکْفُرُوْنَO
۷۲ وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاَنُوْحٍ م اَذْقَالَ لِقَوْمِہٖ یٰقَوْمِ اِنْ کَانَ کَبُرَعَلَیْکُمْ مَّقَامِیْ وَتَذْکَیْرِیْ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ فَعَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلْتُ فَاَجْمِعُوْآ اَمْرَکُمْ وَشُرَکَآئَ کُمْ ثُمَّ لَایَکُنْ اَمْرُکُمْ عَلَیْکُمْ غُمَّۃً ثُمَّ اقْضُوْآ اِلَیَّ وَلَا تُنْظِرُوْنِO
ترجمہ
تو (ان سے) کہہ (کہ) جو (لوگ) اللہ (تعالیٰ) پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ ہرگز کامیاب نہیں ہوتے (ان کا حصہ) دنیا میں (صرف چند روز کے لئے) کچھ سامان ہے پھر ہماری طرف انہیں لوٹنا ہوگا پھر اس وجہ سے کہ وہ کفر کرتے (چلے جاتے) ہیں ہم انہیں سخت عذاب کا (مزا) چکھائیں گے۔ اور تو انہیں نوح کا حال (بھی) سنا۔ کیونکہ اس نے (بھی) اپنی قوم سے کہا تھا (کہ) اے میری قوم اگر تمہیں میرا (خداداد) مرتبہ اور اللہ (تعالیٰ) کے نشانوں کے ذریعہ سے میرا تمہیں (تمہارا فرض) یا ددلانا ناگوار (گزرتا) ہے تو تم اپنے (تجویز کردہ) شریکوں سمیت اپنی بات (کے متعلق سب پختگی کے سامانوں کو جمع کرلو (اور) نیز چاہئے کہ تمہاری بات تم پر (کسی پہلو سے) مشتبہ نہ رہے۔ پھر اسے مجھ پر نافذ کردو۔ اور مجے (کوئی موقع اور) مہلت نہ دو۔
۷۲؎ حل لغات
کبر عظم وثقل بھاری اور گراں ہوا۔ کبر۔ عظم وجسم بڑا اور جسیم ہوا۔ (اقرب) علیہ الامر شق واشد وثقل گراں اور شاق گذرا (منجد) المقام۔ الاقامۃ رہنا بودوباش کرنا۔ موضع الاقامۃ رہنے کی جگہ۔ زمان الاقامۃ رہنے کا زمانہ یا وقت۔ موضع القدمین۔ جہاں پاؤں رکھے جائیں۔ المنزلۃ مرتبہ و حیثیت (اقرب) اجمعوا فرار کا قول ہے۔ا جمع الامر۔ نواہ وعزم علیہ۔ ارادہ کیا۔ اور پختہ نیت کرلی۔ اجمع القوم علی الامر۔ اتفقوا علیہ اتفاق کرلیا۔ اجمع امرہ بعد تفرقہ وجعلہ جمیعا پراگندگی کے بعد جمع کرلیا۔ اجمع الامرو علی الامر۔ عزم۔ پختہ ارادہ کرلیا (اقرب) غمتہ امر غمۃ اے مبہم ’’ملتبس‘‘۔ مبہم اور مشتبہ امر (اقرب) اقضوا الی کہتے ہیں۔ قضینا الیہ ذلک الامر۔ ابلغناہ ایاہ اس تک پہنچا دیا۔ (اقرب)
تفسیر
چونکہ سورۂ ہود میں انبیاء کا ذکر زیادہ تفصیل کے ساتھ آتا ہے اس لئے میں وہیں حضرت نوح کا ذکر کروں گا۔ا س جگہ اس آیت کی تشریح پر اکتفا کرتا ہوں میں بتا چکا ہوں کہ الرٰ کی سورتوں میں تاریخی واقعات پر زیادہ بحث ہے۔ اور انہیں سے زیادہ تر استدلال کیا گیا ہے۔ چنانچہ عقلی بحث کے بعد حضرت نوح کے واقعہ کو اللہ تعالیٰ پیش فرماتا ہے کہ اس واقعہ پر غور کرکے دیکھ لو۔ کیا نوح کے دشمنوں نے دشمنی میں کمی کی تھی۔ مگر باوجود اس کے کہ انہوں نے پورا زور لگایا اللہ تعالیٰ نے ان کو فوراً تباہ نہیں کیا۔ بلکہ ایک لمبے عرصہ تک ان کو ڈھیل دی۔ لیکن جب شرارت حد تک پہنچ گئی اور جو ایمان لانے والے تھے ایمان لاچکے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دشمنوں کو ہلاک کردیا۔
یتلوا۔ تلاوۃ میں سے نکلا ہے۔ تلاوۃ پڑھ کر سنانے کو کہتے ہیں۔ یعنی لوگوں کی روایات کی طرف مت جاؤ بلکہ وہی سناؤ جو اس کتاب میں اترا ہے۔
عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ بعض دفعہ فعل ایک ہی لایا جاتا ہے اور اس کے ساتھ وہ اسم استعمال کرکے ان ہر دو اسموں کے مناسب حال اس کے دو معنی لئے جاتے ہیں۔ا س جگہ اجمعوا شرکاء کم کے یہ معنی بھی ہوکتے ہیں کہ ان کو جمع کرلو۔ اور یہ بھی کہ تم اپنے معاملہ کو جمع کرلو اور اپنے شرکاء کو بلالو۔ اور ادعوا کا فعل حذف کر دیا گیا ہے۔ ایک شاعر کہتا ہے
یالیت زوجک قدغدا متقدرا سیفا ورمحا
جس میں سیف (تلوار) اور رمح (نیزہ) ہر دو کے لئے تقلد کا لفظ لایا گیا ہے۔ حالانکہ یہ سیف کے لئے مخصوص ہوتا ہے اور رمح کے لئے تقلد کا نہیں بلکہ اعتقال کا لفظ بولا جاتا ہے۔
اس سورۃ میں تین مثالیں دی ہیں۔ ایک حضرت نوحؑ کی۔ دوسری حضرت موسیٰ ؑ کی اور تیسری حضرت یونسؑ کی۔ حضرت نوح کی مثال کامل تباہی کی ہے۔ اور حضرت موسیٰؑ کی مثال ایک قوم کی تباہی اور دوسری کی نجات کی۔ اور حضرت یونسؑ کی مثال کامل طور سے بچا لینے کی ہے۔ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ تین مثالیں بیان فرما کر بتاتا ہے کہ ہم دنیا میں تین قسم کے معاملات کیا کرتے ہیں۔ (۱) کسی نبی کے ذریعہ سے مخالف قوم کو بالکل تباہ کردیتے ہیں۔ جیسے حضرت نوح کی قوم ہے۔ ان کے زمانہ میں بجز چند نفوس کے باقی تمام قوم ہلاک کر دی گئی۔ اور کسی نبی کے زمانہ میں اس کے مخاطبین میں سے ایک حصے کو بچا لیتے اور دوسرے کو تباہ کر دیتے ہیں۔ جیسے حضرت موسیٰؑ کے مخاطبین کا حال ہوا کہ بنی اسرائیل اکثر ان پرا یمان لے آئے مگر فرعون اور اس کی قوم تبہ ہو گئی۔ اور کسی نبی کے زمانہ میں کلی طور پر بچا لیا کرتے ہیں۔ جیسے حضرت یونسؑ کی قوم جو ساری کی ساری بچا لی گئی تھی ان مثالوں کو بیان فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین کو تحریص دلائی ہے کہ کیوں تم یونسؑ کی سی قوم نہیں بن جاتے۔ موسیٰؑ اور نوح کی قوموں کی طرح کیوں تباہی چاہتے ہو۔
عام طور پر لوگ نبیوں کے واقعات کو قرآن مجید میں محض قصہ سمجھتے ہیں۔ مگر ان تینوں واقعات کے نظام اور ان کی ترتیب پر غور کرو۔ کیا یہ محض قصہ کے طور پر ذکر کئے گئے ہیں۔ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مختلف زمانوں میں اور مختلف جگہوں میں یہی واقعات پیش نہیں آئے۔ کیا آپ مکہ میں نوح، مدینہ میں موسیٰ اور دوبارہ ورود مکہ میں یونس کے مثیل ثابت نہیں ہوئے ہیں۔ یہ قصے نہیں بلکہ پیشگوئیاں ہیں۔
مقامی وتذکیری میں حضرت نوحؑ نے بتلایا ہے کہ میری دو باتیں ہی تمہیں بری لگ سکتی ہیں۔ اول میرا نبی ہونا جس سے تم کو یہ خیال ہوگا کہ یہ ہم پر کیوں حاکم ہو گیا۔ کیونکہ نبی کو بھی ایک قسم کی حکومت تو حاصل ہوتی ہی ہے۔ دوم میری تعلیم۔ کیونکہ یہ تعلیم تمہارے طرز کے خلاف ہیے۔ فرماتے ہیں کہ اگر یہ دو باتیں تمہیں بری لگتی ہیں تو میں تمہیں ان دونوں کے متعلق یقین دلاتا ہوں کہ انہیں میرے نفس نے خود پیدا نہیں کیا۔ بلکہ یہ سب اللہ تعالیٰ کا فعل ہے اس میں میری اپنی کوئی غرض نہیں ہے۔ میں نے تو اپنے سب کام اللہ کے سپرد کردیئے ہیں۔ یعنی میری اپنی خواہش کوئی نہیں۔ جو کچھ ہوتا ہے خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔ اس لئے یقین رکھو کہ تمہارا مقابلہ مجھ سے نہیں بلکہ خداتعالیٰ سے ہے۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مقامی و تذکیری کو اکٹھا سمجھا جائے۔ اور یہ معنی کئے جائیں کہ اگر میرا کھڑے ہوکر وعظ کرنا تم کو برا معلوم ہوتا ہے تو سمجھ لو کہ میں تو اس طریق کو نہیں چھوڑ سکتا۔ کیونکہ یہ میرا فرض ہے۔ اور اگر اس کے نتیجہ میں تم مجھ سے دشمنی کروگے تو بے شک کرو۔ میں خداتعالیٰ پر توکل کرتا ہوں۔ ان معنوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قدیم سے انبیاء کی یہ سنت ہے کہ وہ کھڑے ہوکر وعظ فرمایا کرتے تھے۔ ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی خطبہ کھڑے ہوکر ہی فرماتے تھے۔ حضرت مسیح موعود بھی سوائے بیماری کے کھڑے ہوکر ہی عموماً لیکچر دیاکرتے تھے۔
اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ کامل تدبیر کس طرح کی جاتی ہے۔ اور اس کے لئے پانچ طریقے بتائے۔
(۱) مشورہ کرکے ایک رائے پر جمع ہوجانا چاہئے۔ جب تک کوئی قوم ایسا نہ کرے گی وہ کبھی جیت نہیں سکتی۔
(۲) اپنے ہم خیال لوگوں کو ایک نظام کے ماتحت لے آنا چاہئے۔ (۳) اس رائے کے پورا کرنے کے لئے ایک تفصیلیہ تجویز سوچ لینی چاہئے۔ یا دوسرے لفظوں میں تفصیلی نقشہ تیار کرلینا چاہئے۔ (۴) بغیر انتشار طاقت کے ایک ہی وقت میں سب طاقت کو خرچ کرنے کی کوشش کرنا چاہئے تاکہ ساری قوم کا زور ایک ہی وقت میں دشمن پر پڑے۔ (۵) حملہ کرنے کے بعد دشمن کو سانس لینے کا بھی موقع نہ دینا چاہئے کیونکہ اس صورت میں دشمن پھر طاقت پیدا کرلے گا۔ پہلا حملہ ختم نہ ہونے پائے کہ دوسرا شروع ہوجائے۔ تمام انبیاء اسی طریق پر کاربند ہوتے چلے آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بھی یہی طریق تھا۔ آپ ایک اشتہار نکالتے ابھی اس کا چرچا جاری ہوتا کہ دوسرا اور نکال دیتے تھے۔
غرض کامیابی کے لئے یہ پانچ طریق ضروری ہوتے ہیں۔ حضرت نوحؑ اپنی قوم کو خود ان طریقوں کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور فرماتے ہیں تم یہ پانچوں طریق استعمال کرلو۔ مگر پھر بھی کامیاب نہ ہوگے۔ کیونکہ ایک چھٹی چیز جس کے بغیر یہ تمام تدبیریں ناکام رہ جاتی ہیں یعنی توکل علی اللہ وہ تمہارے پاس نہیں ہے بلکہ وہ میرے پاس ہے۔ اس وجہ سے خداتعالیٰ کی مدد مجھے حاصل ہے۔ پس تم تمام کوششیں کرلو۔ غالب میں ہی رہوں گا۔
انبیاء ؑ کو اپنی صداقت اور خداتعالیٰ کے وعدوں پر کیسا یقین ہوتا ہے۔ نہ صرف یہ کہ وہ مخالفین کی مخالفت کی پرواہ نہیں کرتے بلکہ انہیں اور بھی غیرت دلاتے ہیں۔ اور باوجود اس کے مطمئن ہوتے ہیں کہ آخر ہم ہی جیت کر رہیں گے۔ اور آخر ویسا ہی ہوتا ہے۔ دوسرے معجزات کو نظرانداز کرکے چشم حقیقت بین کے لئے یہی ایک معجزہ ان کے خداتعالیٰ کی طرف سے ہونے کے ثبوت میں کافی ہوتا ہے مگر افسوس کہ اندھی دنیا دیکھتی نہیں۔
۷۳ فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَمَا سَاَلْتُکُمْ مِّنْ اَجْرٍط اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ لا وَاُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَO
ترجمہ
پھر (بھی) اگر تم پھر جاؤ تو (اس میں میرا کوئی نقصان نہیں۔ بلکہ تمہارا ہی ہے۔ کیونکہ میں نے تم سے (اس کی بابت) کوئی اجر نہیں مانگا۔ میرا اجر اللہ (تعالیٰ) کے سوا (اور) کسی پر نہیں ہے۔ اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں (اس کے) کامل فرمانبرداروں میں سے بنوں۔
۷۳؎
انبیاء کے دشمن اعتراض کیا کرتے ہیں کہ وہ حکومت پسند ہوتے ہیں۔ اور لوگوں پر غلبہ حاصل کرنا ان کا فطرتی تقاضا ہوتا ہے۔ اس آیت میں اس اعتراض کا خوب قلع قمع کیا گیا ہے۔ انبیاء کی زندگی اطاعت اور فرمانبرداری کی ایک بہترین مثال ہوتی ہے۔ اگر وہ حکومت کے خیال سے سب کچھ کرتے ہوتے تو لوگوں پر حکومت کرتے اور خود اپنے نفس کو تکلیف میں نہ ڈالتے مگر وہ تو خود اپنے نفس کو سب سے زیادہ تکلیف میں ڈالتے ہیں۔ وہ لوگوں کو ہی عبادت کا حکم نہیں دیتے بلکہ سب سے زیادہ خود عبادت کرتے ہیں۔ دوسروں کو ہی زکوٰۃ کا حکم نہیں دیتے بلکہ خود سب سے زیادہ صدقہ و خیرات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کی خواہش ان پر غالب نہیں ہوتی۔ بلکہ اطاعت و فرمانبرداری کی صفت ان پر غالب ہوتی ہے۔ اور وہ اول المسلمین ہوتے ہیں۔ یعنی فرمانبرداروں کے سردار۔
ممکن ہے کسی کے دل میں یہ اعتراض پیدا ہو کہ بعض بڑے بڑے جابر بادشاہ گزرے ہیں۔ جو بڑے عابد اور صدقہ و خیرات بھی کرنے والے تھے۔ لیکن یہ اعتراض درست نہیں۔ بے شک ایسے لوگ بھی ہوسکتے ہیں۔ جو جابر بھی ہوں اور عبادت گزار بھی ہوں۔ مگر ایسے لوگ وہی ہوں گے جن کا ایمان ورثہ کا ایمان ہوگا۔ جو شخص امرت ان اکون من المسلمین کہتے ہوئے نئے سرے سے اپنی قوم میں نیکی اور تقویٰ کی عادت ڈالتا ہے اس میں کبھی یہ دونوں باتیں جمع نہیں ہوسکتیں۔ کیونکہ اس کے اندر دونوں باتیں اسی کے نفس سے پیدا ہونی ضروری ہیں۔ اور یہ ناممکن ہے کہ ایک شخص کے دل میں ایک ہی وقت میں لوگوں پر حکومت کرنے کا خیال بھی پیدا ہو اور ساتھ ہی خداتعالیٰ کی عبادت کرنے اور کرانے کا بھی۔ ہاں یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک شخص کو اس کے ماں باپ یا بزرگ عبادت کی عادت ڈال دیں اور اپنی طبیعت کی رو سے وہ جابر اور ظالم بھی ہو۔ پس گو ورثہ کے ایمان والا ان متضاد باتوں کو جمع کرسکتا ہے۔ مگر مذہب کا بانی ایسا نہیں کرسکتا۔
فماسالتکم من اجر میں حضرت نوحؑ کی زبان سے یہ کہلوایا ہے کہ اگر تم نے پیٹھ پھیری اور جیسا کہ پیشگوئی سے ظاہر ہے تم ضرور پیٹھ پھیرو گے اور میں تم پر غالب آیا۔ تب بھی میں کوئی مالی ذمہ دری تم پر نہیں ڈالوں گا۔ کیونکہ میں نے یہ کام تمہاری خیرخواہی کے لئے کیا ہے نہ پہلے کوئی اجر مانگا نہ آئندہ کوئی اجر اپنے لئے وصول کروں گا۔
اگرچہ حضرت نوحؑ کو یہ موقع نہیں ملا کہ دشمن ان کے مقابلہ میں حملہ کرکے شکست کھاگئے ہوں اور پھر حضرت نوحؑ کو ان سے فاتحانہ معاملہ پڑا ہو اور پھر انہوں نے کچھ نہ لیا ہو مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ موقع ملا۔ آپ کی قوم آپ کے ہاتھوں مفتوح ہوئی اور حضور فاتحانہ طریق سے داخل مکہ ہوئے۔ اور حضور نے ان سے اس حالت میں بھی اپنے نفس کے لئے ایک حبہ بھی وصول نہ کیا۔
امرت ان اکون من المسلمین میں یہ بتایا گیا ہے کہ مجھے تو خدمت ہی کا حکم ہے۔ بادشاہت کے لئے تو میں بنایا ہی نہیں گیا۔ پس اگر میں غالب بھی آ گیا تب بھی میرا کام خدمت کرنا ہی ہوگا۔ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں ؎
منہ از بہرِ ماکرسی کہ ماموریم خدمت را
۷۴ فَکَذَّبُوْہُ فَنَجَّیْنٰہُ وَمَنْ مَّعَہٗ فِی الْفُلْکِ وَجَعَلْنٰھُمْ خَلٰٓئِفَ وَاَغْرَقْنَا الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بَاٰیٰتِنَاج فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُنْذَرِیْنَO
ترجمہ
(مگر) پھر (بھی) انہوں نے اسے جھٹلایا۔ تب ہم نے اسے اور (نیز) انہیں جو کشتی میں اس کے ساتھ (سوار) تھے بچا لیلا اور انہیں ہم نے جانشین بنا دیا اور جن لوگوں نے ہمارے نشانوں کو جھٹلایا (تھا) انہیں ہم نے غرق کر دیا۔ سو دیکھ (کہ) جن لوگوں کو (اس عذاب سے) آگاہ کر دیا گیا تھا ان کا انجام کیسا ہوا۔
۷۴؎ حل لغات
خلائف کا واحد خلیفہ ہے۔ الخلیفۃ من یخلف غیرہ ویقوم مقامہ جانشین اور قائم مقام۔ السلطان الاعظم۔ حاکم اعلیٰ۔ شاہنشاہ۔ الامام الذی لیس فوقہ امام وہ پیشرو اور حاکم جس کے اوپر اور کوئی حاکم اور پیشرو نہ ہو۔ (اقرب)
تفسیر
آخری حصہ آیت سے یہ بتایا ہے کہ ان لوگوں کی سزا میں کہ جن کو پہلے متنبہ نہ کیا گیا ہو اور ان لوگوں کی سزا میں جنہیں متنبہ کر دیا گیا ہو فرق ہوتا ہے۔ تبھی تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دیکھو کہ جن لوگوں کو متنبہ کر دیا گیا تھا ان کی سزا کیسی تھی۔ یعنی عام لوگوں کی سزا اور ان لوگوں کی سزا میں ایک بین فرق تھا۔ اس آیت میں انبیاء اللہ اور رسولوں کے درجہ کی طرف ہمیں توجہ دلائی ہے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے آنے والے وجود ایسے نہیں ہوتے کہ ان کی بات کی پرواہ نہ کی جائے۔
۷۵ ثُُمَّ بَعَثْنَا مَنْ م بَعْدَہٖ رُسُلاً اِلٰی قَوْمِھِمْ فَجَآئُ وْھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَمَاکَانُوْا لِیُؤْمِنُوْا بِمَا کَذَّبُوْا بِہٖ مِنْ قَبْلُ ط کَذٰلِکَ نَطْبَعْ عَلٰی قُلُوْبِ الْمُعْتَدِیْنَO
ترجمہ
پھر اس کے بعد ہم نے اور (بھی کئی) رسول اپنی (اپنی) قوم کی طرف بھیجے اور وہ ان کے پاس روشن نشانات لے کر آئے تو وہ (لوگ) اس سبب سے کہ (اس سے) پہلے اس (صداقت) کو جھٹلا چکے تھے (اس پر) ایمان لانے والے نہ بنے۔ ہم حد سے بڑھنے والوں کے دلوں پر اسی طرح سے مہر لگایا کرتے ہیں۔ ۷۳؎
۷۳؎ حل لغات
طبع الشئی صوّرہ بصورۃ ما اس کی کوئی صورت یا شکل بنائی۔ علیہ ختم مہر لگائی۔ اللہ الخلق خلقہم پیدا کیا۔ السیف عملہ وصاغہ بنایا۔ الدرھم نقشہ وسکہ مضروب کیا۔ (اقرب)
تفسیر
اس آیت میں مہر لگانے پر دشمنانِ اسلام جو اعتراض کیا کرتے ہیں اس کا بوضاحت جواب دے دیا گیا ہے۔ فرماتا ہے کہ چونکہ کفار پہلے انکار کر چکے تھے اس واسطے ایمان لانا ان کے لئے مشکل ہو گیا۔ اور اپنے اقوال اور اعمال کی پچ کی وجہ سے اپنی جگہ سے ہلنے سے انہوں نے انکار کر دیا۔ پھر فرماتا ہے کذٰلک نطبع علی قلوب المعتدین۔ ہم جو کہا کرتے ہیں کہ حدود کو توڑنے والوں کے دلوں پر ہم نے مہر لگادی ہے اس کا یہی مطلب ہوا کرتا ہے کہ چونکہ وہ ضد کرتے ہیں ہم انہیں ہدایت نہیں دیتے نہ یہ کہ ہم اپنی طرف سے انہیں ہدایت سے روکتے ہیں۔ پس وہ مہر اصل میں بندہ کی طرف سے ہوتی ہے گو بوجہ اس کے کہ نتائج خداتعالیٰ مرتب فرماتا ہے۔ اسے منسوب خداتعالیٰ کی طرف کر دیا جاتا ہے۔ ایک دوسری جگہ فرماتا ہے ام علی قلوب اقفالہا (محمد ع۴) کہ جو تالے کفار کے دلوں پر لگے ہوئے ہیں وہ خود ان کے دلوں سے ہی پیدا شدہ ہیں۔
۷۶ ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْ م بَعْدِھِمْ مُّوْسٰی وَھٰرُوْنَ اِلٰی فِرْعَوْنَ وَمَلَائِہٖ بِاٰیٰتِنَا فَاسْتَکْبَرُوْا وَکَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَO
ترجمہ
پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰ اور ہارون کو اپنے نشان دے کر فرعون اور اس کی قوم کے بڑے لوگوں کی طرف بھیجا۔ تو انہوں نے تکبر (اختیار) کیا اور وہ (پہلے ہی سے) ایک مجرم قوم تھے۔ ۷۴؎
۷۴؎ حل لغات
الملأ۔ ملا یملا سے نکلا ہے۔ جس کے معنی بھر دینے کے ہوتے ہیں۔ الملأ کے معنی ہیں۔ الاشراف۔ وسموالانھم یملئون العیون والصدور ھیبۃ۔ معزز لوگ اور ان کا نام ملا اس لئے رکھا گیا ہے کہ وہ آنکھوں کو عظمت سے اور سینوں کو ہیبت سے بھر دیتے ہیں۔ الجماعۃ جماعت۔ التشاور باہم مشورہ کرنا۔ چنانچہ کہتے ہیں ماکان ھذاالامر عن ملأ منا۔ ای تشاور۔ ہمارے مشورہ سے یہ بات نہیں ہوئی۔ استکبر الرجل کان ذاکبریاء۔ بڑا بنا۔ مغرور ہوا۔ (اقرب)
تفسیر
جب بھی کوئی نبی دنیا میں آتا ہے تو لوگ دو وجہ سے اس کا انکار کرتے ہیں۔ یا تو اس کے دعویٰ کو بڑا خیال کرتے ہیں اور یا اپنے آپ کو اس امر سے بالا سمجھتے ہیں کہ اس کی بات مان لیں۔ یہی حال حضرت موسیٰؑ کا ہوا۔ بعض نے یہ بات ناممکن سمجھی کہ خداتعالیٰ بندہ سے کلام کرے اور بعض نے یہ بات خلاف شان سمجھی۔ کہ موسیٰؑ جیسے بے کس انسان کی اطاعت کریں۔
وکانوا قوما مجرمین کے دو معنی ہوسکتے ہیں (۱) وہ پہلے ہی سے مجرم تھے۔ اس لئے حضرت موسیٰ کا انکار کر دیا۔ ان معنوں کے رو سے استکبروا کی وجہ معلوم ہوجاتی ہے۔ کہ اس لئے نہ مانا کہ اس طرح ان کی آزادی میں فرق آتا تھا۔ اور برے کاموں میں روک پیدا ہوتی تھی۔ (۲) دوسرے معنی اس کے یہ ہوسکتے ہیں کہ وہ انکار کرکے مجرم بن گئے۔ صداقت کے انکار کے ساتھ ان دونوں معنوں کا تعلق ہے۔ بدی بدی کی طرف مائل کرتی ہے۔ پس یہ بھی سچ ہے کہ جو لوگ مجرم ہوتے ہیں وہ صداقت کے قبول کرنے سے محروم رہ جاتے ہی۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ صداقت کا انکار کرکے انسان کے تقویٰ کو سخت صدمہ پہنچتا ہے۔ اور اگر پہلے اس شخص میں خشیت الٰہی ہوتی بھی ہے تو صداقت کے انکار کے بعد یکدم یا آہستگی سے جاتی رہتی ہے۔ پس صداقت کا انکار کوئی معمولی چیز نہیں۔ جو شخص تقویٰ کی کچھ بھی قدر کرتا ہو اسے اس سے بچنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔
۷۷ فَلَمَّا جَآئَ ھُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوْآ اِنَّ ھٰذَا لَسِحْرٌ مُّبِیْنٌO
ترجمہ
پھر جب ہماری طرف سے ان کے پاس حق آیا تو انہوں نے کہہ دیا (کہ) یہ یقینا یقینا ایک (تعلقات کو) کاٹ دینے والا فریب ہے۔ ۷۵؎
۷۵؎ حل لغات
مبین۔ ابان سے ہے۔ اس کے معنی ہیں فصل جدا کیا۔ الشئی اتضح واضح ہوا۔ الشئی اوضح۔ واضح کیا۔ (اقرب)
تفسیر
جب کبھی کوئی سچائی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے تو لوگ اسے سحرٌ مبینٌ کہہ دیتے ہیں۔ اور ان دو لفظوں میں شرارت کی ساری صورتیں مخفی ہیں۔ دنیا میں ہمیشہ دو ہی قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ مذہبی اور سیاسی۔ سحرٌ یعنی فریب کہہ کر ان لوگوں کو بھڑکانے کی کوشش کی جاتی ہے جو مذہبی ہوتے ہیں۔ انہیں ڈرایا جاتا ہے کہ یہ فریب ملک کے مذہب کو بگاڑ دے گا۔ اور مبین کہہ کر سیاسی لوگوں کو اکسایا جاتا ہے کہ یہ صرف ایک فریب نہیں بلکہ قوم میں تفرقہ ڈال دینے والا فریب ہے۔ پس اگر قوم کی خیرخواہی مدنظر ہے تو اس کا مقابلہ کرو۔ ورنہ قوم کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی۔ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے۔ یہ شیطانی حربہ برابر استعمال ہو رہا ہے۔ اور ابھی تک بیکار نہیں ہوا۔ اس زمانہ کے مصلح کے مقابلہ میں بھی یہی حربہ استعمال کیا گیا۔ اور کیا جارہا ہے۔ اور لوگ ہیں کہ قرآن کریم میں ان سب امور کو پڑھتے ہوئے غور اور تدبر سے کام نہیں لیتے اور نہیں سوچتے کہ قوم تو پہلے ہی سے مٹ چکی تھی۔ تفرقہ کس میں ڈالنا تھا۔ اگر بنانا ہی تفرقہ ہوتا ہیت و تفرقہ نہ معلوم کسے کہتے ہیں۔
۷۸ قَالَ مُوْسٰٓی اَتَقُولُوْنَ لِلْحَقِّ لَمَّا جَآئَ کُمْ ط اَسِحْرٌ ھٰذَاط وَلَا یُفْلِحُ السَّاحِرُوْنَO
ترجمہ
(اس پر موسیٰ نے ان سے) کہا (کہ) کیا تم حق کی نسبت (ایسا) کہتے ہو (اور وہ بھی اس وقت) جبکہ وہ تمہارے پاس آ گیا ہے۔ کیا یہ فریب (ہوسکتا ہے) حالانکہ فریب دینے والے کامیاب نہیں ہوتے۔ ۷۶؎
۷۶؎
اسحرٌ ھٰذَا۔ یعنی یہ تعلیم تمہارے سامنے موجود ہے۔ اس کا اثر بھی نمایاں ہے۔ اس کی تفصیلات بھی تم جان چکے ہو۔ کیا پھر بھی تم اس کو سحر قرار دیتے ہو۔ یہ تو جھوٹ کا سر کچلنے والی کتاب ہے۔ یہ سحر کس طرح ہوسکتی ہے۔
ولا یفلحُ الساحرون میں بتایا گیا ہے کہ جو لوگ فریب کی باتیں کرتے ہیں اور جھوٹ پھیلاتے ہیں وہ نبیوں کے مقاصد کو حاصل نہیں کرسکتے۔ پس میں اگر ساحر ہوں تو اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ نبیوں کا مقصد قوم کی مذہبی اخلاقی، تمدنی اور سیاسی حالت کو بدل ڈالنا ہوتا ہے۔ خواہ جلد خواہ بدیر۔ کوئی نبی اس مقصد کے بغیر نہیں آتا۔ حضرت موسیٰ ؑ کہتے ہیں کہ میں ان مقاصد کو پورا کررہا ہوں۔ اور ایک دن پورے طور پر پورا کرکے دکھا دوں گا۔ پھر تم کس طرح کہہ سکتے ہو کہ جو شخص تغیرات پیدا کردے وہ فریبی اور جھوٹا ہے۔
۷۹ قَالُوْآ اَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَیْہِ اٰبَآئَ نَا وَتَکُوْنَ لَکُمَا الْکِبْرِیَآئُ فِی الْاَرْضِ ط وَمَانَحْنُ لَکُمَا بِمُؤْمِنِیْنَO
ترجمہ
انہوں نے کہا کیا تو (اس لئے) ہمارے پاس آیا ہے کہ جس بات پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا ہے اس سے ہمیں ہٹا دے۔ اور تم (دونوں) کو ملک میں بڑائی حاصل ہو جائے۔ اور ہم (تو) تم پر ہرگز ایمان نہیں لائیں گے۔ ۷۷؎
۷۷؎ حل لغات
لتلفتنا لفت الشئی یلفت لفتا لواہ وصرفہ الی فات الیمین والشمال پھیر دیا۔ اور دائیں بائیں کر دیا۔ فلانا عن رأیہ ای صَرَفَہَ عن رأیہ۔ رائے بدلوا دی۔ (اقرب) الکبریاء العظمۃ۔ بڑائی والتجبر۔ جبر سے کام لینا۔ چیرہ دستی وفی اللسان العظمۃ والملک۔ لسان العرب میں ہے کہ اس کے معنی بڑائی اور حکومت کے ہیں۔ وقیل ھی عبارۃ عن کمال الذات وکمال الوجود ولا یوسف بہا الا اللہ تعالیٰ۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اس کے معنی ذاتی کمال کے ہیں۔ اور سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کو اس لفظ سے موصوف نہیں کیا جاسکتا۔ گویا جب بندے کے لئے یہ لفظ آتا ہے تو ہمیشہ برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ یعنی تجبر کے معنوں میں۔
فی الارض۔ اس ملک میں نہ یہ کہ ساری دنیا میں۔
تفسیر
سحر مبین میں جو دو اعتراض مختصر الفاظ میں بتائے گئے تھے اس آیت میں ان کی تشریح کر دی گئی ہے۔ پہلے حصۂ آیت میں کفار کے سرداروں کا یہ اعتراض نقل کیا گیا ہے کہ یہ شخص ہمیں باپ دادا کی تعلیم سے پھرانا چاہتا ہے۔ اور اکثر لوگوں کے نزدیک وہی حق ہوتا ہے جس پر کہ ان کے باپ داددے چلتے آئے ہوں۔ پس دوسرے لفظوں میں انہوں نے یہ اعتراض کیا ہے کہ یہ شخص ہمیں حق سے پھرانا چاہتا ہے۔ مگر اس مضمون کو ایسے رنگ میں بیان کیا ہے کہ عوام الناس میں خوب جوش پھیل جائے۔ دوسرا اعتراض یہ تھا کہ یہ شخص تفرقہ ڈالنا چاہتا ہے۔ اسے اس آیت میں ان الفاظ میں ادا کیا گیا ہے کہ موسیٰ اور ہارون حکومت چاہتے ہیں۔ اور حکومت حاصل کرنے کا ذریعہ یہی ہوا کرتا ہے کہ موجودہ نظام سے تعلق رکھنے والے افراد میں تفرقہ ڈلوا دیا جائے۔
۸۰ وَقَالَ فِرْعَوْنُ ائْتُوْنِیْ بِکُلِّ سٰحِرٍ عَلِیْمٍO
ترجمہ
اور فرعون نے (اپنے لوگوں سے) کہا (کہ) تم میرے پاس (ملک بھر کے) ہر ایک کامل واقفیت والے ساحر کو لے آؤ۔ ۷۸؎
۷۸؎
دیکھو ایک غلطی سے انسان کس طرح دوسری غلطی کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے۔ خدا کے برگزیدہ نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ساحر کہا تو نتیجہ یہ نکلا کہ خود بھی علمی تحقیق سے محروم رہ گئے۔ اور اپنے بچھائے ہوئے جال میں خود پھنس گئے۔ ساحر کہا تو ان کے مقابلہ کے لئے ساحروں ہی کی تلاش ہوئی۔
۸۱ السَّحَرَۃُ قَالَ لَھُمْ مُّوْسٰٓی اَلْقُوْ مَآاَنْتُمْ مُّلْقُوْنَO
ترجمہ
پس جب ساحر (لوگ) آئے تو موسیٰ نے انہیں کہا (کہ) جو کچھ تمہیں ڈالنا ہے ڈالو۔۷۹؎
۷۹؎
جب جادوگر آئے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا کہ جو کچھ تم نے پھینکنا ہے پھینکو۔ یعنی جو کچھ تمہیں کرنا ہے کرو۔ میں تو اسے فضول سمجھتا ہوں۔ گویا اظہار اسغناء فرمارہے ہیں۔
لوگ اس آیت کے یہ معنی سمجھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ بھی ان کے مقابلہ کے لئے تیار ہو گئے۔ حالانکہ یہ بات نہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خوب معلوم تھا کہ وہ جادوگر ہیں اور جو کچھ کریں گے وہ فضول ہی ہوگا۔ انہوں نے تو استغناء کا اظہار کیا ہے۔ موسیٰ ؑ نے فوراً ہی انکار غالباً اس لئے نہیں کیا کہ انہوں نے سوچا کہ جب وہ مقابل پر آئیں گے تو حقیقت خود ہی آشکار ہو جائے گی۔ اور اسی وقت کہنا مناسب بھی ہوگا۔ چنانچہ وقت پر یہ کہہ دیا کہ ماجئنم بہ السحر۔
۸۲ فَلَمَّآ اَلْقَوْا قَالَ مُوْسٰی مَاجِئْتُمْ بِہِ لا السِّحْرُط اِنَّ اللّٰہَ سَیُبْطِلُہٗ ط اِنَّ اللّٰہَ لَایُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِیْنَO
ترجمہ
اس پر جب انہوں نے (جو کچھ ڈالنا تھا) ڈال دیا تو موسیٰ ؑ نے کہا (کہ) جو کچھ تم (لوگوں) نے پیش کیا ہے (پورا) پورا فریب ہے (اور) اللہ (تعالیٰ) یقینا یقینا اسے مٹا دے گا اللہ (تعالیٰ) فساد کرنے والوں کی کارروائی کو درست ہرگز نہیں (کیا) کرتا۔ ۸۰؎
۸۰؎ حل لغات
اصلحہ ضد افسدہ ٹھیک کر دیا۔ درست کر دیا۔ مناسب حال کر دیا۔ بعد فسادہ اقامہ خرابی کو دور کرکے درست کر دیا۔ بین القوم وفق صلح کروائی۔ الیہ احسن احسان کیا۔ الی دابۃ احسن الیہادتعہدھا۔ اسے اچھی طرح سے رکھا اور اس کا پورا خیال رکھا۔ اصلح اللہ لہ فی ذریتہ ومالہ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو اولاد اور مال کی بہتری اور درست حالی نصیب کی۔ (اقرب)
تفسیر
جھوٹ اور فریب جب صداقت کے مقابلہ پر آتا ہے تو اس کا پول کھل جاتا ہے اور مفسدوں کے اعمال فساد ہی پیدا کرتے ہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا ہے کرے تو انسان مفسدوں والے اعمال اور نتیجہ اصلاح نکلے۔ تو بتایا کہ وہ مفسدین کے ارادوں اور ان کے عملوں کو آپس میں مناسب حال نہیں ہونے دیتا۔ بلکہ وہ اپنی حالت بدلتے رہتے ہیں۔ اور اس وجہ سے انہیں کامیابی بھی نصیب نہیں ہوتی۔
۸۳ وَیُحِقُّ اللّٰہُ الْحَقَّ بِکَلِمٰتِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُجْرِمُوْنَO
ترجمہ
اور اللہ (تعالیٰ) اپنے کلمات کے ذریعہ سے حق کو قائم کرتا ہے۔ گو مجرم (لوگ اس بات کو) ناپسند کریں۔ ۸۱؎
۸۱؎
کلمات میں بشارتیں اور انذار دونوں شامل ہیں۔ ان دونوں کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ حق کو ثابت کیا کرتا ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس جگہ ایک عجیب لطیفہ بیان فرمایا ہے کہ خداتعالیٰ اپنے دین کی اشاعت کے لئے جھوٹ اور فریب کا محتاج نہیں۔ ہر چیز اس کے حکم کے تابع ہے۔ وہ اپنے حکم سے دین کی اشاعت کرتا ہے نہ کہ بندے کے فریب سے۔ اس میں یہ اخلاقی نکتہ ہے کہ مقصد کی سچائی ہمیں اس بات کا مجاز نہیں بنادیتی کہ ہم اس کے حصول کے لئے جھوٹے ذرائع اختیار کریں۔ مقصد خواہ کتنا ہی اعلیٰ ہو ذرائع حصول بھی اعلیٰ ہونے چاہئیں۔
افسوس ہے کہ اس زمانہ میں بہت سے لوگ اس صداقت سے نابلد ہورہے ہیں۔ اور عام طور پر دنیا میں یہ وبایء پھیل رہی ہے کہ سچائی کی خاطر جھوٹ بولنا جائز ہے۔ حالانکہ وہ سچائی ہی کیا جو جھوٹ کے بغیر غالب نہ آسکے۔
۸۲؎ حل لغات
اٰمَنَہٗ امّنَ۔ امن بخشا۔ بچایا امن بہ صدقہ ووثق بہ۔ ایمان لایا۔ تصدیق کی اور پورا اعتماد کیا۔ آمن لہ خضع وانقاد۔ فرمانبرداری اختیار کی۔ مطیع ہو گیا۔ کہنا مان لیا۔ (اقرب)
الذریۃ الصغار من الاولاد وان کان قد یقع علی الصغار والکبار معا فی التعارف۔ یعنی ذریۃ کے معنی چھوٹی عمر کے بچوں کے ہوتے ہیں۔ لیکن کبھی عرف عام میں چھوٹے اور بڑے سب بچوں کے لئے مشترک طور پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے۔ ویستعمل للواحد والجمع واصلہ الجمع۔ اور یہ لفظ ایک بچہ کے لئے بھی اور زیادہ کے لئے بھی بولا جاتا ہے۔ گو اصل میں جمع کے لئے ہی یہ لفظ بنا ہے۔ (مفردات) علا کے معنی علاوہ اور معانی کے (تعلیل) یعنی اظہار سبب و علت کے بھی ہوتے ہیں۔ (اقرب) فَتَنَ۔ یَفْتِنُ فتْنًا وفُتُوْنًا۔ اعجَبَہٗ اسے پسند آیا۔ فتن المال الناس۔ استمالھم مال نے ان کو اپنی طرف مائل کیا۔ فتنت المرأۃ فلانا ولھتہ اس عورت نے اس مرد کو اپنا فریفتہ بنالیا۔ فتن زیدٌ عمرا۔ وقعہ فی الفتنۃ ففتن ای فوقع۔ زید نے عمر کو فتنہ میں ڈال دیا اور وہ فتنہ میں پڑ گیا۔ یعنی لازم و متعدی دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ فلانا فتنۃ ومفتونا اضلہ اسے گمراہ کر دیا۔ فتن الرجل فتنا الی النساء۔ اراد بہن الفجور۔ عورتوں سے بدکاری کا ارادہ کیا۔ فتن الشئی فتنا۔ احرقہ اس چیز کو جلا دیا۔ اور انہی معنوں میں قرآن کریم کی اس آیت میں یہ لفظ آیا ہے۔ وھم علی النار یفتنون (اقرب) فتن فلانا عن رائہ۔ صدہ اس کو اس کی رائے سے باز رکھا۔ فتن الصائغ الذھب والفضۃ فتنۃ اذایہ بالبوتقۃ واحرقہ بالنار یبین الجید من الردی ویعلم انہ خالص او مشوب وھو اصل معنی الفتنۃ۔ یعنی چاندی یا سونے کو کٹھالی میں ڈال کر پگھلایا اور آگ میں گرم کیا۔ تاکہ کھوٹے کو کھرے سے جدا کرے اور معلوم ہوجائے کہ وہ خالص ہے یا آمیزش والا ہے۔ اور یہی اصل معنی فتنہ کے ہیں۔ (اقرب) عال علا کا اسلم فاعل ہے۔ علا کے معنی ہیں۔ ارفتع اونچا ہوا۔ فی الارض تکبر و تجبر۔ ملک میں ظالمانہ طریق پر حکومت کی۔ فلانا غلبہ وقھرہ دبا کر زیر کرلیا (اقرب) مسرف۔ اسرف کا سم فاعل ہے۔ جس کے معنی ہیں جاوز الحدو افرط حد سے بڑھا۔ اخطا غلطی کی جھل جہالت سے کام لیا۔ غفل غفلت دکھائی۔ (اقرب)
تفسیر
فما امن لموسی الازریۃ من قومہ الخ کے یہ معنی ہوئے کہ حضرت موسیٰ ؑ کی ان کی قوم کے ہی کچھ آدمیوں نے اطاعت کی اور دوسرے لوگوں نے اس ڈر کے مارے ان کی بات نہ مانی کہ فرعون انہیں تکلیف نہ پہنچائے یا عذاب میں نہ ڈالے یا ان کو جلا نہ دے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کے زمانہ میں لوگوں کے دل تو انہیں مان جاتے ہیں مگر ڈر کے مارے ظاہر میں انہیں نہیں مانتے۔ اور کھلے کھلے طور پر ان پر ایمان نہیں لاتے۔ کئی جابر بادشاہ ہوتے ہیںمگر وہ عقلمند بھی ہوتے ہیں۔ وہ لوگوں کو ایسے طور پر تنگ نہیں کرتے کہ جس سے لوگ ان کی بغاوت پر مجبور ہوں مگر فرعون بیوقوف تھا کہ اس نے ایسا طریق اختیار کیا۔ جس نے لوگوں کو اس کی بغاوت پر مجبور کر دیا۔ حضرت نوحؑ اور ان کے ساتھیوں پر بھی ظلم و جبر ہوا۔ لیکن حضرت نوحؑ کا زمانہ حقیقۃً استہزاء کا زمانہ تھا۔ کیونکہ ان کی قوم ان کے مخالف تھی انہیں اور ان کے ساتھیوں کو حقیر سمجھ کر ان کے مٹانے کے لئے اس قدر جدوجہد نہ کرتی تھی لیکن فرعون کے زمانہ میں چونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم ان کے ساتھی تھی اس لئے ان کو ان کے بڑھ جانے کا اور اپنے کمزور ہو جانے کا خوف تھا۔ اور اس لئے وہ ان پر جبر کرتا تھا مگر یہ اس کی بہت بڑی نادانی تھی ایسے بے وجہ تشدد اور ظلم سے بغاوت کو تقویت پہنچتی ہے اور فائدہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ کی ساری قوم ان پر ایمان نہیں لائی تھی۔ بلکہ اس کا ایک حصہ ایمان لایا تھا جیسا کہ ذریۃ من قومہ کا لفظ ظاہر کررہا ہے۔ اور باقی حصہ صرف سیاسی رنگ میں ساتھھ مل گیا تھا۔ بعض مفسرین نے من قومہ کی ضمیر کو فرعون کی طرف پھیرا ہے اور یہ مراد لی ہے کہ فرعون کی قوم میں سے بھی کچھ لوگ آپ پر ایمان لے آئے تھے لیکن پہلے معنی زیادہ مناسب معلوم ہوتے ہیں۔
اس آیت میں ملأھم کی ضمیر کے متعلق سوال ہے کہ یہ ضمیر کس طرف جاتی ہے۔ بعض کے نزدیک بنی اسرائیل کے سرداروں کی طرف جاتی ہے کیونکہ انہی کا ذکر ہے۔ اور بعض کے نزدیک فرعون کی قوم کے سرداروں کی طرف ان کے نزدیک بنی اسرائیل کا سردار انہیں اس لئے کہا گیا ہے کہ بنی اسرائیل محکوم تھے۔ میرے نزدیک کسی خاص طرف ضمیر کے پھیرنے کی ضرورت نہیں۔ ملک کے بڑے لوگ صرف قوموں کے لحاظ سے بڑے نہیں ہوتے بلکہ حکومت کے لحاظ سے بھی۔ پس حکومت کے جو بڑے لوگ تھے خواہ اسرائیلی ہوں یا فرعونی سب بنی اسرائیل کے بڑے لوگ کہلا سکتے ہیں اور فرعون دونوں ہی کے ذریعہ سے ظلم کیا کرتا تھا۔
۸۵ وَقَالَ مُوْسٰی یٰقَوْمِ اِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰہِ فَعَلَیْہِ تَوَکَّلُوْآ اِنْ کُنْتُم مُسْلِمِیْنَO
ترجمہ
اور موسیٰ نے (اپنی قوم سے) کہا (کہ) اے میری قوم اگر یہ بات (درست) ہے کہ تم اللہ (تعالیٰ) پر ایمان لائے ہو تو اگر (اس کے ساتھ) تم (اس کے) سچے فرمانبردار (بھی ) ہو تو اسی پر بھروسہ کرو۔ ۸۳؎
۸۳؎
حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو کہتے ہیں کہ تم کو خداتعالیٰ پر پورا اعتماد رکھنا چاہئے۔ تمہیں یہ سمجھنا چاہئے کہ جس کام کے پیچھے تم لگے ہو وہ خداتعالیٰ کا کام ہے۔ بہت سے لوگ کہا کرتے ہیں کہ فلاں کام قومی کام ہے اس اصطلاح کو اسلام نے تسلیم نہیں کیا۔ وہ اس کی بجائے دینی کام یا خداتعالیٰ کے کام کی اصطلاح کو پسند کرتا ہے۔ اس طرح ایک تو خداتعالیٰ مدنظر رہتا ہے۔ دوسرے قوم پرستی کے تنگ دائرہ سے انسان آزاد رہتا ہے۔
ان کنتم مسلمین۔ کا جملہ بظاہر زائد معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس سے پہلے فرما چکا ہے ان کنتم امنتم لیکن درحقیقت یہ زائد نہیں بلکہ ضرورت کے مطابق اور نئے معنی پیدا کرنے کے لئے آیا ہے۔ اسلام جب ایمان کے مقابل آجائے تو اس وقت ایمان کے معنی یقین کامل کے ہوتے ہیں اور اسلام کے معنی ظاہری اطاعت کے ہوتے ہیں۔ گویا اس موقع پر ایمان سے مراد قلبی اطاعت اور اسلام سے مراد ظاہری اطاعت ہوا کرتی ہیے۔ پس اس آیت کا مفہوم یہ ہوا کہ اگر تم کو خداتعالیٰ پر کامل یقین ہوچکا ہے تو اگر تم عملی طور پر اس ایمان کے ثمرات کو پرکھنا چاہتے ہو تو اللہ تعالیٰ پر توکل کرو۔ اور اپنے سب کام اسی کے سپرد کردو۔
اس آیت میں بتایا ہے کہ قلبی ایمان کے بعد عملی تغیر ہونا چاہئے۔ کیونکہ مومن کے لئے ایمان کا درجہ پہلے اور اسلام کا درجہ بعد میں آتا ہے۔ لیکن کمزور ایمان والے کے لئے اسلام کا درجہ پہلے اور ایمان کا درجہ بعد میں آتا ہے۔ کیونکہ کمزور ایمان والا پہلے اعمال شروع کرتا ہے پھر اس کی وجہ سے آہستہ آہستہ اس کا دل قوی ہو جاتا ہے۔ اور ایمان بھی مضبوط ہوجاتا ہے۔
لیکن جس شخص کو پختہ ایمان حاصل ہوتا ہے اس کے اعمال اس کے ایمان کے تابع ہوتے ہیں کیونکہ اس کی ترقی ذاتی ہوتی ہے۔ پس اصلاح کا کام بھی دل سے نکل کر ظاہر کی طرف آتا ہے۔ ادنیٰ درجہ کے آدمی کی اصلاح طفیلی ہوتی ہے۔ اور دوسرے کے سہارے کی محتاج ہوتی ہے۔ اس وجہ سے باہر سے اندر کی طرف آتی ہے۔ اسی کی طرف اشارہ ہے اس آیت میں۔ کہ لم تؤمنوا ولٰکن قولوا اسلمنا ولما یدخل الایمان فی قلوبکم (حجرات ع۲) یعنی تم لوگوں کو مسلمانوں کی صحبت سے ابھی ظاہر نقل کی توفیق ملی ہے۔ پس یہ تو کہو کہ ہم مسلمان ہو گئے ہیں اور یہ نہ کہو کہ ہم مومن ہو گئے ہیں کیونکہ ابھی قلبی صفائی کا مقام تمہیں طے کرنا ہے۔
۸۶ فَقَالُوْا عَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلْنَاج رَبَّنَا لَاتَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَO
ترجمہ
اس پر انہوں نے کہا (کہ) ہم اللہ (تعالیٰ) پر ہی بھروسہ رکھتے ہیں۔ اے ہمارے رب ہمیں (ان) ظالم لوگوں کے لئے فتنہ (کا موجب) نہ بنا۔ ۸۴؎
۸۴؎
اس کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ ہم ایسے کام نہ کریں کہ ظالم لوگوں کو دین پر حملہ کرنے کا موقع مل جائے اور یہ بھی کہ ہمیں ظالم قوم کے ظلموں کا تختہ مشق نہ بنا۔
۸۷ وَنَجِّنَا بِرَحْمَتِکَ مِنَ الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَO
ترجمہ
اور اپنی رحمت سے ہمیں کافر لوگوں (کے ظلم) سے بچا لے۔
۸۵؎حل لغات
تبوا المکان وبہ اتخذہ محلۃ واقام بہ۔ یعنی تبوا المکان یاتبوا بالمکان کے معنی ہوتے ہیں اسے اپنی جائے رہائش بنا لیا۔ اور اس میں ٹھہرا۔ القبلۃ النوع۔ قسم الجھۃ طرف۔ کہتے مالھذا الامر قبلۃ۔ ای جھۃ صحۃ اس بت کی درستی کی اور ٹھیک ہونے کی کوئی راہ نہیں ہے۔ الکعبۃ کعبہ کو بھی قبلہ کہتے ہیں۔ کل مایستقبل من شئی۔ جس چیز کی طرف منہ کیا جائے اور مالہ فی ھذا قبلۃ ولادبرۃ کے معنی ہیں اسے اس بات کی کوئی راہ نظر نہیں آتی۔ اجعلوا بیوتکم قبلۃ۔ ای متقابلۃ اور اجعلوا بیوتکم قبلۃ کے معنی ہیں متقابل یعنی آمنے سامنے۔ (اقرب)
تفسیر
مصر میں گھر بنا کر رہو کا یہ مطلب نہیں کہ وہ پہلے جنگل میں رہتے تھے۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ اکٹھے ہوکر رہو۔ تاکہ ایک دوسرے سے اتعاون کرسکو۔ یہ بھی ایک قسم کی ہجرت ہوتی ہے۔ یہ ایک طبعی جذبہ ہے کہ کمزور جماعتیں شہروں میں اکٹھی ہوجاتی ہیں۔ پنجاب میں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے۔ یہاں ہندو لوگ شہروں میں اپنی نسبت آبادی سے زیادہ آباد ہیں۔ یوپی میں مسلمانوں کی آبادی کم ہے۔ وہاں مسلمان اپنی تعداد کی نسبت سے شہروں میں زیادہ آباد ہیں۔
واجعلوا بیوتکم قبلۃ کے معنی قبلہ کے مختلف معنوں کی وجہ سے کئی ہوں گے۔ اور جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ایسے الفاظ کا استعمال کیا ہے کہ ایک لفظ ہی کئی معانی پر دلالت کردے۔ پس جس قدر معنی سیاق و سباق کے رو سے لگ سکیں سب ہی مراد ہوسکتے ہیں۔ پس قبلہ کے متفرق معنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس آیت کے یہ معنی ہوں گے کہ (۱) اکٹھے ہوکر رہنا چاہئے۔ کیونکہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے گھر تب ہی ہوسکتے ہیں جب سب لوگ اکٹھے ہوکر رہیں۔ (۲) ایک دوسرے سے تعاون کرنا چاہئے۔ کیونکہ آمنے سامنے مکان بنانے کی غرض یہی ہوا کرتی ہے کہ وقت پر آسانی سے مدد کرسکیں۔ (۳) چونکہ قبلہ کے معنی جہت کے بھی ہیں۔ پس یہ بھی مراد ہے کہ ایک ہی طرف سب مکان ہوں یعنی سب جماعت ایک نظام کے ماتحت ہو اور متحدہ مقاصد کی پیروی کی جائے۔ (۴) قبلہ کے معنی نوع کلے بھی ہوتے ہیں۔ پس یہ معنی بھی ہوں گے کہ ایک قسم کے مکان ہوں اور ان معنوں سے اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہیے کہ قومی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ غریب و امیر میں مضبوط رابطہ ہو۔ اور ساری قوم ایک ہی رنگ میں رنگین نظر آئے تاکہ ایک دوسرے کے حالات سے واقفیت حاصل ہو۔ اگر ایک شخص محلات میں رہے گا اور دوسرا جھونپڑے میں تو ارتباط پیدا ہونا مشکل ہوگا۔
اقیموالصلاۃ میں دعاؤں کی طرف اور استقلال کے ساتھ کام کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ کیونکہ اقامۃ استقلال پر دلالت کرتی ہے۔
خلاصہ یہ کہ اس آیت میں سات گر ترقی کے بتائے ہیں۔ جن پر عمل کرکے دنیا کی ہر قوم ترقی کرسکتی ہے۔ یعنی (۱) اجتماع (۲) اتحاد (۳) تعاون (۴) نظام (۵) بڑے چھوٹوں میں ارتباط (۶) دعا (۷) استقلال۔ اور آخری گر نگراں کے لئے بتایا کہ وبشرالمؤمنین کہ جو لوگ اطاعت کے حلقہ میں آجائیں ان کو کامیابی کی خوشخبری دے دے کر ان کا حوصلہ بڑھاتے رہنا چاہئے۔ کیونکہ مایوسی اور ناامیدی سب آفتوں سے بڑی آفت ہے۔
۸۹ وَقَالَ مُوْسٰی رَبَّنَآ اِنَّکَ اٰتَیْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَاَہٗ زِیْنَۃً وَّاَمْوَالًا فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا لا رَبَّنَا لِیْضِلُّوْا عَنْ سَبِیْلِکَ ج رَبَّنَااطْمِسْ عَلٰٓی اَمْوَالِھِمْ وَاشْدُدْ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ فَلَا یُؤْمِنُوا حَتّٰی یَرَوُالْعَذَابَ الْاَلِیْمَO
۸۶؎ حل لغات
طمس علیہ اھلکہ اسے ہلاک کر دیا۔ طمسہ۔ استاصل اثرہ اس کا نشان مٹا ڈالا۔ (اقرب) شد علیہ حمل علیہ۔ اس پر حملہ کیا (اقرب) اس کے معنی دل کو سخت کرنے کے جو مفسرین نے لکھے ہیں یعنی ان کے دلوں کو سخت کر دے۔ وہ کسی لغت کی کتاب میں نہیں ملتے۔ لغت کی کتب سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ جب حمل کے بعد علیٰ آئے تو اس کے معنی صرف حملہ کرنے کے ہوتے ہیں۔
الزینۃ مایتزین بہ۔ حس کے حصول اور عیوب کے زوال اور خفاء کا سامان اور ذریعہ (اقرب) یوں تو قرآن مجید نے ان سب چیزوں کو زینت فرمایا ہے جو زمین پر ہیں جیسا کہ فرمایا انا جعلنا ما علی الارض زینۃ لھا (کہف ع۱) بلکہ حیات دنیا کو بھی زینت فرمایا چنانچہ فرماتا ہے۔ انما الحیٰوۃ الدنیا لعب ولھو و زینۃ وتفاخر بینکم وتکاثر فی الاموال والاولاد (حدید ع۳) مگر جہاں زینۃ الحیٰوۃ الدنیا کا ذکر فرماتا ہے وہاں پر لفظ زینت کا اطلق دو ہی چیزوں یعنی مال و اولاد پر ہوتا ہے۔ جیسے کہ سورۂ کہف میں آتا ہے۔ المال والبنون زینۃ الحیٰوۃ الدنیا یعنی مال اور بیٹے دونوں ورلی زندگی کی زینت ہیں اور جہاں اقوام کی گمراہی کے ذکر میں زینت کا ذکر آتا ہے اس سے بھی حیٰوۃ دنیا کی زینت ہی مراد ہوتی ہے۔ جو اموال و اولاد پر مشتمل ہوتی ہے۔ لیکن یہاں پر زینت کا اطلاق مجرد اولاد پر ہوا ہے۔ کیونکہ یہاں زینت کے ساتھ اموال کا لفظ بڑھا دیا ہے۔ جو کہ حقیقت میں اس کے معنوں کا ایک حصہ تھا اور جب کسی حصہ کو الگ بیان کر دیا جائے تو لفظ صرف بقیہ معنوں پر دلالت کرتا ہے۔ جیسے اسویٰ رات کے سفر کو کہتے ہیں مگر اسوی بعیدہ لیلا میں رات کا ذکر علیحدہ ہو جانے کی وجہ سے اسری کے معنے مجرد سفر کرنے کے رہ گئے ہیں۔
تفسیر
آیۃ کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اموال اور اولاد۔ آل فرون کو اس لئے دیا تھا کہ وہ لوگوں کو گمراہ کرے بلکہ لیضلوا کا لام صیرورۃ اور عاقبۃ کا لام ہے۔ اور اس کے یہ معنی ہیں کہ تو نے تو ان کو مال و اولاد دیئے تھے لیکن بجائے شکر گذار بننے کے نتیجہ یہ ہوا ہے کہ یہ گمراہ کرنے لگ گئے ہیں۔ غرض لام اس جگہ علت پر دلالت نہیں کرتا۔ بلکہ نتیجہ پر دلالت کرتا ہے۔ اور یہ ایک طریق اظہار افسوس کا ہے کہ کیسی بدنصیب قوم ہے کہ اس قدر احسانات کے بعد بھی ناشکری کرتی ہے۔ بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی گمراہ کرتی ہے۔ فلا یؤمنوا کا عطف لیضلوا پر ہے۔ یعنی گمراہ کریں گے اور ایمان نہ لائیں گے جب تک کہ عذاب نہ دیکھ لیں۔ ربنا اطمس علی اموالھم واشدد علی قلوبھم کا جملہ معترضہ ہے۔ اور اس میں بددعا نہیں بلکہ حقیقت میں دعا کی گئی ہے۔ حضرت موسیٰ بیان فرماتے ہیں کہ خدایا تو نے تو ان کو مال و اولاد دیئے تھے چاہئے تھا کہ یہ شکر گذار بنتے لیکن یہ الٹے ناشکرے ہو گئے ہیں۔ اور اس قدر ترقی کی ہے کہ لوگوں کو گمراہ کرنے لگ گئے۔ اور اس حالت کو پہنچ گئے کہ عذاب الیم کے سوا ان کے دلوں کو تیری طرف کوئی چیز مائل ہی نہیں کرتی۔ پس میں دعا کرتا ہوں کہ ان کے مالوں کو تباہ کر اور ان کے دلوں کو صدمہ پہنچا۔ یعنی اولاد کی طرف سے تکالیف پہنچا تاکہ انہیں ہدایت حاصل ہو کیونکہ یہ اس حالت کو پہنچ گئے ہیں کہ سوائے عذاب کے ایمان کی طرف مائل نہیں ہوسکتے۔ پس ان کی ہدایت کی خاطر عذاب ہی لا کہ یہ ہدایت تو پائیں۔ غرض یہ گمراہی کی بددعا نہیں بلکہ ہدایت کی دعا ہے۔ آٰت سے صاف ظاہر ہے کہ ان لوگوں کی حالت اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ بغیر عذاب کے وہ ہدایت نہیں پاسکتے تھے۔ جس کی بناء پر حضرت موسیٰ کہتے ہیں کہ مال اور اولاد کا عذاب ان پر آئے تاکہ جو چیزیں ان کی گمراہی کا موجب ہوئی ہیں ان کی طرف سے تکلیف پہنچنے پر یہ لوگ ہدایت کی طرف مائل ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت موسیٰ ؑ نے عذاب کی دعا کی ہے لیکن جو لوگ بغیر سزا کے ہدایت نہ پاسکتے ہوں ان کے لئے عذاب کی دعا تو رحمت کی دعا ہے۔ جس طرح ایک خراب شدہ عضو کے کاٹنے کی استدعا ایک رحمت کا مطالبہ ہوتا ہے۔ غضب کی دعا تبھی بن سکتی اگر ہدایت سے محروم رکھنے کی دعا ہوتی اور یہ میں ثابت کر چکا ہوں کہ ایسا نہیں ہے۔
دل پر حملہ کرنے کے معنی اولاد کی طرف سے تکلیف ہے۔ کیونکہ حملہ کا لفظ اولاد کے مقابلہ پر استعمال ہوا ہے اور یہ حملہ دو طرح ہوسکتا تھا۔ ایک اس طرح کہ اولاد کو کوئی تکلیف پہنچے۔ اور ایک اس طرح کہ اولاد کو خدا تعالیٰ ہدایت دے دے۔ کیونکہ اولاد کا ساتھ چھوڑ کر دشمن سے مل جانا بھیا یک سخت صدمہ کا موجب ہوتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آپ کے دشمنوں پر بھی یہی حملہ ہوا اور یہ حملہ سزا نہیں کہلا سکتا۔ حضرت موسیٰ کے زمانہ میں اس طرح یہ سزا ملی کہ فرعون کے ساتھیوں کے بڑے بیٹے مر گئے۔
یہ لطیفہ قرآنی ترتیب پر لطیف روشنی ڈالتا ہے کہ پہلے حصہ آیت میں لفظ زینۃ جو اولاد کا قائم مقام ہے اسے پہلے رکھا ہے اور اموال کو بعد میں۔ لیکن سزا کے ذکر میں اموال کے تباہ کر دینے کا پہلے ذکر ہے اور قلوب پر حملہ کرنے کا ذکر بعد میں آیا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ انعام کے وقت تو اولاد کا ذکر اس کے درجہ کے لحاظ سے مقدم کیا کیونکہ وہ بڑا انعام تھا لیکن جس جگہ سزا کی دعا تھی گو وہ ہدایت کے لئے ہی تھی وہاں چھوٹی سزا کا مطالبہ پہلے کیا اور بڑی سزا کا بعد میں۔ اس بات کے ظاہر کرنے کے لئے کہ اگر یہ لوگ صرف مالی ابتلاؤں سے ہدایت پا جائیں تو اولاد کی سزا سے ان کو بچا لیا جائے اولاد کی طرف سے تبھی دکھ دیا جائے جب پہلی قسم کا عذاب بے فائدہ ثابت ہو۔ اس ترتیب کے فرق میں جہاں قرآن کریم کی ترتیب کی خوبی ظاہر ہوتی ہے وہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دل کی رأفت پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ ریورنڈ ویری اعتراض کرتے ہیں کہ یہ دعا بائبل کے مخالف ہے۔ لیکن اول تو بائبل کی مخالفت کے معنی سچائی کی مخالفت کے نہیں ہوتے۔ دوسرے پادری صاحب نے چونکہ آیت کے غلط معنی کئے ہیں اس لئے اختلاف نظر آیا ہے ورنہ اصل میں کوئی اختلاف نہیں۔
۹۰ قَالَ قَدْ اُجِیْبَت دَّعْوَتُکُمَا فَاسْتَقِیْمَا وَلَا تَتَّبِعٰٓنِّ سَبِیْلَ الَّذِیْنَ لَایَعْلَمُوْنَO
ترجمہ
(اس پر اللہ تعالیٰ نے) فرمایا تمہاری دعا قبول کر لی گئی ہے۔ پس تم (دونوں) ثابت قدمی دکھاؤ اور جو لوگ علم نہیں رکھتے ان کی راہ کی پیروی ہرگز نہ کرو۔ ۸۷؎
۸۷؎
اجیبت دعوتکما پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ دعا تو حضرت موسیٰ ؑ نے کی اور جواب یہ دعا جاتا ہے کہ تم دونوں کی دعا قبول کی گئی تو اس کا جواب یہ ہے کہ دعا میں ربنا کا لفظ استعمال کیا گیا تھا جو ایک سے زیادہ پر دلالت کرتا ہے۔ پس دعا میں موسیٰ اور ہارون دونو شامل تھے۔ ولاتتبعان فاستقیما کی تشریح ہے اور اس کے یہ معنی نہیں کہ نبی لوگوں کی باتوں کے پیچھے چل پڑتے ہیں بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ دشمن ہمیشہ اصل مقصد سے دوسری طرف لے جانے کی کوشش کیا کرتے ہیں۔ تم ان سے ہوشیار رہنا اور ان کی ایسی بحثوں کی طرف توجہ نہ کرنا جو تم کو تمہارے اصل مقصد سے دور لے جائیں۔
۹۱ وَجَاوَزْنَا بِبَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ الْبَحْرَ فَاَتْبَعَھُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُوْدُہٗ بَغْیاً وَّعَدْوًاط حَتّٰیٓ اِذَآ اَدْرَکَہُ الْغَرَقُ لا قَالَ اٰمَنْتُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیْٓ اٰمَنَتْ بِہٖ بَنُوْآ اِسْرَآئِ یْلَ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَO
ترجمہ
اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے (پار) گزارا تو فرعون اور اس کی فوجوں نے سرکشی اور ظلم (کی راہ) سے ان کا پیچھا کیا۔ حتیٰ کہ جب غرق ہونے (کی آفت) نے اسے آپکڑا تو اس نے کہا میں ایمان لاتا ہوں کہ جس (مقتدر ہستی) پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اس کے سوا کوئی بھی معبود نہیں ہے اور میں (سچی) فرمانبرداری اختیار کرنے والوں میں سے (ہوتا) ہوں۔ ۸۸؎
۸۸؎ حل لغات
جاوز الموضع تعداہ اس مقام سے گزر کر آگے نکل گیا۔ (اقرب) اتبع اور تبع میں تفریق کے متعلق اصمعی مشہور ادیب کا قول ہے کہ تبعہ لحقہ وادرکہ جب تبع کا لفظ استعمال کریں تو اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ اس کے پیچھے گیا۔ اور اس کو پالیا۔ واتبعہ اذا تبع اثرہ۔ ادرکہ اولم یدرکہ اور اتبع کا لفظ تب استعمال کرتے ہیں جب یہ مقصود ہو کہ وہ اس کے پیچھے گیا۔ خواہ اسے ملا ہو یا نہ مل سکا ہو۔ اتبعہ تبعہ وذٰلک اذا کان سبقہ فلحقہ۔ (اقرب) اور اقرب الموارد میں ہے کہ اتبع کے معنی پیچھے جانے کے ہوتے ہیں بشرطیکہ جس کا پیچھا کیا جائے وہ آگے نکل چکا ہو۔ اور پیچھا کرنے والا پیچھے سے جاکر اس سے مل جائے۔ یہ معنی پہلے معنوں کے خلاف ہیں۔ ادرک الشئی۔ بلغ وقت اس کا وقت پہنچ گیا۔ (اقرب)
تفسیر
یہاں ایک عظیم الشان سیاسی بات بیان کی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ہمیں حکم ہے کہ ہم بادشاہوں کی فرمانبرداری کریں۔ لیکن اگر وہ ہمارے مذہبی امور میں دخل دے اور جبر سے کام لے تو ہم اس کے ملک سے ہجرت کرجائیں اور اگر وہ ہجرت کرنے سے بھی روکے تو اس وقت وہ بادشاہ باغی سمجھا جائے گا۔ اور اس کے ساتھ مقابلہ شرعاً جائز ہوگا۔ کیونکہ اس صورت میں ہم حق پر ہوں گے اب اس کی قانون شکنی قانون شکنی نہ رہے گی کیونکہ جس طرح کسی کو یہ حق نہیں کہ کسی کے ملک میں رہ کر پھر اس کے قانون کی خلاف ورزی اور قانون شکنی کرے اسی طرح کسی کو یہ حق بھی نہیں کہ وہ باوجود مذہبی اختلاف کے کسی کو اپنے ملک میں رہنے پر مجبور کرے۔
اس آیت میں بغیًا کہہ کر بتایا ہے کہ اس کو قانونی حق بھی باقی نہیں رہا تھا۔ اور عدوا کہہ کر ظاہر کیا کہ اس کا اخلاقی حق بھی باقی نہیں رہا تھا۔
فرعون کے ڈوبتے وقت کے کلمات میں کمال تذلل پایا جاتا ہے۔ اگر صرف موسیٰ کا رب کہتا تو پھر بھی کوئی بات نہ تھی۔ کیونکہ حضرت موسیٰ اس کے گھر میں پلے تھے۔ اور ان میں معزز سمجھے جاتے تھے۔ مگر فرعون کہتا ہے کہ میں بنی اسرائیل کے خدا پر ایمان لاتا ہوں۔ گویا اس خدا پر جو اس کے پتھیروں کا خدا تھا۔ کیونکہ بنی اسرائیل کو وہ نہایت ذلیل سمجھتا تھا اور ان سے پتھیروں کا کام لیتا تھا۔
۹۲ آٰلْئٰنَ وَقَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَکُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَO
ترجمہ
کیا اب (تو ایمان لاتا ہے) حالانکہ پہلے تو نے نافرمانی کی۔ اور تو مفسدوں میں سے تھا۔ ۸۹؎
۸۹؎
ایمان بھی خاص حالات میں ہی فائدہ دیتا ہے۔ جب حق بالکل کھل جائے تب ایمان کا نفع باقی نہیں رہ جاتا۔ کیونکہ ثواب محنت اور قربانی کے بدلہ میں ملتا ہے۔ اور جس بات کے سمجھنے کے لئے کوئی محنت نہ کرنی پڑے اس کا ثواب بھی کوئی حاصل نہیں ہوتا۔
۹۳ فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَۃًط وَاِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَO
ترجمہ
پس اب ہم تیرے بد (کے بقا) کے ذریعہ سے تجھے (ایک جزوی) نجات دیتے ہیں۔ تاکہ جو لوگ تیرے پیچھے (آنے والے) ہیں ان کے لئے تو ایک نشان ہو۔ اور لوگوں میں سے بہت سے (افراد) ہمارے نشانوں سے یقینا یقینا بے خبر ہیں۔ ۹۶؎
۹۰؎
خداتعالیٰ کی جزائیں بھی عجیب پرحکمت ہوتی ہیں۔ فرعون ایسے وقت میں ایمان لایا کہ اس کا ایمان صرف ایک بے جان ڈھانچہ ہی تھا۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اس کے بدن کو بچا لیا۔ اور اس کے ایمان جیسی ہی اسے نجات دے دی۔ یعنی روح کو تو فائدہ نہ پہنچا جسم کو بچا دیا کہ دوسروں ے لئے عبرت ہو۔
ننجیک ببدنک فرعون کے جسم کے بچائے جانے کا ذکر قرآن کریم کے سوا دوسری کتب میں نہیں ہے۔ بائیبل اس امر میں خاموش ہے۔ اور تاریخیں ساکت ہیں لیکن خداتعالیٰ کی باتیں کیسی سچی ہوتی ہیں آج تین ہزار سے زائد سالوں کے بعد فرعون موسیٰ یعنی منفتاح کی لاش مل گئی ہے۔ اور قاہرہ کے عجائب گھر میں موجود ہے۔ اور میں نے اپنی آنکھوں سے اسے دیکھا ہے۔ چھوٹے قد کا دبلا سا ایک شخص ہے جس کے چہر سے حماقت اور غضب دونوں قسم کی صفات ظاہر ہوتی ہیں۔ کجا وہ زمانہ اور کجا یہ زمانہ۔ خداتعالیٰ نے اس کے جسم کو نہ صرف بچایا بلکہ پچھلوں کے لئے اسے عبرت کا موجب بنانے کے لئے اس کی لاش کو اس وقت تک محفوظ رکھا ہے۔
یہ آیت قرآن کریم کی سچائی پر کیسا زبردست شاہد ہے۔ اور بائیبل پر اس کی کس قدر فضیلت ثابت کرتی ہے۔ بائیبل کا دعوعیٰ ہے کہ وہ موسیٰ کے وقت کی تاریخ بیان کرتی ہے اور اسی وقت لکھی گئی تھی۔ قرآن کریم اس کے قریباً دو ہزار سال بعد آتا ہے اور وہ واقعات بیان کرتا ہے جو بائیبل میں بیان نہیں ہیں۔ اور پھر واقعات اسی کی صداقت ثابت کرتے ہیں۔ اور بائیبل ناقص ثابت ہوتی ہے۔
بعض مفسروں نے اس فرعون کا نام رعمسیس لکھا ہے لیکن یہ درست نہیں۔ رعمسیس وہ فرعون تھا جس نے حضرت موسیٰ کو پالا تھا۔ لیکن حضرت موسیٰ کی نبوت کا زمانہ وہ ہے جبکہ اس کا دوسرا بیٹا منفتاح تختِ حکومت پر بیٹھا۔ بائیبل سے بھی اس کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ کیونکہ لکھا ہے کہ موسیٰ کی پیدائش کے وقت بنی اسرائیل رعمسیس نامیہ شہر بناتے تھے۔ (خروج ۱ب اا) جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کے بادشاہ کا نام رعمسیس تھا۔ پھر خروج ب۲ آیت ۲۳ میں لکھا ہے کہ وہ بادشاہ مر گیا۔ اور دوسرے کے پاس موسیٰ آئے۔ پس رعمسیس کا بیٹا منفتاح تھا جس کے پاس موسیٰ آئے تھے اور وہی غرق ہوا۔ (نیز دیکھو جیوش انسائیلو پیڈیا جلد آٹھ صفحہ ۵۰۰)
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مومن کو ایمان میں جلدی کرنی چاہئے۔ جب بھی نیک تحریک ہو اسے جلدی پورا کرنا چاہئے۔ دوسری بات اس سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی چھوٹی سے چھوٹے عمل کو بھی ضائع نہیں کرتا۔ اب دیکھو فرعون موت کے وقت ایمان لاتا ہے تو اس کی لاش کو امن دیا جاتا ہے۔ جب وہ لوگوں کی ہدایت کا موجب ہوگا تو کچھ نہ کچھ تو اسے اس کے ایمان کا فائدہ پہنچے گا۔ حضرت محی الدین ابن عربی کا اسی وجہ سے یہ مذہب ہے کہ فرعون جہنم میں نہیں جائے گا۔
۹۴ وَلَقَدْ بَوَّاْنَا بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ مُبَوَّاَ صِدْقٍ وَّرَزَقْنٰھُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ ج فَمَا اخْتَلَفُوْا حَتّٰی جَآئَ ھُمُ الْعِلْمُ ط اِنَّ رَبَّکَ یَقْضِیْ بَیْنَھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فِیْمَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَO
ترجمہ
اور ہم نے یقینا یقینا بنی اسرائیل کو ظاہری اور باطنی (ہرقسم کی) خوبی والی جگہ دی تھی۔ اور (ہر قسم کی) پسندیدہ چیزیں (بھی) انہیں دی تھیَ پھر اس وقت تک کہ ان کے پاس (صحیح) علم آ گیا انہوں نے (کسی امر میں) اختلاف نہ کیا۔ تیرا رب ان کے درمیان اس (امر کے) بارہ میں جس میں وہ (اب) اختلاف کررہے ہیں یقینا قیامت کے دن فیصلہ کرے گا۔ ۹۶؎
۹۱؎ حل لغات
مبوء بوء میں سے اسم ظرف یا مصدر میمی ہے۔ بواہ وبوء لہ منزلا ھیاہ ومکن لہ فیہ (اقرب) جگہ دی۔ ٹھہرایا۔ پس مبوا کے معنی ہیں ٹھہرانے کی جگہ یا ٹھہرانا۔ جگہ دینا۔ صدق ہر وہ چیز جو ظاہر و باطن طور پر اچھی ہو۔ (دیکھو سورۂ یونس زیر آیت ۳)
تفسیر
الطیبات۔ یعنی پاک چیزیں۔ پاک چیزوں میں سے سب سے مقدم الہام الٰہی ہے۔ کیونکہ وہ تازہ بتازہ خداتعالیٰ کی طرف سے آتا ہے۔ اور دوسری چیزیں بھی مراد ہوسکتی ہیں۔ کیونکہ بنی اسرائیل فرعون کی اینٹیں مفت بنایا کرتے تھے۔ وہاں ان کو پاکیزہ رزق کہاں میسر آسکتا تھا۔ اس وقت تو وہ چوریاں وغیرہ ہی کرتے ہوں گے۔ مگر وہاں سے نکل کر ان کو رزق حلال مل گیا۔ اور العلم سے مراد قرآن کریم ہے۔ نہ کہ تورات۔ کیونکہ تورات کے نزول اور بنی اسرائیل کی قوم کے قیام کے درمیان تو وقفہ ہی نہ تھا کہ جس میں وہ اختلاف کرسکتے۔
اس آیت کے یہ معنی نہیں کہ کلام الٰہی کے ایک سے زیادہ معنی کرنے منع ہیں۔ کیونکہ یہ تو خود قرآن کریم کی دوسری آیات کے خلاف ہے۔ بلکہ اس جگہ اختلاف سے مراد ایک نبی کے متعلق اختلاف ہے۔ بنی اسرائیل سب کے سب متفق تھے کہ ایک نبی آئے گا لیکن جب وہ آ گیا تو اختلاف کر دیا۔ جس طرح آج مسلمانوں نے کیا۔ کہ مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کو سب مانتے تھے اور آمد کی پیشگوئیاں جو قرآن و حدیث میں موجود ہیں ان کو بھی مانتے تھے۔ لیکن جب وہ موعود آ گیا تو انہوں نے قبول نہ کیا۔ اور یہاں تک کہہ دیا کہ مسیح کی آمد کے متعلق پیشگوئیاں ہی وضعی ہیں۔ پس اختلاف سے مراد پیشگوئیوں کے متعلق اختلاف ہے کہ پہلے تو ان کو مانتے رہے لیکن مصداق کے ظہور کے وقت بعض نے اس کا انکار کر دیا۔ اور بعض نے پیشگوئیوں تک کا انکار کر دیا۔
اس امر کا ثبوت اس جگہ ما اختلفوا سے مراد توراۃ نہیں ہے۔ یہ ہے کہ آگے چل کر فرمایا ہے فان کنت فی شک مما انزلنا الیک الخ کہ اے مخاطب اگر تجھے اس کلام الٰہی میں کوئی شک ہے جو ہم نے تجھ پر اتارا ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پہلی آیت میں بھی نزول قرآن ہی کا ذکر ہے۔
یہود موسیٰ ؑ کی مانند ایک نبی کی آمد کا جو عرب میں پیدا ہونے والا تھا اس قدرا نتظار کررہے تھے کہ تاریخوں میں لکھا ہے کہ بعض یہود نے مدینہ میں آکر پہلے ہی سے بودوباش اختیار کرلی تھی۔ تاکہ اس نبی کو سب سے پہلے ماننے والوں میں سے وہ ہوں۔ لیکن جب وہ نبی آ گیا۔ تو اس کے سب سے بڑے دشمن وہی ثابت ہوئے۔
۹۵ فَاِنْ کُنْتَ فِیْ شَکٍّ مِّمَّآ اَنْزَلْنَا اِلَیْکَ فَسْئَلِ الَّذِیْنَ یَقْرَئُ وْنَ الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکَ ج لَقَدْ جَآئَ کَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَO
ترجمہ
پھر اگر تو اس (کلام) کی وجہ سے جو ہم نے تیری طرف نازل کیا ہے کسی شک (وشبہ) میں (مبتلا) ہے تو تو ان لوگوں سے جو تجھ سے پہلے اس کتاب کو پڑھ رہے ہیں دریافت کر یقینا یقینا (ایک) کامل صداقت تیرے رب کی طرف سے تیری طرف آئی ہے پس تو شک کرنے والوں میں سے نہ بن۔ ۹۲؎
۹۲؎
فان کنت فی شک سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہوسکتے کیونکہ جس پر کلام نازل ہوتا ہے اس کو شک نہیں ہوسکتا۔ پس اس سے مراد اختلاف کرنے والے لوگ ہیں۔ نیز اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ قرآن کریم سے شک پیدا ہوتا ہے بلکہ اس جگہ کفار کے اعتراض کے الفاظ دہرائے ہیں۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ہمین قرآن کریم کی عبارتوں سے شکوک پیدا ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہی کے الفاظ کو دہرا کر فرماتا ہے کہ اے معترض اگر تجھے بقول تیرے اس کلام سے شبہات پیدا ہوتے ہیں تو جو لوگ تجھ سے پہلے قرآن کریم کو پڑھ کر فائدہ اٹھا چکے ہیں ان سے پوچھ کہ ان کے دلوں کو اس کتاب نے کیسی جلا اور روشنی عطا کی ہے۔ ان سے سوال کرنے پر تجھے معلوم ہو جائے گا کہ یہ کلام شک پیدا کرنے والا نہیں بلکہ یقین پیدا کرنے والا ہے۔
اس آیت سے یہ بات بوضاحت ظاہر ہوجاتی ہے کہ خالی کتاب کافی نہیں ہوتی۔ انسان معلم کا بھی محتاج ہوتا ہے کیونکہ روحانی علوم کے انکشاف کے لئے ایک حد تک روحانیت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ پس چاہئے کہ جب الہامی کتاب کا انسان مطالعہ کرے تو جن امور کے متعلق اسے شک ہو ان کے متعلق اس کتاب کے ماہرین سے دریافت کئے بغیر کوئی فیصلہ نہ کرے۔ کیونکہ اگر وہ کتاب الہامی ہے تو ضرور اس کا فہم روحانیت کے مطابق نازل ہوگا۔
بعض لوگ غلطی سے یہ خیال کرتے ہیں کہ شک کرنے والے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی ہیں۔ اور جن سے پوچھنے کا حکم ہے وہ یہود و نصاریٰ ہیں۔ مگر جیسا کہ پہلے ثابت کیا جاچکا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے مراد نہیں ہوسکتے۔ اور نہ آپ کے صحابہ۔ کیونکہ ان کی نسبت قرآن کریم میں دوسری جگہ آتا ہے کہ قل ھٰذہ سبیلی ادعوآ الی اللہ علی بصیرۃ انا ومن اناتبعنی (سورہ یوسف ع۱۲) تو کہہ دے کہ میں اور میرے متبع صرف گمان سے اس مذہب کو نہیں مان رہے بلکہ ہم نے مشاہدہ سے قرآن کریم کی سچائی کو معلوم کرلیا ہے۔ اور یہ بات ظاہر ہے کہ جو لوگ کسی امر کو مشاہدہ سے تسلیم کریں وہ اس کے متعلق شک و شبہ میں مبتلا نہیں ہوسکتے۔ اگلی آیت بھی بتاتی ہے کہ اس جگہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مخاطب نہیں ہوسکتے۔
۹۷ اِنَّ الَّذِیْنَ حَقَّتْ عَلَیْھِمْ کَلِمَتُ رَبِّکَ لَایُؤْمِنُوْنَO
ترجمہ
جن لوگوں پر تیرے رب کی (طرف سے ہلاکت کی) بات واجب ہوچکی ہے وہ ہرگز ایمان نہیں لائیں گے۔ ۹۳؎
۹۳؎ حل لغات
الکلمۃ۔ اللفظۃ منہ سے بولا ہوا مفرد لفظ۔ ہر وہ بات جو انسان بولے۔ خواہ مفرد ہو۔ خواہ مرکب۔ والعشر کلمات وصایئا اللہ العشر۔ عشر کلمات اللہ تعالیٰ کے دس حکموں کو کہتے ہیں۔ الخطبۃ والقصیدۃ۔ کبھی خطبہ اور قصیدہ کو بھی کلمہ کہتے ہیں۔ (اقرب)
تفسیر
اس جگہ کلمہ سے مراد انذار کی بات کے ہیں۔ یعنی جو لوگ انذار کے مستحق ہوں گئے ہیں اور اس سے بچنے کی انہوں نے کوشش نہیں کی وہ ایمان نہیں لائیں گے۔
اس آیت سے ثابت ہے کہ صرف ان لوگوں کے ایمان نہ لانے کی پیشگوئی تھی جنہوں نے انذار سے فائدہ نہیں اٹھایا تھا۔ نہ کہ سب کفار کے متعلق۔
۹۸ وَلَوْجَآئَ تْھُمْ کُلُّ اٰیَۃٍ حَتّٰی یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَO
ترجمہ
جب تک کہ دردناک عذاب (نہ) دیکھ لیں گو ان کے پاس تمام (قسم کے) نشان آچکے ہیں۔ ۹۴؎
۹۴؎
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ سچائی سے فائدہ اٹھانے کا ارادہ نہیں رکھتے انہیں آیات نفع نہیں دیا کرتیں۔ اور بڑے سے بڑا معجزہ بھی ان کی نظروں میں دھوکا اور فریب ہوتا ہے۔ پس معاندین کا خواہ وہ کتنے بڑے عالم کیوں نہ ہوں یہ کہنا کہ فلاں شخص نے معجزہ نہیں دکھایا۔ کوئی دلیل نہیں ہوتا۔ ہر شخص کو اپنے لئے خود غور کرکے فیصلہ کرنا چاہئے اور معجزات کو سنت انبیاء پر پرکھنا چاہئے۔ تاکہ حق سے محروم نہ رہ جائے۔
۹۹ فلولا کانت قریۃٌ اٰمنت فنفعھآ ایمانھآ الا قوم یونس ط لمآ اٰمنوا کشفنا عنہم عذاب الخزی فی الحیٰوۃ الدنیا ومتعنٰہم الٰی حینٍO
ترجمہ
اور یونس کی قوم کے سوا کیوں کوئی (اور ایسی) بستی نہ ہوئی جو(سب کی سب) ایمان لاتی۔ تو اس کا ایمان لانا اسے نفع دیتا جب وہ (یعنی یونس کی قوم کے لوگ) ایمان لائے تو ہم نے ان (پر) سے اس ورلی زندگی میں (بھی) رسوائی کا عذاب دور کر دیاا ور انہیں ایک وقت تک (ہر طرح کا) سامان عطا کیا۔ ۹۵؎
۹۵؎ حل لغات
القریۃ۔ المصر الجامع بڑا شہر۔ کل مکان اتصلت الابنیۃ واتخذ قرارا ہر آبادی کی جگہ خواہ شہر ہو یا گاؤں۔ جمع الناس۔ لوگوں کی جماعت (اقرب) الخزی الھوان ذلت۔ ذلیل و حقیر ہونا۔ العقاب۔ سزا۔ البعد دوری۔ الندامۃ شرمندگی پچتانا۔ واصل الخزی ذل یستحیٰی من اس کے اصل معنی ایسی ذلت کے ہیں جو لوگوں کے سامنے شرمندگی کا موجب ہو۔ (اقرب) الحین وقت مبھمٌ یصلح لجمیع الازمان طال اوقصر۔ مطلق وقت خواہ بہت ہو خواہ تھوڑا۔ وقیل الدھر۔ بعض محققین لغت نے اس کے معنی زمانہ کے بتائے ہیں۔ المدۃ۔ مدت (اقرب)
تفسیر
غور کرنے والے کے لئے اس آیت میں رحمتِ الٰہی کی عظمت معلوم کرنے کا بے انتہاء سامان موجود ہے۔ الفاظ سے کس قدر خواہش ٹپکتی ہے کہ سب کی سب دنیا ہدایت پاجائے کس قدر افسوس کا اظہار یہ الفاظ کررہے ہیں کہ کیوں یونس کی قوم کی طرح پوری کی پوری ایمان لانے والی اور اقوام نہ ہوئیں۔ اس پر جب عذاب آیا تو اس قدر اخلاص سے تائب ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی توبہ کو قبول کر لیا۔ اور اسے عذاب سے نجات دی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ فتح مکہ کے موقع پر سب قوم نے اطاعت قبل کرلی اور عذاب سے محفوظ ہوگئی۔ آخر ایمان بھی لے آئی۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وارث بنی۔ اور اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مثیل یونس بھی بن گئے۔
حضرت یونس جن کا اس آیت میں ذکر ہے ایک نبی ہیں۔ جن کا ذکر قرآن شریف میں چھ جگہ آیا ہے۔ سورۂ صٰفّٰت ع۵ میں ان کے مرسل ہونے کا ذکر ہے۔ اور سوہ انعام (ع۱۰) اور سورۂ نساء (ع۲۳) میں انہیں نبیوں میں شمار کیا ہے۔ سورۂ انبیاء (ع۶) اور سورۂ ن (ع۲) میں بجائے نام کے ذوالنون اور صاحب الحرت کی صفت سے ان کا ذکر کیا ہے۔ کیونکہ ان کے ساتھ مچھلی کا واقعہ پیش آیا تھا۔ احادیث میں بھی ان کا ذکر آتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا کہ ماینبغی لعبد ان یقول اناخیر من یونس ابن متی (مسلم مصری جلد ۲ صفحہ ۳۱۱) کسی بندہ کو جائز نہیں کہ وہ یہ دعویٰ کرے کہ وہ یونس بن متی سے افضل ہے اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان سے افضل نہیں تھے۔ بلکہ اس کی وجہ شارحین حدیث کے نزدیک یہ ہے کہ جس وقت یہ بات آپ نے فرمائی اس وقت تک آپ پر اپنی افضلیت واضح نہ ہوئی تھی۔ لیکن بعد میں آپ نے خود فرمایا کہ انا سید ولد اٰدم۔ (صحیح مسلم) میں بنی نوع انسان میں سے سب سے افضل اور سب کا سردار ہوں۔
میرے نزدیک اس کی ایک اور بھی وجہ ہے جو اس آیت کے مضمون سے تعلق رکھتی ہے۔ اور وہ یہ کہ اس جگہ کلی فضیلت کا ذکر نہیں بلکہ جزوی فضیلت کا ذکر ہے۔ اور وہ وہی فضیلت ہے جو اس آیت میں مذکور ہے۔ یعنی ان کی قوم سب کی سب عذاب دیکھ کر ایمان لے آئی۔ حالانکہ کسی اور نبی کی قوم کو ایسا موقع نہیں ملا۔ پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مناسب نہ سمجھا کہ جب تک اپنی قوم کا انجام نہ دیکھ لیں اس امر میں یونسؑ پر آپ نے آپ کو فضیلت دیں۔ لیکن بعد کے واقعات نے یہ فضیلت بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دی اور آپ کی قوم بھی غزوۂ فتح مکہ کے وقت تائب ہوئی۔ اور سب کی سب ایمان لاکر عذاب سے محفوظ ہو گئی۔
علماء بائیبل کے بیان کے مطابق حضرت یونس گاتھ ہیپر (GATH HAPPER) ضلع زیبون میں پیدا ہوئے۔ اس وقت یربعام (JOROBOAM) بادشاہ کا زمانہ تھا۔ جس کی حکومت ۷۸۱ قبل مسیح سے ۴۱ء تک رہی ہے۔ اس بادشاہ کا ذکر ۲سلاطین باب ۱۴ میں آتا ہے۔ بائیبل میں ایک کتاب بھی یونہ نبی کی کتاب کے نام سے در ہے۔ لیکن محققین میں اختلاف ہے کہ یونہ جس نے بنی اسرائیل کی اور میوں سے آزادی کی خبر دی تھی وہی ہے جس کی وہ کتاب ہے یا اور کوئی شخص ہے۔ بائیبل کی کتاب یونہ میں یونس نبی کا حال یوں درج ہے کہ خدا کی طرف سے ان کو نینوا NENVAH کی طرف جو کہ ایک بڑا اور شرارتی شہ تھا جانے کا حکم ہوا تھا۔ اور انہیں حکم تھا کہ وہ اس کے خلاف پیشگوئی کریں۔ مگر حضرت یونسؑ ڈرے کہ نینوا والے توبہ کرلیں گے اور عذاب سے بچ جائیں گے۔ پس وہ بجائے نینوا کے یافا چلے گئے اور ترشیش کی طرف جانے والے ایک جہاز میں سوار ہو گئے۔ لیکن دفعۃً جہاز کو طوفان نے آ گھیرا۔ ملاحوں نے دیوتاؤں سے بہت دعائیں کیں۔ مگر کچھ فائدہ نہ ہوا۔ آخر قرعہ ڈال کر انہوں نے دریافت کیا کہ یہ عذاب کس کے سبب سے ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام کا نام قرعہ میں نکلا۔ اور انہوں نے ان سے جاکر حال پوچھا انہوں نے اپنا سب حال بتایا اور کہا کہ میں خداتعالیٰ کے حکم سے بھاگا ہوں۔ مجھے پانی میں پھینک دو۔ اس طرح عذاب سے محفوظ رہوگے۔ چنانچہ لوگوں نے انہیں پانی میں پھینک دیا۔ اور طوفان تھم گیا۔ خداتعالیٰ نے ایک مچھلی کو حکم دیا اور وہ حضرت یونس علیہ السلام کو نگل گئی۔ اس کے پیٹ میں حضرت یونس تین دن رات رہے۔ آخر ان کی دعا کو اللہ تعالیٰ نے سنا اور مچھلی کو حکم دیا کہ وہ انہیں اگل دے۔ چنانچہ مچھلی نے ان کو اگل دیا۔ جب وہ اچھے ہوئے تو پھر خداتعالیٰ کے حکم سے نینوا کو خبردار کرنے گئے۔ اور خبر دی کہ چالیس دن تک نینوا برباد کیا جائے گا۔ لیکن لوگوں نے توبہ کی اور گنہ سے باز آ گئے۔ تب اللہ تعالیٰ نے عذاب کو ٹلا دیا۔ حضرت یونس کو یہ امر بہت شاق گزرا۔ اور وہ جنگل کی طرف چلے گئے۔ وہاں اللہ تعالیٰ نے ایک ارنڈ کا درخت ان کے سایہ کے لئے اگایا۔ جس کلے نیچے وہ آرام کرنے لگے۔ مگر پھر ایک کیڑے کے ذریعہ سے اسے تبہ کرا دیا۔ سایہ کے نہ ہونے سے انہیں تکلیف ہوئی۔ تو وہ بہت رنجیدہ ہوئے۔ اس پر خداتعالیٰ نے انہیں الہام کیا کہ تو ایک درخت کی ہلاکت پر جسے تو نے نہیں اگایا رنجیدہ ہوتا ہے۔ تو میں اپنے لاکھوں بندوں کو جنہیں خود میں نے پیدا کیا ہے کس طرح بلاوجہ تباہ کرسکتا ہوں۔
قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ بائیبل میں حضرت یونس کے متعلق جو واقعات بیان ہوئے ہیں وہ غلط ہیں۔ اول قرآن کریم اس بات کا مخالف ہے کہ خدا کا کوئی نبی خداتعالیٰ کا بالصراحت کوئی الہام سن کر اس کا انکار کر دے۔ اگر یہ بات ہو تو پھر امان ہی اٹھ جائے۔ فرماتا ہے وما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہ (نساء ع۹) اور پھر فرماتا ہے فبہداھم اقتدہ (انعام ع۱۰) انسان کو چاہئے کہ سب نبیوں کی پیروی کرے۔ اور اصلی مغز جو ان کے عمل کا ہے اس کو اپنے اندر پیدا کرے۔ اگر انبیاء ایسے شدید امراض میں مبتل ہوسکتے تو کبھی ان کی پیروی کا حکم نہ دیا جاتا۔
دوم قرآن شریف سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یونسؑ اپنی قوم کی طرف بھیجے گئے۔ اور یہودی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہودی تھے لیکن نینوا والوں کی طرف بھیجے گئے تھے۔ جو کہ اشور کا دارالخلافہ تھا۔ اور وہاں کے لوگ اشور قوم کے تھے۔ اشور سے مراد سیریا یعنی شام کا علاقہ نہیں بلکہ یہ الگ علاقہ ہے۔ اور شہر بابل کے شمال سے شروع ہوکر ارمینیا کی سرحد سے جا ملتا ہے۔ اور مشرقی سمت اس کی کردستان سے ملتی ہے اور مغربی سمت دجلہ کے مغرب کے علاوہ کے ایک حصہ پر مشتمل ہے۔ گویا موجودہ عراق کا ایک حصہ اس میں شامل ہے ایک زمانہ میں اس علاقہ میں زبردست حکومت قائم تھی۔ اس کادارالخلافہ پہلے تو اسور تھا جو موصل سے ساٹھ میل جانب شمال واقع تھا اور اب اسے قلعات شرجت کہتے ہیں۔
لیکن قریباً تیرہ سو سال قبل مسیح اس شہر کو چھوڑ کر نینوہ کو دارالحکومت قرار دیا گیا۔ پس قرآن کریم کے بیان کے رو سے یا تو حضرت یونس بنی اسرائیل میں سے نہ تھے اور یا پھر وہ نینوہ کی طرف نہیں بھیجے گئے۔ بلکہ کسی اسرائیلی قبیلہ کی طرف بھیجے گئے تھے۔ محققین یورپ بھی اس بارہ میں مختلف الخیال ہیں کہ آیا یونس بنی اسرائیلی تھے یا نہیں۔ ہر عقلمند غور کرکے سمجھ سکتا ہے کہ قرآنی بیان دونوں اختلافات کے متعلق معقول ہے اور بائیبل کابیان خلاف عقل۔
۱۰۰ وَلَوْشَآئَ رَبُّکَ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ کُلُّھُمْ جَمِیْعًاط اَفَاَنْتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَO
ترجمہ
اور اگر اللہ (ہدایت کے معاملہ میں) اپنی (ہی) مشیت کو نافذ کرتا تو جو (اور جس قدر) لوگ زمین پر (موجود) ہیں وہ سب کے سب ایمان لے آتے (پس جب خداتعالیٰ بھی مجبور نہیں کرتا تو کیا تو لوگوں کو اتنا) مجبور کرے گا کہ وہ مومن بن جائیں۔ ۹۶؎
۹۶؎
پہلے فرمایا تھا کہ لولاکانت قریۃ امنت فنفعہا ایمانہا الا قوم یونس۔ جس میں ایک رنگ میں اس خواہش کا اظہار تھا کہ لوگ ایمان لے آئیں۔ اس پر سوال ہوتا تھا کہ جب خداتعالیٰ قادر مطلق ہے تو کیوں اپنی خواہش کو پورا نہیں کرلیتا۔ اور سب کو مومن بنا دیتا۔ اس کا کیا لطیف جواب دیا ہے کہ ولوشاء ربک لامن من فی الارض کلہم جمیعا۔ اگر خداتعالیٰ اپنی خواہش کو جبریہ طور پر پورا کرنا چاہتا تو پھر کسی ایک قوم کی ہدایت تک کیوں جبر کو محدود رکھتا۔ کیوں نہ ساری دنیا ہی کو ہدایت دے دیتا۔ لیکن وہ ایسا نہیں کرتا۔ بلکہ ایمان کے معاملہ کو س نے انسان کے اپنے دل پر چھوڑا ہوا ہے۔ ہاں وہ پسند یہی کرتا ہے کہ اس کے سب بندے ہدایت پاکر اعلیٰ درجات حاصل کریں۔
دوسرے حصہ آیت کے دو معنی ہیں۔ یہ حصہ پہلے حصہ کی دلیل بھی قرارد یا جاسکتا ہے۔ یعنی اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ جبر کرے کیونکہ جبر سے منوانا فائدہ بخش نہیں ہوتا۔ عقل مند انسان بھی جبر سے کسی کو نہیں منواتا۔ فرمایا اے ہمارے رسول کیا تو پسند کرے گا کہ لوگوں کو جبر سے منوائے نہیں تو ایسا پسند نہیں کرے گا۔ پس یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ خدا تعالیٰ جو دلوں کے حالات کو جانتا ہے جبر سے لوگوں کو منوائے۔ دوسرے معنی اس کے یہ ہوسکتے ہیں کہ اس میں خطاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں بلکہ ہر مسلمان سے ہے۔ اور یہ بتایا ہے کہ لوگوں کے ایمان نہ لانے پر جوش میں آکر جبر سے کام نہ لینا اور یہ امر مدنظر رکھنا کہ جب خداتعالیٰ جو مالک و آقا ہے جبر نہیں کرتا تو تم کون ہو جبر کرنے والے۔
بہرحال دونوں معنوں میں سے کوئی سے معنی بھی لئے جائیں یہ آیت جبر سے اسلام پھیلانے کی سخت مخالف ہے۔ اور ان لوگوں کے اعتراض کو پاش پاش کر دیتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اسلام نے جبر سے اشاعت دین کی تعلیم دی ہے۔ اس آیت سے یہ بھی سمجھا جاسکتا ہے ممکن نہیں کہ مسلمانوں نے اشاعتِ اسلام میں جبر سے کام لیا ہو۔ کیونکہ ابتدائی زمانہ کے مسلمان نہایت سختی سے قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرتے تھے۔ اور یہ ممکن نہیں کہ جبکہ مسلمانوں کو حکومت کے ملنے سے پہلے بلکہ اس زمانہ میں جبکہ وہ مکہ مکرمہ میں کفار کے ظلموں کا شکار ہورہے تھے جبر سے روکا جارہا تھا۔ وہ حکومت ملنے پر جبر کرنے لگ جاتے۔
۱۰۱ وَمَاکَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تُؤْمِنَ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰہِ ط وَیَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَی الَّذِیْنَ لَایَعْقِلُوْنَO
ترجمہ
اور اللہ (تعالیٰ) کے (دیئے ہوئے) اذن کے سوا (کسی طو رپر) ایمان لانا کسی شخص کے اختیار میں نہیں اور وہ (ایمان نہ لانے کی وجہ سے) اپنا غضب ان (ہی) لوگوں پر (نازل) کرتا ہے جو عقل (رکھتے ہوئے اس) سے کام نہیں لیتے۔ ۹۷؎
۹۷؎ حل لغات
اذن باشئی اذنا علم۔ جانا۔ معلوم کیا۔ لہ فی الشئی اباح اجازت دی۔ الاذن الاجازۃ جانے دینا۔ اجازت دینا۔
الارادۃ چاہنا۔ العلم جاننا (اقرب) الرجس القذر۔ گند۔ الماثم گنا۔ گناہ کا کام۔ العمل المؤدی الی العذاب ایسا کام جس کا نتیجہ عذاب اور سزا ہو۔ الشک شک۔ العقاب سزا۔ الغضب ناراضگی۔ (اقرب)
تفسیر
اس آیت کے دو معنی ہیں۔ اول یہ کہ اس آیت میں میں جبر سے باز رہنے کے دلائل دیئے ہیں اور فرمایا ہے کہ ممکن نہیں کہ کوئی جان سوائے اللہ تعالیٰ کے اذن کے یقین لے آئے۔ یعنی یقین خداتعالیٰ کے مقرر کردہ قواعد کے ماتحت پیدا ہوتا ہے۔ خالی منہ کے اقرار سے نہیں پیدا ہوتا۔ پس تم جبر کرکے یقین نہیں پیدا کرسکتے۔ اور جو لوگ عقل سے نہیں مانتے یونہی بے سوچے سمجھے مانتے ہیں ان کے ایمان ان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتے۔ بلکہ خداتعالیٰ کی طرف سے ان پر وبال ہی آتا ہے۔ پس اگر تم ظاہری طور پر لوگوں کے اقرار کرا بھی لو تو اس کا فائدہ کچھ نہ ہوگا۔
کیسے نادان لوگ ہیں جو باوجود ان تعلیمات کے قرآن کریم پر جبر کا الزام لگاتے ہیں۔ قرآن کریم تو بدلائل جبر کی تعلیم کے خلاف وعظ کرتا ہے۔ اس تعلیم کو منسوخ کرنے والے بھی ناواقف لوگ ہیں۔ کیونکہ حقیقی دلائل کبھی رد نہیں ہوا کرتے۔ جبر کے خلاف یہ دلائل تو ہر زمانہ میں درست ثابت ہوتے ہیں۔ پھر ان کی منسوخی کے کیا معنی۔
دوسرے معنی اس آیت کے یہ ہیں کہ پہلی آیۃ یعنی افانت تکرہ الناس حتی یکونوا مؤمنین پر یہ اعتراض پڑ سکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ جبر نہیں کرتا۔ تو پھر انبیاء کے ذریعہ سے شریعت کیوں بھیجتا ہے۔ اور انذار و تبشیر سے کیوں کام لیتا ہے۔ یہ بھی تو ایک قسم کا اکراہ ہی ہے۔ سو اس کا جواب اس آیت میں دے دیا ہے کہ انبیاء کے ذریعہ سے ہدایت کا اعلان کرتا اور اپنی قدرتوں کے ذریعہ سے ایمان کو مضبوط کرنا جبر نہیں ہے۔ بلکہ یہی واحد ذریعہ ایمان پیدا کرنے کا ہے۔ بغیر اس کے کہ خداتعالیٰ اپنی مرضی کے حصول کا طریق بتائے لوگ اس تک پہنچ ہی کب سکتے ہیں۔ پس اگر اس طریق کو اختیار نہ کیا جاتا تو ہدایت پانا کسی کے لئے بھی ممکن نہ ہوتا۔ ان معنوں کے وقت اذن کے معنی ارادہ کے ہوں گے یعنی جب تک اللہ تعالیٰ اپنے ارادہ سے ہدایت کا سامان مہیا نہ کرے۔ انسان ہدایت نہیں پاسکتا۔ ویجعل الرجس علی الذین لایعقلون کے معنی یہ ہیں کہ جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے اور اذا کو نہیں مانتے ان پر ہم جبر نہیں کرتے۔ ہاں ان کے فعل کے مطابق ہم نتیجہ نکال دیتے ہیں۔ چونکہ وہ بدی کی طرف جاتے ہیں اس لئے ہم یہ نتیجہ نکال دیتے ہیں اور یا یہ کہ جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے انہی کو ہم بدی میں مبتلا ہونے دیتے ہیں دوسروں کو نہیں۔
۱۰۲ قُلِ انْظُرُوْا مَاذَا فِی لسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط وَمَا تُغْنِی الْاٰیٰتُ وَالنُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لَّایُؤْمِنُوْنَO
ترجمہ
تو (انہیں) کہہ (کہ) دیکھو (تو) آسمانوں اور زمین میں کیا (ہورہا) ہے۔ اور (نصرت الٰہی کے) نشانات اور (عذاب سے) متنبہ کرنے والے ان لوگوں کو جو (ضد سے) ایمان نہیں لاتے (کچھ بھی) فائدہ نہیں پہنچاتے۔ ۹۸؎
۹۸؎ حل لغات
مایغنی عنک ھذا ای مایجدی عنک (اقرب) یعنی اغنی عنہ کے معنی ہیں فائدہ پہنچاتا۔ النذر۔ نذیر کی جمع ہے جس کے معنی متنبہ کرنے والے کے ہیں۔ (اقرب)
تفسیر
اس کے یہ معنی ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ترقی کے سامان آسمان و زمین میں پیدا ہورہے ہیں۔ پس کسی جبر کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ آخری حصہ آیت نے صاف بتا دیا ہے کہ آسمان و زمین کی طرف توجہ دلانے سے مراد نشانات ارضی و سماوی ہیں۔ تبھی تو فرمایا ہے کہ جنہوں نے ایمان نہیں لانا ہوتا اور ضد سے کام لیتے ہیں ن کو نشانات بھی فائدہ نہیں پہنچاتے۔
۱۰۳ فَھَلْ یَنْتَظِرُوْنَ اِلَّا مِثْلَ اَیَّامِ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِھِمْ ط قُلْ فَانْتَظِرُوْآ اِنِّی مَعَکُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَO
ترجمہ
پھر کیا جو لوگ ان سے پہلے گزر چکے ہیں ان کے ایام (کے نمونہ) کے سواء وہ کسی اور چیز کا انتظار کررہے ہیں۔ تو (ان سے) کہہ (کہ اچھا اگر وہی نمونہ دیکھا ہے تو) پھر تم (لوگ کچھ) انتظار کرو۔ میں (بھی) یقینا تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں۔ ۹۹؎
۹۹؎ حل لغات
ایام اللہ نعمہ ونقمہ۔ ایام اللہ سے مراد اللہ تعالیٰ کے انعامات اور اس کے عذاب ہوتے ہیں۔ وعلیہ فی القران وذکرھم بایام اللہ ای ذکرھم بنعمہ ونقمہ اور یہی معنی اس لفظ کے آیت فذکرھم بایام اللہ میں ہیں۔ (اقرب۹ اور زمخشری کی کتاب اساس میں ہے کہ ایام اللہ وہ ہلاکتیں اور تباہیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء کے منکرین پر آئیں۔ ھو عالم بایام العرب ای بوقائعھا۔ ایام العرب سے مراد عرب کی مشہور لڑائیاں اور معرکے ہیں۔ (اقرب) پس معنی اس آیت کے یہ ہوئے کہ وہ نہیں انتظار کرتے مگر ویسے ہی عذابوں کا جو ان قوموں پر آئے جو ان سے پہلے گزر چکی ہیں۔ یہاں چونکہ دشمن مخاطب ہیں اس لئے نقم ہی کے معنی کئے جائیں گے۔
تفسیر
یعنی جو ضد کرتے ہیں آخر عذاب میں مبتلا ہوتے ہیں۔ پس ان کو خود عذاب مانگنے کی ضرورت نہیں۔ وہ تو خود ہی اپنے وقت پر آکر رہے گا۔ یہ عجیب بات ہے کہ کفار جو اپنے وقت میں غالب ہوتے ہیں اور نبیوں اور ان کی جماعتوں کو دکھ دے رہے ہوتے ہیں عذاب کے لئے گھبراہٹ کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن نبی اور ان کی جماعتیں نہیں چاہتے کہ وہ جلد آئے۔ اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے کہلواتا ہے کہ میں بھی تو عذاب کا انتظار کررہا ہوں۔ اور گھبراہٹ کا اظہار نہیں کرتا۔ حالانکہ تمہارے ظلموں کا تختۂ مشق بن رہا ہوں پھر تم جو آرام میں ہو اور ظلم کے مرتکب ہورہے ہو کیوں اس قدر گھبرا رہے ہو۔
بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ لوگ ہماری بات نہیں سنتے۔ تبلیغ کس کو کریں۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کے اعلان کا ارشاد ہوا تھا کہ اگر تم میری بات نہ بھی سنو گے تو بھی میں تمہارا پیچھا نہ چھوڑوں گا۔ اور کہتا چلا جاؤں گا۔
۱۰۴ ثُمَّ نُنَجِّیْ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کَذٰلِکَ ج حَقًّا عَلَیْنَا نُنْجَ الْمُؤْمِنِیْنَO
ترجمہ
پھر (جب وہ عذاب آجائے گا تو اس وقت) ہم اپنے رسولوں کو اور جو (لوگ ان پر) ایمان لائے ہیں ان کو بچا لیں گے۔ اسی طرح ہمارے ذمہ (خود اپنا قائم کی ہوا) ایک حق ہے ہم مومنوں کو (ضرور) بچا لیا کرتے ہیں۔ ۱۰۰؎
۱۰۰؎
یہاں ذکر تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا مگر فرمایا ہے کہ ہم اپنے رسولوں کو نجات دیں گے۔ جمع کا لفظ اس لئے استعمال فرمایا ہے کہ (۱) ہر نبی سارے نبیوں کا قائم مقام ہوتا ہے۔ پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نجات دینا گویا سب نبیوں کو نجات دینا تھا۔ کیونکہ اگر آپ تباہ ہوتے (نعوذباللہ) تو سب نبیوں کی صداقت مشتبہ ہوجاتی (۲) اس طرف بھی اشارہ ہے کہ اس امت میں آئندہ بھی رسول آئیں گے۔ اور وہ ہوں گے بھی امتی۔ کیونکہ حقا علینا ننجی المؤمنین میں رسولوں کی جگہ مومنوں کا لفظ استعمال فرمایا ہے اور اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ وہ لوگ ایک لحاظ سے رسول ہوں گے اور دوسرے لحاظ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مومن اور امتی۔
۱۰۵ قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ شَکٍّ مِّنْ دَیْنِیْ فَلَآ اَعْبُدُ الَّذِیْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلٰکِنْ اَعْبُدُاللّٰہَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰکُمْ وَاُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَO
ترجمہ
تو کہہ (کہ) اے لوگو اگر تم میرے دین کے متعلق کسی (قسم کے) شک (و شبہ) میں ہو ت (سن لو کہ) اللہ (تعالیٰ) کے سوا جن (معبودوں) کی تم پرستش کرتے ہو میں ان کی پرستش نہیں کرتا بلکہ میں اللہ (تعالیٰ) کی پرستش کرتا ہوں۔ جو تم کو وفات دے گا اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ایمان لانے والوں میں سے بنوں۔ ۱۰۱؎
۱۰۱؎ حل لغات
یتوفی کا مادہ وفی اور ماخذ وفاۃ ہے اور یہ باب تفعل سے فعل مضارع ہے۔ وفات کے معنی موت کے ہیں اور توفی کے معنی موت وارد کرنے اور جان نکال لینے کے ہیں۔ اقرب الموارد میں ہے توفی اللہ زید اقبض روحہ اللہ تعالیٰ نے زید کی روح قبض کرلی یا جان نکال لی۔ توفی فلان مجہولا قبضہ روحہ ومات۔ توفی بصیغہ مجہول کے معنی ہیں اس کی جان نکال لی گئی اور وہ مر گیا۔ فاللہ المتوفی والعبد المتوفی۔ غرض اللہ تعالیٰ متوفی یعنی وفات دینے والا ہوتا ہے اور انسان متوفی یعنی وفات پانے والا۔
اور قاموس میں ہے اوفی فلانا حقہ ووفاہ وافاہ فاستوفاہ وتوفاہ والوفاۃ الموت وتوفاہ اللہ قبض روحہ کہ جو لفظ توفی استیفاء یعنی پورا پورا لینے کے معنی دیتا ہے وہ ایفاء توفیۃ اور موافاۃ کا مطادع اور لفظ وفی سے ماخوذ ہوتا ہے۔ اور اس کا مفعول کوئی حق یا کوئی مالیت ہوتی ہے۔ اور جس لفظ توفی کے معنی قبض روح کے ہوتے ہیں وہ لفظ وفاۃ سے ماخوذ ہوتا ہے۔ جس کے معنی موت کے ہیں اور توفاہ اللہ کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ نے اس کی روح قبض کرلی۔ یعنی جان نکال لی۔ اور کلیات ابوالبقار میں ہے والفعل من الوفاۃ یعنی یہ فعل لفظ وفاۃ سے ماخوذ ہے۔ جس کے معنی موت کے ہیں۔
تفسیر
توفی کا لفظ جبکہ اس کا فاعل اللہ تعالیٰ ہو اور ذی روح مفعول ہو قبض روح کے سواء اور کسی معنی میں نہیں آتا۔ اس کی ایک مثال بھی لغت اشعا عرب اور قرآن مجید سے پیش نہیں کی جاسکتی۔ جب بھی توفی اللہ زیدا آئے گا اس کے معنی قبض روحہ کے ہوں گے۔ کسی شاعر کسی خطیب کسی مصنف نے اس کو دوسرے معنوں میں استعمال ہی نہیں کیا۔ جب ذی روح مفعول ہو تو اس کے معنی پورا پورا دینا نہیں ہوتے پورا حق دینا حق ہی کے متعلق آتا ہے۔
مومن اس کو کہتے ہیں جس کے ہاتھ سے لوگ امن میں آجائیں اور وہ دنیا کو امن دینے والا ہو۔ اور اس کو بھی مومن کہتے ہیں جو خود امن میں آجاتا ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین ہوجاتا ہے اور اس کے بعد وہ اس کی سزا سے بچ جاتا ہے۔
اس آیت میں فرمایا ہے کہ تم لوگ کہتے ہو کہ اہمیں تیرے دین سے شک پیدا ہورہے ہیں حالانکہ میرا عمل تو اسی مذہب پر ہے اور میں شرک سے کلی طور پر بیزار ہوں اور مجھے تو اس دین سے یقین اور ایمان ہی پیدا ہورہا ہے۔ نہ معلوم تمہیں شک کس طرح سے پیدا ہوتے ہیں۔ یتوفاکم کہہ کر اشارہ کیا ہے کہ جس خدا پر میرا ایمان ہے وہ تمہیں ہلاک کرنے والا ہے اور اس طرح تم پر اپنی حجت تمام کرنے والا ہے۔
۱۰۶ وَاَنْ اَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًاج وَلَاتَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَO
ترجمہ
اور اس فرمان کے پہنچانے کا بھی حکم دیا ہے کہ (اے مخاطب) تو ہر کجی سے پاک ہوتے ہوئے اپنی توجہ کو ہمیشہ کے واسطے دین کے لئے (وقف) کر دے اور تو مشرکوں میں سے ہرگ نہ بن۔ ۱۰۲؎
۱۰۲؎ حل لغات
اقم۔ اقام سے نکلا ہے اقام الشئی کے معنی ہیں ادامہٗ۔ اسے مداومت کے ساتھ سرانجام دیا۔ (اقرب) الوجہ کے معنی منہ کے علاوہ چھ اور بھی ہیں (۱) نفس الشئی خود چیز (۲) سید القوم قوم کا سردار (۳) الجاہ جاہ و حشمت۔ (۴) الجہۃ طرف (۵) القصد والنیۃ نیت و ارادہ (۶) امرضاۃ خوشنودی۔ یقال ارید وجھک ای رضاک۔ جب اریدو جہک کہیں گے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ میں تیری خوشنودی چاہتا ہوں۔ (اقرب) الحنیف الصحیح المیل الی الاسلام الثابت علیہ دین اسلام کی طرف مائل ہونے اور اس پر ثابت رہنے والا وکل من کان علی دین ابراھیم۔ جو حضرت ابراہیم کے مذہب پر ہو۔ ان معنوں میں مذہبی خیالات کا دخل پایا جاتا ہے۔ یعنی معلوم ہوتا ہے کہ یہ معنی اسلام کے نزول کے بعد آیات قرآنیہ کی تفسیر کے اثر کے نیچے پیدا ہو گئے۔
المستقیم۔ جو ادھر ادھر ہونے والا ہو (اقرب) اصل معنی اس لفظ کے یہی معلوم ہوتے ہیں۔
تفسیر
اس آیت میں مشرک نہ ہو کے یہ معنی نہیں کہ تو بتوں کو نہ پوج۔ یا اللہ تعالیٰ کا بیٹا نہ بنا۔ کیونکہ حنیف بن جانے کے بعد پھر اس ہدایت کی ضروت نہیں رہتی۔ بلکہ چونکہ مشرک کا لفظ حنیف کے مقابلہ پر آیا ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ تو غیراللہ کی طرف بالکل توجہ نہ کر۔ ورنہ محض اس فعل سے ہی تو مشرک ہو جائے گا۔ گویا شرک کی باریک راہوں کی طرف توجہ دلا کر ان سے بچنے کی ہدایت کی ہے۔
۱۰۷ وَلَاتَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَالَا یَنْفَعُکَ وَلَایَضُرُّکَ ج فَاِنْ فَعَلْتَ فَاِنَّکَ اِذًا مِّنَ الظّٰلِمِیْنَO
ترجمہ
اور تو اللہ (تعالیٰ) کے سوا (کسی چیز) کو جو تجھے نہ (کوئی) نفع پہنچاتی ہے اور نہ (کوئی) نقصان پہنچاتی ہے نہ پکار اور اگر تو نے (ایسا) کیا تو اس صورت میں تو یقینا ظالموں میں سے ہوگا۔ ۱۰۳؎
۱۰۳؎ تفسیر
یہ مطلب نہیں کہ ان چیزوں کو مت پکار جو نفع و ضرر کی مالک نہیں بلکہ یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا جو بھی ہے وہ بالذات نفع و ضرر کا مالک نہیں۔ پس کسی پر توکل نہ کر۔ ظالم سے مراد اس آیت میں مشرک ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دفعہ ظلم کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا ظلم سے مراد کبھی شرک بھی ہوتا ہے۔ (بخاری کتاب التفسیر زیر آیت لم یلبسوا ایمانہم بظلم) اس جگہ بھی شرک ہی مراد ہے۔
۱۰۸ وَاِنْ یَّمْسَسْکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَہٗٓ اِلَّاھُوَط وَاِنْ یُّرِدْکَ بِخَیْرٍ فَلَارَآدَّ لِفَضْلِہٖ ط یُصِیْبُ بِہٖ مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ ط وَھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُO
ترجمہ
اور اگر اللہ (تعالیٰ) تجھے کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سواء کوئی بھی اسے دور کرنے والا نہیں (ہوسکتا) اور اگر وہ تیرے لئے کوئی بہتری چاہے تو اس کے فضل کو روکنے والا (بھی قطعاً) کوئی نہیں (ہوسکتا) وہ اپنے بندوں میں سے جسے پسند کرتا ہے اسے وہ (یعنی اپنا فضل) پہنچا دیتا ہے اور وہ بہت ہی بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔ ۱۰۴؎
۱۰۴؎
اس جگہ یہ بتلایا ہے کہ تم لوگوں کے دلوں میں جو قرآن مجید کی طرف سے شبہات پیدا ہو رہے ہیں تو اس کا ذمہ دار قرآن مجید نہیں ہے۔ ورنہ سب سے پہلے وہ شبہات میرے دل میں پیدا ہونے چاہئے تھے۔ جس پر اس کا نزول ہوا ہے۔ لیکن مین یقین کی مضبوط چٹان پر کھڑا ہوں۔ اور مجھے کامل محبت الٰہی دی گئی ہے۔ میرے ذہنی افکار تیز ہو گئے ہیں۔ اور ہر نفع و ضرر کے متعلق غیر اللہ کا پردہ میری آنکھ پر سے اٹھ گیا ہے۔ گویا ماسوی اللہ میری نظروں سے غائب ہو گیا ہے۔ جب میری یہ حالت ہے تو تمہارا اعتراض غلط ہے بلکہ یہ گند تمہارے اپنے پیدا کردہ ہیں۔
پھر آخر پر وھو الغفور الرحیم رکھ کر بتا دیا ہے کہ اگرچہ تمہارے دل گندے ہوچکے ہیں لیکن اگر تم مغفرت مانگو تو اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کو صاف اور پاک کر دے گا اور سب گندوں کو دھو دے گا۔ اور تمہیں بھی ایسا ہی یقین عطا فرمائے گا۔
اس آیت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ خیر اور شر دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک خیر اور شر وہ ہوتے ہیں جو خالص ارادۂ الٰہی کے ماتحت نہیں آتے بلکہ تقدیر عام کے ماتحت آتے ہیں۔ قانون قدرت ان کا موجب ہوتا ہے۔ ایسے خیر اور شر قانونِ قدرت کے ماتحت کوشش سے آ بھی سکتے ہیں اور ٹل بھی سکتے ہیں۔ لیکن ایک خیر اور شر کے نزول کا موجب اللہ تعالیٰ کا خاص ارادہ ہوتا ہے۔ ان کے لانے کا موجب دنیوی اعمال نہیں ہوتے۔ بلکہ شرعی اعمال ہوتے ہیں۔ ایسے خیر و شر کو لانا یا ٹلانا صرف ارادہ الٰہی پر منحصر ہے۔ تدبیر سے نہ وہ آسکتے ہیں اور نہ ٹل سکتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ آپ سے اللہ تعالیٰ کا معاملہ تقدیر کا ہے۔ آپ کی ترقیات تدبیر کے ماتحت نہیں ہیں۔ کہ کوئی انہیں تدبیر سے ٹلا سکے۔ اور ہر عقلمند غور کرکے معلوم کرسکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام کام فضل الٰہی سے تعلق رکھتے تھے۔ اور اس وجہ سے آپ کے دشمنوں کی تدابیر آپ کے مقابلہ میں باوجود آپ کی تدابیر سے بہت زیادہ زبردست ہونے کے بالکل بے کار اور رائیگاں جاتی تھیں۔
۱۰۹ قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ کُمُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکُمْ ج فَمَنِ اھْتَدٰی فَاِنَّمَا یَھْتَدِیْ لِنَفْسِہٖ ج وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یُضِلُّ عَلَیْھَاج وَمَآ اَنَا عَلَیْکُمْ بِوَکِیْلٍO
ترجمہ
تو (ان سے) کہہ کہ اے لوگو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق آ گیا ہے۔ پس (اب) جو کوئی (اس کی بتائی ہوئی) ہدایت کو اختیار کرے تو وہ اپنی جان ہی (کے فائدے) کے لئے ہدایت کو اختیار کرتا ہے۔ اور جو (اس راہ سے) بھٹک جائے تو اس کا بھٹکنا (بھی) اس (کی جان) پر ہی (وبال) ہوگا۔ اور میں کوئی تمہارا ذمہ دار نہیں ہوں۔ ۱۰۵؎
۱۰۵؎ حل لغات
الوکیل۔ الموکول الیہ جس کے سپرد کوئی بات کر دی جائے۔ وقد یکون الجمع والانثی۔ یہ لفظ واحد و جمع ہر دو کے لئے اور اسی طرح مذکر و مؤنث ہر دو کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ ویکون بمعنی فاعل اذا کان بمعنی الحافظ اور جب اس کے معنی حافظ یعنی نگہبان کے ہوں توا س وقت اسم مفعول کے معنی میں نہیں بلکہ اسم فاعل کے معنی میں ہوتا ہے۔ وصف بہ اللہ تعالیٰ اور انہی معنوں میں یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ہے۔ وقیل الکافی الرازق اور بعض کہتے ہیں کہ جب یہ اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال ہو تو اس کے معنی تمام ضرورتوں کو پورا کرنے والے اور رازق کے ہوتے ہیں۔ (اقرب)
تفسیر
فرمایا کہ تمہاری ہدایت یا گمہرای سے میرا نفع یا نقصان نہیں۔ کیونکہ میں تم پر محافظ کی حیثیت سے مقرر نہیں کیا گیا۔ اگر میں نگران اور محافظ کی حیثیت سے مقرر ہوتا تو بے شک مجھ سے گرفت ہوتی کہ تم نے ان لوگوں سے فلاں فلاں باتوں پر عمل نہ کرایا اور فلاں فلاں باتیں نہ چھڑوائیں۔ میں تو صرف مبلغ کی حیثیت رکھتا ہوں۔
۱۱۰ وَاتَّبِعْ مَایُوْحٰٓی اِلَیْکَ وَاصْبِرْ حَتّٰی یَحْکُمَ اللّٰہُ وَھُوَ خَیْرُ الْحٰکِمِیْنَO
ترجمہ
اور جو کچھ تیری طرف وحی کیا جاتا ہے تو اس کی پیروی کر اور صبر سے کام لے یہاں تک کہ اللہ (تعالیٰ) فیصلہ (صادر) کر دے اور وہ سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ ۱۰۶؎
۱۰۶؎ حل لغات
صبر۔ فلانا عن الامر حبسہ عنہ فلاں شخص کو فلاں بات سے روک رکھا۔ صبرت نفسی علی کذاحبستہا میں نے فلاں بات پر ثابت قدمی دکھائی۔ تقول صبرت علی ما اکرہ وصبرت عما احب یعنی جب صبر کا صلہ علیٰ ہو تو اس کے معنی کسی امر پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں اور جب اس کا صلہ عن ہو تو اس کے معنی روک دینے کے ہوتے ہیں (اقرب)
تفسیر
آخر سورۃ میں پھر سورۃ کے ابتدائی مضمون کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اور فرمایا ہے کہ خداتعالیٰ کا حکم پورا ہوکر رہتا ہے۔ وہ جس طرح حکیم ہے اسی طرح حاکم بھی ہے۔ پس تو اس کلام الٰہی کی تبلیغ کرتا جا جو تجھ پر نازل ہوا ہے۔ اور جب تک اللہ تعالیٰ کا فیصلہ نہ ہو ان لوگوں کی ایذا رسانی کی برداشت کرتا جا۔ اور پرواہ نہ کر۔
خیرالحاکمین کہہ کر اس طرف اشارہ کیا ہے کہ اس کا فیصلہ تیرے بارے میں بہت اچھا صادر ہونے والا ہے۔ چنانچہ جب وہ فیصلہ ہوا تو دنیا دنگ رہ گئی۔ وہ لوگ جو آپ کے خون کے پیاسے تھے آپ کے والہ و شیدا ہو گئے۔ اور سب ملک حضرت یونسؑ کی قوم کی طرح یکدم ایمان لے آیا۔ اور وفود کے وفود آکر آپؐ کی غلامی میں داخل ہو گئے۔
صلی اللہ علیہ وسلم
بسم اللہ الرحمن الرحیمO
(میں) اللہ (تعالیٰ) کا نام لے کر (شروع کرتا ہوں جو بے حد کرم کرنے والا (اور) باربار رحم کرنے والا ہے۔۱؎
۱؎ سورۃ ہود مکی سورۃ ہے۔ ابن عباس۔ الحسن۔ عکرمہ مجاہد، قتادہ، جابر بن زید کے نزدیک یہ سورۃ سب کی سب مکی ہے۔ ابن عباس سے ایک روایت ہے کہ یہ سورۃ مکی ہے سوائے ایک آیت کے اور وہ فلعلک تارک بعض مایوحٰی الیک الایۃ ہے۔ مقاتل کا قول ہے کہ یہ سورۃ مکی ہے۔ سوائے ان تین آیتوں کے۔ ایک آیت فلعلک تارک بعض مایوحٰی الیک الایۃ دوسری آیت اولٰئک یؤمنون بہٖ جو عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھیوں کے متعلق ہے۔ تیسری آیت اقم الصلوۃ طرفی النہار وزلفا من الیل ان الحسنات یذھبن السیات ذلک ذکر للذاکرین۔ جو بنہان التمار کے متعلق ہے۔ (بحر المحیط)
یہ سورۃ سورۃ یونس کے مضامین میں سے ایک مضمون کو تفصیلی طور پر بیان کرتی ہے۔ سورۃ یونس میں بیان کیا گیا تھا کہ انبیاء کی اقوام سے اللہ تعالیٰ تین طرح سے معاملہ کرتا ہے۔
(۱) کسی قوم کو بالکل تباہ کر دیتا ہے۔
(۲) کسی قوم کو بالکل چھوڑ دیتا ہے۔
(۳) اور کسی قوم کے ایک حصہ کو بالکل تباہ کرکے دوسرے حصہ کو بالکل بچا لیتا ہے۔ اس سورۃ میں اول الذکر امر کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ اور بتایا ہے کہ کس طرح بعض اقوام کو اللہ تعالیٰ نے بالکل مٹا دیا اور ان کا نام و نشان باقی نہ رکھا اور ان کی بجائے ایک اور قوم کو کھڑا کر دیا۔ جو پہلی قوموں کے تسلسل میں قائم نہیں ہوئی بلکہ اس کے ذریعے سے دنیا کا ایک نیا دور شروع ہوا۔
اس سورۃ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ بدی اور بدکاری پر نگاہ رکھتا ہے۔ اور اس کے مطابق لوگوں کے ساتھ معاملہ کرتا ہے۔ اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ خداتعالیٰ انسانوں کی ہدایت کے لئے حسب ضرورت سامان پیدا کرتا رہتا ہے۔ اور چونکہ وہ سامان خود انسان کے فائدہ کے لئے ہوتے ہیں اس لئے جب وہ ان سے فائدہ نہیں اٹھاتا تو روحانی طورپر ہلاک ہو جاتا ہے۔ جس طرح کہ جسمانی غذا کے استعمال نہ کرنے پر ہلاک ہو جاتا ہے۔ پھر بتایا ہے کہ جس طرح ایک نسل کے مرنے سے انسان ختم نہیں ہو جاتا بلکہ اس کے بعد اور ایک نسل اس کی قائم مقام کھڑی ہوجاتی ہے۔ یہی حال روحانی سلسلوں کا ہے۔ ایک سلسلہ تباہ کر دیا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ ایک اور سلسلہ کو قائم کردیتا ہے۔
اس سورۃ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دنیوی ترقی بیشک خدا سے جدا ہوکر بھی مل سکتی ہے لیکن دنیا میں ہمیشہ قائم رہنے والی قومیں وہی ہوا کرتی ہیں جو دنیا کے ساتھ دین کو بھی قائم رکھتی ہیں۔ یعنی جو قوم اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ اسی کا نام قائم رہتا ہے۔ پھر یہ بتایا ہے کہ مومن کافر کے مقابلہ میں کیوں جیت جاتا ہے۔ اور کافر مومن کے مقابلہ میں کیوں تباہ ہوتا ہے۔ اور مختلف قوموں کی مثالیں بیان کرکے بتایا ہے کہ وہ کیسی طاقتور قعومیں تھیں۔ لیکن ہمارے بندوں کے مقابلہ میں تباہ و برباد ہو گئیں۔ چنانچہ اس سورۃ میں قوم نوح، قوم ہود، قوم صالح، قوم لوط اور قوم شعیب کا ذکر کیا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابل پر فرعون اور اس کی قوم کا ذکر کیا ہے۔ درمیان میں حضرت ابراہیمؑ کا ذکر بھی آیا ہے۔ مگر ان کا ذکر اصل مقصود نہیں بلکہ حضرت لوط علیہ السلام کے ذکر کے ساتھ ضمنی طور پر ان کا بھی کر آ گیا ہے۔ اس کے بعد حضرت موسیٰ ؑ کے واقعات کو لیا ہے۔ مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر بنی اسرائیل کے ساتھ جو ان کا تعلق تھا اس کے لحاظ سے نہیں کیا بلکہ ان کے اس تعلق کے لحاظ سے کیا ہے جو انہیں فرعون کے ساتھ تھا۔ اور جس کی وجہ سے فرعون اور اس کی قوم تباہ ہو گئی۔
پھر یہ بتایا ہے کہ جس قوم کے متعلق عذاب کا فیصلہ ہو جائے اس سے مومنوں کو بچتے رہنا چاہئے کیونکہ ایسی قوم کے ساتھ شامل ہونے سے انسان عذاب میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی ہے۔ اور آپ کو بتایا ہے کہ ان نبیوں کے حالات اس لئے بیان کئے گئے ہیں کہ تا تیرے دل کو صدمہ نہ ہو کہ میری قوم تباہ ہورہی ہے۔ بہت سے نبیوں کے مخالفین کے ساتھ ایسا ہوتا رہا ہے اور آخر میں مسلمانوں کی ترقیات کی طرف توجہ دلا کر مزید تسلی دی ہے۔ اس سورۃ میں اتنے عذابوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی ذمہ داریوں کو بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں شیبتنی ھود۔ کہ سورۃ ہود نے مجھے بوڑھا کر دیا ہے۔ یعنی اس کے مضامین کا اثر مجھ پر اتنا پڑا ہے کہ اس کے نازل ہونے کے بعد میں اپنے جسم میں کمزوری محسوس کرنے لگا ہوں۔
۲؎ حل لغات
احکمتہ التجارب جعلتہ حکیما تجارب نے اسے حکیم بنا دیا۔
احکم السفیہ اخذ علی یدہ مال کی قدروقیمت نہ سمجھنے والے پر مال کے خرچ کرنے میں بندش ڈال دی۔ اوبصرہ ماھو علیہ یا یہ کہ اس کی حالت پر اسے آگاہ کیا۔ احکم الشئی اتقنہ۔ پختہ اور مضبوط کر دیا۔ احکم فلانا عن الامر رجعہ۔ ہٹا دیا۔ رد کر دیا۔ احکم الفرس جعل للجامہ حکمۃ (اقرب) گھوڑے کے لگام میں اس کا آہنی پرزہ ڈالا۔ فصل الشئی جعلہ فصولا متمائزۃ اسے جداجدا حصوں میں تقسیم کیا۔ فصل الثوب قطعہ بقصد خیاطتہ۔ سلائی کے لئے کپڑے کو کاٹا۔ فصل الکلام بینہ وضدا جملہ۔ کھول دیا۔ مجمل نہ رہنے دیا۔ فصل العقد جعل بین کل خرزتین من لون واحدٍ خرزۃ اومرجانۃ اوشذرۃ اوجوھرۃ مخالفۃ لھما۔ (اقرب) موتیوں وغیرہ کے ہار کے ہمرنگ منکوں کے درمیان کسی دوسرے رنگ کے مرجان یا جواہرات وغیرہ کے منکے ڈالے۔
الخبیر۔ العارف بالخبر۔ خبر کو اچھی طرح سے جاننے والا۔ اور خبر کے معنی ہیں ماینقل ویتحدث بہ۔ (اقرب) جس کو نقل کیا جائے۔ یا جس کا تذکرہ کیا جائے۔ یعنی ایسا امر جس سے دوسروں کے لئے دلچسپی کی وجہ موجود ہو۔ واللہ خبر۔ ای عالم باخبار اعمالکم اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے حقیقت سے واقف ہے۔ وقیل عالم بواطن امور کم یعنی بعض نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اندرونی حالات سے واقف ہے۔ خبیر بمعنی مخبر بھی آتا ہے یعنی خبر دینے والا (مفردات)
تفسیر
فرماتا ہے کہ اس کتاب کی آیتیں اپنے اندر حکمت رکھتی ہیں۔ اور جو کچھ بھی اس میں بیان ہوا ہے وہ بدی سے روکنے والا اور نیکی کی طرف لے جانے والا ہے۔ اور انسان کی پوشیدہ بدیوں سے اس کو آگاہ کرکے اس کی حقیقت سے اسے واقف کرتا ہے۔ اور اس کلام میں کسی قسم کا کوئی نقص نہیں اور نہ کوئی ضرورت سے زائد بات ہے۔ غرض تمام ضروری تعلیم بغیر فضول و لغو کے بقدر حاجت بیان کی گئی ہے۔ اور ساتھ ہی پھر اس امر کا بھی لحاظ رکھا گیا ہے کہ ہر اک قسم کی ضروری تفصیل بھی آگئی ہے۔ اور فروعات کو بھی نظرانداز نہیں کیا گیا۔ بلکہ بقدر ضرورت انہیں بھی بیان کیا گیا ہے۔
فصلت سے درحقیقت متشابہ تعلیم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرماتا ہے ھوالذی انزل علیک الکتاب منہ ایات محکمات ھن ام الکتب واخرمتشابہات (آل عمران۱۵) اس سورہ آل عمران کی آیت میں محکم کے مقابلہ میں متشابہ کو رکھا ہے۔ لیکن آیت زیرتفسیر میں متشابہات کی جگہ فصلت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ پس ظاہر ہے کہ یہ لفظ متشابہ کے معنوں کو واضح کرتا ہے۔ اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ متشابہ درحقیقت تفصیلی تعلیم کا ہی نام ہے اور یہی تعلیم ہے جس پر اعتراض کی دشمن کو جرأت ہوتی ہے۔ ورنہ محکم یعنی اصولی تعلیم پر کوئی شخص حرف گیری نہیں کرسکتا۔ مگر حق کے معلوم کرنے کا طریق یہی ہے کہ انسان تفصیلی تعلیم کو محکم کے ماتحت لاکر دیکھے اگر وہ اس کے ماتحت آجائے تو پھر اس پر اعتراض کرنے کی کوئی وجہ نہیں جیسے کہ مثلاً بعض لوگ اسلام کی بعض تفصیلی تعلیمات پر جو سزا کے متعلق ہیں اعتراض کرتے ہیں۔ لیکن اگر وہ اسلام کی اصولی تعلیم کو دیکھیں جو یہ ہے کہ جس جگہ رحم سے فائدہ ہوتا ہو رحم کرو۔ اور جس جگہ سزا سے وہاں سزا دو۔ تو س پر انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا۔ اب اگر وہ تفصیلی تعلیم کو دیکھیں تو انہیں معلوم ہوگا کہ اسلام نے سزا کے موقع پر سزا تجویز کی ہے اور رحم کے موقعہ پر رحم۔ اس لئے اس پر اعتراض خلاف اصول ہے۔ مثلاً بعض حالات میں جنگ کی اجازت دی ہے اور یہ بات بظاہر معیوب نظر آتی ہے لیکن ہمیں دیکھنا یہ ہوگا کہ جنگ بعض اوقات عدل و انصاف کے قیام کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ پس اس پر اعتراض درست نہیں ہوسکتا۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہ ایک ڈاکٹر کسی کا دانت نکالتا ہے جو بظاہر ظالمانہ فعل نظر آتا ہے اور رحم کے خلاف لیکن اگر حقیقت پر نظر کریں تو وہ عن رحم ہے اور آرام کا موجب۔
من لدن حکیم خبیر سے یہ بتایا ہے کہ اس کا منبع بھی اعلیٰ ہے۔ اس لئے اس کی تمام تفاصیل پر اعتبار کیا جاسکتا ہے۔
حکیم اسے کہتے ہیں جو موقع کے مطابق کام کرنے والا ہو۔ اس صفت سے یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اس کلام کی بھیجنے والی ہستی کے یہ مدنظر نہیں ہے کہ وہ لوگوں میں شہرت یا عزت حاصل کرے بلکہ اس کے مدنظر بنی نوع انسان کا فائدہ ہے۔ پس اس نے کوئی ایسی تعلیم اس میں نہیں دی جو بظاہر خوبصورت ہو لیکن بہ باطن خراب ہو۔ بلکہ اس نے ہر وہ تعلیم جو انسان کے فائدہ کی ہے پیش کردی ہے۔ خواہ لوگ اس سے کس قدر ہی کیوں نہ بھاگیں اور برا نہ منائیں۔ ظاہر میں اچھی اور باطن میں بری تعلیم کی مثال انجیل کی تعلیم ہے۔ کہ اگر کوئی تیری ایک گال پر تھپڑ مارے تو تو دوسری بھی پھردے۔ اور بظاہر بری لیکن حقیقت میں اچھی تعلیم کی مثال قرآن کریم کی یہ تعلیم ہے کہ جو اقوام جبراً مذہب میں دخل دیں ان کا سختی سے مقابلہ کرنا چاہئے۔ جس تعلیم کی غرض لوگوں میں قبولیت حاصل کرنا ہوگی۔ وہ اول الذکر قسم کی تعلیموں پر انحصار کرے گی۔ اور جس کی غرض اصلاح ہوگی وہ لوگوں کی پسندیدگی یا عدم پسندیدگی کا خیال کئے بغیر جو مفید باتیں ہیں انہیں بیان کردے گی۔
چونکہ اس سورۃ میں سزاؤں کا اکثر ذکر ہے اس لئے اس کی پیش بندی کرتے ہوئے سورۃ کے شروع میں ہی اپنی صفت حکیم کا ذکر کر دیا ہے۔ یعنی وہ سزائیں ہماری صفتِ حکیم کے ماتحت تھیں۔ ظلم کے ماتحت نہیں تھیں۔
خبیر کہہ کر یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ حقیقت امر سے واقف ہے۔ خبیر کا لفظ اصل حال کی واقفیت پر دلالت کرتا ہے۔ اور بواطن امور کے جاننے کی طرف اس میں اشارہ ہوتا ہے۔ اور اس لفظ سے اس طرف اشارہ کیا جاتگا ہے کہ اس صفت کا مالک اندرونی تغیرات پر خاموش نہیں رہ سکتا۔ اور بداعمالی کی سزا کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔
۳؎
بظاہر یہ تعلیم کہ خداتعالیٰ نے بندہ کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے خودغرضانہ معلوم دیتی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا اللہ تعالیٰ بندہ کی عبادت کا محتاج ہے۔ لیکن اگر قرآن پر غور کیا جائے تو حقیقت بالکل مختلف نظر آتی ہے۔ کیونکہ قرآن کریم بوضاحت بیان فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کی عبادت کا محتاج نہیں ہے۔ چنانچہ سورۂ عنکبوت رکوع اول میں ہے ومن جاھد فانما یجاھد لنفسہ۔ ان اللہ لغنی عن العلمین۔ یعنی جو شخص کسی قسم کی جدوجہد روحانی ترقیات کے لئے کرتا ہے وہ خود اپنے نفس کے فائدے کے لئے ایسا کرتا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات اور ان کے ہر قسم کے افعال سے غنی ہوتا ہے۔ اسی طرح سورۃ حجرات میں فرماتا ہے۔ قل لا تمنوا علی اسلامکم۔ بل اللہ یھن علیکم ان ھدلکم۔ (حجرات ع۲) یعنی مذہب اسلام کو قبول کرکے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر احسان نہیں۔ نہ خداتعالیٰ پر ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے وہ طریق بتایا جو لوگوں کی ترقی اور کامیابی کا موجب ہے۔ پس عبادت قرآن کریم کے رو سے خود بندہ کے فائدہ کے لئے ہے اور اس کی یہ وجہ ہے کہ عبادت چند ظاہری حرکات کا نام نہیں ہے بلکہ ان تمام ظاہری اور باطنی کوششوں کا نام ہے جو انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بنادیتی ہیں۔ کیونکہ عبد کے معنی اصل میں کسی کے نقش کے قبول کرنے اور پورے طور پر اس کے منشاء کے ماتحت چلنے کے ہوتے ہیں۔ اور یہ ظاہر ہے کہ جو شخص کامل طور پر اللہ تعالیٰ کی منشاء کے ماتحت چلے گا الٰہی صفات کو اپنے اندر پیدا کرلے گا اور ترقی کے اعلیٰ مدارج کو حاصل کرلے گا تو یہ امر خود اس کے لئے نفع رساں ہوگا۔ نہ کہ اللہ تعالیٰ کے لئے۔
بائیبل میں جو یہ لکھا ہے کہ آدم کو اللہ تعالیٰ نے اپنی شکل پر پیدا کیا۔ (پیدائش باب۱) تو درحقیقت اس میں بھی اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ انسان کو اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنے اندر پیدا کرسکے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ تمام شکلوں سے پاک ہے۔
پس عبادت پر زور دینے کے محض یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے وجود کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھو۔ کیونکہ کامل تصویر تبھی کھینچی جاسکتی ہے جب اس وجود کا نقشہ ذہن میں موجود ہو۔ جس کی تصویر لینی ہو۔ اور عبادت اللہ تعالیٰ کی صفات کو سامنے رکھنے اور ان کا نقش اپنے ذہن پر جمانے کا ہی نام ہے جس میں انسان کا فائدہ ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کا۔
اس مضمون کی طرف ایک حدیث میں بھی اشارہ ہے جس میں بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ ماالاحسان۔ کامل عبادت کیا ہے۔ تو آپ نے فرمایا کہ ان تعبداللہ کانک تراہ۔ تو اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرے کہ گویا معنوی طور پر وہ اپنی تمام صفات کے ساتھ تیرے سامنے کھڑا ہو جائے۔
انذار کے معنی اس قسم کا ڈرانا نہیں ہوتا جیسے سانپوں یا شیروں سے ڈرایا جاتا ہے۔ اس قسم کے ڈرانے کو ترہیب یا تخویف کہتے ہیں۔ انذار لغت میں ہوشیار کرنے کے معنوں میں آتا ہے۔ پس مطلب یہ نہیں کہ میں تمہیں خداتعالیٰ سے ڈراتا ہوں بلکہ مطلب یہ ہے کہ میں تمہیں ہوشیار کرتا ہوں تاکہ اپنے نفع کے پہلوؤں کو بھول نہ جاؤ اور نقصان کے پہلوؤں کو اختیار نہ کرلو۔
اسی طرح بشیر کے لفظ سے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ میں صرف تمہیں ہوشیار ہی نہیں کرتا بلکہ تمہاری ترقی کے سامان بھی ساتھ لایا ہوں۔
۴؎ حل لغات
المتاع کل ما ینتفع بہ من الحؓوائج کالطعام والبزواثاث البیت والادوات والسلع۔ متاع عام ضروریات کی چیزوں کو کہتے ہیں جیسے خوراک، پوشکا، گھر کے استعمال کا سامان آلات اور اجناس۔ وقال فی الکلیات المتاع والمتعۃ ماینتفع بہ انفاعا قلیلا غیرباق بل ینقضی عن قریب۔ اور کلیات ابوالبقاء میں لکھا ہے کہ متاع یا متعہ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو محض وقتی طور پر کچھ فائدہ پہنچانے والی ہو۔ واصل المتاع ماینبغ بہ من الزاد۔ اور اس کے اصل معنی زادراہ کے ہیں۔ ویاتی المتاع اسما بمعنی التمتیع۔ اور یہ لفظ اسم مصدر کے طور پر تمتیع کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ یعنی سامان دنیا۔ (اقرب)
تفسیر
پہلی آیت میں اس مقصد عظیم کی طرف توجہ دلائی تھی جس کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے۔ لیکن چونکہ مقصد تک پہنچنے میں بعض دفعہ انسان کے راستہ میں روکیں حائل ہوجاتی ہیں اس لئے فرمایا کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے یگانگت پیدا کرنا چاہتے ہو اور تمہارے رستہ میں ایسی رکاوٹیں ہیں کہ جن کی وجہ سے خدا تک پہنچنا تمہارے لئے ناممکن ہو گیا ہے تو ان کو دور کرنے کا یہ طریق ہے کہ پہلے تم اپنے رب سے غفران مانگو۔ یعنی گناہوں کی وجہ سے جو تمہارے دلوں پر زنگ لگ گئے ہیں اور وہ خدا تک تمہیں نہیں پہنچنے دیتے ان کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی اعانت طلب کرو۔ اور اس سے دعائیں کرو کہ وہ تمہاریزنگوں کو دور کردے۔ دوسرے معنی استغفار کے دبادینے کے ہیں۔ ان معنوں کے رو سے اس آیت کے یہ معنی ہوں گے کہ ان جذبات کے دبانے کی دعا مانگو جو خدا تک پہنچنے میں روک بن جاتے ہیں۔ پھر اس کے بعد فرمایا ثم توبوا الیہ۔ یعنی جب وہ جبات دب جائیں تو اس کے بعد خدا کی محبت پیدا کرنے کے لئے اس کی طرف توجہ کرو۔ اس طرح خدا تک پہنچنان تمہارے لئے آسان ہو جائے گا۔ اس مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ کو ناراض کرنے والے جذبات جب مٹ جائیں تب اس کی طرف انسان جاسکتا ہے۔ بغیر ایسے جذبات کے دبانے اور پرانے اثر کے مٹانے کے خدا کی کامل محبت نہیں پیدا ہوسکتی۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ توبہ کا مقام استغفار کے بعد کا مقام ہے۔
وہ نادان جو یہ خیال کرتے ہیں کہ اسلامی توبہ گناہوں کی زیادتی کا موجب ہے وہ دراصل اس کی حقیقت سے ناواقف ہیں کیونکہ جو شخص گناہوں کے پچھلے اثر کے مٹانے اور جذبات کو دبانے میں لگا ہوا ہوگا اور اس کام سے فارغ ہوکر توبہ کی طرف توجہ کرے گا اس کے متعلق یہ خیال کرنا کہ وہ صرف منہ سے توبہ توبہ کرے گا بیوقوفی نہیں تو اور کیا ہے۔ توبہ منہ سے توبہ توبہ کرنے کا نام نہیں بلکہ گناہوں سے بچ کر اللہ تعالیٰ کی طرف بہ تمام توجہ جھک جانے کا نام ہے اور اگر اس فعل سے خدا نہیں ملے گا تو اور کس چیز سے ملے گا۔
یمتعکم متاعا حسنا سے بتایا ہے کہ اگر تم نبی کی بات مان لوگے تو دنیوی منافع بھی ملیں گے۔ کیونکہ متاع عارضی نفع کو کہتے ہیں اور عارضی نفع سے مراد دنیا کا نفع ہے۔ اور اجل مسمی سے مراد وہ زمانہ ہے جو نبی کی امت کے قیام کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہو ویؤت کل ذی فضل فضلہ سے مراد دینی برکات ہیں۔ خواہ اس دنیا میں ملیں خواہ اگلے جہان میں۔
کبیر کسی چیزکو بلحاظ وسعت کے بھی کہتے ہیں۔ اور بلحاظ اس کی گرانی کے بھی۔ پس مراد یہ ہے کہ اس تعلیم کو چھوڑ کر تم ایک لمبے عذاب میں مبتلا ہو جاؤگے۔ جو ہوگا بھی ایسا سخت کہ اس کا برداشت کرنا مشکل ہوگا۔
۵؎
یعنی آخر اس سے معاملہ پڑنا ہے۔ پھر کیوں اس کی ملاقات کی تیاری نہیں کرتے۔ دوسرے وہ ہر اک امر پر قادر ہے۔ یعنی سزا پر بھی اور انعام پر بھی۔ پھر کیوں اس کے انعام کے حصول کی کوشش نہیں کرتے۔
۶؎ حل لغات
ثنی الشئی ثنیا۔ عطفہ۔ اس کو موڑ دیا۔ چکر دیا۔ (اقرب) تھیلے کا منہ موڑنے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ کوئی چیز اس میں سے باہر نہ نکلے۔ پس استعارۃً اس کے یہ معنی ہیں کہ کوشش کرتے ہیں کہ ان کے دلی خیالات ظاہر نہ ہوں۔
استغشی ثوبہ وبثوبہ استغشاء تغطی بہ۔ کپڑے کے ساتھ اپنے آپ کو ڈھانپ لیا اور محاوہ ہے کہ استغش ثوبک کی لاتسمع ولاتری۔ اپنا کپڑا اوڑھ لے کہ نہ کچھ دیکھے نہ کچھ سنے۔ (اقرب) یہ محاوہ اس وقت استعمال کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص کوشش کرے کہ میں دوسرے کی بات نہ سنوں نہ اس کی حالت دیکھوں۔
تفسیر
اس جگہ اللہ تعالیٰ نے کفار کی دو حالتوں کا ذکر کیا ہے جو انہیں ہدایت سے محروم کررہی ہیں۔ اول یہ کہ وہ اپنے خیالات کو چھپاتے ہیں اور انہیں ظاہر ہونے نہیں دیتے اس وجہ سے ان کا ازالہ نہیں ہوسکتا۔ ہدایت کے لئے ضروری ہے کہ انسان ان امور کو بیان کرے جو اس کے لئے صداقت کو قبول کرنے میں اصل روک ہیں۔ کیونکہ جب تک اصل روک دور نہ ہو ہدایت نہیں مل سکتی۔ یہ عیب اکثر لوگوں میں دیکھا گیا ہے کہ کسی کہ کسی مسئلہ پر بحث کرتے وقت وہ اس کے متعلق جو اصل روک ہوتی ہے اسے توظاہر نہیں کرتے اور ادھر ادھر کی بحثیں کرتے رہتے ہیں۔ اس وجہ سے ان بحثوں کے ختم ہونے پر بھی وہ وہیں کے وہیں رہتے ہیں جہاں ابتداء میں تھے۔
دوسری بات ان کے متعلق یہ بتائی ہے کہ یہ لوگ یہ بھی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے دل کی حالت بھی نہ بدلے اور اس کے لئے یہ طریق اختیار کرتے ہیں کہ بات ہی نہیں سنتے اور جو یہ کوشش کرے گا کہ بات ہی نہ سنوں وہ ہدایت کس طرح پائے گا۔ یہ مرض پہلی مرض سے بھی زیادہ سخت ہے۔ اپنی حالت کو قائم رکھنے کے لئے اکثر لوگ صداقت کے ظاہری آثار سے متاثر ہوکر اس بات کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ نہ دین کی باتوں کو خود سنیں اور نہ ان کے دوست سنیں۔ انہیں بھی یہ کہہ کر روکتے رہتے ہیں کہ یہ لوگ جادو کردیتے ہیں۔ ان کی باتوں کو نہ سنو۔ حالانکہ جب تک انسان کوئی بات سنے گا نہیں ہدایت کس طرح پاسکے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کا واسطہ عالم الغیب ہستی سے ہے۔ کیا اس حالت میں انہیں یہ عذر کام دے سکتا ہے کہ ہم پر حجت پوری نہیں ہوئی۔ جو کوشش کرتا ہے کہ مجھ پر حجت پوری نہ ہو۔ اس پر حجت پوری ہوچکی اوار وہ عدم علم یا عدم تسلی کا عذر نہیں پیش کرسکتا۔ عذر وہی پیش کرسکتا ہے جو اپنی طرف سے سمجھنے کی پوری کوشش کرچکتا ہے یا وہ لوگ پیش کرسکتے ہیں جن تک ان کی اپنی کوشش کے باوجود بات نہ پہنچی ہو۔ یہ بھی مراد ہے کہ ان کی پوشیدہ عداوتوں کو بھی اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے اور ظاہر کو بھی۔
ذات الصدور سے مراد دلی خیالات اور ارادے ہیں کیونکہ صدر سے مراد الیٰ چیز ہوتی ہے اور انسان کے جسم میں سب سے بلند مقام اس کے ارادوں اور اس کے خیالات کو حاصل ہے کیونکہ انہی کے ماتحت اس کے اعمال ہوتے ہیں۔ اس میں یہ بتایا ہے کہ ان لوگوں کی قلبی کیفیتوں سے اللہ تعالیٰ واقف ہے۔ اور اسی کا اندازہ لگا کرا س نے اپنا مامور بھیجا ہے۔ پس ان کا یہ دعویٰ فضول ہے کہ ہمیں کسی مصلح کی کیا ضرورت ہے۔ اس آیت کا تعلق پہلی آیتوں سے یہ ہے کہ ان میں ترقیات روحانیہ کا گر بتایا تھا اور ان روکوں کا ذکر کیا تھا جو بلاارادہ انسان کے راستہ میں آجاتی ہیں اور ان کے دور کرنے کا ذکر کیا تھا۔ اس آیت میں ان روکوں کا ذکر کیا ہے جو انسان خود اپنے لئے پیدا کرلیتا ہے اور جن کا دور کرنا خود اس کے ارادہ اور کوشش سے متعلق ہے۔
۷؎ حل لغات
الدابۃ۔ مادب من الحیوان۔ ہر حیوان جو زمین پر چلتا ہے اسے دابہ کہتے ہیں۔ وغلب استعمالھا علی ما یرکب ویحمل علیہ الاعمال والھاء فیھا للوحدۃ کما فی الحمامۃ۔ اور اس کا استعمال اکثر ان جانوروں کے لئے ہوتا ہے جن پر سواری کی جاتی ہے یا بوجھ لادا جاتا ہے ویقع علی المذکرو المونٹ۔ اور مذکر اور مؤنث دونوں کے لئے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اور اس کے آخر میں جو ہا ہے یہ مفرد کی ہے نہ کہ مونث کی۔ جس طرح حمامہ (کبوتر وغیرہ) میں ھا مفرد کے لئے اور اس لفظ کی جمع دواب آتی ہے۔ (اقرب)
المستقر۔ موضع الاستقرار۔ قرار پکڑنے کی جگہ والشمس تجری لمستقرلھا ای المکان لاتجاوزہ وقتا و محلا۔ یعنی وہ جگہ یا وقت جس سے سورج آگے نہیں نکل سکتا۔ النہایۃ والغایۃانتہاء اور منزل مقصود۔ (اقرب)
استودع مالا۔ استحفظہ ایاہ۔ حفاظت کے لئے مال اس کو دیا۔ یعنی اس کے پاس رکھا۔ المستودع مکان الودیعۃ والحفظ۔ وہ جگہ جس میں کوئی چیز بطور امانت و حفاظت رکھی جائے۔ مکان الولد من البطن پیٹ میں بچہ کی جگہ یعنی رحم مادر۔ (اقرب)
تفسیر
یعنی اللہ تعالیٰ ہی سب کے لئے رزق کے سامان مہیا کرتا ہے۔ آگے ان کا استعمال کرنا نہ کرنا ان کے اختیار میں ہوتا ہے۔ زمین کے اندر کے کیڑے یا شہروں میں رہنے والے جانور یا جنگلوں کے درندے سب کے لئے سامان بہم پہنچائے ہوئے ہیں۔ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ اس قدر کیڑے مکوڑے کہاں سے رزق حاصل کرتے ہوں گے۔ مگر سب کے لئے سامان موجود ہے۔ حتیٰ کہ بعض کیڑوں کے رزق تک سے انسان ناواقف ہے اور نہیں جانتا کہ ان کا رزق کیا ہے۔ انسانی کھیتی کو ہی دیکھ لو۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں بھی جانوروں کا خیال رکھا ہے۔ اگر گیہوں انسان کے لئے پیدا کی ہے تو ساتھ ہی بھوسہ بھی رکھا ہے۔ جو جانوروں کے کام آتا ہے۔ اگر گیہوں کے دانہ سے گیہوں ہی نکلتی تو انسان شاید جانور کا خیال کم ہی رکھتا۔
بعض چیزیں ایسی بنادی ہیں کہ ایک کے لئے مضر اور دسرے کے لئے نفع رساں ہوتی ہیں۔ کانٹے دار جھاڑیاں اور درخت اونٹوں کی غذا ہیں اور نجاست بھیڑوں کے کام آجاتی ہے۔ انسان جسم میں پیدا ہونے والے کیڑوں کے لئے اسی جگہ غذا موجود ہے۔ غرض ہر جنس کے لئے الگ الگ قسم کی غذا ہے۔ حتیٰ کہ شکاری جانوروں کی غذائیں بھی مختلف ہیں۔ کوئی کسی قسم کا جانور کھاتا ہے کوی کسی قسم کا۔ کروڑوں بلکہ اربوں قسم کے جانور مختلف اقسام کی غذائیں کھاتے ہیں۔ اور انسان جو قانونِ قدرت کے راز کے ظاہر کرنے کا مدعی ہے ابھی تک ان جانوروں سے بھی پورے طور پر واقف نہیں کجا یہ کہ ان کی غذاؤں سے واقف ہو۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان سب کے لئے غذاؤں کے سامان مقرر کر چھوڑے ہیں۔
مستقر اور مستودع کا ذکر اس لئے فرمایا کہ مستقر ہمیشگی کے رہنے کی جگہ کو کہتے ہیں۔ اور مستودع عارضی رہائش کی اور غذا وہی مہیاکرسکتا ہے جو غذا کے حاجتمند کے رہنے کی جگہ جانتا ہو۔ اور پھر صحیح غذا وہی مہیا کرسکتا ہے جو کسی چیز کی قوتوں کے منتہا سے واقف ہو۔ پس فرمایا کہ جو ہستی مستقر اور مستودع کا علم رکھے وہی غذا مہیا کرسکتی ہے اور مناسب غذا تجویز کرسکتی ہے۔
کل فی کتاب مبین میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ اشیاء آپ ہی آپ نہیں ہیں۔ بلکہ ان کی غایت اور منزل مقصود اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص ارادوں کے ماتحت مقرر کی گئی ہے۔
اس آیت سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب رزق کے سامان اللہ تعالیٰ ہی مہیا کرتا ہے اور ادنیٰ سے ادنیٰ جانوروں کی ادنیٰ سے ادنیٰ ضرورت حقہ کو پورا کرتا ہے۔ تو کس طرح ہوسکتا ہے کہ اس نے اس اعلیٰ مخلوق کے لئے جو پیدائش کا منتہا ہے وہ رزق مہیا نہ کیا ہو جس سے اسے دوسری مخلوقات پر فضیلت ہے۔ یعنی روحانی اور اخلاقی قابلیتوں کے نشوونما کے لئے کوئی تعلیم نہ دی ہو۔ یہ عقل کے خلاف ہے کہ جس وقت انسان ایک خون کا لوتھڑا تھا اس وقت تو اس کی ضرورتوں کو پورا کیا لیکن جب وہ کامل انسان بنا اور اسے اپنی روحانی اور اخلاقی حالتوں کی رہنمائی کی ضرورت پیش آئی تو اللہ تعالیٰ نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا۔ پس یقینا اللہ تعالیٰ نے انسان کی روحانی تربیت کے سامان پیدا کئے ہیں۔ آگے انسان ان سے فائدہ اٹھائے یا نہ اٹھائے۔
اس آیت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جس کو مستقر اور مستودع کا علم نہ ہو وہ رزق بھی مہیا نہیں کرسکتا۔ کیونکہ جب منازل کا علم نہ ہو تو انسان تقسیم غذا میں غلطی کر جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی بنائی ہوئی تعلیموں میں یا تو صرف مستقر کا لحاظ رکھا گیا ہے اور جسم کو اس قدر نظرانداز کر دیا گیا ہے کہ اس کی وجہ سے روحانی ترقی سے بھی انسان محروم رہ گیا ہے کیونکہ برتن کی خرابی سے اس کے اندر پڑی ہوئی چیز بھی خراب ہو جاتی ہے اور پھر مستودع کا ہی خیال رکھا گیا ہے اور جسم کی تربیت پر ہی سب زور دے دیا گیا ہے اور روح کو بھلا دیا گیا ہے۔ حالانکہ انسان کا اصل مقام روحانی ترقی کا مقام ہے۔ پس جو اصل مقصد ہے اس کا خیال نہ کرکے گویا پیدائش انسان کی غرض کو ہی باطل کر دیا گیا ہے۔ اور حق یہ ہے کہ انسانی عقل ان دونوں مقامات کا خیال رکھتے ہوئے صحیح غذا تجویز نہیں کرسکتی کیونکہ انسان کو قبر اور مابعدالموت کے حالات کا علم نہیں اور روحانی غذا کا تعلق اگلی دنیا کے ساتھ ہے۔ پس وہ اعمال اور افکار جو اگلے جہان میں کام آتے ہیں ان کو انسان خود اپنی عقل سے معلوم نہیں کرسکتا۔
۸؎ حل لغات
الماء جسم رقیق مائع یشہب بہ۔ حیاۃ کل نام۔ ماء کے معنی پانی کے ہیں۔ جس پر نشوونما پانے والی چیز کی زندگی کا مدار ہے۔ (اقرب) السحر۔ کل ما لطف ماخذہ ودق۔ ہر وہ بات جس کی اصلیت ایک مخفی راز ہو۔ وقیل اخراج الباطل فی صورۃ الحق۔ جھوٹ کو سچ بنا کر دکھانا واطلاقہ علی مایفعلہ من الحیل حقیقۃ لغویۃ اور حیلوں اور چالاکیوں کے معنوں میں اس کا استعمال لغت کی رو سے اس کا اس کے حقیقی معنوں میں استعمال ہے۔ سحرہ عمل لہ السحر وخدعہ۔ سحرہ کے معنی ہیں اپنی چالاکی سے دوسرے کو دھوکا دیا۔ (اقرب)
تفسیر
فرماتا ہے کہ دیکھو خداتعالیٰ نے کس طرح تمہاری پیدائش اور ترقی کے لئے تدریجی سامان پیدا کئے ہیں۔ اور تدریجی طور پر ترقی دیتے دیتے آخر میں انسان کو پیدا کیا ہے۔ کیا اس سے یہ نہیں معلوم ہوتا ہکہ اس دنیا کی پیدائش میں اصل مقصود انسان ہی ہے۔ پھر سوچو کہ وہ اصل مقصود کیوں ہے۔ یقینا اپنی روحانی قابلیتوں کی وجہ سے۔ پھر کس طرح ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان روحانی قابلیتوں کو نظرانداز کردے اور ان کے نشوونما کے لئے کوئی سامان پیدا نہ کرے۔
کان عرشہ علی الماء۔ قرآن کریم میں متعدد جگہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ حیاۃ کا منبع ماء ہے۔ جیسے فرماتا ہے الم نخلقکم من ماء مھین۔ (سورہ مرسلات ع۱) فلینظر الانسان مم خلق۔ خلق من ماء دافق (سورۂ طارق) وھوالذی خلق من الماء بشرا فجعلہ نسیا و صھرا (سورۂ فرقان ع۵) اولم یرالذین کفروا ان السموت والارض کانتا رتقا ففتقنھا وجعلنا من الماء کل شئی حی۔ افلا یؤمنون (سورہ انبیاء ع۲) غرض قرآن کریم نے متواتر بتایا ہے کہ حیاۃ کی پیدائش ماء سے ہے۔ پس کان عرشہ علی الماء میں اسی طرف اشارہ ہے کہ خداتعالیٰ کی صفات کاملہ کا ظہور حیاۃ کے ذریعہ سے ہوا ہے۔ اور اس میں کیا شبہ ہے کہ عرش یعنی صفات کاملہ کا ظہور انسان ہی کے ذریعہ سے ہوتا ہے جو حیاۃ کی آخری کڑی ہے۔ لیبلوکم ایکم احسن عملا بھی انہی معنوں کی تصدیق کرتا ہے۔ کیونکہ اصلی پانی پر اگر عرش رکھا ہوا ہو تو اس سے انسان کے اعمال کی آزمائش کس طرح ہوسکتی ہے۔ ہاں جو معنی اوپر کئے گئے ہیں ان کے رو سے دونوں فقرے بالکل مطابق ہوجاتے ہیں۔ خداتعالیٰ نے جاندار اشیاء سے اپنی صفات کاملہ کے ظہور کو وابستہ کر دیا ہے۔ اور اس طرح وہ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ کون سا انسان ان صفات سے فائدہ اٹھا کر دوسرے بنی نوع انسان سے زیادہ ترقی کر جاتا ہے۔
لیبلوکم ایکم احسن عملا میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ انسان کو صفات الٰہیہ کا مظہر بننے کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ کیونکہ کان عرشہ علی الماء کے بعد اس جملہ کے بیان کے یہی معنی ہوسکتے ہیں کہ اس لئے ہم صفات کو ظاہر کرتے ہیں تاکہ تم اعلیٰ سے اعلیٰ عمل کرو۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صفات کا ظہور اسی لئے ہوتا ہے کہ انسان ان کی نقل کرے۔
کان عرشہ علی الماء میں اس طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ جب ہماری حکومت تمہاری پیدائش کی تمام کڑیوں پر ہے تو تم ہماری حکومت سے باہر کس طرح جاسکتے ہو۔
دوسرے معنی کان عرشہ علی الماء کے یہ ہیں کہ خداتعالیٰ نے اپنی صفات کا ظہور کلام الٰہی سے وابستہ کیا ہوا ہے۔ قرآن کریم میں متعدد جگہ کلام الٰہی کو پانی سے مشابہت دی ہے۔ پس ہوسکتا ہے کہ اس جگہ ماء سے مراد کلام الٰہی ہی ہو۔ اور یہ بتایا گیا ہو کہ ہم نے کلام الٰہی سے اس لئے اپنی صفات کے ظہور کو وابستہ کیا ہے تاکہ تم کو عمل کی طرف توجہ ہو۔ اگر روحانی ترقیات کے ساتھ جسمانی نعمتوں کے حصول کا سلسلہ بھی نہ لگادیا جاتا تو شاید کئی لوگ روحانی ترقیات سے محروم رہ جاتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ سنت مقرر کردی ہے کہ کتب اللہ لاغلبن انا ورسلی (مجادلہ ع۳) میں نے یہ بات اپنے پر فرض کر لی ہے کہ میں اور میرے رسول دنیا میں غالب ہوکر رہیں گے۔ پس کلام الٰہی جن پر نازل ہوتا ہے انہیں اور ان کی امتوں کو دنیاوی غلبہ بھی حاصل ہوتا ہے تاکہ یہ ظاہر ہو کہ اس امت نے طاقت کے حصول کے بعد کلام الٰہی پر کس طرح عمل کیا۔
اس آیت میں اسلامی ارتقاء یعنی ایوولیوشن تھیوری بھی بیان ہوگئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے پانی یعنی سلسلہ حیاۃ پر اپنا عرش اس لئے رکھا تاکہ حیوانات میں قابلیتوں کا مقابلہ ہو اور آخر میں یہ امر ظاہر ہوجائے کہ ان میں سے کون اصل مقصود بننے کے قابل ہے۔ یعنی پیدائش حیاۃ کا اصل مقصد آخر میں ایک ایسے وجود کا پیدا کرنا تھا جو حیاۃ کے اعلیٰ سے اعلیٰ جلوے دکھاسکتا ہو۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ انسان کی پیدائش مختلف ادوار حیاۃ کے آخری دور میں ہوئی ہے۔ پس گویا اسلام گوبند یا کسی اور جانور سے ترقی کرکے انسان کی پیدائش تو تسلیم نہیں کرتا لیکن یہ ضرور تسلیم کرتا ہے کہ حیاۃ کی ادنیٰ حالت سے ترقی کرتے کرتے آخر میں انسانی پیدائش کا دور آیا ہے۔ گو اس کی پیدائش شروع سے ہی ایسے رنگ میں چلائی گئی تھی کہ اس سے انسان ہی پیدا ہونا تھا۔
ولئن قلت انکم مبعوثون من بعد الموت میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ طریق پیدائش ہی صاف ظاہر کرتا ہے کہ انسان کو موت کے بعد پھر دوبارہ حیاۃ حاصل ہو۔ کیونکہ اس قدر وسیع عالم کا پیدا کرنا جس میں ایک بالارادہ ہستی یعنی انسان بس سکے صاف بتا رہا ہے کہ اس کی حیاۃ کا کوئی خاص مقصد ہے۔ لیکن دوسری طرف اس دنیا کی زندگی کو دیکھا جائے تو دارالابتلاء نظر آتی ہے۔ اور آزمائش کی جگہ عارضی ہوتی ہے۔ جیسے امتحان کا کمرہ مستقل رہائش کے لئے نہیں ہوا کرتا۔ بلکہ امتحان دینے کے وقت تک انسان اس میں ٹھہرتا ہے۔ پھر دارالابتلاء میں اخفاء کا پہلو غالب ہوتا ہے اور دارالجزاء میں اظہار کے پہلو کا غالب ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اب چونکہ اس دنیا میں اخفاء کا پہلو غالب نظر آتا ہے حتیٰ کہ بہت لوگ خود اللہ تعالیٰ کی ہستی تک کے بھی منکر ہیں پس ان حالات سے صاف پتہ لگتا ہے کہ اس دارالابتلاء سے نکال کر اسے دارالجزاء میں لے جانا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ اگر تو ان کو کہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس عالم کو ترقی دیتے دیتے انسان کو پیدا کیا ہے اور اسے پیدائش عالم کا مقصود بنایا ہے تو یہ اس امر کو مان لیتے ہیں (جیسے کہ دہریہ تک ایوولیوشن تھیوری کو مانتے ہیں) لیکن جب تو اس کا عقلی نتیجہ ان کے سامنے پیش کرے کہ تب تو انسانی حیاۃ کا دور اس دنیا میں ختم نہیں ہوسکتا بلکہ ضرور ہے کہ مرنے کے بعد بھی اس کے لئے ایک زندگی کو تسلیم کیا جائے تو اس کا وہ انکار کردیتے ہیں۔
۹؎ حل لغات
الامۃ۔ الجماعۃ۔ جماعت گروہ۔ الجیل من کل حی۔ قوم، بڑا گروہ۔ الطریقہ طریقہ، الدین مذہب۔ الحین وقت، زمانہ، عرصہ۔ (اقرب) حاق بہ یحیق حیقا وحیوقا وحیقانا۔ احاط بہ اس کا احاطہ کرلیا۔ حاق بہم الامر۔ لزمہم ووجب علیہم۔ بات ان کے لازم حال ہو گئی۔ اور ان سے چمٹ گئی۔ حاق بھم العاب۔ نزل واحاط۔ عذاب نازل ہو گیا اور اس نے ان کا احاطہ کرلیا۔ (اقرب)
تفسیر
فرمایا یہ لوگ جس طرح مابعد الموت کے متعلق دھوکہ میں ہیں اسی طرح دنیا کے عذابوں کے متعلق بھی دھوکہ خوردہ ہیں۔ اور اگر عذاب میں تاخیر ہوجائے تو اعتراض کرنے لگتے ہیں حالانکہ اگر یہ سوچتے تو یہ بات ظاہر تھی کہ دارالابتلاء تو لازماً ڈھیل کو چاہتا ہے۔ اگر ڈھیل نہ ہو تو پھر یہ دنیا دارالجزاء ہوجائے۔
عجیب بات ہے کہ دنیا کے لوگ ایک طرف تو دارالجزاء سے انکار کرتے ہیں اور دوسری طرف انبیاء کے مقابلہ میں قطعی عذاب کا بھی مطالبہ کرتے ہیں۔ اور اس طرح خود ہی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ایک دارالجزاء کا ہونا ضروری ہے۔
وحاق بہم ماکانوا بہ یستھزء ون سے اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ عذاب کے مطالبہ سے مراد ان کی فی الواقع عذاب کا طلب کرنا نہیں بلکہ ہنسی کرنا مقصود ہے۔ ان کی یہ ہنسی انہیں پر الٹ کر پڑے گی اور عذاب کو فی الواقع قریب کر دے گی۔
۱۰؎ حل لغات
یؤس۔ یئس سے صیغہ مبالغہ اسم فاعل کا ہے۔ اور اس کے معنی ہیں قنط۔ نہایت درجہ کا مایوس (اقرب) کفور بھی صیغہ مبالغہ اسم فاعل ہے۔ اور اس کے معنی ہیں نہایت ناشکرگزار۔ چنانچہ اس پر ہاء تانیث نہیں آسکتی اور اس کی مصدر کفور یا کفران ہے۔ کفر النعمۃ۔ جحدھا وسترھا۔ وھوضد الشکر ناسپاسی کی۔ ناشکری کی۔ محسن کے احسان کا انکار کیا۔ اور اسے چھپایا۔ (اقرب) النعما۔ الید البیضاء الصالحۃ الضراء۔ الزمانۃ۔ اپاہج ہونا یا ہوجانا۔ قویٰ کا معطل ہو جانا۔ آفت، الشدۃ سختی، مصیبت، تکلیف، دکھ۔ النقص فی الاموال والانفس۔ مالی اور جانی نقصان۔ نقیض السراء خوشی کا عکس یعنی غم و اندوہ کی حالت۔ (اقرب)
السئیۃ نقیض الحسنۃ۔ سیئۃ حسنہ کی نقیض۔ السیئۃ ہے (اقرب) والحسنۃ یعبربھا عن کل مایسر من نعمۃ تنال الانسان فی نفسہ وبدنہ واحوالہ۔ والسیئۃ تضادھا۔ (مفردات) حسنہ ہر ایک خوش کن نعمت کو کہتے ہیں۔ خواہ جان کے متعلق ہا یا جسم یا دیگر حالت کے متعلق۔ اور سیئہ کا لفظ اس کی ضد ہے۔ فرح بھی صیغہ مبالغہ اسم فاعل کا ہے۔ اور اس کا فعل فرح۔ ہے فرح الارجل۔ انشرح صدرہ بلذۃ عاجلۃ۔ کسی وقتی لذت کی وجہ سے بہت ہی خوش ہوا۔ بطر۔ اترایا۔ غرور میں آ گیا۔ (اقرب) پس فرح کے معنی ہوئے کسی وقتی لذت کی وجہ سے حد سے زیادہ خوش ہونے والا یا اترانے والا۔ فخور بھی صیغۂ مبالغہ اسم فاعل کا ہے اور فخر سے نکلا ہے۔ فخر تمدح بالخصال وباھی بالمناقب والمکارم من حسب ونسب وغیرذلک۔ امافیہ اوفی ابائہ اس کے معنی ہیں اپنی طرف فضائل منسوب کرکے ان پر فخر اور ناز کیا۔ اور اپنے منہ سے اپنی بڑائی بیان کی (اقرب)۔ پس فخور کے معنی ہوئے اپنے فضائل و مناقب کا اظہار کرکے ان پر بہت ہی فخر اور ناز کرنے والا۔
تفسیر
یہ دونوں غلط نقطہ نگاہ اس قوم کے افراد کے ہوجاتے ہیں۔ جو الہام الٰہی سے دور جاپڑتی ہے۔ اور ایسا شخص باوجود اس بات کے دیکھنے کے کہ دنیا کے حالات ہمیشہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالتا کہ کسی خاص حالت کے ماتحت یہ تبدیلی ہوئی ہوگی بلکہ جو حالت بھی پیدا ہوجاتی ہے اس کو اپنے نفس پر غالب آنے دیتا ہے۔ اگر تکلیف پہنچے تو ناامید کو اپنے اوپر غالب آنے دیتا ہے۔ اگر خوشی ہو تو غرور کو۔ اس کی یہی وجہ ہے کہ اس نے ازلی قانون کو نہیں سمجھا۔ یعنی یہ کہ یہ دنیادار الابتلاء ہے۔ اور خداتعالیٰ انسانی دماغ کی دونوں حالتوں کا امتحان لینا چاہتا ہے۔ اور دیکھتا ہے کہ اس پر خوشی کا کیا اثر ہوتا ہیا ور غمی کا کیا۔ اور ان دونوں حالتوں میں سے گذار کر اس کی روحانی حالت کو کمال تک پہنچانا چاہتا ہے۔ لیکن ایسا شخص چونکہ اس حقیقت کو نہیں سمجھتا اس لئے اس پر جو حالت بھی آئے بجائے اس سے سبق حاصل کرنے کے وہ اس کو اپنے اوپر غالب آنے دیتا ہے۔
۱۱؎
یعنی مومنوں کی حالت اوپر کی حالت کے خلاف ہوتی ہے۔ وہ غم اور خوشی کو اپنے نفس پر غالب نہیں آنے دیتے۔ بلکہ غم اور خوشی کو خود اپنے تابع رکھتے ہیں۔ جب غم آتا ہے تو بجائے گھبرانے اور مایوس ہونے کے صبر سے کام لیتے ہیں اور بہادری سے اس کا مقابلہ کرتے ہیں اور مخالف اسباب کو دور کرنے کے لئے ہمت سے کوشش کرتے ہیں۔ اور جب خوشی کے ایام آتے ہیں تو بجائے فخر کرنے اور اترانے کے وہ ان نعمتوں کے ذریعہ سے جو ان کو ملتی ہیں نیکی اور تقویٰ میں اور بھی ترقی کر جاتے ہیں اور نیک اعمال کے ذریعہ سے ان نعمتوں سے دوسرے لوگوں کو بھی فائدہ پہنچاتے ہیں۔ لھم مغفرۃ واجرکبیر میں مومن کی صحیح جزاء بتائی ہے۔ چونکہ مومن تکالیف پر صبر سے کام لیتا ہے اور تکالیف غلطیوں یا بشری کمزوریوں کے نتیجہ میں پہنچتی ہیں اس لئے اس کے صبر کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ غلطیوں کو معاف کرتا یا اس کی بشری کمزوریوں پر پردہ ڈالتا ہے اور چونکہ مومن نعمت کے حصول پر اتراتا نہیں بلکہ ان نعمتوں کو نیکی میں ترقی کرنے کا ذریعہ بناتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ اسے اجر کبیر دے کر اپنے فضلوں میں زیادتی کرتا ہے۔
۱۲؎ حل لغات
لعل طمع واشفاق کہ لعل طمع اور خوف ہرد وکے لئے آتا ہے۔ ولعل وان کان طمعافان ذلک یقتضی فی کلامھم۔ تارۃ طمع المخاطب وتارۃ طمع المخاطب وتارۃ طمع غیرھما فقولہ تعالی فیما ذکر من قوم فرعون لعلنا نتبع السحرۃ فذلک طمع منہم وقولہ فی فرعون لعلہ یتذکر او یخشی فاطماع موسی مع ھارون ومعناہ فقولا لہ قولا لیناراجیین ان یتذکر او یخشی وقولہ تعالی فعلک تارک بعض مایوحی الیک ای یظن بک الناس ذلک۔ اور جب یہ لفظ طمع کے معنوں میں ہو تو عربی زبان کے محاورہ میں اس کے کئی مفہوم ہوتے ہیں۔ کبھی اس سے مخاطب کے دل کی طمع کا اظہار یا اس کے دل میں طمع کا پیدا کرنا مراد ہوتا ہے۔ کبھی مخاطب یعنی بولنے والے کی طرف سے طمع مراد ہہوتی ہے۔ اور کبھی ان دونوں کے سواء دوسروں کی طمع کا ذکر ہوتا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں جو فرعون کی قوم کا قول آتا ہے کہ لعلنا نتبع السحرۃ۔ اس میں فرعون کی قوم نے اپنی طمع کا اظہار کیا ہے کہ کیا اچھا ہو کہ یہ جیت جائیں۔ اور ہم ان کی اتباع کریں اور جو خداتعالیٰ کا یہ قول فرعون کے بارہ میں آتا ہے کہ لعلہ یتذکر اویخشی۔ اس میں موسیٰ اور ہارون کو جو مخاطب ہیں اللہ تعالیٰ نے طمع دلائی ہے کہ شاید فرعون ہدایت پاجائے۔ اور یہ جو آیت ہے لعلک تارک بعض مایوحی الیک۔ اس میں دوسروں کی طمع کا ذکر ہے کہ دوسرے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ شاید تو ان کے اعتراضوں سے ڈر کر خدا کے کلام کے بعض حصوں کو چھپادے۔ (مفردات)
الکنز مایدخر۔ جس مال کو انسان جمع کرے۔ المال المدفون فی الارض۔ زمین میں گاڑا ہوا مال۔ اسم للمال اذااحدزفی وعاء۔ جب مال کسی حفاظت کی چیز میں رکھا ہوا ہو تو اسے بھی کنز کہتے ہیں۔ الذھب سونا۔ الفضۃ۔ چاندی۔ مایحرزفیہ المال۔ جس چیز میں مال کو محفوظ کرکے رکھا جاوے یعنی مخزن۔ (اقرب)
تفسیر
قرآن کریم کا یہ طریق ہے کہ بعض جگہ سوال کا ذکر چھوڑ دیتا ہے صرف جواب دے دیتا ہے۔ اور اسی سے سوال سمجھ میں آجاتا ہے۔ اس آیت میں بھی ایسا ہی کیا گیا ہے۔ گو جس سوال کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے اسے علیحدہ بیان نہیں کیا گیا۔ لیکن آیت کے الفاظ بتاتے ہیں کہ لہم مغفرۃ واجرکبیر کا وعدہ سن کر کفار نے اعتراض کیا کہ مومنوں کو تو مغفرۃ اور اجرکبیر پیچھے ملے گا پہلے تم جو سلسلہ کے بانی ہو اپنا حال تو دیکھو کہ نہ تمہارے پاس خزانہ ہے اور نی کمزوریوں کو دور کرنے کے ظاہری مظہر فرشتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تعریضاً فرماتا ہے کہ اوہو یہ بڑا بھاری اعتراض انہوں نے کیا ہے اس کے خوف کے مارے تو اب تو ضرور کلام الٰہی کا کچھ حصہ یعنی جس میں اسلام کی ترقیات کی پیشگوئیاں ہیں چھپا ڈالے گا۔ مطلب یہ ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا۔ دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ اس جگہ لعل ان معنوں میں استعمال ہوا ہے کہ دشمن یہ طمع رکھتا ہے کہ اس کے ان اعتراضوں سے ڈر کر تو کلام الٰہی کو چھپانے لگے حالانکہ اس کی یہ طمع باطل ہے۔ کیونکہ تو تو فقط نذیر ہے یعنی پیغامبر اور پیغامبر کا کام تو دیانت داری سے پیغام پہنچانا ہوتا ہے۔ اس کو یہ حق حاصل نہیں ہوتا کہ وہ بعض حصہ کلام کو چھپادے۔ اور بعض کو ظاہر کردے۔ پھر تیرا دعویٰ خدائی کا نہیں ہے کہ دنیا کے خزانے تیرے قبضہ میں ہوں۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ جن مومنوں کا ذکر کیا ہے کہ ان کو اجر کبیر ملے گا وہ بھی تو انسان ہی ہوں گے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ تو ایک خاص وقت تک صبر کرنے کے بعد کی حالت کا ذکر ہے نہ کہ شروع سے ہی ایسا وعدہ تھا۔ سو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ترقیات کے ظاہری مظاہر کا مطالبہ بھی کفار تبھی کرسکتے تھے جب کہ وقت مقررہ آتا۔ نہ کہ شروع سے ہی۔ شروع سے طاقت کا ساتھ ہونا تو ذاتی اقتدار پر دلالت کرتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے نہ کہ بندہ کو۔
واللہ علی کل شیء وکیل سے یہ بتایا ہے کہ آخر یہ سب کچھ ہوکر رہے گا۔ تجھے مغفرت بھی ملے گی اور اجبر کبیر بھی۔ خداتعالیٰ کے فرشتے آئیں گے جو تیرے کام کو پورا کریں گے اور اجر کبیر بھی ملے گا۔ تیرا تو کیا ذکر ہے تیرے غلام بھی بادشاہ ہوں گے ہر اک غیر متعصب انسان دیکھ سکتا ہے کہ یہ دونوں باتیں پوری ہوئیں یا نہیں۔ اسلام کی ترقیات کے راستہ سے سب روکیں ملائکہ نے دور کردیں یا نہیں۔ اور اس طرح مغفرۃ کامل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوئی یا نہیں۔ اسی طرح کیا آپ کو اور آپ کے خدام کو جو دیر تک دنیا کے عذابوں پر صبر سے کا لیتے رہے تھے آخر اجرکبیر مل کر رہا کہ نہیں۔ افسوس ہے کہ اسلام کے دشمن اس آیۃ سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دشمنوں کے اعتراضوں سے ڈر کر بعض حصہ قرآن کو چھوڑنے کے لئے تیار ہو گئے تھے۔ حالانکہ سیاق و سباق اس آیت کا ان معنوں کو رد کررہا ہے۔ کیا کوئی عقلمند بھی خیال کرسکتا ہے کہ فرشتوں یا خزانہ کا مطالبہ کوئی ایسا اعتراض تھا کہ اس سے ڈر کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کلام الٰہی کو چھوڑنے کے لئے تیار ہوجاتے اور کیا انما انت نذیر واللہ علی کل شیء وکیل دو ایسی باتیں ہیں کہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر سے اوجھل تھیں یا یہ وہ باتیں ہیں جو ہیں جو دشمنان اسلام کی نظر سے اوجھل تھیں۔ اگر صرف کفار کی نظر سے یہ امور اوجھل تھے تو انہی کی طمع کا اس آیت میں ذکر ہے نہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طمع کا۔ کیا معترضین یہ بھی خیال نہیں کرتے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قریش نے خاص وفد کے ذریعہ سے یہ درخواست کی کہ یا تو آپ ان سے سمجھوتہ کرلیں یا پھر وہ آپ کو اور آپ کے رشتہ داروں کو پیس ڈالیں گے تو اس وقت آپ نے یہ جواب دیا کہ اگر سورج میرے دائیں اور چاند کو بائیں لاکر کھڑا کردو تب بھی میں خداتعالیٰ کی تعلیم کو نہیں چھوڑ سکتا۔ پھر کیا ان دولغو اعتراضوں سے آپ ایسے متاثر ہوسکتے تھے کہ کلام الٰہی کو چھپانے کے لئے تیار ہوجاتے۔
اگر اس سے اگلی آیت پر غور کیا جائے تو وہ بھی اسی بیہودہ خیال تردید کرتی ہے۔ کیونکہ اس میں ساری دنیا کو چیلنج دیا گیا ہے کہ قرآن کریم کی کسی دس سورتوں کے مثل لے آؤ۔ اگر آپ کے دل میں شک ہوتا تو کیا اس کے ذکر کے ساتھ ہی یہ چیلنج دیا جاسکتا تھا۔ یہ چیلنج تو بتاتا ہے کہ آپ کے دل میں قرآن کریم کی صداقت کا یقین پہاڑ سے بڑھ کر راسخ تھا۔
۱۳؎
اس آیت سے میرے ان معنوں کی جو پہلی آیت میں میں نے کئے تھے تصدیق ہو گئی۔ گذشتہ آیت میں ان کے اس اعتراض کے کہ اب یہ ہمارے اعتراضوں سے ڈر کر قرآن کریم کے بعض حصوں کو ضرور چھوڑ دے گا دو جواب دیئے گئے تھے۔ اول یہ کہ تو تو نذیر ہے تو نے خدائی اک دعویٰ تو کیا ہی نہیں کہ یہ چیزیں ساتھ لانا بھی تیرا کام ہو۔ دوم یہ کہ تو تو پیغامبر ہے جو پیغام تجھے ملے گا تو اس کے ظاہر کرنے پر مجبور ہے۔ اس جواب پر کفار کی طرف سے یہ اعتراض ہوسکتا تھا کہ یہ تو صرف تمہارا دعویٰ ہے کہ تم خداتعالیٰ کی طرف سے ہو ہمارا خیال تو یہی ہے کہ جب تمہارے ساتھ کوئی خاص طاقت نہیں تو تم مفتری ہو۔ سو اس اعتراض کا جواب اس آیت میں دیا کہ گو ظاہری خزانے ابھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں ہیں۔ مگر باطنی خزانہ موجود ہے۔ اور خزانہ بھی وہ جس کے برابر ایک انسان تو کیا سب دنیا کے پاس مجموعی طور پر بھی دولت نہیں ہے۔ اور وہ قرآن کریم ہے۔ پس اگر تم اس دعویٰ میں سچے ہو کہ ہمارا رسول مفتری ہے اور اس کے لائے ہوئے کلام کے بعض حصے ناقص ہیں اور بدلنے کے قابل ہیں تو سارے قرآن کریم کے برابر نہیں صرف دس سورتوں کے برابر کوئی کلام پیش کردو۔ جو اس کے ان حصوں کی مثل ہو جن کو تم بدلنے کے قابل سمجھتے ہو اور اگر ایسے حصوں کی مثل بھی پیش نہ کرسکو جو تمہارے نزدیک ناقص ہیں اور بدلنے کے قابل ہیں تو تم کو تسلیم کرنا ہوگا کہ اس کے پاس وہ خزانہ ہے جس کی مثال دنیا میں نہیں مل سکتی۔
فاتوا بعشر سور مثلہ مفتریات۔ سورۂ یونس میں بتایا جاچکا ہے کہ یہ مضمون کئی جگہ آیا ہے۔ اول سورۂ بقرہ ع۳ کی آیت وان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا فاتوا بسورۃ من مثلکہ وادعوا شہداء کم من دون اللہ ان کنتم صدقین ہے دوم سورۂ یونس میں فرمایا ہے ام یقولون افتراہ قل فاتوا بسورۃ مثلہ وادعوا من استطعتم من دون اللہ ان کنتم صدقین۔ یونس ۴۔
سوم یہ زیر تفسیر آیت ہے کہ ام یقولون افتراہ قل فاتوا بعشر سور مثلہ مفتریات وادعوا من استطعتم من دون اللہ ان کنتم صدقین۔ چہارم سورۂ بنی اسرائیل ع۱۰ میں آتا ہے قل لئن اجتمعت الانس والجن علی ان یاتوا بمثل ھذا القران لایاتون بمثلہ ولوکان بعضھم لبعض ظھیرا۔ پنجم سورہ طور ع۲ میں آیا ہے ام یقولون تقولہ بل لایؤمنون۔ فلیاتوابحدیث مثلہ ان کانوا صادقین۔
ان پانچ جگہوں میں سے دو جگہ پر تو ایک ہی قسم کا مطالبہ ہے۔ باقی تین جگہ میں علیحدہ علیحدہ مطالبے کئے گئے ہیں۔ چنانچہ سورۂ بنی اسرائیل میں سارے قرآن کریم کی مثل کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اور فرمایا ہے کہ اگر سارے جن و انس بھی اکٹھے ہوجائیں تو قرآن کریم کی مثل نہیں لاسکیں گے۔ یہاں سورۂ ہود میں دس سورتوں کے متعلق فرمایا ہے کہ اگر تم سچے ہو تو دس سورتیں اپنے پاس سے بنا کر خداتعالیٰ کی طرف منسوب کرکے شائع کرو۔ سورۂ بقرہ اور سورۂ یونس میں ایک سورۃ کا مطالبہ ہے۔ اور سورۂ طور میں ایک سورۃ کی بھی شرط نہیں ہے۔ خواہ وہ ایک بات ہی بنا کر لے آئیں۔ اب بظاہر یہ بات عجیب نظر آتی ہے کہ کہیں سارے قرآن کا مطالبہ ہے کہیں دس سورتوں کا ہے اور کہیں ایک سورۃ کااور کہیں ایک ہی بات پر اکتفاء کی گئی ہے۔ اور طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ فرق کیوں ہے۔ بعض لوگوں نے یہ کہا ہے کہ ترتیب نزول کے لحاظ سے ایسا ہوا ہے۔ پہلے سارے قرآن کی مثل کا مطالبہ کیا۔ جب وہ نہ لاسکے تو دس سورتوں کا مطالبہ کیا۔ جب وہ بھی نہ لاسکے تو پھر فرمایا ایک سورۃ ہی لے آؤ۔ جب وہ بھی نہ لاسکے تو پھر فرمایا کہ کچھ ہی لے آؤ۔ خواہ ایک بات ہی ہو۔ میرے نزدیک اس میں کچھ اشتباہ معلوم ہوتا ہے۔ اس لئے کہ ان سورتوں میں سے کہ جن میں اس مضمون کا ذکر آیا ہے نزول کے لحاظ سے سب سے پہلے سورہ طور ہے اور اس میں قرآن کریم کی بجائے بحدیث مثلہ ہے۔ یعنی اس جیسا کوئی کلام لے آؤ۔ اور شرط ایک سورۃ کی بھی نہیں رکھی گئی۔ خواہ وہ کلام ایک سورۃ سے بھی کم ہو۔ پس عقلاً یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ سورہ طور میں تو پہلے بغیر مقدار مقرر کرنے کے مثل کا مطالبہ کیا گیا ہو اور اس کے بعد سورۂ بنی اسرائیل میں پورے قرآن کا مطالبہ کیا گیا ہو اور بعد میں اس مطالبہ کو گرا کر دس سورتوں میں اور پھر دس سورتوں سے گرا کر ایک سورۃ میں محصور کر دیا گیا ہو۔
دوسرے یہ کہ یہ کوئی واقعہ تو ہے نہیں کہ ہم اس سے عبرت پکڑیں بلکہ ایک چیلنج ہے جو ہم نے دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے۔ اب ہم دنیا کے سامنے کیا پیش کریں۔ آیا یہ کہ سارا قرآن لاؤ یا یہ کہ دس سورتیں لاؤ یا ایک سورۃ یا ایک بات لاؤ۔ اگر ایک آیت کا مطالبہ کافی ہے تو ایک سورۃ کا مطالبہ کیوں کریں۔ اور اگر ایک سورۃ کا لانا کافی ہوسکتا ہے تو دس سورتوں کا مطالبہ کیوں کریں اور اگر دس سورتوں کا لے آنا کافی ہے تو سارے قرآن کی مثل لانے کے لئے کیوں کہیں۔
میرا اپنا یہ خیال ہے کہ اس میں ترتیب نکالنے کی ضرورت نہیں۔ اول تو ان میں سے بعض سورتیں ایسے قریب قریب کے زمانہ کی نازل شدہ ہیں کہ ان کی صحیح ترتیب کا پتہ لگانا بہت مشکل ہے۔ دوسرے قرآن کریم کی تنزیل اس طرح نہیں ہوئی کہ ایک وقت میں ایک ہی سورۃ نازل ہوئی ہو بلکہ قریب قریب نازل ہونے والی سورتیں بعض دفعہ ایک ہی وقت میں تین تین چار چار نازل ہوتی جاتی تھیں اور ان میں سے ایک کو پہلی کہنا اور دوسری کو بعد کی کہنا اس لحاظ سے تو گو درست ہو کہ ایک کی آخری آیت پہلے اور دوسری کی آخری آیت پیچھے نازل ہوئی ہو لیکن ایک کی سب آیتوں کے متعلق کہنا کہ یہ پہلے نازل ہوئی ہیں اور دوسری کی سب آیتوں کے متعلق یہ کہنا کہ یہ پہلے نازل ہوئی ہیں درست نہیں ہوسکتا۔ پس میرے نزدیک ان آیتوں میں ایسے مطالبات بھی ہیں جو ترتیب نزول کے حل کرنے کے محتاج نہیں ہیں اور سب کے سب ایک ہی وقت میں آج بھی اسی طرح پیش کئے جاسکتے ہیں جس طرح کہ زمانۂ نزول میں پیش کئے جاسکتے تھے۔
پیشتر اس کے کہ میں ان مختلف تحدیوں کی تشریح کروں جو ان آیات میں مذکور ہیں۔ میں اس عجیب بات کی طرف بھی توجہ پھرانی چاہتا ہوں کہ یہ چیلنج جس جس جگہ ائے ہیں ان کے ساتھ ہی مال و دولت اور طاقت و قدرت کا بھی ذکر آیا ہے۔ سوائے سورۂ بقرہ کے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں کوئی نیا چیلنج نہیں ہے۔ بلکہ سورۂ یونس کے چیلنج کو سورہ بقرہ کے مضامین کی ضرورت کے لحاظ سے دہرایا گیا ہے (سورہ یونس مکی ہے اور سورہ بقرہ مدنی ہے)اس لئے اس میں اس ذکر کو غیرضروری سمجھ کر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس کے سوا باقی سب سورتوں کو دیکھ لو سب میں مال و دولت یا طاقت و قدرت کا ذکر ہے۔
سورۂ یونس میں اس مطالبے سے چند آیات پہلے آیا ہے قل من یرزقکم من السماء والارض امن یملک السمع والابصار ومن یخرج الحی من المیت ویخرج المیت من الحی ومن یدبر الامر فسیقولون اللہ فقل افلاتتقون۔ گویا دعویٰ کیا ہے کہ سب خزانے اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں۔ خواہ وہ رزق کے ہوں یا قوائے طبیعہ کے یا قوے عملیہ کے ہوں یا مختلف قوتوں کو ایک نظام میں لانے کے متعلق ہوں۔ اور پھر اس کے بعد فرمایا قل ھل من شرکاء کم من یبدء الخلق ثم یعیدہ۔ قل اللہ یبدء الخلق ثم یعیدہ فانی تؤفکون قل ھل من شرکاء کم من یہدی الی الحق قل اللہ یھدی للحق۔ افمن یدھی الی الحق احق ان یتبع امن لایھدی الا ان یھدی فما لکم کیف تحکمون۔ اس میں بھی طاقت و قوت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ پھر سورۂ طور میں تحدی کے بعد فرماتا ہے ام خلقوا من غیر شئی ام ھم الخالقون۔ ام خلقوا السموت والارض بل لایوقنون۔ ام عندھم خزائن ربک ام ھم المصیطرون۔ یہاں پر بھی دولت اور حکومت اور طاقت و قدرت کا ذکر کیا گیا ہے۔
سورۂ ہود کی زیر تفسیر آیت سے پہلے بھی لولا انزل علیہ کنز اوجاء معہ ملک آیا ہے۔ سورۂ بنی اسرائیل میں تحدی کے بعد آیا ہے وقالوا لن نؤمن لک حتی تفجرلنا من الارض ینبوعا اوتکون لک جنۃ من نخیل و عذب فتفجر الانھار خللھا تفجیرا اوتسقطا لسماء کما زعمت علینا کسفا اوتاتی باللہ والملئکۃ قبیلا اویکون لک بیتا من زخرف اوترقی فی السماء اس جگہ بھی مال و دولت اور طاقت و قوت کا ہی ذکر ہے۔ غرض چاروں جگہ پر ایک ہی قسم کا مطالبہ بیان ہوا ہے۔ یا مطالبہ کا ذکر نہیں لیکن مطالبہ کا جواب دیا گیا ہے۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ خزانوں کے سوال اور مطالبۂ مثل میں کوئی گہرا تعلق ہے۔ اور وہ یہی تعلق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو خزانہ قرار دیا ہے اور مخالفین کے خزانہ کے مطالبہ یہ جواب دیا ہے کہ اس کا اصل خزانہ قرآن کریم ہے اور لولا انزل علیہ ملک کا بھی یہی جواب دیا ہے کہ ملائکہ ظاہری مقابلوں کے لئے نہیں اترتے۔ بلکہ کلام الٰہی لے کر اترا کرتے ہیں۔ اور وہ اس پر نازل ہوچکا ہے پس یہ کہنا کہ اس پر ملک نہیں اترا یا یہ کہ اترنا چاہئے بے معنی قول ہے۔ اور ایسی چیز کا مطالبہ ہے جو پہلے سے حاصل ہے۔ پھر چونکہ ملائکہ کا اترنا یا روحانی خزانہ کا حصول بہ ظاہر ایک دعویٰ معلوم ہوتا ہے جس کا ثبوت نہیں اس کے لئے خود قرآن کریم کے بے مثل ہونے کو پیش کیا ہے کہ یہ اپنی صداقت کی آپ دلیل ہے اور اس کے اندر ایسے دلائل موجود ہیں جو اسے ایک لاثانی خزانہ اور منجانب اللہ کلام ثابت کرتے ہیں اور یہ جو فرق کیا ہے کہ جس جگہ زیادہ کلام کا مطالبہ ہے اس جگہ کفار کی طرف سے خزانوں یا ملک کا مطالبہ ہے اور جس جگہ تھوڑے کلام کی مثل کا مطالبہ ہے اس جگہ خداتعالیٰ کی طرف سے یہ سوال کیا گیا ہے کہ کیا یہ کفار خزانوں کے مالک اور قانون قدرت کے متولی ہیں۔ سو اس کی وجہ یہ ہے کہ جن مقامات پر پورے قرآن یا دس سورتوں کا مطالبہ ہے اس جگہ سوال ایسا ہے جو کفار کے ذہن میں آسکتا تھا اور موٹا تھا۔ پس ان کے سوال کو پیش کرکے اس کا جواب دے دیا گیا ہے۔ لیکن بعض پہلو قرآن کریم کے بے مثل ہونے کے ایسے رہ جاتے ہیں جن کے متعلق سوال کرنے کا بھی کفار کو خیال نہیں آسکتا تھا۔ اگر ان کا بیان کرنا بھی کفار کے سوالات پر منحصر رکھا جاتا تو وہ پہلو پوشیدہ ہی رہتے۔ اس لئے ان پہلوؤں کو قرآن کریم نے خود سوال پیدا کرکے بتا دیا اور اس طرح قرآن کریم کی تکمیل کے سب پہلوؤں کو روشن کر دیا۔ فتبارک اللہ احسن الخالقین۔
اب میں تفصیل کے ساتھ ایک ایک مطالبہ کو الگ الگ لے کر بتاتا ہوں کہ کس طرح ان آیات میں قرآن کریم کی مختلف خوبیوں کے مقابلہ کی دعوت دی گئی ہے۔ اور ہر جگہ کے مناسب حال زیادہ یا کم کلام کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
سب سے بڑا مطالبہ سارے قرآن کی مثل لانے کا ہے اور یہ سورہ بنی اسرائیل میں ہے۔ اس مطالبہ میں یہ شرط نہیں رکھی گئی کہ جس کلام کو منکر پیش کریں اسے خداتعالیٰ کی طرف بھی منسوب کریں بلکہ جائز ہے کہ ان کا پیش کردہ کلام مفتریات میں سے نہ ہو۔ اور ان کا صرعف یہ دعویٰ ہو کہ گو ہم نے یہ کلام خود بنایا ہے اور خداتعالیٰ کی طرف سے نہیں ہے لیکن یہ کلام قرآن کریم کی مثل یا اس سے بڑھ کر ہے۔ چونکہ مثل کی حدبندی بھی ضروری تھی کہ وہ کلام کس امر میں مثل ہو اس لئے اس کی تشریح بھی خود کردی اور فرمایا کہ ولقد صرفنا للناس فی ھذا القران من کل مثل فابی اکثرالناس الا کفورا اس کلام میں ہر پہلو سے لوگوں کے فائدہ کے لئے ہر اک ضروری دینی امر پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ لیکن پھر بھی بہت سے لوگ اس کے انکار پر مصر ہیں۔ یہی چیز ہے جس میں مثل کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اگر فی الواقع وہ اس کلام کو انسانی کلام سمجھتے ہیں تو چار خوبیوں والا کلام پیش کریں۔ جو اپنی خوبیوں میں قرآن کریم کے برابر ہو۔
(۱) اس میں ہر ضروری دینی مسئلہ پر روشنی ڈالی گئی ہو۔ یعنی اعتقادات، فلسفۂ اعتقادات، صفات باری اور فلسفۂ ظہور صفات باری، علم کلام عبادات، فلسفۂ عبادات، علم اخلاق، فلسفۂ اخلاق، معاملات، فلسفۂ معاملات، مدنیت، اقتصادیات، سیاسیات کا جو حصہ مذہب سے تعلق رکھتا ہے اور اس کا فلسفہ معاد اور اس کے متعلق تمام امور وغیرہ وغیرہ سب امور ضروریہ پر اس میں روشنی ڈالی گئی ہو۔
(۲) وہ بحث جو ان امور کے متعلق کی گئی ہو سیرکن ہو نہ صرف وسعت کے رو سے احاطہ ہو یعنی سب علوم کے متعلق کچھ نہ کچھ بحث ہو بلکہ حق کی گہرائی کا بھی احاطہ ہو اور ہر مسئلہ کے ہر پہلو کو پیش کرکے اس میں ہدایت دی گئی ہو۔
(۳) وہ تمام تعلیم باوجود اپنی وسعت اور باریکی کے مضرت رساں نہ ہو۔ بلکہ اس میں نفع ہی نفع ہو۔
(۴) اس میں کسی ایک قوم یا طبقہ کے فائدہ کو مدنظر نہ رکھا گیا ہو بلکہ تمام بنی نوع انسان کی فطرت کومدنظر رکھا گیا ہو۔ اور ہر قسم کی طبیعت اور ہر قسم کے حالات اور ہر درجہ اور ہر فہم کے انسان کے متعلق اس میں ہدایت موجود ہو۔
چونکہ قرآن کریم ابھی مکمل نہ ہوا تھا اس لئے یہ نہیں فرمایا کہ تم ابھی اس کی مثل لے آؤ بلکہ یہ فرمایا ہے کہ نہ لاسکو گے یعنی نہ اس کی موجودہ حالت میں اور نہ اس وقت جب یہ مکمل طورپر نازل ہو جائے گا۔ حق یہی ہے کہ قرآن کریم نے ایسے رنگ میں روحانی امور پر بحث کی ہے کہ اوپر کے چاروں امور کے مقابلہ میں اس قدر کلام میں بھی کوئی شخص اس کی کوئی مثل نہیں لاسکتا تھا۔ جو اس وقت تک نازل ہوچکا تھا اور اس وقت کے لحاظ سے قرآن کہلاتا تھا۔
اس آیت کے مطالب میں ایک اور امر کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے جس کا بیان کرنا فائدہ سے خالی نہ ہوگا۔ اور وہ یہ کہ اس میں علم الارواح کے ماہرین کو بھی جنہیں انگریزی میں سپریچولسٹ کہتے ہیں مخاطب کیا گیا ہے اور جن سے مراد وہی ارواح ہیں جن سے تعلق پیدا کرکے روحانیات کی باریکیاں معلوم کرنے کے علم الارواح کے علماء مدعی ہیں اور بتایا ہے کہ قرآن کریم کی مثل نہ تو انسان خود لاسکتے ہیں اور نہ پوشیدہ ارواح کی مدد سے لاسکتے ہیں۔ جن کی مدد کا ان کو دعویٰ ہے۔ اس جگہ جن سے مراد وہ جنات نہیں کہ جو عوام الناس میں مشہور ہیں کیونکہ ان کی مدد سے کلام لانے کا مطالبہ ایک مہمل بات ہوجاتی ہے۔ نیز اس آیت سے پہلے ویسئلونک عن الروح قل الروح من امر ربی بھی مزکور ہے۔ جس سے ظاہر ہے کہ اس جگہ ارواح کا ہی ذکر ہے نہ کہ جنات کا۔ (تفصیل کے لئے دیکھو اس آیت کی تفسیر بنی اسرائیل رکوع ۱۰ میں)
دوسری آیت جس میں کفار کا اعتراض بیان کیا گیا ہے کہ اس کے پاس خزانہ اور ملک نہیں اس کے جواب میں فرمایا کہ اگر یہ درست ہے تو تم دس سورتیں مفتریات کی اس کے مقابلہ میں لے آؤ۔ پس اس جگہ سورتوں کو بطور خزانہ کے پیش کیا اور مفتریات کا مطالبہ کرکے بتایا ہے کہ اگر اس کا دعویٰ وحی بالملائکہ کا جھوٹا ہے اور اس کے ساتھ ملائکہ نہیں آئے تو تم بھی زیادہ نہیں تو دس سورتیں ایسی پیش کردو جن کے متعلق یہ دعویٰ کہ ملائکہ نے باذن الٰہی ہم پر اتاری ہیں۔ پھر دیکھو کہ تمہارا کیا انجام ہوتا ہے اور اگر تم میں یہ جرأت نہیں کہ تم ایسا جھوٹا دعویٰ کرسکو تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کس طرح خیال کرسکتے ہو کہ اس قدر افترا کررہا ہے۔ اور اگر افترا کررہا ہے تو پھر خداتعالیٰ کی گرفت سے محفوظ کیوں ہے۔ غرض اس جگہ عقلی مقابلہ کے ساتھ آسمانی مقابلہ کو بھی شامل کیا گیا ہے اور یہ جو اس جگہ فرمایا کہ دس سورتیں ایسی لاؤ اس کی یہ وجہ ہے کہ اس جگہ قرآن کریم کے ہر رنگ میں مکمل ہونے کا دعویٰ نہ تھا بلکہ کلام بعض القرآن کے متعلق تھا۔ یعنی مخالف معترض تھا کہ اس کے بعض حصے قابل اعتراض ہیں جیسا کہ آیت فلعلک تارک بعض مایوحی الیک سے ظاہر ہے اور اسی طرح کفار کے اس سوال سے بھی ظاہر ہے کہ اس کے پاس خزانہ اور ملک نہیں۔ پس اس جگہ سرے قرآن کے مقابلہ کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ یہ مطالبہ کیا ہے کہ تم قرآن میں جو بھی کمزور سے کمزور حصہ سمجھتے ہو اس کے مقابلہ میں دس سورتیں بنا کر پیش کردو تا تمہارے دعوے کی آزمائش ہو جائے۔
دس کا عدد اس واسطے استعمال کیا کہ یہ عدد کامل ہے اور چونکہ معترض کے دعویٰ کو رد کرنا تھا اس وجہ سے اس کو دس سورتیں بنانے کو کہا کہ تم کو ایک مثال نہیں دس مثالیں بنانے کی اجازت دیتے ہیں۔ پس یہاں دس کا لفظ اس لئے نہیں رکھا گیا کہ وہ ایک سورۃ تیار کرسکتے تھے بلکہ اس لئے کہ ان کے اس اعتراض کو دور کرنے کا بہترین ذریعہ یہی تھا کہ انہیں کئی مواقع اعتراض کے دیئے جاتے اور سب اس لئے نہیں کہا کہ اس وقت جن معترضوں کا ذکر تھا وہ صرف بعض حصوں کو قابل اعتراض قرار دیتے تھے سب کو نہیں۔ غرض سورۂ بنی اسرائیل میں چونکہ تکمیل کا دعویٰ تھا اس میں قرآن شریف کی مثل کا مطالبہ کیا گیا اور سورۂ ہود میں چونکہ کفار کے اس اعتراض کا جواب تھا کہ بعض حصے غیرمعقول ہیں اس لئے فرمایا کہ دس ایسے حصے جو تمہارے نزدیک سب سے کمزور اور قابل اعتراض ہوں تم انہیں کے مقابل میں کوئی کلام بناکر پیش کردو۔ تاکہ کفار یہ نہ کہیں کہ ہمیں صرف ایک اعتراض کا حق دیا تھا اور اس کا مقابلہ کرنے میں ہم سے غلطی ہو گئی۔
تیسرا مقام جس میں قرآن کریم کی بے مثلی کا دعویٰ ہے سورۂ یونس ہے اس میں ایک سورۃ کا مطالبہ کیا ہے جو پہلے دونوں مطالبوں سے کم ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ مطالبہ اپنے ایک دعویٰ کے ثبوت کے لئے تھا نہ کہ کفار کے اعتراض کی تردید میں۔ اس جگہ اس آیت سے پہلے دعویٰ کیا گیا تھا کہ سب تصرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور اس کے ثبوت میں قرآن کریم کو پیش کرکے اس کے متعلق پانچ دعوے کئے تھے۔ وماکان ھذا القران ان یفتری من دون اللہ ولکن تصدیق الذی بین یدیہ وتصیل الکتاب لاریب فیہ من رب العالمین۔ یعنی اول اس میں ایسی تعلیم ہے جسے انسان بنا ہی نہیں سکتا۔ دوم پہلی کتب کی اس میں تصدیق ہے۔ سوم اس میں پہلی کتب کے نامکمل احکام کو مکمل کیا گیا ہے۔ چہارم یہ کلام بالکل محفوظ اور انسانی دستبرد سے پاک ہے۔ پنجم اس کی تعلیم تمام قسم کے انسانوں اور تمام زمانوں کے لئے ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ اگر یہ سچ نہیں تو پھر تم بھی ایک سورۃ ایسی بناکر پیش کردو جس میں وہ پانچ باتیں جو بیان کی گئی ہیں ایسے مکمل طور پر بیان ہوں جیسی کہ اس سورۃ یعنی یونس میں بیان کی گئی ہیں۔ لیکن اگر ایک سورۃ کے مقابلہ میں بھی تم کوئی کلام نہ پیش کرسکو تو پھر سمجھ لو کہ سارے کلام میں کس قدر کمالات مخفی ہوں گے اور ان کا بنانا انسانی طاقت سے کس قدر بالا ہوگا۔ غرض کہ اس جگہ مثلہ سے مراد ان پانچ کمالات کی مثل والا کلام ہے جو سورۂ یونس میں بیان کئے گئے ہیں۔
اب وہی آخری آیت یعنی فلیاتوابحدیث مثلہ ان کانوا صدقین (سورہ طور ع۲) کہ اگر تم سچے ہو تو کوئی ایسی ہی بات پیش کرکے دکھاؤ۔ میرے نزدیک اس آیت میں سب سے چھوٹا مطالبہ ہے اور وہ صرف ایک مثال کا ہے۔ خواہ وہ ایک سورۃ سے بھی چھوٹی ہو اور یہ مطالبہ بھی اپنے دعوے کے ثبوت میں ہے نہ کہ کفار کے دعوے کے رد میں۔ اور وہ دعویٰ وہی ہے جو اس سورۃ کے شروع میں کیا گیا ہے۔ یعنی والطور وکتاب مسطور فی دق منشور والبیت المعمور والسقف المرفوع والبحر المسجود ان عذاب ربک لواقع مالہ من دافع یعنی یہ کتاب جس کا وعدہ طور پر دیا گیا تھا اور جو لکھی جائے گی اور ہمیشہ پڑھی جائے گی اور دنیا میں پھیلائی جائے گی اور اسلام جس کے متبعین یی تعداد بہت بڑھ جائے گی اور نہ صرف عوام بلکہ اعلیٰ طبقہ کے لوگ روحانی و جسمانی فضائل والے اس میں داخل ہوں گے۔ اور یہ روحانیت کا چشمہ جو مختلف ملکوں کو سیراب کرے گا ان دونوں امور کو ہم بطور قیامت کی دلیل کے پیش کرتے ہیں۔ اس ذکر کے بعد فرمایا کہ کیا یہ لوگ اس کلام کو بناوٹی کہتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو جو جو اور جس جس قسم کی پیشگوئیاں اوپر پیش کی گئی ہیں ان کی مانند یہ بھی ایک پیشگوئی پیش کردیں۔ اور مفتریات کی بھی ہم شرف نہیں لگاتے۔ انہیں اجازت ہے کہ یہ چاہیں تو پچھلی الہامی کتب سے ہی کوئی ایسی مثال نکال کر پیش کردیں مگر یاد رکھیں کہ یہ اس کی نظیر کہین سے نہیں لاسکتے۔ اس مطالبہ میں خداتعالیٰ کی طرف منسوب کرنے کی بھی کوئی شرط نہیں اور نہ یہ شرط ہے کہ اپنے پاس سے کوئی پیشگوئی کریں۔ بلکہ اجازت دی ہے کہ خواہ خود بنالیں یا پچھلی کتب سے جو خواہ الہامی ہوں خواہ غیرالہامی نکال کر پیش کردیں اور پھر مطالبہ بھی نہایت چھوٹا رکھا ہے۔ کہ ایسی ایک ہی پیشگوئی پیش کردیں۔ حالانکہ قرآن کریم میں اور بھی عظیم الشان پیشگوئیاں ہیں اور پھر دشمن کے عاجز رہنے کی وجہ بھی بتادی ہے کہ ایسی پیشگوئی کے بیان کرنے کے لئے تو زمین اور آسمان کے خالق اور خزانوں کے مالک اور نگراں اور روحانی ترقی کے مالک اور غیب کے مالک کی ضرورت ہے اور یہ باتیں ان میں نہیں۔ پس یہ کیونکر اس کی مثل بناسکتے ہیں۔
دوسرے حصہ کو یعنی پہلی کتب سے مثال نہ لاسکنے کے دعویٰ کو رد کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ کیونکہ وہ کتب سچی تھیں۔ صرف درجہ کا سوال تھا۔ یہ مطالبہ بھی باقی مطالبوں کی طرح اب تک قائم ہے۔ پھر کیا کوئی انسان خواہ کسی مذہب کا ہو سورۂ طور کی اس آیۃ کی مثل لانے کا دعویٰ کرسکتا ہے؟ اگر ہے تو آگے آکر اسے پیش کرے۔
پانچواں مطالبہ سورۂ بقرہ میں ہے اور اس میں بھی سورۂ یونس کی طرح ایک سورۃ لانے کا مطالبہ ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے۔ وان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا فاتوا بسورۃ من مثلہ وادعوا شہداء کم من دون اللہ ان کنتم صدقین۔ اس جگہ بھی اپنے دعویٰ کی ہی مثل طلب کی ہے اور وہ دعویٰ یہ ہے ذلک الکتاب لاریب فیہ ھدی للمتقین۔ سورۂ یونس کی آیت کے پہلے بھی لاریب فیہ ہے۔ گویا ایک سورۃ کی مثل کے مطالبہ کا لاریب فیہ سے خاص جوڑ ہے۔ اس مطالبہ سے پہلے یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ قرآن کریم ھدی للمتقین ہے۔ یعنی اعلیٰ مدارج روحانیہ تک پہنچاتا ہے۔ پس فرمایا کہ اگر قرآن کریم کے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے میں تمہیں کوئی شک ہے تو اس کے روحانی اثر کا مقابلہ کرلو۔ کوئی ایک ہی سورۃ لے آؤ جو قرآن کریم کے مقابلہ میں روحانی تاثیرات رکھتی ہو۔
قرآن کریم میں یہ تاثیر ہے کہ اس کی کوئی سورۃ بھی آدمی پڑھے اس کے دل میں اعلیٰ سے اعلیٰ روحانی تاثیرات پیدا ہونے لگیں گی۔ گویا بجائے شکوک پیدا کرنے کے وہ شکوک کو قطع کردیتا ہیے۔ اور لوگوں کو ایسے مقامات تک پہنچادیتا ہے کہ وہاں شک باقی ہی نہیں رہتا اور یہ تعلق باللہ کا مقام ہے۔ یہ مقام صرف قرآن کریم کی تلاوت سے حاصل ہوتا ہے۔ دوسرا کوئی کلام اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا اور قرآن کریم کی ہر اک سورت ان روحانی تاثیرات میں ایسی بے مثل ہے کہ کوئی اور کلام اس کے مقابلہ میں نہیں ٹھہرسکتا۔
اوپر کی تشریحات سے یہ امر ثابت ہے کہ درحقیقت یہ پانچوں مطالبے الگ الگ ہیں اور سب ایک ہی وقت میں قائم ہیں۔ کوئی مطالبہ کسی دوسرے مطالبہ کو منسوخ نہیں کرتا۔ اور سب غلطی اس امر سے لگی ہے کہ خیال کرلیا گیا ہے کہ جہاں جہاں مثل طلب کی گئی ہے وہاں صرف فصیح عربی کی مثل طلب کی گئی ہے۔ اور سب آیتوں میں ایک ہی مطالبہ ہے۔ حالانکہ معاملہ بالکل برعکس ہے۔ ان پانچ سورتوں میں ایک ہی مطالبہ نہیں بلکہ مختلف مطالبے ہیں اور ہر مطالبہ کے مناسب حال پورے قرآن یا بعض قرآن کی مثل طلب کی گئی ہے۔
اب رہا یہ سوال کہ آیا ان مطالبات میں فصاحت وبلاغت کا مطالبہ شامل ہے یا نہیں۔ سو اس کا جواب یہ ہے کہ یقینا شامل ہے۔ لیکن ضمنی طور پر۔ نہ کہ اصل مقصود کے طور پر۔ کیونکہ اعلیٰ مطالب بغیر اعلیٰ الفاظ اور عمدہ تراکیب کے ادا ہی نہیں ہوسکتے۔ پس چونکہ قرآن کریم بہترین مطالب پر حاوی ہے اس لئے ضروری تھا کہ اس کے لئے بہترین الفاظ اور بہترین طریقہ ادائیگی کو اختیار کیا جاتا۔ ورنہ اس کے مطالب مشتبہ رہتے اور جب قرآن کریم کا فصیح ترین الفاظ اور بلیغ ترین عبارات میں نازل ہونا اس کے مطالب کے لحاظ سے ضروری تھا اور وہ اسی رنگ میں نازل ہوا ہے تو جس جس حصہ کی مثل کا مطالبہ کیا گیا ہے اس میں فصاحت و بلاغت کا مقابلہ بھی ضرور شامل رہے گا۔
۱۴؎
فرماتا ہے کہ اگر یہ لوگ اس چیلنج کو قبول نہ کریں تو اس سے یہ ثابت ہوجائے گا کہ یہ کلام خداتعالیٰ کے علم پر مشتمل ہے۔ اور اس میں ایسے امور بیان ہوئے ہیں جنہیں انسان دریافت نہیں کرسکتا۔ تبھی تو ہر انسان اس کی مثل لانے سے قاصر ہے۔ دوسرے اس سے یہ بھی ثابت ہوجائے گا کہ خدا ایک ہی ہے۔ کیونکہ ایک سے زائد خدا ہوں تو جب انہیں بھی قرآن کریم کی مچل پیش کرنے کا چیلنج دیا گیا ہے تو کیوں نہ وہ ایک ایسا ہی کلام پیش کرکے اسے جھوٹا ثابت کریں۔ سب طرف سے خاموشی کا ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ خدا ایک ہی ہے اور اس کا کوئی ثانی نہیں۔
اس جگہ ایک سوال پیدا ہوسکتا تھا کہ یہ چیلنج حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تک کے لئے ہی تھا یا اب بھی قائم ہے۔ اس سوال کا جواب جمع مخاطب کی ضمیر استعمال کرکے دے دیا گیا ہے کہ یہ چیلنج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے لئے خاص نہیں بلکہ ہر زمانہ کے لئے کھلا ہے۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے خاص ہوتا تو اس کی جگہ یہ فرماتا کہ اگر وہ تیرے چیلنج کا جواب نہ دیں۔ لیکن فرمایا یہ ہے کہ اگر ’’تمہارے‘‘ چیلنج کا جواب نہ دیں۔ غرض لفظ ’’تمہارے‘‘ کے استعمال سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر زمانہ میں مسلمانوں کو اس چیلنج کے پیش کرنے کا اختیار ہے۔ اور قرآن کریم ان خوبیوں میں ہمیشہ بے مثل رہے گا۔
فھل انتم مسلمون کا میرے نزدیک خطاب کفار سے ہے اور انہیں توجہ دلائی گئی ہے کہ قرآن کریم کے منزل من اللہ ہونے اور اس کے معارضہ سے ہر ایک غیراللہ کے عاجز ثابت ہونے کے بعد یہی کیا تم اسلام نہ لاؤگے۔
۱۵؎ حل لغات
وفی فلانا حقہ توفیۃ اعطاہ ایاہ وافیا (ای کثیرا) تاما (اقرب) وفی کے معنی ہوتے ہیں کسی کو اس کا حق پورا اور کثرت کے ساتھ ادا کر دیا۔
تخسہ یبخس بخسا۔ نقصہ کم کر دیا ومنہ لاتبخص اخاک حقہ اور اس سے یہ محاورہ ماخوذ ہے کہ اپنے بھائی کا حق کم نہ کر۔ اوعابہ یا اس کے معنی عیب لگانے کے ہوتے ہیں۔ وبخس الناس اخزمنہم شیئا باسم العشر اور اس کے معنی عشر یعنی ٹیکس کے وصول کرنے کے بھی ہوتے ہیں۔
تفسیر
فرماتا ہے جو کوئی ورلی زندگی کو اس کی زینت یعنی اموال و دولت کو چاہتا ہے ہم اس کو پورا پورا حق دے دیں گے۔ یعنی جس امر کے پیچھے وہ پڑا ہے اس سے محروم نہیں کیا جاے گا۔ جو لوگ یہ کہا کرتے ہیں کہ مسیحیوں کے پاس اس وت بڑی دولت ہے انہیں اس آیت پر غور کرنا چاہئے۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے دنیا کا ملنا دین کے حصول پر منحصر نہیں۔ دین سے بیگانہ ہوکر بھی انسان دنیا حاصل کرسکتا ہے۔ کیونکہ حصول دنیا کے لئے بعض اور قواعد بھی ہہیں۔ یعنی اس کے حصول کے لئے اصول طبیعات کے مطابق کوشش کرنا۔ پس دنیا کا ملنا بگیر دوسرے نشانات کی شمولیت کے خدا رسیدہ ہونے کی علامت نہیں ہے۔ ہاں یہ شرط لگائی گئی ہے کہ خالص دنیوی اعمال کا بدلہ ہر انسان کو اس دنیا میں ملتا ہے لیکن جن اعمال میں دین کو شامل کرلیا گیا ہو مگر خداتعالیٰ کی منشاء کے مطابق وہ عمل نہ ہوں ان کا بدلہ نہیں ملتا۔ اعمالھم فیہا سے اسی طرف اشارہ ہے۔
لایبخسون یعنی دنیاوی اعمال میں ان پر کوئی عیب نہ لگایا جائے گا۔ یا یہ کہ اگر وہ ظلم نہ کریں گے تو اس دنیا میں ان پر کوئی عذاب نہ آئے گا۔ خواہ وہ دین کی طرف توجہ نہ کریں۔ عذاب دینی امور میں اسی وقت آتا ہے جب استہزاء اور شرارت کو استعمال کیا جائے۔ خالی انکار پر اس دنیا میں عذاب نہیں آتا۔ کیونکہ اصل دارالجزاء دوسرا جہان ہے۔
۱۶؎ حل لغات
حبط۔ العمل حبوطا وحبطا فسدوھدار۔ بے فائدہ اور بے ثمرہ ہو گیا اکارت ہو گیا۔ ماء البئر ذھب ذھابا لایعود کماکان۔ کوئیں کا پانی ہمیشہ کے لئے منقطع ہو گیا جاتا رہا۔ (اقرب) بطل فسد اوسقط حکمہ خراب ہو گیا۔ اکارت ہو گیا۔ کالعدم ہو گیا۔ (اقرب)
تفسیر
یہ آیت فھل انتم مسلمون کے جواب میں ہے کہ تم جو دین کی طرف رغبت نہیں کرتے اگر تم مسلمان نہ ہوگے تو دنیا کے سامان تو تمہیں مل جائیں گے لیکن خداتعالیٰ کی طرف سے تمہیں کوئی ترقی نہ ملے گی۔
ماصنعوافیہا میں ضمیر مؤنث الحیوۃ الدنیا کی طرف بھی پھیری جاسکتی ہے۔ اور آخرۃ کی طرف بھی۔ پہلی صورت میں یہ معنی ہوں گے کہ دنیا میں جو دنیا کی خاطر کام کئے ہوں گے چونکہ ان کا بدلہ مل چکا ہوگا۔ اس لئے اب وہ کام نہ آسکیں گے اور دوسری صورت میں یعنی آخرت کی طرف ضمیر پھیرنے کی صورت میں یہ معنی ہوں گے کہ دنیا کے کام چونکہ خداتعالیٰ کے مقرر کردہ قوانین کے ماتحت تھے ان کا بدلہ تو مل گیا مگر اخروی کام چونکہ مقررہ قوانین کے خلاف تھے بوجہ ناقص ہونے کے فائدہ نہیں دیں گے۔ اور جس مقصد کے لئے تھے وہ حاصل نہ ہوگا۔
۱۷؎ حل لغات
الامام من یؤتم بہ جس کی اقتداء کی جائے۔ للمذکر والمؤنث یہ لفظ مذکر اور مؤنث دونوں کے لئے آتا ہے۔ ومنہ قامت الامام وسطھن کہتے ہیں (عورتوں کی) امام نماز میں ان کے درمیان کھڑی ہوئی۔ ماامتثل علیہ الامثال۔ جس چیز کو کسی کام کے کرنے میں نمونہ ٹھہراکر اس کے مطابق کام کیا جائے۔ اس لفظ کے اور معنی بھی ہیں جو یہاں چسپاں نہیں ہوتے۔ مگر معنوں کے سمجھنے میں مدد دے سکتے ہیں اور وہ یہ ہیں الحفیظ یمد علی البناء فیبنی۔ یعنی وہ تاکہ جس کے ساتھ معمار دیور کی کجی کومعلوم کرتے ہیں۔ (اقرب)
الرحمۃ۔ رقۃ القلب وانعطاف یقتضی التفضل والاحسان والمغفرۃ۔ یعنی رحمت دل کی نرمی اور ایسے جذبۂ ترحم کو کہتے ہیں جو فضل احسان اور بخشش کرنے کی تحریک کرے۔ (اقرب)
الاحزاب۔ حزب کی جمع ہے۔ الحزب الطائفۃ جتھا۔ جماعۃ الناس۔ لوگوں کا گروہ۔ جند الرجل واصھابہ الذین علی رأیہ۔ کسی آدمی کے ساتھی اور وہ لوگ جو اس کے خیال کے مطابق ہوں۔ ومنہ فی القران اولئک حزب الشیطان اور انہی معنوں میں قرآن کریم میں حزب الشیان کے الفاظ آئے ہیں۔ وکل قوم تشاکلت قلوبہم واعمالھم فہم احزاب وان لم یلق بعضہم بعجا۔ اور تمام وہ لوگ جن کے دلی خیالات اور اعمال ہم رنگ ہوں۔ احزاب کہلاتے ہیں خواہ ایک دوسرے کو انہوں نے دیکھا بھی نہ ہو۔ (اقرب)
المریۃ۔ استخراج ماعند الفرس من الجری گھوڑے کو جس قدر اس کی طاقت تھی دوڑایا۔ المریۃ والمریۃ الشک شک۔ ویقولون مافیہ مریۃ ای جدل کہتے ہیں کہا س میں مریہ نہیں ہے یعنی اختلاف کی گنجائش نہیں ہے۔ (اقرب)
تفسیر
قرآن شریف اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی پرکھنے کے لئے تین گر بتائے گئے ہیں۔ اور فرمایا ہے کہ جس میں یہ تین باتیں پائی جائیں وہ جھوٹا نہیں ہوسکتا۔ افمن کان کا جواب کمن ھوکاذب محذوف ہے۔ یعنی کیا اوپر کی صفات والا شخص جھوٹوں کے زمرہ میں شامل ہوسکتا ہے؟ یا یہ کہ جو ایسا ہوکیا وہ اپنے مخالف کی طرح ہوسکتا ہے۔ اور اس صورت میں یوں عبارت ہوگی۔ افمن کان علی بینۃ کمن لیس علی بینۃ۔ یہ عربی کا قاعدہ ہے کہ عام طور پر ایسے فقروں میں جواب کے حصے کو حذف کر دیا کرتے ہیں۔
دنیا میں اس سچائی سے تعلق رکھنے والے تین قسم کے لوگ ہوسکتے ہیں۔
(۱) ایک وہ جو اس وقت اس کے مخاطب ہوں۔
(۲) وہ جو اس وقت تو مخاطب نہ ہوں لیکن آندہ مخاطب بننے والے ہوں۔
(۳) تیسرے وہ لوگ جو پچھلے زمانہ میں گذر چکے ہوں۔ لیکن وہ اس آنے والے تغیر کی امید رکھتے تھے اگر ان تینوں قسم کے گواہوں سے کسی امر کی سچائی ثابت ہو تو اس سچائی میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ تینوں کے تینوں مانے اس کے حق میں گواہی دیتے ہیں۔ جو لوگ کسی صداقت کے منتظر ہوں لیکن ابھی وہ صداقت ظاہر نہ ہوئی ہو ان کے ایمان کی بنیاد خالص طور پر امور غیبیہ پر ہوتی ہے۔ اور جن لوگوں کے سامنے وہ صداقت آگئی ہو وہ اس کو دو پہلوؤں سے دیکھتے ہیں۔
(۱) کیا اس کی ذات میں کوئی ایسا ثبوت موجود ہے جس سے اس کا سچائی ہونا ثابت ہوتا ہو۔
(۲) اس سچائی کے متعلق جو پہلی کتب میں خبریں تھیں کیا وہ اس کے ذریعہ سے پوری ہوجاتی ہیں۔ جب یہ زمانہ بھی گزر جاتا ہے اور ایسے لوگ دنیا میں پیدا ہوتے ہیں جن کے لئے یہ سب باتیں قصہ ہوجاتی ہیں تو ان کے لئے ایک تیسری شہادت پیدا کی جاتی ہے اور وہ اس صداقت کے ثمرات ہیں۔ وہ لوگ علاوہ پہلی دونوں قسم کی دلائل کے اس امر پر بھی غور کرسکتے ہیں کہ اس صداقت کے ثمرات کیا پیدا ہوئے اور اگر اس کے ثمرات ان کے زمانہ تک پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں تو وہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ صداقت ان کے زمانہ سے بھی ویسا ہی تعلق رکھتی ہے جیسا کہ پہلے زمانوں سے۔
درجہ کے لحاظ سے اندرونی شہادت سب سے اہم ہوتی ہے کیونکہ وہ زمانۂ حال اور آئندہ دونوں زمانوں کے لوگوں کے لئے گواہ ہوتی ہے۔ اور نیز اس لئے کہ وہ دوسری چیزوں کی طرف توجہ کرنے کی زحمت سے آزاد کردیتی ہے اور خود اپنی ذات میں ہی صداقت کو ثابت کر دیتی ہے۔
دوسرے نمبر پر اس دلیل کو اہمیت حاصل ہوتی ہے جو صداقت کے ثمرہ کے طور پر آتی ہے۔ اس لئے کہ وہ بھی بعد میں آنے والے مخاطبین کے لئے ضروری ہے اگر وہ نہ ہو تو بعد میں آنے والوں کے لئے صداقت مشتبہ رہے۔ کیونکہ کسی چیز کا خالی صداقت ثابت ہونا اس پر عمل کرنے کے لئے کافی محرج نہیں ہوتا۔ بلکہ ضروری ہوتا ہے کہ یہ بھی ثابت کیا جائے کہ وہ صداقت موجودہ زمانہ میں بھی قابل عمل ہے۔ اور یہ بات نہیں ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی اور صداقت ظاہر ہوکر اسے منسوخ کرچکی ہے۔ اور جب کسی صداقت کے تازہ ثمرات ظاہر ہوتے ہیں تو یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ وہ صداقت مووجدہ زمانہ کے لئے بھی ویسی ہی مفید ہے جیسے کہ گزشتہ مانہ کے لوگوں کے لئے تھی۔
تیسرے نمبر پر اہمیت ان گزشتہ پیشگوئیوں کو حاصل ہوتی ہے جو لوگوں کو کسی صداقت کی امید دلاتی چلی آئی ہوں۔ یہ دلیل بھی اپنی ذات میں کارآمد ہوتی ہے کیونکہ ایمان کے لئے لوگوں کے دلوں کو تیار رکھتی ہے۔ گو اس سے فائدہ وہی لوگ اٹھاتے ہیں جن کے زمانہ میں وہ صداقت ظاہر ہو جس کی خبر پیشگوئیوں میں دی گئی ہو۔ قرآن کریم کی تائید میں ان تینوں قسم کے دلائل کو پیش کیا گیا ہے۔ وہ اپنی ذات میں بھی صداقت کے ثبوت رکھتا ہے۔ اس سے پہلے کی کتب میں بھی اس کی تصدیق موجود ہے اور بعد میں بھی اس کے ثمرات ایسے طور پر ظاہر ہوتے رہیں گے کہ لوگوں کو اس کے انکار کی گنجائش نہ ہوسکے گی۔ چنانچہ سب سے پہلے فرماتا ہے کہ قرآن کریم یا اس کا لانے والا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خداتعالیٰ کی طرف سے اپنے ساتھ ایسے دلائل رکھتا ہے جو قطعی طور پر ثابت کرتے ہیں کہ وہ خداتعالیٰ کی طرف سے ہے اور چونکہ قرآن کریم کا زمانہ ممتد ہونے والا تھا اور اس نے بعید ترین زمانہ کے لوگوں کو بھی ہدایت دینی تھی اس لئے فرمایا کہ وہ یتلوہ شاہد منہ۔ اس کی صداقت کو ثابت کرنے کے لئے جب اتنا عرصہ گذر جائے گا کہ پہلے دلائل قصوں کے رنگ میں رہ جائیں گے تو خداتعالیٰ کی طرف سے ایک نیاگواہ آجائے گا۔ پھر فرمایا کہ علاوہ ان موجودہ دلائل کے گذشتہ نبیوں نے بھی اس کی خبر دی ہوئی ہے۔ جیسے موسیٰ علیہ السلام کی کتاب ہے کہ وہ امام ہے یعنی لوگوں کو کھینچ کھینچ کر ادھر لاتی ہے اور رحمت ہے کہ قرآن کے ماننے کے لئے اس نے لوگوں کے واسطے آسانیاں کردی ہیں اولئک یؤمنون بہ یعنی جن لوگوں کے لئے موسیٰ کی کتاب امام اور رحمت بن جاتی ہے وہ اس پر ایمان لاتے ہیں۔
یہاں اس سوال کا جواب بھی آجاتا ہے جو کہتے ہیں کہ گزشتہ تیرہ سو سال میں کیوں کوئی مامور نہیں آیا کیونکہ آنے والے کے لئے شاہد کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ شاہد کی ضرورت اسی وقت ہوتی ہے کہ جب کسی صداقت کے متعلق یہ خیال ہو کہ اب بھی یہ ماننے کے قابل ہے یا نہیں۔ پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد اسی وقت کسی مامور کی ضرورت ہوسکتی تھی جب قرآن کریم کے متعلق یہ سوال پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ ماننے کے قابل ہے یا نہیں اور اس کی صداقت قابل عمل ہے یا نہیں اور پچھلے تیرہ سو سال میں کبھی بھی یہ سوال پیدا نہیں ہوا۔ ہاں آج قرآن کے متعلق یہ سوال کئی گروہوں کی طرف سے پیدا ہورہا ہے۔ (اول) خود مسلمانوں کے نزدیک اس کی بعض تعلیمیں اب قابل عمل نہیں رہیں۔ ان میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ جیسے نماز ور وزہ کے احکام، چور کے ہاتھ کاٹنے، پردہ اور سود وغیرہ احکام کے متعلق لوگوں میں سوالات پیدا ہورہے ہیں۔ (دوسرے) بہاء اللہ اور باب جیسے مدعیوں کے ماننے والوں کی طرف سے جو قرآن کریم کی شریعت کو منسوخ قرار دے کر نئی شریعت جاری کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔ (تیسرے) یہ سوال اٹھایا جارہا ہے ان علوم جدیدہ کے محققین کی طرف سے جو تاریخی و عملی رنگ میں قرآن کریم پر حملہ آور ہیں۔ یہ حالات اس زمانے سے پہلے کبھی پیدا نہیں ہوئے۔ اس لئے اس زمانہ سے پہلے کسی شاہد کی بھی ضرورت نہ تھی۔
شاہد منہ کے متعلق مفسرین نے اختلاف کیا ہے۔ بعضوں نے شاہد سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور افمن کان سے مومن مراد لئے ہیں۔ مگر یہ معنی بالکل خلاف عقل ہیں۔ کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے تھے اور مومن پیچھے تھے اور اس آیت میں افمن کان والا وجود پہلے اور یتلوہ شاہد منہ والا پیچھے بتایا گیا ہے۔ بعض نے شاہد منہ کے معنی ابوبکر کے اور بعض نے حضرت علی کے کئے ہیں مگر یہ بھی درست نہیں کیونکہ آیت میں شاھد کے لئے منہ کی شرط لگائی گئی ہے۔ یعنی وہ شاہد خداتعالیٰ کی طرف سے اس شہادت کے لئے حکم پاکر کھڑا ہوگا۔ اور حضرت ابوبکر اور حضرت علی کی طرف سے ہرگز یہ دعویٰ نہ تھا کہ ان کو خداتعالیٰ نے شہادت کے لئے مبعوث کیا ہے۔ بعض لوگوں نے عبداللہ بن سلام کو شاہد قرار دیا ہے۔ لیکن ان پر بھی یہی اعتراض پڑتا ہے۔
پس جاننا چاہئے کہ اس جگہ خصوصیت کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہی ذکر ہے جن کا نزول خداتعالیٰ کی طرف سے اسی رنگ میں ہونا تھا جیسے کہ پہلے بینہ کا نزول ہوا تھا۔ اور جن کی آمد کی غرض یہ تھی کہ وہ اسلام کی صداقت کی شہادت تازہ نشانوں سے دیں جبکہ اسلام کی صداقت اور اس کی قوت قدسیہ کے خلاف بہت سے امور جمع ہونے والے تھے۔
کتاب موسیٰ کی شہادتیں بہت سی ہیں لیکن بڑی موٹی شہادت وہ ہے جو استثناء باب ۱۰ آیت ۱۸ میں ہے۔
موسیٰ علیہ السلام کی کتاب قرآن کریم کے لئے مندرجہ ذیل طریق پر امام و رحمت ہے۔ اول پیشگوئیوں کے ذریعہ سے۔ دوم منہاج نبوت کو واضح کرکے۔ سوم تعلیم کے مقابلہ کے لحاظ سے۔ چہارم اصول شرائع کے سمجھانے میں مدد دے کر۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یتلوہ شاھد منہ میں آئندہ زمانہ میں ایک گواہ کی امید دلائی گئی ہے۔ جو اس کی صداقت کو لوگوں سے منوائے گا۔ نہ کسی ایسے شخص کی جو قرآن کریم کی تعلیم کو منسوخ کرے گا۔ پس اس آیت میں بہائیوں کا رد ہے اور یہ ان پر حجت ہے کیونکہ گو وہ قرآن کریم کو سچا تسلیم کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کا زمانہ اب گزر گیا ہے اور بہاء اللہ کو قرآن کریم کا موعود وجود قرار دیتے ہیں۔ لیکن یہ آیت بتاتی ہے کہ موعود وجود قرآن کریم کو ہمیشہ کے لئے قابل عمل ثابت کرنے کے لئے اور اس کی صداقت کا گواہ بن کر آئے گا۔ نہ کہ اسے منسوخ کرنے کے لئے۔ پس ایسا کوئی شخص جو قرآن کریم کو منسوخ کرتا ہے قرآن کریم کا موعود نہیں ہوسکتا۔
فلاتک فی مریۃ منہ سے مطلق مخاطب مراد ہیں نہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم۔ کیونکہ اس سے پہلے کہا جاچکا ہے کہ اولئک یومنون بہ یعنی ایک ایسی جماعت پیدا ہوچکی ہے جو قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتی ہے۔ پس یہ معنی نہایت ہی خلاف عقل ہوں گے کہ پچھلے بیان کردہ دلائل سے ایک جماعت تو مومنوں کی پیدا ہوچکی ہے لیکن جس پر وہ دلائل نازل ہوئے ہیں وہ ابھی شک میں ہی ہے۔ پس یقینا اس کے معنی یہ ہیں کہ اے مخاطب اس میں شک نہ کیجیئو۔
احزاب کا لفظ جو یہاں آیا ہے اس سے عام طور پر مراد انبیاء کی مخالف جماعتیں ہوتی ہیں۔ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ساری دنیا کے لئے تشریف لائے تھے اس لئے اس جگہ پر ساری دنیا کے مذاہب اور ساری دنیا کی قومیں مراد لی جائیں گی۔
۱۸؎
کیا لطیف بات فرمائی کہ نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والا سب سیے زیادہ ظالم ہوتا ہے۔ اور جھوٹوں پر خداتعالیٰ کی *** ہوتی ہے۔ پس جھوٹے نبیوں اور سچوں میں فرق کرنا فی الحقیقت کچھ مشکل نہیں ہوتا۔ جھوٹے نبی اپنی شکل سے پہچانے جاتے ہیں۔ چنانچہ سچے انبیاء قیامت کے دن جھوٹے انبیاء کی طرف اشارہ کرکے کہیں گے کہ لوگو! دیکھو جھوٹے ایسے ہوتے ہیں تم لوگ اپنے خبث باطن کی وجہ سے ہمیں جھوٹا سمجھتے تھے۔
۱۹؎ حل لغات
العوج اسم لضدا الاستقامۃ ٹیڑھا ہونا۔ الانحناء کجی۔ والعوج یکون فی المعانی کما یکون العوج فی الجسام جس طرح جسموں کے ٹیڑھا ہونے کے لئے عوج کا لفظ ہوتا ہے اسی طرح معانی و صفات کی کجی اور نادرستی کے لئے عوج کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ (اقرب)
تفسیر
ویبغونہا عوجا کے دو معنی ہیں۔ اول یہ کہ اس کے لئے کجی چاہتے ہیں۔ عربی میں کہتے ہیں بغیتک الشرا ای طلبت لک الشر۔ مطلب یہ کہ وہ چاہتے ہیں کہ اس میں کجی آجاوے۔ وہ بگڑ جائے۔ یعنی صرف لوگوں کو ہی نہیں روکتے بلکہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ اس کی خوبی بھی لوگوں کی نگہ سے پوشیدہ ہو جائے اور ایسے طریق اختیار کرتے ہیں کہ لوگوں کی نظر سے کلام الٰہی کا حسن مخفی رہے۔ اور اس میں لوگوں کو عیوب نظر آنے لگیں۔ یہ ایک عام حربہ ہے جو حق کے دشمن چلایا کرتے ہیں۔ وہ ہمیشہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ حق کا حسن پوشیدہ ہوجائے۔ اور ایسے ایسے جھوٹے الزام تراشتے ہیں کہ جن کو سن کر ناواقف لوگ خوبی کو بھی عیب دیکھنے لگتے ہیں۔ دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ یبغونہا میں لاھل کو محذوف سمجھا جائے۔ اور مراد یہ ہو کہ جو لوگ اللہ کے راستہ پر چلنے والے ہیں ان کے لئے کجی چاہتے ہیں یعنی انہیں گمراہ کرنا یا تکلیف میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ یہ معنی بھی مذکورہ بالا محاوہ ہی کے ماتحت آتے ہیں۔
۲۰؎
ارض کے معنی کل زمین کے ہوتے ہیں لیکن جب کسی خاص قوم کا ذکر ہو تو اس وقت ان کی زمین یعنی ان کا ملک مراد ہوتا ہے۔ فرماتا ہے کہ افتراء کرنے والے کبھی بھی ملک میں غلبہ نہیں پاسکتے۔ یعنی ان کی تدابیر دوسروں پر غالب نہیں آسکتیں۔ وہ خود ہی اپنی کوششوں میں الجھ کر رہ جاتے ہیں اور خداتعالیٰ کی طرف سے ان کو نصرت نہیں ملتی اور اس پر افتراء کرنے کی وجہ سے اور اس کے خلاف چلنے کے سبب سے وہ کہیں بھی مددگار نہیں پاتے۔ یہ مطلب نہیں کہ ان کا کوئی دوست نہیں ہوتا۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ ان کا کوئی ایسا دوست نہیں ہوتا جو ان کے کام آسکے اور ان کے مقصد کے بڑھانے میں ممد ہوسکے۔
اس آیت کا یہ بھی مطلب نہیں کہ خداتعالیٰ تو ان کا دوست ہوتا ہے مگر دوسرے لوگ دوست نہیں ہوتے۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ بوجہ افتراء کے خداتعالیٰ تو ان کا دوست ہوہی نہیں سکتا۔ مگر اس کے غضب کی وجہ سے جو ان کے ہمرنگ دوست ہوتے ہیں وہ بھی ان کے کام نہیں آسکتے۔
ضعف کے معنی دگنے کے بھی اور زیادتہ کے بھی ہوتے ہیں۔ پس اس کے دونوں معنی ہیں۔ ایک یہ کہ انہیں دگنا عذاب ہوگا۔ اپنے گناہوں کا بھی اور ان کا بھی جنہیں انہوں نے گمراہ کیا۔ دوسرے یہ کہ ان کا عذاب بڑھتا جائے گا۔ کیونکہ وہ ایک غلط تعلیم پھیلا کر دنیا میں بدی کا بیج پھیلا گئے ہیں۔
ماکانوا یستطیعون السمع وماکانوا یبصرون کا مطلب یہ ہے کہ تعجب ہے کہ جھوٹے مدعی نہ سنتے ہیں نہ دیکھتے ہیں۔ حالانکہ ان سے پہلے دونوں قسم کے نبی گزر چکے ہوتے ہیں۔ سچے بھی اور جھوٹے بھی۔ لیکن نہ ان کے انجام کو دیکھتے ہیں نہ ان کے حالات کو سنتے ہیں۔
۲۱؎ حل لغات
خسر ضد ریح نفع کے مقابل کا لفظ ہے یعنی گھاٹا کھایا۔ ضل گمراہ ہوا۔ ھلک ہلاک ہوا۔ (اقرب) عربی زبان میں یہ لفظ ہمیشہ لازم ہی استعمال ہوتا ہے۔ میں نے بڑی تحقیق کی ہے مگر مجھے نہیں ملا کہ یہ لفظ عربی کے استعمال میں کہیں بھی متعدی استعمال ہوا ہو۔ مگر یہ عجیب بات ہے کہ تمام کے تمام مفسرین خسروا کے معنی اھلکوا کرتے ہیں لیکن تاج العروس والا کہتا ہے کہ سارے اہل تصریف اس کو لازم ہی قرار دیتے ہیں مگر وہ سب غلطی پر ہیں کیونکہ قرآن کریم میں متعدی استعمال ہوا ہے لیکن حق یہ ہے کہ یہ لازم ہی ہے اور افسوس یہ ہے کہ ہماری لغتیں مذہبی اثر کے نیچے ہیں اور تفسیروں کے ماتحت لغت کو بھی کر دیا گیا ہے جس سے اسلام کو فائدہ نہیں پہنچا۔ بلکہ نقصان پہنچا ہے اور کئی معارف قرآنیہ اس تصرف کی وجہ سے لوگوں کی نظر سے مخفی ہو گئے ہیں۔ کاش کوئی شخص ہمت کرکے ایسی لغت تیار کرے جو تفسیروں کے اثر سے بالکل آزاد ہو تاکہ لوگ اس ناجائز دباؤ سے بالکل آزاد ہوجائیں اور قرآن کریم کے سمجھنے میں لوگوں کو سہولت حاصل ہوجائے۔
خسر کے لفظ کے متعلق ہی اگر تفسیروں کا رعب ماننے کی بجائے عربی کے قواعد پر نظر کی جائے تو اسے خلاف محاوہ متعدی بنانے کی ضرورت نہ تھی۔ ہم اس کے معنی اس طرح کرسکتے ہیں جس طرح سفہ نفسہ کے معنی کرتے ہیں۔ یعنی صرف جارمحذوف تصور کرتے ہیں۔ اور جملہ کو یوں تصور کرتے ہیں کہ سفہ فی نفسہ یا تمیز خیال کرتے ہیں۔ جو شاذ و نادر طور پر معرفہ بھی آجاتی ہے۔ اسی طرح ہم خسروا انفسہم کے بھی یہ معنی کرسکتے ہیں کہ اپنے نفسوں کے بارہ میں گھاٹے میں پڑ گئے اور یہ معنی دوسرے معنوں سے زیادہ زودار بھی ہوجاتے ہیں۔ اور یہ مطلب نکلتا ہے کہ ان کا سب فریب خود اپنے ہی نفسوں کے خلاف پڑا ہے۔ تمیز کی صورت میں بھی زور قائم رہتا ہے اور معنی اوپر والے ہی رہتے ہیں۔ خسرالرجل ضل وھلک ہلاک ہوگیا۔ (اقرب)
۲۲؎ حل لغات
لاجرم۔ جرم یجرم جرما۔ قطع کاٹ دیا۔ لاجرم قال الفراء ھی کلمۃ کانت فی الاصل بمنزلۃ لابد ولا محالۃ فجرت علی ذلک وکثرت حتی تحولت الی معنی القسم۔ وصارت بمنزلۃ حقا وھوماخوذ من القطع۔ فراء کا قول ہے کہ لاجرم پہلے لابد یعنی ضرور کے معنی میں استعمال ہوا کرتا تھا پھر کثرت استعمال سے ہوتے ہوتے اس کے معنی قسم کے بن گئے اور حقا یعنی یقینا کے معنی دینے لگا ورنہ اس کے اصل معنی یہی ہیں کہ اسے کوئی کاٹ نہیں سکتا یعنی یہ اٹل بات ہے۔ (اقرب)
تفسیر
یعنی دنیا میں تو یہ لوگ انبیاء کو اپنی شرارتوں سے کچھ نہ کچھ نقصان پہنچالیتے ہیں خواہ وہ عارضی ہی کیوں نہ ہو لیکن آخرت میں سب نقصان انہی کو پہنچے گا۔
۲۳؎ حل لغات
اخبت الی اللہ اطمئن الیہ وتخشع امامہ۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے فروتنی اور عاجزی کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ واصلہ اخبت ای صار الی الخبت ای الارض المتسع المطمئن۔ اور اصل میں یہ اخبت سے نکلا ہے۔ جس کے معنی ایک وسیع اور نشیب والی زمین میں داخل ہوجانے کے ہیں۔ (اقرب) گویا اس لفظ سے اس طرف اشارہ ہے کہ یہ لوگ خداتعالیٰ کے سامنے فروتنی کے ساتھ آکر اطمینان پاتے اور آرام محسوس کرتے ہیں اور سب اطراف سے منہ موڑ کر اس کی طرف جھک جاتے ہیں۔ اور جس طرح کھلی زمین میں چلنے پھرنے میں سہولت ہوتی ہے۔ اسی طرح وہ لوگ خداتعالیٰ کی طرف جھکنے میں اطمینان اور لذت پاتے ہیں۔
تفسیر
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کمالات روحانیہ کے لئے ایمان اور اعمال صالحہ ہی کافی نہیں بلکہ خداتعالیٰ پر یقین اور تسلی اور اس سے محبت کی بھی ضرورت ہے۔ جس طرح بچہ ماں کے پاس جاکر تسلی پاتا ہے یہی حال اس شخص کا ہونا چاہئے جو روحانیت میں ترقی کرنا چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت ہو اور اس پر اعتماد کامل ہو اور اس کی طرف رجوع ہو۔ جب تک یہ بات حاصل نہ ہوگی کبھی بھی قرب الٰہی نصیب نہ ہوگا۔
۲۴؎ حل لغات
الفریق۔ الطائفۃ من الناس اکثر من الفرقۃ۔ لوگوں کا ایک گروہ۔ لیکن یہ لفظ فرقہ کی نسبت زیادہ کثرت افراد کو ظاہر کرتا ہے۔ وربما اطلق الفریق علی الجماعۃ قلت اوکثرت۔ اور بعض دفعہ یہ لفظ مطلق جماعت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ خواہ وہ چھوٹی جماعت ہو یا بڑی۔ (اقرب)
تفسیر
اس آیت میں ایمان و کفر کا مقابلہ کیا ہے۔ مومن کو بینا قرار دیا ہے اور کافر کو اندھا۔ اور مومن کو سننے والا اور کافر کو بہرا۔ قرآن کریم گالی نہیں دیتا بلکہ حقائق بیان کرتا ہے۔ پس ہم یہ خیال نہیں کرسکتے کہ کافر کو یونہی اس نے اندھا اور بہرا کہہ دیا ہے۔ اس مثال میں یقینا کفر کی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے اور اس امر کو سمجھنے کے لئے ہمیں اندھے اور بہرے اور بینا اور سننے والے کے فرق کو معلوم کرنا چاہئے۔ پہلے ہم نابینا اور بینا کو لیتے ہیں۔ سو سب سے پہلا فرق ہمیں ان دونوں میں یہ نظر آتا ہے کہ بینا تو نور کو دیکھ سکتا ہے لیکن اندھا نہیں دیکھ سکتا۔ اسی طرح جو خداتعالیٰ کی محبت رکھنے والے ہوتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے کلام کو پہچان لیتے ہیں لیکن دوسرے نہیں پہچان سکتے۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ اندھا فوراً اپنی مقصود چیز تک نہیں پہنچ سکتا۔ بلکہ ٹھوکریں کھاتا ہوا اور ٹٹولتا ہوا پہنچتا ہے۔ اس کے برخلاف بینا اپنی مقصود چیز تک فوراً پہنچ جاتا ہے۔ تیسرا فرق یہ ہے کہ مقابلہ کے وقت اندھا اپنے اور پرائے میں فرق نہیں کرسکتا۔ بالکل ممکن ہے کہ اپنے ساتھ ہی کو مار بیٹھے لیکن بینا یعنی آنکھوں والا دشمن کو دیکھ کر اس پر حملہ کرتا ہے۔
یہی فرق سچے دین کے متبع اور اس کے منکر میں ہوتا ہے۔ سچے دین کا متبع خداتعالیٰ کے منشاء کو جو روحانیت کے لئے بمنزلہ نور ہے کہ جس سے روحانی راستوں کا علم ہوتا ہے پہچان لیتا ہے لیکن جو شخص سچائی کا منکر ہے اس کی روحانی آنکھ ماری جاتی ہے اور وہ خداتعالیٰ کے منشاء کے پہچاننے سے محروم رہ جاتا ہے اسی طرح سچائی کو پانے والا چونکہ خداتعالیٰ کے الہام کا طالب ہوتا ہے وہ ٹھوکریں نہیں کھاتا۔ بلکہ فوراً اپنے منزل مقصود کو پالیتا ہے۔ اس کے برخلاف جو لوگ اپنی عقل سے کام لینے والے ہوتے ہیں وہ بھی گو کبھی صداقت کو پالیتے ہیں لیکن ہزاروں ٹھوکریں کھانے کے بعد۔ اس کی ایک موٹی مثال حرمت شراب کی ہے۔ اسلام نے تو اسے فوراً حرام کر دیا اور مسلمان رک گئے۔ دوسری دنیا تیرہ سو سال دھکے کھانے کے بعد اس اس کی برائیوں کی قائل ہونے لگی ہے۔ تیسرا فرق بھی ظاہری ہے سچائی کے ماننے والے ایک اصل پر قائم ہوتے ہیں اور ان کے عقائد میں اختلاف نہیں ہوتا۔ لیکن جھوٹ کے متبع نہیں جانتے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ بسااوقات ایک سچائی کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے ان سچائیوں پر بھی حملہ کرجاتے ہیں جن کو وہ خود بھی تسلیم کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے قرآن کریم بار بار اپنے مخالفین کو توجہ دلاتا ہے کہ اسلام پر حملہ کرتے ہوئے تم اپنے مسلمات کو بھی بھول جاتے ہو۔ اور نہیں جانتے کہ جو حملہ تم اپنے خیال میں اسلا پر کرتے ہو وہ خود تمہارے معتقدات پر پڑتا ہے۔
دوسری تشبیہ بہرے اور سننے والے کی دی ہے ان دونوں میں یہ فرق ہوتا ہے کہ ایک دوسرے لوگوں کے تجربوں سے فائدہ اٹھالیتا ہے اور دوسرا اس سے محروم رہ جاتا ہے۔ کیونکہ نہ وہ سنتا ہے نہ اسے دوسروں کے خیالات پر آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ یہی اسلام اور غیراسلام اور مسلم اور غیرمسلم میں فرق ہے۔ اسلام اور مسلمان تو ساری سچائیوں کو اپنے اندر جمع کرلیتے ہیں لیکن اس کے دشمن صرف اپنے پرانے خیالات پر قانع ہیں۔ وہ دوسری سچائیوں سے اپنے اکنوں میں روئی ڈال کر غافل بیٹھے ہوئے ہیں۔ اسی فرق کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہتے ہوئے اشارہ فرمایا ہے کہ کلمۃ الحکمۃ ضالۃ المومن اخذ ما حیث وجدھا حکمت کی بات تو مومن ہی کی گم شدہ چیز ہے وہ جہاں اسے پاتا ہے لے لیتا ہے۔ غرض جو سچا مذہب ہوتا ہے وہ تمام سچائیوں کو اپنے اندر جمع کرلیتا ہے۔ اور جھوٹا ضد اور تعصب کو اختیار کرتا ہے۔
کیا عجیب بات ہے کہ وہی بات جسے دشمن اعتراض کے رنگ میں پیش کرتے ہیں اسی کو خوبی کی دلیل قرار دے کر بیان کیا گیا ہے۔ دشمن کہتا ہے کہ دوسرے مذاہب کی صداقتوں کو اسلام اپنے اندر لے آیا ہے۔ اس لئیو ہ چور ہے۔ لیکن قرآن کریم اسی اعتراض کو بطور خوبی بیان کرتا ہے۔ اور فرماتا ہے کہ اسلام بہرے کی طرح نہیں ہے کہ صرف اپنی مخصوص باتوں پر قانع رہے بلکہ وہ سننے والوں کی طرح ہے جو دوسروں کے علوم کو بھی لے لیتے ہیں اور اپنے علم کو کامل کرلیتے ہیں اور اس نے تمام مذاہب کی ایسی تعلیمات کو اپنے اندر جمع کرلیا ہے جو مفید اور نفع رساںہیں اور ان کے علاوہ ایسی صداقتیں بھی پیش کی ہیں جو دوسرے مذہاب میں نہیں ہیں۔،
دوسرے سمیع اور اصم کا مقابلہ کرکے یہ فرق بھی بتایا ہے کہ اسلام میں الہام الٰہی کا درازہ کھلا ہے۔ وہی کان سننے والا ہے جو خداتعالی کی آواز کو سنتا ہے اور درحقیقت کان اسی لئے پیدا کیا گیا ہے اور جو کان خداتعالیٰ کی آواز کو نہیں سنتا وہ بہرہ ہے اور یہی فرق بصیر اور اعمٰی کے مقابلہ میں ظاہر کیا گیا ہے۔ اسلام میں نشانات اور معجزات کا دروازہ کھلا ہے اور درحقیقت بینا وہی ہے جو اپنے رب کے تازہ نشانات کو دیکھتا ہے جو آنکھ خداتعالیٰ کے معجزات اور نشانات کو نہیں دیکھتی وہ اندھی ہے۔ چونکہ جلال الٰہی پردوں میں ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی آواز پردوں میں نہیں ہوتی اس لئے سننے کے لئے مبالغہ کا صیغہ یعنی سمیع (بہت سننے والا) استعمال فرمایا ہے اور دیکھنے کے لئے مبالغہ کا صیغہ استعمال نہیں فرمایا۔
۲۵؎
چونکہ اس سے پہلے بیان فرمایا تھا کہ جھوٹے مدعی یا ان کے پیرو نہ سچے اور جھوٹے نبیوں کے انجام کو دیکھتے ہیں اور نہ ان کے حالات سنتے ہیں اور سچوں اور جھوٹوں کی مثال آنکھوں والے اور اندھے سے دی تھی۔ اس اس حقیقت کو واضح کرنے کے لئے چند مثالوں کو پیش کیا ہے۔ اور سب سے پہلے حضرت نوح علیہ السلام کی مثال کو لیا ہے فرماتا ہے کہ نوح سچے نبیوں میں سے تھا۔ اور اس نے نذیر مبین ہونے کا دعویٰ کیا تھا اس کے حالات پر غور کرو۔
سچے نبی کی زبردست نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ نذیر مبین ہوتا ہے۔ یعنی
(۱) اس کی تعلیم مخفی نہیں ہوتی اور وہ چوری چوری کام نہیں کرتا اور کبھی اپنے پیغام کو اور تعلیم کو لوگوں سے چھپاتا نہیں جبکہ جھوٹے مدعی عام طور پر جتھا بندی کے خیال سے اور لوگوں کے بدک جانے کے ڈر سے اپنی تعلیم کو چھپاتے ہیں۔ اس وقت بھی دیکھ لو کہ باب اور بہاء کی تعلیم کو کس طرح مخفی رکھا جاتا ہے۔ ان کی کتب کو بھی ظاہر نہیں ہونے دیا جاتا۔ اور بہائیوں نے باب کی بعض کرتب تو تلاش کرکرکے تلف کردی ہیں۔
(۲) دوسرے سچے نبی کا انذار مبین ہوتا ہے۔ یعنی بے معنی انذار نہیں ہوتا بلکہ دلائل پر مبنی ہوتا ہے۔ اور اس وجہ سے وہ انذار مایوسی پیدا کرکے قوم کو اور بھی تباہ نہیں کرتا۔ جھوٹے نبیوں کے انذار یونہی نقل کے طور پر ہوتے ہیں۔ اور بے معنی ہوتے ہیں۔ اور لوگوں میں صرف مایوسی پیدا کرنے کا کام دے سکتے ہیں بلکہ تمام نادان لوگ ایسے ہی بے معنی انذار کے عادی ہوتے ہیں۔ اور نہیں سمجھتے کہ انذار بھی ہمیشہ اچھا نہیں ہوتا۔ کبھی اس کا اثر الٹ پڑتا ہے۔ ایسے ہی انذار کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے من قال ھلک الناس فھو اھلکہم جو شخص یہ کہتا پھرے کہ لوگ تباہ ہو گئے۔ بے ایمان ہو گئے۔ بے دین ہو گئے دراصل وہی ان کی تباہی و بربادی اور بے ایمانی و کمزوری کا موجب ہوتا ہے۔ کیونکہ اس سے بے دینی اور بے ایمانی کی اہمیت لوگوں کے دل سے اٹھ جاتی ہے اور مایوسی پیدا ہوجاتی ہے۔ جب تک کوئی نیا نظام نہ بدلا جائے لوگوں میں یہ احساس نہیں ہونا چاہئے کہ ان میں سے کوئی بھی اچھا نہیں رہا۔ ورنہ وہ بالکل ہمت ہار بیٹھتے ہیں۔ ہاں جب ایک نبی آکر نیا نظام قائم کرتا ہے تب انذار عام مضر نہیں ہوتا ایک تو اس لئے ہ واقع میں اس وقت قوم کی حالت خراب ہوچکی ہوتی ہے اور دوسرے اس لئے کہ علاج بھی ساتھ موجود ہوتا ہے۔
حضرت نوح علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نذیر مبین ہوں یعنی میرا انذار دلیل پر مبنی ہے۔ میں قوم کو خراب اور مایوس کرنے کو نہیں آیا بلکہ حقیقت سے آگاہ کرنے کو آیا ہوں۔
نذیر مبین کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ میں صرف خالی انذار ہی نہیں کرتا بلکہ اس عذاب سے بچنے کے ذرائع بھی بتاتا ہوں۔ چنانچہ اسی لئے اگلی آیت میں فرمایا ہے کہ اس عذاب سے بچنے کا ذریعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سواء کسی کی عبادت نہ کرو۔ اگر تم ایسا کرو گے تو عذاب سے بچ جاؤ گے۔ تو گویا علاج بتا کر اپنا نذیر مبین ہونا ثابت کیا۔ ظالم بادشاہ کا وجود بھی ملک کے لئے نذیر ہوا کرتا ہے۔ منافقوں کا گروہ اور استبدادیوں کا گروہ بھی قوم اور ملک کے لئے نذیر ہی ہوتا ہے۔ مگر یہ ساری جماعتیں نذیر مبین نہیں ہوا کرتیں۔ کیونکہ وہ خود نہیں کہتیں کہ ہم نذیر ہیں۔ بلکہ وہ تو اپنے آپ کو قوم کی ترقی کا موجب بتاتی ہیں۔ ان کا انذار عملی ہوتا ہے اور پھر اس انذار کی تائید الہام الٰہی سے بھی نہیں ہوتی بلکہ صرف اس قیاس پر مبنی ہوتی ہے کہ چونکہ اس قوم پر ظالم بادشاہ حاکم ہے تو قوم ضرور تباہ ہوگی یا یہ کہ جب ان کے اندر فسادی لوگ پیدا ہوگئے ہیں تو ان کے لئے ہلاکت ضرور مقدر ہے۔ پس صرف نبی ہی نذیر مبین ہوسکتا ہے۔ کیونکہ وہ خود موجب تباہی نہیں ہوتا بلکہ تباہی سے ہوشیار کرنے والا ہوتا ہے۔ اور اس کے انذار کی بنیاد الہام الٰہی پر اور یقین پرہوتی ہے اور دوسرے انذاروں میں صرف قیاس ہوتا ہے۔
۲۶؎
بعض مفسرین اس بحث میں پڑ گئے ہیں کہ الیم یوم کی صفت کیوں آئی ہے۔ حالانکہ دکھ تو عذاب کی صفت ہے نہ کہ دن کی۔ میرے نزدیک یہ ان کی غلطی ہے انہوں نے اس امر کو نہیں سمجھا کہ جس کلام میں عمیق اور حقائق سے پر معارف بیان کئے جائیں گے لازماً اس میں نئے نئے محاورات اور عجیب عجیب ترکیبیں بھی استعمال کرنی پڑیں گی۔ ورنہ اس کے باریک مطالب کا اظہار نہیں ہوسکے گا۔ جو شخص بھی غور سے کام لے گا اسے معلوم ہوجائے گا کہ عذاب الیم اور عذاب یوم الیم میں بڑا فرق ہے۔ الیم کو یوم کی صفت بنانے سے اس عذاب کی شان زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ بہ نسبت عذاب کی صفت بنانے کے۔ الیم کے معنی دکھ دینے والے کے ہیں۔ بے شک عذاب بھی الیم یعنی دکھ دینے والا ہوتا ہے اور اس سے تکلیف ہوتی ہے۔ مگر کئی دن بھی ایسے ہوتے ہیں جن کی یاد ہمیشہ انسانوں کو دکھ دیتی رہتی ہے۔ اور ہزاروں سال بعد بھی ان کی تکلیف کا خیال کرکے انسان کانپ اٹھتے ہیں۔ پس یہ امر ثابت ہے کہ بعض دن بھی الیم ہوتے ہیں بلکہ عذاب تو صرف ان لوگوں کے لئے الیم ہوتا ہے جن پر وہ نازل ہوا ہو مگر خطرناک عذابوں کے زمانہ کی یاد بعد میں آنے والوں کے لئے بھی دکھ کا موجب ہوتی رہتی ہے۔ پس عذاب یوم الیم کہہ کر اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ عذاب ہمیشہ یاد رہنے والا اور لوگوں کو ڈراتے رہنیکا موجب ہوگا اور ان معنوں میں جو خوبی اور جدت ہے وہ عذاب الیم کہنے میں ہرگز نہیں ہوسکتی تھی۔ اور حقیقۃً بھی دیکھو تو آج تک حضرت نوح علیہ السلام کا طوفان ایک ہیبت ناک واقعہ اور وہ دن ایک خوفناک دن سمجھا جاتا ہے۔ اس دن کا ذکر کرنے سے ہی لوگ ڈر جاتے ہیں اور دلوں کو تکلیف پہنچتی ہے۔
۲۷؎ حل لغات
بشرا۔ عبرعن الانساان بالبشراعتبارا بظھور جلدہ من الشعر بخلاف الحیوانات التی علیہا الصوف اوالشعر اوالدبر واستوی فی لفظ البشرالواحد والجمع وثنی فقال انؤمن لبشرین وخص فی فی القران کل موضع اعتبر من الانسان جثتہ وظاھرہ بلفظ البشر انسان کو بشر اس لئے کہتے ہیں کہ اس کے جسم پر بال نہیں ہوتے۔برخلاف جانوروں کے کہ ان کے جسموں پر بال یا صوف ہوتی ہے۔ اور بشر کا لفظ واحد اور جمع دونوں کے لئے بولا جاتا ہے۔ مگر تثنیہ کا صیغہ الگ بنایا جاتا ہے۔ فرماتا ہے انؤمن لبشرین اور قرآن کریم میں جہاں کہیں انسان کے جسم اور شکل کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے لئے بشر کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ (مفردات) میرے نزدیک بشیر آدمی اور انسان کے الفاظ مختلف لحاظ سے بولے جاتے ہیں۔ انسان کے لفظ سے اس کی حقیقت اور اس کے اخلاق کو ظاہر کرتے ہیں۔ بشر کے لفظ سے اس کے دھانچے اور ظاہری شکل پر زور دینا مدنظر ہوتا ہے۔ اور آدمی کے لفظ سے اس کی ابتداء کا اظہار مطلوب ہوتا ہے۔ اراذل۔ ارذل کی جمع ہے جو اسم تفضیل کا صیغہ ہے۔ اس کا فعل رذل بھی ہوسکتا ہے جس کی مصدر رذالۃ ہے۔ اور رذل بھی۔ جو متعدی ہے او راس کی مصدر رذل ہے۔ اور اس مؤخرالذکر صورت میں ارذل بمعنی مرذول ہوگا۔ رذلہ کے معنی ہیں جعلہ رذیلا۔ اسے رذیل قرار دیا۔ ضد انتقاہ اسے ردی ٹھہرایا۔ انتخاب میں ساقط کر دیا۔ رد کر دیا۔ ناپسند کیا۔ ناقابل پذیرائی قرار دیا۔ الارذل ایضا الدون فی منظرہ وحالاتہ کا ارذل والرذیل ارذل کا لفظ علاوہ افعل التفضیل کے معنوں کے اس چیز یا شخص کے لئے بی استعمال ہوتا ہے جو اپنے منظر یا حالات کی رو سے حقیر ہو۔ اور یہی معنی لفظ رذل اور رذیل کے ہیں۔ یقال ثوب رذل و رذیل ای وسخ ردی اور جب یہ الفاظ کپڑے کے لئے بولے جائیں تو ان کے معنی میلے اور ردی کے ہوتے ہیں۔ (اقرب) بادی الرای۔ بادی کے معنی ظاہر کے ہیں۔ یہ بدایبدو سے نکلا ہے۔ اور بعض لوگوں نے اسے یدء یبدء سے قرار دیا ہے۔ اس صورت میں اس کے معنی ہوں گے شروع والا۔ پہلا۔ شروع کرنے والا۔ پہل کرنے والا۔ یہ لوگ بادی الری کو بادی الرای پڑھنا بھی جائز سمجھتے ہیں۔
تفسیر
مانرک الا بشرا مثلنا۔ یعنی تیری ظاہری صورت و شکل ہم سے ملتی ہے اور تو ہماری ہی طرح کا ایک بشر ہے پھر ہم کیونکر تسلیم کریں کہ باطن میں تو ہم سے مختلف ہے اور کیونکر سمجھیں کہ تیری خدا کے دربار میں رسائی ہو گئی ہے اور کیونکر یقین کرلیں کہ تجھے ایسی طاقتیں ملی ہیں جو ہمیں نہیں ملیں جن کی وجہ سے تو تو خدا کی باتیں سن سکتا ہے اور ہم نہیں سن سکتے۔
انبیاء کے دشمن ہمیشہ سے یہی اعتراض کرتے چلے ٓئے ہیں اور ان کی دلیل یہ ہوا کرتی ہے کہ انسان کے کمال کی بنیاد علوم کسبیہ پر ہوتی ہے۔ جب یہ نبی کسبی علوم نہیں رکھتے تو انہیں خاص طاقتیں کیسے مل سکتی ہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام کے دشمن بھی یہی دلیل پیش کرکے اعتراض کرتے ہیں کہ اگر تم کو باطنی طور پر کوئی خاص قوتیں ملتیں تو چاہئے تھا کہ تمہاری ظاہری شکل بھی بدلی ہوئی ہوتی۔ ینی علوم ظاہر بھی تم کو خاص رنگ کے عطا ہوتے اور اگر کسی علوم سے تمہاری عزت نہیں بلہ خاص موہبت تم کو عطا ہوئی ہے تو پھر باطنی طاقتوں میں فرق کے ساتھ تمہاری ظاہری شکل میں بھی کچھ تغیر چاہئے تھا۔ مگر یہی تو نظر نہیں آتا۔ پس ہم کیونکر مان لیں کہ تمہارے باطنی قویٰ ہم سے جدا ہیں۔
یہ انہوں نے اپنی طرف سے ایک بہت بڑا فلسفیانہ نکتہ بیان کیا ہے اور بہت ممکن ہے کہ وہ اس دلیل کی تائید میں ہندوؤں کی طرح بزرگوں کی تصویریں دکھاتے ہوں کہ دیکھو نبی ایسے ہوتے ہیں جن کے دس دس س اور کئی کئی مونہہ ہوں۔ گنیش جی کی ہندوؤں نے عجیب شکل تجویز کی ہوئی ہے۔ پہلے زمانہ کے لوگ یہ سمجھ ہی نہ سکتے تھے کہ نبی ظاہری شکل و شباہت میں ہماری طرح کا ایک انسان ہوتا ہے۔ غرض نوح علیہ السلام کے دشمن یہ دلیل بیان کرکے کہ ظاہر کا باطن کے ساتھ مطابق ہونا ضروری ہے اور باطن کا ظاہر کے ساتھ مطابق ہونا لازم۔ حضرت نوح علیہ السلام کے خلاف اعتراض کرتے ہیں کہ اگر تو نبی ہوتا تو تیری اور ہماری ظاہری شکل و شباہت میں اختلاف لازم تھا۔ اس زمانہ کے دشمنانِ حق اس دلیل کو سن کر سر دھنتے ہوں گے اور اس پر واہ واہ کا شور بلند ہوتا ہوگا۔ حالانکہ حقیقت میں یہ بات بالکل فضول اور لچر ہے۔ حضرت نوحؑ کے دشمن اس سے آگے بڑھتے ہیں اور مانرک اتبعک الاالذین ھم اراذلنا بادی الرای کہہ کر اپنی حجۃ کو اور زیادہ مضبوط کرتے ہیں۔ یعنی وہ کہتے ہیں کہ تو خاص قوتوں سے عاری ہے بلکہ صرف ہماری طرح کا ایک بشر ہے۔ رہے تیرے مرید سو وہ ہم سے بھی گرے ہوئے اور گئے گزرے ہیں۔ اب یہ مجموعہ یا معجون مرکب مل کر دنیا میں کیا بنائے گا۔
بادی الرای کی ترکیب کے لحاظ سے کئی معنی ہوسکتے ہیں۔ اول تو یہ کہ اسے اراذلنا کے متعلق سمجھا جائے۔ اس صورت میں اگر بادی کا لفظ بدء یبدء سے سمجھا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ پہلی نظر میں تو نوحؑ کے متبع رذیل ہی نظر آتے ہیں۔ باطن میں شاید اشراف ہوں تو ہوں۔ یہ قاعدہ ہے کہ کبھی اپنی بات پر زور دینے کے لئے شبہ کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔ اور مطلب اس کے الٹ ہوتا ہے۔ جیسے کوئی شخص کہے کہ شاید ہم کمینے ہی ہوں تو اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ ہم ہرگز ایسے نہیں ہیں۔ ایسے ہی وہ لوگ حضرت نوحؑ کے متبعین کے متعلق طنزاً کہتے ہیں کہ پہلی نظر میں تو یہ لوگ رذیل ہی نظر آتے ہیں غوروخوض سے یہ اشراف ثابت ہوں تو ہوں۔ مطلب یہ کہ ان کے رذیل ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہوسکتا۔
اور اگر اس لفظ کو بدئا یبدو سے سمجھا جائے اور اراذلنا کے متعق قرار دیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ظاہری نظر میں تو یہ لوگ کمینے نظر آتے ہیں کوئی ان کی خاص خوبیاں ہوں تو وہ نوحؑ کو معلوم ہوں گی ہمیں تو نظر نہیں آتیں۔ اس میں بھی طنز ہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ بادی الرای کو اتبعک کا متعلق قرار دیا جائے۔ اس صورت میں اس آیت کے یہ معنی ہوں گے کہ ہمارے نزدیک تو چند رذیلے لوگ تجھ پر ایمان لائے ہیں اور وہ بھی بغیر سوچے سمجھے۔ ان کا ایمان اوپرا ایمان ہے۔ اگر وہ بھی تیریت علیم کی حقیقت پر غور کرتے تو ہرگز نہ مانتے۔ گویا اول تو تیرے اتباع اراذلنا ہم میں سے عیب دار اور ادنیٰ لوگ ہیں اور پھر انہوں نے تیرے قبول کرنے میں غور و فکر اور سوچ بچار سے کام نہیں لیا۔ اس رنگ میں انہوں نے حضرت نوحؑ کی انتہائی تحقیر کی ہے۔
تیسرے معنی یہ ہوسکتے ہیں کہ ان کی اتباع محض ظاہری ہے یعنی ان لوگوں نے بعض فوائد کے حصول کے لئے صرف ظاہر میں مانا ہے۔ دل میں یہ بھی ایمان نہیں لائے۔ گویا تین معنی ہوئے۔
۱- ہمارا پہلا یا ظاہری خیال تو یہ ہے کہ جن لوگوں نے تجھے مانا ہے وہ اراذل ہیں۔
۲- ان لوگوں نے بھی بغیر فکر کے مانا ہے۔
۳- جن لوگوں نے مانا ہے انہوں نے صرف ظاہر میں مانا ہے حقیقت میں دل سے کسی نے نہیں مانا۔
مانری لکم علینا من فضل۔ یعنی ہم یہ بھی مان لیتے ہیں کہ کوئی باریک اور مخفی بات ہوگی جس کی وجہ سے خدا نے تمہیں یہ درجہ دے دیا ہے لیکن یہ تو بتاؤ کہ اگر سچ مچ ایسی خوبی تم میں تھی تو کیا اس کے نتیجہ میں تم کو کوئی خاص شان و شوکت نہیں ملنی چاہئے تھی کیونکہ جس کے اندر کوئی خاص قابلیت ہوتی ہے وہ اپنے ہمعصروں پر غالب آجاتا ہے۔ مگر یہ بات بھی ہمیں نظر نہیں آتی۔
پھر ان سب دلائل کے مجموعہ کا وہ آخری نتیجہ یہ نکالتے ہیں کہ ہمیں یقین ہے کہ تم جھوٹے ہو کیونکہ بلاوجہ اور بلاسبب اپنی برتری اور اپنے حق پر ہونے کا دعویٰ کرتے ہو۔
آہ یہ ایک قدیم دستور ہے کہ لوگ نبیوں کو اپنے بنائے ہوئے معیاروں پر پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب وہ ان معیاروں پر پورے نہیں اترتے تو تسکین قلب کے ساتھ یہ خیال کرلیتے ہیں کہ انہوں نے ان کے دعویٰ کو غیرمتعصبانہ طور پر سوچ لیا اور اسے غلط پایا۔ دنیا اس قدر ترقی کرچکی ہے اور اس قدر انبیاء گزر چکے ہیں لیکن اب بھی انسان خدائی کلام کو اور خدا کے فرستادوں کو اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ معیار پر پ]رکھنے کے لئے طیار نہیں بلکہ اپنے غلط خیالات کے مطابق ان کی سچائی کو دیکھنا چاہتا ہے لیکن کیا اس طرح ہدایت مل سکتی ہے۔ ہرگز نہیں۔
۸۲؎ حل لغات
الزم فلانا المال والعمل اوجبہ علیہ اس کے ذمہ ڈال دیا اس کی دائیگی یا اس پر عمل پیا ہونا ا سکے ذمہ لازم کر دیا۔ (اقرب)
تفسیر
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد ہوتا ہے کہ اپنے مخالفوں کو توجہ دلائیں کہ تم تھوڑی دیر کے لئے فرض کرلو کہ یہ واقعہ صحیح ہے کہ مجھے اپنے رب کی طرف سے دلائل ملے ہیں اور اس نے مجھے اپنے پاس سے رحمت دی ہے اور پھر یہ بھی فرض کرلو کہ وہ بینات اور رحمت ایسی پیچیدہ صورت میں آئے ہیں کہ تمہیں نظر نہیں آتے تو بتلاؤ کہ کیا بغیر اس کے کہ تم غور کرو ہم تم کو سمجھا سکتے ہیں یعنی کسی حقیقۃ کے سمجھنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ انسان اس پر غور و فکر کرے اور اسے ایسے راستہ سے سوچے جس کے ذریعہ سے اسے سمجھا جاسکے لیکن تم لوگ تو پہلے ہی اسے ناپسند کرنے لگے ہو۔ اور سنتے ہی تم نے اسے ردی قرار دے دیا ہے۔ پھر تمہارے سمجھنے کی کیا صورت وہ رجاتی ہے۔ صرف جبر ہی ہے۔ سو وہ کیا نہیں جاسکتا۔ اس آیت سے جبری تبلیغ کے عقیدہ کی تردید ہوتی ہے۔ اور معلوم ہوتا ہے کہ جو دین کو ناپسند کرے اسے جبراً دین نہیں سکھایا جاتا۔ اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو کسی امر کی تحقیق کرنے کی بجائے اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھنے لگ جاتے ہیں وہ حق سے محروم رہ جاتے ہیں۔ جو شخص صداقت کا متلاشی ہو اسے چاہئے کہ اپنے دل کو ہمیشہ تعصب سے خالی رکھے اور سچی تلاش کی عادت ڈالے۔
۲۹؎ حل لغات
طارد۔ طرد سے اسم فاعل ہے۔ طرد کے معنی ہیں۔ العبد۔ دور کر دیا۔ ہٹا دیا۔رد کر دیا۔ (اقرب)
تفسیر
ان کے تعصب کی حالت کو بیان کرنے کے بعد حضرت نوحؑ اپنی صفائی پیش کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ عقل مند انسان جو کام کرتا ہے کسی مقصد کے لئے کرتا ہے۔ اگر میں ویسا ہی ہوں جیسا کہ تم سمجھتے ہو اور جھوٹا کلام بنا کر تم کو سنارہا ہوں تو یہ تو سوچو کہ اس میں میری غرض کیا ہے۔ کیا میں اس کام میں کوئی فائدہ حاصل کررہا ہوں۔ تم خوب جانتے ہو کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگ رہا پھر مجھے جھوٹ بنانے کی ضرورت کیا پیش آئی تھی۔
شاید کوئی شخص کہے کہ اگر نوحؑ اجر طلب نہیں کررہے تھے مگر آخر اپنے ماننے والوں پر حکومت تو کرتے تھے اور کئی لوگ حکومت کے حصول کے لئے جھوٹ بول لیتے ہیں لیکن یہ اعتراض بھی درست نہ ہوگا۔ اس لئے کہ انبیاء اپنی تعلیم پر دوسروں سے زایدہ عامل ہوتے ہیں۔ پس وہ کام جسے وہ خود دوسروں سے بڑھ کر کررہے ہوں حاکمانہ فعل نہیں کہلا سکتا۔ اس صورت میں تو ان کی حکومت بھی خادمانہ حکومت ہی کہلاسکتی ہے جسے کوئی شخص لالچ اور حرص کے تابع قرار نہیں دے سکتا۔
اپنی برأت کے بعد حضرت نوح علیہ السلام اپنے اتبع کی بریت کرتے ہیں اور پہلا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہ لوگ ظاہر میں ایمان دار ہیں اور جب یہ ظاہر میں ایمان لاچکے تو میرا حق نہیں کہ میں وساوس اور شبہات کی بناء پر انہیں اپنے پاس سے دھتکار دوں اور دور کر دوں۔ دوسرے یہ کہ جب میں کسی سے کچھ طلب نہیں کرتا تو میرے نزدیک غریب و امیر برابر ہو گئے۔ پھر میں کیوں انہیں دھتکار دوں۔ میرے نزدیک تو ایمان کا سوال ہی اہمیت رکھتا ہے۔ اور ایمان ان لوگوں کو حاصل ہے۔ پس جو چیز میری نظر میں عزت ہے جب وہ انہیں حاصل ہے تو تمہارا یہ اعتراض کہ یہ اراذل ہیں میری نظر میں کیا وقعت رکھتا ہے۔
دوسرا اعتراض آپ کے مریدوں پر کفار نے یہ کیا تھا کہ یہ لوگ ظاہر میں ایمان لائے ہیں۔ ان کے دلوں میں ایمان نہیں۔ اس کا جواب یہ دیا کہ جس طرح میں ان سے کچھ نہیں مانگ رہا یہ لوگ بھی مجھ سے کچھ نہیں لے رہے۔ پھر میرا کیا حق ہے کہ ان کے ایمان کی نسبت شبہ کروں۔ یہ خداتعالیٰ کے فضل کے طالب ہیں اور وہ عالم الغیب ہے۔ آخر یہ اس کے سامنے پیش ہوں گے اور اس کی ملاقات ان کو نصیب ہوگی جو ان میں سے جھوٹا ہوگا خداتعالیٰ خود اس سے مناسب معاملہ کرے گا مجھے اس جھگڑے میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔
تیسرا اعتراض نوح علیہ السلام کے دشمنوں کا یہ تھا کہ تم کو ہم پر کوئی فضیلت حاسل نہیں ہے بلکہ تم جھوٹ بولتے ہو اور اس طرح ادنیٰ درجہ کے لوگ ہو۔ اس کا جواب یہ دیا کہ میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ سچائی سے منہ موڑ رہے ہو۔ یعنی تم کو یہ خوب معلوم ہے کہ ہمارے اخلاق کیسے ہیں۔ اور آیا ہم جھوٹ بولتے ہیں یا سچ بولتے ہیں لیکن تم دشمنی کی وجہ سے ان امور کو چھپاتے ہو اور تجاہل سے کام لیتے ہو۔
یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ جو نبی بھی آتا ہے اس کی دعویٰ سے پہلے کی زندگی بھی نہایت ہی راستبازی کی زندگی ہوتی ہے۔ وہ جھوٹ سے ہمیشہ سے محفوظ چلا آیا ہوتا ہے اور حضرت نوح علیہ السلام اس قاعدہ سے مستثنیٰ نہیں ہوسکتے تھے۔ حضرت نوح علیہ السلام اس جگہ اس امر کو پیش کرتے ہیں کہ میری سچائی کے تو تم بھی قائل ہو ہاں دعویٰ کیب عد دشمنی کی وجہ سے الزام لگانے لگے ہو۔
انہم ملاقوا ربہم میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ تم تو کہتے ہو کہ انہیں کوئی فضیلت حاصل نہیں ہوئی لیکن میں تو ان کے چہروں سے محسوس کرتا ہوں کہ وہ لوگ واصل باللہ ہورہے ہیں۔ تم لوگ خود علم روحانی سے کورے ہو۔ اسی لئے تمہیں ان کے چہروں سے ایمان نظر نہیں آتا۔ تم کہتے ہو مانری لکم علینا من فضل کہ ہمیں تمہاری اپنے پر کوئی فضیلت نظر نہیں آتی۔ حالانکہ خدا کا فضل ہورہا ہے اور یہ لوگ خدا کا قرب حاصل کررہے ہیں۔ تم نہ دیکھو تو اس میں ان کا کیا قصور۔
نادان انسان صرف دنیا کی فضیلت کو فضیلت سمجھتا ہے۔ خدارسیدہ کے نزدیک اصل فضیلت وہ ہے جو خداتعالیٰ کے ہاں ہو۔ حضرت نوحؑ تو یہ دیکھتے تھے کہ ان کے اتباع قرب الٰہی کی راہوں میں ترقی کررہے ہیں۔ اور کفار ان کے کپڑوں اور کھانوں کو دیکھ رہے تھے۔ اس قدر مختلف نقطۂ نگاہوں سے ایک نتیجہ نہیں نکل سکتا تھا۔ اس لئے دونوں کے نتیجوں میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ ایک جماعت ارتباع نوح علیہ السلام کو اراذل دیکھ رہی تھی دوسرا شخص ان کو شریف ترین وجود پاتا تھا۔
ولکنی ارکم قوما تجہلون سے ان قربانیوں کی طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے جو حضرت نوح علیہ السلام کے اتباع کررہے تھے۔ کیونکہ نبی پر ابتداء میں ایمان لانا کوئی معمولی بات نہیں ہوتی۔ بلکہ آگ میں کودنے سے کم یہ فعل نہیں ہوتا۔ پس حضرت نوحؑ اپنے مخالفین کو توجہ دلاتے ہیں کہ کیا تم لوگ ان کی قربانیوں کو نہیں دیکھتے۔ ان کا ایمان اور اخلاص دیکھ کر بھی انہیں کہنا کہ ان کا ایمان صرف ظاہری ایمان ہے کس قدر بے وقوفی کی بات ہے۔
۳۰؎
آپ کے اتباع پر جو ارذل ہونے کا الزام لگایا گیا تھا اس کا مزید جواب حضرت نوحؑ اس طرح دیتے ہیں کہ ان کو رذیل کہنے سے تمہاری غرض تو یہی ہے نہ کہ میں ان کو اپنے پاس سے جدا کردوں۔ لیکن اتنا تو سوچو کہ مجھے تم سے تو کوئی غرض نہیں لیکن خداتعالیٰ سے غرض ہے پھر یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ میں تمہیں خوش کرنے کے لئے خداتعالیٰ کو ناراض کرلوں۔ جب تم لوگوں کی خاطر جو ایمان نہیں لائے میں ایمان لانے والوں کو نکال دوں گا تو اللہ تعالیٰ نے جو میری نصرت کا سامان پیدا کیا ہے اس کی ناقدری کرنے کے سبب سے یقینا وہ مجھ سے ناراض ہوگا اور اس کی ناراضگی کے بعد میں اس عظیم الشان فرض کو کس طرح ادا کرسکوں گا۔ جو اس نے میرے ذمہ لگایا ہے۔
۳۱؎ حل لغات
تزدری ازدراہ۔ احتقرہ اسے حقیر سمجھا۔ واستخف بہ اسے ذلیل سمجھا۔ (اقرب)
تفسیر
مخالفین کے اعتراضوں کا حضرت نوحؑ ایک نئے پیرایہ میں جواب دیتے ہیں۔ اور فرماتے ہیں کہ تم لوگوں کو یہ اعتراض ہے کہ میں تمہارے جیسا بشر ہوں لیکن میرے دعویٰ اور بشر ہونے میں کوئی مخالفت نہیں ہے۔ میں تو ایک پیغامبر ہوں۔ اور پیغامبر کے لئے ضروری نہیں کہ وہ ان لوگوں سے جن کی طرف وہ بھیجا گیا ہو مختلف ہو۔ بلکہ اس کا تو ان سے متحد ہونا ضروری ہے ہاں اگر میں یہ کہتا کہ خداتعالیٰ نے اپنی خدائی میرے سپرد کردی ہے تو بے شک تم یہ مطالبہ کرسکتے تھے کہ ہمارے جیسا ایک بشر خداتعالیٰ کی خدائی کس طرح سنبھال سکتا ہے۔ مگر مجھے تو یہ دعویٰ ہرگز نہیں بلکہ صرف یہ دعویٰ ہے کہ خداتعالیٰ اپنے اس علم کو جو وہ بندوں پر ظاہر کرنا چاہتا ہے میرے ذریعہ سے ظاہر کرتا ہے۔
دوسرے اعتراض کا جو آپ کے اتباع پر تھا اس طرح مزید جواب دیتے ہیں کہ تم تو ان کے موجودہ حالات پر قیاس کرتے ہو لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ آئندہ کیا ہوگا۔ میں تو یہ بات نہیں کہہ سکتا کہ آئندہ ان کو خداتعالیٰ کیہ طرف سے بہتر سے بہتر جزا نہ ملے گی۔ یہ ایک لطیف پیرایہ ہے اس امر کے کہنے کا۔ کہ آئندہ بہتر بدلے ان کو ملنے والے ہیں۔ اس قسم کا کلام ایک تعریفی اثر رکھتا ہے اور زیادہ مؤثر ہوتا ہے۔ چنانچہ اگلے حصہ آیت میں آپ اس کی تفصیل بھی کردیتے ہیں کہ رذیل تو وہ شخص ہوتا ہے جس کا دل گندہ ہو اور دل کا حال خدا جانتا ہے۔ تم ظاہری حالت پر قیاس کرتے ہو حالانکہ ظاہری غربت سے انسان رذیل نہیں بنتا۔ بلکہ دل کی ناپاکی سے رذیل بنتا ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ ہی دلوں کو دیکھنے والا ہے اس لئے اگر یہ رذیل نہ ہوئے یعنی دل کے گندے نہ ہوئے تو یقینا وہ ان کو ان کی خدمات کے صلہ میں اعلیٰ سے اعلیٰ بدلہ دے گا۔
آخری حصہ میں بتا دیا کہ ناحق دعویٰ کرنے والا یا کسی شخص پر بلاوجہ فتویٰ لگا دینے والا ظالم ہوتا ہے۔ پس میں تو نہ اپنی نسبت وہ باتیں کہتا ہوں جن ک مجھے ھق نہیں اور نہ مومنوں پر ان کے ظاہر کے خلاف فتویٰ لگانے کے لئے تیار ہوں۔
افسوس کہ اللہ تتعالیٰ کے نبی تو ظاہر کے خلاف فتویٰ لگانے سے پہلے اس قدر اجتناب کرتے ہیں لیکن دوسرے لوگ جن کے لئے زیادہ خوف کا مقام ہے چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے خطرناک سے خطرناک اتہام لگانے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔ ظلم کسی کا حق دوسرے کو دے دینے کا نام ہے۔ پس مطلب یہ ہے کہ اگر میں پہلی بات کہوں تو اس صورت میں خدا کا حق اپنے آپ کو دینے والا بن جاؤں گا۔ اور دوسری بات کہوں تو میں مومنوں کا حق چھیننے والا قرار پاؤں گا۔ گویا دونوں صورتوں میں میں ظالم بن جاؤں گا۔
۳۲؎
چونکہ اوپر کی آیات میں حضرت نوحؑ نے اشارۃً مومنوں کی ترقی کی پیشگوئی کی تھی اور یہ ظاہر امر تھا کہ مومن تبھی ترقی کرسکتے تھے جبکہ ان کے دشمن ہلاک ہوکر ان کے لئے راستہ صاف کریں۔ اس لئے کفار نے سمجھ لیا کہ اس میں ہماری ہلاکت کی بھی خبر ہے اور مطالبہ پیش کردیا کہ اچھا بحث جانے دو یہ بتاؤ کہ تم نے ہماری ہلاکت کی خبر دی ہے وہ کب پوری ہوگی۔
۳۳؎
حضرت نوح علیہ السلام نے جواب دیا کہ سمجھ تو تم ٹھیک گئے ہو لیکن عذاب کا لانا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے میرے اختیار میں نہیں۔ اس آیت میں وعیدی پیشگوئیوں کی نسبت تین اصل بتائے ہیں۔ اول یہ کہ ان کے اوقات عام طور پر مخفی رکھے جاتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ وہ ٹل سکتی ہیں کیونکہ ان شاء کہہ کر بتادیا ہے کہ عذاب کی خبر مل بھی جائے تب بھی مشیت الٰہی سے معلق رہتی ہے۔ تیسرے یہ کہ تفصیلیہ پیشگوئیاں خواہ ٹل بھی جائیں اصولی فیصلہ کہ خداتعالیٰ کے بندے غالب ہوکر رہیں گے نہیں بدلتا۔ تبھی فرمایا کہ خدا چاہے گا تو عذاب آجائے گا لیکن بہرحال خواہ عذاب آئے یا نہ آئے تم لوگ مومنوں پر غالب نہیں آسکتے اور اللہ تعالیٰ کے کام میں روک نہیں بن سکتے۔
۳۴؎ حل لغات
نصحی۔ نصحہ و نصح لہ نصحا ونصحا ونصاحۃ و نصاحیۃ ینصحہ۔ ای وعظہ۔ اسے نصیحت کی۔ واخلص لہ المودۃ۔ اور اس سے بغیر ملونی کے محبت کی۔ والافصح بصلۃ الام۔ اور اس لفظ کو لام کے صلہ سے استعمال کرنا زیادہ فصیح ہے۔ یغویکم۔ غوی یغوی غیا۔ ضل وخاب وانھمک فی الجھل وھلک گمراہی۔ ناکامی اور جہالت میں پڑ کر تباہ ہو گیا۔ غوی غوایۃ ضل۔ گمراہ ہو گیا۔ اغواہ اضلہ۔ اغواہ کے معنی اسے برباد اور ہلاک کر دیا۔ (اقرب)
تفسیر
حضرت نوح علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مجھے بے شک تمہاری ہدایت کی خواہش ہے اور میں تم سے بہت اخلاص رکھتا ہوں مگر میرا اخلاص خدا کی محبت سے جو تمہارا رب ہے بڑھ کر نہیں ہوسکتا۔ جب وہ دیکھے کہ تمہارا ہلاک ہونا ہی ٹھیک ہے تو پھر میرے ارادے تو اس کے تابع ہیں۔
یہ آیت نہایت واضح طور پر اس اعتراض کو رد کرتی ہے جو کہا جاتا ہے کہ حضرت نوحؑ نے خود بددعا کی۔ حضرت نوحؑ نے بددعا نہیں کی بلکہ خداتعالیٰ نے خود کروائی۔ وہ تو صاف کہہ رہے ہیں کہ اگر خدا ہلاک کرنا چاہے تو میں کیا کرسکتا ہوں۔ پھر ھوربکم کہہ کر اللہ تعالیٰ پر سے بھی اعتراض کو دور کر دیا۔ اور یہ بتا دیا کہ جب اس نے جو تمہارا رب ہے تمہاری ہلاکت کا فیصلہ کیا ہے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اب تمہاری ہلاکت ہی تمہارے لئے اور دوسروں کے لئے مفید ہے۔
۳۵؎ حل لغات
اجرام۔ اجرم کی مصدر سے ہے۔ جس کے معنی ہیں اذنب گناہ کیا۔ عظم جرمہ بہت بڑے گناہ کا مرتکب ہوا۔ (اقرب) پس اجرام کے معنے ہوئے بہت بڑا گناہ کرنا۔
تفسیر
اس آیت میں بھی حضرت نوح علیہ السلام ہی کا ذکر ہے نہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اور فرق صرف یہ ہے کہ پہلے تو حضرت نوحؑ لوگوں کومخاطب کرتے تھے اب اللہ تعالیٰ نے حضرتت نوح علیہ السلام کو مخاطب کیا ہے کہ تم ان لوگوں سے کہہ دو کہ اگر میں جھوٹ بول رہا ہوں اور یہ سب امور اپنے پاس سے بنا رہا ہوں تو یہ تو ایک بہت ہی بڑا گناہ ہے۔ اور اس کی سزا مجھے ملے گی پس تم کو گھبرانے کی ضرورت نہیں اور اگر میں سچا ہوں تو تمہارا انکار بھی ایک بہت بڑا گناہ ہے اس کی سزا تم کو ملے گی اور مجھے اس سے کوئی خوف نہیں۔
میں تمہارے جرموں سے بری ہوں، کہہ کر حضرت نوح علیہ السلام نے افتراء کے الزام کا ایک اور بھی لطیف جواب دیا ہے جو یہ ہے کہ تم لوگ ذرا غور تو کرو کہ تمہاری قوم میں جتنے گناہ پائے جاتے ہیں میں ان سب سے پاک ہوں۔ پہھر کس طرح ممکن تھا کہ خدا پر جھوٹ باندھنے کا جو بدترین گناہ ہے اس کا میں مرتکب ہو جاتا۔ کیا عقل اس بات کو تسلیم کرسکتی ہے ہرگز نہی۔ پس افتراء کا الزام بالکل باطل ہے۔
اس جگہ پر ویری صاحب نے ایک اعتراض کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ یہ جو بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس آیت میں حضرت نوح مراد ہیں اور انہی کی طرف سے یہ جواب دیا گیا ہے یہ بالکل غلط ہے۔ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ (نعوذباللہ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود قرآن بنایا کرتے تھے۔ بناتے بناتے اس جگہ بھول گئے کہ میں اپنی بات کرتا ہوں یا نوح کی اور جھٹ کہہ دیا اور یقولون افتراہ الایۃ میرے نزدیک معنی تو وہی صحیح ہیں جو میں اوپر بیان کر آیا ہوں لیکن ویری صاحب کا کلام پڑھنے کے بعدمیں ان معنوں کو بھی صحیح سمجھتا ہوں اور میرے نزدیک اس میں اللہ تعالیٰ نے ویری صاحب کے اعتراض ہی کا جوب دیا ہے اور وہ اس طرح سے کہ ویری صاحب نے آیت ولااقول لکم عندی خزائن اللہ وغیرہ کے متعلق لکھا ہے کہ یہ اعتراض نوح علیہ السلام پر نہیں ہوئے تھے بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوئے تھے مگر انہوں نے ان کا جواب حضرت نوح کی زبان سے دیا تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ ایسے اعتراض ہمیشہ سے ہوتے چلے آئے ہیں کوئی نئے اعتراض نہیں ہیں۔ گویا ویری صاحب نے اس اعتراض میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر افتراء کا الزام لگایا ہے پس بالکل ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو عالم الغیب ہے پہلے ہی سے اس جگہ جملہ معتراضہ کے طور پر ویری صاحب اور ان کی طرح کے دوسرے معترضوں کا جواب دے دیا ہو۔ اور فرمادیا ہو کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) آئندہ زمانہ میں بعض لوگ پچھلی باتوں پر اعتراض کریں گے اور کہیں گے کہ یہ نوحؑ کی کہی ہوئی نہیں بلکہ تو نے اپنے پاس سے بنائی ہیں۔ تو بھی ان کو یہ بات جواب میں کہہ دے کہ اگر میں مفتری ہوں تو اس کی سزا خدا سے پاؤں گا۔ اور اس سے بچ نہیں سکتا۔ مگر واقعات نے بتلا دیا کہ جسے ویری صاحب خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں اسے تو دشمن پھانسی پر لٹکانے میں کامیاب ہو گئے لیکن جسے وہ مفتری قرار دیتے ہیں وہ اپنے دشمنوں پر غالب آ گیا۔ کیا مفتری کے ساتھ یہی سلوک کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اپنے زمانہ کے تمام عیبوں اور نجاستوں سے پاک ہونے کی وجہ سے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ پر مہر صداقت ثبت ہوتی ہے۔
۳۶؎ حل لغات
ابتاسہ۔ کرھہ۔ ناپسند کیا۔ حذن افسوس کیا۔ لاتبتئس لاتحزن ولاتشتک۔ یعنی لاتبتئس کے معنی ہیں غم نہ کر۔ اور شکایت نہ کر۔ (اقرب)
تفسیر
اللہ تعالیٰ کے اس قول سے کہ تیری قوم میں سے جو ایمان لاچکے سو لاچکے۔ آئندہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے صاف پتہ لگتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی اس دعا کو جسے بددعا کہا جاتا ہے اگر بددعا ہی سمجھا جائے تو بھی وہ خدا کے حکم کے ماتحت تھی کیونکہ اس آیت کے آخر میں فلاتبتئس بما کانوا یفعلون فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت یہ الہام ہوا تھا اس وقت تک حضرت نوحؑ اپنی قوم کی ہدایت سے مایوس نہیں ہوئے تھے۔ اور ان کی حالت پر غمگین تھے کہ اس وقت تک وہ ایمان کیوں نہیں لائے۔ اب اگر یہ خیال کیا جائے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی دعاء یعنی رب لاتذر علی الارض من الکافرین دیارا (نوح ع۲) بددعا تھی تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ اس الہام سے جو اس آیت میں بیان ہوا ہے پہلے کی تھی یا بعد کی۔ اگر بعد کی تھی تو حضرت نوح علیہ السلام کی دعا بد دعا نہ رہی بلکہ وہ خداتعالیٰ کے فیصلہ پر ایک قسم کا اظہار تسلیم تھا کیونکہ اگر خداتعالیٰ لوگوں کی تباہی کا فیصلہ پہلے ہی کرچکا تھا تو حضرت نوح علیہ السلام کو بددعا کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی تھی۔ اور اگر یہ سمجھا جائے کہ یہ دعا اس الہام سے پہلے کی ہے تو پھر بھی بات نہیں بنتی کیونکہ اگر حضرت نوحؑ اس الہام سے پہلے ہی اپنی قوم کی ہلاکت اور تباہی کی دعا کررہے تھے تو اس آیت میں یہ کیوں کہا گیا ہے کہ اب تیری قوم ایمان نہیں لائے گی۔ لیکن تو اس مشیت الٰہی پر غم نہ کر جو شخص پہلے ہی قوم کی تباہی کی دعا کررہا تھا اس نے قوم کی تباہی کی خبر سن کر غم کیوں کرنا تھا وہ تو خوش ہوتا۔
غرض دونوں صورتیں جو اوپر بیان ہوئی ہیں۔ ٹھیک نہیں بنتیں اور دراصل بات یہی ہے کہ آیت مذکورہ کا الہام پہلے کا ہے اور دعا بعد کی ہے اور بطور بددعا نہپیں بلکہ الٰہی فیصلہ کی تصدیق کے رنگ میں ہے۔ گویا حضرت نوح علیہ السلام یوں کہتے ہیں کہ اے میرے رب تو ان کو جس طرح تو نے فیصلہ کیا ہے تباہ کر دے میں تیری رضا پر راضی ہوں۔ اور اگر اس کا نام بددعا بھی رکھا جائے تو اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت بددعا ہے اور ایسی بددعا جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہو نبی کی شان کے خلاف نہیں کیونکہ جب علیم و خبیر خدا کسی قوم کی خراب حالت کو ظاہر کردے تو پھر ہدایت سے محروم رکھنے کی دعا صرف واقعات کا اظہار رہ جاتی ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ خداتعالیٰ تو فیصلہ کر ہی چکا تھا پھر حضرت نوحؑ کو دعا مانگنے کی کیا ضرورت تھی تو اس کا جواب یہ ہے کہ بعض وقت نبی کو عذاب کی خبر تو معلوم ہو جاتی ہے مگر وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی وسعت کو دیکھ کر اپنی قوم کے لئے سفارش کرتا رہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ شاید اللہ تعالیٰ وعید کو ٹلا دے۔ حضرت نوحؑ بھی اسی طرح کرتے رہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے سمجھ لیا کہ عذاب میں تاخیر کرنے سے خود دین کو نقصان ہوگا تب انہوں نے دعا کی کہ خداتعالیٰ اپنے اس فیصلہ کو جو وہ کرچکا ہے جاری کردے۔
۳۷؎ حل لغات
الفلک۔ السفینۃ۔ کشتی یہ لفظ کبھی مذکر استعمال ہوتا ہے کبھی مؤنث (اقرب)۔ اعین۔ عین کی جمع ہے اور عین ان لفظوں میں سے ہے جن کے عربی زبان میں بہت کثرت سے معنی پائے جاتے ہیں۔ العین الباصرہ اس کے معنی آنکھ کے ڈھیلے کے بھی ہیں۔ وقد تطلق علی الحدقۃ اور اس کے معنی آنکھ کی سیاہی کے بھی ہوتے ہیں۔ والاصابۃ بالعین اور نیز اس کے معنی ہیں نظر لگانا۔ واھل البلد ایک شہر کے لوگ واھل الدار۔ ایک گھر کے لوگ۔ ایک کنبہ۔ والاصابۃ فی العین۔ یقال بہ عین۔ آنکھ کی بیماری کو بھی عین کہتے ہیں۔ (اردو میں بھی یہ محاورہ ہے کہ آنکھیں آگئیں)۔ الدیدبان۔ خبررسان۔ الجماعۃ۔ جماعت، گروہ۔ حاسۃ البصر۔ نظر۔ الحاضر من کل شیء جو چیز آنکھ کے سامنے ہو۔ خیارا الشئی۔ اچھی چیز۔ الدینار۔ سونے کا سکہ۔ نفس الشئی۔ کسی چیز کا وجود۔ النقد الحاضر۔ نقدی جو موجود ہو۔ السید قوم کا سردار۔ الشمس۔ سورج۔ اوشعاعہا۔ دھوپ۔ سورج کی روشنی۔ سورج کی کرنیں۔ العتید من المال جو مالیت والی چیز موجود ہو۔ مال۔ مطر ایام لایقلکع کئی دن تک لمبی چلی جانے والی بارش۔ الینبوع۔ چشمہ اور کہتے ہیں کہ انت علی عینی۔ ای فی الاکرام والحفظ۔ یعنی جب کہیں۔ انت علی عینی تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ تو میری حفاظت میں ہے۔ اور میں تیری عزت کرتا ہوں۔ (اقرب) فلان بعینی۔ ای احفظہ واراعیہ یعنی میں اس کی حفاظت اور نگرانی کرتا ہوں۔ انک باعیننا۔ واضع الفلک باعیننا ای بحافظتی یعنی ان دونوں آیتوں میں اعیننا سے مراد حفاظت الٰہی ہے ومنہ عین اللہ علیک ای کنت فی حفظہ یعنی تو اس کی حفاظت میں رہے۔ (مفردات)
تفسیر
جب حضرت نوح علیہ السلام کو قوم کی تباہی کی خبر دی گئی تو ساتھ ہی یہ حکم ملا کہ ہمارے حکم کے ماتحت کشتی تیار کرو اور اس میں اپنے اتباع سے یا گھر والوں سے مدد لو۔ حل لغات میں بتایا جاچکا ہے کہ عین کے معنی گھر کے لوگوں کے بھی ہوتے ہیں اور نبی کے گھر کے لوگوں میں نہ صرف اس کے عزیز شامل ہوتے ہیں بلکہ بسااوقات اس کے اتباع بھی اس کے گھر کے لوگ ہی کہلاتے ہیں۔ کیونکہ اس کے سب رشتے روحانی ہوجاتے ہیں۔ جسمانی رشتوں میں سے بھی وہی اس کے رشتہ دار رہتے ہیں جو روحانی طور پر اس سے تعلق رکھتے ہوں۔ پس باعیننا سے مراد ہمارے گھر والے یا اتباع بھی ہوسکتے ہیں۔ اور یہ جو فرمایا کہ ہمارے گھر والے سو اس کا یہ مطلب نہیں کہ خداتعالیٰ کا کا بھی کوئی گھر ہوتا ہے بلکہ چونکہ نبی سے تعلق رکھنے والے خداتعالیٰ کے بھی پیارے ہوجاتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی طرف منسوب کرلیا ہے۔ جیسے فرماتا ہے فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی۔ پس خداتعالیٰ کے گھر والوں سے مراد اس کی جنت کے مستحق لوگ ہیں اور ان الفاظ میں اس عذاب کے وقت میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو مزید تسلی دی ہے۔
دوسرے معنی اس کے یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ ہماری قسم قسم کی حفاظتوں میں رہ کر تو یہ کام کر۔ کیونکہ عین کے معنی جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا ہے حفاظت کے بھی ہوتے ہیں اور عزت کے بھی۔ ان معنوں کے رو سے یہ مراد ہوگی کہ کشتی بناتے وقت لوگ تمسخر کریں گے۔ ہنسی اڑائیں گے تکلیفیں دیں گے لیکن ہماری حفاظت اور ہماری طرف سے اعزاز تجھے عطا ہوگا پس تو ان کی باتوں کی پرواہ نہ کیجیئو۔
میرے نزدیک باعیننا ووحینا سے دو کشتیوں کی طرف شارہ کیا ہے۔ ایک وہ کشتی جو مومنوں کی مدد سے تیار ہونی تھی اور دوسری جو وحی سے تیار ہونی تھی۔ پہلی سے مراد جسمانی کشتی ہے اور دوسری سے مراد روحانی کشتی ہے۔ یعنی تقویٰ جو انسان کو عذاب الٰہی سے بچالیتا ہے۔
یہ جو فرمایا ہے کہ ظالموں کے بارہ میں مجھ سے کچھ نہ کہیو اس سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوحؑ نے بددعا اپنی طرف سے نہیں کی تھی۔ اگر وہ بددعا کررہے ہوتے تو انہیں دعا کرنے سے روکنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔
۳۸؎ حل لغات
سخرمنہ۔ عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ کسی فعل کی جزا کے لئے بھی وہی لفظ بول دیتے ہیں۔ جو اس فعل کے لئے بولا گیا ہو۔ قرآن کریم میں یہ محاورہ متعدد جگہ استعمال کیا گیا ہے۔ جیسے جزاء سیئۃ سیئۃ مثلھا اور فاعتدوا علیہ بمثل ماعتدی علیکم یہ بات ظاہر ہے کہ ہر امر کی سزا کو زیادتی کرنا نہیں کہا جاسکتا۔ بلکہ زیادتی کرنا جرم سے زیادہ سزا دینے کو کہتے ہیں مگر باوجود اس کے یہاں برابر کی سزاء کا نام بھی اعتداء رکھا گیا ہے۔ اسی طرح ایک شاعر کا قول ہے فداووا بالجنون من الجنون۔ مطلب یہ کہ دشمنوں نے اپنی طاقت کا اندازہ صحیح نہ کرکے اور اس زبردست مقام پر حملہ کرکے اپنے جنون کا ثبوت دیا حالانکہ طاقتور کا کمزور پر حملہ کرنا جنون نہیں ہوتا۔ بلکہ کمزور کا طاقتور پر حملہ کرنا جنون کہلاتا ہے مگر یہاں پر جنون کی سزا کے لئے بھی جنون کا لفظ بول دیا گیا ہے۔
تفسیر
جب کبھی بھی خداتعالیٰ کے مامور دنیا میں آتے ہیں لوگ ان کی باتوں کو ہنسی میں اڑانا چاہتے ہیں اور چونکہ وہ ایسی باتیں کرتے ہیں جن کے ماننے کے لئے ابھی دنیا تیار نہیں ہوتی اس لئے دشمنوں کو اور زیادہ ہنسی کا موقع مل جاتا ہے۔ نادان لوگ نہیں سمجھتے کہ اگر غیرمعمولی کام ان کے ذمہ نہ لگایا گیا ہو جس کا سمجھنا انسانی عقل سے بالا ہو تو اللہ تعالیٰ کو مامور بھیجنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ جب باوجود عقل کے انسان اپنی مصیبتوں سے آزاد نہیں ہوسکتا اور جب اس کی عقل اپنے گرد و پیش کے حالات پر قیاس کرکے جو علاج سوچتی ہے وہ اس کی ترقی کا موجب نہیں بلکہ اس کی ہلاکت کا موجب ہوتا ہے تبھی تو خداتعالیٰ کی طرف سے مامور آتیے ہیں اور چونکہ ان کا علاج بالکل نرالا ہوتا ہے لوگوں کو طبعاً ان کی بات غیرمعقول معلوم ہوتی ہے اور دشمنوں کو شرارت اور ہنسی کا موقع مل جاتا ہے۔ لیکن نتیجہ کیا ہوتا ہے یہی کہ انبیاء اور ان کی جماعتیں تو کامیاب ہوجاتی ہیں اور ان کے دشمن ہمیشہ کے لئے بے وقوفوں میں شامل ہوجاتے ہیں۔
۳۹؎ حل لغات
اخزاۃ اخزاء۔ اوقعہ فی الخزی واھانہ۔ اس کو رسوائی میں مبتلا کر دیا۔ ذلیل کردیا۔ اللہ فلانا فضحہ جب خدایتعالیٰ فاعل ہو تو اس کے معنی ہوتے ہیں کہ اس نے اس کی پردہ دری کی۔ یحل علیہ اویحل علیہ یجب علیہ وینزل۔ اس پر واجب ہوجائے گا اور نازل ہوگا۔ (اقرب)
تفسیر
عذاب یخزیہ۔ عذاب کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک عذاب کہ جن کے آنے سے دوسرے لوگوں کو عذاب پانے والوں پر رحم آتا ہے جیسے کسی کا مکان گرجائے تو سب لوگ اس پر رحم کرتے ہیں۔ ایسے عذابوں کے ساتھ رسوائی کا پہلو نہیں ہوتا۔ مگر بعض عذاب رسوائی کا پہلو بھی ساتھ رکھتے ہیں۔ جیسے مثلاً یہ کہ کسی شخص کا جھوٹ کھل جائے یہ عذاب بھی ہے اور اس کے ساتھ رسوائی بھی ہے۔ یا مثلاً ایسا عذاب ہو کہ اسے لوگوں سے بطور عبرت کے یاد رکھوایا جائے جیسے قوم نوحؑ کا عذاب کہ آج تک لوگوں میں اس کی یاد قائم ہے۔
عذاب مقیم ایسا عذاب جو قائم رہے گا یعنی اس دنیا میں آئے گا اور اگلے جہان میں بھی جاری رہے گا۔
یعنی فرمایا کہ عذاب تو وہی ہے جس میں قائم رہنے والی اور حقیقی ذلت ہو۔ جو مٹنے والی نہ ہو۔ بلکہ تباہ کردینے والی ہو۔ پس تمہاری ہنسی سے ہماری کوئی تذلیل نہیں ہوتی اور نہ ہم اس سے گھبراتے ہیں۔ گھبرانا تو تم کو چاہئے کہ جن پر حقیقی اور دائمی ذلت اور عذاب آنے والا ہے۔
۴۰؎ حل لغات
فار۔ جاش ابل پڑا (قاموس) فارت القدر۔ غلت۔ ہنڈیا کو ابال آ گیا۔ فارالماء نبع من الارض وجری۔ جب یہ لفظ پانی کے لئے استعمال ہو تو اس کے معنی ہوتے ہیں پانی زمین میں سے پھوٹ پڑا اور بہ پڑا (اقرب)۔ التنور۔ الکانون یخبزفیہ۔ تنور جس میں روٹیاں پکاتے ہیں۔ کل مفجر ماء۔ جہاں سے پانی پھوٹے۔ یعنی چشمہ۔ محفل ماء الوادی۔ وادی کے پانی کے جمع ہونے کی جگہ۔ (اقرب) التنور وجہ الارض۔ تنور کے معنی سطح زمین کے بھی ہیں۔ (تاج) بحرمحیط کے مصنف کہتے ہیں کہ قرآن میں فارالتنور ہوسکتا ہے کہ مجازاً استعمال ہوا ہو جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ حمی الوطیس جس سے آپ کی مراد یہ تھی کہ جنگ خوب تیز ہو گئی ہے۔ حالانکہ لفظ یہی تھے کہ تنور گرم ہو گیا ہے اور فار اور حمی کے معنی ایک ہی ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے سمعوا لھا شھیقا وھی تنور۔ (ملک ع۱) کافر دوزخ کی آواز سنیں گے اور وہ جوش میں آرہی ہوگی۔ پس اس صورت میں اس کے یہ معنی ہوں گے کہ پانی چاروں طرف پھیل گیا۔ (بحرمحیط زیرآیت مذکورہ)
زوج کے معنی ہیں کل واحد معہ اخر من جنسہ ہر اک وہ چیز جس کے ساتھ اس کی جنس میں سے ایک اور وجود بھی ہو (اقرب) پس زوج کے معنی ساتھ کے جوڑے کے ہوتے ہیں۔ نہ کہ دو دو چیزوں کے اور اسی وجہ سے اثنین کا لفظ لگا کر واضح کر دیا گیا ہے کہ مراد دو ہم جنس جانور ہیں نہ کہ دو جوڑے یعنی چار جانور۔ حضرت نوحؑ کو حکم تھا کہ ضروری جانوروں میں سے ایک ایک نر اور ایک ایک مادہ اپنے ساتھ رکھ لیں۔
تفسیر
یعنی یہ جواب وسوال اور دشمنوں کی طرف سے ہنسی اور حضرت نوح علیہ السلام کی طرف سے صبر اور توکل کا اظہار اسی طرح ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ چشموں کی جگہوں سے پانی پھوٹ پڑا۔ یا یہ کہ سطح میں پر پانی بہنے لگا۔ یہ عذاب جو حضرت نوحؑ کی قوم پر آیا صرف کسی زمینی چشمہ کے پھوٹنے کے سبب سے نہ تھا بلکہ جیسا کہ قرآن کریم کے دوسرے مقامات سے ظاہر ہے اصل سرچشمہ پانی کا بادل تھے۔ عذاب سے قبل اس قدر بارش ہوئی کہ سب جگہ پانی ہی پانی ہو گیا۔ اور جیسا کہ کثرت بارش کے وقت میں ہوا کرتا ہے۔ زمین کے سوتے بھی جاری ہو گئے اور اس آسمانی اور زمینی پانی نے مل کر اس علاقہ کو تباہ کر دیا۔ سورۂ قمر رکوع اول میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وفجرنا الارض عیونا فالتقی الماء علی امرٍ قد قدر۔ اور ہم نے زمین میں چشمے پھوڑ دیئے اور پانی مقررہ امر کے لئے اس میں مل گیا۔ یہعنی آسمانی پانی زمینی پانی سے مل کر دنیا کو تباہ کرنے لگا۔ اسی سورۃ یعنی ہود میں چند آیات آگے چل کر فرمایا ہے یا ارض ابلعی مائک ویاسماء اقلعی اس میں بھی بارش کا ذکر ہے اور سورۂ قمر میں ہے ففتحنا ابواب السماء بماء منھمر اس پر ہم نے آسمان کے دروازے ایک شدت سے برسنے والے پانی کے ذریعہ سے کھول دیئے۔ غرض آیات قرآنیہ سے ثابت ہے کہ پانی اوپر سے بھی برسا اور زمین سے بھی نکلا اور دونوں پانیوں کے ملنے سے حضرت نوح علیہ السلام کی قوم پر تباہی آئی اور یہ بات نہ صرف یہ کہ خداتعالیٰ کی قدرت میں ہے بلکہ اس کے عام قانون قدرت کے بھی مطابق ہے۔ یہ عام قاعدہ ہے کہ جب بارش زور سے پڑے تو زمین سے بھی پانی ابلنے لگ جاتا ہے اور خصوصاً پہاڑی علاقوں میں کہ جہاں چشموں کا پانی اونچے پہاڑوں پر بڑی ہوئی برف کے پانی سے نکلتا ہے جس وقت بارش ہوتی ہے تو برف کے گھلنے کی وجہ سے ان کے پانیوں میں زیادتی آجاتی ہے اور یہ بات قرآن کریم اور تاریخ سے ثابت ہے کہ حضرت نوحؑ پہاڑی علاقہ میں رہتے تھے کیونکہ اس آیت سے آگے دو آیتیں چھوڑ کر تیسری آیت میں حضرت نوحؑ کے یبٹے کا قول نقل کیا ہے کہ ساوی الی جبل میں کسی پہاڑ پر چڑھ جاؤں گا۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ علاقہ پہاڑی تھا اور حضرت نوحؑ پہاڑوں کے درمیان کسی وادی میں رہا کرتے تھے۔ ورنہ یہ خیال نہیں کیا جاسکتا کہ طوفان کے آنے پر ان کے بیٹے نے کہا ہو کہ میں دوڑ کر سو یادوسو میل کے کسی پہاڑ پر چڑھ جاؤں گا۔ اس کا فقرہ صاف بتاتا ہے کہ وہ بالکل دامن کوہ میں کھڑا ہوا تھا اور باوجود اس کے کہ طوفان بڑھ رہا تھا وہ سمجھتا تھا کہ میں آسانی سے پہاڑ پر چڑھ کر بچ سکوں گا۔
من کلٍ زوجین میں کل سے مراد صرف وہی جانور ہیں جوحضرت نوحؑ کے گھر میں موجود تھے۔ اور عموماً کل انہی افراد پر مشتمل ہوتا ہے جو عرف عام کے مطابق اس کے نیچے آسکیں نہ کہ کل افراد پر۔ قرآن کریم میں ملکہ سبا کی نسبت آتا ہے اوتیت من کل شیء اسے ہر ایک شے دی گئی تھی مگر حضرت سلیمان علیہ السلام اس کے پیغامبروں کے جواب میں فرماتے ہیں کہ اے ملکہ تیری ہستی ہی کیا ہے میں تجھے ہلاک کردوں گا۔ اگر کل کے معنی سب کچھ کے ہی ہوتے تو ضروری تھا کہ جو کچھ سلیمان علیہ السلام کے پاس تھا وہ بھی اس کے پاس ہوتا۔ لیکن اس جگہ کل کے معنی کوئی شخص سب کچھ نہیں کرتا بلکہ مفسرین بھی یہی معنی کرتے ہیں کہ سب قسم کی ضرورتوں کے سامان اس کے پاس تھے۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ یہی معنی یہاں نہ کئے جائیں اور یہ نہ کہا جائے کہ حضرت نوح علیہ السلام کو بھی انہی جانوروں کے جوڑے لینے کا حکم دیا گیا تھا جن کی انہیں ضرورت ہو سکتی تھی اور یہی معقول معنی ہیں ورنہ ماننا پڑے گا کہ کروڑوں اربوں حشرات الارض اور درندے سب حضرت نوحؑ کی کشتی میں جمع ہو گئے تھے۔ اس صورت میں تو کشتی کوئی چوتھائی حصۂ زمین کے برابر چاہئے۔
یہ امر بھی قابل غور ہے کہ اس جگہ زوجین کہہ کر تقلیل پر زور دیا ہے کہ جوڑوں سے زائد نہ لو پس یہ زور دینا بھی بتارہا ہے کہ حکم صرف ضروری اشیاء کے لئے تھا نہ کہ دنیا جہان کی چیزوں کو اکٹھا کرنے کے متعلق۔
الامن سبق علیہ القول کے یہ معنی نہیں کہ سوائے اس کے جس کے متعلق تجھے بتا دیا گیا ہے بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ سوائے اس کے کہ جس کے خلاف الٰہی فیصلہ ہوچکا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اس فقرہ کی نسبت یہ خیال کیا کہ یہ صرف استغناء کے اظہار کے لئے ہے جیسے کہ حضرت شعیبؑ نے اپنے مخالفوں سے کہا تھا کہ مایکون لنا ان تعود فیھا الا ان یشاء اللہ ربنا۔ (اعراف ع۱۱) یعنی ہم تمہارے دین میں کسی صورت میں واپس نہیں آسکتے۔ سوائے اس کے کہ خداتعالیٰ چاہے کہ ہم ایسا کریں۔ اب یہ امر ظاہر ہے کہ خداتعالیٰ ایسا کبھی پسند نہیں کرسکتا کہ اپنے نبی کو شرک کی تعلیم دے یا یہ کہ نبی مرتد ہوجائے۔ پس اس جگہ الاان یشاء اللہ سے درحقیقت اللہ تعالیٰ کا استغناء ظاہر کرنا مقصود ہے اور نیز یہ بتانا کہ خداتعالیٰ کی قدرتوں کو محدود نہیں کیا جاسکتا۔ نہ یہ بتانا کہ بالکل ممکن ہے کہ نبی بھی مرتد ہو جائے۔
۴۱؎ حل لغات
مجری اصل میں مجریٰ ہے جس کے معنی چلنے کے ہیں اور یہ لفظ جری یجری کا مصدر میمی ہے اور اسم ظرف بھی ہوسکتا ہے اس صورت میں اس کے معی ہوں گے چلنے کا وقت یا جگہ۔ مرسی۔ ارسی میں سے نکلا ہے ارسی کے معنی ہیں ٹھہرایا اور یہ مصدر میمی ہے جس کے معنی ٹھہرانے کے ہیں اس کا مجرد رسا ہے۔ یہ لفظ کشتی کے لنگر ڈالنے کے متعلق خصوصیت سے استعمال ہوتا ہے۔ بعض قرائتوں میں مجریھا ومرسیھا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کا نام لے کر جو اس کا چلانے والا اور ٹھہرانے والا ہے۔
۴۲؎ حل لغات
معزل۔ عزل سے نکلا ہے کہتے ہیں عزل الشئی عن غیرہ یعزل عزلا فعزل ای نحاہ عنہ جانبا فتنحی ای لازم ومتعد اسے کسی دوسری چیز سے ایک طرف ہٹا دیا اور وہ ہٹ گیا۔ گویا لازم و متعدی دونوں معنوں میں آتا ہے۔ عزل فلانا عن منصبہ اونحرہ رفعہ عنہ اس کام سے اسے ہٹا دیا المعزل الجانب یقال ھوعن الحق بمعزل اے مجانب لہ معزل کے معنی ایک طرف کے ہوتے ہیں جب کسی کے متعلق کہتے ہیں کہ ھو عن الحق بمعزل تو اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ وہ شخص حق سے ایک طرف ہو گیا ہے۔ (اقرب)
تفسیر
مفسرین نے اس بیٹے کے متعلق اختلاف کیا ہے۔ بعض کے نزدیک یہ حقیقی بیٹا نہ تھا بلکہ رشتہ دار تھا۔ بعض کے نزدیک حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی کا بیٹا تھا۔ آپپ کی نسل سے نہ تھا۔ مگر ابن مسعود ابن عباس عکرمہ رضی اللہ عنہم، الضحاک، ابن جبیر وغیرہم اور اکثر مفسرین کی رائے میں ان کا بیٹا ہی تھا۔ میرے نزدیک اس بحث میں پڑنا بے فائدہ ہے جب قرآن کریم اسے بیٹا کہتا ہے اور نوحؑ کی زبان سے بیٹا کہلواتا ہے اور کوئی دوسری آیت اس کے خلاف نہیں تو وہ ضرور ایسا رشتہ دار تھا جس کے لئے بیٹے کا لفظ بولا جاتا ہے۔
مسیحی مفسرین اس بیٹے کے واقعہ پر معترض ہیں کہ یہ بائیبل کے خلاف ہے مگر بائیبل ایسے ناقص حالات میں ہے کہ اس کی بناء پر قرآن کریم پر اعتراض کرنا حیرت انگیز ہے۔
۴۳؎ حل لغات
آوی۔ منزلہ اوالی منزلہ نزل بہ لیلا اونہارا۔ (اقرب) دن کو یا رات کو اپنے گھر میں آ ٹھہرا۔ یعنی اوی کے معنی ہیں بے اطمینانی کی جگہ سے آرام کی جگہ پر آ گیا۔ عصم، یعصم عصما۔ الشئی منعہ اسے رد کردیا۔ اللہ فلانا من المکروہ حفظہ ووقاہ خداتعالیٰ نے فلاں شخص کو تکلیف سے محفوظ رکھا اور بچا لیا۔ (اقرب)
تفسیر
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوحؑ کی رہائش کا مقام پہاڑوں میں گھرا ہوا تھا کیونکہ تبھی تو ان کا بیٹا کہتا ہے کہ میں کسی پہاڑ پر چڑھ جاؤں گا۔ کسی کا لفظ علاقہ کے ساتھ ساتھ پہاڑوں کی کثرت پر دلالت کرتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ جگہ پہاڑوں سے گھری ہوئی ایک وادی تھی اور ایسی جگہ پر پانی کایکدم اونچا ہوجانا اور غیرمعمولی طور پر بلند ہوجانا خلاف عقل نہیں ہے۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نادان انسان آخر تک واقعات سے آنکھیں بند کئے بیٹھا رہتا ہے۔ طوفان آرہا ہے لیکن باوجود اس کے حضرت نوحؑ کا بیٹا اپنے باپ کے پیغام میں شک کررہا ہے۔
الا من رحمہ استثناء مفرغ ہے۔ اور اس کے معنی یہ ہیں کہ خداتعالیٰ کے سواء آج کوئی بچانے والا نہیں۔ ہاں مگر وہ شخص محفوظ رہے گا جسے خداتعالیٰ بچائے۔
حال بینہما الموج میں ایک لطیف اشارہ اس امر کی طرف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوحؑ کو بیٹے کے غرق ہونے کا نظارہ دیکھنے سے بچا لیا اور ایک بلند موج کے پردہ میں اسے غرق کیا۔
۴۴؎ حل لغات
بلعہ یبلع وابتلعہ انزلہ من حلقومہ الی جرفہ ولم یمضغہ بلع اور ابتلع کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ بغیر چبانے کے کسی چیز کو گلے سے پیٹ میں اتار دیا۔ (اقرب) اقلع عن الامر۔ کف۔ رک گیا۔ (اقرب) غاض الماء۔ نقص اوغارفذھب فی الارض وغاض الماء نقصہ۔ یعنی غاض لازم اور متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ اور اس کے معنی زمین میں جذب ہوجانے کے بھی ہوتے ہیں اور کم کردینے کے بھی ہوتے ہیں۔ (اقرب) استوی علی ظھر دابۃ استقر۔ سواری پر ٹک گیا۔ (اقرب) بعد۔ یبعد بعدا ضد قرب۔ یعنی یہ قریب ہونے کے مخالف معنی دیتا ہے وفلان ای مات۔ اور جب یہ انسان کے لئے آئے تو کبھی اس کے معنی فوت ہوجانے کے بھی ہوتے ہیں۔ (اقرب)
۴۵؎ تفسیر
انبیاء کا معاملہ اللہ تعالیٰ سے کیسا مؤدب ہوتا ہے۔ کلام الٰہی سے حضرت نوح علیہ السلام کو اجتہادی غلطی لگی۔ اور انہوں نے یہ خیال کیا کہ میرے تمام اہل نجات پائیں گے۔ لیکن جب بیٹا غرق ہونے لگا تو کس لطیف پیرایہ سے خداتعالیٰ کے حضور میں دعا کی کہ خدایا یہ میرے اہل میں سے ہے یعنی میں اس وعدہ کا واسطہ دے کر اس کی نجات کا خواہاں۔ مگر چونکہ ظاہری سامان اس کی نجات کے خلاف تھے یہ بھی کہہ دیا کہ یہ ڈوب بھی جائے تو میں یہ خیال نہیں کروں گا کہ تیرا وعدہ جھوٹا تھا تیرا وعدہ بہرحال سچا ہے۔ اور تیرا فیصلہ بالکل درست ہے۔ ایسے صڈمہ کے وقت میں اس ادب اور اس ایمان کا ظہور صرف اعلیٰ درجہ کے نیک بندوں سے ہی ممکن ہے۔
۴۶؎
کیسے مختصر الفاظ میں حقیقت کو ظاہر کر دیا ہے۔ کہ جب اہل کہا تھا تو اس سے مراد تمام اہل نہ تھے بلکہ مومن اہل تھے کیونکہ تیرا حقیقی اہل وہی ہے جو خداتعالیٰ سے تعلق رکھتا ہو۔
انہ عمل غیرصالح کے دو معنی ہوسکتے ہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ فقرہ حضرت نوحؑ کی دعا کے متعلق ہو۔ اور اللہ تعالیٰ فرامتا ہے کہ یہ تیرا عمل یعنی دعا بے محل ہے کیونکہ صالح کے معنی مناسب حال کے ہوتے ہیں۔ مطلب یہ کہ ہم پہلے اس امر کا اعلان کرچکے ہیں اور اب عذاب کا وقت آچکا ہے اب اس دعا کا فائدہ نہیں ہوسکتا۔ اور یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ یہ جملہ بیٹے کے متعلق ہو اور عمل بمعنی عامل کے ہو۔ یا ذو کا لفظ محذوف ہو اور یہ دونوں باتیں عربی محاورہ کے مطابق جائز ہیں۔ اس صورت میں اس آیت کے یہ معنی ہوں گے کہ یہ لڑکا تیرے اہل میں سے نہیں ہے کیونکہ وہ نامناسب اعمال کرتا رہا ہے۔ یا یہ کہ اس کے عمل بے محل اور تقویٰ سے دور تھے۔ عربی زبان کا محاورہ ہے کہ مبالغہ کے لئے مصدر کا صیغہ بجائے اسم فاعل کے استعمال کردیتے ہیں۔ چنانچہ ایک شاعر کہتا ہے فانما ھی اقبال وادبار۔ وہ (اونٹنی) اپنے بچوں کو کھوبیٹھنے کی وجہ سے ایسی بے قرار ہے کہ گویا آنا اور جانا ہی (بنی ہوئی ) ہے۔
ان تکون من الجاھلین۔ یعنی تو تو کلام الٰہی کا حامل ہے تجھے آئندہ چاہئے کہ کلام الٰہی کے سب پہلوؤں پر غور کر لیا کرے۔ گویا یہ اجمال جو پیشگوئی میں واقع ہوا ہے اسی کو اللہ تعالیٰ آئندہ کے لئے ایک ذریعہ عبرت بناتا ہے اور فرماتا ہے کہ اس واقعہ سے سبق حاصل کرو۔ اور یاد رکھو کہ پیشگوئیاں کئی معنی رکھتی ہیں اور اصل حقیقت ان کی پورا ہونے پر ہی ظاہر ہوتی ہے۔
فلا تسئلن مالیس لک بہ علم کے دو معنی ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ایسے امر کے متعلق دعا نہ کر جس کا تجھے علم نہ ہو اور یہ بھی ایک اہم بات ہے جس کے نہ جاننے کی وجہ سے لوگ نقصان اٹھاتے ہیں۔ انسان عالم الغیب نہیں اسے معلوم نہیں ہوسکتا کہ جس چیز کو وہ مانگتا ہے وہ اس کے لئے کیسی ہوگی۔ مبارک یا منحوس۔ پس دعا کرتے وقت ہمیشہ یہ خیال رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ سے عرض کرے کہ اگر یہ چیز اچھی ہو تو مجھے ملے ورنہ نہیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکتہ پر خود بھی عمل کیا ہے اور دوسروں سے بھی عمل کرایا ہے۔ آپ ہر نئے کام سے پہلے یہ دعا مانگنے کا حکم دیتے ہیں۔ اللہم ان کنت تعلم ان ھذا الامر خیرلی فی دینی ومعاشی وعاقبۃ امری فاقدرہ لی ویسرہ لی ثم بارک لی فیہ وان کنت تعلم ان ان ھذا الامر شرلی فی دینی ومعاشی وعاقبۃ امری فاصرفہ عنی واصرفنی عنہ واقدرلی الخیر حیث کان ثم ارضنی بہ۔ یعنی اے اللہ اگر تیرے علم میں یہ بات میرے لئے اچھی ہے میرے دین اور میری دنیا اور میرے انجام کے لحاظ سے تو یہ مجھے حاصل ہوجائے اور آسانی سے حاصل ہوجائے اور اس میں میرے لئے برکت ڈال دے۔ اور اگر تیرے علم میں یہ بات میرے دین اور میری دنیا کے لحاظ سے اور میرے انجام کے لحاظ سے بری ہے تو تو اسے مجھ سے دور کردے اور میرے دل کو اس سے پھیر دے اور جو چیز میرے لئے اچھی ہو جہاں بھی ہو میرے لئے مہیا کردے اور مجھے بھی اس کے متعلق شرح صدر عطا فرمادے۔ کیسی مکمل دعا ہے اور کس طرح اس اصل کی اس میں وضاحت کی گئی ہے کہ انسان جس چیز کو اچھا سمجھتا ہے ضروری نہیں کہ وہ اچھی ہو بلکہ ممکن ہے کہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کے علم میں جو عالم الغیب ہے وہ بات انجام کو مدنظر رکھتے ہوئے بری ہو۔ پس اس سے یہ نہیں کہنا چاہئے کہ وہ بات ہو اور وہ نہ ہو بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ اگر اس کا انجام اچھا ہو تو پھر مجھے ملے ورنہ میرے دل سے اس کی خواہش نکال دے۔ ہاں جن باتوں کا انسان کو علم ہو کہ وہ ضرور اچھی ہیں ان کے متعلق وہ دعا کرسکتا ہے کہ وہ اسے مل جائیں۔ مثلاً ہدایت یا رضائے الٰہی یا لقائے الٰہی کی اگر انسان دعا کرے یا یہ دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ دین اور دنیا کی خیر عطا کرے تو ایسی دعائیں جائز ہیں۔ احتیاط ایسے امور کے متعلق کرنی چاہئے جن کا انجام معلوم نہیں اور حضرت نوحؑ کا بیٹے کے لئے اشارۃً دعا کرنا کہ وہ کشتی میں چڑھ جائے ایسے ہی امور میں سے تھا جن کا انجام معلوم نہیں تھا۔ بالکل ممکن تھا بلکہ غالباً یہی واقعہ تھا کہ اگر وہ بچ جاتا تو اس کے ذریعہ سے دین کو نقصان پہنچتا اور وہ مذہب کو طاقت پہنچانے کی بجائے اس کی کمزوری کا موجب ہوجاتا۔ پس اس کا فنا ہونا ہی بہتر اور مناسب تھا۔
اور اگر سوال کے معنی دعا مانگنے کی جگہ دریافت کرنے کے کئے جائیں تو اس صورت میں اس آیت کے یہ معنی ہیں کہ سوال صرف ایسے امور کے متعلق کرنا چاہئے جن کے جواب سے علم میں زیادتی ہو۔ اور انسان کے لئے اس کی حقیقت کو سمجھنا ممکن ہو۔ مگر وہ باریک حکمتیں جن پر قانون قدرت کا مدار ہے اور جو صرف ایک دو واقعات پر مبنی نہیں ہوتیں بلکہ لاکھوں کروڑوں امور جن میں سے بعض لاکھوں سال پہلے کے ہوتے ہیں اور بعض آئندہ ظاہر ہونے والے ہوتے ہیں ان پر ان کی بنیاد ہوتی ہے ان کے متعلق سوال فضول ہے کیونکہ ان کا پورے طور پر سمجھنا انسانی طاقت سے بالا ہوتا ہے کیونکہ ان کے سمجنے کی انسان کو قابلیت ہی نہیں دی گئی۔ مالیس لک بہ علم سے مراد اس صورت میںیہی ہے کہ کہ جن کے سمجھنے کی تجھے طاقت نہیں دی گئی ان کے متعلق سوال نہ کر یا یہ کہ جن امور کو تیرے دائرہ علم سے باہر رکھا گیا ہے ان کے متعلق سوال نہ کر۔ عدم علم اس جگہ مراد نہیں کیونکہ سوال تو کیا ہی اس وقت جاتا ہے کہ جب انسان کو علم نہ ہو۔ جس امر کا علم ہو اس کے متعلق اسے پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ پس علم نہ ہونے سے مراد اس جگہ علم کے احاطہ سے باہر ہونے کے ہیں اور اس میں کیا شک ہے کہ جن امور کی حقیقت کو انسان نہ سمجھ سکتا ہو یا جن کی تفصیل کا اظہار نامناسب ہو ان کے متعلق سوال نہیں کرنا چاہئے۔
اللہ تعالیٰ کے اس جواب سے کہ ان کے بیٹے کے اعمال اچھے نہ تھے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی نظر سے اس کے اعمال پوشیدہ تھے اور نیز اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوحؑ کو جو سوال سے روکا گیا ہے تو اسی وجہ سے کہ اس طرح ان کے بیٹے کی پردہ دری ہوتی تھی اگر ان کے سوال کا صحیح جواب دیا جاتا تو تفصیلاً اس کے عیوب بیان کرنے پڑتے جو اللہ تعالیٰ کی ستاری کے خلاف تھا اس لئے ایک مختصر جواب دیا کہ اس کے اعمال اچھے نہ تھے اور مزید سوالات سے روک دیا تاکہ اور زیادہ غیب سے پردہ نہ اٹھانا پڑے۔ اس امر سے اللہ تعالیٰ کے رحم اور اس کی ستاری کا ایک نہایت دلکش جلوہ نظر آتا ہے۔ ایک طرف غرق کا حکم ہے۔ دوسری طرف پردہ پوشی بھی ہورہی ہے۔ ان معنوں کے رو سے ’’جاہل نہ بن‘‘ کے یہ معنی ہوں گے کہ ایسے امور کو خود ہی سمجھ لینا چاہئے اور سوال نہیں کرنا چاہئیے اور اس میں کیا شک ہے کہ بعض امور کے متعلق سوال کرنا مشکلات پیدا کردیتا ہے۔ ان کے متعلق خود ہی اجتہاد کرلینا سوال کرنے سے زیادہ بہتر ہوتا ہے۔
اس جگہ ایک اور بھی سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ وعدہ تو خداتعالیٰ کا کوئی بیان ہیں ہوا بلکہ الہام الٰہی میں صرف حکم بیان ہوا ہے کہ فلاں قسم کے لوگوں کو کشتی میں بٹھالے۔ اب اگر کسی شخص نے اللہ تعالیٰ کے حکم کو نہیں مانا اور کشتی میں سوار نہیں ہوا تو وہ نافرمان بن گیا۔ خداتعالیٰ پر وعدہ خلافی کا الزام کس طرح لگ سکتا تھا۔ اور جب خداتعالیٰ پر وعدہ خلافی کا کوئی الزام نہیں لگ سکتا تھا تو پھر حضرت نوح علیہ السلام کے اس قول کا کیا مطلب ہوا کہ ان وعدک الحق۔ سو اس کا جواب یہ ہے کہ وعدہ ضرور تھا گو جو الفاظ قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں وہ حکم کے رنگ میں ہیں اور یہ بات ظاہر ہے کہ بعض دفعہ حکم بھی وعدہ کا رنگ رکھتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ فلاں فلاں کو کشتی میں بٹھا لیجئیو تو اس کے یہ معنی تھے کہ میں ان کو بچاؤں گا۔ اور یہ امر کہ یہ وعدہ تھا اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس حکم میں ایک استثناء فرمایا ہے کہ الا من سبق علیہ القول لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ لوگ جن کے متعلق فیصلہ ہوچکا ہے کون لوگ ہیں۔ اب اگر اس عبارت میں حکم ہوتا وعدہ نہ ہوتا تو ضروری تھا کہ حضرت نوح علیہ السلام کو بتایا جاتا کہ یہ کون لوگ ہیں کہ جن کے متعلق فیصلہ ہوچکا ہے۔ تاکہ حضرت نوحؑ ان کو کشتی میں نہ بٹھائیں۔ مگر انہیں ان کے ناموں یا ان کے افعال سے بالکل واقف نہیں کیا گیا اور یہی وجہ ہوئی کہ حضرت نوحؑ کے بیٹے نے جب کشتی میں سوار ہونے سے انکار کیا تو حضرت نوح علیہ السلام کو تعجب ہوا۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے نام جن کو نہیں بٹھانا تھا ظاہر نہیں کئے تو صاف ظاہر ہے کہ حکم کے الفاظ میں یہ ایک وعدہ تھا اور چونکہ اس کا ایفاء اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں تھا اس لئے ان لوگوں کے نام جو اس وعدہ سے مستثنیٰ تھے اس نے ظاہر کرنے پسند نہ کئے۔
دوسری دلیل وعدہ کی موجودگی کی یہ ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے سوال کے جواب میں اللہ تعالیٰ نہیں فرماتا کہ میں نے کب کسی کے بچانے کا وعدہ کیا تھا۔ میں نے تو صرف حکم دیا تھا کہ گھر کے لوگوں اور مومنوں کو کشتی میں بٹھا لیجیئو۔ اب اگر ان میں سے کوئی کشتی میں نہیں بیٹھا تو یہ اس کا قصور ہے بلکہ اللہ تتعالیٰ حضرت نوح علیہ السلام کے اس سوال کو کہ تیرا وعدہ تو اہل کے بچانے کا تھا قبول کرلیتا ہے اور یہ جوب دیتا ہے کہ وعدہ اہل کے متعلق تھا اور یہ لڑکا حقیقتاً تیرا اہل نہیں ہے۔
اس امر پر روشنی ڈالنے کی ضرورت ا سلئے پیش آئی ہے کہ بعض نادان لوگ پیشگوئیوں کے سمجھنے میں اجتہادی غلطی کے لگنے کے منکر ہیں اور جب انہیں قرآن کریم کی یہ آیات بتلائی جاتی ہیں تو وہ یہ کہتے ہیں کہ اس جگہ کوئی وعدہ نہ تھا بلکہ ایک حکم تھا لیکن جیسا کہ اوپر ثابت کیا جاچکا ہے حضرت نوحؑ سے اہل کے متعلق ایک وددہ تھا لیکن اس کے صحیح معنی وقت سے پہلے حضرت نوح علیہ السلام نہیں سمجھے اور انہیں اجتہادی غلطی لگ گئی۔ وقت پر اللہ تعالیٰ نے انہیں حقیقت حال سے آگاہ کردیا۔
۴۷؎
انبیاء کیسے اعلیٰ مقام پر پہنچے ہوئے ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ کی نصیحت کو سن کر انہوں نے اپنے قول سے خالی رجوع ہی نہیں کیا۔ بلکہ یہ بھی دعا کی ہے کہ گو میں آئندہ ایسی غلطی کے ارتکاب سے بچنے کی کوشش کروں گا لیکن تیری مدد کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا۔ اس لئے تو بھی میری مدد کر۔ کہ میں آئندہ ایسا کوئی فعل نہ کروں۔ کیسے نادان لوگ یں وہ جو بہت ادنیٰ مقام کے ہوکر بھی بڑے بڑے دعوے کردیتے ہیں اور انبیاء کے طریق عمل سے نصیحت حاصل نہیں کرتے۔
اس آیت سے نبیوں کے استغفار کی بھی حقیقت کھل جاتی ہے اس جگہ حضرت نوحؑ کا استغفار بیان ہوا ہے لیکن جیسا کہ اوپر کی آیات سے ظاہر ہوا ہے ان سے صرف اجتہادی غلطی ہوئی تھی جو شریعت کا گناہ نہیں بلکہ بشری کمزوری ہے باوجود اس کے وہ استغفار کرتے ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ استغفار سے گناہ کا ہونا ثابت نہیں ہوتا بلکہ یہ لفظ بشری کمزوریوں کے نتائج سے بچنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔
۴۸؎ حل لغات
برکات۔ برکۃ کی جمع ہے۔ البرکۃ۔ النعماء نشوونما پانا ترقی کرنا الزیادۃ۔ بڑھنا، زیادہ ہوجانا۔ السععادۃ اقبال مند ہونا۔خوش نصیب اور خوش حال ہونا۔ ہر قسم کی نحوستوں اور کدورتوں سے پاک ہونا۔ برک کل شیء بالمکان ثبت۔ برک کے معنی ہیں قرار پذیر ہوا۔ قائم ہو گیا۔ اور بارک اللہ فیک کے معنی ہیں طھر۔ پاک کیا۔ا ور بارکہ کے معنی ہیں رضی عنہ اس پر راضی ہوا۔ (اللہھم) بارک علی الانبیاء والہم اے ادم لہم مااعطیتہم من التشریف والکرامۃ اور جب اس کا فاعل اللہ تعالیٰ ہو اور مفعول بصلہ علی ہو تو اس کے معنی شرف و عزت عطا کرنے اور اسے قائم رکھنے کے ہوتے ہیں۔ (اقرب)
تفسیر
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے علاوہ دوسرے مومنوں کی بھی نسل چلی اور ان کے لئے بھی خداتعالیٰ کی طرف سے برکات کے وعدے تھے۔ اور یہ خیال جو لوگوں میں رائج ہے کہ سب لوگ حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد سے ہیں درست نہیں ہے۔ بائیبل کے بیان پر قرآن کریم کے اس بیان کو کس قدر فوقیت حاصل ہے۔ آج ہر ایک تعلیم یافتہ مسیحی دل میں یہ یقین رکھتا ہے کہ دنیا پر بسنے والے بنی نوع انسان صرف نوح علیہ السلام کی ہی اولاد نہیں ہیں لیکن وہ اس یقین کے وقت بائیبل کا مکذب ہوتا ہے اور قرآن کریم کا مصدق۔ کیونکہ بائیبل کہتی ہے کہ صرف نوح اور ان کی اولاد اس طوفان سے بچے۔ اور اسی کی نسل آئندہ دنیا میں پھیلی۔ (پیدائش باب۷) چنانچہ وہ کل بنی آدم کو تین ہی نسلوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ یعنی سام عام اور یافث کی اولاد جو تینوں حضرت نوحؑ کے بیٹے تھے۔ قرآن کریم بتاتا ہے کہ دوسرے لوگوں کا تو کیا ذکر ہے خود حضرت نوح علیہ السلام پر ایمان لانے والوں کی نسلیں بھی چلیں۔
وامم سنمتعہم سے یہ بھی مراد ہوسکتا ہے کہ حضرت نوحؑ کے وقت میں بھی اور اقوام تھیں جو ہلاک نہیں کی گئیں بلکہ انہیں ڈھیل دی گئی۔ اور وہ بعد میں اپنے وقت مقررہ پر ہلاک ہوئین اور یہ بھی مراد ہوسکتا ہے کہ اس میں اگلی نسلوں کا ذکر ہے کہ ان سلامتی اور برکت پانے والے لوگوں میں سے ایک گروہ بعد میں بگڑ کر سزا پائے گا۔
۴۹؎
اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ قرآن کریم قصے بیان نہیں کرتا۔ کیونکہ یہاں فرماتا ہے کہ یہ غیب کی خبریں ہیں یعنی آئندہ ہونے والے واقعات ہیں۔ بے شک ظاہری طور پر تو حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر ہے مگر مطلب یہ ہے کہ نوح ؑ کے مشابہ واقعہ تیرے ساتھ بھی گزرے گا۔ اسی وجہ سے آیت کے آخر میں فرمایا ہے کہ تو بھی صبر سے کام لے۔ انجام متقیوں کا ہی نیک ہوتا ہے۔ یعنی جس طرح نوحؑ کی قوم تباہ ہوئی تیری قوم کا اہل حصہ بھی تباہ ہوگا۔ اور خداتعالیٰ تجھ سے اور تیرے ساتھیوں سے ایک نئی نسل چلائے گا۔ جو ہر نئے زمانہ میں نیکی اور تقویٰ کے جھنڈے کے علم بردار رہیں گے۔
تعجب ہے کہ اس قسم کی آیات کی موجودگی میں بھی بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ قرآن کریم پچھلی اقوام کے قصص بیان کرتا ہے۔ قرآن کریم تو جو تاریخی واقعہ بھی بیان کرتا ہے وہ صرف یہ خبر دینے کے لئے کرتا ہے کہ آئندہ مسلمانوں سے بھی ایسا ہی ہونے والا ہے چنانچہ ایک بھی تاریخی واقعہ قرآن کریم میں ایسا بیان نہیں ہوا کہ جس کے مشابہ واقعہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کی امت کے ساتھ نہ گزرا ہو یا جو آئندہ نہ گزرنے والا ہو۔
اوپر کی آیات میں حضرت نوح علیہ السلام کا جو واقعہ بیان ہوا ہے اس کے متعلق مسلمانوں اور مسیحیوں اور یہودیوں میں بہت کچھ اختلاف ہے۔ چونکہ کسی ایک آیت کے نیچے اس واقعہ کا ذکر نہیں ہوسکتا تھا اس لئے میں سب آیات کے آخر میں اس کے متعلق اپنی تحقیق اور دوسرے لوگوں کے خیالات لکھ دیتا ہوں۔
بائیبل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام لمک کے بیٹے تھے۔ اور حضرت آدم علیہ السلام سے نویں پشت میں تھے۔ (حضرت آدم کو شمار کرکے دسویں) جب وہ پانچ سو برس کے ہوئے تو ان کے ہاں سم عام اور یافث پیدا ہوئے (پیدائش باب۵ ۲۸ تا ۳۲) اہل دنیا کی شرارت کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے ان کو تباہ کرنے کا ارادہ کیا مگر چونکہ نوح ؑ نیک تھا خدا نے اسے پسند کای اور اسے ایک کشتی بنانے کا حکم دیا اور ارشاد کیا کہ علاوہ بیوی بچوں کے کشتی میں طوفان کے وقت حلال جانوروں میں سے سات سات جانور دوسرے جانوروں میں سے ایک ایک جوڑا ہر اک قسم کا چڑھا لے (پیدائش باب۶) طوفان کے آنے پر دنیا کے تمام جانور اور انسان ہلاک ہو گئے۔ مگر نوحؑ اور ان کے اہل و عیال کشتی کے ذریعے سے بچ گئے اور ان کے اور ساتھ جانوروں کے ذریعے سے پھر دنیا آباد ہوئی۔ اور طوفان کے بعد کشتی اراراٹ پہاڑ کی چوٹی پر ٹھہر گئی۔ (باب ۷ و ۸) اس کے بعد نوح اور اس کی اولاد سے دنیا پھر بسنے لگی۔ اور نوح کھیتی باڑی کرنے لگا۔ا ور اس نے ایک انگور کا باغ لگایا۔ ایک دن اس کی شراب پی کر نشہ میں مست ہو گیا۔ اس کے بیٹے عام نے سب سے پہلے اسے ننگا دیکھا اور باقی بھائیوں کو بتایا۔ انہوں نے الٹے پاؤں آکر بغیر دیکھے اس پر کپڑا ڈال دیا۔ نوح جب ہوش میں آئے تو انہوں نے عام کو بددعا دی اور اس کی اولاد کی نسبت جس نے کنعان کہلانا تھا اور ملک کنعان کو آباد کرنا تھا سام کی غلامی کی پیشگوئی کی اور اسی طرح یہ خبر بھی دی کہ عام کی اولاد یافث کی اولاد کی بھی غلام ہوگی۔
بائیبل سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ طوفان کے بعد نوح کی اولاد عراق موجودہ میں آباد ہوئی۔ کیونکہ للکھا ہیکہ حام کے پوتے نے بابل وغیرہ پر حکومت کی۔ یہودیوں کی احادیث اور روایات کی کتب میں بائیبل سے کسی قدر اختالف ہے۔ اس جگہ اس کی تفصیل کی ضرورت نہیں۔ لیکن اس قدر بتا دینا فائدہ سے کالی نہ ہوگا کہ مدرش اغادہ میں لکھا ہے کہ نوح کا نام اس کے بل ایجاد کرنے کے سبب سے نوح رکھا گیا تھا۔ چونکہ بائیبل میں لکھا ہے کہ ان کے والد نے ان کا نام نوح کھا۔ اس لئے اس اختلاف کو کتاب سفر ہا یٰشیر میں یوں مٹایا گیا ہے کہ ان کے والد نے ان کا نام مناحیم رکھا تھا۔ جس کے معنی تسلی دینے والے کے ہیں۔ طوفان کے بعد ان کا نام نوح ہوا۔
نوحؑ کی نیکی کے متعلق بھی اختلاف ہے۔ بعض انہیں نیک ،بعض انہیں معمولی نیک۔ اور بعض بدکار بھی کہتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ وہ محج اپنی نسل میں سے پید اہونے والے نیک لوگوں کی خاطر بچایا گیا۔
طالمود جو یہودیوں کی کتب احادیث کا مجموعہ ہے اس میں لکھا ہے کہ نوح شریعت والے نبی تھے اور انہوں نے طوفان کے اٹھائیس سال بعد شریعت مرتب کرنی شروع کی۔ جس میں کچھ تو طبعیات کے مسائل تھے اور کچھ موسیٰ کی شریعت سے ملتے جلتے مسائل تھے۔ رافائیل فرشتہ نے انہیں علم طب سکھایا تھا۔ اور بوٹیوں کے خواص سکھائے تھے۔ اس نے ایک کتاب لکھی جو بعد میں مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوئی۔ اور یونانیوں اور ہندوستانیوں نے اس کتاب سے علم طب حاص کیا۔ (یہودی علماء کو بھول گیا ہے کہ ان کے نزدیک سوائے نوحؑ کے اور کسی انسان کی نسل دنیا میں باقی نہ رہی تھی اس وجہ سے سب دنیا میں نوح کی ہی اولاد تھی۔ پھر انہیں کسی ترجمہ سے فائدہ اٹھانے کی کیا ضرورت تھی۔ وہ تو اپنے دادا کے علوم کو اس کی اپنی زبان میں سمجھتے تھے مگر سچ ہے دروغ گو راحافظہ نباشد۔)
یہ ایک عجیب بات ہے کہ نوح کے واقعہ سے ملتے جلتے واقعات پر مبنی روایات دنیا کے قریباً ہر براعظم میں ملتی ہیں۔ (دیکھو انسائیکلوپیڈیا ببلیکا)
یونان کی قدیم روایات میں بھی ایک ایسے انسان اور اس کے وقت میں طوفان کا ذکر ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یورپ بھی اس قسم کے کسی تاریخی واقعہ سے واقف تھا۔ شمالی امریکہ کے قدیم باشندوں میں بھی ایسی روایات پائی جاتی ہیں۔ حتیٰ کہ بعض جگہ ناموں کی مشارکت بھی ہے۔ بابل کی قدیم روایات میں طوفان کے ہیرو کا نام ہسیس اندرا دیا ہے۔ اور لکھا ہے کہ وہ دسواں بادشاہ تھا۔ بائیبل بھی آدم کی نسل سے نوح کو دسواں قرار دیتی ہے۔ شمالی امریکہ کی روایتوں میں اس شخص کا نام کنیان بتایا ہے۔ جس کے معنی عقلمند کے ہیں۔ اور یہ نام معنوں کے لھاظ سے ہسیس اندرا کے نام سے جو بابل کی روایتوں میں آتا ہے ملتا ہے۔ پالینیشیا۔ ایران، کنعان مصر اور ہندوستان میں بھی اس قسم کی روایات پائی جاتی ہیں کہ پرانے زمانے میں ایک سخت طوفان آیا تھا۔ اور ایک خاص نیک بندے کے ذریعہ سے کچھ لوگ ایک کشتی میں بچے تھے۔ چنانچہ بابل کی روایات اور ہندوستان کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ طوفان کے وقت کی ایک شخص کو بل از وقت خداتعالیٰ کی طرف سے اطلاع دی گئی تھی بابل کی روایات میں لکھا ہے کہ خواب کے ذریعہ سے اطلاع ملی اور ہندوستان کی روایات میں لکھا ہے کہ دیوتاؤں نے اسے بتایا۔
بابل کی روایتوں میں اس پہاڑ کو جہاں نوح کی کشتی ٹھہری تھی ارمینیا کا پہاڑ قرار دیا ہے۔ اسلامی مفسروں نے بھی جودی جو اس پہاڑ کا نام قرآن کریم میں آیا ہے اسے آرمینیا کا پہاڑ قرار دیا ہے۔ اس طرح قرآن کریم کی روایت اس امر میں بابل کی روایت سے ملتی ہے اور بابل ہی چونکہ نوحؑ کی اولاد کے رہنے کا مقام تھا جس پر خود بائیبل بھی گواہ ہے اس لئے وہاں کی روایت کو ایک حد تک ضرور فوقیت دینی پڑے گی۔ خصوصاً جب کہ بابل والوں کو نوح کے واقعہ سے کوئی خاص فائدہ اٹھانا مقصود نہیں تھا۔ برخلاف بائیبل کے کہ اس کی روایتوں میں یہ بات مدنظر ہوتی ہے کہ سب دنیا کی تاریخ انہی کے گرد چکر کھاتی رہے۔
ہندوستان میں اس طوفان کا ذکر سب سے پہلے ستھاپتھا برہمنا نامی کتاب میں ہے۔ اس میں لکلھا ہے کہ منو پہلا انسان تھا۔ وہ سورج دیوتا دوسوات کا بیٹا تھا۔ وہ ایک دفعہ نہا رہا تھا کہ ایک مچھلی اس کے ہاتھ میں آ گئی۔ مچھلی نے اس وعدہ پر نجات حاصل کی کہ ایک بڑا طوفان آنے والا ہے اس وقت میں تجھے نجات دوں گی۔ اور اسے ایک کشتی تیار کرنے کی ہدایت کی۔ جب طوفان آیا تو مچھلی کشتی کو پہاڑ پر لے گئی۔ اور وہاں طوفان کے کم ہونے پر منو اترا اور اس نے قربانی کی آخر خداتعالیٰ نے اسے ایک بیٹی (بغیر ماں کے) عطاکی اور اس سے (بغیر باپ کے) سب دنیا کی نسل چلی۔
دوسری روایت مہابہارت میں ہے ۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ منو کے ساتھ سات عقلمند لوگ اور بھی تھے اور لکھا ہے کہ وہ مچھلی برھما یعنی خدا تھی اور اس نے منو کو دیوتا اور انسان بنانے سکھائے تھے۔
تیسری روایت بھگوتا پرانا میں ہے۔ اس میں جانوروں کے جوڑے ساتھ لینے کا بھی ذکر ہے۔ روایت کا اس قدر اتفاق حتیٰ کہ بعض گہ ناموں کا ملنا جیسے کہ ہندوستان میں اس کا نام منو بتانا اور بائیبل میں نوح اور طالمود میں مناھیم جو منو سے بہت ملتا ہے کیونکہ آخری ی اور میم صرف ادب کے لئے عربی، زبان میں لگاتے جاتے ہیں۔ پس صرف مناح رہ جاتا ہے جو منو سے ملتا ہے۔ اسی طرح بابل کے نام اور امریکہ کی قدیم روایتوں کے ناموں کے منوں کا ملنا ہر جگہ ایک کشتی کا ذکر ہونا اور طوفان سے صرف چند آدمیوں کے بچ کر نکلنے کا بیان کیا جانا بتاتا ہے کہ یہ واقعہ ایک زبردست تاریخی واقعہ ہے۔ جس پر دنیا کی سب قومیں شاہد ہیں اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعہ کا سب دنیا پر اثر پڑا تھا۔ تبھی تو سب دنیا کی تاریخوں میں اس کا ذکر پایا جاتا ہے۔
چونکہ بظاہر سب دنیا پر ایسے طوفان کا آنا محال نظر آتا ہے اس لئے علوم جدیدہ کے ماہروں ن ے اس واقعہ کو ایک تشبیہی کہانی قرار دیا ہے۔ اور یہ معنی کئے ہیں کہ پرانے زمانہ میں ستاروں کی گردش وغیرہ کا ذکر تمثیلی زبان میں بعض لوگوں نے کیا ہے اس سے دھوکہ کھاکر یہ قصہ مشہور ہو گیا ہے۔ مگر یہ سوال پھر بھی باقی رہ جاتا ہے کہ اس تمثیلی قصہ کو اس قدر اہمیت کیوں حاصل ہو گئی ہے۔ اور سب دنیا کی قوموں کے دلوں پر اس قدر گہرا اثر اس کا کیوں پڑا ہے۔ اور کیوں دوسرے قصوں کو چھوڑ کر اسے سب دنیا نے یاد رکھا ہے۔ اور پھر سوال یہ ہے کہ قصہ تو آخر کسی ایک جگہ کے لوگوں نے بنایا ہوگا۔ وہ اس طرح سب دنیا میں کس طرح پھیل گیا۔ اور ہر زبان کی مذہبی تاریخوں میں اس کا ذکر ہونے لگا۔ کون سا عقلمند اس امر کو تسلیم کرسکتا ہے کہ ایک ملک میں بنایا جانے والا قصہ قدیم زمانہ میں جبکہ تعلقات بہت محدود تھے اس طرح مختلف ملکوں اور مختلف زبانوں میں پھیل گیا۔ اور یکساں اہمیت پا گیا اور سب مذاہب کا جزو بن گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ اس تواتر اور اس عظمت کو دیکھ کر جو اس قصہ کو حاصل ہے اس امر سے انکار نہیں ہوسکتا کہ یہ واقعہ ضرور ہوا ہے۔ اور اس کا تعلق بھی سب دنیا سے ہے۔ اور ہوا بھی غیرمعمولی طور پر ہے اور جب ہم اس نتیجہ تک پہنچ جاتے ہیں تو یہ امر ہمارے لئے سمجھنا بالکل آسان ہوجاتا ہے کہ وہ واقعہ جو قرآن کریم نے بیان کیا ہے ان سب نتائج کے مطابق پورا اترتا ہے اور اس سے کوئی بات قانون طبعیات کے خلاف بھی نہیں ماننی پڑتی۔ کیونکہ قرآن کریم سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ پرانے زمانہ میں ایک زبردست طوفان آیا تھا۔ جس سے اس ملک کے سب باشندے تباہ ہو گئے تھے۔ اور یہ کہ اس طوفان کے ہیرو نوح علیہ السلام کو خداتعالیٰ نے خاص برکت دی تھی۔ اور اسن کی نیکی کی وجہ سے ان کی نسل کو خاص غلبہ دنیا میں عطا کیا تھا۔ باقی اور اقوام بھی اس وقت تھیں جو اس عذاب میں شامل نہ تھیں۔ ایک مدت تک اپنے دن گزار کر وہ اپنے انجام کو پہنچ گئیں۔ اور یہ بھی ثابت ہے کہ یہ طوفان اس قدر شدید تھا کہ کشتیوں میں پناہ لینی پڑی اور آسمان سے بھی بارش ہوئی اور زمین کے چشمے بھی پھوٹ پڑے اور بعض پہاڑیوں کی چوٹیوں تک پانی پہنچ گیا۔
یہ واقعات ایسے ہیں کہ جن کا انکار کرنے کی کسی کو گنجائش نہیں ہوسکتی۔ قرآن کریم سے ثابت ہے اور ہر ملک کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ملک پہاڑی تھا اور قرآن کریم سے مزید یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسی وادی تھی جس کے پاس بہت سے پہاڑ تھے۔ پس یہ بالکل ممکن ہے کہ اس وادی کا منہ پہاڑوں کے بالمقابل سلسلوں کی وجہ سے تنگ ہو۔ جیسا کہ اکثر پہاڑی وادیوں میں ہوتا ہے۔ زلزلہ کے سبب سے پتھروں کے گرنے سے یا برف کی سلوں کے پھسل کر آپڑنے کے سبب سے اس وادی کا منہ بند ہو گیا ہو۔ اور اوپر سے تیز بارش کے ہونے اور نیچے سے چشموں کے پھوٹنے کے سبب سے پانی اس قدر جمع ہو گیا ہو کہ پہاڑوں کی چوٹیاں بھی پانی کے نیچے آگئی ہوں۔ جیسا کہ ۱۹۴۰ میں ہی تبت کی پہاڑیوں میں ایک گلیشیر کے گرنے کی وجہ سے حاثہ ہوچکا ہے۔
چونکہ یہ واقعہ بنی نوع انسان کی تہذیب کے ابتدائی دور میں ہوا ہے اور حضرت نوحؑ اس دور کے پہلے فرد ہیں جیسا کہ احادیث میں انہیں پہلا رسول کہا گیا ہے اور اسی طرح بائیبل سے بھی ثابت ہوتا ہے پس معلوم ہوا کہ دورتہذیب کے بانی حضرت نوحؑ ہیں۔ ہندو روایات بھی اس امر کی تصدیق کرتی ہیں کیونکہ ان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ منو پہلا انسان تھا لیکن ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے کہ اس کے ساتھ سات اور آدمی بھی طوفان سے بچے تھے۔ پس ان دونوں باتوں کو ملاکر یہی ثابت ہوتا ہے کہ منو تہذیب کے دور کا پہلا انسان تھا۔ ورنہ انسان ہونے کے لحاظ سے وہ پہلا نہ تھا۔ ان تین اہم بیانات کے اتفاق کے بعد جو مختلف ممالک کے مذاہب کا ہے اس کے ماننے میں کوئی شبہ کی گنجائش نہیں رہتی کہ تہذیب اور تمدن کی بنیاد نوحؑ سے پڑی ہے۔ اور یہ ایک امر واقع ہے کہ جب کوئی قوم تہذیب اور تمدن میں ترقی کرنے لگتی ہے تو اس کی نسل بھی کثرت سے بڑھنے لگ جاتی ہے۔ اور اس کے ساتھ بسنے والی دوسری اقوام خودبخود کم ہونے لگ جاتی ہیں۔ چنانچہ جس جس ملک میں بھی کوئی نسبتاً زیادہ مہذب قوم جاکر بسی ہے اس نے یا تو دوسری اقوام کو جو اس سے تہذیب میں کم تھیں مٹا دیا ہے یا بہت کمزور کر دیا ہے۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح کی اولاد او ران کے ہمراہیوں کی اولاد جو تہذیب کے دور کی اول کڑی تھی جن جن ملکوں میں پھیلی ہے اس نے وہاں کی پہلے سے آبادشدہ نسلوں کو یا تو بالکل مٹا دیا یا اپنے اندر جذب کرکے یا ان کی طاقت توڑ کر بالکل کمزور کر دیا۔ اور اپنی روایت اور اپنے آثار کو ساری دنیا میں پھیال دیا۔ اس کی وجہ سے وہ طوفان کا قصہ جس نے یقینا ان کے دلوں پر ایک گہرا اثر ڈال دیا ہوگا۔ ان کے ساتھ ساتھ ہی سب دنیا میں پھیلتا گیا۔
پس نہ یہ درست ہے کہ نوح کا طوفان سب دنیا پر آیا اور نہ یہ درست ہے کہ یہ سب قصص جو مختلف ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں مختلف واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ واقعہ ایک ہی ہے اور طوفان بھی ایک ہی ملک میں آیا ہے لیکن چونکہ نوحؑ دور تہذیب کے انسان اول ہیں ان کی اور ان کے ساتھیوں کی اولاد طوفان کے بعد مختلف ممالک میں پھیل گئی اور اپنی اعلٰ تہذیب اور بہتر تمدن کی وجہ سے اصلی باشندوں پر غالب آکر یا تو وہی باقی رہ گئی یا پھر ان کو اس نے ایسا مرعوب کرلیا کہ انہوں نے بھی نوحؑ کی امت کی تہذیب کو اختیار کرلیا۔ اور اس طرح دنیا کے ہر ملک میں طوفان نوح کا قصہ پہنچ گیا۔ اور ایک لمبا مزانہ گزرنے پر جب باہر سے آنے والوں کو اپنے اصلی وطن سے کوئی تعلق نہ رہا تو ہر اک ملک کے شہروں ناموں اور مقام نے اس قصہ میں جگہ لے لی اور اس طرح یہ واقعہ مختلف واقعات کا رنگ اختیار کر گیا۔
۵۰؎
یعنی واقعات بتا رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سواء اور کوئی معبود نہیں ہے اور شرک کا عقیدہ محض ایک افتراء ہے۔ مطلب یہ کہ شرک کی تائید میں کوئی کمزور سے کمزور دلیل بھی نہیں جس سے یہ خیال بھی کیا جائے کہ اس عقیدہ کے پاب ند کسی غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ وہ صرف اپنے آبائی خیالات کی اندھادھند پیروی کررہے ہیں۔
عاد کے متعلق یورپین محققین کا خیال ہے کہ ان کا کوئی وجود ہی نہیں ملتا۔ وہ کہتے ہیں کہ جو کتبے عرب سے نکلے ہیں ان سے کسی گزشتہ قوم کا نام عاد نہیں ملتا۔ صرف اتنا پتہ لگتا ہے کہ سموری قوم سب سے قدیم ہے ۔ ان کی حکومت سب سے پہلی تھی۔ پھر سامی قوم ہوئی۔ جن میں حمورابی سب سے مشہور آدمی گزرا ہیت۔ جس کے حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نبی تھا۔ یہ مسیحؑ سے دوہزار سال قبل اور حضرت موسیٰ سے چھ سو سال قبل تھا۔ بائیبل سے اس کی تعلیم اس قدر ملتی ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ بائیبل کی تعلیم اس سے چرائی گئی ہے۔ (ان مسیحیوں کو غور کرنا چاہئے جو قرآن کریم کے متعلق کہتے ہیں کہ اس کی تعلیم پہلے صحیفوں سے چرائی گئی ہے۔)
محققین یورپ کا خیال ہے کہ عربوں کے عام قصے سن کر قرآن شریف نے یہ قصہ نقل کردیا ہے میرے نزدیک بنی نوع انسان کی جماعتوں کے نام دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک قومی نام ہوتا ہے اور ایک نسلی نام ہوتا ہے۔ جیسے کہ آرین ایک اجتماعی اور مشترک نام ہے جس کے ماتحت کئی خاندان ہیں۔ اب اگر کوئی کہے کہ کتبوں میں سے کوئی گپتا کا کتبہ نکلتا ہے اور کوئی کسی اوار کا لیکن آرین کہیں بھی نہیں نکلتا تو یہ اس کی بیوقوفی ہوگی۔
غرض میرے نزدیک عاد ایک مجموعۂ قبال کا نام ہے اور اس کے ماتحت قبائل میں سے مختلف زمانوں میں بعض قبائل غلبہ اور حکومت حاصل کرتے رہے ہیں۔ جو اپنے اپنے ناموں کے کتبے نصب کرتے رہے ہیں۔ مگر وہ سب عاد ہی تھے۔ قرآن کریم سے اس قدر پتہ لگتا ہے کہ ثمود سے پہلے عاد تھے۔ پس گو مجموعی نام کا پتہ نہیں ملتا لیکن ہم قیاس کرسکتے ہیں کہ جو قومیں ثمود سے پہلے آباد تھیں ان کا نمجوعی نام عاد تھا اور اس بات کا ثبوت کہ عاد کا لفظ مووجد تھا جغرافیوں سے ملتا ہے۔ یونان میں جکو جغرافئے لکھے گئے ہیں ان میں سے ایک قبیلے کا نام عاد پایا جاتا ہے۔ ان میں لکھا ہے کہ یمن میں مسیح کے زمانے سے پہلے ایک قبیلہ حاکم تھا۔ جس کا نام ADRAMITAIتھا۔ یہ وہی ہے جو قرآن کریم میں عاد ارم کے نام سے موسوم ہے۔ چنانچہ سورۂ فجر میں فرمایا ہے الم ترکیف فعل ربک بعادارم ذات العماد التی لم یخلق مثلھا فی البلاد۔ چونکہ یونانی نام کا پچھلا حصہ صرف اس پر دلالت کرتا ہے اصل نام ورم ہے اور چونکہ یونانی زبان میں عین نہیں ہے عین کو بھی الف لکھا جاتا ہے۔ اس لئے اورم اصل میں عدرم ہے جو عادارم سے بگڑا ہوا ہے۔ بعض یورپین مصنفوں کا خیال ہے کہ اس لفظ سے مراد حضرموت ہے۔ لیکن یہ خیال ان کا درست نہیں کیونکہ اول تو حضرموت ایک شہر کا نام ہے۔ اوار یہ نام ایک قبیلہ کا بتایا گیا ہے۔ دوسرے حجرموت کا شہر یونانی اور لاطینی دونوں کتب میں مذکور ہے اور ان میں کسی جگہ بھی اس کا نام ان حروف میں نہیں لکھا گیا بللکہ یونانی کتب میں ہمیشہ حجرموت ADRAMOTITAI لکھا جاتا ہے۔ یعنی اوراموٹی ٹائی اور اوپر کا نام اورامی ٹائی ہے۔ اسی طرح لاطینی میں حضر موت کو CHATRAMOTITAI لکھا جاتا ہے۔ یعنی شتراموتی تائی پس اس لفظ سے حضرموت کا شہر مراد لینا کسی صورت میں بھی درست نہیں ہوسکتا۔ اور کوئی وجہ نہیں کہ ہم خیال کریں کہ اس خاص مقع پر جغرافیہ والوں نے پرانے یونانی اور لاطینی لفظ کو ترک کرکے ایک نیا لفظ ایجاد کرلیا۔ پھر اس سے بھی بڑا ثبوت یہ ہے کہ جس کتاب میں یہ لفظ آیا ہے اس میں ساتھ ہی حضرموت کا بھی حال لکھا ہوا ہے۔ جس سے معلوم ہوت اہے کہ اس کتاب کے مصنف کے نزدیک بھی یہ دونوں نام علیحدہ علیحدہ چیزوں کے تھے۔ (دیکھو العرب قبل الاسلام)
قرآن کریم سے اس قبیلہ کی تاریخ جو ہمیں معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے
(۱) الم ترکیف فعل ربک بعاد ارم ذات العماد التی لم یخلق مثلھا فی البلاد۔ (فجر) یعنی عاد جن میں سے اس وقت ہم ارم کا ذکر کرتے ہیں بڑی بڑی عمارتیں بناتے تھے اور ان کو ایسی طاقت حاصل تھی کہ ان کے بعد عرب میں کسی قوم کو اس قدر طاقت حاصل نہیں ہوئی۔ ارم قبیلے کے متعلق تاریخ سے یہ امر یقینی طور پر ثابت ہوچکا ہے کہ ان کی نہایت زبردست حکومت تھی۔ جو کہ پانچویں صدی قبل مسیح تک قائم رہی۔ عبرانی زبان کی بحث کرتے ہوئے محققین السنہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ ارمیک بھی ایک زبان تھی جس کے الفاظ عبرانی کے ساتھ بہت ملتے جلتے تھے اور یہ ارم قوم کی زبان تھی اور اس ارم قوم کی زبردست حکومت تھی جو سامی حکومت کے بعد قائم ہوئی۔ اپنے زمانہ حکومت میں یہ لوگ سارے عراق فلسطین شا اور کالدی علاقے پر حاکم ہو گئے تھے۔ بلکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان علاقوں سے باہر بھی نکل گئے تھے (انگریزی میں کالدی کو CHALDIA کہتے ہیں) غرض مذکورہ بالا آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عاد کی وہ قوم جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے ارم نامی تھی۔ اور ارم کا پتہ آثارِ قدیمہ سے لگ چکا ہے۔
(۲) واذکروا اذجعلکم کلفاء من بعد قوم نوح (اعراف ع۹) اس آیت سے پتہ لگتا ہے کہ یہ قوم حضرت نوح کی قوم کے معاً بعد گزری ہے۔ پس معلوم ہوا کہ تاریخوں میں جو سامی وغیرہ دوسری قوموں کا ذکر ہے جو کہ ارم سے پہلے حاکم تھیں وہ بھی عاد ہی کا حصہ تھیں۔
(۳) سورہ شعراء (ع۷) میں فرماتا ہے اتبنون بکل ریع ایۃ تعبثنو۔ کہ تم ہر اونچی جگہ پر نشان کھڑا کرتے ہو۔ یعنی MONUMENT بناتے ہو۔ اس آیت سے عاد کی ایک اور نانی کا پتہ لگتا ہے اور وہ یہ کہ عاد قوم اونچے مقامات پر یادگاریں قائم کرنے کی عادی تھی۔ چنانچہ عرب میں بعض نہایت پرانی بڑی بڑی عمارتیں اب بھی ملتی ہیں۔
عدن سے چند میل کے فاصلے پر میں نے بھی بعض اونچی اونچی عمارتیں دیکھی ہیں۔ جو اونچے ٹیلے پر بنی ہوئی ہیں۔ ان عمارتوں میں حوض وغیرہ بھی تھے۔ یہ دورانِ سفر یورپ کا واقعہ ہے اس وقت میرے ہمراہیوں میں سے بھی بعض میرے ساتھ تھے۔
(۴) سورہ احقاف (ع۳) میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فاصلحوا لایر الامساکنہم۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم کی تاریخ پوشیدہ ہو گئی ہے۔ صرف ان کی بڑی بڑی عمارتوں کے آثار باقی رہ گئے ہیں۔
(۵) قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ان کے مقام کا بھی پتہ دیتا ہے چنانچہ فرماتا ہے۔ واذکراخاعاد اذانذرقومہ بالاحقاف (احقاف ع۳) اور عاد کے بھائی ہود کو یاد کر جبکہ اس نے اپنی قوم کو احقاف میں ڈرایرا تھا۔ احقا لغت کے لحاظ سے ریت کے ٹیڑھے ترچھے ٹیلوں کو کہتے ہیں۔ اور اصطلاح عرب میں دو علاقوں کو کہتے ہیں۔ جو خود تو شاداب ہیں لیکن صحراء کے پاس ہیں۔ صحراء سے ریت اڑاڑ کر ان علاقوں میں ٹیلے بنادیتی ہے۔ ان دو علاقوں میں سے ایک تو عرب کے جنوب کی جانب ہے یہ علاقوہ جو جنوبی احقاف کے نام سے موسوم ہے یمن سے شروع ہوکر صنعاء کے نیچے نیچے عدن سے اوپر مشرق کی طرف کو چلا گیا ہے۔ پھر وہاں سے پھیلتا ہوا شمال کی جانب کو نکل گیا ہے۔ دوسرا علاقہ شمالی احقاف ہے جو یصریٰ سے نیچے کی طرف عراق کے بیابان کے ساتھ ساتھ چلا جاتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جس وقت عذاب آیا ہو اس وقت اس علاقہ میں ٹیلے نہ ہوں بلکہ بعد میں اسی عذاب کے وقت صحراء کی ریت کے آنے کے سبب سے وہاں ٹیلے بن گئے ہوں۔ اور اس وجہ سے اس قوم کی تاریخ مخفی ہو گئی ہو۔ صحراء کی ریت کے ٹیلوں کو اگر صاف کیا جائیے تو بالکل ممکن ہے کہ نیچے سے ایسے آثار نکلیں جن سے قوم کی تاریخ پر مزید روشنی پڑسکے۔
(۶) عاد کی ہلاکت کی خبر قرآن کریم یوں دیتا ہے۔ اماعاد فاھلکوا بریح صرصر عاتیۃ سخرھا علیھم سبع لیال وثمانیۃ ایام حسوما فترے القوم فیھا صر علی کانہم اعجاز نخل خاویۃ (الحاقۃ ع۱) اور عاد کا یہ حال ہوا کہ انہیں ایک تیز حد سے نکل جانے والی ہوا سے جسے اللہ تعالیٰ نے اس قوم کی ہلاکت کے لئے چلایا تھا ہلاک کیا گیا۔ یہ ہوا سات دن تک بلاوقفہ خداتعالیٰ کے حکم سے چلتی رہی۔ یہاں تک کہ تو اس قوم کو اس ہوا کے اثر کے نیچے اس طرح گرا ہوا دیکھے گا کہ گویا وہ کھجور کے گرے ہوئے درخت ہیں۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ عاد کے ملک پر ایک تیز آندھی آئی تھی۔ جو سات دن تک متواتر چلتی رہی۔ اور ان کے بڑے بڑے شہر اس آندھی کی زد میں آکر زیرخاک ہو گئے۔ اور اس طرح اس قوم کا زور ٹوٹ گیا۔ اور زوال شروع ہو گیا۔ اس آیت سے خیال پڑتا ہے کہ ابھی زیر کاک ان کے آثار باقی ہیں۔ تبھی تو فرمایا ے کہ فتریہ القوم فیہا صرعی۔ اور یہ بھی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ احقاف اس علاقہ کا نام اس تباہی کے بعد پڑال کیونکہ آندھی کے سبب سے شہر ریت کے تودوں میں دب گئے اور علاقہ میں ٹیلے ہی ٹیلے نظر آنے لگ گئے۔
۵۱؎ حل لغات
فطریفطرفطرا الشئی شقہ۔ اس چیز کو پھاڑا۔ العجین اختیزہ من ساعۃ ولم یخمرہ۔ جب آتے کے متعلق یہ لفظ استعمال ہو تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ گوندھتے ہی روٹی پکالی۔ خمیر نہ ہونے دیا۔ الامر اخترعہ وابتدعہ وانشاہ۔ اس کام کو شروع کیا۔ یابغیر سابقہ مثال کے کیا۔ الصائم فطر وفطرا وفطورا اکلوشرب وقیل ابتداء الاکل والشرب۔ روزہ دار نے پیا اور کھایا یا یہ کہ خالی پیٹ کھایا او ر پیا۔ (اقرب)
تفسیر
پہلے حصہ آیت میں استغناء ظاہر کیا ہے۔ اور نفس کی خواہش سے اپنے آپ کو پاک قرار دیا ہے۔ لیکن دوسرے حصہ میں اپنے عجز اور محتاجی کو اہر کیا ہے اور اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے فضل کا بھوکا ثابت کیا ہے ۔ اور خدا کے بندوں کا یہی مقام ہوتا ہے کہ ایک طرف تو وہ سب دنیا سے مستغنی ہوتے ہیں اور دوسری طرف وہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں اس قدر عجز و انکسار سے گرتے ہیں کہ ان سے زیادہ محتاج ہی کوئی نظر نہیں آتا۔
ان اجری الا علی الذی فطرنی کہہ کر اس یقین کا بھی پتہ دیا ہے جو انہیں اللہ تعالیٰ پر تھا وہ اپنے اجر کے متعلق شک میں نہ تھے بلکہ انہیں یقین تھا کہ میرا اجر مجھے ضرور مل کر رہے گا۔
نیز اس آیت میں اس امر کی طرف بھی اشارہ ہے کہ انسان سے مانگنا تو عزت نفس کے خلاف ہے لیکن خداتعالیٰ سے مانگنا عزت نفس کے خلاف نہیں کیونکہ جس نے پیدا کیا اس سے مانگنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس سے ایک غلط خیال کا جو انسان کے اندر پیدا ہوسکتا تھا ازالہ کردیا تاکوئی یہ خیال نہ کرے کہ خداتعالیٰ سے بھی کچھ نہیں مانگنا چاہئے۔
۵۲؎ حل لغات
مدرار۔ صیغہ مبالغہ اسم فاعل سے ہے۔ اس کا فعل دریدر۔ اور مصدر در اور درور ہے۔ درالشئی۔ کثر۔ بہت ہو گیا۔ کثرت سے ہوا۔ العرق وکذا السماء بالمطر سال۔ بہہ پڑا برسا۔ سماء مدرار۔ تدر بالمطر۔ خوب برسنے والا بادل۔ عین مدرار۔ تدربا لدمع۔ بہت کثرت سے آنسو بہانے والی آنکھ۔ دیمۃ مدرار۔ غزیرۃ السیلان بکثرت اور مسلسل برسنے والا بادل۔ وفی القران یرسل السماء علیکم مدرارا۔ اور انہی معنوں میں قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیت میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے والسماء ھی بمعنی المطر مجازاً اور سماء کے معنی اس جگہ بارش کے مجازاً لئے گئے ہیں۔ (اقرب)
تفسیر
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ چاہی یا نہری زمینوں والے نہ تھے بلکہ بارانی زمینوں والے تھے۔ اور کھیتی باڑی کی طرف ان کی توجہ زیادہ تھی۔ اس آیت میں اس امر کی طرف بھی اشارہ ہے کہ انبیاء پر ایمان لانے سے قوموں کی ظاہری حالت بھی ٹھیک ہو جاتی ہے۔ اور اگر کوئی قوم اپنے تنزل کے وقت اس کے رسول پر ایمان لے آئے تو اسے زندگی کا ایک اور دور عطا ہو جاتا ہے۔ اسی کی طرف اشارہ ہے۔ ان الفاظ میں کہ تمہاری قوت پر اور قوت کا اضافہ کداتعالیٰ کی طرف سے ہوجائے گا۔
۵۳؎ حل لغات
عن حرف جر۔ ولہ تسحۃ معان۔ عن حرف جر ہے اور اس کے نو معنی ہوتے ہیں۔ الرابع التعلیل۔ چوتھے معنی اس کے اظہار علت و باعث کے ہیں۔ جیسے عن موعدۃ کے معنی وعدہ کی وجہ سے کے ہیں۔ (اقرب)
تفسیر
شریر آدمی اچھی بات کے بھی برے ہی معنی لیتا ہے۔ ایسے اخلاف کی نصیحت کا مطلب ان لوگوں نے یہی لیا کہ یہ شخص ہم پر حکومت کرنا چاہتا ہے۔ اور یہی جواب دیا کہ تیرے کہنے سے ہم اپنے معبودوں کو نہیں چھوڑ سکتے۔ اور تیرے فرمانبردار نہیں ہوسکتے۔ پھر تعجب اس دلیری پر ہے کہ شرک جیسی بے دلیل بات کے پیچھے پڑتے ہوئے حضرت ہودؑ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ تو اپنے دعویٰ کی دلیل دے۔ حالانکہ شرک کے مدعی تو وہ خود تھے۔ دلیل ان کو دینی چاہئے تھی نہ کہ شر کے منکر کا فرض تھا کہ وہ دلیل پیش کرتا۔ ان کے اس فقرہ سے تعجب ہوتا ہے کہ ایک طرف تو وہ خداتعالیٰ کے سوا معبود بنالیتے ہیں جوکہ بالکل ہی بے دلیل دعویٰ ہے اور دوسری طرف جب اس کے خلاف دلائل پیش کئے جاتے ہیں تو اپنے مخالف سے کہہ دیتے ہیں کہ تم تو کوئی دلیل ہی نہیں لاتے۔ گویا وہ بڑے ہی دلیل کے پابند ہیں۔ کوئی بات انہوں نے کبھی بغیر دلیل کے مانی ہی نہیں۔
عن قولک میں کس قدر توہین مقصود ہے الفاظ تھوڑے ہیں مگر تذلیل کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ کہ تو بھی کوئی ہستی رکھتا ہے کہ صرف تیرے کہنے کی وجہ سے ہم اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں۔
۵۴؎ حل لغات
اعتراہ۔ غشیر ططالبا معروفہ اس کے ساتھ چمٹا رہا کہ اس کے احسان کو حاصل کرے۔ اعتری غلاما امر اصابہ۔ وہ بات اسے لگ گئی چمٹ گئی۔ (اقرب)
تفسیر
مطلب یہ ہے کہ چونکہ تو ہمارے معبودوں کو نہیں مانتا تھا اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے تیرا دماغ خراب کر دیا ہے۔ اور تیری عقل ماردی ہے۔ اس اعتراض کا حضرت ہود نے کیا لطیف جواب دیا ہے کہ اگر تمہارا خیال ہے کہ میری کسی غلطی کی وجہس ے کسی بات نے میرا دماغ بگاڑ دیا ہے تو اب میں تم کو بتاتا ہوں کہ میں ان سارے بتوں کے خلاف ہوں اور ان سے کلی طور پر بیزار ہوں۔ یعنی اگر تمہارے خیال میں تمہارے بعض بتوں نے کسی بات سے ناراض ہوکر مجھ پر وبال نازل کیا ہے تو لو اب میں یہ کہتا ہوں کہ میں ان سب کے خلاف ہوں۔ اور ان کے متعلق جو کچھ کہا جاتا ہے ان سب باتوں سے بیزار ہوں۔ پس اگر ان میں کچھ طاقت ہے تو میری ایسی شددید بیزار کے بعد وہ جو کچھ میرے خلاف کرسکتے ہیںکرلیں۔
انی شہداللہ میں یہ فرمایا کہ تم نے عقلی دلائل سے تو فائدہ نہیں اٹھایا اب میں خداتعالیٰ کی عملی شہادت کو پیش کرتا ہوں۔ اور اس سے دعا کرتا ہوں کہ وہ اپنے نشانات سے سچ اور جھوٹ میں فیصلہ کرکے دکھادے۔
۵۵؎ حل لغات
الناصیۃ۔ قصاص الشعر ای حیث تنتہی نبتتہ من مقدمہ اومؤخرہ۔ یعنی سر کی اگلی یا پچھلی طرف جہاں بال ختم ہوجاتے ہوں وہاں کے بالوں کا گچھا۔ یعنی بالوں کا مجموعہ۔ وقیل الناصیۃ مقدم الرأس۔ بعض کے نزدیک ناصیہ سر کے اگلے حصہ کو کہتے ہیں وقالوا الطرۃ ھی الناصیۃ۔ اور بعض نے طرہ ہی کو ناصیۃ قرار دیا ہے۔ اس کی جمع ناصیات اور نواصی ہے۔ اذل فلان ناصیۃ فلان ای عزہ وشرفہ فلاں شخص نے فلاں کی عزت اور بزرگی کو خاک میں ملا دیا۔ نواصی الناس۔ اشرافھم والمتقدمون منھم۔ نواصی کے معنی قوم کے بزرگوں اور لیڈروں کے بھی ہوتے ہیں۔ وھذا کماوصفوا بالذوائب۔ یقال فلان ذوابۃ قومہ وناصیۃ عشیرتہ۔ اور یہ استعمال ایسا ہی ہے جیسے ذوائب (مینڈھیوں) کا لفظ بھی سرداران قوم کے لئے آتا ہے۔ عرب میں کہتے ہیں کہ فلاں شخص اپنی قوم کی مینڈھی اور اپنے قبیلے کی چوٹی ہے۔ یعنی اپنی قوم کا سردار ہے۔ (اقرب)
تفسیر
الاھواخذابنا میتہا۔ عرب کا یہ قاعدہ تھا کہ جب کسی قوم کو کوئی فتح ہوتی تھی تو قیدیوں کو بدشاہ کے سامنے لایا جاتا تھا۔ اور وہ یہ ظاہر کرنے کے لئے میں فاتح بادشاہ ہوں اور تم مفتوح ہو ان کے اگلے بالوں کو پکڑ کر جھٹکا دیتا تھا اور یہ بھی عرب کا رواج تھا کہ جس پر رحم کرنا ہوتا تھا اس کے اگلے بال مونڈ کر اسے چھوڑ دیا جاتا تھا۔ تو اخذبنا صیتہا کے دونو معنے ہوسکتے ہیں۔
(۱) کہ کوئی دابۃ نہیں جس کی ناصیۃ خداتعالیٰ نے نہ پکڑی ہوئی ہو یعنی جو خداتعالیٰ کے ماتحت نہ ہو اور
(۲) یہ کہ خداتعالیٰ نے ہر ایک کے بال مونڈے ہوئے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے احسان کرکے تم کو چھوڑا ہوا ہے۔ ورنہ تم تباہ ہو جاتے۔ غرض انسان کو توجہ دلائی ہے کہ تم پر اللہ تعالیٰ کا قبضہ اور تصرف ہے اور یہ کہ تم صرف اس کے فضل سے زندگی بسر کررہے ہو ورنہ تمہارے اعمال تو اس قابل نہیں کہ تم کو زندہ رکھا جاسکے۔
ربی وربکم کہہ کر یہ بتالایا ہے کہ جس سے میرا تعلق ہے وہ تمہارا بھی مالک ہے اور میرا بھی مالک ہے۔ پس جب میرا تعلق تمہارے مالک سے ہے تو پھر تم سے جو اس کے غلام ہو مجھے کیا ڈر ہوسکتا ہے۔ کیونکہ جب آقا کسی کا دوست ہو جاتا ہے تو پھر غلاموں کی طاقت نہیں ہوتی کہ اپنے آقا کے دوست کو کوئی نقصان پہنچاسکیں۔
ان ربی علی صراط مستقیم کہہ کر فرمایا کہ جو سیدھے راستے پر چلے اسی کو خدا مل سکتا ہے۔ مشرک تو ادھر ادھر پھرتا رہتا ہے۔ وہ اسے کہاں پاسکتا ہے۔ دوسری بات یہ بتائی ہے کہ تم تو مجھے مارنا چاہتا ہو جیسا کہ لاتنظرون میں اس کی طرف اشارہ تھا۔ تو خداتعالیٰ بھی سیدھے راستے پر میری مدد کے لئے آرہا ہے۔ یعنی قریب سے قریب راہ سے میری مدد کے لئے آرہا ہے۔ سیدھے راستے سے مراد قریب کا رستہ ہی ہے۔ کیونکہ سیدھا راستہ ہمیشہ سب سے چھوٹا ہوتا ہے۔
۵۶؎ حل لغات
تولوا اصل میں تتولوا ہے اس کے شروع میں حرف ت کے مکرر آنے کی وجہ سے عربی کے قاعدہ کے مطابق ایک ت کو حذف کر دیا گیا ہے۔ تولی کے معنی پیٹھ پھیرنے کے ہوتے ہیں۔
تفسیر
نادان لوگ خیال کرتے ہیں کہ اگر وہ نبی کے پیغام کو رد کرتے ہیں تو اس سے اس نبی کو نقصان پہنچاتے ہیں حالانکہ پیغامبر کو پیغام کے رد ہونے سے کیا نقصان ہوسکتا ہے۔ نقصان ہوگا تو یا پیغام بھیجنے والے کا ہوگا یا اس کا جس کی طرف پیغام بھیجا گیا ہو۔ پس حضرت ہودؑ فرماتے ہیں کہ میں تو پیغامبر ہوں مجھے تو نقصان اسی صورت میں ہوسکتا تھا کہ میں پیغام حق نہ پہنچاتا اور اپنے فرض کی ادائیگی میں کوتاہی کرتا۔ سو اس سے میں محفوظ ہوں۔ میں نے پیغام پوری طرح پہنچا دیا ہے۔ اب اگر نقصان کا احتما ہوسکتا ہے تو پیغام بھیجنے والے کو یا جس کی طرف پیغام دیا گیا ہے۔ اسے سو پیغام دینے والے کا یہ حال ہے کہ وہ تمہارا محتاج نہیں کہ اس کی بات رد ہوجانے کی وجہ سے اسے نقصان پہنچے۔ اس کی بات تو خود تمہارے فائدہ کے لء تھی۔ اگر تم نہ مانو گے تو کوئی اور قوم اس بات کو مان کر ترقی کر جائے گی۔ بہرحال اس کا پیغام ضائع نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ جس بات کو وہ اہتا ہے اس کی حفاظت بھی کیا کرتا ہے۔ اب جس امر کا اس نے ارادہ کیا ہے اور جو تعلیم میری معرفت اس نے دی ہے اس کی بھی وہ ضرور حفاظت کرے گا۔
ان ربی علی کل شئی حفیظ میں اس امر کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو بھی یونہی جانے نہیں دے گا۔ وہ اس کے حضور میں محفوظ ہیں اور ضرور ان اعمال کے متعلق تم سے بازپرس ہوگی۔
۵۷؎
اللہ تعالیٰ کی عام سنت یہ ہے کہ جب کوئی وبا یا تکلیف ملک میں آتی ہے تو اچھے برے سب ہی اس میں شریک ہوجاتے ہیں لیکن انبیاء کے زمانہ میں چونکہ عذابوں کا نزول اتمام حجت کے طور پر ہوتا ہے اس وقت اللہ تعالیٰ کی رحمت مومنوں کے لئے خاص جوش میں آجاتی ہے۔ اور باوجود ایک ہی ملک اور ایک ہی جگہ میں رہنے کے وہ اکثر قسم کے عذابوں سے کلی طور پر یا جزوی طور پر محفوظ رہتے ہیں۔ اسی کی طرف رحمۃ منا کہہ کر اشارہ کیا ہے کہ یہ ایک خاص اوار اہم فضل تھا اور عام قانون قدرت کے ماتحت نہ تھا۔
عذاب غلیظ سے مراد یہ ہے کہ وہ اس عذاب سے باوجود کوشش کے آزاد نہیں ہوسکیں گے۔ کیونکہ گاڑھی چیز میں جب کوئی پھنس جائے تو اس سے نکلنا مشکل ہوتا ہے۔ نہ وہ ٹھوس ہوتی ہے کہ اس پر سہارا دے کر نکل آئے اور نہ پتلی ہوتی ہے کہ اس میں سے چل کر نکل جائے۔ جس طرح دلدل کہ اس میں پھنسا ہوا باہر نہیں نکل سکتا۔
۵۸؎ حل لغات
جحد۔ یجحد جحودا۔ حقہ وبحقہ انکرہ مع علمہ بہ۔ اس نے اس کے حق کا باوجود یہ جاننے کے کہ اس کا مجھ پر حق ہے انکار کر دیا۔ کفرہ وکذبہ اس کی بات کا انکار کیاا ور اسے جھوٹا قرار دیا۔ الجبار من صفات اللہ تعالیٰ۔ جبار کا لفظ خداتعالیٰ کی صفات میں سے ہے۔ (یعنی اصلاح کرنے والا) وکل عات مقرد اور ہر سرکشی کرنے والے اور بات نہ ماننے والے کو بھی کہتے ہیں۔ (اقرب) العنید۔ المخالف للحق الدبے یردہ وھویعرفہ جمعہ عند۔ حق کا مخالف جو اسے جانتے ہوئے رد کرے۔ اس کی جمع عند ہے۔ (اقرب)
تفسیر
تلک سے عاد کی بڑائی کی طرف اشارہ ہے کہ عاد ایسی زبردست قوم تھی مگر باوجود اس کے جب انہوں نے شوخی اور شرارت سے کام لیا اور حق کا جان بوجھ کر اور ضد سے انکار کر دیا اور جو ان کی بھلائی کا پیغام لائے تھے ان کی بات تو نہ مانی لیکن جو لوگ دنیا میں زور اور جبر کرنے والے تھے اور بلاوجہ لوگوں سے لڑائی جھگڑا مول لیا کرتے تھے ان کی بات مان لی اور باوجود اس کے حریت کادعویٰ بھی رکھتے تھے۔
۵۹؎ حل لغات
بعدا۔ البعد عند القرب۔ دوری۔ اللعن۔ *** خدا کے قرب سے محرومی۔ (اقرب)
تفسیر
جب *** کا فعل بندوں کی طرف منسوب ہو تو اس کے معنی *** کرنے کے ہوتے ہیں اور جب خداتعالیٰ کی طرف منسوب ہو تو اس کے معنی دور کردینے کے ہوتے ہیں۔ پس مراد یہ ہے کہ قیامت کے دن وہ دیدار الٰہی سے محروم رہیں گے اور خدایتعالیٰ کا قرب نہیں پائیں گے۔ الاان عادا کفرواربہم۔ یہ جملہ نہایت ہی دلکش ہے الاتنبیہ کے لئے آتا ہے۔ پس اس کا مطلب یہ ہوا کہ سنو سنو عاد نے اپنے رب کا انکار کر دیا۔ یعنی یہ کس قدر اندھیر کی بات ہے کہ عاد نے اپنے پرورش کرنے والے کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ حالانکہ اپنے محسن کی بات کی شریف لوگ قدر کیا کرتے ہیں۔ رب کے معنی ہیں پیدا کرکے پھر ادنیٰ حالت سے ترقی دے کر کمال تک پہنچانے والا۔ پس اس امر پر اظہار افسوس کیا ہے کہ جس نے ان کو اس اعلیٰ مقام پر پہنچایا تھا شان و شوکت کے حصول کے بعد اسی کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ جو ایک طرف تو ناشکری کا فعل ہے اور دوسری طرف بے وقووفی پر دلالت کرتا ہے۔ کیونکہ جس نے بڑھایا ہے گرا بھی سکتا ہے۔ چنانچہ کان کھول کر سن لو کہ آخر عاد سے یہی معاملہ ہوا۔ ہودؑ کا مقابلہ کرنے کی وجہ سے وہ تباہ و برباد کردیئے گئے۔
۶۰؎ حل لغات
استعمرہ فی المکان۔ جعلہ یعمرہ۔ اسے مقرر کیا کہ وہ مکان کو آباد کرے (اقرب) اور اقرب میں بحوالہ اساس لکھا ہے استعمراللہ عبادہ فی الارض اطلب منہم العمارۃ فیہا۔ اللہ تعالیٰ نیے اپنے بندوں سے چاہا کہ وہ زمین کو آباد کریں۔
یہاں صالح کا لفظ صاف بتاتا ہے کہ ثمود عربی امت تھے کیونکہ صالح عربی زبان کا لفظ ہے اور چونکہ قرآن شریف یہ فرماتا ہے کہ قوم ثمود عاد کی قائم مقام تھی جیسا کہ فرمایا واذکروا اذجعلکم خلفاء من بعد عاد یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے تم کو عاد کے بعد ان کا قائم مقام بنایا۔ پس معلوم ہوا کہ یہ عاد بھی ایک عربی نژاد امت تھی۔ شاید یہ خیال کیا جائے کہ صالح کا لفظ کسی دوسری زبان کے نام سے ترجمہ کرکے اختیار کیا گیا ہے لیکن یہ درست نہیں ہوسکتا کیونکہ تمام غیرعربی اسماء بغیر ترجمہ کے ہی قرآن مجید میں مندرج ہیں۔ جیسے موسیٰ، ہارون، یونس، زکریا۔ پس یقینا یہ نام انہی کی زبان کا ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عاد اور ثمود دونوں عربی قومیں تھیں اور چونکہ عاد کو نوح کی قوم کا قائم مقام قرار دیا گیا ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نوح بھی عرب ہی کے کسی علاقہ میں مبعوث ہوئے تھے اور عربی نسل سے ہی تعلق رکھتے تھے۔ چنانچہ تاریخ سے حضرت نوح کا مقام عراق میں ہی ثابت ہے۔ اور عرب قوم ابتداء میں اس علاقہ میں حکومت کرتی رہی ہے۔
ان باتوں کے بیان کرنے سے میرا مقصد یہ ہے کہ ابتدائے عالم کی زبان عربی تھی۔ کیونکہ جب نسل انسانی کا آغاز عرب سے مانا جائے تو اس ملک کی زبان کو بھی ام الالسنہ ماننا پڑے گا۔یورپ کی تحقیقات سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ ابتداء میں ایک زبان سامری نام کی تھی۔ اس سے عربی زبان نکلی اور پھر اس کے مختلف تغیرات سے اور زبانیں پیدا ہوگئیں اور یہ بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ ساری زبان عربی کے جنوب میں بولی جاتی تھی مگر حق یہ ہے کہ عراق اور عرب کی مختلف زبانیں درحقیقت عربی زبان کی شاخیں ہیں۔
ھوانشاکم من الارض کا یہ مطلب نہیں کہ ان کو زمین سے پیدا کیا تھا کیونکہ زمین سے پیدائش صرف حضرت آدمؑ کے زمانہ میں ہوئی تھی۔ بعدازاں سلسلہ تناسل جاری کیا گیا۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ تم ادنیٰ تھے۔ زمینی تھے اور لوگوں کی نظروں میں ذلیل تھے خدا نے تم کو اٹھایا ترقی دی اعلیٰ بنایا حکومت عطا کی۔ پس زمین سے پیدا کرنے کے الفاظ سے مقصود ادنیٰ حالت سے ابھارنے اور اٹھانے پر زور دینا ہے۔ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو ادنیٰ حالت سے ترقی دے کر زمین میں تہذیب و شائستگی کے پھیلانے کا کام سپرد کیا۔ پس چاہئے کہ اس عظیم الشان ذمہ داری کو دیکھتے ہوئے اپنی خطاؤں پر استغفار کرو تاکہ اگر تم سے اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوئی نقص رہ گیا ہو تو اللہ تعالیٰ معاف فرمائے۔ اس صورت میں اللہ تعالیٰ تم پر اور بھی فضل کرے گا۔
اس آیت میں یہ نکتہ بیان کیا گیا ہے کہ ہر چیز اپنی اصل کی طرف رجوع کرتی رہتی ہے۔ پس انسان کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس کی پیدائش کی بنیاد کمزوری پر ہے۔ اور اس کی ترقی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوتی ہے۔ پس چاہئے کہ اس کی طرف رجوع کرتا رہے۔ تاکہ اس سے تازہ بتازہ فیضان حاصل کرکے اپنی ترقی کو قائم رکھ سکے۔ ورنہ قطع تعلق کی صورت میں وہ آپ ہی آپ پھسل کر اپنی ابتدائی حالت کی طرف لوٹ جائے گا۔
قریب کہہ کر بتایا ہے کہ اگر اس کے پیغام کا انکار کروگے تو وہ بہت جلد سزا بھی دے سکتا ہے۔ کیونکہ اس کی افواج کے آنے میں دیر نہیں لگتی۔ اور مجیب کے لفظ سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ شاید کسی کو خیال ہو کہ گو وہ قریب ہے لیکن وہ بندوں کے کاموں میں دخل نہیں دیتا۔ مگر یہ خیال غلط ہوگا وہ بندوں کے اکموں میں دخل دیتا ہے اور جو لوگ اسے پکارنے والے ہوں ان کی دعاؤں کو سنتا ہے اور ان کی پکار پر ان کی امدا دکے لئے فوراً آتا ہے۔
۶۱؎ حل لغات
ارابہ یریبہ ادابۃ شککہ وجعل فیہ ریبۃ۔ اس کے دل میں شک ڈال دیا۔ ارابہ منہ امرا ساء بہ الظن ولم لیستیقن منہ الریبۃ اس کی نسبت بدگمانی کی۔ ارابک فلان۔ بلغک عنہ الشئی اوتوھمتہ۔ تجھے اس سے کوئی شکایت پہنچی۔ یا تو نے اس کے متعلق کسی شکایت کا خیال کیا۔ زیدا اقلقہ وازعجہ۔ قال المتنبی مارابک عن مریب اسے گھبرا دیا اور فکر میں ڈال دیا۔ چنانچہ متنبی نے اس لفظ کو ان معنوں میں استعمال کیا ہے اور لکھا ہے کہ جس بات نے تجھے بے چین کر دیا ہے اس نے کس شان کے انسان کو بے چین اور بے قرار کیا ہے۔ (اقرب)
تفسیر
صالح علیہ السلام کی قوم شاکی ہے کہ ہم تو تیرے ذہن رسا اور خدا داد طاقتوں کو دیکھ کر امید لگائے بیٹھے تھے کہ تو قوم کے لئے طاقت اور قوت کا موجب ہوگا لیکن تو تو الٹا قوم کو تباہ کرنے لگا ہے۔ مگر قوم نے یہ خیال کیا کہ ان کی امیدیں جو صالح کے متعلق تھیں وہ تو پوری ہوگئیں اور فی الواقع وہ قوم کے لئے مفید وجود بن گئے لیکن ان کی امیدیں اپنی ذاتوں کے متعلق پوری نہ ہوئین اور اس مفید تحریک سے جو صالحؑ کے ذریعہ قائم ہوئی تھی وہ محروم رہ گئے۔ انسان بھی کس قدر کمزور ہے وہ کبھی امید لگاتا ہے اور وہ امید پوری ہوجاتی ہے مگر عین اس وقت جب اس کی برسوں کی بلکہ اس کی قوم کیی صدیوں کی امیدی پوری ہونے لگتی ہیں وہ منہ موڑ کر چلا جاتا ہے۔ اور جو چشمہ اس کے گھر سے پھوٹا تھا دوسرے اس سے سیراب ہوتے ہیں۔ یہی نظارہ پھر اس وقت ظاہر ہورہا ہے۔ مسلمان ایک آنے والے کے منتظر تھے وہ آ گیا۔ اور دوسری قومیں اس سے فائدہ اٹھارہی ہیں مگر وہ ہیں کہ ابھی اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنے کے لئے تیار نہیں۔
اتنھانا۔ کیا تو ہمیں باپ دادوں کے طریق عبادت سے روکتا ہے۔ یعنی ہم تو سمجھتے تھے کہ تو باپ دادا کی عزت کو بلند کرے گا مگرتو تو الٹا ان کی جڑیں کاٹنے لگ گیا ہے۔ جب انسان کے اندر بیماری ہو تو اس کے منہ کا مزہ بگڑ جاتا ہے۔ چونکہ ان لوگوں کے دل خراب ہوگئے تھے وہی تعلیم جو شکوک کو دور کرنے کے لئے آئی تھی اسی کی نسبت کہتے ہیں کہ ہمارے دل اس کی وجہ سے شکوک سے بھر گئے ہیں۔
حضرت صالح کی قوم کا یہ کہنا کہ ہمیں تو تجھ پر بہت سی امیدیں تھیں صرف لالچ دلانے کے لئے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ اس کی طرف سے جس قدر مامور آتے ہیں وہ سب ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جو بچپن سے لوگوں کے دلوں پر اپنی قابلیت اور نیکی سے گہرا اثر پیدا کرلیتے ہیں اور یہ امر ضروری ہوتا ہے کیونکہ شروع دعویٰ میں نہ ابھی پیشگوئیاں پوری ہوئی ہوتی ہیں اور نہ تعلیم مکمل ہوئی ہوتی ہے۔ اس وقت ان کی گزشتہ زندگی ہی ان کی صداقت کی دلیل ہوتی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھییہی معاملہ ہوا اور حضرت خدیجہ اور حضرت ابوبکر اور حضرت علی اور حضرت زید اس دلیل کی بنا پر بغیر کسی نشان و معجزہ اور تفصیلی تعلیم کے سننے کے آپ پر ایمان لے آئے۔
۶۲؎ حل لغات
نصرفلانا من عدوہ نجاہ منہ وخلصہ واعانہ وقواہ علیہ (اقرب) یعنی جب نصر کا صلہ من ہو تو اس کے معنی مدخول من ے خلاف کسی کو مدد دینے کے ہوتے ہیں۔ پس اس کے معنی ہوئے اسے اس کے دشمن کے مقابل پر مدد دی۔ اور اس سے بچا لیا۔ خسرہ جعلہ یخسر۔ اسے گھاٹے میں ڈال دیا نسبہ الی الخسران۔ اسے گھاٹا پانے والا قرار دا۔
تفسیر
حضرت صالح کہتے ہیں کہ تم کہتے ہو اس تعلیم کی وجہ سے ہمیں شہبات پیدا ہورہے ہیں اور اگر تو اسے پیش نہ کرتا تو ہم تجھے اپنا لیڈر بنانے کے لئیے تیار تھے سوچو تو سہی کہ اگر میں فی الواقع خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں تو اس کی تعلیم کو چھوڑ کر تمہاری لیڈری مجھے کیا نفع پہنچا سکتی ہے۔ اس صورت میں تمہاری امداد تو میرے لئے نقصان ہی نقصان کے سامان پیدا کرے گی۔
۶۳؎ حل لغات
ذرہ۔ ای رعہ۔ چھوڑ دے کہتے ہیں ذرہ و احذرہ اسے چھوڑے دے اور اس سے بچ۔ (اقرب)
تفسیر
صالح کی اونٹنی مدت سے انسانی قوت تخیلہ کے لئے ایک کھیل بن رہی ہے۔ مفسرین نے ہر قسم کی روایات اس کے متعلق جمع کردی ہیں۔ جن میں یہاں تک بیان ہوا ہے کہ حضرت صالحؑ نے کفار کے مطالبہ پر دعا کرکے پہاڑ کے پیٹ سے ایک اونٹنی پیدا کی تھی اور جب وہ پیدا ہوئی اس وقت وہ حاملہ بھی تھی اور پھر فوراً اس کے بچہ بھی پیدا ہو گیا۔ اور اسی قسم کی بے سروپا روایات جو عربوں میں مشہور تھیں انہوں نے تفسیروں میں نقل کردی ہیں اور یہ نہیں خیال کیا کہ ناواقف لوگوں پر ان روایات کا کیا اثر پڑے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ اونٹنی کی پیدائش کے معجزانہ ہونے کا کوئی ذکر قرآن کریم میں نہیں ہے۔ بلکہ سورۂ شعراء میں فرماتا ہے قالوا انما انت من المستحرین ما انت الا بشر مثلنا فات بایۃ ان کنت من الصدقین۔ قال ھذہ ناقۃ لھا شرب ولکم شرب یرم معلوم ولا تمسوھا بسوء فیاخذکم عذاب یوم عظیم۔ (شعراء ع۸)
منکرین صالح نے کہا کہ تو صرف دھوکہ خوردہ ہے تو فقط ہمارے جیسا ایک آدمی ہے۔ پس اگر تو سچا ہے تو کوئی نشان لے آ۔ اس پر صالح نے کہا کہ یہ میری اونٹنی ہے اسے بھی اپنی باری پر پینے کا حق ہے۔ اور تم کو بھی ایک مقررہ دن پر اپنی باری کا پانی پینا ہوگا۔ اور تم اسے کوئی تکلیف نہ دینا۔ نہیں تو تم اکو ایک بڑے دن کا عذاب پہنچے گا۔ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اونٹنی کی پیدائش نشان کے طور پر نہیں ہوئی تھی بلکہ اس کی آزادی کو ایک نشان قرر دیا گیا تھا۔ اور اسے مارنے والے کے لئے عذاب مقرر تھا۔ اگر اس کی پیدائش ایک نشان ہوتی تو صالحؑ کفار کے مطالبہ پر کہتے کہ پہلے تمہارے مطالبہ پر اونٹنی پہاڑ سے پیدا ہوچکی ہے۔ لیکن بجائے اس کے وہ ان کے مطالبہ کے جواب میں اونٹنی کی آزادی کو آئندہ آنے والے نشان کے ساتھ وابستہ کرتے ہیں۔
اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ اونٹنی نشان کس طرح تھی۔ اس کا ایک جواب تو وہ ہے جو استاذی المکرم حضرت مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ دیا کرتے تھے کہ عرب اور دوسرے ممالک میں دستور تھا کہ بادشاہ اپنی طاقت کے اظہار کے لئے کوئی جانور چھوڑ دیا کرتے تھے اور اعلان کر دیا کرتے تھے کہ اسے کوئی کچھ نہ کہے۔ اگر کوئی کچھ کہتا تو وہ اسے تباہ کر دیتے تھے۔ اس طریق کی نقل میں حضرت صالحؑ نے اپنی اونٹنی کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے نشان مقرر کیا کہ تمہاری دیرینہ رسم کے مطابق اس اونٹنی کو بھی نشان مقرر کیا جاتا ہے۔ اگر تم اسے دکھ دو گے تو وہ الٰہی گورنمنٹ کا مقابلہ سمجھا جائے گا اور تم عذاب میں مبتلا کئے جاؤگے۔
ان معنوں پر اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ جو اس قسم کے جانور چھوڑے جاتے تھے وہ بطور سانڈھ کے ہوتے تھے اور ان کو چھیڑنا یا کھیتوں سے روکنا ناجائز سمجھا جاتا تھا۔ اور یہ امر ایک نبی کی شان کے خلاف ہے کہ ایک جانور کو چھوڑ دے کہ لوگوں کے کھیتوں کو کھاتا پھرے۔ اور روکنے والوں کو عذاب کی دھمکی دے۔ سو اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک ایک نبی کی شان کے یہ خلاف ہے لیکن ضروری نہیں کہ ہر امر میں پرانی رسم کی اتباع کی جائے۔ حضرت صالحؑ نے یہ شرط نہیں کی تھی کہ جس کی کھیتی میں یہ جانور چاہے گھس جائے۔ بلکہ صرف یہ شرط رکھی تھی کہ عام افتادہ زمینوں میں یہ چرے گی۔ وہاں اسے نہ چھیڑا جائے۔ چنانچہ اس آیت میں صاف الفاظ میں فرمایا ہے کہ ذروھا تاکل فی ارض اللہ اس اونٹنی کو چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں چرے۔ پس لوگوں کے کھیتوں میں اونٹ چرانے کا اعلان حضرت صالح نے نہیں کیا تھا۔ بلکہ صرف افتادہ زمینوں میں جن کا کوئی مالک نہ تھا اور جو صرف اللہ تعالیٰ ہی کے تصرف میں تھیں کہ اس کے اوپر بادل برس کر وہاں گھاس اگا دیتے تھے کسی کو ان کی سرسبزی کے لئے کچھ نہ کرنا پڑتا تھا۔
میرے نزدیک اس نشان کا یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ کسی دیرینہ رسم کی طرف اشارہ نہ ہو بلکہ حضرت صالحؑ کا یہ مطلب ہو کہ تبلیغ کے لئے مجھے ادھر ادھر پھرنے دو اور اس میں روک نہ ڈالو۔ اور یا خدا کی زمین میں چرنے دو۔ کے یہ معنی ہوں کہ ضروریات دینی کے پورا کرنے کے لئے جو میں مختلف علاقوں میں پھروں تو اس میں روک نہ ڈالو۔ اور یہ مجاز مختلف زبانوں میں استعمال ہوتا ہے اور مراد سوار کا روکنا ہوتا ہے۔ حالانکہ روکا سواری کو جاتا ہے۔ بسااوقات جب ایک مسافر کو لوگوں نے کھڑا کرنا ہوتا تو اس کی سواری کو پکڑ لیتے ہیں اور اس سے ان کی مراد سوری کو نہیں بلکہ سوار کو روکنا ہوتی ہے۔ اسی طرح معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ حضرت صالح کے تبلیغی سفروں میں روک ڈالتے ہوں گے اور ادھر ادھر پھرنے نہیں دیتے ہوں گے اس پر خداتعالیٰ نے ان کو منع کیا اور فرمایا کہ صالح کی اونٹنی کو ادھر ادھر پھرنے دو۔ مطلب یہ کہ صالحؑ کے سفروں میں روک نہ ڈالو۔ جہاں چاہے وہ اپنی اونٹنی پر بیٹھ کر چلا جائے۔ اور خدا کا کلام پہنچائے۔ چونکہ وہ لوگ بھی اس کلام کے مطلب کو سمجھتے تے انہوں نے حضرت صالحؑ کی اونٹنی کو مار دیا۔ اور گویا دوسرے الفاظ میں یہ کہا کہ ہم تم کو اپنے ملک میں تبلیغ کرنے کی عام اجازت نہیں دے سکتے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ عذاب میں گرفتار ہو کر ہلاک ہو گئے۔
ایک تیسرے معنی بھی میرے نزدیک اس آیت کے ہوسکتے ہیں اور وہ یہ کہ حضرت صالح نے تجربہ سے جب معلوم کیا کہ ان کا دوسرے لوگوں سے ملنا جلنا فساد کا موجب ہوتا ہے اور عوام الناس سے ملنے کا زیادہ موقع چشموں اور جانور چرانے کی وادیوں میں ہی ہوتا ہے اس لئے انہوں نے خداتعالیٰ کے حکم سے فساد دور کرنے کے لئے ایسا انتظام کیا کہ جو عام چراگاہ تھی اس سے اپنے جانوروں کو روک دیا اور کوئی دوسری افتادہ زمین جو ان کی قوم کی ملکیت نہ تھی اس امر کے لئے منتخب کرلی اسی طرح اونٹنی کو پانی پلانے کے لئے بھی انہوں نے عام وقت جو پانی پلانے کا تھا اسے چھوڑ دیا۔ اور دوسرا وق جس وقت لوگ پانی نہیں پلاتے تھے مقرر کرلیا۔ اور پھر اعلان کر دیا کہ فساد سے بچنے کے لئے ہم نے ہر ممکن تدبیر اختیار کرلی ہے اور اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر بھی ایسی جگہوں اور وقتوں کو چھوڑ دیا ہے جن میں تم لوگوں سے مل کر فساد کا اندیشہ ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر اب بھی آپ لوگوں نے فساد کیا تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ آپ لوگ ہماری زندگی کو ہی پسند نہیں کرتے اور اس صورت میں اللہ تعالیٰ کا عذاب آپ پر نازل ہوگا۔ ان معنوں کی تائید اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ پرانی تاریخوں سے ایک وادی کا پتہ لگتا ہے جس کا نام فج الناقہ تھا۔ اور حضرت مسیح سے ڈیڑھ سو سال قبل کے ایک جغرافیہ میں بھی اس کا ذکر ہے۔ پرانے یونانی مورخ اسے بیڈاناٹا لکھتے تھے۔ جو فج الناقہ کا ہی بگڑا ہوا ہے۔ اس قدیم وادی سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت صالحؑ نے اپنی قوم سے الگ ایک وادی اپنی اونٹنی کے چرانے کے لئے مقرر کرلی تھی۔ تاکہ ان کا جانور دوسرے جانوروں سے اور چرواہا دوسرے چرواہوں سے نہ ملیں اور آپس میں فساد کی صورت پیدا نہ ہو۔ لیکن آپ کے مخالفوں کو اس پر بھی صبر نہ آیا اور انہوں نے وہاں جاکر بھی آپ کی اونٹنی کو مار ڈالا۔ اور اللہ تعالیٰ کے اعلان کی بے حرمتی کرکے عذاب میں گرفتار ہوئے۔
یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ ایک اونٹنی کے مارنے پر قوم کو کیوں تباہ کر دیا۔ کیونکہ اونتنی کے مارنے کے معنے یہ تھے کہ ہم صالح کو کسی جگہ بھیآرام سے نہیں رہنے دیں گے اور اس کے سفر کے ذریعوں کو مسدود کردیں گے اور یہ امر شدید ترین دشمنی پر دلالت کرتا ہے۔ اس کی سزا سے ایسی قوم جو پلے تعلیم الٰہی کا انکار کرکے مجرم ہو چکی ہو نہیں بچ سکتی۔
۶۳؎
ومن خزی یومئذ۔ گو عذاب اپنی ذات میں بھی ذلت ہوتا ہے لیکن یہاں عطف کرکے بتلایا ہے کہ اس عذاب میں کچھ خاص پہلو بھی رسوائی کے تھے۔
۶۴؎ حل لغات
الصیحۃ۔ الصوت الشدید سخت آواز۔ الزجر ڈانٹ۔ العذاب۔ عذاب۔ الاخارۃ اذا فوجی الیحی بہ اچانک حملہ۔ (اقرب)
جاثمین۔ جثم یجثم ویجثم جثوما۔ تلبد زمین سے چمٹ گیا۔ یعنی وہ زمین پر گرے ہوئے تھے۔
تفسیر
اس آیت میں عذات کے لئے صیحۃ کا لفظ آیا ہے۔ لیکن سورۂ اعراف میں رجفۃ کا لفظ آیا ہے جس کے معنی زلزلہ کے ہیں۔ سورۂ شعراء میں خالی عذاب کا لفظ ہے۔ سورۂ نحل میں ہے کہ ہم نے انہیں بالکل ہلاک کردیا۔ اور ذاریات میں صاعقہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ جس کے معنی بجلی اور عذاب کے ہیں۔ الحاقہ میں عذاب کا ذریعہ طاغیہ کو قرار دیا گیا ہے۔ جس کے معنی حد سے نکل جانے والے کے ہیں۔ سورۂ قمر میں صیحہ کا لفظ اور ضحٰی میں دمدم علیہم کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ مگر ان سب الفاظ میں کوئی اختلاف نہیں۔ جن الفاظ میں بظاہر اختلاف ہے وہ رجفۃ۔ صیحۃ۔ صاعقۃ اور طاغیہ ہیں۔ لیکن صیحہ صاعقہ اور طاغیہ تینوں کے معنی عذاب کے بھی ہیں۔ پس اگر زلزلہ سے وہ قوم ہلاک ہوئی ہو تو سب الفاظ بغیر اختلاف کے چسپاں ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ زلزلہ بھی عذاب اور ہلاکت کا ذریعہ ہے۔
۶۵؎ حل لغات
غنی یغنی غنی فلان عاش۔ زندہ رہا۔ زندگی گزاری۔ (اقرب الموارد)
تفسیر
اس جگہ پر بعدا الثمود قوم صالح نہیں کہا گیا۔ جیسا کہ اس سے پہلے رکوع کے آخر میں لعاد قوم ھود کہا گیا تھا۔ اس سے یہ دھوکہ نہیں کھانا چاہئے کہ پہلی آیت میں ہود کی زیادتی قافیہ کے لئے کی گئی تھی۔ مگر اس جگہ چونکہ قافیہ نہیں بنتا تھا۔ اس لئے صالح کا نام ساتھ نہیں لیا گیا۔ ایسا نہیں کیونکہ قرآن کریم ہرگز قافیوں کی وجہ سے لفاظ نہیں بڑھایا کرتا۔ اس فرق کی ایک تاریخی وجہ ہے اور وہ یہ کہ عاد دو قوموں کا نام ہے۔ ایک عاد اولیٰ اور دوسری عاد ثانیہ کہلاتی ہے۔ پس اگر خالی بعدا لعاد کہہ دیا جاتا تو یہ اشتباہ پڑتا کہ کیا عاد سے مراد پہلی قوم عاد ہے یا دوسری۔ یا دونوں۔ اس لئے وہاں قوم ہود کہہ کر بتا دیا کہ اس آیت میں عاد سے عاد اولیٰ مراد ہے۔ نہ کہ عاد ثانیہ۔ اس کے برخلاف ثمود صرف ایک قوم کا نام ہے۔ اور اس کے متعلق دھوکے کا احتمال نہیں ہوسکتا تھا۔ اس وجہ سے ثمود کے ساتھ قوم صالح کے الفاظ نہیں بھائے کیونکہ ان الفاظ کے بڑھانے سے کوئی خاص غرض پوری نہیں ہوتی تھی۔
ثمود کا ذکر یونانی تاریخوں میں بھی آتا ہے۔ اور ان میں مسیحؑ کے زمانہ کے قریب ان کا ذکر ہے۔ اور انہوں نے ثمود کا مقام حجر بتایا ہے۔ جسے وہ اپنے رسم الخط میں اگرا کرکے لکھتے ہیں۔ اور ثمود کا نام ان کے جغرافیوں میں تمودینی (THAMUDENI) آتا ہے۔ اور حجر کے پاس وہ ایک جگہ کا ذکر کرتے ہیں جسے عرب ان کے بیان کے مطابق فج الناقہ کہتے تھے۔ بلیموس جو ۱۴۰ سال قبل مسیح ہوا ہے وہ لکھتا ہے کہ حجر کے پاس ایک جگہ ہے جس کا نام (BARDANTA) ہے۔ فتوح الشام کا مصنف ابواسماعیل لکھتا ہے ان ثموداملاؤ الارض بین بصری وعدن فلعلھا کانت فی طریق ھجرتہا نحوالشمال کہ ثمود قوم بصریٰ (جو شام کا ایک شہر ہے) سے لے کر عدن تک پھیلی ہوئی تھی۔ اور وہیں ان کی حکومت تھی۔ شاید کہ وہ اس وقت جنوب سے شمال کی طرف ہجرت کررہے تھے۔ یعنی حمیر اور سباء کی طاقت کے زمانہ میں جب ان کو ہجرت کرنی پڑی تو اس وقت ایسا ہوا۔ ان دونوں قبیلوں کی حکومت نے یمن میں طاقت پکڑی تھی اور ثمود کی حکومت احقاف کے جنوب میں تھی۔ انہوں نے جب ان کو نکالا تو یہ اوپر کی طرف نکلنے شروع ہوئے۔ پہلے ضجاز پھر تہامہ اور پھر حجر میں چلے گئے۔ تمدنِ عرب والا کہتا ہے کہ ولایخرج الحکم فی ذلک من التخمین یعنی یہ قیاسی بات ہے۔
درحقیقت عربوں کا خیال ہے کہ ثمود بھی عاد کی ایک شاخ ہے۔ اور انہی کی طرح یہ یمن میں رہتی تھی۔ جب حمیر کی حکومت ہوئی تو انہوں نے ان کو حجاز کی طرف نکال دیا۔ لیکن اس کی تصدیق اب تک کسی دلیل سے نہیں ہوئی۔ کیونکہ اس قوم کے آثار اب تک جنوب میں نہیں ملے۔ حجر کو پرانے زمانہ سے مدائن صالح بھی کہتے ہیں۔ اور اس کے آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیھ کے زمانہ سے پہلے یہ نبطیوں کے ماتحت آچکا تھا۔ جنہیں انبات بھی کہتے ہیں۔ یہ لوگ بطرا کے رہنے والے تھے۔ جسے یونانی لوگ پیٹرا کہتے ہیں۔ چنانچہ اس جگہ کئی کتبے نبطی زبان کے ملے ہیںَ لیکن ان نبطی کتبوں کے ساتھ ساتھ بعض کتبے یمنی زبان میں بھی ملے ہیں۔ ان کتبوں کو مستشرقین کا گروہ ثمود کے نام سے موسوم کرتا ہے۔ یعنی ثمود قوم کے کتبے۔ اس تحقیق سے عرب جغرافیہ نوسیوں کے اس خیال کی تائید ہوتی ہے کہ ثمود قوم جنوب سے ہجرت کرکے شمال کی طرف آئی تھی کیونکہ اگر وہ جنوب سے نہ آتی تو ان کی زبان یمنی زبان سے ملتی جلتی نہ ہوتی۔
حجر جو اس قوم کا دارالحکومت معلوم ہوتا ہے مدینی منورہ اور تبوکے کے درمیان میں ہے اور اس وادی کو جس میں حجر واقع ہے وادی قریٰ کہتے ہیں۔ اس علاقہ میں اس قوم کا زور تھا۔ جیسا کہ قرآن کریم فمراتا ہے الذین جابلالصخر بالواد کہ ثمود نے وادی قریٰ میں پہاڑ کاٹ کاٹ کر مکان بنائے تھے۔ (الفجر) قران کریم میں اس قوم کا زمانہ عاد کے معاً بعد بتایا ہے۔ کیونکہ فرماتا ہے۔ واذکروا اذ جعلکم خلفاء من بعد عاد (اعراف ع۲) یاد کرو جب خدا نے تم کو عاد کا جانشین بنایا۔ اسی طرح حضرت موسیٰ کی تائید میں جو ایک مومن آدمی فرعون کی مجلس میں بولا تھا اس کی زبان سے قول نقل کیا ہے۔ یا قوم انی اخاف علیکم مثل یوم الاحزاب مثل دأب قوم نوح و عاد و ثمود۔ (مومن ع۲) اے قوم میں تمہارے متعلق اس گھڑی سے ڈرتا ہوں جو پہلے انبیاء کے دشمنوں کو پیش آئی۔ یعنی اس حالت سے جو نوح کی قوم اور عاد اور ثمود کو پیش آئی۔ اس سے پتہ لگا کہ یہ قوم موسیٰ سے پہلے تھی۔ کیونکہ موسیٰ کے زمانہ میں ان کی تباہی کو بطور دلیل پیش کیا گیا ہے۔
ایک اور استدلال سے اس قوم کی تباہی کا زمانہ اور بھی پہلے چلا جاتا ہے۔ اس قوم کے آخری دور میں اس کی حکومت شمالی عرب اور جنوبی فلسطین میں تھی۔ اور قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں ان علاقوں میں جو اس قوم کی حکومت کا علاقہ تھا مدین قوم کے لوگوں کا غلبہ تھا اور مدین لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔ کیونکہ مدین قتورا (حضرت ابراہیمؑ کی تیسری بیوی کے) پیٹ سے تھا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو جب کوئیں سے نکال کر مصر کی طرف لے جایا گیا تو قتورہ کی نسل اس علاقہ میں بس رہی تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ ثمود حضرت ابراہیم کے زمانہ سے بھی پہلے تباہ ہوچکے تھے۔ یا ان کی طاقت ٹوٹ چکی تھی۔ ورنہ مدین ان کے علاقہ پر قابض نہ ہوسکتے۔
اس آخری استدلال سے میری غرض نہ صرف ایک تاریخی حقیقت کا ثابت کرنا ہے بلکہ میں اس اعتراض کا بھی جواب دینا چاہتا ہوں جو بعض مسیحی مورخ قرآن کریم پر کرتے ہیں۔ کہ اس میں تاریخی ترتیب کا لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ قرآن کریم ہر جگہ ہود کا پہلے اور صالح کا اس کے بعد اور ابراہیم اور موسیٰ (علیہم السلام) کا ان کے بعد ذکر کرتا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں مٹے ہوئے تاریخی واقعات بھی نہایت صحت کے ساتھ بیان ہوتے ہیں اور یہ کہ وہ تاریخ کو اس کی صحیح ترتیب سے بیان ہوتے ہیں اور یہ کہ وہ تاریخ و اس کی صحیح ترتیب سے بیان کرتا ہے۔ مذکورہ بالا امور کو مدنظر رکھ کر ہم قیاس کرسکتے ہیں کہ ثمود کا حقیقی زور آج سے قریباً تین ہزار چھ سو سال پہلے ٹوٹ چکا تھا۔
ثمود کو بعض لوگ عاد ثانیہ بھی کہتے ہیں۔ اور بعض کہتے ہیں کہ عاد ثانیہ پہلے تباہ ہو گئے تھے۔ بعد میں ثمود آئے۔ گویا عاد اولیٰ حضرت ہودؑ کے زمانہ میں ہلاک ہوئے۔ اور ان کے بعد عاد ثانیہ ہوئے اور ثمود یا تو انہی کا نام تھا یا ان کی تباہی کے بعد انہی میں سے نکلی ہوئی ایک قوم کا نام تھا۔ جس نے ان کے بعد ترقی کی۔ مولوی سید محمد سلیمان صاحب ندوی اپنی کتاب ارض القرآن میں تحریر فرماتے ہیں کہ ایک کتبہ ثمود کے متعلق حضرت معاویہؓ کے زمانہ میں بعض مسلمانوں نے پڑھا تھا (یورپین محققین اس روایت کو بناوٹی قرار دیتے ہیں) اس کے بعد اس کا کوئی نشان نہیں ملا۔ اب اس زمانے (۱۸۳۴ء؁) میں ایک انگریز مستشرق (WELLESTED) نے پھر اس کا پتہ لگایا ہے اور وہ ایشاٹک سوسائٹی جرنل میں چھپ چکا ہے۔ اور فارسٹر نے (جو ایک انگریز مستشرق ہے۔) اپنی کتاب میں اسے نقل کیا ہے۔ اصل کتبہ حمیری زبان میں ہے۔ جو اصل میں جنوبی عربی زبان ہے۔ موجودہ مستشرقین نے اس کا نام حمیری رکھ لیا ہے۔ یہ کتبہ حصن غراب میں جو عدن کے قریب ہے ملا ہے ۔اس کتبہ کی عبارت کا ترجمہ یہ ہے۔
(۱) ہم مدت تک اس وسیع قصر میں رہے۔ ہماری حالت بدنصیبی اور ادبار سے دور تھی۔ ہماری نہروں میں
(۲) دریا کا پانی امڈ آتا تھا۔ سمندر موجیں مارتا ہوا ہمارے قلعہ کی دیواروں سے غضبناک ہوکر ٹکراتا تھا۔ ہمارے چشمے خوش آئند آواز سے بہتے تھے۔
(۳) بلند کھجوروں کے اوپر جن کے باغبان خشک چھوہارے ہماری وادیوں کے چھوہاروں کی زمینوں میں لگاتے تھے اور خشک چاول بوتے تھے۔
(۴) ہم پہاڑی بکروں کا اور جوان خرگوشوں کا شکار پنجروں اور جالوں سے کرتے تھے اور مچھلیوں کو
(۵) بہلا بہلا کر باہر نکال لیتے تھے۔ اور ہم آہستہ آہستہ خرامان خراماں رنگ برنگ کے ریشم کے کپڑے اور لاہی سبز مختلف الالوان جامے پہن کر چلا کرتے تھے۔ اور ہم پر وہ بادشاہ حکومت کرتے تھے جو کمینہ خیالات سے بہت دور اور شریروں کو سزا دینے والے تھے۔ ہود کی شریعت کے مطابق۔
(۶) اچھے فیصلے ایک کتاب میں لکھے جاتے تھے۔ اور ہم معجزات کا یقین رکھتے تھے۔ قیامت کے روز اور نتھنوں سے راز پر ایمان تھا۔
(۷) راہزن گھس آئے اور وہ ہمارے ساتھ کچھ جھگڑا کرتے تھے۔ مگر ہم نے اپنے گھوڑوں کو پویہ ڈال دیا۔ اوار ہمارے شریف نوجوان سخت اور نوکدار نیزوں کو لے کر آگے بڑھے۔
(۸) ہمارے خاندان کے مغرور بہادر مرد اور عورتیں گھوڑوں پر لڑ رہی تھیں جن کی گردنیں لمبی تھیں۔ اور جو چمکدار کمیت رنگ کے تھے۔
(۹) ہماری تلواریں بدستور دشمنوں کو خمی کررہی تھیں اور چھید رہی ھیں۔ یہاں تک کہ ان کے قلب پر حملہ کرکے ان کو مغلوب اور بالکل پست کر دیا۔ جو بدترین نوع انسان میں سے تھے۔
اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں میں ہر قسم کی تہذیب تھی۔ اور قوانین کے علاوہ فیصلہ جات بھی لکھے جاتے تھے۔ تاکہ آئندہ لوگوں کے لئے سند ہوں۔ جیسا کہ آج کل کی انگریزی عدالتوں کے فیصلوں کی رپورٹیں شائع ہوتی ہیں۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ قوم جس کا ذکر کتبہ میں ہے حضرت صالح علیہ السلام سے پہلے ہوئی ہے یا بعد میں کیونکہ ہوسکتا ہے کہ حضرت ہوس کی امت میں سے ایک حصہ جنوبی عرب میں بھی رہ گیا ہو۔ بہرحال یہ ثابت ہے کہ یہ قوم ثمود میں سے تھی اور ان کی طرف یا ان کے ان بھائیوں کی طرف جو ہجرت کرکے شمال کو چلے گئے تھے صالح علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے۔
قرآن کریم کی عبارت تتخذون من سھولھا قصورا وتنحتون الجبال بیوتا۔ (اعراف ع۱۰) سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ میدانوں اور پہاڑوں دونوں پر اس قوم (ثمود) کی حکومت تھی۔ اسی طرح فی جنت و عیون وزروع ونخل طلعہا ھضیم (شعراء ۸) سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ملک چشموں والا اور باغات والا تھا۔ وہاں کھجوریں بھی اچھی قسم کی ہوتی تھیں اور زراعت بھی ہوتی تھی۔ غرض یہ کتبہ جس کا مضمون اوپر بیان ہوا حرف بہ حرف قرآن کریم کا مصدق ہے۔
حضرت صالح کے بعد جلدی ہی یہ قوم گرنے لگ گئی۔ کیونکہ اس کے زمانہ کے چند صدیوں بعد کے فاتح قوموں میں اس کا ذکر مفقود ہے۔ سرجون یا شرغون نامی اسیریا کے ایک بادشاہ نے جس کا زمانہ حکومت ۷۲۲ قبل مسیح سے ۷۰۵ قبل مسیح تک تھا عرب پر فوج کشی کی تھی۔ اس کی فتوحات میں ثمود کا نام آتا ہے اور اس نے اس کا ذکر ایک کتبہ میں کیا ہے۔ جو اس نے ایک فتح کی یادگار میں کندہ کرایا تھا۔ مورخین یونان میں ڈائدورس جو ۸۰ قبل مسیحؑ گزرا ہے۔ پینی جو ۷۹ قبل مسیح گزرا ہے اور بطلیموس جو ۱۴۰ قبل مسیح گزرا ہے تینوں نے اس قوم کا ذکر کیا ہے۔ جسٹینین بادشاہ روم نے جب عرب پر حملہ کیا ہے تو اس کی فوج میں تین سو ثمودی سپاہی بھی تھے لیکن اسلام سے پہلے اس قوم کا نام و نشان مٹ چکا تھا۔
۶۷؎ حل لغات
لبث یقال مالبث ان فعل کذا۔ یعنی مالبث کے معنی ہوتے ہیں بغیر دیر کے فوراً وہ کام کرلیا۔ ماابطا فی فعلہ۔ او فاتاخر عن فعلہ۔ اپنے کام میں دیر نہ لگائی (اقرب) العجل۔ ولدالبقرۃ۔ گائے کا بچہ۔ وقیل اول سنۃ اور بعض نے اسے ایک سال کی عمر تک کے لئے مخصوص قرار دیا ہے۔ (اقرب) الحنیذ۔ المشوی۔ بھنا ہوا۔ وفشرۃ ابوزید بالنضیج۔ ابوزید نے اس کے معنی پکے ہوئے کے کئے ہیں۔ واخر بالذی یقطر ماء ہ بعد الشئی اور بعض نے اس گوشت کے معنی کئے ہیں جس میں سے بھوننے پر پانی ٹپک رہا ہو۔ ونقل الازھری عن الفراء۔ الحنیذ۔ ماحضرت لہ فی الارض ثم غممتہ۔ وھو من فعل اھل البادیۃ الی ان قال والشواء المحنوذ الذی قد القیت فوقہ الحجارۃ المرضوفۃ بالنار حتی ینشوی الشواء شدید افیتھری تحتھا۔ یعنی ازھری نے فرار سے نقل کیا ہے کہ حنیذ اس گوشت کو کہتے ہیں جسے گڑھا کھود کر اس میں رکھ دیا جائیاور اس پر تیز گرم کرکے پتھر رکھ دیئے جائیں یہاں تک کہ ان کی گرمی سے وہ گوشت پوری طرح پک جائے۔ (اقرب)
تفسیر
میں شروع سورۃ میں بتاچکا ہوں کہ حضرت ابراہیم ؑ کا ذکر اس سورۃ میں ضمناً ہے اور حضرت لوطؑ کا ذکر چھیرنے کے لئے ہے۔ ورنہ اصل مقصود حضرت لوطؑ کا ہی ذکر ہے۔ جن کی قوم تباہ کی گئی تھی۔ کیونکہ اس سورۃ میں انہی اقوام کا ذکر ہو رہا ہے۔ جو تباہ کر دی گئی تھیں۔ حضرت ابراہیم ؑ کا ذکر لوظؑ کے ذکر کے ابتداء میں اس لئے کیا ہے کہ حضرت لوطؑ حضرتابراہیمؑ پر ایمان لانے والوں میں سے تھے اور ان کے تابع نبی تھے۔ جس طرح حضرت اسحاق اور اسماعیل ان کے تابع تھے۔ یا ہارون حضرت موسیٰ کے تابع تھے۔ گواستی نہ تھے۔ کیونکہ اس وقت نبوت براہ راست ملا کرتی تھی نہ کہ نبی متبوع کے فیض سے۔ اس قسم کی نبوت صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں جاری ہے کہ تابع نبی ایک لحاظ سے نبی ہوتا ہے اور دوسرے لحاظ سے امتی۔
خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ چونکہ متبوع نبی تھے اور حضرت لوطؑ نبوت سے پہلے ان پر ایمان لائے تھے اور ان کے ساتھ ہجرت کرکے شام کے ملک میں آئے تھے اس لئے ان کی قوم کی تباہی کی خبر اللہ تعالیٰ نے پہلے حضرت ابراہیم کو دینی مناسب سمجھی۔ اور اسی وجہ سے لوط کا ذکر کرنے سے پہلے اس خبر کا ذکر کر دیا۔ جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو قوم لوط کی تباہی کے متعلق دی تھی۔ مگر اللہ تعالیٰ کا رحم دیکھو کہ چونکہ یہ خبر حضرت ابراہیم کو نبی متبوع ہونے کی حیثیت سے دی جارہی تھی اور براہ راست اس خبر سے حضرت ابراہیم کا تعلق نہ تھا اس لئے ان کی تکلیف کو ایک بشات کے ساتھ ملا دیا۔ تاکہ ایک بدقوم کی تباہی کی خبر کے ساتھ ایک نیک نسل کی ابتداء کی خبر کو ملا کر صدمہ کو کم کر دیا جائے۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
یہ رسل کون تھے۔ اس کے متعلق اختلاف ہے۔ بعض لوگ انہیں انسان قرار دیتے ہیں۔ اور بعض ملائکہ قرار دیتے ہیں۔ میرے نزدیک بھی یہ لوگ آدمی ہی تھے گو ان کی نیکی کی وجہ سے بعض نے انہیں ملک کہا ہے۔ جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی نسبت آتا ہے ان ھذا الاملک کریم (یوسف ع۴) ان لوگوں کے فرشتہ ہونے کے خلاف یہ آیت ہے قل لو کان فی الارض ملائکۃ یمشون مطمئنین لنزلنا علیہم من السماء ملکا رسولا (بنی اسرائیل ع۱۱) اس آیت سے دو استدلال ہوتے ہیں۔
(۱) فرشتے رسول ہوکر نیک لوگوں کے لئے آتے ہیں۔ نہ کہ بدکاروں کے لئے۔ پس اس طرح انسانی شکل میں ایک بدکار شہر کے سامنے ان کا ظاہر ہونا اس آیت کے خلاف ہے۔
(۲) دوسرے اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ نیک انسان کو بھی فرشتہ کہا جاتا ہے۔ کیونکہ اس میں بتایا ہے کہ اگر اس دنیا میں ملائکہ بستے لیکن مراد انسانوں سے ہے۔ کیونکہ ملائکہ سے مراد ملائکہ ہوتے تو ان کی طرف رسول بھیجنے کی اکیا ضرورت تھی۔ ملائکہ تو احکام الٰہی کے تابع ہوتے ہی ہیں۔
اگر یہ سوال ہو کہ کیوں براہ راست حضرت ابراہیمؑ کو ہی یہ الہام نہ ہوا ور دوسروں کی معرفت کیوں یہ خبر دی گئی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ المؤمن یری ویری لہ۔ کبھی مومن کو براہ راست خبر دی جاتی ہے کبھی دوسرے کی معرفت۔ چونکہ ان لوگوں کو کسی خاص غرض کے ماتحت حضرت لوط کے پاس جانے کا حکم ملا تھا اور یہ خبر انہوں نے حضرت ابراہیمؑ کو بھی پہنچانی تھی اس لئے حضرت ابراہیمؑ کے رنج کو دور کرنے کے لئے یہ بشارت بھی انہی کی معرفت بھیجی گئی۔
وہ خاص غرض کیا تھی جس کے سبب سے ان لوگوں کو خبر دے کر حضرت لوط کے پاس بھیجا گیا۔ اس کا یقینی پتہ تو کلام الٰہی سے نہیں لگتا۔ مگر میرے نزدیک ایک وجہ ظاہر ہے اور وہ یہ کہ حضرت ابراہیم اور حضرت لوط اس علاقہ میں باہر سے آکر بسے تھے اس وجہ سے بالکل ممکن ہے کہ اللہ تتعالیٰ نے چند مقامی نیک لوگوں کو الہام کرکے بھیجا تاکہ وہ تباہی سے پہلے حضرت لوط کو کسی محفوظ اور مناسب جگہ کی طرف لے جائیں اور انہیں تکلیف نہ ہو۔
اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ کیا کبھی پہلے ایسا ہوا ہے کہ نبی کو تو انذار نہ ہوا ہو مگر دوسروں کو ان کی قوم کے متعلق انذار ہوا ہو۔ اور پھر بغیر اس کے کہ قوم کو توبہ کا موقع دیا گیا ہو عذاب آ گیا ہو۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ لیکن حضرت لوط کے معاملہ میں بھی ایسا نہیں ہوا۔ کیونکہ دوسروں کی معرفت خبر دینے سے میری یہ مراد نہیں کہ انذار ہی ان کی معرفت ہوا تھا بلکہ مراد یہ ہے کہ وقت عذاب کی خبر ان کی معرفت دی گئی۔ ورنہ عذاب کی خبر تو پہلے سے مل چکی تھی اور انار ہوچکا تھا۔ سورۂ قٓ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کذبت قبلہم قوم نوح واصحب الرس وثمود وعاد وفرعون واخوان لوط واصحب الایکۃ و قوم تبع کل کذب الرسل فحق وعید (قٓ ع۱) اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح پہلی قوموں کے لئے ایک عرصہ پہلے سے انذار ہوچکا تھا اسی طرح حضرت لوط کے مخاطبین کے لئے بھی انذار ہوچکا تھا۔ پس جو کچھ بالواسطہ ہوا وہ صرف یہ ہے کہ حضرت لوط کی تسلی کے لئے عین عذاب کے وقت اس کے نزول کے قرب کی خبر چند علاقہ کے واقف لوگوں کی معرفت ان کو پہنچائی گئی۔ تاکہ وہ لوگ حضرت لوط کو اپنے ساتھ لے کر مناسب جگہ تک پہنچا دیں۔
پہلے انذار ہوچکنے کا ثبوت۔ بل جئناک بما کانوا فیہ یمترون سے بھی نکلتا ہے۔ (حجر ع۵) اس آیت میں وہ خبر لانے والے لوگ مقر ہیں کہ جو خبر آپ پہلے دے چکے ہیں اور جس کے متعلق یہ لوگ آپ سے جھگڑا کرتے تھے ہم اسی کا وقت بتانے آئے ہیں۔
قالوا سلاما میں سلاما سے پہلے نسلم کا فعل محذوف ہے۔ یعنی آنے والوں نے سلام کہا کہ ہم سلام کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ کے جواب میں سلام یا تو مبتداء ہے اور علیکم اس کی خبر محذوف ہے یعنی تم پر سلامتی ہو اور یا پھر مبتدا محذوف ہے۔ یعنی جوابی کا لفظ۔ اور مراد یہ ہے کہ میرا جواب بھی یہ ہے کہ تم پر سلامتی ہو۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جواب میں اس تعلیم کا کیا ہی عمدگی سے لھاظ رکھا گیا ہے کہ جو کوئی دعا کرے اس سے بہتر دعا اس کے لئے کی جائے۔ آنے والوں نے سلاما کہا تھا۔ جو جملہ فعلیہ ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سلام کہا۔ جو اپنے محذوف کے ساتھ مل کر جملہ اسمیہ بنتا ہے اور جملہ اسمیہ اپنے معنوں میں جملہ فعلیہ سے قوی ہوتا ہے اور اس کے معنوں میں دوام پایا جاتا ہے گویا انہوں نے جواب میں یہ کہا کہ تم پر بھی ہمیشہ سلامتی ہوتی رہے۔
ایک اور سبق بھی اس آیت سے ملتا ہے اور وہ مہمان نوازی کا سبق ہے۔ حضرت ابراہیمؑ نے ان لوگوں کے آتے ہی بغیر کسی مزید وال و جواب کے بچھڑا ذبح کرکے ان کے آگے لا رکھا۔ اور یہ نہیں پوچھا کہ آپ لوگ کھانا کھا کر آئے ہیں یا نہیں۔ یا ابھی کھانا کھائیں گے یا ٹھہر کر۔ مہمان نوازی اسلام کے اصول میں سے ہے مگر افسوس کہ دوسری قوموں کے اثرات کے نیچے مسلمان بھی اب اس فرض سے غافل ہوتے جاتے ہیں۔ حالانکہ ان کے نبی کی سنت ان کے لئے اسوۂ حسنہ کے طور پر موجود ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں یوں تو سبھی خوبیاں موجود تھیں مگر وہ باتین جو آپ کی پہلی بیوی حضرت خدیجہؓ کو خاص طور پر مھسوس ہوئیں ان میںسے ایک ٓپ کی مہمان نوازی کی صفت بھی تھی۔ چنانچہ جب پہلی وحی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اور آپ گھبرا کر گھر تشریف لائے۔ اور حضرت خدیجہؓ سے نزول وحی کا ذکر گھبراہٹ میں کیا۔ تو انہوں نے آپ کو ان الفاظ میں تسلی دی۔ کلا واللہ لایخزیک اللہ ابدا انک لتصل الرحم وتحمل الکل وتکسب المعدوم وتقری الضیف وتعین علی نوائب الحق۔ (صحیح بخاری باب کیف کان بدء الوحی) یعنی ایسا کبھی نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ کی قسم ہے اللہ تعالیٰ آپ کو ہرگز کبھی رسوا نہ ہونے دے گا۔ کیونکہ آپ رشتہ داری کے تعلقات کا ہمیشہ پاس رکھتے ہیں لوگوں کا بوجھ اپنے اوپر لیتے ہیں دنیا سے اٹھ چکے ہوئے اخلاق حمیدہ کو ازسر نو عدم سے وجود میں لاتے ہیں۔ مہمان نوازی کرتے ہیں۔ اور حق کے خلاف پیش آمدہ حوادث کا مقابلہ کرتے ہیں اور ستم رسیدوں کی حمایت کرتے ہیں۔
بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسراف سے کام لیا۔ کہ چند آدمیوں کے لئے بچھڑا ذبح کر دیا۔ لیکن یہ اسراف نہیں وہ جنگل میں رہتے تھے اور اس جگہ نہ قصاب تھا نہ پرچون کا دوکاندار کہ بازار سے سودا خرید کر کھانا تیار کرتے۔ وہ جانور پالتے تھے پس ان کی مہمان نوازی یہی ہوسکتی تھی کہ دنبہ یا بچھڑا جو اس وقت پاس ہو ذبح کرکے مہمانوں کے لئے تیار کر دیں۔
۶۸ حل لغات
نکرالامر۔ یکنر نکرا ونکرا ونکورا ونکیرا۔ جھلہ اس سے بے خبر رہا۔ الرجل لم یعرفہ اسے نہ پہچانا۔ (اقرب) اوجس ایجاسا احس واضم۔ محسوس کیا۔ اور اپنے دل میں پوشیدہ رکھا۔ (اقرب) الخیفۃ مصدر خاف خاف کا مصدر ہے۔ جس کے معنی ہیں الفزع گھبراہٹ الحذر۔ احتیاط کی بات۔ ضد الامن۔ امن کے خلاف حالت یعنی خطرہ۔ ڈر۔ (اقرب)
تفسیر
یہ مطلب نہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ان لوگوں سے ڈر گئے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کے دل میں یہ خوف پیدا ہو اکہ شائد کوئی امر مہمان نوازی کے خلاف ہو گیا ہے جس کی وجہ سے یہ لوگ نہیں کھاتے۔ مگر انہوں نے اس خوف کا اظہار نہ کیا کیونکہ مہمان کو یہ کہنا کہ شاید مہمان نوازی میں کوئی کوتاہی ہو گئی ہے اس سے مہمان کی شرافت پر حرف آتا ہے کیونکہ اس سے اشارہ ٹپکتا ہے کہ وہ لالچی یا حریص ہے۔
اور یہ جو فرمایا کہ انہیں پہچانا نہیں اس کا یہ مطلب ہے کہ پہلے تو حضرت ابراہیم ان کو معمولی مسافر سمجھتے تھے لیکن جب دیکھا کہ یہ کھانا نہیں کھاتے تو خیال کیا کہ غالباً میں نے ان کے یہاں آنے کے مقصد کو نہیں سمجھا۔ کیونکہ اگر عام مسافر ہوتے تو مہمان نوازی کو قبول کرتے کہ ان بیابانی علاقوں میں مسافر بلامہمان نوازی کے گزارہ ہی نہیں کرسکتے۔ ان لوگوں نے بھی حضرت ابراہیم کے چہرہ سے پہچان لیا کہ یہ حیران ہیں کہ کیا مہمان نوازی میں کوئی نقص ہو گیا ہے۔ یا ان لوگوں کے یہاں آنے کا کوئی اور مقصد ہے اس لئے انہوں نے تسلی دینے کے لئے کہہ دیا کہ ہم آپ سے ناراض نہیں ہیں بلکہ ہم ایک عذاب کی خبر لے جارہے ہیں اس وجہ سے کھانا نہیں کھا سکتے۔
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ فرشتے نہ تھے کیونکہ اگر فرشتے ہوتے تو یہ نہ کہتے کہ ہم چونکہ لوطؑ کی قوم کی طرف جارہے ہیں اس لئے کھانا نہیں کھا سکتے۔ بلکہ یہ کہتے کہ ہم تو فرشتے ہیں کبھی کھانا کھایا ہی نہیں کرتے۔
۶۹؎ حل لغات
ضحک یخحک، حکا وضحکا وضحکا وضحکا۔ ضد یکی۔ رونے کی مخالف حالت کا یعنی ہنسنے کا نام ضحک ہے۔ ضحخ الرجل ضحکا عجب اوفزع۔ اس نے تعجب کیا یا گھبرا گیا۔ (اقرب) ضحک فزع۔ وبہ فسرا الفراء الایۃ۔ ضحک کے معنی گھبرا جانے کے بھی ہوتے ہیں۔ اور فراء نے اس آیت میں یہی معنی کئے ہیں۔ تاج) ویستعمل فی السرور المجرد نحو مسفرۃ ضاحکۃ کبھی صرف خوشی کے معنوں میں یہ لفظ استعمال ہوتا ہے جیسے کہ قرآن کریم میں ہے مسفرۃ ضاحکۃ واستعمل للتعجب المجرد تارۃ اور کبھی صرف تعجب کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ (مفردات)
تفسیر
حضرت ابراہیمؑ کی بیوی سن رہی تھیں انہوں نے یہ بات سنی تو گھبرا گئیں۔ اور ایک قوم کی تباہی پر دل میں درد پیدا ہوا۔ اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ بات بہت پسند آئی اور اسحٰقؑ کی خبر کے ساتھ جو پہلے ان نیک لوگوں کے ذریعہ سے بھی مل چکی تھی حضرت یعقوبؑ کی پیدائش کی بھی خبر دی۔ جس کا یہ مطلب تھا کہ چونکہ بنی نوع انسان پر انہیں رحم آیا ہے اللہ تعالیٰ انہیں ایک ترقی کرنے والی نسل دے گا۔ خداتعالیٰ کا رحم کس قدر وسیع ہے۔ وہ عذاب میں گرفتار ہونے والوں سے سچی ہمدردی کو بھی قدر کی نگاہوں سے دیکھتا ہے۔
یہاں سے ایک اور مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ذبیھ کون تھا۔ عیسائی کہتے ہیں کہ اسحاق ذبیح تھا۔ مسلمان کہتے ہیں کہ اسماعیلؑ ذبیح تھا۔ ان کی بحث تو خیر تاریخ سے تعلق رکھتی ہے۔ مگر بعض مسلمان بھی غلطی سے حضرت اسحاق کو ذبیح قرار دیتے ہیں۔ ان لوگوں کی غلطی اس آیت سے دور ہو جاتی ہے کیونکہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت اسحاقؑ کے ہاں اولاد بھی ہوگی اور ان کا ایک بیٹا یعقوب مقرب الٰہی ہوگا۔ اور جس کی نسبت پہلے سے یہ بتا دیا گیا ہو کہ وہ زندہ رہے گا بڑا ہوکر شادی کرے گا اور اس کا بیٹا پیدا ہوگا جو مقرب الٰہی ہوگا اس کی نسبت کب یہ تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ اسے ذبح کرنے کا حکم ہوا ہو۔ اور پھر اس حکم سے دھوکا بھی لگ گیا ہو۔ اگر حضرت اسحاقؑ کے متعلق ذبیح ہونے کی رؤیا ہوتی تو کیا حضرت ابراہیمؑ دریافت نہ کرتے کہ الٰہی تو نے تو اس کے جوان ہونے اور ایک مقرب بارگاہ بچہ کے باپ ہونے کی خبر دی تھی اب اس کے ذبح کرنے کا حکم دیا ہے۔ کیا اس حکم کا مطلب کچھ اور تو نہیں۔ غرض اس آیت سے صاف ثابت ہے کہ ذبیح حضرت اسماعیلؑ ہی تھے۔ اور کوئی وجہ نہیں کہ یہودیوں کی محرف مبدل کتب سے ڈر کر ہم حضرت اسحاق کو ذبیح قرار دینے کی کوشش کریں۔
۷۳؎ حل لغات
ویلتی اصل میں ویلتی ہے یعنی اے میری ویلۃ اور ویلۃ کے معنی ہیں الفضیحۃ۔ بدنامی البلیۃ۔ مصیبت (اقرب) یہ کلمہ اصل میں مصیبت کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ تعجب کے لئے استعمال ہونے لگا۔ العجوز۔ المرء ۃ السنۃ۔ بڑھیا عورت لعجزھا عن اکثر الامور۔ یعنی بڑھا عورت کو عجوز اس لئے کہتے ہیں کہ وہ اکثر کاموں سے عاجز آجاتی ہے۔ وھو وصف خاص لھا۔ اور یہ لفظ بوڑھی عورت کے سواء اور کسی کے لئے استعمال نہیں ہوتا۔ (اقرب) البعل۔ رب الشئی چیز کا مالک یقولون من بعل ھذہ الناقۃ ای ربھا کہتے ہیں کہ اس اونٹنی کا بعل یعنی مالک کون ہے۔ الزوج بعل کے معنی جوڑے کے بھی ہیں۔ امراۃ بعل اوبعلۃ عورت کے لئے بھی یہ لفظ جوڑے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اور اس وقت اس کے ساتھ تاء تانیث کا لانا اور نہ لانا دونوں باتیں جائز ہوتی ہیں۔ جیسے زو زوجۃ۔ (اقرب)
تفسیر
اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ وہ الٰہی خبر کا انکار کررہی تھیں۔ ایک عام طبقہ کی مومنہ کے متعلق بھی یہی خیال نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت پر انکار کے رنگ میں تعجب کرے گی۔ تو ایک نبی کی مومنہ بیوی کے متعلق کس طرح خیال ہوسکتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے نشانات کو دیکھنے کے بعد اس کی قدرت پر انکار کے رنگ میں تعجب کرے۔ پس ان کا تعجب نعمت کی عظمت کے اظہار کے لئے تھا۔ چنانچہ حضرت ابراہیم کے متعلق بھیایک جگہ اس قسم کے لفظ آتے ہیں۔ اور وہ خود ہی تشریح بھی کردیتے ہیں۔ کہ میرا تعجب نعمت کی عظمت کے اظہار کے لئے ہے۔ نہ کہ اس کے ناممکن ہونے کے خیال سے فرمایا البشر تمونی علی ان مسنی الکبر فبم تبشرون قالوا بشرناک بالحق فلاتکن من القانطین قال ومن یقنط من رحمۃ ربہ الاالضالون۔ (حجر ع۴) یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ کیا تم نے باوجود میرے بوڑھا ہوجانے کے مجھے یہ خوشخبری دی ہے۔ تم کیسی عجیب خبر دیتے ہو۔ خبر دینے والوں نے کہا کہ ہم نے تجھے ایک یقینا پوری ہوکر رہنے والی خبر دی ہے۔ پس تو مایوس نہ ہو۔ حضرت ابراہیم نے جواب میں کہا کہ میں مایوس نہیں۔ خدا کی رحمت سے تو گمراہ ہی مایوس ہوا کرتے ہیں۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ ایسے ہی لفظ حضرت ابراہیمؑ نے کہے ہیں اور پھر خود تشریح بھی کردی ہے کہ میرا تعجب مایوسانہ تعجب نہیں بلکہ عظمت نعمت کے اظہار کے طور پر ہے۔
۷۴؎
شیعہ اہل بیت میں بیویوں کو شامل نہیں کرتے۔ مگر یہاں صرف بیوی کو ہی اہل بیت کہا ہے۔ حالانکہ ابھی تک ان کے ہاں کوئی اولاد بھی نہ ہوئی تھی۔ حق یہی ہے کہ قرآن کریم میں جہاں جہاں اہل بیت کا لفظ آیا ہے وہاں بیوی بھی شامل ہے۔
۷۵؎ حل لغات
الروع۔ الفزع۔ گھبراہٹ راع فزع۔ گھبرایا۔ (اقرب)
تفسیر
یہ خوف حضرت ابراہیمؑ کا اپنے متعلق نہیں تھا کہ اس کو محل اعتراض قرار دیا جائے بلکہ قوم لوط کے متعلق تھا اور یہ تقویٰ کے عین مطابق اور اعلیٰ اخلاق میں سے ہوتا ہے۔ پہلے تو حضرت ابراہیمؑ کو اس قدر صدمہ ہوا کہ وہ حیران رہ گئے کہ میں اب کروں تو کیا کروں لیکن جب اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ آپ کو ایک بہتر قوم مل جائے گی تو ان کے غم کا بوجھ کم ہوا۔ اور محبت الٰہی کا نظارہ دیکھ کر لوط کی قوم کے بارہ میں بھی درخواست کرنی شروع کی۔
۷۶؎ حل لغات
الاواہ کثیر التاوہ اشفاقا ومجتہ جو خوف اور محبت کی وجہ سے بہت آہیں بھرتا ہو۔ (اقرب) اناب الیہ ۔ رجع الیہ ۔ مرۃ بعد مرۃ۔ بار بار رجوع کیا۔ پس منیب کے معنی ہوئے بار بار رجوع کرنے والا۔ (اقرب)
۷۷؎ تفسیر
اللہ تعالیٰ کی محبت حضرت ابراہیمؑ سے کتنی بڑھی ہوئی تھی۔ انہیں یہ نہیں کہا کہ میں تیری بات نہیں سنتا۔ بلکہ یہ فرمایا کہ اے ابراہیم یہ سوال جانے ہی دو۔ تمہارے رب کا حکم آ گیا ہے۔ اور یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ ان پر عذاب آئے گا۔ اس لئے اصرار نہ کرو۔
۷۸؎ حل لغات
ساء ہ۔ فعل بہ مایکرھہ۔ او احزنہ۔ اس سے ایسا سلوک کیا جو اسے ناپسند ہے۔ یا یہ کہ اسے غمگین کیا۔ سئی بہ فعل بہ المکروہ اس سے ناپسند معاملہ کیا گیا۔ (اقرب) ضاق بہ ذرعا۔ ضعفت طاقتہ ولم یجد من المکروہ فیہ مخلصا اس کی طاقت کمزور ثابت ہوئی۔ اور ناپسندیدہ بات سے بچنے کا کوئی ذریعہ نہ ملا۔ واصل الذرع سبطالید فکانک ترید مددت یدی الیہ فلم تنلہ اور ذرع کے اصل معنی ہاتھ پھیلانے یا برھانے کے ہیں اور مراد یہ ہے کہ میں نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ مگر میں اسے پکڑ نہ سکا واراد بالذراع فی قولہ ع ولکن کان اوجعلھم ذراعا۔ النفس۔ اور مذکورہ بالا مصراع میں ذراع سے مراد نفس ہے۔ (اقرب) یوم عصیب شدید الھد او شدید۔ یوم عصیب کے معنی سخت گرم دن کے یا سخت دن کے ہیں۔ (اقرب)
تفسیر
مطلب یہ ہے کہ جب وہ لوگ حضرت لوطؑ کے پاس آئے تو انہیں ان سے بہت تکلیف ہوئی۔ اور انہوں نے ان کے فعل سے مخلصی کی کوئی صورت نہ پائی۔ یا انہیں مقصد میں کامیاب ہونے کے لئے بہت دقت پیش آئی۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ وہ اللہ کے رسول جن کا ذکر ہے جب حضرت لوط کے پاس مہمان آکر ٹھہرے اور باوجود حضرت لوط کے ٹلانے کے نہ ٹلے اور بن بلائے مہمان بنے رہے تو اس سے حضرت لوطؑ کے دل کو تکلیف ہوئی۔ اور اسی تکلیف کا اس جگہ ذکر ہے مگر یہ بات غلط ہے میرے نزدیک بائیبل میں جو واقعہ لکھا ہے وہ صحیح ہے او اسی کی طرف اس جگہ اشارہ ہے۔ اور وہ واقعہ یہ ہے کہ جب یہ لوگ حضرت لوطؑ کی بستی کے پاس پہنچے تو حضرت لوطؑ نے ان لوگوں کو اپنے گھر چلنے کی دعوت دی۔ انہوں نے اس سے انکار کیا۔ غالباً اس امر سے ڈرے ہوں گے کہ انہیں تکلیف ہوگی۔ مگر حضرت لوطؑ نے اصرار کیا۔ انہوں نے انکار پر اصرار کیا۔ اس پر حضرت لوط کو تکلیف ہوئی۔ اور اسی تکلیف کا اس جگہ ذکر ہے اور خدا کا اپنے نبی کی مہمان نوازی کی شان بتانا مقصود ہے۔ نہ اس کے بخل اور بدخلقی کا اظہار۔ (دیکھو خروج باب۱۹)
۷۹؎ حل لغات
اھرع الرجل (مجہولا) ارعد من غضب اوضعف اوخوف اوبدد۔ خوف سردی غضب یا ضعف سے کانپنے لگا۔ اعجل علی الاسدع فھو مھرع۔ اسے تیزی سے دوڑایا گیا۔ ایسے شخص کو مھرع کہیں گے وفی اللسانن الھرع والھراع والاھراع شدۃ السوق اور لسان العرب میں ہے کہ اھراع کے معنی تیز چلانے اور زور سے ہانکنے کے ہوتے ہیں۔ قال ابوعبیدۃ اھرع الرجل۔ اذا تاک وھو یوعد من البرد۔ ابوعبیدہ کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص سردی سے کانپتا ہوا آئے تو اس کی نسبت اھرع کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ اقیل الشیخ یھدع اے اقبل یسرع مضطربا۔ یعنی بڈھا گرتا پڑتا دوڑتا ہوا آیا۔ (اقرب)
تفسیر
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے افعال بد کی وجہ سے حضرت لوطؑ کے دل میں خطرہ پیدا ہوا کہ وہ کوئی شرارت نہ کریں اس سے کوئی خاص شرارت مراد نہیں چونکہ وہ پہلے بھی شرارتیں کیا کرتے تھے۔ اس لئے حضرت لوطؑ کو خطرہ ہوا۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ فرشتے خوبصورت لڑکوں کی شکل میں آئے تھے۔ وہ لوگ ان کو دیکھ کر خوش ہوئے اور ان سے بدی کرنے کو دوڑ آئے۔ مگر میرے نزدیک مفسرین کا یہ خیال غلط ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ سورہ حجر ع۸ میں فرماتا ہے اولم نتھک عن العالمین۔ یعنی کیا ہم نے تم کو غیر علاقہ ے آدمی لانے سے روکا ہوا نہیں ہے۔ اگر وہ کسی بدکاری کا ارادہ رکھتے تھے اور ان لوگوں کے آنے پر خوش تھے تو چاہئے تھا کہ تاکید کرتے کہ روز مسافروں کو پکڑ کر شہر میں لایا کرو۔ مگر وہ لوگ تو ناراض ہوکر کہتے ہیں کہ کیا ہم نے تم کو پہلے سے روکا ہوا نہیں ہے کہ غیر علاقہ کے آدمی کو شہر میں مت لایا کرو۔
اگر کہا جائے کہ دوسری جگہ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وجاء اھل المدینۃ یستبشرون۔ (حجرع۵) کہ شہر والے خوش ہوکر بھاگے آئے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس خوشی سے بھی یہ مراد نہیں کہ ان مہمانوں سے کسی قسم کی بے حیائی کا فعل کریں گے بلکہ خوشی کا سبب یہ تھا کہ آج لوطؑ کو سزا دینے کا بہانہ مل گیا ہے اور وہ ہمارے قابو چڑھ گیا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ پرانے زمانہ میں عام طور پر الگ الگ شہروں کی حکومتیں ہوا کرتی تھیں۔ اور یہ علاقہ جس میں حضرت ابراہیمؑ اور حضرت لوطؑ رہتے تھے یہ تو اس وقت باقاعدہ حکومتوں سے بالکل خالی تھا۔ ہر شہر یا قصبہ یا چند قصبات کی اپنی الگ حکومت ہوتی تھی جوجمہوریت کا رنگ رکھتی تھی کبھی کوئی ملک حاکم ہوتا تھا کبھی صرف شہر کے رؤسا مل کر امور سیاسیہ کو طے کرلیا کرتے تھے۔ سڈوم اور وعمورا دونوں بستیاں جن سے حضرت لوطؑ کا تعلق تھا ایسی ہی شہری حکومتوں میں سیت ھیں اور شہر کا ملک ہی ان کا بادشاہ ہوتا تھا۔ (دیکھو پیدائش باب۱۴)
طالمود جو یہود کی روایات اور تاریخ کی کتاب ہے اس میں لکھا ہے کہ ان بستوں کے لوگ مسافروں کو لوٹ لینے کے عادی تھے۔ (دکھو جیوش انسائیکلوپیڈیازیر لفظ سڈوم) اور جو قوم ہمسایوں کو اس طرح دکھ دے گی وہ ان سے خائف بھی رہے گی۔ کہ وہ بھی کسی وقت اسے نقصان نہ پہنچائیں۔ اور سڈوم والوں سے تو ہمسایوں کی عملا بھی لڑائی رہتی تھی۔ (دیکوھ پیدائش باب ۱۴ او۲) اس سبب سے یہ لوگ غیرمعروف آدمیوں کو شہر میں آنے نہیں دیتے تھے۔ تاکہ ایسا نہ ہو کہ رات کو شہر کے دروازے کھول دیں اور دشمن سوتے میں آکر حملہ کر دیں۔ حضرت لوطؑ چونکہ سنت انبیاء کے مطابق مہمان نواز تھے وہ مسافروں کو لے آئے کہ باہر رہین گے تو لوٹے جائیں گے۔ یہ لوگ ان کو منع کرتے۔ جیسا کہ سورہ حجر کی مذکورہ بالا آیت سے ثابت ہے۔ اس دفعہ جب پھر حضرت لوطؑ آنے والے رسولوں کو لے آئے تو یہ لوگ ایک طرف تو غصہ سے بھر گئے کہ ہماری ہدایت کے خلاف یہ اجنبیوں کے لے آئے ہیں اور دوسری طرف خوش بھی ہوئے کہ اب لوطؑ کو پکڑنے کا بہانہ مل جائے گا۔ اور یہ قصہ ہیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا۔ جب یہ لوگ دوڑتے ہوئے حضرت لوطؑ کے پاس پہنچے تو چونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ لوگ پہلے بھی مجھے مہمان لانے سے روکتے رہے ہیں اس لئے وہ اس پہلے سلوک کی وجہ سے جو وہ لوگ ان سے کیا کرتے تھے ڈرے کہ کہیں مہمانوں کے سامنے مجھے شرمندہ نہ کریں۔ اور ان لوگوں سے کہا کہ میری بیٹیاں یہاں موجود ہیں (ان کی دو بیٹیوں کی اس شہر کے دو آدمیوں سے شادی ہوچکی تھی) وہ تمہارے لئے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہیں۔ یعنی مہمانوں کو رسوا کرکے نکالوے تو اس میں تمہاری بدنامی ہے۔ تم کو خوف ہے کہ باہر کے لوگوں سے مل کر میں تم کو نقصان نہ پہنچاؤں تو میری بیٹیاں تمہارے اپنے گھروں میں موجود ہیں۔ تم ان کو سزا دے کر مجھ سے بدلہ لے سکتے ہو۔ اس طرح تمہاری بدنامی بھی نہ ہوگی۔
بعض لوگوں نے تورات کی تاباع میں اس آیت کے یہ معنی کئے ہیں کہ حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی باکرہ لڑکیوں کو (یا تو ان کی دو لڑکیاں کنواری ہی تھیں اور یا بیاہی ہوئی ابھی رخصت نہ ہوئی تھیں) ان لوگوں پر پیش کیا کہ ان سے بدکاری کرلو۔ لیکن مہمانوں سے کچھ نہ کہو مگر یہ معنی نبی کی شان کے خلاف ہیں۔ وہ سب لوگوں سے زیادہ باغیرت ہوتے ہیں۔ ایسا کام جسے ادنیٰ سے ادنیٰ لوگ بھی نہیں کرسکتے وہ کیوں کرنے لگے۔ ایسے مقابلہ کے وقت میں تو بدکار لوگ بھی کبھی یہ تجویز پیش نہیں کرسکتے۔ پس یہ غلطی سے تورات کی نقل کی وجہ سے ہوئی ہے۔ قرآن کریم میں بدکاری کا کوئی لفظ استعمال نہیں ہوا۔ انہوں نے صرف شہر والوں کے خوف کو اس طرح دور کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ سمجھایا ہے کہ جب میرے عیال تمہارے قبضہ میں ہیں تو تمہیں یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ میں تمہارا دشمن ہوں۔ اور دوسرے لوگوں سے مل کر تمہارے شہر کو کوئی نقصان پہنچاؤں گا۔ اگر یہ بات تمہاری سمجھ میں آجائے تو اس پر عمل کرنا تمہاری عزت کے قیام کے لئے اچھا ہوگا اور مہمانوں کو ذلیل کرنے کے عیب سے محفوظ ہوجاؤگے۔
بعض مفسرین قرآن یہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ انہوں نے نکاح کے لئے لڑکیاں پیش کی تھیں۔ یہ خیال بھی درست نہیں معلوم ہوتا۔ کیونکہ بائیبل کے رو سے تو ان کی لڑکیاں بیاہی ہوئی تھیں۔ اگر باکرہ لڑکیاں نکاح شدہ لڑکیوں کے علاوہ بھی سمجھی جائیں تب بھی یہ عقل کے خلاف ہے کہ شہر کے لوگ تو ایک خاص قسم کے فحش کے لئے آئے ہوں اور حضرت لوطؑ یہ کہیں کہ تم میں سے دو آدمی میری لڑکیوں سے بیاہ کرلیں۔
یہ مراد بھی ہوسکتی ہے کہ حضرت لوطؑ بیٹیاں ان لوگوں کی بیویوں کو کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ میری بیٹیاں (یعنی تمہاری بیویاں) جو تمہیارے گھروں میں موجود ہیں ان سے تعلق تمہارے لئے بہت پاکیزہ امر ہے۔ اسے چھوڑ کر تم کن بدکاریوں میں مبتلا ہورہے ہو۔ گویا حضرت لوطؑ چونکہ معمر ہوچکے تھے عام محاورہ کے مطابق ان لوگوں کی بیویوں کو اپنی بیٹیاں قرار دیتے ہیں۔
۸۰؎
حضرت لوطؑ نے جو ان لوگوں سے کہا کہ میری بیٹیاں تمہارے قبضہ میں ہیں اگر تم مجھ سے کوئی امر اپنے ملکی مصالح کے خلاف دیکھو تو ان کے ذریعہ سے مجھے تکلیف پہنچا سکتے ہو چونکہ یہ ایک رنگ یرغمال کا تھا اور یرغمال کے متعلق یہ دستور تھا کہ اس میں نرینہ اولاد ہی رکھی جاتی تھی ان لوگوں نے جواب دیا کہ لڑکیاں رکھنے کا کوئی قاعدہ نہیں ہے۔ اور تجھے معلوم ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں۔ یعنی تجھے معلوم ہے کہ ہم بہرحال مہمانوں کی آمد کو روکنا چاہتے ہیں۔ پس یہ کہنا کہ یرغمال رکھ لو اور مہمانوں کے متعلق مجھے کچھ نہ کہو ایک ایسا مطالبہ ہے کہ جسے ہم تسلیم نہیں کرسکتے۔
جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ حضرت لوطؑ نے لڑکیوں کو بدکاری یا نکاح کے لئے یش کیا تھا اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ ضرور ایسا ہی ہوگا۔ تبھی تو ان لوگوں نے جواب دیا کہ لڑکیوں کے متعلق ہمارا کوئی حق نہیں۔ حالانکہ یہ آیت تو ان کے خلاف ہے۔ کیونکہ جو قوم بدکاری میں اس قدر بڑھ چکی ہو وہ شہوانی امور کے متعلق حق و ناحق کا سوال کب اٹھا سکتی ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ ہمارا کوئی حق نہیں تو بتاتا ہے کہ یہاں یرغمال کا ہی سوال تھا اور چونکہ ان کے ہاں رواج تھا کہ یرغمال کے طور پر نرینہ اولاد ہی رکھی جاتی تھی وہ اسے خلاف دستور قرار دیتے ہیں اور بے فائدہ سمجھتے ہیں۔
۸۱؎ حل لغات
الرکن۔ الجانب الاقوی نہایت مضبوط یا سب سے مضبوط جانب۔ الامر العظیم عظمت اور بڑائی والی بات۔ مایقوی بہ من ملک و جند وغیرہ۔ قوۃ کا ذریعہ اور سامان خواہ جائداد ہو یا جتھاوغیرہ۔ العز والمنعۃ۔ غلبہ اور مددگاروں اور حفاظت کرنے والوں کا جتھا۔ (اقرب)
تفسیر
حدیث میں ہے عن ابی ھریرۃ قال ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال رحمہ اللہ او رحمہ اللہ علی لوط لقد کان یاوی الی رکن شدید (یعنی اللہ تعالیٰ عزوجل) ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی رحمتیں ہوں حضرت لوط علیہ السلام پر یا یہ فرمایا کہ اس پر اللہ رحم کرے وہ بار بار ایک رکن شدید کی پناہ لیتے تھے اور اس سے مراد اللہ تعالیٰ ہے۔ (ابن کثیر)
حضرت لوطؑ کا یہ مطلب ہے کہ اگر طاقت ہوتی تو میں تمہارا مقابلہ کرکے بدی سے روکتا۔ مگر طاقت نہیں ہے۔ بس اب یہی ذریعہ ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی پناہ ڈھونڈوں۔ اور تمہارے لئے عذاب طلب کروں۔ مگر میں ابھی دیر کرتا ہوں تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔ لیکن جب اس دردمندانہ اپیل کی طرف بھی لوگوں نے توجہ نہ کی تو خدا تعالیٰ کے فیصلہ کے مطابق اللہ تعالیٰ سے اس قوم کی تباہی کی دعا کی۔ جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث سے ظاہر ہے۔
۸۲؎
جب ان لوگوں نے حضرت لوط کی یہ بات سنی کہ وہ ان لوگوں کے لئے خدا تعالیٰ کے حضور بددعا کرنا چاہتے ہیں تو انہوں نے اس امر کو جسے اس وقت تک چھپائے رکھا تھا۔ ظاہر کر دیا اور بتا دیا کہ خدا تعالیٰ کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ ہم وہی بتانے آئے تھے۔ صرف تمہارے اہل عذاب سے بچائے جائیں گے۔ اور باقی شہر تباہ کیا جائے گا۔ اہل میں سے بھی بیوی نہیں بچ سکے گی۔ اور عذاب صبح کے وقت تک آجائے گا۔
۸۳؎ حل لغات
السجیل۔ حجر وطین۔ مختلط۔ ایسا مجموعہ جس میں کنکر اور مٹی ملی ہو۔ (مفردات)
حجارۃ کالمدر ڈھیلوں کی شکل کے پتھر۔ (اقرب) نضد المتاع ینضد نضدا۔ جعل بعضہ فوق بعض۔ ایک دوسرے پر تہ بہ تہ لگا کر رکھا۔ (اقرب) پس منضود کے معنی ہوئے تہ بہ تہ لگا کر رکھا ہوا۔ المسومع المرسلۃ۔ آزاد چھوڑے ہوئے المعلمۃ۔ جن پر نشان لگایا ہوا ہو۔
تفسیر
معلوم ہوتا ہے شدید زلزلہ سے یہ قوم ہلاک ہوئی تھی۔ شدید زلزلوں میں زمین الٹ بھی جاتی ہے۔ اور اس کے ٹکڑے اڑ کر پھر وہیں آکر گرنے لگتے ہیں۔ نشان لگے ہوئے پتھروں سے مراد یہ ہے کہ ازل سے ان پتھروں کے لئے یہی مقدر تھا کہ اس قوم کی تباہی کا موجب بنیں۔
بائبل کے بیان کے مطابق حضرت لوطؑ حضرت ابراہیمؑ کے بھائی حاران کے بیٹے تھے اور ادر سے جو عراق کے علاقہ کا ایک قصبہ تھا حضرت ابراہیم کے ساتھ ہی ہجرت کرکے کنعان یعنی فلسطین کے ملک کی طرف چلے آئے تھے۔ یہاں پہنچ کر وہ حضرت ابراہیمؑ سے الگ ہوکر صدوم نامی بستی میں رہنے لگے۔
قرآن کریم اور بائبل میں لوط علیہ السلام کے واقعہ میں کچھ اختلافات بھی ہیں۔ بائبل حضرت لوط کو لڑاکا اور حاسد بتاتی ہے۔ اس کے برخلاف قرآن کریم انہیں نیک بتاتا ہے۔
بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ ان تینوں آنے والوں نے حضرت ابراہیمؑ کا پیش کردہ کھانا کھایا۔ قرآن کریم اس کا منکر ہے۔ اور عجیب بات یہ ہے کہ بائبل سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ تین شخص جو آئے تھے ان میں سے ایک خود خدا تھا۔ اور دوسرے دو فرشتے تھے۔ مگر باوجود اس کے وہ یہ شہادت دیتی ہے کہ انہوں نے کھانا کھایا۔ ہر اک عقلمند ان دونوں بیانوں م یں سچے بیان کو خود معلوم کرسکتا ہے۔
بائبل بتاتی ہے کہ حضرت لوطؑ نے اپنی لڑکیوں کو بدکاری کے لئے یش کیا تھا۔ قرآن کریم اس کے برخلاف انہیں بطور ضمانت پیش کرنے کا ذکر کرتا ہے۔ ان کے سوا اور بھی اختلاف ہیں۔ مثلاً بائبل کہتی ہے کہ حضرت لوط کی بیوی نمک کا کھمبا بن گئی تھی۔ قرآن کریم ایسی فضول باتوں سے بالکل پاک ہے۔ یہ چند مثالیں قرآن کریم اور بائبل کے بیانات میں اختلافات اور ان کی حقیقت بیان کرنے کے لئے کافی ہیں۔
۸۴؎
اس آیت کے آخر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ قصہ نہیں ہے۔ بلکہ پیشگوئی ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے لوگوں کے لئے بھی ایسے ہی عذاب مقدر ہیں اور لوط کی بستی کی طرح آپ کی قوم کے بعض مخالفوں کے لئے بھی نیست و نابود ہوجانا مقدر ہوچکا ہے۔
۸۵؎ حل لغات
المکیال مایکال بہ۔ وہ پیمانہ (طرف) جس سے کسی چیز کی مقدار کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ چیزوں کا وزن معلوم کرنے کا دو طریق ہیں۔ ایک برتن کے ذریعہ سے دوسرے بٹہ وغیرہ کے مقابلہ پر وزن کرنے سے۔ گویا ایک جگہ کے لھاظ سے اور ایک بوجھ کے ذریعہ سے۔ پرانے زمانہ میں جگہ کے لحاظ سے زیادہ لین دین کیا جاتا تھا۔ اور آج کل بوجھ کے لحاظ سے اندازہ کرنے کا زیادہ رواج ہے۔ گو اب بھی سیال چیزوں کا جگہ کے لحاظ سے اندازہ کرتے ہیں۔ مکیال ہر اس پیمانہ کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ سے دوسری چیز کا اندازہ کیا جائے۔ المیزان۔ آلۃ ذات الکفتین۔ یرزن بہ الشئی ویعرف مقدارہ من الثقل یعنی میزان ایک آلہ ہوتا ہے۔ دو پلڑوں والا (یعنی ترازو) جس سے چیز کا وزن کیا جاتا ہے۔ اور اس چیز کی مقدار بوجھ کے لھاظ سے معلوم کی جاتی ہے۔
المقدار۔ یعنی یہ لفظ مطلق مقدار کے معنوں میں بھی مستعمل ہوتا ہے۔ (اقرب)
تفسیر
انی ارکم بخیر۔ میں تم کو اچھی اور آسودہ حالت میں دیکھتا ہوں۔ یعنی ٹھگی کا موجب اگر فقر ہو تب بھی وہ بری چیز ہے لیکن مالدار آدمی فریب سے لوگوں کا مال لوٹے تو وہ اور بھی برا ہے۔
انی اخاف علیکم عذاب یوم محیط۔ احاطہ بالشئی۔ کے معنے میں بتاچکا ہوں کہ ہلاک کر دینے کے ہوتے ہیں۔ یوم کی صفت محیط کو مجازاً مبالغہ کے اظہار کے لئے بنایا ہے۔ جیسے کہتے ہیں نہارہ صائم اس کا دن روزہ دار ہے۔ مطلب یہ ہے ہ وہ اپنے دنوں کو کامل روزہ کی حالت میں گزارتا ہے۔ سی طرح عذاب یوم محیط سے مراد یہ ہے کہ اس دن کا عذاب بالکل تباہ کر دینے والا ہوگا۔ یوم محیط سے یہ بھی مراد ہوسکتی ہے کہ وہ دن ختم نہیں ہوگا۔ جب تک سب قوم کو تباہ نہ کرلے۔
حضرت شعیب علیہ السلام مدین قوم کی طرف آئے تھے اور مدین حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایک بیٹے کا نام ہے۔ جو قتورہ کے پیٹ سے تھے۔ (قتورہ آپ کی تیسری بیوی تھی یعنی سارہ اور ہاجرہ کے علاوہ) ان کا ذکر پیدائش باب ۱/۲۵ میں آتا ہے۔ پرانے زمانے کے اصول کے لحاظ سے کہ باپ کے نام پر اولاد بھی پکاری جاتی تھی۔ ان کی اولاد بھی ان کے نام کے لحاظ سے مدین کہلائی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شروع میں وہ بنو مدین کہلاتے ہوں۔ پھر کثرتِ استعمال سے بنو کا لفظ اڑ گیا ہو اور خالی مدین رہ گیا ہو۔ اس قوم کے مرکزی شہر کا نام بھی مدین ہے۔ ممکن ہے کہ ابتداء میں یہ دور مدین کہلاتا ہو۔ پھر کثرتِ استعمال سے مدین رہ گیا ہو۔
یہ شہر خلیل عقبہ کے پاس تھا۔ بحیرہ احمر جہاں ختم ہونے لگتا ہے وہاں اس کی دو شاخیں ہوجاتی ہیں۔ ایک مصر کے ساحل کے ساتھ ساتھ چلی جاتی ہے اور ایک عرب کے ساحل کے ساتھ ساتھ چلی جاتی ہے۔ جو شاخ عرب کے ساحل کے ساتھ ساتھ جاتی ہے اس کو خلیج عقبہ کہتے ہیں اور یہ شہر خلیج عقبہ کے پاس عرب کی جانب سمندر کے بالکل قریب چھ سات میل کے فاصلہ پر ہے۔ بوجہ اتنا قریب ہونے کے پرانے زمانہ کے جغرافیہ نوسیوں میں سے بعض اس کو بندگارہ لکھتے ہیں اور بعض اس کو خشکی کا شہر لکھتے ہیں۔
عرب سے جو قافلے مصر کو جاتے تھے وہ مدین کے راستہ سے ہوکر جاتے تھے۔ اب بھی مدین نام کی کئی بسیاں چھوٹے چھوٹے قصبات کے رنگ میں ملتی ہیں۔ اصل مدین شہر اب موجود نہیں ہے۔ مدین کی اولاد حجاز کے شمال میں بستی تھی۔ اور یہ شہر انہی کا بنایا ہوا تھا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام واقعۂ قتل کے بعد ہجرت کرکے مدین میں ہی آئے تھے۔ اور بنی اسرائیل کو لے کر بھی جب وہ آئے تب بھی وہ مدین ہی کے قریب آکر ٹھہرے تھے۔ یہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مشابہت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں ٹھہرے اور موسیٰ علیہ السلام مدین میں ٹھہرے۔ گو مدینہ کا نام پہلے یثرب تھا مگر اللہ تتعالیٰ نے اس کی وبائیں دور کرکے اس کا نام مدینہ ڈلوا دیا۔ اور اس طرح ظاہری مشابہت بھی قائم ہو گئی۔
قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت شعیبؑ کا زیادہ مقابلہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح اہل شہر سے ہی تھا۔ سورۂ اعراف میں آتا ہے۔ قال الملا الذین استکبروا من قومہ لنخرجنک یاشعیب والذین امنوا معک من قریتنا اولتعودن فی ملتنا۔ قال اولوکنا کرھین۔ (سورہ اعرافع۱۱)
(۲) دوسری بات اس سے یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ ان کی قوم شرک میں مبتلا ہونے کے علاوہ معاملات کی خرابی کی مرض میں بھی مبتلا تھی۔ تبھی تو اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ لا تنقصو المکیال والمیزان۔ پیمانہ اور قول میں کمی نہ کیا کرو۔
(۳) اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ان کی مالی حالت بہت اچھی تھی کیونکہ فرمایا ہے کہ انی ارکم بخیر یعنی میں یقینا تمہاری مالی حالت اچھی دیکھتا ہوں۔
(۴) یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوم ڈاکے بھی ڈالتی تھی کیونکہ فرمایا ہے۔ والتفسدوا فی الارض بعد اصلاحھا۔ (اعراف ع۱۱) ولا تعثوا فی الارض مفسدین۔ (ہودع۸) اور یہ الفاظ یا تو قتل و غارت پر دلالت کرتے ہیں یا ڈاکہ و راہ زنی پر۔ چونکہ یہ علاقہ عرب اور شام اور مصر کے راستوں پر تھا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ مسافروں کو لوٹ لیا کرتے تے۔ اس قیاس کو مزید تقویت اس امر سے حاصل ہوتی ہے کہ مدین قوم کے قبضہ میں مدین کے پاس ایک جنگل تھا جس میں ودان قوم رہتی تھی جو مدین کے بھتیجے اور حضرت ابراہیمؑ کے ایک دوسرے بیٹے کی نسل سے کہ وہ بھی قتورہ کے بطن سے تھا پوتے تھے۔ اس جنگل میں رہنے والوں کو قرآن کریم نے اصحاب الایکہ کے نام سے موسوم کیا ہے۔ اور سورۂ شعراء (رکوع ۱۰) میں ان اصحاب الایکہ کو بھی حضرت شعیب کی زبانی یہی کیا گیا ہے جو کہ مدین والوں کو کہا گیا ہے۔ چنانچہ فرمایا کذب اصحاب الئیکۃ المرسلین۔ اذقال لھم شعیب الاتتقون۔ انی لکم رسول امین فاتقواللہ واطیعون۔ واما اسئلکم علیہ من اجر۔ ان اجری الا علی رب العالمین۔ اوفوا الکیل والاتکوانوا من المخسرین۔ آیکہ عربی زبان میں ایسے جنگل کو کہتے ہیں کہ جس میں بیریاں اور پیلو کے درخت ہوں۔ ایسے جنگل میں ڈاکے ڈالنے زیادہ آسان ہوتے ہیں کیونکہ بیری اور پیلو کے پتے نیچے سے شروع ہوتے ہیں۔ جن کی وجہ سے ان کے یچھے آدمی آسانی سے چھپ سکتا ہے اور سورۂ حجر (ع۸) میں فرماتا ہے وان کان اصحب الایکۃ لٖالمین فانتقمنا منہم وانھما لبامام مبین۔ اور اصحاب ایکہ ضرور ظالم تھے۔ اس وجہ سے ہم نے انہیں ان کے جرم کی سزا دی اور وہ دونوں (قوم لوط اور اصحاب الایکہ) ایک عام چلنے والے راستہ پر واقع تھے۔
مفسرین کا قول ہے کہ شعیب علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں تھے اور ان کے خسر تھے۔ اور انہیں کے پاس موسیٰ ؑ واقعہ قتل کے بعد آکر ٹھہرے تھے۔ اور پھر ان کی لڑکی سے شادی کرلی تھی۔ لیکن تورات میں اس شخص کا نام جس کے پاس موسیٰ آکر ٹھہرے اور جس کی لڑکی سے انہوں نے شادی کی تھی بعض جگہ حوباب اور بعض جگہ یثرد آتا ہے۔ مصنف ارض القرآن کی بھی یہی رائے ہے کہ مفسرین کا قول صحیح ہے اور انہوں نے اس امر کے ثبوت میں کئی دلائل دیئے ہیں۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ
(۱) بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر آئے تھے تو پہلے مدین میں آکر ٹھہرے تھے۔ اور جب مدین کی عورتوں نے انہیں لوٹنا شروع کیا اور ان کو شرک میں مبتلاء کرنے لگیں (کیونکہ وہ ان کو اپنے مندروں میں لے جاتی تھیں) تو موسیٰ علیہ السلام نے ان پر چڑھائی کی اور ساری کی ساری قوم کو تباہ کر دیا۔ حتیٰ کہ بچوں اور عورتوں کو بھی۔
(۲) دوسری دلیل وہ یہ د یتے ہیں کہ قرآن کریم میں حضرت شعیبؑ کا قول نقل ہے۔ بقیت اللہ خیرلکم اس سے مراد بھی یہی ہوسکتی ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ نے اہل مدین کی زمین بنی اسرائیل میں بانٹ دی تھی۔ حضرت شعیب ؑ اپنی قوم سے کہتے ہیں کہ جو ہو گیا سو ہو گیا۔ جس قدر زمین تمہارے لئے چھوڑ دی ہے تم اس پر اکتفا کرو۔ لاتفسدوا فی الارض بعد اصلاحھا سے بھی ان کے نزدیک یہ یہ مراد ہے کہ بنی اسرائیل سے صلح کرنے کے بعد لڑو نہیں۔
مصنف ارض القرآن نے مدین قوم کے مقام اور ان کے قوی حالات کے متعلق جو کچھ لکھا ہے میں اس سے متفق ہوں اور ان کی محنت کی داد دیتا ہوں۔ لیکن مجھے حضرت شعیب کی شخصیت کے متعلق ان سے اختلاف ہے۔ اور اس کے مندرجہ ذیل دو وجوہ ہیں:
(۱) قرآن کریم میں حضرت شعیب کی قوم کا یہ قول درج ہے اوان فعل فی اموالنا مانشاء کیا تو اس امر کا ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم اپنے اموال کو جس طرھ چاہیں استعمال نہ کریں۔ لیکن نہ بائبل سے اور نہ قرآن کریم سے کسی ایسے واقعہ کا پتہ لگتا ہے جس کی بناء پر ہم اس آیت کو بنی اسرائیل اور اہل مدین کے تعلقات پر چسپاں کرسکیں۔
(۲) حضرت شعیبؑ کا قول ہے کہ لا تفسدوا فی الارض بعد اصلاحھا زمین میں صلح قائم ہوجانے کے بعد فساد نہ کرو۔ لیکن حضرت موسیٰ کی قوم سے جو مدین والوں کا معاملہ ہوا تھا اس پر یہ فقرہ چسپاں نہیں ہوتا کیونکہ موسیٰ کی قوم سے ان کی کوئی صلح نہ ہوئی تھی۔ بلکہ برخلاف اس کے اگر بائبل کا بیان صحیح تسلیم کیا جائے تو انہوں نے مدین والوں کی جائیدادوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ پس صلح کا تو اس موقع پر کوئی ذکر ہی نہیں۔ یہاں تو فساد کی بنیاد پڑتی نظر آتی ہے۔ ان حالات میں ہم مجبور ہیں کہ اصلاح سے مراد وہ نیکی کی بنیاد لیں جو پہلے نبی کے زمانہ میں ڈالی گئی تھی۔ اور یہ سمجھیں کہ شعیب ؑ یہ نصیحت کتے ہیں کہ جو نیکی پہلے انبیاء کے ذریعہ سے قائم ہوئی تھی اسے تم لوگ اپنے اعمال سے برباد نہ کرو۔
(۳) تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ حوباب مدین کی تباہی کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس چلے گئے اور وہاں انہیں زمین مل گئی۔ اور اس کے بعد ان کا ذکر خاموشی کے پردہ کے پیچھے چھپ جاتا ہے۔ لیکن یہ امر کہ ایک نبی اپنی قوم کو چھوڑ کر ایک دوسرے علاقہ میں چلا گیا اور اپنی بعثت کے کام کو بھلا کر صرف زمیندارہ میں مشغول ہو گیا عقل کے خلاف ہے۔
(۴) بائبل میں حوباب کے نبی ہونے کا کہیں ذکر نہیں حالانکہ جب وہ حضرت موسیٰ ؑ کے زمانہ کے آدمی تھے اور پھر ان کے خسر تھے تو اگر وہ نبی ہوتے تو غالب خیال یہ ہے کہ ان کی نبوت کا ذکر اس میں ہوتا۔
(۵) قرآن کریم میں حضرت شعیب کا متعدد جگہ ذکر آیا ہے۔ اور اسی طرح حضرت موسیٰ ؑ کے خسر کا بھی ذکر قرآن کریم میں ہے۔ لیکن ایک کجگہ بھی اس نے اشارہ نہیں کیا۔ کہ یہ دونوں وجود ایک ہی ہیں۔ اوار نہ کہیں موسیٰ ؑ کے خسر کے نبی ہونے کا ذکر آیا ہے۔
(۶) یہ عقل کے خلاف ہے کہ ایک نبی کی قوم کو دوسرے نبی کے ہاتھوں سے تباہ کروایا جائے۔ اور پھر اگر یہ صحیح ہو تو لازماً شعیب اور ان پر ایمان لانے والوں کو حضرت موسیٰ ؑ کا ساتھ دینا چاہئے تھا مگر اس کا ذکر تو تورات میں بالکل نہیں بلکہ یہ ذکر بھی نہیں کہ حوباب پر ایمان لانے والا کوئی ایک شخص بھی تھا۔ برخلاف اس کے وہاں یہ لکھا ہے کہ صرف حوبابؔ کی اولاد ان کے ساتھ تھی۔ لیکن قرآن کریم بتاتا ہے کہ شعیب ؑ پر ایمان لانے والی ایک جماعت تھی۔
(۷) سب سے بڑھ کر اور قطعی ثبوت اس امر کا کہ شعیب اور حوباب الگ الگ شخص تھے یہ ہے کہ قرآن کریم میں حضرت شعیب کی قوم کی تباہی کا ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے ثم بعثنا من بعد ھم موسی بایتنا الی فرعون وملائہ فظلموا بھا (اعرافع۱۴) یعنی اس قوم کے بعد ہم نے موسیٰ کو مبعوث کیا تھا۔ پس جب قرآن کریم بوضاحت اور بنصِ صریح حضرت موسیٰ کی بعثت کو شعیب ؑ کی قوم کی تباہی کے بعد بتاتا ہے تو ہم کس طرح خیال کرسکتے ہیں کہ شعیب اور حوباب موسیٰ علیہ السلام کے خسر ایک ہی شخص تھے۔ اور یہ کہ شعیب کی قوم کی تباہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ سے ہوئی۔
(۸) اگر شعیب کو حضرت موسیٰ ؑ کا خسر قرار دیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ موسیٰ کے مدین پہنچنے پر شعیب ؑ مبعوث ہوئے۔ اور ان کا کام صرف موسیٰ ؑ سے صلح رکھنے کی تلقین کرنا تھا۔ حالانکہ موسیٰ علیہ السلام کو اور قوموں سے بھی واستہ پڑا۔ جیسے عمالقہ وغیرہ۔ لیکن انہیں سمجھانے کے لئے کوئی نبی مبعوث نہ ہوا۔
(۹) حضرت شعیب علیہ السلام کا قول اسی رکوع میں آتا ہے۔ لایجرمنکم شقاقی ان یصیبکم مثل مااصاب قوم نوح اوقوم ھود او قوم صالح وما قوم لوط منکم ببعید۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت شعیب حضرت لوط کی قوم کے قریب بعد میں ہوئے۔ پس حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں انہیں قرار دینا درست نہیں ہوسکتا۔
(۱۰) اگر شعیب ؑ حضرت موسیٰ ؑ کے خسر ہوتے تو جیسا انہوں نے نوح ہود اور صالح کی قوم کی تباہیوں کا ذکر کیا تھا تو کیوں تازہ بتازہ تباہی جو حضرت موسیٰ کے دشمن فرعون کو پہنچی تھی اس کا ذکر نہ کرتے۔ خصوصاً جبکہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ہی کی تائید کررہے تھے۔ تو یہ خیال نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اس موقع پر ان تائیدات کا ذکر چھوڑ دیں گے۔ جو موسیٰ علیہ السلام کو ان کے دشمنوں کے مقابلہ میں ملیں۔
پس میرے نزدیک ان مفسرین کا خیال غلط ہے جو شعیب ؑ کو حضرت موسیٰ ؑ کا خسر قرار دیتے ہیں۔ حوباب جو حضرت موسیٰ ؑ کا خسر تھا وہ بالکل اور شخص ہے اور حضرت شعیب ؑ اور شخص ہیں۔ اور میرے نزدیک یہ قوم حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بعثت سے پہلے تباہ ہوچکی تھی۔ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں صرف اس کی نسل کا بقیہ موجود تھا اور شان و شوکت اس قوم کی زائل ہوچکی تھی۔
حوباب نے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کا نظام تجویز کیا ہے وہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت شعیب ؑ کے اثر سے متاثر ہوکر تھا کیونکہ جیسا کہ ہر نبی کی قوم کو ترقی عطا ہوتی ہے ضرور ہے کہ حضرت شعیب پر ایمان لانے والوں کو بھی ترقی ملی ہو اور چونکہ ان کا زمانہ قریب کا تھا ان کے تمدن کے آثار ابھی تازہ ہوں گے اور انہی سے متاثر ہوکر حوباب نے جو معلوم ہوتا ہے کہ شعیب کی امت میں سے تھے ایک نظام تجویز کیا جو موسیٰ کی قوم میں جاری ہوا۔
۸۷؎ حل لغات
البقیۃ۔ اسم لمابقی بقیہ حصہ۔ ومثل فی الجودۃ والفضل۔ بقیہ کا لفظ خوبی اور کمال کے بیان کے لئے آتا ہے یعنی جب کسی کو بقیہ القوم کہیں تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنی قوم کے بہترین آدمیوں میں سے ہے۔ اسی طرح عربی زبان کا محاورہ ہے فی الزوایا خبایا وفی الرجال بقایا۔ کونوں میں چھپے ہوئے خزانے مل جاتے ہیں اور انسانوں میں اچھے سے اچھے آدمی مل جاتے ہیں۔ اولوابقیۃ ای اولواالری والعقل۔ اور قرآن کریم میں جو اولوا بقیۃ کا لفظ آیا ہے اس کے معنی ہیں عمدہ رائے اور عقل والے لوگ۔ (اقرب)
تفسیر
بقیۃ اللہ یعنی جو مال نیک ذرائع سے حاصل ہوا ہو اور اللہ تعالیٰ کی اجازت کے ماتحت ملا ہو۔ وہ اچھا ہے۔ اسی پر کفایت کرنی چاہئے اور یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ وہ ترقی کی قابلیتیں جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں دی ہیں اگر ان کو استعمال کرو تو تم زیادہ ترقی کرسکتے ہو بہ نسبت ٹھگی کے کاموں کی طرف توجہ کرنے کے۔
وما انا لیکم بحفیظ میں بتایا ہے کہ یہ خیال نہ کرنا کہ میری وجہ سے عذاب ٹل جائے گا۔ اگر میری نصیحت کو نہ مانو گے تو ضرور عذاب میں مبتلا ہوجاؤ گے۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ باوجود انبیاء سے دشمنی کے ان کے پہلے چال چلن اور نمونہ کی وجہ سے لوگ اپنے دلوں میں انہی ایک خیرو برکت کا موجب وجود ہی خیال کرتے ہیں۔ مخالفت کی تہ کے نیچے ادب و احترام کا جذبہ ضرور کام کررہا ہوتا ہے۔
۸۸؎ حل لغات
الحلیم۔ حلم سے صفت مشبہ کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں۔ صفح درگزر کیا۔ ستر پردہ پوشی کی (اقرب) نیز حلم کے معنی ہیں الاناۃ آرام سے کام کرنا۔ جوش میں نہ آنا۔ العقل عقلمندی۔ (اقرب) پس حلیم کے معنی آرام سے بغیر جوش کے کام کرنے والے اور عقلمند کے بھی ہوئے۔ (اقرب) الرشید ذورالشد۔ رشد والا الذی حسن تقدیرہ فی ماقدر۔ جو اندازہ درست لگاتا ہو۔ فی صفات اللہ۔ الھادی الی سواء الصراط۔ اللہ تعالیٰ کے لئے جب یہ لفظ استعمال ہو تو اس کے معنی سیدھے راستہ کی طرف ہدایت دینے والے کے ہوتے ہیں۔ (اقرب)
تفسیر
میرے نزدیک یہ بھی انہوں نے تمسخر کے طور پر کہا ہے اور مطلب یہ ہے کہ سوائے نماز کئے تم میں ہم اور تو کوئی خوبی نہیں دیکھتے۔ نہ محنت کرنا جانتے ہو نہ تجارت کرنا نہ زراعت کرنا۔ پس کیا تم چاہتے ہو کہ ہم بھی تمہاری طرح دنیا کی عزتوں کو کھودیں اور نکمے ہوکر بیٹھ جائیں۔
’’کیا نماز تم کو حکم دیتی ہے‘‘ کہہ کر اس طرف اشارہ کیا ہے کہ نماز پڑھ پڑھ کر تمہاری عقل ماری گئی ہے۔ اور تم خیال کرنے لگے ہو کہ سب سے بڑا کام یہی ہے لیکن تم کو اس سے کیا کام کہ ہم کس کی عبادت کرتے ہیں اور اپنے مالوں کو کس طرح خرچ کرتے ہیں۔
یہ عجیب لطیفہ ہے کہ حضرت شعیب ؑ تو انہیں یہ نصیحت کرتے ہیں کہ دوسروں کے مالوں کو جھوٹ اور فریب سے نہ لیا کرو اور وہ یہ جواب دیتے ہیں کہ تمہیں کیا ہم جس طرح چاہیں اپنے مالوں کو استعمال کریں۔ گویا حرام کھاتے کھاتے ان کی عقل پر اس قدر پردہ پڑ گیا تھا کہ وہ یہ بھی نہیں سمجھ سکتے تھے کہ وہ اپنے مالوں میں نہیں بلکہ دوسرے کے مالوں میں تصرف کررہے ہیں۔
۸۹؎ حل لغات
خالفہ الی کذا کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ جو کام وہ کرتا ہے اس کے خلاف کام کیا۔ تقول خالفنی الی کذا۔ اذا قصدہ وانت مول عنہ یعنی اس نے فلاں کام جو تم نہیں کرتے کرکے تمہارے خلاف راہ اختیار کی۔ (اقرب)
تفسیر
جواب شرط محذوف ہے اور مراد یہ ہے کہ میری نماز مجھے نہیں کہتی بلکہ میرا خدا مجھے کہتا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بادلائل کلام مجھ پر نازل ہو اور وہ اپنے فضل سے حلال رزق مجھے دے تو بتاؤ کہ کیا پھر بھی میرا حق نہیں کہ میں تم کو نصیحت کروں اور اس بات سے روکوں جسے میں بدلائل نقصان دہ ثابت کرچکا ہوں۔
ان کے اس سوال کا جواب کہ کیا تم ہمیں اس امر سے روکتے ہو کہ ہم اپنے مالوں میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف کریں۔ یہ دیا کہ خود میرا اپنا رویہ دیکھ لو کہ کیا میں اس تعلیم پر عمل کرتا ہوں کہ نہیں اگر میں خود بھی عامل ہوں تو میری نیک نیتی تو ثابت ہے۔ اور اگر یہ خیال ہو کہ میں حکومت کرنی چاہتا ہوں تو یہ خیال تمہارا درست نہیں۔ حکومت کے بغیر بھی انسان کو نصیحت کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ اور اس حق سے جہاں تک ہوسکے گا میں فائدہ اٹھاؤں گا۔ باقی رہے نتائج سو ان سے مجھے کوئی تعلق نہیں۔ میرا کام سمجھانا ہے اور ان کے نتائج پیدا کرنا خدایتعالیٰ کے اختیار میں ہے۔
نبوت کے مقام کی کیسی لطیف تشریح ہے۔ ہر مامور کے سامنے یہی مشکلات پہلے آتی ہیں۔ بلکہ ہر مبلغ کے سامنے بھی۔ پہلے پہلے لوگ اس کی باتوں سے بہت گھبراتے ہیں۔ اور خیال کرتے ہیں کہ وہ اپنے وعظ سے ان پر جبر کرتا ہے۔ پھر مساوات دکھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اچھا جو کچھ کہنا ہے کہتے جاؤ۔ مگر نبی نہ اس وقت جب لوگ ناراض ہوتے ہیں اور نہ اس وقت جب لوگ پرواہ کرنا چھوڑ دیتے ہیں اپنے کام سے رکتے ہیں۔ بلکہ دونوں حالتوں میں یکساں جدوجہد سے کام لیتے چلے جاتے ہیں۔ اور صرف خدا تعالیٰ کی طرف نظر رکھتے ہیں۔ اور اس کے سوا ہر اک چیز کو بھلا دیتے ہیں۔
۹۰؎ حل لغات
جرم لاھلہ۔ کسب کمایا۔ ومنہ فی القرآن لایجئرمنکم شنان قوم علی ان لا تعدلوا۔ ای لایکسبنکم۔ یعنی کسی قوم کی دشمنی کے نتیجہ میں تمہارے دل میں بے انصافی نہ پیدا ہو جائے۔ وفسر ایضا بلا یحملنکم اور اس کے معنی آمادہ کرنے کے بھی کئے گئے ہیں۔ (اقرب) اصل الجرم قطع الثمرۃ عن الشجر۔ جرم کے اصل معنی درخت سے پھل تورنے کے ہیں۔ واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروہ اور پھر بطور توسیع و استعارہ اسے ہرناپسندیدہ کمائی کے لئے استعمال کیا جانے لگا ہے۔ ومعنی جرم کسب اوجنی اور جرم کے معنی کمانے یا پھل توڑنے کے یا کسی جرم کا ارتکاب کرنے کے ہیں۔ (مفردات)
تفسیر
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت شعیب ؑ نوحؑ ہود صالح ابراہیم اور لوط علیہم السلام کے بعد گزرے ہیں۔ لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ سے پہلے کیونکہ ان کی قوم کا کوئی ذکر نہیں۔ حالانکہ موسیٰ علیہ السلام اسی علاقہ میں اپنی قوم کو لاکر رہے ہیں کہ جس میں ان کی قوم بستی تھی۔
۹۱؎ حل لغات
الودود۔ الکثیر الحب۔ بہت محبت کرنے والا۔ فعول بمعنی الفاعل یقال ھو ودود وھع ودود۔ یہ لفظ فعول کے وزن پر ہے اور مبالغۂ فاعل کے معنی دیتا ہے۔ اس وجہ سے مذکر و مؤنث میں کوئی فرق نہیں ۔ الودود فی الاسما الحسنی معناہ المحب اوالمحبوب من اولیاء ہ فیکون بمعنی مفعول اور ودود اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے بھی ہے۔ اور اس کے معنی محبت کرنے والے کے ہیں یا اولاء اللہ کا محبوب ہونا اس سے مراد ہے۔ اس صورت میں اس لفظ کے معنی فاعل کے نہیں بلکہ مفعول کے ہوں گے۔ (اقرب)
تفسیر
ہمیشہ دشمنانِ اسلام پر اسلام پر یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ اسلام توبہ کا دروازہ کھول کر گناہ کا راستہ کھولتا ہے۔ توبہ کے معنی وہ یہ سمجھتے ہیں کہ منہ سے میری توبہ میری توبہ کہہ دیا اور بس اسی قدر گنہ کی معافی کے لئے کافی ہے۔ حالانکہ اسلام کی یہ تعلیم نہیں۔ اسلامی توبہ بالکل اور چیز ہے۔ اسلام نے بدی سے نیکی طرف آنے اور نیکی سے اعلیٰ مقامات کی طرف جانے کو صرف ایک مقام نہیں قرار دیا بلکہ اسلام بتاتا ہے کہ یہ دونوں کام کئی مدارج طے کرنے کے بعد پورے ہوتے ہیں۔ ایک گنہ گار جب خداتعالیٰ کی طرف لوٹنا چاہتا ہے تو پہلے اس میں محاسبہ کا مادہ پیدا ہوتا ہے یعنی وہ اپنے نفس کا مطالعہ کرکے اس کی غلطیوں کو پکڑتا ہے تب اس میں ندامت پیدا ہوتی ہے اس کے بعد وہ استعاذہ کرتا ہے۔ یعنی ان گناہوں کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی اللہ تتعالیٰ سے بی مدد لیتا ہے اس کے بعد وہ استغفار کرتا ہے یعنی پچھلے گناہوں کے بداثرات سے محفوظ رہنے کی دعا کرتا ہے۔ اس کے بعد وہ توبہ کرتا ہے یعنی پوری توجہ سے اللہ تعالیٰ کی محبت میں لگ جاتا ہے۔ اور اس سے اپنا پیوند جوڑ لیتا ہے۔ غرض توبہ کے معنی منہ سے معافی مانگنے کے ہرگز نہیں ہوتے۔ بلکہ یہ بدی سے نیکی طرف آنے یا نیکی کے کسی مقام سے اس کے دوسرے مقام کی طرف جانے کی منزلوں میں سے ایک منزل کا نام ہے اور توبہ پر اس تشریح کے بعد اعتراض کوئی علم النفس سے جاہل انسان ہی کرسکتا ہے۔
یاد رہے کہ جو مدارج میں نے اوپر بیان کئے ہیں یہ سب اور ان سے زیادہ قرآن کریم میں مذکور ہیں یہاں اختصار کی غرض سے تفصیلاً ان کا ذکر نہیں کیا گیا۔
۹۲؎ حل لغات
الرھط قوم الرجل وقبیلۃ آدمی کی قوم اور اس کا قبیلہ وعدد یجمع من الثلاثۃ الی العشرۃ ولیس فیہم امرء ۃ ولا واحد لہ من لفظہ۔ وجمعہ ارھط وارھاط۔ وجمعہا اراھط واراھیط و فی القران۔ وکان فی االمدینۃ تسعۃ رھط۔ ای تسعۃ انفس۔ یعنی رہط کے معنی اتنی تعداد کے افراد کے ہوتے ہیں جس میں تین سے لے کر دس تک وجود شامل ہوں۔ بشرطیکہ ان میں عورت کوئی نہ ہو۔ سب مرد ہوں۔ اور اس لفظ کا واحد کوئی نہیں آتا۔ اور اس کی جمع ارھط اور ارھاط ہے اور جمع الجمع اراھط اور اراھیط ہے۔ قرآن کریم میں ان معنوں میں یہ لفظ آیا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے تسعۃ رھط یعنی نو افراد (اقرب) العزیز۔ الشریف عزت والا۔ القوی۔ مضبوط۔ القلیل النادر لا یکاد یوجد۔ نادر الوجود جس کی مثل ملنی مشکل ہو۔ المکرم معزز۔ وجمعہ عزار واعزہ واعزاء اور اس کی جمع عزاز۔ اعزۃ اور اعزاء ہے۔ والعزیز ایضا من اسماء اللہ تعالیٰ وھو المنیع الذی لا ینال ولایغالب ولا یعجزاہ الشئی ولا مثل لہ اور یہ اللہ تعالیٰ کی ایک صفت بھی ہے اور اس کے معنی ہیں وہ ہستی کہ جس تک پہنچنا تمام طاقت سے بالا ہے اور جس پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ نہ اسے اس کے کام سے کوئی چیز روک سکتی ہے اور اس کی کوئی مثل نہیں املک لغلبتہ علی اھل مملکتہ۔ بادشاہ کو بھی عزیز کہتے ہیں کیونکہ اسے اپنی رعایا پر غلبہ حاصل ہوتا ہے۔ لقب من ملک مصر مع الاسکندریہ وہ بادشاہ جو مصر اور سکندرہ دونوں کا بادشاہ ہو اسے بھی عزیز کہتے ہیں۔ (اقرب) قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ فراعنہ کے زمانہ میں وزیر مالیہ کو بھی عزیز کہتے تھے۔ الظھری۔ الذی تجعلہ وراء ظھرک وتنساہ وتغفلہ۔ جسے تو اپنی پیٹھ کے پیچھے ڈال دے اور اسے بھول جائے اور اس سے غافل ہو جائے۔ (اقرب)
تفسیر
نبی کی غیرت کو دیکھو اور کوئی ہوتا تو خوش ہوتا کہ میری قوم ایسی مضبوط ہے کہ اس کی وجہ سے میری حفاظت ہورہی ہے اور شاید اس امر پر اور زور دیتا کہ مجھے چھیڑ کر دیکھو تو سہی کہ میری قوم تم سے کیسا سلوک کرتی ہے۔ لیکن حضرت شعیب علیہ السلام الٹے ناراض ہوتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ کیا میری قوم خداتعالیٰ سے بڑی ہے کہ تمہیں اس کا لحاظ ہے مگر خداتعالیٰ کا نہیں۔ میری قوم کے ڈر سے مجھے کچھ نہیں کہنا چاہئے۔ لیکن خدا کا خوف نہیں کرتے اور دھوکے اور لوٹ سے باز نہیں آتے۔ اس جوش میں حضررت شعیب علیہ السلام اس امر کا بھی خیال نہیں کرتے کہ اس طرھ وہ اپنی قوم کی تحقیر کرکے اسے بھی غصہ دلا رہے ہیں۔ صرف ایک ہی بات ان کے خیالات پر حاوی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی عزت کا مقام ہے۔
۹۳؎
ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ایسے کئی مواقع پیش آئے ہیں۔ اور آپ نے ان مواقع پر اپنی شان کے مطابق حجت الٰہی کے نظارے دکھائے ہیں۔ مثلاً احد کے موقع پر جب اسلامی لشکر پراگندہ ہو گیا اور صرف چند آدمی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور یہ خبر مشہور ہو گئی کہ آپ قتل ہو گئے ۔ اس وقت ابوسفیان نے آواز دے کر پکارا۔ کہ اے مسلمانو ہم نے تمہارے رسول کو مار دیا ہے۔ گو یہ بات غلط تھی مگر موقع کی نزاکت کو دیکھ کر آپ نے جواب دینے سے روک دیا تادشمن اس پراگندگی سے فائدہ اٹھا کر دوبارہ حملہ نہ کردے اس کے بعد ابوسفیان نے کہا کہ اگر ابوبکر ہے تو بولے آپ نے ان کو بھی روک دیا۔ اس پر اس نے نعرہ لگایا کہ ہم نے اسے بھی مار دیا ہے۔ پھر اس نے کہا کہ عمر کہاں ہیں۔ حضرت عمر نے جوش میں آکر کہا کہ عمر تمہارا سر کچلنے کو موجود ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی بولتے بولتے روک دیا۔ اس پر ابوسفیان نے بڑے زور سے نعرہ لگایا کہ اعل ھبل اعل ھبل کہ ھبل کی شان بلند ہو یعنی ہمارے بت جیت گئے۔ اس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم برداشت نہ کرسکے اور فرمایا کہ اب کیوں نہیں بولتے۔ کہو اللہ اعلیٰ و اجل۔ اللہ ہی سب سے بلند و برتر اور سب سے زیادہ شوکت والا ہے۔ دشمن کے نرغہ میں گھرے ہوئے اور جب سب لشکر پراگندہ ہو چکا تھا خداتعالیٰ کی شان کے خلاف لفظ سن کر آپ کس طرح بے تاب ہو گئے۔
ان ربی بما تعملون محیط اس فقرہ کے ساتھ ان کو ڈرایا ہے کہ خدا تعالیٰ اس غیرت میں آکر کہ تم نے میری قوم کو اس سے زیادہ سمجھا کہیں تمہارے اعمال کو تباہ کرکے تم پر عذاب نہ نازل کردے اور یہ تجارتیں وغیرہ سب برباد ہو جائیں۔ اور تم لوگ کنگال ہو جاؤ۔
۹۴؎ حل لغات
المکانۃ۔ الموضع۔ والمنزلۃ۔ جگہ اور درجہ (اقرب) ارتعب فلانا والشئی انتظرہ۔ فلاں شخص یا فلاں چیز کا انتظار کیا۔ (اقرب) الرقیب من صفات اللہ تعالی۔ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ہے اور اس جگہ معنی ہیں الحافظ نگراں المنتظر۔ منتظر الحارس پہرہ دار ابن العم چچا کا بیٹا۔ رقیب الجیش۔ طلیقہ۔ راستہ کے آگے آگے چلنے والا جو راستہ کی حالت اور اس کے خطرات کی خبر لیتا چلا جاتا ہے۔ (اقرب)
تفسیر
یعنی تم اپنے مقام کے لحاظ سے عمل کرتے جاؤ۔ میں اپنی روش کے مطابق عمل کرتا چلا جاؤں گا۔ آخر نتائج بتا دیں گے کہ کون اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق عمل کررہا تھا اور کون اس کے خلاف۔
نبی ہمیشہ یہی کہتے چلے آئے ہیں کہ خدا پر فیصلہ چھوڑو اور انتظار کرو۔ مگر لوگ ہمیشہ اپنے ہاتھ میں ہی فیصلہ رکھتے ہیں۔ خداتعالیٰ پر نہیں چھوڑتے اور آخر اس کی سزا بھگتتے ہیں۔
انی معکم رقیب میں بتایا ہے کہ چاہئے تو یہ تھا کہ میں گھبراتا کیونکہ میں مصیبت میں ہوں۔ میرے ساتھیوں کو تم تکلیفیں دیتے ہو لیکن گھبرا تم رہے ہو۔ حالانکہ چاہئے یہ کہ ہم دونوں خدا کے فیصلے کا انتظار کریں۔
۹۵؎
حضرت شعیب ایسے علاقہ میں تھے کہ جس میں زلزلے بہت کثرت سے آتے ہیں۔ ممکن ہے کہ آیت کے ظاہری الفاظ کے مطابق ان کی وم پر زلزلہ کا عذاب آیا ہو لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ صیحہ سے مرراد عام عذاب ہو۔ اور گھٹنوں کے بل گرے ہوئے کے الفاظ مجزا استعمال ہوئے ہوں۔ کسی اورعذاب سے اس قوم کی شان و شوکت توڑ دی گئی اور یہ لوگ ذلیل ہوکر اپنے گھروں میں بیٹھ گئے ہوں۔
۹۷؎ حل لغات
السلطان۔ الحجۃ محکم دلیل۔ نقول لہ سلطان مبین۔ ای حجۃ۔ یعنی جب کسی کے متعلق کہیں کہ لہ سلطان مبین تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اس کے پاس روشن اور محکم دلیل ہے۔ (اقرب)
تفسیر
اس جگہ حضرت موسیٰ ؑ کی بعثت کے اس حصہ پر بحث ہے جو سزا ہی سزا کا رنگ رکھتا تھا۔ یعنی آپ کی بعثت فرعون او اس کی قوم کی طرف یہ قوم ایمان نہ لائی اور تباہ کردی گئی اور یہی بحث اس سورۃ میں ہے۔ بنی اسرائیل کا ذکر اس سورۃ میں نہیں کیا گیا کیونکہ وہ ایمان لائے اور نعمتوں کے وارث ہوئے۔
جیسا کہ میں بتا چکا ہوں فرعون کسی ایک شخص کا نام نہیں بلکہ فرعون شاہان مصر کا لقب ہوا کرتا تھا۔ یعنی وادی نیل اور سکندرہ کا حکمران فرعون کہلاتا تھا۔ یہ اصطلاح رومیوں کے آنے سے پہلے پہلے تھی۔ رومیوں کے آنے پر حکومت غیرملکیوں میں چلی گئی اور فرعون کا لفظ مٹ گیا۔ کیونکہ ان کے ہاں اپنے الگ القاب تھے۔ دوسرے یہ کہ فرعون کسی ایک ہی خاندان کے بادشاہوں کا نام نہیں تھا بلکہ کئی خاندان گزرے ہیں جنہوں نے تین چار ہزار سال تک حکومت کیہے۔ کسی خاندان کے دس بادشاہ گزرے کسی کے بیس۔ مختلف خاندانوں کے حکمرانوں کو جنہوں نے وادی النیل اور سکندریہ پر حکومت کی یکے بعد دیگرے فرعون کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ یہ فرعون بھی جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہے بنی اسرائیل کی طرح غیرملکی تھا۔ اور اس لئے وہ بنی اسرائیل کی کثرت اولاد سے ڈرتا تھا اور اسے خوف تھا کہ مبادا وہ ملک کے اصلی باشندوں سے مل کر اس ملک سے نکال دیں۔ یا بغاوت و جنگ کے لئے کھڑے ہوجائیں۔ جیسا کہ خروج باب۱ آیت ۹،۱۰ میں لکھا ہے
’’اس نے اپنے لوگوں سے کہا دیکھو کہ بنی اسرائیل کے لوگ ہم سے زیادہ اور قوی تر ہیں۔ آؤ ہم ان سے دانشمندانہ معاملہ کریں تا نہ ہو کہ جب وہ اور زیادہ ہوں اور جنگ پڑے تو ہمارے دشمنوں سے مل جائیں اور ہم سے لڑیں اور ملک سے نکل جائیں۔‘‘
’’ہم سے زیادہ ‘‘ ہونے کا یہی مطلب ہے کہ وہ ہمارے خاندان یا نسل سے زیادہ ہیں نہ یہ کہ وہ تمام اہل ملک سے زیادہ ہیں۔
انہی دنوں میں جبکہ فرعون بنی اسرائیل پر تشدد کررہا تھا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔ خروج باب ۲،۳،۴ میں ان کی پیدائش جوانی اور زندگی کے حالات مذکور ہیں۔ وہ بیان قرآن مجید سے بعض باتوں میں مختلف ہے۔
(۱) بائبل کہتی ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کی والدہ نے ان کو دریا میں نہیں ڈالا تھا بلکہ دریا کے کنارے ایک جھاؤ نیچے ایک ٹوکرے میں چھپا دیا تھا۔ چنانچہ لکھا ہے ’’تو اس نے (یعنی موسیٰ ؑ کی والدہ نے) سرکنڈوں کا ایک ٹوکرہ بنایا اور اس پر لاسہ اور رال لگایا اور لڑکے کو اس میں رکھا اور اس نے اسے دریا کے کنارے پر جھاؤ میں رکھ دیا۔‘‘ (خروج ۳/۲)
لیکن قرآن مجید سے ثابت ہے کہ انہوں نے اس بچے کو دریا میں ڈال دیا تھا۔ جیسا کہ فرمایا اذاوحینا الی امک مایوحی۔ ان اقذفیہ فی التابوت فاقذ فیہ فی الیم فلیلقہ الیم بالساحل یاخذہ عدو لی وعدو لہ (طٰہٰ ع۲)
(۲) بائبل کہتی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عبرانی اور مصری کے جھگڑے میں مصری کو عمدا مار ڈالا جیسا کہ لکھا ہے ’’دیکھا کہ ایک مصری ایک عبرانی ک جو اس موسیٰ ؑ) کے بھائیوں میں سے ایک تھا مار رہا ہے۔ پھر اس نے ادھر ادھر نظر کی اور دیکھا کہ کوئی نہیں تب اس مصری کو مار ڈالا اور ریت میں چھپا دیا۔‘‘ (خروج ۱۱،۱۲/۲) مگر قرآن مجید فرماتا ہے فوجد فیھا رجلین یقتتلن ھذا من شیعتہ وھذا من عدوہ فاستغاثہ الذی من شیعتہ علی الذی من عدوہ فوکزہ موسی فقضی علیہ (قصص ع۲) یعنی حضرت موسیٰ ؑ نے مصری کو صرف تنبیہہ کے طور پر ایک مکا مارا ان کا ارادہ قتل کا نہ تھا۔ مگر وہ اتفاقاً مر گیا۔ گویا بائبل حضرت موسیٰ ؑ کو قاتل قرار دیتی ہے مگر قرآن مجید ان کی بریت کرتا ہے۔
(۳) بائبل کہتی ہے کہ پہلے دن کے جھگڑے کے بعد دوسرے دن حضرت موسیٰ ؑ نے دو عبرانیوں کو لڑتے دیکھا چنانچہ لکھا ہے۔ ’’جب وہ دوسرے دن باہر گیا تو کیا دیکھتا ہے کہ دو عبرانی آپس میں جھگڑ رہے ہیں۔ تب اس نے اس کو جو ناحق پر تھا کہا کہ تو اپنے یار کو کیوں مارتا ہے۔ وہ بوکا کس نے تجھے ہم پر حاکم یا منصب مقرر کیا۔ آیا تو چاہتا ہے کہ جس طرح تو نے اس مصری کو مار ڈالا مجھے بھی مار ڈالے۔‘‘ (خروج ۱۳،۱۴/۲)
مگر قرآن مجید فرماتا ہے کہ دوسرے دن بھی ایک مصری اور ایک عبرانی ہی لڑرہے تھے۔ جیسا کہ اس آیت سے ظاہر ہے فاصبح فی المدینۃ خائفا یترقب فاذا الذی استنصرہ بالامس یستصرخہ۔ قال لہ موسی انک لغوی مبین۔ فلما ان اراد ان یبطس بالذی ھو عدو لھما قال یا موسی اترید ان تقتلنی کما قتلت نفسا بالامس ان یرید الا ان تکون جبارا فی الارض وما ترید ان تکون من المصلحین۔ (قصص ع۲)
(۴) بائبل کہتی ہے کہ جب حضرت موسیٰ ؑ فرعون سے بھاگ کر مدین پہنچے تو انہیں مندرجہ ذیل واقعہ پیش آیا اور مدیان کے کاہن کی سات بیٹیاں تھیں۔ وہ آئیں اور پانی نکالنے لگیں اور گھڑوں کو بھرا۔ تاکہ اپنے باپ کے گلے کو پانی پلائیں۔ تب گڈریوں نے آ کے انہیں ہانکا لیکن موسیٰ نے کھڑے ہوکر ان لڑکیوں کی مدد کی اور ان کے گلے کو پانی پلایا۔‘‘ (خروج باب۲ آیت ۱۶،۱۷) مگر قرآن مجید کا بیان اس سے مختلف ہے۔ قرآن مجید اس واقعہ کو یوں بیان فرماتا ہے ولما وردماء مدین وجد علیہ امۃ من الناس یسقون ووجد من دونھم امر اتین تذودان۔ قال ما خطبکما۔ قالتا لا نسقی حتی یصدرالرعاء وابونا شیخ کبیر۔ فسقی لھما ثم تولی الی الظل فقال رب انی لما انزلت الی من خیر فقیر۔ (قصص ع۳) کہ جب حضرت موسیٰ ؑ مدین کے پانی پر وارد ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ لوگوں کا ایک گروہ (اپنے مویشیوں کو) پانی پلا رہا ہے۔ اور دو لڑکیاں اپنے گلے کو پرے روکے کھڑی ہیں۔ حضرت موسیٰ ؑ نے ان سے پوچھا تم الگ کیوں کھڑی ہو۔ انہوں نے جواب دیا کہ جب چرواہے چلے جائیں گے تب ہم پانی پلا سکین گی۔ کیونکہ ہمارا باپ بوڑھا اور عمر رسیدہ ہے۔ اس جگہ پر قرآن مجید کی تعلیم کیا ہی اعلیٰ اخلاق والی اور پاکیزہ ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ ان لڑکیوں کا پرے رہنا ان کی شرم کی وجہ سے تھا۔ اس بیان میں قرآن مجید تورات سے کئی باتوں میں اختلاف کرتا ہے۔
(الف) بائبل کہتی ہے مدین کے کاہن کی سات بیٹیاں پانی پر آئیں اور قرآن مجید فرماتا ہے دو لڑکیاں آئی تھیں۔
(ب) بائبل کہتی ہے لڑکیوں نے گھڑوں کو پانی سے بھرا اور چرواہوں نے آکر ان کو روکا اور قرآن مجید فرماتا ہے وہ لڑکیاں آگے نہیں بڑھیں بلکہ شرم کے مارے گلے کو روکے کھڑی رہیں۔
(ج) بائبل کہتی ہے حضرت موسیٰ ؑ نے گڈریوں کا مقابلہ کیا اور لڑکیوں کی مدد کی اور ان کے جانوروں کو پانی پلایا اور قرآن مجید فرماتا ہے مقابلہ وغیرہ کوئی نہیں ہوا ہاں حضرت موسیٰ ؑ نے اسی دوران میں ان کے جانوروں کو پانی پلا دیا۔
(۵) بائبل کے بیان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو کہا کہ بنی اسرائیل کو سرزمین مصر سے نکال لا۔ مگر شاہ مصر کو نہ بتلانا کہ ہم بھاگ رہے ہیں۔ بلکہ لکھا ہے کہ تو اور اسرائیلیوں کے بزرگ مصر کے بادشاہ کے پاس آئیو اور اسے کہیئو کہ خداوند عبرانیوں کے خدا نے ہم سے ملاقات کی اور اب ہم تیری منت کرتے ہیں ہم کو تین دن کی راہ بیابیان میں جانے دے تاکہ ہم خدداوند اپنے خدا کے لئے قربانی کریں۔‘‘ (خروج ۱۸/۳) گویا ایک طرح سے دھوکہ کی تعلیم دی ہے۔ مگر قرآن مجید صاف کہتا ہے کہ تم اس کے پاس جاکر یہ کہنا انا رسولا ربک فارسل معنا بنی اسرائیل ولا تعذبھم (طٰہٰ ع۲) کہ ہم اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں۔ اور اس لئے آئے ہیں کہ تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے۔
(۶) بائبل کہتی ہے کہ خداتعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ سے کہا ’’ہر ایک عورت اپنی پڑوسن سے اور اس سے جو اس کے گھر میں رہتی ہے روپے اور سونے کے برتن اور لباس عاریت لے گی اور تم اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو پہناؤ گے اور مصریوں کو غارت کروگے۔‘‘ (خروج ۲۲/۲) مگر قرآن مجید فرماتا ہے کہ ہم نے انہیں نہیں کہا تھا کہ زیور ساتھ لے آنا۔ بلکہ وہ خود ہی لے آئے تھے اور یہ ان کی خیانت اور غداری تھی۔ جیسا کہ فرماتا ہے ولکنا حملنا اوزارا من زینۃ القوم (طٰہٰ ع۲) جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس دھوکہ کے خود ذمہ دار تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسا کرنے کو نہیں کہا تھا۔
(۷) بائبل میں حضرت موسیٰ ؑ کے معجزۂ ید بیضاء کے متعلق لکھا ہے ’’چنانچہ اس نے اپنا ہاتھ اپنی چھاتی پر چھپاکے رکھا۔ اور جب اس نے اسے نکالا تو دیکھا کہ اس کا ہاتھ برف کی مانند سفید مبروص تھا۔‘‘ (خروج ۲/۴) یعنی ہاتھ سفید تھا۔ مگر برص کے عیب کی وجہ سے وہ ایسا تھا اور قرآن مجید فرماتا ہے واضمم یدک الی جناحک تخرج بیضاء من غیرسوء ایۃ اخری (طٰہٰ ع۷) کہ وہ ہاتھ بے شک روشن اور چمکیلا تھا مگر کسی بییماری کی وجہ سے ایسا ہرگز نہ تھا بلکہ ایک نشان کے طور پر تھا۔
(۸) بائبل حضرت ہارون کے متعلق کہتی ہے کہ حضرت ہارونؑ حضرت موسیٰ ؑ کے خاندان بنی لاوی کا ایک فرد ہونے کی رو سے ان کے بھائی تھے۔ نہ حقیقی یا مادری بھائی۔ چنانچہ لکھا ہے۔ ’’ اس (خدا) نے کہا کیا نہیں ہے لاویوں میں سے ہارون تیرا بھائی۔ میں جانتا ہوں کہ وہ فصیح ہے۔‘‘ (خروج ۱۴/۴) مگر قرآن مجید حضرت ہارونؑ کو موسیٰ ؑ کا سگا بھائی یا ماں کی طرف سے بھائی بتاتا ہے۔ جیسا کہ فرماتا ہے۔ قال یبنؤم لاتاخذ بلحیتی ولا براسی۔ (طٰہٰ ع۵) کہ حضرت ہارون نے حضرت موسیٰ ؑ سے عرض کیا اے میری ماں کے بیٹے میری ڈاڑھی اور میرے سر کے بالوں کو نہ پکڑ۔
(۹) بائبل بچھڑے کو معبود بنانے میں حضرت ہارون کو بنی اسرائیل کا شریک بلکہ اس شرک کا بانی قرار دیتی ہے۔ چنانچہ لکھا ہے۔ ’’اور خداوند نے ان کے بچھڑنے بنانے کے سبب جسے ہارون نے بنایا تھا لوگوں پر مری بھیجی۔‘‘ (خروج ۳۵/۳۲) مگر قرآن مجید حضرت ہارونؑ کو اس قسم کے عیب سے بکلی بری قرار دیتا ہے بلکہ فرماتا ہے ولقد قال لھم ھارون من قبل یاقوم انما فتنتم بہ وان ربکم الرحمن فاتبعونی واطیعوا امری (طٰہٰ (ع۵) یعنی حضرت ہارونؑ نے ان لوگوں کو بچھڑنے کی عبادت سے منع کیا تھا۔ ان اختلافات کے متعلق ہمیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ خود مسیحی کتب ہی بائبل کے بیانات کو مخدوش قرار دیتی ہیں۔ چنانچہ انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا میں موسیٰ ؑ کے لفظ کے ماتحت لکھا ہے کہ حمورابی تعلیم کا بہت سا حصہ بطور خلاصہ موسیٰ کی کتاب میں آ گیا ہے۔ نیر ہارون کے شرک کے واقعہ کو بھی اس نے غلط قرار دیا ہے اور اس سے یہ بھی استدلال کیا ہے کہ بائبل میں کئی واقعات بعد میں بڑھا دیئے گئے ہیں۔
بہرحال عقل اور جدید تحقیق دونوں اس امر پر متفق ہیں کہ قرآن کریم کا بیان گو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دو ہزار سال بعد شائع ہوا درست ہے اور بائبل جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ موسیٰ کے وقت میں لکھی گئی اس کا بیان مشکوک ہے۔
حضرت موسیٰ کا نام موسیٰ کیوں رکھا گیا۔ اس کی وجہ بائبل نے یہ بتائی ہے کہ انہیں پانی سے بچا لیا گیا تھا۔ خروج ب۱۰ آیت ۲ لیکن تعجب یہ ہے کہ باوجود اس کے تورات ان کے پانی سے نکلانے کی منکر ہے۔ لیکن قرآن کریم اس واقعہ کی تائید کرتا ہے۔
ہارون کے معنی عبرانی زبان میں کوئی نہیں۔ موجودہ محققین کہتے ہیں کہ شمالی عرب کی زبانوں میں سے یہ نام ہے۔ (انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تک عبرانی لوگ اپنی اصلی زبان یعنی عربی سے تعلق رکھتے تھے۔
۹۹؎ حل لغات
قدم۔ القوم۔ یقدم قدما وقدوما۔ سبقہم۔ ان سے آگے نکل گیا۔ فلان علی قرنہ شجع واجترء علیہ اپنے دشمن پر دلیری سے حملہ کیا۔ قدم علی العیب یقدم رضی بہ عیب پر راضی ہو گیا۔ من سفرہ عاد۔ سفر سے واپس آیا۔ والبلد اتاہ شہر میں آیا۔ (اقرب) اوردہ ایرادا احضرہ المورد۔ ثم استعمل لمطلق الاحضار۔ اورد کے اصل معنی ہیں گھاٹ پر لایا۔ لیکن بعد میں مطلق حاضر کرنے کے معنی میں بھی بکثرت استعمال ہونے لگ گیا۔ اس کا ثلاثی ورد یرد ورودا ہے۔ کہتے ہیں۔ ورد البعیر وغیرہ الماء وغیرہ بلغہ وداناہ من غیر دخول۔ وقد یحصل دخول فیہ۔ وقد لا یحصل۔ یعنی یہ لفظ اونٹوں وغیرہ کے پانی وغیرہ پر جانے کے معنی دیتا ہے۔ خواہ وہ اس کے اندر گئے ہوں یا نہ۔ ورد زیدالماء خلاف صدرعنہ ورد کے معنی پانی کی طرف جانے کے بھی ہوتے ہیں۔ (اقرب)
الورد۔ العطش پیاس۔ الابل الواردۃ۔ اونٹ جو پانی پر آئیں۔ الجیش۔ لشکر۔ الماء الذی یورد۔ گھاٹ۔ القوم یردون الماء پانی پر وارد ہونے والی جماعت۔ النصیب من الماء پانی کا حصہ (اقرب) المورد۔ گھاٹ۔ پانی پینے کے لئے اترنے کی جگہ۔
تفسیر
یعنی عقلمند انسان تو اس چیز کی پیروی کرتا ہے جو اسے صحیح راستہ دکھائے اور اس کے لئے مفید ہو۔ لیکن فرعون کی ہدایت اس کے برخلاف ہلاکت کی طرف لے جاتی تھی۔ مگر پھر بھی یہ لوگ اس کے پیچھے چلتے تھے۔ اوردھم النار میں بتلایا کہ قوم نے فرعون کا ساتھ دے کر کیا نتیجہ حاصل کیا۔ یہی نہ کہ اس نے ان کو دوزخ میں لاڈالا۔ او یہ گھاٹ نہایت ہی خطرناک گھاٹ ہے۔ اورد کا لفظ اصل میں پانی پر وارد کرنے کے معنی میں آتا ہے۔ مگر اس جگہ پر یہی لفظ آگ کے لئے استعمال کرکے اس بات کو ظاہر کیا ہے کہ پانی جو روحانی اور جسمانی حیات کا باعث ہے (چنانچہ فرمایا وجعلنا من الماء کل شئی حی) اس کی بجائے انہیں آگ دی جائے گی جو حیات کو تباہ کرنے والی ہے۔ اور اس طرح ان کی اپنی کوششیں جو بجائے روحانی حیات کے حصول کے اس کے تباہ کرنے میں خرچ ہوتی تھیں ان کے لئے متمثل ہوجائیں گی۔ پھر اس کے یہ بھی معنی ہوسکتے ہیں کہ وہ داخل تو آگ میں ہوں گے مگر یہ داخلہ اسی طرح ہوگا جس طرح یہاں پیاسا پانی پر جاتا ہے۔ یعنی اس اس ذریعہ سے بھی آخر ان کی روحانی پیاس بجھ جائے گی یعنی آگ ان کے پاک کرنے کا موجب ہو جائے گی اور آخر وہ اس راستہ سے گزر کر اپنی روحانی پیاس کو بجھانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
پرانے زمانہ میں داغ دینے کی رسم ہوا کرتی تھی۔ یعنی جانور کے منہ پر یا پہلو میں نشان لگایا کرتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بہت ناپسند فرمایا۔ لیکن چونکہ علاج کے طور پر بھی داغ دیا جاتا تھا فرمایا کہ اخر الدواء الکی کہ دوا کے طور پر بھی استعمال کرنا پڑے تو آخری علاج کے طور پر داغ کو استعمال کرو۔ ایسا ہی یہاں فرمایا کہ پانی کی بجائے ان کی پیاس کا علاج آگ سے کیا جائے گا۔ اور وہ ان کا آخری اور انتہائی علاج ہوگا۔
۱۰۰؎ حل لغات
وفدہ۔ یرفد رفدا۔ اعطاہ اسے دیا۔ اعانہ۔ اس کی مدد کی۔ اور یہی معنی اس لفظ کے اس محاورہ میں ہیں کہ ’’ھو نعم الرافد اذا حل بہ الرافد۔‘‘ یعنی فلاں شخص کے پاس جب کوئی (طالب اعاد) آتا ہے تو وہ اس کی خوب ہی امداد کرتا ہے۔ الرفد العطاء واصلۃ رفد کے معنی بخشش اور انعام کے ہوتے ہیں۔ واصل الرفد مایضاف الی غیرہ لیعہدہ یعنی اصل میں رفد اس چیز کو کہتے ہیں جسے کسی دوسری چیز کو سہارا دینے کے لئے کھڑا کیا جائے۔ یعنی ٹیک وفی القران بئس الرفد المرفود۔ ای العون المعان والعطاء المعطی۔ اور قرآن کریم میں جو بئس الرفد المرفود آیا ہے۔ اس کے معنی ہیں مدد جو دی گئی۔ یا بخشش جو کی گئی۔ (اقرب)
تفسیر
یعنی برے آدمی کے پیچھے لگ کر انسان اس دنیا میں بھی ذلیل ہوتا ہے اور اگلے جہان میں بھی۔ *** سے مراد اس جگہ گالی نہیں ہے بلکہ یہاں اس کے اصل معنی یعنی دوری مراد ہے۔ اور مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں بھی وہ خدا سے دور رہے اور اگلے جہان میں بھی دور ہی رہیں گے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ الرفد سے مراد اس جگہ فرعون ہو۔ یعنی انہوں نے جو خدا کے مقابلہ میں فرعون کا سہارا لیا تھا وہ کیسا برا ثابت ہوا۔ جس کی وجہ سے یہ اب تک عذاب دیکھ رہے ہیں۔ کیونکہ ان کا سہارا یعنی فرعون خود بھی جہنم میں گرا اور ان کو بھی اس نے جہنم میں لا ڈالا۔
۱۰۱؎ حل لغات
حصد۔ یحصد ویحصد حصدا وحصادا۔ قطعہ بالمنجل درانتی سے کاٹا۔ القوم السیف قتلہم۔ تلوار سے قتل کیا۔ الرجل مات۔ جب لازم استعمال ہو تو اس کے معنی ہوتے ہیں مر گیا۔ (اقرب)
تفسیر
اس جگہ پر القری سے ودو چیزیں مراد ہوسکتی ہیں۔
(۱) اھل القری یعنی بستوں میں رہنے والے جیسا کہ دوسری جگہ آتا ہے۔ واسئل القریۃ التی کنا فیھا (یوسف ع ۱۰) اس بستی والوں سے پوچھ لے۔ اس صورت میں قائم سے مراد وہ قومیں ہوں گی جن کی نسلیں باقی رہ گئی ہیں۔ اور حصید سے مراد وہ قومیں جن کی نسلیں بھی اب بالکل یا قریباً نابود ہوگئی ہیں۔
(۲) خود بستیاں اور اس صورت میں اس آیت کے یہ معنی ہوں گے کہ بعض شہروں کے نشان ابھی تک موجود ہیں اور بعض کے نشانات بھی مٹ چکے ہیں۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے ایک تاریخی نتیجہ کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جن قوموں کا پہلے ذکر ہوچکا ہے ان میں سے بعض کے آثار اب تک باقی ہیں اور بعض کے آثار کا پتہ نہیں چلتا۔ اس صورت میں اگر بعض بستیوں کے آثار نہ ملیں تو یوروپ والوں کو یہ اعتراض کرنے کا حق نہیں کہ قرآن مجید کی بات غلط ہے کیونکہ قرآن کریم تو خود کہتا ہے کہ بعض ان میں سے بے نشان ہوچکی ہیں۔ ہاں اگر مل جاویں تو پھر بھی قرآن مجید پر کوئی اعتراض نہیں پڑ سکتا۔ کیونکہ حصید کے ایک معنے درانتی سے کٹے ہوئے کے بھی ہوتے ہیں۔ اور درانتی سے کاٹنے کی صورت میں جڑیں باقی رہ جاتی ہیں۔ پس اگر مٹے ہوئے نشان مل بھی جائیں تب بھی کوئی اعتراض نہیں پڑ سکتا۔
۱۰۲؎ حل لغات
تببہ اھلکہ۔ اسے ہلاک کر دیا۔ (اقرب)
تفسیر
قرآن مجید متواتر اس بات پر زور دیتا ہے کہ جن لوگوں کو بھی ہم نے سزا دی ہے اس سزا کا باعث خود ان کے اعمال تھے۔ ہماری طرف سے ظلماً یہ بات صادر نہیں ہوئی۔ اس طرح زور دینے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ آئندہ تقدیر کے مسئلہ کے ماتحت خدا تعالیٰ پر ظلم کا الزام لگایا جائے گا۔ قریباً ہر مقام پر جہاں جہاں سزا کا ذکر آیا ہے یہ مضمون ساتھ ہی بیان کیا گیا ہے۔ گویا خدا تعالیٰ اس قسم کی تقدیر سے انکار کرتا ہے کہ وہ بلاوجہ ایک قوم کو ترقی دتا اور دوسری کو تباہ کر دیتا ہے۔ قرآن کریم کے الفاظ یہ بھی بتاتے ہیں کہ یہ عذاب اور سزائیں سزایافتہ لوگوں کے افعال و اعمال کا مناسب حال اور طبعی نتیجہ تھیں۔
مااغنت عنہم الھتہم سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ دوسری چیزیں مثلاً آگ پانی ہوا وغیرہ تو ان کو نفع دے جاتی ہیں مگر ان کے معبود ان کو کچھ بھی فائدہ نہیں دے سکتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں کفار کی تلواروں نے تو بعض صحابہ کو شہید بھی کیا مگر مکہ کے بتوں نے تو کچھ نہ کیا۔ فرمایا یہ عجیب بیوقوفی ہے کہ جو چیزیں کوئی بھی نفع نہیں دیتیں ان کو یہ لوگ خدا بناتے ہیں۔
لما جاء امر ربک سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ اصل حقیقت اسی وقت ظاہر ہوسکتی ہے جب خدا تعالیٰ بتوں کا پول کھولنے کا فیصلہ کرے۔ ورنہ اس سے پہلے پہلے تو کئی قسم کے فوائد لوگ معبودانِ باطلہ کی طرف منسوب کرتے رہتے ہیں۔ مگر جب اللہ تعالیٰ کا فیصلہ آجاتا ہے تو پھر کسی کے بنائے کچھ نہیں بنتی اور شرک کی حقیقت کھل جاتی ہے۔
قرآن مجید ایک طرف تو یہ فرماتا ہے کہ بت ان کو نہ کوئی ضرر پہنچاتے ہیں نہ نفع۔ مگر مازادوھم غیر تتبیب سے معلوم ہوتا ہے کہ بت ضرر پہنچا سکتے ہیں۔ سو اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ ضرر دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک اختیاری ضرر ہوتا ہے جیسے کوئی انسان جان بوجھ کر کسی کو تکلیف پہنچائے اور ایک بلا اختیار جیسے کوئی مکان گر جائے اور اس کے ن یچے کوئی دب جائے جس میں اس مکان کے ارادہ کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کے ایک طبعی فعل کا ایک طبعی نتیجہ نکل رہا ہوتا ہے۔ جس سے لوگوں کو نقصان پہنچ جاتا ہے۔ ان دونوں قسم کے نقصانوں کو سمجھ لینے کے بعد اس بات کا سمجھ لینا کچھ مشکل نہیں رہتا کہ جس جگہ قرآن مجید میں یہ فرمایا ہے کہ غیراللہ معبود کوئی ضرر نہیں پہنچاسکتے اس جگہ ضرر سے مراد پہلی قسم کا ضرر ہے۔ اور جس جگہ یہ فرمایا ہے کہ ان سے تعلق ہلاکت کا موجب ہوتا ہے وہاں دوسری قسم کا ضرر مراد ہے۔ اور اس میں کیا شک ہے کہ جو ارادہ ضرر تو سب سے زیادہ معبودان باطل سے ہی پہنچتا ہے۔ کیونکہ سب سے بڑا جرم شرک ہی ہے۔
فتح مکہ کے وقت جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کیا کہ فلاں فلاں اشرار کو پناہ نہیں دی جاوے گی تو وہ لوگ دوڑ کر خانہ کعبہ کے غلاف کو چمٹ گئے۔ اور اس کے اندر چھپ گئے۔ مگر وہ وہیں مارے گئے۔ اگر ان کو یہ خیال نہ ہوتا کہ بت ان کی کوئی مدد کریں گے تو ممکن تھا کہ بھاگ کر بچ جاتے۔ پس غیرتتبیب میں اس طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ شرک کی وجہ سے مشرکوں کی تدابیر میں سستی آجاتی ہے۔
۱۰۳؎
اس آیت میں ان تمام واقعات کے بیان کرنے کی غر بتائی ہے۔ جو اس سے پہلے بیان ہوچکے ہیں۔ اور بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب جب کسی قوم پر نازل ہوتا ہے تو اس کے نام و نشان تک کو مٹا دیتا ہے۔ اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کو ہوشیار ہوجانا چاہئے اور ایسے طریق اختیار نہیں کرنے چاہئیں جو اللہ تعالیٰ کے عذاب کو ان پر کھینچ لائیں۔
اس آیت میں ظالمۃ کے معنی مشرکۃ کے ہیں اور ان معنوں میں یہ لفظ قرآن کریم میں متعدد جگہ استعمال ہوا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ معنی ثابت ہیں اور مراد یہ ہے کہ جس وقت کسی قوم میں سے حقیقی توحید مٹ جاتی ہے اس وقت اس پر جو عذاب آتا ہے وہ بہت زیادہ تباہی کا موجب ہوتا ہے اور جو تباہی طبعی اسباب تنزل کے ماتحت آتی ہے وہ آہستہ آہستہ آتی ہے۔
۱۰۴؎
اس آیت کے متعلق یہ سوال ہوسکتا ہے کہ جب نشان کو دیکھ کر وہی شخص آخرت کے عذاب سے ڈرتا ہے جو پہلے ہی اس سے ڈرنے والا ہوتا ہے۔ اور جو پہلے سے ڈرنے والا نہیں ہوتا وہ اس نشان کو دیکھ کر بھی نہیں ڈرتا تو اس صورت میں اس عذاب کا کیا فائدہ ہوا۔ اس سوال کے جواب میں یاد رکھنا چاہئے کہ یہاں آیت سے مراد قیامت کا ثبوت نہیں ہے۔ بلکہ اس کا نصیحت کا موجب بننا مراد ہے۔ اور اس میں کیا شک ہے کہ قیامت سے نصیحت وہی لوگ حاصل کرسکتے ہیں کہ جو اخروی عذاب پر ایمان رکھتے ہوں۔ پس چونکہ اس جگہ سے مضمون مومنوں کی طرف پھرنے والا تھا۔ اس لئے فرمایا کہ عذابوں کو دیکھ کر ان کے دل میں آخرت کے عذاب کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ اور وہ خشیت کی وجہ سے اگلے جہان کے لئے اور زیادہ محنت اور کوشش شروع کردیتے ہیں۔ یعنی وہ دنیوی سزا کو دیکھ کر اس پر اخروی عذاب کو قیاس کرلیتے ہیں۔
مجموع لہ الناس۔ لوگ اس دن کی خاطر جمع کئے جائیں گے۔ مطلب یہ کہ وہ دن اپنی ذات میں انسانی تکمیل کے لئے ضروری ہے اس وجہ سے وہ کسی اور مقصد کا ذریعہ نہیں بلکہ خود مقصود ہے۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ایک مقررہ دن میں کل مخلوق کو جمع کرنا بلا سبب نہیں اور نہ اتفاق ہے۔ بلکہ خاص مقصد کے ماتحت ہے۔ اور بالارادہ ہے اور وہ مقصد یہ ہے کہ اس دن ہر اک چیز نمایاں ہوجائے گی۔ اصل بات یہ ہے کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی انسان کا کوئی فعل بھی اس کا خالص ذاتی فعل نہیں ہوتا بلکہ تمام انسانی افعال پہلے انسانوں یا پہلے حالات یا اپنے ہم صحبتوں یا ان کے حالات اور اپنے بعد آنے والوں اور ان کے حالات سے متاثر ہوتے ہیں۔ اور ہر فعل کے اچھا یا برا قرار دینے میں یا زیادہ یا کم اچھا یا برا قرار دیتے وقت ان حالات اور تاثیروں کا لھاظ ضروری ہوتا ہے۔ مثلاً ایک انسان جرم کا عادی ہو۔ لیکن اس کے جرم میں اس کے دماغ کی بناوٹ کا دخل ہو جو بناوٹ اسے کسی پچھلے بزرگ سے جو مجنون یا نیم مجنون ہو ورثہ میں ملی ہو اس صوورت میں اس مجرم کے افعال کا اندازہ خود اس کے اپنے افعال کو دیکھ کر نہیں لگایا جاسکتا۔ جب تک اس کے مورث اعلیٰ کی دماغی حالت ہمارے سامنے نہ ہو۔ ہم اس کے افعال کی قیمت لگانے میں ضرور غلطی کریں گے۔ پس انسانی اعمال کی حقیقت کے پورے انکشاف کے لئے اور دوسرے لوگوں کو یہ تسلی دلانے کے لئے کہ مختلف انسانوں کی سزا اور جزاء میں جو بظاہر غیر واجب تفاوت نظر آتا ہے وہ تفاوت ظلماً نہیں بلکہ ان کے صاحب اختیار ہونے یا نہ ہونے کے سبب سے ہے اس لئے ضروری ہے کہ ایک دن ایسا آئے کہ جس میں سب کے سب بنی نوع انسان اپنے تمام حالات سمیت جمع ہوں تاکہ ہر اک شخص کے تمام افعال کے علل و اسباب نظروں کے سامنے ہوں اور سزاء اور جزاء کے وقت اس کو بھی اور دوسروں کو بھی معلوم ہوجائے کہ سزاء یا جزاء دیتے وقت پورے انصاف سے کام لیا گیا ہے۔
۱۰۵؎ حل لغات
للام الجارہ اثنان وعشرون معنی لام جارہ کے بائیس معنی ہیں۔ الثامن موافقۃ الی آٹھویں معنے اس کے الی والے ہیں یعنی ’’تک‘‘ (اقرب)
تفسیر
اجل دو قسم کی ہوا کرتی ہے۔ (۱) جو ٹل سکتی ہے (۲) جو ٹل نہیں سکتی۔ جو اجل ٹل سکتی ہے اس کے لئے ایک دائرہ مقرر ہوتا ہے۔ وہ اس دائرہ سے تو آگے پیچھے نہیں ہوسکتی مگر اس کے اندر حالات کے ماتحت گھٹ بڑھ سکتی ہے۔ جیسے انسانی عمر کا دائرہ ہے۔ ایک مقررہ میعاد کے اندر تو کمی بیشی ہوسکتی ہے مگر اس میعاد سے آگے پیچھے نہیں ہوسکتی وہ اجل جو کسی صورت میں نہیں ٹل سکتی وہ دنیا کی تباہی کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ وہ مقرر ہے معدود ہے اور اٹل ہے۔
۱۰۶؎
الا باذنہ یعنی وہ جزا کا وقت ہوگا اور اس وقت عدالت قائم کی جائے گی اور بجز اذن الٰہی کے کوئی کلام نہیں کرے گا۔ یہ مطلب نہیں کہ جس طرح اس دنیا کی عدالتوں میں افسر مجاز سے اجازت حاصل کئے بغیر بولنے کی اجازت نہیں ہوتی اگلے جہان میں بھی ایسا ہی ہوگا۔ کیونکہ اس دنیا میں تو اس لئے اجازت نہیں ہوتی کہ ایک ہی وقت میں کئی آدمی بول کر شور نہ ڈال دیں۔ مگر خدا تعالیٰ کے سامنے یہ دقت نہیں ہے۔ پس مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص بغیر ارشاد الٰہی کے بولے گا ہی نہیں۔ کیونکہ ہر اک نفس جانتا ہوگا کہ عالم الغیب خدا کے سامنے کچھ عذر پیش کرنا فضول ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ اپنے کامل رحم سے کام لے کر خود لوگوں کی وکالت کرے گا۔ اور انہیں ان امور کو سامنے لانے کا ارشاد فرمائے گا جو ان کی ذات کے لئے یا ان کے ساتھیوں کی ذات کے لئے جرم کی تخفیف یا نیکی کی عظمت ظاہر کرنے کا موجب ہوں۔ فمنہم شقی وسعید۔ شقی وہ ہے جس کے اندر نیکی کا مادہ نہ ہو اور اس کا قلب نیکی کی تحریک سے متاثر نہ ہو۔ اور سعید وہ ہے جس میں نیکی کا مادہ ہو اور نیکی کی تحریک سے متاثر ہونے والا ہو۔ اس دن شقی کی اہانت اور سعید کا اعزا ظاہر کیا جائے گا۔
۱۰۷؎ حل لغات
زفیر مصدر سے زفر۔ یزفر۔ زفرا۔ وزفیرا۔ اخرج نفسہ بعد مدہ ایاہ۔ لمبا سانس کھینچ کر ہوا باہر نکالی۔ النار سمع صوت یتوقدھا آگ زور سے بھڑکی۔ جس کے شعلوں سے آواز پیدا ہوئی۔ والزفیر۔ الداھیۃ۔ نیز زفر کے معنی بڑی مصیبت کے ہیں۔ واول صوت الحمار۔ اور گدھے کی آواز کے پہلے حصے کو یعنی اس کے بولنے کے وقت جو اس کی ایک لمبی آواز پیدا ہوتی ہے اسے بھی زفیر کہتے ہیں۔ (اقرب) شہق الرجل یشہق شہیقا تردد البکاء فی صدرہ۔ ہچکیاں لے لے کر رویا شہیق الحمار۔ اخر صوتہ۔ گدھے کی آواز کا پچھلا حصہ یعنی جو چھوٹی چھوٹی آوازوں کا مجموعہ آخر میں سنائی دیتا ہے۔ (اقرب)
تفسیر
قرآن مجید نے کفار کے لئے زفیر اور شہیق کے الفاظ استعمال کرکے انہیں گدھے سے مشابہت دی ہے۔ جس کی ایک وجہ تو قرآن کریم میں دوسری جگہ یہ بتائی ہے کہ جس طرح گدھے پر کتابیں لاد دو تو وہ عالم نہیں ہو جاتا بلکہ ویسا کا ویسا ہی رہتا ہے اسی طرح صداقت سے غافل لوگ ہوتے ہیں۔ کہ ظاہری علم تو انہیں حاصل ہوتا ہے لیکن عرفان اور روحانیت سے وہ بالکل خالی ہوتے ہیں۔
پھر گدھا بے وقوفی کے لحاظ سے بھی مشہور ہے۔ اور قرآن مجید نے گدھے کی بزدلی کا بھی ذکر فرمایا ہے جیسے آتا ہے کانھم حمر مستنفرۃ فرت من قسورۃ (المدثر ع۲) ایسا ہی کافر بھی بزد ہوتا ہے۔ اگر ہم غور سے دیکھیں تو ایمان نہ لانے کی دو ہی بڑی وجہیں ہوتی ہیں۔ (۱) انسان ان علوم سے فائدہ نہیں اٹھاتا جو اس کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں۔ (۲) وہ سچائی کو سمجھ جاتا ہے۔ مگر خوف کی وجہ سے نہیں مان سکتا اور ان دونوں حالتوں میں کافر انسان گدھے سے مشابہت رکھتا ہے۔
لھم فیھا زفیر وشھیق سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ آواز دوزخ میں جانے والوں کی ہوگی۔ پس جن دوسری آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دوزخ کی آگ سے آواز آئے گی ان سے مراد بھی یہی ہے کہ دوزخیوں کے رونے اور چلانے کی آواز ہی ہوگی۔
۱۰۹؎ حل لغات
سعدوا۔ علی المجھول وسعد یسعد سعادۃ۔ عند شقی۔ سعد اور سعید کے معنی یہ ہیں کہ فلاں شخص میں شقاوت کے خلاف حالت پائی گئی۔ فھو مسعود علی الاول وسعید علی الثانی واللفظ باقی مرۃ بصیغۃ الفاعل ومرۃ بصیغۃ المفعول والمعنی واحد۔ پس پہلے صیغے یعنی مجہول کے لحاظ سے صاحب سعادت کو مسعود کہتے ہیں۔ اور دوسرے صیغے یعنی معروف کے لحاظ سے اسے سعید کہتے ہیں۔ اور اس طرح پر بسااوقات ایک لفظ کے اسم فاعل اور اسم مفعول ہر دو کے صیغے ہم معنی آتے ہیں اور وہ لفظ دونوں صیغوں میں ایک ہی معنی دیتا ہے۔ نحوعبد مکاتب ومکاتب وبیت عامر ومعمور۔ جیسے مکاتب (بصیغہ اسم فاعل) اور مکاتب (بصیغہ اسم مفعول) اور اسی طرح عامر اور معمور ہم معنی ہیں۔ ونظائرہ کثیرۃ۔ اور اس کی نظائر عربی زبان میں بکثرت پائی جاتی ہیں۔ السعد الیمن۔ سعد کے معنی برکت کے ہیں۔ اسعدہ علیہ اعانہ اسعد کے معنی ہیں دوسرے شخص کے خلاف اس کی مدد کی۔ (اقرب) مجزوز۔ جذ میں سے اسم مفعول ہے۔ جذا الشئی کشرہ وقطعہ مستاصلا۔ اسے توڑ دیا۔ا ور جڑ سے کاٹ دیا۔ جذ۔ اسرع جلدی سے دوڑا۔ النخل صرمہ کھجور کو کاٹ دیا۔ (اقرب) پس غیرمجذوذ کے معنی ہوئے جو کاٹی نہیں جائے گی۔ بند نہ ہوگی۔
تفسیر
اس آیت میں ایک ایسے مسئلہ پر روشنی ڈالی گئی ہے جس میں اسلام کو دوسرے تمام مذاہب سے سخت اختلاف ہے اور وہ مسئلہ نجات کا ہے۔
ہندوؤں کا یہ خیال ہے کہ دوزخ اور جنت (جزاء سزاء) دونوں ہی محدود ہیں۔ انسان اپنے اعمال کی جزاء یا سزاء بھگت کر پھر اسی دنیا میں آجاتا ہے۔ اگرچہ ان کے بعض فرقوں کا باہم اختلاف ہے۔ مگر تمام میں یہ بات بطور بنیاد کے موجود ہے کہ جزاء اور سزاء ہر دو عارضی ہیں۔
آرین قوم کے علاوہ جن میں سے ہندو ہیں۔ دوسرا بڑا سلسلۂ اقوام سامی ہے۔ اس سلسلہ میں یہودی نسلاً اور عیسائی مذہباً شامل ہیں۔ یہود کے نزدیک جنت غیر یہودی کے لئے بالکل نہیں۔ اور دوزخ یہودی کے لئے قریباً حرام ہے۔ زیادہ سے زیادہ ایک یہودی گیارہ مہینے دوزخ میں رہ سکتا ہے۔ اس کے سوا باقی لوگوں کے لئے جہنم ابدی اور غیرمنقطع ہے۔
عیسائیوں کے نزدیک جہنم بھی غیرمنقطع ہے اور جنت بھی غیرمنقطع۔ عیسائیوں کے بعض فرقوں کے نزدیک آخرکار جنت مٹ جائے گی اسلام ان تمام عقائد سے اختلاف رکھتا ہے۔ اسلام کی وہ ثابت شدہ تعلیم جسے پہلے بھی اکثر آئمہ مانتے چلے آئے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خصوصیت سے اور نئے رنگ میں اس پر زور دیا ہے۔ وہ یہی ہے کہ جنت ہمیشہ کے لئے اور غیرمحدود زمانہ تک کے لئے ہے لیکن دوزخ غیرمنقطع نہیں۔ ایک زمانہ آئے گا کہ دوزخ ختم ہو جائے گا۔
مفسرین نے اس الاماشاء ربک کی جو دوزخ کے متعلق آتا ہے تفسیر میں بہت اختلاف کیا ہے۔ اور مختلف توجیہات بیان کی ہیں۔
(۱) بعض نے مابمعنی من مانا اور الا ماشاء کو الا من شاء ربک قرار دیا ہے۔ یعنی جسے خدا چاہے گا نکال لے گا۔ یعنی ان کے نزدیک دوزخ تو غیرمنقطع ہی ہے مگر موحد گنہگار ایک زمانہ کے بعد اس میں سے نکال لئے جائیں گے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ما من کے معنی میں بھی آجاتا ہے مگر وہیں آتا ہے جب کہ اس من میں بعض ما (غیر ذوی العقول چیزیں) بھی شامل ہوں۔ لیکن اس موقع پر ایسے وجود شامل نہیں ہیں۔ اس لئے یہ تاویل درست نہیں معلوم ہوتی۔ بعض اور بواعث کی وجہ سے بھی اس کا استعمال من کی جگہ جائز ہے۔ مگر وہ بواعث بھی یہاں موجود نہیں ہیں۔ ان معنوں کی تائید میں جو بعض مثالیں ما کی ایسی پیش کی گئی ہیں جن سے صرف انسان ہی مراد ہیں ۔ مثلاً ماطاب لکم من النساء ان کو محققین نے تسلیم نہیں کیا۔ بلکہ ان کے نزدیک ما اس قسم کی آیات میں اور معنوں میں آیا ہے۔ اور یہی درست ہے۔ نیز یہ امر بھی قابل غور ہے کہ قرآن کریم نے موحد گناہ گار کے لئے بھی وہی الفاظ استعمال کئے ہیں جو ایک کافر کے لئے۔ پس فرق کرنے کے لئے کوئی دلیل چاہئے جو موجود نہیں ہے۔ سورۂ نساء میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی نسبت فرماتا ہے کہ ومن یعص اللہ ورسولہ ویتعد حدودہ یدخلہ نارا خالدا فیھا ولہ عذاب مھین۔ (ع۳) یعنی وہ مسلمان جو اس آیت سے پہلے گزرے ہوئے احکام کو تسلیم نہیں کریں گے۔ دوزخ میں جائیں گے اور اس میں رہتے ہی چلے جائیں گے اسی طرح اسی سورۃ کے رکوع ۱۳ میں فرماتا ہے ومن یقتل مؤمنا متعببدا فجزاؤہ جھنم خالدا فیھا وغضب اللہ علیہ ولعنہ واعد لہ عذابا عظیما۔ اور جو کوئی مومن کو جان بوجھ کر قتل کردے۔ اس کی سزا جہنم ہوگی۔ وہ اس میں ہمیشہ رہے گا۔ اور اللہ اس پر غضب نازل کرے گا۔ا ور اسے اپنے قرب سے محروم کر دے گا۔ اور اس کے لئے بہت برا عذاب تیار کرے گا۔ سورۂ جن رکوع ۲ می ہے ومن یعص اللہ ورسولہ فان لہ نارجھنم خالدین فیھا ابدا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے پہلے کفار کا ذکر ہے۔ لیکن اس آیت میں جو قاعدہ بتایا گیا ہے وہ صرف کفار پر چسپاں نہیں ہوتا۔ بلکہ ہر اک نافرمانی کرنے والے پر خواہ موحد ہو یا غیرموحد پس اس کے حکم کی عمومیت کو ہم کسی صورت میں مقید نہیں کرسکتے۔
(۲) بعض نے کہا ہے کہ الا ماشاء ربک سے مراد دوزخ میں داخل ہونے سے پہلے کا زمانہ ہے۔ یعنی الالوقت الذی لایدخلہم اللہ فی النار۔ ای قبل مایدخلھم فی النار۔ لیکن یہ معنی بھی نہیں ہوسکتے کیونکہ اس سے پہلے خالدین فیھا آچکا ہے اور الا خلود کے زمانہ سے ہی اپنے بعد والے مضمون کا استثناء کرتا ہے۔ اور یہ استثناء اسی صورت میں درست ہوسکتا ہے جبکہ مستثنیٰ وجودوں کا پہلے دوزخ میں داخلہ مان لیا جائے نیز خلود سے آئندہ کا زمانہ مراد ہوتا ہے۔ نہ کہ پچھلا۔ جیسا کہ فرمایا افان مت فھم الخلدون۔ (انبیاء ع۳) اگر پہلا زمانہ بھی خلود کے منافی ہوتا تو وہ تو آہی چکا تھا۔ اور وہ پیدا ہوچکے تھے۔ پس خلود کی نفی تو پیدائش ہی سے ہوجاتی تھی۔
جنتیوں کے متعلق جو استثناء ہے اس کے متعلق بھی بعض مفسرین لکھتے ہیں کہ اس سے اعراف والے لوگ یا دوزخ سے نکل کر جنت میں آنے والے لوگ اور ان کا زمانہ مراد ہے۔ اس کا بھی یہی جواب ہے کہ خلود بعد کے زمانہ کے امتعاد پر دلالت کرتا ہے۔ نہ کہ پہلے زمانہ کے امتداد پر۔
اصل میں ساری مشکل ان لوگوں کو اس وجہ سے پیش آئی کہ اس آیت کے الفاظ سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ دوزخ کا عذاب آخر ختم ہونے والا ہے لیکن ان لوگوں کا عقیدہ یہ تھا کہ دوزخ کا عذاب بھی جنت کی نعماء کی طرح غیرمجذوذ اور نہ ختم ہونے والا ہے۔ اس لئے وہ ان توجیہات پر مجبور ہوئے۔ حالانکہ حق یہ ہے کہ نہ صرف قرآن مجید ہی دوزخ کو منقطع قرار دیتا ہے بلکہ احادیث بھی اسی کی تائید کرتی ہیں۔ چنانچہ عبداللہ ابن عمرو ابن العاص کی روایت سے احمد (ابن حنبل) نے نقل کیا ہے کہ لیاتین علی جھنم یوم تصفق فیہ ابوابھا لیس فیہا احد۔ وذلک بعد مایلبثون فیہا احقابا (فتح البیان سورۂ ہود آیت زیربحث) ضرور جہنم پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ اس کے دروازے بجیں گے اور اسمیں کوئی شخص نہ ہوگا اور یہ اس وقت ہوگا جبکہ لوگ کئی صدیاں اس میں رہ چکے ہوں گے۔ گویا خلود سے مراد صدیوں رہنا ہے۔ اس حدیث کے متعلق بعض محدثین کہتے ہیں کہک اس کیء راویوں میں ایک کذاب ہے۔ لیکن یہ اعتراض ان کا درست نہیں کیونکہ یہ روایت قرآن کریم کے مطابق ہے۔ سورہ بنا میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے لابثین فیھا احقابا۔ کہ کفار دوزخ میں صدیوں رہیں گے۔
فتح البیان میں یہ بھی لکھا ہے کہ یہی قول ابن مسعودؓ اور ابوہریرہؓ کا بھی ہے اور کئی راویں سے مروی ہے۔ اور امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ یہی عقیدہ حضرت عمرؓ حضرت ابن عباسؓ اور حضرت انسؓ اور بہت سے گزشتہ مفسرین کا بھی تھا۔ حافظ ابن القیم جو بڑے صوفی اور امام ابن تیمیہ کے شاگرد ہیں انہوں نے اپنی کتاب ہادی الارواح الیٰ بلاد الافراح میں اس مسئلہ پر مفصل بحث کی ہے۔
بعض ائمہ نے خالدین کے لفظ کا یہ جواب دیا ہے کہ بے شک وہ دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے لیکن جب اللہ تعالیٰ دوزخ کو ہی مٹا دے گا اور اس طرح سے اپنا رحم جاری کرے گا تو پھر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا۔ یعنی جب دوزخ ہی نہ رہے گا تو دوزخی اس میں کس طرح رہ سکتے ہیں۔ علامہ ابن تیمیہ اور ابن القیمؓ نے بھی دوزخ کے فنا ہوجانے کے مسئلہ کی تائید کی ہے۔ (فتح البیان) علامہ بغوی نے اوپر والی روایت حضرت ابوہریرہؓ سے نقل کی ہے۔ جس سے اس روایت کی مزید تصدیق ہوجاتی ہے۔ ابن جریر نے شعبی کا قول نقل کیا ہے کہ جھنم اسرع الدارین عمرانا واسر عہما خرابا۔ یعنی جہنم دونوں گھروں سے پہلے آباد ہونے والی اور پہلے خراب ہونے والی ہے۔
وقال ابن مسعودؓ لیاتین علیہا زمان تخفق بھا ابوابہا۔ یہی قول جابرؓ ابوسعید خدری اور عبداللہ بن عمرؓ کی طرف سے بھی مروی ہے۔ (فتح البیان)
حضرت ابوسعیدخدریؓ کی بھی ایک روایت ہے جو بخاری اور مسلم دونوں میں پائی جاتی ہے۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ جہنم ہمیشہ کے لئے نہیں ہے۔ حدیث لمبی ہے اس کا وہ ٹکڑا جس سے استدلال ہوسکتا ہے یہ ہے کہ قیامت کو اللہ تعالیٰ مختلف لوگوں کو شفاعت کی اجازت دے گا۔ آخر مومنوں کو بھی شفاعت کی اجازت ملے گی۔ پہلے وہ اپنے جان پہچان والے لوگوں کو بچائیں گے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان سے کہے گا کہ جس کے دل میں ایک دینار کے برابر بھی نیکی ہو اسے نکال لاؤ۔ پھر نصف دینار کے برابر نیکی والوں کو پھر جس کے دل میں ایک ذرہ بھی نیکی ہوگی اس کو بھی نکلوالے گا۔ اس کے بعد مومن کہیں گے کہ ربنالم نذر فیھا خیرا فیقول اللہ شفعت المائکۃ وشفع النبیون وشفع المؤمنون ولم یبق الارحم الراحمین۔ فیقبض قبضۃ من النار فیخرج منہا قوما لم یعملوا الخیر قط۔ یعنی اے ہمارے رب ہم نے دوزخ میں نیکی کا ایک ذرہ بھی باقی نہیں چھوڑا۔ تب اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ملائکہ نے بھی شفاعت کرلی اور نبیوں نے بھی کرلی اور مومنوں نے بھی کرلی۔ اور صرف ارحم الراحمین باقی رہ گیا ہے۔ اس پر خداتعالیٰ دوزخ سے ایک مٹھی بھرے گا اور دوزخ سے ایسے ایسے لوگوں کو نکالے گا جنہوں نے کبھی کوئی نیک کام نہ کیا ہوگا۔ اس روایت سے ظاہر ہے کہ دوزخ سے وہ لوگ بھی نکال لئے جائیں گے کہ جنہوں نے کبھی نیکی نہیں کی ہوگی اور اس درجہ سے ادنیٰ درجہ کوئی ہے ہی نہیں۔ کہ جس کی نسبت ہم خیال کریں کہ وہ دوزخ میں رہ گیا ہوگا۔ نیزاس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مٹھی بھر کر دوزخ سے نکال لے گا۔ اور خدا تعالیٰ کی مٹھی سے مراد جسمانی مٹھی تو ہے نہیں اس سے مراد احاطہ ہی ہوتا ہے۔ اور خداتعالیٰ کے احاطہ سے کون شئے باہر رہ سکتی ہے۔
تیسرا استدلال اس روایت سے یہ بھی ہوتا ہے کہ جن کو سزا ملنی ہوگی ان کو ان کے بدیوں کی سزا پہلے مل جائے گی اور خیر کو باقی رکھ لیا جائے گا۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ من یعمل مثقال ذرۃ خیرا یرہ (زلزال) جس نے ایک ذرہ نیکی بھی کی ہوگی وہ اسے ضرور دیکھے گا۔ پس بعد میں نجات کا ملنا ضروری ہوا۔
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اکثر صحابہ اور بزرگ تابعین اس مسئلہ میں ہمارے ساتھ ہیں۔ اور خود قرآن مجید بھی اس کی تائید کرتا ہے۔
(۱) پہلا ثبوت خود یہی آیت ہے۔ اس جگہ پر دوزخ اور جنت دونوں کے لئے ایک ہی لفظ ’’الا ما شاء ربک‘‘ وارد ہوا ہے مگر دوزخیوں کے متعلق آگے فرمایا ’’ان ربک فعال لما یرید‘‘ اور جنت کے ذکر میں ’’الا ماشاء ربک‘‘ کے بعد ’’عطاء غیر مجذوذ‘‘ فرمایا۔ ’’ان ربک فعال لما یرید‘‘ میں زور دے کر بتلایا ہے کہ دوزخیوں کو دوزخ سے ضرور نکالا جائے گا۔ پہلے ان کا لفظ رکھا پھر رب کا لفظ پھر فعال کا لفظ جو کہ مبالغہ کا لفظ ہے اور پھر اس جملہ کو جملہ اسمیہ کے رنگ میں لاکر اور بھی تاکید کردی ۔ اگر ان کو نکالان ہی نہ تھا تو پھر اتنا زور دینے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ پھر جیسا کہ جنت کے لئے ’’عطاء غیر مجذوذ‘‘ رکھا ہے اگر دوزخ بھی اسی طرح سے غیرمنقطع تھی تو اس کے متعلق بھی ’’عقابا غیرمجذوذ‘‘ آجاتا۔ جنت کے متعلق تو فرمایا کہ وہ رہیں گے تو ہماری مرضی کے مطابق مگر ہماری مرضی یہی ہے کہ ہمیشہ رہیں۔ لیکن دوزخ کے متعلق ایسا مضمون کسی جگہ نہیں فرمایا۔ یہ بات اتنی واضح ہے کہ ابن حجر جو اس مسئلہ میں ابن تیمیہ کے خلاف ہیں انہیں بھی کہنا پڑا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت کے متعلق تو اپنی مشیت بتادی مگر دوزخیوں کے متعلق خاموش رہا ہے۔ خاموشی کا دعویٰ بھی غلط ہے اللہ تعالیٰ نے تو ان ربک فعال لما یرید فرماکر بتلا دیا ہے کہ الا ماشاء ربک میں جس طرف اشارہ کیا گیا ہے اسے اللہ تعالیٰ ضرور پورا کرکے رہے گا۔
(۲) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ولوشاء ربک فجعل الناس امۃ واحدۃ ولایزالون مختلفین الا من رحمہ ربک۔ ولذلک خلقھم (ھودع۱۰) اگر تیرا رب چاہتا تو سب لوگوں کو امت واحدہ بنادیتا مگر وہ ہمیشہ مختلف رہیں گے۔ سوائے ان کے جن پر تیرا رب رحم کرے اور اس نے ان لوگوں کو رحم کے لئے ہی پیدا کیا ہے۔
ولذلک خلقھم سے رحم ہی مراد ہے۔ ابن کثیر نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے للرحم خلقھم ولم یخلقھم للعذاب کہ اللہ تعالیٰ نے رحم کے لئے ہی بندوں کو پیدا کیا ہے اور عذاب کے لئے نہیں پیدا کیا۔ اور ابن وہب نے طاؤس کے متعلق روایت کی ہے کہ دو آدمی آپس میں جھگڑ رہے تھے۔ طاؤس نے انہیں کہا کہ تم کیوں جھگڑتے ہو۔ ایک نے ان میں سے کہا لذالک خلقنا۔ یعنی خدا نے ہمیں جھگڑنے اور اختلاف کرنے کے لئے ہی پیدا کیا ہے۔ طاؤس نے کہا کذبت تو نے جھوٹ بولا۔ اس پر اس نے یہی آیت پڑھی اور کہا کہ انسان اختلاف کے لئے پیدا کئے گئے ہیں مگر طاؤس نے جواب دیا خلقھم للرحمۃ والجماعۃ۔ یعنی اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے رحم اور اتفاق کے لئے پیدا کیا ہے۔ ابن کثیر میں ہے کہ مجاہد، ضحاکا ر قتادہ کا بھی یہی مذہب تھا کہ ’’ذالک‘‘ کا اشارہ رحم کی طرف ہے۔ اور درمنثور میں لکھا ہے کہ ابن جریر نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ للرحمۃ خلقھم۔ ابن ابی حاتم نے عکرمہ اور قتادہ سے روایت کی ہے کہ ’’للرحمتہ والعبادۃ‘‘ کہ رحمت اور عبادت کے لئے انسان کو پیدا کیا ہے۔
اب ظاہر ہے کہ اگر کچھ انسان بھی ہمیشہ ہمیش کے لئے دوزخ میں پڑے رہیں تو ان کی پیدائش رحمت کے لئے قرار نہیں دی جاسکتی۔ اور اس صورت میں نعوذباللہ یہ آیت غلط ہوجائے گی۔
(۳) جنت کے متعلق کئی دوسرے مقامات پر فرمایا ہے کہ وہ ہمیشہ رہے گی جیسے فرمایا فلہم اجر غیر ممنون۔ (سورۃ التین) لہم اجر غیرممنون (سورۃ انشقاق) لہم اجر غیرممنون (حٰمٓ سجدہ) لیکن دوزخ کے متعلق ایسا کہیں نہیں فرمایا جس سے معلوم ہو کہ جنت کی جزاء اور دوزخ کی سزا میں فرق ہے۔
(۴) اعراف ع۱۹ میں فرمایا ہے عذابی اصیب بہ من اشاء ورحمتی وسعت کل شیء فساکتبھا للذین یتقون ویؤتون الزکوۃ والذین ھم بایتنا یؤمنون۔ میں اپنا عذاب تو جس کو چاہوں گا پہنچاؤں گا۔ اور میری رحمت ہر اک چیز پر وسیع ہے۔ پس میں اسے بطور حق کے ان لوگوں کے لئے لکھ دوں گا جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور جو لوگ کہ ہمارے نشانوں پر ایمان لاتے ہیں۔
اس آیت سے سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہر چیز پر وسیع ہے۔ عذاب ایک درمیانی چیز ہے۔ جن کو وہ عذاب دے گا ان کو بھی آخر اپنی رحمت سے ڈھانپ لے گا۔ عذاب کو محدود لوگوں کے لئے بناکر رحمت کو نہ صرف سب انسانوں بلکہ سب اشیاء کے لئے عام کرنا بالکل واضح کر دیتا ہے کہ اہلِ دوزخ کا عذاب بھی ختم ہو جائے گا۔ ورنہ ’’کل شیء‘‘ غلط ہوجاتا ہے۔ سورہ مومن میں بھی اس مضمون کی ایک آیت ہے فرماتا ہے ’’ربنا وسعت کل شیء رحمۃ وعلما۔‘‘ (مومن ع۱) اے خدا تو ہر چیز کا اپنی رحمت اور علم کے ذریعہ سے احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اب اگر بعض لوگ ہمیشہ کے لئے عذاب میں رہ کر رحمت الٰہی سے محروم ہوسکتے ہیں تو پھر یہ بھی ممکن ہونا چاہئے کہ بعض چیزیں خدا کے علم سے بھی نکل سکیں۔ کیونکہ علم اور رحمت کا ذکر ایک ساتھ فرمایا ہے۔ مگر یہ امر بالبداہت غلط ہے۔ پس اسی طرح بعض لوگوں کا رحمت سے ابدی طور پر محروم ہونا بھی بالبداہت غلط ہے۔
شاید اس جگہ کوئی یہ اعتراض کرے کہ پھر بعض لوگوں کا عارضی طور پر سزا پانا بھی درست نہیں ورنہ کہنا پڑے گا کہ بعض لوگ عارضی طور پر خدا کے علم سے بھی نکل جاتے ہیں۔ اس اعتراض کا جواب یہ ہیکہ جب یہ تسلیم کیا جائے کہ آخر سزا دور ہوجائے گی تو ماننا پڑے گا کہ سزا درحققیت اصلاح کا ذریعہ ہوگی اور جو سزا اصلاح کا ذریعہ ہو وہ رحمت کا ہی ایک ظہور ہوتی ہے جیسے استاد کی سزا۔ پس اس عقیدہ کے رو سے کوئی بندہ خدا کی رحمت سے ایک منٹ کے لئے بھی جدا نہیں ہوتا بلکہ ہر وقت وہ اس کی رحمت کے سایہ کے نیچے ہوتا ہے۔ لیکن دائمی عذاب کو مان کر یہ صورت باقی نہیں رہتی۔
(۵) سورہ ذاریات میں آتا ہے وماخلقت الجن والانس الالیعبدون میں نے سب جنوں اور انسانوں کو اپنا عبد بننے کے لئے ہی پیدا کیا ہے۔ اور پھر دوسری جگہ فرماتا ہے فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی (الفجر) اے نفس مطمئنہ تو اب میرے بندوں میں شامل ہو جاا ور میری جنت میں داخل ہو جا۔ یعنی جو عبد بن جائے گا وہ ضرور جنت میں داخل ہو جائے گا۔ چونکہ پہلی آیت سے ثابت ہے کہ آخر سب ہی انسان عبد بنیں گے کیونکہ خدا نے جس غرض کے لئے انسان کو پیدا کیا ہے وہ ہمیشہ کے لئے اس سے محروم نہیں رہ سکتا۔ پس جب سب لوگ جلد یا بہ دیر عبد بنیں گے تو سب جنگ میں بھی ضرور جائیں گے۔
(۶) چھٹا ثبوت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سورہ ’’زلزال‘‘ میں فرماتا ہے فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرا یرہ۔ کہ جو بھی نیکی کرے گا خواہ وہ کتنی بھی قلیل کیوں نہ ہو وہ اس کو ضرور دیکھے گا۔
کمی سزا کا نام نیکی کا دیکھنا نہیں کہلا سکتا۔ اس لئے ضرور ہے کہ بداعمال کی سزا پہلے دی جائے اور پھر اس کو ایک عرصہ کے بعد ختم کرکے نیک اعمال کی جزا شروع کی جائے۔
(۷) قرآنکریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے واما من خفت موازینہ فامہ ھاویۃ جس شخص کے اعمال ہلکے ہوں گے اور کم قیمت ہوں گے اس کی ماں ’’ھاویہ‘‘ یعنی جہنم ہوگی اس آیت میں جہنم کو ماں قرار دیا گیا ہے اور ماں کے پیٹ میں بچہ ہمیشہ کے لئے نہیں رہتا بلکہ اس وقت تک رہتا ہے جب تک کہ تکمیل اعضاء و قویٰ نہ ہو جائے۔ پس جہنم میں بھی اسی وقت تک انسان رہے گا جب تک کہ اس کی ان قوتوں کا نشوونما نہ ہوجائے جو دیدار الٰہی کے مناسب حال ہہیں۔ یہ آیات بتلارہی ہیں کہ دوزخ غیرمنقطع نہیں اور خلود سے مراد لاانتہاء زمانہ نہیں بلکہ ایک لمبا عرصہ جس کو قرآن مجید نے لبثین فیہا احقابا سے تعبیر کیا ہے مراد ہے۔ دوزخیوں اور جنتیوں کے متعلق یہ جو فرمایا ہے کہ جب تک آسمان و زمین رہیں گے وہ ان میں رہیں گے۔ اس سے یہی مراد ہے کہ جب تک جنت و دوزخ کے آسمان و زمین رہیں گے وہ وہاں رہیں گے اور یہ امر کسی آیت سے ثابت نہیں کہ دوزخ کو فناء نہیں کیا جائے گا۔ اور جب دوزخ کو فنا کر دیا جائے گا تو دوزخیوں کا دوزخ میں رہنے اک زمانہ بھی ختم ہو جائے گا۔
۱۰۴؎
فلاتک فی مریۃ کے دو معنے ہیں
(۱) ان کے غیراللہ کو معبود بنانے کے متعلق شک نہ کر یعنے یہ خیال نہ کر کہ کس طرح ممکن ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص غیراللہ کی عبادت شروع کردے کیونکہ جو عقیدہ ورثہ سے انسان کو ملتا ہے اور وہ خود اس پر غور نہیں کرتا اس میں ایسی حماقتوں کا ارتکاب اس سے کچھ بعید نہیں ہوتا۔ ان معنوں کے رو سے تسلیم کرنا ہوگا کہ مخاطب اس زمانہ کے لوگ ہیں جب شرک لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہو چکا ہوگا اور چاروں طرف توحید کا خیال پھیل جائے گا۔ ان معنوں کے لحاظ سے یہ آیت ایک پیشگوئی کا رنگ رکھتی ہے اور اس میں بتایا گیا ہے کہ توحید ایسی غالب آجائے گی کہ ایک زمانہ میں لوگوں کو یہ بات ماننی مشکل ہو جائے گی کہ کوئی غیراللہ کی بھی عبادت کرتا ہے۔ غلبۂ اسلام کے زمانہ میں مرکز اسلام کے رہنے والے لوگوں کا یہی حال ہوگا۔ لیکن اب بھی کفار کے کئی عقائد جن کا قرآن کریم میں ذکر آتا ہے لوگوں کے لئے قابل تعجب نظر آتے ہیں اور وہ حیران ہوتے ہیں۔
(۲) دوسرے معنے یہ ہوسکتے ہیں کہ اے مخاطب یہ نہ سمجھ لے کہ یہ لوگ سزا سے بچ جائیں گے کیونکہ یہ پہلوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ جب ان کو سزا ملی تھی تو یہ کیونکر بچ سکتے ہیں۔
مما یعبدو ھولاء میں ماموصولہ بھی قرار دیا جاسکتا ہے اور مصدر یہ بھی۔ یعنی من الذین یعبدھم ھؤلاء اومن عبادتھم یعنی ان کے معبودوں کے متعلق ایا ان کی عبادت کے متعلق شک میں نہ پڑ۔ یہ معنے بھی ہوسکتے ہیں کہ جن کی یہ عبادت کرتے ہیں ان کے متعلق تجھے شبہ پیدا نہ ہو کہ ممکن ہے انہوں نے ہی کوئی ایسی بات کہی ہو جس سے شرک پیدا ہوا ہو۔ انہوں نے کچھ نہیں کہا۔ یہ خیالات ان کے اپنے باپ دادوں کی ایجاد ہیں اور یہ معنے بھی ہوسکتے ہیں کہ ان کی عبادت کے متعلق شبہ نہ کرو۔
پھر ان معنوں کے بھی دو مطلب ہوسکتے ہیں یہ بھی کہ ان کی عبادت کے متعلق یہ شبہ نہ کر کہ کون ایسا فعل کرسکتا ہے اور یہ بھی کہ یہ مشرکانہ عبادت کرتے ہیں تو انہیں سزا کیوں نہیں ملتی۔
غیرمنقوص حال مؤکدہ ہے۔ صرف زور دینے کے لئے آیا ہے ورنہ وفی کے معنے خود پورا پورا دینے کے ہوتے ہیں۔ پس غیرمنقوص کہہ کر مضمون کی مزید تاکید کردی گئی ہے اور بتایا ہے کہ نہ پہلے لوگ سزا سے بچے ہیں نہ یہ بچیں گے۔
۱۰۵؎
اب خاتمہ سورۃ پر اصل مضمون کی طرف پھر اشارہ فرماتا ہے کہ کلام الٰہی ضرور نازل ہوتا ہے اور ہوتا رہا ہے مگر انسان اس سے فائدہ نہیں اٹھاتا۔ موسیٰ ؑ پر کتاب اتری اور اس کتاب میں ایک اور کتاب کا ذکر تھا مگر لوگوں نے قسم قسم کے شبہات اس میں پیدا کرلئے اور اس کے بدنتائج کو نہ دیکھا حالانکہ ان کا جرم اس قدر عظیم الشان تھا کہ اگر اس سے پہلے ہم ایک فیصلہ نہ کرچکے ہوتے تو انہیں تباہ کردیا جاتا۔
وہ فیصلہ جس کا ذکر اس جگہ کیا گیا ہے وہی ہے جس کا ذکر وماخلقت الجن والانس الا لیعبدون میں (ذاریات ع۳) اور رحمتی وسعت کل شیء (اعراف ع۱۹) میں اور اسی قسم کی متعدد اور آیات میں کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بندہ کو روحانی ترقی دینے کے لئے پیدا کیا ہے اور اس کے ساتھ رحم کا سلوک کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پس وہ اسے سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا تاکہ لوگ ہدایت سے محروم نہ رہ جائیں۔
وانھم لفی شک سے دو امر کی طرف اشارہ ہے۔ اس طرف بھی کہ جو کتاب شک کو دور کرنے کے لئے آئی تھی وہ ان کی اندرونی بیماریوں کی وجہ سے ان کے لئے شک پیدا کرنے کا موجب ہورہی ہے۔ اور یہ بھی کہ ہمارے رحم سے بجائے فائدہ اٹھانے کے اور شکر گزار بننے کے یہ لوگ اس قسم کے شکوک میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ یہ کتاب جھوٹی ہوگی تبھی تو اس کے انکار سے سزا نہیں ملتی۔
۱۰۶؎
اس آیت کے متعلق مفسرین میں معنوی طور پر تو کوئی اختلاف نہیں ہے۔ مگر اہل لغت میں تحقیق لفظی کی رو سے اختلاف ہوا ہے۔ یہ اختلاف لما کے لفظ کی وجہ سے ہے کیونکہ لما اس جگہ بظاہر ایسی صورت میں استعمال ہوا ہے جس میں استعمال نہیں ہوا کرتا۔ لما کا استعمال تین طرح ہوتا ہے (اول) مضارع پر آتا ہے اور اسے جزم دیتا ہے اور اس کے معنے ماضی کے منفی کردیتا ہے۔ جیسے لمایلحقوابھم (سورہ جمعہ) وہ ابھی ان سے نہیں ملے۔ (دوم) ماضی پر آتا ہے اور دو جملے چاہتا ہے۔ جن میں سے پہلے جملہ کے مضمون کے پورا ہونے پر دوسرے کا مضمون پورا ہوتا ہے۔ جیسے یہ کہیں کہ لما جاء فی اکرمتہ جب وہ میرے پاس آیا میں نے اس کی عزت کی۔ ایسے استعمال کے ہوتے ہیں۔ اور ابن مالک کے نزدیک اذ کے (سوم) حرف استثناء کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اور اس صورت میں یہ جملہ اسمیہ پر بھی آتا ہے۔ جیسے کہ قرآن کریم میں ہے۔ ان کل نفس لما علیہا حافظ (طارق) اور ماضی پر بھی آجاتا ہے جو لفظاً تو ماضی ہو لیکن معنیً ماضی نہ ہو جیسے انشدک باللہ لما فعلت یہاں فعلت لفظاً ماضی ہے لیکن معنیً مصدر ہے اور اس سے مراد الافعلک ہے یعنے میں تجھے قسم دیتا ہے کہ اس کام کے سوا جو میں تجھ سے چاہتا ہوں اور کام نہ کیجیئو۔ (دیکھو مغنی اللبیب لابن ہشام) اس آیت میں یہ لفظ بظاہر ان تینوں استعمالات کے خلاف استعمال ہوا ہے۔ نہ اس کے بعد کوئی مضارع اس کا مجزوم بن کر آیا ہے نہ یہ ماضی پر ظرف بن کر آیا ہے کہ اس کے ساتھ دو جملے آئے ہوں۔ اور نہ جملہ اسمیہ پر یا صیغہ ماضی بمعنے مصدر پر آیا ہے کہ حرف استثناء کے معنے دیتا ہو۔
ان مشکلات کو دیکھ کر نحویوں نے مختلف خیالات دوڑائے ہیں اور مبرد جیسوں نے تو یہ بھی کہہ دیا ہے کہ لما کا یہ استعمال محاورۂ عرب کے خلاف ہے۔ اور نسائی نے کہا ہے کہ اس کو میں نہیں سمجھ سکا۔ ابن جنی نے یہ کہا ہے کہ شاید جس طرح الا زائد آتا ہے لما بھی زائد آتا ہو لیکن اس کا کوئی ثبوت نہیں دیا۔ بعض نے اس لفظ کو مرکب قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس جگہ لما ایک لفظ نہیں ہے بلکہ لمن ما ہے ن میم سے تبدیل ہوکر تین میموں کے جمع ہوجانے کی وجہ سے حذف ہو گیا ہے۔ لیکن یہ بھی درست نہیں۔ کیونکہ ایسے میم کو تخفیف کی غرض سے حذف کرنے کا جواز ثابت نہیں ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ اصل میں یہ لفظ لم سے ہے جس کے معنے جمع کرنے کے ہوتے ہیں جیسے کہ قرآن کریم میں آای ہے اکلالما۔ سب کا سب کھا جاتے ہو۔ نون تنوین کو وصل کی خاطر اڑادیا گیا اور لما پڑھ لیا گیا۔ لیکن یہ بھی درست نہیں کیونکہ وصل کے موقع پر اسم منصرف سے تنوین کا حذف کرنا بالکل بعید از قیاس ہے۔
ان تمام توجیہات کو دیکھنے کے بعد درست وہی معلوم ہوتا ہے جو ابن حاحب نے کہا ہے اور وہ یہ ہے کہ لما اس جگہ پر جازمہ استعمال ہوا ہے اور اس کا فعل محذوف ہو گیا ہے اور یہ عربی زبان کے رو سے جائز ہے۔
لما اور لم کے معنوں میں پانچ فرق نحوی بیان کرتے ہیں اور ان میں سے ایک فرق یہ بھی ہے کہ لم کے بعد کا فعل حذف نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن لما کے لفظ کا فعل جب اس پر کوئی دلیل موجود ہو حذف کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ اس کے ثبوت میں نحوی ایک شعر بھی نقل کرتے ہیں جو یہ ہے ؎
فیجئت قبورھم بدأ ولما
فنادیت القبور فلم یجبنہ
میں اپنی قوم کے بڑے آدمیوں کے مرنے کے بعد جبکہ ان کی جگہ مجھے بڑا آدمی سمجھا جانے لگا اور ابھی میں فی الواقع بڑا آدمی بنا نہیں تھا ان کی قبروں پر گیا اور انہیں بلایا تو انہوں نے مجھے کوئی جواب نہ دیا۔
ابن حاجب کا خیال ہے کہ اس آیت میں بھی لما کا فعل حذف ہو گیا ہے۔ جو ان کے نزدیک یہ ملوا ہے۔ یعنی یہ کفار اپنے اعمال کی پاداش سے سبکدوش اور آزاد نہیں ہوچکے۔ بلکہ ان کے اعمال کی جزا ابھی انہیں ملنے والی ہے۔
ابن ہشام مصنف مغنی اللبیب کے نزدیک بھی یہی توجیہہ ٹھیک ہے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ محذوف یوفوا اعمالھم نکالا جائے تو زیادہ بہتر ہے اس جملہ کو محذوف مان کر یہ معنے ہوں گے کہ اب تک تو ان کے اعمال کا پورا بدلہ نہیں دیا گیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ پورا بدلہ دے گا ضرور۔ علامہ محمد بن حیان اندلسی مصنف تفسیر بحرمحیط نے بھی اس توجیہہ کو صحیح قرار دیا ہے لیکن لکھا ہے کہ میرے نزدیک محذوف فعل ینقص نکالا جائے تو زیادہ مناسب ہے۔ اور انہوں نے یوں جملہ بنایا ہے لما ینقص من جزاء عملھم لیوفینھم ربک اعمالھم یعنی سب کے سب لوگ ایسے ہیں کہ ان کے اعمال کا بدلہ اب تک ضائع نہیں ہوا اور ضرور اللہ تعالیٰ ایک دن انہیں ان کے اعمال کی پوری جزاء دے گا۔
میرے نزدیک توجیہہ یہی صحیح معلوم ہوتی ہے۔ باقی سب توجیہات بعید از قیاس ہیں اور گو ان کے یش کرنے والوں کے علمی رتبہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم انہیں کلی طور پر باطل نہ کرسکیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ان میں بہت کچھ تکلف معلوم ہوتا ہے مگر یہ توجیہہ بغیر تکلف کے ہے اور عربی کے ثابت شدہ قاعدہ کے مطابق ہے۔ باقی رہا محذوف کا سوال سو یہ معمولی سوال ہے۔ ایسے موقع پر محذوف کے لئے قاعدہ یہ ہے کہ بقیہ عبارت جس مضمون پر دلالت کرے اسے محذوف نکالا جائے اور تینوں فعل جو تین ائمہ صرف و نحو نے محذوف نکالے ہیں تینوں ہی آپس میں ہم معنے ہیں۔ اور ان میں سے ہر اک کو ہم اختیار کرسکتے ہیں گو ابن ہشام کے قول کو ترجیح حاصل ہے کہ محذوف بھی الفاظ قرآن کے مطابق نکالا گیا ہے۔ اس محذوف کو اگر ظاہر کیا جائے تو عبارت یوں بنے گی۔ ان کلا لما یوفوا اعمالھم لیوفینھم ربک اعمالھم یقینا یہ سب کے سب ایسے ہیں کہ اب تک انہیں ان کے اعمال کا پورا بدلہ نہیں ملا۔ مگر ایک دن ضرور تیرا رب انہیں ان کے اعمال کا پورا بدلہ دے گا۔ یعنی ان لوگوں کو ہمارے ڈھیل دینے سے دھوکان نہیں کھانا چاہئے کہ وہ سزا سے بچ گئے ہیں وہ سزا سے بچے نہیں ان کے اعمال محفوظ ہیں سزا میں ایک مدت تک ڈھیل ہے مگر وہ دن بھی ضرور آنے والا ہے جب مزید ڈھیل اللہ تعالیٰ نہیں دے گا اور یہ لوگ اپنے اعمال کی پوری سزا بھگتیں گے۔
۱۰۷؎ حل لغات
استقام الامرواستقام لہ الامر اعتدل۔ اس کے لئے کام ٹھیک اور درست ہو گیا۔ وفی القران استقیموا الیہ ای استقیموا فی التوجہ الیہ دون الالھۃ اور قرآن کے الفاظ استقیموا الیہ کے معنے یہ ہیں کہ تم باقی تمام معبودوں کو چھوڑ کر اس کی طرف اپنی توجہ کو درست کرو۔ (اقرب) واستقامۃ الانسان لزومہ المنھج المستقیم (مفردات) اور انسان کے لئے استقامت کا لفظ آئے تو اس کے معنی سیدھے راستہ پر قائم رہنے کے ہیں۔
طغی یطغی طغی وطغیانا وطغیانا جاوز القدر والحد۔ حد اور اندازہ سے آگے نکل گیا۔ طغی فلان اسرف فی المعاصی والظلم گناہوں اور ظلم میں حد سے بڑھ گیا۔ (اقرب)
تفسیر
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر صرف اپنی جان ہی کی ذمہ داری نہیں بلکہ آپؐ پر ایمان لانے والوں کی درستی بھی آپؐ کا کام ہے۔ اور یہی ذمہ داری آپؐ کے جانشینوں اور آپؐ پر ایمان لانے والوں پر ہے۔ کیفیت اور کمیت دونوں لحاظ سے یہ ذمہ داری اس قدر ہے کہ پڑھ کر دل کانپ جاتا ہے۔
کمیت کی طرف تو فاستقم اور ومن تاب معک کے الفاظ اشارہ کرتے ہیں۔ ہمیشہ بغیر وقفہ کے خداتعالیٰ کے احکام پر قائم رہنا اور اپنے ساتھیوں کو قائم رکھنا کوئی معمولی بات نہیں ۔ اور اس کی عظمت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب ہم یہ دیکھیں کہ کیفیت جس کا مطالبہ کیا گیا ہے وہ بھی نہایت اعلیٰ ہے۔ کیونکہ فرماتا ہے کہ استقامت اس طرح ہو جس طرح خدا تعالیٰ نے فرمائی ہے۔ ایک کمزور انسان کے لئے رب المسمٰوٰت والارض کے بتائے ہوئے احکام کو کماحقہ ادا کرنا کس قدر مشکل ہے۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ خالی استقامت انسان کو نفع نہیں دے سکتی بلکہ وہ استقامت نفع دیتی ہے جو پوری طرح اللہ تتعالیٰ کے منشاء کے مطابق ہو۔ بعض لوگ یہ خیال کرلیتے ہیں کہ چونکہ ہم نماز اور روزہ کے پابند ہیں اس لئے اب ہمیں کسی قسم کا خوف نہیں۔ حالانکہ نماز اور روزہ اصل میں مطلوب نہیں ہیں مطلوب تو امر الٰہی کے مطابق زندگی بسر کرنا ہے۔ یہی نماز اور روزہ جس وقت خدا تعالیٰ کے احکام کے خلاف آجائیں انسان کو شیطان بنادیتے ہیں۔ جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سورج نکلنے یا اس کے غروب ہوتے وقت شیطان نماز پڑھتا ہے۔ یعنی یہ کام شیطانی لوگوں کا ہے۔ اسی طرح عید کے دن روزہ رکھنے والے کا نام آپؐ نے شیطان رکھا۔ پس حق یہی ہے کہ جب تک انسان کا رویہ پوری طرح اللہ تتعالیٰ کے منشاء کے ماتحت نہ ہو اور اس کے اعمال کا محرک صرف خداتعالیٰ کی رضاء کا حصول نہ ہو اس وقت تک وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث نہیں ہوسکتا۔
اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین کے لئے آپؐ کی اتباع اور آپؐ کے اسوہ پر چلنا ضروری ہے۔ کیونکہ فرماتا ہے فاستقم کما امرت ومن تاب معک۔ جس طرح تجھے حکم دیا گیا ہے اس طرح مستقل طور پر اور لزوم کے ساتھ تو عمل کر اور تیرے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والے لوگ بھی اسی طرح عمل کریں۔ اس سے م علوم ہوا کہ اصل معیار عمل کا وہی ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مقرر کیا گی تھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو مومنوں کے لئے یہ فرمانا کہ وہ اس طرح عمل کریں جس طرح انہیں حکم دیا گیا ہے مگر انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امر کے تابع فرماکر بتا دیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر چلنا ہی مومنوں کا کام ہے اور یہ اتنا بڑا مقام ہے کہ اس کے حصول کے لئے جس قدر بھی انسان کوشش کرے کم ہے۔ اگر ہم نے اپنے درجہ کے مطابق کام کرنا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے درجہ کے مطابق مگر یہ بات نہیں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس مقام پر کھڑے ہونے کا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا ہے اس جگہ پر آپؐ کے اتباع کو کھڑا ہونے کی کوشش کرنی چاہئے۔ مگر افسوس مسلمانوںکا آج یہ حال ہے کہ خود تو اس مقام پر کھڑا ہونے کی کوشش کرتے نہیں اور اگر کوئی خدا کا بندہ اس مقام کو پالیتا ہے تو اسے کافر و دجال کہنے لگتے ہیں۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
کما امرت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو وہی نیکی کام دے سکتی ہے جو وقت کے مناسب ہو۔ نماز کے وقت ذکر الٰہی اور روزہ کے وقت ایسے کام جو روزہ میں روک ہوں اور جہاد کے وقت روزہ جو جہاد میں سست کرے نفع نہیں دے سکتا۔ پس انسان کو چاہئے کہ اس امر پر غور کرتا رہے کہ آج کل کون سی نیکی کا زمانہ ہے۔ اور اسی طرح مختلف اوقات میں ان نیکیوں پر عمل کرنے کی کوشش کرے جو اس وقت کے مناسب حال ہوں۔ زمانہ اور وقت کے لحاظ سے جو نیکی ہوگی وہی اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرے گی۔
مجھے تعجب ہے کہ اس آیت کو ایک نادان مفسر نے سورہ نساء کی آیت اولئک مع الذین انعم اللہ علیھم من النبیین الایۃ کے مطابق قرار دے کر یہ استدلال کیا ہے کہ جس طرح اس آیت کے ماتحت صحابہ خاتم النبیین نہیں بن جاتے اسی طرح سورہ نساء کی آیت سے امت محمدیہ میں نبوت کا دروازہ نہیں کھل جاتا۔ حالانکہ اس جگہ توبہ میں شمولیت کا ذکر ہے نہ ختم نبوت میں۔ اب کیا کوئی نادان ہے جو یہ کہے کہ صحابہ تائب نہ تھے صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تائب تھے۔ اگر نہیں بلکہ ہر اک کو یہ ماننا پڑتا ہے کہ تائب دونو تھے گو مقام توبہ میں فرق تھا تو سورہ نساء میں کیوں یہ معنے نہیں کئے جاسکتے کہ نبوت کا لفظ دونوں گروہوں پر بولا جائے گا۔ گو نبوت کا درجہ مختلف افراد کا مختلف ہوگا۔
اس آیت نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو اثر کیا تھا وہ تو اس سے ظاہر ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے الھود واخواتھا شیبتنی قبل الشیب۔ (ابن مردویہ بحوالہ درمنثور) مجھے ہود اور اس جیسی سورتوں نے قبل از وقت بوڑھا کر دیا ہے۔ کیونکہ آپؐ دیکھتے تھے کہ آپؐ کے ساتھ توبہ کرنے والے لوگ آپؐ کے زمانہ تک ہی محدود نہ تھے بلکہ آپؐ کے بعد قیامت تک آنے والے تھے۔ ان لوگوں کی تربیت کی ذمہ داری آپؐ کس طرح اٹھا سکتے تھے۔ یہ خیال تھا جس نے آپؐ پر اثر کیا اور آپؐ کو بوڑھا کر دیا۔ مگر آپؐ کا یہ تقویٰ اللہ تعالیٰ کو ایسا پسند آیا کہ اس نے یہ کام اپنے ذمہ لیا اور وعدہ کرلیا کہ میں ہمیشہ تیری امت میں سے ایسے لوگ مبعوث کرتا رہوں گا جو تیرے نقش قدم پر چل کر میرا قرب حاصل کریں گے اور تیری طرف سے اس امت کی اصلاح کریں گے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے مقابلہ میں اب ہمیں غور کرنا چاہئے کہ ہم نے کیا کیا ہے ہمارا بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح یہ فرض رکھا گیا ہے کہ اپنے نفس کی اصلاح کے ساتھ دوسرے مومنوں کی اصلاح کا بھی فکر کریں۔
ایک ادنیٰ غور سے یہ بات معلوم ہوسکتی ہے کہ بغیر ایک کامل نظام کے اس حکم پر عمل نہیں ہوسکتا۔ ایک مومن اپنے پاس کے مومنوں کو تو نصیحت کرسکتا ہے لیکن وہ سب دنیا کے مومنوں کو بغیر نظام کے کس طرح نصیحت کرسکتا ہے۔ صرف مکمل نظام ہی ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے گھر بیٹھا سب مسلمانوں کی خبر رکھ سکتا ہے کیونکہ جب وہ نظام کے قیام میں مدد دیتا ہے خواہ روپیہ سے وقت سے قلم سے زبان سے یا دماغ سے تو وہ اس نظام کا ایک حصہ ہو جاتا ہے اور اس نظام کے ذریعہ سے جہاں جہاں بھی کام ہوتا ہے اس میں وہ شریک ہوتا ہے۔ اس وقت احمدی جماعت نظام کے ماتحت ہے اور دیکھ لو کہ وہی تبلیغ اسلام دنیا کے مختلف ممالک میں کر رہی ہے۔ ایک پنجاب کے گاؤں کا زمیندار یا ایک افغانستان کے ایک گوشہ میں بسنے والا افغان جو جغرافیہ سے محض نابلد ہے جب اپنی کمائی کا ایک حصہ خزانہ سلسلہ میں ادا کرتا ہے تو وہ نہ صرف اپنے ذاتی فرض کو ادا کرتا ہے بلکہ اس طرح وہ یورپ امریکہ سماٹرا جاوا افریقہ وغیرہ مختلف براعظموں اور ملکوں میں تبلیغ اسلام کا جو کام ہورہا ہے اس میں شریک ہو جاتا ہے اور اس حکم کی ذمہ داری سے ایک حد تک سبکدوش ہو جاتا ہے۔
اس آیت میں آئندہ اولاد کی درستی اور اس کی تربیت کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے ۔ مگر افسوس ہے کہ اس امر کی طرف بہت کم لوگ توجہ رکھتے ہیں۔
بیہقی نے شعب الایمان میں ابوعلی سری سے روایت کی ہے کہ ابوعلی نے کہا رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی المنام فقلت یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روی انک قلت شیبتنی الھود قال نعم قلت مالذی شیبک قصص الانبئا وھلاک الامم قال لا ولکن قولہ فاستقم کما امرت میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا اور عرض کی یا رسول اللہ لوگ کہتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا ہے مجھے سورہ ہود نے بوڑھا کر دیا۔ آپؐ نے فرمایا ہاں۔ اور میں نے عرض کی کس بات نے آپؐ کو بوڑھا کر دیا کیا انبیاء کے قصون اور امتوں کی ہلاکت نے آپؐ نے فرمایا نہیں بلکہ آیت فاستقم کما امرت نے مجھے بوڑھا کر دیا اور دارمی نے اور ابوداؤد نے اپنی مراسیل میں اور بیہقی نے شعب الایمان میں کعبؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اقرؤا الھود یوم الجمعۃ سورہ ہود کو جمعہ کے دن پڑھا کرو۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت نظامِ جماعت کے ساتھ تعلق رکھتی ہے کیونکہ جمع کا دن بھی اجتماع کا دن ہوتا ہے۔
کیا عجیب بات ہے کہ جس سورۃ نے رسول اللہ جیسے وسیع القلب پر اتنا اثر ڈالا کہ آپؐ بڑھاپے سے پہلے ہی بوڑھے ہو گئے وہ ہم پر کوئی اثر نہ کرے حالانکہ ہمیں آپؐ سے زیادہ ڈرنا چاہئے تھا تاکہ اس کام میں کامیاب ہوں جو ہمارے سامنے ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ اسلام محض شخصی کامیابی کا قائل نہیں۔ اگر ہم ساری قوم کو ہر رنگ میں نہیں بڑھاتے تو گویا ہم کامیاب ہی نہیں ہوئے۔ لاتطغوا میں اسی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ کہ قوم کی خبر نہ لیان ظلم ہے کیونکہ خبر نہ لینے سے بدی پھر عود کر آتی ہے۔ ایک آدمی کا اعلیٰ مقام تک پہنچ جانا دنیا کے لئے چنداں مفید نہیں۔ کیونکہ اس کے مرتے ہی وہی ظلمت پھیل جائے گی۔ کامیابی یہی ہے کہ سب صحیح راستہ کو اختیار کرلیں تاکہ بدی کا سر کچلا جائے مگر افسوس ہے کہ باوجود اس تعلیم کے مسلمان نہ صرف دینی علوم میں پیچھے رہ گئے ہیں بلکہ دنیاوی علوم اور ترقیات میں بھی بالکل بے خبر ہیں۔ وہ بنی نوع انسان کی بہبودی میں بھی بہت کم حصہ لیتے ہیں جبکہ دوسری قوموں کے بہادر ہر شعبہ علمی میں ترقی کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
انہ بما تعملون خبیر میں بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری مجموعی کوششوں کو بھی اسی طرح دیکھ رہا ہے جس طرح کہ وہ انفرادی کوششوں کو دیکھتا ہے۔
۱۰۸؎ حل لغات
رکن الیہ یرکن ورکن یرکن رکونا۔ مال الیہ وسکن اس کی طرف جھک گیا اور قرا پا گیا۔ (اقرب) یہ لفظ باب نصر ینصر اور علم یعلم سے آتا ہے یعنی رکن یرکن اور رکن یرکن مگر کبھی منع یمنع کے وزن پر بھی آتا ہے مگر یہی عام قاعدہ کے خلاف ہے کیونکہ جب تک دوسرا یا تیسرا حرف حروف حلقیہ سے نہ ہو تب تک اس وزن پر لفظ نہیں آیا کرتا۔ اور اس لفظ میں نہ دوسرا حرف حروف حلقیہ میں سے ہے نہ تیسرا حرف۔ (حروف حلقیہ یہ ہیں ع ھ ح خ غ ء) اس لئے اس وزن کو شاذ کہتے ہیں یعنی عام قاعدہ کے خلاف استعمال ہوا ہے مگر شاذ کے معنے غلط نہیں ہوتے۔ صرف اس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ اس قسم کے الفاظ عربی زبان میں کم پائے جاتے ہیں۔
تفسیر
اس آیت میں یہ قاعدہ بتایا ہے کہ ظالم سے تعلق رکھنے والا خود بھی اس کی سزا میں شریک ہوجائے گا۔ اور پہلی آیت سے اس کا یہ تعلق ہے کہ اس میں یہ بتایا گیا تھا کہ دوسروں کی نگرانی اور خبرگیری رکھو کہ وہ بھی استقمات پر رہیں۔ اور یہ ظاہر ہے کہ اگر مومن ایسا نہ کریں گے تو دوسرے لوگ اسقامت کو چھوڑ کر ظالم بن جائیں گے اور سزا کے مستحق ٹھہریں گے۔ اس لئے اس قاعدہ کی طرف توجہ دلائی کہ جو چیزیں آپس میں تعلق رکھتی ہیں وہ ایک دوسرے کے اثر کو قبول کرتی ہیں۔ پس اگر تم ظالموں کی طرف جھکو گے تو وہ خرابیاں جو ان میں پائی جاتی ہیں وہ تم میں بھی سرایت کر جائیں گی۔ اور ان کا بگڑنا تمہارا ہی بگڑنا ہوگا۔
غرض یہ سمجھایا ہے کہ اپنے عزیزوں سے تعلق قطع کرنا بھی ایک قسم کی موت ہے اور اگر وہ ظالم ہوں تو ان سے تتعلق رکھنا بھی ایک موت ہے۔ پس اصل راہ یہی ہے کہ ان کی اصلاح کرو۔ اور انہیں بگڑنے نہ دو تاکہ تعقل توڑنا بھی نہ پڑے اور ان کا تعلق خرابی کا موجب بھی نہ ہو۔
دوسرے اس آیت کا یہ بھی مطلب ہے کہ پہلی آیت میں جو لاتطغوا کہہ کر ہم نے ظلم سے منع کیا تھا تو اس کا صرف یہ مطلب نہ تھا کہ اپنے ہاتھ سے ظلم نہ کرو۔ بلکہ ظالم کا کسی رنگ میں ممد ہونا یا اس کا ساتھ دینا بھی ظلم ہی ہے۔ اور انسان کو سزا کا مستحق بنا دیتا ہے۔ بہت سے لوگ ہیں کہ جو خود تو ظلم نہیں کرتے مگر دوستوں کے ظلم پر پردہ ڈالتے ہیں اور ان کو سزا سے بچانے کے لئے کوشش کرتے ہیں۔ انہیں اس سے اجتناب کرنا چاہئے۔
لاترکنوا سے یہ بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ ظالم کے پاس صرف کسی کام کے لئے جانا سزا کا مستحق نہیں بنا دیتا۔ بلکہ جب انسان ظلم کے ظالمانہ افعال میں تسکین محسوس کرے اور اس پر نفرت کا اظہار نہ کرے تب سزا کا مستحق ہوتا ہے۔
۱۰۹؎ حل لغات
الطرف۔ حرف الشئی ونہایتہ۔ کسی چیز کا کنارہ اور اس کی حد۔ الناحیۃ پہلو جانب طائفۃ من الشئی۔ کسی چیز کا حصہ (اقرب) دن کی دونوں طرفوں سے مراد صبح اور شام کے اوقات ہیں۔
زلفا جمع کا صیغہ ہے۔ اس کا واحد زلفۃ ہے۔ اس کے معنی ہیں القربۃ۔ قرب۔ المنزلۃ درجہ الطائفۃ من اول اللیل۔ رات کا پہلا حصہ وقیل الزلف الساعات التی یلتقی بہا اللیل والنہار۔ وہ حصے جن میں دن رات ملتے ہیں یعنی دن اور رات کے شروع اور آخر کے حصے۔ زلف کہلاتے ہیں۔ (اقرب) وقیل لمنازل اللیل زلف۔ مطلق رات کے اوقات کو بھی زلف کہتے ہیں۔ (مفردات)
تفسیر
اس آیت میں نیکی کا گر بتایا ہے اور اس آیت کا پہلی آیات سے یہ تعلق ہے کہ ان میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے اتبارع کی ذمہ داریاں بتائی گئی تھیں۔ چونکہ اس قدر ذمہ داریوں کا پورا کرنا انسانی طاقت سے بالا تھا۔ اس لئے اس آیت میں وہ طریق بتایا جس کے ذریعہ سے اس عظیم الشان فرض کے پورا کرنے میں مسلمان کامیاب ہوسکیں وہ گر یہ ہے۔
عبادت کرو۔ اور دعاؤں میں مشغول ہوجاؤ۔ کیونکہ خدا کی مدد سے ہی یہ کام کرسکو گے اور دوسرے یہ کہ نیک نمونہ سے لوگوں کے دلوں کو فتح کرو۔ الفاظ بدیوں کو نہیں مٹا سکتے۔ بلکہ نیکیاں انہیں مٹاتی ہیں۔
اقم الصلوۃ میں نیک تقدیر پیدا کرنے کا گر بتایا ہے اور ان الحسنات یذھبن السیت میں ان تدابیر کا ذکر کیا ہے جن سے بدیاں مٹائی جاسکتی ہیں۔ ایک تدبیر اس آیت سے یہ نکلتی ہے کہ خود نیک نمونہ دکھاؤ لوگ تمہاری نقل کریں گے۔ اس طرح قوم کی بدیاں دور ہوتی جائیں گی۔ اگر ہم ذرہ غور سے دیکھیں تو ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ دنیا کے بہت کم لوگ اپنے لئے سوچ کر راستہ تیار کرتے ہیں۔ سوائے انبیاء کے زمانہ کے ان کے اتباع میں سے کثرت ان لوگوں کی ہوتی ہے جنہوں نے غور کرکے اپنے لئے راستہ تیار کیا ہوتا ہے۔ باقی زمانوں میں عام طور پر لوگ دوسروں کی نقل کررہے ہوتے ہیں۔ پس اچھا نمونہ قائم کرنا ایک بہت بڑا ذریعہ نیکی کے قائم کرنے کا ہے۔ ایسے آدمی کے گردوپیش رہنے والے لوگ ضرور اس کی نقل کرتے ہیں اور اس طرح خودبخود ایک طبقہ بداعمال سے نجات پا جاتا ہے۔
دوسری تدبیر یہ نکلتی ہے کہ قوم کو وعظ و نصیحت کرو۔ اس سے بھی بدیاں دور ہوں گی اس صورت میں حسنات کے معنے اچھی باتوں کے کئے جائیں گے۔
تیسری تدبیر یہ معلوم ہوتی ہے کہ لوگوں سے حسنِ سلوک کا معاملہ کرو۔ اس سے شرارت مٹتی ہے۔ جب لوگوں سے نیک معاملہ کرو گے تو ان کو بھی تم سے محبت پیدا ہوگی۔ اور وہ تمہاری باتوں کو قبول کریں گے۔
اس آیت سے ذاتی ترقی کے بھی دو گر معلوم ہوتے ہیں۔
(۱) ایک تو یہ کہ نیکیوں کی عادت سے بدیوں کی عادت دور ہوتی جاتی ہے۔ اس لئے جو شخص اپنے نفس کی اصلاح کرنا چاہے اسے چاہئے کہ جس بدی کی عادت ہو اس کے بالمقابل کی نیکیوں کی عادت ڈالے۔ اس سے خودبخود اس کی وہ بدیاں جن کی اسے عادت ہو چھوٹنے لگ جائیں گے۔
(۲) دوسرا گر اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو گناہ انسان کر چکا ہو ان کے بد نتائج سے بچنے کا ذریعہ نیکی میں ترقی کرنا ہے۔ جتنا جتنا وہ نیکی میں ترقی کرے گا اسی قدر وہ اپنے پچھلے گناہوں کے بدنتائج سے محفوظ ہوتا چلا جائے گا۔
۱۱۰؎
یعنی استقلال شرط ہے۔ جب اللہ تعالیٰ بداعمال کا نتیجہ نکالتا ہے تو نیکی کا نتیجہ کیوں نہ نکالے گا۔ مگر شرط یہ ہے کہ گھبرانا اور کام کو چھوڑنا نہیں چاہئے۔
۱۱۱؎ حل لغات
البقیۃ۔ مثل فی الجودۃ والفض۔ کمال اور فضل بیان کرنے کے لئے اس لفظ کو استعمال کرتے ہیں۔ یقال فلان بقیۃ القوم اے من خیارھم۔ بقیۃ القوم کے معنے قوم کے بہترین افراد کے ہوتے ہیں۔ اولو بقیۃ اے من الرای والعقل او اولوا لفضل۔ اولوا بقیہ سے مراد اچھی رائے والے عقلمند اور فضیلت والے لوگ ہوتے ہیں۔ (اقرب)
اترفت النعمۃ زیدا نعمتہ۔ نعمت نے زید کو آسودہ حال کر دیا۔ اطغتہ وابطرتہ نعمت نے اسے سرکش اور متکبر بنا دیا۔ (اقرب)
تفسیر
یعنی جب ہمیشہ سے یہ قانون چلا آیا ہے کہ اگر لوگوں کی خبر نہ دکھی جائے تو لوگ بگڑتے چلے جاتے ہیں تو کیوں عقلمند لوگوں نے اپنی ذمہ داری کو نہ پہچانا اور اس بدی کے خمیر کو بڑھنے دیا جو آخر قوم کو تباہ کر دیتا ہے۔ اور کیوں نہ اس خمیر کو ہی ختم کر دیا۔ مگر افسوس کہ بہت کم لوگوں نے اپنی ذمہ داری کو سمجھا اور بجائے اس کے کہ عذاب کی حقیقت پر غور کرکے آئندہ سے اپنی قوم کو عذاب سے بچاتے پہلی تباہ شدہ قوموں کے اموال کے سمیٹنے میں لگ گئے اور خود بھی ظالم بن کر خدا تعالیٰ سے دور جاپڑے۔
۱۱۲؎ حل لغات
اصلح۔ ضد افسد۔ فساد کے خلاف معنے دیتا ہے۔ اصلح الامر۔ اقام بعد فساد کام کے خراب ہونے کے بعد اسے درست کر دیا۔ اصلح بین القوم۔ وفق۔ آپس میں اتفاق کرا دیا۔ اصلح الیہ۔ احسن الیہ۔ اس پر احسان کیا۔ (اقرب)
تفسیر
اس آیت سے معلوم ہوا کہ بغیر جرم کے عذاب دینا ظلم ہے۔ آج مسلمانوں پر عذاب پر عذاب نازل ہورہے ہیں پھر بھی وہ کہتے ہیں کہ ہم صحیح راستہ پر قائم ہیں۔ گویا وہ خدا کو ظالم مگر اپنے آپ کو نیک قرار دیتے ہیں۔
اس آیت سے دو سبق حاصل کئے جاسکتے ہیں۔
(۱) عذاب بغیر فساد کے نہیں آتا۔ پس جب عذاب کے آثار ظاہر ہوں تو ہوشیار ہو جانا چاہئے۔
(۲) عذاب کو دور کرنے کا گر یہ ہے کہ قوم آپس میں صلح کرلے۔ اور نیکی کا وعظ کرنا شروع کر دے۔ یعنی آپس میں اتحاد ہو۔ اور دوسروں کی بدیاں دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ یہ علاج ہی حقیقی علاج ہے۔ کیونکہ کسی قوم میں تنزل کے آثار پیدا ہوجانے کی دو ہی وجہیں ہوتی ہیں۔ (۱) قوم میں تفرقہ ہو۔ (۲) اس میں کمزوریاں پیدا ہوجائیں۔ جب تنزل کے اسباب کو در کر دیا جائے گا تو لازماً ترقی ہوگی۔
۱۱۳؎ تفسیر
اس آیت کو پچھلی آیات سے ملا کر معلوم ہوتا ہے کہ انسان جتنا نیکی میں ترقی کرتا جائے اتنا ہی صبر میں بڑھتا جاتا ہے۔ اور جس قدر صبر میں ترقی کرتا ہے اسی قدر خدا تعالیٰ کی رحمتیں اس پر نازل ہوتی ہیں۔
ولذلک خلقھم سے مراد یہی ہے کہ انسان کو رحم کے لئے پیدا کیا ہے۔ نہ یہ کہ اختلاف کے لئے پیدا کیا ہے۔ کیونکہ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وماخلقت الجن والانس الا لیعبدون۔ (ذاریات ع۳) اور اسی طرح فرماتا ہے ورحمتی وسعت کل شئی (اعراف ع۱۹)
وتمت کلمۃ ربک کا مطلب یہ ہے کہ متبعین شیطان سے جہنم کو بھر دوں گا۔ نہ یہ کہ سب انسانوں کو۔ کیونکہ اس جگہ ایک وعدے کا ذکر اللہ تعالیٰ نے کیا ہے۔ پس اس کے وہی معنے لئے جاسکتے ہیں جو اس وعدہ کے مطابق ہوں اور جب ہم اس وعدہ کی تالش قرآن کریم میں کرتے ہیں تو کہیں بھی ہمیں یہ نظر نہیں آتا کہ میں سب انسانوں کو جہنم میں ڈالوں گا۔ بلکہ اس کے برخلاف یہ وعدہ ملتا ہے کہ جب شیطان نے اللہ تعالیٰ سے مہلت مانگی تو اس نے فرمایا کہ لمن تبعک منھم لاملئن جھنم منکم اجمعین۔ کہ تو بے شک انسانوں کو ورغلا مگر یہ یاد رکھ کہ میں انسانوں میں سے جو تیرے تابع ہوں گے ان سب سے جہنم کو بھر دوں گا۔ (اعراف ع۲) پس زیر تفسیر آیت میں سورہ اعراف کے وعدہ کا ہی ذکر ہے۔ کیونکہ اس کے سواء اس بارہ میں اور کوئی وعدہ قرآن کریم میں بیان نہیں ہے۔ اور اس کے معنے یہی ہیں کہ متبعین شیطان کے ذریعہ سے جہنم کو بھرا جائے گا۔ نہ یہ کہ مومنوں کو بھی بلاقصور و بے گنہ اللہ تعالیٰ جہنم میں دھکیل دے گا۔
اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں اس وعدہ کا کیوں ذکر کیا ہے۔ سو اس کا جواب یہ ہے کہ اوپر فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے بندہ کو رحم ہی کے لئے پیدا کیا ہے۔ پس طبعاً اس بیان پر یہ الجھن پیدا ہوتی تھی کہ جب انسان کو رحم کے لئے پیدا کیا تھا تو پھر اسے سزا کیوں ملے گی۔ پس اس الجھن کو یوں دور کر دیا کہ بے شک ہم نے انسان کو پیدا تو رحم کے لئے ہی کیا تھا مگر ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا تھا کہ جو لوگ شیطان کے پیرو ہوں گے ان کے حق میں رحم کا وعدہ فوراً پورا نہ ہوگا۔ بلکہ جو شیطان سے جو ناری وجود ہے تعلق پیدا کریں گے انہیں اس مناسبت کی وجہ سے پہلے آگ میں ڈالا جاوے گا تا انہیں معلوم ہو جائے کہ نوری وجود کو چھوڑ کر انسان اپنے مقام سے کس قدر گر جاتا ہے۔
دوسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ ولذلک خلقھم میں فرمایا تھا ہم نے انسان کو رحمت کے لئے پیدا کیا ہے۔ اس لئے اسے رحمت میں ہی داخل کریں گے۔ اس سے سوال پیدا ہوتا تھا کہ ایک حصہ کے لئے تو آپ فرماچکے ہیں کہ میں ان کو جہنم میں داخل کروں گا وہ وعدہ کہاں گیا۔ تو اس کے جواب میں فرمایا کہ وہ وعدہ تو پورا ہو چکا ہے اب رحمت کا وعدہ پورا ہوگا۔ گویا یہ سوال اس وقت ہوگا کہ جب دوزخیوں کو دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کیا جائے گا۔
۱۱۴؎
اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پچھلے انبیاء کی اخبار بطور تاریخ بیان نہیں ہوئیں بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو ان میں بطور پیشگوئی بیان کیا گیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ان واقعات کے بیان کرنے سے آپ کو تسلی کس طرح ہوسکتی تھی۔ ہاں اگر انہیں پیشگوئی کے طور پر سمجھا جائے تو ضرور آپؐ کے لئے وہ واقعات تسلی کا موجب بن جاتے ہیں۔ کیونکہ آپؐ کو اس طرحھ اپنی قوم کی شرارتوں اور ان کے برے انجام اور آپؐ کی فتوحات کا علم ہو گیا کیونکہ سب انبیاء کا بروز ہونے کے لحاظ سے ضروری تھا کہ ان انبیاء کے حالات میں سے بھی آپؐ گزرتے۔ اور یہ جو فرمایا ہے کہ اس میں تیرے لئے حق آیا ہے اس سے مراد یہ سورۃ ہے اور اس طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ قصے بیان نہیں ہوئے بلکہ ایک پوری ہوکر رہنے والی بات بیان کی گئی ہے۔ نیز اس میں وعظ بھی ہے اور مومنوں کے فرائض بھی یاد دلائے گئے ہیں۔
۱۱۵؎
یعنی جھگڑے فساد کی ضرورت نہیں ہے۔ جب ہمارے اعمال الگ الگ ہیں اور ہر اک ان کا ذمہ دار ہے تو نتائج خود بتادیں گے کہ کون حق پر ہے اور کون نہیں۔ لڑنے جھگڑنے کی کیا ضرورت ہے۔
۱۱۶؎
یعنی گھبرانا تو ہم کو چاہئے نہ کہ تم کو کیونکہ تمہاری طرف سے دکھ ہم کو دیا جارہا ہے۔ مگر ہم صبر سے کام لے رہے ہیں۔ اور تم گھبرا رہے ہو۔
۱۱۷؎
یعنی گو بظاہر وہ پیشگوئیاں جو اس سورۃ میں کی گئی ہیں بعید از قیاس معلوم ہوتی ہیں لیکن نتائج کا نکالنا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ پس گو یہ باتیں آج عجیب معلوم ہوتی ہیں لیکن وقت پر پوری ہوکر رہیں گی۔
مومن کو بھی توجہ دلائی ہے کہ گو اللہ تعالیٰ کا کلام نازل ہو چکا ہے پھر بھی وہ غنی ہے اور اس کی کمزوریوں کی وجہ سے ممکن ہے کہ وہ اپنے فیصلہ میں دیر کردے اس لئے اسے چاہئے کہ عبادت میں لگا رہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل پر پورا یقین رکھے تاکہ اس کا عمل خدا تعالیٰ کے فیصلہ کو نازل کرنے میں ممد ہو۔
۱؎
اکثر صحابہ کے نزدیک سورہ یوسف ساری کی ساری مکی ہے لیکن ابن عباسؓ اور قتادہ کا قول ہے کہ پہلی تین آیات کے سواء باقی سب مکی ہے۔
اس سورۃ کا تعلق پہلی سورۃ سے یہ ہے کہ سورہ یونس میں اللہ تعالیٰ نے بندوں کے ساتھ سلوک کے دو پہلو بیان فرمائے تھے۔ ایک سزاء کا اور دوسرا رحم کا۔ سزاء کے پہلو کو سورہ ہود میں تفصیلاً بیان کیا گیا ہے۔ اور اس کو پہلے اس لئے بیان کیا ہے کہ جب کفار کی جزاء کا وقت آیا ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں سے پہلے سزا کا معاملہ کیا گیا تھا اور سورہ یوسف میں رحم کا پہلو لیا گیا ہے کیونکہ نبی کریمؐ کے آخری ایام میں رحم سے کام لے کر آپؐ کے مخالفوں کو معاف کر دیا گیا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ خاتم النبیین ہیں آپؐ کے مخالفوں سے بھی قیامت کا سا معاملہ گیا گیا۔ وہاں بھی پہلے مجرموں کو دوزخ میں ڈالا جاوے گا اور وہاں سے نکال کر جنت میں داخل کیا جائے گا۔
اس سورۃ کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس میں ایک ہی واقعہ تفصیل و بسط سے بیان کیا گیا ہے اور کسی سورۃ میں ایسا نہیں کیا گیا۔ باقی سورتوں میں ایک ممون بیان ہوتا ہے اور مختلف واقعات کے چھوٹے چھوٹے فرقے تشریح کے لئے لائے جاتے ہیں۔
اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تفصیلات میں بھی ملتی ہے۔ پس حضرت یوسفؑ کی تفصیلی زندگی بیان کی ہے۔ تاکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آئندہ زندگی کے لئے بطور پیشگوئی ہو۔
سورہ یونس میں رحم کی مثال کے لئے یونس علیہ السلام کا واقعہ لیا تھا اور یہاں تفصیل میں آکر یوسف علیہ السلام کو لیا ہے۔ اس کی ایک تو یہ وجہ ہے کہ حضرت یونسؑ کے واقعہ میں جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں صرف انجام کی مشابہت ہے اور درمیانی تفصیلات کی مشابہت نہیں۔ لیکن حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعات میں نہ صرف انجام کی مشابہت ہے بلکہ درمیانی واقعات میں بھی ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ یونس علیہ السلام کے واقعہ میں صرف یہ مشابہت ہے کہ وہاں بھی قوم بچ گئی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم بھی بچ گئی لیکن یوسف علیہ السلام کے واقعہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعہ کو مزید مشابہت یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے خاندان کو انہی کے ذریعہ سے نجات دی۔ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کی بخشش کا اعلان بھی خود آپؐ ہی کے منہ سے کرایا۔ برخلاف حضرت یونسؑ کی قوم کے کہ ان کی نجات کا اعلان حضرت یونسؑ کے ذریعہ سے نہیں ہوا بلکہ خداتعالیٰ کے فعل کے ذریعہ سے ہوا۔
۲؎
الٓرا۔ میں اللہ ہوں جو دیکھتا ہوں۔ اس سورۃ میں بھی روئت کے مضمون پر بحث کی گئی ہے اور بتایا ہے کہ اس رسولؐ کے حالات یوسفؑ کے حالات سے ملتے ہیں۔ پس اگر اس کے انجام کے ظہور سے پہلے اسے مفتری کہنا درست نہ تھا تو اسے مفتری کیونکر کہا جاسکتا ہے۔
تلک کے لفظ سے اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اس سورۃ میں جو پیشگوئی بیان ہوئی ہے وہ تم کو بعید نظر آتی ہے لیکن وہ ایک دن ضرور ہی پوری ہوکر رہے گی۔
مبین کہہ کر بتایا ہے کہ یہ کتاب دلائل اور براہین ساتھ رکھتی ہے اور نہ صرف خود واضح ہے بلکہ اپنے سے پہلی کتب پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔
اس لفظ سے ان اعتراضات کا جواب دیا ہے جو قرآن کریم پر آئندہ ہونے والے تھے۔ یعنی اس میں پچھلی کرتب کی بیان کردہ تاریخ سے اختلاف ہے اور بتایا ہے کہ قرآن کریم کا تو فرض ہے کہ پچھلی کتب کی غلطیوں کو بیان کرے پھر اختلاف کیوں نہ ہو۔
اس سورۃ میں مبین کا لفظ اختیار کیا گیا ہے اور سورۃ ہود میں فصلت ایتہ کہا گیا تھا۔ اس کی یہ وجہ ہے کہ سورہ ہود میں چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ایسے مضامین کے بیان کئے گئے تھے جن سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت ثابت ہوتی تھی اور یہاں ایک ہی لمبا مضمون چلا جاتا ہے۔ پس چونکہ فصل کے معنے الگ الگ کرنے کے ہیں وہاں فصلت کا لفظ رکھا گیا اور یہاں مبین کا لفظ رکھا گیا۔ جس کے معنے وضاحت کے ہیں۔
مبین کے لفظ سے اس امر کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ قرآن کریم اپنی ذات مین کامل کتاب ہے اور اپنے دعویٰ کے ثبوت کے لئے بیرونی دلیل کی محتاج نہیں بلکہ خود ہی دعویٰ بیان کرتی ہے اور خود ہی دلیل بھی دیتی ہے۔
مبین کے لفظ سے اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ وصول الی اللہ کے لئے جس قدر امور کی ضرورت ہے ان کو یہ کتاب واضح کردیتی ہے۔ اسی طرح تمام وہ امور جو احکام یا اخلاق فاضلہ یا اعتقادات صحیحہ وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں یہ ان سب کو بیان کرتی ہے۔
۳؎ حل لغات
عربی کا لفظ عرب کی طرف منسوب ہے۔ اور عرب عرب یعرب کی مصدر بھی ہے اور صفت مشبہ بھی۔ اور نیز یہ عرب کی مصدر ہے اور یہ ملک عرب کا نام بھی ہے اور اس ملک کی اصلی اور پرانی باشندہ قوم کا نام بھی۔
عَرِبَ کے معانی حسب ذیل ہیں۔ جن میں سے ہر ایک میں پری اور بھرا ہوا ہونے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ عربت المعدۃ عربا تغیرت وفسدت۔ زیادہ کھانے سے فساد معدہ ہو گیا۔ عرب الجرح نکس وغفر وبقی اثرہ بعد البرء۔ زخم اوپر سے اچھا ہوکر اندر سے ازسرنو بھر گیا۔ اور اس کا منہ بند رہا۔
توزم وتقیح۔ زخم پھول گیا۔ اور اس میں پیپ پڑ گئی۔ فلان فسدت معداتہ۔ اسے بدہضمی ہو گئی۔ نشط۔ اس کے جسم میں چستی پیدا ہو گئی۔ اور امنگ سے بھر گیا۔ فصح بعد لکنۃ۔ بغیر کسی رکاوٹ کے خوب بولنے لگ گیا اور اس کی صفت مشبہ بھی عَرَبٌ ہی آتی ہے۔ النہر غمر۔ اور جب یہ لفظ نہریا دریا کے لئے بولا جائے تو اس کے معنے ہوتے ہیں بھر گیا۔ اور اس کا پانی بہت اونچا ہو گیا۔ (اقرب)
پس عَرَبٌ مصدر کے ان تمام معانی کا قدر مشترک بھرا ہوا ہونا۔ یا بھر جانا ہوا۔ جس کے ساتھ یاء نسبت کے لگنے سے اس کے معنے ہوئے خوب بھری ہوئی چیز۔ کیونکہ ئا نسبت کے لگانے سے وصفی معنے کے علاوہ مبالغہ کا مفہوم بھی پیدا ہو جاتا ہے اور عَرَب صفت مشبہ کے معنے بھری ہوئی چیز کے ہوئے۔ اور جب اس کے ساتھ یاء نسبت لگائی جائے تو جس طرح اَحْمَر کے مقابلہ میں احمری کے معنے بہت سرخ کے اور عَبْقَر کے مقابلہ میں عبقری کے معنی نہایت ہی اعلیٰ درجہ کی چیز کے ہوتے ہیں اسی طرح اس کے معنے ہوں گے۔ خوب بھری ہوئی چیز اور جب یہ لفظ کسی کتاب کی صفت واقع ہو تو ان معنوں کی رو سے کتاب عربی کا مفہوم یہ ہوگا کہ وہ نہایت پرمعانی کتاب ہے۔ کیونکہ جس چیز سے کسی کتاب کو بھری ہوئی کہا جاسکتا ہے وہ اس کے معانی اور مطالب ہی ہوسکتے ہیں۔ اور جب ایک زبان کو اس صفت سے موصوف کریں گے تو اس کا یہ مدعا ہوگا کہ اس کے مفردات نہایت ہی کثیرالمعانی اور وسیع مفہوم رکھنے والے ہیں۔
اور عَرَبَ عَرَبا کے معنے ہیں کان عربیا خالصا ولم یلحن تکلم بالعربیۃ وکان عربیا فصیحا۔ زبان کا ہر ایک نقص سے پاک اور خالص عربی اور خوب واضح ہونا۔ فصیح عربی بولنا اور اپنے مدعا کو بہت خوبی کے ساتھ واضح کرنا۔ (اقرب)
اور یائے نسبت کے لگانے سے اس کے معنے نہایت فصیح اور خوب واضح ہر ایک نقص سے بالکل پاک کے ہوجائیں گے۔ اور ان معنوں کی مزید وضاحت اس لفظ کی مختلف تصریفات سے بھی ہوتی ہے۔ چنانچہ اقرب الموارد میں ہے اعرب الشئی ابانہ واوضحہ خوب بین اور واضح کر دیا۔ عن حاجتہ ابان عنھا کھول کر بیان کیا۔ کلامہ حسنہ وافصح ولم یلحن فی الاعراب۔ بات مین حسن پیدا کیا۔ اور اسے خوب واضح کیا۔ اور تلفظ میں بھی کوئی غلطی نہ کی۔ بحجتہ افصح بہا۔ اپنی بات خوب کھول کر مدلل طور پر بیان کی۔ اور مفردات راغب میں ہے العربی المفصح۔ عربی کے معنی ہیں اپنے مدعا کو خوب صفائی اور وضاحت کے ساتھ بیان کرنے والا۔ والاعراب البیان۔ اور اعراب کے معنے کھولنے اور واضح کرنے کے ہیں۔ پس ان معنوں کی رو سے قراٰنٌ عربیٌ کے معنی ہوئے ایسی کتاب جو ہمیشہ پڑھی جانے والی اور اپنے مطالب کو نہایت وضاحت کے ساتھ اور مدلل طور پر بیان کرنے والی ہے۔
تفسیر
ان آیات میں نہایت لطیف طور پر دو دعوے قرآن شریف کے متعلق بیان کئے ہیں۔
(۱) پہلی آیت میں قرآن کریم کا نام الکتاب رکھ کر بتایا تھا کہ وہ ہمیشہ لکھا جایا کرے گا اور کتابی صورت میں ہی رہے گا۔ اور دوسری آیت میں قرانا عرباً کہہ کر یہ بتایا ہے کہ وہ ہمیشہ پڑھا جائے گا کیونکہ بعض کتب ایسی ہیں جو لکھی تو بہت جاتی ہیں لیکن پڑھی نہیں جاتیں جیسے انجیل کہ چھپتی بہت ہے لیکن پڑھی کم جاتی ہے۔ اور بعض کتابیں لکھی کم جاتی ہیں لیکن پڑھی زیادہ جاتی ہیں جیسے گرنتھ وغیرہ۔ لیکن کسی کتاب کے پورے طور پر محفوظ رہنے کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ بکثرت لکھی بھی جائے اور پڑھی بھی جائے اور یہ خصوصیت صرف قرآن کریم کو حاصل ہے۔
عربیاً یوں تو اس کے معنے عربی زبان کے ہی ہیں لیکن عربی کا لفظ عرب سے نکلا ہے جس کے معنے بھرنے اور کثرت کے ہوتے ہیں اور جیسا کہ حل لغات میں بتایا جاچکا ہے۔ ع ر ب سے مشتق الفاظ جتنے بھی ہیں ان سب میں بھرنے اور کثرت کے معنے پائے جاتے ہیں۔ پس عربی زبان کو اسی وجہ سے عربی کہتے ہیں کہ اس کے معنوں میں بہت وسعت ہے اور اس کے مادے بہت زیادہ ہیں۔ ہر مضمون جو بیان کرنا چاہو اس کے لئے اس میں سامان موجود ہے۔ چنانچہ یورپین لوگوں نے بھی اس کی تصدیق کی ہے کہ یہ زبان مادوں کے لحاظ سے بہت مکمل اور وسیع ہے۔ مثلاً لین پول مشہور مصنف جس نے تاج العروس کا ترجمہ کیا ہے اس کتاب میں حسرت سے لکھتا ہے کہ عربی جیسی زبان ہمیں کوئی نظر نہیں آتی۔ لاکھوں مادے عربی زبان مین پائے جاتے ہیں اور ہر مادہ بامعنی ہے جس کے اندر ضرور کوئی نہ کوئی حکمت ہوتی ہے۔ چنانچہ ابن جنی نے جو ایک بہت بڑا ادیب ہے اپنے استاد بوعلی کا یہ دعویٰ بیان کیا ہے کہ عربی زبان کے حروف میں ہی معنوں کا لحاظ رکھا جاتا ہے اور مثال کے طور پر اس نے ک۔ل۔م۔ کو پیش کیا ہے کہ جب یہ حروف آپس میں مل کر استعمال ہوں تو قوت و طاقت کے معنے ضرور ان میں ملحوظ ہوتے ہیں۔ مثلاً ملک بادشاہ۔ ملک فرشت۔ کلم زخم لکم تھپڑ وغیرہ۔ ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ گو حروف آگے پیچھے ہو گئے ہیں اور معنے بدلتے چلے گئے ہیں لیکن سب کے سب الفاظ میں قوت و طاقت کی طرف اشارہ ہے۔ اسی طرح عربٌ کا لفظ ہے اس کے بھی جس قدر مشتقات ہیں سب میں بھرنے اور بہت ہوجانے کے معنے پائے جاتے ہیں جیسے عبور رعب وغیرہ۔
عربی زبان کے ان کمالات کی طرف گو پہلے آئمہ زبان نے بھی توجہ دلائی ہے لیکن یہ حقیقت کہ یہ زبان ام الالسنہ ہے یعنی سب زبانیں اسی میں سے نکلی ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ سلسلہ احمدیہ نے ہی ظاہر کی ہے اورا س مضمون پر ایسے لطیف پیرایہ میں روشنی ڈالی ہے کہ کوئی اس حقیقت کا انکار نہیں کرسکتا۔ افسوس کہ آپ کی کتاب نامکمل رہ گئی ہے مگر اصول بیان ہوچکے ہیں۔ ایک صاحب نے اس کی نقل میں ایک کتاب لکھی ہے لیکن افسوس کہ حقیقت کو بوجہ لاعلمی ملیامیٹ کر دیا ہے۔
لعلکم تعقلون۔ یعنی اس زبان میں اس کلام کو اس لئے اتارا ہے کہ تا تم پورا فائدہ اٹھا سکو۔ اگر یہ قرآن عربی نہ ہوتا یعنی ایسی زبان میں نہ آتا جو ہر مفہوم کو ادا کرسکتی ہے تو لوگ پورا فائدہ نہ اٹھاسکتے۔
۴؎ حل لغات
قص یقص قصا وقصصا اثرہ تتبعہ شیئا بعد شئی۔ اس کا نشان تلاش کرتے ہوئے اسکے پیچھے گیا۔ ومنہ فارتدا علی اثارھما قصصا۔ ای رجعا فی الطریق التی سلکا ھا یقصان الاثر۔ اور انہی معنوں میں قرآن کریم کی آیت فازتداعلی اثارھما قصصا۔ میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ قص علیہ الخبر والرؤیا حدث بھما علی وجھھما بات کو بے کم و کاست بیان کیا۔ ٹھیک طور پر بیان کیا۔ ومنہ نحن نقص علیک احسن القصص۔ ای نبین لک احسن البیان۔ اور انہی معنوں میں سورہ یوسف کی آیت نحن نقص علیک احسن القصص میں یہ لفظ آیا ہے۔ یعنی ہم تیرے سامنے ٹھیک ٹھیک بات بیان کرتے ہیں۔ (اقرب)
تفسیر
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ یوسف کے واقعہ کے متعلق دنیا میں اختلاف تھا اور قرآن کریم دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اس اختلاف کا فیصلہ کرے گا اور جو اصل واقعہ ہے اس کے چہرہ پر سے باطل کا نقاب اٹھاد ے گا۔ تبھی تو فرماتا ہے کہ ہم بے کم و کاست اصل واقعہ بیان کریں گے۔ اگر دنیا میں یہ واقعہ مشتبہ نہ ہوتا تو ان الفاظ کے استعمال کی ضرورت ہی کیا تھی۔ مگر تعجب ہے یوروپین محققین پر جنہوں نے اس امر پر غور نہیں کیا کہ حضرت یوسفؑ کا واقعہ قرآن کریم سے پہلے ہی مختلف فیہ ہوچکا تھا اور تاریخی طور پر مجروح ہو گیا تھا اور صرف اس امر کو دیکھ کر کہ قرآن کریم میں یہ واقعہ بائبل سے مختلف طور پر بیان ہوا ہے اس پر حملہ کر دیا ہے۔ چنانچہ ایک مشہور جرمن برنکمین نے نوٹس آن اسلام صفحہ ۱۱۲ پر لکھا ہے کہ ایک مسلمان پر قرآن کو بائبل سے ادنیٰ ثابت کرنے کا بہترین ذریعہ یہی ہے کہ اس کے سامنے دونوں کتابوں میں سے یوسف کے واقعہ کو پیش کر دیا جائے۔ قرآن شریف نے نے ایک خوبصورت اور دردانگیز واقعہ کو نہایت خراب اور بدنما صورت میں پیش کیا ہے۔ اس اعتراض نے درحقیقت قرآن کریم کی سچائی کوثابت کر دیا ہے۔ کیونکہ اس کا یہ دعویٰ کہ ہم بلاکم و کاست بیان کریں گے ثابت کرتا ہے کہ قرآن کریم کا نازل کرنے والا جانتا تھا کہ لوگ اس کے بیان کردہ واقعات پر اعتراض کریں گے۔ باقی رہا برنکمین صاحب کا یہ اعتراض کہ قرآن کریم نے ایک خوبصورت واقعہ کو خراب شکل میں پیش کیا ہے سو اس کا جواب اگلی آیتوں میں آجائے گا اور پڑھنے والوں کو خود معلوم ہو جائے گا کہ کس نے واقعہ کو بدنما صورت میں پیش کیا ہے۔
اور یہ جو فرمایا کہ اس واقعہ کے بے کم و کاست بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے تیری طرف قرآن کریم نازل کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہونے والا تھا۔ کیونکہ قرآن کریم کے نزول کے ساتھ یوسف علیہ السلام کے قصہ کے بیان کرنے کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہاں اس امر کا ضرور تعلق ہے کہ ان پیشگوئیوں کو بیان کیا جائے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہیں تاکہ لوگوں کو قرآن کریم کی وحی پر اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر یقین حاصل ہو۔
دوسرے یہ معنے ہوسکتے ہیں کہ حامل قرآن نے چونکہ مثیل یوسف ہونا تھا اس وجہ سے ضروری تھا کہ اسے اس کے حالات زندگی بتائے جائیں۔
اور یہ جو فرمایا ہے کہ تو اس سے پہلے بے خبر تھا اس کے دو معنے ہوسکتے ہیں۔ اول یہ کہ تو اس واقعہ سے غافل تھا۔ کیونکہ نہ تو تورات میں ہی ایک جگہ تمام صداقتیں جمع کی گئی ہیں اور نہ طالمود میں ہی کوئی سچائی کسی جگہ ہے اور کوئی کسی جگہ عیسائی کہتے ہیں کہ جبکہ یہ واقعہ بائبل میں موجود تھا تو آپؐ بے خبر کس طرح ہوسکتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جو واقعہ بائبل میں بیان کیا گیا ہے وہ اور ہے اور قرآن کریم کا بیان کردہ اور ہے۔ اور جیسا کہ میں آئندہ ثابت کروں گا قرآن کریم کا بیان ہی درست ہے اور جہاں جہاں اس سے بائبل نے اختلاف کیا ہے اس میں بائبل نے ٹھوکر کھائی ہے۔
دوسرے یہ معنے ہیں کہ تجھے بھی اس بات کا علم نہ تھا کہ تیرے ساتھ بھی یہ واقعات پیش آنے والے ہیں جیسا کہ یوسف علیہ السلام کو معلوم نہ تھا کہ ان کے ساتھ کیا واقعات پیش آنے والے ہیں۔
۵؎ حل لغات
ابت اصل میں ابی ہے یعنی ’’میرے باپ‘‘! لیکن عربی زبان کے قاعدہ کے مطابق کہ ابی اور امی کی یاء متکلم کو نداء کے وقت تاء مکسورہ سے بدل دیتے ہیں اور یاابت اور یاامت کہہ دیتے ہیں اور اس سے ایک رنگ بے تکلفی اور محبت کا پیدا کردیتے ہیں اس جگہ یاابت استعمال ہوا ہے۔
تفسیر
چونکہ بعض مسیحی مصنفوں نے قرآن پر حملہ کیا ہے اس لئے میں ساتھ ساتھھ ہی وہ فرق بتلاتا جاؤں گا جو بائبل اور قرآن کریم کے بیان میں ہے۔ پہلا فرق تو یہ ہے کہ بائبل میں اس واقعہ کے بیان کو حضرت یوسفؑ کے نسب نامہ سے شروع کیا گیا ہے لیکن قرآن کریم نے اس کو یوسفؑ کی اس خواب سے شروع کیا ہے جو کہ یوسفؑ کی ساری زندگی کے واقعات کے لئے نقطۂ مرکزیہ کے طور پر ہے اور آپ کی زندگی کے سب نشیب و فراز اسی پر مبنی ہیں۔ اور نسب نامہ وغیرہ کو جو مورخین کا کلام ہے چھوڑ دیا گیا ہے۔ پس اگر اور فرقوں کو چھوڑ کر محج شروع ہی کے لحاظ سے دونوں کے بیانوں میں فیصلہ کیا جائے اور کسی مبصر کے سامنے دونوں بیانوں کو رکھ کر اس سے پوچھا جائے کہ قرآن کریم اور بائبل میں سے کس کا شروع اچھا ہے تو وہ یہی کہے گا کہ قرآن کریم نے عمدہ طور پر اس واقعہ کو شروع کیا ہے۔ وہ چیز جس نے یوسفؑ کو کامیاب بنایا۔ اس کی زندگی میں تغیر پیدا کیا۔ اس کے بھائیوں کو دشمن بنا دیا۔ اور ھر آخر غلام بناکر اس کے قدموں میں لا ڈالا۔ یہی خواب تھی۔ پس اگر یوسفؑ کا اس زندگی کو جس سے دنیا سبق حاصل کرسکتی ہے پیش کرنا مقصود ہو تو اس خواب سے بہتر ابتداء اس کے لئے نہیں مل سکتی۔
دوسرا فرق بائبل کے بیان اور قرآن کریم کے بیان میں یہ ہے کہ قرآن کریم میں گیارہ ستاروں کا پہلے ذکر ہے اور سورج اور چاند کا بعد میں لیکن بائبل میں اس کے برخلاف ہے۔ چنانچہ اس میں لکھا ہے۔ ’’پھر اس نے دوسرا خواب دیکھا اور اسے اپنے بھائیوں سے بیان کیا۔ا ور کہا کہ دیکھو میں نے ایک خواب دیکھا کہ سورج اور چاند اور گیارہ ستاروں نے مجھے سجدہ کیا اور اس نے یہ اپنے باپ اور بھائیوں سے بیان کیا۔ ‘‘ (پیدائش باب۳۷ آیت ۹،۱۰) اس اختلاف سے قرآن کریم کی برتری اور بائبل کی کمزوری نہایت واضح ہوجاتی ہے۔ قرآن کریم اور بائبل دونوں متفق ہیں کہ ستاروں سے مراد بھائی اور سورج اور چاند سے مراد ماں باپ ہیں۔ لیکن جیسا کہ بائبل خود تسلیم کرتی ہے حضرت یوسف علیہ السلام کے عزت پا جانے کے بعد پہلے ان کے بھائی ان سے ملے ہیں اور ادب دے ان کے سامنے جھکے ہیں اور اس کے بعد ان کے باپ اور ماں ان کے پاس آئے ہیں۔ پس و ترتیب جو قرآن کریم نے رؤیا کی بیان کی ہے درست ہے اور بائبل کی بیان کردہ ترتیب خود اس کے اپنے بیان کے مطابق غلط ہے۔ یقینا رؤیا میں انہی وجودوں کو پہلے دکھایا گیا ہوگا جنہوں نے پہلے یوسفؑ کے سامنے سر جھکانا تھا اور انہیں پیچھے دکھایا گیا ہوگا جنہوں نے بعد میں زیر سایہ آنا تھا۔
اس آیت میں جو سجدہ کا لفظ آیا ہے اس سے مراد یہ نہیں کہ واقعہ میں وہ سجدہ کریں گے بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ ان کے تابع ہوجائیں گیا ور ایسا ہی ہوا کیونکہ حضرت یوسفؑ کے بھائی اور ماں باپ مصر مین آکر بس گئے جہاں وہ وزارت کے مرتبہ پر فائز تھے اور اس طرح وہ لوگ ان کے تابع فرمان ہو گئے۔
روح المعانی میں لکھا ہے کہ ماں باپ اور بھائیوں کی اطاعت چونکہ معمولی بات ہے پس یہاں سورج اور چاند سے کچھ اور مراد لینا چاہئے۔ مصنف کتاب کی رائے ہے کہ سورج سے مراد درحقیقت بادشاہ اور چاند سے مراد وزیر اور گیارہ ستاروں سے مراد اراکین دولت اور رؤسائِ دیار ہیں۔ لیکن یہ معنے درست نہیں کیونکہ بادشاہ یوسفؑ کے ماتحت نہیں ہوا۔ بلکہ وہ بادشاہ کے ماتحت تھے اور اس کے قوانین پر چلتے تھے۔ چنانچہ اس پر قرآن کریم شاہد ہے۔ فرماتا ہے ماکان لیاخذاخاہ فی دین الملک (یوسف رکوع۹) یوسف علیہ السلام اپنے بھائی کو شاہی قانون کے مطابق نہیں روک سکتے تھے۔ (۲) بادشاہ کسی وزیر کا خواہ کتنا ہی احترام کرے اسے سجدہ کے لفظ سے موسوم نہیں کرسکتے کیونکہ وہ احترام اطاعت کا نہیں ہوتا بلکہ شفقت کا ہوتا ہے۔ اور سجدہ چونکہ کمال اطاعت کی ظاہری تمثیل کا نام ہے اس لئے اظہار اطاعت کی شکلوں پر ہی مجازاً بھی اس کا اطلاق کیا جاسکتا ہے۔ اصل بات یہ ہے ماں باپ اور بھائی کی اطاعت بھی بڑی بات ہے کیونکہ عام طور پر ماں باپ اپنی اولاد کے ماتحت نہیں ہوتے۔ پھر یہاں تو معاملہ ہی اور ہے۔ حضرت یوسفؑ نے بچپن کی عمر میں خواب دیکھا ہے جس پر بتایا گیا ہے کہ ایک دن ان کے بھائی اور ماں باپ ان کی اطاعت میں آجائیں گے۔ کون شخص اس قدر عرسہ پہلے یہ بتا سکتا ہے کہ وہ زندہ رہے گا اور ترقی کرے گا اس کے گیارہ بھائی اور ماں باپ بھی زندہ رہیں گے اور ایک دن اس کے حکم کے نیچے آجائیں گے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے جب یہ خواب دیکھی ان کی عمر صرف گیارہ بارہ سال کی تھی اور ان کے والد کی عمر پچاس سے اوپر تھی۔ پس ایسے وقت کی خواب کا پورا ہونا معمولی ہرگز نہیں کہلاسکتا۔
گیارہ ستاروں کی تعبیر میں نے بتایا ہے کہ گیارہ بھائی ہیں۔ ان کے نام بائبل سے یہ معلوم ہوتے ہیں۔ (۱) روبن (۲) سمعون (۳)لاوی (۴)یہودا (۵)دان (۶)نفقانی (۷)جد (۸) آشر (۹)اشکار (۱۰)زبلون (۱۱)بنیامین۔ ان سب کے معنے بھی بائبل نے بتائے ہیں اور سب کے سب عجیب و غریب ہہیں۔ سوائے بن یامین کے سب نام ماؤں نے رکھے ہیں۔
رسول کریمؐ کی مماثلت حضرت یوسفؑ سے سب سے پہلی وحی الٰہی میں
اس واقعہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یوسف علیہ السلام سے دو مشابہتیں ہیں۔ اول آپؐ پر بھی غارحراء میں جو سب سے پہلی وحی آئی اس میں آپؐ کی سب قوم پر فضیلت پاجانے کی خبر تھی کیونکہ اس میں فرمایا گیا تھا کہ اقراء وبرک الکرم الذی علم ب القلم علم الانسان مالم یعلم۔ یعنی سب سے مکرم رب کی مدد سے یہ کلام تو لوگوں کو سنا۔ یعنی وہ تجھے بھی سب سے مکرم بنا دے گا اور تیری معرفت لوگوں کو وہ بات سکھائے گا جو پہلے لوگوں کو نہیں سکھائی تھی۔ یعنی تو موجودہ زمانہ کے لوگوں سے بھی مکرم ہوگا اور پہلے لوگوں سے بھی۔ کیونکہ تجھے وہ کچھ ملے گا جو پہلے انبیاء کو بھی نہیں ملا۔ گویا تو بھائیوں کا بھی سردار ہوگا اور اپنے روحانی آباء کا بھی یعنی انبیاء کا بھی۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اناسید ولد ادم۔ جس قدر انسان ہیں جن میں پہلے انبیاء بھی شامل ہیں میں ان سب کا سردار ہوں۔ اور سردار کی اطاعت کی جاتی ہے۔ اسی طرح فرمایا لوکان موسی وعیسی حیین لما وسعہما الاتباعی۔ اگر موسیٰ اور عیسیٰ زندہ ہوتے تو میری اطاعت کے بغیر ان کو چارہ نہ ہوتا۔ (تفسیر ابن کثیر) غرض سب سے پہلی وحی ہی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا تھا کہ آپؐ کے بھائی اور آپؐ کے بزرگ خواہ وہ کتنے پرانے ہوں سب آپؐ کے بزرگ خواہ وہ کتنے پرانے ہوں سب آپؐ کے ماتحت ہوں گے اور آپؐ سب کے سردار ہوں گے۔
دوسری مماثلت۔ سب سے پہلی وحی اپنے قومی بزرگ ورقہ بن نوفل کو سنانا
دوسری مشابہت یہاں سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ جس طرح یوسف علیہ السلام نے اپنی رؤیا اپنے باپ کو سنائی تھی اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پہلی وحی حضرت خدیجہؐ کے کہنے پر اپنے خاندان کلے ایک بزرگ کو سنائی جن کا نام ورقہ بن نوفل تھا۔
۶؎ حل لغات
بنی ابنی کی تصغیر ہے جو یاء ضمیر متکلم کی طرف مضاف ہے۔ اور تصغیر کے صیغہ سے مراد چھوٹی عمر کا بچہ نہیں بلکہ پیار کے لئے یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ باپ بڑی عمر کے لڑکے کے لئے بھی یہ لفظ استعمال کرسکتا ہے۔ کیونکہ باپ کے لئے بیٹا چھوٹا ہی ہوتا ہے اور اس کے پیار کا مستحق۔ قرآن کریم میں بڑی عمر کے بیٹوں کے لئے بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ چنانچہ سورہ ہود میں ہی حضرت نوحؑ کا قول گزر چکا ہے کہ انہوں نے طوفان کے وقت اپنے بیٹے سے کہا یبنی ارکب معنا۔ (ہود رکوع۴) اسی طرح سورۃ لقمان میں لقمان کا قول ہے یبنی لاتشرک باللہ (لقمان رکوع۲) کادہ یکیدہ کیدا خدعہ ومکربہ اسے دھوکہ دیا اور حیلہ بازی کی۔ والاسم المکیدۃ اور اس کا اسم مصدر مکیدۃ ہے جس کے معنی دھوکہ اور چالاکی کے ہیں۔ وعلمہ الکیید۔ اور کاد کے ایک معنی ہیں اسے تدبیر سکھلائی۔ وبہ فسر کذلک کدنا لیوسف اے علمنہ الکببد علی اخوتہ۔ اور قرآن کریم میں یوسفؑ کے متعلق جو یہ لفظ آیا ہے اس کے بھی یہی معنے کئے گئے ہیں کہ ہم نے اسے تدبیر سکھائی۔ کادلہ۔ اختال لہ اس سے حیلہ بازی کی۔ فلانا حاربہ۔ اس سے جنگ کی۔ ارادہ بسوء۔ اس سے بدی کا ارادہ کیا۔ الکید۔ المکروالخبث۔ کید کے معنے مکر اور خباثت یعنی بدباطی کے ہیں۔ الحیلۃ تعبیر۔ الحرب جنگ۔ ارادۃ مضرۃ الغیر خفیۃ دوسرے کو پوشیدہ طور پر تکلیف پہنچانے کا ارادہ۔ وھو من الخلق الحیلۃ السیئۃ ومن اللہ التدبیر بالذحق لمجازاۃ اعمال الخلق۔ اور جب یہ کسی مخلوق کا فعل ہو تو اس کے معنے بری تدبیر کے ہوتے ہیں اور جب اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہو تو اس کے معنے پکی اور مناسب تدبیر کے ہوتے ہیں جو انسانوں کے اعمال کا بدلہ دینے کے لئے اختیار کی گئی ہو۔ (اقرب)
تفسیر
بائبل اور قرآن کریم کے بیانات میں اس جگہ پھر اختلاف ہو گیا ہے۔ اور پہلے کی طرح بائبل خود شاہد ہے کہ اس کا بیان غلط ہے۔ قرآن کریم نے تو بتایا ہے کہ یوسفؑ نے اپنا یہ خواب پہلے اپنے والد کو سنایا اور اس نے انہیں منع کر دیا کہ بھائیوں کو یہ خواب نہ سنائیو۔ لیکن بائبل میں لکھا ہے کہ یوسف علیہ السلام نے پہلے اپنے بھائیوں کو یہ خواب سنایا۔ (پیدائش باب۲۷ آیت ۹)
اس اختلاف میں بھی قرآن کریم ہی صادق ہے۔ کیونکہ بائبل میں لکھا ہے کہ اس خواب کے دیکھنے سے پہلے یوسفؑ نے ایک اور خواب دیکھا تھا۔ اور اپنے بھائیوں کو سنایا تھا۔ چنانچہ لکھا ہے۔ ’’اور یوسف نے ایک خواب دیکھا اور اسے اپنے بھائیوں سے کہا تب وے اس سے زیادہ متنفر ہوئے۔ (پیدائش ۳۷ ۵۰) پھر لکھا ہے۔ ’’تب اس کے بھائیوں نے اسے کہا کہ کیا تو سچ ہمارا بادشاہ ہوگا یا تو ہمارا حاکم ہوگا؟ اور انہوں نے اس کے خوابوں اور اس کی باتوں سے اس کا زیادہ کینہ پیدا کیا۔ (پیدائش ب۳۷ ۸) ان دونوں خوابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یوسف علیہ السلام نے اس خواب سے پہلے بھی ایک خواب دیکھی تھی اور جب انہوں نے وہ خواب اپنے بھائیوں کو سنائی تو انہوں نے اسے ڈانٹا اور اس سے نفرت کرنے لگے اور کینہ کرنے لگے۔ اب کیا عقل تسلیم کرسکتی ہے کہ دوسری دفعہ جب انہوں نے ویسی ہی خواب دیکھی تو باپ کو سنانے سے پہلے اپنے بھائیوں سے کہی ہوگی۔ عقل یہی کہتی ہے کہ اس دفعہ پہلے سلوک سے ڈر کر انہوں نے بھائیوں سے خواب نہیں کہی ہوگی بلکہ والد سے کہی ہوگی۔ پس قرآن کریم کا بیان خود بائبل کے دوسرے حوالہ جات کو مدنظر رکھتے ہوئے زیادہ معقول اور قابل قبول ہے۔
یہ جو قرآن کریم میں آتا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے بھائیوں کو خواب سنانے سے منع کیا اس کی وجہ قرآن کریم نے خود ہی بتادی ہے اور وہ یہ کہ انہیں رشک پیدا ہوگا کہ یہ لڑکا بڑا ہونے والا ہے اور غصہ میں وہ یہ نہ سوچیں گے کہ خواب دیکھنا انسان کے اختیار میں نہیں ہے اور وہ محض اس وجہ سے کہ اس کے بڑا ہونے کی بشارت اسے ملی ہے اسے اپنے راستہ سے ہٹانے کی کوشش کریں گے۔ چنانچہ بائبل بھی اس امر کی تصدی کرتی ہے کہ یوسفؑ کے بھائی اس وجہ سے اس سے ناراض تھے کہ یہ خوابیں دیکھتا ہے۔
آنحضرتؐ اور حضرت یوسفؑ کی تیسری مماثلت
اس آیت میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت یوسفؑ کی ایک مشابہت بیان کی گئی ہے۔ کیونکہ جس طرح حضرت یوسفؑ کو خواب سنانے پر حضرت یعقوبؑ نے بتایا کہ اس رؤیا کو جب تیرے بھائی سنیں گے تو تیری مخالفت کریں گے۔ اسی طرح جب ورقہ بن نوفل کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب سنائی تو انہوں نے کہا کہ یالیتی فیہا جذعا لیتنی اکون حیا اذیخرجک قومک کہ کاش میں اس قوت مضبوط جوان ہوتا جب تیری قوم تجھے نکالے گی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پوچھنے پر کہ کیا میری قوم مجے نکال دے گی انہوں نے کہا کہ اس قسم کا کلام جب بھی کسی نے اپنی قوم کو سنایا ہے اس سے دشمنی کی گئی ہے۔ چنانچہ ان کے الفاظ یہ ہیں۔ لم یأت رجل قط بمثل ماجئت بہ الاعودی۔ (صحیح بخاری باب کیف کان بدء الوحی)
۷؎
یعنی جس طرح تو نے خواب دیکھی ہے اسی طرح تجھ سے اللہ تعالیٰ معاملہ کرے گا ور وہ بزرگی جس کا اس خواب میں وعدہ ہے آخر تجھے ملے گی۔
اور یہ جو فرمایا کہ خداتعالیٰ تجھے خوابوں کی حقیقت بتائے گا اس کے دو معنے ہیں ایک یہ کہ خواب میں جو نظارہ دکھایا اسی طرح ظاہر میں کرکے دکھائے گا۔ دوسرے یہ کہ خوابوں کی تعبیر کرنے کا ملکہ عطا فرمائے گا۔
یتم نعمتہ علیک سے مراد مقام نبوت پر کھڑا کرنا ہے۔ یوسف سے وعدہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی نبوت عطا فرمائے گا اور ان کے ذریعہ سے آل یعقوب کو بزرگی عطا فرمائے گا یعنی انہیں ان پر ایمان لاکر اس نبوت میں حصہ لینے کی توفیق عطا ہوگی۔
اس آیت میں جو مضمون بیان ہوا ہے اس میں اور بائبل کے بیان میں بھی اختلاف ہے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے یوسف علیہ السلام کی خواب پر یقین کیا اور اس پر خوشی کا اظہار کیا۔ لیکن بائبل کہتی ہے کہ جب یوسف علیہ السلام نے اپنے والد سے خواب بیان کی ’’تب اس کے باپ نے اسے ڈانٹا اور اس سے کہا کہ یہ کیا خواب ہے؟ جو تو نے دیکھا ہے؟ کہا کیا میں اور تیری ماں اور تیرے بھائی سچ مچ تیرے آگے زمین پر جھک کے تجھے سجدہ کریں گے اور اس کے بھائیوں کو رشک آیا لیکن اس کے باپ نے اس بات کو یاد رکھا (پیدائش ب۳۷ ۱۰ و ۱۱) اس حوالہ سے معلوم ہوتا ہے کہ خواب سن کر یعقوب علیہ السلام نے یوسف علیہ السلام کو ڈانٹا حالانکہ ہر عقلمند انسان سمجھ سکتا ہے کہ بائبل کا یہ بیان خلاف عقل ہے کیونکہ کوئی معقول آدمی کسی کو خواب دیکھنے پر ڈانٹ نہیں سکتا کیونکہ خواب کا دیکھنا کسی کے اختیار میں نہیں ہے۔ ہاں صرف ایک صورت ڈانٹنے کی ہوسکتی ہے کہ یہ خیال کیا جائے کہ خواب سنانے والے نے خواب نہیں دیکھا بلکہ وہ جھوٹ بول رہا ہے مگر بائبل کہتی ہے کہ یعقوبؑ نے کہا یہ ’’کیا خواب ہے جو تو نے دیکھا ہے۔‘‘ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یعقوبؑ نے یوسفؑ کو جھوٹا نہیں سمجھا۔ پس سچا سمجھتے ہوئے ڈانٹنا خلاف عقل ہے اور ہر عقلمند قرآن کریم کا ہی بیان درست اور صحیح سمجھے گا۔ علاوہ ازیں بائبل خود اپنے بیان کو رد کرتی ہے کیونکہ اس میں ساتھ ہی یہ لکھا ہے کہ یعقوبؑ نے اس خواب کو یاد رکھا۔ یاد رکھنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یعقوبؑ اس خواب کو سچا اور آسمانی سمجھتے تھے اور جب وہ اسے آسمانی خواب سمجھنتے تھے تو کس طرح ممکن تھا کہ وہ اس خواب پر یوسف علیہ السلام کو ڈانٹتے جن کا خواب کے دیکھنے میں کوئی بھی دخل نہ تھا۔
آنحضرتؐ اور حضرت یوسفؑ کی چوتھی مماثلت
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اس رؤا کو آسمانی قرار دیا اور اس پر ایمان لائے اور اسے اپنی قوم کی بزرگی کا موجب قرار دیا۔ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوا کہ ورقہ بن نوفل نے آپؐ کی وحی کو سن کر اس کی تصدیق کی اور اس پر ایمان لائے اور اسے موسیٰ کے الہام کی مانند قرار دے کر اپنی قوم کی بزرگی کا موجب تسلیم کیا اور کہا ھذا الناموس الذی نزل اللہ علی موسی یہ وہی وحی ہے جو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام پر نازل کی تھی۔
۸؎
یعنی جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت سمجھنے کے لئے کوشش کرتے ہوں ان کے لئے اس واقعہ میں نشانات ہیں۔ گویا یہ حالات بعینہٖ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش آنے والے ہیں۔ یہ آیت کس طرح وضاحت سے ثابت کرتی ہے کہ یوسفؑ کا واقعہ بطور قصہ بیان نہیں ہوا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے متعلق جستجو کرنے والوں کے لئے نشانات بہم پہنچاے کی غرض سے بیان ہوا ہے۔ پس جو امور اس واقعہ میں بیان ہوئے ہیں وہ بطور نشان صداقت ہیں۔
۹؎ حل لغات
العصبۃ من الرجال والخیل والطیر العصابۃ۔ والعصابۃ الجماعۃ من الرجال ومن الخیل ومن الطیر۔ وقیل العشرۃ وقیل مابین العشرۃ الی الاربعین۔ عصبہ کے وہی معنے ہیں جو عصابہ کے ہیں۔ یعنی مطلق جماعت اور بعض کے نزدیک دس افراد کی جماعت اور بعض کے نزدیک دس سے لے کر چالیس تک کے افراد کی جماعت۔ (اقرب) مفسرین نے عشرہ والے معنے کو ترجیح دی ہے کیونکہ وہ دس ہی تھے۔
عصبۃ میں طاقت کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔ یہ لفظ عصب سے نکلا ہے۔ گویا وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ کام کرنے والے ہم، کمانے والے ہم مگر پیار کے لئے باپ کو یوسفؑ اور اس کا بھائی۔
آنحضرتؐ اور یوسفؑ میں پانچویں مشابہت
تفسیر
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی یہی واقعہ کئی رنگ میں پیش آیا ہے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے چچا زید ابن نفیل جو یہودی علماء سے توحید کا علم حاصل کرچکے تھے اسلام کے آنے سے پہلے شرک کے خلاف وعظ کیا کرتے تھے۔ ان سے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے یہ جواب دیا کہ شرک کے خلاف وعظ تو میں کرتا رہا ہوں اگر کچھ بننا ہوتا تو میں بنتا۔ یہ شخص نبی کس طرح بن گیا۔ یہی اعتراض آپؐ کی نبوت پر یہود و نصاریٰ کو تھا۔ کیونکہ وہ بھی یہی کہتے تھے کہ خدا کے دین کے حامل تو ہم ہیں یہ انعام کا مستحق کس طرح ہو گیا۔ بلکہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل مکہ کے دلوں میں بھی یہ خیال عام تھا کہ ہم میں سے جو بڑے لوگ ہیں ان پر یہ کلام کیوں نازل نہ ہوا۔ چنانچہ سورہ زخرف میں فرماتا ہے وقالوا لولا نزل ھذا القران علی رجل من القریتین عظیم۔ (ع۳) اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ کیوں یہ قرآن مکہ یا طائف کے کسی بڑے آدمی پر نازل نہ ہوا۔ یعنی انہیں حسد آتا ہے کہ اس کمزور آدمی کو خداتعالیٰ نے کیوں اپنے فضل کے لئے چن لیا جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اھم یقسمون رحمت ربک کیا یہ لوگ تیرے رب کی رحمت کو خود تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔
لفی ضلل مبین یعنے چاہئے تو یہ تھا کہ ہمارے کاموں کی وجہ سے ہم سے پیار کیا جاتا۔ یوسفؑ چھوٹا اور نکما ہے اس سے محبت کرنا اور ہم سے نہ کرنا صریح غلطی ہے۔ یہ بات بتارہی ہے کہ ان کو اس کے خلاف سخت غصہ تھا۔
۱۰؎ حل لغات
صلح الشئی یصلح ویصلح صلاحا وصلوحا وصلاحیۃ ضد فسد اوزال عنہ الفسا۔ یقال صلحت حال فلان۔ درست اور ٹھیک ہو گیا۔ اس کی خرابی اور بدحالی دور ہو گئی۔ الرجل فی عملہ لزم الصلاح۔ نیکوکار ہو گیا۔ (اقرب)
تفسیر
نیک صحبت کس طرح دل پر اثر کرتی ہے۔ ایک خطرناک جرم کا ارتکاب کرنے لگے ہیں لیکن پھر بھی گناہ کا خوف دل میں ہے اور اس خوف کا اثر دل سے مٹانے کے لئے یہ بہانہ تلاش کرتے ہیں کہ پھر توبہ کرلیں گے۔ یہ دھوکا بہت سے لوگوں کو لگا ہوا ہوتا ہے۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ پھر توبہ کر لیں گے۔ حالانکہ زندگی کا اعتبار کیا؟ خواہ کس قدر پختہ نیت بھی توبہ کرنے کی ہو لیکن موت آجائے یا دماغ میں فتور آجائے یا عادت پڑ جائے تو پھر توبہ کا ارادہ کس طرح پورا ہوسکتا ہے۔
قرآن مجید اور بائبل کے بیانات اس واقعہ میں بھی مختلف ہیں۔ قرآن کریم سے ظاہر ہوتا ہے کہ یوسفؑ کے بھائیوں نے پہلے مشورہ کیا اور مشورہ کے بعد وہ یوسف علیہ السلام کو باہر لے جانے کی کوشش کرنے لگے۔ مگر بائبل کہتی ہے کہ انہوں نے اچانک یوسفؑ کو آتے دیکھا تو فوراً قتل کرنے کے لئے تیار ہو گئے۔ چنانچہ بائبل میں لکھا ہے ’’اور جونہی انہوں نے اسے دور سے دیکھا اس سے پہلے کہ وہ نزدیک پہنچے اس کے قتل کا منصوبہ باندھا اور ایک نے دوسرے سے کہا دیکھو یہ صاحبِ خواب آتا ہے سو آؤ ہم اب اسے مار ڈالیں۔ اور کسی کنوئیں میں ڈل دیں اور کہیں کہ کوئی برا درندہ اسے کھا گیا اور دیکھیں کہ اس کے خوابوں کا انجام کیا ہوگا۔
(پیدائش باب۳۷ آیت ۱۸ لغایت ۲۰)
جرائم کی تحقیقات کرنے والے بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ اس اختلاف میں قرآن مجید کا بیان ہی قرین قیاس ہے۔ یونہی کھڑے کھڑے یکدم قتل کرنے کو تیار ہو جانا یا عادی ڈاکوؤں کا کام ہے یا پاگلوں کا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی جو اپنے گھر میں شریفانہ زندگی بسر کرتے تھے وہ یکایک ایسے بھیانک فعل کے لئے تیار نہیں ہوسکتے تھے۔ پس ان کا اس طرح قتل کے لئے آمادہ ہو جانا بتلاتا ہے کہ وہ پہلے مشورہ کرچکے تے۔ فوراً تحریک کرنے والے کو کیا یہ ڈر نہ آتا کہ اتنی بڑی بات میں اگر بھائی ہم خیال نہ ہوئے تو میرا کیا حشر ہوگا۔ ان کا قول وتکونوا من بعدہ قوما صلحین۔ کہ محرک جرم جب راستہ سے ہٹ جائے گا تو پھر تم نیک ہو جاؤ گے بھی بتا رہا ہے کہ وہ عادی مجرم نہ تھے اور ان کی فطرت اس کام کو ناپسند کرتی تھی۔ پس عقل کی رو سے قرآن مجید کا بیان ہی صحیح اور واقعات کے مطابق ہے۔
آنحضرتؐ اور حضرت یوسفؑ میں چھٹی مماثلت
اس منصوبۂ قتل میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت یوسف علیہ السلام سے مشابہت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے واذیمکربک الذین کفروا لیئبتوک اویقتلوک اویخرجوک ویمکروان ویمکراللہ۔ واللہ خرالماکرین۔ (انفال رکوع۴) یعنی یاد کر جبکہ دشمن منصوبے کرتے تھے کہ تجھے کہیں قید کر دیں یا قتل کردیں یا تجھے نکال دیں اور وہ اب بھی ایسے منصوبے کرتے رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی پختہ تدبیریں کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی تدبیر زیادہ اچھی ہوتی ہے۔ پس جس طرح یوسف علیہ السلام کی نسبت قتل اور کسی دوسرے علاقہ میں پھینک دینے کا منصوبہ کیا گیا تھا اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی منصوبہ کیا گیا۔
۱۱؎ حل لغات
الغیابۃ من کل شئی ماسترک منہ۔ غیابۃ۔ ہر چیز کے اس حصہ کو کہتے ہیں جو اسے نظروں سے غائب کردے۔ ومن الجب والوادی قعرہ اور کنوئیں یا وادی کا غیابہ اس کے گہراؤ اور تہ کو کہتے ہیں۔ پس غیابۃ کا لفظ وادی یا جب وغیرہ کی طرح کی جگہ کے نام کی طرف مضاف ہوکر استعمال ہوتا ہے اور اس کی تہ کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔ ووقعنا فی غیابۃ اے حبطہ من الارض۔ زمین کا گہرا حصہ القبر۔ قبر۔ (اقرب) الجب البئرا والبئر الکثیر الماء البعیدۃ القعر۔ مطلق کنواں یا بہت پانی والا اور بہت گہرا کنواں و فی المصباح والجب بئر لم تطو۔ ایسا کنواں جس کے گرد منڈیریں وغیرہ نہ ہوں اور ویراں پڑا ہو۔ (اقرب)
السیاۃ۔ مؤنث السیار۔ سیارہ۔ سیار کی مؤنث ہے جس کے معنے ہیں کثیرالسین بہت سیر کرنے والا۔ القافلۃ۔ قافلہ۔ واصلہا القوم یسیرون اور اس کے اصل معنے ایسی جماعت کے ہیں جو سفر کررہی ہو۔ (اقرب)
تفسیر
یعنی اگر تم یوسف سے ضرور ہی مخالفت کرنا چاہتے ہو تو بھی اسے قتل نہ کرو بلکہ اسے گھر سے نکالنے کی تدبیر کرو۔
ساتویں مماثلت
جس طرح یوسفؑ کے قتل کے بارہ میں بعض لوگوں نے مخالفت کی تھی ایسا ہی مکہ کے بعض لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے منصوبے میں کفار کی مخالفت کی اور کہا کہ انہیں قتل نہ کرو بلکہ بعض نے تو اس معاہدہ کو زور سے تڑوا دیا جو آپؐ کو اور آپؐ کے اتباع کو فاقے مارنے کے متعلق کیا گیا تھا۔
۱۲؎ حل لغات
تامنا۔ امنہ وامنہ وامنہ واستامنہ۔ جعلہ امینا۔ اسے امین بنایا۔ (تاج العروس)
نصح الشئی نصحا ونصوحا۔ خلص ہر غل و غش اور کھوٹ سے پاک و صاف ہوا۔ نصحت توبتہ نصوحا خلصت من شوائب العزم علی اجرجوع۔ توبہ عہدشکنی اور خلاف ورزی کے خیالات کی آمیزش سے بکلی پاک ہوئی۔ الثوب انعم خیاطتہ ولم یترک فتقا ولا خلالا۔ شبہ ذلک بالنصح۔ کپڑا ایسا سیا کہ اس میں کوئی شگاف اور رخنہ وغیرہ نہ چھوڑا۔ جیسے خلوص کی حالت میں کوئی مخالف خیال باقی نہیں رہتا۔ العمل اخلصہ عمل کو خالص کیا۔ العسل صفاہ۔ شہد کو پاک و صاف کیا۔ (اقرب)
تفسیر
بائبل کا بیان ہے کہ ’’اور اس کے بھائی اپنے باپ کے گلے چراتے سکم کو گئے۔ تب اسرائیل نے یوسف کو کہا کیا تیرے بھائی سکم میں نہیں چراتے ہیں۔ آمیں تجھے ان کے پاس بھیجوں اس نے اسے کہا کہ می حاضر ہوں۔ (پیدائش ب۳۷ آیت ۱۲،۱۳)
یعنی باپ نے خود یوسف علیہ السلام کو تحریک کرکے بھائیوں کے پاس بھیجا۔ مگر قرآن مجید یہ بتلاتا ہے کہ بھائیوں نے قتل کا مشورہ کیا اور پھر باپ سے اجازت چاہی کہ باپ اسے ان کے ساتھ بھیجے۔
حضرت یعقوب علیہ السلام بیٹوں کی کاوش کو جانتے تھے انہیں معلوم تھا کہ باقی بھائی یوسف کو کس نر سے دیکھتے ہیں اور بائبل میں لکھا ہے ’’اور اس کے بھائیوں نے یہ دیکھ کے کہ ان کا باپ اس کے سب بھائیوں سے اسے (یعنی یوسف کو) زیادہ پیار کرتا ہے اس کا کینہ پیدا کیا اور اس سے محبت کی بات نہ کرسکتے تھے۔ (پیدائش ب۳۷ آیت۴) اس صورت میں یہ بالکل غیرطبعی بات ہے کہ خود حضرت یعقوب علیہ السلام یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائیوں کے پاس بھیجیں۔ پس بائبل کا بیان غلط ہے اور قرآن مجید کا بیان ہی صحیح ہے۔
اس آیت سے حضرت یوسف علیہ السلام کی عمر اس وقت قریباً گیارہ بارہ سال کی معلوم ہوتی ہے کیونکہ یہ الفاظ اتنی ہی عمر کے بچے کے متعلق زیادہ مناسب معلوم ہوتے ہیں۔ مگر بائبل کے بیان کے مطابق وہ اس وقت ۱۷ یا ۱۸ سال کے ہوچکے تھے لیکن یہ بات غلط ہے جیسا کہ آگے اس کی تحقیق آئے گی۔
۱۳؎ حل لغات
رتعت الماشیۃ فی المکان رتعا ورتوعا ورتاعا اکلت وشربت ماشائت فی خصب وسعۃ۔ جانوروں نے عمدہ چراگاہ سے جو کچھ چاہا کھایا اور پیا۔ والقوم اکلوا ماشاؤا فی رغد۔ لوگوں نے جو چاہا بافراغت کھایا۔ ویقال خرجنا نرتع ونلعب۔ اے ننعم ونلہو۔ اور نرتع و نلعب کے معنے محاورہ میں عیش کرنے اور کھیلنے کے ہوتے ہیں۔ (اقرب)
تفسیر
اس لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کھیتی بھی کرتے تھے۔ بائبل کہتی ہے کہ وہ صرف جانور ہی چراتے تھے۔ لیکن بائبل میں جو پہلا خواب حضرت یوسف علیہ السلام کا بیان کیا گیا ہے اس میں اور ان کے بھائیوں کے پولے باندھنے کا ذکر ہے اور ایک چھوٹا بچہ جو گھر سے زیادہ باہر نہیں نکلا اور جو شہر میں انہیں رہتا بلکہ اس کا خاندان باقی دنیا سے الگ زندگی بسر کررہا ہے ایسی خواب نہیں دیکھ سکتا تھا جس کا نظارہ اس کی آنکھوں کے آگے نہ آچکا ہو۔ پس اس خواب سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کریم کا بیان ہی صحیح ہے۔
انالہ لحافظون سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک ان کی عمر ابھی چھوٹی ہی تھی ورنہ جنگل میں رہنے والے سترہ برس کے نوجوا زمیندار کے لئے غیر کی حفاظت کیوں ضرورت نہیں ہوتی۔
۱۴؎
حضرت یعقوب علیہ السلام نے کہا کہ اس بات کو خیال کرکے بھی میرا دل افسردہ ہوتا ہے کہ تم اس کو لے جاؤ اور مجھے ڈر ہے کہ اس کو بھیڑیا کھا جائے اور تم اس سے غافل ہو۔
اس قول سے ایک تو اس امر کا مزید ثبوت ملتا ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک یوسف علیہ السلام کی عمر اس وقت چھوٹی تھی دوسرے یہ بھی مترشح ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کو الہاماً یہ بتا دیا گیا تھا کہ یہ لوگ ایسا منصوبہ کررہے ہیں اس لئے انہوں نے وہی الفاظ استعمال کئے جو بھائیوں نے بطور بہانہ کے تجویز کئے تھے۔
۱۵؎ تفسیر
اس واقعہ سے نصیحت پکڑنی چاہئے کہ حسد اور بغض انسان کو کہاں تک پہنچا دیتا ہے۔ یوس علیہ السلام کید س بھائیوں میں سے وانی اور تفتانی کو تو سخت شرم کرنی چاہئے تھی کیونکہ یہ دونوں حضرت یوسف علیہ السلام کی ماں کی لونڈی کے بیٹے تھے جب ان کی اولاد نہ ہوئی تو انہوں نے اپنی وہ لونڈی حضرت یعقوب علیہ السلام کو دی کہ تا ان کی نسل چلے اور انہوں نے اس کے بیٹوں کو اپنا بیٹا قرار دیا اور پہلے کا نام وانی رکھا کہ مجھے بھی ایک بیٹا دیا گیا اور دوسرے کا نام تفتانی کہ میں اس کے ذریعہ سے اپنی بہن پر غالب آئی۔ یہ بھی میرا ہی بیٹا ہے پھر ان لڑکوں کو خود حضرت یوسف علیہ السلام کی والدہ نے ہی پرورش کیا تھا مگر ان کی سیاہ دلی کو دیکھو کہ اپنی محسنہ کے بیٹے کے قتل کے منصوبے میں شریک ہو گئے۔
۱۶؎ تفسیر
مطلب یہ کہ آج ان کو پتہ نہیں کہ ایسا برا سلوک یہ کس کیس اتھ کررہے ہیں مگر جب تیرے سامنے کھڑے ہوں گے تو انہیں خوب معلوم ہو جائے گا۔ اس سے حضرت یوسف علیہ السلام کی حالت عجز کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اس وقت ان کے بھائیوں کے ذہن میں بھی نہ آسکتا تھا کہ یہ کتنے بڑھ جائیں گے۔
آٹھویں مشابہت
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کنوئیں کے واقعہ میں بھی حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ مشابہت ہے۔ آپؐ کو بھی کفار سے تنگ آکر مکہ سے نکلنا پڑا اور ان کے تعاقب کی وجہ سے غارثور میں چھپنا پڑا جو باولی کی طرح پہاڑ کی ایک غار ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائیوں نے اپنے ہاتھ سے اس میں ڈالا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خود غار میں گھسنا پڑا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس بارہ میں مشابہت اس واقعہ سے ہو جبکہ آپؐ کو تین سال تک مکہ کے پاس ایک وادی میں محصور کر دیا گیا تھا۔
نویں مشابہت
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی قبل از وقت بتا دیا گیا تھا کہ آپ کے سامنے آپؐ کے بھائی مجرم بن کر پیش ہوں گے جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام کو بتایا گیا تھا۔ مثال کے طورپر قرآن کریم کی یہ آیت ہے کہ ان الذی فرض علیک القران لرادک الی معاد (سورۃ القصص رکوع۹) وہ خدا جس نے یہ قرآن تجھ پر عمل کے لئے اتارا ہے ضرور تجھے ایک دن اس شہر کی طرف جو لوگوں کا مرجع ہے واپس لائے گا۔ یعنے یہاں سے نکلنے کے بعد پھر تم کامیاب واپس آؤ گے۔
۱۷؎ حل لغات
العشاء اول الظلام۔ رات کی تاریکی کا ابتدائی حصہ۔ وقیل من المغرب الی العتمۃ۔ اور بعض کہتے ہیں کہ سورج ڈوبنے سے لے کر تاریکی کے پورے طور پر چھا جانے تک کا درمیانی وقت وقیل من زوال الشمس الی طلوع الفجر۔ اور بعض کہتے ہیں کہ سورج کے ڈوبنے سے لے کر پو پھوٹنے تک کا وقت عشاء ہی ہے۔ (اقرب)
۱۸؎ تفسیر
ترکنا یوسف اور اکلہ الذئب سے بھی ظاہر ہوتاہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی عمر ابھی چھوٹی تھی ورنہ سترہ اٹھارہ سال کا لڑکا ہر قسم کی کھیلوں میں شامل ہوسکتا تھا اور بھیڑیا بھی ایک جوان آدمی پر جس کے پاس ہتھیار ہوں حملہ نہیں کیا کرتا سوائے اس کے کہ بھیڑیوں کا ایک گلہ ہو لیکن فلسطین کا علاقہ ایسا نہیں جہاں بھیڑیئے گلوں کی صورت میں پھرتے ہوں۔
وماانت بمؤمن لنا سے ظاہر ہوتا ہے کہ یوسف علیہ السلام کے بھائی عادی مجرم نہ تھے ورنہ وہ یہ فقرہ نہ کہتے جس سے ان کے جرم کاراز فاش ہو جاتا ہے۔ عادی مجرم کبھی اپنے جرم کو ظاہر نہیں ہونے دیتا۔ لیکن ان کے منہ سے تو بے اختیار نکل گیا کہ اگر ہم سچے بھی ہوں تو آپ ہماری بات نہیں مانیں گے اور اس طرح انہوں نے خود ہی اپنے جھوٹ پر سے پردہ اٹھا دیا۔
۱۹؎ حل لغات
سولت۔ سول لہ الشیطن اغواہ وسھل لہ۔ اسے گمراہ کیا اور …… برے کام کے ارتکاب کو اس کی نظر میں معمولی بات کرکے دکھایا۔ من السول اے الاستوخاء۔ یہ لفظ سول سے ہے جس کے معنے ڈھیلا ہوجانے کے ہیں۔ یقال ھذا من تسویلات الشیطین وما قطلبہ وتسالہ۔ یعنی شیطان کی تسویلات سے مراد اس کی گمراہ کن تحریکیں ہیں۔ سولت لہ نفسہ کذازینتہ لہ وسھہلتہ لہ وھو نتہ۔ اس کے نفس نے اس کے لئے اس کام کو خوبصورت کرکے یا اسے ایک معمولی بات قرار دے کر اور آسان کرکے دکھایا۔ (اقرب)
فصبر جمیل۔ اس جملہ میں حذف واقع ہوا ہے۔ اور پورا جملہ تین طرح ہوسکتا ہے۔ (۱) یہ کہ فصبری صبرجمیل۔ میرا صبر صبرِجمیل ثابت ہوگا۔ میں ہرگز نہ گھبراؤں گا۔ (۲) امری صبر جمیل۔ میرا کام صبرجمیل ہوگا۔ (۳) یہ کہ صبرجمیل خیر۔ صبرجمیل کرنا ہی بہتر ہے۔ گویا یا مبتداء محذوف مانا جائے گا۔ یا خبر محذوف مانی جائے گی۔ مستعان۔ اس م مفعول کا صیغہ ہے استعان سے اور اس کے معنے ہیں ’’وہ وجود جس سے مدد طلب کی جائے۔
تفسیر
بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کو یوسف علیہ السلام کے پھاڑے جانے کا یقین ہو گیا تھا۔ جیسا کہ لکھا ہے ’’اس (یعقوب) نے اسے (کرتہ کو) پہچاننا اور کہا کہ یہ تو میرے بیٹے کی قبا ہے۔ کوئی برا درندہ اسے کھا گیا اور یوسف بے شک پھاڑا گیا۔‘‘ (پیدائش ۳۳/۳۷) مگر قرآن مجید کی اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے ان کی بات کو محض فریب سمجھا بلکہ ان کے بیان کے خلاف اللہ تعالیٰ کی مدد چاہی اور مدد چاہنا بتاتا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کو ابھی امید تھی کہ حضرت یوسف علیہ السلام زندہ ہیں۔ ورنہ مستعان کا لفظ کہنا بے فائدہ تھا۔
اس اختلاف میں بھی قرآن کریم کے بیان کی صداقت خود بائبل ہی کے دوسرے حوالہ جات سے ہوجاتی ہے۔ چنانچہ پیدائش باب۴۴ میں لکھا ہے کہ جب مصر میں حضرت یوسف نے اپنے بھائی کو روک لیا تو یہودا یوسف کے سامنے آیا اور اس نے کہا ’’میرے باپ نے ہم کو کہا تم جانتے ہو کہ میری جورو مجھ سے دو بیٹے جنی ایک مجھ سے جدا ہوا ا ور میں نے کہا یقینا وہ پھاڑا گیا اور میں نے اسے اب تک نہیں دیکھا۔‘‘ ((آیت ۲۷ ،۲۸) حضرت یعقوب علیہ السلام کا یہ فرمانا کہ میں نے اسے اب تک نہیں یکھا صاف بتا رہا ہے کہ وہ اسے زندہ سمجھتے تھے ورنہ اگر انہیں یقین ہو جاتا کہ وہ پھاڑا گیا ہے جیسا کہ بائبل نویس نے یہاں بھی لکھ دیا ہے تو ان کا یہ قول کچھ معنے نہیں رکھتا۔ پس اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ قرآن کریم کا بیان ہی درست ہے اور حضرت یعقوبؑ حضرت یوسفؑ کو زندہ ہی سمجھتے تھے۔
طالمود بھی قرآن مجید کے بیان کی تائید کرتی ہے۔ اس میں بھی لکھا ہے کہ یعقوب کو ان کی بات کا یقین نہ آیا کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا ہے۔ حتیٰ کہ وہ بھائی ایک بھیڑیا پکڑ لائے۔ بھیڑیئے نے کہا کہ میں آپ کے بیٹے کو کیسے کھاسکتا تھا۔ حالانکہ آج تو خود میرا بیٹا گم ہو گیا تھا۔ پھر آگے لکھا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام مختلف تفاول نکالتے رہتے تھے۔ آخر خدا نے انہیں خواب میں بتایا کہ وہ زندہ ہے۔ (جیواش انسائیکلوپیڈیا) طالمود کا یہ بیان خواہ کس قدر ہی خلافِ عقل ہو مگر یہودا کے قول سے مل کر اس سے یہ امر یقینا ثابت ہو جاتا ہے کہ حضرت یعقوبؑ اپنے بیٹوں کے بیان کو سچا نہیں سمجھتے تھے۔
دسویں مماثلت
جس طرح یوسفؑ کے بھائیوں نے جھوٹے طور پر یہ کہہ دیا کہ یوسفؑ مارا گیا ایسا ہی کفارِ مکہ نے بھی کہا۔ چنانچہ جنگِ احد کے موقع پر ابوسفیان نے اعلان کر دیا اناقتلنا محمدا ہم نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو مار دیا ہے۔ اور مکہ میں آکر بھی یہی خبر مشہور کردی۔ ہاں اتنا فرق ہے کہ انہوں نے قتل کو بھیڑیئے کی طرف منسوب کیا اور کفار مکہ نے اپنی طرف۔
۲۰؎ حل لغات
الوارد الذی یتقدم الی الماء۔ قافلہ کا وہ آدمی جو پہلے پہنچ کر پانی کا انتظام کرے۔ الذی یتقدم القوم فیستقر لہم جو قافلہ سے پہلے پہنچ کر جگہ وغیرہ کا انتظام کرے۔ ارسلوا واردھم اے عاقبہم ساقی پانی پلانے والا۔ جس کے ذمہ پانی کا فراہم کرنا ہو۔ (مفردات) الوارد۔ السابق پہلے پہنچنے والا۔ الواردۃ القوم الذین یردون الماء۔ گھاٹ پر اتر کر پانی لانے والے لوگ۔ (اقرب)
یابشری جیسے ہمارے ہاں واہ واہ کہتے ہی ویسے ہی عربی زبان میں استعجاب اور عظمت کے لئے بطور مبالغہ یابشریٰ کہتے ہیں۔ یاویلتی اور یحسرتی بھی اسی قسم کے الفاط ہیں جو افسوس کے موقعہ پر بولے جاتے ہیں۔
البضاعۃ۔ طائفۃ من المال تعد للتجارۃ کچھ مال جو تجارت کے لئے تیار کیا جائے۔ (اقرب)
تفسیر
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے کیسا وفادارانہ سلوک کرتا ہے۔ جنگل کے ایک کنوئیں میں حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے انہیں ڈال دیا۔ لیکن معاً اللہ تعالیٰ نے یہ سامان پیدا کر دیا کہ ایک قافلہ آ گیا اور انہوں نے پانی لیے کے لئے ایک آدمی بھیجا اور وہ آدمی اسی کنوئیں پر آگیا جس میں حضرت یوسف علیہ السلام کو ان لوگوں نے ڈال دیا تھا۔
اسروہ بضاعۃ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسے قیمتی چیز سمجھتے تھے اور یوسف علیہ السلام کی شکل سے ہونہاری کے آثار ظاہر تھے۔
۲۱؎ تفسیر
مراد یہ کہ جب اس قافلہ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو نکالا تو بھائیوں کو پتہ لگ گیا اور انہوں نے اپنا غلام ظاہر کرکے انہیں بیچ دیا۔
بائبل سے ثابت ہے کہ بیس روپے پر بیچا تھا۔ (پیدائش ۲۸/۳۷) قرآن کریم بتاتا ہے کہ یہ بیچنا روپیہ کمانے کی نیت سے نہ تھا بلکہ صرف دکھاوے کے لئے تھا۔ معلوم ہوتا ہے وہ ڈرتے تھے کہ اگر انہوں نے یوسف کو چھڑاے کی کوشش نہ کی تو وہ لوگ سمجھ جائیں گے کہ یہ آزاد ہے۔ اور شاید اس کو گھر پہنچا دیں۔ اس وجہ سے اسے غلام بتایا اور نکما ظاہر کرکے ادنیٰ قیمت پر اسے بیچ دیا تاکہ قافلہ کو کوئی شبہ نہ ہو ورنہ فروخت کرکے کوئی قیمت لینا ان کے مدنظر نہ تھا۔ شروہ کے معنے یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ انہوں نے خریدا اور اس صورت میں ضمیر قافلہ والوں کی طرف پھیری جائے گی اور مطلب یہ ہوگا کہ انہوں نے تھوڑی سی قیمت پر یوسف علیہ السلام کو خرید لیا۔
قرآن مجید کے بیان سے یہ ظاہر ہے کہ اس جگہ پر بیچنے والے یوسف علیہ السلام کے بھائی ہیں۔ اہل قافلہ نہیں کیونکہ اہل قافلہ کے متعلق تو فرمایا ہے کہ جب انہوں نے یوسف علیہ السلام کو پایا تو اسروہ ضاعۃ اسے قیمتی چیز سمجھ کر چھپا لیا لیکن بعد میں فرماتا ہے کانوا فیہ من الزاھدین وہ اس کے متعلق کوئی رغبت ظاہر نہیں کرتے تھے۔ پس معلوم ہوا کہ بیچنے والے قافلہ والے نہ تھے۔ بلکہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی تھے۔
اس واقعہ کے متعلق بھی بائبل اور قرآن مجید کے بیان میں اختلاف ہے۔ بائبل تو کہتی ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی انہیں کنوئیں میں ڈال کر کھانا کھانے بیٹھے تو انہیں ایک اسماعیلی قافلہ نظر آیا۔ اس پر انہوں نے یہ مناسب سمجھا کہ انہیں نکال کر قافلہ کے پاس بیچ دیں۔ چنانچہ لکھا ہے۔ ’’سو انہوں نے یوسف کو کھینچ کے کنوئیں سے باہر نکالا اور اسماعیلیوں کے ہاتھ بیس روپے کو بیچا۔‘‘ (پیدائش۲۸/۳۷) مگر قرآن مجید کے رو سے یوسف علیہ السلام کو کنوئیں سے نکلانے والے خود قافلہ کے لوگ تھے۔ بائبل کی بات کوغلط ثابت کرنے کے لئے اتنا بتا دینا ہی کافی ہے کہ بائبل نے انہی تین چار آیتوں میں سخت متضاد بیان دیئے ہیں۔
اسی باب کی آیت ۲۵ اور ۲۷ میں اس قافلہ کو اسماعیلیوں کا قافلہ قرار دیا ہے مگر آیت ۲۸ میں انہیں مدیانی سوداگر ظاہر کیا ہے۔ لیکن اسی آیت کے دوسرے حصہ میں پھر انہیں اسماعیلی کہا ہے۔ حالانکہ مدیانی اور اسماعیلی نسل میں بہت بڑا فرق ہے۔
ان چار آیتوں میں غلطی کرنے والی اور قدم قدم پر ٹھوکر کھانے والی کتاب کو ہم کیونکر قرآن پر حاکم ٹھہرا سکتے ہیں؟ پھر قرآن مجید کے بیان کی تصدیق طالمود سے بھی ہوجاتی ہے۔ جیواش انسائیکلوپیڈیا میں یوسف لفظ کے نیچے طالمود کا بیان بعینہٖ وہی درج ہے جو قرآن مجید نے ذکر کیا ہے۔
پھر طالمود مرتبہ ایچ پولائینو کے صفحہ ۷۴،۷۵ پر لکھا ہے ’’مگر واقع یوں ہوا کہ جب وہ لوگ یوسف کے متعلق گفتگو کررہے تھے ایک مدیانیوں کا قافلہ جو سفر کررہا تھا پانی کے کنوئیں کی تلاش میں آنکلا۔ اتفاقاً وہ اسی کنوئیں پر آکر اترے جس میں یوسف کو چھپایا گیا تھا اور وہ ایک خوبصورت اور ہوشیار لڑکے کو اس میں دیکھ کر حیران رہ گئے۔ انہوں نے یوسف کو کنوئیں سے نکالا اور اپنے ساتھ لے چلے۔ جب وہ یعقوب کے بیٹوں کے پاس سے گزرے تو انہوں نے یوسف کو دیکھ لیا اور پکارے دکھو تم اس غلام کو جسے ہم نے کنوئیں میں اس کی نافرمانی کی وجہ سے ڈالا تھا کیوں چرا کر لے چلے ہو۔ لاؤ اسے ہمارے حوالہ کرو۔‘‘ اس حوالہ کا مضمون قرآن کریم کے بالکل مطابق ہے۔ اور بائبل جس نے اس واقع کے بیان کرتے وقت تین چار آیتوں میں ہی کئی ٹھوکریں کھائی ہیں کوئی حق نہیں رکھتی کہ اسے اس دوسرے بیان پر جو عقلاً بھی زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے ترجیح دی جائے۔
۲۲؎ حل لغات
مثوی۔ ثواء میں سے مصدر میمی یا اسم ظرف ہے جس کے معنے ہیں الاقامۃ مع الاستقرار۔ کسی جگہ رہائش اختیار کرنا ٹھہرنا۔ (مفردات) المثوی۔ المنزل۔ اترنے اور ٹھہرنے کی جگہ (اقرب)
مکنتہ ومکنت لہ۔ فتمکن۔ ومکین۔ اے متمکن ذوقدر ومنزلۃ۔ یعنی مکنہ اور مکن لہ کے یہ معنے ہیں کہ اسے قدرومنزلت بخشی اور مکین صاحب عزت انسان کو کہتے ہیں۔ (مفردات)
مکن فلان عندالسلطا مکانۃ عظم عندہ وارتفع وصار ذامنزلۃ (یعنی مکن کے مجرد) مکن کے معنے ہیں اس نے قدرومنزلت پائی۔ (اقرب) التاویل من الاول بمعنے الرجوع الی الاصل تاویل کا لفظ اول میں سے باب تفصیل کا مصدر ہے جس کے معنے ہیں کسی چیز کا اپنے اصل کی طرف رجوع کرنا۔ وذلک ھوردالشئی الی الغایۃ المرادۃ منہ۔ علما کان اوفعلا۔ اور تاویل کے معنے ہیں کسی چیز کو اس کے اصل مقصود اور غایت کی طرف لوٹانا خواہ اس کا تعلق ذہن اور دماغ سے ہو یا دیگر اعضاء سے۔ (مفردات)
التاویل العاقبۃ۔ انجام۔ بیان احد محتملات اللفظ کسی لفظ کے احتمالی معانی میں سے کسی ایک معنے اور مراد کی تعیین کرنا۔ اول الشئی الیہ۔ رجعہ ومن اول اللہ علیکم ضالتک اے ردعلیکم ضالتک۔ اول کے معنے ہیں کسی چیز کو اس کی اپنی جگہ پر واپس لایا۔ چنانچہ جب کسی کی کئی چیز گم ہوجائے تو اسے دعاء کے طورپر کہا جاتا ہے اول اللہ علیک ضالتک۔ اللہ تعالیٰ تیری گم شدہ چیز تیرے پاس واپس لائے۔ والکلام دبرہ وقدرہ وفسرہ اور جب اس کا مفعول کوئی کلام ہو تو اس کے معنی ہوتے ہیں اس میں تدبر کرکے اس کی اصل مراد کو ظاہر کیا۔ والرؤیا عبرھا اور جب اس کا مفعول رؤا ہو تو اس کے معنے تعبیر کرنے کے ہوتے ہیں۔ (اقرب)
تفسیر
جب قافلہ مصر میں پہنچا تو اس نے یوسفؑ کو اچھی قیمت پر فروخت کیا۔ اور جس شخص نے انہیں خریدا اس کا نام یہودی کتب سے فوطی فار معلوم ہوتا ہے۔ یہ شخص شاہی گارڈ کا افسر تھا۔ پرانے زمانہ میں باڈی گارڈ کا افسر سب سے بڑا عہدہ دار ہوتا تھا۔ چنانچہ اسلامی عہدحکومت میں بھی حاجب اور کاتب یعنی باڈی گارڈ کا افسر اور پرائیویٹ سیکرٹری سب سے بڑے عہدے سمجھے جاتے تھے۔ عباسی خلفاء کے آخر زمانہ میں حاجب کا درجہ کاتب سے بڑا سمجھا جاتا تھا۔
جس وقت اس شخص نے حضرت یوسف علیہ السلام کو خریدا تو آپ کی شکل اور عادات سے آپ کی شرافت کا قائل ہو گیا اور بیوی کو نصیحت کی کہ اسے عام خادموں کی طرح نہ سمجھنا بلکہ عزت کے ساتھ رکھنا کیونکہ ممکن ہے کہ اسکی لیاقت سے ایک دن ہم فائدہ اٹھائیں یا اگر خاص لیاقت کا لڑکا ثابت ہو تو ہم اسے اپنا بیٹا ہی بنالیں۔ اس افسر کی باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہاں اولاد نہ تھی۔
ولنعلمنہ من تاویل الاحادیث۔ یعنی ہم نے یہ اس لئے کیا کہ تا ایک طرف اسے عزت ملے اور دوسری طرف یہ مشکلات میں پڑے اور روحانیت میں ترقی کرے کیونکہ روحانیت کے لئے تکالیف کا آنا بھی ضروری ہے وکذلک مکنا لیوسف کے آگے لنکرمہ کا جملہ محذوف ہے۔ اے لنکرمہ ولنعملہ۔ اور اس پر لنعلمہ سے پہلی واؤ دلالت کرتی ہے یعنی ہم نے یوسف علیہ السلام کو اس لئے اس افسر کے ہاں جگہ دی کہ تا اس کی عزت بھی ہو اور مشکلات میں پڑ کر روحانی علوم بھی اس پر کھلیں۔ کیونکہ اس شخص کی بیوی سے جھگڑا پیدا ہوکر حضرت یوسف علیہ السلام نے خاص مجاہدات میں سے گزرنا تھا۔
۲۳؎ حل لغات
بلغ فلان اشدہ اے قوتہ وھومابین ثمانی عشرۃ الی ثلاثین سنۃ یعنی اشد کے معنے قوۃ کے اور اس عمر کے ہوتے ہیں جس میں انسان پورے زور پر ہوتا ہے۔ والمشہور ان ذلک بمعنی الادراک والبلوغ اور زیادہ مشہور یہ ہے کہ اس کے معنے بلوغت کے ہوتے ہیں۔ (اقرب)
تفسیر
یہ مطلب نہیں کہ جوان ہوتے ہی نبوت کے مقام پر پہنچ گئے۔ قرآن کریم کا طرز ہے کہ بعض دفعہ درمیان واقعات کو چھوڑ کر انجام کو لے لیتا ہے۔
۲۴؎ حل لغات
راودہ شائہ۔ اسے چاہا۔ اس کا خوہاں ہوا۔ وعن نفسہ وعلیہا خادعہ۔ اسے دھوکہ دے کر اس پر قابو پانے کی کوشش کی۔ وفی القران وراودتہ التی ھوفی بیتہا عن نفسہ۔ اے طلبت منہ المنکر اور قرآن کریم کی آیت میں اس کے یہ معنے ہیں کہ اس سے بدی کروانی چاہی اور اس سے بدی کے ارتکاب کی طالب بنی۔ (اقرب) والمراودۃ ان تنازع غیرک فی الارادۃ فترید غیرما یرید اوترود غیر مایرود۔ مراودۃ۔ (راود کی مصدر) کے معنے یہ ہیں کہ جو بات ایک شخص کرنا چاہتا ہو اس کے خلاف اس سے چاہنا اور اس سے کروانے کی کوشش کرنا۔ وراودت فلانا عن کذا اور اس کا صلہ عن آتا ہے۔ قال تراود فتاھا عن نفسہ اے تصرفہ عن رایہ۔ جیسا کہ اس آیت میں تراود کا لفظ ہے جس کے معنے ہیں وہ اسے اس کی رائے اور اس کی مرضی سے ہٹانا اور اس کے خلاف اس سے کروانا چاہتی ہے۔ (مفردات)
ھیت لک اے ھلم لک وتعال۔ آجا (اقرب) تھیات لک۔ میں تیرے لئے تیار اور آمادہ ہوں۔ (مفردات)
تفسیر
اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام اس عورت کے فریب میں نہیں آئے۔ پس بعض مفسرین کا یہ قول کہ وہ اس کے فریب میں آنے لگے تھے درست نہیں۔
ربی سے مراد اس جگہ اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ جن لوگوں نے اس کی تفسیر حاجب کی ہے درست نہیں۔ بے شک حاجب نے ان کو عزت کی جگہ دی تھی مگر اس تک پہنچنا اور اس کے دل میں اس خیال کا پیدا ہونا بھی تو اللہ تعالیٰ ہی کے فضل سے تھا اور حضرت یوسف علیہ السلام جیسے انسان کے متعلق یہ گمان بھی نہیں ہوسکتا کہ وہ گناہ سے بچنے کا ذریعہ انسانی احسانات کو بنائیں گے نہ کہ الٰہی فضلوں کو جو کچھ انہیں ملا تھا اللہ تعالیٰ کی پیشگوئیوں کے ماتحت ملا تھا۔ پ اسی کو وہ اپنے تقویٰ کا موجب قرار دیتے ہیں اور گناہ میں اس کے احسانات کی ناشکری محسوس کرتے ہیں۔
۲۵؎ حل لغات
ھم بالشئی نواہ وارادہ وعرم علیہ وقصدہ ولم یفعلہ۔ پختہ ارادہ ار عزم کر لیا مگر عمل میں نہ لایا۔ (اقرب) اخلص الشئی۔ اختارہ واخلصہ اللہ جعلہ مختارا خالصا من الدنس۔ اخلص کے معنے ہیں اسے چن لیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے برگزیدہ اور ہر ایک میل سے پاک کیا۔ (اقرب)
تفسیر
جیسا کہ حل لغات میں لکھا گیا ہے ھم بہ کے معنے مضبوط ارادہ کرنے کے ہوتے ہیں۔ گو ساتھ ہی یہ اشارہ بھی ہوتا ہے کہ جس کام کا ارادہ کیا تھا اسے پورا نہیں کیا۔ خواہ اس وجہ سے کہ حالات بدل گئے خواہ اس سبب سے کہ روکیں پڑ گئیں۔ اس آیت میں بتایا ہے کہ عزیز کی بیوی نے حضرت یوسف علیہ السلام کے متعلق ایک ارادہ کیا لیکن وہ اسے پورا نہ کرسکی۔ اسی طرح حضرت یوسف علیہ السلام نے اس کے متعلق ایک ارادہ کیا لیکن وہ بھی اس ارادہ کو پورا نہ کرسکے۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اس سے یہ مراد ہے کہ دونوں نے آپس میں بدی کا ارادہ کیا لیکن یہ درست نہیں کیونکہ اس کی نفی پہلی آیت میں ہوچکی ہے۔ وہاں اللہ تعالیٰ فرماچکا ہے کہ یوسف کو عزیز کی بیوی نے اس کے دلی خیالات کے خلاف پھسلانا چاہا لیکن اس پر اس کی باتوں کا کوئی اثر نہ ہوا بلکہ اس نے اللہ تعالیٰ کو یاد کیا اور اس کام کے بدانجام سے اس عورت کو بھی ڈرایا۔ پس اس آیت کی موجودگی میں ھم بہ کے یہ معنے کسی طرح نہیں کئے جاسکتے کہ یوسفؑ نے اس عورت سے کسی بری بات کا ارادہ کیا۔
اصل بات یہ ہے کہ ہر شخص کی حالت کے مطابق اس کی طرف ارادہ منسوب کیا جاسکتا ہے۔ دونوں کی اندرونی حالت کو پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمادیا ہے۔ عورت کی اندرونی حالت یہ بتائی ہے کہ وہ بدی کا ارادہ رکھتی تھی اور یوسف علیہ السلام کی حالت یہ بتائی ہے کہ وہ اسے ظلم کے بدانجام سے ڈراتے تھے۔ پس اس جگہ دونوں کے ارادوں سے یہی مراد لی جاسکتی ہے کہ عزیز کی بیو نے حضرت یوسف علیہ السلام کو بدی کی راہ پر لگانا چاہا اور حضرت یوسف نے اسے نیکی کی راہ پر لگانا چاہا۔ مگر دونوں اپنے مقصد کو پورا نہ کرسکے نہ یوسف علیہ السلام نے عزیز کی بیوی کی بات مانی اور نہ اس نے یوسف علیہ السلام کی بات مانی۔
باقی رہا اللہ تعالیٰ کا قول لولا ان رابرھان ربہ سو یہ ھم بھا کے ساتھ نہیں ہے بلکہ الگ قول اور اس کی جزاء محذوف ہے جیسا کہ قرآن کریم میں متعدد جگہ جزاء محذوف کر دی گئی ہے۔ جیسے لولا فضل اللہ علیکم ورحمتہ وان اللہ تواب علیہم (نور ع۱) میں اور لولا ان تصیبھم مصیبۃ بما قدمت ایدیھم فیقولوا ربنا لولا ارسلت الینا رسولا فنتبع ایتک ونکون من المؤمنین (قصص ع۵) میں محذوف ہے اور اس حصہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر یوسف علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے براہین نہ دیکھے ہوئے ہوتے تب ہوسکتا تھا کہ وہ اس ارادہ کے سواء کوئی اور ارادہ کرتے مثلاً اسے نیکی کی طرف نہ بلاتے خاموش ہی رہتے لیکن جبکہ وہ براہین دیکھ چکے تھے تو پھر اس کے سواء اور وہ کرہی کیا سکتے تھے۔ ہاں یہ آگے اس عورت کی بدقسمتی تھی کہ اس نے حضرت یوسف علیہ السلام کی نصیحت کو قبول نہ کیا اور ظلم پر مصر رہی۔
برھان کے متعلق بھی مفسرین میں اختلاف ہے۔ جن لوگوں نے اس آیت کے یہ معنے کئے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے بدی کا ارادہ کیا تھا وہ اس کے یہ معنے کرتے ہیں کہ عزیز کی بیوی اپنے بت پر پردہ ڈالنے لگی تھی کہ اس سے مجھے شرم آتی ہے۔ اس پر یوسف علیہ السلام کی آنکھیں کھل گئیں اور انہوں نے کہا کہ پھر میں کیوں نہ اپنے خدا سے شرماؤں جو دیکھتا اور جانتا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ انہوں نے چھت پر لکھا ہوا دیکھا تھا ولاتقربوا الزنی انہ کان فاحشۃ (گویا قرآن کریم اس وقت نازل ہوچکا تھا) بعض کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک ہتھیلی دیکھی جس پر یہ لکھا ہوا تھا ان علیکم لحافظین کراما کاتبین۔ بعض کہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت یعقوب علیہ السلام کی صورت دیکھی کہ وہ انگلیاں دانتوں میں دبا رہے تھے مگر میں لکھ چکا ہوں کہ یہ معنے ہی غلط ہیں۔ برھان سے مراد وہی آیات اور نشانات ہیں جو حضرت یوسف علیہ السلام کے لئے ظاہر ہوچکے تھے۔ مثلاً ان کی رؤیا آئندہ روحانی ترقیات کے متعلق پھر کنوئیں میں ڈالتے وقت کا الہام کہ اللہ تعالیٰ تجھے اس بلا سے بچا کر ترقی دے گا اور ایک دن تیرے بھائی تیرے سامنے پیش ہوں گے اور اس میں کیا شک ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ ایسے عظیم الشا کام کے لئے تیار کررہا ہو اسے اللہ تعالیٰ ایک مشرکہ کے سامنے شرمندہ نہیں کرسکتا تھا۔
کذلک لنصرف سے یہ مراد ہے کہ ہم نے اسے براہین دکھائے ہی اس لئے تھے کہ اس سے بدی اور بے حیائی کو دور کر دیں۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے اسے اس غرض سے یہ نشانات دکھائے تھے تو کس طرح ممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ کے منشاء کے خلاف نتیجہ نکلتا۔
دوسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ یہ واقعہ اس لئے ظاہر ہوا تاکہ اللہ تعالیٰ یوسفؑ کو اس عورت کی بدصحبت سے نجات دلائے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بد لوگوں میں رہ کر انسان کے خیالات اور اس کے دماغ پر برا اثر پڑتا ہے اگر اس طرح عزیز کی بیوی اپنے بدارادہ کا اظہار نہ کرتی تو اس کی اور اس کی ہمجولیوں کی صحبت میں حضرت یوسف علیہ السلام کو رہنا پڑتا۔ جن کے اخلاق قرآن کریم سے ثابت ہے کہ نہایت گندے تھے۔ پس اللہ تعالیٰ نے پسند نہ فرمایا کہ آپ ان کی صحبت میں رہیں اور اس کے بدارادوں کو پوری طرح اور جلد اللہ تعالیٰ نے ظاہر کرادیا اور اس طرح انہیں ان سے جدا کرکے قیدخانہ میں بھجوا دیا جہاں علیحدگی میں عبادت الٰہی کا خاص موقع ان کو مل گیا۔
گیارھویں مشابہت
اس بارہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت یوسف علیہ السلام سے مشابہت ہے۔ آپؐ کے دشمنوں نے بھی آپ کو لالچ دے کر دین سے پھرانا چاہا تھا۔ چنانچہ تاریخوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کفار کا ایک وفد آیا اور انہوں نے آپؐ سے کہا کہ اگر آپؐ نے یہ دعویٰ روپیہ کے لئے کیا ہے تو ہم اس قدر روپیہ جمع کردیتے ہیں کہ آپ سب سے زیادہ مالدار ہو جائیں۔ اور اگر عزت کے لئے کیا ہے تو ہم آپؐ کو اپنا سردار بنالیتے ہیں۔ اور اگر عورت کی آپ کو خواہش ہو تو سب سے حسین عورت آپ کی خدمت میں پیش کردیتے ہی۔ مگر آپ یہ وعظ چھوڑ دیں۔ اس پر آپؐ نے جواب دیا کہ اگر سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں لاکھڑا کرو تب بھی میں تمہاری بات نہیں مان سکتا۔ قرآن کریم میں بھی اس کی طرف اشارہ ہے اور اس آیت سے ملتے جلتے الفا میں ہے۔ فرماتا ہے وان کادوا لیفتنونک عن الذی اوحینا الیک لتفتری علینا غیرہ واذالاتخذوک خلیلا۔ ولولا ان تبتناک لقد کذت ترکن الیہم شیئا قلیلا۔ اور قریب تھا کہ یہ لوگ تجھے ابتلاؤں میں ڈال دیں بوجہ اس کلام کے جو ہم نے تیری طرف بطور وحی نازل کیا ہے تاکہ تو اس کلام کے سواء کوئی اور کلام اپنے پاس سے بناکر پیش کردے اس صورت میں یہ لوگ ضرور تجھے اپنا دوست بنالیتے۔ اور اگر ہم تیرے دل کو کلام الٰہی سے مضبوط نہ کردیتے تو اس صورت میں قریب ہوتا کہ تو ان کی طرف کسی قدر جھک جاتا۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آزمائش کرتے تھے لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکے کیونکہ الہام الٰہی نے آپؐ کا دل مضبوط کر چھوڑا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت یوسف علیہ السلام سے مزید مشابہت یہ ہے کہ جس طرح بعض لوگوں نے حضرت یوسفؑ کے متعلق قرآن کریم کی آیات کے یہ معنے کئے ہیں کہ وہ کچھ جھک گئے تھے اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی یہ معنے کئے ہیں کہ آپؐ بھی کچھ جھک گئے تھے حالانکہ قرآن کریم دونوں جگہ اس کے خلاف مضمون بیان کرتا ہے۔
۲۶؎ حل لغات
استبقا تسابقا یعنی استبقا کے وہی معنے ہیں جو تسابقا کے ہیں۔ تسابقا۔ سبق احدھما الاخر اواراد ان یسبقہ۔ اور تسابقا کے معنے ہیں وہ دونوں مقابلہ کے طور پر دوڑے جن میں سے ایک آگے نکل گیا۔ یا یہ کہ ہر ایک نے دوسرے سے آگے بڑھنا چاہا۔ الصراط جاوزاہ وترکاہ وضلا۔ اور جب اس کے بعد مفعول مذکور ہو تو اس کے معنے ہوتے ہیں وہ اس سے آگے نکل گئے واماقولہ واستبقا الباب فبتقدیر الجار۔ اے تسابقا الیہ او علی تضمین الفعل معنی الابتداء اے ابتدر الباب۔ لیکن اس آیت میں یہ لفظ ان معنوں میں نہیں آیا بلکہ یا تو اس کے مفعول سے حرفِ الیٰ مذوف ہے اور یا استبقا کے لفظ میں ابتدرا کے معنے ملحوظ ہیں اس لئے اس جگہ معنے یہ ہیں کہ وہ دونوں دروازہ کی طرف دوڑے نہ یہ کہ دروازہ سے آگے نکل گئے۔ (اقرب)
قد الشئی۔ قطعہ مستاصلا۔ اسے بالکل پھاڑ دیا۔ اور ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ وقیل مستطیلا اور بعض کہتے ہیں کہ اس کے معنے لمبی طرف سے پھاڑ کر پارہ پارہ کرنے کے ہیں۔ وقیل شقہ مستطیلا اور بعض نے اس کے یہ معنے بیان کئے ہیں کہ اسے لمبائی کی طرف سے چیر دیا۔ (اقرب)
تفسیر
جب حضرت یوسف علیہ السلام نے دیکھا کہ اس پر نصیحت کا کوئی اثر نہیں ہوتا تو انہوں نے اس خیال سے کہ اب زیادہ ٹھہرنا بدنامی کا موجب ہوگا دوڑنا چاہا لیکن عزیز کی بیوی نے اس سے ان کو روکا اور ان کا کرتا پکڑ کر کھینچا جو طول میں پھٹ گیا۔ اتفاقاً اسی وقت عزیز مصر بھی آ گیا اور اس کی بیوی نے اپنے گناہ کو اس طرح چھپایا کہ الزام حضرت یوسف علیہ السلام پر لگایا اور فوراً سزا بھی خود ہی تجویز کردی کہ اسے قید کردینا چاہئے۔ الفاظ آیت سے ظاہر ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کا منشاء تو یہ تھا کہ وہ دروازہ کھول کر بھاگ جائیں اور عزیزی کی بیوی کا منشاء یہ تھا کہ وہ آگے بڑھ کر دروازہ کھولنے سے روکے اسی وجہ سے استبقا کا لفظ استعمال کیا ہے ورنہ اگر اس کا منشاء باہر نکلنے کا ہوتا تو وہ کرتہ نہ کھینچتی۔ کرتہ اس نے اس لئے کھینچا کہ ان کو دھکا دے کر پیچے کردے اور خود دروازہ پر جاکھڑ ہو مگر باوجود اس کے وہ کامیاب نہ ہوسکی۔
بائبل کو اس جگہ بھی قرآن کریم سے اختلاف ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ حضرت یوسفؑ اپنا پیراہن عزیز کی بیوی کے پاس چھوڑ کر بھاگ گئے مگر جب ہم اس امر کو مدنظر رکھیں کہ عبرانیوں میں عام طور پر ایک کرتہ ہی پہننے کا رواج تھا تو اس کے یہ معنی بنتے ہیں کہ وہ ننگے بھاگے جو ایک نہایت معیوب امر ہے اور اس کی امید حضرت یوسف علیہ السلام سے نہیں کی جاسکتی۔ پس قرآن کریم کا بیان عقلاً بھی زیادہ قابل تسلیم ہے کہ ان کا کرتہ پھٹ گیا تھا وہ اسے پھینک کر نہیں بھاگے۔
۲۷؎ حل لغات
شھد المجلس شہودا حضرہ۔ اس میں حاضر اور موجود ہوا۔ اطلع علیہ اس سے آگاہ ہوا۔ عاینہ۔ اسے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ الجمعۃ ادرکہا۔ نمازجمعہ میں وقت پر پہنچ کر شامل ہو گیا۔ علی کذا۔ اخبربہ خبرا قاطعا۔ اس کے متعلق صحیح صحیح خبر یا اطلاع دی۔ عند الحاکم لفلان علی فلان بکذا شھادۃ ادی مادندہ من الشہادۃ۔ شہادت دی(اقرب)
۲۸؎ حل لغات
الصدق بالکسر نقیض الکذب۔ خبر کا غلط نہ ہونا بلکہ واقع کے مطابق ہونا۔ یا کہنے والے کا واقع کے مطابق بات کہنا اور خلاف واقع نہ کہنا۔ ھوالذی یکون مافی الذھن منہ مطابقا لما فی الخارج۔ وہ بات جس میں انسان کا علم واقعات کے مطابق ہو۔ (اقرب)
الصدق مطابقۃ القول الضمیر والمخبرعنہ معا صدق اسے کہتے ہیں کہ جو بات کہی جائے وہ متکلم کے ضمیر کے مطابق ہو اور نفس الامر کے بھی۔ ومتی انخرم شرط من ذلک لم یکن صدقا تاما اور جب دونوں شرطوں میں سے کوئی ایک شرط یا دونوں شرطیں مفقود ہو تو صدق نہیں رہے گا۔ بل اما ان لا یوصف بالصدق۔ واما ان یوصف تارۃ بالصدق وتارۃ بالکذب علی نظرین مختلفین بلکہ یا تو اسے مطلقاً غیر صدق کہا جائے گا اور یا پھر کبھی اس کا نام صدق رکھا جائے گا کیونکہ اس میں صدق کی ایک علامت موجود ہے اور کبھی اسے کذب کہا جائے گا۔ کیونکہ کذب کی بھی ایک علامت اس میں موجود ہے۔ (مفردات)
صدق کے معنوں کے متعلق اقرب الموارد اور مفردات راغب کے بیانات میں جو اختلاف نظر آتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ صدق اور کذب کی حقیقت اور ماہیت اور اہل زبان کے مھاورات اور استعمال کی رو سے ان کے مفہوم کے متعلق محققین ارباب لغت میں اختلاف ہے۔ اکثر محققین کا (جیسا کہ علامہ تفتازانی وغیرہ نے بیان کیا ہے) وہ خیال ہے جسے اقرب الموارد میں مقدم کیا گیا ہے۔ اور بعض کے نزدیک متکلم کے اعتقاد اور ضمیر پر اس کا مدار اور انحصار ہے۔ پس جو بات متکمل کے ض-یر کے مطابق ہو وہ صدق ہو گئی خواہ واقع میں صحیح ہو یا غلط اور جو بات متکلم کے نزدیک خلاف واقع ہو اور اس نے اسے غلط سمجھتے ہوئے کہا ہو وہ کذب متصور ہوگی خواہ فی الواقع صحیح ہی کیوں نہ ہو اور بعض محققین کے نزدیک صادق وہ خبر ہے جو ضمیر اور واقع ہر دو کے مطابق ہو۔ اور کاذب وہ ہے جو ہر دو کے خلاف ہو۔ اور جو بات واقع اور ضمیر متکلم میں سے ایک کے مطابق اور ایک کے خلاف ہو وہ ان کے نزدیک حقیقی معنوں میں نہ صادق ہوگی نہ کاذب۔ بلکہ ان ہر دو کے درمیان درمیان اور ایک تیسری چیز ہوگی۔ جسے مجازی طور پر صادق بھی کہا جاسکتا ہے اور کاذب بھی۔ جیسا کہ جاحظ کا خیال ہے اور امام راغب نے مفردات میں اسی کو اختیار کیا ہے۔
تفسیر
خداتعالیٰ کے برگزیدوں کی یہی شان ہوتی ہے۔ باوجود اس کے کہ حضرت یوسف علیہ السلام مظلوم تھے آپ پہلے نہیں بولے اور عزیزی کی بیوی کے فعل پر پردہ ہی ڈالا لیکن جب اس نے الزام لگایا تو پھر مجبوراً حقیقت حال کو ظاہر کیا کہ میرے دل میں تو کبھی خیال نہیں آیا ہاں یہ میرے ارادہ کے خلاف کام پر مجبور کرتی رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود ہی یوسف علیہ السلام کے لئے سامان پیدا کردیئے اور ایک شخص ان کے حق میں گواہی دینے والا کھڑا ہو گیا۔ جس نے اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ اگر یوسف بدارادہ کرتا تو اس کا کرتہ آگے کی رف سے پھٹنے کا زیادہ امکان تھا لیکن پیچھے سے کرتے کا پھٹنا تو صاف بتاتا ہے کہ وہ بے چارہ بھاگ رہا تھا اور یہ عورت اسے روک رہی تھی۔
چونکہ اس سے پہلے کرتے کے پھٹنے کا کوئی ذکر نہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس گواہ نے خود ہی کرتہ پھٹا ہوا دیکھا ہے اور جب اس نے خود دیکھا تھا تو اس نے ساتھ ہی یہ بھی دیکھ لیا ہوگا کہ کرتہ پیچھے سے پھٹا ہوا تھا۔ پس ظاہر ہے کہ اس شخص نے عزیز کی بیوی کے لحاظ سے صاف طور پر یہ نہیں کہا کہ اس کا کرتہ پیچھے سے پھٹا ہوا ہے پس یہ مجرم نہیں بلکہ اس طرح بات کی ہے کہ گویا ایک قاعدہ بتارہا ہے تاکہ عزیز کی بیوی اس پر ناراض نہ ہو۔
عزیز کی بیوی کا نام مسلمانوں کی کتب میں زلیخا لکھا ہے۔ بائبل میں اس کا نام نہیں آتا۔ لیکن یہود کی روایات کی کتاب یعنی طالمود میں اس کا نام زلیخا ہی لکھا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ انہی سے مسلمان مفسرین نے نقل کیا ہے۔
۲۹؎ تفسیر
یہ عزیز کا کلام معلوم ہوتا ہے اس شاہد کے توجہ دلانے پر اس نے کرتہ جب پیچھے سے پھٹا ہوا دیکھا تو حقیقت کو سمجھ گیا اور بیوی سے صاف کہہ دیا کہ یہ تیری چالاکی ہے۔ اس آیت سے بعض لوگ یہ مطلب نکالتے ہیں کہ عورتیں خاص ور پر مکار ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عورتیں بوجہ ان مالم کے جو ان پر کئے جاتے ہیں گہری تدابیر کی زیادہ عادی ہوتی ہیں اور بات کا پھرانا ان کا خاص فن ہوگیا ہے مگر اس کا سبب ان کے حقوق کااتلاف ہے جن قوموں یا گھرانوں میں عورتوں کے حقوق پورے طور پر ادا ہوتے ہوں ان کی عورتیں ایسی نہیں ہوتیں اس کے برعکس جو اقوام ظالموں کے تصرف میں ہوتی ہیں ان کے مرد بھی اس مزاج کے ہوجاتے ہیں۔ پس یہ مادہ عورت سے مخصوص نہیں بلکہ ظلم کا نتیجہ ہوتا ہے اور مرد اور عورت دونوں اس میں شریک ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا قول نہیں ہے بلکہ عزیز کا قول ہے اور اس کا قول ہم پر حجت نہیں ہے اس نے غصہ کی حالت میں یہ بات کہہ دی ہے کہ عورتیں ایسی ہی ہوتی ہیں اور جو لوگ اپنے نفس پر قابو نہیں رکھ سکتے وہ ہمیشہ ایسی باتیں کہہ دیا کرتے ہیں۔ عورتیں مردوں کو کہتی رہتی ہیں کہ مرد ایسے ہی ہوتے ہیں اور مرد عورتوں کو کہتے رہتے ہیں کہ عورتیں ایسی ہی ہوتی ہیںَ اس کو ایک قاعدہ اور کلی صداقت قرار دینا محض نادانی اور ناواقفیت کی علامت ہے۔ کہنے والے کی مراد اس سے زیادہ نہیں ہوتی کہ مخاطب یا اس کے ساتھی فعل زیربحث میں غلطی پر ہیں اور ہرگز یہ مراد نہیں ہوتی کہ تمام افراد ایسے ہیں اور اگر یہ مراد ہو تو یقینا وہ غلطی پر سمجھا جائے گا جس جنس نے مریمؑ خدیہؓ عائشہؓ اور ایسی ہی اور بہت سی عورتیں پیدا کی ہیں اس کی نسبت ایک قاعدہ کے طور پر ایسا کلام کہنا خود اپنی پردہ دری کرنا ہے۔
۳۰؎ حل لغات
اعرض عنہ اضرب وصد۔ اس سے رخ ہٹا لیا۔ اور اس کی طرف سے ہٹ کر دوسری طرف توجہ کرلی وحقیقتہ جعل الہمزۃ للضیرورۃ اے اخذت عرضا اے جانبا غیرالجانب الذی ھو فیہ۔ اور اس کے یہ معنے باب افعال کی خاصیت صیرورۃ کے ماتحت پیدا ہوئے ہیں۔ یعنی جس طرف دوسرا شخص ہے اسے چھوڑ کر کسی اور طرف رخ کرلیا اور دوسری جانب کو اختیار کر لیا۔ (اقرب)
پس اعرض عن ھذا کے یہ معنے ہوئے کہ اس بات سے چشم پوشی کر اور اسے خاطر میں نہ لا۔
تفسیر
یہ بھی عزیز کا کلام ہے۔ وہ ایک طرف تو اپنی بیوی کو نصیحت کرتا ہے اور دوسری طرف یوسف علیہ السلام کو پردہ پوشی کے لئے کہتا ہے۔ یہاں بھی بائبل اور قرآن کریم میں اختلاف ہے۔ بائبل کہتی ہے کہ اس نے بیوی کی بات پر اعتبار کرلیا اور یوسف علیہ السلام کو مجرم قرار دیا اور اس پر ناراض ہوا۔ مگر بائبل ہی کے دوسرے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کا بیان سچا ہے اور بائبل کا غلط ہے۔ چنانچہ کتاب پیدائش باب۳۹ میں لکھا ہے۔ ’’اور قیدخانہ کے داروغہ نے سب قیدیوں کو جو قید میں تھے یوسف کے ہاتھ میں سونپا اور جو کام وہاں کیا جاتا تھا اس کا مختار وہی تھا۔‘‘ (آیت ۲۲)
اور بائبل سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ قیدخانہ عزیز فوطیفار کے ہی ماتحت تھا۔ چنانچہ لکھا ہے کہ فرعون اپنے دو سرداروں پر جن میں ایک ساقیوں اور دوسرا نان پزوں کا داروغہ تھا غصے ہوا ور اس نے انہیں نگہبانی کے لئے جلوداروں کے سردار کے گھر میں اس جگہ جہاں یوسف بند تھا قیدخانہ میں ڈالا۔ جلوداروں کے سردار یعنی عزیز نے انہیں یوسف کے حوالہ کیا۔‘‘ ب۴ آیت ۲ تا۴۔ اب یہ عقل کے خلاف امر ہے کہ فوطیفار تو یوسف علیہ السلام کو اپنی عزت پر حملہ کرنے والا سمجھے اور اس کا نوکر داروغہ اس کو جیل کا افسر مقرر کردے اور یہ امر اور بھی عقل کے خلاف ہے کہ بادشاہ کے خاص قیدی جب عزیز کے سپرد کئے جائیں تو وہ خود انہیں یوسف علیہ السلام کی نگرانی میں دے دے۔ پس ان حوالہ جات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عزیز کو حضرت یوسفؑ کی براء ت پر پورا یقین تھا اور قرآن کریم کا بیان صحیح ہے اور بائبل کا غلط۔
۳۱؎ حل لغات
العزیز۔ الشریف۔ بڑا آدمی۔ القوی۔ طاقت والا۔ المکر۔ معزز۔ من اسمائہ تعالی وھو المنیع الذی لاینال ولا یغالب۔ یہ خداتعالیٰ کا نام بھی ہے اور اس کے معنی ہیں وہ ذات جسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اور نہ اس کا کوئی مقابلہ کرسکتا ہے۔ الملک لغلبتہ علی اھل مملکتہ۔ بادشاہ کو بھی عزیز کہتے ہیں کیونکہ اپنی حکومت کے تمام لوگوں پر غلبہ رکھنے والا ہوتا ہے۔ ولقب من ملک مصر مع الاسکندریۃ۔ مصر اور سکندریہ کے حکمران کا لقب۔ (اقرب)
شغف شغفا اصاب شغافہ اس کے شفاف (یعنی اندرو دل) میں جا پہنچا۔ لنغفہ حبہ شغفا علق بالشغاف۔ اس کی محبت اس کے دل کے اندر چل گئی اور پختہ طور پر پیوستہ ہو گئی۔ الشغاف غلاف القلب وقیل حجابہ وقیل سویداؤہ۔ شفاف کے معنے ہیں دل کا پردہ یا دل کا حجاب یا دل کا وسطی نقطہ۔ (اقرب)
الضلال۔ الہلاک تباہی۔ الفضیحۃ رسوائی الباطل۔ غلط بات۔ ضد الھدی۔ راہ یابی کے خلاف ضلال مبین۔ اشارۃ الی شغفہ بیوسف و شوقہ الیہ۔ وکذلک قد شغفہا حبا۔ انا لنرھا فی ضلال مبین یعنی ان آیات میں ضلال سے مراد سخت اور پرزور محبت و اشتیاق ہے۔ (مفردات)
تفسیر
عزیز کا ترجمہ عزیز ہی کیا ہے۔ کیونکہ آج کل کی اصطلاح میں عزیز مصر کے بادشاہ کو کہتے ہیں لیکن عورت مصر کے بادشاہ کی نہیں بلکہ اس کے حاجب کی بیوی تھی پس معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے نزول کے وقت میں عزیز کا لفظ سرداران مصر کے متعلق بھی استعمال ہوتا تھا یا پھر عورتوں نے خوشامدانہ طور پر یہ لفظ استعمال کیا ہے جیسا کہ بڑے آدمیوں کو ان کے ماتحت بادشاہ وغیرہ کے الفاظ سے یاد کرلیتے ہیں۔
جب یوسف علیہ السلام کو عزیز کی بیو سے یہ واقعہ پیش آیا تو اس کا چرچا عزیز کے خاندان سے تعلق رکھنے والے گھرانوں میں بھی شروع ہو گیا۔ بعض عورتیں جو معلوم ہوتا ہے کہ عزیز کی بیوی کی سہیلیاں تھیں جب انہیں یہ خبر پہنچی تو انہوں نے اس کا عام تذکرہ کرنا شروع کیا۔ لیکن عزیز کی بیوی کو مزید بدنام کرنے کے لئے ایسے الفاظ میں تذکرہ شروع کیا جس سے یہ معلوم نہ ہو کہ اس نے کوئی کوشش کی تھی اور وہ ناکام رہی بلکہ یوں کہنا شروع کیا کہ گویا وہ فعل جاری ہے اور اس طرح گویا نتیجہ کو مشتبہ کرکے حضرت یوسف علیہ السلام کو بھی ملوث قرار دیا قد شغفھا حبا میں حبا تمیز ہے اور اس کا ترجمہ اسی طرح کریں گے جس طرح طاب محمد نفسا کا کرتے ہیں یعنی جس طرح وہاں طاب محمد نفسہ مراد ہوتا ہے اسی طرح یعنی شغفہا حبہ مراد لیا جائے گا اور معنے یہ ہوں گے کہ یوسف کی محبت اس کے دل کے پردوں میں گھس گئی ہے یعنی وہ شدید محبت میں مبتلا ہو گئی ہے کہ اب اسے چنداں بدامی کا بھی ڈر نہیںرہا۔ گویا وہ ظاہر الفاظ میں اس کی معذوری بیان کرتی ہیں اور اصل میں اس کے عیب کی اشاعت مقصود ہے۔
۳۲؎ حل لغات
سمع بہ کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ وہ بات شہرت پاگئی۔ اور اس ذریعہ سے اسے بھی پہنچ گئی۔ چنانچہ اقرب الموارد میں مسمع کے معنیء لکھے ہیں سمع بکذا شیعہ اسے شہرت دی۔ بالرجل اذاع منہ عیبا وندد بہ وشھرہ وفٰضحۃ۔ اس کے متعلق کوئی عیب کی بات پھیلائی اور اسے شہرت دے کر اس کو رسوا کیا۔ پس سمع بہ کے معنے یہ ہوئے کہ اس کے متعلق بات مشہور ہوئی جسے اس نے بھی سنا۔ انکا۔ جلس متمکنا۔ خوب جم کر بیٹھا۔ یقال اتکا علی السریر۔ چنانچہ تخت پر بیٹھنے کو اتکاء ہی کہتے ہیں۔ القوم عند فلان طعموا عندہ۔ انہوں نے اس کے ہاں کھانا کھایا۔ قال جمیل فظللنا بنعمۃ واتکانا۔ اے طعمنا۔ چنانچہ جمیل اپنے ایک واقعہ کا ان اوپر کے الفاظ میں ذکر کرتا ہے۔ یعنی ہم دن بھر عیش و عشرت کرتے رہے اور خوب کھایا پیا۔ علی عصااہ تحمل واعتمد علیہا۔ اپنی چھڑی پر ٹیک لگائی اور اپنا بوجھ اس پر ڈالا۔ قال ابن الاثیر والعامۃ لاتعرف الاتکاء الا المیل فی القعود معتمد علی احد الشقین۔ ابن اثیر کہتا ہے کہ عامۃ الناس اتکاء کا لفظ صرف اس طور پر سہارا لگا کر بیٹھنے کے معنے میں استعمال کرتے ہیں جس میں کسی چیز سے اپنے پہلو کو لگایا جائے۔ وھویستعمل فی المعنیین جمیعا لیکن درست بات یہ ہے کہ خواہ کسی چیز کا سہارا دیا جائے یا پہلو کو ہر دو صورتوں کے لئے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ یقال اتکا اذا اسند ظہرہ وجنبہ الی شئی معتمدا علیہ چنانچہ جب کوئی شخص کسی چیز سے اپنی پیٹھ کو سہارا دے یا اپنے پہلو کو ٹکائے تو ان دونوں صورتوں می یہ لفظ بولا جاتا ہے وکل من اعتمد علی شئی فقد اتکا علیہ اور جس چیز کا بھی سہارا لے کر بیٹھیں اس کے لئے اتکاء کا لفظ بولا جاسکتا ہے والمتکا مجلس یتکاء علیہ اور متکا ایسی بیٹھنے کی جگہ کو کہتے ہی جس سے سہارا لیا جائے۔ (اقرب)
سکین۔ اسم جنس ہے جس کا واحد سکینۃ ہے۔ السکین آلۃ یذبح بہا۔ چھری۔ السکینۃ السکین وھی اخص منہ۔ سکینۃ کے معنے ایک چھری کے ہیں۔ یہ سکین سے خاص ہے۔ کیونکہ یہ صرف واحد کے لئے استعمال ہوتا ہے۔اور سکین واحد اور جمع ہر دو کے لئے۔ الطمانینۃ کالسکینۃ سکینۃ کے معنے اطمینان اور سکینت کے بھی ہیں۔ (اقرب)
خرج کا صلہ علی ہو تو اس کے معنی سامنے آنے کے ہوتے ہیں۔ جو ہر موقعہ کے مناسب حال الگ الگ صورت پر ہوتے ہیں۔ چنانچہ کہتے ہیں خرج علیہ۔ اے برذلقتالہ۔ جنگ کرنے کے لئے سامنے آیا۔ الرعیۃ علی الوالی خلعت طاعتہ رعیت اپنے حاکم کی اطاعت کو جؤا اتار کر اس کے مقابلہ پر آمادہ ہو گئی۔ الوالی علی السلطان تمرد کسی علاقہ کا والی اپنے بادشاہ سے سرکش ہوکر اس کے مقابل پر کھڑا ہو گیا۔ (اقرب) پس اخرج علیہن کے معنے ہوئے ان کے سامنے آ۔
اکبرہ۔ راہ کبیرا وعظم عندہ اس نے اسے بڑا سمجھا اور اس کی عظمت اس کے دل میں قائم ہو گئی۔ (اقرب)
حاش منہ یحیش حیشا۔ فزع ڈر گیا۔ ڈر کر دور رہا۔ (اقرب) حاشی زیدا من القوم الستثناہ ۔ اسے دوسروں سے الگ رکھا۔ حاشا ویقال فیہا ایضا حاش وحشی۔ قال فی الایضاح کلمۃ استعملت للانستثناء فیھا ینزہ فیہ المستثنی عن مشارکۃ المستثنی منہ فی حکمہ۔ یعنی حاشا۔ حاش۔ یا حشی کا لف ایسے موقع پر استثناء کے لئے استعمال ہوتا ہے جہاں اس کے مدخول کا شرف ظاہر رنا اور اس شرف میں اسے باقی سب سے ممتاز اور الگ بتانا مقصود ہو۔ (اقرب) پس اگر حاش کو حیش کی ماضی کا صیغہ سمجھا جائے تو حاش للہ کے معنے ہوں گے وہ خدا کے لئے (اس بات سے) ڈرا اور اس سے دور رہا ہے)
ابوالالبقاء جلالین کے حاشیہ میں لکھتا ہے حاش للہ فاعلہ مصمر۔ تقول حاش یوسف بخوف اللہ۔ یعنی حاش کا فاعل مضمر ہے اور معنے یہ ہیں کہ یوسف خدا کی خاطر اس فعل سے ڈرا اور اگر یہ حاشی میں سے فعل امر کا صیغہ ہو تو یہ معنے ہوں گے کہ اے مخاطب تو خدا کے لئے اسے دوسروں سے الگ رکھ اور اسے دوسروں جیسا مت سمجھ۔ یہ ایسی باتوں سے پاک ہے اور اس صورت میں کسرہ بغرض تخفیف فتحہ سے تبدیل شدہ سمجھا جائے گا اور اگر اسے فعلی صیغوں اور تصاریف پر نہ پرکھا جائے بلکہ محاورات اور امثال کی طرح سمجھا جائے تو بھی اس کے معنے یہی ہوں گے جیسا کہ اقرب الموارد کی اوپر کی عبارت میں بحوالہ ایضاح بیان ہوا ہے اس صورت میں بھی بعض نحوی اس کا نام فعل رکھتے ہیں۔ بعض اسے اسم اور بعض حرف کہتے ہٰں اور بعض اسے اسم الفعل کہتے ہیں اور مغنی اللبیب میں ہے والصحیح انہا اسم مرادف للبراء ۃ بدلیل قرائۃ بعضہم حاشاء للہ بالتنوین کما یقال براء ۃ للہ من کذا۔ وعلی ھذا فقراء ۃ ابن مسعود حاش اللہ کمعاذ اللہ یعنی صحیح قول یہ ہے کہ یہ اسم ہے جو براء ۃ کا ہم معنے ہے۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ ایک قراء ۃ میں حاشا للہ بھی آیا ہے جیسا کہ براء ۃ للہ محاورہ ہے اور اس تحقیق کی رو سے ابن مسعود والی قراء ۃ حاش اللہ میں معاذاللہ کی طرح حاش مفعول مطلق ہوگا۔
تفسیر
یعنے اسے جب یہ معلوم ہوا کہ وہ عورتیں ایسے رنگ میں کلام کررہی ہیں کہ لوگ یہ خیال کریں کہ گویا بدی کا ارتکاب ہو گیا ہے اور بظاہر خیرخواہانہ بات کرتی ہیں لیکن اصل میں بدنام کرنا مقصود ہے تو اسے یہ خٰال ہوا کہ ان کے نزدیک عزیز کی بیوی اور یوسف کا تعلق تو ہے صرف پردہ ڈالے کے لئے یہ بات بنائی گئی ہے کہ تعلق کوئی نہیں صرف مبادی عزیز کی بیوی کی طرف سے ظاہر ہوئے تھے۔ پس ان کا یہ شبہ دور کرنے کے لئے اس نے انہیں کھانے یا ناشتہ کی دعوۃ دی۔ میز وغیرہ لگائی گئی اور ہر اک کے سامنے ایک ایک چھری رکھ دی گئی۔ (اس سے معلوم ہوتا ہے پرانے زمانہ سے کھانے میں چھریوں کا استعمال چلا آتا ہے اور آج کل کی طرح یہ بھی قاعدہ تھا کہ چھریاں پہلے رکھ دی جاتیں پھر کھانے کی اشیاء آتیں) اس کے بعد یوسفؑ کو حکم دیا کہ ان کے سامنے کھانا وغیرہ رکھے جب انہوں نے یوسف علیہ السلام کی شکل دیکھی تو شکل سے ہی سمجھ گئیں کہ یوسفؑ اس قسم کے آدمی نہیں ہیں اور ان کی بزرگی کی قائل ہو گئیں اور سمجھ گئیں کہ ان کا خیال غلط تھا۔ یوسف علیہ السلام عزیز کی بیوی کے ساتھ شریک کار نہ تھے اور یہ جو فرمایا ہے کہ انہوں نے ہاتھ کاٹے اس کے دو معنے ہوسکتے ہیں ایک تو یہ کہ ان کی سادگی اور شرافت کے نظارہ میں ایسی محو ہوئیں کہ بعض کے ہاتھوں کو چھریوں سے زخم لگ گئے اور یہ بھی مراد ہوسکتی ہے کہ انہوں نے اپنے دانتوں میں انگلیاں حیرت سے دبائیں کہ کیا ہم ایسے شخص کا نام اس طرح لیتی ہیں۔ چنانچہ عربی میں عض الانامل انگلیوں کو دانتوں سے کاٹنے کا محاورہ حیرت کے معنوں میں آتا بھی ہے اور یہ عربی کا محاورہ ہے کہ جزو کے لئے کل کا لفظ بعض دفعہ استعمال کرلیتے ہیں۔ پس ہوسکتا ہے کہ ایدی انامل کی جگہ استعمال کرلیا گیا ہو۔
طالمود میں جو یہود کی حدیث کی کتاب ہے لکھا ہے کہ عزیز کی بیوی نے ان عورتوں کے سامنے سنگترے رکھے تھے۔ اور انہیں ان کی خدمت کا حکم دیا وہ ان کی طرف دیکھتی رہیں اور بے توجہی میں ان کے ہاتھ زخمی ہو گئے۔
حضرت یوسف علیہ السلام کی صورت دیکھ کر وہ عورتیں بے اختیار ان کی نیکی کی قائل ہو گئیں اور کہہ اٹھیں کہ یہ تو ایک بزرگ فرشتہ ہے۔ اس محاورہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کبھی فرشتہ کا لفظ انسانوں کے لئے بھی استعمال کرلیا جاتا ہے۔
۳۳؎ حل لغات
استعصم امتنع وابی بدی کے ارتکاب سے رک رہا اور اس سے انکار کردیا۔ تقول دعی الی مکروہ فاستعصم فلاں شخص کو بدی کی طرف بلایا گیا تو اس نے اس کے ارتکاب سے انکار کر دیا۔ تحری مایعصمہ ایسی چیز تلاش کی جو اسے بچائے۔ استمنسک ولزمہ اسے پکڑ لیا اور اس کے ذریعہ سے اپنا بچاؤ کیا۔ من الشر والمکروہ التجا بدی سے بچنے کے لئے کسی چیز کی پناہ لی۔ (اقرب)
ولیکونا میں نون تاکید خیفیہ ہے جسے اس جگہ تنوین کی شکل میں لکھا جاتا ہے۔ صغر۔ ضد عظم ذلیل ہوا۔ ھان بالذل بے قدر اور ذلیل ہوا۔ الشمس مالت للغرو۔ سورج نیچے چلا گیا اور ڈوبے لگا۔ صغرالقوم کان اصغرھم سب سے چھوٹا ہو گیا۔ (اقرب)
صغر میں سے صفت مشبہ کا صیغہ صغیر آتا ہے اور صغر میں سے صاغر آتا ہے۔ پس صاغرین کے معنے ہوں گے چھوٹے لوگ۔ یعنی پست اور چھوٹی حیثیت کے لوگ یا ذلیل و رسوا لوگ۔ الصاغر المہان الراضی بالذل والضیم صاغر کے معنے ہیں ذلیل کرکے رکھا جانے والا شخص جو ذلت پرا اور مظلومیت پر راضی ہو اور ذلت میں رہتے رہتے اس کا خود داری کا احساس ہی مارا جائے۔ (اقرب)
تفسیر
پہلے یہ بیان ہوچکا ہے کہ وہ عورتیں اس طرز پر بات کرتی تھیں۔ جس سے دوسرے لوگ یہ سمجھ لیں کہ فعل بد سرزد ہوا ہے۔ اور اسی کی تردید کے لئے ان عورتوں کو عزیز کی عورت نے بلایا تھا اور ظاہر ہے کہ جب تک مرد کی طرف سے آمادگی نہ ہو اس فعل کا وقوع نہیں ہوسکتا۔ پس امرء ۃ العزیز نے پہلے یوسف علیہ السلام کو ان عورتوں کے سامنے لاکر انہی کی زبانوں سے اس کا اقرار کرالیا کہ یوسف سے یہ فعل ہرگز نہیں ہوسکتا۔ پھر اصل حقیقت بتائی کہ میں نے تو کوشش کی تھی لیکن یہ محفوظ رہا اور جیسا کہ الفاظ آیت سے ظاہر ہے کہ وہ اس کی بدی میں شریک سہیلیاں تھیں۔ ماضی کی برأۃ کرکے وہ آئندہ کے لئے خود کہتی ہے کہ اگر اس نے میری بات نہ مانی تو میں اسے قید کرا دوں گی اور ذلیل کروں گی۔
یہ عجیب لطیفہ ہے کہ مفسرین تو کہتے ہیں کہ وہ بدی کی طرف جھک گئے تھے لیکن وہ عورت جس کا واقعہ ہے اور جس کے لئے یوسف کا انکار نہایت ذلت کا موجب ہے وہ خود کہتی ہے کہ باوجود میری کوشش کے یوسفؑ میرے دام میں نہیں آیا بلکہ محفوظ رہا۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت عجیب ہے کہ عزیز کی بیوی نے جس چیز کی دھمکی یوسف کو دی تھی کہ میں ان کو قید کرا دوںگی اور اس طرح یہ ذلیل ہو جائے گا وہی قید یوسف علیہ السلام کی عزت کا موجب ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے یوسف علیہ السلام کو اس قید کے ذریعہ سے بادشاہ کا مقرب اور وزیر خزانہ بنوا دیا۔ اس کی بات بھی پوری ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے اس ذریعہ سے اپنا وعدہ بھی پورا کر دیا اور بتا دیا کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ وہ چاہے تو ذلت کے اسباب سے عزت کے سامان پیدا کردے۔
۳۴؎ حل لغات
احب اسم تفضیل کا صیغہ ہے مگر اس کے معنے زیادہ پیارے اور بہت محبوب کے نہیں بلکہ کم مکروہ اور کم میغوض کا مفہوم مراد ہے۔ گویا کم بغض کو مجازاً محبت سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ حب اور بغض دو متقابل چیزیں ہیں جن میں سے کسی ایک سے دوری اس کے مقابل کی چیز سے قرب کا موجب ہوجاتی ہے۔
صبا یصبوا صبوا وصبوا وصبا وصباء مال الی الصبوۃ۔ جوانی کے جذبات کی طرف جھک گیا۔ ومنہ ان نفسہ تصبوا الی الخیر۔ وہ نیکی کے کاموں کی طرف بہت میلان رکھتا اور جھکا رہتا ہے۔ وھو یصبو الی معالی الامور۔ وہ اعلیٰ اور موجب شرف امور کی طرف مائل رہتا ہے۔ صبا الیہ صبوۃ وصبوۃ وصبوا حسن الیہ۔ اس کا مشتاق ہوا۔ (اقرب)
الجہل علی ثلاثۃ اضرب۔ جہل کی تین قسمیں ہیں۔ الاول خلوا لنفس من العلم۔ ناواقف اور بے خبر ہونا۔ الثانی اعتقاد الشئی بخلاف ماھو علیہ کسی امر کے متعلق غلط خیال پر قائم ہونا۔ الثالث فعل الشئی بخلاف ماحقہ ان یفعل عملی غلطی کرنا۔ا ور جس طرح کرنا چاہئے اس کے برعکس کام کرنا۔ (مفردات)
تفسیر
جس طرح پچھلی آیت سے عزیز کی بیوی کے منہ سے یوسف علیہ السلام کی براء ۃ کرائی گئی ہے یہاں خود حضرت یوسف علیہ السلام کے منہ سے ان کی براء ۃ کرائی گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اے خدا اگر تو ان کے فریب کو مجھ سے نہیں پھرائے گا تو میں ان کی طرف جھک جاؤں گا جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ فعل بدی تو الگ رہا اب تک وہ ان کی طرف جھکے بھی نہ تھے۔ تعجب ہے کہ عورت بھی کہتی ہے کہ یوسف نہیں جھکا یوسف بھی کہتا ہے کہ میں نہیں جھکا دوسری دیکھنے والی عورتیں کہتی ہیں کہ اس سے بدی کا امکان بھی نہ تھا۔ مگر ہمارے مفسرین ہزاروں سال بعد گھر بیٹھے فیصلہ کر دیتے ہیں کہ جھک تو وہ گیا تھا لیکن پھر ہوشیار ہو گیا۔
اس وقت تک یوسف علیہ السلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سے مشابہتیں بیان ہوئی ہیں۔ اس آیت کے مضمون سے دونوں کی طبیعت کا اختلاف بھی معلوم ہوتا ہے اور اس میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت ہی ظاہر ہوتی ہے۔ یوسفؑ ایک مصیبت سے بچنے کے لئے دوسری مصیبت مانگتا ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق یہ تھا کہ خدا تعالیٰ سے ہمیشہ خیر مانگتے کیونکہ وہ خیر کے ذریعہ سے بھی مصائب کو دور کرسکتا ہے۔
۳۵؎ حل لغا ت
استحاب اللہ فلانا ولہ ومنہ قبل دعاء ہ و قضی حاجتہ اللہ تعالیٰ نے اس کی دعق قبول کرکے اس کی حاجت پوری کردی۔ (اقرب)
تفسیر
یعنی انہیں اس کی طرف سے مایوس کر دیا۔ اور یوسفؑ کے دل کو پہلے سے بھی زیادہ تقویت بخشی۔
۳۶؎ حل لغات
بدالہ فی الامر نشأ لہ فیہ رأی۔ اسے ایک نئی بات سوجھی۔ (اقرب) پس ضمیر مستتر ہے جس کا مرجع رأی مقدر ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ جملہ لیسجنن مفرد کی تاویل میں ہوسکر اس کا فاعل ہو اور اس کی نظیریں بھی بہت پائی جاتی ہیں۔
تفسیر
یہ قید یوسف علیہ السلام کی دع اکے نتیجہ میں نہ تھی کیونکہ قید کی دعا تو درھقیقت اصل علاج نہ تھا۔ خداتعالیٰ نے پہلی آیت میں بتلایا ہے کہ خداتعالیٰ نے یوسف کی دعا قبول کرکے اس فریب کو ہٹا دیا جو اس کے خلاف کیا جاتا تھا۔ اس کے بعد پھر فرماتا ہے کہ پھر ان لوگوں کی یہ رائے ہوئی کہ اسے قید کردیں۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے اس قید کو دعا کی قبولیت میں شامل نہیں کیا تو ہم کیوں کریں۔ یوسف علیہ السلام نے بے شک قید کی دعا کی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس مصیبت کو اور اچھے ذریعہ سے ٹلا دیا اور اس کی وجہ سے قید نہیں کرایا ہاں بعد میں قید کا معاملہ بعض اور اسباب سے پیدا ہوا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب انہوں نے بعض نشانات دیکھے تو قید کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
میرے خیال میں نشانات سے مراد عزیز کی بیوی کی پھیلتی ہوئی بدنامی ہوگی۔ آخر انہوں نے مناسب سمجھا کہ یوسف کو قید کر دیں تاکہ عزیز کی بیوی کی کوئی ہوئی عزت قائم ہو جائے اور لوگ اس شبہ میں پڑجائیں کہ شاید یوسفؑ کا ہی قصور ہوگا۔
بائبل کا بیان ہے کہ حضرت یوسفؑ کو ابتدائی جھگڑے کے وقت ہی عزیز نے قید کر دیا تھا لیکن قرآن کریم اس کے خلاف قید کو بعد کے حالات کا نتیجہ قرار دیتا ہے مگر جیسا کہ میں اوپر بتا چکا ہوں بائبل کے ہی حوالہ جات سے بائبل کے بیان کی تردید ہو جاتی ہے۔ مثلاً پیدائش باب۴۰ میں لکھا ہے کہ وہ دو آدمی جن پر بادشاہ کا عتاب نازل ہوا تھا اور ان کو قید کی سزا دی گئی تھی ان کو اس فوطی فار نے جو جلوداروں کا سردار تھا یوسف کے سپرد کر دیا۔ جس سے صاف معلوم ہوا کہ وہ یوسف علیہ السلام کو سچا سمجھتا تھا اور انہیں قید میں اس واقعہ کی وجہ سے نہیں بلکہ بعد کے دوسرے حالات کی وجہ سے مصلحتاً ڈالا تھا۔
۳۷؎ حل لغات
عصر العنب ونحوہ یعصر عصرا۔ استخرج ماء ہ اسے نچوڑ کر اس کا رس نکالا۔ الثوب استخرج ماء ہ بلیہ نچوڑ کر پانی نکالا۔ الدمل۔ استخرج مدتہ۔ دبا کر مادہ فاسدہ نکالا۔ الرکض الفرس۔ عرقہ۔ پسینہ پسینہ کر دیا۔ الشی عنہ منعہ۔ اس سے روکا۔ فلانا اعطاہ العطیۃ۔ عطیہ دیا۔ حبسہ بند کر رکھا۔ فلان عاصر ممسک وقلیل الخیر۔ بخیل کنجوس العصروالعطیۃ۔ عطیہ۔ (اقرب) پس اعصر خصرا کے معنی ہوئے میں انگور نچوڑ کر شراب بناتا ہوں۔ شراب کا سٹور رکھتا ہوں۔ شراب دیتا ہوں۔
تفسیر
معہ کے لفظ کے یہ معنے لینے ضروری نہیں کہ جس روز حضرت یوسفؑ قیدخانہ میں داخل ہوئے تے اسی دن اور اسی وقت وہ بھی داخل ہوئے ہوں۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ وہ یوسف علیہ السلام کے ساتھ قیدخانہ میں رکھے گئے ہوں اور یہ بات بائبل سے ثاب ت ہے کہ ’’قیدخانہ کے داروغہ نے سب قیدیوں کو جو قید میں تھے یوسف کے ہاتھ میں سونپا۔‘‘ (دیکھو پیدائش ۲۲/۳۹) اور پھر لکھا ہے کہ ’’اور اس نے ان دونوں سرداروں کو نگہبانی کے لئے جلوداروں کے سردار کے گھر میں اسی جگہ جہاں یوسف بند تھا قیدخانہ میں ڈالا‘‘ (پیدائش باب۴۰، ۳) پیدائش باب ۴۰ میں یہ خواب ذرا تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہے مگر مضمون ایک ہی ہے۔ ان کے خواب کی تعبیر دریافت کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یوسف علیہ السلام کا قیدخانہ میں ایسا رویہ تھا کہ سب لوگ ان کی بزرگی کے قائل ہو گئے تھے۔ ورنہ معمولی نیکی کی وجہ سے خوابوں کی تعبیر لوگ دریافت نہیں کرتے۔ پھر یہ قیدی تو صاف لفظوں میں کہتے ہیں کہ ہم تجھے اعلیٰ درجہ کے نیکوں میں سمجھتے ہیں۔
۳۸؎ حل لغا ت
نباہ الخبر وبالخبر: خبرہ۔ خبر دی۔ آگاہ کیا۔ ویقال نبات زیدا عمرا منطلقا۔ بتا۔ا علم دیا۔ النبا الخبر۔ خبر۔ وقال فی الکلیات النبا والانباء لم یرد فی القران الا لما لہ وقع وشان عظیم۔ اور کلیات ابوالبقاء میں ہے کہ نباء کا لفظ یا انباء کا لفظ جہاں بھی قرآن کریم میں آیا ہے کسی ذی عظمت اور ذی شان چیز یا بات کی خبر کے متعلق ہی آیا ہے۔ (اقرب) ذلکما بھی ذل کی طرح بعید کے لئے اسم اشارہ ہے۔ فرق ان میں صرف یہ ہے کہ ذلکما سے صرف اسی موقع پر اشارہ کیا جاتا ہے جب مخاطب دو شخص ہوں اور ذلک کا استعمال وسیع ہے جو واحد شخص کو مخاطب کرتے وقت بھی بولا جات اہے اور کثیر کو مخاطب کرتے ہوئے بھی۔ یہ لفظ دراصل تین لفظوں سے مرکب ہے یعنے ذا،لام اور کاف سے۔ ذا اسم اشارہ ہے۔ لام جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہو اس کے مقام یا درجہ کے بعد پر دلالت کرتا ہے اور کاف مخاطب کی علامت ہے۔ (اقرب)
تفسیر
حضرت یوسف علیہ السلام نے انہیں اپنی طرف متوجہ کرنے میں عجیب حکمت سے کام لیا ہے۔ چونکہ خطرہ تھا کہ تبلیغ کرنے پر وہ گھبرائیں گے اس لئے پہلے انہیں تسلی دے دی کہ میں زیادہ وقت نہیں لوں گا بلکہ کھانا آنے سے پہلے ہیہ تم کو فارغ کردو گا۔ یہ اس لئے کیا کہ وہ گھبرا نہ جائیں اور غور سے سنتے رہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں بھی قیدیوں کو کھانے سے پہلے کچھ رخصت ملا کرتی تھی تا وہ آپس میں بات چیت کرلیں جیسا کہ آج کل بھی دستور ہے۔
بارھویں مشابہت
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس معاملہ میں بھی حضرت یوسف علیہ السلام سے مشابہت ہے۔ معلوم ہوتا ہے حضرت یوسف علیہ السلام کو تبلیغ کا موقع نہیں ملتا تھا۔ انہوں نے ان کے سوال کو غنیمت جانا اور سمجھ لیا کہ ان کی ضرورت کے پورا ہونے سے پہلے تبلیغ کروں گا تو یہ سننے پر مجبور ہوں گے۔ ایسا ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا۔ آپ ابتداء دعویٰ میں اعیانِ مکہ کو تبلیغ کرنا چاہتے تو وہ لوگ کترا جاتے اور تبلیغ نہ سنتے۔ آخر آپؐ نے ان لوگوں کی دعوت کی اور کھانا کھلا کر تبلیغ کرنی چاہی مگر وہ لوگ اٹھ کر چلے گئے۔ اس پر آپؐ نے یہ تدبیر کی کہ پھر دعوت کی اور کھانا آنے سے پہلے ان کو اپنے دعویٰ سے آگاہ کر دیا۔ وہ لوگ کھانے کے انتظار میں بیٹھنے پر مجبور تھے اس لئے آپ کو اپنی بات سنانے کا موقع مل گیا۔
اس آیت سے انبیاء کے وعظ کا طریق بھی معلوم ہوتا ہے۔ پس ان کی اتباع میں وعظ و نصیحت کرتے وقت ہمیشہ یہ خیال رکھنا چاہئے کہ بات کہی بھی جائے اور دوسرے پر گراں بھی نہ گزرے۔
’’یہ وہ علم ہے جو مجھے خداتعالیٰ نے سکھایا ہے۔‘‘ کہہ کر حضرت یوسف علیہ السلام نے یہ ثبوت دیا ہے کہ جس مذہب پر میں کاربند ہوں وہی سچا ہے کیونکہ اس کے تازہ پھل انسان کو ملتے رہتے ہیں اور خداتعالیٰ سے تعلق پیدا ہوتا ہے۔
۳۹؎ تفسیر
یعنی جس مذہب پر میں ہوں اس کے ذریعہ سے ہمیشہ سے لوگ خداتعالیٰ سے تعلق پید اکرتے چلے آئے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ایسا راستہ بندہ کے لئے کھلا رکھا ہے لیکن افسوس کہ اللہ تعالیٰ کے احسان کی لوگ قدر نہیں کرتے۔
علینا وعلی الناس کہہ کر بتایا ہے کہ نبوت کا انعام صرف اسی شخص کے لئے نہیں ہوتا جسے نبوت ملے بلکہ درحقیقت وہ سب دنیا کے لئے ہوتا ہے۔ سب ہی علی قدرمراتب اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ حتیٰ کہ اگر غور کیا جائے تو کافر بھی اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ نبی کے بعد کئی فضول عقائد جن کو وہ رد کرتا ہے لوگ ترک کردیتے ہیں۔ گو نبی کی صداقت کا انکار ہی کرتے رہیں۔
۴۰؎ حل لغات
قھار کا لفظ قھری میں سے اسم فاعل کا صیغہ مبالغہ ہے۔ قھرہ قھرا غلبہ فھو قاھر۔ اس پر غالب ہوا۔ وتقول اخذتہم قھرا اے من غیر رضاھم۔ اور اخذتہم قہرا کے معنے ہیں بغیر ان کی مرضی کے زبردستی ان کو پکڑ لیا۔ القہار فعال للمبالغہ واسم من الاسماء الحسنی۔ قہار اسم فاعل سے مبالغہ کا صیغہ ہے اور خداتعالیٰ کے ناموں میں سے بھی ہے۔
تفسیر
فرمایا کہ دنیا میں غلبہ جتھے کے ساتھ ہوا کرتا ہے مگر میرے رب کا معاملہ بالکل نرالا ہے۔ وہ اکیلا بھی ہے اور ساتھ ہی غالب۔ بلکہ بڑا غالب بھی۔
اس قید کی حالت میں اللہ تعالیٰ کی صفات حسنہ پر اس قسم کا زور دینا حضرت یوسف علیہ السلام کے کمالات باطنی کا مظہر ہے اور ایمان کو تازہ کرتا ہے۔
۴۱؎ حل لغات
القیم۔ دیناقیما اے ثابتا مقوما لامور معاشہم ومعادھم۔ دین قیم ثابت اور قائم رہنے والے اور دنیا اور آخرت کے امور کو درست کرنے والے دین کو کہتے ہیں۔ (مفردات) القیم علی الامر متولیہ۔ جو کسی کا متولی ہو۔ القیمہ الدیانۃ المستقیم۔ صحیح راستہ درست مذہب (اقرب)
تفسیر
یوسف علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جن چیزوں کا وجود صرف اس امر پر مبنی ہو کہ تم نے ایک نام تجویز کرلیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی دلیل اور غلبہ ان کے ساتھ نہیں ہے تم ان کی عبادت کرکے کیا لوگے اور ایسی چیزوں کی عبادت کیا نفع پہنچا سکتی ہے۔
اس آیت میں اس اصل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جو امور خداتعالیٰ کی طرف سے ہوں ان کے ساتھ خداتعالیٰ کی طرف سے کوئی دلیل اور غلبہ بھی ہونا چاہئے۔ مختلف مذاہب یونہی آپس میں لڑتے رہتے ہیں اور کوئی فیصلہ کی اس یقینی راہ کی طرف توجہ نہیں کرتا کہ خداتعالیٰ کی طرف سے مدعی کو کیا دلیل ملی ہے۔ عقل کب اس امر کو تسلیم کرسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والا مذہب اپنے ثبوت کے لئے انسانی اور خالص عقلی دلائل کا محتاج ہو۔ جو چیز آسمان سے آئے اس کے لئے آسمانی دلیل کی بھی ضرورت ہے۔
دین قیم کہہ کر بتایا ہے کہ دین وہی سچا ہوسکتا ہے جو دنیا اور آخرت کی ضرورتوں کو پورا کرے اور ایسی تعلیم دے جس سے انسان کی روحانی اور جسمانی دونوں حالتیں درست ہوں اور اس طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ ایسا دین وہی ہوسکتا ہے جو شرک سے لوگوں کو بچائے۔ یہ ایک زبردست صداقت ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ شرک انسانی ترقی کے راستہ میں روک ہے۔ بھلا جو قوم عناصر کو خدا سمجھے گی وہ ان کو چیر پھاڑ کر اپنی خدمت میں کب لگائے گی۔ قوانین قدرت سے تو وہی قوم فائدہ اٹھائے گی جو سب کائنات کو خدا کی مخلوق اور اپنی خدمت کے لئے پیدا کی ہوئی چیز سمجھے گی۔
۴۲؎ حل لغا ت
صلبہ۔ ای القائل کضربہ صلبا جعلہ مصلوبا۔ اسے مصلوب کر دیا۔ وفی السان العرب والصلب ھذہ القتلۃ المعروفۃ اور لسان العرب میں ہے کہ صلب کے معنے صلبی کی موت سے مارنے اور قتل کردینے کے ہیں۔ واصلہ من الصلیب وھو الودک۔ اور اسی کا ماخذ صلیب ہے۔ جس کے معنے چربی کے اور ہڈیوں ے گودے کے ہیں۔ صلب اللحم شواہ فاسالہ اے الودک منہ گوشت کو سیخوں وغیرہ پر بھونا۔ جس کی وجہ سے اس کی چربی نیچے گرتی رہی۔ صلب العظام جمعہا وطبخہا واستخرج ودکہا لیوتدم بہ۔ ہڈیوں کو گوشت سے الگ جمع کرکے اور انہیں پکا کر ان کا گودا سالن کے طور پر کھانے کے لئے نکالا۔ والصلیب الودک۔ اور صلیب کے معنے چربی اور گودے کے ہیں۔ وفی الصحاح ودک العظام اور صحاح میں ہے کہ صلیب ہڈیوں کے گودے کو کہتے ہیں۔ وبہ سمی المصلوب اور اسی وجہ سے مصلوب کو مصلوب کہتے ہیں۔ لمایسیل من ودکہ کیونکہ اس کی چربی اور گودا نکل کر بہتا ہے والصلب ھذہ القتلۃ المعروفۃ اور اسی طریق پر قتل کرنے اور ہڈیوں کا گودا نکالنے کو صلیب کہتے ہیں۔ مشتق من ذلک۔ یہ لفظ اسی لفظ صلیب (چربی اور ہڈیوں کا گودا) سے ماخوذ ہے۔ لان ودکہ وصدیدہ یسیل کیونکہ مصلوب کی چربی اس کی ہڈیوں کا گودا اور اس کی پیپ نکل کر بہتی ہے۔ (تاج العروس)
تفسیر
اس جگہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام تو تعبیر کرنے والے تھے۔ پھرا نہوں نے یہ کیوں کہا کہ فیصلہ کر دیا گیا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ خواب کی تعبیر کا بھی اس کے پورا ہونے سے بہت کچھ تعلق ہوتا ہے۔ جب تک خواب سنائی نہیں جاتی اسے زیادہ اہمیت حاصل نہیں ہوتی۔ لیکن جب سنائی جاتی ہے اور اس کی تعبیر ہوجاتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کو اس کی غیرت ہوجاتی ہے اور وہ حتی الوسع ضرور پوری کی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے صوفیاء نے لکھا ہے بلکہ احادیث میں بھی اس طرف اشارہ ہے کہ بری خواب سنائی نہیں چاہئے۔ پس جب ان لوگوں نے خوابیں حضرت یوسف علیہ السلام کو سنا دیں اور انہوں نے تعبیر کر دی تو ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ اب یہ خوابیں پوری ہوکر رہیں گی۔
۴۳؎ حل لغات
البضع۔ مابین الثلاث الی التسع۔ تین سے لے کر نو تک کو بضع کہتے ہیں۔ (اقرب)
تفسیر
حضرت یوسف علیہ السلام نے اسے جس کی نسبت انہیں یقین تھا کہ بچ جائے گا یہ کہ اکہ بادشاہ کے پاس میرا ذکر بھی کرنا کہ فلاں شخص کو قید میں بلاوجہ ڈالا ہوا ہے۔ لیکن اس شخص کو اپنے برے مشاغل یعنی شراب پلانے کے کام میں یہ خیال نہ رہا کہ ذکر کرتا۔
بعض مفسرین نے اس جگہ یہ معنے کئے ہیں کہ شیطان نے یوسف علیہ السلام کو اپنے رب کا ذکر بھلا دیا۔ یعنی انشاء اللہ کہنا یاد نہ رہا حالانکہ یہ موقع انشاء اللہ کہنے کا تھا ہی نہیں۔ا س آیت میں جب رب کا لفظ بادشاہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ یوسف علیہ السلام کو خداتعالیٰ سے غافل ثابت کیا جاتا۔ اس کے سیدھے معنے ی ہیہں کہ اس شخص کو اپنے بادشاہ سے یوسف کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا۔ یعنی اپنے شیطانی کاموں میں پڑ کر یوسف علیہ السلام کی صحبت کا نیک اثر جاتا رہا۔ اور یوسفؑ کا خیال اسے نہ آیا اور بادشاہ کے پاس اس کا ذکر نہ کرسکا۔ ایسے صاف معنوں کی موجودگی میں کہ جن سے یوسف علیہ السلام کی برأت پر بھی کوئی الزام نہیں لگتا ہمیں دوسرے معنے کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔
ظن کا لفظ اس لئے کہا کہ غیر نبی کی خواب کتنی بھی یقینی کیوں نہ ہو شبہ سے خالی نہیں ہوسکتی اور اس کو ظن سے ہی بیان کیا جاسکتا ہے۔ صرف نبی ہی کی یہ شان ہے کہ اس کے الہام پر قسم کھائی جاسکتی ہے کہ وہ سچا ہے اور کسی کے الہام یا خواب کو یہ شرف حاصل نہیں اور یہ بھی نبی اور غیر نبی کے الہام میں ایک فرق ہے۔
۴۴؎ حل لغات
عجفت الشاۃ عجفا ذھب سمنہا وضعفت دبلی ہو گئی۔ والبلاد لم تمظر فلاں علاقہ میں بارش نہ ہوئی اور اس میں خشک سالی رہی۔ ومنہ نرلوا فی بلاد عجاف اے غیر ممطورۃ جب شہروں کے لئے لفظ عجاف آئے تو اس کے معنے ہوتے ہیں جن پر بارش نہیں برسی۔ اسی طرح جب دانوں کے لئے یہ لفظ آئے تو اس کے معنے ہوتے ہیں کہ دانے چھوٹے رہ گئے۔ العجف الھزال۔ دبلا پن۔ الاعجف المہزول وھی عجفاء جمعہ عجاف شاذ۔ اس سے صفت کا صیغہ مذکر اعجف اور مؤنث عجفاء آتا ہے۔ اور ان کی جمع دوسرے اس قسم کے الفاظ کے خلاف بجائے عجف کے عجاف آتی ہے۔ (اقرب)
عبرالسبیل عبورا شقہا۔ اے مرکانہ شقہا وقطعہا۔ وہ راستہ پر ایسی سرعت سے گزرا اور سیدھا چلا کہ گویا اس نے اسے چیر دیا اور اسے کاٹتا ہوا اس میں گزرا۔ بفلان الماء جاز دریا کے پار پہنچا دیا۔ الکتاب تدبرہ فی نفسہ ولم یرفع صوتہ بقراء تہ دل میں الفاظ پر غور کرتا گیا۔ الرؤیا عبرا وعبارۃ فسرھا واخبرباخر مایؤل الیہ امرھا۔ خواب کا نتیجہ بتایا اس کی تعبیر بتائی۔ (اقرب)
افتاہ العالم فی مسئلہ۔ ابان لہ الحکم فیہا واخرج لہ فیہا فتوی۔ عالم نے پیش آمدہ مسئلہ کے متعلق فتویٰ دیا اور اس کا حکم بتایا۔ (اقرب)
تفسیر
معلوم ہوتا ہے کہ فرعون کو اپنی رؤیا پر اس قدر یقین تھا کہ وہ صرف تعبیر ہی نہیں پوچھتا بلکہ یہ پوچھتا ہے کہ بتاؤ تعبیر معلوم ہوچکنے کے بعد کرنا کیا چاہئے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے رؤیا ایسی وضاحت اور ہیبت کے ساتھ دکھائی تھی کہ اس کا نقشہ اس کے دل پر اثر کر گیا تھا۔ پس وہ مجبور تھا کہ اسیس چا سمجھے اور اس کے نتائج سے بچنے کی کوشش کرے۔ اگر اس شان سے رؤیا نہ ہوتی اور اس کے دل پر گہرا اثر نہ ہوتا تو وہ دربار میں اس کا ذکر نہ کرتا اور حضرت یوسف علیہ السلام کی رہائی کی صورت نہ پیدا ہوتی۔
۴۵؎ حل لغات
الضغث من الکبر ماکان مختلطالا حقیقۃ لہ ضغث اس خبر یا بات کو کہتے ہیں جو پراگندہ ہو اور اس کی کوئی حقیقت نہ ہو۔ اضغٓث احلام احلام ملتبسۃ لا یصخ تاویلہا لاختلاطہا اضغاث احلام ایسی پراگندہ خوابوں کو کہتے ہیں جن کی سچ اور جھوٹ کی ملاوٹ کی وجہ سے تعبیر نہیں کی جاسکتی۔ (اقرب)
احلام۔ حلم کی یا حلم کی جمع ہے۔ مایراہ النائم فی نومہ۔ لکنہ قد غلب علی مایراہ من الشر والقبیح کما غلبت الرؤیا علی مایراہ من الخیر والحسن وربھا یستعمل کل مکان الاخر حلم اس نظارہ کو کہتے ہیں جو انسان نیند کی حالت میں دیکھے لیکن یہ لفظ عام طور پر برے اور قبیح نظارہ کے لئے بولا جات ہے جس طرح رؤیا کا لفظ عام طور پر اچھے اور نیک نظارہ کو کہتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھی یہ دونوں لفظ ایک دوسرے کی جگہ پر بھی بول لئے جاتے ہیں۔ (اقرب) مجمع البحار میں لکھا ہے الرؤیا من اللہ والحکم من الشیطان فھما مایراہ النائم لکن غلب الرؤیا علی الخیر والحلم علی الشر والقبیح۔ یعنی رویا اور حکم دنوں لفظوں کے اصل معنے حالت خواب میں دیکھنے کے ہیں لیکن عام محاورہ اور استعمال میں حلم بری خواب کو کہتے ہیں اور رؤیا اچھی کو۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے الرؤیا من اللہ والحلم من الشیطان۔ یعنی رؤا اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور حلم شیطان کی طرف سے۔ (اس کا یہ مطلب نہیں کہ خداتعالیٰ کی طرف سے ڈرانے والی خواب آتی ہی نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کو اکثر ڈرانے والی خوابیں آٹی رہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ ہوں گی۔ بلکہ شیطان کی طرف سے ہوں گی کیونکہ اللہ تعالیٰ کا رحم اس کے غضب پر غالب ہے۔ اور جس کو اکثر اچھی خوابیں آئیں وہ سمجھے کہ وہ خوابیں خداتعالیٰ کی طرف سے ہیں کیونکہ ان میں رح-ت کا پہلو غالب ہے۔
دوسرے معنے ا سکے یہ ہیں کہ حلم یعنی برے خوابوں کا موجب شیطان ہے اور رؤیا یعنی اچھے خوابوں کا موجب اللہ تعالیٰ ہے۔ یعنی عذاب کا سبب شیطانی تعلق ہوتا ہے اور فضل و برکت کا سبب رحمانی تعلق ہوتا ہے۔ گویا یہ بتایا ہے کہ اگر بری خوابیں اور ڈراؤنے منظر دیکھو تو سمجھ لو کہ شیطان سے تعلق پیدا ہو گیا ہے اور اپنی اصلاح کرو۔ اور اگر اچھے منظر دکھائے جائیں تو سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ خوش ہے اور فضل کرنا چاہتا ہے۔ پس نیکی میں اور ترقی کرو)
تفسیر
قالوا اضغاث احلام۔ انہوں نے کہا کہ یہ خوابیں بری بھی ہیں اور مخلوط بھی۔ یعنی سچ اور جھوٹ ملا ہوا ہے۔ دماغی دخل سے پاک نہیں ہیں۔ اور پوری طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں کہی جاسکتیں اس لئے ایسی خوابیوں کی تعبیر نہیں کی جاسکتی۔ کیونکہ جب تک جھوٹ اور سچ الگ الگ نہ ہو تعبیر کے متعلق حکم نہیں لگایا جاسکتا۔ یہ جو انہوں نے کہا ہے کہ ہم احلام کی تعبیر نہیں جانتے اس کا یہ مطلب نہیں کہ بری خوابوں کی تعبیر ہم نہیں کرسکتے بلکہ احلام کے اوپر جو ال ہے وہ عہد ذہنی کا ہے یعنی اس سے اشارہ اضغٓث احلام کی طرف ہے اور مراد یہ ہے کہ جس قسم کی پراگندہ خوابوں کا ذکر ہم پہلے کرچکے ہیں ویسی خوابوں کی تعبیر ہم نہیں کرسکتے نہ یہ کہ خالی ڈراؤنی خواب کی تعبیر ہم نہیں کرسکتے۔
۴۶؎ حل لغات
اذکر۔ ذکر میں سے باب افتعال کا فعل ماضی ہے۔ اذکرہ ذکرہ۔ اس نے یاد کیا۔ اسے یاد آیا۔(اقرب)
الامۃ الحین۔ وقت عرصہ۔ (اقرب) وقولہ تعالی واذکر بعد امۃ اے حین کچھ عرصہ کے بعد۔ وقد قری بعد امۃ اے بعد نسیان اور ایک قراء ۃ میں امۃ بھی آیا ہے جس کے معنے ہیں بھول جانے کے بعد۔ وحقیقۃ ذلک بعد انقضاء اھل عصر اواھل دین اور اس کے اصل معنے عرصہ دراز کے ہیں۔ جس میں ایک زمانہ کے لوگ یا ایک دین کے اور ایک قرن کے لوگ گزر جائیں۔ (مفردات)
تفسیر
مجھے بھیجو کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص کوئی بڑے سرداروں میں سے نہ تھا اور بادشاہ کے قول کا مخاطب نہ تھا۔ جب وہ لوگ اس خواب کی تعبیر نہ کرسکے اور انہوں نے پراگندہ خواب کہہ کر جس میں خیالات کی ملونی ہو گئی ہو اپنا پیچھا چھڑایا تو اس شخص کو اپنا اور اپنے ساتھی کا خواب یاد آیا اور خیال گزرا کہ ہمارے خواب بھی بظاہر پراگندہ معلوم دیتے تھے لیکن یوسف علیہ السلام نے ان کی معقول تعبیر کی اور اسی طرح ہو گیا۔ ممکن ہے وہ ان خوابوں کی بھی تعبیر کرسکیں اور امراء دربار سے اجازت چاہی کہ اگر مجھے جانے کی آپ لوگ اجازت دیں تو میں جاکر اس خواب کی تعبیر پوچھ آتا ہوں۔
اس امر پر تعجب نہیں کرنا چاہئے کہ بادشاہ امراء دربار سے تعبیر کیوں پوچھتا ہے؟ کیونکہ پراے زمانہ میںکاہنوں اور مذہبی آدمیوں کا خاص زور ہوتا تھا اور انہی میں سے عام طور پر امراء دربار مقرر کئے جاتے تھے۔
اس آیت کے متعلق یہ لطیف امر بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ کامیابی تو یوسف علیہ السلام کو بھی ہوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مگر طریق کامیابی دونوں کے الگ الگ تھے۔ یوسف علیہ السلام کو دوسروں کے ذریعہ سے ترقی دلانی تھی اس لئے ان کے لئے دوسروں کو ہی خواب دکھائی۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو چونکہ بلاواسطہ ترقیات ملنی تھیں اس لئے ان کی ترقی کی خبر بھی براہ راست انہی کو ملتی رہی اور اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں پسند کیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ترقی کی آخری منازل کسی اور شخص کی مدد سے ملے ہوں۔
۴۷؎ حل لغات
صدیق۔ صدق میں سے اسم فاعل سے مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے معنے ہیں الکثیر الصدق۔ بڑا راست گو۔ الدائم التصدیق۔ الکامل فیہ ۔ سچائی کو فوراً مان لینے والا۔ الذی یصدق قولہ بالعمل جس کے قول کی اس کے فعل سے تصدیق ہوتی ہو۔ (اقرب)
تفسیر
فرعون کا ساقی حضرت یوسف علیہ السلام سے خواب بیان کرنے کے بعد کہتا ہے کہ شاید میں ان لوگوں کی طرف لوٹوں۔ حالانکہ شاید کا کوئی موقع نہ تھا۔ یوسف علیہ السلام اسے قیدخانہ میں نہیں رکھس کتے تھے۔ پس اس جگہ پر لعل مخاطب کی طمع کے لئے آیا ہے یعنی اگر میں اس تعبیر کو لے کر ان کی طرف لوٹوں تو انہیں آپ کے کمالات کا علم ہو جائے گا اور آپ کی براء ت ان پر ظاہر ہو جائے گی۔
اس کلام سے اس شخص نے اپنی براء ت بھی کی ہے۔ وہ وعدہ کر گیا تھا کہ میں فرعون سے ذکر کروں گا لیکن اس نے وہ وعدہ پورا نہیں کیا۔ اب وہ اس فقرہ سے کہ تاکہ وہ جان لیں یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ گویا اس سے پہلے ان سے بات کرنی مناسب نہ تھی کیونکہ کامیابی کی امید نہ تھی اب موقع نکلا ہے کہ انہیں آپ کی براء ت کا قائل کیا جاسکے تو میں فوراً آپ کے پاس آگیا ہوں۔
تیرھویں مشابہت
اس واقعہ میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یوسف علیہ السلام کے ساتھ مشابہت ہے۔ جس طرح یوسفؑ کے زمانہ مین سات سال کے قحط کی خبر دی گئی تھی اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اللہ تعالیٰ نے سات سال کے قحط کی خبر دی تھی۔ جب مکہ والوں نے آپؐ کو بار بار عذاب لانے کے لئے کہا اور آپؐ پر طرح طرح کے اتہام لگائے تو جیسا کہ ابن مسعود سے صحیحین میں روایت ہے دعا علیہھم اسنین کسنی یوسف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مخالفین کے لئے ویسے ہی سالوں کی دعا کی جیسا کہ یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں گزرے تھے۔ یعنی ویسے ہی شدید قحط کی آپؐ نے دعا کی۔ چنانچہ حجاز میں سخت قحط پڑا اور سات سال تک رہا۔ یہاں تک کہ بعض لوگ ان ایام میں مردار وغیرہ کھانے لگے اور صحتیں اس قدر بگڑ گئیں کہ آنکھوں کے آگے دھوئیں نظر آنے لگے۔ آخر سات سال کی تکلیف کے بعد لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کی کہ آپؐ مضر یعنی قبائل حجاز کے لئے دعا کریں کہ وہ بالکل تباہ ہو گئے ہیں۔ آپؐ نے دعا کی اور آپ کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے بارش کی اور قحط دور ہوا۔
۴۸؎ حل لغات
دأب فی عملہ جدوتعب واستمتر علیہ۔ انتہائی حد تک محنت اور کوشش کی اور بلاوقفہ اس پر قائم رہا۔ (اقرب) پس دابا کے معنی ہوئے متواتر محنت اور مشقت کے ساتھ تم اس کام میں مصروف رہوگے۔
ذروا فعل امر ہے جس کے معنے ہیں چھوڑ و۔ اس مادہ میں سے صرف فعل امر اور فعل مضارع استعمال ہوتا ہے۔ فعل ماضی، مصدر اور اسمائے مشتقہ جیسے اسم فعال وغیرہ نہیں ہوتے۔ چنانچہ اقرب الموارد میں ہے ذرہ اے دعہل اسے چھوڑ دے۔ وامانت العرب ماجیہ ومصدرہ واسم الفعال منہ اور عرب لوگ اس کی ماضی اور مصدر اور اسم فاعل کو استعمال نہیں کرتے بلکہ جب ان مادوں کے استعمال کی ضرورت ہو تو ترک کا لفظ استعمال کرلیتے ہیں۔ (اقرب)
تفسیر
گو الفاظ یہ ہیں کہ تم ایسا کرو گے مگر مراد یہ ہے کہ تمہیں ایسا کرنا ہوگا تاکہ قحط کے ایام کے لئے غلہ موجود رہے۔ اگر ان دنوں میں محنت سے کام نہ لیا اور پھر احتیاط سے غلہ خرچ نہ کیا تو قحط کی تکلیف ناقابل برداشت ہوجائے گی۔
یوسف علیہ السلام نے غلہ کو جمع کرکے محفوظ رکھنے کا طریق بھی ساتھ ہی بتا دیا ہے جو یہ ہے کہ اگر گندم کو اس کی بالوں میں ہی رہنے دیا جاوے تو وہ کیڑا وغیرہ لگنے سے زیادہ محفوظ رہتا ہے۔ تم بھی اسی طرح کرنا۔ کوئی تعجب نہیں کہ یہ امر حضرت یوسف علیہ السلام نے خواب کے ہی الفاظ سے اخذ کیا ہو اور یہ خیال کیا ہو کہ گائیں دکھا کر دوبارہ جو بالیں دکھائی ہیں تو اس سے مراد یہی ہے کہ غلطہ کو بالوں میں ہی رہنے دینا چاہئے۔
۴۹؎ حل لغات
الشدید۔ البخیل۔ کنجوس القوی سخت۔ جمعہ شداد۔ اس کی جمع شداد آتی ہے۔ الشدیدۃ مؤنث الشدید وجمعہ شدائد۔ شدیدۃ شدید کی مؤنث ہے اور اس کی جمع شدائد آتی ہے۔ پس سبع اور شداد (یہ دونوں سنون کی جو محذوف ہے نعتیں ہیں) میں سے پہلی صفت اس کے موصوف کے صیغہ واحد کی تانیث کی بناء پر بصیغۂ تانیث لائی گئی ہے اور دوسری صفت اپنے موصوف کے صیغہ کی رعایت سے جو جمع مذکر کا صیغہ ہے بصیغہ مذکر آئی ہے۔ حصن حصانۃ منع۔ رک گیا۔ محفوظ ہو گیا۔ المرء ۃ حصنا وحصانۃ کانت عفیفۃ۔ عورت پاکباز رہی۔ (اقرب)
تفسیر
یعنی اس کے بعد قحط کے دن آئیں گے جن میں پہلا جمع شدہ غلہ سب خرچ ہوجائے گا اور صرف تھوڑا سا جو تم بچا رکھو گے بچے گا۔
بچا رکھو گے کے الفاظ سے مجبوری پائی جاتی ہے اور غلہ کے بچانے کی مجبوری بیج کی ہی ہوتی ہے۔ پس مراد یہ ہے کہ بیج کے طور پر جو تم کو جبراً رکھنا پڑے گا وہی رہے گا۔ باقی سب کھایا جائے گا۔ یا یہ کہ اس ڈر سے کہ قحط لمبا نہ ہو جائے جو کچھ تم اپنے پیٹ کاٹ کر بچا رکھو گے وہ بچے گا ورنہ سب خرچ ہو جائے گا۔
۵۰؎ حل لغات
العام۔ السنۃ۔ سال، وفی المصباح لا تفرق عوام الناس بین العام والنسۃ اور مصباح میں ہے کہ عوام الناس عام کے معنوں میں اور سنۃ کے معنوں میں کوئی فرق نہیں سمجھتے۔ ویجعلونہما بمعنی اور ان دونوں کو ہم معنے قرار دیتے ہیں۔ فیقولون لمن سافر فی وقت من السنۃ ای وقت کان الی مثلہ۔ عام مثلاً اگر کوئی شخص کسی سال کے دوران میں اور اس کے کسی حصہ میں سفر کرے اور بارہ مہینے کیب عد واپس آئے تو اس عرصہ کو بھی عام کہہ دیتے ہیں۔ وھو غلط لیکن یہ استعمال صحیح نہیں۔ السنۃ من ای یوم عددتہ الی مثلہ سنۃ۔ سے مراد ایک سال کا عرصہ ہوتا ہے۔ خواہ کسی دن سے شمار کیا جائے۔ والعام لایکون الا شتاء اوصیفا۔ اور عام سے مراد شمسی سال کے مقرہ مہینوں میں سے پہلے مہینہ کے شروع سے لے کر بارھویں مہینہ کے آخر تک کا عرصہ ہوتا ہے جس کا حساب صیف و شتا کو ملحوظ رکھ کر کیا جاتا ہے۔ (اقرب)
غاث اللہ البلاد یغیثہا غیثا انزل با الغیث اے المطر۔ اللہ تعالیٰ نے ملک میں بارش نازل کی… وغاث یغوث غوثا۔ اعانہ ونصرہ۔ اس کی مدد اور نصرت کی واغاثنا اللہ بالمطر کشف الشدۃ عنابہ۔ خداتعالیٰ نے بارش کے ذریعہ سے ہماری تکلیف دور کی۔ (اقرب) عصرفلانا اعطاہ العطیۃ۔ (اقرب)
تفسیر
اس آیت پر مسیحی مشنری اعتراض کیا کرتے ہیں کہ مصر کی شادابی کا انحصار بارش پر نہیں بلکہ دریائے نیل کی طغیانی پر ہے لیکن قرآن کریم میں لکھا ہے کہ قحط کے بعد بارش ہوگی ار لوگوں کی تکلیف دور ہوگی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ (نعوذباللہ) قرآن کریم کے نازل کرنے والے کو جغرافیہ کی موٹی باتوں کا بھی علم نہیں۔ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم میں بغاث الناس کے لفظ استعمال ہوئے ہیں اور یغاث صیغہ مجہول ہے جو غاث یغیث سے بھی بن سکتا ہے جس کے معنے بارش نازل کرنے کے ہیں اور غاث یغوث سے بھی بن سکتا ہے جس کے معنی مدد کرنے کے ہیں اور اغاث یغیث سے بھی بن سکتا ہے جس کے معنی فریاد کو پہنچنے کے یہں۔ اور یغاث کے تینوں معے ہوسکتے ہیں۔ (۱) بارش برسائی جائے گی (۲) مدد کی جائے گی (۳) ان کی فریاد سنی جائے گی اور ان کی تنگی دور کی جائے گی۔ پس یہ کہنا کہ قرآن کریم نے مصر میں بارش کا ذکر کیا ہے۔ حالانکہ وہاں بارش نہیں ہوتی۔ مغالطہ دینا ہے۔ جب ان الفاظ کے دوسرے معنے موجود ہیں تو کیاں وہ معنے نہ کئے جائیں۔ ہمارے نزدیک اس آیت میں بارش کی خبر نہیں دی گئی بلکہ یہ بتایا ہے کہ پھر لوگوں کی مدد کی جائے گی یا یہ کہ فریاد سنی جائے گی اور ان کی تنگی دور کردی جائے گی۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ ایسا مشتبہ لفظ استعمال کیوں کیا گیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو کوئی اشتباہ ہے ہی نہیں جب عربی مین ایک لفظ ایک خاص معنوں کے لئے استعمال ہوتا ہے تو قرآن کریم کیوں اس لفظ کو استمعال نہ کرے۔ دوسرے ہم کہتے ہیں کہ اس دو معنوں والے لفظ کے استعمال میں ایک حکمت تھی اور وہ یہ کہ جیسا ہ بتایا جاچکا ہے ضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ کے بیان میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی بھی پیشگوئی تھی اور اس قسم کے قحط آپؐ کے زمانہ میں بھی پڑھنے والا تھا لیکن فرق یہ تھا کہ یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں تو اس قحط کا علاج دریا کی طغیانی سے ہونا تھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بارش کے ساتھ ہونا تھا۔ پس قرآن کریم نے جس کا ہر لفظ حکمتوں سے پر ہوتا ہے ایسا لفظ استعمال کیا کہ وہ ایک ہی لفظ دونوں زمانوں پر چسپاں ہوسکتا ہے۔ ایک مادہ سے اس کے معنی فریاد سننے اور تنگی دور کرنے کے ہیں اور ان معنوں میں وہ لفظ یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں پورا ہوا۔ دوسرے مادہ سے اس لفظ کے معنی بارش ہونے کے ہیں۔ ان معنوں سے یہ لفظ رسول کریہم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پورا ہوا اور یہ لطیف پیرایۂ کلام قرآن کریم کی عظمت ثابت کرتا ہے نہ کہ اسے قابل اعتراض بناتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اگر بارش ہی کے معنے کریں تب بھی کوئی اعتراض نہیں پڑتا کیونکہ اس آیت میں یہ ذکر نہیں کہ مصر میں بارش ہوگی بلکہ یہ لفظ ہے کہ لوگوں کے لئے بارش نازل کی جائے گی اور اس میں کیا شک ہے کہ گو مصر کی شادابی نیل کی طغیانی پر منحصر ہے نہ کہ بارش پر لیکن نیل کی طغیانی آگے بارش پر منحصر ہے۔ جو گو مصر میں نہیں ہوتی لیکن ان علاقوں میں تو ہوتی ہے جہاں نیل کا منبع ہے۔ پس اگر بارش کے معنے لئے جائیں تب بھی کوئی اعتراض نہیں پڑتا۔
۵۱؎ حل لغات
البال۔ الحال۔ حالت کیفیت۔ القلب۔ دل (اقرب) البال الحال التی یکترث بھا۔ توجہ طلب حالت اور کیفیت…… ولذلک یقال مابالیت بکذا بالۃ اے ماکثرثت بہ۔ چنانچہ مابالیت بکذا بالۃ کے معنے ہوتے ہیں یعنے فلاں بات کی کچھ بھی پرواہ نہ کی اور اس کی طرف توجہ نہ کی۔ قال کفر عنہم سیئاتھم واصلح بالھم۔ قال نمابال القرون الاولی اے حالہم وخبرھم اور قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیات میں بال کے معنے حال اور خبر ہی کے ہیں۔ ویعبر بالبال عن الحال الذی ینطوی علیہ الانسان اور بال سے مراد اندرونی اور قلبی کیفیت کے بھی ہوتے ہیں۔ فیقال اکطرکذا ببالی۔ چنانچہ اسی بنا پر خطرکذا ببالی کہا جاتا ہے جس کے معنے ہیں فلاں بات میرے دل میں آئی۔ (مفردات)
تفسیر
بادشاہ نے یہ دیکھ کر کہ اس کے ہم مذہب کاہن تو تعبیر کرنے سے رہ گئے اور یوسف علیہ السلام نے ایک نہایت اعلیٰ تعبیر بیان کردی اور مصیبت کا علاج بھی بتا دیا اور اپنے ساقی سے یہ سن کر کہ پہلے بھی ان کی بتائی ہوئی تعبیریں پوری ہوچکی ہیں انہیں قید سے آزاد کرنا چاہا لیکن حضرت یوسف علیہ السلام کی غیرت نے برداشت نہ کیا کہ وہ اپنی براء ت کرائے بغیر قید سے نکلتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ انہیں یہ خیال ہوا کہ اگر میں اس وقت نکل آیا تو کسی آئندہ زمانہ میں لوگ میری شکایت بادشاہ سے کردیں گے اور وہ ان امور کو شاید سچا سمجھ لے۔ اس لئے مناسب ہے کہ ابھی سے سب معاملہ بادشاہ کے سامنے آجائے تاکہ وہ تحقیق کرکے اپنی تسلی کرلے اور آئندہ کسی کو ریشہ دوانی کا موقع نہ ملے۔
حضرت یوسف علیہ السلام کے اس قول سے کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹے تھے معلوم ہوتا ہے کہ ظاہر میں بھی ہاتھ کاٹنے کا کوئی واقعہ ہوا تھا۔ یا تو واقعہ میں ان میں سے کسی کا ہاتھ باتیں کرتے زخمی ہو گیا تھا جس کی طرف حضرت یوسف علیہ السلام نے اشارہ کیا ہے اور یا پھر انہوں نے منہ سے کہا ہوگا کہ ہم نے تو اس شخص کو بدنام کرکے اپنے ہاتھ کاٹ لئے ہیں۔ جسے انہوں نے یاد دلایا ہے۔ اگر صرف قرآن کریم نے ان کی کیفیت کو ان الفاظ سے ادا کیا ہوتا تو حضرت یوسف علیہ السلام کے منہ سے یہ فقرہ نہیں نکل سکتا تھا۔
یہاں ایک عجیب نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے جسے لوگ عام طور پر نہیں سمجھتے اور وہ یہ کہ نیکیاں اور بدیاں بھی مختلف نقطہ ہائے نگاہ کے ماتحت ہوتی ہیں اور بعض دفعہ بالکل متخالف نظر آنے والے معاملات دونوں ہی نیکیاں یا دونوں ہی بدیاں ہوتے ہیں۔ اس آیت میں حضرت یوسف علیہ السلام کے جس فعل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یہ بھی اسی قسم کے فعلوں میں سے ہے۔ جس وقت حضرت یوسف علیہ السلام کو بادشاہ نے بلایا ہے ان کے لئے دو ہی راستے کھلے تھے یا فوراً نکل آتے یا پہلے برأت کرا کے نکلتے۔ یہ دونوں فعل بظاہر متضاد ہیں لیکن دو مختلف نقطۂ نگاہ کے رو سے یا تو یہ دونوں فعل نیکی بن جاتے ہیں اور یا دونوں بدی اور وہ اس طرح پر کہ اگر حضرت یوسف علیہ السلام تکبرا ور خودپسندی کے ماتحت ایسا کرتے کہ پہلے لوگ گناہ کا اقرار کریں میں پھر نکلوں گا تو یہ گناہ ہو جاتا۔ اسی طرح اگر وہ یہ طریق اختیار کرتے کہ اپنے نفس کے آرام کے لئے بغیر کسی دینی فائدہ کے مدنظر رکھنے کے فوراً باہر نکل آتے تو بھی یہ گناہ ہوتا لیکن انہوں نے نکلنے سے انکار کیا نہ اس لئے کہ وہ متکبر تھے بلکہ جیسا کہ انہوں نے خود بتایا ہے محض اس لئے کہ ان کا ایک محسن اس وہم میں مبتلا نہ رہے کہ یوسف (علیہ السلام) نے اس سے غداری کی ہے اور اس اعلیٰ جذبہ کی وجہ سے ان کا یہ فعل ایک اعلیٰ درجہ کی نیکی تھا۔ مگر ایک چوتھا نقطۂ نگاہ بھی ہے جس کے ماتحت فوراً نکل آنا ایک نیکی بن جاتا ہے اور اس نقطۂ نگاہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیا ہے۔ یہ نقطۂ نگاہ اپنے فرض منصبی کے پورا کرنے کا خیال ہے۔ ایک نبی یا معلم خداتعالیٰ کی طرف سے لوگوں کو تبلیغ کرنے کے لئے مامور ہوتا ہے اور اس کا فرض ہے کہ وہ اپنی ہر چیز کو اس غرض کے لئے قربان کردے۔ حتیٰ کہ اگر عزت اور نیک نامی بھی قربان کرنی پڑے تو وہ اس کی پرواہ نہ کرے۔ ایک نبی اگر قیدخانہ میں ہو تو وہ یا تو تبلیغ نہیں کرسکے گا یا اس کی تبلیغ محدود ہوگی۔ اگر وہ اس نقطۂ نگاہ سے اپنی آزادی کو دیکھے تو اس کی بہت بڑی قربانی ہوگی۔ اگر وہ بغیر صفائی کے قید سے نکل آئے اور اپنے کام کے مقابلہ میں اپنی عزت کی پرواہ نہ کرے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے اپنے لئے آخری طریق کو پسند کیا ہے۔ آپؐ فرماتے ہیں کہ لم لبثت فی السجن مالبث یوسف لا جبت الداعی اگر میں اس قدر دیر قید میں رہتا جس قدر یوسفؑ رہے تھے تو میں بلانے والے کی بات کو قبول کرلیتا۔ (بخاری و مسلم ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) اور مسند احمد حنبل میں ابوہریرہؓ سے ہی روایت ہے لاسرعت الاجابۃ وما ابتغیث العذر۔ میں فوراً بات قبول کرلیتا اور یہ عذر نہ کرتا کہ پہلے میری برأت کرو۔ ہر عقلمند انسان سمجھ سکتا ہے کہ دونوں مقامات میں سے وہ مقام زیادہ بلند ہے جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لئے پسند فرمایا ہے کیونکہ گو عزت کی حفاظت ایک اعلیٰ درجہ کا کام ہے لیکن اگر اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ تبلیغ کے کام میں ہرج نہ ہو یا اور کسی ایسے کام کے لئے جو قومی یا شرعی یا دینی ہو انسان اپنی عزت کو قربان کردے اور اپنے پر الزام کو رہنے دے تو یہ شخص یقینا اس شخص سے جو اپنی عزت کی حفاظت کا مطالبہ کسی نیک ارادہ سے کرتا ہے زیادہ اعلیٰ مرتبہ پر ہے۔
۵۲؎ حل لغات
الخطب الشان۔ خاص حالت جو کسی لحاظ سے اہمیت رکھتی ہو۔ الامر صغر او عظم معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ سبب الامر۔ وہ بات جس کی وجہ سے یا جس کے لئے کوئی کام یا کوئی معاملہ عمل میں لایا جائے۔ قال ماخطبک اے ما شانک الذی تخطبہ وما الذی حمل علیہ۔ چنانچہ جب کسی سے کہیں کہ ماخطبک تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ تم نے کس غرض سے فلاں کام کیا ہے اور کیا بات تمہارے پیش نظر ہے۔ (اقرب)
الخطب الحال۔ حالت۔ الامر الذی یقع فیہ المخاطبۃ وہ معاملہ جس کے متعلق باہم گفتگو ہو۔ (تاج) حصحص الحق بان بعد کتمانہ۔ حق بات جو پہلے مخفی تھی ظاہر ہو گئی اور اصل حقیقت کھل گئی۔ (اقرب)
تفسیر
معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ کو وابوں کی تعبیر سن کر حضرت یوسفؑ کی پاکیزگی کا اس قدر یقین ہو گیا تھا کہ جب اس نے یوسف علیہ السلام پر الزام سنا تو تحقیق سے پہلے ہی سمجھ لیا کہ یہ الزام غلط ہے۔ اسی وجہ سے اس نے عورتوں سے سوال کرتے وقت یہ الفاظ استعمال کئے ہیں کہ ’’جب تم نے یوسف کو اس کے منشاء کے خلاف بہکانا چاہا تھا‘‘ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعد میں عزیز کی بیوی کی سہیلیاں ہونے کے سبب سے ان عورتو نے بھی حضرت یوسفؑ کو عزیز کی بیوی کی تائید میں پھسلانا چاہا تھا۔ کیونکہ بادشاہ کا یہ کہنا کہ تم نے ورغلانا چاہا تھا بتاتا ہے کہ بادشاہ کو ایسی روایت پہنچی تھی مگر یہ یقین ہے کہ انہوں نے یوسف علیہ السلام کو اپنی طرف مائل نہیں کرنا چاہا بلکہ عزیز کی بیوی کی طرف مائل کرنا چاہا ہے۔ ممکن ہے یوں ہا ہو کہ دیکھو یہ تم کو قید کرا دے گی تم اس کی بات مان جاؤ مگر بہرحال جو کچھ انہو نے کیا وہ عزیز کی بیوی کے لئے کیا کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو اس کا بھی علیحدہ ذکر قرآن کریم میں آتا۔ ضمناً بادشاہ کے منہ سے اس واقعہ کی طرف اشارہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ پہلے واقعہ کا حصہ ہی تھا اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب بادشاہ نے ان عورتوں سے ایسے الفاظ میں بات دریافت کی جن سے وہ سمجھ گئی ں کہ بادشاہ یوسف علیہ السلام کی بات کو دوسرے کی بات پر مقدم کرتا ہے تو انہوں نے زیادہ اخفاء اپنے مصالح کے خلاف جانا اور حق کو ظاہر کردیا۔ لیکن جواب ایسا دیا جس سے یوسفؑ کی بریت ظاہر ہو اور عزیز کی بیوی پر بھی کوئی الزام نہ آئے۔ لیکن اسے خود ہی فکر پڑ گئی اور اسے خیال گزرا کہ اب بات کھل جائے گی اور اب یہ عورتیں میرے قصور کا بھی اظہار کر دیں گی۔ پس میں خود ہی کیوں نہ اپنے قصور کا اقرار کرلوں تاکہ اگر بادشاہ کا ارادہ سزا دینے کا ہو تو اس سے محفوظ رہوں اس لئے وہ بغیر سوال کرنے کے آپ ہی بول پڑی کہ الان حصحص الحق انا راودتہ عن نفسہ۔ اب تو حق ظاہر ہو گیا ہے حقیقت یہی ہے کہ میں نے ہی یوسفؑ علیہ السلام کو ان کے منشاء کے خلاف ایک برے فعل کے ارتکاب کی تحریص دلائی تھی۔
۵۳؎ حل لغات
خانہ فی کذا یخونہ خونا وخیانۃ اوتمن فلم ینصح۔ امانت میں خیانت کی العہدنقضہ۔ عہدشکنی کی۔ یقال خانہ العہد والامانۃ اے فی العہد والامانۃ فھو خائن یعنی خانہ فی العہد اور خانہ فی الامانۃ کی بجائے خانہ العہد اور خانہ الامانۃ بھی بولتے ہیں اور دونوں صورتوں میں معنے ایک ہی رہتے ہیں اور وہ یہ کہ عہد کو توڑا اور امانت میں خیانت کی۔ (اقرب)
ان اللہ لایھدی کید الخائنین اے لاینفذہ ولا یصلحہ۔ یعنی اس آیت میں لایدھی کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں اور غداروں کی تدبیر اور ان کے منصوبہ کو کامیاب نہیں کرتا۔ (تاج)
الضلال فقد مایوصل الی المطلوب۔ ضلال کے معنے ہیں مطلوب چیز تک پہنچنے کے ذرائع اور اسباب کو کھو بیٹھنا اور اس بنا پر اس کو نہ پاسکنا۔ وتضادہ الھدایہ اور ہدایۃ اس کی ضد ہے۔ پس ہدایت کے معنے ہیں مطلوب چیز تک پہنچنے اور اسے پانے کے یعنے تمام اسباب اور ذرائع کا میسر آجانا اور اس نا مطلوب چیز تک پنچا دینا۔ یعنی کامیاب کرنا۔ (تاج)
تفسیر
اس قول کے متعلق اختلاف ہے کہ یہ کس کا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ عزیز کی بیوی کہتی ہے کہ میں نے غیبت میں یوسفؑ کی خیانت نہیں کی۔ لیکن یہ فقرہ اس کے منہ سے بہت بھدا معلوم ہوتا ہے کیونکہ صاف ظاہر ہے کہ اس نے خیانت کی ہے۔ پس میرے نزدیک انہی لوگوں کا قول درست ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ قول حضرت یوسفؑ کا ہے اور مراد یہ ہے کہ میں نے بادشاہ کو دھوکا نہیں دیا۔ یعنی کسی نہ کسی دن یہ امر بادشاہ کے سامے آنا تھا۔ اس وقت اسے یہ خیال ہوسکتا تھا کہ اس شخص نے مجھ سے ایسے امر کو پوشیدہ رکھ کر عہدہ لے لیا اس وجہ سے میں نے اس کا ازالہ کر دیا ہے۔ اب کبھی بادشاہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے بادشاہ کو اصل حالات سے ناواقف رکھ کر دھوکا دیا ہے۔
یہ معنے بھی ہوسکتے ہیں کہ یعلم کی ضمیر کو عزیز کی طرف پھیرا جائے اور مراد یہ لی جائے کہ عزیز یہ خیال نہ کرے کہ میں نے اس کی خیانت کی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یعلم کی ضمیر بادشاہ کی طرف جاتی ہو اور لم اخنہ کی ضمیر عزیز کی طرف اور مراد یہ ہو کہ بادشاہ جان لے کہ میں نے اپنے محسن عزیز کی خیانت نہیں کی تھی تاکہ آئندہ اسے شبہ نہ پیدا ہو کہ جس طرح اس محسن کی خیانت کی تھی ممکن ہے یہ میرا بھی خائن ہو۔
معلوم ہوتا ہے حضرت یوسف علیہ السلام کو بذریعہ وحی علم ہو گیا تھا کہ وہ فلاں کام پر مامور کئے جائیں گے۔ اس لئے آپ نے یہ برأت پہلے کرالی کہ آپ خائن نہیں ہیں تاکہ آئندہ آپ کے کام پر کوئی الزام نہ ہو۔
آخری حصہ آیت سے یہ مراد ہے کہ ایسے خائن جو ان لوگوں کا مقابلہ کرتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ خاص کام لینا چاہتا ہے اور ال جو خائنین کے اوپر ہے ال عہد ذکری کا ہے یعنی جن کا ذکر پہلے ہوا ہے اور پہلے ذکر ایسے خائنوں کا ہوا ہے جنہوں نے یوسف علیہ السلام کے مقابلہ میں خیانت ک ہے جنہیں ایک خاص کام پر مقرر کرنے کا اللہ تعالیٰ فیصلہ کر چکا تھا۔ پس یہ مراد نہیں کہ کوئی خائن اپنی خیانت میں کامیاب ہی نہیں ہوتا۔ کئی لوگ خیانت کرتے ہیں اور اس دنیا میں ان کی خیانت چھپی رہتی ہے لیکن ایسے خائن کی خیانت کو اللہ تعالیٰ کبھی چھپا نہیں رہنے دیتا جو اس کے ماموروں کے مقابلہ میں خیانت کرتے ہیں۔
اس آیت سے یہ بھی مراد ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ خائنوں کی نصرت نہیں کرتا اور چونکہ یوسفؑ کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ کی خاص نصرت تھی کہ پہلے بادشاہ کے دو خاص خدام کو خوابیں دکھائیں پھر خود بادشاہ کو خواب دکھائی پس وہ کہتے ہیں کہ میں یہ بتانا چاہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا میری مدد کرنا بلاوجہ نہ تھا بلکہ میں حق پر تھا اس لئے وہ میری مدد کررہا تھا۔
۵۴؎ حل لغات
امارۃ: امر سے بنا ہے ار یہ مبالغہ کا مؤنث کا صیغہ ہے۔ مذکر کا صیغہ امار ہے جس کے معنے ہیں الکثیر الامر۔ بہت حکم دینے والا۔ والمغری کسی کام کے کرنے کے لئے اکسانے والا۔ چونکہ نفس عربی میں مؤنث ہے اس لئے امارہ مؤنث کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔
السوء: کل ما یغم الانسان من الامور الدنیویۃ والاخرویۃ ومن الاحوال النفسیۃ والبدنیۃ والخارجۃ من فوات مال وجاہ وفقد حمیم۔ دنیوی و اخروی معاملات اور نفسی و بدنی حالات یا ان کے علاوہ اور خارجی واقعات یعنی مال و عزت کے کھوئے جانے یا دوست و احباب کی علیحدگی کی وجہ سے جو امور انسان کو اندوگہگین بنائیں ان سب کو سوء کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ (مفردات)
تفسیر
نبی کی فطرت بھی کیا ہی پاکیزہ ہوتی ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کہتے ہیں کہ میری یہ غرض نہ تھی کہ میں یہ ظاہر کروں کہ میں پاک ہوں بلکہ میں ایک تو یہ بتانا چاہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے اور کبھی وہ ان خائنون کی تدابیر کو کامیاب نہیں ہوے دیتا جو اس کے ماموروں کے مقابل پر کھڑے ہوتے ہیں۔ پس میں نے جو کچھ تدبیر کی ہے اپنی بڑائی کے اظہار کے لئے نہیں کی۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی بڑائی کے اظہار کے لئے کی ہے۔ دوسرے میں نے اس لئے برأت کی کوشش کی ہے کہ تا بتاؤں کہ جن کو اللہ تعالیٰ بچاتا ہے انہیں کوئی شخص بدی میں نہیں ڈال سکتا ورنہ اپنے نفس کی بڑائی کی خاطر میں نے یہ کام نہیں کیا۔ بلکہ مجھے تو اقرار ہے کہ نفس انسانی بغیر اللہ تعالیٰ کے رحم کے یعنی شریعت اور ہدایت اور فضل کے کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ بلکہ پے درپے بری باتوں کا حکم دیتا چلا جاتا ہے کیئونکہ نیر الہام ہی ہے جو اسے صیح راستہ پر چلاتا ہے۔
قرآن کریم نے دوسری جگہ پر بتالای ہے کہ الرحمن علم القران۔ رحمانیت سے ہی کلام الٰہی کا نزول ہوتا ہے۔ پس الامارحم ربی سے مراد وہی رحمت ہے یعنی کلام الٰہی بغیر اس کے انسانی فطرت ایک ایسے شخص کی طرح ہے جو خطرناک تاریکی میں پہاڑ کی چوٹیوں پر سے گزر رہا ہو۔ کیونکہ باوجود آنکھوں کے ہر وقت خطرہ ہی ہوتا ہے اور بار بار غلطیاں کرتا ہے۔ جب الہام کا سورج چڑھتا ہے تبھی روحانی آنکھ بھی کام دیتی ہے۔
دوسری جگہ قرآن کریم نے نفس کی دوا اور حالتیں بتلائی ہیں۔ ایک نفس لوامہ۔ جیسا کہ فرماتا ہے فلا اقسم بالنفس اللوامۃ (سورۃ قیامۃ) اور دوسری نفس مطمئنۃ جیسے فرماتا ہے یاایتھا النفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ۔ (سورہ فجر) پس اس جگہ نفس سے مراد وہ ابتدائی حالت ہے جبکہ الہام سے نفس کو ناآشنائی ہوتی ہے اور خداتعالیٰ کے فضل کا وہ وارث نہیں ہوتا۔ ورنہ یہ مراد نہیں کہ انسانی نفس ہمیشہ بدی کی تعلیم دیتا ہے۔ اس کا رد خود اس آیت میں الا مارحم ربی کہہ کر کردیا ہے۔ اور نہ یہ مراد ہے کہ انسان اپنی ذات میں گنہگار پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ اس جگہ پیدائش کا ذکر نہیں ہے۔ بلکہ دنیاوی آلائشوں کا شکار ہونے کے بعد جو اس کی حالت ہوتی ہے اس کا ذکر ہے۔ ورنہ پیدائش کے متعلق تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ونفس وما سوھا ہم نفس کی قسم کھاتے ہیں اور اس کی اس حالت کمال کی جو ہم نے یدا کی ہے۔ پس نفس انسانی کو اللہ تعالیٰ نے پاک حالت میں پیدا کیا ہے۔ آگے وہ باہر آکر دوسروں کے اثر سے ناپاک ہوتا ہے۔ یا جو اسے ناپاک نہ ہونے دے اس کو پاک رکھتا ہے۔ غرض اس جگہ نفس کی پیدائش کی حالت کا ذکر نہیں بلکہ دنیوی آلائشوں سے ملوث ہوے کے بعد کا ذکر ہے۔
الامارحمہ ربی کے ایک تو یہ معنی ہیں کہ الا النفس التی رحمھا ربی فانھا لاتامر السوء یعنی وہ نفس جس پر خدا رحم کردے یعنی نفس مطمئنہ وہ بدی کا حکم نہیں کرتا۔
دوسرے یہ کہ مامن کی جگہ استعمال ہوا ہے اور مراد یہ ہے کہ الا الذی رحمہ ربی سوائے اس شخص کے جس پر اللہ رحم کرے۔ باقی لوگ نفس امارہ کے حملہ کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ پس جن لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا رحم ہوتا ہے وہ اپنے نفس کی بات نہیں مانتے۔
تیسرے یہ کہ یہ استثناء منقطع ہے اور ما مصدریہ ہے اور معنے یہ ہیں کہ ہاں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے چاہے بچا لے۔ یہ تینوں معنے مختلف درجو کے لوگوں کے لحاظ سے ہیں۔ یعنی
(۱) بعض نفس پاک ہوجاتے ہیں اور وہ برائی کا حکم ہی نہیں دیتے۔ یہ اعلیٰ درجہ کے ہیں۔
(۲) اس سے ادنیٰ درجہ کے لوگ وہ ہیں کہ ان کا نفس تو بدی کا حکم دیتا ہے لیکن وہ نفس سے مغلوب نہیں ہوتے۔ یہ درمیانی درجہ کے ہیں۔
(۳) اس سے ادنیٰ درجہ ے لوگ وہ ہیں کہ اپنے نفس امارہ سے مغلوب ہوجاتے ہیں۔ مگر خداوند تعالیٰ کی رحمت ان کو بچادیتی ہے اور انہیں توبہ کی توفیق مل جاتی ہے۔
ان ربی غفور رحیم کہہ کر اس طرف اشارہ کیا ہے کہ میں تو غفور رحیم رب کا بندہ ہوں اس لئے میرا بھی یہی فرض تھا کہ دوسرے کے گناہوں پر پردہ ڈالتا لیکن یہاں چونکہ سوال خداتعالیٰ کی عزت کا تھا اس لئے میں خاموش نہیں رہا۔
۵۵؎ حل لغات
استخلص: الرجل اختصہ بدخللہ کسی کو اس کی باطنی صفائی کی وجہ سے خاص کرلیا۔ والشئی اختارہ۔ کسی چیز کو منتخب کرلیا۔ چن لیا۔ (اقرب)
مکین: مکن فلان عندالسلطان مکانۃ عظم عندہ وارتفع وصارذا منزلۃ۔ بادشاہ کے ہاں صاحبِ قدر و منزلت ہو گیا اور ایسے انسان کو مکین کہتے ہیں۔ اس کی جمع مکناء ہے۔ (اقرب)
تفسیر
بادشاہ نے اس فقرہ سے ایک لطیف سرزنش عزیز کو جس کے پاس یوسف علیہ السلام رہے کی ہے ار بتایا ہے کہ ایسے شخص کی تم قدر نہیں کرسکے۔ اب میں اسے خود اپنے قرب میں جگہ دے کر قدر کروں گا۔ یہ تو ملاقات سے پہلے کی حالت تھی۔ جب ملاقات کی تو یوسف علیہ السلام کا ار بھی گرویدہ ہو گیا ور کہا آپ کو میرے دربار میں خاص منزلت ملے گی اور امین کہہ کر بتایا ہے کہ میں آپ پر شبہ نہیں کروں گا اور آپ پر پوری طرح اعتبار کروں گا۔
بائبل میں لکھا ہے کہ بادشاہ نے کہا سوائے تاج کے اور سب کچھ تجھ کو دوں گا اور لکھا ہے کہ بادشاہ نے اپنی سواری کے بعد جو دوسرے درجہ کی سواری تھی وہ حضرت یوسفؑ کو سواری کے لئے دی بلکہ شہر میں اعلان کرایا کہ میرے حکم کے بعد دوسرے درجہ پر حکومت اس شخص کی ہوگی۔
۵۶؎ تفسیر
انہوں نے سمجھا کہ اگر وزیر ہو گیا تو روز کے جھگڑے پڑے رہیں گے۔ دوسرے اس لئے کہ اگر خزائن پر کوئی اور مقرر ہوا تو ممکن ہے کہ وہ حسد دے کام بگاڑ دے اور پھر الزام مجھ پر آئے۔ اس نے جو خواب کی تعبیر بتائی تھی وہ غلط نکلی اس لئے اپنے ہاتھ میں اس انتظام کو لینا چاہا۔ حضرت یوسفؑ کی اس خواہش سے ایک نصیحت حاصل ہوتی ہے کہ جو شخص کسی کام کی سکیم تیار کرے اگر وہ اس کام کے قابل ہو تو زیادہ مناسب یہ ہے کہ وہ کام اس کے سپرد کیا جائے۔
بعض لوگ اس جگہ اعتراض کرتے ہیں کہ عہدہ مانگنا نہیں چاہئے پھر حضرت یوسفؑ نے ایسا کیوں کیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے دراصل عہدہ مانگا نہیں بلکہ اس سوال سے انہوں نے اپنا عہدہ گرایا ہے کیونکہ بادشاہ تو انہیں وزارت عظمیٰ کے عہدہ پر مقرر کرنے لگا تھا اور وہ قحط کے کام کا مطالبہ کرتے تھے۔
۵۷؎ حل لغات
یتبوا:- تبوا سے مضارع مذکر غائب کا صیغہ ہے جس کے معنے کسی جگہ کو اپنی جائے رہائش بناکر اس میں ٹھہرنے کے ہیں۔ مزید تشریح کے لئے دیکھئے یونس ۸۵؎۔ الاجر۔ الثواب۔ اجر کے معنے ہیں ثواب بدلہ (اقرب) الاجر۔ والاجرۃ مایعود من ثواب العمل دنیویا کان او اخرویا۔ دنیوی یا اخروی کام کے بدلہ میں جو کچھ ملے اس کو اجر اور اجرت کہتے ہیں جیسے قرآن کریم میں ہے ان اجری الا علی اللہ یا اتیناہ اجرہ فی الدنیا۔ (مفردات)
تفسیر
یہاں بھی مکنا فرمایا اور پہلے بھی لیکن وہاں اس کے ساتھ ولنعلمہ من تاویل الاحادیث فرمایا تھا کہ ابھی ہم نے اس پر مصائب و مشکلات ڈال کر امتحان لینا ہے اور یہاں نصیب برحمتنا من نشاء فرما کر بتایا ہے کہ ابتلاء کا زمانہ گزر گیا۔ اب ہم نے اسے ایسی عزت دی ہے کہ اس کو کوئی تکلیف نہ ہوگی اور ان پر رحمت ہی رہے گی۔ ولانضیع اجرالمحسنین جو شخص دنیا میں محسن ہوتا ہے اس کا اجر ضائع نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے واما ماینفع الناس فیمکث فی الارض (رعد ع۲) لیکن خصوصاً محسن سے وہ شخص مراد ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کا مقرب ہو اور اس سے خاص تعلق رکھنے والا ہو۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ احسان کیا ہے تو حضورؐ نے فرمایا کہ جو شخص خداتعالیٰ کی عبادت پورے طور پر بجالائے۔
ایک اور روایت میں ہے کہ ایک شخص کے سوال پر کہ ما الاحسان احسان کیا چیز ہے۔ حضور نے فرمایا ان تعبداللہ کانک تراہ فا لم تکن تراہ فانہ یرک۔ (مشکوٰۃ المصابیح کتاب الایمان) محسن وہ ہے جو ایسے رنگ میں عبادت کرے کہ گویا اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے اور اگر یہ مرتبہ اسے حاصل نہ ہو تو کم سے کم اسے یہ نظر آئے کہ خداتعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے۔
آنحضرت صلعم کی حضرت یوسفؑ سے چودھویں مشابہت
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت یوسف علیہ السلام سے اس بارہ میں بھی مشابہت ہے جس طرح یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائیوں نے گھر سے اس حسد سے نکالا تھا کہ بڑا ہونے کی خوابیں دیکھتا ہے اسے یہاں سے نکال دیں تو یہ ذلیل ہو جائے گا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں نے بھی آپؐ کو اس نیت سے نکالا تھا لیکن جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام کو اس جگہ جہاں وہ جاکر بسے خداتعالیٰ نے کاص عزت دی اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بجائے ذلت کے خاص عزت ملی۔ صرف فرق یہ ہے کہ یوسف علیہ السلام کی عزت نیابتی اور بادشاہ کی طرف سے تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے آزاد حکومت عطا فرمائی اور خود بادشاہ بنا دیا اور یہی فرق ان دونوں وجودوں میں روحانیت کے لحاظ سے بھی تھا۔
۵۸؎ تفسیر
یعنی دنیا میں بھی ہم ان کو دیتے ہیں لیکن صرف یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ اولیاء و انبیاء ذلیل نہیں ہوتے۔ ہاں اصل اجر ان کا آخرت میں ہی ہے جو سب قسم کی نعمتوں سے بہتر ہے۔
۵۹؎ حل لغات
دخل البیت :- ضد خرج دخل کے معنی ہیں اندر آیا۔ دخل علی فلان زادہ۔ اس سے ملا۔ (اقرب) پس دخلوا علیہ کے یہ معنے ہوئے کہ وہ اس کے پاس گئے یا وہ اس کے حضور حاضر ہوئے۔
منکرون انکرہ جھلہ انکر کے معنے ہیں اسے نہ پہچانا۔ا س سے بے خبر رہا۔ اس سے اسم فاعل کا صیغہ منکر بنتا ہے اور منکرون اس کی جمع ہے وھم لہ منکرون کے معنے ہوئے کہ وہ اسے نہ پہچان سکے۔
تفسیر
مفسرین نے اس جگہ بہت بحث کی ہے کہ چونکہ حضرت یوسف علیہ السلام کے ڈاڑہی آگئی تھی اور آپ موٹے ہو گئے تھے اس لئے ان کے بھائی انہی نہ پہچان سکے۔ اگر ایسا ہی ہوا ہوتا تو یہ کوئی ایسی بات نہیں تھی جس کا قرآن شریف میں ذکر کیا جاتا۔ میرے نزدیک اس میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جو یوسف علیہ السلام نے شروع میں کہی تھی کہ یخل لکم وجہ ابیکم وتکونوا من بعدہ قوما صالحین۔ ان کا خیال تھا کہ جب یوسفؑ باپ کے پاس نہ رہے گا تو ہماری عزت بڑھ جائے گی۔ سو اس آیت میں بتایا ہے کہ حضرت یوسفؑ تو اس جدائی کے سلسلہ میں اس قدر ترقی کر گئے کہ ان کے بھائی انہیں پہچان ہی نہ سکے لیکن وہ ویسے کے ویسے ہی رہے۔
آنحضرت صلعم کی حضرت یوسفؑ سے پندرھویں مشابہت
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت یوسف علیہ السلام سے اس بات میں بھی مشابہت ہے کہ آپ کے بھائی بھی آپ کی ترقی کو دیکھ کر حیران و ششدر رہ گئے تھے۔ جب آپؐ نے بادشاہوں کو خطوط لکھے اور اسی سلسلہ میں ایک خط روم کے بادشاہ ہرقل کو بھی لکھا۔ گو اس وقت ابوسفیان ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ ملک شام میں گیا ہوا تھا ہرقل یہ خط پڑھ کر گھبرا گیا۔ اس نے پوچھا یہ کون شخص ہے جو اس جرأت سے مجھے خطاب کرتا ہے۔ لوگوں نے کہا کہ یہ عرب کا ایک شخص ہے جو نبوت کا مدعی ہے۔ اس نے کہا کہ ہمیں اس کے حالات دریافت کرنے چاہئیں۔ چنانچہ ابوسفیان اور اس کے ہمراہیوں کو دربار میں حاضر کیا اور ہرقل نے یہ معلوم کرکے کہ ابوسفیان سب کا سردار ہے اس سے سوالات کرنے شروع کئے اور اس کے ساتھیوں کو کہا کہ اگر یہ جھوٹ بولے تو تم فوراً بتلا دینا۔ پھر اس نے ابوسفیان سے چند سوال کئے جو آج تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے لئے ایک زبردست نشان کے طو رپر قائم ہیں۔ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر اس طرح سے جرح کی ہے کہ دیکھ کر حیرت آتی ہے مثلاً اس نے پوچھا کہ اس کے باپ دادوں سے کوئی بادشاہ تھا۔ کیونکہ ایسا ہو تو سمجھا جائے گا کہ وہ گم شدہ حکومت و عزت کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ابوسفیان نے کہا کہ نہیں۔ اس نے پوچھا کیا وہ اس دعویٰ سے پہلے کبھی جھوٹ بولتا تھا۔ ابوسفیان نے کہا کہ نہیں۔ پھر اس نے کہا کیا اس نے کبھی معاہدہ کی خلاف ورزی کی ہے۔ ابوسفیان نے کہا کہ نہیں۔ مگر حال میں ہی اس کا ایک معادہ ہمارے ساتھ ہوا ہے معلوم نہیں وہ اس کے متعلق کیا کرے گا۔ا بوسفیان کہتے ہیں کہ میں زیادہ سے زیادہ جو بات آپؐ کے خلاف کرسکا وہ یہی تھی۔ کیونکہ میںڈرتا تھا کہ میرے ساتھی جھٹلا نہ دیں۔ پھر اس نے پوچھا کہ اسے بڑے لوگ مانتے ہیں یا چھوٹے۔ ابوسفیان نے کہا کہ چھوٹے۔ اسی طرح کی بہت سی باتیں ہوئی اور آخر ہرقل نے کہا کہ اگر یہ باتیں صحیح ہیں تو وہ ضرور اس علاقہ کا حاکم ہو جائے گا۔ جہاں میں اس وقت ہوں۔ کیونکہ پہلی کتب میں یہ پیشگوئی تھی کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم شام کو فتح کریں گے اور شاہ روم اس وقت شام میں تھا۔ اس کے اس فقرہ سے درباریوں میں شور پڑ گیا اور ابوسفیان گھبرا کر باہر نکلا اور نہایت تعجب سے کہا لقدامرامر ابن ابی کبشہ کہ ہم نے تو پہچانا ہی نہیں۔ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی عزت تو بہت بڑھ گئی ہے اور اس کا کام بہت ترقی کر گیا ہے۔ (مکہ والے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تحقیر کے طور پر ابن ابی کبشہ کہا کرتے تھے ابو کبشہ قبیلہ خزاعہ میں سے ایک شخص تھا جس نے بت پرستی چھوڑ کر ستارہ پرستی شروع کردی تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ابن ابی کبشہ کہنے سے مکہ والوں کی مراد یہ تھی کہ جس طرح ابوکبشہ نے آبائی دین کو چھوڑ دیا تھا اسی طرح محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے بھی آبائی دین کو چھوڑ دیا ہے اس لئے یہ گویا اس کا روحانی بیٹا ہے) غرض وہاں آکر ان لوگوں کی آنکھیں کھلیں ورنہ مکہ میں وہ آپ کی حیثیت نہیں جانتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی حقیقت معلوم تھی۔
۶۰؎ حل لغات
جھزھم: جہزا القوم تجھیزا۔ اذا تکلف لھم بجھازھم للسفر جھزاالقوم کے معنے ہیں جانے والوں کو پرتکلف طور پر سامان دے کر رخصت کیا۔ تجھیزا الغازی: تحمیلہ واعداد ما یختاج الیہ فی غزوہ۔ جب غازی کے لئے تجہیز کا لفظ آئے تو اس کے معنے ہوتے ہیں سپاہی کو سواری اور آلات جنگ وغیرہ دے کر میدان جنگ میں بھیجنا۔ والجھاز للمیت والعروس والمسافر مایحتاجون الیہ۔ اور جھاز اس سامان کو کہتے ہیں جو دلہن یا مسافر کو رخصت کرتے وقت دیا جاتا ہے یا وہ اپنے ساتھ لے جاتا ہے یا کفن جس میں میت کو لپیٹ کر اسے دفن کیا جاتاہے۔ (تاج)
الکیل: کال الطعام کیلا واکتالہ بمعنے کیل کال میں سے ہے اور کال اور اکتال دونوں کے معنے ہیں۔ ماپا۔ اکتالوا علی الناس اے منہم لانفسھم قال ثعلب مصناہ من الناس۔ یعنی آیت اکتالوا علی الناس میں علی کے معنے لینے کے اس وجہ سے پیدا ہوئے ہیں کہ وہ اس جگہ لینے کے معنوں میں ہی استعمال ہوا ہے۔ چنانچہ ثعلب امام لغت کا یہی قول ہے وقال غیرہ اکتلت علیہ اخذت منہ اور باقی محققین لغت کہتے ہیں کہ یہ معنی علی کی وجہ سے نہیں۔ اکتال کے معنی ہی یہی ہیں اور اس کا صلہ علی ہوتا ہے۔ یقال کال المعطی واکتال الاخذ۔ کال کا لفظ ماپ کر دینے کے لئے مخصوص ہے۔ اور اکتال کا لفظ لینے کے لئے۔ کالہ طعاما وکال لہ بمعنی اور کال بغیر صلہ کے بھی متعدی ہوتا ہے اور صلہ لام کے ساتھ بھی۔ اور دونوں صورتوں میں معنے ایک ہی ہوتے ہیں۔ یعنی ماپ کر دیا۔ والکیل والمکیل ماکیل بہ حدیدا کان اوخشبا اور کیل کے ایک معنے لفظ مکیل کی طرح ماپنے کے آلہ کے بھی ہیں خواہ لوہے کا ہو یا لکڑی کا۔ وکال الدرھم وزنھا سکوں کے ساتھ یہ لفظ آئے تو اس کے معنے وزن کرنے کے ہوتے ہیں۔ کل ما وزن فقد کیل وزن کرنے کا دوسرا نام کیل بھی ہے۔ اس لئے ہر تولنے کی چیز کے لئے وزن کی بجائے کیل کا لفظ استعمال ہوسکتا ہے۔ (تاج)
تفسیر
بائبل کہتی ہے کہ حضرت یوسفؑ نے انہیں کہا ’’اور اپنے چھوٹے بھائی کو میرے پاس لے آؤ۔ تب میں مانوں گا کہ تم جاسوس نہیں بلکہ سچے ہو۔‘‘ (پیدائش ۲۴/۴۲ یعنی انہیں جاسوس قرار دیا۔ گویا انہیں ڈرایا لیکن اس کے بالمقابل قرآن شریف محبت کا پہلو پیش کرتا ہے یعنی ضرت یوسفؑ نے ان کے ساتھ ملاطفت کا سلوک کیا۔ جس سے ان کے دلوں میں آئندہ خود آنے اور بھائی کو لانے کی رغبت پیدا ہو۔ ممکن ہے کہ حضرت یوسفؑ نے اپنے بھائیوں کو پہچان کر حضرت یعقوبؑ اور دیگر خاندان کے افراد کے متعلق بہت سوالات کئے ہوں اور اس طرح کرید کرید کر پوچھنے سے ان کے بھائیوں کو یہ شبہ پیدا ہو گیا ہو کہ حضرت یوسفؑ انہیں جاسوس سمجھ رہے ہیں۔ ورنہ ایک نبی کی شان سے یہ بہت بعید ہے کہ وہ ان کو پہچانتا ہوا انہیں جاسوس قرار دے۔ یہ توا یک قسم کا جھوٹ بن جاتا ہے۔ پس میرے نزدیک بائبل نے بھائیوں کے خیال کو نقل کر دیا ہے اور حقیقت بیان نہیں کی اور یوں بھی بھائی کے نہ لانے کو جاسوسی کا ثبوت قرار دینا بہت بودی اور کچی دلیل ہے اور کوئی عقلمند ایسی بات نہیں کرسکتا۔
۶۱؎ حل لغات
سنراود دنہ اباہ راود سے مضارع متکلم الغیر کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں ہم ضرور اس کے متعلق اس کے باپ کو پھسلانے کی کوشش کریں گے۔ مزید تشریح کے لئے دیکھیں یوسف۲۴؎۔
تفسیر
ایک گناہ کے نتیجہ میں دوسرا گناہ پیدا ہوتا ہے۔ جب برادران یوسف نے گناہ کا طریق اختیار کیا تو خیالات گناہ سے ملوث ہو گئے اور اب ان کا طریق کلام بھی قابل اعتراض ہوگیا وہ کس گستاخی سے کہتے ہیں کہ ہم اس کے باپ کو ورغلا کر اسے لے آئیں گے۔ گویا ایک طرف اس کو اپنا باپ نہیں قرار دیتے اور دوسری طرف اسے بے وقوف بنانے کا ارادہ ظاہر کرتے ہیں۔
۶۲؎ حل لغات
فتیان جمع فتی کی ہے اس کے معنے جوان کے ہیں لیکن جب کسی کی طرف مضاف ہو تو ا سکے معنے بیٹے یا نوکر کے ہوتے ہیں جیسے فتی زید زید کا بیٹا یا نوکر۔ البضاعۃ طائفہ من المال تعد للتجارۃ بضاعۃ۔ اس مال کو کہتے ہیں جو تجارت کے لئے تیار کیا جائے۔ (اقرب)
الرجال۔ الرجل۔ ایضا۔ مرکب اللبعیر اصغر من القتب۔ رجال رجل کی جمع ہے۔ اونٹ کے ہودج کو بھی کہتے ہیں۔ یہ قتب نامی ہودج سے چھوٹا ہوتا ہے۔ ماتستصحبہ من الاثاث۔ اسی طرح جو سامان مسافر ساتھ لے اسے بھی رحل کہتے ہیں۔ وقد یطلق علی الوعاء کالعدل والجراب اور بورے تھیلے اور بیگ وغیرہ کی قسم کی چیزوں کو بھی جن میں سامان سفر بھرا جاتا ہے رحل کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ (اقرب)
تفسیر
یوسف علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم ماتحت صبر کیا اور اس غیرمعمولی رقت کو برداشت کیا جو قدرتاً بھائیوں کو دیکھ کر دل میں پیدا ہوئی تھی لیکن فطرتی محبت نے اس قدر احسان پر ضرور مجبور کر دیا کہ چلتے وقت جو قیمت انہوں نے دی تھی واپس کردی۔ اس کے یہ معنے نہیں کہ انہوں نے شاہی مال میں خیانت کی وہ خود وزیر تھے اور ایک قلیل رقم کا اپنی جیب سے ادا کردینا ان کے لئے مشکل نہ تھا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے اس سلوک سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اصلاح محبت اور خوف کے بین بین سلوک سے ہوتی ہے پہلے ڈرایا تھا اب روپیہ واپس دے کر دل میں امید بھی پیدا کر دی تاکہ وہ ضرور واپس آئیں۔
لعلھم یعرفونھا پہچا تو انہوں نے بہرحال لینا ہی تھا کیونکہ ان کا اپنا مال تھا مگر اس جگہ پہچاننے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس حسنِ سلوک کی قدر کریں۔ کہتے ہیں فلان لایعرف الاحسان۔ وہ احسان کی قدر نہیں کرتا پس حضرت یوسف علیہ السلام کی مراد یہ ہے کہ وہ احسان کی قدر کریں اور واپس آنے کی رغبت ان میں پیدا ہو۔
آنحضرت صلعم کی حضرت یوسفؑ سے سولہویں مشابہت
جیسا کہ ان آیات میں حضرت یوسف علیہ السلام کے جذبۂ محبت کا ذکر کیا گیا ہے کہ باوجود بھائیوں کی مخالفت کے وہ اپنے بھائیوں کی ملاقات کے لئے بیقرار تھے یہی حال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا۔ آپؐ کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لعلک باخع نفسک ان لا یکونوا مؤمنین کیا تو اس غم میں کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے اپنی جان کو ہلاک کر دے گا۔ غرض حضرت یوسفؑ کی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی باوجود اہل مکہ کی سخت عداوت کے ان کی ہلاکت کی خواہش کی جگہ یہ زبردست خواہش تھی کہ وہ ایمان لاکر آپؐ سے مل جائیں۔
۶۳؎ تفسیر
خداتعالیٰ کی قدرت ہے۔ اب تک برادران یوسفؑ کو اپنی قوت و طاقت پر بھروسہ ہے اور خداتعالیٰ کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ حالانکہ اپنا ضعف ان پر ظاہر ہوچکا ہے۔ دین کا احساس کمزور ہوتو انسان کی یہی حالت ہوتی ہے ۔ وہ سچے دل سے اپنے اندر کبر یا غرور محسوس کرتا ہے یا پھر مایوس ہو جاتا ہے۔ درمیانی راہ جو توکل کی ہے جس میں نہ کبر ہوتا ہے نہ مایوسی اس طرف نہیں آتا۔ برادرانِ یوسفؑ بھی ابھی اس مقام پر ہیں منع منا الکیل میں مایوسی اور انا لہ لحافظوں میں اپنی طاقت کے گھمنڈ کا اظہار کرتے ہیں۔ مومن کو اس حالت سے بچنا چاہئے۔
۶۴؎ حل لغا ت
امن امن یا من سے صیغہ واحد متکلم ہے امنہ کے معنے ہیں اس سے بے خوف ہو گیا۔ ھل امنکم کیا میں تم سے بے خوف و مطمئن ہو جاؤں۔ علیہ اس کے متعلق علی اس جگہ متعلق کے معنے دیتا ہے۔
تفسیر
حضرت یعقوبؑ نے انہیں توجہ دلائی کہ اب تو اللہ تعالیٰ کی حفاظت پر یقین کرو کہ دل کو گند سے اور ظاہر کو برے عمل سے وہی بچاتا ہے اور پہلے گناہوں کی بخشش بھی اسی کی طرف سے آتی ہے اور وہ انہیں یہ بھی توجہ دلاتے ہیں کہ نہ میں نے پہلے تم یو یقین کرکے یوسف کو تمہارے ساتھ بھجوایا تھا نہ اب اس کے بھائی کو تم پر اعتبار کرکے بھجواؤں گا۔ پہلے بھی میں نے اللہ کے حکم سے اور اس پر توکل کرکے یوسفؑ کو بھجوایا تھا اور اب بھی میرا اعتبار تم پر ویسا ہی ہوگا یعنی میں بھجوا تو دوں گا لیکن تم پر اعتبار کرکے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت اور اسی پر توکل کرکے بھجواؤں گا۔
۶۵؎ حل لغات
متاع۔ عام ضروریات کی چیزوں کو کہتے ہیں۔ جیسے خوراک پوشاک۔ گھر کے استعمال کا سامان آلات اور اجناس (اقرب) (مزید تشریح کے لئے دیکھیں یونس ۲۴؎ و ہود ۴؎)
بضاعۃ پونجی (دیکھو یوسف ۶۳؎)
نمیر: مارفلان عیالہ۔ اتاھم بمیرۃ مار کے معنے ہیں اپنے اہل کو غلہ لا دیا۔ پس نمیر کے معنے ہوئے اپنے اہل کو غلہ لاکر دیں ے۔ (اقرب)
تفسیر
معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے علاوہ خریدے ہوئے غلہ کے اپنے بھائیوں کو راستہ کے خرچ کے لئے کچھ زائد غلہ دے دیا تھا۔ گو واضح الفاظ میں یہ بات بیان نہیں ہوئی لیکن اونٹ کے بوجھ برابر غلہ لانے کے الفاظ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اونٹوں پر سفر کیا تھا لیکن بائبل کہتی ہے کہ انہوں نے گدھوں پر سفر کیا تھا۔ چنانچہ لکھا ہے ’’اور اس شخص نے ان مردوں کو یوسفؑ کے گھر میں لاکر پانی دیا کہ پاؤں دھوئیں اور ان کے گدھوں کو دانہ گھاس دیا۔‘‘ (پیدائش ۲۴/۴۳) قرآن مجید میں اور موقع پر بھی جہاں صواع کی تلاش کاذکر ہے اونٹ کا ہی ذکر آیا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے ولمن جاء بہ حمل بعیر کہ صواع الملک لانے والے کو ایک اونٹ کے بوجھ برابر غلہ دیا جائے گا۔ یہ ایک بہت بڑا اختلاف ہے اور قرآن کریم کی تفسیر کرتے وقت ہمارا فرض ہے کہ ہم ان اختلافات پر بھی جہاں تک ہوسکے روشنی ڈالی کیونکہ گو ایمانی طور پر تو ہم قرآنی بیان کو مقدم مانتے ہیں لیکن اہل کتاب کو سمجھانے کے لے ہمارے پاس زائد دلیلیں ہونی چاہئیں۔ میرے نزدیک اس اختلاف کا فیصلہ اس طرح ہوسکتا ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ حضرت یعقوب اور ان کا گھرانہ کس سواری پر عام طور پر سواری کیا کرتا تھا۔ جو سواری دوسرے حوالہ جات سے ثابت ہو تاریخی طور پر اس سفر میں بھی اسی کو ترجیح دی جائے گی۔
بائبل میں حضرت یعقوبؑ کے ایک اور سفر کا ذکر ہے یعنی جبکہ وہ اپنی بیویوں کو اپنے سسرال کے ہا سے لے کر واپس آئے ہیں۔ اس سفر کے متعلق بائبل میں لکھا ہے:-
’’تب یعقوبؑ نے اٹھ کر اپنے بیٹوں اور اپنی جورؤں کو اونٹوں پر بٹھایا۔‘‘ (پیدائش ۱۷/۳۱) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب اور ان کے گھرانے کو اونٹ پر سفر کرنے کی عادت تھی۔ پس بائبل کے اس ثبوت کو مدنظر رکھتے ہوئے اور اس راستہ کی نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے جس میں اونٹ کا سفر گدھے کے سفر سے زیادہ آرام دہ رہتا ہے ہمیں عقلاً بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یوسفؑ کے بھائیوں نے اونٹوں پر ہی سفر کیا ہوگا۔
لیکن یہ تشریح اس امر کو فرض کرکے ہے کہ قرآن کریم سے اونٹوں پر سفر ثابت ہے۔ جو لوگ اس استدلال کو قوی نہ سمجھتے ہوں وہ یوں اس مشکل کو حل کرسکتے ہیں کہ قرآن مجید کے الفاظ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ اونٹوں پر سوار تھے حمل بعیر سے اونٹ کے اٹھانے کے قابل وزن مراد ہے۔ آگے خواہ وہ اس کو گدھوں پر لادیں اس صورت میں دونوں حوالوں مین کوئی اختلاف نہیں رہتا۔
۶۶؎ حل لغات
ان یھاط بکم۔ احیط بہ دنا ھلاکہ وفی القران الا ان یحاط بکم: احیط بہی کے معنے ہیں ہلاکت کے منہ میں آ گیا۔ ہرطرف سے تباہی کے منہ میں گھر گیا۔ چنانچہ قرآن کریم میں الا ان یحاط بکم ان معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ (اقرب)
الوثق والمیثاق العہد عہد اقرار۔ (اقرب)
وکیل۔ نگران۔ (مزید تشریح کے لئے دیکھو یونس ۱۰۵؎)
تفسیر
اس جگہ پر بن یامین کے ساتھ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مشابہت ہو گئی ہے۔ جب مدینہ والے لوگ آپؐ کو لینے کے لئے آئے تو آپؐ کی طرف سے حضرت عباسؓ نے ان سے معاہدہ کرلیا کہ تم لوگ اپنی جان اور مال سے آپؐ کی حفاظت کرو گے۔ انہوں نے یہ اقرار کیا تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ مدینہ تشریف لے گئے۔
بائبل میں لکھا ہے کہ جب حضرت یعقوبؑ نے عہد کا مطالبہ کیا تو روبن نے جو سب لڑکوں سے عمر میں بڑا تھا کہا کہ میرے دو بیٹے ہیں تو ان کو اپنے پاس رکھ لے۔ اگر میں بن یامین کو نہ لے آؤں تو ان کو قتل کر دیجئو۔ مگر حضرت یعقوبؑ نے اس کی بات کو رد کر دیا۔ اور اس کے کہنے پر بن یامین کو نہ بھیجا۔ (پیدائش ۳۷/۴۲) لیکن جب یہودا نے اپنے باپ کے نزدیک آکر قسم کھائی اور سب کی طرف سے معاہدہ کیا تو حضرت یعقوبؑ نے اس کی بات مان لی۔ (پیدائش باب ۴۳ آیت ۸،۱۳) جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دینی لحاظ سے وہی سب سے بڑا سمجھا جاتا تھا۔ یہ حوالہ اسی سورۃ کی ایک اگلی آیت کا مضمون سمجھنے میں کارآمد ہوگا۔
۶۷؎ حل لغات
الحکم: حکم بالامر حکما وحکومۃ۔ حکم۔ حکم یحکم کا مصدر ہے اور حکم کے معنے ہیں قضی اس نے فیصلہ کیا۔ والحکم القضاء اور حکم کے معنی ہیں فیصلہ کرنا۔ (اقرب)
حکم۔ اصلہ منع منعا لاصلاح۔ حکم کے اصل معنی اصلاح کی خاطر کسی کام سے روکنے کے ہیں اور اسی وجہ سے جانور کی لگام کو حکمۃ کہتے ہیں والحکم بالشئی ان تقضی بانہ کذا او لیس کذا سواء الزمت غیرک اولم تلزمہ اور حکم کے یہ معنی ہیں کہ کسی امر کے متعلق یہ فیصلہ کیا جائے کہ وہ اس اس طرح ہے یا اس اس طرح نہیں۔ خواہ وہ بات دوسرے پر واجب کی جائے یا نہ۔ (مفردات)
توکل علی اللہ۔ استسلم الیہ واعتمد ووثق بہ توکل علی اللہ کے معنی ہیں کہ اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کردیا اور اسی پر بھروسہ و اعتماد کیا۔ (اقرب)
تفسیر
چونکہ انہوں نے مصر کے حالات نہایت ڈر ڈر کر بیان کئے تھے اور یہ کہا تھا کہ ہمیں وہاں جاسوس سمجھا گیا تھا اس لئے حضرت یعقوبؑ نے یہ نصیحت کی کہ علیحدہ علیحدہ داخل ہونا اکٹھے ایک جتھے کی صورت میں داخل نہ ہونا۔ تاکہ لوگوں کو غیر ملکی سمجھ کر شبہ کا موقع نہ ملے مگرا نہوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہ دیا کہ ہاں اگر خداتعالیٰ کی طرف سے کوئی آفت مقدر ہے تو میں کچھ نہیں کرسکتا۔
یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ یوسفؑ کے پاس جاتے ہوئے الگ الگ دروازوں سے جانا۔ اس صورت میں ماننا پڑے گا کہ انہیں الہاماً حالات معلوم ہو گئے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ بن یامین کو یوسف ؑ سے الگ ملنے کا موقعہ مل جائے تاکہ وہ انہیں گھر کے حالات سے مطلع کر دیں۔
علیہ توکلت کہہ کر اس طرف اشارہ کیا ہے کہ میرا اصل یقین خدا کی ذات پر ہے نہ اپنی تدبیر اور اپنے لڑکوں کو جو ہمیشہ اپنی تدابیر پر بھروسہ کرتے تھے۔ سبق دیا ہے کہ جب خداتعالیٰ کے نبی جو عقلاً بھی دنیا سے ممتاز ہوتے ہیں الٰہی نصرت کو ہی اصل چیز تصور کرتے ہیں تو دوسرے کیوں ایسا نہ کریں۔
توکل کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ اس کے یہ معنی نہیں کہ انسان تدبیر نہ کرے بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ باوجود تدبیر کے خداتعالیٰ پر ہی بھروسہ کرے اور یقین رکھے کہ تدبیر بھی تبھی نفع دیتی ہے جب خداتعالیٰ کی نصرت ساتھ ہو۔
۶۸؎ حل لغات
الحاجۃ۔ السول۔ حاجت کے معنی ہیں مطلوب، خواہش۔ (اقرب)
تفسیر
گو حضرت یعقوب علیہ السلام کو یہ بتایا گیا تھا کہ یوسفؑ زندہ ہیں لیکن انہیں قطعی طور پر اس کا علم نہ تھا کہ مصر کے غلہ بانٹنے والے وزیر وہی ہیں۔ پس اپنے بیٹوں کے اس خوف سے متاثر ہوکر کہ مصری ہمیں جاسوس سمجھتے تھے بیٹوں کو یہ تجویز بتائی تھی۔
چونکہ حضرت یوسفؑ نے پہلی دفعہ ان پر بہت سے ایسے سوال کئے تھے جن سے انہیں شبہ پیدا ہو ا کہ شاید یوسف ہمیں جاسوس سمجھتے ہیں اور وہی باتیں انہوں نے حضرت یعقوبؑ کو بتائیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یعقوبؑ نے ان کے شبہ کی وجہ سے احتیاطاً ہدایت کی کہ مختلف دروازوں سے داخل ہونا۔ وانہ لذوعلم لما علمناہ۔ میں علم سے مراد توکل ہے۔ جس کا پہلے ذکر ہوچکا ہے اور یہی وہ معرفت اور علم تھا جو ان کو خداتعالیٰ کی طرف سے ملا تھا یعنی انہوں نے تدبیر بھی کرلی مگر توکل پھر بھی خدا پر ہی رکھا۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ حضرت یعقوبؑ کو نظر لگ جانے کا خوف تھا۔ اس تدبیر سے انہوں نے اس کو دور کر لیا لیکن یہ معقول نہیں۔ ایک بھائی کے بڑھ جانے سے نظر لگ جانے کا خطرہ کس طرح پیدا ہو گیا تھا۔ پہلے بھی تو دس بھائی اکٹھے گئے تھے۔ اس وقت کیوں یہ تدبیر نہ کی۔ پس اصل یہی ہے کہ جب مصر سے واپسی پر برادرانِ یوسفؑ نے جاسوسی کے احتمال کو پیش کیا تو حضرت یعقوب نے ان کو مزید احتیاط برتنے کا مشورہ دیا۔
یا جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے انہیں چونکہ الہام سے معلوم ہو گیا تھا کہ وہ حاکم جو غلہ دیا ہے یوسفؑ ہے انہوںے الگ الگ ملنے کا حکم دیا تاکہ بن یامین یوسفؑ سے علیحدگہی میں مل سکیں۔
۶۹؎ حل لغات
اوی الیہ۔ اویتہ۔ انزلتہ اویتہ کے معنے ہیں میں نے اسے اپنے پاس اتارا۔ اپنے ہاں ٹھہرایا ومنہ اللہم اونی الی ظل کرمک وعفوک۔ انہی معنوں میں اس دعا میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے کہ اے اللہ مجھے اپنے کرم اور عفو کے سایہ میں جگہ دے۔ (اقرب) (نیز دیکھو ہود ۲۳؎)
لاتبتئس۔ ابتأس بہ۔ اکتئب واستکان۔ غمگین اور دل شکستہ ہوا۔ اور لاتبتئس کے معنے ہیں لاتحزن ولا تشتک۔ نہ غم کر اور نہ شکایت (اقرب) مزید تشریح کے لئے دیکھو ہود ۳۶؎۔
تفسیر
اگر تو یہ سمجھا جائے کہ بھائی کو کوئی علم حقیقت کا نہ تھا تو لاتبتئس کا ایک تو یہ مطلب لیا جائے گا کہ تجھے جو خیال تھا کہ میں مر گیا ہوا ہوں اور اس کا تجھے غم تھا اب تو اس غم کو دور کر دے کیونکہ میں زندہ موجود ہوں لیکن اگر یہ معنے کئے جائیں کہ بن یامین کو حضرت یعقوبؑ نے اطلاع دے دی تھی تو پھر اس کا یہ مفہوم ہوگا کہ جو تکالیف وہ تجھ کو دیتے رہے ہیں اب خداتعالیٰ اس سے تجھے نجات دینے والا ہے۔
۷۰؎ حل لغات
جھزھم بجھازھم۔ اس نے انہیں ان کا سامان دے کر تیار کیا۔ (مزید تشریح کے لئے دیکھو یوسف۶۰؎)
السقایۃ۔ الاناء یسقی بہ۔ سقایہ کے معنی ہیں پانی پینے کا برتن جیسے کٹورا، پیالہ وغیرہ۔ (اقرب)
العیر:- قافلۃ الحمیر ثم کثرت حتی سمیت بھا کل قافلۃ۔ عیر کے اصل معنے تو گدھوں پر مال لاد کر سفر کرنے والے قافلہ کے ہیں لیکن کثرت استعمال کے ماتحت ہر ایک قافلہ کو عیر کہا جاتا ہے۔ (اقرب)
العیر۔ القوم الذین معھم احمال المیرۃ۔ غلہ لے جانے والا قافلہ۔ (مفردات)
الرحل: بورا (مزید تشریح کے لئے دیکھو یوسف۶۳؎)
تفسیر
جعل السقایۃ کے دو معنے ہوسکتے ہیں۔
۱- جان بوجھ کر پیالہ رکھ دیا اور یہ محبت کے جذبہ کی وجہ سے تھا کہ تا راستہ میں پیاس کے وقت اس میں پانی پئے۔
۲- بھول کر رکھ دیا اور یہ اس طرح ہوسکتا ہے کہ اپنے بھائی سے باتیں کرتے ہوئے پانی منگایا اور پینے کے بعد وہیں بھول کر پیالہ رکھ دیا۔
۷۱؎ حل لغات
اقبل علیہ۔ نقیض ادبر۔ اقبل علیہ کے معنی ہیں اس کی طرف رخ کیا۔ (اقرب)
الاقبال۔ التوجہ نحوالقبل۔ سامنے آنا رخ کرنا۔ (مفردات) قالوا واقبلوا علیہم کے معنے ہوئے کہ انہوں نے ان کی طرف رخ کرکے کہا۔
صواع۔ المکیال الذی یکال بہ۔ صواع غلہ ماپنے کا ایک خاص پیمانہ ہوتا ہے۔ الجام الذی یشرب فیہ۔ پانی پینے کے جام کو بھی صواع کہتے ہیں۔ (اقرب) الزعیم الکفیل زعیم کے معنے ضامن اور ذمہ دار کے ہیں۔ (اقرب)
تفسیر
اس جگہ اختلاف ہوا ہے۔ بعض مفسرین لکھتے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے وہ برتن جان بوجھ کر بھائی کے اسباب میں رکھ دیا۔ اس کے بعد کہا کہ تم چور ہو۔ یہ یوسف علیہ السلام پر افترا ہے۔ ایک طرف تو بھائی کے ساتھ اتنی محبت دوسری طرف چند دن کی صحبت کی غرض سے اس کے اسباب میں برتن رکھ کر اس پر چوری کا الزام لگانا اور ساری عمر کے لئے اسے داغ دار کر دینا نہ صرف یوسف علیہ السلام کو جھوٹ کا بلکہ ظلم کا مرتکب بناتا ہے اور یہ کام نبی تو کیا ایک معمولی شریف آدمی بھی نہیں کرسکتا۔
دراصل یہ قصور بائبل کا ہے جس نے یہ قصہ پیش کیا اور ہمارے مفسروں نے سادہ لوحی سے اسے نقل کر دیا۔
ملک کا لفظ یا تو حضرت یوسفؑ کے لئے خوشامدانہ رنگ میں استعمال کیا ہے جیسے غرباء بڑے لوگوں کو بادشاہ کہہ کر پکارتے ہیں یا پھر سرکاری کام کے وقت سرکاری برتن استعمال کئے جاتے ہوں گے اور انہیں بادشاہ کا برتن کہنا بالکل درست ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ پیالہ قیمتی تھا تبھی اس کے ڈھونڈنے والے کے لئے ایک اونٹ کا بوجھ انعام رکھا ہے۔ اتنا انعام چاندی سونے کے برتن کے لئے ہی رکھا جاسکتا ہے۔
یہ اعتراض نہیں ہوسکتا کہ چاندی سونے کے برتن استعمال کرنے تو منع ہیں کیونکہ یہ اسلامی حکم ہے۔ یہود میں ایسی ممانعت نہیں نہ فراعنۂ مصر اس کو برا سمجھتے تھے۔
یہ سوال کہ یوسف علیہ السلام نے بھائی کے اسباب میں کیا چیز اور کس ارادہ سے رکھی اور پھر چوری کا الزام ان پر کس طرح لگا۔ لوگوں کے لئے ہمیشہ زیربحث رہا ہے۔ جیسا کہ میں نے اوپر بتایا ہے یہود کا یہ خیال ہے کہ حضرت یوسفؑ نے جان کر ایک برتن رکھ دیا۔ پھر چوری کا الزام لگا کر ان کو اپنے پاس رکھ لیا۔ لیکن یہ اتنا بڑا ظلم ہے کہ نبی کی طرف اس کا منسوب کرنا کفر ہے۔
میرے نزدیک اس مشکل کا حل خود قرآن کریم سے ہی ہو جاتا ہے۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے ایک پانی پینے کا برتن خود اپنے ہاتھ سے اپنے بھائی کے اسباب میں رکھا تھا پھراس میں یہ بھی ہے کہ ایک صواع یعنے ماپنے کا برتن بھی گم ہو گیا جو تلاش پر حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی کے اسباب میں سے نکلا۔ برتن کا بھائی کے اسباب میں رکھنا کوئی ایسا واقع نہ تھا کہ جسے قرآن کریم ذکر کرتا۔ جب تک اس میں کوئی غرض نہ ہوتی اور وہ غرض یہی معلوم ہوتی ہے کہ پینے کا بتن بغیر بھائی کو علم دینے کے حضرت یوسف علیہ السلام نے رکھ دیا تا اس طرح اپنی محبت کا اظہار کریں۔ اس برتن کے رکھتے ہوئے ماپنے کا سرکاری برتن جو غالباً اس وقت ان کے ہاتھ میں تھا بھول کر ساتھ ہی رکھا گیا۔ جب وہ برتن نہ ملا تو نوکروں نے اسے چوری قرار دے کر تلاشی لینی شروع کی۔ سب قافلے کے ساتھ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کی بھی تلاشی لینی ضروری تھی۔ مگر حضرت یوسف کی مہربانی کو دیکھ کر اعلان کرنے والے نے بن یامین کی تلاشی بعد میں لی اور علاوہ اس پیالہ کے جو حضرت یوسف علیہ السلام نے خود رکھا تھا ماپنے کا برتن بھی اسباب میں سے نکل آیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام فوراً سمجھ گئے کہ کیا غلطی ہوئی ہے لیکن انہوں نے اس واقعہ میں الٰہی تدبیر دیکھ کر اس وقت تک خاموشی رکھی جب تک بھائیوں کا قافلہ چلا نہیں گیا اور اس طرح ان کا بھائی ان کے پاس ہی رہ گیا۔
۷۲؎ تفسیر
یہ خداتعالیٰ کی تدبیر تھی کہ بھائیوں نے جوش میں آکر کہہ دیا کہ جس کے اسباب میں سے پیالہ نکلے اسی کو اپنے پاس رکھ لینا۔ ان کے منہ سے یہ نکلا کہ جس نے چوری کی ہو اگر وہ یہ کہتے تو حضرت یوسف علیہ السلام اپنے بھائی کو شاید نہ رکھ سکتے کیونکہ اس سے اس پر حتمی طور پر چوری کا الزام لگتا ہے لیکن چونکہ انہوں نے لفظ ہی یہ کہے کہ جس کے اسباب میں سے پیالہ نکلے اسے رکھ لینا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو بغیر چوری کا الزام لگانے کے بھائی کو پاس رکھنے کا موقع مل گیا۔
۷۳؎ حل لغات
بدات بالشئی کے معنے ہیں ابتداتہ اسے شروع کیا۔ بدا بفلان قدمہ اسے پہلے رکھا اور بدا باوعیتھم کے معنے ہوں گے پہلے ان دوسروں کے بوروں کو دیکھنا شروع کیا۔ (اقرب) (مزید تشریح کے دیکھو یونس ۶؎) الوعاء۔ الظرف یوعی فیہ الشئی۔ وعاء ایسی چیز کو کہتے ہیں جس میں سامان کو محفوظ کرکے رکھا جائے اس کی جمع اوعیۃ ہے۔ (اقرب)
کادلہ: احتال لہ جب کاد کا صلہ لام آئے تو اس کے معنی ہوتے ہیں اس کے حق میں تدبیر کی اور کدنا لیوسف کے معنے ہوئے ہم نے یوسف کے لئے تدبیر کی۔ (اقرب)
یاخذ۔ اخذ میں سے ہے جس کے معنے ہیں حبسہ۔ اسے روک لیا۔ (اقرب)
الدین:م دان دینا۔ اطاع۔ دا جس کا مصدر دین ہے اس کے معنے ہیں اطاعت کی فلانا خدمہ خدمت کی۔ خدمت ادا کی۔ حکم علیہ۔ حکم لگایا فیصلہ کیا۔ الدین الطاعۃ دین کے معنی ہیں فرمانبرداری۔ القضاء۔ فیصلہ۔ (اقرب)
واستعیر للشریعۃ۔ اور یہ لفظ بالواسطہ شریعت یا قانون کے معنے میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ (مفردات)
تفسیر
بداباوعیتھم میں تلاشی لینے والا وہی شخص معلوم ہوتا ہے جس نے اعلان کیا تھا نہ کہ حضرت یوسفؑ اور قبل وعاء اخیہ سے مراد حضرت یوسفؑ کے بھائی سے ہے چونکہ حضرت یوسف علیہ السلام کا ذکر پاس ہی گزرا ہے اس طرح ضمیر کو پھیرا جاسکتا تھا۔
اس تلاشی لینے والے نے بن یامین کی تلاشی سب سے آخر اس لئے نہیں لی کہ وہ جانتا تھا کہ آخر میں ان کے اسباب سے پیالہ نکالوں گا بلکہ اس لئے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی ان پر مہربانی دیکھ کر وہ طبعاً ان کا ادب کرنا چاہتا تھا اور ان پر گمان بھی نہیں کرسکتا تھا کہ ان کے اسباب میں سے پیالہ نکلے گا۔
کدنا لیوسف سے ثابت ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ نے یہ تدبیر کی تھی۔ پھر تعجب ہے کہ مفسرین یوسف علیہ السلام پر ہی الزام دھرتے چلے جاتے ہیں۔ حق یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک سامان پیدا کر دیا کہ یوسف علیہ السلام نے بھول کر برتن رکھ دیا۔ بھائیوں کے منہ سے نکل گیا کہ جس کے اسباب میں برتن نکلے اسے پکڑ لینا اور اس طرح وہ بھائی کو پیچھے چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ ان کے جانے کے بعد حضرت یوسف علیہ السلام نے اصل حقیقت ظاہر کر دی ہوگی اور بن یامین کی برأت لوگوں کی نظر میں ہو گئی ہوگی۔ پس یہ سب ایک الٰہی تصرف کے ماتحت ہوا۔ بھائیوں کو شور کرنے کا موقع بھی نہ ملا اور بن یامین یوسف علیہ السلام کے پاس رہ بھی گئے۔
ماکان لیاخذ اخاہ فی دین الملک۔ فی کے معنی سبب کے بھی ہوتے ہیں۔ جیسے حدیث میں آتا ہے ان امراۃ دخلت النار فی ھرۃ حبستھاا فما تت۔ یعنی ایک عورت عذاب میں مبتلا کی گئی صرف اس وجہ سے کہ اس نے ایک بلی کو باندھ دیا اور وہ بیچاری بھوکی مر گئی۔ فی کے ان معنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ قانونِ شاہی کی وجہ سے وہ اپنے بھائیو کو روک نہیں سکتے تھے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے روکنے کی ایک تدبیر پیدا کردی۔
اس آیت سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ جب کسی بادشاہ کی حکومت میں رہے تو اس کے قانون کی فرمانبرداری کرے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نبی تھے لیکن فرعون کے قانون کی پابندی کرتے تے بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کی شان کے خلاف تھا کہ بادشاہ کے قانون کے خلاف اپنے بھائی کو زبردستی رکھ لیتے۔ پس معلوم ہوا کہ کسی کے قانون کے ماتحت رہنا نبی کی شان کے خلاف نہیں بلکہ کسی کی حکومت میں رہ کر قانون شکنی کرنا شان کے خلاف ہے مگر افسوس کہ مسلمان عام طور پر اس مرض میں مبتلا ہیں کہ غیرمذہب کے بادشاہ کی اطاعت کو جائز نہیں سمجھتے۔ اس غداری کی روح نے ان کو سخت نقصان پہنچایا ہے اور ان کی دیانت کی روح کچلی گئی ہے۔ مسلمان کو بے شک ترقی کرنے کی کوشش کرنی چاہئے لیکن دھوکے سے نہیں، صفائی اور سچائی سے۔ جب کسی کے ملک میں کوئی رہتا ہے تو عملاً اقرار کرتا ہے کہ فرمانبرداری سے گزارہ کرے گا۔ ظاہر میں یہ اثر ڈال کر دل میں غداری کا خیال رکھنا بہت بے انصافی ہے اور خود اپنے اخلاق پر برا اثر پڑتا ہے کیونکہ ایسا آدمی اپنے نفس میں سمجھتا ہے کہ میں منافقت کررہا ہوں میں سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں کی موجودہ بزدلی بہت کچھ اس گندے عقیدہ کی وجہ سے ہے۔
ہم جس کا چاہتے ہیں درجہ بڑھاتے ہیں۔ اس میں یہ بتایا ہے کہ ایسی فرمانبرداری انسان کو حکومت سے محروم نہیں کردیتی۔ اللہ تعالیٰ نیکوکارو کی ترقی کے لئے خود ہی سامان پیدا کردیتا ہے کیونکہ وہ تمام علموں کا سرچشمہ اور سب سامانوں کا مالک ہے۔
۷۴؎ حل لغات
مکانا۔ کان من العلم والعقل بمکان۔ ای رتبۃ ومنزلۃ۔ کان من العلم والعقل بمکانٍ کے معنے ہیں کہ عقل اور علم میں بڑے پایہ اور حیثیت کا تھا۔ پس مکان کے معنے حیثیت کے ہوئے۔ (اقرب)
تفسیر
جرم کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آئندہ جرم کی جرأت پیدا ہوجاتی ہے۔ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے پہلے یوسفؑ کو جان سے مارنا چاہا تھا اب ان کی اخلاقی موت کے طالب ہوتے ہیں اور کس ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ بن یامین نے چوری کی تو کیا ہوا اس کا بھائی یعنی یوسفؑ بھی اس سے پہلے چوری کرچکا ہے ان کے اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ اب تک سچی توبہ ان کو نصیب نہیں ہوئی تھی۔
مفسرین پر تعجب ہے کہ بجائے یہ کہنے کے کہ بھائیوں نے جھوٹ بولا یوسف کی چوری کی تلاش میں لگ گئے ہیں اور بعض نے تو یہاں تک کمال کیا ہے کہ لکھ دیا ہے کہ جب وہ بچے تھے اپنی پھوپھی کے ہاں کی بعض چیزیں اٹھا لائے تھے سبحانک ان ھذا الابتان عظیم۔ یوسف علیہ السلام کے دل کی جو کیفیت ان کی اس بات کو سن کر ہوئی ہوگی اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے مگر باوجود طاقت کے خاموش ہو گئے اور غصہ پی گئے۔ دل میں افسوس کر چھوڑا۔ یہ کیسا اعلیٰ درجہ کا مقام ہے۔ بہت لوگ بے طاقت ہوکر غصہ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو سزا دینے کی طاقت تھی مگر خاموش ہو رہے اور بھائیوں کے ناپاک الازم کو برداشت کرلیا۔ یہ ایک اعلیٰ نمونہ ہے جس کی اتباع یقینا مومن کو اعلیٰ محاتب تک پہنچا سکتی ہے۔
۷۵؎ حل لغات
یقال ھذا مکان ھذا:- اے بدلہ۔ (اقرب) جب ھذا مکان ھذا کہا جائے تو اس کے معنے ہوتے ہیں یہ اس کی بجائے ہے۔ پس مکان کے معنے ہوئے بجائے۔
تفسیر
سنگ دلی کی حد ہو گئی۔ اول تو جھوٹا الزام بھائی پر چوری کا لگایا۔ پھر اس پر اس قدر غیرت جتاتے ہیں اور ایسی بے تعلقی کا اظہار کرتے ہیں کہ گویا وہ ان کا بھائی ہی نہیں۔ یہ نہیں کہتے کہ آپ اسے معاف فرمائیں کہ ہمارا باپ بڈھا ہے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ اس کا باپ بڈھا ہے۔ گویا اس غیرت کی حالت میں اپنے آپ کو اس باپ کی اولاد ظاہر کرنے سے بھی شرماتے ہیں جس نے بن یامین اور یوسف جیسے بچے جنے تھے۔
۷۶؎ حل لغات
معاذاللہ اے اعوذباللہ اوبوجہ اللہ معاذا۔ معاذاللہ کے معنے ہیں کہ (میں) اللہ کی پناہ (چاہتا ہوں) (اقرب)
المتاع:- سامان۔ مزید تشریح کے لئے دیکھو یونس ۲۴؎ و ہود ۴؎۔
تفسیر
اس آیت سے کفارہ کا بھی رد نکلتا ہے۔ یوسف علیہ السلام کہہ رہے ہیں کہ ایک کے بدلہ میں دوسرے کو رکھنا ظلم ہے حالانکہ وہ اپنی مرضی سے اپنے آپ کو پیش کررہے تھے۔
عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح نے ہمارے لئے اپنی مرضی سے صلیب کو قبول کیا۔ اس لئے وہ ہمارے گناہوں کا کفارہ ہوئے۔ لیکن بائبل بھی اس قسم کے کفارہ کو ظلم قرار دیتی ہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ میں ہی لکھا ہے کہ جب یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اپنے آپ کو پیش کیا کہ بن یامین کی جگہ ہم میں سے کسی کو قید کرلو تو یوسف علیہ السلام نے کہا ’’خدا نہ کرے کہ میں ایسا کرو۔ یہ شخص جس کے پاس سے میرا پیالہ نکلا ہے میرا غلام ہوگا۔‘‘ (پیدائش باب ۱۷/۴۴) معلوم ہوا کہ بے گناہ کو گنہ گاہ کی جگہ پکڑ کر سزا دینا خواہ وہ بے گناہ راضی ہی کیوں نہ ہو بائبل کے نزدیک بھی ظلم ہے۔
۷۷؎ حل لغات
استایئسوا۔ یئس قنط واستایئس بمعنے یئس۔ یئس اور استایئس کے معنی ہیں بالکل مایوس و ناامید ہو گیا اور استایئسوا۔ استایئس سے جمع کا صیغہ ہے جس کے معنے ہوئے وہ ناامید ہو گئے۔ (اقرب) خلص الیہ وبہ الشئی کے معنے ہیں وصل کہ کوئی چیز کسی تک پہنچی۔ (اقرب) پس خلصوا بخیا کے معنے ہوں گے کہ وہ باتیں کرتے ہوئے کسی الگ جگہ پہنچے۔
النجی۔ السرنجی کے معنی ہیں راز۔ من تسارہ۔ رازدار۔ وقد یون للجمع ایضا مثل الصدیق۔ یہ لفظ رازداروں کے معنے میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ ومنہ خلصوا نجیا۔ اے مقناجین۔ اور خلصوا نجیا انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے کہ ایک دوسرے سے راز کی باتیں کہتے ہوئے الگ ہوئے۔ قال الضراء قد یکون النجی والنجوی اسما ومصدرا اور فراء کے نزدیک نجی اور نجوی کا لفظ کبھی تو اسم کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور کبھی مصدر کے معنوں میں۔ یعنی راز کی باتیں یا راز کی باتیں کرنا۔ المحدث راز کی باتیں کرنے والا۔ بات سنانے والا۔ السریع تیز۔ (اقرب)
خلصوا نجیا۔ ای انفردوا خالصین عن غیرھم خلصوا نجیا کے معنے ہیں دوسروں سے علیحدہ ہوئے۔ (مفردات)
کبیرھم۔ فلان کبیر۔ ای مسن۔ کبیر کے معنے ہیں عمر میں بڑا۔ انہ لکبیرکم ای رئیسکم انہ لکبیرکم کے معنے ہیں رفعت و منزلت کی رو سے بڑا سردار۔ (مفردات)
المیثاق۔ عقد موکد بیمین وعھد۔ میثاق کے معنے ہیں ایسا عہد کرنا جو قسم سے مؤکد ہو۔ والموثق الاسم منہ اور موثق کے معنے ہیں وہ عہد جو قسم سے مؤکد کیا گیا ہو۔ (مفردات)
فرطتم۔ فرط الشئی وفرط فیہ۔ ضیعہ وقدم العجز فیہ۔ فرط جب بغیر صلہ کے یا فی کے صلہ کے ساتھ استعمال ہو تو ا سکے معنے ہوتے ہیں کسی چیز کو ضائع کر دیاا ور ا کی حفاظت اور بچاؤ کے سامان سے پوری طرح کام نہ لیا۔……
فرط فیہ۔ قصر فیہ۔ کوتاہی کی۔ (اقرب) اور فرطتم کے معنے ہوں گے تم نے کوتاہی کی۔
لن ابرح۔ مابرح فلان کریما۔ ای بقی علی کرمہ ابرح۔ برح سے مضارع متکلم کا صیغہ ہے اور ما برح فلان کریما کے معنے ہیں اپنی سخاوت پر قائم رہا۔ (اقرب) برح وزال اقتضیا معنی النفی ولا للنفی والنفیان یحصل من اجتماعھما اثبات۔ برح اور زال کے اندر نفی کے معنے پائے جاتے ہیں کیونکہ کسی جگہ سے چلے جانے کے مفہوم میں نہ موجود رہنا بھی داخل ہے جو نفی پر مشتمل ہے۔ پس جب ان پر ما یا لا وغیرہ کوئی کلمہ داخل ہوگا تو نفی پر نفی داخل ہونے کی وجہ سے ان میں اثبات کے معنے یعنی کسی جگہ پر موجود رہنے کے معنے پیدا ہوجاتے ہیں۔ (مفردات) پس لن ابرح کے معنے ہوںگے کہ میں اس ملک کو نہیں چھوڑوں گا بلکہ وہیں رہوں گا۔
تفسیر
وہی بھائی جو مجلس میں یوسف پر چوری کا الزام لگا رہے تھے الگ ہوکر اپنے جرم کے شریکوں کے سامنے صاف اقرار کررہے ہیںکہ یوسف علیہ السلام ایسے مرتبہ پر فائز تھے کہ بھائیوں کے لئے ان کا پہچاننا ناممکن ہو گیا تھا۔ ورنہ یہ جانتے ہوئے کہ یہی یوسفؑ ہے وہ کب اس جھوٹ کے مرتکب ہوسکتے تھے۔
کبیرھم جس بائی کی نسبت آیا ہے معلوم ہوتا ہے اس کے دل میں کسی قدر خشیت اللہ تھی۔ کیونکہ ایک تو وہ اپنے باپ سے غداری کرنے سے بھائیوں کو ڈراتا ہے دوسرے اپنے عہد کی پابندی پر مصر ہوا ہے کہ جب تک میرا باپ اجازت نہ دے یا خداتعالیٰ ہی کوئی فیصلہ کردے میں یہاں سے نہیں جاؤں گا۔ خداتعالیٰ کے فیصلہ سے مراد ہوسکتا ہے کہ اس کے دل میں یہ ہو کہ کسی طرح بن یامین آزاد ہو جائیں اور میں ان کو سات لے کر واپس چلا جاؤں۔
حضرت یوسف کے سب سے بڑے بھائی کا نام روبن تھا ار بائبل کی رو سے جس بھائی نے اس موقعہ پر گھر واپس جانے سے انکار کیا ہے وہ یہودا تھے جو بھائیوں میں سے چوتھے درجہ پر تھے۔ مسیحی مصنف اس جگہ اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن کے مصنف کو تاریخ کا بھی علم نہیں۔ وہ یہودا کی بات کو روبن کی طرف منسوب کررہا ہے۔ مجھے مسیحی مصنفوں کے ایسے اعتراضوں پر ہمیشہ تعجب آیا کرتا ہے۔ وہ یوں بائبل کا ذکر کرتے ہیں گویا وہ سب سے زیادہ مستند تاریخی کتاب ہے۔ حالانکہ خود مسیحی لٹریچر ان دلائل سے بھرا پڑا ہے جو تاریخی طورپر بائبل کے رتبہ کو بہت گرا دیتے ہیں۔ پرانی تاریخ تو الگ رہی موسیٰؑ کی کتب میں موسیٰ کے سفروں کے جو حالات در ہیں مسیحی محققین خود ان کی صحت کے قائل نہیں اور جغرافیہ اور اس زمانہ کی دوسری تاریخوں سے اور خود بائبل کی اندرونی شہادتوں سے ان حالات کو خلاف واقعہ ظاہر کرتے ہیں۔ ایسی کتاب کی روایت پر قرآن کریم پر اعتراض قابل تعجب ہے۔ ہم بے شک بائبل کی بعض روایات کو تاریخی شہادت کے طور پر نقل کرتے ہیں لیکن اسی وقت جبکہ وہ عقل اور دوسری تارٰک یا قرآن کریم کے مطابق ہو ورنہ بائبل میں اس قدرع دست برد ہوچکی ہے کہ اس کی تاریخ بھی محفوظ نہیں کہی جاسکتی۔ پس ان حالات میں بائبل کی شہادت پر قرآن کریم پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا جس کے یہودی تاریخ کے بتائے ہوئے واقعات اس وقت تحقیق سے صحیح ثابت ہورہے ہیں مثلاً ہارون کا بچھڑے کو پوجنا۔ فرعونِ موسیٰ کی لاش کا محفوظ رہنا وغیرہ۔
لیکن اگر ہم اس بارہ میں توریت کے بیان کو صحیح لیں تو بھی کوئی اعتراض نہیں پڑتا۔ اس لئے کہ قرآن کریم نے کبیرھم کہا ہے اکبرھم نہیں کہا۔ بارہ بیٹوں میں سے چوتھا بیٹا بھی یقینا کبیر کہلاسکتا ہے۔ کیونکہ کبیر کے معنے صرف بڑے کے ہیں نہ کہ سب سے بڑے کے۔ اس کے علاوہ یوں بھی بائبل کے بیان اور قرآن مجید کے بیان میں تطبیق دی جاسکتی ہے کہ کبیر سے مراد عمر میں بڑا نہ لئے جائیں بلکہ درجہ میں بڑے کے لئے جائیں۔ چنانچہ زیر آیت قال لن ارسلہ معکم الخ ۶۶؎ میں ثابت کر آیا ہوں کہ حضرت یعقوب کو جو اعتبار یہودا پر تھا روبن پر نہ تھا۔ بن یامین کو انہوں نے بھیجا بھی یہودا کی ضمانت پر تھا۔ پس اس معاملہ میں یہودا ہی سب سے بڑے تھے۔
۷۸؎ تفسیر
بعض مفسرین نے اس قول کو یوسف علیہ السلام کی طرف منسوب کیا ہے۔ یہ تفسیر میری سمجھ سے باہر ہے۔ عبارت کا ربط بھی ان معنوں کے خلاف ہے میرے نزدیک تو یہ اس بڑے بھائی کا قول ہے جس کا قول اس سے پہلے درج ہوا ہے۔ وماکنا للغیب حفظین کے ایک معنے تو یہ ہیں کہ ہمیں پوری واقفیت نہیں ہم نے ظاہر میں جو کچھ دیکھا اسے بیان کر دیا۔ ہم غیب سے واقف نہیں۔ دوم یہ کہ یہ فقرہ عہد کے متعلق ہو کہ جب ہم نے عہد کیا تھا اس وقت ہمارے ذہن میں بھی یہ بات نہ تھی کہ ہم ایسی خبر تیرے پاس لائیں گے۔ ہم نے اس وقت عہد دیانت داری سے ہی کیا تھا۔
۷۹؎ حل لغات
القریۃ اسم للموضع الذی یجتمع فیہ الناس۔ قریہ اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں لوگ جمع ہوتے ہیں۔ وللناس جمیعا اور جمع شدہ لوگوں کو بھی قریہ کہتے ہیں۔ ویستعمل فی کل واحد منہما۔ اور قریہ ان ہر دو معنے میں استعمال ہوتا ہے۔ قال تعالی وسئل القریۃ قال کثیر من المفسرین معناہ اھل القریۃ مذکورہ بالا آیت میں وسئل القریۃ کے معنے اکثر مفسرین نے اھل قریۃ ’’یعنی بستی کے رہنے والے‘‘ کئے ہیں۔ وقال بعضھم بل القریۃ ھھنا القوم انفسھم اور بعض مفسرین نے یوں کہا ہے کہ قریۃ سے مراد خود لوگ ہی ہیں اہل قریہ نہیں۔ (مفردات) (مزید تشریح کے لئے دیکھو یونس ۹۵؎)
تفسیر
یہ قول اسی بھائی کا ہے جو اپنے والد کے پاس جاکر جو کچھ کہنا چاہئے اس کی تلقین کررہا ہے۔
صداقت کس طرح انسان کا لہجہ ہی بدل دیتی ہے۔ وہی بائی یوسفؑ کی دفعہ فریب کرکے آئے تو کس طرح اپنی بات پر زور دینے سے ہچکچاتے تھے لیکن اب جو ب یامین کی خبر دینے چلے ہیں تو کس زور سے اپنے سچے ہونے کا اظہار کرتے ہیں اور گواہ بھی پیش کرتے ہیں۔
اس جگہ اہل مصر کو قریۃ کے نام سے اور قافلہ والوں کو عیر کے نام سے یاد کیا ہے۔ حالانکہ عیر گدھوں کو کہتے ہیں ایسا انہوں نے اپنی بات پر زور دینے کے لئے کیا۔ا صل میں اھل القریۃ واصحاب العیر ہے۔ مگر ’’اصحاب‘‘ کا لفظ اڑا دیا اور یہ عربی کا عام دستور ہے۔ توجہ کھینچنے کے لئے ایسا کرتے ہیں۔ مطلب یہ کہ شہر کا بچہ بچہ اور قافلہ کا فرد فرد اس حقیقت سے آگاہ ہے۔ آپ کسی سے پوچھ کر دیکھ لیں وہ ہماری تصدیق کرے گا۔
۸۰؎ حل لغات
سولت لہ نفسہ کذا: زینتہ لہ وسھلتہ لہ وھو لتہ اس کے نفس نے اس کے لئے اس کام کو خوبصورت کرکے یا اسے ایک معمولی بات قرار دے کر اور آسان کرکے دکھایا۔ (اقرب)
التسویل تزیین النفس لما تحرص علیہ وتصویر القبیح منہ بصورۃ الحسن منہ جس بات کی طرف یلان ہو اسے نفس کا پسندیدہ کرکے دکھانا اور بری بات کو اچھے رنگ میں پیش کرنے کا نام تسویل ہے۔ (مفردات) پس سولت کے معنے ہوں گے کہ تمہارے نفسوں نے کوئی بات خوبصورت کرکے تمہیں دکھائی ہے۔
تفسیر
یہاں قرآن کریم کے طریق کے مطابق اس ذکر کو چھوڑ دیا ہے کہ پھر بائی آئے اور انہوں نے اپنے والد کو یہ باتیں کہیں بلکہ والد کا جواب بیان کر دینا شروع کر دیا ہے۔ قرآن کریم تاریخ کی کتاب نہیں۔ وہ زائد باتیں چھوڑ دیتا ہے۔ اس جگہ اس درمیانی بات کو چھوڑ دینے کی غر یہ ہے کہ جو سبق دیا جارہا ہے اس میں واقعہ نہ پڑے اور پڑھنے والے کا ذہن سیدھا اس مضمون کی طرف منتقل ہو جو اس کے سامنے پیش کیا جارہا ہے۔
حضرت یعقوبؑ نے بیٹوں کی باتیں سن کر کہا کہ اصل مین تمہارے نفس کی خواہشات نے بری بات کو اچھا کر دکھایا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ بن یامین روکا نہیں گیا اور تم جھوٹ بولتے ہو بلکہ مطلب یہ ہے کہ بن یامین کی دشمنی کی وجہ سے تمہارا ذہن ادھر نہیں گیا کہ وہ چوری کا مرتکب نہیں ہوسکتا۔ ضرورا س واقعہ میں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے اور تم نے اس سے دشمنی کے باعث فوراً اس کی طرف اس عیب کو منسوب کر دیا ہے۔
یہ کہہ کر کہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو لے آئے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ یوسف بھی اب تک زندہ ہے اور شاید خداتعالیٰ یوسفؑ اور بن یامین اور یہودا سب کو واپس لے آوے۔ اس فقرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودا کے اپنے قول پر قائم رہنے کا نیک اثر حضرت یعقوبؑ کے دل پر ہوا ہے اور اس کی نسبت بھی ان کے دل میں درد پیدا ہونے لگ گیا ہے۔
وہ بہت جانتا اور بہت حکمت والا ہے۔ اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ خداتعالیٰ نے مجھ پر حقیقت کھول دی ہے اور میں اب سمجھتا ہوں کہ اس نے جو کچھ کیا ہمارے فائدہ ہی کے لئے کیا۔ گذشتہ تکلیف درحقیقت ہمارے خاندان کی آئندہ ترقی کا ایک پیش خیمہ تھی۔
۸۱؎ حل لغات
تولی عنہ۔ اعرض وترکہ تولی عنہ کے معنے ہی رخ پھیر لیا اور چھوڑ دیا۔ (اقرب) یا اسفی ویااسفاعلی کزا توجع وتحسر علی مافات کسی چیز کے ضائع ہونے پر دکھ اور درد کا اظہا رکرنے کے لئے یا اسفی کے الفاظ بولے جاتے ہیں۔ (اقرب)
ابیضت عینہ یقال للمھموم اظلمت علیہ الدنیا وابیضت عینہ من الحزن (مجمع البحار جلد دوم ۴۴۹؎) جو غمزدہ ہو اس کے متعلق یہ محاورہ استعمال کرتے ہیں کہ دنیا اس پر تاریک ہوگئی ہے اور یہ بھی کہ غم سے اس کی آنکھیں سفید ہوگئی ہیں۔
الحزن۔ خشونۃ فی النفس لما یحصل فیہ من الغم۔ دل کی بے قراری جو غم کی وجہ سے لاحق ہوتی ہے۔ ویضادہ الفرح اور اس کے بالمقابل فرح کا لفظ بولا جاتا ہے۔ (مفردات)
الکظوم: احتباس النفس۔ کظوم کے معنے ہیں سانس کا رکنا۔ ویعتبر بہ عن السکوت۔ خاموشی کے موقعہ پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے۔ کظم الغیظ۔ حبسہ۔ غیط کے ساتھ جب کظم کا لفظ آئے تو اس کے معنے ہوتے ہیں غصہ کو روک لیا۔ کظم السقاء شدہ بعد ملاہ مانعا لنفسہ۔ اور جب سقاء کے لئے کظم کا لفظ استعمال ہو تو اس کے معنے ہوتے ہیں مشکیزہ بھر کر پانی کو محفوظ رکھنے کے لئے اس کا منہ بند کر دیا۔ پس کظیم ایسے شخص کو کہیں گے کہ جو اپنے اندر غصہ کو دبائے رکھے اور ظاہر نہ ہونے دے۔ (مفردات)
تفسیر
ابیضت عینہ من الحزن۔ غم کی وجہ سے ان کی آنکھیں سفید ہو گئیں۔ اس کے متعلق بڑا اختلاف ہوا ہے۔ مفسرین کہتے ہیں کہ ان کی آنکھیں اندھی ہوگئی تھیں اور ان پر سفیدی ہی سفیدی چھا گئی تھی۔ اس کے متعلق ان میں اختلاف ہے کہ سفیدی کیوں چھا گئی۔ بعض ے کہا ہے کہ روتے روتے اور اس رونے کی مدت بعض نے چالیس سال اور بعض نے ۸۱ سال بیان کی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ دوسرے بیٹے کی خبر سن کر صدمہ سے بینائی جاتی رہی کہ اب تو دوسرا بھی جدا ہو گیا۔
دراصل ابیض کے ایک معنے بھی ایسے نہیں کہ جن سے اندھا ہونے کا مفہوم نکل سکے۔ صرف ایک معنوں کو کھینچ تان کر یہ مفہوم نکالا گیا ہے۔ عربی میں کہتے ہیں کہ بیض السقاء۔ مشکیزہ کو دودھ یا پانی سے بھر دیا۔ یہ معنی جوہر اور صاغانی نے لکھے ہیں۔ اسی طرح کہتے ہیں بیضہ مشکیزہ کو خالی کر دیا۔ گویا یہ لفظ اضداد معنے رکھتا ہے۔ یہ امر صاغانی اور لسا العرب نے بیان کی اہے اور تاج العروس والا کہتا ہے کہ یہ مجازی معنے ہیں عام معنی ابیض اور ابیاض کے اسود اور اسواد کے خلاف ہیں یعنی جس طرح اسود اور اسواد کے معنی سیاہ ہونے کے ہیں۔ ابیض اور ابیاض کے معنی سفید ہونے کے ہی اور ابیض اور ابیاض کبھی بیض کا مطلوع ہوکر بھی استعمال ہوتا ہے یعنی سفید ہو گیا۔ اب اس آخری بات سے بعض نے یہ معنی نکلاے ہیں کہ چونکہ بیض کے معنی مجازاً خالی کر دینے کے ہیں جیسے کہ لسان العرب میں آیا ہے اور چونکہ ابیض بیض کا مطاوع ہوکر استعمال ہو جاتا ہے۔ اس لئے وہ مجازی معنے بیض کے یہاں ابیض میں بھی آسکتے ہیں۔ اس لئے انہوں نے ابیضت عینہ کے معنے یہ کئے ہیں کہ اس کی آنکھیں غم کے مارے بہ پڑیں اور خالی ہو گئیں۔ اور بعض مفسرین نے سفید ہونے سے بھی اندھا ہونا مراد لیا ہے۔
مگر ہم کہتے ہیں کہ جب ابیض کے معنے لغت میں اندھا ہونے کے نہیں ہیں تو کیوں نہ ابیضت کے معنے پانی سے بھر جانے کے کئے جاویں۔ جبکہ پانی اور دودھ کو ابیضان کہنے کا محاورہ عربی میں مستعمل ہے۔ اور ظاہر ہے کہ آنکھوں میں پانی بھر آنے کا یہی مطلب ہے کہ آنسو بھر آئے اور دوسرے معنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بہ پڑیں یعنی کثرت سے آنسو ٹپک پڑے۔
پھر ہم کہتے ہیں کہ اگر ابیضت سے ہم نے مجاز ہی لینا ہے تو کیوں نہ وہ مجاز لیں جو اعلیٰ ہو۔ یعنی یہ کہ غم کے مارے ان کی آنکھیں چمک پڑیں اور یہ ایک قدرتی بات ہے کہ غم کے وقت انسان کی آنکھوں میں ایک چمک سی پیدا ہوتی ہے بشرطیکہ وہ غم دیر تک نہ لگا رہے۔
ادیب لوگ بھی اس غم کی حالت کو بیان کرتے ہوئے جس میں ابھی امید کی جھلک باقی ہو آنکھوں میں چمک پیدا ہونے کے الفاظ استعمال کرلیا کرتے ہیں۔ تو گویا جب تازہ غم میں جس میں امید کی شعاع نظر آتی ہو جب ایک جھلک اور چمک آنکھوں میں پیدا ہو جاتی ہے تو کیوں نہ یہ معنے کئے جائیں کہ ان کی آنکھیں اس تازہ غم کی وجہ سے چمک اٹھیں کیونکہ انہوں نے محسوس کرلیا کہ غم اپنی انتہاء کو پہنچ گیا ہے اور اب ضرور خداتعالیٰ کا فضل نازل ہوگا۔ مگر جیسا کہ حل لغات کے نیچے لکھا گیا ہے ابیضت عینہ من الحزن کے معنے شدید غم میں مبتلا ہوے کے بھی ہوتے ہیں۔ پس ان معنوں کی موجودگی میں اور معنی کرنا صرف عجوبہ پسندی ہی کہا سکتا ہے جس کا قرآن کریم محتاج نہیں اور جبکہ اس کے معاً بعد اللہ تعالیٰ نے وھوکظیم کے الفاظ استعمال کئے ہیں جن کا مطلب یہ ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے غم کو دبانے میں کامیاب ہو گئے تو پھر کس طرح تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ حضرت یعقوبؑ نے رو رو کر آنکھیں ضائع کردیں۔ رو رو کر آنکھیں کھو دینے والے کو کوئی غم دبانے والا نہیں کہہ سکتا۔ اس لفظ کی موجودگی میں تو اگر ابیض کے معنے رو رو کر اندھا ہونے کے لغت میں ہوتے بھی تب بھی وہ اس جگہ چسپاں نہ ہوسکتے تھے۔
علاوہ ازیں حضرت یعقوب علیہ السلام کا اپنا قول قرآن کریم نے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا فصبر جمیل میں اعلیٰ درجہ کے صبر کا نمونہ دکھاؤں گا۔ اگر رو روکر انہوں نے آنکھیں ضائع کردی تھیں تو اعلیٰ درجہ کے صبر کا نمونہ دکھانے کا وہ کیونکر دعویٰ کرسکتے تھے۔
صبر کا مفہوم ایک حدیث سے اچھی طرح ظاہر ہو جاتا ہے۔ روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کو اپنے بیٹے کی قبر پر روتے دیکھا تو فرمایا کہ صبر کرو۔ عورت نے جواب دیا کہ اگر تیرا بیٹا فوت ہوجاتا تو کیسے صبر کرتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس کو معلوم نہیں ہوا کہ اسے نصیحت کرنے والے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بات سن کر فرمایا کہ میرے تو گیارہ بچے فوت ہوچکے ہیں اور میں نے صبر کیا ہے۔ یہ کہہ کر حضور چلے گئے۔ بعدمیں جب لوگوں نے اسے ملامت کی کہ تو نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا نامناسب جواب دیا تو وہ نادم ہوئی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہا کہ یارسول اللہ میں نے آپؐ کو پہچانا نہ تھا۔ میں نے اب صبر کیا۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا الصبر لاول وھلۃ صبر تو مصیبت کے پہلے صدمہ کے موقع پر ہوتا ہے۔ بعد میں تو سب ہی خاموش ہوجاتے ہیں۔ پس جب چند گھنٹے رو دھو کر خاموش ہوجانے سے بھی انسان بے صبر کہا سکتا ہے تو چالیس سال رونے والا کس منہ سے صبر کا اور پھر صبر جمیل کا دعویٰ کرسکتا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ غم کی کیفیت کو ایسا لمبا کرن جو انسان کو ناکارہ کردے خواہ اس غم کا لوگوں پر اظہار ہو یا نہ ہو اسی کا نام جزع فزع ہے جو ناپسندیدہ ہے۔ اور نبی کی شان سے بالکل بعید ہے کہ کسی بات پر وہ اس قدر غم کرے کہ اس کی ہلاکت کا مترادف ہو۔ اگر وہ روتے رہتے تھے تو دین کی خدمت کس طرح کرتے تھے۔ پس مجازی معنوں کی صورت میں بھی وہ معنے لینے چاہئیں جو حضرت یعقوبؑ کی شان کے مطابق ہوں نہ وہ جو انہیں عام مومن کے درجہ سے بھی گرا دیں۔
۸۲؎ حل لغات
مافتا یفعل کذا۔ ومافتی اے مازال۔ مافتی کے معنے ہیں کوئی کام لگاتار کرنا اور اس کا سلسلہ نہ توڑنا (اقرب) اور تفتؤاتذکر کے معنی ہوں گے کہ آپ ذکر کرتے ہی رہیں گے۔ حرض۔ حرض حروضا:- کان سفنا مرض وسقما۔ حرض کے معنی ہیں بیماری کی وجہ سے لاغر ہو گیا۔ الرجل نفسہ افسدھا اپنی حالت کو خراب کرلیا۔ حرض حرضا:- فسد بدنہ لایقدر علی النہوض:- جب اس کا مصدر حرضا آئے تو اس کے معنی ہوتے ہیں بدن اتنا کمزور ہو گیا کہ حرکت کے قابل نہ رہا اور حرض حراضۃ کے معنے ہیں طال ھمہ:- غم لمبا ہو گیا۔ الحرض الفسادفی البدن وفی المذھب وفی العقل۔ بدن، مذہب یا عقل میں کسی خرابی کے پیدا ہوجانے کو حرض کہتے ہیں المشرف علی الھلاک تمیۃ بالمصدر للمبالغۃ اور ہلاکت کے کنارہ پر پہنچے ہوئے شخص کو بھی حرض کہتے ہیں۔ مصدر مبالغہ کے لے استعمال ہوا ہے۔ جیسے کہتے ہیں زید عدل کہ زید تو مجسمہ عدل ہے۔ حرض کے اور بھی کئی معانی ہیں مثلاً من لاخیر عندہ وقیل من لایرجی خیرہ ولایخاف شرہ جس سے نہ تو کسی بھلائی کی امید ہو اور نہ ہی کسی تکلیف کا خطرہ ہو۔ من اذابہ الحزن اوالعشق جس کو غم یا عشق گھلا دے۔ الساقط لاخیر فیہ۔ نکما۔ الردیٔ من الناس ناکارہ شخص۔ المضنی مرضا وسقما ومنہ فی القران حتی تکون حرضا اے مدنفا۔ بیماری کی وجہ سے لاغر اور انہی معنوں میں قرآن مجید میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ (اقرب)
تفسیر
لاتفتؤا استمارو نفی کے لئے آتا ہے اور لایزال کے معنوں میں آتا ہے کبھی بغیر قسم کے استعمال ہے کبھی وہ ساتھ ملحوظ ہوتی ہے۔ یعنی تو ہمیشہ ایسا ہی کرتا رہے گا یہاں تک کہ تو کمزور ہو جائے گا۔ تو حرض کے معنے بالکل نکما یا ہلاک ہونے کے ہوئے۔
یوسفؑ کے بھائی تو اعتراض کرتے ہیں کہ تو اس طرح نکما ہو جائے گا مگر وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ حضرت یعقوب علیہ السلام اندھے ہوکر نکمے ہو گئے تھے وہ گویا کہتے ہیں کہ وہ اس خطرہ کے اظہار سے پہلے ہی نکمے ہوچکے تھے۔ حالانکہ خداتعالیٰ کے نبی ہمیشہ صبر کرتے ہیں اور اس طرح گھبراتے نہیں۔ ہم نے خود ایک نبی کو دیکھا ہے اور اس کے حالات کو بھی دیکھا ہے۔
۸۳؎ حل لغات
البث الحال۔ بث کے معنے ہیں حال۔ اشد الحزن۔ سخت غم۔ (اقرب)………
اصل البث التفریق واثارۃ الشئی۔ بث کے اصل معنے بکھیرنے اور منتشر کرنے کے ہیں۔ وبث النفس ماانطوت علیہ من الغم والسر۔ اور بث النفس کے معنے ہیں غم اور راز۔ انما اشکوا بثی اے غمی الذی یببثہ عن کتمان انما اشکوا بثی کے معنے ہیں کہ میں اپنے اس غم کی فریاد کرتا ہوں جس کا اظہار کئے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ غمی الذی بث فکری۔ ایسا غم جس نے فکر اور سوچ کی طاقت کو پراگندہ کر دیا ہو۔ (مفردات)
تفسیر
میں تو اپنی حالت اور غم کی شکایت صرف اللہ کے پاس کرتا ہوں واعلم من اللہ مالا تعلمون اور میں اس کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جاتے۔ اس میں اشارہ ہے کہ ان کو حضرت یوسفؑ کے زندہ ہونے کا علم خداوند تعالیٰ کی جانب سے دیا گیا ہوا تھا۔
۸۴؎ حل لغات
تحسسوا۔ تحسس استمع لحدیث القوم:- تحسس کے معنے ہیں قوم کی باتوں کو غور سے سنا۔ وطلب خبرھم فی الخیر اور ان کی اچھی بات کی جستجو کی۔ وقیل التحسس شبہ التستمع والتبصر اور بعض نے یوں بیان کیا ہے کہ تحسس کے معنوں میں ویسا ہی زور پایا جاتا ہے جیسے تسمع اور تبصر کے معنوں میں۔ یعنی کسی چیز کو غور سے سننا اور دیکھنا۔ چنانچہ مثال کے طور پر اخرج فتحسس لنا کا فقرہ ہے جس کے معنے ہیں کہ اے مخاطب جا اور جاکر مطلوبہ چیز کو اپنے حواس سے اچھی طرح طلب کر یعنی خوب غور سے اس کی جستجو کر۔ وقال ابوعبید تحسست الخبر وتحسیت اور ابوعبید نے کہا ہے کہ تحسست اور تحسیت جس کے معنے کسی چیز کو حواس سے طلب کرنے کے ہیں ہم معنے ہیں۔ من الشئی تخبر خبرہ۔ تحسست من الشئی کے معنے ہیں کہ کسی خبر کی جستجو کی۔ وبکل ماذکر فسر قول القران۔ یبنی اذھبوا فتحسسوا من یوسف واخیہ۔ مذکورہ بالا سارے معنے آیت فتحسسوا میں چسپاں ہوسکتے ہیں۔ (اقرب)
لامابئسوا:- یئس قنط اوقطع الامل۔ فہو یائس یئس کے معنے ہیں ناامید ہو گیا یا امید کو چھوڑ دیا اور ایسے شخص کو یائس کہتے ہیں۔ (اقرب) ولا تایئسوا کے معنے ہوں گے تم ناامید نہ ہو۔
روح۔ را۔ روحا۔ ذھب الیھم فی الرواح۔ روح راح کا مصدر ہے۔ اور راح کے معنے ہیں کسی کے پاس شام کو گیا۔ را الیوم۔ اذا کان ریحا طیبا۔ راح الیوم کے معنی ہیں ہوا والا خوشگوار دن۔ والروح بمعنی الراحۃ اور روح کے معنے ہیں راحت۔ ونسیم الریح تقول وجدت روح الشمال۔ بادنسیم اور انہی معنوں میں وجدت روح الشمال کا فقرہ استعمال ہوا ہے کہ میں نے شمال کی طرف سے بادنسیم کو محسوس کیا۔ والنصرۃ مدد۔ والعدل الذی یریح المشتکی ایسا عدل جو شکایت کرنے والے کو تسلی دے دے۔ والفرح۔ والسرور خوشی والرحمۃ رحمت ومنہ لاتایئسوا من روح اللہ۔ اور اس آیت میں یہی آخری معنے مراد ہیں۔ (اقرب)
تفسیر
اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کو حضرت یوسف علیہ السلام کے زندہ ہونے اور پھر مصر میں ہونے کی خبر خداتعالیٰ کی طرف سے حاصل تھی ورنہ ممکن نہیں ایک لڑکے کے متعلق جسے وہ سمجھتے ہوں کہ بھیڑیا کھا گیا گیا ہے یا اور کسی ذریعہ سے مر چکا ہے وہ اپنے بیٹوں کو تلاش کا حکم دیتے اور خصوصاً مصر میں تلاش کا حکم دیتے۔
اس آیت میں روحانی اور جسمانی ترقی کا بے عدیل گر بتایا ہے۔ تمام ناکامیوں کی جڑ ہمت ہار دینا ہے ۔ جو شخص قطعی اور یقینی علم کے بغیر کام ترک کر دیتا ہے ہمیشہ اپنے پیشہ میں یا اپنے مقصد میں ناکام رہتا ہے۔ معمولی سے معمولی پیشوں میں بھی یہ اصل کام دے رہا ہے۔ ایک بڑے آہن گر اور ایک معمولی آہن گر میں یہی فرق دیکھو گے کہ ایک ہر مشکل کام کے وقت کہے گا یہ نہیں ہوسکتا دوسر اس کے حل کرنے پر لگا رہے گا۔ اور آخر کامیاب ہو جائے گا۔ پیشوں میں ہی نہیں قدرت کے افعال میں بھی یہ اصل کام کررہا ہے۔ جو بیمار صحت کی امید دل سے نکال دیتا ہے اسے صحت ہونی مشکل ہوجاتی ہے۔ جو طالب علم کامیابی کا خیال چھوڑ دیتا ہے اس کا حافظہ کند ہونا شروع کر دیتا ہے۔ روحانی حالتوں میں بھی یہی اصل کام کررہا ہے۔ جو قومیں گناہ کی معافی کی قائل نہیں وہ گناہ کے دور کرنے کے لئے پوری جدوجہد بھی نہیں کرتیں۔ جو فطرت کی پاکیزگی کی قائل نہیں وہ روحانی طاقتوں کو ان کے کمال تک پہنچانے کی طرف بھی متوجہ نہیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مایوسی کی حالت کو دور کرنے کی طرف خاص توجہ فرمائی ہے۔ جیسے فرمایا کہ لکل داء دواء الا الموت۔ ہر مرض کی سوائے موت کے کہ اس کا آنا ضروری ہے دواء موجود ہے۔ یا فرمایا من قال ھلک القوم فھو اھلکھم جو کہے کہ قوم ہلاک ہو گئی ہے وہی قوم کا ہلاک کرنے والا ہے۔ کیونکہ وہ قوم کی امید کو توڑ کر اس کو ہلاکت کے قریب کر دیتا ہے۔ پس چاہئے کہ انفرادی طور پر بھی اور قومی طور پر بھی امید کی روح کو ترقی دی جائے۔ مگر یہ امر مدنظر رہے کہ امید ہو جس کے ساتھ قوتِ عملیہ ترقی کرتی ہے۔ نہ کہ امانی یا بیہودہ خواہشات ہوں جو سستی اور غفلت پیدا کرتی ہیں۔ جیسے مسلمانوں میں بجائے کوشش کرکے اپنی حالت درست کرنے کے خیال کے یہ خیال غالب رہا ہے کہ مسیح آکر سب دنیا کی نعمتیں ان کو دے دیں گے۔ امانی یعنی محض خواہشات جب مستقل طور پر دل میں بیٹھ جائیں تو وہ بھی ناامیدی کی طرح مہلک ہوتی ہیں۔
۸۵؎ حل لغات
الضر۔ ضد النفع۔ ضر کے معنے ہیں نقصان۔ سوء الحال والشدۃ۔ تنگ حالی وفی الکلیات الضر بالفتح شائع فی کل ضرد وبالضم خاص بما فی النفس کمرض وھزال کلیات میں یوں لکھا ہے کہ ضر کے معنے خاص اس تکلیف کے ہیں جو خود نفس میں ہو جیسے بیماری یا لاغر پن وغیرہ لیکن ضر کا لفظ عام ہے اور ہر تکلیف پر بولا جاتا ہے۔ (اقرب) المزجی۔ الشئی القلیل مزجی کے معنے ہیں تھوڑی سی چیز۔ بضاعۃ مزجاۃ۔ ای قلیلۃ۔ بضاعۃ مزجاۃ کے معنی ہیں تھوڑی سی پونجی۔ وقیل ردیۃ لم یتم صلاحبا فترد وتدفع رغبۃ عنہا۔ ایسی پونجی جس میں نقص ہو اور لوگ اس کو اچھا نہ سمجھ کر واپس کر دیویں۔ پس جئنا ببضاعۃ مزجاۃ کے معنی یہ ہوئے کہ ہم تیرے پاس حقیر اور تھوڑی چیز لائے ہیں۔ (اقرب)
تفسیر
عزیز عربی لفظ ہے اور اس کے معنی معزز یا کامیاب کے ہوتے ہیں۔ یہ کوئی خاص عہدہ نہیں معلوم ہوتا۔ گو اب کے زمانہ میں بادشاہ کے لئے بھی عزیز مصر کا لفظ استعمال ہونے لگ گیا ہے لیکن مصریوں کی زبان عربی نہ تھی کہ ہم یہ خیال کریں ان کے وزراء عزیز کہلاتے تھے۔ پس میرے نزدیک یہ صرف سردار کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اس صورت میں اس سے پہلے جو امرأۃ العزیز کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان کے معنے بھی یہی ہیں کہ اس سردار یا اس عہدیدار کی عورت یوسفؑ کے بھائیوں کا رویہ اس موقعہ پر ناقابل فہم ہے۔ یا تو وہ گناہ کی وجہ سے اخلاق میں گرتے چلے جاتے ہیں کہ آئے تو بھائیوں کی تلاش میں تھے لیکن کیا صرف یہ کہ غلہ کا سوال کرنا شروع کر دیا۔ یا یہ ہے کہ اس خوف سے کہ ہمیں کوئی سازشی نہ سمجھے سوال صرف پردہ کے طور پر کیا۔ اور اس طرح اپنے واپس آنے کی غرض کو لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ کر دیا۔
۸۶؎ تفسیر
معلوم ہوتا ہے اس موقع پر حضرت یوسفؑ کو غیرت آگئی اور وہ ڈرے کہ بھائی اپنے آپ کو اور ذلیل نہ کریں اور اپنے ظاہر کرنے کا ارادہ کرلیا۔
روحانی آدمی اور دنیادار میں کس قدر فرق ہوتا ہے۔ یوسفؑ کے بھائیوں نے یوسفؑ پر جسمانی طور پر ہی ظلم نہیں کیا ان کی عزت کو بھی برباد کرنا چاہا اور چوری کا الزام لگایا۔ اس کے برخلاف حضرت یوسفؑ ان کی غلطی کا ذکر کرتے ہیں تو اسے اذانتم جاھلون کہہ کر ہلکا کردیتے ہیں۔ یعنی جو کچھ تم لوگوں نے یوسف سے کیا تھا ایک بچپن کا کھیل تھا ورنہ تم لوگ تو بہت اچھے ہو۔ اخلاق کی ایسی ہی نمائشیں ہیں جو انسانیت کے حسن کو ظاہر کرتی ہیں اور جن کی نقل کرنے کی ہر شخص کو کوشش کرنی چاہئے۔
۸۷؎ تفسیر
حضرت یوسف علیہ السلام نے جس اعلیٰ رنگ میں گزشتہ واقعات کی طرف اشارہ کیا ہے اس سے اور حضرت یعقوبؑ کے زور دینے پر کہ یوسف زندہ ہے اس کی تلاش کرو اور مصر میں تلاش کرو ان کے ذہن فوراً اس طرف منتقل ہو گئے کہ کہیں یہی تو یوسف نہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے اخلاق کا پھر نمونہ دیکھو کہ انہیں ایک منٹ کے لئے شک میں نہیں رکھا اور فوراً اپنے آپ کو ظاہر کر دیا اور کس محبت سے تقویٰ اور صبر کی بھائیوں کو نصیحت بھی کی اور بتایا ہے کہ سوال کرنے اور اپنے آپ کو ذلیل کرنے سے انسان مشکلات پر غالب نہیں آتا۔ بلکہ اصل گر تقویٰ اللہ اور صبر ہے۔ یعنی خدا پر توکل رکھے اور عمل کو جاری رکھے۔ مصائب سے گھبرائے نہیں۔ الفاظ قرآن سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت انہوں نے بن یامین کو بھی بلالیا تھا تبھی فرمایا کہ یہ میرا بھائی ہے۔
۸۸؎ حل لغات
اثرہ ایثارا:- اختارہ واکرمہ۔ اثرہ۔ کے معنے ہیں ا سکو چن لیا اور اعزاز دیا۔ فضلہ اس کو بزرگی اور فضیلت دی اور قداثرک اللہ کے معنے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو فضیلت دی ہے۔ (اقرب)
تفسیر
اب یوسفؑ کے بھائیوں کی نیک فطرت نے بھی سر اٹھایا اور انہوں نے یوسف کی خواب کی صحت کو تسلیم کرلیا ور کہا کہ تیرا خواب آخر پورا ہو کر رہا اور باوجود ہماری مخالفت کے جس غلطی کا اب ہم اقرار کرتے ہیں خداتعالیٰ نے تجھ کو فضیلت دی۔
۸۹؎ حل لغات
التثریب۔ التفریع۔ تثریب کے معنے ہیں ڈانٹ ڈپٹ۔ والتقھیر بالذنب۔ قصور پر سرزنس۔ (مفردات)
ثریہ لامہ وعیرہ بذنبہ۔ ثربہ کے معنے ہیں غلطی پر ملامت کی اور قصور پر برا بھلا کہا۔ المریض نزع عہ ثوبہ جب ثرب کا مفعول مریض ہو تو ا سکے معنی ہوتے ہیں اس سے کپڑا اتارا وفی المصباح ثرب علیہ۔ عتب ولام۔ مصباح میں ثرب علیہ کے یہ معنے لکھے ہیں کہ قصور پر ملامت و سرزنش کی۔ وثربہ وثرب علیہ:- قبح علیہ فعلہ یقال لاتثریب علیکم:- ثربہ اور ثرب علیہ کے معنے ہیں کسی کے فعل کی برائی کا اظہار کیا۔ پس لاتثریب کے معنے ہوئے کہ تمہاری برائی کو کبھی ظاہر نہ کیا جائے گا۔ اور اس پر ملامت نہ کی جائے گی۔ (اقرب)
تفسیر
حضرت یوسف علیہ السلام نے پھر اعلیٰ اخلاق کا نمونہ دکھایا۔ا ور فوراً ان کی معافی کا اعلان کردیا۔ ورنہ اس وقت جبکہ ان کے بھائی غیرملک میں تھے اور بالل بے یارومددگار تھے نہ معلوم کیا کیا خیال آرہے ہوں گے کہ اب یوسف کس کس طرح ہم سے بدلہ لے گا پس حضرت یوسفؑ نے فوراً ہی اعلانِ وفو کرکے ان کے دلوں کو وساوس کی تکلیف سے بچا لیاجو اصل عذاب کی تکلیف سے کم نہیں ہوتی اور نہ صرف خود ہی معاف کیا بلکہ اللہ تعالیٰ سے بھی ان کی مغفرت کی دعا کی اور اپنے بھائیوں کو اس مغفرت کی امید دلائی۔ یوسف علیہ السلام کا یہ کام اس قدر عظیم الشان ہے کہ صرف اس ایک کام کی وجہ سے وہ زندہ جاوید کہلانے کے مستحق ہیں۔ قرآن کریم اور بائبل دونوں میں اس واقعہ کو لیا گیا ہے لیکن دونوں کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ایک نے حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ کو صرف اس امر کے اظہا رکے لئے بیان کیا ہے کہ تا یہ معلوم ہو کہ ابراہیم کی اولاد مصر کس طرح پہنچی اور دوسرے نے اس واقعہ کو اس کی اخلاقی خوبیوں کی وجہ سے بیان کیا ہے۔ اور خصوصاً اس امر کے اظہار کے لئے کہ ال اللہ مصائب سے گھبراتے نہیں اور ان کے اخلاق مظالم سے اور بھی ترقی کر جاتے ہٰں۔ دشمنوں کا ظلم ان کے اندر کینہ کی آگ نہیں بلکہ عفو اور سکینت کا گلزار پیدا کرتا ہے۔
سترھویں مشابہت
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت یوسفؑ سے اس امر میں بھی مشابہت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو بھی ہجرت کے بعد ترقی دی اور آخر وہی شہر جس سے آپؐ کو رات کے وقت نکلنا پڑا تھا آپؐ اس میں دن کے وقت دس ہزار قدوسیوںسمیت فاتحانہ طور پر داخل ہوئے۔ اس وقت آپؐ نے اہلِ مکہ سے سوال کیا کہ اب بتاؤ تم مجھ سے کس سلوک کی امید رکھتے ہو۔ وہ چونکہ اب آپؐ کا مقام سمجھ چکے تھے اور اب ان پر سورۃ یوسفؑ کی وحی کی حقیقت ظاہر ہوچکی تھی انہوں نے فوراً ہی جواب دیا کہ ہم اس سلوک کی امید رکھتے ہیں کہ جو یوسفؑ نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا۔ آپ نے فرمایا بہت اچھا لاتثریب علیکم الیوم آج تم سے کوئی بازپرس نہ ہوگی۔ تمہارے سب گناہوں کو معاف کیا جاتا ہے ۔ اللہ اللہ! وہ کیسا عجیب نظارہ ہوگا۔ بیس سال کے متواتر اور دل ہلا دینے والے ظلموں کے بعد آپؐ کے دشمن آپؐ کے سامنے پیش ہوئے۔ کون ہے جو ان سے دس گنے کم ظلموں کو بھی معاف کرسکتا تھا۔ مگر آپؐ نے بغیر ماتھے پر شکن ڈالنے کے سب کو معاف کر دیا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب بوجہ بیماری مسجد میں رتشریف نہ لے جاسکتے تھے تو اکثر مغرب اور عشاء کی نماز میں قریباً بلاناغہ سورۃ یوسف کی یہ آیات تلاوت فرماتے تھے۔ مجھے خوب یاد ہے کہ بل سولت لکم انفسکم سے لے کر ارحم الراحمین تک کی آیات آپؑ اس قدر دردناک لہجہ میں تلاوت فرماتے کہ دل بے تاب ہو جاتا تھا۔ وہ آواز آج تک میرے کانوں میں گونجتی ہے اور شاید میں اب تک اس لہجہ کو صحیح طور پر نقل کرسکتا ہوں۔ اس کا موجب بھی وہی تھا کہ آپؑ کے اور آپؑ کی قوم کے درمیان بھی یوسفؑ اور اس کے بھائیوں والا معاملہ گزر رہا تھا۔ اگلی آیت کے متعل مجھے شبہ ہے کہ آیا یہ بھی پڑھتے تھے یا نہیں اور یہ بھی شبہ ہے کہ سب آیات ایک ہی رکعت میں پڑھتے تھے یا دونوں رکعتوں میں تقسیم کرکے پڑھتے تھے۔
۹۰؎ حل لغات
البصیر۔ المقتدر علی النظر خلاف الضریر۔ بصیر کے معنے ہیں صحیح سالم نظر والا۔ رجل بصیر بکذا۔ عالم بہ خبیر:- عالم واقف کار شخص (اقرب)
تفسیر
لوگ کہتے ہیں کہ اس فقرہ سے ان کو ملامت کی ہے کہ جیسے تم نے پہلے قمیص ڈالی تھی ویسے ہی اب بھی قمیص لے جاؤ تاکہ شرمندہ ہوں۔ مگر میرے نزدیک یہ کمال عفو ہے کہ پہلے وہ قمیص لے جانے سے ہی ناراض ہوئے تھے اب بھی قمیص کے ذریعہ بشارت دو تاکہ وہ تم سے خوش ہوں۔ اور تمہارے گناہوں کی خداتعالیٰ سے معافی مانگیں۔ لاتثریب علیکم کہہ کر جب خود معاف کر دیا تو قمیص دے کر یہ خواہش ظاہر کی کہ باپ بھی ان کے لئے دعا کرے۔
یات بصیرا سے یہ مراد ہے کہ پہلے اس کو مومنانہ شان سے علم تھا کہ میرا بیٹا زندہ ہے مگر اب وہ بصیرت ظاہری پاکر میرے پاس آئے گا کہتے ہیں۔ رجل بصیر بکنھہ ای عالم بہ خبر۔ یعنی رجل بصیر کے معنے عالم اور واقف کار کے بھی ہوتے ہیں۔ مطلب آیت کا یہ ہے کہ پہلے الہام کے ماتحت جو حضرت یعقوبؑ کو ایمان تھا وہ اب امر واقعہ کے علم کی صورت میں بدل جائے۔ آخر میں بھائیوں کو عفو سے بڑھ کر حسنِ سلوک کی بشارت دی اور انہیں اپنے اہل سات لاکر ان نعمتوں میں شریک ہونے کی دعوت دی۔ جو خداتعالیٰ نے یوسف علیہ السلام کو عطا فرمائی تھیں۔
۹۱؎ حل لغات
فصل من البلد فصولا:م خرج منہ فصل من البلد کے معنے ہیں کہ شہر سے نکل پڑا۔ (اقرب)
الفصل۔ ابانۃ احد الشیئین من الاخر حتی یکون بینھما فرجۃ:- فصل کے معنے ہیں ایک چیز کو دوسری سے ایسے طور پر الگ کرنا کہ دونوں کے درمیان کچھ فاصلہ ہوجائے۔ وفصل القوم عن مکان کذا وانفصلوا فارقو۔ کسی جگہ سے علیحدہ ہوئے۔ (مفردات)
التفنید:- نسبۃ الانسان الی الفند:- وھو ضعف الری:- تفنید کے معنے ہیں کسی کی طرف ضعف رائے منسوب کرنا۔ لولا ان تفندون:- قیل ان تلوموفی۔ بعض نے لولا ان تفندون کے معنے یہ کئے ہیں کہ اگر تم مجھے ملامت نہ کرو۔ (مفردات)
فندالرجل فندا:- خرف وانکر عقلہ لھرم اومرض فندالرجل کے معنے ہیں کہ بیماری یا بڑھاپے سے عقل کمزور ہو گئی۔ فی القول والری اخطا کسی بات یا رائے میں غلطی کرنا کذب۔ جھوٹ بولا۔ تفندون۔ فند ماضی سے مضارع جمع مخاطب کا صیغہ ہے اور فند کے معنے ہیں کذبہ ا سکو جھٹلایا۔ جھلہ۔ اس کو نادان قرار دیا۔ عجزہ۔ عاجز قرار دیا۔ لامہ اسکو ملامت کی۔ خطارایہ وضعفہ رائے کو غلط اور کمزور قرار دیا۔ (اقرب)
تفسیر
ریح یوسف سے مراد ان کی خبر ہے جس کبی چیز کے قریب عرصہ میں ملنے کی امید ہو تو کہتے ہیں کہ مجھے اسکی خوشبو آرہی ہے۔ یہی مراد حضرت یعقوب علیہ السلام کی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی فرماتے ہیں:
آرہی ہے اب تو خوشبو میرے یوسف کی مجھے
گو کہو دیوانہ میں کرتا ہوں اس کا انتظار
لولان ان تفندون سے یہ مراد نہیں کہ تم مجھے پاگل نہ کہو بلکہ یہ فقرہ زور دینے کے لئے ہے۔ یعنی اگر تم مجھے پاگل نہ سمجھو تو میں یہ کہتا ہوں کہ یوسف کی ملاقات کا وقت قریب آ گیا ہے۔ اور گو یہ امر تمہاری سمجھ سے بالا ہے لیکن ہے بالکل سچا اور درست۔
۹۲؎ تفسیر
ملہم اور غیر ملہم میں کتنا فرق ہوتا ہے۔ ملہم خداتعالیٰ کے کلام پر ایمان لاکر جس یقین کے مقام پر ہوتا ہے دوسروں کو وہ کب نصیب ہوسکتا ہے۔ باوجود حضرت یعقوبؑ کے بتادینے کے ان کے گھر کے لوگ پھر بھی اس خبر کی تصدیق کرنا ناممکن سمجھتے ہیں اور آپ کو غلطی پر قرار دیتے ہیں۔
ضلال کے معنے غلطی پر ہونے کے بھی ہوتے ہیں اور محبت سے کسی امر پر قائم ہونے کے بھی ہوتے ہیں۔ گو اس فقرہ کے کہنے والے دوسرے لوگ ہیں لیکن چونکہ پھر بھی وہ مومن تھے خواہ کس قدر کمزور کیوں نہ ہوں اس جگہ پر یہی معنے چسپاں ہوتے ہیںکہ آپ اپنی شدت محبت کی وجہ سے ایسا خیال کرتے ہیں کہ آپ کے الہام کے ظاہری معنے ہیں ورنہ یوسف کا ملنا اب کہاں ممکن ہے۔
۹۳؎ حل لغات
ارتد علی اترہ۔ رجع ارتد علی اثرہ کے معنے ہیں اپنے نشان پر واپس لوٹا۔ الی حالب عاد۔ اپنی اصلی حالت پر آگیا وفی القران فارتد بصیرا اے عاد بصیرا بعد العمی اور قرآن مجید کی آیت فارتد بصیرا کے معنے ہیں ناواقفیت کے بعد پھر صاحب بصیرت اور صاحبِ علم ہو گیا۔ بصیرا۔ بصر بہ وبصر بصارۃ وبصرا:- علمہ بہ جب بصر کے ساتھ ب کا صلہ آئے یا اس کا مصدر بصارۃ اور بصر ہو تو ا سکے معنے ہوتے ہیں کسی چیز کے متعلق اس کو اچھی طرح علم اور واقفیت حاصل ہو گئی۔
البصیر:- رجل بصیر بکذا۔ عالم بہ خبیر۔ رجل بصیر کے معنے ہوتے ہیں کہ خوب واقف کار عالم آدمی (اقرب) پس ارتد بصیرا کے معنے ہوں گے کہ حضرت یعقوبؑ حضرت یوسفؑ کے معاملہ میں اچھی طرح صاحب بصیرت ہو گئے۔
تفسیر
القی علی وجہ کے ظاہری معنے تو یہی ہیں کہ ان کے منہ پر ڈال دی لیکن قال الم اقل لکم سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت جو کچھ ظاہر ہوا حضرت یوسفؑ کا معجزاہ نہ تھا بلکہ حضرت یعقوبؑ کا ورنہ قمیص سے آنکھیں اچھی ہونے پر انہیں چاہئے تھا کہ کہتے کہ دیکھو یوسفؑ نے کتنا بڑا معزہ دکھایا ہے کہ اس کی قمیص سے میری آنکھیں اچھی ہو گئی ہیں۔ مگر وہ قمیص ڈالنے کے نتیجہ میں کہتے یہ ہیں کہ دیکھو میری بات سچی ہو گئی کہ یوسفؑ زندہ ہے۔ پس اس سے ظاہر ہے کہ مطلب آیت کا ہی ہے کہ جب یوسفؑ کی قمیص حضرت یعقوبؑ کے سامنے رکھی گئی تو جو علم پہلے الہامی تھا اب وہ واقعاتی بن گیااور حضرت یعقوبؑ نے جیسا کہ انبیاء کی سنت ہے اپنی خوشی کو بھول کر اللہ تعالیٰ کی عظمت بیان کرنی شروع کردی کہ دیکھو جو خداتعالیٰ نے کہا وہ سچ نکلا۔
ارتد بصیرا۔ سے یہ مراد نہیں کہ اندھے تھے پھر بینا ہوگئے بلکہ یہ کہ جس امر کو پہلے ایمان سے تسلیم کرتے تھے اب ظاہری علم کے ماتحت امرواقع کی طرح اس کو ماننے لگ گئے۔ الہام کی حقیقت پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کا علم دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک جو روحانی طور پر انہیں عطا ہوتا ہے اور دوسرا ظاہری حواس سے۔ جب کسی الہام کے ذریعہ سے کوئی خبر ملے تو ایمانی طور پر اس کا علم ہوتا ہے۔ لیکن وقعہ کے طورپر نہیں پھر جب ظاہری حواس سے اس خبر کی تصدیق ہوجاتی ہے تو ایک دوسری قسم کا علم ان کو حاصل ہوتا ہے جس میں دوسرے لوگ بھی ان کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔ اسی دوسرے علم کے حصول کے اظہار کے لئے فارتد بصیرا کے الفاظ استعمال کئے ہی۔ کیونکہ جب باطنی اور ظاہری حواس دونوں ایک خبر کے مصدق ہوں تو علم کامل ہو جاتا ہے۔ جب تک ظاہری حواس سے وقوعہ کا علم نہ ہو یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ شاید آسمانی خبر تعبیر طلب ہو۔ یا اس کی کوئی اور توجیہہ ہو۔ لیکن جب ظاہر میں بھی خبر پوری ہو جاتی ہے تو انسان کو بصیرت کامل حاصل ہوجاتی ہے اور شبہ کا کوئی شائبہ باقی نہیں رہتا۔
۹۴؎ تفسیر
جب تک انسان کا گناہ بخشا نہیں جاتا اس کے دل پر اس کا اثر رہتا ہے۔ چنانچہ یوسف کے بھائیوں سے اس وقت تک ایسی حرکات سرزد ہوتی رہی ہیں جو قلب کی صفائی کے نقص پر دلالت کرتی تھیں۔ لیکن جب حضرت یوسفؑ کی طرف سے لاتثریب علیکم کہا گیا اور اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے عفو کے ساتھ اپنے عفو کو شامل کر دیا تو یوسفؑ کے بھائیوں کی بھی حالت بدل گئی اور انہوں نے اپنی توبہ کو کافی نہ سمجھ کر اپنے باپ سے بھی درخواست کی کہ تو ہمارے لئے خدا سے استغفار طلب کر۔ عام طور پر ایسے موقعہ پر لوگ کہا کرتے ہیں کہ آپ ہمیں معاف کر دیں مگر اب وہ یہ نہیں کہتے کہ تو ہمیں معاف کر بلکہ یہ کہتے ہیں کہ تو ہمارے لئے کدا سے مغفرت طلب کر۔ کیونکہ توبہ کے ساتھ ہی ان کے دل پر یہ روشن ہو گیا ہے کہ انسانی سزا یا ناراضگی خداتعالیٰ کی ناراضگی کے مقابل پر کوئی شے نہیں اس لئے سب سے پہلے انہیں خداتعالیٰ سے صلح کرنی چاہئے اور اس کے نبی کے توسط سے اس کا عفو طلب کرنا چاہئے۔ اس درخواست میں حضرت یعقوبؑ کی معافی خود ہی آگئی کیونکہ خداتعالیٰ سے ان کے لئے معافی وہ تب ہی طلب کرسکتے تھے جبکہ خود معاف کرچکے ہوں۔
۹۵؎ تفسیر
اس جگہ ایک عجیب نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے۔ حضرت یعقوبؑ نے سوف کا لفظ بولا ہے جو مستقبل بعید کے لئے اور کلام پر زور دینے کے لئے آتا ہے۔ اس میں انہوں نے گویا انسانی فطرت کا صحیح نقشہ کھینچا ہے۔ اور بتایا ہے کہ رنج اور غصہ زائل ہوکر فوراً نئی محبت پیدا نہیں ہوسکتی۔ انسان کے دل سے رنج و غصہ کے اثرات مٹنے کے لئے ایک زمانہ چاہئے۔ حضرت یوسفؑ تو چونکہ دیر سیت یار ہورہے تھے کہ معاف کر دیں اس لئے انہوں نے سوف نہیں کہا بلکہ فوراً لاتثریب علیکم الیوم یغفراللہ لکم کہہ دیا۔ مگر حضرت یعقوبؑ کو اچانک یہ خبر ملی اس لئے انہوں نے کہا کہ کچھ وقت چاہئے تا قلب سے ناراضگی کا اثر دور ہوکر استغفار کی تحریک ہو۔ مگر ساتھ ہی انہوں نے اپنے بیٹوں کے اس ملال اور گھبراہٹ کو جو سوف کے لفظ کی وجہ سے پدیا ہوسکتا تھا انہ ھوالغفور الرحیم کہہ کر دور کر دیا کہ گھبراؤ نہیں اللہ تعالیٰ تمہارے زنگ دھودے گا اور بہت رحم کرے گا۔
ہمارے ملک میں بعض لوگ قصور کرکے اسی وقت اڑ بیٹھے ہیں ہ آپ معاف کریں گے تو اٹھوں گا اور ان کی مراد اس معافی سے یہ ہوتی ہے کہ دل میں ان کے متعلق وہی محبت پیدا ہوجائے۔ حالانکہ یہ بات قدرتی قاعدہ کے خلاف ہے۔
معافی دو قسم کی ہوتی ہے ایک یہ کہ سزا نہ دی جائے۔ یہ تو ایک منٹ میں ہوسکتی ہے۔ دوسر یہ کہ پھر وہی تعلقات محبت ہوجائیں۔ سو اس کے لئے کچھ وقت ہوتا ہے اور یہ جبر یا ستیہ گرہ سے نہیں ہوسکتی۔
۹۶؎ تفسیر
اللہ تعالیٰ نے بار بار ابویہ کا لفظ رکھ کر یہ بتایا ہے کہ باوجودیکہ حضرت یوسفؑ کی حقیقی والدہ فوت ہوچکی تھیں اور موجودہ والدہ ان کی سوتیلی والدہ تھیں مگر وہ ان کا پورا ادب اور لحاظ و احترام کرتے تھے۔ اس میں یہ نصیحت ہے کہ اولاد کو یہ مدنظر رکھنا چاہئے کہ سوتیلی مائیں بھی مائیں ہی ہوتی ہیں۔ ان کے ساتھ سلوک کرے میں اور ان کے احترام میں اسلام کوئی فرق نہیں کرتا۔ پس اولاد کو چاہئے کہ وہ ان کا بھی ویسا ہی لحاظ کریں جیسا کہ حقیقی ماؤں کا کرنا چاہئے۔
ادخلوا مصر سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت یوسفؑ اپنے باپ کے استقبال کے لئے آگے آئے تھے۔ جس سے ثابت ہوا کہ ایک نبی بھی اپنے والدین کے استقبال کے لئے باہر جاتا ہے تو استقبال نہ صرف جائز بلکہ پسندیدہ امر ہے۔
حضرت یوسفؑ کی روحانیت دیکھو کہ ان کے بھائی تو بڑے بڑے کاموں کے لئے انشاء اللہ نہیں بولتے اور تمام کاموں کو اپنی طرف منسوب کرتے ہیں۔ مگر یہ ہیں کہ اس حالت میں بھی کہ شہر سامنے ہے سواریاں موجود ہیں اور خود گویا وزیراعظم ہیں مگر انشاء اللہ کہہ رہے ہیں کہ باوجود ان سامانوں کے ممکن ہے کہ اگر خدا نہ چاہے تو ہم داخل نہ ہوسکیں۔
سچے دل سے انشاء اللہ کہنا روحانی ترقی سے بہت کچھ تعلق رکھتا ہے۔ زندگی سے ماضی انسان کے بس سے نکل چکا ہوتا ہے۔ حال اتنا چھوٹٓ عرصہ ہے کہ درحقیقت وہ ماضی اور مستقل کی سرحد کا نام ہے۔ باقی رہا مستقبل سو وہی اصل زمانہ ہے جس سے انسان فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ پس انسان مستقل کے کاموں کے ساتھ انشاء اللہ کہتا ہے تو اپنے ارادہ اور فعل میں خداتعالیٰ کو شامل کرلیتا ہے اور اس طرح انہیں شیطانی تصرف سے بچانے کی کوشش کرتا ہے اور یہ یقینی امر ہے کہ جو شخص سچے دل سے انشاء اللہ کہہ کر اپنے کام میں اللہ تعالیٰ کو شامل کرلے گا جب اس کام کا وقت آئے گا تو وہ اسے نیکی اور تقویٰ کے ساتھ ادا کرنے کی کوشش کرے گا۔
دوسرے جب کوئی شخص انشاء اللہ سوچ سمجھ کر کہنے اور پھر مستقبل کے کام کے متعلق کہنے کی عادت ڈال لے تو وہ گناہ کا ارادہ کرنے سے بچ جاتا ہے۔ کیونکہ گناہ کے متعلق انشاء اللہ نہیں کہا جاسکتا۔ پس جب کبھی کسی بد فعل کے متعلق وہ ارادہ ظاہر کرنے لگے گا انشاء اللہ عادت اس کے دل میں ندامت اور شرمندگی پیدا کردے گی۔ علاوہ ازیں انشاء اللہ کہنے کی عادت ذکرالٰہی کا باعث ہوتی ہے اور توکل کا سبق دیتی ہے اور یہی باتیں روحانیت کی جان ہیں۔
ادخلوا امنین کے الفاظ گو دعائیہ نہیں لیکن مراد اس سے دعا ہے۔ شاید حضرت یوسفؑ کو الہاماً ان خطرات کا علم دیا گیا ہو جو آئندہ آل یعقوب کو مصر میں پیش آنے والے تھے۔ پس انہوں نے ان کے لئے دعا کردی کہا للہ تعالیٰ ان خطرات کے تباہ کن اثرات سے ان کو محفوظ رکھے۔ اس معاملہ میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت یوسفؑ سے مشابہت ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی شہر میں داخل ہونے سے پہلے دعا کرلیا کرتے تھے۔ آپؐ شہر میں داخلہ سے پہلے ان الفاظ میں دعا کرتے اللھم رب السموت السبع ومااظللن ورب الارضین السبع ومااقللن ورب السیطین وما اضللن ورب الریاح وماذرین۔ فانا نسئلک خیرھذہ القریۃ وخیر اھلہا وخیر مافیہا ونعوذبک من شر ھذہ القریۃ وشر الھلہا وشر مافیہا اللہم بارک لنا فیہا وارقنا جناھا (یاجیاھا) واعذنا من وباھا وجببنا الی اھلہا وحبب صالحی اھلہا الینا۔ میرا اور دوسرے دوستوں اور ہم سے پہلے بزرگوں کا بھی یہ تجربہ ہے کہ جو لوگ یہ دعا پڑھتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرتا ہے اور ان کو آفات سے بچاتا ہے۔
۹۷؎ حل لغات
رفعہ رفعا ضد وضعہ۔ رفع کے معنے ہیں بلند کرنا۔ زیدا الی الحاکم رفعا ورفعانا قدمہ الیہ للمحاکمۃ زید کو حاکم کے سامنے مقدمہ کے فیصلہ کے لئے حاضر کیا۔ الی السلطان رفعانا قرب۔ بادشاہ کے حضور پیش کیا۔ (اقرب)
الرقع یقال تارۃ فی الاجسام الموضوعۃ اذا اعلیتہا عن مقرھا وتارۃ فی المنزلۃ اذا شرفتہا۔ رفع کا لفظ جب اجسام کے لئے استعمال ہو تو کبھی اس کے معنے ان کو ان کی اصل جگہ سے بلند کرنے کے ہوتے ہیں اور کبھی درجہ اور رتبہ میں فضیلت دینے کے۔ والی السماء کیف رفعت۔ اشارۃ الی المضنیتین الی اعلاء مکانہ والی ماخص بہ من الفضیلۃ وشرف المنزلۃ چنانچہ آیت الی السماء کیف رفعت میں رفع کے دونوں مذکورہ بالا معنے مراد ہیں۔ بلندی مکان اور فضیلت و شرف۔ (مفردات)
العرش۔ سہیر الملک۔ اورنگ شاہی۔ (اقرب)
العرش فی الاصل شیء مسقف۔ عرش کے اصل معنی چھتی ہوئی چیز کے ہیں۔ ومنہ قیل عرشت الکرم وعرشتہ۔ اذا جعلت لہ کھیئۃ سقف۔ چنانچہ انہی معنوں میں عرشت الکرام کا فقرہ استعمال ہوتا ہے کہ انگوروں کی بیل کے پھیلنے کے لئے چھت کی قسم کی کوئی چیز بنادی۔ وسمی مجلس السلطان عرشا اعتبارا بعلوہ۔ اور بادشاہ کی مجلس کو اس کی رفعت کی وجہ سے عرش کہہ دیتے ہیں۔ وکنی بہ عن العز والسلطان والمملکۃ۔ نیز عرش سے مراد کنایۃً عزت و غلبہ اور بادشاہت بھی لی جاتی ہے۔ مزید تشریح کے لئے دیکھو یونس۵؎ پس رفع ابویہ علی العرش کے معنے ہوئے کہ اس نے اپنے ماں باپ کو تخت پر بٹھایا یا بادشاہ کے حضور پیش کیا۔ (مفردات)
خروا۔ خر ماضی سے جمع غائب کا صیغہ ہے۔ جس کے معنے ہیں سقط۔ سقوطا لما یسمع منہ خریر۔ ایسے طور پر گرنا کہ اس سے آواز سنائی دے۔ والخریر یقال لصوت الماء والریح وغیر ذلک مما یسقط من علو۔ اور خریر اس آواز کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے اوپر سے گرنے یا ہوا اور پانی کے چلنے سے پیدا ہو۔ وقولہ خروا سجدا فاستعمال الخر تنبیہ علی اجتماع امرین۔ السقوط۔ وحصول الصوت فیہم بالتسبیح۔ اور خروا سجدا کے الفاظ سے دو باتوں کی طرف اشارہ ہے۔ (۱) گرنا (۲) تسبیح کرنے کی وجہ سے آواز کا پیدا ہونا۔ (مفردات)
نرغہ:- طعن فیہ۔ نزغ کے معنے ہیں طعنہ زنی کی۔ اغتابہ کسی کی غیبت کی۔ وذکرہ بقبیح۔ اور اس کے متعلق بدگوئی کی۔ اور نزغ بین القوم کے معنی ہیں اغری وافسد وحمل بعضہم علی بعض۔ کہ قوم کے درمیان بگاڑ و فساد ڈالا اور ایک کو دوسرے کے خلاف برانگیختہ کیا۔ اور نزغ الشیطن بینہم انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے کہ شیطان نے ان کے درمیان بگاڑ ڈال دیا۔ (اقرب)
شیطن کا لفظ دو مختلف مادوں سے بن سکتا ہے۔ (۱) شطن۔ (۲) شاط یا تو یہ شطن سے فیعال کے وزن پر ہے اور شطن عنہ کے معنے ہیں ابعد دور ہو گیا۔ اور شطن الدار کے معنے ہیں گھر دور ہو گیا۔ پس اس مادہ کے لحاظ سے اس کے معنے ہوں گے کہ وہ ہستی جو حق سے خود بھی دور ہے اور دوسروں کو بھی دور کرنے والی ہے اور اگر شاط اس کا مادہ مانا جائے تو اس کے معنے ہوں گے کہ وہ ہستی جو حسد اور تعصب کی وجہ سے جل جائے یا ہلاک ہو جائے۔ کیونکہ شاط الشئی کے معنے ہیں احترق جل گئی اور شاط فلان کے معنی ہیں ھلک ہلاک ہو گیا۔ شیطن اس سے فعلان کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے۔ ان معنوں کے علاوہ شیطن کے معنے لغت میں مندرجہ ذیل لکھے ہیں۔ روح شریر۔ بدروح۔ کل عات متمرد۔ سرکش اور حد سے بڑھنے والا۔ الحیۃ سانپ۔ (اقرب)
لطیف۔ لطف میں سے بنا ہے جس کے معنے ہیں لطف بہ ولہ لطفا۔ رفق بہ۔ نرمی کی۔ لطف اللہ للعبد وبالعبد۔ رفق بہ۔ اللہ نے بندے پر شفقت کی۔ واوصل الیہ مایحب برفق۔ اور اس کی مراد اچھی طرح پوری کردی۔ وفقہ۔ نیک کام کی توفیق دی۔ عصمہ۔ اس کو شر سے محفوظ رکھا۔ لطف الشئی لطافۃ۔ صغر ودق۔ لطف الشئی کے معنے ہیں کہ کوئی چیز چھوٹی اور باریک ہو گئی۔ من الاسماء الحسنی معناہ البر بعبادہ المحسن الی خلفۃ بایصال المنافع الیہم برفق ولطف اوالعالم بخفا یاالامور ووقائقہا۔ اور جب لطیف کا لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے بولا جائے تو اس کے معنے ہوتے ہیں کہ بندوں پر اور مخلوق پر احسان اور شفقت و مہربانی کرنے والا۔ اور محبت و احسان کے ساتھ ان کو نفع پہنچانے والا۔ مخفی باتوں کو جانے والا۔ (اقرب)
تفسیر
……… رفع کے معنے اعلیٰ پایہ کے انسان کے سامنے پیش کرنے کے بھی ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں رفع الی السلطان اے قربہ۔ بادشاہ کے حضور پیش کیا۔ پس اس آیت کے وہ معنے ہوسکتے ہیں۔ اول یہ کہ انہوں نے اپنے والدین کو بادشاہ کے پیش کیا۔ بائبل سے انہی معنوں کی تصدیق ہوتی ہے۔ کیونکہ اس میں لکھا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے والدین کو بادشاہ کے پیش کیا۔ دوسرے یہ معنے ہوسکتے ہیں کہ ان کو اپنے تخت پر بٹھایا۔ پرانے زمانہ میں رواج تھا کہ نائب سلطنت کے لئے بھی ایک تخت ہوا کرتا تھا۔ پس ممکن ہے کہ حضرت یوسفؑ کے لئے بھی ایک تخت مقرر ہو اور حضرت یوسفؑ نے بادشاہ کی اجازت سے ان کو اپنے تخت پر بٹھایا ہو۔
وخروالہ سجدا۔ خرالماء یخر خریرا۔ صات پانی نے بہتے ہوئے آواز پیدا کی۔ وکذلک الریح والقصب اسی طرح ہوا کے چلنے اور سرکنڈوں کے ہلنے سے جب آواز پیدا ہو تو خر کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ العقاب۔ صات خفوق جناحیہا۔ عقاب کے لئے جب خر کا لفظ بولا جائے تو یہ مراد ہوگی کہ اس کے بازوؤں کے ہلنے سے آواز پیدا ہوئی۔ النائم غط سونے والے نے اونچی سے آواز سے خرانٹے لئے۔ خرسا جدا۔ انکب علی الارض۔ سجدہ کرتے ہوئے زمین پر گر گیا۔ والحجر۔ صوت منحدرا۔ پتھر کے گرنے سے آواز پیدا ہوئی۔ (اقرب الموارد)
خر کے جتنے معنے بیان ہوئے ہیں ان سب میں آواز کے معنے پائے جاتے ہیں۔ اسی بنا پر بعض مفسرین نے کہا ہے کہ خر ساجدا یہ اس وقت بولیں گے جبکہ کوئی شخص بے تحاشا سبحان اللہ کہتا ہوا گر پڑے۔ اگر آواز ساتھ نہ ہو تو خالی سجد بولا جائے گا۔ تو خروا لہ سجدا کے معنے یہ ہوئے کہ وہ بے تحاشا سبحان اللہ کہتے ہوئے سجدے میں گر گئے یا انہوں نے برے جوش و خروش سے سجدہ کیا اور ان کے اس طرح سجدہ میں گرنے سے ایک آواز بھی پیدا ہوئی۔
یہ مراد نہیں کہ انہوں نے بادشاہ کو سجدہ کیا بلکہ یہ مراد ہے کہ یوسفؑ کی ترقی کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ میں گر گئے۔ پس یوسف علیہ السلام سجدہ کے باعث تھے نہ کہ مسجود۔
وقد احسن بی۔ اس آیت سے نبیوں کے اعلیٰ آداب کا پتہ چلتا ہے۔ حقیقت تو یہ تھی کہ وہ لوگ قحط اور تنگی سے بچ کر عزت اور آرام کے مقام پر چلے آئے تھے مگر حضرت یوسف علیہ السلام کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر احسان کیا ہے۔ آپ لوگوں کو یہاں لے آیا ہے۔ مومن کو کلام کرتے ہوئے ہمیشہ اس اصل کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ دوسرے کی دل شکنی نہ ہو بلکہ اس کا ادب اور احترام کلام سے ظاہر ہو۔ یہ نہ صرف تمدن کی ترقی کا موجب ہوتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا بھی موجب ہوتا ہے۔ بعض لوگ کلام میں بے احتیاطی کرتے ہیں اور اس کا نام سادگی رکھتے ہیں حالانکہ نبیوں کا یہ طریق نہیں وہ ہمیشہ کلام میں دوسرے کا ادب اور احترام ملحوظ رکھتے ہیں اور یہی طریق مومنوں کو اختیار کرنا چاہئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت آتا ہے ادنیٰ سے ادنیٰ آدمی سے کلام کرتے تو اس کی طرف متوجہ ہوکر کلام کرتے اور اگر کوئی آپؐ سے کلام کرتا تو اس کی طرف متوجہ ہوکر سنتے۔ آج کل بڑے لوگوں میں یہ عادت ہوگئی ہے کہ جب کسی سے کلام کرتے ہیں تو اس کی طرف آدھا رخ رکھتے ہیں اور جب کوئی ان سے کلام کرے تو اس کی طرف پورے متوجہ نہیں ہوتے۔ یہ سب غیرمومنانہ افعال ہیں ان سے مومن کو کلی اجتناب چاہئے ورنہ دل پر زنگ لگ کر کبر پیدا ہو جاتا ہے۔
ہر بری تحریک جد کا منبع معلوم نہ ہو قرآن اسے شیطان کی طرف منسوب کرتا ہے کیونکہ وہ باریک خیالات کا نتیجہ ہوتی ہے اور شیطان کا لفظ اپنے مادہ شطن کے لحاظ سے ایک ایسی ہستی پر دلالت کرتا ہے جو دور سے وساوس پیدا کرتی ہے اور کبھی یہ لفظ اس بدروح کے لئے استعمال ہوتا ہے جو فرشتوں کے مقابلہ پر بدی کے اسباب کی محرک ہوتی ہے اور کبھی ان پوشیدہ تحریکات پر جو گزشتہ اعمال کے نتیجہ میں دل میں پیدا ہوکر انسان کو ایسے موقع پر گناہ کی طرف لے جاتی ہے جبکہ بظاہر اس کے بدی میں مبتلا ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہوتی۔
اللہ تعالیٰ کے لئے جب لطیف کا لفظ آوے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ وہ مخفی باتوں کو جاننے والا۔ لوگو کی خبرگیری کرنے والاا ور محبت اور احسان کے ساتھ ان کو نفع پہنچانے والا ہے۔ گویا وہ خبرگیری کرتا ہے اور اس کی خبرگیری کا منبع محبت ہوتی ہے۔ وہ خبرگیری کرنے کے ذرائع پیدا کرتا ہے اور اس کا محرک بھی محبت ہی ہوتی ہے اور احسان کرتا ہے تو وہ بھی رفق اور لطف کے ساتھ کرتا ہے۔ یعنی باوجودیکہ وہ غنی ہے مگر اپنے استغناء کو بندے سے چھپاتا ہے تا بندے کی محبت خدا کے ساتھ بڑھے۔ گویا اس کے تمام افعال میں محبت ہی محبت نظر آتی ہے۔ لطیف لما یشاء کہہ کر بتایا ہے کہ وہ اپنی مشیت کے مطابق لطف کرتا ہے اور یہ بھی اس کا لطف ہر ایک کی استعداد کے مطابق اس پر نازل ہوتا ہے۔
الحکیم کہہ کر اللہ تعالیٰ سے الزام دور کیا کہ بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے خواب تو ترقی کی دکھائی تھی مگر ہوا یہ کہ ایک لمبا عرصہ تک سخت مصائب میں سے گزرنا پڑا۔ لیکن اگر غور کریں تو یہی تکالیف اگر ایک طرف حضرت یوسف علیہ السلام کی ترقی کا موجب ہوئیں تو دوسری طرف ان کے بھائیوں کی پاکیزگی اور توبہ کا موجب ہوئیں۔ پس خداتعالیٰ کا یہ فعل حکمت سے خالی نہ تھا۔ ان تکالیف کے بغیر اگر حضرت یوسفؑ کو عزت ملتی تو وہ خداتعالیٰ کے وعدہ کی عظمت کو اس قدر ثابت نہ کرتی اور نہ یوسف کے بھائیو کے دلوں کی صفائی ہوتی۔ پس جو کچھ ہوا حکمت کے ماتحت ہوا نہ کہ بے سبب۔
۹۸؎ حل لغات
فاطر۔ فطر سے اسم فاعل کا صیغہ ہے جس کے معنے ہیں پیدا کرنے والا۔ مزید تشریح کے لئے دیکھو ہود۵۱؎ توفنی مجھ کو وفات دے۔ مزید تشریح کے لئے دیکھو یونس ۱۰۱؎ تاویل حقیقت۔ مزید تشریح کے لئے دیکھو یوسف۲۲؎
تفسیر
یہ آیت اس عشق پر دلالت کرتی ہے جو خداتعالیٰ کے برگزیدہ لوگوں کے دلوں میں موجزن ہوتا ہے۔ ان کے رشتہ داروں کی ملاقات پر خوشی کا اظہار کرتے کرتے یکدم اللہ تعالیٰ کی محبت کا شعلہ اٹھتا ہے اور وہ سب کچھ بھول بھال کر خداتعالیٰ کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔ دناومافیہا ان کی نظر سے غائب ہو جاتے ہیں اور وہ بے اختیار پکار اٹھتے ہیں رب قد اتیتنی من الملک اے خدا یہ سب کچھ تیرا ہی دیا ہوا ہے۔ یہی وہ حقیقی سجدہ ہے جو انسان کو روحانی میدان میں ترقی بخشتا ہے۔ ظاہری سجدہ تو ایک وقتی سجدہ ہے۔ اصل سجدہ یہی ہے کہ خوشی اور غم کے موقعہ پر انسان کی نگاہ اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھ جائے اور اس کا دل بے تاب ہوکر اس کی طرف جھک جائے۔ اس مقام کے حصول کے بغیر کوئی روحانی ترقی حاصل نہیں ہوسکتی اور اس جنت میں انسان داخل نہیں ہوسکتا جس کے بغیر اگلے جہان کی جنت کا ملنا ناممکن ہے۔
ویری نے اس جگہ اعتراض کیا ہے کہ ھذا تاویل رؤیای میں وہی قرآن والا کبر ہے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ یہ قرآن والا کبر نہیں بلکہ قرآن والی محبت ہے کہ ہر بات میں خدا کا ذکر کردیتے ہیں۔ بائبل والی خودغرضی نہی کہ کام ہو گیا تو نام لینا ہی چھوڑ دیا۔
رب قد اتیتنی من الملک سے بعض لوگوں نے یہ سمجھا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو بادشاہت مل گئی تھی۔ مگر اس سے یہ مراد نہیں۔ ملک سے مراد تصرف اور قبضہ ہے اور وہ ان کو بادشاہِ وقت کے حکم سے حاصل تھا۔ وعلمتنی من تاوییل الاحادیث تو نے مجھے خوابوں کی حقیقت سکھا دی یعنی انہیں پورا کرکے دکھا دیا۔ یا یہ کہ تو نے مجھے تعبیر الرؤیا کا علم سکھا دیا۔
فاطر السموت والارض۔ انبیاء کا وجود صفات الٰہیہ کا ثبوت ہوتا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام یہ کہتے ہیں کہ میری زندگی اللہ تعالیٰ کے فاطر السموت والارض ہوے کا ثبوت ہے۔ جب میں لاشئی محض تھا خداتعالیٰ نے مجھے اعلیٰ ترقیات کی خبر دی اور پھر میں جو ایک معمولی حٰثیت کا انسان تھا مجھے طاقت دے کر ایک بڑی حکومت بخشتی اور گویا ایک نیا آسمان اور مین پیدا کر دیا۔ پس میرے وجود سے اللہ تعالیٰ کے فاطر السموت والارض ہونے کا ثبوت مل گیا ہے۔
انت ربی فی الدنیا والاخرۃ۔ درحقیقت دعا ہے یعنی اے کدا تو میرا دنیا و آخرت میں مددگار بن۔ چنانچہ اسی کی تشریح میں فرمایا توفنی مسلما والحقنی بالصلحین۔ یعنی اس دنیا میں میرا انجام بخری ہو اور اگلے جہان میں میں ان لوگوں میں شامل رہوں جو ترقی کے قابل ہیں۔ ولایت دنیوی کی تفسیر توفنی مسلما کے الفاظ سے کی ہے اور ولایت اخروی کی تفسیر الحقنی بالصلحین کے الفاظ سے اگر کوئی یہ سوال کرے کہ جب توفنی مسلمان کہہ دیا تو الحقنی بالصلحین کی کیا ضرورت تھی۔ جو مسلم فوت ہوگا صالحین میں اٹھے گا تو اس کا جواب یہ ہے کہ مسلم کا لفظ عام ہے۔ ایک شخص جس کا اسلام حقیقت میں کمزور ہے وہ ظاہری شریعت کی رو سے مسلم کہلا سکتا ہے اور ایسا شخص تھوڑی سی سزا پاکر جنت میں داخل ہو جائے گا مگر حضرت یوسف علیہ السلام چاہتے ہیں کہ اس دنیا سے وہ ایسا مسلم ہونے کی حالت میں جائیں کہ آگے جاکر صالحین کے ساتھ الحاق ہو یعنی ایسے کامل مسلم ہوں کہ بغیر کسی روک کے مرنے کے بعد ترقیات ہی کی طرف قدم اٹھے اور یہی وہ مقام ہے جس کی جستجو مومن کو ہونی چاہئے۔
۹۹؎ حل لغات
اجمعوا۔ اجمع ماضی سے جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے۔ اور اجمع علی الامر کے معنے ہیں اتفقوا علیہ۔ قوم نے کسی بات پر اتفاق کرلیا۔ (اقرب)
تفسیر
اس آیت میں واضھ کر دیا ہے کہ یوسف علیہ السلام کا واقعہ قصہ کے طور پر بیان نہیں ہوا ہے بلکہ یہ غیب کی خبریں ہیں یعنی اس واقعہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آئندہ زندگی کے متعلق خبریں ہیں۔ چنانچہ جیسا کہ اس سورۃ کی مختلف آیات کی تفسیر میں بتایا گیا ہے حضرت یوسفؑ کی زندگی کے تمام اہم معاملات آنحضرت صلعم کی زندگی میں پورے ہوئے ہیں وماکنت لدیہم اذ اجمعوا امرھم وھم یمکرون۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تو ان مکہ والوں کے پاس نہ تھا جب انہوں نے تیرے متعلق اپنا منصوبہ کیا اور وہ مختلف تدبیریں کرتے تھے۔
اس جگہ یوسفؑ کے بھائی مراد نہیں بلکہ آنحضرت صلعم کے بھائی مراد ہیں اور بتایا ہے کہ جو سلوک مکہ والوں نے تجھ سے یوسفؑ کے بھائیوں کی مماثلت میں کرنا ہے وہ تیرے اختیار کی بات تو نہیں۔ پس یہ اخبار غیب کسی انسانی دماغ کا اختراع نہیں کہلا سکتیں بلکہ عالم الغیب خدا کی بتائی ہوئی ہیں۔
۱۰۰؎ تفسیر
یعنی تیری ذاتی کوشش تو یہی ہوگی کہ تیری قوم تجھ پر فوراً ایمان لائے۔ لیکن منشائے الٰہی یہی ہے کہ ان سے یوسف کے بھائیوں والے کام ہوں اور تیری خارق عادت ترقی کے بعد وہ ایمان لائیں نہ کہ اس سے پہلے۔
۱۰۱؎ حل لغات
الذکر۔ التاغظ بالشئی واحضارہ فی الذھن بحیث لایغیب عنہ۔ کسی چیز کا منہ سے ذکر کرنا اور اسے ایسے طور پر مستحضر فی الذہن کرنا کہ وہ بھول نہ جائے۔ الصیت ومنہ لہ ذکر فی الناس۔ شہرت اور انہی معنوں میں لہ ذکر فی الناس کا فقرہ بولتے ہیں کہ فلاں شخص کو لوگوں میں شہرت حاصل ہے۔ الثناء۔ تعریف۔ الشرف۔ شرف۔ وفی القران انہ لذکر لک ولقومک اور قرآن مجید میں انہ لذکر لک ولقومک انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے کہ قرآن مجید کا نزول تیرے اور تیری قوم کے لئے شرف کا موجب ہے۔ والصلوۃ للہ تعالی والدعاء اللہ کے حضور دع چنانچہ انہی معنوں میں یہ فقرہ استعمال ہوتا ہے۔ اذا حزبہ امر فزع الی الذکر کہ جب مصیبت کا سامنا ہوا تو اس نے دعا کی طرف جلدی کی۔ الکتاب فیہ تفصیل الدین ووضع الملل۔ ایسی کتاب جس میں دین کی تفصیل اور شریعت کے اصول ہوں۔ من الرجال القوی الشجاع الابی ایسا بہادر شخص جو کسی کا رعب برداشت نہ کرے۔ من المطر۔ الوابل الشدید سخت موسلا دھار بارش۔ من القول۔ الصلب المتین۔ پکی بات۔ (اقرب)
تفسیر
جس طرح یوسفؑ کے بھائیوں نے ان کی رؤیا سے یہ سمجھ لیا کہ اس کی بڑائی ہماری ذلت کا موجب ہوگی۔ حالانکہ ان کی ترقی میں خود بھائیوں کی ترقی مقدر تھی۔ اسی طرح فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو وعدے ہوئے ہیں ان سے آپ کی قوم کے لوگ ناراض ہوتے ہیں اور ان میں اپنی ذلت محسوس کرتے ہی۔ حالانہ وہ اپنی عزت کے لئے ان سے کوئی مدد طلب نہیںکرتا کہ جس سے ان کو یہ خیال ہو کہ اس کی بڑائی میں ہماری کمزوری ہے۔
پس فرمتا ہے کہ اے ہمارے رسول! تو اگر ان سے مدد کا خواہاں ہوکر اپنی بڑائی کا طالب ہوتا تو ان کے غصہ کی کوئی وجہ ہوتی لیکن تو تو وہ چیز ان کو دیتا ہے جو نہ صرف ان کی عزت کا بلکہ سب دنیا کی عزت کا موجب ہوگی۔ پس ان کی ناراضگی بے سبب اور ان کا غصہ بلاوجہ ہے۔
آنحضرتؐ کی حضرت یوسف سے اٹھارھویں مشابہت
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس معاملہ میں بھی حضرت یوسف علیہ السلام سے مشابہت ہے یوسف علیہ السلام نے تو ایک بادشاہ کے ماتحت اپنے بھائیوں کو عزت بخشی مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بھائیوں کو آزاد حکومتوں کا مالک بنا دیا۔ اور آپ کے دو خسر کہ وہ بھی رشتہ کے لحاظ سے باپ کی جگہ ہوتے ہیں زبردست بادشاہتوں کے مالک ہونے یعنی حضرت ابوبکر اور حضرت عمرؓ فتبارک اللہ احسن الخالقین۔
۱۰۲؎ حل لغات
کاین وکای اسم مرکب من کاف التشبیہ وای المنونۃ ولذلک جازالوقف علیہا بالنون وفیہا لغات اخری وھی کیئن وکاین وکاء وکاء۔ وھی توافق کم فی حمسۃ امور وھی الابہام والافتقار الی التمییز۔ والبناء ولزوم التصدیر۔ وافادۃ التکثیر تارۃ وھو الغالب نھو کاین من رجل والاستفہام اخری وھو نادر۔ کقول ابی بن ابی کعب لابن مسعود کاین تقرء سورۃ الاحزاب فقال ثلاثا وسبعین۔ وتخالفہا فی سبع امور۔ الاول انھا مرکبۃ والثانی ان ممیزھا مجرور بمن غالبا والثالث انھا لاتقع استفہامیۃ عند الجمور۔ والرابع انہا لاتقع مجرورۃ۔ الخامس ان خبرھا لایقع مفردا۔ (اقرب) یعنی کاین کاف تشبیہ اور ای سے مرکب ہے اور اس کا نون تنوین کا ہے۔ اسے کئی طرح سے بولا جاتا ہے جس کی حسب ذیل مختلف صورتیں ہیں کاین۔ کای۔ کایمن۔ کای۔ کای۔ کاء کاء اور یہ لفظ پانچ باتو میں لفظ کم کے مطابق ہے اور پانچ باتوں میں اس کے خلاف ہے۔ جن پانچ باتوں میں کم کی طرح ہے وہ یہ ہیں۔
(۱) یہ بھی مبہم ہوتا ہے۔ (۲) اور تمیز کا بھی محتاج ہوتا ہے۔ (۳) یہ بھی مبنی ہوتا ہے۔ اس کو بھی جملہ کے صدر میں لانا ضروری ہے۔ (۵) عام طور پر کثرت پر دلالت کرتا ہے اور کبھی استفہام کے لئے بھی آتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے ابی ابن کعبؓ سے اسی لفظ کے ساتھ یہ سوال کیا تھا کہ سورہ احزاب کی تمہاری قرأۃ کی رو سے کتنی آیتیں ہیں جس کا انہوں نے یہ جواب دیا تھا کہ ۷۳ اور جن باتوں میں کم سے کاین اختلاف رکھتا ہے وہ یہ ہیں۔ (۱) کاین مرکب ہے اور کم بسیط۔ (۲) کاین کے مجرور پر عام طور پر حرف من آتا ہے اور کم کے مجرور پر اس طرح پر نہیں آتا۔ (۳) کاین استفہام کے لئے جمہور کے نزدیک نہیں آتا۔ (۳) کاین استفہام کے لئے جمہور کے نزدیک نہیں آتا۔ (۴) کاین پر حرف جر یا مضاف نہیں آتا۔ (۵) اس کی خبر ہمیشہ جملہ ہوتی ہے۔
تفسیر
یعنی آسمانوں اور زمین میں بہت سے نشانات ہیں جن کے پاس سے یہ اعراض کرتے ہوئے گزر جاتے ہیں اور ان سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔
کافر اور مومن میں یہی فرق ہے کہ مومن تو آنکھیں کھول کر چلتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہر اشارہ کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن کافر اندھے کی طرح بڑے سے بڑے نشان کو دیکھنے سے محروم رہ جاتا ہے حالانکہ حقیقت دونوں کے سامنے ایک ہی ہوتی ہے۔ اور کافر و مومن کی طاقتیں بھی ایک ہی سی ہوتی ہے۔ ہاں جب عذاب آنے شروع ہوتے ہیں تب کفار کی آنکھیں کھلنی شروع ہوتی ہیں اور آہستہ آہستہ حسب مراتب وہ اللہ تعالیٰ کے نور کو دیکھناشروع کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے انبیاء درحقیقت ایک ابتلاء ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان کے زمانہ مین انسانوں کی طاقتیں اور ان کے اندرونے ظاہر ہوجاتے ہیں جس سرعت یا تاخیر سے انسان مانتا ہے اسی نسبت سے اس کی روحانی طاقتوں کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
کیا عجیب نظارہ ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کو ذرہ ذرہ میں خداتعالیٰ کے نشانات نظر آنے لگتے ہیں بعض کو لاکھوں بعض کو ہزاروں بعض کو سینکڑوں۔ اور بعض کو بیسیوں نشان نظر آتے ہیں اور بعض یہی شور مچاتے چلے جاتے ہیں کہ ایک بھی نشان نہیں دکھایا گیا۔ کوئی نشان نظر آئے تو مانیں۔
۱۰۳؎ تفسیر
ان میں سے اکثر اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں لاتے مگر ایسے حال میں کہ وہ مشرک ہوتے ہیں۔ ہر کام کو دوسروں کی طرف منسوب کرتے ہیں اور اصل باعث کو نہیں سمجھتے مثلاً زید مر جاتا ہے تو کہتے ہیں فلاں بیماری کی وجہ سے مر گیا ہے یہ نہیں دیکھتے کہ یہ شخص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی وجہ سے مرا ہے۔ اگر کسی کو ترقی کرتا ہوا دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ شخص اپنی عقل کے زور سے ترقی کر گیا ہے۔ یہ نادان نہیں دیکھتے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے آپؐ کی سچی اتباع کی بدولت ترقی کر گیا ہے۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے سے پہلے بھی تو وہ ان میں موجود تھا؟ اس وقت کیوں ترقی نہ کی۔
اس آیت میں کفار کی نابینائی کی وجہ بتائی ہے۔ کامل توحید کے بغیر رحانی بینائی تیز نہیں ہوتی۔ چونکہ عام طور پر لوگوں کے عقیدوں میں شرک کی ملونی پائی جاتی ہے اس لئے وہ اللہ تعالیٰ کے جلوہ کو دیکھ نہٰں سکتے اور اگر دیکھ لیں تو پہچان نہیں سکتے کیونکہ شرک تب ہی پیدا ہوتا ہے جب صفات الٰہیہ کو صحیح طور پر نہ سمجھا جائے۔ شرک کرنے والے کو دائما اللہ تعالیٰ کی صورت بدلنے کی کوشش کرنی پڑتی ہے تا جھوٹے معبودوں کو اس کام ہم شکل ثابت کرسکے اور اس کا ایک گہرا اثر اس کے دل پر یوں پڑ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حقیقی شکل یعنی اس کی پاک اور مکمل صفات اس کی یاد سے اتر جاتی ہیں اور وہ اس کے جلوہ کو پہچاننے کے قابل نہیں رہتا۔ چنانچہ مشرک ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے کاموں کو دوسروں کی طرف منسوب کرتا ہے۔ اگر کسی معین بت یا دیوتا کی طرف منسوب نہیں کرتا تو اسباب کی طرف منسوب کر دیتا ہے۔ اگر کسی کا خیال اس کے دل سے کلی طور پر محو ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا۔ مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جب کفار تباہی کے نشان دیکھتے تو ان کے دوسرے اسباب تلاش کرتے۔ جب آپؐ کو اور آپ کے صحابہ کو غیرمعمولی ترقی پاتے ہوئے دیکھتے تو اس کے بھی مادی اسباب تلاش کرتے اور یہ نہ دیکھتے کہ یہ سب اسباب دعیٰ سے پہلے بھی موجود تھے مگر نتائج ویسے نہ تھے۔
۱۰۴؎ حل لغات
امن۔ اطمان۔ بے خوف اور مطمئن ہو گیا۔ الاسد ومنہ۔ سلم۔ شیر کے حملہ سے محفوظ رہا۔ پس افامنوا کے معنی ہوئے کیا وہ بے خوف ہو گئے۔(اقرب)
الغاشیۃ۔ یہ غاشی کا مؤنث ہے جو غشی یغشی سے اسم فاعل کا صیغہ ہے۔ غشی کے معنی ہیں ڈھانپ لیا اور الغاشیۃ کے معنی ہیں الغطاء۔ پردہ۔ القیامۃ لانہا تغشی الفزاعہا قیامت کو بھی غاشیہ کہتے ہیں کیونکہ اس کی گھبراہٹ سب کو ڈھاپ لے گی۔ نارجہنم۔ جہنم کی آگ۔ الداھیۃ۔ مصیبت۔ ومنہ تاتیہ غاشیۃ من عذاب اللہ۔ ای نائبۃ تغشاہ اور تاتیہ غاشیۃ من عذاب اللہ۔ انہی مذکورہ بالا معنوں میں استعمال ہوا ہے کہ عذاب کی کوئی ایسی عام مصیبت آئے جو سب پر چھا جائے۔ الغاشیہ کے معنوں میں یہ بات ملحوظ ہے کہ ایسی مصیبت یا ایسا عذاب ہو جو عام ہو اور سب پر چھا جائے کیونکہ غشی کے معنے جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے ڈھانپ لینے کے ہیں اور ڈھانپ وہی عذاب لیتا ہے جو عام ہو۔ (اقرب)
البغتۃ۔ الفجاۃ۔ کسی واقعہ کا ناگہانی طور پر ایسی جگہ سے وقوع پذیر ہونا جہاں سے توقع بھی نہ ہو۔ وھو اما حال فی تاویل باغتا او مصدر فی تاویل ابغث بغتۃ۔ بغتۃ کے استعمال کی دو صورتیں ہیں۔ اول یا تو اس کو حال قرار دیں یعنی ایسی حالت میں کوئی چیز واقع ہوئی کہ اس کا واقعہ ہونا اچانک ہی تھا یا پھر ابغث پہلے فعل محذوف ہو گا اور یہ اس کا مفعول مطلق ہوگا جس مصدر کی صورت میں ہوگا۔ والاول اصح پہلی تاویل زیادہ صحیح ہے۔ (اقرب)
شعربہ: علم بہ۔ معلوم کیا۔ لکذا۔ فطن لہ۔ اس کو سمجھا۔ عقلہ۔ اس کو پہچانا۔ احس بہ۔ محسوس کیا۔ (اقرب) ھم لایشعرون کے معنے ہوں گے کہ ان پر عذاب اتنا اچانک آئے کہ اس کے آنے کا ان کو علم بھی نہ ہوسکے۔
تفسیر
اس آیت میں بتایا ہے کہ چونکہ کفار نشان عذاب کو ہی حقیقی نشان سمجھتے ہیں اس لئے ان پر وہ عذاب بھی آجائے گا مگر سنت اللہ کے مطابق پہلے ادنیٰ عذاب آئیں گے آخر میں فیصلہ کردینے والا عذاب آئے گا۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات زندگی سے معلوم ہوتا ہے کہ سی طرح عذاب آئے کہ پہلے علاوہ اور عذابوں کے معمولی معمولی شکستیں کفار کو ہوئیں اور آخر فتح مکہ کا واقعہ ہوا کہ خود مکہ میں لشکر اسلام داخل ہوگیا اور کفار کو ذلت کے ساتھ ہتھیار پھینک دینے پڑے اور اس آیت میں ساعت سے مراد ہی فتح مکہ کی ساعت ہے کیونکہ اس کے بعد وہ زبردست مشابہت جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت یوسفؑ سے تھی پوری ہوئی۔ یعنی دشمن کو پورے طور پر زیر کرلینے کے بعد آپؐ نے اس کی سب شرارتوں کو بھلا دیا اور بغیر کسی سزا دینے کے کلی طور پر اسے معاف کر دیا۔
۱۰۵؎ حل لغات
البصیرۃ کے معنے ہیں العقل عقل۔ الفطنۃ۔ ذہانت۔ مایستدل بہ۔ جس کے ذریعہ سے کسی کے متعلق استدلال کیا جائے۔ الحجۃ۔ دلیل۔ العبرۃ یعتبربھا۔ عبرت۔ الشاھد۔ گواہ۔ ومنہ علی نفسہ بصیرۃ اے علیہا شاھدا بعملہا۔ اور علی نفسہ بصیرۃ میں بصیرۃ کے معنی گواہ ہی کے ہیں یعنی نفس کے اعمال پر ایک گواہ مقرر ہے اس کی جمع بصائر آتی ہے۔ (اقرب) ادوا الی اللہ عللی بصیرۃ انا ومن اتبعنی ای علی معرفۃ وتحقق۔ آیت ادعوا الی اللہ علی بعیرۃ میں بصیرۃ کے معنے معرفت اور تحقق کے ہیں۔ (مفردات)
تفسیر
یعنی جو باتیں اوپر مذکور ہوئی ہیں یعنی آیات اور نشانات سے فائدہ اٹھانا اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور شرک سے اجتناب کرنا یہی مرا راستہ ہے۔ ھذہ سبیلی ادعوا الی اللہ میں گویا اس پہلے مضمون کو دوبارہ دہرایا گیا ہے۔ پہلے اس کی طرف ھذہ کے ساتھ اشارہ کیا اور پھر ادعوا الی اللہ کے ساتھ اس تفصیل کا خلاصہ بیان فرمادیا۔ نیز پہلے فرمایا تھا مااسئلھم علیہ من اجر یعنی تم سے کچھ نہیں مانگتا۔ اب فرماتا ہے کہ بجائے تم سے مانگنے کے جو کچھ اسے ملا ہے اس میں تم وہ کو شریک کرنا چاہتا ہے۔
کیا عجیب فرق ہے سچے ولی اللہ اور جھوٹے ولیوں میں۔ جھوٹے ولی مخفی اذکار کے مدعی ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں اسم اعظم حاصل ہے یا خاص وظیفہ معلوم ہے جو وہ کسی کو بتا نہیں سکتے مگر اس کے برخلاف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے خدا مل گیا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ تم کو بھی مل جائے اور اسی کے لئے میں تم کو بلارہا ہوں نہ کہ تم سے کچھ لینے کے لئے۔
پھر فرمایا کہ تو کہہ دے کہ اس عظیم الشا خدمت میں بھی میں جبر سے کام نہیں لیتا بلکہ دلائل اور براہین سے تم پر حقیقت کو آشکار کرتا ہوں۔ تعجب ہے کہ اس تعلیم کی موجودگی میں مسلمانوں میں سے بعض جبر کے طریق کو پسند کرتے اور اس طرح اسلام کو دشمنوں کی نگاہ میں رسوا کرتے ہیں۔
یہ آتی بتاتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہی کامل متبع کہلا سکتا ہے جو عقل اور دلیل کے ماتحت آپ کو مانتا ہے۔ جو مسلمان ایسا ہے کہ وہ اسلام کو یعنی اللہ تعالیٰ کی توحید کو نبیوں کو قیامت اور حشر نشر کو تقدیر اور فرشتوں کو عقل اور دلائل کے ساتھ سمجھ کر نہیں مانتا بلکہ محض نقل اور تقلید کے طور پر مانتا ہے وہ اس آیت کے مطابق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا متبع نہیں کہلا سکتا۔ خالی کہہ دینا کہ میں قرآن کو مانتا ہوں جبکہ نہ قرآن کریم کی صداقت کے دلائل معلوم ہوں نہ ان امور کے جو اس میں مذکور ہیں۔ کسی کو رسول کریم کا متبع نہیں بنا سکتا۔ آپؐ کے متبع تو بینا ہوتے ہیں اور ایسا شخص اندھا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ دوسرے لوگ دوسری کتب کے اندھے ہیں یہ شخص قرآن کریم کا اندھا ہے۔ پس اس آیت نے مسلمانوں کی ذمہ داری بہت بڑھا دی ہے۔ جب تک وہ اپنی نسلوں کو اسلام کی صداقت کے دلائل سے آگاہ نہیں رکھتے اور دلائل بھی وہ جو بصیرت پیدا کرتے ہیں صرف عقلی نہیں بلکہ عقل اور مشاہدہ کا مجموعہ دلائل۔ اس وقت تک وہ رسول کریمؐ کے متبع نہیں پیدا کرتے بلکہ ایک بے سر فوج پیدا کررہے ہیں۔
افسوس آج کل مسلمان اس دور انحطاط سے گزررہے ہیں اور اسی وجہ سے ان کے سر کفار کے سامنے جھکے ہوئے ہیں اور ان کی باتیں بے اثر ہوگئی ہیں۔ بجائے غیر قوموں میں تبلیغ اسلام کے اسلام سے لوگ مرتد ہونے لگے ہیں۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ سبحن اللہ کہہ کر بتایا ہے کہ خداتعالیٰ کو زبردستی مسلمان بنانے کی کیا ضرورت۔ زبردستی کا ایمان بے فائدہ شئے ہے۔ زبردستی تو وہ لوگ کرتے ہیں جو لوگوں کی اتباع میں اپنی شان دیکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ عیبو سے پاک ہے۔ اس میں کون سی کمی آتی ہے۔ اگر لوگ اس پر ایمان نہ لائیں۔ پھر جبر وہ کرتا ہے جو دلائل سے نہ منواسکے۔ اور یہ بھی نقص ہے اور اللہ تعالیٰ نقصوں سے پاک ہے۔
وما انا من المشرکین کہہ کر یہ بتایا ہے کہ گو یہ کام جو میں نے اپنے ذمہ لیا ہے بہت بڑا ہے لیکن میں شرک سے کلی پاک ہوں اور میری نگاہ میں یہ کام بڑا نہیں۔ میں خداتعالیٰ پر توکل رکھتا اور غیراللہ کو حقیر سمجھتا ہوں۔ پس خواہ کام کتنا بڑا ہو مجھے اپنی کامیابی میں کوئی شبہ نہیں۔ دوسرے اس طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ جب بھی ایمان بغیر بصیرۃ کے ہوگا قوم میں ضرور شرک پیدا ہوجائے گا۔
۱۰۶؎ تفسیر
اس آیت سے نتیجہ نکلتا ہے کہ نبی صرف مردوں میں سے آتے ہیں۔ عورت بعض حکمتوں کی وجہ سے اس عہدہ پر مقرر نہیں ہوتی۔ حقیقت یہ ہے کہ مرد اور عورت کو اللہ تعالیٰ نے الگ الگ کام کے لئے بنایا ہے۔ اور چونکہ نبوت کا منصب عورت کے دائرہ عمل سے باہر ہے اس لئے اس پر صرف مردوں کو مقرر کیا جتا ہے۔ باای انعامات چونکہ عورتوں کے دائرہ سے باہر نہیں ان میں وہ مردوں کے ساتھ شریک ہیں۔ وہ صدیقہ ہوسکتی ہیں اور ہوتی ہیں۔ ولیہ ہوسکتی ہیں اور ہوتی ہیں۔ قاتہ ہوسکتی ہیں اور ہوتی ہیں۔ غرض سوائے نبوت کے کہ وہ ایک عہدہ ہے باقی سب انعامات ان کو مل سکتے ہیں اور ملتے رہے ہیں۔ مفہوم آیت کا یہ ہے کہ پہلے بھی نبی انسانوں اور ان میں سے بھی مردوں میں سے آتے رہے ہیں۔ پس یہ خیال کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو ہمارے جیسا انسان ہے نبی کس طرح ہو گیا ایک وسوسہ ہے۔ اس وسوسہ کے دھوکے میں آکر اپنے آپؐ کو تباہ نہ کرلینا جو پہلے نبیوں کے دشمنوں سے ہوا وہی اس کے مخالفوں سے ہوکر رہے گا۔
ولدار الاخرۃ خیر للذین اتقوا افلا تعقلون۔ آخر میں فرمایا کہ کفار اپنی موجودہ شان و شوکت کا خیال نہ کریں۔ اس پر غور کریں کہ جو قوم عدل و انصاف کرے اور خدا سے ڈرے انجام کار اسی کی فتح ہوری ہے اور یہ قاعدہ ایسا بدیہی ہے کہ تعجب ہے لوگ اسے کس طرح بھول جاتے ہیں۔ دنیا کو ایک وقت تک دھوکا دیا جاسکتا ہے ایک لمبے عرصہ تک دھوکا نہیں دیا جاسکتا۔ آخر لوگ اپنے نفع نقصان کو دیکھتے ہوئے ان لوگوں کا ساتھ دینے پر مجبور ہوتے ہیں جو خداتعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے ببنی نوع انسان کی بھلائی کرتے ہیں اور اپنی بڑائی نہیں چاہتے اور اس وقت ظلم کرنے والوں کی حقیقت کھل جاتی ہے۔
خیر کے لفظ سے جس کے معنے زیادہ بہتر کے ہوتے ہیں اس طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ موجودہ حالت بھی متقی کی اچھی ہوتی ہے۔ گو وہ دوسروں کی نگاہوں سے مخفی ہو کیونکہ بے غرضی سے اور صرف خداتعالیٰ کے لئے کام کرنا دل میں ایک ایسی طاقت پیدا کردیتا ہے کہ باوجود ظاہری کمزوری کے بشاشت اور اطمینان ایسے ہی شخص کو نصیب ہوتا ہے۔ برخلاف اس کے خداتعالیٰ سے دوری اور لالچ اور خودغرضی کی حالت عدم اطمینان پیدا کرتی ہے اور حقیقی آرام میسر نہیں آنے دیتی۔
پس ابتدائی حالت بھی مومن ہی کی اچھی ہوتی ہے مگر آخری تو ایسی نمایاں طور پر اچھی ہوتی ہے کہ دشمن کو بھی انکار کی گنجائش نہیں رہتی۔
۱۰۷؎ حل لغات
کذبوا۔ کذب سے جمع مذکر غائب مجہول کا صیغہ ہے اور کذبہ الحدیث کے معنے ہیں اذا نقل الکذب وقال خلاف الواقع۔ اس نے جھوٹی بات بیان کی اور خلاف واقع کہا۔ کذب الرجل:- اخبر بالکذب یعنی اسے جھوٹی خبر سنائی گئی۔ (اقرب) پس ا مذکورہ بالا معنوں کے لاحاظ سے وظنوا انہم قد کذبوا کے معنے ہو گے کہ کفار نے یہ خیال کرلیا کہ ان سے عذاب کے آنے کے متعلق جھوٹی خبریں سنائی گئی ہیں۔ کذبتہ نفسہ:- اذا منتہ الامانی وخیلت الیہ من الامال مالا یکاد یکون۔ کذبتہ نفسہ کے معنی ہیں کہ اس کو اس کے نفس ے ایسی امیدیں دلائیں جو پوری نہ ہونے والی تھیں۔ اور اس کے دل میں ایسی آرزوئیں ڈالی گئیں جو بعیداز قیاس تھیں۔(اقرب) اس محاوہ کے لھاظ سے ظنوا انہم قدکذبوا کے معنے یوں ہوں گے کہ نبیوں نے خیال کیا کہ شاید ان کے نفسوں نے کلام الٰہی کے غلط معنے سمجھ کر ایسی امیدی دلادیں جو منشائے الٰہی کے خلاف تھیں۔ کذبتک عینک۔ ارتک مالا حقیقۃ لہ آنکھ نے ایسی چیز دکھائی جس کی کوئی حقیقت نہ تھی۔ (اقرب) اس مھاورہ کے رو سے ظنوا انہم قد کذبوا کے معنے یہ ہوں گے کہ نبیوں نے کفار کے حالات سے یہ نتیجہ نکالا کہ وہ ایمان لے آئیں گے لیکن ان کا خیال بے حقیقت نکلا۔
قال ابن الباری ان الکذب ینقسم الی خمسۃ اقسام والثانی ان یقول قولا یشبہ الکذب ولا یقصد بہ الا الحق والرابع کذب الرجل بمعنی بطل علیہ املہ ومارجاہ (تاج العروس) ابن انباری نے کذب کی پانچ اقسام بیان کی ہیں اور دوسری قسم یہ بیان کی ہے کہ کذب اس صدق پر بولتے ہیں جو بظاہر جھوٹ نظر آئے اور چوتھی قسم یہ بیان کی ہے کہ کذب الرجل کے معنے ہوتے ہیں اس کی امید درست ثابت نہ ہوئی۔ پس مندرجہ بالا کذب کے معنوں کے لحاظ سے ظنوا انہم قدکذبوا کی یہ تشریح ہوگی کہ جب نبی کفار کے ایمان سے مایوس ہو گئے تو انہوں نے یہ سمجھا کہ خداتعالیٰ نے جو خبر انہیں دی تھی کہ وہ لوگ ایمان لائیں گے وہ ذوالمعانی تھی۔ جو معنے اس کے سمجھے گئے وہ معنے اس کلام کے نہیں تھے۔
الباس۔ العذاب۔ باس کے معنے ہیں عذاب۔ والشدۃ فی الحرب۔ لڑائی میں سختی۔ والقوۃ۔ قوت۔ ومنہ انزلنا الحدید فیہ باس شدید۔ ای قوۃ اور آیت انزلنا الحدید فیہ باس میں باس کے معنے قوت کے ہیں۔ والخوف۔ خوف۔ (اقرب)
تفسیر
اس آیت کو نہایت مشکل آیات میں سے قرار دیا گیا ہے کیونکہ بظاہر اس کے یہ معنے بنتے ہیں کہ رسول ناامید ہو گئے اور انہو نے یہ خیال کرلیا کہ ان سے جو فتوحات کے وعدے کئے گئے تھے وہ جھوٹے تھے اور یہ دونوں باتیں رسالت کی منافی ہیں کیونکہ اسی سورۃ میں آتا ہے انہ لایایئس من روح اللہ الا القوم الکافرون۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کافر لوگوں کے سواء کوئی انسان ناامید نہیں ہوتا۔ پس خداتعالیٰ کے فضل سے مایوسی نبیوں کی طرف منسوب نہیں کی جاسکتی۔ اسی طرح یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ نبی خدانخواستہ یہ خیال کرنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے جھوٹ بولا کیونکہ اگر نبی جو معلم اور نمونہ ہوتے ہیں خداتعالیٰ پر ایسی بدگمانی کریں تو دوسرے لوگوں کو وہ یقین کب میسر آسکتا ہے جو ہر شک و شبہ سے انسان کو بچا لیتا ہے۔
لیکن یہ شبہ سطحی نظر کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے ورنہ اس آیت کے یہ معنی نہیں ہیں بلکہ مندرجہ ذیل معانی ہیں:
(۱) جس طرح پہلی آیت میں نبیوں اور ان کے مخالفوں کا ذکر تھا اس آیت میں بھی دونوں ہی کا ذکر ہے اور پہلے جملہ میں نبیوں کا ذکر ہے اور دوسرے یعنی ظنوا انہم قد کذبوا میں کفار کا۔ اور مراد یہ ہے کہ لوگ شرارت میں بڑھتے چلے گئے اور نبیوں نے خیال کرلیا کہ جس قدر لوگوں کے لئے ایمان مقدر تھا وہ ایمان لاچکے بقیہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے اوران کی ہدایت سے مایوس ہو گئے نہ کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے۔ اور باقی بالمقال کفار بھی جو پہلے ڈر رہے تھے کہ شاید نبیوں کی پیشگوئیاں پوری ہوکر انہیں تباہ کردیں عذاب اور فتح میں دیر ہونے کے سبب سے مطمئن ہو گئے اور انہیں یقین ہو گیا کہ ان پر کوئی عذاب نہیں آئے گا اور جو خبریں نبیوں نے دی تھیں جھوٹی تھیں۔ تو عین اس وقت خداتعالیٰ کی نصرت آگئی اور آئمۃ الکفر کو تباہ کرکے راستہ صاف کر دیا گیا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو سب انبیاء کے وقت میں ظاہر ہوتی ہر نبی ے زمانہ میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے کہ آخری فیصلہ میں اس قدر دیر کردی گئی کہ بظاہر لوگ مطمئن ہوگئے۔ تب خدا کی نصرت یکدم نازل ہوئی اور نبی اپنے دشمنوں پر غالب آگئے۔
(۲) کذبوا کا فاعل نفس کو سمجھا جائے اور یہ معنے کئے جائیں کہ انبیاء نے جب کفار کو شرارت میں بڑھتا دیکھا اور ادھر نصرت الٰہی میں دیر دیکھی تو یہ خیال کر لیا کہ انہوں نے کلام الٰہی کے جو معنے سمجھے تھے شاید وہ درست نہ تھے۔ نصرت الٰہی نے کسی اور رنگ میں نازل ہونا ہوگا۔ ان معنوں کے رو سے کذبوا کے معنی غلط امید دلانے کے ہوں گے اور مراد یہ ہوگی کہ نبیوں نے خیال کیا شاید ہمارے نفسوں نے کلام الٰہی کے غلط معنے سمجھ کر ایسی امیدیں دلادیں جو منشاء الٰہی کے خلاف تھیں اور یہ معنی بھی مقام نبوت کے خلاف نہیں کیونکہ نبی الٰہی کلام کے سمجھنے میں اجتہادی غلطی کرسکتا ہے۔ پس کسی وقت نبی کو یہ خیال ہوجانا کہ جو معنے پیشگوئی کے میں نے سمجھنے تھے شاید اس میں اجتہادی غلطی لگ گئی ہو اور نصرت الٰہی کسی اور رنگ میں آنی ہو قابلِ اعتراض امر نہیں۔
(۳) کذبوا کا فاعل کفار کو سمجھا جائے اور نائب اعل بدستور رسولوں کو اور معنے یہ ہوں کہ یہاں تک کہ ایک لمبا عرصہ گزر جانے پر رسولوں کو بقیہ کفار کے ایمان لانے سے مایوسی ہو گئی اور انہوں نے سمجھا کہ ہمیں جو ان کفار کی حالت سے یہ یقین پیدا ہوگیا تھا کہ یہ ایمان لے آئیں گے درست نہ تھا۔ ان کی درمیانی حالت نے ہمیں دھوکا دیا ان معنوں کے رو سے قد کذبوا اذا استایئس الرسل کی تشریح سمجھا جائے گا گویا نبیوں کی مایوسی کے معنے یہ ہیں کہ انہوں نے خیال کرلیا کہ بقیہ کفار کی حالت سے جو ہم خیال کرتے تھے کہ یہ آخر ایمان لے آئیں گے یہ درست نہیں معلوم ہوتا اور یہ حالت بھی حق کو اکثر پیش آتی ہے۔ بسااوقات حق کو سن کر درمیانی عرصہ میں منکروں کی ایسی حالت ہوتی ہے کہ خیال ہوتا ہے اب یہ تسلیم کرلیں گے لیکن پھر شامت اعمال یا ضد یا تکبر کی وجہ سے وہ حق سے دور ہوجاتے ہیں۔
(۴) قدکذبوا کا فاعل اللہ تعالیٰ ہی کو سمجھا جائے اور نائب فاعل نبیوں کو لیکن کذب کے معنے جھوٹ کے نہ لئے جائیں بلکہ بظاہر جھوٹ نظر آنے والے صدق کے لئے جائیں اور یہ معنے جیسا کہ اوپر لکھا جاچکا ہے لغت سے ثابت ہیں اس صوت میں معنے یہ ہوں گے کہ نبی کفار کے ایمان سے مایوس ہوگئے تو انہوں نے یہ سمجھا کہ خداتعالیٰ نے جو یہ خبر انہیں دی تھی کہ یہ لوگ ایمان لائیں گے وہ ذوالمعانی تھی۔ ہم نے جو معنے اس کے سمجھے تھے اور جو اب بظاہر پورا ہوتے نظر نہیں آتے وہ معنے کلام الٰہی کے نہیں تھے وہ ہماری اجتہادی غلطی تھی۔ خداتعالیٰ کی مراد کچھ اور تھی جو ہم سمجھ نہیں سکے۔ تب یکدم اللہ تعالیٰ کی نصرت آگئی اور نقشہ کچھ کا کچھ ہو گیاا ور نبیوں کو غلبہ نصیب ہو گیا۔
۱۰۸؎ حل لغات
قص علیہ الخبر والرؤیا (قصصا) حدث بھما علی وجھہما ومنہ نن نقص علیک احسن القصص۔ قصص۔ قص۔ یقص کا مصدر ہے جس کے معنے کسی واقعہ کو بعینہا اور صحیح طور پر بیان کرنے کے ہیں۔ (اقرب)
الالباب۔ اللب خالص کل شیء۔ لب ہر چیز کے خالص حصہ کو کہتے ہیں۔ والعقل۔ عقل۔ اوالخالص من الشوائب او ماذکی من العقل۔ ایسی عقل جو تعصب ضد وغیرہ کی ملاوٹوں سے کالص ہو یا اعلیٰ پایہ کی ہو۔ فکل لب عقل ولا عکس پس جب لب کا لفظ بولیں تو اس کے معنے عقل کے کرسکتے ہیں لیکن ہمیشہ عقل کے لفظ پر لب کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ و معنا ھا القلب لب کے ایک معنی دل کلے بھی ہیں۔ اس کی جمع الباب۔ الب اور البب آتی ہے۔ (اقرب) اولوالالباب کے معنے یہ ہوں گے کہ ایسی عقل والے لوگ جو اسے ضد و تعصب وغیرہ سے علیحدہ رکھتے ہیں اور بات کو جلدی سمجھ جاتے ہیں۔
تفسیر
فرماتا ہے اگر یہ لوگ ذرہ بھر بھی غور سے کام لیتے تو پہلے نبیوں کیء کلام سے نتیجہ نکال سکتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ فرماتے ہیں وہ ضرور پورا ہوکر رہے گا۔ کیونکہ آپؐ پہلی پیشگوئیوں کے مطابق آئے ہیں۔ اگر آپؐ کو جھوٹا خیال کریں گے تو پہلی کتابوں کو بھی جھوٹی مانا پڑے گا۔ جیسے مثلاً بائبل وغیرہ میں آپؐ کے متعلق پیشگوئیاں موجود ہیں۔ اگر آپؐ کے دعویٰ کی صداقت کو تسلیم نہ کیا جائے تو ساتھ ہی ان کتب کا بھی انکار کرنا پڑتا ہے کیونکہ آپؐ کے سوا ان کتب کی پیشگوئیوں کا کوئی مصداق نظر نہیں آتا۔ اگر کوئی کہے کہ شاید آئندہ ظاہر ہو تو اس کا یہ جواب ہے کہ جب وہ علامات آپؐ کے وجود میں پائی جاچکیں تو آئندہ کسی کے ظاہر ہونے کی امید نہیں رہتی اور اگر فرض کر لیا جائے کہ آئندہ بھی کوئی شخص ایسا آئے گا تب بھی وہ پیشگوئیاں غلط جاتی ہیں کیونکہ جو پیشگوئیاں ایک جھوٹے شخص پر چسپاں ہوگئیں ان کا اعتبار کیا رہا اور آئندہ آے والے شخص کے متعلق کس طرح سمجھا جاسکے گا کہ وہ ضرور سچا ہے۔
دوسری دلیل یہ دی کہ آپؐ پر نازل ہونے والی کتاب ہر دینی ضرورت کو پورا کرتی ہے جب سب کچھ اس میں بیان ہوچکا تو اب اور کسی کتاب نے آکر کرنا کیا ہے۔ یہ ایسی دلیل ہے کہ آئندہ مدعیان شریعت کے دعووں کو بھی باطل کردیت ہے۔ مثلاً بہاء اللہ کا دعویٰ ہے کہ وہ نئی شریعت لائے ہیں۔ ان سے سواول کیا اجسکتا ہے کہ وہ کون سی شئے ہے جس کی ضرورت تھی اور قرآن میں نہیں۔ اس دلیل کے سامنے بہائی اور نہ کسی اور مدعی شریعت کے پیرو ٹھہر سکتے ہیں۔ قرآن کریم ایک ایسی جامع کتاب ہے کہ اسکے مطالب سے اعلیٰ مطالب تو بڑی بات ہے اس کے بیان رکدہ مسائل کی انواع تک بھی اور کوئی کتاب خواہ نئی ہو یا پرانی نہیں پہنچ سکتی۔
پھر فرمایا کہ آپؐ کی لائی ہوئی کتاب ھدی بھی ہے یعنی صرف تفاصیل بتاکر انسان کو نہیں چھوڑ دیتی بلکہ اسے خداتعالیٰ تک پہنچاتی بھی ہے اور عقل مقام سے گذار کر مشاہدہ کے مقام پر لاکھڑا کرتی ہے اور آخری کام آپؐ کی لائی ہوئی کتاب کا یہ بتایا کہ اس کے متبع صرف منہ سے لاف و گزاف نہیں مارتے کہ ہم خدا رسیدہ ہو گئے ہٰن بلکہ یہ ان کے لئے رحمت بھی ثابت ہوتی ہے۔ یعنی انوار الٰہیہ ان پر نازل ہوتے ہیں اور خداتعالیٰ کی نصرت اور تائید اس طرح ان کی زندگی کے ہر شعبہ میں نازل ہوتی ہے کہ دیکھنے والے دیکھ لیتے ہی کہ خداتعالیٰ کی رحت کی چادر نے ان کو چھپا لیا ہے اور یہ اس کے مقرب ہو گئے ہیں۔
سورۃ الرعد مکیۃ
۱؎
سورۃ رعد کی نسبت حسن عکرمہ ابن جبیر کی تحقیق ہے کہ یہ ساری مکی ہے۔ عطاء کا قول ہے کہ سب مکی ہے۔ سوائے ویقول الذین کفروا لست مرسلا والی آیت کے۔ بعض اور علماء کے نزدیک سب مکی ہے سوائے ھوالذی یریکم البرق والی آیت کے جو لہ دعوۃ الحق والی آیت تک ختم ہوتی ہے۔ قتادہ سے بھی ایک روایت میں ہے کہ سب سورہ مکی ہے سوائے ولایزال الذین کفروا والی آیت ہے۔ حضرت علیؓ سے بھی یہی مروی ہے کہ یہ مکی ہے لیکن کلبی مقائل اور ابن عباسؓ کا قول ہے کہ یہ مدنی ہے اور قتادہ سے بھی ایک روایت میں اس کا مدنی ہونا مروی ہے۔ قاضی منذر بن سعد کی بھی یہی تحقیق ہے حضرت ابن عباسؓ تین آیتوں کو بیچ میں سے مکی قرار دیتے ہیں۔ (۱،۲) ولوان قرانا سیرت بہ الجبال سے شروع کرکے دو آیتیں اور (۳) ولایزال الذین کفروا۔ الآیۃ۔
عام محققین کا رجحان اس کے مکی ہونے کی طرف ہی ہے۔ اور اس کے مضامین اس کے مکی ہونے پر ہی دلالت کرتے ہیں اور غالباً اس کے مدنی ہونے کا خیال اس کی بعض آیتوں کی وجہ سے جو مدنی ہیں پیدا ہوا ہے۔ اس کے بارہ میں اکابر صابہ میں سے صرف ایک کی شہادت ہے یعنے حضرت علی کی۔ اور وہ اسے مکی قرار دیتے ہیں۔ پس جبکہ اس کے مضامین بھی اس امر کے مؤید ہیں اس کا مکی ہونا یقینی ہے۔ حضرت ابن عباسؓ چونکہ رسول کریمؐ کے زمانہ میں بچے تھے ان کی رائے حضرت علی کی شہادت کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔
اس سورۃ کا پہلی سورۃ سے تعلق یہ ہے کہ سورۃ یونس میں بتایا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کے زمانہ میں دنیا کو دو طرح ہدایت کی طرف لاتا ہے۔ل (۱) سزا سے اور (۲) رحم سے۔ اس کے بعد سورہ ہود میں سزا کے پہلو پر زور دیا اور سورہ یوسف میں رحم کے پہلو پر روشنی ڈالی گئی۔ اس سورۃ میں اس امر پر بحث کی گئی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ترقی کا اعلا جو پہلی تین سورتوں میں کیا گیا ہے وہ کس رنگ میں پورا ہوگا۔ کون سے ذرائع سے کام لے کر دوسرے مذاہب پر اور اپنی قوم پر ان کو غلبہ دیا جائے گا۔
اس سورۃ کے مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ خداتعالیٰ غیرمرئی سامانوں سے کام لیتا ہے۔ انسان کو علم صرف نتائج کے ظہور پر ہوتا ہے۔ بظاہر ایک ہی قسم کی زمین ہوتی ہے اور ایک ہی قسم کا پانی مگر پھل مختلف ہو جاتے ہیں۔ پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ظاہر پر قیاس نہ کرو۔ اس کی کامیابی پر تعجب نہ کرو۔ اس کی کامیابی قابل تعجب نہیں بلکہ ایسے وقت میں رسول نہ آتا تو قابل تعجب ہوتا۔ پھر بتایا کہ کامیابی کیسے ہوگی اور دشمنوں کی تباہی کیسے۔ اور بتایا کہ ان کی اولادیں مسلمان ہو جائیں گی۔ بڑے بڑے لوگوں سے اللہ تعالیٰ نے اپنی حفاظت واپس لے لے گا۔ا ور ان کا رعب جاتا رہے گا۔ قوانین قدرعت اللہ تعالیٰ کے تابع ہیں وہ قانون قدرت کے ہر ایک شعبہ کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں لگا دے گا۔ تم جن کو پوجتے ہو وہ بے بس ہیں۔ تہ تمہاری نصرت نہ کریں گے۔ اس کو ایسی روحانی طاقتیں ملی ہیں کہ یہ اکیال ہی جیت سکتا ہے۔ جیسے ایک بینا بہت سے اندھوں پر غالب آجاتا ہے۔ اس کی توحید کی تعلیم کے مقابلہ میں تمہارے شرک کی تعلیم کیسے ٹھہر سکتی ہے۔ جس طرح کہ سیلاب یا پگھلے ہوئے سونے چاندی پر جھاگ بالا بالا دکھائی دیتی ہے اور نادان خیال کرتا ہے کہ شاید یہ جھاگ ہی جھاگ ہے وہی حال آپ کے دشمنوں کا ہے وہ اوپر کی جھاگ کو دیکھتے ہیں نیچے کے سیلاب یا سونے کو نہیں دیکھتے۔ حالانکہ قانونِ قدرت کے مطابق جھاگ ضائع ہ جانے والی چیز ہے۔ آخری پانی یا سونا ہی رہ جاتا ہے۔ پس ظاہری اور سطحی باتیں دیر تک نہیں رہ سکتیں۔ اس کی ٹھوس اور مفید تعلیم ہی باقی رہ جائے گی۔ اس کی تعلیم فطرت کے مطابق ہے اور آہستہ آہستہ طبع مناسبتوں کی وجہ سے فطرتیں اسی کو قبول کریں گے۔ نیز اس تعلیم پر عمل کرنے والے اور اس کے رد کرنے والوں کی حالتوں میں فرق دیکھ کر بھی لوگوں کی آنکھیں کھلیں گی۔ نیز قرآن کریم کے ذریعہ سے زبردست معجزات دکھائے جائیں گے اور دل فتح کئے جائیں گے۔ ظاہری نشانات بھی ہوں گے اور باطنی بھی۔ ان ظاہری نشانوں میں سے ایک یہ نشان بتایا کہ محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ والے اپنے ملک سے نکال دیں گے اور آخر تلوار کی نوبت پہنچے گی۔ پہلے چھوٹی چھوٹی جنگیں ہوں گی پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو غلبہ ملنا شروع ہوگا اور آخر فتحہ مکہ پر اس جنگ کا خاتمہ ہوگا۔ یہ سب معجزات خداتعالیٰ کی طرف سے ہو گے نہ محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی طاقت سے۔ خداتعالیٰ زبردست حملوں سے آپؐ کی سچائی کو ظاہر کردے گا اور اپنے سچے دین کو قائم۔ اس مضمون کی مناسبت کی وجہ سے اس سورۃ کا نام رعد رکھا گیا ہے۔ گویا یہ برسنے والا بادل جو آیا ہے اس کے ساتھ کڑک بھی چاہئے تھی۔ سوہ وہ بھی آگئی ہے۔
رومن اردو قرآن کے مصنف ریورنڈ ویری صاحب لکھتے ہیں کہ اس سورۃ میں معجزات نہ دکھانے کی اس قدر معذرتیں آئی ہیں کہ اس کا نام بجائے رعد کے معذرتوں والی سورۃ ہونا چاہئے۔ میں کہتا ہوں کہ اس سورۃ میں اس قدر انذاری پیشگوئیاں ہیں کہ رعد اس کا طبعی نام ہے۔
سورہ یونس کے شروع میں کتاب کی صفت حکیم بیان فرمائی تھی۔ سورہ ہوسد میں فصلت سورہ یوسف میں مبین اور اس جگہ بغیر کسی صفت کے کتاب کو بیان کیا گیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ سورہ یونس میں انذار و تبشیر دونوں پہلوؤں کو یکجا لیا گیا تھا اور بتایا تھا کہ حکیم خدا اپنی حکمتوں کے ماتحت موقع کے مطابق سلوک کرتا ہے۔ سوہ ہود میں سزاء کے پہلو پر زور تھا۔ اس لئے فصلت اس کی آیات کی صفت بیان ہوئی۔ کیونکہ تفصیل پھاڑنے اور جدا کرنے کے معنوں پر مشتمل ہے۔ سوہ یوسف میں ایک طرف غلبہ کے فوراً نہ حاصل ہونے کی حکمتوں کا بیان دوسری طرف عفو اور صلح پر زور تھا۔ اس لئے مبین کہا جو عذرومعذرت پر دلالت کرتا ہے۔ سورہ رعد میں چونکہ ذرائع حصول مطالب پر بحث تھی اس لئے بغیر صفت کے رکھا جس کی وجہ سے الکتب کے معے یا تو کامل کتاب کے ہوں گے یا پہلی تین سورتوں کی طرف اشارہ ہو گیا کہ وہ تین صفات جو پہلی تین سورتوں میں بتائی گئی تھیں وہ پورے طور پر اب اس سورۃ کے ذریعہ سے ظاہر کی جائیں گی۔
۲؎ حل لغات
تلک ایت اور الکتب کی تشریح کے لئے دیکھو یونس ۳؎ اور رب کے معنوں کے لئے دیکھو یونس۵؎
تفسیر
(المر) پہلی تینوں سورتوں کے شروع میں الر تھا۔ اس ورہ کے شروع میں ان تینوں حروف میں میم زائد کر دیا گیا ہے۔ جس سے اس طرف اشارہ ہے کہ اس کا مضمون پہلی تین سورتوں سے کسی قدر مختلف ہو گیا ہے۔ جیسا کہ سورہ یونس کے شروع میں حروف مقطعات کی بحث میں بتایا گیا ہے۔ م اعلم کا قائم مقام ہے۔ پس ان حروف کے معنے یہ ہوئے میں اللہ سب سے زیادہ جاننے والا اور دیکھنے والا ہوں۔ گویا دیکھنے کی صفت کے ساتھ علم کی صفت کو شامل کر دیا گیا ہے۔
یاد رکھنا چاہئے کہ انسان کے متعلق جب دیکھنے کا لفظ بولا جائے تو اس سے مراد رنگ اور طول و عرض کا نظر آنا ہوتا ہے اور جاننا زیادہ وسیع ہوتا ہے۔ کیونکہ ناک سے کان سے چھونے سے جن چیزوں کا پتہ لگتا ہے ان کے لئے بھی جاننے کا لفظ اسی طرح استعمال ہوتا ہے جس طرح دیکھی ہوئی چیزوں کے متعلق مگر سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو آنکھوں اور دوسرے حواس سے بے نیاز ہے اس کے متعلق جاننے اور دیکھنے کے الفاظ کن معنوں میں استعمال ہوتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کے لئے مجازاً استعمال ہوتے ہیں اس لئے انسانی استعمال پر ان کا قیاس کرلینا چاہئے۔ پس جس طرح انسان کے لئے دیکھنے کا لفظ ایک محدود ظہور کے موقع پر بولا جاتا ہے اور جاننا باریک محسوسات کے لئے بھی۔ اسی طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب خداتعالیٰ رؤیت کا لفظ بولتا ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ جن چیزوں کو انسان دیکھتا ہے اللہ تعالیٰ ان کو اس سے بھی زیادہ دیکھتا ہے اور جن چیزوں کو انسان دوسرے حواس یا شعور سے محسوس کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے زیادہ مکمل طور پر انہیں جانتا ہے۔ پس گو خداتعالیٰ کے لئے سب چیزوں کا علم یکساں ہے مگر اس جگہ یہ دو لفظ انسان کی رؤیت اور اس کے علم کے مقابل پر استعمال ہوئے ہیں یعنی ان چیزوں کو بھی جانتا ہے جنہیں انسان دیکھتا ہے اور ان کو بھی جن کو دوسرے حواس سے جانتا ہے خواہ ظاہری ہوں یا باطنی۔
تلک ایت الکتب۔ یعنی وہ آیات جو اس سورۃ یا قرآن کریم میں مذکور ہیں اس موعود کتاب کا حصہ ہیں جس کی نسبت سب دنیا کے ذہنوں میں انتظار چلا آرہا تھا۔ یا اس کامل کتاب کی جس کی خبر پہلے دی جاچکی ہے۔ اس لئے تم اس کے مقابلے پر کامیاب نہیں ہوسکتے۔ کیا جس چیز کے متعلق اللہ تعالیٰ ہر نبی یکی معرفت خبر دیتا چلا آیا ہے آج وہ اس کو یونہی چھوڑ دے گا۔ یا اس کے کمالات کے مقابلہ میں تمہارے غلط دعوے ٹھہر سکیں گے۔
والذی انزل…… الحق۔ فرماتا ہے کہ اس کتاب میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں۔ آخر ہوکر رہنے والی ہیں۔ انہیں کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔ ساری آیت کا یہ مطلب ہے کہ انسان کی جستجو ہمیشہ یہ ہوتی ہے کہ مجھے صحیح علم حاصل ہو جائے لیکن ان لوگوں پر تعجب ہے کہ جب وہ کتاب انہیں ملی جو سب شبہات سے پاک ہے تو یہ اس پر ایمان لانے سے گریز کرتے ہیں اور یقین کو چھوڑ کر شکوک میں مبتلا ہیں۔
۳؎ حل لغات
عمد۔ عماد کی اسم جمع ہے اور العماد کے معنی ہیں مایسند بہ۔ وہ چیز جس پر سہارا لیا جاے۔ الابنیۃ الرفیعۃ اونچی اونچی بلند دیواروں اور عمارتوں کو بھی عماد کہتے ہیں۔ (اقرب)
سخرہ۔ کلفہ عملا بلا اجرۃ۔ سخرہ کے معنے ہیں کہ اس کو بغیر اجرت یا بدلہ کے کسی کام پر لگادیا۔ ذلہ ا سکو مطیع کردیا۔ وکل مقھور لایملک لنفسہ مایخلصہ من القھر فذلک مسخر۔ اور ہر وہ شخص جو کسی کے قبضہ میں ہو اور آزاد رہنے کی طاقت نہ رکھتا ہو اسے مسخر کہتے ہیں۔ (اقرب)
مندرجہ ذیل الفاظ کی تشریح کے لئے حل لغات کے دیگر مقامات کو دیکھئے۔ رفع یوسف ۹۷؎۔ السموت۔ استوی۔ العرش یونس۵؎ الاجل یونس۱۲؎۔ یدبر یونس۵؎ یفصل یونس۴۸؎۔
تفسیر
اس آیت کے دو معنے ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ تم دیکھتے ہو کہ آسمان بغیر ستونوں کے کھڑے ہیں اور ایک یہ کہ آسمان بغیر ایسے ستونوں کے کھڑے ہیں جنہیں تم دیکھ سکو یعنے سہارا تو ہے لیکن وہ سہارا تم کو نظر نہیں آتا اور یہ دونوں معنے ہی صحیح ہیں اور آیت کے مفہوم کے مطابق ہیں۔ اگر اس نقطۂ نگاہ سے دیکھا جائیے کہ ستون عرف عام میں ان مادی ستونوں کو کہتے ہیں جو دوسری چیزوں کا وزن اپنے اوپر اٹھا لیتے ہیں تو آسمان بغیر ستونوں کے کھڑے ہیں اور اگر اس نقطۂ نگاہ سے دیکھا جائے کہ جس چیز کے ذریعہ سے کوئی چیز اپنی جگہ کھڑی ہے وہ مجازاً اس کا ستون ہے تو پھر آسمانی اجرام ایسے ستونوں پر کھڑے ہیں جو لوگوں کو نظر نہیں آتے جیسے کشش ثقل یا حرکاتِ مخصوصہ۔ سیارگاں یا اور دوسرے ذرئع جو علماء طبیعات نے دریافت کئے ہیں یا جو اب تک دریافت نہیں ہوئے اس آیت میں کفار کے اس شبہ کا ازالہ کیا گیا ہے کہ محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بے سامان ہیں فتح اور غلبہ کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ انہیں میسر نہیں ہیں۔ پھر وہ کس طرح اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ اس شبہ کا ازالہ علاوہ پہلی آیت کے مضمون کے کہ جس میں الحق کہہ کر قرآن کریم کے قائم ہونے کی خبر دی گئی تھی اس طرح کیا گیا ہے کہ بے شک چیزوں کا قیام مناسب سہاروں کے اوپر ہوتا ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ تمام چیزوں کا سہارا ایک قسم کا ہو مادی اجرام کا سہارا ستون ہوتے ہیں۔ ایک چھوٹی سی چھت بغیر دیوار یا ستون کے کھڑی نہیں ہوسکتی لیکن اللہ تعالیٰ کی ایک اور صفت دیکھو کہ کتنے کتنے بوجھل ستارے بغیر کسی ایسی چیز کے جسے عرف عام میں ستون کہہ سکیں یا بغیر کسی نظر آے والے ستون کے اپنی اپنی جگہوں پر قائم ہیں اور ایک لمبا عرصہ گزرنے پر بھی ان کے نظام میں کوئی فرق نہیں آتا۔ پس انسانی فعل اور خدائی فعل میں فرق ہے۔ انسان تو بے شک بغیر ستون کے چھت نہیں کھڑی کرسکتا لیکن اللہ تعالیٰ نے تو لاکھوں کروڑوں ستارے بغیر ستونوں کے کھڑے کر چھوڑے ہیں اور ایسے مخفی سہارے ان کے بنائے ہیں کہ جو انسان کو نظر بھی نہیں آتے۔ اسی طرح روحانی معاملات کو سمجھ لو کہ بے شک انسان جب اپنی کوشش سے غالب ہونا چاہے تو اس کے لئے ظاہری سامانوں کی ضرورت ہے لیکن جب اللہ تعالیٰ کسی کو غالب کرنا چاہے تو اس کے لئے ظاہری سامانوں کی ضرورت نہیں اس کے سامان باریک اور غیر مرئی ہوتے ہیں اور اسی وقت حقیقت کھلتی ہے جبکہ نتیجہ نکل آتا ہے اس سے پہلے سب لوگ نبی کے غلبہ کو ناممکن قرار دیتے چلے جاتے ہیں۔
کفار جن سامانوں کو کامیابی کے لئے ضروری سمجھتے تھے وہ سورۂ بنی اسرائیل رکوع۱۰ میں بیان ہوئے ہیں۔ اور وہ یہ ہیں (۱) اس کے پاس آدمیوں اور جانوروں کے استعمال کے لئے چشمے ہوں۔ (۲)باغات کا مالک ہو اور زمینوں کے آباد کرنے کے لئے نہریں کھودے۔ (۳)اس کے دشمن فوراً برباد کئے جائیں اور پکڑے جائیں۔ (۴)خداتعالیٰ اور فرشتے اس کی مدد کے لئے لوگوں کے بالمقابل آکھڑے ہوں۔ (۵)دولت بے انتہا اس کے پاس ہو۔ (۶)وہ غیرمعمولی طاقتوں کا مالک ہو۔ آسمان پر لوگوں کے سامنے چڑھ جائے اور وہاں سے لکھی ہوئی کتاب لے کر آئے جسے لوگ اپنے ہاتھوں میں پکڑ سکیں اور پڑھ سکیں یعنی یہ نہ کہے کہ مجھے زبانی حکم ملاہے بلکہ لکھا ہوا پروانہ جسے لوگ خود پڑھ سکیں اس کے ساتھ ہو۔
ان مطالبات سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار کے نزدیک غلبہ کے ذرائع دو قسم کے ہیں۔ ایک دنیوی یعنی زمینوں مال و دولت پانیوں اور سزا و جزا کی طاقت کا حاصل ہونا۔ دوسرے دینی یعنی غیرمعمولی اور خارق سنت سامانوں کا پیدا ہونا۔ جیسے کہ خداتعالیٰ کا ظاہر ہونا، فرشتں کا ظاہر ہونا، آسمان پر جاکر لکھی ہوئی کتاب کا لے آنا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ ان دونوں قسم کی طاقتوں سے محروم پاتے تھے۔ ان کے نزدیک بادشاہ کے پاس جو کچھ ہونا چاہئے وہ بھی آپؐ کے پاس نہ تھا۔ اور ایک نبی کے پاس جو کچھ ہونا چاہئے وہ بھی آپؐ کے پاس نہ تھا۔ پس وہ خیال کرتے تھے کہ یہ شخص ایک بے ستون اور بے سہارے کی چھت قائم کرنا چاہتا ہے۔ پس کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ شاید کہا جائے کہ دنیا میں بہت سے ایسے لوگ بادشاہ ہوئے ہیں جو بے حیثیت تھے اور جن کو سامان میسر نہ تھے۔ جیسے قریب زمانوں میں نادر شاہِ ایران، یا نپولین شاہ فرانس اور ایسے لوگ ہمیشہ ہوتے رہے ہیں۔ پھر ان لوگوں کے تعجب کی کیا وجہ تھی تو اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک ایسے لوگ کبھی کبھی دنیا میں ہوتے رہے ہیں لیکن ان کی ابتدائی حالت میں بھی لوگوں نے کبھی خیال نہیں کیا کہ وہ اس طرح بادشاہ ہو جائیں گے جب وہ بادشاہ ہو گئے تھے۔ تبھی لوگوں کی آنکھ کھل گئی۔ علاوہ اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے ایسے لوگوں میں بہت بڑا امتیاز تھا۔ وہ لوگ جب بادشاہ ہو گئے تب انہوں نے اپنی بادشاہت کا اعلان کیا۔ اپنی ابتدائی حالت میں انہوں نے نہ یہ دعویٰ کیا اور نہ ان کو اس امر کا خیال ہی تھا۔ پس لوگوں میں تعجب پیدا نہیں ہوسکتا تھا۔ برخلاف اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو قبل از وقت دعیٰ کر رہے تھے جس کی وجہ سے عربوں کو اس عجیب دعویٰ پر حیرت ہورہی تھی۔ مگر اس سے بھی بڑھ کر یہ بات ہے کہ جو لوگ ادنیٰ حالت سے بادشاہ بنتے ہیں وہ بادشاہ بننے کے ذرائع اختیار کرتے ہیں۔ مثلاً نادر شاہ نے ترقی کا ارادہ کیا تو ستھ ہی کچھ نہ کچھ فوج اپنے اردگرد جمع کرنی شروع کی اور ڈاکے ڈالنے شروع کئے اور پہلے اردگرد کے چھوٹے رؤساء کو زیر کیا پھر بڑے رؤساء کا مقابلہ کیا یہاں تک کہ ایران کا بادشاہ ہو گیا۔ یہی حال نپولین کا تھا کہ جہاں ذرہ حرکت دیکھتا بجلی کی طرح کوند کر جا پہنچتا۔ اور اس طرح اس نے حکومت وقت کو مرعوب کرکے اپنی جگہ لوگوں کید لوں میں پیدا کرلی اور فوج کی وفاداری حکومت فرانس سے ہٹ کر اس کے ساتھ ہوگئی۔ تماما ن لوگوں کی زندگیوں میں جو ادنیٰ سے اعلیٰ مقامات پر ترقی پاتے ہیں یہ اصول کام کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جن لوگوں نے اس طرح ترقی کی ان کی زندگیوں میں بھی یہ بات پائی جاتی تھی۔ پس اس تجربہ کی بناء پر مکہ کے لوگ آپ کے غلبہ پاجانے اور حاکم ہوجاے کے دعویٰ کے ساتھ یہ بھی دکھنا چاہتے تھے کہ غلبہ کے سامان یہ کیا جمع کرتا ہے اور جو کچھ ان کو نظر آتا تھا وہ یہ تھا کہ بڑے بڑے بہادروں اور جانبازون کو آپ نرم دل اور مسکین بنادیتے تھے۔ بجائے رعب بٹھانے کے اپنے ساتھیوں کو ظلم کی برداشت اور عفو کی تعلیم دیتے تھے کسی پر حملہ کرنا تو الگ رہا جہاں تک ہوسکے دوسرے کے حملہ کو خاموشی سے سہہ لینے کا ارشاد ہوتا رہتا تھا اور یہ تعلیم ایسی تھی کہ ان کے نزدیک اس رستہ پر چل کر بادشاہت کا دروازہ بند ہوتا تا نہ کہ کھلتا تھا۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے حالات جانتا ہے وہ ان کے ظاہری اعتراضوں کے ساتھ ساتھ ا کے سلسلۂ خیالات کو بھی جانتا تھا۔ جن کے نتیجہ میں یہ اعتراض پیدا ہوتے تھے اور اس کے جواب میں فرماتا ہے کہ یہ شخص روحانی آسمان کے قیام کا مدعی ہے نہ کہ کسی دنیوی عمارت کا۔ تمہاری ستونوں والی چھتیں تو آخر گر جاتی ہیں لیکن بغیر ستونں والا آسمان بے شمار سالوں سے مضبوطی سے کھڑا ہے۔ اس کے سلسلہ کا بھی یہی حال ہے کہ آسمان کی طرح تمہاری نظروں سے اوجھل سامان جو اندرونی بھی ہیں کہ خود اس تعلیم میں پائے جاتے ہیں جو یہ دیتا ہے اور بیرونی بھی ہیں کہ جو خداتعالیٰ کی حفاظت سے تعلق رکھتے ہیں اس کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔ پس اس کا سلسلہ ظاہری سامانوں کی احتیاج سے بالا ہے اور انسانی طاقت سے بالا یعنے آسمانی سامانوں پر قائم کیا گیا ہے اور اس پر تعجب کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ کیونکہ اجرام فلکی کی مادی مثال میں خداتعالیٰ کی صفات کے اس قسم کے ظہور کی ایک بین دلیل موجود ہے۔
ثم استوی علی العرش۔ یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ نے اول دنیا کے اجرام کو بغیر سہارے کھڑا کرکے پھر اپنی صفات کو کامل طور پر ظاہر کرنا شروع کیا اسی طرح اب روحانی دنیا میں بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے آسمان روحانی کی تکمیل ہوکر صفات الٰہیہ کا کامل ظہور ہوگا اور کامل تعلیم بنی نوع انسان کو دی جائے گی۔ عرش کا لفظ قرآن کریم میں روحانی یا جسمانی قوانین کی تکمیل کے لئے بولا جاتا ہے اور یہ محاورہ دنیوی نظام سے مستعار لیا گیا ہے۔ دنیا میں بادشاہ جب کوئی خاص اعلان کرنا چاہیں تو تخت پر سے کرتے ہیں اسی محاورہ کے مطابق قرآن کریم میں صفات اللہ کے کامل ظہور کے لئے استوی علی العرش کے الفاظ آتے ہیں۔ باقی رہا یہ کہ عرش الٰہی کیا ہے اور کس قسم کا ہے۔ اس کا عام جواب تو وہ ہے جو علامہ راغب نے اس لفظ کے معنوں پر بحث کرتے ہوئے دیا ہے وہ لکھتے ہیں وعرش اللہ مالا یعلمہ البشر علی الحقیقۃ الا بالاسم ولیس کما تذھب الیہ اوھام العامۃ فانہ لوکان کذلک لکان حاملا لہ تعالی لا محمولا واللہ تعالی یقول ان اللہ یمسک السموت والارض ان تزولا ولئن زالتا ان امسکہما من احد من بعدہ۔ (مفردات) یعنی اللہ تعالیٰ کا عرش ایک ایسی چیز ہے جس کی حقیقت کو انسان نہیں جانتا صرف نام جانتا ہے لیکن بہرحال وہ اس قسم کا نہیں جیسا کہ عام لوگ خیال کرتے ہیں۔ کیونکہ اگر وہ کوئی تخت کے قسم کی چیز ہو تو اس کے یہ معنے بنیں گے کہ اللہ تعالیٰ کو اس نے اٹھایا ہوا ہے اور خداتعالیٰ نے اس کو نہیں اٹھایا ہوا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں صاف فرماتا ہے کہ آسمان و زمین کو اللہ تعالیٰ نے ہی اٹھایا ہوا ہے۔ ورنہ وہ اپنی جگہ سے ہٹ جائیں اور اگر وہ ہٹ جائیں تو خداتعالیٰ کے سوا کوئی ان کو ان کی جگہ پر نہیں رکھ سکتا۔
عرش کے لغوی معنے درحقیقت چھت کے ہیں اور تمام معنے اس کے ہر پھر کر چھت کے معنوں کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ تخت کے معنے بھی چھت سے ہی مستنبط ہیں کیونکہ عرش سلطانی بھی تخت کا نام ہوتا ہے اور تخت چند پاؤں پر ایک چھت ڈالنے سے بنتا ہے۔ غرض عرش کے اصل معنے چھت کے ہیں خواہ سر پر سایہ کے لئے ہو خواہ زمین پر ذرا اونچی کرکے بیٹھنے کے لئے ڈالی جائے۔ علاوہ ان معنوں کے عرش کنایۃً عزت حکومت غلبہ اور قام امر کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ (تاج العروس) اور یہ معنی بھی چھت کے لفظ سے ہی نکالے گئے ہیں۔ کیونکہ پرانے زمانہ میں بڑے لوگ اوچی جگہیں بناکر یا چھت دار کرسیوں یا تختوں پر بیٹھتے تھے۔ قرآن کریم میں یہ لفظ چھت کے معنوں میں بھی آیا ہے۔ جیسے فرمایا وھی خاویۃ علی عروشہا (بقرہ ع۳۵) یعنی گاؤں اپنی چھتوں کے بل گرا ہوا تھا۔ اورتخت کے معنوں میں بھی آیا ہے جیسے سورہ یوسف میں آتا ہے ورفع ابویہ علی العرش (یوسف ع۱۱) اپنے ماں باپ کو تخت پر بٹھایا۔ انہی معنوں میں چار دفعہ سورۂ نمل میں ملکہ سبا کے ذکر میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ ان کے علاوہ ۲۱ جگہ اس خاص عرش کے متعلق یہ لفظ استعمال ہوا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات سے مخصوص ہے جس کے معنوں کے لئے دیکھو نوٹ نمبر۵ سورہ یونس۔
تفسیر روح المعانی میں لکھا ہے کہ بعض لوگوں کا قول ہے کہ استوی علی العرش کے معنے صرف حکومت کرنے اور تدبیر امور کرنے کے ہیں اور اس کی سند وہ یہ پیش کرتے ہی کہ سورہ یونس میں ثم استوی علی العرش یدبر الامر آتا ہے اور یدبر الامر استوی علی العرش کی تفسیر ہے جو معنے یدبر الامر کے ہیں وہی معنے استوی علی العرش کے ہیں۔ مصنف روح المعانی نے اس قول کے قائل کا نام نہیں لکھا بعض نئے مفسرین نے بھی ان معنوں کو نقل کیا ہے مگر یہ معنے درست نہیں۔ اس لئے کہ عرش کا ذکر اس قدر تواتر سے قرآن کریم اور احادیث میں آتا ہے اور ایسے ایسے رنگ میں آتا ہے کہ یہ خیال کہ اللہ تعالیٰ کی مراد عرش سے محض حکومت کرنا ہے بالکل بعیداز قیاس معلوم ہوتا ہے۔ اور جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ سورۂ یونس کی آیت میں یدبرا الامر جملہ تفسیریہ کے علاوہ استوی کی ضمیر کا حال اور ان ربکم کی خبر ثانی بھی بن سکتا ہے اور اس کے یہ معنے ہوسکتے ہیں کہ خداتعالیٰ عرش پر قائم ہوا اس ال میں کہ اس نے تمام نظام عالم کی تدبیر شروع کی یا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین پیدا کئے اور عرش پر قائم ہوا۔ اور وہ تمام امور کا انتظام بھی کرتا ہے تو یہ معنی اور بھی کمزور ہو جاتے ہیں اور پھر جب ہم دیکھتے ہیں کہ گو سورۂ رعد کی آیت زیربحث میں بھی یدبرالامر کے الفاظ ہیں لیکن استوی علی العرش کے معاً بعد نہیں بلکہ دوسرے جملوں کے بعد آئے ہیں۔ پس اس جگہ یہ الفاظ استوی علی الاعرش کے لئے جملہ مفسرہ نہیں بن سکتے۔
غرض استوی علی الاعرش کے نہ تو یہ معنے ہیں کہ عرش کوئی مادی شئے ہے اور نہ اس سے یہ مراد ہے کہ عرش کوئی چیز ہی نہیں صرف حکومت کے معنوں میں اس لفظ کو استعمال کر لیا گیا ہے۔ بلکہ اس سے مراد صفات تنزیہیہ کا مجموعی نظام ہے جس کے لئے صفات تشبیہ بطور حامل کے ہیں۔ یا یوں کہو کہ بطور پاؤں کے ہیں۔ آسمان وزمین کو بغیر ستونوں کے کھڑا کرنے کے ذکر کے بعد پھر عرش پر قائم ہونے کا ذکر یہ بتانے کے لئے کیا گیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ایک نیا آسمان زمین تیار کرتا ہے تو اس کی صفات کامل طور پر ظاہر ہوتی ہیں اور کسی ایک صفت کا ظہور نہیں ہوتا۔ بلکہ صفات تنزیہیہ کے مرکز کے تابع جس قدر صفات تشبیہ ہیں سب کی سب اپنے کام میں لگ جاتی ہیں گویا جس طرح بادشاہ خاص اعلان تخت پر بیٹھ کر کرتے ہیں اللہ تعالیٰ بھی خاص فیوض صفات تنزیہیہ کے مرکز سے نازل کرتا ہے تا سب صفات تشبیہیہ اس کیت ابع ہونے کے سبب سے کامل طور پر ظاہر ہونے لگیں اس سے یہ اشارہ کیا ہے کہ محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید کسی ایک صفت کے ذریعہ سے نہ ہوگی۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات جو بندے سے تعلق رکھتی ہیں آپ کی تائید میں لگ جائیں گی۔
پھر فرمایا کہ آسمانوں کے بغیر ستون کھڑے ہونے کے علاوہ دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح سورج چاند کو بغیر کسی اجرت کے تمہارے کام پر لگایا ہوا ہے تمہارے تنخواہ دار نوکر چون و چرا کرسکتے ہیں مگر یہ اجرام فلکی کامل اطاعت سے تمہاری خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔ آخر وہ کون سا ظاہری خوف یا لالچ ہے جو ان کو درست رکھ رہا ہے۔ خداتعالیٰ کا ایک قانون ہی ہے نہ وہی قانون اگر محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں جاری ہوکر ہر شئے کو اس کے تابع کردے تو اس میں کیا استعجاب ہے۔
پھر فرمایا کہ یدبرالامر یعنی جس طرح یہ دنیوی قانون جاری ہے اور بغیر بظاہر نظر آنے والے ستونوں کے چل رہا ہے اسی طرح تمہارے دلوں میں یقین اور ایمان پیدا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کام کو جاری کرے گا اور کھلے کھلے نشانات اس کی تائید میں ظاہر کرے گا یا یہ کہ تمام عالم کو اس کی تائید کے لئے واضح احکام دے گا اور عالم کا ذرہ ذرہ اس کی تائید میں لگ جائے گا۔
۴؎ حل لغات
مد۔ مدہ۔ بسطہ۔ مدہ کے معنے ہیں اسے پھیلا۔ا المدیون۔ امھلہ۔ اگر یہ لفظ مدیو کے ساتھ استعمال ہو تو یہ معنے ہوتے ہیں کہ اس کو ڈھیل دی۔ مد اللہ عمرہ۔ اطالہ۔ اس کی عمر لمبی کی۔ مدالشئی۔ جذبہ۔ کسی چیز کو کھینچا۔ القوم۔ مارلھم مددا۔ قوم کی مدد کی۔ واغاثھم بنفسہ۔ اور خود اس کی اعانت کے لئے پہنچا۔ وفی اللسان مددت الارض مدا اذا زدت فیہا ترابا او سمادا من غیرھا۔ فیکون اعمر لہا واکثر ریعا۔ لمزرعھا۔ لسان العرب میں ہے کہ مددت الارض اس وقت بولا جائے گا جب اس میں باہر سے کچھ مٹی اور کھاد وغیرہ ڈالی جاوے۔ تاکہ وہ زمین اچھا غلہ پیدا کرنے لگ جائے۔ (اقرب) تو معنے یہ ہوئے کہ وہ خدا ہی ہے جس نے زمین کو پھیلایا اور وسیع کیا ہے اور وہ خدا ہی ہے جس نے زمین میں باہر سے لاکر اور مٹی ڈالی تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ قابل پیدائش بن سکے۔ یہ بات جغرافیہ سے ثابت ہے کہ اس زمین پر دوسرے کروں کے باریک باریک ذرات پڑ رہے ہیں جن کی وجہ سے یہ زمین زیادہ پیدائش کے قابل ہورہی ہے اور زمین کی مدد کرنے کا یہ مطلب ہے کہ اس میں غیرمحدود سامان رکھ ہیں تاکہ اس میں رہنے والے تباہ نہ ہوں۔
الرواسی۔ الجبال الثوابت الرواسخ (اقرب) مضبوط پہاڑ۔ ان معنوں کے لحاظ رواسی کا مفرد نہیں آتا۔
تفسیر
مد الارض میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ آسمان و زمین مل کر کام کرتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا رفع السموت آسمان کو بلند کیا۔ اور مدالارض زمین کو نیچے بچھا دیا ہے۔ مطلب یہ کہ جس طرح یہ دونوں آپس میں زوج ہیں جن کے ملنے سے نتائج پیدا ہوتے ہیں۔ کل کاروبار زمینی اور آسمانی طاقتوں کے ملنے سے چلتے ہیں اور اسی طرح روحانی عالم کا حال ہے۔ اس میں بھی ایک روحانی آسمان اور ایک روحانی زمین کی ضرورت ہے۔ یعنی ایک طرف قبول کرنے والی طبائع کی اور دوسری طرف آسمانی پانی اور آسمانی نور کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور جس طرح آسمانی پانی کے نزول کے بعد قابل زمین اپنے خزانے نکالنے سے رک نہیں سکتی اسی طرح وہ طبائع جو کہ اس روحانی سماء کے لئے بمنزلہ زمین ہوتی ہیں آسمانی پانی کے نزول کے بعد اپنے خزانوں کو روک نہیں سکتے اور جس طرح لوہا مقناطیس کے پیچھے چلا آتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے نبی کے پیچھے چلے آتے ہیں۔ پس محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے پھیلنے پر تعجب کی بات نہیں۔ اگر نہ پھیلے تو تعجب ہے کہ اچھی زمین نے عمدہ بارش کے نازل ہونے کے بعد سبزہ کیوں نہیں اگایا۔
پھر فرماتا ہے زمین میں ہم نے پہاڑ بنائے ہیں جن کی غرض یہ ہوتی ہے کہ ان میں برف جم کر پانی کا ذخیرہ رکھتی ہے اور سال بھر چشموں اور دریاؤں کی صورت میں وہ پانی دنیا کو سیراب کرتا ہے اگر وہ برفوں کا ذخیرہ خمتت ہو جائے تو چشمے اور دریا بھی بند ہوجائیں اور زمینیں بھی خشک ہو جائیں۔ یہی حال روحانی دنیا کا ہے۔ اس میں بھی بعض وجود پہاڑ کی طرح ہوتے ہیں کہ خدا کے کلام کے لئے ذخیرہ کے طور پر ہوتے ہیں اور بعض وہ وجود ہیں جو فائدہ تو پہنچاتے رہتے ہیں مگر جمع نہیں کرسکتے مگر ایک وہ ہیں جو صرف فائدہ ہی اٹھا سکتے ہیں۔ پہاڑ تو انبیاء ہیں اور نہریں علماء ہیں اور عام لوگ زمین کی طرح ہیں جو ان سے فائدہ اٹھاے ہیں۔ پس رواسی کو اگراڑا دیا جائے تو پانی نہ رہے گا اور دنیا تباہ ہو جائے گی۔
ومن کل الثمرت جعل فیہا زوجین اثنین یغشی الیل النہار۔ اور تمام پھلوں سے اس نے جوڑے یعنی نر و مادہ بنائے ہیں۔ گو یہاں صرف پھلوں کا ذکر کیا ہے مگر دوسرے مقامات سے ثابت ہے کہ ہر چیز کا جوڑا ہے۔ یہ ایک ایسی سچائی ہے جس کے اظہار میں قرآن کریم منفر دہے۔ عربوں نے سب سے پہلے کھجور کے نر و مادہ کا علم حاصل کیا مگر اس سے زیادہ وہ دریافت نہ کرسکے۔ قرآن کریم نے بتایا کہ سب پھل دار درختوں کے جوڑے ہیں بلکہ ہر شئے کے جوڑے ہیں۔ جس وقت یہ سچائی نازل ہوئی دنیا اس کی حقیقت کے سمجھنے سے قاصر تھی۔ مگر اب سائنس تیرہ سو سال بعد اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ تمام اشیاء کے جوڑے ہیں حتیٰ کہ جمادات کے ذرات تک میں نر و مادہ کی دریافت ہورہی ہے۔ اس مثال سے بھی یہ بتایا ہے کہ جس طرح باقی ہر چیز کو خداتعالیٰ نے جوڑا بنایا ہے۔ اسی طرح انسانی دماغ کا حال ہے۔ جب تک اس پر خداتعالیٰ کا نور نازل نہ ہو۔ اسے صحیح معرفت جو الہام اور عقل کا نتیجہ ہے حاصل نہیں ہوتی۔ اور اسی طرح یہ بھی درست ہے کہ جب عقل صحیح اور الہام آسمانی مل جاویں تو انہیں بار دار ہوے سے بھی کوئی روک نہیں سکتا۔ پس جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی کے بغیر معرفت الٰہی کا پیدا ہونا ناممکن تھا اسی طرح یہ بھی ناممکن ہے کہ آپؐ کا لایا ہوا کلام صحیح طریق پر پہنچنے کے بعد اسانی عقول اسے قبول کرنے سے باز رہ سکیں۔
یغشی الیل النھار سے ایک اور مثال تعلیم قرآن کے پھیل جانے کی دی۔ موجودہ تاریکی سے یہ دھوکہ نہیں کھانا چاہئے کہ قرآنی تعلیم کس طرح پھیل سکے گی۔ جس طرح روحانی دنیا میں تاریکی پھیلی ہوئی ہے۔ اسی طرح خداتعالیٰ رات کو دن کے بعد لاتا ہے اگر رات مستقل وجود ہو تو اس کا ہٹنا مشکل ہو لیکن تاریکی کا زمانہ بھی خداتعالیٰ کے قاون کے ماتحت ہے اور اس کے حکم سے آتا ہے پس جو چیز تابع ہے اس کے متعلق کس طرح خیال کیا جاسکتا ہے کہ حکم کے باوجود ٹھہری رہے گی۔ سورج کی ایک شعاع تاریکی کے بادلوں کو پھاڑ دیتی ہے۔ اسی طرح اب ہوگا۔ خداتعالیٰ کے قبضہ میں نور ہی نہیں تاریکی بھی ہے۔ پس جب وہ چاہے کہ تاریکی ہٹ جائے تو تاریکی قائم نہیں رہ سکتی۔ جو لوگ فکر کرنے والے ہوں وہ ان مثالوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور اٹھائیں گے۔ باقی وہ گروہ جو دوزخ کے بھرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کررہا ہے وہ بے شک رہ جائے گا۔
۵؎ حل لغات
قطع کا مفرد القطعۃ ہے جس کے معنی ہیں الحصۃ من الشئی۔ یعنی ساری چیز کا ایک جزو قطعہ کہلاتا ہے۔ (اقرب) متجاورات۔ تجاور سے ہے اور تجاورالقوم کے معنے ہیں جاور بعضھم بعضا۔ کہ ایک قوم دوسری قوم کی ہمسایہ بن گئی۔ (اقرب) وفی الارض قطع متجورت کے معنی ہیں کہ زمین میں ایسے ٹکڑے ہیں جو ایک دوسرے کے آس پاس ہیں۔ صنوان کا مفرد صنو ہے اور الصنو کے معنے ہیں الاخ الشفیق۔ حقیقی بھائی۔ الابن بیٹا۔ العم چچا۔ واذا اخرج نختلان اواکثرمن اصل واحد فکل واحدۃ منھن صنو وصنو۔ اور جب کسی کھور سے دو یا دو سے زیادہ تنے نکل پڑیں تو ہر ایک کو صنو کہتے ہیں۔ و الاثنتان صنوان وصنیان والجمع صنوان اور دو کو صنوان یا صنیان کہتے ہیں اور اس کی جمع صنوان ہے۔ وقیل الصنو عام فی کل قرعین یخر جان من اصل واحد فی النخ وغیرہ۔ اور بعض کے نزدیک صنو عام ہے۔ صرف کھجور سے تعلق نہیں رکھتا۔ پس صنوان وغیر صنوان کے معنے یہ ہوئے کہ ایسے کھجور کے درخت جو دو یا دو سے زائد تنوں والے ہیں۔ (اقرب) الاکل۔ الثمر۔ اکل کے معنی ہیں۔ پھل۔ الرزق الواسع۔ وسیع رزق۔ (اقرب) ونفضل بعضہا علی بعض فی الاکل کے معنے ہوئے کہ ایک کا میوہ اعلیٰ اور زیادہ ہوتا ہے اور دوسرے کا اعلیٰ بھی نہیں ہوتا اور زیادہ بھی نہیں ہوتا۔
تفسیر
یعنی یہ نہ سمجھو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے ہی شخص ہے جس طرح یہ عبدالمطلب کا پوتہ ہے اور بھی کئی اس کے پوتے ہیں۔ پس ان سب کو پیچھے چھوڑ کر یہ کیسے آگے نکل جائے گا یاد رکھو ایک ہی جگہ کی زمین کی مختلف ٹکڑوں میں مختلف طاقتیں ہوتی ہیں۔ ایک زمین کے پاس ہی دوسری زمین ہوتی ہے لیکن ایک ٹکڑے میں ایک درخت پیدا ہوتا ہے اور دوسرے میں نہیں ہوتا۔ یہ نظارہ کشمیر میں خوب نظر آتا ہے۔ کہ ایک خاص زمین میں زعفران ہوتا ہے اور بالکل متصل ساتھ ہی کی زمین میں زعفران نہیں ہوتا۔ اسی طرح صوبہ سرحد میں ایک ٹکڑا زمین کا ہے جسے غالباً باڑہ کہتے ہیں اس میں خاص قسم کے اعلیٰ چاول ہوتے ہیں۔ پاس کے کھیتوں میں وہ چاول نہیں ہوتے۔ زمینوں کو چھوڑ کر جانوروں کو لے لو۔ مشک کا ہرن ایک خاص علاقہ میں اچھا مشک دیتا ہے۔ وہاں کے پاس ہی دوسرے علاقہ میں لے جاؤ تو پہلے تو مشکل ناقص ہونے لگے گا پھر بالکل مشک ہی پیدا نہ ہوگا۔
تو فرمایا جب مٹی میں ہی ایسے فرق ہو جاتے ہیں تو انسانوں میں کیوں نہیں ایسا فرق ہوسکتا کہ ایک آسمانی بن جائے اور ایک زمینی۔ یسقی کے لفظ سے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ یہ چیزیں باوجودیکہ ان کو ایک ہی پانی ملتا ہے۔ مختلف رنگ و مزے کی ہوتی ہیں۔ لیکن تم کو تو پانی بھی علیحدہ علیحدہ قسم کا پلایا جاتا ہے۔ اس کو آسمانی پانی ملتا ہے اور تم کو تو شیطانی کیونکہ تم تو اس کلام کو سننے سے انکاری ہو اور شیطانوں کی باتیں سنتے رہتے ہو۔
یسقی بماء واحد سے اس بات کی طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے کہ تم جو کہتے ہو کہ ہمارے جیسا آدمی اور ہمارے جیسے ہی سامانوں والا ہم سے آگے کیسے نکل جائے گا تو اس کا جواب یہ ہے کہ کیا ایک ہی پانی پی کر مختلف بیج مختلف مزے نہیں پیدا کردیتے۔ پس یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ سامان ایک قسم کے ہیں بلکہ یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ سامان کو استعمال کرنے کی قابلیت مختلف ہے۔ ایک تلوار ایک اناڑی کے ہاتھ میں بیکار ہوتی ہے وہی تلوار شمشیر زن کے ہاتھ میں فتح و شکست کی ضامن ہوجاتی ہے۔ ابوبکرؓ اور عمرؓ انہی مکہ والوں میں سے تھے جب تک ان کے ساتھ رہے معمولی آدمی رہے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں آئے دنیا کے بہترین دماغ بن گئے اور دوست و دشمن نے انہیں خراج تحسین دیا اور دے رہے ہیں۔
۶؎ حل لغات
الغل۔ طوق من حدید اوقد یجعل فی العنق۔ او فی الید۔ غل اس طوق کو کہتے ہیں جو لوہے یا چمڑے کا ہوتا ہے۔ اور ہاتھ میں یا گردن میں ڈالا جاتا ہے ومنہ قیل للمراۃ الشیئۃ الخلق۔ غل قمل۔ انہی معنوں میں بدخلق عورت کو غل قمل کہتے ہیں۔ واصلہ ان الغل کان یکون من قد علیہ شعر فیقمل فی عنق الاسیر فیؤذیہ فیکو الغل القمل انکی من غیرہ۔ اور اصل اس کی یوں ہے کہ غل ایسے چمڑے سے ہوتا تھا جس میں بال ہوتے تھے اور قیدی کی گردن میں ڈالنے کے بعد اس میں جوئیں پڑ جاتی تھیں اور وہ طوق اسے تکلیف دیتا اس طرح وہ جوؤں والا غل زیادہ تکلیف دہ ہو جاتا تھا۔ وجمعہ اغلال وغلول۔ اس کی جمع اغلال بھی آتی ہے اور غلول بھی۔ اور جب یہ محاورہ بولتے ہیں کہ ھذا غل فی عنقک تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ یہ عمل تیرے گلے کا ہار بن گیا ہے اور تجھ کو اس کے بدلے میں عذاب ملے گا۔ (اقرب)
تفسیر
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی میں اور ان کے ذریعہ سے دنیا کی اصلاح ہونے میں کوئی تعجب کی بات نہیں۔
تعجب تو اس بات پر ہونا چاہئے کہ دنیا اس قدر خراب ہو جائے اور اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح کی فکر نہ کرے۔ یہ امر خلاف سنت ہے کہ آنکھ تو ہو مگر اس سے کام لینے کے لئے روشنی نہ ہو۔ مادہ تو ہو مگر اس کی طاقتوں کو ظاہر کرنے کے لئے نر نہ ہو پھر تعجب اس امر پر تو ہوسکتا ہے کہ نر و مادہ ملیں مگر نتیجہ پیدا نہ ہو۔ اس پر کیا تعجب ہے کہ ان دونوں کے ملنے سے بچہ کس طرح ہو گیا۔ پس اس پر تعجب نہ کرو کہ اس کے ذریعہ سے دنیا کی اصلاح کس طرح ہوگی۔ تعجب تو تم کو اپنے اس احمقانہ خیال پر کرنا چاہئے کہ ہم گرنے کے بعد اٹھیں گے کس طرح۔ مرنے کے بعد زندہ کس طرح ہوں گے۔ جب آسمانی سہارا آجائے جب زندگی کا پانی مل جائے پھر ان باتوں میں کیا تعجب ہے۔
اولئک الذین کفروا بربھم الآیہ۔ اس آیت میں فرمایا ہے کہ یہ مایوسی خداتعالیٰ کے فضلو سے کفر اور انکار کی وجہ سے ہوئی ہے۔
جو لوگ خودساختہ قواعد کی اتباع کرتے اور اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کو چھوڑتے ہیں ان کے لئے مایوسی کا شکار ہوجانا کوئی عجیب بات نہیں۔ اور مایوسی کا لازمی نتیجہ ناکام ہونا اور حسرتوں کے جہنم میں جلنا ہے۔ افسوس کہ اس وقت یہی حالت مسلمانوں کی ہے۔ وہ خداتعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کو چھوڑ کر خودساختہ علاجوں کی طرف متوجہ ہیں۔ بجائے اشاعت اسلام اصلاح اخلاق دعا اور انابت اور تسلیم لامراللہ کے سود اور بنک اور انگریزی تعلیم اور بیمہ اور کیا کیا علاج تجویز کررہے ہیں۔ حالانکہ ان میں سے بعض خلاف اسلام اور مضر ہیں اور بعض بغیر روحانی طاقتوں کے غیرمفید ہیں۔
۷؎ حل لغات
المثلت۔ اس کا مفرد المثلۃ ہے جس کے معنے ہیں۔ العقوبۃ۔ سزا۔ یقال حلت بہ المثلۃ اور حلت بہ المثلۃ کا محاورہ مذکورہ بالا معنوں میں ہی استعمال ہوتا ہے کہ اس پر سزاوارد ہوئی۔ وما اصاب القرون الماضیۃ من العذاب وھی عبر۔ یغتبربھا۔ اور گزرے ہوئے لوگوں پر جو عذاب نازل ہوئے اور جو دوسری اقوام کے لئے موجب عبرت ہیں ان کو بھی مثلۃ کہتے ہیں۔ (اقرب)
تفسیر
جب ان کو کہا جاتا ہے کہ اگر تم نے اپنے اغلال کو دور نہ کیا اور خداتعالیٰ کے سامانوں سے فائدہ نہ اٹھایا اور اپنی طاقتوں سے کام نہ لیا تو تم خشک لکڑی کی طرح ہو جاؤ گے۔ جس کا کام سوائے جلنے کے اور کچھ نہیں۔ تو جھٹ ہہ دیتے ہیں کہ اچھا پھر وہ آگ جلاؤ جس میں ہم نے جلنا ہے ہم جو نیکی کبات بتاتے ہیں اس کو تو قبول نہیں کرتے اور جو عذاب کا ڈراوا دیتے ہیں اس کو جلدی مانگنے لگ جاتے ہیں۔ حالانکہ نبیوں کے سات عذاب بھی آتا ہے اور اب بھی آئے گا۔ مگر انہیں یہ نہ چاہئے تھا کہ بجائے اصلاح کرکے فضل الٰہی بلب کرنے کے عذر کرکے عذاب طلب کرتے۔
ہر نبی کے وقت میں ایسا ہی ہوتا ہے ان کے نادان دشمن فضل نہیں مانگتے یہ نہیں کہتے کہ سچا ہے تو ہمیں اس کی اطاعت نصیب ہو بلکہ یہ کہتے ہیں کہ سچا ہے تو ہم پر عذاب نازل ہو۔
وان ربک لذو مغفرۃ للناس۔ اس آیت میں اس عظیم الشان حکمت کو بیان فرماتا ہے کہ ہماری غرض انبیاء کے بھیجنے سے لوگوں کو تباہ کرنا نہیںن بلکہ انہیں بچانا ہے۔ دنیا کے لوگ ظلم پر ظلم کرتے چلے جاتے ہیں۔ پھر بھی ہم مغفرت سے کام لیتے جاتے ہیں۔ پس تمہارے عذاب جلدی مانگنے سے ہم عذاب جلدی نہ لے آئیں گے کیونکہ یہ ہماری سنت کے خلاف ہے۔ ہماری خواہش تو یہ ہے کہ تم کو بخشش ملے۔ پس انہی ذرائع کو ہم کام میں لائیں گے جو زیادہ سے زیادہ لوگوں کو نجات دینے کا موجب ہوں۔
وان ربک لشدید العقاب۔ مگر اس سے یہ نہ سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے تم بچ جاؤ گے۔ تمہاری اصلاح کی پوری کوشش کی جائے گی لیکن تم نے اصلاح نہ کی تو پھر خداتعالیٰ سزا بھی ضرور دے گا۔ اور اس کی سزا کی شدت کا مقابلہ کوئی اور عذاب نہیں کرسکے گا۔
اس جملہ کے یہ معنی نہیں کہ خداتعالیٰ عذاب دینے میں سختی سے کام لیتا ہے بلکہ یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب دوسروں کے عذاب سے سخت ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ جن راہوں سے عذاب محسوس کراسکتا ہے انسان نہیں کراسکتے۔ عقاب کے لفظ سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ خداتعالیٰ کا عذاب بلاوجہ نہیں ہوتا۔ بلکہ انسان کے اعمال کا لازمی نتیجہ ہوتا ہے کیونکہ عقاب اس چیز کو کہتے ہیں جو ایڑیوں سے لگی ہوئی ہو یعنی اپنے کئے کا نتیجہ ہو جیسے بچہ ماں کے ساتھ لگا ہوتا ہے۔
۸؎ تفسیر
باوجود بار بار نشانات ظاہر ہونے کے اور آئندہ کے لئے نشانات کی خبر دینے کے کفار کہتے کہ نشان تو کوئی دکھاتے نہیں ہم مانیں کیونکر۔ اور اس نشان سے ان کی مراد عذاب الٰہی کا نزول ہوتا ہے۔ کیونکہ ان کے نزدیک نشان یہی تھا کہ وہ تباہ ہو جائیں۔ قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار جب بھی آیت کا مطالبہ کریں جب تک کوئی دوسرا قرینہ اور معنوں پر دلالت نہ کرے ہمیشہ اس کے معنے عذاب کے ہوتے ہیں۔
انما انت منذر۔ فرمایا۔ یہ نادان سوچتے نہیں کہ تیرا تو ایک نام منذر ہے۔ بلکہ نہ ماننے والوں کے لئے تیرا یہی نام ہے۔ پس جو بات تیرے نام ہی سے بتا دی گئی ہے اب یہ اس کی اور وضاحت کیا چاہتے ہی۔ مگر ساتھ ہی ان کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ بکل قوم ھاد۔ ہر قوم کی ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ مامور بھیجتا ہے۔ اگر ہدایت سے پہلے عذاب آجائیے تو ھاد کی صفت باطل جائے۔ پس صبر کریں۔ پہلے یہ ہادی بن جائے۔ اس کے بعد جو رہ جائیں گے ان کے لئے منذر بن جائے گا۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایسا ہی ہوتا رہا۔ کچھ عرصہ تک آپؐ کے ذریعہ سے لوگ ہدایت پاتے پھر اس طبقہ کے بچے کھچے لوگ عذاب سے تباہ ہو جاتے۔ پھر ایک اور طائفہ ہدایت پاتا پھر ان کے سرکردہ عذاب میں مبتلا ہوتے۔ اسی طرح آخر تک ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ خداتعالیٰ کے آخری فیصلہ نے تمام غلبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ کو بخش دیا۔ اور آپؐ کے دشمن بالکل تباہ ہو گئے۔
۹؎ حل لغات
تفیض غاض ماضی سے مضارع واحد مؤنث غائب کا صیغہ ہے۔ اور غاض الماء غیضا کے معنی ہیں۔ نفس۔ پانی کم ہو گیا۔ اوغار فلھب فی الارض۔ یا جذب ہو کر زمین کی تہ میں چلا گیا۔ وفی الصحاح قل فنضب اور صحاح میں غاض الماء کے یہ معنی کئے گئے ہیں کہ پانی کم ہوکر خش ہوگیا۔ ثمن السعۃ۔ نقص جب غاض کا لفظ ثمن کے ساتھ استعمال ہو تو یہ معنے ہوتے ہیں کہ سامان کی قیمت جو پہلے زیادہ تھی کم ہو گئی۔ ویقال غاض الماء والثمن۔ اور جب غاض کا لفظ متعدی ہوکر استعمال ہو اور اس کا مفعول الماء اور الثمن ہو تو یوں معنے کئے جائیں گے کہ سامان کی قیمت کو گرا دیا اور پانی کو کم کر دیا۔ وماتغیض الارحام۔ اے ماتنقص تسعۃ اشھر۔ پس اقرب الموارد والے نے ماتفی الارحام کے معنے یہ کئے ہیں کہ (اللہ خوب جانتا ہے) رحم اپنی مقررہ مدت ولادت میں جو کمی کرتے ہیں۔ نیز الغیض جو غاض کا مصدر ہے اسکے ایک معنی لغت میں یہ بھی کئے گئے ہیں السقط الذی لم یتم خلقہ۔ کہ غیض اس بچے کو کہتے ہیں جس کی پیدائش بھی مکمل نہ ہوئی ہو اور وہ ناقص ہونے کی حالت میں گر جائے۔ پس غیض کے اس معنے کو ملحوظ رکھتے ہوئے ماتغیض الارحام کے معنے یہ ہوں گے کہ اللہ اسے خوب جانتا ہے جسے رحم ناقص کرکے گرا دیتے ہیں۔ (اقرب)
تزداد۔ ازدا ماضی سے مضارع واحد مؤنث غائب کا صیغہ ہے اور ازداد زاد سے بنا ہے جس کے معنے ہیں زیادہ ہو گیا۔ یا زیادہ کر دیا۔ اور ازددت مالا وازداد الامر صعوبۃ کے معنے ہیں میں نے مال کو بڑھایا اور معاملہ پیچیدگی اور مشکل میں بڑھ گیا۔ یعنی یہ لازم اور متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے اور جب ازداد الراھن دراھم من المرتھم کا محاورہ بولا جائے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ اخذھا زیادۃ علی راس المال کہ رہن رکھنے والے نے مرتہن سے اصل مال پر بطور نفع کچھ رقم زیادہ لی۔ اور جب کوئی چیز دینے والا لینے والے کو کہے ھل تزداد تو اس کے معنے ہوتے ہیں ھل تطلب زیادۃ علی مااعطیتک کیا اس کے علاوہ جو تجھے دیا گیا تو اور زیادہ طلب کرتا ہے؟ پس ماتزداد کے معنے یہ ہو گے کہ (اللہ خوب جانتا ہے) رحم اپنی مقررہ مدت ولادت میں جو زیادتی کرتے ہیں۔ (اقرب) نیز الزیادۃ جو زاد کا مصدر ہے اس کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ ان ینضما الی ما علیہ الغنی فی نفسہ شئی اخر۔ کہ جن عام حالتوں میں کوئی چیز پائی جاتی ہو اس پر بطور زیادتی کوئی اور چیز اس کے ساتھ مل جائے پس ان معنوں کے مدنظر ماتزداد کے یہ معنی ہوں گے کہ اللہ اسے خوب جانتا ہے جسے رحم اصل چیز میں بڑھاتے اور زیادہ کرتے ہیں۔ (اقرب) مقدار کے معنے ہیں بڑا کا لفظ تنوین کا ترجمہ ہے جو کبھی بڑے کے معنے دیتی ہے۔
تفسیر
پہلے بتایا تھا کہ ہم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید مخفی ذرائع سے کریں گے۔ اسی کے ذکر میں یہ بھی بتایا تھا کہ تمام دنیا میں جوڑے پیدا کئے گئے ہیں۔ حتیٰ کہ زمین و آسمان بھی گویا ایک قسم کے جوڑے ہیں۔ ایک اثر ڈالتا ہے اور دوسرا اسے قبول کرتا ہے۔ ایک مخفی ذرائع سے دوسرے کی حیات کو قائم رکھتا ہے اور دوسرا قائم رہتا ہے۔ ایسا ہی روحانی سلسلہ میں بعض لوگ نرکا درجہ رکھتے ہیں اور بعض مادہ کا۔ اول الذکر اثر ڈالتے ہیں اور ثانی الذکر قبول کرتے ہیں۔
اب فرمایا کہ اس قاون کے ماتحت اب بھی ایک شخص کا ظہور ہوا ہے۔ جو روحانی طور پر نر کا مقام رکھتا ہے جس سے تعلق کے بغیر کوئی روحانی درجہ حاصل نہیں ہوسکتا۔
اللہ یعلم ما تحمل کل انثی۔ یعنی ہم جانتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن اپنے اندر کیا رنگ رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے اندر کون سے مادہ کو قبول کیا ہے۔ روانی کا یا شیطنت کا۔ اور یہ کہ کس کا مادہ بڑھے گا اور کس کا گھٹے گا۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریک کو قبول کرنے والے ہیں وہ بڑھیں گے اور ان کے اندر اعلیٰ قابلیتیں پیدا ہوں گی۔ اور جو آپؐ کے مقابل شیطانوں کے اثر قبول کررہے ہیں ان کی ظاہری اور باطنی نسل تباہ ہوگی۔ ظاہری حمل بھی اس جگہ مراد ہوسکتا ہے اور اس صورت میں معنے یہ ہوں گے کہ ہمیں معلوم ہے کہ تمہاری قوم کی آئندہ نسلیں کیا بننے والی ہیں۔ آئندہ تمہاری عورتوں کے ہاں وہی اولاد ہوگی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت گزار ہوگی۔ آپؐ کی مخالف اولاد ضائع ہی ہو جائے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ مکہ کی نئی نسل کثرت سے آپؐ کے خدام میں داخل ہوئی۔ اور بزرگ ان کو دیکھ دیکھ کر جلتے رہے۔ ان کے ظلم اور قہر نئی نسل کو ایمان لانے سے روک نہ سکے۔ یہ تدبیر بھی آپؐ کی ترقی کے لئے نہایت ممد ہوئی۔ گو ابتداء اس کو جانچنے کے لئے کفار کے پاس کوئی سامان نہ تھے۔
۱۰؎ حل لغات
الغیب۔ یہ غاب۔ یغیب کا مصدر ہے۔ اور غابت الشمس وغیرھا۔ الذا استترت من العین غاب کا لفظ سورج کے لئے یا کسی اور چیز کے لئے اس وقت بولتے ہیں کہ جب سورج غروب ہوجاوے۔ یا کوئی اور چیز آنکھوں سے اوجھل ہوجائے۔ واستعمل فی کل غائب عن الحاسۃ جو بات حواس سے بالا اور پوشیدہ ہو اس پر بھی غیب کا لفظ اطلاق پاتا ہے۔ اور شہادۃ کا لفظ غیب کے بالمقابل بولا جاتا ہے۔ (مفردات) پس غیب اور شہادت کے دو معنی ہیں۔ (۱) شہادۃ جو لوگ ظاہر کرتے ہوں۔ اور غیب جسے وہ چھپاتے ہوں۔ (۲)جو حواس ظاہری سے معلوم ہوسکے وہ شہادت ہے اور جو باتیں حواس سے بالا اور پوشیدہ ہیں…… وہ غیب ہی۔ تو عالم الغیب والشہادۃ کہہ کر اس طرف اشارہ کیا ہے کہ تمہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہم تمہاری ہر ایک تدبیر کو جانتے ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ اگر کوئی آدمی اپنے دشمن کی باتوں کو نہ جانتا ہو لیکن دشمن اس کی باتوں سے واقف ہو تو وہ انسان اس سے مقابلہ نہیں کرسکتا۔ پس تمہیں احتیاط کرنی چاہئے۔
المتعال۔ تعالی۔ ارتفع۔ تعالی کے معنے ہیں بلند ہوا۔ والمتعال۔ رفع الشان۔ بڑی شان والا۔ الکبیر ذوالکبر۔ کبیر کے معنے ہیں کبر والا۔ اور کبر کے معنے ہیں الشرف بزرگی الرفعۃ فی الشرف۔ شرف کے لحاظ سے رفعت العظمۃ والتجبر۔ عظمت و جبروت (اقرب) پس کبیر کے معنی ہوں گے بزرگ والا۔ عظمت و جبروت والا۔ شرف کے لحاظ سے رفعت والا۔ کبیر اور متعال دونوں میں یہ فرق ہے کہ کبیر اس بڑائی پر دلالت کرتا ہے جس سے دوسروں پر اثر ڈالنے والی بلندی مراد ہو جیسے متکبر ہوتا ہے۔ یعنی دوسروں کے مقابلہ میں بڑا بننا چاہتا ہے۔ ایسا ہی کبیر میں خداتعالیٰ کی وہ بڑائی مراد ہے جو بہ نسبت اس کی مخلوق کے ہے۔
متعال اس بڑائی پر دلالت کرتا ہے جو تنزہ والی ہوتی ہے۔ یعنی اس کی ایسی ارفع شان ہے کہ بندوں سے واسطہ ہی نہیں رہتا۔ پس جو رفعت استغناء پر دلالت کرتی ہے وہ متعال کے لفظ سے بیان کی گئی ہے۔ اور جو رفعت بندوں سے تعلق پر دلالت کرتی ہے اس کو الکبیر کے لفظ سے واضح فرمایا ہے۔
ان دونوں کے اس جگہ پر ذکر کرنے کی یہ وجہ ہے کہ یہ بتایا جائے کہ ہم کبیر ہیں۔ تمہاری طاقتیں ہمارے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ ہم تمہاری مخالف کوششوں کو بالکل ذلیل و حقیر بنا کر بیکار کر دیں گے یعنی جب چاہیں گے پیس ڈالیں گے اور ہم غنی ہیں۔ تمہاری تباہی سے ہماری حکومت میں کوئی کمی نہ آوے گی۔
تفسیر
اس آیت میں یہ گر بتایا ہے کہ دشمن پر کامیابی حاصل کرنے کے لئے اس کی تدابیر کا علم حاصل کرنا ضروری ہے۔ اگر ہم اس کی کوششوں سے واقف ہیں تو ان کے اثر کو دور کرسکیں گے ورنہ ہر وقت خطرہ میں رہیں گے۔
عالم الغیب کہہ کر بتایا کہ اے نادانو! اتنا تو سوچو تمہارا مقابلہ کس ہستی سے ہے۔ کیا اس خدا سے کہ جو تمہاری تدبیروں کو جانتا ہے اور پھر وہ کبیر ہے۔ تمہاری تمام تدابیر کو ایک منٹ میں توڑ کر رکھ سکتا ہے۔ پھر اس کی شان تمہارے علم سے نہایت ارفع ہے۔ یعنی وہ تمہاری تدابیر کو جانتا ہے اور تم کو علم نہیں کہ توہ تمہارے ہلاک کرنے کے کیا کیا سامان کررہا ہے۔ پس غور کرو کہ کیا تم ایسی ذات کا مقابلہ کرسکتے ہو۔
کبیر کے لفظ سے ان کی تدابیر کے توڑنے پر دلالت کی ہے۔ اور متعال سے بتایا کہ تم خدا کی تدابیر سے واقف نہیں ہوسکتے۔ پھر اسی کی تشریح میں آگے فرمایا۔
۱۱؎ حل لغات
سارب۔ سرب سے اسم فاعل کا صیغہ ہے۔ اور سرب البعیر سروبا کے معنی ہیں توجہ للرعی۔ اونٹ چرنے کے لئے گیا۔ ابل ساربۃ متوجہۃ للرعی۔ اور ابل ساربہ ان اونٹوں کو کہتے ہیں جو چرنے کے لئے جارہے ہوں۔ الماء۔ جری اور جب سرب الماء کا فقرہ استعمال کیا جائے تو اس سے یہ مراد ہوتی ہے پانی بہ پڑا۔ فلان فی الارض۔ ذھب علی وجہہ فیہا ومضی اور جب سرب فلان فی الارض کہا جائے تو اس کے معنے ہوتے ہیں کہ زمین میں چلا۔ (اقرب)
تفسیر
کفار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں دو ہی طریق استعمال کیا کرتے تھے۔ کبھی پبلک میں دھمکیاں دیا کرتے تھے کہ ہم اس اس طرح آپؐ کو تباہ کر دیں گے تا آپؐ ڈر جائیں اور کبھی مخفی طور پر مشوروں اور منصوبوں کے ذریعہ سے آپؐ کو ہلاک کرنے کی کوششی کرتے تھے۔ کبھی آپؐ پر دن کو حملہ کرتے تھے۔ جیسا کہ اوجھری کے سرپر ڈال دینے یا آپؐ کا گلا گھونٹنے کی کوشش کے واقعات میں اور کبھی رات کو حملہ کرتے تھے جیسا کہی ہجرت کی رات کو وہ حملہ آور ہوئے تے۔ اور دنیا میں دشمن کو خوف زدہ کرنے کے یہی دو طریق ہوا کرتے ہیں۔ یعنی علی الاعلان دھمکیاں یا مخفی مشورے و منصوبے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقابلہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کا مقابلہ ہے اور اللہ تعالیٰ سے کوئی بات چھپی نہیں رہ سکتی۔ پھر تمہارے ظاہری اور مخفی حملے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
۱۲؎ حل لغات
معقبات عقب میں سے ہے اور عقبہ کے معنے ہیں جاء بعقبہ۔ اس کے پیچھے پیچھے آیا۔ اتی بشئی بعدہ۔ یا اس کے بعد کوئی کام کیا۔ عقب فلان کے معنے ہیں غزا علی العدو ثم ثنی من سنتہ کہ دشمن پر ایک حملہ کرنے کے بعد پھر اسی سال دوسرا حملہ کیا۔ اور جب عقب فی الامر کہا جاوے تو اس کے معنے ہوتے ہیں تودد فی طلبہ مجدا کسی بات کی تلاش میں بار بار کوشش کی علاوہ ازیں عقب کے کئی اور استعمال ہیں۔ مثلاً عقب فی الصلوۃ۔ مکث فی موضعہ ینتظر صلٰوۃ اخری۔ نماز پڑھ کر اپنی جگہ بیٹھ کر دوسری نماز کا انتظار کرتا رہا الحاکم علی حکم سلفہ۔ حکم بعد حکم۔ حاکم نے اپنے سے پہلے کے فیصلہ کے بعد کوئی اور فیصلہ کردیا۔ اور المعقبات کے معنی ہیں ملائکۃ اللیل والنہار۔ دن اور رات کے فرشتے۔ التسبیحات یخلف بعضہا بعضا۔ تسبیحات۔ کیونکہ وہ ایک دوسرے کے بعد آتی ہیں۔ اللواتی یقمن عند اعجاز الابل المعترکات علی الحوض فاذا الصرفت ناقۃ وخلت مکانہا اخری وہ اونٹنیاں جو اونٹوں کے پانی پر ازدحام کے وقت پیچھے کھڑی رہتی ہیں اور جب ایک اونٹنی پانی پی کر چلی جاتی ہے تو دوسری اس کی جگہ آجاتی ہے۔ (اقرب) اس جگہ معقبات سے مراد پہرہ دار اور توابع آگے پیچھے چلے والے ہیں۔
لہ معقبات من بین یدیہ ومن خلفہ ای ملائکۃ یتعاقبون علیہ حافظین۔ معقبات سے مراد وہ فرشتوں کی جماعت ہے جو حفاظت کے لئے یکے بعد دیگرے آتے ہیں۔ (مفردات)
مرد رد کا مصدر ہے اور ردعن وجہہ کے معنے ہیں صرفہ اس کو پھیر دیا۔ علیہ الشئی۔ لم یقبلہ رد علیہ الشئی کے معنے ہیں عطیہ کو قبول نہ کیا اور واپس کر دیا۔ الی منزلہ۔ ارجعہ اس کو واپس اس کے مکان کی طرف لوٹا دیا۔ پس مرد مصدر کے جو اسم فاعل کے معنوں میں استعمال ہوا ہے یہ معنے ہوں گے ہٹانے والا، واپس کرنے والا۔ (اقرب) اور لامرد لہ کے معنے ہوں گے اسے کوئی ہٹانے والا نہیں۔
وال۔ ولی سے اسم فاعل ہے اور ولی الشئی کے معنے ہیں ملک امرہ وقام بہ۔ کسی بات کا مالک بنا اور اس کی ذمہ داری کو اٹھایا۔ فلانا وعلیہ نصرہ۔ اور ولی فلانا کے معنے ہیں اس کی مدد کی۔ فلانا ولایۃ۔ احبہ اور جب ولایۃ مصدر ہو تو اس کے معنے ہوں گے محبت کی۔ (اقر) پس وال کے معنے ہوں گے (۱) مددگار۔ (۲)نگران (۳)محافظ۔
تفسیر
لہ کی ضمیر میرے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کی طرف پھرتی ہے یعنی جیسے بادشاہوں کے گرد پہرہ دار ہوتے ہیں ویسے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے پیچھے معقبات ہیں۔ ان معنوں کی تائید ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ چنانچہ ابونعیم نے الدلائل میں اور طبرانی نے اپنی معجم کبیر میں نقل کیا ہے کہ عامر ابن طفیل اور عربد ابن قیس دو شخص حضورؐ کے پاس آئے۔ عامر نے کہا کہ اگر میں مسلمان ہو جاؤں تو کیا ولایت امر یعنی اپنے بعد خلافت مجھے دے دی جائے گی؟ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ تمہاری اس شرط کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خلافت تمہیں اور تمہاری قوم کو کبھی نہ ملے گی۔ اس نے اس بات سے ناراض ہوکر کہا کہ پھر میں ایسے سوار لاؤں گا کہ تم یاد رکھو گے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا تمہیں اس کی توفیق ہی نہ دے گا۔ اس پر وہ دونوں ناراض ہوکر چلے گئے۔ راستہ میں عربد نے کہا آؤ پھر واپس چلیں۔ میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو باتوں میں لگاؤں گا تم پیچھے سے تلوار کے ذریعہ اس کا کام تمام کر دینا۔ عامر نے کہا کہ اس طرح بڑا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ اور آپؐ کے ساتھی ہمیں قتل کر دیں گے اس نے جواب دیا کہ کوئی خطرہ کی بات نہیں۔ ہم دیت دے دیں گے۔ چنانچہ وہ دونوں واپس آئے۔ عربد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کرنے لگا اور عامر نے چاہا کہ آپؐ کو پیچھے سے تلوار مار دے مگر وہ تلوار سونت کر رہ گیا اور وار نہ کرسکا۔ حدیثوں میں تو آتا ہے کہ اس کے ہاتھ پر فالج گرا۔ لیکن چونکہ انہی حدیثوں میں یہ ذکر بھی ہے کہ بعد میں وہ سوار ہوکر گیا اور ہاتھ کا استعمال کرتا رہا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فالج نہیں گرا تھا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے دل پر رعب طاری کر دیا اور اسے حملہ کرنے کی جرأت نہ ہوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رعب سے اس کا ہاتھ کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔ لکھا گیا ہے کہ اتنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مڑ کر دیکھا تو اس نے ہاتھ تلوار کے قبضہ پر رکھا ہوا تھا۔ حضور اس کے ارادہ کو بھانپ گئے اور پیچھے ہٹ گئے۔ مگر ان دونو سے کچھ تعرض نہ کیا۔ اس کے بعد وہ دونوں وہاں سے چلے گئے۔ عربد پر راستہ میں بجلی گری اور عامر کاربنکل سے ہلاک ہوگیا۔ صحابہؓ کہتے ہیں کہ ہم اس واقعہ پر لہ معقبات من بین یدیہ ومن خلفہ والی آیت چسپاں کیا کرتے تھے۔ (روح المعانی) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہؓ اس آیت کو عام سمجھنے کی بجائے خاص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سمجھا کرتے تھے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تمام زمانہ نبوت اس حفاظت کا ثبوت دیتا ہے۔ چنانچہ مکہ معظمہ میں آپؐ کی حفاظت فرشتے ہی کرتے تھے ورنہ اس قدر دشمنوں میں گھرے ہوئے رہ کر آپؐ کی جان کس طرح محفوظ رہ سکتی تھی۔ ہاں مدینہ تشریف لانے پر دونوں قسم کی حفاظت آپ کو حاصل ہوئی۔ آسمانی فرشتوں کی بھی اور زمینی فرشتوں یعنی صحابہؓ کی بھی۔
بدر کی جنگ اس ظاہری اور باطنی حفاظت کی ایک نہایت عمدہ مثال ہے۔ حضور جب مدینہ تشریف لے گئے تھے تو آپؐ نے اہل مدینہ سے معاہدہ کیا تھا کہ اگر آپ مدینہ سے باہر جاکر لڑیں گے تو مدینہ والے آپؐ کا ساتھ دینے پر مجبور نہ ہوں گے۔ بدر کی لڑائی میں آپؐ نے انصار اور مہاجرین سے لڑنے کے بارہ میں مشورہ فرمایا۔ مہاجرین بار بار آغے بڑھ کر مقابلہ کرنے پر زور دیتے تھے لیکن حضور ان کی بات سن کر پھر فرما دیتے کہ اے لوگو مشورہ دو۔ جس پر ایک انصاری (سعد بن معاذ) نے کہا کیا حضور کی مراد ہم سے ہے۔ حضور نے فرمایا ہاں۔ اس نے کہا کہ بے شک ہم نے حضور سے معاہدہ کیا تھا کہ اگر باہر جاکر لڑنے کا موقع ہوگا تو ہم حضور کا ساتھ دینے پر مجبور نہ ہوں گے لیکن وہ وقت اور تھا۔ جبکہ ہم نے دیکھ لیا کہ آپؐ خدا کیر سول برحق ہیں تو اب اس مشورہ کی کیا ضرورت ہے۔ اگر حضور ہمی حکم دیں تو ہم اپنے گھوڑے سمندر میں ڈال دیں گے۔ ہم اصحاب موسیٰؑ کی طرح یہ نہ کہیں گے کہ تو اور تیرا رب جاکر لڑو۔ ہم یہاں بیٹھے ہیں۔ بلکہ ہم حضور کے دائیں بائیں، آگے اور پیچے لڑیں گے اور دشمن آپ تک ہرگز نہ پہنچ سکے گا جب تک کہ وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے۔
یہ مخلصین بھی میرے نزدیک ان معقبات میں سے تھے جو خداتعالیٰ نے حضور کی حفاظت کے لئے مقرر فرما دیئے تھے۔ ایک صحابی کہتے ہیں کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں تیرہ جنگوں میں شریک ہوا ہوں۔ مگر میرے دل میں بارہا یہ خواہش پیدا ہوئی ہے کہ میں بجائے ان لڑائیوں میں حصہ لینے کے اس فقرہ کا کہنے والا ہوتا جو سعد بنی معاذ کے منہ سے نکلا۔
من امراللہ۔ خدا کے حکم کے ماتحت حفاظت کرتے ہیں۔ یعنی قومیت یا ضد کے خیال سے نہیں کرتے اور نہ رشتہ داری یا حکومت کے خوف سے۔ بلکہ محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے۔ دین کے سوا کوئی چیز ا کو جمع کرنے والی نہیں تھی۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر ایک کافر کو یہ امر محسوس بھی ہوا اور اس نے آنضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کہہ بھی دیا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ان لوگوں پر اعتماد نہ کرنا یہ بن بن کی لکڑیاں تیرے کس کامم آئیں گی مگر باوجود کسی دنیوی واسطہ کی عدم موجودگی کے وہ لوگ سب سے زیادہ وفادار ثابت ہوئے۔ معقب کے معنے روکنے والے کے بھی ہوتے ہیں اور اس لحاظ سے آیت کا یہ مطلب ہوا کہ اس کے لئے دشمنوں کے حملہ کو روکنے والے اور اس کی تائید میں بار بار حملہ کرنے والے مقرر ہیں۔ لہ معقبات کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ ہر انسان کی حفاظت کے لئے بھی خدا نے پہرہد ار مقرر کر رکھے ہیں۔ اس صورت میں لہ کی ضمیر کا مرجع سواء منکم من اسرالقول ہوگا۔
اگر انسان غور کرے تو اسے معلوم ہوجائے کہ ہر لحظہ اس کے اندر کس قدر زہر جارہا ہے۔ ایک دوسرے کے سانس کے زہریلے کیڑے اندر داخل ہورہے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان تمام زہروں کے لئے ایسا قانون مقرر کردیا ہے کہ جو جسم میں داخل ہوتے ہی زہر کو تباہ کردیا ہے۔ انسان کے لئے ہر آن ہزاروں خطرات ہیں۔ بیماریاں، عقل کے صدمات، اموال کے نقصان اور عزت کے صڈمات وغیرہ طرح طرح کے خطرات ہر وقت پیش آتے رہتے ہیں۔ ان سب سے اللہ تعالیٰ ہی انسان کی حفاظت فرماتا ہے اور جب کسی پر موت یا کوئی اور صدمہ آنا ہوتا ہے تو وہ اپنی حفاظت اٹھا لیتا ہے۔
اس مضمون سے کافروں کو یہ سبق دیا ہے کہ اگر تم شرارتوں میں ہی بڑھتے رہو گے تو یاد رکھو تمہارا آرام سب ہماری ہی حفاظت کے سبب سے ہے۔ اس صورت میں ہم اپنی فاظت تم سے واپس لے لیں گے اور تم تباہ ہو جاؤ گے۔
ان اللہ لایغیر مابقوم حتی یغیروا مابانفسہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ خداتعالیٰ بروں کے ساتھ نیک سلوک نہیں کرتا بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ نیکوں کے متعلق اپنے رویہ کو نہیں بدلتا۔ جب تک ان میں تبدیلی واقع نہ ہو جائے اور وہ برے نہ بن جائیں۔ یعنی برے کے ساتھ تو خدا کا سلوک نیک ہوسکتا ہے مگر نیک کے ساتھ برا نہیں ہوا کرتا۔ جب تک وہ خود بدل نہ جائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے۔
جب کسی قوم کی حالت خراب ہورہی ہو اور اسے ایسے ابتلا پیش آویں جو اسے پراگندہ کر دیں اور تباہ کر دیں جیسا کہ تغیر کا حقیقی منشاء ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ اس قوم کی حالت بدل چکی ہے۔
واذا ارادللہ بقوم سوء فلا مرد لہ وما لھم من دونہ من وال۔ سوء کے معنے بدی یا تکلیف کے ہوتے ہیں۔ فرمایا اگر اللہ تعالیٰ تمہیں تکلیف دینے کا فیصلہ کرے تو پھر کوئی اس کو روکنے والا نہ ہوگا۔ ولی الامر کے معنے ملکہ آتے ہیں۔ تو فرمایا کہ خدا کے مقابلہ میں کوئی ان کا نگران والی و محافظ نہ ہوگا۔ اس میں وحدت ملکیت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ یعنی جب ایک ہی مالک ہے تو اس کی چھوڑی ہوئی چیز کو کون حفاظت میں لے سکتا ہے۔ پس اگر ہم چھوڑ دیں گے تو پھر بے مدد ہی رہ جاؤ گے کیونکہ دوسرا کوئی آقا تو ہے جنہیں۔ اس آیت میں صاف طور پر کفار کو بتلا دیا گیا کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تو حفاظت کروں گا مگر تم سے حفاظت کو چھین لوں گا۔
۱۳؎ حل لغات
ینشیٔ انشاء سے مضارع واحد مذکر غائب کا صیغہ ہے اور انشأہ انشاء کے معنی ہیں رباہ۔ اس کی پرورش کی۔ الشئی احدثہ اور انشا الشئی کے معنے ہیں کسی چیز کو بنایا۔ اللہ الشئی۔ خلقہ اللہ نے کسی کو پیدا کیا۔ا ور انشأ اللہ الخلق کے معنی ہیں ابتدا۔ خلقھم اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کرنے کی ابتداء کی۔ فلا الحدیث۔ وضعہ جب حدیث کے لئے یہ لفظ استعمال ہو تو اس کے معنے ہوتے ہیں کوئی بات بنائی۔ اللہ السحابہ رفعھا اور انشا اللہ الحابۃ کے معنی ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ے بادلوں کو بلند کیا۔ فلان دارا۔ بدأ بناھا مکان کے بنانے کی ابتداء کی۔ زید انشأ شعرا او خطیب بخطبۃ فاحسن فیھا۔ زید نے اچھی طرح شعر کہے اور لیکچرار نے بلند پایہ تقریر کی۔ (اقرب) پس ینشئی السحاب کے معنے ہوں گے (۱)بادلوں کو بناتا ہے۔ بادلوں کو اٹھاتا ہے۔
السحاب۔ الغیم۔ کان فیہ ماء اولم یکن فیہ السحاب۔ سحابۃ کی جمع ہے اور اس کے معنے ہیں بادل۔ خواہ وہ برسنے والا ہو یا نہ ہو۔ الواحدۃ سحابۃ۔ یہ اسم جنس ہے۔ مفرد اور جمع دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ السحاب المسخر میں واحد ہے اور السحاب الثقال میں جمع۔ ثقال کا لفظ ثقیل (بھاری) کی جمع ہے جو خفیف (ہلکے) کی ضد ہے۔ (اقرب)
تفسیر
برق سے لوگوں کے لئے خوف اور طمع دونوں پیدا ہوتے ہیں۔ خوف اس لئے کہ بجلی گر کر ہلاک نہ کردے اور طمع اس لئے کہ عام طورپر بجلی زیادہ تبھی چمکتی ہے جب بادل زیادہ برسنے والا ہوتا ہے۔ اگرچہ ہمارے ملک میں بھی مشہور ہے کہ جو ’’گرجتے ہیں برستے نہیں‘‘ مگر وہ خاص قسم کی گرج ہوتی ہے۔ علاقوہ ازیں بجلی کی چمک سے رحم مادر میں بچوں کو اور اسیا ہی بعض پودوں کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ مگر ساتھ ہی اس کی چمک سے کئی بیماریو کے کیڑے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ وبائیں دور ہوجاتی ہیں۔ گویا بجلی کی چمک میں خوف بھی ہے اور فوائد بھی۔ یہی ال بھاری بادلوں کا ہوتا ہے۔ کبھی وہ رحمت بن کے دنیا کی آبادی کا باعث ہو جاتے ہیں اور کبھی وہی زحمت بن جاتے ہیں اور فصلوں کو برباد اور شہرو کو غرق کر دیتے ہیں۔
اس مثال سے بتایا ہے کہ ایک ہی چیز بعض کی تباہی کا اور بعض کی ترقی کا موجب ب جاتی ہے۔ بجلی چمکتی ہے، بادل آتے ہیں۔ ان سے کئی تباہ ہو جاتے ہیں اور کئی بے شمار فوائد حاصل کرتے ہیں۔ پس ظاہر ہے کہ اچھے یا برے نتائج صرف کسی چیز کے اچھے یا برے ہونے سے متعلق نہیں بلکہ اس کے تعلق سے متعلق ہیں۔ جو اس چیز کو کسی دوسری چیز سے جاکر پیدا ہوتا ہے۔ مثلاً مثلاً کوئی پوچھے کہ بھاری بادل اچھیہوتے ہیں یا کہ نہیں۔ تو اس کا کوئی جواب نہیں دیا جاسکتا۔ تاوقتیکہ موقع و حالات کو نہ دیکھ لیا جائے۔ جب بارش آتی ہے تو جس کی عمارت بن رہ ہوتی ہے وہ کہتا ہے کہ اگر بارش آگئی تو میں تباہ ہو جاؤ گا مگر اسی وقت زمیندار جس کا کھیت خشک سالی کیو جہ سے تباہ ہورہا ہوتا ہے کہتا ہے کہ اگر بارش نہ ہوئی تو میں برباد ہو جاؤں گا۔ پس فرمایا کہ چند دن کا فائدہ یا ضرر نسبتی امر ہے۔ پس کفار کو ظاہری سامانوں پر گھمنڈ نہ کرنا چاہئے۔ مال رشتہ دار اور حکومتیں ہر اک کے لئے اھچی ہی نہیں ہوتیں۔ یہ اگر ایک کو بچا لیتی ہیں تو دوسرے کو تباہ کر دیتی ہیں۔ اس لئے وہ ان سامانوں کو نہ دیکھیں ہ جو ان کے پاس ہیں بلکہ اپنے دل کی حالت کو دیکھیں اگر دل خراب ہوچکے ہیں تو ظاہری سامان ترقی نہیں تنزل کا موجب ہوں گے۔ یہ ایک اتنا لطیف اور وسیع مضمون ہے کہ اس کے ذریعہ سے قوموں کے تنزل اور ترقی کے اسباب پر ضخیم مجلدات لکھی جاسکتی ہیں۔
۱۴؎ حل لغا ت
یسبح۔ سبح ماضی سے مضارع واحد مذکر غائب کا صیغہ ہے۔ اور سبح للہ کے معنے ہیں کہ اللہ کی پاکیزگی کا اظہار کیا اور کبھی سبح کے ساتھ ل کا صلہ لا کر بھی اس کو متعدی بایا جاتا ہے۔ (اقرب) اور یسبح الرعد کے معنے ہوں گے کہ کڑک اللہ کی پاکیزگی کا اظہار کرتی ہے۔
الرعد۔ رعد کا مصدر ہے اور رعد السحاب کے معنے ہیں صات وضبح الامطار۔ بادل برسے کے لئے گرجا الرعد کے معنے ہیں صوت السحاب بادل کی آواز، کڑک۔ (اقرب)
الصواعق۔ صاعقۃ کی جمع ہے اور صاعقہ کے معنی ہیں الموت۔ موت کل عذاب مھلک۔ ہر مہلک عذاب۔ صیۃ العذاب۔ عذاب کی آواز۔ نار تسقط من السماء فی رعد شدید لا تمر علی شیئی الا احرقتہ۔ وہ آگ جو بادل سے کڑک کے سات نازل ہوتی ہے اور جس چیز پر گرے اسے جلادیتی ہے۔ (اقرب)
المحال۔ ماحل کا مصدر ہے اور ماحلہ کے معنی ہیں۔ ماکرہ وکایدہ۔ کسی کی تدبیر کے خلاف تدبیر کی۔ عاداہ۔ بالمقابل دشمنی کا اظہار کیا۔ قاواہ۔ کسی کے بالمقابل قوت و غلطہ کا ٓظہار کیا۔ اور المحال کے معنی ہیں۔ الکید۔ تدبیر۔ روم الامر بالحی۔ حلیوں کے ذریعوں سے کسی کام کے کرنے کا قصدر کرنا۔ التدبیر۔ تدبیر۔ المکر۔ تجویز۔ القدرۃ۔ طاقت۔ الجدال۔ جھگڑا۔ العذاب۔ عذاب۔ العقاب۔ سزا۔ العداوۃ۔ دشمنی۔ القوۃ والشدۃ۔ طاقت و رعب۔ الھالک۔ ہلاک ہونا۔ الاھالک۔ کسی کو ہلاک کرنا۔ (اقرب) بعض نے محال کو حول اور یلۃ سے مشتق قرار دیا ہے۔ (مفردات) پس ھو شدید المحال کے معانی ہوں گے کہ اللہ کی تدبیر بڑی سخت ہے۔ اس کی پوشیدہ تدبیریں کارگر ہوکر رہتی ہی۔ اس کی قدرت بھاری ہے۔ جب وہ بندوں کے حقوق دلواتا ہے تو اس کی سزا سخت ہوتی ہے۔ جب اس کی طرف سے ہلاکت آتی ہے تو سخت ہوتی ہے۔
تفسیر
فرمایا تم مسلمانوں کو مصائب اور آفات کا شکار دیکھ کر خوش ہوتے ہو۔ کہ یہ بجلیاں انہیں تباہ کر دیں گے مگر تم اس میں دھوکا کھارہے ہو۔ نہ بجلی ہر حالت میں اور ہر شے کے لئے ہلاکتت کا موجب ہتی ہے اور نہ بادل ہر حالت میں اور ہر شئے کے لئے فائدہ کا موجب ہوتا ہے۔ مصائب مومن کے لئے تباہی کا موجب نہیں ہوتے بلکہ ترقی کا۔ وہ اس کی چھپی ہوئی طاقتوں کو ابھارنے کا ذریعہ بن جاتے ہیں وہ اس کے حوصلوں کو بلند کردیتے ہیں۔ وہ اسے اپنے رب کے اور بھی قریب کردیتے ہیں۔ آخر کڑک اور بجلی بھی تو خداتعالیٰ کی مخلوق ہے وہ اس کے مخلص بندوں کی تباہی کا موجب کس طرح ہوسکتی ہے۔ وہ کوئی ایسا کام نہیں کرسکتی جس سے خدا کی ذات پر عیب لگتا ہو۔ وہ بھی کدا تعالیٰ کیی تسبیح کرتی ہے۔ اگر وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر گر کر ان کو تباہ کر دے (نعوذباللہ) تو خداتعالیٰ کی ذات پر اعتراض آتا ہے پس جس کے ساتھ خدا ہو وہ اس کا تو بھلا ہی کرے گی۔ اگر گرے گی تو وہ تم پر ہی گرے گی۔ فرشتے بھی اس کے خوف سے تسبیح کررہے ہیں۔ یعنی رعد خود تو کوئی چیز نہیں۔ فرشتے بھی جو پہلا سبب ہیں اور سب اسباب ان کے اشارہ پر نتائج ظاہر کرتے ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ہیں۔ پس جس کے ساتھ خداتعالیٰ ہوگا دنیا کے سامان بھی خواہ کسی صورت میں ظاہر ہوں آخرکار اس کے فائدے کے نتائج پیدا کریں گے۔
ویرسل الصواعق فیصیب بھا من یشاء وھم یجادلون فی اللہ وھو شدید المحال۔ یعنی تم کو غور کرنا چاہئے کہ یہ چمکنے والی بجلیاںکن پر گر سکتی ہیں۔ خدا جو ان کو گرانے والا ہے کیا ان پر گرائے گا جو اس کی تائید میں کھڑے ہوئے ہیں۔ یا ان پر جو اس کے متعلق جھگڑ رہے ہیں۔ اور اس کے دین کی مخالفت میں کھڑے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ انہی پر گرائے گا جو اس کے مخالف ہیں۔ ھم یجادلون فی اللہ کہہ کر اس بات کو صاف طور سے بتا دیا کہ یہ عام قانون قدرت کا ذکر نہیں ہورہا بلکہ دشمنانِ اسلام اور خدا تعالیٰ کے بارہ میں جھگڑنے والوں کے لئے ایک سخت عذاب کی پیشگوئی ہے۔ شدید المحال کہہ کر اس طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ اللہ سے جھگڑا کرنا آسان نہیں کیونکہ اس کی تدابیر باریک در باریک اور مضبوط ہوا کرتی ہیں اور پھر ان کے نتائج بھی بہت سخت نکلا کرتے ہیں۔
۱۵؎ حل لغات
دعوۃ۔ دعا کا مصدر ہے اور دعا فلانا دعوۃ کے معنے ہیں طلبہ لیاکل عندہ۔ کہ اسے کھانے پر بلایا۔ پس دعوۃ کے معنے ہوں گے ’’بلاوا‘‘ (اقرب) الحق۔ حق کا مصدر ہے۔ اور حقہ حقا کے معنے ہیں علیہ علی الاحق۔ حق کی وجہ سے اس پر غالب آیا۔ والامر اثبتہ واوجبہ۔ کسی امر کو ثابت کیا اور واجب کیا۔ کان علی یقین منہ۔ کسی معاملہ پر یقین سے قائم تھا۔ الخبر۔ وقف علی حقیقتہ اور حق الخبر کے معنے ہوں گے اس کی حقیقت سے آگاہ ہوا اور الحق کے معنے ہیں ضد الباطل سچ۔ الامر المقضی فیصلہ شدہ بات۔ العدل۔ عدل۔ الملک۔ ملکیت۔ الموجود الثابت۔ موجودہ قائم۔ الیقین بعد الشک۔ یقین۔ بلوت۔ موت الحزم دانائی۔ (اقرب) پس لہ دعوۃ الحق کے معنے ہوں گے (۱)سچائی کی تائید میں اٹھنے والی آواز صرف خدا ہی کی ہوتی ہے۔ (۲) خداتعالیٰ ہی کی آواز ضرور غالب ہوکر رہتی ہے۔ (۳)جو پکارنا فائدہ مند ہوسکتا ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کے حضور پکارنا ہے۔(۴)وہی پکارے جانے کا مستحق ہے۔ (۵)تقدیر کا ٹلانا اسی کا کام ہے۔
یستجیبون۔ استجاب سے ہے اور استجاب کے معنے ہیں ردلہ الجواب۔ اس کو جواب دیا۔ اور لایستجیبون کے معنے ہوئے وہ جواب نہیں دیتے۔ (اقرب) ضلال ضل کا مصدر ہے اور ضل عنی کذا کے معنے ہیں ضاع۔ ضائع ہو گیا۔ فلان الفرس والبعیر۔ ذھب عنہ۔ اونٹ اور گھوڑا اس سے ضائع ہو گئے۔ اور ضلال کے معنے ہوئے ضیاء۔ ضائع ہونا۔ (اقرب) اور مادعاء الکفرین الا فی ضلال کے معنے ہوئے کہ کافروں کی چیخ و پکار ضائع ہی جائے گی۔
تفسیر
جیسا کہ حل لغات میں لکھا گیا ہے اس آیت کے کئی معنی ہیں۔ (۱)سچائی کی تائید میں اٹھنے والی آواز صرف کداہی کی ہوتی ہے۔ یعنی عمدہ تعلیم جو سراسر حق ہو۔ جو غلطی سے پاک ہو۔ وہ صرف خداتعالیٰ ہی کی طرف سے آسکتی ہے۔ انسان کی بنائی ہوئی تعلیم میں غلطیاں اور جھوٹ ہوتے ہیں۔ اس لئے یہ مت سمجھو کہت مہاری تعلیمات اس کے مقابلہ میں ٹھہر سکیں گے۔ اس پاک تعلیم کا مقابلہ جب تمہاری غلطیو سے پر تعلیم کے ساتھ ہوگا تو دنیا کو خودبخود اس کی برتری کا یقین ہوجائے گا۔
(۲) خداتعالیٰ ہی کی آواز ہے جو ضرور غالب ہوکر رہتی ہے۔ دنیا کے بادشاہوں کی آوازیں بھی دب جایا کرتی ہیں۔ بادشاہ ایک مجرم کی سزا کا اعلان کرتا ہے مگر وہ ملک سے بھاگ جاتا ہے یا کسی کی ذلت کا سامان کرتا ہے مگر خود مر جاتا ہے۔ صرف ایک اللہ کی آواز ہے جو پوری ہوکر رہتی ہے اور کوئی اس میں روک نہیں ڈال سکتا۔
(۳) پکارنے کا فاعل بندہ کو قرار دیا جائے تو یہ معنے ہوتے ہیں کہ جو پکارنا حق کا موجب ہوسکتا ہے یعنی فائدہ اور کامیابی والا ہوسکتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کو ہی پکارنا ہے۔ یعنی اسی سے عجز کے سات دعائیں مانگنا ہی کامیابی کی کلید ہے۔
(۴) وہی مستحق ہے سب عبادات کا جو اس کے سوا دوسرے کو پکارتا ہے وہ کسی کا حق کسی کو دیتا ہے اور اس طرح ظالم اور ناشکرگزار بنتا ہے۔
والذین یدعون من دونہ لایستجیبون لھم بشیء الا کباسط کفیہ الی الماء لیبلغ فاہ وماھو ببالغہ وما دعاء الکفرین الا فی ضلال۔
بشیء سے بتالا کہ جھوٹے معبودوں کی طرف سے انہیں ذرہ بھر بھی نفع نہیں پہنچتا۔ اگر کوئی دعا پوری ہو جاتی ہے تو وہ اتفاق کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ان معبودان باطلہ کا اس میں کوئی دخل نہیں ہوتا۔
الا کباسط کفیہ۔ یعنی ان کی پکار اپے دونوں ہاتھ پھیلاے والے کی طرح ہوتی ہے۔
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ جس طرح اعلیٰ چیز کو ادنیٰ مقام دینے والا انسان فوائد سے محروم رہ جاتا ہے اسی طرح ادنیٰ کو اعلیٰ مقام دینے والا بھی اس کے فوائد سے محروم رہ جاتا ہے۔ کھرے سکہ کو کھوٹا سمجھنے والا بھوکا مرے گا۔ کیونکہ سکے کو استعمال نہ کرے گا۔ مگر کھوٹے کو کھرا سمجھنے والا بھی وت پر تکلیف اٹھائے گا کیونکہ وہ اس کے کام نہ آئے گا۔ جو خداتعالیٰ کی صفات سے آگاہ نہیں وہ اس کی رحمتو سے مھروم رہے گا۔ لیکن جو مخلوقات کو خدا بنائے گا وہ بھی ان مخلوقات کے فائدہ سے محروم رہے گا۔ مثلاً پانی انسان کے فائدہ کی ایک چیز ہے اور انسان کے کام آنے کے لئے بنایا گیا ہے۔ اگر کوئی پانی کو انسان کا ہی مقام دے دے اور جس طرح آدمی آدمی کو بلات اہے ہاتھ پھیلا کر اسے بلانا شروع کردے تو پانی اس پاس نہ آئے گا۔ اور وہ پانی کے فوائد سے محروم رہ جائے گا۔ اسی طرح جو لوگ مخلوقات کو خدا بناتے ہیں وہ ان فوائد سے محروم رہ جاتے ہیں جو ان مخلوقات میں مخفی ہیں۔ ستاروں اور دریاؤں کو خدا بناے والے کب ان پر حکومت کرنے کی جرأت کرسکتے ہیں اور انسانوں کو خدا بنانے والے کب ان سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ایک نبی کو خدا بنانے والا نبی والا فائدہ اٹھاتا نہیں اور خداوالا فائدہ نبی پہنچا نہیں سکتا۔ پس اس کے اصل فائدہ سے یہ شخص محروم رہ جاتا ہے۔ ہندوستان کے ترقی کے میدان میں سب سے پیچھے رہ جانے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے پانی اور آگ کو خدا بنالیا اور اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر بیٹھ گئے۔ جو ترقیات کے لئے دو بڑے رکن تھے۔ مگر یورپین لوگوں نے ان سے کام لیاا ور ترقی کرکے آگے نکل گئے۔ ہندوؤں کی تو یہاں تک حالت ہے کہ جب دریائے گنگا سے انگریز نہر نکالنے لگے تو انہوں ے دشور مچا دیا کہ ہمارے خدا کو کاٹنے لگے۔ مسلمان بھی اپنے تنزلی کے وقت بزرگوں کو خدائی صفات دے کر ان سے دعایں مانگنے لگے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عمدہ نمونہ کے طور پر کام آنا جو ان بزرگو کا اصل فائدہ تھا اس سے محروم ہو گئے۔ اور دعائیں سننے کی ان وفات یافتہ بزرگوں میں طاقت ہی نہ تھی پس انہیں اعلیٰ مقام دے کر ان کو تو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا۔ آپ فوائد سے محروم رہ گئے۔ اس آیت میں بتایا ہے کہ شرک انسانی ترقی میں ایک زبردست روک ہے۔ اور شرک کی وجہ سے انسان مخلوقات سے وہ فائدہ حاصل نہیں کرسکتا جو خداتعالیٰ نے ان میں پوشیدہ رکھا ہے۔ وما دعاء الکفرین الا فی ضلال۔ ان کی دعا ضائع اس طرح ہوتی ہے کہ وہ اپنے موقع پر نہیں پہنچتی۔ دعا تو وہ ہے جو خداتعالیٰ کے پاس جائے۔ اگر خط یا پیغامبر کسی دوسری جگہ چلا جائے تو اس کا جانا نہ جانا برابر ہوتا ہے۔ اسی طرح فرمایا کہ کافروں کی دعا بے پتہ رہ جاتی ہے۔ دعا کی قبولیت کا اصل مقام تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ یہ لوگ اپنی دعاؤں پر اللہ تعالیٰ کا پتہ لکھتے تو ان کی دعائیں خدا تک ضرور پہنچتیں۔ اور ان کو جواب آجاتا۔ مگر ان لوگوں نے تو مخلوقات کا پتہ لکھنا شروع کر دیا۔ جو دعا کو قبول کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ اس لئے ان کی دعا ضائع ہوجاتی ہے اور تدبیریں ناکام رہتی ہیں۔
لہ دعوۃ الحق میں یہ بھی بتایا ہے کہ تقدیر کا ٹلاا خدا کے قبضہ میں ہے۔ پس جو اس سے تعلق نہیں رکھتا تقدیر اس کی مؤید نہیں ہوتی۔ اور والذین یدعون میں فرمایا کہ ان کی تدبیریں بھی ناقص غلط اور بے محل ہی۔ گویا نہ تقدیریں ان کے ساتھ رہی اور نہ تدبیر۔ تو اب ان کی کامیابی کی کون سی صورت باقی رہ گئی۔
۱۶؎ حل لغات
یسجدو۔ سجد سے مضارع کا صیغہ ہے اور فلان ساجد المنخر کے معنے ہیں ذلیل حاضع کہ وہ عاجز ذلیل ہے۔ البعیر خفض راسہ۔ اور سجد البعیر کے معنے ہیں اونٹ نے اپنا سر نیچے گرایا۔ السفینۃ للریاح۔ طاعتہا۔ ومالت بمیلہا۔ کشتی کو جدھر ہوا نے چلایا وہ چل پڑی۔ (اقرب) للہ یسجد من فی السموت والارض کے معنے ہوں گے ہر چیز اللہ تعالیٰ کی اطاعت کر رہی ہے اور اس کے آگے عاجزی کرتی ہے۔
ظللھم۔ ظلال۔ ظل کی جمع ہے۔ اقرب الموارد میں ہے الظل یقیض الضح وھو الفیء۔ دھوپ کے مقابل کی چیز یعنی سایہ۔ جہاں سورج کی روشنی براہ راست نہ پہنچتی ہو۔ روشی کا نور اثر ڈال رہا ہو۔ اوھو بالغداۃ۔ والفیء بالعشی۔ بعض کہتے ہیں کہ ظل صب کے سایہ کو کہتے ہیں جو دوپہر تک رہتا ہے اور فے دوپہر کے بعد سے لے کر شام تک کے سایہ کو کہتے ہیں لیکن یہ قرآن کریم کے محاورہ کے خلاف ہے۔ کیونکہ اس جگہ آیا ہے کہ ظللھم بالعدو والاصال۔ یعنی صبح اور شام دونوں کے سایوں کو ظلال کہا ہے) وقال ؤبۃ کل موضع تکون فیہ الشمس فتزول عنہ فھو ظل۔ اور روبہ کے نزدیک ظل کے یہ معنی ہیں کہ ہر وہ جگہ جہاں سورج ہو۔ اور پھر وہاں سے ہٹ جائے۔ یقال ظل الجنۃ والایقال فیوھا ظل الجنۃ تو کہہ سکتے ہیں لیکن اس کے متعلق فے کا لفظ نہیں استعمال کیا جاسکتا۔ انما ھی دائما ظل۔ کیونکہ وہ ہمیشہ ظل ہی رہتا ہے۔ نیز ظل کے معنے ہیں مایری من الجن وغیرہ۔ بھوت وغیرہ۔ العز۔ عزت۔ المنعۃ۔ غلبہ الرفامۃ۔ خوشحالی۔ اللیل اوجنحہ او سوادہ۔ رات یا رات کا حصہ یا اس کی سیاہی من کل شیء شخصہ او کنہ۔ ہر حیوان کا جسم یا ہر چیز کا وہ حصہ جو اس کے مغز کی حفاظت کرتا ہے اور س کو بیرونی اثرات سے حفاظت میں رکھتا ہے۔ من الشباب اولہ جوانی کا ابتداء وفی الاساس وکان ذلک فی ظل الشتاء اے فی اول ماجاء۔ اور اساس میں ظل کے لفظ کے ماتحت لکھا ہے کہ ظل الشتاء کے معنے ہیں موسم سرماء کا ابتداء۔ ومن القیظ شدتہ۔ گرمی کے لئے آئے تو اس کے معنی ہیں اس کی شدت۔ تقول سرت فی ظل القیظ۔ اے فی شدتہ۔ یعنی سرت فی ظل القیظ کے معنے ہوں گے میں تیز گرمی میں چلا۔ ومن السحاب ماواری الشمس منہ اوسوانہ۔ بادل کا وہ حصہ جو سورج کو ڈھانپ لیتا ہے۔ یا اسکا سایہ۔ من النہار لونہ اذا غلبتہ الشمس۔ چمکتی ہوئی دھوپ(اقرب) ھو فی ظللہ۔ ای کنفہ۔ اور ھو فی ظلہ کے معنے ہیں وہ اس کی حفاظت میں ہے۔ اس کے علاوہ ظلال۔ ظلۃ کی بھی جمع ہے جس کے معنی ہیں الغاشیۃ۔ ڈھانپنے والی چیز۔ سائبان۔ والبرطلۃ ای المطلۃ الصیقۃ۔ چھوٹا سائبان چھتری۔ وفی التعریفات الظلۃ ھی التی احد طرفی جذعہا علی حائط ھذہ الدار وطرفہا الاخر علی حائط الجار المقابل اور تعریفات میں ہے کظللۃ اس چھپر کو کہتے ہیں کہ جس کو راستے پر سایہ کے لئے ڈالا جاتا ہے اور اس کا ایک کنارہ ایک گھر کی ایک دیوار پر ہو اور دووسرا کنارہ سامنے کی دیوار پر ہو۔ اول سحابۃ تظل۔ موسم کا سب سے پہلا سایہ کرنے و الا بادل۔ مااظللک من شجر۔ جو درخت سایہ دے۔ شئی کالصفۃ یستتر بہ من الحر والبرد۔ ایسا چھپر جو سردی اور گرمی سے بچاؤ کے لئے بنایا گیاہو۔ (اقرب) اور مجمع البحار میں ہے الظل۔ الفئی الحاصل من الحاجز بینک وبین الشمس مطلقا سورج اور انسان کے درمیان کسی روک کے آنے کی وجہ سے جو سایہ ہوتا ہے ظل کہتا ہے۔ ومنہ سبعۃ فی ظل العرش ای فی ظل رحمتہ۔ اور حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے دن سات شخص عرش کے سایہ تلے ہوں گے یعنی اس کی رحمت کے سایہ میں ہوں گے۔ وجاء سبعۃ فی ظللہ ای فی ظل اللہ اور بعض حدیثوں میں سبعۃ فی ظلہ آیا ہے کہ وہ اللہ کے سایہ میں ہوں گے ۔ کہتے ہیں ھو فی عیش ظلیل والمراد ظل اللکرامۃ وہ خوب مزے کی زندگی بسر کررہا ہے۔ وقد یکنی من الکعف۔ اور کبھی اس سے مراد حفظ بھی لی جاتی ہے۔ وفی الحدیث الکافر یسجد لغیراللہ وظلہ یسجداللہ ای جمسہ۔ یعنی حدیث میں ہے کہ کافر غیراللہ کے لئے سجدہ کرتا ہے اور اس کا سایہ یعنی جسم خدا تعالیٰ کے لئے۔ (مجمع البھار) اور مفردات راغب میں ہے الظل ضد الضح۔ ظل دھوپ کے مقابل کی چیز کو کہتے ہی۔ وھو اعم من الفئی۔ اور یہ فے سے عام ہے۔ فانہ یقال ظل اللیل وظل الجنۃ۔ کیوکہ ظل کا لفظ رات اور باغ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے کہتے ہیں ظل اللیل اور ظل الجنۃ۔ باغ کا سایہ۔ ویقال لکل موضع لم تصل الیہ الشمس ظل۔ اور وہ جگہ جہاں دھوپ نہ پہنچے اسے ظل کے نام سے پکارتے ہیں۔ ولا یقال الفئی الا لما ذال عنہ الشمس۔ اور فی صرف اسی کو کہتے ہیں جہاں سے دھوپ زائل ہوچکی ہو۔ ویعبر بالظل عن العزۃ والمنعۃ وعن الرفاھۃ۔ اور ظل سے مراد عزت، غلبہ اور عیش و آرام لیا جاتا ہے۔ قال ان المتتقین فی ظلل ای فی عزۃ ومناع۔ اور ان المتقین فی ظلل کے معنے ہیں متقی عزت اور غلبہ و حفاظت میں رہیں گے۔ الظلنی فلان۔ حرمنی وجعلنی فی ظلہ وعزہ ومناعتہ۔ اور اظلنی فلان کے معنے ہیں اس نے مجھے اپنے بچاؤ میں لے لیا۔ وقد یقال ظل لکل ساتر۔ ہر ڈھانپنے والی چیز کو ظل کہتے ہیں۔ محمودا کان اومذموما۔ وہ چیز اچھی ہو یا بری جیسے آیت ولا الظل ولا الحرور۔ میں اچھی چیز کے لئے استعمال ہوا ہے اور آیت ظل من خموم میں مذممو کے لئے۔ (مفردات) جیسا کہ حل لغات سے ظاہر ہے ظلال ظل۔ اور ظلۃ کی جمع ہے اور ظل کے ایک معنے سایہ کے ہیں۔ وہ یہاں مراد نہیں۔ پس اگر یسجد ظللھم میں ظلال ظل کی جمع سمجھا جائے تو معنی ہوں گے تمام اشیاء کے وجود قانونِ الٰہی کے ماتحت ہیں۔ اور اگر ظلۃ کی جمع سمجھا جائے تو معنے ہوں گے کہ سردار حکمران و ان کو آرام پہنچانے والے ہیں اور بطور سایہ کرنے والے کے ہیں۔ وہ بھی خداتعالیٰ کی فرمانبرداری میں لگے ہوئے ہیں۔ الغداۃ البکرۃ صبح اومابین صلوۃ الفجر وطلوع الشمس صبح کی نماز سے لے کر سورج کے طلوع ہونے تک کا وقت اس کی جمع غدو ہے۔ (اقرب)
تفسیر
اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کے قانون کی پابندی کررہی ہے۔ خوشی سے یا ناپسندیدگی سے۔ مومن کافر مشرک اور دہریہ تک سب قانون قدرت کی فرمانبداری میں لگے ہوئے ہیں۔ زبان چکھنے پر مجبور ہے اور کان سننے پر۔ یعنی جو آواز کان میں پڑے گی وہ اس کو سنے گا۔ جو چیز زبان پر رکھی جائے گی وہ اس کو چکھے گی۔ اس حد تک اطاعت کرھا ہے۔ مگر پھر اس میں ایک حصہ طوعاً کا بھی شامل ہو جاتا ہے۔ مثلاً بھوک پر کھانا کھانا۔ بظاہر یہ اپنی مرضی سے کھاتا ہے۔ ایسا ہی عمدہ نظارے دیکھنا یا سیر کرنا۔ مگر دراصل یہ بھی خدا کے قانون کو ہی پورا کرتا ہے۔ گویا قانون قدرت میں بھی ایک حصہ کی اطاعت طوعاً ہے اور دوسرے حصہ کی کرھا۔ مقصد یہ کہ گو بظاہر انسا آزاد نظر آتا ہے لیکن غور سے دیکھنے پر اس کے ہر فعل میں ایک جبر بھی نظر آتا ہے جو کسی بالا ہستی کے دخل پر دلالت کرتا ہے۔
دوسرے اس آیت میں تصرفات الٰہیہ کا طریق بتلایا ہے کہ بعض تصرفات سے اللہ تعالیٰ رسول کریم صلعم کی مدد کے لئے ایسے کرے گا کہ کفار اس میں اپنے آپ کو مجبور سمجھیں گے اور دل میں کڑھیں گے اور بعض تصرفتا ایسے کرے گا کہ کفار خیال کریں گے کہ ہم ا کاموں میں اپنا فائدہ کررہے ہیں۔ حالانکہ ان کا جو نتیجہ پیدا ہوگا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں پیدا ہوگا۔ طوعا کی مثال صلح حدیبیہ ہے کہ اس کی شرائط کفار نے زور سے منوائیں اور یہ سمجھ کر منوائیں کہ ان میں ہمارا فائدہ ہے مگر دراصل ان میں تھا مسلمانوں کا فائدہ۔ جیسا کہ بعد میں ظاہر ہوا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکہ سے اخرا کہ پہلے انہوں نے سمجھا اس طرح ہم نے مسلمانو کو اپنے مرکز سے نکال دیا۔ لیکن ا س سے اسلام کی آزادی اور ترقی کی بنیاد رکھی گئی۔ کرہا کی مثال فتح مکہ ہے کہ مجبوراً آنحضرت صلعم کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ دوسری مثال اس کی ایسے صحابہ سے حسن سلوک تھا جن کے خاندانوں اور قبائل سے وہ ڈرتے تھے۔
پھر طوعا و کرہاً کا فرق نیک و بد جماعت کے لحاظ سے بھی ہوسکتا ہے۔ یعنی مومن خدا کی اطاعت طوعاً کرتے ہیں اور کافر کرہاً۔
وظللھم جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے ظلال۔ ظلہ کی بھی جمع ہے اور ظلۃ کی بھی۔ ظل کے ایک معنے سایہ کے ہیں۔ سایہ چونکہ عدم نور کے معنی رکھتا ہے۔ اس جگہ وہ مراد نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ غیرموجود چیز کے لئے سجدہ کا لفظ نہیں آسکتا۔ ظل کے دوسرے معنے کسی چیز کے وجود اور شخص کے بھی ہوتے ہیں۔ ان معنوں کے رو سے آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ دلی اور قلبی سجدہ کے علاوہ تماما شیاء کے وجود قانونِ الٰہی کے ماتحت ہیں۔ حتیٰ کہ کافر کا جسم بھی تعالیٰ کے قانون کے ماتحت ہوتا ہے اور اس طر گو اس کا ذہن اور ایمان خداتعالیٰ کا منکر ہوتا ہے مگر اس کا جسم خداتعالیٰ کی فرمانبرداری میں لگا ہوا ہوتا ہے۔ مجازاً ظل تابع کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے جیسے کہتے ہی۔ سلطان ظل اللہ بادشاہ اللہ کا سایہ ہے۔ یعے اس کے ماتحت۔ پس اس کے یہ معنے بھی ہوسکتے ہیں کہ تمام ذی رو اور ان کے تابع وجود اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں لگے ہوئے ہیں۔ ظللہ جو اس لفظ کا دوسرا مفرد ہے اس کے معنی سایہ کرنے والے کے ہیں۔ جیسے سائبان وغیرہ۔ یا مجازاً سردار اور حکمران۔ اور معنے یہ ہوں گے کہ ان کے بڑے یا ان کو آرام پہنچانے والے وجود بھی اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں لگے ہوئے ہیں۔ بہترین معنے یہ ہیں کہ دونوں معنے اس جگہ مراد ہیں۔ ظل والے بھی اور ظلۃ والے بھی ار معنے یہ ہیں کہ تمام موجودات اور ان کے تابع اور ان کے حکمران سب کے سب اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں لگے ہوئے ہیں۔ پس ان لوگوں کو ہوشیار ہوجانا چاہئے کہ اگر محمد رسول اللہ صلعم کی مخالفت انہوں نے ترک نہ کی تو جوان سے اوپر کے وجود اور طاقتیں ہیں وہ بھی ان کی مخالف ہو جائیں گی ار جو ان کے تابع ہیں وہ بھی ان کے مخالف ہو جائیں گے۔ ان معنوں کی تصدیق اسی سورۃ کی ایک دووسری آیت سے بھی ہوتی ہے۔ فرماتا ہے اولم یروا اناناتی الارض ننقصہا من اطرافہا (رعدع۶) یعنے کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہم ان کی حکومت کو دونوں طرف سے کم کرتے چلے آتے ہیں۔ یعنے بڑے خاندانوں میں سے بھی اور مزدور لوگوں میں سے بھی اور روز بروز کچھ لوگ مل کر محمد رسول اللہ کے ساتھ ملتے جاتے ہیں۔ آخر اس کا یہ نتیجہ نکلے گا کہ یہ آئمۃ الکفر اکیلے رہ جائیں گے اور سب کا سب ملک محمد رسول اللہ صلعم کے ساتھ ہو جائے گا۔
بالغدو والاصال۔ یہ اس لئے فرمایا کہ ایک تو ان وقتوں میں سایہ لمبا ہوتا ہے اور دوسرے سایہ کا کامل ظہور سورج کے ادھر ادھر ہونے سے ہی ہوتا ہے۔ اسی طرح تابع کی طاقت اسی وقت ظاہر ہوتی ہے جب آقا پاس نہیں ہوتا اور یہ اسی وقت ہوتا ہے جبکہ حکومت وسیع پھیلی ہوئی ہو۔ پس بالغدو والاصال کہہ کر بتایا کہ خواہ تمہاری حکومت کتنی بھی وسیع کیوں نہ ہو تب بھی خداتعالیٰ کے ماتحت ہو۔ اور ایسا ہی یہ بتایا کہ خواہ تم خود محمد رسول اللہ کے مقابلہ پر آؤ یا جب تم اپنے نوکرو یا غلاموں کو بھیجو دونوں صورتوں میں ہم تمہاری تدبیروں کو توڑ ڈالیں گے۔ یعنی نہ تم کچھ کرسکتے ہو اور نہ تمہارے سامان و تدابیر۔
لطیفہ
اس جگہ ظل کا ذکر کیا ہے اور جیسا کہ میں نے لغت کی رو سے ذکر کیا ہے ظل کے لئے اصل کا موجود ہونا ضروری ہے۔ اگر سورج نہ ہو تو کوئی ظل ہی نہیں۔ پس یہ کہنا کہ ظلی نبوت خاتم النبیین کی نبوت کو توڑ دیتی ہے بالکل غلط ہے۔ غلی نبوت تو اصل کے وجود کو ثابت اور روشن کرتی ہے نہ کہ منسوخ وہ اس کے لئے ایک زبردست شہادت ہے نہ کہ اس کے منافی۔
۱۷؎ حل لغات
رب کی تشریح کے لئے دیکھو یونس۵؎ اولیاء۔ ولی کی جمع ہے اور الوالی کے معنے ہیں المحب الصدیق۔ دوست۔ النصی۔ مددگار۔ (اقرب) یملکون ملک سے مضارع کا صیغہ ہے اور ملک کے معنے ہیں احتواہ قادرا کسی چیز پر قادرانہ طور پر قبضہ کیا۔ ملک علی الاوم۔ استولی علیہم۔ کسی قوم پر غالب ہوا۔ علی فلا امرہ۔ کسی کے کام کا متولی ہوا۔ الخشف امہ قوی وقدر ان یتبعہا۔ ہرن کا بچہ توانا و مضبوط ہوکر اس قابل ہو گیا کہ وہ اپنی ماں کے پیچھے چل سکے۔ (اقرب) پس لایملکون کے معنے ہوں گے وہ قادر نہیں ہوسکتے۔ وہ طاقت نہیں رکھ سکتے۔ الواحد بمعنی الاحد ای المنفرد الذی لانظیر لہ اولیس معہ غیرہ۔ ایسا یکتا کہ جس کا کوئی نظیر نہ ہو یا اس کا کوئی شریک نہ ہو۔ اور انہی معنوں میں یہ اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال ہوا ہے۔ (اقرب)
قھار۔ قھرۃ۔ قھرا۔ علیہ۔ قھر کے معنے ہیں کسی پر غالب آیا۔ (اقرب) اور القہار مبالغہ کا صیغہ ہے اور اس کے معنے ہوں گے بہت غالب۔
تفسیر
یہ عجیب خدا کی قدرت ہے کہ جتنے لوگوں کو دنیا ے خدا بنایا ان کی زندگی دکھ اور تکلیف میں ہی گزری ہے۔ حضرت مسیح کو ملک چھوڑنا پڑا اور مختلف تکالیف کا سامنا ہوا۔ حضرت حسینؓ تو شہید ہی کر دیئے گئے۔ رام چند جی بھی مصائب میں مبتلا رہے۔ لایملکو لانفسہم میں بتایا ہے کہ جب وہ اپنی جانوں کی بھی حفاظت نہ کرسکے تو تم کو کیا نفع پہنچائیں گے۔ ھل یستوی الاعمی والبصیر کیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہوسکتے ہیہں۔ یعنی تم لوگوں کو اپنی کثرت پر ناز ہے مگر یہ و سوچو کہ کیا ہمیشہ کثرت مفید ہوا کرتی ہے۔ بہت سے اندھوں کا اجتماع قوت کا موجب ہوتا ہے یا ضعف کا۔ ایک آنکھوں والا ہزاروں اندھوں پر غالب ہوتا ہے۔ ایسا ہی اس نبی اور اس کے متبعین کو خدا سے علم ملتا ہے اور تمہارے منصوبوں اور تدبیروں سے خدائی وحٰ اسے ٓاگاہ کر دیتی ہے۔ پس اس کی مثال بینا کی ہے مگر تمہیں کچھ پتہ نہیں کہ اس کی طرف سے کیا کیا تدابیر کی جارہی ہیں۔ کیونکہ اسکی تائید میں اکثر کوششیں خداتعالیٰ کی طرف سے قانوِ قدرت کے مخفی اثرات کے ذریعہ سے ہورہی ہیں۔ جن سے تم بالکل ناواقف ہو۔ پھر سوچو تو سہی کہ تم اس کا اور اس کے ساتھیو کا مقابلہ کیونکر کرسکتے ہو۔ یہ تھوڑے ہیں تو کیا ہوا ہیں تو آنکھوں والے۔
ھل تستوی الظلمات والنور۔ اسی طرح فرمایا ظلمات اور نور کا بھی کوئی مقابلہ نہیں۔ تھوڑی سی روشنی سارے کمرے کا اندھیرا پاش پاش کردیتی ہے۔ ظلمات عدم نور کا نام ہے اور نور وجود کا۔ اور وجود کے سامنے عدم کی حیثیت ہی کیا ہے۔ یعنی تمہارے پاس الٰہی تعلیم نہیں۔ اس کے پاس ہے۔ پس تمہارا اور اس کا کیا مقابلہ۔ اس کی تعلیم کی بنیاد تو حقائق پر ہے اور تمہاری تعلیم کی بنیاد صرف جہالت اور انکار پر۔
ام جعلوا للہ شرکاء خلفوا کخلفہ فتشابہ الخلق علیہھم۔ یہ بات مشرکین کے سامنے بطور اعتراض پیش کی گئی ہے یعنی تم باوجود مشرک ہونے کے بھی یہ کہنے کی جرأت نہیں کرسکتے کہ معبودانِ باطلہ نے کوئی خلق کی ہے اور وہ خدا کی خلق سے مشابہ ہے۔ چنانچہ مکہ کے مشرکین اس بات کی جرأت نہ کرسکے۔ گو بعض اور ممالک کے مشرک اپنے معبودوں کے متعلق ایسے دعاوی بھی پیش کرتے ہیں۔ افسوس مسلمانو نے بھی اس زمانہ میں ایسی بات کہنی شروع کردی ہے اور حضرت مسیح کو پرندوں کا خالق قرار دے دیا ہے اور بعض نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اب پتہ نہیں لگ سکتا کہ اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے پرندے کون سے ہیں اور حضرت مسیح کے بنائے ہوئے کون سے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ میں نے ایک مولوی سے پوچھا کہ تم جو دعویٰ کرتے ہو کہ حضرت مسیحؑ ناصری پرندے پیدا کیا کرتے تھے آخر انہوں نے یا چیز پیدا کی تھی۔ تو اس نے جواب دیا کہ چمگادڑ۔ جب میں نے اس سے پوچھا کہ مسیح کی چمگادڑی کون سی ہیں اور خدا کی بنائی ہوئی چمگادڑیںکون سی ہی تو ان مولوی صاحب نے فرمایا اب پتہ نہیں چلتا اور پنجابی میں کہا کہ ’’او ہن رل مل گیاں نے‘‘ یعنی اب تہ وہ خداتعالیٰ کی بنائی ہوئی چمگادڑوں سے مل جل گئی ہیں۔
افسوس کہ جس بات کی جرأت مکہ کے مشرکوں کو نہ ہوئی وہ کام مسلمانوں نے کس دلیری سے کیا۔ اور نہ سوچا کہ اس بے دلیل دعویٰ کو کون تسلیم کرے گا۔
الواحد القہار۔ قرآن کریم میں خداتعالیٰ کی وحدانیت کو ظاہر کرنے کے لئے دو نام آتے ہیں۔ ایک واحد۔ دوسرا احد۔ احد نام تنزیہی ہے اور اس کے معنے ہیں اکیلا۔ اس کے ذکر پر دو یا تین کا خیال تک بھی ذہن میں نہیں آتا۔ یہ فردیت پر دلالت کرتا ہے اور کسی دوسرے یا تیسرے وجود کا خیال ذہن میں نہیں آتا۔ لیکن واحد کا لفظ جس کے معنے پہلے کے ہیں یہ نام ابتدائی نقطہ پر دلالت کرتا ہے کیونکہ وہ دوسریے تیسرے کے وجود کی طرف اشارہ کرتا ہے اور اس سے یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ منبع ہے ساری مخلوق کا۔ باوجودیکہ کوئی مخلوق کمالات میں اس کی مشابہ نہیں۔ اور اس کی ذات تمام دنیا سے مستغنی ہے پھر بھی ہر چیز اس کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ جس طرح دوسرے اور تیسرے کا وجود لازمی طور پر پہلے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ خالق کل شئی کی دلیل کے طورپر صفت واحد کو پیش کیا ہے یعنی اگر تم اس کو خلق نہ مانو گے تو وہ واحد نہیں رہتا۔ پھر تو بعض اشیاء اس پر دلالت کرنے کی بجائے کسی اور منبع کی طرف اشارہ کریں گی۔ پس اگر کوئی دوسرا خالق مانو گے تو اس کی وحدانیت نسے انکار کرنا پڑے گا اور اگر اسے واحد نہ مانو گے تو اس امر کا اظہار کرنا پڑے گا کہ اس کے سوا کوئی اور بھی خالق ہے۔
القہار میں یہ بتایا ہے کہ ایسا ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز پیدا ہوکر پھر پیدا کرنے والے کے قبضہ سے نکل جائے اور اس کے لئے قبضہ میں رکھنے کے لئے کسی اور مددگار کی ضرورت ہو مگر اس جگہ یہ بات بھی نہیں۔ ہر چیز اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے اور اسی کی محتاج ہے۔ پس سب معبودانِ باطلہ بھی اس کے ماتحت ہیں۔ اور کوئی بھی ان میں سے خالق نہیں اور ان کی عبادت کرنا فضول اور عبث اور بے دلیل ہے۔
۱۸؎ حل لغات
اودیۃ واد کی جمع ہے اور وادی ودی سے مشتق ہے۔ ودی الشئی ودیا کے معنے ہیں سال۔ بہ پڑی۔ اور الوادی اس سے اسم فاعل ہے یعنی بہنے والی۔ نیز الوادی کے معنے ہیں منفرج بین جبال او تلال اواکام یکون منفذا للسیل۔ کہ وادی پہاڑوں یا ٹیلوں کی درمیانی جگہ کو کہتے ہیں۔ جس میں سیلاب کا پانی بہتا ہے۔ وفی مفردات الراغب الوادی الموضع الذی یسیل فیہ الماء ومنہ سمی لمفرج بین الجبلین وادیا۔ اور مفردات راغب میں ہے کہ وادی اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں پانی بہتا ہو اور اسی وجہ سے پہاڑوں کی درمیانی فراخ جگہ کو وادی کہتے ہیں۔ (اقرب)
السیل۔ الماء الکثیر۔ بہت پانی۔ والعرب تقول ’’سال بہم السیل وجاش بنا البحر‘‘ ای وقعوا فی امر شدید ونحن فی اشد منہ۔ اور عرب سال بہم السبیل وجاش بنا البحر کا محاورہ بولتے ہیں جس کے معے ہیںکہ دوسرے لوگوں کو کثرت پانی نے بہایا۔ اور ہم پر سمندر نے جوش مارا اور مطلب ان کا یہ ہوتا ہے کہ پہلے لوگ بھی مصیبت میں مبتلا ہوئے لیکن ہم ان سے بڑھ کر مصائب میں مبتلا ہوئے۔ اس محاورہ میں السیل کا لفظ مصیبت کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ (اقرب)
الزبد۔ مایعلوا لماء وغیرہ من الرغوۃ۔ جھاگ۔ الخبث۔ بری چیز۔ وقول الحریری ثم اقبلنا علی الحدیث مخض زبدہ ونلقی زبدہ کنی بالزبد وھی جمع زبدۃ عن خیار الکلام وبالزبد عما لاخیر فیہ۔ اور حریری نے اپنے اس قول میں زبد اور زبد کا استعمال کیا ہے۔ زبد سے مراد اعلیٰ درجہ کا کلام ہے اور زبد کے معنے ہیں وہ کلام جس میں کوئی خوبی نہ ہو۔ (اقرب)
رابیا۔ ربا یربو المال۔ زاد۔ ونما۔ مال زیادہ ہوا اور بڑھا۔ فلان الرابیۃ۔ علاھا۔ ٹیلے پر چڑھا۔ا لفرس ربوا۔ انتفخ فی عدو او فزع واخذہ الربو۔ گھوڑے کو دوڑ کی وجہ سے سانس چڑھ گیا۔ فلان السویق۔ صب علیہ الماء فانتفخ۔ ستوؤں کو پانی میں بھگویا تو وہ پھول گئے۔ فی حجرہ۔ ربوا وربوا۔ نشأ۔ فلاں کی گود میں پلا۔ وکلمتہ فماربا براسہ۔ ای لم یعبا۔ میں نے اس سے بات کی لیکن اس نے توجہ نہ کی۔ الرابیۃ ماارتفع من الارض۔ ٹیلہ اخذۃ رابیۃ۔ شدیدۃ۔ سختی سے پکڑنا۔ (اقرب) پس زبدا رابیا کے معنے ہوں گے اوپر آنے والی جھاگ۔ (۲)پھولنے والی جھاگ۔ (۳)ناقابل توجہ جھاگ یعنی حقیر۔
جفاء۔ مانفاہ السیل اذا رمی بہ۔ جس کو سیلاب پھینک دیتا ہے۔ قال ابن السکیت۔ وذھب الزبد جفاء ای مدفوعا عن مائہ۔ اور ابن سکیت نے ذھب الزبد جفاء میں جفاء کے معنے کئے ہیں پانی سے ہٹائی ہوئی۔ دور کی ہوئی۔ پھینکی ہوئی۔ الباطل تسبیہا لہ بزبد القدر الذی لاینتفع بہ۔ باطل بے حقیقت۔ بے فائدہ۔ چونکہ ہنڈیا کی جھاگ بھی بے فائدہ جاتی ہے اس لئے باطل کو اس پر قیاس کرلیا کیونکہ وہ بھی بے فائدہ ہے اس لئے جفاء کا لفظ اس کے لئے استعمال کرلیا۔ (اقرب)
تفسیر
اس جگہ اس مضمون کو نہایت وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ کہ پانی جب آسمان سے اترتا ہے اور مختلف راستوں سے بہ پڑتا ہے تو اس وقت ان گلیوں میں جو پہلے بظاہر صاف معلوم ہوتی تھیں پانی کے گزرتے وقت اس قدر جھاگ پیدا ہوتی اور میل اٹھتی ہے کہ دیکھنے والا حیران ہر جاتا ہے اور شروع شروع میں تو جھاگ کی اس قدر کثرت ہوتی ہے کہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ گویا جھاگ ہی جھاگ ہے۔ مگر تھوڑی دیر کے بعد وہ سمٹ کر صرف کناروں پر تھوڑی تھوڑی رہ جاتی ہے اور پانی کا غلبہ ظاہر ہو جاتا ہے۔
دوسری مثال یہ دی کہ زیور بنانے کے لئے یا برتن وغیرہ بنانے کے لئے معدنیات کو پگلایا جاتا ہے تو ان کے اوپر بھی ایسی ہی جھاگ آجاتی ہے مگر سنار یا ٹٹھیارا اس کو صاف کرلیتا ہے اور نیچے سونا یا دوسری کارآمد اشیاء ہی رہ جاتی ہیں۔
اس جگہ پر حق کی مثال پانی سے اور باطل کی مثال جھاگ سے دی ہے جو حق پر غالب نظر آتی ہے۔ یعنی ابتدائً لوگ باطل کی کثرت اور غلبہ کو دیکھ کر خیال کرتے ہیں کہ اس کا زور دنیا میں ہے مگر انجام کار جھاگ مٹ جاتی ہے اور اصل پانی کا غلبہ ہو جاتا ہے۔
اسی طرح حق کی مثال سونے یا دوسری معدنیات سے دی ہے کہ جن کو پگھلانے پر کچھ میل نکلتی ہے لیکن اس میل کو پھینک دیا جاتا ہے اور صرف معدن کو الگ نکال کر رکھ لیا جاتا ہے۔ کفار کو بتایا کہ بے شک تم اس وقت جھاگ کی طرح اٹھ رہے ہو اور غالب نظر آتے ہو اور اسلام کا سونا تمہارے نیچے دبا ہوا نظروں سے اوجھل ہورہا ہے مگر جب ہماری نصرت کی ہوائیں چلیں گی تو جھاگ ہی کی طر بیٹھ جاؤ گے۔ اور حق کا غلبہ نظر آئے گا اور صرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہی باقی رہ جائے گی۔ یا اس کا یہ بھی مطلب ہوسکتا ہے کہ فطرت انسانی کو تو اللہ تعالیٰ نے پاک بنایا ہے لیکن اس میں رسم و رواج کا گند مل کر اسے خراب کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کے ذریعہ سے پھر فطرت کے پاک تقاضوں کو جگا دیتا ہے اور طبائع میں ایک ایسا جوش پیدا کر دیتا ہے کہ جس طرح تیز بھٹی یا بڑھتے ہوئے سیلاب میں ہوتا ہے اس ہیجان کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ طبائع کا جمود جاتا رہتا ہے۔ ایک طرف فطرت میں بیداری پیدا ہوجاتی ہے۔ دوسری طرف رسوم و عادات کی محبت میں جوش آتا ہے اس حرکت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بجائے فطرت صحیحہ اور رسوم و عادات کے ایک ملے جلے ڈلے کے یہ دونوں چیزیں الگ الگ ہو جاتی ہیں اور انسان کچھ عرصہ کے لئے دو متضاد جذبات کا حامل ہو جاتا ہے۔ آخر جس کی فطرت زیادہ پاک ہوتی ہے وہ رسوم و عادات کی میل کو باہر نکال کر پینک دینے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ اور جو سچی کوشش نہیں کرتا اس کی طبیعت پھر ٹھنڈی ہو جاتی ہے اور پھر رسوم و عادات کی جھاگ فطرت کے سونے سے مل کر پہلے کی طرف ایک ناصاف ڈلا بن کر رہ جاتی ہے۔
بقدرھا کے الفاظ سے یہ بتایا کہ اشاعت تعلیم انسانی ظرف کے مطابق ہوتی ہے۔ جس کا قلب وسیع اور سلیم ہوگا وہ زیادہ حصہ لے گا۔ اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ قرآن کریم بدی اور نیکی کو ممتاز کرکے دکھادے گا اور جب دونوں کا فرق لوگوں پر روشن ہوجائے گا تو اچھے لوگ خود ہی بدی کو پرے اٹھا کر پھینک دیں گے اور نیکی اختیار کرلیں گے۔
۱۹؎ حل لغات
استجابوا۔ استجاب سے مضارع ہے اور استجاب لہ ومنہ کے معنے ہیں قبل دعاء ہ اس کی دعا قبول کی۔ (اقرب) پس استجابوا کے معنے ہوں گے بات قبول کی۔ کہا مانا۔
الحسنی۔ ضد السوی۔ حسنی۔ سوی۔ یعنی برائی کے مقابل کا لفظ ہے اور اسکے معنے ہیں العاقبۃ الحسنۃ۔ اچھا انجام۔ الظفر کامیابی۔ (اقرب)
افتدوا۔ افتدی سے ہے اور افتدی کے معنے ہیں استنقذہ بمال وقیل اعطی شیئا فانقذہ۔ مال یا کچھ اور بدلہ میں دے کر چھڑا لیا۔ المراۃ نفسہا من زوجھا اعطتہ مالا حتی تخلصت منہ بالطلاق۔ عورت نے خاوند کو مال دے کر خلاصی حاصل کی اور طلاق لی۔ (اقرب) پس افتدوا کے معنے ہوں گے انہوں نے فدیۃً کچھ دے کر اپنے نفوس کو چھڑانے کی کوشش ک۔
جھنم۔ دارالعقاب کا نام ہے۔ یہ ممنوع من الصرف ہے۔ بعض کے نزدیک یہ لفظ عجمی ہے۔ بعض اسے اصل میں فارسی یا عبرانی قرار دیتے ہیں لیکن یہ درست نہیں کہ عربی کے الفاظ کو غیرزبانوں کی طرف منسوب کیا جائے۔ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ لفظ ایسے قاعدہ سے بنایا گیا ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ اس وجہ سے اس کو انہوں نے غیرزبان کا قرار دے دیا۔ عربی میں جھن۔ جھونا کے معنے قرب ودنا کے ہوتے ہیں اور رس سے جھنم بنا ہے یا یہ لفظ جھم سے بنا ہے۔ عربی زبان میں زیادۃِ نون فی وسط الکلمہ کی مثالیں بکثرت پائی جاتی ہیں۔ پس جھم سے جھنم کا بننا خلاف قواعد نہیں اور جھم کے معنے ہیں استقبلہ بوجہ مکفھر۔ کہ اس کو تیوری چڑھا کر…… ملا اور تجھمہ کے معنے ہیں استقبلہ بوجہ کریہ برے چہرے سے ملا۔ (اقرب) پس جھنم کے معنے ہوئے ایک ناپسندیدہ جگہ جو ناراضگی سے لینے کو بڑھتیی ہے۔ یہ نام اس کے شعلے مارنے کی وجہ سے رکھا گیا۔
المہاد۔ الفراش۔ بچھونا۔ الارض۔ زمین۔ اس کی جمع امھدۃ ہے۔ (اقرب)
تفسیر
فرمایا جو لوگ اپنے رب کی باتوں کو قبول کریں گے ان کے لئے حسنی ہوگی یعنی ان کا انجام نیک ہوگا۔ وہ دیدار الٰہی کریں گے۔ انہیں کامیابی حاصل ہوگی۔ اور ان کی عقلوں میں روشنی پیدا کردی جائے گی جو لوگ اللہ تعالیٰ کی بات کو نہ مانیں گے قرآن مجید کی اطاعت نہ کریں گے ان کی حالتیں گرتی ہی چلی جائیں گے۔ یہاں تک کہ وہ ایسی مشکلات میں مبتلا ہو جائیں گے کہ اگر وہ زمین اور اس کی چیزیں اور اس کی مانند اور چیزیں فدیہ میں دے سکتے تو ضرور دے دیتے۔ ان سے جو محاسبہ کیا جائے گا وہ ان کے لئے سخت تکلیف دہ ہوگا اور ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا اور وہ بہت بری اور تکلیفوں کی جگہ ہے۔
سوء الحساب کا یہ مطلب نہیں کہ ان سے حساب میں خرابی کی جائے گی بلکہ یہ مطلب ہے کہ ان کے اعمال کے نتائج خراب نکلیں گے اور وہ ان طاقتوں کا حساب نہیں پیش کرسکیں گے جو اللہ تعالیٰ نے انہیں ترقی کے لئے دیں۔ مگر انہوں نے غلط استعمال سے ضائع کر دیں۔
بئس المہاد۔ میں بتایا کہ اگرچہ جہنم شفاخانہ ہے اور وہاں حصول صحت کی خاطر رکھا جائے گا مگر تاہم وہ تکلیف کا مقام ہے۔ خلاصہ یہ کہ مومن ترقی کرتے جائیں گے اور کافر گرتے جائیں گے اس لئے اے منکرو تم کب تک نتائج کو دیکھ کر آنکھیں بند کئے رہو گے۔ کب تک اس نبی کو نہ مانو گے۔ ایک دن دو دن جنبہ داری کرلوگے قوم پروری کرلوگے مگر آخر ایک نہ ایک دن حق قبول کرنے پر مجبور ہوجاؤگے۔
۲۰؎ حل لغات
یتذکر۔تذکر سے مضارع کا صیغہ ہے او تذکر کے معنے ہیں ذکر الشئی وحفظہ فی ذھنہ۔ کسی چیز کو ذہن میں محفوظ کیا یعنی یاد کیا۔ ماکان قدنسی۔ نطق بہ بھولی ہوئی بات کو بیان کیا۔ اللہ مجدہ وسبحہ۔ اللہ کی بزرگی بیان کی اور اس کی تسبیح کی۔ (اقرب) الالباب لب کی جمع ہے اس کے معنی عقل کے ہیں۔ مزید تشریح کے لئے دیکھیں یوسف ۱۰۸؎۔ پس انما یتذکر اولوالالباب کے معنے ہوں گے کہ صرف عقل والے بات کو سمجھتے ہیں یا عقل والے بات کو یاد رکھتے ہیں یا عقل والے اگر غلطی کر جائیں تو پھر احکام الٰہی کو یاد کرکے سنبھل جاتے ہیں۔
تفسیر
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ یہ تعلیم اس قسم کی ہے کہ اس کے ذریعہ سے ہر قسم کی ترقیات انسانوں کو ملیں گے۔ پس جو شخص اس کو سمجھ لیتا ہے اور اس سے فائدہ اٹھاتا ہے کیا وہ اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو اندھا ہے۔
جب دو چیزوں می مقابلہ کیا جائے تو ہمیشہ یہ قاعدہ ہوتا ہے کہ جو چیز پہلے مذکور ہو اس کو دوسری پر قیاس کیا جاتا ہے۔ اگر پہلی اچھی ہو تو مراد یہ ہے کہ کیا یہ شئے بری شئے کی طرح مضر ہوسکتی ہے اور اگر پہلے بری مذکور ہو تو یہ مراد ہوتی ہے کہ کیا یہ بری شئے اچھی چیز کی طرح فوائد پیدا کرسکتی ہے۔ مثلاً اگر یہ کہیں کہ کیا اندا آنکھوں والے کے برابر ہوسکتا ہے تو اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ وہ آرام اور فوائد جو آنکھوں والے کو حاصل ہیں وہ اندھے کو نہیں حاصل ہوسکتے اور اگر یہ کہا جائے کہ کیا آنکھوں والا اندھے کی طرح ہوسکتا ہے تو اس وقت زور اس بات پر ہوتا ہے کہ اندھے کو جو تکالیف پہنچتی ہیں کیا وہی آنکھوں والے کو پہنچ سکتی ہیں۔ پس اس آیت میں اس پر زور ہے کہ مسلمان کسی طرح بھی ان نقصانات میں مبتلا نہیں ہوسکتے جو کفار کو پہنچ سکتے ہیں۔
انما یتذکر اولوالالباب میں ایک نیا مضمون بیان کیا ہے۔ فرماتا ہے اس تعلیم سے وہی لوگ نصیحت و نفع حاصل کرتے ہیں جو اولوالالباب ہیں۔ یعنی جو دینی لب اور عقل رکھتے ہیں یہ مقابلہ جو پیچھے مسلمانوں اور کافروں کی حالت کا کیا گیا ہے اس سے نفع حاصل کرنا عقلمندوں کا کام ہے۔ جو دینی عقل کو مار دیتا ہے اور اسے ضائع کر دیتا ہے وہ اس سے کیا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ پس دین کی باتوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے عقل کو محفوظ رکھنا اور اسے عادات و جذبات سے کند نہ ہونے دینا ضروری ہوتا ہے مگر افسوس کہ اکثر لوگ اس قیمتی جوہر کو عادات و جذبات کے پردوں میں چھپاد یتے ہیں اور بظاہر انسان لیکن بباط حیوان ہوتے ہیں۔ کاش کوئی اس پر غور کرے اور فائدہ اٹھائے۔
۱۲؎ حل لغات
العہد۔ الوصیۃ۔ وصیت الیمین یحلف بھا الرجل۔ قسم۔ الموثق۔ پختہ بات۔ المیثاق۔ پختہ اقرار۔ الذی یکتبہ ولی الامر للولاۃ ایذانا بتولیتھم۔ بادشاہ اپنے ماتحت افسران کو جو ان کی تقرری کا حکم نامہ لکھ کر دیتا ہے۔ (اقرب)
تفسیر
چونکہ باوجود اس کے کہ ہر شخص می اللہ تعالیٰ نے عقل کا مادہ رکھا ہے۔ لوگ عام طور پر اس کو استعمال نہیں کرتے اور عدم استعمال کی وجہ سے اسے بالکل مار دیتے ہیں۔ مگر باوجود اس کے اس امر کے مدعی ہوتے ہیں کہ وہ عقلمند ہیں۔ اللہ تعالیٰ اولوالالباب کی علامات بیان فرماتا ہے تاکہ انسان اس مخفی جوہر کو اس کی علامتوں کے ذریعہ سے پہچان سکے۔ پہلی علامت یہ بتاتا ہے کہ وہ لوگ جو حقیقت شناس ہوتے ہیں اور چھلکے کے پیچھے پڑنے سے اپنے آپ کو روک دیتے ہیں اس عہد کو جو انہوں ے اللہ تعالیٰ سے باندھا ہے کامل طور پر پورا کرتے ہیں۔ عقل کا کام یہی ہے کہ وہ موازنہ کرتی ہے اور جو اعلیٰ شئے ہو اس کو قبول کرلیتی اور جو ادنیٰ شئے ہو اسے رد کردیتی ہے۔ پس یہ لوگ اس امر کو دیکھ کر کہ سب برکت اللہ تعالیٰ کے عہد کے پورا کرنے می ہے ہمہ تن اس عہد کو پورا کرنے میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ اور دوسرے سب امور کو اس عہد کے تابع کر دیتے ہیں۔ اگر وہ اس عہد کے مطابق ہوں تو انہیں اختیار کرتے ہیں اور اگر خلاف ہوں تو انہیں رد کردیتے ہیں اور عہد کو ٹوٹنے نہیں دیتے۔
۲۲؎ حل لغات
یصلون وصل سے ہے اور وصل الشئی بالشئی کے معنے ہیں۔ لا مہ وجمعہ ضد فصلہ۔ کسی چیز کو ملایا۔ جوڑا۔ (اقرب) پس یصلون ماامراللہ کے معنے ہوں گے کہ ان تعلقات کو قائم رکھتے ہیں جن کے قائم رکھنے کا اللہ نے حکم دیا ہے۔
یخشون ربھم۔ یخشون خشی سے ہے اور الخشیۃ کے معنے ہیں خوف یشوبہ تعظیم واکثر مایکون ذلک عن علم بما یخشی منہ ولذلک خص العلماء بھا فی قولہ انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء۔ یعنی خشیت اس خوف کو کہتے ہی جس میں اس شخص کی جس سے خشیت کی جائے تعظیم بھی ملی ہوئی ہو اور اس کی بزرگی کا احساس بھ ہو۔
اور لفظ خشیت کا اکثر استعمال اس جگہ ہوتا ہے جہاں خوف کی وجہ کا بھی علم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالٰٰ نے فرمایا ہے خداتعالیٰ کی خشیت صرف اس کے عالم بندوں کے دل میں ہوتی ہے۔ ورنہ خوف تو عام لوگوں کے دل میں بھی ہوتا ہے اور ہوسکتا ہے (مفردات) پس یخشون ربھم کے معنے ہوں گے کہ وہ اپنے رب سے ایسی خشیت کرتے ہیں جس میں اس کی تعظیم اور بزرگی پائی جاتی ہے اور وہ علم پر مبنی ہوتی ہے۔
تفسیر
دوسری علامت عقلمندوں کی یہ بتائی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے عہد کی پابندی کے بعد اور اس سے کامل تعلق پیدا کرلینے کے بعد اس کے ان بندوں کی طرف جھکتے ہیں جن سے تعلق رکھنے کا اس نے حکم دیا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کے رسول، ملائکہ، خلفاء پھر اولیاء و ابرار اور اس کے بعد تمام مخلوقات حسب مراتب مثلاً قوی نظام کے چلانے والے رشتہ دار، محسن ہمسائے، غرباء و مساکین اہل وطن، مسافر باقی افراد انسانیت، حیوانات جن سے وہ کام لیتا ہے اور پھر تمام چرند پرند حتیٰ کہ دردے اور کیڑے مکوڑے پھر نباتات اور جمادات غرض تعلق باللہ کے بعد عقلمند انسان کا کام ہے کہ جن جن چیزوں سے اور جس جس حد تک اللہ تعالیٰ نے تعلق کا حکم دیا ہے اس حد تک اور اس صورت میں ان سے تعلق رکھے۔ اس علامت میں گویا شفقت علی خلق اللہ اور مادی اسباب سے استمداد اور ان کے استعمال کا ذکر کای ہے اور یہ نکتہ بتایا ہے کہ عقلمند وہ نہیں جو دنیا کے ذریعہ سے خداتعالیٰ کی جستجو کرتا ہے بلکہ عقلمند وہ ہے جو خداتعالیٰ کو پاکر اس کے ارشادات کے ماتھت دنیا کی طرف جھکتا ہے۔ اسی کی طرف اشارہ ہے اس آیت میں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آتی ہے کہ دنا فتدلی فکان قاب قوسین او ادنی (نجم ع۱) یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اول تو خداتعالیٰ کے قریب ہوئے۔ پھر اس کے حکم کے ماتحت اس مقام سے اتر کر مخلوق کی طرف جھکے۔ اور شفقت علی خلق اللہ کا اعلیٰ نمونہ دکھایا ور خداتعالیٰ اور مخلوق کے درمیان واسطہ بن گئے۔ جس طرح کمان کا چلہ ہوتا ہے کہ ایک سرا ایک طرف اور ایک سرا ایک طرف بندھا ہوا ہوتا ہے۔ اس آیت میں لطیف پیراہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس کوشش کا ذکر کیا ہے جو آپؐ نے بنی نوع انسان کو خداتعالیٰ سے ملانے کے لئے کی۔ لیکن چونکہ یہ موقع اس آیت کی تفسیر کا نہیں میں نے درمیانی مطالب کو ترک کرکے صرف نتیجہ بیان کر دیا ہے۔
غرض آیت زیر تفسیر میں اللہ تعالیٰ نے عقلمندوں کی دوسری علامت یہ بتائی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور محبت میں کمال حاصل کرکے اس کے حکم اور اس کی ہدایت کے ماتحت مخلوق کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ اور مخلوق سے رشتہ اتحاد و اخوت اور احسان جوڑتے ہیں۔
تیسری علامت یہ بتائی ہے کہ عقلمند لوگ اپنے رب کی خشیت دل میں رکھتے ہیں۔ جیسا کہ حل لغات میں بتایا گیا ہے خشیت کسی اعلیٰ صفات والی چیز کے کمال و حسن کو پہچاننے کے بعد اس کے ہاتھ سے جاتے رہنے کے خوف کو کہتے ہیں۔ گویا خشیت کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جبکہ اس چیز کی معرفت حاصل ہو جس سے خوف کیا گیا ہو۔ نیز خوف نقصان یا ضرر کا نہ ہو بلکہ اس وجہ سے ہو کہ انسان یقین کرے کہ وہ چیز نہایت اعلیٰ اور عظمت والی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ اپنی کسی غفلت کی وجہ سے میں اس کا قرب کھو بیٹھوں۔ پس اللہ تعالیٰ کی خشیت کے یہ معنے ہوئے کہ جب تعلق باللہ کے مقام کو انسان حاصل کرلیتا ہے تو چوکہ اس پر کھل جاتا ہے کہ یہی مقام انسان کی حقیقی راحت اور کمال کا مقام ہے وہ اس کے جاتے رہنے کے خیال کو بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ اور ہر وقت اس کی حفاظت کی کوشش میں لگا رہتا ہے اور پوری طرح اس کا خیال رکھتا ہے۔ کہ جو مقام قرب اسے حاصل ہوا ہے وہ کسی غفلت کی وجہ سے کھویا نہ جائے۔
اسی علامت کا دوسرا حصہ یہ بتایا ہے کہ ویخافون سوء الحساب یعنی ایک طرف اگر اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کے مقام کی حفاظت کا خیال دامنگیر ہوتا ہے تو دوسری طرف وہ اس امر سے بھی خائف رہتا ہے کہ شفقت علی خلق اللہ کا مو مقام اسے حاصل تھا اس میں کسی کو تاہی کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا مستوجب نہ ہو جائے۔ پہلی دو علامتوں میں چوکہ تعلق باللہ کو اصل اور شفقت علی خلق اللہ کو اس کا نتیجہ قرار دیا تھا۔ تیسری دلیل میں اسی کے مطابق اللہ تعالیٰ کے تعلق کے نقص کے لئے خشیت کا لفظ اور مخلوق کے تعلق کے نقص کے متعلق خوف کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ اول الذکر لفظ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ جس چیز سے ڈرا جاتا ہے وہ مقصود بالذات ہے اور خوف کا لفظ ضروری نہیں کہ مقصود بالذات کے لئے بولا جائے بلکہ بسااوقات یہ لفظ ایسی چیز کے لئے بولا جاتا ہے جس سے دور بھاگنا مقصود ہو۔ گو کبھی مقصود بالذات شئے کی ناراضگی کے لئے بھی استعمال ہو جاتا ہے۔
۲۳؎ حل لغات
صبروا۔ صبر سے جمع کا صیغہ ہے اور صبر کے معنے ہیں ترک الشکوی من الم الباوی لغیراللہ لا الی اللہ کہ مصیبت کے دکھ کا شکویٰ خدا تعالیٰ کے سوا کسی اور کیپ اس نہ کرنا۔ فاذا دعا اللہ العبد فی کشف الضر عنہ لا یقدح فی صبرہ۔ اگر بندہ اپنی رفع مصیبت کے لئے خداتعالیٰ کے پاس فریاد کرے تو اس کے صبر پر اعتراض نہ کیا جائے گا۔ وقال فی الکلیات الصبر فی المصیبۃ۔ اور کلیات میں لکھا ہے کہ صبر مصیبت کے وقت ہوتا ہے۔ وصبر الرجل علی الامر نقیض جزع ای جرم وشجع وتجلد اور صبر جزع یعنی شکویٰ کرنے اور گھبراے کے مقابل کا لفظ ہے اور صبر کے معنے ہوتے ہی دلیری دکھائی۔ جرأت دکھائی۔ ہمت دکھائی۔ اور صبر عن الشئی کے معنے ہیں امسک عنہ کسی چیز سے رکا رہا۔
الدابۃ حبسہا بلاعلف۔ اور صبر کا مفعول دابۃ ہو تو اسکے معنے یہ ہوتے ہیں کہ جانور کو بغیر چارہ دینے کے روکے رکھا۔ صبرت نفسی علی کذا کے معنے ہیں میں نے اپنے نفس کو کسی چیز پر قائم رکھا یا کسی چیز سے روکے رکھا۔ چنانچہ انہی معنوں میں صبرت علی مااکرہ وصبرت عما احب کا محاورہ استعمال ہوتا ہے کہ تکلیف دہ حالت پر میں نے نفس کو استقلال سے قائم رکھا اور پسندیدہ امور سے نفس کو باز رکھا گویا صبر کے تین معنے ہوئے گناہ سے بچنا اور اپنے نفس کو اس سے روکے رکھنا۔ (۲)نیک اعمال پر استقلال سے قائم رہنا۔ (۳)جزع فزع سے بچنا۔ (اقرب) اور والذین صبروا ابتغاء وجہ ربم کے معنے ہوں گے جو اپنے رب کی رضا کے لئے جزع فزع سے بچے۔ بدیوں سے رکتے رہے اور نیکیوں پر ہمت سے قائم رہے۔
یدرأون۔ درأ سے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور درأ کے معنے ہیں دفعہ وقیل دفعہ شدیدا۔ اس کو ہٹایا اور بعض کہتے ہیں کہ درأ میں سختی سے ہٹانے کے معنے پائے جاتے ہیں۔ (اقرب) اور یدرأون کے معنی ہوں گے سختی سے ہٹاتے ہیں۔
عقبی۔ جزاء الامر۔ کام کی جزاء۔ اخر کل شئی۔ ہر چیز کا آخر، انجام۔ الاخرۃ۔ آخرت۔ (اقرب) اولئک لھم عقبے الدار کے معنے ہوں گے انہی کے لئے اس آخرت کا گھر بہترین انجام مقدر ہے۔
تفسیر
اس آیت میں چار اور علامات اولوالالباب کی بیان فرمائی ہیں۔ پہلی وجہ جو پچھلی آیات کو ملا کر چوتھی ہے یہ بتائی ہے کہ وہ لوگ اپنے رب کی رضا حاصل کرنے کے لئے صبر کرتے ہیں جیسا کہ حل لغات سے ظاہر ہے صبر کے تین معنی ہی۔ (۱) گناہ سے بچنا اور جذبات کو بری راہ پر پڑنے سے روکنا (۲)نیک اعمال پر استقلال سے قائم رہنا۔ (۳)جزع فزع سے بچنا۔ پس اس آیت کے معنے یہ ہوئے کہ چوتھی علامت عقلمندوں کی یہ ہے کہ وہ بدی سے مجتنب رہتے ہیں۔ نیکی پر قائم رہتے ہیں اور جزع فزع سے رکتے ہیں اور اسی پر کفایت نہیں کرتے بلکہ اپنی نیتوں کی بھی اصلاح کرتے ہیں۔ اور ان کا یہ کام اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہوتا ہے نہ کہ کسی ذاتی یا قومی غرض کے ماتحت یا کسی طبعی نقص کے سبب۔ یعنی ان کا صبر کم ہمتی یا کمزوری اور بزدلی کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ نہ اپنے ذاتی اور قومی فوائد کے حصول کے لئے ہوتا ہے بلکہ محض اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہوتا ہے۔ باوجود طاقت انتقام کے وہ صبر کرتے ہی اور اس میں ان کے مدنظر یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو جائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں عفت اس شخص کی نہیں جس کے اندر گناہ کی طاقت نہیں۔ عفت تو اسی کی ہے جس کے اندر بدی کی طاقت ہے اور بدی کی طاقت کے ہوتے ہوے وہ بدی سے مجتنب رہتا ہے۔ جو شخص رات کے وقت ڈر کے مارے اپنے مکان سے باہر نہیں نکل سکتا وہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ وہ ڈکیتی کا مرتکب نہیں ہوتا۔ ایک شخص جو کمزور اور نحیف الجثہ ہے وہ اگر ایک مضبوط آدمی سے مار کھا کر کہے کہ میں صبر کرتا ہوں تو وہ صابر نہیں کہلائے گا بلکہ بے بس کہلائے گا۔ ہاں اگر وہ جرأت اور طاقت کے ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر صبر اختیار کرتا ہے تو وہ بے شک صابر کہلانے کا مستحق ہے۔
پانچویں علامت اقاموالصلوۃ کی بیان فرمائی۔ نمازوں کو باقاعدہ اور باشرائط ادا کرتے ہیں۔ یعنے اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلقات میں باقاعدگی کی عادت ہوتی ہے اور بے استقلالی ان کے عمال میں نہیں ہوتی۔
چھٹی علامت یہ بتائی وانفقوا مما رزقنم اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس سے پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے ہیں۔ پوشیدہ تو اس لئے خرچ کرتے ہی کہ تا دوسرے پر احسان نہ ہو اور علانیہ اس لئے کرتے ہیں کہ تا دوسروں کو صدقہ اور نیکی کی تحریک پیدا ہو اور دوسرے لوگ بھی انہیں دیکھ کر نیکیوں میں حصہ لیں۔
ساتویں علامت یدرأون بالحسنۃ السیئۃ میں بدی کو دور کرنے کے یہ گر بتائے ہیں (۱)وہ نیک اعمال کرتے ہیں تاکہ لوگ ان کے نمونہ کو دیکھ کر بدی کو ترک کریں۔ گویا کہ صرف زبانی وعظ پر بس نہیں کرتے کہ وہ اتنا مؤثر نہیں ہوتا بلکہ عملاً نیکی کا نمونہ دکھاتے ہیں اور اس طرح بدی کی جڑ کھوکھلی کرتے ہیں۔ (۲)دوسرے معنی اس کے یہ ہیں کہ وہ نیک باتوں کا وعظ کرتے ہیں اور اس طرح آپ ہی آپ برائی کا رواج مٹتا جاتا ہے یعنی فحش کی تشریحات پر اتنا زور نہیں دیتے جتنا کہ نیک اعمال کی خوبیوں پر او اس طرح زہنوں کو بدی سے ہٹا کر نیکیوں کی طرف پھیرتے ہیں۔ (۴)تیسرے معنے یہ ہیں کہ وہ بہتر اور صال اور مناسب موقعہ اعمال اس غرض کو مدنظر رکھ کر بجالاتے ہیں کہ تا ان کے ذریعہ بدی مٹ جائے۔ تورات کے مطابق ان کی یہ غرض نہیں ہوتی کہ ضرور سزا ہی دی جائے اور نہ انجیل کے مطابق ان کی یہ غرض ہوتی ہے کہ ضرور نرمی سے ہی ہر موقعہ پر کام لیا جائے اور ایک گال کے بعد دوسری گال بھی پھیر دی جائے بلکہ ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ بدی مٹ جائے۔ اس غرض کو پورا کرنے کے لئے جو مناسب طریق ہو اسے اختیار کرتے ہیں۔ اگر سزا سے بدی مٹ سکتی ہے تو وہ سزا دیتے ہیں اور سختی سے کام لیتے ہیں اور اگر نرمی اور عفو کے ساتھ بدی مٹ سکتی ہے تو اس وقت نرمی اور عفو سے بدی کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر عفو کے علاوہ احسان کی ضرورت سمجھتے ہیں تو بدی کے مقابل عفو اور احسان کے ذریعہ بدی کی جڑ کاٹ دیتے ہیں۔ پس جو بدی کے مٹانے کے لئے بہتر عمل ہو اسے اختیار کرتے ہیں۔
(۴)چوتھے معنے ا سکے یہ ہوسکتے ہیں کہ وہ شرارت کے مقابلہ میں شرارت سے کام نہیں لیتے۔ بلکہ ہمیشہ انصاف کو اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ وہ شرارت کے مقابلہ میں انصاف اور راستی کو چھوڑ دی۔ اولئک لہم عقبی الدار۔ عقبیٰ عام طورپر عاقبت محمودہ کے معنے میں استعمال ہوتا ہے۔ یعنی اچھا انجام جس کا برا انجام ہو وہ گویا انجام ہی نہیں سمجھا جاتا۔ الدار سے مراد جنت ہے کیونکہ اصل گھر وہی ہے۔ یہ دنیا تو عارضی سفر ہے۔ پس اولئیک لھم عقبی الدار کے معنے ہوئے کہ آخرۃ میں بہتر انجام انہیں کا ہوگا۔
۲۴؎ حل لغات
جنت۔ جنۃ کی جمع ہے اور الجنۃ جن میں سے ہے۔ واصل الجن ستر الشئی۔ جن کے اصل معنے کسی چیز کو ڈھانپنے کے ہیں۔ یقال جنۃ اللیل چنانچہ جنہ اللیل کا محاورہ انہی معنوں میں مستعمل ہے کہ رات نے اس کو ڈھانپ لیا۔ والجنۃ کل بستان ذی شجر یستو باشجارہ الارض۔ اور جنت ہر اس باغ کو کہتے ہیں جس میں کثرت سے درخت ہوں اور وہ درختوں کے جھنڈ سے زمین کو ڈھانپ لے۔ وقد تسمی الاشجار الساترۃ جنۃ۔ اور ڈھانپنے اور چھپانے والے یعنی گھنے درختوں کو بھی جنۃ کہتے ہیں۔ وسمیت الجنۃ اما تشبیہا بالجنۃ فی الارض وان کان بینہما بون۔ واما لسترہ نعمہا عنا المشار الیہ بقولہ فلا تعلم نفس مااخفی لہم من قرۃ اعین۔ اور جنت کو اس لئے جنت کے نام سے پکارا گیا ہے کہ یا تو وہ دنیاوی باغات کے مشابہ ہے اگرچہ ان میں اور اس میں بہت فرق ہے۔ یا اس وجہ سے کہ اس کی نعمتیں ہم سے پوشیدہ ہیں جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے آیت فلا تعلم نفس میں فرمایا ہے کہ جنت کی نعماء کا کسی کو علم نہیں۔ (مفردات)
عدن۔ عدن بالمکان عدنا۔ اقام بہ۔ عدن کے معنے ہیں کسی جگہ میں ٹھہرا۔ توطنہ۔ اس کو وطن بنایا۔ وقیل منہ جنات عد ای جنات اقامۃ لمکان الخلود اور بعض محققین لغت نے کہا ہے وجنت عدن میں عدن اقامت کے معنوں میں استعمال ہوا ہے کہ رہ پڑنے کے باغات۔ کیونکہ ان میں ہمیشہ رہا جائے گا۔ (اقرب)
تفسیر
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ عقبی الدار سے مراد وہ جنات ہیں کہ جو ہمیشہ رہنے والی ہیں یا یہ مراد ہے کہ اولوالالباب ہمیشہ رہنے والی جنتوں کے وارث ہوں گے۔ ومن صلح من ابائم۔ اور ان کے ماں باپ اور ازواج اور اولادیں جو نیک ہوں گے وہ بھی ان کے ساتھ جنات میں داخل ہوں گے۔ اس آیت میں ایک عظیم الشا اصلیت اور صداقت کا اظہار کیا ہے۔ اس اصل اور صداقت کو صرف قرآن کریم نے ہی بیان کیا ہے۔ دنی کی اور کسی کتاب نے اس مسئلہ کو نہیں لیا۔ دنیا میں کوئی شخص کوئی ایسی نیکی اور بدی نہیں کرتا جس میں دوسرے لوگ کسی نہ کسی رنگ میں شریک نہ ہوں۔ تاجر کی تجارت کی کامیابی، زراعت پیشہ کی زراعت کی کامیابی سینکڑوں ہزاروں دوسرے افراد کے دانستہ یا نادانستہ تعاون سے وابستہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت اسلامیہ نے زکوٰۃ مقرر کی ہے اور اس طرح دوسرے لوگوں کا حق دلایا ہے۔ یہی حال دوسرے کاموں کا ہے۔ مثلاً فرض کرو ایک شخص تبلیغ کے لئے جاتا ہے۔ تو اس تبلیغ میں اس کی بیوی کا حصہ بھی ہے کیونکہ وہ اس کی عدم موجودگی میں بھی اس کے گھر اور اس کے بال بچہ کا انتظام کرتی ہے۔ ان کی پرورش کرتی ہے۔ اگر وہ بال بچوں کی حفاظت نہ کرے تو مبلغ کو تبلیغ کے لئے جانے میں بڑی دقت ہوگی۔ اسی طرح اگر والدین نے اچھی طرح تربیت نہ کی ہوئی ہو تو وہ کس طرح دین کے کاموں میں حصہ لے سکے گا۔ یا اگر اولاد والدین کو مطمئن نہ بیٹھنے دے تو وہ کس طرح نیکیوں میں حصہ لے سکتے ہیں۔ پس چوکہ انسان نیکیوں میں ترقی اپنے رشتہ داروں کی مدد سے کرتا ہے اس کے انعام میں ان کا حصہ رکھا۔ اور یہ قانون مقرر کیا کہ سب خاندان میں جو سب سے اعلیٰ مقام کو حاصل کرے دوسرے سب اس کے پاس ہی رکھے جائیں نہ کہ اپنے چھوٹے مقاموں پر۔ بشرطیکہ وہ نجات یافتہ ہوں۔
زوج کا لفظ جو اس آیت میں استعمال ہوا ہے میرے نزدیک اس کے یہاں جوڑے کے معنے ہیں۔ یعنی ساتھی کے نہ کے مرد عورت کے۔ اور میرے نزدیک اس میں تمام وہ لوگ شامل ہیں جو نیکیوں میں اس کے ممد اور معاون ہوئے ہوں نہ کہ صرف میاں اور بیوی۔ اس سے عورتوں کے متعلق بھی سوال حل ہو جاتا ہے کہ وہ نبوت کے مقام پر کیوں نہیں پہنچائی جاتیں کیونکہ اس آیت سے نکلتا ہے کہ نبی کی بیویوں کو بھی اس مقام پر رکھا جائے گا جس مقام پر نبی ہوں گے یعنی گو ان کی بناوٹ کے لحاظ سے ان کو دنیا میں نبی نہیں بنایا جاتا لیکن وہ انہی انعامات میں شریک ہوں گی جو انبیاء کو ملیں گے۔ اب دیکھو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک شخص ہیں مگر عورتیں گیارہ ان کے ساتھ ان کے انعامات میں شریک ہوں گی۔ اسی طرح نبی کا زوج صدیق ہوتا ہے اور عورتوں کو صدیق کے درجہ پانے سے روکا نہیں گیا۔ اب جو عورتیں صدیقیت کے مقام پر پہنچ جائیں وہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچائی جائیں گی۔ جس طرح تمام صدیق پہنچائے جائیں گے۔ کیونکہ وہ مرتبۂ صدیقیت کے لحاظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں شامل ہوں گی۔
والملئکۃ یدخلون علیہم من کل باب سے یہ بتانا مطلوب نہیں کہ جنت بڑا مقام ہے اور اس کے بہت سے دروازے ہیں بلکہ یہ مطلب ہے کہ وہ اخلاق حسنہ اور نیکیاں کہ جن کی وجہ سے وہ جنت میں داخل ہوں گے وہ اس جہان میں جنت کے دروازوں کی شکل میں متمثل ہوں گی۔
۲۵؎ تفسیر
ہر دروازہ سے ملائکہ سلم علیکم کہتے ہوئے داخل ہوں گے یعنی ان کو ملائکہ بتائیں گے کہ تم فلاں نیکی کی وجہ سے اس دروازہ سے داخل ہوئے ہو اور فلاں خلق فلاں دروازہ کی شکل میں متمثل ہے اور ان کو سلم علیکم کہیں گے۔ یہ یاد دلانے کے لئے کہ تم نے جو نیکیاں کی تھیں ان کی وجہ سے اب تم پر ہر طرف سے المتی ہی سلامتی نازل ہوگی۔ جس طرح تم نے ہر رنگ میں نیکی کی تھی اسی طرح اب ہر رنگ میں تم پر سلامتیاں نازل ہوں گی۔
سلم علیکم دوام سلامتی پر دلالت کرتا ہے اور بماصبرتم کہہ کر اس دوام کی وجہ بھی بتادی جو یہ ہے کہ جس طر تم استقلال سے نیکی پر قائم رہے اور باوجود روکوں کے رکے نہیں۔ ہم بھی اب دائمی سلامتی تم پر نازل کریں گے۔ اس آیت میں آریوں کے اس اعتراض کا جواب بھی آجاتا ہے کہ جب عمل محدود ہیں تو ثواب غیرمحدود کس طرح مل سکتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم نے زندگی بھر نیکی کو نہ چھوڑا تو اپنا فرض ادا کر دیا۔ موت کا آنا تمہارے بس کی بات نہ تھی۔ جب تک تمہارا بس تھا تم نے نیکی کے مقام کو نہ چھوڑا اور عمل کرتے رہے۔ پس اب مجھ پر واجب ہے کہ میں تم کو ہمیشہ کی کامیابی اور سلامتی عطا کروں۔
اس آیت می یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جو شخص تھوڑے تھوڑے ابتلاؤں پر گھبرا جاتا ہے اور حق پر قائم نہیں رہتا وہ جنت کا مستحق نہیں ہوگا۔ جنت کا وہی شخص مستحق ہوسکتا ہے جو کسی ابتلاء پر گھبرائے نہیں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کو کبھی قطع نہ کرے اور نیکیوں میں برابر لگا رہے۔
چکڑالوی لوگ کہا کرتے ہیں کہ قرآن کریم میں تو سلام علیکم آتا ہے پھر مسلمان السلام علیکم کیوں کہتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جب ہم السلام علیکم کہتے ہیں تو ہماری مراد اس سے یہ نہیں ہوتی کہ تم پر سلامتی نازل ہو بلکہ یہ مراد ہوتی ہے کہ خداتعالیٰ تم کو وہ سلام سننے کا موقع دے جو قرآن کریم میں بیان ہوا ہے۔ جیسے وہ سلام جس کا ذکر اس آیت میں ہے اور یہ ظاہر ہے کہ خاص سلام کی طرف اشارہ کیا جائے گا تو عربی کے قاعدہ کے مطابق السلام علیکم ہی کہا جائے گا۔ اس آیتت کے علاوہ دوسرے مقامات پر بھی سلام کا ذکر ہے۔ مثلاً سلام علیکم ظبتم فادخلوھا خالدین۔ سورہ زمر کے آخر میں ہے اور سورۃ یٰس میں ہے لہم فیہا فاکھۃ ولہم مایدعون سلام قولا من رب رحیم۔ پس جب ہم السلام علیکم کہتے ہیں تو ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ اے بھائی خداتعالیٰ تم کو جنت میں داخل کرے اور خداتعالیٰ کے فرشتے حسب وعدہ ہر دروازے سے داخل ہوکر خداتعالیٰ کا سلام تم کو پہنچائیں۔ جو اعلیٰ دعا اس طرح سے پہنچتی ہے وہ ہمارے منہ سے نکلے ہوئے سلام سے کہاں پہنچ سکتی ہے۔ پس سلام علیکم کی جگہ السلام علیکم ہی صحیح ہے۔
۲۶؎ حل لغات
اللعنۃ۔ لعنہ لعنا۔ طردہ وابعدہ من الخیر لعن کے معنے ہیں اس کو دھتکارا اور بھلائی سے دور کیا۔ محروم کیا۔ واخزاہ وسبہ۔ اس کو ذلیل کیا ور اس کو گالی دی۔ اللعنۃ اسم من اللعن۔ لعنۃ لعن کا اسم ہے اور اس کے ایک معنی عذاب کے بھی ہیں۔ (اقرب)
تفسیر
تقض اور عھداللہ دونوں کو ملا کر دو باتوں کی طرف اشارہ کر دیا ہے۔ یعنی نیکیوں کو بھی چھوڑ دیتے ہیں اور بدیوں کے مرتکب ہوتے ہیں اور جن سے تعلق جوڑنے کا خدا نے حکم دیا تھا ان سے قطع کرتے ہیں۔ یعنی بجائے صلہ رحمی کے قطع رحمی کرتے ہیں۔ کوئی نظام قومی کو توڑتا ہے کوئی انبیاء ے ساتھ تعلق پیدا کرنے کی بجائے ان کی مخالفت کرتا ہے۔ کوئی شفقت علی الناس کو چھوڑ دیتا ہے۔ کوئی اللہ تعالیٰ کو چھوڑتا ہے۔ یہ سب قطع کرنا ہے ان باتوں کو جن کے ملانے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔
ویفسدون فی الارض۔ وصل کے مقابلہ میں افساد رکھا ہے یعنی صرف یہی نہیں کہ جن سے وصل اور ملاپ کرنے کا خداوند تعالیٰ نے حکم دیا ہوا ہے ان سے وصل نہیں کرتے بلکہ بجائے وصل کے وہ ظلم کرنے لگتے ہیں اور قطع تعلق سے بڑھ کر مخالفت شروع کردیتے ہیں۔
اولئک لہم اللعنۃ۔ چونکہ وہ خدا سے قطع تعلق کرتے ہیں اس لئے خداتعالیٰ سے دور کئے جائیں گے۔ *** کے معنی دوری کے ہیں اور *** کا لفظ گالی کے طور پر استعمال نہیں ہوا بلکہ اس سے حقیقت بتائی گئی ہے کہ جو لوگ خداتعالیٰ سے خود قطع تعلق کریں انہی قرب کس طرح نصیب ہوسکتا ہے۔
۲۷؎ حل لغات
یقدر۔ قدر سے ہے اور قدراللہ علیہ الامرر کے معنی ہیں قضی وحکمبہ۔ اللہ نے کسی کام کا فیصلہ کیا۔ علیہ الرزق۔ قسمہ۔ رزق کو تقسیم کیا۔ ضیقہ رزق کو تنگ کیا۔ علی الشئی۔ جمعہ اومسکہ۔ کسی چیز کو جمع کیا اور اس کو روکے رکھا۔ (اقرب) پس اللہ یبسط الرزق لمن یشاء ویقدر کے معنی ہوئے اللہ جس پر چاہتا ہے رزق فراخ کرتا ہے اور جس پر چاہتا ہے تنگ کرتا ہے۔
تفسیر
یعنی اگر یہ لوگ کہیں کہ دنیا کی ترقی تو ہمیں ملی ہوئی ہے اور اگلے جہان کی موہوم ہے۔ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم نے مان لیا تو اگلے جہان کی ترقیات تو خدا جانے ملیں یا نہ ملیں جو کچھ ملا ہوا ہے وہ تو ہاتھ سے جاتا رہے گا۔ پنجابی کی مثل ہے ’’ایہہ جہان مٹھا اگلا کس ڈٹھا‘‘ یعنی یہ زندگی تو شیریں ہے دوسری زندگی کسی نے دیکھی نہیں۔ کہ اس کی خاطر اسے تلخ کیا جائے۔ اس وسوسہ کا جواب یہ دیا کہ دنیا کی دولتیں اور حکومتیں اور ترقیات بھی تو اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں اگر وہ تم سے چھین کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے متبعین کو دے دے تو تم اس کو روک نہیں سکتے۔ بلکہ ہم تم کو بتا چکے ہیں کہ عنقریب ہم یہ نعمتیں مخالفوں سے چھین کر محمد رسول اللہ صلعم کے متبعین کو دے دی گے۔ پس ان کے ماننے سے دنیا کے نقصان کا نہیں دنیا کے فائدہ کا ہی احتمال ہے اور اس کے آثار ظاہر ہورہے ہیں۔ لیکن بفرض محال محمد رسول اللہ صلعم کو مان کر دنیوی نقصان ہوبھی تو بھی اس کی تعلیم میں قائم رہنے والے ایسے اصول مذکور ہیں کہ ان کے مقابل پر دنیا کی نعمتیں حقیقت کیا رکھتی ہیں۔ اس میں بتایا ہے کہ ذہنی اور فکری ترقیات مادی ترقیات سے جبکہ قوتِ عملیہ کو مردہ نہ کر دیا جائے افضل ہوتی ہیں۔ کیونکہ مادی ترقیات ہمیشہ ان کے تابع ہوتی ہیں۔
۲۸؎ حل لغات
یھدی ھدی سے ہے اور ھداہ الطریق والیہ ولہ کے معنے ہیں بینہ لہ وعرفہ بہ۔ راستہ دکھایا ، بتایا اور واضح کیا۔ ھدی فلانا۔ تقدمہ اس کے آگے آگے چل کر منزل مقصود تک لے گیا۔ ھداہ اللہ الی الایمان ارشدہ۔ ایمان کی طرف رہنمائی کی۔ (اقرب)
اناب۔ ناب سے ہے اور ناب الیہ کے معنے ہیں رجع مرۃ بعد اخری۔ بار بار لوٹا۔ الی اللہ۔ تاب توبہ کی۔ ناب فلان۔ لزم الطاعۃ۔ اطاعت کو لازم پکڑا (اقرب) یھدی فیہ من اناب کے معنے ہوں گے جو اس کی طرف مائل ہو اسے اپنی طرف رہنمائی کرتا ہے۔
تفسیر
چونکہ پہلی آیت میں ذکر تھا کہ اللہ تعالیٰ رزق چھین بھی سکتا ہے اس پر کفار کا اعتراض بیا کیا کہ جب انہیں خداتعالیٰ کی ان طاقتوں کی طرف توجہ دلائی جائے تو جھٹ کہتے ہیں کہ بہت اچھا اگر ایسا ہے تو یہ نشان ہمیں دکھاؤ۔ یعنی ہمارا رزق چھینا جائے تب مانیں۔
اس کا جواب یہ دیا کہ نشانات تو اللہ تعالیٰ کے بہت نازل ہوئے ہیں لیکن تم ا سے فائدہ نہیں حاصل کرنا چاہتے اور صرف یہی مطالبہ کرتے ہو کہ تم پر عذاب آئے۔ گویا رحمت کے نشان علمی نشان، روحانی نشان سب بے حقیقت ہیں۔ تمہارے نزدیک صرف یہی نشان ماننے کے قابل ہے کہ عذاب آجائے۔ حالانکہ تباہ کر دینے والا عذاب آنے کے بعد ہدایت کا تو موقعہ ہی باقی نہیں رہتا۔ پھر اس نشا سے یہ کیا فائدہ اٹھائیں گے۔ پس حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے گناہوں کے سبب سے ہلاکت کے مستحق ہو گئے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کے تباہ کرنے کا فیصلہ کر دیا ہے ورنہ ہدایت کے نشانوں سے کیوں فائدہ نہ اٹھاتے۔ چونکہ اس جگہ شبہ پیدا ہوسکتا تھا کہ گویا خداتعالیٰ نے زبردستی کسی کو گمراہ یا ہلاک کر دیتا ہے اس لئے فرمایا کہ خدا تعالیٰ بلاوجہ نہیں ہلاک کرتا بلکہ اس کی سنت ہے کہ جو اس کی طرف جھکے وہ اسے ہدایت دیتا ہے۔ ہلاک اسی کو کرتا ہے جو اس سے دور بھاگتا ہے۔ اور ہدایت قبول کرنے سے خود انکار کردیتا ہے۔ اس میں ان لوگوں کا رد آگیا جو مشیت کا لفظ دیکھ کر کہہ دیا کرتے ہیں کہ خداتعالیٰ جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے۔ خداتعالیٰ زبردستی گمراہ نہیں کرتا بلکہ صرف اسے گمراہ کرتا ہے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ گمراہ قرار دیتا ہے جو خداتعالیٰ کی طرف آنا چاہتا ہی نہیں۔
۲۹؎ حل لغات
تطمئن۔ اطمأن سے مضارع مؤنث غائب کا صیغہ ہے اور اطمئن الی کذا کے معنے ہیں سکن وامن لہ۔ سکون پکڑا ور تسلی پائی۔ (اقرب) تطمئن القلوب کے معنے ہوں گے دل آرام محسوس کرتے ہیں، دل تسلی پاتے ہیں۔
تفسیر
لوگ مال کماتے ہیں، حکومتیں کرتے ہیں ان کو اچھی اولاد ملتی ہے، اچھی بیویوں ہوتی ہیں، اچھے دوست ملتے ہیں، تجارت میں فائدہ اٹھاتے ہیں، زراعت میں فع حاصل کرتے ہیں، علم میں کمال حاصل کرتے ہیں۔ غرضیکہ ہر چیز میں ترقی کرتے ہیں مگر پھر بھی دل مطمئن نہیں ہوتا۔ ایک خواہش پوری ہوتی ہے تو دو اور تکلیف دوہ خواہشات دل میں پیدا ہوجاتی ہیں اور ہر وقت دل میں یہ احساس رہتا ہے کہ گویا اصل چیز جس کی انہیں خواہش تھی انہیں ابھی نہیں ملی۔ جس طرح کہ ایک بچہ جس کی ماں جدا ہو گئی ہو کبھی کسی کی چھاتی سے لگتا ہے کبھی کسی کی چھاتی سے مگر چین کسی جگہ نہیں پاتا۔ کیونکہ اسے وہ مقصود جس کی اسے تلاش تھی حاصل نہیں ہوا۔ یعنی اس کی حقیقی ماں اس کو نہیں ملتی۔ اسی طرح دنیوی ترقی کرنے والے لوگوں کا حال ہوتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک جنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کو دیکھا اس کا بچہ گم ہو گیا تھا۔ وہ جس بچہ کو دیکھتی تھی اسے اپنی چھاتی سے لگا لیتی۔ پیار کرتی اور پھر اسے چھوڑ کر آگے چلی جاتی۔ آخر اس کو اپنا بچہ مل گیا ور اسے لے کر اطمینان سے بیٹھ گئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو متوجہ کرکے فرمایا کہ جیسے اس عورت کو اپنے بچے کے مل جانے سے خوشی ہوئی ہے اس سے کئی گناہ زیادہ اللہ تعالیٰ کو خوشی ہوتی ہے جب اس کا گنہگار بندہ اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واقعہ کا ایک دوسرا سبق آموز پہلو بیان فرمایا ہے۔ مگر میرا مقصد اس واقعہ کے بیا کرنے سے یہ ہے کہ اس عورت کو کس قدر تڑپ تھی جب تک اس کا اصلی مقصد نہیں ملا تھا مگر جب مقصود ملا تو اسے اطمینان حاصل ہو گیا۔ یہی حال ہر انسان کا ہے۔ اصلی مقصد کے ملے کے ساتھ ہی تڑپ دور ہوجاتی ہے اور اطمینان حاصل ہو جاتا ہے۔ پس چونکہ اصل مقصد انسانی پیدائش کا خدا تعالیٰ کی یاد اور اس کا ذکر ہی ہے۔ جب خدا مل جاتا ہے تو کوئی جلن اور تڑپ نہیں رہتی۔ بلکہ اطمینان ہی رہتا ہے۔ جو لوگ دنیا کی جستجو میں رہتے ہیں ان کو جس قدر ترقی ملتی ہے ا کی جلن بڑھتی جاتی ہے۔ مگر جو خداتعالیٰ کی طرف جاتا ہے اور جس قدر اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے اتنا ہی اس کے دل کا اطمینان بڑھتا جاتا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس ے اپنی ذات کی جستجو ہی ہماری زندگی کا اصل مقصد قرار دیا ہے۔ پس جب وہ مقصد پورا ہو جاتا ہے انسان کو اطمینان حاصل ہو جاتا ہے۔ ہماری ریاستوں کو ہی دیکھو۔ باوجودیکہ ان کی حفاظت گورنمنٹ کے ذریعہ ہے مگر بعض رؤسا کے ڈر کا یہ حال ہے کہ ولایت سے بند ہوکر پانی آتا ہے۔ ان کے سامنے کھولا جاتا ہے۔ پھر بھی پہلے دوسروں کو پلایا جاتا ہے پھر راجہ صاحب پیتے ہیں۔ اسی طرح ان کا کھانا ہے کہ ہزار احتیاطوں میں لگایا جاتا ہے۔ پھر اس سے پہلے خود اسی کو کھلایا جاتا ہے جو پکاے والا ہو۔ پھراس کو ڈاکٹر کھاتا ہے۔ پھر ان کے سامنے پیش ہوتا ہے۔ گویا ہر دم خطرہ ہے۔ اور احتیاط ہوتی رہتی ہے۔ ہر دم بے چینی رہتی ہے۔ مگر ہمارے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو ہر طرف دشمن ہی دشمن ہیں۔ مگر کوئی خطرہ نہیں۔ اطمینان و سرور ہے۔ دشمن بھی اگر کھانے کی دعوت دیتا ہے تو بے دھڑک چلے جاتے ہیں۔ ایک دفعہ ایک یہودی عورت نے زہر بھی دے دیا مگر پھر بھی اللہ تعالیٰ کے الہام سے آپؐ کو یہ امر معلوم ہو گیا۔ اور آپؐ اس سے محفوظ رہے۔ آپؐ کو اس قدر اطمینان کیوں تھا؟ اسی وجہ سے کہ آپؐ نے ایک ایسی ہستی سے تعلق قائم کیا ہوا تھا جو غیب کو جانتی ہے اور اس سے جب کسی کا تعلق ہو جاتا ہے تو وہ اپنے غیب سے بندے کو بھی حسب ضرورت حصہ دیتا رہتا ہے۔ پس اس سے تعلق رکھنے والا مطمئن رہتا ہے۔ دینی ترقی میں اطمینان کی زیادتی اور دنیوی ترقی میں عدم اطمینان کی زیادتی کی ایک روحانی وجہ بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ دنیوی ترقی جس قدر انسان کو حاصل ہوتی ہے اس کا مال زیادہ سے زیادہ مشتبہ ہوتا جاتا ہے اور دوسرے لوگوں کا حصہ اس میں زیادہ سے زیادہ شریک ہوتا جاتا ہے۔ لیکن دینی ترقی کی یہ صورت نہی۔ دینی ترقی میں انسا کس قدر بھی ترقی کرے وہ اپنا ہی صہ لیتا ہے دوسروں کا حصہ نہیں مارتا۔ اسی کی طرف قرآن کریم میں دوسری جگہ اشارہ ہے کہ مومن کو جنت ملتی ہے جس کی کیفیت یہ ہے کہ عرضہا السموت والارض (آل عمران ع۱۴) یعنی جنت کی تمام لمبائی چوڑائی ہر مومن کو حاصل ہوگی۔ فرق صرف یہ ہوگا کہ ہر مومن بقدر ذوق و استعداد اس سے فائدہ حاصل کررہا ہوگا۔ پس روانی ترقی میں کسی کا حق مارنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور چونکہ مومن کسی کا حق نہیں مارتا اس کا دل مطمئن ہوتا ہے اور اس کی روح پر گناہ اور حق تلفی کا بوجھ نہیں ہوتا۔
۳۰؎ حل لغات
طوبی مصد بمعنے الطیب۔ طوبی مصدر ہے جو طیب کے معنے دیتا ہے۔ اصلہ طیبی قلبت الیاء واوا لسکونہا بعد ضمۃ۔ عربی کے قاعدہ کے مطابق یاواؤ سے تبدیل ہو گئی۔ نیز طیبۃ کی جمع ہے اور اطیب کی تانیث ہے۔ اور اس کے معنے ہیں الغیطۃ رشک۔ السعادۃ۔ نیک بختی۔ الحسنٰی۔ اچھا انجام۔ الخیر۔ بھلائی۔ (اقرب) طوبٰی کی صفت محذوف ہے یعنی الحالۃ معنے یہ ہوں گے کہ قابلِ رشک حالت۔ اچھی حالت۔ الماب۔ المرجع۔ لوٹنے کی جگہ۔ المنقلب واپسی کی جگہ۔ (اقرب)
تفسیر
یعنی مومن کو نیکی اور سعادت حاصل ہوگی اور ایسے انعامات ملیں گے جن سے بڑھ کر ذہن میں نہیں آسکتے اور آخری ٹھکانا نہایت اعلیٰ ہوگا اور اچھا وہی ہے جس کا انجام اچھا ہو۔
۳۱؎ حل لغات
متاب۔ تاب کا مصدر ہے اور تاب الی اللہ من ذنبہ کے معنے ہیں رجع عن المعصیۃ گاہ سے لوٹا۔ اور متاب کے معنے ہوئے گناہ سے لوٹ کر آنا۔ (اقرب) متاب۔ اصل میں متابی تھا یاء کو حذف کر دیا گیا اور باء کے کسرہ پر اکتفا کیا گیا۔
تفسیر
کیا لطیف بات بیان فرمائی کہ یہ عذاب مانگ رہے ہیں مگر باوجود اس کے ہم اپنی رحمانیت کے ماتحت عذاب میں تاخیر ڈال رہے ہیں۔ پھر بھی یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ رحمان نہیں ہے۔ اگر ہم رحمان نہ ہوتے تو تم کب کے تباہ ہوچکے ہوتے۔ تمہارا وہ کون سا عمل ہے جس کی وجہ سے تم بچے ہوئے ہو۔ آخر ہماری رحمانیت ہی تو تمہاری حفاظت کررہی ہے۔
کذلک ارسلنک سے یہ بتایا ہے کہ جس قسم کے مطمئن دل والے اور اچھے انجام کا ذکر ہم نے کیا ہے تیری بعثت اسی غرض سے ہے کہ ایسے اعلیٰ روحانی اور اخلاقی مقام والے لوگ تیرے ذریعہ سے بھی پیدا ہوں۔
قل ھو ربی الآیہ۔ میں اس طرف اشارہ ہے کہ لوگ اعتراض کریں گے کہ تم عرب جیسی سخت دل قوم کو کہا اس قسم کا با سکو گے۔ مگر تم کہنا کہ یہ میرا کام تو نہیں خداتعالیٰ کا اکم ہے۔ میں اس پر توکل کروں گا اور بار بار اس کی طرف جھکوں گا تو یہ مقصد پورا ہو جائے گا۔
پس قومی اصلاح کا اصل ذریعہ توکل اور دعا ہے۔ جو لوگ ظاہری اسباب سے دلوں کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔
۳۲؎ حل لغات
سیرت۔ سیرہ کے معنے ہیں جعلہ سائرا۔ اس کو چلایا۔ سیرا الرجل عن ظھراالدابۃ۔ القاہ۔ سواری کا پالان اتار کر زمین پر رکھ دیا۔ المثل۔ جعلہ یسیر بین الناس کسی مثال کو لوگوں میں مشہور کیا۔ من بلدہ۔ اخرجہ واجلاہ۔ کسی کوشہر بدر کیا۔ اور جلاوطن کیا۔
الجبال۔ الجبل کی جمع ہے اور الجبل کے معنے ہیں کل وتدفی الارض عظم وطال۔ زمین پر اونچے ٹیلے کو جبل کہتے ہیں۔ خلاف السھل پتھریلی زمین۔ سیدہ قوم وعالمھم۔ قوم کا سردار اور عالم۔ یقال فلان جبل قومہ۔ چنانچہ محاورہ ہے فلاں شخص اپنی قوم کا جبل ہے۔ یعنی سردار ہے یا قوم میں عالم کی حیثیت رکھتا ہے۔ (اقرب) پس سیرت بہ الجبال کے معنی ہوں گے کہ اس کے ذریعے سے پہا اپنی جگہ سے ہلا دیئے جائیں۔ یعنی زلزلے آئیں۔ (۲) سردار یا عالم اڑا دیئے جائیں۔ (۳)بادشاہتوں کو اڑا دیا جائے۔ جبل کا لفظ روحانیت میں مشکلات پر بھی دلالت کرتا ہے۔ اس لحاظ سے منے ہوں گے کہ مشکلات کو دور کیا جاوے۔
قطعت۔ قطع کے معنی ہیں کاٹا۔ اور قطع۔ قطع کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ قطع میں مبالغہ پایا جاتا ہے اور قطع اللہ علیہ العذاب کے معنے ہیں لونہ وجزاہ۔ کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر قسم قسم کے عذاب نازل کئے۔ یہاں تک کہ اس کے بال سفید ہو گئے۔ اور جتھا ٹوٹ گیا۔ (اقرب) قطع الارض یعے زمین کاٹنے سے مراد یا تو یہ ہے کہ دشمنوں کا علاقہ کاٹ کر مسلمانوں کو دیا جاوے گا یا یہ تعلیم فوراً زمین کو طے کرتی ہوئی پھیل جائے گی۔
یایئس۔ یئس سے فعل مضارع واحد مذکر کا صیغہ ہے اور یئس کے معنے ہی قنط۔ ناامید ہو گیا۔ علم جان لیا۔ (اقرب)
آیت افلم یایئس الذین امنوا میں یایئس کے معنے جانے کے ہیں۔ یعنی کیا انہیں معلوم نہیں ہوا۔ القارعۃ کے معنے ہیں الداھیۃ بلائے ناگہانی، صدمہ۔ القیامۃ۔ قیامت۔ یقال قرعتھم قوارع الدھر اے اصابتم نوازلہ الشدیدۃ اور جب قرعتھم قوارع الدھر کا محاورہ بولیں تو یہ معنی مراد ہوتے ہیں کہ ان کو سخت تکالیف پہنچیں۔ النکبۃ المہلکۃ ہلاک کر دینے والی مصیبت۔ سریۃ النبی المسلمین آنحضرتؐ کے چھوٹے لشکر کو بھی قارعہ کہتے تے۔ قارعۃ الطریق۔ معظمہ واعلاہ۔ راستے کے اونچے بڑے حصہ کو بھی قارعۃ کہتے ہیں۔
ل المکان اور حل بہ کے معنے ہیں نزل بہ کسی جگہ اترا۔ بہ فی المکان۔ احلہ ایاہ۔ اس کو کسی جگہ اتارا۔ الرجل۔ عدا۔ زیادتی کی۔ (اقرب)
تفسیر
یعنی اگر کوئی ان صفات والا قرآن ہو جو اس آیت میں بیان ہوئی ہیں تب بھی یہ لوگ ایمان نہ لائیں۔ یہ مراد نہیں کہ قرآن میں یہ صفات نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ قرآن کریم سے یہ صفات ظاہر ہوں گی مگر پھر بھی یہ لوگ فائدہ نہ اٹھائیں گے۔ جیسے حدیث میں ہے لوکان الایمان معلقا بالثریا لنالہ رجل من فارس۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ نہ ایمان ثریا پر چلا گیا ہے اور نہ رجل فارس اسے واپس لائے گا۔ بلکہ یہ مطلب ہے کہ ایمان ایک د ثریا سے معلق ہو جائے گا اور رجل فارس اسے واپس لائے گا۔ پس اس جگہ کفار کی سنگدلی ظاہر کرنی مقصود ہے۔
جو صفات اس جگہ قرآن کریم کی بتائی ہی وہ یہ ہیں۔ (۱)سیرت بہ الجبال۔ اس کے ذریعہ سے پہاڑو کو ان کی جگہ سے ہٹا دیا جائے۔ ظاہری معنے لئے جاویں تو مراد یہ ہوگی کہ اس میں شدید زلازل کی خبر دی گئی ہو جن سے پہاڑوں کی چوٹیا اپنی جگہوں سے ہل جائیں۔ قرآن کریم میں ایسی زبردست پیشگوئیاں مادی تغیرات کی موجود ہیں جیسا کہ سورۃ زلزال میں۔ اور اگر استعارہ مراد لیا جائے تو معنے یہ ہوں کہ بڑی بڑی مشکلات دور کر دی جائیں۔ کیونکہ پہاڑ استعارۃً مصیبت اور مشکل کو بھی کہتے ہیں۔ یہ صفت بھی قرآن کریم میں موجود ہے کہ علمی، اخلاقی، روحانی، تمدنی، اققتصادی سیاسی قومی مشکلات کا حل قرآن کریم نے ایسا کیا ہے کہ کوئی دوسری کتاب اس میں اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اور اگر جبل کے دوسرے معنے لئے جائیں جو سردارِ قوم یا عالم کے ہیں تو اس طرح بھیک ہے کیونکہ قرآن کے ذریعہ سے پراے سردار بھی اڑ گئے اور پرانے عالم بھی۔ اس نے سیادت کا بھی رنگ بدل دیا۔ بادشاہت کی جگہ خلافت کو قائم کیا۔ اور علم کا پرانا مفہوم جو وہم اور تخمین پر مبنی تھا اس کی جگہ تجربہ مشاہدہ اور خواص اشیاء پر علم کی بنیاد رکھی۔ تمام قرآن کریم اس مضمون سے پر ہے کہ وہم کی جگہ فکر اور عقل سے کام لو اور سیاروں پہاڑوں، دریاؤں، شہروں موسمی تغیرات اور خواص اشیاء کو اپنی آنکھوں سے دیکھو اور مشاہدہ سے اس کی حقیقت دریافت کرو۔ کہ یہ سب کچھ تمہارے فائدہ اور کدمت کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ پس قرآن کریم نے پرانی سیاست اور پرانے علم کو بالکل بدل دیا اور دونو امور کے متعلق نیا نقطۂ نگاہ دنیا کے سامنے پیش کرکے گویا ایک نئی دنیا بسادی۔
(۲) دوسری صفت قطع ارض بتائی۔ قطع ارض کے معنے مسافت کے چھوٹٓ ہوجانے کے بھی ہوسکتے ہیں۔ یعنی وہ کتاب سب زمین میں آسانی سے پھیل جائے اور یہ بھی کہ زمین اس کے ذریعہ سے کاٹ لی جائے۔ یعنی اس کی پیشگوئیوں کے مطابق دشمنوں کا علاقہ کاٹ کر مسلمانوں کو دے دیا جائے۔ یہ دونوں باتیں بھی قرآن کریم کو حاصل ہوئیں۔ یعنی آناً فاناً وہ دنیا میں پھیل بھی گیا اور اس نے اپنے ماننے والوں کے دلوں میں ایسا جوش پیدا کر دیا کہ وہ قرآن ہاتھ میں لے کر سب دنیا میں پھیل گئے اور ایک نسل کے اندر ساری دنیا پر اس کے ماننے والے چھا گئے اور یہ بھی ہوا کہ اس کی برکت سے اور اس کی پیشگوئیوں کے مطابق اس کے مخالفوں کے ملک کاٹ کاٹ کر مسلمانوں کی املاک میں شامل کر دیئے گئے۔
(۳) تیسری صفت یہ بتائی کہ اس کے ذریعہ سے مردوں کو بلوایا جائے۔ اس کے بھی کئی معنے ہوسکتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ اس کی شہادت میں مردے بولنے لگ جائی۔ چونکہ مردوں کا اس دنیا میں زندہ ہونا قرآن تعلیم کے خلاف ہے اس لئے ان معنوں کو مدنظر رکھ کر اس کے یہ معنے ہوں گے کہ مردے خواب میں آکر بولیں یا کشف میں بولیں۔
تجربہ شاہد ہے کہ لوگ اپنے آباء کی شہادات کو بہت مانتے ہیں۔ اس زمانہ میں بھی دیکھا گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق کئی لوگ دلائل سے مان لیتے ہیں لیکن پھر بھی یہ خواہش کرتے ہیں کہ اگر رسول کریم صلعم کی زیارت ہو اور وہ کہہ دیں تو ہم مان لیں گے۔ یورپ میں اس وقت سپرچولزم کی طرف شدید میلان بھی اسی خواہش کی وجہ سے ہے۔ پس اس کو مدنظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ لوگ بھی اپنے آباء سے شدید تعلق رکھتے ہیں اور بظاہر دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارے وفات یافتہ آباء کہہ دیں تو ہم مان لی گے لی جب آباء کی شہادتیں تورات انجیل سے پیش کی جائیں تو پھر انکار کر دیتے ہیں۔ یا حضرت ابراہیم کی شہادت مکہ والوں کو پیش کی جائے تو بھی منر ہی رہتے ہیں۔ یا پھر لوگوں کو خوابوں اور کشوف میں ان کے آباء آکر قرآن کریم کی صداقت پر گواہی دیں تب بھی ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ اس زمانہ میں بھی میں نے دیکھا ہے کہ کئی لوگ تو رؤیا پر ایمان لاتے ہیں کئی لوگوں کو رسول کریم صلعم یا دوسرے بزرگ بھی رؤیا میں نظر آکر مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی شہادت دے جاتے ہیں۔ مگر لوگ نہیں مانتے۔ میں نے دیکھا ہے کہ ہزارہا آدمیوں کو رؤیا اور کشوف میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی وفات یافتہ بزرگوں کی زبانی بتائی گئی ہے۔ معلوم ہوتا ہے یہی سلسلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی تھا مگر آج کل کی طرح اس زمانہ میں بھی کئی لوگ ان رؤیا اور کشوف سے فائدہ نہ اٹھاتے تھے۔
مردوں کے بلوائے جانے سے دوسرے معنے یہ ہوسکتے ہیں کہ جو لوگ روحانی مردے تھے قرآن کریم کے ذریعہ سے انہیں بلوا دیا جائے گا۔ یعنی وہ صرف زندہ ہی نہ ہو جائیں گے بلکہ بولے بھی لگیں گے۔ یعنی اعلیٰ علوم ان کی زبان پر جاری ہوجائیں گے۔ اور وہ دنیا کے لئے ہادی ہو جائیں گے۔ قرآن کریم میں متواتر روحانیت سے محروم لوگوں کو مردہ کہا گیا ہے اور ان کے روحانیت حاصل کرنے کو زندگی کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ مثلاً فرماتا ہے یاایھا الذین امنوا استجیبوا للہ وللرسول اذا دعا کم لما یحییکم (انفال ع۳) اے مومنو! جب خدا اور اس کا رسول تم کو زندہ کرنے کے لئے بلایا کریں تو ان کی آواز کو قبول کیا کرو۔ پس معلوم ہوا قرآنی اصطلاح کی رو سے روحانیت سے بعد موت اور اس کا حصول زندگی کہلاتا ہے۔ ان معنوں کی رو سے مردوں کے بلوا دینے کے معنے روحانیت سے دور لوگوں کا اسلام لانا اور روحایت میں ترقی کرکے دنیا کے لئے ہادی ہو جانا لئے جائیں گے۔ چنانچہ اس کی مثالیں بکثرت شروع اسلام میں پائی جاتی ہیں۔ حضرت عمرؓ جیسے اشد مخالف جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے لئے گھر سے نکلے تھے اسلام لاکر انہوں نے کس قدر اسلام کے لئے قربانی کی اور اسلام کی اشاعت میں کس قدر حصہ لیا۔ ایسا ہی خالد بن ولید جو بڑے مخالف اور دشمن تھے بعد میں مسلمان ہو کر اسلام کے لئے ایک نہایت مفید وجود ثابت ہوئے۔ ایسا ہی عکرمہ جو ابوجہل کے لڑکے تھے اور اسلام کے خطرناک مخالف تھے آخر اسلام لائے اور اشاعت اسلام میں جان تک کی پرواہ نہ کی۔
بل اللہ الامر جمیعا۔ سب امور خداتعالیٰ کے ہی قبضہ میں ہیں۔ یعنی مذکورہ بالاامور بظاہر ناممکن معلوم ہوتے ہیں لیکن تم دیکھ لو گے کہ کس طرح یہ نشان قرآن کریم کی تائید میں ظاہر ہوتے ہیں۔
افلم یایئس۔ جیسا کہ حل لغات میں بتایا گیا ہے یایئس کے معنے اس جگہ یعلم کے ہیں۔ یعنی کیا کفار کو یہ معلوم نہیں کہ خداتعالیٰ کے اختیار میں ہے کہ سب کو ہدایت دے۔ اور آگے اس ہدایت کا وقت بتایا کہ اس قوم پر عذاب پر عذاب آئیں گے اور لشکر کے بعد لشکر چڑھائی کرے گا۔ (قارعہ سے مراد لشکر ہے) اور آخری لشکر ان کے گھروں کے پاس جاکر اترے گا۔ یعنی مکہ پر حملہ ہوگا تب وہ اوپر کا وعدہ پورا ہوگا۔ یعنی یہ وعدہ کہ خدا چاہے تو سب کو ہدایت دے دے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ متواتر اسلام اور اس کے دشمنوں میں جنگیں جاری رہیں۔ اور وہ لوگ جن کے متعلق پیشگوئی تھی کہ سب نشان دیکھ کر بھی نہ مانیں گے ہلاک ہوتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ اسلامی لشکر مکہ کے قریب جااترا۔ یعنی فتح مکہ کا دن آگیا۔ تب خدا کا وعدہ پورا ہوا اور سب ہی کو اس نے ہدایت دے دی۔ تمام عرب ایک سرے سے دوسرے سرے تک اسلام لے آیا۔ اللہ! اللہ! کیسی زبردست پیشگوئی ہے اور کس طرح تفصیلاً اسلام کی ترقی کا ذکر قبل از وقت کیا گیا ہے۔ جو لفظاً لفظاً پورا ہوکر قرآن کریم کی صداقت کا شاہد ہے۔ مگر افسوس کہ دل کے اندھے اب بھی ایمان نہیں لاتے۔ بلکہ خود مسلمان کہلانے والے ان علوم سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔
ان اللہ لایخلف المیعاد۔ خدا تعالیٰ یقینا اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ کا کوئی وعدہی ہے جس کے متعلق فرمایا ہے کہ خداتعالیٰ اپنے اس وعدے کے خلاف نہیں کرے گا۔ وہ وعدہ وہی ہے جو دوسری جگہ فرمایا کہ لرادک الی معاد۔ یعنی ہم ضرور تجھ کو معاد میں یعنی مکہ میں واپس لائیں گے۔ جو دنیا کے لئے رجوع کا مقام ہے۔ یہ سورۃ مکی ہے۔ اس میں اس آیت کا آنا کئی پیشگوئیوں کو اپنے اندر رکھتا ہے۔ (۱)یہ کہ آپؐ مکہ سے ہجرت کرکے جائیں گے۔ (۲)پھر وہاں سے مکہ واپس آئیں گے۔ (۳) پھر یہ بھی کہ اس جانے کے بعد لڑائیاں ہوں گی۔ ٹھکراے والے لشکر حملہ آور ہوتے رہیں گے۔ (۴)حتیٰ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کے پاس آ اتریں گے۔ (۵)تب اللہ تعالیٰ کا وعدہ کامل طور پر پورا ہوگا۔ یعنی مکہ فتح ہوگا۔
۳۳؎ حل لغات
استھزیٔ۔ استھزأ سے مجہول کا صیغہ ہے اور استھزأ ھزأ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ جس کے معنے ہیں سخرمنہ اس سے ٹھٹھا کیا۔ (اقرب) املیت۔ املی سے واحد متکلم کا صیغہ ہے اور املٰی فی غیہ کے معنے ہیں اطال لہ۔ اس کو گمراہی میں مہلت دی۔ البعیر وسع لہ فی قیدہ اونٹ کی رسی کو لمبا کیا۔ وعبارۃ الاساس املیت القید للبعیر ارخیتہ واوسعتہ اور اساس میں املیت القید للبعیر کے معنے یوں کئے گئے ہی کہ میں نے اونٹ کے باندھنے کی رسی کو لمبا اور ڈھیلا کر دیا۔ اللہ الظالم۔ امھلہ اللہ نے ظالم کو مہت دی۔ (اقرب) پس املیت کے معنے ہو گے میں نے مہلت دی۔ ڈھیل دی۔ اخذہ اللہ اھلکہ۔ اللہ نے اسے ہلاک کیا۔ فلانا بذنبہ۔ عاقبہ علیہ۔ کسی کے گناہ پر اسے سزا دی۔ (اقرب) اور اخذتھم کے معنے ہوں گے (۱) میں نے ان کو ہلاک کر دیا۔ (۲) میں نے ان کو گناہوں پر سزا دی۔
تفسیر
چونکہ کفار باربار اعتراض کرتے تھے کہ عذاب فوراً کیوں نہیں آتا ور ان کو جواب دیا گیا تھا کہ ہماری غرض ہدایت ہے۔ اس لئے ڈھیل دیا جانا ضروری ہے۔ اب فرمایا کہ یہ ڈھیل کا دینا تیرے زمانہ کے منکروں کے ساتھ ہی مخصوص نہیں کہ اعتراض ہو بلکہ سب رسولوں کے زمانہ میں ایسا ہی ہوتا چلا آیا ہے کہ منکرین کو ڈھیل ملتی رہی۔ اور فوراً نہیں پکڑے گئے۔ پس اگر کسی مدعی کے منکروں کو ڈھیل کا ملنا ا سکے جھوٹ کی علامت ہے تو پھر پہلے نبیوں کو بھی نعوذباللہ جھوٹا ماننا پڑے گا۔ مکہ والے کم از کم حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمٰعیلؑ کو تو ضرور سچا مانتے تے اور ظاہر ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کو بے انتہا تکالیف دی گئیں حتیٰ کہ آگ میں ڈالا گیا۔ مگر خداوند تعالیٰ نے ان کے دشمنوں کو فوراً نہ پکڑا بلکہ لمبی ڈھیل کے بعد پکڑا۔ آیت کے آخر میں اس امر کو بھی پیش کیا ہے کہ اصل میں دیکھنے والی بات یہ نہیں کہ ڈھیل کیوں مل رہی ہے۔ بلکہ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ منکرین جب پکڑے گئے تو ان کے ساتھ کیسا معاملہ ہوا کیا ان کا انجام نہایت عبرتناک نہیں ہوا۔ پھر ڈھیل پر کیا اعتراض ہے۔ ڈھیل پر اعتراض تو تب ہو جب اس کا نتیجہ انبیاء کے حق میں مضر ہو۔ درمیانی ڈھیل تو بعثت انبیاء کی غرض یعنی خلق اللہ کی ہدایت کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہوتی ہے۔
۳۴؎ حل لغات
قائم قام سے اسم فاعل ہے اور قام علیہ کے معنے راقبہ اس پر نگہبان رہا۔ علی غریمہ۔ طالبہ۔ اپنے قرضدار سے قرض کا مطالبہ کیا۔ افمن ھوقائم علی کل نفس اے حافظ لہا (مفردات) یعنی افمن ھو قائم میں قائم کے معنے محافظ و نگران کے ہیں۔ افمن ھو قائم کے آگے یہ جملہ محذوف ہے۔ کمن ھو لیس بقائم۔ اور معنے یہ ہوں گے کہ کیا وہ ذات جونگہبان ہے اس جیسی ہوسکتی ہے جو نگہبان نہیں۔
تنبئون۔ نبأ سے ہے اور نباہ الخبر وبالخبر کے معنے ہیں خبرہ۔ اس کو خبر دی۔ یقال نبات زیدا عمروا منطلقا۔ اے اعلمتہ میں نے زید کو بتایا کہ عمرو جارہا ہے (اقرب) پس ام تنبئونہ کے معنے ہوئے کیا تم اسے بتاؤ گے۔
تفسیر
اس آیت میں افمن ھو قائم کے جواب کا جملہ کی عنی کمن ھو لیس بقائم محذوف ہے اور یہ عربی زبان کا عام قاعدہ ہے کہ مقابل کا فقرہ لفظاً چھوڑ دیا جاتا ہے اور معناً اسے مدنظر رکھ لیا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ ذات جو انسانی اعمال میں سے چھوٹے سے چھوٹے عمل کو ضائع نہیں جانے دیتی اور سب کے نتائج پیدا کرتی ہے اور جس کے ہاتھ سے کوئی بچ نہیں سکتا اس جیسی ہوسکتی ہے جس میں یہ طاقت نہیں؟ قائم علی کل نفس کے معنے ہیں کہ نگران کے طور پر سر پر کھڑا ہے۔ کوئی اس سے دور نہیں اور اس کی گرفت سے بھاگ نہیں سکتا۔ پس اسے سزا میں جلدی کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ سزا میں جلدی تو وہ کرتا ہے جس میں طاقت نہیں ہوتی اور جو اپنے مخالف کو پکڑ لیے پر ڈرتا ہے کہ میں نے فوراً سزا نہ دی تو شاید ہاتھ سے نکل جائے اور پھر میں اس پر قدرت نہ پاں۔ جب اللہ تعالیٰ ہر وقت قادر ہے اور پوری طرح قادر ہے تو وہ کمزوروں کی طرح جلدی کیوں کرے۔ پس ان کو سزا کی تاخیر پر ہنسنے یا تعجب کرنے کی ضرورت نہیں۔ انہیں تو اس امر کا محاسبہ کرنا چاہئے کہ آیا یہ خداتعالیٰ کے مجرم ہیں یا نہیں۔ اگر خداتعالیٰ کے مجرم ہیں تو پھر بے فکری اور خوشی کی کوئی وجہ نہیں۔
وجعلوا للہ شرکاء سے بتایا کہ اگر یہ اپنے عقائد اور اعمال پر غور کریں تو انہیں معلوم ہو جائے گاکہ یہ لوگ اس ذات کے مجرم ہیں جو سب کام خود کررہی ہے اور کسی کی امداد کی محتاج نہیں۔ لیکن یہ اس کے شریک مقرر کررہے ہیں۔ پس جب یہ اپنی ذات میں سزا کے مستحق ہوچکے ہیں تو یہ خیال ہی کس طرح کرسکتے ہیںکہ انہیں سزا نہیں ملے گی۔
قل سموھم۔ قرآن مجید کا قاعدہ ہے کہ جب کسی اہم مسئلہ کا ذکر ضمنی طور پر بھی ہو تو وہ اس کی تفاصیل پر روشنی ڈال دیتا ہے۔ اس جگہ پر جعلوا للہ شرکاء دراصل افمن ھوقائم کے مضمون کی تشریح کے طور پر لایا گیا تھا لیکن چونکہ شرک کا ذکر آگیا اس لئے اس عقیدہ کی بے ہودگی ثابت کرنی ضروری سمجھی۔ چنانچہ شرک کے رد میں فرمایا قل سموھم اگر شرکاء ہی تو ذرا ان کے کام تو بتاؤ۔ سموھم سے یہ مراد نہیں کہ نام بتاؤ کیونکہ نام تو بتوں کے انہوں نے رکھے ہی ہوئے تھے۔ خود قرآن کریم نے بھی کئی نام گنائے ہیں۔ پس مراد اسماء ذات نہیں بلکہ صفائی نام ہیں۔ ایک اور جگہ پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان ھی الا اسماء سمیتوھا (نجم ع۱) یہ بت جن کو تم معبود قرار دیتے ہو نام ہی نام ہیں اور ہے کیا یعنی ان میں کوئی صفات تو ہیں نہی۔ آیت زیرتفسیر میں بھی یہی مراد ہے کہ ان شرکاء کے ذرا کام تو بتاؤ۔
یہ ایسی زبردست دلیل ہے جس کا کوئی مشرک جواب نہیں دے سکتا۔ کیونکہ اگر وہ یہ کہے کہ مثلاً اس بت کا کام بیٹا دینا ہے تو اس میں سب صفات الٰہی ماننی پڑیںں گے۔ کیونکہ بیٹا دینے کے لئے ایک طرف تو رحم کی اصلاح کی ضرورت ہوگی اور دوسری طرف اگر مادہ تولید میں نقص ہے تو مرد کی اس مرض کو دور کرنا ہوگا۔ اور اس کے لئے غذاؤں اور دواؤں اور ان کے اثرات پر تصرف ضروری ہے۔ اور جب ایک بت کو یہ بات حاصل ہوگی تو پھر ماننا پڑے گا کہ غذاؤں پر بھی اسے تصرف حاصل ہے اور انسانی مشین چلانے والا دواؤں کے اثرات کو قبضہ میں رکھنے والا بھی وہی بت ہے نہ کہ خدا۔ اور دواؤں کا اثر اجرام فلکیہ کے اثر کے تابع ہے۔ اس لئے اس کا رتصرف اجرام فلکیہ پر بھی تسلیم کرنا ہوگا۔ ایسا ہی پھر اس کے لئے یہ بھی ضروری ہوگا کہ اسے علم غیب ہو۔ ورنہ وہ کیسے جانے گا کہ مریض کے موجودہ حالات میں اس کے لئے فلاں دوا ہی مفید ہے اور پھر اسے صرف عالم الغیب ہی نہیں بلکہ معلوم بھی ہونا چاہئے تا وہ حکیم کے ذہن میں یا اس کی بیوی یا خود اس مریض کے ذہن میں یہ بات پیدا کرے کہ اس کو یہ چیز کھلاؤ یا تم کو یہ چیز کھانی چاہئے۔ جس سے مادہ تولید درست ہوگا۔ وغیرہ۔
غرض جب تک تمام صفات نہ ہوں گی صرف کوئی ایک صفت کام نہ کرسکے گی۔ اور اگر باقی تمام صفات بھی اس میں مان لی جائیں تو پھر خدا جیسا ایک دوسرا خدا ماننا پڑے گا۔ اور یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ دنیا کا کارخانہ ہزاروں خدا جن میں سے ہر اک آزاد طور پر اس کارخانہ کو چلاسکتا ہے مل کر چلار ہے ہیں اور یہ ایسا فضول کام ہے کہ معبود تو الگ رہا عام انسان کے بارہ میں بھی تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔
میں نے ایک مرتبہ ایک عیسائی سے پوچھا کہ دنیا کو کس نے یدا کیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ مسیحؑ نے میں نے کہا کیا خدا میں بی طاقت ہے کہ دنیا کو پیدا کرسکے؟ اس نے کہا ہاں۔ میں نے کہا پھر کیا وہ معطل اور بے کار بیٹھا ہے؟ اس نے کہا نہیں وہ بھی پیدا کررہا ہے اور پھر یہی بات روح القدس کے متعلق کہی۔ تب میں نے ان سے کہا کہ آپ کے سامنے آپ کی میز پر ایک پنسل پڑی ہے اگر آپ اپنے نوکر سے کہیں کہ یہ پنسل مجھے اٹھا دو اور وہ جاکر دواور آدمیوں کو بھی بلا لائے اور پھر تینوں مل کر اس پنسل کو اٹھا کر آپ کے سامنے لانے کی کوشش کریں تو آپ ان کو کیا سمجھیں گے؟ اس نے کہا پاگل۔ میں نے کہا جب ہر ایک خدا الگ الگ دنیا کو پیدا کرسکتا تھا تو پھر یہ تین مل کر اس کام کو کیوں کررہے ہیں۔ جسے ایک ہی کرسکتا تھا گھبرا کر بولا اصل میں تثلیث کا مسئلہ ایسا باریک ہے کہ انسان کی عقل میں نہیں آسکتا۔ یہ سموھم والی دلیل ہی تھی کہ جسے میں نے استعمال کیا اور پادری بالکل حیرا رہ گیا۔
عربی محاورہ کے رو سے سموھم کے دوسرے معنے یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ ان کی حقیقت ہی کیا ہے۔ عربی میں حقارت کے لئے کہتے ہیں۔ سمہ۔ اس کا نام تو لو۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ ایسی ذلیل چیز ہے کہ اس کا نام لیتے ہی تم شرمندہ ہو جاؤ گے۔ ہوسکتا ہے کہ یہاں بھی ان معنوں میں سموھم کہا گیا ہو۔ مطلب یہ کہ ذرا نام تو لو۔ نام لیتے ہی خود ہی شرمندہ ہو جاؤ گے۔ اردو میں نام لینے کی بجائے کہتے ہیں ’’منہ تو دکھا۔‘‘
ام تنبئونہ بمالایعلم فی الارض ام بظاھر من القول۔ شرک کے خلاف دوسری دلیل یہ دی ہے کہ اگر کوئی خدا کا شریک ہوتا تو اس کی خبر خدا کی طرف سے آنی چاہئے تھی۔ جیسا کہ ڈپٹی کمشنر گورنمنٹ مقرر کرتی ہے تو وہی اعلان کرتی ہے نہ یہ کہ ضلع کے لوگ۔ یعنی اگر خدا نے ان کو اپنا شریک بنایا تھا تو ان کے لئے کوئی نبی آتا اور اعلان کرتا کہ یہ خدا کے شریک ہیں یا فرشتے اترتے اور وہ اعلان کرتے۔ مطلب یہ کہ بالواسطہ اعلان ہوتا یا بلاواستہ اور یا پھر کم از کم وہ شریک خود ہی یہ اعلان کرتے کہ ہمیں خدا نے اپنا شریک مقرر کیا ہے۔ مگر یہاں تو ان تینوں باتو میں سے ایک بھی نہیں۔ اس لئے فرمایا کہ کیا تم اللہ کو اطلاع دیتے ہو جس بات کا اسے زمین میں علم نہیں؟ ام بظاھر من الاقول اس کے دو معنے ہی۔ (۱)ام تقولون بظاہر من القول۔ یعنی یہ بات تم صرف زبان سے کہتے ہو۔ دل میں اس کے منکر ہو۔ دل میں اس کی عظمت نہیں۔ کیونکہ دل میں کسی چیز کی عظمت دلیل دے پیدا ہوا کرتی ہے۔ معنے یہ ہوئے کہ جو کچھ کہہ رہے ہو کیا خود تمہارے دل اس کو مانتے ہیں؟ اس طرح فطرت سلیمہ سے اپیل کی جو بسااوقات نہایت کامیاب طریقہ صداقت کی طرف لانے کا ہوتا ہے۔
دوسرے معنے یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ اس کی کوئی نقلی دلیل بتاؤ۔ کیا کوئی خدا کا کلام یا اس کی وحی ہے جس کی بناء پر تم ایسا کہتے ہو۔ لیکن جب کوئی بھی صورت نہیں تو انہیں شریک قرار دینا کیونکر درست ہوسکتا ہے۔
سموھم کہہ کر یہ بتایا تھا کہ ان بتوں میں کوئی ذاتی کمال نہیں۔ ام تنبئوھہ میں عقلی دلیل اور الٰہی شہادت کی عدم موجودگی بیان فرمائی ہے اور بظاھر من القول میں نقلی دلیل کا بھی انکار کیا ہے اور فطرت کی شہادت کا بھی۔
بل زین للذین کفروا مکرھم وصدوا عن السبیل۔ جب انسا کوئی فریب کرتا ہے اور لوگوں کو دھوکا دے کر ٹھگا چاہتا ہے تو آہستہ آہستہ وہ خود اور اس کی اولاد بھی اس فریب کا شکار ہوجاتی ہے۔ زین کا محذوف فاعل خداتعالیٰ نہیں بلکہ ان کے اپنے نفس ہیں۔ یعنی پہلے تو بعض لوگ دوسروں کو لوٹنے کے لئے شرک کا ڈھکوسلا بناتے ہیں مگر آخر کار خود بھی انہیں وہ بات اچھی لگنے لگ جاتی ہے اور اولاد تو اس وہم کا بالکل ہی شکار ہوجاتی ہے۔
صدوا عن السبیل یعنی جب وہ خدا کے تعقل کو چھوڑتے ہیں تو شرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ انسان بغیر ساتھی کے نہیں رہ سکتا۔ خدا کو چھوڑنے کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پھر چھوٹی چھوٹی چیزوں کا سہارا ڈھونڈنے لگتا ہے۔ اور اسی طرح شرک پیدا ہوجاتا ہے۔ بئس للظالمین بدلا اس مسئلہ میں قرآن مجید اور کمپریٹوریلیجن کے ماہرین کا اختلاف ہے۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ پہلے توحید تھی بعد میں شرک پیدا ہوا مگر یہ لوگ کہتے ہیں کہ پہلے شرک تھا آہستہ آہستہ خدا کا خیال پیدا ہوا۔ اور توحید دنیا میں آئی۔
مشاہدہ اور تاریخ ہماری تائید میں ہیں۔ مسلمان اور یہودی پہلے مؤحد تے۔ یورپ کے لوگ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کامل توحید کی تعلیم دی تھی۔ مگر آج مسلمان اور یہودی دونوں کامل توحید کے بعد مشرک ب گئے۔ اسی بات کو اس جگہ بیان کیا ہے کہ جب انہو نے خدا سے تعلق توڑ لیا تو مخلوق کا سہارا ڈھونڈنے لگے۔ اس طر سے شرک شروع ہو گیا۔ میں کہتا ہوں جس طرح یہود اور مسلمانوں میں توحید کے بعد شرک پیدا ہوا کیوں نہ تسلیم کیا جائے کہ اسی طرح ابتداء عالم میں توحید تھی پھر بگڑ کر لوگ مشرک ہو گئے۔
ومن یضلل اللہ فمالہ من ھاد۔ (۱)جس کے متعلق اللہ تعالیٰ گمراہ ہوے کا فیصلہ کردے اس کو ہدایت دینے والا کوئی نہیں۔ (۲)جس کو خدا تعالیٰ ہلاک کرے اس کو کامیابی کاراستہ دکھانے والا کوئی نہیں۔
اضل کے تین معنے ہوتے ہیں۔ ہلاک کیا یا گمراہ کیا یا گمراہ قرار دیا۔ چونکہ قرآن مجید کی رو سے گمراہ کرنا خدا کا کام نہیں بلکہ ہدایت کرنا خدا کا کام ہے جیسے اس سورۃ کے چوتھے رکوع میں آچکا ہے کہ لویشاء اللہ لھدی الناس جمیعا۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو سب کو ہدایت ہی دیتا۔ پس گمراہ کرنے کے معنے تو کئے نہیں جاسکتے۔ دوسرے دونوں معنے باقی رہ جاتے ہیں۔ ہلاک کرنا یا گمراہ قرار دینا۔ اور اس میں کیا شبہ ہے کہ چونکہ خدا تعالیٰ عالم الغیب ہے وہ اسی کو گمراہ قرار دے گا جس نے اپنے لئے سب راہیں ہدایت کی بند کرلی ہوں گی۔
اسی مضمون پر مزید روشنی آیت ومایضل بہ الا الفسقین (بقرہع۳) سے بھی پڑتی ہے یعنے خداتعالیٰ کا کلام بدوں کو گمراہ قرار دیتا ہے۔ نہ کہ نیکوں کو۔
۳۵؎ حل لغات
اشق۔ شق سے ہے اور شق کے معنے ہیں صدعہ۔ اس کو پھاڑا۔ فرقہ ٹکڑے ٹکڑے کیا۔ علیہ الامر شقا۔ صعب۔ معاملہ مشکل ہو گیا۔ علی فلان اوقعہ فی المشقۃ کسی کو مشقت میں ڈال دیا۔ (اقرب) اشق کے معنے ہوئے بہت سخت۔
المثل۔ الشبہ۔ مشابہ۔ النظیر۔ نظیر۔ الصفۃ۔ بیان۔ الحجۃ۔ دلیل۔ یقال اقام لہ مثلا اے حجۃ اور اقام لہ مثلا میں مثلا دلیل کے معنی میں استعمال ہو اہے……
الحدیث۔ عام بات۔ القول السائر۔ ضرب المثل۔ الایۃ۔ نشان۔ جنۃ کے معنوں کے لئے دیکھو حل لغات سورۃ ہٰذا۲۴؎
تفسیر
جیسا کہ حل لغات میں بیا ہوچکا ہے جنت اس زمین کو نہیں کہتے جس میں درخت ہوں بلکہ اصل میں سایہ کرنے والی چیز کو کہتے ہیں۔ پس تجری من تحتہا الانھر سے مراد یہ ہوئی کہ باغوں کے اندر درختوں کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ گویا اس سے ایک تو پانی کے قرب کی طرف اشارہ کیا دوسرے اس طرف اشارہ کیا کہ وہ خود نہروں کے مالک ہوں گے۔
نھر۔ سہولت سے چلنے والے پانی کو کہتے ہیں۔ پس نھر سے اس طرف اشارہ ہے کہ وہا انہیں بے روک ٹوک ترقیات حاصل ہوں گی۔ نیز نھر سے وسعتِ عمل پر بھی دلالت ہوتی ہے۔ کیوکہ دس بیس گھماؤ زمین کے لئے نہر نہیں جاری کی جاتی بلکہ وسیع رقبوں کے لئے جاری کی جاتی ہے۔ پس اس سے اشارہ کیا گیا ہے کہ مومن کے اعمال بہت وسیع ہوتے ہیں۔ وہ کنوئیں کے مینڈک کی طرح محدود نگاہ نہیں رکھتا۔ پھر جمع کا لفظ انہار بول کر یہ بھی بتا دیا کہ نھر کے لفظ سے جن فوائد کی طرف اشارہ ہے وہ کئی اقسام کے ہوں گے۔
نھر کا لفظ روحانی عالم میں عمل کی جگہ پر استعمال ہوتا ہے۔ پس بتایا ہے کہ جس طرح مومن کے عمل مختلف اور کئی اقسام کے ہوتے ہیں ویسے ہی روحانی عالم میں ان کا تمثل بھی کئی نہروں کی صورت میں ظاہر ہوگا۔ اور ہر قسم کے عمل کے مقابل پر ایک نہر جاری ہوگی اور ہر وقت مومن کو توجہ دلاتی رہے گی کہ یہ تمہارا فلاں عمل کا دے رہا ہے۔
اکلھا دائم وظلہا۔ ظلہا میں یہ بتایا ہے کہ وہاں خزاں کبھی نہ آئے گی پتے ہمیشہ رہیں گے۔ یعنی جنت کی راحتوں اور نعمتوں میں وقفہ نہ ہوگا بلکہ ہمیشہ ہی رہیں گی۔
پھر اکلہا دائم وظلہا میں یہ بھی اشارہ ہے کہ ظاہری اور باطنی نعمتیں قائم رہیں گی۔ اکل سے باطن کو راحت ہوتی ہے اور ظل سے ظاہر کو۔
عقبی الکافرین النار۔ انہوں نے اپنی روحانی ترقیات کو مدنظر نہ رکھا بلکہ دوسروں کے پیچھے چل پڑے اور کہہ دیا کہ ماوجدنا علیہ اباء نا پر ہم قائم رہیں گے گویا ان کی زندگی اپنے لئے نہ رہی دوسروں کے لئے ہو گئی اس لئے فرمایا ہم بھی تمہیں آگ میں ڈالیں گے جو دووسروں کو فائدہ دیتی ہے اور خود جلتی ہے۔
۳۶؎ حل لغات
الاحزاب۔ الحزب کی جمع ہے اور الحزب کے معنے ہی الطائفۃ۔ گروہ جماعۃ الناس لوگوں کی جماعت۔ جند الرجل واصحابہ الذین علی رایہ۔ ایسے دوست اور ساتھی جو ہم خیال اور ہم رائے ہو۔ النصیب۔ حصہ۔ کل قوم تشاکلت قلوبھم واعمالھم فھم احزاب وان لم یلق بعضہم بعضا۔ تمام وہ لوگ جن کے اعمال اور دل آپس میں مشابہ ہوں۔ اگرچہ وہ آپس میں ملے نہ ہوں۔ احزاب کہلاتے ہیں۔ (اقرب)
تفسیر
اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ مکی زندگی کے دوران میں بھی بعض اہل کتاب ایمان لے آئے تھے۔ والذین یفرحو میں جن لوگوں کی خوشی کا ذکر کیا ہے میرے نزدیک وہ نجاشی اور اس کے ساتھی تے۔ جو ہجرت حبشہ کے وقت سے ہی ایمان لاچکے تھے۔ حضرت جعفرؓ نے جب ان کو قرآن مجید سنایا تو نجاشی نے کہا کہ میرا بھی یہی ایمان ہے۔ مگر چونکہ ابھی ان کا ایمان ظاہر نہ ہوا تھا وہ صرف مومنوں کی ترقیات کو دیکھ کر ہی خوش ہوتے تھے۔ اس لئے یؤمنون نہیں فرمایا بلکہ یفرحون فرمایا ہے۔ اتینم الکتب سے مسلمان بھی مراد ہوسکتے ہیں کہ وہ اسلام کی ترقی کی بشارتوں اور اپنے نیک انجام کی خوشخبریوں کو پاکر خوش ہوتے ہیں۔ من الاحزاب من یکنربعضہ۔ احزاب سے مراد وہ تمام قومیں ہیں جو نبی کی مخاطب ہوتی ہیں۔ مگر ایمان نہیں لاتیں۔ اس میں یہودی، عیسائی، مشرک اور دوسری تمام اقوام مراد ہیں۔
ینکر کے دو معنے ہیں۔ ایک انکار کرتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ یا عجیب سمجھتے ہیں۔بعضہ اس لئے فرمایا کہ جو حصے ان کے مطابق تھے ان سے وہ خوش ہوتے تھے۔ صرف اپنے مذہب یا خیالات کے مخالف حصوں پر ہی ان کو اعتراض تھا۔
قل انما امرت ان اعبداللہ سے یہ بتایا کہ ہر نبی کی تعلیم کا مرکزی نقطہ توحید ہوتا ہے۔ اسی نقطہ کے گرد میری تعلیم چکر لگارہی ہے۔ پھر میں اس کو کیونکر چھوڑ سکتا ہوں۔ دوسرے ینکر بعضہ سے جوا س طرف اشارہ تھا کہ کفار قرآن کریم کے بعض حصہ کو بدلوانا چاہتے تھے اس کا بھی جواب دیا کہ میں تو تابع ہوں۔ جو حکم ہوتا ہے کہتا ہوں۔ خدا کے کلام کے بدلنے کا مجھے کہاں حق ہوسکتا ہے۔ اگر میں اس کو بدلوں تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ میں خدائی کا دعویدار ہوں۔ پس یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا کیونکہ مجھے تو حکم ہی یہی ہے کہ میں ایک خدا کی عبادت کروں۔
الیہ ادعو سے بتایا کہ میرا تو شروع سے دعویٰ ہے کہ میں اپنی ذات میں کچھ نہیں۔ صرف خداتعالیٰ کی طرف بلانے والا ہوں۔ پھر میں تمہاری ناپسندیدگی پر اس قرآن کریم میں کیونکر تبدیلی کرسکتا ہوں۔
الیہ ماب میں بتایا کہ میرا سارا معاملہ خدا کے ساتھ پیش آنا ہے تو میں اس کی نافرمانی کیسے کرسکتا ہوں۔ تم مانو نہ مانو۔ مجھے اس سے کیا غرض۔ مانو گے تو خود فائدہ اٹھاؤ گے نہ مانو گے تو میرا کیا نقصان ہے۔ پس میں تمہاری خوشی کے لئے خداتعالیٰ کے کلام میں تبدیلی کس طرح کرسکتا ہوں۔
۳۷؎ حل لغات
عربیا۔ اعرب الشئی کے معنے ہیں ابانہ واوضحہ۔ کسی چیز کو خوب بین اور واضح کر دیا۔ عن حاجتہ ابان عنھا۔ حاجت کو کھول کر بیان کیا۔ کلامہ۔ حسنہ وافصح ولم یلحن فی الاعراب بات میں حسن پیدا کیا اور اسے خوب واضح کیا۔ا ور تلفظ میں بھی کوئی غلطی نہ کی۔ بحجتہ۔ افصح با۔ اپنی بات کھول کر مدلل طور پر بیان کی۔ اور مفردات رراغب میں ہے الاعراب البیان کہ اعراب کے معنے بات کو کھولنے اور خوب واضح کرنے کے ہیں۔ پس حکما عربا کے معنے ہوئے مفصل حکم۔ عربیا کی مزید تشریح کے لئے دیکھو یوسف۳؎۔
اھواء ھوی کی جمع ہے اور الھوی کے معنے ہیں ارادۃ النفس۔ ارادہ۔ خواہش۔ فلا اتبع ھواہ اذا ارید ذمہ۔ اور جب فلان اتبع ھواہ کا محاورہ بولتے ہیں تو اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ وہ اپنی خواہشات کے پیچھے لگا ہوا ہے۔ اور یہ بول کر مذمت مقصود ہوتی ہے۔ (اقرب)
تفسیر
عربیا کے لفظ میں صرف عربی ہونا مراد نہیں کیونکہ عربی تو ہر عرب بولتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس کے الفاظ میں معانی کی ایسی وسعت ہے کہ سوائے خداتعالیٰ کے اس وسعت کو کوئی پیدا نہیں کرسکتا۔ پس اگر اسے بدلا جائے تو فوراً اس کی شان میں کمی آجائے گی۔ کہتے ہیں کسی امیر نے ایک ادیب سے کہا کہ قرآن کی مثل تو بناؤ۔ اس نے کہا اس کے لئے فارغ دماغ چاہئے۔ عمدہ باغ عمدہ مکانا ور فراغت کی ضرورت ہے۔ امیر نے سب کچھ مہیا کر دیا۔ نوکر چاکر دے دیئے۔ وہ عمدہ لباس پہنتا۔ عیش کرتا اور خوب سیر کرتا رہتا۔ چھ ماہ کی مقررہ میعاد کے بعد جب اس امیر نے سوال کیا کہ کیا کچھ تیار کیا تو ادیب نے کاغذوں کا ایک انبار دکھا کر کہا کہ میں اس عرصہ میں فارغ نہیں بیٹھا رہا۔ میں نے دیانتداری سے کام کیا ہے اور یہ ڈھیر اس کی شہادت ہے۔ مگر قرآن کی مثل مجھ سے نہیں بن سکی۔ کیونکہ جو آیت نکالتا ہوں اس میں لکھا ہوتا ہے ہم یوں کر دیں گے، تیرے دشمنوں کو یوں تباہ کیا جائے گا اور تیرے دوستوں کو یوں ترقی دی جائے گی۔ مگر میں ان باتوں میں سے کوئی بھی نہیں لکھ سکتا۔ میں تو روٹی بھی تیری کھاتا ہوں۔ پس مجھ سے قرآن کی مثل نہیں بن سکتی۔
عربیا کا یہی مطلب ہے کہ اس میں غیرمعمولی وسعتِ مضامین رکھی گئی ہے۔ جو انسانی طاقت سے بالاتر ہے۔
ولئن اتبعت اھواء ھم ۔ اس میں ہر مخاطب بھی مراد ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی مراد ہوسکتے ہیں۔ اور اس صورت میں شان ایزدی کا اظہار ہوگا۔ کہ تیری اپنی کوئی ہستی نہیں۔ یہ نے تو اسی وقت تک دل لبھانے والی آواز سے بجتی ہے جب تک کہ آسمانی بادشاہ کے منہ میں ہے اس کے منہ سے ہٹا لو تو خالی لکڑی ہی لکڑی ہے اور کچھ بھی نہیں۔
۳۸؎ حل لغات
الاذن کے معنے ہیں الاجازۃ۔ اجازت۔ الارادۃ۔ ارادہ۔ العلم۔ علم۔ (اقرب) الاجل۔ کے معنے ہیں مدۃ الشئی۔ کسی چیز کی مدت۔ ووقتہ الذی یحل فیہ۔ کسی امر کی وہ مدت جب جاکر وہ واقعہ ہوتا ہے۔ (اقرب) الکتاب کے معنے ہیں الحکم۔ حکم۔ الفرض۔ فرض۔ القدر۔ قدر۔ اندازہ۔ (اقرب) لکل اجل کتاب کے معنے ہوئے ہر مدت کے لئے فیصلہ الٰہی میں حکم موجود ہے۔ کتاب کی اجل نہیں کہا بلکہ اجل کی کتاب کہا ہے۔ یعنی ہر عمل کا نتیجہ نکلنے کے لئے ایک خاص حکم ہے۔ ایک خاص وقت ہے۔
تفسیر
اس آیت میں پہلے مضمون کو دہرایا ہے۔ یعنی جو مضمون پہلے رکوع میں آیا تھا اسی کو آخر میں دوبارہ بیان کیا ہے۔ جو یہ ہے کہ جس قسم کے حالات میں پہلے رسول آتے رہے انہی حالات کے ماتحت تو آیا ہے۔
کفار کا یہی سوال تھا کہ تو بے سامان آیا ہے۔ سو اس کا یہ جواب فرمایا کہ تجھ سے پہلے بھی جو رسول ہم نے بھیجے تھے وہ بھی تو اسی طرح بے سامان ہی آئے تھے۔ ا کے ساتھ بھی تیری طرح انسانی حاجتیں لگی ہوئی تھیں۔ ان کے بھی بیوی بچے تھے۔ جن کی پرورش کا انہیں انتظام کرنا پڑتا تھا۔ جسمانی ذمہ داریاں تھیں جنہی ادا کرنا پڑتا تھا۔ مگر باوجود حاجات کی موجودگی کے اور سامانوں کے فقدان کے وہ کامیاب ہوئے۔
بیوی بچوں کا ذکر یہ بتانے کے لئے کیا کہ آزاد انسان زیادہ دلیری سے قربانی کرسکتا ہے۔ لیکن بیوی بچے کام میں قدم قدم پر روک ہوتے ہیں۔ پس گویا دوہری روکیں ان کے راستہ میں بھی تھیں۔ اول سامان نہ ے۔ پھر جو سامان میسر تے ان کے استعمال میں بھی بیوی بچوں کی وجہ سے روکیں تھیں۔ مگر پھر بھی وہ کامیاب ہوئے۔ اسی طرح اب محمد رسول اللہ صلعم کامیاب ہوں گے۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ گو ہم نے انہیں کامیاب کیا۔ اور یہ عظیم الشان صداقت کا نشان ان کو ملا لیکن ہم نے یہ نہیں کیا کہ ان کے لئے لوگوں کی مرضی کے مطابق نشان دکھایا ہو۔ جو نشان ہم نے مناسب سمجھا وہ دکھایا۔ قرآن کریم میں جہاں کفار کی طرف سے نشان کے مطالبہ کا ذکر ہو اور ساتھ تشریح نہ ہو وہا نشان سے مراد عذاب ہوتا ہے۔ پس اس جگہ بھی عذاب ہی مراد ہے۔ اور چونکہ اس جگہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ اگر خداتعالیٰ نے نبیوں کو دنیا کی اصلاح کے لئے بھیجا تھا تو کیا روک تھی کہ ان کے ہاتھوں میں سزا بھی رکھ دیتا۔ تاکہ لوگوں کو حق کی مخالفت کی جرأت نہ رہتی۔ آخر دنیوی حکومتیں بھی تو اپنے ماتحتوں کو ایک حد تک سزا کا اختیار دیتی ہی۔ اس کا جواب لکل اجل کتاب کے الفاظ میں دیا جس کا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بی نوع انسان کی حالت کا اندازہ لگا کر نہ صرف یہ فیصلہ کیاہے کہ کس کس عمل کی کیا کیا پاداش چاہئے بلکہ یہ بھی کہ کس عمل کا نتیجہ کس وقت نکلنا اس شخص اور دوسرے شخصوں کے لئے زیادہ مفید ہوگا۔ اور ہر سزا کے لئے اس نے ایک وقت مقرر کر چھوڑا ہے۔ اگر وہ سزا نبیوں کے ہاتھ میں رکھتا تو وہ چونکہ عالم الغیب نہ ہوتے وہ سزا لوگوں کے مطالبہ پر دے کر اس حکمت کو باطل کر دیتے۔ دنیوی حکومتوں اور آسمانی حکومت میں یہ بھی ایک فرق ہے کہ دنیوی حکومتیں جرم کے مطابق سزا تجویز کرکے ہر جرم پر سزا دے دیتی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ صرف یہی نہیں دیکھتا کہ کس نے جرم کیا ہے بلکہ یہ بھی کہ اس جرم کی سزا کو کس وقت جاری کیا جائے۔ تو زیادہ مؤثر یا زیادہ مفید ہوگی۔ یہ ایک اہم سوال ہے کہ سزا کا وقت سزا کے اثر کو بہت کچھ بڑھا گھٹا دیتا ہے۔ اور اس لئے کامل اور بے عیب فیصلہ وہی ہوسکتا ہے جس میں سزا کی تعیین ہی نہ ہو بلکہ سزا کے وقت کو بھی حکمت کے ماتحت معین کیا جائے۔
اس آیت کو مفسرین نے بڑا غلط سمجھا ہے۔ انہوں نے اس میں تقدیم تاخیرر مانی ہے اور اس کے یہ معنی سمجھے ہیں کہ ہر کتاب کے لئے ایک وقت ہے۔ حالانکہ خداتعالیٰ کو تقدیم و تاخیر کی ضرورت نہیں۔ جو لفظ اس آیت میں ہے جس ترتیب سے ہے وہی صحیح ہے۔ کتاب کی اجل نہیں بتائی۔ بلکہ اجل کی کتاب کاہی ذکر ہے اور کوئی تقدیم تاخیر نہیں بلکہ یہ فرماکر کہ ہر مدت کے لئے فیصلہ الٰہی میں حکم موجود ہے ایک نہایت لطیف اور جدید مضمون پر روشنی ڈالی ہے جس کا ذکر اجمالاً اوپر آچکا ہے۔
خلاصہ یہ کہ بیوں کو سزا جزاء کا اس لئے اختیار نہیں دیا کہ وہ عالم الغیب نہیں۔ اور نہیں جان سکتے تے کہ کس وقت کون سا حکم جاری ہونا چاہئے۔ آیا سزا کا یا عفو کا یا تاخیر سزا کا۔ اگلی آیت اسی مضمون کی تصدیق کرتی ہے۔
۳۹؎ حل لغات
یمحو۔ محا سے مضارع کا صیغہ ہے اور محا الشئی کے معنے ہیں زال وذھب اثرہ۔ کوئی چیت مٹ گئی اور اس کا نشان جاتا رہا۔ فلان الشئی۔ ازالہ واذھب اثرہ۔ کسی چیز کو مٹایا اور اس کا اثر دور کیا۔ یعنی محا کا لفظ لازم اور متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ (اقرب)
یثبت۔ اثبت ماضی سے مضارع کا صیغہ ہے اور اثبت کے معنے ہیں عرفتہ حق المعرفۃ کسی بات کو خوب واضح کیا۔ حبسہ وجعلہ ثابتا فی مکانہ لایفارقہ۔ کسی چیز کو اس کی جگہ پر ایسا مضبوط کیا کہ وہ اپنی جگہ سے علیحدہ نہ ہوسکے۔ الحق اکدہ۔ حق و پختہ کیا۔ اسمہ فی الدیوا۔ کتبہ۔ نام رجسٹر میں لکھا۔ (اقرب) پس یمحواللہ مایشاء ویثبت کے معنے ہوئے کہ جسے چاہتا ہے مٹاتا ہے اور جسے چاہتا ہے قائم رکھتا ہے۔ یعنی اگر چاہتا ہے عذاب دیتا ہے اگر چاہتا ہے عذاب ٹال دیتا ہے۔
الام کے معنے ہیں الوالدۃ۔ ماں۔ ام الشئی اصلہ۔ کسی چیز کا اصل۔ ام الطریق۔ معظمہ۔ راستے کافراخ حصہ۔ (اقرب) ام الکتاب کے معنے ہوئے کتاب کی اصل۔ وعندہ ام الکتاب سے یہ مراد ہے (۱)کہ احکام کی حکمت خدام کو معلوم ہے۔ (۲)تمام احکام شریعت صفات الٰہیہ پر مبنی ہیں۔ پس شریعت کی جڑ گویا خداتعالیٰ کے پاس ہے کیونکہ شریعت کے احکام اسی کی صفات کی شاخیں ہیں۔
تفسیر
یہ کبھی نہیں ہوتا کہ عذاب کا وقت نہ آیا ہو مگر اللہ تعالیٰ پھر بھی عذاب دے دے۔ ہاں یہ ہو جاتا ہے کہ عذاب کا وقت تو آجائے مگر اس کی کسی حکمت کے ماتحت وہ عذاب ٹل جائے۔ عذاب کے متعلق دو قانون بیان فرمائے ہیں۔ ایک یمحواللہ ما یشاء دوسرے ویثبت یعنے یا عذاب کو مٹا ڈالتا ہے۔ عذاب دیتا ہی نہیں یا عذاب کو قائم رکھتا ہے۔ مگر بغیر استحقاق کے عذاب کبھی نہیں آتا۔ نہ استحقاق سے زیادہ آتا ہے۔ استحقاق کی حد تک عذاب دینا یا اس سے کم دینا یہ اصول ہمیشہ آسمانی عذابوں میں مدنظر رہتا ہے اور یہی اصل ہر شخص کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ جو بااخلاق بنا چاہے۔ جو لوگ غصہ کی حالت میں دشمن کو پیس کر رکھ دینا چاہتے ہیں یا عفو کرنا نہیں چاہتے وہ صفات الٰہیہ کے خلاف چلتے ہیں اور کبھی سچے مسلمان نہی کہلاسکتے۔
ام کے معنے جڑ کے ہیں۔ پس عندہ ام الکتاب کے دو معنے ہوں گے۔ (۱)احکام کی حکمت خداتعالیٰ کو ہی معلوم ہے اس لئے اس کی ہدایت سے تم صحیح راستہ معلوم کرسکتے ہو۔ انسان اپنی ذاتی اغراض اور نفسای خواہشات کے اثر کے نیچے کبھی بھی اس قدر بلند نہیں ہوتا کہ تمام عالم کی ضرورت کو مدنظر رکھ سکے۔ وہ جو احکام تجویز کرتا ہے نفسانیت سے ملوث ہوتے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ کی نظر سب عالم کی ضرورت اور آئندہ نتائج پر بھی ہوتی ہے۔ اس لئے اس کا حکم کامل اور صحیح ہدایت کے مطابق ہوتا ہے۔ دوسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ تمام احکام شریعت صفات الٰہیہ پر مبنی ہیںَ پس شریعت کی جڑ گویا خداتعالیٰ کے پاس ہوئی۔ کیونکہ شریعت کے احکام اسی کی صفات کی شاخیں ہیں۔ اس میں یہ لطیف نکتہ بیان کیا ہے کہ اخلاق کامل اللہ تعالیٰ کی صفات کی کامل اتباع اور پوری نقل کے بغیر حاصل نہی ہوسکتے۔ جو شخص اچے یا برے اخلاق کی تشریح انسانی اعمال کو سامنے رکلھ کر کرنا چاہے کامیاب نہ ہوگا۔ نیکی کی تعریف یہی ہے کہ صفات الٰہیہ کی نقل ہو۔ اور بدی کی تعریف یہی ہے کہ صفات الٰہیہ کے مخالف ہو۔ اس تعریف سے وہ سب مشکلات حل ہوجاتی ہیں جو فلسفیوں کو نیکی اور بدی کی تعریف کرنے میں پیدا ہوتی ہیں۔ تیسرے معنے یہ ہیں کہ چونکہ احکام کا مقصد اسی کو معلوم ہے اس لئے سزا اسی کے اختیار میں ہونی چاہئے۔ کئی شدید دشمن بعد میں ایمان لے آتے ہی۔ جیسے اسلام میں عکرمہؓ۔ خالدؓ اور عمرؓ بن عاص کے وجود ہیں۔ا للہ تعالیٰ ہی جانتا تھا کہ باوجود اسلام کی مخالفت کے روہ لوگ عذاب سے بچانے کے قابل ہیں کیونکہ کسی دن اسلام کی عظیم الشان خدمات کا موقع پائیں گے۔
۴۰؎ حل لغات
نتوفینک ہم تجھے وفات دے دیں۔ مزید تشریح کے لئے دیکھو حل لغات سورہ یونس۴۷؎ بعض کل شئی کے معنے ہیں اے طائفۃ منہ ساری چیز کا ایک بڑا حصہ۔ وقیل جزء منہ۔ اور بعض محققین کے نزدیک کسی چیز کے ایک تھوڑے سے حصے پر بھی بعض کا لفظ بولا جاتا ہے۔ ویجوزکونہ اعظم من بقیتہ کاثلامنیۃ من العشرۃ۔ اور بعض کا لفظ کسی چیز کے بڑے حصہ کے لئے بھی استعمال ہو سکتا ہے جیسے دس میں سے آٹھ کو بعض کہی۔ حالانکہ آٹھ بقیہ دو سے بہت زیادہ ہیں۔ (اقرب) تو اما نرینک بعض الذی کے معنے یہ ہوئے کہ اگر وعدے کا کوئی حصہ ہم تجھے دکھا دیں زیادہ ہو یا کم۔
تفسیر
یعنی جب ہماری سزا کا اصول ہی اصلاح اور انصاف ہے نہ کہ غصہ نکالنا تو پھر اس پر تعجب نہیں کرنا چاہئے کہ عذاب کی بعض پیشگوئیاں ٹل جائیں ہوسکتا ہے کہ بعض پیشگوئیاں جو عذاب کے متعلق ہیں پوری ہو جائیں اور تو انہی دیکھ لے اور بعض ٹل جائیں۔ مگر اس سے گھبرانا نہیں چاہئے کیونکہ آخری حساب تو اللہ تعالیٰ نے ہی کرنا ہے۔ جو لوگ ان ٹل جانے والی پیشگوئیو پر اعتراض کرنے والے ہیں وہ آخر خداتعالیٰ کے سامنے پیش ہوں گے اور سب حقیقت ان پر کھل جائے گی۔ جب اصل غرض بلاغ یعنی تبلیغ ہے تو پر ہر امر تبلیغ کے مقصد کے تابع ہی رکھا جائے گا۔ نہ کہ تبلیغ و اصلاح کو نظرانداز کیا جائے اور سزا کو مقدم۔
۴۱؎ حل لغات
نأت۔ اتی سے مضارع جمع متکلم کا صیغہ ہے اور اتاہ کے معنے ہیں جاء ہ۔ اس کے پاس آیا۔ والامر۔ فعلہ۔ اور جب اتی کا مفعول الامر ہو تو اس کے معنے ہوتے ہیں کام کو کیا۔ اتی المکا۔ حضرہ۔ کسی جگہ گیا۔ اتی علی الشیء۔ انفدہ۔ اس کو ختم کیا۔ وبلغ اخرہ اور اس کے انتہاء تک پہنچا۔ اتی علیہ الدھر۔ اھلکہ۔ زمانہ نے اسے ہلاک کیا۔ (اقرب)
اطرافھا۔ طرف۔ اور طرف کی جمع ہے اور الطرف کے معنے ہی حرف الشیء و نہایتہ۔ کسی چیز کا کنارہ اور اس کی انتہاء۔ الناحیۃ۔ جانب۔ طافہ من الشیء کسی چیز کا بڑا حصہ۔ الرجل الکریم۔ شریف آدمی اور الطف کے معنے ہیں منتھی کل شیء ہر چیز کا انتہاء الکریم من الفتیان والرجال۔ معزز نوجوان ہو یا بڑا آدمی۔ الاطراف من الناس۔ خلاف الرؤوس۔ عام لوگ۔ من الارض۔ اشرافہا وعلماؤ ھا۔ اطراف من الارض کے معنے ہیں معزز یا عالم لوگ۔ ھو من اطراف العرب۔ ای من اشرافہا واھل بیوتاتہا جب کسی کے متعلق ھو من اطراف العرب کا محاورہ استعمال کریں تو یہ معنے ہوتے ہی کہ وہ عرب معزز ترین خاندان میں سے ہے۔ گویا یہ لفظ اضداد میں سے ہے۔ (اقرب)
لامعقب لحکمہ کے معنے ہیں ای لاراد لہ ولا ناقض لہ۔ اس کے فیصلہ کو کوئی تبدیل کرنے والا نہیں یا اس کے حکم کو کوئی توڑنے والا نہیں۔ (اقرب)
تفسیر
عیسائی مصنفین اعتراض کیا کرتے ہیں کہ قرآن کریم سے ثابت نہیں ہوتا کہ محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) نے کبھی کوئی آیت (یعنی نشان) دکھائی ہو۔ ہاں یہ دعویٰ بے شک ہے کہ دکھائیں گے۔ اس آیت می اس کا کیسا کھلا جواب موجود ہے۔ فرماتا ہے ہم نے ان کو نشان تو دکھایا ہے مگر یہ دیکھتے نہیں۔ کیا ان کو معلوم نہیں کہ ہم زمین کو اس کے اطراف سے کم کرتے چلے آرہے ہیں۔ یعنی سابق پیشگوئیوں کے مطابق اسلام کی فتح کے آثار ظاہر ہورہے ہیں۔ ہر گھر میں سیندھ لگ رہی ہے۔ ان کی اولادیں مسلمان ہورہی ہیں۔ اور غلام مسلمان ہورہے ہیں۔ بڑے لوگوں میں سے بھی ایک حصہ ایمان لارہا ہے۔ اور عوام میں سے بھی۔ غرض سوسائٹی کے ہر طبقہ میں سے کچھ لوگ ایمان لارہے ہیں۔
الارض سے مراد عرب بھی ہوسکتا ہے۔ یعنی عرب کے اطراف میں اسلام کی اشاعت ہورہی ہے۔ مثلاً یمن میں لوگ مسلمان ہورہے ہیں۔ غفار میں سے ابوذرغفاریؓ ایمان لے آئے۔ مدینہ منورہ میں لوگ اسلام لائے۔ تاریخوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یمن میں سے بعض یہودی اور عیسائی بھی اسلام میں داخل ہو گئے تھے۔
ناتی الارض سے یہ مراد بھی ہوسکتا ہے کہ ہر قسم کے کفار فنا ہورہے ہیں۔ کیونکہ اتی اللہ کے معنی قرآن کریم میں سزا اور عذاب کے بھی آتے ہی۔ جیسے کہ فرماتا ہے فاتاھم اللہ من حیث لم یحتسبوا۔ (حشرع۱) اللہ تعالیٰ کفار کے پاس وہاں سے آیا جہاں سے آنے کا ان کو خیال بھی نہ تھا۔ یعنی ان کو ایسی سزا دی جس کا انہیں گمان بھی نہ تا۔ اس صورت میں یہ معنے ہوں گے کہ ان کے بڑے لوگ بھی سزا پارہے ہیں اور عوام بھی۔ یا یہ کہ عرب کے چاروں گوشوں میں عذاب آرہے ہیں۔
مطلب یہ کہ کفار ان امور سے نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ خداتعالیٰ کے نشان ان میں ظاہر ہورہے ہیں اور اسلام کی ترقی کے سامان پیدا ہورہے ہیں۔
واللہ یحکم لامعقب لحکمہ وھو سریع الحساب۔ یعنی اصل چیز تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہے۔ جب خداتعالیٰ اس رسول کے سات ہے تو اس کے راستہ میں کون روک بن سکتا ہے۔ خداتعالیٰ کے حکم کو ٹالنے کی طاقت ہی کسے ہے۔
اس آیت سے سبق ملتا ہے کہ مومن کو چاہئے کہ دشمن کی باتوں سے نہ گھبرائے۔ اللہ تعالیٰ کے حخم کو اصل کرنے کی کوشش میں لگارہے۔ واللہ سریع الحساب اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ جلدی حساب لینا شروع کردیتا ہے بلکہ یہ مطلب ہے کہ جب وہ حساب لینے لگے تا تو جلدی سے لے لے گا۔ یوں تو وہ عذاب میں تاخیر ہی کرتا ہے مگر جب حساب لینے پر آتا ہے تو فوراً لے لیتا ہے اور اس کے حکم میں کوئی روک نہیں بن سکتا۔
۲؎ حل لغات
مکرہ کے معنے ہیں خدعہ۔ اس کو دھوکا دیا۔ اللہ فلانا۔ جازاہ علی المکر۔ جب اللہ تعالیٰ کے لئے مکر کا لفظ آئے تو اس کے معنے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو مکر کا بدلہ دیا۔ قیل المکر صرف الانسان عن مقصدہ بحیلۃ۔ بعض نے کہا کہ کسی کو اس کے قصد سے کسی حیلہ کے ذریعہ سے پھیرنے کا نام مکر ہے۔ وھو نوعان محمود یقصد فیہ الخیر ومذموم یقصد فیہ الشر۔ اور مکر اچھا بھی ہوتا ہے اور برا بھی۔ (اقرب)
تکسب۔ کسب میں سے واحب مؤنث غائب کا صیغہ ہے اور کسب الشیء کے معنے ہیں جمعہ اس کو جمع کیا۔ اور جب کسب مالا وعلما کہا جائے تو یہ معنی ہوں گے کہ طلبہ وربحہ۔ یعنی اس نے مال و علم حاصل کرنے کی کوشش کی اور کامیاب ہو گیا۔ والاثم تحملہ اور جب کسب کا مفعول الاثم ہو تو ا سکے معنے ہوں گے تحملہ۔ گناہ کا مرتکب ہوا۔ا ور کسب لاھلہ کے معے ہی طلب المعیشۃ اپنے اہل و عیال کے لئے روزی کو حاصل کیا۔ (اقرب)
تفسیر
یعلم ماتکسب۔ تمہاری تدبیر کس طرح کارگر ہوسکتی ہے جبکہ وہ تمہاری تمام تدابیر کو جانتا ہے اس لئے وہ ان کو توڑ ڈالے گا۔ جیسے ایک آنکھوں والا کئی اندھوں کی سرکوبی کے لئے کافی ہوتا ہے۔
وسیعلم الکفار لمن عقبی الدار یعنی کفار جو تدابیر کرتے ہیں ان کو تو ہم جانتے ہیں مگر ان کے برخلاف جو تدابیر ہم اختیار کررہے ہی ان کا ان کفار کو کوئی علم یہ ہوسکتا۔ اس لئے جب کفار کو نقصان پہنچ جائے گا تبھی انہیں معلوم ہوگا کہ انجام کس کے ہاتھ می ہے۔ یہاں س زور دیے کے لئے آیا ہے یعنی کفار ضرور جان لیں گے کہ انجام کس کا اچھا ہے اور اس کے معنوں میں قریب کے زمانہ پر بھی دلالت ہوتی ہے اور جاننے کے ایک معنے تو یہ ہیں کہ بالضرور انجام مسلمانوں کا ہی اچھا ہوگا۔ دوسرے اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ بڑے بڑے کفار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ترقی کو دیکھ کر مریں گے۔
۴۳؎ تفسیر
نبی کے مخالفین کی دماغی خرابی کی یہ علامت ہے کہ وہ ہر دلیل کو سن کر انکار کرتے ہیں اور واضح سے واضح برہان پر شک پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ دلیل بجائے خود نبی کے سچا ہوے کی علامت ہوتی ہے۔ کیونکہ جب کسی قوم کے علماء کی یہ حالت ہو کہ وہ واضح اور ظاہر بات کو نہ سمجھ سکیں تو عوام کی حالت لازماً قابلِ رحم ہوگی اور اگر وہ وقت نبی کی آمد کا نہ ہو تو اور کون سا وقت اس کی بعثت کے مناسب ہوسکتا ہے۔ اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ ان سب دلائل کو سن کر بھی دشمن یہی کہے گا کہ خواہ کچھ کہو میں تو نہ مانوں گا۔ اور یہی کہوں گا کہ تو رسول نہیں ہے مگر تو اس سے چڑیو نہیں۔ تو یہی جواب دیجئو کہ میری شہادت خداتعالیٰ دے رہا ہے۔ تو مجھے انکار کی کیا پرواہ ہے۔
اسی طرح جو لوگ کتب سماویہ کا صحیح علم رکھتے ہی وہ میرے شاہد ہیں۔ پس ان شہادتو کی موجودگی میں تمہارے انکار کی کیا قدر ہے۔
یہی دو شہادتیں نبیوں کو فتح دیتی ہیں۔ یعنی تازہ آسمانی شہادت اور پہلے انبیاء کی پیشگوئیاں۔ ان دو گواہو سے بڑھ کر کبھی کوئی اور شہادت کامیاب ثابت نہیں ہوئی۔ اس وقت بھی انہی دو شہادتوں پر زور دے کر اسلام کی ترقی کی مہم سر کی جاسکتی ہے۔
سورۃ ابراھیم مکیہ
۱؎
جمہور کے نزدیک یہ سورۃ سب مکی ہے۔ لیکن اب عباس اور قتادہ کے نزدیک الم تر الی الذین بدلوا نعمۃ اللہ کفرا سے الی النار تک مکی نہیں باقی مکی ہے۔ نحاس نے حبر سے روایت کی ہے کہ یہ آیتیں بدر کے مشرک مقتولین کے متعلق ہیں۔ ابوالشیخ ے بھی اسی قسم کی روایت قتادہ سے کی ہے۔ اس سورۃ میں بھی وہی پہلا مضمون جاری رکھا گیا ہے۔ مگر رؤیت پر بنیاد ہے۔ یعنی واقعات سے مسائل کا زیادہ استخراج کیا گیا ہے۔ اور بتایا گیا ہے کہ ایسے ہی حالات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے گزر چکے ہیں۔ اور پھر بھی وہ رسول بغیر اس کے کہ ظاہری سامان ان کی تائید میں ہوں کامیاب ہوتے رہے ہیں۔
خلاصہ مضمون اس سورۃ کا یہ ہے کہ قرآن کریم کے نزول کی اصل غرض ہدایت ہے۔ لوگ تاریکی میں تے۔ اب تو اہیں تاریکی سے نور کی طرف نکالے گا۔ اس غرض کے لئے ہم پہلے بھی رسول بھیج چکے ہیں۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام بھی اسی غرض سے آئے تھے اور پھر موسیٰ کی زبای بتایا ہے کہ پہلے رسول بھی اسی غرض سے آئے تھے۔ پھر ان سب کی کامیابی کا گر بتایا کہ چونکہ ان کے ساتھ حق تھا اس لئے آخر ان کی بات غالب آئی۔ پھر سچے کلام کی علامتیں بتائی ہیں اور فرمایا ہے کہ تمہیں دیکھنا چاہئے کہ آیا یہ علامتیں قرآن کریم میں موجود ہیں یا نہیں۔ پھر جو اندھیرے سے باہر نکلاے گئے ہیں یعنی مسلمانوں کو بتایا ہے کہ اس اعلیٰ کلام سے تم کس طرح فائدہ اٹھا سکتے ہو۔ پھر بتایا ہے کہ یہ تغیر جو عرب میں پیدا ہونے والا ہے اس کا آج ہی ہم نے ارادہ نہیں کیا کہ ہم اس کو بدل ڈالیں بلکہ یہ قدیم سے ہمارے مدنظر ہے۔ جن تغیرات کو ہم آج پیدا کرنا چاہتے ہیں انہیں کے لئے ہزاروں سال پہلے ابراہیم نے دعا کی تھی۔ بلکہ مکہ کو قائم ہی انہیں تغیرات کے لئے کیا گیا ہے۔ اور ہم جو غیرمعمولی طور پر مکہ کے لوگوں کو رزق پہنچاتے رہے ہیں وہ بھی ا آئندہ آنے والے تغیرات کی وجہ سے تھا۔ پھر ہم آج انہیں کس طرح بھلاسکتے ہیں۔ پھر مومنوں کو توجہ دلائی ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کی زبان سے ہم تمہارے فرائض بیان کرچکے ہی۔ تمہیں وہ ذمہ داریاں کبھی نہیں بھلانی چاہئیں اور کفار کو ڈرایا ہے کہ ابراہیم نے اس نیت سے مکہ کی بنیاد رکھی تھی کہ یہ توحید کا مرکز ہو۔ اب اگر تم شرک نہ چھوڑوگے تو تم کو یہاں سے دور کر دیا جائے گا۔ اور تمہاری ہلاکت توحید کی تصدیق کے لئے ایک دلیل بن جائے گی۔
۲؎ حل لغات
لتخرج الناس من الظلمت الی النور۔ اخرجہ اور اخرجہ من کذا الی کذا کے معنوں میں فرق ہوتا ہے۔ اخرجہ کے یہ معنے ہیں کہ اس کو نکالاا ور اخرجہ من کذا الی کذا کے معنے یہ ہیں کہ اس کو وہاں سے نکال کر دوسری جگہ لے گیا۔ پس لتخرج الناس من الظلمت الی النور کے یہ معنے ہوں گے کہ تو لوگو کو ظلمات سے نکال کر نور کی طرف لائے۔
باذن ربھم الی صراط العزیز الحمید۔ ا کے رب کے حکم کے ساتھ اس راستہ کی طرف جو عزیز و حمید کا ہے عزیز کے معنے ہیں المنیع الذی لاینال ولا یغالب ولایعجرہ شیء ولا مثل لہ۔ غالب، قادر جسے کوئی چیز عاجز نہ کرسکے اور اس کا کوئی شریک نہ ہو۔ (اقرب) حمید جو کامل حمد والا ہو۔
تفسیر
کتاب خبر ہے۔ مبتداء محذوف کی جو مثلاً ھذا القران ہے۔ یعنی یہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو ہم نے تجھ پر اتاری ہے۔
اس آیت میں بتایا ہے کہ قرآن کریم ایک روشی ہے جس کے ذریعہ سے محمد رسول اللہ لوگوں کو اندھیرے سے روشی کی طرف نکال لے جائیں گے۔ پھر روشنی کی تشریح الی صراط العزیز الحمید سے کی۔ یعنی عزیز و حمید خدا کا راستہ ہی اصل روشنی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں روشنی کو تو ہر ایک پسند کرتا ہے لیکن روشی کی تشریح میں لوگوں کو اختلاف ہوتا ہے۔ آج کل لوگ کہتے ہیں یہ نئی روشی کے آدمی ہیں اور مراد جدید فلسفہ اور تہذیب اور ابات اور لامذہبی کی اتباع ہوتی ہے۔ کوئی کہتا ہے مسیحیت خدا کا نور ہے۔ کوئی ہندو مذہب کو کوئی اسلام کو خدا کا نور قرار دیتا ہے۔ اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ رسم و رواج اور قشر اور چھلکا خدا کا نور نہیں کہلا سکتا۔ نور تو خداتعالیٰ کی طرف جاے کا نام ہے۔ جس کا قدم خداتعالیٰ کی طرف نہیں اٹھا اسے نور کو حاصل کرنے والا کسی صورت میں نہیں کہہ سکتے۔ نور کو وہی پاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف قدم بڑھاتا ہے۔ وجود باری پر دلالت کرنے کے لئے اس جگہ دو صفات کا ذکر کیا گیا ہے۔ عزیز اور حمید۔ عزیز کے معے غالب اور حمید کے معنے قابل تعریف کے ہیں۔ ان دو صفات کا انتخاب اس لئے کیا گیا ہے کہ ایک عملی روشنی پر دلالت کرتا ہے اور دوسرا علمی پر۔ عزیز سے مل کر انسان اپنے دشمنوں پر غالب آجاتا ہے اور ظاہری اندھیرے یعنی تکالیف اور مصائب دور ہوجاتے ہیں۔ اور حمید سے مل کر انسا اپنے اندروشنی دشمن شیطان پر غالب آجاتا ہے اور باطنی اندھیرے یعنی وساوس اور شبہات اور جہالت دور ہو جاتے ہیں۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے یہ دونوں کام ہوئے۔ عربوں کی ذلت اور نکبت دادبار بھی دور ہوا۔ اور ان کی جہالت اور شرک اور اخلاقی کمزوری بھی دور ہوئی۔ ایک طرف وہ سب دنیا کے بادشاہ ہو گئے۔ دوسری طرف وہ سب دنیا کے معلم ہو گئے۔ عربوں کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کی حالت اور آپ کے بعد کی تبدیلی کا اس تاریخی واقعہ سے کچھ اندازہ ہوسکتا ہے کہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جب ایرا پر چڑھائی ہوئی تو ایران کے بادشاہ ے اپنے کمانڈر انچیف کو یہ کہلا بھیجا کہ ان لوگوں کو کچھ انعام کا وعدہ دے کر جنگ کو ختم کرو۔ اور انعام بھی نہایت حقیر تھا۔ یعنی فی سپاہی ایک ایک دو دو دینار۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب اپنی ہمسایہ قوموں کی نظر میں نہایت غریب اور محتاج اور کم ہمت تھے۔ لیکن اسلام نے ان کو کیا با دیا۔ وہ اس سے ظاہر ہے کہ انہو نے نہ صرف ایرا کو فتح کیا بلکہ شام، فلسطین، مصر، اناطولیہ، آرمینیا، عراق، شمالی افریقہ۔ ہسپانیہ۔ افغانستا، ہند اور چین تک بھی پہلی صدی کے اندر فت کرلئے۔
صحابہ جو غریب اور متوسط الحال لوگ تھے۔ ایسے ایسے دولت مند ہو گئے کہ ایک صحابی عبدالرحمن بن عوف جب فوت ہوئے تو اڑھائی کروڑ روپیہ ان کا ترکہ نکلا جو آج کل کے لحاظ سے بہت بری دولت ہے کیونکہ اس وقت روپیہ کی قیمت بہت زیادہ ہوتی تھی۔
دوسری تبدیلی بھی ظاہر ہے۔ عرب کے لوگ یا تو لکے کو عیب سمجھتے تھے اور کسی قسم کا علم بھی ان میں نہ پایا جاتا تھا۔ ساری دنیا کے حامل ہو گئے۔ تاریخ کی بنیاد انہوں نے ڈالی۔ صرف و نحو، معانی، بیان، لغت کو انہوں نے کمال تک پہنچا دیا۔ فقہ اور فلسفہ فقہ اور منطق اور حکمت اور طب اور سیاست اور انجینئرگ اور ہندسہ اور الجبرا اور علم کیمیا اور ہیئت وغیرہ۔ بیسیوں علوم یا ایجاد کئے یا انہی ادنیٰ حالت سے بڑھا کر کمال تک پہنچایا۔ اور آج یورپ کے محققین تسلیم کرتے ہیں کہ اگر مسلمان عرب نہ ہوتے تو آج دنیا علم کی اس منزل پر نہ ہوتی جہاں اب ہے۔ اور روحانیت میں جو عربوں نے ترقی کی اس کی مثال تو ابتداء عالم سے اس وقت تک اور کسی قوم میں پائی ہی نہیں جاتی۔
۳؎ حل لغات
الویل۔ حلول الشر۔ ویل کے معنے ہی مصیبت کا نازل ہونا۔ وقیل ھو تفجیع اور بعض محققین لغت کہتے ہی کہ ہیں کہ یہ لفظ کسی کے مبتلائے مصیبت ہونے یا اس پر اظہار افسوس کے لئے بولا جاتا ہے۔ وویل کلمۃ عذاب۔ نیز یہ لفظ عذاب کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ والرفع علی الابتداء اور چونکہ وہ اس مقام پر مبتداء ہوتا ہے اس پر رفع آتا ہے۔ والویلۃ۔ الفضیعۃ والیلیۃ اور ویلۃ کے معنی رسوائی کے اور مصیبت کے ہیں۔ (اقرب)
تفسیر
اللہ عزیز و حمید کے بعد آیا ہے اس لئے کہ یہاں وہ عطف بیان کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ اور معنے یہ ہوئے کہ عزیز و حمید کے راستہ کی طرف جس سے مراد ہماری اللہ ہے۔ اسی کا آسمان اور زمین ہے یعنی تمام مخلوق اس کے غالب ہوے پر شاہد ہے۔ زمین و آسمان میں ایک ہی قانون نظر اٹا ہے اور اسی طرح زمی و آسمان اس کے حمید ہوے پر بھی شاہد ہی کیونکہ کہیں کوئی نقص یا عیب نظر نہیں آتا۔ پس جو لوگ ایسے خدا کی طرف جائیں گے وہ یقینا اپنے اندر ایک خاص اور نیک تبدیلی محسوس کریں گے اور زمین و آسمان پر انہیں بھی حکومت ملے گی۔
یہ وعدہ کس شان سے پورا ہوا۔ ایک خلیفہ مدینہ میں بیٹھا ہوا حکم دیتا ہے اور فوراً ساری دنیا اس پر عمل کرے لگ جاتی ہے۔ اس قسم کی حکومت کی مثال اور کہاں ملتی ہے۔
ایسا ہی لفظ حمید کے ماتحت مسلمانوں کی وہ حمد ہوئی کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ مسلمان کا لفظ ایک ضمانت ہوتی تھی۔ جس میں کوئی شک نہ کرتا تھا۔ اس کا وعدہ ایک سماوی تقدیر سمجھی جاتی تھی۔ جسے کوئی رد نہ کرسکتا تھا۔ ان کی تعریفوں کی گوج آج بھی دنیا میں سائی دے رہی ہے۔ مثلاً ایک یہی واقعہ لے لو کہ ایک دفعہ ایک شخص سے کوئی ایسا جرم ہوا جو اسے سزائے قتل کا حقدار بناتا تھا۔ جب وہ خلیفۂ وقت کے سامنے پیش ہوا تو اس نے سزا کے سنے کے بعد عرض کی کہ میرے پاس کچھ امانتیں اور ذمہ واریاں اپنے یتیم بھتیجوں کی ہیں۔ ان کو میرے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ مجھے کل اس وقت تک آپ مہلت دیں۔ وہ کام کرکے پھر حاضر ہو جاؤں گا۔ خلیفہ نے کہا کوئی ضامن پیش کرو۔ اس نے خلیفہ کی مجلس میں ایک صحابی (ابوذر) کی طرف اشارہ کیا کہ یہ میرے ضامن ہیں۔ حالانکہ وہ صحابی اس کو بالکل نہیں جانتے تے۔ مگر صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے اور اس لئے کہ اس نے آپ سے ایک بڑی ذمہ داری کی امید کی تھی اپنی شرافت اور وقار کو مدنظر رکتے ہوئے اس کی ضمانت دے دی۔ لیکن مقررہ وقت قریب آ گیا اور وہ نہ پہنچا۔ لوگوں نے حضرت ابوذرؓ سے پوچھا کہ وہ کون تھا تو انہوں نے کہا میں نہیں جانتا کہ وہ کون تھا۔ ایک مسلمان جان کر میں نے اس کی ضمانت دے دی۔ جب اس نے مجھ پر اعتبار کیا تو میں اس پر کیوں اعتبار نہ کرتا۔ آخر وقت ختم ہونے کو ہوا۔ تو لوگوں کو حضرت ابوذرؓ کی جان کا خطر پیدا ہوا۔ لیکن عین وقت پر ایک شخص دور سے بے تحاشا گھوڑا دوڑاتا ہوا آیااور بے جان ہوکر آ گرا۔ اور حضرت ابوذرؓ سے معذرت کی کہ کام کی زیادتی کی وجہ سے وہ بمشکل عین وقت پر پہنچ سکا ہے اور ان کی تشویش کا موجب ہوا ہے… ایک طرف ابوذرؓ کے ایثار کی اور دوسری طرف اس شخص کے ایفاء عہد کی مثال دوسری قوموں میں کہاں ملتی ہے۔ اس واقعہ کو انگریزوں نے اپنی کہانیوں اور نظموں میں بھی درج کیا ہے۔ ایسی ہی ایک اور مثال ہے۔ شام کے فتح ہو جانے کے بعد ایک دفعہ عیسائی لشکر عارضی طور پر غالب ہو گیا اور اسلامی لشکر کو کچھ علاقہ چھوڑنا پڑا۔ اس وقت حضرت عمرؓ کے حکم کے ماتحت مسلمانوں نے اس علاقہ کے سب وصول شدہ ٹیکس واپس کر دیئے کہ جب ہم تمہاری حفاظت نہیں کرسکتے تو ہم تمہارا ٹیکس اپنے پاس نہیں رکھ سکتے۔ یہ علاقہ بھی عیسائیوں سے آباد تھا۔ لیکن باوجود اس کے کہ ان کے ہم مذہب فت پاکر آرہے تھے وہ مسلمانوں کی اس نیک نفسی سے اس قدر متاثر ہوئے کہ زن و مرد روتے ہوئے شہر کے باہر تک اہیں چھوڑے آئے اور کہتے جاتے تے کہ اگر عیسائی لشکر آپ کی جگہ ہوتا تو ٹیکس کی واپسی کی جگہ جاتے ہوئے جو کچھ ہمارا تھا وہ بھی لوٹ کر لے جاتا۔ اور دعائیں کرتے جاتے تھے۔ کہ اللہ تعالیٰ آپ کو پھر واپس لائے۔ (الفاروق حصہ اول)
افسوس کجا وہ زمانہ تھا اور کجا اب مسلمان سب سے زیادہ بے اعتبار سمجھا جاتا ہے۔ علماء ے غیرمذاہب کو لوٹ لینے کا فتویٰ دیا ہوا ہے۔ غیرمذہب کی حکموت سے غداری کو دین کا جزو قرار دیا ہوا ہے۔ غیرمسلموں کے قتل کو ثواب کا موجب بتلاتے ہیں۔ غرض ہر وہ نیکی جس پر مسلمان کو فخر تھا آج ان می سے مفقود ہے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ کاش جماعت احمدیہ اپنی ذمہ داری کو سمجھے اور اسلام کے کھوئے ہوئے متاع کو پھر واپس لائے۔ اور پھر وہی اخلاق محمد رسول اللہ صلعم کے غلاموں میں دنیا دیکھے۔ جنہیں دیکھ کر انسان کو خداتعالیٰ نظر آجاتا ہے۔ وہ امین ہوں اور ایسے امین کہ خود بھوکے مر جائیں، بیوی بچے بھوکے مر جائیں، لیکن دوسرے کی امانت میں خیانت نہ ہو۔ وہ سچے ہوں اور ایسے سچے کہ جان جائے مال و دولت جائے۔، عہدہ جائے لیکن جھوٹ کا ایک لفظ زبان پر نہ آئے۔ اور نہ آئے وعدہ کریں تو جان کے ساتھ نباہیں اور ارادہ کریں تو سر ہتھیلی پر رکھ کر اسے پورا کریں۔
۴؎ حل لغات
یستحبون۔ استحب سے مضارع جمع غائب کا صیغہ ہے۔ اور استحبہ کے معنی ہی احبہ یعنی اس سے محبت کی۔ اسے چاہا۔ استحسنہ۔ اسے پسند کیا۔ الکفر علی الایمان۔ اثرہ۔ کفر کو ایمان پر ترجیح دی یعنی مقدم کیا۔ (اقرب)
یبغون۔ بغی سے مضارع جمع غائب کا صیغہ ہے اور بغاہ یبغیہ کے معنے ہیں طلبہ۔ اسے طلب کیا۔ چاہا۔ یقال ایغی ضالتی۔ ای اطلبھا لی چنانچہ ابغنی ضالتی کا فقرہ بول کر یہ مراد لیتے ہیں کہ میری گمشدہ چیز میرے لئے تلاش کر۔ (اقرب) پس یبغونہا عوجا کے معنے ہوں گے اسے کجی اختیار کرکے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تفسیر
جو لوگ ایسی تعلیم کو چھوڑیں گے ان کا انجام واضح ہے۔ عزیز و حمید کو چھوڑ کر عزت اور حمد کہاں باقی رہ سکتی ہے۔ مگر فرمایا کفار کو دیکھو خود ہی اللہ تعالیٰ کے انعامات سے محروم نہیں ہوتے دوسروں کو بھی روکتے ہیں اور یہ لوگو کو ہی ہی روکتے نہیں بلکہ تعلیم الٰہی میں خرابیاں پیدا کرکے ہمیشہ کے لئے اور لوگوں کو اس کے فوائد سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔
یہ انسان کی سخت بدقسمتی ہوتی ہے کہ ضد میں آکر صداقت کو مٹانے لگ جاتا ہے۔ اور نہیں سمجھتا کہ اس طرح ہزاروں آدمیوں کی روحانی موت کا گناہ اس کی گردن پر رکھا جاتا ہے۔
کجی اختیار کرکے اسے حاصل کرنا چاہتے ہیں کا یہ مطلب ہے کہ ایک طرف ان کے دل میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ خدا کا راستہ مل جائے اور دوسری طرف اپنے غلط رعویہ اور گندی عادات کو بی بدلنا نہیں چاہتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اپنے نفس کو دھوکا دینے اور اپنی ضمیر کو مطمئن کرنے کے لئے وہ اپنی خودساختہ باتوں کا ام دین رکھ لیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بھی اور ا کی اولادیں بھی جھوٹی تسلی پاکر نورِ ہدایت سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ان معنوں کے رو سے سبیل اللہ سے مراد صداقت مطلقہ لی جائے گی۔ ان معنوں سے ان لوگوں کے خیالات کا رد بھی ہو جاتا ہے۔ جو کہتے ہیں کہ ہر مذہب میں نیک اور پارسا لوگ پائے جاتے ہیں۔ پھر انہیں کیوں خدا رسیدہ نہ قرار دیا جائے۔ اور وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے والی راہ کو تو وہی پاسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ اصول کی اتباع کرے۔ اگر وہ اس پر مصر ہو کہ اپنے باپ دادا کے راستہ کو نہیں چھوڑو گا تو وہ اللہ تعالیٰ کے راستہ کا متلاشی نہیں۔ باپ دادا کے راستہ کا متلاش ہے۔ پھر جس کا رخ مخالف طرف ہو وہ اس راستہ کی طرف کس طرح پہنچ سکتا ہے جو عوجا چل پڑے یعنی غلط زاویہ کی طرف بڑھنا شروع کرے۔ یقینا اس کی منزل کسی غیرجگہ ہی جاکر ختم ہوگی۔
اس آیت کے یہ معنے بھی ہوسکتے ہیں کہ بظاہر کفار اسلام کے بارہ میں بحث مباحثہ میں لگے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اسلام کا نقطۂ نگاہ سمجھنے کی خواہش ہے لیکن درحقیقت وہ ضد اور تعصب سے کام لے کر اسلام کے بارہ میں گفتگو کررہے ہوتے ہیں۔ اوار چونکہ اللہ کے راستہ کو صداقت کی راہوں سے ہی پایا جاسکتا ہے اس لئے وہ ہدایت پانے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ان معنوں کے رو سے سبیل اللہ کے معنے مخصوص طور پر اسلام کے ہوں گے۔
۵؎ حل لغات
یضل۔ اضل سے مضارع ہے اور اضلہ کے معنے ہیں اھلکہ اس کو ہلاک کر دیا۔ (اقرب) فیضل اللہ من یشا کے یہ معنے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ جسے ہلاک کرنا چاہتا ہے ہلاک کرتا ہے۔ بینہ۔ اوضحہ کھول کر بیان کیا۔ (اقرب) اور لیبین کے معنے ہوں گے کہ وہ کھول کر بیان کرے۔
تفسیر
الا بلسان قومہ کے معنے بعضوں نے تو یہ کئے ہیں کہ رسول کی وحی صرف اس کی قوم کی زبان میں ہونی چاہئے۔ لیکن یہ صحیح نہیں۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ اس کی قوم کی زبان میں ضرور وحی ہونی چاہئے کیونکہ وہ پیغام جو اس نے اپنی قوم کو پہنچانا ہے اگر دوسروں کی زبان میں ہوا تو اس کی تبلیغ اس کے لئے مشکل ہو جائے گی۔ لیکن بطور نشان اور معجزات کسی اور زبان میں الہام ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
بعض لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہاموں پر یہ آیت پیش کرکے اعتراض کرتے ہیں۔ حالانکہ عربی اور اردو کے سوا آپ کو جن زبانوں میں الہام ہوئے وہ بطور نشان اور معجزات کے ہیں۔ عربی میں آپ کو اس لئے الہام ہوئے کہ وہ اسلام کی مذہبی زبان ہے۔ اور اس طرح مسلمانوں کی قومی زبان ہے اور اردو میں اس لئے کہ آپ کے پہلے مخاطب اردودان تھے۔ اور اگر دیکھا جائے تو آپ کے الہامات کا اصولی حصہ سب کا سب یا عربی میں ہے یا اردو میں۔ دوسری زبانوں میں جو الہام ہوئے ہیں وہ ایسے نہیں کہ ان کے بغیر تبلیغ میں روک پیدا ہو۔ وہ صرف ایک مزید تائید اور نشان کے طور پر ہیں۔
عیسائیوں نے اور بالخصوص ویری نے اس آیت سے رسول کریم صلعم کی ذات پر اعتراض کیا ہے۔ ویری صاحب کہتے ہیں کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے محمد رسول اللہ صلعم صرف عرب کے لئے تھے۔ مگر ساتھ یہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ اس آیت سے ثاب ہوتا ہے کہ قرآن کریم کا ترجمہ کرنا جائز ہے۔ ان کی یہ دونوں باتیں آپس میں متضاد ہیں۔ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صرف عرب کے لے تھے تو ترجمہ کا سوال ہی کہاں رہا۔ جب دوسری قوموں کا اس سے تعلق ہی نہیں تو ترجمہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں اور اگر اس آی سے ترجمہ کرنا جائز ثابت ہوتا ہے تو معلوم ہوا کہ آپ کی رسالت دوسری قوموں کے لئے بھی تھی۔ حقیقی جواب اس سوال کا یہ ہے کہ یہ مفہوم اس آیت کا ہو ہی نہیں سکتا کہ آنحضرت صلعم عرب کے لئے ہیں۔ کیونکہ قرآن کریم کے دوسرے مقامات سے صاف ثاب ہے کہ آپ سب دنیا کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ چنانچہ سورۃ اعراف ع۱۹،۲۰ میں فرماتا ہے ورحمتی وسعت کل شیء فساکتبہا للذین یتقون ویؤتون الزکوۃ والذین ھم بایتنا یؤمنونO الذین یتبعون الرسول النبی المی الذی یجدونہ مکوبا عندھم فی التوراۃ والانجیل یامرھم بالمعروف وینھہم عن المنکر ویحل لھم الطیبات ویحرم علیھم الخبائث ویضع عنہم اصرھم والاضلل التی کانت علیہم فالذین امنوا بہ وعزروہ ونصروہ واتبعوا النورالذین ازل معہ اولک ھم المفلحونO قل یایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا ن الذی لہ ملک السموت والارض لاالہ الا ھو یحی ویمیت ص فامنو باللہ ورسولہ النبی الامی الذی یؤمن باللہ وکلمتہ واتبعوہ لعلکم تھتدونO یعنی میری رحمت ہر چیز پر حاوی ہے اور اب میں خاص طور پر اس کو ان لوگوں کے لئے لکھ دوں گا جو تقویٰ اختیار کریں گے۔ اور زکوٰۃ دیں گے اور جو لوگ پورے طور پر ہماری آیات پر ایمان لائیں گے۔ نیز جو کامل طور پر ہمارے اس موعود رسول کی اطاعت کریں گے جس کی بعثت کی بشارات کو وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ رسول وقت پر مبعوث ہوک انہیں نیک کاموں کی تلقین کر رہا ہے اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام قرار دیتا ہے۔ اور وہ ان سے سخت حکموں کے بوجھوں کو اور رسومات کے پھندوں کو جو ان کی گردنوں میں پڑے ہوئے تھے دور کرتا ہے۔ پس جو لوگ اس پر کامل طور پر ایمان لاے اور پھر انہوں نے اس کی حمایت اور مدد کے لئے ہر ممکن کوشش سے کام لیا اور اس نور کی انہوں نے اتباع کی جو اس رسول کے ساتھ اتارا گیا۔ صرف ایسے لوگ ہی کامیاب ہوں گے۔ اے ہمارے رسول تو یہ اعلان کر کہ اے بنی نوع انسان میں تم سب کی طرف اس خدا کی طرف سے رسول ہو کر آیا ہوں کہ زمین و آسمان کی بادشاہت اسی کی ہے۔ اس کے سوا کوئی اور معبود قابل پرستش نہیں۔ وہ زندگی بخشتا اور موت دیتا ہے۔ پس اے لوگو اللہ پر اور اس کے موعود بھیجے ہوئے نبی پر ایمان لاؤ۔ جو خود اللہ کی ذات پر اور اس کے کلمات پر پورا ایمان رکھتا ہے اور اس کی کامل پیروی کی راہوں پر چلو تاکہ تم ہدایت پاؤ۔
اس میں پانچ دلیلیں اس امر کی دی گئی ہیں کہ نبی کریم صلعم ساری دنیا کے لئے ہیں۔
اول:- اہل کتاب کو حکم دیا گیا ہے کہ اس کو تسلیم کریں۔ فرمایا الذین یتبعون الرسول النی الامی یعنی اہل کتاب میں سے ان لوگوں کو خدا تعالیٰ کی رحمت کا انعام دیا جائے گا جو آنحضرت صلعم کو مانیں گے۔ اگر آپ صرف عرب کے لئے تھے تو اہل کتاب کو رحمت کا انعام حاصل کرنے کے لئے آپ کی اتباع کا کیوں حکم دیا گیا۔
دوم:- اس آیت میں ذک ہے کہ تورات و انجیل میں آنحضرت صلعم کی پیشگوئی ہے۔ اگر آپ ان کی طرف مبعوث ہی نہ تھے تو ان کے لئے پیشگوئی کی کیا ضرورت تھی۔ کیونکہ جن کو فائدہ ہوسکتا ہے وہ مکہ والے تھے اور وہ تورات و انجیل کو نہیں مانتے تھے۔ اور پیشگوئی اس لئے کی جاتی ہے کہ لوگوں کو اس کے ذریعہ سے ہدای ہو۔ پس تورات اور انجیل میں اسی لئے پیشگوئیاں کی گئی تھیں کہ یہود اور مسیحیوں کے لئے آنحضرت صلعم کا ماننا ضروری تھا۔ اور قرآن کری ان پیشگوئیوں کی طرف اسی لئے اشارہ کرتا ہے کہ اس کے نزدیک ان کتب کے ماننے والوں کے لئے بھی آپ کا ماننا ضروری تھا۔
سوم:- اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ آنحضرت صلعم انہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہیں۔ اگر وہ مخاطب نہ تھے تو پھر ان کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی کیا ضرورت تھی۔
چہارم:- اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ جو یہود و نصاریٰ میں سے آپ پر ایمان لائیں گے وہ کامیاب و مظفر ہوں گے۔ اگر آپ صرف عرب کی طرف تھے تو پھر تو یہود و نصاریٰ کو ایمان لانے پر سزا ملنی چاہئے تھی نہ کہ انعام ملنا چاہئے تھا۔
پس ان چاروں دلیلوں سے ثابت ہے کہ اور کسی قوم کی طرف آپ مبعوث تھے یا نہ تھے یہود و نصاریٰ کی طرف تو ضرور تھے۔ لیکن پانچویں دلیل نے تو بات کو بالکل ہی کھول دیا ہے۔
پنجم:- دلیل پنجم یہ ہے کہ قرآن کریم نے اوپر کے دلائل کا نتیجہ نکال کر خود ہی فرما دیا ہے۔ قل یاایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا۔ کہہ دے کہ اے بنی نوع انسان میں تم سب کی طرف رسول ہوک آیا ہو۔ اس دعویٰ نے تو بات کو بالکل صاف کر دیا اور یہود و نصاریٰ کے علاوہ دوسری اقوام کو بھی آپؐ کا مخاطب بنا دیا۔
ایک اور آیت میں فرماتا ہے وماارسلنک الا کافۃ للناس بشیرا و نذیرا (سباع۳) کہ ہم نے تجھے تمام جہان کی طرف بشیر و نذیر کرکے بھیجا ہے۔ پھر حدیث میں بھی آتا ہے بعثت الی الاسود والاحمر۔ میں ہر کالے گورے کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ عرب کبھی بھی اپنے آپ کو اسود نہیں کہتے۔ بلکہ ہمیشہ احمر کہتے ہیں۔ اب اسود قوم کوئی اور نکالنی پڑے گی۔ عربی زبان کے محاورہ کے مطابق وہ عجم ہی ہیں۔ لغت میں بھی الاسود والاحمر کے معنے العجم والعرب لکھے ہیں۔ (مجمع البحار) پھ ایک اور حدیث میں آتا ہے بعثت الی الناس عامۃ میں سب انسانوں کی طرف مبعوث ہوا ہوں۔ (مسند احمد بروایت حضرت جابر) ایک اور روایت میں ان کی جگہ یہ الفاظ ہیں ارسلت الی الخلق کافۃ۔ میں سب لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ (مشکوٰۃ المصابیح) ان تمام آیات و احادیث سے ثابت ہوا کہ آنحضرت صلعم کی بعثت تمام دنیا کے لئے تھی۔ اور مسیحی مصنفین کا اعتراض باطل ہے۔ اسی طرح ان آیات و احادیث سے یہ بھی ثابت ہو جاتا ہے کہ جس قوم کو نبی پہلے مخاطب کرتا ہے اس کی زبان میں اس کو الہام ہو تا ہے۔ اور پھر وہ لوگ بات کو سمجھ ک دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔
اس آی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عربی ام الالسنہ ہے۔ کیونکہ جو رسول عرب میں آیا اسی کے سپرد سب دنیا کی اصلاح کی گئی۔ پس عربی میں نازل ہونے والی وحی کو سب دنیا کے لئے ہدایت قرار دینے سے یہ امر ثابت ہوتا ہے کہ عربی کسی نہ کسی رنگ میں ساری زبانوں کی ماں ہے اور دوسری زبانیں اس کی بیٹیوں کی طرح ہیں۔
اس آیت میں آریوں کے اس اعتراض کا بھی رد ہو جاتا ہے جو وہ یوں کرتے ہیں کہ کلام الٰہی ایسی زبان میں آنا چاہئے جسے کوئی بولتا نہ ہو۔ تاکہ سب میں برابری رہے۔ مگر قرآن کریم کہتا ہے کہ ایسی زبان میں وحی ہونی چاہئے جس کو لوگ بولتے ہوں۔ تاکہ نبی ان کو سمجھا سکے اور وہ سمجھ سکیں۔ جس زبان کو دنیا نہ بول سکتی ہے نہ سمجھ سکتی ہے اس میں کلام الٰہی آ نے کا فائدہ کیا ہوا۔ آریوں کا یہ عقیدہ اس طرح بھی غلط ہے کہ جب وید نازل ہوئے اگر اسی وقت رشیوں نے اسے نہیں سمجھا تو ان کا نزول بے فائدہ ہو جاتا ہے۔ اور اگر ان کو وید سمجھا دیا گیا تھا تو پھر برابری نہ رہی۔ اور اگر اس وقت لوگ موجود تھے اور انہیں بھی سمجھا دیا گیا تھا تو گو اس وقت کے لوگوں کے لئے برابری ہو ئی مگر جو لوگ بعد میں پیدا ہوئے ان کے لئے برابری کہاں رہی۔ اب تو پنڈت تک ویدوں کی زبان سے ناواقف ہورہے ہیں۔
چونکہ اس زمانہ کے مامور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر عربی کے بعد اردو میں الہام زیادہ کثرت سے ہوا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس آیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ آئندہ زبان ہندوستان کی اردو ہوگی اور دوسری کوئی زبان اس کے مقابل پر نہیں ٹھہر سکے گی۔
لیبین لھم کے بعد یضل اللہ لانے میں اللہ تعالیٰ نے یہ اشارہ فرمایا ہے کہ اگر سمجھنے کے سارے سامان نہ ہوں تو اللہ تعالیٰ گمراہ قرار نہیں دیتا۔ الزام ہمیشہ اسی وت قائم کیا جاتا ہے جبکہ پہلے سمجھایا جاچکا ہو۔ گویا تبیین کے بعد ہی گمراہی کا فتویٰ لگایا جاسکتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس قوم کو کسی بات کا یقینی علم نہ پہنچے اس وقت تک ان کو نہ ماننے کی وجہ سے سزا نہیں دی جاسکتی۔ اس ضمن میں ہی میں وہ الزام بھی دور کرنا چاہتا ہوں جو غیرمبایعین کی طرف سے ہم پر لایا جاتا ہے کہ گویا ہم ہر شخص کو قابل سزا سمجھتے ہیں۔ خواہ اس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ پہنچا ہو یا نہ۔ یہ الزام غلط ہے۔ ہم یہ اعتقاد کیسے رکھ سکتے ہیں جب کہ قرآن شریف میں صاف طور پر ظاہر کیا گیا ہے کہ تباہی کا فتویٰ اسی وقت لگتا ہے جبکہ تبیین ہوچکی ہو۔
وھوالعزیز الحکیم۔ وہ غالب ہے۔ سزا دے سکتا ہے لیکن حکیم ہے۔ اس لے جب تک سزا کے وجوہ نہ ہوں اس وقت تک سزا دیتا نہیں۔
۶؎ حل لغات
وذکرھم ذکرالناس وظھم ذکرالناس کے معنے ہیں کہ اس نے لوگوں کو نصیحت کی۔ ذکرہ جعلہ یذکر۔ اس کو یاد دلایا (اقرب) ایام اللہ نعمہ ونقمہ۔ ایام اللہ سے مراد اللہ تعالیٰ کے انعامات اور عذاب ہیں (اقرب) پس وذکرھ بایام اللہ کے یہ معنے ہوں گے کہ انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب اور انعامات یا ددلا۔ صبار صبر سے مبالغہ کا صیغہ ہے۔ یعنے بہت صبر کرنے والا۔ صبر کے لئے دیکھو رعد۲۳؎ شکور شکر سے مبالغہ کا صیغہ ہے اور شکر کبھی بغیر صلہ اور کبھی ل کے صلہ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ یعنی شکہ وشکرلہ اور اگر شکر کا ل صلہ آئے تو یہ زیادہ فصیح سمجھا جاتا ہے اور شکرہ وشکرلہ کے معنے یہ ہوتے ہیں اثنی علیہ بما اولاہ من المعوف۔ کہ کسی کے احسان کے باعث اس کی تعریف کی۔ گویا اقرارِ احسان اظہارِ قدر کے ساتھ شکر کہلاتا ہے اور کثرت کے ساتھ اقرارِ احسان کرنے والے کو شکور کہتے ہیں۔
تفسیر
فرمایا کہ جو کام تیرے سپرد ہوا ہے ویسا ہی کام موسیٰ علیہ السلام کے سپرد ہوا تھا۔ پس تیرے متعلق بحث کرتے ہوئے مخالف اور موافق کو موسیٰ کے حالات مدنظر رکھنے چاہئیں۔ یہ بھی فرمایا کہ موسیٰ کے معاملے میں ہر صبر کرنے والے اور شکر کرنے والے کے لئے نشانات ہیں۔ یعنی جیسے موسیٰ کی قوم نے صبر کیا تھا اور نتیجہ اچھا نکلا تھا بعینہٖ اسی طرح مصائب آئیں گے۔ جب تک مسلمان استقلال سے کام نہیں کریں گے کامیابی مشکل ہے۔ اسی طرح یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ موسیٰ کی قوم نے انعام کے بعد شکر نہ کیا اور سزا پا گئی۔ تمہیں چاہئے کہ انعامات الٰہیہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھا کرو اور ان کی بے وقعتی نہ کیا کرو۔ اگر تم ایسا نہ کرو گے تو تمہارے لئے بھی اچھا نتیجہ نہ نکلے گا۔
ذکرھم بایام اللہ سے یہ بتایا ہے کہ ظلمات سے نور کی طرف نکالنے کے طریق یہ ہیں کہ (۱)نعمائے الٰہی کی طرف توجہ دلائی جائے۔ اور (۲)سزاؤں سے خوف دلایا جائے۔ کیونکہ ایام اللہ سے مراد خاص انعام یا خاص سزاؤں کے ایام ہوتے ہیں۔
آج کل کے تعلیم یافتہ اس پر بہت زور دیتے ہیں کہ خوف سے جو ایمان پیدا ہو وہ ایمان نہیں۔ حالانکہ یہ تعلیم فطرت کے خلاف ہے۔ دنیا کا بہت سا حصہ ایسا ہے جو نیکی کی طرف پہلا قدم خوف سے اٹھاتا ہے۔ اگر خداتعالیٰ کی گرفت اور سزا پر زور نہ دیا جائے تو یہ طبقہ بالکل نیکی سے محروم رہ جائے گا۔ کامل ہدایت وہ نہیں جو صرف کاملوں کے لئے ہو کامل ہدایت وہ ہے جس میں ادنیٰ حالت کے انسانوں کے لئے بھی علاج موجود ہو۔
۷؎ حل لغات
یسومونکم سام سے مضارع جمع مذک غائب کا صیغہ ہے اور سا فلانا الامر کے معنے ہیں کلفہ ایاہ یعنی کسی کو بامشقت کام کرنے کا حکم دیا واکثر مایستعمل فی العذاب والش۔ اس کا اکثر استعمال عذاب اور دکھ کے معنوں میںہوتا ہے (اقرب) السوم اصلہ الذھاب فی ابتغاء الشیء سوم کے اصل معنے کسی چیز کی تلاش میں جانے کے ہیں۔ فھو لفظ لمعنی مرکب من الذھاب والابتغاء پس سوم کا لفظ دراصل مرکب معنے رکھتا ہے۔ یعنی کسی جگہ جانا اور کسی چیز کو تلاش کنا اور بعض دفعہ صرف جانے کے معنوں میں بھی مستعمل ہو جاتا ہے۔ جیسے سامت الابل کہ اونٹ چرنے کے لئے گئے اور کبھی صرف ابتغاء کے جیسے یسومونکم سوء العذاب کہ وہ تمہیں سخت عذاب دینا چاہتے تھے۔ (مفردات)
یذبحون ذبح سے ہے اور الذبح کے معنے ہیں الھلاک ما دینا۔ ہلاک کنا۔ (تا) اور یذبحون ابناء ک کے معنے ہوں گے کہ وہ تمہارے بیٹوں کو ما دیتے تھے۔
البلاء۔ بلاء کے معنے اصل میں امتحان کے ہوتے ہیں لیکن امتحان چونکہ کبھی انعام کے ذریعہ اور کبھی سزا کے ذریعہ سے لیا جاتا ہے اس لئے بلاء کے اندر دونوں مفہوم پائے جاتے ہیں۔ بلا انعام بھی اور بلاء تکلیف بھی۔ چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے بلونھم بالحسنات والسیات (اعراف ع۲۱)
تفسیر
ذبح کے معنے ہلاک کرنے کے بھی ہوتے لغت میں ہیں اور چونکہ بائبل میں لکھا ہے کہ فرعون بنی اسرائیل کے بچوں کو دریا میں ڈلوا دیا کرتا تھا اس لئے ذبح کرنے کی بجائے ہلاک کرنے کے معنے زیادہ مناسب معلوم ہوتے ہیں۔ تورات کی کتاب خروج میں لکھا ہے ’’اور فرعون نے اپنے سب لوگوں کو تاکید کرکے کہا کہ ان میں جو بیٹا پیدا ہو تم اسے دریا میں ڈال دو۔ اور جو بیٹی ہو جیتی رہنے دو۔‘‘ (باب۱ آیت۲۲)
یسومونکم سوء العذاب سے مراد وہ ذلت آمیز سلوک ہے جو فرعون بنی اسرائیل سے کرتا۔ مثلاً بھاری ٹیکس، بیگار وغیرہ۔ لکھا ہے ’’انہوں نے ان پر خراج کے لئے محصل بٹھلاے تاکہ انہیں اپنے سخت کاموں کے بوجھوں سے ستائی اور انہوں نے فرعون کے لئے خزانے کے شہر بتوم اور عسیس بنائے۔‘‘ (خرو باب۱ آیت۱۱)
نیز لکھا ہے ’’انہوں نے سخت محنت سے گاراا ور اینٹ کا کام اور سب قسم کی خدمت کھیت کی کروا کے ان کی زندگی تلخ کی۔‘‘ (خوج باب۱ آیت۱۴)
بلاء کے معنی امتحان کے ہیں خواہ بذیعہ عذاب لیا جائے یا بذریعہ انعام۔ چونکہ بنی اسرائیل کی آزمائش لڑکوں کے قتل سے اور لڑکیوں کو بچا کر کی گئی تھی اس لئے بلاء کا لفظ استعمال کیا گیا جو دونوں قسم کے امتحانوں پر دلالت کرتا ہے۔
۸؎ حل لغات
تاذن الرجل۔ اقسم۔ تاذن الرجل کے معنے ہیں قسم کھائی۔ تاذن الامر۔ (متعدی) اعللہ کسی معاملہ کی اطلاع دی اور بلایا۔ الامیر فی الناس نادی فیہم یھددوینھی۔ تاذن الامیر کے معنے ہیں کہ امیر نے لوگوں میں حاکمانہ اعلان کیا (اقرب) واذتاذن ربکم کے معنے ہوں گے کہ اس وقت کو یاد کرو کہ جب تمہارے رب نے اعلان کیا اور اس بات کی اطلا دی۔ کفر۔ کفر نعمۃ اللہ ونعمۃ الہ کفرانا۔ کے معنے ہیں جحدھا وسترھا یعنی اللہ عالیٰ کی نعمتوں کا انکار اور ان کی ناشکری کی اور ان کو ظاہر نہ کیا۔ وھوضد الشکر۔ کفر کا لفظ شکر کے مقابل بولا جاتا ہے۔ وفی الکلیات الکفر تغطیۃ نعم المنعم بالجحود اور کلیات میں کفر کے یہ معنے لکھے ہیں کہ محسن کی نعمتوں کا انکار کرتے ہوئے ان پر پردہ ڈالنا اور ان کا اقرار نہ کرنا۔ (اقرب) پس ان کفرتم کے معنے ہوں گے کہ اگر تم میری نعمتوں کی ناشکی کرو۔ شکرتم۔ شکر کی تشریح کے لئے دکھو ابراہیم۶؎۔
تفسیر
اس آیت میں ایک عظیم الشان قانون بتایا ہے کہ تمام ترقیات شک کے ساتھ وابنستہ ہیں۔ شکر کے معنے جیسا کہ حل لغات میں بیان کیا گیا ہے احسان ماننا اور محسن کی ثناء کرنا ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا شک اسی طرح سے ہوتا ہے کہ انسان اس کی دی ہوئی چیز کو عمدگی کے ساتھ اور برمحل استعمال کرے۔ جب کوئی شخص کسی کی دی ہوی چیز کو استعمال نہ کرے تو اس کی تعریف کرنا صرف لفظی ثناء ہوگی۔ شکر نہ ہوگا۔ شکر کے لئے ضروری ہے کہ صحیح استعمال اور صحیح مصرف بھی ہو۔ یہ قانون تمام ترقیات کا گر ہے۔ اگر علم کا صحیح استعمال کیا جائے گا تو علم ضرور بڑھے گا۔ آنکھ، ہاتھ، ناک، کان غرض ہر عضو جس کا صحیح استعمال کیا جائے وہ ضرور ترقی پذیر ہوتا ہے۔ یہ ایک عام قانون ہے اس میں ہندو، مسلم یا عیسائی کی کوئی تمیز نہیں۔ مسلمان مال کا صحیح استعمال نہیں کرتے۔ وہ گررہے ہیں۔ مگر ہندو اس کا صحیح استعمال کرنے کی وجہ سے ترقی کررہے ہیں۔
روحانیات کا بھی یہی حال ہے۔ قرآن کریم کو دیکھو مسلمان اس کا صحیح استعمال کرتے تھے تو نہ فلسفہ اور عقلیات اور نہ عیسائیت اور یہودیت وغیرہ مذاہب اسلام کے مقابلہ کی تاب لاسکے۔ مگر آج وید، تورات اور انجیل ہر ایک اپنے آپ کو آگے آگے پیش کررہا ہے۔ اور دوسری طرف علوم عقلیہ اس پر حملہ آور ہیں۔ کبھی اسلام کفر کو کھاتا تھا آج کفر اسلام کو کھا رہا ہے۔ جب مسلمان ہی اسلام کے متعلق کہہ رہے ہیں کہ اس کا یہ حکم بھی ناقابلِ عمل ہے اور وہ بھی تو اس کا باقی کیا رہ گیا۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو سمجھ دے کہ اپنے عیب کو اسلام کی طرف منسوب نہ کریں۔ عمل تو وہ خود صحیح طور پر نہیں کرتے لیکن نتیجہ کی خرابی کو قرآن کریم کی طرف منسوب کرتے ہیں۔
۹؎ حل لغات
غنی۔ غنی میں سے صفت مشبہ ہے۔ غنی اور غنی فلان غنی وغناء کے معنے ہیں ضد فقر۔ ای کثر مالہ و کان ذا وفبر۔ کہ مالدار ہو گیا۔ اور ہر چیز کثرت سے میسر آ گئی۔ غنی بہ عن غیرہ اکتفی بہ یعنی اس چیز کے میسر آ جانے سے دوسروں کا محتاج نہ رہا۔ الغنی المکتفی من الرزق ضرورت کے مطابق رزق والا۔ وھو غنی عنہ ای مستغن ھو غنی عنہ کے معنے ہیں اس سے بے نیاز (اقرب) علاوہ ازیں غنی کے معنے ہیں عدم الحاجات حاجات کا نہ ہونا۔ (مفردات) پس غنی کے معنے ہوں گے ایسی ذات جسے کسی قسم کی حاجت نہ ہو۔ یعنی بے نیاز۔
تفسیر
حضرت موسیٰ فرماتے ہیں کہ یہ جو خداتعالیٰ بار بار نبیوں کے ذریعہ ہدایت بھیجتا ہے اس سے کہیں یہ نہ سمجھ لینا کہ خدا کو کوئی ضرورت ہے۔ اس کو کوئی ضرورت نہیں۔ وہ تمہارے فائدہ کے لئے بھیجتا ہے۔ ورنہ وہ تو بے احتیاج ہستی ہے۔ اس آی میں اس سوال کا جواب آجاتا ہے جو آج کل کے تعلیم یافتہ کیا کرتے ہیں کہ خداتعالیٰ کا کلام بھیجنا اس کے محتاج ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ فرماتا ہے کہ غنی کو دوسرے کی کیا احتیاج ہوسکتی ہے۔ ہاں چونکہ وہ حمید ہے اس لئے ڈوبتوں کو بچاتا ہے۔ اس میں یہ نکتہ بتایا کہ ہر کام اپنی احتیاج سے نہیں کیا جاتا۔ بلکہ کبھی کام دوسرے کی احتیاج کو دور کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ جو لوگ خودغرض ہیں وہ اپنے پر قیاس کرکے خیال کرلیتے ہیں کہ جو بھی کام کیا جائے احتیاج ہی کے سبب ہوتا ہے۔ حالانکہ احتیاج اور احسان میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
۱۰؎ حل لغات
التنبا الخبر۔ نبا کے معے ہی خبر۔ یقال اتانی نبا من الانباء چنانچہ اتانی نبا من الانباء کا محاورہ انہی معنوں کو ظاہر کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے کہ میرے پاس ایک خبر آئی۔ وقال فی الکلیا النبا والانباء لم یردا فی القران الا لما لہ وقع وشان عظیم۔ اور کلیات میں النبا کے متعلق یہ لکھا ہے کہ قرآن مجید میں اس کا استعمال ایسے واقعہ اور خبر پر ہوتا ہے جو عظیم الشان اور دل ہلا دینے والی ہوتی ہے۔ (اقرب) پس الم یاتکم نبا کے معنے ہوں گے کیا تمہارے پاس دل ہلا دینے والی خبر نہیں پہنچی۔ الید۔ الکف۔ ید کے معنے ہیں ہتھیلی۔ اومن اطراف الاصابع الی الکتف نیز ید کا استعمال انگلیوں کے کے پوروں سے لے کر کندھے تک کے لئے بھی ہوتا ہے۔ اس کی جمع اید اور یدی اور جمع الجمع ایاد ہے اور ایادی کا اکثر استعمال نعمت اور احسان پر ہوتا ہے۔ اور ید کے کئی اور معانی بھی ہیں۔ مثلاً الجاہ۔ عزت۔ الوقار۔ وقار۔ یقال لہ ید عند الناس۔ چنانچہ جب لہ ید عند الناس کا فقرہ بولتے ہیں تو اس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ فلاں شخص کو لوگوں کے ہاں عزت و رتبہ حاصل ہے۔ الطریق۔ طریق۔ القوۃ والقدرۃ۔ طاقت۔ والسلطن۔ والولایۃ۔ غلبہ۔ یقال مالک علیہ ید ای ولایۃ۔ چنانچہ مالک علیہ ید میں ید کے لفظ سے مراد ولایت ہی ہے۔ الملک۔ ملکیت۔ الجماعۃ۔ جماعت۔ الغیاث۔ فریادرسی۔ النعمۃ والاحسان نصطنعہ نعمت و احسان جو کسی پر کی جائے۔ وھذا فی یدی ای ملکی ھذا فی یدی کے معنے ہیں کہ یہ چیز میری ملکیت ہے اور الامر بید فلان کہہ کر یہ مراد لیتے ہیں ای فی تصرفہ کہ معاملہ فلاں کے تصرف میں ہے۔ وید الریح سلطانھا اور جب ید کا لفظ یح کی طرف مضاف ہو تو اس کے معنے ہوتے ہیں ہوا ی تیزی و تندی۔ (اقرب) پس ید کے مختلف معنوں کے لحاظ سے ردوا ایدیھم فی افواھہم کے مختلف معانی ہوں گے۔ اول منکرین انبیاء نے اپنے ہاتھ اپنے منہ کی طرف لوٹا دیئے۔ یعنی حیرت زدہ ہو گئے۔ (۲) انہوں نے اپنے ہاتھوں کو اپنے مونہوں پر رکھا اور نبیوں کو کہا کہ بولو مت۔ خاموش ہو جاؤ۔ (۳) منکرین نے نبیوں کے احسانوں کو ان کے مونہوں پر دے مارا۔ مریب۔ اراب سے اسم فاعل ہے۔ اور اراب زیدا کے معنے ہیں اقلقلہ وازعجہ۔ کہ زید کو کسی معاملہ نے بے چینی اور گھبراہٹ میں ڈال دیا۔ (اقرب) اور مریب کے معنی ہوں گے بے چین کر دینے والا۔ گھبراہٹ میں ڈالنے والا۔
تفسیر
لایعلمہم الا اللہ سے نکلتا ہے کہ غیر قوموں میں بھی نبی آتے رہے۔ عاد اور ثمود کے بعد تو ابراہیمی نسل شروع ہو گئی تھی اور ابراہیمی نسل کے انبیاء کا ذکر قرآن مجید اور تورات میں موجود ہے۔ پس من بعدھم سے مراد ابراہیمی نسل کے سوا دوسری نسلیں ہیں جن کو سواے اللہ کے کوئی نہیں جانتا۔ یعنی کتب سماعیہ جو ایک حد تک محفوظ ہیں ان میں ان کا ذکر نہیں ہے۔ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ ابراہیمی زمانہ میں بھی غیرقوموں میں نبی آہے تھے۔ بعض تاریخوں سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم کا زمانہ اور ثمود کا زمانہ برابر چل رہے تھے۔ اگر یہ درست ہے تو ظاہر ہے کہ اسی وقت سے ہی غیر قوموں میں نبی آرہے تھے۔
ردوا ایدیھم کے متعلق مفسرین میں بہت کچھ اختلاف ہوا ہے۔ اور زیادہ مشکل لفظ فی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ اگر علی آتا تو معنے صاف تھے۔ ردفیہ چونکہ نئی قسم کا محاورہ ہے اس لئے مختلف معانی کئے گئے ہیں۔ بعض نے اس کے معنے یوں کئے ہی (۱) کہ ’’منکرین انبیاء نے اپنے ہاتھ اپنے منہ کی طرف لوٹا دیئے۔‘‘ (یعنی وہ انبیاء کی باتیں سن کر حیرت سے انگشت بدندان ہو گئے۔ اور انہوں نے اس کو عجیب بات سمجا۔ کسی کی بات سن کر اس طرح منہ پر ہاتھ رکھنا استہزاء اور تمسخر کا ایک طریق ہے۔ ہمارے ملک میں عورتوں میں اس کا بہت رواج ہے۔ غالباً منہ پیٹ لینے کا اشارہ اس میں پایا جاتا ہے۔ (۲) بعض نے فی کے معنے علی کے کئے ہیں جو لغۃً درست ہیں۔ا س صورت میں یہ معنے ہوں گے کہ انہوں نے اپنے ہاتھوں کو اپنے مونہوں پر رکھا۔ اور کہا کہ بولو مت خاموش ہو جاؤ۔ یہ عام دستور بھی ہے۔ خاموش کرانے کے لئے منہ پر ہاتھ رکھا جاتا ہے۔
میرے نزدیک اس مشکل کو حل کرنے کے لئے لفظ ید کے اور معنوں کو بھی دیکھنا چاہئے۔ لغت میں لکھا ہے کہ ید کے معنے نعمت اور احسان کے بھی ہوتے ہیں۔ ان معنوںکو مدنظر رکھتے ہوئے اس آیت کے یہ معنے بھی ہوسکتے ہیں کہ انہوں نے نبیوں کے احسان کو ان کے منہ پر دے مارا۔ اور کہا کہ اپنی تعلیم تم اپنے گھر لے جاؤ ہم نہیں سنتے۔ گویا نبیوں کی تعلیم کو حقارت سے ٹھکرا دیا۔ اور کہا کہ ہم اسے قبول کرنے کو تیار نہیں۔ اردو میں بھی اس مفہوم کو ادا کرنے کے لئے ایک فارسی جملہ عطاء تو بلقاء تو بولا جاتا ہے۔ آیت کا اگلا حصہ بھی انہی معنوں کی تائید کرتا ہے۔ فرماتا ہے وقالا انا کفرنا بما ارسلتم بہ وانا لفی شک مما تدعوننا الیہ مریب۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس تعلیم کا انکار کرتے ہیں جس کے ساتھ تمہیں بھیجا گیا ہے۔ اور ہمیں اس تعلیم سے جس کی طرف تم ہمیں بلارہے ہو اضطراب میں ڈالنے والے شبہات پیدا ہورہے ہیں۔
۱۱؎ حل لغات
فاطر۔ فطر سے اسم فاعل ہے اور فطر الشیء یفطر فطرا کے معنی ہیں شقہ۔ اس چیز کو پھاڑ دیا۔ العجین۔ اختبرزہ من ساعتہ ولم یخمر جب آٹے کے متعلق یہ لفظ استعمال ہو تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ گوندھتے ہی روٹی پکا لی۔ اور خمیر نہ ہونے دیا۔ فطرالامر۔ اختر۔ کوئی چیز بنائی۔ وابتدہ۔ بغیر نمونہ کے بنائی۔ وانشاہ۔ اور اسے پیدا کرکے نشوونما دی۔ پس فاطر السموت والارض کے معنے ہوں گے آسمان اور زمین کو بغیر نمونہ کے بنانے والا۔ (اقرب) گویا فاطر کا لفظ پیدائش کی ابتداء کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ المسمی المعلوم المعین۔ مقررہ معین (اقرب) اور اجل مسمی کے معنے ہوں گے مقررہ معیاد۔ السلطان الحجۃ۔ سلطان کے معنے ہیں دلیل۔ القتلسط۔ قبضہ وقدرۃ الملک۔ بادشاہ کی طاقت (اقرب) تو فاتونا بسلطن مبین کے معنے ہوں گے ہمارے پاس کوئی روشن نشان اور دلیل لاؤ۔ یا اپنی طاقت کا اظہار کرو۔
تفسیر
………… قال ابن عباس کنت لاادری ماھو فاطر السموت۔ حتی اتانی اعرابیان یختصمان فی بئر فقال احدھما انا فطرتھا ای انا ابتدء تھا (اقرب) ابن عباس کہتے ہیں کہ فاطر کے معنے پوری طرح مجھ پر نہ کھلے تھے۔ لیکن ایک دفعہ میرے پاس دو اعرابی ایک کنوئیں کے بارہ میں جھگڑتے ہوئے آئے اور ان میں سے ایک نے کہا کہ انا فطرتہا میں نے اس کنوئیں کو پہلے بنانا شروع کیا تھا۔ تب اس لفظ کے معنی مجھے معلوم ہوئے۔
ابن عباس کی اس روایت سے معلوم ہوا کہ فاطر کا لفظ پیدائش کی ابتداء کی طرف اشارہ کرتا ہے اور قرآن شریف نے پیدائش کے چار مراتب بیان فرمائے ہیں۔
۱- خلق کا وہ مرتبہ جس سے پہلے کسی قسم کا کوئی وجود موجود نہ تھا۔
۲- خلق کا وہ مرتہ جب مادہ تو تھا مگر اس سے آگے کوئی چیز متکیف ہونی شروع نہ ہوئی تھی۔
۳- خلق کا وہ مرتبہ جب اجتماع کے ذریعہ سے مادہ کے اندر مختلف قسم کی طاقتیں پیدا ہونی شروع ہوئیں اور قوانین تیار ہونے لگے جس کی تکمیل کا نام قانونِ قدرت ہے۔
۴- خلق کا وہ مرتبہ جبکہ ان قوانین کے مطابق خلق میں تکرار شروع ہوا۔ یعنی نسل اور ولادت وغیرہ کا سلسلہ شروع ہوا۔ جیسے انسان سے انسان کا پیدا ہونا۔ غلہ کا غلہ سے نکلنا۔
فطور کا لفظ چونکہ ایک چیز کے دوسری چیز سے نکلنے پر دلالت کرتا ہے اس لئے فاطر کے لفظ سے پیدائش کے دوسرے مرحلہ کو بیان کرنا مقصود ہے۔
انبیاء کہتے ہیں کہ ہم تو اللہ تعالیٰ کے کہنے پر وعظ کرتے ہیں۔ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے۔ تو کیا تم کو اللہ کے متعلق شک ہے کہ وہ الہام بھیج سکتا ہے یا نہیں۔ اگر یہ شک ہے تو بالکل غلط ہے۔ کیونکہ وہ زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے۔ اس کی نسبت یہ امید رکھنا کہ وہ مخلوق کو پیدا کرکے روحانی ہدایت کے بغیر چھوڑ دے گا عقل کے خلاف ہے۔
دوسرے یہ خیال کرنا بھی کہ وہ جسمانی زمین و آسمانی تو پیدا کرے گا مگر روحانی زمین و آسمان کی پیدائش کو نظرانداز کر دے گا عقل کے بالکل خلاف ہے۔
یدعوکم لیغفرلکم من ذنوبکم ویؤخرکم الی اجل مسمی۔ ابھی ایک سوال باقی تھا اور وہ یہ کہ کفار کہہ سکتے تھے کہ ہمیں یہ تو شک نہیں کہ خداتعالیٰ ہمیں ہدایت کی طرف بلاسکتا ہے یا نہیں۔ ہم تو یہ کہتے ہی کہ وہ بڑی شان والا ہے اس کی شان کے خلاف ہے کہ ہم جیسے حقیر وجودوں کو بلائے۔ (یہ خیال اب بھی تعلیم یافتہ طبقہ میں پھیلا ہوا ہے) تو اس کا جواب یہ ہے کہ بڑی شان والے کی شان کے خلاف تو یہ امر ہوتا ہے کہ وہ چھوٹوں کو اپنی مدد کے لئے بلائے نہ یہ کہ وہ چھوٹوں کی مدد کے لے خود آئے۔ یہ فعل تو اس کی شان کے عین مطابق ہے۔ ہمارا یہ تو دعویٰ نہیں کہ خداتعالیٰ تم کو اس لئے بلاتا ہے کہ تم سے کوئی فائدہ اٹھائے۔ بلکہ ہمارا تو یہ دعویٰ ہے کہ خداتعالیٰ نے ہمیں اس لئے تمہاری طرف بھیجا ہے کہ تا تمہاری احتیاج کو دور کرے۔ اور تمہارے گناہوں کو معاف کرے۔ اور تمہیں ایک نئی زندگی عطا کرے۔ اس پر ان کا یہ اعتراض نقل کیا کہ اگر ایسا ہوتا تو خداتعالیٰ کو کوئی اپنی شان کے مطابق پیغامبر بھیجتا نہ کہ ہمارے جیسے ایک انسان کو بھیج دیتا۔ تم تو ہماری طرح کے ایک بشر ہو تم کو خدا نہیں بھیج سکتا تھا۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ تم یہ سب باتیں محض ہم پر حکومت کرنے کے لئے بنا رہے ہو۔ تاکہ ہمیں اپنے آباء کی اطاعت سے ہٹا کر اپنی فرمانبرداری میں لگاؤ۔ اگر ہمارا یہ شبہ غلط تھا تو نشانات کے ذریعہ سے اس امر کو ثابت کرو کہ تم ہم سے بالا ہستی ہو۔
۱۲؎ تفسیر
اس پر اللہ تعالیٰ کے رسولوں نے جواب دیا کہ بے شک ہم تمہاری ہی طرح کے آدم ہیں لیکن یہ تو سوچو کہ جس بھی خداتعالیٰ چنتا آخر وہ اس کی مخلوق میں سے ہی ہوتا اور اس کی دی ہوئی طاقتوں کے ساتھ ہی آتا۔ آنے والا خداتعالیٰ کا شریک یا غیرمخلوق تو ہو نہیں سکتا تھا۔ کیونکہ ایسی کوئی ہستی ہے ہی نہیں۔ اور جب بہرحال اس نے مخلوق ہی میں سے ہونا تھا تو اس پر کیا اعتراض کہ اس نے انسانوں کو اس کام کے لئے کیوں چنا۔ اپنے بندوں میں سے جسے اس نے چاہا چن لیا۔ تم اس کے اختیارات کو محدود کرنے والے کون ہو۔
باقی جو تم ہم سے ایسی دلیل کا مطالبہ کرتے ہو کہ ہم اپنی فضیلت تم پر ثابت کریں تو یہ مطالبہ ہمارے دعاوی کے خلاف ہے۔ ہم نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ ہم بشر سے بالا ہیں۔ بلکہ بشر رسول ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور صرف یہ دعویٰ یا ہے کہ خداتعالیٰ ہمارے ہاتھ پر نشان دکھاتا ہے اور ہمارا اس کی مدد پر انحصار ہے یہ دعویٰ کب ھی نہیں کیا کہ ہم خود کوئی معجزہ دکھاتے ہیں۔ اور جو اصولِ دین ہم پیش کرتے ہیں ان کے رو سے تو وہ شخص مومن ہی نہیں کہلا سکتا جو اپنی ذاتی فضیلت کو پیش کرے۔ وہ تو کافر ہے مومن نہیں۔
۱۳؎ حل لغات
ھدنا۔ ھدی کی تشریح کے لئے دیکھو رعد۲۸؎
تفسیر
یعنی اللہ تعالیٰ کی طاقتوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد ہم تو وہم بھی نہیں کرسکتے کہ خداتعالیٰ ہماری تائید اور مدد کا محتاج ہے۔ بلکہ اس کی قدرت کو دیکھ کر ہم نے تو ان طاقتوں کو کو بھی جو اس نے ہمیں دوسرے انسانوں کی طرح دے رکھی ہں اسی کے سپرد کر دیا ہے۔
ھدنا سبلنا سے یہ ب تایا کہ بنی کی فضیلت ذاتی فضیلتوں کے سبب سے نہیں ہوتی بلکہ اس امر میں ہوتی ہے کہ وہ انسان کی احتیاج کو ثابت کرکے آسمانی مدد کی ضرورت کو ثابت کرتا ہے۔ ان الفاظ میں یہ عظیم الشان نکتہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ شریعت ان امور کو بیان کرتی ہے جو انسان کے اپنے فائدہ کے لئے ہوتے ہیں۔ یہ مضمون سبلنا (ہمارے راستے) کے الفاظ سے نکلتا ہے۔ یعنی وہ راستے جن کی ہمیں اپنی ترقی کے لئے ضرورت ہے ن کہ خدا کو ان کی ضرورت ہے۔
دوسرے سبل کا لفظ جمع رکھ کر اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اس تعلیم میں انسان کی مختلف ضرورتوں کا خیال رکھا گیا ہے اور اپنے وقت کے لحاظ سے یہ مکمل شرائع ہیں۔ ولنصبرن کے لفظ سے اپنی کمزوری کا مزید اقرار کیا ہے۔ اور بتایا ہے کہ بجائے اپنی فضیلت اور طاقت کا دعویٰ کرنے کے ہم تو اقرار کرتے ہیں کہ ظاہری سامانوں کے لحاظ سے تم ہم پر غالب ہو۔ اور ہم جانتے ہیں کہ تم ہم کو ہر قسم کے دکھ دو گے۔ مگر ہم چونکہ خداتعالیٰ کے حکم سے کھڑے ہوئے ہیں۔ ہم ان دکھوں کو پوری طرح برداشت کریں گے۔ اور ثابت کریں گے کہ اپنی برتری اور فائدہ ہمارے مدنظر نہیں ہے۔ پھر وعلی اللہ فلیتوکل المتوکلون کہہ کر یہ بھی بتا دیا ہے کہ ہر شخص کو دوسرے کا سہارا ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ کوئی شخص اکیلا اپنی ضروریات پوری نہیں کرسکتا۔ تو جب سہارا لینا ہی ضروری ہے اور ہر شخص کو سہارا ڈھونڈنا پتا ہے تو پھر معمولی سہارا کیوں تلاش کریں۔ کیوں نہ خداتعالیٰ پر ہی توکل کریں تا باقی سب سہاروں سے آزاد رہیں۔
اس آیت سے علاوہ اور سبقوں کے مومن کو یہ سبق بھی حاصل کرنے چاہئیں:
۱- مومن کی شان یہی ہے کہ وہ صبر سے زیادہ کام لے۔ غصہ کم کرے مر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ صبر اور غیرت میں فرق ہے۔ اپنی ذات کے متعلق صبر سے کام لینا چاہئے اور دین کے کاموں کے متعلق غیرت سے مگر ناجائز غیرت نہ ہو جائز غیرت ہو۔
۲- توکل کے متعلق تصوف کا یہ نکتہ یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا میں انسان سہارے تو ہمیشہ ڈھونڈتا ہے پھر کیا وجہ ہے کہ لوگ خدا پر توکل نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خداتعالیٰ پر کامل یقین لوگوں کو نصیب نہیں ہوتا۔ لیکن نبی چونکہ اس کی شفقتوں کا مشاہدہ کرلیتے ہی اس لئے وہ اور ان کے پیرو نہایت خوشی سے خدا پر توکل کرتے ہیں اور اصل کام نبیوں کا یہی ہوا کتا ہے کہ وہ خدا کے متعلق یقین پیدا کرکے لوگوں کو متوکل بنا دیں۔
۱۴؎ حل لغات
لتعودن…… عاد سے مضارع جمع مخاطب کا صیغہ ہے۔ اور عاد الی کذاولہ کے معنے ہیں صار الیہ۔ اس کی طرف ہو گیا۔ ورجع اس کی طرف لوٹا۔ وقیل اتد الیہ بعد ماکان اعرض عہ۔ اور بعض عاد کے معنے یہ کرتے ہیں کہ کسی چیز سے منہ پھیرنے کے بعد اور اسے ترک کرنے کے بعد پھر اس کی طرف رجوع کیا۔ والعرب تقول عاد الی من فلان مکروہ۔ ای صار منہ الی۔ اور جب عرب لوگ عاد الی من فلان مکروہ کا محاورہ بولتے ہیں تو اس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے کہ مجھے فلاں سے تکلیف پہنچی۔ (اقرب) الملۃ۔ الشرعۃ اوالدین۔ شریعت اور دین کو ملت کہتے ہیں۔ وقیل الملۃ والطریقۃ سواء۔ بعض کہتے ہیں کہ ملت اور طریقہ ہم معنے لفظ ہیں۔ وھی اس من املیت الکتب ثم نقلت الی اصول الشرائع اعتبار انہا یملیہا النبی اور ملت اسم ہے جو املیت الکتاب کے محاورہ سے ماخوذ ہے پھر وہ شریعت کے اصول کے معنوں میں استعمال ہونے لگا۔ کیونکہ شریعت کے اصول بنی لکھاتا ہے۔ وقد تطلق علی الباطل کالکفر ملت واحدۃ اور کبھی یہ لفظ جھوٹے مذہبوں پر بھی بولا جاتا ہے۔ جیسے الکفر ملۃ واحدۃ کے محاورہ سے ظاہر ہے۔ والاتضاف الی اللہ والا الی احاد الامۃ۔ اور یہ اللہ کی طرف منسوب نہیں ہوتا۔ اور نہ امت کے کسی فرد کی طرف۔ یعنی دین اللہ تو کہہ سکتے ہیں مگر ملۃ اللہ نہیں کہہ سکتے۔ اسی طرح قوم کی ملت کہیں گے زید یا بکر کی ملت کا لفظ نہیں بولیں گے۔ (اقرب) پس لتعودن فی ملتنا کے معنے ہوں گے (۱) ہماری ملت میں آجاؤ (۲) ہمارے مذہب کو اختیار کرو۔ (۳)ہمارے مذہب میں لوٹ آؤ۔
تفسیر
جبکہ کفار نبیوں اور ان کی جماعتوں سے لڑ رہے ہوتے ہیں اور کامیابی کے دعویٰ پر ناراض ہورہے ہوتے ہیں۔ ان کے دلوں میں ایک باریک خواہش پائی جاتی ہے کہ یہ ہماری طرف جھکیں اور ہماری تھوڑی سی دلجوئی کریں۔ تاکہ ان کا دعویٰ برتری کا ٹوٹ جائے۔ اور ہماری بھی کچھ عزت بنی رہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی کفار آپ کے چچا کے پاس آئے اور کہا کہ اگر یہ ذرہ بھی نرمی کردے تو ہم سب مخالفت چھوڑ کر اس سے صلح کرلیں گے۔ لیکن آپ نے صاف فرما دیا کہ یہ لوگ سورج کو دایں اور چاند کو بائیں بھی لا کھڑا کریں تو میں یہ بات نہیں مان سکتا۔ اس پر مخالفوں نے آنحضرتؐ کی ذات بارکات پر اور آپ کے صحابہؓ پر ایسا حملہ شروع کیا کہ جسے آخری حملہ کہنا چاہئے جس کا اختتام ہجرت پر ہوا۔ اس قسم کے واقعات ہر نبی کو پیش آتے ہیں اور اس آیت سے پہلے کی آیات میں کفار کی اس خواہش کی طرف بھی اشارہ کیا گیا تھا تبھی بار بار توکل کا لفظ استعمال کیا گیا تھا اور کہہ دیا گیا تھا کہ ہم تمہاری تمام ایذاؤں کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اس پر کفار نے سمجھ لیا کہ اب یہ لوگ کسی ایسی صلح پر تیار نہیں جس میں ہماری بھی کچھ عزت رہ جائے۔ اور انہوں نے وہی دھمکی ان کو دی جو رسول کریم صلعم کو بعد میں کفار مکہ نے دی۔ یعنی اب ہم بھی صلح پر تیار نہیں۔ یا تو پوری طرح ہمارے مذہب میں شامل ہو گے یا ہم تم کو اپنی زمین سے نکال دیں گے۔ زمین سے نکال دینے کے معنے صرف جلاوطن کردینے کے نہیں ہیں بلکہ مار دینے کے بھی ہیں۔ درحقیقت یہ ایک کامل بے تعلق کا اعلان ہے۔ یعنی جب تم اپنے دعویٰ کے متعلق کسی معقول سمجھوتہ پر آنے کے لئے تیار نہیں تو ہمارا تمہارا یکجا رہنا ناممکن ہے۔ آخر یہ ہمارا ملک ہے ہم اکثریت میں ہیں اگر تم ہماری مرضی کے تابع نہیں رہ سکتے تو پھر ہمارے ملک میں رہنے کا بھی تمہیں کوئی حق نہیں۔
عجیب امر ہے کہ ہمیشہ باطل پرست اقوام اپنی طاقت پر ناز کتی ہیں اور یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ یا تو عقائد بھی ان کی مرض کے مطابق رکھے جائیں یا ان کے ملک سے لوگ نکل جائیں۔ آج کل احمدیوں کے متعلق دوسرے مسلمانوں کا ایک حصہ یہی رویہ اختیار کررہا ہے۔ ہر جگہ احمدیوں کو دکھ دیا جارہا ہے۔ اور صاف کہا جارہا ہے کہ یا احمدی توبہ کریں ورنہ ہندوستان سے نکل جائیں۔ ان کو ہمارے ملک میں رہنے کا کوئی حق نہیں اور لطیفہ یہ ہے کہ بعض ہندو مصنف یہی امر مسلمانوں کے متعلق لکھ رہے ہیں۔گویا بلاوجہ اختلاف کی خلیج کو وسیع کیا جارہا ہے اور مذہب کو سیاسیات کے میدان میں گھسیٹا جارہا ہے۔
لنھلکن الظالمین اس جگہ لنھلکنکم نہیں فرمایا بلکہ لنھلکن الظلمین فرمایا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض ان میں سے ایمان لانے والے تھے۔ اس لئے فرمایا کہ جو لوگ ظلم پر قائم رہیں گے ان کو ہی ہم ہلاک کریں گے۔
لنھلکن الظلمین سے اس طرف بھی اشارہ کیا کہ تم جو کہتے ہو کہ چونکہ ہمارا ملک ہے اگر ہماری بات نہ مانو گے تو ہم تم کو نکال دیں گے۔ تو اس طرح خود اپنے خلاف فتویٰ لگاتے ہو کیونکہ زمین تو خدا کی ہے پھر وہ کیوں تمہارے فتویٰ کے مطابق تم کو ہی ہلاک نہ کرے۔
یہاں جو فرمایا ہے اولتعودن فی ملتنا۔ تو یا تو (۱)عاد بمعنی صار ہے یعنی ہو گیا کیونکہ نبی تو بچپن سے ہی شرک سے محفوظ ہوتا ہے۔ پس آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ ہماری ملت میں آجاؤ۔ ہمارے مذہب کو اختیار کر لو۔ یا (۲) چونکہ مومن بھی اس کے ساتھ ہی مخاطب تھے اور مومن فی الواقعہ پہلے ان لوگوں کے ہم مذہب تھے اس لئے کثرت مخاطبین کے لحاظ سے لوٹ آؤ کے الفاظ استعمال کئے گئے۔ یا (۳) لتعودن کے الفاظ کفار نے اس لئے استعمال کئے کہ گو نبی خدا تعالیٰ کے فل سے بچپن سے ہی شرک سے محفوظ ہوتا ہے لیکن چونکہ وہ مشرکوں میں پیدا ہوا ہوتا ہے اس لے عرفا وہ ان کی قوم کا ایک فرد سمجھا جاتا ہے اس کو مدنظر رکھ کر کفار نے لوٹ آؤ کے الفاظ استعمال کے۔
۱۵؎ حل لغات
المقام۔ مقام مصدر ہے اور اسم زمان اور اسم مکان بھی ہے۔ یعنی قیام کی جگہ یا قیام کا زمانہ۔ نیز مقام کے معنے ہیں۔ المنزلہ۔ رتبہ۔ درجہ۔ شان (اقرب) پس ذلک لمن خاف مقامی کے یہ معنے ہوں گے کہ یہ اس کے لئے ہے جو میرے رتبہ اور میرے مقام اور میری شان سے ڈرے۔ وعید وعد کے مصدر ہے اور وعد عدۃ ووعد اچھے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اور وعد وعیدا برے معنوں میں اور وعدہ کے وقت وعدہ نہ پورا کرنا تو کذب کہلاتا ہے لیکن وعید میں تخلف کرم کہلاتا ہے اور اچھا سمجھا جاتا ہے اور وعید کے معنے ہیں التھدید۔ دھمکی۔ (اقرب)
تفسیر
پہلی آیت میں بھی اور اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے متکلم مع الغیر کے صیغہ کو استعمال کیا ہے جو کہ جمع کے معنے دیتا ہے۔ حالانکہ ہلاک کرنے والی اور جگہ دینے والی تو صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جو واحد ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس جگہ قبضہ اور تصرف کا اظہار کرنا مقصود ہے۔ چونکہ جماعت میں قوت اور طاقت زیادہ ہوتی ہے جہاں قرآن کریم میں قبضہ اور تصرف بتانا مقصود ہوتا ہے اور اسے نمایاں کرکے دکھانا ہوتا ہے۔ وہاں جمع کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے اور جہاں استغناء کا اظہار مقصود ہوتا ہے یا قبہ اور تصرف پر زور دینا مقصود نہیں ہوتا۔ وہاں واحد کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض صوفیوں نے یہ بھی لکھا ہے جس کام کو اللہ تعالیٰ ملائکہ کے توسط سے کرتا ہے اس کے لئے جمع کا صیغہ استعمال فرماتا ہے اور جس کام کو خالص امر سے کیا جاتا ہے وہاں مفرد کا صیغہ استعمال فرماتا ہے۔
ذلک لمن خاف مقامی وخاف وعید سے اس طرف اشارہ کیا کہ یہ غلطہ اور کامیابی کا وعدہ اس کے لے ہے جو میرے درجہ کو سمجھتا ہو اور میرے مالک ہونے پر یقین رکھتا ہو۔
ان کی طرف سے وعید یہی تھا کہ اے مومنو ہم تم کو اپنی زمین سے نکال دیں گے گویا وعید اپنی ملکیت سے نکالنے کا تھا۔ ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم ان کو تباہ کرکے اپنے رسولوں کو ان کی جگہ قائم کر دیں گے۔ اور پھر فرم ایا کہ یہ وعدہ ہمارا اس کو ہی ملے گا جو میرے مقام اور مرتبہ سے اور میرے انذار سے خوف رکھتا ہوگا گویا وعدہ کے پورا ہونے کے لئے یہ شرط ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت نبی کی جماعت کے دل میں ہو اور اس کے عذاب سے وہ خائف ہوں۔ پس وہ لوگ غلطی پر ہیں جو صرف امت میں سے کہلا کر الٰہی وعدوں کے امیدوار رہتے ہیں۔
۱۶؎ حل لغات
استفتحوا۔ استفتح سے جمع کا صیغہ ہے اور استفتح الباب کے معنے ہیں فتحہہ دروازہ کو کھولا۔ استفتح الشیء بکذا ابتدء ہ اس کو شروع کیا۔ اور استفتح فلان کے معنے ہیں طلب الفتح واستنصر اس نے فتح طلب کی اور مدد چاہی۔ ومنہ ان تستفتحوا ای ان طلبتم الظفر۔ یعنی اتستفتحوا کے معنے ہیں اگر تم مدد چاہو۔ نیز ھو یستفتح علی بفلان کا فقرہ بھی ان معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ یعنی وہ میرے خلاف مدد چاہتا ہے۔ (اقرب) خاب۔ یخیب۔ خیبۃ۔ لم یظفر بما طلب خاب کے معنے ہیں اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوا۔ کفر۔ کفر کیا۔ انتقطع املہ۔ اس کی امید ٹوٹ گئی۔ خاب سعیہ ای لم یبحح اور خاب سعیہ کے معنے ہیں اس کی کوشش ناکام گئی۔ (اقرب) جبار۔ یہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت ہے اور اس کے معنے ہوتے ہیں بڑا مصلح اور لوگوں کی حاجات پوری کرنے والا۔ جب جبار غیراللہ کی صفت ہو تو اس کے معنے ہوتے ہیں کل عاۃ متمرد۔ سرکش۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے والا۔ والذی یقتل علی الغضب جسے غصہ کی حالت میں قتل سے بھی دریغ نہ ہوتا ہو۔ (اقرب) عند عن الطریق والقصد کے معنے ہیں مال وعدل۔ راستہ یا ارادہ کو ترک کر دیا۔ اس سے ادھر ادھر ہو گیا۔ اور عنید کے معنے ہیں المخالف للحق الذی یردہ وھو یعرفہ حق کا ایسا مخالف جو اس کو باوجود سمجھنے کے رد کرتا ہو۔ (اقرب) پس خاب کل جبار عنید کے معنے ہوں گے ہر حق کا مخالف۔ سرکش اپنی کوششوں میں ناکام رہا اس کی امیدیں ٹوٹ گئیں۔ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوا۔
تفسیر
واستفتحوا الخ کی ضمیر دونوں طرف پھر سکتی ہے۔ نبیوں کی طرف بھی اور کفار کی طرف بھی اور سیاق و سباق کے لحاظ سے بھی دونوں ہی معنے ہوسکتے ہیں۔ جب کفار نے کہا کہ ہم تم کو اپنی زمین سے نکال دیں گے تو لازماً نبیوں اور ان کے اتباع نے دعا مانگنی ہی تھی کہ اے اللہ تعالیٰ انہیں کفار کے شر سے محفوظ رکھے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ خدا تو پہلے وعدہ کر چکا ہے کہ ولنسکننکم کہ ہم مومنوں کو ہی جگہ دیں گے تو پھر دعا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جن باتوں کا خداتعالیٰ وعدہ کرتا ہے ان کے لئے زیادہ دعا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیونکہ اگر وعدہ کے بعد انسان محروم رہ جاتے تو یہ امر اس کی سخت بدقسمتی پر دلالت کرے گا۔ وعدہ کے بعد دعا کی ضرورت قرآن کریم کی ایک اور آیت سے ثاب ہے جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ربنا واتنا ما وعدتنا علی رسلک (آل عمران ع۲۰) پس مومن کو اس پر اتکال نہیں کرنا چاہئے کہ خداتعالیٰ کا وعدہ ہے۔ بلکہ اگر وعدہ ہو تو تدبیر اور دعا سے اور بھی زیادہ کوشش کرنی چاہئے تا اس کی غلطی سے خداتعالیٰ کے کلام پر کوئی حرف نہ آئے۔ انبیاء ہمیشہ موعود امور کے لئے دعا اور تدبیر سے کام لیتے چلے آئے ہیں اور یہ ان کی کمزوری نہیں بلکہ طاقت کی دلیل ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مکہ میں ہی فتح مکہ کا وعدہ کیا گیا تھا۔ جیسا کہ فرمایا لرادک الی معاد (قصص ع۹) لیکن باوجود اس کے آپ اس کے لئے دعا بھی کرتے رہے اور تدابیر کرتے رہے۔ بیس کے قریب جنگیں آپ نے اس مقصد کے لئے کیں اگر وعدہ کے بعد تدابیر ناجائز ہے تو پھر چ اہئے تھا کہ آ ہاتھ ر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاتے لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا۔ پس یہ اصل کہ وعدہ کے بعد تدبیر یا دعا ناجائز ہے جاہلوں کا بنایا ہوا ہے اور دین سے جہالت کے سبب سے گھڑا گیا ہے۔
جیسا کہ بتایا گیا ہے واستفتحوا کی ضمیر کفار کی طرف بھی پھر سکتی ہے۔ اس صورت میں آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ کفار فتح کے لئے کوششیں کرتے ہیں اور فتح کی خواہش کرتے ہیں مگر اگلے جملہ میں فرمایا کہ یہ عجیب بے وقوف ہیں ان کے سامنے پہلے مثالیں موجود ہیں کہ نبیوں کے مخالف ہمیشہ ناکام اور نامراد ہوتے رہے ہیں مگر باوجود اس کے پھر یہ امید رکھتے ہیں کہ ہم نبی کے مقابل کامیاب ہو جائیں گے۔
۱۷؎ حل لغات
یتجرعہ۔ تجرع سے مضارع کا صیغہ ہے۔ اور تجرع الماء کے معنے ہیں ابتلعہ شیئا بعد شیء۔ اس کو تھوڑا تھوڑا کرکے حلق سے اتارا۔ ومنہ فی القران۔ یسقی من ماء صدید یتجرعہ اور آیت مذکورہ میں یتجرعہ کے معنے یہی ہیں کہ اس کو گلے سے بڑی مشکل سے تھوڑا تھوڑا کرکے اتارے گا۔ تجرع الغیظ کظمہ غصہ کو دبایا۔ (اقرب)
یسیغ اساغ سے مضارع کا صیغہ ہے اور ساغ (جو اساغ کا مجرد ہے) کے معنے ہیں ساغ الشراب فی الحقل۔ ھنا وسلس وسہل مدخلہ فیہ کہ پانی راس آیا اور حلق سے بآسانی نیچے اتر گیا۔ (پس اساغ کے معنے ہوئے آسانی سے اتارا۔ لیکن کبھی اساغ لازم بھی استعمال ہوتا ہے جیسے) اساغ الطعام اساغۃ کے معنے ہیں سہل مدخلہ فی الحق وساغ لہ دخولہ فیہ کھانا گلے میں آسانی سے اتر گیا۔ (اقرب) پس فلا یکاد یسیغہ کے معنے ہوں گے کہ اسے حلق سے آسانی سے نہیں اتار سکے گا۔ وہ اس کے لئے فائدہ مند ثابت نہ ہوگا۔
غلیظ ذوالغلاظۃ۔ سختی والا۔ خلاف اللین والسلس۔ نرمی اور سہولت کے مخالف معنے دیتا ہے۔ امرغلیظ شدید صعب۔ سخت مشکل امر۔ عذاب غلیظ ای شدید الالم۔ سخت دردناک عذاب۔ (اقرب)
تفسیر
ویأتیہ الموت من کل مکان اس سے بتایا ہے کہ جس طرح مومنوں کو جنت میں ہر دوازہ سے سلام آئے گا اسی طرح کفار کو ہر طرف موت کا سامنا ہوگا۔ یعنی قسم قسم کے گنہ جو وہ کرتے تھے موت کی شکل میں ان کے سامنے آئیں گے۔ مگر فرمایا کہ وہ اس موت سے مریں گے نہیں کیونکہ اصل غرض ان کی اصلاح ہے۔ آخر سلامتی پہنچ جائے گی۔ کیونکہ انسان سلامتی کے لئے پیدا ہوا ہے۔ موت نہ پہنچے گی کیونکہ انسان موت کے لئے نہیں پیدا کیا گیا۔ (سوائے پہلی موت کے)
جنت اور دوزخ کے ذکر میں (جنت کا ذکر سورۂ رعد میں آیا تھا دیکھو آیت ۲۴،۲۵) ایک یہ فرق بھی رکھا ہے کہ جنت کے متعلق تو باب کا لفظ استعمال کیا تھا اور دوزخ کے لئے مکان کا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سلامتی باہر سے آتی ہے یعنی خداتعالیٰ کی طرف سے اور موت یعنی ہلاکت انسان اپنے خود پیدا کرتا ہے۔ پس سلامتی کے لئے تو فرمایا کہ دروازوں سے آئے گی اور ہلاکت کے لئے فرمایا کہ اندر سے ہی ہر کونہ سے نکل پڑے گی۔
ومن ورائہ عذاب غلیظ سے یہ بھی مراد ہوسکتی ہے کہ اس عذاب کے بعد اور عذاب آئیں گے۔ مثلاً خداتعالیٰ سے دوری ندامت، حسرت وغیرہ اور یہ بھی کہ یہ عذاب ایک دفعہ مل کر ہٹ نہ جائے گا بلکہ لمبا چلتا جائے گا۔
۱۹؎ حل لغات
عاصف۔ عصف سے اسم فاعل ہے اور عصف الزرع بعصف عصفا کے معنے ہیں جزہ قبل ان یدرک کھیتی کو پکنے سے پہلے ہی کاٹ لیا۔ الریح تعصف عصفا وعصوفا۔ اشتدت۔ ہوا کے لئے جب عصف کا لفظ استعمال ہو تو اس کے معنے ہوتے ہیں ہوا تیزی سے چلی۔ عصف فلان عیالہ کسب لھم اپنے اہل و عیال کے لئے کمایا۔ عصف الحرب بالقوم ذھبت بھم واھلکتہم۔ لڑائی نے قوم کو تباہ و برباد کر دیا۔ اور عصف الدھر بھم بھی انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے کہ زمانے نے ان کو ہلاک کر دیا۔ الناقۃ براکبھا کے معنے ہیں اسرعت السیر کانھا الریح۔ اونٹنی اپنے سوار کو تیزی سے لے کر چلی۔ گویا کہ وہ ہوا ہے۔ الشئی مال چیز کے متعلق آئے تو اس کے معنے جھکنے کے ہوتے ہیں۔ الرجل اسرع آدمی کے لئے یہ لفظ آئے تو اس کے معنے جلدی کرنے کے ہوتے ہیں۔ اور عاصف کے معنے المائل من کل شیء کے بھی ہوتے ہیں یعنی ہر چیز کا مائل حصہ۔ یوم عاصف کے معنے تعصف فیہ الریح کے ہیں یعنی وہ دن جس میں ہوا بہت سے چلے اور یہاں اسم فاعل کا صیغہ بمعنی اسم مفعول استعال ہوا ہے اور اس کی جمع عواصف آتی ہے۔ (اقرب)
تفسیر
کفروا بربھم سے مراد یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا انکار کیا۔ کیونکہ وہ لوگ تو اللہ تعالیٰ پر یقین رکھتے تھے۔ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا انکار یا اس کی طاقتوں کا انکار ہے۔ بہت سے لوگ دنیا میں ایسے ہوتے ہیں کہ خداتعالیٰ کو مانتے ہیں لیکن اس کا دخل دنیا میں نہیں مانتے۔ جیسے کہ اس زمانہ کے مغربی تعلیم پائے ہوئے لوگ ہیں۔ انہی سے ننانوے فی صدی بلکہ زیادہ اگر خدا تعالیٰ کو مانتے بھی ہوں تو بھی اس امر کو نہیں مانتے کہ وہ اس دنیا کے معاملات میں کوئی دخل دیتا ہے۔ اس لئے ان کے سب کام دنیا یا نفس کے لئے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے یا اس کے خوف کے سبب سے نہیں ہوتے۔ ایسے لوگوں کی نسبت فرماتا ہے کہ ان کے اعمال کوئی روحانی فائدہ نہیں دیتے۔ روحانیت یا آخرۃ کے لحاظ سے وہ ایسے ہی بیکار ہیں جیسے کہ وہ راکھ جس پر آندھیوں کے موسم میں تیز آندھی چلی ہو۔ جیسے متواتر اور شدید آندھی کے سبب سے اس راکھ کا نام و نشان تک بھی باقی نہیں رہتا اسی طرح ان لوگوں کے اعمال آخرت کے لحاظ سے باطل ہوتے ہیں۔ کیونکہ جو کام دنیا کے لئے کیا گیا ہو اس کا فائدہ دنیا تک ہی محدود رہ سکتا ہے اور یہ بالکل انصاف کے مطابق ہے۔ کیونکہ عمل کا طبعی نتیجہ تو وہ ہے جو اس کے بعد قاعدہ کے طور پر مترتب ہوتا ہے۔ اور وہ نتیجہ کا فر و مومن ہر شخص کو مل جاتا ہے۔ جو شخص غریبوں کی خبرگیری کرتا ہے غرباء اس کی خدمت کرتے اور بوقت ضرورت اس کے لئے جان تک دے دیتے ہیں۔ جو سچ بولتا ہے لوگ اس کا اعتبار کرتے ہیں اور ہزاروں مواقع پر اس اعتبار کی وجہ سے وہ فائدہ اٹھاتا ہے۔ پس جب طبعی نتیجہ انسان کو مل گیا پھر اس کا کوئی حق باقی نہیں رہتا۔ لیکن جو شخص نیکی خداتعالیٰ کے لئے کرتا ہے اس کے ظاہری عمل کے ساتھ ایک اور عمل اخلاص باللہ کا بھی شامل ہو جاتا ہے اور ظاہری نتیجہ کے نکلنے کے باوجود اس عمل کے صلہ کا وہ مستحق رہ جاتا ہے۔ اور اسی کو اخروی ثواب کہتے ہیں۔ یہ ثواب چونکہ عمل کا نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ عمل کے ساتھ کے اخلاص باللہ کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا مستحق وہی شخص ہوسکتا ہے جس کے اعمال اپنے ساتھ ابتغائً لوہ اللہ کا عمل بھی رکھتے ہوں۔ یعنی نیک کام کے ساتھ خداتعالیٰ کی رضاء کے حصول کی خواہش بھی شال ہو۔ اور جس کے عمل کے ساتھ یہ امر نہ ہو اس کا بس اتنا ہی بدلہ تھا جو اسے دنیا میں مل گیا۔
دوسرے معنے آیت کے یہ ہیں کہ جو لوگ خداتعالیٰ کے مابلہ میں کوششیں کتے ہیں ان کی کوششیں ضائع ہو جائیں گی۔ بیکار ہوں گی۔ کیونکہ مسبب الاسباب تو اللہ تعالیٰ ہے۔ تمام اسباب اسی نے پیدا کئے۔ پھر وہ ان اسباب کو کس طرح کامیاب کرسکتا ہے جو خود اس کے دین کے خلاف ہوں۔ مگر اس امر کے متعلق یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ عارضی خوشیاں الہ تعالیٰ اپنے دین کے دشمنوں کو بھی پہنچا دیتا ہے اور عارضی اور وقتی فتوحات انہیں بھی ملتی رہتی ہیں جن کا مقصد ایک تو نصرت الٰہی کو چمکا کر دکھانا ہوتا ہے دوسرے اس وقفہ سے نیک لوگوں کے لئے توبہ کا موقعہ بھی مہیا کیا جاتا ہے۔
ذالک ھوالضلال البعید۔ یعنی اس سے زیادہ ہلاکت کیا ہوگی کہ انسان محنت کرے لیکن اس کا پورا فائدہ نہ اٹھائے۔ یا وہ محنت الٹی اس کے خلاف پڑے۔
۲۰؎ حل لغات
ان یشا یذھبکم الذھاب۔ المسضی۔ ذھاب کے معنے ہیں چلے جانا۔ وقال ان یشا یذھبکم کنایۃ عن الموت۔ آیت ان یشا یذھبکم میں ہلاک کرنے کے معنے مراد ہیں یعنی اگر وہ چاہے تو تمہیں ہلاک کر دے۔ (مفردات)
تفسیر
یعنی دنیا کی پیدائش بیکار نہیں۔ پس ایسے لوگ جو اپنے عمل سے اسے بے کار بنارہے ہیں انہیں خداتعالیٰ اس دنیا پر کب حکومت دے سکتا ہے۔ کیونکہ ان کا وجود تو پیدائش عالم کی غرض کو باطل کررہا ہے۔ پس انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ وہ خطرہ کے مقام میں ہیں۔ اور یہ بھی انہیں نہ سمجھنا چاہے کہ انہیں کوئی شخص اپنے مقام سے ہٹا نہیں سکتا کیونکہ ان کا کوئی قائم مقام نہیں ہوسکتا۔ خداتعالیٰ ایسا کرسکتا ہے کہ انہیں ہلاک کرکے دوسرے لوگوں کو ان کی جگہ لے آئے۔ دوسرے لوگوں سے اس جگہ نبیوں کی جماعت مراد ہے۔ اور صرف یہ بتانا مقصود نہیں کہ وہ ایسا کرسکتا ہے بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایسا نہ سمجھیں کہ ان کا قائم مقام نہیں مل سکتا۔ ان کا بہتر قائم مقام تیار ہورہا ہے۔
۲۱؎ حل لغات
عزیز۔ یقال عز علی کذا۔ ای صعب۔ عز علی کذا کے معنے ہیں کہ یہ کام مجھ پر مشکل ہو گیا۔ (مفردات) وما ذلک علی اللہ بعزیز کے معنے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے یہ کوئی مشکل بات نہیں۔
تفسیر
دنیا کا عجب حال ہے۔ جب کوئی قوم کمزور ہوتی ہے تو کہتی ہے کہ اب ہمارا بڑھنا ناممکن ہے اور جب کوئی قوم ترقی کر جاتی ہے تو کہتی ہے کہ اب ہمارا ہلاک ہونا ناممکن ہے۔ حالانکہ لوگ ہر زمانہ میں دیکھتے ہیں کہ کمزور اقوام ترقی کر گئیں اور زبردست، زیردست ہو گئیں۔ اس آیت میں اسی غلط فہمی کو دور کیا گیا ہے۔ ہزاروں دفعہ اللہ تعالیٰ نے گری ہوئی قوموں کو ترقی دی ہے اور ہزاروں دفعہ ترقی یافتہ قوموں کو قعرِمذلت میں گرایا ہے۔
۲۲؎ حل لغات
مغنون۔ اغنی سے ہے اور اغنی عنہ کے معنے ہیں اجزأہ۔ اس سے کفایت کی۔ اس کی تکلیف خود اٹھا کر اس کو بچا لیا۔ اور جب مایغنی عنک ھذا بولا جاے تو اس سے یہ معنے مراد ہوتے ہیں مایجذیک کہ یہ بات تجھے کوئی فائدہ نہیں دے سکتی۔ (اقرب) پس ھل انتم مغنون عنا کے معنے ہوں گے کہ کیا تم ہمارے عذاب اٹھا کر ہم کو عذاب سے بچا سکتے ہو۔ یا ہمیں کچھ فائدہ دے سکتے ہو۔ محیص۔ عاص بحیص کا مصدر ہے اور حاص محیصا کے معنے ہیں عدل وحاد۔ بچاؤ کرکے ایک طرف ہو گیا۔ المحیص۔ المحید۔ ایک طرف بچاؤ کی جگہ۔ بچاؤ المھرب۔ بھاگنے کی جگہ (اقرب) مالنا من محیص کے معنے ہوں گے ہمارے لئے بھاگنے کی کوئی صورت نہیں۔ کوئی بچاؤ کی صورت نہیں۔
تفسیر
اس آیت میں ماضی کے صیغے استعمال کئے گئے ہیں لیکن ترجمہ مستقبل کا کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گو لفظاً ماضی کے صیغے استعمال ہوئے یں لیکن مراد آئندہ زمانہ سے ہے کیونکہ یہاں ذکر عذاب کا ہے اور عذاب آئندہ آنے والا تھا۔ ابھی تک آیا نہ تھا۔ ماضی کے صیغے اس امر پر زور دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے استعمال کئے ہیں کہ وہ دن ضرور آئے اور یہ نظارہ ضرور دنیا کو دیکھنا پڑے گا۔ عربی کا محاورہ ہے کہ جب کسی مستقبل کے امر کے یقینی ہوے پر زور دینا ہو تو ماضی کے صیغے استعمال کئے جاتے ہیں۔ قرآن کریم میں اس کی مثالیں کثرت سے پای جاتی ہیں۔ اردو میں بھی اس قاعدہ کا وجود ملتا ہے۔ اگر کسی شخص کی آمد کی انتظار ہو اور کوئی شخص گھبراہٹ کا اظہار کرے تو منتظر شخص کے رشتہ دار یا دوست کہہ دیتے ہیں بس جی وہ آہی گیا ہے۔ یعنی اب اس کے آنے میںکوئی دیر نہیں اور اس کا آنا یقینی ہے۔
مطلب آیت کا یہ ہے کہ جب خداتعالیٰ کا منشاء تباہ کرنے کا ہوگا سب اس کے سامنے نکل کھڑے ہوں گے۔ یعنی ان کی اندرونی کمزوریاں باطنی نقائص ظاہر ہونے لگیں گے۔ قوموں کی تباہی کے متعلق یہ نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ قومیں اس قدر اپنی کمزوریوں کی وجہ سے تباہ نہیں ہوتیں جس قدر کہ ان کمزوریوں کے ظاہر ہونے کے سبب سے۔ جب تک ان کی کمزوریوں پر پردہ پڑا رہتا ہے باوجود کمزوریوں کی موجودگی کے وہ بڑھتی جاتی ہیں۔ کیونکہ لوگ ان سے مرعوب ہوتے ہیں۔ جب ان کی کمزوریاں ظاہر ہو جاتی ہیں تو پھر باوجود پورا زور لگانے کے وہ گرنا شروع ہو جاتی ہیں۔ گویا کام اتنا کام نہیں آتا جس قدر کہ نام۔ اس آیت میں اسی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے عیب کو ظاہر کر دے گا۔ ورنہ خداتعالیٰ تو ہر بات کو ہر وقت ہی جانتا ہے۔
فقال الضعفاء یعنی جب قوم گرنے لگے گی تب کمزور طاقتوں سے کہیں گے کہ اب ہماری حفاظت کرو۔ کہ ہم تو تمہارے پیچھے اور تمہارے کہنے پر چلتے تھے۔ مگر طاقتور کہیں گے کہ ہمیں خود کوئی راستہ نہیں ملتا۔ ساری تدبیریں بے کار جارہی ہیں۔ ہم تمہاری مدد کیا کریں۔ اس لئے صبر ہی کرو۔ اس میں پھر قومی تباہی کا ایک سبب بتایا ہے۔ جس قوم نے زندہ رہنا ہوتا ہے وہ گرتے گرتے بھی کوشش کو جاری رکھتی ہے۔ مگر جس قوم نے ہلاک ہونا ہوتا ہے وہ صبر کرکے خاموش ہو جانے کافیصلہ کرلیتی ہے۔ اور اپنی حالت پر راضی ہو جاتی ہے۔ حالانکہ صحیح صبر کا یہ مقام نہیں۔ صبر تو بری حالت سے بچنے کا نام ہے نہ کہ اس پر راضی ہو جانے کا۔
اس ا ٓیت میں اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ عذاب سے پہلے لوگ ایک دوسرے کو جرم کی ترغیب دیتے رہتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ ڈرو نہیں ہم ذمہ دار ہیں۔ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ تو پھر تم کو کسی کا کیا ڈر۔ لیکن جب خدا کا عذاب آتا ہے تو پھر کوئی بھی ساتھ نہیں دیت۔ یہی حال دنیوی جرائم کا ہے۔ بعض لوگ کسی کو قتل کا مرتکب بنا دیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں ہم تمہیں بچائیں گے۔ لیکن جب وہ مجرم پکڑا جاتا ہے تو پھر بھلا کون ہے جو یہ کہے کہ مجھے پکڑ لو۔ اس وقت کوئی اپنے آپ کو اس کی جگہ پیش نہیں کرتا۔
۲۳؎ حل لغات
الحق کے لے دیکھیں حل لغات سورۃ رعد ۱۵؎۔ اخلفتکم:- اخلفہ ما وعدہ کے معنے ہیں قال اشیئا ولم یفعلہ۔ کسی بات کے کرنے کا وعدہ کیا۔ اور پھر اسے پورا نہ کیا۔ فلانا وجد موعہ خلفا۔ اخلف فلانا کے معنے ہیں ہ اس کے وعدوں میں اختلاف پایا۔ (یعنی جھوٹے وعدے ہوتے ہیں۔ کبھی کچھ کبھی کچھ) اخلف الغیث۔ اطمع فی النزول ثم نقص بارش پہلے اترتی ہوئی معلوم ہوئی پھر نہ اتری۔ اخلف الدواء فلانا اضعفہ۔ دوا نے کمزور کر دیا۔ (اقرب) پس اخلفتکم کے معے ہوں گے کہ میں نے تم سے وعدہ کرکے اسے پورا نہ کیا (۲) میں نے تمہیں جھوٹے وعدے دے دے کر غافل رکھا اور کمزور کر دیا۔
المصرخ:م اصرخ سے اسم فال ہے اور اصرخ فلان کے معنے ہیں اغاثہ واغاثہ۔ اس کی فریاد سنی اور اس کی مدد کی۔ اور جب یہ محاورہ بولیں استصرختی فاصرختہ تو اس کے معنے ہوں گے استغاث بی فاغثتہ۔ کہ اس نے میری مدد چاہی۔ا س پر میں نے اس کی مدد کی۔ وقیل الھمزۃ للسلب۔ بعض کہے ہیں کہ اصرع کا ہمزہ سلب کے لے ہے اور اصرخ کے معنی ہیں ازلت صراخہ یعنی اس کی چیخ و پکار اور فریاد کو دور کر دیا۔ (اقرب ) اور چونکہ یہ مصیبت دور کرنے سے ہوتا ہے اس لئے اصرخ کے معنے مدد کرنے کے ہو گئے۔ پس آیت ما انا بمصرخکم واما انتم بمصخی کے معنے ہوں گے نہ میں تمہاری مدد کرسکتا ہوں اور نہ تم میری مدد کرسکتے ہو۔ (۲) نہ میں تمہاری چیخ و پکار کو دور کر سکتا ہوں نہ تم میری چیخ و پکار کو دور کرسکتے ہو۔
تفسیر
شیطان یا شیطانی لوگ عذاب کے وقت اپنے آلۂ کار سے برأت ظاہر کرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ ہمارا تجھ پر کیا زور تھا۔ تمہارے اپنے اندر گند تھا۔ اس لئے تم نے ہماری بات مانی اگر تمہارے اندر نیکی ہوتی اور تم نہ مانتے تو ہم کیا تم کو مجبور کرسکتے تھے۔
اور یہ بات درست بھی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شیطان یا اس کے اظلال جو دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں انہیں انسان پر کوئی اختیار نہیں۔ وہ و ایک ذریعہ ہیں انسانی کمزوری کے اظہار کا۔ جس طرح فرشتے ذریعہ ہیں اس کی اچھی طاقتوں کے اظہار کا۔ مگر گمراہ کرنے والا خود انسان کا نفس ہے۔ شیطان کا کام صرف اشارہ کرنا ہے۔ جیسے فرشتے نیکی کی طرف اشارہ کرت ہیں۔ شیطان بدی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس کی مثال تو استاد کی سی ہے۔ کہ وہ شاگرد کے سامنے امتحان کیو قت مشکل سوال پیش کتا ہے لیکن کوئی نہیں کہتا کہ استاد نے شاگرد کو فیل کیا۔ فیل تو طالب علم اپنی کمزوری کے سبب سے ہوتا ہے۔ استاد تو صرف اس کی لیاقت کے معیار کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی طرح فرشتے انسان کی نیکی کے معیار کو اور شیطان بی کے معیار کو ظاہر کرتے ہیں۔ نہ کہ نیک و بد بناتے ہیں۔
فلا تذومکونی ولوموا انفسکم۔ یعنی تم نے ہمیشہ خداتعالیٰ کے وعدے پورے ہوتے دیکھے۔ مگر انہیں قبول نہ کیا۔ میری طرف سے تمام جھوٹے ہی وعدے ہوے اور تم نے ان کو مان لیا۔ تو بتاؤ اس میں میرا کیا قصور ہے۔
انی کفرت بما اشرکتمون من قبل۔ یہ لطیفہ ہے کہ شیطان توحید کا دعویدار ہے اور کہتا ہے کہ تم مجھے خدا تعالیٰ کا شریک بناتے تھے اور میں منکر تھا اور یہ ہے بھی درست۔ وہ شیطان جو انسانی کمزوریوں کو ظاہر کرنے پر مؤکل ہے وہ تو اپنا فرض ادا کررہا ہے اور خداتعالیٰ کا جلال اس کے سامنے ہے۔ وہ شرک کس طرح کرسکتا ہے۔ شرک تو تب پیدا ہوتا ہے جب انسان شیطانی تحریک کو اپنے اندر لے کر اسے نافرمانی کی شکل میں ڈھال دیتا ہے۔ سنکھیا جب تک انسان کے پیٹ میں نہیں جاتا۔ ایک قیمتی دوا ہے جب انسان اس کا غلط استعمال کرتا ہے تو وہ زہر قاتل بن جاتا ہے۔ یہی مثال شیطان کی ہے۔ انسان کے اندر داخل ہونے سے پہلے وہ ایک امتحان کا سوال ہے اور کچھ بھی نہیں۔
بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ پھر شیطان دوزخ میں کیوں جائے گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ شیطان کی نسبت آتا ہے خلقنی من نار۔ مجھے تو نے (یعنی اللہ تعالیٰ نے) آگ سے پیدا کیا ہے۔ پس جو چیز آگ سے پیدا ہے آگ میں جانا اس کے لئے عذاب تو نہیں۔ ایک انگارہ کو اگر چولہے میں ڈال دو تو اسے کیا عذاب ہے۔ صوفیاء کا عام طور پر اسی طرف رجحان ہے کہ شیطان کے اظلال تو عذاب پائیں گے لیکن خود شیطان نہیں۔ کیونکہ وہ تو ایک امتحان لینے والی طاقت ہے اور فرض ادا کررہی ہے۔
۲۴؎حل لغات
الاذن کے معنے ہیں الاجازۃ۔ اجازت۔ الارادۃ۔ ارادہ۔ العلم۔ علم۔ (اقرب) التحیۃ کے معنے ہیں۔ السلام۔ سلامتی۔ البقاء۔ بقاء۔ السلامۃ۔ من الافات۔ آفات سے سلامتی۔ التحیۃ من اللہ۔ الاکرام والاحسان جب اللہ تعالیٰ کے لے یہ لفـظ بولا جائے تو اس کے معنے اکرام اور احسان کے ہوتے ہیں۔ (اقرب)
تفسیر
باذن ربھم کے مفسرین نے یہ معنے کئے ہیں کہ جنت کا ملنا اس کی رحمت اور فضل سے ہے نہ کہ استحقاق سے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ کوئی بات بیان فرمائی تو حضرت عائشہؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ تو اپنے اعمال کے زور سے جنت میں جائیں گے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں عائشہ میں بھی خدا کے فل سے ہی جنت میں جاؤں گا۔ (بخاری جلد رابع کتاب ) اصل بات یہ ہے کہ ہمارے اعضاء اور قویٰ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہیں۔ پس ہمارے اعمال بھی اسی کے فل سے پیدا ہوئے۔ کیونکہ انہیں اسی کی دی ہوئی طاقتوں سے ہم بجا لاتے ہیں۔ پس اعمال کے بدلہ میں جو کچھ ملتا ہے وہ محض فضل ہے۔ اس پر کسی کا حق نہیں۔
۲- میرے نزدیک اس آیت کے ایک اور معنے بھی ہیں اور وہ یہ ہیں کہ مومن جنت نہیں چاہتا۔ وہ تو صرف خداتعالیٰ کا قرب چاہتا ہے۔ وہ اگر جنت میں رہے گا تو صرف خداتعالیٰ کے حکم سے رہے گا۔ ان معنوں کی ایک حدیث سے بھی تائید ہوتی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ نیک اعمال کرنے والے تین قسم کے ہیں۔ بعض ایسے ہیں جو جنت کی خاطر نیک عمل کرتے ہیں۔ بعض ایسے ہیں جو جہنم سے بچنے کے لئے نیک اعمال کرتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو محض خداتعالیٰ کی خاطر نیک اعمال کتے ہیں۔ پس ایسے لوگوں کے لئے جنت ایک زائد چیز ہے نہ کہ مقصود۔
تحیتہم فیہا سلام (۱) ان کی دعا آس میں سلام ہوگی۔ یعنی وہ آپس میں ایک دوسرے کو سلام کہیں گے۔ (۲) یا یہ کہ ہر ایک دوسرے کے ش سے کلی طور پر محفوظ ہوگا۔ (۳) ان کو وہاں بہترین تحفہ سلام کا ملے گا۔ یعنی ملائکہ کی طرف سے یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو سلامتی کے تحفے ملیں گے۔ یعنی ملائکہ تقویٰ کی باریک طاقتوں کو ابھاریں گے اور اللہ تعالیٰ ان پر خاص فل نازل کرے گا۔
۲۵؎ حل لغات
ضرب بیدہ کے معنے ہیں اصابہ وصدمہ بھا۔ اس کو ہاتھ سے مارا۔ ضرب بالسوط کے معنے ہیں جلدہ۔ اس کو کوڑے سے مارا۔ (اقرب)
المثل کے معنے ہیں الشبہ واتظیر۔ مشابہ۔ الصفۃ بیان۔ الحجۃ۔ دلیل۔ یقال اقام لہ مثلا ای حجۃ اقام لہ مثلا کہہ کر مثل سے مراد دلیل لیتے ہیں۔ الحدیث عام بات۔ القول السائر ضرب المثل العبرۃ عبرت۔ الایۃ۔ نشان۔ (اقرب)
اور ضرب لہ مثلا کے معنے ہیں وصفہ وقالہ وبینہ مثل کو بیان کیا۔ا ور اچھی طرح سے واضح کیا۔ پس ضرب اللہ مثلا کے معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کلمہ طیبہ اور کلمہ خبیثہ کی مثال کو خوب کھول کر بیان کر دیا ہے تاکہ کلمہ طیبہ اور کلمہ خبیثہ کی حقیقت اچھی طرح سمجھ میں آ جائے۔
طیبۃ۔ طاب میں سے صفت مشبہ کا صیغہ ہے اور طیب کا مؤنث ہے۔ اور طاب الشئی یطی طابا و طیبا وطیبۃ وطبیانا کے معنے ہیں لذوزکی و حسن وعلی وجل وجاد۔ کوئی چیز لذیذ پاکیزہ خوبصورت شیریں شاندار خوبیوں میں بڑھی ہوئی ہوں گی۔ اور طابت الارض کے معنی ہیں اکلات زمین گھاس سے ہری بھری ہو گئی۔ طابت النفس انبسط وانشرحت جی خوش ہو گیا۔ اور طاب العیش لفلان کے معنے ہیں فارقتہ المکارہ۔ تکالیف دور ہو گئیں۔ طابت نفسی علیہ کے معنے ہیں وافقھا کہ میرے دل نے اس سے موافقت کی اور طیب کے معنے ہیں ذوالطیبۃ پاکیزگی والا۔ (اقرب) پس کلمۃ طیبۃ کے معنے ہوں گے ایسا کلام جو اعلیٰ ہو۔ پڑھنے والا ہو۔ عمدہ ہو۔ خوشی پیدا کرنے والا ہو۔ فطرت انسانی کے موافق ہو۔
تفسیر
یہ آیت ان آیات میں سے ہے جن کی تفسیر کرکے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نہ صرف ان آیات کو حل کر دیا ہے بلکہ دوسری آیات کے لے حل کرنے کا گر بھی ہمارے ہاتھوں میں دے دیا ہے۔ مگر پیشتر اس کے کہ میں اس کی تفسیر کروں کلمۃ طیبۃ کا اعراب بتا دینا چاہتا ہوں۔ نحویوں نے کلمۃ کا اعراب دو طرح بیان کیا ہے۔ بعضوں نے کلمۃ کو مثلاً کا بدل قرار دیا ہے۔ اس لحاظ سے ترجمہ یوں ہوگا کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیان کی ہے ایک مثلا یعنی کلمہ طیبہ کی۔ یہ معنے ابوالبق نے کئے ہیں۔ ابن عطیہ اور زمخشری کہتے ہیں کہ ضرب جب مثلا کے ساتھ استعمال ہوتا ہے تو یہ بھی جعل کی طرح دو مفعول چاہتا ہے۔ اس بناء پر انہوں نے کلمۃ کو مفعول اول قرار دیا ہے اور مثلاً کو مفعول ثانی اور کشجرۃ کو مبتدا محذوف کی خبر بنایا ہے۔ یعنی ھی کشجرۃ طیبۃ تو ان کے نزدیک ترجمہ یہ ہوا کہ کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح کلمہ طیبہ کو مثالی طور پر واضح کرکے بیان کیا ہے کہ وہ ایک شجرہ طیبہ ہے جس کی جڑھ قائم ہے اور اس کی شاخیں آسمان میں یا بلندی میں پھیلی ہوئی ہیں۔
اب میں اس آیت کی تفسیر بیان کرتا ہوں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کلمہ طیبہ کی حقیقت بیان کی ہے۔ یعنی اس کلام الٰہی کی جو تازہ اور پاکیزہ ہو اور انسانی دست برد سے پاک ہو اور اس کا موقعہ یہ تھا کہ پہلی آیات میں شیطانی راہوں پر چلنے والوں کے لئے تباہی کا ذکر فرمایا تھا ور ایمان لانے والوں کے لے جنات اور انعامات کا۔ اس ذکر سے قدرتی طور پر انسان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ میں وہ راہ اختیار کروں جو عذاب سے بچانے والی اور نعمتوں کا وارث بنانے والی ہو۔ لیکن ساتھ ہی یہ خیال بھی آتا ہے کہ اس سورۃ میں یہ ذکر موجود ہے کہ مختلف اوقات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی آئے ہیں۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض نبی بعض کے کلام کو منسوخ کرنے والے تھے۔ پس جب خداتعالیٰ کا بعض کلام بعض دوسرے کلام کو منسوخ کر دیتا ہے تو انسان کس طرح معلوم کرے کہ فلاں خدائی کلام تو تازہ اور مصفیٰ ہے اور فلاں تازہ اور مصفیٰ نہیں۔ یا کس طرح معلوم کرے کہ فلاں تعلیم تو خداتعالیٰ کی طرف سے ہے اور دوسری نہیں۔ کوی ایسا معیار چاہے جس سے تازہ اور قابل عمل کلام دوسرے منسوخ شدہ کلام سے اور انسان کے بنائے ہوے اصولوں سے ممتاز ثابت ہو۔ سو وہ معیار اس آیت میں بیان کیا گیا ہے جس کے ذریعہ سے انسان بہ سہولت اس کلام الٰہی کی صداقت کو معلوم کر لیتا ہے۔ جو تازہ بتازہ اور اپنے زمانہ کے لئے قابل عمل ہوتا ہے۔
فرماتا ہے کلمۃ طیبۃ یعنی تازہ محفوظ اور نہ بگڑے ہوئے کلام الٰہی کی مثال شجرہ طیبہ کو سمجھ لو کہ (۱) وہ طیب ہو۔ یعنی ظاہی صورت اچھی ہو۔ (۲) اس کی جڑھ مضبوط گڑی ہوئی ہو۔ (۳) اس کی شاخیں آسمان میں پھیل رہی ہوں۔ (۴) اور وہ اپنا پھل ہر وقت دے رہا ہو۔ (۵) اور یہ پھل دینا اللہ تعالیٰ کے اذن کے ماتحت ہو۔
یہ پانچ علامات ہیں جو ایک تازہ اور ملاوٹ سے پاک کلام میں ہونی چاہئیں۔ اگر یہ علامات کسی کلام میں پائی جائیں تو وہ اس زمانہ کے لے قابل عمل ہے اور س زمانہ کے لوگوں کے لئے ہدایت نامہ ہے۔ لیکن اگر یہ اور کسی کتاب یا کلام الٰہی کہلانے والے صحیفہ میں پائے جائیں تو وہ یا تو منسوخ شدہ کلام الٰہی ہے یا انسانی بناوٹ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے منزل نہیں ہے۔
اب میں الگ الگ سب علامتوں کو لیتا ہوں۔ پہلی علامت یہ بتائی ہے کہ وہ طیب ہو۔ طیب کے معنے ہیں (ا) برائی عیب اور نقصان سے محفوظ شے۔ (ب) خوبصورت (ج) جو طیب والا ہو۔ اور طیب کے معنے ہیں (ا) لذیذ (۲) پاکیزہ (۳) خوبصورت (۴) شیریں (۵) شاندار (۶) خوبیوں میں بڑھا ہوا۔ پس خداتعالیٰ کی طرف سے قابل عمل کلام وہ ہے جو اچھے درخت کی طرح ضرر اور نقصان سے محفوظ ہو۔ یعنی اس میں ایسی باتیں نہ ہوں جو انسانی روح یا انسانی شرافت یا انسانی احساسات و جذبات کے خلاف ہوں۔ دوسرے یہ کہ وہ خوبصورت ہو اور اس میں دلکشی اور جذب کے سامان ہوں۔ تیسرے اس پر عمل کرنے والا لذت اور سرور حاصل کرے۔ چوتھے اس میں حلاوت ہو۔ پانچویں وہ شاندار ہو۔ چھٹے وہ دوسروں سے خوبیوں میں بڑھا ہوا ہو۔
دوسری علامت یہ بتائی ہے کہ اس کی جڑھ مضبوط ہو۔ درخت کی جڑھ کے مضبوط ہونے سے ایک تو یہ مراد ہوتی ہے کہ درخت زندہ ہے اور زمین سے غذا لے رہا ہے۔ اسی طرح تازہ کلام الٰہی ہر وقت اللہ تعالیٰ سے اپنی غذا لے رہا ہوتا ہے۔ جو کلام منسوخ ہو جاتا ہے اس کے مضامین کی وسعت ختم ہو جاتی ہے۔ کیونکہ وہ اس لئے منسوخ ہوتا ہے کہ اب وہ بنی نوع انسان کی ضرورت کو پورا نہیں کرسکتا لیکن جو کلام قائم ہوتا ہے وہ انسانی فطرت کی سب ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اور جو ضرورت بھی انسان کو پیش آئے جھٹ اس کلام سے اسے مل جاتی ہے۔ گویا وہ ایک ایسے درخت کی طرح ہے جو زمین سے غذا لے رہا ہے اور اس سے تازہ مطالب جو زمانہ کی ضرورت کے مطابق ہوتے ہیں ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔ا س میں تو کوئی شک نہیں کہ وہ مطالب اس میں پہلے سے موجود ہوتے ہیں لیکن وقت پر ان کو ظاہر کرنا اور ضرورتوں کا اس سے پورا کرنا یہ خداتعالیٰ کا تازہ فل سے ہی ہوتا ہے۔ پس ایک رنگ میں یہ ہر وقت غذا لیتے رہنے کے مترادف ہے۔
۲- جڑھ کی مضبوطی سے ایک مراد اس کے تنے کی مضبوطی کے ہوتے ہیں۔ یعنی وہ صدمہ سے جھکتا نہیں۔ یہ بھی سچے کلام کی ایک علامت ہے کہ وہ اعتراضوں اور نکتہ چینیوں سے متاثر نہیں ہوتا بلکہ جس قدر بھی اس پر بوجھ ڈالو وہ اپنی جگہ قائم رہتا ہے اور ہر قسم کے اعتراضوں کو اور جرح کو برداشت کر لیتا ہے۔
۳- تیسرے معنی جڑھ کی مضبوطی کے ہوتے ہیں کہ وہ اپنی جگہ سے ہلتا نہیں۔ ان معنوں کی رو سے کلمہ طیبہ کی یہ علامت ہوگی کہ اس کے اصول ایسے پختہ ہوتے ہیں کہ زمانہ کے اختلاف سے بدلتے نہیں۔ زمانہ بدلتا جائے مگر اس کی تعلیم نہیں بدلتی۔ اور اپنی جگہ مضبوطی سے قام رہتی ہے۔ جب بھی کسی کلام کو بدلنے کی ضرورت محسوس ہو سمجھ لو کہ اب وہ کلام خداتعالیٰ کا تازہ کلام نہیں رہا۔ ایک سوکھا ہوا درخت ہے جس کی جڑھیں اکھڑ گئی ہیں۔
۴- وہ لمبی عم والا ہو۔ کیونکہ جن درختوں کی جڑھیں لمبی زمین میں جاتی ہیں وہ لمبی عمر پاتے ہیں۔ کلام الٰہی کی یہ بھی علامت ہے کہ وہ لمبی عمر والا ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ آج نازل ہا اور کل منسوخ ہو گیا۔ کلام الٰہی سے مراد کلام الٰہی کا اصولی حصہ ہے ورنہ یہ ہوسکتا ہے کہ بعض جزوی امور ابتلاء اور آزمائش کی غرض سے بدلائے جائیں مگر یہ امور کبھی بھی اصولی تعلیم میں سے نہیں ہوتے۔ اصولی تعلیم کبھی جلد نہیں بدلتی۔ جیسے تورات کہ گو قرآن کریم نے اسے منسوخ کیا مگر یہ دوہزار سال بعد ہوا۔ درمیان میں نبی آتے رہے مگر ان کی بعثت کی غرض تورات کو منسوخ کرنا نہ تھی۔
۵- اس کے ماننے والی اور اس پر عمل کرنے والی ایک جماعت ہو۔ جن کے اندر وہ پرورش پاکر بڑھے اور ترقی کرے کیونکہ جس طرح درخت زمین میں اپنی جڑھیں پکڑتا ہے کلام الٰہی مومنوں کے دلوں اور اعمال میں جڑھیں پکڑتا ہے۔ اگر اس پر عمل کرنیو الی کوئی جماعت نہ ہو تو اس کے آثار اور نتائج ظاہر نہیں ہوسکتے۔ پس مومنوں کی جماعت کلامِ الٰہی کے لئے بمنزلہ زمین کے ہوتی ہے اور اصلہا ثابت کے یہ معنے ہیں کہ وہ ایمان لانے والوں کے قلوب پر ایک گہرا اثر ڈالتا ہے اور ان کے اندر مضبوطی سے جڑھیں پکڑ لیتا ہے۔ یعنی وہ اس پر عمل کرتے ہیں اور اس کے کمالات کو ظاہر کرنے کا موجب ہوتے ہیں۔
۶- اس کا منبع ایک ہی ہوتا ہے۔ یعنی حیوان کی طرح اپنی غذا مختلف جگہوں سے نہیں لیتا بلکہ درخت کی طرح ایک ہی جگہ سے یعنی اللہ تعالیٰ سے غذا لکیتا ہے۔ مطلب یہ کہ انسانی کلام اور تعلیمات مختلف جگہوں سے خوشہ چینی کرتے ہیں۔ کچھ رسم و رواج سے لیا کچھ فلسفہ سے کچھ طبیعات سے کچھ رائج الوقت اصول سے اور اس وجہ سے ان تعلیمات میں باہمی اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس کے برخلاف الٰہی کلام ایک ہی منبع سے نکلا ہوا ہوتا ہے۔ جڑھیں اس کی گہری ہوتی ہیں۔ یعنی ہر معاملہ پر سیرکن بحث کتا ہے لیکن سب تعلیمات ایک ہی اصل کے ماتحت ہوتی ہیں۔ اور ان میں اختلاف نہیں ہوتا۔ا ور نیز یہ کہ تازہ الٰہی کلام انسانی امداد کا محتا نہیں ہوتا۔ سب غذا یعنی اس کی زندگی کا سامان جس سے مراد دلائل و براہین ہیں اپنی جڑھ سے ہی لیتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے جہاں سے وہ آیا ہے۔
تیسری علامت یہ بتائی تھی کہ اس کی شاخیں آسمان میں ہوتی ہیں۔ اس سے اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ
۱- اس پر عمل کرکے انسان خداتعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے کیونکہ جس درخت کی شاخیں آسمان میں پھیلی ہوئی ہوں جو شخص اس پر چڑھے گا لازماً آسمان تک پہنچ جائے گا۔ جو استعارۃً الہامی کتب میں اللہ تعالیٰ کے قرب کا مقام قرار دیا گیا ہے۔
(۲) وہ تفصیلات شریعت کو مکمل طور پر بیان کرے۔ کیونکہ آسمان میں شاخوں کے پھیلنے سے شاخوں کی بہتات اور کثرت بھی مراد ہوسکتی ہے۔ پس کلام الٰہی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ معنے ہوں گے کہ اس کلام میں ہر انسانی ضرورت کے متعلق تعلیم موجود ہو اور اخلاقی اور مذیبی کوئی ایسا مسئلہ نہ ہو جس پر اس میں بحث نہ ہو۔ گو اس نے روحانی آسمان کو اپنے پھیلاؤ سے ڈھانپ لیا ہو۔
۳- تیسری بات اس سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس کی تعلیم اعلیٰ اخلاق پر مبنی ہو۔ کیونکہ اونچی شاخوں سے مراد ایک یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کی تعلیم ادنیٰ اخلاق اور ادنیٰ امور پر مشتمل ہو بلکہ اعلیٰ مقاصد اور اعلیٰ اخلاق کی تعلیم پر مشتمل ہو۔
۴- چوتھی بات فرعہا فی السماء سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ ہر فطرتگ کے آدمی اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ کیونکہ جس درخت کی شاخیں خوب پھیلی ہوئی ہوں اس کے سایہ کے نیچے بہت سے آدمی بیٹھ سکتے ہیں۔ پس اس میں کلام الٰہی کی اس صفت کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ اس کے سلسلہ میں بہت سے لوگ آسکتے ہیں۔ یعنی مختلف فطرت اور مزاجوں کے لوگوں کو وہ آرام دینے کا موجب ہوتا ہے۔
چوتھی علامت یہ بتائی ہے کہ وہ ہر وقت اپنے پھل دے رہا ہو۔ اس سے یہ مراد ہے کہ زندہ کلام الٰہی کی (۱) یہ علامت ہوتی ہے کہ وہ ہر زمانہ میں ایسے لوگ پیدا کرتا رہتا ہے جو اس کے پھل کہلا سکتے ہیں یعنی وہ اس کا اعلیٰ نمونہ ہوتے ہیں۔ اور انہیں کلام کے اعلیٰ ہونے کی مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔
۲- دائمی نجات اس سے حاصل ہو۔ کیوکہ جس طرح تؤتی اکلہا سے یہ مراد ہے کہ ہر وقت کامل انسان پیدا کرتا ہے اسی طرح یہ بھی کہ انسان ہمیشہ اس سے پھل کھاتا ہے اور ہمیشہ پھل تبھی کھا سکتا ہے جبکہ ہمیشہ کی پاکیزہ حیات انسان کو حاصل ہو۔
پانچویں علامت شجرہ طیبہ کی یہ بای کہ وہ اپنے پھل باذن ربہا دیتا ہے۔ یعنی اس کے اعلیٰ پھل طبعی نہیں ہوتے بلکہ اذن الٰہی سے ہوتے ہیں۔ کلام الٰہی کے درخت کو اس طرح عام درخت سے ممیز کر دیا گیا ہے۔ کیونکہ عام درخت قوانین طبعیہ کے ماتحت پھل دیتا ہے لیکن شجرہ طیبہ ایک ایسا درخت فرض کیا گیا ہے کہ جو پھل تو دے لیکن وہ پھل خاص حکم کے ماتحت ظاہر ہوں۔ ان کا ظہور الٰہی منشاء کے ماتحت ہو۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ کلام الٰہی کے نتائج صرف طبعی نہیں ہوتے بلکہ شرعی بھی ہوتے ہیں۔ مثلاً سچ بولتا ہے اس کا ایک طبعی پھل ہوگا کہ لوگوں میں سچے آدمی کا وقار بڑھے گا لیکن اس کا ایک پھل شرعی ہوگا کہ ایسا انسان خداتعالیٰ کے خاص فضلوں کا وارث ہوگا۔ نماز ہے۔ اس کا ایک ظاہری پھل تو یہ ہوگا کہ اطاعت اور نظام قومی کی تعلیم ہوگی لیکن ایک اس کا شرعی پھل ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی رؤیت ایسے شخص کو حاصل ہوگی اور وہ اس کا قرب پائے گا۔
یہ علامت شجرہ طیبہ کی جو قرآن کریم نے بیان کی ہیں تازہ کلام الٰہی کی جو مصفیٰ اور زندہ ہو ایسی بین تشریح کر دیتی ہیں کہ سچے اور جھوٹے کلام میں فرق کرنے میں کوئی مشکل ہی باقی نہیں رہتی۔ چنانچہ جب ہم ان علامات کی روشنی میں قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو ہر علامت اس میں ایسے حیرت انگیز طور پر پائی جاتی ہے کہ بلید سے بلید آدمی بھی اس امر کو تسلیم کرنے سے رک نہیں سکتا کہ یہ کلام اپنے اندر بے نظیر خوبیاں رکھتا ہے اور فوق العادت طاقتیں اس میں پائی جاتی ہیں۔ اس حد تک کہ نہ کوئی انسانی کلام اور نہ سابقہ آسمانی کتب اس سے ان امور میں برابری کرسکتی ہیں۔
ایک مختصر تفسیر میں ان امور کی تفصیلات بیان کرنے کا تو موقعہ نہیں مل سکتا لیکن اختصاراً میں ان امور کو قرآن کریم پر چسپاں کرکے بتاتا ہوں کہ یہ سب علامات قرآن کیم میں ایسے اعلیٰ اور اکمل طور پر پائی جاتی ہیں کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
سب سے پہلے میں طیبۃ کے لفظ میں جن خوبیوں کی طرف اشارہ ہے انہیں لیتا ہوں۔ طیبۃ کا لفظ جس چیز کے لئے بولا جائے اس کے لے شرط ہے کہ اس میں ظاہی یا باطنی کوئی نقص نہ ہو۔ کوئی ضرر نہ ہو۔ اب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو اس کے اندر ہمیں یہ بات غیرمعمولی طور پر نظر آتی ہے کہ باوجود اس کے کہ اس میں ایسے مضامین بیان کے گئے ہیں جو نہایت نازک ہیں لیکن پھر بھی اس کی زبان نہایت اعلیٰ اور تہذیب کے انتہائی نقطہ پر قائم رہتی ہے۔ میاں بیوی کے تعلقات حیض و نفاس کا ذکر،ع ورت و مرد کی جذباتی زندگی، یہ سب ہی کچھ اس میں بیان ہے۔ لیکن ایسے عمدہ طریق سے کہ نازک سے نازک ط بیعت اس سے صدمہ محسوس نہیں کرتی۔ اس کی زبان ایسی صاف ہے کہ نہ ثقیل لفظ ہیں نہ پیچیدہ بندشیں، نہ شارانہ تخیلات بلکہ ہر مضمون کو خواہ کس قدر مشکل ہو وہ اس عمدگی سے اور ایسے سادہ لفظوں میں ادا کتا ہے کہ نہ کانوں پر اس کی عبارت گراں گزرتی ہے اور نہ دماغ اس سے پریشان ہوتا ہے۔ تعلیم ایسی سادہ اور لطیف ہے کہ اس پر عمل کرکے کسی نقصان کا خطرہ معلوم ہی نہیں ہوتا۔
دوسرے معنے طیبۃ کے یہ ہیں کہ اس کا موصوف خوبصورت ہو۔ ان معنوں کی رو سے بھی قرآن کریم سب کتب سے ممتاز نظر آتا ہے۔ اس کا ظاہری حسن ایسا نمایاں ہے کہ کوئی کتاب اس کے سامنے ٹھہر ہی نہیں سکتی۔ الفاظ کی خوبی، بندش کی چستی، محاورہ کا برمحل استعمال، عبارت کا تسلسل، مضمون کی رفعت، معانی کی وسعت، ایک سے ایک بڑھ کر خوبیاں ہیں۔ کہ انسان نہیں کہہ سکتا کہ اسے سراہے یا اس کی تعریف کرے۔ انہی عربی الفاظ سے وہ بنا ہے جو ہزاروں لاکھوں اور کتب میں استعمال ہوئے ہیں مگر کیا مجال کہ کوئی اور کتاب اس کے قریب تک پہنچ سکتی ہو۔ عرب اپنے خیالات کی نزاکت اور اپنے ادب کی بلندی اور اپنے ذخیرہ الفاظ کی کثرت ی وجہ سے سب دنیا کے لوگوں پر فوقیت رکھتے ہیں اور عرب قوم ادب کی اس قدر دلدادہ ہے کہ زور اور زر اور علو شان جیسی آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی اشیاء بھی ان کے نزدیک ادب کے مقابلہ پر ہیچ ہیں۔ وہ اپنے شاعروں کو پیغمبروں اور اپنے ادیبوں کو دیوتا سمجھنے والے لوگ جن میں ادب اور ادیب کو ترقی کرنے کا بہترین موقعہ مل چکا تھا جب قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو زبانوں پر مہر لگ جاتی ہے۔ اور آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔ باوجود اس کے کہ نزول قرآن کریم کا زمانہ ان کا بہترین ادبی زمانہ تھا یا تو عرب کے چوٹی کے ادیب قریب میں ہی گزر چکے تھے یا ابھی زندہ موجود تھے۔ وہ جب قرآن کریم کو سنتے ہیں تو بے اختیار اس کے سحر ہونے کا شور مچا دیتے ہیں۔ مگر وہی لفظ جو اس کے جھوٹا ہونے کے ثبوت کے طور پر استعمال کیا گیا تھا اسی نے ظاہر کر دیا کہ عرب کا متفقہ فیصلہ تھا کہ قرآن کریم کا حسن انسانی قوتِ تخلیق سے بالا تھا۔ انانی دماغ نے بہتر سے بہتر ادبی مقالات بنائے تھے مگر اس جگہ اسے اپنے عجز کا اعتراف کئے بغیر کوئی چارہ نہ تھا۔ فسبحان اللہ احسن الخالقین۔
اس کے مضامین کا بھی یہی حال ہے۔ ان کی بلندی ان کی وسعت، ان کی ہمہ گیری، ان کا نسانی دماغ کے گوشوں کو منور کر دینا، انسانی قلوب کی گہرائیوں میں داخل ہو جانا، نرمی پیدا کرنا تو اس قدر کہ فرعونیت کے ستونوں پر لرزہ طاری ہو جائے، جرأت پیدا کرنا تو اس حد تک کہ بنی اسرائیل کے قلوب بھی ابراہیمی ایمان محسوس کرنے لگیں۔ عفو کو بیان کرے تو اس طرح کہ عیسیٰ علیہ السلام بھی انگشت بدنداں ہو جائیں۔ سزا کی ضرورت کو ظاہر کرے تو اس طرح کہ موسیٰؓ کی روح بھی صلِ علیٰ کہہ اٹھے۔ غرض بغیر اس کے مضامین کی تفاصیل میں پڑھنے کے ہر انسان سمجھ سکتا ہے کہ وہ ایک سمندر ہے جس کا کنارہ نہیں۔ ایک باغ ہے جس کے پھلوں کا خاتمہ نہیں۔ آج تک اس کے حسن کو دیکھ کر لوگ یہ کہتے چلے جاتے ہیں کہ یہ کلام بہت سے لوگوں نے مل کر بنایا ہے مگر کیا یہ خود اقرارِ حسن نہیں۔
طیب کے تیسرے معنے لذت کے ہیں۔ قرآن کریم کی لذت کو دیکھو تو غیرمعمولی ہے۔ ہر مذہب و ملت کے لوگوں کو دیکھو وہ اپنے مذہب پر عمل کرکے بیزار نظر آتے ہیں لیکن قرآن کریم پر عمل کرنے والا کبھی اس سے بیزار نہیں ہوتا بلکہ زیادہ سے زیادہ مزہ اس سے اٹھاتا ہے۔ غرض اس میں کچھ ایسی لذت ہے کہ جو اس کا مزہ حقیقی طور پر چکھ لیتا ہے پھر اسے چھوڑنے کا نام نہیں لیتا۔
طیب کے چوتھے معنے پاکیزگی اور نمو کے ہیں۔ قرآن کریم اس میں بھی بے مثل ہے۔ جس قدر پاکیزگی کی تعلیم پر قرآن کریم میں زور ہے اور کسی کتاب میں نہیں۔ ظاہری پاکیزگی کو دیکھو تو یہ قرآن کریم ہی ہے جو اسے مذہب کا جزو قرار دیتا ہے۔ قرآن کریم سے پہلے ظاہری صفائی اور روحانیت آپس میں مخالف چیزیں سمجھی جاتی تھیں۔ مسیحی راہب اپنی غلاظت پر فخر کرتے تھے۔ ہندو سادھو اپنی بھبوت اور چپکی ہوئی جٹاؤں پر نازاں تھے مگر قرآن کریم نے پاکیزگی کے اصول کو کیسا واضح کیا؟ اس نے کس طرح دنیا کی توجہ اس طرف پھیری کہ صاف جسم سے صاف روح پیدا ہوتی ہے۔ خداتعالیٰ کی پیدا کردہ طیبات کا استعمال روح کو گندہ نہیں بلکہ پاک کرتا ہے۔ اگر خداتعالیٰ کا ولی ہی اس کی اچھی چیزوں کو پھینک دیتا ہے تو دوسرے اس کی صحیح قدر کو کب پہچاسن سکتے ہیں۔ ہاں طیب چیزوں کو طیب صورت میں استعمال کرنا ضروری ہے۔ یاایھا الرسل کلوا من الطیبت واعلموا صالحا (المؤمنون ع۲) اے رسولو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور اس کے نتیجہ میں نیک اور مناسب حال عمل کرو کہہ کر قرآن کریم نے جسم اور روح کے درمیان ایک ایسا رشتہ ظاہر کیا ہے کہ کتابوں کی جلدیں کی جلدیں اس کے بیان کرنے کے لئے ناکافی ہیں۔
طیب کے پانچویں معنے شیریں کے ہیں۔ قرآن کریم نہ صرف لذیذ ہے بلکہ شیریں ہے۔ لذت صرف انسانی رغبت پر دلالت کرتی ہے مگر شیرینی اس کی مناسبت پر بھی دلالت کرتی ہے۔ قرآنی تعلیم میں کوئی تیزی نہیں، کوئی حدت نہیں۔ نازک سے نازک دماغ اس کو بلاتکلیف کے قبول کرتا اور اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔
چھٹے معنے طیب کے شاندار کے ہیں۔ قرآنی مضمون ایسے شاندار ہیں کہ کوئی کتاب اس میں ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو اس طرح تفصیل سے بیان کرتا ہے وہ اس کی دنیا پر حکومت کو اس خوبی سے ظاہر کرتا ہے، وہ اس کے تصرف کو اس عمدگی سے ثابت کرتا ہے کہ قرآنی مضامین کو پڑھ کر انسانی روح وجد میں آجاتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ انسان سب دنیوی علائق کو توڑ کر آسمان کی طرف پرواز کرنے لگ گیا ہے۔ کونسی کتاب ہے جو اس امر میں اس کے سامنے آسکتی ہے۔ کونسا کلام ہے جو اس حسن میں اس کا مقابلہ کرسکتا ہے؟
ساتویں معنے طیب کے خوبیوں میں بڑھے ہوئے ہونے کے ہیں۔ اوپر کے مطالب سے ہر شخص معلوم کرسکتا ہے کہ قرآن کریم ہر کتاب پر خواہ وہ الہامی ہو خواہ انسانی اس قدر فوقیت رکھتا ہے کہ وہ کتب کسی اور عالم کی معلوم ہوتی ہیں اور قرآن کریم کسی اور عالم کا۔
دوسری علامت کلمۃ طیبۃ کی یہ بتائی گئی تھی کہ اصلہا ثابت اس کی جڑھ مضبوط ہے اور اس علامت کی تشریح میں میں نے چھ باتیں بتائی تھیں۔ جن کو اگر قرآن کریم کے متعلق دیکھا جائے تو وہ سب کی سب اس میں بدرجۂ اتم پائی جاتی ہیں۔
اول قرآن کریم ایک زندہ کتاب ہے یعنی جس طرح زندہ درخت جس کی جڑھیں زمین میں پھیل کر ہر وقت غذا لے رہی ہوتی ہیں تازہ رہتا ہے۔ اسی طرح قرآن کریم کی تازگی قائم ہے۔ اور ہر وقت تازہ معانی اس سے ملتے ہیں۔ تیرہ سو سال سے لوقگ اس کی تفاسیر لکھتے چلے آئے ہیں اور بعض نے تو سو سو جلدوں کی تفسیریں لکھی ہیں مگر باوجود اس کے اس کے مطالب ختم نہیں ہوئے۔ اب بھی اس میں سے نئے مطالب نکل رہے ہیں۔ اور یو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک نلکی ہے جس کے ایک طرف بیٹھا ہوا کوئی شخص دوسری طرف خزانہ لڑھکا رہا ہے۔ کتنا ہی غور کرو کوئی سا سوال کرو۔ نے مطالب کھلتے جاتے ہی اور ہر سوال کا جواب ملتا جاتا ہے۔ قرآن کریم خود فرماتا ہے ولقد خلقنا الانسان وتعلم ما توسوس بہ نفسہ ونحن اقرب الیہ من حبل الورید۔ ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس وجہ سے ہم جانتے ہیں کہ اس کے دل میں سے کیا کیا شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ (ق ع ۲) الٰہی کلام جب تک دنیا کے لے قابل عمل ہے ایک تازہ درخت کی طرح ہونا چاہئے۔ یعنی وہ ہر وقت اپنے منبع سے غذا حاصل کررہا ہو۔ جس طرح درخت بظاہر وہی نظر آتا ہے لیکن اس کے اندر تازہ رس حیات کا زمین سے آتا رہتا ہے۔ اسی طرح کلام وہی رہتا ہے لیکن اس کے تازہ مطالب حسب ضرورت کھلتے رہتے ہیں۔ اور ان کی طرف ذہن کا پھرانا اللہ تعالیٰ اپنے اختیار میں رکھتا ہے۔ اسی کی طرف اشارہ ہے لایمسہ الا المطہرون یعنی اس کلام کو سواے ان کے جنہیں اللہ تعالیٰ نے پاک کیا ہو پوری طرح نہیں سمجھ سکتے۔ (واقعہ ع۳)
مضبوط جڑھوں والے درخت کی دوسری خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ صدمات سے جھکتا نہیں حوادث کا مقابلہ مضبوطی سے کرتا ہے۔ کلام وہی مضبوط جڑھ والا کہلا سکتا ہے جو ہر زمانہ کے اعتراضوں کی برداشت کرکے۔ اور ان کا جواب اس کے اندر موجود ہو۔ قرآن کریم میں یہ خوبی بھی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ اس کے اصول ایسے واضھ ہیں کہ اس کے جھکنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا۔ نہ اسے بدلانے کی کسی کو اجازت ہے۔ اور نہ خود اس کے اپنے الفاظ اس کے معانی کو بدلنے کی اجازت دیتے ہیں۔ا س کے اندر تبدیلی کی کوشش کرنے والا قرآن کریم کو توڑ دے گا۔ مروڑ نہیں سکے گا۔ جس طرح عمارت میں سے چند اینٹیں نکال لی جائیں تو وہ گر جاتی ہے اسی طرح اس کی تعلیم کو کوئی بدلنا چاہے تو وہ سب کی سب ناقص ہو جائے گی۔
اسی طرح روحانی طور پر بھی ممکن نہیں کہ قرآن کریم کے بعض ٹکڑوں کو کوئی اختیار کرے اور بعض کو چھوڑ دے۔ یا سب کو چھوڑے گا یا سب کو اختیار کرے ا۔ ورنہ کوئی فائدہ نہ اٹھائے گا۔ چنانچہ اس وقت مسلمان بعض قرآن پر عمل کررہے ہیں اور بعض کو چھوڑ رہے ہیں۔ لیکن اس سے انہیں فائدہ کوئی نہیں پہنچ رہا۔ بلکہ غیرمسلم ان سے زیادہ ترقی کررہے ہیں۔ اور اس کی وجہ یہی ہے کہ قرآن کریم دب کر نہیں رہنا چاہتا۔ جو اسے دبانے کی کوشش کے وہ نقصان اٹھائے گا۔ ہاں اسے بالکل چھوڑ کر دوسرے مذہب کو اختیارکرلے۔ گویا قرآن کریم کی جڑھ کو اپنے دل سے اکھاڑ پھینکے تو پھر بے شک وہ دنیوی طور پر ترقی کرسکے گا۔
اسی طرح یہ امر بھی ثابت ہے کہ قرآن کریم تبدیلی زمانہ سے متاثر نہیں ہوتا۔ کوئی علم نکلے کوئی ایجاد ہو اس کی تعلیم پر کوئی حملہ نہیں ہوسکتا۔
تیسری خصوصیت مضبوط جڑھ والے درخت کی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی جگہ کو چھوڑتا نہیں۔ یہ معنے بھی قرآن کریم میں بدرجہ اعلیٰ پائے جاتے ہیں۔ قرآن کریم کے اصول ایسے پختہ ہیں کہ وہ کبھی بدلتے نہیں۔ یہ نہیں کہ تعلیم کا ایک حصہ اور اصول پر مبنی ہو اور دوسرا حصہ دوسرے اصول پر۔ جیسے انجیل میں توحید اور تثلیث یا کفارہ اور رحم متضاد اصول پر مذہب کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ آریہ مذہب میں ایک طرف خداتعالیٰ ک دیالو کرپالو کہا گیا ہے تو دوسری طرف روح اور مادہ کو انادی۔ حالانکہ یہ دونوں تعلیمیں متضاد اصول پر قائم ہیں۔ لیکن قرآن کریم کی سب تعلیم مقررہ اصول پر قائم ہے۔ توحید ہے تو اس کے باریک سے باریک احکام اسی کے گرد چک کھاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو رحمن اور رحیم قرار دیا گیا ہے تو تمام تفصیلی تعلیمات ان صفات کے تابع ہیں۔ یہ نہیں کہ توحید کی تعلیم دی ہو اور تفصیلات شرک پر مبنی ہوں۔ رحیم قرار دیا ہ اور جزئیات عدم رحم پر دلالت کرتی ہوں۔
چوتھی خصوصیت مضبوط جڑھ کے درخت کی یہ ہوتی ہے کہ اس کی عمر لمبی ہو۔ جس قدر جڑھیں مضبوط ہوں درخت لمبی عمر پاتا ہے۔ قرآن کریم پر تیرہ سو سال گزر چکے ہیں۔ اب تک اس کی تعلیم قابل عمل ہے اور قابل عمل رہے گی۔ جو کتب خداتعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوتیں وہ آج لکھی جاتی ہیں۔ اور کل ان کے خلاف الٰہی کے مانے والے کہنے لگتے ہیں اور اس پر سے عمل اٹھ جاتا ہے لیکن قرآن کریم پر برابر عمل ہورہا ہے۔ بلکہ جو لوگ اسے چھوڑ رہے تھے اب پھر اس ی تعلیم کی طرف واپس آرہے ہیں۔ یورپین تہذیب کے دلدادہ اب پھر اس کی ظاہری خوبصورتی کا تلخ تجربہ کر لینے کے بعد دوبارہ قرآن کریم کی ٹھوس تعلیم کی خوبی کے قائل ہو رہے ہیں۔ سؤر کی حرمت، شرا ب کی ممانعت، کثرت ازدواج کی اجازت، طلاق، عورت اور مرد کے اختلاف میں حزم و احتیاط، ورثہ وغیرہ بیسیوں امور ہیں کہ جن میں قرآنی اصول کی برتری کو دنیا پھر تسلیم کرنے پر مجبور ہورہی ہے۔ اور اس طرح قرآن کی عمر جو ہمارے نزدیک تو تاقیامت ہے دشمنوں کے نزدیک بھی لمبی ہوتی نظر آتی ہے۔
پانچویں خصوصیت مضبوط جڑھوں والے درخت کی یہ ہوتی ہے کہ وہ اچھی مٹی میں اگتا ہے۔ یعنی ایسا درخت کبھی معمولی زمین میں نہیں اگ سکتا۔ کیونکہ جب تک جڑھوں کے پھیلنے کے لئے عمدہ مٹی دور تک نہ ملتی ہو جڑھیں دور تک پھیل نہیں سکتیں۔ اسی طرح کلام الٰہی بھی اپنے حسن کو تبھی ظاہر کرسکتا ہے جب ایسی قوم اس کی حامل ہو۔ جو اس سے مناسبت رکھتی ہو۔ اور اسے اپنے دلوں میں جگہ دینے کو تیار ہو۔ اسی کی طرف قرآن کریم میں یہ کہہ کر اشارہ کیا یا ہے کہ والعمل الصالح یرفعہ (فاطر ع۴) عمل صالح ایمان کو ترقی دیتا ہے۔ یعنی درخت تو ایمان ہے لیکن وہ عمل صالح کے بغیر بڑھتا نہیں۔ پس گو کلام الٰہی کیسا اعلیٰ ہو جب تک اس کے ساتھ عمل شامل نہ ہو اس کی خوبی ظاہر نہیں ہوتی۔ پس ضروری ہے کہ کلام الٰہی ایسے دلوں میں جگہ پکڑلے جو اس کی تعلیم کے نشوونما کے لئے موزوں ہوں اور جن میں دور دور تک اس کی جڑھیں پھیل سکیں۔ جب تک یہ بات کسی کلام کو میسر نہ ہو وہ قائم نہیں رہ سکتا۔ قرآن کریم کو یہ بات بدرجہ اتم حاصل ہے۔ جب ہ ظاہر ہوا تب بھی ایک ایسی جماعت اسے میسر ہوئی جنہوں نے اس کا درخت اپنے دلوں میں لگایا۔ اور اپنے خون سے اس کی آبیاری کی اور اس کے بعد سے لے کر آج تک یہ بات اسے میسر ہے۔ وید، تورات، انجیل، سب کتب پر ایک وقت میں لوگ عمل کرتے تھے مگر آج ان پر عمل کرنے والے تلاش کرنے سے بھی شاید ہی ملیں۔ لیکن قرآن کریم پر عمل کرنے والے لوگ ہر زمانہ میں ملتے رہتے ہیں۔ اور جب بھی ان لوگوں میں کمی آتی رہی ہے اللہ تعالیٰ اور لوگ پیدا کر دیتا رہا ہے جو اس پر عمل کرنے والے تھے اور اس طرح اس کی جڑھیں مضبوطی سے گڑی رہی ہیں اور اس کا حسن ہمیشہ لگوں کی نظروں کے سامنے رہا ہے۔ باقی کتب میں اگر حسن بھی ہے تو ان کی مال ایسی ہے جیسے کسی درخت کے حسن کو اس کا بیج ہتھیلی پر رکھ کر بیان کیا جاے اور قرآن کریم کا حسن اس کے خوبصورت درخت سے جو ہر وقت اگا ہوا ہے دکھایا جاسکتاہے اور قیاس سے حسن معلوم کرنا اور آنکھوں سے دیکھ کر معلوم کرنا برابر نہیں ہوسکتا۔
چھٹی خصوصیت مضبوط جڑھوں والے درخت کی یہ ہوتی ہے کہ اس کا منبع ایک ہوتا ہے۔ یعنی وہ حیوان کی طرح مختلف جگہ سے غذا نہیں لیتا۔ اس خصوصیت میں بے شک کمزور درخت بھی شامل ہے لیکن یہ مقابلہ حیوانات سے ہے۔ نہ کہ دوسرے درختوں سے۔ گویا دوسری الہامی کتب خواہ وہ قرآن کریم کی طرح شاندار نہ ہوں اس امر میں ایک حد تک اس سے مشابہ ہوں گی لیکن انسانی کلام نہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم کی تعلیم سب کی سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے۔ انسانی ہاتھ کا اس میں دخل نہیں۔ اس نے آہستہ آہستہ نشوونما حاصل نہیں کیا۔ بلکہ یکدم ایک ہی شخص کے دل پر اسے نازل کیا گیا ہے۔ وہ زمانہ کی رو کی ترجمانی نہیں کرتی کہ اسے صدیوں کے فلسفہ کا خلاصہ کہا جائے۔ جیسا کہ اچھی انسانی کتب کا حال ہے بلکہ وہ اکثر امور میںزمانہ کی رو کا مقابلہ کرتی اور ان کے خلاف چلتی ہے۔ اور اپنے لئے ایک بالکل نیا راستہ بناتی ہے۔ جس سے صاف نظر آتا ہے کہ وہ اپنی غذا ایک ہی جگہ سے لیتی ہے اور درخت سے مشابہ ہے۔ برخلاف انسانی کتب کے کہ وہ حیوان کے مشابہ ہوتی ہیں۔ اور انتخاب اور استفادہ اور تجسس پر ان کی بنیاد ہوتی ہے۔ اور گو مصنف ایک نظر آتا ہے لیکن اس کا علم ماخوذ ہوتا ہے۔ ہزاروں انسانوں کے تجربہ سے۔ سوائے ان لوگوں کے جو قرآن کریم پر اپنی تصنیفات کی بنیاد رکھتے ہیں۔ ان لوگوں کی تصنیفات قرآن کریم کا عکس ہیں۔ اس سے جدا نہیں۔
تیسری علامت شجرہ طیبہ کی یہ بیان فرمائی تھی کہ فرعہا فی السماء اس کی شاخیں آسمان میں پھیلی ہوئی ہوتی ہیں۔ آسمان میں شاخیں پھیلنے کے سات معنے میں نے اوپر بیان کے ہیں اور ان معانی کے رو سے بھی قرآن کریم ایک ممتاز کتاب نظر آتی ہے۔ اس کے اس امتیاز میں کوئی اس کا شریک نظر نہیں آتا۔
پہلی خصوصیت فرعہا فی السماء کی میں نے یہ بتائی تھی کہ اس پر چڑھ کر انسان آسمان تک پہنچ سکے گا۔ یہ خصوصیت قرآن کریم میں واضح طور پر پای جاتی ہے۔ بلکہ اس میں اس کے ساتھ کوئی اور کتاب شرک ہی نہیں۔ کیونکہ کوئی کتاب اس کی دعویٰ دار نہیں کہ اس پر عمل کرکے انسان خداتعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے۔ لیکن قرآن کریم اس کا مدعی ہے کہ اس کی تعلیم پر عمل کرکے انسان آسمان پر پہنچ جاتا ہے۔ یعنی قرب الٰہی اسے حاصل ہو جاتا ہے۔ اور وہ آسمانی امور کو بچشم خود دیکھ لیتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم کے عاملین میں سے ہمیشہ ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں جو اس امر کے مدعی تھے کہ قرآن کریم کے ذریعہ سے انہیں روحانی صعود حاصل ہوا۔ یہاں تک کہ وہ خداتعالیٰ تک جا پہنچے۔ اور اس کے خاص فضلوں کو انہوں نے حاصل کیا۔
دوسری خصوصیت فرعہا فی السماء سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ کلام الٰہی کی تعلیم اعلیٰ اخلاق پر مشتمل ہوتی ہے۔ کیونکہ اونچا درخت بلند خیالی اور وسعت اخلاق پر بھی دلالت کرتا ہے۔ یہ امر بھی قرآن کریم میں بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔ قرآن کریم کی اخلاقی تعلیم ایسی اعلیٰ ہے اور درخت کی شاخ کی طرح اس طرح ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف گئی ہے کہ کسی اور کتا ب میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ بعض کی اخلاقی تعلیم نہایت ادنیٰ ہے جس طرح زمین پر گری ہوئی شاخ۔ اور بعض کی اعلیٰ تو ہے لیکن اس کا جڑھ سے تعلق نہیں۔ وہ ایسی ہے جیسے کسی تاگا سے کسی شاخ کو بلندی میں لٹکا دیں۔ وہ بلند تو ہو جاے گی لیکن اس پر کوئی چڑھ نہیں سکے گا۔ لیکن قرآن کریم کی اخلاقی تعلیم ایسی ہے جس پر ہر طبقہ کا آدمی عمل کرسکتا ہے۔ ادنیٰ آدی جڑھ سے چڑھ کر اوپر جاسکتا ہے اور اوپر پہنچا ہوا آدمی اس کے اوپر اور ترقی کرسکتا ہے۔ اس کی اس خوبی پر بعض لوگ معترض ہوتے ہیں۔ مثلاً سزا کی تعلیم پر اعتراض کرتے ہیں کہ اس طرح ادنیٰ اخلاق سکھائے گئے ہیں۔ حالانکہ نہیں دیکھتے کہ ادنیٰ اخلاق والے انسانوں کی اصلاح اس کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ کچھ لوگ سزا سے مانتے ہیں، کچھ عفو سے، پھر کچھ عدل کے مقام پر ہوتے ہیں، کچھ احسان کے اور کچھ ایتاء ذی القربیٰ کے۔ جو مذہب ان امور کو اپنی تعلیم میں شامل نہیں کرتا وہ لوگوں کو یا اعلیٰ اخلاق سے محروم کر دیتا ہے یا انسانوں میں سے ایک حصہ کو نجات سے محروم کر دیتا ہے۔ غرض اس خصوصیت میں بھی قرآن کریم ایک ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔
تیسری خصوصیت فرعہا فی السماء کے ماتحت یہ ہے کہ اس کی شاخیں بہت ہوں۔ کیوکہ جس درخت کی شاخیں آسمان میں پھیلی ہوئی ہوں گی وہ نہ صرف اونچی ہوں گی بلکہ بہت کثرت سے بھی ہوں گی۔ (یاد رہے کہ الی السماء نہیں فرمایا فی السماء فرمایا ہے جس سے بلندی کے علاوہ پھیلاؤ کی طرف بھی اشارہ کیا ہے) اس خصوصیت میں بھی قرآن کریم کو ایک ممتاز درجہ حاصل ہے۔ اس کی تعلیم اس قدر مطالب پر حاوی ہے کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ایک مختصر سی کتاب ہے۔ اناجیل سے بھی چھوٹی۔ لیکن اس کے اندر اس قدر مطالب پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ اس سے ہزاروں گنے زیادہ حجم کی کتب میں وہ مضامین نہیں ملتے۔ عبادات ہیں تو ان کی ہر شاخ اس میں تفصیل سے بیان کی گئی ہے۔ معاملات ہیں تو ان کی ہر شاخ اس میں تفصیل سے بیان کی گئی ہے۔ علم الاخلاق، تمدن، سیاست، اقتصادیات، پیشگوئیاں، الٰہیات، قضاء، تصوف،علم المعاد، علم کلام اور ان سب علوم کے فلسفے اور تفصیلات قرآن کریم میں موجود ہیں۔ اور ایسے کامل طور پر موجود ہیں کہ اس کے بعد کسی اور کتاب کی ضرورت نہیں ہوتی۔ (اس کے لئے دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی اور آئینہ کمالات اسلام اور میری کتاب احمدیت یعنی حقیقی اسلام وغیرہ)
چوتھی خصوصیت فرعہا فی السماء کے ماتحت یہ ہے کہ اس کا سایہ وسیع ہو۔ کیونکہ جس درخت کی شاخیں بلند اور پھیلی ہوئی ہوں اس کا سایہ بھی بہت وسیع ہوتا ہے۔ پس کلمہ طیبہ وہ ہے جس کے سایہ میں بہت سے آدمی بیٹھ سکیں۔ یعنی وہ ہر فطرت کے انسانوں کے لئے تسلی دینے کا موجب ہو۔ یعنی جس ط رح اخلاق کے ہر درہ کے لوگوں کو بلندی کی طرف پہنچائے۔ اسی طرح ہر فطرت کے انسان کے لئے بھی اس میں تسلی کا سامان موجود ہو۔ قرآن کریم میں یہ صٖت بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ انسانی مزاج مختلف قسم کے ہوتے ہیں۔ کوئی انسان کسی طاقت اور میلان کو لے کر آتا ہے کوئی کسی طاقت اور میلان کو۔ کامل کتاب میں سب کے لے آرام کا سامان موجود ہونا چاہے اور قرآن کریم میں ایسا ہی ہے۔ کسی طبعی تقاضے کو ضائع نہیں کیا گیا۔ کچلا نہیں گیا۔ باقی تمام مذاہب میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ بشریت کے تقاضوں کو گناہ قرار دے کر ان کے کچلنے پر سارا زور لگایا گیا ہے لیکن قرآن کریم نے بشریت کے تقاضوں کو انسانی تکمیل کے ذرائع قرا دے کر ان کی اصلاح پر زور دیا ہے۔ جس طرح گاڑی چلانے کے لئے نہ جانور کو ذبح کرنے والا کامیاب ہوسکتا ہے نہ اسے آزاد چھوڑ دینے والا۔ بلہ وہی کامیاب ہوسکتا ہے جو بیلوں اور گھوڑوں کو سدھا کر اس کے آگے جوتے۔ قرآن کریم بھی بشری تقاضوں کو سدھا کر ہر فطرت کے انسان کے لئے آرام کا سامان پیدا کرتا ہے۔ وہ نرم مزاج انسان کو نرمی سے روکتا نہیں نہ سخت مزاج کو سختی سے۔ بلکہ انہیں اپنے طبعی تقاضے کے صحیح موقع پر استعمال کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ وہ نہ تو کھانے کو گناہ قرار دیتا ہے نہ پہننے کو نہ شادی کو نہ مال و دولت کمانے کو نہ مکان بنانے کو بلکہ ہر امر میں اقتضاء اور مناسب حدود کو قائم رکھنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اس وجہ سے ہر فطرۃ کی اصلاح اس کے ذریعہ سے ہو جاتی ہے۔ اور کوئی شخص نہیں جو اس کے سایہ میں بیٹھ نہ سکے۔
چوتھی علامت شجرہ طیبہ کی یہ بتائی گئی تھی کہ وہ ہر آن اپنے پھل دیتا ہے۔ اس علامت کے ماتحت کلام الٰہی کی ایک تو یہ خصوصیت معلوم ہوتی ہے کہ وہ اعلیٰ سے اعلیٰ پھل دیتا رہے یعنی اس میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں جو اس کی اعلیٰ تعلیم کے مظہر ہوں۔ اس لئے تؤتی الاکل نہیں فرمایا بلکہ اکلھا فرمایا۔ یعنی درخت کی طرف ضمیر پھیر ک اس کی خوبیوں کی طرف اشارہ کیا۔ کہ وہ پھل اپنے اندر درخت والی خوبیاں رکھتے ہو۔ جو خواص اس درخت میں ہوں وہی ان پھلوں میں ہو۔ وہ طیب بھی ہوں وہ مضبوط جڑھ پیدا کرنے کی طاقت بھی رکھتے ہو۔ اور آسمان میں پھیل جانے کی طاقت بھی۔ یہ خاصیت بھی قرآن کریم میں پائی جاتی ہے بلکہ اس وقت صرف اس میں پائی جاتی ہے۔ یعنی اس پر عمل کرنے والے لوگ اس کے ذریعہ سے ایسے اعلیٰ مقامات تک پہنچتے ہیں کہ گویا وہ مجسم قرآن ہو جاتے ہیں۔ اسی کی طرف اشارہ ہے۔ کان خلقہ القران (مجمع البحار) یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اگر دیکھنا چاہو تو قرآن کریم دیکھ لو۔ جو تعلیمات قرآن کری میں بیان ہوئی ہیں اور جو اعلیٰ صفات اس مں بیان ی گئی ہیں وہ سب کی سب سول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں موجد ہیں اور اسی کی طرف اشارہ ہے۔ ما انا الا کالقران سیطھر علی یدی ماظھر من الفرقان کے الہام میں جو اس زمانہ کے قرآنی پھل حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود علیہ السلام پر ہوا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ میں قرآن کی طرح ہوں اور جو کچھ اس سے ظاہر ہوا مجھ سے بھی ظاہر ہوگا۔ یعنی تعلیم قرآنی میرے وجود میں دنیا کو نظر آے گی۔ اس الہام میں گویا تؤتی اکلھا کا مصداق ہوے کی طرف اشارہ ہے۔
دوسری خصوصیت تؤتی اکلھا کل حین کے ماتحت یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ دائمی نجات دے اور یہ مفہوم اس سے پیدا ہوتا ہے کہ جس کے دل میں کلام الٰہی داخل ہو کر ایک درخت بنے گا اگر وہ شخص دائمی زندگی نہ پائے گا تو درخت ہمیشہ پھل کس طرح دے گا۔ گو یہ مفہوم آئندہ کے متعلق ہے اور اس کا اس دنیا میں ثبوت دینا ناممکن ہے۔ لیکن کم سے کم یہ بات تو ظاہر ہے کہ صرف الہامی کتب ہی دائمی نجات کا وعدہ دیتی ہیں۔ انسانی کتب دائمی نجات کا وعدہ نہیں دیتیں۔ اور نہیں دے سکتیں کیونکہ دائمی زندگی ابدی زندگی والی ہستی ہی دے سکتی ہے اور وہ صرف خداتعالیٰ کی ذات ہے۔ پس وہی کلام دائمی زندگی کا دعویٰ پیش کرسکتا ہے جو خداتعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے کا مدعی ہو۔ اور اس دعویٰ میں بھی قرآن کریم سب دوسری کتب سے بڑھا ہوا ہے۔ ہمیشہ کی زندگی کا مضمون جس وضاحت سے اور جس طرح با دلال قرآن کریم میں بیان ہوا ہے اس سے دسواں حصہ بھی دوسری کتب میں نہیں۔ اگر ہے تو کوئی شخص پیش کرکے دیکھ لے۔
پانچویں خصوصیت اس آیت میں کلمہ طیبہ کی یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ باذن ربھا پھل دے۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اس کے نتائج طبیعی نہ ہوں بلکہ طبیعی نتائج سے بالا ہوں۔ ط بیعی نتائج صرف اس قدر چابت کرسکتے ہیں کہ اس کتاب نے قوانین قدت کا اچھا نقشہ پیش کیا ہے۔ لیکن یہ ثابت نہں کرتے کہ وہ کتاب کسی ایسی ہستی کی طرف سے ہے جو طبیعات پر حاکم ہے۔ یہ امر اس کتاب سے ثابت ہو سکتا ہے جو علاوہ طبیعی نتائج کے فوق الطبیعی نتائج بھی پیدا کرے۔ مثلاً ایک کتاب میں حکم ہے کہ فلاں شے کھاؤ فلاں نہ کھاؤ۔ اس کا طبیعی نتیجہ تو یہ ہوگا کہ اگر کھانے والی ش مفید ہے تو کھانے والے کو طاقت حاصل ہوگی۔ اور اگر مضر ہے تو اس سے بچنے سے اس کی صحت اچھی رہے گی۔ انسانی کتاب کا اث یہاں ک ختم ہو جائے ا۔ لیکن الٰہی کتاب اس سے اوپ تک ہمیں لے جائے گی کیونکہ اس کے احکام پر عمل کرنے سے ہم ایک زائد فعل بھی کتے ہی اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے اس عمل کو کرتے ہیں اور اس طرح ہمارا طبیعی فعل مذہبی بھی ہو جاتا ہے۔ پس ضروری ہے کہ اگر کتاب آسمانی ہے تو اس کے طبیعی نتائج کے علاوہ فوق الطبیعی نتائج بھی نکلیں۔ اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی ایسی علامات ظاہر ہوں کہ جو ط بیعی نتائج سے ممتاز اور علیحدہ ہوں۔ اس امر میں بھی قرآن کیم دوسری کتب سے بدرجہ غایب اعلیٰ اور اکمل ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جس طرح فوق الطبیعی نشانات آپ کے لئے اور آپ کے اتباع کے لئے ظاہر ہوے وہ دوسری مثال نہیں رکھتے۔ اور آپؐ کے بعد بھی قرآن کریم پر سچے طور پر عمل کرنیو الے لوگوں کے ساتھ نشانات الٰہیہ کا سلسلہ اس طرح وابستہ چلا آیا ہے کہ ہر عقلمند اس سے بہ آسانی سمجھ سکتا ہے کہ قرآن کیم کے ساتھ کسی ایسی ہستی کا تعلق ہے جو طبیعی قوانین پر حاکم ہے۔ اور جس پر خوش ہوتی ہے اس کے لے غیرمعمولی سامانوں سے نصرت کے سامان پیدا کردیتی ہے۔ اس وقت بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ احمدیہ جن کی برکت سے اس آیت کے اس قدر وسیع مطالب کھلے ہیں اس باذن ربھا والے نتاج کی تازہ مثال ہیں اور آپ کے بعد آپ کی جماعت سے بھی اللہ تعالیٰ کا یہی سلوک ہے اور اسی سلوک کے ماتحت باوجود شدید مخالفت کے وہ روز بروز ترقی کررہی ہے۔ فسبحا للہ والحمدللہ واللہ اکبر۔
لعلکم تذکرون کہہ کر اس طرف اشارہ کیا ہے کہ اس آیت میں جو مطال بیان کئے گئے ہیں وہ وہمی نہیں بلکہ تم خود تجربہ کرکے دیکھ لو اپنی ذات میں ان امور کا مشاہدہ کرلوگے جو اس میں بیان ہوئے ہیں۔
۲۶؎ حل لغات
خبیثۃ:- خبیث کا مؤنث ہے۔ اور الخبیث کے معنے ہیں النجس پلید۔ گندی چیز۔ الردی المستکرہ۔ ایسی ردی چیز جس سے نفرت پیدا ہو۔ اور انسان اسے قبول نہ کرسکے۔ کل حرام ہر حرام شے کو خبیث کہتے ہیں اور تاج العروس میں ہے کہ خبیث ہر بری چیز کے لئے بطور صفت کے استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً کلام خبیث۔ یعنی برا کلام وغیرہ۔ والحرام السخت یسمی خبیثا۔ ہر قسم کے حرام کو خبیث کہتے ہیں۔ المال الحرام والدم وما اشبھہما ما حرمہ اللہ حرام مال اور خون جو ان کے مشابہ ہو جس سے اللہ تعالیٰ نے بچنے کا حکم دیا ہے اس کو بھی خبیث کہتے ہیں۔ ویقال فی الشیء الکریہ الطعم والرائحۃ خبیث مثل الثوم والبصل والکراث والذالک قیل من اکل من ھذہ الشجرۃ الخبیثۃ فلا یقربن مجلسنا۔ نیز بدمزہ بدبودار چیز کو خبیث کہا جاتا ہے۔ جیسے لہسن، پیاز، گندنا وغیرہ۔ اسی وجہ سے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو خبیث پودوں یعنی لہسن پیاز وگیرہ سے کچھ کھاے وہ ہماری مجلس کے قریب نہ آئے۔ (اقرب) پس کلمۃ خبیثۃ کے معنے ہوں گے (۱) گندہ اور برا کلام جسے انسان سن نہ سکے۔ (۲) ایسا کلام جسے سن کر نفرت پیدا ہو۔ (۳) ایسا کلام جس سے اللہ تعالیٰ نے بچنے کا حکم دیا ہے۔ (۴) ایسا کلام جس سے اعلیٰ نتیجہ نہ نکلے۔ (۵) ایسا کلام جس میں اچھی اور بری تعلیم ملی ہوئی ہو وہ فرد کے لئے فائدہ بخش مگر قوم کے لئے مضر ہو۔
اجتثہ کے معنے ہیں اقتلعہ۔ اس کو جڑھ سے اکھیڑ دیا۔ اور مثل کلمۃ خبیثۃ کشجرۃ خبیثۃ اجتثت میں اجتثت کے یہی معنے مراد ہیں۔ یعنے استوصلت جڑھ سے اکھاڑا گیا۔ (اقرب) پس کلمۃ خبیثۃ کشجرۃ خبیثۃ ن اجتثت کے معنے ہوں گے کہ وہ برا کلام جو دیرپا نہیں اور اعتراض پ اپنی جگہ پر قائم نہیں رہ سکتا اور جلدی اس کا اثر باطل ہو جاتا ہے۔
قرار:- قر کا مصدر ہے اور قرفی المکان قرارا کے معنے ہوئے کسی جگہ ٹھہرنا۔ نیز قرار کے معنے ہیں ما قر فیہ۔ جس میں ٹھہرا جائے۔ المستقر جائے قرار (اقرب) پس مالہا من قرار کے معنے ہوں گے اس کے لئے کوئی ثبوت اور سکون نہیں ۔ اس کے لئے کوئی ٹھہرنے کی جگہ نہیں۔ مراد یہ ہے کہ بری تعلیم کسی ٹک میں قائم نہیں رہ سکتی اور اس کے اصول بدلنے کی ہر وقت ضرورت ہوتی ہے۔
تفسیر
شجرۃ طیبۃ کے مقابلہ میں جو باتیں جھوٹے مذہب کے متعلق پیش کی گئی ہیں یہ ہیں:
(۱) اس کی شکل مکروہ ہو۔ (۲) اعلیٰ اور فاسد تعلیموں کو ملا کر پیش کرتا ہو۔ (۳) اعلیٰ نتائج نہ نکلیں۔ یعنی اس پر چل ک کوئی آدمی ایسے پیدا نہ ہوں جو خداتعالیٰ تک پہنچ سکیں۔ جیسے بہائی مذہب ہے کہ اسے ظاہر ہوئے قریباً نوے سال ہو گئے ہیں۔ (یعنی باب کے دعویٰ سے لے کر اس وقت تک ) لیکن ایک شخص بھی ایسا نہیں کہ جس نے کہا ہو کہ اس تعلیم پر چل کر مجھ سے خداتعالیٰ کلام کرتا ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آئے ہوئے ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا ہے کہ ان کے پیروؤں میں سے سینکڑوں گنائے جاسکتے ہیں جو خداتعالیٰ سے ہم کلام ہوتے ہیں۔
اجتثت کے لفظ سے کلمۃ خبیثۃ کی صفات بتائی گئی ہیں۔
(۱) یہ کہ اس کلام میں سطحی مسائل پر بحث ہو روحانی امور پر نہ ہو۔ بلکہ ایسی باتیں ہوں جن کو عام طور پر لوگ جانتے ہوں۔
(۲) اس کی تعلیم دیرپا نہ ہو۔ بہائی تعلیم کا یہی حال ہے کہ بہاء اللہ نے لکھا دوشادیاں تک جائز ہیں۔ عبس نے اسے تبدیل کر دیا۔
(۳) اس کی تعلیم اعتراضات کا مقابلہ نہ کرسکے۔ ذرہ سے اعتراض سے اس کے پیروؤں کو اپنی جگہ چھوڑنی پڑے۔ بہائی تعلیم کا یہی حال ہے۔ وہ لوگ کبھی اک مقام پر کھڑے نہیں ہوسکتے۔ ہر اعتراض پر اپنی جگہ بدل لیتے ہیں۔
(۴) جلدی اس کے اثر کو باطل کر دیا جائے۔ دیرپا تعلیم تو وہ ہے کہ لمبے زمانہ تک اس کا اثر رہے اور جلدی باطل ہونے والی وہ ہے کہ جلدی ہی قلوب اس سے پھرنے شروع ہو جائیں۔ اس کی مثال کے طور پر اسلامی زمانہ کے اول حصہ میں مسیلمہ وغیرہ کی تعلیم کو پیش کیا جاسکتا ہے۔ اور اس زمانہ میں بہائی مذہب کو پیش کیا اجسکتا ہے۔ خود اس کے اتباع اس کی تعلیم پر عمل نہیں کتے۔ آج تک کسی ایک گاؤں میں بھی کوئی ایسی جماعت نہیں پائی جاتی جو بہائی تعلیم پر عمل کرتی ہو۔
(۵) تازہ امداد اس کو نہ ملتی ہو۔ یعنی وحی الٰہی کا سلسلہ اس میں جاری نہ ہو۔
(۶) اس کے فروع بلند نہ ہوں۔ یعنی اعلیٰ درجے کے اخلاق پر حاوی نہ ہو۔ اور ہر قسم کی ضرورت ہائے انانی پر اس میں بحث نہ ہو۔
’’مالھا من قرار‘‘ (۱) وہ کسی ملک میں قام نہ رہ سکے۔ یعنی اس کو ایسا موقعہ ہی نہیں دیا جاتا کہ اس کا تجربہ کرکے دنیا کوئی نتیجہ نکالے۔ بغیر تجربہ ہی وہ مر جاتی ہے۔
(۲) اس کے اصول کو بدلنے کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے۔ اسلام نے شروع سے ’’لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہا اور بعد میں کوئی تبدیلی اس میں نہ ہوئی۔ لیکن جو جھوٹا مذہب ہوگا اس میں اصول کو ہمیشہ بدلنا پڑے گا۔ مثال کے طور پر بہائیوں کو دیکھ لو۔ ایران میں جاؤ تو وہاں بہائیت کی تعلیم اور رنگ میں پیش کی جاتی ہے۔ کیونکہ وہاں شیعہ ہیں۔ سنی ممالک میں اسی مذہب کی تعلیم اور رنگ میں پیش کی جاتی ہے۔ امریکہ میں جاکر اصول بالکل مختلف کر دیئے گئے ہیں۔ اسی طرح انگلستان میں وہ باتیں پیش کی جاتی ہیں جن کو وہاں کے لوگ قبول کرنے کے لئے تیا رہوں۔ چنانچہ جب میں انگلستان گیا تو بہائیوں میں سے ایک عورت نے میرے ساتھ گفتگو کی۔ میں نے کہا بہاء اللہ نے کون سی نئی بات پیش کی ہے۔ اس نے کہا کہ بہاء اللہ نے کہا ہے کہ ایک ہی عورت سے شادی کرنی چاہئے۔ میں نے کہا کہ اس نے خود دو بیویاں کی ہوئی تھیں۔ پہلے اس نے انکار کیا پھر کہا کہ وہ دعویٰ سے پہے کی بات ہے۔ میں نے کہا جب وہ نعوذباللہ خدا تھا تو پھر پہلے اور پیچھے کا تو سوال ہی نہیں۔ عالم الغیب ہستی کے لے پہلے پیچھے کوئی معنے نہیں رکھتا۔ اس کو پہلے ہی علم ہونا چاہئے تھا کہ میں آگے چل کر کیا تعلیم دینے والا ہوں۔ نیز اس نے دعویٰ کے بعد اپنے بیٹے عباس ک دو بیویاں کرنے کی اجازت دی۔ کیونکہ اسکے ہاں اولاد نہ تھی۔ اس پر اس عورت کے کامن میں ایک ایرانی بہائی عورت نے جو ایران کی تھی چپکے سے کہا کہ دوسری بیوی کو بہاء اللہ نے بہن بنا لیا تھا۔ اور یہی بات اس انگریز عورت نے دوہرا دی۔ اس پر میں نے کہا کہ بہاء اللہ کے دعویٰ کے بعد دونوں عورتوں سے اولاد ہوئی ہے۔ کیا بہن کے ہاں اولاد پیدا کی گئی تھی۔ اس پر وہ حیران ہو کر انی دوست سے پوچھنے لگی کہ کیا دعویٰ کے بعد دوسی عورت کے ہاں اولاد ہوتی رہی ہے؟ اور جب اس نے کہا کہ ہاں تو مجلس میں سب ہنس پ؟ے کہ ابھی تو بہن قرار دیا تھا اور ابھی اس کے ہاں اسی زمانہ میں اولاد کا ہونا بھی تسلیم کر لیا۔ غرض بہائی لوگ ہر ملک میں جاکر علیحدہ قانون بناتے ہیں۔ یہی حال عیسائیت کا ہے۔ چنانچہ ان کی مشنری کتب میں کھلے طور پر بحثیں ہوتی رہتی ہیں کہ ہر قوم کے آگے کس رنگ میں مسیح علیہ السلام کو پیش کرنا چاہئے۔ شروع مسیحیت میں بھی روم والوں نے جب مطالبہ کیا کہ سبت ہفتہ کی جگہ اتوار کو ہو تو مسیحیوں نے ان کی خاطر ہفتہ کی بجائے سبت اتوار کو قرار دے دیا۔ اس کے بالمقابل اسلام کو دیکھو شروع سے لے کر اس وقت تک سب تعلیم ایک جڑھ پر قائم ہے۔ نہ کم کرنے کی ضرورت ہوئی نہ زیادہ کرنے کی۔
۲۷؎ حل لغات
یثبت:- ثبت کا مضارع ہے۔ جس ک مجرد ثبت ہے اور ثبت الامر عند فلان کے معنے ہیں تحقق و تاکد۔ کوئی امر کسی کے نزدیک یقینی طور پر ثابت ہو گیا۔ ثبت فلان علی الامر۔ داومہ۔ کسی کام پر دوام اختیار کیا۔ واثبتہ وثبتہ۔ جعلہ ثابتا فی مکانہ لایفارقہ۔ اور اثبتہ اور ثبتہ کے معنے ہیں اس کو اس کی جگہ پر ایسے طور پر ثبات بخشا اور مضبوط رکھا کہ وہ اپنی جگہ سے ہل نہ سکے۔ سو ثابت کے معنے ہوں گے اپنی جگہ پر مضبوط رہنے والا۔ (اقرب) پس یثبت اللہ الذین امنوا بالقول الثابت کے معنے ہوں گے کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ قائم رہنے والی اور مضبوط بات کے ذریعہ سے ثبات اور اپنی جگہ پر مضبوط رہنے کی طاقت بخشتا ہے۔ یضل اضل سے مضارع ہے اور اضل کے معنے ہیں اھلکہ اسے ہلاک کیا۔ (اقرب)
تفسیر
وہ قول جو ثابت ہے وہ وہی ہے جو کلمہ طیبہ ہے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے۔ یعنی اس کی تائید کے لئے اللہ تعالیٰ الہام نازل کرتا ہے۔ اس کو ثابت اس لئے کہا کہ آج ان کو اور کل ان کے بھائیوں کو حاصل ہو گا۔ا ور کبھی یہ سلسلہ نہ ٹوٹے گا۔ اور پھر اس وجہ سے بھی ثابت کہا کہ اس کا اثر یہاں پر بھی اور آخرت میں بھی ہوگا۔ لیکن اس کے خلاف جھوٹے مدعیوں کا کلام مرنے کے بعد کوئی فائدہ نہیں دیتا۔
ویضل الہ الظالمین ویفعل اللہ ما یشاء ظالم وہ ہیں جو کلام الٰہی میں عوج چاہتے اور اس کے راستہ میں روکیں ڈالتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرے گا سے یہ مراد ہے کہ قرآن کریم کی اشاعت اور اس کے دنیا میں قائم ہوجانے کے متعلق اور اس کے مخالفوں کی تباہی کے متعلق جو کچھ کہا گیا ہے اسے اللہ تعالیٰ پورا کر کے دکھا دے گا۔
۲۸؎ حل لغات
بوار بار یبور کا مصدر ہے اور بار کے معنے ہیں ھلک۔ ہلاک ہو گیا۔ بار السوق والسلعۃ کسدت۔ سامان یا بازار کا بھاؤ گر گیا۔ بار العمل بطل کام باطل ہو گیا۔ بارالارض بورا لم تزرع زمین میں کسی قسم کی کھیتی نہ بوئی گئی۔ بار زید عما جربہ واختبرہ۔ زید نے عمر کا امتحان لیا۔ و منہ کنا نبور اولاد نابحب علی۔ اور انہی معنوں میں یہ قول ہے جس کے معنے ہیں ہم اولاد کا امتحان لیا کرتے ہیں کہ وہ حضرت علی سے کتنی محبت رکھتے تھے۔ البوار الھلاک۔ ہلاکت۔ الکساد۔ کسی چیز کی مانگ نہ ہونا (اقرب) پس دارالبوار کے معنی ہوئے ہلاکت کا گھر۔
تفسیر
خدا کی نعمت کو کفر سے بدلنے کا یہ مطلب ہے کہ خدا نے تو ان پر انعام کیا تھا انہوں نے یہ بدلہ دیا کہ احسان فراموشی سے کام لے کرا س احسان کا یعنی کلمہ طیبہ کا انکار کرکے قوم کو ہلاک کر دیا۔
۲۹؎ حل لغات
القرار کے لئے دیکھو حل لغات سورۃ ہذا ۲۶؎۔
تفسیر
یعنی کلمہ طیبہ کا انکار لازماً تباہی میں ڈالتا ہے اور وہ تباہی بھی جلا دینے والی تباہی ہوتی ہے۔
۳۰؎ حل لغات
انداد۔ ند کی جمع ہے اور ند کے معنے ہیں المثل۔ مثل ہم رتبہ۔ ولایکون الا مخالفا۔ لفظ ند کا استعمال صرف اس نظیر کے لئے ہوتا ہے جو مخالف ہو اور مالہ ید کے معنے ہوں گے مالہ نظیر کہ اس کا کوئی مثل ہم رتبہ نہیں۔ (اقرب)
تفسیر
انہوں نے خدا تعالیٰ کے مخالف شریک بنائے ہیں سے یہ مراد نہیں کہ وہ واقعہ میں خدا کے مخالف ہیں یا یہ کہ مشرک انہیں خداتعالیٰ کے مخالف قرار دیتے ہیں۔ بلکہ ا سکا مطلب یہ ہے کہ ان بتوں کا وجود ہی خداتعالیٰ کی شان کے مخالف ہے۔ اگر ان کو مانا جائے تو پھ خدا خدا نہیں رہتا۔ مطلب یہ کہ کلمہ طیبہ کو چھوڑ کر کن لغو باتوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔
۳۱؎ حل لغات
خلال خلۃ کی جمع ہے اور خلۃ خال سے ہے۔ خالہ مخالۃ وخالا وخلالا کے معنے ہیں صادقہ واخاہ۔ اس سے دوستی کی اور اس کا بھائی بنا۔ الخلۃ المحبۃ والصداقۃ لاخلل فیھا۔ ایسی محبت اور دوستی جس میں کوئی خلل نہ ہو۔ (اقرب)
تفسیر
اگر مومن شجرہ طیبہ یا الہامی کلام کے فواء کو جلد لانا چاہتے ہیں تو انہیں کہہ دو کہ وہ نمازوں کو ہمیشہ اور باشرائط ادا کیا کریں اور اپنے مالوں کو چھپ چھپ کر اور ظاہراً بھی خر کیا کریں۔ اس حکم سے میرے نزدیک یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ جو شخص ایک نماز بھی جان بوجھ کر چھوڑتا ہے وہ نماز نہیں کہلا سکتا۔
۳۲؎ حل لغات
دائبین داب یدأب دأبا فی عملہ۔ جد و تعب واستمر۔ کام میں محنت کی اور لگاتار کام کیا۔ (اقرب) دائب کے معنے ہیں محنت سے اور لگاتار کام کرنے والا اور دائبین اس کا تثنیہ کا صیغہ ہے۔ پس دائبین کے معنے ہوں گے کہ وہ دونوں بلاوقفہ اور متواتر کام کرنے والے ہیں۔
تفسیر
ان دو آیات میں نعمتوں کا ذکر کرکے اور اپنے احسانات یاد کراکے اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ ہم نے یہ تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کی ہیں۔ اگر تم بجائے ان سے کام لینے کے بیوقوفی سے انہیں پوجنے لگو گے تو نعمت کی ناقدری کی وجہ سے ہو نعمتیں تم سے چھین لی جائیں گی۔ دوسرے یہ تایا ہے کہ جب یہ نعمتیں ہماری ہیں تو جو ہمارے کلمہ سے تعلق رکھتے ہیں ہم انہی کو ان سے متمتع کریں گے۔ چنانچہ دیکھ لو کس طرح یہ سب چیزیں اسلام اور مسلمانوں کی خدمت میں لگ گئیں۔ دن بھی ان کے ہو گئے اور راتیں بھی۔ سمندر بھی ان کے اور جہاز بھی ان کے۔ ان دونوں آیتوں سے پہلے لیقیموا الصلوۃ وینفقوا فرمایا تھا۔ ان امور کا تعلق ان دونوں آیتوں سے یہ ہے کہ اقامت صلوٰۃ شرک سے مخالف ہے۔ گویا پہلے سے ہوشیار کر دیا کہ نعمتیں ملنے والی ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ شرک کرنے لگو۔ پھر وینفقوا کا حکم دے کر اس امر سے ہوشیار کیا کہ جس طرح بعض نعمتوں کو انسان خدا بنا لیتا ہے اور بعض ک ذاتی ملکیت سمجھ لیتا ہے تم یاد رکھنا کہ خداتعالیٰ نے ان سب کو تم سب کے لئے مسخر کیا ہے اس لئے نہ تو ان کو خدا بنانا اور نہ دوسرے بندوں کو محروم کرکے ان پر اپنا واحد قبضہ جمانا۔ بلکہ خداتعالیٰ کی سب مخلوق کو ان میں شریک کرنا اور سب کو حصہ دینا۔ کیونکہ خداتعالیٰ نے وہ نعمتیں سب انسانوں کے لئے پیداکی ہیں۔ نہ کہ کسی خاص گروہ کے لئے۔ سب بندوں کا اس میں حصہ ہے۔ پس تم ان کو دوسروں میں بانٹتے رہنا۔
۳۳؎ تفسیر
من کل ما سالمتوہ۔ اگر اس کو ماضی کے معنوں میں مانا جاے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جس بات کا انسان فطرت تقاضا کرتی تھی وہ سب کا سب خداتعالیٰ نے مہیا کر دیا۔ زبانی سوال مراد نہیں۔ کیونکہ زبانی سوال تو کئی رد بھی کر دیئے جاتے ہیں مگر تقاضائے فطرت کبھی رد نہیں کیا جاتا۔ انسان میں اگر تاثر کی طاقت رکھی ہے تو ساتھ ہی تاثیر کرنے والی چیزیں بھی پیدا کر دیں اور اگر اس میں تاثیر کا مادہ رکھا ہے تو اس کے اثر کو قبول کرنے والی چیزیں بھی بنا دی ہیں۔ آنکھ دیکھنے کے لئے بنائی ہے تو اس کے لئے روشنی کے سامان اور خوبصورت نظارے بھی پیدا کئے۔ کان سننے کے لئے بنائے تو اس کے لئے ہوا اور خوش الحان اور سریلی آوازیں بھی پیدا کیں۔ مرد میں تو تولید کا مادہ پیدا کیا تو اس کے قبول کرنے کے لئے عورت بھی پیدا کر دی۔ غرض ہر تقاضائے فطرت کا جواب پیدا کیا ہے اور یہی اس آیت کے معنے ہیں۔
(۲) ماضی بمعنی مضارع بھی ہوسکتی ہے۔ جب یہ یقین دلانا ہو کہ جس امر کا وعدہ ہے اسے تم پورا ہوا ہی سمھو تو مضارع کی جگہ ماضی کا صیغہ بھی لے آتے ہیں۔ اس صورت میں آیت کے معنے یہ ہوں گے کہ اے مومنو تم نے جو خدا سے خواہش کی ہے کہ وہ ایسے علاقے تم کو دے جن میں قرآن کریم کی تعلیم استوار ہو اور جڑھ پکڑے وہ قبول ہو گئی اور سن لو کہ آسمان و زمین کی کل چیزیں تمہارے سپرد کی جائیں گی اور دنیا میں تمہارے لئے سہولتیں اور آسائشیں بہم پہنچائی جائیں گی۔
مومن بحیثیت جماعت خداتعالیٰ سے یہی مانگا کرتا ہے کہ دین کی اشاعت ہو اور دین کی ترقی کے راستے میں کوئی روک نہ رہے اور یہ سورۃ بھی مکی ہے۔ اس زمانہ میں مسلمانوں کے راستہ میں سخت مشکلات تھیں۔ مومن دعائیں کرتے تھے کہ کوئی ایسا علاقہ ہو جہاں ہم آزادی سے اسلام کی تعلیم کو رائج کر سکیں۔ تو ان کے جواب میں فرمایا کہ بے شک ایسے علاقے مسخر کر دیے جائیں گے۔ جن میں تم آسانی کے ساتھ اسلامی تعلیم کو قائم کرسکو گے۔
اب پھر اسلام پر ایسا زمانہ آ گیا ہے کہ اس کی تعلیم پر کلی طور پر عمل نہیں کیا جاسکتا۔ اور بعض علاقوں میں تو اس کے لئے سب راہیں مسدود ہیں۔ جیسے روس ک علاقہ ہے۔ تبلیغی لحاظ سے بھی میں سمجھتا ہوں سچائی کی تبلیغ اس وقت کہیں بھی نہیں ہو سکتی۔ علماء امراء، آقاؤں، بادشاہوں اور غلاموں وغیرہ نے اپنی ضرورتوں کے مطابق دین کو بدل دیا ہے۔ ان حواشی کو علیحدہ کرکے سچے اسلام کی تبلی کسی ملک میں بھی نہیں ہوسکتی۔ پس ہر مخلص مومن کو چاہئے کہ یقیموا الصلوۃ پر عمل کرے اور خدا سے دعا کرے تا وہ تبلیغ اسلام کے لئے آسانیاں میسر فرمائے اور اسلام کے قیام کے سامان پیدا کرے۔ اور یہ دعائیں انہی لوگوں کی قبول ہوں گی جو اقامۃ صلوٰۃ کرنے ولے ہوں گے۔ جو لوگ نمازیں باقاعدہ اور بلا سخت معذوری کے باماعت ادا نہیں کرتے ان کی دعا کم سنی جاتی ہے۔
اسی طرح یہ دعا انہی کی سنی جائے گی جو اخلاص سے اسلام کے لئے مالی قربانیاں کرنے والے ہوں گے۔
جماعت احمدیہ بے شک چندے دیتی ہے لیکن صحابہ والا انفاق اور تھا۔ وہ تو کوشش کرکے اپنے اوپر غربت لات تھے۔ جب تک اسی طرح انفاق نہ ہو ترقی ممکن نہیں ہوا کرتی۔ اسی وجہ سے پہلی آیت میں جہاں خرچ کا حکم دیا ہے وہاں سرا کو پہلے رکھا ہے۔ یہ بتانے کے لئے کہ اصل انفاق وہ ہے جو طبعی ہو اور اس میں کسی شہرت وغیرہ کا خیال نہ ہو۔ جو انفاق طبعی ہو گا ظاہر ہے کہ اس کے لئے طبیعت کو ابھارنا نہیںپڑے گا۔ بلکہ اسکے ظہور کو بعض دفعہ روکنے کی ضرورت محسوس ہوگی۔ پس وہی انفاق اس آیت کے ماتحت ہے جو طبعی ہو نہ یہ کہ نفس پر خرچ کرنا تو طبعی ہو اور خدا کے راستہ میں خرچ کرنے کے لئے دوسرے کے کہنے کی ضرورت ہو۔
جب احمدیہ جماعت میں یہ مادہ پیدا ہو جائے گا اور انہیں اپنے ٓپ پر خرچ کنے کے لئے تو نفس پر بوجھ ڈالنا پڑے گا اور دین کی راہ میں خرچ کنا طبعی تقاضا مدنظر آئے گا تب ان کے لئے ترقیات کے راستے کھلیں گے۔
ان تعدوا نعمت الہ لاتحصوھا۔ یہ مراد نہیں کہ ان احسانات کی ظاہری گنتی نہیں کرسکتے۔ یہ تو ایک موٹی بات ہے۔ انسان اگر اپنے جسم کی نعمتوں کو ہی شمار کان چاہے تو وہ بھی بے حد وبے قیاس ہیں۔ پ اس سے مراد آئندہ کے افضال ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتیں تم پر ہوں گی۔ مختلف قسم کے احسان تم سے وہ کرے گا اور اتنے فضل تم پر نازل ہوں گے کہ تم احاطہ بھی نہ کرسکو گے۔
لظلوم کفار کہہ کر یہ اشارہ کیا ہے کہ اگر ان نعمتوں کے باوجود لوگ اسلام سے غفلت برتیں گے تو وہ غلوم بھی ہوں گے اور کفار بھی۔ ظلوم اس طرح کہ ایک نئی اور پاک دنیا جو اسلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ قائم کرے گا وہ اس کے تباہ کرنیو الے ہوں گے۔ اور کفار اس لئے کہ ان گنت احسانات کے بعد وہ اللہ تعالیٰ سے ناشکری کا معاملہ کرنے والے ہوں گے۔
۳۴؎ حل لغات
واجنبنی جنبہ جنبا دفعہ۔ اس کو دور کیا۔ جنب زیدا الشیء نجاہ عنہ۔ اس نے زید کو کسی چیز سے ایک طرف رکھا۔ ومنہ فی القران واجنبنی وبنی ان نعبد الاصنام۔ ای نحنی وایاھم کہ مجھے اور میری اولاد کو شرک سے ایک طرف رکھیو (اقرب) یعنی اے خدا جب تو نے ہمیں طہارت بخشی ہے تو مجھے اور میری اولاد کو ہمیشہ اس پر قائم رکھیو۔
الاصنام۔ اصنام۔ صنم کی جمع ہے۔ اس کے معنے ہیں الوثن۔ بت۔ وھو صورۃ تمثال انسان اور حیوان یتخذ للعبادۃ۔ انسان یا حیوان کے اس مجسمہ پر بولا جاتا ہے جو عبادت کی خاطر بنایا جاتا ہے۔ کل ما عبد من دون اللہ۔ ہر وہ چیز جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جائے۔ یہ معرب ہے۔ (یعنی لغت ولے کے نزدیک یہ لفظ عربی زبان کا نہیں۔ دوسری زبان سے مانگا ہوا ہے) لیکن عربی زبان میں صنم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ جیسے کہتے ہیں صنمت الرائحۃ۔ خبثت۔ ہوا بدبودار ہو گئی۔ العبد قوی۔ طاقتور ہو گیا۔ صنم الرجل صورت آدمی نے آواز نکالی۔ الصنمۃ قضبۃ الریش کلھا۔ پورا سرکنڈا۔ الداھیۃ۔ مصیبت (اقرب)
تفسیر
یہ بتاچکنے کے بعد کہ پہلے انبیاء بھی بے سامان تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد کی اور وہ غیرمرئی اسباب سے کامیاب ہوئے۔ اسی طرح اب محمد رسول اللہ صلعم غیرمرئی اسباب سے جن میں سے ایک مثال کلمہ طیبہ کی تمثیل سے مستنبط دلائل ہیں کامیاب ہوں گے۔ اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اس رسول کی کامیابی کی بنیاد تو ہزاروں سال پہلے سے رکھی گئی ہے۔ خصوصاً ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھ سے۔ چنانچہ فرماتا ہے کہ مکہ والوں کو الہامی کتاب کی نعمت سے متمتع کرنا ضروری تھا اور انہیں شرک کی ظلمت میں پڑا رہنے نہیں دیا جاسکتا تھا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اس بارہ میں حضرت ابراہیمؑ کے زمانہ سے وعدہ کر چکا ہے اور وہ وعدہ خلاف نہیں ہے۔
اس دعا سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ اس امر کا علم رکھتے تھے کہ مکہ کے علاقہ میں شرک پھیلنے والا ہے۔ تبھی تو انہوں نے دعا ی کہ خدایا مجھے اور میری اولاد کو شرک س ے ایک طرف رکھیو۔ ورنہ جس وقت دعا کی گئی تھی مکہ میں شرک کا نام و نشان نہ تھا۔ صرف حضرت اسمٰعیلؑ کا گھر آباد تھا یا وہ لوگ بستے تھے جو ان کے تابع تھے۔
اس دعا سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ توحید اور شرک کے دور دنیا پر آتے رہتے ہیں اور موحد قومیں مشرک ہو جاتی ہیں اور مشرک موحد ہوجاتی ہیں اور توحید کے اعلیٰ مقام پر پہنچی ہوئی قوم کی نسبت بھی نہیں کہا جاسکتا کہ اب وہ شرک کے اثر سے محفوظ ہو گئی ہے۔ اس تعلیم سے اس خیال کا رد ہوتا ہے جو موازنہ مذاہب والے لوگ پیش کرتے ہیں۔ یعنی توحید شرک سے ترقی کرتے کرتے پیدا ہوتی ہے۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ توحید کے بعد شرک اور شرک کے بعد توحٰد کے دور آتے رہتے ہیں اور ہمیشہ توحید کا دور شرک کے دور سے پہلے ہوتا ہے۔ اس اصل کے ماتحت توحٰد کو الہامی اور شرک کو تنزل کا ایک مقام تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ برخلاف موانہ مذاہب والوں کے اصول کے کہ ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ کا خیال خوف اور حیرت سے پیدا ہوا ور شرک سے ترقی کرتے ہوئے توحید کے نقطہ تک پہنچا۔ بظاہر یہ اختلاف معمولی معلوم ہوتا ہے مگر اسی اختلاف کے نتیجہ میں مذہب نے کہا کہ خداتعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور موازنہ مذاہب والوں نے کہا کہ انسان نے خدا کو پیدا کیا ہے۔ یعنی خداتعالیٰ کا خیال انسانی دماغ کی ایجاد ہے اور اس کی تکمیل انسانی فلسفہ کی تکمیل سے ہوئی ہے۔
اس آیت پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ابراہیم شرک کرسکتے تھے؟ اگر نہیں تو انہوں نے یہ دعا کیوں کی کہ خدایا مجھے شرک سے بچا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ انسانی طاقتیں دو قسم کی ہیں۔ ایک وہ جو خلفۃً اسے اللہ تعالیٰ نے دی ہیں۔ ان کے متعلق وہ دعا نہیں کرتا۔ مثلاً یہ نہیں کہتا کہ خدایا میرا ایک ہی سر ہے دو نہ ہو جائیں۔ دوسری وہ طاقتیں ہیں جو انسان کو کسباً یا وہباً ملتی ہیں۔ یعنی وہ انہیں آپ ترقی کر کے حاصل کرتا ہے۔ یا خداتعالیٰ کا خاص فضل دوسرے انسانوں سے ممتاز کرکے اسے عطا کرتا ہے۔ ایسی طاقتوں میں چونکہ تنزل کا امکان ہوتا ہے ان کے لئے دعا جاری رکھی جاتی ہے۔ خواہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہی کیوں نہ ہو کہ وہ اس انعام سے اسے متمتع رکھے گا۔ کیونکہ اس دعا میں درحقیقت اس امر کا اقرارا ہوتا ہے کہ یہ نعمت میری ذاتی نہیں بلکہ خداتعالیٰ سے بطور انعام حاصل ہوئی ہے۔ اسی اصل کے ماتحت انبیائج نبوت کے انعامات کے متعلق بھی دعا میں لگے رہتے ہیں۔ جیسے حضرت ابراہیم کی یہ دعا ہے یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ہے رب زدنی علما یا استغفار اور توبہ کا انبیاء سے صدور ہے۔ ان نکتوں کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض لوگوں نے انبیاء کے استغفار اور توبہ سے دھوکا کھایا ہے اور یہ سمجھ لیا ہے کہ گویا وہ گنہگار تھے۔ حالانکہ ان کے استغفار اور توبہ کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ جس مقام طہارت پر وہ ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک موہبت ہے اور اس کے جاری رکھنے کے لئے وہ دعا کرتے ہیں کیونکہ اس کا تسلسل اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہوتا ہے۔
اسی بناء پر قرآن کریم میں بار بار وعلی اللہ فلیتوکل المتوکلون آتا ہے۔ یعنی باوجود کمال کے انسان کو اللہ تعالیٰ پر سہارا رکھنا چاہئے۔ کیونکہ وہ کمال خداتعالیٰ پر سہارے سے ہی حاصل ہوا ہے۔ اور اس سہارے کا اقرار کرتے رہنا اپنے لئے اور دوسروں کے لئے ہدایت کا موجب ہوتا ہے۔
۳۵؎ تفسیر
محبت الٰہی کا کیسا پاک مظاہرہ ہے۔ حضرت ابراہیمؑ فرماتے ہیں میری اولاد اگر شرک نہ کرے گی تب تو وہ میری اولاد ہے ورنہ نہیں۔ اس آیت سے یہ بھی مستنبط ہے کہ بہت سے گناہوں کا باعث اولاد کی محبت بھی ہوتی ہے۔ حضرت ابراہیمؑ نے ہمیں سبق دیا ہے کہ اولاد کی محبت اس حد تک ہونی چاہئے جس سے وہ بگڑ نہ جائے۔ ایسی محبت جو اولاد کو خراب کر دے محبت نہیں دشمنی ہے۔ جسمانی آرام سے روحانی اور اخلاقی درستی کا خیال مقدم رہنا چاہئے۔ اگر اولاد باوجود کوشش کے درست نہ ہو تو ایک وقت ایسا آسکتا ہے کہ اس سے قطع تعلق کرنا ضروری ہو۔ کیونکہ جب ان کو معلوم ہو کہ ماں باپ ہماری غلطی سے چشم پوشی کرتے ہیں تو وہ غلط راہ پر چلتے جاتے ہیں۔ لیکن جب ان کو معلوم ہو کہ ہماری غلطی پر مناسب گرفت ہوتی ہے تو ان کی اصلاح ہوتی جاتی ہے۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ اولاد کی محبت پر خدا کی محبت غالب رکھیں کہ یہ خداتعالیٰ کی ہی خوشنودی کا موجب نہیں بلکہ اپنی اولاد کی حفاظت کا بھی ذریعہ ہے۔
ومن عصانی فانک غفور رحیم پہلے عرض کیا تھا کہ میری اولاد میں سے اگر کوئی شرک میں پڑ جائے تو وہ میری اولاد سے نہیں۔ مگر نبی میں رحم بھی ہوتا ہے اولاد کو اولاد نہ سمجھنا اور خدا کی محبت کو ترجیح دینا اور چیز ہے اور اسن کے لئے خدا سے رحم کی درخواست کرنا اور چیز ہے۔ پس حضرت ابراہیمؑ دعا کرتے ہیں کہ اول تو میری اولاد کو شرک سے بچائیے لیکن اگر ان میں سے کوئی میرے طریق کے خلاف کرتے تو میں تو اسے یہی کہوں گا کہ وہ میری اولاد نہیں مگر تو چونکہ غفور رحیم ہے اس لئے تیرے غفور رحیم ہونے سے میں یہی امید کرتا ہوں کہ تو ان کے گناہ بخشیو اور ان کی ترقی کے سامان پیدا کرتا رہیو۔ اس میں یہ بتایا کہ اولاد سے ناراضگی کا یہ مطلب نہیں کہ ان سے دل بھی سخت کرلے بلکہ سزا ظاہری ہو دل میں ان کے لئے دعا کرتا رہے اور ان کی اصلاح مدنظر رکھے نہ کہ ان کی تباہی چاہے۔
۳۶؎ حل لغات
الوادی کے لئے دیکھیں سورۂ رعد ۱۸؎
افئدۃ:- فواد کی جمع ہے اور الفواد کے معنے ہیں القلب لتوقدہ۔ دل اور قلب کو فواد اس کے احساسات کی تیزی کی وجہ سے کہتے ہیں۔ وقیل لتحرکہ۔ اور بعض نے قلب کو فواد کہنے کی یہ وجہ بیان کی ہے کہ وہ حرکت کرتا ہے۔ کیونکہ فاد کے اصل معنی حرکت کرنے کے ہیں۔ وقیل ھو باطن القلب اور بعض کے نزدیک فواد دل کے اندرونی حصہ کا نام ہے۔ وقیل غشاء ہ اور بعض کے نزدیک دل کے اوپر کے حصے کا وقال جماعۃ من المفسرین یطلق الفوا علی العقل اور مفسرین کی ایک جماعت کے نزدیک فواد کے معنے عقل کے ہیں۔ (اقرب)
تھوی:- ھوی سے مضارع واحد مؤنث غائب کا صیغ ہے اور ھوت العقاب کے معنی ہیں انقضت علی صید اوغیرہ۔ باز اپنے شکار پر ٹوٹ پڑا۔ ھوت یدی لہ : امتدت وارتفعث۔ ھوت یدی لہ کے معنے ہیں کہ میرا ہاتھ لمبا ہوا اور بڑھا۔ الریح ھیت۔ ہوا چلی۔ الناقۃ براکبھا۔ اسرعت۔ اونٹنی اپنے سوار کو لے کر تیزی سے چلی۔ الشیء ھویا وھویا۔ سقط من علو الی اسقل۔ کوئی چیز اوپر سے نیچے کو گری (اقرب) پس تھوی الیھم کے معنے ہوں گے (۱) کہ لوگوں کے دل ان کی طرف شوق سے بڑھیں۔ (۲) ایسے مائل ہوں جیسے کوئی چیز گر کر تیزی سے آتی ہے۔ (۳) ان کے دل ہر وقت ان کی طرف مائل رہیں۔
الثمرات:- الثمرۃ۔ حمل الشجر۔ درخت کا پھل۔ النسل۔ نسل۔ الولد۔ لڑکا۔ القمرۃ من اللسان طرفہ وعد بتہ۔ زبان کی شیرینی۔ یعنی عمدہ کلام۔ ثمرۃ القلب۔ المودۃ۔ دوستی۔ خلوص العبد۔ خالص عہد۔ پس وارزقہم من الثمرات کے معنے ہوں گے (۱) کہ ان کو ظاہری پھلوں سے رزق عطا کر۔ (۲) ان کے خلوص دل سے کئے ہوئے اعمال ضائع نہ ہوں بلکہ پھل دار ہوں۔ (اقرب)
تفسیر
اس آیت میں حضرت ابراہیم اپنی نیت کو خداتعالیٰ کے سامنے پیش کرکے اس کے فضل کو طلب کرتے ہیں۔ خداتعالیٰ نیتوں کو دیکھنے والا ہے۔ وہ کبھی کسی اچھے عمل کو جو نیک نیتی سے کیا گیا ہو ضائع نہیں کرتا۔ پس وہ اللہ تعالیٰ سے التجا کرتے ہیں کہ تیری مقدس عبادت گاہ کی خدمت اور آبادی کے لئے میں نے اپنی اولاد کو یہاں چھوڑا ہے اور اس نیت سے یہاں چھوڑا ہے کہ وہ تیرے ذکر کو بلند کریں اور یہ جانتے ہوئے چھوڑا ہے کہ اس جگہ دنیوی آرام کا کوئی سامان نہ موجود ہے نہ ہوسکتا ہے۔ پس اب میں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ ایک تو جس مقصد کے لئے میں نے ان کو یہاں رکھا ہے وہ پورا ہو۔ لوگ ان کی طرف توجہ کریں اور ان کی تبلیغ اور ان کے وعظ میں اثر ہو اور یہ تیری بادت قائم کرنے میں کامیاب ہوں۔ دوسرے ان کی جسمانی حالت کی درسی کا بھی خیال رکھل۔ اور باوجود اس کے کہ انہیں میں ایسے علاقہ میں چھوڑ رہا ہوں کہ گھاس کی پتی بھی وہاں نظر نہیں آتی تو اعلیٰ سے اعلیٰ پھل بھی ان تک پہنچا۔ تاکہ انہیں معلوم ہوجائے کہ جو خداتعالیٰ کے لئے قربانی کرتا ہے خداتعالیٰ اسے دنیا میں بھی ضائع نہیں کرتا۔
اس دعا کا اثر دیکھو کتنا وسیع ہوا ہے۔ آج سب دنیا مکہ والے کے نام پر قربان ہے اور دل آپ ہی آپ اس کی تعلیم کی طرف جھکے جارہے ہیں اور اب تو مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت سے اور بھی ترقی کے سامان پیدا ہورہے ہیں۔ یہ تو دینی حصہ کی دعا کا حال ہے۔ باقی رہا دنیوی حصہ۔ سو وہ عجیب طرح پورا ہورہا ہے۔ اس بے آب و گیاہ علاقہ میں ہر قسم کے اور عمدہ سے عمدہ پھل میسر ہیں۔ میں نے ایسے اچھے انگور اور انار مکہ میں کھائے ہیں کہ نہ ہندوستان میں نہ شام میں نہ اٹلی اور فرانس میں ویسے نظر آئے۔ دنیا بھرکا پھل وہاں جاتا اور ابراہیمی دعا کی قبولیت کا ثبوت دیتا ہے۔
افئدۃ من الناس کے متعلق بعض علماء نے کہا ہے کہ اس میں من بعضہ ہے یعنی کچھ لوگوں کے دل ان کی طرف متوجہ ہوں۔ مگر یہ درست نہیں۔ دعا کرنے والا کبھی تھوڑی چیز نہیں مانگتا۔ پس یہاں من بعضیہ نہیں بلکہ زائدہ ہے۔
حروف زائدہ تاکید کے لئے آتے ہیں یعنی وہ معنوں میں زور پیدا کر دیتے ہیں یعنی مفہوم بغیر حروف زائدہ کے پیدا ہوتا تھا اس میں ان کے ذریعہ سے قوت اور طاقت پیدا کر دی جاتی ہے۔ چنانچہ افئدۃ من الناس میں سے من کو اڑا دیا جائے تو افئدہ الناس رہ جائے گ اور اس کے معنے ’’لوگوں کے دل‘‘ کے ہوں گے۔ چونکہ ال خصوصیت اور کمال کے لئے بھی آتا ہے اور یہی اس جگہ مراد ہے۔ پس اس جملہ کے معنے ہوئے۔ ’’ کامل اور خاص لوگوں کے دل‘‘ من نے داخل ہوکر ان معنوں میں اور زور پیدا کر دیا اور مراد یہ ہوئی کہ مکہ والوں کی طرف جھکنے والے دل نہایت پاک اور نہایت کامل لوگوں کے دل ہوں۔
یاد رکھنا چاہئے کہ حروف زائدہ سے مراد لغو اور بے کار اور زائد حروف نہیں بلکہ ان سے مراد معنوں میں زیادتی کرنے والے حروف ہیں اور اسی وجہ سے ان کے معنے تاکید کے ہوتے ہیں۔
وارزقہم من الثمرات لعلھم یشکرون۔ ظاہری پھلوں کے علاوہ یہ مراد بھی ہوسکتی ہے کہ ان کی عبادات اور ان کی قربانیاں ضائع نہ ہوں بلکہ ان کے اعلیٰ نتائج نکلتے رہیں۔
میرے نزدیک یہ دعا آنحضرت صلعم کے لئے ہے۔ آپؐ سے پہلے تھوی الیہھم کا مفہوم کب پورا ہوا۔ آپؐ سے پہلے صرف عرب لوگ ہی مکہ جاتے تھے۔ مگر اب آنحضرت صلعم کے بعد تمام جہان کے لوگ وہاں دوڑے چلے جاتے ہیں۔ پس میرے نزدیک اس دعا میں ایسے رسول کی دعا کی گئی تھی جو سب دنیا کی طرف مبعوث ہو اور جس کی آواز کو سن کر سب دنیا کے لوگ مکہ میں حج کے لئے جمع ہوں اور مکہ کو توحید کا مرکز بنا کر شرک اور مشرکوں سے پاک کر دیا جائے۔
میرے نزدیک حضرت ابراہیمؑ نے جو یہ خواب میں دیکھا تھا کہ وہ حضرت اسمٰعیلؑ کو ذبح کررہے ہیں اس کی تعبیر یہی تھی کہ وہ انہیں ایک دن ایک غیرذی زرع وادی میں چھوڑ جائیں گے۔ ایسی جگہ پر چھوڑنا ان کو اپنے ہاتھ سے ذبح ہی کرنا تھا۔ حضرت اراہیم نے زمانہ کے رواج کے مطابق اس کی تعبیر غلط سمجھی تھی۔ کیونکہ اس زمانہ میں لوگ انسانوں کی قربانی کیا کرتے تھے۔انہوں نے یہی سمجھا کہ شاید اللہ تعالیٰ کا یہی منشاء ہے کہ حضرت اسمٰعیل کو ذبح کر دیا جائے لیکن دراصل اس کی تعبیر یہی تھی کہ وہ ان کو ایک غیرذی زرع وادی میں چھوڑیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو فوراً ہی خواب کی تعبیر نہ سمجھائی کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو انسانی قربانی کا منسوخ قرار دینے والا بنائے۔ چنانچہ جب حضرت ابراہیمؑ اپنی خواب کو لفظاً لفظاً پورا کرنے کے لئے تیار ہو گئے تو اس نے انہیں بتا دیا کہ تمہارا اخلاص بھی ظاہر ہو گیا اور یہ حکم بھی قائم ہو گیا کہ آئندہ انسان کو بغیر جنگ یا بغیر قصاص کے قتل نہ کیا جائے گا۔ آئندہ انسانی قربانی بامعنی ہو گی۔ یعنی انسان اپنے وقت، اپنے علم، اپنے مال کو قربان کرکے خداتعالیٰ کا قرب حاصل کرے گا نہ کہ اپنے گوشت کو قربان کرکے۔ پس تم ظاہر میں ردبلا کے طور پر بکرے کی قربانی کردو۔ اور حقیقت میں اپنے بچہ کی ایک تلخ قربانی کے لئے تیار ہو جاؤ جو آئندہ پیش آنے والی ہے۔
۳۷؎ تفسیر
اس آیت میں بتایا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کا یہ فعل نہایت نیک نیت کی بناء پر تھا۔ ضمناً اس میں بائبل کے ایک اعتراض کا جواب دیا گیا ہے۔ بائبل میں ہے کہ حضرت سارہؓ ناراض ہوگئی تھیں۔ اس لئے ان کو خوش کرنے کے لئے حضرت ابراہیمؑ نے حضرت اسمٰعیلؑ اور ان کی والدہ کو جنگل میں چھوڑا تھا۔ یعنی ایک نبی نے اپنی ایک بیوی کی رضامندی کے لئے بعض بے گناہوں پر ظلم کیا۔ قرآن کریم اس امر کا جو حضرت ابراہیم کے نام پر دھبہ ہے خود حضرت ابراہیم کے منہ سے دفعیہ کرواتا ہے اور ان کی مذکورہ بالا دعا نقل کرکے بتاتا ہے کہ یہ بیان بائبل کا غلط اور بے بنیاد ہے۔ اس دعا کا مطلب یہ ہے کہ اے رب تو تو جانتا ہے کہ میری نیت ان کو جنگل میں چھوڑنے سے کیا ہے۔ میں ایسا کسی دنیوی غرض کی وجہ سے نہیں کررہا۔ بلکہ محض تیری خوشنودی کے حصول کے لئے اپنے بیوی بچوں کو اس جنگل میں چھوڑے جارہا ہوں۔
مایخفی علی اللہ من شیء میں من کا جو لفظ آیا ہے اس کا مفہوم اس جگہ ’’بھی‘‘ کے لفظ سے ملتا ہے۔ یعنی کوئی چیز بھی اللہ سے پوشیدہ نہیں اور اللہ تعالیٰ نے اس فقرہ کو اس لئے دوہرایا ہے کہ جس طرح ابراہیمؑ نے فرمایا تھا کہ اے اللہ تو میری نیت کو خوب جانتا ہے اسی طرح اللہ نے بھی ان کے قول کی تصدیق کرتے ہوئے فرمایا تھا مایخفی علی اللہ من شیء۔ بے شک ہم بھی اس کی نیت سے واقف ہیں اور جانتے ہیں کہ اس کا یہ فعل بیوی کی رضا حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ ہماری رضاء حاصل کرنے کے لئے تھا۔
۳۸؎ حل لغات
وھب لہ مالا۔ اعطاہ ایاہ بلا عوض۔ بغیر بدلہ کے اسے مال دیا۔ (اقرب)
تفسیر
جیسا کہ اوپر کی آیات سے ظاہر ہے اس جگہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر کے اس حصہ کا ذکر ہے جبکہ وہ خانہ کعبہ کی بنیاد رکھ رہے تھے۔ کیونکہ جو دعائیں اس جگہ مذکور ہیں وہ اس وقت کی ہیں (دیکھو سورۃ بقارہ ع۱۵،۱۵)
اس پر کہا جاسکتا ہے کہ پھر اس موقعہ پر اولاد کے ملنے کا ذکر اور اس پر الحمدللہ کہنے سے کیا مراد ہے اور اس کا کیا موقعہ ہے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس موقعہ پر اولاد کے ملنے پر الحمدللہ نہیں کہہ رہے بلکہ اس بات پر الحمدللہ کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنی زندگی میں عبادت قائم کرنے کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ ان کو محض اس بات کی خوشی ہے کہ وہ اپنی اولاد کے ذریعہ سے خدا کی عبادت کی بنیاد رکھ چلے ہیں۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اسحاقؑ بھی وقف تھے کیونکہ ان کو بھی دعا میں شامل کیا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کے ایمان کا یہ آیت ایک بے مثل ثبوت پیش کرتی ہے۔ بڑھاپے کی ولاد بڑا لڑکا بے آب و گیاہ جنگل میں چھوڑ کر آئے ہیں۔ جہاں میٹھے پانی اور خوراک تک کا پہنچنا مشکل ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی باتوں پر اس قدر یقین ہے کہ جب دنیا کی نگاہ میں انہوں نے اپنے بیٹے کے مستقبل کو تباہ کر دیا وہ نہایت جوش و خروش سے اللہ تعالیٰ کے شکریہ میں لگے ہوے ہیں کہ سب تعریف اللہ تعالیٰ ہی کا حق ہے۔ جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق دیئے اور ان کے حق میں میری دعاؤں کو سنا۔ گویا انہیں اس بڑھاپے میں بھی اولاد کی خواہش تھی تو صرف اس لئے کہ وہ اللہ کی راہ میں قربان ہو اور اس کے دین کو دنیا میں قائم کرے۔ سو اسمٰعیل کی قربانی سے یہ مقصد پورا ہو گیا۔ اپنے پیارے اور بڑے بیٹے کو اس طرح جنگل میں چھوڑ دینے کے بعد جبکہ خطرات سامنے نظر آرہے تھے اولاد کی پیدائش اور کامیاب زندگی پر خداتعالیٰ کا شکریہ ادا کرنا صرف ابراہیمؑ اور اس کی قسم کے لوگوں کا ہی کام ہے۔ اللھم صل علیھم وارفع درجاتھم۔
۳۹؎ حل لغات
مقیم الصلٰوۃ مقیم اقام سے اسم فاعل ہے جو قام کا مجرد ہے۔ کہتے ہیں قام الامر اعتدل۔ معاملہ درست ہو گیا۔ علی الامر۔ دام وثبت یعنی کسی چیز پر دوام اور ثبات اختیار کیا اور اقام السوق کے معنے ہیں نفقت۔ بازار بارونق ہو گیا اور اقام الصلٰوۃ کے معنے ہیں ادام فعلھا۔ نماز پر دوام اختیار کیا۔ اقام للصلٰوۃ کے معنے ہیں نادی لھا۔ نماز کے لئے پکارا۔ اقام اللہ السوق جعلھا نافقۃ۔ بازار کو بارونق بنا دیا۔ (اقارب) پس رب اجعلنی مقیم الصلٰوۃ ومن ذریتی کے معنے ہوں گے کہ ہمیں ایسا بنا دے کہ نماز کا رواج دینے والے ہوں۔ اور لوگوں کو اس طرف لانے والے ہوں اور نماز کی طرف لوگوں کو پکارنے والے ہوں۔
تفسیر
حضرت ابراہیمؑ نبوت کے مقام پر پہنچ چکے ہیں اور اولاد بھی ہوچکی ہے۔ پھر جوان ہے اور پھر اس کو دین کے لئے وقف بھی کر چکے ہیں۔ پھر کیوں کہتے ہیں رب اجعلنی مقیم الصلٰوۃ ومن ذریتی۔ کیا آپ کو اس بات میں کہ آ نماز کی پابندی کرتے رہیں گے کوئی شبہ تھا۔
اس سے آپ کی مراد یہ نہ تھی کہ میں نماز کو قائم نہ رکھ سکوں گا بلکہ س طرف اشارہ ھا کہ میرے ذریعہ اور میری اولاد کے ذریعہ سے دنیا میں نماز قائم رہے۔ اقامۃ الصلٰوۃ شخصی بھی ہوسکتی ہے اور قومی بھی۔ اس جگہ قومی مراد ہے اور حضرت ابراہیم کی دعا کا یہ مطلب ہے کہ میری کوششوں میں ایسا اثر دے کہ ہمیشہ میرے ذریعہ سے ایک نماز گذاروں کی جماعت قائم رہے اور اسی طرح میری اولاد میں سے بھی ہمیشہ ایسے لوگ ہوتے رہیں جو میرا ہاتھ بٹاتے رہیں اور لوگوں کو عبادت الٰہیہ کی طرف لاتے رہیں اور وہ بھی اپنی کوششوں میں کامیاب رہیں۔
اس طرح تاقیامت میں نمازوں کا قائم رکھنے والا بن جاؤں۔ یہ مقام عام مقیم الصلوۃ سے بہت بڑھ کر ہے کیونکہ وہ شخص صف اپنی نماز کو قام کرتا ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام دنیا کی نماز قائم کرنے کے لئے دعا کررہے ہیں۔
دراصل یہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق دع اور پیشگوئی ہے کہ جس طرح میرے ذریعہ سے نمازیں قائم ہوئی ہیں اسی طرح آئندہ بھی میری اولاد بے ایک شخص نمازوں کا قائم کرنے والا پیدا ہو۔
۴۰؎ حل لغات
اغفرلی غفر الشیء غفرا کے معنے ہیں سترہ۔ اس کو ڈھانپ لیا۔ المتاع فی الوعاء: ادخلہ وسترہ۔ سامان کو برتن میں داخل کیا۔ اور اس کو ڈھانپ دیا۔ الشیب بالخضاب: غطاہ سفید بالوں کو خضاب سے ڈھانپا۔ اللہ لہ ذنبہ غفرا غطی علیہ گناہوں پر پردہ ڈالا۔ الامر بغفرتہ۔ اصلحہ بما ینبغی ان یصلح ب۔ معاملہ کی اصلاح مناسب طریقہ سے کی۔ (اقرب) پس غفر کے لفظ میں ڈھانپنے کے معنے پائے جاتے ہیں اور اغفرلی کے معنے ہوں گے (۱) مجھے ڈھانپ لے۔ مجھ پر پردہ ڈال دے۔ یعنی میرا وجود مٹا کر انا وجود میرے ذریعہ سے ظاہر کر۔ (۲) میری بشریت کو الوہیت کی چادر سے ڈھانپ لے۔ یعنی میری کوششوں کے نتائج تیری شان کے مطابق نکلیں۔ (۳) میرے تمام کاموں کی عمدہ طریقوں سے اصلاح فرمادے۔ یعنی میرے تمام کام درست ہو جائیں۔ اور میری اولاد کی کمزوریوں کو ڈھانپ کر ان کو ترقی کے منازل کی طرف لے جا۔
تفسیر
نبی خدا کے فضل سے معصوم ہوتا ہے پھر نبی کا یہ کہنا کہ اغفرلی اس کا کیا مطلب؟دراصل غیر عارف انسان کی نظر محدود ہوتی ہے۔ اس کی نظر انسان تک ہی جاتی ہے اور انسان تک ہی تسلی پا جاتای ہے مگر عارف کی نظر اوپر جاتی ہے اور بلند ہوتی جاتی ہے۔ وہ سمجھ لیتا ہے کہ بندے کی اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں کیا ہستی ہے۔ سورج کے سامنے ایک ذرہ کی کیا حیثیت ہے۔ کیونکہ آخر انسان اسی کی مخلوق ہے۔ اس کی زندگی بھی اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی ہے اور ہدایت بھی اسی کی طرف سے آتی ہے۔ غالب نے کیا ہی عمدہ کہا ہے ؎
جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
پس نبی چونکہ عارف ہوتا ہے وہ اپنی ہستی کو دیکھتا ہے اور جانتا ہے کہ جو کچھ میں کررہا ہوں وہ میں نہیں بلکہ خدا ہی کر رہا ہے۔ اس لئے وہ دعا کرتا ہے کہ اے اللہ میرے وجود کو زیادہ سے زیادہ مخفی کر دے اور اپنے وجود کو زیادہ سے زیادہ ظاہر فرما۔ گویا اغفرلی کے اس صورت میں یہ معنے ہوتے ہیں کہ اے خدا تجھے میری ہی محبت کا واسطہ ہے کہ اپنا پردہ مجھ پر ڈال دے۔ یعنی میرا وجود مٹا کر تیرا وجود میرے ذریعہ سے ظاہر ہونے لگے اور یہ امر ظاہر ہے کہ بندہ کے ذریعہ سے جس قدر اللہ تعالیٰ کا وجود ظاہر ہوگا اسی قدر وہ اپنے نیک مقاصد میں کامیاب ہوگا۔
ہاں جب دوسروں کے لئے یہ لفظ آے تو اس وقت ان کے حسب مراتب اس لفظ کے معنے ہوں گے۔ ایک اعلیٰ درجہ کا مومن یہ لفظ استعمال کرے گا تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ وہ کمزوریاں جو حصولِ کمال سے محروم کرتی ہیں ان سے مجھے بچا لے۔ درمیانی درجہ کے مومن کے لئے یہ لفظ استعمال ہوگا تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ میری خطاؤں کو ڈھانپ کر مجھے اعلیٰ ترقیات کی توفیق دے اور عام مومن یہ لفظ استعمال کرے تو یہ مطلب ہوگا کہ میرے قدم کو ایمان پر استقلال سے قائم رک۔ میرے گناہ مجھے کہیں لے نہ ڈوبیں اور ایک متلاشی حق یہ لفظ استعمال کرے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ میرے گناہ مجھ ہدایت پانے سے محروم نہ کر دیں۔ اس لئے میرے گناہ معاف کر۔ اس لفظ کا استعمال مختلف مواقع کے لحاظ سے ایسا ہی ہے جیسے جبار کا لفظ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے لئے آتا ہے تو اس کے معنے مصلح کے ہوتے ہیں اور جب یہی لفظ بندے کے لئے آتا ہے تو اس کے معنے سرکش اور قانون شکن کے ہوتے ہیں۔یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کی نسبت فرماتا ہے اللہ یجتبی من رسلہ۔ تو جب اللہ تعالیٰ ان کو چن لیتا ہے تو پھر ان میں گناہ کہاں سے آسکتا ہے۔ جب وہ دنیا سے الگ کرکے خداتعالیٰ کے قرب میں بٹھا دیے گئے تو پھر ان کے پاس شیطان کہاں سے آئے گا۔ شیطان تو خداتعالیٰ کے نام سے بھی بھاگتا ہے۔ اسی طرح دوسری جگہ فرمایا ہے ان عبادی لیس لک علیھم سلطان۔ میرے بندوں پر یقینا تجھے کوئی تسلط حاصل نہیں۔ پس جب قانون یہ ہے کہ جو ادنیٰ عبودیت کے مقام پر ہو اللہ تعالیٰ اسے بھی شیطان کے تسلط سے محفوظ رکھتا ہے تو انبیاء اللہ جو اللہ تعالیٰ کی خاص حفاظت میں ہوتے ہیں ان کے پاس شیطان کا گذر کیسے ہوسکتا ہے۔
یوم یقوم الحساب۔ یہ حساب اس دنیا میں بھی ہوتا ہے اور اگلے جہان میں بھی ہوگا۔ دعا کا مطلب یہ ہے کہ جب اعمال کے نتیجے نکلنے لگیں اس وقت میری بشریت کو الوہیت کی چادر سے ڈھانپ لینا۔ میری بشری کمزوری پر پردہ ڈالنا۔ میری کوششوں کے نتائج میری طاقتوں کے مطابق نہ نکلیں بلکہ تیری شان کے مطابق نکلیں۔ اگر قیامت کا دن مراد لیا جائے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ اس دن مجھ سے وہ سلوک کیجئو جو تیری شان کے مطابق ہو نہ کہ وہ جو میرے اعمال کے مطابق ہو اور میرے والدین اور مومنوں سے بھی ان کے درجہ کے مطابق غفران کا معاملہ کیجئو۔
۴۱؎ حل لغات
تشخص۔ شخص سے مضارع ہے۔ شخص الشیء شخوصا کے معنی ہیں ارتفع بلند ہوئی۔ شخص بصرہ فتح عینیہ وجعل لا یطرف مع دوران فی الشحمۃ۔ اور شخص بصرہ کے معنے ہیں اپنی آنکھوں کو کھولا اور ایک جگہ ٹکٹکی لگا کر دیکھنا شروع کر دیا اور کسی اور طرف نہ دیکھ سکا۔ المی بصرہ وببصر۔ میت نے جان کندن کے وقت نظر اوپر اٹھا لی۔ شخص من بلد الی بلد۔ ایک شہر سے دوسرے شہر کو گیا۔ الرجل سار فی ارتفاع بلندی کی طرف چڑھا شخص السہم۔ ارتفع من الھدف۔ تیر نشانہ پر نہ لگا۔ (اقرب) پس تشخص فیہ الابصار۔ کے معنے ہوں گے کہ اس دن ان کی آنکھیں اوپر اٹھیں گی۔ (۲) نظریں چڑھ جائیں گی۔ (۳) پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔ وہ آنکھ جھپک نہیں سکیں گے۔
ولا تحسبن اللہ غافلا عما یعمل الظالمون اور تو ہرگز اللہ تعالیٰ کو غافل مت سمجھ اس سے جو ظالم کرتے ہیں۔ یا ان کے عمل سے۔ غافل کے یہ معنی نہیں کہ واقف نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ یہ مت سمجھوکہ ان کو جب اللہ تعالیٰ سزا نہیں دیتا تو ان کی طرف سے توجہ ہی نہیں ہے۔ غافل دو طرح ہوسکتا ہے۔ (۱) بے خبری سے (۲) توجہ نہ کرنے سے۔ تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان کو بے سزا نہیں چھوڑے گا۔
انما یؤخرھم لیوم تشخص فیہ الابصار صرف ان کو ڈھیل دے رہا ہے اس دن کے لئے کہ جس دن لوگوں کی نظریں چڑھ جائیں گی۔ یا پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی اور وہ آنکھ نہیں جھپک سکیں گے۔ جب انسان پر حیرت کا وقت آتا ہے تو وہ آنکھ جھپک نہیں سکتا۔ مطلب یہ کہ خداتعالیٰ ان کو درمیانی ڈھیل دے رہا ہے۔ اس دن تک جس دن ان پر آخری عذاب آئے گا۔ اس وقت تک ان کو ڈھیل دے گا۔ (اس آیت کی تفسیر اگلی آیت کے ساتھ دیکھیں۔ )
۴۲؎ حل لغات
مھطعین:- اھطع سے اسم فاعل جمع کا صیغہ ہے۔ جس کا مجرد ھطع ہے۔ کہتے ہیں ھطع الرجل اسرع مقبلا خائفا۔ خوف زدہ ہو کر تیزی سے دوڑتا ہوا آیا۔ اقبل ببصر وعلی الشیء فلم یرفعہ عنہ۔ کسی چیز پر ٹکٹکی لگا کر دیکھتا رہا۔ اور وہاں سے نظر کو نہ ہٹایا اور اھطع البعیر کے معنی ہیں مد عنقہ وصوب راسہ۔ اونٹ نے گردن کو لمبا کیا۔ا ور سر کو اٹھایا۔ اسرع وقبل مسرعا خائفا لایکون الا مع الخوف۔ اور اھطع الرجل کے معنے ہیں خوف زدہ ہوکر جلدی سے آیا۔ (خوف کا ہونا ضروری ہے) وقیل نظر مخضوع۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اس کے معنے عاجزی کی نظر سے دیکھنے کے ہیں۔ (اقرب) پس مھطع کے معنے ہوں گے (۱) خوف زدہ ہوکر دوڑنے والا۔ (۲) عاجزی سے دیکھنے والا۔ (۳) سر اوپر اٹھانے والا۔ مھطعین اس کی جمع ہے۔
مقنعی رؤوسھم: اقن راسہ نصبہ سر کو سیدھا اٹھایا۔ وقیل لا یلتفت یمینا وشمالا و جعل طرفہ موازیا لما بین یدیہ اور بعض نے اقنع کے یہ معنے کئے ہیں کہ اپنے سر کو اٹھا کر بالکل سیدھا رکھے اور دائیں بائیں نہ موڑے۔ اقنع الصبی کے معنے ہیں وضع احدی یدیہ علی فاس قفاہ وجعل الاخری تحت ذقنہ وامالہ الیہ فقبلہ۔ بچے کے سر کے پچھلی طرف ہاتھ رکھ کر اور دوسرا ٹھوڑی کے نیچے رکھ کر اسے اپنی طرف پھیرا اور اسے بوسہ دیا۔ اقنع حلقہ وفمہ۔ رفعہ لاستیفاء ما یشربہ من ماء اولین اوغیرھما۔ اس نے اپنے منہ کو اونچا کیا تاکہ پانی وغیرہ پوری طرح پی سکے۔ بیدیہ فی الصلوۃ رفعھما فی القنوت۔ اپنے ہاتھوں کو نماز میں قنوت کے لئے اٹھایا۔ راسہ وعنقہ رفعہ وشخص بہ نحوالشیء لایصرفہ عنہ۔ اپنے سر کو اٹھایاا ور نظر ایسے طور پر کسی چیز پر جمائی کہ اس سے ہٹ نہ سکے۔ (اقرب) مھطعین مقنعی رؤوسھم میں ان کی حیرانگی اور خوف زدہ ہونے کو ظاہر کیا گیا ہے۔ کہ ان کی حالت ایسی ہوگی کہ وہ اپنے سر بلند کرکے آنحضرتؐ کے لشکر کو دیکھ رہے ہوں گے۔ ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹیں رہ جائیں گی۔ اور وہ سخت خوفزدہ ہو کر بھاگیں گے۔
الھواہ:- الشیء الخالی۔ خالی چیز۔ الجبان لخلو قلبہ عن الجراۃ۔ بزدل پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے۔ کیونکہ اس کا دل جرأت سے خالی ہوتا ہے۔ (اقرب) وافئدتھم ھواء۔ ان کے دل امیدوں سے خالی ہوں گے۔ ان کے دل بیٹھے جارہے ہوں گے۔ بزدلی ان پر چھائی ہوگی اور مقابلہ نہ کرسکیں گے۔
تفسیر
یہ بتا کر کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک ایسے نبی کے لئے دعا کی تھی جو دنیا میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کو قائم کرے۔ مکہ اس کا مرکز ہو اور شرک سے اس کی تعلیم پاک ہو اب اللہ تعالیٰ کفار مکہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور فرماتا ہے کہ بے شک ان کو ڈھیل ملی ہے لیکن اس کی یہ وجہ نہیں کہ ہم ان کے اعمال سے ناواقف ہیں بلکہ اس کی وجہ اور ہے۔ اس وجہ کو لفظاً اس جگہ نہیں بتایا کیونکہ اوپر کے رکوع سے وہ وجہ ظاہر ہو چکی ہے اور وہ بھی ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہے کہ اے میرے رب اگر میری اولاد مشرک ہو تو میرا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ ہاں آپ بڑے بخشنے والے مہربان وجود ہیں۔ اگر ان سے ترقی کا برتاؤ کریں تو آپ کی شان کے مطابق ہے۔ یہ دعا علاوہ ان کی ہدایت کی خواہش کے اس ڈھیل کا موجب ہورہی تھی مگر جو لوگ ازلی شقی تھے وہ اس سے الٹے مغرور ہورہے تھے۔ لیکن کب تک انہیں ڈھیل دی جاسکتی تھی۔ ایک دن اصل دعا اپنا رنگ لائے گی اور مہلت سزا میں بدل جائے گی۔
اس جملہ کو عما یفعل الظالمون سے ختم کیا ہے۔ یہ نہیں کہا کہ جو تیرے مخالف کرتے ہیں یا مکہ والے کرتے ہیں اس سے اول یہ بتانا مطلوب ہے کہ خواہ کتنی ہی ڈھیل ملے ظالم آخر اپنے کیفر کردار کو پہنچ کر ہی رہے گا۔ دوم محمد رسول اللہ صلعم اور صحابہؓ کے دل کو تسلی دینا مقصود ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ لوگ ظالم ہیں اور مسلمانوں پر ظلم کررہے ہیں۔ ہم عدم توجہ کی وجہ سے ان کی طرف سے غافل نہیں ہیں۔ مسلمانوں کے مظلوم ہونے کا خیال ہے لیکن ابراہیمؑ کی وہ دعا کہ اے اللہ میں تجھ سے بھی امید کرتا ہوں کہ میری اولاد غلطی کرے تو تو ان سے غفور رحیم کا سلوک کرے گا۔ ہمیں عذاب میں جلدی کرنے سے روک رہی ہے۔
اس اظہار کے بعد کہ کیوں عذاب میں دیر ہوری ہے عذاب کی خبر بھی دے دی اور اس کے متعلق بعض علامات بھی اشارۃً بتا دیئے یعنی وہ یکدم آئے گا۔ یہ لوگ سخت گھبرا جائیں گے۔ حیرت سے سر اٹھا کر عذاب کو دیکھیں گے۔ نظر کو ادھر ادھر نہ ہٹا سکیں گے۔ دل گر رہے ہوں گے۔ جب مکہ فتح ہوا تو بعینہٖ یہی حال کفار کا ہوا۔ جب صلح حدیبیہ کے بعد مکہ والوں نے عہدشکنی کی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ پر چڑھائی کی تو آپ نے ایسا انتظام فرمایا کہ کسی کو علم نہ ہوا کہ اسلامی لشکر مکہ پر حملہ آور ہوا ہے۔ ابوسفیان دو دن پہلے ہی مدینہ سے روانہ ہوا تھا۔ جہاں سے وہ ایک ناکام سفیر کی حالت میں لوٹا تھا۔ ابھی وہ مکہ میں داخل نہ ہوا تھا کہ اسلامی لشکر جلد جلد منزلیں طے کرتا ہوا مکہ کے قریب پہنچ گیا۔ ابوسفیانا ور اس کے ساتھیوں نے دور سے جب لشکر دیکھا تو حیران ہو رہ گئے کہ یہ لشکر کس کا ہے۔ کبھی کہتے فلاں قبیلہ ہے اور کبھی کہتے فلاں ہے۔ انہیں یہ خیال ہی نہ آتا تھا کہ یہ لشک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہوسکتا ہے۔ چنانچہ جب طلائع (یعنی لشکر کے آگے چلنے والا حصہ) آئے تو ان کو پتہ لگا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آ گئے ہیں۔ تب وہ حیران رہ گئے۔ وہ حیران کھڑے تھے کہ حضرت عباسؓ نظر آئے۔ وہ گھوڑا دوڑاتے ہوئے آگے آئے (وہ بچپن سے اس کے دوست تھے) دیکھتے ہی کہا ابوسفیان میرے پیچھے سوار ہو جاؤ ورنہ مارے جاؤ گے۔ اس نے لیت و لعل کرنی چاہی تو انہوں نے ہاتھ پکڑ کر جھٹکا دیا اور اپنے پیچھے گھوڑے پر چڑھا لی اور ان کو لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے کی طرف روانہ ہوئے۔ آپ کے خیمہ کے پاس پہنچ کر زور سے ابوسفیان کو دھکا دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ حضور یہ مسلمان ہونا چاہتا ہے۔ ابوسفیان گھبرا گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حیران ہوئے۔ حضرت عباسؓ نے ابوسفیان کی گھبراہٹ کو دیکھ کر کہا ابھی اپنے دین کو جھوٹا ہونا ظاہر نہیں ہوا۔ ہلاکت میں مت پڑ اور مسلمان ہو جا۔ اور ابوسفیان کا ہاتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھایا۔ آپ نے اس خیال سے کہ شاید یہ حضرت عباسؓ کے کہنے پر بیعت کرنا چاہتا ہے کچھ تردد کیا۔ لیکن جب اسے مصر دیکھا اس کی بیعت لے لی۔ ابوسفیان نے کہا یا رسول اللہ میں اب مسلمان ہوا ہوں۔ مکہ والوں کا سردار ہوں۔ مجھے کچھ اعزاز دیا جائے۔ آپ نے فرمایا جو تمہارے گھر میں داخل ہوگا اسے امان دی جائے گی۔ اس نے کہا میرا گھر ب ہت چھوٹا ہے۔ فرمایا جو کعبہ میں داخل ہو اسے امان دی جائے گی۔ اس نے کہا وہ بھی چھوٹا ہے۔ آپ نے فرمایا جو اپنے گھر کا دروازہ بند کرلے گا اسے امان دی جائے گی۔ ابوسفیان نے کہا بس اب ٹھیک ہے اور دوڑ کر مکہ والوں کو آپ کے حملہ آور ہونے اور مذکورہ بالا امان دینے کا اعلان کیا۔ مکہ والے جو اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہیں زیادہ طاقتور سمجھتے تھے ان کے دلوں کی اس وقت کی حالت کا اندازہ کرنا آسان کام نہیں۔ اپنی حکومت کو پائیدار اور غیر متزلزل سمجھنے والوں نے جب اپنے سردار کے منہ سے جو ایک نیا معاہدہ کرنے مدینہ گیا تھا یہ اعلان سنا ہوگا کہ مکہ والو اپنے اپنے گھروں میں گھس کر دروازے بند کر لو کہ محمد (رسول اللہ) جسے تم نے دس سسال پہلے تنہا مکہ سے نکالا تھا اس کا عظیم الشان لشکر چند فرسنگ پر سرعت سے مکہ کی طرف کو رخ کئے چلا آ رہا ہے۔ اس لئے فوراً اپنے دروازوں کو بند کرکے بیٹھ جاؤ کہ اب اس سے تمہارے لئے کوئی امان کی صورت نہیں۔ تو ان کا کیا حال ہوا ہوگا۔ یقینا ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہوں گی۔ ان کے سر بلند ہوہو کر اس راستہ کو دیکھ رہے ہوں گے جس پر سے اسلامی لشکر بڑھا چلا آ رہا تھا اور دنیا کا اور کوئی مسئلہ ان کی توجہ کو اپنی طرف نہ کھینچ سکتا ہوگا۔ اور ان کے دل اندر ہی اندر ب یٹھے جاتے ہوں گے۔ جب وہ دروازے بند کرکے اپنے گھروں میں بیٹھ گئے ہوں گے اور جھروکوں اور کواڑوں کے سوراخوں سے اسلامی لشکر کو مکہ کی گلیوں میں کوش کرتے ہوے دیکھ رہے ہوں گے ان کی اس وقت کیا حالت ہو گی۔ اس کا نقشہ ان قرآنی الفاظ سے زیادہ اور کون سے الفاظ کھینچ سکتے ہیں۔
مکہ والوں کے لئے کیسی تلخی تھی۔ اس خیال میں کہ وہ محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) جسے انہوں نے تاریکی میں جب کہ سب مکہ کے دروازے بند تھے مکہ سے نکلنے پر مجبور کیا تھا اب دن کے وقت مکہ میں داخل ہو رہا تھا۔ اور اب بھی مکہ کے دروازے بند تھے۔ وہ دروازے جو ہجرت کے دن اس لے بند تھے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں پناہ نہیں مل سکتی تھی فتح مکہ کے دن اس لئے بند تھے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ذریعہ سے مکہ والوں کو پناہ دی تھی۔ اللھم صل علی محمد وبارک وسلم
یہ صرف خدائی تصرف تھا کہ آپ کے آنے کا مکہ والوں کو پتہ نہ لگا حالانکہ آپ اس راستہ سے آئے تھے جو آمدورفت کا ایک عام راستہ تھا۔ جہاں سے مکہ والوں کو فوراً خبر پہنچ سکتی تھی لیکن ان کو خبر نہ ہوئی اور اس طرح یہ پیشگوئی پوری ہوئی۔
۴۳؎ تفسیر
یہ اخروی عذاب کا ذکر ہے۔ جہان بھی قرآن کریم میں دنیوی عذاب کا ذکر ہوتا ہے تو اس کے ساتھ آخرت کے عذاب کا بھی ضرور بیان ہوتا ہے کیونکہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب کے لئے دلیل ہوتا ہے۔
۴۴؎ حل لغات
ضربنا لکم الامثال تمہارے لئے ضروری امور کھول کر بیان کر چکے ہیں۔ دیکھو ابراہیم ۲۴۵؎
تفسیر
اکثر قومیں ان علاقوں میں بستی ہیں جہاں پہلے دوسری اقوام بس چکی ہیں اور باوجود طاقت و قت کے الٰہی آواز کا انکار کرکے عذاب پاچکی ہیں مگر افسوس کہ پھر بھی لوگ نصیحت حاصل نہیں کرتے اور خداتعالیٰ کے عذاب کو خود چکھنا چاہتے ہیں۔
۴۵؎ حل لغات
الجبل کے لئے دیکھو رعد ۳۲؎
تفسیر
وقد مکروا مکرھم وعند اللہ مکرھم۔ اور انہوں نے اپنی تدبیریں کی تھیں جو کچھ ان کے بس میں تھا انہوں نے کیا۔
وعنداللہ مکرھم اللہ تعالیٰ کے پاس ان کا مکر ہونے کے دو معنے ہیں۔
اول ہر تدبیر کا نتیجہ خدا تعالیٰ ہی نکالتا ہے۔ پس ان کے مکر نتیجہ خیز نہیں ہوسکتے۔ وہ ان کی تدبیروں کو ضائع کر دے گا۔
دوم۔ ان کا مکر خداتعالیٰ کے پاس محفوظ ہے یعنی یہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نقصان پہنچانے کے لحاظ سے تو ضائع ہو گیا ہے لیکن خود ان کو نقصان پہنچانے کے لحاظ سے ضائع نہیں ہوا۔ خداتعالیٰ کے پاس موجود ہے وہ اس کی سزا ضرور دے گا۔
مکرھم میں مکر کی اضافت مفعول کی طرف بھی ہو سکتی ہے کہ ان کے مکر کی سزا جو اللہ تعالیٰ نے ان کو دینی ہے اس کے پاس محفوظ ہے۔ اس صورت میں تقریر عبارت یوں ہوگی مکرہ الذی یمکربھم۔
ون کان مکرھم لتزول منہ الجبال۔ ان کا مکر ایسا تھا کہ اس سے پہاڑ اڑ جائیں۔ جبل کے معنے پہلے آچکے ہیں کہ پہاڑ کا اور بڑے آدمی کو کہتے ہیں اور محاورہ میں مشکلات کے لئے بھی آتا ہے۔ یعنی گو ان کی تدابیر ایسی تھیں کہ ب ظاہر ان مشکلات کو دور کر سکتی تھیں جو ان کو آگے پیش آنے والی تھیں مگر چونکہ خدا کی تدبیر کا مقاب لہ تھا وہ ناکام رہے۔ یا یہ کہ پہلے جو قرآن کے متعلق بتایا تھا کہ اس سے پہاڑ یعنی بادشاہتیں اڑا دی جائیں گی ان کی تدبیروں کے متعلق فرماتا ہے کہ خواہ کتنی ہی مضبوط ہوں پہاڑ اڑانے والی تو نہیں۔ پھر قرآن کریم پر کس طرح غالب آسکتی ہیں۔ کہ وہ تو پہاڑوں کو بھی اڑا دینے والا ہے۔ پہلی صورت میں ان بمعنی گو اور دوسری میں ان بمعنی نہیں سمجھا جائے گا۔
۴۶؎ حل لغات
عزیز ذوانتقام:- انتقم نقم میں سے ہے اور نقم منہ ینقم ونقم وینقم نقما کے معنے ہیں عاقبہ اس کو سزا دی۔ نقم علیہ امرہ ومنہ کذا انکرہ علیہ۔ اس کی بات کو ناپسند کیا۔ عابہ۔ اس کی وجہ سے اس پر عیب لگایا۔ کرھہ اشدالکراھہ لسوء فعلہ۔ اس شخص کو اس کے برے کام کے باعث نہایت نفرت کی نگاہ سے دیکھا۔ انتقم منہ۔ عاقبہ۔ اس کو سزا دی۔ (اقرب) ذوانتقام کے معنے ہوئے کہ برے کاموں کی سزا دینے والا۔
۴۷؎ تفسیر
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اگلے جہان کے نعماء اس دنیا کی نعمتوں سے بالکل الگ ہیں کیونکہ یہاں فرمایا ہے کہ زمین و آسمان بدل کر دوسرے زمین و آسمان قائم کئے جائیں گے۔ اگر اگلے جہان بھی اسی قسم کے میوے وغیرہ ہونے تھے تو زمین و آسمان کو بدلنے کی کیا ضرورت ہے۔ پس اس دنیا کی نعمتوں کو اس دنیا کی نعمتوں پر قیاس کرنا بالکل خلاف عقل ہے۔
۴۸؎ حل لغات
مقرنین:- قرنت الاساری فی الجبال ای جمعت۔ قیدیوں کو رسیوں میں ملا کر اکٹھا باندھا گیا۔ وسدد الکثرۃ ومنہ مقرنین فی الاصفاد۔ اور تشدید تکثیر اور مبالغہ کے لئے لائی جاتی ہے۔ جیسے قرآن مجید میں مقرنین فی الاصفاد میں مقرنین تشدید کے ساتھ آیا ہے۔ (اقرب) الاصفاد کا مفرد الصفد ہے اور الصفد کے معنے ہیں العطاء بخشش۔ الوتاق۔ باندھنے کی چیز۔ زنجیر رسہ وغیرہ۔ برز یبرز بروزا خرج نکل کر سامنے آیا۔ (اقرب)
تفسیر
اس جگہ سوال ہوسکتا ہے کہ قیامت کے دن رسوں میں باندھنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اگلے جہان کی زندگی اس جہان کی ظل ہوگی۔ چونکہ ان لوگوں نے یہاں پر بداعمال ایک دوسرے کی شہ اور مدد پر کئے تھے اس لئے اس کا نظارہ اس رنگ میں دکھایا جائے گا کہ انہیں ایک دوسرے کے ساتھ رسوں میں باندھا جائے گا۔ مطلب یہ ہے کہ برا اتحاد طاقت اور عزت کا موجب نہیں ہوتا۔ بدی پر جو اتحاد ہو وہ کمزوری اور ذلت کا موجب ہوتا ہے لیکن نبیوں کے مخالف اسے نہیں سمجھ سکتے۔ اور تقویٰ کے خلاف جتھا بندی کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس جتھابندی کے ذریعہ سے ہم طاقت اور عزت حاصل کررہے ہیں۔ حالانکہ بدی پر جتھابندی ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص قیدی کے ساتھ ہتھکڑی میں اپنے ہاتھ بھی بندھوا دے۔ بے شک قیدی پہلے ایک تھا پھر دو ہو جائیں گے لیکن اس سے طاقت زیادہ نہ ہوگی بلکہ کمزوری پیدا ہوگی کیونکہ دو آدمیوں کا ایک ہتھکڑی میں بندھنا زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن انبیاء کے دشمنوں کو زنجیروں میں اکٹھا باندھ کر آشکار کر یگا اور انہیں بتائے گا کہ تمہارے جتھے ایسے ہی تھے جیسے قیدیوں کو اکٹھا ایک زنجیر میں باندھ دیا جائے۔
۴۹؎ حل لغات
سرابیلہم: سرابیل سربال کی جمع ہے۔ السربال القمیص سربال کے معنی ہیں قمیص۔ وقیل الدرع اور زرہ کو بھی سربال کہتے ہیں۔ وقیل کل مالبس اور بعض نے اسے عام رکھا ہے کہ ہر وہ چیز جو پہنی جائے سربال ہے۔ (اقرب) القطران: سیال دھنی یؤخذ من شجر الابھل؛ والارز ونحوھما (اقرب) قطران ایک قسم کا سیال تیل کی قسم کا مادہ ہوتا ہے جو سرو یا دیار وغیرہ درختوں سے نکالا جاتا ہے جس میں جل اٹھنے کا مادہ ہوتا ہے۔
تفسیر
اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ ان کا لباس سوا آگ کے اور کچھ نہ ہوگا۔ یہ فقرہ ایسا ہی ہے جیسے کہہ دیں کہ مٹی کا تیل چھڑ کر انہیں جلا دیا جائے گا۔ لباس چونکہ حفاظ کے لئے ہوتا ہے اس کا یہ مفہوم بھی ہے کہ ان کا کوئی محافظ نہ ہوگا۔ بلکہ جن کو وہ محافظ سمجھتے تھے وہ پھر ان کے دشمن اور مخالف ثابت ہوں گے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں دوسری جگہوں میں لکھا ہے کہ مشرک جن کو خدا بناتے ہیں قیامت کے دن وہ ان سے بیزاری ظاہر کریں گے۔
۵۰؎ تفسیر
لیجزی اللہ کل نفس ما کسبت یعنی جو اس نے اعمال کئے تھے ان کے مطابق اس کو ان کا بدلہ مل جائے اور اللہ تعالیٰ یقینا حساب لینے میں جلدی کرنے والا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ جلدی عذاب دیتا ہے کیونکہ خود اس نے فرمایا ہے کہ میں ڈھیل دیتا ہوں بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ حسابہ سریع جب حساب لینے لگتا ہے تو جلدی لے لیتا ہے۔
۵۱؎ حل لغات
البلاغ الکفایۃ۔ جو چیز کافی ہو۔ (اقرب)
تفسیر
ھذا بلاغ للناس۔ یہ لوگوں کے لئے پیام ہے یعنی اس پیام کے ذریعے لوگوں پر حجت پوری کی جاتی ہے۔
ولینذروا بہ۔ قرآن کریم ایک انذار ہے۔ اس کے ذریعہ لوگوں کو ہوشیار کیا جاتا ہے۔ جو غلطی میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان کو وہ بتاتا ہے کہ خداتعالیٰ ایک ہے۔ اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور جو سمجھ چکے ہیں انہیں وہ ہمیشہ استقلال سے صداقت پر قائم رکھنے کے لئے ہوشیار کرتا رہتا ہے تاکہ وہ روز بروز ہدایت میں بڑھتے رہیں۔ قرآن کریم بھی ایسی ایک کتاب ہے کہ جس کی آیات ایک ہی وقت میں دونوں کام کرتی ہیں۔ گمراہوں کو ہوشیار کرتی رہتی ہیں اور سمجھ والوں کو ترقی کی طرف توجہ دلاتی رہتی ہیں۔
اس آیت سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ قرآن کریم ایک تخریبی تعلیم نہیں کہ اپنے سے پہلے مذاہب کو یا ان کے پیروؤں کو تباہ کرنے پر بس کرے۔ بلکہ وہ تخریبی ہونے کے علاوہ تعمیری بھی ہے۔ اگر وہ دنیا کو ان تعلیموں سے محروم کرتا ہے جس پر وہ پہلے چل رہی تھی تو وہ ان کی جگہ ایک ایسی تعلیم بھی پیش کرتا ہے جسے عقل تسلیم کرتی ہے اور فہم قبول کرتا ہے۔ اسی طرح اگر اس کے ذریعہ سے پہلا نظام حکومت تباہ کیا جائے گا تو ساتھ ہی ایک ایسا نظام قائم بھی کیا جائے گا جو پہلے سے بہتر ہوگا۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
تفسیر کبیر ۔ تفسیر القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا محمود احمد رض ۔جلد 4۔ یونی کوڈ

سورۃ الحجر مکیہ
سورۃ الحجر ۱ ؎ یہ سورۃمکی ہے
وھی مع البسملہ مائۃ اٰیۃ وستۃ رکوعات
اوربسم اللہ سمیت اس کی ایک سو آیات ہیں ـ۔اورچھ رکوع ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں اللہ( تعالیٰ) کا نام لے کر( شروع کرتا ہوں )جو بے حد کرم کرنے والا (اور)بار باررحم کرنے والا ہے
۱؎ بحرِ محیط میں ہے ۔ھٰذِہِ السُّوْرَۃُ مَکّیۃٌ بِلَاخلَافٍ ۔ خداکی قدرت ہے کہ اس سورت میں بہت سے مسائل ایسے ہیں۔جن کی شان ہی اس سورۃ کے مکی ہونے سے بڑھتی ہے ۔اور اللہ تعالیٰ نے ایساتصرّف کیا کہ اسے مکّیہ بلاخلاف قرار دلوادیا۔
اس سورۃ کا تعلق پہلی سورۃ سے یہ ہے ۔کہ اس میں بتایاگیاتھاکہ پہلے انبیاء بھی بغیر ظاہری سامانوں کے خداتعالیٰ کے کلام کی مد د سے فتح پاتے رہے ہیں اب بھی اس طرح ہوگا۔
اب اس سورۃ میں بھی کلام الٰہی کی طاقت پر بحث کی گئی ہے ۔اوربتایاگیاہے کہ کلام الٰہی ایسی زبردست طاقت ہے ۔جس کے سامنے کوئی ٹھیر نہیں سکتااورجھوٹاکلام بناناآسان کام نہیں۔خداتعالیٰ پرافتراکرنے والابچ نہیں سکتا۔پس یہ سچاکلام ہے اورثبوت اپنے ساتھ لایا ہے ۔
اس سورۃ کے مضامین کاخلاصہ یہ ہے کہ یہ ایساکلام ہے کہ اپنامشابہ آپ ہے ۔یہاں تک کہ ایسے بہت سے مواقع پیش آتے ہیںاور آئیں گے۔کہ اس کی خوبیوں کو دیکھ کر دشمن بھی دل میں حسرت کرتے ہیں ۔اورکریں گے کہ ایسا کلا م ان کے پاس کیوں نہ ہوا۔مگر اپنی خود غرضیوں کی وجہ سے اس کی طرف قدم نہیں اٹھاسکتے ۔اورسمجھتے نہیں کہ اس قسم کی سستی کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان صداقت سے محروم رہ جاتا ہے اورعذاب میں مبتلاہوجاتا ہے ۔آخر جب ہم نے ایک کلام اتاراہے تویہ تونہیں ہوسکتا کہ وہ مٹ جائے ۔وہ قائم رہے گا اوررکھاجائے گا۔پس جو اسے قبول کرنے میں سستی کریں گے وہ اپنانقصان خود کریں گے۔
پہلے نبیوں کے کلام سے بھی تمسخر ہوا۔مگرلوگ یہ نہیں خیال کرتے کہ خداتعالیٰ پر افتراکرنامعمولی بات نہیں ۔خداخود اس امر کی حفاظت کرتا ہے کہ اس پر افترانہ کیاجائے ۔اور سچے کلام کو خاص امتیازعطافرماتا ہے ۔اس کی قبولیت کے سامان پیداکردیتا ہے اور جو اسے قبول کرتے ہیں ۔انہیں ادنیٰ حالت سے اٹھاکر کمال تک پہنچادیتا ہے ۔
پس جس طرح پہلے انبیاء کے کلام ہی خزانے تھے جن کے ذریعہ سے دنیافتح ہوئی ۔اسی طرح اب بھی ہوگااگرمخالف پرواہ نہیں کرتے نہ کریں ۔وہ اس کی سزاپائیں گے ۔تُو اس خزانہ کو مومنوں میں تقسیم کر ۔اورجواسے قبول نہیں کرتے اُنہیں سمجھاتا رہ ۔اور خداسے دعائیں کر۔کہ اسی ذریعہ سے تبلیغ کارستہ صاف ہوگا۔
الر تلک ایت الکتب و فرقان مبین
الرا۔یہ (ایک)کامل کتاب اور(اپنے مطالب کو خودہی)واضح کردینے والے قرآن کی آیات ہیں ۲؎
۲؎ حل لغات۔تِلْکَ ۔اٰیٰت۔اَلْکِتٰب کی تشریح کے لئے دیکھیں سورۃ یونس ۳؎
مُبِیْنٌ۔اَبَانَ سے اسم فاعل ہے اوراَبَان لازم اور متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے ۔یعنی کبھی اس کے معنے ظاہرکرنے کے ہوتے ہوتے ہیں ۔اورکبھی ظاہرہونے کے ۔چنانچہ اقرب الموارد میں ہے ۔اَبَانَ الشَّیْئَ ۔اِتَّضَحَ۔کوئی چیز ظاہر ہوگئی ۔(لازم)وَفُلَانٌ الشَّیْئَ ۔اَوْضَحَہُ کسی چیز کو واضح اور ظاہرکیا۔(متعدی)سورۃ یوسف میں الْمُبین کے معنے ظاہر کرنے والی کتاب کے تھے۔اور اس جگہ خود ظاہرہونے کے ہیں ۔یعنی یہ بتانامقصود ہے کہ یہ کتاب اپنی آپ شاہد ہے ۔قراٰن کی تنوین تفخیم(بڑائی کے اظہار )کے لئے ہے ۔
تفسیر ۔اس جگہ لوگوں نے بحث کی ہے کہ کیا اَلکِتٰب اور قُرْاٰنٌ مُّبِیْنٌ میں کوئی فرق ہے ؟کیونکہ یہاں پر درمیان میں وائو عاطفہ لائی گئی ہے ۔اور عطف بالعمو م مُغائر اشیاء میں ہوتا ہے ۔دراصل انہیں یہ غلطی اس بات سے پیداہوئی کہ انہوں نے اَلْکِتٰب سے کاغذوں میںلکھی ہوئی کتاب سمجھ لیا ہے ۔حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اَلکِتٰب اور قُرْاٰنٌ مُّبِیْنٌ کے الفاظ کو مقابل پر رکھ کر اس بات کو پیش کیا ہے ۔کہ قرآن مجید کی حفاظت تحریرؔاوریادؔدونوں طرح سے کی جائے گی۔یہ لکھابھی جائے گا۔اور بکثرت پڑھابھی جائے گا۔گویا۔اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَاالذِکرَ واِنَّالَہُ لَحَافِظُوْنَ والے مضمون پرزور دیاگیا ہے اور اس جگہ معنوی طور پر قرآ ن مجید کی دوصفات کی طرف اشارہ کیاگیا ہے ۔کِتٰبٌ کے لفظ میں اس کے تحری میں آنے کی طرف اشارہ ہے اورقُرْاٰن کے لفظ میں اس کے بکثرت پڑھے جانی کی خبر دی گئی ہے ۔گویایہ دونام نہیں ۔بلکہ دوصفات ہیں۔جیسا کہ محمدؐ کالفظ کبھی بطورصفت کے یعنی بہت یعریف کیاگیا کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔یہ دونوں صفات یکجائی طورپر صرف قرآن کریم میں پائی جاتی ہیں ۔اس کے سوااور دنیا کی کسی الہامی کتاب میں یہ صفات جمع نہیں ہیں۔انجیل اورتورات کثرت سے پڑھی جاتی ہیں ۔لیکن ان کو یاد کرنے والاکوئی نہیں۔ویدوں کویادکرنے والاچھوڑ۔ان کے معنے جاننے والے بھی شاذ ہیں۔اس زمانہ میں سناہے پچیس کروڑ ہندوئوں میں سے معارف تو الگ رہے ۔صرف چار آدمی سارے ہندوستا ن میں ویدوں کاترجمہ سمجھ سکتے ہیں ۔یہی حال ژنداوستا کا ہے ۔صرف اور صرف قرآن کریم ہے جوکتابی صورت میں بھی پڑھاجاتا ہے اور حفظ بھی کیاجاتاہے ۔اوردونوں صورتوں میں لاکھوں کروڑوں آدمی اس سے فائدہ اُٹھارہے ہیں۔اس جگہ ایک اور لطیفہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے اور وہ یہ کہ قرآن مجید کے متعلق دوجگہ پر کتاب اور قراٰن کالفظ اکٹھاآتاہے ایک جگہ قرآن کالفظ پہلے ہے اورکتاب کابعدمیں (نمل عٰ)اورایک جگہ کتاب کالفظ پہلے اورقرآن کالفظ بعد میں استعمال ہواہے ۔چنانچہ اس آیت میں کتاب کالفظ پہلے ہے اورقراٰن کابعد میں ۔میرے نزیک یہ فرق درجہ کے تفاوت کو مدّنظر رکھ کر کیاگیاہے ۔سورہ حجر میں کتاب کی صفت سے زیادہ قراٰن کی صفت کے اظہار پر زوردیاگیاہے۔اس لئے کتاب کو پہلے اورقرآن کو بعد میں بیان کیاگیاہے۔کیونکہ جب درجہ بیان کرناہوتوبڑی شے کو چھوٹی کے بعد بیا ن کیاجاتا ہے ۔اورسورہ نمل میںچونکہ قرآن کریم کی زبانی تلاوت سے زیادہ اس کی تحریرکے اثرکونمایاںکرناتھا۔اس لئے اس میں قرآن کالفظ پہلے رکھاگیاہے اورکتاب کالفظ بعد میں رکھاگیا۔
ایک اور امر بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اس آیت میں الکتاب کے ساتھ مُبِیْن کالفظ نہیں ہے ۔مگرقرآن کے ساتھ مبین کالفظ آیاہے اس کے برخلاف سورہ نمل کے پہلے رکوع میں اس آیت کے مضمون کو اُلٹ کربیان کیاہے ۔اورکہا ہے ۔تِلْکَ اٰیٰتُ الْقُرْاٰنِ وَکِتٰبٍ مُّبِیْنٍ یعنی قرآنکالفظ پہلے رکھ دیاگیاہے اور مبین کالفظ کتاب کے ساتھ لگادیاہے ۔ممکن ہے ۔بعض ناواقف لوگ جو اسرارِقرآنیہ سے واقف نہیں یہ خیال کریں کہ سجع کی خاطر ایساکردیاگیاہے ۔لیکن یہ درست نہیں کیونکہ اگرمبین سجع کی خاطر لگایاگیاتھا ۔ توقرآنکو کتاب سے پہلے کیوں کیاگیا۔سورہ حجر والی ترتیب قائم رکھی جاتی او رکتاب کو پہلے اور قرآنکوبعد میں رکھاجاتا۔پس ان الفاظ کی ترتیب کو بدل دینے سے صاف ظاہر ہے کہ مُبین کالفظ سجع کی غرض سے کتاب کے ساتھ نہیں لگایاگیا۔بلکہ کسی اور حکمت کے ماتحت لگایاگیاہے مُبین کالفظ انہی دوسورتوں میںقرآن اورکتاب کے افاظ کے ساتھ نہیں لگایاگیابلکہ اورسورتوں میں بھی ایساکیاگیاہے ۔ قرآنکیساتھ ایک تو اس سورۃ میں۔دوسرے سورہ یٰسںع۵ مبین کی صفت استعمال کی گئی ہے اور کتاب کیساتھ ایک تو سورہ نمل کی مذکورہ بالاآیت میں ااور دوسرے مندرجہ ذیل سورتوں میں یہ صفت بیان کی گئی ہے ۔مائدہ(ع۳)ھود(ع۱)انعام(ع۷)یونس(ع۶) سباء (ع۱) نمل(ع۶) شعراء(ع۱)قصص(ع۱)یوسف(ع۱)زخرف(ع۱)دخان(ع۱) گویابارہ جگہ کتاب کی صفت مبین آئی ہے اور دوجگہ قرآن کی ۔پس سجع وغیرہ کاکوئی سوال نہیں۔یہ تغیّریقیناًکسی حکمت کے ماتحت ہے۔
قرآن اورکتاب کے الفاظ اس قسم کے موقع پر دوہی جگہ جمع ہوئے ہیں۔ان میں سے ایک میں تو کتاب کو پہلے رکھاگیا ہے اور قرآن کو بعد میں اورقرآن کی صفت مبین بیان ہوئی ہے اوردوسری جگہ قرآن کو پہلے بیان کیاہے اورکتاب کو بعد میں اورکتاب کے ساتھ مبین کالفظ بیان ہواہے اوراصل مواقع یہی ہیں جوغورطلب ہیں۔کہ کیوں ایک جگہ قرآن کے ساتھ اور دوسری جگہ کتاب کے ساتھ مبین کالفظ استعمال کیاگیاہے ۔اس کاجواب یہ ہے کہ سورئہ حجر اور سورہ نمل کے مضامین میں ایک فرق ہے سورئہ حجر میں ان انبیاء کاذکر ہے ۔اور ان کے حالات زندگی کو بطور تمثیل پیش کیاگیاہے جن میں کتابت کارواج کم تھااور علوم کو زبانی یاد رکھاجاتاتھا۔یعنی حضرت آدمؑ حضرت ابراہیمؑ ۔ان کے رشتہ دار۔حضر ت لوطؑ اور اصحاب ایکہ یعنی بن والے لوگ اور قوم صالحؑ۔
حضرت آدمؑ کازمانہ ابتدائی تھا۔اورغالباًتحریرکافن ابھی شروع بھی نہ ہواتھا۔حضرت ابراہیم ؑاورحضرت لوطؑ عربی قبائل میں سے تھے۔اورعراق ان کا مولد تھاان میں بھی تحریرکاروا ج کم تھا۔پس ان مثالوں سے ثابت ہے ۔کہ سورئہ حجر میں زیادہ ترخطاب ان اقوام سے ہے۔جن میں تحریرکارواج کم تھا۔اورجنھوں نے حفظ کے ذریعہ سے قرآنی علوم سے زیادہ فائدہ اٹھاناتھا۔پس اس سورۃ میںقرآن کیساتھ مبین کالفظ رکھا یہ بتانے کے لئے کہ ان اقوام میں اس کلام کی صفت قرآنلوگوں کوزیادہ فائدہ پہنچائے گی۔لیکن کتااب کی صفت بھی ساتھ بیان کی تاکہ مکمل حفاظت کااظہار ہو۔اس کے بالمقابل سورئہ نمل میں کتاب کے ساتھ مبین کالفظ لگایاگیاہے ۔کیونکہ اس سورۃ میں حضرت موسیٰ علیہ لسلام اور حضرت دائودؑکے واقعات پر زور دیاگیاہے جوبنی اسرائیل میں سے تھے۔جن میں لکھنے کارواج بہت تھااورزبانی یاد رکھنے کارواج کم تھااوران انبیاء کے اتباع نے محمد رسول اللہ صلعم پر نازل ہونے والے کلام کی صفت کتاب سے زیادہ فائدہ اٹھاناتھابہ نسبت صفت قرآن کے ۔اس لئے اس کی مناسبت سے سورئہ نمل میں قرآنکے لفظ پر زورکم دیااورکتاب پر زیادہ۔
غرض سورہ حجرمیں تویہ بتایاہے کہ قرآن کریم کولکھابھی گیاہے مگربعض اقوام جوحافظہ سے زیادہ کام لینے والی ہیں ۔اس کویادکرکے اورسن کر زیادہ فائدہ اٹھائیں گی۔اوراس سورۃ میں وہی ہماری بڑی مخاطب ہیں او رسورہ نمل میں یہ بتایاگیاہے کہ قرآن کریم گوحفظ بھی کیاجائے گالیکن لکھا بھی جائے گا۔اوربعض قومیں جو تحریرسے زیادہ فائدہ اٹھانے والی ہیں ۔وہ اسے کتاب سے پڑھ کرزیادہ فائدہ اٹھائیں گیااور س سورۃ میں وہی ہماری بڑی مخاطب ہیں ۔
خلاصہ یہ کہ قرآن کریم قرآن ہونے کے لحاظ سے بھی مبین ہے اور کتاب ہونے کے لحاظ سے بھی ۔او رچونکہ وہ سب دنیا کی طرف ہے اس سے وہ قومیں بھی فائدہ اٹھائیں گی جوحافظہ سے زیادہ کام لیتی ہیں ۔ان کے لئے وہ قرآن مبین ہوگااوروہ قومیں بھی فائدہ اٹھائیں گی جوتحریرسے وابستہ ہیں اور ان کے لئے وہ کتاب مبین ہوگا۔
جیساکہ میں نے بتایاہے۔قرآن مبین کالفظ دو دفعہ استعمال ہواہے۔اورکتاب مبین کاکابارہ دفعہ۔اس میں اس امر کی طرف بھی اشارہ ہے کہ قرآن کریم کاکتاب ہونے کے لحاظ سے وسیع حلقہ ہوگا اور اکثر لوگ اس کے کتاب ہونے کے لگاظ سے فائدہ اٹھائیں گے۔یعنی کثیرالتعداد اقوام میں وہ پھیل جائے گا۔جوکتابت سے علوم کو محفوظ کرتی ہیںمیرے نزدیک قرآن کریم میں دس جگہ کتاب کے ساتھ مبین کالفظ استعمال کرنااوردوجگہ قرآن کے ساتھ مبین کالفظ استعمال اس امر کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ہے کہ کتاب سے فائدہ اٹھانے والے زیادہ ہوتے ہیںبہ نسبت حفظ سے فائدہ اٹھانے والوں کے ۔اورمسلمانوں کو توجہ دلائی ہے کہ وہ مسلمانوں میں تعلیم کے رواج کو زیادہ کریں ۔تاکہ مسلمان قرآنی فوائد سے محروم نہ رہ جائیں۔
اس سورۃ میں تعلیم اسلام کی حفاظت کاذکر ہے اس لئے اس کی دونوں صفات یعنی کتاب اورقرآن بیان کی گئی ہیں ۔کسی مضمون کی حفاظت کبھی مکمل طور پرنہیں ہوسکتی ۔جب تک وہ تحریر اور حفظ دونوں ذریعہ سے محفوظ نہ کیاجائے ۔انسانی حافظہ بھی غلظی کرجاتاہے اورکاتب بھی بھول چوک جاتا ہے ۔لیکن یہ دونوں مل کر ایک دوسرے کی غلطی کو نکال دیتے ہیں اوران دوسامانوں کے جمع ہونے کے بعد غلطی کاامکان باقی نہیں رہ سکتا۔قرآن کریم کویہ دونوںحفاظتیں حاصل ہیں ۔یعنی وہ کتاب بھی ہے ۔رسول کریم صلعم کی زندگی سے ہی اس کے الفاظ تحریر کرکے ضبط میں لائے جاتے رہے ہیں اور وہ قرآن بھی ہے ۔یعنی نزول کے وقت سے آج تک ہزاروں لوگ اسے حفظ کرتے اور اس کی تلاوت کرتے چلے آئے ہیں۔
ربما یودالذین کفروالوکانو مسلمین
جن لوگوں نے(اس کا)انکارکیاہے۔وہ بسااوقات آرزوکیاکرتے ہیں۔کہ کاش وہ (بھی اسکی)فرمانبرداری اختیارکرنے والے ہوتے۔۳؎
۳؎ حل لغات۔رُبَمَا۔رُبَ اورمَاکامرکب ہے رُبَ کبھی رُبَّ یعنی ب کی تشدید سے بھی استعمال ہوتا ہے اس کے متعلق یہ اختلاف ہے ۔کہ یہ حرف ہے یااسم ۔بصریوں کے نزدیک اورنیز اکثر ائمہ لغت و نحو کے نزدیک یہ حرف ہے لیکن کوفی نحوی اسے اسم بتاتے ہیں ۔بصری کہتے ہیں کہ رُبَ کے بعد مالفظ اس لئے لایاگیا ہے کہ یہ حرف تھاکیونکہ حرف جرّ فعل پرنہیں آسکتا۔
رُبَ کے معنوں کے متعلق بھی اختلاف ہے ۔اکثر لوگوں نے اس تقلیل کے لئے قرار دیاہے یعنی جس واقعہ پر رُبَما داپل ہوتا ہے ۔وہ کبھی کبھی او رشاذو نادرکے طورپرہوتاہے ابوعبداللہ رازی نے لکھا ہے کہ اس بات پر اجماع ہے کہ یہ تقلیل کے لئے آتا ہے ۔زمخشری کابھی یہی خیال ہے مگرسیبویہ کی طرف ایک روایت منسوب ہے ۔کہ یہ تکثیر کے معنوںمیں بھی آتاہے ۔زجاج کابھی یہی قول ہے ۔بعض علماء کا خیال ہے کہ رُبَمَاتقلیل کے لئے آتا ہے نہ تکثیرکے لئے ۔بلکہ سیاق وسباق کے ماتحت تکثیر یاتقلیل کے معنی دیتا ہے جب تقلیل کاموقع ہوتوتقلیل کے معنے دیتا ہے اوراگرتکثیرکاموقع ہو۔ توتکثیر کے۔اس کے ذاتی معنی کوئی نہیں ۔یہ صرف اس بات پردلالت کرتا ہے کہ مابعد کاواقعہ ضرور ہواہے ( محیط)
اس آیت میں رُبَمَّاکے معنے تکثیرکے ہی لئے جاتے ہیں جن لوگوں نے ربماکوتقلیل کے لئے قراردیا ہے انہوں نے بھی اس جگہ تاویل کر کے تکثیرہی کے معنے لئے ہیں ۔
اسی طرح رُبَ کے متعلق ایک اوربحث ہے ۔اکثرلوگوں کی رائے ہے کہ رُبَماہمیشہ ماضی کے معنوں کے بیان کرنے کے لئے آتا ہے خواہ اس کے بعد فعل مضارع ہی کیوں نہ ہو۔ان لوگوں نے رُبَمایَوَدُّ کے معنے رُبَماوَدَّ کئے ہیں ۔ااورپھرکہا ہے کہ رُبَمایَوَدُّ فعل جو قاعد ہ کے روسے ماضی کے معنے دیتا ہے ۔اس جگہ مستقبل کے لئے اس لئے استعمال کیاگیا ہے ۔تاکہ یقین کے معنوں پر دلالت کرے لیکن عربی زبان کاتفحّص کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رُبَ کالفظ مستقبل کے معنے میں بھی آتا ہے ۔ہندہ زوجہ ابوسفیان کہتی ہے ؎
یَارُبَّ قَائِلَۃٍ غَدًا
یَالَھْفَ اُمّ مُعَاوِیَۃً۔(محیط)
اس میں یقیناً مستقبل کے معنے ہیں ۔جیساکہ غَدًا کالفظ دلالت کرتا ہے ۔پھر اسی طرح ایک شاعر سلیم التقشیری کاشعر ہے ؎
وَمُتَعْصِمٍ بالْجُبْنِ مِنْ خَشْیَۃِ الرَّدَی
سیُرْدَی وغازٍمُشْفِقِ سَیَئووْبُ
یعنی موت کے ڈر کی وجہ سے بزدلی کی پناہ لینے والا ہلاک ہوجائے گا۔لیکن جو ڈر کو دور پھینک دیتا ہے اور جنگ کے لئے نکل کھڑاہوتا ہے وہ زندہ سلامت واپس آئے گا۔اس جگہ پر رُبَّ مخذوف ہے ۔جیسا کہ مُعْتَصِمٍ کی جَرّ سے ظاہر ہے اور شعر کے معنے یقیناً مضارع پردلالت کرتے ہیں۔کیونکہ سَیُرْدیٰ اور سَیَئُوْبُ مضارع کے صیغے ہیں ۔غرض رُب مستقبل کے معنوں میں بھی آتا ہے ۔اورتکثیر کے لئے بھی ۔ جیسا کہ سیبویہ اورزجاج کے قول سے اوپر ذکرہوچکا ہے ۔
اَسْلَمَ سے اسم فاعل مُسْلِمٌ آتاہے ۔اورمُسْلِمُوْنَ اس کی جمع ہے اَسْلَمَ الرَّجُلُ کے معنے ہیں تَدَیَّنَ بِالْاِسْلَامِ مذہب اسلام قبول کرلیا۔اوراَسْلَمَ اَمْرَہ‘ اِلَی اللہ کے معنے ہیں سَلَّمَہ‘ کہ اپنے معاملہ کو اللہ کے سپردکردیا(اقرب)ربما یودالذین کفروا لوکانو مسلمین کے معنے ہونگے۔بسااوقات منکریہ آرزوکرتے ہیں یاکرینگے کہ وہ اسلام کو قبول کرلیتے (۲)وہ اپنے معاملات کو اللہ کے سپردکردیتے ۔
تفسیر کفارکی اس خواہش کے متعلق مفسرین نے بحث کی ہے کہ کب انہوں نے خواہش کی کہ وہ مسلمان ہوں؟بعض نے مجبورہوکرکہاکہ وہ اس وقت یہ خواہش کریں گے جب مسلمانوں کی فتح ہوگی ۔بعض نے قیامت پرچسپاں کیا ہے کہ اس وقت کہیں گے کہ کاش ہم مسلمان ہوتے۔ اور بعض نے اس سے ترقیات اسلامی مراد لی ہیں ۔یعنی جب بھی ترقی ہوگی وہ یہ خواہش کریں گے ۔
یہ معنے بھی درست ہیں ۔ان پر کوئی اعتراض نہیں۔کیونکہ جب دشمنی بلاوجہ ہوتی ہے جیسا کہ کفار عرب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تھی تودشمن کی ترقی پر انسان کو اکثر یہ خیال آجاتاہے کہ میں اس کی دشمنی نہ کرتا ۔تواچھاتھا۔آج فائدہ ہی اٹھالیتا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دشمنی محض حسد کی وجہ سے تھی ۔اورآپ کی غیرمعمولی ترقیات سے وہ حسد کے مواقع ہی جاتے رہے ۔اس لئے ان کو بارہاخیال آتاہوگاکہ کاش ہم مسلمان ہوتے۔
اسی طرح جب وہ بدرکے مقام پر قتل ہورہے تھے توان کادل یہی چاہتاہوگاکہ کاش ہم مسلمان ہوتے۔
غرض اسلام کی فتوحات دشمنوں کے دلوں میں یہ حسرتیں ضرورپیداکرتی ہونگی۔کہ کاش ہم بھی ساتھ ہوتے۔منافقوں کاقول توقرآن مجید میں صریح طورپربیان ہواہے کافروں کی بھی یہی حالت ہوتی ہوگی۔یہ ایک طبعی بات ہے اس سے انکار نہیں ہوسکتا۔
میرے نزدیک ان کے علاوہ آیت کے ایک اورمعنے بھی ہیں ۔مفسّرین عام طور پر ظاہری لطافت۔فصاحت و بلاغت اورمعجزات پر بحث کرتے ہیں ۔اورقرآن کریم کی تعلیمی خوبیوں پر بہت کم بحث کرتے ہیں ۔میرے خیال میں سب سے بڑی چیز جس کے لئے قرآن کریم آیا ہے ۔وہ اس کی کامل اور دلکش تعلیم ہے اور اسی کی طرف تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰب میں اشار ہ کیا ہے ۔اورآیت ربما یودالذین کفروا میں انہی تعلیمی خوبیوں پر رشک کا ذکرکیاہے یعنی فرماتا ہے کہ اسلام کی تعلیمات کی خوبیوں کو دیکھ کر بارہاکافر کہہ اٹھتے ہیں اورکہہ اٹھیں گے ۔ کاش ہم بھی مسلمان ہوتے اوریہ ہمیشہ ہوتارہاہے اورہوتارہے گا۔
حضرت عمر ؑ سے ایک یہودی نے کہا کہ قرآن مجید میں ایک آیت ہے ۔اگر وہ ہماری کتاب میں اترتی توہم اس دن عید مناتے ۔حضرت عمر ؑ نے کہا وہ کونسی آیت ہے ۔اس نے جواب دیا ۔الیوم اکملت لکم دینکم۔الآیہ۔آپ نے فرمایا۔وہ دن تو ہمارے لئے دوعیدوں کادن تھا۔یعنی جمعہ کے دن اورعرفہ کے دن یہ آیت نازل ہوئی تھی ۔(بخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ)ایسا ہی ایک اور یہودی نے کہاکہ آپ کی شریعت میں ایک بات دیکھ کر حیرت ہوجاتی ہے کہ انسانی زندگی کاکوئی حصہ نہیں جس پر اس شریعت نے روشنی نہ ڈالی ہو۔یہ خواہشات ہیں جو ہزاروں کے دلوں میں پیداہوئی ہونگی۔مگر اظہار ان کادوایک کے منہ سے ہوا۔ااورقرآن مجید نے بھی فرمایاہے یَوَدُّ(ان کے دل چاہتے ہیں )یقول نہیں فرمایا(کہ وہ منہ سے بھی اظہارکرتے ہیں)اس زمانہ میں بھی طلاق کامسئلہ۔شراب کامسئلہ۔ورثہ کامسئلہ ۔اورایسے ہی اور بہت سے مسائل ہیں کہ جن پر دنیارشک کررہی ہے۔جب ایک یورپین کے دل میں خیال آتاہے کہ ہمارے ہاں بھی طلاق کاقانون بنناچاہئے ۔تودوسرے معنوں میں وہ یہی کہتا ہے کہ کاش میں مسلمان ہوتا۔ایسا ہی جب ایک امریکن کے دل میں یہ تحریک پیداہوتی ہے کہ شراب بندہونی چاہئے۔تووہ گویاربما یودالذین کفروا لوکانو مسلمین کی تصدیق کرتا ہے ۔ابھی کچھ عرصہ ہوا ہندوستان کی لجلیٹو اسمبلی کے ایک ہندوممبر نے صغرسنی کی شادی کے متعلق مسودہ قانون پیش کیاتھا۔اس نے دورانِ تقریر میں کہا ۔میں بڑی حسرت سے دیکھتاہوں کہ جس طرح اسلام نے شادی کاقانون بناکر مسلم قوم کو محفوظ کردیاہے ۔ویساقانون ہمارے ہاں کوئی نہیں۔
آیت میں بھی رُبَماکالفظ رکھاگیا ہے ۔جوکئی دفعہ پردلالت کرتاہے ۔یعنی ان لوگوں کو بحیثیت مجموعی اسلام لانے کاخیال پیدانہ ہوگا۔بلکہ الگ الگ مسائل پر ان کے دل میں خواہش پیداہوگی کہ کاش یہ مسئلہ بھی ہمارے پاس ہوتا۔یہ بھی ہوتا۔مُسْلم کے معن سپرد کردینے والے کے بھی ہیں ۔جیسے فرمایااَسْلَمْتُ لِرَبِّ العٰلمِیْنَ (بقرہ ع۱۵)میں نے اپناسب کچھ اللہ کے سپردکردیا۔پس اس آیت کے ی معنے بھی ہوسکتے ہیں ۔کہ جب کفار اپنی دنیوی تدابیرکو بیکار جاتے دیکھتے ہیں اورمحمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم )کوجوصرف اللہ تعالیٰ پرتوکل کئے بیٹھے ہیں ۔کامیاب ہوتے دیکھتے ہیں ۔توان کاغرورایک وقت کے لئے کمزورپڑجاتاہے اوران کے دل میں خواہش پیداہوتی ہے کہ کاش ہم بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھتے اوراپنے معاملات س کے سپردکردیتے۔توان ذلّتوں اورشکستوںکامنہ نہ دیکھتے ۔
مسلم کے معنے امن دینے والے کے بھی ہوتے ہیں ۔ان معنوں کو مدنظررکھتے ہوئے آیت کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں ۔کہ مسلمانوں کی ترقیات کو دیکھ کر کبھی کبھی کافروں کے دل میں یہ خیال آتاہے کہ کاش ہم اس قوم سے لڑائی نہ چھیڑتے اورصلح رکھتے اوریہ روزِ بدنہ دیکھتے ۔جو اب دیکھنانصیب ہوا۔
ذرھم یاکلواویتمتعواویلھھم الامل
توان کو(اپنے حال پر)چھوڑدے کہ وہ (بیٹھے کھانے )کھاتے رہیں۔اوروقتی سامانوں سے نفع اٹھاتے رہیں ۔اور(انکی جھوٹی)
فسوف یعلمون ۔ومایھلکنامن قریۃالا ولھاکتاب معلوم ۔
امیدیں انہیں غافل کرتی رہیں ۔کیونکہ وہ جلد(ہی حقیقت )معلوم کرلینگے ۴؎ اورہم نے کبھی کسی بستی کوبغیراس کے کہ اس کے متعلق (پہلے سے )ایک معلوم فیصلہ ہوچکا۔ہلاک نہیں کیا ۵؎
۴؎ حل لغات۔اَلْاَمْلُ وَالْاَمْلُ اس کی جمع اٰماں ہے ۔اورالامل کے معنے ہیں ۔الرَّجَائُ۔امید ۔تَاَمَّلْتُ الشَّیْئَ ای نَظَرْتُ اِلَیْہِ مُثْتَثْبِتًالَہ‘ ۔تَاملتُ الشَّیْئَ کے معنے ہیں ۔اسے غورسے دیکھا ۔ٹکٹکی لگاکردیکھا(اقرب)
تفسیر۔اس آیت میں یہ بتلایاہے کہ یہ لوگ مختلف مسائل میں اسلام کی برتری توتسلیم کرتے ہیں ۔اورکریں گے ۔مگرپھر بھی اسلام کی طرف قدم اٹھانانصیب نہ ہوگا۔یورپ کے لوگ اسلامی مسائل کی برتری کومانتے ہیں مگراسلام لانے کے لئے طیار نہیں ۔کیونکہ سوسائٹی کاسوال ہے
فرمایاوہ اپنے اکل و شرب کی وجہ سے اپنی تجارتوںاورصنعتوں کی وجہ سے اوراپنی بعید آرزوئوں کی وجہ سے مسلمان نہیں ہوتے۔اس میں گویاپہلی آیت کے مفہوم پر جوسوال پیداہوتاتھا۔اس کاجواب دیاگیاہے۔یعنی جب وہ لوگ خواہش کرتے ہیںںاورکریں گے۔’کاش وہ مسلمان ہوتے‘۔تووہ مسلمان ہوتے کیوں نہیں ؟فرمایا ان کی عیاشی۔دولت کی حرص اورطولِ امل ان کے راستہ میں روک بن رہے ہیں ۔
اس آیت سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ صداقت کو قبول کرنے کے لئے کھانے پینے میں سادگی۔دنیا کی حرص سے اجتناب اورطول امل سے بچنا ضروری امور ہیں ۔جوشخص صداقت کاجویاہو۔اس کے لئے ان سے بچنا ضروری ہے ۔اگرکوئی ان تین باتوں سے نہیں بچتاتواس کاصداقت کی جستجو کرنافضول امر ہے ۔اگرحق اس پر کھل بھی جائے گا۔تب بھی وہ اس کے قبول کرنے سے محروم رہے گا۔یہ اشارہ بھی اس آیت میں ہے کہ کفار لوگوں پر رعب جمانے کے لئے اپنے دسترخوان کوخوب وسیع کرتے ۔دولت کماتے اورمحمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر فتح پانے کے لئے دوردورکی تدابیراختیارکرتے تھے ۔جبکہ محمد رسول اللہ صلعم ان سب باتوں سے خالی تھے ۔ مگرباوجود اس کے فرماتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی جیتیں گے۔اورکفار کے دلوں میں آ پ کی کامیابی دیکھ کر حسرت پیداہوگی۔
اس آیت سے اس طرف بھی اشارہ ہے کہ لَوْ کَانُوْ مُسْلِمِیْنَ کفّار کاعارضی جذبہ ہے ورنہ اصل میں وہ کھانے پینے اوردولت کمانے میں لگے ہوئے ہیں اورعارضی جذبات انسان کو نفع نہیں دیتے۔بلکہ مستقل جذبات فائدہ دیتے ہیں ۔مسلمانوں کامستقل جذبہ مسلم ہونے کاہے ۔عارضی طورپر وہ کھاتے پیتے ۔دولت کماتے اوربعض تدابیر بھی آئندہ کے لئے کرلیتے ہیں ۔پس باوجود ان کاموں کے وہ ہدایت پارہے ہیں ۔جبکہ کافرہدایت نہیں پاتے ۔
ماتسبق من امۃ اجلھا ومایستاخرون ۔ وقالوایایھاالذی
کوئی قوم بھی اپنی ہلاکت کی معیاد سے بھاگ (کربچ)نہیں سکتی۔اورنہ ہی پیچھے رہ( کراس سے بچ)سکتی ہے ۶؎ اورانہوں نے (بڑے زورسے )کہاہے (کہ)اے
نزل علیہ االذکرانک لمجنون۔
وہ شخص جس پر یہ ذکر اُتاراگیاہے تویقیناً دیوانہ ہے ۷؎
۵؎ حل لغات۔اَلْقَرْیَۃ۔کے معنی بستی کے ہیں۔نیز قریہ بول کر اہل قریہ بھی مراد لیتے ہیں ۔تفصیل کے لئے دیکھویوسف ۷۹؎ یونس ۹۵؎
وَمَآ اھْلَکْنَامِنْ قَرْیَۃٍ اِلَّا وَلَھَاکِتؐابٌ مَعْلُوْمٌ۔وَلَھَامیں وائو حالیہ ہے ۔قاضی منذر نے لکھاہے کہ اس کامطلب یہ ہوتاہے کہ اس کے بعد کامذکور اس کے قبل کے مذکور سے زمانہ میں پہلے واقعہ ہوچکاہے ۔جیساکہ آتاہے حَتّٰی اِذَاجَائُوٓھَاوَفُتحت اَبْوَابَھَا(زمرع۸)(محیط)
تفسیر۔یادرکھناچاہئے کہ قریہ سے مراد گائوں یابستی نہیں۔بلکہ وہ قوم مراد ہے جن کی طرف نبی آتاہے ۔یہ قرآن مجید کامحاورہ ہے کہ وہ قریہ کالفظ بول کر مرد نبی کے تمام مخاطب لیتا ہے ۔اوراس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے مخاطب نبی کے گائوں یاشہر والے ہی ہوتے ہیں۔دوسروں کو ان کے تابع کردیاجاتاہے ۔
نبی کی بستی کی اُمّ القریٰ قراردیاجاتاہے ۔جب ماں مرجائے بچے آپ ہی بے غذامرجاتے ہیں ۔
اھلکنامن قریۃ میں مراد رہی قریہ ہے جس میں نبی آتاہے ۔دوسری بستیو ںکاذکر اس لئے چھوڑ دیا ۔کہ وہ اس بستی کے تابع ہیں۔اس کامزیدثبوت اگلی آیت میں من امۃ کے لفظ سے مل جاتا ہے ۔
یاد رکھنا چاہئے کہ جولوگ یہ کہتے ہیں ۔فلاں گائوں ہلاک ہوگیا ۔فلاں شہر میں بیماری پڑی۔مگر اس میں کوئی نبی نہ تھا۔ان کایہ اعتراض غلط ہے ۔ اس آیت میں اس اعتراض کاجواب دیاگیاہے ۔اوربتایاگیاہے کہ جب نبی مبعوث ہوتو اس کے مخاطبین کی سب بستیاں اس کی بستی کے تابع سمجھی جاتی ہیں اوراس بستی میں نبی کی بعثت کے بعد سب بستیاں عذاب کی مستحق ہوجاتی ہیں ۔اگروہ ایک قوم کی طرف مبعوث ہوتووہ ساری قوم انکار کے باعث مستحقِ عذاب ہوتی ہے خواہ ان کی بستیوں میں سے و ہ نبی گزرابھی نہ ہو۔اور اگر وہ سب دنیا کی اطرف ہوتو سب دنیامستحق عذاب ہوجاتی ہے نیز اس آیت سے یہ مطلب بھی نکلتا ہے ۔کہ کسی بستی پر عذاب آنا اس بات کی علامت نہیں کہ ضرورکوئی نبی آیا ہو۔بلکہ اسی قدر وسیع عذاب جس قدر وسیع نبی کاحلقہ ہو۔نبوّت کی دلیل ہوتاہے ۔اگرایک قوم کی طرف نبی ہوتوقومی عذاب نبی کی علامت ہے ۔اور اگر ایسے نبی کازمانہ ہوجو سب دنیا کی طرف مبعوث ہواہو۔توپھر عالمگیر عذاب ہی اس کی علامت ہے ۔یہ کہنا حماقت ہے کہ اگرعذاب بغیر نبی کے نہیں ہوتاتوفلاں فلاں گائوں کیوں ہلاک ہواتھا۔اس وقت کون نبی آیاتھا۔یہ عذاب جو نبوّت کی علامت ہوتاہے ۔اس وسیع حلقہ کااحاطہ کرتاہے جونبی کامخاطب ہوتاہے ۔بنی اسرائیل کے نبیوں کے لئے کسی ایک گاائوں کاعذاب نہیں۔بنی اسرائیل کی قوم کاعذاب علامت تھا۔اورمحمد رسول اللہ صلعم کے لئے کسی قوم کاعذاب نہیں۔بلکہ دنیابھر کی تباہیاں علامت تھیں۔جیساکہ تاریخ شاہد ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عرب پرخصوصاً عذاب آیا۔مگرساری دنیاپر بھی اللہ تعالیٰ نے ایک قلیل عرصہ میں تباہی نازل کی ۔
کِتابٌ مَعْلُوْمٌ سے مراد وہ مدت ہے جو انبیاء کے ذریعہ سے بتادی جاتی ہے ۔اوراس جگہ قریہ سے مراد وہی لوگ ہیں۔جن کو نبیوں کی مخالفت کی وجہ سے عذاب ملتا ہے۔ایسے لوگوں پر عذاب ہمیشہ کھُلی پیشگوئیوں کے بعد آتاہے۔
۶؎ حل لغات۔الاجل کی تشریح کے لئے دیکھوسورۃ رعد ۳۸؎ ۔الجماعۃ۔امت کے معنے ہیں۔ جماعت ۔الجیل من کل حیٍّ۔ہرقبیلے کے ہمعصرلوگ۔(اقرب)
تفسیر۔ماتسبق اورمایستأخرون کامفہوم بالعموم لوگوں نے مبہم سابیان کیاہے ۔میرے نزدیک ماتسبق کامطلب یہ ہے کہ یہ ممکن نہیں کہ عذاب سے کوئی قوم جس کے متعلق عذاب کی خبر ہودامن چھڑاکرنکل جائے یعنے عذاب تووقت پر آجائے ۔لیکن نقصان نہ پہنچائے اوروہ ہلاکت سے بچ جائے ۔اورنہ یہ ہوسکتا ہے کہ قوم عذاب سے پیچھے رہ جائے یعنے عذاب ٹلتاہی چلاجائے ۔اورملتوی ہوتاجائے ۔گویاڈیل بے شک ایک ضروری شے ہے اورنبی کے مخالفوں کو ضرور ملتی ہے ۔تاجو ہدایت پانے کے قابل ہیں ہدایت پاجائیں ۔مگریہ نہیں ہوتا۔کہ ڈھیل ہی ملتی جائے ۔اورعذاب نبی یااس کے اتباع کے زمانہ میں ظاہر ہی نہ ہو۔اس آیت میں کفار کو اس سے متنبہ کیا ہے کہ اپنے آپ کو محفوظ نہ سمجھیں ۔کیونکہ وہ دوہی طرح محفوظ رہ سکتے ہیں (۱)یاتوعذاب آجائے اور ان کو ہلاک نہ کرے ۔(۲) یاپھرعذاب ٹلتاہی جائے ۔فرمایایہ دونوں باتیں نہ ہونگی ۔پس ڈھیل پر دلیر نہ ہوں۔
۷؎ حل لغات۔الذّکر۔التَّلفّظُ بالشَّیْء وَاِحْضَارُہُ فی الذِّھْنِ بِحَیْثُ لَایَغْلِبُ عَنْہُ۔ذکر کے معنے ہیں۔کسی چیزکامنہ سے ذکرکرنااورایسے طور پریاد اورمستحضر فی الذھن کرنا۔کہ وہ بھول نہ جائے ۔اَلصِّیْتُ ۔شہرت ومنہلہ ذکرفی الناس ۔اورانہی معنوں میں لہ‘ذکرٌ فی الناس کافقرہ بولتے ہیں ۔کہ فلاں شخص کولوگوں میں شہرت حاصل ہے ۔الثناء ۔تعریف ۔الشرف ۔شرف ۔وفی القراٰن اِنَّہ‘ لَذِکْرٌ لَّکَ وَلِقَوْمِکَ۔ اورقرآن مجید میں اِنَّہ‘ لَذِکْرٌ لَّکَ وَلِقَوْمِکانہی معنوں میں استعمال ہواہے ۔کہ قرآن کریم کانزول تیرے اورتیری قوم کے لئے شرف کاموجب ہے ۔وَالصَّلوٰۃُ لِلّٰہِ تَعَالیٰ والدُّعَائُ اللہ تعلیٰ کے حضور دعا۔چنانچہ انہی معنوں میں یہ فقرہ استعمال ہوتاہے ۔اِذَاحَزَبَہ‘اَمْرٌفزع الی الذِّکرِ کہ جب مصیبت کاسامناہوا۔تواس نے دعاکی طرف لدی کی ۔الکتاب فیہ تفصیل الدین ووضع الملل ایسی کتاب جس میں دین کی تفصیل ہو۔اورشریعت کے صول بیان کئے گئے ہوں۔مِنَ الرِّجَالِ۔ القویُّ الشجاعُ الاَبیّ۔ایسابہادرشخص جوکسی کارعب برداشت نہ کرے ۔ِمنَ الْمَطْر ِ۔الوابل الشدید۔سخت موسلادھاربارش۔من القول ۔الصُّلبُ المتینُ۔پکی بات۔(اقرب)
المجنون ۔جُنَّ الرَّجْلُ۔جَنًّا وجُنُوْناً۔ذالَ عَقْلُہ‘ وقیل فَسَدَ۔عقل جاتی رہی یاعقل میں فتورآگیا۔الجُنُونْ مصدرجَنَّ۔ جنون۔جَنَّ کامصدر ہے جس کے معنے ہیں ۔چھپانا۔زوال العقل ۔عقل کاجاتے رہنا۔وقیل فسادہ۔عقل میں خرابی کاپیداہونا۔المجنون من زال عقلہ وفسد۔اورمجنون ایسے شخص کوکہتے ہیں جس کی عقل جاتی رہے ۔یاعقل میں فتورپیداہوجائے (اقرب)
القاموس العصر ی میں (جوانگریزی اورعربی کی اچھی لغت ہے )مجنون کے معنے میں لکھاہے:۔
‏ُMAD,CRAZY INSANE FOOL, FOOLISH
ٌٍدیوانہ ۔کم عقل ۔پاگل ۔احمق۔بے وقوف۔
مفردات میں ہے ۔اَلْجِنَّۃُ ۔جَمَاعَۃُ الْجِنِّ۔قال تعالیٰ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ ۔وقال تعالیٰ وَجَعَلُوْا بَیْنَہ‘ وَبَیْنَ الْجِنَّۃِ نَسَباً۔جِنَّۃٌ کے دومعنے ہیں ۔ایک یہ کہ لفظ جن ّ کی جمع ہے ۔جیسا کہ قرآن کریم کی مذکورہ بالادو آیات سے ظاہر ہے ۔یعنی مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ۔اورَجَعَلُوْا بَیْنَہ‘ وَبَیْنَ الْجِنَّۃِ نَسَباًسے۔اوردوسرے معنے س کے جنون کے ہیں۔جیساکہ لکھاہے ۔اَلْجِنَّۃ۔الجُنون وقال تعالیٰ مَابِصَاحِبِکُمْ مِنْ جِنَّۃٍ۔اے جنونٍ۔یعنی جِنَّۃٌکے معنی جنون کے بھی ہیں۔جیساکہ قرآن کریم کی آیت مَابِصَاحِبِکُمْ مِنْ جِنَّۃٍسے ظاہر ہے ۔والجنون حائلٌ بین النفس والعقل اورجنون ایک قسم کی روک کانام ہے ۔جوانسان ی عقل اواس کی طبیعت کے درمیان پیداہوجاتی ہے ۔وَجُنَّ فُلَانٌ قِیْل اصابہَ الجِنُّ یعنی بعض لوگوں کاخیال ہے کہ جب َجُنَّ فُلَانکہاجائے۔تواس کایہ مطلب ہوتاہے کہ اسے جن چمٹ گئے ہیں۔ وَبُنِیَ فِعْلُہ‘ عَلیٰ فُعِلَ کَبِنَائِ الاَ دْوَائِ نَحُوزُکِمَ لُقِیَ وحُمَّ۔ اورجُنَّ بصیغہ مجہول اس لئے استمال کیاجاتاہے کہ یہ بھی ایک بیماری ہے اوربیماریوں کے لئے یہ صیغہ بالعموم استعمال ہوتاہے ۔مثلاً زکام والے لقوہ والے اورتپ والے کے متعلق زُکِمَ۔لُقِیَ اورحُمَّ استعمال ہوتاہے ۔وقیل اُصیب جنانجہ۔اوربعض لوگوں کاپیال ہے کہاس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اس کے دل کو صدمہ پہنچ کر عقل ماری گئی ہے ۔وقیل حیل بین نفسہ وعقلہ فجن عقلہ بذلک۔اوربعض لوگوں کایہ خیال ہے کہ اس کی عقل کے درمیان کوئی روک پیداہوگئی ہے ۔اس وجہ سے وہ عقل سے کام نہیں لے سکتا۔یہ مفردات والے نے مختلف لوگوں کاخیال جنون کی ماہیت کے متعلق بتایاہے اوراس سے ظاہر ہے کہ ضروی نہیں کہ جب کسی کے متعلق یہ کہاجائے کہ وہ مجنون ہے توعربی زبان میںاس کے یہی معنے ہوں کہ اس ے جن چمٹ گیاہے بلکہ اس کے اصل معنے تویہ ہوں گے کہ اس کادماغ خراب ہوگیاہے ۔باقی بعض لوگ جو وہمی ہیں جنون کی تشریح یہ کریں گے کہ کسی جن نے ناراض ہوکر اس کادماغ خراب کردیاہے ۔بعض لوگ جو احساسات کو بیماریوں کامنبع قرار دیتے ہیں یہ کہیں گے کہ اس کے دل کوکوئی صدمہ پہنچاہے اوربعض لوگ جوطبیعی ہیں یہ قرار دیں گے ۔کہ اس کے دماغ میں کوئی نقص ہوگیاہے ۔غرضیکہ جنون کے معنے جن چمٹ جانے کے نہیںبلکہ جنون کاسبب بعض کے نزیک جن کاچمٹ جاناہے ۔وقولہ معلمٌ مجنون اے ضامہ من یعلمہ من الجن وکذالک قولہ تعالیٰ آئنا لتارکوا اٰلھتنا لشاعرٍ مجنون قرآن مجید کی آیت معلمٌ مجنون اور لشاعرٍ مجنون میں مجنون کے معنے من یعلمہ الجن کے ہیں۔ یعنی جسے جن سکھاتے ہیں ۔(مفردات کے یہ معنے تفسیری ہیں یعنی مختلف تفاسیر کے اثر کے نیچے انہوں نے یہ معنے لکھدئیے ہیں۔ورنہ محقق لغت میں یہ معنی نہیں ۔لغت میں مجنو ن کے معنے یہی ہیں ۔کہ جسے جنون کی بیماری ہو۔
تفسیر ۔پہلے فرمایاتھا۔ربمایود الذین کفروا لوکانوامسلمین۔کہ بارہاکفار مسلم ہونے کی خواہش کریں گے ۔اب فرمایا۔کہ کفار اس بات کو سن کر کہ وہ ہلاک کردئیے جائیں گے نہایت تعجب کریں گے اور کہیں کہ تُوضرو پاگل ہے ۔جوایسی باتیں کرتا ہے ہم توجلد ہی تجھے اورتیرے متبعین کو کچل ڈالیں گے ۔
ربماکے معنے مستقبل کے کئے جائیں اوریہ مراد ہوکہ اسلام کی ترقیات کو دیکھ کر کفار کبھی کبھی یہ خواہش کریں گے ۔کہ کاش ہم مسلمان ہوتے ۔یاکاش ہم مسلمانوں کامقابلہ نہ کرتے ۔یاکاش ہم اللہ تعالیٰ کے توکل پر عمل پیراہوتے تو اس صوارت میں آیت کایہ مطلب ہوگا ۔کہ جب کفار اس اعلان کو سنتے ہیں کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ اسلام کی ترقی کودیکھ کر کفار کہیں گے ۔کہ کاش ہم مسلمان ہوتے ۔تو وہ اس دعویٰ کو مجنونانہ قرار دیتے ہیں اورکہتے ہیں کہ تو پاگل ہے جو ایسے دعوے کرتاہے ۔ہم اسلام کے دشمن ایسی خواہش کس طرح کرسکتے ہیں اور ایسی ترقی تجھے اور تیرے اتباع کو کب مل سکتی ہے ۔۔
اس آیت میں اَلذَّکْر کالفظ آیاہے ۔یہ قرآن مجیدکانام کفار میں بھی معروف معلوم ہوتاہے ۔ذکرکے معنی شرف کے ہوتے ہیں ۔جیسا کہ دوسری جگہ آتاہے ۔لقد انزلنآ الیکم کتاباً فیہ ذکرکم(انبیاء ع۱)ہم نے تمہاری طرف وہ کتاب اتاری ہے جس میں تمہاری عزت کے سامان ہیں چونکہ اس جگہ اسلام کی تارقی کاذکر ہے اورکفار کی ذلت کا۔اس لئے کفار طنزاً الذکر کے لفظ سے قرآن کاذکرکرتے ہیں اورمطلب یہ ہے کہ ’’اے وہ شخص جس پرایسامعزز اورممتاز کلام اُتراہے کہ ہم جیسے بھی خواہش کریں گے کہ ہم اس کے ماننے والے ہوتے ۔توپکاپاگل ہے ‘‘۔بظاہر اس کلام کاپہلاحصہ دوسرے کے خلاف ہے ۔ایک طرف تو وہ یہ کہتے ہیں کہ ۔کہ اے وہ شخص جس پر یہ دنیاکو عزت دینے والا کلام نازل کیاگیاہے اوردوسری طرف کہتے ہیں ۔کہ تو پاگل ہے ۔مگرطنزیہ کلام کی صورت میں یہ اختلاف باقی نہیں رہتا ۔یہ فقرہ ایسا ہی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں دوزخیوں کے متعلق آتاہے ۔کہ ذُقْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْکَرِیْمُ(دخان ع۳)اے معززاورشریف انسان عذاب چکھ۔یعنی تماپنے اٰپ کو عزیز و کریم کہتے تھے ۔اب دیکھو کہ تمہاری عزت کرم نے تم کوکس حالت تک پہنچادیاہے ۔
ِاِنَّکَ مَجْنُوْن۔اس کے متعلق عیسائیوں نے اعتراض کیاہے ۔کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ضرورکوئی جنون کامادہ تھاورنہ عرب لوگ آپؐ کو کیوں مجنون کہتے ۔اچھے بھلے آدمی کو کون پاگل کہتاہے ۔
اس اسعتراض کے بیان میں انہوں نے پہلے تو مجنون کے معنوں کی تعیین میں غلطی کی ہے۔
سیل اس آیت کاترجمہ یوں کرتاہے :۔
‏THOU ART SURELY POSSESSED BY A DEVIL
ضرور تجھ پر کوئی شیطان قابض ہے
روڈیل اس کاترجمہ یوں کرتاہے :۔
‏THOU ART SURELY POSSESSED BY A JINN
تجھ پر یقیناً کسی جن کاسایہ ہے
پامر لکھتاہے :۔
‏VERILY THOU ART POSSESSED
توتو بُری روحوں کے قبضہ میں ہے ۔
گویامجنون ان کے نزدیک وہ شخص ہوتاہے جس پر کوئی شیطان یاجن قابض ہو۔حالانکہ اس جگہ یہ معنی مراد نہیں ہوسکتے ۔اورنہ ہیں ۔بلکہ جیساکہ اوپر حل لغات میں بتایاگیاہے مجنون کے معنے پاگل یادیوانہ ہوتے ہیں ۔
مجنون کے معنے اقرب الموارد میں لکھے ہیں ۔مَن زال عقلہ اوفسدجس کی عقل جاتی رہے یاعقل میں خرابی آجائے ۔(تفصیل کے لئے دیکھو حل لغات)
اصل میں یورپین مصنفین نے اپنے عیب کو چھپانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذمے یہ الزام لگانے کی کوشش کی ہے ۔ کیونکہ انجیل میں لکھا ہے کہ یہودی حضرت مسیح ؑ کو کہتے تھے کہ اس پر جن سوار ہے ۔مگر انہوں نے اتناغو رنہ کیا۔کہ وہاں کہنے والے یہودی ہیں اوراس جگہ مشرکین ۔یہودیوں کے نزدیک تو جنّایک ناپاک روح ۔جس پروہ سوار ہواس کے معنے ہیں کہ وہ گنداہے ۔مگرمشرکین کے ہاں تو جنّوں کی پوجاکی جاتی تھی ۔اگرکفار کایہی مطلب ہوتا ۔تواوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت نہ کرتے ۔بلکہ آپؐ سے ڈرتے ۔
پھر عیسائی معترضین نے دوسراظلم یہ کیاہے کہ وہ لکھتے ہیں ۔کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اہلِ مکہ جومجنون کہتے تھے ۔اس کاضرور کوئی سبب چاہئیے اوروہ سبب یہ بتاتے ہیں کہ آپؐ کو نعوذباللہ من ذالک مرگی کے دورے پڑتے تھے ۔ س کی تائید میں انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاوہ واقعہ نقل کیاہے ۔جو آپؐ کو حلیمہ دائی کے ہاں بقول بعض موّرخین پیش آیاتھا۔وہ واقعہ اس طرح بیان ہواہے کہ آپؐ نے جنگل میں دیکھا (جہاں بعض بڑے بچے جانور چرارہے تھے )کہ دوآدمی براق لباس پہنے ہوئے آئے ہیں ۔انہوں نے آپؐ کو گرالیا اورآپ ؐ کے سینہ کو چاک کیا ۔اورکوئی سیاہ سی چیز اندرسے نکال کر پھینک دی ۔عیسائی اس واقعہ سے استدلال کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت بچے تھے ۔اس لئے جھوٹ تونہیں بولتے تھے ۔لہٰذامرگی کادورہ مانناپڑے گا۔
میں اس وقت اس بحث میں نہیں پڑتا ۔کہ مرگی کے دورہ میں انسان اس قسم کے واقعات اورنظارے دیکھتا۔سوچتا۔اورانہیں یاد رکھ سکتاہے ۔یاکہ نہیں ۔میں نے ڈاکٹری کی کتابیں دیکھی ہیں ۔جن میں اس مرض کی اقسام اوران کی کیفیات بیان ہیں ۔ان میں یہ ہرگز نہیں لکھا کہ انسان اس دورے کی حالت میں کسی نطارہ کو دیکھ کرباترتیب یاد رکھ سکتاہے اورپھر مرگی کے دورے والے کی آنکھیں شکل اورعقل اوردوسرے حالات سے ہی ظاہر ہوجاتاہے کہ وہ مرگی کامریض ہے ۔بلاوجہ معمولی سی تکالیف کو باربار دہرانا۔خالی الذہن نظر آنا۔اورمعمولی معمولی باتوں پر غصہ کرنا ایسے شخص کی عادت میں داخل ہوجاتاہے ۔ اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایسی کوئی بات پائی نہ جاتی تھی ۔
عیسائی پوچھتے ہیں کہ اگر کوئی وجہ نہ تھی توساری قوم انہیں کیوں مجنون کہہ رہی تھی۔میں کہتا ہوں کہ خداتعالیٰ نے دنیا میں یسوع نامی ایک اورآدمی بھی پیداکیاہے ۔جس کولوگ آسیب زدہ قراردیتے تھے اورمجنون کہتے تھے ۔چنانچہ یوحنا۲۰۰۱۹/۱۰ میں لکھا ہے ۔کہ ’’ان باتوں کے سبب یہودیوں میں پھر اختلاف ہوا۔ان میں بہتیرے توکہنے لگے کہ اس میں بدروح ہے ۔اوروہ دیوانہ ہے ۔تم اس کی کیوں سنتے ہو۔‘‘اس بزرگ کے ایک شاگرد پولوس نامی کی نسبت بھی لکھاہے ۔’’جب وہ اس طرح جوابدہی کررہاتھا۔توفیتس نے بڑی آواز سے کہا ۔اے پولوس توُدیوانہ ہے ۔بہت علم نے تجھے دیوانہ کردیاہے ۔‘‘(اعمال ۲۴/۲۲) اب عیسائیوں کوچاہیئے کہ وہ پہلے مسیح ؑ اورپولوس کو دیوانہ کہنے کاسبب مرگی کادورہ ثابت کریں اس کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کی طرف توجہ کریں ۔کیونکہ اپنے گھرکاکام مقدم ہوتاہے ۔
کاش یہ مسیحی معترضین انصاف سے کام لیتے ۔اورغورکرتے۔تواگرحضرت مسیحؑ کو بغیر مرگی کے دوروں کے صرف وعظ سن کر پاگل کہاجاسکتاہے توکیوں ربما یودالذین کفروالواکانومسلمین کے عظیم الشان دعویٰ کرنے والے کو روحانی عالم سے ناواقف لوحگ پاگل نہیں کہہ سکتے تھے ۔
مسیحیوں کایہ اعتراض اور بھی قابل تعجب ہوجاتاہے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اگلی آیات میں کفار کی پیش کردہ وجہ بھی بیان ہے جس کی بنا پر وہ آپؐ پر جنون کاالزام لگاتے تھے۔وہ اس الزام کی وجہ مرگی کو بیان نہیں کرتے ۔بلکہ آپؐ کے دعاوی کے بعید ازعقل ہونے کو اس کی وجہ قرار دیتے ہیں اوریہ بات ہر نبی میں پائی جاتی ہے ۔کوئی نبی نہیں جس میں وہ باتیں نہ وہں جن کو اس زمانہ کے لوگ ماننے کو تیار نہ تھے ۔
لوماتاتینا بالملکۃ ان کنت من الصادقین۔ماننزل الملکۃ
اگرتوسچا ہے توکیوں ملائکہ کو ہمارے سامنے نہیں لاتا ۸؎ (کیاا نہیں معلوم نہیں کہ)ہم (جب بھی )فرشتوں کو( اتارتے ہیںتو)
الا بالحق وماکانوااذامنظرین ۔
حق کے مطابق اتارتے ہیں اور(جب کافروں کے لئے اتارتے ہیں تو)اس وقت انہیں (ذرّہ بھی )مہلت نہیں دی جاتی ۹ ؎
انانحن نزالناالذکر وانالہ لحافظون
اس ذکر کو ہم نے ہی اُتاراہے اورہم یقیناً اس کی حفاظت کریں گے ۱۰؎
۸؎ حل لغات۔ لَوْ مَا اورلَوْ لَا اورھَلَا ایک ہی معنوں میں استعمال ہوتے ہیں ۔یہ نحاس کاقول ہے معنی یہ ہوتے ہیں کہ کیوں ایسانہیں کرتے۔مطلب یہ کہ ایساکرو۔
تفسیر ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کادعویٰ گزشتہ سورتوں میں یہ پیش کیاگیاتھااوراس سورۃ کاشروع بھی اسی تسلسل میں تھاکہ اسلام کی فتح اس کلام کے ذریعہ سے ہوگی ۔جو خداتعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل کیا ہے ۔وہ کلام اپنے اندر ایسی خوبیاں رکھتاہے کہ اس کے مقابل پر کفار کازورنہ چل سکے گا۔کفارنے اس دعویٰ کے بالمقابل لاجواب ہوکریہ دعویٰ پیش کردیاکہ تم مجنون ہو اورمجنون ہونے کی یہ دلیل دی کہ تم کہتے ہوکہ یہ کلام فرشتے لے کرآتے ہیں ۔اگر تمہارایہ قول درست ہوتاتوپھر وہ فرشتے دوسرے لوگوں کوبھی نظر آتے ۔لیکن چونکہ وہ دوسرے لوگوںکو نظر نہیں آتے ۔معلوم ہواکہ یہ تمہاراوہم ہے ۔اورتمہارے جنون کی علامت ہے ۔
۹؎ حل لغات۔حَقّ کی تشریح کے لئے دیکھیںسورۃ رعد ۱۵؎
مُنْظَرِیْْنَ ۔اَنْظَرَہُ الَّذِیْنَ۔اَخَّرَہ‘ ۔قرض اداکرنے کے لئے قرض دار کومزید مہلت دی ۔یقال کنت انظر العست ای امھلہ یعنی کنت انظر العسرکافقرہ انہی معنوں کے لئے استعمال ہوتاہے ۔کہ میں تنگدست قرضدار کو مہلت دیاکرتاتھا۔ (اقرب)
تفسیر ۔حَقّ کے معنے پہلے گزرچکے ہیں ۔اس جگہ یاتواس کے معنے سچے کلام کے ہیں ۔اورمطلب یہ ہے کہ فرشتے کلام الٰہی کے ساتھ اُتراکرتے ہیں ۔مگرتم نہ رسول ہوکہ تم پر فرشتے اتریں۔اورنہ ہی تم اس بات کے مستحق ہوکہ تمہیں کلام الٰہی سے مشرف کیاجائے ۔یا اس جگہ پر حق کے معنے استحقاق کے ہیں ۔یعنی جیساجیساکسی کاحق ہو اس کے مطابق فرشتے اُترتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ کے نبیوں اومومنوں پر ان کے حق کے مطابق۔محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرجوفرشتے اترتے ہیں ۔وہ تو رحمت کے فرشتے ہیں ۔وہ محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہی نظر آسکتے ہیں ۔وہ ان خداتعالیٰ کاغضب سہیڑنے والوں کو کس طر ح نظر آجائیں ان پرتوجب فرشتے اتریں گے ۔غضب ہی کے اتریں گے اوراس وقت فرشتوں کادیکھنا انہیں نفع نہ دیگا۔کیونکہ وہ ان کے ہلاک کرنے کے لئے آئیں گے۔اوران کے آنے کے بعد آئمۃ الکفر کو ڈھیل نہ ملے گی ۔چنانچہ بدرکے موقعہ پر یہ سزادینے والے فرشتے آئے ۔اوربعض کفار کو کشفی حالت میں وہ نظر بھی آئے مگروہ وقت ان کی ہلاکت کا تھا۔ ان سے وہ کیافائدہ اٹھاسکتے تھے ۔
اس جگہ ایک بہت بڑانکتہ بیان فرمایاگیاہے وہ یہ کہ ملائکہ کاکلام انسان کے قلب کے مطابق ہوتاہے ۔جیسا انسان ہوگاویسے ہیں اس کے الہام ہونگے۔عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ الہام ہوگیا۔توہم بڑے آدمی ہوگئے ۔حالانکہ یہ کافی نہیں ۔کیونکہ الہام انسان کی اپنی فطرت کے مطابق ہی ہواکرتاہے ۔قادیان میں ایک پہاڑی شخص مزدوری وغیرہ کی غرض سے آیا کرتاتھا۔وہ عموماً ہمارے ہاں ہی مزدوی وغیرہ کرتاتھا۔ بعض اوقات کسی کام کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح اوّل کے پاس چلاجاتا ۔ توحضرت خلیفۃ المسیح اول ؓ اسے نماز کی تاکید فرمایاکرتے تھے ۔جس پر وہ جواب دیاکرتاکہ ’’نماز سانوں پجدی نیں ‘‘(یعنی نماز ہمارے مناسب حال نہیں ) اتفاقاً ایک روز آپ نے اسے مسجد میں نماز پڑھتے دیکھا۔فراغت کے بعد پوچھاکیابات ہے؟تواس نے جواب دیا۔آج مجھے الہام ہواہے کہ ’’اُٹھ اوئے سورانماز پڑھ ‘‘اَے سوُر اٹھ کرنماز پڑھ۔اس لئے میں نے نماز شروع کردی ہے ۔اب ظاہر ہے کہ یہ الہام شیطان کی طرف سے تونہیں ہوسکتا۔یہ یقیناً خدائی الہام تھا ۔ مگر اس کے درجہ کے مطابق تھا۔پس خالی الہام کونہیں دیکھاجائے گا۔ بلکہ یہ دیکھاجائے گاکہ اس الہام کے اندر کیا اللہ تعالیٰ کی طرف سے محبت کابھی اظہارہے یا اس بندے کی شان کے اظہار کی بھی کوئی صورت ہے ۔
اس آیت سے ایک عام قانون کاپتہ چلتاہے اوروہ یہ کہ فرشتے بالحق نازل ہواکرتے ہیں ۔یہ امر ظاہر ہے کہ مومنوں میں ادنیٰ ۔اعلیٰ ۔مامور وغشیرہ مامور سب ہی شامل ہیں ۔ اسی طرح نبیوں میں مرتبہ کاتفاوت پایاجاتاہے ۔حضرت خاتم النبین علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی اسی طرح نبی کہلاتے ہیں جس طرح ذکریا۔الیاس اوریوسف علیہم السلام ۔پس جس طرح درجہ میں نام کی شرکت سب کو برابر نہیں بنادیتی ۔اسی طرح سب کی وحی ۔وحی کہلا کر ایک سی نہیں ہوسکتی ۔ہرایک نبی کاکلام اس کی شان کے مطابق ہوگا۔اس اصل کو مدّنظررکھیں تویہ سوال بھی حل ہوجاتاہے کہ تورات ۔انجیل زبور وغیرہ کیوں قرآن کریم کی اطرح بے نظیر نہیں۔جن انبیاء پر وہ کلام نازل ہوئے انہی کی شان کے مطابق ان میں خداتعالیٰ نے برکت رکھی۔یہ کس طرح ہوسکتاتھاکہ اللہ تعالیٰ مختلف درجوں کے کام مختلف نبیوں کے سپرد کرتا۔لیکن سامان سب کو ایک سادیتا۔ بہرحال کام کے مطابق ہی اس نے سامان دینے تھے ۔اورکام کے مطابق ہی اس نے کارکن مقررکرنے تھے ۔
۱۰؎ حل لغات۔الذِّکْر کی تشریح کے لئے دیکھیں حل لغات سورۃ ہذا ۷؎و سورۃ یوسف ۱۰۱؎
تفسیر ۔ذکر کے معنے بتائے جاچکے ہیں کہ علاوہ اورمعنوں کے اس لفظ کے معنے شرف اورنصیحت کے بھی ہیں ۔اس جگہ یہی معنے ہیں کفار نے طنزاً کہاتھا۔کہ اے وہ شخص جس پر یہ عزت بخش کلام نازل ہواہے ۔تویقیناً مجنون ہے ۔اللہ تعالیٰ اس کے جواب میں فرماتاہے ۔یقیناً ہم نے ہاں ہم نے اس عزت بخش کلام کو نازل کیاہے ۔
یہ ایک نہایت ہی زبردست آیت ہے ۔اورایسی عجیب ہے کہ اکیلی ہی قرآن مجید کی صداقت کابیّن ثبوت ہے ۔اس میں کتنی تاکیدیں کی گئی ہیں ۔پہلے اِنَّ لایاگیاہے پھر ناکی تاکید نَحْن سے کی گئی ہے ۔اورپھر آگے چل کر ایک اوراِنَّ اورلام لایاگیاہے ۔گویاتاکید پر تاکید کی گئی ہے ۔کفّار نے اِنَّکَ لَمَجْنُوْن کے جملہ میں دوری تاکید سے کام لے کر تمسخر کیاتھا۔اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ تاکید کے چار ذرائع استعمال کرتاہے ۔اورفرماتاہے ۔انانحن نزالناالذکر وانالہ لحافظون۔سنو!ہم نے ہاں یقیناً ہم نے ہی اس شرف و عزت والے کلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اُتاراہے ۔اور ہم اپنی ذات کی قسم کھاکرکہتے ہیں کہ یقیناً ہم اس کی خود حفاظت کریں گے ۔اللہ اللہ کتنا زور ہے ۔کس قدر حتمی وعدہ ہے۔
اس آیت کے متعلق یہ لطیفہ بھی یادرکھنے کے قابل ہے کہ کفا رکے طنز میںا یک یہ معنے بھی پائے جاتے ہیں ۔کہ ایسابڑازبردست کلام جس نے دنیاکوشرف بخشناہے اس کے ساتھ توفرشتے بھی آنے چاہئے تھے۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ اے نادانو!تم فرشتے کہتے ہو۔اس کلام کی تووہ عظمت ہے کہ اس کی حفاظت کے لئے ہم خود آئیں گے اوردیکھیں گے ۔کہ کون اس کلام پر بدنیتی سے ہاتھ ڈالتاہے ۔اس کایہ مطلب نہیں کہ فرشتے قرآن کریم کی حفاظت نہیں کرتے۔کیونکہ جب خداجوآقاہے ۔وہ حفاظت کرتاہے ۔توفرشتے توبدرجہ اولیٰ حفاظت کریں گے مگر اِنَّالَہُ لَحَافِظُوْنَ فرماکر ایک زائد بات بیان کی کہ اس میں بعض ایسی خصوصیات ہیں ۔جنکی حفاظت فرشتے بھی نہیں کرسکتے ۔بلکہ ان کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے خود اپنے ذمّے لی ہے ۔ہرچیز کی حفاظت فرشتے کرتے ہیں ۔مگرخداتعالیٰ کے براہِ راست حفاظت کرنے میں ایک حکمت ہے ۔ اورقرآن مجید کو عام چیزوں سے ممتاز کرنے والافرق ہے جسے میں آگے چل کر بیان کروں گا۔
یہ آیت اسلام کی صداقت کاایک بڑاثبوت ہے اوراگرکوئی بے تعصب انسان اس آیت پر غور کرے تو سمجھ سکتاہے کہ یہ دعویٰ انسانی نہیں ۔تمام مفسّر متفق ہیں کہ یہ سورۃ مکی ہے ۔ابن ہشام کابیان ہے ۔کہ یہ آیت دعویٰ نبوت کے چوتھے سال میں نازل ہوئی ۔انگریز مصنف عام طور پر اس بات کے شائق ہیں کہ وہ مسلمان مفسرین سے اختلاف کریں ۔او اس کے لئے انہوں نے ایک انٹرنل شہادت(اندرونی شہادت)کا قاعدہ بنارکھاہے یعنی وہ کہتے ہیں کہ یہ بات قرآن کے اندرسے نکلتی ہے ۔مگروہ اس طریق کو ایساغلط اوربے جااستعمال کرتے ہیں جس سے معلوم ہوتاہے ۔کہ یہ اندرونی شہادت قرآن کی نہیں ہوتی بلکہ ان کے نفس کی ہوتی ہے ۔مگراس ضمن میں مجھے انگریزی حوالے دیکھتے ہوئے یہ دیکھ کرخوشی ہوئی کہ اس بارہ میں مستشرقین کوبھی اختلاف کی گنجائش نہیں ملی۔چنانچہ سپرینجرنے کہا ہے ۔کہ یہ سورۃ دعویٰ نبوت کے چوتھے سال میں نازل ہوئی تھی ۔روڈویل جس نے ترتیب کی تحقیق کے متعلق بزعم خودایک کمال حاصل کیاہے ۔لکھتاہے کہ یہ سورۃ ابتدائی سالوں کی سورتوں میں سے ہے ۔چنانچہ اس نے اپنی ترتیب میں اسے ابتدائی سالوں کی سورتوں میں ہی رکھاہے ۔نولڈک نے کسی قدراختلاف کیاہے اوراس کی بنیاد وہی غلط قاعدہ (انٹرنل شہادت)ہے۔ وہ لکھتاہے کہ :۔
(۱) اس میں کفار کی سختیوں کاذکر ہے ۔اس لئے یہ ابتدائی سالوں کی سورۃ نہیں ہوسکتی۔
(۲) اس میں یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ آتاہے۔یہ باقی ابتدائی سورتوں میں نہیں آتا۔لہٰذایہ بھی ابتدائی زمانہ کی نہیں
(۳)اس میں مشرکین کالفظ ہے ۔اس لئے یہ ابتدائی زمانہ کی نہیں ہوسکتی ۔ہاں مکّی ضرور ہے ۔مکی زندگی کے آخری ایام میں اُتری ہے۔
مجھے اس سے بحث نہیں ۔کہ نولڈک کی بات درست ہے یادوسروں کی ۔مَیں صر ف یہ بتاناچاہتاہوں کہ نبی تحقیق والے عرب اوریورپین مصنف مفسّرین کے ساتھ مل کربالاتفاق کہتے ہیں کہ یہ سورۃ مکی ہے ۔مکی زندگی کے آخری سال بھی نہایت ہی خطرناک تھے ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ساتھیوں سمیت شعب ابی طالب میں مبحوس تھے۔جبکہ مسلمانوں کو اپنی حفاظت کے لئے جگہ نہ ملتی تھی ۔ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ کایہ فرماناکہ فرشتوں کی کیاضرورت ہے ۔ہم خود اس کی حفاظت کریں گے کتنازور دار اورپُرشوکت دعویٰ ہے ۔اس فقرہ(انانحن نزالناالذکر وانالہ لحافظون)کی طاقت کو وہی لوگ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں جوعربی جانتے ہیں ۔کیایہ عجیب بات نہیں کہ جب مسلمان خودگھیرے ہوئے تھے ۔اوران کی جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔کہاجاتاہے کہ تم سارازورلگالواورقرآن مجید کے مٹانے کے لئے پوری طاقت خرچ کردو۔ہم خود اس کی حفاظت کریں گے ۔اورایک دن ایساآتاہے کہ ان مخالفتوں کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورآپ کے ساتھی آزادہوتے ہیں۔آپؐ کوترقی ملتی ہے ۔ایک عظیم الشان جماعت آپ کے ساتھ ہوجاتی ہے ۔اورقرآن مجید کی کماحقہ حفاظت ہوتی ہے ۔اورآج تک ہورہی ہے ۔اورہوتی رہے گی ۔کیایہ بے نظیر حفاظت دنیاکی اورکسی مذھبی کتاب کوحاصل ہوئی ہے ؟سرولیم مور اپنی کتاب لائف آف محمدؐ میں بحث کے بعد لکھتاہے ۔
‏ ''WHAT WE HAVE, THOUGH POSSIBLY CREATED AND MODIFIED BY HIMSELF, IS STILL HIS OWN.''
ترجمہ۔اب جو قرآن ہمارے ہاتھوں میں ہے ۔گویہ بالکل ممکن ہے کہ محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے زمانہ میں اسے خود بنایاہو۔اوربعض دفعہ اس میں خود ہی بعض تبدیلیاں بھی کردی ہوں۔مگراس میں شبہ نہیں کہ یہ وہی قرآن ہے ۔جومحمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں دیاتھا۔
(۲)پھرلکھتاہے ۔
‏'' WE MAY UPON THE STRONGEST PRESUMPTION AFFIRM THAT EVERY VERSE IN THE QUR'AN IS GENUINE AND UNALTERED COMPOSITION OF MUHAMMAD HIMSELF.''
ترجمہ۔ہم نہایت مضبوط قیاسات کی بنیاد پر کہہ سکتے ہیں ۔کہ ہرایک آیت جوقرآن میں ہے وہ اصلی ہے ۔اورمحمدؐ(آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی غیر محرّف تصنیف ہے ۔
(۳)پھر یہ بحث کرنے کے بعد کہ قرآن کی ترتیب ہمیں سمجھ نہیں آتی ۔لکھتاہے۔کہ:۔
‏'' THERE IS OTHERWISE EVERY SECURITY INTERNAL AND EXTERNAL THAT WE POSSESS THE TEXT WHICH MUHAMMAD HIMSELF GAVE FORTH AND USED.''
ترجمہ۔اس کے علاوہ ہمارے پاس ہرایک قسم کی ضمانت موجودہے ۔اندرونی شہادت کی بھی اوربیرونی کی بھی۔کہ یہ کتاب جو ہمارے پاس ہے ۔وہی ہے جو خود محمدؐ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے دنیاکے سامنے پیش کی تھی ۔اوراسے استعمال کیاکرتے تھے ۔
(۴)پھر لکھتاہے :۔
‏'' AND CONCLUDE WITH ATLEAST A CLOSE APPROXIMATION TO THE VERDICT OF VAN HAMMER THAT WE HOLD THE QUR'AN TO BE AS SURELY MUHAMMAD'S WORDS AS THE MUHAMMAD ANS HELD IT TO BE THE WORD OF GOD.''
ترجمہ۔ہم دان ہیمر کے مندرجہ ذیل فیصلہ کے بالکل مطابق نہ سہی ۔کم سے کم اس کے خیال کے بہت موافق فیصلہ تک پہنچتے ہیں ۔دان ہیمر کا فیصلہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں جو قرآن موجودہے ۔اس کے متعلق ہم ویسے ہی یقین سے کہہ سکتے ہیں ۔کہ وہ اصلی صورت میں محمد(رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)کا بنایاہواکلام ہے۔جس یقین سے کہ مسلمان کہتے ہیںکہ وہ خداکا غیر مبدّل کلام ہے ۔
(۵)نولڈک کاقول ہے ۔
‏" SLIGHT CLERICAL ERRORS THERE MAY HAVE BEEN, BUT THE QUR'AN OF OTHMAN CONTAINS NONE BUT GENNINE ELEMENTS, THOUGH SOMETIMES IN BERY STRANGE ORDER. EFFORTS OF EUROPEAN SCHOLARS TO PROVE THE EXISTENCE OF LATER INTERPOLATIONS IN THE QUR'AN HAVE FAILED.''
ترجمہ۔ممکن ہے ۔کہ تحریر کی کوئی معمولی غلطیاں (طرز تحریر)ہوں تو ہوں۔لیکن جو قرآن عثمانؓ نے دنیا کے سامنے پیش کیا تھااس کامضمون وہی ہے ۔جو محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) نے پیش کیاتھا۔گو ا س کی ترتیب عجیب ہے۔یورپین علماء کی یہ کوششیں کہ وہ ثابت کریں کہ قرآن میں بعد کے زمانہ میں بھی کوئی تبدیلی ہوئی ہے ۔بالکل ناکام ثابت ہوئی ہیں ۔
(انسائیکلوپیڈیا بریٹنیکا زیر لفظ قرآن )
یہ و ہ شہادتیں ہیں جو اسلام کے شدید ترین دشمنوں کی ہیں ۔اوراَلْفَضلؑ مَا شَھِدَتج بِہٖ الْاَعْدَائَ۔
قرآن مجید کے منجانب اللہ ہونے پر کتنی بڑی شہادت ہے کہ قرآن کریم امّیوں میں آتاہے اورہرطرح سے محفوظ رہتاہے ۔مگرتورات اور انجیل اپنے زمانہ کی علمی قوتوں میں آئیں ۔لیکن محفوظ نہ رہ سکیں۔میور اس کے متعلق کیا ہی پُرحسرت الفاظ لکھاہے ۔
‏" TO COMPARE THERE PURE TEXTS WITH THE VARIOUS READINGS OF OUR SCRIPTURES IS TO COMPARE THINGS BETWEEN WHICH THERE IS NO ANALOGY."
ترجمہ ۔مسلمانوںکی بالکل پاک اورغیرتبدیل شدہ کتاب اورہماری کتب کے مختلف نسخوں کے باہمی اختلاف کامقابلہ کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کہ دو ایسی چیزوں کامقابلہ کیاجائے جن میں باہمی کوئی بھی مشابہت نہیں ۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ ایک اتفاق ہے کہ قرآن شریف آج تک محفوظ ہے ؟اسلامی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ اتفاق نہیں بلکہ اس کی ظاہر حفاظت الکتاب اورقراٰن مبین کے دوذریعوں سے ہوتی ہے ۔جن کا ذکر اس سورۃ کے شروع ہی میں کیا گیاہے ۔شروع نزول ہی سے ا س کی آیات لکھی جانے لگیں اوراس کی حفاظت ہوتی گئی اورپھر اللہ تعالیٰ نے اسے ایسے عشاق عطاکئے ۔جو اس کے ایک ایک لفظ کو حفظ کرتے اوررات دن خود پڑھتے اوردوسروں کو سناتے تھے ۔اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے کسی نہ کسی حصے کا نمازوں میں پڑھنا فرض مقررکردیا اورشرط لگادی کہ کتاب میں سے دیکھ کر نہیں بلکہ یاد سے پڑھاجائے۔اگر کوئی کہے ۔کہ یہ محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک بات سوجھ گئی تھی تو ہم کہتے ہیں کہ یہی بات زرتشت ۔موسیٰ اوروید والوں کو کیوں نہ سوجھی ۔معلوم ہوتاہے کہ اس کا سوجھانے والا کوئی اورہے ۔کولمبس جب امریکہ کو دریافت کر کے واپس آگیا تولوگوں نے کہا کہ یہ کونسی بڑی بات ہے ۔ہم جاتے توہم بھی امریکہ کو دریافت کرلیتے ۔ مگرکولمبس نے اس کے جواب میں ایک انڈادے کر کہا کہ تم یہ انڈامیز پر کھڑاکردو۔سب نے کوشش کی ۔مگروہ کھڑانہ ہوا۔آخر میں کولمبس اُٹھا اور اُس نے ایک سوئی سے اس میں چھید کیا اور اس سے جو لعاب نکلا اس کی مدد سے اسے میز پر کھڑاکردیا۔اس پر لوگوں نے کہا کہ ایساتو ہم بھی کرسکتے تھے ۔کولمبس نے کہا کہ امریکہ کی دریافت کے بارہ میں تو تم نے کہہ دیاکہ ہمیں موقع نہیںملا۔مگر اس بارہ میں تو تم کو موقعہ مل گیاتھا۔ کیوں نہ تم نے اپنی عقل سے کام لیا۔ پس ایسا ہی ہم بھی کہتے ہیں کہ وہ ذرائع حفاظت کے جو قرآن کے بارہ میں استعمال کئے گئے ۔آخر کیوں قرآن کریم کے پیش کرنے والے کو ہی سوجھے کیوں دوسری جماعتوں نے اسے استعمال نہ کیا۔
یہ بھی یا د رہے کہ ایسے آدمیوں کامیسر آنا ۔جو اسے حفظ کرتے اورنمازوں میں پڑھتے تھے ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طاقت میں نہ تھا۔ان کامہیا کرنا آپؐ کے اختیار سے باہر تھا ۔اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا انا نحن نزلنا الذکر وانالہ لحافظون ۔کہ ایسے لوگ ہم پیداکرتے رہیں گے جو اسے حفظ کریں گے ۔آج اس اعلان پر تیرہ سو سال ہوچکے ہیں اورقرآن مجید کے کروڑوں حافظ گذر چکے ہیں بعض یورپین ناواقفیت کی وجہ سے کہہ دیاکرتے ہیں کہ اتنا بڑاقرآن کس کو یاد رہتاہوگا۔مگر قادیان ہی میں کئی حافظ مل سکتے ہیں ۔جنہیں اچھی طرح سے قرآن یاد ہے ۔چنانچہ میرے بڑے لڑکے ناصر احمد سلمہ اللہ تعالیٰ نے بھی گیارہ سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کرلیاتھا۔اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجیدکو اپنے خاص تصرف سے ایسے الفاظ اورایسی ترکیب سے نازل فرمایاہے کہ وہ سہولت سے حفظ ہوجاتاہے۔قرآن شعر نہیں ۔مگرشعر سے بھی زیادہ جلد یاد ہوجاتاہے ۔اردویاانگریزی کی عبارتوں کی نسبت قرآن شریف کے حفظ کرنے پرنصف وقت بھی صرف نہیں ہوتا۔
ایک انگریزمترجم قرآن لکھتاہے کہ قرآن ایسی عبارت میں ہے کہ اس کو بغیر ترتیل کے پڑھنے کے چارہ ہی نہیں ۔پس قرآن کریم کی زبان اللہ تعالیٰ کے پیداکردہ سامانوں میں سے ہے جن کے ذریعہ سے قرآن مجید کی حفاظت کی جاتی ہے ۔سب سے اول اللہ تعالیٰ نے ایسے آدمیوں کو پیداکیا ۔جو اسے شروع سے لے کر آخر تک حفظ کرتے تھے ۔دوسرے اس کی زبان ایسی سہل اوردلنشیں بنائی کہ سہولت سے یاد ہوجائے ۔سوم اس کی تلاوت نمازوںمیں فرض کردی ۔چہارم ۔لوگوں کے دلوں میں اس کے پڑھنے کی غیر معمولی محبت پیداکردی۔
عیسائی لوگ ہمیشہ اعتراض کیاکرتے ہیں ۔کہ مسلما ن قرآن کریم کوبے معنی ڑی پڑھتے رہتے ہیں ۔اس کے معنی سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ۔ لیکن اگر غو رکیاجائے تویہ بھی ا س آیت میںمذکور وعدہ کی تصدیق ہے ۔مسلمانوں کے دل میں اللہ تعالیٰنے کس طرح قرآن کریم کی محبت ڈال دی ہے کہ معنی آئیں یا نہ آئیں وہ اسے پڑھتے چلے جاتے ہیں ۔یقیناً ہرمسلمان کافرض ہے کہ قرآن کریم کو بامعنی پڑھے اوراس طرف سے تغافل بڑی تباہی کاموجب ہواہے ۔مگر باوجود معنے نہ جاننے کے مسلمانوں کاقرآن کریم کو یاد کرتے چلے جانایقیناً اس آیت میں مذکور وعدہ کے پوراہونے کی دلیل ہے ۔
آج اگر بائیبل کے سارے نسخے جلادیئے جائیں توبائبل کے پیرواس کابیسواں حصہ بھی دوبارہ جمع نہیں کرسکتے ۔لیکن قرآن مجید کو یہ فخر حاصل ہے کہ اگر(بفر ض محال)سارے نسخے قرآن مجید کے دنیا سے مفقود کردیئے جائیں ۔تب بھی دوتین دن کے اند ر مکمل قرآن مجید موجود ہوسکتاہے ۔اوربڑے شہر تو الگ رہے ۔ہم قادیان جیسی چھوٹی بستی میں اسے فوراً حرف بحرف لکھواسکتے ہیں ۔
دنیا کی کوئی مذہبی کتاب ایسی نہیں کہ جسے مٹادیاجائے اوروہ پھر بھی محفوظ رہے ۔سوائے قرآن پاک کے ۔
ایک ذریعہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی حفاظت کے لئے یہ مقرر فرمایاکہ ایسے سامان کردیئے کہ قرآن مجید اپنے نزول کے معاً بعد تمام دنیا میں پھیل گیااوراب اس میں تغیروتبدل کاامکان ہی نہیں رہا۔کہاجاتاہے کہ ایک مرتبہ روسی حکومت نے ارادہ کیاکہ جہاد کی آیات نکال کر قرآن چھپوائیں ۔مگر اسے بتایاگیاکہ قرآن مجید تو تمام دنیا میں پھیلاہواہے ۔اوریہ آیات ہرجگہ موجود ہیں ۔پھر تم ان کو کیسے نکال سکو گے ۔اس سے وہ اپنے ارادوں سے باز رہی ۔
ایک ذریعہ قرآن مجید کی حفاظت کا یہ تھا کہ اسلامی علوم کی بنیاد قرآن مجید پر قائم ہوئی ۔اس ذریعہ سے اس کی ہرحرکت و سکون محفوظ ہوگئے ۔ مثلاً نحو پیداہوئی توقرآن مجید کی خدمت کے لئے ۔چنانچہ نحو کے پیداہونے کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ابوالاسوددئولی حضرت علیؓ کے پاس آئے کہ ایک نیا مسلمان’’اِنَّ اللّٰہَ بَرِیْئٌ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ وَرَسُوْلَہ‘‘‘کی بجائے وَرَسُوْلِہٖ پڑھ رہاتھا۔جس سے ڈرہے کہ نو مسلموںکو قرآن مجید کے مطالب سمجھنے میں مشکل پیش آئے ۔حضرت علیؓاس وقت گھوڑے پر سوار جارہے تھے ۔اسی حالت میں آپ انہیں بعض قواعد نحو بتاتے چلے گئے اورفرمایاکہ اسی قسم کے قواعد کو ضبط میں لے آئو۔اس سے ان نومسلموں کوصحیح تلاوت کی توفیق ملے گی ۔اورکچھ قواعد بناکر فرمایا۔اُنْحٌ نَحْوَہ‘ یعنی اسی رنگ میں اورقواعد تیار کرلو۔اس فقرہ کی وجہ سے عربی گریمر کانام نحو پڑ گیا۔پھر مسلمانوں نے تاریخ ایجاد کی ۔توقرآن مجید کی خدمت کی غرض سے ۔کیونکہ قرآن مجید میں مختلف اقوام کے حالات آئے تھے۔ان کو جمع کرنے لگے تو باقی دنیا کے حالات ساتھ ہی جمع کردیئے ۔پھر علم حدیث شروع ہوا۔توقرآن مجید کی خدمت کے لئے ۔تامعلوم ہوسکے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے کیامعنے کئے ہیں۔
پھر اہل فلسفہ کے قرآن مجید پر اعتراضات کے دفعیہ کے لئے مسلمانوں نے فلسفہ وغیرہ علوم کی تجدید کی اورعلم منطق کے لئے نئی مگر زیادہ محقق راہ نکالی ۔پھر طب کی بنیاد بھی قرآن مجید کے توجہ دلانے پر ہی قائم ہوئی ۔نحو میں مثالیں دیتے تھے۔توقرآن مجید کی آیات کی ۔ادب میں بہترین مجموعہ قرآن مجید کی آیات کو قراردیاگیاتھا۔غرض ہر علم میں آیاتِ قرآنی کو بطور حوالہ نقل کیاجاتاتھااورمیں سمجھتاہوں کہ اگر ان سب کتابوں سے آیات کوجمع کیاجائے ۔تو ان سے بھی ساراقرآن جمع ہوجائے گا۔مسلمانوں میں قرآن کریم کے خدمت کے لئے دوسرے علوم کی طرف رجوع کاایک ضمنی فائدہ یہ بھی ہوا۔کہ پہلی کتابوں سے تو دنیوی علماء کا طبقہ سخت بے زار تھا۔مگرمسلمانوں میں سے ان علوم کے ماہر ہمیشہ قرآ ن مجید کے خاد م رہے ہیں۔کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم سچے علوم کادشمن نہیں بلکہ مؤید ہے ۔
ایک بہت بڑاذریعہ قرآن مجید کی حفاظت کایہ بھی ہواکہ نزول قرآن کے بعد علمی عربی زبان کی تبدیلی بند ہوگئی ۔عربی کے سوادنیا میں کو ئی ایسی زبان نہیں پائی جاتی۔جو آج بھی وہی ہو جس طرح تیرہ سو سال پہلے تھی۔چاسر اورشیکسپیر کی تین سوسال قبل کی انگریزی کی تشریح کرنے کی ضرورت ہے ۔کیونکہ بہت بدل چکی ہے ۔مگرقرآن مجید کے سمجھنے کے لئے پرانی لغتوں کی ضرورت نہیں۔کیونکہ جو شخص علمی عربی آج پڑھتاہے وہ قرآن کریم کو بھی بغیر کسی مددکے سمجھ سکتاہے ۔
ان ظاہری سامانوں کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی حفاظت کاایک ایساذریعہ بھی مقرر کیا۔جس میں ملائکہ کا بھی دخل نہیں اوروہ الہام ہے ۔الہام میں ملائکہ بعض اوقا ت صرف پہنچانے والے ہوتے ہیں ۔مگر انہیں اس کاسبب نہیں قرار دیاجاسکتا۔
حق یہ ہے کہ خداکاکلام بندے کے ساتھ براہ راست ہوتاہے ۔ملائکہ صرف بطور واسطہ کے ہوتے ہیں اوراسی وجہ سے ’’ انانحن نزلناالذکر وانالہ لحافظون۔‘‘کہہ کر یہ بتایاہے کہ ہم اس کلام کی آئندہ تازہ بتازہ الہام کے ذریعہ سے حفاظت کرتے رہیں گے ۔یعنی مجدد اورمامور وغیرہ مبعوث کرتے رہیں گے ۔
یہ ظاہر ہے کہ جس کتاب کے لفظ تو محفوظ ہوں ۔مگرمعنوں کی حفاظت نہ ہووہ محفوظ کتاب نہیں کہلاسکتی۔مثلاً وید ہیں ۔اگریہ فرض بھی کرلیاجائے کہ وہ لفظاً محفوظ ہیں ۔توبھی وہ کتاب کامل ہونے کے لحاظ سے محفوظ نہیں ۔کیونکہ جس زبان میں وہ نازل ہوئے ہیں وہ محفوظ نہیں رہی ۔اس لئے اس کے معانی بالکل مشتبہ ہوگئے ہیں ۔اب اگر خداتعالیٰ کی طرف سے الہام پاکر کوئی شخص اس کے صحیح معانی نہ بتائے ۔توکون یقین کے ساتھ کہہ سکتاہے کہ وہ اس کاصحیح مطلب بیان کررہاہے ۔یااس کے مطابق عمل کررہاہے ۔یہ نقص اسی صورت میں دور ہوسکتاہے کہ تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد ایسے لوگ کھڑے ہوتے رہیں جو کتاب کے صحیح مفہوم کی طرف لوگوں کو لاتے رہیں اوریہ حفاظت دائمی طور پر قرآن کریم ہی کو حاصل ہے ۔بے شک دوسر ی کتب سماویہ کو بھ اُس عرصہ میں کہ وہ زندہ کتب تھیں یعنی دنیا کے لئے قابل عمل تھیں ۔یہ حفاظت حاصل تھی۔مگر اب نہیں ۔اب صرف قرآن کریم ہی کو یہ حفاظت حاصل ہے ۔صرف اس کے ماننے والے ہرزمانہ میں خداتعالیٰ سے براہ راست الہام پانے کے مدعی ہوتے چلے آئے ہیں ۔اوراس زمانہ میں کہ دین سے غفلت انتہاکو پہنچ گئی ہے ۔اللہ تعالیٰ نے ایک ایسامامور مبعوث فرمایاہے ۔جس نے کلی طور پر قرآن کی تفسیروںکو زوائد اورحشو سے پاک کرکے اصلی صورت میں دنیاکے سامنے پیش کیاہے ۔حتیٰ کہ قرآن جو اسی زمانہ کے علوم کے سامنے ایک معذرت خواہ کی صورت میں کھڑاتھا۔اب ایک حملہ آور کی صورت میں کھڑاہے۔جس کے سامنے سب فلسفے اورمذاہب اس طرح بھاگ رہے ہیں جیسے شیر کے سامنے سے لومڑ۔فسنحان اللہ الملک العزیز۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرادعویٰ ہے کہ اس مامور کی اتباع کی برکت سے کسی علم کامتبع خواہ قرآن کریم کے کسی مسئلہ پر حملہ کرے ۔میں اس کامعقول اورمدلّل جوا ب دے سکتاہوں ۔اوراللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر ذی علم کو ساکت کرسکتاہوں ۔خواہ وقتی جوش کے ماتحت وہ علی الاعلان اقرار کرنے کے لئے تیار نہ ہو۔میں نے اس کاربع صدی سے زیادہ عرصہ میں تجربہ کیاہے ۔میں سمجھتاہوں کہ جب سے اس میدان میں داخل ہواہوں۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے ظاہرو باطن میں کبھی مجھے اس بارہ میں شرمندہ ہونے کاموقعہ نہیں ملا۔
غرض خداتعالیٰ نے قرآن مجید کی معنوی حفاظت کامدار صرف عقل پر ہی نہیں رکھا اوراس کی تشریح کاانحصار صرف انسانی دماغ پر ہی نہیں چھوڑا۔بلکہ خوداپنے کلام اس کو ظاہرفرمانے کاذمہ لیاہے ۔جس کاایک فائدہ یہ بھی ہے کہ جب اس طرح سے عملی پھل ظاہرہوتے ہیں توقرآن مجید کے محفوظ ہونے کاایک بیّن ثبوت ملتارہتاہے ۔دوائی اگرفائدہ کرتی ہے ۔تو ہم اسے تازہ سمجھتے ہیں۔ورنہ بوسیدہ سمجھتے ہیں ۔قرآن مجید کے تازہ پھل بھی ثابت کرتے رہتے ہیں کہ قرآن مجید محفوظ اورزندہ کتاب ہے اوریہ قرآن مجید کی حفاظت کاایسازبردست ذریعہ ہے ۔ جواورکسی کتا ب کو میسر نہیں اورنہ کبھی ہوگا۔
جیساکہ بتایاجاچکاہے ۔ذِکرکے معنے شرف اورنصیحت کے بھی ہیں۔قرآن کریم کانام ذکر اس لئے رکھا گیاکہ اس کے ذریعہ سے اس کے ماننے والوں کو شرف اورتقوی حاصل ہوگا۔پس انانحن نذلناالذکر وانالہ لحافظون میں اس طرف بھی اشارہ ہے ۔ کہ یہ کلام جس کایہ دعویٰ ہے کہ میرے ذریعہ سے ماننے والوںکو شرف اورعزت اورتقویٰ ملے گا۔ہماراہی اُتاراہواہے ۔اورہم ہی اس کے محافظ ہیں یعنی ان صفات کو عملاً پوراکرناہماراہی کام ہے ۔اگریہ صفات اس کی ظاہر نہ ہوں توگویا اس کی تعلیم ضائع ہوگئی ۔مگرہم ایسانہیں ہونے دیں گے۔
اس آیت میں کفار کی تباہی اورمسلمانوں کے غلبہ کی بھی پیشگوئی ہے کیونکہ قرآن کریم ہرقسم کی سیاسی،اقتصادی اورنظامی تعلیمات کامجموعہ ہے اورشرعی کلام جب تک اپنے ابتدائی ایام ایک حکومت کے ساتھ متعلق نہ ہو ۔اس کی تعلیم کے عملی حصہ کی خوبیاں پوری طرح ظاہر نہیں ہوسکتیں ۔پس الذکر کی حفاظت کے لئے ایک حاکم قوم کی ضرورت تھی او ر ایسی قوم کے قیام سے پہلے عرب کی موجودالوقت حکومت کی تباہی لازمی تھی ۔
لوگ اسلامی حکومت کے قیام کو ایک اتفاق کہہ سکتے ہیں ۔اول تومحض اسلامی حکومت کاقیام بھی ان حالات کو دیکھتے ہوئے جن میں وہ قائم ہوئی کسی صورت میں اتفاق نہیں کہلاسکتا۔لیکن اس پیشگوئی کو دیکھتے ہوئے توکوئی انسان جس میں ذرابھر بھی عقل ہو ۔اسے اتفاق نہیں کہہ سکتا۔
قرآن یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ عربوں کی حکومت ٹوٹ کر ان کی جگہ مسلمانوں کی حکومت ہوجائے گی ۔قرآن یہ کہتاہے۔کہ یہ حکومت ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آئے گی ۔(۱)جوخداترس ہوں گے ۔(۲)جودنیا کی نظر میں اعلیٰ شرف والے قرار پائیں گے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہزاروں حکومتیں ٹوٹتی ہیں اوردوسری ان کی جگہ لیتی ہیں ۔مگرکیاہرحکومت کے ٹوٹنے کے بعد جودوسری حکومت جگہ لیتی ہے وہ انہی صفات کی حامل ہوتی ہے ۔جن کااوپر ذکر ہوا؟مگر اس پیشگوئی کے نتیجہ میں عرب کی حکومت ٹوٹ کر کیسی حکومت قائم ہوئی ؟ شدید سے شدید دشمن بھی جو اسلام اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتاہے ۔جب ابوبکرؓ اورعمرؓ تک پہنچتاہے ۔توعزت سے گردن جھکالیتاہے ۔اوران کے تقویٰ اورعقل اورفہم اورنیک انتظام اور ایثار اور قربانی کا عتراف کرتاہے ۔اس قسم کی حکومت کاقائم ہوجانابھی کیااتفاق کہلاسکتاہے ۔خصوصاً جبکہ وہ پیشگوئی کے ماتحت تھی اورقرآن کریم میں صاف کہہ دیاگیاتھاکہ لَقَدْ اَنْزَلْنَا اِلَیْکُمْ کِتَابًا فِیْہِ ذِکْرُکُمْ اَفَلَاتَعْقِلُوْن۔(انبیاء ع۱)ہم نے یقیناً تمہاری طرف ایک ایسی کتاب اتاری ہے جس میں تمہارے شرف دینی اوردنیوی عزت کے سامان موجود ہیں ۔پھر تم کیوں مخالفت سے باز نہیں آتے ۔اسی صفت کے کمال کو ظاہر کرنے کے لئے قرآن کریم کانام بعض دفعہ اَلذِّکْر آتا ہے اورآیت زیرتفسیر میں بھی اسی کی طرف اشارہ کیاہے کہ اے کفار !تم ظنز سے کہتے ہو کہ اے وہ شخص جس پر وہ کلام نازل ہواہے جس میں ماننے والوں کے لئے بڑی عزت اورتقویٰ کادعویٰ کیاگیاہے ۔توپاگل ہے ۔مگرمَیں تم کو بتاتاہوں کہ یہ کلام میراہی نازل کیاہواہے اور میں اس شرف کے وعدہ کو ضرورپوراکرکے رہوںگا۔کیونکہ یہ شرعی کلام ہے۔اوربغیر س کے کہ ابتدائی زمانہ میں اس کے ماننے والوں کو حکومت ملے اوردینی رتبہ کے ساتھ دنیوی رتبہ بھی حاصل ہو۔یہ کلام عملی جامہ نہیں پہن سکتااورغیرمحفوظ ہو جاتاہے ۔پس ضرور ہے کہ میں موجود ہ نظام کو توڑ کر وہ نظام قائم کروں جس میں مسلمانوں کو قرآنی تعلیم کو عملی جامہ پہنانے کاموقعہ ملے اورانکو ایسے شرف اور تقویٰ کے اظہار کاموقعہ ملے جس کاوعدہ قرآن کریم میں کیاگیاہے ۔یہ مضمون اسی آیت کو وَمَااَھْلَکْنَا مِنْ قَرْیَۃٍ والی آیت کے ساتھ ملاکر دیکھنے سے اوربھی واضح ہوجاتاہے ۔
ایک سوال کاحل اس موقعہ پر ضروری ہے میں نے ا س نوٹ کے سلسلہ میں بیان کیاہے کہ ہرنبی کے کلام کی حفاظت کی جاتی ہے ۔اگلی آیات اس مضمون کی تصدیق کرتی ہیںاوریہ قانون ہرنبی کے متعلق ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ اگریہ درست ہے توکیا (۱)پہلے انبیاء کی وحی اب تک بعینہٖ محفوظ ہے ؟ (۲)اگرنہیں توپھر یہ کیونکر تسلیم کیاجائے کہ قرآن کریم ہمیشہ محفوظ رہے گا۔کیوں نہ تسلیم کیاجائے کہ یہ بھی پہلے انبیاء کی وحیوں کی طرح کسی وقت بگڑ جائے گا۔اس سوال کاجواب خود آیت زیر تفسیر کے الفاظ ہی دے رہے ہیں ۔قرآن کریم نے یہ نہیں کہا کہ ہم قرآن کی حفاظت کریں گے یاکتاب کی حفاظت کریں گے بلکہ الذکر کی حفاظت کاوعدہ کیاہے ۔اس لفظ کو استعمال کرکے حفاظت کے دائرہ کو محدود کردیاگیاہے۔جب تک کو ئی کلام الذکررہے یعنی (۱) ایک طرف تو بندہ اورخداتعالیٰ کے تعلق کو قائم کرتارہے (ذکر کے معنے یاد کرنے کے ہیں )اوربندہ کوایسے قیام پر کھڑارکھے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی یاد میں سرشار رہے ۔اور(۲)دوسری طرف اسے ایسامقام عطاکرے کہ اللہ تعالیٰ بھی اسے یاد کرتارہے یعنی خداتعالیٰ کی وحی اورنصرت اورامداد بندہ کو حاصل رہے اس کی حفاظت کااللہ تعالیٰ ذمہ لیتاہے جو کلام ان خوبیوں کاحامل رہے گا۔خدتعالیٰ اس کی حفاظت کر یگااورجوکلام ان خوبیوںکاحامل نہ ہوگا۔اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت چھوڑ دے گا۔
یہ امر ظاہر ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ کسی کلام کو دنیا کے لئے قابل عمل سمجھے گا۔اس میں یہ خوبیاں پائی جائیں گی ۔او ر جب اللہ تعالیٰ کسی کلام کو ضرور ت زمانہ کے پوراکرنے سے قاصر قرار دے گااور اس کی حفاظت چھوڑ دے گاتاکہ نئے سرے سے ایساکلام نازل کرے ۔جو ضرورت زمانہ کے مطابق ہو تو مذکورہ بالا امور اس نئے کلام کے ذریعہ سے پورے ہونے لگیں گے ۔اورسابق کلام سے پورے نہ ہوں گے اورجب وہ ضرورت جس کے لئے کلام الٰہی نازل ہوتاہے۔پوری نہ ہوگی ۔تو اس کی حفاظت کی بھی ضرورت نہ رہے گی ۔اورجب اللہ تعالیٰ کی حفاظت اُٹھ جائے گی تو شرارتی لوگوں کو اس کلام میں دخل دینے کا او ر تحریف کرنے کا موقعہ بھی ملتارہے گا۔
خلاصہ کلام یہ کہ باوجود اللہ تعالیٰ کے وعد ہ کے کہ و ہ ہر نبی کی وحی کی حفاظت کرے گا۔پہلے انبیاء کی وحی اگر محفوظ نہیں رہی ۔توقابل اعتراض نہیں ۔کیونکہ قرآن نے الذکر کی شرط لگائی ہے ۔جب تک وہ الذکر رہے ۔ان کی حفاظت ہوتی رہی ۔جو وہ الذکر نہ رہے ان کی حفاظت کاوعدہ ختم ہوگیا۔اوریہ کہ وہ الذکر نہ رہے ۔ایک بدیہی بات ہے ۔کم سے کم اپنے زمانہ میں ہم میں سے ہر اک اس کاتجربہ کرسکتاہے ۔آجکل سوائے اسلام کے ایک مذہب بھی نہیں جو یہ دعویٰ کرتا ہو کہ اس کے پیروئوں میں کو ئی ایسا شخص موجود ہے ۔جو الذکر کا عملی ثبوت ہو یعنی اس کایہ دعویٰ ہوکہ اپنے مذہب کی کتاب پر چل کر اسے خداتعالیٰ کا قرب حاصل ہوگیاہے ۔اورخداتعالیٰ اسے یاد کرتاہے یعنی اس سے کلام کرتاہے ا ور اس کے لئے اپنی قدرتوں کو ظاہر کرتاہے ۔جو الذکر کا مفہوم ہے ۔پس جب عملاًوہ کتب الذکر کا مصدق نہیں رہیں ۔تو ان کی حفاظت بھی جاتی رہی اور ان کے محرّف و مبدّل ہونے میں کوئی آسمانی روک نہیں ۔باقی رہاسوال کایہ حصہ کہ پھر کیوں قرآن کریم کی نسبت بھی یہ نہ تسلیم کیاجائے ۔کہ وہ بھی حفاظت سے باہر ہوگیا ہے ۔تو اس کاجواب یہ ہے ۔کہ وہ اب تک الذکر ہے ۔اس پر چل کر آج بھی انسان خداتعالیٰ کو پاسکتاہے ۔پس چونکہ وہ اس ضرورت کو پورا کررہاہے ۔جس کے لئے اسے نازل کیاگیاتھا۔وہ خداتعالیٰ کی حفاظت سے باہرنہیں ہوسکتااورکسی کی جرأت نہیں ہو سکتی کہ اس کے اند رکوئی تغیّر و تبدّل کرے ۔
اب رہا سوال آئندہ کاسو اس کااول تویہ جواب ہے ۔کہ اس وقت تک اس میں کوئی تغیر نہیں ہوا۔اورآئندہ کے لئے قرآن کریم میں پیشگوئیاں موجود ہیں کہ جب بھی مسلمان اسلام سے غافل ہوں گے اللہ تعالیٰ مامور بھیجتا رہے گا۔پس اس وعد ہ کی موجودگی میں ہم یقین رکھتے ہیں کہ چونکہ قرآن کریم سے ہمیشہ دنیا کی ضرورت پوری ہوتی رہے گی وہ نسخ کو قبول نہیں کرے گااور جب وہ نسخ کو قبول نہیں کرے گا۔تویقیناً وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہے گا۔کیونکہ کوئی عقلمند اپنی کار آمد شے کو تباہ نہیں ہونے دیتا ا وراللہ تعالیٰ تو سب عقلمندوں سے بڑھ کر عقلمند ہے ۔
ولقد ارسلنا میں قبلک فی شیع الاولین ۔
اورہم نے اگلے (زمانہ کے ) لوگوں کی جماعتوں میں (بھی ) تجھ سے پہلے رسول بھیجے تھے۔ ۱۱ـ؎
۱۱؎ حل لغات ۔شِیْعٌ۔ شِیْعَۃْ کی جمع ہے ۔شِیجعَۃُ الرَّجُلِ ۔اَتْبَاعُہ؛واَنْصَارُہ؛شِیْعَۃ الرَّجُلِ کے معنے ہیں ۔آدمی کے اتباع اور مددگار (اقرب) شِیْعَ االْاَ وَّلِیْنَ کے متعلق فراء نے کہا ہے کہ یہ اضافۃ الشیء ِ الی صفۃ کی طرز پر ہے ۔یعنی اس کے معنے ہیں ۔پہلے جتھے ۔
تفسیر ۔اللہ تعالیٰ نے تمام گروہوں کو شیعہ کہا ہے ۔اس سے ان لوگوں کی تردید ہوتی جو کہاکرتے ہیں کہ ہم ہرطرح سے آزاد ہیں ۔جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم آزاد ہیں وہ یہ فقرہ صرف چالاکی سے کہتے ہیں تاکہ وہ تو اعتراض کرتے چلے جائیں ۔لیکن ان پر کوئی اعتراض نہ کرسکے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ بات ہی غلط ہے ۔کہ کوئی آزاد بھی ہوتاہے ہرآدمی کسی نہ کسی جتھے میں ضرور ہوتاہے ۔خواہ مذہب کی بنا پر ۔خواہ رسم کی بناء پر ہر انسان کو اپنی زندگی میں اتنے امور سے واسطہ پڑتاہے ۔کہ ہر امر کی بابت تحقیق کرنا اس کے لئے ناممکن ہوتاہے ۔اس لئے کچھ نہ کچھ امور میں وہ ایسے لوگوں کے خیالات کو قبول کرلیتاہے ۔جن پر اسے اعتقاد ہوتاہے سائیکالوجی والے(علم النفس کے ماہرین)کہتے ہیں کہ انسان میں نقل کرنے کامادہ اس کاسب سے بڑاخاصہ ہے ۔اسی بات کو اس جگہ شِیَعُ الْاَوَّلِیْنَ کہہ کر بیان کیا گیاہے ۔یعنے مختلف جتھے جو کسی نہ کسی سبب سے آپس میں متحد تھے ۔
اس آیت میں پہلی آیت کے مضمون کے متعلق یہ بتایاگیا ہے ۔کہ پہلے بھی نبی گزرے ہیں ۔اور ان کی تعلیم کی بھی اللہ تعالیٰ نے حفاظت کی ہے اسی طرح اس رسول کی تعلیم کی بھی حفاظت کرے گا۔حفاظت سے مراد جیساکہ بتایاجاچکاہے ۔نہ صرف لفظی حفاظت ہے بلکہ معنوی حفاظت بھی ہے ۔جوشرعی نبیوں کے زمانہ میں علاوہ اورذرائع کے اس طرح بھی ہوتی ہے کہ ان کے زمانہ میں ہی حکومت ان کی جماعت کو مل جاتی ہے اور وہ عملاً اس شریعت کو رائج کرکے اس کے اصلی معنوں کو ظاہر کرجاتے ہیں اورجو شرعی نبی نہ ہوں ۔ان کی جماعت کو بھی اللہ تعالیٰ غلبہ دیتاہے تاکہ ان کی تعلیم کے عملی ثمرات ظاہر ہوں ۔لیکن ان کے لئے فوری حکومت کاملنا ضروری نہیں ۔غرض اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ یہ کلام الٰہی کی حفاظت کاسلسلہ ہمیشہ سے چلاآتاہے ۔اسی رنگ میں تم اب نشان دیکھ لو گے
نہایت تعجب کی بات ہے کہ انبیاء کے منکرین اس سہل ترین راستہ کو قبول کرنے سے ہمیشہ پہلو تہی کرتے ہیں جو انہیں یقینی طور پر سچے نبی کی شناخت میں ممد ہوسکتا ہے ۔اوروہ راستہ منہاج نبوت کے مطابق مدعی کے دعویٰ کو پرکھنا ہے ۔اگرمنہاج نبوت کے مطابق مدعی کے دعویٰ کو پرکھا جائے تواس کی صداقت یا اس کے کذت کو معلوم کرنا ایک ساعت کاکام ہوتاہے۔مگر اسی راستہ کو قبول کرنے سے وہ پہلو تہی کرتے ہیں ۔ جس سے معلوم ہوتاہے کہ صداقت کو معلوم کرنا مطلوب نہیں ہوتا۔بلکہ غلط مبحث کرکے سچائی سے گریز کرنا مطلوب ہوتاہے ۔
ومایاتیھم من رسول الاکانو بہ یستھزء ون ۔
اور جو رسول بھی ان کے پاس آتاتھاوہ اس کی ہنسی اُڑاتے تھے ۱۲؎
۱۲ ؎ تفسیر ۔استھزاء اس ہنسی کوکہتے ہیں ۔جس میں تحقیر پائی جائے ۔اس آیت کاتعلق ایک تو یَااَیُّھَا الَّذِیْ نُزِّلَ عَلَیْہِ الذِّکْرُ سے ہے ۔کہ اس میں کفار کے تمسخر کی طرف اشارہ کیاگیاہے ۔فرماتاہے ۔اس نبی سے تم نے تمسخرکرلیا توکیاہوا۔وہ انبیاء جن کو تم مانتے ہو۔ان سے بھی تو تمسخر ہوتارہاہے ۔دوسرے یہ بتایا کہ ہرنبی کے کلام اوراس کی تعلیم کی حفاظت کاوعدہ ہوتاہے اوریہ امر کفار کو عجیب معلوم ہوتاہے کہ ہماری مخالفت کے باوجود یہ تعلیم کس طرح باقی رہ جائے گی۔اور و ہ اس دعویٰ کوغیر معقول سمجھ کر اس سے ہنسی کرتے رہے ہیں ۔تعجب ہے کہ ہرنبی سے تمسخر ہواہے ۔پھر بھی جب کوئی نیانبی آتاہے ۔دنیا اس یہ مطالبہ کرتی ہے کہ کیوں اسے خاص شان نہیں ملی ۔اگر خاص شان اورطاقت سے نبی آتے توگزشتہ نبیوںسے تمسخر کیونکر ہوسکتاتھا۔
کذالک نسلکہ فی قلو ب المجرمین۔
اسی طرح ہم اس (عادت استحزاء)کو مجرموں کے دلوں میںداخل کرتے ہیں ۱۳؎
۱۳؎ حل لغات۔نَسْلُکُہ ۔نَسْلُکُ سَلَکَ سے مضارع جمع متکلم کاصیغہ ہے ۔اورسَلَکَ المکَانَ سَلکاً وسلوکاً کے معنی ہیں دَخَل فِیْہِ کسی جگہ میں داخل ہوااوراس کے اندر گیا سلک الطریق ای دخلہ وسارفیہ متبعاًایاہ
فھوسالک۔اورسلک الطریق کے معنی ہیں ۔راستہ اختیار کرکے اس پر چل پڑااوراس سے اسم فاعل سالک(یعنی راستہ اختیار کرکے اس پر چلنے والا)آتاہے ۔سلک الشیئَ فی الشی۔ ادخلہ فیہ کما تسلک الید فی الجیب والخیط فی الابرۃ۔اورسلک الشیء فی الشئی کے معنی ہیں ۔ایک چیز کو دوسری چیز کے اندرداخل کیا ۔جیسے گریبان میں ہاتھ ڈالنا یاسوئی کے سوراخ میں تاگہ ڈالنا۔وفی القرآن سلکنہ فی قلوب المجرمین ۔اورقرآن مجید کی آیت سلکنہ فی قلوب المجرمین میں یہ لفظ انہی معنوں میں آیاہے ۔وسلک فلاناالمکان کے معنے ہیں ۔فلاں شخص کو مکان میں داخل کیا (اقرب)
المجرمین(جَرَمَ۔یجرم۔جَرماً)جَرَمَہ‘ کے معنی ہیں ۔قطعہ ۔کاٹا۔ومنہ جَرَم النحل جرماً۔اذاصرمہ کجھور کو کاٹ کر جداکردیا۔جَرَ مَ زیداً۔اذنب ۔زید نے جرم کاارتکاب کیا۔جرم علی قومہ والی قوم جریمۃ جنی۔جنایۃ قو م پر زیادتی کی ۔وَجَرَمَ لِاَھلہٖ ۔کَسَبَ۔کمایا۔ومنہ فی القراٰن لایجرمنّکُم شَنْانُ قَوْمٍ عَلیٰ اَلَّ تَعْدِلُوا۔اَیْ لَا یَکْسِبَنَّکُمْ وفُسِّرَا ایضاً بِلَا یَحْمِلَنَّکُمْ ۔اورقرآن مجید کی آیت لَایَجْرِمَنَّکُمْ میں جرمَ کے معنے کمانے کے کئے گئے ہیں ۔یعنی دشمن کی دشمنی تمہارے لئے اس امر کی محرک نہ ہوکہ تم ظلم کمائو۔اس کے علاوہ اس سے یہ بھی مراد لی گئی ہے ۔کہ لَایَحْمِلنّکم یعنی تم کا آمادہ نہ کرے ۔اَجرَمَ۔اَذنَبَ۔عَظُمَ جُرمُہ۔اجرم کے معنے ہیں۔ قصورکیا۔اوراس کاسب سے بڑاقصور تھا۔اَجرَمَ علیھم جَنَی ظلم کیا۔(اقرب)ان تمام محاورات سے ظاہر ہے کہ اصل میں جرم کے معنے قطع کے ہوتے ہیں ۔گناہ چونکہ خداتعالیٰ سے قطع تعلق کرواتاہے اوربنی نوع انسان سے بھی ۔اس لئے اسلامی شریعت میں گناہ کو جرم کہاجاتاہے اوگناہ وہی ہوتاہے ۔جس سے یا خداسے تعلق ٹوٹے یابندوں سے بگاڑ پیداہو۔پس المجرم کے معنے ہونگے صَارَاذَاجُرمٍ یعنی تعلق کو کاٹنے والا۔
تفسیر۔اس آیت میں نَسْلُکُہ کی ضمیر کے مرجع کے متعلق مفسرین میں اختلاف ہواہے بعض نے اسے لایؤمنون کی طرف بطو ر ضمیر مقدم کے راجع کیا ہے اوربعض اس کو پہلی آیت کی طرف لے گئے ہیں ۔مگرمیرے نزدیک اس کامرجع استھزاء ہے ۔جوپہلی آیت میں مذکور ہواہے ۔
کذٰلِکَ نَسْلُکُہ‘ فِیْ قُلُوْبِ الْمُجْرِمِیْنَ۔کہہ کر اس بات کو ظاہر کیاہے کہ جب انسان برے فعل کا ارتکاب کرتاہے تو صرف اس گناہ کامرتکب نہیں ہوتا۔بلکہ گناہ کی نفرت بھی اس کے دل سے کم ہوجاتی ہے اورآہستہ آہستہ اس کے دل میں گناہ کی محبت پیداہوجاتی ہے اورگناہ اس کے دل میں گھر بنالیتاہے ۔
اس آیت سے ثابت ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو گنہگار نہیں بناتا۔بلکہ گناہ کے طبعی نتائج نکالتاہے ۔اوراس کا الزام اللہ تعالیٰ پر نہیں بلکہ خود گنہگار پر آتاہے ۔
لایؤمنون بہ وقد خلت سنۃ الاولین
یہ لو گ اس پر ایمان نہیں لاتے ۔حالانکہ پہلوں(کے متعلق اللہ تعالیٰ)کی سنت گز رچکی ہے ۱۴؎
۱۴؎ حل لغات ۔اَلسُّنَّۃُ۔السِّیْرۃُ سنت کے معنی ہیں دستور۔الطَّرِیْقَۃُ ۔طریقہ۔اَلطَّبِعَۃُ ۔طبیعت عادت۔(اقرب)
تفسیر۔یعنے استہزاء کی جب عادت ہوجاتی ہے ۔تودل سخت ہوجاتے ہیں اورآخر باوجود کھلے نشانات دیکھنے اور واضح ثبوت موجود ہونے کے لوگ ایمان سے محروم ہوجاتے ہیں ۔یہی حال پہلی قوموں کاہوا۔۔یہی ان کاہوگا۔استہزاء کرکے کس نے ہدایت پائی۔کہ اب یہ پائیں گے۔
ولو فتحنا علیھم بابامن السما ء فظلو ا فیہ یعرجون ۔
اوراگر( بالفرض)ہم ان پر (شناخت کی)کو ئی آسمانی راہ کھول (بھی )دیتے۔اوروہ اس میں چڑھنے لگے (اورقرآن مجید کامنجانب اللہ ہونا ان پر ظاہر ہوجاتا)
لقالو انما سکرت ابصارنا بل نحن قوم مسحورون۔
تو(بھی)وہ (یہی ) کہتے (کہ)محض ہماری نظروں پر پردہ ڈال گیاہے (ورنہ حقیقت کچھ بھی نہیں) بلکہ ہم (لوگوں)پر (کو ئی)جادوکردیاگیاہے۔ ۱۵؎
۱۵؎ حل لغات ۔یعرجون ۔عرج یعرجُ عروجاً سے مضارع جمع غائب کا صیغہ ہے۔اورعرج الرَّجلُ فی الدرجۃ والسلم کے معنی ہیں ۔اِرتقیٰ۔آدمی سیڑھی پر چڑھا ۔وعُرِجَ بِہٖ علیَ المجہول۔صُعِدَ بہ۔اورمجہول ہو ۔تو اس کے معنے ہیں ۔اس کو چڑھاکر لے جایاگیا۔(اقرب)
سُکِّرت۔سکر (یکسرُ سَکراً)الاِنائَ کے معنے ہیں ۔فَلَاَہ‘۔برتن کو بھر دیا۔سکرت الریح ۔سکنت بعد الھبوبِ ہواچلنے کے بعد تھم گئی ۔سکرت عینہ ۔تَحیَّرَت وَ سَکَنَتْ عَنِ النَّظرِ۔آنکھ حیران ہوگئی ۔اوردیکھنے سے رک گئی ۔سَکَرَ البَابَ۔سَدَّہ‘۔دروازہ بند کرلیا۔سُکِرَت اَبْصَارُنا مجہولاً حُبِسَتْ۔آنکھیں روکی گئیں ۔سُکِّرَت اَبصَارُنَا مجھولاً۔حُبِسَتْ وحُیِّرت ۔آنکھیں حیران کردی گئیں اورروکی گئیں ۔(اقرب)
ابصارنا۔ابصار۔بصر کی جمع ہے ۔اورالبصر کے معنی ہیں ۔حَاشَۃُ الرُّؤیَۃِ ۔دیکھنے کی حس ۔العین ۔آنکھ۔العلم علم (اقرب)
مسحورون ۔سحر ۔یسحر۔سحراً کے معنے ہیں ۔عمل لہُ السِّحْرُ وخَدَ عہ‘۔اس پر سحر کیا او ر اسے دھوکا دیا۔سحر عنہ ۔تَباعَدَ ۔دورہوگیا ۔سحَرَ فُلاناً عن الاَمرِ صَرَفَہَ۔کام سے روک دیا۔سحر بکلامِہٖ والحاظہٖ۔اِسْتَمَالَہُ وَسَلَبَ لُبَّہُ۔اپنے کلام اورنظروں سے مائل کرلیا اورعقل کو چھین لیا۔سحر المطرُ الطیْنَ والترابَ سحراً اَفْسَدَہ‘ فَلَمْ یَصْلَحْ لِلْعَمَلِ۔بارش نے مٹی اورکیچڑ کو خراب کردیااوروہ کام کے قابل نہ رہی ۔المسحورایضاالمفسَ مِن الطَّعَامِ وَالمکَانِ لِکَثْرَۃِ المَطَرِ اَومِنْ قِلّۃَ الکَلاء۔کے ایک معنے بر ے کھانے کے ہیں اورایسی جگہ پر بھی مسحور کالفظ بولتے ہیں ۔جوکثرت بارش یا گھاس کی کمی کی وجہ سے خراب ہوجاوے۔(اقرب)
تفسیر ۔لَْومَاتَاْتِیْنَابِالْمَلٰٓئِکَۃِ کی آیت میں کفار کی طرف سے مطالبہ بیان ہواتھا کہ اگر اس کادماغ(نعوذباللہ)خراب نہیں اوراسے وہم نہیں توجو فرشتے اس پر نازل ہوتے ہیں ۔وہ ہمیں کیوں نہیں دکھاتا ۔اس کاجواب ایک تویہ دیاتھاکہ فرشتے ہرایک کے مناسب حال نازل ہوتے ہیں ۔یہ توعذاب کے مستحق ہیں ۔عذاب ہی کے فرشتے ان پر نازل ہوں گے۔مگر ان کے نزول سے یہ ہلاک ہونے کے بعد کیافائدہ اُٹھائیں گے۔دوسراجواب یہ دیاکہ تم فرشتوں کاکہتے ہو۔اوران کے نزول پرتعجب کرتے ہو۔ہم تواس پر نازل ہونے والے کلام کی خود حفاظت کریں گے ۔کیونکہ وہ ہماراکلام ہے اوراس کی حفاظت کی ذمہ واری سب سے زیادہ ہم پر پڑتی ہے ۔آخر ہم پہلے نبیوں کے زمانہ میں بھی یہ کام کرتے آئے ہیں ۔اب کیوں نہ کریں گے پھر فرمایاتھاکہ یہ استہزاء ان کا تعجب انگیز نہیں کہ سب نبیوں کے دشمنوں نے ان سے استہزاء کیا اوراس قد ر استہزاء کی اکہ آخر گناہ ان کی غذاہوگیااوراس میں ان کو لذت آنے لگی اوروہ ایمان سے محروم ہوگئے یہی ان کا حال ہے۔
اب ایک او رطریق پر انہیں جواب دیتاہے ۔فرماتاہے کہ تم جو کہتے ہوکہ فرشتے ہمیں کیوں نہیں دکھاتا۔آپ ہی گھر میں بیٹھا دیکھ لیتاہے ۔تم یہ بتائوکہ کیا ہربات کو ہرشخص سمجھے کی قابلیت رکھتاہے ۔جب تک دل میں اس سے مناسب نہ ہو ۔بات سمجھ میں نہیں آسکتی۔تم کو توالٰہی علوم سے اس قدر بُعد ہے ۔کہ اگراسی قسم کے نظارے تم کو نظر آنے لگیں۔جومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نظر آتے ہیں اورتم کو روحانی مدارج کی سیر بھی کرائی جائے ۔توتم کبھی نہ مانوگے بلکہ یہی کہو گے کہ ہماری آنکھوں پر جادوکردیاگیاہے ۔ہمیں عجیب عجیب قسم کے نظارے نظر آتے ہیں ۔کیونکہ تمہارے قلوب میں روحانی علوم سے کوئی لگائو نہیں گویاآسمانی دروازہ کے کھلنے سے مراد اس جگہ آسمانی انکشاف ہے اوراوپر چڑھنے سے مراد بعض روحانی مدارج کاکھلنا ہے ۔
اگرکہاجائے کہ جس پرآسمانی دروازہ کھولاگیا وہ ایمان سے کس طرح محروم رہ سکتاہے ۔اس کاجواب یہ ہے کہ اس جگہ باباً مِنَ السَّمَآئِ کہاگیاہے ۔یعنی کوئی دروازہ جس سے اس طرف اشارہ کیاگیاہے کہ وہ کلی طور پر آسمانی علوم سے آشنا نہ کیاجائے اورہرقسم کی معرفت کی راہیں اس کے لئے نہ کھولی جائیں ۔بلکہ بوجہ اس کے انکار کے اسے ایک نمونہ دکھایاجائے اوریہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ جب تک دل میں مناسبت پیدانہ ہوجائے انسان محض نمونہ دیکھ کر فائدہ نہیں اٹھاتا اور وہ نظارہ صرف حجت پوری کرنے کے کام آتاہے ۔ایمان کاموجب نہیں بنتا۔
یہ ایک تجربہ شدہ امر ہے کہ کئی لوگ مامورین کاانکارکرتے ہیں ۔اوریہ مطالبہ کرتے ہیںکہ اگر کوئی نشان نظر آجائے توپھر مانیں گے ۔لیکن جب نشان نظرآجائے توپھر کبھی توکوئی بہانہ بنالیتے ہیں ۔کبھی تعبیر غلط کرلیتے ہیں ۔کبھی کہہ دیتے ہیں کہ خواب الہام کیا شے ہے ۔یونہی وہم ہے ۔غرض نشان دیکھ کر بھی فائدہ نہیں اٹھاتے اوراس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ دل میں خشیت اللہ نہیں ہوتی ۔ا س لئے نشان سے فائدہ نہیں اٹھاسکتے ۔اسی حالت کی طرف اس آیت میں شارہ کیاگیاہے ۔کہ ماننے کے لئے پہلے دل کی حالت کی درستی ضروری ہے ۔خشیت اللہ ہوتو پھر ایمان نصیب ہوتاہے ۔ورنہ ایک چھوڑ سو فرشتے نظرآئیں انسان اپنے دل کی تسلی کے لئے کئی بنانے بنالیتاہے اورایمان لانے سے انکار کردیتاہے ۔
اس آیت کے یہ بھی معنے ہوسکتے ہیں کہ ان پر عذاب آتے ہیں ۔عذاب کو دیکھ کر ان میں خشیت پیداہوتی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اگر یہ عذاب ٹل جائے تو ہم مان لیں گے ۔جیساکہ فرعون کے ذکر میں قرآن کریم میں آتاہے ۔ان معنوں کی روسے فَتحُناَ باباً من السماء کے معنے رحمت کے دروازے کھولنا اورعذاب کا ٹلادینا ہوگا۔اورظَلُّو فِیہِ یَعرُجُونَ سے مراد آرام کی ساعتوں میں دنیوی ترقیات کے حاصل کرنے میں مشغول ہوجاناہوگا۔عذاب کرذکر پہلے ماکانو اِذًا مُّنظِرین میں آچکا ہے ۔مطلب یہ ہے کہ تم لوگ توایسے سنگدل ہوکہ عذاب آنے پر ندامت کااظہار کروگے اورپھرمنکرہوجایاکروگے۔
ولقد جعلنا فی السماء بروجاوزینھا للنظرین۔
اوریقیناً ہم نے آسمان میں (ستاروں کی ) کئی منزلیں بنائی ہیں اورہم نے اسے دیکھنے والوں کیلئے (ستاروں کے ذریعہ سے)خوبصورت بنایاہے۔
وحفظنھا من کل شیطن رجیم۔
اور(نیز) ہم نے اسے ہرایک سرکش (اور)دھتکارے ہوئے (کی رسائی) سے محفوظ کردیاہے ۔ ۱۶؎
۱۶؎ حل لغات ۔السماء کے معنے ہیں آسمان مزید تشریح کے لئے دیکھو یونس ۵؎
بُرُوجاً۔بُرُوج کامفرد بُرجٌ ہے ۔اورالبرج کے معنے ہیں ۔الرُّکْنُ وَالحِضْنُ ۔مضبوط سہارا۔پناہ گاہ۔ قلعہ۔اَلْقَصْرُ ۔محل ۔ واحدُ بروجِ السَّمَائِ آسمان کے برجوں میں سے ایک برج یعنی ستاروں کے چکر لگانے کی منزل۔برج کی جمع بروج کے علاوہ اَبرَاج اوراَبْرِجَۃ بھی آتی ہے ۔(اقرب)
البروج۔القصود۔محلات ۔منازل ۔وَبِہِ سُمِّیَ بُرُوجُ النُّجُوْمِ لِمَنَازِلھَا المُختصَّۃِ بِھا۔اورستاروں کی منازل کو بھی برو ج کہاجاتاہے ۔(مفردات)
لِلنَِاظِرِیَنَ ۔نَظَرَسے اسم فاعل نَاظِرٌ آتاہے اوراس کی جمع نَاظِرونَ آتی ہے ۔نَظَرَ الیہ نظرًاکے معنے ہیں اَبْصَرَہ‘ ۔کسی چیز کو دیکھا ۔وتَامَّلَہ بِعَیْنہِ کسی چیز کو آنکھ سے خوب غور سے دیکھا ۔مَدَّ طَرَ فَہُ الیہ راٰہ اَولَم یَرَہ۔کسی چیز کی طرف نگاہ اٹھائی خواہ چیز کو دیکھ سکے یا نہ دیکھ سکے ۔ونَظَرن الاَرضُ ۔اَرَتِ الْعَینَ نَبَا تَھَا۔زمین نے اپنی سرسبزی آنکھ کو دکھائی ۔نَطربَین النَّاسِ۔حَکَمَ وَفَصَلَ دَعاوِیَھُمْ لوگوں کے دعاوی کافیصلہ کیا۔نطر فی الامر نطرًا تدبَّرہ وَفَکَّر فیہ یُقَدِّرُہُ وَیقیسُہ۔کسی معاملہ کو کسی اورمعاملہ پر قیاس کرتے ہوئے اس پر غورکیا (اقرب)
شیطان کے معنے کے لئے دیکھو سورۃ یوسف ۹۷؎
رَجیم۔رَجَمَ میں سے ہے ۔اوررَجَمَہ رجماً کے معنے ہیں ۔رَمَاہُ بالحجارۃِ ۔اس پر پتھر برسائے ۔قتلہ ۔اس کو قتل کیا۔قَذَفَہ۔اس پر تہمت لگائی ۔لَعنہ‘۔*** کی ۔شَمَّہ۔گالی دی ۔ھَجَرہ۔چھوڑ دیا۔ترک کردیا۔القبر ۔علَّمہ۔قبرپر نشان لگایا۔جاء یَرجم کے معنے ہیں ۔اِذا مَرَّ وَھُوَ یَضْطَرمُ فِی عَدْوِہٖ۔ تیزی سے دوڑتاہواگزرا۔الرَّجُلُ۔تَکلَم بِالظَّنِ ظنی بات کی ۔(اقرب)
الرَّجْمُ اَیْضاً اَنْ یَّتَکلَّمَ بِالظّنِ۔رجم کے معنے غیر یقینی بات کرنے کے بھی ہیں جیسے آیت رَجْمَابالغیب میں رجم کے
معنے ہیں ۔لایُوقف عَلیٰ حقیْقَتِہٖ۔یعنی بات کی حقیقت سے واقف نہ تھا۔اِسمُ مایُرججَمُ بہٖ جس چیز سے ماراجائے اس کو بھی رجم کہتے ہیں۔اس کی جمع رُجُوم آتی ہے(اقرب)
الرجام ُ۔الحجارۃُ۔رجام کے معنے پتھروں کے ہیں ۔اورالرَّجْمُ کے معنے ہیں ۔الرَّمْی بالرِّجامِ کسی کو پتھر مارنا ۔جب کسی پر پتھرائو کیاجائے ۔تورُجِمَ بصیغہ مجہول استعمال کرتے ہیں ۔وَیُسْتَعَارُ الرَّجْمُ لِلرَّمِیْ بِالظَّنِّ۔ اوراستعارۃً رجم کالفظ خیالی اورغیر یقینی بات کے کرنے پر بھی بولاجاتاہے ۔وَالتَّوَھُّمِ وللشَّتْم والطَّرد ۔نیز یہ لفظ وہم سے بات کرنے ۔گالی دینے اوردھتکارنے کے معنوں میں بھی استعمال ہوتاہے ۔اورالشیطان الرجیم کے معنے ہیں ۔اَلْمَطجرُوْدعَنِ الخَیْراتِ۔نیکیوں سے دور خوبیوں سے محروم و عاری۔وعن مَنازِل الملائِ الاعلیٰ فرشتوں کے مقامات سے ودورکیاہوا(مفردات)اورمجمع البحارمیں ہے ۔ورجوماً للشیاطین وعلامات ھوجَمعُ رَجْمٍ مَصدرٌ سُمِیَّ بِہٖ۔رجم کالفظ مصدر ہے جو اسم کے طور پر استعمال ہواہے ۔اوررجوم اس کی جمع ہے ۔وَیَجُوْز کونُہ مَصْدر اً لاَجمعاً اوریہ بھی ہو سکتاہے ۔کہ رجوم مصدرہونہ کہ جمع ۔ومَعْناہُ ان الشھبَ الَّتِیْ تَنْقَضُّ مُنْفَصِلَۃً مِنْ نَارِ الْکَوَاکِبِ ونُورِھَا لَاانھُمْ یُرْجَمُوْنَ بانفس الْکَواکِبِ لِاَ نّہا ثابتۃٌ لَاتَزُولُ کقَبَسٍ تُوْخَذُ مِنْ نارٍ۔یعنی وہ شب جو ستاروں کی آگ سے علیحدہ ہوکر ٹوٹتے ہیں ۔وہ خود ستارے نہیں ہوتے ۔بلکہ ستاروں سے روشنی گرتی ہے ۔کیونکہ ستارے اپنی جگہ پر قائم ہیں ۔اورشہب کاگرنا اسی طرح ہوتاہے جیسے ایک چنگاری آگ سے لی جاتی ہے۔وقیل اراد بِالرُّجُومِ الظُّنُوْنُ الَّتِیْ تُحزَرُومنہ یَقولُوْن خَمْسَۃٌسَادسُہم کلبُہم رَجماً بالغیبِ۔اوربعض محققین نے یہ کہاہے کہ رجوم سے مراد وہ خیالات ہیں جو اپنے قیاس سے بغیر دلیل کے انسان بنالیتاہے ۔اورانہی معنوں میں قرآن میں لفظ رجماً بالغیب استعمال ہواہے۔یعنی وہ غیب کے متعلق صرف اندازے لگاتے ہیں۔(اس آیت کی تفسیر اگلی آیت کے ساتھ دیکھیں)
اِلا من استرق السمع فاتبعہ شھاب مبین
(ہاں )مگرجو شخص (وحی الٰہی کی کوئی )سنی ہوئی بات (جس کااعلان ہوچکاہو)چُرالے تو (یہ اورصورت ہے اوراس صورت میں بھی)ایک روشن شعلہ اس کا پیچھاکرے گا۔ ۱۷؎
۱۷؎ حل لغات ۔اِسترَقَ ۔سَرَقَ سے باب افتعال ہے ۔اورسَرَقَہُ وَمنہ الشیئَ کے معنے ہیں۔اَخذہ خُفْیَۃً مِنْ حِرزٍ۔کہ کسی چیز کو محفوظ جگہ سے اپنے آپ کو پوشیدہ رکھتے ہوئے لے لیا۔والسرقۃ اخذُ الشیء فی خفائِ وحِیلۃٍ۔نیز حیلہ سے مخفی طور پر کسی چیز کو نکال لینے کانام بھی سرقہ ہے اوراسترق اسمع کے معنے ہیں ۔اِستمع مُستَخْفیاً۔پوشیدہ ہوکرکسی بات کو سنا۔الکاتبُ بعضَ المُحاسَبۃِ۔لم یُبرِزہ۔محرر نے اپنے بعض حسابات کو چھپایایعنی ظاہر نہ کیا(اقرب)
السمعُ:۔یہ سَمِعَ یَسْمَعُ کامصدر ہے ۔اورسَمعَ الصَوتَ یَسْمَعُ سَمعاً کے معنے ہیں ۔ادرکہ بحاسّۃ الاُذنِ۔آواز کوکان کی حس کے ساتھ محسوس کیا۔اورالسمع کے معنے ہیں ۔حِسُّ الاَذنِ۔شنوائی ۔والاذن۔کان و ماولج فیہا من شیئٍ تسمعہ اورجو آواز کان میں پڑے اس پر بھی سمع کالفظ بولتے ہیں ۔الذکر المسموع سنی ہوئی بات۔لفظ سمع واحد اورجمع دونوں طرح استعمال ہوتا ہے کیونکہ دراصل یہ مصدر ہے ۔جو قلّت اورکثرت کااحتمال رکھتاہے ۔اس کی جمع اَسماع ہے(اقرب)
اَلسَّمعُ:۔ قُوۃٌ فی الاُذنِ بہٖ یُدْرِکُ الاصواتَ یعنی سمع کی ایک قوت (شنوائی)کانام ہے جس کے ذریعہ سے انسان آواز کو معلوم کرتاہے ۔وفِعلہ یُقالُ لَہُ السَّمْعُ ایضاً۔اورسننے کے فعل کانام بھی سمع رکھاجاتاہے ۔وَیُعَبَّرُ تَارۃً بالسَّمعِ عَن الاذن۔اورکبھی لفظ سمع بول کر کان مراد ہوتاہے ۔وتارۃً عن فعلہ کالسِّماعِ ۔اورکبھی لفظ سمع سے اس کافعل مراد لیاجاتاہے ۔جیسے انہم عن السمع لمَعزُوْلُون۔کہ ان کو سننے کے فعل سے روک دیاگیاہے۔وتارۃً عن الفھم۔اورکبھی لفظ سمع سے مراد بات کاسمجھناہوتاہے۔جیسے کہتے ہیں ۔لم تسمع ماقلتُ کہ جو میں نے کہا۔تو نے سمجھا نہیں ۔وتارۃً عن الطاعۃ اورکبھی اس سے مراد اطاعت ہوتی ہے ۔(مفردات)
اَتْبَعَہ:۔تَبِعَ سے ہے ۔اورتبع کے معنی ہیں۔سَارفِی اثرہ۔اس کے قدموں کے نشانات پر چلا ۔اومَشَی خَلْفَہ اَوْمَرَّبہ فَمضٰی معہ ۔اس کے پیچھے چلا۔یااس کے پاس سے گزرا۔اورپھر ساتھ چل پڑا۔اَتبعَہ تَبِعَہ وذالک اذاکان سبقۃ فلحِقہ۔اس سے پیچھے رہ گیااورپھر اس سے جاملا ۔
شِھَّابٌ:۔شُعلَۃٌ من نارٍ ساطِعۃ۔بھڑکتی ہوئی آگ کا شعلہ ۔اَوکلّ مضیئٍ متولّد من النّار۔یاہرچمکتی ہوئی چیز جو آگ سے پیداہو۔ومایرٰی کانہ الکوکبٌ اِنْقَضَّ۔ٹوٹتاہواستارہ۔وقد یُطلقُ علی الکوکَبِ اَوِ الدَّرارِی مِنَ الکواکِبِ لِشِدَّۃِ لَمْعَانِہاَ۔اورکبھی شھاب کالفظ ستارے پر یاچمکتے ہوئے ستاروں پر ان کی شدت چمک کے باعث بولاجاتاہے ۔یُقالُ انَّ فُلاناً شِہَابُ حَرْبٍ اذاکانَ مَاضِیاً فیہا۔اوراس شخص کو جولڑائی میں تیز ہو۔اورجہاں جائے مارتاچلاجائے شہاب حربٍ کہتے ہیں ۔وقد یُطلقُ شھب علیٰ ثلاث من اللِیَّالِیْ وھِیَ اللَّیَالِیْ البِیْضِ۔اورشہب کالفظ تین پوری چاندنی راتوں (۱۳۔۱۴۔۱۵)پر بھی بولتے ہیں۔پس شہاب مجازاً ان چیزوں کے لئے استعمال ہوتاہے جو روشن ہوں اوراسی طرح ان لوگوں کے لئے بھی جو چست ہوں اورکام میں خوب ہوشیار ہوں(اقرب)
الشَّہابُ۔الشُّعْلَۃ السَّاطِعَۃُ مِنَ النَّارِ الموقدۃ جلتی ہوئی آگ کاروشن شعلہ ۔وَالشُّعلۃُ السَّاطِعَۃُ من العارِضِ فی الجَوِّ۔ فضا میں کسی چیز کے گزرنے کے باعث کسی روشنی اورشعلے کے پیداہونے کو بھی شہاب کہتے ہیں ۔(مفردات)
مبین:۔واضح کرنے والا اورواضح اور ظاہر ۔مزید تشریح کے لئے دیکھیں سورۃ حجر ۲؎
تفسیر ۔بعض نے بروج کے معنے ستاروں کے کئے ہیں۔جیسے قتادہ نے (بحر محیط ۔درمنثور۔ابن کثیر۔زیر آیت وَلَقَدْجَعَلْنَا فِی السَّمَآئِ بُرُوجاً۔)لیکن لغت میں بروج جس کامفرد بُرج ہے ۔اس کے معنے ستاروں کی منزل کے ہیں ۔یعنی جن دائوں میں ستارے چکر لگاتے ہیں ۔اس کے علاوہ بُرج کے معنے جیساکہ اوپر بتایاگیاہے ۔محل اورقلعہ کے بھی ہیں۔علماء اد ب میں سے بھی زجاج نے بُرج کے معنے کوکب یعنی ستارہ کے کئے ہیں (تاج)جن مفسرین نے بُرج کے معنے ستاروں کے کئے ہیں ۔وہ اس سے دلیل پکڑتے ہیں۔کہ چونکہ دوسری جگہ قرآن کریم میں آتاہے ۔اِنَّا زَیَّنَا السَّمَآئَ الدُّنْیَا بِزِیْنَۃِنِ الْکَوَاکِبِ ( الصّافات ع ۵/۱)ہم نے ورلے آسمان کو ستاروں کی زینت کے ساتھ مزین کیاہے ۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ یہاں بُروج سے مراد ستارے ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض ائمہ نے بروج کے معنے کواکب یعنے ستاروں کے کئے ہیں۔لیکن مذکورہ بالاآیت سے جو استدلال کیاگیاہے۔وہ یقینی نہیں۔کیونکہ ممکن ہے کہ وَزَیَّنَاھَالِلنَّاظِرِینْ میں دوسرامضمون ہو اورآیت کامفہوم یہ ہو کہ ہم نے آسمان میں ستاروں کی منازل بتائیں۔اوران میں چلنے کے لئے ستارے بنائے ۔جن کی وجہ سے آسمان خوبصورت نظرآتاہے۔پس جبکہ ضروری نہیں ۔کہ اس آیت کے یہی معنی ہوں ۔کہ بروج ہی سے زینت کااظہار کیاگیاہے۔بروج کے معنی ستارے کرنے کی کوئی خاص مجبوری نہیں ہے۔
بہرحال بروج سے مراد خواہ متداول معنی یعنی ستاروں کی منازل کے کئے جائیں یاستاروں کے معنے لئے جائیں ۔اصل سوال یہ ہے کہ قرآن کریم یا اس سے پہلے کی کتب سماوی کی حفاظت اورآسمانوں کی حفاظت کا آپس میں جوڑ کیاہے ۔اورکیوں کلام الٰہی کی حفاظت کے ذکر کے بعد آسمانوںکی حفاظت کاذکر کیاگیاہے ۔مفسرین نے اس بارہ میں مختلف خیالات کااظہار کیاہے ۔جن میں سے بعض محض قصوں کی حیثیت رکھتے ہیں اورنہ ان کاکوئی ثبوت ہے اورنہ خدائیکلام سے وہ کوئی دور کی بھی مناسبت رکھتے ہیں ۔مگربہرحال ان قصوں اورحدیثوں اورتفسیروںک ے متعلق میں اصل مضمون بیان کرنے کے بعد اپنی تحقیق بیان کروں گاپہلے میں وہ معنے بیان کردیتاہوںجومیرے نزدیک قرآن کریم کے سیاق و سباق کو دیکھ کر ان آیات سے نکلتے ہیں ۔
قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ وہ ظاہری نظام اور روحانی نظام میں ایک شدید مماثلت اورمشابہت کادعویٰ کرتاہے اوربار بار روحانی عالم کے سمجھانے کے لئے جسمانی عالم کی مثالیں دیتاہے ۔کبھی الہام کو پانی کے مشابہ قرار دے کر اس کے اثرات اورکلام الٰہی کے اثرات کی مشابہت کو پیش کرتاہے۔کبھی زمین و آسمان کے تعلقات سے روح او جسم کے تعلقات پر روشنی ڈالتاہے ۔کبھی روشنی اور آنکھ کے تعلقات سے یہ نتیجہ نکالتاہے کہ ا ندرونی قابلیتوں کے بغیر صداقت نفع نہیں دیتی۔غرض بیسیوں بلکہ سینکڑوں سبق جسمانی نظام سے حاصل کرنے کے لئے وہ ہمیںتوجہ دلاتاہے اس آیت میں بھی ایسی ہی مشابہت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ۔
زمین کے رہنے والوں کوایک آسمان اپنے سروں پر نظر آتاہے ۔اس میں ستاروں کاایک نظام ہے جو اپنے اپنے وقت پر اوراپنے اپنے دائرہ میں کام کررہے ہیں۔اس نظام کو بدلنے کی کوئی طاقت نہیں رکھتا۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی حفاظت کے سامان موجود ہیں ۔اسی مثال کو لے کر قرآن کریم میں متعدد بار روحانی آسمان کے نظام کو پیش کیا گیاہے ۔چنانچہ اس جگہ بھی میرے نزدیک اسی نظام کی طرف اشارہ ہے ۔ فرماتاہے کہ جس طرح جسمانی نظام مضبوط بنیادوں پر قائم ہے ۔روحانی نظا م بھی مضبوظ بنیادوں پر قائم ہے ۔اورہم نے اسے بھی جسمانی نظام کی طرح کئی طبقوں میں تقسیم کیاہے ۔جو اس کے اوپر کے طبقے ہیں ۔وہ تو محفوظ ہیں ہی۔جونیچے کاطبقہ ہے ۔اس میں شرارت کاامکان ہوسکتاتھا۔سواسے بھی ہم نے ستاروں سے مزین کیاہے اوان کے ذریعے اس نچلے آسمان کی حفاظت کی ہے۔
مطلب یہ کہ جس طرح ظاہری آسمان کا نچلا حصہ ایک نظام اوراس کے ماتحت کے ستاروں اور سیاروں کانام ہے اسی طرح روحانی آسمان کانچلا حصہ بھی ایک نظام اورچندستاروں کانام ہے جوروحانی آسمان کی حفاظت کرتے ہیں۔جس طرح جسمانی ستاروں کے وجود سے جسمانی آسمان کاقیام ہے اسی طرح روحانی ستاروں کے وجود سے روحانی آسمان کاقیام ہے ۔بلکہ جس طرح جسمانی سماء الدنیا ستاروں کے مجموعہ کانام ہے اور وہی اس کی زینت کاموجب ہیں ۔اسی طرح روحانی سماء الدنیا روحانی ستاروں کے مجموعہ کانام ہے ۔اوروہی اس کی زینت کاموجب ہیں ۔اور جس طرح جسمانی ستارے سماء الدنیا کی حفاظت کاموجب ہیں ۔کیونکہ وہ اس کے اجزاء ہیں ۔اگر ان میں خرابی ہوتوسارانظام درہم برہم ہوجاتاہے ۔اسی طرح روحانی ستارے روحانی سماء الدنیا کی حفاظت کاموجب ہیں ۔اگر ان میں خرابی ہو ۔توروحانی سماء الدنیا درہم برہم ہوجائے ۔اس لئے جب کو ئی اس میں خرابی پیداکرناچاہے۔خداتعالیٰ کی طرف سے اس پر مارپڑتی ہے اورآگ اورپتھر برستے ہیں ۔جیساکہ رجوم اورشھب کے الفاظ سے بتایاگیاہے ۔
یہ آگ اورپتھر کامحاورہ آسمانی عذاب کے متعلق عام ہے ۔چنانچہ قرآن کریم میں کفار کی نسبت آتاہے ۔کہ وہ ایک ایسے عذاب میں مبتلاکئے جائیں گے۔جو آگ اورپتھر وں پر مشتمل ہوگا۔چنانچہ فرماتاہے فَاتقوالنار التی وقودھاالناس والحجارۃ اعدت للکٰفرین (بقرہ ۳/۳)اس آگ سے بچو جس میں دوزخی لوگ اورپتھر ڈالے جائیں گے ۔یعنی اس آگ کے بھڑکانے کاروحانی موجب تو گنہ گار انسان ہوں گے اورجسمانی ذریعہ پتھر ہوں گے ۔غرض قرآن کریم سے معلوم ہوتاہے کہ عذاب الٰہی کو آگ اورپتھر سے تشبیہ دی جاتی ہے اوران آیات میں بھی شہب اور رجم کاذکرکرکے یہی بتایاہے کہ ایسے آدمی عذاب الٰہی میں مبتلاہوں گے ۔
اب میں یہ بتاتاہوں کہ قرآن کریم میں روحانی نظام کو جسمانی نظام سے مشابہت دی ہے ۔سورۃ الاحزاب میں اللہ تعالیٰ رسول کریمؐ کی نسبت فرماتاہے ۔یاایھاالنبی انا ارسلنٰک شاھداً ومبشراًوّنذیراًوّداعیاً الی اللہ باذنہ وسراجاً منیراً(ع ۳ /۶)اے نبیؐ ہم نے تجھے گواہ اوربشارت دینے والا اورڈرانے والااوراللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی طرف بلانے والا اورروشن سورج بناکر بھیجاہے ۔جیساکہ دوسری آیات سے ظاہر ہے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نظام نبوت کے لئے بطور مرکز کے ہیں۔جس طرح سورج نظام دنیاوی کے لئے بطورمرکز ہے ۔پس آپؐ کو سورج کہہ کر بتایاہے کہ روحانی آسمان میں تیرے سوااورستارے اورچاند بھی ہیں ۔جو سب کے سب تیرے گر د گھومتے ہیں ۔یہ ستارے اورچاند دوسرے انبیاء ہیں جن کی نبوتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بطورارہاص کے تھیں اورسب نبی آپؐ کے گردستاروں کی طرح چکر کھاتے ہیں ۔جس طرح وسیع روحانی نظام میں دوسرے انبیا ء رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بمنزلہ ستاروں کے تھے اورآپؐ ان میں سورج کے طور پرتھے ۔اسی طرح ایک چھوٹے دائرہ میں آپ بمنزلہ سور ج کے تھے ۔اورآپ ؐ کے صحابہ بمنزلہ ستاروں کے تھے۔چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔کہ اَصحابی کاالنَّجُومِ بِا یِّھِمُ اقْتَدَیْتُمْ اھتدیتُم۔(مشکوٰۃ المصابیح باب مناقب الصحابہ)
صحابہ میرے گرد ایسے ہیں جس طرح سورج کے گرد ستارے اورجس طرح ستارے جب تک سورج کے نظام سے وابستہ رہتے ہیں ۔لوگوں کو راہ دکھانے کاموجب ہوتے ہیں ۔اسی طرح میرے اصحاب میں سے جو میرے نظام سے وابستہ رہیں گے وہ ستاروں کاکام دیں گے ۔جزوی اختلافات کے باوجود ان میں سے جس کی اتباع بھی تم کروگے ہدایت پاجائو گے۔
اس امر کامزید ثبوت کہ روحانی نظام کو سورج چاند ستاروں سے مشابہت دی جاتی ہے ۔حضرت یوسف علیہ السلام کی رویاء سے بھی معلوم ہوتاہے ۔قرآن کریم میں آتاہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے ایک دن اپنے والد سے کہا کہ یاَبَتِ انّی رایت احد عشر کوکباً والشمس والقمر رایتہم لی ساجدین(یوسف ع ۱۱/۱)اے میرے باپ میں نے گیارہ ستاروں کو اورسورج اورچاند کو دیکھاکہ میری فرمانبرداری میں مشغول ہیں ۔اور اس کی تعبیر آگے چل کراس طرح بیان ہوئی ہے ۔ورفع ابویہ علی العرش وخرُّو لہ سفجَّدًاوقال یٓاَبَتِ ھٰذا تاویلُ رؤیایَ من قبلُ قد جعلہا ربّی حقًّا۔(یوسف ع ۵/۱۱)
یعنی یوسف کے بھائیوں کے آنے کے بعد جب ان کے ماں باپ بھی آگئے اورانہو ںنے اپنے ماں باپ کو تخت پر اپنے پاس بٹھایا اوروہ شکرانہ کے طورپر سجدہ میں گرگئے ۔توحضرت یوسف ؑ نے فرمایا کہ اے میرے باپ یہ میری اس خواب کی جو میں پہلے زمانہ میں دیکھ چکاہوں تعبیر ہے ۔میرے رب نے اس خواب کو آخر سچاکرہی دکھایا کہ باپ ماںاو ربھائیوں کو میرے ماتحت علاقہ میں لے آیا۔اس خواب اور اس کی تعبیر سے جو خود قرآن کریم نے بیان فرمائی ہے ظاہر ہے کہ الہامی زبان میں خاندانی یامذہبی نظام کونظام شمسی سے مشابہت دی جاتی ہے ۔ اورمیرے نزدیک آیت زیر بحث میں بھی یہی معنے مرادہیں ۔
اس تمہید کے بعد میں بتاناچاہتاہوں کہ جب اللہ تعالیٰ نے کلام الٰہی کی حفاظت کاذکر فرمایاتوساتھ ہی نظام شمسی کی تمثیل سے یہ سمجھایا کہ کس طرح یہ حفاظت کی جائے گی۔چنانچہ بتایاکہ ظاہری مادی نظام میں جس طرح ایک آسامان ہے یعنی مختلف ستاروں کاایک مجموعہ ہے ۔اسی طرح نظام روحانی بھی مختلف انبیاء کاایک مجموعہ ہے ۔اوروہ روحانی آسمان کہلاتاہے۔جس طرح ہرستارہ اپنی اپنی جگہ اس آسمان کے لئے زینت کاموجب ہے اورکشش ثقل کے اصول سے دیگرایسے ذرائع سے جن کاعلم شاید بندوں کو بھی تک حاصل نہں ہوااس کی حفاظت کررہاہے اسی طرح ہر نبی نظام روحانی کے لئے زینت کاموجب ہے اور اس کی حفاظت کاموجب ہے ۔ایک نبی بھی نہیں جوبے موقعہ یا بلاضرورت آیاہو۔ہرنبی کاایک معین کام تھا جو اس کے بغیر کوئی نہیں کرسکتاتھا۔اورہرنبی نے آسمان روحانی کی حفاظت کاکام انجام دیاہے اورکلام الٰہی کی خدمت کی ہے ۔اوراس کی حقیقت اوربرتری اورتاثیر کو اپنے وجود سے اوراپنے تابعین کے وجود سے ثابت کیا ہے اوروہ شیطانی صفت لو گ جنہوں نے خدائی کلام کو بگاڑناچاہاانہیں شکست دی اورذلیل کیا ۔گویاوہ ان پر پتھر اورآگ کی طرح گرے اورانہیں ناکام کردیا۔
اس میں یہ بھی بتایاہے کہ جس طرح نظام جسمانی میں شیطانوں کایعنی برے انسانوں کازمین پر توتصرف ہے کہ وہ اس جگہ ظلم اور فساد پیداکرتے رہتے ہیں ۔لیکن آسمان پرکوئی تصرف نہیں ۔ظالمانہ طور پر وہ دنیوی نعمتوں پر توقابض ہوجاتے ہیں ۔لیکن آسمانی نعمتوں جیسے ستاروں کی تاثیرات نورہواوغیرہ کے فوائدسے لوگوں کومحروم نہیں کرسکتے اورنہ آسمان پر ان کاکوئی اختیار ہے ۔سورج چاند ستارے ان کے تصرف سے بالا ہیں ۔یہی حال روحانی عالم کا ہے کہ شیطانوں کاکوئی تصرف انبیاء اوران کے کامل متبعوںپر نہیں ہوسکتا۔جیسے دوسری جگہ فرمایا ۔اِنَّ عِبَّادی لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطَانٌ۔(سورہ حجر ع۳)میرے کامل بندوں پر تیراکوئی اثر اورقبضہ نہ ہوگا۔نیز جس طرح آسمان جسمانی کی نازل کردہ برکات پر شیطانوں کاکوئی تصرف نہیں ۔و ہ روشنی ،ہوااورتاثیرات سماوی میں روک نہیں ڈال سکتے اسی طرح روحانی آسمان یعنی انبیاء کے ذریعہ سے ظاہر ہونے والے فیوض یعنی کلام الٰہی اورمعجزات ونشانات پر بھی شیطانوں کوکوئی تصرف حاصل نہیں ہوتا۔اللہ تعالیٰ آسمان روحانی یعنے انبیاء کو اوران کی تاثیرات کو کلی طورپر شیطانی دخل سے پاک رکھتاہے ۔یہ گویا انانحن نذلناالذکر وانالہ لحافظون کی تشریح فرمائی ہے ۔
تعجب ہے اس آیت کی موجودگی میں مسلمان اس عقیدہ پر قائم ہیں کہ سوائے حضرت عیسیٰ اوران کی ماں مریم کے کوئی بھی خواہ نبی ہو مس شیطان سے پاک نہیں۔حالانکہ اللہ تعالیٰ اس آیت میں آسمان روحانی کے محفوظ ہونے کاذکر فرماتاہے جس میں آدم سے لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک سب نبی اور ان کے کامل اَتباع شامل ہیں ۔
اس کے بعد فرماتاہے اِلَّا مَنِ اسِتَرَقَ السَّمْعَ۔ الآیہ۔ہاں اگر کوئی سنی سنائی بات چرالے تو اس پر شہاب مبین گرتاہے اس آیت نے صاف واضح کردیاکہ یہاں آسمان نظام شمسی کو بطور تمثیل بیان کیاگیاہے ۔ورنہ جسمانی نظام مراد نہیں ۔کیونکہ اول تو سنی سنائی بات کے چُرالینے کاآسمان جسمانی سے کوئی تعلق نہیں۔دوسرے شہابٌ کے ساتھ جومبین کی صفت لگائی ہے ۔اس کاجسمانی شہاب سے کوئی تعلق نہیں ۔کیونکہ شہاب یاتوآگ کے شعلے کو کہتے ہیں یاوہ روشنی جو آسمان پرنظر آتی ہے اوریوں معلوم ہوتاہے کہ جیسے کوئی ستارہ ٹوٹا۔ان دونوں چیزوں کے لئے مبین کی صفت بے محل اوربے معنی ہے ۔لیکن اگرروحانی آسمان مراد لیاجائے اورشہاب سے مراد انبیاء لئے جائیں جو آسمانی تائیدات اورنشانات لے کر آتے ہیں اورکلام الٰہی میں رخنہ ڈالنے والوں کے خلاف کام کرتے ہیں ۔تومبین کی صفت بالکل برمحل اورمناسب حال معلوم ہوتی ہے ۔کیونکہ اس صورت میں شہاب کے ساتھ مبین کے لفظ کا استعمال ایک مزید فائدہ کے لئے اور ایک روشن نشان کلے معنوں پردلالت کرنے کے لئے ہے ۔اوربتایاہے کہ اللہ تعالیٰ کاکلام جب تک آسمان پر ہوتاہے اورجب تک روحانی آسمان کے اجرام یعنی انبیاء پر نازل ہوتاہے اس وقت تک تو بالکل محفوظ ہوتاہے لیکن نچلے آسمان پر نازل ہونے کے بعد جب بنی نوع انسان کے سامنے پیش کیاجاتاہے اور مسموعات میں سے ہوجاتاہے یعنی سنی ہوئی باتوں میں شامل ہوجاتاہے ۔پردئہ غیب سے پردئہ شہود پر آجاتاہے ۔ اورلوگ ایک دوسرے کو وہ کلام سنانے لگ جاتے ہیں ۔توشیطان یعنی انبیاء کے دشمن اس کلام کو چرالیتے ہیں یعنی بغیر حق کے اس کلام کو لے لیتے ہیں اس کاغلط استعمال کرتے ہیں ۔تب یاتو وقت کے نبی کی معرفت ان پر آسمانی عذاب نازل ہوتاہے یاپھر انبیاء اوران کے اتباع اس کلام کی اصل حقیقت کو دنیاپر ظاہرکرکے ان چوروں کے فریب کو ظاہرکردیتے ہیں ۔اوروہ ذلت کے عذاب میں مبتلاہوجاتے ہیں اورسچائی کی روشنی میں ان چوروں کی حقیقت ظاہر ہوجاتی ہے ۔
اس آیت میں کلام کے چرالینے سے مراد یہ ہے کہ جس طرح چورناحق دوسرے کے مال کو لیتاہے ۔اسی طرح وہ کلام الٰہی کو ناحق لیتے ہیں یعنی اس کے معنوں کو سمجھ کر ایمان نہیں لاتے ۔بلکہ صرف اس لئے کلام کو اخذ کرتے ہیں ۔تااس کاناجائزاستعمال کریں اورا س کے غلط معنے کرکے لوگوںکو گمراہ کریں ۔
کلام کی چوری کرنے کے یہ معنی ھبی ہیں کہ انبیاء کی بعض تعلیمات کو اس زمانہ کے لوگ اپنا بنا کر پیش کرتے ہیں ۔اوراس طرح یہ ثابت کرناچاہتے ہیں کہ گویا ان کو بھی انہی علوم پر دسترس ہے ۔جن پر انبیاء کو ہے بلکہ انبیاء نے ان کے علوم چرالئے ہیں ۔لیکن جس طرح چوری کالباس پہچاناجاتاہے ۔وہ چور کے بدن پر ٹھیک نہیں آتااسی طرح انبیاء کی چوری کی ہوئی تعلیم چونکہ ان چوروں کے دوسرے معتقدات کے ساتھ مطابق نہیں آتی ۔جب انبیاء اوران کے اتباع ان کی حقیقت کو کھولتے ہیں تو ان کی چوری ظاہرہوجاتی ہے۔
یہ دونوں امر سب نبیوں کے ساتھ پیش آئے ہیں ۔انبیاء کی اعلیٰ تعلیمات کولوگ اپنی تعلیمات ظاہرکرنے کی ہمیشہ کوشش کرتے ہیں ۔اور اس طرح ان کی اہمیت کو گراناچاہتے ہیں ۔چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ حملہ سب نبیوں سے زیادہ ہواہے ۔مسیحی اور آریہ مصنفین کثرت سے قرآن کریم کی تعلیمات کے ٹکڑے لے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ اُن کے مذہب کی کتب میں پائے جاتے ہیں۔لیکن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے نور کو ظاہرکیاجاتاہے اوربتایاجاتاہے ۔کہ جس ٹکڑے کو تم نے لے لیاہے ۔وہ توایک لمبی زنجیر کی کڑی ہے ۔اوروہ ساری زنجیر ایسے وسیع مطالب رکھتی ہے کہ تمہارے خواب و خیال میں بھی موجود نہیں ۔توان کی پردہ دری ہوجاتی ہے ۔ایسے ہی حملہ کرنے والوں میں یَنابِیع الاسلام کامصنف ہے ۔جس نے نہایت دیدہ دلیری سے قرآنی مطالب کے ٹکڑوں کو لے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ گویاوہ پہلے مذاہب کی کتب سے لئے گئے ہیں۔حالانکہ وہ ٹکڑے ایک کُل کاحصہ ہیں اوران کو کُل سے الگ کیاہی نہیں جاسکتا۔اوراس کُل میں وہ اس طرح جڑے ہوئے ہیں کہ ان کو کسی اورشئے کاجزز قراردیاہی نہیں جاسکتا۔ اس کے لئے دیکھو سورہ فاتحہ کے شروع میں بسم اللہ پر بحث ۔جسے مصنف ینابیع الاسلام نے زردشتی کتب کی چوری قرار دیاہے ۔
دوسرے معنے جوکلام چرالینے کے میں نے کئے ہیں کہ الٰہی کلام کے بعض ٹکڑوں کو لے کر غلط طور پر انہیں دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔یہ بھی سب نبیوں سے ہوتا چلاآیا ہے۔ہرنبی کے الہام کو اس کے مخالف بگاڑ کر پیش کرتے رہے ہیں ۔تالوگوں کو ان کے خلاف جوش دلائیں وہ اصل مطلب کو بگاڑ کر ان کے الہامات کو پھیلاتے رہے ہیں ۔اورچوروں کی طرح ان کا ناجائزاستعمال کرتے رہے ہیں ۔یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کی نشانات او ر معجزات سے مدد کی ۔اورایک طرف تودلائل سے معترضین کے غلط معنوں کو ردّ کیا۔اوردوسری طرف قہری اورقدرت نمائی کے نشانات کے ذریعہ سے اپنے نبیوں کی تائید کرکے انکے دشمنوں کو ہلاک کروایا اور اس طرح اپنے کلام کی حفاظت کی
بعض دفعہ نبی کے اتباع بھی دین سے بے بہرہ ہوکر اوربے دینی کاشکارہو کر دین کو بگاڑ لیتے ہیں اورکلام الٰہی کے معنی کچھ سے کچھ کردیتے ہیں اوراس کی خوبیوں کو غلط تفسیرں سے چھپادیتے ہیں ۔تب اللہ تعالیٰ اپنے نبی کے اتباع میں سے کسی کو شہاب ثاقب یاشہاب مبین بناکر یعنی اپنا تازہ کلا م دے کر اوراپنے نشانات سے مؤیّدکرکے آسمان روحانی سے نازل کرتاہے تاوہ ایسے شیاطین کی سرکوبی کرکے کلام الٰہی کو پھر اس کی اصل جگہ پر لے آئیں اوراس طرح وہ کلام جو بکھرجانے اورتباہ ہونے کے خطرہ میں پڑ گیاتھاپھر محفوظ ہوجائے ۔اوراس کے صحیح مطالب پھرلوگوں پر آشکار ہو جائیں ۔
اوپر کے مضمون سے واضح ہوجاتاہے کہ ان آیات میں ستاروں سے مراد انبیاء ہیں اورشہاب مبین یاشہاب ثاقب سے مراد وقت کانبی ہے۔کیونکہ ہرنبی ایک ستارہ ہے اورآسمان روحانی کے لئے زینت کاموجب ہے لیکن ہرنبی ہروقت شہاب کاکام نہیں دے رہا۔یعنی وہ شیطان جو دین میں رخنہ اندازی کررہے ہیں ان کی ہلاکت کاموجب نہیں بن رہا۔یہ کام صرف وقت کانبی کرتاہے ۔یاوہ نبی کرتاہے جس کی نبوت زندہ ہو۔اورجس کی شریعت قابل عمل ہو ایسے نبی کی امت میں خرابی پیداہوکر اگردوسراتابع نبی مبعوث بھی ہو تب بھی چونکہ اس کی وقت قدسیہ اس تابع نبی کے ذریعہ سے کام کررہی ہوتی ہے ۔وہ شہاب ہی کہلاتاہے ۔چنانچہ اس تشریح کے ماتحت حضرت موسیٰ۔حضرت عیسیٰ علیہماالسلام اوردوسرے سابق انبیاء آسمان روحانی کے ستارے توہیں۔مگرشہاب نہیں ۔کیونکہ اس وقت شیطانوں کے مارنے کے لئے اللہ تعالیٰ انہیں استعمال نہیں کررہا۔مگرمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہاب ہیں ۔کیونکہ ان کے ا ظلال یہ کام قیامت تک کری گے ۔
خلاصہ کلام یہ کہ ان آیات میں انانحن نذلنا الذکر وانالہ لحافظون کی حقیقت بتائی گئی ہے۔اوربتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر اس کلام کی جو اس کی طرف سے اتراہو اورالذکرکہلانے کامستحق ہو کس کس طرح حفاظت کرتاہے ۔ظاہر میں بھی اورباطن میں بھی اورنبی کے زمانہ میں بھی اوراسکے بعد بھی ۔اوریہ کہ وہ قرآن کریم کی حفاظت بھی ان سب سامانوں کے ذریعہ کرے گا۔یہ آیات گویاسورہ حج کی مندرجہ ذیل آیات کے ہم معنے ہیں ۔وماارسلنا من قبلک من رسولٍ وّلا نبیٍ الّا اذا تمنّٓی اَلقَی الشَّیطٰنُ فی اُمنِیَّۃٍ فیَنسَخُ اللّٰہُ مایُلقی الشَّیطٰنُ ثُمَّ یُحکِمُ اللہُ اٰیٰتِہٖ واللہُ علیمٌ حکیمٌ(الحج ع ۱۴/۷)یعنی ہرنبی اور رسول کے ساتھ یہ معاملہ گزراہے کہ جب اس نے خداکاکلام پڑھ کر لوگوںکو سنایا شیطان نے ہمیشہ ہی ان کے سنائے ہوئے کلام میں اپنی طرف سے کچھ معنے شامل کرکے لوگو ں کو یہ بدلے ہوئے مضامین سنانے شروع کئے ۔آخر اللہ تعالیٰ نے اس کی ملائی ہوئی باتوں کوتومٹادیااورخدائی کلام کو قائم رکھا یعنی لوگ کلام الٰہی کو بگاڑ بگاڑکر لوگوں کوگمراہ توکرتے ہیں مگر آخر کلام کی سچائی ظاہر ہوجاتی ہے ۔اوروہ لوگ ناکام و نامراد ہوجاتے ہیں ۔
ان دونوں آیتوں میں شدید مشابہت ہے ۔سورہ حجر میں بھی یہ ذکر ہے کہ روحانی آسمان کی حفاظت کی جاتی ہے ۔اوریہاں بھی یہ بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ کلام الٰہی کی حفاظت کرتاہے ۔سورہ حجر میں بھی ہے کہ شیطان آسمان میں دخل دیناچاہتے ہیں اورسورہ حج میں بھی ہے کہ دخل دینے والوں کو خداتباہ کردیتاہے ۔اورسورہ حجر میں بھی ہے کہ کلام الٰہی کو بگاڑنے کی سعی کرنے والوںکے فعل کو خداتعالیٰ مٹادیتاہے ۔غرض دونوں کے مفہوم سے صاف معلوم ہوتاہے کہ دونوںمی ایک ہی مضمون بتایاگیاہے ۔اورجب ہم دیکھتے ہیں کہ یہ آسمانوں کی زینت اورانکی حفاظت کابیان ہرجگہ کلام الٰہی کے ذکرکے بعد بیان ہواہے ۔توصاف معلوم ہوجاتاہے کہ اس جگہ روحانی آسمان اوراس کی حفاظت کاذکر ہے ۔نہ کہ جسمانی آسمان اوراس کی حفاظت کا۔جسمانی آسمان سے صرف تشبیہ دی گئی ہے ۔اس سے زیادہ اس سے ا س کاکوئی تعلق نہیں ۔ ان آیات میں یہ بھی بتایاگیاکہ ذکر محفوظ کی یہ علامت ہے کہ اس کے اند رجب کو ئی دخل دیناچاہئے اس کی حفاظت کے لئے شہاب اترتے ہیں پس جس کلام کی حفاظت کے لئے شہاب نہ اتریں مانناپڑے گاکہ اب و ہ کلام محفوظ نہیں رہا۔اورالذکر کے مقام سے گرگیاہے ۔
یہ بھی یاد رکھناچاہیئے کہ گوشہاب کے تین معنے ہیں(۱)شعلہ (۲)ستاروں کی چمکنے والی روشنی جو آسمانی پتھروں کی رگڑ سے پیداہوتی ہے اور(۳)ستارہ۔لیکن اس جگہ ستارہ ہی مراد ہے ۔کیونکہ دوسری جگہ صافات(ع۱) میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔کہ اِنَّا زَیَّنَا السَّمَآئَ الدُّنْیَا بِزِیْنَتِہِ نِ الکواکب وحفظاً من کلِّ شیطٰنٍ مَّادئٍ یعنی آسمان پر ستارے زینت کے لئے اورحفاظت کے لئے بنائے گئے ہیں ۔پس حفاظت کاکام ستاروں کے سپر د کیاگیاہے پھرسورہ مُلک میں ہے ۔ولقد زینا السماء الدنیا بمصابیح وجعلنا ھا رجوماً للشیٰطینِ (ع۱)یعنی ہم نے آسمان قریب کو ستاروں سے مزین کیا ہے اور ان ستاروں کو شیطانوں پر پتھرائو کرنے کاذریعہ بنایاہے ۔ان حوالوں سے معلوم ہوتاہے کہ شہاب ستاروں کاہی نام رکھاگیاہے ۔پس شہاب کے پیچھے لگانے سے یہ مراد ہے کہ جب تک کوئی کلام الًہی زندہ ہوتاہے اورالذکر کہلانے کامستحق ہوتاہے ۔اللہ تعالیٰ دشمنوں سے اس کی حفاظت کے لئے شہاب یاستارے یا دوسرے لفاظ میں مامورین بھیجتارہتاہے۔اورزیر بحث آیات میں قرآن کریم کی حفاظت کے لئے خاص طور پر اس طریق کے استعمال کاوعد ہ کیاگیاہے اوراس سے زیادہ مضبوط طریق حفاظت ناممکن ہے ۔کیونکہ مامورین نہ صرف نشانات سے شیطانوں کے حملو ں سے شریعت حقہ کی حفاظت کرتے ہیں ۔بلکہ بوجہ الہام سے مؤیّد ہونے کے ان کی تشریحات سے مومنوںکو کلام الٰہی کے وہ صحیح معنے بھی معلوم ہوتے ہیں ۔جن کے بارہ میں شک کیاہی نہیں جاسکتااوران کی وجہ سے و ہ ان تفسیری اختلافات سے نجات پاجاتے ہیں جو اس سے پہلے لوگوں کے خیالات کو مشوّش کررہے ہوتے ہیں ۔
مذکورہ بالا تفصیل سے یہ امر روشن ہو جاتاہے کہ کلام سابق کی حفاظت یعنی اسے شیطانی وساوس سے پاک کرنے اور اس کی زندگی کاتازہ نشانات سے ثبوت دینے کے لئے مامورین کاآنا نہایت ضروری ہے ۔لیکن افسوس کہ آ ج مسلمان اس فضیلت کے منکر ہیں اورکہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کلے بعد کوئی تابع نبی بھی نہیں آسکتا۔حالانکہ قرآن کریم فرماتاہے کہ جب تک کوئی کلام الذکر ہے ۔اس کی حفاظت اور دشمنوں کے حملوں سے بچانے کے لئے آسمانِ روحانی کے ستارے اورشہاب اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتے رہیں گے ۔ پہلے مذاہب میں جو انبیاء کی بعثت کاسلسلہ بند ہوگیاہے ۔یہ اس بات کی علامت ہے کہ ان کی کتب الذکر نہیں رہیں۔قرآن کریم چونکہ الذکر ہے اورقیامت تک رہے گا۔اس کی حفاظت ی ذریعہ بھی قائم رہے گا۔اوراس سے اس کادرجہ گھٹتانہیں بلکہ یہ ثابت ہوتاہے کہ قرآن کریم اب تک الذکر ہے ۔یعنی اللہ تعالیٰ اوربند ہ میں تعلق پیداکرنے کاذریعہ ہے ۔اس لئے اس کی ظاہری حفاظت کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ مامورین کو بھیج کر اندرونی اوربیرونی شیطانوں کے حملوں کو دور کرکے اس کی معنوی حفاظت بھی کرتاہے ۔جو شخص یہ کہتا ہے کہ اب شھاب مبین یعنی آسمانِ روحانی کے ستارے بھیجنے کاسلسلہ قرآن کریم کی حفاظت کے لئے بھی بند ہوگیاہے وہ دوسرے لفظوں میں یہ کہتاہے کہ نعوذ باللہ من ذالک قرآن کریم اب الذکر نہیں رہااور اس کی حفاظت کے لئے اورشیطانوں کی سرکوبی کے لئے اب روحانی آسمان سے ستاروں کانزول بند ہوگیاہے ۔
ایک موجودہ زمانہ کے مفسر نے لکھا ہے کہ قرآن کریم کی حفاظت اللہ تعالیٰ کرتاہے ۔اس سے پہلے الہاموں کی حفاظت بند کرتے تھے ۔ اوراس کے ثبو ت میں اس نے انانحن نزلنا الذکر وانالہ لحافظون اورسو ر ہ مائدہ کی مندرجہ ذیل آیت کو پیش کیا ہے ۔ اناانزلناالتورٰۃَفیہا ھُدًی وَّنورٌ یَحْکُمُ بِھا النبیون الذین اسلمواللَّذین ھادواوالربَّانِیون والاحبارُ بمااستُحفِظُو من کتاب ِ اللہ ِ وکانو علیہ شھدآئَ(مائدہ ع ۱۱/۷)ہم نے تورات کو جس میں ہدایت اورنو ر تھے نازل کیاتھا۔اس کے ذریعہ سے وہ انبیاء جو تورات کے مومنون میں شامل تھے ۔نیز ربانی اوراحباء لوگ یہودیوں کے لئے فیصلے کیاکرتے تھے۔ کیونکہ ان کے سپر د کتاب اللہ کی حفاظت کی گئی تھی ور وہ اس پر بطورنگران تھے ۔میرے نزدیک یہ استدلال اسی صورت میں درست ہوسکتاتھا۔ اگراس جگہ نبیوں کاذکر نہ ہوتامگر اس جگہ تویہ بتایاگیاہے کہ نبیوں کے سپر د تورات کی حفاظت کی گئی تھی اوریہ ظاہر ہے کہ نبی اپنی طاقت سے کام نہیں کرتا ۔خداتعالیٰ کی طاقت سے کام کرتاہے ۔پس س صورت میں کیونکر کہاجاسکتاہے کہ بندوں کے سپرد تورات کی حفاظت تھی ۔فرض کروکہ کسی نے تورات کے مضمون کو بدل دیاہوتااورخداتعالیٰ ایک نبی کو اس کی اصلاح کاکام سپرد کرتا۔تووہ نبی غلطی کیونکر معلوم کرسکتاتھا۔خداتعالیٰ کے الہام کے سوا اس کے پاس اصل حقیقت معلوم کرنے کا کونسا ذریعہ ہوسکتاتھا۔اوجب خداتعالیٰ الہام سے کسی کو کسی غلطی پر اطلاع دے گا۔تووہ حفاظت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوگی نہ کہ بندہ کی طرف سے ۔یامثلاً چند شیطان اگر اس کلام کے معانی کو بگاڑنے کی کوشش کرتے اوردنیاکو گمراہ کر تے ۔تونبی جو معجزات اورنشانات اوربراہین سماویہ سے ان کامقابلہ کرتاتھا۔وہ اس کاکام نہیں کہلاسکتا۔بلکہ اللہ تعالیٰ کاکام کہلائے گا۔پس یہ درست نہیں کہ پہلی کتب کی حفاظت بندوں کے سپرد تھی اورقرآن کریم کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی ۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب ذکروں کی حفاظت اپنے ذمہ لی ہے ۔جیساکہ اوپر کی آیات سے ثابت ہے ۔ ہاں اگر بعض کام وہ بندوں سے لیتاتھاتو وہ صرف اس کاہتھیار ہونے کی صورت میں وہ کام کرتے تھے ۔اب قرآن کریم جو سب دنیا میں پھیل گیا اورزبردست حافظہ والوں نے اسے حفظ کیا۔یہ بظاہر بندوں کاکام ہے لیکن کوئی نہیں کہہ سکتاکہ قرآن کریم کی حفاظت بندوں کے سپرد ہے ۔کیونکہ یہ انتظام بھی تو اللہ تعالیٰ نے ہی کیا ہے ۔
حفاظت کے سلسلہ میں قرآن کریم کو دوسری کتب پر فضیلت اس بارہ میں نہیں کہ اس کی حفاظت اللہ تعالیٰ کرتا ہے ۔اوردوسری کتب کی حفاظت انسان کرتے ہیں ۔بلکہ اس بار ہ میں ہے کہ وہ ایک محدود عرصہ تک الذکر رہے اورقرآن کریم قیامت تک کے لئے الذکر ہے اوراس کی تائید کے لئے ہمیشہ مامورین آتے رہیں گے۔جبکہ دوسری کتب کی حفاظت اللہ تعالیٰ دیرسے چھوڑ چکا ہے ۔اورشیطانوں کے حملوں سے انہیں بچانے کے لئے اب آسمان سے شہاب نازل نہیں ہوتے ۔دوسر ی فضیلت اس بارہ میں قرآن کریم کو یہ حاصل ہے ۔کہ و ہ سب کا سب کلام اللہ ہے ۔یعنی اس کاایک یاک لفظ الہامی ہے۔جبکہ پہلی کتب کایہ حال نہ تھا۔وہ کلام الٰہی اور تشریح کلام الٰہی کے مجموعہ ہوتے تھے ۔جیساکہ عہد قدیم کی کت ب اورانجیل سے روز روشن کی طرح ثابت ہے ۔ پس ان کتب کے مضمون کی حفاظت کافی سمجھی جاتی تھی ۔کیونکہ اس زمانہ میں الذکر مفہوم کانام تھا۔الفاظ کا نہیں اورخدائی الہام کو انبیاء یاان کے تابع اکثر اپنے الفاظمیں بیان کردیتے تھے ۔اوراس میں حرج نہ سمجھاجاتاتھا۔قرآن کریم کی وحی چونکہ دائمی وحی تھی ۔اللہ تعالیٰ نے اس کے وقت سے طریق وحی کو بدل دیا۔اورخود الفاظ کامحفوظ رکھنا ان کی حرکات سمیت ضروری قرارپایا۔پس قرآن کریم کاہرہرلفظ لکھاگیایاد کیاگیا اورمحفوظ رکھاگیا۔اس قسم کی حفاظت پہلی کسی وحی کو حاصل نہ تھی ۔نہ اللہ تعالیٰ کے ذریعہ سے ۔نہ بندوںکے ذریعہ سے ۔ہاں معنوی حفاظت ایک محدود عرصہ کے لئے اسی طر ح دوسری کتب کاحاصل تھی جس طرح کہ قرآن کو قیامت تک کے لئے حاصل ہے۔
ایک سوال ابھی قابل جواب رہ جاتاہے اوروہ یہ ہے کہ ظاہر ی آسما ن پر جو شہب گرتے ہیں ۔ان کی کیاتوجیہہ ہے ۔آخر ان سے جو انبیاء کو مشابہت دی ہے ۔توضرور ہے کہ وہ بھی کوئی ایسافائدہ دیتے ہوں ۔جوشیطان پرچوٹ سمجھے جانے کے قابل ہو۔اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدیم سے یہ سنت ہے کہ نبیوں کے ظہور کیوقت وہ دوقسم کے نشان دکھاتاہے ۔ایک قسم کے نشان تو انسانوں کے قریب ہوتے ہیں ۔یعنی اس دنیاکی اشیاء میں ظاہر ہوتے ہیں ۔لیکن چونکہ بعض شکی مزاج لوگ ان کے متعلق خیا ل کرتے ہیں ۔کہ شائد نبی کی چالاکی یاہوشیاری کاان میں دخل ہو ۔وہ ایک دوسری قسم کے نشان بھی ظاہر کرتاہے ۔جو آسمانی اجرام سے تعلق رکھتے ہیں۔ان میں سے ایک نشان ستاروں یعنی شہب کے ٹوٹنے کابھی ہے ۔جہاں تک تاریخی انبیاء کا تعلق ہے ۔حضرت مسیحؑ ناصری اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ امر تاریخ سے ثابت ہے کہ س وقت ستارے کثرت سے ٹوٹے تھے اوریہ نشان یاتواس نبی کی اپنی پیشگوئی کے ماتحت ظاہرہو تاہے یااس سے پہلے کے نبیوں یاولیوں کی پیشگوئیوں کے ماتحت ہوتاہے ۔چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت میں بھی شہب کثرت سے گرے ۔اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تواس کثرت سے گرے کہ کفارنے خیال کیا کہ شائد آسمان و زمین تباہ ہونے لگے ہیں۔اوراہل سماء ہلاک ہو گئے ہیں ۔چنانچہ ابن کثیر نے یہ حوالہ لکھا ہے ۔کہ
فلمابعث اللہ محمدًا صلی اللہ علیہ وسلم نبیاً رسولاً رجموالیلۃً من اللیالی فرزع لذٰلک اھل الطائف فقالو ھلک اھل السماء لمارأومن شدۃ النار فی السماء واختلاف الشھب فجعلو یعتقون ارقاء ھم ویسیبون مواشیھم فقال لہم عبدیالیل بن عمروبن عمیر ویحکم یامعشراھل الطائف امسکوعن اموالکموانظرواالی معالم النجوم فان رایتمو ھا مستقرۃً فی اھکنتہا فلم یھلک اھل السماء انما ھٰذا من اجل ابن ابی کبشۃ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان نظرتم فلم تروھا فقد ھلک اھل السماء فنظھا فرأ وھافکفوعن اموالھم (ابن کثیر تفسیر سورئہ جن زیر آیت انا لمسناالسماء)یعنی جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے نبی اوررسول بناکر مبعوث فرمایا ۔توایک رات شیطانوں پر سخت سنگ باری ہو ئی(یعنی شہب گرے)تواسے دیکھ کر طائف کے لوگ سخت گھبراگئے اورآسمان پر بار بار اورکثر ت سے شہب کے ٹوٹنے کا نظارہ دیکھ کر کہنے لگے کہ معلوم ہوتاہے آسمان کے باشندے ہلاک ہوگئے ہیں ۔اس گھبراہٹ میں انہوں نے اپنے غلام آزادکرنے شروع کردیئے اورجانوروں کی رسیاںکھول کر انہیں کھلا چھوڑدیا۔اس پر ان کے سردار عبدیالیل نے کہا کہ اے طائف کے لوگو!تمہارابراحال ہو اپنے مالوںکو سنبھال کر رکھواورآنکھیں اُٹھا کر ستاروں ک ودیکھو۔اگر وہ اپنی جگہ پر قائم ہیں تومعلوم ہواستارے نہیں ٹوٹ رہے شہب گررہے ہیں اورآسمان کے ساکن ہلاک نہیں ہوئے ۔بلکہ یہ نشان ابن ابی کبشہ (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم)کے لئے دکھایاگیاہے۔اوراگر تم دیکھو کہ ستارے آسمان پر اپنی جگہوں پر نہیں ہیں توسمجھو کہ آسمان کے لوگ ہلاک ہوگئے ہیں (اورقیامت آگئی ہے )اس پر انہوں نے آسمان کی طرف دیکھا۔توستاروں کو اپنی جگہ پر پایا اوراپنے اموال لٹانے بند کردیئے۔
یہ نشان سابق پیشگوئیوں کے مطابق ظاہرہواتھا۔چنانچہ تاریخ سے معلوم ہوتاہے کہ بعض آسمانی تغیرات کی انبیاء بنی اسرائیل نے زمانہ نبویؐ کے وقت کے متعلق خبر دی تھی۔بخاری میں ہے۔ان ھرقل حین قدم ایلیاء اصبح خبیث النفس فقال بعض بطارقتہ قد انکرنا ھیئتک۔قال ابن ناطوروکان ھرقل ھذاینظر فی النجوم فقال لہم حین سألوہ انی نطرت اللیلۃ حین نظرت فی النجوم اَنَّ مَلِکُ الختان قد ظھر۔( باب بدء الوحی جلد اول)یعنی ہرقل زمانہ نبوی ؐ میں دورہ کرتے ہو ئے ایلیاکے مقام پر آیا ۔توایک دن صبح کے وقت اس کی طبیعت پریشان تھی۔اس پر کلیسیائی جرنیلو ںمیں سے ایک نے پوچھا کہ آج آپ کی طبیعت کچھ پریشان معلوم ہوتی ہے ۔ابن ناطورکہتاہے کہ یہ ہرقل علم ہیئت کاماہرتھا اوررسدگاہوں میں بیٹھ کر ستاروں کو دیکھاکرتاتھا۔اس نے اس سوال کایہ جواب دیاکہ جب آج رات میں ستاروں کامعائنہ کررہاتھا۔میں نے وہ علامات دیکھیں جن سے معلوم ہوتاہے کہ عربوں کابادشاہ (یعنی نبیؐ آخر الزمان)ظاہر ہوگیاہے ا س لئے پریشانی ہے ۔
اوپر کے حوالوں سے ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں شہب غیر معمولی طور پر زیاد ہ گر ے تھے اوراسی طرح بعض دوسری علامات آسمان میں ظاہر ہوئی تھیں۔جوآپ کی آمد کانشان تھیں اورجیساکہ بعض اور احادیث سے ثابت ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں بھی کثرت سے گرے تھے ۔(مجمع البحار)
انجیل میں بھی مسیح کی دوبارہ آمدکے متعلق لکھا ہے
’’سورج اور چاند اورستاروں میں نشان ظاہر ہوں گے‘‘(لوقاباب۲۱۔آیت ۲۵)
پس یہ امر واقعات اوراحادیث سے ثابت ہے کہ نبی کے ظہو ر کی علامت کے طور پر اللہ تعالیٰ نے شہب کاگرنا سنت کے طور پر مقرر کررکھاہے اس کی ظاہری وجہ توجیساکہ میں اوپ بتاچکاہوں یہ ہے کہ تااس آسمانی نشان کو دیکھ کرلوگ اس وسوسہ سے نجات پائیں کہ شائد اس کے معجزات کسی انسانی تدبیر کانتیجہ ہو تے ہوں۔مگرکوئی تعجب نہیں کہ اس کے علاو ہ بھی کوئی مخفی وجہ نبی کے زمانہ میں شہب کے گرنے کی ہو۔اوراس میں کوئی روحانی تاثیرات بھی ہوں۔جو گوانسانی نگاہ سے مخفی ہوں۔لیکن ان شیطانی تدابیر کاازالہ کرنے ممد ہوتی ہوں۔جوانبیاء کے دشمن کرتے رہتے ہیں ۔
ا س کے بعد میں ان مختلف آیات اوران کی تفاسیر کو لیتاہوں جو مفسرین نے کی ہیں ۔قرآن کریم میں آسمان سے شہب یاپتھر پڑنے کاذکر یاآسمانوں کی حفاظت کاذکر مندرجہ ذیل سورتوں میں ہے (۱)سورئہ حجر زیر تفسیرآیت (۲)سورئہ مُلک(ع۱)اس میں آتاہے ولقد زیَّنا السماء الدنیا بمصابیح وجعلناھا رجوماًللشیٰطین ۔ہم نے سماء دنیا کو ستاروں سے مزیّن کیاہے اورانہیں شیطانوں کو ماربھگانے کاذریعہ بنایا ہے (۳)سورئہ صٰفّٰت (ع۱)اس میں ہے انازینا السماء الدنیا بزینۃن الکواکب ۔وحفظاً من کل شیطانٍ ماردٍ۔لایَسَّمَّعون الی الملاء الاعلیٰ ویقذفون من کلِّ جانبٍ دحوراً ولھم عذابٌ واصبٌ ۔اِلَّا من خطفَ الخطفۃَ فَاَتبَعَہُ شہابٌ ثاقبٌ۔ہم نے ورلے آسمان کوستاروں سے مزیّن کیاہے اورہرباغی شیطان سے اسے محفوظ بنایاہے وہ ملاء اعلیٰ کی بات نہیں سن سکتے اورہر طرف سے انہیں بھگانے کے لئے ان پر پتھرائو ہوتاہے اوراس کے علاوہ بھی انہیں قائم رہنے والا عذاب ملے گا(وہ سن تو نہیں سکتے )لیکن اگر کوئی بات اچک لے جائے ۔تواس کے پیچھے چمکتاہواشہاب جاتاہے (اوراسے تباہ کردیتاہے )(۴)سورئہ جنّ میں ہے ۔وَانَّا لمسنا السمآء فوجد نا ھا مُلئَت حَرَساً شَدیدًاوَّشُھُبًا۔وَّاَنَّا کُنَّا نقعدُ منہا مقاعد للسمعَ فمن یستمع الاٰن یَجٍد لَہ شِہاباًرَّصَدًا(ع۱)اورہم نے آسمان کے بارہ میں جستجو کی ہے اوریہ معلوم کیا ہے ۔کہ اس میں سخت پہرہ لگاہواہے۔اورشہب بھی مقرر ہیں ۔اوراس سے پہلے تو ہم آسمان میں سننے کی جگہوں پر بیٹھاکرتے تھے۔مگراب جو سننے لگتاہے وہ اپنے پر ایک شہاب کو نگران پاتاہے (۵)حٰم سجدہ میں ہے وَزَیَّنَا السماء الدنیا بمصابیح وحفظاً ذٰلک تقدیرالعزیز العلیم(ع۲)اورہم نے ورلے آسمان کو چراغوں سے مزیّن کیا ہے ۔اوران کو ذریعہ حفاظت بھی بنایا ہے۔یہ غالب اورعلم والے خداکی تقدیرہے ۔
یہ پانچ مقام ہیںجن میں اس مضمون کو تفصیلاً یااجمالاً بیان کیاگیاہے ۔مفسرین اس کی حقیقت یہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جب اپنی وحی ملائکہ پر ناقل کرتاہے تووہ درجہ بدرجہ نیچے اترتی ہے جب سماء الدینا تک پہنچتی ہے توجنّ ایک دوسرے پر چڑھ کر آسمان تک پہنچتے ہیں اوراس خبرکو اُڑانے کی کوشش کرتے ہیں کچھ خبریں اُچک اُچکا کر جب وہ دوڑتے ہیں۔توان کے پیچھے شہب مارے جاتے ہیں ۔اس کے آگے اختلاف ہے ۔حضر ت ابن عباس ؓکی طرف یہ روایت منسوب کی جاتی ہے ۔کہ شُہب شیطانوں کو مارنہیں سکتے ۔بلکہ زخمی کردیتے ہیں یابعض عضو توڑ ڈالتے ہیں لیکن حسن بصریؒ اورایک اورگروہ کی طرف یہ بات منسوب کی جاتی ہے کہ شیطان قتل کردیئے جاتے ہیں ۔جوکہتے ہیں کہ شیطان قتل کردیئے جاتے ہیں وہ آگے پھر مختلف الخیال ہیں ۔ایک گروہ کہتاہے کہ جب وہ ساحروں اورکاہنوں کوخبر پہنچالیتے ہیں توپھر ماردیئے جاتے ہیں ۔اورمادری کاقول یہ ہے کہ خبرپہنچانے سے پہلے ہی شہب ان کو جاپکڑتے ہیں اورماردیتے ہیں ۔(تفسیر فتح البیان بحوالہ قرطبی)پھر مفسرین نے یہ بحث بھی کی ہے کہ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے بھی شہاب پھینکے جاتے تھے اکثروں نے توکہا ہے ۔کہ ہاں پہلے بھی پھینکے جاتے تھے ۔مگر بعض کہتے ہیں کہ نہیں۔آپ کی بعثت سے پہلے (یعنی زمانہ فترۃ میں)نہیں پھینکے جاتے تھے۔دوسر ے خیال کے ظاہر کرنے والوںمیں علامہ رجاج بھی ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی علامت تھی ۔ آپؐ کی بعثت سے پہلے شہب نہ گرتے تھے ورنہ شعراء کے کلام میں اس کاذکر ہوتا۔مؤلف فتح البیان لکھتے ہیں کہ اگر ہم یہ سمجھ لیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تو شہب کثر ت سے گرے تاکہ غیب کی حفاظت اچھی طرح کی جاوے اورآپؐ کی بعثت سے پہلے کم گرتے تھے ۔تودونوں اقوال میں تطابق ہوسکتاہے ۔(فتح البیان)درمنثور میں بروایت حضرت عبداللہ بن عباسؓ(درمنثورسورئہ جن زیر آیت اَنَّا لَمَسنَا السَّمَائَ)بیان ہواہے ۔کہ شیطان آسمان کی باتیں سناکرتے تھے جوسنتے اس میں سوجھوٹ ملا دیاکرتے تھے ۔جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوتے تو وہ اس سے روکے گئے ۔اس پر انہوں نے ابلیس سے ذکرکیا ۔اس نے تحقیق کے لئے ایک وفد بھجوایا۔اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جَبَلَیْ نخلۃ میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ۔اورابلیس کو خبر دی ۔اس نے کہا بس یہی سبب مار پڑنے کاہے۔بعض روایات میں ہے کہ ابلیس نے زمین کی مٹی منگوائی۔اورسونگھ کر کہا کہ تہامہ کی زمین میں نبی ظاہر ہواہے ۔
افسوس کہ ان بزرگ مفسرین نے جنہوں نے قرآنی تفسیر کے بیان کر نے میں نہایت محنت اورکوشش سے کام کیا ہے اس معاملہ میں سخت بے احتیاطی برتی ہے اورغیر معروف روایات کے رعب میں آگئے ہیں ۔حالانکہ وہ قرآن کریم کے صریح خلاف ہیں ۔ان روایات سے معلوم ہوتاہے کہ(۱)شیطان آسمان کی باتوں کو سن لیتے ہیں (۲)ان خبروں میں غیب بھی ہوتاتھا(۳)ابلیس کو رسول کرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی خبر ان شہب کی مار پیٹ سے ہوئی پہلے نہ تھی ۔ان تفاسیر کے یہ تین بنیادی اصول ہیں ۔ان تینوں باتوں کونکال دیاجائے۔توروایات میں کچھ رہتاہی نہیں۔لیکن یہ تینوں باتیں کیسی غلط ہیں۔پہلی بات کہ شیطان آسمان سے باتیں سن سکتے ہیں ۔قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیات کے خلاف ہے (۱)سورہ طور میں ہے ۔اَمْ لَہُمْ سُلَّمٌ یَّسْتَمِعُوْنَ فِیہِ فَلْیَاْتِ مُسْتَمِعُھُمْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ(ع۲)یعنی کیا آسمان کی بات سننے کے لئے ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے جس کے ذریعہ سے یہ آسمان پر جاکر خداتعالیٰ کی بات سن لیتے ہیں (یعنی ایساہرگز نہیں )اگر ان میں سے کوئی اس امر کامدعی ہے تووہ سامنے آئے اوراپنی دلیل پیش کرے۔اس آیت سے صا ف ظاہر ہے کہ آسما ن پر جاکر بات سننا تو الگ رہا وہاں تک جانے کی قابلیت بھی کفار اور ان کے مددگاروں میں تسلیم نہیں کی گئی ۔اگریہ درست ہوتا کہ جنّ ایک دوسرے پر چڑھ کر آسما ن تک جاپہنچتے تھے۔توکیاکفار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ جواب نہ دیتے۔کہ ایک طرف آپ اس امر کے قائل ہیں کہ جنّ ایک دوسر ے پر چڑھ کر آسمان تک جاپہنچتے ہیں ۔اوردوسری طرف آپ یہ کہتے ہیں۔کہ آسمان تک جانے کی ان کے پاس کون سی سیڑھی موجود ہے (۲)سورئہ شعراء میں ہے ۔وَماَّ نَنَزَّلَتْ بِہِ الشَّیٰطِیْنُ وما یَنبغی لھم وما یستطیعونَ۔ اِنَّھُم عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُوْلُوْنَ۔(ع۱۱)یعنی کفار کا یہ الزام کہ اس شخص پر شیطان کلام نازل کرتاہے درست نہیں۔کیونکہ(الف)اس کااپنا چال چلن ایسا اعلیٰ اورپاکیز ہ ہے ۔کہ ایسے آدمیوں سے شیطان کا کوئی تعلق ہو ہی نہیں سکتا۔
(ب)جو تعلیم اس پر نازل ہوئی ہے وہ ایسی مطہّر اور پا ک ہے ۔وہ ایسی مطہر اور پاک ہے ۔ کہ ناپاک شیطان اس تعلیم کو اُتارہی نہیں سکتا ۔ کس طرح ممکن ہے کہ شیطان خود اپنے خلاف تعلیم اُتارے ۔(ج) اس میں آسمانی علوم ہیں اور شیطان آسمانی علوم کے سُننے کی طاقت بھی نہیں رکھتے ۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے انہیں آسمان کی باتیں سننے سے محروم کیا ہو اہے ۔
ان زبردست قرآنی دلائل کی موجودگی میں یہ خیا ل کیونکر کیا جا سکتا ہے کہ شیطان آسمان کی باتیں سن لیتے ہیں۔ دوسرا دعویٰ ان روایات میں یہ کیا گیا ہے ۔کہ شیطانوں یا جنّوں کو بعض غیبی امور بھی معلوم ہو جاتے تھے اور وہ زبردستی اخبار غیبیہ کو اچک لیتے تھے ۔ یہ دعویٰ بھی مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ سے بالبداہت غلط ثابت ہوتا ہے ۔
(۱) فَقُلْ اِنَّمَا الْغَیْبُ لِلّٰہِ فَا نْتَظِرُوْااِنِّیْ مَعَکُمْ مِنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ(یونس ع۲) غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے (اگر وہ غیب تم کو ملے گا تو تم سچے مجھے ملے گا تو میں سچا ) پس آؤ دونوں خدائی فیصلہ کا انتظار کریں ۔ اس آیت کے ہوتے ہوئے کس طرح کہا جاسکتا ہے ۔کہ قرآن کریم کے رُو سے جنّات غیب کا علم آسمان سے اُچک لیتے تھے ۔(۲) سورہ طور میں ہے ۔اَمْ عِنْدَ ھُمُ الْغَیْبُ فَھُمْ یَکْتُبُوْنَ(ع۲) کیا ان کے پاس غیب معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ ہے ۔جس سے غیب معلوم کر کے وہ لکھ لیتے ہیں ۔ یعنی ایسا ہرگز نہیں ہے (۳) یہی آیت سورئہ قلم میں بھی ہے ۔(۴) سورئہ سباء میں ہے ۔ وَقَدْ کَفَرُوْابِہِ مِنْ قَبْلُ وَیَقْذِفُوْنَ بِا لْغَیْبِ مِنْ مَِکَانِِ بَعِیْدِِ۔ وَحِیْلَ بَیْنَھُمْ وَبَیْنَ مَا یَشْتَھُوْن کَمَا فُعِلَ بِاَشْیَا عِھِمْ مِّنَ قَبْلُ اِنَّھُمْ کَانُوْا فِیْ شَکِِ مُِرِیْبِِ۔(ع۱۲/۶) یعنی یہ لوگ تیر ا انکار شروع سے کرتے چلے آئے ہیں ۔اور غیب کے امور کے دریافت کرنے کے لئے دُور سے بیٹھے ہوئے ڈھکونسلے مارتے رہے ہیں ۔مگر کامیاب نہیں ہوسکے ان کی غیب دانی کی خواہش کے راستہ میں اللہ تعالیٰ نے روکیں پیدا کررکھی ہیں جس طرح لوگوں کی خواہش کو پورا کرنے میں جوان سے پہلے گزر چکے ہیں روکیں پیدا کررکھی تھیں۔ اور یہ لوگ شک میں پڑے ہوئے ہیں (ایسے لوگوں کو غیب مل ہیں کب سکتاہے ۔یعنی غیب تو اس قطب پر نازل ہوتا ہے جو ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا ہو) اور یقین اور ایمان کے اعلیٰ مقام پر پہنچ چکا ہو ۔ اس آیت سے بھی ظاہر ہے کہ وہ آسمان پر نہ جاتے تھے ۔ بلکہ دور بیٹھے ڈھکونسلے مارا کرتے تھے ۔
(۵)وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَالِکُلِّ نَبِیٍ عَدُوًا شِیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُھُمْ اِلیٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غرُوْرًا٭وَلَوْ شآء رَبُّکَ مَافَعْلُوْ ہُ فذَرْھُمْ وَماَیَفْتَرُوْنَ۔(انعام ع۱۴)یعنی جس طرح تیرے زمانہ میں ہورہاہے ۔اسی طرح ہم نے ہر نبی کے زمانہ میں انسان اورشیطانوں اورجن شیطانوں کو چھو ڑرکھاتھا۔کہ وہ ایک دوسرے کو دھوکہ دینے کے لئے جھوٹی باتیں سناتے تھے ۔اوراگر تیرا رب چاہتا تو وہ یہ بھی نہ کرسکتے ۔(مگر اس کی مشیت یہی ہے)اس لئے تو انہیں ان کے حا ل پر چھوڑ دے اور ان کے افترائوں کی طرف توجہ ہی نہ کر۔اس آیت اسے ظاہر ہے کہ انبیا ء کے دشمن جنّ و انس ایک دوسرے کو غیب کی باتیں نہیں بتاتے بلکہ جھوٹ بتاتے ہیں ۔آیت کے آخر میں بھی یہ نہیں کہا کہ یہ آسما ن کی باتیں سنتے ہیں ۔تو ان سے الگ رہ ۔بلکہ یہ فرمایا ہے ۔ کہ یہ افتراء کرتے ہیں۔اس لئے تو ان سے الگ رہ ۔اس افترا ء کاجواب خداتعالیٰ ہی دے گا۔
(۶)عاَلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْھِرُ عَلیٰ غَیْبِہٖ اَحدًااِلَّاَ مَنِ ارْتَضیٰ مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّہُ یَسْلُکُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ رَصَدًالِّیَعْلَمَ اَنْ قَدْاَبْلَغُوْارسٰلٰتِ رَبِّھِمْ واَحَاطَ بِمَالَدَیْھِمْ وَاَحْصٰی کُلَّ شَیْئٍ عَدَدًا(جنّ ع۲)یعنی اللہ تعالیٰ غیب کاجاننے والاہے اور وہ اپنے غیب کو سوائے اپنے رسولوں کے جو اس کے منتخب ہوتے ہیں اورکسی پر ظاہرنہیں کرتا۔پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس رسول کے آگے اورپیچھے نگران اورپہرہ دار چلتے ہیں ۔تاکہ اسے یہ بھی علم حاصل ہوجائے ۔کہ ان رسولوں نے اپنے رب کی بات لوگوں تک پہنچا دی ہے ۔اوران کے تما م امور کا وہ احاطہ کئے رکھتاہے اورہراک چیز کی تعد اد بھی اس کے پاس محفوظ رہتی ہے ۔یعنی کمیّت اور کیفیت دونوں کاریکارڈ اس کے پاس ہوتاہے کسی چیز میں کمی بیشی کاہوناممکن نہیں۔
یہ آیت کس وضاحت سے مذکورہ بالا تفاسیر کو باطل کرتی ہے فرماتاہے نہ صرف یہ کہ غیب کاعلم اللہ تعالیٰ کو ہے ۔بلکہ اس غیب کا پہلا اظہار صرف رسولوں پرہوتاہے ۔رسول بھی وہ جن کا اللہ تعالیٰ خود منتخب فرماتاہے نہ بندوں کے چُنے ہوئے رسول۔پھر فرماتاہے کہ جب تک وہ کلام رسول تک نہ پہنچ جائے ہم اس کی حفاظت کرتے ہیں تااس میں کوئی دوسرادخل نہ د ے سکے ۔جب رسولوں تک وہ کلام پہنچ جاتاہے ۔ توپھر بھی اللہ تعالیٰ حفاظت نہیں چھوڑتا۔بلکہ حفاظت کرتارہتاہے یہا ں تک کہ و ہ رسول اس کلام کو بندو ں تک پہنچادیں اوراس طر ح مکمل طور پر پہنچادیں ۔کہ اس کی کمیت اورکیفیت دونوں میں کوئی فرق نہ آئے ۔گویا جب تک رسول لوگوں تک خداتعالیٰ کاکلام پہنچا نہ دیں ۔اس وقت تک شیطان کو اس کلام کے متعلق کوئی علم ہی نہیں ہوسکتا۔ہاںجب وہ انسانوں میں پھیل جاتاہے توجیساکہ دوسری آیات سے ثابت ہے ۔شیطان اس کلام کے بارہ میں شرارتیں شروع کرتا ہے ۔مگر پھر بھی وہ ناکام رہتاہے ۔غرض اس آیت سے ثابت ہے کہ شیطان کلام الٰہی کو اچکنے کاکام کلام الٰہی کے اعلان کے بعد شروع ہوتا ہے ۔اوراس بارہ میں سماء الدنیا سے مراد نبی کی مجلس ہے ۔نہ کہ وہ قضا ء یاجَوّ جو ہمیں اپنے سروں کے اوپر نظرآتاہے ۔(۷)یہ تو عام آیات تھیں۔ایک آیت خاص جنّوں کے متعلق بھی ہے ۔جس سے ظاہر ہے کہ نہ رسول کریمﷺ کے وقت میں نہ اس سے پہلے کبھی بھی جنّوں کو غیب کا علم حاصل ہواہے نہ پورا نہ ادھورا ۔ اور وہ آیت یہ ہے ۔ فَلَمَّا قَضَیْنَا عَلَیْہِ الْمَوْتَ مَادَ لَّھُمْ عَلٰی مَوْتِہٖٓ اَلَّا دَآبَّۃُ الْاَرْضِ تَأْکُلُ مِنْسَأ تَہٗ۔فَلَمَّا خَرَّتَبَیَّنَتِ الْجِنُّ اَنْ لَّوْ کَانُوْ ایَعْکمُوْنَ الْغَیْبَ مَا لَبِثُوْا فِی الْعَذَابِ الْمُھِیْنِ۔(سباء ع ۲)یعنی جب حضرت سلیمان پر ہم نے موت وارد کی تو ان کی موت کا علم جنّوں کو اس وقت تک نہ ہو سکا۔ جب تک کہ دابۃ الْارض نے جو ان کے عصا کو کھارہا تھا انہیں خبر نہ دی پھر جب وہ گر گئے تو جنّوں نے یہ امر معلوم کر لیا ۔ کہ اگر انہیں غیب کا کچھ بھی علم ہوتا تو وہ اس ذلیل کرنے والے عذاب میں مبتلا نہ رہتے ۔اس آیت سے ظاہر ہے کہ رسول کریم ﷺ سے پہلے زمانہ میں بھی جنّوں کو غیب کا علم حاصل نہ تھا ۔اگر وہ آسمان پر سے سنا کرتے ہوتے تو انہیں حضرت سلیمان کی وفات کا علم کیوں حاصل نہ ہوتا ۔یہ ظاہر ہے کہ حضرت سلیمان چونکہ نبی تھے ۔ان کی وفات کی خبر ضرور الہاماًاور خاص اہتمام سے فرشتوں پر نازل ہوئی ہوگی۔ کیونکہ نبی کی بعثت اور موت دونوں اہم امور ہوتے ہیں ۔
تیسر ا دعویٰ تفاسیر میںیہ کیا گیا ہے کہ جنّوںکو بلکہ ابلیس کو رسول کریم ﷺ کی بعثت کا علم آسمانی شہب کے بعد ہوا ہے اور وہ بھی جب کہ رسول کریم ﷺ کو باجماعت نماز پڑھتے ہوئے انہوں نے دیکھا ۔ جیسا کہ تاریخوں سے ثابت ہے ۔رسول کریم ﷺ نے نماز با جماعت پبلک میں کئی سال بعد شروع کی ہے ۔ پس اگر یہ معنی درست ہیں ۔ تو اس کے یہ معنی ہونگے ۔کہ رسول کریم ﷺ کی بعثت کے کئی سال بعد تک ابلیس کو یہ معلوم ہی نہ تھا ۔ کہ کوئی رسول مبعوث ہو اہے۔ حالانکہ یہ صریح تعلیم قرآن کے خلاف ہے اور واقعہ کے خلاف ہے ۔ نبی کے دعویٰ کے ساتھ ہی شیطان کے گھر میں ماتم پڑجاتا ہے اور اسی وقت سب شیطان خواہ شیاطین الانس ہوں۔ خواہ شیاطین الجنّ ہوں۔ اس کی اور اس کی جماعت کی مخالفت شروع کردیتے ہیں ۔پس یہ کہنا ۔کہ کئی سال تک ابلیس کو اور دوسرے شیاطین کو اس کا علم ہی نہ تھا۔ کہ رسول کریم ﷺ مبعوث ہوچکے ہیں۔سنت الٰہیہ کا ردّ ہے اور واقعات کے خلاف ۔ اگر شیطان کوآپ کی بعثت کا علم نہ تھا ۔ تو مکہ میں مخالفت کا طوفان بے تمیزی کہاں سے اٹھ رہا تھا ۔ ابلیس کے کوئی بھی معنی کرو۔ اس کا نبی کریم ﷺ کی بعثت سے ناواقف رہنا خلاف عقل ۔خلاف قرآن اور خلاف سنت الٰہیہ ہے۔ قرآن کریم صاف فرماتا ہے ۔وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍٔ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُہُمْ اِلیٰ بَعْضٍ ذُخْوُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا ۔(انعام ع۱۴) جس سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ خود شیاطین الانس والجنّ کو نبیوں کی بعثت کا علم مناسب ذرائع سے دے دیتا ہے اور وہ نبی کی بعثت کے معاً بعد اُس کی مخالفت شروع کردیتے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد شروع کردیتے ہیں پھر ابلیس یا اس کے چیلوں کا اس خبر سے ناواقف رہنا کیا معنی رکھتا ہے یاد رہے کہ اس مضمون میں بغرض سہولت اور حجت ابلیس یا جن وغیرہ کے الفاظ کے متداول معنے مینے لئے ہیں اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیئے ۔ کہ میرے نزدیک وہی معنی درست ہیں۔ اس کی بحث اپنے موقعہ پر آئے گی کہ میرے نزدیک ابلیس شیطان یا جنّ کے کیا معنے ہیں ۔
اس جگہ ایک سوال رہ جاتا ہے ۔ کہ جب غیب کا علم آسمان سے لینا یا آسمان سے خبروں کا سننا جنّوں کے لئے ناممکن ہے تو پھر حدیثوں میںجو آتا ہے کہ جنّ ایک دوسرے پر چڑھ کر آسمان کی خبر سنتے ہیں ۔ اس کا کیا مطلب ہوا ۔اس کا جواب یہ ہے۔ کہ اس سے مراد انبیا ء کی باتوں کو سننا ہے اور ایک دوسرے پر چڑھ کر سننے سے یہ مراد ہے ۔ کہ آئمۃ الکفر خود انبیا ء کی مجالس میں حاضر نہیںہوتے اور براہ راست اپنے دلوں کے شکوک کو دُور نہیں کرواتے ۔ بلکہ ہمیشہ کئی واسطوں اور بزعم خود ہوشیاری سے ان کی تبلیغ اور تعلیم کو معلوم کرتے ہیں ۔ پھر چونکہ اوّل تو اُن کی اپنی نیّت خراب ہوتی ہے۔ دوسرے وہ سنی سنائی باتوں پر اپنی مخالفت کی بنیاد رکھتے ہیں ۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس قدر جھوٹ ان کے بیان میں مل جاتا ہے کہ ایک بات سچی ہو تو سوجُھوٹی ہوتی ہیں ۔
اور یہ جو حدیثوں میں آتا ہے کہ کبھی شیطان لوگوں تک بات پُہنچا دیتے ہیں ۔اور پھر شہاب ان پر گرتا ہے ۔ اور کبھی بات پہنچانے سے پہلے شہاب ان پر گرجاتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بعض لوگ نبیوں پر گستاخی کرنے کے جرم میں فوراً پکڑے جاتے ہیں۔ اور بعض کو حکمت الٰہی لمبی مہلت دے دیتی ہے ۔ اور وہ لوگوں کو خوب بھڑکاتے رہتے ہیں ۔یہاں تک کہ ایک دن شہاب ان کو بھی آکر پکڑ لیتا ہے ۔
میں اس جگہ دو حدیثیں بھی درج کردیتا ہوں تاکہ اصل الفاظ حدیث کے بھی مستحضر رہیں۔ ایک روایت بخاری کی ہے جو یہ ہے…… عن ابی ھریرۃیبلغ بہ النّبیّ صلی اللہ علیہ وسلم قال اِذَا قَضَی اللّٰہُ الامرَ فی السمائِ ضرَبَتِ المَلَا ئکۃُ باَجنِحتہا خضعاناً لِقَولہِ کالسلسلۃِ علی صفوان قال علیٌ وقال غیرُہ صفوان ینفذھم ذٰلک فاذافزّع عن قلوبھم قالو ا ماذاقال ربّکم قالواللّذی قال الحقُّ وھو العلّی الکبیر فیسعہا مسترقوالسمع ومستترقوالسمع ھٰکذاواحدی فوق آخر ووصف سفیان بیدہ وفرح بین اصابع یدہ الیمنی نصبھا بعضہا فوق بعضٍ فربَّما ادرک الشہاب المستمع قبل ان یرمی بھا الی صاحبہ فیحرقہ وربما لم یدرکْہُ حتّٰی یرمی بہاالی الذّی یلیہ الی الذّی ھواسفل منہ حتّٰی تنتھی الی الارض فتلقی علی فم الساحر فیکذب معہامائۃ کذبۃ فیصدق فیقولون الم یخبرنا یوم کذاوکذا یکون کذاوکذافوجدنا ہ حقاً للکلمۃ التی سمعت من السّمائِ(بخاری جز ثالث کتاب التفسیر )دوسری روایت ابن ابی حاتم کی ہے۔ جو یہ ہے۔قال ابن ابی حاتم…عن النواس بن سمعان رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا ارادااللہ تبارک وتعالیٰ ان یُّوحِیَ بامرہ تَکلَّمَ بالوحیِ فاذاتکلَّمَ اخذت السَّمٰوٰت منہ رجفۃً اوقال رعدۃً شدیدۃً من خوف اللہ تعالیٰ فاذاسمع بذلک اھلُ السمٰوٰت صبقو اوخرُّو اللہِ سُجّدًا فیکون اوّل من یرفع راسہ جبریل علیہ الصلوٰۃ والسلامُ فیکلّمہ اللہ من وحیہ بما ارادفیمضی بہٖ جبریل علیہ الصلوٰۃ والسلام علی الملٰئکۃِ کُلّہا من سماء الی سماء یسألُہ ملائکتھا ماذاقال ربُّنا یاجبریل فیقولُ علیہ السلام قال الحقّ وھو العلیّ الکبیر ۔فیقولون کلھم مثل ماقال جبریل فینتھی جبریل بالوحی الی حیثُ امَرَہُ اللہ تعالیٰ من السَّماء والارض (ابن کثیر جلد ۸ص ۱۶۶)۔
ابن ابی حاتم کی اس روایت سے معلوم ہوتاہے کہ وحی جبیریل کی حفاظت میں اس مقام تک پہنچادی جاتی ہے جو وحی کے لئے مقرر ہے یعنی رسول تک ۔پس دوسری روایات جو بتاتی ہیں ۔کہ جنّ اسے چک کر لیتے ہیں ۔ان کے یہی معنے ہوسکتے ہیں کہ مورد وحی کے پاس جب وحی پہنچ جاتی ہے ۔اورجب و ہ اس کا اعلان کردیتاہے۔اس کے بعد شیطان اُسے اچکتے ہیں ۔اورکئی جھو ٹ ملا کر اانہیں اپنے اتباع میں پھیلادیتے ہیں ۔نبیو ں کی باتیں اس زمانہ کے لوگوں کے لئے عجیب توہوتی ہی ہیں پہلے تولو گ حیران ہوتے ہیںکہ کیا یہ مدعی ایسی ایسی باتیں کرتاہے ۔مگر کبھی نبی کے اتباع سے جب وہ اس حصہ کو سنتے ہیں جو شیطانوں نے صحیح بیان کیا تھا۔توا ن کے اتباع یقین کرلیتے ہیں ۔ کہ جو دوسری باتیں انہوں نے بیان کی تھیں۔وہ بھی صحیح تھیں۔اورآپس میں کہتے ہیں کہ دیکھا فلاں بزرگ نے فلاں د ن ان کے بارہ میں یہ با ت کہی تھی۔وہ درست نکلی۔اس مدعی کے مرید خود اس کی تصدیق کرتے ہیں ۔پس اس سے ان کو ان جھوٹی باتوں پر بھی یقین آجاتاہے ۔جو ان کے سرداروں نے نبیوں کی طرف منسوب کئے ہوتے ہیں ۔وہ سمجھتے ہیں ۔کہ نبی کے اتباع ان باتوںکو ہم سے چھپاتے ہیں ۔اصل بات وہی ہے جو ہمارے لیڈروں نے کہی تھی۔یہ ایک عجیب سلسلہ ہے جو ہرنبی کے وقت میں چلتاہے اورلاکھو ںآدمی جو اپنی تحقیق کامدار اپنے لیڈروںکے بیانات پر رکھتے ہیں ۔اورذاتی تحقیق کی زحمت گوارانہیں کرتے ۔ا س بلا میں گرفتار ہو کر صداقت سے محروم رہ جاتے ہیں
ان آیات کے متعلق جو معانی عوام میں مشہور ہیں ۔یابعض مفسرین نے صحیح روایات کا مفہوم غلط سمجھنے کی وجہ سے یاکمزورروایات کوصحیح تسلیم کرلینے کیوجہ سے قرآن کریم کے منشاء کے خلاف لکھے ہیں ۔ان کے متعلق بعض اورغور طلب امور بیان کرکیک میں اس تعلق کو ختم کرتاہوں ۔
گرنے والے وجود سے مراد ستارے نہیں بلکہ شُہب ہیں ۔پس وہ معترضین جو کہتے ہیں کہ گویا قرآن کریم کے نزدیک آسمان سے گرتی ہو ئی نظر آنے والی روشنی حقیقی ستار ے ہوتے ہیں ۔درست نہیں ۔نہ یہ بات قرآن کریم میں ہے نہ اس کے معتبر مفسر یہ معنے کرتے ہیں ۔بلکہ مفسرین توالگ رہے کفار تک بھی اس امر کو سمجھتے تھے ۔کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی علامت یہ نہ تھی ۔کہ ستارے ٹوٹیں ۔بلکہ یہ تھی کہ شُہب گریں ۔(جیسا کہ اوپر طائف والوں کاواقعہ بیان ہوچکاہے ۔)
قرآن کریم میں متواتر یہ بیان ہواہے کہ ہم نے آسمان کی حفاظت کی ہے ۔پس جس کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے کی ہے اس سے شیطان کس طرح کو ئی بات اُچک سکتے ہیں ۔
جب سماء دنیا تک کلام اُتر آتاہے ۔اورشیطان وہاں سے اسے اُچک لیتے ہیں ۔توسوال یہ ہے کہ کیا فرشتے اس کلام کو نبی پر جلدی اتارتے ہیں ۔یا شیطان اپنے اولیا ء پر ۔اگ فرشتے پہلے اُتاردیتے ہیں ۔توشیطانوں کو آسمان سے اُچکے کاکیافائد ہ ہوا۔نبی کے منہ سے دنیا اس خبر کو پہلے ہی سن چکی ہو گی۔اوراگر یہ کہا جائے ۔کہ فرشتے نبی تک دیر میں پہنچتے ہیں شیطان اپنے اولیا ء تک جلدی پہنچ جاتے ہیں ۔توسارے خدائی سلسلہ پر اعتراض ہوگا۔
اگر باوجود اس قدر حفاظت کے جواللہ تعالیٰ بیان فرماتاہے ۔شیطان کلام کے پہنچنے سے پہلے ہی اسے اچک لیتے ہیں توپھر نبیوںکے کلام پر کیا اعتباررہا۔جس طرح شیطان اسے اچک سکتے ہیں اورمیں کچھ بھی ملاسکتے ہیں ۔(گو بعض لوگوں نے اس خیال کا بھی اظہارکیا ہے کہ شیطان نبی کی زبان پر بھی بعض کلمات جاری کردیتاہے ۔العیاذ باللہ)
اگریہ ممکن ہے کہ شیطا ن باوجو د حفاظت کے خدائی کلام کو اُچک لیتے ہیں ۔تب تو یہ بھی کہاجاسکتاہے کہ ممکن ہے ۔خداتعالیٰ کی حفاظت کے باوجود وہ نبی کو ہلا ک بھی کردیں نعو ذ باللہ من ذالک۔مگر جس طرح یہ نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح یہ بھی نہیں ہوسکتا ۔کہ کلام الٰہی کو شیطا ن اُچک کر لے جائے ۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ قرآن کریم میں اِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ یا اِلَّامَنْ خَطِفَ الْخَطْفَۃَ فرما کر خود ہی فرمادیا ہے کہ شیطان کچھ سن لیتا ہے اوراچک لیتاہے۔اس کاجواب یہ ہے کہ اِلَّا اللہ تعالیٰ کے فعل کے بارہ میں نہیں ۔بلکہ شیطان کے بارہ میں ہے ۔اگر اللہ تعالیٰ یہ فرماتا۔کہ ہم اپنے کلام کی حفاظت کرتے ہیں۔سوائے کچھ تھوڑے سے کلام کے جو ہم شیطان کو دے دیتے ہیں ۔تب تو یہ جوا ب صحیح ہوتاکہ خداتعالیٰ کی طاقت پر اعتراض نہیں ۔کیونکہ وہ اپنی مرضی سے دیتاہے۔لیکن عبارت یو ں نہیں ۔عبارت تو یہ ہے کہ خداتعالیٰ توحفاظت کرتاہے ۔لیکن شیطان اچک لے جاتا ہے اور یہ معنی نہ صرف نبی اور کلام الٰہی کی شان کے خلاف ہیں بلکہ ان سے تونعوذ باللہ من ذالک اللہ تعالیٰ کی بے بسی اور بے کسی بھی ظاہر ہوتی ہے ۔
اگر یہ معنے درست ہوں ۔توچاہیئے کہ جب کو ئی نجومی حساب لگائے اورکوئی زائچہ تجویز کرے ۔اسی وقت شُہب آسمان سے گرنے لگیں ۔ مگریہ نہیں ہوتا۔پس واقعات ان معنوں کو ردّ کر رہے ہیں۔رات دن ہزاروں نجومی ۔کاہن ۔رمّال۔جفّار۔جوتشی ۔پنڈت۔سٹرامونرلیٹارلو جر ان کاموں میں مشغول ہیں اورغیب کی خبریں معلوم کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ۔اگر ان لوگوں کا تعلق شیطانوں سے ہے اورشیطان آسمان سے اچک کر انہیں خبریں بتاتے ہیں ۔تورات اوردن شہب کی بارش ہوتی رہنی چاہیئے ۔اگر کہاجائے کہ شہب اسی وقت گرتے ہیں ۔جبکہ شیاطین باتیں سنیں۔تواس کے معنے یہ ہوں گے۔کہ نبیوں کے زمانہ میں شیطان زیادہ باتیں سنتے ہیں اوراچک کر لے جاتے ہیں ۔حالانکہ نبی کازمانہ تو زیادہ محفو ظ زمانہ ہوتاہے ۔اورہونا چاہیئے ۔پھر سوال یہ ہے ۔کہ یہ امتیاز کیونکر کیاجائے ۔ کہ نبی کے زمانہ میں تونجومی شیطانوں سے خبریں لے کر لوگوںکو سناتے ہیں اوردوسرے زمانہ میں صرف حسا ب لگاکر سنادیتے ہیں ۔کیونکہ دونوں قسم کی خبرو ں میں کوئی فرق کرناپڑے گا۔یاتو یہ کہنا ہوگا۔کہ نبی کے زمانہ میں نجومیوں کی باتیں زیادہ سچی ہوتی ہیں۔ بالبداہت غلط ہے یاپھر ماننا پڑے گا۔کہ ہر زمانہ میں ہی نجومی شیطانوں سے باتیں پوچھ کر آگے لوگوں کو سناتے ہیں اورجوشخص ستاروں کا تھوڑا ساعلم بھی جانتا ہو ۔وہ بتاسکتاہے کہ یہ خلاف عقل بات ہے ۔علم نجوم و رمل وغیرہ گو لغو اورفضول ہیں ۔مگر حسابی اصول پر قائم ہیں۔جنّات کا اس معاملہ میں کوئی بھی دخل نہیں ۔ہاں ایک گروہ ہے ۔جو ارواح سے اپنا تعلق ظاہر کرتاہے اور وہ وہ گروہ ہے جو اپنے آپ کو روحانی کہتے ہیں انگریزی میں یہ لوگ سپر چولسٹ کہلاتے ہیں ۔ان لوگوں کا دعویٰ ہے۔کہ وہ ارواح سے ملتے او رباتیں کرتے ہیں ۔ان کاذکر بھی آیات مذکو ر ہ میں نہیں ہوسکتا ۔کیونکہ انکے متعلق بھی ہم نہیں دیکھتے کہ اِدھر وہ حاضرا ت کاعمل کریں اوراُدھر شہاب گر نے لگیں ۔اس نام نہاد علم کی طرف منسوب ہونے والے لو گ یا تو ٹھگی اورفریب کے مرتکب ہوتے ہیں او ران کی تعدا د بھی کافی زیادہ ہے یاپھر وہ دھوکہ خوردہ لوگ ہیں جو انسانی دماغ کی باریکیوں کو نہ سمجھتے ہوئے بعض باریک روحانی قویٰ کو عالم اُخروی کی ارواح کا عمل اور تاثیر قرار دے لیتے ہیں ۔بہر حال نہ ان کی مزعومہ ارواح آسمان سے سنتی ہیں اورنہ ان پر شہاب گرتے ہیں ۔
خلاصہ یہ کہ ان آیا ت میں کلام الٰہی کی حفاظت کا ذکر ہے اوراللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نبی پرکلام کے نازل ہونے تک کوئی اسے معلوم نہیں کرسکتا ۔جب وہ نازل ہوجاتاہے تو پھر شیاطین الانس والجن اسے مختلف ذرائع سے اچک کر اس میں جھوٹ ملا کر لوگوں میں پھیلاتے ہیں او رنبی کے خلاف انہیں اکساتے ہیں ۔یہ ظاہرہے کہ ایسے ہی موقعہ پر جھوٹ ملانے کافائدہ ہوسکتاہے ۔ورنہ جنّ آسمان سے غیب سنیں تو وہ پاگل ہیں کہ اس میں جھوٹ ملا کر اپنی عزت کھوئیں ۔ہاں نبی کے کلام میں ان کے دشمن جھوٹ ملاتے ہیں ۔تاکہ لوگوں کو جوش دلائیں اور ان کے خلاف اُکسائیں ۔کوئی صحیح حوالہ لیا۔اس کے غلط معنے کئے یاایک ٹکڑہ لیا ۔اور سیاق و سباق سے الگ کر کے اس کے مضمون سے لوگوں کو جوش دلایا ۔یہ نبیوں کے دشمنوں کا روزمرہ کامشغلہ ہے ۔اوریہی وہ اچکنا ہے ۔جسے اللہ تعالیٰ کی مشیت نے جائز رکھا ہے ۔اور اس سے نبی کے مشن کی حفاظت نہیں کی ۔بلکہ فرماتا ہے ۔کہ ہم دشمنوں کو ا سکاخود موقعہ دیتے ہیں جیسے خود فرمایا وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَالجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُھُمْ اِلیٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الَقَوْلِ غُرُوْرًا(انعام ع ۱۴)اور فرماتا ہے ۔وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا فِیْ کُلِّ قَرْیَۃٍ اَکٰبِرَ مُجْرِمِیْہَالِیَمْکُرُوْافِیْہَا(انعام ع۱۵)اور اسی طرح ہم نے ہر(نبی کی )بستی میں اس کے بڑے مجرموں کو ایساہی بنادیا ہے ۔(اس کاذکر پہلی آیت میں آیا ہے ۔کہ شیطان اپنے دوستوں کوالہام کرتے او رنبی کے خلاف جھگڑنے کے لئے اُکساتے ہیں )اس کانتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ نبی کے خلاف خوب تدبیریں کرتے ہیں ۔غرض جہاں کلام الٰہی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حفاظت حاصل ہے ۔کہ اس میں کوئی ظاہری یا باطنی دشمن تبدیلی نہیں کرسکتا۔وہاں اللہ تعالیٰ نے شیطانی لوگوںکو اپنی مصلحت سے اس امر کی اجازت دے رکھی ہے ۔کہ اس کلام کے غلط معنے لوگوں میں پھیلائیں۔یانبی کی وحی کے متعلق جھوٹ بو ل کر لوگوںکو جوش دلائیں ۔لیکن جب وہ ایسا کرچکتے ہیں توپھر ان پر آسمان سے شہا گرتا ہے ۔او ر نبی کے ذریعہ سے ان کے فریب کا پردہ چاک کردیاجاتاہے ۔یہ وہ استثناء ہے کہ اس سے نہ خداتعالیٰ کی طاقت پر حرف آتا ہے نہ دین مخدوش ہوتا ہے ۔کیونکہ اس قسم کی شرارت کو اللہ تعالیٰ نے خود ہی مستثنیٰ کردیا ہواہے ۔نیز اس قسم کی شرارت سے دین میں کچھ حرج نہیں آتا۔وہ اپنی جگہ محفوظ رہتاہے ۔یہ جھوٹی باتیں صرف دشمنوں میں پھیلائی جاتی ہیں اوردشمن کی چند روزہ خوشی کاموجب ہوتی ہیں ۔
یہ بھی یادرکھناچاہیئے ۔کہ قرآن کریم سے یہ بھی معلوم ہوتاہے ۔کہ کلام الٰہی کے خلا ف اس قسم کی شرارتیں کرنے والے دوقسم کے لوگ ہوتیی ہیں ۔ایک اندرونی دشمن یعنی منافق۔ اورایک بیرونی دشمن ۔اس کا ثبوت اس امر سے ملتاہے کہ کہ سورئہ حجر اورسورئہ ملک میں شیطان رجیم کی طرف اس فعل کو منسوب کیا گیا ہے ۔اورسورئہ صافات میں شَیْطانٍ مَارِدٍ کی طرف ۔اورلغت میں جہاں رجیم کے معنے دھتکارے ہوئے دور رکھے ہوئے کے کئے گئے ہیں مَارِد کے معنی باغی کے ہیں ۔پس سورئہ حجر اورسورئہ ملک میں ان دشمنانِ دین کاذکر ہے جو کفار میں سے ہوں ۔یعنی کو ظاہر میں بھی اسلام کے قریب آنے کی توفیق نہ ملی ہو ۔بلکہ وہ اس سے دور رکھے گئے ہوں اوربتایاہے کہ ان کے حملوں سے اللہ تعالیٰ قرآن کریم کی حفاظت کرے گا۔اورسورئہ صافات میں یہ بتایاہے کہ بعض لوگ مسلمان کہلاتے ہوئے بھی نادانستہ یا شرارتاً قرآنی مطالب کو بگاڑ کر پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔وہ شیطان ماردٍ ہوں گے ۔یعنی ظاہر میں تو مسلمان کہلائیں گے لیکن درحقیقت اسلام کے دانستہ یا نادانستہ باغی ہوں گے ان کے فساد کو بھی اللہ تعالیٰ دور کرے گا ۔یہ آئندہ کے لئے پیشگوئی ہے او ر بتایا ہے ۔کہ جب بھی مسلما ن قرآنی مطالب کے سمجھنے سے قاصر ہوجائیں گے اوراس کے مطالب کو بگاڑ دیں گے ۔اللہ تعالیٰ مامور مبعوث کر کے ان کے شرا ور فتنہ سے قرآن کریم کو محفوظ کرے گا۔فتبارک اللہ احسن الخالقین ۔
ایک بات او ربھی یاد رکھنے کے قابل ہے او روہ منجمتین اورنام نہاد روحانیین کے بارہ میں ہے ۔انبیاء کاوجود ان کے خیالات کاقلع قمع بھی کرتا رہتا ہے پس ضمنی طور پر ان کے متعلق بھی یہ آیت چسپاں ہوسکتی ہے مگر خود علم نجوم یا تاثیرات نجوم کاتعلق جہاں تک حقائق سے ہے ۔یہ ہر گز اسلام کے خلاف نہیں ۔قرآن کریم ہمیں قوانین نیچر کے سیکھنے کاخود حکم دیتا ہے ۔پس یہ ناممکن ہے کہ ایک طرف تو وہ علم ہئیت میں حکمتیں رکھے ۔ان کے سیکھنے کاحکم دے ۔اورپھر جو ان حکمتوں کو سیکھنا چاہے ۔اس پر شہب مارے جائیں ۔اسلام وہم او رشرک سے روکتا ہے ۔پس جہاں تک ان علوم کا تعلق تخمین اوروہم سے ہے وہ ناجائزہیں اورجب ان کو مذہب کی طرح سمجھاجاتا ہے۔وہ شرک بن جاتے ہیں ستاروں کی حرکات می تاثیرات یقیناً ہیں ۔لیکن وہ قانون قدرت کا ایک جز و ہیں ۔ہزاروں امور ایک وقت میں تاثیر ڈال رہے ہوتے ہیں ۔اپنی ذات میں کامل تاثیر جو دوسرے کی محتاج نہیں اللہ تعالیٰ کی ہے ۔پس ستارے کیا کسی اور مادی سبب کے متعلق بھی اگر کوئی شخص خیال کرے کہ وہ قطعی اوریقینی تاثیر رکھت اہے توو ہ مشرک ہے ۔اسی وجہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مَنْ قاَلَ مُطْرِنَا بِنَوئٍ کَذَاوَکَذَافَھُوَ کافرٌ بی وَمومنٌ بالکوکبِ جو کہے فلاں فلاں ستار ہ کی تاثیر کیوجہ سے ہم پر بارش ہوئی وہ کافر ہے (بخار ی جلد اول باب الذکر بعد الصلوٰۃ)ستارو ں کی تاثیرات میں اول تو سینکڑوں وہمی باتیں شامل کردی گئی ہیں لیکن جو علمی طورپر ثابت ہیں و ہ بھی ہزاروں اسبا ب میں سے ایک سبب ہے مسبب الاسباب خداان کانگران اور موکل ہے پس اسی پر توکل چاہیئے ۔
نجومیوں وغیرہ کے لحاظ سے اس رجم شیاطین کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ جس زمانہ میں نبی نہیں ہوتے ۔یہ لوگ خوب دعویٰ کرتے رہتے ہیں ۔لیکن جب نبی ظاہرہوتے ہیں تو ان کو خوب مار پڑتی ہے یعنی فریب کھل جاتاہے ۔اورلوگ مصّفیٰ علم غیب اور تُک بندی میں فرق معلوم کرلیتے ہیں ۔
والارض مددنٰھا والقینا فیہا رواسی وانبتنا فیھا من کل شیئٍ موزونٍ
اورضرور ہم نے زمین کو پھیلایاہے او راس میں ہم نے محکم پہاڑ قائم کئے ہیں اور(نیز)ہم نے اس میں ہرقسم کی موزون(ومناسب) چیزوںکو (پیداکیااور)بڑھایاہے ۔ ۱۸؎
۱۸؎ حل لغا ت ۔وَالْاَرْضَ مَدَدْنٰھَا زمین میں ہم نے کھاد ڈالی ہے ۔یاہم نے اس کو پھیلایاہے ۔مزید تشریح کے لئے دیکھو سورہ رعد ۴؎
مَوزُونٌ وَزَنَ سے اسم فاعل ہے ۔اوروَزَنَہُ ۔وَزَنًاکے معنے ہیں رَازَثقلَۃُ وخِفَّتَہُ وامتحنہ بما یعاد لُہ۔کہ کسی چیز کے بھاری اورہلکے ہونے کا اندازہ کیا۔اوراس کے بالمقابل وزن کی چیز سے اس کے وزن کا اندازہ معلوم کیا (جیسے بٹّوں سے تولتے ہیں )وَفی الاسَاسِ ’’وَزَنْتَ الشیْئَ ورَزنتہ وثقلتہ اذارُزْتہ بیدک لتعرف وزنَہ‘‘اوراساس میں یوں لکھا ہے ۔کہ وَزَنَ۔رَزَنَ اورثَقَلَ ہم معنی ہیں ۔اوران کے معنے ہیں کہ کسی چیز کو ہاتھ میں لے کر اس کاے وزن کا اندازہ کیاجائے ۔اوروَزَنَ تمرَ النخلۃِ وزْنًا کے معنے ہیں۔خرصَہُ وحزرہُ ۔کھجور کے پھل کی مقدار کا اندازہ کیا۔(اقرب) پس موزون کے معنے ہوں گے اندازہ کی ہوئی چیز ۔وزن کی ہوئی چیز یامتناسب۔
تفسیر ۔زمین کو ہم نے پھیلایاہے یااس میں کھاد ڈالی ہے ۔دونوں معنے ہی اس آیت میں چسپاںہوتے ہیں زمین کو اللہ تعالیٰ نے انسانی ضرور ت کے مطابق پھیلایا ہے یعنی ا س قدر وسیع بنایاہے کہ باوجود گول ہونے کے وہ انسان کے لئے تکلیف دہ نہیں ۔بلکہ اس کی گولائی کو وہ محسوس بھی نہیں کرتا اور یہ بھی ٹھیک ہے کہ اس میں کھاد ڈالی ہے کیونکہ زمین نئی نئی طاقتیں دوسرے ستاروں سے حاصل کرتی رہتی ہے ۔بلکہ علم ہئیت سے ثابت ہے کہ دوسرے سیاروں سے زمین پر ذرات گرتے رہتے ہیں اوراس کا حجم بڑا ہورہا ہے ۔وہ بیرونی کھاد اس کی طاقت کو بہت بڑھاتی رہتی ہے ۔کھاد کے بعد پانی کی ضرورت ہوتی ہے ۔سو اس کے متعلق فرمایا۔کہ ہم نے اس میں پہاڑ بنائے ہیں ۔جو برفوںکو سمیٹ کر رکھتے ہیں اورپانیوں کاذخیرہ ان کے ذریعہ موجود رہتا ہے اوردریائوں کی مدد سے سب دنیا میں پھیل کر اسے سیراب کرتاہے ۔
ا سکے بعد فرماتاہے ۔ہم نے ہر مناسب شے مناسب مقدار میں اُگائی یابڑھائی ہے ۔اَنْبَتَ نباتًا (یعنے اُگانا)زمین سے کسی چیز کو بطریقہ نشوونمانکالنے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔لیکن محاورہ میں اس کے معنے بڑھانے کے بھی آتے ہیں ۔مثلا ً قرآن کریم میں حضرت مریم ؑ کے متعلق آتا ہے ۔وَاَنْبَتَہَا نَبَاتًا حَسَنًا(آل عمران ع۱۳/۴) اس جگہ یہ لفظ بڑھانے اورترقی دینے کے معنوں میں استعمال ہواہے ۔آیت زیر بحث میں یہ دونوں معنوں میں استعمال ہواہے۔اوراَنْبَتْنَافِیْہَا مِنْ کُلِّ شَیئٍ مَّوْزُوْنٍ کے معنے ہیں ہم نے زمین میں ہرمناسب چیز پیداکررکھی ہے ۔یااسے ترقی دے رہے ہیں ۔یاہرچیز جس کا ایک اندازہ لگایاگیاہے اُسے اُگایا۔یااسے ترقی دی ہے ۔
یعنی ہر چیز جو اہل دنیا کی ضرورتوں کو پوراکرنے والی تھی وہ ہم نے اس امیں رکھ دی اوروز ن کے معنے اندازہ کے بھی ہیں۔تواس لحاظ سے یہ معنے ہوں گے کہ ہر چیز اندازے کے مطابق ا س میں رکھ دی گئی ہے ۔اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے وہ جانتا ہے کہ کس چیز کی اس میں ضرورت ہے اورکتنی ضرورت ہے ۔اس نے کمیت اورکیفیت دونوں کو ملحوظ رکھا ہے۔
اس آیت کا تعلق پہلی آیتوں سے یہ ہے کہ ان میں قرآن کریم کے نزول اوراس کی حفاظت کے غیر معمولی سامانوں کا ذکر تھا۔جو ایک آسمانی مثال سے ثابت کیا گیا تھا ۔اب زمین کی مثال دی کہ زمین میں بھی ہم نے اس کے نشوونماپا نے اورا سکے کمزوری سے بچانے کے لئے غیر معمولی سامان پیداکررکھے ہیں ۔کچھ بیرونی ہوتے ہیں کچھ اندرونی ۔(۱)آسمان سے گرنے والا مادہ(۲)پہاڑ(۳)اس کی اندرونی طاقتیں ۔یہی حال الٰہی کتاب کا ہوتا ہے ۔وہ آسمان سے مدد پاتی رہتی ہے اس کی تائید میں آئمہ لگے رہتے ہیں اوروہ اپنے اندر ذاتی خوبیاں رکھتی ہے ۔جن کی وجہ سے اس کے مطالب ہر طبقہ کے لوگوں کے لئے جاذب رہتے ہیں ۔
وجعلنا لکم فیھا معایش ومن لستم لہ برٰزقین
اوراس میں ہم نے تمہارے لئے اور(ہر)اس (مخلوق)کے لئے (بھی)جسے تم رزق نہیں دیتے معیشت کے سامان پیداکئے ہیں ۱۹؎
۱۹؎ حل لغات ۔مَعَایش۔مَعِیْشَۃٌ کی جمع ہے۔اورمعیشۃ کے معنے ہیں ۔اَلَّتی تعیش بھا من المَطْعَمِ وَالْمشْرَبِ ۔وہ کھانا او رپیناجس سے انسان زندہ رہتاہے ۔وما تکونُ بہ الحیاۃُ جس پر زندگی کادارومدار ہو۔وَمَا یُعَاشُ بِہِ مِنْ طعامٍ ونحوہ مِمَّا یُکسب۔کھانااوراس جیسی اورضروریات جن کو انسان کما کر حاصل کرتا ہے ۔اس پر بھی معیشت کالفظ بولاجاتا ہے ۔اویعاشُ فیہ من مکان زمانٍ وہ وقت یا جگہ جس میں زندگی بسر کی جائے ۔(اقرب)
تفسیر ۔زمین میں تمہارے لئے ہر قسم کے سامان پیداکئے گئے ہیں ۔اوران کارز ق بھی پیداکیاگیا ہے ۔جن کو تم رزق نہیں دے سکتے ۔ انسان دوسرے حیوانوں پر برتری کا دعویدار ہے۔لیکن رزق جمع کرنے میں کس قدر تکلیف اٹھاتاہے ۔لیکن اللہ تعالیٰ نے ہزاروں ہزارکیڑوں مکوڑوں کارزق کس طرح مہیاکررکھا ہے ۔انسان تو ان کو رزق نہیں دیتا۔مگر پھر بھی سب کو رزق مل رہاہے ۔یہ ایک بالا ہستی کاثبوت ہے جس کی نظر سے اس کی کوئی مخلوق پوشیدہ نہیں ۔اوپر کی آیات سے ا س آیت کا ایہ بھی تعلق ہے کہ روحانی غذائوں کا بھی انسان ہرزمانہ میں محتاج ہوتا ہے ۔ایک زمانہ کے لوگ دوسرے زمانہ کے لوگوں کے لئے صحیح روحانی غذامہیا نہیں کرسکتے ۔اس لئے انسانی علوم بدلتے رہتے ہیں ۔ا سلئے فرمایا ایسے وسیع مطالب والے الہامی کلام کی جو آسمان سے نازل ہو اوراسے محفوظ رکھا جائے ۔ایک یہ بھی ضرورت ہے کہ اگر انسانوں پر معاملہ چھوڑ دیاجائے ۔توآئندہ نسلوں کاوہ کبھی خیال نہ رکھیں ۔اپنے زمانہ کے حالات اورعلوم کے مطابق کلام الٰہی کو ڈھا ل لیں اور اگلے لوگ حیران و پریشان رہ جائیں ۔گذشتہ علوم ان کی تسلی کاموجب نہ ہو ں۔اورنئی ضرورتوں کو کلام الٰہی پورانہ کرتا ہو۔پھر وہ کیا کریں ۔ا س لئے فرمایا۔کہ جس طرح ان جانداروں کا رزق ہم نے مہیا کیا ہے ۔جن کو تم رزق نہیں دے سکتے یا نہیںدیتے ۔اسی طرح ان انسانوں کے لئے ہم نے اس کلام میں ذخیرہ جمع کررکھا ہے ۔جو بعد میں آنے والے ہیں۔اورپہلے زمانہ کے لو گ ان کی روحانی غذاکا انتظام نہیں کرسکتے ۔جب وہ وقت آئے گااللہ تعالیٰ ان خزانوں کو ان کے لئے کھول دے گا۔اور وہ روحانی غذا حاصل کرلیں گے ۔اللہ تعالیٰ کا کیسا احسان ہے ۔اگر قرآن کریم کے علوم گذشتہ زمانہ تک محدود ہوتے ۔توآج روحانی غذاکے طالبوں کے لئے سخت مشکلات ہوتیں۔مگر اللہ تعالیٰ نے اس کلام کو ویسا ہی وسیع بنایا ہے ۔جیسا کہ مادی دنیا کو بکہ اسے زیادہ اورہر زمانہ کے مطابق اس میں علوم نکلتے رہتے ہیں ۔
وان من شیئٍ الا عند خزآئنہ۔وماننزلہ الا بقدر معلو م ۔
اورکوئی چیز ایسی نہیںجس کے (غیر محدود)خزانے ہمارے پاس نہ ہو ں او ر ہم اسے ایک معیّن اندازے سے ہی اُتارتے ہیں۔ ۲۰؎
۲۰؎ حل لغات۔نُنَزِّل۔نَزَّلَ سے مضارع جمع متکلم کاصیغہ ہے ۔اورنَزَّ لَہُ کے معنے ہیں۔صیَّرَہُ نَازِلًااس کو اترنے والا کردیا۔یعنی ایسی حالت میں کردیا کہ اُترے۔القومَ۔اَفزلھُمْ المنازلَ۔لوگوں کو ان کی جگہوں پر اتارا۔الشَّیئَ۔رَتَّبَہُ۔کسی چیز کو مرتب کیا ۔عِیْرَہُ۔قَدَّرلھا المنازل ۔قافلہ کے امام نے قافلہ کے لوگوں کے لئے جگہیں مقرر کردیں (اقرب)تَنزیل اصل میں آہستہ آہستہ اتارنے کو کہتے ہیں ۔
اَلْقَدَرُ۔مایقدّرہ اللہُ من القضائِ۔وہ قضا جس کا اللہ تعالیٰ فیصلہ کرتاہے ۔وعَرَّفہ بعضہُم بانّہ تعلّق الارادۃِ بالاشیائِ فی اوقاتِھا ۔اوربعض نے قدرکی یہ تعریف کی ہے کہ اشیا ء اپنے اوقات پر وقوع پذیر قدر کہلاتاہے ۔مبغ الشیئِ کسی چیز کی حد اورانتہاء ۔الطاقۃ ۔طاقت(اقرب)
تفسیر۔اس آیت میں ایک بہت بڑی صداقت بیان کی گئی ہے ۔اورپہلی آیت کی مزید تفصیل کی گئی ہے ۔ہرچیز کے خزانے اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس رکھے ہیں۔اورضرورت کے مطابق وہ انسانی ذہن و ادھر منتقل کردیتاہے ۔اورلوگ ان خزانوں سے فائدہ اٹھالیتے ہیں ۔زمین میں سبھی کچھ تھا ۔مگر ایک وقت تک انسان نے لوہے کاعلم حاصل نہ کیاتھا۔پھر لوہانکلا۔اوراسے لوگوں نے خوب استعمال کیا۔مگر لوہابے جان تھا۔جب انسان کی ضرورت بڑھی اور اس نے دنیا میںکثرت سے پھرناچاہا۔توپتھر کے کوئلے اوربھاپ کی دریافت ہوئی اوربے جان لوہا جانداروں کی طرح کام کرنے لگا۔ضرورت نے ترقی کی۔توتا ر کی بجلی کی ایجاد ہوئی ۔اس کے بعد بے تار کی بجلی کی ۔غرض ہرزمانہ کے مطابق زمین خزانے اگلتی چلی جاتی ہے ۔اسی طر ح فرماتاہے ۔الٰہی کلام کی بھی حفاظت کی جاتی ہے اس کے خزانے محفوظ رکھے جاتے ہیں اورزمانہ کی ضرورت کے مطابق نازل کئے جاتے ہیں ۔پس کلام الٰہی کو صرف ایک کتاب نہیں سمجھنا چاہیئے کہ نازل ہوگئی اور پھر خداتعالیٰ نے اس سے تعلق چھوڑ دیا۔بلکہ کلام الٰہی ایک دنیا ہے جو ہزاروں خزانوں پر مشتمل ہے جو مختلف زمانہ کے لوگوں کے لئے جب تک وہ خزانہ سب کا سب مستحقین میں تقسیم نہ ہوجائے اس کلام کو بے حفاظت کس طرح چھوڑاجاسکتاہے ۔ہاںجس کلام کاخزانہ خالی ہوجائے چونکہ اس میں کوئی چیز پہنچانے والی نہیں رہی اسے چھوڑ دیاجاتاہے ۔
یاد رہے کہ پچھلی آیات میں گومضمون وہی حفاظت قرآن کا ہے لیکن ان میں مسلمانوں کوبھی خطاب میں شامل کرلیاگیاہے ۔اورحفاظت قرآن کے عقیدہ کے متعلق مسلما ن جن غلطیوںمیں پڑسکتے تھے ۔ان کا جواب بھی دیاگیاہے ۔
وارسلنا الریٰح واقع فانزلنا من السماء مائً فاسقینٰکموہ ۔
اورہم نے (بخارات کو)اُٹھانے والی ہوائیں (بھی تمہارے لئے )چھوڑ رکھی ہیں ۔اور(انکے ذریعہ سے )ہم نے بادلوں سے پانی اُتاراہے ۔پھر وہ تمہیں پینے کو دیاہے ۔
وما انتم لہ بخازنین۔
اورتم (خود) اسے محفوظ نہیں رکھ سکتے۔ ۲۱؎
۲۱؎ حل لغات۔لَوَاقح۔یُقَالُ لَقِحَتِ النَّاقَۃُ لَقَاحًا وکذالک الشَّجَرۃُ۔اونٹنی حاملہ ہوگئی اوردرخت ثمردار ہوگیا۔وَاَلْقَحَ فُلَانٌ النَّخْلَ کھجور کے نرومادہ کو ملایا۔وَاَرْسَلْنَاالرّیَاحَ لَوَاقِحَ اَیْ ذَوَاتِ لَقَاحٍ۔یعنی لَوَاقح کے معنے ہیں ۔وہ ہوائیں جو درختوںسے نرکامادہ لے کر درختوں تک پہنچاتی ہیں (مفردات)اللَّوَاقِح مِنَ الرّیَاحِ الّتی تَحْمِلُ النَّدَی ثُمَّ تمجُہُ فی السّحابِ فاذااجتمعَ فی السحابِ صَارَمَطرًا۔لَوَاقِح ان ہوائوں کو کہتے ہیں ۔جوزمین پر سے اُٹھنے والے بخارات کو لے کر چلتی ہیں ۔پھر بادلوں میں ان کو ملادیتی ہیں (اقرب)
تفسیر۔لوَاقِح ان ہوائوں کو کہتے ہیں جو درختوں می سے نرکامادہ لے کر درخت تک پہنچاتی ہیں ۔اوراس طرح درختوںکو پھل آتاہے ۔ اسی طرح ان ہوائوں کوبھی لواقح کہتے ہیں جو زمین پر سے اُٹھنے والی رطوبت کے لے کر اُڑتی ہیں۔یہاں تک کہ وہ بادلوں کی صورت اختیار کرلیتی ہیں ۔
ہوسکتا ہے کہ اس آیت میں لَوَاقِح سے مراد پانیوں کو جمع کرکے بادل بنانے والی ہوائیں ہوں۔اوریہ بھی ہوسکتاہے کہ دونوں ہی معنے اس جگہ مراد ہوں یعنی ہم وہ ہوائیں بھی چلاتے ہیں جو نردرختوں کامادہ مادہ درختوںپر ڈال کرانہیں پھل لانے کے قابل بناتی ہیں اوروہ ہوائیں بھی چلائی ہیں جو زمینی رطوبتوں کو جمع کرکے بادل کی صورت میں تبدیل کردیتی ہیں اورزمین پر بادلوںکو برساکر ان درختوںکو جو پہلی قسم کی ہوائوں کے ذریعہ سے نرومادہ کا میل کرچکے ہیں کثرت سے پھلدار بناتی ہیں آخر میں یہ بتایا کہ پانی کیسی ضروری شے ہے اورکبھی عام مگرانسان اسے بھی محفو ظ نہیں رکھ سکتا پھر روحانی امور میں وہ کیو نکر اپنے آپ کو محافظ کے مقام پر کھڑاکرنا چاہتاہے ۔
اس آیت میں حفاظت کلام الٰہی کے بارہ میں کفار اورمسلمانوں دونوں کو مخاطب کیاگیا ہے ۔کفار کے اس شبہ کا جواب دیاگیا ہے ۔کہ پہلی کتب کی موجودگی میں قرآن کریم کی کیاضرور ت ہے اوربتایا ہے کہ پانی کی موجودگی میں بادلوں کی کیاضرورت ہوتی ہے ۔بغیر آسمانی بارش کے زمینی پانی کام کانہیں رہتا ۔اورمسلمانوں کو توجہ دلائی ہے کہ قرآن کریم کی موجودگی سے مغرورنہ ہونا۔آسمانی پانی آسمان ہی سے صاف ہوکر ملتاہے ۔جب کبھی تم لوگ اپنے خیالات کو ملا کر کلام الٰہی کے مطالب کو گنداکردوگے اللہ تعالیٰ آسمان سے ایسے سامان کرے گاکہ پھر قرآنی مطالب صاف ہو کر دنیا کو پہنچائے جائیں گے۔
وانا لنحن نحیی ونمیت و نحن الوارثین۔
اوریقیناً ہم ہی (ہرایک کو )جلاتے اورمارتے ہیں اورہم ہی (سب کے ) وارث ہیں ۲۲؎
۲۲؎ حل لغات ۔اَلْوَارِثُ۔وَرِثَ سے اسم فاعل ہے ۔نیزالوارث کے معنی ہیں ۔اَلْبَاقِیْ بعد فنائِ الخلقِ۔یعنی وارث کالفظ خداتعالیٰ پرا س لحاظ سے بولتے ہیں کہ وہ مخلوق کے فنا ہونے کے بعدباقی رہے گا۔وفِی الدّعائِ ’’اللّٰھُمَّ اَمْتِعْنِی بسمعی وبصری وَاجْعلہ الوارث مِنِّ‘‘ ای ابقھما معی صحیحین حتّٰی اَمُوَ۔اورحدیث میں ایک دعاہے
جس میں کان اورآنکھ کے لئے وارث کالفظ استعمال ہواہے۔ جس کے معنے ہیں کہ موت تک وہ صحیح سلامت رہیں (اقرب)
تفسیر۔فرمایا ہم ہی باقی رہنے والے ہیں ۔تم جو فانی ہوبھلا کلام الٰہی کی کیسے حفاظت کرسکتے ہو ۔اس لئے ہم اپنا کلام بندوں کے سپرد نہیں کرتے ۔
ولقد علمنا المستقدمین منکم ولقد علمنا المستاخرین۔
اورہم تم میں سے آگے نکل جانے والوںکو(بھی )یقیناًجانتے ہیںاور(اسی طرح)ہم(تم میں سے)پیچھے رہ جانے والوں کوبھی یقیناً جانتے ہیں ۲۳؎
۲۳؎ تفسیر۔یعنی یہ خیال نہ کروکہ آخر مومن بندے دنیا میں موجود ہیں ۔وہ کیوں حفاظت کاکام نہیں کرسکتے ۔فرماتا ہے ایمان کا دل سے تعلق ہے ۔اور دل کے حالات اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ۔قرآن کریم کی حفاظت محض ظاہر ی علوم پر مبنی نہیں بلکہ قلبی طہارت سے تعلق رکھتی ہے اور اس کاعلم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے کہ کون نیکی میں بڑھا ہواہے اورکون نہیں ۔پس یہ کام اس نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے جسے وہ مستقدم دیکھے گااس کے سپرد یہ کام کرے گااورجو قلبی طہارت میں مستاخر ہوں گے خواہ ظاہری علوم میں کتنے ہی زیاد ہ کیوں نہ ہو ں وہ ا س کا م کے اہل نہ سمجھے جائیں گے۔
وان ربک ھو یحشرھم ۔انہ حکیم علیم
اوریقیناً تیرار ب ہی انہیں جمع کرے گا وہ یقیناً حکمت والا (اور)بہت جاننے والا ہے ۲۴؎
۲۴؎ حل لغات ۔یَحْشُرُ۔حَشَرَ سے مضارع کاصیغہ ہے ۔اورحشَرَ النَّاس کے معنے ہیں ۔جَمَعَہُمْ۔لوگوں کو جمع کیا۔وَیَوْم الحَشْر۔یَوْمُ البعث والمعاثِ وھو ماخوذ من حشر القوم اِذاجَمَعُہُم۔اوریوم البعث کو یوم حشر انہی معنوں کی روسے کہتے ہیں کہ اس دن اگلے پچھلے لوگوںکو جمع کیاجائے گا۔وَالْحَاشِرُ اسمٌ من اسمائِ نبیّ المسلمین۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک نام حاشر بھی ہے (اقرب)
تفسیر ۔حشر کے معنے جمع کرنے کے ہیںاورحشر انہی معنوں کی روسے بعث مابعد الموت کے لئے استعمال کیاجاتاہے ۔کیونکہ اس دن اگلے پچھلے سب انسانوں کو جمع کیاجائے گا۔حشر کالفظ اس اجتماع کے لئے بھی بولاجاتاہے جو نبیوںکے ذریعہ سے اس دنیا میں ہوتاہے یعنی ساری قوم کو اختلاف اورجھگڑے سے نکال کر وحدت کی رسی میں پرودیاجاتاہے ۔کوئی نبی نہیں آیا جس کے ذریعہ سے حشر نہ ہواہو ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے زمانہ میں دیکھو کیسا حشر ہواکہ مختلف الخیال لو گوںکو ایک کلمہ پر جمع کردیاگیااورپھر ساری دنیا میں پھیلا دیاگیا ۔اس آیت میں دونوں حش رکی طرف اشارہ ہے ۔دنیوی حشر کی طرف اس طرح کہ گوآج تیری قوم تیرے خلاف ہے ۔لیکن ایک دن سب کو تیرے ہاتھ پر جمع کردیاجائے گا۔حکیم و علیم کی صفات سے یہ بتایاہے کہ فوری طورپر اس لئے جمع نہیں کیاگیا کہ یہ حکمت کے خلاف ہے۔فوراً لوگ اسی طرح جمع ہوسکتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر تصرف کرکے انہیں جبر کے ذریعہ سے مسلمان بنادیا مگر اس کا کیا فائدہ تھا وہ لوگ جو اس طرح مسلمان ہوتے کسی انعام کے مستحق نہ ہوتے ۔دوسرے ان لوگوں میں جو خاص روحانی طاقتیں رکھتے ہیں اورنبی کو اس کے شروع زمانہ میں پہچان لیتے ہیں ان میں اورکمزوروں میں کوئی امتیاز نہ رہتا اگر ایساہوتاتوابوبکرؓ اورابو جہل میں کیا فرق رہ جاتا ۔سب ہی ایک دم مسلمان ہوجاتے اوردنیا ابوبکرؓ کی قابلیتوں کو اورابو جہل کی نالائقیوں کو جان نہ سکتی ۔پس ایساکرنا حکمت کے خلاف تھا ۔اس لئے خداتعالیٰ نے جبر سے کام نہیں لیا اوراس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قابل جوہروں اورناقص لوگوں اوربالکل ناقابل لوگوں کے حالات دنیا کو معلوم ہوگئے اور اس کے نتیجہ میں دنیا نے ابوبکرعمراورعثمان اورعلی رضوان اللہ علیھم سے اپنے اپنے وقت میں فائدہ اٹھایا۔اگرسب ہی پہلے دن مسلمان ہوجاتے توممکن ہے پہلی سیادت کی وجہ سے لو گ ابوبکرؓ کی جگہ ابو جہل یاویسے ہی کسی آدمی کو اپنا سردار بناتے اوران فوائد سے محروم رہ جاتے جو ابوبکر وغیرہ سابق الایما ن صحابہؓ سے ان کو پہنچے۔علیم کہہ کریہ بتایا کہ گو اس حکمت کی وجہ سے دیر ہوئی ہے مگر اس سے مایوس نہ ہوناچاہیئے خد اجو علیم ہے تم کو بتاتا ہے کہ آگے چل کر سب عرب اس دین کے اصول پر جمع ہوجائے گا۔اُخروی زندگی کے لحاظ سے یہ بتایاکہ ایک دن سب اگلے پچھلے لوگ اللہ تعالیٰ کے حضور جمع کئے جائی گے اور اپنے اپنے اعمال کی جزاپائیں گے ۔پس وہ ابتدائی تکالیف جو مسلمانوں کو پہنچ رہی ہیں ان کا خیال نہ کرنا چاہیئے نہ ان لو گوں کو ناکام سمجھنا چاہیئے جو اس شیطانی اور روحانی جنگ میں فتح سے پہلے مارے جائیں گے کیونکہ اصل روزِجزاء تو مرنے کے بعد آنے والاہے اوراللہ تعالیٰ کی حکمت اورعلم نے اس دنیا کو اصل روزِجزاء نہیں بنایا۔
ولقد خلقنا الانسان من صلصالٍ من حماٍ مسنون ۔
اورانسان کو ہم نے یقیناً آواز دینے والی مٹی سے یعنی سیاہ گار سے جس کی ہئیت تبدیل ہوگئی تھی پیداکیاہے ۲۵؎
۲۵؎ حل لغات۔صَلْصَال:صَلْصَال اسم ہے اس سے فعل ماضی صَلْصَلَ ہے ۔اورصَلْصَلَ الشَّیْئُ کے معنے ہیں صَوَّتَ۔اس چیز نے آوازدی۔صَلْصَلَ الْجَرسُ ۔رجَّع صَوْتہُ۔اوراگر صلصل الجرس کہیں تویہ معنی ہوں گے کہ گھنٹی میں سے سُردار (یعنی وہ جو ٹن کر کے لمبی آواز نکلتی ہے )آواز نکلی۔صلصل فلاناً۔اَوْعَدَہُ وھدّدہُ۔ صَلْصَلَ فلاناً کے معنے ہیں کہ اس کو ڈرایا اوردھمکایاجب صلصل زیدٌ کہیں ۔تواس کے معنے ہوں گے ۔قَتَلَ رئیسَ العسکر زید نے لشکر کے سردار کو قتل کیا (کیونکہ سردار کے قتل کرنے سے ایک شور پڑ جاتاہے )صَلْصَلَ الرَّعدُ۔صفاصوتہ۔بجلی کی آواز میں سریلی گونج پیداہوئی اورصَلْصَلَ کے معنے ہیں الطِّیْنُ الْحُرُّ خُلِطَ بالرّصل وَقِبْلَ الطّیْن مالم یُجْعَلْ خزفاً وہ مٹی جو خالص ہو اورا س کے ساتھ ریت ملی ہوئی ہو اوربعض کہتے ہیں کہ وہ مٹی جو پکائی نہ گئی ہو ۔اورتاج العروس میں اس کے یہ معنے کئے گئے ہیں کہ صَلْصَلَ اللّجامُ وکذٰلک کلُّ یابسٍ یُصَلْصِلُ استَدَّ صَوْتُہ کہ لگام سے سُردار آواز نکلی اورایسے ہی ہر خشک چیز سے جو سُر دارآواز پیداہو اسے صلصال کہتے ہیں ۔وفی روایۃٍ اَحْیَاناً یاتینی مثل صَلْصَلۃ الجرسِ۔ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یاکبھی وحی مجھ پر اس طرح نازل ہوتی ہے جیسے گھنٹی کی لمبی آواز۔والصلصَال:الطّین الحُرّ خُلِطَ بالرّمل فَصَار یَتَصَلْصَلُ اذاجفّ اورخالص مٹی جس می ریت ملادی گئی ہو اسے صَلْصَال کہتے ہیں فاذاطُبِخَ فی النّارِ فھو الفخّارُ۔مگر اسے جب آگ میں پکایاجائے تواسے فخّار کہتے ہیں ۔وقال مجاھدٌالصلصال حَمَأً مَسنونٌ۔اورمجاہد نے کہا ہے کہ صلصال کے معنے سڑی ہوئی مٹی کے ہیں ۔وصلصل الرّجل۔اَوَعْدَ وتَھَدَّدَاورصلصل کافعل جب کسی انسان کی طرف منسوب کریں تو معنے یہ ہوں گے کہ اس نے دھمکی دی ۔اورڈرایا۔وایضاً اذاقتل سَیْدَا العسکرِ۔یایہ کہ اس نے سردار لشکر کو قتل کردیا۔وَتَصَلْصَلَ الغدیرُ اذاجفَّتْ حَمَأتہ۔تصلصل الغدیر اس وقت کہتے ہیں کہ جب جوہڑ کا گاراخشک ہوجائے ۔وفرس صلصالٌ۔حادالصَّوت دقیقہ اورگھوڑے کو صلصال کہتے ہیں جب اس کی آواز تیز اورباریک ہو ۔وقال ابو احمد العسکری یقال للحمارالوحشی الحاد الصَّوت صالٌّ وصلصالٌ۔اورابواحمد عسکری نے کہا ہے کہ وہ گورخر جس کی آواز تیز ہواسے بھی صالٌّ اورصَلْصَال کہتے ہیں ۔وبہ فُسِّرَ الحدیثُ اتحبُّوْنَ ان تکونو ا مثل حمیرِ الصَّالَۃِ کَاَنّہُ یرید صحیحۃ الاجساد ِ شدید ۃَ الاصْوَاتِ لقوّتہا ونشأتِھا اورانہی معنوں کی روسے اس حدیث کی تفسیر کی جاتی ہے ۔جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیاتم چاہتے ہوکہ صالّہ گورخروں کی طرح ہو جائویعنی وہ جو اپنی مضبوطی اورقوت کی وجہ سے صحیح جسموں والے تیزآواز والے ہوتے ہیں ویسے تم بھی بن جائو ۔یہ روایت مجمع البحار میںبھی آئی ہے اورمجمع البحار میں یہ بھی لکھاہے عن ابن عباس الصلصالُ ھوالمائُ یقعُ علی الارضِ فَتَنْشقّ فیجفّ ویصیرُلہ الصَّوْتُ یعنی ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ صلصال اس پانی کو کہتے ہیں جو زمین پر گر کرخشک ہوجائے اوروہ مٹی جس پر وہ گرے خشک ہوکر آواز دینے لگے (خشک زمین کی پپڑیاں)والصلصالُ۔ الطّینُ الیابسُ یصلّ ای یصوّت عند النقر او المنتنُ۔صلصال اس خشک مٹی کو کہتے ہیں جو ٹھکرانے پر آواز دیوے اسی طرح سڑی ہوئی مٹی کو بھی کہتے ہیں ۔حَمَأً:حَمَأُ یحمأُ البئْرَ۔نزع حَماَتَھا حمَاالبئرَ کے معنے ہیں کنوئیں میں سے گارا نکالا۔الحصأُ کُلّ ماکان من قِبَلِ الزوج مثل الاخ والاب اورحَمأخاوند کی طرف سے رشتہ داروں کو بھی کہتے ہیں جیسے خاوند کابھائی یاباپ وغیرہ ہما۔اَلْحَمَأُ:الظِّیْنُ الاسودُ اورحمأکالی مٹی کو بھی کہتے ہیں(اقرب)
مَسْنُون:سَنَّ یَسُنُ سنًّاسے اسم مفعول ہے اورسَنَّ السِّکّینَ کے معنے ہیں اَحَدَّہ چھر ی کو تیز کیا ۔وھٰذاممّایسنُّکَ الطَّعَامِ اے یشحّذک علی اکلِہِ ویُشَھِّیہ الیکَ یعنی یہ چیز ان چیزوں میں سے ہے جو تجھے کھانے کے لئے تیار کردے گی اوراس کی تجھے رغبت دلائے گی۔سَنَّ الطِّینَ ۔عَمَلَہ فخَّارًا اورسَنَّ الطِّیْنَ کے معنے ہیں ۔کہ مٹی کو پکاکر سخت کردیا۔سَنَّ الشیْئَ :سَھّلَہُ کسی چیز کو آسان کردیا۔صَوَّرہ یا اس کی شکل بنادی۔سَنَّ علی القوم سُنَّۃَ۔وَصَفَہاکوئی طریق مقرر کیا (اسی سے لفظ مسنون نکلا ہے کہ ج کامفہوم یہ ہوتاہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے یہ طریق مقرر کیا ہے )اورمسنون کے معنے ہیں۔المُنْتِنُ یعنی بدبودار چیز المسنونۃ الارض الَّتِی اُکِلَ نباتھا اورایسی زمین کو بھی جس کاگھاس ختم ہوچکا ہو ۔مسنون کہتے ہیں ۔
تفسیر ۔اس آیت میں یہ جو فرمایا ہے مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَاٍ مَسْنُون ۔اس کے بارہ میں مفسرین میں اختلاف ہے کہ مِنْ حَمَاٍ مَسنُون میں مِنْ کے کیا معنے ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ اپنے مجرورکے ساتھ مل کر صفت ہے ۔صَلصَال یعنی وہ صلصال جو حَمَائٍ سے بنا ہے (ابوالبقاء ۔کشاف )بعض نے کہا ہے کہ حمائٍ مسنون بدل ہے من صلصال کا (الحوفی بحوالہ محیط اورابوالبقاء)اس صورت میں اس کے یہ معنی ہوں گے کہ صلصال سے ہماری مراد حمائٍ مسنو ن ہے ۔گویا پہلی ترکیب کے لحاظ سے تو اس کے یہ معنے ہیں کہ انسان کی پہلی حالت حَمَائٍ مَّسْنُون کی تھی پھر اس سے صلصال بنا۔اوردوسری ترکیب کے لحاظ سے یہ معنے ہونگے کہ صلصال اورحماء مسنون سے ایک ہی حالت کی طرف اشارہ کرنامطلوب ہے ۔صرف مضمون کی وضاحت کے لئے دوہم معنی الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ۔میری ذاتی رائے یہ ہے کہ بدل کے معنوں کی صورت میں حمائٍ مسنون کو عطف بیان قراردینا زیادہ صحیح ہے کیونکہ بدل میں مقصود دوسر ااسم ہوتاہے ۔ اورپہلا اسم اس کے مفہوم کو قریب کرنے کے لئے لایاجاتاہے ۔اورعطف بیان میں مقصود اسم اول ہوتاہے اوردوسرا اسم اس کے مفہوم کو واضح کرنے کے لئے لایاجاتاہے ۔اوراس آیت میں میرے نزدیک پہلا جملہ یعنی من صلصالٍ اصل مقصود ہے اورمن حمائٍ مَّسْنُون اس کے بیان کے طورپر استعمال ہواہے۔اس ترکیب کے لحاظ سے اس آیت کے یہ معنے بنیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا کہ میں ایک بشر بنانے والاہوں جو آواز دینے والی مٹی سے پیداہوگایعنی ایسے کیچڑ سے جو ایک خاص صورت میں ڈھالاگیاہو یعنی انسانی پیدائش ایسی پانی ملی ہوئی مٹی سے ہے جسے ایک خاص شکل دی گئی ہے ۔اوروہ کھوکھلی ہے جسے ٹھکورنے سے وہ آواز دیتی ہے ۔اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ اول انسان مٹی سے پیداہواہے ۔دوم اسے خاص ترکیب دے کر ایسی طرح تیار کیاگیاہے کہ وہ اپنے اندر خلاء رکھتا ہے ۔سوم جب اسے ٹھکوراجاتاہے تو وہ آوازدیتاہے ۔اس کامطلب یہ ہے کہ انسان کے اندر خداتعالیٰ کی آواز پر لبیک کہنے کی طاقت ہے جس طرح خلادار چیز کو ٹھکوریں تووہ بولتی ہے ۔اسی طرح انسان کو جب اللہ تعالیٰ ٹھکورتاہے یعنی اس کا امتحان لیتا ہے توجو انسان سلامت او راچھاہوتاہے وہ اللہ تعالیٰ کے ٹھکورنے پر جواب دیتاہے اوراس میں سے جواباً آواز آتی ہے اوریہی خصوصیت انسان کی ایسی ہے جو اسے دوسری اشیاء سے ممتاز کرتی ہے یعنی انسان کے اند ر اللہ تعالیٰ کے امتحان کو قبول کرنے کی اورپھر اس کا جواب دینے کی قابلیت ہے ۔
یہ کہ وہ صورت جس میں انسان پہلے بنایاگیا اورجس پر حَمَائٍ مَّسْنُون کے الفاظ دلالت کرتے ہیں کیا تھی اس کاقرآن کریم نے ذکر نہیں کیا۔ممکن ہے وہ بالکل غیر مرئی ہو اورخورد بینی ہو ۔بہر حال جو صورت مٹی سے انسان کو ابتداً ملی۔وہ اسی وقت سے صلصال تھی یعنی یہ قابلیت رکھتی تھی کہ خداتعالیٰ اس کا امتحان لے اوروہ اس کا جواب دے۔
اس مضمون سے ظاہر ہے کہ قرآن کریم انسانی پیدائش میں ایک ارتقا ء کاقائل ہے ۔مگر ایسے ارتقاء کانہیں جو اتفاقاً ہوگیابلکہ وہ انسانی پیدائش کو درجہ بدرجہ توبتاتا ہے لیکن یہ تسلیم نہیں کر تا کہ انسان بننے والا ذرہ کسی وقت بھی انسان کے سوا کچھ اورتھا بلکہ اس کے نزدیک وہ جب بھی اورجس صورت میں بنا تھا اس میں انسان بننے اورالہام کو قبول کرنے کی قابلیت موجود تھی ۔اپنے تما م دوروں میں ایک خاص مقصد کی طرف وہ قدم بڑھا رہاتھا اورڈارون کی تھیوری کے مطابق یہ نہ تھا کہ اس کے بعض حصے نامکمل صورت میں الگ شاخوں میں تقسیم ہوتے گئے ہوں اور کچھ اچھے حصے الگ ہوکر آگے بڑھتے گے ہوں۔
میں نے مسنون کے معنے صورت والی شے کے کئے ہیں گوعام طور پر مفسر اس کے معنے سڑی ہوئی شے کے کرتے ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جیساکہ علامہ ابوحیان نے لکھا ہے (آیت بالا جلد۵)سڑنے کے معنے اَسَنَّ سے پیداہوتے ہیں جو رباعی مزید کاصیغہ ہے اوراس سے اسم مفعول کا صیغہ مسنون نہیں بلکہ مُسَنٌّ بنتا ہے ۔سَنَّ کے معنے ایک طریق کوجارے کرنے یاصورت دینے یاتیز کرنے یا مٹی کو پکاکر اسے ایسا بنادینے کے ہوتے ہیں کہ وہ آواز دینے لگے پس سڑی ہوئی مٹی کے معنے ایک مجازی معنی ہیں ۔حقیقی معنے ایک خاص شکل پر بنائی ہوئی شے یاآواز دینے کے قابل بنی ہو ئی شے کے ہیں ۔
اس آیت میں ان لوگوںکاجواب دیا ہے جو الہام الٰہی کو عجیب سمجھتے ہیں اورحیرت کرتے ہیں کہ انسان کو الہام ہو کس طرح سکتاہے اورفرمایاکہ تعجب کے قابل یہ بات نہیں کہ الہام کیونکر ہوتا ہے تعجب اس بات پر ہونا چاہیئے کہ کسی کو الہام کیوں نہ ہو۔کیونکہ انسانی پیدائش کی ابتداء سے الہا م کی قابلیت انسان میں رکھی گئی ہے اوراس کی پیدائش کی غرض ہی یہ تھی کہ وہ کامل ہو کر الہام الٰہی کو حاصل کرے پس اس پر تعجب نہ کروکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وک الہام کیونکر ہوگیا ۔یا اس الہام کی حفاظت کے لئے آئندہ اس کے اَتْباع کو کس طرح الہام ہوگا۔تعجب اپنی حالت پر کروکہ من صلصال ہوتے ہوئے تم کو کیوں الہام نہیں ہوتا۔اوراپنی حالت کے بدلنے کی طرف توجہ کرو۔
اس آیت سے پہلی آیت یہ ہے وَاِنَّ رَبَّکَ ھُوَ یَحْشُرُھُمْ اِنَّہ حَکِیْمٌ عَلِیْمٌ۔اس کے بعد اس آیت میں خلق آدم کاذکر شروع کیا ہے ۔یہ کوئی اتفاقی امر نہیں بلکہ قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ جہاں بھی خلق آدم کاذکر ہے اس سے پہلے حشر کا ذکر یابعث بعدالموت کے واقعات میں سے کسی حصہ کاذکر ضرورموجو دہے ۔چنانچہ(۱)بقرہ میں آدم کی پیدائش کا ذکر کیا ہے ۔اس سے پہلے فرمایا ہے ۔ کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَکُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ۔تم اللہ تعالیٰ (کی طاقتوں )کاکس طرح انکار کرتے ہو ۔حالانکہ تم پہلے بے جان تھے ۔اس نے تم کو جان دی پھروہ تم کو مارے گا اورپھر زندہ کرے گا پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جا ئوگے۔یہاں بھی موت حیات اورپھر س کی طرف جانے یعنی حشر کا ذکر ہے (۲)سورئہ اعراف میں آدم کا ذکر ہے وہاں بھی اس سے پہلے حشر کاذکر کیا ہے یعنی رکوع اول میں توحشر کاذکر ہے اور رکوع دوم میں آدم کی خلق کا ۔(۳)الحجر کی زیر تفسیر آیت میں بھی ایسا ہی ہے کہ پہلے حشر کا ذکر ہے اوربعد میں ساتھ ہی خلق آدم کا(۴)سورہ کہف میں بھی خلق آدم کا ذکر ہے ۔وہاں بھی پہلے جزاوسزاورمر کر اُٹھنے کا ذکر ہے ۔پھر خلق آدم کا ۔فرمایا وَیَوْمَ نُسَیِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَی الْاَرْضَ بَارِزَۃً وَحَشَرْنَاھُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْہُمْ اَحَدًا۔وَعُرِضُوْاعَلیٰ رَبِّکَ صَفًّا۔لَقَدْ جِئْتُمُوْنَا کمَا خَلَقْنٰکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ بَلْ زَعَمْتُمْ اَلَّنْ نَجْعَلَ لَکُمْ مَّوعِدًا(ع۶)اورپھر فرمایا وَاِذْقُلْنَالِلْمَلٰٓئِکَۃِ اسْجُدُوْالِاَدَمَ فَسَجَدُوْااِلَّااِبْلِیْسَ الآیۃ ع۴(۵)طٰہٰ میں جہاںآدم کا ذکر ہے وہاں پر بھی رکوع ۵ میں حشر کاذکر ہے فرماتاہے یَوْمَ یُنْفَخُ فِیْ الصُّوْرِ وَنَحْشُرُالْمُجْرِمِیْنَ یَوْمَئِذٍزُرْقًااوراس کے آگے تفصیلات بھی حشر کی بیان ہو ئی ہیں ۔پھر رکوع چھ کے آخر میں اوررکوع سات میں آدم کی پیدائش کاذکرشروع ہوگیا ہے ۔فرماتاہے وَلَقَدْ عَھِدْنَااِلیٰ اٰدَمَ الآیہ(۶)سورئہ ص میں بھی دوزخ و جنت کا ذکر کرکے حضرت آد مؑ کا ذکر کیاہے ۔(رکوع۴و۵)غرض ان ساری آیات پر غور کر نے سے ایک معاند قرآن بھی سمجھ سکتا ہے کہ قرآن کریم کے نازل کرنے والے کے ذہن میں کوئی ترتیب ضرور ہے اوروہ لو گ جو کہتے ہیں کہ قرآن میں کوئی ترتیب نہیں وہ غلطی پر ہیں ورنہ کیا وجہ ہے کہ موسیٰ اوردیگر انبیاء کاذکر تو بغیر حشر کے ذکر کے آجائے مگر جہا ں بھی حضرت آدم کی پیدائش کا ذکر آئے اس سے پہلے حشر کا ذکر ضرو ر موجودہو ۔خواہ وہ منکر اس ترتیب کو سمجھے یانہ سمجھے۔بہر حال اس پر اس قدر تو ضرور ثابت ہو جائے گاکہ قرآن کریم کے نازل کرنے والے کے ذہن میں ضرور کوئی خاص ترتیب تھی جس کی وجہ سے آدم کاذکر ہمیشہ حشر کے ذکر کے ساتھ آتاہے ۔
قرآن کریم میں ایسی کئی مثالیں ہیں کہ کئی جگہ پر ایک ہی طرز کاذکر بار بار آتاہے ۔مثال کے طور پر میں ایک بات کو بیان کرتاہوں کہ قرآن کریم میں جہاں کہیں اسلام کی آیندہ ترقی اورعالمگیر تبلیغ کاذکر آتاہے وہاں پر ضرورحضرت مسیح علیہ السلام کا ذکر آتا ہے ۔تمام قرآن کریم میں تین جگہ یہ ذکر ہے اورتینوں جگہ مسیح علیہ السلا م کا ذکر ہے ۔میرے نزدیک قرآن کریم کے مضامین کی ایک نہ ایک کنجی ضرور ہوتی ہے ۔ بعض وقت اس کنجی کا الہام کے ذریعہ سے ہوجاتاہے ۔اوربعض وقت انسان خود غوروفکر کرکے اپنی عقل سے مددلے کر اس کو پالیتاہے ۔ مجھے ایک دفعہ بطور القاء بتایاگیاتھا کہ سورہ بقرہ کی کنجی یَتْلُو عَلَیْھِمج اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ والی آیت ہے ۔ چنانچہ میں نے اس کنجی کی مدد سے تمام بقرہ کو حل کرلیاتھا ایسا ہی ایک دفعہ خداتعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ بِسْمِ اللہ ہرایک سورۃ کی کنجی ہے ۔تبھی ہر سورۃ کے ساتھ نازل ہوئی ہے(سورہ توبہ علیحدہ کوئی سورۃ نہیں بلکہ انفال کا حصہ ہے )یہ توایک ضمنی بات ہوگئی ۔میں یہ کہہ رہاتھا کہ ہر جگہ حشر کے ساتھ آدم کامذکورہونا بتلاتاہے کہ ان دونوں امور میں گہراتعلق ہے ۔وہ تعلق کیا ہے؟ اول تویہ تعلق ہے کہ حشر اجساد کامسئلہ کلی طور پر آدم کی پیدائش کے ساتھ وابستہ ہے ۔کیونکہ اگر ایک عاقل و قادروجود نہ ہو توحشر اجساد کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا۔حیوانات کسی شریعت پر عامل نہیں کیونکہ وہ معذور ہیں ۔اس لئے کسی جزاسزاکے مستحق نہیں اورکسی حقیقی حشر کے محتاج نہیں ۔فرشتے بھی کسی جزاوسزا کے مستحق نہیں کیونکہ گووہ نیک ہیں لیکن بہرحال مجبورہیں اوریَفْعَلُوْنَ مَایُؤمَرُوْنَ (نحل ع۶)کے مقام والا کسی حشر کامحتاج یا مزید جزاء کا مستحق نہیں ہوتا۔شیطان کی پیداائش انسان کے تابع ہے ۔مگر بہرحال انسان کے سواجو بھی شیطان ہے وہ کسی سزا کا مستحق نہیں کیونکہ اپنا فرض پوراکررہاہے ۔جس طرح ا س دنیا کی گندی اشیاء سزا کی مستحق نہیں کہ وہ کیوں گندی ہیں ۔اسی طرح انسان کے سوا جو شیطان ہیں ۔و ہ بھی سزاکے مستحق نہیں ہاں جو انسانوں میں سے شیطان ہیں وہ ضرور سزا کے مستحق ہیں اورحشر انہی بد انسانوں اورنیزنیک انسانوں کے لئے مقرر کیاگیا ہے۔پس پیدائش انسانی ہی شر کاموجب ہے ۔اور اس وجہ سے ہرجگہ جہاں آدم کی پیدائش کاذکر ہے اس سے پہلے حشر کاذکر کیاگیاہے تابتایاجائے کہ انسانی پیدائش کا تقاضاہے کہ کوئی حشر ہو اورحشر کا تقاضا ہے کہ کوئی شریعت ہو ورنہ بغیر حجت کے جزاسزابے معنی ہوجاتی ہے ۔دوسراتعلق ان دونوں مضامین کا یہ ہے کہ خلق انسانی حشر کی دلیل ہے ۔میں بعض دلائل اس دعویٰ کی تائید میں ذیل میں درج کرتا ہوں :۔
(۱) انسانی پیدائش کائنات کی ادنیٰ ترین حالتوں سے ترقی کرکے مکمل ہوتی ہے ۔پس یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کوئی دارالجزاء بھی ہے ۔اگر انسان پہلے ہی سے ایک خلقت میں پیداہوتا۔توکہا جاسکتاتھا کہ یہ اتفاقی واقعہ ہے دوسری چیزیں بھی طبعی تغیرات کے نتیجہ میں بن گئی تھیں۔یہ بھی بن گیا۔لیکن ادنیٰ حالتوں سے مختلف تغیر ات کے بعد انسان کابننا اورانسان کے بن جانے کے بعد نئی مخلوق کے لحاظ سے ترقی کارک جانا یہ بتاتا ہے کہ انسانی پیدائش ایک ارادے کے ماتحت تھی اورتخلیق کا مقصود تھی ۔
(۲) دنیا میں دوطاقتو ں کاوجود پایا جاتاہے ایک طاقت خیر کی ہے اوردوسری شرّ کی ہے۔ انسان کے اند ران دونوں طاقتوں کاپایاجانا اورپھر اس میں دونوں پر قبضہ پانے کی قابلیت کاہونا بتاتا ہے کہ انسان کو دنیا پر حکومت کرنے کے لئے بنایا گیا تھاپس اس کی زندگی کانتیجہ اس کے عمل سے کچھ زیادہ ہوناچاہیئے اوراس کا تقاضا حشرہے۔
(۳)اس دنیا کی ترقیات طبعی قوانین سے وابستہ ہیں نہ کہ اخلاقی اور روحانی امور سے اورانسانی پیدائش صاف طور پر ظاہر کر رہی ہے کہ اس کے وجود کا بڑ اجزو اخلاقی اورروحانی حالات ہیں۔پس اس دنیا کی ترقیات اس کے لئے منزل مقصود نہیں ہوسکتیں اوراخلاقی اورروحانی قربانیوں کے لئے کوئی اورمقام جزاہوناچاہیئے۔
یہ جو فرمایا ہے مِنْ حَمَائٍ مَّسْنُون اس سے یہ بتایاگیا ہے کہ انسان کی پیدائش پانی اورمٹی سے ہے کیونکہ حَمَائٍ مٹی اورپانی کی ملی ہوئی چیز کو کہتے ہیں ۔دوسری جگہوں پر خداتعالیٰ نے علیحد ہ علیحدہ ان دونوں چیزوں سے پیدائش کاذکر کیا ہے ۔مثلاًپانی کے متعلق فرمایا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآئِ کُلَّ شَیْئٍ حَیٍّ (انبیاء ع ۳)دوسری جگہ مٹی سے پیدائش کویوں ظاہر فرمایا ہے کہ اِنَّ مَثَلَ عِیْسیٰ عِنْدَاللّٰہِ کَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَہ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ(آل عمران ع۶)ان دونوں آیتوں میں توپیدائش کا ذکر علیحدہ علیحدہ طور پر پان اورمٹی سے کئے جانے کاکیا ہے۔مگریہاں سورۃ الحجر میں دونوں کو جمع کردیا ہے کہ حمَائٍ مَّسْنُون سے انسان پیداہواہے۔یعنی اس مٹی سے جس میں پانی ملایاگیا اورپھر ایک خاص صورت دے کر اسے بولنے کے قابل بنایاگیا چنانچہ مِنْ صَلْصَالٍ کہہ کر قوت ناطقہ کی طرف واضح طور پر اشارہ کردیاگیا ہے ۔اوربتایاہے کہ ایک حد تک سب ہی حیوانوں کی پیدائش حَمَّائٍ مَسْنُون سے ہوئی ہے ۔لیکن انسانی پیدائش میں حمائٍ مسنو ن کی صفت صلصالیت کاظہور نمایاں ہے ۔اسی لحاظ سے انسان کو حدیث میں صالّۃ بھی کہاگیا ہے ۔اور وہ بھی صلصال کی طرح کالفظ ہے ۔پس کوئی وجہ نہیں کہ صال کالفظ تو انسان کے لئے بولاجاوے مگر صلصال کالفظ نہ بولا جائے اس لفظ میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ انسان کابولنا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے ۔کیونکہ صلّ یا صلصل ایسی آواز پر دلالت کرتاہے جو ٹھکورنے سے پیداہوتی ہے اوریہی حقیقت انسان کی ہے کہ وہ کلام جس کی خاطراس کو پیداکیا گیا ہے وہ اس میں تبھی پیداہوتاہے جب اس کو خداتعالیٰ کی طرف سے ٹھکوراجاتاہے یعنی الہام الٰہی نازل ہوتاہے اوراس کو مشکلات اورمشقتوں سے گذاراجاتاہے اوریہ جو فرمایاکہ انسان حماء مسنون سے بنایاگیاہے ۔اس کایہ مطلب نہیں کہ وہ بے جان مٹی سے بن گیاہے بلکہ(۱) چونکہ حیوانی بغیر جسم کے ترقی نہیں کرسکتا اورجسم مٹی سے بنتا ہے اس لئے اس کی طر ف اشارہ کیاگیاہے کہ تاانسان کومعلوم ہو کہ اس کی ابتداء کہاں سے ہوئی ہے ۔
یہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ سائنس کا یہ دعویٰ کہ حیوانی مادہ حیوان سے ہی پیداہوسکتاہے ۔خود قابل تحقیق ہے کیونکہ اس کی دلیل صرف ہماراموجودہ مشاہدہ ہے اوریہ امر ظاہر ہے کہا جس وقت یہ حیوانی مادہ پیداہوااس وقت کے حالات اورموجودہ حالات میں بڑافرق ہے ۔ سائنس بھی اس امر کو تسلیم کرتی ہے کہ یہی حیوانی مادہ کسی وقت میں ترقی کرکے انسان بن گیاتھالیکن اب ویسا نہیں ہوتا پس اس سے صاف معلوم ہوتاہے کہ ابتدائے آفرینش کے حالات میں اوراس وقت کے حالات میں بہت بڑا تغیر ہے ۔اس وقت زندگی پیداکرنے کی رَو نہایت ہی تیزتھی اوراب اتنی نہیں ۔ہوسکتاہے کہ ان حالات کے ماتحت بے جان ذرات ہی بعض تغیرات کے ماتحت زندہ ذرات میں تبدیل ہوجاتے ہوں اوربعد میں زمین کے کامل ہوجانے پر وہ حالات نہ رہے ہوں ۔پس متفرق حالات کا ایک دوسرے پر قیا س کرنا سائنس نہیں کہلاسکتا۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ مٹی سے یکدم انسان بن گیا کیونکہ قرآن کریم خلق عالم کی تدریجی پیدائش پر بار بار زور دیتا ہے اورہم دیکھتے ہیں کہ تناسل والی خلق میںبھی (قرآن میں اَللّٰہُ یَبْدَئُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ فرماکر دوحلقوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے )تدریج پائی جاتی ہے (یہ نہیں ہوتا کہ ادھر میاںبیوی ملیں تو ادھر بچہ پیداہوجائے)توکیوں پہلی خلقت میں تدریج نہ ہوگی پس اس آیت میں صرف اس ابتداء کی طرف اشارہ ہے جس وقت حیوانی قابلیتوں سے ترقی کرکے انسان میں اس کی امتیازی قابلیت پیداہوئی اوروہ حماء مسنون کی صلصال والی حالت ہی تھی یعنی جس میں قبولیت الہا م کا مادہ پیداہوایایہ سمجھیں کہ صرف اس کی اس ابتداء کی طرف اشارہ ہے کہ جہاں سے اس کی حیات محض شروع ہوئی تھی ۔اگر یہ کہاجائے کہ یہ کیونکر تسلیم کیاجائے کہ اس سے انسانی یاحیوانی پیدائش کی ابتداء کی طرف اشارہ ہے اورکیوںنہ سمجھاجائے کہ قرآن کریم کے نزدیک انسان کی پیدائش کی ابتداء ہوئی ہی اس طرح تھی کہ مٹی کا پُتلابنایا اور اس میں جان ڈال دی تو اس کاجواب یہ ہے کہ خودقرآن کریم سے ثابت ہے کہ اس آیت میں ابتداء کاذکر نہیں چنانچہ سورئہ روم ع۳ میں آتاہے اَنْ خَلْقَکُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ اِذَا اَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُوْنَ کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو خشک مٹی سے پیداکیاہے پھر تم بشر بن گئے اوردنیا بھر میں پھیل گئے ۔اب یہ امر آیت زیر تفسیر کے خلاف ہے کیونکہ اس میں حمائٍ مَّسْنُون سے پیدائش انسانی لکھی
ہے اوراس آیت میں تراب یعنی خشک مٹی سے لکھی ہے ۔پس معلوم ہواکہ خشک مٹی ابتدائی کڑی ہے مگر سورہ حجر میں اس ابتدائی ذکر کو چھو ڑ کر اس کے بعد کی حالت کو بیان کردیاگیا ہے ۔سورۃ فاطرع۲ میں اوربھی فرق کردیاگیا ہے وہاں فرماتاہے ۔وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَۃٍ یعنی اللہ تعالیٰ نے تم کو خشک مٹی سے پیداکیا ہے پھر اس کے بعد نطفہ سے۔اس آیت میں اول توحمائٍ مسنون کو ترک کردیاہے ۔دوسرے تراب کے بعد پیدائش کی ایک اورکڑی بیان کی ہے جو نطفہ ہے ۔سورہ مومن میں اس سے بھی مختلف پیرایہ میں پیدائش کا طریق بتایا ہے ۔فرماتا ہے ھُوَالَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَۃٍ مِنْ عَلَقَۃٍ ثُمَّ یُخْرِجُکُمْ طِفْلًا(مومن ع۷)کہ نطفہ کے بعد بھی یکدم انسان نہیں بنا ۔بلکہ اس کے بعد ایک اورتغیّر ہواہے اوروہ یہ کہ نطفہ علقہ بنا اورپھر اس سے انسان بنا ۔مگر سورئہ حج میں اس میں بھی زیادتی کردی گئی ہے اورفرمایا ہے فَاِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ ثُمَّ مِنْ مُضْغۃٍ مُّخَلَّقَۃٍ وَّغَیْرَ مُخَلَّقَۃٍ(الحج ع۱)کہ علقہ کے بعد بھی یکدم انسان نہیں بنا بلکہ اس کے بعد ایک اوردرجہ ہے یعنی علقہ سے مضغہ بنتاہے اوروہ مضغہ بھی دوطرح کاہوتاہے کامل اورغیر کامل پھراس سے انسان بنا ۔مگراس پر بھی بس نہیں کی ۔ سورئہ مومنون میں ان کڑیوں پر اورزیادتی کی گئی ہے فرماتاہے ولقد خلقنا الانسان من سلالۃٍ من طین ثم جعلنہ نطفۃ فی قرارٍ مکین ثم خلقنا النطفۃ علقۃ فخلقنا العلقۃ مضغۃً فخلقنا المضغۃً عظاماً فکَسَوْنَا العِظامَ لحمًا ثم اَنشاناہُ خلقًا اٰخرَ فتبارک اللہ احسنُ الخالقین(مومنون ع۱)یہاں پر تین کڑیاں زائدبیان کی ہیں اوربتایاہے کہ مضغہ کے بعد بھی یکدم انسان نہیں بنا بلکہ پہلے عظام بنتی ہیں پھر عظام پر گوشت چڑھایاجاتاہے پھر ایک اورپیدائش ہوتی ہے کہ ان بظاہر بے جان مادوں سے ایک جاندار شے پیداہوجاتی ہے ۔ان آیات پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتاہے کہ قرآن کریم بعض دفعہ درمیانی وسائط کوچھوڑ دیتا ہے پس حَمَائٍ مَّسْنُون سے یہ نتیجہ نکالنا غلط ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک مٹی کا ایک بت بنا کر اس میں روح ڈال دی گئی تھی اوروہ چلتا پھرتاانسان بن گیاتھا بلکہ قرآن کریم کی تعلیم سے ظاہر ہے کہ انسانی پیدائش مختلف حالات سے گذر کر ہوئی اورمٹی کے الفاظ دیکھ کر یہ نتیجہ نہیں نکال لینا چاہیئے کہ انسان فورًامٹی سے گھڑ کر بنادیاگیاتھا(جیسے کہ عوام کا خیال ہے)بلکہ صرف اتنا مطلب ہے کہ مٹی سے ابتداہوئی اوریہ امر یقینی طورپر ثابت ہے کیونکہ انسان اب بھی اپنی غذامٹی سے ہی حاصل کرتاہے اورکسی چیز کی غذااسی سے لی جاتی ہے جس سے وہ چیز بنی ہو ۔ورنہ غذاغذاہی نہیں بن سکتی۔مثلاً لوہا اگر گھس جائے تو اس کی جگہ لوہا ہی لگایاجائے گا دوسری چیز اس کاکام نہیں دے سکتی ۔پس ہماری غذاچونکہ مٹی کے اجزاء سے بنتی ہے یہ ظاہر ہے کہ ہماری پیدائش بھی اسی قسم کے اجزاء سے ہے جو مٹی کے تیار کرنے میں خرچ ہوئے ہیں اورانسان پیدائش عالم کی آخری ارتقائی کڑی ہے کوئی باہر سے آئی ہوئی شے نہیں ۔میں س جگہ انسانی پیدائش پر تفصیلی بحث نہیں کرتا اس کا مناسب مقام سورئہ بقرہ یاسورئہ اعراف کی آیا ت ہیں ۔
والجٓانَّ خلقنہ من قبل من نار السموم۔
اوراس سے پہلے جنّوں کو یقیناً ہم نے سخت گرم ہواکی (قسم کی )آگ سے پیداکیاتھا ۶۶؎
۶۶؎ حل لغات۔اَلْجَانَ:جَنَّ یُجنَ جَنًّاو جُنُوْنًا کے معنے ہیں ۔سَتَرَ ہٗ وَاَظْلَمَ عَلَیْہِ پردہ ڈال دیااوراندھیرکردیا ۔ جَنَّ الَّیْلُ:اَظْلَم وَاخْتَلطَتْ ظُلمتُہٗ۔رات کی تاریکی چھا گئی ۔وَجَنَّ الْجَنِیْنُ فی الرّحم استتر۔جنین رحم میں پوشیدہ ہوگیا۔وَالْجَانُّ اسم فاعلٍ اورجانّ اسم فاعل ہے یعنی اندھیر کردینے والا۔یاپوشیدہ ہوجانے والا۔واسم جمع للجنّ۔اوریہ جنّ کی اسم جمع بھی ہے ۔حیَّۃٌ بیضائُ کَحلاء العین لَاتُوذِیْ۔اوراس سفیدسانپ کو بھی جو سرمگین آنکھوں والاہو جانّ کہتے ہیں ۔ایسے سانپ میں زہر نہیں ہوتااوروہ کاٹتا نہیں (اقرب) وَالْجَانَ ابوالجنّ اورجنّوں کے مورث اعلیٰ کوبھی جانّ کہتے ہیں ۔(تاج)
السّموم:سَمَّ یسُمّ سمًّا سے اسم ہے ۔سَمَّ الطَّعَامَ کے معنے ہیں۔جَعَلَ فِیْہِ السَّمَّ کھانے میں زہر ڈال دیا۔سَمّ الْاَمْرَ کے معنے ہیں ۔سَبَرَہُ ونَظَ غَوْرَہُ کہ معاملہ کی تحقیقات کی اوراس کی حقیقت معلوم کی ۔سَمَّتِ الرّیح سُمومًا۔اَحْرَقَتْ گرم ہوانے چیزوں کو جھلس دیا۔والسَّمومُ:الرِّیحُ الحارَّۃ،سموم گرم ہواکوبھی کہتے ہیں ۔اس کی جمع سمائم ہے ۔وقال ابوعبیدۃ السَّموم بالنَّہارِ وقد تکون باللّیلِ۔اورابوعبیدہ نے کہاہے کہ سموم دن کو ہوتی ہے اورکبھی کبھی رات کو بھی ۔الحرُّالشدید النافذ فی المسام ّاورسموم اس شدت گرمی کو بھی کہتے ہیں جو مسامات میں گھس جانے والی ہو۔(اقرب) محیط میں لکھا ہے کہ اابن عباسؓ نے کہاہے کہ سموم اس شعلہ والی آگ کو کہتے ہیں ۔جس میں دھواں نہ ہو یعنی شعلہ والی آگ یاانگارہ والی۔ان سارے معنوں کو مدنظر رکھیں تومعلوم ہوتاہے کہ السَّموم اس چیز کو کہتے ہیں جو باریک طور پر اند ر گھس جائے اورپھر اثر کرے۔سمّ(زہر)کو بھی سَمّ اسلئے کہتے ہیں کہ وہ بھی عروق کے ذریعہ جلد انسان کے جسم میں سرایت کرجاتا ہے اورفورًاانسانی زندگی کا خاتمہ کردیتاہے چنانچہ بعض ایسے زہر بھی ہیں جو صرف سونگھنے سے یاصرف جسم پر ملنے سے اثر کرجاتے ہیں ۔
تفسیر ۔جانّ جیساکہ لغت سے ظاہر ہے جنّ کا اسم جنس بھی ہے اوراس کے معنے پردہ ڈالنے والے یااندھیر اکردینے والے کے بھی ہیں۔اورتاریک ہو جانے اورپوشید ہ ہونے کے بھی۔پس وضع لغت کے لحاظ سے ہر وہ شے جو دوسری شے کو پوشیدہ کردے ۔اس پر پردہ ڈال دے یاتاریک کردے وہ جنّ ہے ۔یاہر وہ شے جو خدو تاریکی میں بڑھ جائے یا نظرو ں سے پوشیدہ ہویاپوشیدہ ہوجائے جنّ ہے۔عام خیال کے مطابق جنّ ایک ایسی مخلوق ہے جوانسانو ںکو نظرنہیں آتی سوائے اس کے کہ وہ خود اپنے آپ کو ظاہر کرے۔اس قسم کی مخلوق کے متعلق دنیا میں عام خیا ل پایاجاتاہے بعض قومیں یہ عقیدہ رکھتی ہیں کہ فرشتے ہی اچھے اور بُرے ہوجاتے ہیں اور اس طرح وہ فرشتوں اورشیطانوں یا جنّوں کو فرشتو ں کی دوقسمیں قرار دیتے ہیں ۔ہندوئوں میں یہ خیال پایاجاتا ہے کہ گندھروا اوراپسرا دوقسم کی ارواح ہیں جو نظرنہیں آتیں۔گندھرواخشکی کی روحیں ہیں اوراپسراسمندری روحیں ہیں ۔دونوں کے ملنے سے نسل انسانی چلی ہے ۔چنانچہ ان کے نزدیک گندھروا اوراپسرا سے یامااوراس کی توام بہن یامی پیداہوئی اوریہ پہلا انسانی جوڑاتھا۔گندھرواکے متعلق ان کا خیال ہے کہ ان کی الگ زمین ہے اورالگ گھوڑے ہیں اودریائے سندھ کے اس پار رہتے ہیں۔چنانچہ ان کے نزدیک ٹیکسلا کاشہر بھی گندھروادیسا میں ہے (انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا جلد۱۰زیر لفظ گندھروااورجلد دوم زیر لفظ اپسرا)
زدشتیو ںمیں بھی یہ خیال پایاجاتاہے مگر کسی قدر اختلاف کے ساتھ ۔ان کے نزدیک خدادوہیں ایک نیکی کاخدااوراس کانام اہرمزدہے اورایک بدی کا خدااس کانام اہرمن ہے ۔نیکی کے خداکا بھی ایک لشکر ہے۔جن کو فرشتے کہناچاہیئے ۔اسی اہرمن کابھی ایک لشکر ہے جسے ہماری اصطلاح میں شیطانوں کی جماعت کہناچاہیئے ۔
یونانیوں میں بھی بعض اچھی اوربری ارواح کاخیال پایاجاتاتھا۔چنانچہ فیشا غورس اوافلاطون کے تابعین میں یہ خیال پایاجاتاتھاکہ انسانوں کے علاوہ بعض نہ نظر آنے والی ارواح ہیں جن میں سے کچھ بداورکچھ نیک ہیں۔
(انسائیکلو پیڈیا ببلیکاجلد او ل زیرلفظ ڈیمن)
یہود میں فرشتوں اورشیطانوں کی صورت میں نہ نظر آنے والی ہستیوں کے وجود کااقرارپایاجاتا ہے چنانچہ صحف موسیٰ میں فرشتوں کا ذکربھی موجود ہے اوشیطانوں کا بھی اورگندی ارواح کابھی ۔چنانچہ فرشتو ں کاذکر حضرت یعقوب کی خواب میں ہے ’’اورخواب دیکھا اورکیا دیکھتاہے کہ ایک سیڑھی زمین پر دھری ہے اوراس کا سراآسمان کو پہنچا ہے ۔اوردیکھوخداکے فرشتے اس پر سے اُترتے چڑھتے ہیں۔‘‘ (پیدائش باب۲۸آیت ۱۲)شیطان کا ذکر حضرت آدم کے قصہ میں آتاہے جب شیطان نے حضرت حوّاکو ورغلا کر ممنوع درخت کا پھل کھلایا ۔اس جگہ اس کانام سانپ رکھا ہے لیکن مراد شیطان ہی ہے اورسانپ سے جن یا بدروحوں کو مراد لینا قدیم محاورہ ہے ۔عربی زبان میں بھی سانپ کاایک نام جانّ ہے اورہندوئوں یونانیوں وغیرہ میں بھی یہ خیا ل پایاجاتاہے کہ بعض سانپ جنات کی قسم سے ہیں ۔
بدارواح کا ذکر استثناء باب ۳۲آیت ۱۷میں یوں آتاہے’’انہوں نے شیطان کے لئے قربانیاں گزارنیں نہ خداکے لئے بلکہ ایسے معبودوں کے لئے جن کو آگے وے نہ پہچانتے تھے جو نئے تھے اورحال میں معلوم ہوئے اوران سے تیرے باپ دادے نہ ڈرتے تھے ۔‘‘اس جگہ شیطانوں سے مراد بدارواح ہیں کیونکہ لکھا ہے کہ بنی اسرائیل انہیں پہلے نہ جانتے تھے ۔ورنہ شیطانوں کو تووہ جانتے تھے بائبل کے علاوہ یہود کے لٹریچر میں جنّات پر خاص زورہے شرکی ربیّ الیعذر میں لکھا ہے کہ جنّ شمالی علاقوں میں رہتے ہیں اورمیگاتی میں لکھااہے وہ فرشتوں کی طرح اُڑتے ہیں ۔شبات طالمود میں لکھ اہے۔انسان ان سے تعلق رکھ سکتے ہیں اوروہ آسمان کی خبریں سن لیتے ہیں (جیوئِشْ انسائیکلو پیڈیا زیر لفظ ڈیمن)
مسیحیوں میں بدارواح کاذکر خاص اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اناجیل میں بدروحوں کے نکالنے کو یسوع کاخاص کام بتایا ہے بلکہ ان کے بعد ان کے حواری بھی بدروحوں کو نکالتے رہے ۔اناجیل کے بیان کے مطابق تویو ں معلوم ہوتاہے کہ اس زمانے میں جنّات دیوانے ہورہے تھے ہرشہر ہر قصبہ میں لوگوںپر آکر قبضہ کرلیتے تھے اوربعض دفعہ تو سینکڑوں آدمیوں پر یکدم قبضہ کرلیتے تھے (دیکھو متی باب۸،۶و۲۸باب۱،۳۲و ۳۴)
مسلمانوں کا عام عقیدہ یہ ہے کہ نظر نہ آنے والی ارواح تین قسم کی ہیں (۱) فرشتے جو سب نیک ہیں بعض کے خیال میں ان میں سے بعض بد بھی ہوجاتے ہیں جیسے کہ شیطان کہ وہ پہلے فرشتہ تھایاہاروت ماروت(۲)شیطان کہ وہ سب برے ہوتے ہیں (۳)جنّ کہ وہ نیک بھی ہوتے ہیں او ر بد بھی جو جنّ بدہوتے ہیں وہ لوگوں پر قبضہ کرلیتے ہیں اوربعض تدابیر سے جنّوں پر قبضہ بھی کیا جاسکتاہے اوان سے کام بھی لیاجاسکتا ہے ۔
قرآن کریم میں جہاں تک الفاظ کا تعلق ہے فرشتوں ورشیطانوں اورجنّوں تینوں کا ذکر ہے اوریہ بھی معلوم ہوتاہے کہ جن نیک بھی ہوتے اوربد بھی جیساکہ سورئہ جنّ میں آتا ہے مِنَّا الصّٰلِحُونَ وَمِنَّ دُوْنَ ذٰلِکَ(جن ع۱)یعنی جنوں نے ایک دوسرے کو کہاکہ ہم میں سے نیک بھی ہیں اوربرے بھی اوریہ بھی معلوم ہوتاہے کہ جن انسانوں کیتابع بھی ہوجاتے ہیں اوان کے کام کرتے ہیں جیسے حضرت سلیمانؑ کے بارہ میں آتاہے مسنَ الْجِنِّ مَنْ یَّعْمَلُ بَیْنَ یَدَیْہِ بِاِذْنِ رَبِّہٖ(سباء ع ۸/۲)یعنی جنوں می سے بھی کچھ افراد حضرت سلیمانؑ کے حکم کے ماتحت اوراللہ تعالیٰ کی اجازت سے ان کے کام کیاکرتے تھے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ جنّ حضرت موسیٰ پر بھی ایمان لائے تھے اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایمان لائے(سورہ جنّ ع۱)
احادیث میں بھی جنوں کا ذکر ہے لکھا ہے کہ جنوں کا ایک قافلہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لئے آیا (مسلم جز اول باب الجہر بالقرأۃ فی الصبح)اوریہ بھی آتا ہے کہ ہڈی گوبر وغیرہ جنّوں کی غذا ہیں اس لئے ان سے استنجا نہیں کرناچاہیئے ۔(ترمذی جلد او ل ابواب الطہارت ۔ابودائود کتا ب الطہارت)
علامہ سندھی مصنف مجمع البحار لکھتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ ؒ کایہ مذہب تھا کہ نیک جنّات صرف عذاب سے نجا ت پائیں گے جنت میں نہیں جائیں گے ۔لیکن امام مالکؒ اورامام بخاریؒ کایہ مذہب تھا کہ وہ جنت میں بھی جائیں گے اورانہیں ثواب ملے گا۔مجمع البحا ر میں ہی ابن عربی کاقول نقل کیا ہے کہ سب مسلمانوں کایہ مسلّمہ مسئلہ ہے کہ جنّ کھاتے پیتے اورنکاح کرتے ہیں ۔(جلداول زیر لفظ جنّ)
میرے نزدیک جنّ کا لفظ قرآن کریم اوراحادیث میں کئی معنوں می استعمال ہواہے ۔اوریہ مختلف استعمال جنّ کے مختلف معنوں پر مبنی ہیں یعنی ’’ مخفی ہونے والا‘‘یا ’’مخفی کرنے والا‘‘ان معنوں کے رو سے مختلف اشیاء یا ارواح یاانسان جو عام طورپر نظروں سے اوجھل رہتے ہیں ۔یا وہ اشیاء یا ارواح یاانسان جو دوسری اشیاء پر پردہ ڈالتے ہیں جنّ کہلاتے ہیں ۔اورچونکہ یہ فعل مختلف وجودوں سے ظاہرہوتاہے ۔اس لئے مختلف چیزوں یا ہستیوںکا نام اسلامی اصطلاح میں جنّ رکھاگیا ہے ۔قرآن کریم میںجنات کا ذکر مندرجہ ذیل مقامات پر آیا ہے (۱)سورۃ حجر کی زیر تفسیر آیت کہ اس میں جنات کی پیدائش کاذکر ہے کہ وہ نارِ سمومْ سے پیداہوئے (۲)سورئہ رحمن ع ۱۱ /۱میں فرماتاہے وَخَلَقَ الَجَآنَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ جنوں کو ہم نے ایک لپٹیں مارنے والے آگ کے شعلے سے پیداکیا ہے (۳)ابلیس کی نسبت بھی آتاہے کہ اُس نے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍوَّ خَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ(اعراف ع ۸/۲و ص ع ۱۴/۵)تونے مجھے آگ سے پیداکیا ہے اورآدم کو پانی ملی ہوئی مٹی سے (۴)پھر ابلیس کی نسبت یہ بھی آتاہے کہ کَانَ مِنَ الْجِمِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبّہٖ(کہف ع۹/۷)وہ جنوں می سے تھا پھر وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکل گیا ۔معلوم ہواکہ ابلیس کی ناری طینت اس کے جنوں میں سے ہونے کے سبب سے تھی ۔(۵)جنّ شہوانی قوتیں بھی رکھتے ہیں چنانچہ سورئہ رحمن میں جنت کی عورتوں کی نسبت فرمایاہے کہ لَمْ یَطْمِثْہُنَّ اِنْسٌ قَبْلَھُمْ وَلَاجَاٰنٌّ(ع ۱۳/۳)ان کو نہ انسانوں نے نہ جنوں نے اس سے پہلے کبھی چھواہوگا(یہ ذکرا س رکوع میں دودفعہ آیا ہے )(۶)سورئہ رحمن میں ایک یوم حساب کا ذکر ہے اس کے ذکر می فرماتاہے فَیَوْمَئِذٍ لَّا یُسْأَلُ عَنْ ذَنْبِہٖٓ اِنْسٌ وَلَاجَآنٌّ(ع ۱۲؍۲)اس دن انسانوں یا جنوں سے ان کے اگناہوں کے متعلق پوچھانہ جائے گابلکہ ان کے گناہوں کی وجہ سے ایک عام تباہی ان پر لائی جائے گی۔(۷)جنّ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے پیداکئے گئے ہیں ۔فرماتاہے وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّالِیَعْبُدُوْنِ(ذاریات ع۳)(۸)مشرک لوگ اللہ تعالیٰ اورجنات کے درمیان میں رشتہ داری بتاتے ہیں ۔وَجَعْلُوْا بَیْنَہض وَبَیْنَ الْجِنَّۃِ نَسَبًا(صافات ع ۹؍۵)(۹)مشرک لوگ جنوں کو خداتعالیٰ کا شریک بناتے ہیں وَجَعَلُوْا لِلّٰہِ شَرَکآئَ الْجِنَّ وَخَلَقَھُمْ وخَرَقُوْا لَہٗ بَنِیْنَ وَبَنَاتٍ بِغَیْرِعِلْمٍ۔(انعام ع۱۸؍۱۲)انہوں نے جنوں میں سے اللہ تعالیٰ کے شریک تجویز کئے ہوئے ہیں حالانکہ اللہ نے ان کو پیداکیا ہے اوربغیرکسی علم کے انہوں نے اللہ کے لئے لڑکے اورلڑکیا ں اپنے خیالوں میں بنارکھی ہیں ۔اسی طرح آتاہے ۔بَلْ کَانُوْا یَعْبُدُوْنَ الْجِنَّ (سباع ۱۱؍۵)قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ فرشتوں سے پوچھے گاکہ کیامشرک انسان تم کو پوجتے تھے تووہ کہیں گے کہ نہیں بلکہ یہ جنوں کو پوجتے تھے (۱۰)جنوں میں سے ایک گروہ لوگوں کو گمراہ بھی کرتاہے اَلَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ(سورۃ الناس)نیز وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْارَبَّنَآ اَرِنَاالَّذَیْنِ اَضَلّٰنَا مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ نَجْعَلْھُمَا تَحْتَ اَقْدَامِنَالِیَکُوْنَامِنَ الْاَسْفَلِیْنَ(حٰم سجدہ ع ۱۸؍۴)اورکفار کہی گے کہ اے ہمارے ہمیں ذراوہ جن اورانسان جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا دکھا توسہی۔کہ ہم انہیں اپنے قدموں تلے روندیں تاکہ وہ ذلیل ترین وجود بن جائیں ۔نیز فرمایا۔وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوّاً شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُھُمْ اِلیٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا(انعام ع ۱؍۱۴)اوراسی طرح ہم نے ہرنبی کے دشمن بنائے ہیں جنّ شیطان بھی ۔اورانسان شیطان بھی ۔وہ ایک دوسرے کو دھوکہ دینے کے لئے جھوٹی باتیں سناتے رہتے ہیں ۔نیز فرمایا یَامَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِاسْتِکْثَرْتُمْ مِّنَ الْاِنْسِ(انعام ع ۲؍۱۵)اے جنوں کی جماعت تم نے بہت سے انسانوں کو خراب کیاہے (۱۱)جنّ دوزخ میں بھی جائیں گے فرماتاہے ۔ قَالَ ادْخُلُوْا فِٓیْ اُمَمٍ قَدْخَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ مِنَّ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ فِی النَّارِ(اعراف ع ۱۱؍۴)یعنی جب فرشتے کفار کی جان نکالتے ہیں۔توان سے کہتے ہیں کہ تم سے پہلے جو جنّ اورانسان فوت ہوچکے ہیں ان کے ساتھ تم بھی دوزخ میں داخل ہوجائو ۔نیز فرمایا۔اُوْلٓئِکَ الَّذِیْنَ حَقَّ عَلَیْہِمُ الْقَوْلُ فِٓیْ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِمْ مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ۔اِنَّھُمْ کَانُوْاخَاسِرِیْنَ(احقاف ع ۲؍۲)یعنی یہ کفاربھی ان گروہوں میں جاشامل ہوں گے جوجنّوں اورانسانوںمیں سے پہلے گذر چکے ہیں ۔اورجن پر اللہ تعالیٰ کی حجّت پوری ہوچکی ہے اوروہ عذاب کے مستحق قرار پاچکے ہیں یہ سب لوگ گھاٹاپانے والے ہوگئے ۔یہی الفاظ حَقَّ سے لے کر خَاسِرِیْنَ تک سورئہ حٰم سجدہ ع ۱۷؍۳میں بھی مذکور ہیں ۔
نیزفرماتاہے ۔وَلَقَدْذَرَاْنَا لِجَھْنَّمَ کَثِیْرًامِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ لَھُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَھُوْنَ بِہَاوَلَھُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِہَا وَلَھُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِہَا(اعراف ع ۱۲؍۲۲)اورہم نے بہت سے جنّوں اورانسانوں کو دوزخ کے لئے پیداکیا ہے اوریہ وہ ہیں کہ جن کو دل دئیے گئے مگرانہوںنے ان سے سمجھنے میں کام نہ لیا۔انہیں آنکھیں دی گئیں مگرانہوں نے ان سے دیکھانہیں۔انہیں کان تو دیئے گئے لیکن انہوں نے ان سے سنا نہیں۔(۱۲) بعض انسان بعض جنّات کی پناہ میں رہتے ہیں اوراس وجہ سے جنّ مغرورہوجاتے ہیں وَاَنَّہٗ کَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ یَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوْھُمْ رَھَقًا(جن ع ۱۱؍۱)یعنی حقیقت یہ ہے کہ کچھ مردانسانوں میں سے جنّوں کے مردوں کی پناہ لیتے تھے اس طرح انہوں نے جنّوں کواور بھی ظلم اورگناہ میں بڑھادیا ۔(۱۳)جنّ انسانوں کاکام بھی کرتے ہیں ۔چنانچہ حضرت سلیمان کے ماتحت وہ کام کرتے تھے ۔فرماتا ہے ۔وَحُشِرَ لِسُلَیْمَانَ جُنُوْدُہٗ مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ(نمل ع ۱۷؍۲)سلیمان کے حکم کو پوراکرنے کے لئے جنّوں اورانسانوں کے لشکر جمع کئے گئے ۔نیز فرماتاہے۔وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ یَّعْمَلُ بَیْنَ یَدَیْہِ بِاِذْنِ رَبِّہٖ(سباء ع ۷؍۲)اورجنوں میں سے بھی ایک جماعت اِن کی نگرانی میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے کام میں لگی ہوئی تھی ۔نیز فرمایا ۔قَالَ عِفْرِیْتٌ مِّنَ الْجِنِّ اَنَااٰتِیْکَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِکَ(نمل ع ۱۸؍۳)اورجنّوں میں سے ایک نہایت سمجھ دار کار گذار جنّ نے کہا کہ میں آپ کی مطلوبہ شے (ملکہ سباء کا ساتخت) آپ کے اس مقام سے کوچ کرنے سے پہلے حاضرکرسکتاہوں (۱۴)جنّ قرآن کی مثال نہیں بناسکتے ۔فرماتا ہے ۔قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَیٰ اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ ھٰذَاالْقُرْاٰنِ لَایَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْکَانَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ ظَھِیْرًا(بنی اسرائیل ع ۱۰؍۱۰)توکہدے کہ اگر انسان او رجنّ مل کر بھی اس قرآن ی مثل بناناچاہیں تونہیں بناسکتے خواہ وہ دونوں مل کر ایک دوسرے کی مدد ہی کیوں نہ کریں (۱۵)جنّ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آئے اورقرآن سنا ۔فرماتا ہے۔وَاِذْ صَرَفْنَآ اِلَیْکَ نَفَرًامِنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُوْنَ الْقُراٰنَ فَلَمَّا حَضَرُوْہُ قَالُوْ ااَنْصِتُوْ فَلَمَّا قُضِیَ وَلَّوْ اِلیٰ قَوْمِھِمْ مُنْذِرِیْنَ (احقاف ع ۴؍۴)اورجبکہ ہم جنوں کی ایک جماعت کو تحریک کرکے تیرے پاس لائے تاکہ وہ قرآن سنیں پھر جب وہ قرآن سنانے کی مجلس میں حاضرہوئے توانہوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ خاموش(ہوکر قرآن سنو)پھر جب قرآن کی تلاوت ختم ہوئی تووہ اپنی قوم کی طرف چلے گئے تاکہ وہ انہیں ہوشیار کریں۔سورئہ جنّ میں بھی بیان فرمایا ہے اُوْحِیَ اِلَیَّ اَنَّہُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوْٓا اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا(جن ع ۱۱؍۱)میری طرف وحی کی گئی ہے کہ کچھ جنّوں نے قرآن سنا تو اپنی قوم کو جاکرکہا کہ ہم نے ایک عجیب (پُرلطف) تلاوت سنی ہے (۱۶)جنّات آپؐ پر ایمان لاائے ۔چنانچہ اوپر کی آیت کے بعدہی ان جنّوں کاقول بیان کیا ہے کہ فَاٰمَنَّا بِہٖ ہم اس کلام پر ایمان لے آئے ہیں۔یہ وہ مضامین ہیں جو جنات کے متعلق آتے ہیں ۔میرے نزدیک ان سے یہ ثابت ہوتاہے کہ جنّ قرآن کریم میں کئی چیزوں کانام رکھا گیا ہے اول جنّ بعض ارواح خبیثہ کانام رکھا گیا ہے ۔جوشیطانی خیالات کے لئے اسی طرح محرّک ہوتی ہیں ۔جس طرح کہ ملائکہ نیک تحریکو ں کے لئے محرّک ہوتے ہیں۔گویا وہ شیطان جو بدی کا محرّک ہے و ہ اس کے اظلال اورمددگار ہیں ۔یہ مضمون سورۃ الناس کی آیت سے نکلتا ہے جیساکہ فرمایا اَلَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِالنَّاسِ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ۔دوم ان خیالی وجودوں کانام جنّ رکھاگیا ہے جن کی کافرلوگ پوجاکرتے تھے ۔ان وجودوں کی تصدیق نہی کی بلکہ صرف یہ بتایاہے کہ کفار بعض ایسے وجود فرض کرتے ہیں اوران کی پوجا کرتے ہیں اوران کی یہ غلطی ہے ۔اس کے یہ معنی نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے اس عقیدہ کی کہ واقعہ میں ایسے جنّ ہوتے ہیں تصدیق کرتاہے بلکہ صرف ان کا عقیدہ بیان کرتاہے کہ وہ ایسے وجود مانتے ہیں اوران کی پوجا کرتے ہیں اس کاثبوت سورئہ انعام کی آیت وَجَعَلُوْا لِلّٰہِ شَرَکآئَ الْجِنَّ وَخَلَقَھُمْ وخَرَقُوْا لَہٗ بَنِیْنَ وَبَنَاتٍ بِغَیْرِعِلْمٍ(ع۱۲)یعنی مشرک لوگ جنو ں کو اللہ تعالیٰ کاشریک قرار دیتے ہیں حالانکہ اس نے انہیں پیداکیا ہے اوراللہ تعالیٰ کے بیٹے اوربیٹیاں بغیر علم کے تجویز کرتے ہیں ۔اس پر یہ اعتراض ہوسکتاہے کہ وَخَلَقَھُمْ سے تومعلوم ہوتاہے کہ ایسے جنوں کاوجود ہے اورانہیں اللہ تعالیٰ نے پیداکیاہے ۔اس کا جواب یہ ہے کہ وَخَلَقَھُمْ حال جَعَلُوْا کی ضمیر کاہے نہ کہ جنوں کا اورمراد یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو پیداکیاہے یہ کہتے ہیں کہ جن اللہ تعالیٰ کا شریک کار ہیں ۔
اس کا ثبوت کہ لوگ جس قسم کے جن مانتے ہیں ان کاوجود خیالی ہے ۔سورہ سباء کی آیت سے وضاحت سے ملتاہے ۔فرماتاہے ۔ویوم یحشرھم جمیعاً ثم یقول للملکۃ اھٰٓؤلَآئِ ایاکم کانو یعبدون۔قالو سبحانک انت ولینا من دونھم بل کانو یعبدون الجن اکثرھم بھم مومنون(ع ۱۱؍۵)یعنی یادکرو جب اللہ تعالیٰ سب انسانوں کو جمع کرے گا پھر ملائکہ سے کہے گاکہ کیا یہ لوگ تمہاری عبادت کرتے تھے ۔وہ جواب میں کہیں گے کہ تُوپاک ہے اورتُوہی ہمارادوست ہے ان سے ہماراکوئی تعلق نہیں یہ بات غلط ہے کہ یہ ہماری عبادت کرتے تھے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جہ جنّوں کی پرستش کرتے تھے اوران میں سے اکثر ان پر ایمان لاتے تھے ۔
سوال یہ ہے کہ اگر انسان جنوں کی پرستش نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ نے ملائکہ سے کیوں پوچھا ؟ اللہ تعالیٰ کی ہستی تو عالم الغیب ہے یہ کس طرح ہوسکتاہے کہ کوئی مشرک بھی فرشتوں کی عبادت نہ کرتاہواوراللہ تعالیٰ فرشتوں سے پوچھے کہ کیا یہ تمہاری پوجا کرتے تھے نیز اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ کسی جہت سے بھی نہیں کہاجاسکتاکہ لو گ فرشتوں کواُلوہیت کادرجہ دیتے ہیں ۔توپھر اللہ تعالیٰ کا فرشتوں سے جواب طلب کرنا ظلم بن جاتا ہے ۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ خود قرآن کریم فرماتاہے فاستفتہم الربک البنات ولھم البنون ام خلقنا الملئکۃ اناثا وھم شاھدون(صافات ع ۹؍۵)یعنی ان سے پوچھ کہ تمہارے توبیٹے ہیں اوراللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں ۔کیا اللہ تعالیٰ نے جب فرشتوں کو مؤنث بنا کر پیداکیاتھا تویہ لوگ اس وقت موجود تھے ۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ فرشتوںکو مشرک اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں کہتے تھے اوریہ ظاہر ہے کہ خداکی بیٹی بھی خدا ہی قرار پائے گی اورقابل پرستش سمجھی جائے گی جیسے حضرت عیسیٰ کو اللہ تعالیٰ کابیٹاکہاجاتاہے۔اورقابل پرستش سمجھاجاتاہے ۔چنانچہ سورئہ نحل ع۱۳؍۷میں اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے شرک کے ذکر میں بیان فرمایا ہے ویجعلون لِلّٰہِ البناتِ سبحانہٗ اوریہ لوگ بھی شرک کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قراردیتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ ایسے نقص سے پاک ہے ۔
خلاصہ یہ کہ اگر مشرک ملائکہ کو خداتعالیٰ کی بیٹیاں قراردیتے تھے اوراگرکسی کو خداتعالیٰ کی بیٹی یابیٹاقراردینا شرک ہے توپھر ملائکہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ الٰہی یہ لوگ ہماری پوجا نہیں کرتے تھے ۔ان حالات میں اللہ تعالیٰ پر سے اعتراض اٹھ کر فرشتو ں پر اعتراض پڑ جاتاہے ۔ مگرغور کیاجائے تو ان پر بھی اعتراض نہیں پڑتا۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کاسوال ظاہر پر تھا اورملائکہ کاجواب باطن کو مدنظر رکھ کرہے ۔مشرک ظاہر میں تویہی کہتے ہیں کہ ملائکہ خداتعالیٰ کی بیٹیاں ہیں ۔اوران کو خوش کرنا بھی ان کے لئے ضروری ہے لیکن حقیقت تویہی ہے کہ نہ وہ ملائکہ کوجانیں نہ ان کی طاقتوں کویونہی ملائکہ کاذکر بڑوںسے سن کر ایک خیالی وجود انہوں نے اپنے ذہن میں بنالئے اورخیال کیا کہ یہ ملائکہ ہیں اوراللہ کی بیٹیاں ہیں حالانکہ و ہ وجود محض ذہنی تھے۔نہ ملائکہ والے صفات ان میں تھے نہ کام تھے پس درحقیقت ان کی عبادت ملائکہ کے لئے نہ تھی بلکہ چند خیالی اورنظر نہ آنے والے وجودوں کے لئے تھی جنہیں عربی زبان میں جن کہہ سکتے ہیں ۔ پس ملائکہ نے جو جواب دیاہے وہ بھی درست ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ الٰہی ہماری انہوں نے کاپوجاکرنی تھی ہم توتیرے بندے اورتیری حفاظت می ہیں۔یہ توچند ایسے وجودوں کی پرستش کرتے تھے جو محض خیالی اورغیر مرئی ہیں ۔اگراس قسم کے جنوں کا وجود ہوتاجس قسم کاعوام کہتے ہیں توپھر فرشتوں کایہ قول کہ وہ جنوں کی پرستش کرتے تھے جھوٹ ہوجاتاہے کیونکہ مشرک یقیناً ملائکہ کو بنات اللہ قرار دے کر ان کی پرستش کرتے تھے اوراسی صورت میں اس پرستش کو جنوں کی پرستش کہاجاسکتاہے کہ جبکہ جنّ کے معنے خیالی اوربناوٹی وجود کے لئے جائیں۔اگرکہاجائے کہ وہ جنوں کی بھی پرستش کرتے تھے توگویہ درست ہے کہ بعض وجودوں کی پرستش مشرک جنّ کے نام سے بھی کرتے تھے مگریہاں وہ مراد نہیں ہوسکتی ۔کیونکہ جنوں کی پرستش سے ملائکہ کی پرستش کی نفی تونہیں ہوجاتی ۔مشرک توہزاروں قسم کے بت بناتاہے ۔انسانوں کو بھی خداکہتاہے ۔سورج چاند کوبھی ۔دریائوںکو بھی ۔ملائکہ کو بھی اپنے مزعومہ جنوں کوبھی ۔پس جنوں کی پرستش کرنے کی وجہ سے ملائکہ کو یہ حق پیدانہیں ہوتا کہ وہ اپنی پرستش کا انکارکریں ۔یہ حق انہیں تبھی پیداہوتاہے جبکہ وہ پرستش جو اِن کے نام سے کی جاتی تھی کسی دلیل کی بناء پر کسی خیالی وجود کی طرف منسوب کی جاسکے اوریہی انہوں نے کہا ہے۔پس جنّ سے مراد اس آیت میں خیالی اورذہنی وجود کے ہیں جن کانام کفار نے ملائکہ رکھ لیاتھا مگر فی الواقعہ وہ ملائکہ نہ تھے ۔
جن چونکہ مخفی وجود کو کہتے ہیں اس لئے جن کالفظ قرآن کریم میںعربوں اوردوسری اقوام کے محاورہ کے مطابق ان اقوام کے لئے بھی بولاجاتاہے جوشمالی علاقوں میں اورسرد ممالک میں رہتی تھیں ۔چونکہ لوگ بوجہ شدت سردی کے ان کے ممالک کی طرف سفر نہیں کرتے تھے ۔ اوروہ گرمی کی وجہ سے ادھر نہ آتے تھے ۔نیز چونکہ سرد علاقوں میں رہنے کے سبب سے وہ زیادہ سفید رنگ والے اورشراب کے استعمال کی وجہ سے زیادہ سرخ ہوتے تھے ایشیا کے لو گ انہیں کو ئی الگ مخلوق سمجھتے تھے ۔اورانہیں جن اورپریاں کہتے تھے یہ ان کاعام نام تھا ۔چنانچہ جیساکہ میں اوپر لکھ آیاہوں یہود کایہ عقیدہ تھا کہ جنّ شمالی علاقہ میں رہتے ہیں ۔چنانچہ شرکی ربیّ الیعذرنے اپنی کتاب میں یہی لکھا ہے کہ جنّ زیادہ تردنیا کے شمالی علاقوں میں رہتے ہیں ۔ہندوقو م نے بھی اپنے شمال میں ہی جنّوں کامقام تجویز کیا ہے ۔چنانچہ جیسا کہ حوالہ گذر چکا ہے ہندوئوں کے نزدیک گندھروا لوگوںکاعلاقہ ہندوستان کے شمال مغرب میں تھااورٹیکسلا شہر جوعلاقہ ہزارہ میں تھا اسے وہ گندھروا کے علاقہ کا شہر کہتے تھے ۔اوردریائے سندھ کے شمال کے علاقہ کو ان کامسکن قرار دیتے تھے ۔یعنی ہزارہ افغانستان وغیرہ کو ۔مسلمانوں میں جو قصے کہانیاں مشہور ہیں ان میں جنّات کامسکن کوہ قاف اوراس کے پار کا علاقہ سمجھاجاتاہے ۔پس یہ بات ظاہر ہے کہ شمالی علاقوں کے سرخ و سفید لوگ جو تمدّنی حالات کے ماتحت قریباً ایشیا سے بالکل الگ ہوگئے تھے اوربہت کم ادھر آتے تھے اورمذہب اورطورطریق کے لحاظ سے بھی الگ تھے ۔ایشیا کے رہنے والوں کے نزدیک جواس وقت تمدن کے حامل تھے جنّ تھے ۔کیابلحاظ اپنی شکلوں کے اورکیا بلحاظ ایشیاسے دوررہنے کے (شائد ہندوئوں نے نہ صرف شمال مغربی علاقہ کے ساکنوں کی ظاہری شکل کی وجہ سے بلکہ ان کی قوت اورطاقت کی وج سے کہ وہ ہمیشہ ہندوستان پر حملہ کرتے رہتے تھے ان کو جنّ قرار دیا)اسی محاورہ کے مطابق قرآن کریم میں بھی سورئہ رحمن میں ان شمالی لوگوں کویعنی یورپ کے باشندوں کو جنّ کہا ہے ۔اس سورۃ میں آخر ی زمانہ کے تغیرات کا ذکر ہے اوربتایا گیا ہے کہ اس وقت دومشرق اوردومغرب ہوجائیں گے یعنی امریکہ کی دریافت سے دو علاقے مشرق اورمغرب کہلانے لگیں گے۔اسی طرح نہر سویزکے ذریعہ دوسمندروں کے ملنے اوربڑے بڑے جہازوں کے چلنے کی خبردی گئی ہے اسی طرح بتایا ہے کہ اس وقت سائنس کی ترقی کے ساتھ لو گ آسمانی بادشاہت کو فتح کرنے کے خیال میں مشغول ہوں گے اورسمجھیں گے کہ وہ جلد کائنات کاراز دریافت کرنے والے ہیں ۔اس وقت آسمان سے آگ گرے گی۔اوربم گری گے اورسرخ روشنیاں آسمان پر چھوڑی جائیں گی اورآخر کفر اورشرک کو تباہ کرکے اسلام کو غلبہ دیاجائے گا ۔ اس مضمون کے سلسلہ میں جنّ و انس کو بھی مخاطب کیاگیا ہے اورجنّ سے مراد وہی شمالی علاقوں کے لوگ یعنی یورپین مراد ہیں اوربتایا ہے کہ اس زمانہ میں یورپ اورایشیا کے لوگ باہم مل جاائیں گے ۔اورسائنس کی بڑی ترقی ہوگی۔مگر بے دینی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ عذاب نازل کریگا اورپھر اسلام کو قائم کرے گا۔ثقلان اورجنّ اورالناس سے مراد ڈیما کریسی اورڈکٹیٹروں کی حکومت بھی ہوسکتی ہے ۔کیونکہ جنّ کے معنے عربی لغت میں اکثریت کے بھی ہیں اورالناس کے معنے خاص آدمیوں کے بھی ہوسکتے ہیں ۔پس جنّ سے مراد ڈیما کریسی ہے ۔ اورالناس سے مراد وہ لوگ ہیں جواپنے آپ کو خاص قرار دے کر حکومت کو اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں ۔ثقل کے معنی اعلیٰ اورمحفوظ شے کے ہوتے ہیں ۔جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم اوراپنی اولاد کو ثقلان قراردیاہے ۔پس الثقلان سے مراد یہ دونوں گروہ ہیں جو اس وقت ساری دنیا پر غالب ہوں گے بعض ڈیماکریسی کے نام پر دنیاکومغلوب کریںگے اوربعض فاشزم اورناٹزم کے نام پردنیا کو سمیٹنا چاہیں گے ۔اور اپنے آپ کو سب دنیا سے بہتر قرار دیں گے ۔
اس کے علاو ہ قرآن کریم میں غیرقوموں اورغیر مذاہب کے لوگوں کے لئے بھی جنّ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔مثلاً حضرت سلیما ن کے ذکر میں جہاں جنّوں کاذکرہے اس سے مراد غیر قوموں کے لوگ ہی ہیں ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ ان جنوں کی نسبت فرماتاہے کہ یعملون لہ مایشاء من محاریب وتماثیل و جفان کالجواب وقدورٍراسیٰتٍ(سباء ع ۸؍۲) وہ جنّ حضرت سلیمان ؑ کے لئے دربار کاکمرہ مسجد کامحراب اورمحل بناتے تھے اورمجسمے اوربڑے بڑے حوض جو کنوئوں کی طرح تھے او ر بہت بڑی بڑی دیگیں تیارکرتے تھے ۔ اب ہم بائبل میں دیکھتے ہیں کہ یہ کام حضرت سلیمان کے لئے کس نے کئئے ہیں۔توہمیں ۲تواریخ باب۲۔۷ میں لکھا ملتاہے کہ جب حضرت سلیمان نے بڑی عبادت گاہ تعمیر کرنے کااراد ہ کیا ۔توآپ نے صورکے بادشاہ کو خط لکھا کہ اپنے انجنیئروں میں سے میرے پاس ایک انجینئر بھجوائو‘‘جو سونے اوررروپے اورپیتل اورلوہے اورارغوانی اورقرمزی اورآسمانی رنگوں کے کاموں میں ہوشیار اورنقاشی میں دانشمند ہو ۔’اسی طرح لکھا کہ وہاں کی لکڑی بھجوائو اورمیں لکڑی کاٹنے والوں کو اس قدر مزدوری دوں گا ۔آیت ۱۰۔پھر آیت ۱۴ میں صورکے بادشاہ کاجواب ہے کہ ا س نے حضرت سلیمان کے کہنے پر ایک انجینئر حوارم ابی نامی بھجوایا اورکہا کہ یہ سب فنون کاماہر ہے ۔اورلکھا کہ لکڑی کاٹنے پر میں نے آدمی لگادیئے ہیں ۔ان کی مزدوری بھجوادیں ۔آیت ۱۵۔یہ تو غیر ملکی انجنئیر کا ذکرہے۔ جو مزدور لگائے گئے ان کاذکر یو ںآتاہے ۔’’اورسلیمان نے اسرائیل کے ملک میں سارے پردیسیوںکو گنوایا بعد اس گننے کے جو اس کے باپ دائود نے گنوایاتھا اوروے ایک لاکھ ترپن ہزار چھ سوٹھہرے ۔اوراس نے ان میں سے ستر ہزارکو باربرداری پر اوراسی ہزار کو پہاڑ کے توڑنے پر مقرر کیا اوران پر تین ہزار اوورسیر مقرر کئے۔کہ ان لوگوں سے کام لیویں۔‘‘آیت ۱۷و۱۸۔ان آیات سے ظاہر ہے کہ مزدوری پر بھی غیرقوموں کے لو گ مقرر کئے گئے تھے ۔
اب جوکام اس صور کے انجینئر نے کیا ۔وہ بائبل میں یہ لکھا ہے کہ اس نے ایک بہت بڑاحال عبادت کے لئے بنایا۔(محاریب)اوربڑے حال کے اندرفرشتوں کے مجسمے دیواروں کے اند رکھود کر بنائے اوراسی بڑے حال میں بھی دوفرشتوں کے مجسمے تراش کر بنائے ۔(تمثال)( ۲تواریخ باب۳ آیت ۷و۱۰تا۱۳)اورپھر باب ۴ آیت ۲و ۶ میں بتایا ہے کہ ایک بڑا حوض بنایا ۔جودھاتوں سے ڈھالاہواتھا۔اوراس کے علاو ہ دس چھوٹے حوض بنائے (جفانٍ کالجواب)پھر اسی باب۴ کی آیت ۱۶ میں لکھا ہے کہ حوارم انجینئر نے جو باہر سے آیاتھا ۔‘‘اورایک بحر ( لفظی معنی سمند ر مراد بڑاحوض)اوراس کے نیچے بارہ بیل اوردیگیں اورپہاوڑے اورکانٹے اورسب ظروف جو حوارم ابی نے سلیمان بادشاہ کی خاطر خداوند کے گھر کے لئے بنائے صاف پھول دھات کے تھے ۔‘‘اس ایک آیت میں دیگوں(قدورراسیٰت)حوضوں اورمجسموں کاذکر اکٹھا آگیاہے ۔
غرض و ہ سب اشیاء جن کا ذکر اس آیت میں آیاہے حضرت سلیمان نے حوارم ابی سے جو ایک غیر ملکی انجینئر تھا ۔اورغیر ملکی مزدوروں سے بنوائی تھیں ۔پس جنّ سے مراد محض غیر ملکی اورغیرقوم کے لوگ ہیں ۔جن کو حضرت سلیما ن کے ساتھ کوئی دلچسپی نہ تھی ۔صرف رُعب خداداد کی وجہ سے وہ آپ کے تصرف کے نیچے آئے ہوئے تھے اوآپ کاکام کرتے تھے جب آپ فوت ہوگئے ۔توکچھ مدت تک تو آپ کی حکومت کارعب ان لوگوں کے دلوں پر رہا۔جب آپ کے لڑکے نے بعض نالائقیوں کی وجہ سے اس رعب کوضائع کردیا۔تو وہ لوگ پچھتائے کہ خوامخواہ ان کے لئے لکڑیا ں ڈھونے اوردوسرے ذلیل کاموں میں ہم کیوں لگے رہے ۔اوریہ ذلّت برداشت کی اگریہ حکومت اتنی جلدی فناہوجانی تھی۔توہم مقابلہ جاری رکھتے ۔
چوتھا استعمال جنّ کے لفظ کاقرآن کریم میں ان لوگوں کے متعلق ہے۔جو حضرت آدم کے زمانہ میں دنیا پر بستے تھے اورجن میں سے نکل کر حضر ت آدم نے ایک نیا نظام قائم کیا تھا ۔چونکہ آدم نظام کاقائم کرنے والاپہلا شخص تھا ۔اس سے پہلے لوگ نظام کی قدرکو نہ جانتے تھے ۔ اورجانوروں کی طرف الگ الگ درختوں کی جڑوں میں یاغاروں میں رہتے تھے ۔اورجنگلی درندوں کی وجہ سے سطح زمین پر آسانی سے چل پھر نہیں سکتے تھے ۔ان کانام ان کی حالت کے مطابق جنّ رکھا گیا ہے ۔یہ وہی لوگ ہیں جن کو آجکل کے مؤرّخ CAVEMAN کہتے ہیں ۔یعنی کھوہوں اور غاروں می رہنے والے لوگ جو سطح زمین پر بودوباش نہ رکھتے تھے ۔جب انسانی دماغ نے ترقی کی اورانسان الہام کی نعمت کے قبول کرنے کے قابل ہوگیا ۔تواللہ تعالیٰ نے ایک شخص کو جسے اس نے آدم کاخطاب دیا ۔کیونکہ وہ سطح زمین پر رہنے کے قابل ہوگیاتھا ۔اورانسان کاخطاب دیا ۔کیونکہ وہ ایک طرف اللہ تعالیٰ کی محبت کے قابل ہوگیا تھا۔تودوسری طرف بنی نوع کے ساتھ ہمدردی کرنے اوران کے لئے قربانی کرنے کے قابل تھا۔اپنے الہام کے لئے چنا (دیکھو تفصیلی دلائل کے لئے میری کتاب سیر روحانی جلد اول) جنہوں نے اس کے نظام کو قبول کیا ۔اوراس کے ساتھ مل گئے ۔اورباہر نکل کر مکان وغیرہ بنانے لگے ۔اورتمدّنی قوانین کی پابندی کو منظورکرلیا وہ آدمی کہلائے ۔لیکن جنہوں نے وحشت کی زندگی کو ترک کرنے سے انکار کردیا ۔اورغاروں کی زندگی کو حریّت قرار دیا ۔ان کانام ان کے طرز رہائش کی وجہ سے جنّ قرار پایا ۔پس جنّ بشری ترقی کے دو ر کے اس حصہ کے افراد کانام ہے ۔جوتمدن سے عار ی تھے۔ارونظام کوقبول کرنے کے ناقابل تھے۔اورآدمی بشری ترقی کے دورکے اس حصہ کانا م ہے جس میں ایک جماعت نے مل کر رہنے اورایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے اورایک نظام کی پابندی کا اقرار کیا ۔آئندہ کے لئے یہ دونام ان دوصفات کے ساتھ وابستہ ہوگئے اورجو لوگ نظام کے باغی ہوں ۔ان کانام جنوں کی ذریت رکھاگیا۔اورجو نظام کے تابع ہوں ان کانام آدم کی ذریت رکھاگیا ۔اب یہ دونوں نام صفاتی ہیں جس کی وجہ سے کبھی جنوں کی اولاد اصلاح کر کے آدمی ہوجاتی ہے اورکبھی آدمیوں یعنے پابندِ نظام لوگوں کی اولاد گندی اورنظام شکن ہوکر جن ہوجاتی ہے ۔
اب رہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کا سوال کہ اس وقت جو جنّ ایمان لائے تھے وہ کیسی مخلوق تھی ۔سو اس کے متعلق قرآن کریم سے ثابت ہے کہ وہ یہودی تھے کیونکہ وہ موسیٰ کی کتاب کا اوراس پر ایمان لانے کاذکرکرتے ہیں ۔پس معلوم ہواکہ وہ یہودی لوگ تھے ۔اللہ تعالیٰ نے ان کو جنّ اس لئے کہا ہے کہ وہ باہر کے لوگ تھے ۔اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مخفی ملے تھے ۔بعض احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ وہ نصیبین کے رہنے والے تھے اوررات کیوقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے تھے (بخاری کتاب مناقب الانصار و مسلم جز اول)واپس جاکر جو واقعہ ان کے اوران کی قوم کے درمیان گذرا۔اللہ تعالیٰ نے اس کاذکر قرآن کریم می فرمایا ہے۔معلوم ہوتا ہے عرب لوگوں کی مخالفت کی وجہ سے انہوں نے چھپ کررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیار ت کی ۔اورآپؐ سے قرآن سنا۔جب واپس ہوئے ۔ تودلوں نے گواہی دی کہ آپ سچے ہیں ۔اوراپنی قوم میں تبلیغ شروع کردی ۔
اس امر کاثبوت کہ یہ جنّ انسان تھے مندرجہ ذیل ہے ۔اول یہ کہ وہ پوشیدہ ملے۔اگر وہ جنّ تھے۔توان کو پوشیدہ اوررات کو ملنے کیاضرورت تھی علی الاعلان ملتے۔توکوئی ان کاکیابگاڑ سکتاتھا۔اورجنّوں کی جوشان بیان کی جاتی ہے ۔ا سکے لحاظ سے انہیں دیکھ بھی کون سکتا تھا۔
دوم قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔لِتُؤْمِنُؤا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ(فتح ع ۹؍۱)یعنی مومنو! ہم نے یہ رسول ا س لئے بھیجا ہے کہ تم اس کی مدد اور نصرت کرو۔اورا س کی عزت دنیا می قائم کرو۔اگر جنات ایمان لائے تھے ۔تووہ کس رنگ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرتے تھے ۔کہتے ہیں کہ جنّ لوگوں کے سروں پر چڑھ جاتے ہیں۔اورقسم قسم کے پھل لاکردیتے ہیں یہ کیسے مومن تھے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم پر ظلم ٹوٹا۔لیکن کافر جنّوں نے تو حضر ت سلیمان کے لئے قلعے تیار کئے اورہر ذلیل سے ذلیل کام ان کی خاطر کیا۔یہ مومن ایسے طوطاچشم تھے کہ ابوجہل وغیرہ کسی کو انہوں نے سزا نہ دی۔اورپھر یہ جنّ لوگوںکو توبے موسم کے پھل لاکر دیتے ہیں۔مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوہ خندق کے موقعہ پر آپؐ پر اوردوسرے مسلمانوں پر فاقے پر فاقے آرہے تھے ۔ اورآپؐ اورآپؐ کے صحابہ گویاپیٹوں پر پتھر باندھے پھر رہے تھے۔ی لوگ آپؐ کے لئے اور آپؐ کے صحابہ کے لئے جَوکی روٹیاں ہی لادیتے ۔یہ توایما ن کی علامت نہیں بلکہ اول درجہ کی شقاو ت کی علامت ہے ۔لیکن قرآن کریم تو فرماتاہے کہ وہ ایماندار مخلص تھے ۔پس ظاہر ہے کہ نہ ان جنّوںکو جن کا ذکر سوئہ جنّ میں ہے طاقت ہے کہ کسی کے سرپر چڑھیں اورانسانوں پر قبضہ کر سکیں یاانہیں ستاسکیں اور نہ ان میں کسی کو کچھ لاکردینے کی طاقت ہے ۔ایسے جنّ صر ف وہمی لوگوں کے دماغ میں ہیں قرآن کریم ایسے جنّوں کو تسلیم نہیں کرتا۔اس نے تو جن پیش کئے ہیں انہی اقسام کے ہیں جو میں نے بیان کئے ۔اوران اقسام میں سے جو جن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے وہ یہودی تھے جنہوں نے کلام سنا اپنے گھروں کو چلے گئے ۔اورآخر ایمان لانے کافیصلہ کیا اوراپنی قوم کو پیغام پہنچادیا ۔عرب سے ہزاروں میل دور کے بسنے والے تھے ۔بعد می نہیں کہا جاسکتا کہ انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ ولسم کے متعلق کو ئی خبر ملی بھی یانہیں ملی۔اس وجہ سے وہ اسلامی جنگوں میں عملاً کوئی حصہ نہ لے سکے ۔
تیسراثبوت اس امر کا کہ یہ جنّ انسان تھے یہ ہے ۔کہ اللہ تعالیٰ رسولوں کے متعلق فرماتاہے کہ وہ مِنْ اَنْفُسِہِمْ اورمِنْہُمْ ہوتے ہیں یعنی جن کی طرف آتے ہیں انہی کی قوم کے ہوتے ہیں ۔چنانچہ فرماتاہے ۔وَیَوْمَ نَبْعَثُ فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ شَھِیْدًاعَلَیْھِمْ مِنْ اَنْفُسِہِمْ وَجِئْنَابِکَ شَھِیْدً ا عَلیٰ ھٰٓؤُلَآئِ(النحل ع ۱۸؍۱۲)یعنی قیامت کے دن ہر امت کارسول جوانہی می سے ہوگا بطورگواہ لایاجائے گا۔اورمحمد رسو ل اللہ کو امت محمدیہؐ اوراس زمانہ کے لوگوںپر بطور گواہ بھیجاجائے گا۔اگر جنّ بھی کوئی ایسی قو م ہے ۔جوایمان لاتی ہے ۔توا س پر گواہی کو ن دے گا۔موسیٰ توجنّ نہیں کہ ان جنّوں کے متعلق ان سے پوچھا جائے گاجو ان پر ایمان لائے تھے ۔اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم انسان تھے ۔وہ جنوں سے من انفسہم کی نسبت نہیں رکھتے ۔پس آپ جنوں کے متعلق شہید نہیں ہوسکتے۔من انفسہم سے مراد پہلے انبیاء کی نسبت ان کی اقوام ہیں ۔اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے آپ کے زمانہ کے بعد سب انسان ۔پس جنّ اگر کو ئی انسانوں جیسی مکلّف مخلوق ہے تووہ یونہی رہ جاتے ہیں ۔نہ ثواب کے مستحق نہ عذاب کے ۔
چوتھا ثبوت اس دعویٰ کی تائید میں یہ ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے یَامَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اَلَمْ یَاْتِکُمْ رُسُلٌ مِنْکُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْکُمْ اٰیَاتِیْ وَیُنْذِرُوْنَکُمْ لِقَائَ یَوْمِکُمْ ھٰذَا(انعام ع ۳؍۱۶)یعنی اے جنّوں اورانسانوں کی جماعتو! کیاتمہارے پاس تمہاری قوموں میں سے رسول نہیں آئے تھے جو تم کو میرے نشانات پڑھ کرسناتے تھے ۔اورآج کے دن کے دیکھنے سے تم کو ہوشیارکرتے تھے ۔ا س آیت میں صاف لکھا ہے کہ جنوں کی طرف ان کی قوم کے نبی آئے اورانسانوں کی طرف انسان نبی۔اب اگر جن کوئی دوسری مخلوق ہے تواس آیت کے ماتحت نہ توموسیٰ ان کے نبی ہوسکتے ہیں ۔نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔کیونکہ جنوں کی طر ف اس آیت کے ماتحت جنّ نبی ہی آئے تھے۔ہاں اگرجنوں سے کوئی انسانوں کو گروہ مراد ہو ۔توپھر بے شک وہ موسیٰؑ اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مومن ہوسکتے ہیں ۔
پانچواں ثبوت ا س امر کاکہ عوام میں جو جن مشہور ہیں ان کاکوئی وجود نہیں ۔اوریہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو جن ایمان لائے تھے وہ انسان ہی تے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جہنم کی نسبت فرماتا ہے فَاتَّقُو النَّارَالَّتِیْ وَقُوْدُھَاالنَّّاسُ وَالْحِجَارَۃُ(بقرہ ع۳)دوزخ میں یاتو انسان ہوں گے یا پھر پتھر وغیرہ آگ کو بھڑکانے والے سامان ہوں گے ۔اگر جنّ کوئی مکلّف مخلوق ہے تویوں چاہیئے تھا وقودھاالناس والجن والحجارۃ ۔پس جہاں قرآن کریم نے جنّ قوم کو دوزخی کہا بھی ہے۔وہاں انسان جنّ مراد ہیں نہ کوئی غیر مخلوق ۔
چھٹاثبوت ان مومن جنوں کے انسان ہونے کا یہ ہے کہ مسند احمد بن حبنل میں آتاہے کہ قال (رسول اللہ صلعم)لہم لقد اعطیتُ اللَّیلۃَ مااعطیھن احدٌ قبلی امّا انافَارسلتُ الی الناسِ کلھم عامۃً وکان مَن قبلی انّما یُرسل اِلیٰ قومہٖ(جلد دوم ص ۲۲۲)یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تہجد پڑھ کر جوپہرہ دار آپ کے پیچھے نماز میں شامل ہوگئے تھے ان سے فرمایا۔کہ آ ج پانچ خصوصیتیں مجھے ایسی عطاکی گئی ہیں کہ اس سے پہلے کسی کو یہ خصوصیتیں نہیں ملیں۔ایک تویہ کہ میں سب اقوام کی طر ف بلا استثنا مبعوث کیا گیا ہوں ۔اورجو مجھ سے پہلے نبی گذرے ہیں وہ صرف اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوتے تھے (آگے بقیہ چار خصوصیتیں بیان کی گئی ہیں ۔یہ بھی یاد رہے کہ اس رات کو پانچ خصوصیتیں جمع کرکے آپ کو بتائی گئی تھیں۔وربہ بعض خصوصیات مثلاً یہی جواوپر بیان ہوئی ہے شرو ع زمانہ اسلام سے ہی آپ کو مل چکی تھیں)اس حدیث کے ہوتے ہوئے کو ن کہہ سکتاہے کہ یہ جن ّجو آنحضرت صلعم پر ایما ن لائے کوئی اورمخلوق تھی ۔کیونکہ قرآن کریم صا ف بتاتا ہے کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مومنوں میں سے تھے ۔اگر وہ بنی اسرائیل میں سے نہ تھے تو ان کا موسیٰ پر ایمان لانا جائز ہی کس طر ح ہوسکتا ہے ۔اگر اعتراض ہو کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کَمَا اَرْسَلْنَآ اِلیٰ فِرْعَوْنَ رَسُولًا(مزمل ع ۱)موسیٰ فرعون کی طرف بھی مبعوث تھے حالانکہ فرعون بنی سرائیل میں سے نہ تھا ۔تواس کاجواب یہ ہے کہ قوم سے مراد کبھی نسلی قوم ہوتی ہے اورکبھی ملکی۔جیسے ہندوستا ن میں مختلف اقوام بستی تھیں ۔ان میں جو نبی آتاتھا۔وہ ہندوستانی قوم کی طرف مبعوث ہوتاتھا نہ کہ برہمن یاراجپوت کی طرف ۔کیونکہ ایک جگہ رہنے والی اقوام کی سہولت کے لئے ایک قوم شمارکرلیاجاتا ہے ۔پس فرعون کے ساتھ اوراس کی قو م کے ساتھ چونکہ حضر ت موسیٰ حکومت اورسیاست اورقانون اورتمدن کے ذریعہ سے بندھے ہوئے تھے ان کو توایک قوم سمجھ لیاگیا مگر جنّوں کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کیانسبت تھی حکومت کے لحاظ سے یاسیاست کے لحاظ سے یاقانون کے لحاظ سے یاتمدن کے لحاظ سے کہ ان کو بھی موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے کاحکم دیاگیا۔اگر کہو کہ حضرت موسیٰ ؑ مبعوث توبنی اسرائیل یا ان کے ساتھ رہنے والی قوم کی طرف ہی ہوئے تھے مگر جنّ اپنے طور پر ان پر ایمان لے آئے تھے تویہ بھی درست نہیں ہے حضرت مسیح علیہ السلام کاایک واقعہ انجیل میں بیا ن ہواہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے دوسری اقوام کو اپنی جماعت میں شامل ہونے کی اجازت تک نہ دی بلکہ جب ان سے ایک غیر قوم کے آدمی نے تبلیغ کرنے کے لئے کہا ۔توآپ نے فرمایا’’کہ لڑکوں کی روٹی لے کر کتوں کو ڈال دینی اچھی نہیں‘‘(متی باب ۱۵آیت ۲۶)پس یہ بھی درست نہیں ۔کہ وہ اپنی مرضی سے ایمان لے آئے تھے۔کیونکہ اگر جن کو ئی مکلف قوم ہے ۔توا س کے لئے صرف اس نبی پر ایمان لانا فرض ہے جو مِن انفسہم ہو ۔موسیٰ علیہ السلام پر ایما ن لانا ان کے لئے جائز نہ تھا۔غرض قرآن کریم کی آیات مذکورہ حدیث کے رُوسے کم سے کم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جنوں کے لئے الگ نبی مبعوث ہونے ضروری تھے ۔جو خود ان میں سے ہوتے ۔نیز جنوں کی مختلف قوموں کی طرف الگ الگ نبی مبعوث ہونے ضروری تھے۔
ساتواں ثبوت ان جنوں کے انسان ہونے کایہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کادعویٰ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں یہ فرماتاہے۔یٰٓااَیُّھَاالنَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا(اعراف ع ۲۰)اس جگہ جنوں کو رسالت میں شامل نہیں کیا ۔ اگرجن بھی کو ئی علیحدہ قوم ہے ۔اوراس کے لئے بھی آپ پر ایما ن لا نا ضروری تھا یاجائز ہی تھا ۔تویوں فرماناچاہیئے تھاکہ یاایھاالناس والجن انی رسو ل اللہ الیکم جمیعاً۔یہ تو قرآن کریم میں کہیں بھی نہیں آیا پس جو جن آپ پر ایمان لائے وہ قرآنی تشریح کے ماتحت انسانوں ہی میں سے تھے ۔اوراسی وجہ سے آپؐ پر ایمان لانے کے مکلف تھے۔
ایک اورآیت اس مضمون کے بارہ میں اس سے بھی واضح ہے۔اوروہ سورئہ سباء کی آیت وَمَااَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَاسِ ہے (ع ۹؍۳)کافّۃ کف سے نکلا ہے جس کے اصل معنے جمع کرنے اورروکنے کے ہیں ۔پس اس آیت کے معنی یہ ہوئے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے تجھے صرف اس لئے مبعوث کیا ہے ۔کہ تو انسانوں کو جمع کرے اورکسی انسان کو اپنی تبلیغ سے باہر نہ رہنے دے ۔اب دیکھو اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ تجھے صرف انسانوں کوجمع کرنے کے لئے بھیجا ہے ۔اوربعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ انسانوں کے سواکوئی اورمخلوق بھی ہے اوروہ بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی مکلف ہے ۔پس حقیقت یہ ہے کہ جس طرح انسانوں میں سے کوئی آپ کی دعوت سے باہر نہیں انسانوں کے سوا کوئی مخلوق آپ پر ایمان لانے کے لئے مکلف بھی نہیں۔اس وجہ سے جن مومن جنوں کاذکر قرآن کریم میں کیاگیاہے ۔وہ انسان ہی تھے کوئی اورمخلوق نہ تھے۔۔
خلاصہ کلام یہ کہ قرآن کریم میں جنّ کئی معنوں میں استعمال ہواہے ۔(۱)جنّ وہ تمام مخفی مخلوق جو غیر مرئی شیطان کی قسم سے ہے یہ مخلوق اسی طرح بدی کی تحریک کرتی ہے جس طرح ملائکہ نیک تحریکات کرتے ہیں ۔ہاں یہ فرق ہے ۔کہ ملائکہ کی تحریک وسیع ہوتی ہے اوران کی تحریک محدود ہوتی ہے ۔یعنی ان کو زور انہی پر حاصل ہوتا ہے جوخود اپنی مرضی سے بدخیالات کی طرف جھک جائیں۔انہیں شیاطین بھی کہتے ہیں ۔ (۲)جنّ سے مراد قرآن کریم می cave men بھی ہے ۔یعنی انسان کے قابل الہام ہونے سے پہلے جو بشر زیر زمین رہاکرتے تھے ۔ اورکسی نظام کے پابند نہ تھے ۔ہاں آئندہ کے لئے قرآن کریم نے یہ اصطلاح قراردے لی ۔جولوگ اطاعت کامادہ رکھتے ہیں ۔ان کانام انسان رکھا ۔اورجو لوگ ناری طبیعت کے ہیں اوراطاعت سے گریز کرتے ہیں ان کانام جنّ رکھا ۔(۳)شمالی علاقوں کے وہ لوگ یعنی یورپ وغیرہ کے جو ایشیا کے لوگوں سے میل ملاپ نہ رکھتے تھے ۔اورجن کے لئے آخر زمانہ میں حیرت انگیز دنیوی ترقی اورمذہب سے بغاوت مقدر تھی۔ان کاذکر سورئہ رحمن میں کیا ہے (۴)غیر مذہب کے لوگوں کو اوراجنبیوں کو جنہیں بعض اقوام جیسے ہندو اوریہودکوئی نئی مخلوق سمجھتے تھے ۔ان کو عام محاورہ کے طورپر جنّ کے نام سے موسوم کیا ہے جیسے حضرت سلیمان کے جنّ یارسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لانے والے لوگ ۔
میرے نزدیک دوزخ میں جانے والے جن جنّات کاذکر آتا ہے ان سے مراد یاتووہی ناری طبیعت والے لوگ ہیں جواطاعت سے باہر رہتے ہیں ۔اورکسی مذہب یاتعلیم کو قبول نہیں کرتے ۔اورانسان دوزخیوں سے مراد وہ کفار ہیں جو کسی نہ کسی مذہب سے اپنے آپ کو وابستہ کرتے ہیں۔یاپھر اقوام شمال مغرب کو جنّ قرار دیا ہے ۔اورجنوبی دنیا اورمشرق کے لوگوں کو اِنس قراردیا ہے ۔جیساکہ عرف عام میں یہ لوگ ان ناموں سے مشہور تھے ۔
یہ جو فرمایاکہ وَالْجَآنَّ خَلَقْنٰہُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّارِ السَّمُوْم اس سے مراد یہ ہے کہ یہ لوگ جن کو ہم جنّ کہتے ہیں ۔ان کی طبیعت میں ناری مادہ تھا یعنی جلد اشتعال میں آجاتے تھے اوراطاعت برداشت نہیں کرسکتے تھے ۔حضرت آدم سے پہلے بشر کی حالت یہی تھی ۔ حضرت آدم پہلے انسان تھے۔جنہوں نے اخلاقی اورتمدنی کمال حاصل کیا ۔اس وجہ سے الہام جس کاتعلق تمدن اوراخلاق سے ہے سب سے پہلے آپ ہی پر نازل ہوا۔پس جو لوگ اس تمدن اورنظام میں شامل ہوئے انہوں نے گویا اپنے نفسوں کو ما ر دیا۔اوراللہ تعالیٰ کی اطاعت کا نقش اپنے دلوں پر کندہ کروالیا۔پس وہ طینی کہلائے ۔کیونکہ طین نقش قبول کرتی ہے ۔اورجنّ لوگوں نے نظام میں آنے کی نسبت انفرادی آزادی کو مقد م رکھا اورکسی کی اطاعت کا جواگردن پر رکھنے سے انکار کیاوہ ناری کہلائے ۔یعنی جس طرح آگ کاشعلہ قابو میں نہیں آتا ۔اسی طرح وہ بے قابو ہوگئے ۔اوربوجہ زمین کے اندر رہنے کے وہ جنّ بھی کہلائے ۔
اگرکوئی کہے کہ اللہ تعالیٰ توفرماتاہے خَلَقْنٰہُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّارِ السَّمُوْمِ۔جنوں کو آگ سے بنایا۔پھر تم کس طرح کہتے ہو کہ اس سے مراد ناری طبیعت ہے تواس کاجواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں دوسری جگہ فرمایاہے ۔خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ(انبیاء ع ۳؍۳)جس کے لفظی معنے ہیں انسان کو (اللہ تعالیٰ نے)جلدی سے پیداکیا ۔محقق مفسرین لکھتے ہی کہ اس کامطلب یہ ہے کہ انسان کی طبیعت میں عجلت اورجلدبازی ہے یہ نہیں کہ جلدی نام کسی مادہ کا ہے جس سے انسان کو بنایاگیاہے ۔اوروہ لکھتے ہیں کہ یہ عربی کاعام محاورہ ہے کہ جوشے کسی کی طبیعت میں داخل ہو ۔اس کے بارہ میں کہتے ہیں کہ وہ اس سے پیداکیاگیاہے ۔ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِنْ ضُعْفٍ(روم ع ۹؍۶)یعنی خداتعالیٰ وہ ہے جس نے تم کو اس حالت میں پیداکیا ہے کہ تمہاری طبیعت میں کمزوری ہوتی ہے ۔یعنی پیدائش کے وقت بچہ کمزورہوتاہے اوردوسرے کی امداد کامحتاج ہوتاہے ۔ا س آیت کے بھی یہ معنی نہیں کہ ضعف کوئی مٹی یالکڑی کی قسم کی شے ہے جس سے خداتعالیٰ نے انسان کو بنایاہے ۔
یہ تعلیق ختم کرنے سے پہلے میں یہ بھی بتادینا چاہتاہوں کہ کئی پرانے بزرگ کم سے کم اس خیال میں میرے ساتھ شریک ہیں ۔کہ وہ جنّ کوئی نہیں ہوتے جو انسانوں سے آکر ملیںاوراس پر سوا ر ہوجائیں اوران سے مختلف کام لیں۔چنانچہ علامہ ابن حیّان اپنی تفسیر بحرمحیط کی جلد پانچ ص ۴۵۴ پر لکھتے ہیں۔کہ جبائی کاقول ہے۔کہ یہ آیت (اِلَّا عِبَادَکَ مِنْہُمُ الْمُخْلِصِیْنَ جوآیت زیر تفسیر کے چند آیات بعد ہی ہے )ان لوگوں کے دعووں کو رد کردیتی ہے ۔جن کایہ خیال ہے کہ شیطان اورجنّوںک ے لئے ممکن ہے کہ انسانوں پر غلبہ پالیں۔اوران کی عقلوں کو خراب کردیں ۔جیساکہ عام لوگوں کا عقیدہ ہے ۔اوربعض دفعہ عوام ان امو ر کو جادوگروں کی طرف بھی منسوب کرتے ہیں۔ اوریہ سب دعوعے اللہ تعالیٰ کی نصّ صریح کے خلاف ہیں۔
ّاگرکہاجائے کہ بعض بزرگوں نے جنات کاذکر کیا ہے ۔تواس کا جواب یہ ہے کہ یہ روحانی نظارے ہیں ۔اورعالمِ مثال میں ایسی باتیں نظر آجاتی ہیں ۔انہوں نے کشف سے بعض امور دیکھے ۔اورچونکہ عوام میں جنّات کا عقیدہ تھا اورقرآن کریم میں بھی لفظ جنّ کااستعمال ہواہے انہوں نے ان مثالی وجودوںکو اصلی وجود سمجھ لیا۔
میرااپنا ذاتی تجر بہ اس بارہ میں یہ ہے کہ کئی مختلف وقتوں میں لوگوں نے مجھے ایسے خطوط لکھے ہیں۔کہ جنّات ان کے گھر میں آتے اورفساد کرتے ہیں ۔میں نے ہمیشہ اپنے خرچ پر ا س مکان کا تجربہ کرناچاہا۔لیکن ہمیشہ ہی یاتویہ جواب ملا کہ اب ان کی آمد بندہوگئی ہے ۔یایہ کہ آپ کے خط آنے یا آپ کاآدمی آنے کی برکت سے وہ بھاگ گئے ہیں ۔میرااپنا خیال ہے کہ جوکچھ ان لوگوں نے دیکھا ایک اعصابی کرشمہ تھا ۔میرے خط یا پیغامبرسے چونکہ انہیں تسلی ہوئی وہ حالت بدل گئی۔
اگر اس تفسیر کے پڑھنے والوں میں سے کسی صاحب کو اس مخلوق کاتجربہ ہو ۔اوروہ مجھے لکھیں۔تومیں اپنے خرچ پر اب بھی تجربہ کرانے کوتیارہوں۔ورنہ جوکچھ میں متعدد قرآنی دلائل سے سمجھا ہوں یہی ہے کہ عوام الناس میں جو جنّ مشہور ہیں اورجن کی نسبت کہا جاتاہے کہ وہ انسانوں سے تعلق رکھتے اوران کو چیزیں لاکردیتے ہیں ۔یہ محض خیال اوروہم ہے ۔یامداریوں کے تماشے ہیں جن کے اندرونی بھید کے نہ جاننے کیوجہ سے لوگوں نے ان کو جنّات کی طرف منسوب کردیاہے ۔اس علم کا بھی میں نے مطالعہ کیا ہے ۔اوربہت سی باتیں ان ہتھکنڈے کرنے والوں کی جانتاہوں ۔ہاں یہ میں مانتاہوں ۔کہ ممکن ہے پہلے انسان ناری وجود ہو ۔اورزمانہ کے تغیرات سے بدلتے بدلتے ارتقاء کے ماتحت طینی وجود ہوگیا ہو ۔یعنی اس کی بناو ٹ کی بنیاد زمینی پیداوار پر آگئی ہو ۔اورایسے وجود جو سب سے پہلے تیارہوئے ۔ان کاسردار آدم ہو یہ کوئی بعید بات نہیں ۔علم جیالوجی سے یہ امر ثابت ہے کہ دنیا میں مٹی کاچھلکا بعد میں بنا ہے پہلے دنیا ایک گرم آگ کا کرّہ تھی ۔سو ارتقاء کے لحاظ سے اگر طینی ابتداسے پہلے انسان کی ابتداء ناری وجود سے تسلیم کی جائے تومستعبد نہیں ۔مگریہ امور تخمینی ہیں ۔ان کو یقین سے بیان نہیں کیاجاسکتا۔اس لئے میں نے اس کے متعلق زیادہ نہیں لکھا۔
اس مضمون کا کچھ حصہ قصہ آدم اورشیطان سے بھی حل ہوگا۔اس کے لئے دیکھو سورہ بقرہ میں قصہ آدم کاموقعہ دیکھنا چاہیئے ۔
اذقال ربک للملئکٰۃ انی خالق بشراً من صلصالٍ من حمائٍ
اور(اے مخاطب اسوقت کو یاد کر)جب تیرے رب نے فرشتوں کو فرمایاتھا(کہ)میں یقینا ً آوازدینے والی مٹی یعنی سیاہ گار ے سے جس کی
مسنون۔فاذاسویتہ ونفخت فیہ من روحیی فقعو لہ سٰجدین۔
ہئیت تبدیل ہوچکی ہوگی ایک بشر پیداکرنے واہوں۔پس جب میں اسے مکمل کردوں اوراس (کے دل)میں اپنا کچھ کلا م ڈال دوں۔توتم سب اس کیساتھ سجدہ کرتے ہوئے (اللہ کے حضور)گرجانا۔ ۲۷؎
۲۷؎ حل لغات۔سَوّیْتُہٗ۔سَوَّی سے متکلم کو صیغہ ہے اورسَوَّ الشَّیْئَ کے معنی ہیں ۔جَعَلَہٗ سَویًّا اس کو سویّ یعنی بے عیب وبے نقص بنادیا۔غلامٌسویٌّ۔ای لادائَ بہ ولا عیبَ۔جب یہ لفظ انسان کے لئے بولاجائے ۔تواس کے معنے ہوتے ہیں کہ جسمانی طورپر بھی اس میں کوئی نقص نہیں ہے اوراخلاقی لحاظ سے بھی اس میں نقص نہیں ہے ۔چنانچہ غلامٌ سویٌّ ایسے لڑکے پر بولتے ہیں جس میں اخلاقی اورجسمانی کوئی نقص اورعیب نہ ہو ۔ومنہ رزقکَ اللہُ ولدًاسویًّا۔اورانہوں میں یہ فقرہ بطور دعاکے کہاجاتاہے ۔کہ تمہیں اللہ تعالیٰ بے عین لڑکاعطافرماوے(اقرب)
نَفَخْتُ۔نَفَخَ سے متکلم کاصیغہ ہے ۔اورنفخ(یَنْفُخُ نَفْخًا و نَفِیْخًا)بِفِمِہِ کے معنے ہیں ۔اَخْرجَ مِنْہُ الرّیْح یعنے منہ سے ہوانکالی ۔و نفخ فی النَّارِ و نفخھا آگ میں پھونک ماری یعنی لفظ نفخ لازم اورمتعدی دونوں طرح استعمال ہوتاہے ۔نفخ شدَ فیہ تکبّر۔تکبرکیا(ہمارے ہاں بھی اردو میں کہتے ہیں کہ منہ پھُلالیا)اورجب نفخ الشیطانُ فی انفِہِ بولاجائے تواس کے یہ معنی ہوتے ہیں ۔تطَاولَ الیٰ مالیس لہٗ کہ وہ ایسی امید لگابیٹھا جوپوری نہ ہوگی ۔یعنی ان چیزوں کے پیچھے پڑ گیا جو اسکو نہیں مل سکتیں۔(اقرب)
الرُّوْحُ۔مَابِہِ حیاۃ الانفس ۔وہ چیز جس کے ذریعہ نفوس زندہ رہتے ہیں ۔یعنی جس کو زندگی کہتے ہیں ۔الوحی الہام۔جبریل،جبرائیل۔النفخ پھونک ۔امرالنبّوۃ، امرنبوت ۔وحکمُ اللہِ واَمْرہُ۔خداتعالیٰ کا فیصلہ اوراس کاحکم ۔تُطلق الارواح علی مایقابل الاجساد جسم کے مقابل چیز کوبھی روح کہتے ہیں ۔(جو انسان میں جسم کے علاوہ موجود ہوتی ہے )وعند اَصحاب الکیمیا علی المیاہِ المقَطَّرۃِ من الادویۃ۔کیمیا والوں کے نزدیک دوائیوںکے عروق کوبھی روح کہتے ہیں ۔(لیکن یہ فن کی ناواقفی کیوجہ سے لکھا ہے کیمسٹری والے عرق کو روح نہیں کہتے ۔بلکہ یاتو تیل والی ادویہ کاوہ حصہ جو عرق پر آجاتاہے اسے روح کہتے ہیں جیسے روح گلا ب یا پھر عرق کو باربار کشید کرکے اس کی تیز خوشبوکو عرق سے الگ کرلینے پر اسے روح کہتے ہیں جیسے روح کیوڑہ)(اقرب)جبرائیل کو جو صاحب اقرب الموارد نے روح لکھا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں جبرائیل کو روح کہاگیاہے اس لئے انہوں نے روح کے معنے جبرائیل قراردے دیئے ۔حالانکہ عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ بعض دفعہ مسبب کانام سب کے دے دیاجاتاہے اوراسی لحاظ سے جبرائیل کو روح کہا گیا ہے ۔کیونکہ وہ روح یعنی کلام الٰہی کو لاتاہے۔غر ض روح کے معنے جبریل کے نہیں بلکہ استعارۃٌ وحی لانے والے فرشتے کو کہتے ہیں ۔اصل میں روح وہ چیز ہے جس کے ذریعہ کسی کو حیا ت ممتاز ملے ۔پس وہ روح جو حیوان کو باقی چیزوں سے ممتاز کررہی ہے ۔اوروہ روح جس کے ساتھ انسان باقی حیوانوں سے ممتازہوتاہے ان دونوں پر لفظ روح کااطلاق ہوتاہے ۔یاوہ روح جوانسان کو باخدابنادیتی ہے پس کلام الٰہی بھی ایک روح ہے جو انسان کو نئی زندگی بخشتاہے ۔
سٰجِدِیْنَ۔السجودُ ۔التذلّل۔سجود کے معنی تذلل اورماتحتی کے ہیں ۔(مفردات)وَقولہٗ اسجدو ا لِاَدَمَ قِیْلَ اُمِرُوْا بالتذلّلِ لہ و القیامِ بمصالحہ و مصالحِ اولادہ۔آیت اُسجدو ا لِاَدَمَ میںفرشتوںکو حکم دیا گیا ہے کہ وہ آدم کے ماتحت چلیں۔اوراس کی مدد کریں اوراس کی اولاد کے لئے ممدّو معاون بنیں۔وقولہ ادخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًاای متذللِّیْن منقادین ۔اورقرآن کریم میں جو یہ آیا ہے کہ تم اس دروازہ میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہوجائو ۔اس کے معنے بھی یہی ہیں کہ تم فرمانبرداری کرتے ہوئے جائو۔(مفردات)
تفسیر۔اس آیت میں ابتداء نسل انسانی میں جو مکمل وجود پیداہواتھا۔اس کو مثال کے طورپر پیش کیاہے کہ دیکھو اسے بھی الہام ہوا۔اوراللہ تعالیٰ نے اس کے کام کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے فرشتوںکو لگادیا۔پس یہ سلسلہ الہام اوراس کی حفاظت کا ابتداء عالم سے چل رہاہے۔
اس آیت میں ملائکہ کو سجدہ یعنی آدم کی فرمانبرداری کاجو حکم دیا گیاہے۔اس سے مراد سب مخلوق ہے کیونکہ تمام اسباب کی علّت اولیٰ ملائکہ ہی ہیں۔ان کے حکم میں سب کو حکم مل گیا۔اس حکم کایہ بھی مطلب ہے کہ اس دنیا میں آد م کو قدرت دی گئی ہے ۔اورسب مخلوق اس کے تابع کی گئی ہے ۔پس فرشتوں کو جو علّتِ اولیٰ ہیں ۔چاہیئے کہ انسان جو کام کرے اس کے مطابق نتائج نکالتے جائیں ۔گویاقانون قدرت کے ماتحت ہرانسانی فعل کاخواہ وہ براہی ہو۔نتیجہ نکالنے کافرشتوںکو حکم دیاگیاہے ۔یہ تو عام قانون ہے ۔لیکن جب انبیاء کے زمانہ میں تقدیر خاص جاری ہوتی ہے ۔توفرشتوں کایہ بھی فرض ہوتاہے کہ اس زمانہ کے آدم یعنی نبی وقت کی تائید کریں ۔اوراس کے دشمنوں کو ناکام بنائیں۔
فسجد الملٰئکۃ کلھم اجمعون ۔الا ابلیس ط ابی ان یکون مع السٰجدین۔
جس پر سب کے سب فرشتوں نے(اس کی ) کامل فرمانبرداری اختیارکرلی۔سوائے ابلیس کے (کہ )اس نے (اس کی)کامل فرمانبرداری اختیار کرنے والوں کے ساتھ ہونے سے انکارکردیا ۲۸؎
۲۸؎ حل لغات ۔اِبْلِیْسَ۔اَبْلَسَ مِنْ رَحمۃِ اللہِ کے معنے ہیں ۔یَئِسَ۔ناامید ہوگیا ۔اورابلس فی الامر کے معنی ہیں۔تَحَیَّرَ۔حیران ہوگیا۔وَقیل ابلیسُ من ابلسَ بمعنی یئِسَ وتحیَّر۔یعنی ابلس کے معنی ناامیداورحیران ہونے کے ہیں ۔اوراِبلیس اسی سے بناہے ۔یعنی ناامید اورحیران ۔اس نام سے یہ بتانا مقصود ہے کہ وہ خداتعالیٰ کی رحمت سے ناامید ہوگیا ہے ۔اورحیران رہ گیا ہے ۔جمعہ ابلیس و اَبَالِسَۃٌ۔اس کی جمع اَبَالِیس اورابالسۃ آتی ہے (اقرب)
تفسیر ۔یہاں سوال ہوتاہے کہ فرمانبرداری کاحکم اگرصرف فرشتوںکو ہی تھا توابلیس سے سجدہ نہ کرنے کیوجہ سے کیوں باز پرس کی گئی ؟ اس کاجواب یہ ہے کہ جب کسی بڑے افسر کو حکم ملاکرتاہے توا س کاماتحت بھی اس میں شامل ہوتاہے یہاں پر فرشتوں کو طبعی نتائج نکالنے کاحکم دیاگیا ہے یاآدم کے مشن کوکامیاب کرنے کا۔اس لئے جو ان سے ادنیٰ مخلوق ہے وہ خود بخود اس حکم میں آجاتی ہے ۔جیسے بادشاہ ایک جرنیل کو حکم دیتاہے کہ فلاں جگہ جائو۔توسپاہی بھی اس میں شامل ہوتے ہیں۔سپاہی یہ کہہ کر انکار نہیں کرسکتے کہ ہمیں حکم نہیں دیاگیا۔پھر دوسری جگہ صاف فرمادیا ہے کہ مَامَنَعَکَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُکَ(اعراف ع ۹؍۲)تجھے باوجود میرے حکم کے آدم کو سجدہ کرنے سے کس بات نے روکاہے ۔اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ فرشتوں کے حکم میں ابلیس کا حکم بھی شامل تھا ۔کیونکہ وہ بھی دوسری مخلوق کی طرح فرشتوں کے تابع ہے۔
آدم ا و رابلیس کے واقعہ کااصل مقام توسورئہ بقرہ ہے اسے دیکھناچاہیئے ۔مگر میں مختصراً ایک بات یہاں بھی بیا ن کردیتاہوں اوروہ یہ ہے کہ یہ گفتگو جواس جگہ بیا ن کی گئی ہے ضروری نہیں کہ اسی طرح ہوئی ہو ۔مذہبی محاورہ میں خصوصاً اورعربی زبان میں عموماً یہ طریق استعمال کیاجاتاہے کہ کسی واقعہ کی حقیقت کو ظاہرکرنے کے لئے اسے مکالمہ کارنگ دے دیاجاتاہے۔حالانکہ مکالمہ فی الحقیقت کو ئی نہیں ہواہوتا۔ چنانچہ عربی زبان میں قال کالفظ عام طورپر اس طرح ا ستعمال ہوتاہے مثلاً عرب کہتے ہیں ۔اِمتلائَ الحوضُ فَقال قَطنِی کہ جب حوض پانی سے بھر گیا۔تواس نے کہا۔کہ بس بس اب زیادہ پانی نہ ڈالو۔ اس کا یہ مطلب نہیںکہ حو ض زبان سے بولا۔بلکہ یہ کہ حوض نے زبانِ حال سے بتایاکہ میں بھر گیاہوں۔قال کے سواء اورالفاظ بھی عربی میں استعمال ہوتے ہیں جن میں بظاہر ایک ارادی فعل کااشارہ ہوتاہے۔مگرمراد صرف صور ت حال کا بیان کرنا ہوتاہے ۔مثلاً سورئہ کہف میں آتاہے ۔کہ حضرت موسیٰ اوران کے ساتھی ایک گائوں میں گئے ۔فَوَجَدَ افِیْھَا جِدَارًا یُّریْدُ اَنْ یَّنْقَضَّ(کہف ع ۱؍۱۰)انہوں نے وہاں ایک دیوار پائی جو گرنے کاارادہ کررہی تھی۔اب یہ ا مر ظاہر ہے کہ دیوار می دماغ نہیں کہ وہ ارادہ کرے ۔اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ دیوار کی حالت بتاتی تھی کہ وہ گرجائے ۔امام ابو منصورثعالبی جولغت عر ب کے امام ہیں ۔اپنی کتاب فقہ اللغۃ میں لکھتے ہیں کہ ابوفراس مشہور ادیب سے دل سے اسلام کا منکر تھا ۔ اوراس کامشغلہ یہی تھا کہ قرآن کریم پر اعتراض کرتا رہے ۔ایک دفعہ ابوالعباس احمد بن حسین (جوخاندان عباسیہ کا ایک وزیر تھا )کے دربار میں ہم بیٹھے تھے اوروزیر کی آمد کاانتظار کررہے تھے ۔اسی دوران میں ابوفراس نے مجھ سے مخاطب ہوکرکہا کہ کیاکسی عرب نے کسی عقل نہ رکھنے والی چیزکے بارہ میں کبھی کہا ہے کہ اس نے ارادہ کیا ۔میں نے کہا عرب بعض دفعہ غیر ذی روح کے متعکق کہتے ہیں ۔اس نے یوں کہا جیسے مثال ہے ۔اِمتلائَ الحوضُ فقال قَطْنِی ۔حالانکہ حوض توبولتا ہی نہیں۔اس ن کہا۔ میں قول کی بات نہیں کرتا ۔وہ تو بیشک درست ہے۔ مگریہ بتائو عقل نہ رکھنے والی اشیاء کی نسبت کبھی اراد ہ کالفظ آتا ہے ۔اس کی غرض یہ تھی کہ آیت یُرِیْدُ اَنْ یَنْقَضَّ غلط ثابت ہو ۔ اللہ تعالیٰ نے اس وقت میری مدد کی اورعرب کے شاعر الرّاعی کا شعر میرے ذہن میں آگیا جو میں اس کے سامنے پڑھا۔اوروہ شعر یہ ہے ۔
فی مَھْمَۃٍ فُلِقَتْ بِہِ ھَامَاتُھَا
فَلَقَ الفئوسِ اذااردْنَ نصولَا
یعنی ایک جنگل میں جہاں اس قوم کی کھوپریا ںتوڑ دی گئیں جس طرح کلہاڑا جب چلنے کاارادہ کرتاہے ۔تو(لکڑیوں کو )کاٹتاجاتاہے ۔میں نے کہا ۔اس جگہ کلہاڑے کی طرف چلنے کے ارادہ کو منسوب کیا گیاہے ۔کیا اس میں اراد ہ ہوتاہے ۔یہ شعر پڑھنا تھ اکہ ابی فراس کے منہ کو تالے لگ گئے اورخداتعالیٰ نے اسے ذلیل کیا ۔اسی طرح وہ ابو محمد یزیدی کا واقعہ لکھتے ہیں ۔کہ میں اورمشہور نحوی کسائی عباس بن حسن کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ان کا ایک نوکر آیا اورکہنے لگا۔کہ حضور فلاں شخص کے پاس سے آیا ہوں ۔ھُوَیَرُیدُ اَنْ یَمُوْتَ۔وہ مر نے کااراد ہ کررہاہے اس پر ہم سب ہنس پڑے ۔عباس بن حسن نے کہا کس بات پر ہنستے ہو ۔ہم نے کہا کبھی کو ئی انسان اپنی موت کا آپ بھی اراد ہ کیا کرتاہے ۔انہوں نے کہا ۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔فَوَجَدَ افِیْہَا جِدَارًا یُّرِیْدُ اَنْ یَّنْقَضَّ۔اس پر ہم سب شرمندہ ہوئے اورسمجھ گئے کہ اس غلام کی بات درست تھی ۔غرض کسی امر کااندازہ سے ظاہر ہونا بھی قول اوارادہ کہلاتاہے ۔اورواقعہ آدم اورابلیس بھی اسی قسم کاہے ۔ان کی عملی حالتوں کو مکالمہ کی شکل میں پیش کیاہے ۔اورایسااس لئے کیاگیا ہے کہ یہ واقعہ پرانے زمانہ میں مجازوتشبیہ کو کثرت استعمال کیاجاتاتھا۔اورتمثیل میں بات کرنا سمجھانے کیلئے زیادہ مؤثر سمجھاجاتاتھا۔چنانچہ آدم کاواقعہ مختلف کتب سابقہ میں اسی رنگ میں بیان ہواہے ۔پس ان کو سمجھانے کے لئے قرآن کریم نے بھی عربہ محاورہ کے مطابق اسی رنگ میں اس واقعہ کو بیان کیا ہے تاکہ انہیں سمجھنے میںآسانی ہو ۔تمثیلی کلام پہلی کتب میں اس قدر استعمال ہواہے کہ صفات الہٰیہ کو بھی تمثیلی رنگ میں ہی بیان کیاجاتاتھا۔مثلاً کہا جاتاتھا خداتعالیٰ بڑاتیر انداز ہے ۔وہ تیز رتھ میں بیٹھ کر ہرجگہ جا پہنچتاہے ۔وہ لوگوں کوسزادے کر بڑاپچھتاتاہے ۔اس کے ہاتھ بھی ہیں اورپائوں بھی۔یہ تمثیلات خداتعالیٰ ہی کی طرف سے تھیں ۔مگر حقیقت کااظہا ر ا ن سے مقصود نہ تھا بلکہ انسان چونکہ ابتدائی حالت میں تھا ۔ ان مثالوں سے حقیقت کو اس کے قریب کیاجاتاتھا۔قرآن کریم ہی وہ کتاب ہے جس میں اس طریق کو بدلاگیاہے ۔اس میں بھی مجاز اوراستعارہ اورتمثیل ہے۔لیکن کہیں کہیں صرف ذوق پیداکرنے کے لئے۔ورنہ اہم امور کوصاف اورواضح زبان میں بیان کیاجاتاہے۔اوراگر کوئی تمثیل ہے تو ا سکے مضمون کو دوسری جگہ صا ف عبارت میں بیا نکر دیاجاتاہے ۔تالوگ دھوکہ نہ کھائی۔غرض آد م کے واقعہ میں جو مکالمہ ہے و ہ زبان حال میں بیان ہواہے۔نہ کہ فی الحقیقت کوئی گفتگو اللہ تعالیٰ اورابلیس میں ہوئی۔
تورات ا ورہندو لٹریچر میں بھی خیر اورشرّ کی قوتو ں کا ذکر مکالمہ کی صورت میں کیا گیا ہے ۔ہندوئوں میں ہریشچندر کا مشہور قصہ ہے ۔اس میں بھی مکالمہ کی صورت میں یہ مضمون بیان کیاگیاہے۔تورات میں بھی خیر اورشرّ کی قوتوں کامقابلہ مکالمہ کی صورت میں ایوب کی کتاب میں کیاگیا ہے۔چنانچہ لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دربا ر میں فرشتے اورشیطان حاضرہوئے اورایو ب کی نیکی کاذکر چل پڑا۔شیطان نے کہا کہ ایوب اس لئے نیک ہے کہ اس سے کچھ ملا ہواہے ۔اس پر اللہ تعالیٰ نے ایوب کی آزمائش کرنے کی اسے اجاز ت دی۔وغیرہ وغیرہ (ایوب باب۱آیت ۶تا۱۲۔)یہی وجہ ہے ۔کہ تورات والے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایما ن نہیں لائے ۔کیونکہ آپ کے کلام میں تمثیلیں کم تھیں۔ اورواضح عبارتوںمیں مضمون بیان ہوئے تھے ۔وہ غلطی سے اپنی کتب میں بیان شدہ مضامین کو حقیقت سمجھ رہے تھے ۔جب اسلام نے اللہ تعالیٰ کی صفات اورملائکہ کے وجو د اوروحی اورنبوت کو صاف اورواضح عبارت میں بیان کیا۔تووہ حیران ہوگئے اورسمجھے کہ یہ باتیں تورات کے خلاف ہیں اور سچائی سے دور ہیں۔
مگر یاد رکھناچاہیئے کہ باوجود اس کے کہ قرآن کریم نے ا س موقعہ پر تصویری زبان کو استعمال کیاہے ۔پھر بھی اس نے بہت سی غلط فہمیاں جو پہلی کتب سے پیداہو ئی تھیں مٹادی ہیں ۔اور جو دھوکہ تصویر ی زبان سے لگ رہاتھا اس کاازالہ کردیاہے۔مثلاً بائبل میں تو یہ کہا گیاتھاکہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو اصلی جنت میں رکھا اوراصل جنت کی علامت یہ ہے ۔کہ اس میں گناہ کاصدورنہیں ہوسکتا۔لیکن باوجود اس کے بائبل کہتی ہے آدم نے گناہ کیا ۔لیکن قرآن کریم نے گو آدم کے مقام کانام بعض جگہ جنت رکھا ہے ۔مگر دوسری جگہ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِیْ الْاَرْضِ خَلِیْفَۃَ۔(بقرہ ع۴)کہہ کر اس مجاز کی حقیقت بھی بیان کر دی ہے۔اسی طرح اوربہت سے مسائل آدم کے متعلق جو قصہ آدم میں بیان وہوئے ہیں وہ دوسری آیات کے ذریعہ سے یاانہی آیات کے بعض حصوں سے حل کردیئے گئے ہیں ۔
اصل بات یہ ہے کہ جب انسان کو خیر اورشر کی طاقت دی گئی ۔تودونوں قسم کے محرکات اس کے لئے ضروری تھے س لئے انسان کے پیداہونے سے پہلے یہ دونوں پیداکئے گئے ۔
اللہ تعالیٰ نے انسا ن کوپیداکر کے ملائکہ کو حکم دیا ۔کہ جس قسم کے یہ کام کرے۔اس کے نتائج پیداہوتے چلے جائیں ۔لیکن آدم اوران کے ساتھیوں کے علاوہ بھی دنیا میں مخلوق تھی ۔جو آدم کے نظام کے تابع نہ ہوئی تھی ۔ان کے سردار کو اللہ تعالیٰ نے حقیقی شیطان کا ظلّ ہونے کی وجہ سے شیطان اور ابلیس کے ناموں سے پکاراہے ۔اورجو کچھ آدم اوراس کے درمیان ایک لمبے عرصہ میں گذرااسے ایک مختصر مکالمہ کی صورت میں بیان کردیاہے ۔۔
یاد رہے کہ وہ شیطان جو بطورمحرک بدی کے پیداکیا گیاہے اورایک غیر مرئی وجودہے جس طرح ملائکہ ہیں وہ خود آکر لوگوںسے باتیں نہیں کیاکرتا۔نہ مجسم ہو کر انسانوں کو تکلیف دیتاہے ۔جو لوگ شامت اعمال کی وجہ سے نیکی کامقام کھوبیٹھتے ہیں وہ اس کے ظل ہوجاتے ہیں اورانہی کے کاموں کو شیطان کی طرف منسوب کیاجاتاہے۔ان کے علاوہ جو دوسرے محرکات بدی کے ہوتے ہیں ۔وہ بھی شیطان کہلاتے ہیں ۔جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔کہ میراشیطان مسلمان ہوچکاہے(مسند احمد جلد اول بروایت ابن عباس ص۲۵۷)اس لئے وہ مجھے ہمیشہ نیکی کاحکم دیتاہے ۔اس ارشاد سے مراد آپ کی یہی ہے ۔کہ جو اسباب لوگوں کو بدی کی تحریک کرنے کاموجب ہوتے ہیں ۔وہ میر ے کامل تقویٰ کی وجہ سے میرے لئے نیکی میں ترقی کرنے کاموجب ہوجاتے ہیں ۔ورنہ یہ مراد نہیں ۔کہ ہرآدمی کے لئے الگ الگ شیطان ہوتاہے ۔اورآپ کاشیطان مسلمان ہوگیاتھااگرایساتھا توپھر آپ استعاذہ وغیرہ کیوں کرتے تھے ۔وہ اصلی شیطان تو اسی پہلی حالت میں موجود تھا ۔مگر خیالات اورجذبات میں جو حالات اس کی نیابت کرتے ہیں وہ آپ کے لئے مسلمان ہوگئے تھے ۔مگرانسانوں میں جو اس کی نیابت کرتے تھے وہ اپنی شیطنت پر قائم تھے ۔اورمسلمان نہ ہوئے تھے جیسے ابو جہل وغیرہ۔
فَقَعُوْالَہٗ سٰجِدِیْنَ۔لَہٗ میں ہٗ کی ضمیر تمام انسانوں کی طرف جاتی ہے کیونکہ نفخ روح ہر انسان میں ہوتی ہے اورملائکہ میں بھی ہرایک کی مدد کے لئے مقررکئے گئے ہیں ۔صرف مدارج کے لحاظ سے نفخ روح کی قسم مختلف انسانوں کے لئے ہے۔اورخصوصاً اورتفصیلاً انبیاء علیہم السلام کے بارہ میں ۔چنانچہ اس کاثبوت کہ یہ حکم سب انسانوں کے لئے ہے یہ ہے ۔کہ سورہ جاثیہ ع۲میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔وَسَخَّرَلَکُمْ مَّافِیْ السَّمٰوٰتِ وَمَافِیْ الْاَرْضِ حَمِیْعًا۔کہ اے انسانو!تما م چیزیں اللہ تعالیٰ نے تمہاری خدمت میں لگادی ہیں ۔قرآن مجید سے پتہ چلتاہے کہ کہ ہرشے کیلئے ملائکہ سبب اول ہیں ۔پس جب فرمایا ۔کہ تمام چیزیں انسانوں کے فائدہ کے لئے مسخرکردی گئی ہیں ۔تواس سے یہ نتیجہ نکلاکہ فرشتے تمام بنی نوع انسان کی خدمت می لگے ہوئے ہیں ۔ہاں بعض اشیاء انسان کی غلطی سے اس کے قبضہ سے نکل کر اس کو نقصان پہنچانے لگ جاتی ہیں ۔اوروہ گویا شیطان کی اظلال ہوتی ہیں ۔اورفرشتوں کے حکم سے باہر ہوجاتی ہیں۔
یہ خیال کہ اس غیر مرئی شیطان نے ظاہر ہو کر آدم کا مقابلہ کیا بالبداہت غلط ہے اورتجربہ کے خلاف ہے ۔کیونکہ قرآن کریم سے معلو م ہوتاہے کہ و ہ آدم اوراس کی بیو ی کے اپاس آیا ۔اوران سے اس نے باتیں کیں ۔اب اگر یہ وہی شیطا ن تھا ۔ جو محرّک بدی ہے۔توجن آنکھوں سے اُسے آدم نے دیکھاتھا ۔اورجس زبان سے آدم نے اس سے باتیں کی تھیں۔انہی آنکھوں اوراسی زبان سے اب آدم کی اولاد کیوںاسے نہیں دیکھتی۔اورکیوں اس سے باتیں نہیںکرسکتی۔اورکیوں و ہ اب بھی لوگوں کے پاس آکر انہیں ورغلاتا نہیں۔قرآن کریم سے ہرگز ثابت نہیں کہ آدم کاجسم اورقسم کاتھا ۔اوراس کی اولاد کااورقسم کا ہے ۔کہ یہ سمجھا جائے کہ آدم تواسے دیکھ سکتا تھا۔اورباتیں کرسکتاتھا ۔مگر اس کی ااولاد ایسا نہیں کرسکتی۔اورجب ابناء آدم ویسی ہی طاقتیں رکھتے یں جس قسم کی آد م رکھتے تھے۔اورشیطان بھی وہی ہے بدلانہیں ۔تویقیناً آج بھی ہزاروں آدمیوں کووہ نظر آناچاہیئے تھا۔اورہر ایک نیک آدمی کو اسے جسم کے ساتھ ملناچاہئے تھا۔تاکہ آدم کی طرح اسے بھی گمراہ کرنے کی کوشش کرے۔مگر لاکھو ں چھو ڑ ہزاروں بھی آدمی نہیں ملتے جو اس امر کی گواہی دیں ۔بلکہ سینکڑوں بھی نہیں ۔بلکہ دسوں بھی نہیںبلکہ ایک بھی نہیں جویہ کہتا ہو کہ کشف یا خواب کے سوا اس نے شیطان سے مل کر باتیں کی ہوں۔سوائے قصے اورکہانیوں کے جو بے ثبوت ہیں۔
لیکن وہ شیطان جس کامیں نے ذکر کیا ہے اسی طر ح ہرنبی کے راستہ میں مشکلات پیداکرتاہے ۔جس طرح ا س نے آدم کے وقت میں کیاتھا۔اوراسی طرح اباء اوراستکبار کرتاہے جس طرح آدم کے وقت میں اباء و استکبار کیاتھا۔بلکہ ہر راستباز سے اس کا ویسا ہی سلوک ہوتاہے۔
قال یاِبلیس ُ مالک الا تکون مع السٰجدین٭
(اس پر خداتعالیٰ نے )فرمایا(کہ )ا ے ابلیس تجھے کیا ہواہے کہ تو(اسکی )کامل فرمانبرداری اختیارکرنے والوں کے ساتھ نہیں ہوتا۔
قال الم اکن لاسجدلبشر خلقتہ من صلصالٍ من حما مسنون٭
اس نے کہا(کہ)میں ایسانہیں کہ ایک ایسے بشر کی کامل فرمانبرداری اختیارکروں جسے تونے آواز دینے والی مٹی سے یعنی سیاہ گارے سے جسکی ہئیت تبدیل ہوچکی تھی پیداکیاہے ۲۹؎
۲۹؎ تفسیر۔مخالفین آدم کے سردار نے کہا کہ یہ توذلیل وجود ہے کہ اطاعت کو اچھاقراردیتاہے ۔یہ اوراس کے اتباع تو نقال ہیں اوردوسروں کے پیچھے چلنے میں فخر محسو س کرتے ہیں لیکن میری طبیعت میں تو نے آزادی اورحریّت رکھی ہے ۔میں اس کی بات کس طرح مان سکتاہوں ۔یہ بھی تمثیلی زبان میں کلام ہے ۔مطلب یہ کہ آدم کے نظام کو اس کے بڑے دشمن اوراس کے اَتباع نے حریت ضمیر کے خلاف سمجھا ۔اوراپنی ہتک قرار دیا۔اوراس کے ماننے سے انکار کیا ۔اوراپنے رویہ کو آدم کے طریق سے بہتر قرار دیا۔اسی مضمون کو طینی اورناری طبیعت کے الفا ظ سے بیا ن کیاگیاہے۔
قال فاخرج منھا فانک رجیمٌ
فرمایا(اگرتیرایہ خیال ہے )تَوتُو اس (مقام)سے نکل جا۔کیونکہ تو یقیناً دھتکاراہواہے ۔۳۰؎
۳۰؎ حل لغات ۔رَجِیْم کے لئے دیکھو سورئہ حجر ۱۶؎
تفسیر ۔مِنْہَا سے مراد مفسرین جنت لیتے ہیں ۔لیکن سوال یہ ہے کہ اگر وہ جنت اس سے مراد ہے جو مرنے کے بعد ملنی ہے تووہ ایسا مقام ہے کہ یہ اس می داخل نہیں ہوسکتا۔اورجو ا س میں داخل ہو ۔اس سے نکالانہیں جاتا ۔پھر شیطان کو کیونکراس میں داخل ہونے دیاگیا۔اورآدم کو اس سے کیونکر نکالاگیا۔اوراگر وہ جنت مراد نہیں ۔بلکہ کوئی ارضی جنت مراد ہے ۔توپھر بھی یہ سوال ہے کہ جب خداتعالیٰ نے اسے وہاں سے نکال دیاتھا۔تووہ پھرواپس آدم کو ورغلانے کے لئے وہاں کس طرح آسکا۔پس میرے نزدیک نہ صرف اُخروی جنت بلکہ کوئی دنیوی مقام بھی جو جنت کہلا سکے یہاں مراد نہیں ۔بلکہ جنت سے مراد وہ رضائے الٰہی کامقام ہے ۔جونبی کی بعثت سے پہلے لوگوں کوحاصل ہوتاہے ۔ کیونکہ گووہ غلطی پر ہوتے ہیں ۔مگرچونکہ ان پر نبی کے ذریعہ سے حجت نہیں ہوئی ہوتی ۔خداتعالیٰ کے فضل سے وہ محروم نہیں ہوتے۔مگرجب نبی مبعوث ہوجاتاہے اوراس کاوہ انکار کردیتے ہیںتو پھر افضال الٰہی کی جنت سے وہ محروم ہوجاتے ہیں ۔
اس کامزید ثبوت یہ ہے کہ سورئہ بقرہ اوربعض دوسرے مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم کو دھوکہ دینے کے بعد ابلیس اور اس کی ذریت کو آدم اوراس کی ذریت کے ساتھ ہی جنت سے نکالاگیا۔پس معلوم ہواکہ سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے شیطان کو جنت سے نکالاجاناکچھ اورمعنے رکھتاہے۔
وان علیک اللعنۃ الیٰ یوم الدین
اورجزا(وسزا)کے دن تک یقیناً تجھ پر (میری)*** رہے گی ۳۱؎
۳۱؎ حل لغات۔اللعنۃ کے لئے دیکھو سورئہ رعد۲۶؎ یوم کے لئے دیکھو سورہ یونس ۵ ؎ الدین کے لئے دیکھو سورہ یونس ۲۳؎
تفسیر۔*** کے معنی دوری کے ہوتے ہیں ۔جولوگ اللہ تعالیٰ کے انبیاء کے مخالفوں کے سردار ہوتے ہیں ۔ان کے نام کو مٹادیاجاتاہے ۔ اورانبیاء کے ذکر کواجمالاً یاتفصیلاً قائم رکھاجاتاہے ۔اورچونکہ نبوت ایک زنجیر ہے ہراگلانبی اوراس کی جماعت پہلے نبی اواس کی جماعت کے ساتھ ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہوتے ہیں ۔اس لئے ہمیشہ ہی انبیاء کے مخالفین کاذکربُرے طورپر ہوتارہتاہے اورگونام لے کران پرلعنت نہ بھیجیں۔مگردل ان کے افعال سے اظہارنفرت کرتے رہتے ہیں ۔اورچونکہ نبوت کا سلسلہ قیامت تک چلے گا۔اس لئے فرمایاکہ یوم الدین تک تم پر *** ہوگی۔ورنہ عذاب الٰہی کااس آیت میں ذکر نہیں ۔کیونکہ وہ توپوری شدت سے یوم الدین کے بعد شروع ہوگا۔
قال رب فانظرنیی الیٰ یوم یبعثون۔
اس نے کہا (کہ)اے میرے رب (پھر)تومجھے انکے (دوبارہ)اُٹھائے جانے کے دن تک مہلت دے ۳۲؎
۳۲؎ حل لغات ۔اَنْظَرْنِیْ۔انظر سے ہے اورانظرہ الَّدیْنَ کے معنے ہیں ۔اَخَّرَہَ۔قرضدار کو قرضہ اداکرنے میں مہلت دی(اقرب)پس انظرنی کے معنے ہوں گے مجھے مہلت دیجئے۔
یُبْعَثُوْن۔بَعَثَ سے جمع مذکر غائب مجہول کاصیغہ ہے ۔اوربَعَثَہٗ(یَبْعَثُ بَعْثًا)کے معنے ہیں اَرْسَلَہٗ اس کو بھیجا ۔بَعَثَہُ بَعْثًا اَثَارہٗ وَھَیَّجَہٗ۔اس کو اُٹھایااورجوش دلایا۔بعث اللہُ المَوْتی۔اَحْیَاھُمْ اللہ نے مردوں کو زندہ کیا ۔بعثہٗ علی الشَّیْئِ حَمَلَہٗ عَلی فِعلِہِ۔اس کو کسی کام کے کرنے پر اُکسایا۔البعثُ۔النّشر اُٹھانا(اقرب)
تفسیر ۔جیسا کہ میں بتاچکاہوں ان آیات میں آدم اوردوسرے انبیاء کاذکر خصوصاً اورابناء آدم کا عموماً ہے ۔اورآدم اوردوسرے انبیاء کے نفخ روح سے مراد نزول الہام ہے ۔اوربنوآدم کے نفخ روح سے مراد نفس ناطقہ کی تکمیل ہے ۔پس اس آیت میں جو یوم یبعثون آیا ہے اس کے معنے بھی دونوں گروہوں کو مدنظر رکھ کر مختلف ہیں ۔بنوآدم کو مدنظر رکھ کر تو اس کے معنے یہ ہیں کہ جب تک ان کی بعث روحانی نہ ہو ۔اس وقت تک مجھے مہلت دے ۔یعنی جب تک انسان اللہ تعالیٰ کیک مخلص بندوں میں شامل ہوکر شیطانی حملوں سے محفوظ نہ ہوجائے اس وقت تک شیطان اوراس کی ذریت کو ان کے ورغلانے کاموقعہ ملتارہے ۔یہ کلام بھی زبانِ حال کی قبیل سے ہے ۔ورنہ یہ نہیں کہ شیطان یا اس کے اظلال نے واقعہ میں اللہ تعالیٰ سے لفظوںمیں اس طرح مہلت طلب کی ہو۔
اس امر کاثبوت کہ یوم بعث سے مراد روحانی بعث ہے نہ کہ حشراجسادیہ ہے کہ اس جگہ موت تک نہیں فرمایا۔بلکہ یوم یبعث تک فرمایا ہے اوریہ ظاہر ہے کہ حقیقی یوم البعث تک موقعہ ملنے کے کوئی معنے ہی نہیں۔کیونکہ مرنے کے بعد توعالم امتحان ختم ہوجاتاہے ۔یہ توکسی مذہب کابھی عقیدہ نہیں کہ مرنے کے بعد بھی شیطان اورملائکہ لوگوں کو نیکی کی طرف یابدی کی تحریک کرتے ہیں ۔پس اگر یوم بعث سے یہاں حشر اجساد مراد لیاجائے تویہ آیت قرآنی تعلیم اورعقل سلیم کے مخالف ہوجاتی ہے ۔پس ہر عقلمند یہ ماننے پر مجبورہوگا کہ یہاں یوم بعث سے مراد روحانی بعث ہے اورمطلب یہ ہے کہ اسی وقت تک شیطان یا شیطانی لوگ کسی کو گمراہی کاسبق دے سکتے ہیں جب تک اس کا روحانی بعث نہ ہو یادوسرے لفظوں میں نفس مطمئنہ نہ ملاہو۔جب نفس مطمئنہ مل جائے تو پھر شیطان اوراس کی ذریت ا س بندے سے مایوس ہوجاتی ہے اورورغلانے کے طریقہ کو چھوڑ کر اسے جسمانی دکھ دینا شروع کردیتی ہے ۔
دوسرے معنوں کے روسے یعنی آدم اوران کے حقیقی جانشین یعنی انبیاء کو مدنظر رکھتے ہوئے ا س آیت کے یہ معنے ہوںگے کہ شیطان اوراس کے اَتباع کو اس وقت تک ان کے کاموں پر نکتہ چینی کاموقعہ ملتاہے اوران کے کاموں میں روک پیداکرنے کی طاقت ہوتی ہے جب تک ان کا یوم بعث نہیں آتا۔یعنی ان کی کامیابی کے لئے جو زمانہ مقدرہے وہ نہیں آجاتا۔کامیابی کے زمانہ کے آنے تک شیطانی لوگ خوب ان پر حملے کرتے ہیں اوانہیں دکھ دیتے ہیں اور ان کے خلاف جھوٹے الزامات لگاتے ہیں یعنی استراق سمع اورمَنْ خَطِفَ الْخَطْفَۃ کی بتائی ہوئی ڈھیل کے ماتحت ان کی تعلیم پر اعتراض کرتے اورجھوٹ بولتے ہیں ۔لیکن جب ان کایوم بعث آتاہے یعنی انہیں غلبہ اوراقتدار ملنا شروع ہوجاتاہے توپھر شیطان جھاگ کی طر ح بیٹھ جاتے ہیں ۔آدم کے زمانہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک ایساہی ہوتاچلاآیاہے ۔اوراللہ تعالیٰ کی حکمت شیاطین کو خوب شور مچانے اور طرح طرح کے مکر اورحیلے کرنے کی مہلت دیتی رہی ہے لیکن جب بھی یوم بعث آیا اورخداتعالیٰ کی آواز نے اپنے نبیوں اوران کی جماعت کو آواز دی ۔کہ اب تمہاراامتحان ختم ہوااب اُٹھو اوردنیا پر چھا جائو ۔ اس وقت ان کے مخالف زبد یعنی جھاگ کی طرح بیٹھ گئے ۔بلکہ ان میں سے بہت ایمان لاکر ان کے حلقہ بگوش ہوگئے ان معنوں کے روسے بھی شیطان کامکالمہ مہلت کے متعلق ایک تصویری نقشہ ہے اوراس کے یہ معنے نہیں کہ نبیوں کے زمانے میں شیطان مہلت مانگتے ہیں اوران کوخداتعالیٰ مہلت دیتا ہے ۔بلکہ یہ معنے ہیں کہ شیطان د ل سے خواہش کرتے ہیں کہ نبیوں پر حملہ کریں اورانہیں کچل دیں اور اللہ تعالیٰ ان کی اس خواہش کوپوراہونے دیتاہے ۔مگریہ مہلت یوم بعث تک ملتی ہے ۔جب یوم بعث آتاہے تومہلت ختم ہوجاتی ہے اور سب اوندھے منہ گرجاتے ہیں ۔اوراپنی تباہی کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں ۔
قال فانّک من المنظرین ٭الی یوم الوقت المعلوم ٭
فرمایاتومہلت پانے والوں میں سے ہے(ہی) معین وقت (کے آنے)کے دن تک ۳۳؎
۳۳؎ تفسیر ۔یعنی بے شک تم کو مہلت ملے گی ۔مگروقت ِ معلوم تک۔یعنی اس وقت تک کہ خداتعالیٰ کی تقدیر نے نبیوں کی ترقی کو روکاہواہوگا۔جب ان کی ترقی کازمانہ آئے تویہ مہلت ختم ہوجائے گی اوراے شیطانو!(یعنی نبی کے بڑے دشمنو)خداتعالیٰ کے قہر ی نشان تم کو بھسم کردیں گے ۔یہ یوم الوقت المعلوم وہی ہے ۔جس کی نسبت اس سورۃ کے شروع میں آچکا ہے وَمَااَھْلَکْنَامِنْ قَرْیَۃٍ اِلَّا وَلَھَاکِتَابٌ مَّعْلُوْمٌ(ع۱)یعنی ہربستی جس نے نبیوں کامقابلہ کیا اورہم نے اسے ہلاک کیا اسے پہلے ہی دن ہلاک نہیں بلکہ ہرنبی کے کام کے مطابق اس کی قوم کو ایک وقت تک مہلت دی ۔کسی کو تھوڑی کسی کولمبی۔کسی کو اس نبی کی حین حیات میں تباہ کیا جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورموسیٰ علیہ السلام سے ہوا۔اورکسی دشمن قو م کو نبی کی وفات کے بعد ہلاک کیا۔جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت میں ہوا۔
قال رب بمااغویتنی لازینن لھم فی الارض ولاغوینھم اجمعین٭
اس نے کہا (کہ) اے میرے رب چونکہ تونے مجھے گمراہی والا ٹھہرایاہے میں ضرور ہی ان کے لئے (تیری)ساری زمین میں (گمراہی کو) خوبصورت کرکے دکھائوںگا اورضرورہی ان سب کو گمراہ کردوںگا ۳۴؎
۳۴؎ حل لغات۔اَغْوَیْتَنِیْ ۔اَغجوٰی سے مخاطب کاصیغہ ہے ۔اغواہُ کے معنے ہیں اضلّہ اُسے گمراہ کردیا یاگمراہ کیا۔ وَغَوَیَ وَغَوِیَ الرَّجُلُ ضَلَّ گمراہ ہوگیا (اقرب) پس اغویتَنِی کے معنے ہوں گے تونے مجھے گمراہ قرار دیا ۔
تفسیر ۔یہ بھی زبانِ حال کاکلام ہے یعنی وہ لوگ جو ابتداء میں ایما ن نہیں لاتے بعد میں اس غصہ سے کہ ہمیں شروع میں ایمان لانے کاموقعہ نہیں ملا ۔انبیاء کی جماعتوں کو تباہ کرناچاہتے ہیں اورانہیں تکالیف دے کر مرتد کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔جیسے کہ دوسری جگہ فرماتاہے ۔تِلْکَ الْقُریٰ نَقُصُّ عَلَیْکَ مِنْ اَثْبَآئِھَا،وَلَقَدْ جَآئَ تْھُمْ رُسُلُھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ،فَمَاکَانُوْالِیُوْمِنُوْابِمَاکَذَّبُوْ مِنْ قَبْلُ ،کَذٰلِکَ یَطْبَعُ اللّٰہُ عَلیٰ قُلُوْبِ الْکٰفِرِیْنَ(اعراف ع ۳؍۱۳)یعنی اے محمد یہ وہ بستیاں ہیں جن کاحال ہم نے تجھے سنایاہے ۔ان کے پاس ہمارے رسول دلائل لے کر آئے ۔مگر وہ ایمان لانے سے محروم رہے ۔صرف اس وجہ سے کہ انہوں نے شروع میں انکے دعویٰ کا انکار کردیاتھا ۔اللہ تعالیٰ اسی طرح ان لوگوں کے دلوں پر مہر لگادیتاہے ۔جو انبیاء کا انکا کردیتے ہیں۔ا س آیت میں بتایا ہے ائمۃ الکفر اس وجہ سے ایمان سے محروم رہ جاتے ہیں کہ شروع میں انکارکر بیٹھتے ہیں ۔پھر ایمان لانے میں اپنی ذلت محسوس کرتے ہی اورمخالفت میں بڑھ جاتے ہیں اواپنا غصہ لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرکے نکالتے ہیںاواسی مضمون کی طر ف اس سورۃ کے شروع میں بھی اشارہ کیا ہے جہاں فرمایا ہے ۔رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ کَانُوْا مُسْلِمِیْنَ یعنی بہت دفعہ کفار کے دل میں حسرت پیداہوتی ہے کہ کاش ہم شروع میں ایمان لے آتے۔اورہماری عز ت قائم رہتی مگر چونکہ انکار کرکے عزت کامقام کھوچکے ہوتے ہیں۔باوجود اس حسرت کے ایمان لانے سے گریزکرتے ہیں ۔اورضد میں بڑھتے جاتے ہیں اب یہ جو فرمایا ۔لَااَغْوِیَنَّھُمْ میں ضرور انہیں گمراہ کرنے کی کوشش کروں گا۔یہ وہی کوشش ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں حضرت شعیب کے ذکر میں آیا ہے کہ ان کے دشمنوں نے کہا لَنُخْرِجَنَّکَ یٰشُعَیْبُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَکَ مِنْ قَرْیَتِنَااَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا(اعراف ع ۱؍۲۲)یعنی اے شعیب ہم تجھے بھی اورتیرے ساتھ ایمان لانے والوں کوبھی اپنی بستی سے نکال دیں گے۔یاتم کو واپس ہمارے دین میں آنا پڑے گا۔اورسورہ ابراہیم میں فرمایا۔وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِرُسُلِہِمْ لَنُخْرِجَنَّکُمْ مِّنْ اَرْضِنَآاَوْلَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا (ابراہیم ع ۱۵؍۳)گویا ہرایک رسول کے دشمن یہی کہتے چلے آئے ہیں کہ ہم کو ایمان نہیں ملا تومومنوں کوبھی گمراہ کرکے چھوڑیں گے اوریہی وہ حالت ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کی تھی ۔جس کی نسبت فرماتا ہے وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ تَضِلُّوْاالسَّبِیْلَ(نساء ع ۴؍۷)یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن یہود چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو بھی مرتد کردیں ۔اسی طر ح کفار کی نسبت آتاہے وَلَایَزَالُوْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ حَتّٰی یَرُدٍّکُمْ عَنْ دِیْنِکُمْ اِنِ اسْتَطاَعُوْا(بقرہ ع ۱۱؍۲۷)یعنی کفار کا اگر بس چلے تویہ اس ووقت تک تم سے لڑتے رہیں گے کہ تم کو مرتد کرلیں ۔یعنی یہ تم کو اپنے جیسابنانے کے لئے پورازورلگائیں گے مگر ایک دن اللہ تعالیٰ ہی ان کے زورکو توڑ دے گا۔اوریہ مغلوب ہوجائیں گے ۔یہی نظارہ آجکل احمدیوں کو دکھاناپڑ رہاہے ۔سب دنیا انہیں مرتد کرناچاہتی ہے مگر جسے خدارکھے اسے کون چکھے ۔کفر بھی کیسااندھاہوتاہے ۔بجائے اپنے پر ناراض ہونے کے کہ دین الٰہی کو کیوں چھوڑا۔کافر خداتعالیٰ پر ناراض ہوتاہے کہ اس نے مجھے کیوں ایمان نہ بخشا ۔س لئے میں اس کے مومن بندوں کو بھی مرتد کرکے چھوڑوں گا۔العیاذ باللہ ۔
الاعبادک منھم المخلصین ٭قال ھذاصراطٌ علی مستقیم
سوائے ان میں سے تیرے برگزیدہ بندوں کے (جو میرے فریب میں نہیں آسکتے)فرمایا (کہ)یہ (حفاظت الٰہی)میری طرف (آنے کی ) سیدھی را ہ ہے ۔۳۵؎
۳۵؎ تفسیر۔پہلے کہاتھاکہ جو بند ے چنے ہوئے ہوتے ہیں۔وہ شیطانی تصرف سے بچ جاتے ہیں۔اب اس کی تشریح کی کہ مخلص بندے کس طرح بنتے ہیں ۔اوراس کاطریق یہ بتایا کہ ھذاصراطٌ علیَّ یعنی اس راستہ کابتانا میرے ذمہ ہے ۔میں الہام سے انہیں اپناراستہ بتائوں گااور جب الہام سے میں انہیں اپناراستہ بتائوں گااوروہ سیدھے میری طرف آئیں گے توشیطان کی طرف جو خداتعالیٰ سے دورپھینکا ہواہے وہ جاہی نہیں سکتے۔ان معنوں کے روسے صراطٌ علیَّ کے معنی ہوتے ہیں۔صراطٌ بیانہُ علیَّ یہ وہ راستہ ہے جس کابیان کرنا میر اکام ہے ۔یعنی مخلص بندے وہ نہیں جو اپنی عقلوں سے خداکارستہ دریافت کرنے کی کوشش کریں۔جوعقل پر انحصار کرتاہے شیطان کے قبضہ میں جاتاہے ۔لیکن جسے میں خود راستہ بتائوں وہ کسی صورت میں شیطان کے اثر کے نیچے نہیں آسکتا۔کیونکہ اس کامحافظ اورنگران میں ہوتاہوں ۔اوروہ سیدھا بغیر ادھر ادھر بھٹکنے کے میری طرف آجاتاہے ۔
دوسرے معنی اس آیت کے یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ جو مخلص ہو ں یعنی چنے ہو ئے ہوں وہ توفورًا ہی مجھ کو پالیتے ہیں اوران کی بعد کی زندگی میری تلاش میں نہیں گزرتی اوروہ اس راستہ پر نہیں چل رہے ہوتے جو میری طرف آتاہے گمراہی کا خطرہ ہو ۔اورشیطان انہیں میرے تک پہنچنے سے پہلے ہی اُچک لے جب وہ میر ے الہام سے مجھ کو پالیتے ہیں توان کی بعد کی زندگی اس راستہ پر چلنے پر گزرتی ہے جو میرے اوپر سے گذرتا ہے یعنی میراوصال تو وہ پہلے ہی پالیتے ہیں ان کی بقیہ زندگی ایک کے بعد دوسر ی صفات الٰہی کو حاصل کرنے میں لگی ہوئی ہوتی ہے ۔ ایسے اشخاص کے متعلق شیطان کی کیا مجال کہ ان کے قریب بھی آسکے ۔اس میں یہ نکتہ بتایا کہ گمراہی کاخطرہ ا سے ہوتاہے جو ابھی تلاش میں ہو ۔جسے خدامل گیا اورجو خداکے ملنے کے بعد صرف زائد قرب کی تلاش میں لگاہواہوتاہے اسے گمراہ کرنا کسی شیطان کی طاقت میں نہیں ۔ آنکھوں دیکھی بات اورتجربہ کردہ طریق کے بعد کوئی شخص منکر ہوہی کس طرح سکتاہے ۔
ان عبادی لیس لک علیھم سلطن الا من اتبعک من الغوین٭
جو میرے بندے ہیں ان پر تیراہرگزکو ئی تسلط نہیں ہوگا۔سوائے ایسے افراد کے جو تیر ے پیچھے چلیں یعنی گمرا ہ ہو ۳۶؎
۳۶؎ حل لغات ۔سُلْطٰن کے معنی ہیں دلیل۔قبضہ ۔طاقت۔مزید تشریح کے لئے دیکھو سورئہ ابراہیم ۱۱؎
تفسیر ۔اس آیت میں دوسرے محفوظ گروہ کا ذکرکیا ہے۔جو نبوت کے مقام پر تونہیں ہوتا۔یابراہ راست ایمان توحاصل نہیں کرتا۔لیکن نبیوںکے طفیل یا دوسرے خدارسیدوںکے طفیل صداقت کو پالیتاہے ان کے متعلق فرمایاکہ ان کو بھی اس قدر حفاظت حاصل ہوتی ہے کہ شیطان ان پر تسلط حاصل نہیں ہوتا۔بیشک شیطان ان پ رحملہ کرتا ہے لیکن اس کاحملہ بہت کمزورہوتاہے اوران کو اس کے مقابلہ کی طاقت ہو تی ہے ۔اس لئے وہ بھی بالعموم بچ جاتے ہیں ۔ہاں ان میں سے بعض جوایمان کو پوری طرح حاصل نہیں کرتے اورا ن کے ایما ن کی بنیاد کامل یقین پر نہیں ہوتی بلکہ ابھی کمزوری ان میں باقی ہوتی ہے اوروہ کبھی کبھی شیطا ن کی پیروی کرلیتے ہی ۔یعنی گناہ کے مرتکب ہوجاتے ہیں ان کے لئے خطر ہ ہوتاہے کہ کبھی شیطان کے حملہ کا شکارہوجائیں اور شیطان کو ان پر تسلط حاصل ہوجائے مگر یہ تسلط بھی ان کی اپنی کمزوری کی وجہ سے ہوتاہے اورگناہوں کے ارتکاب کے بعد ہوتاہے ۔ونہ شروع میں وہ بھی حفاظت الٰہی میں ہوتے ہیں۔
اس میں اس طرف بھی اشار ہ ہے کہ انسانی فطرت پاک ہے اوروہی گمراہ ہوتاہے جو خود اس فطرت کو خراب کرکے شیطان کے پیچھے چل پڑے اسی کی طرف اشار ہ ہے اس آیت میں کہ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا(الشمس)وہی ہلاک ہو تاہے جو اپنے نفس کو خراب کردیتا ہے اورگناہ کی مٹی میں دفن کردیتاہے ۔
وان جہنم لموعدھم اجمعین٭ لھا سبعۃ ابواب۔لکل بابٍ منھم جزئٌ مقسوم٭
اوریقیناً جہنم ان سب کے (لئے )وعدہ کی جگہ ہے ۔اس کے سات دروازے ہیں (اوراسکے )ہردرواز ہ کے لئے ان میں سے ایک مقرر حصہ ہوگا ۳۷؎
۳۷؎ حل لغات ۔جَھَنَّم کے لئے دیکھو سورہ رعد ۱۹؎۔موعد کے معنی ہیں وعدہ ۔اقرار ۔وعدے کی جگہ (اقرب)
تفسیر ۔قرآن کریم میں دوزخ کے نگرانوں کی تعد ادانیس بیان فرماائی ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے نو حواس ہیں(گوعام طورپر پانچ مشہو رہیں لیکن درحقیقت سردی گرمی اوروقت اوروزن کاانداز ہ کرنے والے حواس کو ملایاجائے تو نو حواس ہوتے ہیں)پس یہ تعداد ان حواس کو مدنظر رکھتے ہوئے ہے۔یعنی ظاہر حواس اورنو باطنی حواس اور ایک ان پر داروغہ۔یہ کل انیس ہوئے ۔جب انسان اٹھارہ حواس اوران کی نگران قوت ارادی سے کام نہیں لیتا ۔تو وہ گمراہ ہوجاتا ہے ۔پس اس نسبت سے اس پردوزپ میں انیس پہر ہ دار مقرر کئے جائیں گے ۔یہ بتانے کے لئے کہ تونے انیس طاقتوں کو غلط استعمال کیا ۔
اوریہ جوسات دروازے بتائے ہیں ۔ان سے مراد ضرور ی نہیں سات ہی دروازے ہوں ۔کیونکہ سات اور ستر کا ہندسہ عربوں میں تکمیل یاکثرت کے اظہارکے لئے بھی استعمال ہوتاہے ۔اس محاورہ کے رو سے دوز خ کے سات دروازے ہونے سے یہ مراد ہے کہ اس کے کثرت سے دروازے ہوں گے اورتمام گناہوں کاخیال رکھاجائے گا۔
اورلِکُلِّ بَابٍ مِّنْہُمْ جُزْئٌ مَّقْسُوْمٌ جو فرمایا تواس کے یہ معنے ہیں کہ جس قسم کے گنا ہ ہوں گے ویسے ہی دروازے سے وہ جہنم میں داخل ہوگا۔جنت کے متعلق بھی احادیث میں آتا ہے کہ مختلف نیکیوں کے الگ الگ دروازے ہوں گے اورہرشخص اپنی مناسب حال نیکی کے راستہ سے جنت می داخل ہوگا۔
اس جگہ جُزْئٌ کالفظ استعمال کیا گیا ہے اوراس کے معنے انسانی جسم کے ٹکڑے کے نہیں بلکہ دوزخیوں کی جماعت کے مختلف گروہ مرا د ہیں۔اس آیت سے سورئہ بقرہ کی اس آیت کا حل ہوجاتاہے ۔جو حضر ت ابراہیم علیہ السلام کے ذکر میں آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں فرمایا کہ چار پرندے لے لے اورپھر فرمایا کہ ثُمَّ اجْعَلْ عَلیٰ کُلِّ جَبَلٍ مِنْہُنَّ جُزْئً (بقرہ ع ۳۵)پھر ہر پہاڑ پر ان میں سے ایک جزو کو رکھ دے اس جگہ مفسرین نے غلطی سے یہ معنے کئے ہیں کہ ان کو ٹکڑے کر کے ایک ایک ٹکڑا ہر پہاڑ پر رکھ دے ۔حالانکہ چار پرندوں کے اجزاء سے وہی مراد ہے جو اس جگہ مراد ہے یعنی ان میں سے ایک ایک پرندہ ایک ایک پہاڑ رپر رکھ دے ۔
ان المتقین فی جنتٍ وعیونٍ ٭
متقی (لوگ )یقیناً جنتوں اورچشموں (والے مقام )میں ہوں گے ۳۸؎
۳۸؎ حل لغات۔الجنَّۃ کے لئے دیکھو سورئہ رعد ۲۴؎
تفسیر ۔عَیْن کے معنے چشمہ کے ہیں اورعُیُوْن میں ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ چشموں کے اند پڑے ہو ں گے بلکہ جنّٰت اورعیون کے اکٹھے ذکر سے یہ بتایا ہے کہ متقی ایسی جنت میں ہو ں گے جو چشموں والی ہوگی ۔اس آیت میں بتایا ہے کہ جہاں شیاطین کو کفرکرنے کی وجہ سے جہنم نصیب ہوگی۔ا س دنیا میں جلن حسر ت اورپھر عذاب کی صورت میں اورآخر ت میں عذاب النا ر کی صورت میں وہاں مومن خداتعالیٰ کے سایہ کے نیچے ہو ںگے اورعلوم کے چشمے ان کے دلوں سے پھوٹ رہے ہوں گے جن کی وجہ سے فضل کاسایہ اور بڑھے گا ۔جس طرح درخت کو پانی ملتا رہے تووہ بڑھتا رہتاہے ۔اورآخرت میں وہ جَنَّات و عیون نصیب ہوں گے جن کاوعدہ قرآن کی متعدد آیات میں دیاگیاہے ۔
اُدخلوھا بسلٰمٍ اٰمنین٭
(انہیں کہاجائے گا کہ)تم سلامتی کے ساتھ بے خوف (وخطر)ان میں داخل ہوجائو ۳۹؎
۳۹؎ حل لغا ت ۔بِسَلٰمٍ کے لئے دیکھو سورئہ یونس ۱۱و۲۶؎
تفسیر ۔یہ ملائکہ کاقوم معلوم ہوتاہے یعنی ملائکہ ان سے اس دنیا میں بھی کہتے ہیں اوراگلے جہان میں بھی کہیں گے کہ سلامتی اورامن سے جنت می داخل ہوجائو۔چونکہ یہ لوگ ملائکہ کی نیکی کی تحریکات کو قبول کرتے ہیں اس لئے ملائکہ کو ان سے محبت اورانس ہوجاتاہے ۔اور وہ الٰہی فیصلوں کو جو مومنوں کے بارہ میں ہوتے ہیں ۔دوڑ دوڑ کر انہیں سناتے ہیں اوریہ جو فرمایاسلامتی اور امن کے ساتھ داخل ہوجائو اس میں دو سلامتیوں کو ذکر ہے ۔اندرونی اوربیرونی ۔کشمکش اوراضطراب سے نجا ت کی طرف سلام سے اشارہ کیاگیاہے اوربیرونی تکالیف اورعذابوں سے نجات کی طرف آمنین سے اشارہ کیا گیا ہے ۔
نیز سلام کے لفظ سے اللہ تعالیٰ کے ایک وعدہ کی طرف بھی اشارہ ہے جو ان الفاظ میں ہے ۔سَلَامٌ،قَوْلًا مِنْ رَّبِّ رَّحِیْمٍ(یٓس ع ۳؍۴)یعنی خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے لئے خاص سلام مقدر ہے ۔اس کی ہم تم کو خبر دیتے ہیں یہ فرشتوں کاکہنا ان مومنوں سے شدید تعلق پر دلالت کر تاہے گویا وہ الٰہی فیصلوں کو ان تک جلد سے جلد پہنچانے کی کوشش کرتے یں۔اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلامتی کاحکم نازل نہ ہو ۔انسان کو امن نصیب نہیں ہوتا۔اوراس شیطانی قول کی طر ف بھی اشارہ ہے کہ ہم مومنوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کریں گے ۔سوفرمایا باوجود ان کی کوششوں کے تم میرے برکتوں والے گھر میں آہی پہنچے ۔
ونزعنا مافی صدورھم من غل اخواناعلی سررٍ متقبلین٭
اور ان کے سینوں میں جو کینہ (وغیرہ)بھی ہوگا اسے ہم نکال دیں گے (وہ)بھائی بھائی بن کر (جنت میں رہیں گے اور)تختوں پر ایک دوسرے کے سامنے (بیٹھے )ہوں گے ۴۰؎
۴۰؎ حل لغات ۔غِلٌّ غَلَّ کا مصدر ہے اورغَلَّ صَدْرُہُ غِلَّا کے معنی ہیں ۔کان ذاغشٍ اَوْ حقدٍ وَضِغنٍ۔سینہ میں کینہ حقد اورغصہ بھر گیا ۔اورالغِلُّ کے معنی ہیں الغِشُّ والحقْدُ کینہ اورحقد (اقرب)پس نَزَاعَنَا مَافِیْ صُدُوْرِھِمْ مِنْ غِلٍّ کے معنی ہوں گے ہم ان کے دلوں سے کینہ وغیرہ نکال دیں گے ۔
سُرُرٌ۔سَرِیْرٌ کی جمع ہے اورالسَّرِیْرُ کے معنی ہیں التّختُ تخت ۔ویغلب علی تخت الملک اوراکثر بادشاہ کے تخت پر بولاجاتا ہے یقالٌ زَالَ عَنْ سَرِیْرِہٖ اَیْ ذَھَبَ عِزُّہُ وَنِعْمَتُہُ اورجب زال عن سریرہ کامحاورہ بولیں تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اس کی عزت جاتی رہی ۔المُلکُ بادشاہت النعمتُ نعمت ۔خَفْضُ الْعَیْشِ۔خوب مزے کی زندگی(اقرب)
تفسیر۔ایک اورجگہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ(الرحمن ع ۳)کہ مومن کو دوجنتیں ملتی ہیں ایک اسی دنیا می اوردوسری اگلے جہان میں ۔اس جگہ پر جنتک ی شرط یہ بتائی کہ وہاں دلوں میں نہ غل نہ ہوگا۔پس اس دنیا میں جو مومن بھائی کابغض دل سے نکال دے وہی جنتی بن سکتاہے ۔اسے ہماری جماعت اور تمام مسلمانوں کو فائدہ اٹھاناچاہیئے کہ کسی کا کینہ دل میں نہ رکھیں۔عَلیٰ سُرُرمُتَقٰبِلَیْنَ کہہ کر بھی ان کی باہمی محبت اکااظہار کیاہے کیونکہ جب محبت ہوتی ہے تبھی ایک دوسرے کاچہرہ دیکھتے ہیں اورایک دوسرے کی طرف منہ کرکے بیٹھتے ہیں ۔سُرُرٌپر قرآن مجید نے بہت زوردیا اورمختلف مواقعہ پر مختلف الفاظ میں یہ مضمون بیان ہواہے جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ ہر شخص ہی وہاں بادشاہ ہو گا ۔دوسروں کی محکومی سے نجات مل جائے گی اورصرف اللہ تعالیٰ کی بادشاہت ہو گی ۔جس کاحکم بوجھ نہیں ہوتا بلکہ اس کی اطاعت قوت وشان کو بڑھانے والی اورحقیقی آزادی دین والی ہوتی ہے ۔قرآن مجید میں آتا ہے لَھُمْ فِیْھَا مَا یَشَاؤُنَ ( نحل ع ۱۰؍۴)جنت میں ان کی ہر ایک خواہش پوری کی جائے گی گویااپنے اپنے دائرہ میں ہر اک کاقانون نافذ ہوگا۔اوریہی مفہو م بادشاہت کا ہے ۔
لایمسھم فیھا نصبٌ وما ھم منھا بمخرجین٭
نہ انہیں ان میں کو ئی تکان ہوگی اورنہ انہیں ان سے کبھی نکالاجائے گا ۴۱؎
۴۱؎ حل لغات ۔نَصَبٌ نَصِبَ(یَنْصَبَ) کا مصدر ہے ۔اورنصب الرجلُ کے معنی ہیں اَعْیَا۔تھک گیا (لازم)نصب فی الامر۔جدّا وجتہد۔کسی کام میں کوشش اورمحنت کی (اقرب)پس النصبُ کے معنی ہوں گے تکان ۔
تفسیر۔فرمایا ان کو جنت میں نہ کسی قسم کی تکان پہنچے گی اورنہ وہ اس سے نکالے جائیں گے۔اس میں بتایا گیا ہے کہ جنت می بھی انسان کام کر یں گے ۔لیکن فرق یہ ہوگا کہ وہاں فنا نہ ہو گی ۔کیونکہ تکان فنا کی علامت ہوتی ہے تکان کے معنی ہی یہ ہوتے ہیں کہ انسان کے جسم سے کچھ ذرات چربی یا اورکسی مفید جزو کے نکل گئے ہیں ۔اورتکان کام چھوڑنے اوآرام کرنے کے لئے طبیعت کا آلام ہوتاہے یا غذاکھانے کے لئے ۔میں نے ایک طب کی کتاب میں پڑھا ہے کہ ہاتھ کی ایک حرکت میں انسانی جسم کے کئی ملین سیل ضائع ہوجاتے ہیں ۔پس کچھ مدت کام کرنے کے بعد جب تکان محسوس ہوتی ہے وہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ جسم سے کافی طاقت ضائع ہوچکی ہے اب اس نقصا نا کا زالہ کرو۔پس تکان فنا کی علامت ہے اوریہ کہہ کر وہاں تکان نہ ہوگی یہ بتایا ہے کہ وہاں تحلیل جسم نہ ہوگی ۔اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ غذاجو بدل مایتحلل کے طورپرہوتی ہے وہاں ا سکا کام یہ نہ ہوگا کہ فنا شدہ کو پھر قائم کرے بلکہ مزید طاقت دینا کام ہوگا گویااس زندگی میں قدم پیچھے کسی طرح نہ ہٹے گا صرف آگے ہی بڑھناہوگاچونکہ اس عارضی فنا کے نتیجہ میں جو تکان کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے انسان کو موت آتی ہے ۔کیونکہ آہستہ آہستہ جسم کی قوتیں ضائع ہوجاتی ہیں اورجنت میں اس قسم کے نقصان کی نفی فرماائی ہے ۔اس لئے فرمایا کہ وہ وہاں سے نکالے نہ جائیں گے یعنی اب ان کے لئے کوئی موت نہیں ۔
یاد رہے کہ جنت ایک روحانی مقام ہے اورگوتمثیلی زبان میں اس نعماء کو دنیا کی نعما ء سے مشابہت دی گئی ہے ۔لیکن درحقیقت اس کی نعمتیں ایسی ہیں کہ انسان دما غ انہیں سمجھ ہی نہیں سکتا۔اس آیت میں درحقیقت اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اس دنیا میں توانہیں شیطانوں سے جدوجہدکرنی پڑتی تھی ۔وہاں وہ اس جدوجہد سے بالکل بچ جائیں گے۔اور ان کے دل ہرکوفت سے محفوظ ہوجائیں گے اورنہ عارضی طور پر شیطان ان کو نقصان پہنچاسکے گا نہ مستقل طورپر ۔
اس آیت میں یہ بھی استدلال ہوتاہے کہ جنت سست الوجودوں کی سرائے نہیں ۔بلکہ اس میں رہنے والے بھی کام کریں گے کیونکہ اگر کام نہ کرنا ہوتاتوتکان کی نفی کی کیا ضرورت تھی ۔پس جولوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جنت ایک کھانے پینے اورعیش کرنے کامقام ہے وہ غلطی کرتے ہیں ۔جنت توعبودیت کا اصل مقام ہے ۔جیسے فرمایا فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ(سورۃ الفجر)یعنی کامل عبودیت کامقام جنت میں داخلہ کے وقت حاصل ہوگا اورعبد کام کیاکرتاہے نہ کہ سست بیٹھتا ہے ۔پس اصل کام کامقام توجنت ہی ہے جہاں انسان کامل عبد ہوجائے گا ۔جنت کاسارا مزہ اس میں ہے کہ جذبات کی کشمکش سے آزاد ہو کر انسان اپنی عبادات میں لذت ہی لذت محسوس کرے گا اورجس کام میں لذت حاصل ہو اس میں تکان محسوس نہیں ہوتی ۔عام طورپر جو مسلمان جنت کا نقشہ پُؤرہائو س(مسکینوں کے رکھنے کی جگہ)کاسمجھتے ہیں ۔کہ کام کچھ نہ کریں گے کھانامفت ملتا رہے گااورکوئی وہاں سے باہر بھی نہ نکالے گا ۔لاحول ولا قوۃ الاباللہ العلی العظیم۔
نبِیء عبادی اَنی اناالغفورالرحیم٭
(اے پیغمبر)میرے بندوں کو آگاہ کردے کہ میں بہت ہی بخشنے والا(اور)بارباررحم کرنے والاہوں ۴۲؎
۴۲؎ تفسیر۔اَنَاالْغَفُوْرُالرَّحِیْمُ۔اس جگہ عِبَادِیْ کالفظ عام معنوں میں استعمال کیاگیا ہے اورنیک اوربد سب بندے اس میں شامل ہیں ۔فرمایا ہے کہ میرے بندے نیک ہوں یا بد ان سب کو اطلاع دے دو کہ میں غفور ہوں۔اوررحیم ہوں یعنی گناہ گاروں کو تسلی دو۔گھبرائیں نہیں۔اوراس خیال سے مایوس نہ ہوں۔کہ بہت گناہ ہوئے کیاہوسکتاہے ۔میں غفورہوں ان کے سب گناہ بخش سکتا ہوں ۔ اورمومنوں سے کہدو کہ وہ نیکی کرکے بس نہ کردیں ۔اوریہ خیال نہ کریں کہ جو کمال ہم نے حاصل کرناتھا کرلیا ۔کیونکہ میں رحیم ہوں میں بار بار رحم کرنے والاہوں۔وہ جس قدر بھی نیکی میں ترقی کرتے جائیں گے میرارحم اوبڑھتاجائے گاپس انہیں نیکیوں میں ترقی کرتے رہناچاہیئے ۔
وان عذابی ھوالعذاب الالیم٭
اور(یہ)کہ میراعذاب ہی (حقیقۃً) دردناک عذابا(ہوتا)ہے ۴۳؎
۴۳؎ حل لغات۔اَلْعَذَابُ۔کُلُّ مَاشَقَّ عَلَی الْاِنْسَانِ وَمَنَعَہٗ عَنْ مُرادِہِ۔عذاب کے معنی ہیں جو انسان پر شاق گذرے اورحصول مراد سے اسے روک دے وفی الکلیات کُلُّ عَذَاب فی القرآنِ فَھُوَ التَّعْذِیْبُ الّا وَلیَشْھدْ عذابھا طائفۃٌ فَاِنَّ المرادَ الضَّرْبُ۔اورکلیات می لکھا ہے کہ عذاب سے مراد قرآن کریم میں عذاب دیناہوتاہے سوائے آیت ولیشھد عذابھا کے ۔وہاں سزامراد ہے (اقرب)
تفسیر ۔فرمایا میرے عذاب کے مقابلہ میں کسی دوسرے کاعذاب ۔عذاب کہلانے کامستحق نہیں ۔کیونکہ اول تو وہ عارضی ہوتاہے دوسرے اس سے بچنے کاایک ذریعہ یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات موجود ہے ۔لیکن جب عذاب اللہ تعالیٰ کی طررف سے آئے توپھر کوئی پناہ باقی نہیں رہتی۔ ا س صورت میں تو لَامَلْجَائَ وَلَامَنْجَائَ مِنْکَ اِلَّا اِلَیْکَ ہی کہنا پڑا۔
ونبئہم عن ضعیف ابراھیم٭
اورانہیں ابراہیم کے مہمانوںکے متعلق (بھی )آگاہ کر ۴۴؎
۴۴؎ تفسیر ۔ا س جگہ دراصل حضرت لوط ؑ کا ذکر شروع کرنا تھا ۔مگر جیساکہ میں بتاچکاہوں ہمیشہ حضرت ابراہیم کے ذکر سے ہی حضرت لوطؑ ک اذکر شروع کیاجاتاہے ۔اتفاقی طور سے نہیں بلکہ یہ ذکر عمدًاکیاجاتاہے ۔چنانچہ جہاں کہیں تفصیلی طور پر حضرت لوطؑ کا واقعہ آیا ہے وہاں حضرت ابرہیم کے ذکر سے ہی ان کاذکر شروع کیاگیاہے ۔اوراس سے یہ بتایاگیا ہے کہ حضرت لوطؑ حضرت ابراہیمؑ کے ماتحت رسول تھے۔اس واقعہ کو آدم علیہ السلام کے واقعہ کے بعد اس لئے بیان کیاگیاہے کہ اہل مکہ اپنے آپ کو حضرت ابراہیم کی ذریت میں سے سمجھتے تھے ۔اورحضرت لوط ان کے رشتہ دار تھے پس ایک طرف تویہ بتایاکہ الہام الٰہی حضرت ابراہیم اورحضرت لوط پر بھی نازل ہواتھا ۔اورتم ان کے حالات سے واقف ہو ۔پھر آج ا س الہام کے متعلق شبہات کیوں پیداکرتے ہوں۔دوسرے انہیں اپنے باپ دادوں کے واقعات سے یہ بتایا گیا کہ وحی الٰہی کا انکار انسان کو سزاکامستحق بنادیتاہے ۔اس طرزبیان سے ان لوگوں کا بھی رد ہوجاتاہے جو کہتیی ہیں قرآن مجید میں کوئی ترتیب نہیں ۔
اددخلوا علیہ فقالواسلٰما ۔قال ان منکم وجلون٭
جب وہ اس اکے پاس آئے اورکہا (کہ ہم تمہارے لئے )سلامتی(کاپیغام لائے ہیں)اس نے کہا (کہ )ہم(تو)یقیناً تم سے ڈررہے ہیں ۴۵؎
۴۵؎ حل لغات ۔وَجِلُوْن۔وَجِلَ(یوجلُ وجلاً)کے معنی ہیں ۔خاف ۔ڈر گیا۔وفی مفردات الراغبِ اِستَشْعَرالخَوْفَ اورمفردات میں وجل کے معنی یہ کئے گئے ہیں کہ خوف کو محسوس کیا ۔اس سے صفت مشبّہ الوَجِلُ ہے جس کے معنی ہی الخائف ڈرنے والا ۔(اقرب)وَجِلُوْن ا س کی جمع ہے ۔
تفسیر ۔معلوم ہوتاہے ان کے چہروں پر رنج اورغم کے آثارتھے کیونکہ وہ ایک عذاب کی خبر لے کر آئے تھے ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پنی ذہانت سے ان کے قلب کی حالت کو تاڑ لیا۔یایہ کہ جیسا سورئہ ہود میں ذکر آچکا ہے ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کے لئے کھانالائے انہوں نے کھانے سے انکار کیا ۔اس سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اندازہ کیا کہ یہ لوگ کسی تکلیف دہ بوجھ کے نیچے دبے ہوئے ہیں اورشائدسمجھا کہ جو یہ خبر لائے ہیں ۔وہ ان کے (یعنی حضر ت ابراہیم علیہ السلام کے )کے لئے بھی تکلیف دہ ہوگی اس وجہ سے انہوں نے کہاکہ آپ لوگوں کا کھانانہ کھانا تو دل میں ڈر پیداکرتاہے کہ آپ لوگوںکا سفرخیر کاسفرکوئی نہیں ۔اس سورۃ میں کھانالانے اوران کے انکار کرنے کے حصہ کو چھوڑ دیاگیاہے ۔
یہ بھی معنے ہوسکتے ہیں چونکہ انہوںنے کھانانہ کھایا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خیال ہواکہ شائد مہمانی میں کوتاہی ہوئی ہے اورفرمایا کہ میں تو آپ لوگوں سے ڈرتا ہوں کہ مجھ سے خفاہوگئے ہیں۔
قالوا لاتوجل انانبشرک بغلٰمٍ علیم٭
انہوں نے کہا (کہ)توخوف نہ کر ہم تجھے یقینا ایک بہت علم (پانے)والے لڑکے کی بشارت دیتے ہیں ۳۶؎
۴۶؎ تفسیر ۔جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی فکر انہوں نے دیکھی توایک خبر جو وہ حضرت ابراہیم کے بارہ میں لائے تھے ۔انہیں سنائی اورکہا کہ ہمارے سفرکا تکلیف دہ حصہ آپ کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا بلکہ آپ کے لئے توہمیں ایک بشارت معلوم ہوئی ہے کہ آپ کے ہاں اولادہوگی ۔ایک بیٹاپیداہوگا جو بہت علم والا ہوگا ۔یہ امر قابل تعجب نہیں کہ حضرت لوط اورحضرت ابراہیم کی نسبت ان لوگوں کو یا ان میں سے کسی ایک کو الہام ہواہو۔کیونکہ کبھی مومن کے لئے دوسرے کو خبر دی جاتی ہے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔یَرَمٰہَاالمومنُ اوتُری لہٗ(ترمذی جلد ثانی ابواب الرویا)مومن کبھی خودبشارت پاتا ہے کبھی اس کے لئے دوسرے کو الہاماً خربتادی جاتی ہے میرے نزدیک چونکہ حضرت ابراہیم اورحضرت لوط ان علاقوں میں مہاجر تھے اورعراق کے علاقہ سے ہجرت کر کے آئے تھے چنانچہ بائبل میں لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم اُوْرجو کسدی قوم کے علاقہ میں تھا باشندے تھے (پیدائش باب ۱۱آیت ۲۷و۲۸ نیز ب۱۲آیت ۴)اورجیسا کہ قرآن مجید میں بھی لکھاہے کہ جب حضرت ابراہیم کو انکی قوم نے دکھ دیا توانہوں نے کہا اِنیِّ مہاجِرٌ اِلیٰ رَبِّیْ(عنکبوت ع ۱۵؍۲)میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرجائوں گاچنانچہ وہ وہاں سے ہجرت کرکے کنعان کے ملک میں آبسے ۔جیسا کہ سورئہ انبیاء میں ہے کہ وَنَجَِیْنَا وَلُوْطً اِلیٰ الْاَرْضِ الَّتِیْ بٰرَکْنَا فِیْہَالِلْعَالَمِیْنَ(ع ۵؍۵)یعنی جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مخالفت ترقی کرگئی اورآگ تک میں ان کو ڈالا گیا جسے اللہ تعالیٰ نے ٹھنڈاکردیا توہم نے ابراہیم علیہ السلام اورلوط کو اس ملک سے نجات دے کر اس زمین میں پہنچا دیا جو برکت والی تھی ۔اورقوموں کو اس جگہ برکت ملتی رہی ہے۔یعنی کنعان کاعلاقہ جسے اب فلسطین کہتے ہیں اورجس میں یوروشلم وغیرہ یہود کے مقدس مقامات ہیں (نیز دیکھو پیدائش باب ۱۲آیت ۵)غرض حضرت لوط چونکہ اس علاقہ میں نئے تھے اللہ تعالیٰ نے یہ دیکھ کر کہ حضرت لوط کواپناگائوں چھوڑنے پر تکلیف ہوگی ۔ان لوگوںکو جومعلوم ہوتا ہے اسی ملک کے تھے الہام کرکے روانہ کیاتاکہ وہ آئندہ قیام کے متعلق انہیں مشورہ دیں اورتسلی دیں ۔
یہ جو فرمایا کہ آپ کو غلامٌ علیم کی بشارت دیتے ہیں ۔یہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تسلی کے لئے خبردی۔کیونکہ وہ بہت نرم دل تھے۔فرماتاہے اِنَّ اِبراہیمَ لاَوَّاہٌ حلیمٌ(توبہ ع ۱۴)یعنی حضرت ابراہیم دوسروں کے دکھ کو بہت محسوس کرتے تھے پس اللہ تعالیٰ نے ان کے نازک دل کی تسلی کے لئے ان لوگوں کو حکم دیا کہ ابراہیم کوساتھ ہی لڑکے کی بشار ت دیتے جانا جو علیم ہوگا۔تااس کے دل کوتسلی ہوکہ اگراللہ تعالیٰ ایک قوم کوتباہ کررہا ہے توایک اورنیک قوم کی بنیاد بھی رکھ رہا ہے چونکہ سچاعلم نبوت سے حاصل ہوتاہے اس لئے علیم میں حضر ت اسحاق کی نبوت کی بشارت بھی مراد ہوسکتی ہے ۔اِنَّانُبَشِّرُکَ کے الفاظ اس قدرزوردار ہیں کہ ان سے معلوم ہوتاہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے انکو ہدایت ملی تھی کہ چونکہ اس ہلاکت و تباہی کی خبر سے حضرت ابراہیم کو صدمہ ہوگا ۔اس لئے تم اس کے ساتھ ہی اس کو یہ بشارت بھی دینا ۔
قال ابشرتمونی علی ان مسنیی الکبر فبم تبشرون٭
اس نے کہا (کہ)کیا تم نے مجھے (اب فی الواقعہ)بشارت دی ہے باوجوداس کے مجھ پر بڑھاپاآچکا ہے پس بتائو کہ کس بناپر تم مجھے (یہ) بشارت دیتے ہو ۴۷؎
۴۷؎ تفسیر ۔حضرت ابراہیم نے کہا میں تو اب بہت بوڑھا ہوچکاہوں پس یہ تمہاری خبرضرورالہامی ہے اگرایساہے تو مجھے بھی بتائو فبم تبشرون کے اس جگہ یہ معنی نہیں کہ تم مجھے کس امر کی بشارت دیتے ہو ۔بلکہ یہ ہیں کہ تم کس حق کی بناء پر یہ بشارت دیتے ہو ۔تمہاری اس خبر کی بنیاد کیا ہے ۔
قالوا بشرنک بالحق فلا تکن من القانطین٭
انہوں نے کہا (کہ ) ہم نے تجھے سچی بشارت دی ہے پس توناامید مت ہو ۴۸؎
۴۸؎ حل لغات ۔قَنَطَ۔(یَقْنُطُ۔قنُوطًا)کے معنے ہیں ۔یئسَ۔ناامید ہوگیا ۔اس سے اسم فاعل قَانِطٌ آتاہے یعنی ناامید ہونے والا(اقرب)
تفسیر ۔انہوں نے کہا ہم نے بلاوجہ بشارت نہیں دی ہم انسان ہیں انسان ہونے کے لحاظ سے ہماراکوئی حق نہیں کہ کوئی بشارت دے سکیں مگریہ بشارت خداتعالیٰ کی طرف سے ہے اورہم اس کے دیئے ہوئے حق یااسی کے مناسب موقعہ ارشادکے ماتحت بشارت دیتے ہیں ۔ پس تو ناامید نہ ہو ۔فلاتَکُنْ مِّنَ القَانطِیْنَ کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ وہ بشر تھے۔اگرفرشتے ہوتے توحضرت ابراہیم کو ان الفاظ میں خطاب نہ کرتے ۔کیونکہ فرشتے توحضرت ابراہیم کے مقام کو خوب جانتے تھے۔ہاں بشرکے لئے ممکن ہے کہ وہ ناواقفیت کیوجہ سے ایساکہہ دے ۔
قال ومن یقنط من رحمۃِ ربہ الاالضالون٭
اس نے کہا(کہ میں کیونکر ناامیدہوسکتاہوں)اورگمراہوں کے سوااپنے رب کی رحمت سے کون ناامید ہوتاہے ۴۹؎
۴۹؎ تفسیر ۔حضرت ابراہیم نے ان کایہ فقرہ سن کر کہ تو ناامید مت ہو ۔نہایت زوردار الفاظ میں کہا کہ کیا تم مجھے ایساکمزورایما ن والا سمجھتے ہو خدا کی رحمت کے سوائے گمراہوں کے اورکو ن ناامید ہوسکتاہے ۔مگرمیں تو اللہ تعالیٰ پر ایمان کامل رکھتا ہوں میرے سوال کی غرض تویہ تھی کہ تمہارا مجھے یہ بشارت دینا صرف ایک انسان ڈھکونسلا (جیسے بعض نجومی وغیرہ کہہ دیتے ہیں)یاخداتعالیٰ کی طرف سے تم کو خبر ملی ہے ۔ جب تم نے یہ بتادیا کہ تم خداتعالیٰ کی طرف سے خبر پاکر ایساکہہ رہے ہو تومجھے بشارت میں کوئی شک نہیں رہا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی غیرت ایمانی کودیکھو کہ مایوسی کالفظ سن کر فورً ا جواب دینے کوتیار ہوگئے اوربرداشت نہ کرسکے ۔ایک طرف ان کی مہمان نوازی اورمہمانوں کی خاطرداری کو دیکھوکہ فوراً گائے ذبح کرکے ان کیسامنے رکھ دیتے ہیں ۔اورجب وہ نہیں کھاتے تو ان کے دل میں گھبراہٹ پیداہوجاتی ہے کہ مباداوہ ناراض ہی نہ ہوگئے ہوں۔اورمجھ سے کوئی کوتاہی ان کی خدمت میں نہ ہوگئی ہو ۔لیکن دوسری طرف جب وہی معزز مہمان فلا تکن من القانطین کہتے ہیں تونہایت جوش اورغیرت سے بول اٹھتے ہیں کہ مومن کبھی خداکی رحمت سے مایوس نہیں ہوسکتا۔یہ انبیاء کی غیر ت ایمانی کامقام ہے ہرمومن کو دین کے معاملہ میں ایسی ہی غیرت اپنے دل میں پیداکرنی چاہیئے ۔حضرت ابراہیم کی جگہ اگرکوئی دوسراہوتا توکہتا کہ کیا کروں بوڑھا ہوں میرے قویٰ مضمحل ہوچکے ہیں ۔اس لئے یقین نہیں آتا مگروہ یہ کہتے ہیں کہ جب تک بندوں کی طرف سے خبرہو اسے قابل تحقیق سمجھتاہوں لیکن اللہ تعالیٰ کی طر ف سے خبرہوتو باوجود مضمحل قویٰ کے میں اس پر پورایقین رکھتاہوں۔
قال فما خطبکم ایھا المرسلون ٭
(پھر)کہا (کہ اچھا)تواے (خداکے )فرستادو(وہ)تمہارااہم کام کیا ہے(جوتمہارااصل مقصدہے)۵۰؎
۵۰؎ حل لغات۔الخَطبُ ۔الشَّانُ۔شان ۔والاَمرُ صَغُرَاَوْ عَظُمَ۔اہم امر خوا ہ چھوٹاہویابڑا۔ومنہ ھٰذا خطبٌ یَسیرٌ وخَطبٌ جلیلٌ۔اور خطبٌ یسیرٌْ اورخطبٌ جَلیلٌ انہی معنوں میں استعمال ہوتاہے یہ اصلی کام چھوٹاہے اوریہ بڑا۔سبب الاَمرِ ۔کسی امر کاسبب وقیل الخطب اسمُ لِلْاَمرِ الْمَکرُوْہُ ودنَ المَحْبُوبِ اوربعض محققین لغت کہتے ہیں کہ ناپسندیدہ امر کے لئے بطوراسم کے بولاجاتاہے ۔وقیل ھوالمکروہ والمحبوب جَمیعاً اوربعض کہتے ہیں کہ ناپسندیدہ امر اورپسندیدہ دونوں کے لئے بولاجاتاہے(اقرب)
تفسیر ۔جب یہ معاملہ صاف ہوگیا کہ انہیں نہ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مہمانی میں کوئی کمی نظرآئی تھی اورنہ کوئی بر ی خبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے لائے تھے ۔توحضرت ابراہیم علیہ السلام نے فورًا سمجھ لیا کہ ان کے آنے کی اصل غرض کچھ اورہے ۔کیونکہ مجھے بیٹے کی بشارت دینے کے لئے آتے توایسے غمزدہ کیوں ہوتے ۔پس معلوم ہوتاہے ان کا پیغام کسی اورشخص کے لئے بھی ہے اوروہی اصل پیغام ہے اورہے بھی غم کا ۔تبھی یہ کھانانہ کھاسکے ۔پس وہ ان سے پوچھتے ہیں کہ تمہاراخطب کیا ہے ۔یعنی وہ امر مہم کیا ہے (خطب بڑے اہم امر کوبھی کہتے ہیں اورجواصلی کام ہو بڑاہویاچھوٹااسے بھی۔اس جگہ اصل اوراہم کام مراد ہے)جس کے لئے تم آئے ہو تمہارے دل پر بوجھ ہے ا س سے ظاہر ہے کہ اصل کام مجھے بیٹے کی بشار ت دینا نہیں اصل کام کوئی اورہے ۔جو غم پیداکرنے والاہے ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کایہ استدلال صاف بتاتا ہے کہ و ہ انہیں انسان سمجھتے تھے تبھی تو باوجود ان کے بشارت دے دینے کے انہوں نے ان کے کھانانہ کھانے کے فعل کو بلاوجہ قرار نہیں دیا ۔اوراستدلال کیا کہ یہ ضرورکسی اورتکلیف دہ امر کے لئے سفرکررہے ہیں اگر وہ اس بشارت کی وجہ سے ان کو فرشتہ خیال کرلیتے توکھانانہ کھانے کاسوال بھی ان کے لئے حل ہوجاتا۔وہ اگلا سوال ان سے کیونکر کرسکتے تھیح۔کہ پھر تمہارااصل مشن کیا ہے یہ امر کہ ان کاکوئی اورمشن بھی ہے صرف کھانانہ کھانے سے ہی سمجھاجاسکتاہے ۔اوراسی وقت سمجھا جاسکتاتھا جبکہ انہیں انسان سمجھا جاتا ۔ ابراہیم نے کہا کہ تمہارے دل پر کسی امر کابوجھ ہے جس کی وجہ سے تم کھاناوغیرہ نہیں کھاسکتے ۔
قالوا انا ارسلنا الی قوم مجرمین٭
انہوں نے کہا (کہ)ہمیں یقیناً ایک مجرم قوم کی طرف (انکی ہلاکت کے لئے )بھیجا گیاہے ۵۱؎
۵۱؎ تفسیر۔انہوں نے کہا کہ ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں تاکہ ان کے عذاب کی خبردیں اس لئے ہمارے دل پر بوجھ ہے ۔
الا آل لوطٍ انا لمنجوھم اجمعین٭
سوائے لوط کے پیرئووں کے (کہ)ان سب کو ہم یقیناً بچالیں گے ۵۲؎
۵۲؎ تفسیر ۔ہاں لوط کاخاندان مستثنیٰ ہے اس فقرہ سے انہوں نے قو م بھی ظاہرکردی اورحضرت ابراہیم علیہ السلام کو پھر تسلی دے دی تاحضرت لوط کی وجہ سے غمگین نہ ہوں اوریہ جو فرمایا ہم ان سب کو نجات دیں گے یہ میرے نزدیک اس سبب سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حضرت لوط کے آئندہ رہائش کے انتظام کے لیء بھیجاتھا ۔
لمنجُّوھم اجمعین سے یہ بھی ظاہر ہے کہ حضرت لوط کے ساتھ نجات پانے والے لو گ قرآن مجید کے نزدیک ایک جماعت تھے بائبل نے صرف ان کی دولڑکیوں کے بچنے کاذکر کیا ہے حالانکہ آل لوط اگر دولڑکیوں پر مشتمل تھے تو اجمعین کالفظ ان کے لئے نہیں بولاجاسکتا
الاامراتہ قدرنا انھا لمن الغبرین ٭
اس کی بیوی کے سوا (کہ)ہمارااندازہ ہے کہ وہ یقیناً پیچھے رہنے (اورہلاک ہونے )والوں میں سے ہوگی ۵۳؎
۵۳؎ حل لغات ۔قَدَّرْنَا ۔قدر کالفظ جب اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال ہو تواس کے معنی اندازہ اورقیاس کرنے کے ہوتے ہیں ۔چنانچہ مفردات میں لکھاہے التَّقدِیرُ تَبْیِیْنُ کَمِیّۃِ الشَّیْئِ تقدیر کے معنی ہیں کسی چیز کی کمیت کوواضح کرنا اورجب اللہ تعالیٰ کے لئے یہ لفظ استعمال ہو تواس کے معنی ہوں گے تقدیراللہ بالحکم منہ ان یکون کذااَوْلَایکون کذا۔کہ اللہ تعالیٰ کاکسی معاملہ کے متعلق فیصلہ کرنا کہ وہ اس طرح ہو یااس طرح نہ ہو اورجب کسی انسان کے لئے یہ لفظ استعمال ہو تومعنے ہو ں گے التفکّر فی الامرِ بحَسبِ نَظَرِ العَقْلِ وبنا ئِ الامرِ علیہِ کہ کسی معاملہ میں عقل کے ساتھ غوروفکرکرکے اس کااندازہ لگایاجائے اوراس پر کسی کام کی بناء رکھی جاوے(مفردات)
الغَابِرُ۔البَاقی ۔غابر کے معنی ہیں باقی رہنے والا۔اس کی جمع غُبَّر اورغابرون آتی ہے ۔ومنہ فانجینٰہَ وَ اَھلَہُ اِلَّاامراتَہُ کانت من الغٰبِرِینَ۔اَیْ مِنَ الَّذِیْنَ بَقَوْا فی دیارھم فَھلَکُوْا اورآیت اَمرأتُہٗ کَانَتْ مِنَ الغٰبِرِیْنَ۔میں لفظ غابر باقی رہنے والے کے معنوں میں ہی استعمال ہواہے ۔یعنی ان کی بیوی ان لوگوں میں سے تھی جو شہر میں پیچھے رہ گئے تھے (اقرب)
تفسیر ۔یعنی آل لوط میں سے ان کی بیوی چونکہ خو د پیچھے رہ جائے گی اس لئے وہ نہ بچائی جائے گی یہ لوگ قَدَّرْنَاکالفظ استعمال کرتے ہیں جس کے معنی مقررکرنے کے بھی ہوتے ہیں۔اس لئے بعض لوگوں نے اس سے استدلال کیا ہے ۔کہ وہ فرشتے تھے ورنہ قدرناکیونکر کہتے ۔ لیکن یہ درست نہیں۔کیونکہ اگروہ فرشتے بھی ہوتے توبھی قدّرناکیونکر کہہ سکتے تھے۔تقدیر تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے نہ کہ فرشتوں کے ۔پس قدّرنا کے اس جگہ یہ معنی نہیں کہ ہم نے ایسا فیصلہ کیا ہے بلکہ اسکے معنی اس جگہ اندازہ لگانے کے ہیں ۔معلوم ہوتا ہے کہ انہیں یاان میں سے کسی ایک کو خواب یا الہام یاخبر دی گئی تھی اس میں بیوی کے متعلق گووضاحت نہ تھی مگر استدلال یہی ہوتاتھا کہ وہ نہ بچے گی۔پس انہوں نے اللہ تعالیٰ کے الہام کا ادب کرتے ہوئے اس پر زیادہ زورنہ دیااوراسی قدرکہا کہ ہمارااندازہ الہام الٰہی سے یہی ہے کہ وہ نہ بچے گی ۔ یایہ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تسلی کے لئے اس مضمون پر زیادہ زورنہ دیا اوریہ جھوٹ نہیں۔کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے مقرر کردہ عذابوںکو بدل بھی دیتاہے ۔ممکن ہے ان کے دل میں خیال ہو کہ شائد حضرت لوط کی دعاسے بیوی کایہ عذاب ٹل جائے ۔پس انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو انہی الفاظ میں خبردینی مناسب سمجھی کہ ہمارااندازہ یہ ہے کہ وہ حضرت لوط کے ساتھ نہ جائے گی۔دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے اس فعل کو اپنی طرف بھی منسوب فرمایاہے چنانچہ فرماتاہے ۔قَدَّرنٰھَامِنَ الغٰبِرِیْنَ۔(نمل ع۱۹؍۴)اب یہ کیونکر ممکن ہوسکتاہے کہ ادھراللہ تعالیٰ کہے کہ میں نے یہ فیصلہ کیاتھا اورادھر وہ رسول یا فرشتے جوکچھ بھی چاہو انہیں کہہ لو ۔وہ کہیں کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے ۔پس حقیقت یہ ہے جیساکہ لغت میں ہے ۔جب خداتعالیٰ کی نسبت یہ لفظ آتاہے وہاں فیصلہ کرنے کے معنے ہوتے ہیں اور جب انسانوں کی نسبت آتا ہے وہاں اندازہ یاقیاس کرنے کے معنی ہوتے ہیں۔ان لوگوں کے قول میں اس کے معنی اندازہ یاتخمین سے بات کرنے کے ہیں
بائبل کے بیان اورقرآن کریم کے بیا ن میں یہاں بھی اختلاف ہے بائبل میں لکھا ہے جب صبح ہوئی فرشتوں نے لوط سے تاکید کر کے کہا کہ اُٹھ اپنی جورو اوراپنی دوبیٹیاں جو یہاں موجو د ہیں لے (پیدائش باب ۱۹ آیت ۱۵) اورپھر آیت۱۶ میں بیان ہے کہ احضر ت لو ط نے کچھ دیر کی توانہوں نے اس کا اوراس کی جورو کااور اس کی دونو ں بیٹیوں کاہاتھ پکڑا کیونکہ خداوند کی مہربانی اس پر ہوئی ۔ اوراسے نکال کر شہر سے باہر پہنچادیا ۔لیکن قرآن کریم فرماتاہے کہ حضر ت لوط کو پہلے ہی خبردے دی گئی تھی کہ وہ ساتھ نہ جائے گی بلکہ پیچھے رہ جائے گی۔چنانچہ فرماتاہے جب رسول حضرت لوط کے پا س آئے توانہوں نے حضرت لوط سے کہا ۔اِنَّا مُنَجُّوْکَ وَاَھْلَکَ اِلَّاامْرَاَتَکَ کَانَتْ مِنَ الغٰبِرِیْنَ(عنکبوت ع ۱۶؍۴)یعنی ہم تجھے اورتیرے اہل کوتویہاں سے بچاکرلے جائیں گے مگر تیری بیوی کو نہیں وہ پیچھے رہنے والے گروہ میں ہوگی ۔اب ہرعقل مند خود سمجھ سکتاہے کہ کون سابیان عقل کے مطابق ہے ۔کیاقرآن کریم کاجو کہتاہے کہ وہ پیچھے ہی رہ گئی تھی یابائبل کا جو کہتی ہے کہ فرشتوں نے پکڑ کر ان کی بیوی کو شہر سے باہر نکالا ۔سوال یہ ہے کہ جب خداتعالیٰ کو معلوم تھا کہ اس عورت نے تباہ ہوتا ہے توا سے پکڑ کرباہر نکالنے کے معنی کیاتھے ۔جس کے متعلق تباہی کافیصلہ تھا ۔اسے فرشتوں نے نکالا۔ کیوں کوئی آدمی باہر نکالتا توکہہ سکتے تھے کہ اسے علم نہ تھا۔لیکن فرشتے جو خداتعالیٰ کی طرف سے خبرلے کر آئے تھے باوجود اس علم کے کہ اس عورت نے تباہ ہونا ہے اسے کیوں باہر نکالنے لگے ۔
فلماجاء آل لوط ن المرسلون٭قال انکم قوم منکرون٭
پھر جب وہ (ہمارے)بھیجے ہوئے (لوگ)لوط (اوراس)کے اتباع کے پا س آئے تواس نے (انہیں)کہا (کہ)آپ (اس علاقہ میں) اجنبی (معلوم ہوتے)ہیں ۵۴؎
۵۴؎ حل لغات ۔مُنْکَرُوْن۔انکر سے اسم مفعول مُنْکَرٌ بنتاہے اورمُنْکَرُوْن اس کی جمع ہے۔انکرہ کے معنی ہیں جَہِلَہٗ اس کونہ پہچانا۔اَنْکَرَ حَقَّہٗ کے معنی ہیں ۔جَحَدَہٗ اس کے حق کاجان بوجھ کر انکار کردیا۔اَنْکَرَ عَلَیْہِ فِعْلَہ عَابَہَ وَنَھَا اس کے فعل کومعیوب قرار دیا اورس سے اُسے روکا۔المُنْکر کے معنی ہیں مَالَیْسَ فیہ رِضَی اللّٰہِ مِنْ قَوْلٍ والمعروفُ ضدّہٗ۔منکر وہ فعل یاقول ہے جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہو اورلفظ معروف(پسندیدہ)اس کے مخالف معنے اداکرنے کے لئے بولاجاتاہے (اقرب)پس اِنَّکُمْ قَوْمٌ مُّنْکَرُوْنَ کے ایک معنی ہوئے کہ آپ ا س علاقہ میں انجان یااجنبی معلوم ہوتے ہیں ۔
تفسیر ۔قرآن کریم انہیں پھر مُرْسَلُوْن کہہ کر ان کے انسان ہونے کی طر ف اشارہ فرماتاہے ۔بائبل کاحال عجیب ہے کہ کبھی انہیں مردکہا ہے (پیدائش باب ۱۹آیت ۱)اورباوجود فرشتہ کہنے کے لکھا ہے کہ حضرت لوط نے ان کے لئے فطیری روٹی پکائی اورانہوںنے کھائی( پیدائش باب ۱۹آیت ۳)فرشتوں کا فطیری روٹی کھانا ایک عجوبہ ہے اوراس پر دلالت کرتا ہے کہ تورات میں بعد میں بہت کچھ رطب ویابس شامل کردیاگیا ہے ۔
قالو ابل جئنٰک بماکانو فیہ یمترون٭
انہوں نے کہا (کہ ایسا)نہیں بلکہ ہم (تو)تمہارے پاس (ہی )آئے ہیں (اور)وہ چیز لے کر(آئے ہیں)جسکے متعلق یہ (لوگ)شک کرتے رہے ہیں۔ ۵۵؎
۵۵؎ حل لغات ۔یَمْتَرُوْن۔اِمْتَری سے مضارع جمع غائب کاصیغہ ہے اوراِمتری فِی الشیئِ کے معنے ہیں شَکَّ فِیہ: کسی چیز میں شک کیا(اقرب) پس بَلْ جِئْنَاکَ بِمَاکَانُوْا فِیْہِ یَمْتَرُوْنَ کے معنے ہوں گے کہ تمہارے پاس وہ چیز لے کر آئے ہیں جس کے متعلق یہ لو گ شک کرتے رہے ہیں۔
تفسیر ۔حضرت لوطؑ نے جب کہا کہ آپ تو مسافر اورراہگیر معلوم ہوتے ہیں ۔توانہوں نے کہا ہم راہگیرنہیں ہیں بلکہ ایک غرض کے لئے تیرے پاس آئے ہیں ۔اوراس چیز کی خبر لے کر آئے ہیں جس کے بارے میں یہ لوگ شک کرتے رہے ہیں یعنی عذاب کی خبر لے کرآئے ہیں۔
اس سے معلوم ہوتاہے کہ عذاب کی خبر لوط کی قوم کو حضرت لوط کے ذریعہ سے مل چکی ہوئی تھی۔کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم یہ بتانے کے لئے آئے ہیں کہ اب عنقریب ان پر وہ عذاب آنے والا ہے جس می یہ لوگ شک کرتے رہے ہیں ۔گویا عذاب کی خبر توپہلے ہی اس قوم کو دی جاچکی تھی ۔اب یہ لوگ حضرت لوط کو صرف یہ بتانے کے لئے آئے تھے کہ اب اس موعود عذاب کاوقت آگیا ہے ۔آپ یہاں سے ہمارے ساتھ چل پڑیں۔
واتینک بالحق وانا لصادقون٭
اورہم تمہارے پاس یقینی خبر لائے ہیں اورہم یقیناً سچے ہیں ۵۶؎
۵۶؎ حل لغات ۔بالحَقّ۔الحق کے معنی ہیں یقینی خبر۔مزید تشریح کے لئے دیکھو سورہ رعد ۱۵؎
تفسیر ۔چونکہ حضرت ابراہیم نے سوال کیاتھا ۔کہ تم مجھے کس بناء پر بشار ت دیتے ہو وہ خود ہی اندازہ لگاتے ہیں کہ حضرت لوط کو بھی شک ہو گا۔کہ یہ لوگ کون ہیں ۔اورکیوں آئے ہیں اس لئے انہوں نے آپ ہی بتادیا ۔کہ ہم الحق کے ساتھ آئے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی وحی کے ساتھ اورپھر اِنَّالَصٰدِقُوْن کہہ کر زوردیا کہ ہم پر بدگمانی نہ کریں۔ ہم اس دعویٰ میں سچے ہیں۔
فاسر باھلک بقطعٍ من الیل واتبع ادبارھم ولایلتفت منکم احدوامضوا حیث تومرون٭
سوتم رات کے آخری حصہ میں (کسی وقت )اپنے گھروالوں کو لے کر (یہاں سے )چلے جائو۔اور(خود)ان کے پیچھے (پیچھے)رہو اورتم میں سے کوئی ( اِن کی طرف )التفات(ظاہر)نہ کرے اورجہاں(جانے )کاحکم تمہیں دیاجاتاہے (سب وہاں)چلے جائو ۵۷؎
۵۷؎ حل لغات ۔اَسْرِ بِاَھْلِکَ۔اَسْرِ سَرَی سے باب فعال کاصیغہ امر ہے اورسَرَی الرَّجُلُ کے معنی ہیں سَرَی عَامَّۃَ اللَّیْلِ رات کا اکثر حصہ چلا ۔اَسْری الرَّجُلُ اِسرَائً مِثْلُ سَریَ۔اوراَسریَ (باب افعال ثلاثی مزید)کے معنے سَریَ(ثلاثی مجرّد )کے ہی ہیں۔وقِیْلَ اَسْریَ لِاَوَّلِ لَیْلٍ وَسَرَ لِاَخِرٍ لَیْلٍ۔اوربعض محققین لغت کہتے ہیں کہ اَسْرَی کافعل رات کے ابتدائی حصہ میں چلنے کے متعلق استعمال ہوتاہے ۔اورسَرَی کا فعل رات کے آخری حصہ میں چلنے پر۔اَسْرَاہ واَسْرَی بِہِ(متعدی)کے معنی ہیں۔سَیَّرَہٗ باللّیْلِ اَیْ سَیَّرہُ لَیْلًایعنی اسے رات کو روانہ کیا (اقرب)
قِطْعٌ مِّنَ اللَّیْلِ:۔قِطْعٌ کے معنی ہیں ظُلْمَۃُ آخَرِ اللَّیْلِ رات کے آخری حصہ کی تاریکی۔وَقِیْلَ من ادّلِہٖ الیٰ ثُلثِہٖ اوربعض کے نزدیک رات کے ابتداسے لے کر رات کے تیسرے پہر کی تاریکی کے لئے یہ لفظ بولاجاتاہے ۔(اقرب)اس اختلاف کے لحاظ سے اَسْرِ بِاَھْلِکَ کے معنے ہوں گے کہ رات کے کسی حصہ میں یا ابتدائی یاآخری حصہ میں اپنے گھر والوں کو لے کر چلو ۔لیکن رات کے آخری حصہ میں جانازیادہ قرین قیاس ہے کیونکہ اگلی آیت میں مُصْبِحِیْنَ کالفظ استعمال ہواہے ۔اس لحاظ سے معنے یہ ہوں گے کہ رات کے آخری حصہ میں کسی وقت اپنے گھروالوں کو لے کر چلو ۔اگر اَسْرِ سے رات کے آخر ی حصہ میں چلنا مراد لیں۔توبِقِطْعٍ مِّنَ اللَّیْلِ اس کی تشریح ہوگی۔
تفسیر ۔ان مرسلوں نے حضرت لوط کو ان کے نکلنے کے متعلق تفصیلات سے اطلاع دی۔اوربتایا کہ رات کے آخری حصہ میں یہاں سے نکلیں۔گووضع لغت کے لحاظ سے اِسراء رات کے کسی حصہ میں جانے کے متعلق بولاجاتاہے۔لیکن بِقِطْعٍ مِّنَ اللَّیْلِ سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت لوط کو رات کے آخری حصہ میںنکلنے کو کہاگیاہے کیونکہ وہ کہتے ہیں جب رات کاایک حصہ باقی رہ گیاہو تب نکلو۔اس احتیاط میں یہ حکمت معلوم ہوتی ہے ک تادشمن پیچھانہ کرسیں ۔کیونکہ جس وقت انہیں نکلنے کوکہاگیاہے ۔اس کے معاًبعد عذاب آنے والاتھا ۔پس اگر ان لوگوںکو حضرت لوط کے نکلنے کے کچھ دیر بعد پتہ بھی لگ جاتا ۔تووہ پیچھا نہیں کرسکتے تھے۔
یہ جوکہاکہ توان سب کے پیچھے رہیو۔اسمیں رحم کا پہلو ہے کیونکہ عذاب سے اصلی حفاظت نبی کو حاصل ہوتی ہے جب تک حضرت لوط عذاب سے محفوظ نہ ہوتے عذاب نہیں آسکتاتھا۔پس انہوں نے ہدایت کی کہ قافلہ کی کامل حفاظت اسی میں ہے کہ آپ سب کے پیچھے رہیں تاساراقافلہ عذاب سے کلی طور پر محفوظ ہوجائے۔
اس آیت سے قطعی طور پر ثابت ہوتاہے کہ حضرت لوط پرکچھ لوگ ایمان ضرورلائے تھے ۔گوبائبل صرف یہ کہتی ہے کہ ان کی دولڑکیاں ان کے ساتھ نکلی تھیں اور کوئی نہیں(پیدائش باب۱۹)مگرقرآن کریم اس کے خلا ف کہتا ہے ۔کیونکہ اس آیت می فرماتاہے ۔وَاتَّبعْ اَدْبَارَھُمْ نکلنے والے قافلہ کے پیچھے رہو ۔اورھُمْ کالفظ استعمال فرمایاہے۔جوتین یاتین سے زیادہ مردوں کے لئے ستعمال ہوتاہے ۔ یامردوںاورعورتوں کی مخلوط جماعت کے لئے استعمال ہوسکتاہے کیونکہ جب مرد اورعورت اکٹھے ہوں ۔تومذکر کی ضمیر استعمال کی جاتی ہے لیکن اگر مرد تھے ہی نہیں جیساکہ بائبل کہتی ہے تووَاتَّبِعْ اَدْبَارَھُمَا چاہیئے تھا یااگردوسے زیاد ہ عورتیں تھیں تواَدْبَارَھُنَّ کہناچاہیئے تھا۔لیکن صرف دولڑکیوںکے لئے اَدْبَارَھُمْ کسی صورت میں استعمال نہیں ہوسکتا۔پس اس آیت سے قطعی طورپر ثابت ہے کہ حضرت لوط کے ساتھ نکلنے والے کچھ اورمرد تھے اس وجہ سے عورتوں اورمردوں کے مخلوط قافلہ کو ھُمْ کی ضمیر سے یاد کیاگیا۔گوبائبل میں نکلنے کاواقعہ جہاں بیان ہواہے وہاں صرف دولڑکیوں کاذکر ہے لیکن ایک اورجگہ سے بائبل سے بھی استدلال ہوتاہے ۔کہ بائبل کایہ بیان غلط ہے اوروہ اس طرح کہ بائبل میں جہاں ان مرسلوں کے آنے کاذکر ہے وہاں لکھاہے کہ حضرت ابراہیم نے ان کے جانے کے بعد اللہ تعالی سے دعاکی کہ کیا اگر پچاس راستباز وہاں ہوں تواس قوم کو ان کی خاطرنہ بچائے گااللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ اگر پچاس صادق ہوں تومیں انکی خاطرسارے شہر کو چھوڑ دوں گااس پرحضرت ابراہیم علیہ السلام تعداد کم کرتے گئے حتی کہ آخر میں دس صادقوں کے ہونے پر بھی شہر کو بچالینے کی درخواست کی اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر دس صادق بھی ہوں تب بھی میں شہر کو بچا لوں گا ۔تب حضرت ابراہیم خاموش ہوگئے اورسمجھ لیا کہ دس صادق بھی ا س شہرمیں نہیں ہیں(پیدائش باب۱۸ آیت ۲۲تا۳۲)اس واقعہ سے معلوم ہوتاہے کہ حضر ت ابراہیم کویہ معلوم تھاکہ کچھ لوگ حضرت لوط پرایمان لائے ہیں ورنہ وہ یہ دعاکیوں کرتے ۔حضرت لوط تھوڑے ہی فاصلہ پر رہتے تھے اوریقیناان کی خبریں حضرت ابراہیم کو ملتی رہتی ہوں گی۔پس یہ کیونکر ہوسکتاتھاکہ اگران کے علم میں کوئی بھی مومن نہ تھاتووہ ایسے دعاکرتے ہاں یہ معلوم ہوتاہے کہ انہیں اتنا معلوم تھاکہ مومنوں کی تعداد بہت تھوڑی ہے اسی لئے انہوں نے پچاس کے عدد سے دعاشروع کی اوردس پر آکر چھوڑ دی ۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ دس سے کم مومن تھے ۔اورچونکہ تین یا تین سے زیادہ پر ھُمْ کالفظ بولاجاتاہے ۔اس لئے ممکن ہو تین یا دوچار زیادہ مومن ہوں۔
اوریہ جو فرمایاکہ لَایَلْتَفِتْ احَدٌ مِّنْکُمْ اس سے مراد پیچھے مڑ کر دیکھنا نہیں بلکہ یہ ہے کہ کفارکی طرف توجہ نہ کرو۔اورانہیں ہلاک ہونے دو۔ورنہ پیچھے مڑکردیکھنے میں کوئی خاص بات نہیں ۔
بائبل میں لکھا ہے کہ ان کی بیوی نے مڑ کردیکھا اوروہ نمک کا کھمبابن گئی ۔یہ کہ وہ نمک کاکھمبابن گئی۔اسے تومیں یہود اورمسیحیوں کی عقل پر چھوڑتاہوں مگر یہ میں واضح کر دینا چاہتاہوں ۔قرآن کریم کی روسے ان کی بیوی ساتھ آئی ہی نہ تھی ۔کیونکہ فرماتاہے ۔کَانَتْ مِنَ الْغَابِرِیْنَ وہ پیچھے ہی رہ گئی تھی ۔پس قرآن کریم کے بیان کی روسے اس کے نمک کاکھمبابن جانے یاکچھ اوربن جانے کاسوال ہی پیدانہیں ہوتا۔اس کی قسم کی لغویت سے قرآنی بیان کاپاک ہو نا ثابت کرتاہے کہ وہ خدائی کلام ہے ۔ورنہ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ تورات جو قریب کے زمانہ میں لکھی گئی و ہ توایسے لغو قصہ کو بیان کرتی ہے مگر قرآن کریم اسے چھوڑ دیتاہے ۔
وَامْضُوْا حَیْثُ تُؤمَرُوْنَ سے میرے اس دعویٰ کی تصدیق ہوتی ہے کہ حضرت لوط کو وہ لوگ یہ بتانے کے لئے آئے تھے کہ وہاں سے نکل کر وہ کہاںل جائیں اوراس کام میں مدد دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں الہام کرکے بھیجاتھا۔ان کو سب نشان پتہ بتاکر معلوم ہوتاہے وہ لو گ چلے گئے اورکہہ گئے کہ ہماری بتائی ہوئی جگہ پر آجانا کیونکہ وہیں آپ کا آنا اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیئے مقدرکیاہے ۔
وقضینا الیہ ذالک الامر اِنّ دابرھٰولاء مقطوع مصبحین٭
اوریہ بات ہم نے اسے یقینی طورپربتادی ہے کہ ان لوگوں کی جڑ صبح ہوتے (ہی)کاٹ دی جائے گی ۵۸؎
۵۸؎ حل لغات ۔قَضَیْنَا۔قَضٰی سے جمع متکلم کاصیغہ ہے اورقَضٰی بَیْنَ الْخَصَمَیْنِ کے معنی ہیں حَکَمَ وَفَصَلَ ۔مدعی اورمدعاعلیہ کے درمیان جھگڑے کافیصلہ کردیا۔قَضَی الشَّیْئَ قَضَائً۔صَنَعَہٗ بِاِحْکَامٍ وَقَدَّرَہٗ۔کسی چیز کو عمدہ طورپر بنایا ۔اورا س کاصحیح اندازہ لگایا ۔قَضَی الْاَمْرَ عَلَیْہِ ۔خَتَمَہٗ وَاَوجَبَہٗ وَاَلْزَمہٗ بِہٖ۔اس کے خلاف بات کو ختم کردیا اوراس پر اس کوواجب کر دیا اوراس کاپوراکرنا ا س کا فرض قرار دیا۔اَلشَّیئَ۔اَعَلَمَہٗ لَکَ الاَمْرای حَکَم لَکَ کسی معاملہ کاتیرے حق میں فیصلہ کردیا (اقرب)پس قَضَیْنَا اِلَیْہِ کے معنے ہوں گے کہ ہم نے یہ بات کھلے طورپر بتادی۔
الدّابر۔کے معنی ہیں التابع۔تابع ۔آخر کُلِّ شیئٍ ہرچیز کاآخری حصہ ۔یقال قَطَعَ اللّٰہُ دَابِرھُمْ اَیْ آخَر مَنْ تَبْقَّی اورقَطَعَ اللّٰہُ دَابِرَھُمْ میں دابر آخر کے معنوں میں ستعمال ہواہے ۔یعنی اللہ نے ان میں سے سب سے پیچھے رہنے والے کو بھی تباہ کردیا۔الاصلُ جڑھ(اقرب)الغرض دابر سے مراد کبھی جڑ ھ ہوتی ہے یعنی بڑے لوگ ۔کیونکہ وہ بطور جڑھ کے ہوتے ہیں اورباقی لوگ بطور فرع کے ۔اورکبھی دابر سے مراد ساری قوم ہوتی ہے اوریہاں پر سب قوم ہی مراد ہے کیونکہ صرف آل لوط کے بچاے جانے کی خبر ہے ۔
تفسیر ۔یہ آیت خداتعالیٰ کاکلام معلوم ہوتی ہے ان مرسلوں کاقول نہیں۔اوریہ بھی ہوسکتاہے کہ گذشتہ آیت بھی اللہ تعالیٰ کاکلام ہو ۔مگر یہ آیت ضرور اللہ تعالیٰ کاکلام ہے جومعلوم ہوتاہے ۔ان مرسلوں پر گواہی دینے کے لیء حضرت لوط پر نازل ہوا۔اورانہیں بتایاگیا کہ ان لوگوں نے جو تم کو بتایا ہے کہ آج رات کے آخر پر عذاب آئے گا۔یہ درست ہے ۔ہماری ہی بتائی ہوئی یہ خبرہے ۔اورصبح کے وقت ضرور یہ قوم تباہ ہوجائے گی۔دَابِر ھٰؤُلَآئِ سے یہ مراد ہے ان کا آگاپیچھا کچھ باقی نہ رہے گا۔
وجائَ اھل المدینۃ یستبشرون٭
اور(ادھر)اس شہر کے لوگ خوشیا ں مناتے ہوئے (اس کے پاس )آئے ۵۹؎
۵۹؎ حل لغات ۔المدینۃ:مَدَن سے اسم ہے اورمَدَن بالمکانِ کے معنی ہیں اَقَامَ بِہٖ ۔کسی جگہ ٹھہرا۔اورالمدینۃ کے معنی ہیں المصرالجامع بڑاشہر ۔وقیل الحِصْنُ یُبْنٰی فِیْ اُصْطُمَّۃِ الْاَرْضِ۔وہ قلعہ جو کھلی فراخ زمین میں بنایاجاوے۔(گویا اردگرد کے لئے مرکز کاکام دے )(اقرب)
تفسیر ۔اس بستی کو مدینہ کہہ کر پکاراگیاہے ۔معلوم ہوتاہے اہم بستی تھی ۔چنانچہ بائبل سے معلوم ہوتاہے کہ شہر چند بستیوں کا مرکز تھا۔یَسْتَبْشِرُوْنَ کہہ کر یہ بتایا ہے کہ وہ لوگ خوش ہوئے کہ اب حضرت لوط کو ملزم بناسکیں گے اس سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ ان مردوں سے بدکاری کرنے کی خواہش کی وجہ سے وہ خوش تھے ۔جیساکہ مفسرین نے لکھا ہے کیا اس بستی میں مر دنہ ہوتے تھے کہ باہرسے آنے والوں کی خبر سن کر وہ خوش ہوگئے ۔
قال ان ھولاء ضیفی فلا تفضحون٭
(جس پر )اس نے (ان سے)کہا (کہ )یہ لوگ یقیناً میرے مہمان ہیں ۔اس لئے تم(انہیں تکلیف دے کر)مجھے رسوانہ کرو ۶۰؎
۶۰؎ حل لغات ۔تَفْضَحُوْنِ:۔فَضَحَ سے جمع مخاطب کے مضارع کاصیغہ ہے اورفَضَحَ کے معنے ہیں۔کَشَفَ مسَارئَہُ۔اس کے عیوب کو ظاہر کیا ۔وَفِی الدُّعائِ لاتَفضحنَا بَیْنَ خَلْقِکَ ای أُسجتُرْعیوبَنَا وَلَا تکشفہا منَّا اوردعائے مسنونہ میں جو فَضَحَ کالفظ استعمال ہواہے اسکے معنی ہیں کہ اے خداہمارے عیوب پرپردہ پوشی کر اوران کو ظاہر نہ کر(اقرب)پس فَلَا تَفْضحُوْنِ کے معنے ہوں گے تم میری کمزوریوں کو ظاہرکرکے مجھے رسوانہ کرو۔
تفسیر ۔جب شہرکے لوگ حضرت لوط کے پاس پہنچے تو حضرت لوط جن کو وہ لوگ باہر کے آدمی لاکرمہمان رکھنے سے منع کیاکرتے تھے سمجھ گئے کہ اب یہ قوم مجھے ملزم قرار دے گی ۔اورانہوں نے الگ ہو کر ان سے کہا ۔ کہ اب تومیں مہمان لے آیاہوں ۔اب تم مجھے مہمانوں کے سامنے ان کی ضیافت پرزجر کرکے نادم نہ کرو۔
واتقو اللہ ولا تخزون٭
اوراللہ تعالیٰ کاتقویٰ اختیارکرو ااورمجھے رسوانہ کرو ۶۱؎
۶۱؎ حل لغات ۔تُخْزُونِ:۔اَخْزَی سے مضارع جمع مخاطب کاصیغہ ہے اوراَخَزَاہُ اِخْزَائً کے معنے ہیں اَوْقَعَہٗ فی الخِزْیِ اوالخَزَایَۃِ واھَانَہٗ۔ کہ اس کو ایسے معاملہ میں پھنسایا جس سے اُسے ندامت ہو اوراسے رسواو ذلیل کیا (اقرب)فَلَا تُخْزُونِ کے معنے ہوں گے کہ تم مجھے ذلیل نہ کرو۔
تفسیر ۔اللہ کاتقویٰ اختیار کرو۔یعنی مہمان نوازی ایک نیک فعل ہے ۔ اس پر اعتراض نہ کرواورمہمانوں کے سامنے مجھے ذلیل نہ کرو۔
قالوا اولم ننھک عن العلمین٭
انہوں نے کہا اورکیا ہم نے تمہیں (بیرونی)لوگوں (کو اپنے پاس ٹھہرانے )سے روکا نہ تھا ۶۲؎
۶۲؎ تفسیر ۔اس زمانہ میں ان بستیوںاور دوسری بستیوں میں کچھ جھگڑے تھے ۔اوروہ ڈرتے تھے کہ باہر سے آدمی آکر شہر پر حملہ نہ کروادیں ۔اس لئے وہ لوگ حضرت لوط کو اجنبی مہمان لانے سے روکتے رہتے تھے ۔مگرچونکہ علاقہ خطرناک تھا ۔حضرت لوط کو جب اجنبی ملتے وہ انہیں اپنے گھر لے آتے تارات کو وہ راستہ پر لٹ نہ جائیں ۔اس دفعہ جو وہ مہمان لائے اس شہر والوں نے فیصلہ کیا کہ اب کے ضرور لوط(علیہ السلام) کی اچھی طرح خبر لینی چاہیئے اورچونکہ حضرت لوط کو کسی بہانہ سے بستی سے نکالناچاہتے تھے وہ خوش بھی ہوئے کہ اب یہ قابو آگئے ہیں اب ہم ان کو یہاں سے چلے جانے پرمجبورکرسکیں گے ان کا یہ تردّد اس لئے تھاکہ حضر ت لوط کی بیٹیاں وہاں بیاہی ہوئی تھیں اوراس وجہ سے وہ شہر کے ساکن تھے اورانہیں بلاوجہ نہیں نکالاجاسکتاتھا۔اس آیت سے ظاہر ہے کہ وہ لوگ ان مردوں سے بدکاری کرنے کی نیت سے نہیں آتے تھے ۔اگر وہ اجنبیوں سے ایسے فعل کیاکرتے تھے تووہ یہ نہ کہتے کہ جن ہم نے منع کیا ہواہے کہ اجنبی آدمی نہ لایا کرو ۔ پھرتُوکیوں اجنبیوں کولایا۔تب تو انہیں حضرت لوط کے مہمان بلانے پر خوش ہوناچاہیئے تھا ۔نیز یہ کیسی عقل کے خلا ف بات ہے کہ پہلے توکبھی انہوں نے مہمانوں سے ایسافعل نہ کیا ۔بلکہ صرف مہمان لانے سے روکتے رہے لیکن اس دن بدکاری پر تیار ہوگئے اصل با ت یہ ہے کہ خیال بالکل خلاف عقل ہے ۔کہ وہ بدکاری کرنا چاہتے تھے اوربائبل سے لے کر بعض مفسرین نے نقل کردیا ہے جس میں یہ لکھا ہے کہ شہر کے لوگ ان فرشتوں سے بدکاری کرنا چاہتے تھے (پیدائش باب۱۹ آیت ۵)حالانکہ بائبل میں ایسی رطب و یابس باتیں بہت سی درج ہیں او راس کے بہت سے مضامین متضاد ہیں ۔اس کے بیان کی جب تک قرآن کریم یاصحیح تعریف یا عقل سے تائید نہ ہوتی ہو ۔اعتبار کرناسخت خطرناک ہے ۔
قال ھولاء بنٰتیی ان کنتم فٰعلین٭
اس نے کہا (کہ )اگرتم نے (میرے خلاف )کچھ کرنا (ہی)ہوتو یہ میری بیٹیاں(تم میں موجود ہی)ہیں ۶۳؎
۶۳؎ تفسیر ۔اس آیت کو اوپر کے لغو خیا ل کی تائید میں دلیل سمجھاجاتاہے لیکن یہ دلیل دعویٰ سے بھی لُچر ہے ۔ایک طرف تو ان لوگوں سے مردوں سے بدکاری کا شائق قرار دیاجاتاہے ۔اورکہاجاتاہے کہ وہ ان مردوں سے بدکاری کرنے کے شوق میں آئے تھے اوردوسری طرف یہ کہاجاتاہے کہ احضرت لو ط نے کہا اگر بدکاری کاشوق ہے تومیری بیٹیاں حاضر ہیں ۔اگر ان لوگو ں کو عورتوں سے مباشرت کا شوق ہوتا ۔توکیاان کے گھر میں بیویاں نہ تھیں وہ ا س طرح ان کے پاس کیوں دوڑے چلے آتے اوراگر وہ مردوں سے بدکاری کی نیت سے آئے تھے توپھر حضرت لوط کے اس قول کے کیامعنے ہوئے کہ کچھ کرنا ہی ہے تولڑکیوں سے بدکاری کرلو۔کیاایسے موقعہ پر کوئی معقول آدمی یہ بات کہہ سکتاہے ۔حضرت لوط کانبی کامقام نظرانداز کردو۔مگرایک معقول آدمی کے مقام سے توایک کافر بھی انہیں نہیں گرائے گا۔
پھر یہ کیسے تعجب کی بات ہے کہ حضرت لوط جوخداکے نبی تھے خودان لوگوں کو ایک اوربدکاری کی جو پہلی سے کم نہیں تعلیم دیتے ہیں کیاکوئی عقل مندآدمی بھی اس بات کوباورکرسکتاہے کہ عین اس ووقت جب بدکاریوں کیوجہ سے اس قوم پر عذاب آنے لگاتھا حضرت لوط ان کو ایک اوربدکاری کا مشورہ دیتے ہیں اوریہ بھول جاتے ہیں کہ ایسے ہی کاموں کی وجہ سے عذاب آرہاہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس آیت کے فقط یہ معنی ہیں میری بیٹیاں تم میں بیاہی ہوئی ہیں اگر تم سمجھتے ہو کہ میں باہرسے آدمی تم کو نقصان پہنچانے کے لئے لایاہوں توتم میں میری بیٹیا ںموجود ہیں اگر میں کوئی شرارت کرو ں اورتم کو نقصان پہنچاکر یہاں سے بھاگ جائو ں توتم انہیں دکھ دے سکے ہو۔آخر میں باپ ہوں ا س صورت کے ہوتے ہوئے میں تمہارے خلاف کس طرح کوئی قدم اٹھاسکتاہوں (دیکھو اس آیت کی مزید تشریح کے لئے سورۃ ہود ع ۷زیر ۷۹؎)بعض کہتے ہیں کہ بَنَاتِی سے مراد حضرت لوط کے قول میں ان لوگوں کی بیویاں تھیں جو بوجہ نبی ہونے کے اوربڑی عمر والاہونے کے وہ ان کی بیویوں کو بیٹیاں کہتے ہی ۔اورکہتے ہیں اگر کچھ کرنا ہے اپنی بیویوں سے کرو۔یہ معنی اس غلط خیال سے اچھے ہیں مگران معنوں سے اس طرف ضرور اشارہ نکلتاہے کہ وہ لوگ ان مردوں سے بدکاری کرناچاہتے تھے اورمیں جیساکہ ثابت کرچکاہوں یہ قرآن کریم سے اورعقل سے ہرگز ثابت نہیں ۔پس یہ معنے گو نسبتاً اچھے ہیں لیکن قرآن کریم کے کامل مفہوم کوظاہرنہیں کرتے ۔اس جگہ ایک لطیفہ یاد رکھنے کے قابل ہے ۔جو یہ ہے کہ اردو دان لوگ ا س آیت سے بہت دھوکہ کھاتے ہیں کیونکہ اوباشوں کی زبان میں فاعل کالفظ مباشر ت کرنے والے کے معنوں میں استعمال ہوتاہے ۔اورفاعلین کے لفظ سے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ مطلب تو واضح ہے حالانکہ قرآن مجید عربی میں ہے نہ کہ اردو میں ۔عربی میں ایساکوئی محاورہ نہیں ۔دوسرے حضرت لوط تونبی تھے وہ اوباشوں کی زبان کیوں بولنے لگے ۔یہ مضمون کسی قدر رکیک ہے ۔مگرچونکہ مجھے اردودان طبقہ کو اس آیت کامضمون سمجھا نے میں مشکلات پیش آئی ہیں اوراس محاورہ کو انہیں پیش کرتے ہوئے دیکھاہے اس لئے میں نے باوجود حیاء کے س کابھی رد کردیا ہے ۔
غرض اس آیت کے معنی صرف اتنے ہیں کہ حضر ت لوط نے اپنی بیاہی ہوئی بیٹیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ فرمایا ہے کہ یہ تمہارے قبضہ میں ہیں پھر تم کو کیوں شک ہے ۔کہ میں تم سے غداری کروں گا۔پس اگر تم آ ج ضرور میرے خلاف کسی اقدام پر تُلے ہوئے ہوتومیں تم کو ایک ایسی بات بتاتاہوں جو تمہاری تجویز سے (یعنی حضرت لوط کے مہمانوں کو ذلیل کرکے وہاں سے نکال دینے سے)بہت بہتر ہے اوراس میں مہمانوں کی تذلیل کا گناہ بھی نہیں ہوتا۔اوروہ یہ کہ میری بیٹیو ں کی نگرانی رکھو اگر میں تم کو نقصان پہنچائو ں توان کوتکلیف دے کر تم مجھے دکھ دے سکتے ہو۔اگریہ کہا جائے کہ لڑکیوں کو دکھ دینے کی تجویز ایک نبی کس طرح کرسکتاہے تواس کا جواب یہ ہے کہ یہ تو ان لوگوں کی تسلی کے لئے تھا ۔ورنہ حضرت لوط جانتے تھے کہ نہ میں ان سے غداری کروں گا اورنہ لڑکیوںکو دکھ دینے کاسوال پیداہوگا۔
لعمرک انھم لفی سکرتھم یعمھون٭
(اے ہمارے نبی )تیری زندگی کی قسم (کہ)یہ (تیرے مخالفین بھی)یقیناً(انہی کی طرح )اپنی بدمستی میں بہک رہے ہیں ۶۴؎
۶۴؎ حل لغات ۔لَعَمْرُکَ۔اَلْعَمْرُ کے معنی ہیں۔الحیاۃ،زندگی ۔وقیل العمرُدون البقَائِ لِاَنَّہٗ اسم ُ لِمُدَّۃِ عِمارۃِ البدنِ بالحیاۃِ والبقائُ ضِدُّ الفنائِ ولھذا یُوصفُ الباری بالبقاء وقلّما یوصف بالعمْرِ۔بعض نے کہا ہے کہ عَمْرٌ کالفظ بقاکی نسبت کم زمانے کے لئے بولاجاتاہے کیونکہ عمرٌ اس عرصے کو کہتے ہیں جب کہ انسانی جسم میں ندگی رہے اوربقاء کالفظ فناکے مقابل پر استعمال ہوتاہے اسی اختلاف کی بناء پر خداتعالیٰ کے لئے لفظ بقاء تواس تعمال کیاجاتاہے لیکن عمرٌ کااستعمال اللہ تعالیٰ کے لئے شاذ ہی ہوتاہے العمرُ ایضاً الدینُ۔دین ۔ومنہ لعمرِ فی القسم ای لدینی اورلعمری کالفظ جو قسم کے طورپر استعمال ہوتاہے وہ انہی معنوں میں ہے یعنی مجھے اپنے دین کی قسم (اقرب)پس لعمرُکَ کے معنی ہوں گے (۱) تیری زندگی کی قسم (۲)تیرے دین کی قسم ۔
تفسیر ۔بعض نے کہا ہے کہ زندگی کی قسم کھانادرست نہیں پھر اللہ تعالیٰ نے یہاں کیوں قسم کھائی ۔اس کاجوا ب یہ ہے کہ بے شک انسانوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے سواکسی کی بھی قسم کھانادرست نہیں ۔لیکن یہ تواللہ تعالیٰ کاقول ہے اوراللہ عالیٰ نے تودن کی رات کی اورصبح کی اوردوپہر کی اورہوائوں کی بھی قسم قرآن میںکھا ئی ہے ۔پھر زندگی کیقسم اس کے لئے کس طرح معیوب ہوگئی ۔اصل بات یہ ہے کہ بند ہ جس کی قسم کھاتاہے اسی کی عظمت کا اظہار کرتاہے اوراللہ تعالیٰ جہاں قسم کھاتاہے اس سے اس وجود کو جس کی قسم کھائی ہو بطور شہادت پیش کرنا مطلوب ہوتاہے ۔پس اللہ تعالیٰ کے لئے کسی شے کی قسم کھا نامعیو ب نہیں۔اس قسم کا صرف یہ مطلب ہوتاہے کہ میں اس شے کو بطو ردلیل پیش کرتاہوں اوریہ قسم شہادت کی قسم ہوتی ہے جو صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیش کی جاسکتی ہے کیونکہ اسی کو طاقت حاصل ہے کہ کائنات میں سے کسی جزوکو بطور شہادت کے پیش کرسکے کہ ہرشے اس کے اختیارمیں ہے ۔انسان میں کہاں طاقت ہے کہ وہ ایسا دعویٰ کرسکے ۔
دوسراسوال اس آیت کے بارہ میں یہ ہے کہ یہ قسم کس کی عمر کی کھائی گئی ہے ۔آیاحضرت لوط کی عمر کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کی۔بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ حضرت لوط کی عمرکی قسم کھائی گئی ہے ۔اورملائکہ نے کھائی ہے (کشاف جلد اول)اورحضرت ابن عباس کاقول ابن جریر نے نقل کیا ہے کہ یہ قسم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کی کھائی گئی ہے اوریہ فضیلت سوائے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اورکسی کوحاصل نہیں (ابن کثیر جل ۵ص ۳۲۹)اسی آیت کی تفسیر کے نیچے ۔میرے نزدیک قرآن کریم کی عبارت سے حضرت ابن عباس کے معنی زیادہ درست معلوم ہوتے ہیں کیونکہ کشاف کے معنوں کے رو سے کہ قالو ا محذوف مانناپڑتاہے اورمحذوف اسی جگہ نکالاجاتاہے جہاں سیاق وسباق دلالت کرتے ہوں اوردوسرے معنی نہ ہوسکتے ہوں ۔لیکن نہ تویہاں سیاق سباق مجبور کرتے ہیں کہ اس قسم کو حضرت لوط کی نسبت مانا جائے اورنہ یہ ہی درست ہے کہ اس جگہ دوسرے معنی نہیں ہوسکتے ۔آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب واضح ہے اوراس پر کوئی اعتراض معناً یالفظاً نہیں ہوسکتا ۔پس یہی درست ہے کہ س جگہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمرکی قسم کھائی گئی ہے یادوسرے لفظوں میں یہ کہ آپ کی عمر کے واقعات کواوپر کے واقعہ کے لئے بطور شہادت پیش کیاگیا ۔
اصل بات یہ ہے کہ جب حضرت لوط علیہ السلام کا یہ قول بیان کیا گیا کہ دیکھو یہ میری لڑکیاں تم میں موجود ہیں اگر میں تم سے کوئی دھوکہ کروں توتم ا نکے ذریعہ سے مجھے سزادے سکتے ہو۔تو اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان سے ایک مشابہت بیا ن کی گئی تھی اوروہ یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کلی بھی تین بیٹیا ںکفار میں بیاہی ہوئی تھیں۔آپ کے دعویٰ کی وجہ سے انہیں تکلیف دی گئی اللہ تعالیٰ نے اس مشابہت کی طر ف اس واقعہ کو بیان کر کے اشار ہ کیا ہے اور بتایاہے کہ جس طرح حضرت لوط کی دوبیٹیاں کفار می بیاہی ہوئی تھیں ۔وہی حال محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاہے ۔اورچونکہ اس مشابہت کے ذکر سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کوصدمہ پہنچنا لازمی تھا۔اللہ تعالیٰ نے اپنی اس بے انتہا محبت کی وجہ سے جو اسے اپنے رسول سے تھی ۔آپ کے دل کو تسلی دی اورآپ سے ہمدردی کااظہار کیا۔اورفرمایا کہ اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)اس واقعہ کومعلوم کرکے جو تیرے د ل کو صدمہ پہنچا ہے اسے ہم جانتے ہیں اورتجھ سے ہمدردی رکھتے ہیں ۔ خصوصاًاس لئے کہ لوط کے مخالف باوجود اس قدر گند اہونے کے ان کی بیٹیوں کے ذریعے سے انہیں دکھ نہ دیتے تھے۔ جیساکہ سورئہ ہود میں ہے کہ جب حضرت لوط نے کہا میری بیٹیا ںتم میں موجود ہیں اگر میں غداری کروں توتم ان کے ذریعہ سے مجھے دکھ د یسکتے ہو ۔اورچونکہ کوئی باپ اپنی بیٹیوں کادکھ برداشت نہیں کرسکتا ۔اس لئے سمجھ لوکہ کم سے کم ان کے خیال سے ہی میں تم کو دھوکہ نہ دوں گا۔تواس پر ان لوگوں نے یہ جواب دیا۔لَقَدْ عَلِمْتَ مَالَنَا فِی بَنَاتِکَ مِنْ حَقِّ(ہود ع ۷؍۷)تجھ کو معلوم ہے کہ تیری لڑکیوں کو دکھ دینے کا ہمیں حق حاصل نہیں ہمارے لئے خطرہ توپیداکرے اوردکھ ہم تیری لڑکیوں کو دیں ۔یہ نہیں ہوسکتالیکن جہاں لوط کے دشمنوں کایہ حال تھا تیرے دشمن اپنی شرارت کے جوش میں اس قدر بڑھے ہوئے ہیں کہ تجھ کو تیری لڑکیوں کے ذریعے سے دکھ دیتے ہیں ۔یہ واقعہ اس طرح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دوصاحبزادیا ںحضرت رقیہ اورحضرت ام کلثوم ابولہب کے دوبیٹوں عتبہ اورعتیبہ سے بیاہی ہوئی تھیں(اصابہ واسدالغابہ )جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کادعوی کیاتواس ظالم نے اپنے لڑکوں کو عاق کرنے کی دھمکی دیکر انہیں طلاق دلوادی ۔اس طرح آپؐ کی بڑی صاحبزادی حضرت زینب ابوالعاص سے بیاہی ہوئی تھیں۔جب وہ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ جانے لگیں توظالموں نے ان کی سواری کو پیٹا اورانہیں سواری سے گرادیا۔جس کے نتیجہ میں ان کاحمل ضائع ہوگیا ۔اوردیر تک بیمار رہیں (استیعاب جلد ۲ص۷۵۳مطبوعہ مطبع نظامیہ حیدرآباددکن )سواللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ یہ لوگ تجھے تیری لڑکیوں کے ذریعہ سے دکھ دے چکے ہیں ۔اورپھر بھی دیں گے ۔(حضرت زینبؓ کاواقعہ بعد میں ہوا)ان لوگوں نے لوط کے دشمنوں جتنی بھی شرافت نہیں دکھا ئی مگر ہمیں تیری جان ہی کی قسم یہ اپنی شرارت میں اندھے ہورہے ہیں اوراس دعویٰ کی تائید میں ہم تیری زندگی کو بطورشہادت پیش کرتے ہیں ۔یعنی تونے ان کو کوئی دکھ نہیں دیا ۔بلکہ ہمیشہ ان کی خیر خواہی کی ۔مگریہ بلاوجہ اوربے قصور کے تجھے دکھ دیتے ہیں۔پس یہی ثبوت ہے کہ یہ جوش مخالفت سے اندھے ہو رہے ہیں ۔اورہرگز خداتعالیٰ کاتقویٰ ان کو حاصل نہیں ۔پس جب ان کی یہ حالت ہے کہ تجھ پر بلاوجہ اس قدر ظلم کررہے ہیں ۔توہم نے لوط کے دشمنوں کو جب اس سے کم جرم پر تباہ کیا ۔توکیا اس سے بڑے ظلم پر انہیں سزانہ دیں گے ۔اس آیت کا تعلق سورۃ کے اصل مضمون سے یہ ہے ۔کہ یہ لوگ تجھ پ رنازل ہونے والے کلام کومشتبہ کرنے کے لئے ایسی گندی حرکات کرتے ہیں ۔گویا اپنے خیا ل میں یہ سمجھتے ہیں ۔کہ تیری لڑکیوں کو دکھ دیاتوتیراجھوٹاہوناثابت ہوگیا۔حالانکہ اصل میں انجا م دیکھا جاتاہے ۔ہم اپنے کلام کی عظمت دکھانے کے لئے اوراسے اعتراضوں سے محفوظ رکھنے کے لئے ایک دن ان کو تباہ و برباد کردیں گے اورتیرابدلہ لے کر تیری عزت کوقائم کردیں گے ۔اللھم صل علیٰ محمدٍ وعلی آل محمدٍ وبارک وسلم انک حمیدٌ مجید۔فدت نفسی وروحی علیک یامحمد قداُوْذیتَ کثیرًا فی اعلاء کلمۃ اللہ رفعَ اللہ شانکَ وَحْیَا ذکر ک الیٰ اَبَدالْاَبادِ۔
فاخذتھم الصیحۃ مشرقین ٭
موعود عذاب نے دن چڑھتے (ہی)انہیں پکڑلیا ۶۵؎
۶۵؎ حل لغات ۔الصَّیْحَۃُ ۔اَلْعَذَابُ صیحہ کے معنی عذاب کے ہیں ۔ الغارۃُ اِذَا فُوُجیئَ الحیُّ بھَا۔ایسی غارت جو قبیلہ پر اچانک آجا ئے ۔
مُشْرِقِیْنَ:اَشْرَقَ سے اسم فاعل کاصیغہ مُشرِقی آتاہے اورمُشرقُون ا سکی جمع ہے اوراَشْرقتِ الشَّمْسُ کے معنے ہیں طَلَعَتْ۔سورج نکل آیا ۔ اَضَائَت سورج کی روشنی پھیل گئی ۔وَقِیْلَ شَرَقَتِ الشَّمْسُ طَلَعَتْ وَاَشْرقتِ الشَّمسُ اَضَائَتْ وصَفَا شعاعُہَا۔اورجب سورج کے لئے شَرقَتْ(ثلاثی مجرد)کہیں ۔تو اس کے معنے ہوں گے کہ سورج نکل آیا۔اورجب اشرقت (ثلاثی مزید)استعمال کریں ۔تواس کے معنی ہوں گے کہ سورج کی روشنی خوب پھیل گئی ۔اَشرقتِ الارضُ ۔اَنَارَتْ بِاِشْراقِ الشَّمْسِ۔ سورج کے طلوع ہونے سے زمین پر روشنی پھیل گئی ۔اَشْرقَ الرّجلُ۔دَخَل فِیْ شروقِ الشَّمسِ۔اس پرطلو ع آفتاب کاوقت آگیا ۔(اقرب)
تفسیر ۔پہلے مُصْبِحِیْنَ فرمایاتھا۔اب یہاں مُشرقین فرمایاہے ۔بظاہر یہ اختلاف معلوم ہوتاہے ۔کیونکہ مُشرق کے معنے ہیں جس پر سورج نکل آیا ۔اورمُصبح کے معنے بظاہر طلوع آفتاب کے وقت میں داخل ہونے والے کے ہیں ۔لیکن حقیقتًا کوئی اختلاف نہیں ۔کیونکہ صبح پوپھٹنے سے لے کر طلوع آفتا ب تک کوبھی کہتے ہیں۔اوراول النہار یعنی دن کے پہلے حصہ کو بھی کہتے ہیں ۔پس دونوں لفظ درست ہیں ۔چونکہ سورج نکلتے وقت یہ واقعہ ہواتھا(پیدائش باب۱۹ آیت ۲۳) اس لئے مصبحین کہنا بھی درست ہے اورمشرقین کہنا بھی۔
فجعلنا عالیھا سافلھا وامطرناعلیھم حجارۃ من سجیل٭
جس پر ہم نے اس (بستی )کی اوپر والی سطح کو اس کی نچلی سطح کردیااوران پر سنگریزوں سے بنے ہوئے پتھروں کی بار ش برسائی ۶۶؎
۶۶؎ حل لغات ۔اَمْطَرَ۔مَطَرَ سے ثلاثی مزید ہے ۔اورامطَرَتِ السمائُ کے معنے ہیں ۔مَطَرَتْ الخیرِ وَالرّحمۃِ وَامْطَرَفِی الشّرِ والعذابِ اوربعض کہتے ہیں کہ مَطَرَ (ثلاثی مجرد)خیر اورحمت میں استعمال ہوتاہے اوراَمْطَرَ(ثلاثی مزید)شرّاورعذاب میں (اقرب)
سِجِّیْل:۔سجل سے ہے ۔اورسَجَل بِہٖ سجلاً کے معنے ہیں رمیٰ بہ مِنْ فَوْق۔اس کو اوپر سے پھینکا۔سَجَلَ الْمَاء:صبَّہٗ پانی کو گرایا۔اورالسّجیل کے معنی ہیں حجارۃ کالمدرِ سنگریزے ۔وقیل معرّبۃٌ اوربعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ لفظ معرّب ہے(اقرب)(یعنی غیر زبان کا ہے ۔لیکن جیساکہ رعد حل لغات ۱۹زیر لفظ جہنم اورابراہیم ۳۴؎زیرلفظ صنم بتایاگیاہے کہ جن الفاظ کا مادہ عربی میں استعمال ہوتاہے ان کو معرّب کہنا درست نہیں ۔پس یہ بھی معرّب نہیں)
تفسیر ۔لوط کی قوم نے چونکہ اعلیٰ اخلاق چھوڑکر ادنیٰ اخلاق اختیار کئے تھے ۔اس لئے خداتعالیٰ نے بھی ان کے شہر کے اوپر کے حصہ کو نیچے کردیا اورکہاکہ جائو۔پھر نیچے ہی رہو۔بعض لوگ کہتے ہیں ۔پتھر کیونکر گرے ۔اس کاجواب یہ ہے ۔کہ شدید زلزلہ سے بعض دفعہ زمین کا ٹکڑا اوپر اٹھ کر پھر نیچے گرتاہے ۔ایساہی اس وقت ہوا۔زمین جو پتھریلی تھی ۔اوپر اُٹھی اورپھر دھنس گئی اوراس طرح وہ پتھروں کے نیچے آگئے ۔یہ بھی مراد ہوسکتی ہے کہ ان کے گھروں کی دیواریں ان پر آپڑیں ۔معلوم ہوتاہے وہ لوگ پتھروں سے مکان بنایاکرتے تھے ۔سجیل کہتے بھی ہیں اس پتھر کو جوگارہ سے ملا ہواہو۔پس یہ ایسی دیواروں پر خوب چسپاں ہوتا ہے جن میں پتھرگارہ سے لگائے گئے ہوں۔
ان فی ذلک لآیتٍ للمتوسمین٭
اس (ذکر) میں فراست سے کام لینے والوں کے لئے یقیناً کئی نشان (موجود )ہیں ۶۷؎
۶۷؎ حل لغات ۔متوسمین۔تَوَسَّم سے اسم فاعل کاصیغہ مُتوسمٌ آتاہے اورمتوسمون اس ک جمع ہے اورتوسّم الشَّیئَ کے معنے ہیں تَخَیَّلہٗ و تَفَرَّسہٗ۔اس پر غور کیا سوچ کر اس کی حقیقت کو معلوم کیا۔طَلَبَ سمہ۔ای علامَتَہٗ۔کسی چیز کی علامت دریافت کی ۔تَعَرَّ فَہٗ۔کسی چیزکوپہچاننے کی کوشش کی ۔یقال تَوَسَّمْتُ فِیہ الخَیْر۔ ای تَبَیَّنْتُ فِیہ اثرہٗ۔جب تَوَسَّمْتُ فیہ الخَیْرَ۔کامحاورہ استعمال کریں تومعنے ہوں گے کہ میں نے خیر کے نشان اس میں پائے (اقرب)پس اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِیْنَ کے معنے ہوں گے کہ اس میں غورکرنے والوں کے لئے کئی نشان ہیں۔
تفسیر ۔یعنی جولوگ فراست سے کام لیتے ہیں ان کے لئے اس واقعہ میں نشانات ہیں ۔یعنی وہ دیکھ سکتے ہیں کہ لوط کے واقعہ کو محممد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعات سے مشابہت ہے ۔پس آپ کے دشمنوں کو بھی اسی طرح تباہ کیاجائے گا۔جس طرح حضرت لوط کے دشمنوں کو تباہ کیاگیا۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کوزلزلہ کانشانہ تونہ بننا پڑا۔مگر بد کی جنگ میں ان پر پتھر پڑے یعنی آندھی چلی اورکنکر اُڑ اُڑ ک رکفار کی آنکھو ں میں گھُس گئے ۔جن کی وجہ سے وہ نشانہ درست نہ لگاسکتے تھے ۔
نیز معنوی طور پر بھی یہ سلوک ان سے ہوا۔کہ بڑے چھوٹے کردیئے گئے اورچھوٹے بڑے۔گویااوپر کاطبقہ نیچے آگیا اورنیچے کااوپر ۔چنانچہ ابوجہل۔عتبہ۔شیبہ وغیر ہ اور ان کے خاندان تباہ ہوگئے ۔اورابوبکر ؓعمرؓ وغیرہ جوان سے چھوٹے سمجھے جاتے تھے بادشاہ بن گئے ۔حضرت عمرؓ کی خلافت میں اس قسم کا عجیب نظارہ نظرآتاہے ۔آپ حج کے لئے تشریف لے گئے ۔توعمائدین مکہ ملنے آئے ۔آپؓ نے غلام صحابہؓ کو صدر کے قریب جگہ دی اوران کو پیچھے بٹھایا ۔انہوں نے باہر نکل کر شکایت کی کہ آج ہمیں ذلیل کیا گیاہے ۔توخود ان میں سے بعض نے کہا کہ یہ ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے ۔جب ہمارے باپ دادے محمد رسول اللہ کی مخالفت کررہے تھے تویہ لو گ آپؐ پر ایمان لاکر قربانیاں کر ر ہے تھے ۔اب تویہی عز ت کے مستحق ہیں ۔(سیرت عمر ۔مصنفہ عبدالرحمن)
وانھا لسبیلٍ مُّقیمٍ٭
اوروہ (کوئی گمنام جگہ نہیں بلکہ)ایک بڑے مستقل راستہ پر (واقع )ہے ۶۸؎
۶۸؎ حل لغات۔سبیل مقیم ۔سبیل مقیم ای واضحٌ بیّنٌ(تاج)یعنی واضح بیّن راستہ۔
تفسیر ۔یعنی ان کی بستیاں ایک ایسے راستہ پر واقع ہیں جو اب تک چلتاہے مٹانہیں ۔اس وجہ سے اے کفار تمہارے قافلے شام کو آتے جاتے عین اس کے پاس سے گذرتے ہیں ۔پھر تم عبرت نہیں حاصل کرتے ۔حضرت لوط ؑ کی بستیاں عین اس راستہ پر واقع ہیں جو عرب سے شام کو جاتاہے ۔
ان فی ذٰلک لَاٰیۃً للمومنین٭
اس (واقعہ )میں مومنوں (کے فائدہ)کے لئے یقیناً ایک نشان(موجود )ہے ۶۹؎
۶۹؎ تفسیر ۔اس آیت میں مومنوں کے لئے اسے نشان قراردیاہے ۔جب کہ پہلی آیت کو متوسّمین کے لئے نشان قرار دیاتھا۔یہ فرق اس لئے ہے کہ پہلی آیت میں یہ ذکر تھا ۔کہ اس واقعہ کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعہ سے مشابہت ہے چونکہ اس مشابہت کو ہرشخص نہیں معلوم کرسکتا۔بلکہ خاص فراست والے معلو م کرسکتے ہیں ۔کیونکہ باریک مضمون ہے اس لئے متوسّمین کالفظ استعمال کیا ۔لیکن اس آیت میں یہ ذکر ہے کہ و ہ بستیاں ایک چلتے ہوئے راستہ پر ہیں ۔اورایک تباہ شدہ بستی سے عبرت حاصل کرنا کوئی باریک مضمو ن نہیں بلکہ صرف دل کی خشیت سے تعلق رکھتاہے ۔یہ اس لئے فرمایا کہ اس اسے مومن فائدہ اٹھاسکے ۔
وان کان اصحٰب الایکۃ لظٰلمین٭
اورآیکہ والے (بھی)یقیناً ظالم تھے ۔ ۷۰؎
۷۰؎ حل لغات ۔اَلْاَیْکَۃُ:۔ الایک الشجر الکثیرُ الملتفّ وقیل الغیضۃ تُنْبِتُ السِدْ رَ والاَراکَ ونحوھُمَا۔الواحدُ ایکۃٌ۔ایکہ ایک کی مفرد ہے اوراس کے معنے گھنے درخت کے ہوتے ہیں ۔اورنیز ایسے جنگل کے جس میں بیر ی اورپیلو کے درخت بکثرت ہوں ۔(اقرب)
تفسیر ۔اصحاب الایکہ حضرت شعیب کی قوم کادوسرانام ہے ۔ایکہ گھنے درخت کو بھی کہتے ہیں ۔اورایسے جنگل کو بھی جس میں بیری اورپیلو لے درخت بکثرت ہوں معلوم ہوتا ہے کہ مدین کے پاس کوئی گھنا جنگل تھا ۔جس میں ان دونوں قسموں کے درخت بکثرت پائے جاتے تھے ۔اس وجہ سے مدین کے باشندے اصحاب الایکہ کہلاتے تھے اورغالباً یہ نام عربوں نے رکھاتھا۔جن کے قافلے مصر اورشام کو جاتے ہوئے مدین کے پاس سے گذرتے تھے اوراسی جنگل میں سے ان کا راستہ گزرتاتھا۔اس لئے عربوں پر اتمام حجت کے لئے اسی نا م کو جو ان میں زیادہ معروف تھا استعمال کیا ۔قرآن کریم سے ثابت ہے کہ اصحاب ایکہ حضرت شعیب کی قوم تھی چنانچہ سورئہ شعراء میں فرماتاہے کَذَّبَ اَصْحَابُ الْاَیْکَۃِ الْمُرْسَلِیْنَ اِذْقَالَ لَھُمْ شُعَیْبٌ اَلَا تَتَّقُوْن اِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ (شعراء ع ۱۴؍۱۰)یعنے اصحاب ایکہ نے بھی رسولوں کاانکار کیا جبکہ ان سے شعیب نے کہا کہ کیا تم تقویٰ نہیں کرتے ۔میں تمہاری طر ف رسول ہوکر آیاہوں۔اس آیت سے ثابت ہوتاہے کہ اصحاب الایکہ حضرت شعیب کی قوم تھی۔لیکن دوسری جگہ حضرت شعیب کو مدین کی طرف رسول بتایا گیاہے ۔جیسا کہ فرمایا وَاِلیٰ مَدْیَنَ اَخَاھُمْ شُعَیْبًا (ہود ع ۸؍۸نیز اعراف ۱۱و عنکبوت ۴)ہم نے مدین قوم کی طر ف ان کے بھائی شعیب کو رسول بنا کر بھیجا تھا۔اب سوال ی ہے کہ کیا شعیب نام کے دونبی تھے یاحضرت شعیب دوقوموں کیطرف مبعوث ہوئے تھے مدین والوں کی طرف بھی اوراصحاب ایکہ کی طرف بھی ۔میری تحقیق یہ ہے کہ ایک ہی نسل کے دوحصے تھے کچھ لوگوں کا گذارہ شہر ی تجارت پر تھا۔اورکچھ لوگوں کادودھ گھی اون فروخت کرنے پر گذارہ تھا ۔اورایسے شہروں میں جو جنگل کے سروں پرہوتے ہیں یہ بات کثرت سے دیکھی جاتی ہے ۔
یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ کیاواقع میں مدین کے پاس کوئی ایسا جنگل تھاجس میں بیری اورپیلو کے درخت پائے جاتے تھے ۔کیونکہ ایسی بات قیاس سے نہیں بتائی جاسکتی ۔اس کاجواب یہ ہے کہ ہاں جغرافیوں سے اس کا پتہ ملتا ہے ۔چنانچہ مولوی سلیمان صاحب ندوی اپنی کتا ب ارض القرآن میںبرٹن کی کتاب بولڈمائنز آف مدین کے حوالہ سے لکھتے ہیں ۔کہ ایک یونانی جغرافیہ نویس لکھتاہے ’’خلیج علانہ(عقبہ)کے پیچھے جس کے چاروں طرف نبطی طرف رہتے ہیں ۔(ارض مدین یہ ہے)یوتیمانوس (بنوتیمن)کاملک ہے جو وسیع اورمسطح ہے ۔اورسیراب اورعمیق ہے ۔وہاں نباتات اوراشیاء کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔جوتابقد آدم ہوتے ہیں ۔اورجن کی وجہ سے جنگلی اونٹ ہرنوں کے گلے اور بارہ سنگے رہتے ہیں ۔اورنیز مویشی اوربھیڑ ک گلے ۔مگر ان مواہب قسمت کے ساتھ شیر اوربھیڑیوں کاوجود بھی ہے ۔جن سے یہاں کے باشندوں کی خوش قسمتی مبدل بہ بدقسمتی ہے ‘‘۔اس احوالہ سے ظاہرہے کہ مدین کے پاس (مدین خلیج عقبہ کے سر پر واقع ہے)ایک جنگل تھا جس میں (۱)قد آدم درخت تھے اورپیلو اورجنگلی بیر قدآدم ہی ہوتے ہیں ۔(۲)وہاں جنگلی اونٹ رہتے تھے ۔یہ بھی پیلو اوربیر کے درختوں کی تصدیق کرتاہے کیونکہ اونٹ اسی قسم کے درختوں پر گذران کرتے یں (۳)اس میں مواشی اوربھیڑوں کے گلے رہتے تھے ۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ مدین کی قوم جانوربھی پالتی تھی ۔اوراسی جنگل میں انہیں چرایاکرتے تھے ۔
مدین نام اس شہر کا جو ایکہ کے سر پر تھا مدین قوم کی وجہ سے پڑاتھا۔پس شہر کانام بھی مدین تھا اورقوم کانام بھی مدین تھا۔چنانچہ قرآن کریم میں دونوں معنوں میں اس لفظ کو استعمال فرمایاہے ۔قوم کے معنے ہیں سورئہ ہودمیں ہے ۔وَاِلیٰ مدین اخاھم شعیباً (ہودع ۸؍۸ نیز اعراف ع ۱۱وعنکبوت ع ۴)اورشہر کے معنوں میں توبہ میں فرماتاہے واصحاب مدین والمُؤتٰفِکاتِ (توبہ ع ۱۵؍۹)یعنی کیا ان کو مدین شہرکے رہنے والوں اوران بستیوں کی خبر نہیں پہنچی جن کو اُلٹادیاگیاتھا (یعنی قوم لوط کی بستیاں)
یہ مدین قوم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے تھے بائبل میں لکھاہے۔’’اورابراہیم نے ایک اورجوروکی ۔جس کانام قتورہ تھا ۔اوراس سے زمران اوریقسان اورمدان اورمدیان اوراسباق اورسوخ پیداہوئے ۔اور یکسا ن سے سباء اوردوان پیداہوئے ۔اوردوان کے فرزند سوری اورلطوسی اورلومی تھے ۔اورمدیان کے فرزند عیفہ اورغفر اورحنو ک اورابیداع اور الدوعاتھے ۔اوریہ سب بنو قتورہ تھے ۔(پیدائش ب ۲۵ آیت اتا۴)
اس حوالہ سے معلو م ہوتاہے کہ امدین حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے تھے ۔اوران کی بیوی قتورہ کے پیٹ سے پیداہوئے تھے ۔چونکہ اس جگہ صرف یقسان اورمدیان کی اولاد گنائی گئی ہے ۔معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے لڑکوں کی اولاد نہیں ہو ئی یا ا نکی اولاد زیاد ہ نہیں پھیلی اور بھائیوں کی اولاد کے ساتھ مل جل گئی ۔یقسان جو بڑے لڑکے تھے ان کی نسل میں سے ان کے لڑکے دوان کی نسل بھی ایک قبیلہ کی صورت میں مشہو رہے۔اوریہ لوگ مدین یعنی چچا کی اولاد کے ساتھ ساتھ رہاکرتے تھے ۔چنانچہ مصنف ارض القرآن کاخیال ہے ۔کہ اصحاب الایکہ دوان قو م ہی کے لوگ تھے جو مدین کے ساتھ ہی ایکہ میں رہتے تھے ۔اورگویا بمنزلہ ایک ہی قوم کے تھے میرے نزدیک یہ رائے معقو ل ہے ۔بشرطیکہ یہ سمجھا جائے کہ دونوں قومیں مل کررہتی تھیں۔اوران کا ایک ہی قسم کاتمدن تھا ۔تجارت پیشہ تھی اورجانوروں کے گلے بھی پالتے تھے ۔یہ نہیں کہ ایک حصہ تجارت پیشہ تھا ۔جومدین تھے اورایک حصہ جانو ر پالنے والا تھا ۔جو دوان تھے اورجنگل میں رہتے تھے ۔کیونکہ یہ قرآن کریم کے بیان کے خلاف ہے ۔بہرحال اصل قوم بنو قتورہ تھی ۔جوایک ماں اورباپ سے تھے ۔باقی تواندرونی تقسیمیں تھیں
بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ آخر یہ قوم بنو اسماعیل کے اندر جذب ہوگئی تھی کیونکہ پیدائش باب ۳۷۔آیت ۳۶ میں لکھا ہے کہ حضرت یو سف کو مدیانیوں نے فوطیمار کے پا س مصر میں فروخت کردیا ۔اورپھر باب ۳۹ میں لکھا ہے کہ فوطیغار مصری نے یوسف کو اسماعیلیوں کے ہاتھ سے خریدا ۔اس سے معلو م ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ سے پہلے یہ قوم بنو اسماعیل میں جذب ہوگئی تھی ۔اوروہی قوم کبھی مدیانی کہلاتی تھی ۔اورکبھی اسماعیلی۔
باقی رہا یہ سوال کہ یہ قوم کب ہوئی ۔اورشعب کون تھے۔ان سوالوں کے جواب مفسرین اورمؤرخین نے مختلف دیئے ہیں ان کے لئے دیکھو سورہ اعراء ع ۱۸؍۱۱یہ امر کہ اصحاب مدین اوراصحا ب ایکہ ایک ہی جماعت یاقوم تھے۔اس امر سے بھی ثابت ہوتاہے کہ قرآن کریم نے ان ودنوں کے عیوب ایک ہی قسم کے گنائے ہیں ۔سورئہ اعراف میں مدین قوم کی نسبت آتاہے ۔فَاَوْفُوْا الَکَیْلَ وَالْمَیْزَانَ وَلَا تَبْخَسُوْ االنَّاس َ اَشْیَائَ ھُمْ وَلَا تُفْسِدُوْافِی الْاَرْضِ بَعْدَاِصْلَاحِہَا(اعراف ع ۱۸؍۱۱)ماپ اورتول پورے دیاکرو اورلوگوں کو چیز یں تول کر دیتے وقت کمی نہ کیا کرو ۔اورزمین میں اصلاح کے بعد فساد نہ کرو ۔وَبیعینہٖ یہی الفاظ اصحاب ایکہ کی نسبت ہیں ۔ جن کا ذکر سورہ شعراء میں آتاہے انہیں مخاطب کرکے بھی حضرت شعیب فرماتے ہیں اَوْفُوْ الْکَیْلَ وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ المُخْسِرِیْنَ وَزِنُوْبِالْقِسْطَاسِ المستقیم ۔ولا تبخسو الناس اشیاء ھم وَلَا تعثُ فی الارضِ مفسدین (شعراء ع۱۰؍۱۴)یعنی وزن پورادیا کرو ۔اورلوگوں کو گھاٹانہ دیا کرو۔اورسیدھی ڈنڈی سے تولا کر واورلوگوں کی چیزیں کم تول کر نہ دیا کرو۔اورزمین میں فساد نہ کیا کر و ۔ان دونوں حوالوں سے ظاہر ہے کہ اصحاب مدین یااصحاب ایکہ میں ایک ہی قسم کی بدیاں تھیں اوران کا بڑا گذارہ تجارت پر تھا اوراس میں وہ دھوکے فریب سے بہت کام لیتے تھے ۔اگریہ سمجھا جائے کہ مدین شہر میں تومدین قوم رہتی تھی ۔اوردوان جنگل ہیں رہتے تھے تویہ بھی ماننا پڑے گاکہ مدین قوم کاگذارہ تجارت پر تھا۔اوراصحاب ایکہ کا گلہ پالنے پر ۔تواس صورت میں قرآن کریم جواصحاب ایکہ کے کام بھی تجارت میں دھوکہ دینا اور باٹو ں اورپیمانوں میں شرار ت کرنا بتایا ہے وہ غلط ہوجاتاہے ۔پس اصل بات یہ ہے کہ دونوں نام ایک ہی قوم اورایک ہی تمدن رکھنے والی قوم کے ہیں ۔صرف دوصفات کیوجہ سے دوناموں سے بنو قتورہ کو پکاراگیاہے ۔
فانتقمنا منھم وانھما لبامام مبین ٭
اس لئے ہم نے انہیں (بھی اسی طرح سخت )سزادی تھی ۔اوریہ دونوں (جگہیں )ایک (صاف اور)واضح راستے پر (واقع )ہیں ۷۱؎
۷۱؎ حل لغات ۔لَبِاِمَامٍ مُّبِین:۔الامامُ الطریقُ الوَاسِعُ۔امام کے معنے کھلے راستہ کے ہیں وَبِہِ فُسِّرَ قولہ تعالیٰ وَانَّھالَبِاِمَامٍ مُّبِین ای بطریق یُؤُمّ ای یُقْصَدُ:یعنے آیت انَّہُمَا لَبِاِمَامٍ مُّبِینٍ میں امام کے معنے کھلے راستہ کے کئے جاتے ہیں یعنی ایسا راستہ جس کاقصد کیاجاتاہے وَقَالَ فَرَّاء ای فی طریقٍ لَھُمْ یمرُّون عَلَیھَا فِی اَشْغَارِھِمْ فجعل الطّریق اماماً لانّہ یُتَّبَعَ اورفرَاء نے امام مَّبِین کے معنے کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ راستہ جس پر وہ اکثر اپنے سفروں میں گذرتے ہیں اورراستے کوامام اس لئے کہاجاتاہے کہ اس کے پیچھے چلاجاتاہے یعنی جدھر وہ جاتا ہے ادھر ہی جانا پڑتاہے (تاج)
تفسیر ۔اصحاب ایکہ یا اصحاب مدین کامقام ایسا تھا کہ شام اورمصر کوجانے والے قافلے ان کے پاس سے گذرتے تھے ۔اورمبین اس لئے فرمایا۔کہ وہ راستہ بہت چلتاتھا ۔اورجوراستے بہت چلتے ہوں ان کے نشان واضح ہوتے ہیں ۔اس قوم کے ذکر سے اس امر کی ایک اورمثال پیش کی ہے کہ استراق سمع کرنے والے لوگ آخر تباہ کردیئے جاتے ہیں ۔
قوم لوط کے متعلق فرمایاتھا ۔وہ ایک سَبِیْل مُقِیْم پرواقع ہیں ۔اوراس جگہ فرمایا ہے اصحا ب ایکہ کامقام ایک امام مبین پر واقع ہے ۔اس میں یہ اشارہ ہے کہ لوط کی بستیوں کے پاس سے گذرنے والا راستہ ہمیشہ قائم رہے گا لیکن ایکہ والے راستہ کے نشانات توباقی رہیں گے ۔لیکن اس راستہ پر قافلوں کاگذر بند ہوجائے گا۔چنانچہ واقعات نے اس کی تصدیق کردی ۔پہلا راستہ تو اب تک جاری ہے دوسرے پر قافلے جانے بند ہوچکے ہیں۔
ولقد کذّب اصحٰب الحجر المرسلین٭
حجروالوں نے (بھی )یقینا(ہمارے)پیغمبروں کو جھٹلایاتھا ۷۲؎
۷۲؎ حل لغات ۔الحِجر:۔ اَلْحِصْنُ حجرکے معنے ہیں ۔قلعہ ۔نیزدیار ثمود کوبھی حجر کہتے ہیں (اقرب)الحِجْرُ والتَحْجِیْرُ اَنْ یُجْعَل حول المکانِ حجارۃٌ۔حجر اورتحجیر کے معنے مکان اوراردگرد پتھروں کی دیوار بنانے کے ہیں ۔وسُمِّیَ مااُحِیْطَ بہ الحجارۃُ حجراً۔اورجس جگہ کے گرد پتھر وں کی دیوار ہو اسے بھی حجر کہتے ہیں(مفردات)
تفسیر ۔یہ رکوع اوراگلی سورۃ النحل کاپہلارکوع بہت سے اہم مطالب اورپیشگوئیوں پر مشتمل ہیں۔
حجر سے مراد وہ احاطہ یاقلعہ شہرہوتاہے جس کے گرد پتھروں کی دیوار ہو ۔اصحاب الحجر سے مراد ثمود و قوم صالح کاشہرہے۔اسے حجر اس لئے کہتے تھے کہ مضبوط فصیلوں کاشہر تھا۔اورجیسا کہ اگلی آیت سے ظاہر ہے پتھروں سے اس کی تعمیر میں بہت کام لیا گیاتھا ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک کو جاتے ہوئے ا س مقام کے پاس سے گذرے تھے ۔آپ نے صحابہ کو وہاں کاپانی استعمال کرنے سے منع فرمایاکہ یہ بستی الٰہی عذاب کامقام ہے(بخاری کتاب الانبیاء باب قولہ تعالی کذّب اصحاب الحجر )
آیت زیر تفسیر میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے اصحاب الحجر نے بھی رسولوں کو جھٹلایا ۔حالانکہ انہوں نے صرف حضرت لوط کاانکارکیا تھا ۔اس طرز کلام کو سورئہ شعراء میں بھی استعمال کیاگیا ہے ۔وہاں فرماتاہے کہ نوحؑ کی قوم نے رسولوں کاانکار کیا (ع۱۶؍۹)قوم عاد نے رسولوں کاانکار کیا (ع۱۱؍۷)قوم ثمود نے رسولوں کاانکار کیا (ع۱۲؍۸)قوم لوط نے رسولوں کاانکار کیا (ع۱۶؍۹)حالانکہ ان سب مقامات پر صرف ایک رسول کے انکار کا ذکر ہے اورحضرت نوحؑ سے پہلے توکوئی بہت سے رسول گزرے بھی نہ تھے کہ ان کے انکار کاذکر ہوتا۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ نوحؑ اول الرسل تھے ۔(بخاری الجزء الثانی باب قول اللہ تعالیٰ اِنَّا اَرْسَلْنَا نُوحاً اِلی قَوْمِہٖ)اس پر سوال پیداہوتا ہے کہ ایک رسول کے انکار پر کیوں سب رسولوں کے انکار کا الزام لگاگیاہے ۔اس کے متعلق علامہ ابو حیا ن مصنف تفسیر بحر محیط نے نہایت لطیف بحث کی ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ یہ جو کہاگیا ہے کہ ایک رسول کا انکارکرنے والوں نے گویا سارے رسولوں کا انکار کیا ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمان وہی نفع دیتاہے جوسمجھ کر لایا گیاہو ۔پس جس شخص کسی ایک رسو ل کو پہچان کر اورسمجھ کر مانے گا وہ سب کو مان لے گا(جیسے وہ شخص جس نے خربوزہ یاآم کھایاہو وہ جب کبھی خربوزہ یاآم دیکھے گافورًا پہچا ن لے گاکہ یہ خربوزہ یاآم ہے ایساہی جس شخص نے ایک نبی کو سمجھ کر مان لیاوہ یقینادوسرے نبیوں کو پہچاننے میں کوئی دقت محسوس نہ کرے گا)مگر جس نے کسی ایک رسول کابھی انکار کیا ۔اس کے متعلق ہم نتیجہ نکال لیں گے کہ وہ خواہ کسی رسول کے وقت میں ہوتا ا س کابھی انکار کردیتا۔کیونکہ سب نبیوں کے حالات ایک سے ہوتے ہیں ۔یہ نکتہ نہایت لطیف ہے اورزبردست سچائی پر مشتمل ہے اوروہ لوگ جو کہتے ہیں کہ فلاں قوم نے اگر فلاں مدعی کاانکار کیا ہے ۔توکیاہوا۔وہ پہلے بہت سے رسولو ں کو مان رہے ہیں ۔کیاان پر ایمان لانا انہیں نفع نہ دے گا۔وہ حقیقت ایمان سے ناواقف ہیں کیونکہ ایسے لوگوں کا پہلے نبیوں پر ایمان محض رسمی ہوتاہے۔اگر وہ سمجھ کرپہلے رسولو ںکو مان رہے ہوں توجو شخص انہی کے نقش قدم پر آیاہو اورانہی کے حالات میں سے گزررہاہوا س کا انکار کیوں کریں۔پس ان کاماننا ایمان کی وجہ سے نہیں بلکہ رسمًااورعادتًاہے اورایسے ایمان کو ایمان کہنا ظلم صریح ہے ۔
واٰتینٰھم اٰیٰتنا فکانوا عنھا معرضین٭
اورانہیں(بھی)ہم نے اپنے (ہرقسم کے)نشان دیئے تھے جس کا نتیجہ( اُلٹا )یہ ہواکہ وہ ان سے روگردان ہوگئے تھے ۷۳؎
۷۳؎ حل لغات ۔مُعْرِضِیْنَ:۔اَعْرَضَ سے اسم فاعل مُعْرِضی بنتاہے اورمُعْرِضُوْنَ اس کی جمع ہے ۔اَعْرَضَ کے معنے ایک طرف ہونے کے ہیں ۔کیونکہ اَعْرَضَ عَرَضَ سے نکلاہے جس کے معنی پہلو کے ہیں ۔پس اعراض کے معنے پہلو تہی کے ہوئے ۔یہ دستورہے کہ جس سے اعراض مقصود ہو انسان اس سے منہ پھیر لیتاہے اوریہ ناراضگی کی علامت ہوتی ہے پس مُعْرِضِیْن کے معنے ہوئے کہ انہوںنے اس سے انکارکیا ۔انہوں نے منہ پھیر لیا اورتوجہ نہ کی۔
تفسیر ۔یعنے انہیں آیات الٰہی دکھائی گئیں ۔مگر انہوں نے اعراض کیا ۔پس کیونکرمانا جائے ۔کہ ویسی ہی آیات دیکھ کر دوسرے نبیوں کووہ مان رہے ہیں یامان سکتے ہیں ۔
گزشتہ آیات میں تین قوموں کاذکرکیا گیا ہے ۔قوم لوط۔قوم شعیب اورقوم صالح۔ان میں سے قوم صالح پہلے تھی ۔پھر قوم لوط ۔پھرقوم شعیب۔اب سوال یہ ہے کہ زمانہ کی ترتیب کوکیوں بدلاگیا ہے ۔ا سکا جواب یہ ہے کہ اس جگہ مکہ والوں کو یہ بتانا مقصودہے کہ پہلے انبیاء جن کو تم جانتے ہو ۔ان پر نازل ہونے والے کلام کے منکر بھی ایک حد تک شرارتیںکرنے کے بعد ہلاک کردیئے گئے تھے ۔محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انکارپر تم خوش نہ ہو ۔اوریہ نہ خیال کروکہ ہم غالب ہیں ۔اور اب تک ہماری شرارتوں کی سزانہیں ملی۔اس حجت کو پیش کرنے کا ایک طریق یہ بھی ہوسکتاتھا کہ زمانہ کے لحاظ سے واقعات کو پیش کیا جاتا۔لیکن دوسراطریق یہ بھی ہوسکتاتھا ۔کہ اس فاصلہ کے لحاظ سے ان کا ذکر کیاجاتا جس پر یہ قومیں عربوں سے دور یا نزدیک واقع تھیں۔اوراس موقعہ پر یہی طریق اختیار کیا گیا ہے اورپہلے زیادہ دور فاصلہ والی قوم یعنی قوم لوط کاذکر کیاگیا ہے پھر کہا گیاہے کہ لو ان سے بھی قریب تر ایک قوم گزری ہے ۔یعنی قوم شعیب۔ان کابھی حال سن لو پھر اس کے بعد ثمود کی تباہی کابیا ن کیا۔کہ لو یہ قوم قوم شعیب سے بھی تمہارے قریب تر ہے ۔اورخود عرب کے علاقہ میں واقعہ ہے ۔ان کے حالات سے ہی عبرت حاصل کرو۔
ا س سورۃ میں ان قوموں کاذکر کیاگیاہے جن میں تحری کارواج کم تھا ۔اورجن کو عرب مانتے تھے ۔حضرت آدم تو سب کے ساجھے ہیں۔حضرت لوط حضرت ابراہیم کے رشتہ دارتھے۔اوراس طرح عربوں کے اجداد میں سے تھے ۔حضرت شعیب مدین میں سے تھے جوبنو اسماعیل کے بنو العَم تھے ۔اوربنواسماعیل سے گہراتعلق رکھتے تھے اوانہی میں جذب ہوگئے تھے ۔ثمو د خالص عرب تھے ۔
وکانوا ینتحون من الجبال بیوتااٰمنین٭
اوروہ پہاڑوں کے بعض حصوں کوکاٹ کر اس سے مکان بناتے تھے ۷۴؎
۷۴؎ حل لغات ۔ینحتون ۔نَحَتَ سے مضارع جمع غائب کاصیغہ ہے اورنَحَتَ الجحجرَ کے معنے ہیں ۔سَوَّاہُ واصلَحَہٗ۔پتھر کو کاٹ کر درست کیا اورٹھیک کیا ۔وفی الرآن تنحتونَ منَ الجِبَالِ بُیُوتاً ای تَتَّخذُون۔اورقورآن مجید میں جو آیت تنحتون من الجبال آئی ہے ۔اس کے معنی یہ ہیں کہ تم پہاڑوں میں گھر بناتے ہواورتحتَ الجبل کے معنے ہیں حَفَرَہٗ اس کو کھودا۔(اقرب)
البیوت :۔اس کامفرد البیت ہے جس کے معنے ہیں ۔المکسکن سواء کان من شَعْرِ اومدرٍ یعنی بیت مسکن کو کہتے ہیں خواہ وہ بالوں سے یعنی اون کابنا ہواہو جیسے خیمے وغیرہ ہوتے ہیں ۔یاکچی مٹی گارے وغیرہ کابناہواہو۔یعنی کچاو پکا مکان ۔الشرف اور بیت شرف یعنی بلندی اورعزت کو بھی کہتے ہیں ۔الشریف اورشریف یعنی سردار قوم کو بھی بیت کہتے ہیں کیونکہ قو م اس کے سایہ تلے رہتی ہے اوروہ قو م کے لئے بطور حفاظت کے ہوتاہے (اقرب)اس محاورہ کے استعمال کے متعلق چند نہایت لطیف اشعار ایک مجذوب کے میں نے تاریخ میں پڑھے ہیں کہتے ہیں ۔حضرت جنید بغداد ی فوت ہوئے توایک مجذوب جو بغداد کے شہر میں رہتاتھا ۔ان کے جناز ہ کے موقعہ پر دیکھا گیا اس نے بلند آواز سے ان کی نعش کی طرف اشارہ کرکے یہ شعرپڑھے ؎
وااسفاعلیٰ فراقِقومٍ ھم المصابیحُ والحصون
والدُدن والمزن والرّواَی وَالخیرُ والامنُ والسکون
لَمْ تتغیُّرْ لَنا اللَّیَالی حتّٰی توفّٰھم المنونُ
فَکُلّ جمرٍلنا قلوبٌ وَکُلُّ مَائٍ لنا عیون
یعنے ہائے افسوس ان لوگوں ک جدائی پر روشن چراغ تھے اورقلعے تھے اورشہر تھے اوبادل تھے اورپہاڑ تھے اور امن تھے اورسکون تھے ہمارے لئے ۔زمانہ اس وقت تک نہیں بدلا جب تک موت نے ان کو وفات نہیں دی ۔مگراب تویہ حال ہے کہ دل انگارا ہے توآنکھیں پانی بہا رہی ہیں ۔ا س آگ کے سوا ہمارے پاس کوئی آگ نہیں ۔اوراس پانی کے سواکوئی پانی نہیں ۔ان اشعار میں نہایت لطیف طور پر بتایاگیاہے کہ روحا نی سردار قلعو ں اورشہرو ںاو ربادلوںل او رپہاڑوںکی حیثیت رکھتے ہیں اوردنیا گویا ان میں بستی ہے اور ان کے ذریعہ سے ان کی حفاظت ہوتی ہے ۔
تفسیر۔اس آیت میں بتایاگیاہے کہ وہ لو گ پہاڑوں کو کھود کھود کرمکانات بنایاکرتے تھے اوربڑے طاقتور تھے کو ئی ان پر حملہ ک جرأت نہ کرسکتاتھا ۔اس اسے معلوم ہوتاہے کہ وہ قوم بڑی متمدن اورمتمول تھی کہ کوئی قوم ان کامقابلہ نہیں کرسکتی تھی ۔کیونکہ یہ قوم دونوں علاقوں خشکی اورپہاڑی علاقوں میں رہتی تھی ۔اٰمِنینَ کے لفظ سے اس طرف بھی اشارہ ہے کہ یہ قوم ایسی طاقتور تھی کہ کچھ حصہ سال کا پہاڑوں پر سیر و تفریح کے لئے گزارتی تھی ۔مگر باوجود اس کے کسی کو ان کے ملک پر حملہ کرنے کی جرأت نہ ہوتی اوران کے پیچھے ملک میں امن رہتا تھا ۔یا یہ کہ وم ان کی حالت میں پہا ڑ پر جاتے تھے ۔کسی کی گھبراہٹ اورڈرکی وجہ سے اوردشمن سے پناہ لینے کی غرض سے نہیں ۔
پہاڑ کھو د کر مکان بنانے کایہ مطلب نہیں کہ اس کے سوااورقسم کے ان کے مکان نہ ہوتے تھے بلکہ اس سے خاص عمارتوں کی طرف اشارہ کیا ہے جس سے ان کے تمدن کی ترقی ظاہرہوتی ہے ۔معلوم ہوتا ہے کہ فن تعمیر میں ان کو خاص مہارت تھی اور انہوں نے بعض اپنی قو می عمارات پہاڑ کھود کربنائی تھیں جیسے الیفنٹاکیوز بمبئی میں ہیں وہ بھی پہاڑ کھو دکر بنائی گئی ہیں اورہندوفن تعمیر کی مشہو ریاد گار ہیں باہرسے آنے والے سیاح انکو دیکھنے جاتے ہیں ۔اسی قسم کی بعض عمارتیں فن تعمی کے اظہار کے لئے معلوم ہوتاہے اس قوم نے بھی بنائی تھیں۔
فاخذتہم الصیحۃ مصبحین٭
پھر(وعید کے مطابق)صبح ہوتے (ہی)اس (موعود)عذاب نے انہیں پکڑ لیا ۷۵؎
۷۵؎ حل لغات ۔مُصْبِحِینَ : اَصْبَحَ الرّجُلُ کے معنے ہیں دخَلَ فی الصَّبَاحِ وہ صبح میں داخل ہوایعنی اس پر صبح کاوقت آیا۔فَاَخَذَتْھُمُ الصَّیْحَۃُ مُصْبِحِیْنَ اَیْ وَھُمْ داخلُون َ فی الصَّبَاحِ یعنی ان کو زلزلہ نے صبح ہوتے ہی آپکڑا(اقرب)
تفسیر ۔فرماتا ہے انہیں صبح کے وقت عذاب نے آدبایا۔دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عذاب زلزلہ کاتھا جیسے کہ سورئہ اعراف میں بیان فرماتاہے فَاَخَذَتْھُمُ الرَّجْفَۃُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِھِمْ جَاثِمِیْنَ(اعراف ع ۱۷؍۱۰)ان کے انکا کی وجہ سے انہیں زلزلہ نے آپکڑا۔نتیجہ یہ ہواکہ وہ اپنے گھرو ںمیں زمین پر گر ے کے گرے رہ گئے ۔یعنی مکانوںکے ملبہ کے نیچے دب گئے۔اورکوئی ایسا بھی نہ رہا جو ان کی لاشوں کو اند ر سے نکالتا ۔
فما اغنٰی عنہم ماکانوا یکسبون٭
اورجو(مال) وہ جمع کیا کرتے تھے اس نے انہیں (اس وقت کچھ بھی)فائدہ نہ دیا ۷۶؎
۷۶؎ حل لغا ت ۔اغنٰی عنہ :تشریح کے لئے دیکھو حل لغات سورئہ ابراہیم ۲۲؎
یَکْسِبُونَ:کَسَبَ سے مضارع جمع غائب کاصیغہ ہے ۔تفصیل کے لئے دیکھو سورہ رعد ۴۲؎
تفسیر ۔یعنے وہ توبڑے بڑے مکان اپنی حفاظت کے لئے بناتے تھے مگر ان کی یہ صفت ان کے لئے اسوقت الٹی پڑی۔کیونکہ جتنے بڑے مکان ہوں اتنا ہی زیادہ وہ زلزلہ میں نقصان پہنچاتے ہیں ۔کیونکہ ان کے نیچے دب جانے والے انسان کی نجات کی کوئی امید نہیں رہتی۔اس میں اس طرف بھی اشار ہ ہے کہ اے اہل مکہ تم سامان سامان کا شورمچارہے ہو ۔یاد رکھو کہ جب ہماراعذاب آتاہے تومعذب قوم کے سامان ان کو فائدہ نہیں پہنچاتے بلکہ ان کی ہلاکت کو اورزیادہ خطرناک بنادیتے ہیں ۔
وما خلقنا السموٰت والارض وما بینھما الا بالحق۔
اورہم نے آسمانوں اورزمین کو حق(و حکمت) کے ساتھ پیداکیاہے
وان الساعۃ لاتیۃٌ فاصفح الصفح الجمیل٭
ا وروہ (موعود)گھڑی یقیناً آنے والی ہے اس لئے تو(انکی زیادتیوں پر )مناسب درگذر سے کام لے ۷۷؎
۷۷؎ حل لغات ۔ بِالحقِّ۔الحق کے لئے دیکھو سورہ رعد ۱۵؎
اصفح۔ صفح سے امرکاصیغہ ہے اورصَفَحَ عَنْہُ صَفْحًا کے معنے ہیں اَعْرَض عَنہُ وَتَرَکہٗ وحَقِیقتُہٗ وَلَّا ہُ صَفْحَۃَ وَجْھِہِ۔ا س سے اعراض کیا اوراس کو چھوڑ دیا ۔ اورصَفَحَ کے اصل معنے یہ ہیں ۔کہ اس سے اپنے منہ کو ایک طرف کر لیا ۔یعنی اس کی طرف توجہ نہ کی ۔صدَّعَنْہُ اس سے رک گیا ۔اَعرَضَ عَنْ ذَنْبِہٖ اس کے گناہوں سے درگذر کیا اور اسے معاف کیا ۔صَفَحَ النَّاسَ۔نَظَرَ فی اَحْوَالِھِمْ۔لوگوں کے حالا ت کو بغوردیکھا ۔صَفَحَ فی الامرِ نظرفیہ ۔ کسی معاملہ میں غورو فکر کیا ۔الصَّفْحُ ۔صَفَحَ کامصدر ہے نیز اس کے معنی ہیں الجانبُ۔طرف ۔صَفجحٌ من الانسانِ۔جنبُہُ انسان کاپہلو۔(اقرب) پس فاصفحَ الصَّفْحَ کے معنے یہ ہوئے کہ (۱)ان سے منہ پھیر لے ۔یعنی اب اتمام حجت ہوچکی ہے اس لئے اب منکروں سے بحث و مباحثہ بند کردو (۲)ان لوگوں سے زیادہ تعلق نہ رکھو ۔(۳)ان کے گناہوں سے اعراض کرو۔یہ معنے یہاں مراد نہیں (۴)ان کی حالت پر اچھی طرح غور کرو۔اورحالات کا بغورمطالعہ کرو۔اوردیکھو کہ کیاسے کیا ہورہا ہے ۔(۵)ان کے اموراورحالات کی طرف دیکھو کہ کس طرح گمراہی کی طرف جارہے ہیں ۔
الجمیل:جَمُلَ سے صفت مشبّہ ہے اورجَمُلَ الرَّجُلُ۔یَجْمُلُ جَمَالًاکے معنے ہیں ۔حَسُنَ خَلْقًا وخُلْقًا ۔کہ ظاہر و باطن کے لحاظ سے اچھا ہوگیا (اقرب) پس فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الجَمِیْل کے معنے ہوں گے کہ ایسادرگذر کرو جو ہررنگ میں اچھا ہو۔
تفسیر ۔یعنی آسمان و زمین کی پیدائش پر غورتوکرو کیا وہ بلا مقصد نظر آتی ہے اس کارخانہ پر نظر ڈالنے سے ہراک عقل مند سمجھ سکتاہے کہ اس قدر بڑا نظام کس غرض سے ہے ۔اورسے سے نتیجہ نکا ل سکتاہے کہ ساعۃ ضرور آنے والی ہے ۔اورساعۃ کالفظ قیامت کے لئے بھی استعال ہوتاہے ۔اوراس موعود گھڑی کے لئے بھی جو انبیاء کے دشمنوں کی تباہی اوران کے ماننے والوں کی ترقی کے لئے مقررہوتی ہے ۔ آیت کا پہلا حصہ دونوں ساعتو ں کے لئے بطوردلیل ہے ۔زمین وآسمان کی پیدائش قیامت کی بھی دلیل ہے اورنبیوں کی کامیابی اور ان کے دشمنوں کی تباہی کی بھی ۔
قیامت کی اس طرح کہ اگرانسان کی زندگی صرف اس دنیا تک ختم ہوجاتی ہے ۔توگویا اس قدر بڑی دنیا خداتعالیٰ نے صرف اس لئے پیدا کی ہے کہ انسا ن اس میں پیداہوکچھ دن کھائے پئے اورپھر مرجاے ۔اوریہ خیال بالکل خلافِ عقل ہے ۔اس قدر بڑے نظام کا پیداکرنا ایک بہت بڑ ی غرض کے لئے ہی ہوسکتاہے ۔اوروہ غرض پوری ہوتی اس دنیا میں نظرنہیں آتی۔پس ضرور ہے کہ انسان کی زند گی اسی دنیوی حیات تک ختم نہ ہو ۔بلکہ اس نظام کی عظمت کے مطابق ایک بڑے زمانہ تک چلی جائے جس میں وہ ایک ایسے اعلیٰ مقام کوپالے جو اس نظام کی عظمت کے مطابق ہو ۔
اگرغورکیا جا ئے توسارانظام توالگ رہا ۔اللہ تعالیٰ نے چھوٹی سے چھوٹی چیزمیں ہی ایسے اسرار رکھے ہیں کہ ختم ہونے میں نہیں آتے۔انسانی جسم کوہی لے لو اس کانام کیسا پیچیدہ ہے ۔ہزاروں لاکھوں اطباء اورعلم تشریح کے ماہر اس کی حقیقت کومعلوم کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ لیکن اب تک ان امور کا احاطہ نہیں کرسکے جو جسم انسانی سے تعلق رکھتے ہیں۔قرآن کریم کے نزول کے زمانہ کے بعد تویورپ نے سائنس میں بے انتہاکما ل حاصل کیا ہے ۔مگر اب تک انسانی جسم کے متعلق پورا احاطہ نہیں کرسکا۔پھر س قدر وسیع قوانین پر جس وجود کی بنیاد رکھی گئی ہے اس کی پیدائش کے مقصد کو اس قدر حقیر بتانا جیساکہ قیامت کے منکر بتاتے ہیں کس طرح معقول سمجھاجاسکتاہے ۔
اسی طرح یہ نظام انبیاء کی کامیابی اوران کے دشمنوں کی تباہی پر بھی دلالت کرتاہے ۔زمین کو آسمان سے جد اکردو۔پھر اس کی کیاحالت ہوجاتی ہے ۔ایک دن بھی نہیں ٹھہر سکتی ۔پس جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں ۔کہ روحانی آسمان سے قطع تعلق کر کے بچ رہیں گے کیسے اندھے ہیں ۔جس طرح اس نظام کامل کاجز و رہتے ہوئے ہی زمین محفوظ رہ سکتی ہے اسی طرح روحانی نظام کا جزو بننے سے ہی انسان ہلاکت سے بچ سکتاہے ورنہ ا سکے بچنے کی کوئی صورت نہیں ۔خصوصاًجبکہ وہ اس نظام پر حملہ آور ہو۔تواس کی نجات قطعاًناممکن ہے ۔پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منکرو ں کو بتایا گیا ہے کہ آسمان روحانی سے قطع تعلق کرلینے کیوجہ سے ان کے سامان کسی کام بھی نہ آئیں گے ۔بلکہ اب ان کی تباہی وارمسلمانوں کی ترقی کاوقت آن پہنچا ہے ۔
اس آیت میں کس زورشور سے کفار کی تباہی کی خبر دی گئی ہے اورساتھ ہی یہ بتایاگیا ہے کہ اب وہ وقت آیا ہی چاہتاہے ۔اس کے بعد جس طرح جلد جلد حالات بدلے اورکفار مکہ کی تباہی کے سامان پیداہوئے ۔وہ ایک ایسانشان ہے کہ کسی الٰہی سلسلہ میں بھی اس سے پہلے اس کی نظیر نہیں ملتی۔کیونکہ یہ تباہی آسمانِ روحانی کے سب سے بڑے ستارے بلکہ سورج کی مخالفت اوراس سے قطع تعلق کے نتیجہ میں ظاہر ہوئی ۔
اس آیت سے یہ معلوم ہوتاہے کہ جن لوگوں کاخیال ہے کہ یہ سورۃ مکی زندگی کے آخر میں نازل ہوئی زیادہ درست ہے ۔کم سے کم یہ آیات تومعلوم ہوتاہے ضرور مکی زندگی کے آخری ایام میں نازل ہوئی ہیں کیونکہ ان میں مکہ والوں کی تباہی پر خاص زورہے اوراسے بہت قریب بتایا گیا ہے ۔سورہ نحل کاپہلا رکوع بھی اسی پر دلالت کرتا ہے
آیت کے آخر میں یہ جو فرمایا ہے کہ فَاصْفَحِ الصَّفْحِ الْجمیل اس میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اب ان کی تباہی کاوقت قریب آگیاہے اس لئے اب ان سے بحث مباحثہ بند کردواوران کی طرف توجہ ہی نہ کرو۔کیونکہ اب بحث مباحثہ کاوقت گذر گیا۔اب ا ن کی تباہی کافیصلہ آسمان سے اُتر چکا ہے اب تویہ عذاب کے بعد ہی مانیں گے تومانیں گے ۔
جمیل کے لفظ سے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ ان سے اعراض کرنے کے یہ معنی نہیں ۔کہ جوکوئی توجہ کرے اس کی طرف بھی توجہ نہ کرو۔بلکہ یہ معنے ہیں کہ اگر لوگ خودتوجہ کریں توبے شک انہیں سمجھائو لیکن عام بحث مباحثہ اب بند کردو کیونکہ حجت تمام ہوچکی اوانہوں نے آسمانی دلائل سے فائدہ نہیں اٹھایا ۔بے شک صفح کے معنے معاف کرنے کے بھی ہوتے ہیں مگر اس جگہ وہ معنے مراد نہیں ۔بلکہ صفح الناس نظر فی احوالہم والے معنے مراد ہیں ۔یعنی اب ان کاحال دیکھتے جائو اوردیکھو کہ کچھ دن میں کیاسے کیا ہوجاتاہے ۔نیز صفح کے معنے رک جانے کے بھی ہیں ۔یہ معنے بھی اس جگہ چسپاں ہوتے ہیں ۔اس کامطلب وہی ہے جو میں اوپر بتاآیاہوں کہ ا ب ان سے عام بحث مباحثہ ترک کردو ۔یہ صورت ہر نبی کے وقت میں پیداہوتی ہے ۔ایک وقت تک اسے بحث مباحثہ کی اجازت ہوتی ہے مگر حجت تمام ہوچکنے کے بعد اسے بحث مباحثہ سے روک دیاجاتاہے ۔اورآئمۃ الکفر کوان کے حال پر چھوڑ دینے کاارشاد ہوتاہے ۔
ان ربک ھوالخّٰق العلیم٭
یقینا تیرارب ہی بہت پیداکرنے والا (اور)خوب جاننے والاہے ۷۸؎
۷۸؎ حل لغات ۔الخَلَّاق کے معنی ہیں بہت پیداکرنے والا۔یہ لفظ خالق کامبالغہ ہے ۔
العلیم : بہت جاننے والا۔
تفسیر ۔خلَّاق کے لفظ سے اس امرکی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ہم کسی قوم کوتباہ کرتے وقت ڈرا نہیں کرتے ۔کیونکہ ہم خلّاق ہیں یعنی بہت پیداکرنے والے ہیں تباہ کرنے سے ڈرتواس کو ہو جوپھر پیدانہ کرسکے مگر ہم توخلاق ہیں ۔ہرمفسد قوم کو ہلاک کر کے اس کی جگہ دوسری قوم کو کھڑاکردیتے ہیں ۔اورہماری بادشاہت میں کوئی کمی نہیںآتی اس جگہ اس قسم کامضمون بیان کیا گیاہے ۔جوحضرت موسیٰ علیہ السلام اورفرعون کے متعلق سورئہ زمر میں بیان کیاگیاہے وہاں فرعونیوں کی تباہی بیان کرکے فرماتا ہے کہ کَذٰلِکَ وَاَوْرَثْنَاھَا قَوْمًاآخَرِیْنَ فَمَابَکَتْ عَلَیْہِمُ السَّمَائُ وَالْاَرْضُ وَمَاکَانُوْامُنْظِرِیْنَ(دخان ع ۱۴؍۱)یعنی موسیٰ دیکھ ہم نے کس طرح اس قوم کو تباہ کردیا ۔اوران کی جگہ وہی عزت ایک اورقوم کو (یعنی خود موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو )دے دی اوران کی تباہی پر آسمان نہ رویا اورنہ زمین روئی یعنے نہ خداتعالیٰ کی بادشاہت میں کوئی کمی آئی کہ اہل آسمان کواس پ ررنج ہوتا ۔اورنہ اہل زمین کو ان کی تباہی سے کوئی نقصان پہنچا ۔نہ انہوں نے ان کی تباہی پر افسوس کیا کیونکہ انبیاء کے مخالف ہمیشہ ظالم ہوتے ہیں۔ان کی تباہی کے بعدباقی دنیا افسوس نہیں کرتی بلکہ امن کاسانس لیتی ہے ۔
اورعلیم کالفظ جو آخر میں رکھا ہے ۔اس میں اس امر کی طر ف اشارہ کیاہے کہ ان کی تباہی کے بعد دنیا میں جو ایک نیانظام قائم ہوگا اسے ہم جانتے ہیں۔وہ ایسا اعلیٰ درجہ کانظام ہے کہ اسے دیکھتے ہوئے ان لوگوں کی تباہی اورودسری قوم کے پیداکرنے پر رنج نہیں خوشی ہونی چاہیئے ۔
قرآن کریم کاکتنا کما ل ہے ۔ایک مختصرلفظ سے کس قدروسیع مطالب بیا ن کردیئے ہیں اورمسلمانوں کی حکومت کے اعلیٰ نظام کی طرف کس خوبی سے اشارہ کیا ہے قرآنی مطالب کی ترتیب بھی کیسی اعلیٰ ہے ۔شروع میں فرمایاتھا ذَرْھُمْ یَاکُلُواوَیََتَمَتَّعُوْاوَیُلْھِھِمُ الْاَمَلُ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ(حجر ع ۱؍۱)ان کوچھوڑ دے کہ کھائیں۔دنیوی فائدے اٹھائیں ۔اورلمبی لمبی امید وں میں پڑے رہیں یہ عنقریب جان لیں گے کہ ان کاکیا انجام ہوتاہے ۔اب آکر فرمایا ۔لو اب وہ گھڑی آہی پہنچی ۔اوران کے کھانے پینے اوربڑی بڑی امیدیں رکھنے کازمانہ ختم ہوگیا۔یہ مضمون کازورایساہی ہے جیسے کہ آبشار کاپانی جب گرنے کے مقام پر آتا ہے تویکدم اس میں زور ساپیداہوجاتاہے۔
اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ الخَلَّاقُ الْعَلِیْمُ۔میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ جو لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ محمد رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم )کی ترقی کے ظاہری سامان کہاں سے پیداہوں گے ۔ان کویاد رکھناچاہیئے کہ اللہ تعالیٰ خلّاق ہے ۔جب وہ وقت آجائے گا کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ان لوگوں کی تباہی اورمسلمانوں کی ترقی کافیصلہ کرلے گی۔تواللہ تعالیٰ جو خلاق ہے خود ہی سب سامان پیداکردے گا۔چنانچہ اس پیشگوئی کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے مدینہ کے چند لوگوں کے دلوں میں حج کی رغبت پیداکی ۔جب وہ حج کے لئے آئے توانہوں نے محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاذکر سنا اورآپ سے ملے پھر جاکر اپنی قوم کو ساراحال سنایا ۔اوروہاں سے ایک وفد آگیا۔جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی ۔کہ آپ مکہ چھوڑ کر ہمارے شہر میں چلے آئیں ۔اورآپ نے خداتعالیٰ کے اذن سے ان کی اس درخواست کوقبول کرلیا ۔اورچند دن کے اند ر اندر وہ جو مکہ میں سرچھپانے کی جگہ نہ پاتے تھے ۔ایک زبردست حکومت کے بانی ہوگئے اوروہ دنیوی سامان بھی پیداہوگئے ۔جن کہ نہ ہونے کی وجہ سے اہل مکہ اپنی فتح یقینی سمجھتے تھے ۔اوروہ اس تغیر عظیم کو دیکھ کر حیران و ششدر رہ گئے
ولقد اٰتینک سبعا ً من المثانی والقرآن العظیم٭
اورہم نے یقینا تجھے دہرائی جانے والی سات(آیات)اور(بہت بڑی)عظمت والاقرآن دیاہے ۷۹؎
۷۹؎ حل لغات ۔المثانی کے معنے ہیںآیات القرآنِ۔قرآن مجید کی آیات۔من الوادِی ۔مَعَاطفہٗ یعنی مثانی الوادی ۔وادی کے موڑوں کوکہتے ہیں ۔مثنَی الایادی کے معنے ہیں ۔اعادۃُ المَعْروف مَرَّتین فاکثر یعنی بار بار احسان کرنے کو مَثْنَ الْاَیَادی کہتے ہیں۔اس میں دوکی شرط نہیں ۔بلکہ دویادوسے زیادہ مرتبہ احسان ہو۔مَثَانی الشَّیئٍ۔قواہٗ وطاقاتُہٗ ۔مَثَانِی الشَّیئِ سے مراد اس کی قوتیں ہیں (اقرب)
حضرت عمر ؓ علی ؓابن مسعودؓ ۔ابن عباسؓ اورعلماء کی ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ سَبْعَ مَثَانِیْ سے مراد اس جگہ سورہ فاتحہ ہے ۔اورابوہریرہ سے روایت ہے کہ عن النبی صلی ا للہ علیہ وسلم اَنَّھا(ای الفاتحۃُ) اَلسَّبْعُ المثانی واُمُّ القُراٰنِ وَفاتحۃُ الکتابِ وسُمِّیَتْ بِذٰلِکَ لِاَنَّھَاتُثَنّٰی فی کُلِّ رَکْعَۃٍ ۔کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ سورہ فاتحہ سبع مثانی ہے اورامّ القرآن اورفاتحۃ الکتاب بھی اسے اس لئے مثانی کہتے ہیں کہ یہ ہررکعت میں دہرائی جاتی ہے قِیْلَ لِاَنَّھَا یُثَنّٰی بِہَاعَلَی اللّٰہِ تعالیٰ ۔کہ اس کومثانی اس لئے کہتے ہیں کہ اس کے ذریعہ سے خداکی ثناکی جاتی ہے ۔ان معنوں کو زجاج نحوی نے جائزقراردیاہے لیکن ابن عطیہ نے قواعد صرف کے خلاف قرار دیا ہے ۔علامہ ابوحیان لکھتے ہیں کہ یہ اعتراض درست نہیں ۔کیونکہ مثانی مُثْنٰی کی بھی جمع ہے جو اثنٰی رباعی سے مُفْعَل کے وزن پر ہے اورا س کے معنے ثناء کے ہیں ۔یعنی جس میں اللہ تعالیٰ کی ثناکا مضمون اچھی طرح بیان کیاگیا ہے۔ان معنوں کے روسے آیت کے معنے ہوئے ہم نے تجھ کو سات آیتوں والی وہ سورۃ دی ہے کہ جوبار بار دہرائی جاتی ہے یاجس میں سات آیات ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی ثناکامل طورپر بیان کی گئی ہے ۔
تفسیر ۔جب یہ فرمایاکہ لوگ اب تباہ ہونے کو ہیں اوران کی جگہ مسلمانوں کو برتری ملنے والی ہے ۔توساتھ ہی فرمایاکہ ان کی طرف سے توجہ ہٹاکر اب تم مسلمانوں میں قرآن کی ترویج اورتعلم پر زیادہ زور دوتاکہ کامیابی کے دنوں کے آنے سے پہلے یہ اس کام کے لئے جو ان کے ذم لگنے والا ہے تیار ہوجائیں ۔چنانچہ فرمایا ہم نے تم کو سور ہ فاتحہ جیسی نعمت دی ہے جو صرف سات آیات ہیں ۔اورمثانی ہیں مثانی کے معنے جیساکہ حل لغات میں بتائے جاچکے ہیں ۔کسی شے کی قوت اورطاقت کے بھی ہوتے ہیں ۔اورسورہ فاتحہ کو مثانی کہہ کر یہ بتایا ہے کہ اس میں قرآن کریم کی قوتوں اورطاقتوں کانچور ہے یعنی ہیںتوسات مختصر آیات لیکن سارے قرآن کے مطالب اجمالاً اس میں آگئے ہیں ۔
قرآن عظیم سے مراد بقیہ قرآن بھی ہوسکتاہے ۔اورمراد یہ ہوگی کہ سورئہ فاتحہ بھی دی جو اجمالی قرآن ہے اورتفصیلی قران بھی دیا ۔ اوراس سے مراد خود سورہ فاتحہ بھی ہوسکتی ہے ۔اس صورت میں اس سے یہ مطلب ہوگا کہ سورئہ فاتحہ قرآن کریم کا ایک بڑامہتم بہ حصہ ہے ۔ اورقرآن سے ساراقرآن نہیں بلکہ حصہ قرآن مراد لیا جائے گااوریہ عام محاورہ ہے کہ کبھی جزو کے لئے کل کالفظ بول دیاجاتاہے جیسے عام طور پر لوگ کہتے ہیں ۔قرآن سنائو اوراس سے مراد ساراقرآن سنانا نہیں ہوتابلکہ اس کاکچھ حصہ سنانا مطلوب ہوتاہے۔پس القرآن العظیم کا لفظ سورئہ فاتحہ کے متعلق اس اظہار کے لئے ہے کہ وہ قرآن عظیم کاحصہ ہے اس سے باہر نہیں ۔ان معنوں سے ان لوگوں کے خیالات کی تردید ہوتی ہے جویہ خیال کرتے ہیں کہ سورئہ فاتحہ قرآن کاحصہ نہیں ۔احادیث میں بھی سورہ فاتحہ کا نام قرآن عظیم بتایاگیاہے ۔چنانچہ مسند احمد حنبل میں ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ھِیَ اُمُّ القُراٰنِ وَھِیَ السَّبْعُ المَثَانِی وَھِیَ القُراٰنُ العَظِیم(مسند احمد حنبل جلد ۲ص ۴۴)یعنی سورئہ فاتحہ ام القرآن بھی ہے اورسبع المثانی بھی ہے اورقرآن عظیم بھی ہے ۔
اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ قرآن عظیم سارے قرآن کانام نہیں ۔دونوں ہی معنے ایک وقت میں کئے جاسکتے ہیں کیونکہ ایک دوسرے کے مخالف نہیں ہیں ۔یہ بھی کہ سور ۃ فاتحہ قرآن عظیم ہے اوریہ بھی کہ ساراقرآ ن قرآن عظیم ہے ۔کیونکہ یہ دونوں معنے مختلف نقطہ نگاہ کی وجہ سے ہیں ۔اوراپنی اپنی جگہ پر درست ہیں ۔اگرقرآن عظیم کے معنے سارے قرآن کے کئے جائیں تویہ مطلب ہوگاکہ ہم نے تم کو اجمالی قرآن یعنی سورۃ فاتحہ بھی دی ہے اوراس کے علاوہ ایک تفصیلی قرآن بھی دیا ہے ۔پس اس کی تعلیم کی طرف توجہ کرو۔اوران لوگوں سے بحث مباحثہ کاخیال جانے دو اب وقت آگیا ہے کہ مسلمانوںکو مطالب قرآن خوب زور سے سکھائے جائیںتاکہ وہ نئے نظام کے سنبھالنے کے اہل ہوجائیں ۔
لاتمدنّ عینیک الی ما متعنا بہ ازواجاً منھم ولاتحزن
اوروہ جو نے ان میں سے کئی گروہوں کو عارضی نفع کا سامان دیاہے اس کی طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کرنہ دیکھ اوران (کی تباہی)پر غم نہ کھا۔
علیھم واخفض جناحک للمومنین٭
اورمومنوں پر اپنا (شفقت کا)بازو جھکائے رکھ ۸۰؎
۸۰؎ حل لغات ۔تَمُدَّنَّ:مَدَّ سے مضارع کاصیغہ ہے اورمَدَّ نَظَرَہٗ اِلَیْہِ کے معنے ہیں طمح ببصرہٖ الیہ کہ اس کی طرف ٹکٹکی لگاکر دیکھا(اقرب) پس لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ کے یہ معنے ہوں گے کہ توان کی ترقیات کی طر ف ٹکٹکی لگاکر نہ دیکھ ۔
تفسیر ۔بعض لوگوں نے اس آیت کے یہ معنی کئے ہیں بصریٰ اوراوزعات سے بنوقریظہ اوربنونظیر کے سات قافلے آئے تھے وہ کپڑوں اورعطروں اورجواہرات پر مشتمل تھے انہیں دیکھ کر صحابہؓ نے کہا کہ کاش یہ مال ہمارے پاس ہوتا تو ہم کو اس سے طاقت حاصل ہوتی ۔اورہم اسے خداکی راہ میں خرچ کرتے ۔یہ معنے میرے نزدیک درست نہیں ۔اوران کے غلط ہونے کا یقینی ثبوت یہ ہے کہ سب مفسرین متفق ہیں کہ یہ سورۃ ساری کی سار ی مکی ہے حتی کہ عیسائی مستشرقین تک یہ ماننے پر مجبور ہوئے ہیں کہ یہ سورہ سب کی سب مکی ہے ۔پھر جب یہ سورہ مکی ہے توبنوقریظہ اوربنونظیر کے قافلوں کودیکھ کر مسلمانوں کاایسی خواہش کرنا کس طرح درست ہوسکتاہے ۔بنو قریظہ اوربنونظیر کی حالت تو مسلمانوں نے ہجرت کے بعد دیکھی تھی ۔مکہ میں نازل ہونے والی سورۃ میں اس کا ذکر کیونکر آگیا ۔نیز سوچنا چاہیئے کہ اس آیت میں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مخاطب ہیں ۔صحابہ تومخاطب نہیں ۔اورآپؐ کی طرف ایسی خواہش منسوب کرنا میرے نزدیک توکسی صورت میں جائز نہیں بلکہ سو ء ادب ہے ۔نیز جبکہ اس سورۃ میں زور ہی اس امر پر ہے کہ ہم مسلمانوں کی ترقی کے سامان خود پیداکریں گے تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے د ل میں ایساخیال پیداہی کس طرح ہوسکتاتھا کہ خداتعالیٰ توکہے کہ اس بارہ میں ہم پرتوکل رکھ اوررسول لوگوں کے اموال دیکھ کر کہے کہ یہ مال ہمارے پاس ہوتاتوخوب ترقی کرتے ۔اسے کونسی عقل تسلیم کرسکتی ہے ۔
اصل بات یہ ہے کہ اِنَّ السَّاعَۃَ لَاٰتِیَۃٌ میں کفار کے نظا م کے ٹوٹنے کی طرف اشارہ تھا۔اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کوجو نہایت حساس تھا اورجس میں اپنی قو م کی خیر خواہی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔لازماً یہ صدمہ ہوناتھا کہ اب میری قوم یا اس کے عمائد ایمان سے محروم رہ جائیں گے اورتباہ کردیئے جائیں گے چنانچہ آپؐ ان صنادیدکی حالت کو دیکھ کر جن پر مکہ کے نظام کا مدار تھا ۔سخت افسوس کرتے ہوں گے کہ کاش یہ لوگ تباہ نہ ہوتے اورجس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کودنیا میں بڑا بنایاہے اللہ تعالیٰ ان کو دن میں بھی اتنا بڑابناتاتواچھا ہوتااوریہ خواہش نہایت پاکیزہ ہے۔نبی کبھی کسی کی تباہی پر خوش نہیں ہوتا۔بلکہ چاہتا ہے کہ سب ہی ایما ن لے آئیں ۔اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو اس خواہش میں اس قد ر بڑھے ہوئے تھے کہ آپ کی نسبت قرآن کریم میں آتاہے لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤُمِنِیْنَ(شعراء ع ۵؍۱) اے محمد(رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم )تُوشائد اپنے آپ کو اس غم میں ہلاک کرلے گا۔کہ یہ لوگ سب کے سب مسلمان کیوں نہیں ہوجاتے ۔پس آپؐ کے ان شریف جذبات کو اس خبر سے ٹھیس لگی ہوگی ۔پس اللہ تعالیٰ نے آپ کی تسلی ک لئے یہ الفاظ بیان فرمائے ۔اورکہا کہ تجھے اپنی قوم کے اکابر کی تباہی کی خبر سن کر افسوس ہوگا۔کیونکہ تُو ان کی ہدایت کی زبردست خواہش رکھتا ہے مگراب ہم ان کی تباہی کافیصلہ کرچکے ہیں ۔پس اب ان لوگوں کے لئے افسوس کرناچھوڑ دے ۔اوران کی ظاہر ی بڑائیوں کا خیال نہ کر۔ اب تو تیرے رب نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ ان کو چھوٹاکردے اورتباہ کردے ۔پس اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرماتا کہ ان کے اموال کولالچ کی نگاہ سے نہ دیکھ ۔بلکہ یہ فرماتاہے کہ ان کی ظاہری شان وشوکت دیکھ کر یہ افسو س نہ کر کہ اب عذاب الٰہی ان کو کنگال اورتباہ کردے گا۔اوران کی حشمت جاتی رہے گی۔چنانچہ آیت کاآخری حصہ بھی انہی معنوں کی تائید کرتا ہے کیونکہ اس میں یہ فرمایاگیا ہے کہ وَلَاتَحْزَنْ عَلَیْہِمْ یعنی ان کی تباہی پر افسوس نہ کر۔اس جملہ کے ہوتے ہوئے وہ معنے جو بعض لوگوں نے بیان کئے ہیں کس قدرخلاف عقل ہوجاتے ہیں ۔ کیونکہ اگر وہ صحیح معنے ہوں ۔توآیت کامضمون یہ بن جائے گا کہ اے محمد رسو ل اللہ !توان کے مالوں کو دیکھ کر لالچ نہ کراوریہ خواہش نہ کر کہ وہ اموال تجھ کو مل جائیں ۔اورتو ان کی تباہی پر غم نہ کھا ۔یہ معنے کیسے لغو ہیں ۔اورکس طرح ان کاایک حصہ دوسرے حصہ کورد کرتا ہے ۔لیکن جو معنے میں نے کئے ہیں وہ ساری آیت کے مضمون کو ایک دوسرے کامؤید بنادیتے ہیں۔
جوشخص دوسرے کے مال کو لینا چاہتا ہے وہ اس کی تباہی پر غمگین کیونکر ہوسکتاہے و ہ تواپنی خواہش سے عملًا اس کی تباہی کی دعاکرتا ہے ۔
وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِلْمُؤمِنِیْنَ کے الفاظ بھی میرے کئے ہوئے معنوں کی تائید کرتے ہیں کیونکہ اگر وہ معنے مراد ہوں جن کو میں نے رد کیا ہے ۔ تواس آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ کفار کے متعلق یہ خواہش نہ کر کہ ان کامال تجھ مل جائے اوران کی تباہی پر افسوس نہ کر۔اورمومنوں کی تربیت کی طرف پوری توجہ کر ۔اگر یہ معنے ہوں توآیت کے سب ٹکڑے بے ربط ہوجاتے ہیں۔لیکن میرے کئے ہوئے معنوں کی صورت میں یہ الفاظ بھی آیت کے دوسرے حصوں سے کامل طورپر مربوط معلوم ہوتے ہیں ۔کیونکہ ان میں یہ بتایا گیاہے کہ بڑے بڑے کفار کی تباہی کا ہم فیصلہ کرچکے ہیں ۔پس اب ان کی جاتی ہوئی شان کو دیکھ کرتوغم نہ کر بلکہ جولوگ ان کی جگہ لینے والے ہیں یعنی مومن ان کی تربیت کی طرف متوجہ ہوجا کہ اب دنیا کی ترقی پرانے سرداروں کے بچانے سے ممکن نہیں ۔بلکہ اس کامدار ان لوگوں کی صحیح تربیت پر ہے ۔
وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِلْمُؤمِنِیْنَ سے ایک باریک اشارہ ہجرت کی طرف بھی کیاگیا ہے ۔کیونکہ مومنوں کی کامل تربیت ایک نظام کو چاہتی ہے قرآن کریم کے وہ احکام جونظام کے ساتھ تعلق رکھتے تھے۔ان کاعملی اجراء مکہ میں نہیں ہوسکتاتھا ۔پس یہ کہہ کر کہ اب تومومنوں کی ایسی تربیت کی طرف توجہ کر کہ آگے چل کر یہ دنیا کانظام سنبھال لیں۔اس طر ف اشارہ کیا گیا ہے کہ اب ہم تجھے اس جگہ لے جانے والے ہیں جہاں تجھے اس تربیت کاموقعہ پوری طرح مل جائے گا
خلاصہ یہ کہ آنکھیں اُٹھا اُٹھا کر دیکھنے سے اس لئے منع نہیں کیا گیا ۔کہ نعوذ باللہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے مالوں کی لالچ تھی ۔بلکہ اس حسرت سے دیکھنے سے منع کیاگیا ہے کہ اب سرداران عرب کی حشمت جاتی رہے گی اوروہ ایمان سے محروم رہ جائیں گے ۔اوران کے اموال ان کو تقویٰ میں بڑھانے کی بجائے ان کی ہلاکت کاموجب ہوجائیں گے ۔
وقل انی انا النذیر المبین٭
اور(لوگوں سے )کہہ (کہ )میں ہی کھول (کھول کر بیان کرنیوالا)کامل نذیر ہوں ۸۱؎
۸۱؎ تفسیر ۔یعنی اب توبانگ بلند سے ان کو یہ سنادے کہ میں ہاں میں ہی کھلاکھلا نذیر ہوں ۔یعنی اس وقت خداتعالیٰ نے انذار کاکام میرے ہی سپرد کیا ہے اس لئے میں الٰہی منشاء کے ماتحت اعلان کرتاہوں کہ تمہاری تباہی کا وقت آگیا ہے ۔
کما انزلنا علی المقتسمین٭
اس لئے کہ ہم نے باہم بانٹ لینے والوں کے متعلق (اپناانذاری کلام)نازل کیا ہے ۸۲؎
۸۲؎ حل لغات ۔المقتسمین :اِقْتَسَمَ سے اس فاعل مُقْتَسِمٌ آتاہے اورمُقْتَسِمُوْن اس کی جمع ہے ۔اِقْتَسَمُو المال بَیْنَہُمْ کے معنی ہیں۔اَخَذَ کُلٌّ قِسْمَۃٌ۔انہوں نے مال تقسیم کرلیا اورہرایک نے اپنااپناحصہ لے لیا (اقرب)تقاسما المال۔اقتسماہ بینہما ۔انہوں نے آپس میں مال تقسیم کرلیا ۔فالاقتسام والتقاسُمُ بمعنًی وَاحدٍ۔یعنی ان معنوں کے روسے اقتسام اورتقاسم ہم معنی ہیں (تاج)پس مقتسمون کے معنی ہوں گے تقسیم کرنے والے ۔مراد آنحضر ت کی دشمنی کے فرائض باہم تقسیم کرنیوالوں سے ہے ۔
تفسیر ۔عام طورپر اس آیت کے یہ معنی کئے جاتے ہیں ’’جس طرح ہم نے مقتسمین پر نازل کیا ہے ‘‘مگر میرے نزدیک اس جگہ ک کے معنی تعلیل کے ہیں اورکاف کا یہ استعمال لغت عربی سے ثابت ہے (اقرب)خود قرآن کریم میں بھی ان معنوں میں ک متعددجگہ استعمال ہواہے مثلاً فرماتاہے وَاذْکُرُوْہُ کَمَا ھَدٰکُمْ(بقرہ ع ۲۵)اللہ تعالیٰ کو یاد کروکیونکہ اس نے تم کو ہدایت دی ہے ۔پس ک کے ان معنوں کے رو سے آیت کے معنے یہ ہوں گے کیونکہ ہم نے (عذاب) مقتسمین پراُتاراہے اوریہ آیت پہلی آیت سے متعلق سمجھی جائے گی۔ اوردونوں آیتوںکا مطلب یہ ہوگا۔کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم توان لوگوں سے کہدے کہ میں نذیر عریان ہوں ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مقتسمین کے لئے یہ عذاب اُتارنے کافیصلہ کردیا ہے ۔جیساکہ ظاہر ہے ۔ان معنوں سے مفہوم بہت صا ف ہوجاتاہے ۔لیکن اگر ک کے معنے ’’جس طرح‘‘ کئے جائیں تومطلب واضح نہیں رہتا ۔کیونکہ اس صورت میں عبارت یہ بنتی ہے کہ انسے کہدے میں نذیر عریان ہو ں ۔ جس طرح ہم نے مقتسمین پر اتاراہے ۔یہ معنے جیساکہ ظاہر ہے کوئی صحیح مفہوم پیدانہیں کرتے ۔اسی وجہ سے مفسرین کو اس آیت کے معنے کرنے میں سخت دقت ہوئی ہے ۔اورلمبی لمبی توجیہیں کرکے انہیں کوئے معنے نکالنے پڑے ہیں ۔
مقتسمین کے معنوں کے بارہ میں بھی مفسرین کوبڑی دقت پیش آئی ہے ۔انہوں نے اس آیت کے معنی یہ کئے ہیں ۔کہ جس طرح ہم نے ان پر عذاب اتاراہے۔جنہوںنے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھ دینے کی قسمیں کھائی ہوئی ہیں۔ بخاری میں بھی یہ معنی بیان کئے گئے ہیں (بخاری کتاب التفسیر سورۃ الحجر) مگر میرے نزدیک عربی زبان کی رو سے یہ معنے درست نہیں۔کیونکہ اِقْتَسَمَ کے معنے قسمیں کھانے کے نہیں ہیں۔بلکہ تقیم کرنے کے ہیں ۔چنانچہ اقرب میں ہے اِقْتَسَمُواالْمَالَ بَیْنَہُمْ اے اَخَذَ کُلٌّ قِسْمَہ‘یعنی جب اِقْتَسمَ الْمَالَ کا لفظ بولیں تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ انہوں نے تقسیم کرلیا اور ہر اک نے اپنا اپنا حصہ لے لیا ۔تاج العروس میں ہے تَقَاسَمَا الْمَالَ ۔اقتسماہ بینہما یعنے تقاسما المالکہیں تو اس کے معنے اقْتَسَمَا کے یعنے آپس میں تقسیم کر لینے کے ہوتے ہیں ۔غرض اِقْتَسمَ کے معنے تاج العروس میں تقسیم کرنے کے لکھے ہیں ۔اب سوال یہ ہے کہ پھر لوگوں کو یہ دھوکا کیونکر لگا کہ اس کے معنے باہم قسمیں کھانے کے ہوتے ہیںتو اس کا جواب یہ ہے کہ تَقَاسَما کے ایک معنے قسمیں کھانے کے ہیں اور دوسرے معنی تقسیم کرنے ہیں۔ان معنوں کوبتانے کے لئے اہل لغت لکھتے ہیں کہ تَقَاسَما اور اِقْتَسَما ہم معنی الفاظ ہیں ۔ان کا مطلب یہ ہے کہ تَقَاسَما ۔اقتَسَما کی طرح تقسیم کرنے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ نہ یہ کہ اقتسم بھی تَقَا سَمَا کی طرح قسمیں کھانے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔مفسّرین نے اس مشابہت سے دھوکا کھایا ہے حتّٰی کہ زمخشری جیسے ادیب نے بھی دھوکا کھا یا ہے میرے دعویٰ کی تصدیق تاج العروس کے ان الفاظ سے ہوتی ہے تَقَاسَمَا الْمَالَ۔اِقْتَسَمَاہُ بَیْنَہُمَا فالاِقتسامُ وَالتقَاسُمُ بعنًی واحدٍ’’تقاسمَا المالَ کے معنے اقتسَما المال کے ہیں یعنی آپس میں مال تقسیم کرلیا ۔پس اقتسام اورتقاسم ایک ہی معنے رکھتے ہیں‘‘۔اس عبارت سے ظاہرہے کہ تاج العروس والے کے نزدیک دونوں کااشتراک تقسیم کرنے کے معنوں میں ہے نہ کہ قسموں کے کھانے کے متعلق۔چنانچہ آگے تاج العروس والے نے اس آیت کو بطورشہادت پیش کیا ہے گوآگے ابن عرفہ کایہ قول بھی نقل کیا ہے کہ مقتسمین کے معنے تَقَاسَمُوا کے ہیں ۔لیکن اوپر کی تشریح کے ماتحت صاف ظاہر ہے کہ تاج والا ان معنوں کولغت کے معنی نہیں قرار دیتا بلکہ تفسیری معنے قرار دیتاہے ۔
اس تمہید کے بعد میں یہ بتاتاہوں کہ مقتسمین سے کیا مراد ہے ۔میرے نزدیک تقسیم کرنے والوں سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمن کے کام تقسیم کرنے والے مراد ہیں اورمطلب یہ ہے ۔کہ جن لوگوں نے تیرے خلاف تدابیر کرنے کے کاموں کوتقسیم کرلیا ہے ۔کسی نے یہ ڈیوٹی اپنے ذمہ لے لی ہے کہ مکہ کے باہر کھڑاہوکر لوگوں کو ورغلائے ۔کسی نے یہ ڈیوٹی لے لی ہے کہ یہ شور مچاتاپھر ے کہ اگر سچاہوتاتو ہم جو رشتہ دار ہیں کیوں نہ مانتے ۔کسی نے مسلمانوں کو دکھ دینے کی ڈیوٹی اپنے ذمہ لے رکھی ہے کسی نے دوسری اقوام میں پرپیگنڈاکرنے کی ڈیوٹی ۔سوان سب لوگوں کے لئے ہم نے عذاب کافیصلہ کرلیا ہے بعض لوگوں نے یہ معنے کئے ہیں کہ قرآن کو انہوں نے تقسیم کرلیا ہے کہ بعض حصہ کومانتے ہیں اوربعض کو نہیں ۔مگر یہ معنے بھی درست معلوم نہیں ہوتے ۔کیونکہ مقتسم کے معنے توباہم تقسیم کرلینے کے ہیں ۔اورکسی حصہ پر ایمان لانااورکسی کورد کردینا ’’باہم تقسیم‘‘کامفہوم ادانہیں کرتا۔پس کسی جزوپرایمان لانا اورکس پر نہ لانا گوبعض کفار کاشیوہ ہے اورقرآن کریم میں مذکورہے ۔مگرا س آیت میں اس مفہو مکی طرف اشارہ نہیں ہے ۔
الذین جعلو ا القرآن عضین٭
جنہوں نے قرآن کو جھوٹی باتوں کامجموعہ قرار دیا ۸۳؎
۸۳؎ تفسیر ۔عِضِیْن اورعِضُونَ عِضَۃٌ کی جمع ہیں اورعِضَۃٌ کالفظ عَضٰی یَعْضُوْاعَضْواً سے بھی نکلا ہے جس کے معنے ٹکڑے کرنے کے ہوتے ہیںاورعَضَہَ یَعْضَہُ عَضْہًا سے بھی نکلا ہے جس کے معنے جھوٹ بولنے کے ہوتے ہیں ۔اورٹکڑے کے بھی اورعضین کے معنے بہت سے جھوٹوں کے بھی ہیں اورٹکڑوں کے بھی ۔اگر عِضَۃٌ ۔عَضٰی یَعْضُوْا کے مادہ سے مشتق سمجھاجائے تب بھی اہل لغت کے نزدیک اس کے معنے ’’ٹکڑہ‘‘کے علاوہ ’جھوٹ‘ کے بھی ہوتے ہیں ۔(اقرب)غرض ایک مادہ کے روسے عضین کے معنے ’ٹکڑوں ‘کے ہیں ۔اوردونوں ماودں کے روسے اس کے معنے ’جھوٹوں‘ کے ہیں ۔اورمیرے نزدیک دوسرے معنے اس آیت میں زیادہ درست معلوم ہوتے ہیں ۔مگران معنوں کے سمجھنے کے لئے یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ جَعَلَ کے ایک معنی ظَنَّ کے بھی ہوتے ہیں یعنی ایساسمجھا ۔چنانچہ عربی کامحاورہ ہے جَعَلَ الْحَقَّ بَاطِلًا یعنی سچ کو جھوٹ سمجھا (اقرب)اورعضین کے معنے جھوٹ کرنے کی صورت میں جَعَلَ اس آیت میں انہی معنوں میںمستعمل ماننا پڑے گا۔اورترجمہ یہ ہوگا۔کہ ’’وہ لوگ جنہوں نے قرآن کو جھوٹں کامجموعہ سمجھ رکھا ہے ‘‘اورگزشتہ آیتوں سے مل کر مفہوم یہ بنے گا کہ اس موعود عذاب کی خبر ان کو دے دے جنہو ںنے تیری مخالفت کی ڈیوٹیاں تقسیم کررکھی ہیں ۔اورقرآن کریم کوجھوٹوں کامجموعہ سمجھ رکھا ہے اوربتادے کہاب ان لوگوں کی تباہی کا وقت آپہنچاہے۔یہ معنے ایسے واضح ہیں کہ ان سے تمام و ہ مشکلات دورہوجاتی ہیں جودوسرے مفسرین کو پیش آئی ہیں ۔
فوربک لنسئلنّھم اجمعین٭عماکانوا یعملون٭
سوتیرے رب کی قسم ہم ان سے باز پرس کریں گے ان کاموں کے متعلق جو و ہ کیا کرتے تھے ۸۴؎
۸۴؎ تفسیر ۔فرماتاہے کہ تیرے رب ہی کی قسم اب ایسے سب لوگ سزاپائیں گے ۔اورہم ان سب سے پوچھیں گے پوچھنے کامطلب اس جگہ وہی ہے جو پنجابی میں پوچھوں گا کاہوتاہے ۔یعنی ان کی شرارتوں کااب حساب لیں گے اوران کو سخت سزادیں گے ۔
فاصدع بما تؤمرواعرض عن المشرکین٭
سو جس بات (کے پہنچانے)کاتجھے حکم دیاجاتاہے وہ کھو ل کر (لوگوں کو)بتادے اوران مشرکو ں (کی بات)سے اعراض کر ۸۵؎
۸۵؎ حل لغات ۔اِصْدَعْ:صَدَعَ سے امر کاصیغہ ہے ۔اورصَدَعَہٗ صَدْرًا کے معنے ہیں ۔شَقَّہٗ ۔کسی چیز کوپھاڑ دیا ۔وقیل شقَّہ بِنِصْفَیْنِ اوربعض نے کہا ہے کہ اس کودوحصوں میں تقسیم کردیا ۔وقیل شقَّہٗ وَلَمْ یَفْترقْ اوربعض کہتے ہیں کہ کسی چیز کو پھاڑ دیا لیکن و ہ دوٹکڑے نہ ہوئی ۔ صَدَعَ الامرَ۔کَشَفَہٗ وبَیَّنَہٗ:بات کوکھول دیا اورواضح کردیا۔صَدَع بالحقِّ والحجّۃِ۔تکَلّمَ بِھَاجھارًا۔حق اورحجت کاعلی الاعلان اظہار کیا ۔صَدَع بالْاَمرِ اصاب بہٖ موضِعَہٗ وَجاھَرَ بِہ مُصرّحًا کہ کسی کام کو برمحل کیا ۔اوراس کی بآواز بلند تصریح کی صَدَعَ الْاَمْرَ بِالحقّ۔فصلہٗ۔کسی معاملہ کادرست فیصلہ کیا (اقرب)
تفسیر ۔صَدَعَ بِالحقّ کے معنے حق کے ساتھ فیصلہ کرنے بھی ہوتے ہیں ۔اورصَدَعَ کے معنے کھول کر بیان کرنے کے بھی ہوتے ہیں ۔دونوں معنے یہاں چسپاں ہوتے ہیں ۔اورآیت کامطلب یہ ہے کہ جب خدئی فیصلہ ان کی ہلاکت اورمسلمانوں کی ترقی کی نسبت جاری ہوچکا ہے تواس امر کو خوب کھول کھول کر انہیں سنادے اورمشرکوں سے بحث مباحثہ چھوڑ دے ۔اسی طرح اس کا یہ مطلب بھی ہوسکتاہے (اوریہی ان معنوں کے ساتھ زیادہ چسپاں ہوتاہے جومیں اوپر کی آیات کے بیان کرچکاہوں)کہ اب تُواللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق فیصلے کرنے شروع کر۔یعنی تجھے اب ہم ا س امر کا موقعہ دینے والے ہیں کہ شریعت کے تمام احکام کا اجراء عملاً شروع ہو جائے ۔پس تواللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق فیصلوںکو جاری کردے اورمشرکوں کی پرواہ نہ کر اس آیت میں بھی گویا مدینہ کی ہجرت اوراسلامی حکومت کی خبر دی گئی ہے ۔
اناکفینک المستھزء ین ٭
ہم یقیناً تجھے ان تمسخر کرنے والوں(کے شر)سے محفوظ رکھیں گے
الذین یجعلون مع اللہ الھاً آخر۔فسوف یعلمون٭
جواللہ(تعالیٰ)کے ساتھ کوئی (نہ کوئی )اورمعبود بنارہے ہیں ۔سوو ہ عنقریب (اس کا نتیجہ)معلوم کرلیں گے ۸۶؎
۸۶؎ تفسیر ۔یعنی اب تجھے ان لوگوں کی طرف توجہ کی اس لئے ضرورت نہیں کہ اب بحث مباحثہ والے جوابوں کی جگہ ہم ان کو آسمانی نشان کے ساتھ جواب دینا چاہتے ہیں اورتجھ پر ہنسی کرنے والوںکو عبرتناک سزائیں دینا چاہتے ہیں ۔ان کوسوچنا چاہیئے تھاکہ جب یہ اللہ تعالیً کے شریک بنارہے ہیں اوراس کی ہتک کررہے ہیں تووہ کب تک ان کی اس حرکت کو برداشت کرتاچلاجائے گا۔قومی طور پر تویہ پیشگوئی بعد ہجرت کفار کی شکست اورذلت سے پوری ہوئی ۔فردی طور پر بھی ا س کاعجیب شاندار طورپر ظہور ہوا۔عروہ بن زبیر کی روایت ابن اسحاق نے لکھی ہے (ابن کثیر جلد ۵)کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہنسی اُڑانے والے پانچ رؤساء تھے ولید بن مغیرہ۔عاص بن وائل۔اسود بن عبدیغوث اوراسودبن المطلب اور حرث بن طلاطلہ ۔انکے بارہ حضرت جبریل کشف میں رسول کریم صلعم کو نظرآئے اوراسود بن عبدیغوث کے پیٹ کی طرف اشارہ کیااسے استسقاء ہو گیا ۔اوروہ اس سے مرگیا ۔ولید بن مغیرہ کے پیر کی طرف اشارہ کیا اسے ایک پرانا زخم تھا جومندمل ہوچکاتھا اس کے بعد وہ زخم پھٹ گیا اورو ہ ا س سے مرگیا ۔اورعاص بن وائل کے پائوں کے تلوں کی طر ف اشار ہ کیاوہ چند دن بعد گدھے پر سوار طائف کوجارہاتھا کہ تلے میں کوئی چیز کھُب گئی اوروہ اس سے مرگیا ۔اورحرث بن طلاطلہ کے سر کی طرف اشارہ کیاوہ سرکے زخم سے ہلاک ہوگیا ۔اوراسود بن مطلب کی آنکھوں کی طرف اشارہ کیا اوروہ اندھاہوکرمرگیا ۔یہ روایت سعید بن جبیر اورعکرمہ سے بھی مروی ہے ۔سعید حرث بن غیطلہ نام بتاتے ہیں اورعکرمہ حرث بن قیس۔مگریہ اختلاف نہیں کیونکہ زہری کے نزدیک غیطلہ اس کی ماں کانام تھا اورقیس باپ کانام تھا۔
ولقد نعلم انک یضیق صدرک بما یقولون٭
اورہم یقیناجانتے ہیں کہ جوکچھ وہ کہتے ہیں اس سے تیرادل تنگ پڑتاہے ۸۷؎
۸۷؎ تفسیر ۔بے شک ہم جانتے ہیں کہ ان باتوں کے باعث تیراسینہ تنگ ہوتاہے اس کے یہ معنی نہیں کہ یہ لوگ جوتیرے خلاف باتیں کرتے ہیں ۔ان سے تیرے دل میں انقباض پیداہوتاہے بلکہ اس کااشارہ اوپر کی آیت وَیَجْعَلُوْنَ مَعَ ا للّٰہِ اِلٰھًا کی طرف ہے ۔ اورمطلب یہ ہے کہ اے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)ہم جانتے ہیں کہ ان کے مشرکانہ دعاوی پر ہماری محبت کی وجہ سے تجھے سخت تکلیف ہوتی رہی ہے ۔لیکن اب توخو ش ہوجا ۔کہ شرک مٹادیاجائے گااورتوحید قائم کردی جائے گی۔
فسبح بحمدربک وکن من السجدین٭
پس تواپنے رب کی حمد کرتے ہوئے (اسکی )تسبیح کر اور(ا س کے )کامل فرمانبرداروں میں سے بن ۸۸؎
۸۸؎ تفسیر ۔یعنی چونکہ ہم اب توحید کو پھر قائم کرنے لگے ہیں ۔جوتیری آمد کا اصلی مقصد ہے ۔تواسی خوشی میں اپنے رب کی تسبیح کر اورسجداتِ شکر بجالا۔یایہ کہ مومنوں کی تربیت کرکے اللہ تعالیٰ کی تسبیح کاعملی ثبوت دنیا کے لئے مہیا کر ۔کیا ہی لطیف ر نگ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولؐ کے دل پر سے اس غم کا بوجھ ہلکا کیا ہے جس کا ذکر اوپر آچکا ہے ۔
واعبد ربک حتی یاتیک الیقین ٭
اوراپنے رب کی عبادت کرتا رہ یہاں تک کہ تجھ پر موت(کی گھڑی) آجائے ۸۹؎
۸۹؎ حل لغات ۔اَلْیَقِیْنُ: اِزَاحَۃُ الشَّکِّ ق تحقیق الامرِ ۔یقین کے معنی ہیں شک کو دورکرنا ۔اورکسی معاملہ کی اصلیت تک پہنچنا ۔العلم الحاصل عن نظرٍ و استدلال ولھذا لایسمّٰی علم اللہِ یقیناً۔وہ علم جو غوروفکر اوراستدلال سے حاصل ہو ۔اسی وجہ سے خداکے علم کو یقین نہیں کہتے ۔ کیونکہ اس کاعلم کسی کو نہیں بلکہ ازلی ہے ۔الیقین ۔الموت۔یقین موت کے معنوں میں بھی استعمال ہوتاہے ۔(اقرب) اس آیت میں یہی آخری معنے ہیں ۔
تفسیر ۔یقین کے معنے اس جگہ پر موت کے ہیں ۔فرماتاہے کہ اب تو موت تک ہماری عبادت میں لگارہ ۔یعنی اسلام کو جو ترقی ملے گی ۔ اس میں اب کوئی رخنہ نہیں پڑے گا۔اورتوبافراغت اپنی موت تک کھلے بندوں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرسکے گا اوریہ لوگ اس وقت جوتیری عبادت میں روکیں ڈالتے ہیں ۔ان کو خداتعالیٰ اس طرح مٹادے گاکہ تیری ساری زندگی عبادت کی آزادی کے لحاظ سے راحت میں گذرے گی۔
یقین کے معروف معنے بھی اس جگہ ہوسکتے ہیں اوراس صورت میں یہ معنے ہوں گے کہ جس ساعت کا وعدہ ہے اس کے آنے تک خاص طور پر عبادت میں مشغول رہوگویا دعذاب یاساعتہ کے آثار ظاہر ہونے کانام یقین رکھا ۔کیونکہ جب تک وعدہ پورانہ ہو اس کی پوری حقیقت ظاہر نہیں ہوتی ۔پس فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے وعد ہ ہوتو خاص طور پر دعااورعبادت میں لگ جانا چایئے تاکہ وہ وعدہ ہرقسم کی خیر کے ساتھ پوراہو ۔
اس کے یہ معنے نہیں کہ دوسرے دنوں میں عبادت چھوڑ سکتاہے ۔کیونکہ جب یہ آیت نازل ہوئی اس وقت بھی رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم عبادت کرتے تھے پس اس کے معنے معمول سے زیادہ عبادت اور توجہ کے ہیں ۔
بعض نادا ن بدعتی اس آیت کے یہ معنے کرتے ہیں کہ جب تک یقین حاصل نہ ہو عبادت فرض ہے جب یقین حاصل ہوجائے تو پھر نہیں ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے ’’یقین کے حاصل ہونے تک عبادت کر ‘‘یہ نادان نہیں جانتے ۔کہ اس طرح وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرتے ہیں ۔اورگویایہ کہتے ہیں کہ اس سورۃ کے اُترنے تک آپ کویقین کامل حاصل نہ ہواتھا ۔اگر محمد رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم) کو نبوت کے بعد یقین حاصل نہ ہواتھا تو ان ذلیل لوگوں کو یقین کس طرح حاصل ہوسکتاہے نعوذ باللہ من ھذہ الخرافات ۔ ایک دفعہ میرے پاس ایک ایساہی شخص آیا اورسوال کیا کہ کشتی کاسوار جب کنا رہ پر پہنچے توکشتی میں ہی بیٹھارہے یااُتر آئے ۔میں نے کہا ۔ کہ اگر دریا محدود ہے اورا س کاکنارہ ہے توکنارہ پر اُتر آئے لیکن اگر دریا بے کنارہے توجس کو وہ کنار ہ سمجھتا ہے وہ اس کی عقل کادھوکہ ہے اس لئے وہ جہاں اُترے گاوہیں ڈوبے گا۔اس پر وہ سخت شر مندہ ہوا۔



سورۃ النحل مکیۃٌ
سورۃ نحل ۱؎ یہ سورۃ مکی ہے
وھی مع البسملۃ مائۃ وتسع وعشرون اٰیۃ وست عشر رکوعاً
اوربسم اللہ سمیت اس کی ایک سو انتیس آیتیں ہیں اورسولہ رکوع ہیں ۔
۱؎ ۔اس سورۃ کے متعلق مفسرین کاقو ل ہے ۔ھَذِہِ السُّورَۃُ مَکِیَّہٌ کُلُّھاقالہ الحسنُ والعطائُ وعکرمۃُ وجابرُ یعنی یہ سورۃ سب کی سب مکی ہے ۔حسن عطا اورعکرمہ اورجابر نے اسی خیال کا اظہار کیا ہے ۔قال ابن عبَّاسٍ الَّا ثلاث اٰیاتٍ منھا وھی من قولہ تعالیٰ۔ولا تَشْتَرُو ا بِعَھْدِ اللہِ الیٰ قولہ وَلَنَجْزِیَنَّھُمْ اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَاکانو یعملونَ۔حضرت ابن عباس ؓ کاقول ہے ۔کہ یہ سورۃ مکی ہے اورسوائے تین آیتوں کے ۔جو لاتشتروبعہدِاللہِ سے شروع ہوکر لَنجزِیَنَّھُمْ اجرُھُم بِاَحْسَنِ ماکانوا یعملون پر ختم ہوتی ہیں ۔بعض دوسرے کہتے ہیں۔کہ بیشک تین آیتیں غیر مکی ہیں ۔مگر وہ اس سورۃ کے آخر میں وَاِنْ عَاقَبْتُم سے لے کر وَالَّذِیْنَ ھُم مُحْسِنُونَ تک ہیں ۔بعض کہتے ہیں کہ مندرجہ ذیل تین آیات مدنی ہیں (۱)وَاِنْ عَاقَبْتُمْ والی آیت ۔’’نَزَلَتْ فِی الْمَدِیْنَۃِ فِی شأنِ التَّمْثِیْلِ بِحمزَۃَ وَقتْلیٰ اُحُدٍ۔یعنی یہ آیت حضرت حمزہؓ اوردیگر شہدانِ اُحد کے مُثلہ کرنے کے واقعہ کے متعلق نازل ہوئی تھی ۔(۲)وَاصْبِرْوَمَاصَبْرُکَ اِلَّا بِاللّٰہِ والی آیت(۳)ثُمَّ اِنَّ رَبَّکَ لِلَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا والی آیت ۔بعض کہتے ہیں کہ اس سورۃ کے ابتداء سے پہلی تین آیات تَعَالیٰ عَمَّایُشْرِکُوْنَ تک مدنی ہیں ۔اورباقی تمام سورۃ مکی ہے ۔قتادہ نے اسکے بالکل برعکس لکھا ہے ۔وہ کہتے ہیں ۔پہلی تین آیتیں مکی ہیں ۔ اورباقی سورۃ مدنی ہے ۔(البحر المحیط)یورپین مصنفین میں سے ویری ؔ نے ساری سورۃ کو آخری زمانہ کی مکی سورتوں میں سے قرار دیا ہے ۔ نولڈک نے سوائے آیات ۴۴،۱۱۲،۱۲۰،۱۲۶کے باقی سب سورۃ کو مکی قرار دیا ہے ۔(چونکہ نسخہ قرآن کریم میں بسم اللہ کو آیت شمار کیاگیا ہے اس لئے ایک ایک عدد بڑھادیاگیاہے ۔نولڈک نے ۴۳،۱۱۱،۱۱۹،۱۲۵ لکھا ہے )سیلؔ نے آخری تین آیات کو مدنی قرار دیا ہے اورباقی تمام سورۃ کو مکی ۔وائلWEIL )نے بڑے زور سے سیل کی بات کو رد کیاہے اورکہتا ہے کہ یہ بھی مکی ہی ہیں(وہیریز کمنٹری آن قرآن)
اس سورۃ کانام نحل رکھا گیاہے ۔کیونکہ اس میں نحل کی وحی کاذکرکے بتایاگیاہے کہ تمام کارخانئہ عالم وحی پر چل رہاہے ۔اوریہی مضمون اس سورۃ کا محوری نقطہ ہے ۔
دوسرے اس میں جہا د کاپہلی دفعہ ذکر ہے ۔چونکہ اس پر اعتراض ہوناتھا ۔نحل کی مثال سے اشار ہ کیا کہ اس میں شہد بھی ہے اورڈنک بھی ۔مگر ڈنک کم اورشہد زیادہ ۔اسی اصول پر جہاد کاقیام ہے ۔جس کی غرض صرف روحانی شہد کی حفاظت ہے ۔
میرے بتائے ہوئے قاعدہ کے مطابق کہ سورتوں کے مضامین حروف مقطّعات کے تابع ہوتے ہیں ۔اورجن سورتوں کے شروع میں مقطعات نہیں آتے ۔وہ اپنے سے پہلی سورۃ کے جس کے پہلے مقطعات ہو ں ۔مضمون کے لحاظ سے تابع ہوتی ہیںاوراس میں اُسی سورۃ کے مضامین کا تسلسل ہوتاہے یہ سورۃ الحجر کے مضمون کے تسلسل میں ہے ۔اوراسی کے مضمون کو نئے پیرایہ میں جاری کیاگیا ہے ۔سورۃ حجر کے شروع میں الٓرٰ کے حروف ہیں جس کا مفہوم اَنَااللّٰہُ اَریٰ ہے یعنی میں اللہ دیکھ رہاہوں ۔اس سورۃ میں انہی صفت کے مضمون کو نئے پیرایہ میں اورنئے اسلوب سے بیان کیاگیا ہے ۔اس میں بتایاگیاہے کہ کلام الٰہی کیاشان رکھتا ہے اوراس کی کیاضرورت ہے ۔اوراس کے اندر کیا قوتِ جاذبہ ہوتی ہے ۔اورثابت کیا ہے کہ قرآن کریم جو تمام کتب سے کامل کتاب ہے ۔اس کی قوت جذب اورقوت قدسی کی توحد ہی نہیں ۔پھر مسلمانوں کی کامیابی میں کیا شبہ ہوسکتاہے ۔
پچھلی سورۃ کے ساتھ اس کامزید جوڑ یہ بھی ہے ۔کہ پہلی سورۃ کے آخر میں اِنَّ السَّاعَۃَ لَاٰتِیَۃٌ اورفَوَ رَبِّکَ لَنَسْئَلَنَّہُمْ اَجْمَعِیْنَ‘‘ کہہ کر کفار سے عذاب کاوعدہ کیاتھا ۔اب اس سورۃ میں اَتیٰ اَمْرُاللّٰہِ کہہ کر یہ بتایاہے کہ وہ موعود وقت اب آہی گیا ہے ۔پہلی سورۃ کے آخر میں تواٰتِیَۃٌ فرمایاتھاکہ عذاب کو آیا ہی سمجھو اوراس سورۃ کواَتیٰ سے شروع کیاہے کہ وہ آہی گیاہے ۔یہ قرآن کریم کامحاورہ ہے ہ وہ کسی امر کے قطعی ہونے پر ماضی کے صیغہ کو دلالت کرتاہے ۔اسی طرح جلد ظاہر ہونے والے امور کوبھی ماضی کے صیغہ سے ظاہر کرتا ہے ۔ کیونکہ جو بات ہوچکی ہو ۔اس کے متعلق کو ئی شک باقی نہیں رہتا۔اسی طرح ماضی کے لفظ سے اس امر پر بھی زو ردیاجاتاہے کہ وہ اس قدر قریب ہے کہ اُسے ہو چکا ہواہی جانو۔اردومیں یہ بھی کہتے ہیں کہ بس اُسے آیاہواہی سمجھو ۔یعنی اس کی آمد نہایت قریب ہے ان الفاظ سے بھی معلوم ہوتاہے کہ یہ سورۃ بالکل ہجرت کے مضمون کے قریب نازل ہوئی ہے ۔
اس سورۃ کاخلاصہ مضمون یہ ہے کہ جو کچھ تمہیں بتایاجاچکاہے ۔اسکی سچائی ظاہر ہونے کاوقت بالکل قریب آگیا ہے ۔یہ سوال کہ یہ کلام کس پر نازل ہواہے ۔بالکل بے حقیقت ہے ۔معترض اتنا تودیکھے کہ انسان کی جسمانی پیدائش کیسی حقیر ہے ۔پھراُسے ترقی دے کر اللہ تعالیٰ نے کس قدرانعامات کا وارث کردیاہے ۔اسی طرح اگر خداتعالیٰ روحانی عالم میں کسی آدمی کو جوبے حقیقت نظرآتاہوبڑھادے اورترقی دیدے۔تویہ کیوں خیال نہیں کرتے کہ اس کے اندر بھی کوئی مخفی قابلیتیں ہوں گی ۔
جس خدانے دنیا کے عارضی سفروں کی ضروریات بہم پہنچائی ہیں ۔وہ دائمی سفر کی ضروریات کو کیونکر نظر انداز کردے گا۔اللہ کے سوااس ضرورت کو نہ لوگ خود پوراکرسکتے ہیں اورنہ اُن کے معبود۔پس خداتعالیٰ کوپانے کا صحیح اورقریب ترراستہ خداتعالیٰ ہی بتاسکتاہے ۔اوروہی بتاتا ہے ۔آگے انسان اس میں دخل دے کر اگراپنے لئے مشکلات پیداکرلے ۔تواس کی ذمہ داری اس پر ہے ۔
پھر بتایاہے کہ جو اس راستہ پر چلتے ہیں ۔ان سے کیاسلوک ہوتاہے ۔اوروج اس پر نہیں چلتے ۔ان کاکیاانجام ہوتاہے ۔اوراس سوال پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ انسان کی جزاء اس کے انجام پر مترتب ہوتی ہے ۔
اس لئے یہ کہنا کہ نبی کی بات کو سب لوگ فوراً نہیں مان لیتے ۔پھر جو پہلے انکار کرکے بعد میں ایمان لائے ہیں ۔ان کاکیا حال ہوگا۔معقول اعتراض نہیں ۔ماننے والے اورنہ ماننے والے اپنے انجام کے مطابق پوچھے جائیں گے کیونکہ اگلے جہان کاراستہ وہاں سے شروع ہوتاہے جہا ں وہ موت کے وقت ختم ہوتاہے ۔
پھر اس سوال کاجواب دیا۔کہ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی آتے ہیں ۔تواس کے پیغامبر کی بات کو کوئی ردّ کس طرح کرسکتاہے ۔خداتعالیٰ توقادر ہے ۔پس جسے اللہ تعالیٰ بھیجے گا اس کی بات سب سے منوالے گااورعقلی جواب کے علاوہ نقلی جواب بھی دیا کہ بعض نبیوں کو تم بھی مانتے ہو ۔کیا ان کی باتوں سب نے مان لیا تھا۔یاپہلے دن سے مان لیاتھا ۔پھر مومنوں کو توجہ دلائی ۔کہ اگر تم خواہش رکھتے ہوکہ تمہارے عزیز اس کلام کو مان لیں تواس کاعلاج یہی ہے کہ اُن کے دلوں کو صاف کرو۔اللہ تعالیٰ جبر سے انہیں ہدایت نہ دیگا ۔کیونکہ جس کے دل میں گمراہی ہو اسے ہدایت دینا مومنوں پر ظلم ہے ۔کیونکہ بعث بعد الموت کی حکمت باطل ہوجاتی ہے ۔اس پر کفار کاانکار دہرایاکہ بعث بعدالموت کیا ہے ۔اس کی کوئی حقیقت نہیں ۔اوراس کی دلیل یہ دی کہ وہ ایک ضروری شے ہے اورجس امر کی ضرورت ظاہر ہو ۔الٰہی قاعدہ کے مطابق ا سکاوجود ضروری ہے ۔
پھر بعث بعد الموت کااس دنیامیں ہونے والے بعض امور سے ثبوت دیا ۔کہ اسدنیا میں بھی اللہ تعالیٰ قوموں کابعث کرتاہے ۔ اورہجرت سے اس بعث کا آغاز ہوتاہے ۔جیساکہ اس نبی کی جماعت سے ہوگا۔مومنوںاورکافروں کو جداکرناکامل ترقی کے لئے ضروری ہوتا ہے ۔پھرجو سب سے اعلیٰ کمال ہے اس کے لئے کیوں اللہ تعالیٰ مومن اورکافرکو الگ نہ کرے گا کہ ہرایک اپنے راستہ پر بلاروک ٹوک چل سکے ۔اس ضرورت کے پوراکرنے کے لئے روحانی ہجرت کی ضرورت ہے جوموت کے ذریعہ سے ہوتی ہے ۔اس ہجرت کے بعد مومن اورکافر الگ الگ راستہ پر چل پڑتے ہیں ۔اورمومن بلاروک ٹوک اپنے خل انتظام کے ماتحت جنت میں روحانی ترقیات کو حاصل کرنا شروع کردیتے ہیں ۔مسلمانوں کودنیوی ہجرت کے بعد جو ترقی ہوگی ۔اُسے کفار دیکھ ہی لیں گے ۔وہ اسی سے قیاس کرسکتے ہیں کہ مومن روحوں کاکافروں سے الگ کرکے رکھنا ان کی پیدائش کی غرض کے پوراکرنے کے لئے کیساضروری ہے ۔
پھر ہجرت دنیوی کے نتائج کی طرف اشارہ کیا ۔کہ کس کس طرح اس سے کفارپر عذاب آئیں گے اورکس طرح مومنوں کو ترقی حاصل ہوگی۔ اوراس کی وجہ کوئی دنیو ی ذرائع نہیں ہوں گے ۔بلکہ محض توحید پرقیام اسکاباعث ہوگا۔
پھر بتایاکہ آخر ت پر ایمان نہ لانے سے انسانی اعمال میں نضص آجاتاہے ۔یہ بھی یوم البعث کی ضروت کاثبوت ہے۔
پھر بتایا کہ ڈھیل کاملنا اس امر کی علامت نہیں ۔کہ خداتعالیٰ دین کو قائم نہیں کرناچاہتا۔بلکہ انسانی نجات کی اہمیت کو ثابت کرتاہے ۔دنیا میں ڈھیل کاقانون طبعی عالم میں بھی پایاجاتاہے ۔پھر کیوں دین کے بارہ میں نہ ہو۔خصوصاً جبکہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو نجات دینے کی غرض سے ڈھیل دے کر انہیں زیادہ سے زیادہ تعداد میں نجات دیناچاہتاہے ۔
پھر جبر کارد اس طرح کیا ۔کہ بدی کوخوبصورت کرکے دکھاناشیطان کاکام ہے ۔اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں ہوسکتا۔خداتعالیٰ کاکام توصرف ہدایت کو بیان کرنا ہے ۔ہاں وہ اپنے عظیم الشان رحم سے ہدایت کے مزید سامان اس طرح پیداکردیتا ہے کہ کلام الٰہی ہمیشہ مومنوں کے لئے رحمت ثابت ہوتاہے اوراس طرح عقلمندوں پر ظاہر ہوجاتاہے ۔کہ اللہ تعالیٰ اس راہ کو پسند کرتاہے ۔
پھر بتایا کہ ان کایہ اعتراض ہے کہ اگر یہ سچا ہے توپہلی تعلیموں کی مخالفت کیوں کرتاہے ۔اوربتایا کہ پہلے نبیوں کو کافر قرار دینا اوربات ہے اوررائج الوقت باتیں جو ان کی طرف منسوب ہیں ان کوماننااوربات ہے ۔نبی توآتاہی تب ہے جب لوگ پہلی تعلیموںکو جو سچی تھیں مسخ کردیتے ہیں اورجب وہ الٰہی حفاظت سے باہر ہوجاتی ہیں ۔
پھر ایک لطیف مثال دی کہ ہدایت دینا اللہ تعالیٰ ہی کے شایان شان ہے ۔جانو کو دیکھو گھاس کھاتاہے اوردودھ دیتا ہے اوریہ اللہ تعالیٰ ہی کی بنائی ہوئی مشین کاکام ہے ۔اسی طرح انسانی اخلاق جوبہیمیت کے تابع ہوتے ہیں گھاس کی طرح ہوتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ انہی بہیمی اخلاق کو اپنے قانون کے ماتحت اعلیٰ اخلاق بنادیتاہے ۔
پھر نحل کی مثا ل دی ہے کہ اس کے کاموں کو دیکھو کہ وہ بھی تو ایک وحی کے ماتحت عمل کرتی ہے اورمعمولی نباتی اجزاء سے شہد تیار کرتی ہے ۔ اس سے سمجھ لو کہ دنیا کے سب کام ایک وحی خفی کے ماتحت چل رہے ہیں ۔پھر کیوں نہ انسان کے اخلاق کو اعلیٰ بنانے کے لئے کسی وحی کانزول ہو اورکیوں نہ اس وحی کے نتائج اسی طرح شفاکی صورت میں پیداہوں۔جس طرح شہد کی مکھی کے عمل کانتیجہ شفاہوتی ہے ہاں جس طرح شہد کی مکھیوں کی اقسام ہی اورشہد کے مدارج ہیں اسی طرح انسانوں کے مدارج ہیں ۔اورگوسب مومن وحی کے تابع ہوتے ہیں مگرہرایک اپنے ظرف کے مطابق روحانی شہد تیار کرتاہے ۔
پھر ایک اور طرح وحی الٰہی کی ضرورت بتائی اورفرمایا جب بھی اللہ تعالیٰ کسی قوم کو ترقی دیتا ہے کچھ عرصہ کے بعد اس کی حاصل کردہ ترقیاں ایک خاص گروہ کے قبضہ میں آجاتی ہیں ۔اوردوسرے لوگوں کے لئے ترقی کاراستہ مسدود ہوجاتاہے ۔کیونکہ قوم پر قابض لوگ انہیں باوجود قابلیت کے آگے نہیں آنے دیتے ۔حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہرایک کو اپنے فضل کاوارث بنایاہے ۔ان حالات کو سوائے وحی کے کس طرح بدلاجاسکتاہے ۔یقیناً اس زمانہ کے بڑے لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم قابل ہیں اس لئے قوم کی باگ پر قابض ہیں ۔اوران کے دعویٰ کے رد کرنے کاکوئی ذریعہ نہیں ہوتا۔سوائے اس کے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے ایک نئے امتحان کاانتظام کیا جائے۔پس اس غرض کوپوراکرنے کے لئے نبی کاآناضروری ہوتاہے جب وہ آتا ہے توظاہرہوجاتاہے کہ جو لو گ قوم پر حکومت کررہے تھے وہ قابل نہ تھے کیونکہ وہ الٰہی کلام کو ماننے سے محروم ر ہ جاتے ہیں۔اورجولوگ ادنیٰ سمجھے جاتے ہیں وہ مان جاتے ہیں۔اس سے معلوم ہوجاتاہے کہ قابلیت والے اور لوگ تھے۔اس طرح اللہ تعالیٰ انسانی حقوق کی حفاظت کردیتاہے ۔اورپھر سے ہرانسان اپنی قابلیت کے مطابق ترقی کرنے لگ جاتا ہے ۔ اورنسلی امتیاز کے نظام کو توڑ دیاجاتاہے ۔
اس امر کی تائید میں ایک اوردلیل دی اورفرمایا ۔کہ جب قومیں اللہ تعالیٰ سے دور ہوجاتی ہیں۔توشرک کرنے لگ جاتی ہیں ۔اوراس طرح ایسے وجودوں سے متعلق ہوجاتی ہیں ۔جو خیر وشر کے مالک نہیں ۔اوراس طرح ترقی کے حقیقی سامانوں سے محروم ہوجاتی ہیں ۔اگرا س حالت کو نہ بدلاجائے ۔توسب دنیا ترقی سے محروم ہوجائے ۔
پھر فرمایاکہ ایک نقص تووحی سے بُعد کایہ ہوتاہے کہ بعض لوگ جبرًا قوم کی با گ لے لیتے ہیں اورلوگوںکو قابلیت کے اظہار کاموقعہ ہی نہیں دیتے ۔ایک اورنقص بھی پیداہوجاتاہے اوروہ یہ کہ شرک کیو جہ سے اکثروں کی قابلیتیں مر ہی جاتی ہیں ۔پھرخدائے رحیم اس حالت کو کس طرح برداشت کرے اس طرح تو وہ اپنے عمل کو خود باطل کرے گایہ کس طرح ہوسکتاہے ۔کہ پہلے قابلیت دے پھر ا س قابلیت کو مرنے دے یاظالموںکو موقعہ دے کہ اس قابلیت کو ظاہرہونے سے روک دیں۔۔
غرض کفار کے دعاوی باطل ہیں اورخداتعالیٰ کی حکمت چاہتی ہے کہ جو ان ظلموں کے بانی ہیں ان کو تباہ کردے ۔پس جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی ظاہری حفاظت کے سامانوں سے سبق حاصل نہیں کیا انہیں ظاہری حفاظت سے بھی محروم کردیاجائے گا۔ا وراس دنیامیں بھی اوراگلے جہان میں بھی وہ جھوٹی حفاظت جوشرک کے رنگ میں انہوں نے اپنے لئے تجویز کی تھی ان کے لئے ذلت کاموجب ہوگی۔
لیکن بتایا کہ ظالمو ں میں بھی ہم فرق کریں گے ۔جو گمراہ کرنے والے ہیں زیادہ سزاپائیں گے اورجوجہالت سے ان کے تابع ہوئے کم سزاپائیں گے ۔
پھر فرمایا کہ یہ دیکھتے نہیں کہ جن تغیر ات کا ہم نے ذکر کیا ہے اس کے سامان کیسے واضح ہیں اول قرآن کریم میں اندرونی شہاد ت موجود ہے کہ وہ ایک مکمل تعلیم پرمشتمل ہے پھر اس کی تعلیم ترقی کی طرف لے جانے والی ہے ۔پھرعملاً اس پر چلنے والے برکتیں پاتے ہیں ۔
اس کے بعد کامل تعلیم کی بعض مثالیں بیان کیں ۔اس پرکفار کا اعتراض پھر دہرایا۔کہ یہ تعلیمیں توپہلی کتب کے خلاف ہیں ۔اورفرمایاکہ یہ اختلاف سطحی ہی ہے ۔ہرزمانے کے مطابق کلام اترتا ہے ۔
پھر بتایاکہ اس جواب کو سن کر کفار پینترہ بدلتے ہیں۔اورکہتے ہیں یہ پہلی کتب کی نقل ہے ۔اس کاجواب دیااورثابت کیا کہ نقل کااعتراض بالکل خلاف عقل ہے۔
پھرہدایت کے سلسلہ میں بتایا کہ بے شک بعض لو گ اس مذہب سے مرتد بھی ہوتے ہیں ۔لیکن ان کا مرتد ہونا یہ ثابت نہیں کرتا کہ قرآن کریم نے یقین کامل پیدانہیں کیا ۔کیونکہ یہ امر تب ثابت ہوتا ہے اگر ایسے لوگوںکاارتدادکسی دلیل کی بناء پر ہو۔جبکہ دنیوی غرض سے انحراف ہو ۔توارتداد مرتد کاگند ثابت کرتا ہے۔نہ کہ تعلیم کی کمزوری۔
پھر بتایاکہ مومنوں کے لئے اب حکومت کرنے کاوقت آگیاہے اورقرآنی بشارات اب ان کے حق میں پوری ہونے کو ہیں۔ایک زبردست جنگ کفرو اسلام میں ہونیوالی ہے ۔اس میں ہرایک کو اس کے ایمان کے مطابق بدلامل جائے گا۔
پھر صاف لفظو ں میں مکہ والوں کی تباہی کی خبردی اوربتایاکہ مکہ والوں کی حکومت جاتی رہے گی ۔
پھررحمت کے مضمون کو الگ کرکے بیان فرمایا ۔کہ قرآن کریم کس طرح بنی نوع انسان کے لئے ظاہر ی رحمت بھی ہے ۔کہ خلاف عقل رسوم سے انہیں بچاتا ہے ۔
پھر حضرت ابراہیم جومکہ والوں کے جد امجد تھے ۔ان کی یاد دلائی کہ دیکھو وہ خداتعالیٰ کافرمانبردار تھا تم بھی اسی کے نقش قدم پر چلو ۔اورا سکی پیروی کروجو ابراہیمی سنت پر ہے ۔
پھر یہودو مسیحی لوگوں کو مخاطب کیا اورفرمایا کہ تم نے بھی دین کو بدل دیا ہے ۔تم بھی اپنی اصلاح کر واورجو آرام کے سامان اللہ تعالیٰ نے دیئے ہیں ان سے گمراہی میں ترقی نہ کرو۔
آخر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو توجہ دلائی کہ اب تیر ی تبلیغ کادائرہ وسیع ہوکر یہود ونصاریٰ کو بھی گھیرنے والا ہے اس کے بارے میں ہم کچھ ہدایات ابھی سے دیدیتے ہیں ۔
پھر بتایاکہ اب تک تومکہ والے ظلم کرتے تھے ۔آئندہ یہود و نصاریٰ بھی ظلم شروع کریں گے ۔اسوقت بھی رحم کرنا اورصبر سے کام لینا ۔ہاں جب اللہ تعالیٰ سزادیناچاہے توان کی تباہی پر غم بھی نہ کرنا ورساتھ ہی یہ خبر بھی دے دی کہ یہود و نصاریٰ سے مقابلہ ہوگا ۔اس میں بھی اللہ تعالیٰ تم کو فتح دے گا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
(میں)اللہ تعالیٰ کانام لے کر (شروع کرتاہوں)جوبے حد کرم کرنے والا (اور)بار بار رحم کرنے والاہے ۔
اتیٰ امراللہ فلا تستعجلوہ۔سبحٰنہ وتعالیٰ عما یشرکون ٭
(اے منکرو)اللہ (تعالیٰ)کاحکم آگیاہے اس لئے (اب )تم اس کے جلد آنے کامطالبہ نہ کرووہ پاک (ذات)ہے اورجن چیزوں کو وہ (لوگ)شریک قرار دیتے ہیں اس سے بہت بالاہے ۲؎
۲؎ حل لغات ۔فَلَاتَسْتَعْجِلُوْہُ:اِسْتَعْجََلَہٗ کے معنے ہیں ۔طَلَبَ عَجَلَۃَ وَلَمْ یَصبرالی وقتہٖ۔کسی کام کے لئے خواہش کی کہ وہ وقت سے پہلے ہوجائے ۔اِسْتَعجلَ فلانًا:سبقہٗ وَتقدَّمَہٗ۔فلاں شخص سے آگے نکل گیا۔مَرَّفلانی یَستعجلُ ای یُکلِّفُ نَفْسَہُ العجَلۃَ۔یعنی اپنی طبیعت پر زورڈال کر تیزی سے چلا ۔(اقرب)مزید تشریح کے لئے دیکھو یونس ۱۲؎ اَتیٰ اَمْرُاللّٰہِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْہُ کے معنے ہوں گے کہ اللہ کے عذاب کے جلد آنے کامطالبہ نہ کرو۔
سُبْحَانہٗ اوریُشْرِکُوْنَ کے لئے دیکھو یونس ۱۹؎
تفسیر ۔پہلی سور ۃ میں کہاتھا کہ اِنَّ السَّاعَۃَ لَاٰتِیَۃٌ۔اب فرمایا کہ اب تو اس ساعت کو آیاہواہی سمجھو۔یعنی وہ اب دروا زے پر ہے ۔ قرآن کے محاورہ کے مطابق ماضی یقین اورقربِ وقوع کے اظہار کے لئے بھی آتی ہے اوراس جگہ یہی مراد ہے ۔
اَمْرُاللّٰہِ۔امراللہ کے دومعنے ہوسکتے ہیں ۔(۱)وہ وعید جس کا پچھلی سورتوں میں ذکر تھا ۔(۲)وہ وعدہ جس کی طرف وَاخْفِضْ جُنَاحَکَ لِلْمُؤمِنِیْنَ میں اشارہ کیاگیاتھا ۔اس جگہ دونوں معنے چسپاں ہوتے ہیں ۔اوربتایاگیاہے کہ کفار کی سزا اورمومنوں کی کامل اورآزاد تربیت کرنے کاوقت آگیا ہے ۔
فَلَا تَسْتَعْجِلُوْہُ۔اسمیں بھی دونوں امور کی طرف اشارہ ہے ۔
(۱)عذاب مانگنے میں جلدی نہ کرو۔و ہ تواب تمہارے دروازوں پرہے ۔(۲)تم مسلمانوں کے نئے نظام کاباربار مطالبہ کرتے تھے لو وہ اب آپہنچا۔اب اس کی نسبت جلد آنے کامطالبہ نہ کروکہ وہ مطالبہ پوراہونے لگاہے ۔
اَتیٰ اَمْرُاللّٰہِ کے الفاظ بتاتے ہیں کہ یہ سورۃ سورئہ حجرکی پیشگوئی کی وضاحت کرتی ہے اوراس کامضمون اس کے مضمون کے تسلسل میں ہے اوراس کااس مقام پر رکھاجانابتاتا ہے کہ قرآن کریم کی سورتیں مضمون کے لحاظ سے آگے پیچھے رکھی گئی ہیں نہ کہ لمبائی اورچھوٹائی کے لحاظ سے ۔جیسا کہ بعض ناواقف خیال کرتے ہیں ۔
یہ سورۃ مکی زندگی کے آخر میں نازل ہوئی ہے ۔اورایسے وقت میں جبکہ مسلمان کفار کے جوروستم سے تنگ آکر مکہ چھوڑ رہے تھے اورہجرت شروع ہوچکی تھی چنانچہ اس میں ہجرت کاذکر صاف لفظوں میں آتاہے ۔یہ ہجرت کونسی تھی ۔اس کے متعلق اختلاف ہے ۔بعض مفسرین نے اس سورۃ میں مذکورہ ہجرت سے ہجرت حبشہ مرادلی ہے ۔بعض نے مدینہ کی وہ ہجرت مراد لی ہے ۔جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ کو مدینہ بھجوادیاتھا ۔اوربعض نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی ہجرت بھی مراد لی ہے ۔
میرے نزدیک حبشہ والی ہجرت مراد نہیں ہوسکتی ۔کیونکہ وہ کئی سال پہلے شروع ہوچکی تھی اوروہ اَتیٰ اَمْرُاللّٰہِ کی قائم مقام بھی نہیں کہلاسکتی ۔ کیونکہ اس ہجرت کے نتیجہ میں کافروں کے خلاف خدائی جلال ظاہر نہیں ہوا۔نیزسورۃ حجر میں جو اعتراض بیان ہوئے ہیں اَتیٰ اَمْرُ اللّٰہِ کے الفاظ ان کے جواب میں آئے ہیں اوران میں سے کئی ہجرت حبشہ کے بعد پیداہوئے تھے۔پس اگراس ہجرت سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کی پیشگوئی مراد نہیں ۔تویہ بعض صحابہؓکے مدینہ جانے کی طرف اشارہ ہے ۔جبکہ مدینہ کی ہجرت کی بنیاد مضبوطی سے قائم ہوگئی تھی ۔گویاپچھلی سورۃ میں کلام الٰہی کے جس اثر کاذکر کیاگیاتھا ۔اَتٰی اَمْرُاللہِ کہہ کر یہ بتایا کہ وہ تاثرات اب جلد ظاہر ہونے والے ہیں ۔
سُبْحَانَہٗ۔سبحانہٗ کہہ کربتایا ہے کہ ہم پہلی سورۃ کے آخری حصہ میں فَسَبِّحْ بِحَمْدِرَبِّکَ کہہ کر تسبیح کاحکم دے چکے ہیں اورکہہ چکے ہیں کہ عام مباحثات کوچھوڑکر اب تم خداتعالیٰ کی تسبیح میں لگ جائو۔اورمومنوں پر خداتعالیٰ کی سُبُوحیّت کوظاہر کرو۔اب تم کو بتاتے ہیں کہ خداتعالیٰ کی سبوحیت کے ظاہر ہونے کا وقت آگیاہے ۔
پہلی سورۃ کے آخر میں سَبِّحْ بِحَمْدِرَبِّککے الفاظ آئے تھے ۔ا س سورۃ کے شروع میں سُبْحَانَ کے الفاظ آئے ہیں ۔یہ بھی اس امرکامزید ثبوت ہے کہ قرآنی مطالب میں ترتیب پائی جاتی ہے ۔ایک طرف پہلی سورۃ کے الفاظ اِنَّ السَّاعَۃ لَاٰتِیَۃٌ کے جواب میں اس سورۃ میں اَتٰی اَمْرُاللہِ فرمایا اوروعدہ الٰہی کے قریب ہی میں پوراہونے کی خبر دی ۔دوسری طرف سورۃ حجر کے آخر میں سَبِّحْ کہہ کر جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوحکم دیاتھا ۔اس سورۃ میں سُبْحَانَہٗ کہہ کر اس حکم پرکامیاب طورپر عمل ہوجانے کی خبر دی۔کیونکہ ان الفاظ میں بتایاگیا ہے ۔کہ ہم نے جوکہاتھا کہ خداتعالیٰ کی پاکیزگی کو اب ظاہر کرو۔اب تجھے یہ بتاتے ہیں کہ تیری یہ کوشش ناکام نہ رہے گی ۔بلکہ عنقریب تیرے ذریعہ سے خداتعالیٰ کی سبوحیت یعنی اس کا سب اعتراضات سے پاک ہوناثابت ہوجائے گا۔گویا اَتٰی اَمْرُاللہکہہ کر خداتعالیٰ پر جو اِنَّ السَّاعَۃ لَاٰتِیَۃٌ کے وعدہ کے پوراہونے کی صورت میں اعتراض ہوسکتاتھا ۔اُسے دور کیا ۔اورسُبْحَانَہٗ کہہ کر اس اعتراض کودورکیا ۔جوسَبِّح کے حکم کے پورانہ ہونے کی صورت میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑسکتاتھا۔
وَتَعَالیٰ عَمَّایُشْرِکُوْنَ۔یعنی ان کے شرک سے اللہ تعالیٰ بالاہے ۔ان کاشرک اس کی تدابیر میں روک نہیں بن سکتا اوران کے معبود اس کے فیصلہ کونہیں مٹاسکتے ۔
اس آیت سے خدائی کلام اوربندے کے افتراء میں خوب فرق معلوم ہوجاتاہے ۔دنیاکے لوگ جتھے پرزوردیاکرتے ہیں اورکہاکرتے ہیں کہ ہم اپنے جتھے کو بلائیں گے ۔اوراکیلے ہوں ۔تواس کی شکایت کرتے ہیں اورکہتے ہیں ۔کیاکریں اکیلے ہیں۔کوئی ساتھی نہیں۔ورنہ بتادیتے ۔بہاء اللہ نے بھی جو الوہیت کامدعی تھا۔اپنے فرید ہونے کارونا روکر اپنی کمزوری کااقرار کیا ہے ۔
اس کے مقابلہ میں سچا خداہمیشہ اپنے ایک ہونے پر زوردیتاہے ۔اورخداکے لئے جتھاقراردینے والوں پر ناراض ہوتاہے ۔بیٹابیٹیوں یادرباریوں کے ماننے یادرباری کہنے والوں پر اظہار غضب فرماتاہے ۔یہی وہ مقام ہے جو حقیقی اورصلی طاقت و شوکت کامقام ہے ۔ جھوٹے مدعی اپنے اکیلا ہونے کا ماتم کرتے ہیں سچاخدااپنے اکیلے ہونے کو اپنی بڑائی کے ثبوت میں پیش کرتا ہے ۔
ینزل الملئکۃ بالروح من امرہٖ علی من یشاء من عبادہ ان انذروا انہ لاالہ الا انافاتقون ٭
وہ فرشتوںکو اپنے ان بندوںپر جنہیں وہ پسند کرتاہے (اپنی )خاص وحی یعنی یہ حکم دے کر اتارتاہے کہ (لوگوںکو)آگاہ کروکہ بات یہی (درست )ہے کہ میرے سواکوئی بھی (سچا)معبود نہیں ہے اس لئے تم مجھے (ہی)اپنے بچائوکاذریعہ بنائو ۳؎
۳؎ حل لغات ۔الرُّوح کے لئے دیکھو حجر ۲۷؎ ۔اَنْذِرُوْا۔اَنْذَرَسے امر کا جمع کا صیغہ ہے ۔انذر کے لئے دیکھو یونس ۴؎
تفسیر ۔بالرُّوحِ۔ روح سے مراد دنیا کو زندہ کرنے والا کلام ہے ۔امر نبوت کو بھی روح کہتے ہیں ۔
نبیوں اورماموروں کا چونکہ دنیا کے لئے زندگی بخش ہوتا ہے اس لئے اُسے روح قرار دیاجاتاہے ۔اَنْ اَنْذِرُوْا میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ اس آیت میں وحی نبوت کاذکرہے ۔
وحی دوقسم کی ہوتی ہے ۔ایک صرف انسان کے اپنے نفس کے لئے ۔اس وحی کوظاہر کرنے کا حکم نہیں دیاجاتا۔گواجاز ت ہوتی ہے کہ انسان اس کا اظہار کردے۔دوسری وحی بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے ہوتی ہے اورپھیلانے کاحکم دیاجاتاہے۔بلکہ اس کے نہ پھیلانے کو جرم قرار دیاجاتاہے یہ دوسری قسم کی وحی نبیوں کی وحی ہوتی ہے ۔اس جگہ انذِرُوْا کہہ کر اسی طرف اشارہ کیا ہے کہ ہم جس وحی کااس جگہ ذکر کررہے ہیں ۔وہ وحی نبوت ہے ۔
مِنْ اَمْرہٖ۔ان الفاظ سے ایک تویہ بتایا ہے کہ ملائکہ خود کلام نازل نہیں کرسکتے ۔بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے نازل ہوتے ہیں ۔اوراسی کابھیجا ہواکلام لاتے ہیں ۔
دوسرے اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اس جگہ اس روح یعنی کلام الٰہی کاذکر ہے جو من امراللہ ہوتاہے ۔ان معنوں سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس جگہ وحی نبوت کاذکر ہے ۔
مِنْ اَمْرِہٖ سے اَتٰی اَمْرُاللہِ کی طرف بھی اشارہ کیا گیاہے ۔اوربتایا ہے کہ یہ جو ہم نے کہا ہے اَتٰی اَمْرُاللہ۔یہ سنت ہماری سب نبیوں کے متعلق ہے ۔ہم ان میں سے ہر اک کی طر ف فرشتوں کو وحی دے کر بھیجتے ہیں ۔اوراس میں ہمارے امر کابیان ہوتاہے یعنی کفار کی ہلاکت اورمومنوں ک ترقی کا۔گویا کوئی نبی نہیں آتا کہ اسکے ذریعہ سے ایک قوم کی ہلاکت اوردوسری قوم کی ترقی کی خبرنہ دی گئی ہو۔
مِنْ اَمْرِہٖ میں اس کی طرف بھی اشارہ ہے کہ ہرنبی کامانناضروری ہوتاہے ۔کیونکہ وحی نبوت امر الٰہی پر مشتمل ہوتی ہے پس ہررسول کا انکار اس کا ہی انکار نہیں ۔بلکہ خداتعالیٰ کا انکارہوتاہے جس نے اس پر وحی کی۔
علیٰ مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ میں عِبَادِہٖ سے مراد اللہ تعالیٰ کے عابد بندے ہیں نہ کہ ہرانسان ۔اوراس طرف اشار ہ ہے کہ گونبوت وہبی ہے ۔مگر اس کانزول عباداللہ پرہی ہوتاہے ۔گویا یہ وہب ایک کسب کے ساتھ وابستہ ہے ۔اوریہ وہب مشروط ہے عبد ہونے کیساتھ ۔ اِن موہبتوں میں سے نہیں جو بلا قید ہرایک کومل سکتی ہے ۔
مِنْ عِبَادِہٖ سے اس امر کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ وحی نبوت صرف موحد بندوں پر نازل ہوتی رہی ہے جو توحید کی دلیل ہے ۔اگر شرک جائز بھی ہوتا ۔توکیوں نہ کوئی نبی ایسا بھی پایاجاتاہو خالص اللہ تعالیٰ کاعبد نہ ہوتا ۔بلکہ دوسرے معبودوں کی عبادت بھی کرلیاکرتا۔توحید کایہ ایک بہت بڑا ثبوت ہے ۔کہ آج تک ایک بھی نبی نہیں ہواجومشرک ہو ۔پھر نہ معلوم مشرک اپنے عقیدہ کی بنیاد کس دلیل پر رکھتے ہیں ۔
علیٰ مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہ میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ نبی کا انتخاب اللہ تعالیٰ بندوں کی مرضی کے مطابق نہیں کرتا ۔بلکہ اپنی مرضی کے مطابق کرتاہے ۔اس لئے بندوں کا اس سے مختلف الخیال ہوناضروری ہے ۔اورجب نبی خداکا منتخب کیا ہواہوتا ہے ۔توکفار کا یہ اعتراض کہ اس کے خیال قومی خیالات سے کیوں مختلف ہیں کم عقلی کی علامت ہے ۔
یُنَزِّ لُ الْمَلَآئِکَۃَ۔تنزیل کے ایک معنے آہستہ آہستہ اُتارنے کے ہوتے ہیں ۔اس جگہ یہی معنی مراد ہیں اوربتایا ہے کہ کلام الٰہی ہمیشہ اورہرنبی پر آہستہ آہستہ اترتاہے ۔پس یہ اعتراض جو رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بعض لوگوں کی طرف سے خصوصاً مسیحیوں کی طرف سے کیاجاتا ہے کہ اس کاتھوڑاتھوڑاکرکے اُترنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ انسانی کلام ہے ۔اوررضرورت کے مطابق تصنیف کرلیا جاتاتھا۔ ان کی سنّت الٰہیہ سے ناواقفیت کی علامت ہے ۔کیونکہ کونسا نبی ہے جس نے ایک وقت میں ہی ساری کتاب لاکر دنیاکودے دی ہے۔موسیٰ کے صحف ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے واقعات سب اس مر پر شاہد ہیں۔کہ تعلیم آہستہ آہستہ ایک لمبے عرصہ میں دنیا کودی گئی ۔اگراس تعلیم کادنیا کے سامنے پیش کرنا قابل اعتراض ہے تو یہ اعتراض حضر ت موسیٰ اورحضرت عیسیٰؑ پر بھی وارد ہوتاہے ۔
لیکن حق یہ ہے کہ یہ اعتراض ہی غلط ہے ۔جوتعلیم دنیا کے رائج الوقت خیال کے خلا ف ہو اوراس کو مٹاکر اورامر الٰہی کو رائج کرنے کے لئے آئے ۔اس کاآہستہ آہستہ اترنا ضروری ہے ۔تالوگ اس پر اچھی طرح عمل کرسکیں ۔اورتاوہ ان کے دماغوں میں راسخ ہوجائے ۔اسی کی طرف اشارہ ہے سورۃ فرقان کی اس آیت میں کہ وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ لَانُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَۃًوَاحِدَۃً کَذٰلِکَ لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادَکَ(فرقان ع۳)یعنی کافر کہتے ہیں کہ کیوں سب قرآن اس پر ایک ہی دفعہ نہیں اترا۔یعنی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خداکاکلام نہیں ۔بلکہ محمدؐ رسو ل اللہ حسب موقعہ اسے تصنیف کرلیتے ہیں ۔فرماتا ہے ۔یہ ٹھیک ہے کہ یہ قرآن ایک ہی دفعہ نہیں اُترا۔مگراس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اس طرح تیرے دل کو ثبات اورایمان بخشناچاہتے ہیں ۔یعنی تواورتیرے مومن اس کے مطالب کو عملی جامہ پہنا کر اس کے معانی سے خوب آگاہ ہوتے جائو اوراس لئے بھی کہ اگر پہلے ایک پیشگوئی بیان کی جائے ۔پھر جب وہ پوری ہوجائے اوراس کاذکر بعد کی وحی میں کیاجائے ۔توایمان بہت مضبوط ہوجاتاہے اوریہ طریق بیان بعد میں آنے والے لوگوں کے ایمان کی زیادتی کابھی موجب ہوتاہے ۔لیکن اگر کلام الٰہی میں پیشگوئیوں کاتوذکرہو۔لیکن ان کے پوراہونے کی طرف کوئی اشارہ نہ ہو ۔تواس وقت کے لوگ بھی اتنافائدہ نہیں اٹھاتے ۔اوربعد کے لوگوں کے لئے بھی وہ کلام کافی نہیں ہوتا۔بلکہ دوسری کتب کے وہ محتا ج رہتے ہیں ۔
مِنْ اَمْرِہٖ میں مِنْ تبعیضیّہ بھی ہوسکتاہے اورمطلب یہ ہے کہ ہم نے سارے حکم ایک ہی وقت میں کسی ایک نبی پر نازل نہیں کئے ۔بلکہ ہرزمانہ میں ضرورت کے مطابق اپنے احکام مختلف انبیاء کی معرفت نازل کئے ہیں ۔پس یہ اعتراض کہ پہلے نبیوں کے بعد اسکی کیا ضرورت ہے غلط ہے ۔جس طرح پہلے نبی کے بعد دوسرے نبی کی ضرورت تھی ۔اسی طرح سابق نبیوں کے بعد اس نبی کی ضرورت ہے ۔
اَنْ اَنْذِرُوْا اَنَّہٗ لَااِلٰہَ اِلَّا اَنَافَاتَّقُوْنِ۔یہ تمام دینی تعلیمات کا خلاصہ ہے ۔نبیوں کی تعلیم جزئیات میں مختلف رہی ہے ۔مگرایک ہی اصل سب کی تعلم میں کارفرماتھا کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اوردین کاخلاصہ یہی تعلیم ہے ۔ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوہریرہؓ سے فرمایا ۔کہ جاجو ملے اُس سے کہہ دے مَنْ قَالَ لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ دَخَلَ الْجَنَّۃَ۔جس نے لاالہ الّااللہ کہاداخل جنت ہوگیا ۔(مسلم کتاب الایمان)انہیں سب سے پہلے حضرت عمرؓ ملے اورانہوں نے انہیں روکا اورآنحضرت ؐ کی خدمت میں لائے ۔ اورآپؐ سے پوچھا کہ کیا ابوہریرہؓ جو کہتے ہیں۔وہ درست ہے ؟آپ نے فرمایا۔ہاں درست ہے ۔آپ نے فرمایا ۔یارسول اللہ اگر اس طرح اعلان ہوا۔توفَاِنِّیْ اَخْشَی اَنْ یَّتَّکِلَ النَّاسُ عَلَیْہَا یعنی یہ لو گ کہنے لگ جائیں گے کہ بس لاالہ الااللہ کہہ لیا اب کسی عمل کی ضرورت نہیں ۔اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت اچھا رہنے دو۔اس سے یہ مطلب نہیں کہ آپؐ نے اس کوضروری نہ سمجھا ۔بلکہ مطلب یہ ہے کہ جو اعلان کرناتھا ہوچکا۔جوس کامفہوم سمجھتے تھے انکومعلوم ہوگیا ۔نااہلوں تک پہنچانے کی ضرورت نہیں ۔اس حکم کے اہل جو سمجھتے ہیں کہ لاالہ الااللہ میں سب احکام شامل ہیں ۔وہ خود اس کی مناسب تشریح کیساتھ سب کو پہنچا دیں گے ۔
اِتَّقُوْنِ وَقٰی یَقِی سے باب افتعال کاصیغہ ہے اوراس کے معنے ہیں ۔اپنی حفاظت کاذریعہ کسی کو بنانا ۔پس اتقون کے معنے ہیں ۔کہ مجھے ہی اپنی حفاظت اوربچائو کاذریعہ بنائو۔یہ مطلب نہیں کہ مجھ سے اس طرح ڈروجس طرح نقصان رساں چیزوں سے ڈرتے ہیں۔کیونکہ خداتعالیٰ توخود اپنے بندوں کو اپنی طرف بلاتا ہے اوران سے محبت کرتاہے ۔
خلق السمٰوٰت والارض بالحقِّ۔تعلی عما یشرکون٭
اس نے آسمانوںاورزمین کو حق(و حکمت)کے ساتھ پیداکیاہے اورجن چیزوں کو (یہ لوگ اس کا )شریک ٹھہراتے ہیں وہ اس سے بہت بالاہے ۔۴؎
۴؎ حل لغات ۔الحق کے لئے دیکھو رعد ۱۵؎
تفسیر ۔بِالحقِّ(۱)ہراک کاحق مقررکردیا ہے یعنی کچھ کام کاحصہ آسمان کے سپر دکردیااوکچھ زمین کے سپرد کردیا۔دونوں مل کرنتائج پیداکرتے ہیں ۔
(۲)یعنی دونوں کو حکمت کے ماتحت اس لئے پیداکیا تا انسان کی توجہ خداکی طرف پھر ے۔اورانسان سمجھے کہ سوائے خداتعالیٰ کے کوئی فی ذاتہٖ کامل نہیں ۔آسمان اپنے کام کی تکمیل میں زمین کامحتاج ہے اورزمین آسمان کی دست نگر۔صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے جو سب سے کام لے رہاہے ۔
تَعالیٰ عَمَّایُشْرِکُوْنَ: فرمایاکہ جوانسان آسمان اور زمین کو بالحق نہیں مانتا۔وہ لازماًمشرک بنتا ہے ۔کیونکہ کوئی عقلمند یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس جہان کوخدانے بنایا ہے مگراس میں مقصد کوئی مقرر نہیں کیا۔کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ نے اسے بنایا ہے توضرور اس کاکوئی مقصد ہے ۔اوراگر اس کاکوئی مقصد نہیں ۔تویقیناخدانے نہیں بنایا۔بلکہ یہ خودبخود ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ ذرّہ ذرّہ خدا کاشریک ہے ۔ دوسرے معنے یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ زمین و آسمان کابناناحق کے ساتھ ہے ۔یعنی ان کا مادہ ہماراپیداکردہ ہے ۔اس لئے اس میں تصرف کاہم کو حق حاصل ہے۔اس میں ان لوگوں کاردّ ہے جو ایک طرف خداتعالیٰ کو مادہ کاخالق نہیں سمجھتے ۔دوسری طرف اس کی ترکیب کا فاعل خداتعالیٰ کو قرار دیتے ہیں ۔حالانکہ جو خالق نہیں ۔اُسے کیا حق حاصل ہے کہ س میں تصرف کرے اورایک موجود بالذات کو اپنے حکم کے نیچے لائے یہ توظلم ہوجاتا ہے ۔اورنیز یہ عقید ہ مشرکانہ بھی ہے ۔کہ خداتعالیٰ کے ساتھ ان گنت وجودوں کو ازلی قراردیاگیا ہے ۔
خلق الانسان من نطفۃٍ فاذا ھوخصیمٌ مبین ٭
اس نے انسان کو ایک حقیر نطفہ سے پیداکیاہے پھر (اس کے باوجود )وہ اچانک کھلم کھلا جھگڑے والا بن جاتا ہے ۵؎
۵؎ حل لغا ت ۔نُطْفَۃٌ۔النُّطْفَۃُ کے معنے ہیں ۔اَلمَائُ الصَّافیِ قَلَّ اَوْ کَثُرَ۔صاف وشفاف پانی خواہ تھوڑاہویازیادہ ۔یقال سقانی نطفۃً عَذَبَۃً چنانچہ سقانی نطفۃً عذبۃً کامحاوہ بول کر یہ مراد لیتے ہیں کہ اس نے مجھے صاف شیریں پانی پلایا۔وقیل قَلِیلُ مائٍ یَبضٰی فی دلوٍ اوقِربۃٍ۔بعض نے نطفہ کے معنے اس تھوڑے سے پانی کے کئے ہیں جوڈول یا مشکیزہ کو خالی کرتے وقت باقی رہ جاتا ہے ۔مائُ الرَّجْلِ والمَراۃِ۔مرد یاعورت کی منی ۔اَلْبَحْرُ۔نطفہ کے ایک معنے سمند رکے بھی ہیں ۔ا سکی جمع نِطَافف اورنُطَف آتی ہے (اقرب)
خَصِیمٌ:خَصَمَ (یَخْصِمُ خصمًا)سے صفت متشبّہ ہے اورخَصَمہ کے معنے ہیں غلبہُ فیِ الخصُوجمۃِ۔اس پر جھگڑے میں غالب آیا۔اَلْخَصِیْمُ۔المُخَاصِمُ ۔ خصیم کے معنے ہیں ۔جھگڑنے والا ۔اس کی جمع خُصَماء آتی ہے (اقرب)
تفسیر ۔اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ زمین وآسمان کوایک خاص نظام کے ماتحت پیداکرکے ہم نے انسان کوبنایا ۔اوراپنے حق کی بناء پر اس کے لئے ہدایت نامے نازل کئے ۔مگر باوجود اس کے کہ ہم نے اُسے ایک حقیر مادہ سے پیداکرکے اعلیٰ سے اعلیٰ قابلیت عطاکی ۔وہ اُلٹاہمارے حقوق کے متعلق بحث کرنے لگتا ہے ۔کوئی کہتا ہے کہ خداتعالیٰ نے عدم سے وجود کس طرح پیداکیا ۔اس لئے دنیا خود بخود بنی ہے ۔کوئی کہتا ہے خدانے مادہ نہیں بنایا۔بلکہ یونہی جبرًا اس پر تصر ف کرلیا ہے ۔کوئی کہتا ہے کہ خداکو کیاحق حاصل ہے کہ میرے لئے ہدایت نامہ جاری کرے۔میں آزا دہوں۔میں اپنے لئے خود قانون بنائوں گا۔غرض اس کے احسا ن کاانکارکرنے لگتا ہے اوراپنے آپ کو آزاد بتاتا ہے ۔
اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ خود توایک حقیر ماد ہ سے پیداہونے کے باوجو د اپنے آپ کواتنابڑاسمجھنے لگتا ہے کہ خداتعالیٰ سے بھی بحث کرنے کو تیارہوجاتاہے ۔لیکن دوسری طرف نبیوں پر اعتراض کر تاہے اورنہیں سمجھتا کہ جس خدانے ایک حقیر نطفہ سے پیداکرکے ایک سمجھد ار انسان بنادیا جو الٹانافرمان ہوگیا ۔کیا وہ ایک بظاہر حقیر نظر آنے والے انسان کے آگے ترقی دے کر انسان کامل نہیں بناسکتا۔کہ تاوہ اس کی فرمانبرداری کرے اور دوسروں سے کرائے ۔
اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ خلق زمین و آسمان سے یہ غرض تونہیں ہوسکتی تھی ۔کہ ایک نافرمان انسان پیداہو ۔یقیناً خلق کا مقصد اس سے بالاہوناچاہیئے تھا۔پھر جب اس مقصد کوپوراکرنے والاانسان دنیا میں آتاہے ۔تولوگوں کوتعجب کیوں ہوتاہے ۔
والانعام خلقھا۔لکن فیھا دف ئٌ ومنافع ومنھا تاکلون٭
اور(نیز)چارپایوںکو (پیداکیا ہے اور)انہیں اس نے ایسابنایا ہے کہ ان میں تمہارے لئے گرمی کاسامان اور(اوربھی)کئے نفعے ہیں اورتم ان (کے گوشت )کاکچھ حصہ کھاتے ہو ۶؎
۶؎ حل لغات ۔دِفْئٌ:۔دُِفْیَ ریَدْفَأُدَفْأً ودَفُؤَیَدْفُؤُدَفَائَۃً)من البردِ کے معنے ہیں۔تَسَخَّنَ وَوجدَالحرَّ۔گرم ہوااور گرمی کو محسوس کیا ۔الدِّفْئُ۔نَقیضُ حِدَّۃِالبَردِ۔گرمی ۔دِفْئی مِنَ الحائطِ۔کِنُّہٗ۔دیوار کی پنا ہ ۔یقال ’’اُقْعُدْفِے دِفْئِ ھذاالحائطِ‘‘ای فی کِنِّہِ۔چنانچہ اُقْعُدْ فی دِفْئِ ھذاالحائطِ کہہ کر یہ معنے لیتے ہیں کہ اس دیوارکی پناہ اوراوٹ میں بیٹھ ۔مَااَدْفَأَمِن الْاَصْوافِ والادْبَارِ۔گرم کپڑے (اقرب)
مَنَافِعُ۔مَنْفَعَۃٌ کی جمع ہے اورمنفعۃٌ کے معنے ہیں ۔النفع۔نفع ۔وکُل شیئٍ یُنْتَفَعُ بِہِ ۔ہر وہ چیزجس سے فائدہ اُٹھایاجائے (اقرب)
تفسیر ۔اس آیت میں نہایت لطیف پیرایہ میں انسان کی خصومت کاجواب دیا ہے ۔فرماتا ہے ہم نے تم کو پیداکیا ۔لیکن تم کو آزادی کادعویٰ ہے ۔حالانکہ خود تم ان چیزوں پر تصرف کرتے ہو جن کو تم نے پیدانہیں کیااور ان سے خوب فائدہ اُٹھاتے ہو۔حتٰی کہ ان کی جان لینے سے بھی دریغ نہیں کرتے اورکہتے ہوکہ انسان اعلیٰ ہے ۔اس لئے اس کی خاطردوسرے جانوروں کوذبح کرنا تک درست ہے ۔اگر یہ درست ہے کہ اعلیٰ کے لئے ادنیٰ قربان کیاجاسکتا ہے اوراعلیٰ کو ادنیٰ سے کام لینا جائزہے ۔توہمار ی حکومت پر یارسول کی حکومت پر تم کو کیا اعتراض ہے ۔وہی قانون جو تم ان کے لئے جاری کرتے ہو ۔اپنے متعلق جاری کرنے کے لئے کیوں تیار نہیں ہوتے ۔
دوسرے معنے س آیت کے یہ ہیں کہ ایک پہلی آیت یعنی عَلیٰ مَنْ یَّشَآئُ پرجوکفار اعتراض کرتے تھے کہ خداتعالیٰ نے اس حقیر بندہ پر کس طرح کلام نازل کیا ۔اس کاجواب یہ کہہ کر دیاتھا ۔کہ کیا تم نے ہم کو ایک حقیر نطفہ سے پیداکرکے اعلیٰ مرتبہ تک نہیں پہنچایا ۔ پھراگربعض لوگوںکو جن کو تم حقیر سمجھتے ہو ۔اگر نبی بنا کر عزت دی ۔تواس پر تمہارا اعتراض کیونکر درست ہوسکتاہے ۔اب اس آیت میں ان کے دوسرے اعتراض کاجواب دیا ۔جواَنْ اَنْذِرُوْا سے پیداہوسکتا تھا۔یعنی یہ کہ ہم توگندے اورکمزورانسان ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہماری طرف توجہ کس طرح کرسکتا ہے ۔اورفرمایاکہ خداتعالیٰ تمہارے کھانے پینے کی فکر توکرسکتا ہے ۔اس میں اس کی شان میں فرق نہیں آتا۔لیکن جب وہ تمہاری روحانی غذاکی طرف توجہ کرے توتم کو یہ اعتراض سوجھتا ہے۔کہ انسان جیسے حقیر وجود کی طرف خداتعالیٰ کو کلام بھیجنے کی کیاضرورت ہے ۔
تعجب ہے کہ ہمیشہ سے یہ متضاد اعترا ض نبیوں اورنبوت پر ہوتے چلے آئے ہیں ۔نبیوں کے دشمن ایک طرف تویہ اعتراض کرتے ہیں۔کہ اُن حقیر لوگوںکو خداتعالیٰ کیوں چن سکتاتھا ۔اگرچنتا توکسی بڑے آدمی کو چنتا۔دوسری طر ف یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ خداتعالیٰ کی شان بلند ہے اس کی نسبت یہ خیال بھی نہیں کیاجاسکتا۔کہ وہ حقیر انسان کی طرف توجہ کرے گا۔اوراس کے لئے الہام بھیجے گا۔فلاسفرخصوصاً یہ اعتراض کرتے رہتے ہیں ۔حالانکہ دونوں اعتراض غلط ہیں اورمتضاد بھی ۔کیونکہ ایک اعتراض سے تواپنا بڑاہونا اورنبیوں کا حقیر ہونا ظاہر کیا جاتاہے ۔اوردوسرے اعتراض میں اپنے حقیر ہونے کااقرار ہوتاہے ۔پس اصل بات یہ ہے کہ وہ کسی نہ کسی بہانہ سے الہام کے جوئے سے بچنا چاہتے ہیں ۔
ی جو فرمایا مِنْھَا تَاْکُلُوْنَ اس میں منھا کو پہلے رکھاگیا ہے جوتخصیص کے معنے دیتاہے ۔اس پر یہ اعتراض پڑسکتا ہے کہ کیاانسان اَنعام کے سوادوسری چیزوں کے گوشت نہیں کھاتے یاسبزیاں نہیں کھاتے ۔اس کاجواب یہ ہے کہ تخصیص کبھی حصر کے مضمون کے اظہار کے لئے آتی ہے اورکبھی یہ بتانے کے لئے کہ اس قسم کی چیزوں میں سے یہ اہم ہے اوراس جگہ پر اس کے یہی معنے ہیں۔اورمراد یہ ہے کہ تمہاری بڑی غذ ا اَنعام کا گوشت یا دودھ گھی ہے ۔بے شک مرغی شکار وغیرہ بھی انسان کھاتے ہیں ۔لیکن اہم غذااَنعام کاگوشت یادودھ گھی ہے ۔یاجو بمنزلہ اَنعام کے ہیں ۔جیسے نیل گائے یا ہر ن وغیرہ ۔یہ چیزیں انسانی غذااہم جزو ہیں ۔اوردوسری اشیاء ان سے اُترکرہیں ۔اس آیت میں اَنعام کے دواستعمال توکھول کر بیان فرمادیئے اول گرمی سردی کے اثرات سے بچاتے ہیں ۔یعنی ان کی کھالیں اوراُون وغیرہ کو تم استعمال کرتے ہو ۔دوسرے یہ کہ تم ان کاگوشت کھاتے اوردودھ پیتے ہو ۔ تیسرالفظ منافع کا استعمال کیا گیا ہے ۔اس سے مراد جانوروں کی تجارت بھی ہوسکتی ہے اورنسل کشی بھی ۔
ولکم فیھا جمال حین تریحون وحین تسرحون ٭
اور(اسکے علاوہ )تمہار ے لئے انمیں ایک(قسم کا )زینت(کاسامان بیھ )ہے جب تم (انہیں )چراکرشام کو (انکے تھانوں کی طرف)واپس لاتے ہواورجب تم (انہیں صبح کو )چرنے کے لئے چھوڑتے ہو ۷؎
۷؎ ح لغات ۔اَلْجَمَالُ:الحسنُ فی الخَلقِ الخُلُقِ۔جمال ظاہری و باطنی خوبی کوکہتے ہیں(اقرب)اس جگہ جمال سے مرادجمال معنوی ہے یعنی عزت ۔کیونکہ جس شخص کاگلّہ صبح و شام آتاجاتا ہے وہ لوگوں میں معززہوتاہے ۔
تُرِیْحُوْنَ:اَراحَ سے مضارع جمع مخاطب کاصیغہ ہے اورارَاح الرّجُلُ (اِراحۃً واراحًا )کے معنے ہیں راحَتْ علیہ اِبلہٗ وغَنْمہٗ ومالُہ ولایکونُ ذالک اِلّا بعدَالزوالِ۔اس کے جانور(اونٹ ۔بکریاں وغیرہ)شام کو چر کرآگئے ۔اوراراح الاِبلَ والغَنمَ کے معنے ردَّھاالی المُراحِ کے بھی ہیں ۔یعنی انہیں ان کے تھانوں کی طرف واپس لوٹایا(اقرب)پس تُرِیحُونَ کے معنے ہوں گے کہ تمہارے پاس تمہارے جانورشام کو چر کرآتے ہیں یاتم شام کو جانورچراکر واپس لاتے ہو ۔تَسْرَحُوْنَ ۔سَرَح (یَسْرَحُ سَرْحًا)سے مضارع جمع مخاطب کاصیغہ ہے ۔اورسَرَحَ الرَّاعِی المواشیَ کے معنے ہیں۔اَسامھاای اَرسَلَھَا ترعیَ۔جانورکو چرنے کے لئے چھوڑ دیا ۔(اقرب)پس تَسْرَحُوْنَ کے معنے ہوں گے تم جانوروں کو چرنے کے لئے چھوڑتے ہو ۔
تفسیر ۔یعنی یہ جانو ر تمہا ری عزت اوربڑائی کاموجب بھی ہوتے ہیں۔تم فخر کرتے ہو کہ میرے پاس اس قدر بھینسیں ہیں ۔اس قدر گائیں گھوڑے اونٹ بکریاں وغیر ہ ہیں ۔غرض ان کو اپنی عزت کا ذریعہ بناتے ہو ۔پھر سوچوتو سہی کہ تم اپنی چیزوں کو جو تمہاری مخلوق بھی نہیں اپنے لئے جمال کاموجب بناتے ہو لیکن اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ خیا ل کرتے ہو کہ انسان کو پیداکرکے وہ اسے یوں ہی چھو ڑ دے ۔حتٰی کہ وہ اس کی سبوحیت کی بجائے اس پر اعتراض کرے اور بجائے اس کے کہ اس کے ذریعہ سے خداتعالیٰ کی اعلیٰ شان ظاہر ہو اس کی پیدائش موجب اعتراض بن جا ئے ۔تم کیوں خیا ل نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ جو خالق ہے وہ بھی یہی چاہے گاکہ اس کی مخلوق اس کے لئے جمال کاموجب ہو یعنی اعلیٰ اخلاق اوردین والی ہو ۔جس کودیکھ کر انسان محسوس کرے کہ اللہ تعالیٰ نے کیسی اعلیٰ مخلوق پیداکی ہے ۔
یہاں تُرِیْحُوْنَ یعنی شام کو جانوروں کے آنے کاذکر پہلے کیاگیا ہے اورتَسْرَحُوجنَ یعنی صبح کو انہیں چرنے کے لئے بھیجنے کاذکر بعد میں کیاگیا ہے ۔حالانکہ جانو ر پہلے گھر سے جاتاہے اورپھر شام کو واپس آتاہے ۔اس کی وج یہ ہے کہ اس جگہ جمال کاذکر ہے اورجانوروں کے صبح گھر سے نکلنے کی نسبت شام کو گھر آنے کی حالت میں جمال زیادہ ہوتاہے ۔کیونکہ شام کو کھلا پھرنے اورپیٹ بھر کرگھاس کھالینے کے بعد وہ تروتازہ نظر آتے ہیں ۔نیز اس لئے بھی کہ صبح جب جانور جاتے ہیں توانسان کے دل میں خطر ہ ہوتاہے کہ کوئی جانور کھویا نہ جائے ۔یاکوئی درندہ اُسے نہ پھاڑ کھائے ۔مگر جب شام کو جانورصحیح سلامت گھر کی طرف لوٹتے ہیں توانسان کادل مطمئن ہوجاتاہے اوروہ ان کو دیکھ کر اپنے اند ر فخر محسوس کرتاہے ۔
وتحمل اثقالکم الی بلدٍ لم تکونو ا بٰلغیہ الا بشق الانفس ط ان ربکم لروف رحیم٭
اورو ہ تمہارے بوجھ اُٹھا کر اس (دور کے)شہر تک بھی لے جاتے ہیں جہاں تک تم اپنی جانوں کو مشقت میں ڈالے بغیر نہیں لے جاسکتے ۔ تمہارا رب یقینا (تم پر)نہایت شفقت کر نے والا (اور)بار بار رحم کرنے والاہے ۸؎
۸؎ حل لغات ۔شِقَّ کے معنے ہیں المشَقَّۃُ۔ مشقت ۔(اقرب)رَؤُفٌ:رأفَ (یرأف ورافَ یَرْاَفُ رافَۃً)سے مبالغہ کا صیغہ ہے اوررافَ اللہ بِکَ کے معنے ہیں رَحِمَ اشَدَّالرَّحْمَۃِ۔کہ اللہ نے تجھ پر بہت رحمت کی (اقرب)رأفت کے معنے رحم کے ہوتے ہیں ۔اس کے استعمال کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ رأفت محبت والے جذبہ کوکہتے ہیں ۔رحم کے موجبات کئی ہواکرتے ہیں ۔لیکن کسی کی تکلیف اوردکھ کو دیکھ کر دل میں جوہمدردی اور محبت پیداہوتی ہے ۔اُسے رأفۃ کہتے ہیں ۔پس خداتعالیٰ کے رئُ وف ہونے کے یہ معنے ہیں کہ وہ دکھو ں کونہیں دیکھ سکتا۔ اس لئے اس نے مخلوق کوتکلیف سے بچانے کے لئے ہرقسم کی آرام دہ چیزیں بنادی ہیں ۔
تفسیر ۔یہ جانور تمہارے بوجھ اٹھاتے ہیں اوروہاں لے جاتے ہیں جہاں تم بغیر تکلیف کے نہیں پہنچ سکتے تھے ۔یعنی یہ نہ ہوتے تو بوجھ اٹھاکرچلنا پڑتا اورتکلیف میں پڑتے ۔پھرسوچو کہ جب اللہ تعالیٰ نے تمہارے جسمانی سفرکے لئے اس قدرسامان سہولت پیداکئے ہیں ۔ توکیوں وہ روحانی سفر کے لئے سامان پیدانہ کرے گا۔اورتم ان روحانی سامانوں کو دیکھ کرکیوں یہ کہنے لگ جاتے ہو ۔کہ انسان جیسے حقیر وجود کے لیء خداتعالیٰ یہ کام کیسے کرسکتا تھا ۔تم خداتعالیٰ کی بڑائی کاراگ اس موقعہ پر محض بہانہ سازی سے الاپتے ہو۔لیکن یہ بھول جاتے ہو کہ وہ بڑی شان والا بھی ہے مگر ساتھ رؤوف اوررحیم بھی تو ہے ۔علو شان والے وجود جب رئُ وف ورحیم بھی ہوں توکمزوروں کے بوجھ اٹھاتے ہیں اوراس میں ان کی ہتک نہیں ہوتی بلکہ ان کی شان کااظہار ہوتاہے ۔
والخیل والبغال المیر لترکبوھا وزینۃًط ویخلق ما لاتعلمون
اور(اس نے )گھوڑوں اورخچروں اورگدھو ںکو(بھی )تمہاری سوار ی کے لئے اور(نیز)زینت(وشان )کے لئے (پیداکیاہے )اور (آئندہ بھی )وہ (تمہارے لئے سوار ی وغیرہ کا مزید سامان)جسے تم (ابھی)نہیں جانتے پیداکریگا ۹؎
۹؎ ح لغات ۔الخَیل:جماعۃ الارض ۔گھوڑے ۔خَیل کالفظ جمع ہی استعمال ہوتاہے ۔اس کامفرد نہیں آتا(اقرب)البِغَال:اَلْبَغْل کی جمع ہے اورالبغلُ کے معنے ہیں حیوانٌ اَھلیٌّ لِلرَِکوب والحملِ ابُوہُ حماروامّہ فرَسٌ۔خچر ۔وَیتَوَسَّعُ فیہ فَیُطْلَقَ علی کُلِّ حیوانٍ ابُوْہٗ من جنسٍ واُمُّہُ من اٰخَر۔ اس جانور پر بھی یہ لفظ اطلاق پاتاہے جس کے ماں اورباپ دومختلف جنسوں سے ہوں یعنی دوغلا(اقرب)الحَمِیْر:حمار کی جمع ہے اس کے معنے ہیں گدھے ۔اسکے علاوہ حمار کی جمع اَحْمِرَۃٌ وحُمْرٌ بھی آتی ہے (اقرب)
تفسیر ۔زِینَۃً۔زینت سے یہاں مراد خالی زینت نہیں ۔کیونکہ پہلے ولکم فیھا جمالٌ فرماچکا ہے ۔اس سے وہ زینت مراد ہے جو لِتَرْکَبُوْھَاکے ساتھ تعلق رکھتی ہے یعنی طاقت۔قوت۔شوکت اور دبدبہ کا اظہار ۔
گھوڑ ے ۔خچریں اورگدھے جن کی قوموں کو طاقت کا مظاہر ہ کرنے میں مدد دیتے ہیں اوریہاں زینت سے یہی مراد ہے ۔زینۃ پر نصب اس لئے آتی ہے ۔کہ یہ خَلَقَ کامفعول لہٗ ہے فرمایا دوقسم کی چیزیں تمہارے واسطے پیداکی ہیں ۔
(۱)وہ جن سے تم کو غذاملتی ہے تم ان کا گوشت اوردودھ پیتے ہو ۔ان سے گرمی سردی سے بچائو کا ساما ن حاصل کرتے ہو اوروہ تمہارے لئے لوگوں میں عزت و فخر کاموجب ہوتے ہیں ۔اورپھر و ہ تمہارے بوجھ اٹھاکر دوسرے شہروں تک پہنچاتے ہیں جیسے اونٹ گائے وغیرہ یہ جانور اہلی زندگی میں کام آنے والے ہیں ۔
(۲)دوسری وہ چیزیں ہیں جو تمہاری جنگی اورسیاسی زندگی میں کاام آتی ہیں ۔کیونکہ ان سے جنگ وغیرہ میں کام لیا جاتا ہے ۔یہ تمام چیزیں چھ غرضوں کے لیء بنائی گئی ہیں ۔
۱۔موسموں کے اثرات سے حفاظت کے لئے۔
۲۔غذاکے مہیاکرنے کے لئے
۳۔عزت و فخر کے لئے ۔
۴۔بوجھ اٹھانے کے لئے ۔
۵۔سفر میں سواری کے کام آنے کے لئے ۔
۶۔طاقت اورقوت کاموجب بننے کے لئے ۔
جب ان چھ دنیوی اورمادی ضرورتوںکو اللہ تعالیٰ نے پوراکیا ہے ۔توتم کس طرح خیال کرتے ہو کہ اسی قسم کی چھ روحانی ضرورتوں کو پوراکرنے کے لئے اللہ تعالی نے سامان نہ پیداکئے ہوں گے ۔
دوسرے ان آیات میں اس اطرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ تم دوسری مخلوق سے باوجود اسکے خالق نہ ہونے کے ہرطر ح کام لیتے ہو ۔مگر اللہ تعالیٰ جو تمہارامحتاج نہیں اورتم سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتا۔اُسے یہ حق بھی نہیں دیتے ۔کہ تمہاری اصلاح کرکے تم کو ایسا بنائے کہ تم اس کی سبوحیّت اورقدوسیّت کی دلیل اوراس کی بڑائی کے اظہار کا ذریعہ بنو۔
وعلی اللہ قصدالسبیل ومنڈھا جائر۔ولو شاء لھدٰئکم اجمعین ٭
اور(تمہیں) سیدھی راہ (کابتانابھی )اللہ(تعالیٰ) ہی کے ذمہ ہے۔اور(اس کی ضرورت اس لئے ہے کہ )ان میںسے بعض (راستے )ٹیڑھے (ہوتے )ہیں اوراگر وہ اپنی (ہی)مشیت نافذ کرتا توتم سب کو ہدایت (ہی)دیتا ۱۰؎
۱۰؎ حل لغات ۔القَصْدُ:قَصَدَ کامصدر ہے اورقَصَدَہٗ(ولہ والیہ)کے معنے ہیں ۔اِعْتَزَمَ علیہ وتوَجَّہ الیہ ۔کسی چیز کا اراد ہ کرلیا اوراس کی طرف گیا ۔قَصَدَ الیہ۔اِعْتَمَدہٗ۔اس پر اعتماد کیا ۔قصد فی الامر ۔ضِدُّ اَفْرَطَ۔کسی معاملہ میں میانہ روی اختیار کی ۔القصْدُ استقامۃُالطریق۔راستہ کاسیدھاہونا۔نقیضُ الاِفراط۔میانہ روی ۔وعلی اللہ قصد السبیل ای بیانُ الطریقِ المستقیم الموصلِ الی الحقِّ۔اورعلی اللہ قصْدُالسَّبِیْلِ کے معنی ہیں حق تک پہنچانے والے سیدھے رستے کا بیان کرنا اللہ کے ذمہ ہے (اقرب)
جائِرٌ۔جَارَ (یَجُورُ جَورًا)سے اسم فاعل ہے اورالجائر کے معنے ہیں ۔الحائدُ عَنِ القصدِ راستہ کی سیدھ سے ایک طرف ہونے والا۔الزَّائغُ عن الطَّرِیقِ۔کج رَو۔الظَّالِمُ۔ظالم (اقرب)۔
تفسیر ۔وَعَلَی اللہِ قَصْدُ السَّبِیْلَ کے معنے ہیں ۔خداتعالیٰ پر سیدھے راستے کابتاناواجب ہے۔یعنی حقٌّ علی اللہ ِ بَیَانُ قَصدِ السَّبِیْلِ۔یہی مضمون دوسری جگہ ان لفاظ میں بیان ہواہے ۔اِنَّ عَلَیْنَا لَلْھُدیٰ (سورۃ اللّیل)یعنی ہدای کابیان کرنا ہماراہی کام ہے ۔اورہم ہی پرواجب ہے ۔قَصْدُ السَّبِیْلِ سے بتایاکہ سیدھا راستہ یا افراط و تفریط سے محفوظ راستہ اللہ تعالیٰ ہی بتاسکتا ہے ۔ورنہ انسان جب بھی دنیا کے لئے کو ئی راستہ تجویز کرتاہے اس میں افراط و تفریط سے کام لیتا ہے ۔
اس میں یہ بھی بتایا ہے کہ کوئی انسان بھی ایسا نہیں (سوائے اس کے جو خداتعالیٰ کی نگرانی میں ہو)جو جنبہ دار نہ ہو۔کسی سے اُسے عداوت ہوتی ہے کسی سے محبت۔کسی کو اپن اسمجھتا ہے اورکسی کوغیر۔اس لئے انسانی قوانین میں ہمیشہ یہ نقص ہوتا ہے کہ بعض کے حقو ق تلف کئے جاتے ہیں اوربعض کو زیادہ دیاجاتاہے ۔پس وہ قانون جس میں سب کے حقوق کاخیال رکھا جائے ۔نہ کسی کے حق میں کمی کی جائے ۔نہ کسی کا حق لے کر دوسرے کو دیا جائے صر اللہ تعالیٰ بناسکتا ہے ۔جو مخلوق کی مدد کا محتا ج نہیں ۔اورسب ہی اس کے بندے ہیں۔
یہ کسی زبردست سچائی ہے ۔ہزاروں سالوں سے انسان قانون بنارہاہے ۔مگر کس طرح اس میں کسی کی حق تلفی کی جاتی ہے اورکسی کو حق سے زیاد ہ دیاجاتاہے۔آج کل کے سیاسی اختلافات کو ہی دیکھو ۔کوئی حکومت مزدورو ںکے حق کو دبارہی ہے توکوئی انہی کو سب کچھ دے کر دوسروں کو حقوق انسانیت سے محروم کررہی ہے ۔
اسی طرح انسان چونکہ جذبات کاغلام ہوتاہے ۔جوقانون بناتا ہے وہ اپنے جذبات کو نمایا ں کردیتاہے ۔ساری دنیا کے جذبات کاخیال نہ رکھتا ہے نہ رکھ سکتا ہے ۔اگر رہبانیت کی طرف میلان رکھنے والا دنیا ترک کردینے کا نام ہی نیکی رکھتاہے تودنیا کاحریص دنیوی ترقیات کا نام ہی نیکی رکھتاہے ۔اس نقص سے وہی تعلیم پاک ہوسکتی ہے جوانسان کے پیداکرنے والے کی طرف سے ہو۔جو سب انسانوں کے جذبات سے واقف ہو اورسب کے جذبات کو مناسب حد تک ابھارنے کا خیال رکھے ۔
اس اسلوب بیان سے ظاہر ہے کہ ہرروحانی کلام میں بھی ان چھ باتوں کاپایاجاناضروری ہے ۔
(۱)سردی گرمی کے اثرات سے بچاوے یعنی افراط و تفریط سے محفوظ رکھے ۔محبت الٰہی کی کمی کانام سردی ہے ۔اورمذہب کے معاملہ میں غلو سے کام لیتے ہوئے لوگوں پر ظلم و زیادتی کرنا اورانہیں مجبو رکر نا کہ وہ اس مذہب کو قبول کر یں گر می ہے ۔کلام الٰہی کاکام یہ ہے کہ ایک طرف محبت الٰہی پیداکرے اوردوسر ی طرف اپنے پیروئوں کو میانہ روی سے زندگی بسر کرنے کی تلقین کرے۔
(۲)وہ غذاکاکام دے ۔یعنی وہ روحانی طاقتوں کاضروری مجموعہ ہو ۔اس میں وہ باتیں بتائی گئی ہوں جس سے بد ی کی رغبت سرد پڑتی ہو ۔ اورایسے عقائد کی تلقین کی گئی ہو جن سے اصلاح ہو کر روحانی طاقت وقوت پیداہو ۔
(۳)وہ جمال کاموجب ہو ۔یعنی جو لوگ اس تعلیم پر عمل کریںوہ خوبصورت نظر آئیں ۔یعنی اچھے معلوم ہو ں۔دنیا ان کو دیکھ کرمحسوس کرنے لگ جائے کہ اس کلام نے ان لوگوں کے اندر تبدیلی پیداکردی ہے ۔
(۴)وہ سواری کاکام دے یعنی انسان کی ذات کو عرفان الٰہی کے ذریعہ سے جلدسے جلد خداتعالیٰ تک پہنچادے ۔اورایک روحانی سفر کو غیر معمولی طوالت سے بچائے۔
(۵)وہ انسان کے بوجھو ں کواٹھانے والاہویعنی انسان کو اس کی ذمہ داریو ںکااحساس کرائے اوراسے رسوم و عادات کی تکلیف دہ زنجیروں سے آزاد کرکے حریت سے کام کرنے کے قابل بنائے ۔
(۶)طاقتو قوت دینے والاہو۔۔یعنی اس پر عمل کرنے سے دین اوردنیا میں عزت حاصل ہو ۔قوم کانظام مضبوط ہو اوروہ دنیا میں باوقار زندگی بسرکرنے والی ہو ۔اورآخرت میں عزت پائے جس کلام یہ چھ باتیں نہ ہو وہ کلام الٰہی کہلانے کامستحق نہیں ۔
وؔمِنْھَاجَآئِرٌ۔لوگ کہہ سکتے تھے کہ انسان کے خداتک پہنچنے میں الہام الٰہی کی کیا ضرورت تھی ۔انسان خود ہی پہنچ جاتا اورخود ہی راستہ تلاش کرلیتا ۔اس کے جواب میں فرمایا ۔کہ ومنھا جائرٌ ۔خود تم بھی تسلیم کرتے ہو کہ بعض راستے غلط ہوتے ہیں ۔اگر اللہ تعالیٰ سیدھاراستہ نہ بتائے توبہت سے انسان غلط راستوں پرچل پڑیں گے اورتباہ ہوجائیں گے ۔یہ عجیب بات ہے کہ ہرانسان تسلیم کرتاہے کہ بعض طوراورطریق ناپسندیدہ ہوتے ہیں اورباوجود اس کے بعض لو گ انہیں اختیار کرلیتے ہیں مگر باوجود اس اقرار کے بعض لوگ اس کی ضرورت نہیں سمجھتے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت آئے ۔
مِنھاکی ضمیر السّبیل کی طرف جاتی ہے ۔کیونکہ وہ مذکراورمؤنث دونوں طرح استعمال ہوتاہے ۔مذکرکی مثال قرآن کریم کی یہ آیت ہے وَاِنْ یَّرَوْاسَبِیْلَ الرُّشْدِ لَایَتَّخِذُوْہُ سَبِیْلًا۔وَاِنْ یَّرَوْاسَبِیْلَ الْغَییِّ یَتَّخِذُوْہُ سَبِیْلًا(اعراف ع ۱۷)اورمؤنث کی مثا ل یہ آیت ہے قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلِٓیْ اَدْعُوْٓااِلَی اللّٰہِ عَلیٰ بَصِیْرَۃٍ(یوسف ع۶؍۱۲)تاج العروس میں بعض ادباء کاقول ہے ۔کہ سبیل مذکر ہی ہے ۔اس کی طرف مؤنث کی ضمیر بالمعنیٰ پھر ائی جاتی ہے ۔اورسبیل کے معنے مُحَجَّۃَ کے لئے جاتے ہیں ۔مگر یہ امتیاز صرف علمی ہے ۔اصل مضمون پر اثر انداز نہیں ہوتا۔
یہاں ضمیر کوالسبیل کی طرف راجع کرکے ایک عجیب نکتہ بیان فرمایا ہے اوروہ یہ ہے کہ پہلے اللہ تعالیٰ انبیاء کے ذریعہ سے قصدالسبیل(صراط مستقیم)بتاتا ہے ۔پھر اس سیدھے راستے سے بگڑ کر ٹیڑھے راستے نکل آتے ہیں ۔پس ایک الہام کے بعد دوسرے الہام کی ضرورت باقی رہتی ہے اورکوئی نہیں کہہ سکتاکہ ایک کتاب کے بعد دوسری کتاب کے نازل کرنے کیاضرورت ہے ۔کیونکہ جب لوگ قصد السبیل کو کاٹ کر اس میں سے جائر راستے نکال لیتے ہیں تواللہ تعالیٰ کے لئے بھی ضروری ہوجاتاہے کہ پھر ایک اورنبی کی معرفت سیدھا راستہ لوگوںکو بتادے ۔
صرف ضمیر کے مرجع سے ا س وسیع مضمون کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ سچے دین بگڑ کر آخر گمراہی کاموجب ہوجاتے ہیں اوریہ کہ جائر راستے بھی قصد السبیل کے بگڑنے سے پیداہوتے ہیں ۔پس کسی مذہب کاابتدائے نزول میں سچاہونا اُسے ہروقوت کے لئے قابل عمل ثابت نہیں کرتا ۔
وَلَوْ شَآ ئَ اللّٰہَ لَھَدٰاکُمْ اَجْمَعِیْنَ۔اس میں فرمایا ہے کہ اگراللہ تعالیٰ ہدایت کاکام اپنے ہاتھ میں نہ رکھت ا۔تواس کا ایک ہی منصفانہ طریق ہوسکتا تھا کہ انسانی فطرت کو ایسا بنادیاجاتا۔کہ وہ غلطی کی طرف جاہی نہ سکتی ۔مگراس نے ایسا نہیں کیا ۔کیونکہ یہ حکمت کے خلاف تھا اورجب اس نے ایسا نہیں کیااورانسان کو مقدرت دی ہے کہ وہ غلط راستہ بھی اختیار کرسکتاہے یاصحیح راستہ کوغلط بناسکتا ہے ۔توپھر اس کے سواورکونسا منصفانہ طریق رہ جاتا ہے کہ و ہ ہدایت نازل کرکے انسان کو گمراہی سے بچنے اورروحانی ترقی کرنے کاموقعہ دیتا رہے ۔
ھُوَالذی انزل من السماء ماء لکم منہ شراب ومنہ شجر فیہ تسیمون٭
وہ(پاک)ذات ہے جس نے بادلوں سے پانی اتاراہے اسی میں تمہارے پینے کا(پانی جمع کیاجاتا)ہے اوراسی سے وہ درخت(تیار) ہوتے ہیں جن میں تم (مویشیوںکو)چراتے ہو ۱۱؎
۱۱؎ حل لغات ۔السَّمائُ کے معنی ہیں آسمان ۔کُلُّ ماعَلاکَ فاَظلَّکَ۔ہراوپر سے سایہ ڈالنے والی چیز ۔سَقفُ کلّ شیئٍ وکُلِّ بَیتٍ۔چھت ۔ رَوَاقُ البَیتِ۔برآمدہ ۔ظَھرُالفرسِ۔گھوڑے کی پیٹھ۔السحاب ۔بادل۔المطر۔بارش ۔المطرۃُ الجیّدۃُ ایک دفعہ کی برسی ہوئی عمد ہ بارش۔ العشبُ۔سبزہ وگیاہ(اقرب)
تُسِیْمُونَ: اَسَام(جسکامجرد سام ہے)سے مضارع جمع مخاطب کاصیغہ ہے اوراَسامَ الاِبِلَ اِسَامۃً کے معنے ہیں ۔اَرْعَاھاَ۔اونٹوں کوچرایا۔وَقِیْلَ اَخْرَجَھَا الی المرعیٰ۔اوربعض نے اسام الابل کے معنے یہ کئے ہیں کہ اونٹوں کو چراگا ہ کی طر ف نکالا(اقرب)وَمِنہُ شجَرٌ فِیہِ تُسِیْمُونَ کے معنے ہوں گے کہ اسی پانی سے و ہ درخت تیار ہوتے ہیں جن میں تم مویشیوں کو چراتے ہو ۔
تفسیر۔ سماء کے معنے جیساکہ حل لغات میں بتایاگیاہے ۔بادل کے بھی ہوتے ہیں اوراس جگہ جیساکہ الفاظ سے ظاہر ہے ۔بادل کے معنے ہی ہیں ۔فرماتا ہے۔و ہ بادل جن سے تم کوپینے کاپانی ملتاہے اورجن کے ذریعہ سے وہ درخت اورپودے اُگتے ہیں جن سے تمہارے گلّوںکو چار ہ ملتاہے خداتعالیٰ نے ہی تواتاراہے ۔
قرآن کریم کے پہلے مخاطب عرب تھے ۔جن کے ملک میں کنویں کم ہیں ۔زیادہ حصہ ملک کاباولیوں سے پانی پیتا ہے ۔جن میں بارش کاپانی جمع ہوجاتاہے ۔اگر وہ پانی جمع نہ کیا جائے ۔تووہ پیاسے مرجائیں۔مکہ مکرمہ میں بھی صرف ایک چشمہ زمزم کا ہے جس کاپانی سخت کھاراہوتا ہے ۔اورنہر زبید ہ کے نکلنے سے پہلے وہاں پینے کاپانی باولیوں سے ہی مہیا ہوتاتھا ۔بلکہ اب تک بھی نہر زبید ہ کے نکلنے کے باوجود پانی کاکچھ حصہ باولیوںسے ہی مہیاکیاجاتاہے ۔جوپیپوں میں ڈال کر لوگ مکہ میں فروخت کرنے کے لئے آتے ہیں ۔باقی ملک کااکثر حصہ بھی ایسے ہی پانیوں پر گذارہ کرتا ہے ۔اورچونکہ عرب کا اکثر حصہ اونٹوں اوربکریوں بھیڑوں کے گلّوں پر گذارہ کرتاہے ا ن کا چارہ یعنی درخت بھی اسی پانی سے پلتے ہیں ۔
ا س آیت میں بھی اسی پہلے مضمون کی طرف اشارہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے کاموں کی سہولت کے لئے قانون قدرت میں ہزاروں اشیاء پیداکی ہیں ۔جن سے تم فائد ہ اٹھاتے ہو ۔پھر کیوں نہیں سمجھتے کہ تمہاری روحانی آسائش کاسامان بھی وہ ضرور کر یگا۔اورجبکہ دنیوی سامانوں کو تم شوق سے قبول کرتے ہو ۔کیوں اس کے بنائے ہوئے روحانی سامانوںکو قبول نہیں کرتے ۔اورجب کہ تم یہ مانتے ہوکہ خداتعالیٰ کا تمہاری جسمانی ضرورتوں کو پوراکرنا اس کی شان کے خلاف نہیں ۔تویہ کیوں سمجھتے ہوکہ خداتعالیٰ کاروحانی سامان پیداکرنا اس کی شان کے خلا ف ہے ۔
حق یہ ہے کہ جو خداتعالیٰ کے وجود کاہی انکار کرتاہو اورمادی سامانوں کو آ پ ہی آپ سمجھتاہو ۔وہ تویہ کہہ بھی سکتا ہے کہ نہ کوئی خداہے نہ و ہ کوئی سامان پیداکرتا ہے ۔لیکن جو خداتعالیٰ کے وجود کومانتا ہو اوریہ سمجھتاہوکہ خداتعالیٰ نے اس دنیا کے سامانوں کو پیداکیاہے اسے تو اس بات کے کہنے کاہرگز کوئی حق نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو کیاپڑی ہے یااسے کیا حق ہے کہ انسانوںکی ہدایت کے لئے نبی بھیجے اورکتابیں اتارے ۔ کیونکہ اس کا ایک عقیدہ دوسرے عقیدے کو رد کرتاہے ۔اوراسے اپنی غلطی معلوم کرنے کے لئے کسی اوردلیل کی ضرورت نہیں ۔
س آیت میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ قانون قدرت جس قدر ساما ن پیداکرتاہے ۔وہ حقیقتاً انسا ن ہی کے کام آتے ہیں ۔پانی بھی اترتا ہے تو اس کے لئے ۔کیونکہ جانور اوردرخت اگراس سے پلتے ہیں ۔توان کو بھی توانسان ہی استعمال کرتاہے ۔پس آخری نقطہ کائنات کاانسان ہی ہے ۔اوراس کی روحانی ترقی کے سامان پیداکرنا خداتعالیٰ کی شان کے خلاف نہیں ۔بلکہ پیدانہ کرنااس کے شان کے خلاف ہے ۔کہ ایک ایسی مخلوق پیداکی جس کے فائدہ کے لئے ایک حیرت انگیز وسیع نظام بنایا ۔لیکن اس کی پیدائش کاکوئی اعلیٰ مقصد نہ قراردیا ۔
پہلی آیات میں حیوانات کی پیدائش کاذکر تھااورحیوانی غذاکا۔اس آیت میں پانی کاذکر کیا اورنباتی غذاکا۔اسی مضمون کو اگلی آیت میں اوروسیع کیاگیا ہے ۔
ینبت لکم بہ الزرع والزیتون والنخیل والاعنا ب ومن
وہ اس کے ذریعہ سے تمہارے لئے کھیتی اورزیتون اورکھجور کے درخت اورانگور اور(دوسرے )
کل الثمرات۔ان فی ذٰلک لایۃ لقوم یتفکرون٭
ہرقسم کے پھل (بھی )پیداکرتاہے ۔ان لوگوں کے لئے جوفکر سے کام لیتے ہیں اس میں یقیناایک نشان (پایاجاتا)ہے ۱۲؎
۱۲؎ تفسیر ۔پہلی آیت میں پانی کاذکر کیاگیاتھا جسے انسان پیتے ہیں ۔اورایسے درختوں کی پیدائش کاذکر کیاتھا جن سے جانو رپلتے ہیں ۔ اورپھر ان جانوروں سے انسان فائدہ اٹھاتاہے ۔اب ایسی نباتی غذائوں کاذکر فرماتا ہے جن کو براہ راست انسان استعمال کرتاہے ۔اورفرماتا ہے ۔اس پانی سے کچھ اورنباتات بھی اُگتی ہیں جن کو انسان براہ راست استعمال کرتا ہے ۔ان میں سے کچھ تو کھیتیاں ہیں جن سے انسانی غذاکے لئے غلّہ پیداہوتاہے ۔کچھ درخت ہیں جن سے انسان کے کھانے کے لئے پھل اترتا ہے ۔جیسے زیتون اورکھجور اورانگور اوران کے علاوہ اوربھی کئی اقسام کے میوے اورپھل۔پھرکیا تم اس امر پر غور نہیں کرتے کہ جس طرح انسان کے سوادوسرے حیوانات انسان کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں ۔اسی طرح نباتات بھی اس کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔
اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ فرمایاکہ زمین میںاُگانے کی خواہ کس قدر بھی طاقت ہو وہ آسمانی پانی کے بغیر کچھ نہیں اُگاسکتی ۔اسی طرح انسانی فطرت کاحال ہے کہ انسانی ذہن اورانسانی عقل خواہ کس قدر اعلیٰ ہو ۔وہ اپنے جوہر دکھانے کے لئے آسمانی پانی کی محتاج ہے ۔ اوراس پانی کے بغیر انسانی عقل کی تکمیل نہیں ہوتی۔ پس صر ف اپنی عقل پر اپنی روحانی ترقیات کا انحصار رکھنے والا ،ایساہی ہے ۔جیسے کہ وہ شخص جو بغیر پانی کے کھیتی اُگانے کی کوشش کرے ۔بے شک کھیتی بعض دفعہ اُگ توآئے گی مگر وہ اپنی پوری شان ظاہر نہیں کرے گی ۔
بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ نبی کون سی نئی چیز دنیامیں لاتے ہیں ۔سب باتیں جو وہ کہتے ہیں ۔پہلے سے ہی انسانی فطرت میں موجود ہیں ۔ ان کا بھی ا س آیت میں جوب دیاگیا ہے اورپانی کی مثال سے بتا یاہے کہ کسی چیز کاموجود ہونا اَوربات ہے اوراس کا نشوونماپانااَوربات ہے ۔گوسب کچھ جو نبی بتاتے ہیں۔فطرت کے مطابق ہوتاہے ۔لیکن الہام کے بغیر فطرت کو نشوونمانہیں حاصل ہوتا۔جس طر ح پانی کے بغیر زمینی طاقتیں اُبھرتی نہیں ۔کوئی نہیں کہتا کہ جب بیج اورنشوونما کی طاقت زمین میں موجود ہے توپانی کی کیاضرورت ہے ۔پانی نہ بیج لاتا ہے اور نہ ہی زمین میں نشوونما کی طاقت پیداکرتا ہے ۔مگرہر اک جانتا ہے کہ پانی بیج اورنشوونما کی طاقت لاتاتونہیں ۔پروہ نشوونما کی طاقت کو اُبھارتا ضرورہے ۔اوراس کے بغیر و ہ طاقت بالفعل اپنا اظہار یاکرتی نہیں یابہت کم کرتی ہے ۔یہی حال الہام کاہے کہ وہ نئی فطرت نہیں بناتا۔لیکن فطرت کی خوابیدہ طاقتوںکو اُبھارتا ہے ۔
جس طرح حیوانی فوائد کے بیان میں ترتیب کو مدنظر رکھا گیا تھا کہ پہلے حیوانی غذاکا ذکر کیا تھا جوانسان کے لیء نہایت ضروری ہے اورپھر حیوانات کے دوسرے فوائدبیان کئے تھے ۔جوگوویسے ضروری نہیں ۔لیکن انسانی شان کے بڑھانے والے ہیں ۔نباتات کے ذکر میں بھی پہلے کھیتی کاذکر کیا ہے جوعام انسانی غذا پیداکرتی ہے ۔پھر زیتون کا جو روٹی کے ساتھ سالن کاکام دیتا ہے اورپھر کھجور کا جو غذابھی ہے اورمیوہ بھی ۔اورپھر انگور اوردووسرے پھلو ںکا جوضروری غذاتونہیں ۔لیکن انسانی صحت اوردماغی طاقتوں کے بڑھانے کاموجب ہوتے ہیں۔
شاید کوئی اعتراض کرے کہ انسان کی مقدم غذاحیوانی نہیں کیونکہ ایک خاصہ طبقہ دنیا کا صرف نباتی غذااستعمال کرتا ہے مگر یہ اعتراض قلّتِ تدبر کانتیجہ ہوگا۔کیونکہ جو حیوانی غذااستعمال نہ کرنے کادعویٰ کرتے ہیں ۔وہ بے شک گوشت تو نہیں کھاتے ۔مگر ان کی اہم غذابھی حیوانی ہوتی ہے ۔ماں کادودھ پئے بغیر کتنے بچے پلتے ہیں۔پھر کیا ماں کادودھ حیوانی غذانہیں؟ اورجو ماں کادودھ نہیں وہ جانوروں کادودھ پیتے ہیں اوروہ بھی حیوانی غذا ہے ۔اورجو لوگ حیوانی غذاکے استعمال سے بظاہر انکار کرتے ہیں وہ بڑی عمرمیں بھی گھی دودھ استعمال کرتے ہیں جو حیوانی غذائیں ہیں۔پس ایسا آدمی کوئی بھی نہیں جس کی اہم ترین غذا حیوانی نہ ہو اورجو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ حیوانی غذااستعمال نہیں کرتے ۔وہ یاتوخود فریب میں مبتلاہوتے ہیں یاجان بوجھ کر دوسروں کو فریب دیتے ہیں۔وہ یہ توکہہ سکتے ہیں کہ ہم گوشت نہیں کھاتے مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ کوئی حیوانی غذابھی استعمال نہیں کرتے ۔
اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ۔غذائوں کے ذکر کے آخر میں فرمایاکہ اس میں فکر کرنے والوں اورسوچنے والوں کے لئے نشان ہے ۔اس سے ایک تواس طرف اشار ہ کیا۔کہ انسانی دماغ غذاسے نشوونماپاتاہے ۔اسی طرح روحانیات سے تعلق رکھنے والا دماغ روحانی غذائوں سے نشوونماپاتاہے ۔دوسرے اس طرف اشارہ کیا کہ فطرۃ کے اندرافکار تو موجود ہوتے ہیں۔مگران کے ابھارنے کے لئے عمدہ غذاکی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح روحانی افکار بھی انسان کے اندرموجود توہوتے ہیں ۔مگر ان کے ابھارنے کے لئے بھی روحانی غذا کی ضرورت ہوتی ہے ۔سب انسان ایک ہی قسم کے ہیں ۔مگر ایک اعلیٰ درجہ کی قوت فکریہ رکھتا ہے دوسرانہیں ۔اوراس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ ایک کومناسب غذا ملتی ہے دوسرے کونہیں ۔یہی حال روحانی عالم کا ہے ۔سب ہی انسانوں کے اندر اللہ تعالیٰ کی محبت کا جذبہ ہے لیکن ایک آدمی جوروحانی غذائیں کھاتا ہے ۔اس کی قوت فکریہ کو جِلا اورروشنی مل جاتی ہے دوسرے کو نہیں ۔
وسخر لکم الیل والنھار والشمس والقمر ۔
اوراس نے رات اوردن کو اورسورج اورچاندکو تمہارے لئے بے اُجرت خدمت پر لگارکھا ہے
والنجوم مسخرٰت بامرہ۔ان فی ذٰلک لاٰیتٍ لقوم یعقلون۔
اور(دوسرے )تمام (سیارے اور)ستارے (بھی )اس کے حکم سے بلااجرت (تمہاری)خدمت پر متعین ہیں جولوگ عقل سے کام لیتے ہیںان کیلئے اس میں یقینا کئی نشان (پائے جاتے )ہیں ۱۳؎
۱۳؎ حل لغات ۔سَخَّرَ کے لئے دیکھو سورۃ رعد ۳؎
یَعْقِلُوْنَ:عَقَل(یعقِلُ عقلًا)سے مضارع جمع مذکر غائب کاصیغہ ہے ۔اورعقل الغلامُ کے معنے ہیں ۔اَدْرک ۔لڑکابالغ ہوگیا ۔عَقَلَ الشیئَ عقلاً کے معنے ہیں ۔فَھَمِہُ و تَدَبَّرہ:کسی چیز کو سمجھااوراس پرغور کیا ۔عقل البعیر :ثنیٰ وظیفَہُ مع ذراعِہٗ فشدّھما معًا بِحَبْلٍ۔اونٹ کی پنڈلی کو اس کی ران کے ساتھ ملا کر باندھ دیا ۔اورعقال اس رسی کو کہتے ہیں جس کے ساتھ اونٹ کی پنڈلی باندھی جاتی ہے ۔(اقرب) پس اِنَّ فِیْ ذلِکَ لَاٰیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ کے معنے ہوں گے ۔کہ جو لوگ عقل سے کام لیتے ہیں یعنی بات کو سمجھتے اوراس پر تدبر کرتے ہیں ۔ان کے لئے اس میں کئی نشان پائے جاتے ہیں۔
تفسیر ۔اب ایک اورقسم کی نعمتوں کاذکر کیا جو جمادات سے تعلق رکھتی ہیں ۔اوران میں سے بھی انہی کا انتخاب کیاہے جو انسانی دماغ کے نشوونما پر خاص طورپر اثر انداز ہوتی ہیں۔بے شک انسان لوہے ۔لکڑی ۔سونے ۔چاندی ۔پیتل سے بھی فائدہ اٹھاتا ہے لیکن ان اشیاء سے و ہ بڑافائدہ ۔بیرونی آرام کی قسم کا حاصل کرتا ہے ۔برتن بناتا ہے۔مکان بناتا ہے ۔آلات بناتا ہے ۔براہ راست ان اشیا ء کااثر انسانی دماغ پر نہیں پڑتا۔لیکن چونکہ اس جگہ انسانی دماغ کے نشوونما کے ذکر زوردینا مقصود ہے ۔ا س لئے جمادات کی مذکورہ بالا اقسام کی بجائے رات اوردن سورج ،چاند اورستاروں کا ذکر کیاگیا ۔
کہا جاسکتا ہے کہ رات اوردن تو جمادات میں سے نہیں ۔اوریہ درست بھی ہے ۔لیکن اس سے کسی کو انکار نہیں ہوسکت اکہ رات اورد ن کے فوائد سورج اورچاند اورستاروں کے اثرات سے وابستہ ہیں ۔اور وہ اجرام فلکی ان کے ذریعہ سے اپنی تاثیرات ظاہر کرتے ہیں ۔یعنی اپنی شعاعوںکو نازل کرکے یاان کو روک کر ۔اس لئے رات اوردن بھی درحقیقت جمادی اثرات میں ہی شامل ہونے کے مستحق ہیں ۔
اگر کہا جا ئے کہ رات اوردن جب سورج اورچاند اورستاروں کے ظہور اورفوائدپر دلالت کرتے ہیں ۔توپھر سورج چاند وغیرہ کا الگ نام لینے کی کیا ضرورت تھی ۔تواس کا جواب یہ ہے کہ گورات اوردن ان اجرام فلکی کی تاثیرات کے ظہور کا نام ہیں ۔لیکن ان کے علاوہ بھی سورج اورچاند اورستاروں کے اثرات ہیں اور ان سے ایسی تاثیرات بھی دنیا پر پڑتی ہیں جو آنکھوں سے نظر آنے والی شعاعوں کے علاوہ دوسرے ذرائع سے انسان پر اثر انداز ہوتی ہیں ۔جیسے برقی یامقناطیسی اثرات۔اوران کے اسوااورکئی قسم کی تاثیرات ہیں ۔جوسائنس روز بروز دریافت کررہی ہے ۔اورکئی وہ شائد کبھی بھی دریافت نہ کرسکے ۔پس باوجود اس کے کہ رات اور دن اجرام فلکی کے تاثیرات کے ظہور کاذریعہ ہیں ۔ان کے علاوہ بھی سورج اورچاند ستاروں کا نام لینے کی ضرورت تھی ۔تاان دوسری تاثیرات کا ذکر کیا جائے جن سے انسانی دماغ فائدہ اٹھارہا ہے ۔
اس جگہ یہ سوال ہو سکتاہے کہ اگر یہ بات ہے ۔توپھر رات اوردن کے ذکر کی کیاضرورت تھی ۔سورج چاند اورستاروں کاذکر کافی تھا۔اس کاجواب یہ ہے کہ سورج چاند اورستاروں کی دوسری تاثیرات سے تو عرب لو گ بھی واقف نہ تھے ۔صرف رات اوردن کی تاثیرات سے ان کو آگاہی تھی ۔اوراب بھی علمی طبقہ کے علاوہ باقی لوگ رات اوردن کی تاثیرات اوران کے فوائدسے توآگاہ ہیں ۔لیکن سورج چاند اورستاروں کی دوسر ی تاثیرات سے واقف نہیں ہیں۔پس فائدہ کو وسیع کرنے کے لئے اورقرآن کریم کے پہلے مخاطبوں کے ذہن سے مضمون کو قریب الفہم بنانے کے لئے ضروری تھا کہ دن اوررات کو الگ بھی بیان کردیاجاتا ۔تاکہ ان کادماغ بسہولت آیت کے مضمون کی طرف منتقل ہوسکتا ۔
یاد رہے کہ سائنس کی موجود ہ تحقیق نے سپکٹرم کے ذریعہ سے جوایک ایساآلہ بنایا ہے جس کے ذریعہ سے روشنی کی شعاعوں کو پھا ڑ کر الگ الگ کرلیا جا تاہے ۔یہ معلومات حاصل کی ہیں کہ فلاں ستارے میں فلاں قسم کی دھاتیں ہیں اورفلاں میں فلاں قسم کی ۔جس سے معلوم ہوتاہے کہ صرف روشنی ہی نہیں بلکہ روشنی کے ساتھ مختلف دھاتوں کی تاثیرات بھی دنیا پر اُترتی رہتی ہیں اور ان سے اہل دنیا کے دماغ اورقویٰ پر مختلف اثرات نازل ہوتے رہتے ہیں ۔چاند کی شعاعوں کی تاثیرات توکئی رنگ میں دنیا پر ظاہرہوتی رہتی ہیں ۔عام طور پر ہمارے ملک میں مشہور ہے کہ چاند گرہن جب مکمل ہو ۔توحاملہ عورتوں پر اس کابرااثر پڑتا ہے۔چنانچہ ایسے وقت میں حاملہ عورتیں کمروں سے باہر نہیں نکلتیں ۔گوعام طور پر اسے وہم سمجھا جاتا ہے ۔مگر میں نے اس سوال پر خاص طورپر غور کیا ہے اورمعلوم کیا ہے کہ جب چاند گرہن مکمل ہو ۔تواس کے بعد بہت سی عورتوں کی زچگی سخت تکلیف دہ ہوتی ہے ۔اوران میں سے بکثرت موتیں ہوتی ہیں ۔میں نہیں کہہ سکتا کہ تکلیف اٹھانے والی عورتیں وہ ہوتی ہیں۔جو ایسے وقت میں چاند کودیکھتی ہیں ۔یااس کے بغیر بھی ان پر یہ تاثیر عمل کرتی ہے ۔مگر بہرحال میں نے کئی دفعہ اسکا تجربہ کیا ہے اوردوسروں کو بھی بتایا ہے ۔جنہوں نے اپنے تجربہ سے اس کی تصدیق کی ہے ۔یہ بھی نہیں کہاجاسکتا کہ یہ تاثیر ہمیشہ ہوتی ہے یااس کاظہور بعض اور ستاروں کی نسبت سے ہوتاہے ۔یعنی چاند دوسرے ستارو ںسے ایک خاص زاویہ پرہو۔تواس وقت اس کی یہ تاثیر ظاہر ہوتی ہے ۔یاآزادانہ ہوتی ہے ۔یہ منجم ہی بتاسکتے ہیں ۔میں نے تو بعض توہمات کی تحقیق کرتے ہوئے جوچاند گرہن کی حاملہ عورتوں پر تاثیر کے متعلق ہمارے ملک میں پائے جاتے ہیں ۔یہ امور مشاہد ہ کئے ہیں ۔ان کو معیّن اورعلمی صورت دینا ستاروں کے علماء کاکام ہے ۔
خلاصہ یہ کہ جمادات کی روشنیاں اورشعاعیں اورمقناطیسی تاثیرات بھی انسانی نشوونما پر خاص اثر ڈالتی ہیں جن میں سے بعض ظاہرہوتے ہیں بعض مخفی ۔اور بعض بلا واسطہ ہوتے ہیں اوربعض بالواسطہ ۔بالواسطہ سے میری مراد ان تاثیرات سے ہے جو نباتا ت یا حیوانات پروارد ہوتی ہیں ۔اورپھر ان حیوانات اور نباتات کو انسان استعمال کرتاہے ۔سورج اورچاند کی موٹی تاثیرات سے مراد و ہ تاثیرات ہیں جوصحت پر پڑتی ہیں ۔ دن کی روشنی کئی قسم کی بیماریوں کو دور کرتی ہے اورانسانی جسم میں صحت کاماد ہ بڑھاتی ہے ۔چنانچہ جولوگ دن رات بند کمروں میں رہتے ہیں ان کی صحت خراب ہوجاتی ہے ۔اسی طرح رات کی تاریکی اعصاب پر تسکین دہ اثر ڈا لتی ہے ۔اسی وجہ سے رات کی نیند بہت آرام دہ ہوتی ہے بہ نسبت دن کی نیند کے ۔خصوصاً دوپہر کی نیند کے ۔کہ اس سے نہ صرف یہ کہ آرام کم ملتا ہے ۔بلکہ بعض دفعہ اس سے نزلہ وغیرہ کی قسم کی بیماریاں بھی پیداہوتی ہیں ۔غرض دن کام کے لحاظ سے زیاد ہ بہتر ہے اوررات آرام کے لحاظ سے ۔پھر بعض قسم کی سبزیوں پر دن کی روشنی کی مبارک تاثیر پڑتی ہے اوربعض پر رات کی روشنی کی جوچاند اورستاروں سے آتی ہے ۔چنانچہ ککڑی رات کواس سرعت سے بڑھتی ہے کہ دیکھ کر حیر ت ہوتی ہے ۔بعض دفعہ کھیت کے پاس بیٹھو تویوں آواز پیداہوتی ہے گویا کہ ککڑی پتوں میں پھیل رہی ہے اسی طرح بعض پھول چاندنی راتوں میں کھلتے ہیں ۔بعض اندھیر ی راتوں میں ۔اوریہ سب امور اس امر کی شہادت ہیں کہ رات اوردن اوراجرام فلکی کی تاثیرات اہل دنیاکے نشوونما پر خاص اثر ڈال رہے ہیں ۔اوران کاوجود صرف آنکھو ں کے لئے روشنی مہیاکرنانہیں۔یااعصاب کے آرام کے لئے تاریکی دینا نہیں ۔بلکہ ان کے علاوہ بھی ان کی وسیع تاثیرات ہیں ۔جن لوگوں کو چاند کی روشنی میں سیر کرنے کاموقع ملا ہے ۔انہوں نے اس کا مشاہدہ کیا ہوگا کہ اس وقت خیالات میں ایک عجیب قسم کا ہیجان پیداہوجاتا ہے اورقوتِ فکریہ میں ایک تلاطم پیداہوجاتا ہے۔اسی طرح رات اوردن اورسور ج اورچانداورستاروں کاتعلق راستہ دکھانے سے بھی ہے ۔دن کوسورج کی روشنی اگر سب فضاکو روشن کرکے راستہ دکھانے میں ممدہوتی ہے اورجہات اربعہ یعنی مشرق مغرب شمال جنوب کوبتا کر اگر راہگیروں کی راہنمائی کرتی ہے ۔تورات کو چاند اپنی روشنی سے سورج کاساکام کرتا ہے اورستارے اپنے مقامات سے ہدایت کاموجب ہوتے ہیں۔چنانچہ سمندروں میں جہازوں کے چلنے میں ستاروں کے مقامات خاص طورپر مد د کرتے ہیں۔خلاصہ یہ کہ رات اوردن اورسورج چاند اورستارے انسانی دماغ کو نشوونمادینے میں اوراس کے کاموں میں سہولت پیداکرنے میں خاص اہمیت رکھتے ہیں ۔اوریہ جمادات میں سے ہیں جوانسان سے بہت دور کا تعلق رکھتے ہیں ۔اوران کی ذاتی نشوونما کی طاقت ایسی مخفی ہے کہ اس کااندازہ ظاہر ی نگاہ سے نہیں کیا جاسکتا۔لیکن باوجود اس کے وہ اپنی تاثیرات سے نباتات اورحیوانات کے نشوونما پر ان کے ذریعہ سے بھی اوربراہ راست بھی انسا ن کے نشوونما پر خاص اثر ڈالتے ہیں ۔پس حیوانی غذا اورنباتاتی غذا کے بعد اس مخفی غذاکی طرف اشارہ کیا جو انسان جمادات اورخصوصاً ان بڑے جمادی اجرام سے جوآسمان پر ہیں حاصل کررہا ہے ۔
اس جگہ ایک اورلطیفہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ حیوانوں اورنباتات کے بارہ میں توصرف یہ فرمایاتھا کہ ہم نے ان کو تمہارے لئے پیداکیا ہے ۔لیکن رات اوردن اورسورج چاند ستاروں کے ذکر میں سَخَّر َ کالفظ فرمایا ہے۔جس کے معنی ہیں ۔بغیر اجرت کے کام پر لگارکھا ہے ۔یہ فرق اس لئے کیا کہ حیوانوں اورنباتا ت سے انسان جو فائدہ اٹھاتاہے ۔اس کے متعلق وہ سمجھتا ہے کہ میں نے اپنے زور سے یہ فائدہ اٹھایاہے ۔گویہ غلط ہے ۔کیونکہ خداتعالیٰ ان کو پیدانہ کرتا تووہ فائدہ کہاں سے اٹھاتا۔مگر پھر بھی چونکہ بظاہر اس میں انسانی اختیار کا دخل ہے ۔ وہاں صرف پیدائش کی طر ف اشارہ کیا ہے ۔مگر اس آیت میں جو فوائد بیان ہوئے ہیں۔ان کے حصول میں انسانی تصرف کاکوئی دخل نہیں۔ اس لئے اس جگہ سَخَّرَ کالفظ استعمال کرکے بتایاکہ کم سے کم ان اشیا ء کی نسبت تو تم کوماننا پڑے گاکہ وہ جو انسانی خد مت کررہی ہیں ۔ان کا موجب حکم الٰہی ہے ۔کیونکہ ان پر تم کو کوئی تصرف حاصل نہیں ہے۔
اس آیت کے آخر میں یہ فرمایا کہ یہ امور عقل مندوں کے لئے نشان ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ قوت فکر یہ نزدیک کی اشیاء کاحال معلوم کرتی ہے اورقوت عقل دور کی چیزوں سے بھی تعلق رکھتی ہے ۔چونکہ پہلی آیات کی اشیاء خوراک سے تعلق رکھتی تھیں اورانسان ان کے اثرکو اپنے اند ر محسوس کرتاہے ۔اس لئے وہاں فکر کا لفظ رکھا ہے اوران چیز وں کی تاثیر بیرونی ہے اور ان سے فائدہ اٹھانا دانش سے تعلق رکھتا ہے ۔اس لئے لِقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ فرمایا ۔
اماذرالکم فی الارض مختلفاًالوانہ۔ان فی ذٰلک لایۃ لقوم یذکرون٭
اورجوکچھ اس نے تمہارے لئے زمین میں پیداکیا ہے جس کی مختلف قسمیں ہیں (وہ بھی تمہارے کام آرہا ہے )اس میں (بھی)ان لوگوں کے لئے جونصیحت حاصل کرتے ہیں یقیناایک نشان (پایاجاتا)ہے ۱۴؎
۱۴؎ حل لغات ۔ذَرَاَ:ذَرَأاللّٰہُ الخلقَ کے معنے ہیں ۔خلقَہُم۔اللہ نے مخلوق کو پیداکیا ۔ذَرَاَ الشیئَ۔کَثَّرَہٗ۔کسی چیز کو زیادہ کیا ۔ ذَرَأالاَرضَ:بَذَرَھَا،زمین میں بیج بویا(اقرب)
اَلْوَان:لَوْنٌ کی جمع ہے ۔اوراللَّوْنُ کے معنے ہیں ۔مَافصلَ بین الشیئِ وبین غَیرِہِ۔یعنی لَون ا س چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ سے ایک چیز دوسری چیز سے ممتاز نظرآتی ہے ۔اللَّوْنُ۔النَّوْعُ۔قسم ۔اللَّوْنُ۔صفۃً الجسد وھَیئتُہ من البیاض والسَّود والحُمْرَۃِ۔کسی جسم کاسیاہ ،سفید سرخ رنگ (اقرب)
تفسیر ۔ذرأ کے معنے پیداکرنے کے ہیں ۔پس اس جگہ ان سب اشیاء کا ذکر ہے جودنیا میں موجود ہیں ۔خواہ حیوانات کی قسم کی ہوں ،خواہ نباتات کی قسم کی خواہ جمادات کی قسم کی ۔
اس آیت سے ایک نئے مضمون کو شروع کیا اوررنگوں کے اختلاف کو پیش کیا کہ وہ بھی تاثیرات رکھتے ہیں اورانسان ان سے بھی فائدہ اٹھاتا ہے ۔قرآن کریم کیساعظیم الشان کلام ہے جوان حکیمانہ امورکو اس زمانہ میں بیان فرماتا ہے جبکہ دنیا ان سے کلی طور پر ناواقف تھی ۔رنگوں کی تاثیرات کی دریافت عملی طورپر موجودہ زمانہ میں ہوئی ہے ۔حتی کہ بنفشی شعاعوں اورماوراء بنفشی شعاعوں اورکئی قسم کی دوسری شعاعوں کی دریافت سے بیماریوں کے علاج میں غیر معمولی مد دملی ہے ۔اورطب میں بھی ایک نیا باب علاج باللَّون کا کھل گیا ہے ۔یعنی مختلف رنگوں کی بوتلوں میں پانی رکھ کر اورسورج کی شعاعوں کے مقابل پر رکھ کر خالی پانی کو دوا کیصورت میں بد ل دیاجاتا ہے ۔گویہ طریق اب تک علمی حد تک نہیں پہنچا ۔مگر اس کے بعض فوائد ناقابل انکارہیں ۔ان کے یہ امر تجربہ شدہ ہے کہ ایک ہی قسم کی اشیا ء رنگ کے اختلاف کیوجہ سے مختلف تاثیرات ظااہر کرتی ہیں ۔مثلاً توت ہے ۔اس میں سے سفید گلے میں خراش پیداکرتاہے اورسیاہ توت خنا ق جیسی مرض میں مفید ہوتاہے ۔صندل سفید اورسرخ تاثیرات کے لحاظ سے ایک دوسرے سے بعض امور میں قوی یاضعیف ہو تے ہیں ۔یہی حال اَورسینکڑوں اشیاء کا ہے کہ چیز ایک ہی ہوتی ہے ۔لیکن رنگ کے تغیر سے اس کے فوائد میں تغیر پیداہوجاتا ہے ۔بہت سی چیزوں کے فوائد معلوم ہوگئے ہیں اوربہت سی کے ابھی مخفی ہیں ۔مگراس حد تک اس علم کا انکشاف ہوچکا ہے کہ رنگوں کی تاثیرات کا انکار نہیں کیا جاسکتا ۔موجودہ طب میں تو مختلف رنگوں سے بعض شدید بیماریوں کاعلاج کیاجاتاہے ۔اگر زرد رنگ کی اکری فیلیوین بیرونی زخموں کے لئے مفید ہے تو مرکیوروکروم اندرونی زخموں کے لئے مفید ہے ۔اسی طرح اورکئی رنگ ہیں ۔میں نے ایک دفعہ اکری فلیوین کودیکھ کرخیا ل کیا کہ معلوم ہوتا ہے زرد رنگ کی تاثیر زخموں کے لئے اچھی ہوتی ہے ۔اوراسی وجہ سے پرانے زمانہ میں زخموں کے علاج کے لئے ہلدی کو بکثرت استعمال کیا جاتا تھا ۔ اس خیال سے میںنے ہلدی کارنگ نکال کر زخموں کے لئے ایک ڈاکٹرکودیا ۔انہوںنے تجربہ کرکے بتایا کہ گواکری فلیوین جیسی تاثیر تونہیں ۔مگراس کے ساتھ ملتی ہوئی تاثیر آپ کی دوامیں ضرور تھی ۔اس فرق کی وجہ میں نے یہ سمجھی کہ اس حد تک میںاس کا جوہر نہیں نکال سکاجس حد تک جرمنوں نے نکال لیاہے ۔ورنہ بات وہی ہے ۔غرض رنگوں کی تاثیرات ایک ثابت شدہ حقیقت ہیں ۔گواب تک یہ علم مکمل نہیں ہوا۔قرآ ن کریم اس کی طرف اشارہ فرماتا ہے اورتوجہ دلاتا ہے کہ اجرام تو الگ رہے ان کے رنگ تک تمہارے فائدہ میں لگے ہوئے ہیں ۔اورکیسی کیسی باریک راہوںسے اللہ تعالیٰ نے تمہاری جسمانی ترقی کے سامان پیداکئے ہیں۔مگر تم اب بھی نہیں سمجھتے کہ روحانی ترقی کے لئے بھی ویسے ہی وسیع بلکہ ان سے بھی زیادہ وسیع سامان پیداکرنے کیضرورت ہے ۔
علاوہ ازیں اس رنگو ں کے تغیر سے اس طرف بھی اشارہ کیا کہ ایک ہی چیزکے کئی رنگ ہوتے ہیں ۔اوراگرایک طرح اسے اپنی قسم کی دوسری چیزوں سے اتحاد ہوتا ہے تودوسری طرح ان سے وہ مختلف بھی ہوتی ہے سب انسان انسان ہیں مگر کوئی دوآدمی ظاہری شکل یاباطنی قوتوں میں یکساں نہیں ملتے ۔سب اونٹ اونٹ ہیں مگر پھر ہر اونٹ کی شکل اورعقل دوسرے اونٹ سے مختلف ہوتی ہے ۔گویا ایک طرف شدید اتحاد ہے تودوسری طرف شدید اختلاف یہی حال نباتات کا ہے ۔سب آموں کے درخت آموں کے ہی درخت ہیں ۔مگر ہردرخت دوسرے سے الگ پہچاناجاتا ہے ۔اورایسا ہی حا ل ان کے پھلوں کاہے غرض دنیا میں ہرجنس کے افراد دوسرے افراد سے مشابہت رکھتے ہیں مگر پھر ان سے مختلف بھی ہوتے ہی ۔اگر رنگوں کایہ فرق نہ ہوتا تو ایک دوسر ے سے پہچاننا ناممکن ہوجاتا ۔اب تو ہر ماں باپ اپنے بچے کو ہربیٹااپنے ماں باپ کو ہر خاوند بیوی کو بیوی خاوند کو بھائی بھائی کو پہچانتا ہے ۔اگرامتیازی نشان نہو ہوتے توپہچانناکس قدر مشکل ہوتا ۔مگراللہ تعالیٰ نے کس قد روسیع فرق ہر شے میں رکھا ہے ۔سفید رنگ ہے تواس کے اس قدرمدارج ہیں کہ انسان ان کے انام نہیں رکھ سکتا ۔سیاہ رنگ ہے توا کے اس قدرمدارج ہیں کہ ان کی گنتی نہیں کی جاسکتی ۔صرف آنکھ اس فرق کو پہچانتی ہے ۔اورا س فرق کی وجہ سے فوراً دوچیزوں میں امتیاز کرلیتی ہے ۔مگرزبان اس فرق کو اکثر نہیںبتاسکتی۔
اللہ تعالیٰ اسی امتیاز کے روحانی پہلو کی طرف اشارہ فرماتا ہے کہ دیکھو جس طرح اشیاء کے مادی رنگ مختلف ہیں اسی طرح ان کے باطنی رنگ بھی مختلف ہیں ۔پھر جس طرح انسان کے جسم کی ضروریات مختلف ہیں اس کے مقابل پر مختلف رنگ کی اشیا ء بھی اللہ تعالیٰ نے پیداکی ہیں ۔ نہ انسان کے جسم کی ضرور توںکو کلی طور پر کوئی سمجھ سکتاہے ۔نہ ان کے پوراکرنے کے سامان کوئی پیداکرسکتاہے ۔کیونکہ ہرانسان کاذوق الگ ہوتا ہے اوراس کے جسم کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں کسی کو میٹھا مفید ہے کسی کو کھٹا۔کسی کو کدوپسند ہے کسی کو بینگن ۔ایک کیلے پر جان دیتا ہے دوسرا اس کے چکھنے کی برداشت نہیں رکھتا۔غرض اانسانی طبائع ایسے مختلف انواح کی ہیں کہ ان کا شمار نہیں کیاجاسکتا ۔کیابلحاظ قوت ذائقہ کے اور کیا بلحاظ مختلف تاثیرات سے مناسبت رکھنے کے ان میں شدید اختلاف اپایا جاتا ہے ۔اورہر اک کی ضرورت اللہ تعالیٰ نے بیرونی اشیاء میں پوری کرچھوڑی ہے ۔انسان تو ان اختلافات کی اقسام گن تک نہیں سکتا ۔وہ ان کے مطالبات کو پوراکرنے کی طاقت کہا ں رکھ سکتا تھا ۔اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے مختلف رنگوں اورمختلف ذوقوں اورمختلف مزاجوں کے لوگوں کو پیداکیا ۔اورپھر ان کی ضرورتوں کوپوراکرنیی کے لئے ویسی ہی مختلف انواع چیزیں بھی پیداکردیں ۔ان معنوں کے روسے لَوْن کے معنے نہ صرف رنگ کے لئے جائیں گے بلکہ نوع کے بھی ۔اورجیساکہ حل لغات میں بتایا گیا ہے ۔لَون کے معنے نوع کے بھی ہوتے ہیں ۔
اس مضمون سے اللہ تعالیٰ نے اس طر ف اشارہ فرمایا ہے کہ دیکھو دنیا میں مختلف رنگوں اورمختلف انواع کی چیزیں اس نے پیداکی ہیں ۔تاکہ تمہاری مختلف ضرورتوں اورتمہارے تمہارے مختلف میلانوںکوپوراکرے ۔تم خود یہ کام نہیں کرسکتے ۔پھر تم کس طرح سمجھ سکتے ہوکہ تمہاری اخلاقی قوتوں کے فرق اوراختلاف کے باوجود کوئی انسانی تعلیم سب انسانوں کے لئے یکساںمفید ہوسکتی ہے ۔یہ ضرورت بھی اللہ تعالیٰ ہی پوری کرسکتاتھا ۔جو انسان کی طبیعت اور اس کے اختلاف کا پیداکرنے والا ہے ۔اوراسے جانتاہے ورنہ جو انسان قانو ن بناء یگااپنے ذوق اوراپنے میلان کے مطابق قانو ن بنالے گا۔اوراگر جماعت بنائے گی تواس جماعت کے میلانوں تک وہ تعلیم محدود رہے گی ۔صرف اللہ ہی کی دی ہوئی تعلیم ہوگی جس میں ہر طبیعت کے میلان اورہر فطرت کے تقاضے کا خیا ل رکھاگیاہوگا۔اورہرمخفی ضرورت کوپوراکیااگیاہوگا۔پس الہام اکا آنا انسان کی روحانی ترقی کے لئے ضروری ہے ۔ورنہ اول تو انسان اپنی عقل سے روحانی ضرورتوںکوپوراکرہی نہ سکے گا۔اوراگر ایک حد تک ضرورت پوراکرنے کاسامان کرے گابھی تووہ محدود ہوگا۔اوروہ نہ توکسی انسان کی سب ضرورتوںکو پوراکرسکے گااورنہ تما م انسانوں کی بعض ضرورتوںکو پوراکرسکے گا۔
اس آیت کے آخر میں فرمایاکہ اس میں ان لوگوں کے لئے نشان ہیں جو نصیحت حاصل کرتے ہیں یہ لفظ اس جگہ اسلئے استعمال فرمایا کہ مختلف الوان کی ضرورت پوراکرنے کاسوال خالص اخلاقی سوال ہواجاتاہے اورا س کابراہ راست نصیحت سے تعلق ہے ۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فکر عقل اورتدبر کو ہر آیت کے مضمون کی مناسبت سے نہیں بلکہ سارے مضمون کی مناسبت سے رکھا گیا ہے اوردرحقیقت تینوں لفظوں کاتعلق سارے ہی مضمون سے ہے صرف ان کو ان کے درجہ کے مطابق پھیلاکر سارے مضمون میں رکھ دیاگیاہے ۔پہلے فکر کو رککھا ہے ۔کیونکہ یہ پہلا ذریعہ اصلاح کا ہے ۔کیونکہ جب انسان نیک یا بد تغیر کی طرف جھکنے لگتا ہے۔توپہلے فکر پیداہوتاہے پھر جب فکر کامل ہوجائے توعقل پیداہوتی ہے ۔یعنی انسان بدی سے رکنے لگتاہے ۔اوراس کے عمل میں اصلا ح شروع ہوتی ہے ۔جب یہ عملی اصلاح ہوجاتی ہے توتیسرادرجہ تدکر کاشروع ہوت اہے یعنی نیکی راسخ ہوجاتی ہے اورہرقدم پر انسان کو اس کافرض یاد آتا رہتا ہے ۔اورعقل کے مقام پر جس طرح اسے اپنے نفس کو روکنا پڑتا تھا ۔اب اس کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ نفس خود ہی نیکی اصو ل کو یاد رکھتا ہے اورنیکی اس کی طبیعت ثانیہ ہوجاتی ہے ۔
وھوالذی سخر البحر لتاکلو ا منہ لحماً طریاً
اوروہ وہ(پاک)ذات ہے جس نے سمند ر کو(بھی تمہاری )بے اجر ت کی خدمت پرلگارکھا ہے تاکہ تم اس میں سے (مچھلی وغیرہ کا)تازہ
وتستخرجو ا منہ حلیۃ تلبسونھا ۔وتری
گوشت کھائو۔اوراس سے زیور(کاسامان )نکالو جسے تم (لوگ )پہنتے ہو ۔اور(اے مخاطب)تُو
الفلک مواخرفیہ ولتبتغو ا من فضلہ ولعلکم تشکرون
اس میں کشتیوںکو پانی پھاڑتے (اورزورسے چلتے)ہوئے دیکھتاہے (جواس لئے چلتی ہیں کہ تم سمندری سفر طے کرو)اورتاکہ تم اس کے بعض اورفضل (بھی )تلاش کرواورتاکہ تم (اس کا)شکر اداکرو۔ ۱۵؎
۱۵؎ حل لغات ۔اَلطَّرِیُّ: طَرِیَ الغُصْنُ واللحمُ والثَّوْبُ (یطریٰ وَطَرُ وَیَطْرُ وْ طَرَاوَۃً وطَرَاء ۃً وَطَرَائً)کانَ طرِیًّا۔ہرچیز جو نئی ہو اوربناوٹ کے لحاظ سے تروتازہ ہو ۔اُسے طَرِیٌّ کہتے ہیں۔جیسے نیا کپڑا۔گوشت جو تازہ ہو۔اسی طرح درخت کی شاخ جو تازہ ہو (اقرب) پس لحم طریٌّ کے معنے ہوں گے ۔تازہ گوشت
اَلْحِلجیَۃُ:مایُزیَّنُ بہ مِنْ مَصُوغ المدنیات اوِ الحجارۃِ الکریمۃِ۔معدنیات اورقیمتی پتھروں سے بنے ہوئے زیورات جوزینت کے لئے پہنے جاتے ہیں ۔اس کی جمع حُلیٌّ آتی ہے (اقرب)
الفُلْکُ: السَّفِیْنَۃُ۔کشتی ۔یُذَکَّرویُؤنَّثُ یہ لفظ مذکر اورمؤنث دونوں طر ح استعمال ہوتاہے (اقرب)
مَوَاخِرَ:مَاخرۃٌّ کی جمع ہے ۔اورمَاخِرَۃٌ ۔مَخَرَ سے اسم فاعل کاصیغہ ہے مَخَرَتِ السَّفِیْنَۃُ کے معنے ہیں ۔جَرَتْ تَشُقُّ المَائَ مع صَوتٍ ۔کشتی پانی کو چیرتی ہوئی چلی گئی اور اس کی آواز نکلتی تھی ۔وقیل اِستقبلَتْ الرِّیْحَ فی جَرْیَتِھَا۔اوربعض نے یہ معنے کئے ہیں کہ کشتی ہواکے رخ پر چلی ۔مَخرَ السابِحُ کے معنے ہیں ۔شَقَّ المائَ بِیَدَیْہِ ۔تَیرنے والا اپنے دونوں ہاتھو ں سے پانی کو چیرتاہواتَیرا۔اَلْفُلْکُ المواخرُ۔الّتی تشقُّ المائَ مَعْ صَوجتٍ۔وہ کشتیاں جو پانی کو ا س طرح پر چیرتی ہوتی چلتی ہیں کہ اُن سے آواز پیداہوتی ہے (اقرب)
تفسیر ۔پہلی آیات میں خشکی کی چیزوں کا ذکر کیا تھا یاان چیز وں کا جن سے انسان خشکی پر بھی فائدہ اٹھا سکتاہے ۔اب تری کا ذکر کیا اورسمند کے مسخّرہونے کا ذکر فرمایا ۔سمند رکے لفظ کو بھی تسخیر کے لفظ سے شروع کیا ۔کیونکہ سمند ر بھی انسان کے تصرف میں نہیں ہوتا ۔بلکہ انسان محض اس سے فائدہ اٹھاتاہے ۔مگررات دن سورج چاند ستاروںکی تسخیر کے ذکر میں مِسَخَّرَاتٌ بِاَمْرِہٖ فرمایاتھا ۔سمندر کے ذکر میں بامرہٖ نہیں فرمایا ۔اس لئے نہیں اس کی تسخیر اللہ تعالیٰ کے حکم سے نہیں ہوتی ۔بلکہ اس وجہ سے کہ اجام فلکی سے فائدہ اٹھانے کے لئے انسان کچھ بھی کام نہیں کرتا ۔پس ان کی تسخیر کامل طور پر بامرہہوتی ہے مگرسمندر سے فائدہ اٹھانے میں کشتی ۔جال وغیرہ انسان بناتاہے اس لئے وہاں امر کالفظ نہ رکھا ۔ورنہ یوں تو ہر کام بامرہہی ہوتاہے ۔
سمندر کی تخلیق بھی انسانی ضرورتوں کے پوراکرنے کا ایک بہت بڑاذریعہ ہے ۔ا س میں بہت سے خزانے محفوظ رہتے ہیں ۔جواس کے بغیر محفوظ نہ رہ سکتے تھے ۔مثلاً وہ پانی کاذخیر ہ جمع رکھتاہے ۔جہاںسے پھر سورج اس کو اُٹھا کرلاتا ہے ۔پھر اس کے ذریعہ سے سفروں میں سہولت ہوتی ہے ۔خشکی کے سفر سے وہ بہت زیادہ سستاہوتاہے ۔جوملک سمندر کے کنارہ پر ہوتے ہیں وہ بہت زیادہ تجارتی اورسیاسی ترقی کرسکتے ہیں ۔کیونکہ سمندر کسی کے قبضہ میں اس طرح نہیں آسکتا جس طرح خشکی قبضہ میں ہوتی ہے ۔اس طرح سمندر گویا حریت کے محفوظ رکھنے کاایک ذریعہ ہے ۔پس سمندر کی مثال دی کہ سمندر بھی تمہاری ضرورت کو پوراکرنے کے لئے بنایا ہے ۔اور اس میں بھی دیکھو کہ تمہاری غذا کاسامان رکھا ہے ۔مچھلی وغیرہ کاتازہ گوشت تم کو مل جاتاہے ۔اب کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ خداتعالیٰ تمہارے جسم کے لئے توخشکی تری میںسہولتیں بہم پہنچائے مگر دین کے لئے وہ کچھ بھی نہ کرے۔اورکیا پھر یہ اس سے بھی عجیب بات نہیں کہ تم دنیاوی سامانوں کو توشوق سے قبول کرولیکن روحانی سامانو ں کے وقت کہو کہ خداتعالیٰ کو اس کی کیا ضرورت ہے کہ وہ ہمارے لئے روحانی ترقی کا کوئی سامان پیداکرے ۔
اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ انسانی ضرورتوںکوپانی پوراکرتاہے اوریہ پانی زمین میں سمندر کی صورت میں موجود بھی ہے ۔لیکن باوجود اس کے اس پانی سے انسان پینے کافائدہ نہیں اٹھاسکتا ۔کھیتوں کے سیراب کرنے کافائد ہ نہیں اٹھا سکتا ۔مگر اللہ تعالیٰ اس پانی سے مچھلی جیسی اعلیٰ غذاپیداکرتا ہے اوراس پانی کو سورج کی ذریعہ سے اٹھا کر پینے کے قابل بنادیتا ہے ۔پس صداقتوں کادنیا میں موجود ہوناکافی نہیں۔وہ اسی وقت مفید ہوتی ہیں جب ان کو صاف کر کے اللہ تعالیٰ انسانی روح کے استعمال کے قابل بنادے ۔
وَتَسْتَخْرِجُوْامِنْہُ حِلْیَۃً۔یعنی موتی وغیرہ اسی ناقابل استعمال چیز سے ہی پیداہوتے ہیں جن سے تم زیور بناتے ہو ۔اسی طرح اس میں کشتیاں چلتی ہیں جن سے سفر کی سہولت بھی حاصل ہوتی ہے اورتجارت بھی ترقی کرتی ہے۔جس طرح جانوروں کے متعلق فرمایاتھا کہ تم کو بھی لے جاتے ہیں اورتمہارے اسباب اورسامان بھی ۔وہی کشتیوں کے متعلق فرمایا کہ تمہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتی ہیں اورتمہارے تجارتی سامان بھی لے جاتی ہیں۔تجارتی سامان جس طرح ارزاں طور پر سمند رمیں لے جایا جاسکتاہے خشکی میں نہیں۔اسی وجہ سے سمندری کنارے کے لوگوں کی تجارت زیادہ چمک جاتی ہے ۔
والقی فی الارض رواسی ان تمید
اوراس نے زمین میں (بہت سے)محکم پہاڑ (گاڑ)رکھے ہیں تاکہ وہ تمہیں چکر میں نہ ڈالے اور(اس نے تمہارے لئے )
بکم وانھرًاوسبلاً لعلکم تھتدون ٭
کئی دریا (چلائے ہیں )اورکئی (خشکی کے )راستے (بھی بنائے)ہیں تاکہ تم (آسانی سے اپنی منزل مقصود تک )راہ پاسکو ۱۶؎
۱۶؎ حل لغات ۔اَلْقَی:القاہُ الی الارضِ کے معنے ہیں ۔طَرْحَہ ۔ اس کو زمین کی طرف پھینکا ۔القی الیہ القول وبالقول۔ابلغَہُ اِیَّاہُ۔کوئی بات اُسے پہنچائی ۔القی المتاع علی الدَّبَۃِ۔وَضَعہٗ۔سامان کو جانورپر لادا۔القی فیہ الشیئَ۔وَضَعَہٗ۔ کسی چیز کو کسی جگہ رکھا ۔القی الیہ السَّمْعَ۔اَصغی۔اس کی بات سننے کے لئے پوری توجہ کی(اقرب)
رَوَاسِیَ کے لئے دیکھو سورۃ رعد ۴؎
اَنْ تَمِیْدَبِکُمْ:تَمِیْدُ مَادَ سے مضارع مؤنث غائب کاصیغہ ہے ۔اورمَادَالشَّیئُ کے معنے ہیں ۔تَحَرَّک و زَاغَ۔کسی چیز نے حرکت کی اورایک طرف پر مائل ہوگئی ۔یقال ماَدَت بہ الارضُ۔دارت اورمادت بہ الارض کامحاورہ بول کریہ معنی مراد لیتے ہیں کہ زمین نے اپنے چکر کھانے کے ساتھ ا سے بھی چکر دیا ۔السرابٍ۔اضطربَ سراب نے حرکت کی ۔(اقرب)پس اَنْ تَمِیْدَبِکُمْ کے معنے ہوں گے کہ اس ڈر سے کہ زمین متحرک ہوتے ہوئے تمہیں چکر میںنہ ڈالے ۔ا س ڈرسے کہ تم کو اضطراب میں نہ ڈالے کہ فلام کام نہ ہوجائے ۔اورعرب کہتے ہیں ۔اس ڈر سے کہ ایسا ہو جائے ۔گویا وہ ’نہ‘ کو محذوف کردیتے ہیں ۔
تفسیر ۔اس آیت میں القی کالفظ استعمال کرکے اس کے بعد رَوَاسِیَ اَنْھَارًا اورسُبُلًا تین چیزوں کو بیان فرمایا ہے ۔گویاسب کاعامل القی کالفظ ہے ۔القی کے عام معنے پھینکنے کے ہوتے ہیں ۔اگران معنوں کو مدنظر رکھاجائے ۔توآیت کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ زمین میں پہاڑ دریا اورراستے پھینکے۔اوراس پر اعتراض ہوتاہے کہ پہاڑ توزمین میں سے نکلے ہیں اوردریا ایک جگہ سے دوسری جگہ تک پانی لے جاتے ہیں اورراستے چلنے کی جگہ کانام ہے۔پھر ان کے پھینکے کے کیا معنے ہوئے ۔بعض نے اس کاجواب یہ دیاہے کہ القی کا لفظ صرف رواسی کے ساتھ لگتاہے ۔باقی دولفظوں سے پہلے جعل کالفظ محذوف ماناجائے گا۔اوراس کے یہ معنے ہوں گے کہ پہاڑ پھینکے اوردریا اورراستے بنائے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عربی زبان کا قاعد ہے کہ جب دواشیاء ایک ساتھ بیان ہوتی ہیں ۔تومشارکت کی وجہ سے ایک ہی فعل کو دونوں کاعامل بنادیاجاتا ہے ۔اوردوسرافعل محذوف سمجھا جاتا ہے ۔جیسے کہ ایک عرب شاعر کاشعر ہے
قالو اقْتَرَحْ نُجِدْ لَکَ طَبْخَۃٗ
قُلْتُ اطبُخُوااِلی جُبَّۃً وَّ قَمِیْصَا
یعنی کہنے والوں نے کہا کہ آپ ہم سے کچھ خواہش کریں ۔توہم آپ کے لئے کوئی کھانااچھی طرح تیار کریں گے ۔میں نے کہا کہ ہاں کھانابھی پکائواورجُبّہ اورقمیص بھی پکائو۔اس جگہ پکائو کالفظ ہی جُبّہ اورقمیص کے ساتھ لگادیاگیا ہے۔اورمراد یہ ہے کہ تم نے کچھ پکانے کی خواہش کی ہے ۔توپھر میری خواہش یہ ہے کہ میرے لئے جُبّہ اورقمیص پکادو۔گویاجولفظ پکانے کا میز بانوں نے کھانے کے متعلق استعمال کیاتھا ۔وہی اس نے جُبّہ اورقمیص کے متعلق بھی استعمال کردیا ۔
پس اسی قاعدہ کے ماتحت اگر اس آیت کی تشریح کی جائے اورسمجھ اجائے کہ القی صرف رواسی کے لئے ہے اورباقی دونوں اسموں کاعامل جَعَلَ ہے۔جومحذوف ہے اورآیت کے معنے یہ ہیں کہ پہاڑ زمین میں ڈالے اوردریااورراستے بنائے ۔تو یہ عربی کے قواعد کے مطابق بالکل درست ہوگا ۔لیکن یہ مشکل پھر بھی رہ جائے گی کہ کیا پہاڑ زمین پرپھینکے گئے ہیں ۔جہاں تک جیالوجی یعنی علم پیدائش ِ عالم کاتعلق ہے ۔یہ امر ثابات ہے کہ پہاڑورںکامادہ زمین سے نکلا ہے نہ کہ باہر سے لاکر ڈالا گیاہے۔پس جو مشکل جَعَلَ محذوف مان کر انھاراً اورسُبُلًا سے دور کی گئی تھی ۔پہاڑوں کے بارہ میں پھربھی قائم رہتی ہے ۔پس یہ جواب پیش آمد ہ مشکل کو حل نہیں کرت ا
اس وجہ سے میرایہ خیال ہے کہ انھاراورسُبُل سے پہلے کسی اورفعل کے محذوف نکالنے کی ضرورت نہیں ۔جوتوجیہ القی کی رواسی کے متعلق کی جاسکتی ہے ۔وہی انہاراورسبل کے متعلق بھی کی جاسکتی ہے اورمیرے نزدیک قرآن کریم میں اس کاجواب موجود ہے ۔اس آیت میں تین چیزوں کے بارہ میں القی کالفظ استعما ل ہواہے (۱)رواسی (۲)انھار(۳)سبل۔انہی تین چیزوں کے لئے دوسری جگہ جَعَلَ کالفظ بھی استعمال ہواہے ۔مثلاً سورۃ نمل میں ہے ۔جَعَلَ خِلَالَھَا اَنْھَارًا(نمل ع۵)یعنی زمین کے نشیبوں میں ہم نے دریابنائے ہیں ۔پہاڑوں کے متعلق آتاہے ۔وَجَعَلْنَافِیْھَارَوَاسِیَ(مرسلات ع۱)زمین میں ہم نے پہاڑ بنائے ہیں ۔ اورراستوں کے متعلق آتا ہے ۔وَجَعَنَافِیْھَافِجَاجًا(انبیاء ع ۳)ہم نے زمین میں راستے پیداکئے ہیں ۔پس وہ تینوں چیزیں جن کی نسبت القی کالفظ استعمال ہواہے ۔ان تینوں کے بارہ میں دوسری جگہ جعل کالفظ بھی استعمال ہواہے ۔پس معلوم ہواکہ القی کے یہ معنے تونہیں کہ باہر سے لاکر کوئی چیز پھینک دی ۔کیونکہ دوسری آیتوں سے صاف ظاہر ہے کہ یہ تینوں چیز یں زمین میں ہی بنی ہیں۔پس جب یہ امر دوسری آیت سے ثابت ہوگیا۔توماننا پڑے گاکہ القی کے اس آیت میں کوئی اورمعنے ہیں ۔اب دوسرے معنے یاتولغوی ہوسکتے ہیں یامجازی ۔جہاں تک میں نے دیکھا ہے دوسرے لغوی معنوں میں سے کوئی بھی یہاں چسپاں نہیں ہوتے ۔وضع کے معنے بھی نہیں ۔کیونکہ اسکے معنے ہیں ۔کوئی چیز ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ رکھ دی ۔پہنچانے کے معنے بھی نہیں لگ سکتے۔سنانے کے معنے بھی نہیں ۔لکھوانے کے معنے بھی نہیں اورحسن سلوک کے معنے بھی نہیں لگ سکتے ۔پس ایک ہی بات رہ جاتی ہے کہ اس لفظ کو مجازی معنوں میں مستعمل سمجھاجائے اورمیرے نزدیک یہی حقیقت ہے ۔ہاں یہ سوال ہوسکتا ہے کہ یہ طریق کسی مزید فائدہ کے لئے استعمال کیاجاسکتا ہے ۔وہ کیافائد ہ تھا جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے بعض جگہ جعل کالفظ چھوڑ کر القٰی کالفظ استعمال فرمایا۔سوا س کاجواب یہ ہے کہ یہ درست ہے کہ یہ طریق کلام کسی زائد فائدہ کے لئے استعمال کیاجاتا ہے ۔اور اس آیت میں بھی یہی وجہ ہے ۔اوروہ یہ کہ القٰی کے اصل معنے پھینک دینے کے ہوتے ہیں۔اوررکھنے اورپھینکنے میں یہ فرق ہوتا ہے کہ رکھی چیز محدود جگہ میں جاتی ہے اورپھینکی ہوئی چیز ادھر ادھر بکھر جاتی ہے ۔اگر کسی چیز کی نسبت ہم یہ بیا ن کرناچاہیں ۔کہ وہ کثرت سے پائی جاتی ہے ۔توہم بعض دفعہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ اس کاتووہاں چھڑکائو ہواہواہے ۔یاکہتے ہیں کہ وہ سب جگہ بکھر ی ہوئی ہے ۔یہی معنے القیٰ کے لفظ سے یہاں پیداکئے گئے ہیں ۔اگر خالی جَعَلَ کالفظ ہوتا ۔توا س سے صرف یہ نتیجہ نکلتاکہ زمین کے بعض حصوں میں پہاڑ ہیں یابعض حصوں میں دریا ہیں یا بعض حصوں میں راستے ہیں ۔لیکن یہ بتانے کے لئے کہ دنیا کے ہرحصہ میں اورملک میں پہاڑ،دریااورراستے اللہ تعالیٰ نے بنائے ہیں۔القٰی کے الفاظ ہی مناسب تھے ۔اوریہ حقیقت اس مجاز سے ہی ظاہر ہوسکتی تھی کہ یہ تینوں چیزیں دنیا کے ہرحصہ میں اللہ تعالیٰ نے پیداکررکھی ہیں۔اورسب دنیا کو اس کے فوائدسے حصہ دیا ہے ۔گویا دوسرے الفاظ میں دنیا میں اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں ،دریائوں اورراستوں کاایک چھینٹادیاہے جس سے وہ سارے طول وعرض میں پھیل گئے ہیں ۔ان معنوں کی روسے قرآنی علم کی وسعت بھی ظاہر ہوتی ہے ۔جس وقت قرآن کریم نازل ہواہے ۔دنیا کا ایک حصہ معلوم ہی نہ تھا ۔ جیسے امریکہ آسٹریلیا وغیرہ ۔ایک دوسراحصہ معلوم توتھا ۔مگراس کی پوری چھان بین نہ تھی ۔جیسے وسطی اورجنوبی افریقہ اوراَور بہت سے جزائر۔اس وقت قرآن کریم کایہ فرمانا کہ پہاڑ،دریا اورراستے کسی ایک ملک یاجگہ کی نعمت نہیں ۔بلکہ یہ نعمت ساری دنیا کو خداتعالیٰ نے دی ہے اورگویا آسمان سے دنیا کی سطح پر ان کو پھینک دیا ہے اوروہ دنیا میں بکھر گئے ہیں ۔ایک ایسی صداقت ہے جوعلم الٰہی کے ذریعہ سے ہی ظاہر ہوسکتی تھی ۔اب جبکہ دنیا قریباً سب کی سب دریافت ہوچکی ہے ۔یہ صداقت کیسی کھل چکی ہے کہ دنیا کے تمام براعظموں میں پہاڑ دریا اورراستے پائے جاتے ہیں ۔اور سب دنیا اس نعمت سے حصہ لے رہی ہے ۔پس القٰی کے لفظ کو ان تین اشیاء کے متعلق مجازًا استعمال کر کے قرآن کریم نے ایک نئے معنے پیداکردیئے ہیں ۔اورایک نئی صداقت ظاہر کردی ہے ۔اوردوسرے تمام مقامات پر جَعَلَ کے لفظ کے استعمال سے ان نادانوں کامنہ بھی بند کردیا ہے جو اس لفظ سے دھوکاکھاکر یہ کہہ سکتے تھے کہ قرآن کے روسے پہاڑ دریا اورراستے کہیں باہرسے لاکر زمین پر پھینک دئے گئے ہیں ۔
ایک اورسوال اس جگہ ہوسکتا ہے کہ پہاڑ اوردریاتوقانون قدرت بناتا ہے ۔ان کے ساتھ راستوں کاکیوں ذکر کیا ہے ۔وہ توانسانوں کے بنائے ہوئے ہیں ۔اس کا جواب یہ ہے کہ اس جگہ انسانی بنائی ہوئی سڑکوں کاذکر نہیں ۔وہ تودنیا کے ہرحصہ میں نہیں ہوتیں۔اس جگہ صرف ان راستوں کاذکر ہے جو طبعی ذرائع سے بن جاتے ہیں ۔مثلاً دریائوں کی وجہ سے یاپہاڑوں کی وجہ سے یاجنگلوں کی وجہ سے ۔اوریہی راستے ہیں جوعام ہیں اورجن سے سب دنیا فائدہ اٹھاتی ہے ۔خصوصاً پرانے زمانہ میں فائدہ اٹھاتی تھی ۔افغانستان اورہندوستا ن کی سرحد سینکڑوں میل تک ملی ہوئی ہے مگرہرحصہ اس کاراستہ نہیں ۔راستے صرف چند ہیں ۔جو پہاڑی درّوں کی مناسبت سے بن گئے ہیں ۔یہی حال چینی ہندوستانی سرحد کااور ہندوستانی برہمی سرحد کاہے ۔اورسب ممالک کا یہی حال ہے ۔اصل بات یہ ہے کہ شہروں کے درمیان سڑک کابناناتواپنے اختیار میں ہوتاہے مگر علاقوں اورملکوں کے درمیان سڑکوں کا بنا نا اپنے اختیار میں نہیں ہوتا۔بلکہ اس کاتعلق دریائوں سے پار ہونے کی سہولت ،پہاڑوں کے درّوں یاجنگلوں کے کناروں سے ہوتاہے ۔اورہمیشہ سے دنیا ان راستوں کواستعمال کرتی آئی ہے ۔گوان جگہوں پر کوئی سڑک نہیں بنی ہوئی تھی ۔صرف قدرتی سہولتوں کی وجہ سے لوگوں نے ان راستوں کو اختیار کرلیا تھا ۔اورہزاروں سالوں سے آج تک وہ راستے کام دے رہے ہیں وران کے ذریعہ سے پرانے زمانہ میں تجارت ہوتی تھی ۔ایک ملک سے دوسرے ملک پرچڑھائی ہوتی تھی ۔ہندوستان پر جس قدر حملے شمال پر ہوئے ہیں ۔دیکھ لو صرف چنددرّوں سے ہوئے ہیں۔ہندوستان میں آریہ قوم پھیلی ہے ۔توپہلے اسی طبعی راستہ پر چل کر جو پنجاب کے دریائوں کے ساتھ ساتھ چلتاتھا۔اورپھراس راستہ پر چل کر جو جمناگنگا کے کنار ے پرجاتاتھا ۔یاان راستوں پرچل کر جو ہمالیہ اوردوسرے پہاڑوںیاکجلی بن کے دامن پر قدرت کے ہاتھو ں سے تیار کیا گیاتھا ۔اس زمانہ میں راستہ کے لئے طبعی نشانوں کاموجود ہوناضروری تھا ۔جن کیوجہ سے لوگ مسافتوں اورجہات کا اندازہ لگاسکیں ۔اسی طرح غذاکامہیاہوناضروری تھا۔پس پہاڑوں کے دامنوں،جنگلوں کے ساتھ ساتھ اوردریائوں کے کناروں کے ساتھ ساتھ لوگ بالعموم سفر کرتے تھے اوریہ گویاطبعی راستے تھے جن سے دنیا کے تعلق قائم تھے ۔اوراس آیت میں انہی راستوں کاذکر ہے نہ کہ مقامی سڑکوں کاجومختلف شہروںکو آپس میں ملاتی ہیں ۔اس بیان سے اس امر کی حکمت بھی ظاہرہوجاتی ہے کہ کیوں ان تینوں چیزوں کو اکٹھا کرکے بیان کیاگیا ہے ۔
اسکے علاوہ راستوں سے مراد وہ راستے بھی ہوسکتے ہیں جن پر دریاچلتے ہیں ۔اوراگراللہ تعالیٰ زمین پر ایسے خلال یانشیب نہ پیداکرتا جن میں دریائوں کاپانی سکڑ کرچلتاہے توسب زمین پر پانی ہی پانی ہوتا اوردنیا رہنے کے قابل نہ ہوتی ۔
پہلی اشیاء کے ذکر کے بعد ان اشیاء کو الگ کیوں بیان کیاگیاہے ؟ اس میں یہ حکمت ہے کہ پہلے متفرق چیزوں کاذکر تھا ۔اب اس آیت میں ان چیزوں کاذکر ہے جو خزانہ کو جمع رکھتی ہیں ۔پہاڑ برف کے ڈھیر جمع کرسکتے ہیں ۔درخت اورجڑی بوٹیوں کے ذخیرے رکھتے ہیں ۔دیاپہاڑوں سے پانی لے کر سال بھر تک پانی ملک کو مہیاکرتے ہیں ۔اورطبعی راستے ان جگہوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے انسان کی مدد کرتے ہیں ۔اگرپہاڑصرف ایک بلند ٹیلاہوتے اوراس طرح تدریجی طریق پر بڑھنے والی بلندیا ں نہ ہوتے توانسان ان کی چوٹیوں تک کس طرح پہنچ سکتا تھا ۔اگردریا ایک پھیلاہواپانی ہوتے توان سے دنیا فائد ہ نہیں اٹھاسکتی تھی ۔اُلٹاان سے نقصا ن ہوتاکہ قابل کاشت زمینوں کو وہ پانی کے نیچے چھپائے رہتے اورچلنا پھرنا لوگوں کے لئے مشکل ہوجاتا ۔پس پہاڑو ں اوردریائوںسے فائدہ اسی صورت میں اٹھایاجاسکتاہے کہ وہ خاص قانون کے ماتحت پھیلیں یاان تک پہنچنے کے لئے ان کے ساتھ ساتھ راستے ہوں جن پر چل کر انسان ان کے فوائد سے متمتع ہوسکے ۔
اس آیت کا پہلی آیات سے تعلق ایک تونعماء الٰہی کے شمار کے لحاظ سے ہے اوریہ بتایاگیا ہے کہ جب تمہارے مادی فوائد کے لئے یہ کچھ سامان پیداکئے گئے ہیں ۔توتمہاری روحانی ضرورتوںکو اللہ تعالیٰ کس طرح نظرانداز کرسکتاتھا ۔دوسرے یہ بتایاگیا ہے کہ انسانی تدابیر صرف ایک وقت کی ضرور ت کوپوراکرسکتی ہیں ۔اللہ ہی ہے جو مستقل ذخائر کے جمع رکھنے کے سامان پیداکرتاہے ۔باولیاں کب تک پانی دے سکتی ہیں ۔اورکہاں تک ۔دریاہی ہیں جو ساراسال پانی دیتے ہیں اورملکوں کے ملک ان سے سیراب ہوتے ہیں ۔اسی طرح پہاڑ ہیں جو ملکوں کی ضروریات کو پوراکرتے ہیں ۔اورساراسال قسما قسم کی ضروری ادویہ اورپھل پھو ل اورنہ ختم ہونے والے ذخائرلکڑی کے ان سے ملتے ہیں ۔اورپھر یہ بڑے راستے ہی ہیں کہ جودنیا کے درمیان تعلق قائم کررہے ہیں ۔پس اسی طرح روحانی ضروریات کو پوراکرنے کے لئے ایسے کلام کی ضرورت ہے جو صرف ایک وقت کے لوگوں یا چند لوگوں کے فائدہ کے لئے نہ ہو ۔بلکہ مختلف فطرتوں اورمختلف زمانوں کی ضرورت کو پوراکرنے والاہو۔اورجس کے ذریعہ سے دنیا روحانی مسافت طے کرسکے ۔یعنی ایک نبی کے زمانہ سے اس کے بعد کے نبی کے زمانہ تک پہنچانے کی اس میں قابلیت ہو ۔یعنی اس میں ایسا ارتقاء ہو کہ فطرت انسانی اس پر چل کر اگلے روحانی ملک میں یعنی بعد میں آنے والے نبی کی تعلیم تک پہنچنے کی قابلیت پیداکرلے ۔انسان کو کیا معلوم ہے کہ سویادوسو سال بعد انسانی دما غ نے کیا ترقی کرنی ہے ۔کہ وہ اس کے مطابق ذہنوں کو روشنی پہنچانے کے سامان کرلے ۔یہ سفرتوالٰہی بنائے ہوئے راستہ پر ہی طے ہوسکتاہے ۔جوانسانی دماغ کو برابر ترقی دئے چلاجاتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ مختلف فلسفے ایک شاہراہ پر گامزن نہیںہوتے ۔بلکہ کبھی آگے قد م بڑھاتے ہیں اورکبھی پھر واپس صدیو ں کے فلسفہ کی طرف لوٹ جاتے ہیں ۔لیکن اس کے مقابل پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی تعلیمات نبیوں کی معرفت انسانوں کو ایک ہی شاہراہ پر آگے ہی آگے بڑھاتی چلی گئی ہیں اوران میں کسی جگہ بھی رجعت قہقری پیدانہیں ہوئی ۔
وعلٰمٰتٍ۔وبالنجم ھم یھتدون٭
اور(ان کے علاوہ اس نے)کئی (اور)علامات بھی (قائم کی ہیں )اورستاروں کے ذریعہ سے (بھی )وہ (لوگ)راہ پاتے ہیں ۔ ۱۷؎
۱۷؎ تفسیر ۔عَلٰمٰت کاعطف بھی القٰی پر ہی ہے اوراس میں بھی اس طرف اشارہ ہے کہ دنیا بھر میں سطح زمین یکساں اورمشابہ نہیں ۔ بلکہ نشب و فراز،پانی ،خشکی جنگل اوربیابان زمینوں کی مٹی کے فرق اس قدر ہیں کہ ان کے ذریعہ سے انسان راستہ معلوم کرلیتاہے ۔اگر سب دنیا ایک ہی شکل کی ہوتی ۔توانسان کولہوک بیل کی طرح ایک ہی جگہ چکر لگاتارہتا ۔یہ توزمین پر راستوں کے معلوم کرنے کاذریعہ ہے ۔ ایک آسمانی ذریعہ بھی ہے جورات کی تاریکی اورسمندر میں کام آتا ہے اوروہ ستارے ہیں ۔ان کو دیکھ کر انسان اپنے راستے کو معلوم کرتا ہے ۔ یہی حال روحانی سفر کاہے ۔اس میں بھی علامات ہیں ۔یعنی روحانی ترقی کے مدارج میں امتیاز ی نشان پیداکئے گئے ہیں جس کو دیکھ کر انسان سمجھ سکتاہے کہ آگے کو کونساراستہ جاتاہے اورپیچھے کو کونسا۔اسی طرح ستاروں کی طرح انبیا ء کاوجود ہے کہ ان کے مقام سے بھی انسان روحانی سیر میں راحت پاتا ہے ۔اورہرنبی کو جودوسرے نبی سے نسبت ہوتی ہے ۔اس کے ذریعہ سے وہ روحانی سیر میں مدد دیتا ہے ۔جس طرح ایک ستارہ اپنے مقام سے دوسرے ستارے کے مقام کی طر ف راہنمائی کرتاہے ۔اسی طرح ہرنبی اپنی تعلیم سے دوسرے نبی کی خبر دیتاہے اوراس طرح انسان اپنے ایما نمیں آگے بڑھتاچلاجاتاہے ۔موسیٰ نے اپنے بعد آنے والے نبی کی ا س نے اپنے بعد کے نبی کی اوراس نے اپنے بعد کے نبی کی خبر دی ۔اورگویا ہرستارہ دوسرے ستارے کی طرف راہنمائی کرتا گیااورسب ستاروں نے سورج کی یعنی محمدرسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی منزل کی طرف راہنمائی کی ۔جس سے انسان کو روحانی سفر کے طے کر نے اورمرکز روحانیت کے مقام تک ہدایت پانے کا موقعہ مل گیا ۔
افمن یخلق کمن لایخلق۔افلا تذ کرون٭
پھر (بتائو تو سہی کہ )کیا جو پیداکرتا ہے وہ اس جیسا ہوسکتاہے جو(کچھ بھی )پیدانہیں کرتا کیاتم پھر (بھی) نہیں سمجھتے ۱۸؎
۱۸؎ تفسیر ۔آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ کیا جس نے پیداکیاہے وہ اس کی طرح ہوسکتاہے جس نے پیدانہیں کیا ۔اس پر بعض لوگوں نے یہ اعتراض اٹھایاہے کہ کہنا تو یہ چاہیئے تھا کہ کیاجو پیدانہیں کرتا وہ اس کی طرح ہوسکتاہے جو پیداکرتاہے (کشاف)کیونکہ مقابلہ میں ادنیٰ کو اعلیٰ کے مقابل پر رکھتے ہیں نہ کہ اعلیٰ کو ادنیٰ کے مقابل پر ۔طاقت کے اظہار کے لئے تویہ کہہ سکتے ہیں کہ کیا بچہ پہلوان کی طرح ہوسکتا ہے ۔ مگریہ نہیں کہہ سکتے کہ کیا پہلوان بچہ کی طرح ہوسکتاہے ۔یہ اعتراض بالکل درست ہے ۔اگر اس آیت میں طاقت کا اظہار مقصود ہوتا توضرور یہی کہا جا تا کہ کیا جو نہیں پیداکرتا وہ پیداکر نیوالے کے برابرہوسکتا ہے ۔مگراس جگہ یہ مراد ہی نہیں ۔علامہ زمخشری اس سوال کو بیان کر کے اس کایہ جواب دیتے ہیںکہ مشرک خداتعالیٰ کی صفات غیراللہ کودے کر گویا اللہ تعالیٰ کوبھی ایک مخلوق قراردیتے تھے۔اس لئے یہ فرمایاکہ اس طرح خداتعالیٰ پر الزام لگتا ہے تمہارے جھوٹے معبودوں کا درجہ تونہیں بڑھتا۔خداتعالیٰ کا ہی درجہ گھٹاناپڑتاہے مگر کیا خداتعالیٰ ان ادنیٰ وجودوں کے برابر ہوسکتاہے ۔میرے نزدیک یہ جواب اس قدر معقو ل نہیں جیسا کہ اعتراض جو انہوں نے اوپر اٹھایا ہے ۔
میرے نزدیک اس سوال کاجوا ب اس ترتیب کو مدنظررکھ کردیاجاسکتاہے جو میں نے گذشتہ آیات میں بتائی ہے ۔اصل مضمون جیساکہ میں بتاچکاہوں یہ تھا کہ کیا خداتعالیٰ کو کسی الہا م بھیجنے کی ضرورت ہے؟ مشرک لوگ اپنے معبودوں کی نسبت یہ ظاہر کرتے تھے کہ ان کے معبود اس لئے الہام نازل نہیں کرتے کہ یہ ان کی شان کے خلاف ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ نہیں بلکہ وہ ایسا کر ہی نہیں سکتے ۔نہ انہوں نے کوئی دنیو ی انسان کو دی ہے نہ دینی نعمت دینے کی توفیق ہے ۔پھر تم کس طرح سمجھتے ہوکہ خداتعالیٰ بھی انہی کی طرح ہوجائے ۔حالانکہ اس میں توالہام بھیجنے کی طاقت ہے ۔پس جس طرح اس نے دنیوی نعمتیں دی ہیں وہ روحانی نعمتیں بھی دیتاہے ۔تم چاہتے ہوکہ وہ بھی تمہارے خیالی معبودوں کی طرح بے بس ہو کر بیٹھ جائے مگر وہ تو زندہ خدااورطاقتو رہے ۔اوراس نے ہزاروں سامان دنیوی ترقی کے پیداکئے ہیں ۔پس وہ تمہارے معبودوں کی طرح روحانی ترقی کے طریق بتانے میں کیوں کوتاہی کرے ۔تمہارے معبودوں کا ایسانہ کرنا ان کی علّو شان کی وجہ سے نہیں بلکہ معذوری کے سبب سے ہے اورخداتعالیٰ معذورنہیں ۔اس لئے وہ کلام بھیجتا رہا ہے اوربھیجتارہے گا ۔چنانچہ اگلی آیت بھی انہی معنوں کی تصدیق کرتی ہے ۔
وان تعدو نعمۃ اللہ لاتحصوھا ۔ان اللہ لغفوررحیم ٭
اوراگر تم اللہ( تعالیٰ )کے احسان شمار کرنے لگو ۔تو(کبھی )تم ان کا احاطہ نہ کرسکو گے ۔اللہ( تعالیٰ)یقینا بہت (ہی) بخشنے والا (اور)باربار رحم کرنے والاہے ۱۹؎
۱۹؎ تفسیر ۔یعنی اللہ تعالیٰ کی نعمتیں گننا چاہو تب بھی گن نہیں سکتے ۔پھر جس طرح اس نے یہ دنیوی نعمتیں نازل کی ہیں ۔کیوں روحانی نعمتیں نازل نہ کرے ۔اورمعبودان باطلہ کی طرح جوکوئی طاقت نہیںرکھتے گونگا ہوکر بیٹھ رہے ۔
دوسرے فرمایا کہ وہ غفو ر رحیم ہے اگر وہ ہدایت نہ بھیجے تو کمزورو ں کی معافی اورقابل لوگوں کی عزت کے بڑھانے کے سامان کس طرح پیداہوسکتے ہیں ۔اگر وہ ہدایت بھیجنے سے کوتاہی کرے ۔توساتھ ہی اس کی غفور اوررحیم کی صفات بھی معطل ہوجاتی ہیں ۔پس وہ ایسانہیں کرسکتا۔
واللہ یعلم ماتسرون وماتعلنون ٭
اورجوکچھ تم چھپاتے ہو اورجو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اللہ (تعالیٰ)اس (سب)کوجانتا ہے ۲۰؎
۲۰؎ تفسیر ۔اب ایک اوردلیل دیتا ہے کہ کیوں انسان یا اُن کے معبودان باطلہ ہدایت کاسامان بہم نہیں پہنچاسکتے اوراللہ تعالیٰ ہی ایسا کرسکتاہے ۔فرماتاہے کہ خداتعالیٰ ظاہر اورمخفی طاقتوں کو جانتا ہے ۔ان شبہات کو بھی جانتا ہے جن کو تم بیان کرتے ہو اوران کو بھی جن کو تم چھپاتے ہو ۔پس ہدایت کاکام بھی وہی کرسکتا ہے ۔
یاد رکھنا چاہیئے کہ انسانی ہدایت کے لئے دوامورکا ہوناضروری ہے ۔ایک تویہ کہ انسانی فطرت کی گہرائیوں سے کامل واقفیت ہو ۔کیونکہ جب تک ظاہری و باطنی قوتوں کا علم نہ ہو صحیح راہنمائی نہیں کی جاسکتی اورساری قوتو ں کے نشوونما کا سامان نہیں کیا جاسکتا ۔دوسری بات یہ ضروری ہے کہ دلوں کے خیالات کا علم ہو ۔کیونکہ ہزاروں لاکھو ں انسان اپنی قوم کے ڈر سے اپنے دلی شبہات بیان نہیں کرسکتے ۔پھر جب ان کی مرض کاعلم نہ ہو ۔توعلاج کرنے والا علاج کس طرح کرسکتا ہے ۔مثلاً اس زمانہ میں سینکڑوں تعلیم یافتہ ہیں جو درحقیقت الہام کے وجود سے منکرہیں ۔ااگر ان کے سامنے الہام جاری ہونے کا مسئلہ پیش کیاجائے ۔تووہ قوم کے ڈر سے یہ تونہیں کہتے کہ الہام کاوجود ہی کو ئی نہیں اورسب مدعیان الہام یاجھوٹے تھے یادھوکا خوردہ۔پس اس کی بجائے وہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ قرآن کے بعد الہام کی کیا ضرورت ہے ۔اسی طرح نئی تعلیم کے دلداروں میں سے ہزاروں لاکھو ںکو اللہ تعالیٰ پر اعتقاد نہیں ۔مگر جب ان سے خداتعالیٰ کے متعلق بات کی جائے تویہ کبھی نہ کہیں گے کہ خداتعالیٰ نہیں ہے بلکہ دوسری قسم کی باتیں کریں گے کہ خداتعالیٰ توہے ۔مگر اسے کیاضرورت ہے کہ دنیا کے معاملات میں دخل دے ۔پس دل میں نیکی پیداکرنی چاہیئے ۔خداتعالیٰ خوش ہوجائے گا۔غرض تصوف کے جھو ٹے مسائل کی آڑ لے کر وہ خداتعالیٰ کی اطاعت کے جوئے سے آزاد ہوناچاہیں گے ۔مگرقوم کے ڈر سے یہ ظاہرنہ ہونے دیں گے کہ درحقیقت وہ اللہ تعالیٰ کے وجود سے ہی منکر ہیں۔اب اس قسم کے دلی شبہات کو اگر مصلح نہیں جانتاتووہ ان امورکے متعلق دلائل دیتا رہے گا جواصل میں خرابی کاموجب نہیں ۔بلکہ دھوکا دینے کے لئے صرف منہ سے بیان کئے جاتے ہیں ۔لیکن جو دل کے عیب کاواقف ہے۔وہ منہ کی باتوں کو نظرانداز کرکے اس شبہ کے ازالہ پر زوردے گاجو دل میں چھپایاگیا ہے اوراصلاح میں کامیاب ہوجائے گا۔اوردل کی باتوں کاعلم صرف اللہ تعالیٰ کو ہی ہے جس طرح صرف وہی انسانی قوتوں کا مکمل علم رکھتا ہے ۔اس لئے ہدایت نامہ بھیجنا بھی اسکے شایان شان ہے اوراسی کا بھیجاہو اہدایت نامہ دنیا کی اصلاح کرنے میں کامیاب ہوسکتاہے ۔
اس دعویٰ کاعملی ثبوت قرآن کریم کاوجود ہے ۔اس میں تمام انسانی قوتوں کی راہنمائی کے سامان موجود ہیں اورانسان کی مخفی سے مخفی قوتوں کو ابھارنے کے لئے تعلیم موجود ہے ۔اسی طرح اس میں ہرانسانی شبہ کاجواب موجود ہے ۔حتٰی کہ جو شبہات سائنس کی ترقی کی وجہ سے آج کل کے زمانہ کے لوگوں کے دلوں میں پیداہوتے ہیںاورجن کو اکثر آدمی اپنی قوم کے ڈر سے زبان پر لانے سے ڈرتے ہیں ۔قرآ ن کریم نے انہیں بھی بیان کیاہے اوران کاجواب بھی دیاہے ۔
والذین یدعون من دون اللہ لایخلقون شیئاوھم یخلقون٭
اوراللہ (تعالیٰ)کے سوا جن (معبودان باطلہ ) کو وہ پکارتے ہیں وہ کچھ بھی پیدانہیں کرسکتے اور(اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ )وہ خود پیداکئے جاتے ہیں ۲۱؎
۲۱؎ تفسیر ۔اس جگہ یہ خیال مشرکوں کی طرف سے معاندانہ رنگ میں ظاہر کیا جاسکتا تھا کہ یہ تمہارادعویٰ غلط ہے ۔کہ ہمارے معبود ہدایت نہیں دے سکتے ۔وہ بھی دلوں کے بھید جانتے ہیں اوروہ بھی ہدایت دیناچاہیں تودے سکتے ہیں ۔جیسا کہ اکثر مشرک اپنے معبودوں کو علم غیب کاجاننے والا ظاہر کرتے ہیں حتٰی کہ بعض جاہل صوفی مسلمانوں میں سے بھی اس امر پر بحث کرتے رہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی نعوذ باللہ من ذالک علم غیب رکھتے تھے ۔میں جب چھوٹاتھا۔تُرکی ٹوپی کااستعما ل کیاکرتاتھا۔ایک دفعہ ایک ایسے ہی شخص سے گفتگوکررہاتھا اورٹوپی کاپھُند میرے ہاتھ میں تھا ۔ا س نے کہا ۔کہ رسول کریم صلعم کویہ بھی معلوم ہے کہ اس وقت آپ کے ہاتھ میں پھُندنا ہے ۔بہرحال دوسری اقوام میں یہ خیا ل بڑی شدت سے پایاجاتاہے ۔پس مشرک جواب میں یہ بات پیش کرسکتے تھے کہ انہیں بھی توعلم ہے مگر وہ اپنی مرضی سے الہام نہیں بھیجتے ۔کیونکہ انسان کوکسی بیرونی الہام کی ضرورت ہی نہیں ۔سواس کاجواب دیا کہ علم غیب خالق ہونے کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا ۔جوخالق ہے وہی اپنی مخلوق کے اندر کی طاقتوں اوراس کے فعلوں سے آگاہ ہوسکتاہے۔دوسراواقف نہیں ہوسکتااوراگر واقف ہوتو ویساہی خالق وہ بھی ہوجائے ۔مگرجن کو تم معبود مانتے ہووہ توخالق نہیں ۔بلکہ سب کے سب خود مخلوق ہیں ۔
اس آیت سے کس لطیف پیرایہ میں خداتعالیٰ کے سواسب باقی ہستیوں کے علم غیب جاننے کے دعویٰ کو رد کیا گیا ہے۔مگر تعجب ہے کہ مسلمانوں میں اس تعلیم کی موجودگی میں ایک طبقہ ایساموجود ہے جویہ خیال کرتاہے کہ حضر ت عیسیٰ علیہ السلام کو علم غیب بھی تھا اوروہ پرندے بھی پیداکیاکرتے تھے ۔حالانکہ اللہ تعالیٰ اس جگہ صاف فرماتا ہے کہ جس قدروجودوں کی اللہ تعالیٰ کے سواپوجاکی جاتی ہے ۔ان میں سے ایک بھی کسی چیز کے پیداکرنے پر قادر نہیں ۔اورحضر ت عیسیٰ ؑ ان وجودوں میں سے ہیں جن کی لاکھو ں کروڑوں انسان پوجاکرتے ہیں ۔
امواتٌ غیر احیآئٍ۔ومایشعرو ن ایا ن یبعثون٭
وہ (سب)مردے ہیں نہ زندہ۔اوروہ(یہ بھی )نہیں جانتے کہ کب (دوبارہ)اٹھائے جائیں گے ۲۲؎
۲۲؎ حل لغات ۔یَشْعُرُوْنَ: شَعَرَ سے مضارع جمع مذکر غائب کاصیغہ ہے ۔اورشَعَرَ بہ(شُعُوْرًا)کے معنے ہیں ۔عَلِمَ بِہٖ۔کسی چیز کو معلوم کیا شَعَرَلِکذا۔فَطَنَ لَہٗ۔اس کوسمجھا ۔عَقَلَہٗ۔کسی چیز کوجانا۔اَحَسَّ بِہٖ۔اسکومحسوس کیا(اقرب)پس
مَایَشْعُرُوْنَ کے معنے ہوں گے کہ انہیں معلوم نہیں ۔وہ محسوس نہیں کرتے ۔
تفسیر ۔خالق ہونے کے علاوہ ہدایت دینے والے وجود کے لئے زندہ ہونابھی ضروری ہے ۔تاکہ جب کو ئی خرابی ہو وہ اس کی اصلاح کرسکے ۔اس دلیل معبودان باطلہ کے ہدایت دینے کے قابل ہونے سے انکار کیااورفرمایا کہ جن کو تم پوجتے ہو سب فوت ہوچکے ہیں پھر وہ ہادی کس طرح ہوسکتے ہیں ۔اگر اس زمانہ میں خرابی پیداہو تووہ اسے کس طرح دورکریں گے ۔تعجب ہے کہ مسلمانوں میں اس ارشاد کے خلاف بھی عقیدہ پیداہورہا ہے ۔حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس قدر جھوٹے معبود قرآن مجید کے زمانہ میں تھے وہ سب فوت ہوچکے تھے پس چونکہ عیسائی حضرت عیسیٰ کو معبود مانتے تھے ۔ا سلئے الٰہی شہادت کے ماتحت وہ قرآن کریم کے نزول سے پہلے فوت ہوچکے تھے۔اوراگرانہیں زندہ تسلیم کیاجائے ۔توماننا پڑے گاکہ وہ نعوذ باللہ معبودانِ باطلہ میں سے نہ تھے ۔بلکہ فی الواقعہ خداتھے۔نعوذ باللہ من ذالک۔
ان دونوں آیات میں شرک کارد بھی نہایت زبردست دلائل سے کیا گیا ہے ااوراسکے لئے چاردلائل دیئے ہیں
(۱)لَایَخْلُقُوْنَ:وہ پیدانہیں کرتے ۔حالانکہ خداہونے کے لئے خالق ہوناضروری ہے ۔کیونکہ کامل وجود ہی معبود ہوسکتا ہے ،۔
(۲)وہ خود پیدا کئے گئے ہیں ۔یعنی ا ن میں احتیاج الی الغیر پائی جاتی ہے اورمحتاج الی الغیر ناقص ہوتاہے معبود نہیں ہوسکتا ۔
(۳)وہ مردہ ہیں ۔زندہ نہیں ۔یعنی اس زمانہ میں وہ بے نفع اوربے ضرر ہیں ۔اورخداوہی ہوسکتا ہے جو ہمیشہ نفع اورضرر کی طاقت رکھتاہو۔
(۴)انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ و ہ کب اٹھائے جائیںگے ۔گویاان کاانجا م بھی دوسرے کے ہاتھ میں ہے ۔اس آخری دلیل کے متعلق کہاجاسکتا ہے کہ اسکاکیاثبوت ہے کہ انہیں علم نہیں کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے سو اس کاجواب یہ ہے کہ سب سے زیادہ پوجاجانے والا وجود حضرت مسیح کاہے ۔وہ یوم البعث کے متعلق خود کہیں گے کہ :۔
’’لیکن اس دن یااس گھڑ ی کی بابت کوئی نہیں جانتا ۔نہ آسمان کے فرشتے نہ بیٹا۔مگر باپ۔خبردار!اوردعامانگتے رہو ۔کیونکہ تم نہیں جانتے کہ وہ وقت کب آئے گا‘‘۔(مرقس ب۱۳ آیت ۳۲،۳۳)
پس حضرت عیسی علیہ السلام کے اس اقرار پر باقی خدامانے جانے والے انسانوں کے متعلق بھی قیاس کیا جاسکتا ہے ۔
الھکم الہ واحد۔فالذین لایومنون بالاخرۃ قلوبھم منکرۃ وھم مستکبرون ٭
تمہارامعبود ایک ہی معبود ہے اورجولوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے ۔ان کے دل (حق سے )ناآشناہیں ۔اوروہ تکبر سے کام
لے رہے ہیں ۳ ۲؎
۲۳؎ حل لغات ۔قلوبھم منکرۃٌ۔منکرۃٌ انکر سے اسم فاعل مؤنث کاصیغہ ہے اوراس کے معنے جاہل اورناواقف کے ہیں ۔پس قلوبھم منکرۃٌ کے معنے یہ ہوئے کہ ان کے دل جہالت میں مبتلاہوگئے ۔مزید تشریح ے لئے دیکھو حجر ۵۴؎
تفسیر ۔یہ جو فرمایاکہ تمہاراخداایک ہی خداہے ۔یہ خالی دعویٰ نہیں ۔قرآن کریم جب منکروں سے خطاب کر تا ہے توصرف دعویٰ پیش نہیں کرتا ۔کیونکہ ان پر خالی دعویٰ کااثر نہیں ہوسکتا۔بلکہ وہ ایسے موقعہ پر دومیں سے ایک طریق اختیار کرتا ہے ۔یاتودعویٰ بیان کرنے کے بعد ہی اس کے دلائل دیتاہے یادلائل بیان کرکے بعد میں اسکانتیجہ پیش کرتاہے اوریہی دوطبعی طریق ہیں ۔جن سے انسانی دماغ تسلی پاتاہے اوردونوں اپنے اپنے رنگ میں نہایت موثر ہیں ۔بعض دفعہ دعویٰ بیان کرکے بعد میں دلاء ل دینا مفید ہوتا ہے اور بعض دفعہ واقعات بیا ن کرکے بعد میں ان کا طبعی نتیجہ بیان کر نا مفید ہوتاہے ۔اس جگہ دوسراطریق اختیار کیا ہے اورپہلی آیت کاعقلی نتیجہ پیش کیا ہے ۔
پہلی آیت میں دومضمون بیان ہوئے ہیں ۔ایک تویہ کہ سب کائنات ایک ہی رشتہ میں پروئی ہوئی ہے اورایک چیز کادوسری پرانحصار ہے ۔انسان کی پیدائش اصل ہے ۔اس کی غذااول حیوانی ہے ۔حیوان درختوں و غیر ہ سے غذاحاصل کرتے ہیں۔آگے وہ درخت اوربوٹیاں آسمان پانی سے پلتے ہیں اوروہ پانی انسان کے پینے کے کام بھی آتا ہے ۔پھر اُسی پانی سے نباتا ت اُگتی ہیں جوانسان کی غذائیں بنتی ہیں ۔یہ سب اشیاء رات دن سورج چاند اورستاروں کی تاثیر ات سے نشوونماپاتی ہیں ۔دوسری طرف ان کے قیام کا ذریعہ سمندر ہے جس میں پانی کاذخیرہ رہتا ہے۔اور اس سے پانی چھن کر پھر انسانوں کو ملتاہے ۔اوراس سمندر کو اپنے حال پر رکھنے کے لئے پہاڑ ہیں جوپانی جمع رکھتے ہیں ۔وہاں سے دریائوں کے ذریعہ سے پانی بہتاہے جوخاص راستوںپر چل کر سمندرمیں آکر گرجاتا ہے اورسطح زمین پر پھیل نہیں جاتا۔کہ زمین انسانوں کی رہائش کے قابل نہ رہے ۔ان سب امورسے ایک واضح نتیجہ نکلتا ہے اوروہ یہ کہ دنیا کی ہرچیز ایک دوسرے سے وابستہ ہے ۔اوردنیامختلف چیزوں کامجموعہ نہیں ۔بلکہ اس کااختلاف ایسا ہی ہے جیسے ایک زنجیر کی کڑیا ں۔اگر ایک کڑی نکال دی جائے تو زنجیر ،زنجیر نہیں رہتی۔اسی طرح کائنا ت میں سے ایک چیز کو نکال دو ۔ساری دنیا تباہ ہوجائے گی ۔سمندر خشک کردو پانی ختم ہوجائے گا ۔دریا خشک کردو سمندر خشک ہوجائے گا۔اس نشیب کو جو دریائوں کے لئے راستہ بناتا ہے دورکردو۔سب دنیا پر پانی پھیل جائے اگا۔اورزمین رہائش کے قابل نہ رہے گی ۔پہاڑ مٹادو زمین پر زلزلے آئیں گے اورانسان ہلاک ہوجائے گا۔دریائوں کے لئے پانی کاذخیرہ باقی نہ رہے گااوروہ سارا پانی یکدم سمندر میں جاگرائیں گے ۔اگر ایک طرف دنیا سیلاب کی نظرہوگی تودوسری طرف سال بھر تک پانی کے مہیا رہنے کی صورت مفقود ہوجائے گی ۔چاند ستاروںکو مٹادو توجو ان کی وجہ سے پیدائش عالم پر اثر ہے و ہ جاتارہے گااورزمین اپنی حالت پر نہ رہے گی ۔سورج کو الگ کردو یہ بادلوں کاسلسلہ جاتارہے گا اور لوگ پانی کو ترس جائیں گے اورسبزیوں کا پکنا بند ہوجائے گا۔اورانسان کی صحت خراب ہوجائے گی ۔اوراس کی حیوانی غذاکے پیداہونے کا بھی امکان نہ رہے گا۔غرض یہ سب کائنات مل کرانسان کی خدمت کررہی ہے ۔اوراسکا ہر حصہ دوسرے حصے کے قیام کاذریع ہے ۔جب یہ حال ہے توپھردوخداکاعقیدہ کس طرح درست ہوسکتاہے ۔اگر دنیا کو کئی خدائوں نے پیداکیا ہے ۔تووہ کون ساحصہ ہے جس کے بارہ میں کہاجاسکتاہے کہ وہ دوسرے سے آزاد ہے کہ سمجھا جاسکے کہ اُسے کسی اورنے پیداکیا ہوگا۔اوراگر ساری کائنات ایک زنجیر کی کڑیوں پر مشتمل ہے توا س کا بنانے والا ایک ہی خداتسلیم کرنا پڑے گا۔سوائے اس کہ یہ کہاجائے کہ خداتعالیٰ میں سب کائنات بنانے کی قدرت نہ تھی ۔اس لئے کئی خدائوں نے مل کر کا م تقسیم کرلیا اورپہلے سے تجو یز کردہ نقشہ کے مطابق ہراک نے اپنا اپنا حصہ پور اکیا ۔لیکن یہ عقید ہ مشرکوں کابھی نہیں اورہے بھی خلاف عقل۔کیونکہ ناقص وجود خدانہیں ہوسکتے ۔پس اس دلیل کی موجود گی میںایک ہی نتیجہ نکلتاہے کہ اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌوَّاحِدٌ تمہارا خد اوہی ہے جو ایک ہے ۔
دوسرامضمون پہلی آیت میں یہ بتایاگیاتھا کہ وہ سب وجود جن کو خداکہاجاتا ہے فوت ہوچکے ہیں ۔پس جب وہ فوت ہوچکے ہیں توپھر بھی ایک ہی خداباقی رہ جاتاہے جوموت سے بالا ہے ۔پس اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌوَّاحِدٌ میں پہلے مضامین کانتیجہ بیان کیاگیا ہے اورکوئی بے دلیل دعویٰ بیان نہیں کیاگیا ۔
اس کے بعد فرماتاہے ۔فَالَّذِیْنَ لَایُؤمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ قُلُوْبُھُمْ مُنْکِرَۃٌ وَّھُمْ مُّسْتَکْبِرُوْنَ اس جگہ فا ء واو کے معنوں میں ہے اورفاء واو کے معنوں می عربی زبان میں مستعمل ہوتی ہے ۔(اقرب) اورترجمہ یہ ہے کہ ’اورجولوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل منکر ہیں اوروہ تکبر سے کام لیتے ہیں‘‘اس فقرہ میں اس سوال کا جواب دیا ہے کہ اگرخداتعالیٰ کا ایک ہونا ایسا بدیہی امر ہے تولوگ اس کے ایک ہونے کا انکار کیوںکرتے ہیں ۔اوروہ جواب یہ ہے کہ یہ انکار کسی دلیل پر مبنی نہیں ۔بلکہ باوجود ان دلائل کے شرک میں مبتلاہونا اس وجہ سے ہے کہ یہ لوگ بعث بعد الموت کے منکر ہیں ۔اوراس انکا ر کی وجہ سے ان کے اندر سنجیدگی باقی نہیں رہی ۔کیونکہ جب یہ اپنے افعال کو بغیر نتیجہ سمجھتے ہیں ۔توانہیں ان کے اچھا براہونے کے متعلق خاص فکر پیدانہیں ہوتی ۔اورضداورتعصب میں کوئی حرج نہیں دیکھتے ۔کیونکہ ان کے خیال میں گرفت توکوئی ہونی نہیں ۔س لئے آہستہ آہستہ ان کے دل جاہل اورغبی ہوگئے ہیں ۔اوروہ مادہ سمجھ اورہدایت کا ان میں باقی نہیں رہا ۔جو اس وقت انسان میں پیداہوتا ہے جبکہ وہ یہ محسوس کر ت اہے کہ میرے اعمال کا کوئی اہم نتیجہ نکلنے والا ہے ۔غرض آخرت کی انکار کی وجہ سے لااوبالی پن اورسنجیدگی کافقدا ن ان میں پیداہوگیا ہے اوردل علم سے محروم رہ گئے ہیں ۔اور اس وجہ سے بدیہی اوریقینی باتوں انکار بھی دلیر ی سے کردیتے ہیں ۔اورغور کرنے کی طرف توجہ نہیں کرتے ۔غرض اس جگہ منکرۃٌ کے معنے انکار کرنے والے کے نہیں بلکہ جاہل اورناواقف کے ہیں ۔اوریہ بتایاہے کہ بعث بعد الموت پر ایمان نہ ہونے کے سبب سے چونکہ سنجید گی سے غور کرنے کا احساس نہیں ۔اس لئے اس عادت کیوجہ سے دلوں سے سمجھ کامادہ جاتارہا ہے اوران کو حس ہی نہیں ہوتی کہ ہماراایک عقیدہ دوسرے عقید ہ کے خلاف ہے ۔
دوسرا نتیجہ بعث بعد الموت کے انکا ر کا یہ بتایاکہ ان میں تکبر پیداہوگیا ہے کیونکہ جو شخص جزاسزاکا مومن نہ ہو ۔و ہ نڈر ہوجاتاہے اورکو نڈر ہوجائے وہ سچائی کااقرار کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا ۔
غرض قلوبھم منکر ۃٌ اورھم مستکبرون کے الفاظ سے درحقیقت دوقسم کے مشرکوں کا ذکر فرمایاہے ۔ایک وہ ہیں جن سے سنجیدگی سے غور کرنے کامادہ جاتا رہا ہے اورجہالت میں مبتلاہوگئے ہیں ۔پس بوجہ دل کے بیمار ہوجانے کے و ہ سچائی کے سمجھنے سے قاصر رہ گئے ہیں ۔اوردوسرے وہ لوگ جو دلائل سن کر ایک خداکے عقیدہ کو دل میں توصحیح سمجھتے ہیں لیکن تکبر اورضد کی وجہ سے اس کا اقرار نہیں کرتے ۔کیونکہ جزاسزاکے انکار کی وجہ سے و ہ بے خوف ہیں ۔اورسچائی کے انکار میں کوئی نقصان نہیں دیکھتے ۔
لاجرم ان اللہ یعلم مایسرون وما یعلنون ۔انہ لایحب المستکبرین ٭
یہ یقینی بات ہے کہ جوکچھ وہ پوشیدہ (طورپر)کرتے ہیں (اسے بھی )اورجوکچھ وہ ظاہر (طورپر )کرتے ہیں (اسے بھی )اللہ (تعالیٰ)جانتاہے ۔وہ تکبر کرنے والوں کو ہرگزپسند نہیں کرتا ۲۴؎
۲۴؎ حل لغات ۔لَاجَرَمَ کی تشریح کے لئے دیکھو ہود ۲۲؎
تفسیر ۔فرمایا جس طرح اوپر بیان کئے گئے دلائل سے ایک خداکا ثبوت ملتا ہے اس کے عالم الغیب ہونے کاثبوت بھی ملت اہے ۔پس اللہ تعالیٰ جو ان کے ظاہرو باطن کو جانتاہے۔وہ ان کو ان کے اعمال کی ضرور سزادے گا۔ہاں وہ یہ فرق ضرورکرے گاکہ جو لوگ انکار بعث کی وجہ سے جہالت میں مبتلاہوگئے ۔ان کی سز اان لوگوںسے کم ہوگی جو توحید کو تو سمجھتے ہیں ۔مگر تکبر کیوجہ سے انکار کرتے ہیں ۔اِنَّہٗ لَایُحِبُّ الْمُسْتَکْبِرِیْنَ کے الفاظ سے اسی طرف اشار ہ کیا گیا ہے کہ جولوگ جان بوجھ کر انکارکرتے ہیں و ہ زیاد ہ سزاکے مستحق ہوں گے ۔
واذاقیل لھم ماذاانزل ربکم۔قالوا اساطیرالاولین٭
اورجب ان سے کہاجاتاہے (کہ)وہ (کلام )جوتمہارے رب نے اتار اہے کیا(ہی شاندار)ہے ۔تووہ کہتے ہیں (کہ) یہ (خداتعالیٰ کاکلام نہیں بلکہ)پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں ۲۵؎
۲۵؎ حل لغات ۔اَسَاطِیْر:سَطَرَ سے بناہے ۔اورسَطَرَ الکاتبُ کے معنے ہیں کَتَبَ۔اس نے لکھا ۔اورسَطَرَالرَّجُلَ کے معنے ہیں صَرَعَہٗ۔کسی کو کشلتی میں گرالیا ۔سَطَرہٗ بالسّیفِ۔قَطَعَہٗ بِہٖ۔اس کو تلوار سے کاٹ ڈالا۔اَلْاِسْطَارُ والاُسْطَارُ وَالاُسْطُوْرُ وَالاُسْطِیْرُ۔مَایُسْطَرُ ای یُکتَبُ وتُسْتَعْمَلُ فی الحدیثِ لا نظاَمَ لہٗ۔یعنی اِسْطَاراوراُسْطَار اُسْطُوراور اَسْطِیْر کے معنے لکھی ہوئی چیز کے ہیں اور ایسی باتوں کو بھی کہتے ہیں جن میں کوئی نظام نہ ہو ۔ والحکایات اورقصے کہانیوں کو بھی کہتے ہیں ۔اس کی جمع اَسَاطِیْر آتی ہے (اقرب) پس اَسَاطِیْرُالْاَوَّلِیْنَ کے معنے ہوں گے پہلے لوگوں کی تحریری حکایتیں یاکہانیا ں یابے جوڑ باتیں۔
تفسیر ۔اس آیت سے پھر اصل مضمون کی طرف رجوع فرمایا اوربتایا کہ یہ منکرین ِتوحید اوربعث بعد الموت جب ان دلائل کو سنتے ہیں ۔تو بجائے غورکرنے کے کہہ دیتے ہیں کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ۔یہ توپہلے لوگوں کی باتوں کونقل کردیاگیا ہے ۔اُسطور جس کی جمع اساطیر ہے ۔اس کے معنے کہانی کے بھی ہوتے ہیں اورکتاب کے بھی ۔اورگودونوں معنے اس آیت میں چسپاں ہوسکتے ہیں ۔مگر سیاق کو مدنظر رکھتے ہوئے کتاب کے معنے زیادہ چسپا ں ہوتے ہیں کیونکہ اس سورۃ میں نبیوں کے واقعات بیان نہیں ہوئے بلکہ بعض دلائل بیان ہوئے ہیں ۔پس سیاق کے لحاظ سے یہاں یہی معنے زیادہ چسپاں ہوتے ہیں ۔کہ وہ لوگ جودلائل کو سنتے ہیں توڈرتے ہیں کہ لوگوں پر اثر نہ ہوجائے اوراثر کو مٹانے کے لئے تخفیف کے لئے کہتے ہیں کہ اجی یہ کوئی نئی بات نہیں پہلے کئی لوگ یہ باتیں لکھ چکے ہیں ہم ا ن باتوں سے خوب واقف ہیں ۔گویا اس طرح وہ اپنے اتباع پر یہ اثر ڈالنا چاہتے ہیں کہ یہ خدائی کلام نہیں صرف پہلے لوگوں کی باتوں کو نقل کرکے یہ شخص بیان کررہاہے اورہم ان باتوںکو پہلے سے ہی جانتے ہیں اوران کی غلطی سے واقف ہیں ۔
یہ حربہ حق کے خلاف ہمیشہ سے استعمال ہوتاچلا آتاہے ۔جب ائمۃ الکفر دیکھیں کہ دلائل زبردست ہیں اوران کا جواب دینا مشکل ہے ۔ توہمیشہ یہ کہہ کر بات ٹال دیتے ہیں کہ اجی بس کرو یہ بھی کوئی دلائل ہیں ۔ہمیشہ سے لوگ یہ بات کہتے چلے آئے ہیں ۔تم نے ان سے نقل کرکے آگے لوگوں کو سنادی ہیں اوران کے جاہل اتبا ع دلیل کی خوبی سے غافل ہوجاتے ہیں اوراسی پر خو ش ہوجاتے ہیں کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ۔اس لئے خدائی کلام نہیں ہوسکتا۔گویاکہ خدائی کلام وہ ہوتاہے جس میں نئی نئی باتیں بیان کی جائیں۔حالانکہ خدائی کلام کی غر ض توگمشدہ صداقتوں کو قائم کرتاہوتا ہے ۔گواس میں زمانہ کی ضرورت کے مطابق نئے علوم بھی ہوتے ہیں ۔مگر اصولی باتیں سب نبیوں کی ایک ہی ہوتی ہیں ۔اِن اصولی باتوںکو چھوڑ کر جو نئی بات کہے گاو ہ توجھوٹ ہی بولے گا۔
لیحملو ااوزارھم کاملۃً یوم القیٰمۃ ۔ومن اوزارالذین یضلونھم بغیر علم ۔الاساء مایزرون ٭
جس (قول) کے نتیجہ میں وہ قیامت کے دن اپنے بوجھ (بھی )پورے (پورے)اٹھائیں گے اوران کے بوجھ بھی جن جاہلوںکو وہ گمراہ کررہے ہیں ۔سنو!جو بوجھ وہ اٹھارہے ہیں وہ بہت (ہی )بُراہے ۲۶؎
۲۶؎ حل لغات ۔اَوْزَار۔وِزْرٌکی جمع ہے اوروِزْرٌ وَزْرَ کامصدر ہے ۔وَزَرَہٗ کے معنے ہیں ۔حَمَلہٗ۔اس نے اس کو اٹھایا۔وفی اللِّسَانِ حَمَلَ مَایُثْقِلُ ظھرَہٗ من الاشیائِ المُثْقِلَۃِ۔اورلسان میں لکھا ہے کہ وِزْرٌ کالفظ ایسے بوجھ کے اٹھانے کے لئے بولتے ہیں جس کااٹھانا مشکل ہو ۔نیزالوِزْرُ کے معنے ہیں اَلْاِثْمُ۔گناہ۔الثِقْلُ ۔بوجھ۔السِّلَاحُ لثِقْلِہِ علی حاملہِ۔ہتھیار کیونکر وہ بھی اٹھانے والے پر بوجھل ہوتے ہیں ۔الحِمْلُ الثَّقِیْلُ۔بھاری بوجھ ۔اس کی جمع اَوْزَارآتی ہے (اقرب)
تفسیر ۔فرمایا اس قسم کی باتوں سے یہ عوام کو دھوکاتودے لیتے ہیں ۔لیکن اپنی عاقبت کواوربھی خراب کرلیتے ہیں ۔آخر جزاء کے دن ان کے اپنے بداعمال کے علاو ہ اس جر م کی سزابھی ان کو ملے گی کہ فریب اوردھوکے سے جاہل عوام کوگمراہ کرتے رہے ۔
لِیَحْمِلُوْا میں لام ۔لام عاقبت ہے جس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ پہلی بات کے نتیجہ میں یہ بات پیداہوئی ہے ۔اورمعنے یہ ہیں کہ اس دھوکا دہی کانتیجہ یہ نکلے گاکہ یہ اپنے گناہوں کی بھی سزاپائیں گے اوران کے اعمال کی بھی جن کو انہوں نے گمراہ کیا ہوگا۔
بغیر علم ۔یُضِلُّونَہم کی ضمیر مفعول کاحال ہے اوریہ مراد نہیں کہ گمراہ کرنے والے بغیر علم کے گمراہ کرتے ہیں ۔کیونکہ ان آیات میں توذکر ہی یہ ہے کہ یہ لوگ شرارت سے گمراہ کر رہے ہیں ۔بلکہ ………معنی یہ ہیں کہ یہ لوگ اپنے اتباع کو جوکوئی علم نہیں رکھتے باتیں بناکر گمراہ کردیتے ہیں ۔
کَامِلَۃً۔اس لفظ کے دوطرح معنے کئے جاسکتے ہیں (۱)ااگرتواسے یوم القیامۃ کے متعلق سمجھاجائے تومعنے یہ ہوں گے ۔کہ کچھ سزاتوانہیں یہاں دنیا میں ملے گی لیکن پوری سزاان کو قیامت میں ملے گی (۲)اگر اسے لیحملوا کامتعلق سمجھاجائے تواس کے معنے ہوں گے کہ یہ اپنے سارے کے سارے بوجھ اٹھائیں گے اورکوئی بوجھ کم نہ ہوگا۔یعنی مومن تواستغفار کرتا رہتا ہے ۔اس لئے اس کے بوجھ کم ہوتے رہتے ہیں اورگناہ معاف ہوتے رہتے ہیں ۔مگر یہ متکبر ہیں اس لئے ان کے سب گناہ باقی رہ جائیں گے اورسب کی سزا ان کو ملے گی۔
قد مکرالذین من قبلھم فاتی اللہ بنیانھم
جو لوگ ان سے پہلے تھے انہوں نے (بھی اپنے اپنے زمانہ کے انبیاء کے خلاف)تدبیریں کی تھیں جس کے نتیجہ میں اللہ (تعالیٰ)انکی
من القواعد فخر علیھم السقف من فوقہم واتھم العذاب من
عمارتوںکے پاس ان کی بنیادوں کی طرف سے آیا ۔جس پر چھت ان کے اوپر کی طرف سے ان پر آن گری اور(اس کایہ )عذاب اُن پر
حیث لا یشعرون٭
ایسی طرف سے آیاکہ وہ (کچھ)نہیں سمجھتے تھے (کہ کہاں سے آگیا ) ۲۷؎
۲۷؎ حل لغات ۔مکر :کسی کو اس کے قصد سے کسی تدبیر کے ذریعہ سے پھیرنے کانام مکر ہے اوریہ اچھابھی ہوتاہے اوربُرابھی (اقرب) مزید تشریح کے لئے دیکھیں رعد ۴۲؎ اَتَی اللہُ بُنْیَانَھُمْ: اَتٰی کی تشریح کے لئے دیکھو رعد ۴؎ القواعدُ: اس کا مفرد القاعد ۃ ہے اورقَوَاعِدُ الْبَیْتِ کے معنے ہیں ۔اَسَاسُہٗ۔گھر ک بنیادیں (اقرب) خَرَّ کے لئے دیکھو یوسف ۹۴؎
تفسیر ۔فرمایا اس طرح اشتعال دلاکر اوردھوکا دے کر لوگوں کو نبیوں کی تعلیم سے ناواقف رکھنا کو ئی نئی بات نہیں ۔بلکہ پہلے انبیاء کے زمانہ میں بھی ایساہی ہوتاچلا آیا ہے ۔مگر ان تدبیروں سے کبھی بھی نبیوں کے دشمن کامیاب نہیں ہوئے ۔یہ تدابیر آخر اُلٹ کر انہی پر پڑتی رہی ہیں
یہ طریق کلام کیسالطیف ہے ۔دشمنان اسلام کایہ اعتراض پہلے بیان ہواہے کہ یہ مدعی کوئی نئی تعلیم تونہیں لایا ۔پہلے لوگوں کی باتوں کو نقل کررہا ہے ۔اس آیت میں ان کا اعتراض انہی کے متعلق دُہرادیا اورفرمایاکہ یہ سچ ہے کہ یہ نبی بہت سی باتیں وہ بیان کرتا ہے جوپہلے نبیوں نے بھی کہی ہیں ۔اورتم ان کو نقل کہتے ہو ۔مگر اپنا حال نہیں دیکھتے کہ تم بھی پہلے نبیوں کے دشمنوں کی نقل کررہے ہو اورویسی ہی شرارتیں کررہے ہو جیسی کہ پہلے نبیوں کے دشمن کیاکرتے تھے ۔اگر اس نبی کاکلام پہلے لوگوں کی نقل ہے تووہ اچھی نقل ہے ۔مگر تمہار ے کام بھی نقل ہیں اوربُرے لوگوں کی نقل ہیں ۔پس نقل کہہ کر بھی توتم اعتراض سے نہیں بچ سکتے ۔کیونکہ یہ توان کی نقل کرتاہے جوآخر کامیاب ہوئے اورتم ان کی نقل کررہے ہو جو آخر ہلاک ہوئے ۔پس اگر دونوں طرف سے نقل ہورہی ہے توبھی تم ہی خسارہ میں رہتے ہو ۔کیونکہ تباہ ہونے والوں کی نقل کررہے ہو ۔چنانچہ ان لوگوں کاحال بتاتا ہے جن کی کفار نقل کررہے تھے ۔اورفرماتاہے کہ تمہاری ہی طرح پہلے انبیاء کے دشمن بھی لوگوں کو نبیوں کے خلاف یہ کہہ کربھڑکایاکرتے تھے کہ یہ نقال ہیں ۔مگر کیا اس اعتراض یا ایسے ہی اوراعتراضوں سے وہ نبیوں کی تعلیم کے پھیلنے میں کوئی کامیاب روک پیداکرسکے ۔کیااس طرح وہ نبیوں کے تباہ کرنے میں کامیاب ہوسکے؟ ہرگز نہیں بلکہ وہ خود ہی تباہ ہوئے ۔پھر ان کے عذاب کی نوعیت بتائی کہ تباہی بھی معمولی تباہی نہ تھی بلکہ اَتَی اللہُ بُنْیَانَھُمْ مِّنَ الْقَواعدِ فَخَرَّعَلَیْھِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِہِمْ ۔یعنی اللہ تعالیٰ نے ان پر اس طرح عذاب نازل کیا کہ ان کی خود ساختہ عمارتوں کی بنیادوں کواُکھاڑ پھینکا اوردیواروں کے ساتھ چھتیں بھی گر گئیں ۔یعنی نہ توابع رہے نہ افسر سب ہی ہلاک ہوئے اوروہی دیواریںیعنی توابع جن پرانہیں ناز تھا اس طرح اوندھے منہ گرے کہ اپنے ساتھ اپنے سرداروں کو بھی لے گرے ۔پس عوام الناس پر جو تم کو اثر حاصل ہے اس پرمغرور نہ ہوکہ جب خداتعالیٰ کا عذاب آتاہے تویہ حکومت دھری رہ جاتی ہے اورخداتعالیٰ کفار کے سارے نظام کو تباہ کردیتا ہے اورافسر اورماتحت سب ہی گرتے ہیں ۔بلکہ توابع ہی سرداروں کی تباہی اورہلاکت کاموجب ہوجاتے ہیں ۔
پھر بتایاکہ یہ عذاب ہمیشہ غیر معمولی طریق سے آتے رہے ہیں ۔حتٰی کہ ائمہ کفرکو علم بھی نہ ہوتاتھا کہ عذا ب آرہاہے اورعذاب آجاتاتھا ۔ اورایسی راہوں سے آتاتھا ۔جن کا انہیں وہم اورگمان تک نہ ہوتاتھا ۔
اَتَی اللہُ۔اللہ تعالیٰ کے منکروں کے پاس آنے کے معنے ہمیشہ عذاب کے ہوتے ہیں ۔
بہائیوں نے اسی قسم کی آیات پیش کرکے کہاہے کہ دیکھو قرآن کریم میں لکھاہے کہ خداخود آئے گا۔اس سے مراد بہاء اللہ کاظہو رہے ۔ حالانکہ یہ معنے قرآنی محاورہ کے سراسرخلاف ہیں ۔جیساکہ یہ آیت صاف ظاہرکررہی ہے ۔ہاں اگربہاء اللہ کو اس زمانہ کے لوگوں کے لئے ایک عذاب سمجھاجائے توان کو بھی اللہ کی آمد کا عذابی ظہور ماننے میں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ دین سے غافلوں کو اورزیادہ غفلت کے سامان پیداکرکے عذاب دیاکر تاہے ۔
اس آیت میں اہل مکہ کو گذشتہ واقعات کاحوالہ دے کر ہوشیار کیا گیا ہے کہ اب تمہارانظام کھوکھلاہوچکاہے ۔اب تووہ خود ہی گرنے کو تیار کھڑاہے ۔تم نے محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نظام کو کیا تباہ کرنا ہے ۔تمہارے دیکھتے دیکھتے تمہاری عمارت دیوار وں اور چھتوں سمیت زمین پرآرہے گی ۔تاریخ دان جانتے ہیں کہ فتح مکہ سے پہلے آخری دن تک کفار غالب معلوم ہوتے تھے ۔لیکن یکدم ان کی عمارت پیوند خاک ہوگئی ۔
ثم یوم القیٰمۃ یخزیھم ویقول این شرکاء ی
پھر وہ قیامت کے دن (دوبارہ )نہیں رسواکرے گااورکہیگا(کہ اب )کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کی وجہ سے تم (میرے انبیاء سے)
الذین کنتم تشاقون فیھم ۔قال الذین اوتوالعلم
دشمنی (اورمخالفت )رکھتے تھے ۔(اور)جنہیں علم دیاگیاہوگا وہ (اس وقت)کہیں گے
ان الخذیی الیوم والسوء علی الکٰفرین ٭
کہ آج کافروں پر یقینارسوائی اورمصیبت(آنے والی)ہے ۲۸؎
۲۸؎ حل لغات ۔ثُمَّ:حرف عطف ہے جوترتیب اورتراخی کے لئے آتاہے ۔یعنی یہ ظاہرکرتا ہے کہ معطوف اپنے معطوف علیہ کے بعد ترتیبًااورکچھ دیر بعد واقع ہواہے (اردوزبان میں اس مفہوم کو اداکرنے کے لئے پھر ،تب،بعد ازاں کے الفاظ استعمال کرتے ہیں )
اوربعض اوقات ثُمَّ کے آخر میں تاء بھی لے آتے ہیں ۔جیسے کہ اس شعر میں اِسے لایاگیا ہے ۔ ؎
وَلَقَدْ اَمُرّعَلی اللَّئِیْمِ یَسُبُّنِی
فَمضَیْتُ ثُمَّتَ قُلْتُ لَّیَعْنِیْنیِ(اقرب)
یَومَ کے لئے دیکھو یونس ۵؎
یُخْزِیْھِمْ:یُخزی اخزیٰ سے مضارع مذکر غائب کاصیغہ ہے ۔اوراَخْزَاہُ کے معنے ہیں ۔اَوْقَعَہٗ فی الخِزْیِ اولخِزْایَۃِ وَاَھَانَہٗ۔اس کو کسی ایسی بات میں پھنسایا۔جس سے اُسے ندامت ہواوراس طرح سے اُسے ذلیل کیا ۔اخزی اللہ ُ فلانًا کے معنے ہیں فَضَحَہٗ۔اللہ تعالیٰ نے اس کے عیوب کوظاہر کردیا ۔اوراس طرح وہ رسواہوگیا (اقرب)پس یُخْزِیْھِمْ کے معنے ہوں گے ۔ان کے عیوب کو ظاہرکرکے اللہ تعالیٰ انہیں رسواکرے گا۔
تُشَاقُّوْنَ:شَاقَّ سے مضارع جمع مذکر مخاطب کاصیغہ ہے اورشَاقَّہٗ کے معنے ہیں ۔خَالَقَہٗ۔اس سے ناموافقت کی ۔عَادَاہٗ۔اس سے دشمنی کی (اقرب)پس کُنْتُمْ تُشَآقُّوْنَ کے معنے ہوں گے (۱)تم مخالفت کرتے تھے (۲)تم دشمنی کرتے تھے ۔
الخزیُ:کے اصل معنے ایسی ذات کے ہیں جولوگوں کے سامنے شرمندگی کا موجب ہو ۔مزید تشریح کے لئے دیکھو یونس ۹۵؎
تفسیر ۔بعض دفعہ ایساہوتاہے کہ کسی انسان پر آفت آتی ہے مگروہ رسوائی کاموجب نہیں ہوتی ۔اوربعض دفعہ رسوائی توہوتی ہے مگرہلاکت اس کے ساتھ نہیں ہوتی ۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں پر جب عذاب آئے گا۔تواس میں دونوں باتیں شامل ہوں گی تباہی بھی اوررسوائی بھی۔
الذین توفہم الملٰئکۃ ظالمیی انفسھم
(ان پر)جن کی روحوں کو فرشتے (عین )اس وقت کہ وہ اپنی جانوں پر ظلم کررہے ہوتے ہیں نکالتے ہیں
فالقوا السلم ماکنا نعمل من سوئٍ
۔تووہ(یہ کہہ کر)صلح کی طرح ڈالتے ہیں(کہ)ہم (تو)کوئی بھی برائی(کاکام ) نہیں کیاکرتے تھے
بلیٰ ان اللہ علیم بما کنتم تعملون ٭
(سوانہیں کہاجائیگا کہ واقعہ)یوں نہیں بلکہ (اس کے برعکس ہے ۔یاد رکھو)جوکچھ تم کرتے تھے اُسے اللہ (تعالیٰ)یقیناخوب جانتاہے ۲۹؎
۲۹؎ حل لغات ۔السَّلَم۔الَاِسْمُ مِنَ التَّسْلَیْمِ بمعنی السَّلَام۔باب تفعیل سے اسم مصدر ہے اوراس کے معنے وہی ہیں جوسلام کے ہیں یعنی سلامتی۔صلح ۔نیز اس کے معنے ہیں ۔الاستسلامُ۔تابعداری ۔فرمانبرداری(اقرب)
بَلیٰ:جوابٌ لِلتَّحْقِیْقِ تُوْجِبُ مَاںیَقَالُ لَکَ لِاَنَّھاتَرْکٌ لِلنَّغْیِ فاِذَاقلتَ لِزَیْدٍ لَیْسَ عِنْدکَ کِتَابٌ فقالَ بَلٰی لزمہُ الکتٰبُ وان قال نعم فلایلزمہُ۔یعنی یہ نفی کے بعد آتا ہے ۔لیکن معنوں کو مثبت کردیتاہے جیسے کوئی کسی کوکہے کہ تیرے پاس کتاب نہیں ۔توجواب میں وہ بَلٰی کالفظ کہے ۔تواس کے معنے یہ ہوں گے ۔کہ کیوں نہیں ؟میرے پاس کتاب ہے ۔لیکن اگرجواب میں نعَمْ کالفظ کہے ۔تومعنے ہوں گے ۔کہ میرے پاس کتاب نہیں ۔(اقرب)
تفسیر ۔اس آیت میںبتایاکہ یہ عذاب ان کفار پر ۔آئے گاجو مو ت تک کفرپر قائم رہیں گے۔ظَالِمِیْ اَنْفُسِہِمْ کہہ کر بتایاکہ ایسے لوگوں کی ساری عمر اپنی جانوں پر ظلم کرنے میں گذر جاتی ہے اوروہ یہ سمجھتے رہتے ہیں کہ وہ نبیوں پر ظلم توڑ رہے ہیں ۔گویا ان کی مثال اس درندہ کی سی ہوتی ہے جوپتھر کو چاٹتاہے اوراس کی زبان سے خوب بہنے لگتاہے ۔مگر خون کی لذت کو پتھر کامزاسمجھ کر وہ اس کے چاٹنے میں لگارہتاہے ۔یہاں تک کہ اس کی ساری زبان ہی گھس جاتی ہے ۔
فَاَلْقَوُ االسَّلَمَ۔سَلَمَ کے معنے صلح کے ہیں اورصلح کوسلم اس لئے کہتے ہیں کہ اس کے ذریعہ سے ہرایک دوسرے کے شر سے بچ جاتا ہے ۔فَاَلْقَوُاالسَّلَمَ سے یہ مراد ہے کہ وہ یہ دیکھ کر کہ اب تو ہم پکڑے گئے اوربچنے کی کوئی راہ نہیں مصالحانہ باتیں کریں گے ۔فَاَلْقَوُ االسَّلَمَ کے لفظی معنے یہ ہوسکتے ہیں کہ وہ صلح کی طرح ڈالیں گے ۔
مَاکُنَّا نَعْمَلُ مِنْ سُوٓئٍ میں بتایاگیا ہے کہ وہ اس وقت یہ توکہہ نہیں سکیں گے کہ ہم نے معبودان باطلہ کی عبادت نہیں کی ۔پس وہ اپنے مشرکانہ اعمال کی اس طرح تشریح کریں گے کہ جوکچھ ہم نے کیا بدی کی نیت سے نہیں کیا ۔بلکہ نیک نیتی سے کیاتھا ۔
میرے نزدیکمَاکُنَّا نَعْمَلُ مِنْ سُوٓئٍ کے معنے یہ نہیں کہ ہم نے کوئی شرک نہیں کیا ۔بلکہ یہ کہ ہمار افعل جو بھی تھا وہ بدی کی نیت سے نہ تھا ۔اس کامحرک سُوء نہیں تھا ۔بلکہ نیک نیتی سے وہ فعل کیاگیاتھا ۔
اس دنیا میں بھی جب مشرک توحید کے دلائل کے سامنے عاجز آجاتے ہیں۔توکہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم توبتوں وغیرہ کو سجدہ خداسمجھ کر نہیں کرتے ۔بلکہ صرف توجہ کے قیام کے لئے ایسا کرتے ۔بلکہ صرف توجہ کے قیام کے لئے ایساکرتے ہیں ۔ورنہ عبادت توہم اللہ تعالیٰ کی ہی کرتے ہیں۔
بَلیٰ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ کہہ کر یہ بتلایا ہے کہ یہ تمہار اصر ف ڈھکونسلا ہے ۔خداتعالیٰ کوخوب معلوم ہے کہ تم کس نی اورارادہ سے معبودان باطلہ کی عبادت کرتے تھے ۔اللہ تعالیٰ کی تلاش سچے دل سے کرتے توان کی توجہ کے لئے ان جھوٹے سامانوں کی کیاضرورت تھی۔نیز یہ بھی بتایا کہ یہ عذر جھو ٹا ہے تم تو فی الواقع مشرک تھے ۔
مَاکُنَّا نَعْمَلُ مِنْ سُوْٓء ٍ کے یہ معنے بھی ہوسکتے ہیں کہ ہم نے اپنی کے مطابق کوشش کی اورجو کچھ کیا حق سمجھ کر کیا ۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ یہ جھوٹ ہے ۔اگر تم نیک نیتی سے یہ کا م کرتے توہم تم کو ہدایت کیوں نہ دیتے ۔ہما راتویہ قانون ہے کہ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْافِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا(عنکبوت ع۷)جو لوگ صحیح طورپر ہماری تلاش کرتے ہیں ہم ان کو ضرور اپنا راستہ دکھاتے ہیں ۔پس اگر تم نیک نیتی سے ہمیں پانے کی کوشش کرتے توغلط راستہ پر کبھی نہ چلتے ۔ہم خود تم کو ہدایت دیتے ۔پس اس عذر کی وجہ سے تم سزاسے نہیں بچ سکتے ۔
فادخلو اابواب جھنم خٰلدین فیھا ۔فلبئس مثوی المتکبرین٭
اس لئے اب تم جہنم کے دروازو ں میں سے اس میں ہمیشہ کے لئے ٹھکانہ بناتے ہوئے داخل ہو ۔کیونکہ تکبر کرنے والوںکا ٹھکانہ یقینابہت بُرا(ہوتا)ہے ۳۰؎
۳۰؎ حل لغات ۔جَھَنَّم:کے لئے دیکھو رعد ۱۹؎
بِئْسَ:فعل ذم کہلاتاہے ۔یعنی جب کسی کی مذمت مقصود ہو ۔اس وقت یہ فعل استعمال کرتے ہیں ۔جس کی مذمت کی جائے اُسے مخصوص بالذمّ کہتے ہیں ۔اس کے بعد اس کا فاعل آتاہے اورپھر مخصوص بالذم۔فاعل اور مخصوص بالذم دونو ں مرغو ب ہوتے ہی ۔اس کے فاعل کے لئے ضروری ہے کہ لام جنس کے ساتھ مقرون ہو ۔یامقرون بلام الجنس کی طر ف مضاف ہو ۔جیسے بِئْسَ الرَّفُلَ زَیْدٌاوربِئْس غلامُ الرَّجُلِ بکرٌ۔اورکبھی اس کا فاعل ظاہراً مقرون باللام نہیں ہوتا ۔بلکہ اس کی جگہ نکر ہمنصوب تمییز کے رنگ میںلے آتے ہیں یامَانکرہ استعمال کرلیتے ہیں ۔جیسے بئس رجُلاً زیدٌاوربئس مازیدٌ میں رجُلاً اورمَااستعمال ہوئے ہیں (اقرب)
مثویٰ کے لئے دیکھو یوسف ۲۲؎
تفسیر ۔اس آیت میں پھر اس امر پر زور دیا ہے ۔کہ جو متکبر ہویعنی حق کو سمجھتا ہو ۔لیکن شرارت کی وجہ سے اوراس خیال سے کہ میں کیوں نبی کا متبع ہوکر چھوٹابنوں۔حق کا انکار کرنے والاہو۔وہ بہت سزاپائے گا۔بہ نسبت اس کے جو مجر م توہے مگر اس کاجرم شرار ت سے نہیں ۔بلکہ غفلت اورلاپرواہی کی وجہ سے ہے۔یہ موجب بھی گومستحق سزابناتا ہے مگر تکبر کے موجب سے کم ۔بِئْسَ کے معنی زیادہ برے کے ہوتے ہیں ۔پس اس لفظ سے دونوں قسم کے مجرموں کا فرق بیا ن کیا گیا ہے ۔
وقیل الذین اتقواما ذاانزل ربکم
اور(جب)ان لوگوں سے جنہوں نے تقویٰ(کاطریق )اختیار کیا ہے کہا گیا (کہ)تمہارے ر ب نے کیا (شاندار کلام )اتاراہے
۔قالوخیرا۔للذین احسنو فی ھذہِ الدنیا حسنۃٌ۔
توانہوں نے کہا (کہ ہاں)بہترین ۔جنہوں نے نیکو کاری(کی راہ )اختیار کی ان کے لئے اس دنیا (کی زندگی میں بھی )بھلائی مقدرہے۔
ولدارالاخرۃ خیر۔ولنعم دار المتقین ٭
اورآخرت کا گھر (توان کے لئے )اوربھی بہتر ہوگا۔اورتقویٰ اختیار کرنے والوں کا گھر یقینابہت (ہی )اچھا ہوتا ہے ۳۱؎
۳۱؎ حل لغات ۔خَیْراً:الخیر ُ ۔وِجْدَانُ الشیئِ علی کمالاتہِ اللَّائِقَۃِ۔کسی چیز کا اس کے مناسب کمالات سمیت پائے جانے کانام خیر ہے ۔وقیلَ حصولُ الشیء لما مِنْ شانہٖ اَنْ یَّکُوْنَ حاصِلاً لَہٗ۔ای یناسِبُہٗ ویلبقُ بہٖ۔اوربعض محققین نے کہا ہے کہ کسی چیز کا ایسے طور پر ہونا کہ اس میں اس کے شایا ن شان باتیں پائی جائیں خیر کہلاتا ہے ۔المال مطلقاً ۔مال ۔الکثیر الخیر ۔خیر اس شخص کو بھی کہتے ہیں جس میں ہرقسم کے کمالات بکثر ت پائے جائیں (اقرب)
نِعْمَ: فعل مدح کہلاتاہے ۔یعنی جب کسی کی تعریف کرنی مقصود ہو تواس وقت یہ فعل استعمال کیا جاتاہے ۔جس کی تعریف کی جا ئے اسے مخصوص بالمدح کہتے ہیں ا سکے فاعل اورمخصوص بالمدح کے وہی احکام ہیں جو پہلے بئس کے متعلق لکھے جاچکے ہیں ۔
تفسیر ۔اس آیت میں مومنوں کے نقطہ نگاہ کوظاہر کیا گیا ہے کہ وہ قرآن مجید کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔اگر کوئی کہے کہ وہ تومسلمان تھے انہوں نے تو یہ کہنا ہی تھا ان کی گواہی کوئی وقعت نہیں رکھتی ۔تو ہم کہتے ہیں کہ ان کا یہ قول اس وقت کا ہے جبکہ وہ مکہ میں تھے ۔چاروں طرف سے ان کو تنگ کیاجارہاتھا اوران کو جان کے لالے پڑے ہوئے تھے ۔ایسے وقت میں ان کا اس کتاب کو قبول کرلینا اوراس کے متعلق یہ رائے ظاہرکرنا اس کی سچائی کی نہایت زبردست شہادت ہے ۔
قَالُوْاخیرًا۔انہوں نے کہا یہ کتاب مناسب کمالات کے ساتھ نازل ہوئی ہے یعنی جو باتیں کسی روحانی کتا ب میں چاہئیں وہ سب بتمام و کمال اس میں موجود ہیں ۔یاجیساخیا ل تھا کہ ایسی کتاب آنی چاہیئے اس سے بھی بہتر ا س کو پایا ۔
اَحْسَنُوْا۔اس میں یہ بتایا ہے کہ نقطہ نگاہ کے بدلنے سے عمل میں کتنافرق پڑ جاتاہے ۔ایک گروہ نے اساطیر الاولین کہا ۔پس اس کے وعید سے نہ ڈرے اورہلاکت کا شکار ہوگئے ۔اورمومن جنہوں نے اسے خیر سمجھا وہ اس کی پوری اطاعت کرنے میں لگ گئے اورآخر خیر والے مقام یعنی جنت میں پہنچ گئے ۔وہ مقام کیسا ہے ۔اس کاذکر اگلی آیت میں کیا گیا ہے ۔
جنت عدن یدخلونھا تجری من تحتھا الانھٰر لھم فیھا
(وہ گھر )دائمی رہائش کے باغات( ہیں )جن میں وہ داخل ہوں گے ان کی اند ر نہریں بہتی ہوں گی۔ان (باغوں)میں جو کچھ و ہ چاہیں
مایشاء ون۔کذالک یجزی اللہ المتقین ٭
گے انہیں ملے گا۔تقویٰ اختیار کرنے والوں کواللہ (تعالی)اسی طرح جزاء دیا کرتا ہے ۳۲؎
۳۲؎ حل لغات ۔جَنّاتِ عَدْنٍ کے لئے دیکھو رعد ۲۴؎
تفسیر ۔یعنی وہ مقام خیر ہمیشہ رہنے والا ہوگا ۔کیونکہ اچھی چیز کو ہمیشہ رکھاجاتا ہے ۔
تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَاالْاَنْھَارُ۔یہ نہیں کہ اس کی تہ میں نہریں بہتی ہوں گی ۔بلکہ مراد یہ ہے کہ اس میں بہنے والی نہریں اُسی نظام کے ماتحت ہوں گی ۔دنیا میں نہریں اوردریا ضروری نہیں کہ ان لوگوں کے تابع ہوں جن کے ملک یا زمین میں و ہ بہتے ہوں۔بسااوقات دریا کئی ملکوں سے گذرتے ہیںاو ران سے فائدہ اٹھانے کے لئے ملکوں میں جنگ شروع ہوجاتی ہے ۔پس ان الفاظ سے یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ جنت کی نہریں جنت کے نظام کے کلی طورپر ماتحت ہوں گی اورکوئی دوسرا ان کا شریک نہ ہوگا۔
جَنَّاتُ عَدْنٍ۔اس سے اس طرف بھی اشارہ کیا کہ وہ ایسا مقام ہے جس میں کوئی نقص نہیں ۔کیونکہ فنا کاموجب نقص ہی ہوتا ہے ۔
لَھُمْ فِیْھَامَایَشَآئُ وْنَ۔ اس کے دومعنے ہوسکتے ہیں (۱)ان کی ہرخواہش پوری کی جائے گی۔کیونکہ انکی مشیّت مشیّتِ ایزدی ہوگی ۔گویا مَاتَشَائُ وْنَ اِلَّا اَنْ یَّشَائَ اللہ کی حالت ہو گی ۔اوران کے دل میں انہی اشیاء کی خواہش پیداہوگی جو ان کو مل سکتی ہوں گی اورمل جائیںگی۔حرص و آز سے ان کے دل خالی ہوں گے اورحسد کی آگ سے وہ محفوظ ہوں اورہرگندگی سے دل پاک ہوجائیں گے ۔
(۲)ان کو ان جنتوں کے متعلق جن میں و ہ رکھے جائیں گے پورااختیار حاصل ہوگا۔اوران کے متعلق ان کے دل میں جو خواہش پیداہوگی ۔ وہ ضرورپوری ہو گی ۔کیونکہ انہیں وہاں پورااختیار دیاجائے گا۔
الذین تتوفھم الملئکۃ طیبین یقولون
(وہ متقی )جن کی روحوں کو فرشتے اس حالت میں کہ وہ پاک نفس ہوں (یہ )کہتے ہوئے قبض کرتے ہیں کہ (اب)تمہارے لئے
سلم علیکم ۔ادخلو الجنۃ بما کنتم تعملو ن ٭
سلامتی (ہی سلامتی)ہے ۔جوکچھ (تم )کرتے تھے اس کے مطابق جنت میں داخل ہوجائو ۳۳؎
۳۳؎ حل لغات ۔سَلَام: کے لئے دیکھو یونس ۱۱؎
تفسیر ۔یعنی متقی وہ ہوتے ہیں جن کوموت اس وقت کہ وہ طیب النفس ہوتے ہیں آتی ہے ۔وہ ہرقسم کے نقصوں سے پاک ہوتے ہیں ۔ہرقسم کی خوبیاں ۔صفائی ۔ترقی اورعلوّہمت کے جذبات ان میں پائے جاتے ہیں (طیبین کے معنوں کے لئے کلمہ طیبہ کی تفسیر سورئہ ابراہیم رکوع۴ میں دیکھو)
یَقُوْلُوْنَ سَلَامٌ عَلَیْکُمْ۔یعنی کفار توخود ڈر کر صلح کی طرح ڈالیں گے اورمومنوں کو فرشتے خود بڑھ کر سلام کہیں گے ۔
ھل ینظرون الا ان تاتیھم الملئکۃ اویاتی امر ربک۔
(اب)یہ (لوگ )اس بات کے سوا کس کاانتظارکررہے ہیں کہ فرشتے ان کے پاس( آسمانی عذاب لیکر)آئیں یا تیرے رب کا (فیصلہ کن
کذٰلک فعل الذین من قبلھم۔وماظلمھم اللہ ولکن کانوا انفسھم یظلمون ۔
حکم)آجائے ۔اسی طرح ان لوگوں نے کیا تھا جو انسے پہلے (زمانوں کے)تھے اوراللہ( تعالیٰ)نے ان پر (کوئی )ظلم نہیں کیاتھا بلکہ وہ (خود ہی )اپنی جانوںپر ظلم کرتے تھے ۳۴؎
۳۴؎ تفسیر ۔یعنی یہ کفار اب اپنی مدت گزارچکے ہیں ۔اب تو یہ صرف ان عذابوں کاانتظار کررہے ہیں جو (۱)فردی طور پر ان پر آنے والے ہیں ۔جیسا کہ اوپر کی آیا ت سے ظاہر ہے ملائکہ کا آنا فردی عذاب پر دلالت کرتا ہے ۔(۲)اس عذا ب کاانتظارکررہے ہیں جوقومی طورپر ان پر نازل ہوگا۔امر ربِّک سے اسی طرف اشار ہ ہے ۔
وَمَاظَلَمَھُمْ اللّٰہُ۔یعنی اپنے اعمال سے اپنے آپ کو عذاب کا مستحق بنانے کافعل پہلے کفار بھی کرتے رہے ہیں ۔یہ بھی ویسا ہی کررہے ہیں۔مگراسکانقصان انہی کی جانو ںکو پہنچے گا ۔نبی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے ۔
فاصابھم سیاٰت ماعملو ا وحاق بھم ما کانو بہ یستھزء ون٭
پس ان کے عموں کی سزانے انہیں آپکڑ ا۔اورجس (عذاب کی خبر)پر وہ ہنسی کیاکرتے تھے اس نے انہیں گھیر لیا (اورتباہ کردیا ) ۳۵؎
۳۵؎ حل لغات ۔حَاقَ بِھِمْ۔حاق بہ کے معنے ہیں ۔اَحَاطَ بِہِ کسی چیز کااحاطہ کرلیا (اقرب)
یَسْتَھْزِئُ وْنَ۔ اِسْتَھْزَأ سے جمع مذکر غائب کاصیغہ ہے مزید تشریح کے لئے دیکھیں رعد ۳۳؎
تفسیر ۔سَیِّئَاتُ مَاعَمِلُوْا۔ سے مراد عمل کے بدنتائج ہیں اوربتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ظالمانہ عذاب نہیں دیتا ۔بلکہ کافر خود اپنی سزاپنے عمل سے پیداکرتا ہے ۔عذاب الٰہی کوئی بیرونی چیز نہیں ۔بلکہ بدعمل انسان کے عمل کاطبعی نتیجہ ہے۔ا سمیں عذاب الٰہی کی فلاسفی بیان کی گئی ہے ۔یہی عذاب ہے جس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا ۔ورنہ وہ عذاب جوطبعی نتائج کی قسم سے نہیں ہوتا ۔بسااوقات قابل اعتراض ہوجاتاہے جیسے بعض دفعہ دنیاوی مجسٹریٹ مجرم کو سزادیتاہے تولوگ سمجھتے ہیں کہ اسنے جرم سے زیادہ سزادے دی ہے ۔مگر بدپرہیزی سے جو بیماری پیداہوتی ہے اس کی نسبت کوئی نہیں کہتاکہ وہ بدپرہیزی کی مناسب سزانہیں ۔کیونکہ ہر اک جانتا ہے کہ وہ طبعی نتیجہ ہے اوراپنی حد سے بڑھ سکتا ہی نہیں۔
حَاقَ بِھِمْ مَاکَانُوْابِہٖ یَسْتَھْزِئُ وْنَ۔ سے بتایا ہے کہ کفار جس قسم کے اعتراض نبیوں پر کرتے ہیں ۔ویسے ہی حالات میں سے انہیں گذرناپڑتاہے ۔اگروہ انہیں جھوٹاکہتے ہیں توخود جھوٹ کے الزام کے نیچے آتے ہیں اگربدکار کہتے ہیں توخود ان کی بدکاریاں کھولی جاتی ہیں ۔
وقال الذین اشرکو الوشاء اللہ ماعبدنا من دونہ ٖ من شیئٍ
اورجن لوگوں نے شرک(کاطریق اختیار)کیا انہوں نے (یہ بھی )کہا ہے کہ اگر اللہ (تعالیٰ یہی )چاہتا (کہ اس کے سواکسی کی عبادت نہ
نحن ولاآباونا ولاحرمنا من دونہ من شیئٍ۔
کی جائے)تونہ ہم(ہی)اس کے سواکسی چیز کی عبادت کرتے اورنہ ہمارے باپ داداایسا کر تے اورنہ (ہی )ہم اس کے (فرمانے کے )
کذٰلک فعل الذین مب قبلھم ۔ فھل علی الرسل الاالبلغ المبین ٭
بغیر کسی چیز کو (خودبخود)حرام ٹھہراتے جو(لوگ)ان سے پہلے (سچائی کے دشمن )تھے انہوں نے (بھی )ایساہی کیاتھا ۔بھلا(کیا یہ اتنا بھی نہیں سوچتے کہ)رسولوں پر(خداکاپیغام) پہنچادینے کے سوا(اور)کیاذمہ واری ہے ۳۶؎
۳۶؎ تفسیر ۔اوپر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وَلَوْ شَآئَ لَھَدٰئکم اَجْمَعِیْنَ بیان ہوچکا ہے ۔یعنی کفار یہ نہ خیال کریں کہ کج راستے کیوں بنے ہیں ۔یہ راستے انہوں نے خود بنائے ہیں اللہ تعالیٰ نے نہیں بنائے ۔اللہ تعالیٰ توجبر سے کام نہیں لیتااگر لیتاتوہدایت دیتا ۔اب خودکفار کے منہ سے وہی اعتراض نقل کیا گیا ہے ۔فرماتا ہے کافر کہتے ہیں اگر اللہ چاہتا تو ہم یا ہمارے باپ دادے شرک نہ کرتے ۔پس جب اس نے روکا نہیں تومعلوم ہواکہ وہ ہمارے شرک کو ناپسند نہیں کرتا۔
جوشخص یاجماعت بھی غلط عقائد اختیار کرے اسے دلائل کے سامنے دب کر غیر معقول رویہ ہی اختیار کرناپڑتا ہے ۔اوراس کے مقا بل کی بنیاد کسی مقر رہ اصل پر نہیں ہوتی بلکہ اسے حملہ کے مطابق جگہ بدلنی پڑتی ہے۔رکوع تین کے آخر میں بتایاگیاتھا کہ کفارتنگ آکر کہتے ہیں کہ بڑی اعلیٰ تعلیم لئے پھرتے ہو آخر یہ تعلیم پہلوں کی کتب سے نقل کی ہوئی ہے اورہے کیا ؟ اس کے دوجواب دیئے گئے تھے اول تویہ کہ یہ اعتراض محض لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے ہے ورنہ اس میں کوئی حقیقت نہیں ۔یعنی اگر نقل بھی ہو تو بھی اگر سچی بات ہے تومانتے کیوں نہیں
دوسراجواب یہ دیاتھا کہ اگریہ نقل ہے توتم بھی توپہلے انبیاء کے مخالفین کی نقل کررہے ہو ۔وہ بھی ایسی ہی باتیں کیا کرتے تھے۔مگر نہ وہ کامیاب ہوسکے نہ تم کامیاب ہوسکتے ہو ۔یہ عملی ثبوت ان کے اعترا ضات کے بوداہونے کادیا ۔کیونکہ اگرمعقول اعتراض ہوتااورانبیاء کی تعلیم واقعہ میں محض نقل ہوتی ۔تودنیا اپنے پہلے مذاہب کو چھو ڑکر انہیں اختیارکیوں کرتی ۔اس کے بعد کفار اورمسلمانوں سے جو الگ الگ قسم کے سلوک ہونے والے تھے ۔ان کا ذکر کیا ہے ۔
اس کے بعد پھر کفار کے اعتراضوں کی طرف رجوع کیا گیا ہے اوربتایا ہے کہ جب کفار اپنے پہلے اعتراض کاجواب سنتے ہیں اورسمجھتے ہیں کہ یہ اعتراض مؤثر نہیں ہوسکتا تووہ پھر پہلو بدلتے ہیں اورکہتے ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ سزاکیوں دینے لگا۔کیاخداتعالیٰ قادر نہیں ۔پھر اگروہ ہمارے طریق کو غلط سمجھتا ہے توہمیں اورہمارے باپ دادوں کو اس سے ہٹاکیوں نہیں دیتا۔اورشرک کی توفیق ہم سے کیوں نہیں چھین لیتا۔اللہ تعالیٰ اس کاجواب یہ دیتاہے کہ اس کا ذریعہ ایک ہی ہوسکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ جن انبیاء کو بھیجتا انہیں جبر کرنے کی تلقین کرتا ۔لیکن کافر بھی توبعض نبیوں کومانتے ہیں کیا وہ کو ئی نبی پیش کرسکتے ہیں ۔جس نے جبر سے کام لیا ہو۔حالانکہ ان کے مخالفوںکو یہ بھی غلطی پر سمجھتے ہیں ۔ پس اگران کے مسلمہ نبیوں (مثلاً حضرت ابراہیم حضرت لوط علیہما السلام)نے جبر سے کام نہیں لیااورخداتعالیٰ نے انہیں یہ توفیق نہ دی کہ وہ اپنے مخالفوںکو زبردستی منوالیتے ۔تو اب اس امر کی کیوں توقع رکھتے ہیں جس طرح ہمیشہ سے انبیاء محض تنلیغ سے کام لیتے آئے ہیں۔اب بھی اسی طرح ہوگا۔
تعجب ہے اس آیت کی موجودگی میں بعض مسلمان دین میں جبر کوجائز سمجھتے ہیں حالانکہ یہ امر قرآن کریم کی متعددآیات کے خلاف ہے ۔
ولقد بعثنا فی کل امۃ رسولا ان اعبدواللہ واجتنبوالطاغوت۔
اورہم نے یقینا ہر قوم میں (کوئی نہ کوئی)رسول (یہ حکم دیکر )بھیجا ہے کہ تم اللہ (تعالیٰ) کی عبادت کرو۔اورحد سے بڑھنے والے سرکش سے
فمنھم من ھدی اللہ ومنہم من حقت علیہ الضللۃ۔
کنار ہ کش رہو ۔اس پر ان میں سے بعض (تو)ایسے (اچھے ثابت)ہوئے کہ انہیں اللہ (تعالیٰ)نے ہدایت دی اوربعض ایسے کہ ان پر
فسیر و ا فی الاارض فانظرو اکیف کان عاقبۃ المکذبین ٭
ہلاکت واجب ہوگئی ۔پس تم (تمام)ملک میں پھر و اور دیکھو کہ (انبیاء کو )جھٹلانے والوں کاانجام کیساہواتھا ۳۷؎
۳۷؎ حل لغات ۔اجتنبوُا: اِجْتَنَبَ سے جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اوراِجْتَنَبَہٗ کے معنے ہیں بَعُدَ عَنہٗ۔اس سے دور ہوگیا (اقرب)
الطَّاغُوْت: کلُّ مُتَعَدٍّ۔حد سے بڑھنے والا۔کُلُّ راسِ ضلالٍ ۔ہرشخص جو گمراہی کاسردارہو۔اَلکاَھِنُ۔کاہن ۔اَلشَّْطَانُ۔شیطان ۔اَلْاصْنَامُ۔بت۔ کلُّ مَعْبُودٍ من دون ِ اللہِ ۔معبود باطل ۔مَرَدۃُ اھلِ الکتٰبِ ۔اہل کتاب میں سے سرکش لوگ ۔اس کی جمع طَوَاغِیتْ اورطواغٍ آتی ہے (اقرب)الطَّاغُوتُ : السَّاحرُ۔ساحر ۔الماردُ من الجِنِّ ۔جنّات میں سے سرکش۔الصَّارِفُ عن الطَّریق الخیر ۔نیکی سے روکنے والا (مفردات)ھدیٰ کے لئے دیکھو رعد ۲۸؎ العاقِبۃُ: اٰخِرُ کُلِّ شیئٍ ۔ہرچیز کاآخر انجا م (اقرب)
تفسیر ۔اس آیت میں کفارکے مذکورہ بالااعتراض کے متعدد جواب دیئے گئے ہیں ۔
پہلاجواب یہ دیا گیا ہے ۔کہ ہم ہر قوم میں رسول مبعوث فرماچکے ہیں ۔اوران میں سے ہر ایک نے توحید ہی کی تعلیم دی ہے ۔پس اگر تمہارایہ دعویٰ درست ہے کہ خداتعالیٰ شرک کو بھی کسی حالت میں پسند کرسکتا ہے ۔توبتائو کہ سب کے سب نبی شرک کے خلاف کیوں رہے ۔اوکیوںتوحید کی تعلیم دیتے رہے ۔اگر شرک بھی خداتعالیٰ کی تصدیق کی مہر رکھتاہے توکوئی نبی توشرک کی تعلیم دینے والابھی آتا۔
دوسراجواب بعثنا فی کل امۃٍکے الفاظ میں دیا یعنی اگر جبر ہوتا تو پھر ایک ہی رسول کافی تھا جو ان لوگوںکو جنہیں ہدایت پر چلانامقصود تھا ہدایت دے دیتا۔بار بار اورہرقوم میں نبی بھیجنے کی ضرورت توتبھی ہوئی جبکہ لوگ بار بار نبیوں کے راستے کو چھو ڑگئے ۔جبر کی صورت میں یہ امر ممکن نہ تھا ۔
تیسراجواب یہ دیاکہ ہرنبی کی تعلیم میں بد صحبت سے بچنے کا حکم موجود ہے اوربرے آدمیوں کو نہ ماننے کی تعلیم ہے ۔یادوسرے لفظوں کو شیطان کے حملہ سے محفوظ رہنے کا ارشاد ہ اگر یہ درست ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض موحد بنادیا اوربعض کو مشرک۔اوراس دنیا میں جبر سے ہی کام لیاگیا ہے تواس تعلیم کے کیا معنے ہوئے ۔اگر ہر اک شخص جس مذہب اورصل پر ہے خداتعالیٰ نے ہی اُسے اس مقام پر کھڑا کیا ہے اوراس کا اس میں اختیار نہیں تونبی بھیج کر ہوشیارکرنے کافائدہ کیا۔جو موحد ہے موحد رہے گااورجو مشرک ہے مشرک ہی رہے گا۔
چوتھاجواب یہ دیاہے کہ ہر نبی کے زمانہ میں کچھ لوگوں نے ان کے پیغام کو مان لیا حالانکہ پہلے وہ کافر تھے اورکچھ نہ مانا ۔اب اگر یہ درست ہے کہ خداتعالیٰ نے جوکچھ کسی کو بنادیا بنادیا ۔توہرنبی کے زمانہ میں ایک جماعت ایمان کیوں لاتی رہی ۔اگر خداتعالیٰ نے انہیں کافر بنادیاتھا توانہیں ایمان کس طرح نصیب ہوا۔پس ہرنبی کے زمانہ میں کافروں کی ایک جماعت کا مومن بن جانا ایک عملی ثبوت ہے اس امر کاکہ خداتعالیٰ نے جبراً کسی کو کافر نہیں بنایا ۔
پانچواں جواب یہ دیا کہ ہرنبی کے دشمن ہلاک ہوتے چلے آے ہیں دنیا ان کے نشانوں سے معمور ہے ۔علم نہ ہوتو دنیا میں پھر کردیکھ لو اب اگر تمہارایہ دعویٰ صحیح ہے کہ خداتعالیٰ نے ہی بعض لوگوں کو کافر یا مشرک بنایا ہے تووہ لوگ تو مجبورمحض تھے انہیں سزادینا کس طرح جاائز ہوسکتاتھا پس ان الٰہی عذابوں سے پتہ چلتا ہے کہ خداتعالیٰ نے ان کو مشرک یا کافر نہ بنایا تھا ۔بلکہ وہ اپنی مر ضی سے ملشرک یاکافر بنے تھے
ان تحر ص علی ھدہم فان اللہ لایھدی من یضل وما لھم من نٰصرین ۔
(اے رسول)اگر تو ان (لوگوں )کی ہدایت یابی کی بہت خواہش رکھتاہے تو(سمجھ لے کہ )جولوگ (دوسروں کو دانستہ) گمراہ کررہے ہوں انہیں اللہ (تعالیٰ)ہرگزہدایت نہیں دیتا ۔اورنہ ان کاکوئی مددگار ہوتاہے ۳۸؎
۳۸؎ تفسیر ۔اس آیت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے اتباع سے خطاب ہے کہ تم میں سے ہر اک ان کفار کی ہدایت چاہتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ ہر اک کو ہدایت نہیں دے سکتا۔کیونکہ جس طرح و ہ جبر سے کافر مشرک نہیں بناتا۔جبر سے مومن موحد بھی نہیں بناتا۔کیونکہ اس ایمان کی غرض باطل ہوجاتی ہے یعنی قلبی صفائی پیدانہیں ہوتی ،۔پس وہ تم کو بتادیناچاہتاہے کہ جو دوسروں کو گمراہ کرتے ہی انہیں وہ جبر سے ہدایت نہ دے گا۔بلکہ ان کے مددگاروں کے سلسلہ کو بھی کاٹ دے گا ۔
اس آیت میں حرص کالفظ استعمال ہواہے ۔اس سے دھوکانہیں کھاناچاہیئے ۔حرص کے معنے اردو میں برے ہوتے ہیں لیکن عربی میں صر شدید خواہش کلے ہوتے ہیںاوریہ اپنے استعمال کے موقعہ کے لحاظ سے اچھے اوربرے دونوں معنے دیتاہے ۔اگربرے کام کے لئے اس لفظ کواستعمال کیا جائے تو اس کے معنے برے ہوتے ہیں ۔اوراگراچھے کام کے لئے اس لفظ کااستعمال ہوتوا سکے معنی اچھے ہوتے ہیں گویا یہ لفظ ذاتی معنے کوئی نہیں رکھتا۔ا س نسبت کے مطابق اس کے معنے ہوتے ہیں جو جملہ میں اسے حاصل ہوتی ہے ۔یہاں چونکہ خیر خواہی کے مفہوم میں یہ لفظ استعمال ہواہے ۔اس لئے اس کے معنی اس جگہ اچھے ہیں ۔فَاِنَّ اللہَ لَایَھْدِیْ مَنْ یُضِلُّ۔اس میں یُضِلُّ کی ضمیر خداتعالیٰ کی طرف نہیں پھر تی اوریہ معنے نہیں کہ جس کو خداتعالیٰ گمراہ کرتا ہے اسے ہدایت نہیں دیت ا۔کیونکہ اسی مضمون کو توپہلی آیت میں رد کیا گیا ہے ۔پس ضمیر مَنْ کی طرف پھرتی ہے ۔اورمراد یہ ہے کہ جو دوسروں کو گمراہ کرتا ہے اسے اللہ تعالیٰ ہدایت نہیں دیتا۔
اس جملہ میں اس طرف بھی اشار ہ ہے کہ ہدایت توجہ سے ملتی ہے جو دوسروں کو گمراہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔اپنے لئے ہدایت کے کب طلب گا ر ہوسکتے ہیں اورجب دل میں تبدیلی نہ ہو توہدایت کس طرح ملے۔
مَالَھُمْ مِنْ نّٰصِرِیْنَ۔اس سے اس طرف اشارہ فرماتاہے کہ نصرت انسان کوہدایت کے معاملہ میں سوائے خداکے کوئی دیتااہی نہیں ۔مگریہ لوگ ہدایت کے ذریعہ کو بند کرچکے ہیں ۔
اگریہ سمجھیں کہ ان کو خود بخود ہدایت ہوجائے گی تویہ غلط بات ہے۔ان کی اصلاح محظ اس طرح ہوسکتی تھی کہ یہ اسلام کوقبول کرتے ۔مگر یہ لوگ توبتوں کو ہدایت کاذریعہ قرار دیتے ہیں اس لئے ان کی ہدایت مشکل ہے ۔اورجب یہ خداتعالیٰ سے منہ موڑکر جھوٹے معبودوں کی طرح متوجہ ہیں۔توخداتعالیٰ توان کی مدد کرے گانہیں ۔باقی رہے ان کے معبود وہ ان کی مدد کرہی نہیں سکتے ۔پس ان کاکوئی بھی مدد گار نہ ہوگا۔
واقسمو ا باللہ جھدایمانھم ۔لایبعث اللہ من یموت۔بلیٰ وعدًاعلیہ حقاً ولکن اکثرالناس لایعلمون
اورانہوں نے اللہ (تعالیٰ)کی بڑی زوردارقسمیں کھائی ہیں (کہ )جو مرجائے اللہ (تعالیٰ)اُسے (پھر )زندہ نہیں کرے گا(مگرحقیقت)یوں نہیں یہ (توایک ایسا)وعدہ ہے جس (کے پوراکرنے )کاوہ ذمہ وار ہے ۔لیکن اکثر لوگ (اس حقیقت کو )نہیں جانتے ۳۹؎
۳۹؎ حل لغات ۔جَھْدَ اَیْمَانِھِمْ :جَھَدَ فِی الامرِ (یَجْھَدُ جَھْدًا)کے معنے ہیں ۔جَدَّ وَتَّعَبَ فِیہِ۔کسی معاملہ میں خوب محنت اورکوشش سے کام لیا ۔جَھَدَ دابَّتَہٗ:بلغَ جَھَدَ وحَمَّلَھَا فوق طاقتِھا ۔جانورپر بہت بھاری بوجھ لادا۔الجَھْدُ مصدر پر ہے نیز اس کے معنے ہیں ۔الطَّاقَۃُ۔طاقت ۔یُقَالُ ’’افرغ جھدَہٗ‘‘ای عاقتَہٗ چنانچہ اَفْرَغَ جَھْدہ‘‘کافقرہ بول کر جھد سے مراد طاقت لیتے ہیں ۔المُشَقَّتُ ۔مشقت (اقرب) اَقْسَمُوابِاللہِ جَھدَ اَیْمَانِھِمْ ۔ای بَالَغُوْافی الیمینِ وَاجْتَھَدُوْا یعنی انہوںنے بڑی زوردار قسمیں کھائیں (اقرب)
لَایَبْعَثُ: بعث سے مضارع یَبْعَثُ آتاہے اورلَایَبْعَثُ مضارع منفی ہے ۔بعث کی تشریح کے لئے دیکھو حجر ۳۲؎
تفسیر ۔فرمایایہ لوگ جب دلائل سے عاجز آجاتے ہیں توقسمیں کھانے لگتے ہیں ۔کہ مرنے کے بعد کوئی زندگی نہیں تاکہ اپنے اتباع کو عذاب سے محفوظ رہنے کایقین دلائیں ۔اورسچ کی جستجو سے غافل کریں ۔
اس جگہ سوال پیداہوتا ہے کہ کفار قسمیں کیوں کھاتے ہیں ایسی قسموں کاکیا فائدہ تھا ۔ا س کوجواب یہ ہے کہ بعض لوگ کمزورطبیعت کے ہوتی ہیں وہ خودفیصلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ جب سچے مذہب کے دلائل سن کر ان کے دل متذبذب ہوجاتے ہیں ۔توان کے سردار اورلیڈر قسمیں کھا کھا کر انہیں اپنے سابق عقیدہ پر پکا رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اورچونکہ ان لوگوں میں عزم نہیں ہوتا۔کچھ ان میں سے ان قسموں سے مرعوب ہوکر پھر اپنے پرانے خیالات کی طرف عود کرجاتے ہیں ۔پس یہ بھی لوگوں کو ہدایت سے محروم کرنے کا ایک ذریعہ ہے جو کفار کے سردار ہمیشہ سے استعمال کرتے چلے آئے ہیں ۔عوام النااس امر کو نہیں سمجھتے کہ قسم تواس شخص کی قابل اعتبار ہوتی ہے جو نیک ہو اورصرف مزید زوردینے کے لئے ہوتی ہے ۔ورنہ جھوٹے لوگ جس طرح بغیر قسم کے جھوٹ بولتے ہیں قسم کے ساتھ بھی جھوٹ بولتے ہیں ۔یاپھرقسم شہادت کافائد ہ دیتی ہے یعنی جن امور میں اللہ تعالیٰ نے جھوٹی قسم پر اس دنیا میں گرفت کرنے کافیصلہ کیا ہو ۔ان کے متعلق جھوٹی قسم کھانے والا اگر عذاب سے محفوظ رہے تویہ اس کے سچاہونے کاثبوت ہوتا ہے ۔ورنہ ہرقسم کی نہ اس دنیا میں سزاملتی ہے نہ وہ کوئی دلیل ہوتی ہے ۔اسی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عدالت دینی میں جھوٹی قسم کھانے واے سزاپاتے ہیں ۔یعنی ہر اک کو اس دنیا میں سزانہیں ملتی ۔
لیبین لھم الذی یختلفون فیہ ولیعلم الذین کفرواانھم کانو کٰذبین ٭
(یہ دوبارہ زندگی اسلئے ہوگی کہ )تاوہ ان پر اس (حقیقت) کو ظاہرکرے جس میں وہ (آج) اختلاف کررہے ہیں اورتاجن لوگوں نے کفر (کاطریق )اختیار کیا ہے انہیں معلوم ہوجائے کہ وہ جھوٹے تھے ۴۰؎
۴۰؎ تفسیر ۔ اس میں اوپر کے مضمون کی دلیل بیان فرمائی گئی ہے اوروہ یہ کہ حشر بعد الموت مذہبی ا مورمیں یقین پیداکرنے کے لئے ضروری ہے ۔اس دنیا میں تواختلاف کبھی مٹتا نہیں۔ہمیشہ ہی بعض لوگ مدعیان نبوت کے منکر ہوتے ہیں اوربعض مومن ۔اگر اسی دنیا تک انسانی زندگی ختم ہوجائے ۔تواول تونبی کے دعویٰ کے متعلق کامل انکشاف نہ ہو اوراس کاامر مشتبہ رہے دوسرے وہ طبقہ جو منکر ہے وہ ہمیشہ کے لئے ہدایت سے محروم رہ جائے اوریہ اللہ تعالیٰ کی شان کے خلاف ہے ۔اس نے سب انسانوں کو عبد بننے کے لئے پیداکیا ہے ۔اگراسی دنیا میں انسانی زندگی ہوجائے توپھر منکر کبھی عبد نہیں بن سکتے ۔اس لئے ضرور ہے کہ ایک اورزندگی انسان کو ملے۔جس میں حقیقت واضح کردی جائے تاسب لوگوں پر حقیقت کھل جائے اورجو اس دنیا میں حق کے سمجھنے سے محروم رہے ہیں اس دنیا میں حق کو سمجھنے کے اقابل ہوجائیں ۔اس آیت پر یہ اعتراض کیاجاسکتاہے کہ اللہ تعالیٰ نبیوں اورآسمانی کتب کی نسبت بھی فرماتا ہے کہ اوہ تبیین کرتی ہیں پس جب تبیین یہاں ہوجاتی ہے تواس کے کیا معنی ہوئے کہ بعث بعد الموت کی اس لئے ضرورت ہے کہ جن امور میں اختلاف ہے ۔اس کے متعلق اللہ تعالیٰ تبیین کردے ۔اس دنیا میں تبیین کادعویٰ خود اسی سورۃ میں کیا گیا ہے فرماتا ہے وَمَآ اَنْزَلْنَاعَلَیْکَ الکِتٰبَ اِلَّا لِتُبَیِّنَ لَھُمُ الَّذِ ی اخْتَلَفُوْافِیْہِ(نحل ع ۱۴) یعنی ہم نے تجھ پر یہ کامل کتاب صر ف اس لئے اتاری ہے کہ جس بارہ میں یہ لوگ اختلاف کرتے ہیں اس کے متعلق توانہیں حقیقت کھول کرسنادے ۔پس سوال پیداہوتا ہ کہ جب اس دنیا میں حقیقت کھول دی گئی تواگلے جہان کی ضرورت نہ رہی ۔اس سوال کاجواب یہ ہے کہ اس دنیا کے متعلق جب تبیین کالفظ استعمال ہوتاہے تواس کے معنے عقلی طورپر اوردلائل سے حقیقت کے کھول دینے کے ہوتے ہیں اورایسی تبیین صرف ان لوگوں کے لئے کافی ہوتی ہے جو حق کے متلاشی ہوتے ہیں ۔مگرجولوگ حق کے متلاشی نہ ہوں ان کے لئے یہ تبیین مفید نہیں ہوتی ۔پس ان کے لئے ایسی تبیین کی ضرورت ہے جو ا س قدر واضح ہو کہ اس کے بعد انکار کی گنجائش نہ رہے ۔اوربہانہ سازی کاموقعہ ہی باقی نہ رہے ۔یہ تبیین اس دنیا میں نہیں ہوسکتی ۔کیونکہ ایسی تبیین کے بعد اعلیٰ ایما ن نصیب نہیں ہوسکتا ۔جس طرح سورج کو سورج ماننا کوئی اعلیٰ خوبی نہیں ۔اسی طرح ایسے اظہارحق کے بعد ایمان کے اعلیٰ مقامات حاصل نہیں ہوسکتے ۔پس انسانوں میں سے جو اللہ تعالیٰ کے خاص فضلوں کو حاصل کرناچاہتے ہیں ۔انکو موقعہ دینے کے لئے نبیوں والی تبیین تو اس دنیا میں ہوجاتی ہے اورسب بنی نوع انسان پر صداقت ظاہرکرنے کے لئے وہ تبیین جس کاذکر اس آیت میں ہے ۔اگلے جہان میں ہوتی ہے ۔ایسی تبیین کے بعد یمان خاص نفع نہیں دیتا ۔ہاں کفا ر کو اس قابل بنادیتاہے کہ خدابھگتنے کے بعد خداتعالیٰ کی بخشش کوحاصل کرلیں ۔
غرض اس آیت میں یہ بتایاہے کہ وہ تبیین جو سب کو ایما ن دیدے اس دنیا میں ہونہیں سکتی ۔پس ایک اورجہان کی ضرورت ہے جہاں اس تبیین کو اللہ تعالیٰ ظاہر فرمائے
وَلِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ۔اس جملہ سے پہلی دلیل کوواضح کیا ہے اوربتایا ہے کہ اس جگہ جس تبیین کاہم نے ذکر کیا ہے ۔وہ ایسی تبیین ہے جس کے بعد کافر انکار کرہی نہیں سکتا۔اوراپنے جھوٹے ہونے کااسے یقین ہوجاتاہے ۔نہ کہ عام تبیین جس کا ذکر دوسری آیات میں کیاگیاہے ۔
انما قولنا لشیئٍ اذااردنٰہ ان نقول لہ کن فیکون ٭
ہماراقول کسی (ایسی )چیز کے متعلق جس(کے پوراکرنے)کاہم ارادہ کریں صرف یہ ہوتاہے کہ ہم اس کے متعلق کہہ دیتے ہیں کہ ہوجا تووہ ہوجاتی ہے ۴۱؎
۴۱؎ تفسیر ۔فرمایا ایک وجہ قیامت کے انکار کی یہ ہے کہ لوگ اسے ناممکن سمجھتے ہیں ۔حالانکہ اس دنیا میں جو ہماری طاقت کااظہار ہورہا ہے ۔اس وہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ ہمارے لئے کوئی بات انہونی نہیں ۔ہم توجب کسی امر کے متعلق کہتے کہ ایساہوجائے ویساہی ہوجایاکرتاہے ۔پھر قیامت پر کیوں شک ہے ۔
اس جگہ ان پیشگوئیوںکو قیامت کی دلیل کے طورپرپیش کیا ہے جو اس دنیا میں نبی کرتے ہیں اورباوجودحالات کے خلاف ہونے کے وہ پوری ہوتی ہیں ۔اوراللہ تعالیٰ کے قادر ہونے کو ثابت کردیتی ہیں ۔فرماتاہے ان پیشگوئیوں پر قیاس کرکے تم قیامت کے امکان کو بھی سمجھ سکتے ہو۔
کُنْ۔بعض لوگوں ا س آیت کے بارہ میں یہ شبہ پیداہواکرتا ہے کہ کُنْ کہنے سے کیامراد ہے وہ کہتے ہیں کہ جب کوئی چیز موجود ہی نہ تھی توپھر حکم کس کو دیدیا ۔
آریہ لوگ کہتے ہیں کہ اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ پہلے کوئی ماد ہ موجود تھا۔تبھی تواللہ تعالیٰ نے اس پرحکومت کی۔جوچیز ہے ہی نہیں وہ اسے حکم کس طرح دے سکتا ہے ۔مگر یہ استدلال ان کا غلط ہے کیونکہ اس آیت کاو ہ ترجمہ جس پر اعتراض کیاجاتاہے یہ ہے جب ہم اراد ہ کرتے ہیں اس چیز کا جس کے متعلق ہم چاہتے ہیں کہ و ہ ہوجائے ۔اس کے متعلق کہتے ہیں کہ ہوجا ۔پس وہ ہوجاتی ہے ۔ظاہر ہے کہ ان الفا ظ پر اوپر کااعتراض اس صورت میں بھی کہ مادہ کو پہلے سے موجود مانا جائے وارد ہوتاہے ۔کیونکہ خواہ پہلے سے موجود مادہ سے ہی کسی چیز کو بنایاجائے جب تک اس کی وہ نئی صورت نہ بنے ۔جسے بنانے کااراد ہ کیا گیاہو اسے کو ئی حکم نہیں دیاجاسکتا۔
غرض آریوں کو اس آیت سے اپنے حکم میں استدلال بالکل باطل ہے ۔کیونکہ مادہ کوموجودماننے کی صورت میں بھی وہی اعتراض باقی رہتاہے جسے وہ دور کرناچاہتے ہیں ۔جس سے ثابت ہوجاتا ہے کہ آیت کے و ہ معنے ہی نہیں جو اوپر کئے گئے ہیں ۔بلکہ آیت کے معنے ہی کچھ اورہیں ۔
وہ صحیح معنے کیا ہیں؟ اسے سمجھنے کے لئے کُنْ کے معنوں کو پہلے صاف کرلینا ضروری ہے کُنْ کے عربی زبان میں کئی معنے ہوتے ہیں جن میں سے ایک معنے ’’ ایساہوجائے‘‘کے ہیں۔اس کاثبوت مندرجہ ذیل واقعہ سے ملتا ہے ۔تاریخ میں آتاہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تبوک کو روانہ ہوگئے ۔توبعض صحابہؓ پیچھے رہ گئے ۔ان میں سے ایک ابو خثیمہ بھی تھے ۔یہ بہت نیک تھے ۔ان کا خیال بھی نہ تھا کہ پیچھے رہیں ۔مگر جب جنگ کے لئے باہر نکلنے کاحکم ہوا۔تواس وقت وہ گھر پر موجود نہ تھے۔ جب وہ گھر آئے توانہوں نے دیکھا کہ ان کی بیوی ان کے انتظار میں بیٹھی ہے جیسے کوئی باتیں کرنے کی خواہش رکھتا ہو ۔انہوں نے بیوی کی اس خواہش کو نظر انداز کرتے ہوئے بیوی سے پوچھا کہ کیا رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے ہیں۔ان کی بیوی نے کہا کہ ذرابیٹھ توجائو ۔انہوں نے جواب دیا کہ خداکارسول توجنگ کے لئے روانہ ہوجائے اورمیں گھر میں آرام کروں۔ابوخثیمہ سے ایسانہیں ہوسکتا ۔ اوراسی وقت نکل کر گھوڑے کو تیار کیااوراس پر سوار ہوکر اس راستہ پر چل پڑے جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے تھے ۔آخر مارامار سفر کرکے کئی منزلوں کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوگئے ۔جب یہ لشکر کے قریب پہنچے توبعض صحابہ نے دور سے گرد اُٹھتی ہوئی دیکھی اورخیال دوڑانے لگے کہ یہ کون آرہاہے ۔اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کْنْ اَباخیثمۃ۔ابوخثیمہ ہوجا ۔اب اس فقرہ کا یہ مطلب توہونہیں سکتا ۔کہ آنے والاکوئی بھی ہو وہ ابوخثیمہ بن جائے ۔پس اس کے معنے یہی ہیں کہ میری خواہش ہے کہ آنے والا ابوخثیمہ ہو (طبری) کُن کے یہی معنے اس آیت میں ہیں اورمطلب آیت اکا یہ ہے کہ جب ہم چاہتے ہیں کہ کوئی امر وقوع میں آ ئے توہم خواہش کرتے ہیں کہ وہ امر اس طرح ظہور میں آجائے اورہمارے اس اراد ہ کے بعد اسی طرح ظہورمیں آجاتاہے ۔پس اس جگہ کسی معدوم شے کو حکم دینے کاسوال ہی نہیں ۔کُن کالفظ صرف آئندہ وقوع کی خواہش پر دلالت کرتا ہے ۔
غرض اس آیت کاصر ف یہ مطلب ہے کہ جب ہم چاہتے ہیں کہ کوئی امر ہوجائے توہم اس قسم کی چیز کے پیداکرنے کاارادہ کرلیتے ہیں ۔اورجس طرح ہم ارادہ کرتے ہیں اسی طرح واقعہ ہوجاتاہے ۔
والذین ھاجروا فی اللہ من بعد ماظلموا لنبوئنھم فی الدنیا
اورجن لوگوں نے اس کے بعد کہ ان پر ظلم کیاگیا (اللہ تعالیٰ)کے لئے ہجرت اختیار کی(ہمیں اپنی ذات کی قسم ہے کہ)ہم انہیں ضرورہی
حسنۃًو لاجراالاخرۃ اکبرلوکانو یعلمو ن ٭
دنیا میں اچھی جگہ دیں گے ۔اورآخرت کااجر (تو)اوربھی بڑاہوگا۔کاش یہ (منکر اس حقیقت کو)جانتے ۴۲؎
۴۲؎ حل لغات ۔لَنُبَوِّئَنَّھُمْ:بَوَّأَ سے مضارع متکلم کاصیغہ ہے اوربَوَّأَہٗ اوربَوَّأَلَہٗ منزلاً کے معنے ہیں۔ھَیَاَ ہ ومَکَّنَ لَہُ فیہِ۔اس نے اس کے رہنے کے لئے مکان تیارکیا (اقرب)پس لَنُبَوِّئَنَّھُمْ کے معنے ہوئے ۔ہم ضروران کے لئے جگہ بنائیں گے ۔
تفسیر ۔اس رکوع میں پچھلی آیت کُنْ فَیَکُوْنُ کاثبوت دیا ہے کہ دیکھ لو ۔تھوڑی سی جماعت ہے تم نے ان پر ایسے ظلم کئے ہیں کہ ان کو ملک چھوڑنا پڑا۔پس ایسے لوگوںکوہم دنیا میں اچھی سے اچھی جگہ دیں گے اوریہ ہوکررہے گا۔
فِی اللہِ ۔اس کے معنے کئی طرح ہوسکتے ہیں (۱)فی بمعنی لام ہو ۔اس صورت میں یہ معنے ہوں گے کہ انہوں نے اللہ کی خاطرہجرت کی ۔ اس کے سواکوئی اورمقصدان کا نہ تھا ۔
حدیث میں آیا ہے کہ ہجرتیں کئی قسم کی ہوتی ہیں ۔کوئی انسان بیوی کی خاطر ہجرت کرتا ہے کوئی مال کی خاطر۔کوئی خداکی خاطر۔توفرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جوصرف خداتعالیٰ کی خاطرہجرت کررہے ہیں ۔آج دشمن اعتراض کرتے ہیں ۔کہ مسلمانوں نے روپے کی خاطرلڑائیاں کیں ۔ عالم الغیب خداتوجانتاتھا کہ ایسے اعتراض اس کے پاک بندوں پرکئے جائیں گے ۔اس نے لڑائیوں کے شروع ہونے سے بھی پہلے اس اعتراض کاجواب دے دیا ۔
(۲)اس میں مضاف کو مقدر سمجھاجائے اورعبارت یوں سمجھی جائے فِی دِینِ اللہِ یعنی وہ اللہ کے دین کی خاطر ہجرت کرتے ہیں ۔یعنی ان کی ہجرت اس غرض سے ہے کہ مکہ میں تودین کاکام کرنے کی آزادی نہیں ۔پس ترک وطن کرکے ایسی جگہ چلے جائیں ۔جہاں دین کی خدمت کرنے کی آزادی ہو ۔
(۳)فِی کے وہی معنے لئے جائیں جو زیاد ہ معرو ف ہیں ۔اس صورت میں ان الفاظ کا یہ مطلب ہوگاکہ انہوں نے اللہ میں ہوکر ہجرت کی ۔یعنی کلی طورپر اللہ تعالیٰ کو اپنے پر مستولی کرلیا ۔اوراس کی صفات کو اختیار کرلیا اوراپنے نفس کو مارکر اپنے ہر اک کام کوخداکے لئے کردیا ۔ پس گویا انکامکہ سے نکلنا چند انسانوں کا نکلنانہ تھا ۔بلکہ اللہ تعالیٰ کامکہ سے نکل جاناتھا ۔ا ن کے جانے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ بھی مکہ والوں کے ہاتھ سے نکل گیا ۔
مِنْ بَعْدِ مَاظُلِمُوْا۔یعنی ان کی ہجرت بغیر کسی وجہ کے نہیں ۔بلکہ اس لئے ہے کہ لوگوں نے ان کو وہاں رہنے نہیں دیا ۔اورنکلنے پرمجبورکردیا ۔
اس آیت سے استدلال ہوتاہے کہ مومن کوجلدی ہی اپنی جگہ کو چھوڑنا نہیں چاہیئے ۔بلکہ تبلیغ کر تے رہنا چاہیئے ۔جب تک کہ لوگ اس حد تک مجبورنہ کردیں کہ دین پر عمل وہاں ناممکن ہوجائے ۔
لَنُبَوِّئَنَّہُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً ضرورہی ہم ان کو اسی دنیا میں اس سے بہتر مقام دیں گے چنانچہ اس کے مطابق جہاں بھی مسلما ن گئے ۔وہیں انکو بہتر مقام ملا ۔یہ ذکر اس ہجرت کا ہے جو مدینہ کی طرف حضرت عمرؓ اوربعض اورصحابہؓ نے کی تھی ۔مگر اس سے پہلے یا اس کے بعد جدھر بھی مسلمانوں نے ہجرت کی وہ جگہ ان کے لئے بہتر ہوگئی ۔اگرہجرت کے آخری نجا م کودیکھاجائے تواس ہجرت کے نتیجہ میں معمولی تاجر اوراونٹ پالنے والے دنیا کے بادشا ہ ہوگئے ۔
وَلَاَجَرُ الْاٰخِرَۃِ اَکْبَرُ۔یعنی اصل مقام توجزا ء کابعد الموت آئے گا اور وہ انعام بہت بڑاہوگا۔مگر ان لوگوں کو سمجھا نے کے لئے دنیا میں بھی ہم مسلمانوںکو اعلیٰ مقام عطافرمائیں گے ۔وَلَاَجَرُ الْاٰخِرَۃِ اَکْبَرُکے معنے اس مقام سے جو حضرت ابوبکرؓ اورحضرت عمرؓ کو دنیا میں ملا خو ب سمجھ میں آسکتے ہیں۔ان کو خداتعالیٰ نے متمدن دنیا کے اکثر حصہ پر حکومت دی ۔جب انعام کا یہ حقیر حصہ تھاتوبڑاحصہ کیاہوگااورہراک صحابی کا اجر پارہاہوگا۔
اس آیت کا تعلق پہلی آیت سے یہ ہے کہ اس میں بتایاتھا کہ تم قیامت کے منکر اس لئے ہو کہ ایسا ہوناناممکن ہے ۔لیکن دیکھتے نہیں کہ کس طرح ہم اس دنیا میں حکم دیتے ہیں اورناممکن باتیں ممکن ہوجاتی ہیں ۔پھر بعث بعدالموت کو تم ہمارے لئے کیو ں ناممکن خیال کرتے ہو۔اب اس دعویٰ کی تائید میں ایک پیشگوئی فرماتا ہے جویہ ہے کہ مکہ والے تو مسلمانوں کوذلیل سمجھتے ہیں اوران کو تکلیف دے کر اس لئے وطن سے نکالنا چاہتے ہیں کہ یہ باہر جاکر بے گھر بے درہوجائیں اورتکلیف پائیں ۔مگرہم پیشگوئی کرتے ہیں کہ ان کا باہر نکلنا مفید ہوجائے گااوراس ہجرت کے نتیجہ میں ان کو دینی ہی نہیں بلکہ دنیوی فوائد بھی پہنچیں گے اورانہیں حکومت مل جائے گی ۔یہ پیشگوئی اس وقت کی گئی تھی جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی مکہ میں ہی تھے ۔اورمسلمان ایسے کمزو ر تھے کہ مکہ والے آپ کو قتل کرنے یاگھر سے نکال دینے یاقید کرنے کے منصوبے کررہے تھے ۔اس کے ایک دوسال کے اندر اس ہجرت کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کوبادشاہ بنا دیا ۔یہ ایک زبردست نشان ہے ان لوگوں کے لئے جو قیامت کا انکار اس لئے کرتے ہیں کہ ایسی بات کس طرح ہوسکتی ہے ۔جوخداعجائبات دکھانے کاعادی ہے ۔اس کی کس قدر ت پر انسان تعجب کرسکتا ہے ۔
الذین صبروا وعلی ربھم یتوکلون ٭
جو (ظلموں کا نشانہ بن کر بھی )ثابت قد م رہے اور(جوہمیشہ ہی )اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں ۴۳؎
۴۳؎ حل لغات ۔صَبَرُوْا: صَبَرَ سے جمع مذکر غائب کاصیغہ ہے ۔صَبَرَ کی تشریح کے لئے دیکھورعد ۲۳؎
یَتَوَکَّلُوْنَ:تَوَکَّل سے مضارع جمع مذکر غائب کاصیغہ ہے مزید تشریح کے لئے دیکھو یوسف ۲۷؎
تفسیر ۔مراد یہ ہے کہ ھَاجَرُوْا اورظُلِمُوْاجن لوگوں کی نسبت ہم نے کہاہے ۔وہ ایسی جماعت ہے کہ اس پر ظلم ہوئے اورانہوں نے صبر کیا اورگھروں سے بے گھر کئے گئے مگراللہ تعالیٰ پر امید نہ چھو ڑی ۔
اس آیت میں پہلی دوصفات کی گویا مزید تشریح کی گئی ہے مظلوم ہونا خداتعالیٰ کی مدد کو کھینچتاہے ۔مگرجو مظلوم ہواورپھر صبر بھی کرے ۔وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کو بہت زیادہ اوربہت جلدی جذب کرتا ہے ۔اسی طرح اللہ تعالیٰ کی خاطرتکلیف اٹھا کرہجرت کرن اایک بڑی نیکی ہے ۔مگر اس حالت میں جبکہ سب سامان لٹ جائے اوروطن تک چھوڑنا پڑے ۔دل کو اس یقین سے پُررکھنا کہ ہم تباہ نہیں ہوسکتے اللہ تعالیٰ ضرور ہماری مدد کر یگا اس سے بھی بڑی نیکی ہے ۔
وماارسلنامن قبلک الا رجالاً نوحی الیھم
اورہم نے تجھ سے پہلے (بھی ہمیشہ)مردوں ہی کو رسول بناکر بھیجا کرتے تھے ہم ان کی طرف وحی بھیجتے تھے
فسئلو اھل الذکر ان کنتم لاتعلمون ٭
اور(اے منکرو)اگرتم (اس حقیقت کو )نہیں جانتے تواس(اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے )ذکر(کوماننے )والوں سے (ہی) پوچھ(کرمعلوم کر)لو ۴۴؎
۴۴؎ حل لغات ۔الذّکر : کے لئے دیکھو یوسف ۱۰۱؎
تفسیر ۔یعنی ان لوگوں کی مخالفت کی بڑی وجہ یہی ہے کہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ مدعی ہمارے جیسا آدمی ہے ۔اس لئے ہمار اکیا بگاڑ سکتا ہے ۔لیکن یہ نہیں جانتے کہ پہلے نبی بھی توانسانوں جیسے انسان تھے پھر وہ کس طرح کامیاب ہوگئے ۔
فَاسْئَلُوْااَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَاتَعْلَمُوْنَ۔ کہہ کر کفار کو شرمند ہ کیا گیا ہے ۔وہ دعویدا ر تھے کہ وہ ابراہیم ؑ اوراسمٰعیل ؑ کی اولاد ہیں اوران کے حالات بھی ان کے سامنے تھے کہ کس طرح تکالیف اٹھا کرکامیاب ہوئے ۔پس فرماتاہے کہ تم توشائد اپنے بزرگوںکو بھول گئے ہو ۔اگر تم کو ان باتوںکاعلم نہیں تودوسری اقوام سے دریافت کرلو ۔
ذکر کے معنے چونکہ یاد رکھنے کے بھی ہیں ۔اہل الذکر سے مراد یاد رکھنے والے کے بھی ہوسکتے ہیں ۔اس صورت میں یوں معنے ہوں گے کہ اگرتم نہیں جانتے اورباپ دادوں کی باتوں کو بھو ل گئے ہو توجن کو یاد ہیں ان سے پوچھ لو یعنی مسلمانوں سے ۔یہ پیرایہ کلام نہایت لطیف اوربلیغ ہے ۔کفاریہ طنز سن کر دل میں کٹ ہی مرے ہوں گے ۔
نُوْحِیْ اِلَیْھِمْ۔کہہ کرا س طر ف اشارہ کیاگیا ہے کہ نبی کا شرف فوجوںاورسامانوں سے نہیں ہوتا ۔بلکہ اس کی ودلت اس کی وحی ہوتی ہے اوراس کی ذریعہ سے وہ فتح پاتا ہے ۔
ا س آیت میں ا س طرف بھی اشارہ ہے کہ اگرکفار خیا ل کریں کہ اس بے سامان آدمی کے ذریعہ سے مسلمانوں کوحکومت کہاں سے مل جائے گی۔توان کو یاد رکھنا چاہیئے کہ پہلے انبیاء بھی ایسے ہی تھے اوران کے پاس وحی الٰہی کے سوااورکچھ نہ تھا ۔پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعہ سے دنیا میں بہت بڑے تغیرات پیداکردیئے اوراسی دنیا میں ایک حشر برپاکردیا ۔
یہاں پر رِجَالًا اس لئے فرمایا کہ ان کا مطالبہ یہ تھا کہ ہمارے پر ملائکہ کیوں نازل نہیں ہوتے ۔چنانچہ پہلی سورۃ میں بھی ان کا مطالبہ لَوْ مَاتَأتِیْنَا بِالْمَلٰئِکَۃِ کے الفاظ میں گذر چکا ہے ۔یہاں ان کے اس خیال کو مدنظر رکھ کر ایک طنز بھی کی ہے ۔اوروہ یہ کہ تم تو فرشتوں کوخداتعالیٰ ک بیٹیاں کہتے ہو ۔پھر وہ ایلچی بن کر تمہارے پاس کیونکر آئیں ۔ایلچی بن کر تومرد ہی آئیں گے ۔
چونکہ ہجرت کے بعد حکومت ملنی تھی اورحکومت کے ساتھ ان لالچیوں کے گروہ نے بھی پیداہوناتھا جواس حکومت کو دنیو ی حکومت سمجھ کر اس میں سے حصہ بٹانے کی کوشش کرنے والے تھے جیسے کہ مسیلمہ ۔سجاع وغیر ہ نے ۔اس لئے کوئی بعید نہیں کہ اس آیت میں اس آنیوالے فتنہ کابھی سدباب کیا گیا ہو کہ جب لو گوں نے فصاحت پر دعویٰ نبوت کی بنیاد رکھنی تھی اوربعض عورتیں بھی نبوت کادعویٰ کرنے والی تھیں ۔ان دونوں خیالا ت کارد رِجَالًا اورنُوْحِیْ اِلَیْہِمْ کے الفاظ سے کیاگیا ۔
بالبینٰت والزبر۔وانزلنا الیک الذکر لتبین
(ہم نے انہیں)روشن نشانات اور(الہامی)نوشتے دیکر (بھیجاتھا )اورتجھ پر ہم نے یہ (کامل)ذکر نازل کیا ہے
للناس مانزل الیھم ولعلھم یتفکرون ٭
تاکہ تُو سب لوگوںکو وہ(فرمان الٰہی )جو(تیرے ذریعہ سے )ان کی طرف نازل کیاگیا ہے کھول کربتائے اورتاکہ وہ (اس پر )تدبر
کریں ۴۵؎
۴۵؎ حل لغات ۔بِالْبَیِّنٰتِ:البینات البیّنۃ کی جمع ہے ۔اورالبیّنۃ کے معنے ہیں ۔الدلیل الحجّۃ ۔دلیل(اقرب)
الزُّبُر:زَبَرہٗ(یزبُرُ)زبراً کے معنے ہیں ۔رَمَاہُ بِالحجارۃِ ۔اس کو پتھر مارے ۔زَبَرالکتابَ (یَزْبِرُ۔یَزْبُرُ)کَتَبَہٗ۔کتاب کولکھا ۔وَزادَ فی مفردات الرّاغبِ کتابۃً غلیظۃً۔اورمفردات میں زَبَرکے معنے موٹی قلم یا گہری روشنائی سے لکھنے کے ہیں ۔زبرالسائل:انتھرہٗ۔سائل کوڈانٹا۔ زبرعن الامر ۔مَنَعہٗ ونَھَاہٗ۔کسی کام سے روکا۔الزِّبْرُ کے معنے ہیں ۔اَلْفِرقَۃُ۔حصہ ۔المک ۔ملک۔الکتاب۔کتاب ۔کیونکہ یہ بھی لکھی جاتی ہے ۔اس کی جمع زُبُور ہے (اقرب)
تفسیر ۔اس آیت میں پہلی آیت کے مضمون کی مزید تشریح کی ہے اوربتایا ہے کہ نبی بیّنات اورزُبر لے کر آتے رہے ہیں ۔یعنی نشانات اورکلام الٰہی لانا ہی ان کی غرض تھی اور انہی دونوں سامانوں سے ان کی ترقی ہوتی رہی ہے ۔
وَاَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الذِّکْرَ کے گولفظی معنے تویہی ہیںکہ تجھ پر ہم نے ذکر اتاراہے ۔لیکن چونکہ یہ زُبر کے مقابل پر ہے جس کے معنے کتاب کے ہیں یعنی اس وحی کے جس کاماننا فرض ہو ۔اس لئے ذکر کے معنے اس جگہ خا ص ہوجائیں گے ۔کیونکہ جب وہ لفظ ایک دوسرے کے مقابل استعمال کئے جائیں۔تواگر دونوں لفظ مختلف قسم کی اشیاء پر دلالت نہ کرتے ہوں ۔توبعد میں آنے والا لفاظ یاپہلے سے اعلیٰ معنے دیتا ہے یاادنیٰ۔اس جگہ چو نکہ موقعہ اعلیٰ معنو ں کے اظہارکا ہے ۔اس لئے الذکر کے معنے اعلیٰ شرف والی کتاب کے ہوں گے یازیادہ مکمل کتاب کے ۔اورمطلب یہ ہوگاکہ پہلوںکوتوبیّنات اورزُبر ملتے رہے ہیں ۔تجھے بیّنات اورالذکر ملے ہیں جوان کے انعام سے زیادہ ہے ۔ پس اگر تیری کتاب سے ادنیٰ درجہ کی کتب کی مددسے پہلے انبیاء اپنے دشمنوں کوشکستیں دیتے رہے ہیں۔توتُو ان سے اعلیٰ الہام کامورد ہوکر کیوں اپنے دشمنوں کو شکست نہ دے سکے گا۔ان معنوں کے روسے الذکر کاالف لام کما ل کے معنوں میں لیاجائے گا۔
اس کے علاوہ ذکر کے جو دوسرے معنے ہیں ۔وہ بھی اس سے مراد ہوسکتے ہیں۔اوروہ یہ ہیں (۱)دعا(۲)محکم ۔مضبوط(۳)ثناء۔تعریف (۴) کسی چیز کااس طرح ذہن میں رکھنا کہ وہ بھول نہ سکے ۔
ان معنوں کے روسے آیت کے معنے ہوں گے کہ ہم نے تجھے جو کتاب دی ہے ۔اس میں خاص خوبی یہ ہے کہ وہ کامل دعائوں پر مشتمل ہے اوراس وجہ سے وہ خداتعالیٰ کے خا ص فضل جذب کرنے کاموجب ہوگی ۔اورپھر وہ محکم تعلیمات پر مشتمل ہے ۔اس لئے کوئی اعتراض اِسے نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔اورپھر وہ ثناء ہے جو لو گ اس سے تعلق رکھیں گے ان کی تعریف کاموجب ہوگی ۔ان کے اخلاق اوراعما ل کو ایسابنادے گی کہ دنیا ان کی تعریف کرے گی یایہ کہ اس میں خداتعالیٰ کی کامل ثناء ہے اس وجہ سے ماننے والوں کا عرفان بڑھے گا۔پھر وہ ایسی مقبول ہو گی کہ اُسے بھلایانہ جائے گا ۔ہروقت لوگ اس کی تلاوت میں مشغول رہیں گے ۔
لِتُبَیِّنَ لِلنَِّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ ۔لِتُبَیِّنَکالام لام تعطیل بھی ہوسکتا ہے اورلام عاقبت بھی ۔لام تعطیل کی صورت میں اس کے یہ معنے ہوں گے کہ ہم نے تجھ پر دوسری کتب سے اعلیٰ خوبیوں والی کتاب اتاری ہے ۔تاکہ تو سب دنیا کو وہ تعلیم سنائے ۔جو ان کے لئے اتاری گئی ہے۔یعنی تجھ پر اترنے والی کتاب کا سب سے اعلیٰ ہونا اس سبب سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کسی ایک قوم یاایک زمانہ کے لوگوں کے لئے نازل نہیں کیا۔بلکہ سب لوگوں کے لئے نازل کیا ہے ۔خواہ وہ کسی قوم کے ہوں یاکسی زمانہ کے ہوں۔لام عاقبت کی صورت میں یہ معنے ہوں گے کہ چونکہ تجھ پر اعلیٰ کتاب نازل ہوئی ہے ۔اس لئے تواسے مخفی کس طرح رکھ سکتاتھا ۔اس اعلیٰ کتاب کانزول اس کاباعث ہواہے ۔کہ توسب دنیا کو اس کی طرف بلارہاہے ۔ایسی کتاب جس پر نازل ہو وہ خاموش کس طرح رہ سکتاہے ۔
نُزِّلَ اِلَیْھِمْ کہہ کر کفار کے جذباتِ محبت کو ابھاراہے ۔یعنی گوکتاب تجھ پرنازل ہوئی ہے ۔لیکن چونکہ غرض یہ ہے کہ اس کتاب سے سب دنیا فائدہ اٹھائے ۔اسلئے درحقیقت یہ نزول ساری دنیا پر ہی ہے ۔پھر یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی اس محبت کی قد رکیوں نہیں کرتے ۔
نُزِّلَ اِلَیْھِمْ سے اس امر پر بھی زوردیاگیا ہے کہ اس کتاب کاسب دنیا تک پہنچانا ضروری ہے ۔کیونکہ اس کا نزول سب دنیا کی طرف ہے اوریہ سب دنیا کامال ہے ۔پس ان تک اس کا پہنچانا نہایت اہم فرض ہے ۔کاش!مسلمان اس نکتہ کو سمجھتے اورتبلیغ اسلام کے فریضہ اداکرنے میں سستی نہ کرتے ۔توآج دنیا میں اسلام کے سوا کوئی اورمذہب نظرنہ آتاکیونکہ اس کی پا ک تعلیم کے سامنے کوئی اورتعلیم ٹھہر نہیں سکتی ۔آج بے شک اس کی اشاعت میں روک ہے ۔کیونکہ دنیوی حرص و آز اسلام کے قبول کرنے میں روک ہورہی ہے ۔مگر یہ حالت توآج پیداہوئی ہے ۔پہلے تودنیا بھی مسلمانوں کے قبضہ میں تھی ۔جس طرح دین ان کے ہاتھ میں تھا۔
لِتُبَیِّنَ میں ایک اورلطیف مضمون بھی بیان کیاگیا ہے اوروہ یہ ہے کہ بعض کتب ایسی ہیں جن کو انسان شرم کیوجہ سے سنا ہی نہیں سکتا ۔مثلاً بائبل کے بعض ٹکڑے ۔لیکن قرآن کریم ایسی شریفانہ باتوں پر مشتمل ہے کہ ہر جگہ پر اُسے سنایاجاسکتاہے ۔
ایک عیسائی کاقول ہے کہ قرآن میں یہ خوبی ہے کہ ہرمجلس میں پڑھاجاسکتاہے ۔مگر ہماری کتابیں ایسی ہیں کہ ہرمجلس میں نہیں پڑھی جاسکتیں
حضرت لوط اوران کی لڑکیوں کاواقعہ ۔بنی اسرائیل کاعورتوں بچوں کو خداتعالیٰ کے حکم سے قتل کرنا یہ ایسے واقعات ہیں کہ ان کامجالس میں بیان کرنا طبیعت پر سخت گراں گذرتا ہے ۔آریہ لوگوں کی نیوگ کی تعلیم بھی ایسی ہے کہ دوسرے مذاہب کے لوگ توالگ رہے ۔خود آریہ خاوند اپنی بیوی کو وہ تعلیم پڑ ھ کر نہیں سناسکتا ۔
مگرقرآن کریم ایسے مضامین پر مشتمل ہے اورایسے الفاظ میںبیان ہواہے کہ اسے ہرقوم پر اورہرعمر کے لوگوں کے سامنے پڑھاجاسکتاہے ۔
لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ سے اس طر ف اشارہ کیا گیا کہ الہام فکر انسانی کو تیزکردیتا ہے ۔صحابہ کانمونہ اس کابیّن ثبوت ہے ۔وہ اَن پڑھ اورزمانہ کے حالات سے ناواقف تھے ۔مگرالہام قرآنی کو سن کر اورسمجھ کر دنیا کے علماء کے استاد بن گئے اورایسی سمجھ ان کو عطافرمائی کہ دنیا کے ہر علم میں انہوںنے آئندہ زمانہ کے لئے ایک بہترین سبق چھوڑاہے ۔
افامن الذین مکرواالسیات ایخسف اللہ بھم الارض
پھرکیاجولوگ(تیرے خلاف )بری بر ی تدبیریں کرتے چلے آئے ہیں وہ اس بات سے امن میں ہیں کہ اللہ (تعالیٰ)انہیں اس ملک میں
اویاتیھم العذاب من حیث لایشعرون ٭
(ہی)ذلیل و رسواکردے ۔یاوہ عذاب (جس کی خبر دی جاچکی ہے )جہاں سے وہ جانتے (بھی)نہ ہو ں اُ ن پر آجائے ۴۶؎
۴۶؎ حل لغات ۔یخسف :خَسَفَ ۔سے مضارع واحد مذکر غائب کاصیغہ ہے اورخَسَفَ المکانُ خُسُوْفًاکے معنے ہیں ۔ذَھَبَ فی الارضِ وغَرقَ۔ کوئی جگہ زمین کے اند ر دھنس گئی۔خسَف اللہُ تعالیٰ الارضَ:اساحَھابما عَلَیْھَا۔اللہ تعالیٰ نے زمین والوں کو زمین سمیت غرق کردیا ۔ خَسَف اللہُ الارضَ بِغُلانٍ۔غیَّبَہُ فیھا ۔اللہ تعالیٰ نے اسکو زمین میں غائب کردیا۔خسف فی الارضِ وخُسِفَ بہ مجھولاً۔(بغیر صلہ کے)اذَلَّہ وحَمَّلہ مایکرھُہ۔ا س کو ذلیل کیا ۔اوراس پر ایسے معاملات ڈالے جن کو ناپسند کرتاتھا (اقرب) پس یخسفُ بِھم کے معنے ہوں گے کہ (۱)ان کو زمین میں دھنسادے (۲)ان کو زمین کے اندر غائب کردے (اقرب)
تفسیر ۔اس آیت میں ایک اورپیشگوئی بیان کی گئی ہے جوکفار کے انجا م کے متعلق ہے ۔فرماتاہے کیاکافراس سے مامون ہوگئے ہیں ۔کہ اللہ تعالیٰ ان کو زمین کیااندر دھنسادے ۔
خسف : کے معنے دھنسانے کے بھی ہیں اورذلیل کرنے کے بھی ۔مگرجب ذلیل کرنے کے معنوں میں آئے تواس وقت اس کا مفعول بغیر کسی صلہ کے آتاہے جیسے کہ خسف فلانًا اورجب باء کاصلہ آئے توا س کے معنے دھنسادینے کے یااندرغائب کرنے کے ہوتے ہیں ۔جیسے کہتے ہیں خسف الارض بفلانٍ فلاں شخص کو زمیں میں غائب کر دیا ۔چونکہ اس آیت میں باء کاصلہ استعمال ہواہے ۔اس لئے یہی معنے اس کے ہوسکتے ہیں کہ ان کو زمین کے اندر غائب کر دے یا دھنسادے۔لیکن مرادگمنام ہوجانے اورجیتے جی دفن ہوجانے کے ہوںگے اوراستعمال مجازی سمجھا جائے گا۔
یہ عذاب کفار پر اس شان کے ساتھ آیا کہ آج صنادید عرب کے ناموں اوران کے خاندانوںکو کوئی جانتا بھی نہیں ۔لیکن ابو بکرؓ عمر ؓ عثمانؓ علی ؓاوران کی نسلوںکو آج بھی لوگ سر پربٹھاتے ہیں۔
اَوْیَاتِیَہُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَایَشْعُرُوْنَ گو ہرعذاب ہی اسی طر ح آتا ہے ۔کہ کفار جانتے نہیں لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بعض واقعات اس آیت پر حیرت انگیز طور پر چسپاں ہوتے ہی ۔مثلاً صلح حدیبیہ کاواقعہ ہی لے لو اس صلح کے وقت مکہ والوں کاخیال تھا کہ انہوں نے ایک بہت بڑی فتح حاصل کی ہے لیکن اس کے بعد جس طرح حالات نے یکدم پلٹاکھایا ۔وہ ایک زبردست نشان ہے۔پہلے مکہ والوں نے اس شرط کے پوراکرنے پر اصرارکرکے کہ جو ہم میں سے اسلام لاکر مدینہ جائے اسے واپس کردیاجائے ۔ مسلمانوں کی ایک ایسی جماعت پیداکردی جورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نظام سے آزاد ہوکر مکہ والوں سے برسرپیکار ہوگئی ۔اورآخر مکہ والوں کو ذلیل ہو کرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کرنی پڑی کہ اس جماعت کو مدینہ کی طرف ہجرت کی اجازت دے دی جائے ۔اس کے بعد خود کفار کی باہمی لڑائی نے معاہدہ کے روسے مسلمانوں کو مکہ پرچڑھائی کاحق دیدیا ۔اوراس طرح مکہ اچانک اوریکدم فتح ہوگیا
اویاخذھم فی تقلبھم فما ھم بمعجزین ۔
یاوہ انہیں (قومی معاملات میں )ان کے آزادنہ تصر ف کی حالت میں ہلاک کردے پس (وہ یاد رکھیں کہ)وہ (ہرگز اللہ تعالیٰ کو ان باتوں کے پوراکرنے سے )عاجز نہ پائیں گے ۔ ۴۷؎
۴۷؎ حل لغات ۔تَقَلُّبھمْ: تقلّب الشیء کے معنے ہیں ۔تَحوَّلَ عن وجھِہِ۔اپنی جہت سے پھر گیا تقلّبَ عَلی فراشِہِ۔تحوَّل َ من جانبٍ الی جانبٍ ۔ بستر پر کروٹیں لیتارہا ۔تقلّبُ فی الامورِ۔تصّرفَ فیھا کَیْفؔ شائَ۔یعنی جس رطرح چاہا اپنے معاملات میں خود مختاری سے کام لیا (اقرب)
مُعْجِزِیْنَ:اَعْجَزَ سے اسم فاعل جمع کا صیغہ ہے ۔اوراَعْجَزَہُ الشیئُ کے معنے ہیں ۔فَاتَہٗ۔وہ چیز اس کے ہاتھ سے جاتی رہی ۔اعجز فلانٌ فلانًا ۔صیّرہٗ عاجزاً۔اس کو عاجز پایا (اقرب)پس فَمَاھُمْ بِمُعْجِزِیْنَ کے معنی ہوں گے ۔وہ اس کو عاجز نہیں پائیں گے وہ اس کوعاجز نہیں کرسکیں گے ۔
تفسیر ۔تَقَلُّب کے معنے سفر کے بھی ہوتے ہیں ۔جیسے کہ فرمایا ہے لَایَغُرَّنَّکَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْافِی الْبِلَادِ (آل عمران ع ۱۱؍۲۰)یعنی کفار کاادھر ادھر اموال تجارت لے کر پھر نا تجھے دھوکہ میں نہ ڈالے اورتجھے یہ خیال نہ ہو کہ ان کے پاس تو بڑاسرمایہ ہے ۔بڑی طاقت ہے یہ کس طرح مغلوب ہوں گے ۔ان معنوں کے روسے آیت زیر بحث کے معنے یہ ہوں گے کہ کفار مطمئن نہ ہوں کہ ان کے سفر ان کی طاقت کا موجب ہیں اللہ تعالیٰ انہیں ان سفروں میں ہی عذاب میں مبتلاکرے گا۔چنانچہ غزوہ بدر ایک قافلہ کی ہی حفاظت کی غرض سے ہوااوراس میں کفار مکہ کی شوکت جاتی رہی ۔دوسرے معنے تقلّب کے تصرف کے ہیں ۔ان معنوں کے روسے آیت کے معنے ہوں گے کہ ان کے تصرف میں خلل آجائے گااورحکومت ضعیف ہوجائے گی چنانچہ یہ عذاب بھی مکہ والوں پر صلح حدیبیہ کے موقعہ پر نازل ہوااوربعض کافر قبائل نے مکہ والوں کے جتھا میں شامل ہونے سے انکار کردیا اورفیصلہ کیا کہ باوجود مذہبی اختلا ف کے وہ مسلمانوں کے ساتھ ہوں گے اوریہی قبیلہ مکہ پر حملہ کر وانے کاموجب بنا ۔
اویاخذھم علی تخوفٍ۔فان ربکم لرء وف رحیم ٭
یاوہ انہیں آہستہ آہستہ گھٹاکر ہلاک کردے ۔کیونکہ تمہارارب یقینا(مومنوںپر )بہت(ہی )شفقت کرنے والا (اور)باربار رحم کرنے والاہے ۴۸؎
۴۸؎ حل لغات ۔ تخوُّف:تخَوُّف علیہ شَیْئًاتخوُّفًا۔خافہُ علیہ ۔اس پر کسی مصیبت کے آنے کاخوف محسوس کیا ۔وتخوّف الشیئَ ۔تنقَّصَہٗ۔کسی چیز کو تھوڑاتھوڑاکرکے لیا ۔تخوَّف حقَّہ۔تھضَّمَہٗ اِیّاہٗ۔اس کے حق کو مار لیا۔ھویاخذھُمْ علی تخوّفٍ۔ای یصابُون فی اطرافِ قراھم بالشَّرِّ حتَّی یَاتی ذالکَ علیہم ۔ھویاخذھم علی تخوّف کے معنے ہیں کہ ان کی ارد گرد کی بستیو ںپر تکالیف آرہی ہیں۔یہاںتک کہ اب ان کی نوبت بھی آرہی ہے ۔(اقرب)والتخوّف ظہورُالْخَوْفِ من الانسان ۔انسان سے کسی خوف اورڈر کے ظاہر ہونے کانام تخوّف ہے (مفردات)
تفسیر ۔یعنی ایک اوررنگ کاعذاب بھی مکہ والوں کو ملے گااوروہ یہ کہ مکہ والوں کے تابع جو علاقے ہیں وہ آہستہ آہستہ انہیں چھوڑتے جائیں گے ۔چنانچہ مختلف علاقو ں کے لوگوں نے مکہ فتح ہونے سے پہلے ہی اسلام لاناشروع کردیاتھا ۔
اس آیت کے یہ معنے بھی ہیں کہ ایک عذاب تم پر خوف کاآئے گایعنی باوجود زیادہ ہونے کے تمہارے دلوں پر مسلمانوں کا ایسارعب بٹھادیاجائے گاکہ تم اند ر ہی اند رخوف سے مرتے جائو گے ۔اس قسم کا عذاب نہایت شدیدہوتا ہے کیونکہ ا س کااثر اعصاب پر پڑ کر انسان کی حالت سخت پریشانی کی ہوجاتی ہے ۔یہ عذاب بھی مکہ والوں پر نازل ہوا۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہؓ کارعب ان پر ایساتھا کہ ہر وقت وہ اسی غم میں گھُلے جاتے تھے ۔حدیث میں آتاہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔نُصِرْتُ بِالرُّعبِ (بخاری جلد او ل کتاب التیمم)اللہ تعالیٰ نے میری مدد رعب کے قیام سے بھی کی ہے جدھر میں نکلو ں مہینہ بھر کی مسافت کے علاقہ تک لوگوں میں میری دہشت پھیل جاتی ہے ۔
اِنَّ رَبَّکُمْ لَرَئُ وْفٌ رَّحِیْم۔ یہ عجیب بات ہے کہ سزاکے ذکر کے بعد رئُ و ف ہونے کاذکر کیاہے ۔اس کی وجہ اول تویہ ہے کہ یہ سارے عذاب تدریجی آئے ہیں ۔پہلے تخوف سے ان کو سمجھا یا یعنی ادھر ادھر کی بستیوں می اسلام پھیلایا ۔پھر چھوٹی چھوٹی لڑائیاں ہوئیں ۔پھر صلح حدیبیہ ہوئی جس سے ان کا رعب اڑ گیا ۔پھر اچانک فتح مکہ کے وقت ان کو شہر میں جاپکڑا۔پس یہ رأفت اوررحم ہی تھا کہ آہستہ آہستہ پکڑا۔تاکہ جو ہدایت کے قابل تھے ہدایت پاجائیں ۔ورنہ چاہتا تویکد م عذاب میں مبتلاکردیتا ۔دوسری وجہ اس کی یہ ہوسکتی ہے اورمیرے نزدیک یہی زیادہ درست ہے کہ رئوفٌ رَّحیم مسلمانوں کے لئے آیا ہے اورمطلب یہ ہے کہ ان لوگوں پر عذاب لانا مسلمانوں پر رأفت اوررحم کی غرض سے ہوگا تاانہیں ان عذابوں اورظلموں سے بچایا جائے جو مکہ والوں کی طرف سے ان پر وار ہوتے رہتے ہیں۔اس کاثبوت یہ ہے کہ جہاں عذابوں کاذکر تھا وہاں غائب کی ضمیریں استعمال کی گئی تھیں اوررء وف رحیم سے پہلے یہ نہیں فرمایا کہ اِنَّ رَبَّھُمْ لَرَئُ وْفٌ رَّحِیْم ۔بلکہ فرمایاہے ۔اِنَّ رَبَّکُمْ لَرَئُ وْفٌ رَّحِیْم ۔پس غائب سے خطاب کی ضمیرکو بد ل دینابتاتا ہے کہ عذاب کفار کے لئے ہوگا اوررأفت اوررحمت مومنوں کے لئے ہوں گی۔
اولم یرو الی ماخلق اللہ من شیئٍی یتفیو ظللہٗ
اورکیا باوجود اس کے کہ وہ ذلیل ہورہے ہیں انہوں نے (کبھی)اللہ(تعالیٰ)کے حضور(تذلّل کے ساتھ )جھکتے ہوئے جوکچھ بھی
عن الیمین والشمائل سجدًاللہ وھم داخرون٭
اللہ (تعالیٰ) نے (ان کے لئے )پیداکیا ہے اُسے غور سے نہیں دیکھا کہ اس کے سائے دائیں جانب سے اورشمالی جانبوں سے اِدھر اُدھر ہورہے ہیں ۔ ۴۹؎
۴۹؎ حل لغات ۔یَتَفَیَّؤُا:تَفیَّأ سے مضارع مذکر غائب کاصیغہ ہے اورتفیَّأتِ الظِّلالُ کے معنے ہیں تَقَلَّبَتْ ۔سائے ادھر سے اُدھر ہوگئے (اقرب)
دَاخِرُونَ:دَاخِرٌ سے جمع کاصیغہ ہے اورداخِرٌ دَخَرَ ودَخِرَ سے اسم فاعل ہے اوردَخَرَ کے معنے ہیں ۔ذَلَّ وَصَغُ ذلیل اورچھوٹاہوگیا ۔وفی القرآن ’’سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دَاخِرِیْنَ‘‘ای اَذِلَّاء مھانین ۔اورقرآن مجید کی آیت ’’سیدخلون جہنم داخرین ‘‘ میں داخرین کے معنے ذلیل کے ہیں۔یعنی وہ ذلیل ہوکر جنہم میں داخل ہوں گے (اقرب)
تفسیر ۔اس آیت میں کفار کو توجہ دلائی ہے کہ کیاتم اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرتے ہوئے اوردلوں میں خشوع پیداکر تے ہوئے خداتعالیٰ کے قانون پر غور نہیں کرتے کہ کس طرح ہرشے پرایک دن زوال آتا ہے ۔ہرقوم ایک دن ختم ہوجاتی ہے شہر اجڑ جاتے ہیں ۔حکومتیں بدل جاتی ہیں۔ملک تباہ ہوجاتے ہیں۔امیر غریب اورغریب امیرہوجاتے ہیں ۔غرض ہرچیز کاسایہ ایک وقت آکر سمٹ جاتاہے یعنی اُسے جورتبہ اوردرجہ اوراثراورنفوذ یارعب یاشوکت یاشہرت حاصل ہوتی ہے جاتی رہتی ہے ۔پھر اس عام قانون سے تم کیوں فائدہ نہیں اٹھاتے ۔اورغرور اورتکبر کو چھو ڑکر حقیقت پر غورنہیں کرتے تاتم کو عبرت حاصل ہو اور تم سچائی کو قبول کرلو ۔
میں نے جو معنے کئے ہیں ان کے مطابق سُجَّداًلِلّٰہِ اورھُم داخِرُونَ کو اَوَلَمْ یَرَوْا کی ضمیر کاحال بنایاہے ۔بعض لوگوں نے ان کو مَاکاحال بنایا ہے ۔مگرچونکہ یہاں ذوی العقول کاصیغہ اورضمیر استعمال کے گئے ہیں ۔اس لئے میر ے نزدیک وہی معنے زیادہ درست ہیں جو میں نے کئے ہیں ۔ایک اوربات اس آیت میں قابل حل ہے اوروہ یہ کہ یَمِیْن کالفظ مفرد ہے اورشمائل کاجمع ہے ۔ایساکیوں کیاگیا ہے ۔حالانکہ چاہیئے تھا کہ یادونوں کوجمع رکھاجاتا یادونوں کو مفرد۔بعض نے اس کایہ جواب دیاہے کہ یہ عرب کامحاورہ ہے اورقرآن میں بھی استعمال ہواہے ۔کہ مقابل کی چیزوں کو جب ذکر کریں توایک جمع اوردوسرے کو مفرد لاتے ہیں ۔جیسے جَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّوْر کہ ظلمات جمع استعمال ہواہے اورنورمفرد ۔یہ فرق اس لئے کیا جاتا ہے کہ یاک لفظ مومفرد بول کر افراد جماعت کی طرف اشار ہ کرتے ہیں اوردوسرے لفظ کو جمع استعمال کرکے جماعت کی طرف اشار ہ کرتے ہیں ۔بعض دوسرے علماء نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ یمین کالفظ جمع کے معنوں میں بھی بولاجاتاہے ۔
اس آیت کایہ مطلب بھی ہوسکتاہے کہ پہلے عذاب کا ذکر کیاتھا اب اس ی دلیل بیان فرمائی ہے کہ ان کی سمجھ میں اتنا بھی نہیں آتاکہ اسباب کبھی پیداکرنے والے کے خلا ف ہوسکتے ہیں ۔کیایہ دیکھتے نہیں ہیں کہ سورج کے سایہ میں تغیر ہوتارہتا ہے جس کی پیٹھ پر وہ ہوتاہے اس کاسایہ بڑھ جاتا ہے ۔پھر کیا خداکو اتنی بھی طاقت نہیں جتنی تم سورج میں سمجھتے ہو ۔جب اللہ تعالیٰ محمد ؐرسول اللہ کی پیٹھ پرہوجائے گاکیااس کاسایہ نہ بڑھے گا اورترقی نہ ہوگی ۔اسی طرح جن کی پشت پر سے وہ ہٹ جائے گا کیا ان کے سائے سمٹ نہ جائیں گے ؟
اس آیت میں جو یمین و شمال کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان کی تفسیر کرنے میں مفسروں نے بڑی مشکل محسوس کی ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ سورج کے ادھر اُدھر ہونے سے سایہ کی لمبائی چھوٹائی تومشرق اورمغرب میں ہوتی ہے ۔مگر یہاں خداتعالیٰ یمین وشمال بیان فرماتا ہے حالانکہ دائیں بائیں کاتعلق سایوں سے کچھ نہیں ہوتا۔بعض نے اس کی توجیہ یہ کی ہے کہ یمین و شمال سے مراد مشرق و مغرب دائیں بائیں آجاتے ہیں مگریہ عام دنیا کے خلاف ہے ۔دنیا کاقانون یہ ہے کہ مشرق کی طرف منہ کرکے سمتوں کی تعین کر تے ہیں پس یہ توجیہ درست نہیں ۔
اصل بات یہ ہے کہ اس مثال سے اصل مقصد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورمکہ والوں کے اثرات کامقابلہ کرنااوریہ بتانا تھا کہ ان دونوں میں سے کس کے سائے بڑھیں گے اورکس کے گھٹیں گے ۔اورچونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے جانے والے تھے اوراس آیت میں بھی ہجرت کا ذکر ہوچکا ہے اس لئے آپؐ گویاشمالی علاقہ کی طرف جانے والے تھے اورمکہ والے آپ سے جنوب میں آنے والے تھے ۔پس اگر کوئی شخص دونوں ملکوں کی سرحد پر کھڑاہوکر مشرق کی طرف منہ کرے تومکہ اس کے دائیں آئے گااورمدینہ اس کے بائیں آئے گا۔پس یمین وشمال سے مکہ اورمدینہ مراد ہیں اورمیرے نزدیک اسی وجہ سے یمین کو مفرد استعمال کیا ہے اورشمال کو جمع استعمال کیا ہے ۔جس سے اس طر ف اشارہ کیا ہے کہ تمہاراسایہ محدود ہوگا اوروہ بھی گھٹ جائے گااورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جوبائیں طرف کے ملک میں چلاجائے گا اس کے کئی سائے ہوں گے یعنی وہ مختلف جہات سے ترقی کرے گا۔
وللہ یسجد ما فی السمٰوٰت وما فی الارض من دابۃ والملئکۃ وھم لا یستکبرون ٭
اورجو (شے بھی) آسمانوں میں ہے اور(نیز)زمین پر جو بھی جاندار (موجود )ہے اور(تمام )فرشتے بھی اللہ(تعالیٰ)کے حضورمیں ہی جھکے رہتے ہیں اوروہ بڑائی نہیں کرتے ۔۵۰؎
۵۰؎ حل لغات ۔دَآبَّۃ:دبَّ(دبًّا)کے معنے ہیں ۔مَشَی عَلی ھِیْنَۃِ کَمَشْیِ الطفلِ والنحلۃ والضعیفِ۔آہستہ آہستہ چلا ۔جس طرح بچہ یا ضعیف یا چیونٹی چلتی ہے ۔اوردابّۃٌ دابٌّ کامؤنث ہے دابَّۃٌ کے معنے ہیں مادبَّ مِنَ الحیوانِ۔ہروہ حیوان جو زمین پر ضرب لگاکر چلتا ہے ۔وغَلَبَ علی مایرکب ویحمل علیہ الاحمال۔دابّۃ کااستعمال زیاد ہ تر اس حیوان کے لئے ہوتاہے جس پر سواری کی جاتی ہے یااس پر بوجھ لاداجاتا ہے ۔ویقعُ علی المذکّرِ واَلْھَاء فیھا لِلْوحدۃِ کَمَا فی الحَمَامۃ: دابّۃ کالفظ مذکر کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اورۃ وحدت کی سمجھی جائے گی ۔یعنی دابّۃ کے معنے ہوں گے ۔ایک حیوان(اقرب)
تفسیر ۔فرماتاہے جوآسمانوں میں ہیں اورجو کوئی زمین میں بستے ہی وہ بھی اس کے حکم کے ماتحت ہیں ۔پس جب خداکے قبضے میں سامان بھی ہیں اورسامانوں کے مدبّر ملائکہ بھی ۔توجب دونوں کو اس کی ترقی کے لئے لگادیاجائے گاتوکیوں نہ محمدؐرسول اللہ کاسایہ بڑھے گا۔
وَھُمْ لَایَسْتَکْبِرُوْنَ میں بتایاہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت پرجن کو لگایاگیا ہے وہ توکامل فرمانبردار ہیں وہ توپورے زور سے کام میں لگ جائیں گے مگر تمہارے اتباع توتمہار ی اس طرح فرمانبرداری نہیں کریں گے اس لئے تمہارانظام کھوکھلااورناقص ضرور ہوجائے گا۔
اس آیت میں دابّہ کالفظ استعمال کیا گیا ہے اوردابہ کاعام استعمال چوپایوں کے لئے ہے پھر س جگہ یہ لفظ کیوں استعمال کیا گیا ؟اس کاجواب یہ ہے کہ یہ لفظ دَبّ سے ہے جس کے معنے آہستگی سے چلنے کے ہیں اورا سکااسم فاعل دابٌّ اورمؤنث دابّۃٌ ہے ۔انہی معنوں میں اس جگہ یہ لفظ استعمال ہواہے اورانسان اس میں شامل ہیں ۔
یخافون ربھم من فوقھم و یفعلون مایومرون ٭
وہ اپنے رب سے جو ان پر غالب ہے ڈرتے رہتے ہیں۔اورجس بات کا انہیں حکم دیاجاتاہے (وہی)کرتے ہیں ۵۱؎
۵۱؎ تفسیر ۔یہ ملائکہ کی صفت بیان فرمائی ہے اس سے ہاروت ماروت کا قصہ بھی باطل ہوجاتاہے ۔فرشتے تواللہ تعالیٰ سے خوف کرتے اوراُس کے حکمو ں پر عمل کرتے ہیں وہ اس کے حکمو ںکوتوڑنے والے نہیں ہوسکتے
من فوقھم ۔یہ ترکیب میں رب کاحال ہے یعنی فرشتے اس حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں جبکہ وہ ان کے اوپر ہے یعنی ان پر غالب ہے ۔
وقال اللہ لاتتخدوا الھین اثنین۔انما ھو الہ واحد۔ فایای فارھبون٭
اوراللہ(تعالیٰ)نے(ہمیشہ ہرقوم کو یہی )فرمایاہے (کہ)تم دومعبود مت بنائو۔وہ (یعنی معبود برحق تو)ایک ہی ہے پس تم مجھ سے ہی (ڈرو)پھر(تم سے کہتاہوں کہ)مجھ سے ہی ڈرو ۵۲؎
۵۲؎ حل لغات ۔اِلٰھَیْن:اِلٰہ سے تثنیہ کاصیغہ ہے اورالالٰہ کے معنے ہیں المعبود مطلقًابحقٍّ اوبِبَاطِلٍ لِاَنَّ الْاَسْمَائَ تَتَّبِعُ الْاعتِقَادَ لَا علی ماعلیہ الشّیئُ فی نفسِہِ۔یعنی ہر معبود پر اِلٰہ کا لفظ بولتے ہیں خواہ وہ سچا ہویاجھوٹا۔کیونکہ اشیاء کانام اعتقاد پررکھاجاتاہے ۔نہ اس بات کو مدنظررکھ کرکہ وہ چیز اپنے نام کے مطابق اپنے اندرحقیقت بھی رکھتی ہے یانہیں۔(اقرب) وَاحِد کے معنے کے لئے دیکھو رعد ۱۷؎
فَارْھَبُوْنِ: اِرْھَبُو۔رَھَبَ سے جمع مخاطب کا صیغہ امر ہے ۔اوررھب الرّجُلُ رھبۃً کے معنے ہیں ۔خَافَ۔ڈر گیا (اقرب)ارھَبونِ اصل میںارھَبُونِی تھا ۔نی کو گرایاگیا ۔پھر ن کو جسے نون وقایہ کہتے ہیں ۔لایاگیااورصرف کسرہ پر اکتفاء کیا گیا ۔پس ارھبونِ کے معنے ہوں گے کہ مجھ ہی سے ڈرو (اس کے لئے دیکھو سورۃ بقرہ ع ۵)
تفسیر ۔فَاِیَّایَ فَارْھَبُوْنِ۔اصل میں فَاِیَّایَ ارْھَبُوْافَارھَبُوْنِ ہے جس کے معنے ہیں پس مجھ ہی سے ڈروہاں میں پھر کہتا ہوں کہ تم مجھ سے ڈروارھَبُوا کو حذف کردیاگیا اورفَاِیَایَ فَارْھَبُوْنِ رہ گیا ۔فَاِیَّایَ بعد کے فعل یعنی فَارْھَبُوْنِ کامعمول نہیں بن سکتا ۔کیونکہ درمیا ن میں ف آئی ہے ۔اس لئے اس فعل سے پہلے ایک ارھَبُوا محذوف ماناجائے گا۔اس طرزِکلام سے مقصود مضمون پرزوردینا ہوتاہے ۔یعنی رھب اورخوف صرف خداہی سے ہوناچاہیئے ۔
اِلٰھَیْنِ اثْنَیْنِ۔ یہ جو فرمایاکہ دومعبود نہ بنائو اس پر اعتراض ہوتاہے کہ دوکالفظ کیوں فرمایا ۔جمع کاصیغہ رکھ کر یہ کیوں نہ فرمایا کہ لاتَتَّخِذُوْااٰلِھَۃ ایک سے زیادہ معبود نہ بنائو۔اس سے تویہ شبہ پیداہوتا ہے کہ دوسے زائد خدابنانے جائز ہیں ۔ایسااعتراض قلّتِ تدبر سے پیداہوتاہے کیونکہ اس کے آگے ہی یہ الفاظ ہیں اِنَّمَاھُوَ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ خداصرف ایک ہے ۔ان الفاظ کی موجودگی میں یہ شبہ پیداہی نہیں ہوسکتا کہ دوسے زیادہ خداماننے جائز ہیں ۔پس دوکا لفظ ایک کے مقابل پر زوردینے کے لئے رکھاگیا ہے اورمراد یہ ہے کہ خداصر ف ایک ہے ۔پس زیادہ خدابنانے توالگ رہے تم کودوخدابھی نہیں بنانے چاہئیں۔
دوسری حکمت ان الفاظ کے اختیار کرنے میںیہ ہے کہ مشرک بھی اللہ اوردوسرے معبودوں میں فرق کرتے تھے وہ سب دنیا کے پیداکرنے والے کوتو اللہ کہتے تھے اوردوسرے معبودانِ باطلہ کومحدوداختیارات والے خداسمجھتے تھے ۔یاتو اس لحاظ سے کہ انہیں محدود طاقتیں حاصل تھیں مثلاً کوئی مینہ برساتاتھا ،کوئی اولاد دیتا تھا ،کوئی بیماریوں سے شفادیتاتھا وغیرہ وغیرہ۔اوریااس لحاظ سے کہ کوئی خداایک قبیلہ کی حفاظت کرتا تھا توکوئی دوسرے کی ۔چنانچہ ان کے ہاں جس طرح مختلف اغراض کے لئے الگ الگ دیوتاتھے ۔گویاایک خداتوقادرمطلق تھا اوردوسرے معبود محدود اغراض اورمحدود علاقوں کے لئے تھے ۔اس طرح خدائوں کی دوقسمیں ہوجاتی ہیں ۔ایک قسم قادرمطلق خداکی جو ان کے نزدیک بھی صرف ایک تھا اوردوسری قسم محدود اختیارات اورمحدود علاقوں کے خدائوں کی جواُن کے نزدیک بہت سے تھے ۔پس اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ جوفرمایاہے کہ دوخدانہ بنائو اس سے مراد یہ ہے کہ دوقسم کے خدانہ بنائو۔خداایک ہی ہے اس کے سواکوئی اورقسم کا خدانہیں ہے ۔
تیسری حکمت ان الفاظ کے استعمال کرنے میں یہ ہے کہ اس میں مجوس کے ا س عقیدہ کابطلان کیا گیا ہے جو دوخدامانتے ہیں ایک خیر کاخدادوسراشرکاخدا۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس قسم کے دوخداموجود نہیں ہیں خداصرف ایک ہی ہے جزائے خیر بھی اسی کی طرف سے آتی ہے اورجزائے شربھی اُسی کی طرف سے آتی ہے پس دوخدانہ بنائو۔
اس آیت میں بتایاہے کہ جب ایک ہی خداہے توپھر بتائوکہ شریعت اس کے سوااورکون بناسکتا ہے شریعت کابنانااسی کے اختیار میں ہوگا۔
اس آیت میں ہجرت اوراس کے نتائج کے متعلق جوپیشگوئی کی گئی تھی اس کی طرف بھی اشارہ کیاگیا ہے اوربتایاگیا ہے کہ ان واقعات کے پوراہونے پر تم کومعلوم ہوجائے گاکہ خداایک ہی ہے اس کے سواکوئی دوسراخدانہیں یعنی مسلمانوں کی ترقی اورکامیابی اللہ تعالیٰ کی توحید اورذات کا ایک زبردست ثبوت ہوگی ۔
ان آیات میں قرآ ن کریم کی تعلیم اورکفارکی تعلیم کا مقابلہ بھی ہورہاہے اوربتایاجارہاہے کہ کیا کبھی انسان قرآن کریم کی تعلیم سے مستغنی ہوسکتاہے تم لوگوں نے اپنی عقل سے کام لے کر بے شمار معبود بنارکھے ہیں یہ الہام ہی ہے جوسچی توحید کی طر ف رہنمائی کرتاہے اورانسانی دماغ کوتشطّط اورپراگندگی سے بچاتاہے ۔
ولہ مافی السمٰوٰت والارض ولہ الدین واصبًا۔افغیراللہ تتقون٭
اورجوکچھ (بھی)آسمانوں اورزمین میں (پایاجاتا)ہے اِسی کا ہے اوراطاعت ہمیشہ اسی کاحق ہے پھر کیا تم اللہ(تعالیٰ)کے سوااوروں کواپنے بچائوکاذریعہ بناتے ہو ۵۳؎
۵۳؎ حل لغات ۔الدِّیْنُ کے لئے دیکھو یوسف ۷۳؎
واصبًا:وَصَبَ الشیئُ(یصبُ وصُوباً) کے معنے ہیں دَامَ وَثَبَتَ۔کوئی چیز قائم و دائم رہی ۔وَصبَ الدَّیْنُ:وَجَبَ۔قرضہ کی ادائیگی واجب ہوگئی ۔ وَصَبَ فلانٌ علی الامر ۔واظَبَ واحسنَ القیام َ علیہ ۔کسی امر پر دوام اختیار کیا اوراس پراچھی طرح کاربند رہا ۔الواصبُ : الدّائمُ۔ ہمیشہ رہنے والا۔لہ الدِّینُ واصباً کے معنے ہیں دائماً۔کہ اطاعت ہمیشہ اسی کاحق ہے (اقرب)
تفسیر ۔شرک کے ردّمیں ایک نہایت زبردست دلیل ہے جسے قرآن مجید نے متعدد جگہ پر پیش کیاہے ۔فرماتا ہے آسمان و زمین کے نظام پر غور کر و۔کائنا ت عالم کو دوربین نگاہ سے دیکھو توتمہیں سب جگہ پر ایک ہی قانون جاری نظر آئے گااوریہ تمام اشیاء ایک انتظام میں منسلک نظرآئیں گی جب قانون ایک ہے توبادشاہ دویازیادہ کیسے ہوسکتے ہیں ۔اگر کوئی دوسرا خداہوتا توضروری تھا کہ ہمیں دنیا میں قانون کااختلاف نظرآتا۔کیونکہ دوسرے خداکاوجود ماننے کی صورت میں نظامِ عالم کی دوہی صورتیں ہوسکتی ہیں:۔
۱۔یہ کہ وہ پہلے خداکی اطاعت کرے اوراس کے احکام کے ماتحت چلے ۔اس صورت میں اس کاہونا نہ اہونابرابر ہے ۔کیونکہ جوایک کام کرسکتاہے دوکو اس کام پر لگانے کی کیاضرورت ؟
۲۔وہ پہلے خداکے علاوہ کوئی اورنیاکام کرتاہو اوراس کاقانون اورنظام الگ ہو ۔اس صورت میں ضروری ہے کہ نظام عالم میں اختلاف نظر آوے ۔لیکن چونکہ واقعہ میں ایسا نہیں ہے لہٰذامانناپڑے گا کہ دوسراخداہی کو ئی نہیں ۔صرف ایک ہی واحد ویگانہ خداہے ۔
لَہُ الدِّیْنُ وَاصِباً۔اس میں بتایا ہے کہ دوسری صورت ایک سے زیادہ خدائوں کی یہ ہوسکتی تھی کہ ایک خداایک زمانہ تک کام کرتا اوراس کے بعد وہ معطل ہوجاتااوراس کی جگہ دوسراخدالے لیتا ۔لیکن یہ بات بھی واقعا ت سے غلط ثابت ہورہی ہے ۔جوقانون قدرت شروع سے چلایا گیا ہے وہی آج تک چلا آرہاہے ۔لاکھو ں بلکہ کروڑو ں سال گذرے مگر اسکے قانون میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ۔اس کاقانون اٹل ہے پس ایسے خداکی موجودگی میں کہ جو زمین و آسمان کامالک ہو اورجس کاقانون ازل سے ابد تک ہو دوسرے خداکاوجو د ماننات سخت غلطی اور بے وقوفی ہے ۔
ومابکم من نعمۃ فمن اللہ ثم اذامسکم الضرفالیہ تجئرون٭
اورجونعمت بھی تمہارے شامل حال ہے وہ اللہ (تعالیٰ)ہی کی طرف سے ہے پھر جب تمہیں (کوئی تنگی اور)تکلیف پہنچتی ہے تو(اس وقت بھی)تم اسی کے حضورفریاد کرتے ہو ۔۵۴؎
۵۴؎ حل لغات ۔نعمۃ:اَلنِّعْمَۃُ کے معنے ہیں ۔الصنیعۃُ المنّۃُ۔احسان ۔ماانعم بہ علیک من رزقٍ ومالٍ وغیرہ۔وہ مال یا رزق یا اسکے علاوہ کوئی اورچیز جو بطورانعا م ملے ۔المسرّۃُ۔خوشی۔الیدُ البیضاء الصالحۃ۔ایسااحسان جس میں کوئی کدورت اورکمی نہ ہو ۔وفی الکلّیات۔’’النِّعْمَۃُ فی اصل وضعھا الحالۃ الّتِیْ یَستَبلذّبھا الانسان و ھذامبنیٌّ علی مااشتھر عندھم من انّ النعمۃَ بالکسرِ للحالۃ وبالفتح لِلْمَرَّۃِ۔‘‘اورکلیات میں یوں لکھا ہے کہ نعمت اصل وضع کے لحاظ سے اس حالت کو کہتے ہیں جس سے انسان لذت اٹھاتاہے اوریہ اس بناء پر ہے کہ حالت بیان کرنے کے لئے عربی زبان میں فِعَلَۃٌ اورکسی کام کی ایک دفعہ ہونے کے لئے فَعْلَۃٌ کاوزن لاتے ہیں اورنعمۃ فِعْلَۃٌ کے وزن پر ہے اس لئے اس میں نعمت والی حالت کے معنے پائے جاتے ہیں ۔نِعْمَۃُ اللہِ:مَااَعْطَاہُ اللہُ لِلْعَبْدِ مِمَّا لاَ یتمنّی غیرہ ان یُعطیہٗ اِیَّاہُ ۔ اللہ کی نعمت و ہ ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو دیتاہے اورپھر بندہ اللہ کے سواکسی اورسے یہ خواہش نہیں رکھتا کہ وہ اسے دے ۔اس کی جمع اَنْعَمٌ اورنِعَم آتی ہے اورجب فلانٌ واسعُ النِّعْمَۃِ کہیں ۔تواس کے معنے ہوں گے واسعُ المَالِ یعنی فلاں مالدارہے (اقرب)
الضُرّ کے معنے کے لئے دیکھو یوسف ۸۵؎
تَجَأرُوْنَ :جَأرَ سے مضارع جمع مخاطب کاصیغہ ہے ۔اورجأرالدَّاعی جَأرًا کے معنے ہیں رفع صوتَہٗ بالدُّعاء پکارنے والے نے اونچی آواز سے پکارا ۔جَأرَالی اللہِ بالدّعائِ:ضَجَّ وَتَضَرَّع واستغاثَ:اللہ کے حضور بڑی عاجزی سے فریاد اوردعاکی اوراُسی سے مد دچاہی ۔وَمنْہ ثُمّ اِذامسَّکُمُ الضُرُّ فَاِلیہ تَجْئَرُوْنَ اورآیت اذامسِکم …الخ میں تجأرُوْنَ کے معنی عاجز ی کرنے اورفریاد کرنے کے ہیںں (اقرب)
تفسیر ۔اس آیت میں ان آیات اورنشانات کاذکر فرمایاہے جوتوحید کی تائید میں خود ان کی جانوں میں موجودتھے ۔فرماتاہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے تم کو سب نعمتیں ملی ہیں ۔کیونکہ جس قدرنعمتیں ہیں وہ ایک ہی نظام کاحصہ ہیں ۔مگر باوجوداس کے تم بعض نعمتوںکو دوسرے معبودوں کی طرف منسوب کردیتے ہو ۔لیکن ساتھ ہی یہ بھی ہے کہ جب کبھی کو ئی سخت قوی آفت آتی ہے تم کو اپنے معبودان باطلہ بھول جاتے ہیں اوراسی ایک خداکی طرف جو حقیقی خداہے جھک جاتے ہو۔یہ اس امر کاثبوت ہے کہ تمہارے دل شرک پر مطمئن نہیں ۔پس جب شرک پر تم خود مطمئن نہیں تواس پر اس قد رزورکیوں دیتے ہو۔
یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ شدید مصائب کے وقوت میں لوگ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف جھکتے ہیں ۔مسیحی جو مسیح کو خداکامقام دیتے ہیں اس جنگ میں جو اس وقت جرمنی اورانگلستان کے ساتھ ہورہی ہے مسیح کو نہیں پکارتے بلکہ ایک خداکوپکاررہے ہیں۔اگرانہیں مسیح کی خدائی پر پورایقین ہوتا توکبھی ایسانہ کرتے ۔
بدر کی جنگ کے موقع پر جبکہ گھسمان کا رَن پڑاتھا توکفارنے لات اورعزیٰ کو نہیں پکارا۔ابوجہل نے بھی ان باطل معبودوں سے دعانہیں کی ۔بلکہ کہا تویہی کہا اللھم ان کان ھذاھوالحق من عندک فامطرعلینا حجارۃً من السماء اوئتنا بعذابٍ الیمٍ(انفال ع۴)کہ اے اللہ اگر یہ مذہب اسلام سچا ہے اورہم اس کی مخالفت ضد کی وجہ سے کررہے ہیں توہم پرآسمان سے پتھر برسایااس کے سواکوئی اوردردناک عذاب ہمیں دے ۔اورخدائے واحد نے اس کی دعاسن بھی لی اوربدر میں ان پر پتھروں کی بارش بھی نازل کی اوراَورکئی قسم کے دردناک عذاب بھی ان پر نازل کئے ۔اگران لوگوں کے دلوں میں لات اورعزیٰ کاہی گہرانقش واثرہوتاتوانہی کو اس مصیبت میں پکارتے ۔مگر ایسانہیں ہوابلکہ انہوں نے خداتعالیٰ ہی کوبلای اوریہ فطرت کی شہادت ہے۔
ثم اذاکشف الضرعنکم اذافریق منکم بربھم یشرکون٭
پھر جب وہ تم سے اس تکلیف کو دور کردیتاہے توتم میں سے بعض لوگ جھٹ(اوروںکو)اپنے رب کاشریک ٹھہرانے لگتے ہیں ۵۵؎
۵۵؎ تفسیر ۔بِرَبِّھِمْ۔کالفظ استعمال فرما کر انہیں شرم اورغیرت دلائی ہے کہ تم اپنے ہی رب کے شریک ٹھہراتے ہو ۔حالانکہ انسان کو اپنی چیز کی ایک غیرت ہوتی ہے وہ توتمہارااپنارب ہے تمہیں اس کے ساتھ کوئی ضدتو نہیں کہ ضروراس کے شریک ٹھہرائو۔پھرکیاوجہ ہے کہ مصیبت کے وقت توا سکو یاد کرتے ہو اورجب مصیبت ٹل جاتی ہے توپھر تم کو اپنے جھوٹے معبود یاد آجاتے ہیں ۔
لیکفر وابما اٰتینٰھم ۔فتمتعو فسوف تعلمون ٭
نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جوکچھ ہم نے انہیں دیاہے وہ اس کاانکار کردیتے ہیں اچھا تم عارضی (اوروقتی سامانوں سے )نفع اٹھالواور(اس کا انجام بھی )تم جلد معلوم کرلو گے ۵۶؎
۵۶؎ حل لغات ۔فاء کاترجمہ اس جگہ ’اچھا ‘زیادہ درست معلوم ہوتاہے
تفسیر ۔لِیَکْفُِرُوْا میں لام ۔لام عاقبت ہے اوریہ مراد ہے کہ خداتعالیٰ جب سے تم پر سے مصیبت ٹلادیتاہے تواس کانتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بجائے اس کاشکریہ اداکرنے کے تم اس کے فضل کاانکار کردیتے ہو اورکہتے ہو کہ یہ فضل فلاں دیوتا کہ وجہ سے نازل ہواہے ۔جب تمہاری یہ حالت ہے تو تم دائمی فضل کے مستحق نہیں ہوسکتے ۔ہم تمہاری ہدایت کی غرض سے اوراپنے رحم سے کام لیتے ہوئے چند بارتوتمہاری دعائوں کو سن کر مصائب ٹال دیں گے مگر ہمیشہ توایسانہ ہوگا آخر ایک دن ہم تمہاری دعائوں کو ردّ کردیں گے اورعذاب میں مبتلاکردیں گے ۔
ویجعلون لمالا یعلمون نصیباً مما رزقنٰھم
اورجو کچھ ہم نے انہیں دیاہے اسمیں سے ایک حصہ و ہ (اپنے )ان (جھوٹے معبودوں)کے لئے مخصوص کردیتے ہیں جن (کی حقیقت )
تاللہ لتسئلن عما کنتم تفترون٭
کے متعلق وہ (کچھ )علم نہیں رکھتے ۵۷؎ اللہ(تعالیٰ)کی قسم جوکچھ تم (جھوٹ سے کام لیکر )اپنے پاس سے گھڑتے رہے ہو (ایک دن ) اس کی نسبت تم سے یقینا باز پرس ہوگی ۔
۵۷؎ حل لغات ۔النَّصِیْبُ:الحظّ:حصہ (اقرب)
تفسیر ۔شرک کی ایک اورشفاعت اس آیت میں بیان کی گئی ہے اوروہ یہ کہ الٰہی نعمتوںکو ایسے وجودوں کی طرف منسوب کیاجاتا ہے جن کے وجود کاخود کوئی ثبوت نہیں۔یہ دلیل شرک کے ردّ میں ایک زبردست ثبوت ہے ۔مشرکوں نے شرک کی تائید میں بعض ایسے فلسفیا نہ مسائل بنارکھے ہیں کہ ان میں پڑ کر کمزوردماغ کے آدمی کچھ حیران سے ہوجاتے ہیں اورشرک اورتوحید میں فرق کرنا ان کے لئے مشکل ہوجاتا ہے ۔اس آیت میں شرک کے متعلق ایک ایسی عام فہم دلیل دی گئی ہے جو ان سب فلسفیانہ وسوسوں کورد کردیتی ہے ۔اوروہ یہ کہ اس اصولی بحث کوجانے دو کہ ایک سے زیاد ہ معبود ہوسکتے ہیں یا نہیں ۔کسی چیز کاہوسکنا اَورامر ہے اورہونا اَورامر ہے۔فرض کرلو ایک سے زیادہ معبود ممکن ہوں مگر اس سے یہ توثابت نہیں ہوجاتا کہ کوئی خاص بت یاخاص انسان جسے خداتعالیٰ کا شریک بنایاجاتاہے وہ بھی سچا معبود ہے ۔ اس امر کاثبوت کہ کوئی شخص یابت معبود سچا ہے توالگ دیناہوگا۔فرماتاہے اپنے ایک ایک معبود کولے لو کیاان میںسے کسی کی خدائی کاثبوت بھی تمہارے پاس ہے۔اگر کسی معبود کی خدائی کاثبوت بھی تمہارے پاس نہیں توصر ف فلسفیانہ دلائل شرک کی تائید میں دے کر تم توحید کے حملہ سے کس طر ح بچ سکتے ہو ۔یہ وہ دلیل ہے جس کے سامنے کوئی مشرک نہیں ٹھہر سکتا ۔ہم فرض کرلیتے ہیں کہ ایک سے زیادہ خداممکن ہیں ۔مگریہ کیونکر ثابت ہوا۔کہ کالی بھی خداہے یارام یاکرشن بھی خداہیں یامسیح اورایسے ہی ان لوگوں کے مزعومہ خدا،خداہیں ۔ان کے خداہونے کاتو الگ ثبوت دینا پڑے گا جوکبھی کوئی مشرک نہیں دے سکتا ۔وہ ہمیشہ عام فلسفیانہ دلائل شرک کی تائید میں پیش کرے گا ۔اپنے مزعومہ معبود کی تائید میں کبھی کوئی معقول دلیل نہ دے گااورنہ دے سکے گا۔کیونکہ شرک کی تائید میں فلسفیانہ دلائل دینا اوربات ہے اورایک کمزور وجود کو خداثابات کر نا اوربات ہے ۔اللہ تعالیٰ کی حکمت کاملہ نے ان سب وجودوں کے متعلق جن کو خداماناجاتاہے ایسے زبردست شواہد ان کے کمزوراوربے بس ہونے کے پیداکررکھے ہیںکہ جب اس طرح رخ کیاجائے مشرک کی بھی شیخی کرکری ہوجاتی ہے ۔
لِمَالَایَعْلَمُوْنَ سے اس طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ وہ ان معبودوں کویہ حصہ دیتے ہیں جومعبود اس بات تک کو نہیں جانتے کہ انہیں خداتعالیٰ کی صفات د ی جارہی ہیں ۔مثلاً بُت ۔نہریں ۔دریا ۔پہاڑوغیرہ جن کو لوگ خدابناتے ہیں خود بے جان اشیاء ہیں ۔
ایساہی حضرت عیسیٰؑ اورحضرت امام حسینؓ ہیں۔لوگ ان کی طرف الوہیت کو منسوب کرتے ہیں اورکہتے ہیںکہ انہوں نے فلاں فلاں چیز دی مگر اُن بے چاروں کو اس بات کاپتہ بھی نہیں۔کیونکہ انہوں نے اپنی زندگی میں کوئی دعویٰ خدائی کانہیں ۔اس صورت میں لَایَعْلَمُوْن کی ضمیر معبودوں کی طرف مانی جائے گی۔
دوسرے معنے وہی ہوسکتے ہیں جواوپر بیان ہوچکے ہیں یعنی ان ہستیوں کی طرف خداتعالیٰ کے افعال کو منسوب کرتے ہیں جن کے خداہونے کی ان کے پا س کوئی دلیل نہیں ۔ان معنوں کے روسے لایعلمون کی ضمیر یجعلون کے فاعل کی طرف پھر ے گی۔
تَاللہِ لَتُسْئَلُنَّ پوچھنے سے مراد خالی دریافت کرنا نہیں ہوتا بلکہ سزادیناہوتا ہے اوریہ ہر زبان و ملک کامحاورہ ہے ۔مطلب یہ کہ تمہارے اس افتراء کی تم کو ضرور سزاملے گی۔
بعض نادان تَاللہِ کے لفظ سے یہ استدلال کیا کرتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ کلام خداکانہیں ورنہ یہ کیوں کہاجاتاکہ خداکی قسم۔بلکہ یوں کہنا چاہیئے تھا کہ ہمیں اپنی قسم ہے ۔لیکن یہ استدلال درست نہیں کیونکہ شاہانہ کلام میں اس قسم کا طرز بیان جائز ہوتاہے ۔کیونکہ نام کے اظہار سے رُعب پیداکرنا مقصود ہے ۔با پ اپنے بیٹے پر اثر ڈالنے کے لئے بعض دفعہ یہ کہتاہے کہ تمہاراباپ تم کو یہ حکم دیتا ہے ۔اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ بولنے والا باپ نہیں بلکہ کوئی اورہے ۔اسی طرح بادشاہ خاص زوردینے کے لئے کہاکرتے ہیں کہ تمہارابادشاہ تم کو یوں حکم دیتا ہے اوراس سے یہ مراد نہیں لی جاسکتی کہ بادشاہ اس وقت اپنی بادشاہت کا انکار کر کے کسی اَورکی بادشاہی کااعلان کررہا ہے۔
ویجعلون للہ البنات سبحٰنہ ولھم مایشتھون ٭
اوروہ اللہ (تعالیٰ)کیطرف لڑکیاں منسوب کرتے ہیں (یہ کیساجھوٹ ہے)وہ پاک(ذات)ہے اور(لطف یہ کہ)انہیں (اللہ تعالیٰ کی طرف سے )وہ کچھ حاصل ہے جو وہ چاہتے ہیں ۵۸؎
۵۸؎ حل لغات ۔سُبْحَانَہٗ کے لئے دیکھو یونس ۱۸؎ یشتھون :اِشْتَہٰی سے مضارع جمع مذکر غائب کاصیغہ ہے ۔اوراشتہٰی کے معنے ہیں ۔کسی چیز کو پسند کیا ۔اوراس کے لینے کی تمنا کی (اقرب)پس وَلَہُم مَّایَشْتَھُوْنَ کے معنے ہوں گے ۔ان کو وہ کچھ حاصل ہے جو وہ چاہتے ہیں ۔
تفسیر ۔اس آیت کایہ مطلب نہیں کہ خداتعالیٰ کو اس لئے ناراضگی ہے کہ وہ اسکی طر ف بیٹے کیوںمنسوب نہیں کرتے اوربیٹیاں کیوں منسوب کرتے ہیں۔وہ توبیٹوں کے عقیدہ پر بھی ویسا ہی ناراض ہوتاہے ۔جیسے بیٹیوں کے عقیدہ پر۔چنانچہ دوسری جگہ فرمایا ہے ۔ تَکَادُالسَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَتَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَ تَخِرُّ الْجِبَالُ ھَدّاً اَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا(مریم ع ۶) قریب ہے کہ آسمان پھٹ کرگرجائیں اورزمین شق ہوجائے اورپہاڑ گرجائیں کیونکہ یہ لوگ رحمن خداکاایک بیٹاتجویز کرتے ہیں ۔پس بیٹوں کا ذکر کرکے مشرکوں کی کم عقلی کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے اوریہ بتایا ہے کہ غلط راہ پر چل کر انسان ایسی باتوں میں مبتلا ہوجاتا ہے جو خود اس کے لئے مسلّمات کے رو سے قابل اعتراض ہوتی ہیں ۔چنانچہ یہ لوگ خداتعالیٰ کی طرف بیٹیاں منسوب کرتے ہیں حالانکہ یہ لوگ بیٹیوں کو حقیر سمجھتے ہیں ۔اگرعقل سے کام لیتے توجس چیز کو یہ اپنے لئے ذلت کاموجب سمجھتے ہیں اس چیزکو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہ کرتے ۔
یہ اس امر کی دلیل بیان کی گئی ہے کہ الہام کے بغیر ہدایت کاراستہ تلاش کرنے میںانسان کیسی کیسی موٹی غلطیا ںکرجاتا ہے ۔پھر باریک مسائل میں وہ کیوں غلطی نہ کرے گا۔پس سچا راستہ بتاناصر ف اللہ تعالیٰ ہی کاکام ہے ۔
اسکے جواب میں ممکن تھا کہ وہ کہہ دیتے کہ ہم توخداکی طرف کوئی برائی منسوب نہیں کرتے ۔لڑکیا ںبھی خداکی ہی ایک نعمت ہیں اُسی کی پروردہ ہیں ۔اسلئے یہ کوئی عیب نہیں ۔اس کاجوا ب اگلی آیت میں دیاگیاہے ۔
واذابشر ا حدھم بالانثیٰ ظل وجھہ مسودًاوھوکظیم٭
اورجب ان میں سے کسی کو لڑکی (کی پیدائش )کی بشارت دی جائے تو اس کا منہ جبکہ وہ اپنے غیظ (وغضب)کو (سینہ میں )دبارہاہوتا ہے سیاہ ہوجاتا ہے ۵۹؎
۵۹؎ حل لغات ۔بُشِّرَ:بَشَّرَ سے مجہول کاصیغہ ہے ۔اوربشَّرَہٗ کے معنے ہیں اخبرَہٗ ففرح اس کوایسی خبر دی جس سے وہ خوش ہوا(اقرب)
کَظِیْمٌ کے معنے ہیں المکرُوْبُ ۔رنجیدہ (اقرب)مزید تشریح کے لئے دیکھو یوسف ۸۱؎
تفسیر ۔یعنی ان کی یہ حالت ہے کہ ان میںسے کسی کوجب بیٹی کی پیدائش کی خبر دی جاتی ہے تواس کامنہ کالا ہوجاتاہے اورغم اورشرم کے جذبات کو بمشکل دبارہاہوتاہے ۔لیکن یہ شخص جوبیٹی کی پیدائش پر سیاہ روہوجاتاہے اس ہستی کی طر ف جونورہی نور ہے اسی چیز کو جسے اس قدر قابل شرم سمجھتا ہے منسوب کردیتاہے ۔
یتوارٰی من القوم من سوء ما بشربہ۔ ایمسکہ علی ھون
(اور) جس بات کی اسے بشارت دی گئی ہے اس کی (مزعومہ)شناعت کے باعث وہ لوگوں سے چھپتا(پھرتا)ہے (اورسوچتاہے کہ )آیاوہ اسے (آئندہ آنے والی)ذلّت کے باوجود(زندہ)رہنے دے یا اُسے (کہیں)
ام یدسہ فی التراب الا سامایحکمون ٭
مٹی میں گاڑ دے ۔سنو!جورائے وہ قائم کرتا ہے بہت بری ہے ۶۰؎
۶۰؎ حل لغات ۔یَتَوَاریٰ :تَوَاریَ سے مضارع مذکر غائب کاصیغہ ہے ۔اورتَوَاریٰ کے معنے ہوں گے ۔اِسْتَتَرَ:چھپ گیا (اقرب)پس یتواریٰ کے معنے ہیں۔ذَلَّ وحقر:وہ ذلیل اورحقیر ہوگیا۔ضَعُفَ ۔کمزورہوگیا ۔الھُون ھان کامصدرہے ۔نیز اس کے معنے ہیں اَلْخِزْیُ۔ رسوائی(اقرب)یَدُسُّہٗ:دَسَّ سے مضارع واحد مذکر غائب کاصیغہ ہے ۔اوردَسَّ الشّیئَ تحتَ الترابِ کے معنی ہیں۔اَدْخَلَہٗ فیہ ۔وَدَفَنہ تحتہٗ واَخْفَاہٗ کیسی چیز کو زمین میں دباکر مخفی کردیا (اقرب)پس اَمْ یَدُسُّہٗ کے معنے ہوں گے ۔یااُسے مٹی میں دبادے ۔گاڑدے ۔
تفسیر ۔یعنی باوجود پدری محبت کے اس تذبذب میں پڑجاتاہے کہ ذلت برداشت کرکے لڑکی کو زندہ رہنے دے یااس بے چاری کو زندہ درگورکردے ۔
اس بارہ میں یہ امر یادرکھنا چاہیئے کہ عام طور پر لوگوں کو یہ غلطی لگی ہو ئی ہے کہ لڑکیوں کو زندہ درگو ر کرنے کارواج عربوں میں عام تھا ۔لیکن یہ بات نہیں ۔اگ ایساہوتاتوپھر ان کے ملک میں لڑکیوں کی تعداد بہت کم ہوجانی چاہیئے تھی ۔اصل بات یہ ہے کہ بے شک لڑکی کی پیدائش کوتوعرب کے سارے ملک میں ہی براسمجھاجاتاتھامگران کو زندہ دفن کرنے کارواج عملاً صرف بعض بڑے بڑے اورمتکبر لوگوں میں تھا ۔لڑکی کی پیدائش کو براسمجھنااوربات ہے اوراسے زندہ درگورکردینا اور۔آج تک لو گ لڑکی کی پیدائش کو عموماً براسمجھتے ہیں ۔اِلَّامَاشاء اللہ ۔ مگرانہیں مارتے چند ہی لوگ ہیں ۔عرب میں بھی یہ فعل مکہ میں بہت ہی کم ہوتاتھا۔عام طورپر ان قبائل میں جواپنے آپ کو بہت بڑاسمجھتے تھے یہ طریق رائج تھا او روہ بھی بعض بڑے لوگوں میں ۔پس ا س جگہ عام رسم کاذکرنہیں بلکہ قوم کے عمائدین کے ایسے فعل کو بیان کیاگیا ہے جس کی نقل گوساری قوم نہیں کرتی تھی مگر اسے ایک عزت کافعل سب سمجھتے ہیں ۔
اَلَاسَآئَ مَایَحْکُمُوْنَ میں بتایا ہے کہ وہ جوبیٹیوں کو براسمجھتے ہیں ان کا یہ فعل نہایت ہی گندہ ہے اگر بیٹیاں نہ ہوتیں تووہ کس طرح پیداہوتے ۔اوراگر آئندہ بیٹیاں نہ ہوںتوان کے بیٹوں کی نسل کس طرح چلے ۔
قرآ ن کریم نے شروع سے ہی عورتوں کی عزت کوقائم کیا ہے اوران کے حق کو تسلیم کیا ہے ۔مگر باوجوداس کے اب تک یہ کہاجاتاہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں پر ظلم کیا ۔بھلاوہ کونسی کتاب ہے جس میں ابتداء ہی سے عورت کے حقوق کی حفاظت اورنگہداشت کی گئی ہو ۔وہ صرف اورصرف قرآن مجید ہی ہے ۔
للذین لا یومنون بالاخرۃ مثل السوء وللہ المثل الاعلیٰ وھو العزیز الحکیم ٭
جولوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کی بری حالت ہے ۔اور(ہر)اعلیٰ صفت(اورشان)اللہ(تعالیٰ)ہی کی ہے ۔اوروہی غالب (اور)حکمت والا ہے ۶۱؎
۶۱؎ حل لغات ۔لِلّٰہِ الْمَثَلُ الْاَعَلیٰ اعلیٰ صفت اورشان اللہ ہی کی ہے ۔المثل کے معنے کے لئے دیکھو رعد ۳۵؎
تفسیر ۔مثل کے مختلف معنوں میں سے ایک معنے بات کے بھی ہوتے ہیں۔مثلاً عرب لوگ کہتے ہیں بسط لہٗ مثلاً ای حدیثا(اقرب)فلاں شخص نے اس سے خوب لمبی با ت کی ۔اس آیت میں مثل کالفظ انہی معنوں میں استعمال ہواہے ۔اورمطلب آیت کا یہ ہے کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے منہ سے جب بات نکلتی ہے بری ہی نکلتی ہے اوراللہ تعالیٰ کی طرف سے جو بات بتائی جاتی ہے و ہ اعلیٰ درجہ کی ہوتی ہے ۔یہاں اصل مضمون جس کے بارہ میں سورت نازل ہوئی ہے کھول کربیان کردیاگیا ہے اوربتایا گیاہے کہ جولوگ آخرت پر ایمان نہیںلاتے وہ کلام الٰہی کے وجود کے بھی منکر ہوتے ہیں اوراپنی ہدایت کے لئے خود قانون بناناچاہتے ہیں لیکن اس کوشش میں بری طرح ناکام رہتے ہیں اورجوبات کرتے ہیں اُلٹی ہی کرتے ہیں ۔لیکن جو کلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتاہے وہ سب عیبوں سے پاک ہوتاہے اورسب خوبیوں کاجامع ہوتاہے پھر کلام الٰہی کی ضرورت کایہ لوگ کس طرح انکار کرسکتے ہیں۔
اس جگہ کہا جاسکتا ہے کہ کیوں یوں نہ کہا گیا کہ جو لوگ کلام الٰہی کے منکر ہوتے ہیں وہ غلط باتیں کرتے ہیں ۔یہ کیوں کہاگیا کہ جولوگ یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے غلط باتیں کرتے ہیں ۔اس کاجواب یہ ہے کہ قرآن کریم کاایک خاص انداز یہ بھی ہے کہ وہ ایسے طریق پر بات کرتا ہے کہ جس نقص کا وہ ذکرکررہاہو اس کے بواعث بھی وہ ساتھ ہی بیان کرتا جاتاہے ۔اسی انداز کویہاں اختیار کیاگیاہے اوریہ بتایاگیاہے کہ جولوگ کلام الٰہی کی ضرورت کے منکر ہوتے ہیں وہ ایسایوم آخر کے انکار کی وجہ سے کرتے ہیں ۔ورنہ کوئی شخص جو یوم آخر پر ایمان لاتاہو کلام الٰہی کی ضرورت کا انکارنہیں کرسکتا ۔کیونکہ ایساشخص انسانی زندگی کاسب سے اہم زمانہ اسی زمانہ کو سمجھے گا جومرنے کے بعد آنے والا ہے اورچونکہ مرنے کے بعد پھر واپس لوٹنے کی کوئی صورت نہیں وہ اُخروی زندگی کی اہمیت کوجانتے ہوئے اس ضرورت کو بھی محسوس کرے گا کہ اس عالم سے واقف ہستی کی طرف ہی وہ راہ جاتی جانی چاہیئے ۔جس پرچل کر بعد الموت زندگی اچھی طرح گذا رسکے ۔اگرصرف اس قدر کہاجاتاکہ جوکلام الٰہی کے منکر ہیں ان کی باتیں غلط ہوتی ہیں تواس سے یہ مفہوم ادانہ ہوسکتاتھا ۔
العزیز الحکیم کی صفات آخر میں اس لئے رکھی ہیں تااس طرف اشارہ ہو کہ غالب ہی اپنی طاقت کااظہار کرسکتاہے اورالحکیم ہی حکمتوں کو بیان کرسکتاہے اسلئے یقینا اس کی تعلیم اعلیٰ ہوگی اورانسان کی نجات کاموجب ہوگی۔ورنہ جو حکیم نہیں اورعزیز نہیں وہ اول توپُرحکمت کلام نہیں کرسکتااوراگرکوئی بات کرے گاتواس کے پوراکرنے کی اس میں طاقت نہ ہوگی۔
ان صفات سے یوم آخر کابھی ثبوت پیش کیااوربتایا کہ خدائے حکیم کافعل حکمت سے خالی نہیں ہوسکتااوربغیر یوم آخرت کے انسانی پیدائش ایک بے حکمت فعل رہ جاتی ہے ۔
اسی طرح عزیز خداکاغلبہ کامل اس دنیا میں نہیں ہوسکتا اس کے لئے یوم آخرکی ضرورت ہے ۔اگر کہو اس دنیا میں کیوں نہیں ہوسکتا توا س کاجواب صفت حکیم ہے یعنی اسی دنیا میں کامل غلبہ ظاہرہوتو ایمان فضول ہوجاتاہے ۔
ولویواخذ اللہ الناس بظلمھم ماترک علیھا من دابۃ
اوراگراللہ (تعالیٰ کی یہ سنت ہوتی کہ وہ)لوگوں کو ان کے (ارتکاب )ظلم پر (فوراً)پکڑ لیتا(اورتوبہ کے لئے مہلت نہ دیتا)تووہ اس
ٍ ولکن یوخروھم الی اجل مسمی
(زمین)پرکسی جاندار کو(زندہ )نہ چھوڑتا مگر(اس کی یہ سنت ہے کہ )وہ (اصلاح کے لئے)انہیں ایک معیّن وقت تک مہلت دیتا
فاذاجاء اجلھم لایستاخرون ساعۃ ولایستقدمون ٭
(چلاجاتا)ہے پھر جب ان(کی سزا)کاوقت آجاتاہے تووہ نہ توایک گھڑی پیچھے رہ (کربچ)سکتے ہیں اورنہ (اس سے)آگے نکل (کربچ) سکتے ہیں ۶۲؎
۶۲؎ حل لغات ۔دَآبَّۃٌ کے لئے دیکھو نحل ۵۰؎
اَجَلٌ: کے معنے ہیں الوقت الحاضر۔موجودہ قیمت ۔القیامۃ۔قیامت۔وقیل الوقت الذی تقوم فیہ القیامۃ۔اوربعض نے اس سے یہ مراد لی ہے کہ وہ وقت جبکہ قیامت برپاہوگی ۔وعبارۃٌ عن جزء قلیل من النہار اواللّیل:رات یادن کے تھوڑے حصے کو بھی ساعۃ کہتے ہیں ۔جب یہ کہیں کہ جلست عندک ساعۃً من النھار واللّیل تواس کے معنے ہوتے ہیں۔اَیْ وقتاً قلیلامنہ ۔یعنی میںتمہارے پاس کچھ دیر بیٹھارہا(اقرب)
تفسیر ۔اس میں کفارکے ایک شبہ کاازالہ کیا ہے جو پہلی آیت سے پیداہوسکتاتھا۔اوروہ یہ ہے کہ اگرانسان غلط تعلیم دیتاہے اورخداکی کلام ہی سے ہدایت ملتی ہے توچاہیئے تھا کہ سب کفار ہلاک ہوجاتے مگروہ توہلاک نہیں ہوئے بلکہ دنیا میں کئی قسم کی ترقیاں ان کو ملتی ہیں معلوم ہواکہ وہ بھی کوئی زیادہ غلطی پر نہیں ہیں یایہ کہ وہ بھی حق پر ہیں ۔اس شبہ کایہ جواب دیا کہ کلام الٰہی کوتوخیر تم مانتے نہیں لیکن بعض امورکو توتم بھی خداتعالیٰ کے منشاء کے خلاف سمجھتے ہو ۔مثلاً چوری ،ڈاکہ،قتل وغیرہ۔کیا ان جرائم کی مرتکب فوراً پکڑ لئے جاتے ہیں ۔اگرنہیں توا س ڈھیل کودیکھتے ہوئے تم الٰہی کلام کے منکروں پر فوری گرفت نہ آنے کیوجہ سے یہ کس طرح استدلال کرسکتے ہو کہ یہ کلام خداتعالیٰ کی طرف سے نہیں ورنہ اس کے انکارپر فوراً گرفت ہوتی اورکوئی کافر نہ بچتا۔
پھر اس فوری گرفت نہ ہونے کی وجہ بھی بتائی کہ یہ ڈھیل کاقانون اللہ تعالیٰ نے اس لئے جاری کیاہے کہ اس کے بغیر نسل انسانی چل ہی نہیں سکتی ۔کیونکہ اگر ہرجرم کی سزامیں انسان کو فوراً تباہ کردیاجاتا تودنیا پر انسان کی نسل کس طرح باقی رہتی ۔اگرکوئی کہے کہ دنیا میں نیک بھی توہیں تواس کاجواب یہ ہے کہ بے شک نیک بھی ہوتے ہیں۔مگر یہ توضروری نہیں کہ نیکوں کے باپ داداآدم تک سب نیک ہی ہوں ۔اگران کیی باپ دادوں کو پکڑاجاتا اوروہ ہلاک کردیئے جاتے توساتھ ہی ان کے وہ نسل بھی غائب ہوجاتی جس نے آئندہ کسی زمانہ میں نیک ہوناتھا۔ پس اگر ہرگناہ پر اس دنیا میں گرفت کاقانون جاری ہوتومانناپڑے گاکہ دنیا کبھی کی تباہ ہوجانی چاہیئے تھی مگرایسانہیں ۔
معلوم ہواکہ ہر گناہ کی سزافوراً نہیں ملتی اوریہ مزید ثبوت یوم آخرت کا ہے جہاں جزاسزاکاعمل تکمیل تک پہنچ جائے گا۔اگر اس د ن کونہ ماناجائے توخداتعالیٰ کا فیصلہ نامکمل رہ جاتاہے ۔
ایک سوا ل اس آیت کے متعلق یہ پیداہوتاہے کہ یہ کیو ں فرمایاگیا ہے کہ اگر ہرگناہ پراسی دنیا میں گرفت ہوجاتی تو اس دنیا کے پردہ پر کوئی حیوان نہ رہتا ۔مکلف توانسان ہیں سزاملتی توانسان کوملتی دوسرے حیوان کیوں ہلاک ہوجاتے ۔اس کاجواب یہ ہے کہ جیساکہ شروع سورۃ میں بیان کیا گیا ہے ۔باقی حیوان انسان ہی کے فائدہ کے لئے پیداکئے گئے ہیں ۔پس جب انسان ہلاک کردیاجاتا توان کی بھی ضرورت نہ رہتی اورعام قیامت آجاتی ۔
ویجعلون للہ مایکرھون وتصف السنتھم الکذب ان لھم الحسنیٰ
اورو ہ اللہ (تعالیٰ)کے لئے وہ چیز تجویز کرتے ہیں جسے وہ (خوداپنے لئے )ناپسند کرتے ہیں اوران کی زبانیں(بڑی جرأت سے کام لے کریہ)جھوٹ بولتی ہیں کہ انہیں بھلائی ملے گی
لاجرم ان لھم النار وانھم مفرطون ٭
یہ اٹل بات ہے کہ ان کے لئے (دوزخ کی )آگ(کاعذاب مقدر)ہے اوریہ کہ انہیں(اس میں )چھوڑ دیاجائے گا ۶۳؎
۶۳؎ حل لغات ۔تَصِفُ:وَصَفَ سے مضارع واحد مؤنث غائب کاصیغہ ہے ۔اوروَصَفَ الشیئَ کے معنے ہیں ۔نَعَتَہٗ بِمَافیہ وَحَلَّاہٗ۔کسی چیز کو پورے طورپر اورعمدہ طریق سے بیان کیا ۔وصف الطبیب للمرض۔بیّن لہ مایتداوی بہ۔طبیب نے مریض کوعلاج کے لئے دوابتائی (اقرب)پس تَصِفُ اَلْسِنَتہمُ الکَذِبَ کے معنے ہوں گے ۔ان کی زبانیں جھوٹ بیان کرتی ہیں
الحسنیٰ کے معنوں کے لئے دیکھو رعد ۱۹؎ یونس ۲۷؎
لاجرم کے معنے کے لئے دیکھو ھود ۲۲؎ مُفْرَطُوْنَ:افراطَ سے اسم مفعول مُفرَطٌ آتاہے اورمُفْرَطُوْنَ اس کی جمع ہے۔افرَط الامرکے معنی ہیں نَسِیَہٗ۔کسی بات کوبھول گیا ۔ترکہٗ وخَلَّفہ۔اس کو پیچھے چھوڑ دیا۔افرط علیہ:حمّلَہ مالایطیقُ:اس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالا۔ وما افرطتُ من القومِ احداً کے معنی ہیں ۔ای ماترکتُ میں نے لوگوں میں سے کسی کو بھی نہ چھوڑا(اقرب)پس انَّھُمْ مُّفْرَطُوْنَ کے معنے ہوں گے ۔انہیں اس میں چھوڑ دیاجائے گا۔
تفسیر ۔اس آیت میں پہلے مضمون کی طرف پھر ایک اوررنگ میں رجوع کیا ہے ۔فرماتاہے کہ یہ لوگ کس طرح یقین رکھتے ہیں کہ ان کاانجام اچھاہوگا جبکہ اللہ تعالیٰ کی نسبت وہ باتیں کرتے ہیں جن کو یہ خود بھی ناپسند کرتے ہیں۔جواللہ تعالیٰ کی طرف عیب منسوب کرتے ہیں ان کاانجام کس طرح اچھا ہوسکتا ہے ۔
وَاَنَّھُمْ مُّفْرَطُوْنَ میں یہ بتایاگیا ہے کہ جس طرح انہوں نے خداتعالی کو چھوڑ دیاہے ان کو بھی اللہ تعالیٰ عذاب میں ڈال کر چھوڑ دے گااوروہ خبرنہ لے گا۔
تاللہ لقد ارسلنا الی امم من قبلک فزین لھم الشیطن
اللہ (تعالیٰ)کی قسم !ہم نے تجھ سے پہلے کی(تمام)امتوں کی طر ف رسول بھیجے تھے پھر انہیں شیطان نے ان کے (بد)اعمال خوبصورت
اعمالھم فھو ولیہم الیوم ولہم عذاب الیم ٭
کرکے دکھائے سوآج وہی ان کا آقا(بناہوا)ہے اوران کے لئے (آج )دردناک عذاب(مقدر)ہے ۶۴؎
۶۴؎ حل لغات ۔الوَلِیُّ: کے معنے ہیں۔ الحُبِ والصدیق دوست اورمحبت کرنے والا ۔النصیر:مددگار ۔وکُلّ من ولی امراحدفھو ولیّہُ۔ جس شخص کے قبضہ میں کسی کامعاملہ ہو(اقرب)
تفسیر ۔تَاللہِ کے متعلق دیکھو نوٹ نمبر ۵۷سورۃ نحل۔آیت کامفہو م یہ ہے کہ پہلے نبیوں کے زمانے میں بھی شیطان نے انبیاء کے مخالفین کویہ تسلی دیکر گمراہ کئے رکھا تھا کہ جو ہم کررہے ہیں اس پرکوئی گرفت نہیں۔یہی حال ان کاہے یہ بھی اس قدر غلطیاں کرکے مطمئن بیٹھے ہیں اورجانتے نہیں ک ایک درد ناک عذاب ان کی طرف بڑھ رہاہے ۔
وماانزلنا علیک الکتاب ال لتبین لھم الذی
اورہم نے اس کتاب کو تجھ پر اسی لئے اتاراہے کہ جس (جس )بات کے متعلق انہوں نے (باہم)اختلاف (پیدا)کرلیا ہے
اختلفوافیہ وھدیً ورحمۃ لقوم یومنون ٭
اس(کی اصل حقیقت )کوان پر روشن کرے ۔اور(نیز )جو(اس پر)ایمان لائیں انکی رہنمائی کے لئے اور(ان پر )رحمت نازل کرنے کے لئے ۶۵؎
۶۵؎ تفسیر ۔یعنی کلام الٰہی کے نزو ل کی ایک اوربھی ضرورت ہے کہ دنیا میں لوگوں میں اخلاقی اورمذہبی امورکے بارہ میںشدید اختلاف پایاجاتاہے ۔یہ اختلاف بغیر اس کے کس طرح دورہوسکتاہے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے ایک یقینی علم حاصل ہوجائے ۔پس اس علم کے دینے کے لئے یہ کتاب نازل ہوئی ہے ۔اسکے سواکونسی تعلیم دنیا کے اختلاف مٹاسکتی ہے ۔اگردنیا کو معلو م ہوجائے کہ یہ کلام خداتعالیٰ کی طرف سے ہے تب تو وہ اپنے خیالات کوچھوڑ دے گی ۔ا س کے بغیر و ہ کس طرح اپنے خیالات کو چھوڑ سکتی ہے ۔کیونکہ طبعاً ہرشخص اپنے خیالات کو دوسروں کے خیالات پر ترجیح دیتاہے ۔
اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ تم کو پہلے نبیوں کے بعد دوسرے نبی کے آنے پراعتراض ہے ۔دوسرانبی توخود تمہارے اعمال کی وجہ سے آیا ہے تم نے سچائی کو چھوڑ کراختلاف کیوں کیا ۔تم اختلا ف نہ کرتے توبے شک نبی کی ضرورت نہ ہوتی مگر تم نے مرض توپیداکرلی اب کہتے ہوکہ خداتعالیٰ کی طرف سے کسی اختلاف کودورکرنے والے شخص کی آمد کی ضرورت نہیں ۔
مذکورہ بالامضمون پر یہ سوال کیا جاسکتاہے کہ فرض کرولوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت پر ہی عمل کرتے رہتے اوراختلاف نہ کرتے توکیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے کامل شریعت یاکامل تعلیم نہ آتی ؟ ا س کاجواب یہ ہے کہ یہ فرضی کلام ہے ۔حقیقتاً نہ اختلاف کرنے سے لوگوں نے رکناتھا اورنہ اس تعلیم کے آنے میں روک پیداہونی تھی ۔مگر بفرض محال ایسی صورت ہوتی بھی ۔تواللہ تعالیٰ نے ا س کایہ جواب دیاہے ۔کہ لَوْکَانَ فِی الْاَرْضِ مَلٰٓئِکَۃٌ یَّمْشُوْنَ مُطْمَئِنِّیْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآئِ مَلَکاً رَّسُوْلاً(بنی اسرائیل ع۱۱)اگر دنیا میں سب فرشتے ہی فرشتے ہوتے یعنی سب کے سب انسان نیک ہوتے تو ہم ان میں سے ہرایک شخص پر اپنا کلام نازل کرتے یعنی اس صورت میں اک نبی قوم کی طرف نہ بھیجا جاتا بلکہ سب ہی نبی ہوجاتے اورانکا راورکفر کا سوال ہی پیدانہ ہوتا ۔مگر نہ دنیاسب کی سب نیک بنی نہ خداتعالیٰ نے نبیوںکے سلسلہ کوبندکیا ۔
ھُدًی وَّرَحْمۃً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْن میں مضمون کے دوسرے پہلو کو لیا کہ جو اختلاف کرتے ہیں ان کے لئے تیرایہ کام ہے ۔کہ قرآن کریم کے روسے ان کے اختلاف دور کرے اورجو مومن ہیں ان کے لئے ترقیء مدارج اوررحمت کے حصول کاذریعہ اس قرآن کو بناء ے۔
واللہ انزل من السماء مائً فاحیا بہ الارض بعد موتھا
اوراللہ (تعالیٰ)نے (ہی)آسمان سے (عمدہ )پانی اتاراہے اوراس کے ذریعہ سے ا س نے تمام زمین کواس کے مردہ ہوچکنے کے بعد (ازسرنو)زندہ کیا ہے ۔
ان فی ذٰلک لایۃ لقوم یسمعون٭
جولوگ(حق بات کو)سنتے (اوراسے قبول کرنے کے لئے تیارہوتے)ہیں ان کے لئے اس میں یقیناایک(بہت ڑا)نشان (پایاجاتا)ہے ۶۶؎
۶۶؎ تفسیر ۔اس جگہ پانی سے مرادکلام الٰہی ہے ۔کیونکہ پانی کے نزول کے بعد لَاٰیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَّسْمَعُوْنَ فرمایاہے ۔یعنی ا س پانی کے نزول میں سننے والوں کے لئے نصیحت ہے ۔مادی پانی کے نزول میں سننے والوں کے لئے نشان نہی ہوتا۔بلکہ دیکھنے والوں یا سمجھنے والوں یاغورکرنیوالوں کے لئے نشان ہوتاہے ۔سننے کے لفظ سے صاف معلو م ہوتاہے کہ یہاں روحانی پانی یعنی کلام الٰہی مراد ہے اورپہلے نبیوں کی وحیو ں کی طرف توجہ دلائی ہے اوربتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کئی دفعہ آسمان سے روحانی پا نی اتار چکا ہے اوراس کے ذریعے سے دنیا کو زندہ کرچکا ہے اگر تم پہلے انبیاء کے حال سنتے توضرو راس صداقت کو تسلیم کرتے ۔
اَحْیَابِہِ الْاَرْضَ سے وَھُدًی وَّرَحْمَۃً کی دلیل دی کہ یہ کلام کیوں مسلمانوں کے لئے رحمت اورہدایت ثابت نہ ہوگا جبکہ سا بق کلام مردہ قوموں کو زندہ کرتے چلے آئے ہیں ۔جو اس وقت ہواوہی اب ہو گا ۔
وان لکم فی الانعام لعبرۃ ۔ نسقیکم مما فی بطونہ من بین
اورتمہارے لئے چارپایوںمیں(بھی)یقینانصیحت حاصل کرنے کاذریعہ (موجود )ہے(کیاتم دیکھتے نہیں کہ )جوکچھ ان کے پیٹوں میں
فرث ودم لبنا خالصا سائغا للشاربین٭
(گند وغیرہ بھرا)ہوتا ہے اس میں سے یعنی گوبر اورخو ن کے درمیا ن سے ہم تمہیں پینے کے لئے (پاک اور)صاف دودھ (مہیا کر )دیتے ہیں جو(اس کے )پینے والوں کے لئے خوشگوار (بھی )ہوتا ہے ۶۷؎
۶۷؎ حل لغات ۔الاَنْعَامُ:النَّعَم: الاِبلُ والشَّمائُ وقیل خاصٌّ بالابل۔نعَم کالفظ اونٹ اور بکریوں پر بولاجاتا ہے اوربعض کہتے ہیں کہ یہ صرف اونٹوں پر بولاجاتاہے ۔وقال فی المصباح النَّعم:المال الرّاعی وھو جمعٌ لاواحد لہ من لفظہ واکثر مایقع علی الابل۔اورمصباح میں یو ں لکھاہے کہ نَعَم چرنے والے جانوروں کو کہتے ہیں۔اورلفظ نعم جمع ہے ۔اوراس کے مادہ (ن۔ع۔م)سے ا س کاکوئی مفرد نہیں ((جیسے عربی میں نسوۃ کالفظ ہے جس کے معنے عورتوں کے ہیں ۔اس کامفرد اس کے مادہ میں سے نہیں آتا۔ہاں مفرد کے لئے اِمْرَأۃٌ کالفظ استعمال ہوتاہے )وقال ابوعبید ۔النَّعَمُ: الجمالُ فقط ویؤنّثُ ویذکّر۔اورابو عبید کہتے ہیں کہ نَعَم کالفظ صرف اونٹو ں پر بولاجاتا ہے ۔اوریہ نراورمادہ دونوں پر استعمال ہوتاہے ۔اس کی جمع انعام ہے ۔وقیل النَّعَم وھی الابل والبقر والغنم۔اوربعض کہتے ہیں ۔کہ نَعَم کالفظ اونٹوں کے لئے خاص ہے لیکن انعام میں اونٹ بھیڑ اورگائے سبھی شامل ہیں ۔وقیل یطلق الانعام علی ھذہ الثلاثۃ فاذاانفردت الابل فھی نعم ۔وان انفردت الغنم والبقر لم تسمّ نَعَماً اوربعض کے نزدیک انعام کالفظ بھیڑ اونٹ اورگائے کے مجموعہ پر بولاجاتا ہے ۔اوراگر اونٹوں کو ان سے علیحد ہ کیاجائے تواونٹوں کے لئے نَعَم کا لفظ بولاجائے گامگر صر ف گائے بھیڑ بکریوں کونَعَم نہیں کہیں گے ۔(اقرب)
فرث:السر جینُ مادام فی الکرشِ۔گوبر جب وہ اوجھری میں ہو فرث کہلاتاہے (اقرب)
سائغاً:السائغ:السَّھلُ المدخلِ من الطعام ِ والشَّرابِ۔کھانے پینے کی آسانی سے حلق سے نیچے اترنے والی اشیا ء سائغ کہلاتی ہیں (اقرب)
تفسیر ۔یہ فرماکر کہ چارپایوں میں بھی تمہارے لئے عبرت ہے کیالطیف بات بیا ن فرمائی ہے ۔چارپائے غذاکے طور پر بھی استعمال ہوتے ہیں۔ان میں سے دود ھ بھی لیاجاتا ہے ان کا گوشت بھی کھایاجاتاہے ۔اس کے علاوہ انعام اسبا ب اٹھانے کے بھی کام آتے ہیں ۔عرب میں زیادہ تراونٹ اس کام آتے تھے کیونکہ وہاں گائے بیل کم ہوتے ہیں۔لیکن دوسرے ملکوں میں بیل بھی بوجھ اٹھا کرلے جا نے میں بہت مدد دیتے ہیں ۔رہ گئیں بکریاں اوربھیڑیں سو بعض پہاڑی ملکوں میں ان سے بھی اسباب اٹھانے کاکام لیا جاتا ہے خصوصاً جبکہ سفراونچے پہاڑوں کا ہو توان جانور وں پر تھوڑاتھوڑ اسباب لادکر گلّے پالنے والے کرایہ کافائدہ بھی اٹھالیتے ہیں ۔میں نے کانگڑہ میں دیکھا ہے کہ لاہول کے پہاڑوں پر سے آنے والے گڈریے اپنے اسباب کثرت سے بھیڑوں پر لاد کر لاتے ہیں۔سینکڑوں بھیڑوں پر دس دس بیس بیس سیر اسباب لداہواعجیب لطف دیتا ہے ۔پس انعام سب ہی اسبا ب اٹھانے کاکام دیتے ہیں ۔پس عبرۃکالفظ جو عبورسے نکلا ہے جس کے معنے سفر کے بھی ہوتے ہیں ۔اسے استعمال کر کے اس طرف اشارہ فرمایا کہ جانوروں سے سفروں میں کام لیتے ہو وہ تم کو اور تمہارے اسباب کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے ہیں مگر ان سے عبرت حاصل نہیں کرتے ۔یعنی اپنے ذہنوں کے سفر میں ان سے مدد نہیں لیتے اوران کی حالت پر غور کرکے اس زیر بحث مسئلہ میں جہالت کے ملک سے علم کے ملک کی طرف سفر نہیں کرتے ۔
عِبْرَۃٌ کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ ایک چیز کو دیکھ کر دوسری اُسی کے مشابہ چیز کی طرف ذہن کاانتقال کیا جائے اورپہلی پر قیاس کرکے دوسری کو سمجھاجائے ۔پس جانوروںکے ذکر میں عبر ۃ کالفظ استعمال فرما کر ایک عجیب پر لطف مضمون پیداکر دیاگیاہے ۔
وہ عبرۃ کیا ہے جس کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیاہے وہ خود ہی اگلے الفاظ میں بیان فرمادی ہے اوروہ یہ ہے کہ چارپائے گھاس پتے کھاتے ہیںجس سے گوبربنتاہے پھر گوبر میں سے ایک حصہ خو ن بنتاہے اوراس خو ن کاایک حصہ دودھ بن جاتاہے جسے انسان مزے لے کر پیتا ہے اوروہ ایسا خالص ہوتاہے کہ کوئی نفاست پسند انسان بھی اسکے پینے میں کراہت محسوس نہیں کرتا۔حالانکہ دودھ پہلے خو ن تھا اورخون اس فضلہ سے بنتاہے جو غذاسے جانور کے معدہ میں تیارہوتاہے اوروہاں سے انتڑیوں میں جاکر باریک عروق سے دل کی طرف لے جایاجاتاہے جہاں جااتے ہی وہ خون بن جاتا ہے اورخون تھنوں میں آکر دودھ کی شکل اختیار کرلیتا ہے ۔
اس آیت میں اس مضمون کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہی گھاس اورپتے جن کو انسان استعمال نہیں کرسکتا جانور کے پیٹ میں جاکر گوبر بنتے ہیں اوراس سے خون بنتاہے اوراس سے دودھ۔اوروہ دود ھ خالص ہوتا ہے کوئی گندگی اس میں نہیں ہوتی اورپینے میں مزیدار ہوتاہے ۔ اس گھاس کو انسان اس جانورسے باہر دودھ کی شکل میں تبدیل نہی کرسکتالیکن اللہ تعالیٰ اس کو لے کر جانور کے ذریعہ سے دودھ بنادیتاہے ۔اس سے انسانوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئیے کہ وہی فطرتی تعلیم جس پر چل کر انسان یقین کے مرتبہ تک نہیں پہنچ سکتا اورہزاروں گند اورنقص اس میں پائے جاتے ہیں ۔جب اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی روحانی مشین میں سے گذرتی ہے تومصفّٰیددودھ کی طرح ہوجاتی ہے جس سے کسی قسم کانقصان روحانی صحت کو نہیں پہنچ سکتا بلکہ ہر طرح فائدہ پہنچتاہے ۔ پس جانوروں کے اندرجو دودھ بنتاہے اس سے یہ لوگ کیوں عبرت حاصل نہیں کرتے اورنہیں سمجھتے کہ انسان کی سچی غذا فطرت کے میلان تب ہی بن سکتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ ان کو روحانی دودھ کی شکل میں بد ل دے۔اوریہ کام انسان خود نہیں کرسکتا ۔جوگھاس کو دودھ میں تبدیل نہیں کرسکتا وہ فطرت کے اَن گھڑے جذبات کو اعلیٰ تعلیم میں کب تبدیل کرسکتا ہے ۔
اس آیت میں ایک لفظی اشکال بھی ہے اوروہ یہ کہ بطونہٖ میں مفرد کی ضمیر ہے اورماقبل اس کے اَنعام جمع کالفظ ہے ۔مفسرین نے اس کے دوجواب دیئے ہیں ۔ایک یہ کہ مفرد کی ضمیر معنیً پھرائی گئی ہے اورمراد یہ ہے کہ جس چیز کاہم نے ذکر کیا ہے۔یعنی انعام ۔اس کے پیٹ میں مذکورہ طریق سے دودھ بنتا ہے گویاضمیر انعام کی طرف نہیں بلکہ ماذُکر یاماذکرنا ہ کی طرف ہے اورما کی طرف خواہ وہ جمع کے لئے ہو مفرد کی ضمیر پھیر نی جائز ہے ۔
دوسری تاویل مفسرین یہ کرتے ہیں کہ کبھی جمع کالفظ بول کر اس کی طرف مفرد ضمیر اس اشارہ کے لئے لاتے ہیں کہ اس کے ہرفرد اس کی ہرقسم کے ساتھ یہ معاملہ گذرتا ہے ۔یہ دونوں تاویلات درست ہیں اورعربی قواعد کے مطابق ہیں ۔
یہ آیت اس امر پر بھی شاہد ہے کہ قرآن کریم کا نزول کرنے والا دنیاکاخالق بھی ہے کیونکہ اس میں دودھ کے پیداہونے کاوہ طریق بتایاگیا ہے جو اس وقت دنیا کو معلوم نہ تھا اوربعدمیں دریافت ہواہے۔اوروہ یہ کہ غذامعدہ میں سے انتڑیوں میں آتی ہے اوراس سے فرث تیارہوتاہے اس فرث سے ایک ماد ہ بن جاتاہے اوراس خون سے دودھ بنتاہے ۔یہی وہ حقیقت ہے جو نزول قرآن کے بعد کی تحقیق سے ثابت ہوئی ہے ۔چنانچہ بعد کے مفسرین نے ابتدائی مفسرین کی غلطی کو پیش کر کے ظاہر کیا ہے کہ درحقیقت فرث سے خون اورخون سے لبن بنتاہے ۔مگر جو تشریح انہوں نے بیان کی ہے وہ بھی پوری طرح سائنس کے مطابق نہیں ۔لیکن قرآن کریم کے الفاظ سائنس کی موجود ہ تحقیق کے بالکل مطابق ہیں ۔اوروہ یہ ہے کہ غذامعدہ سے انتڑیوں میں جاتی ہے وہاں سے اس کامنہضم لطیف حصہ بعض عروق کے ذریعہ سے ایک حصہ سیدھا دل تک جاتا ہے اور وریدوں میں گرکرفوراً خو ن بن جاتا ہے پھر یہ خون جب تھنوں کے قریب جاتا ہے تووہاںاللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیداکئے ہیں کہ وہ خون وہاں جاکردودھ بن جاتاہے ۔
اس حقیقت سے پرانے زمانہ کے لوگ ایسے ناآشنا تھے کہ مفسرین نے اس آیت کے معنے کرنے سخت مشکلات محسوس کی ہیں اوررائج الوقت خیالات کے مطابق یہ سمجھا ہے کہ شاید فرث اوردودھ کے بننے کے درمیان کوئی تغیر ایساہوتاہے جس سے دودھ بناتاہے چنانچہ صاحب کشاف لکھتے ہیں کہ جب غذاجانورکے معدہ میں جاتی ہے تواس کا نچلا حصہ گوبر بن جاتاہے اوراوردرمیانی حصہ دودھ بن جاتاہے اوراوپر کا حصہ خون بن جاتاہے ۔حالانکہ آیت صاف بتارہی ہے کہ فرث اورخون میں سے ہوتے ہو ئے دودھ کاماد ہ آتاہے یعنی پہلے فرث کی حالت ہوتی ہے پھر خون کی پھر دودھ کی ۔اوران پہلی دوچیزوں میں سے کسی کو بھی انسان خوشی سے کھانے کوتیار نہیں ہوتا ۔نہ گوبر کھانے پر راضی ہو سکتاہے اورنہ خو ن پینے پر خوشی سے تیار ہوسکتاہے ۔لیکن جب وہی خون دودھ بن جاتا ہے تواسے خو ب مزے لے کر پیتا ہے اوراس میں فرث کی گندگی اوراورخون کے زہروں میں سے کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔
اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی تھوڑی سی مقدار میں بھی دود ھ نہیں بناسکتا۔ممکن ہے کسی وقت لو گ کچھ دودھ بھی بنالیں۔ لیکن ا س طرح ساری دنیا کو غذا نہیں پہنچا سکتے ۔یو ں تولوگ گیسوں سے پانی بھی بنالیتے ہیں۔لیکن وہ چند قطر ے پانی کے بادلوں کاکام نہیں دے سکتے ۔ اسی طرح اگر کسی وقت کوئی شخص گھاس پات سے دودھ بھی بنالے توتعجب نہیں۔مگر دنیاکو غذادینے کاکام پھر بھی جانوروں کے سپرد ہی رہے گاجس طرح پانی مہیا کرنے کاکام بادلوں کے سپر د ہے ۔
اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ کیا گیاہے کہ انسان غذاکو گندہ توکرسکتاہے لیکن اس سے دودھ نہیں بنا سکتا ۔اسی طرح انسان انبیاء کی تعلیم کو لے کر خراب تو کردیتے ہیں لیکن انسانی دماغوں میں پائی جانیوالی غیر مصفّٰے فطرتی صداقتوں کو مصفّٰے اوراعلیٰ روحانی تعلیم نہیں بناسکتے ۔
ومن ثمرات النخیل والاعناب تتخذون منہ سکراً
اورکھجوروں کے پھلو ں اورانگوروں سے (بھی کہ )جن سے تم شراب (بھی )بناتے ہو اور
ورزقاحسناً ۔ ان فی ذالک لایۃ لقوم یعقلون ٭
اچھا رزق( بھی) جولوگ عقل سے کام لیتے ہیں ان کے لئے اس میں یقینا ایک (بڑا)نشان (پایاجاتا)ہے ۶۸؎
۶۸؎ حل لغات ۔النَّخِیْلُ:نخل کی جمع ہے اور یہ مؤنث استعمال ہوتاہے ۔لیکن نخل کالفظ مؤنث مذکردونوں طرح استعمال ہوتاہے اس کے معنے کھجورکے درخت(اقرب)
الاعناب :عِنْبٌ کی جمع ہے اورعِنَبٌ کے معنے ہیں ثمرالکرم وھو طریٌّ۔فاذایبس فھو الزّبیبُ یعنی عنب تازہ انگوروں کو کہتے ہیں ۔جب وہ خشک ہوجائیں تووہ زیب (منقّہ )کہلاتے ہیں (اقرب)
سکراً:الخمر۔شراب۔نبیذٌ یتّخِذ من التم والکشوث۔کھجوروں کارس ۔کل مایُسْکر۔ہرنشہ آور چیز ۔الخلّ۔سرکہ ۔الطعام ۔کھانا (اقرب)
تفسیر ۔اس آیت میں بعض مفسرین نے سکر کے معنے شراب کے کئے ہیں ۔پھر ان کو یہ مشکل پڑی ہے کہ اس آیت میں سکر کوتواللہ تعالیٰ انعام کے طورپر ذکر فرمارہا ہے حالانکہ شراب ناجائزہے ۔اس پر انہوں نے تاویل کی ہے کہ یہ آیت اس وقت کی نازل شدہ ہے جبکہ شراب جائز تھی ۔اوریہ جواب دے کر انہوں نے اس آیت کو منسوخ قرار دے دیا ہے ۔بعض لوگوں نے اس مشکل کومدنظر رکھتے ہوئے سکر سے کھانا مراد لیا ہے ۔ان معنوں پر دوسرے علماء نے یہ اعتراض کیا ہے کہ اگریہ معنے ہوں توآیت میں تکرار واقع ہوجائے گا۔کیونکہ آگے وَرِزْقًاحَسَنًا بھی بیان فرمایا ہے ۔اس کاانہوں نے یہ جواب دیاہے کہ سکر کے لفظ میں طاقت مدنظررکھی ہے اوررزق میں غذائیت مد نظررکھی ہے ۔یہ سب مشکل ان کو اس لئے پڑی ہے کہ انہوں نے جواز اورعدم جواز کامسئلہ اس جگہ سے نکالنا چاہاہے ۔حالانکہ خداتعالیٰ اس جگہ بات ہی یہ بتاناچاہتاہے کہ بسااوقات ہماری پیداکردہ طیّب چیزیں جب تم تصرّف کرتے ہو تواسے گندہ کردیتے ہو۔ وہی چیز جوتازہ ہونے کی حالت میں پاک ہوتی ہے جب تم اس میں تغیر کرتے ہو توکیسی گندی ہوجاتی ہے
اِنَّ فِیْ ذَالِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ۔ اِن الفاظ سے اس طرف اشار ہ کیا کہ عقل مند سمجھتے ہیں کہ خداتعالیٰ جس چیز کو جس غرض سے بناتا ہے اس میں تغیر کرنا اس کی اصلاح کا موجب نہیں ہوتابلکہ خراب کرنے کاموجب ہوتاہے ۔پس نہ توانسان خود روحانی تعلیم بناسکتاہے نہ اسے یہ اختیارہے کہ خداتعالیٰ کی بھیجی ہوئی تعلیم میں کسی قسم کادخل دے اوراسے اس مقصد سے پھرادے جس کے لئے وہ نازل ہوئی ہے ورنہ ضرورخرابی پیداہوجائے گی ۔
واوحیٰ ربک الی النل ان اتخذی من الجبال
اورتیرے رب نے شہد کی مکھی کی طرف (بھی )وحی کی (ہوئی)ہے کہ توپہاڑوں میں اوردرختوں میں
بیوتاومن الشجر ومما یعرشون ٭
اورجو (انسان انگوروں وغیرہ کے لئے )ٹیک بناتے ہیں ان میں (اپنے )گھر بنا ۶۹؎
۶۹؎ تفسیر ۔وحی الٰہی کی ضرورت کے متعلق یہ تیسری مثال بیان فرمائی ہے اوراس میں پہلی دومثالوںسے بھی زیادہ وضاحت ہے ۔
یہاں فرمایا ہے کہ ہم نے نحل یعنی شہد کی مکھی کی طرف بھی اس کے ظرف کے مطابق ایک وحی کی ہے اوروہ وحی یہ ہے کہ پہاڑوں پریادرختوں پر یاعرشو ں پر گھر بنا۔یہ وحی استداد باطنی ہے جو شہد کی مکھی میں پیداکی گئی ہے اوراس آیت میں اس طرح اشارہ ہے کہ تمام کائنات کا کارخانہ وحی الٰہی پر چل رہاہے ۔کسی پر وحی خفی نازل ہوتی ہے کسی پر وحی جلی ۔مگر بہرحال سب کارخانہ وحی پر چل رہاہے یعنی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی طاقتوں اورمیلانوں پر چل کر ہی ہر چیز اپنا صحیح فرض اداکرتی ہے ۔اگراس طریق کو چھوڑ دے توکبھی اپنا فرض اچھی طرح ادانہ کرسکے ۔
اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ خداکی وحی بہت وسیع ہے ۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وحی نہیں آسکتی حالانکہ اس آیت سے جانوروں کو بھی وحی ثابت ہوتی ہے ۔اس وحی سے Instinct یعنی طبعی میلانوں کی طرف اشارہ ہے ۔اس قسم کی وحی عارضی طورپر انسان کوبھی ہوتی ہے ۔بعض دفعہ یکدم ا س کو کوئی خیال آتاہے جواس ک لئے مفید ہوتاہے ۔دنیا کے تمام موجد یہی کہتے ہیں کہ اکثرایجادوں کاخیا ل ان کے دل میں یکدم پیداہوایاایجاد کا خیال توعلمی تحقیق کے سلسلہ میں پیداہوالیکن کئی درمیانی مشکلات کاحل ایک فوری ذہنی لہرکے پیداہونے سے حاصل ہوا۔
ایڈیس جو سب سے بڑاموجد ہے ۔اس نے اپنے متعلق صا ف لکھا ہے کہ میں نے ایک ہزارایجاد کی ہے ان میں سب سے بڑی ایجادیں ایک فوری خیال کی بناء پر ہوئی ہیں ۔درحقیقت یہی وہ کیفیت ہے جسے صوفی لوگ الہا م کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔
جانوروں کی تحقیقات میں سے شہد کی مکھی اورچیونٹی کی تحقیقات بہت وسیع ہوئی ہے ۔اس تحقیقات نے یہ ثابت کیا ہے کہ چیونٹیوں میں بہت بڑابھاری نظام ہوتاہے ۔یہ ہاتھوںسے بات کرتی ہے ۔انسان کی طرح اپنی لاش کی حفاظت کرتی ہے غلے کاڈھیر رکھتی ہے ۔سردی اورگرمی کے مکانات علیحدہ علیحدہ رکھتی ہے ۔چوبارے بناتی ہے ۔ایک قسم کاکیڑاہے جس میں سے ایک مادہ نکلتاہے جو چیونٹی کے لئے دودھ کاکام دیتا ہے ان کیڑوں کو یہ جمع کرکے اپنے گھروں میں رکھتی ہیں ۔اوران کی غذاکاخیال رکھتی ہیں اورجب غلہ میں کمی ہوتوتجربہ سے معلوم ہوتاہے کہ وہ ان کیڑوں کو پہلے غذادیتی ہیں ۔پھر بچ رہے توخود کھاتی ہیں ۔ان میںلڑائیاں بھی ہوتی ہیں ۔صلح بھی ہوتی ہے ۔غرض ایک وسیع نظام ان میں پایاجاتاہے ۔یہ سب ایک قسم کی وحی خفی کے نتیجہ میں ہے ۔
اسی طرح نحل کا بھی بڑاعظیم الشان ظام ہے ۔بعض ماہروں کاخیال ہے کہ انسانوں کے نظام سے ان کانظام بہتر ہوتاہے ۔ان کے ہرچھتہ میں یک ملکہ ہوتی ہے ۔سب مکھیا ں اس کی پیروی کرتی ہیں ۔ان کی نسلیں علیحدہ علیحدہ ہوتی ہیں انسانوں کی طرح سب مل کرنہیں رہتیں۔جب نئی ملکہ پیداہوتی ہے توپرانی مکھیا ںا س کومارناچاہتی ہیں توساری نئی جوان مکھیاں اس کاپہرہ دیتی ہیں اورمل کر اس کی حفاظت کرتی ہیں وہ ملکہ بڑی ہوکر اپنے ساتھیو ں سمیت علیحدہ چھتہ بناتی ہے ۔پھر ملکہ لڑائی کرکے یاتوپہلی بڑی مکھیوں کو پہلے چھتہ سے نکال دیتی ہے یا شکست کھا کر دوسری جگہ چلی جاتی ہے ۔ان کے نظام کی اوربھی تفصیلات ہیں جو حیرت انگیز ہیں ۔خداتعالیٰ نے نحل کے ذکر کو اس لئے چنا ہے کہ یہ معلوم ہوکہ ایک بالاہستی ہے جس نے اسے یہ علم دیا ہے اوراس کو ایسانظام دیاہے جوخود اس کا سوچاہوانہیں ہے۔نیز اس مثال کو اس لئے چنا ہے کہ شہد کی مکھی کانظام معمولی غور سے نظر آجاتاہے ۔اوراس لئے بھی کہ ا س سے ایک ایسی غذاپیداہوتی ہے جسے انسان نے بہترین سمجھا ہے۔اس نظام کااس میں پایاجانا یہ بتاتا ہے کہ اس میں عقل ہے ۔مگراس کاایک ہی حالت میں رہنا اورترقی نہ کرسکنا یہ بتاتا ہے کہ وہ نظام اس کو کسی اورہستی نے دیا ہے اورباہر سے آیا ہے اس نے خود وہ نظام تیار نہیں کیا ۔
اس آیت میں اس طر ف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ نحل یعنی شہد کی مکھیا ں بھی مختلف قسم کی ہوتی ہیں ۔بعض پہاڑوں میں چھتے بناتی ہیں ،بعض میدان کے درختوں پر اوربعض گھروں یا عرشوں پر جو انگور وغیرہ کے لئے تیار کئے جاتے ہیں ۔اس سے اس طرف اشار ہ کیا ہے کہ انسانوں میں سے مَوردِ وحی بھی ایک سے نہیں ہوتے ۔بعض کامقام پہاڑ پر ہوتاہے بعض کادرخت پر اوربعض کاچھتوں اورعرشوں پر۔یعنی بعض بہت اونچے مقام کے ہوتے ہیں بعض ان سے ادنیٰ اوربعض ان سے ادنیٰ۔اس میں گویا اسی مضمون کی طرف اشارہ کیا ہے جو آیت تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَابَعْضَہُمْ عَلیٰ بَعْضٍ(بقرہ ع ۳۳)میں بیان کیاگیا ہے ۔
ثم کلی من کل الثمرات فاسلکی سبل ربک ذللا۔
پھر ہرقسم کے پھلوں میں سے (تھوڑاتھوڑالیکر )کھااوراپنے رب کے (بتائے ہوئے )طریقوں پر جو(تیرے لئے )آسان (کئے گئے )
یخرج من بطونھا شراب مختلف الوانہ فیہ شفاء للناس
ہیں چل۔ان(مکھیوں )کے پیٹوں سے (تمہارے )پینے کی ایک (لطیف )چیز نکلتی ہے جو مختلف رنگوں کی ہوتی ہے (اور)اس میں لوگوں
ان فی ذالک لایۃ لقوم یتفکرون٭
کے لئے شفاء (کی خاصیت رکھی گئی )ہے ۔جولوگ سوچ (اورفکر )سے کام لیتے ہیں ان کے لئے اس میں یقینا کئی نشان(پائے جاتے)ہیں ۷۰؎
۷۰؎ حل لغات ۔اُسْلُکی :سلک سے امر مؤنث مخاطب واحد کاصیغہ ہے ۔اورسلکٌ المکان سلکاً کے معنے ہیں ۔دخل فیہ۔وکذالک الطریق دخلہض۔سارفیہ متبعاً ایّاہُ۔کسی جگہ میں داخل ہوا۔یاکسی راستہ پر چلا ۔اس سے اسم فاعل سالکٌ آتاہے (اقرب)مزید تشریح کے لئے دیکھو حجر ۱۳؎
ذُلُلًا:ذلول کی جمع ہے ۔اورذلول ذلَّ(یذِلّ ذُلًّا وذِلًّا)سے صیغہ صفت ہے اورذلّ البعیر کے معنے ہیں ۔ضد صَعُبَ۔اس کاکام میں لانا آسان ہوگیا ۔کہتے ہیں ۔ذلّتْ لہ القَوَافی ای سھُلتْ۔قافئے اس کے تابع ہوگئے ہیں اورشعر بنانا اس کے لئے آسان ہوگیا ۔پس ذلول کے معنے ہوں گے ۔آسان(اقرب)آیت فَاسْلُکِیْ سُبُلَ رَبِّکَ ذُلُلًامیں ذلًلاکے معنے ہیں منقادۃ غیر متصعبۃ۔آسان جو مشکل نہ ہو (مفردات )پس فَاسْلُکِیْ سُبُلَ رَبِّکَ ذُلُلًا کے معنے ہوں گے کہ اپنے رب کے بتائے ہوئے طریقوں پر جوتیرے لئے آسان کئے گئے ہیں ۔چل۔اَلْوَانٌ کے لئے دیکھو نحل ۱۴؎
تفسیر ۔اس میں مکھی کی مزید تشریح کرتے ہوئے فرمایاکہ مکھی کو ہم یہ وحی بھی کرتے ہیں کہ مختلف پھلوں پھولوں سے غذالے اورپھر اس کو ان ذرائع سے کام لے کر جو ہم نے تیرے اند ر پیداکئے ہیں اوراحکام الٰہی کے مطابق چل کر شہد تیارکر۔پھر فرماتاہے کہ جب وہ شہد نکلتاہے تووہ مختلف رنگوں اورمختلف قسموںکاہوتاہے ۔مگر سب قسموں کے اورسب رنگوں کے شہدوں میں یہ خاصیت مشترک ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کے لئے شفاکاموجب ہوتے ہیں۔
اس میں انسانی وحی کی طرف اشارہ فرمایا کہ وہ وحی بھی مختلف وقتوں اورمختلف رنگوں میں نازل ہوتی رہی ہے ایک نبی کی تعلیم دوسرے نبی کی تعلیم سے بعض باتوں میں مختلف ہوتی تھی ۔لیکن باوجود اس کے ہرنبی کی وحی ا س قوم کے لئے جس کے لئے وہ نازل ہوتی تھی شفاء کاموجب ہوتی تھی ۔
فاسلکی سبل ربک ذُللاً سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ ہرانسان صاحبِ وحی ہوسکتا ہے ۔لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے طریق پر فرمانبرداری سے چلے اورجہاں تک فطرت کا تعلق ہے اُسے خراب نہ ہونے دے ۔جب وہ اپنی فطرت کو پاک رکھے اوراس وحی پر عمل کرے جو وحی خفی کے رنگ میں ہرانسان بلکہ ہر مخلوق پر نازل ہوتی ہے۔توپھر اللہ تعالیٰ اس پر وہ وحی نازل کرتاہے جوشہد کی مانند ہوتی ہے ۔یعنی خالص ہوتی ہے اوراس میں بنی نوع انسان کے لئے شفاء کی خاصیت ہوتی ہے ۔یعنی انسانی کمزوریوں کو دورکرکے انسان کو کامل بنادیتی ہے ۔
اِنَّ فِیْ ذَالِکَ لَاٰیَۃً لِقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ۔اس میں اس طر ف اشارہ کیاگیاہے کہ بغیر وحی الٰہی کے دنیا میں کوئی کام نہیں چلتا۔جوانسان کہتاہے کہ میں خود ہدایت کاکام کرلوں گا وہ غلطی پر ہے ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مضمون پر خاص زوردیاہے ۔ آپ فرماتے ہیں کہ انسانی کوشش دنیوی امورمیں بہ منزلہ دعاکے ہے اوراس کے نتیجہ میں انسان کے ذہن میں جو تدبیرآتی ہے وہ بھی وحی ہے ۔غرض مکھی کی مثال سے یہ بتایا ہے کہ کلام الٰہی کے بغیر کامیاب زندگی ناممکن ہے ۔حتی کہ جانور بھی وحی کے محتاج ہیں اوران پر ایک قسم کی وحی نازل ہوتی ہے جس کی نمایاں مثال شہدکی مکھی میں پائی جاتی ہے ۔پس جبکہ موجودات کے ہر طبقہ کے لئے خدانے وحی نازل کی ہے حالانکہ انکی زندگی محدود اورعقل مختصرہے ۔توانسان جس کی زندگی کااثر اگلے جہان پر بھی پڑتاہے اس کانظام بغیر وحی کے کس طرح چل سکتاہے ۔
قرآن کریم کے متعلق متعدد جگہ وہی الفاظ آتے ہیں جو شہد کے بارہ میں اس آیت میں آئے ہیں اوران سے یہ بتایا ہے کہ یہ کلام اپنے اندروہی خاصیت رکھتاہے جووحی کے نتیجہ میں پیداہوتی ہے یعنی شفاء کی تاثیر۔چنانچہ سورۃ بنی اسرائیل رکوع ۹ میں فرماتاہے وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَاھُوَ شُفَأٓئٌ وَّ وَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ۔سورۃ یونس رکوع ۶ میں فرماتاہے یَااَیُّھَاالنَّاسُ قَدْ جَآئَتْکُمْ مَّوعِظَۃٌ مِّنْ رَبِّکُمْ وَشِفَآئٌ لِّمَافِیْ الصُّدُوْر۔پھر حٰم سجدہ رکوع ۵ میں فرماتاہے قُلْ ھُوَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ھُدًی وَّشِفَآئٌ۔
واللہ خلقکم ثم یتوفکم ومنکم من یرد الی ارذل العمر
اوراللہ(تعالیٰ)نے تمہیں پیداکیا ہے پھر وہ تمہاری روحیں قبض کرتاہے اورتم میں سے بعض(بعض آدمی )ایساہوتاہے کہ وہ عمر کی بدترین
لکیلا یعلم بعد علم شیئا۔ ان اللہ علیم قدیر ٭
حالت کی طرف لوٹادیاجاتاہے جس کے نتیجہ میں وہ علم (والاہونے )کے بعد(پھر)بے علم ہوجاتاہے ۔اللہ (تعالیٰ)یقینا بہت جاننے والا (اور)ہربات پر پورا(پورا)قادرہے ۷۱؎
۷۱؎ حل لغات ۔اَرْذَل العُمُرِ:اَرْذَل کے معنے ہیں ۔الدُّوْنُ فی منظرہ و حالاتہ۔اپنے حالات اورمنظر میں حقیر۔الرَّدیُّ مِن کلّ شیئٍ ۔ہرچیز کا ردّی حصہ ۔ارذل العمر ۔اٰخرہ فی حال الکبر والعجز ۔بڑھاپے اورکمزوری میں عمر کاآخری حصہ ۔عمر کی بدترین حالت (اقرب) پس وَمِنْکُم مَنْ یُرَدُّ اِلیٰ اَرْذَلِ العُمُرِ کے معنے ہوں گے کہ تم میں سے بعض ایسے ہیں جوعمر کی بدترین حالت کی طر ف لوٹادئے جاتے ہیں ۔
تفسیر ۔پچھلے رکوع میں تو اس با ت کاذکر تھا کہ تمہارے معبود کلام الٰہی نہی بناسکتے ۔اس رکو ع میں اس بات کو واضح کیاگیا ہے کہ تم خود بھی کلام نہیں بناسکتے ۔اب اسی سلسلہ میں ایک عام بات بیان فرمائی کہ کامل کلام تووہ بناسکتا ہے جس کے قبضہ میں پیدائش اورموت کا اختیار ہو ۔پھر اپنی عقل پر بھی اُسے قبضہ حاصل ہو۔پس انسان کلام تیار نہیں کرسکتا۔کیونکہ نہ اس کے قبضہ میں پیدائش ہے کہ وہ اپنی تعلیم کے مطابق خاصیتیں دوسرے انسانوں میں رکھ دے نہ اسکے قبضہ میں موت ہے کہ وہ بعد الموت زندگی کے سامان پیداکرسکے ۔نہ اس کے قبضہ میں عقل ہے کہ وہ ایسے وجود بنی نوع انسان کی تعلیم کے لئے مقرر کرسکے جن کی عقل ہمیشہ سلامت رہے ۔کئی حکومتیں بہترین دماغ کے انسان چن کر پروفیسر مقرر کرتی ہیں لیکن وہ بوڑھے ہوکر اُلٹی سیدھی باتیں کرنے لگ جاتے ہیں ۔اب یہ فرق کو ن کرے گاکہ کس ووقت ان کے دما غ میں فتور شروع ہواہے کہ ا س وقت کی باتوں کو ردّی قرار دے ۔پس کئی شاگرد ایسے ضعیف دماغ کی باتوں کو صحیح سمجھ کر گمراہ ہوجاتے ہیں ۔پس کلام ہدایت خداتعالیٰ ہی کی طرف سے آسکتاہے ۔کیونکہ وہی انسان کاپیداکرنے والاہے اوربعدالموت اس کی رہنمائی کافرض اداکرسکتا ہے اُسی کے قبضہ میں انسانی عقل ہے ۔پس وہ جن لوگوں کو اس وحی کے کام پر مقررکرتا ہے ان کی عقلوں کی صحت کابھی ضامن ہوتاہے ۔
سوچنے والوں کے لئے یہ ایک بہت بڑانشان ہے کہ آج تک کو ئی نبی دنیا میں نہیں گذراجو ارذل العمر تک پہنچا ہو اورجس کی نسبت یہ کہا جاسکے کہ فلاں وقت دماغی کمزوری کی وجہ سے اس کی باتوں کااعتبار نہیں رہاتھا ۔کیا سینکڑوں نبیوں میں سے جن کو دنیا جانتی ہے ایک بھی ایسی مثال کا نہ ملنا اس امر کاثبوت نہیں کہ ان کو بھیجنے والا عقل انسانی کامالک ہے ۔اس لئے اس نے جن کو اپنے بندوں کی تعلیم پر مقرر کیا ان کی عقل کی بھی خود ہی حفاظت کی ۔
قو می زندگی کو لیا جائے تواس آیت میں یہ اشار ہ ہے کہ قوموں پر بھی بڑھاپاآتاہے اوروہ علم کو بھلا بیٹھتی ہیں۔اس وقت ایک نئی نسل کی ضرورت ہوتی ہے جن کو خداتعالیٰ پھر نئے سرے سے اپنے وحی کے ذریعے سے تعلیم دے ۔
اِنَّ اللہَ عَلیمٌ قدیرٌ کہہ کر اس طرف اشار ہ کیا ۔کہ جس کاعلم قائم رہتاہے اورجوقدرت سے کام کرسکتا ہے ،الہام نازل کر نا اسی کاکام ہے ۔
واللہ فضل بعضکم علی بعض فی الرزق
اوراللہ (تعالیٰ)نے رزق میں (بھی تو)تم میں سے بعض کو بعض سے بڑھا یا (ہوا)ہے ۔
فماالذین فضلوابرادی رزقھم علی ما
پھر جن لوگوں کو فضیلت دی گئی ہے وہ اپنا (مضبوضہ)رزق(کسی صورت میں بھی تو)ان کی طرف جن پر
ملکت ایانھم فھم فیہ سوائٌ افبنعمۃ
ان کے داہنے ہاتھ قابض ہیں لوٹانے والے نہیں تاوہ اس میں برابر(کے حصہ دار)ہوجائیں ۔پھر کیاوہ(اس حقیقت کے جاننے کے
اللہ یجحدون ٭
باوجود)اللہ(تعالیٰ)کی نعمت کا انکار کرتے ہیں ۷۲؎
۷۲؎ حل لغات ۔علیٰ مَامَلَکَتْ اَیْمَانھم :ھوملکۃ یمینی کے معنے ہیں۔اَملکہٗ واقدرعَلیہ۔کہ میں اس کامالک ہوں اوراس پرپوراقابو رکھتاہوں (اقرب)پس عَلیٰ مَامَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ کے معنے ہوں گے جن پر ان کے داہنے ہاتھ قابض ہیں ۔
نعمۃ کے لئے دیکھو سور ۃ ہذا ۵۴؎
یَجْحَدُوْنَ :جَحَدَ سے مضارع جمع مذکر غائب کاصیغہ ہے ۔اورجحدَ حقّہٗ اوربحقِّہِ کے معنے ہیں ۔اَنْکَرَہ مع علمِہٖ بِہِ۔اس نے جان بوجھ کر کسی کے حق کاانکارکردیا ۔کفر بہ:اس کا انکار کیا ۔کذّبَہٗ۔اس کو جھٹلایا (اقرب)پس یَجْحَدُوْنَ کے معنے ہوں گے ۔کہ اللہ کی نعمتوں کاجان بوجھ کرانکار کرتے ہیں ۔
تفسیر ۔اس آیت میں الہام کی ایک اورزبردست دلیل دی ہے اوروہ یہ کہ الہام الٰہی صرف عقائد کی اصلاح ہی نہیں کرتا ۔بلکہ اس کے علاوہ اس کے ذریعہ سے دنیاوی حکومتوں کے توازن کی بھی اصلاح کی جاتی ہے ۔چنانچہ فرماتاہے کہ ہرزمانہ میں اللہ تعالیٰ کا بعض افراد یابعض قوموں پر فضل نازل ہوجا تا ہے اوروہ دوسروں سے آگے نکل جاتے ہیں۔یہاں تک توعام قانون ہے اوراگرایسے لوگ انصاف سے کام لیں اورکسی کی حق تلفی نہ کریں توقابل اعتراض بات نہیں ۔لیکن ہمیشہ یہ ہوتاہے کہ جن لو گوں کے اختیار میں دنیا آتی ہے وہ کسی صورت میں ان لو گوں کے ساتھ جو ان کا غلام یا بنمزلہ غلام ہوں ان اختیارات کو تقسیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے جو انہیں حاصل ہوچکے ہوں۔ ان کے قبضہ سے دنیا کو نکال کر عزت اوررتبہ کو لیاقت اورقابلیت اوربنی نوع انسان کی مساوات کی بنیاد پر کھنے کاصرف اورصرف ایک علاج ہوتاہے اوروہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نبی ارسال فرماکر پھر بنی نوع انسان کو ان کے حقوق واپس دلائے ۔
جولوگ ملکوں اورحکومتوں کی باگ پر قابض ہوجاتے ہیں ۔ان کا بڑابہانہ یہی ہوتا ہے کہ دنیا کا انتظا لائق آدمیوں کے ہاتھ میں رہنا چاہیئے ۔اوروہ بعض خاندانوں اورگھرانوںکو لیاقت کے لئے مخصوص کرلیتے ہیں اوربادشاہتیں قائم ہوجاتی ہیں ۔بعض خاندان حکومت کرنے کے اہل قرار دے دئے جاتے ہیں اورعوام الناس سے نہ کوئی رائے لیتا ہے نہ ان کا انتظام میں کوئی دخل ہوتاہے ۔اس کے علاوہ کچھ حقوق انسانوں کے مذہبی لیڈر،پیر اورکاہن چھین لیتے ہیں ۔دین کو پنڈتوں،مولویو ںاورپادریوں کی جائداد قرار دے لیا جاتاہے ۔نہ عوام کو دین سے واقف رکھا جاتا ہے نہ انہیں اس کے متعلق دلچسپی لینے کاموقعہ دیاجاتاہے ۔بس یہ خیا ل کر لیا جاتاہے کہ ان کاکام صر ف مذہبی پیشوائوں کے بتائے ہوئے مسائل کومانناہے ۔مذہبی کتابوںپر خود غورکرنا اور ان سے فائدہ اٹھانا ان کا کا م نہیں ۔
غرض جب قوم نبوت کے زمانہ سے دور ہوجاتی ہے اس کے حقوق بعض خاندانوں کے قبضہ میں بطورتوارث چلے جاتے ہیں اورعام لو گ دین اوردنیا کے معاملہ میں بھی مشورہ دینے یا رائے دینے کے قابل نہیں سمجھے جاتے اورا س فرق اورامتیاز کو ایک فرضی قابلیت کا نتیجہ قرار دیاجاتاہے ۔ایک بادشاہ کا احمق بیٹا دنیا کاسب سے بڑاسمجھد ار سمجھا جاتاہے ۔وہ نادان خود ایسا مغرور ہوتاہے کہ جب دنیا کے سامنے اپنا کوئی احمقانہ اعلان کرتاہے تواس میں اس قسم کے نامعقول الفاظ استعمال کرتا ہے کہ مابدولت نے لوگوں کے فائدہ کے لئے فلاں اعلیٰ تجویز سوچی ہے جس کااظہار ا س اعلان کے ذریعہ سے کیاجاتاہے ۔اورکبھی وہ اس قسم کا اعلان کرتا ہے کہ اہل دنیا کی یہ خوش قسمتی ہے کہ مابدولت فلا ں بات میں اس کے شریک ہیں اورجس قدر وہ بے وقو ف ہوتا ہے اُسی قدر زیادہ تعلّی کر تاہے۔
یہی حال مذہبی دنیا کاہوتا ہے ۔علماء کے بیٹے نیم علم رکھتے ہوئے اورغوروفکر کی طاقتوں سے محروم ہو تے ہوئے صرف اس لئے مشائخ میں سے کہلاتے ہیں کہ وہ علماء کی اولاد ہیں ۔اوردنیا سے مطالبہ کرتے ہیں کہ بغیر دلیل کے ان کی جاہلا نہ باتوں کو تسلیم کیا جائے اورجو ان کے سامنے خداتعالیٰ کاکلام رکھے ۔اُسے ان فرسودہ قصوں اوربے معنی روایتوں کا جن کی سند ان کے پاس کوئی نہیں ہوتی ۔انکا ر کرنے والا قرار دے کر کافرو مرتد قرار دے دیا جاتاہے ۔
ایسے وقت میں صرف ایک نبی ہی کام آسکتاہے اوران امور کاعلا ج کرسکتا ہے ۔جب وہ ظاہر ہوت اہے۔تووہ جاہل جو اپنے آپ کو عالم کہتے تھے اس کی شناخت سے محروم رہ جاتے ہیں اور وہ عالم جو جاہل کے نام سے مشہور تھے اپنی بصیرت اورپاکیزہ فطرت کی مدد سے اس پر ایما ن لے آتے ہیں ۔تب فرشتوں اور شیطان کی لڑائی شروع ہوجاتی ہے ۔اوروہ جوناقابل سمجھے جاتے تھے قابلیت کے نام پر بنی نو ع انسان کو غلام بناکر رکھنے والوں کی ایک ایک تدبیر کو اس طرح کچل ڈالتے ہیں کہ جیسے چیل مردار کی بوٹیوں کو پتھروں پر مارتی ہے اوران خود ساختہ قابلوں کی قابلیت کی قلعی کھل جاتی ہے اورمدتوں سے دبے ہوئے عوام کو پھر اُبھرنے کا موقعہ ملتاہے ۔اورانسانیت پھر آزادی کاسا ن لیتی ہے ۔یہی مضمون ہے جسے اس آیت میں بیان کیاگیااوربتایاگیا ہے کہ جس کے قبضہ میں خداتعالیٰ ک نعمت آجائے وہ انہیں جنہیں اس نے غلام بناکر رکھا ہے ۔کبھی اپنے برابرکے حصہ میں شریک نہیں بناتا۔بھلا کبھی بھی بنی نوع انسان کو ایسے لوگوں نے آزادیء رائے اورآزادیء عمل دی ہے ۔اگر نہیں توپھر نبیوں کے سوا جووقتاً فوقتاً آکر دنیاکو آزادی بخشیں اورکون سی صورت انسا ن کی ترقی کی رہ جاتی ہے ؟ اس دلیل میں نبوت کی عملی ضرورت کوثابت کیا گیا ہے اوریہ ایسی زبردست دلیل ہے کہ ہرصاحبِ بصیر ت اسے دیکھ کر یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ نبوت کے بغیر کبھی بھی دنیا اپنے حقوق کو برقرار نہیں رکھ سکتی ۔یہ نعمت جب تک دنیا کو بار بار ن ملے انسان کاقدم ترقی کی طرف نہیں بڑ ھ سکتا ۔
اَفَبِنِعْمَۃِ اللہِ یَجْحَدُوْنَ سے عوام الناس کو ملامت کی ہے کہ تمہاری ہی آزادی کے لئے یہ رسول آیا ہے ۔اورتم اس نعمت کی ناقدری کرتے ہو انہی ظالموں کے ساتھ مل کر کام کررہے ہو جو تمہار ے حقوق پر ناجائز طورپر قابض ہورہے ہیں۔
اس آیت میں نہایت لطیف پیرایہ میں اس قانون کو جو ملکیت کے بار ہ میں اسلام نے پیش کیا ہے بیان کیاگیا ہے ۔ایک طرف رِزقھمْ کہہ
کر مال و امتعہ پر ان لوگوں کا قبضہ تسلیم کیاگیا ہے جومالدار اوربڑے ہوتے ہیں۔دوسری طرف بِرادِّی کہہ کر جس کے معنے واپس لوٹانے والے کے ہوتے ہیں یہ امر تسلیم کیاہے کہ مال کی مالک عوام الناس ہیں ۔کیونکہ لوٹائی وہی چیز جاتی ہے جودوسرے کی ہو ۔اپنی چیز دی جاتی ہے لوٹائی نہیں جاتی ۔پس ان دوالفاظ سے بظاہرمتضاد مضمون نکلتا ہے ۔برزقھم بتاتا ہے کہ مالدار لو گ اپنے مالوں کے مالک ہیں اوررادّی بتاتا ہے کہ عوام الناس ان مالوں کے مالک ہیں ۔مگر درحقیقت اس میں تضاد نہیں ۔اسلام کی تعلیم کاامتیاز ی نشان ہی یہ ہے کہ اس نے ہر چیز پر دوملکیتوں کو تسلیم کیاہے ۔اس شخص کی ملکیت کو بھی جس نے اسے کمایا اورمن حیث الجماعت بنی نوع انسان کی ملکیت کو بھی ۔بعض حقو ق کمانے والے کودئے گئے ہیں۔اوربعض حقوق بنی نوع انسان کو ۔کیونکہ ااصل ملکیت دنیا کی اشیاء پر ہرانسان کو بحیثیت انسان حاصل ہے ۔پھر یہ کوشش بھی کی گئی ہے کہ قبضہ ایسا نہ ہو کہ دوسرے انسانوں کی ترقی میں روک ہو ۔بلکہ و ہ دروازے کھلے رہیں جن میں سے ہوکر دوسرے لوگ بھی آگے آسکیں ۔اس پر زکوٰۃ،ورثہ اورسونے چاندی کے جمع کر نے کی ممانعت ،سود کی ممانعت وغیر ہ مسائل سے بہت واضح روشنی پڑتی ہے ۔مگر یہ موقعہ ان امو رکے بیان کرنے اکا نہیں۔ خلاصہ یہ کہ اسلام نہ توبے قید شخصی ملکیت کا قائل ہے اورنہ غیر محدود جماعتی تصرف کا ۔وہ دونوں کو قیود سے پابند کرکے انفرادی اورجماعتی کشمکشوں کو اپنے اپنے دائرہ میں اپنی قابلیتوں کے اظہار کاموقعہ دیتا ہے ۔
مَامَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ ۔اس سے مراد عام طورپر غلام ہیں اورقرآن مجید کے محاورہ میں بھی اکثر جگہ یہی معنے مستعمل ہوئے ہیں ۔مگر اپنی بناوٹ کے لحا ظ سے یہ لفظ عام ہے ۔جوشخص کسی نہ کسی لحاظ سے کسی کے قبضہ و تصر ف میں ہو وہ بھی اس لفظ کے اندر شامل ہے ۔اس لحاظ سے تما م ماتحت نوکر ،مزارعین اورمزدوروغیرہ اس کے اند رشامل ہوں گے ۔
اس آیت میں اس سوال کا بھی جواب دیا گیاہے کہ شریعت ہم خود ہی بنالیں گے خدائی الہام کی کیا ضرورت ہے ۔اللہ تعالیٰ اس کاجواب دیتاہے کہ شریعت بنانا خداکا ہی حق ہونا چاہیئے کیونکہ صحیح قانون وہی بناسکتا ہے ۔جس کی اپنی غرض حقوق کی تقسیم میں کوئی نہ ہو ۔اگرغرض والا شخص شریعت بنائے گا تووہ اپنا اوراپنی قوم کا فائدہ مدنظر رکھے گا ۔مثلاًاگر شریعت کابنانامَردوں کے سپرد ہوگا تووہ عورتوں کے حقوق پوری طرح ادانہ کریں گے اوراگر امراء قانون بنائیں گے تووہ امراء ک حقوق کا خاص خیال رکھیں گے اورغرباء کے حقوق کو نظرانداز کردیں گے ۔ علی ہذاالقیاس جوکوئی بھی قانون بنائے گا وہ اپنے حقوق کازیادہ خیا ل رکھے گااوردوسروں کے حقوق پو ری طرح ادانہ کرے گا۔اس لئے فرمایا کہ ہم نی شریعت بندوں کے اختیار میں نہیں رکھی ۔تاایسانہ ہو کہ جس کے قبضہ میں کوئی نعمت آئی ہوئی ہووہ اُسے دباکے بیٹھا رہے ۔اوراس کا بیان کرنا اپنے ذمہ رکھا ہے تاکہ عوام الناس کو جو بطورغلاموں کے ہیں اوراپنے حقوق منوانے میں کوئی آواز نہیںرکھتے انکو ان کے حقوق دلوائے جاتے رہیں۔
واللہ جعل لکن من انفسکم ازواجاً وجعل لکم من ازواجکم
اوراللہ(تعالیٰ)نے تمہارے لئے خود تم ہی سے بیویاں بنائی ہیں اور(نیز)اس نے تمہاری بیویوں سے تمہارے لئے بیٹے
بنینوحفدۃً ورزقکم من الطیبٰت افبالباطل یومنون وبنعمۃ اللہ ھم یکفرون ٭
اورپوتے پیداکئے ہیں اوراُ س نے تمہیں تما م(قسم کی)پاکیزہ چیزوں سے رزق بخشا ہے کیاپھر (بھی)ایک ہلاک ہونے والی چیز پر (تو)وہ ایمان رکھیں گے اوراللہ(تعالیٰ )کے انعام کاوہ انکار کردیں گے ۷۳؎
۷۳؎ حل لغات ۔مِن ْ اَنْفُسِکُمْ:انفس نفس کی جمع ہے ۔اورنفس الشیء َ کے معنے ہیں عینُہٗ۔خود وہی چیز(اقرب)پس من انفسکم کے معنے ہو ں گے ۔کہ خود تم ہی میں سے ۔
حَفَدَۃً۔جمع ہے اوراس کامفرد الحافد ہے اوراس کے معنے ہیں۔الخادم۔نوکر ۔الناصر۔ مددگار ۔التابع۔تابع۔ولدالولد۔پوتا(اقرب)
الباطل:ضدالحقّ۔جھوٹ۔(اقرب)
تفسیر ۔ان آیات میں بدل بدل کر شریعت کے نزول کی ضرورت اورشرک کے مضمون کو بیان کیاگیا ہے یونہی بے جوڑ طورپرنہیں ۔بلکہ ایک دوسرے کی تائید کے لئے ۔اوریہ ثابت کیاگیاہے کہ الہام کے بغیر انسان شرک جیسی مرض میں مبتلاہوجاتاہے اورتوحید کامل تقاضاکرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کی رہنمائی کرے۔کیونکہ جب خداایک ہی ہے توبندوں کی ہدایت کاکام کسی ودسرے پر کس طرح چھوڑ سکتا ہے ۔اگر کئی خداہوتے تو ایک دوسرے پر کام چھو ڑدیتا۔جیسے بچوںکی نگرانی کاکام بعض دفعہ ماں باپ پر چھو ڑ دیتی ہے اوربعض باپ ،ماں پرچھوڑ دیتا ہے ۔مگرایک ہی خالق،ایک ہی مالک کس پراس کام کوچھوڑ دے ۔وہ توخود ہی کرے گا۔اسی طرح توحید کمال کو چاہتی ہے اوربنی نوع انسان کوکسی مقصد کے بغیر پیداکرنانقص پردلالت کرتا ہے ۔اورتوحید کاعقیدہ اس کی اجازت نہیں دیتا ۔پس اگرانسا ن بغیر مقصد کے پیدا نہیں ہواتوپھر بعد الموت زندگی بھی ضروری ہے ۔اوراگر وہ زندگی ضروری ہے توایسی وسیع زندگی کے لئے تیار کر نے کی غرض سے ایک شریعت اورہدایت کاخداتعالیٰ کی طرف سے آنا بھی ضروری ہے ۔پس اسی سلسلہ میں اپنے موقعہ پر بعد الموت کی زندگی کاثبوت بھی بیان کیاگیاہے ۔
غرض توحید اورآسمانی ہدایت کی ضرورت کے مضمون کو ایک دوسرے کی تائید میں اس طرح بدل بدل کر لایا گیا ہے کہ مضمون میں ایک غیر معمولی شوکت پیداہوگئی ہے اورصاف معلوم ہوتاہے کہ جس طرح مادی دنیا کے تما م اجرام ایک دوسرے پرسہارالئے کھڑے ہیں سی طرح روحانی دنیا کی عمارت بھی ایک دوسرے کوسہارادے رہی ہے ۔۔اوراس کاایک حصہ دوسرے کی اس طرح تائید کررہا ہے کہ جدھر سے بھی رخ کرو ایک ہی حقیقت اورایک ہی نظام کی طرف رہنمائی ہوتی ہے ۔
چنانچہ اس آیت میں پھر توحید کی طرف رخ کیا ہے اوربتایا ہے کہ جہاں دولت و حکومت پر انسانی قبضہ ا س طرح رہنمائی کرتا ہے کہ انسانی فطرت دوسرے انسانوں کوجوا سکے محکوم ہیں اپنے ساتھ شریک کرنے پر تیار نہیں ہوتی اوراس وجہ سے ایک بیرونی تحریک کی ضرورت ہوتی ہے جواس بگڑے ہوئے نظام کو بدل کر مساوات انسانی اورحقوق انسانی کو قائم کرے ۔اسی طرح اس سے خداتعالیٰ کی توحید کی طرف بھی توجہ ہوتی ہے اوروہ اس طرح کہ جب اللہ تعالیٰ تم کو کوئی نعمت دیتا ہے ۔توجہاں تک وہ تمہارے قبضہ کو تسلیم کرتا ہے وہ تمہارے حقوق تمہاری اولاد کی طرف بطور وراثت منتقل ہونے کی اجازت دیتاہے اورتم اپنے اچھے مال جو خداتعالیٰ نے تم کو دئے ہیں ۔اپنی اولاد کی طرف منتقل کرتے ہو ئے دوسروں کو نہیں دیتے اورنہ دوسروں کو یہ حق دیتے ہو کہ وہ تمہاری جائداد جس کوچاہیں دے دیں ۔پھر کیا وجہ ہے کہ تم باطل یعنی شرک میں مبتلاہوتے ہو اوراللہ تعالیٰ کی نعمتوں کاانکار کرتے ہو ۔یہ انکار وہ کس طرح کرسکتے ہیں اس کاذکر اگلی آیت میں کیاگیاہے ۔
ویعبدون من دون اللہ مالا یملک لھم رزقا
اوروہ اللہ (تعالیٰ)کوچھوڑ کر ایسی چیزوں کی پرستش کرتے ہیں جو آسمانوںاورزمین میں سے
من السمٰوٰت والارض شیئًاولا یستطیعون ٭
ان کے (دینے کے )لئے کسی رزق کے ذرہ بھر (بھی)مالک نہیں اورنہ ہوسکتے ہیں ۷۴؎
۷۴؎ حل لغات ۔السمٰوات اوروالارض کے لئے دیکھو یونس ۵؎
تفسیر ۔فرماتاہے ۔کہ ان کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے وراثت کے اس حق کو تسلیم کیا ہے کہ ان کے مال اوران کی جائدادیں ان کی اولادوں کو ملیں ۔مگریہ لوگ خداتعالیٰ پر یہ ظلم کرتے ہیں کہ اس کے اختیارات اوراس کی حکومت ان کو دے دیتے ہیں جن کو اس نے اپنا وارث تجویز نہیں کیا ۔یعنی خداتعالیٰ تواپنے اختیارات سپرد نہیں کرتااوریہ کردیتے ہیں گویا اپنے متعلق توان کی خواہش ہوتی ہے کہ ہمارے اختیارات انہیں ملیں جوہماری اولاد ہیں اورجن سے ہم تعلق رکھتے ہیں مگر اللہ تعالی کے متعلق یہ چاہتے ہیں کہ اس کے اختیار ات خود ہی ان کے سپرد کردیں جن کو خداتعالیٰ نے ایسے اختیارات نہیں دئے ۔حالانکہ اگر باوجود اس کے کہ ان کی جائدادیں حقیقی طورپر ان کی مقبوضہ نہیں بلکہ خداتعالیٰ کی دی ہوئی ہیں ۔ان کو یہ حق حاصل ہے کہ جن کو اپنا وارث سمجھتے ہیں اپنی جائدادیں ان کو دے دیں توخداتعالیٰ کو کیوں اختیار نہیںکہ وہ اپنی منشاء کے مطابق اپنے دین کا وارث ان کو بنائے جنہیں وہ پسند کرتاہے ۔
اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ کیاگیا ہے کہ شرک کی وجہ سے انسانی ترقی بھی رک جاتی ہے ۔کیونکہ جب مشرک کی توجہ ان ہستیوں کی طرف ہوجاتی ہے جن کو کوئی طاقت حاصل نہیں توان سے تواسے کوئی فائدہ ملتا نہیں ہاں یہ نقصان ضرو رپہنچ جاتاہے کہ اس ہستی کی طرف سے توجہ ہٹ جاتی ہے جو ان کو ہرقسم کی نعمتیں دے سکتی ہے ۔اس لئے ہمیشہ مشرک قوموں کی ذہنی ترقی رک جاتی ہے اوردینی امور میں ان کا فکر نہایت کُند ہوجاتاہے ۔اس کے مقابل پر جو اقوام مشرک نہیں ہوتیں ۔اگرکسی وقت سچائی سے ہٹ بھی جائیں توان کی ذہنی ترقی کچھ نہ کچھ ہوتی رہتی ہے ۔کیونکہ وہ اس وجود کے متعلق غور کرتی رہتی ہیں جس میں سب طاقتیں ہیں ۔پس کچھ نہ کچھ سچاء یان کو بغیر الہام کے بھی ملتی رہتی ہے ۔
فلاتضربوا للہ الامثال ۔ان اللہ یعلم وانتم لاتعلمون ٭
پس (اے مشرکو)تم اللہ (تعالیٰ)کے متعلق (اپنے پاس سے )باتیں مت بنائو اللہ(تعالیٰ)یقینا(سب کچھ)جانتا ہے اورتم (کچھ بھی)نہیں جانتے ۷۵؎
۷۵؎ حل لغات ۔لَاتَضْرِبُواللہِ الاَمْثَال:کے معنے ہیں کہ تم اللہ کے متعلق باتیں مت بنائو ۔مزید تشریح کے لئے دیکھو سورۃ رعد ۳۵؎
تفسیر ۔یعنی اللہ تعالیٰ کے متعلق خود قانو ن نہ بنائو کیونکہ تم تواللہ تعالیٰ کی قدرتوں تک سے ناواقف ہو۔وہ جس قدر قانون دین کے بارہ میں بندوں کو دینا پسند کرتا ہے آپ ہی اپنے بندوں کو دے گااوران کو دے گاجن کو وہ ان کے اخلاص کی وجہ سے اپنی روحانی اولاد کامرتبہ بخشتاہے ۔
بعض دفعہ الہامی کلام میں بعض نبیوںکو خداتعالیٰ کے بیٹے کے لفظ سے یاد کیا جاتا ہے ۔جیسا کہ مسیح علیہ السلام کے بارہ میں آتاہے کہ وہ خداتعالیٰ کے بیٹے تھے ۔چنانچہ انجیل میں آتا ہے کہ مسیح نے حواریوں سے کہا کہ:۔
’’پس تم جاکر سب قوموں کو شاگرد بنائو انہیں باپ اوربیٹے اورروح القد س کے نام سے بپ تسمہ دو‘‘ (متی ب ۲۸۔۱۹)
اس جگہ بیٹے کے لفظ سے اسی طرف اشارہ کیاگیاہے کہ خداتعالیٰ نے انکو برگزیدہ کرکے اپنی آسمانی بادشاہت کاوارث بنایا تھا ۔قرآن کریم میں بھی اس مضمون کا ان الفاظ میں اشارہ کیا گیاہے وَقَالُوْاتَّخذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًاسُبْحَانَہٗ۔بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوْنَ(انبیاء ع۲)یعنی مشرک کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے بیٹے پیداکئے ہیں یہ غلط کہتے ہیں جن کو خداتعالیٰ بیٹاکہتا ہے وہ صرف اس کے مکرم بندے ہیں اوراللہ تعالیٰ کامنشاء اس لفظ کے استعمال سے ان کے اعزازکوظاہرکرنا ہوتا ہے جو انہی اسکے حضورحاصل ہے ۔مگرافسوس کہ نادان ان محاورات سے دھوکاکھاکر اللہ تعالیٰ کے عاجز بندوں کو حقیقتاًخداتعالیٰ کابیٹاسمجھنے لگتے ہیں اوربعض دوسرے نادان ان محاورا ت پر اعتراض کرنے لگ جاتے ہیں ۔
اِنَّ اللہَ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَاتَعْلَمُوْنَ میں اس طرف اشارہ کیا گیاہے کہ خداتعالی جو لفظ استعمال کرتاہے وہ ایک ایسی حقیقت پر مبنی ہوتاہے جواس کی دوسری صفات کے مخالف نہیں ہوتی ۔مگرتم ایسے معنوں میں ان الفاظ کا استعمال کرتے ہو جومحض جہالت کااظہارکرتے ہیں ۔ان سے کوئی حقیقت بھی توظاہر نہیں ہوتی ۔مثلاًخداتعالیٰ جن معنوں میں بیٹاکہتا ہے ۔اس سے تو اس گہرے تعلق کااظہار مقصودہوتاہے جو اللہ تعالیٰ کو اپنے پاک بندوں سے ہے ۔مگرمشرک اسے حقیقی بیٹا بنا کر کے اس پاکیز ہ تعلق کو ایک جسمانی تعلق بنادیتے ہیں اوراللہ تعالیٰ کی عظمت کو بھی گرادیتے ہیں اوران بندوں کی بھی ہتک کرتے ہیں جن کو وہ معبود بناتے ہیں ۔کیونکہ اس طرح وہ ان کے متعلق اس عظمت کا تو انکار کر دیتے ہیں جو عرفان اورقربانی سے حاصل ہوتی ہے ۔اوروہ فرضی عظمت ان کو دیتے ہیں جو جسمانی تعلق سے حاصل ہوتی ہے ۔اورجو پہلی کے مقابل پر کوئی حیثیت نہیں رکھتی ۔
ضرب اللہ مثلا عبداً مملوکاً لایقدر علی شیئٍ
اللہ(تعالیٰ تمہارے سمجھانے کو )ایک ایسے بندے کی حالت بیان کرتا ہے جو غلا م ہو (اور)جوکسی بات کی(بھی )طاقت نہ رکھتا ہو
ومن رزقنٰہ منا رزقا حسنا فھوینفق منہ سرًاوجھراً
اور(اس کے مقابلہ میں اس بندے کی حالت کوبھی )جسے ہم نے اپنے پاس اچھا رزق دیاہو اوروہ اس میں سے پوشیدہ طورپر (بھی )اورعلانیہ طورپر (بھی ہماری راہ میں )خرچ کرتاہو۔
ھل یستون ۔ الحمد للہ ۔ بل اکثرھم لایعلمون ٭
کیاو ہ دونوں (قسم کے لوگ )برابر ہوسکتے ہیں (ہرگز نہیں )تمام تعریف (تو)اللہ (تعالیٰ)ہی کو (سزاوار)ہے۔لیکن ان میں سے اکثر(لوگ)جانتے نہیں ۷۶؎
۷۶؎ تفسیر ۔چونکہ پہلی آیت میں اس طرف اشار ہ تھا کہ روحانی امور میں ا س سرحد پر کھڑا رہناچاہیئے جواللہ تعالیٰ مقرر کر ے۔ورنہ انسان دھوکاکھا کر کہیں کاکہیں چلاجاتاہے اوراس طرف اشارہ تھا کہ جب اللہ تعالیٰ بعض بندوں کوعزت دے کر بعض پیار کے ناموں سے یادکرتاہے تواس کے اَورمعنے ہوتے ہیں اورمشرک جب ویسے ہی ناموں سے مخلوق میں سے بعض کو یاد کرتے ہیں تواس کے معنے اورہوتے ہیں ۔اوراس کی مثال کے طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کو اشارۃً پیش کیا اورفرمایاکہ کیا تم سوچتے نہیں کہ ایسا شخص جو ہو اہوس کا شکار ہو اور عبد مملوک کی حیثیت رکھتاہو اوربوجہ دوسروں کاغلام ہونے کے اپنی قابلیتوں کاصحیح استعمال نہ کرسکتا ہو اوررسم و رواج اورتوہمات کی قیود میں جکڑاہواہو اوراسے ایک غلا م کی حیثیت حاصل ہو کیا ا س دوسرے شخص کی طرح ہوسکتاہے جورسوم اورتوہمات کی غلامی سے آزاد ہو کر خداتعالیٰ کی دی ہوئی طاقتوں سے ظاہر اورمخفی طور پر خداتعالی کے بندوں کی خدمت کرتا رہتا ہے ۔یقینااللہ تعالیٰ اس شخص کی مدد کرے گا جو اس کی دی ہوئی قوتوںکو مفید طورپر اس کے بندوں کی خد مت میں لگاتا ہے اوریہی شخص کامیاب ہوگا ۔اس مثال سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کی طرف اشارہ کیا گیاہے اوربتایا ہے کہ یہ شخص ہی خداکے فضلوں کاوارث ہوسکتاہے اوراس شخص کے لئے اللہ تعالیٰ جو بھی اچھے الفاظ استعمال فرمائے وہ ان کامستحق ہے ۔
اس میں اس طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ تم توخداتعالیٰ کے دئے ہوئے انعامات سے صرف اپنے خاندانوںاوراولاد کو فائدہ پہنچاتے ہو اورمحمدؐ رسول اللہ سب دنیا کو اپنے انعامات میں شریک کرتاہے ۔پس اس کی کامیابی یقینی ہے اورتمہاری ناکامی یقینی۔
سِرًّاوَّجَھْرًا۔کے تین معنے ہوسکتے ہیں :۔
۱۔پوشیدہ طورپر بھی ظاہر بھی ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنی نوع انسان کی وہ خدمت بھی کرتے تھے جولوگوں کو نظر نہ آتی تھی جیسے دعااوراستغفار ۔اوروہ بھی جو لوگوں کو نظر آتی تھی ۔جیسے وہ اخلاق فاضلہ جو بنی نوع انسان کے متعلق آپ سے ظاہر ہوتے تھے جن کاذکر حضرت خدیجہؓ کے اس قول میں ہے کہ کلَّاواللہِ مایُخزِیکَ اللہ ُ اَبَدًااِنَّک لتصِل الرّحم وتحمِل الکلَّ وتَکْسِبُ المعدومَ وتقری الضیفَ وتعین علی نوائبِ الحقّ(بخاری جلد اول باب کیف کان بدء الوحی) یعنی خداکی قسم اللہ تعالیٰ آپ کو ہرگزنہ چھوڑے گا۔کیونکہ آپ رشتہ داروں سے نیک سلوک کرتے اورمہمانوں کی خدمت کرتے ہیں اوران اخلاق کوظ اہر کرتے ہیں جو دنیا سے مفقود ہوچکے تھیی اورجو لوگ ایسے مصائب میں مبتلاہو ںجوناحق ان پر پڑ گئے ہوں ان کی آ پ مدد کرتے ہیں اورجوشخص بالکل بے بس ہوتاہے ا س کابوجھ آپ اٹھالیتے ہیں ۔
۲۔دوسرے معنے اس کے رات او ردن کے بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ رات کاکام مخفی ہوتاہے اوردن کا ظاہر ۔اس سے اس طرف اشارہ ہے کہ آپ نے خدمت خلق میں رات اور دن ایک کردئے ہیں اوربغیر آرام کرنے کے بنی نوع انسان کی بہتری میں کوشاں رہتے ہیں ۔
۳۔تیسرے معنے یہ ہیں کہ آپؐ وہ خدمات بھی کرتے ہیں جولوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہیں ۔یعنی ان کی قدر نہیں جانتے ۔جیسے تبلیغ حق۔کہ لو گ اپنی جہالت کی وجہ سے اُسے خدمت نہیں سمجھتے تھے حالانکہ وہ اعلیٰ درجہ کی خدمت تھی اورآپ وہ خدمات بھی کرتے ہیں جن کو لو گ پہچانتے ہیں اوران کی خوبی کااعتراف کرتے ہیں ۔مثلاً ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ ایک آدمی حضورکے پاس آیا اورعرض کیا کہ ابوجہل میراروپیہ نہیں دیتا۔آپ اُسی وقت اس آدمی کے ساتھ چل کھڑے ہوئے ۔اورابوجہل کے دروازہ پر دستک دی ۔ابوجہل باہر نکلا اورحضورکو کھڑے دیکھ کر حیران سارہ گیا اورآنے کی وجہ دریافت کی ۔(کیونکہ وہ تودن رات آنحضرت صلعم کی ایذادہی اورسبّ وشتم میں مشغول رہتاتھا ۔اس کے لئے آپ کا اس کے پا س آنا تعجب کاموجب تھا )آپؐ نے فرمایا کہ کیا تم نے اس شخص کاروپیہ دینا ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ ہاں دینا ہے ۔آپؐ نے فرمایا کہ اگر یہ بات ہے تو اس شخص کو پریشا ن نہ کروفوراً اس کاحق اداکرو۔وہ ایسا مرعوب ہواکہ گھر جاکر فوراً روپیہ لے آیا اوراس شخص کو دے دیا ۔جب لوگوں میں اس بات کا چرچا ہواتولوگوں نے ابوجہل کوملامت کی ۔کہ آپ ہم سے تویہ کہتے ہیں کہ اس کی کوئی بات نہ مانو اورخود اس سے ایسے ڈر گئے ۔اس نے جوا ب دیا کہ کیا بتائوں اس وقت مجھے یہ معلوم ہوتاتھا کہ میں نے اس کی بات کاانکار کیا توایک وحشی اونٹ اسی وقت مجھ چباجائے گا اورمیں نے اس ڈر سے اس کی بات کو مان لیا (سرت ابن ہشام)
ممکن ہے کہ کشفی طورپر واقعی ایک مست اونٹ بھی آپ کے ساتھ اسے نظرآگیا ہو ۔مگرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اس کا تذکرہ نہیں فرمایا ۔اور یہ بھی ممکن ہے کہ ابوجہل نے بعد میں اپنے ڈرکوچھپانے کے لئے جو آ پ کے سچ کی تائید کرنے کی وجہ سے ہوااورکفار کے اعتراض سے بچنے کے لئے بہانہ بنا کر یہ بات کہہ دی ہو۔
اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ انسان کے بعض نیک اعمال مخفی ہوتے ہیںاوربنی نوع انسان ان کا کوئی بدلہ نہیں دے سکتے ۔اس وجہ سے بھی ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ایسا یوم جزاء لائے جس میں اس کے ایسے اعمال بھی دنیا پرظاہر کئے جائیں اوراُسے اپناحق مل جائے ۔
وضرب اللہ مثلاً رجلین احدھما ابکم لایقدرعلی شیئٍ
اوراللہ (تعالیٰ)دواورشخصوں کی حالت (بھی )بیان کرتا ہے جن میں سے ایک گونگا ہو جوکسی بات کی طاقت نہ رکھتا ہو
وھو کلّ علی مولٰہ اینما یوجھہ لایات بخیر ھل یستوی ھو
اوروہ اپنے مالک پر بے فائدہ بوجھ ہو جدھر بھی (اس کا آقا)اسے بھیجے (وہ)کوئی بھلائی (کما کر )نہ لائے ۔(پس )کیا وہ (شخص) اور
ا ومن یامر بالعد ل وھو علی صراطٍ مستقیم ٭
وہ (دوسرا)شخص جو انصاف کرنے کاحکم دیتاہو اوروہ (خود بھی )سیدھی راہ پر (قائم)ہو باہم برابر ہوسکتے ہیں ۷۷؎
۷۷؎ حل لغات ۔ابکم:بکم ۔یبکم۔بَکْمًاکے معنے ہیں ۔خرس۔گونگاہوگیا ۔فَھُوَ اَبْکُم۔اوراس سے صیغہ صفت اَبْکم آتاہے ۔(اقرب)
اَلْکَلُّ:المصیبۃ۔الکَلُّ کے معنے مصیبت ۔الثقیل لاخیر فیہ۔ایسا بوجھ جس میں کوئی فائدہ نہ ہو ۔العیّل والعیال ۔گھر کے لوگ جن پر خرچ کرنا پڑتاہے ۔الثِّقلُ۔بوجھ ۔الضعیف ۔کمزور۔ویطلق الکَلُّ علی الواحد وغیرہ اس کَلّ کا لفظ واحد تثنیہ جمع سب کے لئے استعمال کرتے ہیں (اقرب)
المولیٰ: کے معنے کے لئے دیکھو یونس ۳۱؎ یوَجّھہ:وجَّھَہٗ فی حاجۃٍ کے معنے ہیں ۔ارسَلَہٗ فوجّہ الیہ ای فذھب لازمٌ ومتعدٍّ۔اس کوکسی ضرورت کے لئے بھیجا اوروہ اس کے لئے چلا گیا ۔یہ لفظ لازم اورمتعدی دونوں طرح استعما ل ہوتا ہے (اقرب) پس اینما یوجّھہ کے معنے ہوں گے ۔جہاں کہیں وہ اسے بھیجتاہے ۔
تفسیر ۔اس آیت میں پہلے مضمون کو ایک اَورمثال سے واضح کیا ۔پہلی مثال میں تویہ بتایا تھا کہ اگر ایک شخص گوقابلیت تورکھتاہو ۔لیکن بوجہ دوسروں کے قبضہ میں ہونے کے اس میں اس قابلیت کے اظہار کی طاقت نہ ہو تواس کا وجو د اورعد م وجود برابر ہوتاہے ۔اب اس آیت میں ایک ایسے غلام کی مثال بیان فرمائی ہے جوگونگا ہو اور کسی نیک کام کے کرنے کی طاقت نہ رکھتاہو ۔ایساشخص بھی کسی فضل کا مستحق نہیں ہوتا ۔ کیونکہ نہ تو اس میں کام کی طاقت ہوتی ہے کہ منہ سے ہی لوگوں کو نیک باتوںکی تعلیم دیتارہے ۔پھر فرمایا کہ ان عیوب کی وجہ سے اس کا آقا جوکا م بھی اس کے سپرد کرے وہ اسے پورانہیں کرسکتا۔لیکن اس کے مقابل پر وہ غلام جو اپنے مالک کے حکم کے مطابق لوگوں کو بھی عدل کرنے کاحکم دیتاہو اورخود بھی سیدھے راستے پرقائم ہو ۔یعنی نیک کام کرکے اپنے آقا کو خوش کرتارہتاہو ۔بڑی فضیلت رکھتاہے اوریہ دونوں کسی صورت میں برابر نہیں ہوسکتے ۔اورآقاان دونوں سے یکساں سلوک نہیں کرسکتا ۔
اس آیت میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورکفار کے ایک گروہ کامقابلہ کرکے دکھایاہے۔فرماتاہے ۔تم گونگے ہو تمہاری آنکھوں کے سامنے تما م عیو ب کئے جاتے تھے ۔شرک ہوتاتھا اورہورہا ہے ۔مگر تم میں سے کسی کی زبان نہ ہلی ۔اورکسی نے لوگوں سے نہ کہا کہ شرک نہ کرو اورخداکی ہتک نہ کرو۔اگر کسی نے زبان ہلائی اورحق بیان کیا اوراپنے آقا کی عزت کے تحفظ کے لئے کلمہ خیر کہا ۔تووہ صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔
پھر اسی پر بس نہیں اگرتم دوسروں کو نیکی کاحکم نہ دے سکتے تھے توخود ہی نیکی پر قائم رہتے اوراپنے نیک اعمال سے خداتعالیٰ کی سبوحیت اورپاکیز گی کااعلان کر تے۔شرک سے دوسروں کو روک نہیں سکتے تھے توکم از کم خود توشرک نہ کرتے مگر تم سے یہ بھی نہ ہوا۔پھر دین کو جانے دو ۔تم اگردنیا کے اموال اورمتاع کے پیچھے پڑے تھے تواسی میں ترقی کی ہوتی ۔مگر تم تو دنیا میں بھی دوسروں کا بوجھ اٹھانے کی بجائے خود بوجھ بن رہے ہو ۔مگر اس کے مقابل پر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم )کو دیکھو کہ وہ غیروں کو انصاف کاحکم دیتے ہیں اوراپنی ذات میں صراط مستقیم پر ہیں ۔یعنی ہرلحاظ سے کامل ہیں ۔اب تم ہی بتائو کہ ہم اس کی مد دکریں یا تمہاری ؟
اس آیت او راس سے پہلی آیت میں دوقسم کے کفار کی حالت کو بیان کیاہے اوران دونوں گروہوں کے مقابل پر رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت کو پیش کیا ہے ۔ایک قسم کفار کی یہ بیان کی کہ وہ رسوم و توہمات کے غلام ہیں اورگوان میں کام کی قابلیت توہے مگر وہ لوگوں کے ڈر سے کام نہیں کرسکتے ۔اوردوسری قسم کے کفار کی حالت یہ بتائی کہ وہ رسوم و توہمات کے غلام بھی ہیں اوران کی قابلیتیں بھی ماری گئی ہیں ۔ اگر رسوم اورتوہمات سے آزاد بھی ہوجائیں تب بھی ان کی حالت ایسی مسخ ہوچکی ہے کہ وہ کوئی نیک کام نہیں کرسکتے بلکہ اللہ تعالیٰ پر بوجھ ہیں کہ اس کی سبوحیت پر ان کے وجود سے داغ لگ رہا ہے ۔اس کے مقابل پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے غلام نہیں اورجو طاقتیں انہیں ملی ہیں انہیں بنی نو ع انسان کی خدمت میں لگارہے ہیں ۔نیز وہ زبردست روحانی طاقتیں رکھتے ہیں جن کی مدد سے خود بھی اعلیٰ سے اعلیٰ اخلاق دکھاتے ہیں اوردوسرے لوگوں کو بھی ہدایت کی طرف بلاتے ہیں اب تم خود ہی سوچو کہ ایسے شخص کو ہم اپنے کام کے لئے چنیں گے جو قابل بھی ہواورہمارے دین کی خدمت بھی کررہا ہو یااس گروہ کو جوقابل توہو مگر اپنی طاقتوں کو خداکی راہ میں لگانے سے معذورہو ۔کیونکہ وہ رسم و رواج کی طاقت کا مقابلہ نہیں کرسکتا ۔یاپھر ا س کو جو نہ توقا بل ہو نہ رسم و رواج کی قیود سے آزاد۔
وللہ غیبُ السمٰوٰت والارض وما امر الساعۃ الا کلمح
اورآسمانوں اورزمین کی ہرپوشیدہ چیز(بھی)اللہ( تعالیٰ)ہی کی ہے ۔اوراس (موعود)گھڑی(کی آمد)کامعاملہ تو ایسا ہی ہے جیسے آنکھ کاجھپکنا بلکہ وہ (اس سے بھی )
الئبصر اوھواقرب۔ ان اللہ علی کل شیئٍ قدیر ٭
قریب تر (وقت میں واقع ہوجانے والا)ہے ۔اللہ (تعالیٰ)یقیناہربات پر پورا(پورا)قادر ہے ۷۸؎
۷۸؎ حل لغات ۔الساعۃ کے لئے دیکھو سورۃ ہذا ۶۲ ؎ الصّراط: الطریق۔راستہ (اقرب) لَمْحَ البَصَر:لَمَحَ(یَلْمَحُ لَمْحًا)البصرُ:امتدّالی الشی۔کسی چیز کو آنکھ نے دیکھا لمع الرجل الشیئَ والی الشیء:ابصرہ بنظر خفیفٍ اواختلس النظر :کسی چیز پر سرسری نگاہ ڈالی ۔لمح الشیء بالبصر :صَوَّبہ الیہ ۔اسے ٹکٹکی لگاکر دیکھا (اقرب)پس لمح البصر کے معنے ہوں گے ۔آنکھ کا دیکھنا یااتنی دیر دیکھنا جتنی دیر کہ آنکھ ایک دفعہ کھل کر پھر بند ہوتی ہے ۔ شَیئٌ: شَائَ کامصدر ہے اورشائَ ہٗ (یشاء ہ شیئًا)کے معنے ہیں ۔ارادہ:کسی چیز کااراد ہ کیا ۔اللہُ الشیئَ۔قدّرہ۔کسی چیز کااندازہ کیا نیز الشیئُ کے معنے ہیں ۔مایصحّ ان یعلم ویخبر عنہ وھو مذکّر یطلق علی المذکر والمؤنث ویقع علی الواجب والممکن:جس کومعلو م کر کے اس کے متعلق خبردینی صحیح ہو ۔اوریہ لفظ مذکر ہے لیکن مذکر اورمؤنث دونو کے لئے بولوجاتا ہے اوراللہ تعالیٰ اوردیگر مخلوقات کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے ۔اس کی جمع اشیاء ہے (اقرب)
تفسیر ۔گذشتہ آیات میں بیان فرمایاتھا کہ کیاگونگے ،نکمے اورجاہل وجود ان کے برابر ہوسکتے ہیں ۔جوعد ل کی تعلیم دوسروں کودیتے اورخود نیک عمل کرتے ہیں یعنی نہیں ہوسکتے ۔اب بیان فرماتا ہے کہ جب یہ برے نیکوںجیسے سلوک کے مستحق نہیں ہوسکتے توسنو ہم جو زمین و آسمان کا راز جاننے والے ہیں تم کو ایک راز کی خبر بتاتے ہیں ۔اوروہ یہ ہے کہ ان لوگوں کی ہلاکت کاوقت آنکھ جھپکتے آنے والا ہے بلکہ وہ اس سے بھی قریب تر ہے ۔اس جگہ چونکہ یہ سوال ہوسکتا تھاکہ غیب جاننے سے یہ الازم نہیں آتا کہ انسان اپنی مرضی کے مطابق نتیجہ نکالنے پر بھی قادر ہو اس لئے اس آیت کو اِنَّ اللہَ عَلیٰ کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٍ کے الفاظ پر ختم کیا اوربتایا کہ ہم غیب ہی نہیں جانتے بلکہ آئند ہ ہونے والے واقعات کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی بھی پور ی طاقت رکھتے ہیں ۔
اس امر میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ جب محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن تباہ ہوں گے توبعد میںآنے والے لوگ اس واقعہ کی قدر کم کرنے کے لئے کہیں گے کہ آپؐ کے دشمنوں کی تباہی ایک اتفاقی حادثہ تھا یایہ کہ ان کے حالات ہی ایسے تھے کہ ہلاک ہوجاتے ۔چنانچہ آجکل کے مسیحی مصنف اس مضمون پر بہت ہی زور دیاکرتے ہیں اورآپؐ کے مخالفوں کی ہلاکت کوطبعی امورکانتیجہ قراردیا کرتے ہیں ۔دیکھو قرآن کریم کا اتارنے والا عالم الغیب اس آیت میں کس طرح ان لوگوں کے اعتراض کاجواب دیتا ہے ۔آیت کو شروع غیب کاعلم رکھنے کے دعویٰ سے کرتا ہے اورپھر کفارکی ہلاکت کی خبر دیتا ہے اورختم ا س پر کرتا ہے کہ یہ سب کچھ اتفاقی نہ ہو گا بلکہ ہماری قدرت کے ذریعہ سے ہوگا۔کس طرح اس آیت میں ایک طرف تومکہ میں رہتے ہوئے جبکہ کفار کے ظلم زوروں پر تھے اومسلمانوں کے پاس کوئی طاقت نہ تھی وہ ہجرت پر مجبور ہورہے تھے فرماتاہے کہ ہم غیب کا علم رکھنے والے خداتم کو بتادیتے ہیں کہ کفار کی ہلاکت کا وقت اب آن پہنچا ۔اوریہ بھی بتادیتے ہیں کہ ان کی تباہی ہماری قدر ت کے ذریعہ سے ہوگی اوران حالات کے ذریعہ سے جوانسانی طاقت میں نہیں ۔اب دیکھو کس طرح اس آیت کے نزول کے بعد مدینہ کے سب لو گ مسلمان ہوگئے ۔حالانکہ پہلے صرف چند آدمی مسلمان ہو ئے تھے اورکس طرح خود کفارنے محمد رسول اللہ کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے پر مجبورکیا ورنہ آپؐ مکہ کو چھوڑنے پرآمادہ نہ تھے ۔صرف اُسی وقت آپ نے مکہ چھوڑاجبکہ کفار نے آپ کو قتل کردینے کافیصلہ کرلیا اورپھر اسی رات وہاں سے نکلے بلکہ اس وقت نکلے جبکہ کفار نے آپ کے گھر کامحاصرہ کرلیا۔گویا کفار پر آخری حجت پوری کردی کہ میں مکہ کو چھوڑنانہیں چاہتا ۔مگرچونکہ تم نے میرے لئے اورکوئی راستہ نہیں چھوڑا اس لئے یہاں سے جاتاہوں ۔ اس کے بعد کفارنے کس قدر زورآپؐ کو مدینہ میں کمزورکرنے کے لئے لگایا۔مگر کس طرح آناًفاناً آپ کازوربڑھتا گیا اورآخر کفار تباہ ہوئے ۔اسے کون اتفاقی امر کہہ سکتاہے ؟کون طبعی نتیجہ نکال سکتا ہے ؟خصوصاً جبکہ قبل از وقت پیشگوئی بھی کردی گئی تھی۔مسیحی مصنف یہ تو ثابت کرسکتے ہیں کہ جب مسلمانوں نے کسریٰ اورقیصر پر حملہ کیا ان کی حکومتیں تنزل کی طرف جارہی تھیں۔مگرسوال یہ نہیں کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع نے جب ایران اورروم پر حملہ کیاتھااس وقت ایرانی اوررومی حکومت کی مسلمانوںکے مقابل پر کیا حیثیت تھی ۔ بلکہ سوال یہ ہے کہ جب محمد رسو ل اللہ صلعم نے مکہ میں بیٹھے اپنی فتح اورمنکرین کی شکست کی خبر دی تھی اس وقت کو ن سی طاقت آپ کے پاس تھی ؟ اگر خدانے آپ کو وہ طاقت دی جس نے ایک طرف عرب کو تہ و بالاکردیا اوردوسری طرر ایران و روم کو ۔تواس کانام معجزہ نہیں تواَورکس چیز کانام معجرہ ہواکرتاہے ۔
یہ پیشگوئی مکی زندگی کے آخر میں کی گئی تھی اورسب سے پہلی فتح بدرکے موقعہ پرہوئی ۔گویاکوئی اڑھائی تین سال بعد۔اورفتح مکہ کا واقعہ اس پیشگوئی کے بعد کوئی نودس سال بعد ہوا۔لیک اس آیت میں فتح کے وقت کی خبر ان لفاظ میں دی گئی ہے کہ آنکھ جھپکتے بلکہ اس سے بھی پہلے یہ واقعہ ہوگا ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں اس قسم کے الفاظ کے معنے قریب کے زمانہ کے ہوتے ہیں ۔ضروری نہیں کہ پلک جھپکنے سے پلک جھپکنا ہی مراد ہو ۔بعض لوگ ایسے الفاظ پیشگوئیوں میں دیکھ کر اعتراض کرنے لگ جاتے ہیں اورالہامی زبان کے محاورات کونظرانداز کردیتے ہیں ۔
واللہ اخرجکم من بطون امھتکم لاتعلمون شیا
اوراللہ (تعالیٰ)نے تمہیں تمہاری مائوں کے پیٹوں سے اس حالت میں پیداکیاہے کہ تم کچھ (بھی)نہیں جانتے تھے
وجعل لکم السمع والابصار والافئدۃ لعلکم تشکرون٭
اوراس نے تمہارے لئے کان اورآنکھیں اوردل پیداکئے ہیں تاکہ تم شکر اداکرو ۷۹؎
۷۹؎ تفسیر ۔فرماتاہے کہ اے لوگوہم نے تم کو تمہاری مائوں کے پیٹ سے جبکہ تم کچھ نہ جانتے تھے تم کو آنکھ کان اوردل دے کردنیا میں بھیجا تاکہ تم علم سیکھو لیکن تم نے ہماری ا س بخشش سے کچھ بھی فائدہ نہ اُٹھایا ۔نہ آنکھوں سے دیکھا ۔نہ کانوں سے سنا۔نہ دل سے سوچا ۔اس فقرہ میں کیسارحم اورافسوس بھراہواہے ۔خدائے قادراپنے بندوں کی ا س غفلت پر جس نے انہیں عذاب کامستحق بنادیا کیسے محبت سے بھرے ہوئے الفاظ میں افسوس کا اظہار کرتا ہے۔
اس آیت کاتعلق سورۃ کے مضمون سے یہ ہے کہ اس میں الہام الٰہی کی ضرورت کی ایک اوردلیل دی گئی ہے ۔اوروہ اس طرح کہ انسان جب پیداہوتا ہے توہرایک علم سے خالی ہوتاہے ۔مگراللہ تعالیٰ اسے آنکھ کان اوردل دے کر پیداکرتا ہے تاوہ علم حاصل کرے اوران کی مدد سے وہ علم سیکھتا ہے ۔پس جو دنیو ی علوم انسان سیکھتاہے وہ سبھی اللہ تعالیٰ کے مہیا کئے ہوئے ذرائع سے سیکھتاہے۔کوئی انسان ایسانہیں جوکہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے دئے ہوئے ان ذرائع کی ضرورت نہیں۔میںخود ہی اپنے لئے حصول علم کے سامان پیداکروں گا۔پھرروحانی علم کے سیکھنے کے لئے جوذرائع اللہ تعالیٰ پیداکرتاہے ان کے استعمال سے اُسے کیوں انکار ہوتا ہے ۔
تعجب ہے کہ انسان کی سب عظمت ان ذرائع کے استعمال سے ہوتی ہے جواُسے قدرت عطافرماتی ہے ۔انسان کے جس قدر کمالات ہیں وہ انہی طاقتوں کی مدد سے حاصل کئے جاتے ہیں اوران طاقتو ں کے استعمال میں وہ کوئی سُبکی محسوس نہیں کرتا۔مگر جب روحانی ذرائع کا سوال پیداہوتاہے تووہ کہتاہے مجھے ان کی کیاضرورت ہے میں خود اپنا کام کرسکتاہوں ۔حالانکہ جس طرح اُسے مادی ترقی کے لئے عطاکردہ جوارح کی ضرورت ہے ا سی طرح روحانی کمالات کے حصول کے لئے اُسے ان سامانوں کی ضرورت ہے جواللہ تعالیٰ اپنی حکمت کاملہ سے اس کے لئے پیداکرتاہے۔
آیت کے اخیر میں فرماتاہے کہ ان چیزوںکے دینے کی غرض تویہ تھی کہ تمہارے اندر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی قدرپیداہو ۔تم اُلٹا ان طاقتوں سے مغرور ہوجاتے ہو اورکہتے ہوکہ ہمیں کسی بیرونی مددکی ضرورت نہیں ۔
اس آیت میں کانوں کے بعد آنکھوںاورآنکھوں کے بعد دلوں کاذکر کیا گیا ہے اوراسی ترتیب سے یہ اعضاء انسان کے علم کے بڑھانے کاموجب ہوتے ہیں ۔سب سے پہلے بچہ کے کان کام کرتے ہیں ۔ان کے بعد آنکھیں اورسب کے بعد دل یعنی قوت فکریہ کام کرتی ہے ۔آج سائنس نے ثابت کیا ہے کہ سب سے پہلے بچہ کے کان کام کرنے لگتے ہیں اوراس کے بعد آنکھیں کام شروع کرتی ہیں اورسب سے آخر میں قوت فکریہ کام کرنا شروع کرتی ہے ۔چنانچہ جانوروں میں بچوں کی آنکھیں بعض دفعہ کئی کئی دن کے بعد کھلتی ہیں ۔اس عرصہ میں صرف کان کام کررہے ہوتے ہیں ۔انسانوں کے بچوں کی آنکھیں بہ ظاہر کھلی ہوتی ہیں ۔لیکن ان کا فعل کانوںکے فعل کے بعد شروع ہوتاہے اورقوت فکریہ توایک عرصہ کے بعد کام شروع کرتی ہے ۔یہ ترتیب بھی قرآن کریم کے کلام الٰہی ہونے کا ایک ثبوت ہے کیونکہ اس میں وہ مضمون بیان کئے گئے ہیں جواس زمانہ میں مخفی تھے ۔
الم یرواالی الطیر مسخرات فی جو السما ء ۔ مایمسکھن
کیاانہوں نے پرندوں کو جوآسمان کی فضاکے اندر مسخر کئے گئے ہیں (غورکی نظر سے)نہیں دیکھاانہیں (تم پر آگرنے اورنوچ کھانے سے )
الا اللہ ۔ ان فی ذٰلک لایت لقوم یومنون٭
اللہ(تعالیٰ)کے سوا(اور)کوئی نہیں روک رہا۔جولوگ ایما ن رکھتے ہیں ان کیلئے اس میں یقیناکئی نشان(پائے جاتے)ہیں۔ ۸۰؎
۸۰؎ حل لغات ۔جوّ:مابین السماء والارض:زمین اورآسمان کی درمیانی فضا۔جوّالبیت:داخلہ:گھرکااندرکاحصہ(اقرب)
یُمْسِکُھُنَّ: یُمسک امسک سے مضارع کاصیغہ ہے اورامسک الشیء بیدہ کے معنے ہیں ۔قبضہٗ:کسی چیز کو ہاتھ سے پکڑا۔امسک اللہ الغیث: حَبَسَہٗ ومنع نزولہ:اللہ تعالیٰ نے بارش کوروک دیا ۔امسک عن الکلام:سکت:کلام کرنے سے خاموش رہا۔امسک عن الامر :کفّ عَنْہ وامتَنَع:کسی کام سے رُکارہا(اقرب)پس مایُمْسِکُھُنَّ کے معنے ہوں گے ۔انہیں کوئی نہیں روکتا۔القوم:الجماعۃ من الرّجال خاصۃً وقیل تدخل النساء علی تبیعۃٍ سُمُّوا بذالک بقیامھم بالعظائم والمھمات:قوم کا لفظ مردوں کی جماعت پر بولاجاتاہے اوربعض کہتے ہیں کہ اس میں عورتیں بھی بالواسطہ شامل ہوجاتی ہیں ۔اورمردوں پر قوم کالفظ اس لئے بولتے ہیں کہ وہ اہم امور کو سرانجام دیتے ہیں۔یذکر ویؤنث فیقال قام القوم وقامت القوم۔یہ لفظ مذکر اورمؤنث دونوں طرح استعمال ہوتاہے ۔چنانچہ قام القوم(مذکر)اورقامت القوم (مؤنث )دونوں طرح کہہ دیتے ہیں (اقرب)
تفسیر ۔مفسرین نے مُسَخَّرَاتٍ وفِی جَوِّالسَّمَآئِ کے یہ معنے کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بغیر ظاہری سامانوں کے ان کو جوّ میں اڑنے کی طاقت دی اوریہ گویا اسکی قدرت کااظہار ہے ۔مگریہ صحیح معنے نہیں۔اس آیت میں درحقیقت کفارکی سزاکاذکر ہے ۔اوراللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان پرندوں کوخداتعالیٰ نے روکاہواہے مگرایک دن آئے گاکہ یہ پرندے تم پر گریں گے اورتمہاری لاشوں کو نوچ نوچ کرکھائیں گے ۔جیساکہ بعد کی جنگوں میں ہواکہ کئی جنگوںمیں کفار میدان جنگ سے بھاگتے ہوئے راستوں پرلاشیں چھوڑ گئے اورو ہ پرندوں کی خوراک بنیں ۔
نابغہ ذبیانی کا ایک شعران معنوں کی تائید کرتا ہے وہ کہتاہے
اِذاماغَدیٰ بِالجَیْشِ حَلَّق فَوْقَہ
عَصَائبُ طیرٍ تَھتدی بالعصائب
یعنی میراممدوح ایساہے کہ جب و ہ لشکر لے کر نکلتا ہے توپرندے اس کے ساتھ اڑتے جاتے ہیں کیونکہ و ہ جانتے ہیں کہ یہ ضروراپنے دشمن کوماربگائے گا اورہماری غذاکا سامان پیداہوجائے گا۔
امیر تیمور کے متعلق تاریخ میں آتاہے کہ جدھر وہ جا تاتھا اس کے لشکر کے ساتھ گِدھ اڑتے جاتے تھے۔کیونکہ وہ جدھر جاتا تھا اس کو دشمن پر فتح حاصل ہوتی تھی اورگِدھو ں کو اندرونی شعور سے یہ بات معلوم ہوگئی تھی کہ اس کے ساتھ جانے میں غذا ملتی ہے ۔غرض پرندوں کا اڑنا درحقیقت محاورہ ہے کسی قوم کی شکست اورہلاکت کے اظہار کے لئے ۔اوراس جگہ اسی طرف اشارہ کیا گیاہے ۔قرآن شریف میں بھی آتا ہے ۔اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحَابِ الْفِیْلَ۔اَلَمْ یَجْعَلْ کَیدَھُمْ فی تَضْلِیْلٍ۔وَّاَرْسَلَ عَلَیْہِمْ طَیْراً اَبَابِیْلَ۔تَرْمِیْہِمْ بِحِجَارَۃٍ مِّنْ سِجِّیْلٍ۔یعنی ابرہہ کالشکر جو مکہ پر حملہ کرنے آیاتھااس کو ہم نے ہلاک کردیا اورایسی جگہ بھاگڑ پڑی کہ وہ اپنے مردے جنگل میں چھوڑ گئے ۔جس پر پرندے اکٹھے ہوگئے اوران کی بوٹیاں نوچ نوچ کر اورپتھروں پر مار مار کر انہوں نے کھائیں۔یہ بھی گدھوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ مردہ یک بوٹی نوچ کر کسی اونچی جگہ پر بیٹھ کر کھاتے ہیں اورمٹی سے صا ف کرنے کے لئے اُسے پتھر یالکڑی پر مار مارکرکھاتے ہیں ۔
ممن ہے اس آیت میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہوکہ تم دیکھ چکے ہو اللہ تعالیٰ کے ایک دشمن کی لاشوں کو تمہاری آنکھوں کے سامنے پرندوں نے نوچ کر کھایاتھا وہی پرندے آسمان پر اڑ رہے ہیں اورہمارے حکم کے منتظر ہیں ۔اس وقت تک ہم ہی نے مسلمانوںکو جہاد سے روکا ہواہے۔جب یہ ہاد کے لئے نکلیں گے توتمہاراابرہہ کے لشکر کاساحال ہوگا اورایساہی ہوا۔
آخر میں فرمایا اِنَّ فِی ذٰلِکَ لَاٰیَاتٍ لِّقَوْمٍ یُؤْمِنُوْنَ۔یعنی اس پیشگوئی پر آج تم کو تعجب آتاہوگا مگر جولوگ ایمان لائے ہیں وہ اس میں خداتعالیٰ کے نشانات مشاہد ہ کررہے ہیں اورانہیں اسکے وقوع پر کامل یقین ہے۔
واللہ جعل لکم من بیوتم سکنا وجعل لکم من جلودٍ
اوراللہ(تعالیٰ)نے تہارے گھروں کو تمہاری رہائش کاذریعہ بنایاہے اوراس نے چارپایوں کے چمڑوں سے
الانعام بیوتًاتستخفونھا یوم ظعنکم ویوم اقامتکم
(بھی )تمہارے لئے گھر بنائے ہیں جنہیں تم سفر کے وقت ہلکا (پھلکا )پاتے ہو اور(نیز)اپنے قیام کے وقت (ان سے فائدہ اٹھاتے ہو)
ومن اصوافھا واوبارھاواشعارھااثاثاومتاعا الی حین ٭
اوران(جانوروں)کی باریک اُونوں اور(نیز)ان کی موٹی اونوں اوران کے بالوںکوبھی مستقل سامان اور ایک وقت تک (کیلئے )عارضی سامان (بنایاہے) ۸۱؎
۸۱؎ حل لغات ۔سَکَنًا:سَکَنَ سے مصدر ہے ۔اورسکن فلان دارہ کے معنے ہیں ۔استوطنھا واقام بھا ۔اپنے گھر میں قیام پذیر ہوا۔سَکن الیہ :ارتاج اورجب سکن کاصلہ الیٰ آئے ۔تواس کے معنے ہیں ۔اُس نے اس کے پاس آرام پایا ۔نیز السکن کے معنے ہیں ۔کل مایسکن الیہ وفیہ ۔ویستأنس بہٖ۔ہروہ چیز جس سے انس و آرام حاصل ہو ۔الرحمۃ: رحمت۔البرکۃ:برکت(اقرب)بُیُوت کے لئے دیکھو سورۃ حجر ۷۴؎
تَسْتَخِفُوْنَھَا:استخفّ سے مضارع جمع مخاطب کاصیغہ ہے ۔اوراستخفّہ کے معنے ہیں ۔اسے ہلکاسمجھا (اقرب)یَوْم ظعنکم :ظعنٌ ظَعَنَ کامصدر ہے اورظَعَنَ (یَظْعَنُ ظَعْنًا)کے معنے ہیں ۔سار۔وہ چل پڑا ۔چنانچہ کہتے ہیں ’’ظعنوُ عن دیارھم ‘‘ کہ وہ اپنے گھروں کو چھوڑ کرکوچ کرگئے (اقرب)پس تستخفونھا یوم ظعنکم کے معنے ہوں گے ۔کہ تم کوچ کے وقت انہیں ہلکا سمجھتے ہو۔
اَصْوَاف:صوف کی جمع ہے ۔بھیڑوں بکریوں کی اُون کوکہتے ہیں اوروَبَر۔اونٹوں کی اون کوکہتے ہیں اس کی جمع اوبار ہے(اقرب)
اشعار:شعرکی جمع ہے اورالشّعران سب قسم کی باتوں کو کہتے ہیں جو وبر اورصوف کے علاوہ ہوتے ہیں (اقرب)
الاثاث:متاع البیو ت بلاواحد ۔اثاث کامفرد نہیں آتا۔اورگھر کے سامان پر یہ لفظ بولتے ہیں۔وقیل ھو مایتخذللاستعمال والمتاع لاللتجارۃ۔اوربعض نے کہا ہے کہ اثاث ا س سامان کو کہتے ہیں جو استعمال اورفائدہ اٹھانے کے لئے بنایاجاتاہے نہ کہ تجارت کی غرض سے ۔ وقیل الْمَالُ کلّہ۔اوربعض نے اس کو عام رکھا ہے اورہرقسم کے سامان کو اس میں شامل کیا ہے (اقرب)
تفسیر :۔یعنی اس وقت تم آرام سے زندگی بسر کررہے ہو۔مستقل گھر بھی ہیں اورسفروں کے لئے خیمے بھی ہیں کہ آسانی سے اٹھاسکتے ہو۔اورجہاں ڈیرہ لگاناچاہو ڈیرے لگالیتے ہو۔اورتجارت کرتے پھرتے ہو ۔اس انعام کو اپنے اعمال سے کیوں ضائع کرتے ہو ۔
خیموں کے متعلق جویہ فرمایا کہ تم انہیں سفراورحضر میں ہلکاپاتے ہو۔اس کایہ مطلب ہے کہ سفرکے وقت اٹھانا سہل ہوتاہے ۔اوراقامت کے وقت گھرکاکھڑاکرنا آسان ہوتاہے ۔چند منٹ میں جنگل میں شہر بن جاتاہے ۔چمڑو ں
واللہ جعل لکم مماخلق ظلاً وجعل لکم من
اوراللہ (تعالیٰ)نے جوکچھ پیداکیا ہے اس نے تمہارے لئے کئی سایہ دینے والی چیز یں بنائی ہیں (جنکے نیچے تم آرام پاتے ہو )اور
الجبال اکناناوجعل لکم سرابیل تقیکم
پہاڑوں میں (بھی )تمہارے لئے پناہ کی جگہیں بنائی ہیں اور(نیز)اس نے تمہارے لئے کئی (قسم کی)قمیصیں بنائی ہیں جو تمہیں
الحروسرابیل تقیکم باسکم۔کذٰلک یتم
گرمی سے بچاتی ہیں اورکئی (قسم کی )قمیصیں (یعنی زریں)جو تمہیں تمہار ی(آپس کی)جنگ (کی سختی)سے بچاتی ہیں ۔اسی طرح وہ تم پر
نعمتہ علیکم لعلکم تسلمون ٭
اپنے(روحانی )انعام کو(بھی )پوراکرتاہے تاکہ تم (اس کے )کامل فرمانبرداربنو ۸۲؎
۸۲؎ حل لغات ۔اکنان:کِنٌّ کی جمع ہے اورالکِنُّ کے معنے ہیں ۔وقاء کُلّ شیئٍ وسترہ۔ہر چیز کاپردہ ۔اوراس کو محفوظ رکھنے والاجسم ۔البیت:گھر (اقرب) سرابیل کے لئے دیکھو سورۃ ابراہیم ۴۹؎
بَأسٌ: الشدَّۃ فی الحرب:لڑائی کی شدت کو بَأس کہتے ہیں (اقرب)تُسْلِمُوْنَ :اسلم سے مضارع جمع مخاطب کا صیغہ ہے ۔اوراسلم کے معنے ہیں انقاد:مطیع ہوگیا اَسْلَم فلانٌ:تدیّن بالاسلام ۔مذہب اسلام میں داخل ہوگیا ۔اَسْلَمَ العدوَّ:خَذَلہ۔دشمن کو رسواکیا۔اسلم امرہ الی اللہ :سلَّمہ۔اپنے معاملے کو اللہ کے سپردکردیا (اقرب)پس لَعَلَّکُمْ تُسْلِمُوْنَ کے معنے ہوں گے (۱)تاکہ تم کامل فرمانبردار بنو(۲)تم اپنے معاملات کو اللہ کے سپردکرو۔
تفسیر ۔اس آیت میں بھی سابق آیت کا مضمون چل رہاہے اورچند اَورانعامات گناتاہے کہ سفر کرتے ہو تو آرام سے درختوں تلے رہتے ہو ۔پہاڑوں میں آرام کرتے ہو ۔لباس دئے ہیں جن سے گرمی کی تکلیف سے محفوظ رہتے ہیں ۔اورزرہیں دی ہیں جن کی مدد سے لڑائی میں تمہاری حفاظت ہوتی ہے ۔یہ سب نعمتیں ا سلئے دی گئی ہیں تاآرام سے رہو اوردشمنوں کے حملوں سے محفوظ رہا ۔مگر اب تم اپنے ہاتھو ں سے اس امن کو برباد کرنے لگے ہو اوراللہ تعالی کی دی ہوئی نعمتیں اُسی کے خلاف استعمال کرناچاہتے ہو ۔خداتعالیٰ توچاہتا تھا کہ ان نعمتوں کے شکریہ میں اس کے فرمانبرداربنو ۔لیکن ہوایہ ہے کہ یہی امن تم کو مغرورکرکے خداتعالیٰ ہی کے خلاف کھڑارہا ہے ۔
لَعَلَّکُمْ تُسْلِمُوْنَ۔علاوہ ان معنوںکے جواوپر بیان ہوئے ہیں مُسلم کے معنے دوسرے کو شر سے اورتکلیف سے محفوظ رکھنے والے کے بھی ہیں ۔کیونکہ تُسْلِمُوْنَ ،اسْلَم سے نکلا ہے جس کامادہ سَلِمَ ہے اوراس کے معنے محفوظ ہوجانے کے ہوتے ہیں ۔اَسْلَم اس کامتعدی ہے ۔پس اس کے معنے ہوئے جودوسرے کوشراورنقصان سے محفوظ رکھے ۔عربی زبان کا عام قاعد ہ ہے کہ ہرفعل لازم ثلاثی پرہمزہ زائدکرکے اسے متعدی بنایاجاسکتاہے ۔عربوں میں عام طور پر گوسَلِمَ کالفظ محفوظ ہوجانے کے معنوں میں استعمال ہوتاہے ۔لیکن اسلم متعدی اوراستعمال توہیں مگر سَلِمَ ماد ہ کے ان معنوں سے متعدی کے جومعنے کتبِ لغت سے ثابت نہیں۔مگرا سلامی ادب میں ان معنوں کاجوعربی لغت کے عام قاعد ہ کے روسے جائز ہیں استعمال ثابت ہے ۔حدیث میں ہے السملم من سلم المسلمون مِنْ لسانہٖ ویدہٖ(مسلم کتاب الایمان )مسلمان وہ ہے جس کی زبان اورہاتھ سے سب وہ لوگ محفوظ رہتے ہیں جو اُسے کوئی نقصان نہیں پہنچاتے ۔میرے نزدیک اس آیت میں یہ معنے بھی مراد ہیں اورمفہوم یہ ہے کہ ان نعمتوں کے دینے کی غرض تویہ تھی کہ تم محفوظ رہو اورخداکے شکر گزاربن کر دوسرے لوگوں کو شر سے محفوظ رکھو مگر تم نے توان نعمتوں کو ظلم کاذریعہ بنالیا ہے ۔
اس آیت سے ایک سیاسی نکتہ بھی نکلتا ہے اوروہ یہ کہ کسی اکثریت کو یہ نہیں چاہیئے کہ اقلیت کو ملک سے نکال دے۔اس کایہ مطلب نہیں کہ ظالموں کونہ نکالاجائے ۔جوقوم کسی کے نظام کو توڑتی ہو ان کاتونکالنا ضرور ی ہے مگر مسلمان مکہ والوں کے نظام کو توڑتے نہیں تھے ۔صرف یہ کہتے تھے کہ آزادی سے ہمیں رَبُّنَااللہ کہنے دو اورمذہب کے معاملہ میں جبر نہ کرو۔مگر باوجود اس کے کہ وہ ان کے نظام میں خلل نہ ڈالتے تھے وہ انہیں ایذادیتے تھے ۔
فان تولوا فانما علیک البلٰغ المبین٭
پس اگر وہ (اب بھی )پھر جائیں تو(اس کی وجہ اے نبی تجھ پر کوئی الزام نہیں آئے گاکیونکہ )تیرے ذمہ صر ف کھول کر پہنچادینا ہے ۔ ۸۳؎
۸۳؎ تفسیر ۔یعنی اس مصالحا نہ پیشکش کے بعد بھی اگریہ لوگ اپنے ارادہ سے باز نہ آئیں اوربلاوجہ مسلمانوں کو دکھ دیں توتیراکام توصرف نصیحت ہے وہ تونے کردی ۔اب یہ اپنے نیک و بد کے خود ذمہ وار ہیں ۔
یعرفون نعمت اللہ ثم ینکرونھا واکثرھم الکافرون ٭
وہ اللہ (تعالیٰ)کے (ا س)انعام کو (بخوبی )پہچانتے ہیں (مگر)پھر (بھی)اس کا انکا رکررہے ہیں اوران میں سے اکثر توپکے کافر ہیں ۸۴؎
۸۴؎ حل لغات ۔ینکرونھا :انکر سے مضارع واحد مذکر غائب کاصیغہ ہے ۔اسکے معنے کے لیء دیکھو نحل ۲۳؎ و حجر ۸۲؎
تفسیر ۔یعنی الٰہی نعمتوں کواپنے نفوس میں دیکھتے ہوئے پھر بھی یہ لوگ ناشکری سے کام لے رہے ہیں ۔یَعْرِفُوْنَ کہہ کر یہ بتایاہے کہ اول توانسان کو محض نعمت کو دیکھ کر ہی نصیحت حاصل کرلینی چاہیئے مگر ان کوتو ا س سے بڑا مقام حاصل ہے اوروہ یہ کہ خود ان پر یہ نعمتیں نازل ہیں اوریہ اپنے نفوس میں ان نعمتوں کاوجود پاتے ہیں ۔مگرپھر بھی ان کا انکار کرتے جاتے ہیں ۔یعنی عملاً ان کی ناقدری کرتے ہیں یہ مراد نہیں کہ لفظاً انکار کرتے ہیں ۔کیونکہ منہ سے تو کفار بھی کہتے تھے کہ یہ نعمتیں ہمیں خداتعالیٰ کی طرف سے ملی ہیں ۔
آخر میں فرمایا وَاَکْثَرُھُمْ الْکَافِرُوْنَ۔اس کے یہ معنے نہیںکہ ان میں سے اکثر منکر ہیں کیونکہ یہ معنی توثُمّ ینکرونھا میں آچکے ہیں ۔نیز یہاں یہ الفاظ نہیں فرمائے کہ اکثرھم کافرون بلکہ یہ فرمایا ہے کہ اکثر ھم الکٰفرون ۔حالانکہ خالی یہ بات کہنے کے لئے کہ یہ کافر ہیں اسقدر کہنا کافی تھا کہ اکثر ھم کٰفرون۔الف لام کی زیادتی کی ضرورت نہ تھی ۔پس الف لام کی زیادتی زائد مفہوم پیداکرنے کے لئے ہے جواس موقعہ پر کامل کے معنے دیتا ہے ۔پس اکثرھم الکٰفرون کے معنے ہیں وہ پکے منکر ہیں ۔یعنی انکا ر عام نہیں بلکہ بڑاشدید ہے اوراصرار کے ساتھ ہے ۔الف لام کایہ مفہوم قواعدنحوسے ثابت ہے۔کہتے ہیں اَنْتَ الرَّجُلُ ۔توکامل مرد ہے (اقرب)یہی وجہ ہے کہ ینکرونھا میں توسب کوشامل رکھا تھا اوراس جملہ میں اکثرھم کالفظ استعمال فرمایا یہ بتانے کے لئے کہ یہ قوم ساری ہی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا انکار کررہی ہے۔مگران میں سے اکثر تواس انکار میں حد سے بڑھ گئے ہیں گویا قوم کی اکثریت میں عناد اورانکار کا ماد ہ شدت سے پیداہوگیا ہے ،۔
ترتیب مضمون کو مدنظررکھتے ہوئے اس آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ ایک طرف تودنیوی نعمتوں کوتسلیم کرتے ہیں دوسری طرف روحانی نعمتوں کے وجود کا انکار کرتے ہیں ۔گویا اعتراف کالفظ دنیوی نعمتوں کے متعلق ہے ۔جن کااقرار کرتے تھے اورینکرونھا میں روحانی نعمتوں کا ذکر ہے جن کاوہ انکا ر کرتے تھے ۔
ویوم نبعث من کل امۃ شھیداثم لایوذن
اور(اس دن کو بھی یاد کرو)جس دن ہم ہرایک قوم میں ایک گواہ کھڑاکریں گے پھر (اسوقت )ان لوگوں کو جنہوں نے کفر (کاطریق)
للذین کفرواولا ھم یستعتبون ٭
اختیارکیا ہے (عذرخواہی یاتلافی کی )اجازت نہیں دیجائے گی اورنہ (ہی)ان کاکوئی عذر قبول کیا جائے گا ۸۵؎
۸۵؎ حل لغات ۔شھید کے معنے ہیں الشاھد۔گواہ۔الامین فی شھادتہ۔ٹھیک ٹھیک گواہی دینے والا(اقرب)
یُسْتَعْتَبُوْنَ: اِسْتَعْتَبَ سے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اوراِسْتَعْتَبَہٗ کے معنے ہیں ۔اعطاہ العُتبیٰ۔اس سے راضی ہوگیا ۔وطلب الیہ ای منہ العُتبیٰ۔اس کی رضاء چاہی ۔چنانچہ کہتے ہیں ۔’’استعتبتُہٗ فاعتَبنیِ‘‘ای استرضیتُہٗ فارضانی میں نے اس کی خوشنودی چاہی تووہ مجھ سے خوش ہوگیا ۔اورانہی معنوں میں یہ فقرہ استعما ل ہوتا ہے کہ مابعدالموت مستعجب ای استرضائٌ۔موت کے بعد کوئی طلب رضانہ ہوگی ۔العیبیٰ:الرضاء۔عتبیٰ کے معنے رضامندی (اقرب)الاستعتاب ان یطلب من الانسان ان یذکر عتبَہٗ لیُعْتَب۔استعتاب جواستعتب کامصدرہے ۔کے معنے ہیں کہ کوئی عذر بیان کرے تاکہ اس سے ناراضگی دور ہوسکے (مفردات)پس وَلَاھُمْ یُسْتَعْتَبُوْنَ کے معنے ہوں گے کہ ان کاکوئی عذر قبول نہ کیا جائے گا(۲)ان کو رضاجوئی کاموقعہ نہ دیاجائیگا۔
تفسیر ۔اس جرمِ عظیم کے ذکر کے بعدپھر اُخروی زندگی کاحوالہ دیا کہ اس دنیا میں تواس جرم کی سزاملے ہی گی مگرآخر ت میں یہ اوربھی زیاد ہ سزاپائیں گے اوروہ سزااور ذلت بہت سخت ہوگی کیونکہ تمام ارواح انسانی خواہ انکے اجسام کسی زمانہ میں کیوں نہ دنیامیں رہے ہوںجمع کی جائیں گی اورہرقوم کانبی سامنے لایاجائے گااورپنی قوم کے متعلق گواہی د یگا۔پھر کیوں یہ لوگ اس ذلت کا جو اس وقت ان کو نصیب ہوگی خیال نہیں کرتے ۔ایک دوسری جگہ اس ذلت کا مندرجہ ذیل الفاظ میں ذکر فرمایا ہے ۔فَکَیْفَ اذاجئنا من کل امۃ بشھید وجئنابک علی ھولآہ شھیداً۔یومئذٍ یودالذین کفرو اوعصوالرسول لو تسویٰ بھم الارض(نساء ع ۶)یعنی جب سب اقوام اورنبی جمع ہوں گے ا س وقت ان کو ایس ی ندامت ہو گی کہ یہ خواہش کریں گے کہ زمین پھٹ جائے اورہم اس میں دفن ہوجائیں ۔
اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہرقوم میں نبی مبعوث فرمائے ہیں ۔قرآن کریم نے یہ عقیدہ مختلف آیات میں بیان فرمایا ہے اورا س میں وہ دوسرے سب مذاہب سے منفرد ہے اوریہ اس کی صداقت کے ثبوتوں سے ایک زبردست ثبوت ملے۔
یہ جو فرمایا کہ کافروں کو اس وقت اذن نہ دیاجائے گا اس کے معنے بعض نے یہ کئے ہیں کہ انہیں بولنے کا اذن نہ دیاجائے گا ۔یہ معنے درست نہیں کیونکہ قرآن کریم کی متعدد آیات سے ثابت ہے کہ کفار قیامت کو اللہ تعالیٰ سے کلام کریں گے ۔اوراپنے عذرات بھی پیش کریں گے ۔لایُؤذَن سے مرا د یاتوجنت میں دخول کی اجازت ہے اوریا اس کے معنے شفاعت کے ہیں اورمراد یہ ہے کہ جب نبی حشر کے دن آئیں گے اوران کو اپنی قو م کے ان افراد کے حق میں شفاعت کی اجازت دی جائے گی ۔جوگوپوری طرح کامل نہ ہوئے تھے مگر اس کے قابل تھے کہ نبی انہیں اپنا کہہ سکیں اس وقت یہ لوگ شفاعت سے محروم رہ جائیں گے اوران کے حق میں شفاعت کی اجازت نہ دی جائے گی ۔قرآن کریم اورحدیث سے شفاعت کے متعلق ثابت ہے کہ اذن سے ہوتی ہے ۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَاتَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ عِنْدَہٗ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَہٗ(سباء ع۳)یعنی شفاعت صرف انہی کوفائدہ دے گی جن کے حق میں اذن الٰہی ہوگا ۔سورۃ یونس رکوع۱۔طہ رکوع ۶اورالنجم رکوع ۲ میں بھی یہ مضمون بیان ہواہے اورسور ۃبقرہ رکوع ۳۴ میں بھی ۔حدیث میں بھی شفاعت کے متعلق اذن کالفظ آتاہے ۔ مسند احمد حنبل جلد ۵صفحہ ۴۳پر ابوبکرۃ کی روایت میں ہے ثُمَّ یُؤذَنُ لِلْمَلٰٓئِکَۃِ وَالنَّبِیِّنَ وَالشَّھَدٓائِ اَنْ یَّشْفَعُوْا۔یعنی پھر فرشتوں ،نبیوں اورشہداکو اللہ تعالیٰ اجازت دیگاکہ وہ شفاعت کریں ۔
قرآن کریم میں ایک اور مفہوم بھی اس اذن کابیان ہواہے ۔سورۃ المرسلات میں ہے وَلَا یُؤْذَنُ لَھُمْ فَیَعْتَذرُوْنَ۔یعنی کفار کوایسی اجازت نہ دی جا ئے گی کہ وہ عذر پیش کرسکیں یعنی ایسی کوئی اجاز ت انہیں نہ ملیگی ۔کہ اس سے فائدہ اٹھا کر وہ کوئی معقول عذر پیش کرسکیں ۔
یہ جوفرمایا کہ قیامت کے دن انبیاء بطورگواہ کھڑے کئے جائیں گے میرے نزدیک انبیاء کی شہادت سے مراد انکا نمونہ ہے کہ وہ اپنے نمونے کوپیش کریں گے کہ کلام الٰہی نے ہم پر یہ اثر کیا ہے ۔اس تعلیم کو ماننے کایہ نتیجہ ہواکہ ہمیں خدامل گیا اورہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے ۔اس طرح پر خداتعالی اس وقت کافروں کو شرمند ہ کر ے گاکہ دیکھو ہماری کلام کااعجاز جس سے روحانی قوتیں حاصل کرکے ہمارایہ نبی اس کمال تک پہنچ گیا اورتم اس کلام کاانکار کرکے کہاں سے کہا ںجاگرے۔
ہرنبی کلام الٰہی کے نتیجے کاعملی نمونہ ہوتاہے یہی وجہ ہے کہ کلام بغیر نبی کے نہیں آتا۔نبی سے کلام کی شان کاپتہ لگتاہے اورکلام سے نبی کی شان کا ۔
واذاراالذین ظلموا العذاب فلا یخفف عنہم ولاھم ینظرون
اورجن لوگوں نے ظلم (کاطریق اختیار)کیا ہے وہ جب اس (موعود )عذاب کو دیکھیں گے تو(اسوقت)نہ (تو)وہ (عذاب)ان پر سے ہلکا کیا جائے گااورنہ (ہی)انہیں مہلت دی جائے گی ۸۶؎
۸۶؎ حل لغات ۔وَلَاھُمْ یُنْظَرُوْنَ۔ اَنْظَرَ سے مضارع جمع مذکر مجہول کاصیغہ ہے اور اس کے معنے ہیں ان کو مہلت نہ دی جائے گی ۔مزید تشریح کے لئے دیکھو حجر ۹؎
تفسیر ۔اس جگہ عذاب سے مراد اُخروی عذاب ہے ۔
واذاراالذین اشرکو اشرکاء ھم قالو
اورجن لوگوں نے (اللہ تعالیٰ کے )شریک بنائے ہیں جب و ہ(ان)اپنے (بنائے ہوئے )شریکو ں دیکھیں گے توکہیں گے (کہ)
ربنا ھولاء شرکائونا الذین کنا ندعوا
اے ہمارے رب یہ ہمارے (بنائے ہوئے )شریک ہیں جنہیں ہم تجھے چھوڑ کر
من دونک قالو الیھم القول انکم لکٰذبون ٭
پکارکرتے تھے ۔جس پر وہ (بڑی جلد ی سے)انہیں کہیں گے (کہ)تم یقیناجھوٹے ہو ۸۷؎
۸۷؎ حل لغات ۔مِنْ دُوْنِکَ:دُوْنَ کالفظ عربی میں آٹھ معنوں میں مستعمل ہوتاہے (۱)فوق (یعنی بلند ہونے )کے مخالف معنے دیتاہے ۔کہتے ہیں ۔ھودونہ اَیْ احطّ منہ رتبۃً۔کہ وہ اس سے رتبہ میں کم ہے(۲)ظرف کے طور پر استعمال ہوتاہے اورا سکے معنے اَسْفل(یعنی نیچے ہونے )کے ہوتے ہیں چنانچہ کہتے ہیں ھذادُون ذاک ای مُتَسفّل عَنْہ۔یہ اس سے نیچے واقع ہے ۔(۳)اَمَام(یعنی آگے)کے معنوں میں استعمال ہوتاہے کہتے ہیں مشی دونہ ای اَمَامَہُ وہ اس کے آگے آگے چلا ۔(۴)وراء( پیچھے )کے معنوں میں استعمال ہوتاہے جیسے کہتے ہیں قَعَد دونَہ ای ورَاء ہٗ۔وہ اس کے پیچھے بیٹھا ۔(۵)اورکبھی دُون کے معنے فوق (یعنی بلند ہونے )کے ہوتے ہیں۔گویایہ لفظ اضداد میں سے ہے (۶)اس کے معنی غیر(یعنی سِواء)کے بھی ہوتے ہیں ۔(۷)کسی چیز کے خسیس ہونے کے ہوتے ہیں۔چنانچہ کہتے ہیں شیئٌ دونٌ ای خسیس کہ یہ چیز کم درجہ کی ہے (اقرب)علاوہ ازیں کہتے ہیں ۔حال القومُ دون فلانٍ ای اعترضُوابینَہٗ وبین من یطلبہٗ فلم یقدر ان ینا لَہ۔یعنی فلاں کے درمیا ن قوم حائل ہوگئی اوراس کو اس کے تلا ش کرنے والے سے بچالیا(اقرب)
اَلْقَوْا:القی سے جمع کاصیغہ ہے اورالقاہ الی الارضِ کے معنے ہیں طَرَحَہٗ۔اس کوزمین پر پھینکا اورالقَی الیہ القولَ وبالقول ِ کے معنے ہیں ۔ابلَغہٗ ایّاہ اس کو کوئی بات پہنچا دی ۔القی علیہ القولَ۔اَمْلَاہ۔اُسے کوئی بات لکھادی ۔اَلْقَی الیہ السمعَ:اَصْغَی۔اس کی بات توجہ سے سنی (اقرب)مزید تشریح کے لئے دیکھو نحل ۱۶؎
تفسیر ۔القی الیہ القول کے معنے ہیں کہ اس کی طرف جواب پھینکا ۔اورپھینکنے سے مراد یہ ہے کہ وہ فوراً ان کے منہ جواب الٹاکر ماریں گے کہ بس جھوٹ نہ بولو ۔
یہ عجیب بات ہے کہ دنیا میں ان کی خاطر یہ لوگ نبیوں سے لڑاکرتے تھے ۔مگر قیامت کو خداتعالیٰ سے کہیں گے کہ ان معبودوں کو پکڑو کہ یہی ہم کو گمراہ کرتے تھے۔ا س میں اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ کفرو گنا ہ کی دوستی کبھی پکی نہیں ہوتی ۔کیونکہ انسان ایک حد تک دوسرے کی خاطر تکلیف اٹھاسکتاہے ۔حد سے زیاد ہ نہیں ۔پس کفر کی وجہ سے چونکہ مختلف عذاب آتے رہتے ہیں درمیا ن میں ایسے مواقع بھی آتے رہتے ہیں ۔جب اس دوستی کی حد ختم ہوجاتی ہے اورایک دوسرے سے بیزاری کا اظہار شروع ہوجاتا ہے ۔
یہ جو فرمایا فالقَواالیہم القولَ ا سکے معنے ایک تواچھی طرح کہنے کے ہوتے ہیں ۔کہتے ہیں القی الیہ القول:اَبْلَغَہ۔اس تک بات پہنچا دی ان معنوں کے روسے ترجمہ یہ ہوگاکہ وہ خو ب زور سے انہیں کہدیں گے ۔نیز القی کے معنے پھینکے کے بھی ہیں اورپھینکنے کے لفظ میں جلد ی کامفہوم پایاجاتاہے ۔پس القی الیہم القولَ کے یہ معنے بھی ہیں کہ وہ فوراً جوا ب دیں گے ۔فلایخفّف عنھم سے بتایا کہ یہ عذر ان کو غیر معقول ہے اگر کسی نے گمراہ کیا تھا تووہ گمراہ کیوں ہوئے ؟کیوں نہ ورغلانے والے کی بات کو رد کیا۔
والقواالی اللہ یومئذٍ السلم وضل عنہم ماکانو ایفترون٭
اور(ا س حالت کو دیکھکر )وہ (ظالم جلدی سے )اللہ(تعالیٰ)کے حضور(اپنی )اطاعت کا اظہار کریں گے اورجو کچھ و ہ اپنے پا س سے گھڑا کرتے تھے وہ (سب ان کے ذہنوں سے )غائب ہوجائے گا۔ ۸۸؎
۸۸؎ حل لغات ۔السَّلَمَ کے لئے دیکھو نحل ۲۹؎ ضَلَّ عَنْھُمْ کے لئے دیکھو یونس ۳۰؎
یَفْتَرُوْنَ:اِفْتَرَی سے مضارع جمع مذکر غائب کاصیغہ ہے ۔اوراِفْتَرَی علیہ الکذبَ کے معنے ہیں ۔اِخْتَلَقَہٗ۔اس کے خلاف جھو ٹ بنالیا (اقرب)پس ضَلَّ عَنْہُمْ مَاکَانُوْا یَفْتَرُوْنَ کے معنے ہوں گے جو وہ گھڑاکرتے تھے ضائع ہوجائے گا ۔
تفسیر ۔یعنی جب کفار دیکھیں گے کہ آج تووہ بھی ہمارے دشمن ہو رہے ہیں جن کی ہم عبادت کیاکرتے تھے تووہ جلد ی سے اپنے رویہ کو بدل کر لجاجت سے باتیں کرنی شروع کردیں گے اورکہیں گے کہ ہم توآپ ہی کے بندے ہیں یہ عبادت وغیرہ توصر ف توجہ کے قیام کے لئے تھی یاہم یہ کام نیک نیتی سے سچ سمجھ کرکرتے تھے کو ئی اللہ تعالیٰ سے بغاوت کا منشاء نہ تھا اورجو بڑے بڑے دعوے وہ دنیا میں کرتے تھے سب غائب ہوجائیں گے ۔
الذین کفرواوصدواعن سبیل اللہ زدنھم عذاباًفوق العذاب بماکانو ایفسدون٭
جن لوگوں نے (خود بھی )کفر(کاطریق )اختیار کیا ہے اور(دوسروں کو بھی )اللہ (تعالیٰ ) کی راہ سے روکاہے ا ن کو ہم اس عذاب سے بڑھ کر ایک اورعذاب دیں گے کیونکہ وہ (ہمیشہ )فساد (کے کام )کرتے تھے ۸۹؎
۸۹؎ حل لغات ۔اَلْفَوْق:فاق کامصدر ہے ۔جس کے معنے بلند ہونے کے ہوتے ہیں۔اصل میں ظرف مکان ہے جیسے کہتے ہیں صَعدتُ فَوقَ الجبلِ۔کہ میں پہاڑ پر چڑھا ۔اورکبھی کبھی ظرف زمان کے لئے بھی استعمال ہوتاہے ۔چنانچہ کہتے ہیں لبِثْنَافوق شھرٍ ای زماناً اکثر من شھرٍ۔ہم ایک ما ہ سے زائد ٹھہرے ۔یہ معر ب ہوتاہے ۔لیکن جب اس کامضاف الیہ حذف ہو۔اورمعنیً وہ ذہن میں ہوتواس وقت یہ مبنی ہوتاہے ۔اوراس کے آخر پر ضمّہ آتاہے ۔چنانچہ کہتے ہیں عندی مائۃٌ فمافوقُ۔کہ میرے پاس سوسے اوپر چیزیں ہیں ۔یہاں فوق کے بعد مضاف الیہ حذف ہے ۔اوراگر مضاف الیہ بولاجائے ۔تووہ معرب ہوتاہے ۔اورکبھی کبھی فوق کالفظ بطور اسم کے استعمال ہوتاہے۔اوربعض اوقات زیادتی کے بیان کے لئے استعمال کیا جاتاہے ۔چنانچہ کہتے ہیں العشرۃُ فوق التسعۃ ای تزیدعلیھا۔دس نوسے زیادہ ہوتے ہیں ۔علاوہ ازیں کہتے ہیں ھذافوق ذاکَ ای افضلُ منہ۔کہ یہ اُس سے افضل ہے (اقرب)
تفسیر ۔اس آیت میں پھر وہی فرق بتایا کہ کافر دوقسم کے ہیں ایک گمراہ اورایک گمراہ کرنے وال ۔اوریہ بھی بتایا ہے کہ گمراہ کرنے والوں کو دوسروں سے زیادہ سزاملے گی۔
لطف یہ ہے کہ ایسے ہی لوگ دنیا میں جاہلو ںسے کہتے ہیں کہ ہم تمہاری نجات کے ذمہ وار ہیں لیکن وہاں جن کی نجا ت کے ذمہ وار بنتے تھے ان سے بھی زیادہ انہیں سزاملے گی۔
ویوم نبعث فی کل امۃ شھیداعلیہم من انفسھم
اور(اس دن کو بھی یاد کرو)جس دن ہم ہر ایک قوم کے اند ران کے خلاف خود انہی میں سے ایک گواہ کھڑاکریں گے اور(اے رسول)
وجئنا بک شھیدا علی ھولاء ۔ ونزلنا علیک الکتٰب
تجھے ہم ان(سب)کے خلاف گواہ بناکر لائیں گے اورہم نے یہ کتا ب ہرایک بات کو کھول کر بیان کرنے
تبیانا لکل شیء وھدی ورحمۃ وبشری للمسلمین ٭
کے لئے اور(تمام لوگوں کی)رہنمائی کے لئے اور(ان پر)رحمت کرنے اور کامل فرمانبرداری اختیار کرنیوالوں کو بشارت دینے کے لئے اُتاری ہے ۹۰؎
۹۰؎ حل لغات ۔تِبَْاناً:یہ بَانَ کامصدر ہے ۔اوربانَ الشیئُ(یبین تبیاناً)کے معنے ہیں ۔اتَّضَحَ۔کوئی چیز واضح ہوگئی اوربان کافعل لازم ہے لیکن کبھی کبھی متعدی بھی استعمال ہوتاہے (اقرب)
تفسیر ۔اس آیت میں پہلی آیت کے مضمون کو مکمل کیا گیا ہے ۔فرماتاہے جب سب نبی اپنے اپنے نمونہ کو پیش کریں گے ا س وقت توبھی ان لوگوں پر بطور گواہ پیش ہوگااورہم تجھے دکھا کر ان سے پو چھیں گے کہ یہ بھی توتم میں سے ایک تھایہ کیوں شرک وغیر ہ بدعقائد میں نہ پھنسا ۔اورکیوں اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار بندہ بن کر دوسروں کی ہدایت کاہوجب ہو ا۔کیا اسی وجہ سے نہیں کہ اس پر خداتعالیٰ کا کلام نازل ہواتھا اورتم اس سے محرو م تھے بلکہ اس کلام کی ضرورت ہی محسوس نہ کرتے تھے ۔
اس کے بعد اس وحی کی برکات کی طرف اشار ہ فرمانے کے لئے فرماتا ہے ۔ا ے محمدؐہم نے تجھ پر و ہ کتاب اتاری ہے جس میں ہرروحانی ضرورت کی تشریح ہے اوراس میں رحمت اورہدایت کے سامان ہیں ۔یعنی تجھ پر اورتیری قوم کے لوگوں میں جو فرق ہے وہ اسی کلام کی وجہ سے ہے ۔
یہاں کُلّ شیئٍ سے دنیا کی ہرچیز مراد نہیں بلکہ وہ چیزیں مراد ہیں جو اسی کتاب سے مناسبت رکھتی ہیں ۔کوئی استاد اپنے شاگرد کو کہے کہ ساری کتب اٹھالائو تواس کایہ مطلب نہیں ہوتاکہ وہ لائبریری کی سب کتب اُٹھالائے ۔بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہوگاکہ اپنی کتب اٹھالائو ایساہی یہاںپر کُلُّ سے مراد وہ چیزیں ہیں جوروحانیت کی ترقی کے لئے ضروری ہیں ۔اگرکوئی کہے کہ بعض مسائل کی تفصیل صرف احادیث میں ملتی ہے ۔تواسکاجواب یہ ہے کہ اصول سب قرآن کریم میں بیان ہیں جوتفاصیل احادیث میں ہیں وہ قرآن کریم کی تفسیر ہیں ۔محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواللہ تعالیٰ نے قرآن کافہم سب سے زیاد ہ دیاتھا ۔وہ قرآن کریم سے جو مطالب اخذ کرتے تھے ہم نہیں کرسکتے ۔پس اگر آپ نے قرآنی مطالب کی بعض تفاصیل بیان کی ہیں تواس کے یہ معنی نہیں کہ قرآن کریم نامکمل ہے بلکہ اس کے صر ف یہ معنے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کامل فہم سے ان مسائل کاقرآن سے استنباط کیا ۔گوہماراذہن اس باریکی کو نہیں پاسکا۔
اہل قرآن کہلانے والوں کو اس مسئلہ میں سختی سے غلطی لگی ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرح کے آدمی تھے ان کی بات کیوں مانیں جوقرآن کریم میں ہے وہ مانیں گے حالانکہ رسول کریم ؐ کی بات کے ماننے کاسوال نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ آپ ہم سے قرآن کریم کو زیادہ سمجھتے تھے ۔
اللہ تعالیٰ فرماتاہے وَمَایَنْطِقُ عَنِ الْھَویٰ اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحیٰ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کے متعلق جو کچھ فرماتے تھے وحی الٰہی کے مطابق فرماتے تھے غلطی نہیں کرتے تھے ۔پس جس کو اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا اس کے فہمِ قرآن کو دوسروں کے فہم پر مقد م کیا جائے گا۔ہمارایہ حق ہے کہ یہ بحث کریں کہ یہ حدیث صحیح نہیں ۔مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ حدیث توصحیح ہے مگررسول کریم صلعم نے غلطی کی۔نعو ذ باللہ من ذالک۔قرآن کریم کی تعلیم کے بارہ میں آپؐ کی تفسیر اگر ہماری سمجھ میں نہیں آتی توبھی آپ ہی کی تفسیر کو ہمیں صحیح ماننا پڑے گا۔بشرطیکہ جس حدیث میں و ہ مذکور ہے وہ صحتِ احادیث کے اصول پر پوری اترتی ہو ۔
اس جگہ قرآن کریم کے چار کام بتائے ہیں (۱)تِبْیَانًالِکُلِّ شیئٍ ہے یعنی سب ضروری امورروحانیہ کی تشریح اس میں موجود ہے (۲) ہدایت ہے (۳)رحمت ہے ۔(۴)مومنوں کے لئے بشارت ہے ۔اگلی آیات میں ان مطالب کی تشریح کی گئی ہے ۔
ان اللہ یامر بالعدل والاحسان وایتآیٔ ذی القربی
اللہ (تعالیٰ)یقیناً عدل کا اوراحسان کا اور(غیر رشتہ داروںکوبھی)قرابت والے(شخص)کی طر ح(جاننے اورمدد)دینے کاحکم دیتاہے
وینھیٰ عن الفحشاء والمنکروالبغی یعظکم لعلکم تذکرون٭
اور(ہرایک قسم کی)بے حیائی اورناپسندیدہ باتوں اوربغاوت سے روکتاہے۔وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سمجھ جائو ۹۱؎
۹۱؎ حل لغات ۔اَلْعَدْلُ:عَدَل کامصدر ہے اورعَدَل(یَعْدِل)فلاناً بفلانٍ کے معنے ہیں۔سَوَّی بینھما ۔دونوں کے ساتھ برابر کاسلوک کیا ۔عَدَل القاضی والوالی رعدلاً وعدالۃط)قاضی نے انصاف کیا ۔نیز العدل کے معنے ہیں ۔ضِدّ الجور ۔انصاف ۔العادل المرضیّ للشھادۃ۔درست گواہی دینے والا۔راستباز۔العدلُ من القضاۃِ والحکّامِ۔الوافونَ لحقِّ فی احکامھم۔وہ حکام اورقاضی جودرست فیصلے کرنے والے ہوں ۔(اقرب)
الاحسان:اَحْسَنَ سے مصدر ہے اوراَحْسَنَ کے معنے ہیںاتَی بالحسنِ۔پسندیدہ کام کیا ۔احسن الشیئَ جعلہ حسنًا۔کسی چیز کو عمدہ بنادیا ۔عَلِمَہ ۔کسی چیز کوجانا۔اورانہی معنوں میں یہ فقرہ بولاجاتا ہے ۔کہ فلان یحسن القِراء ۃَای یعلمُھا ۔فلاں شخص اچھی طرح پڑھنا جانتاہے(اقرب)
القربیٰ:القربُ فی الرِّحْمِ۔رشتہ داری (اقرب)
الفحشائُ: الفاحشۃ۔سخت قباحت والاگناہ یاہر وہ بات جس سے اللہ نے روکا ہے ۔البخل فی اداء الزّکٰوۃ۔زکوٰۃ کی ادائیگی میں بخل(اقرب)
المُنکَر:انکر سے اسم مفعول ہے (اس کیلئے دیکھو حجر ۵۷؎ )نیز اس کے معنے ہیں مالیس فیہ رضی اللہ من قولٍ اوفعلٍ۔والمعروفُ ضِدّہ۔ناپسندیدہ بات یا فعل ۔معروف اس کے مخالف معنے دیتا ہے (اقرب)
تذکّرون:تَذَکَرسے جمع مخاطب کاصیغہ ہے اورتذکّر کے وہی معنے ہیں جو ذکر کے ہیں ۔ذکر کے لئے دیکھو رعد ۲۰؎
تفسیر ۔پچھلے رکو ع کے آخر میں دعویٰ کیاگیاتھا۔وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتَاابَ تِبْیَانًالِّکُلِّ شَیْئٍ وَّھُدًی وَّرَحْمَۃً وَّبُشْریٰ لِلْمُسْلِمِیْنَ۔ یعنی قرآن کریم ان چار خوبیوں کاحامل ہے (۱)تبیان لکل شیئٍ(۲)ھدایت (۳)رحمۃ(۴)بشریٰ للمسلمین۔اس رکوع میں اوراگلے رکوعوںمیں اس امر کاثبوت دیاگیا ہے کہ یہ چاروں امور قرآ ن کریم میں پائے جاتے ہیں اورا ن کی بناء پر قرآن کریم کے کامیاب ہونے میں کوئی شک نہیں ۔
سب سے پہلا ثبوت یہ آیت ہے اورمیرے نزدیک اس آیت میں جومضمون بتایاگیا ہے وہی ان چاروں باتوں کے ثابت کرنے کے لئے کافی ہے ۔
اس آیت میں تین باتوں کے کرنے کاحکم دیاگیاہے ۔اورتین باتوں سے رکنے کا حکم دیاگیاہے اوربری باتوں سے روکنا رحمت پردلالت کرتا ہے اوراچھی باتوں کے کرنے کاحکم دینا ہدایت پر دلالت کرتا ہے ۔
پھر اس میں اخلا قی امورکے سب مدارج کو جمع کردیاگیا ہے جس کی وجہ سے یہ آیت جامع ہو گئی ہے اورتبیانالکل شیء کی بہترین مثال ہے ۔آیت کو ختم لعلَّکُم تَذَکَّرُوْنَ پر کیا گیا ہے ۔تذکّر کے وہی معنے ہوتے ہیں جوذَکَرَ کے معنے ہیں پس اس کے معنے یاد رکھنے یا خداتعالیٰ کی بڑائی کرنے ک ہیں ۔اورلعلکم تذکَّرُوُن کے معنے ہیں تاتم اللہ تعالیٰ اوربندوں کے حقوق کو یاد رکھویایہ کہ تاتم اللہ تعالیٰ کی تمحید تمجید کرو۔اورچونکہ یہی دونوں مقصد ہیں جن کوپوراکرنے کے لئے انسان کو پیداکیاگیاہے اس لئے اس آیت میں یہ بشارت بھی دی گئی ہے کہ اس تعلیم پر چل کر تم اپنی پیدائش کے مقصود کو پالوگے ۔
دیکھو کس قدر چھوٹی سی آیت ہے اورکس طرح اس میں ان سب امور پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔جن کا قرآن کریم کی فضیلت کے متعلق دعویٰ کیاگیا ہے ۔اس ایجاز کے ساتھ ایسی تفصیل قران کریم کے سوااورکسی کتاب میں نہیں پائی جاتی ۔اورپھر کوئی اغلاق نہیں ۔معمّہ نہیں ۔مضمون صا ف ہے ہرعقلمند ایک ادنیٰ سے حقیقت کو معلوم کرسکتا ہے ۔
ا ب اس آیت کے مضمون کو کسی قدر تفصیل سے بیان کرتاہوں ۔یاد رکھنا چاہیئے کہ دنیا میں ہرایک چیز کے لئے ایک اثبات کاپہلو ہوتاہے اوردوسرانفی کا ۔کوئی چیز مکمل نہیں ہوتی اورجب تک کہ اس کے دونوں پہلو مکمل نہ ہوں ۔یعنی جن چیزوں کا اس کی تکمیل کے لئے موجود ہوناضروری ہے ۔وہ اس میں پائی جائیں اورجن چیزوں سے اس کی ذات میں نقص پیداہوتا ہوان سے و ہ پا ک ہو۔
مذہب کو مدنظر رکھتے ہوئے مکمل تعلیم کے لئے مندرجہ ذیل باتوں کا پایا جانا ضروری ہے ۔
۱۔یہ کہ وہ ان باتوں کے کرنے کاحکم دے جن سے روحانیت اپنے کما ل کو پہنچ سکتی ہو اوران باتوں سے منع کرے جو اس کمال سے محروم رکھنے والی ہوں۔
۲۔یہ کہ وہ ایساقانون تجویز کرتے وقت جو صرف ایک شخص یاقوم سے تعلق نہ رکھتاہو بلکہ کثیر افراد اورکثیراقوام سے تعلق رکھتاہو۔ان تمام طبائع کا لحاظ رکھے جن کے لئے و ہ وضع کیاگیاہو ۔اورایسے احکا م دے جن پر ہرشخص اپنی اپنی استعداد کے مطابق عمل کرسکے ۔
۳۔تیسری خصوصیت مکمل تعلم میں یہ ہونی چاہیئے کہ اس کے احکام بنی نوع انسا ن کے لئے قابل عمل ہوں اوران سے کوئی فساد مذہب میں یااخلاق میں یاعقل میں یاتمدن میں نہ پیداہوتاہو۔
اللہ تعالی ٰنے اس آیت میں ان تینو ںخوبیوں کو جمع کردیا ہے ۔دیکھو کتنی چھوٹی سی آیت ہے مگر اس میں تکمیل کے دونوں پہلو(نفی اوراثبات)کس خوبی اورخوش اسلوبی سے جمع کردئے گئے ہیں ۔تینوں باتوں یعنی عدل۔احسان اورایتاء ذی القربیٰ کے کرنے کاحکم دیاگیا ہے اورتین باتوں یعنی فحشاء ۔منکر اوربغی سے روکاگیا ہے ۔عدل کے معنی برابری کے ہوتے ہیں یعنی انسان دوسر ے سے ایسا سلو ک یا معاملہ کرے جیساکہ اس کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔اس پرظلم کیا جاتا ہے تووہ اتنا بدلہ لے سکتا ہے جتنا ظلم ہواہے مگر اس سے زیادہ سختی نہیں کرسکتا ۔اگر اس سے کوئی شخص حسن سلوک کامعاملہ کرتا ہے تواس کابھی فرض ہے کہ کم سے کم اتنا حسن سلوک اس سے کرے۔
اللہ تعالیٰ سے عد ل کرنے کے یہ معنے ہیں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ا سکے ساتھ نیک معاملہ کیا ہے ۔یہ بھی اس کاحق اداکرے اوراپنے وجود سے اللہ تعالیٰ کے لئے اعتراضات کے مواقع پیدانہ کرے ۔اسی طرح یہ کہ ا سکاحق غیر اللہ کو نہ دے اورشرک میں مبتلا نہ ہو کیونکہ شرک ک نا گویا خداتعالیٰ کاحق چھین کردوسرے کو دینا ہے اوریہ ظلم ہے ۔اسی وجہ سے قرآن کریم میں شرک کانام ظلم بھی رکھاگیاہے۔پس خداکا بیٹایابیوی یااس کے شریک قرا ردینا عد ل نہیں بلکہ ظلم ہے ۔کیونکہ ظلم اسی کو کہتے ہیں کہ ایک کاحق کسی اورکے سپرد کردیاجائے ۔اسی طرح اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنی طرف منسوب کرلینا بھی عدل کے خلاف ہے ۔مثلاً شریعت کاابنانا اورالہا م الٰہی کابھیجنا خداتعالیٰ کاکام ہے ۔اب اگرکوئی شخص خود ہی شریعت بنانے کامدعی بن بیٹھے یاالہام نازل کرنے کا ۔جیسا کہ بہاء اللہ وغیر ہ نے کیاتووہ عدل کو توڑتا ہے ۔اگر انسان خداتعالیٰ کے ساتھ عد ل کرے توشرک،کفر اورنافرمانی سب مٹ جائیں ۔
عدل سے بڑھ کر دوسرادرجہ احسان بتایا ہے ۔احسان کامفہوم یہ ہے کہ یہ نہ دیکھنا چاہیئے کہ دوسراہم سے کیاسلوک کرتاہے بلکہ اگر وہ براسلوک کرتاہے تب بھی ہم اس کے ساتھ اچھا سلو ک ہی کریں۔یہ مقام پہلے مقام سے بڑاہے اورعفو،درگذر،غرباء کی مدد،صدقہ و خیرات اورقومی خدمات وغیر ہ نیکیا ں سب ا سکے اند رشامل ہیں ۔
علوم کی ترقی و تدوین کے لئے کوشش کرنابھی اس کے اند ر آجاتا ہے کیونکہ ان کے نتیجہ میں اپنوں اوربیگانوں کو جسمانی اورروحانی فائدہ اورآرام پہنچتا ہے۔
تیسرامقام ایتاء ذی القربیٰ کا بتایا ہے جس کے معنے ’’رشتہ داروں کو دینا یارشتہ داروں کادینا ہے ‘‘۔اورمطلب آیت کا یہ ہے کہ بنی نوع انسان سے ایساسلوک کرو جیساکہ ایک رشتہ دار دوسرے رشتہ دار سے کرتا ہے۔
اس سلو ک سے احسان کا سلوک مراد نہیں کیونکہ احسان کاذکر پہلے ہو چکا ہے ۔اس سلوک سے وہ سلوک مراد ہے جو محبت طبعی کی وجہ سے مبادلہ کے خیال کے بغیر کیا جاتا ہے ۔احسان کر تے وقت توانسان کو یہ خیال ہوتاہے کہ فلاں شخص نے مجھ سے اچھا سلوک کیا ہے میں ا س سے بہتر بدلہ دوں تامیر ی نیک نامی ہو یاگنہگار کی خطامعاف کرتے وقت یہ خیا ل آجاتا ہے کہ میں اس سے حسن سلوک کروں گاتوا سکے دل سے بغض نکل جائے گا اوریہ میرادوست بن کر میری تقویت کاموجب ہو گا۔لیکن ماں جو اپنے بچہ سے محبت کرتی ہے اوراس کے لئے قربانی کر تی ہے ا س میں ذرّہ بھر بھی بدلہ کی خواہش نہیں ہوتی ۔بلکہ اس کی محبت کی بنیا د اس کی اپنی ہی قربانی پر ہوتی ہے ایک عورت کے ہا ں جب اولاد نہیں ہوتی توا س کے دل میں یہ خیال پیدانہیں ہوتاکہ میرالڑکا ہوتاتووہ میری خدمت کرتا ۔بلکہ اسے اولاد کی خواہش اس جذبہ کے ساتھ ہوتی ہے کہ میں اسے پالتی،اس کی خدمت کرتی،اسے کپڑے پہناتی،اُسے بیاہتی ،اس کے بچوں کوکھلاتی ۔غرض اولاد کی خواہش کے وقت ماں کے دل میں خدمت لینے کا ادنیٰ سے ادنیٰ احساس بھی نہیں ہوتا ۔بلکہ اس خواہش کاموجب اولاد کی خدمت کرنے کاشوق ہوتاہے ۔یہی وہ نیکی کاجذبہ ہے جو انسان کے لئے سب سے بڑی نیکی ہے۔اورجس کے حصول کے بعد احسان کا مقام حاصل کرنے کے بعد جبکہ تم کو لینے سے زیادہ دینے کی خواہش ہوتی ہے تووہ مقام نیکی کابھی حاصل کرو کہ سب بنی نوع انسان تمہیں اپنے بچے نظر آنے لگیں اوران کی خدمت کا جوش تمہارے دل میں اس طرح موجزن ہو جائے جس طرح ایک ماں کے دل میں اپنے بچہ کی محبت جوش مارتی رہتی ہے ۔
یہ تعلیم جو اوپر بیان ہوئی ہے اس میں اثباتی تعلیم کاذکر کیا گیا ہے اورنہایت مختصر الفاظ میں اخلاق فاضلہ کے سب پہلو ئوں کو بیان کردیاگیاہے ۔ا س موقعہ پر یہ امر بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اللہ تعالیٰ کاحق توعد ل میں ختم ہوجاتاہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی شخص احسا ن یا ایتاء ذی القربیٰ کامعاملہ نہیں کرسکتا ۔مگر بندوں کے ساتھ سلوک کاحکم عدل میں بھی ہے اورپھر احسان و ایتاء ذی القربیٰ میں بھی ہے بلکہ پچھلے دومقامات میں توخالص بندوں ہی کے ساتھ تعلقات سلو ک مراد ہیں۔اس میں یہ اشار ہ ہے کہ خداتعالیٰ تک پہنچنے اوراس کی مرضی کو پانے کے لئے بندوں سے سلوک ضروری ہے ۔گویا احسان اورایتاء ذی القروبیٰ قرب الٰہی کی دوسیڑھیا ں ہیں ۔
اس اثباتی تعلیم کے بعد نفی کے پہلو کو لیا گیا ہے اوراس میں بھی تین ہی باتوں سے روکا گیاہے ۔سب سے پہلے فحشاء سے روکاہے اور فحشاء کالفظ جب منکر کے مقابل میںآئے توا س سے مراد صرف وہ بدی ہوتی ہے جس کاعلم صرف ا س کے مرتکب کو ہو،ودسرے کو نہ ہو ۔س کلے بعد منکر سے روکاہے ۔منکر سے مراد وہ بدی ہے جو لوگوںکو نظرآتی ہو اوروہ اسے برامحسوس کرتے ہوں۔اگرچہ اس کااثر باقی لوگوں کے حقوق پر عملاً بہت کم پڑتاہو۔مثلاً گالیاں دیناجھوٹ بولنا وغیرہ یہ سب منکر میں شامل ہیں ۔پس منکر سے اس لئے منع فرمایا کہ اس سے لوگوں کوذہنی تکلیف پہنچتی ہے ۔
تیسری بات جس سے روکا ہے وہ بغی ہے یعنی کسی کاحق مارلینا ۔یہ بدی نہ صر ف لوگوں کو محسوس ہی ہوتی ہے بلکہ اس سے لوگوںکونقصان بھی پہنچتاہے۔
دنیا میں جس قد ربدیاں پائی جاتی ہیں خواہ وہ کسی قسم کی ہی کیوں نہ ہو ں۔ان تینوں اقسام میں آجاتی ہیں ۔یاتوبدی ایسی مخفی ہوتی ہے کہ لوگوں کی نظر سے پوشید ہ رہتی ہے یاایسی ہوتی ہے کہ دوسرے لوگوں کوبھی اس کاعلم ہوجاتا ہے اورانہیں اس سے ذہنی تکلیف پہنچتی ہے ااوریا پھر وہ بدی ایسی سخت ہوتی ہے کہ اگر بعض کو اس سے ذہنی تکلیف پہنچتی ہے توبعض دوسروں کے حقوق اس فعل کی وجہ سے تلف ہوجاتے ہیں۔ان سب قسم کی بدیوں سے بچنے کااس آیت میں حکم دیاگیا ہے۔
میں نے اوپر بتایا تھا کہ کامل تعلیم کے لئے جو سب ضرورتوں پر حاوی ہو یہ بھی ضروری ہے کہ اس میں تما م فطرتوں کالحاظ رکھا گیاہو ۔
اس آیت میں جو تعلیم دی گئی ہے اس میں وہ بات بھی موجود ہے کیونکہ دنیا میں بعض انسان ایسے ہوتے ہیں جو فحشاء میں مبتلاہوتے ہیں لیکن ظلم کرنا ہرگز پسند نہیں کرتے اوراسی طرح کئی ایسے بھی ہوتے ہیں جو ظلم کرکے دوسروں کامال تولے لیتے ہیں مگر جھوٹ سے ان کو نفرت ہوتی ہے اوروہ کسی کا حق مارنا بھی پسند نہیں کرتے مگرشریعت کی بیان کردہ وہ بدیاں جوانسان کی ذات سے تعلق رکھتی ہیں یعنی دل میں کسی کا کینہ یاعیب جو ئی کرنا یاچغلی کرنا وغیرہ ۔وہ ان میں مبتلاہوتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے تین جامع الفاظ رکھ کر ہرقسم کی بدیوںکو اورسب طبائع کی بدیو ںوکو شامل کردیا ہے ۔اورایسا ہی نیکیوں کے ذکر میں بھی ہرقسم کے میلا ن والوں کو جمع کردیا ہے ۔عدل کو بھی اوراحسان کو بھی اوربلامبادلہ خدمت کرنے کی طاقت کوبھی ۔اس کے علاوہ ان مختصر سے الفاظ میں یہ بھی بتادیا گیا ہے کہ بدی سے بچنے اورنیکی کے اختیارکرنے کاراستہ کون سا ہے ۔چنانچہ نیکیا ں گناتے ہو ئے نیکی کے نچلے درجے کو پہلے بیان فرمایا ہے پھر اس کے اوپرکے درجہ کو پھر اُس کے اوپر کے درجہ کو ۔اسی طرح بدیوں کے ذکر کو سب سے پہلے نچلے درجہ کی بدی سے شروع کیاہے پھر ا س سے اوپر کی بدی بیان کی ہے اورپھر اس سے اوپر کی اوراسی طرح انسان کو نیکیوں کے حصول اوربدیوں سے بچنے کاطبعی طریقہ بھی بتادیا ہے ۔اوروہ یہ کہ جو انسان نیکی کے حصول کے لئے کوشش کرنی چاہیئے اسے پہلے عدل کا مقام اپنے اندرپیداکرناچاہیئے پھر احسان کا پھر ایتاء ذی القربیٰ کا ۔اسی طرح جو بدیوں سے بچنا چاہے اسے پہلے بغی سے بچناچاہیئے پھر منکر سے بچنے کے قابل ہوسکے گااورپھر منکر سے بچنے کی جدوجہد کرنی چاہیئے پھر کہیں جا کروہ فحشاء سے بچنے کے قابل ہوگا۔اس کے برخلاف اس ترتیب سے اس امر کی طرف بھی رہنمائی کی گئی ہے کہ نیکیوں میں تنزّل کی سیڑھی کون سی ہے ۔جوانسان ایتاء ذی القربی کے مقام پر ہے اسے اس پر مضبوطی سے قائم ہونا چاہیئے ورنہ گِر کر احسان کے مقا م پر آجائے گا۔اوراحسان پر جو کھڑا ہے اسے اپنے مقام کا خیال رکھنا چاہیئے ورنہ عدل کے مقام پر آگرے گا۔اسی طرح اس پر خوش نہ ہونا چاہیئے کہ مجھ میں صرف فحشاء پائی جاتی ہے کیونکہ جو فحشاء کامرتکب ہوتاہے منکر کاارتکاب ااس کے لئے آسان ہوجاتاہے اورپھر بغی کا۔
غرض ا س بیان میں ترتیب کو مدنظر رکھ کر انسانی ذہن کو اس طرف منتقل کیا ہے کہ نیکی کرنے میں سب سے چھوٹی نیکی پہلے حاصل ہوتی ہے اوربدی کو ترک کرتے ہوئے سب سے بڑی بدی کو پہلے چھوڑاجاتاہے ۔اس جدوجہد کی مثال سیڑھی کی سی ہے ۔جو انسان نیکی کی عمارت پر چڑھنا چاہے وہ سب سے پہلے نچلے زینہ پر قدم رکھے گا اورپھر ایک ترتیب سے ترقی کرتا ہو ااوپر تک چڑھ جائے گا۔اورجو شخص بدیوں کے مکان پر چڑ ھ چکا ہے اورنیچے اترناچاہتا ہے اسے سب سے پہلا قدم اوپر کے زینہ پر رکھناہو گا۔اورپھر و ہ تدریجاً نیچے آتاجائے گا۔
میں نے اوپر ذکر کیاتھا کہ تیسری خوبی جس کامکمل تعلیم میں پایاجاناضروری ہے یہ ہے کہ اس پر عمل کرنا سب انسانوں کے لیء ممکن ہو ۔یہ خوبی بھی مذکورہ بالا تعلیم میں پائی جاتی ہے ۔جہاں یہ تعلیم نہایت اعلیٰ درجہ کی ہے وہاں اس پر عمل بھی ہردرجہ اورطبقہ کے آدمیوں کے لئے ممکن ہے۔ورنہ توادنیٰ اخلاق کی تعلیم دے کر خاموش ہوجاتی ہے ۔کہ اعلیٰ ترقیا ت کے خواہش مند اس سے تسلی نہ پا سکیں اورنہ اعلیٰ اخلاق کے بیان پر بس کردیتی ہے کہ کمزورانسا ن نیکی سے محروم رہ جائیں ۔بلکہ وہ نیکی اوربدی کے تمام مدارج کو بیا ن کرتی ہے تاکہ بدوںکو بدی چھڑانے میں مدد دے اورنیکوں کی نیکی کے حصول میں اعانت کرے ۔ایک بدی میں ڈو بے ہوئے انسان کو یہ کہنا کہ توایسانیک ہوجا کہ سب دنیا کاسہاراتوہی ہو اورتوسب کے لئے بمنزلہ ماں کے ہوجا ۔ایساہی بے فائدہ ہوگا جیسے ایک الف،ب،پڑھنے والے کوایم ۔اے کاکورس شروع کرادینا ۔اسی طرح ایک اعلیٰ درجہ کے نیک آدمی کویہ کہنا کہ دیکھو بغاوت اورسرکشی نہ کرو اورظلم نہ کروبالکل فضول بات ہوگی ۔جو شرارت میں بڑھاہواہواس سے پہلے بڑی بدیا ں چھڑوائی جائیں تبھی اصلاح ممکن ہے ۔اورجو نیکی میں ترقی کررہاہو اسے صرف باریک گناہوں سے ہوشیار رہنے کی تلقین کرنا کو ئی فائدہ نہیں دے سکتا ۔کیونکہ بد ی کی عام راہوں کوتووہ پہلے ہی چھوڑ چکا ہے ۔اوریہ سب خوبیاں اوپر کی تعلیم میں موجود ہیں ۔وہ بڑی نیکی کی راہیں بھی بتاتی ہے اورچھوٹی نیکی کی بھی ۔اوربڑی بدیوں سے بھی بچاتی ہے اورچھوٹیوں سے بھی ۔اورہر شخص خواہ کسی درجہ کاہواس کو سمجھ سکتاہے اوراس پر عمل بھی کرسکتاہے ۔
یہ نکتہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اس آیت میں تین درجے بدی کے اورتین درجے نیکی کے بیان فرمائے گئے ہیں ۔چونکہ نیچر میں ہمیں یہ قانون رائج معلوم ہوتاہے کہ تکمیل سے پہلے ہرشے کو چھ مدارج طے کرنے پڑتے ہیں ۔اس آیت میں گویا روحانی تکمیل کااسب نصاب بیان کردیاگیا ہے جسے پڑھ کر انسان ساتواں درجہ یعنی کمال کامقام حاصل کرسکتاہے ۔جوبدیوں میں ڈوبے ہوئے لوگ ہیں انہیں پہلی جدوجہد بغی سے بچنے کے لئے کرنی پڑتی ہے ۔اس دلدل سے نکلتاہے تومنکر کاکیچڑ آجاتاہے اورجب منکر کے کیچڑ سے نکلتاہے توفحشاء کے گردوغبارمیں پھنس جاتا ہے ۔جب اس سے نجات پاتاہے تو عدل کے مرغزارکی حدشروع ہوجاتی ہے ۔اسے قطع کرلیتا ہے تواحسان کاچمن آجاتاہے ۔اسے طے کرلیتا ہے توایتا ء ذی القربی کاچشموں والا باغ آجاتاہے اوراس کے آگے جنت ہی جنت ہے ۔اسی مناسبت سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے ۔اس آیت میں بھی ایتاء ذی القربی کو جوماں کے سے سلوک پردلالت کرتا ہے تکمیل کاآخری اورجنت سے پہلا مقام بتایاگیاہے ۔اورجنت کا مقام ذا کر کا ہے جو خداتعالیٰ میں محو ہوجاتا ہے اورخداتعالیٰ اس کے دل میں ڈیراجمالیتاہے اورمحب اورمحبوب دائمی اورنہ ٹوٹنے والے رشتہ میں پروئے جاتے ہیں۔
یہ آیت ہرجمعہ میں خطبہ کے دوسرے حصہ میں پڑھی جاتی ہے اوریہ رواج حضر ت عمر بن عبدالعزیز اموی خلیفہ کے عمل سے شروع ہواہے ۔اس امر اسے ظاہرہے کہ مسلمان ابتداہی سے ا س آیت کی اہمیت کو سمجھتے رہے ہیں ۔عیسائی اس آیت پر بہت چڑتے ہیں اورویری نے تویہاںتک لکھ دیا ہے کہ مسلمان اس تعلیم کو اعلیٰ اعلیٰ کہہ کرپیش کرتے ہیں وہ ہمارے مسیح کی تعلیم سے تواس کامقابلہ کریں جو متی باب۲۲۔۳۷۔۳۹میں بیان ہے جہاں لکھا ہے ’’خداوند اپنے خداسے سارے دل اوراپنی ساری جان اوراپنی ساری عقل سے محبت رکھ ۔بڑااورپہلاحکم یہی ہے اوردوسرااس کی مانند یہ ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنے برابرمحبت رکھ ۔‘‘حالانکہ مسیح کی اس تعلیم پر عیسائیوں کافخر بالکل بے جااورفضول ہے ۔قرآن مجید کی تعلیم کے مقابلہ میں اس تعلیم کو پہلے قد م کی سی حیثیت حاصل ہے ۔
بے شک مسیح نے کہا کہ ’’خداسے اپنے سارے دل اورساری جان اورساری عقل سے محبت رکھ‘‘۔مگرسوال یہ ہے کہ دل کس نے دیا ؟جان کس نے دی ؟عقل کس نے عطافرمائی ؟اللہ نے ۔پس ان کے ساتھ جو بھی محبت کی جائے گی ۔وہ عدل کے مقام سے اوپر نہیں جاسکتی ہاں عدل کالفظ اس فقرہ سے بہت زیادہ وسیع ہے کیونکہ ان چیز وں کے علاوہ اوربھی چیزیں ہیں جن کی قربانی ضروری ہوتی ہے مثلاً احساسات و جذبات ۔جب تک انسان اپنی ہر ایک خواہش ہرایک ارادہ اوردنیا کی ہرچیز سے بڑھ کر خداسے محبت نہ کرے گاتووہ عدل کرنے والا نہیں کہلاسکتا۔بے شک ساری جان سے محبت کرنا اچھی بات ہے مگر کئی لو گ ہیں جو اپنی جان سے بڑھ کر اپنی اولاد سے زیادہ محبت کرتے ہیں اورکئی ایسی طبائع ہیں جو اپنے دل اوراپنی جان کی نسبت مال سے زیادہ پیا رکرتے ہیں۔اورکئی اس فطرت کے ہوتے ہیں جواپنی عزت و ناموس کی خاطراپنی جان تک قربا ن کردینے سے دریغ نہیں کرتے ۔توخالی ساری جان ،سارے دل اورساری عقل کے لفظ کے اند ر ہرقسم کی قربانی اورخداتعالیٰ سے کامل محبت جس کو عدل کالفظ ظاہرکرتاہے نہیں آسکتی ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دوسری جگہ مختلف قسم کے جذبا ت کویوں بیان فرمایا ہے ۔’’قل ان کان اباؤکم واخوانکم وازواجکم وعشیرتکم واموال اقترفتموھاوتجارۃٌ وتخشون کسادھا ومساکن ترضونھا احب الیکم من اللہ ورسولہ وجھادٍ فی سبیلہٖ فتربصواحتی یأتی اللہ بامرہٖ واللہ لایھدی القوم الفاسقین۔’’( توبہ ع ۳)کہہ دے کہ اگرتمہیں اپنے آباؤاجداد یااپنی اولاد یااپنے بھائی یااپنی بیویاں یااپنی قوم اورقبیلہ یااپنے اموال اورتجارتیں خدااوراس کے رسول سے اوراس کی راہ میں جہادسے پیارے ہیں توتم وہ چیز نہیں ہوجوقبول کئے جانے کے لائق ہوپس انتظارکرو یہاں تک کہ خداتعالیٰ کافیصلہ آجائے ۔اللہ تعالیٰ فاسق قوم کوکبھی کامیاب نہیں کرتا۔
دیکھو میںاس میں ہرقسم کے انسانوں کے لئے خداتعالیٰ سے محبت کامعیار بتادیاہے۔بعض لوگ جن احسان کی قدر کامادہ زیادہ ہوتاہے انہیں اپنے ماں باپ سے زیادہ محبت ہوتی ہے ۔قرآن مجید نے ان لوگوں کے لئے فرمایاکہ قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ اگرتم خداکے مقابلہ میں اپنے آباء سے زیادہ محبت کرتے ہو توتم ابھی تک مومن نہیں ۔
بعض لوگوں کے اندر بقائے نسل کاتقاضابہت نمایاں ہوتا ہے اوروہ اپنی اولاد کو سب سے زیادہ پیا رکرتے ہیں ایسے لوگوں کے لئے ’’ابناء کم ‘‘ کالفظ فرماکر اس طرف اشار ہ فرمایا کہ جب تک تم اپنی اولاد سے بھی بڑھ کر خداسے محبت نہ کروگے اس وقت تک تمہارایمان قبولیت کے مقام پر نہیں پہنچ سکتا ۔
پھر کئی لوگوں کو جتھا سب سے پیارالگتاہے ۔ایسے لوگوں کے لئے’’اخوانکم‘‘کالفظ رکھ کر فرمایاکہ جبتک تم اپنے بھائیوںسے بھی زیادہ خداتعالیٰ سے محبت نہ کروتم اللہ تعالیٰ کاقرب حاصل نہیں کرسکتے ۔
کئی ایسے ہوتے ہیں کہ جن پر شہوت کاغلبہ ہوتاہے۔اورانہیں اپنی بیویاں دنیا میں سب سے زیادہ پیاری ہوتی ہیں ۔ایسے لوگوں کے لئے ’’ازواجکم‘‘کالفظ رکھا گیا اوربتایاگیا کہ اس صورت میں جب تک تم اپنی بیویوں کی محبت کو اللہ تعالیٰ کی محبت کے تابع نہ کروگے تم اللہ تعالیٰ کی رضاحاصل نہیں کرسکتے ۔
بعض لوگ اپنے قبیلے اورخاندان کو سب چیزوں پر ترجیح دیتے ہیں ان کے لئے ’’عشیرتکم‘‘کالفظ فرماکرتوجہ دلائی کہ جب تک اللہ تعالیٰ کو اپنے قبیلہ سے بھی زیادہ نہ چاہوگے اللہ تعالیٰ کاقرب حاصل نہیں کرسکتے ۔
بعض ایسے بخیل ہوتے ہیں کہ جنہیں روپیہ اپنی اولاد اورجان سے زیادہ عزیزہوتاہے ۔بیسیوں ایسے لوگ دیکھے گئے ہیں جنہوں نے باوجود مالدارہونے کے اپنی اولاد کے لئے کوئی دوائی تک منگاکرنہ دی اورو ہ ان کے سامنے تڑپ تڑپ کرمرگئی ۔توایسے لوگوں کے لئے فرمایاکہ اپنے اموال کو بھی خداتعالیٰ کی محبت پر مقدم نہ رکھو ورنہ کبھی نیکی کا اعلیٰ مقام نہ پاسکو گے ۔
بعض لوگ اس طبیعت کے ہوتے ہیں کہ و ہ اپنے ملک اوروطن کی خدمت کو اپنی ہرایک چیز پر مقدم سمجھتے ہیں اوران کانعرہ ہی حُبّ الوطن من الایمان ہواکرتاہے ۔جیساکہ ہمارے ملک میں ہجرت کے زمانہ میں ہزاروں لوگ اپنی اولاد۔جائداد اوراموال چھوڑ کر ملک کی محبت کے نام پر ملک بدر ہوگئے ۔ایسے لوگوں کے لئے فرمایاکہ تمہیں اپنے وطن اورگھر خداسے زیادہ پیارے ہیں توتم ابھی مومن نہیں ہو۔
قرآن کریم نے عد ل کی یہ مختصرسی تشریح فرمائی ہے اب اس تعریف کے مقابلہ میں ’’سارے دل ساری عقل اورساری جان‘‘والی بات کیا حقیقت رکھتی ہے ؟
متی کے اس حکم کادوسراحصہ یہ ہے ۔’’دوسرااس کی مانند یہ ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ۔’’اول تویہی خلاف عقل ہے کہ اس حکم کو پہلے کی مانند قرار دیاجائے بے شک یہ ضروری حکم ہے مگر اسے پہلے حکم کی مانند قرار نہیں دیاجاسکتا ۔خداتعالیٰ بہرحال مقدم ہے ۔مانند ماننے کاتویہ مطلب ہے کہ اگر کبھی خداتعالیٰ کاحکم اورپڑوسی کی خواہش ٹکراجائیں توہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں اورکہیں کہ یہ دونوں پہلو برابر ہیں یہ بھی ویساہی پیاراہے اوروہ بھی ۔ایک کودوسرے پر کس طرح ترجیح دی جائے ۔
اورپھر یہ حکم بھی عدل سے اوپر نہیں جاتا۔کیونکہ اس میں ہرشخص کو یہ حکم دیاگیا ہے کہ وہ اپنے پڑوسی سے اپنے جیسی محبت کرے ۔توگویایہ وہ پہلا مقام ہے جس کواسلام نے عدل قرار دیا ہے یازیادہ سے زیادہ احسان کا مقام ہے ۔مگر اسلام اس مقام سے انسان کو اوپر لے جاتاہے اورفرماتا ہے کہ نہ صرف تم عدل کرو اورنہ صرف احسان کرو بلکہ تم بنی نوع انسان سے ایسا سلوک کرو جس میں کسی قسم کی ریاء یابدلے کی خواہش کاشائبہ بھی نہ ہو۔جس طرح ماں اپنے بچہ سے محبت کرتی ہے وہ اُسے اپنے برابرنہیں چاہتی بلکہ اپنے آپ کو اس کے آرام کے لئے قربان کردیتی ہے ۔
اس ک علاوہ قرآن کریم نے اس آیت میں نیکی اوربدی کے جومدارج بیان فرمائے ہیں اورپھر جو ان کی ترتیب بیان فرما کر ان سے بچنے کی راہنمائی کی ہے وہ انجیل میں کہا ں؟پھر قرآن مجید نے اس حکم میں مختلف فطرتوں کالحاظ رکھتے ہوئے ایک جامع تعلیم دی ہے ۔مگرانجیل میں ان سب باتوں وکو نظرانداز کردیاگیاہے ۔پس قرآن کریم کی تعلیم ہی جامع ۔کامل۔قابل عمل اوراعلیٰ ہے ۔
واوفوابعھداللہ اذاعاھدثم ولاتنقضواالایمان بعد توکیدھا
اور(چاہیئے کہ )اللہ(تعالیٰ)کے (ساتھ کئے ہوئے اپنے )عہد کو جب تم نے (اس سے کو ئی )عہد کیا ہوپوراکر و اورقسمو ںکوانہیں پختہ
وقد جعلتم اللہ علیکم کفیلا ۔ ان اللہ یعلم ماتفعلون ٭
کرنے کے بعد جبکہ تم نے اللہ(تعالی)کو (اس کی قسم کھا کر )اپنا ضامن بنالیا ہے مت توڑو۔جوکچھ تم کرتے ہو اللہ(تعالیٰ اُسے )یقینا جانتاہے ۹۲؎
۹۲؎ حل لغات ۔کَفِیْلٌ:کَفَلَ الرجلَ والصغیرَ (کفلًا وکفالۃً)عالہٗ وانفقَ علیہ وقامَ بہٖ۔کسی کی پرورش کی اوراس کے اخراجات کواٹھایا ۔اس سے اسم فاعل کَافِلٌ ہے۔کفل بالمالِ (کفلا وکفولاً)ضَمنَہٗ۔کسی مال کاضامن ہو ا۔اوراس سے صیغہ صفت کفیل آتاہے کفیل کے معنے ضامن کے ہیں ۔کافل اورکفیل ایک ہی معنے رکھتے ہیں ۔نیز لفظ کفیل مذکرومؤنث دونوںکے لئے استعمال ہوتاہے کہتے ہیں۔رجلٌ کفیلٌ۔وامراۃٌ کفیلٌ۔اورلیثؔنے کفیل اورکافل کے درمیان فرق کیا ہے ۔کہتاہے ۔کہ کفیل ضامن کو کہتے ہیں اورکافل وہ شخص ہوتا ہے جو کسی کے اخراجات برداشت کرتاہے (اقرب)
تفسیر ۔بِعَھْدِ اللہ۔عہداللہ سے کیا مراد ہے ۔اس کی تشریح دوسری جگہ قرآن شریف میں آئی ہے (۱)اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔
’’اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَایُبَایِعُوْنَ اللہَ یَدُاللہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ فَمَنْ نَکَثَ فَاِنَّمَایَنْکُثُ عَلیٰ نَفْسِہٖ وَمَنْ اَوْفٰی بِمَاعَاھَدَ عَلَیْہُ اللہَ فَسَیُؤْتِیْہِ اَجْراً عَظِیْمًا‘‘ (الفتح ع۱)وہ لوگ جوتیری بیعت کرتے ہیں وہ یقینا اللہ کی بیعت کرتے ہیں اوراللہ کی مدد ان کے ساتھ ہوتی ہے ۔پھر جو شخص اس بیعت کوتوڑ دیتاہے وہ اپنے نفس کانقصان کرتاہے اورجواس ’عہداللہ’ کوپوراکرتاہے تواس کو خداتعالیٰ اجرعظیم دے گا۔
اس آیت سے معلو م ہواکہ ’’عہداللہ ‘‘ سے مراد اسلام ہے ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ کی بیعت مراد ہوتی تھی اورآپ کے بعد اسلام میں داخل ہونا
(۲)اللہ تعالیٰ کفار کاقول نقل کرتے ہوئے فرماتا ہے وَقَالَتْ طَّآئِفَۃٌ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اٰمِنُوْا بِالَّذِیْ اُنْزِلَ الآیہ۔کہ کفار کہاکرتے تھے کہ تم صبح کے وقت مسلمان بن جائو اورشام کو مرتد ہوجانا ۔اسی تسلسل کے ضمن میں چند آیات کے بعد فرماتا ہے ۔ بَلیٰ مَنْ اَوْفٰی بِعَھْدِہٖ وَاتَّقٰی فَاِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ۔اِنَّ الَّذِیْنَ یَشْتَرُوْنَ بِعَھْدِ اللّٰہِ وَاَیْمَانِھِمْ ثَمَنًاقَلِیْلًا اُولٰٓئِکَ لَاخَلَاقَ لَھُمْ فِیْ الْاٰخِرَۃِ وَلَایُکَلِّمُہُمُ اللّٰہُ وَلَایَنْظُرُ اِلَیْھِمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَایُزَکِّیْہِمْ وَلَھُمْ عَھَابٌ اَلِیْمٌ(اٰل عمرانع۸)یوں نہیں جو تم کہتے ہو بلکہ بات یوں ہے کہ جواپنے عہد کوپوراکرے اورتقویٰ سے کام لے تو(اس کاانجام اچھا ہوگاکیونکہ)اللہ متقیوں سے پیارکرتاہے ۔جولوگ اللہ تعالیٰ کے عہد اوراپنی قسموں کے بدلہ میں دنیوی فائدہ اٹھاتے ہیں یقیناان کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہ ہوگااوراللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے کلام نہ کرے گااورنہ قیامت کے دن ان کی طرف(محبت سے)دیکھے گا۔اورنہ انہیں پاک قرار دے گااورانہی دردناک عذا ب ملے گا۔
ان آیات سے بھی ظاہر ہے کہ ’’عہداللہ‘‘سے مراداسلام قبول کرناہے ۔
(۳)پھر فرمایا ہے وَلَقَدْ کَانُوْا عَاھَدُوْا اللہَ مِنْ قَبْلُ لَایُوَلَّوْنَ الْاَدْبَارَ وَکَانَ عَھْدُاللّٰہِ مَسْئُوْلًا۔ فرمایا کہ ان لوگوں نے لایُوَلَّوْنَ الْاَدْبَار کاعہد کیا تھا مگراس پورانہ کیا ۔اوراللہ تعالیٰ سے جوعہد کئے جاتے ہیں ان ک توڑنے پرضرورپرسش ہوتی ہے ۔لیکن جب ہم قرآن کریم میں دیکھتے ہیں کہ ان کا یہ عہد کہا ں مذکور ہے تومنافقوں کی طرف سے اس کا ذکر قرآ ن کریم میں کہیں نہیں ملتا۔ہاں اللہ تعالیٰ کاحکم ملتاہے ۔چنانچہ سورۃ انفال میں ہے ۔یَاْاَیّْھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْااِذَالَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْازَحْفًا فَلَا تُوَلُّوْھُمُ الْاَدْبَّرَ(انفال ع۲)کہ اے مومنو جب کفار سے تمہارامقابلہ ایسی حالت میں ہو کہ تم مل کر حملہ کرنے لگے ہوتوکبھی پیٹھ نہ پھیراکرو۔یہ اللہ تعالیٰ کااپنا حکم ہے منافقوں کاکوئی ایساعہد قرآن وحدیث میں مذکورنہیں۔پس معلو م ہواکہ ’’عہداللہ‘‘سے مراد وہی بیعت والاعہد تھا جس میں سب نیک باتوں کے ماننے کاعہد کیا گیا تھا ۔اورسب احکام الٰہی اس میں شامل تھے ۔چنانچہ سور ۃ توبہ میں ا س عہد کی تشریح یوں کی گئی ہے ۔ اِنَّ اللّٰہَ اشْتَریٰ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَہُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الجَنَّۃَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّافِیْ التَّوْرَاۃِ وَالْاِنْجِیْلِ وَالْقُرْاٰنِ ط وَمِنْ اَوْفیٰ بِعَھْدِہٖ مِنَ اللّٰہِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِکُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِہٖ وَذَالِکَ ھُوَالْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۔(توبہ ع ۱۴)کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی جانیں اوران کے اموال اس وعد ہ کے مقابل کہ انہیں جنت ملے گی خرید لئے ہیں ۔چنانچہ اس سودے کیوجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کے دین کے لئے جنگ کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں کبھی تو وہ دشمن کو قتل دیتے ہیں کبھی خود مارے جاتے ہیں ۔یہ جنت دینے کاوعدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک پکا وعد ہ ہے جوتورات وانجیل اورقرآن سب میں بیان ہواہے ۔اورجو اللہ تعالیٰ سے عہد کرکے اسے پوراکرتے ہیں ہم انہیں کہتے ہیں کہ اس نفع مند بیع پر جو تم نے کی ہے خوش ہوجائو اوریہ بیع ایک بہت بڑی کامیابی ہے ۔
غرض قرآن مجید سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ’’عہداللہ ‘‘سے مراد اسلام ہی ہے اوراذاعاھد تم کے معنے یہی ہیں کہ جب تم مسلمان ہوئے ہو تواسلام کی تعلیم پرپورے طورسے عمل کرو۔چونکہ اسلام کی تعلیم کاخلاصہ اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ والی آیت میں بتایاگیاتھا اس لئے اس کے بیان کرنے کے بعد اس آیت میں یہ تاکید کی گئی ہے کہ اب تم لوگ اس تعلیم کے مطابق عملدرآمد کرو۔
اس آیت کے پہلے حصہ میں یہ بتایا ہے کہ خداتعالیٰ کے ساتھ تم جو عہد کرتے ہو ۔اس کو بھی پوراکرو۔اورجوتمہارے آپس میں معاہدات ہوتے ہیں ان کو بھی مت توڑو۔یعنی جب تم خداتعالیٰ کوضامن کرکے کسی انسان سے معاہد ہ کرو۔توا س کو ضرو ر پوراکرو ۔کیونکہ تم خداتعالیٰ کو ضامن مقررکرچکے ہو ۔پس خداکانام لے کر کئے ہوئے معاہد ہ کو اگر تم توڑوگے توگویا خداتعالیٰ کو بدنام کرنے والے بنوگے ۔اورخداتعالیٰ کوغیرت آئے گی اوراسے تمہیں سزادینی پڑے گی ۔
اس آیت میں پھر اسی مضمون کاقائم رکھا گیا ہے جو پہلی آیت میں بیان ہواتھا ۔یعنی حقوق اللہ اورحقوق العباد دونوں کوپوراکرنے کا حکم دیاگیاہے۔گویااسلام اورعہدالٰہی اللہ تعالیٰ اوربندوں کے صحیح تعلق پیداکرنے کے ودنام ہیں ۔
یہاں یہ جو فرمایا کہ اس عہد کو پوراکرو جس میں تم نے اللہ تعالیٰ کو ضامن مقرر کیاہو اس کا یہ مطلب نہیں کہ دوسرے عہد پورے نہ کرو توکوئی حرج نہیں ۔کیونکہ خدائی عہد میں سچ بولنا شامل ہے ۔بلکہ ان الفاظ سے اس مضمون کی طرف اشارہ کیاہے کہ انہی عہدوں کی پابندی انسان پر فرض ہے کہ جن کاضامن اللہ تعالیٰ ہو ۔جن عہدوں کاضامن اللہ تعالیٰ نہ ہو ان کاپوراکرنا غیرضروری ہی نہیں بلکہ گناہ ہے ۔مطلب یہ کہ ہروہ عہدجو انصاف اورسچائی پر مبنی ہو اس کا اللہ تعالیٰ ضامن ہوتاہے ۔کیونکہ وہ ہرمومن سے سچائی کاعہد لے چکا ہے اورجو شخص اس عہد کے بعد کسی انسان سے کسی جائزامرکااقرار کرتا ہے وہ اس عہد کے ساتھ گویا خداتعالیٰ سے بھی ایک عہد باندھتاہے اورخداتعالیٰ ا س عہد کاضامن ہوجاتاہے ۔لیکن جو عہد کسی ناپاک امریاظلم کے متعلق ہو ا س کاپوراکرناضرور ی نہیں ۔کیونکہ وہ گناہ اورناپاکی کے لئے ضامن نہیں ہوتا۔غرض اللہ تعالیٰ کے ضامن ہونے سے اس طرف اشارہ نہیں کیا کہ جن عہدوں پرقسم کھائو صرف انہیں پوراکرو۔بلکہ اس مضمون کی طرف اشار ہ کیا ہے کہ سب وہ عہد جو عدل ،احسان اورایتاء ذی القربیٰ کے مطابق ہوں انہیں پوراکرو اوروہ عہد جن میں فحشاء ،منکر اوربغی کارنگ پایا جاتاہو۔انہیں پورانہ کرو۔ان کے بارہ میں تم سے کوئی سوال نہ ہوگا۔کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کاضامن نہیں ۔بلکہ اُن سے منع کرتا ہے ۔مذکورہ بالا حکم میں ان لوگوں کے لئے ہدایت ہے جو اگر کسی ناجائز امر پرقسم کھا لیتے ہیں توعہد کی پابندی کے نام سے اس پر مصر رہتے ہیں ۔
ولاتکونو ا کالتی نقضت غزلھا من بعد قوۃ انکاثا
اور تم اس ڈر سے کہ کوئی قوم ایسی(نہ)ہوجائے جو (کسی)دوسری قوم سے زیادہ طاقتورہو اپنی قسموں کو آپ میں دھوکا کرنے کا ذریعہ
تتخذون ایمانکم دخلا بینکم ان تکون
بناتے ہوئے اس عورت کی طرح مت بنو جس نے اپنا(محنت سے کاتاہوا)سوت (اس کے )مضبوط ہوچکنے
امۃ ھی اربیٰ من امۃ ط انما یبلوکم اللہ بہ
کے بعد توڑ کر پارہ پارہ کردیاتھا اس (ذریعہ )سے اللہ (تعالیٰ عنقریب)تمہاراامتحان لے گا
ولیبین لکم یوم القیٰمۃ ماکنتم فیہ تختلفون٭
اورجس با ت کے متعلق تم آپس میں اختلاف کرتے رہے ہوگے اس (کی حقیقت )کووہ قیامت کے دن ضرور تمہارے سامنے کھول(کر رکھ )دے گا ۹۳؎
۹۳؎ حل لغا ت ۔نَقَضَتْ: نَقَضَ سے مؤنث کاصیغہ ہے ۔اورنقض البنائَ کے معنے ہیں ۔ھَدَمَہٗ۔عمارت کو گرادیا ۔نَقضَ العظمَ:کسرَہ۔ہڈی کو توڑ دیا ۔نقض الحبلَ:حلّہ۔رسہ کے بل کو کھول دیا ۔(اقرب) وغزلھا :غزلت المرأۃُ القطنُ والصّوفَ: مدَّتْہُ وفَتَلَتْہُ خیطانًا۔عورت نے سُوت کاتا ۔الغزل مصدر ہے ۔اورغزل سُوت کوبھی کہتے ہیں (اقرب)انکاث:نِکْثٌ کی جمع ہے ۔النکث کے معنے ہیںمَانقض من الاکسیۃ والاخْبِیَۃِ لیغزل ثانیۃً:کچے تاگے ۔اس کی جمع انکاث آتی ہے (اقرب)دَخَلًا :الدَّخَلُ کے معنے ہیں مادَاخلک من فسادٍ فی العقل اوفی الجسم ۔جسم اورعقل میںخرابی ۔الخدیعۃُ والمکرُ۔دھوکااورفریب اورآیت لاتتّخذواایمانکم دخلاً بینکم میں انہی معنوں میں آیاہے ۔اوروہاں پر مفعول لہٗ ہے (اقرب)
اَرْبٰی :رَبَی سے اسم تفضیل ہے اورربا(یربو)المال َ کے معنے ہیں زادونما۔مال زیادہ ہوگیااوربڑھ گیا۔اَرْبَی علیہ کذا۔یعنی کسی سے آگے بڑھ گیا(اقرب)پس اَنْ تَکُوْنَ اُمَّۃٌ ھِیَ اربی مِنْ اُمَّۃٍ کے معنے ہوں گے ۔کہ ایک قوم دوسری سے زیاد ہ طاقتورہے ۔یَبْلُوکم۔یبلُو۔بلَی سے مضارع واحد مذکر غائب کاصیغہ ہے اوربَلَاہُ یَبْلُوْہُ بَلائً کے معنے ہیں ۔جرّبَہ واختَبَرہ۔اس کاامتحان لیا (اقرب)پس یَبلُوکم کے معنے ہوں گے کہ وہ تمہاراامتحان کرتا ہے ۔
تفسیر ۔اس آیت کو ایک نیامضمون بھی قرار دیاجاسکتاہے اورپچھلی آیت کے مضمون کا تسلسل بھی قراردیاجاسکتاہے ۔اگر پہلی آیت کے مضمون کوہی جاری سمجھا جائے تواس کے معنے یہ ہوں گے کہ آپس کے معاہدات کوپوری طر ح نبھائو۔اگر تم ان عہدوں کوتوڑو گے توخداتعالیٰ نے جوتمہاری مضبو ط جماعت بنادی ہے وہ تباہ ہوجائے گی اورآپس کااعتبار جاتا رہے گا۔
معاہدات کی پابندی قومی اتحاد کے قیام کے لئے اشد ضروری ہوتی ہے ۔کیونکہ جماعت کاقیام ایک دوسرے سے حسن سلوک پر مبنی ہوتاہے ۔ اورحسن سلوک اس وقت تک رہتا ہے جب تک لوگ معاہدات کی پابند ی کریں۔جب لو گ معاہدات پو رے نہ کریں ۔توپہلے بددلی اوراس کے بعد بد ظنی پیداہوجاتی ہے اورایک شخص کے برے عمل کے نتیجہ میں دوسرے سینکڑوں آدمی قومی نظام کے فوائد سے محروم رہ جاتے ہیں ۔پس چاہیئے کہ انسان جس طر ح بھی ہوسکے اپنے وعدوں کو پوراکرے تاکہ اعتبارقائم ہو اورلوگ برضاورغبت ایک دوسرے کی امداد کے لئے تیا ر ہوں اورقوم ترقی کرسکے ۔
انفرادی عہدکے علاوہ ایک قومی عہد بھی ہوتاہے یعنی افراد ایک شخص کے ہاتھ پر قومی ترقی کے لئے عہد کرتے ہیں جس کانام خلافت ہے ۔وہ عہد بھی اس کے اندر شامل ہے اوراس آیت میں اس کی طرف بھی اشارہ پایاجاتاہے ۔فرماتا ہے کہ خداتعالیٰ نے تمہاری ایک جماعت بنادی ہے اورایک نظام قائم کردیا ہے ۔اورتم نے ا س نظام کی پابندی کی قسمیں کھائی ہیں ۔اب اس کی پابندی کرتے رہنا ۔ورنہ نتیجہ یہ ہوگاکہ تمہاری قربانیوں سے جورعب اسلام کاقائم ہواہے وہ جاتارہے گا۔اورپھر نئے سرے سے محنت کرنی پڑے گی۔یہ ایک بہت بڑاسیاسی نکتہ بتایاہے چند آدمیوں کے تفرقہ سے سب نظام برباد ہوجاتاہے اورقوم کی محنت اکارت جاتی ہے اورنئے سرے سے محنت اورقربانی کی ضرورت پیش آتی ہے ۔مگر اُدھڑی ہو ئی چیزبھی پھر اس طرح سے نہیں جڑتی جیسے کہ نئی ۔اورپھٹے ہوئے دل پھر ا س طرح نہیں ملتے جس طرح کہ وہ ہمیشہ متصل رہے ۔اس لئے اس عہد کے قیام کے لئے نہایت سخت کوشش کی ضرورت ہے ۔
ا س آیت کے الفاظ سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ اس میں غیر قوموں کے ساتھ معاہدات کا بھی ذکر ہے ۔اس مضمون کے لحاظ سے اس آیت کو ایک مستقل مضمون قراردینا ہوگا ۔یعنی لاتکونواسے نیامضمون شروع سمجھا جائے گا ۔اورمطلب یہ ہو گا کہ جس طر ح اللہ تعالیٰ کے عہد اوراپنے اندرونی عہد کی پابند ی لازمی ہے ۔اسی طرح دوسری اقوام کے ساتھ جو عہدکئے گئے ہوں ان کی پابند ی بھی ضروری ہے ۔ان معاہدات کی نگہداشت رکھو ورنہ دنیا کاامن برباد ہوجائے گا۔چنانچہ نَقَضَتْ غَزَلَھَامِنْ بَعْدِ قُوَّۃٍ سے بھی یہی مراد ہے کہ امن کے قائم ہونے کے بعد فساد کی صورت پیدانہ کرو
اس صورت میں اس آیت کے تین معنے ہوسکتے ہیں ((۱)یہ جائز نہیں کہ تم کسی دوسری قوم سے اس لئے صلح کرلو کہ ابھی وہ طاقتور ہے تم اس کامقابلہ نہیں کرسکتے ۔معاہدہ کے بعد جب وہ تمہاری طرف سے غافل ہوجائے گی توتم اند رہی اندر تیاری کرکے ایک د ن اس پر حملہ کرکے اسے تباہ کردوگے ۔سیاسی دنیا ا س قسم کی حرکات ہمیشہ کرتی آئی ہے ۔اسلام کی بنیاد چونکہ عدل،احسان اورایتاء ذی القربیٰ پرہے وہ اس فعل کو خواہ وہ دشمن اسلام کے مقابل پر کیا جائے ناپسند کرتااوراس سے منع فرماتاہے ۔
(۲)دوسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ ایسے معاہدات نہیں کرنے چاہئیں کہ جن کی غرض یہ ہو کہ کسی کمزورقوم کے ساتھ بظاہر تومعاہدہ کیا جائے اوردراصل غرض اس کے ملک پر قبضہ کرنے کی ہو ۔جیسا کہ یورپین قومیں آج کل کررہی ہیں ۔
(۳)تیسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ ایسے معاہدات ہرگز جائز نہیں جن کی غرض معاہد قوم کو کمزورکرناہو ۔چاہیئے کہ جس سے صلح کرو پوری صلح کرو ۔
اس آیت میں کس قدر زبردست اخلاقی تعلیم دی ہے اوربتایا ہے کہ قومی برتری بے شک اچھی چیز ہے لیکن دھوکے اورفریب سے اسکاحصو ل ہرگز جائز نہیں ۔معاہدات کی غرض قیام امن ہوناچاہیئے۔نہ کہ دوسرے کا نقصان یا فریب دہی ۔
اس کے مقابل میں دیکھو یورپ آج کیا کررہا ہے ۔معاہدات کرکے کمزورقوموں کو تباہ کیا جاتا ہے ۔جیسے چین میں ہوا۔مصر میں ہوا۔ترکی میں ہوااورایران میں ہوا۔اورایک زمانہ میں ہندوستان میں بھی ہوچکا ہے ۔اورآجکل پھر پولینڈ۔فرانس ۔فن لینڈ۔ناروے ۔رومانیہ ۔چیکوسلواکیہ وغیرہ ممالک سے ایسے ہی واقعات پیش آرہے ہیں
غرض اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مسلمانوںکو حکم دیا ہے کہ :۔
(۱)کوئی معاہد ہ اس نیت سے نہ کیا جائے جس کامقصد کسی دوسری طاقت کودھوکا دے کرکمزورکرنا ہو ۔
(۲)کسی کمزورقوم سے کو ئی ایسا معاہدہ نہ کیاجائے جس کامقصد یہ ہو کہ اس قوم کو اس معاہدہ کے پیچ میں لاکر اپنے ماتحت کرلیا جائے ۔
(۳)کوئی معاہد ہ اس نیت سے نہ کیاجائے جس کامقصد کسی دوسری طاقت کو ترقی سے روکنا ہو ۔قیام امن کے لئے کیا ہی لطیف تعلیم دی ہے ۔اگر اس کی پابندی کی جائے توتما م فسادات یکدم مٹ سکتے ہیں ۔اتحادیوںاورکی سابق عالمگیراورموجودہ لڑائی ایسے ہی معاہدات کے نتیجہ میں پیداہوئی اورہورہی ہے ۔معاہدہ وارنسائی نہ ہوتا تویہ نئی جنگ بھی نہ ہوتی قرآن کریم فرماتا ہے کہ ایسے معاہدات جائز ہی نہیں ۔معاہد ہ نیک نیتی پر مبنی ہوناچاہیئے اوراس کاواحد مقصد قیام امن ہوناچاہیئے۔
اِنَّمَا یَبْلُوْکُمُ اللہ بہٖ میں اللہ تعالیٰ نے بتایاہے کہ اے مسلمانو!یہ مواقع بطورامتحان آتے ہیں اللہ تعالیٰ دیکھے گاکہ تم طاقت پا کر اسلام کی اخلاقی تعلیم پر کس طرح کاربند رہتے ہو اوردنیا کی ترقیات تمہیں کہیں دوسری اقوام کے نقش قدم پر تونہیں چلادیتیں۔
یہ مضمون قرآن مجید کی سچائی کاکتنا بڑاثبوت ہے اواسلام کی برتری کی کیسی عظیم الشان دلیل ہے ۔ابھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ ہی میں تشریف رکھتے ہیں اورمسلمان ایک چپہ بھر زمین کے بھی مالک نہیں ۔مگر اس شان اورعظمت کے ساتھ ایک زبردست حکومت کے احکا م بیان ہورہے ہیں ۔اورپھر ایسے رنگ میں کہ ہرعقلمند اورشریف انسان انہیں سن کر اس تعلیم کی برتری کو تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔کیایہ سچ نہیں کہ آ ج بھی جبکہ تیرہ سوسال گذر چکے ہیں اس کلام کی سچائی ظاہرہورہی ہے ۔آج کل کے فسادات اورقوموں کی بے چینیا ں صرف ان احکام کو نظر انداز کردینے کی وجہ سے ہی پیداہورہی ہیں۔
ولوشاء اللہ لجعلکم امۃواحدۃولکن یضل من یشاء
اوراگراللہ (تعالیٰ)اپنی (ہی )مشیت نافذ کرتا تووہ تم(سب)کو ایک ہی جماعت بنایا ۔لیکن(وہ ایسانہیں کرتا۔بلکہ)جوشخص (گمراہی کو)
ویھدی من یشاء ط ولتسئلن عماکنتم تعملون ٭
کوچاہتاہے اسے وہ گمراہ ہی اورجو (ہدایت کو )چاہتاہے اسے وہ ہدایت دیتا ہے اورجوکچھ تم کیاکرتے ہو ا سکی بابت (قیامت کے دن ) تم سے پوچھا جائے گا ۹۴؎
۹۴؎ تفسیر ۔یہاں سوال ہوسکتاتھاکہ تعلیم تویہ بہت اعلیٰ ہے مگراللہ تعالیٰ نے ا س تعلیم کو جبراً کیوں نہ جاری کیا کہ فسادات سے دنیا محفوظ ہوجاتی ۔اس بارہ میں فرماتاہے کہ بے شک اگراللہ تعالیٰ اپنی مشیت جاری کرتا توایسا ہی کرتا ۔لیکن چونکہ انسان کومقدرت دے کر اس کاامتحان لینامقصود ہے اس لئے جو گمراہ ہوناچاہتاہے خداتعالیٰ اسے گمراہ کردیتاہے ۔اورجو مومن بنناچاہتاہے ا سکی راہنمائی ایمان کی طرف کرتا ہے اوراسکی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے اعما ل کاجواب دہ بنایا ہے ۔اوریہ امر جائز نہیں جب تک اسے قدرت دے کر آزادنہ چھوڑاگیاہو ۔تاوہ اپنی مرضی سے ہدایت کایاگمراہی کا جوراستہ بھی پسند کرے اختیارکرلے ۔
اس آیت میں مسلمانوں کو بھی نصیحت کی گئی ہے کہ ممکن ہے تمہارے دل میں یہ خیال پیداہوکہ ہم ایسے معاہدات اسلام کے فائدہ کے لئے کریں گے پھر وہ کیوں ناجائز ہونے لگے اورفرماتا ہے کہ ایسے معاہدات بہرحال ناجائز ہیں خواہ اسلام کی تائید کے لئے ہی کیوں نہ ہوں۔ کیونکہ اگر ساری دنیا کا ایک طریق پر آجا نا تمام امور انصاف پرمقدم ہوتاتواللہ تعالیٰ خود ہی ایسا کرسکتا تھا۔وہ تم کو گناہ میں ملوث کیوں کرتا ۔ پس سب دنیا کا اسلام پر جمع کرنابھی ایسامقصدنہیں جس کے لئے یہ طریق اختیار کرناجائز ہو۔غرض اس آیت میں یہ بتایاگیا ہے کہ جوقوم بھی جبر سے اورتعدّی سے دنیا کو ایک کرنا چاہے گی وہ کبھی کامیاب نہ ہوگی ۔اوراس کے ان اعمال کے متعلق اسے پوچھا جائے گا یعنی اس کی اس کو سزاملے گی ۔
یہ ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ بغیر رضامندی کے زیادہ دیر تک غیر اقوام کسی قوم کے ماتحت نہیں رہ سکتیں اورجوقومیں دوسری قوموں کو غلام بنا کر رکھنا چاہتی ہیں آخر اس غلامی کا نتیجہ خود ان اقوام کے ہی خلاف نکلتا ہے اوران اقوام کے اخلاق بگڑجاتے ہیں ۔مسلمانوں کی تباہی کی بڑی وجہ یہی تھی ۔ان کی آئندہ نسلیں گھرکے غلاموں ہی سے اخلاق سیکھتی تھیں اوراسی وجہ سے ہوتے ہوتے آخر کا ران کے اخلاق غلاموں کے سے ہوگئے ۔اگر وہ قرآنی احکام پر عمل کرکے جلد سے جلد غلامی کو مٹادیتے توکبھی یہ دن دیکھناانہیں نصیب نہ ہوتا۔ان کی تباہی گویا وَلَتُسْئَلُنَّ کاایک درد ناک نظار ہ تھی ۔
ولاتتخذواایمانکم دخلا بینکم فتزل قدم بعد ثبوتھاو
اورتم اپنی قسموں کو آپس میں فریب کرنے کاذریعہ مت بنائو۔ورنہ(تمہارا)قدم بعد اس کے کہ وہ(خوب مضبوطی سے )جم چکا ہو(پھر )
تذوقواالسوء بما صددتم عن سبیل اللہ ۔ ولکم عذاب عظیم ٭
پھسل جائے گااورتم اس بدی کا مزہ چکھو گے کیونکہ تم نے (اسطرح سے اورلوگوں کوبھی)اللہ(تعالیٰ)کی راہ سے روکا اورتم پر بڑاعذاب( نازل)ہوگا ۹۵؎
۹۵؎ تفسیر ۔اس آیت میں لَاتَتَّخِذُوْا اَیْمَانَکُمْ کے الفاظ کو دہرایا ہے ۔اس میں یہ بتانامقصود ہے کہ گومعاہدات کی بنیاد بدنیتی پر رکھنا اورمعاہدہ توڑنے کی نیت سے کرنا اصولاً بھی براہے لیکن مسلمانوںکے لئے خصوصاً براہے کیونکہ مسلمان دین حق کے حامل ہیں۔ان کے خرااب رویہ کو دیکھ کر خواہ وہ سیاسی معاملات میں ہی کیوں نہ ہو لوگ دین سے متنفر ہاجائیں گے ۔اورخود مسلمانوںکے حق میں بھی یہ اچھا نہ ہوگا۔کیونکہ اس قسم کی باتوں سے وہ کمزو رہوجائیں گے اوران میں اضمحلال پیداہوجائے گا ۔
تَذُوْقُوالسُّوٓء میں اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے۔کہ اگر تم معاہدات توڑوگے توتم بھی دنیا کے فائدہ کی خاطر دین کوبھی نقصان پہنچائو گے ۔
یہ جو فرمایا کہ ایک قد م قائم ہونے کے بعد پھسل جائے گا۔اس میں قدم سے مراد مسلمانو ں کی حکومت کااستحکام ہے اورقدم کی تنکیر کے اظہار کے لئے اوراس میں مسلمانوں کی حکومت کے قیام کی بشارت ہے ۔
ان آیات میں جو معاہدات پر اس قدر زوردیا گیا ہے ۔اسمیں اس امر کی خبر دی گئی ہے کہ مسلمان ساری دنیا پرچھاجائیں گے ۔کیونکہ جس قوم کے معاہدات توڑنے سے دنیا میں فساد برپاہوجاتاہے وہ وہی قوم ہوتی ہے جواپنے زمانہ میں سب اقوام پر غالب ہو ۔ورنہ کمزور اقوام کو معاہدہ توڑنے کی جرأت نہیں ہوسکتی اورنہ ان کے معاہدہ توڑنے سے دنیاپر کوئی زلزلہ آتا ہے ۔پس اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس عظمت کی خبر دیتے ہوئے نصیحت فرماتا ہے کہ تم اپنے معاہدات کو اچھی طرح بناہنا اورسمجھ سوچ کرمعاہدات کرنا ۔
افسوس ابتدائی زمانہ کے بعد مسلمانوں نے اس راز کونہ سمجھا اورتباہ ہوگئے ۔ایک زمانہ تھا کہ جب مسلمان کالفظ مجسم اعتبار سمجھاجاتاتھااورکسی اورضمانت کی ضرورت نہ ہوتی تھی مگراب مسلمانوںکے لفظ سے زیادہ بے اعتبار لفظ کوئی نہیں ۔اناللہ وناالیہ راجعون۔
ولاتشتروابعھداللہ ثمناقلیلا ط انما عنداللہ ھوخیر لکم ان کنتم تعلمون ٭
اورتم اللہ (تعالیٰ)کے (ساتھ کئے ہوئے )عہد کے بدلے میں(اس کے مقابل پر )حقیر(اورتھوڑی سی )قیمت (رکھنے والی چیز)مت لو ۔ اگرتم علم رکھتے ہو تو(سمجھ لو کہ )جوکچھ اللہ(تعالیٰ)کے پا س ہے وہ تمہارے لئے یقینا(اس سے بدرجہا )بہترہے ۹۶؎
۹۶؎ تفسیر ۔چونکہ اس جگہ ترقیات اورحکومت کی پیشگوئیاں تھیں اورحکومت کے زمانہ میں دشمن سازش کرنے اورجاسوس رکھنے کی کوشش کیا کرتے ہیں ۔جس کے لئے وہ اپنے مقابل فریق کے آدمیوں کو بڑی بھاری رقوم بھی پیش کرتے ہیں ۔اوریہ زمانہ مسلمانوں پر بھی آنے والاتھا ۔اس لئے پہلے ہی آگاہ کردیا کہ دیکھناایسی حرکت نہ کرنا ۔تمہارے لئے کئی قسم کے لالچ پیداہوں گے اوایک زمانہ آئے گاکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے راز دریافت کرنے کے لئے مکہ والے تمہیں رشوتیں بھی پیش کریں گے مگر لَاتَشْتَرُوْا بِعَھْدِاللہِ ثَمَنًاقَلِیْلًا تم اللہ تعالیٰ کے عہد کو دنیا کی قیمت پر فروخت نہ کردینا یعنی کمزوری نہ دکھانا ۔جوعہد کیا ہے ۔اسکوضرورپوراکرنا ۔یہ رشوتیں توثمن قلیل ہی ہوں گی ۔مگرجو کچھ تمہیں اللہ تعالیٰ کے ہاں سے ملے گاوہ تمہارے لئے اس سے کہیں بہترہوگا اورآج تم ا س کو جان بھی نہیں سکتے ۔مکہ میں رہتے ہوئے مسلمان اس پیشگوئی کوسمجھ بھی نہ سکتے تھے ۔حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ آیت ’’سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلَّونَ الدُّبُر۔‘‘(قمرع ۳)اس وقت تک کہ جنگ بد رواقع نہ ہوگئی اورمکہ فتح نہ ہوگیا ۔میری سمجھ میں پوری طرح نہ آتی تھی۔
ماعندکم ینفد وماعند اللہ باق ط ولجنزین
جوکچھ تمہارے پاس ہے وہ ختم ہوجائے گااورجوکچھ اللہ(تعالیٰ)کے پاس ہے و ہ(ہمیشہ)باقی رہنے والاہے اور(ہمیں اپنی ذات کی قسم
الذین صبروااجرھم باحسن ماکانوایعملون٭
ہے کہ)جولوگ ثابت قدم رہے ہیں ہم انہیں یقیناان کے بہترین عمل کے مطابق(انکے تمام اعمال صالحہ کا )بدلہ دیں گے ۹۷؎
۹۷؎ حل لغات ۔یَنْفَدُ:نَفَدَ سے مضارع کاصیغہ ہے ۔اورنفَد الشیئُ (ینفدُ نفادًا)کے معنے ہیں فَنِیَ و ذھبَ۔وانقطَعَ۔کوئی چیز فنا ء ضائع اورختم ہوگئی (اقرب)پس ینفد کے معنے ہوں گے کہ ختم ہوجائے گا۔
تفسیر ۔اس میں یہ بتایاہے کہ رشوتوں کے مال جن کی وجہ سے لوگ قوم سے غداری کرتے ہیں آخر ختم ہوجاتے ہیں ۔مگر وہ عزت جو اپنی قوم کی ترقی سے ملتی ہے وہ دیرپاہوتی ہے اوربہت بڑی ہوتی ہے ۔
دوسرے یہ بھی بتایا کہ آخر دشمن جو کچھ بھی دے گا محدود مال ہو گا۔لیکن وہ انعام جو نیکی اورتقویٰ اوروفاداری کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ سے ملے گاوہ ہمیشہ رہنے والاہوگا کہ س کافائدہ اس دنیاسے گذر کر اگلے جہان کی زندگی تک بھی پہنچے گا۔
بِاَحْسَنِ مَاکَانُوایَعْمَلُونَ۔اس میں یہ بتایا ہے کہ ہم کنجوس گاہک کی طرح ردّی چیز کو چن کر باقی کو اس پر قیاس نہ کریں گے ۔بلکہ جو عمل تمہارے اعلی سے اعلیٰ ہوں گے ان کے مطابق تمام اعمال کو قرار دے کر ان کا اجر دیں گے ۔نیز یہ بھی بتایا کہ انکابدلہ ان کے اعمال سے زیادہ ہوگا۔کیونکہ لکھا ہے ایک نیکی کا اجرکم سے کم دس گنا ملتاہے ۔لیکن یہ قید لگادی کہ یہ انعام صرف انہی کو ملے گا جو صبر کریں گے یعنی مشکلات سے گھبرائیں گے نہیں اوردین بیچیں گے نہیں۔
من عمل صالحاًمن ذکراوانثٰی وھو مومن فلنحیینہ حیوۃ
جوکوئی مومن ہو نے کی حالت میں مناسب حال عمل کریگا۔مردہوکہ عورت ہم اس کو یقیناایک پاکیز ہ زندگی عطاکریں گے
طیبۃ ۔ ولجنزینھم اجرھم باحسن ماکانو ا یعملون ٭
اورہم ان( تما م لوگوں)کو ان کے بہترین عمل کے مطابق ان (کے تمام اعمال صالحہ )کا بدلہ دیں گے ۹۸؎
۹۸؎ تفسیر ۔اس آیت میں ایک طرف تومسلمانوں کو بتایا ہے کہ اسلام میں مرد اورعورت دونوں کے حقوق کو تسلیم کیا گیا ہے۔آئندہ جدوجہد میں ہرشخص کو مردہویاعورت اس کے عمل کے برابر بدلہ ملے گااورعورت ومرد میں فرق نہ کیا جائے گا ۔دوسری طرف کفار کو یہ توجہ دلائی ہے کہ تم عورت کو مارتے ہو تم کو حکومت کس طرح دی جاسکتی ہے ۔اب تووہ حکومت قائم کی جائے گی جس میں مرد اورعورت دونوں کے حقو ق محفوظ ہوں ۔
اسلام کی سچائی کا یہ کس قد رزبردست ثبوت ہے کہ ہزاروں سالوں کی انسانی زندگی کے بعد اس نے پہلی مرتبہ مرد اورعورت کے حقوق کو تسلیم کیا اوراس کے جاری کرنے کی اس وقت خبر دی جبکہ ابھی مسلمانوں کو حکومت بھی نہ ملی تھی ۔اوراس کے باوجود ظالم دشمن اسلام پر اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام میں عورتوں کے حقوق کی نگہداشت نہیں کی گئی ۔
فاذاقراْت القرآن فاستعدذ باللہ من الشیطن الرجیم٭
اس لئے (اے مخاطب)جب توقرآن پڑھنے لگے تودھتکارے ہوئے شیطان (کے شر)سے (محفوظ رہنے کے لئے )اللہ(تعالیٰ)کی پناہ مانگ (لیا کر ) ۹۹؎
۹۹؎ حل لغات ۔اِسْتَعِذْ:اِستِعَاذَ سے امر مخاطب کاصیغہ ہے ۔اوراِستِعَاذ۔عَاذ سے باب استفعال ہے اورعَاَبِہٖ فی کَذَا(یَعُوذُ عَوْذًا۔وَعَیَاذًا)کے معنے ہیں ۔لَجااِلیہِ وَاعْتَصَمَ۔اس کی پناہ لی ۔تَقُوْلُ اَعُوْذُ باللہ من الشیطٰن الرجیم اَیْ اَلتَجی اِلی اللہِ وَاعْتَصِمُ من الشیطان۔اوراعوذ بِاللہِ من َ الشیطٰن الرجیم کے معنے ہیں کہ میں اللہ کی پناہ لیتاہوں اورشیطا ن سے بچتاہوں ۔
اِستِعَاذَ بہٖ منہُ۔اِعْتَصَمَ وَلَجَأَ اِلیہِ منہُ۔اس نے اس کے ذریعہ پنا ہ لی (اقرب)
پس اِسْتَعِذْ کے معنے ہوں گے کہ شیطان سے بچنے کے لئے اللہ کی پناہ چاہو۔
تفسیر ۔اِذَاقَرَاْتَ کے یہ معنے نہیں کہ جب تو قرآن ختم کیا کرے تومعوّذتَین پڑھ لیا کر ۔کیونکہ وہ سورتیں توقرآن میں شامل ہیں۔بہرحال پڑھی ہی جائیں گی ان کو چھوڑ تو نہ دیاجائیگا ۔پس اس جگہ جیساکہ سنت نبویؐ سے ثابت ہے شروع تلاوت میں اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھنے کاحکم ہے ۔
پہلے فرمایاتھا کہ ثابت قدم لوگوں کو یہ یہ عظیم الشان انعامات ملنے والے ہیں ۔اب اس نعمت کی حفاظت کے لئے ایک گر بتاتاہے اوروہ یہ ہے کہ تم شیطان کے حملو ں سے بچنے کے لئے خداتعالیٰ کی پنا ہ میں آجا ئو۔تاتم ان انعامات اکے وارث ہوسکو اوررستہ سے بھٹک نہ جائو۔
بعض نادانوں نے غلط آراء اورروایات پر بنیادرکھ کر اس آیت کے یہ معنے کئے ہیں کہ یہ آیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہے او ر اس کی شان نزول یہ ہے ۔کہ سورۃ النجم کی تلاوت کرتے ہوئے ایک دفعہ آپ کی زبان پر بعض شرکیہ کلمات شیطان نے جاری کردئے تھے۔نعوذ باللہ من ذالک ۔جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیاکہ آئندہ جب قرآن پڑھاکروتوپہلے اعوذ ضرور پڑھ لیا کرو ۔تاشیطان پھر تمہاری زبان پر کو ئی کلمہ شرک جاری نہ کردے ۔
حالانکہ اول تویہ واقعہ ہی غلط ہے (اس واقعہ ا صل گفتگو اس کے اصل مقام یعنی سورئہ حج میں ہوگی)دوم ا س آیت کے سیاق و سباق سے اس مضمون کا کوئی جو ڑ ہی نہیں ۔بھلا کو ن عقلمند اس امر کو تسلیم کرسکتاہے ۔واقعہ ہواہو سورۃ النجم کی تلاوت پر ۔اس کاذکر ہو اہو سورۃ حج میں اوراعوذ پڑھنے کے لئے سورۃالنحل میں تاکید کی جاوے ۔اورتاکید بھی اسلامی غلبہ کے ذکرمیں کیاجائے تاکہ کسی کا ذہن اس کے مضمون کی طر ف جاہی نہ سکے ۔نعوذ باللہ من ذالک
میں جیساکہ اوپر بتاچکاہوںیہ آیت اپنے مضمون ماسبق کے ساتھ پوری طرح مطابق ہے کسی دوسرے واقعہ کی طرف اسے منسوب کرنا ظلم ہے ۔پھر یہ بھی دیکھنا چاہیئے ۔کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میراشیطان مسلما ن ہوگیا ہے وہ مجھے سوائے خیر کے کسی چیز کاحکم ہی نہیں دیتا(مسند احمد حنبل جلد اول ص ۲۵۷)اس ارشاد کی موجودگی میں کوئی عقل مند کس طرح تسلیم کرسکتا ہے کہ شیطان نے آپ کی زبان پر شرک کے کلمات جاری کروائے تھے ۔مسلمان توتوحید کاقائل ہوتا ہے ۔پس آپ کاشیطان جب موحد ہوگیا تھا ۔تواگر اسے کوئی طاقت تھی بھی ۔توبھی وہ آ پ کی زبان پر مشرکانہ کلمات جاری نہیں کرسکتا تھا۔پس اس فرضی واقعہ کو اس آیت پرچسپاں کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک بہتان ہے ۔
یہ سوال کہ قرآن سے پہلے استعاذہ(اعوذپڑھنے)کی کیا ضرورت ہے ؟ ا س کاجواب یہ ہے ۔کہ چور وہیں آتاہے جہاں خزانہ ہو۔اوراسی سے مقابلہ کرنے کی فکر کی جاتی ہے جس سے خطرہ ہو ۔قرآن کریم ایک ایسا روحانی خزانہ ہے جس کے مٹانے کے لئے شیطان تڑپتاہے اوروہی ہتھیار ہے جس سے اس کاسرکچلاجاتاہے ۔پس شیطان اورشیطانی لوگ پوری کوشش کرتے ہیں ۔کہ اس سے لوگوں کو دور رکھیں ۔اس وجہ سے اس کی تلاوت سے پہلے استعاذہ کاحکم دیا ۔اس حکم سے یہ بھی نتیجہ نکالاجاسکتاہے کہ جب قرآن کریم سے پہلے بھی استعاذہ کاحکم ہے ۔توباقی سارے کاموں سے پہلے بدرجہ اولی استعاذہ کرلیناچاہیئے۔اس سوال کاجواب کہ یہ حکم اس موقعہ پرکیوں رکھاگیا ہے ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم میں یہ سب سے پہلا موقعہ ہے کہ اسلامی حکومت کی ایسی وضاحت سے خبردی گئی ہو ۔ پہلے بھی اشارات تھے مگر اس سے پہلے اس قدروضاحت نہ ہوئی تھی ۔اورجب دنیو ی ترقیات کاذکر ہوتوبعض کمزورطبائع دینی ضرورتوں سے غافل ہو کر دنیوی امورکی ادھیڑ بن میں پڑ جاتی ہیں پس چونکہ اس سور ۃ میں دنیو ی ترقیات کی خبردی گئی تھی۔ساتھ ہی مسلمانوں کوحکم دے دیاگیا کہ آئندہ جب قرآن کریم پڑھنے لگے اس سے پہلے تعوذ کرلیا کرو۔تاکہ دنیوی فتوحات کی پیشگوئیاںتمہاری توجہ کو اپنی طرف پھیراکرتم کو دین کے اعلیٰ مقاصد سے غافل نہ کریں ۔اوردنیا دین پر مقدم نہ ہوجائے ۔
اللہ اللہ !کیاپاک کلام ہے اوراس میں کس طرح مومنوں کے ایما ن کی حفاظت کے ساما ن پیداکئے گئے ہیں۔اوراس کے باوجود دشمن کہتا ہے ۔کہ لالچ دے دیکر قرآن کریم نے لوگوںکو اسلام کی طرف راغب کیا تھا ۔
انہ لیس لہ سلطان علی الذین امنو وعلی ربھم یتوکلون٭
(سچی )بات یقینایہی ہے کہ جولوگ ایمان لائے ہیں اوراپنے رب (کی پناہ)پر بھروسہ رکھتے ہیں ۔ان پر اس کاکوئی تسلط نہیں ہے ۱۰۰؎
۱۰۰؎ تفسیر ۔بعض لوگوں کاخیال ہے کہ دنیا میں پڑ کر انسان خداتعالیٰ سے محبت کرہی نہیں سکتا ۔چنانچہ حضرت مسیح کی طرف یہ قول منسوب کیا گیا ہے ۔
(۱)’’اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے نکل جانااس سے آسان ہے کہ دولت مند خداکی بادشاہت میں داخل ہو ‘‘۔(متی با ب۱۹آیت ۲۴)
نیز (۲)’’دولت مندوں کا خداکی بادشاہت میں داخل ہونا کیسامشکل ہے کیونکہ اونٹ کاسوئی کے ناکے سے نکل جانااس سے آسان ہے کہ دولت مند خداکی بادشاہت میں داخل ہو ‘‘(لوقا باب ۱۸آیت ۲۴و۲۵)
اس خیال کے لوگوں کی طرف سے یہ اعتراض ہوسکتاتھاکہ دنیا کے متعلق خبریں پڑھنے سے بعض لوگوں کے ایما ن میں کمزوری پیداہونے کااحتمال ہوسکتاتھاتومسلمانوں کو دنیوی فتوحا ت اورحکومت کی خبر دی ہی کیوں گئی ؟ اس کا جواب یہ دیا کہ شیطان کاقبضہ کمزوروں پرہوتا ہے ۔مومن دنیا میں پڑ کر بھی دین کی طرف سے غافل نہیں ہوتا ۔پس اس جگہ ہم صرف کمزوروںکو ہوشیارکرتے ہیں ۔یہ ہم تسلیم نہیں کرتے کہ مضبوط ایمان والے بھی دنیا میں پڑ کر نجات سے محروم ہوجاتے ہیں ۔گویااسلام کی تعلیم اس بارہ میں یہ ہے کہ دست درکارودل بایار۔اوریہی مقام اعلیٰ مقام ہے ۔اسی وجہ سے اسلام نے دنیاکو چھوڑنے کی تعلیم نہیں دی بلکہ دنیا کے کاموں میں حصہ لیتے ہوئے اس کی اصلاح کاحکم دیا ہے ۔اگرنیکیوں کودنیا سے علیحدہ رکھا جائے توظاہرہے کہ دنیا کی اصلاح کبھی ہوہی نہیں سکتی ۔اگر ایسے لوگوں کے ہاتھو ں میں دنیا کی باگ آئے جوباوجود دنیا پر تصرف حاصل کرلینے کے انصاف اورعد ل اورتقویٰ قائم رکھیں تبھی دنیا کی اصلاح ہوسکتی ہے ۔اورودسروں کے لئے نیک مثال قائم ہوسکتی ہے ۔دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے صحابہ کے ہاتھ جب دنیا کانظم و نسق آیا ۔توانہوں نے کس طرح اس میں پڑ کراس سے علیحدہ رہنے کانمونہ دکھایا ۔اورایک ایسی شاندارمثال قائم کی جو اب بھی کہ اس پر تیرہ سوسال گذر چکے ہیں ۔اہل عقل کے دلوں میں گدگدیاں پیداکردیتی ہے ۔
انما سلطٰنہ علی الذین یتولونہ والذین ھم بہ مشرکون٭
اس کاتسلط صرف ان لوگوں پر (ہوتا)ہے ۔جواس سے دوستی رکھتے ہیں۔اورجو اس کی وجہ سے شرک کرتے ہیں ۱۰۱؎
۱۰۱؎ تفسیر ۔ھُمْ بِہٖ مُشرکون۔بِہٖ کی ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف بھی جاسکتی ہے جس کاذکر رَبِّھم کے الفاظ میں پہلی آیت میں ہوچکاہے ۔اس صورت میں یہ معنے ہوں گے کہ اس کاتصرف ان لوگوں پرہے جو اپنے رب کے شریک قرار دیتے ہیں ۔اوراس ضمیرکامرجع شیطان بھی ہوسکتا ہے ۔اس صورت میں معنے یہ ہوں گے کہ وہ شیطان کے سبب سے شرک میں مبتلاہوجاتے ہیں ۔
اس آیت میں یہ بتلایاہے کہ شیطان کا قبضہ اورتصرف اس کے دوستوں پرہوتاہے جوشخص استعاذہ کرتاہے وہ توگویااس سے دشمنی کااعلان کرتاہے ۔اس لئے وہ اس کے قبضہ سے نکل جائے گا۔
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ فَاِذَاقَرَاْتَ الْقُرْاٰن والی آیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق نہیں ۔کیونکہ اس میں تویہ بتایا ہے کہ اس کا قبضہ اپنے دوستوں پر ہوتاہے نہ کہ ان لوگوں پر جو خداتعالیٰ پر توکل کرنیوالے ہیں ۔اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے متواتر اعلان ہوچکاہے کہ ’’میراتوکل توصرف خداپر ہے ‘‘۔پس اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاذکر ہوہی نہیں سکتا۔دوسرے لوگوں کاہی ذکر ہے ۔
واذابدلنا آیۃمکان آیۃ واللہ اعلم بما
اورجب ہم کسی نشان کی جگہ پر کوئی اورنشان لاتے ہیں اور(اس میں کیا شک ہے کہ )اللہ(تعالیٰ)جوکچھ اتارتاہے اس (کی ضرور ت)کو
ینزل قالواانما انت مفترٍ۔ بل اکثرھم لایعلمون٭
وہ (سب سے)بہترجانتاہے تو(مخالفین )کہتے ہیں کہ تومفتری ہے (مگرحقیقت یوں )نہیں بلکہ ان میں سے اکثر علم نہیں رکھتے ۱۰۲؎
۱۰۲؎ حل لغات ۔یُنَزِّلُ: نَزَّلَ سے مضارع واحد مذکرغائب کاصیغہ ہے ۔مزید تشریح کے لئے دیکھو سورۃ حجر ۲۰؎
تفسیر ۔اٰیۃ کے اصل معنے نشان کے ہیں ۔گوقرآن کریم کے جملوں کو بوجہ اس کے کہ ان میں سے ہرایک اپنی ذات میں ایک نشانِ ہدایت ہے ۔آیت کہتے ہیں ۔مگراٰیۃ کے معنے کتاب کے فقرے کے نہیں ہوتے ۔اورقرآن کریم میں کسی جگہ پراس لفظ کا استعمال یقینی طورپر ان معنوں میں نہیں ملتا۔اگربعض جگہ آیت کالفظ جملہ کے معنوں میں نظر بھی آتاہے تووہ بھی یقینی نہیں کیونکہ اس جگہ دلیل اورنشان کے معنے بھی ہوسکتے ہیں ۔ہاں مسلمانوں میں شروع سے اس لفظ کا استعمال ان معنوں میں مروّج چلاآتاہے ۔صحابہ بھی قرآنی جملوں کو اٰیَۃ کہہ کرپکارتے تھے اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام میں بھی یہ استعمال پایاجاتاہے ۔اس استعمال سے دھوکاکھاکر بعض مفسرین نے اس آیت کے یہ معنے کئے ہیں کہ جب قرآن کریم کی ایک آیت منسوخ کرکے دوسری آیت نازل کی جاتی ۔توکفار اعتراض کرتے کہ تم جھوٹے ہو ۔اگرقرآن خداکاکلام ہوتا تواس کی آیتیں منسوخ کیوں ہوتیں ۔
میرے نزدیک یہ معنے درست نہیں کیونکہ تاریخ سے کوئی ایک آیت بھی ثابت نہیں ہوتی جسے بدل کر اس کی جگہ دوسری آیت رکھی گئی ہو ۔اگرایسا ہوتا توقرآن کے سینکڑوں حافظ جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں قرآن کریم حفظ کرلیاتھااس امر کی شہادت دیتے کہ پہلے ہمیں فلاں آیت کے بعد فلاں آیت یاد کروائی گئی تھی ۔لیکن اس کے بعد اسے بدل کر فلاں آیت یاد کرائی گئی ۔اس قسم کی شہادت کانہ ملنا بتاتا ہے کہ اس بارہ میں جس قدرخیالات رائج ہیں ان کی بنیاد محض ظنیات پر ہے نہ کہ علم پر۔
میں اس کا منکر نہیں کہ بعض احکام زمانہ نبوی ؐ میں بدلے گئے ہیں ۔مگرمجھے قرآن کریم کے کسی حکم کی نسبت ثبوت نہیں ملتا کہ پہلے اورطرح ہو ۔ اوربعد میں بدل دیاگیاہو ۔میرے نزدیک جو احکام وقتی ہوتے تھے وہ غیر قرآنی وحی سے نازل ہوتے تھے ۔قرآن کریم میں اترتے ہی نہ تھے ۔اس لئے قرآن کریم کوبدلنے کیضرورت ہی نہ ہوتی تھی ۔
اس پر یہ سوال ہوسکتاہے کہ اگرآیاتِ قرآنیہ کوکبھی بدلا نہیں گیاتواس آیت کے کیا معنے ہوئے ؟تواس کاجواب یہ ہے کہ اٰیَۃ کے دومعنے جن میں یہ لفظ بالعمو م قرآن کریم میں استعمال ہواہے ۔نشان آسمانی کے ہیں ۔اوروہی اس جگہ مراد ہیں ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب ہم ایک نشان بدل کر اس کی جگہ دوسرانشان لے آتے ہیں اورایساکرناقابل اعتراض نہیں ہوتا۔کیونکہ اس امرکو تواللہ تعالیٰ ہی جانتاہے کہ کونسانشان کس موقعہ کے لئے مناسب ہے توکفار اعتراض کرنے لگ جاتے ہیں اورکہتے ہیں کہ تُوتوجھوٹاہے ۔مگریہ اعتراض ان کاجہالت پرمبنی ہوتاہے ۔یہ وہ قانون ہے جس کاظہور ہر نبی کے زمانہ میں ہوتاہے ۔یعنی ہرنبی کو بعض انذاری باتیں بتائی جاتی ہیں جودرحقیقت مشروط ہوتی ہیں ۔مخاطب قوم کے قلوب کی حالت سے ۔اگروہ اپنے دل کی حالت بد ل لیں تووہ انذار کی خبر بھی ٹل جاتی ہے ۔جیسے قرآن کریم میں حضرت یونس ؑ کی قوم کا واقعہ بیان ہواہے کہ ان کی ہلاکت کی خبر حضرت یونسؑ کی معرفت دی گئی ۔مگربعد میں ان کی توبہ کی وجہ سے اسے بدل دیاگیا۔(یونس ع۱۰)۔
یہ عام قانون انذاری پیشگوئیوں کے متعلق ہے کہ اگر مخالف توبہ کرلیں تومقدرعذاب کو روک دیاجاتا ہے ۔ہاں وعدہ کی خبر ضرور پوری ہوکر رہتی ہے ۔مگراس کے متعلق بھی سنت اللہ یہ ہے کہ اگروہ قوم جس سے وعدہ ہو پوری قربانی سے کام نہ لے یاپوری فرمانبرداری نہ دکھا ئے تواس کے پوراہونے میں تاخیر کردی جاتی ہے۔جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قو م کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ جب انہوں نے متواترحضرت موسیٰ ؑکی نافرمانی کی ۔تووہ ارضِ موعودہ جس میں داخل کرنے کے لئے حضرت موسیٰؑ انہیں مصر سے نکال کر لائے تھے چالیس سال تک کے لئے اس کی فتح روک دی گئی اسکے موعود ہونے کاذکر ان الفاظ میں کیاگیاہے ۔
یٰقَوْمِ ادْخُلُوْاالْاَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ الَّتِیْ کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ(مائدہ ع ۴)اے قوم اس پاک زمین میں داخل ہوجائو ۔جوخداتعالیٰ نے تمہارے لئے لکھ رکھی ہوئی ہے ۔
اس کے بعد یہود کی نافرمانی کاذکرکرکے فرماتاہے ۔قَالَ فَاِنَّھَامُحَرَّمَۃٌ عَلَیْھِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً۔ یَتِیْھُوْنَ فِی الْاَرْضِ فَلَاتَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ(مائدہ ع۴)یعنی جب انہوںنے نافرمانی کی ۔تواللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا کہ اب یہ ملک چالیس سال تک کے لئے بنی اسرائیل پرحرام کردیاگیاہے ۔پس تونافرمان قوم کی حالت پرافسوس نہ کر ۔
اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ وعدہ کو ٹلادیاگیاہے ۔لیکن اسے منسوخ نہیں کیاگیا ۔کیونکہ وعدہ خداتعالیٰ منسوخ نہیں کیاکرتا۔
مذکورہ بالاقانون کے مطابق انذارکی پیشگوئی جب کبھی ٹلتی ہے توکفار شور مچادیتے ہیں ۔کہ دیکھو کیساجھوٹاہے ۔اگر سچا ہوتا تو کیوں اس کی بات پوری نہ ہوتی ۔ایسے ہی اعتراضات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کیاکرتے تھے ۔اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ آیات توکسی غرض اورمقصد کے لئے نازل ہوتی ہیں ۔جب ہم دیکھیں کہ ایک شخص نے اپنی اصلاح کرلی ہے توہم اسکے متعلق اپنے حکم کوبھی بدل دیتے ہیں اوراس کی سزامنسوخ کردیتے ہیں ۔اس کی جگہ اسکے لئے اپنی رحمت کا نشا ن دکھاتے ہیں ۔کیونکہ ہماری غرض سزادینا نہیں بلکہ اصلاح کرنا ہوتاہے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایسے کئی مواقع پیش آئے ہیں ۔مثلاً یہی قرآن کریم میں اللہ تعالی کفار مکہ کی نسبت فرماتاہے ۔لَایُؤمِنُوْنَ(بقرہ ع ۱)لیکن بعد میں ان میں سے بہت سے لوگ ایمان لے آئے ۔یہ عذاب کی خبر تھی اس وجہ سے جن لوگوں نے خشیت اللہ پیداکرلی ۔ان کاعذاب بدل دیاگیااوران کو ایمان عطاہوگیا ۔
بظاہر یہ مسئلہ بالکل صاف ہے لیکن ہمیشہ ہی لو گ اس بارے میں ٹھوکر کھاتے ہیں ۔اوراس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ بات بدلنے کو جھوٹ سمجھتے ہیں ۔حالانکہ سزاکو بدلنا جھوٹ نہیں ۔وعدہ کو بدلنا جھوٹ ہوتاہے ۔چنانچہ عربی زبان میں وعد ہ کے بدلنے کو جھوٹ کہتے ہیں ۔وعید یعنی عذاب کی خبر کو بدلنے کو جھوٹ نہیں کہتے بلکہ اسے رحم اوراحسان کہتے ہیں ۔اقرب میں لکھا ہے ۔الخلفُ فی الوعدِ عندَ العَرَبِ کذبٌ وفی الوعیدِ کرمٌ۔یعنی وعدہ کابدلنا عربوں کے نزدیک جھوٹ کہلاتاہے اوروعید یعنی سزاکی خبر کابدلنا شرافت اوراحسان کہلاتا ہے ۔
غرض ایک معنے تواس آیت کے یہ ہیں کہ ہم وعید کی خبروں کوبعض دفعہ بدل دیاکرتے ہیں ۔کفاراس پر اعتراض کرتے ہیں ۔لیکن ان کااعتراض صحیح نہیں ۔ایساکرناحکمت کے عین مطابق ہے اس میں کسی کاحق نہیں ماراجاتا ۔کہ قابل اعتراض ہو۔ان معنوں کے روسے اس آیت کا تعلق انذاری آیات سے ہوگاجوپہلے بیان ہوچکی ہیں ۔
ایک اورمعنے بھی اس آیت کے ہیں اورو ہ ترتیب قرآن کو مدنظررکھتے ہوئے ا س مقام پر زیادہ چسپاں ہوتے ہیں اوروہ یہ کہ جیساکہ میں بتاچکاہوں ۔اس سورۃ میں کلام الٰہی کی ضرورت کے دلائل بیان کئے جارہے ہیں اوراس کے ثبوت میں پہلے انبیاء کو بھی پیش کیاگیاہے ۔مثلاً اسی سور ۃ کے آٹھویں رکوع میں فرماتاہے کہ تَاللّٰہِ لَقَدْاَرْسَلْنَٓا اِلیٰٓ اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِکَ۔ہمیں اپنی ہی ذات کی قسم کہ جوتجھ سے پہلے قومیں گذر چکی ہیں ان میں بھی ہم رسول بھیج چکے ہیں ۔پھر رکوع ۱۲ میں فرماتاہے ۔وَیَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ شَھِیْدًا عَلَیْھِمْ مِنْ اَنْفُسِھِمْ یعنی اس دن کویاد کرو جبکہ ہم ہرقوم کے خلاف اسی قوم کا نبی گواہ بناکر کھڑاکریں گے ۔
اس میں ا س طرف اشارہ تھاکہ سب قوموں میں نبی مبعوث ہوچکے ہیں ۔توچونکہ گذشتہ انبیاء کے وجود کو کلام الٰہی کی ضرورت کے ثبوت میں پیش کیاگیاتھا جب کفارہرطرف سے عاجز آگئے توانہوں نے یہ دلیل اسلام کے خلاف پیش کی کہ اگرپہلے بھی نبی گذر چکے ہیں توچاہیئے تھاکہ ان کی تعلیم اوراسلام کی تعلیم ایک ہی ہوتی مگر اس میں توان کی تعلیمو ں کے خلاف تعلیم پائی جاتی ہے پس معلوم ہواکہ محمد(رسول اللہؐ) جواپنے تسلیم کردہ نبیوں کے خلاف باتیں کہتے ہیں جھوٹے ہیں ورنہ یہ کس طرح ہوسکتاتھا کہ خداتعالیٰ ان نبیوں کو کچھ کہے اوراس کو کچھ اَورکہے۔
سواس اعتراض کوبیان کرکے اس کاجواب دیا کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ اسے کس زمانہ میں کیا نازل کرنا چاہیئے ۔یعنی پہلے انبیاء کی تعلیم سے جہاں قرآن کریم نے اختلاف کیا ہے ۔اس کی یہ وجہ نہیں کہ اس سچی تعلیم کی قرآن نے مخالفت کی ہے ۔بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ جن کی طرف کلام نازل ہواہے وہ پہلے لوگوں سے مختلف ہیں اورایک ہی شخص مختلف لوگوں کو ان کے حالات کے مطابق مختلف حکم دیتاہے اوردے سکتا ہے اوریہ اختلاف اس امر کی دلیل کبھی اورکسی صورت میں نہیں قرار دیاجاتا ۔کہ چونکہ مختلف حکم ہیں حکم دینے والے بھی مختلف ہیں ۔اختلاف ہمیشہ حکم دینے والوں کے مختلف ہونے کی وجہ سے ہی نہیں پیداہوتابلکہ بعض دفعہ اختلاف ان لوگوں کے مختلف ہونے کی وجہ سے پیداہوتا ہے جنہیں حکم دیاگیاہو۔جب مخاطب مختلف قابلیتوں کے ہوں توایک ہی حکم دینے والا مختلف لوگوںکو ان کے حسب حال مختلف حکم دیتاہے ۔اصل سوال تویہ ہوناچاہیئے کہ قرآن کی تعلیم زمانہ کے حسب حال ہے یانہیں ۔ اگروہ زمانہ کے حسب حال ہے تواس اختلاف سے علم الٰہی کاثبوت ملانہ اس کاکہ محمد رسول اللہ ؐ پر کلام نازل کرنے والا کوئی اَورہے اورپہلے نبیوں پر کلام نازل کرنے والاکوئی اَور۔
یہ معنے اگلی آیات سے بھی بالکل مطابق آتے ہیں اس لئے یہی اس موقعہ کے لحاظ سے زیادہ صحیح ہیں ۔ہاں یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ اس صورت میں اٰیۃ کے معنے پہلی کتا ب کے لئے جائیں گے یعنی جب ایک کتاب کی جگہ دوسر ی کتاب کو بدلاجاتاہے اورکتاب بھی آیت ہوتی ہے ۔ بلکہ سب سے بڑا معجزہ انبیاء کا کتاب ہی ہوتاہے ۔
تعجب ہے کہ یہ اعتراض آج تک قرآن کریم پر ہورہا ہے ۔چنانچہ مسیحی مصنف آج تک یہی اعتراض کرتے چلے جارہے ہیں کہ جب قرآن کریم کتب سابقہ کا مصدق ہونے کادعویٰ کرتاہے توان سے اختلاف کیوں کرتاہے ۔یہ ا س با ت کا ثبوت ہے کہ قرآن نعوذ باللہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )کابنایاہواہے اورانہوں نے پہلی کتب سے ناواقفیت کیوجہ سے ایسی باتیں لکھ دی ہیں جوپہلی کتب کے خلاف ہیں۔
بعض مفسرین نے اس آیت کے معنے کرتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ اس میں سورۃ النجم کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے کہ اس کی تلاوت کے وقت شیطان نے بعض آیتیں بلند آواز سے آپ کی تلاوت کے درمیا ن میں پڑھ دی تھیں ۔اول تویہ واقعہ ہی سرے سے باطل ہے جیسا کہ انشا ء اللہ اس کے موقعہ پر بتایاجائے گا۔لیکن اگربفرض محال اسے تسلیم بھی کرلیا جائے توبھی اس آیت سے اس کاکوئی تعلق نہیں ۔کیونکہ اس آیت میں تویہ ذکر ہے کہ جو آیت بدلی گئی وہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھی اورجس نے بدلاوہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھی ۔اورجس واقعہ کو وہ اس آیت پر چسپاں کرتے ہیں ا سمیں خود وہ تسلیم کرتے ہیں کہ جو آیات بدل گئیں وہ شیطان کی تھیں پس ان کی اپنی تشریح ہی ثابت کرتی ہے کہ اس فرضی واقعہ کااس آیت سے کوئی تعلق نہیں ۔
علاوہ ازیں اگلی آیت بھی ان معنوں کو ردّکررہی ہے کیونکہ اس آیت میں اس اعتراض کادوسرا جواب دیاگیا ہے جو یہ ہے کہ اس قرآن کوروح القدس نے اتاراہے ۔ا ب یہ ظاہرہے کہ روح القدس کااتارنا کفارکے اس اعتراض کاجواب نہیں ہوسکتا کہ پہلے اس نے نعوذباللہ مشرکانہ تعلیم دی تھی اب اسے بدل کیوں دیاگیا ہے ۔کیونکہ روح القدس کااتارنا اس کے محفوظ ہونے کی دلیل توبن سکتاہے۔شیطان کی ملونی اورا سکے بعد اس کی منسوخی کی دلیل نہیں بن سکتا۔
قل نزلہ روح القدس من ربک بالحق لیثبت الذین اٰمنواوھدی وبشریٰ للمسلمین٭
تو(ایسے معترض سے )کہہ (کہ)روح القدس نے اسے تیرے رب کی طرف سے حق(وحکمت )کے ساتھ اتاراہے تاکہ جو لو گ ایمان لائے ہیں انہیں وہ(ایمان پر)ہمیشہ کے لئے قائم کردے اور(نیز اس نے )کامل فرمانبرداروں کی(مزید)رہنمائی کے لئے اور(انہیں )بشارت دینے کے لئے اتاراہے ۱۰۳؎
۱۰۳؎ حل لغات ۔اَلْحَقّ کے لئے دیکھو ابراہیم ۲۳؎ رعد ۱۵؎ رَبّ کے لئے دیکھو یونس ۵؎
یُثَبِّتُ:ثَبَّتَ سے مضارع واحد مذکر غائب کاصیغہ ہے ۔ثَبَّتَ کے معنوںکے لئے دیکھو ابراہیم ۲۷؎
ھُدًی:ھدٰی کامصدر ہے ھدٰی کے لئے دیکھو رعد۲۸؎
تفسیر ۔اس آیت میں کفار کے اعتراض کا ایک اورجواب دیاہے ۔پہلی آیت میں تویہ جواب دیاتھا کہ یہ تعلیم زمانہ کے مطابق ہے ۔اس لئے اگر بعض مواقع پر اس کو پہلی کتب سے اختلاف ہے تویہ اس کے جھوٹاہونے کی دلیل نہیں۔بلکہ اس امرکی دلیل ہے ۔کہ اب زمانہ بدل گیا ہے ۔اب بعض اَورجواب دیتاہے ۔
(۱)اس کتاب کو روح القدس نے اتاراہے یعنی اس کلام میں نہایت پاکیزہ تعلیم ہے۔اگریہ مفتری کاکلام ہوتا توافتراء کرنے والے کی کوئی غرض تو اس کلام میں نظرآجاتی ۔لیکن ساراقرآن پڑھ جائو اس میں محمد رسول اللہ ؐ کی اپنی کوئی غرض تم کو نظرنہ آئے گی۔بلکہ اس کلام کے پیچھے ایک پاکیزگی کی روح کام کرتی ہوئی تم کو دکھائی دے گی۔اس پاکیزگی کی روح سے تم سمجھ سکتے ہو کہ جہاں اس کو پہلی کتب سے اختلاف ہو اوراس اختلاف کی کوئی توجیہہ نہ ہوسکے تویہی مانناپڑے گاکہ وہ کتب بگڑ گئی ہیں۔یہ نہیں کہاجاسکتاکہ قرآن خداکاکلام نہیں ۔کیونکہ یہ نہیں ہوسکتا کہ خدائی کلام توپاکیزگی کی روح سے خالی ہو اورمفتری کاکلام پاکیزگی کی روح سے معمو رہو۔
(۲)دوسراجوا ب اس میں یہ دیا گیا ہے کہ یہ کلام حق پر مشتمل ہے ۔جہاں کہیں اس کلام نے پہلی کتب سے اختلاف کیا ہے ۔اگر وہ اختلاف زمانہ کے بدلنے کے سبب سے نہیں توتم دیکھو گے کہ عقلِ انسانی اسی بات کی تصدیق کرے گی جو قرآن کریم نے بیان کی ہے اوراسے رد کردے گی جو پہلی کتب میں بیان ہواہے ۔یہ بھی ایک زبردست ثبوت قرآن کریم کی سچائی کاہے ۔مثلاً حضرت ہارون کاواقعہ ہی لے لو ۔قرآن میں لکھاہے کہ انہوں نے شرک نہیں کیا ۔اب اول توعقلاً ایک نبی کیطرف شرک کامنسوب کرنا کسی صورت میں جائز نہیں ۔لیکن عقلی بحث کوجانے دوخود بائبل اپنے اس بیان کی تردید کررہی ہے ۔کیونکہ جنہوں نے بچھڑابنایاتھا بائبل کے بیان کے روسے انہیں قتل کردیاگیاتھا ۔لیکن اس واقعہ کے معاً بعد ہارون سے بائبل کے رو سے یہ سلوک کیاگیا کہ کہانت ان کی نسل کے لئے مخصوص کردی گئی اورانہیں اللہ تعالیٰ نے خا ص عزت بخشی۔یہ سلوک جو ان سے بچھڑے کے واقعہ کے معاً بعد بائبل میں بیان ہواہے بتاتاہے کہ اس موقعہ پر ان کارویہ قابل تعریف تھا ۔اوربائبل نے جو شرک میں شمولیت ان کی طرف منسوب کی ہے خود اس کی اپنی شہادت کے روسے باطل ہے ۔(خروج باب ۴۰ آیت ۱۲تا۱۵)
غرض قرآن کریم کو جہاں جہاں بھی پہلی کتب سے اختلاف ہے اسکی بات کی عقلاً یانقلًاتصدیق ہوجاتی ہے ۔اوراس کے خلاف بیانات کی تردید یاعقل کردیتی ہے یانقل یادونوں ہی سے اس کی تردید ہوجاتی ہے ۔پس اس امر کی موجودگی میں پہلی کتب سے اس کااختلاف اس بات کی علامت نہیں کہ قرآن کریم کومحمدؐ رسول اللہ نے بنایا ہے اللہ تعالیٰ نے نازل نہیں کیا ۔بلکہ اس امر کا ثبوت ہے کہ وہ تازہ بتازہ محفوظ کلام ہے اورپہلے کلام محرّف مبدّل ہوگے ہیں ۔
(۳)تیسری دلیل اس اعتراض کے جواب میں اس آیت میں یہ دی گئی ہے کہ قرآن ہدایت مجسم ہے ۔یعنی اللہ تعالیٰ اوربندے کے درمیان صحیح صحیح تعلق قائم کرتا ہے اوراسے خداتعالیٰ تک پہنچاتاہے اوریہ کام افتراوالے کلام سے ناممکن ہے ۔پس جب اس پر چل کر انسان خداسے تعلق پیداکرلیتا ہے ۔اورپہلی کتب سے نہیں ۔تومعلوم ہواکہ گووہ نزول کے لحاظ سے سچی کتب تھیں مگر موجود ہ زمانہ کے لحاظ سے وہ مردہ ہیں۔اوراس غرض کوپورانہیں کررہیں جوان سے متوقع ہے ۔پس اختلاف کی صورت میں ان کاقول غلط ہے اورقرآن کا درست ۔
(۴)چوتھی دلیل یہ بیان فرمائی ہے کہ یہ مومنوں کے لئے بشارت ہے یعنی اس پر چل کرانسان اللہ تعالیٰ کے فضلوں کاوارث ہوتا ہے ۔اوراس کے نشانات اس کی تائید میں دکھائے جاتے ہیں ۔اگر یہ جھوٹاہوتا تواس پر چلنے والوں کے لیء اس قدربشارات کے سامان کو ن پیداکرسکتاتھا ۔جھوٹ بولنے والا دعویٰ توکرسکتاہے مگران دعوئوں کے پوراکرنے کے سامان توپیدانہیں کرسکتا۔
غرض چاردلائل اس آیت میں ان کے اعتراض کے رد میں بیان کئے ہیں ۔اوران میں سے ہرایک اکیلا ہی ان کے اعتراض کوتوڑنے کے لئے کافی ہے ۔
ولقد نعلم انھم یقولون انما یعلمہ بشر ط لسان الذی
اورہم یقیناجانتے ہیں (کہ )وہ کہتے ہیں (کہ یہ وحی الٰہی نہیں بلکہ)ایک آدمی اسے سکھاتاہے(مگروہ نہیں سمجھتے کہ)کہ جس شخص کی طرف
یلحدون الیہ اعجمیٌ وھذالسان عربی مبین٭
وہ (اشارہ کرتے اوران کے ذہن اس کیطرف)مائل ہوتے ہیں اس کی زبان اعجمی ہے اوریہ (قرآنی زبان توخوب)روشن (کرکے دکھانے والی )عربی زبان ہے ۱۰۴؎
۱۰۴؎ حل لغات۔اَلْبَشَر:الانسان ذکراًکان اواُنثیٰ واحِدً اَوْ جَمْعًاوقدیُثَنّٰی کقول القراٰن:’’اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَیْنِ مِثْلِنَا۔‘‘بَشَر کے معنے ہیں انسان خواہ وہ مذکر ہو یا مؤنث واحد ہویاجمع ۔بعض اوقات لفظ بَشَر کاتثنیہ بھی بنایاجاتاہے جیسے قرآن کی آیت اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَیْنِ مِنْ بَشَرَیْنِ تثنیہ ہے ۔(اقرب)
لِسانٌ کے معنے ہیں اَلْیَقْوَلُ بولنے والا آلہ (زبان)اَللُّغۃُ۔بولی جانے والی زبان ۔مذکر اورمؤنث ہردوطرح استعمال کرتے ہیں ۔چنانچہ لِسَانٌ فَصیْحٌ اورلِسَانٌ فَصیحۃٌ دونوں طرح بولتے ہیں (اقرب)
یُلْحِدُوْنَ:اَلْحَدَ سے مضارع جمع مذکر غائب کاصیغہ ہے ۔اورلَحَدَ (مجرد الحد)بِلِسَانِہٖ الی کذاکے معنے ہیں مَالَ۔کسی طرف مائل ہوا۔اوراَلْحَدَ فلانٌ کے معنے ہیں مَالَ عنِ الحَقِّ۔حق سے منحرف ہوگیا(مفردات )پس یُلْحَدُوْنَ اِلَیْہِ کے معنے ہوںگے کہ وہ اس کی طرف مائل ہوتے ہیں ۔
اَجَمُیٌّ:اَلاَعْجَمُ مَن لایُفْصِحُ وَلَایُبَیِّنُ کَلامَہٗ واِنْ کان منَ العرَبِ۔وہ شخص جو اپنے مافی الضمیر کواچھی طرح واضح نہ کرسکے خواہ وہ عرب ہی کیوں نہ ہو ۔مَنْ لَیسَ بِعرَبِیٍّ وَاِنْ اَفْصَحَ بالعجمِیَّۃِ وہ شخص جو عر ب نہ ہو اگرچہ وہ عجمی یعنی غیر عربی زبان فصیح بولتاہو (اقرب)
تفسیر ۔اس آیت میں کفار کاایک اوراعتراض بیان کیا گیا ہے جوآج تک مسلمانوں اورمسیحیوں کامحلِ نزاع بناہواہے ۔ میں آیت کامفہوم بیان کرنے سے پہلے اس اعتراض کی حقیقت بیان کرتاہوں ۔
جیساکہ آیت کے الفاظ سے ظاہر ہے اس میں کفار کا یہ اعتراض بیان کیاگیاہے کہ محمد رسو ل اللہ ؐ پر الہام نہیں ہوتا بلکہ ان کو ایک آدمی یہ باتیں سکھاتاہے ۔گوقرآن کریم نے اس شخص کانام نہیں بتایا ۔لیکن عبارت سے ظاہرہے کہ کفار کااعتراض اس موقعہ پر یہ نہ تھا کہ اسے کوئی نامعلوم شخص سکھاتاہے بلکہ اس موقعہ پر ان کا اعتراض کسی خاص شخص کے متعلق تھا جس کا وہ اپنے پروپیگنڈامیں نام بھی بتاتے تھے ۔قرآ ن کریم نے گواس کی شخصیت کا اظہار نہیں کیا ۔مگریہ بتایا ہے کہ جس شخص پر وہ اعتراض کرتے تھے وہ اعجمی تھا اوراسی بنا پر ان کے اعتراض ردّکیا ہے اورتوجہ دلائی ہے کہ ایک اعجمی کی مددسے یہ کتاب جو عَرَبِیٌّ مُّبِیْنٌ زبان میں ہے کیونکر تیار ہوسکتی تھی۔
مفسرین نے اس اعتراض کے متعلق مختلف واقعات بیان کئے ہیں ۔ایک روایت یہ ہے کہ جویطب بن عبدالعزّٰی کاایک غلام جس کانام عائش یاتعیش تھا ۔وہ پہلی کتب پڑھاکرتاتھا اوراسلام لے آیا تھا اوراسلام پر مضبوطی سے قائم رہاتھا ۔مکہ کے لوگ اس کی نسبت الزام لگاتے تھے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوسکھاتاہے(روح المعانی ۔جلد ۱۴) ۔فراءؔ اورزجاجؔکایہی قول ہے اورمقاتلؔ اورزبن جبیرکاقول ہے کہ مکہ کے لوگ ابو فکیہہ پر الزام لگایاکرتے تھے کہ وہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کوسکھاتاہے (روح المعانی)
بعض نے کہا ہے کہ ابوفکیہہ کانام یسارؔتھا اوروہ مکہ کی ایک عورت کاغلام تھا ۔اوریہودی تھا ۔
بیہقی اورآدم بن ابی یاس نے عبداللہ بن مسلم الحضرمی سے روایت کی ہے کہ وہ کہاکرتے تھے کہ ہمارے دونصرانی غلا م تھے وہ عین المتر کے رہنے والے تھے ۔ان میں سے ایک کانام یسارائو دوسرے کانام جبرتھا۔دونوں مکہ میں تلواریں بنایاکرتے تھے اورکام کرتے وقت انجیل بھی پڑھتے تھے ۔رسول کریم بازار سے گزرتے ہوئے ان کو انجیل پڑھتے ہوئے دیکھ کر کچھ دیر کے لئے وہاں ٹھیر جاتے(فتح البیان جلد ۵نیز روح المعانی جلد۱۴)
ایک روایت میں ہے کہ ان میں سے ایک سے لوگوں نے پوچھا کہ اِنَّکَ تُعَلِّمُ مُحَمَّدًا۔کیاتم محمدؐ کوسکھاتے ہو؟فقالَ لا بَلْ یُعَلِّمْنِیْ۔اس نے کہا نہیں بلکہ محمدؐ مجھے سکھاتے ہیں ۔(روح المعانی جلد ۱۴)
ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ایک عجمی رومی غلام مکہ میں تھا اس کانام بلعام تھا ۔رسول اللہؐ اسے اسلام سکھایاکرتے تھے ۔اس پر قریش کہنے لگے کہ یہ محمدؐ کوسکھاتاہے ۔(روح المعانی جلد ۱۴)
علاوہ ازیں علامہ سیوطیؒلکھتے ہیں کہ قیسؔ ایک عیسائی غلام تھا اس کی ملاقات رسول اللہؐ سے تھی ۔اس پر الزام لگائے گئے تھے کہ وہ محمدؐ کوسکھاتاہے ۔
درمنثورمیں لکا ہے کہ عدسؔایک غلام تھا جواوسہ بن ربیع کاغلام تھا اس کی نسبت الزام لگایا جاتاتھا ۔اورروح المعانی جلد ۱۴ اورکشاف میں لکھا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ کفار سلمانؓ فارسی کے متعلق الزام لگایاکرتے تھے ۔ڈاکٹر سیلؔ لکھتاہے کہ ڈاکٹر پریڈیاؔنے سوانح محمدؐ میں لکھا ہے کہ عبداللہ بن سلام کے متعلق لو گ اعتراض کیاکرتے تھے جس کانام یہودیوں میں عبدیاؔبن سلوم تھا ۔لیکن خود سیل ؔنے ہی اس کارد کیا ہے ۔وہ لکھتاہے ۔کہ پریڈیا نے عبداللہ بن سلام کے متعلق غلطی کھائی ہے ۔
سلمان کا نام ا س نے غلطی سے عبداللہ بن سلام سمجھ لیا ہے ۔(یعنی دراصل جس کانام لیا جاتاتھا وہ سلمان تھے )
سیلؔ کہتاہے کہ عام خیال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فسطوری پادری سے جس کانام سرگِیس تھامددلی تھی ۔اورخیال کیا جاتاہے کہ سرگیس بحیرہ راہب کانام تھا۔جس سے محمدؐصاحب جبکہ آپ حضرت خدیجہؓ کی طر ف سے تجارت کے لئے شام کوگئے تھے ملے تھے ۔اس کی سند میں مشہورتصنیف المسعودی کو پیش کیاجاتاہے جس نے لکھاہے کہ بحیرہ راہب کانام عیسائیوں کی کتاب میں سرگِیس آتاہے ۔
پادری دیری ؔمختلف روایات بیان کرکے اپنی رائے کو یوں ظاہر کرتے ہیں کہ ناموں میں خواہ کتناہی اختلاف ہو لیکن یہ بات ہم کو یقینی طور پر معلوم ہوجاتی ہے کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم )صاحب کے پاس ایسے ذرائع موجود تھے کہ ہجرت سے پہلے یہودیوں اورعیسائیوں کی مدد حاصل کرسکتے تھے ۔اوریہ بات کہ وہ اس مدد سے فائدہ حاصل کیا کرتے تھے اسکاناقابل تردید ثبوت مکی زندگی کے آخری دورکی سورتوں میں جن میں یہودیوں اورمسیحیوں کی کتب کی کہانیاں بیان ہیں ۔مہیا ہے ۔
پھر یہی صاحب آیت زیربحث کاحوالہ دیکر لکھتے ہیں کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد صحبؐ کے ہمسائے غیر مذاہب کے لوگوں سے مدد حاصل کرنے کا الزام ان پر لگایا کرتے تھے اواس اعتراض کاجوجواب قرآن نے دیا وہ محمد صاحبؐ کی پوزیشن کی کمزوری کوثابت کررہا ہے ۔چنانچہ آرنلڈ صاحب بھی اس بارہ میں لکھتے ہیں کہ اس بات کوتسلیم کرتے ہوئے کہ وہ غیرملکی تھے ۔ہم کہتے ہیں کہ وہ انہیں مسالاتومہیاکرکے دے سکتے تھے ۔
آگے دیر ی لکھتا ہے کہ یہی توہے جو وہ کیاکرتے تھے اوراسی وجہ سے کہ محمد صاحب اس مسالے کولے کر اوراپنی نبوت کے مقصد کی تائید میں ڈھال کر خدا(تعالیٰ)کی طر ف منسوب کرکے ان واقعات کو دہرادیاکرتے تھے اورجبرائیل فرشتہ کی وحی ا سکو بتاتے تھے ۔ہم ا س پرانے الزام کو دہرانے میں ہچکچاتے نہیں کہ وہ جان بوجھ کر جھوٹ بولاکرتے تھے (نعوذ باللہ من ہذہ الخرافات)
مسلمان مفسروں اورعیسائی مورخو ں اورپادریوں کے خیالات تحریرکرنے کے بعد اب میں اس آیت کامفہو م بیان کرتاہوں ۔آیت زیر بحث سے معلوم ہوتاہے کہ بعض لو گ اعتراض کیاکرتے تھے کہ رسول کریم ؐ کو قرآن کامضمون کوئی انسان سکھا تا ہے۔اس اعتراض کا جواب اللہ تعالیٰ یہ دیتاہے کہ ان کی زبان تواعجمی ہے اوریہ کلام توعربی میں ہے ۔مسیحی کہتے ہیں کہ یہ جوا ب غلط ہے کیونکہ معترض یہ تونہیں کہتا کہ وہ غلام قرآن کامضمون عربی زبان میں کرآپ کو دیدیاکرتے تھے ۔بلکہ یہ کہتا ہے کہ وہ یہودی کتب کے مضامین آپ کو بتاتے تھے اورآپ ان مضامین کو اپنی عبارت میں ڈھال لیاکرتے تھے ۔
میرے نزدیک کسی کے کلام کو سمجھنے سے پہلے اس کی عام حالت کاجائزہ لینابھی ضروری ہوتاہے ۔اگر قرآن کے دوسرے جوابات جووہ مخالفوں کے اعتراضوں کے دیتاہے ایسے ہی بیہودہ ہوتے ہیں جیساکہ یہ جواب ہے جوپادری ویری ؔ اورآرنلڈ صاحب نے قرآن کریم کی طرف منسوب کیا ہے ۔توبے شک ان کی یہ تنقید قابل اعتناء ہوسکتی ہے ۔لیکن اگراس کے برخلاف قرآن اپنے مخالفوں کے اعتراضا ت کے مناسب اورمدلل جواب دیتاہے ۔توپھر ا س امر کے تسلیم کرنے کے سواکوئی چارہ نہیں کہ یاتوپادری صاحبان نے سوال نہیں سمجھا یاجواب نہیں سمجھا۔
دوسراقابل غورامر اس بارہ میں یہ ہے کہ اگریہ جواب ایسا ہی بے جو ڑ تھا جیسا کہ میسرز ویری اورآرنلڈ ظاہر کرنا چاہتے ہیں توکیوں مکہ والوں نے اس کوردّ نہ کیا ؟ اگر ان کاوہی اعتراض تھا جومیسرز ویر ی اورآرنلڈ نے سمجھا ہے توانہوں نے کیوں اس کے جواب میں یہ بات نہ کہی کہ ہماراتویہ اعتراض نہیں کہ آپ عربی اس یہودی یا عیسائی غلام سے بنواتے ہیں ۔ہم تویہ کہتے ہیں کہ آپ مسالہ اس سے لیتے ہیں ۔اورپھراپنی زبان میں اس کے مضامین کوبیان کردیتے ہیں ۔کفار کی طرف سے یہ اعتراض کسی کمزورروایت میں بھی نہیں پایاجاتا ۔یہ بھی نہیں کہاجاسکتا کہ شاید مسلمانوں نے وہ اعتراض تاریخ میں نقل نہ کیا ہو ۔کیونکہ جب بیسیوں روائیتیں جن سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یااسلام پر زد آتی ہے ۔کتب احادیث میں درج ہیں ۔تواس ایک اعتراض کے نقل کرنے میں ان کے لئے کیا روک تھی ؟ پس صاف ظاہر ہے کہ کفار نے اس امر کو تسلیم کرلیا تھا کہ ان کے سوال کوٹھیک طورپر سمجھ لیا گیا ہے او ر جواب ا س کے مطابق ہی دیاگیاہے ۔
اب یہ سوال رہ جاتاہے کہ مذکورہ سوال کا جواب جو قرآن کریم نے دیاہے اس کا کیا مطلب ہے ؟تواس کامطلب سمجھنے سے پہلے اَعْجَمِیٌّ کے معنے سمجھ لینے ضروری ہیں ۔عربی زبان میں عرب اورعجم دولفظ عربوںاورغیر عربوں کے لئے مستعمل ہوتے ہیں ۔اوراسی مادہ سے اَعْجَمٌ کالفظ ہے جوغیر عر ب کے لئے بولاجاتاہے ۔چنانچہ تاج العروس جلد۸میں ہے ۔عرب کہتے ہیں ۔رَجُلی اَعجمُ وَقَوْمٌ اَعْجَمُ۔وہ شخص اعجم ہے یا وہ قو م اعجم ہے ۔مطلب یہ کہ وہ آدمی یاقوم غیر عر ب ہے ۔عربوں میں سے نہیں ہے ۔
اس حد تک کے حوالہ سے یہ ثابت ہوجاتاہے کہ اعجم غیرعرب کے معنوں میں استعمال ہوتاہے ۔لیکن ا سکے سوااعجم کے معنے مَنْ لایُفصحُ کے بھی ہیں یعنی وہ شخص جو بات کھو ل کر نہ بیا ن کرسکے ۔اسی طرح یہی معنے اعجمی کے بھی ہیں ۔(تاج)اوران معنوں میں عرب کی نسبت بھی یہ لفظ بولاجاسکتاہے ۔اسی طرح اعجم اس شخص کی نسبت بھی بولتے ہیں جس کی زبان میں لکنت ہو خواہ وہ فصیح الکالم ہی کیوں نہ ہو ۔(تاج)
ان معانی کو بیان کرنے کے بعد اب میں اس طرف توجہ پھیرناچاہتاہوں کہ ا س جگہ اعجمی کالفظ انسان کی نسبت نہیں بولاگیا بلکہ زبان کی نسبت بولاگیا ہے ۔یعنی یہ نہیں فرمایا کہ جس کی نسبت قرآن بنانے میں مدد دینے کاالزام لگایا گیا ہے وہ اعجمی ہے ۔بلکہ یو ں فرمایا ہے کہ جس شخص کی نسبت یہ لوگ ایسا گمان کررہے ہیں اس کی زبان اعجمی ہے یعنی(۱)غیر عر ب لوگوں کی زبان ہے (۲)یہ کہ اس کی زبان ایسی ناقص ہے کہ وہ اپنامطلب بیان ہی نہیں کرسکتا۔
اعجمی کے ایک معنے لکنت کے بھی ہیںوہ معنے بولی کی نسبت استعمال نہیں ہوسکتے ۔کیونکہ لکنت چمڑے کی زبان میں ہوتی ہے۔الفاظ سے مرکب بولی میں لکنت نہیں ہواکرتی ۔پس جب اعجمی کا لفظ زبان کی نسبت بولاجائے توا س کے دومعنے ہوتے ہیں ۔غیر عرب زبان یعنی جسے اعجم لوگ بولتے ہیں ۔یاپھر اس حد تک غیر فصیح زبان جو مطلب واضح نہ کرسکتی ہو خواہ اس کابولنے والاعرب ہی کیو ں نہ ہو ۔اورخواہ وہ عربی میں ہی کیوں بات نہ کررہا ہو۔
اعجمی زبان کے معنوں کی تعین کرنے کے بعد اب میں یہ بتاتاہوں کہ ان دونوں معنوں کو مدنظررکھ کر اس آیت کے یہ دومعنے ہوتے ہیں ۔
(۱)یہ لوگ کہتے ہیں کہ محمد رسول اللہ ؐ کو قرآن کوئی دوسراشخص سکھاتاہے ۔وہ شخص جس کی طرف یہ لوگ اس کام کو منسوب کرتے ہیں ا سکی زبان توغیر عربی ہے ۔
(۲)جس کی نسبت یہ لوگ اس کام کو منسوب کرتے ہیں وہ تواپنے خیالات اداکرنے پر قادرہی نہیں اورقرآن کی زبان عربی ہے ۔اورعربی بھی وہ کہ مضمون اسمیں سے پھوٹ پڑتے ہیں ۔
ان دونوں جوابوں کودیکھ لو کہ نہایت معقول اورمدلل مسکت ہیں ۔جوعربی نہ جانتاہووہ بھی عر ب کو کچھ سکھانہیں سکتا۔اورجس کی دماغی حالت ایسی کمزورہوکہ صحیح طورپر با ت نہ کرسکتاہو وہ بھی کوئی علمی بات کسی کو نہیں بتاسکتا۔
اب میںیہ بتاتاہوں کہ کفار کس شخص کی طرف اشارہ کرتے تھے ۔اس غلام کے مختلف نام آئے ہیں ۔مگر ان مختلف ناموں میں سے اس جگہ کے مطابق وہی روایت ہے جس میں جبر کی نسبت سکھانے کاشبہ ظاہر کیا گیا ہے۔کیونکہ باقی غلام جن کے نام لئے گئے ہیں کھلے طورپر مسلما ن تھے اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صبح شام ملتے رہتے تھے ۔ان میں کسی ایک کو اعتراضات کانشانہ بنانے کی کوئی وجہ نہ تھی۔اگراعتراض ہوتاتوسب پرہو تا ۔وہ شخص جو اکیلا تھا اور جس کی نسبت کفار کو شبہ ہوتاتھا کہ شاید یہ باتیں سکھاتاہے وہ جبر ہی ہے جو بہت دیر بعد مسلمان ہواہے اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجالس میں نہیں آتاتھا بلکہ جیساکہ روایات سے ثابت ہے آپ بعض دفعہ اس کے پاس جبکہ وہ تلواریں بناتے ہوئے انجیل کی آیات پڑھاکرتاتھا کھڑے ہوجاتے تھے ۔پس اس آیت میں جس شخص کی طرف اشارہ ہے وہ یہی شخص ہے اورجیساکہ حالا ت سے معلوم ہوتاہے کہ یہ شخص اپنے مذہبی جو ش کی وجہ سے لوہاکوٹتے ہوئے انجیل پڑھتاجاتاتھا اوربوجہ غیر زبان ہونے کے عجوبہ خیال کرتے ہوئے لوگ ا س کے گرد جمع ہوجاتے تھے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کے جوش سے متاثر ہوتے اورآپ بھی بعض دفعہ اس کے پاس کھڑے ہوجاتے اوریہ خیال کرکے کہ جس شخص میں مذہب کااس قدر جوش ہے وہ ضرور سنجیدگی سے دینی مسائل پرغورکرے گا۔اسے اسلام کی تلقین کرتے ۔بعض لوگ جنہوں نے اس کے پاس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڑے دیکھا انہوں نے یہ مشہورکردیا کہ وہ آپ کو سکھاتاہے ۔چنانچہ اوپر جو احادیث نقل ہو ئی ہیں ان میں یہ بھی آ تاہے کہ اس سے یا اس کاجوایک اورساتھی تھا اس سے بعض لوگوں نے سوال کیا کہ کیاتم محمد(صلی اللہ علیہ وسلم )کواپنے دین کی باتیں سکھاتے ہو؟تواس نے کہا کہ نہیں وہ مجھے سکھاتے ہیں ۔(روح المعانی جلد۱۴)
اس سوال و جواب سے ظاہرہے کہ لوگ اسی کی نسبت گمان کرتے تھے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھاتاہے ۔اس الزام کاجواب قرآن کریم نے یہ دیاہے کہ اس کی زبان تواعجمی ہے یعنی وہ عربی زبان نہیں جانتایاایسی تھوڑی جانتا ہے جسے زبان جاننانہیں کہہ سکتے ۔اورقرآن کی زبان تو عربی مبین ہے پھر بتائوکہ ان دونوں کے درمیان تبادلہ خیال کسطرح ہوتاہے ۔آخر مذہب کی تعلیمات سکھانے کے لئے زبان ہی ذریعہ ہے اگردونوں شخصوں کی زبان ایک نہیں ۔ایک کی زبان غیر عربی ہے اوردوسرے کی عربی ۔توعربی دان غیر عربی دان سے کس ذریعہ سے فائدہ اٹھاسکتاہے۔یہ جوا ب نہایت معقول ہے اوراس جواب کو کوئی غیر معقول نہیں کہہ سکتا ۔
دوسرے معنے اس آیت کے یہ ہوسکتے تھے کہ اس کی زبان جس کی نسبت اتہام لگایاجاتاہے کہ وہ سکھاتاہے گوعربی ہو۔مگروہ اپنا مفہوم اداکرنے کی قابلیت نہیں رکھتا ۔اگر یہ معنے کئے جائیں تب بھی جواب درست ہے ۔کیونکہ جواب میں قرآن کریم کو پیش کیاگیا ہے اوربتایاگیا ہے کہ قرآن کی زبان اسقدروسیع مطالب پر مشتمل ہے کہ وہ مبین کہلانے کی مستحق ہے یعنی وہ ہراعتراض کاخود ہی جواب بھی دیتی جاتی ہے ۔پھریہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ ایک شخص جو اپنا مطلب بھی پوری طرح واضح نہیں کرسکتا یعنی موٹی عقل والااورکُند ذہن ہے ۔وہ ایسے مطالب محمد ؐرسول اللہ کوبتائے کہ ہردعویٰ کے ساتھ اس کی دلیل بھی موجود ہو۔اورہرمشکل جو قرآن پڑھتے ہوئے انسانی ذہن پیداکرے اس کاحل بھی ساتھ ہی موجود ہو ۔جوشخص کسی علمی بات کے بیان کرنے کے قابل نہیں اورموٹی عقل کاآدمی ہے اوراپنے مطلب کو واضح نہیں کرسکتا وہ اس قسم کی باتیں سمجھا ہی کس طرح سکتا ہے ۔یہ دلیل بھی ایسی کامل اورمُسکت ہے کہ ا س کے معقول اورلاجواب ہونے میں کوئی شبہ ہی نہیں کیاجاسکتا۔
ممکن ہے کو ئی اعتراض کرے کہ ہوسکتاتھا کہ وہ غلام اپنے بھدّے پیرایہ میں اناجیل کے واقعات سنادیتاہو ۔اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنے الفاظ میں بیان کردیتے ہوں ۔اسکاجواب یہ ہے کہ مبین کالفظ اس سوال کاجواب بھی دے رہاہے ۔کیونکہ بتانے والا اگرنامکمل سچائیاں بتاتا تھاتوکونسی صورت تھی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو مبین صداقتوں یعنی ان صداقتوں میں جو اپنی سچائی کی آپ ہی دلیل ہوں تبدیل کرسکتے تھے کیاکوئی شخص یہ طاقت رکھتاہے کہ جھو ٹ یاغلط بات کو صرف مدلل ہی نہیں بلکہ ایسا مدلل بنادے کہ مضمون روزروشن کی طرح کھل جائے ۔
بعض مسیحی اعتراض کویہ رنگ دیتے ہیں کہ قرآن کایہ دعویٰ ہے کہ اس میں چونکہ یہود و نصاریٰ کی کتب کی باتیں ہیں اورمحمدؐرسول اللہ بوجہ امّی ہونے کے خود ان باتوں سے واقف نہیں ہوسکتے تھے ۔اس لئے ثابت ہواکہ یہ باتیں انہوں نے خداتعالیٰ سے معلو م کر کے دنیاکو بتائی ہیں ۔اس دعویٰ کے خلاف یہ اعتراض ہے کہ وہ بعض مسیحی غلاموں سے غلط اوربے جوڑ روایات سن کر قرآن میں داخل کرلیتے تھے۔اوراس صورت میں یہ ضروری نہیں کہ جس شخص سے وہ ان قصوں کو سنیں وہ ضرور بڑے دماغ کااوربڑی سمجھ کا آدمی ہو ۔بلکہ واقعات چونکہ غلط بیان ہوئے ہیںاس لئے جاہل اوراکھڑ غلام کی نسبت ایسا الزا م کے واقعا ت زیادہ مطابق بیٹھتا ہے نہ کہ اعترا ض کو دور کرتا ہے ۔
اس کاجواب ایک تو یہ ہے کہ قرآن کریم میں کہیں وہ دعویٰ بیان نہیں جومسیحی قرآن کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔قرآن کریم اپنی سچائی کہ دلیل نہیں دیتا کہ چونکہ اس میں اہل کتاب کی کتب کی باتیں بیان ہوئی ہیں و ہ خداتعالیٰ کی طرف سے ہے۔بلکہ قرآن تو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس میں وہ صداقتیں موجود ہیں جواہل کتا ب کی کتب میں نہیں ہیں اس لئے وہ خداتعالیٰ کی طرف سے ہے ۔چنانچہ اسی سورئہ نحل میں یہ آیات گذر چکی ہیں کہ تَاللّٰہِ لَقَدْاَرْسَلْنَآ اِلیٰٓ اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَزَیَّنَ لَھُمُ الشّلیْطٰنُ اَعْمَالَھُمْ فَھُرَوَلِیُّھُمُ الْیَوْمَ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ٭وَمَااَنْزَلْنَاعَلَیْکَ الْکِتٰبَ اِلَّا لِتُبَیِّنَ لَھُمُ الَّذِیْ اخْتَلَفُوْافِیْہِ وَھُدًی وَّرَحْمَۃً لِّقَوْمِ یُّؤْمِنُوْنَ۔( نحل ع۱۶؍۸)یعنی ہمیں اپنی ہی ذات کی قسم ہے کہ تجھ سے پہلے ہرقوم میں نبی گزرچکے ہیں ۔اورہرقوم کے پاس ہدایت نامہ آچکا ہے مگرباوجود اس کے شیطان نے ان قوموں کو گمراہ کردیا اوراب وہ مختلف باتیں اپنے مذہب کی طر ف منسوب کررہے ہیں جوخداتعالیٰ کی طرف سے نازل نہ ہوئی تھیں اوروہ اللہ تعالیٰ کوچھوڑ کرشیطان کے تصرف میں آئے ہوئے ہیں اوردردناک عذاب کا موردبننے کے خطرہ میں ہیں ۔پس ان کے ان اختلافات کے مٹانے کے لئے ہم نے تجھ پر یہ کتاب اتاری ہے ۔تاکہ اس کے ذریعہ سے وہ سچائیاں جوان سے مخفی ہوچکی ہیں اوروہ ان کے متعلق اختلاف کررہے ہیں بیا ن کرے۔اوراس قرآن کے ذریعہ سے ہم نے مومنوں کے لئے ہدایت اوررحمت کے سامان پیداکئے ہیں ۔
اس آیت میں سب سے پہلے قوموں میں نبی آنے کا ذکر ہے اوربعد میں قرآن کریم کے نزول کا ۔اوریہ نہیں فرمایا کہ چونکہ یہ پہلے نبیوں کی کتب کی باتیں بیان کرتا ہے اس لئے سچا ہے ۔بلکہ یہ فرمایا ہے کہ پہلی کتب کو لو گوں نے چھوڑ دیا اورشیطان کے پیچھے چل پڑے اوران میں قسم قسم کے اختلاف پیداہوگئے ۔یہ قرآن ان اختلافوں کو مٹانے اورجو صداقت مخفی ہوگئی تھی اسے ظاہرکرنے کے لئے آیا ہے ۔قرآن کریم کے اس دعوے کی موجودگی میں یہ کہتا کہ محمدرسول اللہ ؐ محض پچھلی کتب کی باتیں بیان کرکے جن کو وہ چند غلاموں سے سن لیتے تھے اپنی سچا ئی کادعویٰ کرتے تھے کس قدرغلط ہے ۔
خود یہ آیت بھی تو جیساکہ میں پہلے بیان کرچکا ہوں یہی بات پیش کررہی ہے ۔کہ قرآن کریم کی برتری کسی نقل کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کے مبین ہونے کی وجہ سے ہے ۔اورمبین ہونے کے لئے وسیع اورمخفی علوم کی ضرورت ہوتی ہے ۔جن کی اس آدمی سے جس کی طر ف یہ کلام منسوب کیاجاتا ہے ۔توکیا امید کی جاسکتی ہے بڑے سے بڑاعقلمند انسان بھی اس کتاب کے بنانے میں مدد نہیں دے سکتا ۔جس میں سب سچائیا ںیادلیل بیان کی گئی ہوں ۔اورسب اعتراضوں کا رد موجود ہو ۔ایسی کتاب تو صرف اللہ تعالیٰ ہی اتارسکتا ہے۔
ممکن ہے کو ئی یہ کہے کہ یہ کہنا غلط ہے کہ وہ غلام جاہل تھے ۔ہم توسمجھتے ہیں کہ کوئی بڑاعالم رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم)کے قبضہ میں آگیاتھا ۔جن مسیحیوں نے اس آیت کا مشارٌ الیہ سرگِیس کوقرار دیا ہے اسی حکمت سے قرار دیا ہے کیونکہ وہ زیادہ عقلمند تھے ۔اورانہوں نے اس امر کو محسوس کرلیاتھا کہ قرآن کریم میں یہود ونصاریٰ اوراسلام کے درمیان اختلافی امورکی جو بحث ہے و ہ غلام توالگ رہا اچھے لکھے پڑھے عیسائی کی دسترس سے بھی باہر ہے ۔اس لئے انہوں نے ایک فرضی سرگیس کو تجویز کیا کہ وہ ایک نُسطوری راہب تھا اورآپ کو سکھایاکرتاتھا ۔تاریخی طورپر تو خود مسیحی مصنفوں نے ہی ان کی بات کو رد کردیا ہے ۔مگرمیں عقلی طورپر بھی اس کا ایک جواب بیان کردیتاہوں اوروہ یہ ہے کہ اگرنصاریٰ اس الزام کو یہ شکل دیں تو پھر بھی انہی کے مذہب پر زدپڑتی ہے کیونکہ اس کے یہ معنے ہوں گے کہ یہود و نصاریٰ کی جوتصویر اسلام نے پیش کی ہے خواہ انسانوں سے سیکھ کر کی ہے مگر ہے وہی سچی۔اوراگر وہ تصویر سچی ہے توان کے مذاہب کے غلط ہونے میں کیا شبہ رہ جاتا ہے ۔اس پہلو کے بدلنے سے صرف ان کویہ تسلی ہوگئی کہ ہمارے مذاہب توجھوٹے ثابت ہوہی گئے ہیںہم نے قرآن پر بھی اعتراض کردیا کہ اسے بھی انسانوں نے بنایا ہے ۔لیکن یاد رہے کہ شبہ یقین کاقائم مقام نہیں ہوسکتا قرآن کریم کی طرف جو بات و ہ منسوب کررہے ہیں اسے توخود ان کے اپنے آدمی ناقابل قبول قراردیتے ہیں ۔لیکن یہ تسلیم کرکے کہ قرآن کریم نے یہودیوں اورمسیحیوں سے جہاں جہاں اختلا ف کیا ہے وہ کسی بڑے عالم کی تحقیق ہے ۔جس نے اہل کتاب کی لائبریریاں چھان کر ان باتوں کو نکالا ہے ۔اورموجود ہ مذاہب کی غلطیوں کو ظاہرکردیا ہے ۔اس سے تو ان مذاہب کاکچھ بھی نہیں رہتا ۔اوریہودی اورمسیحی زیادہ سے زیادہ یہ کہہ کر اپنے دل کو تسلی دے سکتے ہیں یہ یہودیت وہ نہیں جوموجودہ تورات اورکتب یہود میں موجود ہے بلکہ وہ ہے ۔جوقرآن میں بیان ہوئی ہے۔اورنصرانیت وہ نہیں جوموجود ہ اناجیل میں ہے بلکہ وہ ہے جو قرآن میں ہے ۔اوراگر وہ ایسا کہیں گے تودوسرے لفظوں میں قرآن کریم کی تصدیق کریں گے ۔
اب ایک پہلو آیت کے ترجمہ کارہ گیا ہے جوقابل توجہ ہے اور وہ یہ کہ کوئی کہہ سکتاہے کہ آیت کایہ ترجمہ جس کی نسبت لو گ گمان کرتے ہیں۔ اس کی زبان غیرعربی ہے ۔اس کے گوایک معنے یہ بھی ہوسکیں کہ کو عربی یاآتی ہی نہیں یااتنی نہیں آتی کہ وہ اپنا مطلب بیان کرسکے ۔لیکن اس کے یہ معنے بھی توہوسکتے ہیں کہ اس کی مادری زبان غیر عربی ہے ۔اورایسا شخص جسکی مادری زبان غیر عربی ہو بعد میں عربی سیکھ بھی توسکتاہے پس جواب مکمل نہ ہوا۔
اس کاجواب یہ ہے کہ یہ معنے اس آیت کے نہیں ہوسکتے کیونکہ یہ سوال قرآن کریم نے دوسری جگہ خود بیان کیا ہے ۔اوراس کاالگ جواب دیا ہے ۔جس سے ثابت ہوتاہے کہ وہ معنے آیت زیر بحث میں نہیں ہیں ۔نیزاس سے یہ امر بھی ثابت ہوتاہے کہ پادری ویری کایہ استنباط کہ سورۃ نحل کاجواب بالکل بوداہے اوراس سے اعتراض کی سچائی ثابت ہوتی ہے ۔ان کی ناواقفیت کی وجہ سے ہے کیونکہ جب قرآن کریم نے وہی سوال جو وھیریؔصاحب اوردوسرے مسیحی مصنفوں نے اس آیت سے نکالا ہے سور ۃ فرقان میں خود بیان کیا ہے اوراس کاجواب نہایت زبردست دیا ہے ۔تویہ کس طر ح ممکن تھا کہ سور ۃ نحل میں اس سوال کانہایت بوداجواب دیاجاتا ۔
سورۃ فرقان خود دھیر ی صاحب کے نزدیک ابتدائی مکی سورتوں میں سے ہے ۔وہ لکھتے ہیں کہ :۔
’’اس سورۃ کی آیتیں محمد(صلعم)کی ابتدائی مکی وحی میںسے ہیں۔‘‘(تفسیر قرآن جلد ۳ ص ۲۰۷)
اورسورۃ نحل کی نسبت وہ لکھتے ہیں کہ :۔
’’تما م شہادت اندرونی ہویابیرونی ہمیں اس امر کے ماننے پرمجبورکرتی ہے کہ یہ (نحل)آخری مکی سورتوں میں سے ہے ۔‘‘(تفسیرالقرآن جلد ۳۔ص ۲۴و۲۵)
اب کیا کو ئی عقلمند تسلیم کرسکتا ہے کہ جس اعتراض کو سورۃ فرقا ن میں نہایت زبردست دلائل کے ساتھ ردکیا ہے اس کے چھ سال بعد اس سوال کا جواب سوۃ نحل میں نہایت بودااورکمزوردیدیا ہے ۔اگرفرقان بعد کی ہوتی توکوئی شبہ بھی کرسکتاتھا کہ اس وقت جواب نہیں سوجھا بعد میں جوا ب بنالیا۔مگر فرقان خود مسیحی مصنفوں کے نزدیک پہلے کی ہے اورنحل بعد کی ۔
اب میں مضمون کو یکجا کرنے کے لئے پہلے وہ دلائل بیان کرتاہوں جوسورۃ فرقان میں بیان کئے گئے ہیں ۔سورۃ فرقان میں آتاہے :۔
وقال الذین کفروا ان ھذا الاافک فتراہہ واعانہ علیہ قوم آخرون فقد جاء و ظلماً وزوراً٭وقالو ا اساطیر الاولین اکتتبھا فھی تملی علیہ بکرۃ واصیلا ۔ قل انزلہ الذی یعلم السر فی السموت والارض ۔ انہ کان غفورارحیما ٭(سورہ فرقان ع ۱)
یعنی کفار کہتے ہیں کہ قرآن ایک جھوٹی کتا ب ہے اورمحمد رسول اللہؐ کواس کے بنانے میں دوسرے لوگ مدد دیتے ہیں۔ان کفار نے یہ اعتراض کرکے سخت ظلم کیا ہے اورجھوٹ بولاہے اوروہ اس اعتراض کو پکا کرنے کے لئے یوں دلیل دیتے ہیں ۔کہ قرآن میں ہے کیا ۔بس پرانے لوگوں کی باتیں نقل کردی گئی ہیں ۔محمد(صلعم)وہ باتیں لکھوالیتے ہیں اورصبح و شام ان کے سامنے وہ پڑھی جاتی ہیں (تاکہ یاد رہیں) تُوان سے کہہ کہ قرآن کوتوا س نے اتاراہے جوآسمان اورزمین کے رازوںکو جانتا ہے ۔وہ بہت بخشنے والا اورمہربان ہے۔
اس آیت میںصاف لفظوں میں اس اعتراض کونقل کیاگیاہے جوویریؔ صاحب سورۃ نحل کی آیت سے نکالنا چاہتے ہیں اوراس اعتراض کو پڑھ کر یہ بھی صاف معلوم ہوجاتاہے کہ سورہ نحل والی آیت کااعتراض اس آیت سے مختلف ہے ۔کیونکہ سورۃ نحل میں ایک شخص کی طرف سکھانا منسوب کیاگیاہے اوریہاں کئی شخصوں کی طرف ۔پھرسورۃ نحل والی آیت میں گونام نہیں لیاگیامگر یہ ضرو ر بتایاگیا ہے کہ جس پر الزام لگایاجاتاہے وہ معیّن شخص ہے ۔لیکن سورۃ فرقان میں وہ جماعت غیر معیّن رکھی گئی ہے ۔اسی طرح سورۃ نحل میں سکھانے کے کام کاوقت نہیں بتایا گیا لیکن سورۃ فرقان میں یہ بھی بتایاگیاہے کہ صبح و شام یہ تعلم کاسلسلہ جاری رہتاہے ۔
سورۃ فرقان کی آیات کے الفاظ صاف بتاتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ چونکہ صبح و شام نماز کے لئے اورقرآن سیکھنے کے لئے دارارقم میں جمع ہوتے تھے ۔وہ نادان یہ خیال کرتے تھے کہ شاید اس جگہ جمع ہوکر بعض مسیحی غلام اپنی کتب کی باتیں ان کو بتاتے ہیں یاان سے لکھ کر صحابہ لے آتے ہیں اورپھر و ہ صبح و شام حفظ کی جاتی ہیں ۔ان جاہلوں کی عقل میںصبح و شام کی نمازیں توآہی نہیں سکتی تھیں۔وہ اس اجتماع کو منصوبہ بازی کاوقت سمجھتے تھے ۔خود مجھے اس بار ہ میں ایک بار تجربہ ہوچکا ہے جس سے اس قسم کی بدگما نی کی حقیقت خوب معلوم ہوجاتی ہے ۔
کوئی بیس سال کاعرصہ ہوا۔میں لاہور گیا ۔مجھ سے آریو ں کے مشہور لیڈر لالہ رام بھجدت جواب فوت ہوچکے ہیں ملنے کے لئے آئے ۔ ان کے ساتھ کچھ اَورصاحبان بھی تھے ۔جن میں شیر پنجاب جو سکھوں کامشہور اخبار ہے ۔اس کے ایڈیٹر صاحب بھی شامل تھے ۔اتفاق سے اس دن میرالیکچر تھا ۔وہ لیکچر سننے کے لئے ٹھیر گئے ۔مجھے سارادن کام کی وجہ سے حوالے نکالنے کاموقعہ نہیں ملاتھا ۔اس لئے میں نے حافظ روشن علی صاحب مرحوم کو (اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت فرمائے)جوآیات کو نکالنے کاخاص ملکہ رکھتے تھے سٹیج پربٹھالیا ۔اورکہاکہ میں آپ کومضمون بتاتاجایا کروں گا ۔آپ مجھے آیت کے الفاظ بتاتے جایاکریں ۔خیر میں نے لیکچر شروع کیا ۔جہاں کسی آیت سے استدلال کی ضرورت ہوتی ۔میں آہستہ سے ایک دو الفاظ آیت کے پڑھ دیتا یا مضمون بتادیتا اوروہ ساری آیت پڑ ھ دیتے ۔میں اسے پڑھ کر جو استدلال پیش کرناہوتا تھا اسے بیا ن کردیتا ۔دوسرے دن شیر پنجاب میں ایک مضمو ن نکلا کہ کل ہم بھی امام جماعت احمد یہ قادیان کے لیکچر میں تھے لیکچر اچھا تھا ۔مگر ہم نے ذراتجسس کیا اورسٹیج کی پچھلی طرف گئے تومعلوم ہو اکہ انہوں نے اپنے پیچھے ایک عالم چھپایا ہواتھا ۔وہ مضمون بتاتاجاتا تھا اورمرزاصاحب دہراتے جاتے تھے ۔واقف کار لوگوں میں کئی دن اس پر ہنسی اُڑتی رہی اورسردار صاحب سے بھی کسی نے جاذکر کیا ۔وہ بہت شرمندہ ہوئے ۔اورکہا کہ میں نے توسمجھا تھا کہ میں نے اپنی ہوشیاری سے راز معلوم کرلیا ہے ۔
ایسی ہی ہوشیار ی مکہ والوں نے دکھائی تھی۔کام والے لوگوںکو صبح و شام ہی فرصت مل سکتی تھی ۔و ہ صبح اورشام کی نمازیں اداکرنے کیلئے اور قرآن پڑھنے کے لئے دارارقم میں جمع ہوجاتے تھے ۔کفار کے بعض زیادہ عقلمند لو گ خیا ل کرتے تھے کہ ہم نے را ز معلوم کرلیا ہے ۔یہ قرآن کی تصنیف کے لئے جمع ہوتے ہیں ۔
عقلمند کے لئے ا س میں بھی ایک نشان ہے کیونکہ ا س میں بھی یہ اعتراف پایاجاتاہے کہ قرآن کوکوئی ایک شخص نہیں بناسکتا۔تبھی انہوں نے اس کے بنانے میں مدددینے والی ایک جماعت قراردی ۔جن میں سے بعض عقلی باتیں جمع کرتے تھے اوربعض پرانی کتب کی تعلم جمع کرتے تھے ۔
اب میں سورۃ فرقان میں اس اعتراض کے جو جواب دئے گئے ہیںبیان کرتاہوں کفارکے اس اعتراض کاجواب دیتے ہوئے اس کے دوپہلوئوں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔
(۱)اول یہ کہ جن کی نسبت کہاجاتاہے کہ وہ قرآن کریم کے بنانے میں مدددیتے ہیں ۔کیاوہ ایسا کرسکتے تھے ؟
(۲)دوسرے یہ کہ جس چیز کی نسبت کہا جاتاہے کہ بعض غلاموں نے لکھائی ہے ۔کیاوہ انسانوں کی لکھائی ہوئی ہوسکتی ہے ؟
پہلے سوال کاجواب قرآن کریم یہ دیتاہے کہ یہ سوال نہایت ظالمانہ اورجھوٹاہے ۔ا س جواب میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جن غلاموں کی نسبت کہاجاتاہے کہ و ہ آآکررسول کریمؐ کو قرآن سکھایاکرتے تھے ان کے متعلق دیکھنا چاہیئے کہ وہ اسلام کی خاطرکیا کیاتکالیف اٹھارہے تھے ۔یہ کیونکر ممکن ہوسکتاتھا ۔کہ ایسے لوگ جو خود قرآن بنا بناکر محمد رسول اللہؐ کو دیتے تھے ۔اس جھوٹے کلام کی خاطر رات اوردن تکلیفیں اٹھارہے تھے۔اسلام کی خاطران غلاموں میں سے بعض نے جانیںدیں۔بعض کی آنکھیں نکالی گئیں ۔ایک میا ں بیوی کو اس طرح قتل کیا گیا کہ خاوند کی دونوں لاتوں کو دواونٹوں سے باندھ کر دوطر ف چلادیا ۔اوراس کی بیوی کی شرمگاہ میں نیزہ مارکر اس کے سامنے قتل کیا ۔اوران کے لڑکے کو بھی سخت ایذائیں دیں ۔اس دوران میں انہیں بار بار کہاجاتاتھا کہ محمدرسول اللہؐ کاانکا رکردیں توچھو ڑ دیئے جائیں گے ۔مگر میاں بیوی مرتے مرگئے پرصداقت کادامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔یہ آزاودں کاسردار نام نہاد غلام یاسربھی انہی غلاموں میں سے تھا جن کے متعلق یہ اتہام لگایاجاتاتھا کہ و ہ محمد رسول اللہؐ کوسکھاتے ہیں ۔کیاکوئی انسان مان سکتاہے کہ خود ہی قرآن بناکر دینے والے محمدرسول اللہؐ کے نام پر ایسے ایسے عذاب اٹھاکر جانیں قربان کررہے تھے ۔
مکہ کے کافر تووقتی جوش میں اندھے ہو رہے تھے کیاآج کل کی عیسائی دنیا میں بھی کو ئی دیکھنے والی آنکھ نہیں ؟ کوئی بولنے والی زبان نہیں جواس بار با دہرائے جانے والے ظالما نہ اورجھوٹے اعتراض کے خلا آواز اٹھائے ؟
اعتراض کادوسراپہلویہ ہے کہ کیاوہ کلام ان غلاموں کاسکھایاہواہوسکتاہے؟اس کاجواب یہ ہے کہ جنہیں تم قصے کہتے ہو وہ قصے ہیں ہی نہیں۔ بلکہ پیشگوئیاں ہیں ۔ان کااتارنے والاتوآسمانو ںاورزمین کے غیبوں جاننے والا خداہے ۔یعنی ان میں آئند ہ کے حالات بیان کئے گئے ہیں نہ کہ پرانے واقعات۔اورانسان آئندہ کے حالات نہیں جان سکتا ۔اورنہ بتاسکتاہے ۔اب دیکھو تویہ جواب کیساواضح اورصحیح ہے ۔
غرض سورہ نحل میں یہ اعتراض نہیں کہ دوسراکوئی شخص اسے مضمو ن سکھاتاہے ۔وہ اعتراض فرقا ن میں بیان ہواہے اوراس کاایسا دندان شکن جواب دیا گیاہے کہ شریف آدمی اسے سن کر پھر اس اعتراض کو دہرانہیں سکتا ۔اورسورۃ نحل میں وہ اعتراض نہیں بلکہ یہ اعتراض بیان ہواہے کہ فلاں غلام سکھاتاتھا ۔حالانکہ وہ غلام عربی نہیں جانتاتھا ۔صر ف کچھ آیات انجیل کی غالباً یونانی زبان میں ہوں گی کام کرتے وقت پڑھاکرتا تھا۔محمد رسول اللہ ؐ اس کے جوش کو دیکھ کر اس کے پاس تبلیغ کے لئے ٹھیر جاتے تھے کہ کوئی بات اس کے کان میں پڑ جائے توشاید کسی وقت ہدایت کاموجب بنے تبھی اس نے خو د اقرار کیا ہے کہ یہ مجھے سکھاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ جواب میں فرماتا ہے کہ اسے توعربی بولنی اس قدر نہیں آتی کہ کوئی علمی مضمون بیا ن کرسکے ۔یہ اتنی ہی مدد کرسکتا ہے کہ انجیل کی عبارتیں عبرانی یایونانی زبانوںمیں آپ کویاد کراد ے۔لیکن اگر ایساہوتا توقرآن کاایک حصہ عبرانی یایونانی ہوتا ۔مگرقرآن توساراعربی میں ہے ۔پھر جبکہ ترجمانی وہ غلام نہیں کرسکتا اورعبرانی یونانی کی عبارتیں قرآن میں موجود نہیں توسکھایا کس نے اورسیکھا کس نے ؟اس سے زبردست جواب اورکیاہوسکتاہے اوراسے بوداکہنے والے کو سوائے متعصب یاموٹی عقل والے کے اورکیا کہہ سکتے ہیں ۔
یہ بھی یاد رہے کہ روایت میں دوغلاموں کاذکر آتاہے لیکن میں نے ایک غلام کاذکر کیا ہے ۔اس کی دووجہیں ہیں ۔ایک یہ کہ قرآن کریم کی آیت سے ظاہرہوتاہے کہ وہ ایک غلام کے متعلق اعتراض کیا کرتے تھے ۔دوسرے ایک روایت جس میں ذکر ہے کہ اس شخص سے لوگوں نے پوچھا کہ کیاتومحمد(صلعم)کوسکھاتا ہے ؟تواس نے کہاکہ نہیں ۔اس میں بھی ایک ہی آدمی کا ذکر ہے ۔پس خواہ دوغلام ہی اس جگہ اکٹھے کام کرتے ہوں پرشبہ معلوم ہوتاہے کہ ایک ہی کے متعلق کیاجاتا تھا ۔
اس جگہ ایک اورسوال بھی غورطلب ہے جواس اعتراض کے متعلق ہماری صحیح راہنمائی کرسکتاہے ۔اوروہ یہ ہے کہ کیا اس وقت تورات اورانجیل کے عربی تراجم ہوچکے تھے اوروہ اس قدررائج تھے کہ غلام بھی ان کو کام کے وقت پڑھاکرتے تھے ؟کیونکہ اگریہ صورت نہ ہوتوعبرانی اوریونانی کتب کی عبارتوں سے نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی فائدہ اٹھاسکتے تھے اورنہ وہ غلام خود ہی فائدہ اٹھا سکتے تھے ۔ کیونکہ عبداللہ بن سلام کے سواکسی ایک مسلمان کے متعلق بھی تاریخ سے ثابت نہیں کہ وہ عبرانی جانتا تھااوریونانی سے واقف کاتوتاریخ میں میرے علم میں کوئی ذکر ہی نہیں آتا۔جہاں تک میری تحقیق ہے اس وقت تک عربی زبان میں تورات اورانجیل کے تراجم نہیں ہوئے تھے ۔ اورجب ان کتب کے تراجم نہیں ہوئے توطالمود وغیرہ جو یہود کی روایتوں کی کتب ہیں ان کے تراجم کس نے کرنے تھے ۔میرے اس خیال کی تائید مندرجہ ذیل دلائل سے ہوتی ہے ۔
(۱)اس وقت تک انجیل کے تراجم کاکوئی رواج ہی نہ تھا ۔تراجم کارواج تیرھویں چودہویں صدی سے شروع ہوا۔اوریہی وجہ ہے کہ ہمارے مفسرین جنہوں نے تفسیر میں مددلینے کے لئے ہرقسم کے علوم پڑھ ڈالے تھے جب تورات اورانجیل کے حوالے دینے بیٹھتے ہیں توبالکل بے ثبوت کہا نیاں ان کی طرف منسوب کردیتے ہیں ۔جن کاکوئی نام و نشان بھی بائبل میں نہیں ہے جن کی وجہ یہی ہے کہ ان کو عربی کی انجیل میسر نہ تھی ۔اگرعربی میں تورات اورانجیل ہوتی توکیایونان کا فلسفہ اورحکمت پڑھنے والے ان کتب کو نہ پڑھتے ؟
(۲)اسلامی روایات سے بھی یہی معلوم ہوتاہے کہ اس وقت اناجیل یونانی یا عبرانی زبان میں ہی تھیں۔بخاری باب بدء الوحی میں ورقہ بن نوفل کے متلعق لکھاہے ۔قد تَنَصَّرَ فِی الْجَاھِلِیَّۃِ وَکَانَ یَکْتُبُ الْکِتَابَ العِبْرانے فَیَکْتُبُ مِنَ الْاِنْجِیْلِ بِالْعِبْرَانِیَّۃِ مَاشَآ ئَ اللہُ اَنْ یَکْتُبَ۔ یعنی ورقہ عبرانی زبان میں انجیل لکھاکرتے تھے ۔
بعض روایات میں بجائے عبرانی کے عربی کالفظ بھی ہے ۔مگرہم اس روایت کو ترجیح دینے پر مجبور ہیں۔کیونکہ اگر عربی میں تورات وانجیل ہوتی توبہت سے لوگ اس کے پڑھنے والے نکلتے ۔بلکہ میرے نزدیک تویہ بھی ممکن ہے کہ عبرانی بھی راوی کی غلطی سے لکھا گیاہو۔کیونکہ اس وقت یونانی اناجیل ہی مروج تھیں اورعبرانی انجیل قریباً مفقود ہوچکی تھی ۔
(۳)تیسراثبوت اس امر کا کہ تورات کا ترجمہ عربی میں نہ ہواتھا یہ ہے کہ یہودی جن کے بعض قبائل مدینہ میں آکر بس گئے تھے ۔ان کے پاس بھی تورات کاعربی ترجمہ نہ تھا ۔چنانچہ اگر کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوکسی حوالہ کی ضرورت ہوتی ۔توعبداللہ بن سلام سے آپ کومددلینی پڑتی تھی ۔جوعبرانی جانتے تھے ۔
(۴)احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت عمرؓ نے عبرانی پڑھنی شروع کی تھی۔تاکہ وہ تورات اورانجیل کو پڑھ سکیں (مشکوٰۃ المصابیح کتاب الایمان باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ)
(۴)چوتھے ثبوت کے طور میں ایک مسیحی مضمون نویس کی شہاد ت پیش کرتاہوں ۔ڈاکٹر الگزنڈر سوٹر ۔ایم۔اے ۔ایل۔ایل۔ڈی۔اپنی کتاب دی ٹیکسٹ اینڈ کینن آ ف دی نیو سٹیٹمنٹ کے صفحہ ۷۴ پر لکھتے ہیں ۔ ۱؎
‏''ARABIC VERSIONS:
‏THESE COME PARTLY DIRECTLY FROM GREEK PARTLY THROUGH SYRIAC AND PARTLY THROUGH CAPTIC.
‏MUHAMMAD HIMSELF KNEW THE GOSPEL STORY ONLY ORALLY. THE OLDEST MANUSCRIPT GOES NO FURHTER BACK THAT 8TH CENTURY ------------ TWO VERSIONS OF THE ARABIC ARE REPORTED TO HAVE TAKEN PLACE AT ALAXANDRIA IN THE 13TH CENTURY.
‏'' THE TEXT & CANNON OF THE NEW TESTAMENT.''
‏BY .DR. ALEXANDER SOUTER
‏M.A.L.L.D. PAGE 74
انجیل کے عربی تراجم کے عنوان کے نیچے لکھتے ہیں :۔
’’ان تراجم کے کچھ ٹکڑے توبراہ راست یونانی سے ہوئے کچھ ٹکڑے سریانی زبان سے ترجمہ ہو ئے اورکچھ قطبی زبان سے ۔ محمد(صلعم)بھی اناجیل کے متعلق صرف زبانی معلومات رکھتے تھے ۔پرانے سے پرانا ترجمہ عربی کاآٹھو یںصدی سے اوپر نہیں جاتا ۔(رسول کریم صلعم چھٹی صدامیں پیداہوئے تھے ۔‘‘
پھر لکھتے ہیں کہ بیا ن کیاجاتاہے کہ وہ ترجمے عربی کے تیرہویں صدی میں سکندر یہ کے مقام پرکئے گئے تھے ۔
ان دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ انجیل کا عربی ترجمہ اس وقت تک نہ ہواتھا اورجن لوگو ںنے انجیل پڑھنی ہوتی تھی وہ عبرانی یایونانی میں پڑھا کرتے تھے ۔
پس یہ سوال ہی پیدانہیں ہوسکتا کہ جبر عربی زبان میں تورا ت اورانجیل پڑھتا تھا اورآپ ا س سے سیکھ لیتے تھے ۔وہ عبرانی یونانی زبان کے الفاظ جو اس نے رٹے ہوئے ہوں گے پرہاکرتا ہوگا۔پس آپ زیادہ سے زیاد ہ یہ کرسکتے تھے کہ اس کے بولے ہوئے لفظوں کو
۱؎ ۔پہلے یہ کتاب ۱۹۱۲ ؁ء میں شائع ہوئی ۔اب دوبارہ ۱۹۲۵ ؁ء میں شائع ہوئی ۔یہ صفحہ دوسرے ایڈیشن کادیاگیا ہے۔
یاد کرلیں۔مگراس سے آپ کو کیافائدہ ہوسکتاتھا ۔
آخر میں ایک باریک اشارہ کوبھی واضح کردیناچاہتاہوں جس سے معلوم ہوتاہے کہ اس جگہ جس اعتراض کاذکر کیاگیا ہے وہ جبر کے متعلق تھا ۔اوروہ اشار ہ یہ ہے کہ اس اعتراض کی تفصیلات کے بعد جو سب سے پہلی آیت ہے اس میں مرتدوں کا ذکرہے اورجبر کی زند گی کے ایک اہم واقعہ کا تعلق بھی ایک مرتد سے ہے ۔تفصیل اس کی یہ ہے کہ جبر د ل سے مسلمان ہوگئے تھے مگر ظاہر نہ کرتے تھے۔ رسول کریم صلعم جب مدینہ تشریف لے گئے تو ایک شخص کوکاتب وحی مقرر کیا جس کانام عبداللہ بن ابی سرح تھا ۔یہ وہاں قرآن کریم ہی کے متعلق ایک شبہ میں پڑ کر مرتد ہوگیا ۔اور جب مکہ میں آیا تولوگوں کو جبر کے مسلمان ہونے کی اطلاع دے دی ۔جس کی وجہ سے سالہا سال تک ان کو سخت تکالیف دی گئیں ۔پس اعتراض کے معاً بعد آیت ارتداد رکھ کر ایک باریک اشار ہ اس طرف کیا گیا ہے کہ اس متّم غلام پر ایک زمانہ میں ایک مرتد کی طرف سے بھی ظلم ٹوٹنے والا ہے ۔
مذکورہ بالا اعتراضات کے بارہ میں بعض اور امور بھی بیان کردیتاہوں تاحسب ضرورت کام آئیں ۔
(۱)قرآن کریم نے کسی ایک فرقہ کو نہیں لیا ۔بلکہ سب سے اختلاف کیا ہے وہ کس فرقہ کا آدمی تھا جواس کام میں آپ کی مدد کرتاتھا ؟ کیا وہ خود اپنے مذہب کے خلاف تعلیم بھی آ پ کوسکھاتا تھا ؟
(۲)قرآن کریم نے بائبل کے غلط واقعات کی اصلاح کی ہے ۔یہ اصلاح کس غلام کی مدد سے آپ کرسکتے تھے۔جیسے مثلاً ہارونؑ کاشرک نہ کرنا اوردائود ؑ و سلیمان ؑ و نوح ؑ کی پاکیزگی ثابت کرنا یہ ایسے واقعات ہیں کہ آج تیرہ سوسال کے بعد یورپین مسیحی مصنف ان کے بارہ میں قرآن کریم کی تائید پر مجبور ہورہے ہیں۔
(۳)آپ نے بائبل کے واقعات کے متعلق بعض نئی باتیں بیان کی ہیں جن کااس وقت کسی یہودی اورعیسائی فرقہ کو بھی علم نہ تھا لیکن وہ آج سچی ثابت ہورہی ہیں ۔جیسے فرعون کی لاش کا محفوظ رہنا اورآخر مل جانا ۔
(۴)روایات سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلعم چوتھے یا پانچویں سال بعد دعویٰ کے اس غلام کے پا س کھڑے ہواکرتے تھے کیونکہ روایات میں آتا ہے کہ جب آنحضرت صلعم کابائیکاٹ ہواہے اس وقت اس کے پاس کھڑے ہواکرتے تھے لیکن قرآن کریم کی بعض سورتیں اس واقعہ سے پہلے اتر چکی تھیں اوران میں عیسائیوں کا ذکر موجود تھا جیسے سورۃ طٰہٰ سورۃ فرقان ۔کہف ۔مریم وغیرہ ۔چنانچہ حضرت ابن مسعودؓ جو بالکل ابتدائی زمانہ میں اسلام لانے والے ہیں ۔فرماتے ہیں کہ سورۃ بنی اسرائیل ۔کہف ۔سورۃ طٰہٰ۔سورۃ مریم ۔سورۃ انبیاء ان من العتاق الاولِ وَھُنَّ مِنْ تلادِیْ(بخاری جلد ۳ص ۱۰۸ کتا ب التفسیر )یہ قرآن کریم کی ابتدائی سورتوں می سے ہیںاورمیراپرانامال ہیں یعنی میں نے ابتدااسلام میں یہ سورتیں یاد کی تھیں ۔ان سورتوں میں کثرت سے یہودیوں اورعیسائیوں کے واقعا ت آتے ہیں ۔
ان الذین لایومنون بایٰت اللہ لایھدیھم اللہ ولہم عذاب الیم ٭
جولوگ اللہ(تعالیٰ)کے نشانوں پر ایما ن نہیں لاتے انہیں اللہ (تعالیٰ)ہدایت نہیں دیتا اوران کے لئے دردناک عذاب (مقدر)ہے ۱۰۵؎
۱۰۵؎ حل لغا ت ۔العذابُ:کے معنوں کے لئے دیکھو حجر ۲۳؎ الالِیمُ: المُرْجِعُ دکھ دینے والا(اقرب)
تفسیر۔یعنی چونکہ یہ لوگ ایسی زبردست آیتوں اورنشانوں کے ہوتے ہوئے بھی ایسے بیہودہ اعتراض کرتے ہیں ۔اورایسی اعلیٰ درجہ کی تعلیم پربجائے ایمان لانے کے اسپر ہنسی کرتے ہیں۔اس لئے یہ لوگ ضرورسزاپائیں گے ۔
انما یفتری الکذب الذین لایومنون بایات اللہ ۔ واولائیک ھم الکذبون٭
جھوٹ وہی لوگ باندھا کرتے ہیں جو اللہ(تعالیٰ)نشانوں پرایمان نہیں رکھتے اوریہی لوگ جھوٹ بولنے میں کامل ہوتے ہیں ۱۰۶؎
۱۰۶؎ تفسیر ۔اس جگہ رسول کریم صلعم کی زندگی کوبطور نمونہ کے پیش کیاہے ۔اورکہا ہے کہ خداتعالیٰ پر جھوٹ تو وہی شخص بناسکتاہے جسے اللہ تعالیٰ کی طاقت پرایمان نہ ہو ۔مگر محمد رسول اللہؐ کو دیکھو کہ یہ تواللہ تعالیٰ کی عظمت دنیا میں قائم کررہے ہیں اورنہ صرف خود بلکہ لوگوں کوبھی یہی تعلیم دے رہے ہیں کہ اس کی تعظیم کرو۔اس لئے ایسے شخص پراعتراض کرنا کسی سیاہ دل کاہی کام ہے ۔دوسرے یہ کام ایک عادی جھوٹے کے سوادوسراشخص نہیں کرسکتا اورمحمد رسول اللہ ؐ کی سچائی کے گواہ توتم بھی ہو ۔
من کفر باللہ من بعدایمانہٖ لامن اکرہ و
جولوگ (بھی)اپنے ایمان لانے کے بعد اللہ(تعالیٰ)کاانکار کریں مگر وہ نہیں جنہیں (کفر پر)مجبورکیاگیا ہو اور
قلبہ مطمئن بالایمان ولکن من شرح بالکفر صدراً
ان کا دل ایمان پر مطمئن ہو بلکہ وہ جنہوں نے (اپنا )سینہ کفر کے لئے کھول دیاہو
فعلیھم غضب من اللہ ۔ ولھم عذاب عظیم ٭
ان پر اللہ (تعالیٰ )کا(بہت)بڑاغضب (نازل)ہوگا اور ان کے لئے بڑا(بھاری)عذاب (مقدر)ہے ۱۰۷؎
۱۰۷؎ حل لغات ۔اَکْرِہَ:اکرَہَ سے مجہول کاصیغہ ہے ۔اوراکرَھہَ عَلَی الامرِ کے معنے ہیں ۔حَمَلَہٗ عَلَیْہِ قَھْرًا۔کسی کو کسی کام پر زبردستی آمادہ کیا ۔اَکْرََ ہَ فُلَانًا۔حَمَلَہٗ عَلیٰ اَمْرٍ یَکْرَھُہٗ۔اس کوکسی ایسے کام پر آمادہ کیا جس کو وہ ناپسند کرتاتھا ۔وَقِیلَ علی الامرِ لا یُرِیْدُہٗ طَبْعًااَوْ شَرْعًا۔اوربعض کہتے ہیں ۔اَکْرَہَ فُلَانًاکے معنے ہیں کہ اس نے اسے ایسے کام پر آمادہ کیا جو وہ طبعاً یامذہباً ناپسند کرتاتھا ۔ا س سے اسم فاعل مُکْرِہٌ اوراسم مفعول مُکْرَہٌ آتاہے ۔(اقرب)
پہلے حصہ میں واحد کے صیغے استعمال ہوئے ہیں ۔لیکن ان پراللہ کاعذاب نازل ہوگا سے جمع کے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ عربی میں مَنْ جمع کے لئے بھی آتا ہے اورمفرد کے لئے بھی۔اورچونکہ یہ لفظ مفرد ہے ۔بعض دفعہ س کے بعد مفرد کے صیغے استعمال ہوتے ہیں مگر مراد جمع ہوتی ہے ۔ایسا ہی یہاں ہواہے ۔اس لئے معنوں کے مطابق اردو میں مفرد کی جگہ جمع کے صیغے استعمال کئے گئے ہیں ۔ورنہ ترجمہ غلط ہوتا ۔
قَلْبٌ:اَلْفُؤَادُ۔دل۔وقدیُطْلَقُ علی العَقْلِ۔ اورکبھی قلب کالفظ عقل کے لئے استعمال ہوتا ہے اس کی جمع قُلُوْبٌ آتی ہے ۔مُطْمَئِنٌّ:اِطْمَئِنَّ سے اسم فاعل کاصیغہ ہے ۔اوراِطْمَئِنَّ کے معنوںکے لئے دیکھو رعد ۲۹؎
اَلْغَضْبُ: ثورَان دَمِ القلبِ لِاِرَادَۃِ الانتقامِ۔سزادینے کے غرض سے دل کے خو ن کے جوش مارنے کا نام غضب ہے ۔وَاِذا وُصِفَ اللہُ تعالیٰ بہٖ فالمُرَادُ بہِ الانتقامُ دونَ غیرِہٖ۔اورجب غضب کالفظ اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال ہوتاہے تواس کے معنے صرف سزادینے کے ہوتے ہیں۔جوش وغیرہ کے معنے اس میں نہیں پائے جاتے ۔(مفردات)
تفسیر ۔اس ضمنی اعتراض کاجواب دے کر کہ جب انہیں آئندہ زمانہ کی ترقیات کی پیشگوئیوں کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے اوردلائل سے بتایاجاتا ہے کہ اس قسم کے روحانی حشر ہمیشہ سے دنیا میں ہوتے آئے ہیں توکفار اس بات سے فائدہ اٹھا کر کہ آئندہ کی پیشگوئیاں۔گذشتہ انبیاء کے واقعات کے پردہ میں بیان کی گئی ہیں جھٹ کہہ دیتے ہیں کہ ہم توپہلے ہی جانتے ہیں کہ یہ قرآن کسے دوسرے شخص کاسکھایاہواہے ۔وہ دوسری کتب کی باتیں ان کو سکھادیتا ہے ۔اب پھر ترقیا ت کے ذکر کی طر ف بات کو پھرایاگیا ہے اورادھر توجہ دلائی ہے کہ ترقیات کے ساتھ امن ہی حاصل نہیں ہوتا بلکہ بعض قسم کے فتنے بھی پیداہوجاتے ہیں ۔مخالفوں میں بھی مخالفت کازیادہ جوش پیداہوجاتاہے ۔اس لئے اس زمانہ میں اپنے ایمانوں کا خاص طور پر خیال رکھنا ۔اوربتایا ہے کہ جو شخص کسی دنیوی غرض کی وجہ سے مرتد ہوگاوہ بڑے عذاب میں مبتلاکردیاجائے گا ۔
میرے نزدیک اس آیت میں عبداللہ بن ابی سرح کے ارتداد کی پیشگوئی ہے ۔اورپہلی آیت سے اس آیت کا جو ربط میں پہلے بیان کرچکاہوں ۔اس کے علاوہ اسے یہ بھی ربط حاصل ہے کہ جبر کیوجہ سے جواعتراض ہواتھا اس میں بھی قرآن کریم کے انسانی کلام ثابت کرنے کی کوشش کاذکر تھا ۔اوریہ مرتد جس کایہاں ذکر ہے اس نے بھی ارتدا د اسی دلیل پر کیاتھا کہ قرآن خدائی کلام نہیں۔انسانوں کابنایا ہواکلا م ہے۔
یہ پیشگوئی ایک زبردست پیشگوئی ہے ۔اورچونکہ مکہ میں کی گئی اوران حالات میں کی گئی کہ عبداللہ بن ابی سرح کوابھی کاتب وحی مقررنہ کیاگیاتھا ۔پھر اس میں اشارۃً وجہ ارتداد بھی بتائی گئی کہ اسے قرآن کریم کے الہامی ہونے کے بارہ میں شبہ ہوگا۔اس لئے اس کی عظمت اوربھی بڑھ جاتی ہے ۔
یہ جو آگے فرمایا ہے کہ جو مجبوراً ارتداد کرے اس پر اتنا عذاب نہیں ۔شاید اشارہ جبر ہی کی طرف ہو ۔اورممکن ہے کہ ظلم کی وجہ سے وہ دلیر ی سے اسلام کااظہار نہ کرسکے ہوں۔گوبعض روایات میں عمار کے متعلق اس کو چسپاں کیا جاتا ہے مگر مضمون کی ترتیب کودیکھتے ہوئے جبر پر یہ واقعہ زیادہ چسپاں ہوتاہے ۔
مسیحیوں نے اس آیت پر اعتراض کیا ہے کہ ا س سے معلوم ہوتاہے کہ اسلام بزدلی کی تعلیم دیتاہے اورظلم کے موقعہ پر ارتداد کی تعلیم دیتا ہے ۔لیکن یہ اعتراض بھی ان کے دوسرے اعتراضوں کی طرح غلط ہے ۔کیونکہ اس جگہ سے یہ ہرگز نہیں نکلتا کہ اللہ تعالیٰ اس فعل کو معا ف کردے گا۔اس جگہ تو صرف یہ کہا ہے کہ اِلَامَنْ اُکْرِہَ وَقَلْبُہُ مُطْمَئِنٌّ والے کے متعلق اس آیت میں حکم نہیں بیان کیا گیا ۔اورسزا سے مستثنیٰ نہیں بتایاگیا۔بلکہ اس اگروہ کو علیحدہ قراردے کر یہ کہا ہے کہ ا س کاذکر بعد میں کیاجائے گا۔
ذلک بانھم استحبو االحیوۃالدنیا علی الاخرۃ وان اللہ لایھدی القوم الکافرین ٭
(اور)ایسا اس سبب سے ہوگا کہ انہوں نے اس ورلی زندگی سے محبت کرکے سے آخرت پر مقدم کرلیا اور(نیز اس وجہ سے )کہ اللہ (تعالیٰ) کفر اختیار کرنے والے لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ۱۰۸؎
۱۰۸؎ حل لغات ۔اِسجتَحَبُّوْا: اِسْتَحَبَّ سے جمع کاصیغہ ہے اوراِسْتَحَبَّہٗ اس کو پسند کیا ۔
اِسْتَحَبَّ الْکُفْرَ علی الاِیْمَانِ کفرکو ایمان پر ترجیح دی (اقرب)پس اِسْتَحَبُّوْا الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا عَلَی الاٰخِرَۃِ کے معنے ہوں گے کہ انہوں نے اس ورلی زندگی سے محبت کرکے اسے آخرت پر ترجیح دی ۔
تفسیر ۔اس آیت میں یہ بتایاہے کہ اسلام چونکہ اللہ تعالیٰ کی طر ف سے نازل شدہ ایک صداقت ہے ۔اس سے بیزارہوکر کوئی مرتد نہیں ہوسکتا ۔جوہوگادنیوی اغراض سے ہوگا۔اورایساآدمی خداتعالیٰ سے کسی نیک سلوک کاکب امیدوار ہوسکتاہے ۔
اس آیت سے عبداللہ کے اس دعویٰ کورد کیا ہے ۔کہ میں یہ دیکھ کر کہ قرآن انسانی کلام ہے مرتد ہواہوں۔اوربتایا ہے کہ یہ شخص ظاہر کچھ اَورکرے گامگراصل وجہ دنیاوی لالچ ہوگی ۔
اولئک الذین طبع اللہ علی قلوبھم وسمعھم وابصارھم واولئک ھم الغافلون٭
یہ وہ لوگ ہیں جن (کے کفر کی وجہ سے ان)کے دلوںاوران کے کانوں اوران کی آنکھو ں پر اللہ(تعالیٰ) نے مہر لگادی ہے اوریہ لو گ ہی ہیں جو پکے غافل ہیں ۔
لاجرم انھم فی الاخرۃ ھم الخسرون٭
(اور)اس میں کوئی شک نہیں کہ وہی آخر ت میں (سب سے)زیادہ نقصان اٹھانے والے ہوں گے ۱۰۹؎
۱۰۹؎ حل لغات ۔طَبَعَ عَلَیْہِ کے لئے دیکھو یونس ۷۳؎
تفسیر ۔یعنی جولوگ غلط فہمی میں مبتلاہوکر دین حق کو نہیں چھوڑتے بلکہ دوسری اغراض کے ماتحت ایسا کرتے ہیں ۔ان کی آنکھوں ۔کانوںاوردلوں پر مہر لگادیجاتی ہے کیونکہ وہ بدترین نمونہ اخلاق کاپیش کرتے ہیں ۔اورایک بڑی نعمت کو محض چھوٹے سے فائدے کے لئے قربان کردیتے ہیں ۔لَاجَرَمَ انّہم۔یعنی جب ایسے شخصوںکو ہم اس دنیا میں ذلیل کریں گے توکوئی شبہ نہیں رہتا کہ وہ آخرت میں بھی عذاب پائیں گے کیونکہ ایسے گناہوں کی سزاکا اصل مقام وہی ہے ۔
ثم ان ربک للذین ھاجروا من بعد مافتنو ثم
اورتیرارب یقینا ان لوگوں کے لئے جو دکھ میں ڈالنے جانے کے بعد ہجرت کرگئے پھر انہوں نے
جاھدوا وصبرو ا ان ربک من بعدھا لغفور رحیم ٭
جہاد کیا اور(اپنے عہد پر)ثابت قدم رہے (ہاں )تیرارب یقینا اس (شرط کوپوراکرنے)کے بعد(انکے لئے )بہت بخشنے والا (اور)باربار رحم کرنے والا(ثابت)ہوگا ۱۱۰؎
۱۱۰؎ حل لغات ۔فُتِنُوْا:فَتَنَہٗ سے مجہول کاصیغہ ہے ۔اورفَتَنَ (فتنًاوفُتُونًا)زیدٌ عُمْرًا کے معنے ہیں اَوْقَعَہٗ فِے الْفِتْنَۃِ فَفَتَنَ ھُوَ اَیْ وَقَعَ فِیْہَا اس کو فتنہ میں ڈالا اوروہ فتنہ میں پڑگیا ۔(لازم اورمتعدی دونوں طرح استعمال ہوتاہے )
فَتَنَہٗ کے معنے ہیں اَعْجَبَہٗ ۔وہ اس کو پسند آیا ۔المالُ النَاسَ اِسْتِمَا لَھُمْ۔مال نے لوگوں کو اپنی طرف مائل کرلیا۔فَتَنَہٗ فِتْنَۃً۔خَبَرَہٗ اس کو آزمایا ۔فُلانًا اَضَلَّہٗ ۔اس کو گمراہ کیا ۔فَتَن فَلانًا عَنْ رَایِہٖ صَدَّہٗ۔اس کو اس کی رائے سے روکا۔فتنَ الصَّائِغُ الذَّھْبَ وَالْفِضَّۃَ۔اذابہ واحرقہ بالنَّارِ لِیُبینَ الجَیِّد من الرَّدِیِّ ویُعْلَمَ اَنَّہٗ خالصٌ اَوْ مَشُوْبٌ۔سنار نے سونے کا آگ میں ڈال کر پگھلایا تاکہ اس کے کھرے اورکھوٹے کو معلوم کرے ۔اورفُتِنَ الرَّجُلُ فی دینہٖ کے معنے ہیں مَالَ عنہُ اپنے دین سے علیحدہ ہوگیا ۔فُتِنَ فلانٌ اَصَابَتْہُ فِتْنَۃٌ فذَھَبَ مَالَہٗ اَوْ عَقْلُہٗ اس پر مصیبت نازل ہوئی اوراس کی وجہ سے اس کامال یا عقل جاتی رہی ۔وکذالکَ اذَاخْتُبِرَ اورجب کسی کاامتحان لیا جائے توفُتِنَ صیغہ مجہول اس کے لئے استعمال ہوتاہے (اقرب)پس فُتِنُوْاکے ایک معنے یہ ہوں گے کہ انہیں دکھ میں ڈالاگیا ۔
جَاھَدُوْا:جَاھَدَ سے جمع کا صیغہ ہے ۔اورجاھدفی سبیل اللہ ِ (مُجَاھَدَۃ وَجِھَادًا)کے معنے ہیں ۔بَذَلَ وُسْعَہٗ اللہ کے دین کے لئے انتہائی کوشش کی ۔جَاھَدَ العَدُوَّ۔قاتَلَہٗ۔دشمن سے لڑا (اقرب)
پس جَاھَدُوْا کے معنے ہوں گے (۱)انہوں نے جہاد کیا (۲)انہوں نے اللہ کے دین کے لئے کوشش کی ۔
تفسیر ۔اس آیت میں ان لوگوں کاحکم بتایاگیا ہے جن کو پہلے اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَقَلْبَہٗ مُطْمَئِنٌّ بِالِایْمَانِ کے الفاظ سے مستثنیٰ بتایاگیا تھا اوران کاحکم یہ بتاتاہے کہ اگر کسی سے ایسی غلطی ہوجائے کہ وہ ظلم کی برداشت نہ کرکے ظاہراً ارتداد کرلے گو دل میں مطمئن ہو تواس کے لئے یہ حکم ہے کہ اول وہ اس مقام کوچھوڑ دے جہاں اُسے لوگوں سے دب کر ارتداد کرنا پڑا۔
(۲)دوسرے وہ دین کی اشاعت میں لگ جائے اوراپنے آپ کو دین کے لئے گویا وقف کردے ۔
(۳)تیسرے یہ مجاہدہ بند نہ کرے بلکہ استقلال سے اس پر قائم رہے ۔اوراپنے ظاہری ارتداد کے بدلہ میں دوسرے لوگوں کو ہدایت دینے کی کوشش کرے ۔
(۴)آئندہ اس سے پھر ایسی خطاظاہر نہ ہو ۔اگر وہ ان باتوں پرعمل کرے توفرمایا ہے کہ ان سب کاموں کے کرلینے کے بعد تیرارب اس شخص کو معاف فرمادے گا ۔
ان قربانیوںکے بعد توبہ قبول کرنے کاحکم ہوتے ہوئے مسیحی مصنفوں کا یہ لکھنا کہ اسلام نے ظلم کے وقت ظاہر ی انکار کی اجازت دی ہے ان مظالم میں سے ایک ظلم ہے جومسیحی پادری اسلام پرکرتے چلے آتے ہیں ۔
یوم تاتی کل نفس تجادل عن نفسھا وتوفی کل نفس
(اس جزاکاظہورخصوصیت سے اس دن ہوگا )جس دن ہرشخص اپنی جان کے متعلق جھگڑتاہواآئے گا
ماعملت وھم لایظلمون ٭
اورہرشخص نے جوکچھ کیا ہوگا(ا س کااجر )اسے پوراپورادیا جائے گااوران پر (کسی رنگ میں بھی )ظلم نہ کیاجائے گا ۱۱۱؎
۱۱۱؎ حل لغا ت ۔تُجَادِلُ:جَادَلَ سے واحد مؤنث غائب کاصیغہ ہے ۔اورجَاٍَلَہٗ (مُجَادَلَۃً وَجِدَالًا)کے معنے ہیں ۔خَاصَمَہٗ شَدِیْدًا۔اس نے اس سے سخت جھگڑاکیا (اقرب)
پس یَوْمَ تَاْتِیْ کُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نُفْسِہَاکے معنے ہوں گے جس دن ہرشخص اپنی جان کے متعلق جھگڑتاہواآئے گا۔
تُوَفّیٰ: وَفّٰی(باب تفصیل)سے مضارع واحد مؤنث غائب کاصیغہ ہے ۔اوروَفّٰی کے لئے دیکھو یونس ۱۰۱؎
تفسیر ۔غَفُوْرٌرَّحِیْمٌ کاظر ف ہے ۔مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن جب ہرشخص اپنے انجام کی اہمیت سمجھ کر پورازورلگائے گاکہ کسی طرح میں گرفتاری سے بچ جائوں اس وقت اللہ تعالیٰ ان لو گوں سے جو کمزوری دکھا کربعد میں ساری عمر اصلاح اورقربانی وغیرہ میں لگے رہیں گے غفورورحیم کاسلوک کرے گا۔
جولوگ آیت ارتدادسے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اس میں بزدلی کی تعلیم دی گئی ہے۔ان آیات پر غور کریں کہ کتنی بڑی قربانی ایسے لوگوں سے چاہی گئی ہے ۔جوشخص اس قربانی کی اہمیت کوسمجھے گا وہ امتحان کے موقعہ پر بزدلی دکھا ئے گاہی کیوں۔کیونکہ بزدل آدمی اس قدرقربانی کرنے کی طاقت کہاں رکھتا ہے کہ ترک وطن کرے ۔جہا د فی سبیل اللہ کرے اوراپنے نفس کوساری عمر اس کا م میں لگائے رکھے۔ان کاموں کی توفیق تووہی پائے گاجن سے کسی عارضی غفلت کی وجہ سے غلطی ہوگی ہو یا جوبعد میں سچی توبہ کرچکا ہو ۔
حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایک مرتد مدعی نبوت دوبارہ مسلمان ہوا۔اس سے جو آپ نے سلوک کیا وہ گویا اس آیت کی تفسیر ہے ۔اس شخص کانام طلیحہ بن خویلداسدی تھا۔یہ مسلمانوں کے خلاف بعض جنگوں میں شامل ہواتھا ۔کچھ عرصہ کے بعد س نے اسلام میں داخل ہوناچاہا۔مگر حضرت عمرؓ نے اس کو معاف نہ کیا ۔ایک دفعہ ایسااتفاق ہو اکہ ایک صحابی شرجیل بن حسنہؓ(جوبظاہر بہت د بلے پتلے اورکمزور تھے مگر فنِ جنگ کے بڑے ماہر تھے )ایک لڑائی میں ایک کافر سردار کے ساتھ لڑ رہے تھے کہ اس سردار نے یہ دیکھ کرکہ تلوار کی جنگ میں ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا ۔جلدی سے آگے بڑھ کر ان کو کمرسے پکڑ لیا اورنیچے گراکر چھاتی پر چڑھ گیا ۔قریب تھا کہ وہ آپ کو قتل کردیتاکہ طلیحہ بن خویلد جو دل سے مسلمان ہوچکا تھا لیکن بوجہ حضرت عمرؓ کے توبہ قبول نہ کرنے کے اب تک کفار میں ہی شامل تھا ۔اس نظارہ کو دیکھ کر اپنے ایمان کو چھپا نہ سکا اورآگے بڑھ کر اس کافر سردار پر تلوار کا ایسا وار کیا کہ اس کاسرتن سے جداہوگیا اورحضرت شرجیلؓ کی جان بچ گئی۔اس واقعہ سے باقی مسلمان بہت متاثر ہوئے ۔اورانہوں نے حضرت عمرؓ کے پاس سفارش کی کہ اسے معاف کردیاجائے ۔اس پرحضرت عمرؓ نے فرمایا ۔کہ میں اس شرط پر معاف کرتا ہوں کہ یہ شخص اپنی ساری بقیہ زندگی جہاد میں گزارے اوراسلامی مملکت کی سرحدوںپرزندگی بسر کرے ۔چنانچہ وہ ہمیشہ سرحد پر ہی رہتے تھے اورکفار سے لڑائی کرتے رہتے تھے آخراسی حالت میں وفات پاگئے گواس شخص نے جان بوجھ کر ارتداد کیاتھا مگر معلوم ہوتاہے حضرت عمرؓ نے اسی آیت اس استدلال کرکے اس کے مشابہ حکم اس کو دیدیا ۔
وضرب اللہ مثلا قریۃ کانت امۃ مطمئنۃ
اوراللہ(تعالیٰ)نے (تمہیں سمجھا نے کے لئے )ایک بستی کا حال بیان کیا ہے جسے (ہرطرح سے )امن حاصل ہے(اور)اطمینان
یاتیھا رزقھا رغدامن کل مکان فکفرت بانعم اللہ
نصیب ہے ہرطرف سے اس کارزق اسے بافراغت پہنچ رہا ہے ۔پھر(بھی )اس نے اللہ(تعالیٰ) کی نعمتوں کی ناشکری کی ہے
فاذاقھا اللہ لباس الجوع والخوف بما کانوا یصنعون٭
اس(کی اس ناشکری) پر اللہ (تعالیٰ)نے اس(کے باشندوں)پران کے اپنے (گھنونے)عمل کی وجہ سے بھوک اورخوف کالباس نازل کیااوراس کامزہ چکھایا ۱۱۲؎
۱۱۲؎ حل لغات ۔ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا کے معنوںکے لئے دیکھو ابراہیم ۲۵؎
رَغَدًا: رَغَدَ عَیْشُہٗ رَغَدًا کے معنے ہیں طَابَ وَاتَّسَعَ اس کی زندگی خوشگوار اورکشادہ ہوگئی وَعَیْشَۃٌ رَغدٌ کے معنی ہیں واسعَۃٌ طَیِّبَۃٌ آسودہ زندگی (اقرب)
اَذَاقَھَااللّٰہُ لِبَاسَ الجُوْع۔ اَذَاقَ ذَاقَ سے بناہے ۔ذاق العذابَ والمکروہ کے معنے ہیں ترلَ بہٖ فَقَاسَاہُ اس پر مصیبت نازل ہوئی اوراس نے سہی ۔اَذَاقَہٗ۔صَیَّرَہض یَذُوْقُ اسے چکھایا ۔(اقرب)پس اَذَاقَھَاللّٰہُ لِبَاسَ الجُوْعِ کے معنے ہوں گے اللہ نے اس پر بھوک کاعذاب نازل کیا اوراس کو اس کامزہ چکھایا ۔
تفسیر ۔اس آیت میں مکہ کے متعلق پیشگوئی فرمائی ہے ۔اس سے پہلے کفراوراسلام کا مقابلہ کیاگیا تھا ۔مگرکفار کے دل میں یہ خیال ہوسکتاتھا کہ شاید مکہ بوجہ اس تقدس کے جو اسے حاصل ہے مغلوب ہونے سے محفوظ رہے کیونکہ قریب زمانہ میں ابرہہ کے لشکرکی شکست کے ذریعہ وہ مکہ کی حفاظت کا نظارہ دیکھ چکے تھے ان کے اس جھوٹے اطمینا ن کو بھی اس آیت میں رد کر دیاگیاہے فرماتا ہے کہ مکہ بھی ایسے مجرموں کو نہیں بچاسکتا ۔مکہ کاامن بھی خوف اورقحط سے جاتارہے گا۔کیونکہ ساکنین مکہ کے اعمال انہیں فضل الٰہی سے محروم کررہے ہیں ۔
یہ دونوں عذاب ہجرت کے بعد مکہ والوں پر آئے ۔خوف توجنگوں کالازمی نتیجہ تھا ۔بھوک کاعذاب بھی آیا جبکہ ان کے کئی قافلے مسلمانوں کے ہاتھ پڑے اوران کی ضرورتوں کے سامان جنگوں میں ان کے ہاتھو ںسے چھین لئے گئے۔
لباس کالفظ اس امر کے بتانے کے لئے استعمال فرمایا ہے کہ دونوں عذاب سخت ہوںگے اور ان کے بدن پر ان کے آثار ظاہرہونے لگیں گے ۔دبلے ہوجائیں گے زرد پڑ جائیں گے ۔گویابھوک اورخوف کے اثرات ان کے جسم کو اس طرح ڈھانپ لیں گے جس طرح لباس جسم کو ڈھانک لیتاہے ۔
ولقد جاء ھم رسول منھم فکذبوہ فاخذھم العذاب وھم ظلمون٭
اوریقیناان کے پاس انہی میں سے (ہمارا)ایک رسول آچکا ہے مگرانہوں نے اسے جھٹلایاجس پر اس حالت میں کہ وہ ظلم کررہے تھے (ہمارے )عذاب نے انہیں آپکڑا۔۱۱۳؎
۱۱۳؎ تفسیر ۔اس آیت میں اوروضاحت کردی ہے کہ یہاں سے مکہ والے ہی مراد ہیں ۔فرمایا اس بستی والوں پر حجت پوری ہوگئی انہیں سمجھا نے کے لئے رسول آیا پھر وہ رسول بھی ان میں سے تھا باہر سے نہ تھا کہ کہہ دیتے ہم اس کے حالات سے واقف نہیں اس کے سچ اورجھو ٹ کااندازہ نہیں لگاسکتے ۔مگرباوجود اس کی خیر خواہی اوراس کے اخلاق حمیدہ کے معلو م ہونے کے انہوں نے اس کی تکذیب کی جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل کرنے کافیصلہ کردیا ۔یہاں دوالزام ان پر لگائے ہیں ۔ایک تویہ کہ خدا کے رسول کا انکار کیا ۔دوسرے اپنے مشاہدہ کاانکار کیا کہ باوجود رسول کریم صلعم کی صداقت سے واقف ہونے کے آپ کے دعوے سے منکر ہو گئے ۔وھم ظالمون میں بتایا کہ عذاب ان کے ظلم ہی کی حالت میںی ان کو پکڑ کے گا ۔یعنی یوں نہ ہوگا کہ ان کے اعمال کے بدلے ان کی اولاد وں سے لئے جائیں بلکہ ان کے اعمال کی سزا یہ ظالم خود ہی بھگتیں گے ۔
فکلوا مما رزقکم اللہ حللاً طیبا واشکروا نعمت اللہ ان کنتم ایاہ تعبدون٭
پس جو حلال (اور)طیب (مال)اللہ(تعالیٰ)نے تمہیں دیا ہے تم اس میں سے کھائو اوراللہ (تعالیٰ)کی نعمت کا اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو شکر کرو۔ ۱۱۴؎
۱۱۴؎ تفسیر ۔پہلی آیت میں کفارکے لئے بھوک اورخوف کے عذاب کی خبر دی تھی ۔اب اس آیت میں مومنوں کے لئے فراخیئِ رزق اورفراغتِ بال کی خبر دی۔اورفرمایا ۔کفار کا رزق چھینا جائے گا۔مسلمانوں کابڑھایا جائے گا۔مگرایک فرق بھی ہوگاکہ کفار توجائز ناجائز سب ذرائع سے مال کما تے تھے ۔مسلمانوں کو رزق حلال ملے گا جو طیب بھی ہو گا۔یعنی صحتوں کو اچھاکرنے والا ہوگا۔اس میں خوف کی بھی نفی کی ۔کیونکہ کھانا جسم کوتبھی فائدہ پہنچاتاہے جب غم اورخوف نہ ہو۔پس طیب رزق یعنی جسم اوردماغ اوردل کو تقویت اورصحت بخشنے والے کھانے سے اس طرف اشارہ ہے کہ ان کے دلوں کو غم اورخوف سے اللہ تعالیٰ نجات دے گا ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کاشکر کروکے الفاظ میں بھی اسی طرف اشارہ ہے کہ تم کو بافراغت کھان اورمطمئن دل عطافرمائے ہیں ۔پس اس ظاہری باطنی نعمت کے بدلہ میں اللہ تعالی کا شکراداکرو۔
بعض لوگ شکر پر اعتراض کرتے ہیں کہ خداتعالیٰ کو کسی کے شکر کی کیا احتیاج ہے ؟
اول تویہ اعتراض فضول ہے کیونکہ شکر ایک طبعی اظہار ہے جو ہراحسان کے بعد شریف آدمی کادل اپنی ممنونیت بتانے کے لئے کرتاہے ۔اس کے پیداہونے میں ضرورت یاعدم ضرورت کا کوئی سوال ہی نہیں ۔
دوسرے جیساکہ اس آیت میں بتایا گیاہے شکرسے توحید کاعقیدہ مضبوط ہوتا ہے ۔جس طرح ظاہر جسم کوایک ہی قسم کاکام کرنے سے عادت پڑ جاتی ہے اسی طرح قلب اوردماغ کو بھی متواترہونے سے اعمال کی عادت پڑ جاتی ہے ۔پس جو لوگ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر بجالاتے رہتے ہیں ان کے دماغ پراوردل پر ایک مستقل اثر باقی رہ جاتا ہے ۔اورہر نعمت کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنے کے وہ عادی ہوجاتے یں ۔اورمشرکانہ خیال سے محفوظ ہوجاتے ہیں ۔
انما حرم علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر وما اھل
اس نے تم پر صرف مردار کو خون کو اورسؤر کے گوشت کو اور(ہر)اس چیز کو حرام کیا ہے جس پر اللہ (تعالیٰ)
لغیراللہ بہ فمن اضطر غیرباغ ولا عاد فان اللہ غفور رحیم٭
کے سواکسی اورکانام لیا گیاہو اورجوشخص(ان میں سے کسی چیز کے کھانے پر )مجبورکیاجائے بحالیکہ وہ نہ باغی ہو اورنہ حد سے بڑھنے والاہو تو(یاد رہے کہ )اللہ(تعالیٰ)یقینابہت ہی بخشنے والا (اور)بارباررحم کرنے والا ہے ۱۱۵؎
۱۱۵؎ حل لغات ۔اُھِلَّ:اَھَلَّ سے مجہول کا صیغہ ہے اوراَھَلَّ الْقَوْمُ الْھِلَالَ کے معنے ہیں رفَعوْا اَصْوَتَھُمْ عِندَ رُؤُیَتِہٖ۔لوگوں نے چاند کو دیکھ کر اپنی آوازوں کو بلند کیا ۔اھلَّ الصَّبِیٌُ۔رفع فلانٌ بذکراللہ ۔رفع صَوْتَہٗ بہٖ عِندَ نعمۃٍ اَوْ رُئْ یَہٍ شَیْئٍ یُعْجِبُہٗ۔کسی نعمت کے ملنے پر یاکسی خوش کن چیز کے دیکھنے پر اللہ تعالیٰ کانام اونچی آواز سے لیا ۔اھلَّ بِالتَّسْمِیَّۃِ علی الذَّبِیْحَۃِ اَیْ قال بسم اللہ ۔جانور کے ذبح کرتے وقت اللہ کانام لیا ۔مَآ اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِاللہِ اَیْ نُؤدِیَ عَلَیْہِ بغیر اسمِ اللہِ عندَ ذَبْحِہٖ۔ جانورکو ذبح کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے سواکسی اورکا نام لیا ۔(اقرب)
فَمَنِ اضْطُرَّ: یہ اِضْطَرَّ سے مجہول کا صیغہ ہے اِضْطَرَّہٗ اِلَیْہِ کے معنے ہیں اَخْوَجَہٗ وَاَلْجَاہٗ فَاضْطُرَّ۔اسکواس کامحتاج بنا کر اس کی طرف جانے کے لئے لاچار کیا اوروہ اس کی طرف لاچار اورمجبورہوکر گیا ۔(اقرب)
تفسیر ۔پہلی آیت میں فرمایا تھاکہ اے مسلمانوںتم کو اللہ تعالیٰ رزق کی فراخی دینے لگاہے اس وقت کے آنے سے پہلے ہی یہ سبق سیکھ لو کہ حلال اشیاء کااستعمال جو طیب بھی ہوںتم کوجائز ہوگا ۔
یاد رہے کہ مال کی حلت ذریعہ کسب کے صحیح ہونے پر مبنی ہوتی ہے ۔مگرخوردنی اشیاء کے لئے اس کے علاو ہ ایک اورشرط بھی ہے اوروہ یہ کہ وہ اس قسم میں شامل نہ ہوں جسے حرام کیاگیاہے ۔پس اس سوال کو کہ کونسی اشیاء حلال ہیں اورکونسی حرام اس آیت میں حل کیاگیا ہے ۔
الفاظ قرآنیہ بتاتے ہیں کہ اشیاء کی حلّت و حرمت میں اصل حلت ہے اورحرمت ایک قید کے طورپر ہے ۔بعض لوگوںکو خیا ل ہے کہ ہرشے حرام ہے سوائے اس کے جسے خداتعالیٰ نے جائز کردیاہو ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ مالک ہے اورمالک کی اجازت کے بغیر کسی چیز کااستعمال جائز نہیں ہوتا۔لیکن یہ درست نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماچکا ہے کہ ہم نے ہرچیز انسان کے لئے پیداکی ہے اوراس کے لئے مسخرّ کردی ہے ۔پس اس عام حکم سے ہرچیز انسان کے لئے جائز ہوگئی سوائے اس کے جس سے نصّاً یا اشارۃً روک دیاگیاہو ۔
اس آیت میں جو لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ فرمایا اس کے متعلق فقہاء میں اختلاف ہے کہ لحم میں چربی بھی شامل ہے یانہیں ۔جہاں تک لغت کاسوال ہے شَحْم یعنی چربی کو لَحْم سے الگ خیال کیا جاتا ہے ۔لیکن مفسرین کہتے ہیں کہ لحم کے نام میں شحم بھی شامل ہے ۔گومفسرین کی دلیل ذوقی ہے اورلغت والوں کی بات اس مسئلہ میں زیادہ قابل اعتبار ہے۔مگر اس کے باوجود میرے نزدیک سؤر کی شحم یعنی چربی جائز نہیں ۔اوراس کی دلیل میرے پاس یہ ہے کہ نبی کریم صلعم نے فرمایا ہے کہ مردہ جانور کی چربی حرام ہے ۔اورسؤر کی حرمت اورمردہ کی حرمت ایک ہی آیت میں اورایک ہی الفاظ میں بیان کی گئی ہے ۔پس دونوں کاحکم ایک قسم کا سمجھاجائے گا۔لیکن سؤر کی جلد کااستعمال جائز ہوگا کیونکہ وہ کھائی نہیں جاتی ۔
احادیث میں ایک اورواقعہ بیان کیاگیا ہے کہ حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا کی ایک بکری مرگئی ۔چند آدمی اس کو اٹھا کر باہر لئے جارہے تھے ۔نبی کریم صلعم نے ان سے فرمایا کہ تم اس کا چمڑا کیوں نہیں اتار لیتے ؟ انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ یہ تومَیْتَہ ہے ۔ آپ نے فرمایا کیا تم نے اسے کھاناہے ۔
پس معلوم ہواکہ جس کاگوشت حرام ہو اس کے چمڑے کے استعمال میں کو ئی حرج نہیں ۔ہاںسؤر کے بالوں کے بنے ہو ئے بُرشوں کامکروہ کہا جائے گا۔کیونکہ ان کو منہ میں ڈالاجاتاہے جوکھانے کادروازہ ہے ۔
اس آیت کے متعلق ایک بہت بڑاسوال یہ پیداہوتاہے کہ اس میں چار چیزوں کی حرمت بیان کی گئی ہے ۔کیایہی چا ر چیز یں حرام ہیں اوران کے سوااورکوئی چیز حرام نہیں ۔بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہاں پر جوھر پایا جاتاہے یہ حصر اضافی ہے ۔یعنی کفار کے حرام کو مدنظر رکھ کر اضافی طور پر ان چیز وں کو حرام کیاگیا ہے ۔چونکہ وہ سائبہ وغیرہ کو حرام کہا کرتے تھے۔خداتعالیٰ نے فرمایا کہ وہ حرام نہیں حرام تو یہ اشیا ء ہیں جو ہم گنوارہے ہیں ۔اس صورت میں بیان میں حصر تعداد کا نہیں ہواکرتا بلکہ اقسام کاہواکرتا ہے ۔پس آیت کا مفہو م یہ ہوگا کہ اس قسم کی چیزیں حرام نہیں جو تم کہتے ہو ۔بلکہ اس قسم کی چیزیں حرا م ہیں جو ہم بتاتے ہیں ۔اورحرمت کی نفی بقیہ اشیاء کے متعلق نہیں سمجھی جائے گی بلکہ ان اشیاء کے متعلق سمجھی جائے گی جن کاحرام ہوناکفار بیان کرتے تھے ۔
بعض نے کہا ہے کہ جب یہ آیت ناز ل ہوتی تھی ا سوقت یہی چا رچیزیں حرام تھیں باقی بعد میں ہوئیں۔یہ جواب واقعات کے لحاظ سے بھی غلط ہے اوراس لئے بھی کہ اس سے آیت کے لفظ اِنَّمَا کوآئندہ کے لئے منسوخ ماننا پڑتا ہے مگرقرآن کریم کاکوئی لفظ منسوخ نہیں ۔بعض نے مجبورہوکر کہہ دیا ہے کہ یہی چارچیزیں حرا م ہیں۔ان کے سوااورکوئی شے حرام نہیں ۔
میر ے نزدیک حصر اضافی بعض صورتوں میں جائز ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم میں جہاں بھی حرمت کاذکر کیا گیا ہے وہاں پر حصر انہی چار چیزوں پرکیا گیا ہے ۔یہ ذکرچار سورتوں میں ہے۔سورۃ نحل ۔بقرہ۔۔انعام ۔مائدہ۔سورۃ نحل اورانعام میں تواس سے پہلے یہ ذکر موجو دہے کہ کفار اپنی مرضی سے مختلف اشیاء کو حلال و حرام کرلیتے تھے ۔مگر سورۃ مائدہ اوربقرہ میں یہ ذکر بالکل نہیں۔ سورۃ بقرہ میں تواعمال خیر کے مسئلہ میں اس مسئلہ کو بیا ن کیا ہے اورسور ۃ مائدہ میں کفارکے حلال و حرام کرنے کا ذکر کئے بغیر حلال وحرام کی ایک مستقل بحث کیگئی ہے ۔اوراس جگہ حرام اشیاء کو بھی گنایاگیا ہے ۔پس چونکہ دواورسورتوں میں حصر توموجود ہے مگر ان میں کفار کے حلال و حرام کرنے کاکوئی ذکرنہیں ۔اس لئے اس حصر کو اضافی قرار دینا ٹھیک معلوم نہیں ہوتا۔
جنہوں نے کہاہے کہ حصر زمانی لحاظ سے ہے ان کا قول بھی درست معلوم نہیں ہوتا کیونکہ مکہ کے زمانہ تک تویہ تشریح درست ہوسکتی تھی ۔مگر یہی آیات سورۃ بقرہ میں بھی نازل ہوئی ہیں ۔جس کازمانہ ہجرت کے تیسرے سال تک پہنچتا ہے ۔اورمائدہ میں بھی نازل ہوئی ہے جو سب سے آخری سورتوں میں شمار کیجاتی ہے۔پس جبکہ یہی آیت بعینہٖ مدنی سورتوں میں بھی ہے جس زمانہ میں کئی دوسری چیزوں کے استعمال سے روکاجاچکاتھا تویہ تاویل درست نہیں ہوسکتی ۔
اب رہا ان لوگوں کا قول جنہوں نے کہا ہے کہ یہی چیزیں حرام ہیں کوئی اَورچیز حرام نہیں ۔سومیرے نزدیک ان کی بات درست ہے کیونکہ اس کے سوااَورکوئی معنے نہیں بن سکتے ۔جن لوگوں کایہ مذہب ہے ان میں سے ایک ابن عباس ؓہیں ۔ان کے متعلق بخاری میں جابر بن عبداللہ سے ایک روایت آتی ہے کہ ان کا یہی مذہب تھا کہ یہی چار چیز یں حرام ہیں جو اس آیت میں بیان ہیں (صحیح بخاری جلد۳ روح المعانی جلد ۸)
اورابودائود کی روایت ہے کہ ابن عمر ؓ کا بھی یہی مذہب تھا ۔اس میں آتاہے کہ اَنَّہٗ سُئِلَ عَنْ اُکْلِ القَنْفُذِ فَتَلَا قُلْ لَّ ٓ اَجِدٌ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ الآیہ(سنن ابودائود جزو سوم کتاب الاطعمہ)
اورعائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی ابن ابی حاتم نے اوربعض اَورلوگوں نے مسند صحیح سے بیان کیا ہے کہ اِنَّھَا کَانَتْ اِذَاسُئِلَتْ عَنْ اَکْلِ کُلِّ ذِیْ نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ وَمخلبٍ مِنَ الطَّیْرِ قالتْ قُلْ لَّآ اَجِدُ فِیْ مَآاُوْحِیَ اِلَیَّ
الآیہ(روح المعانی جلد ۸)
اسی طرح ابن ابی حاتم نے ابن عباسؓ سے بھی روایت کی ہے کہ قَالَ لَیْسَ مِنَ الدَّوَابِ شَیْئٍ حَرامٌ اِلَّا مَاحَرَّمَ اللہُ تعالیٰ فِی کِتَابِہٖ قُلْ لَّآاَجِدُ۔امام مالکؓ کابھی یہی مذہب تھا ۔(روح المعانی جلد ۸ زیر آیت سور ۃ انعام)
اب سوال یہ ہے کہ کیاباقی سب چیزوں کا کھاناجائز ہے بعض ائمہ کامذہب یہ ہے کہ ان کے سواباقی سب اشیاء کھانا جائز ہے مگر میرے نزدیک باوجود ا س کے بعض اشیا ء کاکھانا ناجائز ہے ۔مگر ہم انہیں شریعت کی اصطلاح میں حرام نہیں کہہ سکتے ۔چنانچہ ابن ماجہ میں سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا ۔الحلالُ مَآ اَحَلَّ اللہُ فِیْ کِتَابِہ والحرم ماحرّم اللہ فی کتابہٖ(ابن کثیر جلد اول زیر آیت سورۃ بقرہ)
اس سے میں یہ نتیجہ نکالتاہوں کہ خداتعالیٰ نے جن اشیاء کو حلا ل کیا ہے انہی کو ہم حلال کہہ سکتے ہیں اورجن کو حرام کہا ہے انہی کو ہم حرام کہہ سکتے ہیں ۔باقی جو درمیانی چیز یں ہیں ان کے متعلق حکم حلال اورحرام کے تابع ہو گا ۔دلالۃ النص کے طور پر نہ ہو گا۔سورۃ مائدہ میں بھی اشارۃً اس صداقت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ۔وہاںفرمایا ہے ۔اُحِلَّتْ لَکُمُ بَھِیْمَۃُ الْاَنْعَامِ اِلَّا مَایُتْلیٰ عَلَیْکُمْ ۔چوپایوں میں سے تم پر انعام کی قسم کے بہائم حلال ہیں سوائے ان کے جن کاذکر حراموں میں کیاگیاہے ۔
انعام کی کئی قسمیں ہیں ۔اونٹ۔بکری ۔مینڈہا ۔دنبہ ۔گائے ۔یہ حلال ہیں ۔اس کے بعد فرمایا کہ
حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ الْمَیْتَۃُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الجخِنْزِیْرُوَمَآاُھِلَّ لِغَیْرِاللہِ بِہٖ یعنی ان حلال چیز وں کے مقابل پر کچھ حرام بھی ہیں ۔اول مردہ خواہ حلال جانور کا ہو ۔دوسرے خون وہ بھی خواہ حلال جانورکاہو ۔تیسرے خنزیر کاگوشت ۔چوتھے جس پر خداتعالیٰ کے سوادوسر ے معبودوں کانام لیا گیا ہو خواہ وہ جانور حلال ہی کیوں نہ ہو ں پھر مردہ اورخون کی مزید تشریح کی گئی ہے اورفرمایا ہے ۔کہ نَطِیْحَۃْ۔مَوْقُوْذَۃ وغیرہ حرام ہیں ۔یہ نئی حرمت نہیں بلکہ مَیۃَ اوردَم کی تشریح ہے ۔یہ سب کچھ بیان کرکے خداتعالیٰ فرماتاہے ۔یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَٓااُحِلَّ لَھُمْ کہ مسلمان پوچھتے ہیں کہ ان کے لئے کیاکیا چیز یں حلا ل کی گئی ہیں ؟ااب اگر اِنَّمَاحُرِّمَ عَلَیْکُمْ کے یہ معنے ہوتے کہ ان کے سواباقی چیز یں کھانی جائزہیں توجب قرآن کریم نے ان چارچیزوں کو اس سوال سے پہلے بیان کردیاتھا ۔یہ سوال دوبارہ کیوں کیاجاتا؟
حرام اورحلال چیزوں کے بیان کرنے کے بعد پھر اس سوال کوبیان کرنا اوراس کاجواب دینابتاتاہے کہ پہلی حلال چیزوں کی تشریح میں کچھ اغلاق ابھی باقی تھا جس کے متعلق صحابہ نے سوال کیا اوراللہ تعالیٰ نے بھی ان کے سوال کایہ جوا ب نہیں دیا کہ ابھی توہم بتاچکے ہیں پھر کیوں پوچھتے ہو ۔بلکہ سوال کی ضرورت تسلیم کرکے اس کا جوا ب دیا ہے ۔اوروہ جواب یہ دیا ہے کہ قُلْ اُحِلَّ لَکُمْ الطَّیِّبٰتُ کہ باقی اشیاء میں سے جو طیّبات ہیں وہ حلا ل ہیں اورجو طیبات نہیں وہ حلا ل نہیں ۔اس سے معلو م ہواکہ سب حلال چیزیںطیب نہیں ہیں۔جوطیب میں صرف ان کاکھا ناجائز ہے باقی کاکھا ناجائز نہیں ۔لیکن ان کانام حرام نہیں رکھ سکتے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی قسم کامضمون بیان فرمایاہے ۔ایک حدیث میں آتاہے کہ اِنَّ الحلالُ بَیِّنٌ والحرامَ بَیِّنٌ وَبینھما اُمُورٌ مُشتَبھَاتٌ لایعلمُھا کثیرٌ من الناس ۔(بخاری جلد ۲ کتاب البیوع ۔باب الحال بیّن والحرام بیّن)یعنی حلال بھی بیان ہوچکے ہیں اورحرام بھی ۔پھر بھی ان دونوں کے درمیان مشتبہ امور ہوتے ہیں ۔جن کو اکثر لوگ نہیں جانتے ۔پس ان کے بارہ میں قیاس اورعلم طب اورتجربہ وغیرہ سے کام لے کر فیصلہ کیاجائے گا۔
پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ دیکھو ہر بادشاہ کی رکھ ہوتی ہے اواللہ تعالیٰ کی رکھ اس کی محرمات ہیں ۔جس طرح ہوشیارچرواہارکھ کے پاس نہیں چراتا ۔تاایسانہ ہوکہ غفلت میں اسکے جانور اس می چلے جائی اوروہ سزاکامستحق ہوجائے ۔اسی طرح مومن محرمات کے ساتھ کے علاقہ میں اپنے نفس کو نہیں چراتاتاپکڑانہ جائے ۔
اس روایت سے استنباط ہوتا ہے کہ حرام اشیاء سے ملتی جلتی اشیاء کوبھی گوحرام نہیں کہہ سکتے مگر ان سے بچنا تقویٰ کے لئے ضروری ہے
اس اصول کے مطابق جو نئی نئی اشیا ء دنیا میں نکلتی رہتی ہیں ان کے متعلق یہی حکم ہو گاکہ ہم ان کا قیاس حرام اورحلال پر کریں ۔اگر حلال سے ان کی مشابہت زیادہ ہے توانہیں استعمال کریں ۔اگرحرام سے مشابہت زیادہ ہے توان سے اجتناب کریں ۔چنانچہ تازہ مثال میں اس قسم کی چیزوں میں تمباکو ہے ۔حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بانی سلسلہ احمدیہ سے اس کے بارہ میں پوچھا گیاتوآپ نے فرمایا ۔یہ چیز بعد میں نکلی ہے مگر اس کے حالات کو دیکھتے ہوئے ہم سمجھتے ہیں ۔کہ اگررسول کریم صلعم کے زمانہ میں اسکارواج ہوتاتوحضورؐاس سے ضرورمنع فرماتے ۔
اصل بات یہ ہے کہ کھانے کی چیزوں کے متعلق اسلام نے کئی درجے بتائے ہیں ۔حرام۔ممنوع۔حلال۔طیب۔حرام وہ جسے قرآن نے حرام کیا ۔ممنوع وہ جسے قرآن کریم کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق رسول کریم صلعم نے منع فرمایا یابعد کی معلوم شدہ چیز جس کے متعلق تحقیقات کرکے مسلمان اسے ناپسندیدہ قراردے دیں ۔
حلال ۔وہ جو اپنی وضع کے لحاظ سے طیب ہو ۔طیب ۔وہ جو اپنی موجودہ حالت میں بھی طیب ہو ۔یعنی ہروہ چیز جس کو کسی صورت میں بھی کھاناجائز ہے اس کو حلال کہیں گے۔جیسے بکراحلال ہے ۔مگرچونکہ کچے گوشت کی صورت میں نہیں کھایا جاسکتا ہے اس لئے اس صورت میں طیب نہیں ہوگا۔لیکن اس کو پکاکے کھا نا طیب ہوگا۔
بہترین غذا طیب سے اتر کرحلال ہے ۔اس کے بعد اوراشیا ء ہیں وہ ممنوع ہیں ۔ان کاکھا نادرست نہیں ۔مثلاً ڈاکٹر ہیضہ کے دنوں میں کھیرے کاکھانامنع کردے توگوکھیراعام دنوں میں حلال اورطیب ہے مگر ان دنوں میں حلال تورہے گاطیب نہ رہے گا۔جوچیزیں حرام کے بعد ہیں یعنی ممنوع ہیں ان کے متعلق بھی ہم کہیں گے کہ ان کاکھا نا درست نہیں ۔یعنی ان کے کھانے سے انسان نقصان اٹھائے گا۔
یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ نے مختلف جانور مختلف کاموں کے لئے پیداکئے ہیں ۔کوئی خوبصورتی کے لئے کہ دیکھنے میں خوبصور ت معلو م ہوتاہے ۔کوئی آواز کے لئے کہ اس کی آواز بہت عمدہ ہے ۔کوئی کھا نے کے لئے کہ اس کاگوشت اچھا ہے ۔کوئی دوائی کے لئے کہ اس کے گوشت میں کسی مرض سے صحت دینے کی طاقت ہے ۔صرف جانوراورحلال دیکھ کراسے نہیں کھاناچاہیئے ۔ہوسکتا ہے کہ ایک جانورکا گوشت صحت کے لئے مضرنہ ہو مگروہ مثلاً بعض فصلوں یا انسانوں میں بیماری پیداکرنے والے کیڑوں کو کھاتاہوتوگوشت کے لحاظ سے اس کاگوشت حلال بھی ہوگااورطیب بھی ۔مگر پھر بھی بنی نوع انسان کاعام فائدہ دیکھتے ہوئے اس کاگوشت طیب نہ رہے گا۔کیونکہ اس کے کھانے کی وجہ سے انسان بعض اورفوائدسے محروم رہ جائیں گے ۔
مجھے بچپن ہی میں یہ سبق سکھایاگیاتھا ۔میں بچپن میں ایک دفعہ ایک طوطاشکارکرکے لایا ۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسے دیکھ کر کہا محمود اس کاگوشت حرام تونہیں ۔مگراللہ تعالیٰ نے ہر جانور کھانے کے لئے ہی پیدانہیں کیا ۔بعض خوبصورت جانور دیکھنے کے لئے ہیں کہ انہیں دیکھ کر آنکھیں راحت پائیں ۔بعض جانوروں کو عمدہ آواز دی ہے کہ ان کی آوازسن کرکان لذت حاصل کریں ۔پس اللہ تعالیٰ نے انسان ہر حس کے لئے نعمتیں پیداکی ہیں وہ سب کی سب چھین کر زبان ہی کو نہ دے دینی چاہئیں۔دیکھو یہ طوطاکیساخوبصور ت جانور ہے ۔درخت پربیٹھا ہوادیکھنے والوں کوکیسابھلا معلوم ہوتاہے ۔
غرض طیب کے لئے جہاں صحت کے لئے اچھا ہوناشرط ہے وہاں اس کے کھانے یہ بھی شرط ہے کہ اس چیز کے کھانے سے انسا ن کے دوسرے حواس یا دوسرے بنی نوع انسا ن یادوسری مخلوق کا حق نہ ماراجائے ۔بلکہ دوسروں کے جذبات کو مدنظررکھنا بھی ضروری ہے چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔مَااسْتَخْبَثَتْہُ الْعَرَبُ فَھُوْ حَرَامٌ(روح المعانی جلد ۲زیر آیت تحریم سورۃ انعام)یعنی جسے عر ب خراب کھاناسمجھیں وہ حرام ہے ۔یہاں حرام کے معنے یہ نہیں کہ خداتعالیٰ کے نزدیک اس کاکھانے والا گنہگار ہوتا ہے ۔بلکہ مطلب صرف یہ ہے کہ عربوں کے سامنے اسے نہیں کھاناچاہیئے کیونکہ اس طرح آپس کے تعلقات کشیدہ ہوجاتی ہیں ۔اسوقت ہندوستا ن میں گائے کاگوشت بھی ایسا ہی ہے ۔مسلمانوں کو احتیاط چاہیئے کہ گائے کاگوشت ہندوئوں کے سامنے نہ کھایاکریں اوراس کاذکر بھی ان کے سامنے نہ کیا کریں ۔کیونکہ اس سے انہیں تکلیف ہوتی ہے ۔
ولاتقولوالماتصف السنتکم الکذب ھذاحلٰلٌ وھذاحرامٌ لتفترواعلی اللہ الکذب
اوراپنی زبانوںکے جھوٹے بیان کے سبب سے (یہ)مت کہوکہ یہ حلال ہے اوریہ حرام ہے (تاایسانہ ہو)کہ تم اللہ(تعالیٰ )پر جھوٹ
ان الذین یفترون علی اللہ الکذب لایفلحون٭
باندھنے والے بن جائو۔جولوگ اللہ(تعالیٰ)پرجھوٹ باندھتے ہیں وہ ہرگزکامیاب نہیں ہوتے ۱۱۶؎
۱۱۶؎ حل لغات ۔تَصِفُ:وَصَفَ سے مضارع واحد مؤنث غائب کاصیغہ ہے ۔اوروَصَفَ کے لئے دیکھو نحل ۹۳؎
یُفْلِحُوْنَ:اَفْلَحَ سے مضارع جمع مذکر غائب کاصیغہ ہے ۔اوراَفْلَحَ الرَّجُلُ کے معنے ہیں فَازَ وَظَفِرَ بِمَا طَلَبّ۔وہ اپنے مطلوب کے حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا ۔اَفْلَحَ زَیدٌ۔نَجَعَ فِیْ سَعْبِہٖ وَاَصَابَ فِیْ عَمَلِہٖ۔ اپنی کوشش میں کامیاب ہوگیا ۔اورحسب خواہش مطلوب کو پالیا (اقرب)پس لَایُفْلِحُوْن کے معنے ہوں گے وہ کامیاب نہیں ہوتے ۔
تفسیر ۔لِمَاتَصِفُ اَلْسِنَتُکُمْ میں یاتومَا مصدر یہ ہے اورلَاتَقُوْلُوْا کامفعول اَلْکَذِب ہے یعنی اپنی زبانوں کے بولے ہوئے جھوٹ کی بناء پر یہ نہ کہو کہ فلاںچیز حلال ہے اورفلاں حرام ہے ۔یاپھر مَا موصولہ ہے جس کے روسے یہ معنے ہوں گے کہ جن چیزوں کو تمہاری زبانیں جھوٹ بول کر حلال حرام قراردیتی ہیں ان کی نسبت یہ نہ کہو کہ وہ حلا ل ہیں یاحرام ۔
تمہاری زبان سے مراد دونوں صورتو میں قو م کے سرداروں کی زبانوں سے ہے کیونکہ ساری قوم جھوٹ نہیں بنایاکرتی ۔بعض لیڈر جھوٹ بولتے ہیں اوردوسرے لوگ ان کے پیچھے چل پڑتے ہیں ۔
لِیَفْتَرُوْا عَلَی اللہِ الْکَذِبَ۔یہاں پر لام عاقبت کے معنے دیتا ہے اورمطلب یہ ہے کہ ایسانہ کہو کیو نکہ اس کانتیجہ یہ ہو گاکہ تم اللہ پر افتراکر نے لگ جائو گے یعنی اس طرح اپنے پاس سے حلال حرام قرار دینا اللہ تعالیٰ پر افترا کے مترادف ہے کیونکہ حلال حرام مقرر کرنا اللہ تعالیٰ کاکام ہے ۔
اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُونَ علَی اللہِ الْکَذِبَ لَایَفْلِحُوْنَ مفتری کامیاب نہیں ہوتے ۔یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے ۔ مگر مسلمانوں کو اس طرف توجہ نہیں ۔خداتعالیٰ کی طرف سے آنے والے ماموروں کی سب سے بڑی نشانی ہی یہ ہے ۔
متاعٌ قلیل ولہم عذاب الیم ٭
(یہ دنیا )تھوڑاساعارضی سامان ہے۔اور(اس کے نتیجہ میں )ان کے لئے دردناک عذاب (مقدر)ہے ۱۱۷؎
۱۱۷؎ تفسیر ۔یعنی چند دن تک اگر عذاب سے بچ جائیں تواَوربات ہے مگر لمبی عمر نہیں پاتے ۔یعنی اتناالہام شائع کرنے کے بعد نہیں پاتے جتنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوملا ۔
وعلی الذین ھادواحرمنا ما قصصنا علیک من قبل
اورجن لوگوں نے یہودی مذہب اختیار کیا تھا ۔ان پر (بھی)ہم نے اس سے پہلے وہ (تمام )چیزیں حرام کی تھیں جن کا ذکر ہم نے
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
وماظلمنہم ولکن کانوا انفسہم یظلمون ٭
تجھ سے کیاہے ۔اورہم نے ان پر (یہ احکام دیکر )ظلم نہیں کیاتھا بلکہ وہ (ان احکام کوتوڑ کر)اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے ۱۱۸؎
۱۱۸؎ حل لغات ۔قَصَصْنَا :قَصَّ سے جمع متکلم کاصیغہ ہے ۔اورقَصَّ کے لئے دیکھو یوسف ۴؎
تفسیر ۔اس آیت میں بتایاہے کہ کفارکی طرح یہودیوں نے بھی ایساکیاتھاجس کے بدلہ میں ان کوسزاملی تھی ۔اگرتم بھی کروگے توتمہارے ساتھ بھی ایساہی ہوگا۔
مِنْ قَبْلُ کے متعلق مفسرین میں بہت اختلاف ہواہے کہ اس سے کیا مراد ہے ۔بعضوں نے مِنْ قَبْلُسے مراد سورۃ انعام لی ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ اس سے پہلے سورۃ انعام میں ان محرمات کاذکر آچکا ہے ۔اسی کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے ۔لیکن یہ غلط ہے ۔ وہاں بھی یہ الفاظ ہیں ۔قُلْ لَّآ اَجِدْ فِیْمَآاُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلیٰ طَاعِمٍ یَّطْعَمُہٗ(انعام ع ۱۸)یعنی کفارسے کہہ دے کہ میں تواپنے اوپر نازل ہونے والی وحی میں سوائے فلاں فلاں چیز کے اَورکوئی چیز حرام نہیں پاتا۔ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ سورۃ انعام سے بھی پہلے یہ حکم نازل ہوچکاتھا۔
اب مشکل یہ پیش آتی ہے کہ ان چار حرام چیزوںکا ذکرصرف چارسورتوں میں ہے ۔بقرہ میں جو مدینہ میں نازل ہوئی ۔مائدہ میں جو نہ صر ف مدینہ میں نازل ہوئی بلکہ اسکے آخری ایام میں نازل ہوئی ۔نحل میں کہ جہاں کہا ہے کہ یہ حکممِنْ قَبْلُ نازل ہوچکا ہے ۔ اورانعام میں کہ وہاں بھی یہی اشارہ کیاگیا ہے کہ اس سے پہلے یہ حکم نازل ہوچکا ہے ۔پس آپس میں ایک دوسری کی طرف اشارہ سمجھانہیں جاسکتا ۔کیونکہ دونوں سورتیں ایک دوسرے سے پہلے نہیں ہوسکتیں ۔اوران دونوں کے علاوہ کسی اورمکی سور ۃ میں یہ ذکر ہے نہیں ۔
مفسرین نے یاتو اکثر ایسے جواب دیئے ہیں جومعقول نہیں ۔مثلاً بعض سورۃ مائدہ کی طر ف اشارہ قرار دیا ہے ۔جودرست نہیں ۔ کیونکہ سورۃ مائدہ مدینہ میں نازل ہوئی ہے ۔رازای نے یہ جواب دیا ہے کہ سورۃ انعام ہی سب سے پہلی سورۃ ہے جس میں یہ ذکر ہے ۔اوراس کی آیت قَدْ فَصَّلَ لَکُمْ مَّاحُرِّمَ عَلَیْکُمْ میں اس کے بعد آنیوالی آیت قُلْ لَآَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا کی طرف اشارہ ہے ۔اوراتنے تھوڑے فاصلہ کی بناء پر اگلی آیات کی طرف اشارہ کرنے میں کوئی حرج نہیں
اما م رازی کایہ جوا ب ہرگز درست نہیں ہوسکتا ۔کیونکہ قَدْ فَصَّلَ لَکُمْ سے بعد کی آیت کی طرف تواشارہ ہویا نہ ہو ۔مگر جس آیت کی طرف و ہ اشارہ کرتے ہیں وہ بھی تویہی کہتی ہے کہ قُلْ لَآَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ جس کے معنے یہ ہیں کہ اس آیت سے بھی پہلے کوئی اورآیت موجود ہے جس میں یہ مسئلہ بیان ہواہے ۔پس یہ جواب بھی مشکل کوحل نہیں کرتا۔
مصنف فتح الباری نے اس کاایک عجیب جواب دیا ہے جومیرے نزدیک قابل قدر ہے ۔اورمیں سمجھتاہوںکہ اگر اس مشکل کاکوئی اَورحل موجود نہ ہوتا تویقینایہی جواب صحیح ہوتا۔وہ لکھتے ہیں کہ اس کااشارہ سور ۃ مائدہ کی طرف ہے اورگومائدہ نزول کے لحاظ سے انعام سے بعد کی ہے ۔لیکن چونکہ علم الٰہی میں سورۃ مائدہ کوآخری ترتیب میں پہلے رکھناتھا ۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے پہلے نازل ہونے والی سورۃ میں اس میں بعد میں رکھی جانے والی سورۃ کی طرف اشارہ کردیااوراس طرف ایک ثبوت مہیا کردیا کہ قرآن کریم کی ترتیب الہا می ہے ۔ان کا یہ جوا ب نہایت لطیف ہے اوربعض دوسرے مقامات کے حل کرنے کے وقت مدنظر رکھنے کے قابل ہے ۔اس میں کوئی شک نہی کہ ترتیب قرآن میں پہلے نازل ہونے والی سورتو ںمیں بعد میں نازل ہونے والی سورتوں کے مضامین کو واضح کیا گیا ہے ۔جیسا کہ سورئہ نحل کے بعض مسائل کو سورۃ اسراء میں حل کیاگیا ہے حالانکہ سورۃ اسراء پہلے کی ہے اورسورۃ نحل بعد کی ہے اوریہ قرآن کے علمی کمالات میں سے معجزانہ کمال ہے ۔
باوجود اس جواب کو لطیف سمجھنے کے میرے نزدیک اس موقعہ پر اس جواب کی ضرورت نہیں کیونکہ ا س کاجواب ترتیب نزول کو مدنظررکھتے ہو ئے بھی موجود ہے ۔قرآن کریم سے یہ توثابت ہے کہ سورۃ نحل سورۃ انعام سے پہلے نازل ہوئی ہے کیونکہ سورۃ انعام میں دوجگہ اس کے مضمو ن کی طرف اشار ہ کیا گیا ہے ۔ایک انعام کے چودہویں رکوع میں جس میں فرمایا ہے ۔قَدْفَصَّلَ لَکُمْ مَّاحَرَّمَ عَلَیْکُمْ اِلَّا مَّااضْطُرِرْتُمْ اِلَیْہِاوردوسرے آیت قُلْ لَااَجِدُ فِیْمَااُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلیٰ طَاعِمٍ یَّطْعَمُہٗ اِلَّآ اَنْ یَّکُوْنَ مَیْتَہً اَوْدَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْلَحْمَ خِنْزِیْرِ فَاِنَّہٗ رِجْسٌ اَوْفِسْقًا اُھِلَّ لِغَیْرِاللّٰہِ بِہٖ(ع ۱۸)اورتاریخ سے بھی یہ امر ثابت ہے کیونکہ اس میں لکھا ہے کہ سراء کے واقعہ کے بعد جو ہجر ت سے چھ ماہ یاایک سال پہلے ہواتھا ۔حرام حلال کے احکام نازل ہوئے ہیں اوریہ بھی احادیث سے ثابت ہے کہ سورۃ انعام ایک ہی دفعہ سب کی سب نازل ہوئی تھی ٹکڑے ٹکڑے کرکے نازل نہیں ہوئی ۔پس معلوم ہوا۔کہ سورۃ نحل کے بعد ہی یہ سورۃ نازل ہوئی ہے اوراسی کی اس آیت کی طرف اشارہ ہے ۔اب ر ہ گیا یہ سوال کہ آیت زیر بحث میں جو مِنْ قَبْلُ کے الفاظ ہیں ان سے کیا مراد ہے ؟تواس کاجواب یہ ہے کہ یہ امر بالکل سادہ ہے ۔مگر نامعلوم مفسرین کاذہن ادھر کیوں نہیں گیا ۔بات یہ ہے کہمِنْ قَبْلُ سے مراد کوئی پہلی نازل شدہ سورۃ نہیں بلکہ اسی سورۃ کی پہلی نازل شدہ آیت ہے چنانچہ اس آیت سے دوآتیں پہلے اِنَّمَاحَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃَ والی آیت موجود ہے اسی کی طرفمِنْ قَبْلُ کا اشارہ ہے مِنْ قَبْلُ میں سال یادوسا ل کی شرط نہیں ۔ہم عام طور پر تصنیف میں جو با ت پہلے لکھی گئی ہو اس کی نسبت کہتے ہیں کہ ’’میں پہلے لکھ چکاہوں ‘‘۔اس سے مراد کوئی دوسری کتاب نہیں ۔بلکہ ان الفاظ سے پہلے کی کوئی عبارت مراد ہوتی ہے ۔اسی رنگ میں یہ الفاظ اس آیت میں مستعمل ہوئے ہیں۔
یہ جو فرمایا ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ انہوں نے خود اپنی جانوںپر ظلم کیا ۔اس سے یہ مراد ہے کہ بعض اورچیز یں بھی یہود کے لئے ممنوع قرار دی گئی تھیںجیسے گائے اوربکری کی چربی ۔پس اس کیطرف یہاں اشارہ کیاگیاہے اوربتایا ہے کہ یہ حرمت حقیقی نہ تھی بلکہ ان کے ظلمو ں کیوجہ سے تھی ۔چنانچہ سورئہ انعام میں اس مضمون کو وضاحت سے بیان فرمایاگیاہے فرماتا ہے وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَیْہِمْ شُحُوْمَھُمَا اِلَّا مَاحَمَلَتْ ظُھُوْرُھُمَآاَوِالْحَوَایَآاَوْمَااخْتَلَطَ بِعَظْمٍ۔ ذٰلِکَ جَزَیْنٰھُمْ بِبَغْیِھِمْ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ (انعام ع ۱۸)یعنی یہود پر گائے اوربکری کی چربی بھی حرام کی گئی تھی سوائے اس چربی کے جو پیٹھ پرہویا انتڑیوں کے ساتھ لگی ہوئی ہو یاہڈی کے اوپر لگی ہوئی ہو ۔مگر یہ حرمت ان کی سرکشیوں کی سزاطور پر جاری کی گئی تھی ۔مستقل حرمت نہ تھی ۔
ثم ان ربک للذین عملواالسوء بجھالۃ ثم تابوامن بعد
پھر (یاد رکھو کہ)جن لوگوں نے بے خبری کی حالت میں (کوئی )برائی کی ہو (اور)پھر اس کے بعد(اس سے )توبہ کرلیں اور(اپنی
ذٰلک واصلحوا ان ربک من بعدھا لغفوررحیم٭
غلطی کی)اصلاح (بھی )کریں ان کے حق میں تیرارب ان (شرائط کے پوراکرنے)کے بعد بہت ہی بخشنے والا (اور)باربار رحم کرنے والا (ثابت)ہوگا ۱۱۹؎
۱۱۹؎ حل لغات ۔اَلسُّوْئُ کے لئے دیکھو یوسف ۵۴؎
جَھَالَۃ:جَھَلَ کامصدر ہے اورجَھِلَہٗ کے معنے ہیں ضِدُّ علمہ اس سے ناواقف اوربے خبررہا ۔نیز الجَہَالَۃ کے معنی ہیں ضِدُّ العِلْمِ وَالْمَعْرِفَۃِ۔ بے علمی اوربے خبر ی(اقرب)
تفسیر ۔اس سے قبل اللہ تعالی نے بیان فرمایاتھاکہ یہود نے نافرمانی کی اس لئے ان پر تکالیف آئیں جیسے فرمایا ولکن کانوا انفسہم یظلمون کہ وہ ظلم کرتے تھے اس لئے اس کانتیجہ انہیں دکھ ملا ۔اب فرمایا ہے کہ گویہود نے غلطیاں کیں۔لیکن اگروہ اب بھی دعاکریں توخداتعالیٰ کو بخشنے والامہربان پائیںگے ۔اس میں یہود کاکوئی خاص لحاظ نہیں بلکہ یہ عام قانون کے مطابق ہے ۔
ظاہر ہے کہ اولاد کی تکالیف کا ماں باپ پر اثر پڑتاہے جس طرح بچوں کے بیمار ہونے سے ماں باپ کوتکلیف ہوتی ہے اسی طرح ان کے دوزخ میں پڑنے سے ماں باپ کو تکلیف ہو گی ۔چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آتاہے کہ قیامت کے دن بعض ظاہر میں صحابی نظر آنے والے لوگوں کو دوزخ میں جاتے دیکھیں گے توفرمائیں گے اُصَیْحَابِیْ۔اُصَیْحَابِیْ (بخاری جلد ۳کتاب التفسیر باب و کنت علیم شھیداً)پس اس تکلیف سے بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ بزرگوں کی اولادسے نیکی کاسلوک کرتا ہے اوران بزرگوں کو تکلیف سے بچانے کے لئے ان کی اولاد کی حفاظت کی جاتی ہے جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَلْجَقْنَابِھِمْ ذُرِّیَتِھِمْ کہ ہم مومنوں کی اولاد کو اگر وہ مومن ہو ں گے جنت میں ان کے ساتھ ملادیں گے خواہ اولاد کادرجہ کم ہی کیوں نہ ہو ۔اس لئے انبیاء و صلحاء کی امتوں اورجماعتوں کے لئے بار بار قرآن کریم میں وعدے ہیں ۔کہ ان پر خاص فضل ہوگاتاان کے دکھ پانے سے انبیاء اورصلحاء کو تکلیف نہ ہو ۔اورچو نکہ قرآن کریم سے معلو م ہوتاہے کہ سب قومو ں کی طرف انبیاء آئے ہیں اس لئے ساری دنیا ہی اس فضل میں حصہ دار ہے اوریہود کی خصوصیت نہیں ۔
ثُمَّ اِنَّ رَبَّکَ لِلَّذِیْنَ عَمِلُوالسُّوْٓئَ بِجَھَالَۃٍ۔جہالت علم کے مقابل کالفظ ہے اوراس کے معنے ناواقفیت کے ہیں لغت میں ہے الجھالۃ ضدُّ العلمِ۔اسی طرح لکھا ہے الجہالۃ ضدُّ العلم والمعرفۃِ یعنی جہالت علم کاضد ہے اورجہالت کے معنے عدم علم اورعدم معرفت کے ہیں ۔اس جگہ عدم علم کے معنے نہیں کیونکہ جسے علم نہ ہو اسے سزانہیں ملتی بلکہ عدم معرت کے ہیں یعنی علم توحکم کاہو لیکن تقویٰ میں کمزوری کی وجہ سے یہ شخص وقت پر اپنے نفس کو قابو میں نہ رکھ سکے ۔ایسا شخص سزاکامستحق ہوتاہے کیونکہ علم کے بعد تقویٰ کے حصول کی کوشش نہ کر ناایک دانستہ گناہ ہے ۔
درحقیقت معرفت ہی ہے جوانسان کو گنا ہ سے بچاتی ہے ۔جولوگ ظاہر ی علم کو کافی سمجھتے ہیں وہ آخر گنا ہ میں ملوث ہوکر رہتے ہیں ۔پس انسان کو چاہیئے کہ معرفت اورخشیت الٰہی میں ترقی کرنے کی ہمیشہ کوشش کرنی چاہیئے۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ جہالت دوقسم کی ہوتی ہے ایک دائمی جس کاشکار عرفان سے بالکل محروم ہوتاہے اورگناہ میں ہی اُسے لذت ملتی ہے ۔دوسری وقتی۔اس کا شکار ادنیٰ عارف بھی ہوجاتا ہے کیونکہ بعض وقت اس کے عرفا ن کادرجہ کم ہوتاہے تواس وقت و ہ نفسانی جذبات کا شکار ہوجاتاہے چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے لایزنی الزانی حین یزنی وھو مومنٌ فیخرج منہ الایمان فیصیر علی راسہ کالظلۃ الخ یعنی جب زانی زناکررہاہوتاہے تواس وقت اس کے قلب کی حالت مومنانہ نہیں ہوتی اوراس کا ایمان اس کے دل سے نکل کر اس کے سرپرچھاتے کی طرح منڈلاتارہتاہے ۔(ترمذی ابواب الایمان)آخری فقرہ کے معنے بعض شراحِ احادیث نے یہ کئے ہیں کہ وہ ایمان اس وقت اس شخص کی سفار ش کررہاہوتا ہے ۔
وَاَصْلَحُوْا۔اپنی اصلاح کرلیں یادوسروں کی اصلاح کریں دونوں ی معنے ہوسکتے ہیں۔اس میں یہ بتایاگیا ہے کہ گناہ کے انسان کوصرف قلبی توبہ ہی نہیں کرنی چاہیئے بلکہ جن وجوہ سے و ہ گناہ سرزد ہواتھا ان کو بھی دور کرنا چاہیئے ۔تاکہ آئندہ گناہ سرزد نہ ہوسکے ۔اور’’دوسروں کی اصلاح کریں ‘‘سے اس طرف اشارہ ہے کہ اپنے گناہ کے کفارہ کے طور پر انہیں دوسرے لوگوں کی اصلاح کرنی چاہیئے ۔تاکہ ان کے ثواب میں جن کو وہ ہدایت کی طرف لائے ہوں شامل ہوجائیں ۔اورسابق گنا ہ کی وجہ سے جو اعمال میں کمی ہوجائے پوری ہوجائے ۔
ان ابرٰھیم کان امۃ قانتاللہ حنیفا ولم یک من المشرکین٭
ابراہیم یقیناہر(اک )خیرکاجامع ۔اللہ (تعالیٰ)کے لئے تذلل اختیارکرنے والا (اور)ہمیشہ خداکی کامل فرمانبرداری کرنے والاتھا ۔اوروہ مشرکوں میں سے نہیں تھا ۔ ۱۲۰؎
۱۲۰؎ حل لغات ۔الاُمُّۃُ کے معنے ہیں۔الامام۔امام۔الرجل الذی لانظیر لہ ۔ایساآدمی جس کاکوئی نظیر نہ ہو ۔معلّم الخیر ۔نیکی کی تعلم دینے والانیز الجامع للخیر ۔خیر کاجامع ۔(تاج)پس اِنَّ اِبراھیمَ کان اُمَّۃً کے معنی ہوں گے کہ ابراہیم یقینا ہرایک خیر کاجامع ر،نیکی کی تعلیم دینے والاامام،اوربے نظیر شخص تھا ۔قَانِتًا:قانت ۔قنَتَ سے اسم فاعل ہے اورقَنَتَ (یقنت قنوتا)کے معنے ہیں اطاع۔اطاعت کی اورقنت اللہَ وقَنت لِلہِ کے معنے ہیں ذلّ اللہ تعالیٰ کے حضور تذلل اختیار کیا نیز اس کے معنے ہیں ۔دَعا۔اس نے دعاکی ۔قام فی الصلوٰۃ۔نماز شروع کی ۔امسک عن ۔الکلام۔کلام کرنے سے رکارہا ۔نیز القانت کے معنے ہیں القائم بالطاعۃ الدائم علیھا پوری طرح اطاعت کرنے والا ۔المصلی ۔نماز گزار(اقرب)
الحنیف:الصحیح المیل الی الاسلام الثابت علیہ ۔اسلام کی طرف صحیح میلان رکھنے والا اوراس پر قائم رہنے والا۔المائل من دین الی دین۔ایک دین کو چھو ڑکر دوسرے دین کی طرف جانے والا ۔المسلم۔کامل فرمانبردار۔اس کی جمع حنفاء آتی ہے (اقرب)
تفسیر ۔اس آیت میں ابراہیم علیہ السلام کو امت کہا ہے اس کے ایک تویہ معنے ہیں کہ وہ نیکی کی تعلیم دینے والا اورسب قسم کی خیر کاجامع تھا۔دوسرے میرے نزدیک ادھر بھی اشار ہ ہے کہ اس کے اندر وہ طاقتیں موجود تھیں جن سے امتیں پیداہوتی ہیں ۔حتی کہ ان طاقتوں کی وجہ سے اسے امت کہاجاسکتاہے گویا وہ درختِ امت کے لئے بطور بیج کے تھا۔
اس آیت میں حضرت ابراہیم کی بہت سی صفات بیان فرمائی ہیں۔ایک تویہ کہ وہ معلم خیر تھے ۔دنیا کو نیکی کی تعلیم دیتے تھے ۔دوسرے یہ کہ وہ جامع الخیر تھے ۔سب قسم کے اخلاق فاضلہ ان میں پائے جاتے تھے ۔تیسرے یہ کہ و ہ نہایت اعلیٰ فطرت رکھتے تھے جوزبردست نموکی قوتیں پوشیدہ رکھتی تھی ۔جس سے امتوں کاپیداہوناممکن تھا ۔چوتھے یہ کہ وہ قانت تھے ۔اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار تھے ۔دعائیں کرنے والے تھے ۔پانچویں یہ کہ وہ حنیف تھے یعنی زبردست قوۃ مقادمۃ رکھتے تھے اورکبھی حق کے راستہ سے دوسری طرف مائل نہ ہوتے تھے ۔چھٹے یہ کہ وہ مشرک نہ تھے یعنی توحید پر کامل طور پر قائم تھے ۔یہ کامل توحید کے معنے اس سے نکلتے ہیں کہ قانتاً للہِ اورحنیفاً کے بعد یہ فقرہ رکھا گیا ہے ۔جس سے معلوم ہوتاہے کہ اس جگہ عام موحد مراد نہیں ۔بات یہ ہے کہ عام طور پر انسان جب اس کے اند رخوبیاں پیداہوجائیں اپنی ذات پر بھروسہ کرنے لگ جاتاہے اوراس میں کبر اورخودبینی و خودرائی و خودرمتاسائی پیداہوجاتی ہیں اوروہ اپنے آپ کو بڑاسمجھنے لگ جاتاہے ۔یہ بھی ایک قسم کا شرک ہے اوراللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کے متعلق یہ فرکاکر کہ لم یک من المشرکین یہ بتایا ہے کہ باوجود اتنی خوبیوں کے وہ خداہی کابندہ رہا اوراپنے نفس کی خوبیوں کو اپنی طرف منسو ب کرکے شرک کامرتکب کبھی نہیں ہوا۔
شاکراٰلانعمہ اجتبہ وھدئہ الی صراط مستقیم٭
(وہ)اس کے انعاموں کاشکرگزار تھا ۔اس (کے رب)نے سے برگزیدہ کیااورایک سیدھی راہ کی طرف اس کی راہنمائی کی ۔ ۱۲۱؎
۱۲۱؎ حل لغات ۔اجتبٰاہُ کے معنے ہیں :اختارہ و اصطفاہ اس کو چن لیا اور برگزیدہ کیا (اقرب)
تفسیر ۔یعنی وہ اپنی ہرایک خوبی کو نعمت الٰہی سمجھتاتھا اوروہ ان تمام صفات کو خداتعالیٰ کادیا ہواخزانہ قرار دیتاتھا ۔پس چونکہ وہ تمام نعمتوںکو خداہی کی عطا سمجھتا تھا ۔اس لئے جس قدرزیادہ اس کی خوبیاں نکھرتی تھیں اسی قدر وہ اپنے شکر اورانابت الی اللہ میں بڑھتاتھا ۔
جب انسان میں یہ باتیں ہو ںتوپھر اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ اس کو اپنے فضل کے لئے چن لیتاہے چنانچہ فرمایا تب ان نیکیوں کے بدلے میں مَیں نے اس کو پسند کرلیا اوراس کو ہرخوبی سے متصف پاکر اپنابرگزیدہ بنالیاتھا ۔اوراس کو ایسے راہ پر ڈ ال دیا جومستقیم تھی ۔ یعنی خداتک پہنچانے والی تھی ۔
مستقیم کے لفظ میں اس طر ف اشارہ ہے ۔کہ وہ خداتعالیٰ تک پہنچانے والی راہ تھی کیونکہ مستقیم راستہ وہی ہوتا ہے جو دونقطوں کے درمیا ن ہو۔اوردین کے معاملہ میں ایک نقطہ انسان ہے اوردوسرانقطہ خداہے ۔پس جو راستہ خداتعالیٰ تک پہنچائے وہی صراط مستقیم ہوگا۔ اورجو راہ خداتعالیٰ تک نہیں پہنچاتا وہ مستقیم کہلا ہی نہیں سکتا۔کیونکہ اس کارخ اس نقطہ سے ہٹ گیا جس کی طرف پہنچنا مقصود تھا ۔
اس آیت کاتعلق پہلی آیات سے یہ ہے کہ پہلے بتایاجاچکا ہے کہ تم کوبھی انعام ملیں گے تم مکہ والوں کی طرح نہ بن جانا۔جنہوں نے شریعت ہی کاانکار کردیا ۔اوراپنے لئے خود ساختہ قانون کافی سمجھا ۔اورتم یہود کی طرح بھی نہ بننا ۔جنہوں نے خدائی شریعت میں اختلافات شروع کردئے ۔اوراس کی خلا ف ورزی کرنے لگ گئے ۔
اب بتاتاہے کہ تم کیسے بننا ۔فرمایا تم ابراہیم ؑ کی طرح بننا ۔جواوصاف اس کے ہیں وہ اپنے اندر پیداکرنا ۔اس کانتیجہ یہ ہوگا کہ جو سلوک ہم نے ابراہیم ؑ کے ساتھ کیاتھا وہی تمہار ے ساتھ کریں گے ۔وہ سلوک کیاتھا ؟اگلی آیت میں بیان کیاگیا ہے ۔
واتینہ فی الدنیا حسنۃ وانہ فی الاخرۃ لمن الصالحین٭
اورہم نے اسے دنیا میں (بھی بڑی)کامیابی بخشی تھی ۔اوروہ آخر ت میں(بھی)یقینا صالح لوگوں میں سے ہوگا ۔ ۱۲۲؎
۱۲۲؎ تفسیر ۔ان صفات کی وجہ سے ہم نے ابراہیمؑ کو دنیا میں بھی بڑی ترقیات دی تھیں ۔اورا س کو دنیا میں آرام کی زندگی عطاکی تھی اورآخرت میں بھی وہ صالحین میں سے ہوگا۔
من الصالحین سے مراد جیساکہ میں پہلے بتاچکاہو ں (نحل رکوع ۱۲)یہ ہے کہ اس کی طاقتیں مرنے کے بعد اگلے جہان کی ترقیات سے کامل مناسبت رکھنے والی ہوں گی ۔یعنی وہ اعلیٰ سے اعلیٰ انعامات پانے اوران سے فائد ہ اٹھانے کی قابلیت رکھتاہوگا ۔
اس آیت میں جہاں یہ بتایا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کو یہ انعامات ہم نے دئے تھے ۔وہاں اس سے یہ ظاہر کرنابھی مقصود ہے کہ تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ابراہیمؑ کے لئے توبگڑنے کاموقعہ ہی نہ تھا۔کیونکہ وہ دنیاوی ترقیات سے محروم تھا ۔فرماتا ہے ۔اگرکوئی یہ کہے تو یہ غلط ہوگا۔ہم نے اسے دنیو ی ترقیات بھی دی تھیں (چنانچہ بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ باوجود دوسرے ملک سے ہجرت کر کے آنے کے حضرت ابراہیمؑ کی مالی حالت بھی بہت اعلیٰ ہوگئی تھی اورحکومت بھی حاصل ہوگئی تھی ۔پیدائش باب ۱۳۔۲آیت ۱۴تا۱۶)
مگر باوجود اس کے وہ خداتعالیٰ ہی کی طرف متوجہ رہے ۔پس اے مسلمانو !جب تم کو بادشاہت ملے توابراہیم کی طرح تما م ترقیات کو خداتعالیٰ کی دی ہوئی نعمتیں اورامانتیں سمجھنا۔اورمغرورنہ ہوجانا۔
ثم اوحینا الیک ان اتبع ملۃ ابراھیم حنیفا
اور(اے رسول)ہم نے تجھے وحی کے ذریعہ سے حکم دیا ہے کہ (ہماری )کامل فرمانبرداری پر ہمیشہ قائم رہنے والے ابراہیم کے طریق
وماکان من المشرکین ٭
کی پیروی کراور(اے مکہ والو جانتے ہو کہ )وہ مشرکوں میں سے نہیں تھا ۱۲۳؎
۱۲۳؎ حل لغات ۔مِلَّۃَ:کے معنوں کے لئے دیکھو ابراہیم ۱۴؎
تفسیر ۔اس آیت میں گویااس مضمو ن کو جومیں اوپر بیان کرآیاہوں خوداللہ تعالیٰ نے کھول کربیان فرمادیاہے اورمسلمانوں کو توجہ دلائی ہے کہ تم ابراہیم کے طریق پر چلنا ۔اورپھر ماکان من المشرکین کودہراکر اس طر ف اشار ہ کیا ہے کہ تم بھی ترقیات کے موقعہ پر خداتعالیٰ کاتوکل اورا س پر ایمان نہ چھوڑنا ۔
اس آیت سے بعض مسیحی یہ غلط استدلال کرتے ہیں کہ ا س آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم ابراہیمی دین ہی کے تابع تھے ۔حالانکہ اس آیت کا یہ مطلب ہرگز نہیں ۔بلکہ اس کامطلب صرف یہ ہے کہ جیسے اس نے کمال پیداکیا اورشکر گزاری دکھا ئی ویسے ہی تم بھی کرو۔یعنی تفصیلات میں اطاعت مراد نہیں بلکہ ان امور میں نقش قد م پر چلنے کی ہدایت دی گئی ہے جن کا اوپر کی آیت میں ذکر ہے ۔اور اس میں کیا شبہ ہے کہ ان امورپر چلنے کی ہرشخص کو ضرورت ہے اورآد م سے لے کر آخری انسان تک کوئی ان صفات سے مستغنی نہیں ہوسکتا ۔ابراہیم ؑ سے پہلے بھی جو لو گ خدارسیدہ تھے انہی صفات کے حامل تھے اورابراہیم بھی ۔ابراہیمؑ کانام خصوصاً اس لئے لیا ہے کہ مکہ کے لوگ ان کو اپنا باپ کہتے تھے اوربا پ کی مثال دے کر غیرت دلانا اصلاح کا بہترین طریق ہے ۔
سرولیم میور اس آیت پر لکھتاہے کہ محمدؐ صاحب پر اس جہالت کے زمانہ میں یہ علم منکشف ہوگیاتھا کہ خداتعالیٰ کی رسالت اورنبوت تمام قوموں میں مسلسل طورپرجاری ہے ۔(اللہ تعالیٰ بعض دفعہ دشمن کے منہ سے بھی حق کہلوادیتا ہے )
انما جعل السبت علی الذین اختلفوافیہ وان ربک
سبت(کاوبال)انہی لوگوں پرڈالاگیاتھا ۔جنہوںنے اس میں اختلاف کیا تھا۔اورتیرارب اس امر کے متعلق
لیحکم بینہم یوم القیٰمۃ فیماکانو فیہ یختلفون٭
جس میں وہ اختلاف کرتے تھے یقیناقیامت کے دن فیصلہ کرے گا ۱۲۴؎
۱۲۴؎ حل لغات ۔السبتُ: یہ سَبَتَ (یَسْبِتُ)کامصدر ہے اورسبت الرجل کے معنے ہیں استراح ۔ا س نے آرام کیا ۔نیزاس کے معنے ہیں ہفتہ کاروز(اقرب)
تفسیر ۔اس جگہ مفسرین بہت حیران ہوئے ہیں کہ سورۃ النحل مکی ہے اس میں سبت کے ذکر کاکیاتعلق تھا ۔انگریز مفسرین نے ایک اورشگوفہ چھوڑاہے ۔وہ یہ کہتے ہیں اس سے معلوم ہوتاہے کہ یہود کاذکر اس آیت سے پہلے تھا مگر وہ آیت قرآن سے ضائع ہوگئی اوریہ آیت رہ گئی ہے جس کی وجہ سے عبارت کاربط جاتا رہاہے ۔بعض مفسرین نے کہا ہے کہ مسلمانوں کو بھی نیکیوں کاحکم دیاگیاتھا ۔اس لئے ایک نیکی کے حکم اوراس کی خلاف ورزی کے انجام کاذکر کرکے مسلمانوں کوڈرایا ہے تاوہ احتیاط رکھیں
بعض نے سبت کے لفظ سے سبت کے توڑنے کا عذاب مراد لیا ہے ۔یعنی وہ عذاب ان کے لئے تھاجنہوں نے اس میں اختلاف کیاتھا ۔
ایک جدید مفسر نے اس جگہ سبت کے معنے قطع کے بھی کئے ہیں ۔مگرا یسے موقعوں پر ان معنوں میں عر ب لوگ ہرگز ا س لفظ کو استعمال نہیں کرتے ۔
میرے نزدیک سبت کے وبال کے معنے ہی ٹھیک ہیں ۔قرآن مجید میں بھی اورعربی زبان میں بھی اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ مضاف حذف کرکے مضاف الیہ کو اس کا قائم مقام بنادیتے ہیں ۔پس ’’جُعِلَ السَّبْتُ‘‘کے یہ معنے ہیں کہ سبت کااثر صرف ان لوگوں پر ہواتھا ۔(اور وہ یقینابرااثر تھا )جنہوں نے اس میں اختلاف کیا تھا ۔سورۃ بقرہ میں بھی ذکر ہوچکا ہے کہ سبت کی حرمت کو توڑنے کی وجہ سے یہود کو سزاملی تھی ۔
اب یہ سوال بے شک پیداہوتا ہے کہ سبت کے ذکر کا پہلی آیات سے کیا ربط ہوا،تواس کاجواب یہ ہے کہ یہود میں نزول قرآن سے پہلے بھی یہ خیال تھا ،اورآج تک ہے کہ ہماری ساری تباہی اوربربادی صرف سبت کے توڑنے کی وجہ سے ہے ۔اوریہ کہ انہیں ہرگز ترقی نہ ملے گی جب تک وہ پھر سبت کی عزت کوقائم نہ کریں گے ۔آج بیسیوں صدی میں بھی جبکہ مسلما ن جمعہ کی حرمت کو توڑ رہے ہیں ۔اورعیسائی اتوارکوچھوڑ رہے ہیں ۔یہودیوں میں ایسی سوسائٹیاں بن رہی ہیں جوسبت کی حرمت کو قائم کرنے کی تبلیغ کررہی ہیں ۔فلسطین میں انہوںنے کئی گائوں میں اس کو جبراً قائم کرنا چاہا ۔جس کی وجہ سے وہاںکئی فسادات بھی ہوچکے ہیں ۔پس جب یہود کو کہا گیا کہ اب تمہاری ترقی اسلام سے وابستہ ہے (دیکھو پچھلی آیات )توان کے دلوں میں یہ سوال پیداہوسکتاتھا کہ جس چیز یعنی سبت کے قائم کرنے پر ہماری عزت کاانحصار ہے۔مسلمانوںکیساتھ ملنے سے توہم اس سے اوربھی دور جاپڑتے ہیں ۔کیونکہ مسلمانوں میں جمعہ کی عزت کی جاتی ہے ،اورہمار ے لئے ہفتہ کے دن کی عزت کرناواجب ہے ۔اوراس سوال کاجواب دیناضروری تھا چنانچہ اس آیت میں اس سوال کاجواب دیا ہے اوربتایاہے کہ تباہی خداکے کلام کی نافرمانی سے آتی ہے ۔سبت کے توڑنے پر تباہی بھی اسی وجہ سے آئی تھی ۔کہ خدانے اس کی عز ت اکاحکم دیا تھا اوراب جبکہ خداکا یہ حکم ہے ۔کہ اسلام کے ذریعہ جو نیاعہد قائم کیاگیاہے ۔اس میں داخل ہوجائو تواب تباہی اس حکم کی خلاف ورزی کی وجہ سے آئے گی ۔اس لئے اب تم سبت کی حرمت کو قائم کر کے بھی عزت حاصل نہیں کرسکتے ۔اب عزت صرف اسلام میں داخل ہونے اور اس کی اتباع کرنے ہی سے حاصل ہوسکتی ہے ۔
ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ
(اوراے رسول)تو(لوگوں کو)حکمت اوراچھی نصیحت کے ذریعہ سے اپنے رب کی راہ کی طرف بلا اوراس طریق سے جوسب سے
وجادلھم بالتی ھی احسن ان ربک ھو اعلم بمن ضل
سے اچھا ہو ۔ان سے (ان کے اختلافات کے متعلق )بحث کرتیرارب ان کو (بھی)جواس کی راہ سے بھٹک گئے ہوں۔
عن سبیلہ وھو اعلم بالمھتدین ٭
(سب سے )بہترجانتا ہے ۔اوروہ ہدایت پانے والوں کو(بھی سب سے )بہترجانتا ہے ۱۲۳؎
۱۲۳؎ حل لغات ۔الحکمۃ: کے معنے ہیں ۔العدل۔عدل ۔العلم۔علم ۔الجلم۔بردباری ۔النبوّۃ۔نبوت۔قیل مایَمنَعُ من الجھلِ۔جوجہالت سے روکے ۔وقیل کلّ کلامٍ موافق الحقّ۔ہروہ بات جو حق کے موافق ہو ۔وقیل وَضْعُ الشّیئِ فی موضعِہِ وصواب الامر وسدادہ اوربعض نے کہا ہے کہ کسی چیز کو برمحل رکھنا اورکسی معاملہ کادرست اورصحیح ہوناحکمت کہلاتاہے (اقرب)
تفسیر ۔چونکہ دین کی اشاعت ا ب وسیع ہونے والی تھی ۔اوریہود اورنصاریٰ میں جن کے پاس الٰہی کتب تھیں اسلام کی منادی ہونے والی تھی ۔اس لئے فرمایا کہ ان کے مقابلہ ہمیں زیادہ مضبوطی کی ضرورت ہے ۔مشرکوں کے مقابلہ میں یہ آسانی تھی کہ شرک کاردّکردینے سے ہی سب جھگڑے کافیصلہ ہوجاتا تھا۔مگریہود نصاریٰ کے مقابلہ میں شریعت کی تفصیلی بحثوں میں بھی پڑنالازمی تھا ۔اس لئے پہلے سے یہ تاکید کردی کہ دعوۃ بالحکمۃ ہو ۔حکمت کے معنی کئی ہیں ۔مثلاً علم ،پختگی ،عدل،نبوت،حلم اوربردباری ۔جوچیز جہالت سے روکے ۔جوکلام حق کے موافق ہو ۔محل وقوع کے مناسب حال بات ۔یہ سب معنے یہاں چسپاں ہوتے ہیں ۔فرمایاحکمت کے ساتھ بلائو۔یعنی علمی باتوںکوبیان کرو۔یعنی پہلے نبیوں کے صحیفوں پر مسائل کی بنیاد رکھ کربات کرو۔افسوس کہ مسلمان مفسروں نے اس حکم کیطرف توجہ نہیں کی ۔اورلوگوںسے سن سنا کر بائیبل کے متعلق ایسے حوالے اپنی کتب میں لکھ دیئے ہیں کہ یہود اورعیسائیوں کو آج تک ان کی وجہ سے اسلام پرحملہ کرنے کاموقعہ ملتا ہے ۔دوسرے یہ فرمایا کہ پختہ باتیں بیان کرو ۔کوئی بات بھی کچی نہ ہو ۔بعض دفعہ انسان تائیدی دلائل کو مستقل دلائل کی صورت میں پیش کردیتا ہے ۔جس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ دشمن انہی کو پکڑ کر بیٹھ جاتاہے ۔فرمایا ۔پہلے ہردلیل کو اچھی طرح سے جانچ لو ۔جو پختہ اورمضبوط ہو اسی کو پیش کرو۔
عد ل کے معنی کی روسے یہ ہدایت فرمائی کہ کسی پر ایسااعتراض نہ کروجو تم پر بھی پڑتاہو ۔کیونکہ اول تویہ انصاف سے بعید ہے ۔دوسرے دشمن موقعہ پا کر بحث میں اس بات کو پیش کردیتاہے اورپر شرمندگی اٹھا نی پڑتی ہے ۔
آجکل آریہ اورعیسائی اسلام کے خلاف اسی بے انصافی سے کام لے رہے ہیں ۔یعنی وہ ایسے اعتراض اسلام پر کرتے ہیں جوان کے مذہب پر زیاد ہ پڑتے ہیں ۔حالانکہ وہ باتیں جن پر وہ اعتراض کرتے ہیں ۔اگر عیب ہیں تو پھر وہ اپنے مذہب کوکیوں مانتے ہیں ۔ اسلام ایسے اعتراضوں سے منع کرتاہے ۔مگرافسوس کہ اس زمانہ کے مسلمان اس نصیحت سے بالکل غافل ہیں ۔اوراحمدیہ جماعت کے بانی کے خلاف ایسے امو راعتراض کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ جو سب انبیاء میں پائے جاتے ہیں ۔اگروہ امورقابل اعتراض ہیں توان کی وجہ سے سب ہی نبیوں کو چھوڑنا پڑتاہے ۔
حکمت کے معنے حلم کے بھی ہوتے ہیں ۔فرمایا کہ نرمی کے ساتھ اور عقل سے کام لیتے ہوئے بات کیاکرو۔کیونکہ جوشخص ایسا نہیں کرتا بلکہ جلد تیز ہوکر غصے اورجو ش میں آجاتاہے وہ دوسرے کو ہرگزنہیں سمجھا سکتا۔
نبوت کے معنوں کی رُوسے یہ مطلب ہوگا کہ الٰہی کلام کی مدد سے لوگوں کو دین کی طرف بلائو ۔جودلائل خود قرآن کریم نے دئے ہیں انہی کو پیش کرو۔اپنے پاس سے ڈھکونسلے نہ پیش کیاکرو۔آہ!اگر اس گُر کو مسلمان سمجھتے تویہودیت اورعیسائیت کو کھا جاتے ۔ہماراہتھیار قرآن کریم ہی ہے جس کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔وَجَاھِدْھُمْ بِہٖ(فرقان ع ۵)اس قرآن کی تلوار لے کر دنیاسے جہاد کے لئے نکل کھڑاہو ۔پرافسو س کہ آج دنیا کی ہرچیز مسلما ن کے ہاتھ میں ہے لیکن اگر نہیں تویہی تلوار ،جس کو لے کر نکل کھڑے ہونے کا حکم تھا ۔
مایمنع من الجھل کی رُوسے آیت کایہ مطلب بنے گا کہ تم ایسے طریق سے کلام کیاکرو ۔جس کو دوسراسمجھ سکے ۔اوراس سے اس کی غلط فہمی دورہوسکے ۔یعنی وہ بات ہونی چاہیئے جوجہالت کاقلع قمع کرے ۔اورمخاطب کے فہم کے مطابق ہو ۔چنانچہ حدیث میں بھی آتاہے ۔’’اَمَرَنَا رسولُ اللہِ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اَن نکلِّمَ النَّاسَ علیٰ قدرِ عقولھِمْ‘‘(ویلمی)کہ ہم کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ لوگوں سے ان کے فہم اورادراک کے مطابق کلام کیا کرو۔ بعض لوگ لیکچردیتے ہیں توموٹے موٹے لفظ اوراصطلاحیں استعمال کرکے رعب ڈالنا چاہتے ہیں ۔ان تقریروں سے جاہلوں پر رعب توضرور پڑ جاتاہوگا۔مگر فائدہ ان کی تقریر سے کوئی نہیں اٹھاتا۔
موافق الحق کلام کوبھی حکمت کہتے ہیں۔ان معنوں کے رُوسے آیت کامطلب یہ ہوگاکہ ایسی بات کیاکر و۔جوسچی اورواقعات کے مطابق ہو ۔بعض لوگ یہ سمجھ کر کہ ہم سچے دین کی طرف ہی بلارہے ہیں ۔بعض غلط باتوں کو بھی بیان کردیتے ہیں ۔ فرمایاکہ یہ طریق غلط ہے ۔دشمن کے مقابلہ میں جوبات کو سچی کہو ۔دوسروں کو ہدایت دیتے دیتے خودہی گمراہ نہ ہوجائو ۔جیسے کہ فرمایا ۔لَایَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَاھْتَدَیْتُمْ(مائدہ ع۱۴)اگرتم ہدایت پر قائم رہتے ہو۔تواس کی پرواہ نہ کرو ۔کہ دوسراگمراہ ہوتا ہے ۔یعنی کوئی ایسی بات جو گناہ ہو ۔اس خیال سے نہ کروکہ اس کے ذریعہ سے میں دوسرے کو ہدایت دوں گا ۔جب تمہاری ہدایت اوردوسرے کی ہدایت ٹکراجائے توا س وقت تم اپنی ہدایت کی فکر کرو۔اوردوسرے کی ہدایت کو خداپرچھوڑدو۔کہ اللہ تعالیٰ یہ پسند نہیں کرتا کہ مومن کافرہوجائے اورکافرمومن۔وہ تودوسروں کو ہدایت دینا چاہتا ہے ۔
حکمت ۔محل وقوع کے مناسب کلام کو بھی کہتے ہیں ۔ان معنوں کے روسے مطلب آیت کایہ ہوگاکہ تبلیغ میں برمحل بات کرنی چاہیئے ۔اگربعض دلائل سے دشمن کے برانگیختہ ہونے کااندیشہ ہو ،اورخطرہ ہو کہ وہ اس طرح سے تمہار ی بات نہ سنے گا۔تویہ مناسب نہیں کہ بلاوجہ اس کو چڑائو ۔تم اس کے سامنے دوسرے دلائل بیان کروجن کو وہ ٹھنڈے دل سے سن سکے ۔گویابات کرتے وقت پہلے مزاج شناسی کرلو ۔اگرتم ان کو خوامخواہ بھڑکائوگے ،توکوئی فائد ہ نہ ہو گا۔
اللہ اللہ کیامختصر الفاظ میں تبلیغ کے سب گُر بیان کردیئے ہیں ۔جوشخص بھی ان پر عمل کریگاکبھی اپنے مقصد میں ناکام نہیں رہے گا۔
الموعظۃ الحسنۃ۔موعظہ حسنہ کے معنے پہلے گزر چکے ہیں ۔(یعنی وہ کلام جو دلوں کو نرم کردیتاہو،اوران پر گہرااثر ڈالتاہو ) اس نصیحت سے مسلمانوں کو ادھر توجہ دلائی کہ خشک دلیلوں ہی سے کام نہ چلایاکرو ۔بلکہ جذبا ت کو ابھارنے والی بات بھی کیاکرو۔ اورحکمت کے ساتھ موعظہ حسنہ کو بھی شامل رکھاکرو۔حسنہ کالفظ رکھ کر یہ بتادیا کہ جھوٹی غیرتیں نہ دلائو ۔جیساکہ آجکل کے جاہل علماء لوگوں کو بلاوجہ راستبازوں کے خلاف بھڑ کاتے ہیں ۔
جَادِلُھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ کہکر یہ بتایاہے کہ ان سے جھگڑاکرتے وقت یہ بھی مدنظررکھاکرو۔کہ مختلف دلائل میں سے جوسب سے اعلیٰ اورمضبوط دلیل ہو ،اس کو بطوربنیاد اورمرکز کے قائم کیاکرو۔اورباقی دلائل کو اس کے تابع ۔کیونکہ تائیدی دلیل کے ٹو ٹ جانے سے اصل دلیل کوکوئی ضعف نہیں پہنچتا ۔برخلاف اس کے کہ اگر مرکزی نقطہ کمزورہوتوتائیدی دلائل بھی کوئی زیادہ فائدہ نہیں دیتے ۔ اِنَّ رَبَّکَ ھُوَاَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہٖ وَھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُھْتَدِیْنَ میں بتلایا ہے کہ تم اچھی طرح سے تبلیغ کرتے رہو ۔لیکن اگرلوگ نہ مانیں تواس سے یہ نتیجہ نکا ل کر مایوس نہ ہوجاناکہ ہمیں تبلیغ کرنی ہی نہیں آتی۔کیونکہ بہت ممکن ہے کہ تمہاری تبلیغ میں کوئی نقص نہ ہو ۔مگرمخاطب کے دل پر اسکے گناہوں کاایسازنگ ہو کہ خداتعالیٰ اس کے لئے ہدایت کی کھڑی نہ کھولے۔
غرض تبلیغ میں منہمک رہنا چاہیئے ۔نتیجہ نکالنا اوراثر پیداکرنا خدتعالیٰ کاکام ہے ۔
وان عاقبتم فعاقبوابمثل ماعوقبتم بہ
اگر تم(لوگ زیادتی کرنے والوں کو )سزادوتو جتنی تم پر زیادتی کی گئی ہو تم اتنی(ہی)سزادو
ولئن صبرتم لھو خیر للصٰبرین ٭
اور(ہمیں اپنی ذات کی قسم ہے کہ )اگرتم صبر کروگے توصبرکرنے والوں کے حق میں وہ (یعنی صبر کرنا)بہترہوگا ۱۲۴؎
۱۲۴؎ حل لغات ۔عاقَبْتُمْ: عَاقَبَ سے جمع مخاطب کاصیغہ ہے ۔اورعَاقبَ فلانی بِذَنْبِہ(وعلی ذنبہِ معاقبۃً وعقاباً)کے معنے ہیں ،اَخَذَہ بہِ اس کے قصورپر گرفت کی اورسزادی۔پس اِنْ عَاقَبْتُمْ کے معنے ہوں گے اگرتم سزادو۔
تفسیر ۔بعض مفسرین نے پہلی آیات کو اس آیت سے منسوخ قراردیا ہے۔لیکن میں نہیں سمجھ سکا کہ منسوخ ہونے والی ان میں کونسی بات ہے ۔کیاعلم سے بحث کرناحکمت اورپختہ بات اورسچی بات کاکہنا اوربردباری سے کلام کرنا منسوخ ہیں یامنسوخ ہونے والی باتیں ہیں ؟پس یہ آیتیں ہرگزمنسوخ نہیں ۔
اس آیت کامطلب صرف یہ ہے کہ تمہارے دشمن تمہاری دعو ۃ بالحکمۃ کوسنکر نہیں مانیں گے بلکہ تمہارے قتل کرنے کے لئے تلواریں اٹھائیں گے ۔توفرمایا کہ جب ایساہو توتم کو بھی اپنے دفاع کے لئے تلوار اٹھانے کی اجازت ہوگی ۔
یہ کتنا معجزانہ کلام ہے کہ ابھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں ہیں ،یہود سے کوئی مقابلہ شروع نہیں ہوانہ نصاریٰ سے ۔مگر مکہ ہی میں یہ خبردیدی گئی کہ یہود بھی اورنصاریٰ بھی تم پر ظلم اورزیادتی کریں گے ۔اوراس وقت دفاع کے طورپرتم کو ان کے مقابلہ کی اجازت ہوگی ۔ہاں یہ نصیحت یاد رکھنا کہ جلد بازی نہ کرنا اورپہلے صبر کانمونہ دکھا نا پھر کوئی چارہ نہ رہے تومقابلہ کرنا ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم کی پوری تعمیل کی اوردیر تک اہل کتاب کے ظلم سہے اورآخر مجبوراً ان کے مقابلہ پر نکلے ۔
قرآن کریم کی یہ کتنی بڑی اخلاقی خوبی ہے کہ جہادکاحکم دینے سے پہلے اس نے اس کی حدودقیود کو بیان کرناشروع کردیا ہے تازیادتی کرنے کا احتمال ہی باقی نہ رہے ۔
عقاب کے لفظ میں یہ اشارہ کیا ہے کہ ناجائزحملہ کاجوا ب ہی جہاد کہلاتاہے ،جارحانہ حملہ جہاد نہیں کہلاسکتا کیونکہ عقاب کالفظ اس فعل کے متعلق بولاجاتاہے ۔جودوسرے کے فعل کے جواب میں کیاجائے ۔پس اس لفظ سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ جب سزدو ، جرم کے بعد دو
بمثل ماعُوْقِبْتُمْ کے الفاظ سے یہ ہدایت کی ہے کہ سزادینی ہی پڑے تویہ خیال رہے کہ جتنی تم کو تکلیف پہنچائی گئی ہے ۔اس سے زیاد ہ نہ ہو ۔
لئن صبرتم میں صبر کی ترغیب دی ہے اور بتایا ہے کہ صبر اپنے نتیجہ کے لحاظ سے نہایت ہی اعلیٰ ہوتاہے ۔
جنگ اُحد میں حضرت حمزہ(آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے چچا)اورشہداء احد کے ساتھ کفار نے یہ سلوک کیا کہ ان کے ناک اورکان بھی کاٹ دیئے (یعنی مثلہ کیا)مگرآنحضر ت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صبر کیا ۔اورموقعہ پانے پر بھی اس قبیح اورننگِ انسانیت رسم کی اجازت نہ دی ۔
بعض اوقات کفار معاہدات توڑتے تھے ۔مگر آپؐ صبر ہی فرماتے تھے ۔صبرکانتیجہ بہترہوتاہے ۔بدلہ لینے سے صرف انسان کا غصہ دو ہوجاتا ہے ۔مگر صبر کرنے کی صورت میں اس کی روحانیت ترقی کرجاتی ہے ۔
واصبروماصبرک الا باللہ ولاتحزن علیھم
اور(اے رسول)توصبر کر۔اورتیراصبر کرنا اللہ( تعالیٰ کی مدد)سے ہی(وابستہ)ہے اورتوان (لوگوں کی حالت)پر غم نہ کھا ۔
ولاتک فی ضیق مما یمکرون٭
اورجو تدبیریں و ہ کرتے ہیں ۔ان کی وجہ سے تکلیف محسوس نہ کر ۱۲۵؎
۱۲۵؎ حل لغات ۔ضَیْقٌ:ضَاقَ (یَضِیْقُ)کامصدر ہے اورضَاقَ الشیئُ کے معنی ہیں ضدّ تسَعَ ۔کوئی چیز تنگ ہوگئی ۔ضاق الرجِلُ اس نے بخل سے کام لیا ۔نیز الضَّیْقُ کے معنے ہیں اَلشَّکُّ فِی القلبِ دل میں شک ہونا ۔ماضاق عنہُ صَدْرُکَ جس سے دل تنگ پڑے ۔اورتکلیف ہو (اقرب)پس لاتکُنْ فی ضیقٍ مِمَّا یَمْکُرُوْنَ کے معنے ہوں گے کہ جوتدبیریں وہ کرتے ہیں ان سے تکلیف محسوس نہ کر ۔
تفسیر ۔اس آیت میں صبر کالفظ دوسرے معنوں میں استعمال ہواہے اورمضمون میں تکرار نہیں ہے ۔اس جگہ صبر کا مفہوم یہ ہے کہ جب کفارکیساتھ جنگ کی اجازت ملی توآنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ سمجھ لیاکہ اب کفار پر عذاب آنے والا ہے ۔اس لئے آپؐ پر یہ حکم نہایت شاق گزرا اورآپؐ کادل بھر آیا ۔جس پراللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔کہ اے رسول اللہ کایہی فیصلہ ہے تم صبر کرو ۔گویا اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ان کے صدمہ میں ہمدرد ی کا اظہار فرماتا ہے ۔
اس آیت سے آپ کے اخلاق کاکمال ظاہر ہے کہ وہ لوگ جو دن رات تنگ کرتے تھے اورحضورکی جان کے درپے رہتے تھے ان کی تباہی کی خبر پاکربھی آپ بے چین ہوگئے حتّٰی کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔’’وَمَاصَبْرُکَ اِلَّا بِاللّٰہِ‘‘کہ تجھے اتنارنج ہے کہ ہم ہی تجھے دیں توتُو صبر کرسکے گا۔ورنہ یہ غم بہت زیادہ ہے ۔
اس جملہ کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ توصبر کر کیونکہ تیراصبر کرنا اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ہے۔اورایساصبربھی اعلیٰ اخلاق میں سے ہوتا ہے ۔جوصبر کمزور ی اورضعف کی وجہ سے ہوتاہے وہ بے چارگی ہے اعلیٰ اخلاق میں سے نہیں ۔طاقت رکھتے ہوئے خاموش رہنا یہی اعلیٰ اخلاق کو ظاہرکرتاہے ۔وَلَاتَحْزَنْ عَلَیْھِمْ سے اوپر کے معنوں کی تائید ہوجاتی ہے ۔حَزِنَ عَلَیْہِ دوسرو ں کی تکلیف پرغم کرنے پربولاجاتاہے ۔پس ان الفاظ کی موجودگی میں اس آیت میں صبر کے معنے ذاتی تکلیف پر صبر کے کرنا بالکل بے جوڑ بات ہے۔ ان الفاظ سے ثابت ہوتاہے کہ اس آیت میں صبرسے مراد دشمن کی تباہی پرغم نہ کرناہے۔
وَلَاتَکُ فِیْ ضَیْقٍ مِمَّا یَمْکُرُوْنَ ۔ان الفاظ کے یہ معنی نہیں کہ ان کی شرارتوں پر غصے نہ ہو ۔بلکہ اس جگہ یہ الفاظ اسی کیفیت کوظاہرکرتے ہیں جوبعض دفعہ ماں کے دل میں اس وقت پیداہوتی ہے جب ا سکی اولادشرارت کرکے کسی عذاب میں مبتلاہوجاتی ہے جس سے وہ ان کو بچانہیں سکتی ۔اس وقت وہ ان کو بہت کوستی ہے ۔یہ کوسنا غصہ کا نہیں ،غم اوررنج کاہوتاہے ۔اوراس کامطلب صرف یہ ہوتاہے کہ نہ تم ایسے کام کرتے اورنہ تم کو یہ دکھ پہنچتا۔اورنہ تمہارے ساتھ میں دکھ پاتی ۔محمدؐ رسول اللہ کے ایسے ہی جذبات کی اس جگہ ترجمانی کی گئی ہے ۔
ان اللہ مع الذین اتقواوالذین ھم محسنون٭
اوریاد رکھ کہ اللہ(تعالیٰ)یقینا ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جنہوں نے تقویٰ( کاطریق)اختیار کیا ہو ۔اورجونیکو کار ہوں ۱۲۶؎
۱۲۶؎ تفسیر ۔متقی انسان وہ ہوتاہے جو خداتعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط کرلے ۔اوراتنا بڑھا لے کہ خداتعالیٰ خو د اس کی سپر بن جائے ۔اوراس کامحافظ ہوجائے اورمحسن وہ ہے جو خود حفاظت میں آجا نے کے بعد دنیا کوبھی خداکی حفاظت میں لانے کی کوشش کرے ۔پس محسن کادرجہ متقی سے اعلیٰ ہے ۔
بعض لوگ خود بہت نیک ہوتے ہیں مگر دوسروں کو بچانے کے فکر نہیں کرتے ۔اوربعض دوسروں کی فکر توکرتے ہیں ۔مگر اپنی ذاتی اصلاح کی طرف توجہ نہیں کرتے ۔فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی کامل معیت حاصل کرنے کے لئے دونوں باتیں ضروری ہیں یعنی متقی ہو اورمحسن بھی ۔
اس جگہ یہ بات یادرکھنی چاہیئے ۔کہ متقی کے یہ معنے نہیں جسے دنیا کی ہوش ہی نہ ہو ۔قرآن میں ایسے شخص کانام جاہل آیاہے ۔متقی وہ ہوتاہے جس کے ہرکام میں خشیت خدانظرآرہی ہو۔جوکوئی کام ہی نہیں کرتا ۔اس میں خشیت کہاںسے پیداہوگی ۔متقی کاتولفظ ہی بتاتا ہے کہ وہ خطرات میں پڑتاہے ۔مگرخدااس کی حفاظت کرتا ہے ۔پس متقی وہ ہے ،جودنیا کے کاموں میں پڑے مگر اس کے بداثر سے محفوظ رہے ۔
محسن کے متعلق بھی یادرکھنا چاہیئے کہ کہ اس کے معنے مسر ف کے نہیں ہوتے ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں ۔کہ تواپنے وارثوں کے لئے مال چھو ڑجائے تویہ اس سے بہتر ہے کہ توانہیں اس حالت میں چھوڑ جائے کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں ۔
محسن کے یہ معنے بھی ہیں کہ وہ ایسے کام کرنے والاہو ،جن سے دنیا میں حسن پیداہو ۔جس نے اپناگھر ہی اجاڑ لیا ۔اس نے حسن کیا پیداکرنا ہے۔پس محسن وہ ہے جواپناگھر محفوظ رکھتا ہے ۔اورپھر دنیا کی خبر گیری کرتاہے ۔مگراس کے یہ معنے بھی نہیں کہ خود توعیاشیوں میں پڑا رہے لیکن جن خرچ کرنے کاموقعہ آئے توکہے کہ میرے پاس کچھ نہیں ۔
اسی طرح محسن وہ ہے جس کے فعل کانتیجہ اچھا نکلے ۔پس جس کے اتفاق سے بدنتیجہ نکلے خواہ اخلاقی یاتمدنی وہ محسن نہیں ہے ۔
اس آیت میں یہود و نصاریٰ سے جنگ کانتیجہ بھی بتادیا ہے ۔اوروہ یہ کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کاساتھ دے گا۔اورظاہر ہے۔کہ جس کے ساتھ خداہو ،اس پر کون فتح پاسکتاہے ۔




سورۃ بنی اسرائیل مکیہ
سورۃ بنی اسرائیل ۱؎ یہ سورۃمکی ہے
ومع البسملۃ مائۃ واثنتاعشرۃ اٰیۃواثنا عشر رکوعا
اوربسم اللہ سمیت اس کی ایک سوبارہ آیا ت ہیں اوربارہ رکوع ہیں
۱؎ اس سورۃ کانام بنی اسرائیل اس لئے رکھاگیا ہے کہ اس میں وہ واقعات بیان کئے گئے ہیں جو بنی اسرائیل کو پیش آئے تھے اورمسلمانوں کو بتایا گیا ہے کہ تمہیں بھی یہ واقعات پیش آئیں گے کیونکہ رسول کریم صلی للہ علیہ وآلہ وسلم کومثیل موسیٰ قراردے کر مسلمانوں کو بنی اسرائیل قراردیا گیا تھا ۔پس اس مشابہت کی وجہ سے مسلمانوں سے بھی یہود سے ملتے جلتے واقعات کاپیش آنا ضرو ری تھا ۔اوراسی کی طرف اس سورۃ میں توجہ دلائی گئی ہے ۔اوربنی اسرائیل کی تاریخ کے دوحصوں میں سے پہلے حصہ کو یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے لیکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک کے واقعات کوبیان کرکے مسلماونوںکو اس سے مشابہت بتائی گئی ہے ۔اس سورۃ کادوسرا نا ما سراء بھی ہے ۔کیونکہ اسے اسراء کے ذکر سے شرو ع کیاگیا ہے۔اوراس لئے بھی کہ اسراء اس کااہم مضمون ہے ۔
یہ سورۃ بعض کے نزدیک باجماع مکی ہے (بحر محیط)مگر بعض نے اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ دوسے آٹھ تک آیات مدنی ہیں ۔ان عباس ؓ اورزبیرؓ سے ابن مردویہؒ نے روایت کی ہے کہ یہ سورت مکی ہے اورنہایت ابتداء میں ناز ل ہونے والی سورتوں میں سے ہے یعنی بعثت کے تیسرے چوتھے سال نازل ہوئی ہے ۔
بخا ری میں ابن مسعود ؓ سے روایت ہے۔’’قَالَ فِیْ بنیْٓ اسرائیل وَالکَھْفِ و َمَرْیَمَ اِنَّھُنَّ مِنْ عتَاق الاولِ وَھُنَّ مِنْ تَلَادِیْ‘‘۔(بخار ی جلد ثالث کتاب تفسیر القرآن)یعنی عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں ۔بنی اسرائیل اورکہف اورمریم شر وع میں نازل ہونے والی سورتوں میں سے بھی پہلے حصہ کی ہیںاوریہ میرے پرانے مال میں سے ہیں یعنی جن سورتوں کو میں نے شروع میں یاد کیا ہے ان میں یہ سورتیں بھی ہیں ۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ساری کی ساری سور ۃ یا اس کاکچھ حصہ ابتدامیں نازل ہواتھا ۔مگر یہ واضح نہیں کہ ابتداسے انکی کیا مراد تھی ۔یعنی عبداللہ بن مسعودؓ کے ذہن میں ابتدائی سالوں کی کیاتعین تھی ۔
میرے نزدیک یہ سورۃ بالکل ابتدائی سالوں کی نہیں ہے بلکہ چوتھے سال سے شروع ہوکر اس کانزول دسویں گیار ہویں سال تک جاکر ختم ہواہے ۔بشرطیکہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓکے حافظہ نے غلطی نہ کی ہو ۔اگر ایسا ہو تویہ ساری سورۃ غالباً دسویں اور گیارہویں سال میں نازل ہوئی ہے ۔بلکہ ہوسکتا ہے کہ گیارہویں یا بارہویں سال میں نازل ہوئی ہو ۔مسیحی مفسرین رقرآن نے بھی اس سورۃ کازمانہ نزول ۶۰ ؁بعد نبوت سے لیکر ۰۱۲ ؁بعد نبوت بتایاہے ۔(ویری)یہ الٰہی تصر ف ہے کہ ان لوگوں کے منہ سے یہ صداقت نکلی ورنہ ان کا فائدہ اس میں تھا کہ و ہ اسے بعد ہجرت بتاتے ۔
پہلی سورۃ سے اس کا یہ تعلق ہے ۔کہ پہلی سورۃ میں مسلمانوں کی ترقی کی خبر دی تھی اوربتایا تھا کہ انہیں بڑی بڑی حکومتیں ملیں گی اورساتھ ہی ہوشیا ر بھی کردیاتھا کہ یہود نے ان نعمتوں کی قد رنہ کی اورترقی کے ایام میں خداکی عبادت کو بھول گئے۔ (اس امر کی طرف اشار ہ سبت کے لفظ سے کیا گیاتھا۔دیکھو سورۃ نحل ع ۱۶)اے مسلمانو!تم نہ بھولنا ۔بلکہ اس زمانہ میں پہلے سے زیادہ عبادت میں مشغول ہوجانا ۔
اس سور ۃ میں اس طرف بھی اشار ہ کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کوان ممالک کابادشاہ بنادیاجائے گا جن پریہود کی حکومت تھی ۔
اس سورۃ کی ابتداکو پہلی سور ۃ کی انتہاسے یہ تعلق ہے کہ پہلی سورۃ کے آخر میں یہ پیشگوئی تھی کہ اب عنقریب تمہار امقابلہ اہل کتاب سے شروع ہوگااوروہ بھی تم کو کفار کی طرح دکھ دیں گے لیکن ان کے مقابلہ پر بھی اس وقت تک صبر سے کام لینا ۔جب تک کہ مجبوری نہ ہو ۔اوریاد رکھنا کہ ان کے مقابل پر اللہ تعالیٰ تم کواسی طرح فتح دے گا جس طرح کفار مکہ پر فتح دینے کاوعدہ ہے ۔اب سور ۃ اسرا ء میں اس مقابلہ کی طرف اشارہ فرمایا کہ وہ مقابلہ مدینہ میں جاکرشروع ہوگا ۔اوریہ کہ ا س مقابلہ کانتیجہ یہ نکلے گاکہ ان کے مقدس مقامات پر مسلمانو ںکو قبضہ اورحکومت حاصل ہو جائے گی۔
اس سور ۃ میں خصوصیت کے ساتھ یہود کی دوتباہیوں کا ذکر فرمایا ہے کہ دودفعہ خاص طور پر انہوں نے نافرمانی کی اوردونوں ہی دفعہ وہ خطرناک عذا ب میں گرفتا ر ہوئے ۔
اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ مسلمانوں پر بھی ایسی تبا ہی کے دوزمانے آنے والے ہیں مگر ساتھ ہی امید بھی دلا دی کہ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین ہیں اس لئے آپ کاسلسلہ یہود کی طرح تباہ نہ ہوگا بلکہ ان ابتلائو ں کے بعد اوربھی شان سے چمک اٹھے گا۔
پہلی سور ۃ میں جو بعض باتیں اشارۃً فرمائی تھیں اس سورۃ میں ان کو واضح کیا گیا ہے ۔مثلاً پہلی سور ۃ میں شہد کے متعلق فرمایا تھا کہ ’’فِیْہِ شِفَآئٌ لِّلنَّاسِ‘‘اوراس سے اشار ہ کیاتھا کہ کلام الٰہی میں شفابھی ہے ۔اس سورۃ میں اس مضمون کو بوضاحت بیان فرمایا ہے ۔چنانچہ فرماتا ہے ۔وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَاھُوَ شِفَآئٌ وَّرَحْمۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ(ع ۹)
یہ سورۃ نزول میں سورۃ نحل سے پہلے ہے ۔مگر مضمون کی ترتیب کے لحاظ سے بعد میں رکھے جانے کے قابل ہے ۔اس لئے جمع قرآن کے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اسے سورہ النحل کے بعد رکھا ۔میں پہلے بتاچکاہوں کہ سورتوں کے نزول کی ترتیب اورتھی لیکن جمع قرآن کے وقت اس ترتیب کو بدل دیا گیا ۔کیونکہ سارے قرآ ن کو پڑھتے ہوئے اوربعد میں آنے والوں کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے دوسری ترتیب کی ضرور ت تھی ۔اوریہ امر قرآن کریم کے زبردست معجزات میں سے ہے ۔اس کی ہر سورۃ الگ الگ مضمون پر مشتمل ہے ا ورساتھ ہی اس کے اس کی سورتوں میں زبردست اتصال بھی پایاجاتاہے ۔جب نزول قرآن کے وقت الگ الگ سورتیں نازل ہورہی تھیں اوراس وقت کی ضرور ت مدنظررکھا جاتا تھا تب بھی پڑھنے والوں کوکوئی مشکل پیش نہ آتی تھی ۔کیونکہ ہرسورۃ کامضمون مکمل تھا ۔مگرجب بعد میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دوسری ترتیب سے مرتب کیا توپھر علاوہ اس مضمون کے جو الگ الگ سورتو ں سے نکلتاتھا ایک اَورسلسلہ مضمون پیداہوگیا جس نے قرآنی مضامین کو اورزیادہ وسعت دیدی ۔فتبٰرک اللہ احسن الخالقین ۔
اسراء کے ذکر کو اس کو یہ بتا نے کے لئے شروع کیاگیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو موسیٰ علیہ السلام کاجانشین مقرر کیا گیا ہے ۔اس لئے ان مقامات پر بھی آپ کو قبضہ دیاجائے گا جن کاحضرت موسیٰ ؑ اوران کے اتباع سے وعدہ کیا گیاتھا۔اوریہ بتانے کے لئے کہ موسیٰ کی طرح آپ کو بھی ہجرت کرنی پڑے گی اوروہ ہجرت آپ کی قوم کی ترقی کا موجب ہو گی ۔اس کے بعد حضرت موسیٰؑ کاذکر شروع کیا کہ کس طرح موسیٰ کو بھیجا اوران کی قوم کو ان کے ذریعہ ترقی دی ۔کس طرح انہوں نے متنبّہ کیا کہ ترقی کے زمانہ میں غافل نہ ہونا مگر انہوںنے نصیحت سے فائدہ نہ اٹھایا اورسخت سزاپائی ۔پھر فرماتا ہے کہ اس قرآن کو ہم نے تورات سے بھی زیادہ مؤثر بنایا ہے اس کے ذریعہ سے اس سے بھی بڑھ کر تبدیلی ہوگی مگراس کے راستہ میں بھی وہی خطرہ ہے کہ جب دولت آجائے گی توفسق وفجور بھی آجا ئے گا۔
دنیا کاکما ناتوبرانہیں مگر اس کے اساتھ خداکا بھی خیا ل رکھنا چاہیئے اورنیکی کو ترک نہیں کرنا چاہیئے ۔پھر نیکی کے اصو ل بتائے ہیں ۔پرھ فرماتاہے کہ منکرین قرآن جب ان اصول کو سنتے ہیں توبجائے غور کرنے کے اعتراض اورتکبر سے کام لیتے ہیںاوراپنے انجام کا خیال نہیں کرتے ۔اگرانجام کی طرف توجہ دلائی بھی جائے تو پروانہیں کرتے ۔لیکن قرآن کریم کے مخالف خواہ بیرونی ہوں یا اندرونی سخت سزاپائیں گے ۔چنانچہ قرب قیامت میں یعنی زمانہ مسیح موعود میں ایک سخت عذاب دنیا پر تکذیب قرآن کی وجہ سے نازل ہوگااوراس وقت پھر ایک جنگ خداکے فرشتوں اورابلیس کے درمیان ہو گی ۔اس جنگ میں آد م کے متبعین کو غلبہ دیا جائے گا
لوگ چاہتے ہیں کہ تجھے تباہ کر دیں مگرہم نے تو تیرے لئے ایک عظیم الشان مقصد تجویز کررکھا ہے ۔ہم تیرے نام کو آخری زمانہ تک اوردنیا کے کناروں تک پھیلا ئیں گے اورتیری قابلیت کو دنیا پر ظاہر کیا جائے گا۔ہم نے اس قرآن کو ایسا بنایا ہے کہ وہ ابدالآباد تک کام آئے گا ۔اورروحانی خزانے اس کے ذریعہ سے آہستگی کے ساتھ دینا پر ظاہرکئے جائیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ بخیل نہیں ہے ۔پھر آخرمیں آخر ی زمانہ کی علامت بیا ن فرمائی گئی ہے ۔اوراس کے شرّسے بچنے کاذریعہ دعاکو بتایا ہے ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
(میں )اللہ(تعالیٰ)کانام لے کر (شروع کرتا ہوں )جو بے حد کرم کرنے والا (اور)بار باررحم کرنے والاہے ۔
سبحن الذی اسریٰ بعبدہ لیلا من المسجد الحرام
پاک(ذات اور پاک صفات)ہے وہ (خدا)جو رات کے وقت اپنے بندہ کو (اس)حرمت والی مسجد سے (اس )دوروالی
الی المسجد الاقصاالذی بٰرکنا حولہ لنریہ من آیٰتنا
مسجد تک جس کے ارد گر کو (بھی)ہم نے برکت دی ہے (اس لئے )لے گیا کہ تا ہم اسے اپنے بعض نشان دکھلائیں یقیناوہی(خدا)
انہ ھوالسمیح البصیر ٭
ہے جو (اپنے بندہ کی پکار کو)خوب سننے والا (اوران کی حالتوں کو )خوب دیکھنے والا ہے ۔۲؎
۲؎ حل لغات ۔سُبحٰنَ کے معنے کے لئے دیکھو یونس ۱۹؎ اَسْرٰی بِہٖ کے معنے ہیں ۔اس کورات کے وقت لے گیا ۔مزید تشریح کے لئے دیکھو حجر ۵۷؎
اَلْعَبِدُ:العُبُوْدِیَۃُ اِظْھَارُ التَّذَلُّلِ وَالعِبَادَۃُ اَبْلَغُ مِنْھَا لانھا غایۃُ التَّذَلُّلِ۔عبودیت کے معنے عاجز ی کے اظہا ر کے ہیں اورلفظ عِبَادَۃَ اس مفہوم کو اداکرنے کے لئے زیادہ بلیغ ہے کیونکہ اس کے معنے انتہائی عاجزی کرنے کے ہیں ۔وَلَایَسْتَحِقُّھَااِلَّا مَنْ لَہٗ غَایَۃُ الاِفْضَارِ وَھُوَ اللہُ تعالیٰ۔اورانتہائی اسی کے سامنے کی جاسکتی ہے جس کے انعام و اکرام بہت زیادہ ہوں اورایسی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہی ہے ۔وَالعِبَادۃُ ضَرْبَان۔عِبَادۃٌ بِالتَّسْخِیرِ وَعِبَادَۃٌ بالاِخْتِیَارِ۔اورعبادت کی دواقسام ہیں (۱)کسی چیز کابلاارادہ عبادت کرنا یعنی اس کا اللہ تعالیٰ کے لئے عاجزی کرنا ۔(۲)اختیاری عبادت اوریہ انسانوں کے ساتھ خاص ہے ۔
والعَبْدُ یقالُ علیٰ اربعۃِ اضرب۔اورعبد کالفظ چار طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔(۱)عَبْدٌ بِحُکْمِ الشَّرْعِ۔شریعت کے روسے غلام ۔جسکا بیچنا اورخریدنا ناجائز ہو ۔ان معنوں کے اعتبار سے لفظ عبد کی جمع عبِیْدٌ ہوگی ۔(۲)عَبْدٌ بِالاِیْجْادِوَذٰلِکَ لَیس اِلَّالِلّٰہِ۔پیداکئے جانے کے باعث عبدکالفظ استعمال کیاجاتا ہے اوراس لحاظ سے عَبْد کی اضافت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف ہوگی۔کیونکہ صرف خالق وہی ذات ہے۔ (۳)عَبْدٌ بِالعبادِ والخدْمَۃِ۔عبادت اورخدمت کے باعث عبدکالفظ استعمال ہوتاہے ۔اس لحا ظ سے لوگ دوحصوں میں منقسم ہوجائیں گے جو محض اللہ تعالیٰ کے لئے عبادت کرنیوالے ہیں ۔یعنی عاَبِدٌ ان معنوں کے لحاظ سے ا س کی جمع عِبَادٌ آتی ہے ۔(۴) دنیا کے غلام اوردنیا دار (مفردات)
اَلمسجد ُالحرام ُ: الکعبۃ۔مسجد حرام کعبہ کو کہتے ہیں ۔الاقصیَ۔قصی سے اسم تفضیل ہے اورقصی(یصووقصی یقصیٰ)المکان کے معنے ہیں بَعُدَ کوئی جگہ دور ہوگئی ۔اوراَقْصَیٰ کے معنے ہیں ۔اَبْعَدُ۔بہت دور ۔اس کی جمع اقاصی آتی ہے (اقرب)پس المسجد الاقصی کے معنے ہوں گے دور والی مسجد ۔
تفسیر ۔یہ آیت ان معرکۃ الآراء آیتوں میں سے ہے جن کے متعلق مفسرین میں بہت اختلاف رہا ہے ۔اس آیت کے متعلق قریباً سب سابق مصنف ۔مفسرین اورنیزاس زمانہ کی مفسر کہتے ہیں کہ اس میں معراج اکاواقعہ بیان کیا گیا ہے گومعراج کی تفاصیل میں شدید اختلا ف ہے ۔
یہ مسئلہ بوجہ اختلاف روایات اس قدر پیچیدہ ہوگیا ہے کہ مجھے اس کے سلجھانے کے لئے اس کے کئی حصے کرنے پڑیں گے ۔سب سے پہلے میں اس امر کولیتا ہوں کہ اس آیت کے سواقرآن کریم میں معراج کاواقعہ ایک اورجگہ بھی بیان ہواہے اوروہ سورئہ نجم ہے ۔اس جگہ پراللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُّوْحٰی عََلَّمَہٗ شَدِیْدُ القُوٰی ذُوْمِرَّۃٍ فَاسترٰی وھوبالاُقُقِ الاعلیٰ ۔ثُم دَنَا فتدَلّٰی فکان قاب قوسین اوادنی فاوحیٰ الی عبدہ مااوحی ماکذب الفواد مارای افتمرونہ علی مایر یٰ ولقد راہ نزلۃ اُخریٰ۔ عند سدرۃ المنتہٰی ۔ عند ھا جنۃ الماوٰی اذ
یغشی السدرۃ مایغشیٰ مازاغ البصر وما طغی لقد رای من آیت ربہ الکُبریٰ (نجم ع ۵؍۱)
یعنی قرآن کریم ایک وحی الٰہی ہے اللہ تعالیٰ نے جو بڑی طاقتوں والا ہے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ علم سکھا یا ہے ۔وہ بڑی طاقت ظاہر کرنے والا اورحکومت کرنے والا خداہے ۔اوراس وقت اس نے یہ کلام نازل کیا جبکہ وہ (یعنی محمد رسول اللہ صلعم)اُفُقٍ اَعلیٰ پر تھے (یعنی سب سے اعلیٰ مقام پر )محمد رسول اللہ خداکے اورقریب ہوئے اورقریب ہوکر پھر نیچے کی طرف آئے یعنی بنی نوع انسان کے قریب ہوئے ۔حتی کہ آپ دوقوموں کے درمیان وتروں کی طرح ہوگئے بلکہ اس سے بھی قریب ۔یعنی دومشرک وتروں کی جگہ ایک ہی وتر ہوگیا ۔اس موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندہ پر وحی نازل کی جو اس قرآن میں موجود ہے ۔دل نے جوکچھ دکھایا تھا اس میں اس نے غلطی نہیں کی (بلکہ فی الواقع اس نے ایساہی دیکھا تھا )کیا تم لوگ اس باارہ میں اس سے جھگڑتے ہو جو اس نے دیکھا ۔حالانکہ اس نے یہ بات ایک دفعہ نہیں بلکہ دودفعہ دیکھی ہے ۔اوراس نظارہ کامقام سدرۃُ المنتہٰی ہے ۔اس سدرۃ المنتہٰی کے پا س ہی جنت کامقام ہے ۔اس نے اس وقت اس نظارہ کو دیکھاتھا جبکہ سدرہ کو ایک عجیب پر شوکت جلوہ نے ڈھانک لیا تھا نظر نے بھی اس وقت غلطی نہیں کی ۔نہ کوئی بات کم دیکھی اورنہ زیادہ ۔(بلکہ جو کچھ دیکھا ٹھیک دیکھا )اس وقت (محمد رسول اللہ صلعم نے)اس (یعنی اللہ تعالیٰ) کی بہت بڑی آیات دیکھیں ۔
یہ آیا ت معراج کے واقعہ کی طرف اشار ہ کرتی ہیں ۔ااوراس کاثبوت یہ ہے کہ ان آیات می جن امور کرکاذکر ہے وہ سب معراج سے تعلق رکھتے ہیں مثلاً(۱)سدرۃ المنتہٰی تک آ پ کاجانا(۲)اس وقت سدر ۃ المنتہٰی پر کسی چیز کا نازل ہونا(۳)اس کے پاس جنت کا دیکھنا (۴)قاب قوسین کی حالت پیداہونا (۵)اللہ تعالیٰ کادیکھنا (۶)کلام الٰہی کاوہاں نازل ہونا ۔یہ سب امو ر وہ ہیں کہ جن کاذکر معراج کی حدیثوں میں آتا ہے ۔چنانچہ سدرۃ المنتہٰی کامعراج میں دیکھنا حضرت ابوہرہؓ کی روایت میں آتا ہے جسے ابن جریر ۔ابن ابی حاتم ابن مردویہ ۔البزار۔ابویعلیٰ اوربیہقی چھ جامعین حدیث نے اپنی اپنی کتب میں نقل کیا ہے ۔اس کے یہ الفاظ ہیں کہ ثُمَّ انْتَھٰی الی السدرۃ۔پھر آپ معراج کی رات آسمان پر جانے اورانبیاء سے ملنے کے بعد آگے بڑھے ۔توسدرۃ المنتہٰی تک پہنچے (الخصائص الکبریٰ جلد اول ص ۱۷۴)
اسی طرح ابن جریر ۔ابن المنذر ۔ابن ابی حاتم ۔ابن مردویہ ۔البیہقی اورابن عساکر نے ابوسعید خدریؓ سے معراج کے بارہ میں روایت کی ہے ۔اس میں بھی آسمان پر جانے اورنبیوں سے ملنے کے بعد سدرۃ المنتہیٰ تک جانے کا ذکر ہے (خصائص الکبریٰ جلد ۱ص ۱۶۷)
اسی طرح مسند احمد بن حنبل ۔بخاری ۔مسلم اورابن جریر میں مالک بن صعمہ کی روایت معراج کے متعلق درج ہے ۔اس میں لکھا ہے کہ ثُمَّ رُفِعَتْ الی سِدرۃ المنتھیٰ۔یعنی نبیوں سے مختلف آسمانوں پر ملنے کے بعد مجھے اٹھا کر سدرۃ المنتہیٰ تک لے جایا گیا (خصائص الکبریٰ جلد اول ص ۱۶۵)
نیز بخاری نے انس ؓ سے روایت کی ہے اس میں بھی آسمان پرجانے اورنبیوں سے ملاقات کے بعد سدرۃ المنتہیٰ تک جانے کا ذکر ہے ۔(بخاری جلد دوم کتاب بدء الخلق باب المعراج۔نیز الخصائص الکبریٰ جلد اول ص ۱۵۳)
دوسراامرآیات قرآنیہ میں یہ بتایاگیا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سدر ۃ المنتہیٰ تک پہنچے ہیں اس وقت اسے کسی چیز نے ڈھانپا ہے ۔جیسے کہ الفاظ اِذْیَغْشَی السِّدْرَۃَمَایَغْشیٰ(النجم ع ۵؍۱)سے ظاہرہے ۔اس کاذکر بھی احادیث معراج میں آتاہے ۔چنانچہ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت میں جس کا ذکر اوپر آچکا ہے بیان ہواہے کہ جب آپؐ سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے توفَغَشِیَہَا نُوْرُ الْخَلَّاقِ عَزَّوَجَلَ(الخصائص الکبریٰ جلد اول ص ۱۷۴)یعنی اس وقت اللہ تعالیٰ کے نور نے سدرۃ کو ڈھانپ لیا ۔نیز مسلم نے جوانسؓ سے معراج کے متعلق روایت کی ہے اس کے یہ الفاظ ہیں ۔ فَلَمَّا غشِیَہَا من امراللہ غشیَ تغَیَّرَتْ فما احدٌ من خلقِ اللہ یستطیعُ ان ینصتعہا من حُسنِہا۔یعنی جب آپ سد ۃ المنتہیٰ تک پہنچے تواللہ تعالیٰ کے ایک خاص فضل نے سدرہ کا ڈھانپ لیااوراس میں ایسا تغیر ہواکہ کوئی شخص اس کے حسن کی تعریف نہیں کرسکتا (کتاب الایمان)
تیسری بات آیات قرآنیہ سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ سدرہ کے پاس جنت بھی آپ نے دیکھی ۔اس کاذکر بھی معراج کی احادیث میں آتا ہے ۔چنانچہ نبیوں کی ملاقات کے بعد آتاہے ثُمَّ اِنِّیْ رُفِعَتْ الی الجَنَّۃِ پھر مجھے جنت تک لیجا یا گیا ۔اورپھر اس کے بعد ہے کہ ثم انی رفعت الی سدرۃ المنتہیٰ یعنی جنت کے بعد مجھے سدرۃ المنتہیٰ تک لے جایاگیا ۔یہ روایت ابوسعید خدریؓ کی ہے اورابن جریر نے نقل کی ہے ۔(ابن جریر جلد ۱۵ص ۱۱)اوران کے علاوہ اورکتب حدیث میں بھی آتی ہے ۔
سورئہ نجم میں چوتھی بات یہ بیان کی ہے کہ ان نظاروں کے وقت میں ایک حالت پیداہوئی ۔جس کانام فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنیٰ رکھا گیا ہے ۔معراج کی روایات میں اس کابھی ذکر ہے ۔چنانچہ حضر ت ابوسعید ؓ کی مذکورہ بالا روایت میں سدر ۃ المنتہیٰ کے ذکر کے بعد یہ الفاظ ہیں کہ فَکَانَ بَیْنِیْ وَبَیْنَہُ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْاَدْنٰی یعنے میرے اوراس کے درمیان صرف قاب قوسین یااس سے بھی کم فرق رہ گیا ۔(میں اس جگہ احادیث کے الفاظ کی تشریح نہیں کرتاکہ اس کاکیامطلب ہے صرف یہ بتاتاہوں کہ حدیث میں وہی حالات بیان ہوئے ہیں جو سورئہ نجم میں آئے ہیں)
پانچویں بات سورئہ نجم کی آیات میں یہ بتائی گئی ہے کہ اس موقعہ پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کودیکھا ۔جیسا کہ مَاکَذَبَ الْفُؤَادُ مَارَاٰی میں اشارہ کیاگیاہے ۔معراج کی احادیث میں بھی یہ امر کئی روایات میں بیان ہواہے چنانچہ ایک روایت حضرت اسماء بنت ابی بکرؓکی ابن مرودیہ نے نقل کی ہے۔اس میں آتا ہے کہ آپ سدرۃ المنتہیٰ کاذکر فرمارہے تھے کہ میں نے پوچھا یارسول اللہ آپ نے وہاں کیا دیکھا ۔اس کے جواب میں آپ نے فرمایا۔میںنے وہاں کچھ دیکھا ۔حضرت اسماءؓ فرماتی ہیں ۔ آپ کی مراد یہ تھی کہ میں نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا (خصائص جلد اول ص ۱۷۷)حضرت ابن عباسؓ کی روایت مسلم نے نقل کی ہے اس میں اوپر والی آیات کاذکر کرکے بیان کیا ہے کہ رَاٰہُ بِفُؤَادِہٖ مَرَّتَیْنِ رسول کریم صلعم نے اپنے دل کی آنکھ سے اللہ تعالیٰ کو دودفعہ دیکھا (مسلم جلد اول ۔کتاب الایمان باب معنے ولقد را ہ نزلۃً اُخریٰ)
چھٹی با ت سورئہ نجم کی آیات میں یہ بیان کی گئی ہے ۔کہ سدر ۃ المنتہیٰ کے قریب اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلعم سے کلام کیا ۔جیساکہ فَاَوْحٰٓی اِلیٰ عَبْدِہٖ مَآاَوْحٰی کے الفاظ سے ظاہر ہے ۔معراج کی احادیث می اس ا مر کابھی ذکر آتاہے ۔چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ کی حدیث جو اوپر لکھی جاچکی ہے اس میں ذکر ہے کہ جب آپ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس پہنچے تو فَکَلَّمَہُ اللہُ تعالیٰ عِنْدَ ذٰلِکَ۔ اللہ تعالیٰ نے سدرۃ کے پاس آپ سے کلام کیا ۔(خصائص جلد اول ص ۱۷۴)اسی طرح ابن ابی حاتم نے انس بن مالکؓ سے روایت کی ہے ۔اوراس میں بھی یہ الفاظ آئے ہیں کہ جب میں اس سدرہ کے پاس پہنچا تو قال اللہ لِیْ یَامحمد اللہ تعالیٰ نے مجھ سے کلام کیااورفرمایا کہ اے محمدؐ!(آگے لمبی بات بیان ہے )۔(خصائص جلد اول ص ۱۵۵)
مذکورہ بالامشابہتوں سے جوسورئہ نجم کی آیات اور واقعہ معراج میں پائی جاتی ہیں ۔یہ امر قطعی طور پر ثابت ہوجاتا ہے کہ سورئہ نجم میں معراج ہی کا ذکرکیاگیاہے ۔
یہ ثابت کرنے کے بعد سورئہ نجم میں جوروایت اورکلام اورسدرۃ المنتہیٰ کے دیکھنے کاذکر ہے وہ معراج کا ہی واقعہ ہے ۔اب میں یہ بتاناچاہتاہوں کہ سورہ نجم بالاتفاق ۰۵ ؁بعد نبوت یااس سے پہلے نازل ہوئی ہے اوراس کے نزول کے ساتھ ایک ایسے عظیم الشان واقعہ کاتعلق ہے کہ اس کے نزول کے متعلق کوئی شبہ ہی نہیں ہوسکتا ۔اوروہ واقعہ یو ں ہے ۔
۰۵ ؁بعد نبوت میں رجب کے مہینہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعض صحابہ کو حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کامشور ہ دیا اورفرمایا کہ مکہ میں ظلم انتہاکوپہنچ گیا ہے اورمغرب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس طرف ایک ملک ہے جس میں کسی پر ظلم نہیں ہوتا تم وہاں چلے جائو ۔آپ کے حکم پر بعض لوگ مذکورہ بالا مہینہ اورمذکورہ بالا سال میں مکہ سے حبشہ کی طرف روانہ ہوئے ۔ان میں آپ کے داما دحضرت عثمانؓ اورآپ کی صاحبزادی رقیہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں ۔(زرقانی شرح مواہب جلد اول ص ۱۷۰و۱۷۱)
کفار کو جب ان لوگوں کی ہجرت کا علم ہو اتوانہوں نے ان کا پیچھا کیا لیکن وہ ان کو نہ پکڑ سکے اوران کے پہنچنے سے پہلے یہ لوگ کشتیوں میں سوار ہوکر حبشہ کو روانہ ہوگئے۔اوروہاں امن سے رہنے لگے ۔کفار کو جب یہ خبر ملی توانہوں نے عمروبن عاص اورعبداللہ بن ربیعہ کووفدبناکر نجاشی کے پاس بھیجا کہ وہ ان کو لوٹادے ۔مگر اس نے ان کی بات نہ مانی اوریہ وفد ناکا م لوٹا۔اس وفد کی واپسی کے بعد ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کفارآئے اورقرآن کریم سنانے کے لئے کہا ۔آپ نے سورئہ نجم پڑھ کر انہیں سنائی ۔اس میں سجدہ آتا ہے ۔آپ نے اس پر سجدہ کیا اورسب کفار نے بھی ساتھ ہی سجد ہ کیا اورمشہور ہوگیا کہ مکہ کے سب لوگ مسلمان ہوگئے ہیں ۔یاکم سے کم یہ کہ اس کے عمائدین مسلمان ہوگئے ہیں ۔کفارنے بعد میں یہ توجیہ کی کہ اس سورۃ کو پڑھتے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے معبودوں کی بھی تعریف کی تھی ۔اس لئے انہوںنے سجدہ کیا تھا ۔مسلمان کہتے ہیں کہ شیطا ن نے اس وقت یہ کلمات بلند آواز دے کہہ دیئے تھے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کہے ۔(میری تحقیق یہ ہے ۔کہ کفارنے مسلمانوں کے واپس لانے کی کوشش میں ناکام ہوکر حبشہ میں یہ جھوٹی خبر پہنچادی کہ مکہ کے لوگ مسلمان ہوگئے ہیں تاکہ مسلمان خود واپس آجائیں ۔جب بعض مسلمان واپس آگئے تواس خوف سے کہ مکہ کے قریب پہنچ کر جب ان کو اس خبر کاجھوٹ ہونا معلوم ہوگا وہ واپس چلے جائیں گے ۔انہوں نے یہ تدبیر کی کہ آپ کی مجلس میں آکر قرآن سننے کی خواہش کی اورسجدہ کیا ۔تاکہ لوگوں میں یہ خبر مشہور ہوجائے اورمسلمان واپس نہ لوٹیں ۔اورجب یہ فائدہ اٹھالیا توبعد میں اپنے اَتباع کے سامنے شرمندگی سے بچنے کے لئے یہ جھوٹ بولا کہ چونکہ رسول کریم صلعم نے مشرکانہ کلمات کہدئے تھے اس لئے ہم نے سجدہ کیاتھا ۔بہرحال اس کی تفصیل کایہ مقام نہیں ۔یہ مضمون سورہ حج اورسورئہ نجم میں انشاء اللہ بیان کیاجائے گا )بہرحال پہلی ہجرت پر ابھی تین ماہ بھی نہ گزرے تھے کہ بعض مسلمان مکہ کے لوگوں کے مسلمان ہونے کی خبر سن کر حبشہ سے واپس مکہ آگئے ۔اس واقعہ سے جو تما م کتب تاریخ اوراحادیث میں مذکور ہے ثابت ہے کہ سورئہ نجم شوال ۵ ۰ ؁بعد نبوت سے یقینا پہلے نازل ہوچکی تھی اوراس میں چونکہ معراج کاواقعہ درج ہے اس لئے معراج کا واقعہ بھی یقینا شوال ۵۰ ؁بعد نبوت سے پہلے ہوچکا تھا ۔
معراج کے واقعہ کی تاریخ بتانے کے بعد اب میں اس واقعہ کو لیتاہوں جس کاذکرسورئہ بنی اسرائیل میں ہے ۔اورجس کے متعلق یہ نوٹ لکھ رہاہوں ۔اس واقعہ کی نسبت زرقانی شرح مواہب میں لکھا ہے کہ ۰۱۱ ؁بعد نبوت ربیع الاول یاربیع الثانی یارجب یا شعبان میں ہو اہے ۔(زروقانی جلد اول ص۳۰۶)
مسیحی مؤرخین نے اسے بارہویں سال بعدنبوت میں تسلیم کیاہے (میورلائف آف محمد ؐص ۱۲۱)
احادیث میں اس کے متعلق جو روایا ت آتی ہیں وہ بھی ا س زمانہ کی تصدیق کرتی ہیں ۔چنانچہ ابن مردویہ نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت کی ہے کہ قَال اُسْرِیَ بِالنَبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم لَیْلَۃَ سَبْعَۃِ عَشَرَ مِنْ شَھْرِ رَبِیْع الْاَوَّلِ قَبْلَ الْھِجْرَۃِ بسَنَۃٍ(خصائص جلد اول ص ۱۶۲)یعنی عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسراء کاواقعہ ہجرت سے ایک سال پہلے سترہ ربیع الاول کوپیش آیا ۔اسی طرح بیہقی نے ابن شہاب سے روایت کی ہے کہ مدینہ تشریف لے جانے سے ایک سال پہلے یہ واقعہ پیش آیاتھا ۔نیز بیہقی نے سعدی سے روایت کی ہے کہ ہجر ت سے کوئی چھ ماہ پہلے یہ واقعہ پیش آیاتھا ۔(دونوں روایات خصائص جلد اول کے صفحہ ۱۶۲پرمذکور ہیں)نیز ابن سعد نے حضرت ام سلمہ ؓسے روایت کی ہے کہ یہ واقعہ ایک سال ہجرت سے پہلے سترہ ربیع الاول کو پیش آیا تھا ۔
ان سب روایا ت سے یہ امریقین کے مرتبہ تک پہنچ جاتاہے کہ اسرا ء اکاواقعہ ہجرت سے چھ ماہ یاایک سال پہلے گزراہے ۔
اس کے علاوہ اورثبوت بھی اس امر کی تائید میں ہیں کہ یہ واقعہ شعب ابی طالب سے نکلنے کے بعدکاہے ۔اورشعب ابی طالب میں آپ اورآپ کے ساتھی ساتویں سال بعد نبوت داخل ہوئے تھے اوردسویں سال میں وہاںسے نکلے تھے ۔اوروہ ثبوت یہ ہے کہ حدیث اسراء کے متعلق ایک ہی موقعہ کاگواہ ہے ۔اوروہ امّ ہانی ؓ آپ کی چچازاد بہن ہیں جو ابوطالب کی بیٹی تھیں ۔ وہ بیان کرتی ہیں ۔کہ جس رات یہ واقعہ ہواہے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں تشریف فرماتھے ۔
اوربہت سے صحابہ نے بھی یہی بیان کیا ہے کہ آپؐ اس رات ام ہانی کے مکان پر تھے ۔اورظاہرہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی زندگی یاابوطالب کی زندگی میں آ پ امّ ہانی کے گھر میں نہیں رہ سکتے تھے ۔پس ام ہانی کے گھرمیں آپ کاان ایام میں رہنا بھی بتاتا ہے کہ یہ واقعہ حضرت خدیجہ اورابوطالب کی وفات کے بعد کا ہے ۔اوران دونوں کی وفات بھی ۰۱۰ ؁بعد نبوت میں ہوئی ہے ۔پس اس شہادت سے بھی یہی استنباط ہوتاہے کہ یہ واقعہ گیارہویں یا بارہویں سال بعدنبوت کا ہے ۔
خلاصہ یہ کہ تاریخ ۔احادیث اورعقلی استدلال سب اس ا مر کی تائید میں ہیں کہ اسرا ء کاواقعہ گیارہویں بارہویں سال بعد نبوت کا ہے ۔اورپہلے میں یہ ثابت کرچکا ہوں کہ کہ معراج کاواقعہ پانچویں سال بعد نبو ت سے پہلے کاہے ۔پس جب ان دونوں واقعات کی تاریخو ںمیں چھ سات سال کا فرق ہے توانہیں ایک واقعہ کہنا درست نہیں ہوسکتا ۔اورحق یہی ہے کہ معراج کاواقعہ اَورہے اوربیت المقدس کی طرف جانے کاواقعہ بالکل اَورہے۔
علاوہ تاریخی شواہد کے ایک اَورامر بھی میرے اس استدلا ل کی تائید میں ہے اوروہ یہ ہے کہ حدیث معراج سے ثابت ہے کہ پانچ نمازوں کی فرضیت معراج کے واقعہ میں ہوئی ہے ۔اب اگران دونوں واقعات کو ایک سمجھا جائے توماننا پڑے گاکہ پانچوں نمازیں گیارہویں یابارہویں سال بعد نبوت میں فرض ہوئی ہیں جوبالبداہت غط ہے۔پانچوں نمازوں کے فرض ہونے کازمانہ شروع زمانہ نبوی سے ثابت ہے اورسب مسلمانوں کااس پر اتفاق ہے ۔پس اس امر سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ معراج نبوی کے ابتدائی ایام میں ہواہے جبکہ اسراء کاواقعہ گیارہویں بارہویں سال میں ہواہے ۔
بلکہ میں تویہ کہوں گا کہ قرآن کریم میں جودومعراجو ں کا ثبوت ملتاہے ۔اس کاذکر اس امر کے بتانے کے لئے کیاگیا ہے کہ سورئہ نجم میں جس معراج کا ذکر ہے وہ دوسرامعراج ہے ۔ورنہ ایک معراج نبوت کے ملتے وقت یا اس کے ساتھ ہی ہواتھا اورنمازیں اس میں فرض ہوگئی تھیں ۔چنانچہ بخاری نے انس ؓ سے روایت کیا ہے اورابن جریر نے بھی اپنی تفسیر میں اس روایت کو بیان کیا ہے کہ جَآئَہٗ ثَلَاثَۃَ نَفَرٍ قَبْلَ اَنْ یُوْحٰی اِلَیْہِ۔الخ۔کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تین فرشتے آئے ۔(بخاری جلد۴ کتاب التوحید ۔باب کلم اللہ موسیٰ تکلیماً۔وابن جریر جلد ۱۵ص ۴)اوریہ واقعہ نبوت سے پہلے کا ہے ۔آگے وہی معراج کاواقعہ مذکور ہے ۔اوراس میں بیت المقدس کی طرف جانے کا ذکر نہیں بلکہ سیدھا آسمان پرجانے کاذکر ہے ۔اورآخر میں نمازوں کے فرض ہونے کاذکر ہے ۔اس حدیث سے معلو م ہوتا ہے کہ معراج کا واقعہ کم سے کم ایک دفعہ نبوت کے ملنے سے عین پہلے یاعین اس وقت ہواہے اوریہی بات درست ہے ۔کیونکہ نمازیں فرض شروع اسلام سے ہیں اورایک سال بھی نبوت کے بعدایسا نہیں گزرا۔جس میں نمازیں فرض نہ ہوں(اکثر محققین اس طرف گئے ہیں کہ نبوت سے پہلے کانہیں ۔اس وقت کاہے ۔راوی کوزمانہ کے قرب کی وجہ سے غلط فہمی ہوئی ہے اورمیرے نزدیک بھی یہی صحیح ہے ۔کیونکہ نبوت سے پہلے نمازوں کا فرض ہوناعقل کے خلاف ہے )۔
خلاصہ یہ کہ معرا ج اوراسراء دوالگ الگ واقعات ہیں ۔اورجیسا کہ سورئہ نجم کی آیات سے ظاہر ہے معرا ج دوہیں ۔اوراحادیث سے معلو م ہوتا ہے کہ ایک معراج نبوت کے ابتدائی ایام میں ہواہے ۔بلکہ کہہ سکتے ہیں اسی اسی معراج میں شرعی نبوت کی بنیاد پڑی ہے ۔ اورنماز یں فرض کی گئی ہیں ۔اوردوسرامعراج ۰۵ ؁بعد نبوت میں ہواہے ۔یایہ کہ وہ بھی اس سے پہلے ہوچکا تھا صرف اس کاذکر سورئہ نجم میں کیاگیا ہے۔اوراسراء کاواقعہ بالکل جداہے ۔اورگیارہویں بارہویں سال بعد نبوت ظہور میں آیا ہے جبکہ حضرت خدیجہؓ فوت ہوچکی تھیں اور آپ ام ہانی کے مکان میں رہتے تھے جیسا کہ متواتراحادیث اور روایات تاریخیہ سے ثابت ہے ۔
تاریخی شہادت کے درج کرنے کے بعد اب میں واقعاتی شواہد کوثابت کرتا ہوں کہ یہ دونوں واقعات الگ الگ ہیں ۔
(۱)پہلی گواہی ا س بارہ میں خود قرآن کریم کی ہے۔قرآن کریم میں سورئہ نجم میں معراج کے واقعہ کو بیان کیاگیا ہے اوراس میں کوئی ذکر بیت المقدس کی طر ف جانے کانہیں ۔اس کے مقابل پر سورئہ اسرائیل میں بیت المقدس تک جانے کاذکر ہے۔اورآسمان پر جانے کاکوئی اشارہ تک نہیں ۔اس سے صاف معلوم ہوتاہے کہ دونوں واقعات الگ الگ ہیں ۔اس لئے ان کے اکٹھابیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں سمجھی گئی ۔ورنہ یہ نہایت قابل تعجب امر ہے کہ ایک ہی واقعہ کا آخری حصہ توچھ سال پہلے قرآن کریم میں بیان کیاگیا ۔اوراس کا پہلاحصہ چھ سال بعد بیان کیا گیا۔
(۲)دوسراگواہ واقعات میں سے ان دونوں امورکے الگ الگ ہونے کا یہ ہے کہ اس واقعہ کاموقعہ کاگواہ صرف ایک ہے اوروہ ام ہانی ہیں ۔آپ اس رات جب یہ واقعہ پیش آیا ہے ام ہانی کے ہاں ہی سوئے تھے ۔وہ فرماتی ہیں کہ سب سے پہلے مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسراء الی بیت المقدس کا واقعہ سنایاتھا اورصبح کے وقت دوسرے لوگوں سے ذکرکرنے سے پہلے سنایاتھا ۔اورمیں نے اس خیا ل سے کہ لوگ واقعہ کے عجیب ہونے کے سبب سے ا س کاانکار کریں گے اورمخالفت میں ترقی کرجائیں گے آپ کو لوگوں کے سامنے اسکے بیان کرنے سے باز رکھنے کی کوشش بھی کی تھی مگر آپ نے میری یہ بات نہ مانی۔یہ گواہ جو موقعہ کاگواہ ہے اورجس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب سے پہلے یہ واقعہ بیان کیا ہے اس سے کم سے کم سات محدثین نے اپنی اپنی کتب میں اس واقعہ کے متعلق روایت کی ہے ۔اورچار مختلف راویوں کے ذریعہ روایت نقل کی ہے ۔مگران چاروں روایتوں میں صرف اتنابیان ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں بیت المقدس تک جاکر راتوں رات واپس آگیاہوں ۔اگرآپ آسمان پر جانے کاذکر بھی اس وقت فرماتے تو ام ہانی جو سب سے پہلی گواہ ہیں ۔وہ کسی نہ کسی موقعہ پر توبیت المقدس سے آسمان پر جانے کاذکر کرتیں ۔مگر وہ جب ذکرکرتی ہیں اورجس کے پاس ذکر کرتی ہیں یہی کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں بیت المقدس تک جاکر واپس آیا ہوں ۔اس سے بھی صاف ظاہر ہے کہ بیت المقدس تک جانے کاواقعہ اَورہے اور معراج الی السماء کاواقعہ اورہے۔
(۳)تیسری شہادت واقعات سے یہ ہے کہ وہ راوی جنہوں نے اس واقعہ کو بیان کیا ہے ان میں سے بعض تو وہ ہیں کہ جنہوںنے سیدھاآسمان پر جانے کا ذکر کیا ہے ۔بیت المقدس تک جانے کا ذکرنہیں کیا ۔اوربعض وہ ہیں ۔کہ جنہوں نے بیت المقدس تک جاکر پھر آسمان پر جانے کا ذکرکیا ہے۔بعض ایسے ہیں کہ جنہوں نے بیت المقدس تک جانے کاذکر کیا ہے آگے آسمان تک جانے کاکوئی ذکر نہیں کیا ۔لیکن ایک خاصی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنہوںنے صاف کہا ہے کہ آپ بیت المقدس سے فارغ ہو کر مکہ واپس تشریف لے آئے ۔
یہ ظاہر ہے کہ جنہوں نے سیدھا آسمان پر جانے کاذکرکیا ہے ان کی شہادت بھی یہی ہے کہ معراج کاواقعہ ایک الگ واقعہ ہے ۔کیونکہ اگر آپ گھر سے سیدھا آسمان کی طرف لے جائے گئے تھے توبیت المقد س راستہ میں پڑ نہیں سکتا ۔یہ راوی انس ۔مالک بن صعصہ اورابوذر ہیں ۔ابوذران صحابہ میں سے ہیں ۔جوابتدائی میں اسلام لائے تھے اوراس واقعہ کے شرو ع کے سننے والوں می سے تھے ۔
اسی طرح جنہوں نے بیت المقدس تک ہی جانے کا ذکر کیا ہے آگے آسمان پر جانے کاذکر نہیں کیا ۔ان کی شہادت سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ بیت المقدس کی طرف جب اسراء ہواہے اس وقت آنحضرت صلعم آسمان پر تشریف نہیں لے گئے ورنہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ اسراء کاواقعہ تووہ لوگ بیان کرتے لیکن اس کے اہم ترین جزو کو یعنے آسمان پر جانے کے حصہ کو چھوڑ دیتے ۔اس قسم ک روایت کر نے والے انس ؓ اورعبداللہ بن مسعودؓ ہیں اورعبداللہ بن مسعودؓ بھی ان صحابہ میں سے ہیں جو شروع میں اسلام لائے اورہروقت آپ کے ساتھ رہے ۔
تیسری قسم کی روایتیں جن سے صا ف معلو م ہوتا ہے کہ آپ صرف بیت المقدس تک گئے اورپھر واپس تشریف لے آئے ۔وہ توظاہرہی ہے کہ اس امر کی بیّن دلیل ہیں کہ بیت المقدس کے اسراء کے ساتھ آسمان کامعراج نہیں ہوا۔بلکہ ا س با رآپ صرف بیت المقدس تک لے جائے گئے تھے ۔ان احادیث کے راوی عبداللہ بن مسعودؓ ابن عباس ؓ ۔شداد بن اوسؓ۔ام ہانیؓ۔حضرت عائشہؓ اورحضرت ام سلمہؓ ہیں ۔ان میں سے عبداللہ بن مسعود کا ذکر میں نے اوپر کردیا ہے ۔عبداللہ بن عباسؓ۔حضرت عباس کے لڑکے ہیں جوآنحضرت صلعم کے چچا تھے ۔اوربوجہ اس کے کہ یہ واقعہ گھر میں پیش آیا تھا ان کو ا سکے صحیح حالات جاننے کاسب سے بہتر موقعہ تھا ۔ حضرت عائشہ ؓ اورام سلمہ ؓ آنحضرت صلعم کی ازواج مطہرات میں سے ہیں اوراس واقعہ کی بہترین شاہد ہوسکتی ہیں ۔پھرام ہانیؓ ہیں جن کے گھرمیں یہ واقعہ گذرا۔اورجن کے سامنے سب سے پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واقعہ کاذکرکیا ۔اس بار ہ میں سب راویو ںکی روایات درج کر نا تومشکل ہے ۔بعض روایات بیان کردیتاہوں۔حضرت ام ہانیؓ کہتی ہیں کہ اسرا ء کی صبح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ۔ام ہانی میں نے عشا کی نما زتم لوگوں کے ساتھ پڑھی۔پھر میں بیت المقدس گیا اوروہاں نماز پڑہی۔اورپھر اب تم لوگوں کے ساتھ صبح کی نماز پڑھ رہاہوں ۔
حضرت عائشہ ؓ کی روایت یہ ہے کہ جب اسراء کاواقعہ ہو ا۔لوگ دوڑے دوڑے حضر ت ابو بکرؓ کے پا س آئے اوران سے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ آپ کادوست کیاکہتا ہے ۔انہوں نے کہا کیاکہتا ہے ۔انہوں نے جواب دیا کہ وہ کہتاہے کہ میں رات بیت المقدس تک ہوکر آیا ہوں اگر معراج کا ذکر ساتھ ہی آپ نے کیا ہوتا توکفار اس حصہ پر زیادہ شور مچاتے ۔مگرانہوں نے صرف یہ کہا کہ آنحضرت صلعم فرماتے ہیں کہ میں رات کو بیت المقدس تک گیاتھا ۔پھر جب حضرت ابوبکرؓنے آنحضرت صلعم کی تصدیق کی ۔ تولوگوں نے کہا ۔کیا آپ اس خلاف عقل بات کو بھی مان لیں گے ۔توحضرت ابوبکرؓ نے کہا میں تواس کی یہ بات بھی مان لیتاہوں کہ صبح و شام اس اپر آسمان سے کلام اترتا ہے ۔اس جواب سے بھی صاف ظاہر ہے کہ اس واقعہ کے ساتھ آسمان پر جانے کاکوئی ذکر نہ تھا ۔ورنہ آسمان پر خود آنے جانے سے کلام کاآناجانا کسی صورت میں بھی زیادہ عجیب نہیں کہلاسکتا ۔اوراس صورت میں حضرت ابوبکرؓکبھی بھی وہ دلیل نہ دے سکتے تھے جو انہوں نے دی۔اورنہ اس جواب کو سن کر معترضین چپ ہوسکتے تھے ۔وہ ضرور جواب دیتے کہ تمہارے آقاتوخود آسمان پر جانے کادعویٰ کررہے ہیں اورتم آسمان سے الہام آنے کا اس خبرسے مقابلہ کررہے ہو ۔مگرانہوں نے بھی آگے سے ایسا نہیں کہا ۔جس سے معلوم ہوتاہے کہ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف بیت المقد س تک جانے کا ذکرکیاتھا ۔آسمان پرجانے کا اس واقعہ کیساتھ کوئی ذکر نہیں کیا تھا ۔
عبداللہ بن مسعو دؓ کی روایت میں بیت المقدس میں انبیاء کو نماز پڑھانے کے ذکرکے بعد یہ الفاظ ہیں ثُمَّ انْصَرَفْنَا فَاَقْبَلْنَا۔پھر ہم وہاں سے آگئے اورمکہ کی طرف چل پڑے ۔(خصائص ص ۱۶۲ جلد اول)
چوتھاشاہد واقعا ت سے اس امر کاکہ واقعہ اسراء الگ واقعہ ہے یہ ہے کہ بعض روایتوں میں جن میں بیت المقدس جانے کے بعد آسمان پر جانے کاذکر کیا گیاہے وہاں سے واپسی کے وقت بھی بیت المقدس میں اترنے کاذکر آتاہے اوروہاں سے پھر مکہ واپس آنے کاذکر ہے ۔(اَخْرَجَہٗ ابن ابی حاتم عن انس منقول ازخصائص الکبریٰ جلد او ل ص ۱۵۴)
اب ہر عقلمند سمجھ سکتاہے کہ بیت المقدس ہوتے ہوئے آسمان پرجاناتوعقل میں بھی آسکتا تھا ۔کیونکہ اس میں یہ مفید غرض تھی کہ آپ اس مقام پر نماز پڑھ لیں جہاںنبیوں کی ایک بڑی جماعت نے خداتعالیٰ کا پیغام پہنچایاتھا ۔مگرجب آپ اس سے فارغ ہوگئے اورآسمان پرتشریف لے گئے توپھر وہاں سے واپسی کیوں بیت المقدس کوہوئی اورکیوں بیت المقدس لاکر آپ کو واپس مکہ پہنچایاگیا ۔ اگرواپسی کے وقت کوئی ایساکام بتایاجاتا جو آپ نے بیت المقدس میں کیا تو بات سمجھ میں آسکتی تھی کہ وہ کام رہ گیا تھا ۔اس لئے آپ کو پھر بیت المقد س لایا گیا ۔لیکن کسی ایک روایت میں بھی آسمان سے واپسی پر بیت المقدس میں آپ کے کسی کام کے کرنے کاذکر موجود نہیں ۔پھر اس تکلیف دہی کی غرض کیاتھی۔اگرتویہ تسلیم کیا جائے کہ آسمان کوراستہ ہی بیت المقدس سے جاتا ہے اوروہاں کوئی سیڑھی لگی ہوئی ہے تب تو یہ سمجھ میں آسکتاتھاکہ مجبوراً آپ کو وہاں اتارنا پڑا ۔لیکن اگریہ بات نہیں ہے اورہر مسلما ن کاعقیدہ یہی ہے کہ ایسانہیں ہے کیونکہ آسمان کی طرف صعود سیڑھیوں کامحتاج نہیں ہے توپھر واپسی کے وقت بغیرکام کے بیت المقدس میں آپ کو اتار نا اورپھر مکہ کی طرف لے جانا بالکل خلاف عقل ہے ۔میرے نزدیک اس کی ایک ہی تاویل ہوسکتی ہے کہ حضرت انس ِؓ نے معراج کاواقعہ اوراسراء الی بیت المقدس کاواقعہ سنایا ہے راویوں میں سے کسی راوی کے ذہن میں دونوں مضمون کا خلط ہوکر ایک واقعہ بن گیا ۔ ادھر اسے اچھی طرح یا دتھاکہ اسراء کی روایت میں حضرتؐ نے بیت المقدس جانے کابھی اوروہاںسے آنے کابھی ذکرکیا تھا ۔اس وجہ سے اس نے مجبوراً یہ سمجھا کہ معراج میں آسمان سے واپسی کے وقت آپ بیت المقدس ہی میں اترے تھے اوروہاں سے پھر مکہ تشریف لے گئے تھے ۔
اس جگہ یہ سوال پیداہوتا ہے کہ اس قدر خلط ہواکیونکر ؟اسکاجواب یہ ہے کہ عربی زبان میں خواہ آسمان پر جانے کا ذکر ہو یا زمین پر سفرکرنے کا ۔اگر رات کو کوئی سفر ہوتو اسے اسراء کہیں گے ۔اسوجہ سے معراج کے متعلق بھی اسراء کالفظ بولاجاتاتھا اوربیت المقد س کی طرف جانے کے واقعہ کے متعلق بھی اسراء کالفظ استعمال کیاجاتا تھا کیونکہ یہ دونوں واقعات رات کے وقت ہوئے تھے ۔اب ادہر دونوں کے لئے اسراء کالفظ بولاجاتا تھااورادھر ان دونوں نظاروں کی کئی باتیں آپس میں ملتی جلتی تھیں ۔مثلاً یہی کہ اس میں بھی براق کاذکر آتا ہے اوراس میں بھی ۔اسرا ء بیت المقدس میں بھی انبیاء سے ملنے کاذکرآتاہے اورمعراج میں بھی ۔اسراء بیت المقدس میں بھی نماز پڑہانے کاذکر آتا ہے اورمعراج میں بھی ۔اسراء کی بعض روایتو ں میں بھی دوزخ جنت کے بعض نظارے دیکھنے کا ذکر آتاہے اورمعراج کے واقعہ میں بھی ۔غرض نام اورکام کی تفصیلات میں ایک حد تک اشتراک پایاجاتاتھا اورروحانی عالم کے عجیب وغریب نظاروں کاذکر تھا ۔اس لئے بعض راویوںکے ذہن میں خلط ہوگیا اورانہوں نے دونوں واقعات کوایک ہی سمجھ کر ملاکربیان کرناشروع کردیا ۔لیکن جن کاحافظہ زیادہ مضبوط تھا انہوںنے اگرمعراج کاواقعہ صحابی سے سناتھا توروایت شرو ع ہی اس طر ح کی کہ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گھر سے اٹھاکر آسمان کی طرف لے جایاگیا۔اوراگرانہوں نے صحابی سے اسراء بیت المقدس کاواقعہ سناتھا توانہوں نے بیت المقدس تک کاواقعہ بیان کیا۔آگے آسمان پر جانے کاذکرنہیں کیا ۔
اس کاثبوت کہ دونوں واقعات کوصحابہ میں اسراء کے نام سے پکاراجاتاتھا ۔احادیث سے مل جاتا ہے ۔مسند احمد بن حنبل ۔بخاری مسلم اورابن جریر میں مالک بن صعصہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا ۔ اَنَّ نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدَّثَھُمْ عن لیلۃٍ اُسری بہ ۔قال بینماانا فی الحطیم وربما قال قتادہ فی الحجر مُضْطَجِعاً اذااقانی آتٍ فجعل یقول لصاحبہ الاوسط بین الثلاثۃ فاتانی فشقَّ مابین ھذہٖ وھیہٖ یعنی من ثمغرۃ نحرہٖ الی شحرتہٖ فاستخرج قلبی قاتیتُ بطستٍ من ذھبٍ مملوء ۃ ایماناً وحکمۃً فغسل قلبی ثم حثی ثم اُعِیدَ ثم اُتیتُ بدآبَّۃٍ دون البغلِ وفوق الحمارِ یقع خطوہ عند اقصی طرفہ ٖ فحملت علیہ فانطلق بی جبریل حتی اُبِّیَ بی الی السماء الدنیا ۔الخ۔(مسند احمد بن حنبل جزو رابع ص ۲۰۸نیز خصائص الکبریٰ جلد او ل ۱۶۵)
یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسراء کاواقعہ ایک دفعہ ہمیں سنایا ۔آپ نے فرمایا ایک دفعہ میں حطیم میں سورہاتھا (خانہ کعبہ کاوہ حصہ جوعمارت سے باہرچھوڑاگیاہے ۔مگر طواف کے وقت اسے بھی طواف میں شامل رکھا جاتاہے)قتادہ جو تیسرے راوی ہیں ان سے اگلاراوی کہتا ہے کہ اب مجھے یہ یاد نہیں کہ قتاد ہ نے حطیم کالفظ بولاتھا یا حجر کا(یہ بھی اسی کانام ہے)خیرتورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں وہاں دوآدمیوں کے ساتھ سورہاتھا کہ میرے پاس ایک شخص آیا اوراپنے ایک ساتھی سے کہنے لگا کہ ان تین سونے والوں میں سے جودرمیان میں سورہاہے وہ ہے ۔اس پر وہ آگے بڑھا اورمیرے اس حصہء بدن سے اس حصہ بدن تک اس نے ایک شگا ف دیا ۔آپ نے اس کے ساتھ جگہ بتانے کے لئے دونوں ہنسلیوں کے درمیان کی نرم جگہ سے لے کر ناف کے نیچے تک ہاتھ سے اشارہ کیا کہ اس حد تک انہوں نے شگاف دیا ۔پھر فرمایا کہ شگاف دے کر اس نے میرے دل کو باہر نکا لا ۔پھر ایک سونے کی سینی لاائی گئی جس میں علم اورحکمت بھرے ہوئے تھے ۔پھر اس شخص نے پہلے میرادل دھویا پھر میرے اندر وہ نور بھردیاگیا۔پھر ہرچیز اپنی اپنی جگہ پر رکھ دی گئی۔پھر ایک چوپایہ لایاگیا جوگدھے سے اونچا اورخچر سے چھوٹاتھا ۔اس کے قد م اس حد نظرتک جاکر پڑتے تھے ۔مجھے اس جانور پر سوار کردیاگیا اورجبرائیل مجھے لے کر چلے ۔یہاں تک کہ ہم پہلے آسمان پر پہنچ گئے ۔
اسی قسم کی روایت بخاری اوران جریر میں بھی انسؓ سے بیان کی گئی ہے ۔اس میں بھی کہا گیا ہے کہ اسراء کی رات کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ سے سیدھے آسمان کی طرف لے جائے گئے (خصائص جلد اول ص ۱۵۳)
اس روایت میں صرف یہ الفا ظ استعمال ہوئے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعہ اسراء ہم سے بیان کیا ۔لیکن آگے بیت المقدس کاکوئی ذکر نہیں بلکہ سیدھا آسمان تک جانے کاذکر ہے اورساری حدیث میں معراجِ آسمانی ہی کاذکر ہے جس سے معلو م ہوتاہے کہ صحابہ کبھی اسراء کالفظ بولتے تھے اوران کی مراد صرف معراج ہوتی تھی ۔اس کے برخلاف اس کابھی ثبوت ملتا ہے کہ اسراء کالفظ وہ صرف بیت المقدس کی طرف جانے کے لئے بولتے تھے ۔چنانچہ حدیث جابرؓمیں جوبخاری اورمسلم میں مروی ہے اسراء کالفظ صرف بیت المقدس تک جانے کے لئے استعمال ہواہے (خصائص جلد او ل ص ۱۵۷)
اسی طرح شدا د بن اوس کی روایت میں جوطبرانی ۔بیہقی اورکئی کتب حدیث نے بیان کی ہے یہ لفظ صرف بیت المقدس تک جانے اوروہاں سے مکہ واپس آنے کے متعلق بولاگیا ہے۔(خصائص جلد او ل ص ۱۵۸و۱۵۹)
ان دونوں قسم کی روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ میں اسراء کالفظ دونوں واقعات کی نسبت مستعمل تھا ۔پس اس لفظ کے استعمال اوربعض تفصیلات کے اشتراک کیوجہ سے بعض راویوں کو یہ دھوکا آسانی سے لگ سکتا تھا کہ یہ دونوں واقعات ایک ہی ہیں اوراس کی وجہ سے انہوں نے دونوں قسم کی روایا ت کوملاکربیان کردیا اوراس سے بعد میں آنے والے لوگوں کو یہ دھوکالگ گیا کہ شاید یہ ایک ہی واقعہ کی تفاصیل ہیں ۔
علاوہ ازیں روایات پر تنقیدی نگاہ ڈالنے سے بھی یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ انہیں خلط ہوگیا ہے۔کیونکہ جن روایات میں پہلے بیت المقدس جانے اوروہاںسے آسمان پر جانے کاذکر ہے انہی میں یہ بات بھی بیان ہوئی ہے کہ بیت المقدس میں آپ کو دوسرے انبیاء سے ملایا گیا ان میں آدم بھی تھے اورحضرت موسیٰ بھی اورحضرت عیسیٰ بھی اورحضرت ابراہیم بھی ۔لیکن آسمان پرجانے کے بعد پھر بیان ہواہے ۔کہ مختلف آسمانو ں پر آپ نے انہی انبیاء کو دیکھا اورپہچانانہیں۔اگرایک ہی وقت میں یہ دونوں واقعات ہوئے تھے تواول توآسمان پر یہ انبیاء رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کس طرح پہنچے ۔اوردوسرے ان کو تھوڑی دیر پہلے دیکھنے کے بعد آپ نے کیوںنہ پہچانا۔دو مختلف وقتوں کی رویتوں میں تویہ امر سمجھ میں آسکتاہے کہ ایک نظارہ دوسرے سے مختلف ہو ۔لیکن ایک ہی وقوت میں دونوں نظاروں کی صورت میں یہ بات بعید از قیاس ہے ۔پس یہ اندرونی شہادت بھی اس بات کی دلیل ہے کہ دوالگ الگ واقعات کے بارہ میں راویوں کی ذہن میں خلط ہوگیا ہے ۔میرے اس خیال کی تائید بعض پرانے علماء کی آراء سے بھی ہوتی ہے ۔ چنانچہ خصائص الکبریٰ جلد اول کے ص ۱۸۰پرلکھا ہے کہ ابونصر قشیری ابن العربی اوراَوربہت سے علماء کاخیال ہے کہ اسرا ء دودفعہ ہواہے ۔اس کی وجہ سے احادیث میں اختلاف ہوگیا ۔
اس وقت تک میں یہ ثابت کرچکاہوں ہ تاریخی شہادت سے جس سے دونوں واقعات کے مختلف زمانوںکے ثابت ہوتے ہیں ۔ اورقرآ ن کریم کی شہادت سے کہ اس میں معراج کاواقعہ الگ اور خالی بیت المقدس تک جانے کاواقعہ الگ بیان کیاگیاہے ۔اوراحادیث کی اندرونی شہادتو ں سے ایہ امر ثابت ہے کہ یہ دونوں واقعات الگ الگ ہیں ۔اورنام اورتفاصیل کے اشتراک کی وجہ سے دھوکاکھاکر بعض راویان حدیث نے انکو ایک واقعہ سمجھ لیا ہے ۔اب میں اس اسراء کسی قدر تفصیل سے ذکرکرتاہوں جس کا اس سورۃ میں ذکر کیا گیا ہے ۔
میرے نزدیک اسرا ء بیت المقدس کاواقعہ اپنی تفاصیل کے ساتھ حدیث انس ؓ میں جو ابن جریر نے اپنی تفسیر میں نقل کی ہے نہایت صحیح طور پر بیان ہواہے اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں ۔
عن انس ابن مالک قال لما جاء جبریل علیہ السلام بالبراق الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فکانھا ضربت بذنبھا فقال لھا جبریل مہ یابراق فواللہ ان رکبک مثلہ فسار رسول اللہ ﷺفاذاھو بعجوزناء عن الطریق ای علی جنب الطریق ۔فقال ماھذہ یاجبریل قال سریا محمد فسار ماشاء اللہ ان یسیر فاذاشیء یدعوہ متنحیا عن الطریق یقول ھلم یامحمد قال جبریل سریا محمد فسار ماشاء اللہ ان یسیر۔قال ثم لقیہ خلق من الخلائق فقال احدھم السلام علیک یااول والسلام علیک یااخروالسلام علیک یاحاشر فقال لہ جبریل ارددالسلام یامحمد قال فرد السلا م ثم لقیہ الثانی فقال لہ مثل مقالۃ الاولین حتی انتھی الی بیت المقدس فعرض علیہ الماء وااللبن والخمر فتناولا رسول اللہﷺ اللبن۔فقال لہ جبریل اصبت یامحمد الفطرۃ ولو شربت الماء الغرقت وغرقت امتک ولو شربت الخمر لغویت وغرت امتک ثم بعث لہ ادم فمن دونہ من الانبیاء فامتھم رسول اللہ ﷺ تلک اللیلۃ۔ثم قال لہ جبریل اماالعجوز التی رایت علی جانب الطریق فلم یبق من الدنیا الا بقدر مابقی من عمر تلک العجوز واماالذی ارادان تمیل الیہ فذک عدواللہ ابلیس اراد ان تمیل الیہ واماالذین سلمواعلیک فذک ابراھیم و موسیٰ و عیسیٰ۔(ابن جریر جلد ۱۵ص ۶)
ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں اس روایت کو نقل کرکے لکھا ہے کہ وھکذاراوہ الحافظ البیہقی فی دلائل النبوۃ من حدیث ابن وھب وفی بعض الفاظہ نکارۃو غرابۃ۔طریق اخری من انس ابن مالک وفیھا غرابۃونکارۃ جداوھی فی سنن النسائی المجتنیٰ ولم ارھانی الکبیر (ص ۸و۹ جلد ششم)
یعنی ابن جریر انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ۔جب جبرائیل ؑ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس براق لائے تو اس نے اپنی دم ہلائی یعنی کچھ انکار کیا ۔تواسے جبرائیلؑ نے کہا آرام سے کھڑارہ ۔اے براق خداکی قسم تجھ پرا یساسوار کبھی نہیں بیٹھا ۔تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر چڑھ کرروانہ ہوئے ۔توراستے میں کیادیکھتے ہیں کہ ایک بڑھیا راستہ کی ایک جانب کھڑی ہے ۔توآپ نے کہا اے جبراائیل یہ کون ہے ۔توجبرائیل نے کہا ۔چلئے چلئے اے محمد ؐ!(یعنی موسیٰ کی طر ح سوال کرنے سے منع کیا )راوی کہتاہے پھر آپ چلے جتنا کہ اللہ تعالیٰ کامنشاء تھا ۔توکیا دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص راستہ کی ایک جانب سے آپ کو بلارہا ہے اورکہتاہے کہ ادہر آئیے اے محمدؐ! اس پر جبرائیل نے پھر آپ کو بولنے سے منع کیا اورکہا کہ اے محمد ؐ چلئے چلئے اورکچھ جواب نہ دیجئے ۔پھر آپ آگے چلے جتنا کہ خداکی مرضی تھی ۔راوی کہتاہے کہ پھر آپ کو اللہ تعالیٰ کی مخلو ق میں سے کچھ لوگ ملے ۔توانہوں نے کہا ۔اَلسلام علیک یااَوَّلُ۔السلام علیک یا اٰخر۔السلام علیک یاحاشر ُ۔اس پرجبرائیل نے کہا ۔اے محمد ؐ ان کو سلام کاجوابدیجئے ۔توآپ نے ان کو سلام کا جواب دیا ۔پھر آپ کو ایسی ہی ایک اَور جماعت ملی ۔اس نے بھی پہلی جماعت کے الفاظ میں آپ کوسلام کہا ۔(پھر آگے چلے)یہاں تک کہ آپ بیت المقدس تک پہنچے ۔توآپ کے سامنے حضرت جبرائیل نے تین پیالے پیش کئے ایک پانی کا ۔ایک دودھ کا اورایک شراب کا ۔آپ نے دودھ لے کر پی لیا ۔توآپ کو جبرائیل نے کہا آپ نے فطرت صحیحہ کوپالیا ۔اگرآپ پانی پی لیتے توآپ بھی غرق ہوتے اورآ پ کی امت بھی غرق ہوتی ۔اوراگرآپ شراب پی لیتے تواآپ بھی گمراہ ہوتے اورآپ کی امت بھی گمراہ ہوجاتی ۔پھر آپ کیسامنے اوردیگر انبیاء لائے گئے اوراس رات انکو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی ۔پھر آپ کو جبرائیل نے کہا کہ جو بڑھیا آپ نے راستہ کے ایک جانب دیکھی تھی وہ دنیا تھی ۔اوراس کی عمر سے اسی قد رباقی ہے جوکہ اس بڑھیا کی عمر باقی ہے ۔اورجو شخص رستہ سے ہٹ کر آ پ کو بلاتاتھا ۔تاآپ اسکی طرف مائل ہوں وہ خداکادشمن ابلیس تھا ۔اوروہ لوگ جنہوں نے آپ کو السلام علیک کہا وہ ابراہیم موسیٰ۔عیسیٰ وغیر ہ تھے ۔
یہاں تک ابن جریر کی روایت ختم ہوئی ۔اس کے بعد ابن کثیر کے حوالے سے جو عبارت لکھی گئی ہے اس کایہ ترجمہ ہے کہ حافظ بیہقی نے بھی دلائل النبوت میں ابن وہب سے یہی روایت بیان کی ہے مگراس میں بعض الفاظ قابل اعتراض ہیں اوردوسرے اسناد سے ان کی تصدیق نہیں ہوتی اورایک اَورسند کے ساتھ انہوں نے انس بن مالک سے یہی روایت کی ہے مگر اس میں بعض ایسی باتیں بیان کی ہیں جن کی دوسری احادیث سے تصدیق نہیں ہوتی ۔اوریہ روایت سنن نسائی کی ایک خلاصہ میں بھی میں نے دیکھی ہے ۔مگربڑی سنن نسائی میں وہ حدیث نہیں ملی۔
یہ وہ حدیث ہے جوہمارے لئے معیاد کے طور پر ہے کیونکہ میرے نزدیک یہ سب سے زیادہ سچی اورصحیح ہے ۔اوراس میں صرف ایک غلطی ہے ۔اوروہ یہ کہ جہاں پیالے پیش کرنے کاذکر ہے وہاں پانی کے بعد دودھ اورپھر شراب کاذکرکیا ہے مگرابن کثیر نے اپنی اس روایت کواپنی کتاب کی جلد ششم ص ۹۰۸پر جس طرح نقل کیا ہے اس میں پانی کے بعد شراب اورپھر دو دھ کاذکرکیا ہے ۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض نسخوں میں اسی ترتیب سے پیالوں کا ذکرکیا گیا ہے ۔میں آگے چل کربتائوں گاکہ اس معمولی تغیر کی اصلا ح کیوں ضروری ہے اس وقت صرف یہ بتاناچاہتاہوں کہ بعض دوسری روایات میں زورسے اس امر کو بیان کیاگیاہے کہ پہلے پانی کاپیالہ اورپھر شراب کاپیالہ اورپھر دودھ کاپیالہ پیش کیاگیا تھا ۔چنانچہ الطبرانی اورابن مردویہ نے صہیب بن سنان سے روایت کی ہے جس کے یہ الفاظ ہیں ۔
قال لَمَّاعُرِضَ علی رسول اللہ ﷺلیلۃَ اُسری بہِ المائُ ثُمَّ الخمر ثم اللَّبَنَ اَخَذَ اللَّبَنَ(خصائص الکبریٰ جلد اول ص ۱۵۹)یعنی صہیب روایت کرتے ہیں کہ جس رات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسرا ء ہواتھا ۔آپ کے سامنے تین پیالے پیش کئے گئے تھے ۔پہلے پانی کا اس کے بعد شرا ب کااوراس کے بعد دودھ کا ۔
اس حدیث میں پانی کے بعد شراب اوراس کے بعد دودھ کے پیش ہونے کو بالجزم بیان کیاگیا ہے ۔پس اس حدیث کی بناء پر اورابن کثیر نے انس کی روایت کو جن الفاظ میں نقل کیا ہے ۔اس کی بنا ء پر یقین سے کہاجاسکتا ہے کہ اس روایت میں بھی پہلے پانی۔پھر شراب پھردودھ کاذکر ہے مگر بعض نسخوں میں الٹ لکھا گیاہے ۔پس میں اس روایت کے جومعانی بیان کروں گا ۔ان میں اس امر کومدنظررکھوں گا کہ اس روایت میں بھی پہلے پانی پھر شراب اورپھر دودھ کا ذکر ہے اوراس کے الٹ جولکھا گیاہے وہ کسی نسخہ میں کتابت کی غلطی کی وجہ سے سہواً لکھاگیا ہے ۔
ابن کثیر کی تصدیق دُرِّمنثورسے بھی ہوتی ہے ۔اس میں بھی اس روایت کو بیان کرتے ہوئے پہلے پانی پھر شرا ب پھر دودھ کے پیش کئے جانے کاذکر ہے۔جیساکہ میں نے اوپر بیان کیا ہے یہ روایت نہایت صحیح ہے اوراس کے صحیح ہونے کی اندرونی شہادت موجود ہے ۔اوروہ شہادت یہ ہے کہ ا س میں ذکر ہے کہ پہلے آپ نے ایک بڑھیا دیکھی پھر شیطان دیکھا پھرانبیاء کی جماعتوں کو دیکھا اس کے بعد بیت المقدس پہنچے ۔پھرپانی اورشراب اوردودھ تین چیزیں آپ کے سامنے پیش کی گئیں ۔رسول ا للہؐ نے پانی اورشراب کے قبول کرنے سے انکار کردیااوردودھ لے لیا ۔اس پر جبرائیل نے کہا آ پ نے صحیح فطرت کوپالیا ۔اگرآپ پانی پیتے توغرق ہوجاتے اورآپ کی امت بھی غرق ہوجاتی ۔اگرشراب پیتے توآپ گمراہ ہوجاتے اورآپ کی امت بھی گمراہ ہوجاتی ۔اورآپ نے جودودھ لیا ہے گویاآپ فطرت صحیحہ کے راستہ پر چل پڑے ۔پھر وہ ان نظاروں کی تعبیر کرتے ہیں جوپہلے دیکھے تھے اورکہتے ہیں کہ وہ عورت دنیا تھی ۔جس نے آپ کوبلایا۔اس کے بعدراستہ سے ہٹ کر کھڑاہواشخص جس نے آپ کو بلایا ابلیس تھا ۔اسکے بعد جنہوں نے سلام کیا وہ خداتعالیٰ کے نبی تھے ۔
ان تعبیروں کو دیکھو کہ کیسی صحیح ہیں اورقرآن کریم کے مطابق ہیں ۔پانی دنیا کاقائم مقام ہوتا ہے کیونکہ پانی سے حیات ہوتی ہے ۔جیسے فرمایا ۔وَجَعَلْنَا مِنَ المَآئِ کُلَّ شَیئٍ حَیٍّ۔(انبیاء ع ۳)پانی جب لَبن کے مقابل میں آئے تواس سے مراد دنیا کی مال و دولت ہوتی ہے ۔اورشراب شیطانی کاموں پر دلالت کرتی ہے جیسے فرمایا ۔اِنَّمَاالْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ۔(مائدہ ع ۱۲)۔دودھ ماں کی چھا تی سے بنتاہے اس میںکسی غیر چیز کی ملونی نہیں ہوتی اس لئے وہ فطرت صحیحہ پردلالت کرتا ہے ۔
اب دیکھو اس میں کیسی ترتیب نظرآتی ہے ۔پھر تعبیر نہایت صاف اورصحیح ہے ۔پہلے آپ نے عورت کودیکھا تھا ۔اوراس کی تعبیر جبرائیل علیہ السلام نے دنیا بتائی تھی ۔اسکے مقابل پر پہلے پانی پیش کیا گیا ۔اوراس کی تعبیر بھی دنیا کی گئی ۔قرآ ن کریم میں بھی پانی کو دنیا سے تشبیہ دی گئی ہے ۔فرماتاہے ۔وَاضْرِبْ لَھُمْ مَثَلَ الْحٰوۃِالدُّنْیَا کَمَآئٍ اَنْزَلْنٰہُ(کہف ع ۶)انہیں دنیوی زندگی کی مثال سناکہ وہ پانی کی طرح ہے جسے ہم اتارتے ہیں ۔عورت کے بعد آپ ن شیطان کو دیکھاتھا ۔اسی ترتیب سے پانی کے بعد شراب کاپیالہ پیش کیاگیا اوربتایاگیا کہ جس طرح شیطان غاوی ہے اسی طرح شراب بھی غاوی ہے ۔اس کے بعد کشف کے پہلے حصہ میں انبیاء کی جماعت کو دیکھا تھا اورانہوں نے سلام کیاتھا ۔یعنی سلامتی کی دعاکی تھی ۔اس کے مقابل پر پیالوں میں سے دودھ کا پیالہ تیسرے نمبر پرپیش کیا گیا جس میں اسی طرف اشارہ تھا کہ آپ کی امت علوم الٰہیہ سے ہمیشہ حصہ لیتی رہے گی۔اورتباہی سے بچی رہے گی ۔پس یہ ترتیب اورتعبیر بتاتی ہیں کہ یہ خبریقینا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی گئی ہے ۔
اب میں اسرا ء کے واقعہ کے متعلق جوکچھ قرآن کریم اورعلوم روحانیہ سے سمجھتاہوں بیان کرتاہوں ۔میرے نزدیک اسراء بیت المقدس ایک لطیف کشف تھا اوراس کے ثبوت مندرجہ ذیل ہیں۔
اول۔وہی حدیث انس ؓ کی جسے میں نے سب روایتوں میں سے تفصیل کے لحاظ سے بہترقرار دیا ہے ۔اس میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ایک بڑھیا کودیکھا اورپھر ایک اورشخص کو دیکھا ۔اورپانی اورشراب اوردودھ کے پیالے دیکھے اوران میں سے دودھ کاپیالہ پیا۔ان تمام کی حضرت جبرائیل تعبیر کرتے ہیں ۔اگر یہ کشف نہ ہوتا توتعبیرکاکیا مطلب ؟ اگر آپ کاسفر مادی جسم کے ساتھ تھا تواول آپ نے دنیا کو عورت کی شکل میں کیونکر دیکھا؟ کیاقرآن و حدیث سے یہ ثابت ہوتاہے کہ دنیا اصل میں ایک عورت ہے ۔دنیاکو عورت کی شکل میں دیکھنا صاف بتاتاہے کہ یہ ایک لطیف کشف تھا ۔اگروہ کشف نہ ہوتاتوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوراً جبرائیل سے کہتے کہ اے جبرائیل کس بات کی تعبیرکرتے ہو ۔اس عورت کوتومیں نے ابھی ابھی اپنی جسمانی آنکھوں سے دیکھا ہے جسمانی آنکھ سے دیکھی ہوئی چیز کی تم تعبیر کس طرح کرتے ہو ۔مگرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے جس سے ظاہرہوتاہے کہ آپ بھی اسے کشف ہی سمجھتے تھے ۔پانی کو ردّکرنے پر جبرائیل کاخوشی کااظہار کرنابھی اس امر کی تائید کرتاہے ۔ کیونکہ جاگتے ہوئے توآنحضرت صلعم ہمیشہ پانی پیتے تھے ۔اگرآپ جسدِ عنصر ی میں وہاں گئے تھے توپانی پینے سے آپ کی امت کیوں غرق ہوتی ؟
دنیوی زندگی میں آپ نے ہزروں دفعہ پانی پیا تھا۔اگرا س عمل سے امت نے غرق ہوناتھاتوپھر اس کے بچائو کی کیا صورت رہ جاتی ہے ۔
(۲)دوسراثبوت اس کایہ ہے کہ قرآن کریم نے بھی اس کا نام رؤیا ہی رکھا ہے ۔جیسے اسی سور ۃ کے چھٹے رکوع میں فرمایا ۔وَمَاجَعَلْنَاالرُّئْ یَاالَّتِٓیْ اَرَیْنٰکَ اِلَّا فِتْنۃًلِّلنَاسِ۔کہ یہ رؤیا لوگوں کے فتنے کے لئے تھی ۔چنانچہ س آیت کیوجہ سے کئی صحابہ اورسابق علماء نے بھی اسے رؤیاہی قرار دیا ہے ۔چنانچہ ابن اسحاق اورابن جریر نے حضرت معاویہؓ سے روایت کی ہے کہ اِذَاسُئِلَ عَنْ مَسْریٰ رسول اللہ ِ ﷺقال کانَتْ رُئْ یَامنَ اللہِ صَادِقًَ۔(درمنثورجلد ۴ ص ۱۹۷)یعنی جب حضر ت معاویہ ؓ سے اسراء کے متعلق پوچھاگیا توآپ نے فرمایاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک رؤیاتھی جو پوری ہوگئی ۔حضرت عائشہؓ کا بھی یہی مذہب بتایاجاتاہے ۔(ابن ہشام ذکرالاسراء وزاد المعاد جز اول)
(۳)تیسراثبوت اس کایہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب میں نے یہ بات لوگوں کو سنائی۔تولوگوں نے کہا کہ اگرآپ بیت المقدس سے ہوکر آئے ہیں تواس کانقشہ بتائیں ۔توآپ فرماتے ہیں کہ میں بالکل بیت المقدس کو نہ جانتاتھا ۔اگرآنحضرت صلی اللہ علیہ سلم فی الحقیقت ظاہری طورپر بیت المقدس میں گئے تھے توآپ کو چاہیئے تھا کہ آپ نقشہ بتادیتے ۔یہ تونہ فرماتے کہ میں نہ جانتا تھا ۔پھر آنحضرت صلعم فرماتے ہیں کہ ان کے سوال کرنے کے بعد مجھ پر کشف کی حالت طاری ہوئی ۔اورکشف میں بیت المقدس کا نقشہ سامنے کردیاگیا۔تومیں اس کو دیکھتاجاتاتھا اورپھر لوگوں کو بتاتاجاتاتھا ۔چنانچہ جابربن عبداللہ کی راویت ہے ۔آپ نے فرمایا ۔فَجَلَّی اللہُ لِیَ البَیْتُ المقدَّسَ فَطَفِقْتُ اُخْبِرُھُمْ واَنااَنْظُرُ اِلیہ۔کہ اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کومیرے سامنے کردیا۔میں اس کو دیکھتا اورلوگوںکوبتاتاجاتا تھا ۔(ابن کثیر جلد ۶ص ۱۸)
اس حدیث سے ظاہرہے کہ چونکہ وہ کشف تھا آ پ سمجھتے تھے کہ ممکن ہے جومیں نے دیکھا ہے اس طر ح ظاہری طورپر نہ ہو۔پس آپ نے اسکے بیان کرنے سے ہچکچاہٹ کی ۔مگرچونکہ اس واقعہ کے بیان کرنے سے لوگوں میں مخالفت اوراستہزاکاہیجان پیداہوگیاتھا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لو اب ہم تم کواصل صورت میں بیت المقد س دکھادیتے ہیں ۔چنانچہ دوبارہ کشف ہو ااورآپ نے اس کے مطابق لوگوںکو بیت المقدس کانقشہ بتادیا۔جس کی کفار میں سے واقف کار لوگوں نے تصدیق کی ۔
متعصب عیسا ئی اس موقعہ لکھتے ہیں کہ بیت المقدس کے نقشے اس وقت بن چکے تھے ۔ممکن ہے یہ درست ہو ۔مگرذرایہ مصنف کسی ایسے شہر کے متعلق نقشہ دیکھ کر جوان پر سوال کئے جائیں ان کاجواب تودے کر دیکھیں ۔
اس جگہ یہ امر یاد رکھنے کے قابل ہے کہ گوقرآن کریم میں اس کے متعلق رؤیاکالفظ آیا ہے مگرا س لفظ سے دھوکا کھا کر اسے عام خوابوں کی طرح نہیں سمجھنا چاہیئے ۔کیونکہ عربی میں رؤیا کامفہوم اَورہے اردومیں اَور۔اردومیں تورؤیا اس نظارہ کو کہتے ہیں جو انسان سوتے ہوئے دیکھتا ہے ۔لیکن عربی میں کشف اورعام خواب دونو ںکے لئے رؤیاکالفظ بولاجاتاہے ۔اورکشف عام رؤیا سے مختلف ہوتاہے ۔وہ سوتے میں نہیں دیکھاجاتا بلکہ بیَن النَّوم والیقطہ کی حالت می دیکھاجاتاہے ۔یعنی جبکہ ایک ربودگی کی سی حالت توانسان پر طاری ہوتی ہے مگر وہ سونہیں رہاہوتا ۔بلکہ اس کے ظاہری حواس بھی اس وقت اپناکام کررہے ہوتے ہیں ۔بلکہ بعض دفعہ دوسرے سے باتیں کرتے کرتے ایک نظارہ نظرآجا تا ہے ۔انبیاء کاکشف دوسرے لوگوں کے کشوف سے زیادہ لطیف ہوتاہے اوروہ کشفی نگاہ سے دوردور کے مادی امورکو بعینہٖ معائنہ کرلیتے ہیں ۔
کشف کی بھی تین قسمیں ہوتی ہیں ۔
(۱)ایسا کشف جس میں دکھائے جانے والے نظارے اسی شکل میں دکھائے جاتے ہیں ۔جس شکل میں کہ وہ مادی دنیا میں موجود ہوتے ہیں اوروہ کشف بالکل ایساہوتا ہے جیسے دوربین سے دورکی چیز دیکھ لی جاتی ہے ۔
(۲)ایساکشف جس کا کچھ حصہ توایساہوتاہے جواوپر بیان ہواہے اورکچھ حصہ تعبیر طلب ہوتاہے ۔
(۳)ایسا کشف جو ساراکاساراتعبیر طلب ہوتا ہے ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کایہ کشف دوسری قسم کاتھا یعنی بعض حصے تو اسی طرح دکھائے گئے تھے جس طرح کہ یہ مادی دنیا میں واقع ہورہاتھا ۔اوربعض حصے تعبیر طلب تھے ۔تعبیر طلب حصوںکاذکرتو میں اوپر کرآیا ہوں ۔ظاہری شکل میں دکھائے جانے والے حصہ کے بارہ میں احادیث میں آتا ہے کہ واپسی کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ایک قافلہ مکہ کی طرف آرہاہے ۔اوراس قافلہ والوں کاایک اونٹ گم ہوگیا ہے جس کی وہ تلاش کررہے ہیں ۔اورچند دن بعد معلوم ہواکہ بعینہٖ یہ واقعہ مکہ کے ایک قافلہ سے پیش آیا تھا ۔چنانچہ جب وہ قافلہ مکہ پہنچا توانہوں نے اس امرکوتسلیم کرلیا (الخصائص الکبریٰ جلد او ل ص ۱۵۸و۱۵۹)
اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں کشوف کے متعلق خود صاحب تجربہ ہو ںاوریہ امور اپنے مشاہد ہ کی تصدیق سے لکھ رہاہوں ۔
اب میں یہ بتاتاہوں کہ اس کشف کا مقصد کیا تھا ؟میرے نزدیک اس کشف میں ہجرت مدینہ کی خبر دی گئی تھی ۔اوربیت المقدس جو آپ کو دکھا یاگیاتھا اس سے مراد مسجد نبویؐ کی تعمیر تھی ۔جسکو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیت المقدس سے بھی زیادہ عزت دیجا نے والی تھی ۔اوریہ جو دکھا یا گیا کہ آپ نے سب انبیاء کی امامت کرائی اس میں یہ بتایاگیا تھا کہ آپ کا سلسلہ عربوں سے نکل کر دوسری اقوام میں بھی پھیلنے والاہے اورسب انبیاء کی امتیں اسلام میں داخل ہوں گی ۔اوریہ اشاعت مدینہ میں جانے کے بعد ہوگی ۔اوراس میں اس طرف بھی اشار ہ تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بیت المقدس کے علاقہ کی حکو مت دی جائے گی ۔چنانچہ تعبیر الرؤیا کی کتب میں لکھا ہے کہ تَدُلّّ رُؤْیَۃَ کُلَ مَسْجِدٍ علی جِھْتِہٖ وَالتَّوَجُّہ اِلَیْھَا کَالمَسْجِدِ الاقصیٰ والمسجد الحرام ومسجد دِمْشَ ومسجد مِصْرَ وماشاکل ذٰلک ورَبُّمَا دَلَّتْ عَلیٰ عُلَمَائِ جھَاتِھِمْ اَوْ مُلُوکِھِمْ اَوْ نُدَّابِ مُلُوکِھِمْ(تعطیر الانام زیر لفظ مسجد ۔جلد دوم )یعنی رؤیا میں مسجد دیکھنے سے مراد کبھ و ہ جہت ہوتی ہے اوراس طرف جانامراد ہوتاہے ۔جیسے مسجد اقصیٰ وکو دیکھنا یامسجد حرام کو دیکھنا یامسجد دمشق یامسجد مصر کو دیکھنا ۔اورایس ہی اورمساجد کودیکھنا اورکبھی مسجد سے مراد وہاں کے علما ء یابادشاہ یاگورنر ہوتے ہیں ۔
اب میں ایک ایک کرکے ان معنو ں کولیتاہوں کہ وہ کسطرح اورکس دلیل سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں پورے ہوئے
پہلی تعبیر میں نے یہ کی تھی کہ مسجد اقصیٰ سے مراد اس جگہ مسجد نبوی ؐ ہے ۔اوریروشلم سے مراد مدینہ ہے ادہر جانے سے مراد آپ کی ہجرت ہے ۔اوراللہ تعالیٰ نے سُبْحٰن کہہ کر اس رؤیا کاذکرکیا ہے جس سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ ہجرت اللہ تعالیٰ کی سُبوحیت کااظہارکرنے والی ہوگی ۔یہ سبحان کالفظ بھی بتاتا ہے کہ اس نظارہ میں ایک پیشگوئی تھی کیونکہ ظاہر میں بیت المقدس کودیکھنے سے سبوحیت ثابت نہیں ہوتی ۔لیکن مدینہ میں جاکر اسلامی حکومت کاقیام چونکہ بہت سی ان پیشگوئیوں کوپوراکرنے والاتھا جوقرآن کریم میں بیان ہوچکی تھیں۔اس واقعہ سے بے شک اللہ تعالیٰ کی سبوحیت ظاہر ہوئی تھی اوراب تک ہورہی ہے ۔
غرض سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی کہہ کرفرمایاکہ پا ک ہے وہ جولیجائے گا اپنے بندہ کو راتوں رات مسجداقصیٰ یعنی اسی کی مشابہ ایک مسجد کی طرف تاکہ وہ پیشگوئیاں پوری ہوں جن کے لئے ہجرت کرنی ضروری ہے ۔اوراللہ تعالیٰ دنیا کو دکھادے کہ کس طرح اس کی بات پوری ہواکرتی ہے ۔مثلاً جنگ و جہاد وغیرہ کی خبریںجوہجرت کے ساتھ تعلق رکھتی تھیں ۔پھرا سلامی حکومت کی خبر وغیرہ وغیرہ۔
لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا بھی اسی امر پردلالت کرتا ہے کہ یہ کوئی ایساسفر ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے خاص نشان ظاہر ہوں گے ۔اوروہ ہجرت ہی کاسفر تھا جس نے اسلام کامستقبل جودنیاکی نگاہ سے پوشیدہ تھا ایسے شاندار طورپر ظاہرکردیا ۔
اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ میں بھی اسی مضمون کی تائید ہوتی ہے ۔کیونکہ بیت المقدس کو محض کشف میں دیکھ لینا خداتعالیٰ کے سمیع و بصیر ہونے کاثبوت پیش نہیں کرتا لیکن مدینہ کی ہجرت ان دونوں صفات کا ثبوت پیش کرتی ہے ۔سَمِیْعٌ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کس طرح اپنے بندوں کی دعائیں سننے والا ہے ۔بَصِیْر اس طرح کہ جن کامیابیوں کی ہجرت کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دی گئی تھی وہ بعینہٖ پوری ہوگئیں ۔نیز ا س طرح کہ وہاں پر اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی جس طرح نگہداشت کی وہ ایک بصیر خداکے وجود کی بیّن شہادت تھی ۔
اوریہ جو مسجد نبویؐ کو مسجد اقصیٰ کہاگیا اورمدینہ کو یروشلم کی شکل پر دکھایاگیا ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ جوبرکات اس شہر کو اوراس مسجد کو ملی تھیں ۔وہی مسجد نبوی ؐ اورمدینہ منورہ کو ملنے والی تھیں ۔
اگرکہاجائے کہ کیوں مسجد نبویؐ کو مسجد حرام سے تشبیہ نہ دی گئی اورمسجد اقصیٰ سے دی گئی ؟تواس کاجواب یہ ہے کہ اول تومسجد حرام کو بعض زائد خصوصیات حاصل ہیں جوارکان حج سے تعلق رکھتی ہیں ۔اوریہ خصوصیات بیت المقدس یامسجد نبوی کو حاصل نہیں ۔دوسرے بیت المقدس کو کشف میں دکھانے سے یہ بھی بتانا مقصود تھا کہ آپ کی امت ان علاقوں پرقابض ہوجائے گی ۔اوریہ مضمون مسجد حرام کے دکھانے سے ظاہر نہ ہوتا تھا ۔پس چونکہ ابھی بعض سیاسی وجوہ کی بناء پر وہ وقت نہ آیاتھا کہ اصل نام ظاہر کیا جاتا ۔اس لئے تشبیہاً مسجد نبوی کانام مسجد اقصی رکھ دیا ۔اورمدینہ کو یروشلم کی شکل میں دکھایا ۔یہ پیشگوئی جس رنگ میں پوری کی گئی وہ ذیل کی روایت سے ظاہر ہے ۔
عن ابی ھریرۃَ عنِ النَّبِیِّ ﷺقال لاتشدُّوالرِّجاَل اِلَا الی ثلثٰۃِ مَساجدَ المسجد الحرام ومسجد الرَّسُولِ ﷺ والمسجدِ الاقصیٰ۔آنحضرت صلعم نے فرمایا کہ سواری پرچڑھ کر کسی مسجد کی طرف نہ جانا چاہیئے ۔سوائے تین مساجد کے ایک مسجد حرام ۔دوسری مسجد اقصیٰ اورتیسری مسجد نبوی ؐ(بخاری جلد ۱ باب فضلِ الصلوٰۃ فی مسجد مکَّۃَ والمدینۃِ)
اس جگہ مسجد نبوی اورمسجد اقصی کو آپس میں مشابہت دی ہے ۔پس مسجد نبوی کی بنیادسے مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کی پیشگوئی پوری ہوگئی ۔اس مسجد کی طرف جانے کے علاوہ اس آیت میں ایک اور بات بھی بتائی گئی ہے ۔اوروہ یہ کہ مسجد اقصیٰ وہ جگہ ہے جس کے اردگرد کوبھی برکت دی گئی ہے ۔یعنی جس شہر میں وہ ہے اسے بھی معززاور مکرم بنادیاگیا ہے۔اس خبر کے مطابق نہ صرف مسجد نبوی کو برکت دی گئی بلکہ اس کے اردگرد کے علاقہ یعنی مدینہ کو بھی برکت دی گئی ۔اس کے مندر جہ ذیل ثبوت ہیں ۔
(۱)بخاری میں روایت ہے کہ عن انسٍ قال قال رسو ل اللہﷺ اللھم اجعل بالمدینۃ ضعفی ماجعلت بمکۃ من البرکۃ(بخاری کتاب الحج )یعنی حضرت انس فرماتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علہ وسلم نے دعاکی کہ اے اللہ مکہ میں جو تو نے برکت رکھی ہے اس سے بڑ ھ کر مدینہ میں برکت رکھ دے ۔
(۲) اَللّٰھُمَّ حَبِّبُ اِلَیْنَا المدینۃ کَحُبِّنَا مَکَّۃ اَواَشَدَّ اَللّٰھُمَّ بارک لنا فی صاعنا وفی مُدِّنَا۔(بخاری کتاب الحج جلد اول)یعنی حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعاکی کہ الٰہی تومدینہ بھی ہمیں ایسا ہی پیارابنادے جس طرح ہمیں مکہ پیاراہے بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔اے اللہ اس کے صاع اورمُدّمیں برکت ڈال دے ۔یعنی اہل مدینہ کے گذارے کے لئے ان کی زراعت اورتجارت میں برکت دے۔
(۳)عن زیدِ بْن عاصِمٍ اَنَّ اِبراھیمَ حَرَّمَ مَکَّۃَ ودعالاھلھاوانی حَرَّمْتُ المدینۃ کماحرَّمَ ابراھیم مکّۃ وَاِنِّی دَعوت فی صاعھا ومدِّھا بمثلی ماداعاابراھیم بمکۃ(مسلم باب فضل المدینۃ)۔یعنی زید بن عاصم کہتے ہیں کہ رسول کریم صلعم نے فرمایا کہ ابراہیمؑ نے مکہ کو محفوظ مقام قرار دیاتھا اوراس کے باشندوں کے لئے دعاکی تھی ۔اورمیں نے مدینہ کو محفوظ مقام قرار دیا ہے اورمیں نے دعاکی ہے کہ مدینہ کے صاع اورمُدمیں اس سے دگنی برکت رکھ دے جتنی کہ ابراہیم نے مکہ کے لئے طلب کی تھی ۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ مدینہ کی فضیلت کے لئے جو دعاہے وہ دنیوی ترقی کے لئے ہے ورنہ آسمانی برکت کے لحاظ سے مکہ ہی سب دنیا کے شہروں سے افضل ہے )
ان روایات سے ظا ہر ہے کہ مسجد اقصیٰ جس کے ارد گرد کاعلاقہ بھی بابرکت کیا گیا ۔اس سے مراد رؤیا میں درحقیقت مسجد نبوی تھی ۔اورہر عقلمند سوچ سکتاہے کہ مدینہ کوجو برکت ملی ہے کیا اس کا دسواں حصہ بھی یروشلم کو نصیب ہوئی ہے؟
یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ سے ظاہر ہوتاہے کہ چلانے والا کوئی دوسرا تھا ۔اوراس میں چلنے والے کااپنا اختیا ر نہ تھا۔ ہجرت کاواقعہ بھی اسی طرح ہوا۔کہ آپ رات ہی کونکلے ۔اوریہ نکلنا اپنی مرضی سے نہ تھا بلکہ اس وقت مجبور ہوکر آپ نکلے جبکہ کفار نے آپ کے قتل کرنے کے لئے آپ کے گھر کامحاصرہ کرلیاتھا ۔پس اس سفر میں آپ کی مرضی کادخل نہ تھا ۔بلکہ خداتعالیٰ کی مشیت نے آپ کو مجبورکیا ۔پھر جس طرح رؤیا میں جبریل بیت المقدس کے سفر میں آپ کے ساتھ تھے ۔ہجرت میں ابوبکر ؓآپ کے ساتھ تھے ۔جوگویا اسی طرح آپ کے تابع تھے جس طرح جبریل خداتعالی کے تابع کام کرتا ہے ۔اورجبریل کے معنے خداتعالیٰ کے پہلوان کے ہوتے ہیں۔حضرت ابو بکر بھی اللہ تعالیٰ کے خاص بند ے تھے اوردین کے لئے ایک نڈ رپہلوان کی حیثیت رکھتے تھے ۔
مدینہ کو جو برکت دی گئی اس کی ایک ظاہری صورت بھی تھی ۔اس کی حقیقت حضرت عائشہؓ کی ایک روایت سے ظاہر ہوتی ہے ۔آپ فرماتی ہیں کہ مدینہ میں آپ کی آمد سے پہلے بخار کی وباء سخت پھیلاکرتی تھی جب آپ وہاں تشریف لے گئے توآپ کی دعاکے طفیل سے وہ وباء دور ہوگئی ۔اسی وباء کی وجہ سے پہلے مدینہ کانام یثرب تھا ۔کیونکہ یثرب کے معنے رونا پیٹنا ہے ۔مگرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاکی وجہ سے وہ وباء دورہوگئی اورآئندہ یثرب کی بجائے آپ نے اس کانام مدینہ رکھا ۔پھر کشف میں جو یہ دکھایاگیاتھا کہ مسجد اقصیٰ میں جاکر آپ نے تما م انبیاء کو نماز پڑھائی ۔یہ خبر بھی مدینہ می جاکر پوری ہوئی اوراس مقام سے ہی اسلام کی اشاعت ساری دنیا میں ہوئی ۔بلکہ اس امر کو دیکھ کر احیرت آتی ہے کہ جب مدینہ سے اسلامی دارالخلافہ کو بدل دیا گیا ،اسی وقت سے اسلام کی ترقی رک گئی ۔تیس سال کے عرصہ میں جس میں مدینہ اسلامی دارالخلافہ تھا اس قدر اسلام کوترقی ہوئی اوراس قد اس کی اشاعت ہوئی کہ اس کے بعد تیرہ سوسال میں اس قدر ترقی نہیں ہوئی ۔
اگرکہو کہ یہ برکات توخود رسول کریم صلعم نے دی تھیں ۔تواس کاجواب یہ ہے کہ اس قسم کی برکات کوئی انسان نہیں دے سکتا انسان میں کہاں طاقت ہے کہ ایسی پیشگوئی کرے اوراس کو پوراکردکھائے ۔آپ نے جودعاکی وہ اللہ تعالیٰ اکی اس پیشگوئی کی تائید میں تھی ۔
(۲)دوسری صورت میں نے یہ بتائی تھی کہ مسجد اقصیٰ سے مراد بنی اسرائیل والی مسجد اقصیٰ بھی ہے ۔چنانچہ یہ تعبیر بھی پوری ہوئی اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے خلیفہ کے وقت میں اس جگہ پر مسلمانوں کاقبضہ ہوگیا اورتیرہ صدیوں تک قبضہ رہا ۔اب عارضی طورپر یہ علاقہ عیسائیوں کے قبضہ میں چلا گیاہے ۔مگریہ بھی ایک پیشگوئی کے ماتحت ہے ۔اس کازمانہ ختم ہونے پر پھر یہ ملک واپس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع کے ہاتھ میں آجائے گا ۔خواہ بہت جلد خواہ کچھ وقفہ کے بعد اس صورت میں راتوں رات دہاں جانے کے یہ معنے لئے جائیں گے کہ بیت المقدس کی فتح ظاہری جنگوں کے سبب سے نہ ہوگی بلکہ اس رات کے دیکھے ہوئے نظارہ کی وجہ سے ہوگی ۔چنانچہ واقعہ بھی یہی ہے ورنہ عربوں کا ایک چھوٹاسالشکر قیصر جیسے بڑے بادشاہ کامقابلہ کب کرسکتا تھا ۔یہ توکلام الٰہی جو سورۃ اسراء والی رات میں ناز ل ہواتھا ۔اسی کااثر تھا کہ بے سروسامان عربوںکے سامنے قیصر کایاسامان اورفنون حرب کی تعلیم پایا ہوالشکر اس طرح بھاگتاجاتاتھا جیسے شیر کے سامنے ہوں ۔اگرکوئی اعتراض کرے کہ یہ ملک توحضرت عمرؓ کے زمانہ میں فتح ہواتھا ۔تواس کا جواب یہ ہے کہ نبی کے اتباع پیشگوئیوں میں اسی کے وجود میں شامل سمجھے جاتے ہیں اوراس کی مثالیں کثرت سے اسلام اورپہلے انبیاء کے لٹریچر میں پائی جاتی ہیں ۔
(۴)چوتھی بات تعبیر الرؤیا ء کے مطابق میں نے یہ بتائی تھی کہ علاقہ کے علماء بھی مسجد کی شکل میں دکھائے جاتے ہیں اس تعبیر کے مطابق ہم دیکھتے ہیں کہ اس ملک پر نہ صرف سیاسی قبضہ مسلمانوں کوحاصل ہوا بلکہ مذہباً بھی اکثر حصہ ملک کامسلمان ہوگیا او رتیر ہ سوسال میں یروشلم اسلامی علماء کا مرکز بناراہاہے۔یہ تغیرپیداکرنا بھی کسی انسان کی طاقت میں نہ تھا اللہ تعالیٰ ہی ایساکرسکتاتھا۔
یہ عجیب بات ہے کہ موسیٰ کو بھی ایک نظارہ دکھایاگیاتھا اوراس کے متعلق جو الفاظ آتے ہی وہ بھی اس واقعہ کے الفاظ سے ملتے جلتے ہیں ۔حضرت موسیٰ ایک سفر پر تھے کہ انہوں نے ایک جگہ آگ دیکھی تواللہ تعالیٰ نے فرمایا بُوْرِکَ مَنْ فِیْ النَّارِ وَمَنْ حَوْلَھَاوَسُبْحَانَ اللّٰہِ رَبِّ العٰلمِینَ(نمل ع۱)کہ جو اس آگ میں پڑے گا وہ بھی بابرکت اورجو اس کے گرد آکر بیٹھے گاوہ بھی بابرکت ہوگا اور وہ آگ محبت الٰہی کی آگ تھی اورپھر جس طرح وہاں سبحان کالفظ آیا تھااسی طرح اس جگہ سبحان بھی آیا ہے ۔ اورجس طرح وہاں حولہ آیا ہے اسی طرح یہاں بھی بارکنا حولہ فرمایا ہے بعض نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آگ سے مراد اللہ تعالیٰ ہے مگر یہ غلط ہے ۔کیونکہ آیت کے الفاظ یہ ہیں کہ جو آگ میں ہے اسے برکت دی گئی ہے ۔ پس آگ سے مراد اللہ تعالیٰ نہیں بلکہ محبت الٰہی ہے اوریہ بتایاہے کہ جو محبت الٰہی کی آگ میں اپنے آپ کو ڈا ل د ے اُسے برکت دی جاتی ہے محبت کو دنیا کی کل زبانوں میں آگ سے تشبیہ دی جاتی ہے ۔بات یہ ہے کہ جس جگہ اللہ تعالیٰ اپناجلال دکھاتا ہے اس کو برکت دیتا ہے اوروہاں سے اس کی سبوحیت کاظہور ہوتاہے ۔اوران دونوں نظاروں میں یعنی اس میں جو موسیٰ نے دیکھا اور اس میں جو آنحضرت صلعم نے دیکھا ان دونوں باتوں کی طرف اشارہ ہے ۔حضرت موسیٰ کاایک اورواقعہ بھی اس واقعہ سے ملتاہے اوروہ وہ واقعہ ہے جو اگلی سور ۃ کہف میںبیان ہواہے اس کی اس واقعہ سے جو مشابہت ہے اس جگہ پر بیان کی جائے گی ۔
میرے نزدیک اس کشف میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک روحانی سفر کی طرف بھی اشار ہ ہے اوریہ بتایا ہے کہ جب اسلام پرتاریکی کازمانہ آئے گا اس وقت اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپؐ کے تابع وجود کے واسطہ سے پھر دنیا کی ہدایت کے لئے مقرر کرے گا ۔اوراس تابع کے واسطہ سے وہی برکات مسلمانوں کوپھر ملیں گی جوانبیاء بنی اسرائیل کو اور ان کے اتباع کو ملی تھیں اسی کی طرف سورئہ جمعہ میں بھی اشارہ ہے جہاں اللہ تعالیٰ فرماتاہے ھُوَالَّذِیْ بَعْثَ فِیْ الْاُمِّیِّیْنَ رَسُوْلًامِنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھُمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِنْ کَانُوْامِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ وَّاٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّایَلْحَقُوْابِھِمْ وَھُوَالْعَزِیْزُالْحَکِیْمُ(جمعہ ع۱)یعنی خداہی ہے جس نے امیوں میں ان میں سے ہی رسول بھیجا ہے جو ان سے اللہ تعالیٰ کے نشانات بیان کرتاہے اورکتاب اورحکمت سکھاتا ہے اورانہیں پاک کرتا ہے حالانکہ اس سے پہلے وہ کھلی کھلی گمراہی میں مبتلاتھے۔اسی طرح آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم ایک اورجماعت کوبھی دین سکھائیں گے جو اب تک ان مسلمانوں سے نہیں ملی بلکہ آیندہ زمانہ میں ظاہر ہوگی اوریہ با ت اللہ تعالیٰ سے بعید نہیں کیونکہ خداتعالیٰ غالب ہے اوروہ حکمت والا ہے یعنی یہ نہیں برداشت کرسکتا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت تباہ ہو اور و ہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی بعثت کرکے اس کی اصلاح نہ کرے ۔
واٰتینا موسی الکتٰب وجعلنہ ھد یً لبنی اسرائیل
اورہم نے موسیٰ کو(بھی)کتاب دی تھی اوراس (کتاب )کوہم نے بنی اسرائیل کے لئے ہدایت (کاذریعہ )بنایاتھا
الا تتخذو ا من دونی وکیلا ٭
(اوراس میں انہیں حکم دیاتھا)کہ تم میرے سواکسی کو (اپنا )کارساز نہ ٹھہرائو ۳؎
۳؎ حل لغات ۔ھدًی:ھدی کامصدر ہے اورھدی کے لئے دیکھو رعد ۲۸؎
بنی اسرائِ یْل:اسرائیل حضر ت یعقوب کالقب ہے (پیدائش باب۳۲۔آیت ۲۸)اوربنواسرائیل حضرت یعقوب کی اولاد کو کہتے ہیں ۔
دُوْن کے معنی ہیں ۔سِوا۔مزید تشریح کے لئے دیکھو نحل ۸۷؎ وکیلاً کے معنی کے لئے دیکھو یونس ۱۰۵؎
تفسیر ۔اس آیت سے حضرت موسیٰ اوران کی قوم کاذکرشروع کیا ہے ان آیات کاگذشتہ آیت اورپہلی سورۃ سے کئی طرح تعلق ہے (۱)پہلی آیت میں رسول کریم صلعم اورآپؐ کے اتباع کو بیت المقدس دینے کاوعدہ کیاگیاتھا ۔یہ شہر اوراس کے گرد کاملک پہلے الٰہی وعدہ کے مطابق حضرت موسیٰ اوران کی قوم کو ملا تھا ۔مگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکام کی پرواہ نہ کرکے اسے کھودیا ۔پس ان کے واقعہ کو یاد کراکے مسلمانوں کوتوجہ دلائی گئی ہے کہ موسوی قوم کی اچھی میرا ث تم کودی جارہی ہے مگرہوشیار رہنا۔ایسانہ ہو ۔بُری میراث بھی لے لواورتباہ ہوجائو ۔
(۲)سورئہ نحل کے آخر میں یہود سے تعلق پیداہونے کی پیشگوئی کی گئی تھی ۔اورہدایت کی تھی ۔کہ ان سے عمدہ رنگ میں بحث کرنا ۔ یعنی وہ اہل کتاب ایک قوم ہے ان سے مسلمّہ اصول کے مطابق اوران دلائل کے مطابق جوان کی کتب میں مذکور ہیں بحث کرنا ۔ اب اس طریق بحث کی مثال پیش کرتا ہے یعنی ان کی کتاب سے ہی وہ پیشگوئیا ں پیش کرتاہے جن سے ان کے بگڑ جانے کی خبر اورعذاب الٰہی میں مبتلاہونے کی خبر ملتی ہے ۔اوربتاتاہے کہ ان حالات میں یہود کے لئے بہترین راستہ یہ ہے کہ وہ اس نئے عہد کو قبول کرکے اس عذاب کودور کریں جو خداتعالیٰ کی طرف سے نازل ہواہے اوراگر ارض مقدس بحیثیت یہود ان کے ہاتھ سے نکل گئی ہے توبحیثیت مسلمان وہ اس میں پھر سے داخل ہوجائیں اس کے سوا ان کے لئے اورکوئی ترقی کی راہ کھلی نہیں ہے۔
ذریۃ من حملنا مع نوح انہ کان عبدًاشکورا٭
(اوریہ بھی کہا تھا کہ اے )ان لوگوںکی نسل جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ (کشتی پر )سوار کیا تھا و ہ یقینا(ہمارا)نہایت شکر گذا ربندہ تھا ۴؎
۴؎ حل لغات ۔ذرّیّۃ کے لئے دیکھو یونس ۸۲؎ شکور:شکر سے مبالغہ کاصیغہ ہے ۔اورشکر کے معنی کے لئے دیکھو ابراہیم ۶؎
تفسیر ۔یعنی اس کتاب کے نزول کے بعد ہم نے ان سے کہا کہ اے نو ح کے ساتھیو ں کی ذرّیت تمہارادادانو ح توبڑاشکر گذار بند ہ تھا یعنی تم بھی اپنے با پ کے سپو ت بننااورشکر گذار بننے کی کوشش کرنا ۔
بعض نے اس قو ل کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ پر محمول کیا ہے ۔مگر میرے نزدیک یہ موسیٰ کی قوم ہی کے متعلق ہے ۔کیونکہ اس آیت کے بعد بھی پھر موسیٰ کی قوم کا ذکر شرو ع ہوجاتاہے ۔ان الفاظ میں بنی اسرائیل کو اس طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ جس طرح نو ح کو ہم نے طوفان سے بچایا تھا تم کو سمند ر سے نجات دی ہے ۔پس نو ح اوران کے ساتھیو ںکی طرح تم بھی شکر گذار بنو۔
اس آیت میں مسلمانوں کو بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ ایک مخالفت کے طوفان سے ہم تم کو نجات دینے والے ہیں۔تم بھی ا س کی قدرکرنا ۔امت محمدیہؐ اورموسوی میں یہ فرق ہے کہ موسیٰ کی امّت نے شکر گذاری سے کام نہ لیا ۔لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع نے شکر گذاری کا بے نظیر نمو نہ دکھایا۔گوکچھ عرصہ بعد مسلمانوں نے بھی ناشکری کانمونہ دکھایااوراسی کی طرف درحقیقت ان آیات میں توجہ دلائی گئی ہے ۔
وقضینا الی بنی اسراء یل فی الکتب لتفسدن
اورہم نے اس کتاب میں بنی اسرائیل کویہ بات (کھول کر )پہنچادی تھی کہ تم یقینا
فی الارض مرتین ولتعلن علواکبیرا٭
اس ملک میں دوبار فساد کروگے ۔اوریقینا تم بہت بڑی سرکشی (اختیار )کروگے ۵؎
۵؎ حل لغات ۔قَضَیْنَآ:قضی(یقضی)سے جمع متکلم کاصیغہ ہے ۔اورقَضَی الشیئَ کے معنی ہیں اَعْلَمَہٗ وبَیَّنَہٗ۔کسی چیز کو خوب کھو ل کر بتایا(اقرب)پس قَضَیْنَا کے معنے ہوں گے ۔اعلمنا واخبرنا۔ہم نے یہ بات کھول کر بتادی ۔قضی کی مزید تشریح کے لئے دیکھو حجر ۵۸؎
وَلَتَعْلُنَّ:علا (یعلُو)سے مضارع کاصیغہ ہے ۔اورعلاالشیء کے معنے ہیں ارتفع ۔کوئی چیز بلند ہوئی ۔علَافلان فی الارض ۔تکبّروتجبّر۔اس نے تکبر اورسرکشی کی ۔عَلا فلانًابالسیف ِ:ضربَہ۔اسے تلوارماری ۔علاالمکان ۔صَعدہ۔کسی جگہ پر چڑھا۔علا فی المکارم ۔ شرف ۔خوبیوں میں ممتازہوا(اقرب)پس ولتعلُنَّ کے معنے ہوں گے ۔کہ تم سرکشی کروگے ۔
تفسیر ۔فرمایا کہ تمہارا نبی مثیل موسیٰ قراردیاگیا ہے اوراس مشابہت کو پوراکرنے کے لئے اسے بیت المقدس اوراس کے گرد کا علاقہ دیاجانے والا ہے ۔پس تم کو اس امر میں احتیاط کرنی چاہیئے کہ جو کچھ بنی اسرائیل سے بعدمیں معاملہ ہواوہ تم سے نہ ہو اورو ہ واقعہ یہ بیان فرمایاہے کہ بنی اسرائیل کے متعلق ہم نے خبر دی تھی کہ دودفعہ تم دنیا میں عظیم الشان فساد کے مرتکب ہوگے ۔اورسخت مظالم کرو گے اورتم کو اس کی سزا میں تباہ کردیاجائے گا ۔گوسزادینے کا یہاں لفظاً ذکر نہیں کیا گیا ۔لیکن اگلی آیت سے یہ مضمو ن ظاہر ہے ۔اس آیت سے مندرجہ ذیل امور نکلتے ہیں(۱)اس میں قَضَیْنَا فی الْکِتٰبِ کے الفاظ ہیں ۔جن سے مراد حضرت موسیٰ کی کتاب ہے (۲)اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ بنی اسرائیل کے دودفعہ باغی ہو کر الٰہی عذاب میں مبتلاہونے کی خبر اس کتاب میں پہلے سے دی گئی تھی ۔نئے اورپرانے مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں دوغلطیاں کی ہیں ۔اول تویہ کہ بنی اسرائیل کی تباہی کے بعض واقعا ت تودرج کردئے ہیں ۔لیکن قرآنی الفاظ کی صداقت کے اظہارکے لئے وہ پیشگوئی درج نہیں کی ۔جسکاذکر قرآن کریم نے کیا ہے ۔ودم جنہوں نے پیشگوئی بیا ن کرنے کی طرف توجہ کی ہے انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ پیشگوئی موسیٰ علیہ السلام کی کتاب میں بیان کی گئی تھی ۔میں نے ان دونوں امور کو مدنظر رکھا ہے اورموسیٰ کی کتب سے پیشگوئیاں بیا ن کی ہیں اورواقعات تاریخی جمع کرکے لکھے ہیں ۔
علابمعنے ظلم ہے یعنی تم لوگوں کے اوپر ظلم کروگے جبر کرنے لگ جائو گے اورتکبرکرو گے اور ظلم سے کام لو گے ۔کیونکہ علا (یعلو ۔عَلوًا) فلانٌ کے معنی ہوتے ہیں ۔تکبّر وتجبر یعنی تکبر کیا اورظلم سے کام لیا ۔وعلا فلانا بالسیف ضربہ۔اس کو تلوار سے مارا۔
فی الکتٰب ۔کہہ کر یہ بتایا ہے کہ اس کاذکر موسیٰ کی کتاب میں ہے ۔چنانچہ موسیٰ کی کتاب میں بھی اس کا ثبوت ملتا ہے استثناء باب ۲۸۔آیت ۱۵میں لکھا ہے ’’لیکن اگر تُو اپنے خداوند کی آواز کاشنوانہ ہو گا کہ اس کے سارے شرعوں اورحکموں پر جو آج کے دن مَیں تجھے بتاتاہوںدھیان رکھ کہ عمل کرے توایسا ہوگا کہ یہ ساری لعنتیں تجھ پر اثر کریں گی اورتجھ تک پہنچیں گی۔‘‘اس کے بعد ان لعنتوں کا ذکر کیا ہے جونافرمانی کیوجہ سے ان پر اتریں گی ۔چنانچہ فرماتا ہے ’’خداوند تجھ کواور تیرے بادشاہ کو جسے تواپنے اوپر قائم کریگا ایک گروہ کے درمیان جس سے تُو اورتیرے باپ دادے واقف نہ تھے لے جائے گا ۔‘‘آیت ۳۶۔پھر لکھا ہے ۔’’خداوند ایک گروہ دور سے زمین کی انتہاسے ایساجلد بلکہ جیسا عقاب اُڑتا ہے تجھ پر چڑھائے گا و ہ ایک گروہ ہوگی جس کی زبان تونہ سمجھے گا وہ ترشرو گروہ ہو گی جونہ بوڑھے کاادب نہ جوان پر کرم کرے گی اورو ہ تیر ی مواشی کاپھل اورتیری زمین کاپھل کھاجائیگی یہاںتک کہ توہلاک ہو جائے گا ۔اس لئے کہ غلّے اورمَے اور تیل اورتیری گائیں بیل کی بڑھتی اوربھیڑ بکری کے گلّوں سے تیرے لئے کچھ نہ چھوڑے گی یہاں تک کہ وہ تجھے فناکردے گی اوروہ تجھے تیرے سب پھا ٹکوں میں آ گھیرے گی یہاں تک کہ تیری اونچی اورمحکم دیواریں جن کا تجھے اپنے سارے ملک میں بھروساتھا گرجائیں گی اوروہ تجھے اس ساری زمین میں جسے خداوند تیرے خدانے تجھے دیا ہے ہرایک شہر کے سبب پھاٹکوں میں آگھیر ے گی۔اورتواپنے ہی بدن کا پھل ہاں اپنے بیٹوں اوراپنی بیٹیوں کاگوشت جنہیں خداوند تیرے خدانے بخشا تھا اس محاصرہ کے وقت اوراس تنگی میں جو تیرے بیریوں کے سبب تجھ پر ہوگی کھائے گاوہ شخص جو تم میں نرم دل اوربہت ناز پروردہ ہو گا اس کی بھی نظر اپنے بھائی کی طرف اور اپنی ہمکنار جو روکی طرف اوراپنے باقی لڑکوں کی طرف جنہیں اس نے چھوڑ دیاہو گا بری ہو گی یہاں تک کہ وہ اپنے بچوں کے گوشت میں سے جسے وہ کھائے گاانہیں ان میں سے کسی کو کچھ نہ دے گاکیونکہ اس محاصرے اورتنگی میں جوتیرے دشمنو ں کے باعث سے تیرے سارے پھاٹکوں میں تجھ پر ہوگی اس کے لئے کچھ نہ باقی رہے گااوروہ عورت بھی جو تمہار ے درمیان نرم دل اورنہایت نازنین ہو گی ۔ایسی کہ نزاکت اورنرمی سے اپنے پائوں کاتلو ازمین پر لگانے کی جرأت نہیں رکھتی اس کی نظر اپنے ہمکنارشوہر کی طرف اوراپنے بیٹے کی طرف اوراپنی بیٹی کی طرف بُری ہوگی ۔‘‘آیت ۴۹تا۵۶۔پھرلکھا ہے :۔
’’اوریوں ہو گا کہ جس طرح خداوند نے تم سے خوش ہو کر تمہارے ساتھ نیکی کی اورتمہیں بہت کردیا اسی طرح خداوند تمہاری بابت خوش ہوگا کہ تمہیں ہلاک کرے اورنیست و نابود کرڈالے اورتواس سرزمین سے جس کاتومالک ہونے جاتا ہے جڑھ سے اکھا ڑ ڈالا جائے گا ۔اورخداوند تجھ کو سب قوموں کے درمیان زمین کے اس سرے سے اس سرے تک تِتّربتّرکرے گا اوروہاں تُو غیر معبودوں کی جو لکڑیا ںاورپتھر ہیں جس سے نہ تُونہ تیرے باپ دادے واقف تھے پر ستش کرے گا ‘‘آیت ۷۳و۶۴۔
ان آیات میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ اگر وہ احکام الٰہی کو توڑ دیں گے توایک وقت ایسا آئے گا کہ ایک غیر قوم دور سے ان پر چڑھ آئے گی ۔اوران کا محاصرہ کرے گی۔محاصرہ کے وقت قحط اوروباء پڑیں گے ۔آخر ان کے شہروں کی فصیلیں توڑ دی جائیں گی بادشاہ کو قید کرکے لے جایا جائے گا ۔اورقوم جلا وطن کرکے دور علاقوں میں بھیج دی جائے گی ۔یہ پیشگوئی ان دوفسادوں میں سے جن کاقرآن کریم نے ذکر کیا ہے پہلے فساد کی نسبت ہے ۔
یہ جو فرمایا قضیناالی بنی اسراء یل اس کے یہ معنی ہیں کہ ہم نے ایک وحی کے ذریعہ سے بنی اسرائیل کو آئندہ آنیوالی اس مصیبت سے خبر دے دی تھی مگرافسوس کہ وہ پھر بھی ہوشیار نہ ہوئے ۔
دراصل پہلے بتانے سے غرض ہوشیارکرناہی ہوتاہے اورہوشیا رکرنے کے دومقصد ہوتے ہیں ۔(۱)انسان کوشش کرے اوربچ جاوے ۔(۲)اگر نہ بچے تواس پر حجت پوری ہو ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی امت کے متعلق فرمایاہے لتتّبعُنَّ سُنن من کان قبلکم(بخاری جلد رابع کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ)کہ تم پہلے لوگوں کے طریقہ پر عمل کروگے ۔اوربعض احادیث میں ہے کہ تم یہود و نصاریٰ کے نقش قدم پرچلو گے مگر افسوس کہ باوجود ہوشیارکردینے کے مسلمان بھی اس آفت سے نہ بچے ۔
فاذاجاء وعداولھما بعثنا علیکم عبادالنا اولی
اورجب ان دو(بارکے فسادوں)میں سے پہلی(بار)کاوعدہ (پوراہونے کاوقت )آیا ۔توہم نے اپنے بعض ایسے بندوں کو
باسٍ شدیدٍ فجاسواخلل الدیار وکان وعدامفعولا٭
(تمہاری سرکوبی کے لئے )تم پر (مستولی کرکے )کھڑاکردیا ۔جوسخت جنگ جو تھے اوروہ (تمہارے)گھروں کے اند رجاگھسے ۔اور یہ (وعدہ بہرحال)پوراہوکر رہنے والاوعدہ تھا ۔۶؎
۶؎ حل لغات ۔اولی باسٍ:اُولُو جمع ہے جس کے معنے ذوُو کے ہیں (یعنی فلاں صفت والے )اس کامفرد نہیں آتا۔بعض کہتے ہیں کہ یہ اسم جمع ہے ۔اوراس کامفرد ذوہے ۔جیسے غنم اسم جمع ہے ۔اورشاۃٌ اس کامفرد ہے ۔(اقرب)الباسُ:العذاب ۔عذاب ۔ الشدّۃ فی الحرب ۔گھسمان کی لڑائی ۔(اقرب)مزید تشریح کے لئے دیکھو سورۃ نحل ۸۲؎ پس اُولی باسٍ کے معنے ہوں گے۔ جنگجو ۔
جاسوا:۔جَاسَ(یجوس جوساً)الشیئَ کے معنی ہیں ۔طَلَبَہٗ بالاِستقصائِ۔کسی چیز کو حاصل کرنے میں انتہائی محنت و کاوش سے کام لیا ۔اورجَاسُوْا خِلٰل الدّیارکے معنے ہیں ۔دارُوا فیھابالعیث والفساد ۔علاقوں میں فساد اورتباہی مچاتے ہوئے گھس گئے ۔وفرَّہ الجوھری الرجلُ الاخبار ایک یطلبہا ۔اورجوہری نے جاسُوْا خِللَ الدّیارکے معنے یہ کئے ہیں وہ علاقوں میں گھس گئے ۔اورمال ودولت کوحاصل کرناچاہا(اقرب)
دیار:دار کی جمع ہے ۔اوردار کے معنی المحلُّ۔مکان ۔والعرصۃ۔صحن ۔میدان ۔البلد۔شہر ملک۔علاقہ (اقرب)خِلٰل الدّیا ر:ماحوالی حدودھما ومابین بیوتہا ۔ملکو ں کی حدوں اوران کے گھروں کے درمیان (اقرب)
تفسیر ۔اب اس کے پوراہونے کاحال بتاتاہے اورفرماتا ہے کہ جب پہلے وعدہ کاوقت آگیا تواے بنی اسرائیل ہم نے تم پر ایسے لوگ غالب کردئے جوسخت جنگ کرنے والے تھے ۔وہ آئے اورتمہارے گھرو ں میں گھس گھس کر انہوں نے تم کو ہلاک کردیا۔
وَکَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًا۔و ہ وعدہ ہما راپوراہوکررہنے والا تھا۔یایہ کہ ہماراوعدہ پوراہوہی گیا ۔
جن دوعذابوں کے متعلق اس آیت میں خبر دی گئی ہے اس کاذکر قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ یوں کیا گیا ہے ۔لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْل عَلیٰ لِسَانِ دَاؤدَوَعِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ(مائدہ ع ۱۱)اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ ایک دفعہ حضرت دائود کے بعد عذاب آیا ۔اورایک دفعہ حضرت عیسیٰ کے بعد آیا ۔
پہلے عذاب کاحال بائبل سے یوں معلوم ہوتاہے کہ یہود حضرت موسیٰ کے بعد طاقتور ہوگئے تھے ۔حتی کہ حضرت دائود کے زمانہ میں ایک زبردست حکومت کی بنیاد پڑ گئی جو انکے بعد بھی ایک عرصہ تک قائم رہی اورآخرآہستہ آہستہ کمزوری ہوتی گئی اورآخری زمانہ میں بابل کے شمال کے علاقہ میں بسنے والی اشوری قوموں نے ان کو شکست دی یہ قوم نینواکی بادشاہ تھی ۔انہوںنے یہود کااپنا باجگذار بنالیا اس کے بعد’’نیکو‘‘ایک مصر کاشہزادہ تھا ۔اس نے اسوریوں کو شکست دی اور وہ نینواکی بجائے مصریوں کے باجگذار بن گئے ۔۶۰۰سال قبل مسیح کے قریب اورحضرت دائود سے قریباً۴۰۰سال بعد یرمیاہ نبی کی معرفت ان کو ان کی خرابیوں پراللہ تعالیٰ نے پھر متنبہ کیا ۔اوران کے گناہو ںپر انہیں پھر تنبیہ کی اورفرمایاکہ اگر اب بھی توبہ کرلو توو ہ جو تمہارے لئے جلاوطنی کی پیشگوئی تھی ٹلادی جائے گی مگر وہ باز نہ آئے(یرمیاہ باب ۷)
آخراللہ تعالیٰ نے بابلیوں کوان کے عذاب کے لئے مسلّط کیا ۔یہ واقعہ بائبل کی کتا ب ۲سلاسطین باب۲۵میں یوں لکھا ہے ’’شاہِ بابل نبو کدنصر نے اوراس کی ساری فوج نے یروشلم پر چڑھائی کی ۔‘‘آیت ۱۔اوراس کامحاصرہ کرلیا ۔یہ محاصرہ بہت دیر تک رہا۔اس وقت یروشلم کابادشاہ صدقیاہ تھا ۔جب محاصرہ نے طول پکڑا توشہر کے اندر غلّہ کم ہوگیا لکھا ہے’’تب شہر ٹوٹا ‘‘آیت ۴یعنی بابل کی فوج نے فصیل توڑ دی ۔آخر لوگ ایک طرف کادروازہ کھول کر بھاگے صدقیاہ بادشا ہ بھی بھاگا مگر پکڑاگیاا س کی آنکھیں نکالی گئیں اورآنکھیں نکالنے سے پہلے اس کے بیٹوں کو اسکے سامنے ہلاک کردیاگیا پھر اس کے پائوں میں بیڑیاں ڈال کر اسے بابل لے گئے آیت ۴تا۷۔اس کے بعد شاہِ بابل نے اپنے ایک افسر بنوزردان کویروشلم بھجوایا۔اس نے آکر ’’خداوند کاگھراوربادشاہ کا قصر(محل)اوریروشلم کے سارے گھر ہاں ہرایک رئیس کاگھر جلادیا ۔اورکُسدیوں کے سار ے لشکر نے جو جلوداروں کے سرداروں کے ہمراہ تھا ان دیواروں کو جو یروشلم کے گرداگردتھیں گرادیا اورباقی لوگوں کوجو شہر میں چھو ڑے گئے تھے اوران کو جنہوں نے اپنوں کو چھو ڑکے شاہِ بابل کی پنا ہ لی تھی تمام جماعت کے بقیّہ کے ساتھ بنوزردان جلوداروں کا سردار پکڑ کر لے گیا‘‘آیت ۹تا۱۱۔
نحمیاہ نبی کی کتاب سے معلوم ہوتاہے کہ اس تباہی کاایک بڑاباعث سبت کی بے حرمتی تھی ۔چنانچہ لکھا ہے ’’تب میں نے یہودا ہ کے شریف لوگوں سے تکرار کرکے کہا کہ یہ کیا بُراکام ہے جوتم کرتے ہو کہ سبت کے دن کومقدس نہیں جانتے ہو کیاتمہارے با پ داوں نے ایسانہیں کیااورہماراخداہم پر اوراس شہر پر یہ سب آفتیں نہیں لایا؟ تب بھی تم سبت کے دن کو پاک نہ مان کے اسرائیل پر زیادہ غضب بھڑکاتے ہو ؟باب ۱۳آیت ۱۷۔۱۸۔
اسی طرح حزقیل نبی نے بھی ا س وقت یہود کوڈرایا تھا ۔انہوں نے ان کے بہت سے گناہوں کاذکر کرتے ہوئے ان میں سے ایک گناہ یہ گنایا ہے کہ’’تُونے میرے مقدسوں کو ناچیز جاناہے اورمیرے سبتوں کو ذلیل کیا ہے ‘‘حزقیل باب ۲۲آیت۸۔پھر باب ۲۳آیت ۳۸ میں ہے ’’اس کے سواانہوں نے مجھ سے یہ کیا ہے کہ اسی دن انہوں نے میرے مقدس کاناپاک کیا اورمیرے سبتوں کو حرمت نہ دی ‘‘۔
میں نے سب کی بے حرمتی کے حوالے اس لئے دئے ہیں کہ اس جگہ صرف سخت عذاب کی خبر بتائی گئی ہے مگردرحقیقت اشار ہ سورہ نحل کی آیات کی طرف ہے جن میں کہاگیا تھا کہ ’’اِنَّمَاجُعِلَ السَّبْتُ عَلی الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْافِیْہِ(نحل ع ۱۶)یعنی سبت کاعذاب ان لوگوں پر نازل کیاگیاتھاجنہوں نے الٰہی کلام میں اختلاف کرکے دین کو نقصا ن پہنچایاتھا ۔قرآن کریم کے مضامین کی ترتیب کی اس آیت میں ایک زبردست شہادت ہے کہ سورہ نحل جوبعد میںا ُتری ہے اس میں سبت کا ذکر ہے سورئہ بنی اسرائیل اس سے پہلے کی نازل شدہ ہے اوراس کے مضامین سورئہ نحل سے اس طرح چسپاں ہوجاتے ہیں گویاسورہ نحل پہلے کی ہے اوراِسرابعد کی ۔ اوراسمیں سورہ نحل کے مضامین کے جواب دیئے گئے ہیں اوران کی تکمیل کی گئی ہے ۔
تاریخ سے بابلیوں کی اس چڑھائی کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ جب یہود کمزور ہوگئے تواسوریوںنے فلسطین کو فتح کرکے اپنا تابع کرلیا ۔لیکن اسکے بعد ایک مصری بادشاہ فرعون نیکو (PHARAOH NECHO )نامی نے اسورین حکومت کو تباہ کردیا ۔ اورفلسطین اسورویوں کی حکومت سے نکل کر مصر کی حکومت تلے آگیا ۔فرعون مصر نے یوسیاہ کے بیٹے الیاقیم (اس کانام یہویقیم کردیا گیا) ELIAKIM کو وہاں کابادشاہ بنادیا ۔لیکن اس دوران میں اسورین کی حکومت کی تباہی کودیکھ کر اس کے ہمسایہ کلدانی (CHALDEAN) بادشاہ نے اپنے بیٹے نبوکدنصر (NEBUCHADNEZZAR )کو نِیکو کے مقابلہ کے لئے بھیجا ۔ اورنبوکدنصر نے مصر کو فتح کرلیا۔ اورفلسطین بابلیوں کے زیر اثر آگیا ۔مگر فلسطین کا بادشاہ یہویقیم مصر کی طرف مائل رہا ۔اس پر نبوکدنصرنے اس پر چڑھائی کی (یہ چڑھائی نبو کدنصر کے جرنیل نے کی ۴۷۷۔ق۔م۔جس کانام بنوز آدم تھا )مگراس کے لشکر پہنچنے سے پہلے بادشاہ یہویقیم مرگیا۔اسکابیٹا یہویکین (JEHOICHIN ) تابِ مقابلہ نہ لاکر معافی کا طلبگارہوا۔اسے بال بلالیا گیا ۔اورصدقیاہ ( ZED CHIAH )(یہ یہویقیم کابھا ئی تھا اوراس کااصل نام متنیا ہ MATTANIAH تھا )کو فلسطین کابادشاہ بنادیا گیا ۔مگراس نے بھی مصر کے بادشاہ حوفرا ( HOPHRA ) کی طرفداری کی ۔اس پر بابلیوں نے ۵۸۸ قبل المسیح میں فلسطین کے دارالخلافہ کامحاصرہ کرلیا ۔آخر ۵۸۹قبل مسیح میں شہر کی دیوار توڑ دی گئی۔صدقیاہ بھاگا۔مگر گرفتارکرلیا گیا ۔اوربادشاہ کے حکم سے قید کرکے بابل پہنچایا گیا ۔بابلیوں نے یہود کی مقدس عمارات کو جلادیا ۔اورفصیل کو گرادیا ۔اورشہر برباد کر دیا ۔
ثم رددنا لکم الکرۃ علیھم و امددنٰکم باموال
پھرہم نے تمہاری طر ف (دشمن پر )دوبارہ حملہ کی طاقت کولوٹادیا اورہم نے کئی قسم کے مالو ںاور(نیز)
وبنین وجعلنٰکم اکثر نفیراً٭
بیٹوں کے ذریعہ سے تمہاری مدد کی ۔اورہم نے تمہیں جتھے کے لحاظ سے بھی(پہلے سے )زیادہ کردیا ۔ ۷؎
۷؎ حل لغات ۔الکَرَّۃ:کَرّ الفارسُ کرًّاکے معنے ہیں فَرَّ للجولان ثم عاد للقتا ل ۔شہسوار نے پہلے میدان جنگ میں چکر لگایا ۔پھر لڑنے کے لوٹا۔الکرَّۃ کے معنے ہیں ۔المرّۃ۔باری ۔دفعہ ۔الحملۃ فِی الحربِ۔لڑائی میں حملہ (اقرب)پس ثُمَّ رَدَدْنَالَکُمُ الْکَرَّۃَ کے معنے ہیں ۔تمہاری طرف دوبارہ حملے کی طاقت کو لوٹادیا ۔
نفیر :النفیر لمادون العشرۃ من الرّجال۔دس سے کم لوگوں پر نفیر کالفظ بولتے ہیں ۔القوم ینفرون معک ویتنا فرون فی القتالِ۔وہ لوگ جو لڑائی کے لئے گھروں سے اکٹھے نکلیں۔وقیل ھم الجماعۃ یتقدمون فی الامر ِ۔اوربعض کہتے ہیں ۔کہ نفیر لوگو ں کی اس جماعت کو کہتے ہیں جو کسی کام میں پیش قدمی کرے(اقرب)
تفسیر ۔یعنی ا س تباہی کے بعد پھر خداتعالیٰ نے تم کو نجات دی اورطاقت عطاکی اور یہ اس طرح ہواکہ یہود کی اس تباہی کے بعد مید اورفارس کابادشاہ بابل پر چڑ ھ آیا اوربنی اسرائیل اپنے نبی کے حکم کے ماتحت اس کے ساتھ مل گئے اورا س نے ان کو قید سے آزاد کردیا۔اس کاتفصیلی ذکر سورۃ بقرہ میںحضرت سلیمان علیہ السلام کے واقعہ میں گذر چکاہے
اس واقعہ کی نسبت حضر ت موسیٰ نے ان الفاظ میں پیشگوئی کی تھی ’’اوریو ں ہوگا کہ جب یہ سب کچھ تجھ پر گذرے گا ۔برکت اورلعنت جنہیں میں نے تیرے آگے رکھا اورتوان سب گروہو ں میں جہاں جہاں خداوند تیراخدا تجھ کو بھگائے انہیں یاد کرے گااورتوخداوند اپنے خداکی طر ف پھر ے گا ۔اوران حکمو ں کے موافق جو آج میں نے تجھے کہے تُواپنے بال بچوںسمیت اپنے سارے دل اور اپنے سارے جی سے اس کی آواز کوسن لے گا ۔تب خداوند تیراخدا تیری اسیری کو بدلے گا ۔اورتجھ پر رحم کرے گا ۔اورپھرکے تجھ کو ان سب گروہوںمیں جن میں خداوند تیرے خدانے تجھے تتّربتّرکیاتھا تجھے جمع کرے گا ۔اگر تجھ میں کوئی آسمان کی اس انتہاکو بھگایاگیاہوگا توخداوند تیر اخدا وہاں سے تجھے جمع کرے گااوروہاںسے تجھے پھیر لائے گا ۔اورخداوند تیراخداتجھ کواس زمین پرجس پر تیرے باپ دادے قابض ہوئے لائیگااورتُواس کامالک ہوگا ۔اوروہ تجھ سے نیکی کرے گااورتیرے باپ دادوں سے زیادہ تجھے بڑھائے گا‘‘استثنا باب۳۰آیت ۱تا۵۔ان آیات سے معلو م ہوتاہے کہ حضرت موسیٰ نے پہلی تباہی کے بعد بنی اسرائیل کی دوبار ہ بحالی کی خبر دی تھی اوراسی کی طرف ان آیا ت میں اشارہ ہے اوراس بحالی کاحال یہ ہے کہ ۴۴۵قبل مسیح میداورفارس کے بادشاہ نے جس نے بابل فتح کرلیا تھا۔ا س صلہ میں کہ یہود نے اس کی مدد کی تھی ان کو واپس یروشلم جانے کی اجازت دیدی ۔یہود کے ایک نبی نحمیاہ کودوبار ہ آبادکرنے کے لئے بھیجا گیا تاوہ یروشلم اور دوسرے یہودی مقامات کو دوبار ہ آباد کریں اس بادشاہ کانام خورس تھا اورانگریزی میں اسے سائرس لکھتے ہیں ۔اس نے نہ صرف یہود کو ان کے وطن واپس جانے کی اجازت دی بلکہ وہ سامان جو وہاں سے نبوکدنصرلے گیاتھا وہ بھی ان کوواپس دیدیا ۔(عرزاباب۱ آیت ۲،۳،۷،۸)(یہ عرزاوہی عزیر ہیں جن کا قر آن کریم میں ذکر آتاہے کہ یہود انہیں خداکا بیٹاکہتے تھے )
ان احسنتم احسنتم لانفسکم وان اساتم فلھا
(اب)اگرتم نیوکاربنو گے تونیکو کا ربن کر اپنی جانوں کو ہی فائدہ پہنچائوگے اوراگر تم براکروگے تو(بھی)ان(ہی)کیلئے( براکروگے
فاذاجاء وعد الاخرۃلیسوء وجوھکم ولیدخلواالمسجد کمادخلو ہ اول مرۃولیتبرو ا ماعلو تتبیراً٭
پھر جب دوسری بار والا وعدہ (پوراہونے کاوقت )آگیا ۔تاکہ وہ (یعنی تمہارے دشمن)تمہارے معزز لوگوں سے ناپسندیدہ معاملہ کریں اور(اسی طرح )مسجد میں داخل ہو ں ۔جسطرح وہ اس میں پہلی بار داخل ہوئے تھے ۔اورجس چیز پر غلبہ پائیں۔اسے بالکل تباہ(وبرباد )کردیں ۔ ۸؎
۸؎ حل لغات ۔لِیَسُوْئٗ:سَائَ سے مضار ع مذکر غائب کا صیغہ ہے ۔اورسائہٗ(یسوء ہٗ سَوْئً)کے معنے ہیں ۔فعل بہ مایکرھہ اواحزنہ۔اس سے ایسا معاملہ کیا جس کو وہ ناپسند کرتا تھا یااس کوغمگین کیا (اقرب)
وُجُوہٌ:وجہ کی جمع ہے۔اورالوجہ کے معنے ہیں نفس الشیئِ۔کسی چیز کی ذات ۔سیّدالقوم ۔قو م کاسردار۔الجاہُ۔عزت(اقرب)
وَلِیُتَبِّرُوْا:تَبَّرَ سے مضارع مذکر غائب کاصیغہ ہے اورتبّرہٗ کے معنے ہیں ۔اھلکہ ودمّرہ۔اس کو ہلاک و تباہ کردیا ۔تَبَّر کلَّ شَیئٍ۔کسّرہ وفَتَّفَہُ۔کسی چیز کو توڑ کر ٹکڑ ے ٹکڑ ے کردیا ۔
التبار:الھلاک۔ہلاکت (اقرب)ولیتبرو ا کے معنے ہوں گے ۔کہ وہ ہلا ک کردیں ۔
تفسیر ۔اس آیت میں یہود کے دوسرے فساد کی خبر دی گئی ہے اورپھر اس کی سزاکاذکر کیا گیا ہے ۔فساد ان کاحضرت عیسیٰ کو دکھ دیناتھا ۔اورسزاانکا رومیو ں کے ہاتھو ں سے تباہ ہونا تھا ۔یہ واقعہ صلیب کے واقعہ کے ستر سال بعد کا ہے ۔گویا حضرت عیسیٰ کی زندگی میں ہی یہ واقعہ ہو ا۔کیونکہ احادیث سے معلو ہوتاہے کہ ان کی عمر ۱۲۰سال تھی ۔اورتینتیس سال کی عمر میں و ہ صلیب پر لٹکائے گئے تھے
اس عذاب کی تفصیل یہ ہے کہ وسیپین نامی ایک رومی جرنیل تھا اسے بادشاہ روم نے یہود کی سرکشیوں کیو جہ سے ان کی سر کوبی کاحکم دیاتھا ۔جب یہ اس حکم کے بجالانے میں مشغو ل تھا ۔اسے ایک کشف نظر آیا جس کی تعبیر اس نے یہ کی کہ مجھے روم واپس جانا چاہیئے ۔کیونکہ وہاں سے فسادات کی خبریں آرہی تھیں ۔اس کے واپس لوٹنے پر وہاںک کچھ ایسے حالات پیداہوئے کہ اسے بادشاہ بنادیاگیا ۔اوراس نے اپنے بیٹے وٹائٹس کو فلسطینی مہم کاافسر مقررکردیا ۔جس نے یروشلم کو ۷۰ ؁ء بعد مسیح فتح کرکے اس کے گرائے جانے کاحکم دیا ۔اورشہر کی دیواروں اورمسجد کو گرادیاگیا اوریہودی حکومت کاخاتمہ ہوگیا ۔گو ۱۳۵ ؁ء میں یہود نے پھر ایک ناکا م بغاوت کی مگر وہ چراغ سحری کے آخر ی شعلہ کی سی حیثیت رکھتی تھی ۔(انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا زیر لفظ جیو اورہسٹورئینزہسٹری آف دی ورلڈ)
اس واقعہ کی نسبت بائبل می ان الفاظ میں حضرت موسیٰ کی پیشگوئی درج ہے ۔’’انہوں نے اجنبی معبودوں کے سبب اسے غیر ت دلائی ۔اوروہ اسے نفرتی کاموں سے غصے میں لائے ۔انہوں نے شیطانوںکے لئے قربانیاں گذارنیںنہ خداکے لئے ۔بلکہ ایسے معبودوں کے لئے جنکو آگے وے نہ پہچانتے تھے ۔جو نئے تھے اورحال میں معلوم ہوئے اوران سے تیرے باپ دادے نہ ڈرتے تھے ۔تواس چٹان سے جس نے تجھے پیداکیا غافل ہوا۔اوراس خداکو جس نے تجھی صورت بخشی بھول گیا ۔اورجب خداوند نے یہ دیکھا توان سے نفرت کی اس لئے کہ اس کے بیٹوں اوراس کی بیٹیوں نے اسے غصہ دلایا ۔اوراس نے یہ فرمایا کہ میں ان سے اپنامنہ چھپائوں گا۔تاکہ میں دیکھو ںکہ انجام کیا ہوگا اس لئے کہ وہ کج نسل ہیں ۔ایسے لڑکے جن میں امانت نہیں ۔انہوں نے اس کے سبب سے جو خدانے مجھے غیرت دلائی اوراپنی واہیات باتوں سے مجھے غصہ دلایا ۔سو میں بھی انہیں اس سے جو گرو ہ نہیں غیرت میں ڈالوں گااورایک بے عقل قوم سے انہیں خفاکروں گا کیونکہ میرے غصے سے ایک آگ بھڑکی ہے جو اسفل جہنم تک جلے گی او رزمین کو اس کے پیداوار سمیت کھاجائے گی اور پہاڑوں کی بنیادوں کو ہلا دے گی ۔ا ن کی بلائوں کو ان کے اوپر بڑھائوں گا اوران پر اپنے تیروں کو خرچ کروں گا۔وہ بھوک سے جل جائیںگے۔اورسوزندہ گرمی اورکڑوی ہلاکت کے لقمے ہو ں گے ۔میں ان پردرندوں کے دانتوں اورزمین کے زہر دار سانپوں کو چھوڑوں گا۔باہر سے تلوار اوراندر کے مکانوں سے خوف جوان کو اورکنواری کو بھی۔شیرخوار کو بھی اورسر سفید کوبھی ہلاک کریںگے‘‘۔استثنا ء باب ۳۲آیت ۱۸تا۲۵۔یہ پیشگوئی پہلی پیشگوئی کے بعد بلکہ اس پیشگوئی کے بھی بعد کہ پہلے فساد کے بعد اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کوواپس یروشلم میں لے آئے گا۔بیان ہوئی ہے جس سے ظاہر ہے کہ اس سے پہلے عذاب کے بعد ایک دوسرے عذاب کی خبر دی گئی ہے۔اوریہ عذاب وہ دوسراعذاب ہے جس کا ذکر قرآن کریم نے لَتُفْسِدُنَّ فِیْ الاَرْضِ مَرَّتَیْنِ کے الفاظ میں کیا ہے ۔
عسیٰ ربکم ان یر حمکم وان عدتم عدنا وجعلنا جھنم للکٰفرین حصیراً٭
(اب بھی )کچھ بعید نہیں کہ تمہارارب تم پر رحم کردے اوراگر تم (پھراپنے اسی رویہ کی طرف)لوٹے توہم بھی (اپنی اسی سنت کی طرف) لوٹیں گے اور(یاد رکھو کہ)جہنم کو ہم نے کافروں کے لئے قید خانہ بنایا ہے ۹؎
۹؎ حل لغات ۔الحصیر :السّجن ۔قید خانہ (اقرب)
تفسیر ۔بنی اسرائیل کی کامل تباہی کی خبردینے کے بعد اب قرآ ن کریم انہیںامید کاپہلو دکھاتا ہے اورفرماتا ہے کہ بائبل کاجہاں تک تعلق ہے تم ہمیشہ کے لئے ہلاک کردئے گئے ہو مگرموسوی مذہب سے باہرہوکر تمہاری ترقی راہ ابھی کھلی ہے اوروہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعہ سے دوبارہ ترقی کرنے کا تمہاری قوم کو موقعہ دیا ہے اس موقعہ سے فائدہ اٹھائو اوراللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوجائو ۔لیکن اگر تم نے اس موقعہ سے بھی فائدہ نہ اٹھایا تواللہ تعالیٰ کی سزائیں دوبار ہ تم کو آگھیریں گی اورتم بالکل تباہ ہوجائو گے ۔
دیکھو ان آیات میں یہودی قوم کو سمجھانے کے لئے کیسااحسن طریق اختیار کیا ہے خود ان کی کتب سے ان کی تباہی کی خبر دی ہے اوربتایا ہے کہ خود یہودی کتب کے مطابق اب کوئی مستقبل یہودیت کے لئے باقی نہیں ۔پس جب خود ان کی کتب ان کی ہلاکت کافتویٰ دے چکی ہیں توان کے اس متروک راستہ وک چھوڑنے میں جسے خداتعالیٰ چھڑواچکا ہے عذرنہیں ہوناچاہیئے اوراسلام کو قبول کرکے دینی ودنیو ی انعامات حاصل کرنے چاہئیں ۔اس نئے راستہ کے متتعلق بھی بائبل میں خبر موجود ہے ۔استثناء باب ۳۳آیت ۱تا ۳میں فرماتاہے ’’اوریہ وہ برکت ہے جوموسیٰ مردِ خدانے اپنے مرنے سے آگے بنی اسرائیل کو بخشی اور اس نے کہا کہ خداوند سیناسے آیا اورشعیرسے ان پر طلوع ہوا۔ فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا۔دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا اوراس کے داہنے ہاتھ ایک آتشی شریعت ان کے لئے تھی ۔ہاں و ہ اس قم سے بڑی محبت رکھتا ہے ۔ا سکے سارے مقدس تیرے ہاتھ میں ہیں اوروہ تیرے قدموں کے نزدیک بیٹھے ہیں اورتیر ی باتوں کو مانیں گے ‘‘۔یعنی اللہ تعالیٰ فاران سے جلوہ گر ہونے والے نبی کے ذریعہ سے پھریہود کی برکت کاسامان پیداکرے گا ۔اگر وہ اچاہیں توہدایت پاکر ترقی کرسکتے ہیں ۔یہ پیشگوئی تباہی کی خبر کے معاً بعد دوسرے باب میں بیان ہوئی ہے ۔
یادرکھنا چاہیئے کہ آیات مذکورہ بالاجہاں یہ بتارہی ہیںکہ یہود کامستقبل خود ان کی کتب کے رُوسے بالکل تاریک ہے وہاں مسلمانوں کوبھی توجہ دلائی ہے کہ مسلمانوں پر بھی اسی طرح دوبارہ انکی بداعمالیوں کی وجہ سے عذاب آئے گا چنانچہ پہلا عذاب خلافت عباسیہ کے خاتمہ پرآیا ۔اس کاموجب بھی وہی تھا جوبائبل نے یہود کی تباہی کاموجب بتایا ہے ۔یعنی فرغانہ کی فتح کے بعدمسلمانوں نے کثرت سے وہاں کی خوبصورت لڑکیوں سے شادیاں کرلیں ۔یہ علاقہ بہت مشرک تھا ۔ان عورتوں کے اثر سے مسلمانوں میں بھی مشرکانہ عقائد پیداہونے لگے ۔اوراسلامی غیرت کمزورہونے لگ گئی ۔آخر ایک وحشی قوم نے بغداد پر حملہ کردیا جواپنی وحشت اوراجنبیت کے لحاظ سے اسلامی ممالک اوران کی تہذیب سے ویسی ہی بیگانہ تھی جیسی کہ بابل کی قوم جس نے فلسطین پر حملہ کیاتھا اٹھارہ لاکھ مسلمان صر ف بغداد اوراس کے گردونواح میں قتل کیاگیا ۔شاہی خاندان کے تما م لوگوںکو ان کی فہرستیں بنوابنواکر اورتلاش کرکرکے قتل کیا گیا ۔کہتے ہیں کہ صرف ایک شخص بھاگ کر بچ سکااوراسی کی نسل سے بہاولپور کے والیانِ ریاست ہیں ان کے علاوہ کوئی بھی خاندان ایسانہیں جواپنے آپ کو عباس کی طرف منسوب کر ے (اس نوٹ لکھنے کے بعدمجھے معلوم ہواہے کہ یوپی میں عباسی خاندان کی بعض شاخیں موجود ہیں ان میں سے ایک نے مجھے اپنا شجرہ نسب بھی بھجوایاہے )
دوسری تباہی آخری زمانہ کے وقت مقدر تھی جس کے آثار اب نمودارہورہے ہیں۔عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یَّرْحَمَکُمْ وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا وَجَعَلْنَا جَہَنَّمَ لِلْکٰفِرِیْنَ حَصِیْرًا۔العیاذ باللہ
ان ھذاالقراٰن یھدی للتی ھی اقوم ویبشرالمومنین
یہ قرآ ن یقینا اس (راہ کی)طرف رہنمائی کرتاہے جوسب سے زیاد ہ درست ہے اورمومنوں کو جومناسب حال کام کرتے ہیں
الذین یعملون الصٰلحٰت ان لھم اجراکبیراً٭
بشارت دیتاہے کہ ان کے لئے (بہت )بڑااجر(مقدر)ہے ۱۰؎
۱۰؎ تفسیر ۔یہ قرآن کریم یقیناا س مقصد کی طرف ہدایت کرتاہے جوپہلے لوگوں کے مقاصد سے بہت اعلیٰ ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس کے نتائج بھی ان کتابوں سے اعلیٰ ہی نکلیں اوروہ انعام جو اس کے نتیجہ میں ملیں گے و ہ روحانی بھی ہوں گے اورجسمانی بھی ۔ پس اس پر عمل کرو۔اورانعام حاصل کرو۔اسی طرح اس میں مسلمانوں سے کہاگیاہے کہ تم کو پہلے لوگوں سے بڑھ کر اوربہترانعام ملنے والا ہے ۔پس تم کو ان لوگوں سے زیادہ ہوشیار رہناچاہیئے ۔ تاایسا نہ ہو کہ کسی وقت تمہاری نسلیں انعام پر اتراکر خراب ہوجائیں اور الٰہی عذاب کی مستحق ہوجائیں ۔
وان الذین لایومنون بالاخرۃ اعتدنا لھم عذاباالیماً٭
اوریہ کہ جو لوگ آخر ت پر ایمان نہیں لاتے ان کے لئے ہم نے دردناک عذاب تیار کررکھا ہے ۱۱؎
۱۱؎ تفسیر ۔اس آیت میں اس مضمون کی طرف جوپہلی آیت میں اشارہ بیان ہواتھا واضح کیاگیا ہے اورفرماتا ہے کہ جوقوم بھی اپنے انجام سے غافل ہوجائے آخر عذاب میں مبتلاہوجاتی ہے ۔
آخرت کے معنے بعد میں آنے والی چیز کے ہوتے ہیںقرآن کریم میں چونکہ یوم آخرت کاباربارذکر ہے لوگوں کے ذہن پر یہ امر مسلط ہوگیاہے کہ آخر ت کے معنے صرف یوم آخر ۃ کے ہیں ۔حالانکہ یہ درست نہیں ۔آخرت کے اصل معنے بعد میں آنے والی شئے کے ہیں ۔پس جس موقعہ پراس لفظ کااستعمال ہواسی کے مطابق اس کے معنے کئے جانے چاہئیں ۔اس جگہ موقعہ کے لحاظ سے قوموں کے انجام کے معنے نہایت مناسب ہیں اور معنے یہ ہیں کہ جوقومیں اس امر کوبھلادیتی ہیں کہ ہرکمالے رازوالے ۔اوراپنے انجام کی اصلاح سے غافل ہوجاتی ہیں ۔وہ اپنی ذمہ واریوں کی ادائیگی میں بھی سست ہوجاتی ہیں اوراللہ تعالیٰ کے عذاب کی مستحق ہوجاتی ہیں پس ہرقوم کو اپنے انجام کو زیرنظررکھناچاہیئے اورہرخرابی کے موقعہ پر اپنی قو م کی اصلاح کرلینی چاہیئے تاکہ اسے نئی زندگی ملتی رہے اورخداتعالیٰ کے عذاب سے وہ بچ جائے ۔
اس آیت سے پہلے جو وائو حافظہ ہے وہ انہی معنوں پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اس سے معلو م ہوتاہے کہ یہ حکم مسلمانوں کو ہے اورمسلمان یو مِ آخر پرایما ن رکھتے تھے اس کے منکرنہ تھے۔
ویدع الانسان بالشردعاء ہ بالخیر وکان الانسان عجولاً٭
اورجس طرح انسان بھلائی کو اپنی طرف بلاتا ہے اسی طرح وہ برائی کو بھی اپنی طرف بلاتاہے اورانسان بڑاجلد باز (واقع ہوا)ہے ۱۲؎
۱۲؎ حل لغات ۔یَدعُ الانسانُ: یدعودعاسے مضارع واحد مذکر غائب کاصیغہ ہے اوردعاہُ (یدعُوْ دُعَائً ودعواً)کے معنے ہیں ۔رَغِبَ الیہ ۔اس کی طرف متوجہ ہوا۔دعازیداً۔استعانہ ۔زید سے مدد طلب کی ۔دعافلاناً۔ناداہ وصاح بہ ۔اسکوپکارا۔دعاہ الی الامر ۔ساقہ الیہ ۔کسی کام کی طرف اسے لے گیا۔دعافلاناً(دعوۃً۔دعاۃً)طلبہ لیاکل عندہ ۔اسے کھانے کی دعوت دی (اقرب)دعابہ۔استحضرہ۔اسے آنے کی دعوت دی (المنجد)وکل شیئٍ فی الارض اذالمحتاج الی شیئٍ فقد دعابہ ۔یقال لمن اخلقت ثیابہ فقد دعت ثیابک ای احتجت ان تلبس غیرھا ۔جب کسی طرح کسی چیز کی احتیاج دوسری چیز کی طرف معلوم ہو تواس احتیاج کو ظاہرکرنے کیلئے بھی دعاکافعل باء کے صلہ کے ساتھ استعمال کرتے ہیں ۔چنانچہ کسی پرانے کپڑوں والے کو جب دَعَتْ ثیابک کہیں تواس کے معنے یہ ہوں گے کہ اس کے کپڑے اس بات کی ضرورت کاظاہر کرتے ہیں کہ ان کواتار کر ان کی جگہ اورکپڑے تبدیل کئے جائیں دعابالکتاب کے معنے ہیں ۔استحضرہ۔کہ کسی کتا ب کو حاصل کرنے کی خواہش کی (تاج)
الخیر کے معنوں کے لئے دیکھو یونس ۱۲؎ نحل ۳۱؎ العجول :عجل سے مبالغہ کاصیغہ ہے اورالعجول کے معنی ہیں ۔المُسرِع۔محنتی ۔الکثیر العجلۃ ۔جلدباز (اقرب) قرآنی الفاظ میں انسان کالفظ برائی کو پکارنے کے ساتھ استعما ل ہواہے او روہ کی ضمیر بھلائی کو پکارنے کے فقرہ میں استعمال ہوئی ہے لیکن اردومیں چونکہ بھلائی کاذکر پہلے ہے اوربرائی کابعد میں کرنا پڑا ۔اس لئے انسان کالفظ مجبوراً بھلائی کے ساتھ اوروہ کی ضمیر برائی کے ساتھ لگانی پڑی
تفسیر ۔یہ آیت ان معنوں کی تصدیق کرتی ہے جومیں نے اوپر کی آیت کے کئے ہیں ۔کیونکہ اس میں اسی مضمو ن کی تشریح کی گئی ہے قیامت کاذکر نہیں کیاگیا۔بلکہ اگلی آیتوں میں بھی وہی مضمون بیان ہواہے ۔
اس سے پہلے کہ میں ا س آیت کامفہوم بتائوں ۔میںاس آیت کاترجمہ سمجھادیتاہوں ۔دعاہ کے معنے اسے پکارنے اس کی طرف توجہ کرنے اوراس سے مدد مانگنے کے ہوتے ہیں لیکن دعابہ کے معنے اسے اپنے پاس آنے کی دعوت دینے کے ہوتے ہیں ۔پس اس آیت کامفہوم یہ نکلتاہے کہ جبکہ انسان ظاہری طور پر خیر کوبلارہاہوتاہے وہ حقیقت میں شرکوبلارہاہوتاہے یایہ نکلتاہے کہ خیر کو بلانے کاجو حق ہے اس کی مانند و ہ شرکو بلاتا ہے ۔ان دونوں معنوں کے روسے آیت کامطلب یہ ہے کہ جب قوموں کوترقی ملتی ہے و ہ اس امر کو بھول جاتی ہیں کہ یہ ترقی انہیں اس لئے ملی ہے کہ تاوہ دین و دیانت کو قائم کریں اوربنی نوع انسان کے لئے امن اورترقی کے سامان پیداکرکے خداکے فضلوں کو حاصل کریں ۔اور وہ دنیاوی نعمتوںکوحاصل کرنے میں مشغول ہوجاتی ہیں۔اورلوگوں کے حقوق کو نظرانداز کردیتی ہیں ۔اوردنیوی عیش و آرام کے سامان جمع کرکے یہ سمجھتی ہیں کہ وہ اپنے لئے اوراپنی اولادوں کے لئے خیر کے سامان جمع کررہی ہیں۔حالانکہ حقیقت میں وہ اس ذمہ داری کوبھولکرجوان کے کندھوں پررکھی جاتی ہے اپنی تباہی کے سامان پیداکررہی ہوتی ہیں اورآخر تباہ ہوجاتی ہیں۔پس کسی قوم کوترقی ملنے کے وقت اس کے لئے بہت نازک ہوتا ہے کیونکہ اس کے بعد اصل خیر اس کی نظرسے پوشیدہ ہوجاتی ہے اورشرّکو خیرسمجھ کر وہ اپنے راستہ سے بھٹک جاتی ہیں ۔وَکَانَ الانسان عجولاً کہہ کر اس طرف اشار ہ کیاہے کہ مومن کو جو خیر ملتی ہے وہ تومرنے کے بعد ملتی ہے ۔اس دنیا کی فتوحات اس خیر کے حصہ کے لئے مواقع بہم پہنچانے کے لئے دیجا تی ہیں لیکن بعض لوگ جلدی کرتے ہیں اوراس دنیا کی ترقی کو اصل خیر سمجھ کر اس کے سمیٹنے میں لگ جاتے ہیں۔اورخود اپنے اعمال سے اپنی تباہی کے سامان جمع کرلیتے ہیں ۔
غرض ا س آیت میں اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اگر کسی قوم کو ترقی ملے مثلاًحکومت ملے ۔جاہ وثروت ملے تواسے ایسے کام کرنے چاہئیں ۔کہ وہ نعمت قائم رہے ۔اوراس کے ذریعہ سے اُخروی خیر کاذخیر ہ جمع ہوتا رہے ۔نہ کہ ایسے کام سے و ہ جلدی زائل ہوجائے اوراُخروی انعامات کے حصول کے مواقع ہاتھ سے نکل جائیں ۔دُعَائَ ہٗ بِالْخَیْرِ کے ایک معنی تواوپر بتائے گئے ہیں ۔دوسرے معنے یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ انسان شرّکو اسی طرح بلاتاہے جس طرح وہ خیر کو بلارہاہوتاہے ۔یعنی انسان بھی عجیب ہے کہ منہ سے توخیر مانگ رہاہوتاہے ۔یعنی خواہش تویہی رکھتاہے کہ اسے ہرقسم کی خیر مل جائے ۔مگرعمل کے لحاظ سے وہ شرّکوبلارہاہوتاہے ۔گویا اپنی نادانی سے ایک ہی وقت میں دومتضاد باتیں طلب کرتاہے منہ سے خیر اورعمل سے شر۔
ان معنوں کے روسے اس آیت مطلب یہ ہوگاکہ اصل کامیابی تب ہوتی ہے جب انسان کادل اوراس کاعمل متفق ہوں ۔یعنی اگردل سے خیر مانگتاہے تواعمال سے بھی خیر ہی مانگے ۔
(۳)تیسری صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ہٗ کی ضمیر کو انسان کیطرف پھیراجائے ۔اوراسے مفعول کی ضمیر قرار دیاجائے ۔اوردعاکافاعل خداتعالیٰ کوقرار دیاجائے ۔اس صورت میں معنے یہ ہوں گے کہ انسان شرکواسی جوش سے بلاتا ہے جس جوش سے اللہ تعالیٰ اس کو یعنی بندہ کو خیر کی طرف بلارہاہوتاہے ۔یعنی ہم توکہتے ہیں کہ اے انسان تُو بھلائی کی طرف آ۔مگر وہ کہتاہے اے بلاتُو میر ی طرف آ۔
ان معنوں کے روسے اس آیت کایہ مطلب ہوگاکہ ہم توانسانوں کے لئے خیر کے سامان مہیاکررہے ہیں ۔مگر ان میں سے بعض اپنے اعمال سے شرکو بلانے میں لگے ہوئے ہیں اوراپنی تباہی کاساما ن پیداکررہے ہیں۔
عَجُوْلاً کے لفظ میں اس حقیقت کو ظاہرکیا۔کہ انسان غوروفکر سے کام نہیں لیتا ۔اگروہ غوروفکر سے کام لے توضرور اسے معلوم ہوجائے کہ میں غلطی کررہاہوں ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غصے والا انسان اگرذراٹھہر جائے تواس کاغصہ ضرور کم ہوجائے ۔اوراسے سوچنے کاموقعہ ملے ۔تمام بدیوں کی وجہ جلد بازی ہی ہوتی ہے ۔اگرایک انسان بدی کے وقت ذراتأنّی سے کام لے اورپہلے سوچ لے کہ یہ کام میرے لئے مفیدہے یامضر۔تویقیناوہ اس بدی سے بچ جائے ۔
وجعلناالیل والنھار اٰیتین فمحونا آیۃ الیل وجعلنا آیۃ
اورہم نے رات اوردن (کے)دونشان بنائے ہیں اس طرح پر کہ رات والے نشان کے اثر کوتوہم نے مٹادیا اوردن والے نشان کو
ایۃ النھار مبصرۃ لتبتغوافضلا من ربکم ولتعلمواعدد
ہم نے بینائی بخشنے والابنادیا ۔تاکہ تم (آسانی سے )سالوں کی گنتی اورحساب
السنین والحساب ۔ وکل شیئٍ فصلنٰہ تفصیلاً٭
معلوم کرسکو اورہم نے ہرایک چیز کو خوب کھول کربیان کردیاہے ۱۳؎
۱۳؎ حل لغات ۔مُبْصِرَۃٌ:اَبْصَرَسے اسم فاعل مؤنث کاصیغہ ہے اوراَبْصَرہ(متعدی)کے معنے ہیں جَعَلَہٗ بَصِیْراً ۔اس کو دیکھنے والابنادیا(یعنی دکھایا)ابَصَرہٗ :راہُ۔اس کودیکھا ۔اخبَرَہ بماوقعت عینہ علیہ ۔اس کو وہ بات بتائی جس پر اس کی نظرپڑی تھی ۔اَبصر الطریقُ(لازم)استبانَ ووضحَ ۔راستہ واضح ہوگیا ۔(اقرب)پس مُبْصِرَۃ کے معنے ہوئے ۔بینائی بخشنے والی ۔
مَحَوْنَا:محیٰ سے جمع متکلم کاصیغہ ہے اورمحاالشیء (یمحو)کے معنے ہیں ۔اَزْالَہٗ وَاَذْھَبَ اثرُہ۔کسی چیز کو مٹادیا اوراس کے اثر کودورکردیا (اقرب) والمحو السواد فی القمر ۔اورمحوچاند کے بے نور حصہ کو بھی کہتے ہیں (تاج)پس محونااٰیۃً اللّیْلِ کے معنے ہوں گے کہ رات والے نشان کو ہم نے مٹادیا (۲)بے نورکردیا ۔
فضلاً:۔اَلفضلُ(فَضَل الشیئُ یفضل)کامصدرہے ۔اوراس کے معنے ہیں ۔ضدّالنقصِ۔خوبی۔فضیلت۔البقیّۃ۔بقیہ (حاصل تفریق کوبھی انہی معنوں میں فضل کہتے ہیں )الزیادۃ۔زیادتی ۔الاحسان۔احسان۔والفضل فی الخیر یُستعمل لمطلقِ النفحِ۔نفع(اقرب)
العدد:اسم من عدّبمعنی الاحصاء:یہ عدّکااسم ہے ۔اوراس کے معنے ہیں۔شمار ۔گنتی ۔المعدود۔شمار کیاہوا۔اس کی جمع اعداد آتی ہے (اقرب)پس لِتَعْلَمُوْاعَدَدَ السِّنِیْنَ کے معنے ہوں گے کہ تم سالوں کی گنتی کو معلوم کرسکو ۔
تفسیر ۔فَمَحََوْنَااٰیَۃَ الَّیْلِ میں فاء تعقیب کی نہیں ۔یعنی یہ مطلب نہیں کہ خداتعالیٰ نے پہلے رات اوردن بنائے پھران میں سے ایک کو مٹادیا۔بلکہ یہ فاء تفسیر ی ہے ۔اورمطلب یہ ہے کہ ہم نے رات اوردن کو اس صورتمیں بنایاہے کہ رات توایک مٹاہوانشان ہے ۔اوردن ایک روشن نشان ہے ۔یعنی رات سے مخفی فائدہ پہنچتاہے اوردن سے ظاہر۔اوریہ دونوں اپنی اپنی جگہ نفع بخش ہیں ۔چنانچہ دونوں کے ذریعہ تم نفع حاصل کرتے ہو ۔اورتاریخوں کاعلم ان کے ذریعہ سے حاصل کرتے ہو ۔نیزحساب کافائدہ بھی حاصل کرتے ہو ۔تاریخ کافائدہ توظاہر ہی ہے ۔حسا ب کاعلم اس طرح کہ لمبی تاریخ کویاد رکھنے سے ہی حساب پیداہوتا ہے ۔نیز اس طرح کہ سال کاوقت تجویز کرنے کاتعلق چاند اورسورج سے ہے اورصحیح جنتری سو رج کی رفتار کے علم کے بغیر نہیں بن سکتی ۔ اسی طرح سورج اورچاند کی گردش کاتعلق بھی حساب سے ہے ۔اس پر غور کرتے ہوئے انسان کو باریک در باریک حساب سے واسطہ پڑتاہے ۔چنانچہ آج تک شمسی حساب کوانسان مکمل نہیں کرسکا ۔اورشمسی سال کی تعین میں غلطیاں کرتاچلاآیاہے جسے علم حساب کی ترقی کے ساتھ ساتھ دورکیاجارہا ہے ۔
اس آیت میں یہ بتایاگیاہے کہ نشان دوقسم کے ہوتے ہیں ۔ایک ترقی کانشان ہوتاہے ۔اورایک مٹنے کانشان ہوتا ہے ۔پس تم ایسے نشان طلب کر و۔جن کے ذریعہ سے ترقی ہو ۔ایسانشان نہ مانگو جس سے تم مٹ جائو ۔اورترقی اورتنزل دونوں حالتوں کو روحانی کمالات کے حصو ل کاذریعہ بنائو ۔جس طرح رات جو تاریکی کانشان ہے ۔اوردن جوروشنی کانشان ہے ۔دونوں کو اللہ تعالیٰ نے تمہاری جسمانی ترقی کاذریعہ بنادیا ہے نہ تکلیف کے وقتوں میں خداکوبھولو نہ کامیابی کے وقتوں میں اس کو چھوڑو۔
وکل انسان الزمنٰہ طٓئرہ فی عنقہ ۔ ونخرج
اورہم نے (ذمہ وار بنایا ہے )ہرانسان کو (اس طرح کہ )ہم نے اس کی گردن میں اسکے عمل کوباندھ دیا ہے
لہ یوم القیامۃ کتاباً یلقہ منشوراً٭
اورہم قیامت کے دن اس (کے اعمال )کی ایک کتاب نکال کراس کے سامنے رکھ دیں گے جسے وہ (بالکل)کھلی ہوئی پائیگا ۱۴؎
۱۴؎ حل لغات ۔ اَلْزَمْنٰہُ:اَلْزَمَ سے جمع متکلم کاصیغہ ہے ۔اورالزمَ الشیئَ کے معنے ہیں۔اَثْبَتَہ وادَمُہ۔کسی چیز کو ہمیشہ رکھا۔الزمَ فلاناً المالَ والعملَ اَوْجَبَہ عَلَیْہ۔اس پر کسی کام کو کرنا یاکسی مال کو اداکرنا واجب کردیا ۔(اقرب)
طائر:اَلطَّائِرُ کلُّ ذی جَناحٍ من الحَیوان۔پرندہ ۔نیز اس کے معنے ہیں ۔اَلْحَظُّ۔نصیب ۔رزق الانسان ۔انسان کی روزی ۔عملہ الذی قدّر ہ وطارعنہ من خیرٍ اوشرٍ۔انسانی اعمال خواہ اچھے ہوں یابرے۔کہتے ہیں ۔ھومیمون الطائر۔ای مبارک الطلعۃ۔وہ مبارک چہرے والا ہے ۔نیز مسافر کو رخصت کرتے وقت دعاکے طور پر کہتے ہیں ۔سِرْ عَلَی الطائرالمیمون ۔کہ مبارک شگون پر چل۔اورجب ھو ساکن الطائرکہیں تواسکے معنے ہوتے ہیں ۔حلیمٌ ھادیٌ کہ و ہ بردبار متحمل اورسنجیدہ ہے(اقرب)پس اَلْزَمْنٰہُ طائرِہٗ فی عُنُقِہٖ کے معنے ہوں گے کہ ہم نے ا س کے عمل کو اس کی گردن میں باندھ دیا ہے۔
منْشُوْر:نَشَرَ سے اسم مفعول ہے اور نشر الکتاب کے معنے ہیں ۔بسطہٗ۔اس کو کھولا(اقرب)پس منشور کے معنے ہوں گے کھولاہوا۔
تفسیر ۔اس آیت میں فرماتاہے کہ ہم نے انسان کاعمل اس کی گردن میں باندھ دیا ہے ۔یاگردن کے ساتھ چسپاں کردیاہے اورقیامت کے دن اسے اس کے سامنے ایک کتاب کی صورت میںنکالیں گے جسے وہ کھلی ہوئی پائے گایعنی اس کے مطابق اس سے سلوک ہوگا۔کیونکہ کھاتہ کارجسٹر یاحساب لکھنے کے لئے کھولاجاتاہے یاحساب چکانے کے لئے ۔
اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہرانسان کو سمجھ لیناچاہیئے کہ اس کاکوئی فعل ضائع نہیں ہوتا۔کیونکہ ہم نے اس کے ساتھ اس کاعمل گردن میں چسپاں کردیاہے ۔گردن میں چسپاں کرنے کے الفاظ یہ بتانے کے لئے استعمال کئے ہیں ۔کہ اس کے ساتھ اس کادائمی تعلق ہے ۔جب تک وہ رہے گا اس کے اعمال کااثربھی رہے گا ۔
عمل کے لئے جو طائر کالفظ استعمال کیاگیا ہے اس سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ جیسے طائراڑجاتاہے اورنظر نہیں آتا۔ویسے ہی انسان اپنے عمل کو بھو ل جاتا ہے بلکہ دوسرے لوگ بھی بھول جاتے ہیں ۔لیکن یہ طائروہ ہے جو ایک رسی سے انسان کی گردن سے بندھاہواہے ۔اس لئے گو وہ اُڑجائے اورنظر نہ آئے مگراس سے تعلق انسان کانہیں ٹوٹتا۔ایک نہ ایک دن اس کے نتائج ظاہر ہوکرہی رہتے ہیں ۔
دوسرے یہ بتایاہے کہ جیسے پرند ے کے پائوں میںلمبی رسی باندھ کر اسے چھوڑ دیاجاتاہے تووہ رسی کی حد تک اڑ کر چلا جاتا ہے ۔اسی طرح انسانی اعمال کاحال ہے کہ بعض دفعہ وہ معمولی نظر آتے ہیں لیکن ان کااثر دورتک جاتا ہے ۔
اس آیت میں انسان کو بتایا ہے کہ انسان کو اپنے اعمال میں بہت ہوشیار اور محتاط رہنا چاہیئے ۔کیونکہ جب کیاہواعمل اسکے اختیار میں نہیں رہتا۔اوراس کااثر بھی بہت وسیع ہے ۔نظروں سے بھی غا ئب ہے اورساتھ بھی لگاہواہے ۔توان سب باتوں سے معلوم ہوا۔کہ اس کامٹانابہت مشکل امر ہے ۔پس بڑی احتیاط کی ضرورت ہے ۔اس کے عمل کانتیجہ خوا ہ جلدی نکلے خواہ دیر سے ۔مگر نکلے گاضرور۔کیونکہ گو بعض دفعہ یوں معلوم ہوتاہے کہ وہ پرندہ کی طرح اُڑ گیاہے مگرچونکہ یہ پرندہ گردن سے بندھاہواہے آخر ایک دن واپس آئے گا ۔اورانسان کواپنے کئے کامزہ چکھناپڑے گا۔دوسری جگہ قرآن کریم میں فرمایا کہ فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًایَّرَہٗ۔ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّ ایَّرَہٗ(سورہ زلزال)کہ کوئی شخص اگر سرخ چیونٹی کے برابر بھی نیک یابدعمل کرے گایاہواکے ذرّہ کے برابر بھی نیک یابد عمل کر ے تووہ اس کاانجام ضروردیکھ لے گا۔اس آیت کایہ مطلب نہیں کہ توبہ قبول نہ ہوگی توبہ توضرو رقبول ہو گی۔ مگر گناہ کرنے والاپیچھے ضروررہ جائے گا مثلا ً فرض کرلو دوانسان ہیں جو نیکی میں برابرہیں ان میں سے ایک نے ایک بدی کی ۔اورپھر توبہ کی ۔اس کے گنا ہ کو تواللہ تعالیٰ ضرو رمعاف کردے گا ۔مگر جب اس نے بدی کی ۔دوسرے شخص نے اسکے مقابل نیکی کی ۔تویہ توبہ کرنے والاتواسی پہلے درجہ پر رہا۔مگر دوسرااس سے آگے نکل گیا ۔پس اس غلطی کرنے والے شخص کو اللہ تعالیٰ معاف تو کردے گا ۔لیکن یہ نہ ہوگاکہ اس کو اس دوسرے شخص کے ساتھ ملادے جس نے بدی نہیں کی تھی ۔وہ توبہرحال اس سے ایک درجہ بڑھاہی رہے گا۔پس ہرعمل کااایک اثر ہے جو باقی رہتاہے ۔اب تواللہ تعالیٰ نے اس مضمون کو سمجھانے کے لئے انسان کو وائرلیس ٹیلیگرافی یا ٹیلیفون کاعلم بھی بخش دیا ہے ۔جس سے ثابت ہوتاہے ۔کہ باریک سے باریک حرکت بھی جوّمیں دورتک مرتعش ہوتی چلی جاتی ہے ۔پس انسان کو اپنے اعما ل میں بہت محتاط ہوناچاہیئے ۔کیونکہ ہرعمل ایک بیج کی طرح ایک نیاپوداپیداکرتاہے ۔جوبغیر اس کے علم کے بڑھتا رہتاہے ۔
حدیث میں آتاہے کہ ہرعمل کااثر انسان کے قلب پر ہوتاہے ۔اگر نیکی کرے تواس کے قلب پر نورکاایک نشان پیداہوجاتاہے ۔ اوربدی کرے توایک سیاہ نشان پڑ جاتاہے۔اسی طرح نیکی کرنے والے شخص کے دل پرنیکیوں کانوربڑھتارہتاہے ۔حتی کہ اس کاسارادل روشن ہوجاتاہے اوروہ نجات پاجاتاہے اوربدی کرنے والے کے دل پر سیاہ دھبے بڑھتے جاتے ہیں یہاں تک کہ ایک دن سارادل سیاہ ہوجاتاہے اوروہ شخص ہلاک ہوجاتاہے ۔بعض لوگوں نے طائر کے معنے قسمت کے کئے ہیں مگریہ معنے اس کے نہیں ہوسکتے کیونکہ طائرہ کہہ کر یہ بتایاگیاہے کہ اپنے عمل کاپیداکرنے والا خود انسان ہی ہے خداتعالیٰ نے جومقررکردیا ۔وہ توپتھر کہلائے گا یاطوق ۔طائرہ نہیں کہلاسکتا ۔
یہ معنے بھی اسکے ہوسکتے ہیں کہ ہرانسان کی نیک فالی اوربدفالی تواس کی گردن میں بندھی ہوئی ہے اوروہ دوسری چیزوں میں جاکر فالیں تلاش کرتا پھرتاہے ۔گردن کالفظ اس لئے استعمال کیا ۔کہ انسان جب نیکی کرے توسراونچاکرلیتا ہے ۔اورجب بدی کرے تو ذلت کی وجہ سے گردن نیچی کرلیتاہے ۔پس اس لفظ کے استعمال سے اس طرف توجہ دلائی کہ انسان اپنے اعمال کاجائزہ اپنی گردن سے کرلیا کرے یعنی دیکھے کہ وہ اپنے ہمرازوں اورہم جلسیوں میں گردن اونچی کرسکتا ہے یانہیں ۔اگر اس کا دل اوراس کے ہمراز اسے بے عیب قراردیتے ہوں توسمجھ لے کہ اس کاقد م نیکی پر ہے ۔لیکن اگراس کااپنادل اوراس کے ہمراز ا س میں سوسوگند پاتے ہوں تولوگوں میں فخر کرنے سے اسے کیانفع ہوسکتاہے ۔
وَنُخْرِجُ لَہٗ یَوْمَ الْقَیٰمَۃِ کِتَابًا۔یہاں کتاب سے مراد جزاء ہے کیونکہ عربی میں کتب علیہ کذاکے معنے قضیٰ علیہ کذاکے ہوتے ہیں ۔اوریَلْقٰہُ منشور۔سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ وہاں اس کے اعمال کی جزاظاہر ہونے لگ جائے گی ۔وہ بیج کی طرح نہ رہے گی ۔بلکہ درخت کی طرح پھیل جائے گی اورپھل پیداکرنے لگے گی ۔
اقراکتٰبک کفٰی بنفسک الیوم علیک حسیباً٭
(اوراسے کہاجائے گاکہ)اپنی کتاب (آپ ہی)پڑھ۔آج تیرانفس ہی تیراحساب لینے کے لئے کافی ہے ۱۵؎
۱۵؎ حل لغات ۔الحسیبُ والمحاسبُ من یحاسبک :الحسیب کے معنے ہیں حساب لینے والا(مفردات)
تفسیر ۔’’اپنی کتاب کو پڑھ‘‘کے الفاظ کایہ مطلب ہے کہ اب اپنی سزاکوبھُگتو۔اوریہی سبق دُہراتے رہو ۔کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا۔تیرانفس ہی آج تجھ پر کافی حساب لینے والاہے ۔اس سے معلو م ہوتاہے کہ سزاباہر سے نہ آئے گی ۔بلکہ انسان کے اندرسے ہی پیداہوگی ۔دوزخ میں جتنی چیزیں ہوںگی وہ انسان کے اعمال سے ہی متمثل ہوں گی ۔اورجنت کی چیزیں بھی اسی طرح نیکیوں سے ہی متمثل ہوں گی ۔پس گویا کوئی دوسراانسان کسی کوسزایاجزاء نہ دے گا۔بلکہ انسان خود ہی اپنے آپ کو جزادینے والا اورخود ہی سزادینے والاہوگا۔
من اھتدی فانما یھتدی لنفسہٖ ومن
(پس یاد رکھوکہ)جوہدایت کوقبول کرے گا۔تواس کاہدایت پانا اسی کی ذات کے لئے ہے اورجو (اسے ردّکرکے)
ضل فانما یضل علیھا ولا تزرووازرۃ وزر
گمرا ہ ہوگا۔اس کاگمراہ ہونا اسی کے خلاف پڑے گا ۔اورکوئی بوجھ اٹھانے والی جان کسی دوسری (جان )کابوجھ
اخریٰ وماکنا معذبین حتی نبعث رسولاً٭
نہیں اٹھائے گی اورہم (کسی قوم پر)ہرگزعذاب نہیں بھیجتے جب تک (انکی طرف)کوئی رسول نہ بھیج لیں ۱۶؎
۱۶؎ حل لغات ۔اِھْتَدٰی:ھَدَی سے باب افتعال ہے ۔اورھدی کے لئے دیکھو رعد ۲۸؎ ضلّ کے لئے دیکھو یونس ۳۰؎
تزر:وَزَرَ سے مضارع مؤنث غائب کاصیغہ ہے ۔اوروَزَرَہٗ کے معنے ہیں حملَہ۔اس کو اٹھایا۔وفی اللسان حمل ما یثقل ظھرہ من الاشیاء المثقلۃ:اس نے بھاری بوجھ اٹھایا(اقرب)وَلَاتَزِرُوازِرَۃٌوِزْرَ اُخرٰی کے معنے ہوں گے ۔کوئی بوجھ اٹھا نے والی جان دوسری جان کابوجھ نہیں اٹھائے گی ۔الوزر کی تشریح کے لئے دیکھو نحل ۲۶؎
تفسیر ۔ اس آیت میںپہلی آیت کے مضمون کی وضاحت کی گئی ہے ۔اوربتایا گیا ہے کہ انسان کے اعمال اس کے فائدہ کاموجب ہوتے ہیں ۔اوربداس کے نقصان کا ۔پس جو کچھ انسان کرتا ہے دوسرے کے لئے نہیں کرتا ۔اپنے لئے کرتا ہے ۔قاتل دوسرے کونہیں اپنے آپ کو قتل کرتا ہے ۔ظالم دووسرے پر نہیں اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے۔چور دوسر ے کامال نہیں اپنا مال چراتا ہے ۔اسی طرح صدقہ کرنیوالا دوسرے کو نہیں دیتااپنے آپ کودیتاہے ۔دوسرے کوتعلیم دینے والا یاہدایت دینے والا اسے تعلیم نہیں دیتایاہدایت نہیں دیتا بلکہ اپنے آپ کو تعلیم دیتاہے اوراپنے آپ کو ہدایت دیتا ہے ۔
اس کے آگے فرماتا ہے کہ لَاتَزِرُوَازِرَۃٌوِزْرَاُخْرٰی۔کوئی بوجھ اٹھانے والی جا ن کسی اورجان کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی ۔عیسائی اس آیت سے بڑے خوش ہوتے ہیں کہ لوکفارہ ثابت ہوگیا ۔کیونکہ ہم بھی یہی کہتے ہیں ۔کہ گناہ گار گناہ گار کابوجھ نہیںاٹھاسکتا۔مگر جو نیک ہے و ہ دوسرے کا بوجھ اٹھاسکتا ہے ۔پس مسیح جونیک تھا ۔اس نے دوسروں کے بوجھ اٹھالئے اوردوسراکو ئی نیک نہیں۔پس اورکوئی بوجھ نہیں اٹھاسکتا ۔
میں اس جگہ اس سوال میں نہیں پڑتاکہ مسیحی عقیدہ کے رُوسے مسیح نیک تھا یانہیں ۔نہ اس سوال میں پڑناچاہتاہوںکہ اسلامی عقید ہ کے روسے مسیح کے سوابھی کوئی نیک ہے یانہیں ۔اس کی تفصیل کایہ موقعہ نہیں ۔اس وقت ان کے جواب میں یہ کہنا چاہتاہوں کہ اس آیت میں توصرف یہ بتایا گیا ہے کہ خواہ انسانی اعمال برے ہوں یا اچھے ۔خود اس کے لئے ہوتے ہیں کوئی دوسر انہیں اٹھاسکتا ۔مطلب یہ کہ سزاجزاء کوئی بیرونی شے نہیں بلکہ ثمرئہ عمل کانام ہے ۔اوریہ ظاہر ہے کہ جس جگہ بیج بویا گیا ہے وہی وہ پھل دے گا۔دوسری جگہ وہ پھل نہیں دے سکتا۔پس جب سزاجزاء خود عمل کرنے والے کے عمل سے پیداہوتی ہے تواسے کوئی دوسرانہیں بانٹ سکتا ۔یااپنے ذمہ نہیں لے سکتا ۔پس اس مضمون میں کفار ہ کا رد ہے نہ کہ اس کی تائید ۔کفار ہ کی بنیاد تواس خیا ل پر ہے کہ سزاایک بیرونی بوجھ کی طرح ہے ۔ پس دوسراشخص بھی اسے اٹھا سکتاہے ۔مگر ا س آیت میں ا س عقیدہ کورد کیا گیا ہے ۔
اسی اعتراض سے بچنے کیی لئے مسیحیو ں نے دوزخ کو مادی قرار دیا ہے ۔حالانکہ یہ حماقت کی بات ہے کہ جنت توروحانی ہو ۔اوردوزخ مادی ہو ۔یادونوں روحانی ہوںگی یا ودنوں مادی ۔اگرروحانی ہوں گی توپھر کو ئی شخص دوسرے کی سزانہیں اٹھاسکتا ۔کیاکوئی شخص دوسر یکی ندامت ،حرض رنج غضب وغیر ہ کو بانٹ سکتا ہے ؟۔اسی لئے نہیں بانٹ سکتا۔کہ یہ چیز یں انسان کے اندر سے پیداہوتی ہیں ۔اوران کے پیداکر نے میں خود اس کے نفس کادخل ہوتا ہے اس قسم کی سزااسی صورت میں مٹ سکتی ہے جب نفس حقیقتاً فناہوجائے یامعنوی طور پر فنا ہوجاء ے۔یعنی ندامت کے احسا س کے ساتھ اس میں پاکیز گی پیداہوجائے ۔اس قسم کی فنا میں کوئی دوسراشخص کسی طرح بھی شریک نہیں ہوسکتا ۔کوئی معقول آ دمی کسی دوسرے کو یہ نہیں کہہ سکتا ۔کہ میا ں بہت شرمندہ نہ ہو میں تمہاری جگہ شرمندہ ہولیتا ہوں ۔ایک فاترالعقل ہی ایسا کہہ سکتا ہے ۔پھر کیوں مسیحی خداکے برگزیدہ مسیح کے منہ سے یہ الفاظ کہلا کر اس کی ہتک کرتے ہیں ۔
وَمَاکُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا۔اورہم سزانہیں دیاکرتے ۔یہاں تک کہ ہم ایک رسول بھیج لیں ۔اس کے متعلق قرآن کریم میں دوسری جگہ آتاہے ۔کُلَّمَآ اُلْقِیَ فِیْہَافَوْجٌ سَاَلَھُمْ خَزَنَتُھَآ اَلَمْ یَاتِکُمْ نَذِیْرٌ قَالُوْابَلیٰ قَد ْجَآئَ نَانَذِیْرٌ(سورئہ مُلک ع۱)کہ جب کبھی کوئی گروہ اورقوم جہنم میں ڈالکی جائے گی ۔توان سے دریافت کیاجائے گاکہ تمہار ے پاس کوئی ڈرانے والاآیا۔تووہ کہیں گے کہ ہاں۔ہمارے پاس نبی آیا ۔
اس سے پتہ لگتا ہے کہ ہرقوم میں نبی آئے ۔اسی طرح ایک اورجگہ فرمایا ہے ۔ اَلَمْ یَاْتِکُمْ رُسُلٌ مِنْکُمْ یَتْلُوْنَ عَلَیْکُمْ اٰیٰتِ رَبِّکُمْ وَیُنْذِرُوْنَکُمْ لِقَآئَ یَوْمِکُمْ ھٰذا(زمرع ۸)کہ کیا تمہارے پاس رسول نہ آتے رہے جو تم کو اس دن کی ملاقات سے ڈراتے تھے ۔ایک اورجگہ فرماتاہے ۔اَوَلَمْ نُعَمِّرْکُمْ مَّایَتَذَکَّرُفِیْہِ مَنْ تَذَکَّرَ وَجَآئَ کُمُ النَّذِیْرُ(فاطر ع ۴)کیاتم کو ہم نے اس قدر عمر نہیں دی کہ جس کی سمجھنے کی نیت ہوتی ۔اس میں سمجھ سکتاتھا اورپھر اسی پر بس نہیں کی ۔بلکہ تمہارے پاس ہوشیار کرنے کے لیئے رسول بھی بھیجے ۔اسی طرح قصص رکوع ۶ میں فرماتا ہے وَمَاکَانَ رَبُّکَ مُھْلِکَ الْقُرٰی حَتّٰی یَبْعَثُ فِیْٓ اُمِّھَا رَسُوْلًا۔تیرے خداکی شان کے خلا ف ہے کہ وہ اس کے مرکزی مقام میں نبی بھیجے بغیر کسی بستی کو ہلاک کردے ۔اورپھر سورہ قصص ع ۵ میں فرمایا وَلَوْلَٓااَنْ تُصِیْبَہُمْ مُّصِیْبَۃٌ بِمَاقَدَّمَتْ اَیْدِیْھِمْ فَیَقُوْلُوْارَبَّنَا لَوْلَٓااَرْسَلْتَ اِلَیْنَارَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰیٰتِکَ وَ نَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ یعنی اگر یہ خیال نہ ہوتا کہ ان لوگوں کے اپنے اعمال کی وجہ سے کوئی عذاب پہنچا ۔تویہ کہہ دیں گے کہ اے ہمارے رب کیوں نہ آپ نے ہماری طرف رسول بھیجاکہ ہم ذلیل وخوار ہونے سے پہلے آپ کے احکام کی تعمیل کرتے ۔توہم ان کو بغیر رسول بھیجے کے ہی عذاب دے دیتے مگرچونکہ یہ عذر ا ن کامعقو ل ہوتا۔ہم نے اس عذر کوتوڑ دیا ہے ۔اورہمیشہ پہلے رسول بھیجتے ہیں ۔پھر اس کے انکا ر کے بعد عذاب آتے ہیں ۔
ان تمام آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ سنت الٰہی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ بغیر رسول بھیجنے کے کسی قوم پر عذاب نازل نہیں کرتا۔یعنی اتنے وسیع علاقہ پر جونبئی وقت کا مخاطب ہو ا سوقت تک عذاب نہیں آتا۔جب تک پہلے ایک اورنبی خواہ وہ پہلے نبی کاتابع ہی کیوںنہ ہو ظاہر ہو کر لوگوں کو ہوشیار نہ کردے ۔
یہاں سوال ہوسکتا ہے کہ وہ لو گ جن پر حجت تمام نہیں ہو ئی انکا کیا حا ل ہوگا۔تواس کاجواب مسند احمد بن حنبل کی روایت میں ہے جو ابوہریرہؓنے بیان کی ہے انَّ النبی صلے اللہ تعالیٰ علیہ وسلم قال اربعۃٌ یحتجُّونَ یوم القیامۃ رجل اصمّ لایسمع شیئًاورجل احمقٌ ورجل ھرمٌ ورجل مات فی فترۃٍ فامَّا الاصمّ فیقول ربّ لقد جَآئَ الاسلام ُومااسمع شیئًا وامّاالاحمق فیقول جاء الاسلام والصبیان یَخْذنونَنِیْ بالبعر واماالھر م فیقول رب لقد جاء الاسلام وما اعقلَ شیئًاواماالذی مات فی الفترۃ فیقول رب مااتانی لک رسول فیاخذ سبحانہ مواثیقہم لیطیعنّہ فیرسل الیھم رسولًاان ادخلواالنار ۔فمن دخلہا کانت علیہ بردًاوسلاماً ومن لم یدخلہا سحب الیہا( روح المعانی جلد ۱۵)یعنی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کے پاس رسول بھیجے گا پھر اس کی اطاعت کرنے والوں اوراس کو نہ ماننے والوں کی فطرت ظاہر ہوجائے گی ۔اوراس کے مطابق ان کو بدلہ ملے گا۔
واذااردنا ان نھلک قریۃ امر نا مترفیھا
اورجب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کاارادہ کریں تو(پہلے)ہم اس کے خود سر لوگوں کو (کچھ )حکم دیتے ہیں
ففسقوافیھا فحق علیھا القول فدمرنھا تدمیرا٭
جس پر وہ اس (بستی )میں نافرمانی (کی راہ اختیار)کرتے ہیں۔تب اس (بستی)کے متعلق ہماراکلام پوراہوجاتاہے ۔اورہم اسے پوری طرح تباہ کردیتے ہیں ۱۷؎
۱۷؎ حل لغات ۔مُترَفِیْھَا:المترفُ کے معنے ہیں ۔المتنعّم لایمنع من تنعّمہ۔عیاش ۔المتروک یصنع مایشاء۔شریعت سے آزاد شخص ۔ الجبّار۔خودسر(تاج)مترفون اس کی جمع ہے ۔
فسقوا:فسق سے جمع مذکر غائب کاصیغہ ہے ۔تشریح کے لئے دیکھو یونس ۳۴؎
دمَّرنا:دمّر سے جمع متکلم کاصیغہ ہے اوردَمَّرھم (وعلیھم )کے معنے ہیں اَھْلَکْہُم یعنی دمَّر جب بغیر صلہ یاعلیٰ کے صلہ کے ساتھ استعما ل ہو۔تواس کے معنے ہوتے ہیںکہ اس کو ہلاک کردیا (اقرب)پس دمّرنا کے معی ہوں گے ہم نے ہلا ک کردیا ۔
تفسیر۔ اس آیت میں بتایاگیاہے کہ جب قومیں خراب ہوجاتی ہیں اوران کے عذاب کافیصلہ ہوجاتاہے توان کی طرف ایک رسول بھیجا جاتاہے جوان کو ہوشیار کرتاہے لیکن لوگ اس کی بات کو نہیں مانتے اوررسول سے ٹھٹھاہنسی کرتے ہیں ۔اوراس کی نافرمانی کر تے ہیں۔تب خداتعالیٰ کاعذاب انہیں آپکڑتاہے ۔
اَمَرْنَا مُتْرَفِیْہَا فَفَسَقُوْافِیْہَا۔بعض مخالفین اسلام نے ا س آیت کے یہ معنے کئے ہیں کہ خداتعالیٰ بڑے بڑے لوگوںکو یہ حکم دیتاہے کہ بدکار ہوجائو ۔اوریہ غلط معنے کرکے ا سپر اعتراض کیا ہے کہ آپ ہی پہلے گمراہ کیاپھر عذاب میں مبتلاکردیا یہ توانصا ف کے خلاف ہے ۔حالانکہ فسق کے معنے حکم نہ ماننے کے ہیں اوران معنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جومعنے انہوں نے کئے ہیں ان کی بناء پر آیت کاترجمہ یو ں بنتاہے کہ خداتعالیٰ ان کو حکم دیتا ہے کہ تم بدکاری کرو ۔فَفَسَقُوْافِیْہَاتووہ ا س حکم کی نافرمانی کرنے لگ جاتے ہیں۔ظاہر ہے کہ اگر آیت کا مطلب یہ ہو توااس میں تو ان لوگوں کی تعریف نکلتی ہے کہ باوجود خداتعالیٰ کے کہنے کے کہ بدکار بن جائو وہ بدکار نہیں بنتے ۔بلکہ نیک ہوجاتے ہیں ۔اوریہ معنی بالبداہت غلط ہیں اوراگر یہ معنے کئے جائیں کہ خداکے بدکار بنانے پر وہ بدکار ہوجاتے ہیں توفَفَسَقُوْاکا لفظ در ست نہیں رہتا کیونکہ اس صورت میں تووہ فرمانبرداربن جاتے ہیںان کو نافرمان نہیں کہاجاسکتا غرض یہ معنے بالبداہت غلط ہیں اور عربی زبان سے ناواقفیت کیوجہ سے کئے گئے ہیں۔اوراعتراض قرآن کریم پر نہیں پڑتا۔بلکہ ان لوگوںکے علم پر پڑتاہے ۔اصل مطلب اس آیت کا یہ ہے کہ ہم ان کو حکم دیتے ہیں یعنی خاص امور پر چلنے کاحکم دیتے ہیں جوحکم خداتعالیٰ کی طرف سے ہونے کے سبب سے بہرحال نیکی کاحکم ہوتا ہے ۔مگر وہ نافرمان ہو جاتے ہیں یعنی اس حکم کو نہیں مانتے ۔غرض اس جگہ اَمَرْنَا کامفعول ثانی مخذوف ہے کیونکہ وہ ایک ظاہر بات ہے اورایسے مواقع پر عربی زبان میں ایک یادونوں مفعولوں کومخذوف کردیناجائزہوتاہے ۔مفعول ثانی کامضمون ظاہر اس طرح ہے کہ قرآن کریم نے بار بار اس امر کو بیان کیا ہے کہ خداتعالیٰ جب حکم دیتا ہے تونیکی کاحکم دیتا ہے ۔چنانچہ سورئہ نحل رکوع ۱۳میں ہی فرماچکا ہے کہ اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآئِ ذِیْ الْقُرْبٰی وَیَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْییِ یعنی اللہ تعالیٰ عدل اور احسان اوراس نیکی کاجس میں بدلہ کاخیال تک بھی دل میں نہیں ہو تاحکم دیتاہے اورباطنی بدی اورظاہری بدی اورظلم سے روکتاہے ۔اسی طرح سورئہ اعراف میں ہے ۔قُلْ اِنَّ اللّٰہَ لَایَاْمُرُ بِالْفَحْشَآئِ (اعراف ع ۳)تُو کہدے اللہ تعالیٰ ہرگز بدی کاحکم نہیں دیتا ۔پس چونکہ یہ امر واضح ہوچکاہے کہ اللہ تعالیٰ نیکی کا ہی حکم دیتاہے ۔مفعول ثانی کومخذوف کردیاگیاہ ے اورمطلب آیت کا یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو ہلا ک کرنے کاارادہ کرتاہے تووہ ا س قوم کو ایک رسول کے ذریعہ سے نیک احکام پرچلنے کاحکم دیتا ہے مگربجائے اس حکم سے فائدہ اٹھانے کے و ہ خداتعالیٰ کی نافرمانی میں بڑ ھ جاتے ہیں ۔
یہ جو فرمایا ہے کہ اَمَرْنَا مُتْرَفِیْہَا کہ ہم اس بستی کے مترفوں کوحکم دیتے ہیں۔اس کے یہ معنی نہیں کہ صرف مالداروں کوخداکاحکم ملتا ہے بلکہ مترف کے معنے اس جگہ الذی یصنع مایشآئُ ولا یمنع کے ہیں یعنی ایسا شخص جو اپنی مرضی پرچلتاہے اورنیک بات کونہیں مانتااوراس لفظ میں سب کے سب وہ لوگ شامل ہیں جوبدی میں مبتلاہوتے ہیں خواہ غریب ہوں یاامیر ۔
اس آیت کے یہ معنے بھی ہوسکتے ہیں کہ ہم عام حکم دیتے ہیں مگرمترف یعنی باغی لوگ اس کونہیں مانتے نیک لو گ مان لیتے ہیں یہ ایساہی ہے جیساکہ شیطا ن کے بارہ میں فرمایا ہے کہ مامنعکَ اَنْ تَسْجُدَ اِذْاَمَرْتُکَ(ص ع ۵)کہ تجھے کس چیز نے سجدہ سے روکا تھا ۔جب میں نے تجھے حکم دیاتھا ۔یہاں یہ مراد نہیں کہ خاص اسے ہی حکم تھا بلکہ حکم عام تھا ۔جس میں وہ بھی شامل تھا ۔ پس جب نبی آتا ہے تووہ عام حکم لاتا ہے۔ماننے والے مان جاتے ہیں اورانکار کرنے والے انکا ر کرتے ہیں ۔
قریہ سے مراد یہاں پربستی نہیں بلکہ ام القریٰ مراد ہے یعنی جس بستی کو اس زمانہ کے لئے خداتعالیٰ نے مرکز تجویز کیا ہو ۔جیساکہ قرآن میں ایک اورجگہ فرمایا ہے حَتّٰی یَبْعَث فّیْ اُمِّھَارَسُوْلًا۔کہ ہم عذاب نازل کرے سے پہلے ام القریٰ میں رسول بھیج لیتے ہیں۔
وکم اھلکنا من القرون من بعد نوحٍ۔ وکفیٰ
اور(اسی قانون کے مطابق)ہم نے نوح (کی قوم کو اور اس)کے بعد (یکے بعد دیگرے اور)بہت سی نسلوں کوہلاک کیا
بربک بذنوب عبادہ خبیرابصیرا ٭
اورتیرارب اپنے بندوں کے گناہوں پر (اچھی طرح )آگاہی رکھنے والاہے (اورانہیں)خوب دیکھتاہے ۱۸؎
۱۸؎ حل لغات ۔القرون کے لئے دیکھو یونس ۳۴؎
تفسیر ۔یعنی اس قسم کی مثالیں تم کو شروع سے دنیامیں نظرآئیں گی نوح سے لے کر اس وقت تک نبی آتے رہے ہیں سب کے زمانہ میں اسی طرح ہوتاچلاآیا ہے ۔وَکَفٰی بِرَبِّکَ بِذُنُوْبِ عِبَادِہٖ خَبِیْرًابَصِیْرًا کہہ کر یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ جوخبیر و بصیر ہے بندوں کو غلط راستہ پر چلتے دیکھ کر کس طر ح خاموش رہ سکتاہے ۔یہ فقرہ بھی ان معنوں کو رد کرتا ہے جو اوپر کی آیت کے بعض نادانوں نے کئے ہیں ۔کیونکہ اس میں بتایا ہے کہ معذب لوگ پہلے سے گناہ گار ہوتے ہیں یہ نہیں کہ خداتعالیٰ ان کو گناہ گا ر بناتا ہے ۔
من کان یرید العاجلۃ عجلنالہ فیھامانشاء لمن نرید
جوشخص (صرف )دنیاکاخواہاں ہو ہم اسے (یعنی ایسے لوگوںمیں سے)جس کے متعلق ہم (کچھ دینے کا)اراد ہ کرلیتے ہیں ۔اس
ثم جعلنا لہ جھنم یصلٰھا مذمومامدحوراً٭
(دنیا)میں جوکچھ چاہتے ہیں جلد(ہی)دیدیتے ہیں۔پھر ہم اس کے لئے جہنم کو مخصوص کردیتے ہیںجس میں و ہ مذموم ہوکر(اور)دھتکاراجاکر داخل ہو گا ۱۹؎
۱۹؎ حل لغات ۔العاجلۃُ:عاجل (اسم فاعل عَجَلَ)سے مؤنث ہے ۔اورعجل الرجلُ کے معنے ہیں ۔اَسْرَع۔اس نے جلدی کی ۔نیز العاجلۃکے معنے ہیں الدنیا ۔دنیا (اقرب)قولہٗ منْ کان یُریدُ العاجلۃ ای الاعراض الدنیویّۃ آیت میں مَنْ کانَ یُرِیدُ العاجلۃ میں العاجلۃ سے مراد دنیوی سامان ہیں (مفردات) جہنّم کے لیء دیکھو رعد ۱۹؎
مَدْحورًا:دَحَرَ(یدحُرُ۔دُحُوْرًا)سے اسم مفعول ہے ۔اوردَحَرَ کے معنے ہیں ۔طَرَدہ۔اس کو دھتکارا۔ابعدہٗ۔اس کو دورکیا ۔دفعہٗ۔اس کوہٹایا۔(اقرب)پس مدحُور کے معنے ہوں گے (۱)دورکیا ہوا(۲)دھتکاراہوا(۳)ہٹایاہوا۔
تفسیر ۔اس آیت میں بتایاہے کہ قریب کے فائدہ کو مدنظر نہیں رکھنا چاہیئے ۔بلکہ ایسے فائدہ کومدنظر رکھنا چاہیئے جوبابرکت ہو ۔خوا ہ بعد میں ہی ملے ۔دوسرے یہ بتایاہے کہ صرف دنیوی ترقیات کوخداکافضل نہیں قراردینا چاہیئے۔کیونکہ بسااوقات اللہ تعالیٰ بعض اقوام کو دنیوی ترقیات دیتاہے ۔لیکن وہ ان پر خوش نہیں ہوتا ۔فضل الٰہی وہی ترقیات کہلا سکتی ہیں جن کے ساتھ روحانیت میں ترقی ہو
ومن اراداالاخرۃ وسعی لھا سعیھا وھو مومن
اورجس شخص نے آخر ت کی خواہش کی اوراس کے لے اس کے مطابق کو شش (بھی)کی تو(اس کے متعلق یاد رکھو کہ)
فاولٰئک کان سعیہم مشکوراً٭
ایسے ہی لوگ ہیں جن کی کوشش کی قد رکی جائے گی ۲۰؎
۲۰؎ تفسیر ۔سعیھا میں ھاکی ضمیر آخرت کی طرف پھر تی ہے ۔اورمطلب یہ ہے کہ ایسی کوشش کرتے ہیں۔جوآخرت کے حصول کے مناسب حا ل ہو ۔اس میں اس طرف اشارہ کیاہے کہ عام کوشش مفید نہ ہوگی ۔بلکہ وہ کوشش فائدہ بخش اورنتیجہ خیز ہوگی جواخروی کامیابی کے مناسب حال ہوگی ۔
وَھُوَمُؤمِنٌ کہہ کریہ بتایاہے۔ کہ حیات آخرت کا مدار قلب کی صفائی پر ہے ۔دنیوی کام بعض دفعہ بغیر ایمان کے بھی نفع بخشتے ہیں ۔لیکن آخرت کے لئے جوکوشش ہو ۔اس میں وہی کام نفع دیتاہے جس کے ساھ ایمان بھی ہو ۔
مَشْکُوْر کے معنے مقبول کے ہیں۔یعنی وہی خداکے ہاں مقبول ہوگا ۔جس کے ساتھ ایمان شامل ہو ۔وھو مومنٌ کا یہ مطلب نہیں کہ مومن کے سواکسی کی نیک قبول نہیں ۔بلکہ یہ مرا دہے کہ اُخروی جزاء پر ایمان رکھتے ہوئے جونیک عمل کرے اُسے اُخروی جزاملے گی ۔جواس پر ایمان لانے کے بغیر نیک عمل کرے اس کے عمل کابدلہ اُسے اسی دنیا میں مل جائے گا
کلانمد ھٰولٓاء من عطاء ربک ۔ وماکان عطاء ربک محظوراً٭
ہم سب کو مدددیتے ہیں ۔ان کو بھی او ر ان کو بھی (اوریہ مدد)تیرے ر ب کی عطائوں میں سے ہے ۔اورتیرے رب کی عطا(کسی خاص گروہ کے لئے )محدود نہیں ہے ۲۱؎
۲۱؎ حل لغات ۔نُمِدّ:اَمَدَّسے مضارع جمع متکلم کاصیغہ ہے ۔اوراَمدَّہُ کے معنے ہیں ۔امھَلَہ اسے مہلت دی ۔اَمَدَّ اَجَلہٗ:اَخّرَہٗ۔اس کی معیاد لمبی کی ۔امدَّ الجنْدَ:۔نصرھم بجماعۃ۔کمک بھیج کر ان کی مدد کی ۔امدَّ فلاناً بمالٍ۔اعطاہ۔اس کومال دیا ۔اَعَانہٗ واغاقہٗ۔امدَّ کے ایک معنے مدد کرنے اورفریاد رسی کر نے کے ہیں (اقرب)پس نمدّ کے ایک معنے ہوں گے ہم مدد دیتے ہیں ۔
اَلْمَحْظُوْر:۔الممنوع ۔محظور کے معنے ہیں ۔روکاہوا۔المحرّم ومنہ فی القراٰن وماکان عطائُ رَبِّکَ محظورای محرّمًا اورمحظور کے ایک معنے حرام کئے ہوئے کے بھی ہیں ۔اورآیت مَاکَانَ عَطَآئُ رَبِّکَ محظورًامیں محظورکے معنے یہی لئے گئے ہیں۔وقیل مقصورًاعلیٰ طائفۃٍ من دون اخرٰی مِنْ حَظَرَ الشَیئَ اذاحازہ لنفسہِ۔اوربعض نے کہا ہے کہ چونکہ حظر کے ایک معنی کسی چیز کواپنے نفس کے لئے مخصوص کرنے کے ہیں ۔اس لئے محظور کے معنے یہ ہوں گے کہ ایک گروہ کے ساتھ مخصوص کی ہو ئی ۔(اقرب)
تفسیر ۔پہلی آیت سے جوشبہ پیداہوتاتھا ۔کہ شاید مومن کے بغیر کسی کو نیک جزاء نہیں ملتی ۔اس کاازالہ اس آیت میں کیا گیا ہے اوربتایا ہے کہ نصرت الٰہی دوقسم کی ہوتی ہے ۔ایک وہ جومذہب کے ساتھ تعلق نہیں رکھتی بلکہ عام ہوتی ہے ۔جوکام کوئی کرتاہے اورجس کسی کام کے لئے کوئی کوشش کرتاہے ۔ا سکے مطابق اس کو پھل ملتا ہے ۔اس میں ہندو۔مسلمائی ۔عیسائی ۔موسائی وغیر ہ کی کوئی قید نہیں ۔اور ایک ایسی نصرت ہوتی ہے جو مذہب کے نتیجہ میں ہوتی ہے ۔وہ صرف مومن کے شامل حال ہوتی ہے اورکافر کونہیں ملتی ۔
انظر کیف فضلنا بعضھم علی بعض ولاخرۃ اکبر درجٰت واکبر تفضیلا ٭
دیکھ کس طرح ہم نے (دنیوی سامانوں کی روسے بھی)ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی (ہوئی )ہے۔اورآخرت (کی زندگی)تویقینا(اوربھی )بڑے درجات والی اورزیادہ فضیلت والی(زندگی) ہوگی۔۲۲؎
۲۲؎ تفسیر ۔اَکْبَرُ دَرَجٰتٍ وَّاَکْبَرُ تَفْضِیْلاً۔فرمایا آخر ت تودرجات اورفضیلت دینے میں بہت بڑی ہے ۔مسلم کی ایک حدیث ہے ۔عن ابی سعید الخدری اَنّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال ان اھل الجنۃ لیتراء ون اھل الغرف من فوقھم کماتترائُ ون الکوکب الدرّی الغابر من الافق من المشرق اوالمغرب لتفاضل ما بینہم(مسلم جزرابع کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا واھلھا ) کہ بڑے بڑے درجات والے اپنے سے اوپر والے جنتیوں کواسی طرح دیکھیں گے جیسے تم اس ستارہ کو دیکھتے ہو جودوراُفق میںہوتاہے اوریہ ان کے مدارج کے فرق کیوجہ سے ہوگا۔
ا س آیت میں پہلی آیت کے مضمون کاثبوت پیش کیا ہے ۔اوربتایا ہے کہ دیکھ لو دنیا میں ہم نے بہت سے لوگوںکو جومومن نہیں ترقیات دی ہیں یہ ان کے اعمال کے قبول ہونے کے سبب سے ہی ہے انہوں نے دنںا کے لئے محنت کی ۔دنیا ہم نے ان کو دے دی۔مگر اس سے یہ دھوکہ نہ کھاناچاہیئے کہ غیرمومن بھی اعلیٰ ترقیات حاصل کرلیتے ہیں کیونکہ یہ اُخروی ترقیات کے مقابل پر حقیر ہیں
اس آیت میں مومنوں کو نیکی میں بڑھنے کی تحریص بھی دلائی گئی ہے اوربتایا ہے کہ خداتعالیٰ کے ہاں بڑے بڑے انعامات ہیں ۔پس نیکی کے کسی مقام پرکھڑانہیں ہوجانا چاہیئے ۔
لاتجعل مع اللہ الٰھااخر فتقعد مذمومامخذولا٭
پس اللہ (تعالیٰ)کے ساتھ کوئی دوسرامعبود نہ بنائو ورنہ تومذموم ہوکر (اور)نصرت (الٰہی)سے محروم ہوکر بیٹھ جائے گا ۲۳؎
۲۳؎ تفسیر ۔ا سمیں یہ دلیل ہے کہ کیوں اُخروی نعماء بغیر ایمان کے نہیں ملتیں ۔اوروہ دلیل یہ ہے کہ جو جس کے ساتھ وابستہ ہوگا اسی کے ساتھ جائے گا۔پس جو خداتعالیٰ کلے ساتھ وابستہ ہیں وہ تواللہ تعالیٰ کے ساتھ آگے آگے بڑھتے جائیں گے۔لیکن جو اللہ تعالیٰ اسے وابستہ نہیں بلکہ جھوٹے معبوودں کے ساتھ وابستہ ہیں وہ وہیں بیٹھے رہیں گے جہاں ان کے معبود ہیں ۔یاد رہے کہ شرک کے ساتھ انسان نیچے ہی نیچے گرجاتا ہے ۔دنیا کی تاریخ میں کوئی قوم ایسی نہ ملے گی جو شرک کواختیار کرکے ترقی کرگئی ہو۔مشرک قو م جب ترقی کرے گی اپنے مذہب سے بیگانہ ہوکر ترقی کرے گی اس کے اصول پر چلتے ہوئے کبھی ترقی نہ کرے گی۔
وقضی ربک الاتعبدواالا ایاہ وبالوالدین احساناً
تیرے رب نے (اس بات کا)تاکیدی حکم دیا ہے ۔کہ تم اس کے سواکسی کی عبادت نہ کرو اور(نیز اپنے )ماں باپ سے اچھا سلوک
اما یبلغن عندک الکبر احدھما اوکلھما فلاتقل
کرنے کا اگر میں سے کسی ایک پر یاان دونوں پر جب کہ وہ تیرے پاس ہوں بڑھاپا آجائے توانہیں (ان کی کسی بات پرناپسندیدگی
لھما افٍ ولا تنھر ھما وقل لھما قولا کریماً٭
کااظہار کرتے ہوئے )اف تک نہ کہو اورنہ انہیں جھڑک اوران سے شریفانہ طورپر نرمی سے بات کر ۲۴؎
۲۴؎ حل لغات ۔قضٰی: علیہ عھدًا اَوْصَاہُ۔اس کو تاکیدی حکم دیا ۔قضی العھد۔انفذَہ۔عہدواقرار کو جاری کیا ۔الیہ الامر ۔انھا ہٗ وابلغہٗ۔۔اس تک کسی امر کو پہنچایا ۔وفی الاساسِ فضٰی الیہ امرًوعھدًوصّاہُ بہ وامرہ بہٖ۔اوراساس میں قضٰی الیہ امرًا کے معنے یہ کئے گئے ہیں کہ اسے تاکید ی حکم دیا (اقرب)
اُفّ:ناپسندیدگی ۔بے قرار ی اورحقار ت کے اظہار کے لئے یہ لفظ استعمال کیاجاتا ہے(اقرب)
لاتَنْھَرْھُمَا:نَھَر سے نہی مخاطب کاصیغہ ہے ۔اورھرَ السائل کے معنی ہیں ۔زجَرہٗ۔سائل کو جھڑکا (اقرب)پس لَاتَنْھَرْھُمَا کے معنے ہوں گے کہ انہیں نہ جھڑک ۔ قولاً کریماً ای سھلًا لیّناً۔نرم پسندید ہ بات (اقرب)
تفسیر ۔اب اللہ تعالیٰ وہ ترکیب بتاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے نظام کو محفوظ رکھ سکتاہے ۔چنانچہ قرآن کریم کی تعلیم کاخلاصہ بیان کرتے ہوئے ا سبات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ہدایت کے دنوں میں ان احکام کی پابندی کرنا اور ان کاخیال رکھنا ۔تب ہی تم تنزّل سے بچ سکو گے ۔ورنہ ترقیات قائم نہ رہ سکیں گی ۔
قرآ ن مجید نے سب سے مقدم حکم توحید کے قیام اورشرک کے ردّکا دیا ہے ۔جب دنیا می ںحکومتیں ملتی ہیں توساتھ ہی توہم پرستی اورشرک بھی پیداہوجاتے ہیں۔اس لئے جہاں ترقیات کی پیشگوئی کی وہاں آئندہ کے خطرات س بھی بچنے کاحکم دیا ۔اوران سے آگاہ کردیا ۔توحید کو اس لئے مقدم رکھا ہے کیونکہ کوئی گناہ بغیر شرک کے پیدانہیں ہوتا۔
میرے نزدیک سب گناہ دراصل شرک ہی کی شاخیں ہیں ۔گناہ کا مرتکب انسان اسی لئے گناہ کامرتکب ہوتاہے کہ وہ خداتعالیٰ کی ذات اورصفات پر کامل ایمان اورتوکل نہیں رکھتا ۔توحید کامسئلہ نبیوں کے لئے بطورایک بیج ہے ۔تمام مذاہب اورتما م اخلاق اسی مرکز کے گرد چکر لگاتے ہیں ۔اگرتوحید کاعقیدہ نہ اختیار کیاجائے ۔توقانون قدرت اورقانون شریعت دونوں کی بنیاد ہل جاتی ہے ۔قانون شریعت کاتعلق توواضح ہی ہے ۔مگرقانون قدر ت کی تما م ترقیا ت اورسائنس کی تما م تربنیاد بھی توحید پر ہی ہے ۔کیونکہ اگر مختلف خدامانے جائیں توان کے مختلف قانون ہونے چاہئیں ۔یاپھر کم از کم اس میں مختلف تبدیلیاں ہوتی رہنی چاہئیں ۔اور اگر ایساہویعنی ایک اٹل قانو ن اورایک قائم سلسلہ قانون قدرت کادنیا می جاری نہ ہو ،۔تو تمام علمی ترقیات یکدم بند ہوجائیں گی ۔کیونکہ سائنس کی ترقی اورایجادات کی وسعت کی بنیاد اسی پرہے کہ دنیا میں ایک منظم اورنہ بدلنے والاقانون جاری رہے ۔اگرانسان کو یہ خیال ہو کہ عالم میں کوئی نظام نہیں ۔یایہ کہ نظام بدلتا رہتاہے تووہ کبھی بھی قانون قدر ت کی باریکیوںکے دریافت کرنے کی طرف توجہ نہیں کرسکتا ۔
توحید پریقین رکھنے کاحکم دینے کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کاحکم دیا ہے ۔کیونکہ وہ بھی خداتعالیٰ کی طرف ہی توجہ دلاتے ہیں ۔وہ طبعی قانون کاایک ایساظہور ہیں جوقانون شریعت کی طرف لے جاتاہے ۔کیونکہ وہ مبدی(پیداکرنے والی ذات)پر دلالت کرتے ہیں ۔والدین کے ذریعہ سے پیدائش بتاتی ہے کہ انسان ااتفاقی طور پر پیدانہیں ہوگیا ۔اس سے پہلے کوئی اورتھا ۔اوراس سے پہلے کوئی اور۔غرض ایک لمباسلسلہ تھا ۔جس سے اللہ تعالیٰ کے وجود پر شہادت ملتی ہے ۔
بغیرتناسل کے اصول کے انسان کاذہن مبداکی طرف جاہی نہیں سکتاتھا ۔اگریہ نظام نہ ہوتاتوانسان کواس کڑی کی طرف کبھی توجہ ہی نہ ہوتی ۔لیکن اس کے ساتھ ہی سلسلہ تناسل یہ بھی بتاتا ہے کہ انسانی پیدائش کی غرض اوراس کامقصد بہت بڑاہے ۔پس توحید کے حکم کے بعد والدین کے متعلق احسان کاحکم دیا ۔کیونکہ ایک احسان کیقدر دوسرے احسان کی قدر کی طرف توجہ کو پھراتی ہے ۔
وَبالوالدین احساناً۔اس کاعطف اَنْ پر ہے ۔پوراجملہ یہ ہے ۔ان احْسِنُوابالوالدینِ اِحساناً۔یعنی اللہ تعالیٰ نے ایک تویہ حکم دیا ہے کہ خداکے سواکسی کو معبود نہ بنائو۔اورایک یہ کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔اس جملہ میں کیالطیف رنگ اختیار کیاگیا ہے ۔اللہ تعالیٰ کے احسانات کا انسان بدلہ نہیں دے سکتا۔اس لئے خداتعالیٰ کے ذکر میں یہ بیان کیا کہ احسان توتم کرنہیں سکتے ۔پس ظلم سے توبچو۔لیکن والدین کے احسان کابدلہ دیاجاسکتا ہے ۔ا س لئے ان کے بارہ میں مثبت حکم دیا ۔
عِنْدَکَ کے لفظ میں یہ بتایاہے کہ اگروہ تمہاری کفالت میں بھی ہوں توبھی کچھ نہ کہنا ۔کجایہ کہ وہ الگ رہتے ہوں۔اورپھر بھی تمہارے ہاتھوں تکلیف پائیں۔
کفالت کی خصوصیت اسلئے فرمائی ۔کہ ہروقت کے پاس رہنے سے اختلافات زیادہ رونما ہوتے ہیں ۔اورپھر یہ بھی قاعدہ ہے کہ انسان جس پر خرچ کرتاہے اس پر اپنا حق بھی سمجھنے لگتاہے ۔
اُفّ۔کلمئہ ضجر ہے یعنی ناپسندید گی کاکلام ۔یعنی یہ کہنا کہ مجھے یہ بات پسند نہیں اورنھرناپسندیدگی کوعملی جامہ پہنانے کوکہتے ہیں ۔یعنی نہ منہ سے نہ عمل سے ان کو دکھ دو۔
اسلام نے والدین کی خدمت کے لئے خاص ہدایات دی ہیں ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے مَنْ ادرک احد والدیہ ثم لم یُغْرَلہ فابعدہ اللہ عزّوجّل۔رواہ احمد(ابن کثیر جلد ۶ص ۶۱)یعنی جس شخص کواپنے والدین میں سے کسی کی خدمت کاموقعہ ملے اورپھر بھی اس کے گناہ نہ معاف کئے جائیں توخدااس پر *** کرے مطلب یہ کہ نیکی کا ایسااعلیٰ موقعہ ملنے پر بھی اگروہ خداکافضل حاصل نہیں کرسکا ۔توجنت تک پہنچنے کے لئے ایسے شخص کے پاس کوئی ذریعہ نہیں ۔
واخفض لھما جناح الذل من الرحمۃ وقل رب ارحمھما کما ربیٰنی صغیراً٭
اور(ان پر)رحم کرتے ہوئے ان کے لئے خاکساری کابازو جھکادے اور(انکے لئے دعاکرتے وقت )کہاکر (کہ اے )میرے رب ان پر (اسی طرح )مہربانی کر کیونکہ انہوں نے (میری)بچپن کی حالت میں میری پرورش کی تھی ۲۵؎
۲۵؎ حل لغات ۔وَاخْفِض:خفض سے امرکاصیغہ ہے۔اور خفض الشیئُ کے معنے ہیںضدّ رفعہٗ ۔اس کو نیچا کیا ۔ وفی القراٰن ۔واخفِضْ جناحَکَ للمومنین ای تواضع لہم:۔ اور قرآن مجید کی آیت واخفض جناحک للمومنین میں واخفض کے معنے تواضع کرنے کے ہیں ۔خفض صوتہٗ کے معنے ہیں ۔اخفاہٗ وغضَّہٗ ۔ آواز کو نیچا کیا ۔خفض الصوتُ۔لانَ وسھل ۔آواز نرم ہوگئی (اقرب)
الجناح۔مایطیر بہ الطائرُ۔پرندے کا بازو۔یدا لانسانُ۔انسان کا ہاتھ العضد۔بازو ۔الجانب جانب ۔الکنف ۔پناہ(اقرب)
الذلُّ ۔اللینُ والسھولۃ ۔ذلّ کے معنے نرمی اور آسانی کے ہیں ۔والتواضع ۔تواضع۔ الانقیاد۔فرمانبرداری (اقرب)
تفسیر۔اور ان کے لئے رحمت کے ساتھ اپنے انکسار کے بازو نیچے گرا دے ۔اور یہ دعا کرتا رہ کہ اے میرے رب تو ان پر رحم کر ۔ کیونکہ انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی ہے ۔اس لطیف تشبیہ میں بتایا ہے کہ تیر اہاتھ ہروقت ان کی خدمت میں لگا رہنا چاہیئے ۔
اس آیت میں یہ بھی اشارہ کر دیا کہ انسان بالعموم والدین کی ویسی خدمت نہیں کرسکتا ۔جیسی کہ ماں باپ نے اس کی بچپن میں کی تھی ۔ اس لئے فرمایا کہ ہمیشہ دعا کرتے رہنا۔کہ اے خدا تُو ان پر رحم کر ۔تاکہ جو کسر عمل میں رہ جائے دعا سے پوری ہوجائے ۔ک کے معنے تشبیہ کے بھی ہوتے ہیں ۔ان معنوں کی رو سے یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ بڑھاپے میں ماں باپ کو ویسی ہی خدمت کی ضرورت ہوتی ہے جیسے کہ بچہ کو بچپن میں۔
والدین کے لئے یہ دعا اس لئے بھی سکھائی گئی ہے کہ جو اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہے گا اسے خود بھی اپنا فرض ادا کرنے کا خیا ل رہے گا ۔
ربکم اعلم بما فی نفوسکم۔ان تکونو اصلحین فانہ کان للاوَّابین غفورًا٭
تمہارارب جو کچھ (بھی ) تمہارے دلوں میں ہو اسے (سب سے ) بہتر جانتا ہے اگر تم نیک ہوگے تو (یاد رکھو کہ) وہ باربار رجوع کرنے والوں کو بہت ہی بخشنے والا ہے ۲۶؎
۲۶؎ حل لغات۔ اوّابین ۔اَوَّاب کی جمع اوّابون آتی ہے ۔اور اوّاب آبَ سے مبالغہ کا صیغہ ہے ۔آب الی اللہ کے معنے ہیں۔ رَجَعَ عَنْ ذَنبِہٖ وَتَابَ اپنے گناہ سے لوٹ کر اللہ کی طرف رجوع کیا (اقرب) پس اوّاب کے معنے ہونگے بار بار رجوع کرنے والا۔
تفسیر۔ یعنی اگر ایسی نیک نیتی اپنے دل میں پیدا کرے جو اوپر بیان ہوئی ہے تو پھر خدا تعالیٰ بھی اس کے عیوب پر پردہ ڈال دیتا ہے یعنی اس کے عمل میں جو کمی رہ جائے اللہ تعالیٰ اسے پوری کردیتا ہے ۔اس آیت کا مضمون اس حدیث سے بھی ملتاہے جو اوپر گذرچکی ہے اور جس کا یہ مضمون ہے کہ والدین کی خدمت کا موقع پاکر بھی جس کے گناہ نہ بخشے جائیں اس پر *** ہوکیونکہ اس آیت کا مضمون یہی بتاتا ہے کہ جو صالح ہوگا یعنے اوپر کے احکام کے مطابق عمل کرے گا توا اس سے خدا تعالیٰ مغفرت کا معاملہ کرے گا ۔
واٰت ذاالقربٰی حقہ والمسکین وابن السبیل ولا تبذرتبذیرًا٭
اور قرابت والے کو اور مسکین کو اور (مسافر)راہروکو اس کاحق دے اور اسراف کسی رنگ میں(بھی )نہ کر ۲۷؎
۲۷؎ حل لغات۔ لا تبذر۔بذَّرسے نہی کا صیغہ ہے ۔اور بذَّرالمال کے معنے ہیںفَرَّقَہٗ اسرافًا۔ مال کے خرچ کرنے میں فضول خرچی سے کام لیا ۔پس لاتُبَذّر کے معنے ہونگے ۔توا سراف نہ کر۔
تفسیر۔ اس آیت میں بتا یا گیا ہے کہ ہر شخص کے مال میں رشتہ داروں ۔مساکین اور مسافروں کا حق ہے رشتے دار انسان کی کمائی میں کئی طرح مدد کا موجب ہوتے ہیں ۔اس لئے اس کے مال میں ان سب کا حق ہوتا ہے مثلاً والدین نے ایک بیٹے کو پڑھا دیا ۔اور وہ کسی اعلیٰ عہدہ پر پہنچ گیا اور باقی بھا ئی علم سے محروم رہے تو اس عہدہ دار کے مال میں باقی بھائیوں کا بھی حق ہے کیونکہ جس روپے سے اس کو تعلیم دلائی گئی تھی اس میں ان سب کا حق تھا ۔
مساکین اور ابن السبیل کابھی اللہ تعالیٰ نے حق قرار دیا ہے اور دوسری جگہ کھول کر بھی بتایا ہے وَفِّی اموالہم حقٌ للسَّآئل والمحروم (ذاریات ع۱)کہ انسان کے اموال میں سائل وغیرہ کا بھی حق ہوتاہے ۔مساکین کا حق قرار دینے کی ایک تو یہ وجہ ہے کہ دنیا میں امیر غریب بدلتے رہتے ہیں ۔جو آج غریب ہیں کبھی امیر تھے اور جو آج امیر ہیںکبھی غریب تھے اور اس وقت کے امیروں نے ان سے حسن سلوک کیا تھا۔ پس ساری دنیا کواگر مجموعی نگاہ سے دیکھا جائے تو کسی کا مال اس کا خالص مال نہیں بلکہ اس میں دوسروں کے حقوق شامل ہیں ۔دوسری وجہ اس کی یہ ہے کہ دنیا کی سب اشیا ء اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کیلئے بحیثیت جماعت پیدا کی ہیں نہ کہ ذید یا بکر کے لئے ۔پس اگر ذید یا بکر کسی وجہ سے ذیا دہ مالدار ہوگئے ہوں تو اس سے ان باقی لوگوں کا حق باطل نہیں ہوجاتا۔ جو دنیا کی چیزوں کی ملکیت میں ذید اور بکر کے ساتھ برابر کے شریک ہیں ۔بیشک بوجہ خاص محنت کے ذید اور بکر کا ذائد حق اسلام تسلیم کرتاہے لیکن ان کو مالک بلاشرکت غیر نہیں تسلیم کرتا۔
مسافروں کا حق اس طرح کہ جب یہ دوسری جگہ کی طرف جاتاہے تو وہ اس سے حسنِ سلوک کرتے ہیں ۔پس دوسرے مقام کے مسافر کی خدمت کرنا اس کافرض ہے تاحق ضیافت ادا ہوتارہے ۔ابن السبیل کے حق کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرفایا کہ جب تم کسی بستی میں جائو تو تین دن تک کی ضیافت کا تم کو حق ہے ۔صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ اگر بستی والے نہ دیں ۔فرمایا چھین کر بھی لے سکتے ہو۔(ابودائود جلدثالث کتاب الاطعمتہ باب ماجاء فی الضیافۃ) یہ حکم اس وقت کے لئے ہے جب اسلامی تمدن جاری ہوکیونکہ ان ایام میں دوسرے لوگ اس سے ضیافت کا حق لے سکیں گے ۔اس حکم کو اگر دنیا میں جاری کیا جائے تو بہت سی خرابیاں جو ہوٹلوں اور سرائوں کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں دنیا سے دور ہوجائیں اور غرباء کے لئے بھی دنیا کا سفر جو اعلیٰ تربیت کا ایک ذریعہ ہے آسان ہوجائے گا مگر افسوس کہ خود مسلمانوں نے بھی اس حکم کو بھلادیا ہے ۔
مسافروں سے حسنِ سلوک کا یہ عام حکم دنیا سے بہت سے فتنے مٹانے کا موجب ہے ۔کیونکہ لڑائی جھگڑا منافرت سے پیدا ہوتاہے۔ اگر اس مہمان نوازی کا رواج ہو تو منافرت دور ہوجائے ۔اور گائوں اور ملکوں کے جھگڑے مٹ جائیں ۔وہ لوگ جو کسی دوسرے ملک کی مہمان نوازی سے فائدہ اٹھا چکے ہوں کبھی بھی جلدی سے ان کے خلاف لڑنے پر آمادہ نہ ہونگے سوائے خبیث ارواح کے جو نسبتاً تھوڑی ہوتی ہیں ۔نیز اس حکم سے گائوں اور قصبوں کے نظام کی بنیاد بھی پڑتی ہے کیونکہ مہمان نوازی سے سارے گائوں پر واجب کی گئی ہے۔پس اس حکم کے پورا کرنے کے لئے ہرگائوں والے ایک ایسے نظام کی پابندی پر مجبور ہونگے جس کے ماتحت سارا گائوں مہمانوں کی خدمت کرسکے اور یہ نظام ان کے دوسرے کاموں میںبھی مفید ثابت ہو گا۔
لاتبذر۔پھر فرمایا کہ اوپر کے احکام میں مال کو خرچ کرنے کی جو نصیحت کی گئی ہے ۔اس کا یہ مطلب نہ سمجھنا کہ ما ل کو لٹا دینا چاہئیے ہم نے اخراجات کا حکم دیا ہے جو ضروری ہیں بے فائدہ مال لُٹانے کا حکم نہیں دیا ۔
ابن مسعود کا قول ہے التبذیر ۔الانفاق فی غیر حقٍّ ۔یعنی ناجائز خرچ کو تبذیر کہتے ہیں ۔پس اس حکم میں دینی انفاق شامل نہیں۔دین کی کسی ضرورت کیلئے اگر کوئی اپنا سارا مال بھی خدا کی راہ میں دیدے تو وہ مبذرنہ ہوگا ۔کیونکہ اس نے بے جا خرچ نہیں کیا۔
قرآن مجید نے فضول خرچی کی دوسری جگہ تشریح یوں فرمائی ہے۔والذین اِذَااَنْفَقُوْا لَمْ یُسرِفُواولم یَقْتُرُواوکان بین ذالک قواماً(فرقان ع۶)کہ نہ تو اسراف کرناچاہیئے اورنہ کنجوسی سے کام لیناچاہیئے مگرمیانہ روی اختیار کرنی چاہیئے ۔
ان المبذرین کانو ااخوان الشیٰطین ۔وکان الشَّیطٰن لربہٖ کفوراً٭
اسراف کرنے والے لوگ یقینا شیطانوں کے بھا ئی ہوتے ہیںاور شیطان اپنے رب کا بہت ہی ناشکر گذار ہے ۲۹؎
۲۹؎ تفسیر ۔فرمایاکہ اگر تم ایساکروگے توناشکری ہوگی ۔ہم نے تمہیں یہ مال اسی لئے دیاہے کہ تم اس کو برمحل خرچ کرو اب جو تم اس کو یوں پھینکو گے توا سکے یہ معنے ہوں گے کہ مال کے ساتھ جوذمہ واریاں اللہ تعالیٰ عائد فرماتا ہے ان سے بچناچاہتے ہو اوریہ ایک گنا ہ ہے ۔
اس آیت میں کس لطیف طریق سے رہبانیت وغیر ہ کارد کیا ہے ۔رہبانیت کیا ہے ذمہ واریوں سے بچنے کاایک ذریعہ ہے اوریہ فعل نیکی نہیں کہلا سکتا بلکہ ایک کھلی بدی ہے اورشیطانی فعل ہے ۔اللہ تعالیٰ کے احسان کی ناقد ری ہے ۔
واما تعرضن عنھم ابتغآع رحمۃٍمن ربک ترجوھافقل لھم قولاًمیسورًا٭
اوراگر تواپنے رب کی طرف سے اسی رحمت کی جستجومیں جس کی توامید رکھتا ہوان سے اعراض کرے تو(پھربھی انہیں سختی سے رد نہ کر بلکہ)انہیں کوئی نرم بات کہہ دو۔۳۰؎
۳۰؎ حل لغات ۔میسوراً کے معنے ہیں مایُسِر ْ خلاف المعسوروھو مصدر علی مفعول بمعنی الیسر ۔میسور اسم مفعول بھی ہے اورمصدر بھی اوراس کے معنے ہیں و ہ چیز جوآسان کی گئی ہویاآسانی ۔السہل ۔سہولت ۔ومنہ فقل لہم قولاً میسوراً۔اورفقل لہم قولاًمیسوراً میں قول میسورکے معنے نرم بات کے ہیں ۔(اقرب)
تفسیر ۔اس آیت کے دومعنے ہیں (۱)جب تم اقرباء مساکین وغیر ہ سے اعراض کرویعنی ان کی مدد نہ کرسکو۔ توا سبات کی ضرور نیت کرلو کہ جب اللہ تعالیٰ دے گاتوضرور دوں گا۔اورساتھ ہی تم ان کویہ بات نرمی سے سمجھا دوکہ توفیق ملنے پر تمہاری ضرورمدد کروں گا۔
(۲)دوسرے معنے یہ ہیںل کہ اگراللہ تعالی کے فضل کی امید میں یعنی یہ خیال کرتے ہوئے کہ میرادینا ان کی دینی یااخلاقی حالت بگاڑ دے گاغرباء کی مددسے اعراض کرے توتوان کو نرمی سے سمجھا دے گویا اعراض ابتغاء رحمۃٍ ہوناچاہیئے نہ کہ بخل کی وجہ سے۔مثلاً کوئی ہٹاکٹاآد می سوال کرے اورجس سے سوال کیا جائے وہ اس نیت سے اس کے سوال کو پورانہ کرے کہ قوم میں سوال کی عادت نہ پیداہوجائے تویہ جائز ہے ۔مگر اس انکار کاباعث بخل اورکنجوسی نہ ہو ۔اسی طرح مثلاً سائل مسر ف ہویا نشہ شراب افیون کی بد عادت میں مبتلاہواس کی مالی مدد سے یہ اس وجہ سے بعض رہتا ہے کہ میں نے اس کی امداد کی تو اس اکی صحت خراب ہوگی ملک میں بدی ترقی کرے گی اورنہ دینے سے اس کی نشہ کی عادت چھوٹے گی اورملک کو بھی فائدہ پہنچے گاتویہ شخص گناہ گار نہ ہوگا ۔بلکہ نیکی کامرتکب ۔حدیث میں آتاہے بعض ایسے سائلوںکے آنے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہتے یا انہی سمجھادیتے تھے ۔
ولا تجعل یعک مغلولۃً الی عنقک ولا تبسطھا
اورتونہ (توبخل سے )اپنے ہاتھ کو باند ھ کراپنی گردن میں ڈال لے ۔اورنہ(اسراف میں پڑ کر)
کل البسط فتقعدامعلوم محسوراً٭
اسے بالکل کھول دے ۔ورنہ (یاتو)توملامت کانشانہ بنکر (اوریاپھر )تھک کربیٹھ جائے گا ۳۱؎
۳۱؎ حل لغات ۔مغلولۃً:غل سے اسم مفعول مؤنث کاصیغہ ہے ۔اورغُل فلاناً کے معنے ہیں ۔وضع فی یدہٖ اوعنقہٖ الغلَّ۔اس کے ہاتھوں یاگردن میں طوق ڈالا (اقرب)پس لاتجعل یدَکَ مغلولۃً کے معنے ہوں تو اپنے ہاتھو ںو کو باندھ کر اپنی گردن میں نہ ڈال لے ۔محسورا۔ حسر سے اسم مفعول ہے اورحسرالشیئَ کے معنے ہیں ۔کشفہ ۔کسی چیز سے پردہ کوہٹایا۔حسرالغُصنَ قَشْرَہُ۔ٹہنی کے چھلکے کو اتارا۔حسر البعید ساقہ حتی اعیا۔اونٹ کو اتنا چلا یاکہ وہ تھک گیا ۔حسر البیت کنَّسَہَ۔گھر میں جھاڑودیا ۔(اقرب)محسور کے معنے ہوں گے ۔جھاڑودیاہوننگاکیاہوا۔تھکایا ہوا۔
تفسیر ۔اس آیت میں بتایا ہے کہ خرچ کے متعلق اس اصل کو مدنظر رکھو کہ نہ تواہاتھ گردن سے بندھا رہے ۔یعنی ضرورت کے وقت بھی خرچ کرنے سے دریغ ہو اورنہ ہاتھ ہروقت مال لٹانے کیلئے دراز ررہے بلکہ چاہیئے کہ تم ضرورت کے مطابق خرچ کروتابے ضرورت خرچ تم کو اس وقت کی نیکی سے محروم نہ کردے جبکہ خرچ کرنے کی کوئی صحیح ضرورت پیداہوگئی ہو ۔بے ضرورت خرچ کرنے کے دونقصان بتائے ہیں ایک تویہ کہ جوشخص بے ضرورت خرچ کرتاہے ضرورت کے وقت جبکہ اس کے دوسرے ساتھی خرچ کررہے ہوتے ہیں ۔یہ منہ دیکھتا رہ جاتا ہے اورقوم اسے ملامت کرتی ہے کہ آج ملک یاقوم کوضرورت تھی اورآج تم خاموش بیٹھے ہو اوردوسرانقصان یہ کہ اس طرح انسان محسوریعنی ننگاہوجاتاہے یعنی جب ضرورت کلے وقت یہ کام نہیں آسکتا توقو م پر اس کاعیب ظاہرہوجاتا ہے اوروہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ بیوقوف ہے اپنے مال کی حفاظت نہیں کرسکااوریہ بھی کہ یہ دوسروں کامحتاج ہوجاتا ہے ۔
حسر البیت کے معنے گھر میںجھاڑو دے کراسے صا ف کردیا کے بھی ہیں ۔پس محسور کے معنے یہ بھی ہوسکتے ہیں ۔کہ تواس حالت میں ہو جائے کہ گویا کہ تیرے گھر میں جھاڑ و مل گیا ۔
ان ربک یبسط الرزق لمن یشاء ویقدر انہ کان بعبادہ خبیرابصیراً٭
تیرارب یقینا جس کے لئے چاہتا ہے رزق کو وسیع کردیتا ہے اور(جس کے لئے چاہتا ہے )تنگ کرتا ہے وہ یقینا اپنے بندوں (کے حالات )کوجاننے والا (اور)دیکھنے والا ہے ۳۲؎
۳۲؎ تفسیر ۔اس میں یہ بتایا کہ خداتعالیٰ کسی کو فراخی دیتا ہے اورکسی کے رزق میں تنگی دیتا ہے تایہ دیکھے کہ جومالدارہیں وہ غرباء کی کس طرح مددکرتے ہیں ۔پس اگرتم دنیاکے اموال کی اس نیت سے حفاظت کروکہ ان کے ذریعہ سے خداتعالیٰ کے بندوں کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرسکو تویہ ایک بہت بڑی نیکی ہو گی ۔
قرآن کریم کی کیا ہی معجزانہ شان ہے کہ ابھی مسلمان مکہ میں تکلیف اٹھارہے تھے اس نے مسلمانوں کے لئے وہ احکام بیان کرنے شروع کردئے جو ان کے لئے ترقی کے زمانہ میں ضروری تھے۔کیااس کے سواجواپنی بات کے پوراکرنے پر کامل طورپر قادر ہو کوئی دوسرااس طریق کو اختیار کرسکتا ہے ۔اگر یہ کلام انسان کاہوتا تو مکہ میں اوران حالات میں جن میں سے مسلمان گذر رہے تھے ۔یہ الفاظ نکالتے وقت اس کاحلق خشک ہوجاتا اوریہ الفاظ حلق میں ہی اٹک کر رہ جاتے ۔
ولاتقتلو ا اولادکم خشیۃ الاملاق نحن نرزقھم وایاکم ان قتلھم کان خطائً کبیر٭
اورتم مفلسی کے خوف سے اپنی اولاد کوقتل مت کرو ۔انہیں (بھی)ہم ہی رزق دیتے ہیں اورتمہیں بھی (ہم ہی دیتے ہیں)انہیں قتل کرنا یقینا(بہت) بڑی خطاہے ۳۳؎
۳۳؎ حل لغات ۔املاق:املاق سے مصدر ہے اوراملاق الرجل کے معنے ہیں ۔انفق مالہ حتی افتقر ۔اتنا مال خرچ کیا کہ پھر محتاج و مفلس ہوگیا (اقرب)پس املاق کے معنے ہوں مل ضائع ہوکر محتاج و مفلس ہوجا نا۔الخطاء: الذنب ۔قصور ۔ماتعمّد منہ ۔جان بوجھ کر کی ہوئی غلطی (اقرب)
تفسیر ۔پہلے رکوع میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاتھا کہ احسان تولوگوں پر کرو لیکن یہ خیال رکھ لو کہ تمہارااحسان کرنااس رنگ پر نہ ہو کہ اس کے نتیجہ میں لوگ بدیوں میں بڑھ جائیں یاتم خود بدی میں پڑ جائو ۔اب فرماتاہے کہ لاتقتلوااولادکم خشیۃ املاق ٍیعنی
اس خوف سے کہ اولادپر روپیہ خرچ ہوگاان کو ہلا ک نہ کرو یہ حکم لڑکیوں کے قتل کرنے کے متعلق نہیں ہے کیونکہ قرآن کریم میں لڑکیوں کے قتل کی کسی جگہ بھی یہ وجہ بیان نہیں فرمائی کہ لوگ خرچ کے ڈر سے انکو قتل کردیتے ہیں ۔بلکہ یہ وجہ بتائی ہے کہ ان کی پیدائش کو اپنے لئے ذلت کاموجب سمجھتے ہیں اسلئے ان کو مار ڈالتے ہیں اسی طرح اس آیت کے یہ معنے بھی نہیں ہوسکتے ہیں کہ بوجہ غربت اورتنگی کے اولا دکو قتل نہ کرو۔کیونکہ املاق کے معنی غربت اورتنگی کے نہیں ہیں۔بلکہ اس کلے معنے مال کے خرچ ہونے کے ہیں ۔اورآیت کے یہ معنے ہیں کہ ا س ڈرسے نہ ماروکہ روپیہ خرچ ہوگا ۔
اس جگہ یہ سوال پیداہوتا ہے کہ اکیا ا س ڈر سے کہ روپیہ خرچ نہ ہو کوئی اولاد کو قتل کرتابھی ہے ؟سوجہاںتک دنیا کا تجربہ ہے اس قسم کے واقعات صحیح الدما غ لوگوں میں توملتے نہیں ۔بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ جن کے پاس روپیہ نہیں ہوتا وہ بھی اولا دکو نہیں مارتے ۔پس معلوم ہواکہ ا س قتل کاکوئی اورمفہوم ہے ۔اورہمیں انسانوں میں اس جرم کی تلاش کرنی چاہئے ۔سوجب ہم مختلف انسانوں کی حالتوں کو دیکھتے ہیں توہمیں معلو م ہوتا ہے کہ بعض لوگ بخل کی وج سے اولاد کی صحیح تربیت نہیں کرتے ۔پوری غذا نہیں دیتے یاایسی غذانہیں دیتے جو نشوونما کے لئے ضروری ہو ۔ایسے بخیل توبے شک فاترالعقلو ں میں ہی ملتے ہیں جوزہر سے یاگلا گھونٹ کراپنی اولاد کو اس خوف سے مارتے ہوں کہ ان پرہمار ی دولت خرچ ہوگی ۔مگرایسے بخیل عام صحیح الدماغ لوگوں میں کثرت سے ملتے ہیں کہ پاس روپیہ ہے لیکن بچوں کو بخل کیو جہ سے اچھی غذا نہیں دیتے ۔لباس مناسب نہیں دیتے حتی کہ وہ بعض دفعہ خوراک کی کمی کی وجہ سے بیمار ہوجاتے ہیں ۔بعض دفعہ لباس کی کمی کی وجہ سے نمونیہ وغیر ہ کاشکار ہوجاتے ہیں ۔اس قسم کے لوگ دنیا میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں ملتے ہیں اورہرملک میں ملتے ہیں ۔اسی طرح قتل سیمراد اخلاقی اورروحانی قتل بھی ہوسکتا ہے کہ روپیہ کے خرچ کے ڈرسے اچھی تعلیم نہیں دلاتے اورگویا بچہ کی اخلاقی یاروحانی موت کاموجب ہوجاتے ہیں۔ا س آیت میں اللہ تعالیٰ مومنوں کو نصیحت کرتاہے کہ اس فعل سے اجتناب کریںا ورو ہ اخراجات جو بچوں کی صحت اوراخلاق کی درستی کے لئے ضروری ہیں ۔ان سے کبھی دریغ نہ کیا کریں ۔اورقتل کالفظ اس لئے استعمال کیا ہے کہ اولاد کو قتل کرنے سے انسان فطرتاً تنفر کرتا ہے پس اس لفظ کے استعمال سے اس کی توجہ اس طرف پھیرائی ہے ۔کہ تم کسی صورت میں بھی اولاد کو اپنے ہاتھ سے قتل کرنے پر تیار نہیں ہوتے لیکن یہ نہیں سوچتے کہ ایک اور قسم کے قتل کے تم مرتکب ہورہے ہو ۔یعنی اولادکی خوراک اورلباس کاخیال نہیں رکھتے اوران کی صحتوں کو برباد کردیتے ہو ۔یاان کی تربیت کاخیال نہیں رکھتے اوران کے اخلاق کو برباد کردیتے ہو ۔
قتل کالفظ استعمال رکرنے کی میرے نزدیک یہ بھی وجہ ہے کہ اگر صرف یوں کہاجاتا کہ اولاد پر ضرو رخرچ کیا کرو۔توان الفاظ میں ان بلاواسطہ اثرات کی طرف اشارہ نہ ہوتا جو اولاد کی ندگی پر پڑتے ہیں ۔لیکن ان الفاظ کے استعمال نے تمام بلاواسطہ تاثیرات کوبھی اپنے اندرشامل کرلیا ہے ۔مثلاً بیوی کی خوراک اورمناسب لباس کاخیال نہ رکھنا ۔یادودھ پلانے یاایام حمل میں اس پر کام کابہت بوجھ ڈال دینا ۔یہ سب امورہیں جن سے اولاد پربرااثر پڑتاہے ۔اوریاتوبچے ضائع ہوجاتے ہیں یاان کی صحتیں کمزورہوجاتی ہیں ۔
لاتقتلوا کے الفاظ میں ان سب امو ر کی مناہی آجاتی ہے اوریہ غرض دوسرے الفاظ سے پوری نہ ہوسکتی تھی ۔
اس آیت کے یہ معنے بھی ہوسکتے ہیں جوبعض صوفیاء کرتے ہیں ۔کہ اولاد کی پیدائش کو صرف ا س خطرہ سے روکنا منع ہے کہ اگراولاد زیادہ ہوجائے گی توپھر کھائے گی کہاں سے ۔اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے اولاد کی پیدائش بند کرنا قتل اولاد کے حکم میں ہے ۔اورقتل اولاد ہرحال میں منع ہے اوربراہے تومعنے یہ ہوئے کہ املاق کی وجہ سے قتل اولاد (یعنی اس کی پیدائش کو روکنا )منع ہے ۔البتہ بعض اورصورتوں میں جائز بھی ہوسکتا ہے مثلاً عورت بیمار ہو س وقت جائز ہوگاکہ اولادپیداکرنابند کردے ۔کیونکہ جس چیز کی وجہ سے روکا گیا ہے ۔وہ غیر محسوس ہے ایسی وجہ کی بناء پر اولاد کی پیدائش کوروکنا منع ہے لیکن کسی محسوس اورمشاہد نقصا ن کی وجہ سے اولاد کی پیدائش کو روکنا منع نہیں ۔
علاوہ پیدائش میں روک ڈالنے کے جو بچہ بن چکاہو بعض حالات میں ان اکامارنابھی جائز ہوتاہے مثلا کسی حاملہ عورت کے متعلق زچگی کے وقت یہ شبہ ہو کہ اگر بچہ کو طبعی طور پر پیداہونے دیاگیا تووالد ہ فوت ہوجائے گی اس صورت میں بچہ کوضائع کردیناجائزہے کیونکہ بچہ کے متعلق نہیں کہہ سکتے کہ وہ مردہ پیداہوگایا زندہ ۔یازندہ رہے گایا نہیں ۔مگر ماں سوسائٹی کا ایک مفید وجود ہے اس لئے وہمی نقصان سے احقیقی نقصا ن کو زیادہ اہمیت دی جائے گی اوربچہ کو تلف کردیاجائے گا۔
غرض لاتقتلو ا کے الفاظ استعمال کرنے کے بعد خشیۃ املاق کی شر ط لگاکر قرآن کریم نے اولاد کی تربیت اس کی پرورش ،ماں کی پرورش اوراس کی زندگی کی قیمت کے متعلق ایک وسیع مضمون بیان کیا ہے اورایسے مختصرالفاظ میں کہ اس کی مثال دوسری کتاب میں نہیں مل سکتی بلکہ حق یہ ہے کہ یہ مضمون ایسااچھوتاہے کہ دوسری کسی مذہبی کتاب نے اسے چھواتک نہیں ۔
اس آیت میں جو خطائً کا لفظ استعمال کیا گیاہے گواس کا مادہ اورخطاکاماد ہ ایک ہی ہے لیکن خطاجو خ کی زیر کے ساتھ ہے اس کے معنوں اورخطاجس میں خ پر زبر ہے اس کے معنوں میں فرق کیاجاتاہے ۔خِطاکے معنے علی الاسم ماتعمّد منہُ کے ہیں ۔اورخَطا کے معنے مالم یتعمّد منہ او تعمّد کے ہیں ۔یعنی اگر خ پر فتح یعنی زبر ہوتو دیدہ دانستہ گناہ اورنادانستہ قصور دونوں معنوں میں مستعمل ہوگا۔اوراگر خ کے نیچے کسرہ یعنی زیر ہو تو اس سیمراد صر ف وہ گنا ہو گا۔جس می اراد ہ پایاجائے اس لفظ سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ اولاد کاقتل ایک ایسا جرم ہے کہ جس کوفطرت بھی رد کرتی ہے یعنی جس کے احساسات طبعی مرچکے ہیں وہی ایسافعل کرسکتا ہے ۔دوسرانہیں کرسکتا ۔انّہُ کَانَ خِطائً کبیراً کے الفاظ بھی بتاتے ہیں کہ یہاں وہ قتل مراد نہیں جو زہر یاآلہ سے کیاجاتاہے کیونکہ یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ یہ قتل کثر ت سے پایا جاتا ہے مگر اپنے ہاتھوں بچوں کاقتل ہرگز کسی ملک میں بھی ایسے رنگ میں نہیں پایاجاتا کہ اسے قومی جرم قراردیا جائے اس امر کاثبوت کہ یہ عام قتل سے جداقسم کاقتل ہے یہ بھی ہے کہ قتل کے خلاف حکم آگے چل کر بیان کیا گیا ہے ۔اس میں بچوں کاقتل بھی شامل ہے پس ظاہرہے کہ اس جگہ قتل سے مراد کچھ اورہے ۔
اس آیت میں نحنُ نرزقھم واِیّاکم فرماکر اس امر پر زور دیا ہے کہ انسان کے رزق میں اس کی اولاد کارزق شامل ہے پس اس سے محروم نہیں کرنا چاہیئے اسی وجہ سے نرزقھم کو پہلے رکھا اورباپ کے رزق کوبعد میں بیا ن کیا ہے ۔
ولاتقربوالزنا انہ کان فاحشۃً وساء سبیلا ً٭
اورزناکے قریب (بھی )نہ جائو وہ یقینا ایک کھلی بے حیائی اوربہت براراستہ ہے ۳۴؎
۳۴؎ حل لغات ۔فَاحِشَۃ:کے معنے ہیں مااشتد قبحہٗ من الذنوب ۔ہروہ غلطی جو بہت بُری ہو ۔وقیل کُلّ مانھی اللہ عنہٗ ۔ہروہ بات جس سے اللہ نے روکاہے(اقرب)
تفسیر ۔اس آیت میں زناسے بچنے کاحکم قتل اولاد کے ذکر کے بعد دیا ہے۔اس میں یہ لطیف اشارہ ہے کہ زناسے بھی اولاد کاقتل ہوجاتا ہے ۔کیونکہ اول تو حرام کی اولادکو عام طورپر ضائع کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔دوسرے اگر ضائع نہ بھی ہو تب بھی اس کی تربیت اورپرورش میں مرد کھل کرحصہ نہیں لے سکتا ۔اوروہ اولاد بالعموم بغیر والی وارث کے رہ کرتباہ ہوجاتی ہے۔
لَاتَقْرَبُواالزِّنٰی کے الفاظ استعمال کرکے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ مواقع زناپیداہی نہ ہونے دو۔یعنی نامحرم عورتوں سے الگ نہ ملو ۔ان سے زیادہ خَلاملا نہ رکھو وغیرہ وغیرہ ۔قرآن کریم کی یہ بہت بڑی فضیلت ہے کہ وہ نہ صرف گناہ سے روکتاہے بلکہ گناہ سے بچنے کے ذرائع بھی بتاتاہے اورایسی ہی تعلیم بنی نوع انسان کی حفاظت کرسکتی ہے ۔جوکتاب گناہ سے بچنے کے ذرائع نہیں بتاتی وہ انسان کو ایک پریشانی میں مبتلاکردیتی ہے ۔اطمینان وہی کتاب پیداکرسکتی ہے جوکسی بات سے منع کرنے کے ساتھ ہی اس سے بچنے کے ذرائع بھی بتادے تاانسان کو تسلی ہو کہ میں اس حکم پرعمل کرسکوں گا ۔انجیل کہتی ہے کہ توکسی عورت کو بد نظری سے نہ دیکھ۔لیکن قرآن کہتاہے کہ توکسی نامحرم عورت کی طرف نظر اٹھا کرہی نہ دیکھ ۔کیونکہ وہ کشش جو نسان کے دل میں لغزش پیداکرتی ہے ۔جب اس کے لئے راستہ کھول دیاجائے توحفاظت ناممکن نہیں تونہایت مشکل ضرور ہوجاتی ہے ۔اس حکمت کے ماتحت اس جگہ فرمایا ہے کہ تم گناہ کے مقام سے اتنی دور کھڑے رہو ۔کہ جہاں سے تم بدی کامقابلہ کرسکو ۔بعض نے کہا ہے کہ یہ توبزدلی ہے ۔مگریہ بزدلی نہیں یہ تواحتیاط ہے اوراحتیاط کو کوئی عقلمند بزدلی نہیں کہتا۔
ظاہر ہے کہ انسان دوہی قسم کے ہوسکتے ہیں ۔اول وہ جو گناہ کے پاس جاکربھی بچ سکتاہے ۔ایسے شخص کو گناہ کے مقام سے دور رہنے کی اس لئے تاکید کی ۔کہ گویہ توبچ سکتا ہے مگرممکن ہے ۔کہ اس کی طرف دیکھ کر دوسرے لوگ بھی ا س مقام تک چلے جائیں ۔اوراپنی کمزوری کی وجہ سے گناہ میں مبتلاہوجائیں ۔پس ایسے شخص کولوگوں کے لئے ٹھوکر کاموجب نہ بننا چاہیئے ۔
دوسری قسم کے وہ لو گ ہیں جوگناہ کے مواقع پیداہونے کیصورت میں اس سے بچ ہی نہیں سکتے ۔ان کواس سے قریب بھی نہ جانے دینے کی حکمت تو ظاہرہی ہے ۔پس خواہ انسان گناہ کے قریب ہو کر بچ سکتاہو۔خو اہ نہ بچ سکتاہو ۔دونوں صورتوں میں اس کو گناہ کے قریب تک بھی نہیں جاناچاہیئے ۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ جس مقا م کی طرف جانے میں کوئی خاص فائدہ مدنظر ہواس کی طرف نہ جانابزدلی کہلاسکتاہے ۔مگر جس جگہ کی طرف جانا یانہ جاناکوئی خاص فائدہ نہ رکھتاہو اس سے الگ رہناہرگزبزدلی نہیں کہلاسکتا۔
سَآئَ سَبِیْلًا۔ان الفاظ سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ علاوہ اخلاقی گناہ ہونے کے زنامیں اوربھی بہت سے نقصانات ہیں ۔جوانسان شادی کرتا ہے وہ ضرور احتیاط کرلیتا ہے کہ ایسی لڑکی سے شادی کرے جس کی صحت اچھی ہو۔اسے کوئی متعدی مرض نہ ہو۔عادات و اخلاق اچھے ہوں۔اسی طرح لڑکی کے رشتہ دار لڑکے کے متعلق سوچ سمجھ لیتے ہیں ۔مگرزنا میں یہ احتیاط نہیں ہوسکتی ۔کیونکہ زناہوتاہی شہوانی جذبات کے جوش میں آجانے کی صورت میں ہے ۔اوراس وقت انسان کی کسی قسم کی احتیاط نہیں کرسکتا جس کانتیجہ کئی قسم کی امراض یامالی تباہی کی صورت میں نکلتاہے پس فرمایا شہوانی تقاضوں کے پوراکرنے کایہ راستہ نہایت خطرناک ہے ۔
یہ امر روزانہ تجربہ میں آرہا ہے کہ گوبیوی سے جو تعلق خاوند پیداکرتاہے اسی قسم کاتعلق زانی ،زانیہ سے کرتاہے۔لیکن باوجوداس کے زناکے نتیجہ میں جس قسم کی بیماریاں پیداہوتی ہیں وہ بیوی کی صورت میں نہیں پیداہوتیں یابہت کم پیداہوتی ہیں ۔دنیا میں جس قدر لوگ آتشک یاسوزاک کی مرضوں میں مبتلاہوتے ہیں ان میں سے کس قدربیویوں سے اس مرض کوقبول کرتے ہیں ؟ شاید سو میں سے ایک بھی نہیں ۔بقیہ ننانوے فی صدی یااس سے زیادہ حصہ ان مریضوں کازناسے مرض کوحاصل کرتا ہے۔اورجو مرض میاں یا بیوی کوایک دوسرے سے لگتی ہے وہ بھی درحقیقت کسی پہلے زناکے نتیجہ میں ہوتی ہے پس سَآئَ سَبِیْلَاکہہ کر ایک زبردست سچائی کی طرف انسان کو توجہ دلائی ہے جو ہے توہر اک کے سامنے لیکن اس کی طرف توجہ بہت کم لوگوں کو ہوتی ہے ۔
ولاتقتلواالنفس التی حرم اللہ الا بالحق
اورجس جان کو (مارنا)اللہ (تعالیٰ)نے حرام ٹھہرایا ہے اسے (شرعی )حق کے سواقتل نہ کرو
ومن قتل مظلوما فقد جعلنا لولیہ سلطٰنًافلا
اورجوشخص مظلوم ماراجائے اس کے وارث کو ہم نے (قصاص کا)اختیار دیا ہے ۔پس (اس کے لئے یہ ہدایت ہے کہ)
یسرف فی القتل ط انہ کان منصوراً٭
وہ (قاتل کو)قتل کرنے میں (ہماری مقررکردہ)حدسے آگے نہ بڑھے (اگروہ حد کے اندررہے گا تو)یقینا(ہماری)مدداس کے شامل حال ہوگی ۳۵؎
۳۵؎ حل لغات ۔سلطان :کے لئے دیکھو ابراہیم ۱۱؎ وَلَایُسْرِفَ:اَسْرَف سے نہی غائب کاصیغہ ہے اوراسرفَ کذاکے معنے ہیں ۔جاوالحدّفیہ واَفرطَ۔حدسے تجاوز کرگیا (اقرب)پس فلایسرف فی القتل کے معنے ہوں گے کہ وہ قتل کرنے میں مقررہ حدسے آگے نہ بڑھے۔
تفسیر ۔اوپرکی دوآیتوں میں قتل کے دونوں مخفی ذرائع بیان کئے تھے ۔اب کھلے قتل کے بارہ میں حکم بیان فرمایاگیاہے ۔چنانچہ فرماتاہے کہ کسی جان کو جس کے قتل کو خداتعالیٰ نے حرام کیا ہے قتل نہ کرنا چاہیئے ۔بالحقّ اس لئے فرمایا کہ نفس ہراس چیز کو کہتے ہیں جوسانس لیتی ہو اوراس لئے سب جاندار اس میں شامل ہیں ۔بلکہ آج کل کی سائنس کی تحقیق کے روسے تونباتات کے بارہ میں بھی سانس کالیناثابت ہے ۔پس نفس کے ساتھ مَاحَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالحقِّ رکھ دیا۔کیونکہ دوسری چیزوں کاقتل اپنی ذات میں حرام نہیں گوبعض وجوہات سے حرا م ہوجاتاہے مثلاً حرم شریف میں کسی جانورکو قتل نہ کرناچاہیئے ۔اسی طرح اگر کسی جانور کسی دوسرے کی ملکیت میں ہو تواس کوبھی قتل کرنا حرام ہے ۔اسی طرح ذبح کے طریق کے سواجو حلال جانوروں کے لئے جائز ہے اَوربعض طریقوں سے جانوروںکاقتل بھی ناجائزہے ۔پس اِلَّا بِالحقِّ کہہ کر ایک توانسا ن کو اس حکم کے لئے مخصوص کردیا ۔دوسرے انسانوں میں سے ان کو حکم سے باہر نکال دیا ۔جن کابعض اسبا ب کے ماتحت مارناجائزہومثلاً قاتل یا جولوگ دوسرے کو قتل کرنے کے لئے حملہ آورہوں وغیرہ وغیر ہ۔
بالحق کے لفظ سے اس طرف بھی اشار ہ کیا ہے کہ جس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق ملے اس وقت قتل جائز ہے ۔گویا نہی بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھی اوراجازت بھی اسی کی طرف ہونی چاہیئے ۔ا س شرط سے مواقع جنگ کو محدود کردیاگیاہے ۔اسی طرح حکومت کے اختیارات جان لینے کے متعلق محدود کردئے گئے ہیں ۔
اس شرط کی وجہ سے اگر کوئی دایہ یہ کہے کہ چونکہ بچہ کی والدہ نے کہا تھا کہ بچہ کو مارڈال اسلئے میں نے مار ڈالا یاکوئی حاکم کسی کو جبراً مروادے تووہ جرم سے بری نہیں سمجھے جائیں گے ۔کیونکہ قتل اسی صورت میں جائز ہے جبکہ اس جان کو پیداکرنے والے کی طرف سے قتل کرنے کا حق کسی کو عطا ہوا۔
وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًافَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہٖ سُلْطَانًافَلَایُسْرِفْ فِّیْ الْقَتْلِ۔اورجومظلوم قتل کیا جاوے ہم نے اسکے ولی کوغلبہ یاحجت دی ہے ۔
ولی ہروہ شخص ہے جوکسی کی وراثت کا حقدار ہو ۔اورایسے شخص کو بھی ولی کہتے ہیں کہ جس کو وہ خود مقررکردے ۔جیسے کہ مروی ہے کہ جب دشمن حضرت عثمانؓ کے خلاف منصوبے کررہے تھے ۔حضرت معاویہ ؓ نے ان سے درخواست کی کہ آ پ مجھے اپنا ولی بنادیں تاکہ ان لوگوں پر رعب ہواور وہ سمجھیں کہ عثمان کے قتل کابدلہ لینے والا ایک شخص موجود ہے ۔تواس کے جواب میں حضر ت عثمان نے فرمایا کہ تمہارے متعلق احتمال ہے کہ تم مسلمانوں پرسختی کروگے میں تم کوولی نہیں مقررکرتا ۔اس سے یہ منسبط ہوتاہے کہ ایساولی بناناجائز ہے ۔
سُلْطَان سے مراد غلبہ یا حجت ہے یعنی تم نے اس کے ولی کو اختیار دیا ہے کہ وہ گورنمنٹ کے پاس شکایت کرے اوراپنا حق لے لیو ے اورپھر حاکم کے فیصلہ کرچکنے کے بعد خواہ قاتل کوقتل کرے خواہ معاف کرے ۔لیکن اگر گورنمنٹ سمجھے کہ مقتول کاولی شرارت سے معافی دے رہا ہے توپھراس سے بھی حق ہے کہ وہ قتل کی سزاجاری کردے ۔کیونکہ اپنے حقوق کو جائزطور پر ادانہ کرنے کی صورت میں یابوجہ خوف ادانہ کراسکنے کی صورت میں ولایت حکومت کی طر ف منتقل ہوجاتی ہے ۔
تمام قصاص کے مسائل میں یہ حکم جاری ہے اوراس کی ایک عمدہ مثال حضرت علیؓ کے عمل سے ملتی ہے آپ نے ایک دفعہ دیکھا کہ ایک شخص نے دوسرے کو پِیٹاہے ۔حضرت علی نے اس کوروکا اورمضروب کو کہا کہ اب تم اس کو مارو۔مگرمضروب نے کہا کہ میں اس کومعاف کرتاہوں۔حضرت علیؓ نے سمجھ لیا کہ ڈر کے مارے اس نے اسے مارنے سے انکار کیا ہے کیونکہ وہ مارنے والا بڑاجبار شخص ہے ۔اس لئے آپ نے فرمایا تم نے اپنا ذاتی حق معاف کردیا ہے مگر میں اب قو می حق کو استعمال کرتاہوں ۔اور اُسے اسی قدر پِٹوادیا جس قدرکہ اس نے دوسرے کمزو رشخص کو پیٹاتھا ۔
یہ جوفرمایا کہ فَلَایُسْرِفُ فِّی القَتْلِ اس میں قاتل کے حقوق کی حفاظت کی ہے ۔ قصاص میں کئی قسم کی زیادتیاں ہوسکتی ہیں (۱) تکلیف سے قتل کیاجاوے مثلاً کسی کو جلاد مقرر کیا جائے اوروہ کُند آلہ سے قتل کرے (۲) موقعہ معافی کاہو مگروہ زوردے کہ نہیں میں ضرورہی قتل کروں گا ۔اسی طرح اورکئی طریقے اسراف کے ہوسکتے ہیں ۔
لایسرف کے الفاظ سے اس طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ گوجان کے بدلہ میں جان کاعام قانون ہے ۔مگروارثانِ مقتول کوہمیشہ قتل کے بعد قتل پرعمل نہیں کرناچاہیئے اورقتل کے فعل کو بڑھانانہیں چاہیئے ۔یعنی جہاں ہو سکے قاتل کو اگرکسی طرح بھی اس کی اصلاح کی امید کی جاسکتی ہو۔معاف کردینا چاہیئے ۔اس حکم سے اسلام نے ملک کے امن کی بنیاد قائم کردی ہے ۔دنیا کاامن دوغلطیوں میں سے ایک کی وجہ سے بربادہوتاہے ۔یاتوجب قاتلوں کو ان کے کئے کی سزانہیں ملتی یاجب اندھادھند سزادی جاتی ہے ۔بعض دفعہ معاف کردینا ہی آئندہ امن پیداکرنے کاموجب ہوسکتا ہے ۔مگرموجودہ قانون وارثان مقتول کو ایساکوئی اختیار نہیں دیتا اورہرقتل کے بدلہ میں قتل ہی کرتا ہے ۔اس سے ملک کا امن برباد ہوتاہے اوردشمنیاںبڑھتی جاتی ہیں ۔اگراسلامی تعلیم پر عمل ہوتا توقتل بہت کم ہوجا تااوربُغض کم ہوجاتے ۔
یہ بھی یا درہے کہ شرعًا یہ بھی منع ہے کہ کوئی شخص آپ ہی کسی کو مجرم قرار دے کر اُسے سزادیدے ۔اگرکوئی ایساکرے تویہ بھی اسراف فی القتل سمجھا جائے گا۔ایک حدیث میں آتاہے کہ قال یارسول اللہ ان وجدتُ مع امر أتی جلاً امھلہ حتی اٰتی باربعۃ شھداء قال نعم (مسند احمد بن حنبل جلد ثانی ص ۴۶۵)ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یارسول اللہ اگر میں کسی شخص کو اپنی بیوی کے پاس دیکھو ں تواسے قتل کروں یاانتظار کروں اورچارگواہ لاکر ثبوت بہم پہنچائوں۔آپؐ نے فرمایا۔چارگواہ لائو ۔ایک اورحدیث میں یہ الفاظ ہیں کہ اگر تم خود ہی قتل کروگے توقتل کے مرتکب سمجھے جائو گے ،۔اِنَّہٗ کان منصورا۔میں اسی طرف اشارہ کیا ہے ۔کیونکہ اس کے معنے ہیں کہ مقتول کے ولی کو حکومت کی طرف سے مدد دی جائے گی اس لئے خود ہی فیصلہ اورخود ہی اجراء نہ کرے بلکہ حکومت کے ذریعہ فیصلہ کرائے ۔
اِنَّہٗ کان منصوراً کے الفاظ میں لایسرف فی القتل کی دلیل بھی بیان کی گئی ہے ۔یعنی وارث کو یاد رکھنا چاہیئے کہ دنیا میں امن قائم رکھنے کافرض اس کے ذمہ بھی ہے ۔پس چاہیئے کہ وہ بھی ظلم نہ کرے اوریاد رکھے کہ اللہ تعالیٰ نے ا سکے حقوق کی حفاظت کی ہے ۔پس اسے بھی دوسروں کے حقوق کاخیال رکھنا چاہیئے اورجس حکومت نے ا س کے حقوق کی حفاظت کی ہے ظلم کرکے اس کے نظام میں خلل نہیں ڈالناچاہیئے ۔
ولاتقربوامال الیتیم الابالتی ھی احسن حتی یبلغ
اورتم اس طریق کے سواجو(یتیم کے حق میں )زیادہ اچھا ہو(کسی اورطورپر)یتیم کے مال کے پاس
اشدہ واوفوابالعھد ان العھد کان مسئولاً٭
(تک بھی)نہ پھٹکو یہاں تک کہ وہ اپنی مضبوطی کی عمر کوپہنچ جائے ۔اور(اپنے )عہد کو پوراکرو (کیونکہ)ہرعہد کی نسبت یقینا (ایک نہ ایک دن )باز پُرس ہوگی ۳۶؎
۳۶؎ حل لغات ۔العھد کے لئے دیکھو رعد ۳۱؎
تفسیر ۔بچے زیادہ طور پر اتفاقی حادثات کے نتیجہ میں یتیم ہوتے ہیں جن میں قتل،وبائیں وغیرہ شامل ہیں ۔پس قتل کے حکم کے بعد جس سے دوگھروں میں بچے یتیم رہ جائیں گے مقتول کے گھر میں بھی اورقاتل کے گھر میں بھی ۔جب وہ قتل کی سزامیں قتل کیاجائے گا۔یتامیٰ کے حقوق کو بیان کیا ۔
اس بارہ میں فرماتاہے کہ یتامیٰ کے مال کے قریب بھی نہ جائو۔اِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَن یعنی صرف ایک طریق ایک کے مال پر تصرف کرنے کاہے کہ اس سے بہتر سے بہتر نتیجہ پیداکیا جائے ۔یعنی صرف یہی نہیں کہ ان کے مال کو ناجائز طورپر استعمال نہ کرو بلکہ انکو اس طرح استعمال کرو کہ وہ مال بڑھیں اوریتیموں کافائدہ ہو اس آیت میں اسلامی نظام کاایک اورایساحکم بیان کیاگیا ہے جس میں اسلام دوسرے مذاہب سے ممتاز اورمنفردہے یتیموں سے حسن سلوک کاحکم توسب مذاہب میں ملتاہے ۔لیکن یہ حکم کہ ان کے اموال کیا حفاظت کرواوران کو بڑھانے کی کوشش کرو ۔کسی اورمذہب میں نہیں ملتا ۔گویااس آیت میں ایک عام کورٹ آف وارڈز مقررکیاگیا ہے یعنی نابالغوں کی جائداد کی حفاظت کرنے والامحکمہ ۔آج کل مغربی حکومتوں کے ماتحت اس حکم پر عمل ہو رہاہے ۔مگر اس خیال کی بنیاد اسلام نے ہی آج سے تیرہ سوسال پہلے قائم کی ہے۔
حتّٰی یبلغ اشدہ سے یہ مراد نہیں کہ جب وہ جوان ہوجائیں ۔توان کے اموال کھا نے جائز ہیں ۔کیونکہ اول تو یتیم جب بڑاہوجائے گا تووہ اپنامال کھانے ہی کیوں دے گا ۔دوسرے یہ خلاف عقل تعلیم ہے کہ جب تک یتیم اپنے مال کو استعما ل نہ کرسکتاتھا۔اس وقت تک تو اس کے مال کو بڑھایا جائے اورجب اس کے استعمال کرنے کا موقعہ آئے تواس کو کھاناشروع کردیاجائے ۔اسلام کسی کامال کھانے کی اجازت نہیں دیتا خواہ وہ یتیم ہو یاغیر یتیم ۔پس اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ جب تک وہ عقل کی اس حد کو نہ پہنچ جائے کہ وہ خود اپنے مال کو سنبھال سکے اس وقت تک حفاظت کرنی چاہیئے اوردرمیان میں ہی اس کی حفاظت نہ چھوڑ دینی چاہیئے ۔مثلاً جب دس بارہ سال کاہوگیا توکہہ دیاکہ اب بڑاہوگیا ہے خود مال سنبھال لے گا۔غرض جوانی تک پہنچنے کی قید ا سلئے نہیں کہ اسکے بعد بے شک اس کا مال کھائو ۔بلکہ یہ قید اس لئے لگائی گئی ہے کہ پوری جوانی سے پہلے جبکہ وہ مال کی حفاظت کے قابل ہوجائے۔رشتہ داروں یاحکومت کو اس کی امداد چھوڑ نہ دینی چاہیئے ۔دوسرے ان الفاظ سے اس طرف اشارہ کیا گیاہے کہ جب وہ اپنی بلوغت کو پہنچ جاوے اوراپنی اس عقل کو پہنچ جاوے کہ جس میں وہ اپنے ما ل کی حفاظت کرسکتا ہوتواس وقت اس کے مال کو یہ کہہ کر کہ ابھی چھوٹاہے دبانہیں چھوڑناچاہیئے ۔غرض حَتَّی یبلغ اشدہٗ نے دونوں صوروں سے جویتیم کونقصان پہنچانے والی ہیں اس کے رشتہ داروں اورحکومت کوروک دیا ہے ایسے بہت سے نظارے دنیا میں ملتے ہیں کہ رشتہ دار ایک مدت تک یتامیٰ کاکام کرنے کے بعد تھک کر کام چھوڑ بیٹھتے ہیں اوریتامیٰ کانقصان ہوجاتاہے یاوہ جوان ہوجاتے ہیں لیکن ان کا حق ان کونہیں دیاجاتا ۔ریاستوں میں ایسے نظارے بہت دیکھنے میں آتے ہیں کہ رئیس جوان ہوجاتاہے مگر جوافسر ریاست کے انتظام کے لئے مقر ر ہوتے ہیں اپنے ذاتی اغراض کو پوراکرنے کے لئے انہیں نابالغ یا غیر عاقل ہی قرار دیتے جاتے ہیں ۔
وَاَوْفُوْابِالْعَھْدِ۔ اپنے عہد کوپوراکر و۔بظاہر تویہ فقر ہ یتامیٰ کے ذکر میں بے جوڑ معلوم ہو تاہے ۔کیونکہ یتیم کاعہد سے کوئی خاص تعلق نظرنہیں آتا۔لیکن حقیقت میں ایسانہیں کیونکہ(۱)عہد کے معنے ذمہ واری کے ہوتے ہیں ۔چنانچہ کہتے ہیں۔فلانٌ ولی العھد ۔ یعنی حکومت کی ذمہ واری کاولی ہے ان معنوں کے روسے اس جملہ کی معنے ہوں گے ۔کہ یتامیٰ کے متعلق اپنی ذمہ واری کوپوراکرو۔جب تک ان کے مال کے انتظام کی ضرورت ہے انتظام کرو ۔اورجب ان کامال ان کے سپرد کرنے کاوقت آئے توان کامال انہیں دیدو ۔دوسرے اس طرف بھی اشارہ کیا گیاہے کہ یتامیٰ کے اموال کی حفاظت کوئی احسان نہیں بلکہ خداتعالیٰ کاحکم اوراسلامی نظام کاایک حصہ ہے ۔اس لئے احسان سمجھ کراس کام کونہ کروبلکہ فرض سمجھ کر کرو۔(۲)چونکہ یتیم اپنے مال کی کمی بیشی کے متعلق کچھ معلوم نہیں کرسکتا اس لئے خداتعالیٰ نے یتیم کے مال کو اپنے عہد میں شامل کرلیاہے ۔تاکہ کوئی یہ سمجھ کر مال کو نہ کھا جاوے کہ اگر ہم کھاجائیں گے توکون پوچھے گا ۔اسلئے فرمایا کہ اگر کوئی ایسا کرے گا توہم پوچھیں گے یہ ہماراعہد ہے ۔
(۳)یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یتیم کاذکر کرکے ان لوگوں کاذکر بھی ساتھ کردیاجویتامیٰ تونہیں ہوتے مگریتامیٰ سے مشابہ ہوتے ہیں ۔ مثلاًب کمزوراقوا م جو اپنے آپ کو طاقتور اقوام کی حفاظت میں دیدیتی ہیں ۔پس یتامیٰ کے ذکر کے ساتھ ان کے حقوق کی طرف بھی توجہ دلائی کہ بعض اقوام بمنزلہ یتامیٰ ہوتی ہیں اوران کے حقوق تمہارے قبضہ میں آجاتے ہیں ۔بیشک تمہارا فرض ہے کہ اس وقت تم ان کے حقوق کی نگہداشت کرو لیکن ہمیشہ کے لئے ان پرتصرف قائم نہ رکھو بلکہ جب ان میں اہلیت پیداہوجائے انہیں ان کے مال سپردکردو۔اگردنیا اس حکم پرعمل کرے تویہ قومی تنافر جو آج پیدا ہو رہا ہے یکدم دور ہوجائے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض وقت ایک زبردست قوم کمزورقوم کے حقوق کی حفاظت کے لئے اس کی نگرانی کاکام اپنے ہاتھ میں لینے پرمجبورہوجااتی ہے مگراس کافرض ہوناچاہیئے کہ اس ماتحت قوم کے اند رصلاحیت پیداہوجانے پر جلد سے جلد اسے اپنے اموال میں تصرف دیدے اوراس کی بلوغتِ قو می کے بعد اس کے ملک اورمال پر قبضہ نہ رکھے ۔
واوفواالکیل اذاکلتم وزنو بالقسطاس المستقیم ذٰلک خیرو احسن تاویلا ٭
اورجب تم (کسی کوکچھ)ماپ کر دینے لگو تو ماپ پورادیاکرو اور(جب تول کر دوتو)سیدھے ترازو کے ساتھ تول کر د و یہ بات سب سے بہتر اورانجام کے لحاظ سے سب سے اچھی ہے ۔ ۳۷؎
۳۷؎ حل لغات ۔الکیل کے لئے دیکھو یوسف ۶۰؎ قِسْطَاس : کے معنے ہیں ۔المیزان ۔ترازو ۔واقوم الموازین وقیل ھو میزان العد ل۔سیدھا اوردرست ترازو(اقرب)
تفسیر ۔چونکہ پچھلی آیت میں حقوق کی واپسی کاحکم دیاتھا ۔اس لئے اس کے ساتھ ملتاہواحکم اس کے بعد بیان کردیا اورفرمایا کہ جس طرح یتیم کواس کامال اداکرنے کاحکم ہے اسی طرح آپس کے کاروبار میں ایک دوسرے کاحق پوراکرنے کابھی ہم حکم دیتے ہیں ۔
ذَالِکَ خَیْرٌوَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا کہہ کر اس طرف اشار ہ کیا ہے کہ یہ عمل دینی لحاظ سے بھی بہت بہتر ہے اوردُنیوی انجام کے لحاظ سے بھی ۔کیونکہ جس تاجر کے متعلق لوگوں کوعلم ہوجائے کہ وہ کم تولتا ہے یاجس قوم کے متعلق یہ یقین ہوجائے کہ اس کالین دین اچھا نہیں اس کی تجارت کو آخر نقصان پہنچ جاتا ہے ۔
ولاتقف مالیس لک بہ علم ان السمع والبصر والفواد کل اولائک کان عنہ مسئولا٭
اور(اے مخاطب)جس بات کاتجھے علم نہ ہواس کی اتباع نہ کیا کر (کیونکہ )کان اورآنکھ اوردل ان سب کے متعلق پوچھا جائے گا ۳۸؎
۳۸؎ حل لغات ۔لَاتَقْفُ:قفاسے نہی مخاطب کاصیغہ ہے ۔اورقفاہ اثرہٗ (یَقْفُوْ) کے معنے ہیں ۔تبعہٗ۔اس کی پیر وی کی ۔قفا فلاناً بامرٍ۔اٰثرہ بہ ۔کسی چیز کے متعلق اسے ترجیح دی (اقرب)پس لاتقف مالیس لک بہ علمٌ کے معنے ہو ں گے اے مخاطب تواس کی پیروی نہ کر جس کاتجھے علم نہیں ۔
تفسیر ۔اس سے یہ مطلب نہیںکہ کوئی نیاعلم نہ سیکھو اورنئی نئی تحقیقاتیں نہ کرو۔بلکہ ا س کا مطلب یہ ہے کہ بدظنی نہ کرواور بغیر تحقیق کے دوسروں پر الزام نہ لگائو۔چنانچہ اس کے آگے وہ اسباب جن سے بدظنی پیداہوتی ہے بیان کئے ہیں ۔یعنی کان آنکھ اوردل۔بعض دفعہ انسان دوسرے کے متعلق بات سن کر اس بات کوپلے باندھ لیتاہے اوربغیر تحقیق دشمنی شروع کردیتاہے ۔بعض دفعہ ایک واقعہ دیکھتا ہے اوراس سے غلط نتیجہ نکال لیتاہے اوریہ تحقیق نہیں کرتاکہ ممکن ہے کہ اس فعل کی کوئی جائزوجہ ہو جسے دیکھ کراس نے بُراسمجھ لیا ۔اوربعض آپ ہی آپ اپنے دل میں ایک بات پیداکرلیتے ہیں ۔ان سب باتوں سے روکااورفرمایا کہ ظنی باتوں کے پیچھے نہیں پڑناچاہیئے ۔
بدظنی کے موجبات میں کان سب سے بڑاموجب ہے۔زیادہ ترلوگوں سے باتیں سن کرلوگ بدظنی کرتے ہیں ۔اس لئے اس کاذکر پہلے کیا ۔اس کے بعد دوسرابڑاذریعہ آنکھ ہے اسے دوسرے نمبر پر بیان کیا ۔اس کے بعد انتہاء کی بدظنی کرنے والا وہ شخص ہوت اہے کہ نہ شکایت سنتا ہے نہ کوئی بات مشتبہ دیکھتا ہے بلکہ آپ ہی آپ دل میں ایک وجہ بناکر ووسروں کے پیچھے پڑ جاتاہے ۔اس کو سب سے آخر میں رکھا کہ یہ موجب سب سے کم ہے۔کیونکہ خطرناک مریض عام مریضوں سے ہمیشہ کم ہوتے ہیں۔
اِنَّ السَّمْعَ الخ۔اس جملہ سے یہ بھی اشارہ کیاگیاہے کہ یہ مت خیال کروکہ صرف مال و جان کے معاملہ میں گرفت ہوگی بلکہ انسانی عزت پر حملہ کے متعلق بھی پرسش کی جائے گی۔اگرکوئی دوسرے کی نسبت وہ بات سنے گا جس کے سننے کااس کوحق نہ تھا تواس پر بھی پرسش ہوگی ۔اگرآنکھ اس بات کو دیکھنے کی کوشش کرے گی جس کے دیکھنے کااس کوحق نہیں تواس کے بارہ میں بھی پرسش ہو گی ۔اگر کوئی دل ایسے خیالات رکھے گا جن کے رکھنے کااسے حق نہیں تواس کے متعلق بھی پرسش ہوگی ۔یہ ایسی اعلیٰ درجہ کی پاکیزگی کی تعلیم ہے کہ اس پرعمل کرکے کسی قسم کاگند انسان میں باقی نہیں رہ سکتا ۔
اس تعلیم میں اخلاق کے متعلق نہایت اعلیٰ تعلیم دی گئی ہے انسان کو اپنے فیصلوں کی بنیاد ظن پر نہیں رکھنی چاہیئے بلکہ علم پر رکھنی چاہیئے ۔ محض کان کی شہادت یاآنکھ کی شہادت یادل کی شہادت کافی نہیں۔بلکہ تمام ذرائع سے تحقیق کرکے پھر فیصلہ کرناچاہیئے۔حضرت امام ابوجنیفہ ؒ کاایک مشہور قو ل ہے کہ’’اگر کسی میں ننانوے وجوہ کفر کے ہوں اورایک وجہ ایمان کی تواس کوکافر مت کہو ‘‘۔ اس پُرحکمت ارشاد کایہی مطلب ہے کہ اگر ننانوے دلائل اس کے کفرکے ہوں اورایک دلیل ایمان کی ہوتوبھی اسے کافر نہ کہو ۔یہ مطلب ہرگز نہیں جیسا کہ بعض احمق خیال کرتے ہیں کہ ننانوے شرعی وجوہ کفرکے ہوں تب بھی اسے کافر نہ کہو ۔کفر کے اسباب تو ہیںہی سات آٹھ ۔اللہ کاانکار ۔ملائکہ کاانکار ۔کتب سماویہ کاانکار۔انبیاء کاانکار۔قضاو قد رکاانکار ۔اورحشر بعد الموت کاانکار۔پس اگراس کے یہ معنے لئے جائیں کہ ننانوے اسباب کفرکے ہوںپھر بھی کافر نہ کہو توکسی دہریہ کوبھی کافر نہیں کہاجاسکتا ۔
ولاتمش فی الارض مرحاً انک لن تخرق الارض ولن تبلغ الجبال طولا ً٭
اورزمین پر اکڑ کر مت چل ۔تونہ(تو)زمین کوپھاڑ سکتا ہے اورنہ پہاڑوں کی بلندی کوپاسکتا ہے ۳۹؎
۳۹؎ حل لغات ۔مَرَحًا:مَرِحَ الرّجلُ (یمرَح)مَرَحًا کے معنے ہیں ۔اشتہ فرحہُ نشاطہ حتّٰی جاوزالقدروتبختر۔حددرجہ کاخوش ہو کر متکبرانہ چال چلا ۔واختال۔اکڑ کرچلا (اقرب)پس لاتمش فی الارض مَرَحًاکے معنے ہوں گے زمین پر اکڑ کرنہ چل ۔
لَنْ تَخْرِقَ:خرق سے مضارع واحد مخاطب کا صیغہ ہے ۔اورخرق الثوبَ کے معنے ہیں ۔مزّقَہٗ فتمزّق۔کپڑے کوپھاڑاتووہ پھٹ گیا ۔خرق المفازۃ۔قطَعھا حتّی بلغ اقصاھا ۔جنگل کو طے کیا اوراس کے آخر تک پہنچا (اقرب) پس لن تخرق الارض کے معنے ہوں گے ۔توزمین کے سفر کو طے کرکے ا سکے باہر نہیں نکل سکتا۔
تفسیر ۔پہلے اس وقت تک توان اخلاق کاذکر فرمایا گیا تھا جن کاتعلق خدتعالیٰ سے یا دوسرے انسانوں سے ہے ۔اب ان اخلاق کے متعلق ارشاد فرماتاہے جو اس کی ذات سے تعلق رکھتے ہیں ۔چنانچہ فرماتا ہے ۔کہ اگرتمہارے اندر کوئی خوبی کی بات ہو تواس کوتکبر کاذریعہ نہ بنائو کیونکہ اس طرح تم نیکیوں سے محروم ہوجائو گے اورآئندہ ترقی کی طرف قدم نہ اٹھا سکو گے ۔کیونکہ جو متکبر ہوجاتاہے وہ یہ سمجھنے لگ جاتاہے کہ میں نے انتہائی عرو ج پالیا ہے اوراس طرح وہ مزید اترقی سے محروم ہوجاتاہے ۔
دوسرے اس میں اس طر ف بھی اشارہ ہے کہ اے انسان تیری کامیابی آخری انسانی کامیابی ہے اس لئے اتنی ہی خوشی کرجو انسانوں کے لئے مقدر ہے اوریہ یاد رکھ کہ تواپنے کمالات کے باوجود زمین کو پھا ڑ نہیں سکتا یعنی اس سے باہر نہیں جاسکتا ۔عربی محاورہ ہے خرق المفازۃ۔جنگل کو طے کرکے نکل گیا۔یہی معنے اس جگہ لگتے ہیں اورمراد یہ ہے کہ آخر تونے اسی دنیا میں رہنا ہے تیری ترقیاں محدود ہیں پس اپنے آپ کوایسانہ بنا کہ دوسرے انسانوں سے تیراگذارہ مشکل ہوجائے ۔جن لوگوں کو متکبر لوگوں کے دیکھنے کاموقع ملاہے ۔و ہ جانتے ہیں کہ متکبر آدمی کی زندگی سخت تلخ گذرتی ہے۔کیونکہ ایک طرف تو وہ اپنے آپ کو ایک عجیب چیز سمجھنے لگتاہے دوسری طرف اسے اپنے ابناء وطن کے ساتھ مل کررہنا پڑتاہے ۔پس عجیب متضاد جذبات میں اسکی زندگی بسر ہوتی ہے ۔آجکل کاانگریزی خوان طبقہ جواپنے آپ کودوسرے ہندوستانیوں سے اعلیٰ سمجھتا ہے اوریو رپین ان کو منہ نہیں لگاتے اسی عذاب میں مبتلا ہے ۔جواس کے ہیں وہ ان میں رہنا پسند نہیں کرتا اورجن میں وہ رہناچاہتا ہے وہ اسے حقیر سمجھتے ہیں ۔پس فرمایاکہ آخر اپنے لوگوں میں تونے رہنا ہے پس دل کی ایسی کیفیت نہ بنا کہ تیری زندگی تجھ پروبال ہوجائے ۔
لن تبلغ الجبال طولاً۔جبل کے معنے پہاڑبھی ہوتے ہیںاورسید القوم اورعالم قوم کے بھی ۔یعنی قوم کاسردار اورقوم کاعالم ۔ اس جگہ جبال سے مراد دوسرے معنے ہیں یعنی سرداران قو م اورعلماء قوم ۔اوریہ جو فرمایا کہ توسرداران قوم اورعلماء قوم کے برابر نہیں ہوسکتا اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ قوم میں بڑائی خدمت سے ملتی ہے یاعلم سے اوریہ دونوں قسم کے لوگ انکسا ر کانمونہ ہوتے ہیں۔جیسے کہ عر ب کامحاورہ ہے سید القوم خادمھم یعنی قوم کاسردار درحقیقت قوم کاخاد م ہوتاہے ۔اسی طرح فرماتاہے ۔اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَآئُ(فاطرع۴)اللہ تعالیٰ سے عالم بندے ہی ڈرتے ہیں یعنی جس قدر انسان علم میں ترقی کرتاجاتاہے اس کی خشیت بڑھتی جاتی ہے ۔پس اس جملہ سے یہ بتایا ہے کہ تکبر کرکے تُوقوم کاسردار نہیں بن سکتا نہ قوم کے علماء میں شامل ہوسکتاہے ۔کیونکہ تکبر توتجھ کر اپنی قوم سے دور کردیتاہے اوراسی طرح خداسے بھی دور کردیتاہے پس اگر توبڑائی کاہی طالب ہے توبھی توتکبر سے اپنانقصا ن کرتاہے کیونکہ ا س فعل سے تُواپنے آپ کو اسی چیز سے محروم کرتاہے جس چیز کی تیرے دل میں خواہش ہے ۔پس تکبر نہ کر اگرتیرے اندر کوئی دنیوی خوبی ہے تواس کی مدد سے قوم کو فائدہ پہنچا۔تاکہ توقوم کاسردار بن جائے اوراگر کوئی دینی خوبی ہے تواس کے ذریعہ سے قوم کو فائدہ پہنچا ۔تاکہ تو خداتعالی کی نظر میں پسندیدہ ہوجائے ۔
کس لطیف پیرایہ میں یہاں تکبر سے روکاگیاہے ۔اس کی نظیر بھی دنیا کی کوئی کتاب پیش نہیں کرسکتی ۔
کل ذٰلک کان سیئہ عند ربک مکروھا٭
ان میں سے ہرایک (فعل)کی بُری صور ت تیرے رب کے نزدیک ناپسندیدہ ہے ۴۰؎
۴۰؎ حل لغات ۔السَّیّئُ کے معنے ہیں القَبِیْحُ ۔بُری صورت (اقرب)
تفسیر ۔اس چھوٹے فقرہ میںگویادریا کو کوزہ میں بندکردیاگیا ہے ۔فرماتا ہے جسقدر احکام اوپربیان ہوئے ہیں ان کے بُرے پہلو بھی ہیں اوراچھے بھی ۔جوبرے پہلو ہیں ان کواللہ تعالیٰ ناپسند کرتاہے اچھوں کونہیں ۔یعنی کوئی فعل بھی دنیاکاایسانہیں جسے ہرحال میں بُراکہاجاسکے۔توحید اچھی بات ہے لیکن اگرانسان توحید کوفساد کاموجب بنالے اوردوسری اقوام کے معبودوں پر آوازے کسے تویہی توحید بری ہوجائے گی ماں باپ کافعل اچھا فعل ہے لیکن ان کے کہنے پر شرک یا ظلم کرنے لگ جائے تویہ براہوجائے گا۔قتل برافعل ہے لیکن دفاع قوم سے یا ضروری قصاص سے جی چرائے تویہ براہوگا ۔یتیموںکے مال کو ہاتھ نہ لگانااچھا ہے لیکن اگرگناہ کے ڈر سے ان کے مال کی حفاظت چھوڑ دے تویہ بھی براہوگا ۔سودے میں دیانت اچھی چیز ہے مگربددیانتی سے ڈر کر کسب حلال بھی چھو ڑ دے تو براہوگا ۔شہوانی قوتوںکو انکے دائرہ میں رکھنا اچھا ہے لیکن ان کو بالکل نظر انداز کردینااوررہبانیت اختیار کرلینا یاان کو ناجائز طور پر استعمال کرنا برافعل ہوگا ۔بدظنی نہ کرنااچھا فعل ہے لیکن ایک پہرہ دار حسن ظنی سے کام لیتے ہو ئے دوسروں کو اپنی حفاظت کی اشیاء کے پاس جانے دے تویہ بُراہوگا ۔تکبر نہ کرنا اچھا فعل ہے لیکن بہادر ی اورجرأت دکھانے کے موقعہ پر انکسار دکھائے تویہ بھی براہوگا۔پس فرمایا کہ احکام کی حکمتوںکو سمجھو اورموقع اور محل پر ہرقوت کو استعمال کرو۔اللہ تعالیٰ تم کو اپنی قوتوں کے استعمال سے نہیں روکتا بلکہ ان کے غلط استعمال سے روکتا ہے ۔انسانی اعمال کی یہ تشریح ایسی کامل ہے کہ اس کو نہ سمجھنے سے ہی سب خرابیاں پیداہوتی ہیں ۔مگرکتنے لوگ ہیں جواس میانہ روی پر کاربندہیں ۔
ذٰلک مما اوحی الیک ربک من الحکمۃ ولا تجعل
یہ (تعلیم)اس (علم اور)حکمت میں سے (ایک حصہ)ہے جوتیرے رب نے وحی کے ذریعہ سے تیری طرف بھیجی ہے ۔اورتو
مع اللہ الھاً اخر فتلقی فی جھنم ملوماًمدحوراً٭
اللہ(تعالیٰ)کے ساتھ کوئی اورمعبود مت بنا ورنہ توملامت کانشانہ بن کر (اور)دھتکاراجاکر دوزخ میں ڈال دیاجائے گا۔۴۱؎
۴۱؎ تفسیر ۔سبحان اللہ! کیاعجیب ترتیب ہے ۔پہلے سورہ نحل میں فرمایاتھا کہ حکمت آنے والی ہے اب اسمیں بتایاکہ ان حکمت کی باتوں میں سے چند ایک ہم نے اوپر بیان کی ہیں ۔اب لائوان کتابوں کو جو اس قرآن کریم سے پہلے تھیں اوردکھائوکہ ان میں ایسی تعلیم کہاں ہے ۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے چندایک امور ایسے بیان فرمائے ہیں کہ جن کو لے کر ہم اہل کتاب سے مباحثہ کرکے ان کو شکست دے سکتے ہیں ۔
پہلے رکوع میں فرمایاتھا وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْا اِلَّٓااِیَّاہُ۔اس کے بعدتوحید کے عملی پہلو کو پہلے بیان کیااوربتایاکہ اسلام کی توحید نے دنیا کو عملی طورپر کیا فائدہ پہنچایاہے ۔اب توحید کادوسراپہلو بیان کرتاہے اورفرماتاہے کہ صرف دوسرے معبود کی عبادت سے انسان مشرک نہیں ہوتابلکہ اگر کوئی شخص اپنے ذہن میں بھی کسی کو خداکاشریک خیال کرتاہو تووہ بھی مشرک ہے ۔
تُلْقٰی فِیْ جَھَنَّم۔اس کاصرف یہی مطلب نہیں کہ آخرت کوجہنم میں ڈالاجائے گا بلکہ شرک کرنا خود ایک جہنم ہے کیونکہ جب کئی ایک کو معبود بنائے گا توکس کس کو خوش رکھے گااورکس کو ناراض کرے گا۔
دوسرے ا س طرح بھی یہ جہنم ہوجاتاہے کہ شرک کی کوئی دلیل نہیں ہوتی اورمشرک ہمیشہ موحدوں کے سامنے دلیل ہوتاہے ۔
آج عیسائیوں کو ہی دیکھ لو کہ ان کے لئے تثلیث کامسئلہ کس طرح ایک جہنم بن رہاہے ۔کسی سے پوچھ کردیکھ لو خواہ کتنا بڑاپادری ہو وہ اسکی کو ئی دلیل نہ دے سکے گا۔صرف اورصرف توحید ہی ایک ایسامسئلہ ہے کہ جس کومان کرانسان آرام میں آجاتاہے اوراسی سے ٹھنڈک نصیب ہوتی ہے ۔
مَلُوْمًا۔میں بتایاکہ مشرک کے سرپر ہمیشہ ملامت ہی رہتی ہے ۔ایک معبود کاماناتودوسرے کی ملامت سرپر آگئی ۔اُس کوماناتو
افاصفٰکم ربکم بالبنین واتخذمن الملئکۃ اناثا
کیاتمہارے رب نے تم کولڑکوں(کی نعمت )سے مخصوص کردیا ۔اور(خود) اس نے بعض فرشتوں کو (اپنی )لڑکیاں بنایاہے ۔
انکم لتقولون قولاً عظیماً٭
تم یقینا (یہ )بڑی (خطرناک)بات کہتے ہو ۔ ۴۲؎
۴۲؎ حل لغات ۔اَفَاَصْفٰکُمْ:اصفافلاناً بِکذا کے معنے ہیں اٰثرہٗ بہ واختصمہٗ۔کسی چیز کے متعلق اسے ترجیح دی ۔اوراس کواس کے لئے خاص کیا (اقرب) پس افاصفکم بالنبین کے معنے ہوں گے کہ کیاتم کو خداتعالیٰ نے بیٹوں کے ساتھ مخصوص کیا۔
تفسیر ۔اس آیت میں اس ذہنی کش مکش اورشرمندگی کی ایک مثال بیان کیگئی ہے فرماتا ہے کہ مشرکوں کے عقیدوں کو دیکھو کیسے عجیب ہیں ۔مثلاً کہ بعض خداتعالیٰ کے لئے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں اوراپنے لئے لڑکے ۔پھر ان ہی لڑکیوں کی پوجاکرتے ہیں جن کو وہ ذلیل قرار دیتے ہیں ۔گویاخداتعالیٰ کو چھوڑ کر انہیں وجودوں کے آگے جھکنا پڑتاہے ۔جن کو ان کے دل ذلیل سمجھتے ہیں۔
قَوْلًاعَظِیْما۔سے مراد بیوقوفی کی بات ہے ۔عظیم بری چیز کے لئے آئے تواچھی بات میں بڑائی مراد ہوتی ہے ۔اس جگہ اس لفظ سے یہ بتایاہے کہ مشرک کی عقل بھی ماری جاتی ہے وہ ایسی باتیں کرتاہے جوکوئی سمجھدار آدمی نہیں کرسکتا۔
ا س موقعہ پر ایک لطیف واقعہ مجھے یاد آگیا وہ مشرک کی ذہنیت کوخوب منکشف کرتاہے ۔جموں کے ایک سابق مہاراجہ صاحب کے پاس استاذی المکر م حضرت مولوی نورالدین صاحب (اللہ تعالیٰ ان کے مدارج بلندکرے قرآن انہوں نے ہی مجھے پڑھایاتھا اللہ تعالیٰ نے اب مجھے بہت علم بخشا ہے بلکہ وہ خود فرماتے تھے کہ میں نے تم سے ایسے ایسے معارف قرآن کے سنے ہیں جو نہ مجھے معلوم تھے اورنہ پہلی کتب میں درج ہیں ۔لیکن اس کتاب کی چاٹ انہوں نے ہی مجھے لگائی اوراس کی تفصیل کے متعلق صحیح راستہ پر ڈالا اوروہ بنیاد ڈالی جس پر میں عمارت تعمیر کرسکا ۔اس لئے دل ہمیشہ ان کے لئے دعاگورہتاہے )بطورطبیب ملازم تھے اورشاہی طبیب کے عہدہ پر فائز تھے بعد میں ان مہاراجہ صاحب کے فوت ہونے پر ان کے بیٹے مہاراجہ پرتاب سنگھ صاحب نے ان کو جموں سے اس الزام پر نکال دیا کہ موجودہ مہاراجہ صاحب کے والد اورچچا راجہ امر سنگھ صاحب او رراجہ رام سنگھ صاحب سے ان کے گہرے تعلقات ہیں ایسا نہ ہوکہ ان کی خاطرمجھے زہر دیدیں ۔اس کے بعد وہ قادیان ہجرت کرکے آگئے اورآخر اپنے تقویٰ اورعلم کی وجہ سے جماعت احمدیہ کے پہلے خلیفہ ہوئے ۔دوران ملازمت کاوہ قصہ سنایاکرتے تھے کہ ایک دن مہاراجہ صاحب نے مجھ سے کہا کہ مولو ی صاحب آپ بھی کوئی بُت اپنے گھر رکھتے ہیں کہ نہیں ۔فرماتے تھے میں نے کہا مہاراجہ صاحب نہیں ہم بُت نہیں رکھتے ہمارے مذہب میں یہ منع ہے۔اس پر کچھ حیران سے ہو کر کہنے لگے کہ ایک نصیحت آپ کوکرتاہوں کہ کالی دیوی کابُت ضروررکھ لیں۔یہ بڑی سخت دیوی ہے اوربڑانقصان پہنچاتی ہے ۔فرماتے تھے میں نے کہا ۔مہاراجہ صاحب ہم توکالی کوبھی نہیں رکھ سکتے ۔اس پر وہ کہنے لگے کہ پھر آپ کو کوئی نقصان نہیں ہوتا۔میں نے کہا نہیں مہاراج کوئی نقصان نہیں ہوتا ۔یہ سن کر وہ کچھ تردّد میں پڑ گئے ۔تھوڑی دیر غورکرنے کے بعد بولے مولوی صاحب میں سمجھ گیا آپ کو میں جموں کی ریاست میں سزادینی چاہوں تودے سکتاہوں ۔لیکن آپ سیالکوٹ چلے جائیں توپھر کچھ نہیں کرسکتا ۔یہی معاملہ یہاں ہے ۔ہم توکالی دیوی کومان کراس کے اختیارمیں آگئے ہیں وہ ہمیں سزادے لیتی ہے ۔لیکن آپ لوگ سرے سے انکار کرکے اس کی حکومت سے نکل گئے ہیں اس لئے وہ آ پ کاکچھ نہیں بگاڑ سکتی ۔فرماتے تھے میں نے اس پر کہا مہاراج آپ خوب سمجھے ہم ایک خداکومان کر ان بتوں کے قبضے سے نکل چکے ہیں ۔اسپر مہاراجہ صاحب تو اپنی جگہ خوش کہ میں نے صحیح بات دریافت کرلی اورمیں اپنی جگہ خوش کہ توحید نے ہم کوکیسی کیسی لغویات سے بچالیا ہے ۔
ولقد صرفنا فی ھذاالقرآن لیذکروا ومایزیدھم الانفوراً
اورہم نے اس قرآن میں (ہرایک بات کو )اس لئے بار بار بیان کیا ہے ۔کہ وہ (اس سے )نصیحت حاصل کریں اور(باوجود اس کے )وہ انہیں (عُجب و )نفرت ہی میں بڑھارہاہے۔ ۴۳؎
۴۳؎ حل لغات ۔صَرَّفْنَا: صَرَّفَ سے جمع متکلم کاصیغہ ہے جوصَرَفَ سے مزید ثلاثی ہے اورصَرَفَہٗ(صَرْفًا)کے معنے ہیں رَدَّہٗ عن وَجْھِہٖ اس کے ارادہ سے اسے پھیرا ۔اور صَرَّفَ الکلامَ کے معنے ہیں اِشْتَقَّ بَعْضَہٗ مِنْ بَعضٍ کلام کے ایک حصہ کودوسرے سے مشتق کیا ۔صَرَّفَ اللہُ الرِّیَاحَ۔حَوَّلَھَا مِنْ وَجْہٍ الی وجہٍ ۔اللہ تعالیٰ نے ہوائوں کارخ ادہر سے ادھر پھرایا ۔صَرَّفَ فُلاناً فی الامرِ ۔قَلَّبَہٗ فیہ وَفَوَّضَہٗ اِلیہ کسی کام میں کسی کو لگایا اوروہ کام اس کے سپر دکیا (اقرب)پس ولقد صرَّفنَا فی ھذاالقرآنِ کے معنے ہوں گے ۔ہم نے قرآن مجید میں ہربات کو با ر بار بیان کیا ہے ۔
نُفُوْرًا:نُفُوْر۔نَفَرَ کامصدر ہے ۔اورنفرت (تَنْفِرُ )الدَّابۃُ کذا ۔کے معنے ہیں جَزَعَتْ وتباعَدَتْ ۔جانورڈرکردور بھاگا نَفَرَ الْقَوْمُ نَفَرًا۔تَفَرَّقُوْا۔لوگ پراگندہ ہوگئے نفرالقومُ عن کذا ۔اعرَضُوْا وَصَدُوْالوگوں نے کسی بات سے اعراض کیا اوراس سے رُکے ۔نَفَرَ القَوْمُ من کذا۔انفواوکَرِھُوْہُ لوگوں نے اس سے ناک چڑھایا اوراس کو ناپسند کیا ۔(اقرب)پس نُفُوْرکے معنے ہوں گے ۔دورہونا ۔پراگندہ ہونا ۔اعراض کرنا ۔ناپسند کرنا ۔
تفسیر ۔نُفُوْرًا کے معنے اوپر بتائے جاچکے ہیں ۔کہ دور ہونے ۔پر اگندہ ہونے ۔ناپسند کرکے ۔اعراض کرنے کے ہوتے ہیں ۔ان معنوں کے لحاظ سے وَمَایَزِیْدُھُمْ اِلَانُفُوْرًا۔کے یہ معنے ہوئے کہ نہیں زیادہ کرتا ان کو مگر دور ہونے میں۔پراگندہ ہونے میں ۔ناپسند کرنے میں یااعراض کرنے میں ۔یعنی ہم نے قرآن کریم میں قسم قسم کے دلائل بیان کئے ہیںمگرلوگ اس سے فائدہ اٹھانے کی بجائے نفرت ہی کرتے ہیں ۔اس سے اعراض ہی کرتے ہیں۔
بعض دیگر لوگ اعترا ض کرتے ہیں کہ قرآن کریم میں تکرارہے۔مگر دیکھو قرآن کریم نے خود ہی اس کا جواب دیدیاہے فرماتاہے ۔وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِیْ ھٰذَا الْقُرْآنِ ہم نے اس قرآن میں ہرپہلو سے مسائل کی بحث کی ہے تاکہ کسی پہلو سے ہی لوگ سمجھیں تب بھی لوگ اعراض کررہے ہیں ۔صَرَّف َ کے معنے کسی چیز کو اچھی طرح سے ردّکرنے کے بھی ہوتے ہیں اورادھر سے ادھر پھرانے کے بھی ۔چنانچہ عر بی کامحاورہ ہے صَرَّفَ اللہُ الر ِیَاحَ جسکے معنے ہیں حَوَّلَھَا من وجہٍ الی وجہٍ یعنی ہوائوں کارخ ادھر سے ادھر پھیرادیا۔ان دونوں معنوں کو ملحوظ رکھ کر آیت کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ (۱)اللہ تعالیٰ خوب اچھی طرح تمام اعتراضا ت کودورکرتاہے (۲)اللہ تعالیٰ ہر مضمون کو مختلف پہلوئوں سے بیان کرتاہے ۔یہ دونوں باتیں قرآن کریم میں پائی جاتی ہیں ۔تمام اعتراضا ت جو قرآ ن پر وارد ہوتے ہیں ان کو اس میں خو ب اچھی طرح ردّ کیا گیا ہے اورتمام ضروری امورکو مختلف پہلوئوں سے کھو لا گیا ہے ۔پس جس کلام نے ہر مسئلہ پر بالا سیتعاب بحث کرنی ہو لازماً اس میں وہ امور متعددبار بیان ہوں گے ۔اور اسے کوئی عقلمند تکرار نہیں کہہ سکتا۔تکرار تو یہ ہے کہ بے وجہ ایک بات کو دہرایا جاوے ۔مگر جب ہر دفعہ دوسرے پہلو سے یا دوسری ضرورت سے بات بیان کی جائے تو یہ تکرار کس طرح کہلا سکتی ہے ۔اصل بات یہ ہے کہ لوگ غور کر کے قرآن کے مضمونوں کو سمجھتے نہیں اور یونہی سطحی باتوںکی وجہ سے اعتراض کردیتے ہیں ۔
وَمَایَزِیْدُھُمْ اِلَّانُفُوْرًا نے واضح کیا کہ ہمارے باربار سمجھا نے اورپھر بھی ان کے نہ ماننے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ شرک کی وجہ سے ان کی عقل ماری گئی ہے ۔ورنہ کیاوجہ ہے کہ ہمارے طرح طرح پر سمجھانے کے باوجود بھی وہ نہیں سمجھتے ۔
قل لوکان معہ الھۃ یقولون اذالابتغواالی ذی العرش سبیلاً٭
توکہہ کہ اگر ان کے قول کے مطابق اس کے ساتھ (کوئی)اورمعبود(بھی )ہوتے تواس صورت میں وہ (یعنی مشرکین ان معبودوں کی مدد سے )عرش والے (خدا)تک (پہنچنے کا )کوئی راستہ ضرورڈھونڈ لیتے ۴۴؎
۴۴؎ حل لغات ۔ذی العرش ۔عرش والا۔العرش کے لئے دیکھویونس ۵؎
تفسیر ۔اس تصریف کی مثال بھی معاً دیدی ۔شرک کے مضمون کو پھر بیان کیا ہے لیکن اس میں ایک نئی دلیل پیش کی ہے یونہی پہلی بات نہیں دہرادی فرماتا ہے اگر شرک صحیح ہوتا تو کیا مشر ک لوگ خدا رسیدہ نہ ہو جاتے ۔اذا لا ابتغوا الیٰ ذی العرش سبیلاکے معنے یہی ہیں کہ اگر شرک درست ہوتا تو مشرک لوگ ذی العرش کے ساتھ کوئی تعلق بنا ہی لیتے کیونکہ اس کی بیٹیوں یا بیٹوں سے تعلق پیدا کرکے ان کے لئے قرب کی راہیں کھل جانی چاہی تھیں ۔
ایک دوسری جگہ قرآن کریم میں خود مشرکوں کا دعویٰ بیا ن کیا ہے کہ وہ بھی اسی غرض یعنی تقرب الی اللہ کے لئے ان کی عبادت کرتے تھے۔جیسے کہ سورۃ زمر میں فرمایا مانعبد ھم الّا لیقرّبونا الی اللہ زُلفیٰ(زمرع۱)کہ ہم توان بُتوں کی اسلئے عبادت کررہے ہیںکہ وہ ہمیں خداکا قرب دلادیں ۔یہاں ان کے اپنے دعوے کو ان کے شرک کے رد میں پیش کیاگیا ہے کہ جب ان کی غرض یہی ہے کہ ذی العرش تک پہنچیں ۔اورذی العرش کے مقربین سے انہوںنے تعلق بھی پیداکرلیا ہے توپھر چاہیئے توتھا کہ وہ خداتعالیٰ کے مقرب ہوجاتے مگر اس کے کوئی آثار توان میں پائے نہیں جاتے ۔
قرآن شریف سے قرب الٰہی کے مندرجہ ذیل آثار معلوم ہوتے ہیں :۔
اول۔ دعاکاقبول ہونا۔ سورۃ بقرہ ع ۲۳ میں فرمایا ہے کہ وَاِذَاسَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دعوۃَ
الدَّاعِ اذادعانِ۔الآیہ۔کہ جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں توکہہ دے کہ میں تم سے قریب ہوں ۔اور میرے قریب ہونے کی یہ علامت ہے کہ پکارنے والے کی پکا ر کاجواب دیتاہوں۔یہ ایسی علامت ہے کہ مشرک بھی اس کی صحت کاانکا ر نہیں کرسکتے ۔مگر یہ علامت کسی مشرک میں نہیں پائی جاتی ۔مشرکوں میں سے کوئی بھی ایسانہیں جسے قبولیت دعاکا دعویٰ ہو ۔آج تک ایک شخص بھی دنیا میں ایسانہیں پیداہواجس نے دعویٰ کیا ہو کہ مجھے ان بتوں کے ذریعہ سے خدامل گیا ہے ۔اوروہ میری دعائیں سنتا اورقبول فرماتاہے اوردنیا نے اس کی قبولیت دعاکے نشان دیکھے ہوں ۔
دوسرامعیار قرب الٰہی کا سورۃ واقعہ میں بیان ہواہے ۔وہاں مقربوں کا ذکرکر کے فرماتاہے ۔لَایَسْمَعُوْنَ فِیْہَالَغْوًا وَلَاتَاثِیْمًااِلَّا قِیْلًا سَلٰمًا سلٰمًا (واقعہ ع ۱)یعنی قرب کامقام وہ ہے جس میں لغواورگناہ کی بات کوئی نہیں ہوتی ۔اورلوگ ایک دوسرے کے شرسے بھی محفوظ رہتے ہیں ۔اورہرایک شخص دوسرے کی سلامتی تلاش کرتا ہے اوراللہ تعالیٰ سے بھی اسے سلامتی ملتی ہے ۔یہ معیار بھی ایسا نہیں کہ کو ئی مشرک اسکاانکا رکرسکے ۔ظاہر ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے قریب ہوگا لغو باتوں سے اورگناہ سے بچے گا۔ اورخداکابندہ ہوکر ا س کے دوسرے بندوں کی بھلائی میں لگارہے گافساد نہیں کرے گا ۔
یہ علامتیں بھی کسی مشرک میں نہیں پائی جاسکتیں ۔پہلی بات لغو باتوں سے محفوظ ہوتاہے ۔مشرک میں یہ بات کہاں پائی جاسکتی ہے ۔و ہ توشرک کی وجہ سے مضحکہ خیز باتیں کرتاہے ۔ایک بے خبر اوربے شر چیز کے سامنے سجدے کرتاہے اس کی عظمت کرتاہے ۔حتی کہ عقلمند اس کی حرکات کو دیکھ کر حیران رہ جاتاہے ۔بھلا یہ غوغا جو گائے کے تقدس کاہندوستا ن میں برپا ہے کونسامعقول شخص اسے جائز قرار دے سکتا ہے ۔گائے کے پرستار ا سکادود ھ اسے بچے سے چھڑالیتے ہیں ۔آپ غلہ کھاتے ہیں اسے گھاس کھلاتے ہیں ۔اسے باندھ کررکھتے ہیں ۔نر پر بوجھ لادتے ہیں ۔سواری کاکام لیتے ہی ۔مارتے پیٹتے ہیں اورپھر وہ ماتاکی ماتاہے ۔پھر لطیفہ یہ کہ ہند و عیسائیوں پر تمسخر اڑاتے ہیں کہ وہ ایک کمزور بندہ کوخدابنارہے ہیں اوروہ ان پر ہنستے ہیں کہ ایک کمزور جانور کو دیوی سمجھ رہے ہیں ۔ان لغو باتوں کو دیکھ کر ایک موحد بے ساختہ لاحول ولا قوۃ الا باللہ کہہ اٹھتاہے ۔دوسری علامت گنا ہ سے بچناہے ۔مشرک شرک کرتے ہوئے گنا ہ سے بچ ہی نہیں سکتا۔بے شک مشرکوں میں سے بھی بعض نیک ہیں ۔لیکن ان کی نیکی شرک کی وجہ سے نہیں بلکہ شرک کے باوجود ہے ۔ایسے لوگوں کی فطرت اچھی ہوتی ہے ۔پس شرک ان کے اندر جڑ نہیں پکڑتا۔مثلاً گائے ہی کولے لو جولوگ گائے کو پوجتے ہیں اس کو طرح طرح سے دکھ بھی دیتے ہیں ۔اوراس پر مجبور ہیں ۔کیونکہ گائے خداتعالیٰ نے انسان کے کام کے لئے بنائی ہے ۔انہیں اس سے کام لینے کے بغیر کوئی چار ہ نہیں ۔اس کانتیجہ یہ ہوتاہے کہ و ہ گائے سے کام بھی لیتے جاتے ہیں اورساتھ ہی دل میں احساس گناہ بھی بڑھتاجاتاہے اورضمیر ناپاک ہوجاتی ہے ۔پھر دیکھو مشرک ہندو دسہر ہ مناتے ہیں ۔مگر پھر اس خیا ل سے کہ راون برہمن تھا اوررام کھتری ۔دسہر ہ منا کر ایک دن توبہ کارکھتے ہیں تابرہمن کی ہتک کاازالہ ہوجائے ۔عیسائیوں کابھی یہی حا ل ہے مسیح کو ایک طرف خدابناتے ہیں دوسری طرف اپنے گناہ اس پر لادتے ہیں ۔اورشرک کاعقید ہ ان کے لئے ہربدی کارستہ کھولتاہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ خداوند یسوع نے ہمارے گنا ہ اٹھالئے ہیں ۔
تیسری علامت قرب کی یہ ہے کہ خداتعالیٰ کی طر ف سے مقرب کوحفاظت ملتی ہے ۔یہ علامت بھی مشرک کو حاصل نہیں ہوتی اورنہ ہوسکتی ہے ۔جوان چیزوں کے تابع ہوجاتاہے جن کو خداتعالیٰ نے اس کے تابع بنایاتھا اس کے لئے حفاظت کا کونسا ذریعہ باقی رہ جاتاہے ۔
چوتھی علامت یہ ہے کہ خداکاہوکر اس کے بندوں سے نیک سلوک کرے اورآپس میں صلح صفائی پیداہو ۔یہ علامت بھی مشرک میں پیدانہیں ہوسکتی ۔کیونکہ توحید ہی دنیا میں امن کوقائم کرسکتی ہے ۔مختلف خدائوں کی موجودگی میں تفرقہ اورفساد ہی پیداہوسکتاہے ۔قومی دیوتائوں ہی کی وجہ سے اقوام میں جنگیں ہوتی ہیں ۔ہندومسیح کونہیں مان سکتا ۔مسیحی گائے کی پوجانہیں کرسکتا ۔مگر یہ سب ایک خداکی پوجاکرسکتے ہیں ۔اوردنیا کاامن اس ذریعہ سے محفوظ ہوسکتاہے ۔
اِذًالَّابْتَغَوْااِلیٰ ذِی العَرْشِ سَبِیْلًا کے یہ بھی معنے ہیں کہ اگردوسرے معبود سچے ہوتے تویہ لوگ ان کے ساتھ تعلق پیداکرکے کوئی کامیابی کی راہ میرے خلاف ڈھونڈ لیتے اورمجھے نقصان پہنچانے اورتباہ کرنے کاراستہ نکال لیتے اورا ن کی معرفت میرے خلاف کوئی تدبیر ہی ذی العرش سے پوچھ لیتے جس سے انہیں کامیابی حاصل ہوجاتی ۔مطلب یہ کہ کمزوری کے باوجود میرادن بدن بڑھنا اوران کا بتوں کی پرستش کرنے اوران کی مدد حاصل کرنے کے باوجود گھٹنا اس امر کی علامت ہے کہ شرک کاعقیدہ صحیح نہیں اورنہ اس میں کوئی فائد ہ ہے ۔
یہ دلیل بعض بڑے بڑے مشرکوں کے لئے ہدایت کاموجب ہوئی ہے ۔حدیث میں آتاہے کہ فتح مکہ کے موقعہ پر نبی کریم صلعم نے عورتوں کی بیعت لیتے وقت فرمایاکہ اس امر کااقرار کروکہ ہم شرک نہیں کریں گی۔اس موقعہ پر ہندؔہ ابوسفیان کی بیوی بھی موجود تھی ۔ وہ بے اختیار بول اُٹھی کہ یارسول اللہ!کیا اب بھی ہم شرک کریں گی ۔اگر ان بتوں میں کچھ طاقت ہوتی اوراگر یہ ہماری مدد کرسکتے توآپ اکیلے ہو کر بھلا ہم پر غالب آسکتے تھے؟
سبحٰنہ وتعٰلی عما یقولقون علوًاکبیراً٭
وہ اس سے جو وہ (یعنی مشرکین )کہتے ہیں پاک اور بہت ہی بالاہے ۴۵؎
۴۵؎ حل لغات ۔تَعٰلٰی: اِرْتَفَعَ ۔تعالیٰ کے معنے ہیں بلندہوا(اقرب)پس تَعٰلٰی عَمَّا یَقُوْلُوْنَ کے معنے ہوں گے وہ اس بات سے بلند و بالاہے جو وہ کہتے ہیں ۔ عُلُوًّا:عَلَا کامصدر ہے اورعلاکے معنے کے لئے دیکھو سور ۃہذا۵؎
تفسیر ۔اس آیت میں تَعٰلٰی کی تاکید غیر باب سے یعنی عُلُوًّا سے کی گئی ہے ۔قرآن کریم میں اسکی اورمثالیں بھی پائی جاتی ہیں مثلاً فرماتاہے اَنْبَتَکُمْ نَبَاتًاحَسَنًا۔مفسرین نے لکھا ہے کہ ایساکرنے سے تاکید میں زیادتی ہوجاتی ہے ۔کیونکہ اس میں دوچیزیں ایک فعل اورایک مصد رمقدرنکالنے پڑتے ہیں ۔گوعبارت یوں ہوگی ۔تعالیٰ تعالیاً وعلاعُلُوًّا و ہ پا ک ہے اوربہت ہی بڑاہے اس بات سے جو یہ لوگ کہتے ہیں ۔یعنی خداکی شان کے خلاف ہے کہ وہ اپنا قرب کسی کی معرفت دے ۔خودپیداکرکے پھر اپنی معرف کے لئے روکیں پیداکرنا دانائی کے خلاف ہے اگر کوئی کہے کہ پھر اللہ تعالی نبی کیوں بھیجتا ہے اوران کامانناکیوں فرض کیا ہے ؟ تواسکاجواب یہ ہے کہ نبی توصرف ا س کام کے لئے آتے ہیں کہ جوروکیں خداتعالیٰ کی راہ میں ہوں ان کودورکیا جائے اورخداتعالیٰ کی طرف لوگوںکومتوجہ کیا جائے ۔نبی اللہ تعالیٰ اوربندہ کے درمیان روک بن کر کھڑانہیں ہوتا۔بلکہ نبی کے باوجود ہر بندہ کاتعلق اللہ تعالیٰ سے براہ راست ہوتاہے۔
تسبح لہ السموٰت السبع والارض ومن فیھن
ساتو ںآسمان اورزمین اورجو ان میں (بسنے والے)ہیں اس کی تسبیح کرتے ہیں ۔اورجوبھی چیز ہے ۔
وان من شیئٍ الایسبح بحمدہ ولکن لاتفقھون تسبیحھم
و ہ اس کی تعریف کرتی ہوئی (اس کی )تسبیح کرتی ہے ۔لیکن (افسوس )تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے
انہ کان حلیماغفوراً٭
وہ یقینا پردہ پوشی کرنے والا (اور)بہت (ہی)بخشنے والاہے ۴۶؎
۴۶؎ حل لغات ۔لاتَفْقَھُوْنَ:فقہ سے مضارع کا صیغہ ہے ۔اورفقہ الشَیئَ (یفقہُ فقہا)کے معنے ہیں ۔اس کو سمجھا ۔وَفَقِہَ الرجُلُ(یَفْقَہُ)فَقْہًا کے معنے ہیں ۔عَلِمَ لَکانَ فَقِیْہًا فلاں شخص عالم ہوگیا (اقرب)پس لاتفقھون تسبیحھم کے معنے ہوں گے کہ تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے ۔
حَلِیْمٌ: حَلْمَ(یَحْلُمُ حِلْمًا)سے صفت مشبّہ کاصیغہ ہے ۔اورحَلْمَ کے معنے ہیں صَفَحَ وَسَتَرَدرگذرکیا اورپردہ پوشی کی (اقرب)پس حلیمٌ کے معنے ہوں گے ۔درگذر کرنے والا اورپردہ پوشی کرنے والا ۔
تفسیر ۔اس آیت میں فر مایا کہ دنیا کو اگر مجموعی نظر سے دیکھا جائے تووہ بھی خداکے واحد ہونے پر دلالت کرتی ہے اوراس کی ایک ایک چیز کو دیکھاجائے تووہ علیحدہ علیحدہ بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ خداواحد ہے ۔
اِنْ مِنْ شَیْئٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ میں اس کے فرداً فرداً تسبیح کرنے کاذکر ہے اورپہلے جملے میں مجموعی طورپر توحید ظاہر کرنے کا اشارہ ہے ۔ ورنہ اگر تُسَبِّحُ لَہُ السَّمٰوٰتُ ا لسَّبْعُ وَالاَرْضُ وَمَنْ فِیْھِنَّ میں بھی فردًافردًا توحید پردلالت کرنامقصود ہوتا توبعدمیں یہ جملہ نہ آتا ۔پس اس جملے کادوبارہ بیان کرنابتاتاہے کہ پہلے جملے میں دنیا کی تما م چیزوں کا مجموعی طور پر توحید ثابت کرنا ظاہرکیا گیا ہے ۔اوردوسرے جملے میں دنیا کی ہرایک چیز کا علیحدہ علیحدہ توحید کی دلیل ہونابتایا گیاہے ۔دنیا کی اشیاء کو دیکھ لو ایک دوسرے سے کیسی وابستہ ہیں ۔بعض چیزیں آپس میں ہزاروں لاکھوں کروڑوں میل پر ہوتی ہیں لیکن سب کاوجود ایک دوسرے سے وابستہ ہوتاہے اورسب آپس میں ایک دوسرے سے منسلک ہوتی ہیں ۔پس ان کاایک ہی قانون سے وابستہ ہونا ظاہرکرتا ہے کہ دنیا میں کوئی دوسراقانون نہیں ورنہ ضرو رخلل ہوتا۔اورجب دوسراقانون ہی نہیں تودوسرے مقنّن کاوجود کس طرح ممکن ہوگا؟
دنیاکی سب چیزیں فردًافردًابھی تسبیح کرتی ہیں ۔اس طرح کہ ہر چیز میں خداکی صفات کی جھلک ہے ۔خداکی ستاری۔غفاری ۔اس کی خلق ۔اس کی ملک وغیرہ تما م صفات ہرایک چیز میں پائی جاتی ہیں یعنی وہ چیز ان باتوں پر عمل کرتی ہوئی نظر آتی ہے ۔دنیاکاکوئی ذرّہ بھی لے لو ۔اس میں یہ سب صفات کام کرتی نظر آئیں گی ۔پس جب ہرچیز خدائے واحد کی اصفات کوظاہر کررہی ہے تواسے کسی اورخداکی طرف کس طرح منسوب کیاجاسکتاہے ۔
ولکن لاتفقھون تسبیحھم سے بعض لوگوں نے یہ مراد لی ہے ان کی علیحدہ علیحدہ بولیاں ہیں جوسمجھ میں نہیں آتیں ۔اگر ہرچیز کی علیحدہ علیحدہ بولی ہوتی اورہم اسے سمجھ نہ سکتے توہمارے لئے یہ امردلیل کیسے بن سکتا۔دلیل تووہ ہوتی ہے جسے ہم سمجھ بھی سکیں ۔پس یہاں پر تفقھون سے مختلف اشیا ء کی بولی سمجھنا مرادنہیں بلکہ یہ بتایا ہے کہ تم یہ نہیں سمجھتے کہ وہ تسبیح کررہی ہیں ۔انہ کان حلیمًاغفورًا وہ حلیم و غفورہے ۔اس میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ اس کے علم کی وجہ سے تم بجائے فائدہ اٹھانے کے شرارتوں میں بڑھ رہے ہو کیا تم خیال نہیں کرتے کہ ایسے نظام اوردلائل کے ہوتے ہوئے تمہاراان سے فائدہ نہ اٹھا نا بلکہ شرارتوں میں بڑھتے جانا اورفورًا نہ پکڑے جانا خداتعالیٰ کے علم کی وجہ سے ہی ہے ۔پس شرافت کاجذبہ ظاہر کرو اوراللہ تعالیٰ کے علم کی قدرکرو۔
واذاقرات القراٰن جعلنا بینک وبین الذین لایومنون
اورجب توقرآن کو پڑھتاہے تو(اس وقت)ہم تیرے درمیا ن اوران لوگوں کے درمیان جوآخرت پرایمان نہیں رکھتے
بالاخرۃ حجابامستوراً٭
ایک مخفی (اورعام نظروں سے پوشیدہ )پردہ پیداکردیتے ہیں ۴۷؎
۴۷؎ حل لغات ۔حِجَابًا الحجابُ:(حَجَبَ ۔یَحْجِبُ)کامصدرہے ۔اورنیز اس کے معنے ہیں۔پرد ہ۔وُکُلُّ مَااحْتُجِبَ بِہٖ ہروہ چیز جس کے ذریعے پرد ہ کیا جائے (اقرب)
تفسیر ۔اس آیت کے دومعنے ہیں (۱)کہ جب توقرآن شریف پڑھتا ہے توہم تیرے درمیان اور ان لوگوں کے درمیان جوآخرت پرایمان نہیں لاتے ایک ایساپردہ ڈال دیتے ہیںکہ وہ پردہ خود بھی چھپاہواہوتاہے ۔یعنی وہ حجا ب بھی ان کی نظروں سے پوشیدہ ہوتاہے ۔یہ اسلئے فرمایاتاکوئی بے سمجھ حجاب کے لفظ سے ظاہری پردہ نہ سمجھ لے ۔
بعض لوگوں نے پردہ سے ایسا پردہ مراد لیا ہے ۔کہ جس سے نبی کریم صلعم چھپ جاتے تھے اورانہوں نے زوجہ ابولہب کاقصہ لکھا ہے ۔کہ سورۃ اللہب اتری توفِیْ جِیْدِھَاحَبْلٌ مِّنْ مَّسَدٍ سن کر وہ غصہ میں بھری ہوئی نبی کریم صلعم کو تکلیف پہنچانے کی نیت سے لپکی ۔نبی کریم صلعم نے دعاکی کہ الٰہی !تومجھے اس کے شرسے بچالے ۔توخداتعالیٰ نے آپ کے آگے پردہ حائل کردیا اوراس وجہ سے وہ آپ کودیکھ نہ سکی ۔یہ محض خرافات ہیں ۔خداکاو ہ رسول جو ساری دنیا سے نہ ڈرا۔ا س کمزور عورت سے اس قدر خائف ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ کو اسے غائب کرنا پڑا ۔اس غیر معقول بات کو کوئی عقلمند تسلیم نہیں کرسکتا ۔اس روایت کو پیش کرنے والے یہ بھی نہیں سوچتے ۔کہ خداتعالیٰ تواس حجاب کو مَسْتُوْر قرار دیتاہے یعنی و ہ پردہ نظر نہیں آتا۔مگریہ لوگ پردے کو ظاہرکرکے نبی کریم صلعم کو مستور قراردیتے ہیں ۔
(۲)دوسرے معنے اس جملہ کے یہ ہوسکتے ہیں ۔وہ پرد ہ بھی آگے ایک اَورپردے کے پیچھے ہوتاہے ۔یعنی ایک پردہ ہی تیرے اور ان کے درمیان نہیں ہوتا بلکہ کئی پردے حائل ہوتے ہیں ۔کوئی پردہ قومی غیرت کا۔کوئی مال کا۔کوئی اخلاق کا وغیرہا ۔وغیرہا ۔یعنی کبھی لو گ اس خیال سے ایمان نہیں لاتے کہ اس کوماناتوقوم چھوڑ نی پڑے گی ۔کبھی یہ خیال حائل ہوجاتاہے ۔کہ ما ل جاتارہے گا۔کبھی یہ بات راستہ روک کر کھڑی ہوجاتی ہے ک کئی قسم کے بداخلاق جن کی عادت پڑی ہوئی ہے چھوڑنے پڑیں گے ۔پس اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ جب تک یہ لوگ ان پردوںکو نہ ہٹائیں گے تجھ تک نہ پہنچ سکیں گے ۔مگر مصیبت یہ ہے کہ و ہ پرد ے ایسے ہیں کہ ان کونظر نہیں آتے ۔ان کی نظروں سے پوشید ہ ہیں ۔وہ اپنے خیال میں یہ سمجھ رہے ہیں کہ قرآ ن کریم ہی بُری چیز ہے ۔اگر وہ اچھی چیز ہوتی توجلدی ہی ہمارے دلوں پر اس کی قبولیت کا اثرہوجاتا ۔گویاان کے دلوں پر ایسے زنگ ہیں کہ ان کواچھی چیز بری لگتی ہے ۔اسلئے ایمان کانصیب ہو نا مشکل ہورہاہے۔ان معنوں کی تصدیق اگلی آیت وَجَعَلْنَا عَلیٰ قُلُوْبِھِمْ اَکِنَّۃَ سے ہوتی ہے کہ ان کے دلوں پر ایک پرد ہ نہیں بلکہ کئی پردے ہیں ۔
وجعلنا علی قلوبھم اکنۃً ان یفقھوہ و فی اذانھم وقراً
اورہم ان کے دلوں پر (بھی)کئی پردے ڈالدیتے ہیں تاوہ اس(سچائی کے انکار کی حقیقت)کو سمجھیں اوران کے کانوں میں بہرہ
واذاذکرت ربک فی القراٰن وحدہ ولواعلی ادبارھم نفوراً
پن ہے ۔اورجب توقرآن میں اپنے رب کو جو ایک ہے یاد کرتاہے توو ہ نفرت سے (تیری طرف )اپنی پیٹھیں پھر کرچلے جاتے ہیں ۴۸؎
۴۸؎ حل لغات ۔اَکِنَّۃ:اَلْاَکِنَّۃ۔ الکِنُّ کی جمع ہے ۔اورالکِنُّ کے معنے ہیں وقاء کُلِّ شیْئٍ وَسَتَرُہ ٗ ہرچیز کے اوپر کاپر دہ جواس کے جسم کی حفاظت کرتا ہے (اقرب)
وَقْرًا:وَقَرَ (یَقِرُ)سے ہے اوروَقَرَتْہُ اُذُنُہٗ کے معنے ہیں ۔ثَقَلَتْ اَوْ ذھبَ سمعُہٗ کُلّہٗ وَصَمَّتْ اس کے کان بوجھل ہوگئے یااس کی شنوائی جاتی رہی اورکا ن بہر ے ہوگئے ۔(اقرب)پس وَقْر کے معنے ہوں گے ۔بہراپن ۔کان کابوجھ ۔
وَلَّوْا: وَلّٰی سے جمع کاصیغہ ہے ۔اوروَلّٰی ھَارِبًا کے معنے ہیں اَدْبَرَ پیٹھ دے کربھاگ گیا ۔وَلَّی الشَّیء وَعِنِ الشَّیْئِ۔اَعْرَضَ وَنَاٰی ۔ اس نے کسی سے اعرا ض کیااورپہلوتہی کی (اقرب)پس وَلَّوْاعَلیٰٓ اَدْبَارِھِمْ کے معنے ہوں گے کہ وہ پیٹھ پھر کربھاگ جاتے ہیں ۔
تفسیر ۔اَنْ یَّفْقَھُوْہُ محذوف مفعول لہ کامتعلق ہے ۔اورمرادیہ ہے کہ اس کراہت کی وجہ سے ہم نے پردے ڈال دئے ہیں کہ ایسے گندے لوگ جنہوںنے اپنے دلوں کومختلف ظلمتوں میں چھپارکھا ہے۔اسلام میں داخل ہوکر اس کی بدنامی کاموجب نہ ہو ں۔
اس پر اعتراض ہوسکتا ہے کہ جب خداتعالیٰ نے ہی پردے ڈال دئے ہیں تووہ کیسے سمجھیں اوران پرالزام کیسا؟تواس کاجواب دوسری جگہ بطور اصو ل کے بیان فرمادیا ہے۔اوروہ یہ ہے ۔وَمَایُضِلُّ بِہٖ اِلَّا الْفٰسِقِیْنَ(بقر ہ ع ۳)کہ اس قسم کے پردے انسان کے اپنے نفس سے ہی پیداہوتے ہیںکوئی باہر سے نہیں آتے ۔تیسر ی جگہ فرمایا ۔اَمْ عَلیٰ قُلُوبٍ اَفْقَالُھَا(سورۃ محمدؐ ع ۳)کہ ان کے دلوں پرقفل ہیں جو ان کے دلوںسے ہی پیداہوئے ہیں ۔پس انسان ہی اپنے لئے پردے اورقفل تجویز کرتاہے اوراللہ تعالیٰ ا س کے اپنے تجویز کئے ہوئے پردوں کو اس کے دل پرڈال دیتاہے ۔کیونکہ جب تک دل صاف نہ ہو ۔الٰہی سلسلہ میں داخل ہونے والے کوتوکوئی نفع نہیں ہوتا۔الٰہی سلسلہ مفت میں بدنام ہوجاتاہے ۔
وَاِذَاذَکَرْتَ رَبَّکَ فِی الْقُرْاٰنِ وَحْدَہٗ وَلَّوْاعَلیٰٓ اَدْبَارِھِمْ نُفُوْرًا اس میں’’ وَحْدَہٗ‘‘کالفظ اس پر دلالت کرتا ہے کہ مشرک لوگ خداتعالیٰ کوتومانتے ہیں لیکن توحید سے انہیں چڑ ہوتی ہے ۔یہ بھی پردوں میں سے ایک پردہ ہے ۔
نحن اعلم بمایستمعون بہ اذیستمعون الیک
(اور)جب و ہ(بظاہر)تیری باتیں سن رہے ہوتے ہیں توجس غرض سے وہ سن رہے ہوتے ہیںاس (کی حقیقت )ہم (سب
واذ ھم نجویٰ اذ یقول الظالمون ان تتبعون الا رجلا مسحوراً٭
سے )زیادہ جانتے ہیں اور(نیز اس کی حقیقت کو بھی)جب وہ باہم سرگوشی کررہے ہوتے ہیں (اور)جب وہ ظالم (ایک دوسرے سے )کہہ رہے ہوتے ہیں (کہ )تم ایک فریب خوردہ شخص ہی کی پیر وی کررہے ہو ۔ ۴۹؎
۴۹؎ حل لغات۔یَسْتمعون :اِستمع سے جمع مذکر غائب کاصیغہ ہے اوراستمع لہ والیہ کے معنے ہیں اس نے اس کی طرف کان لگاکر بات سنی (اقرب)
نَجوٰی کے معنے ہیں اَلسِّرُّ۔بھید۔المُسَارُّون َ۔راز کی باتیں ۔وَھُوَ وَصفٌ بالمصدر یستوی فیہ المفرد والجمع ۔نجوٰی مصدر ہے جوبطور صفت بیان ہواہے ۔اس لئے مفرداورجمع دونوں طر ح استعمال ہوسکتاہے ۔(اقرب)پس اذھم نجوٰی کے معنے ہیں کہ جب و ہ باہم سرگوشی کررہے ہوتے ہیں ۔
مَسْحُور کے معنے جسکو دھوکہ دیا گیاجس کو کسی چیز سے روکا گیا ۔جس کی عقل ماری گئی ۔مسلول۔ان سب معنوں کے لحاظ سے انْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَا رَجُلًا مسحوراً کے یہ معنے ہوں گے کہ تم نہیں اتبا ع کرتے مگراس کی جودھوکہ خورد ہ ہے یاسچائی سے پھیراگیاہے یا جس کی عقل ماری گئی ہے یالاعلاج بیماری میں مبتلا ہے ۔قوم کی حالت کے غم میں انبیاء کی صحت اچھی نہیں رہتی ۔اسلئے و ہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ کمزور اوربیمار ہے یونہی چند یوم کاشورہے ۔تھوڑے ہی دن میں مرجائے گا ۔
تفسیر ۔اس آیت میں بِہٖ کی بَاء لام کے معنوں میں ہے اورمطلب یہ ہے کہ ہم امر کو خوب جانتے ہیں جس کی خاطریہ تیری باتیں سنتے ہیں یعنی یہ صرف انکارو الزام کی خاطرسنتے ہیں ۔ان الفاظ میں وَقر کی تشریح کی گئی ہے ۔
بہ ٖ میں با ء مصاحبت کی بھی ہوسکتی ہے ۔کہ جس چیز کے ساتھ و ہ سنتے ہیں اسکوہم جانتے ہیں یعنی سنتے وقت جوحالت ان کے دل کی ہوتی ہے ہم اس سے واقف ہیں ۔وہ قلبی حالت کیا ہے ؟ وہ استہزاء اور مخالفت کے خیالات ہیں جو سنتے وقت ان کے دلوں میں پیداہورہے ہوتے ہیں ۔
اورآیت میں چند اَورپردوں اکاذکر کیا گیا ہے فرماتاہے کہ ایک توشرک ان کے رستہ میں روک ہے ۔دوسراپردہ یہ ہے کہ یہ غورسے بات سنتے ہی نہیں ۔الزام لگانے اورتمسخر کرنے کے خیال سے سنتے ہیں ۔جب دل کی یہ حالت ہوتو توبات سمجھ کس طرح آئے ۔تیسر ا پردہ ان کے دل پر یہ پڑاہواہے کہ محمد رسولؐاللہ کو کمزور سمجھتے ہیں اورخیال کرتے ہیں کہ زیادہ دن تک یہ بات نہیں چلاسکتا ۔پھر اسے مان کر کیوں ذلیل ہوں ۔چوتھاپردہ یہ ہے کہ بعض نادان محمد رسولؐ اللہ کودیوانہ خیال کرتے ہیں ۔ا س لئے آپ کی بات سن کر توجہ کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے ۔پانچواں پرد ہ یہ ہے کہ بعض خیا ل کرتے ہیں کہ اسے دھوکا لگ گیاہے اورو ہ اس خیال میں خوش ہیں کہ ہم نے اس کی حقیقت معلوم کرلی ہے اورغور اورفکر سے آزاد ہوگئے ہیں ۔
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ جب و ہ مسلمانوں پر ظلم کرتے کرتے تھک گئے اورا سطر ح کامیابی نہ ہوئی تو وہ چھپ چھپ کرلوگوں کوسمجھا نے لگے اورنرمی کاپہلو اختیار کرکے لوگوں کو اسلام سے برگشتہ ہونے کی تلقین کرنی شروع کردی ۔
انظر کیف ضربوالک الامثال فضلو فلا یستطیعون سبیلاً٭
دیکھ انہوں نے تیرے متعلق کس طرح باتیں بنائی ہیں ۔جس کے نتیجہ میں و ہ گمراہ ہوگئے ہیں اور(اب )و ہ(اس گناہ سے بچنے کی ) کوئی راہ نہیں پاسکتے ۔ ۵۰؎
۵۰؎ تفسیر ۔اس آیت میں اَمْثَال (جمع کالفظ )رکھ کربتادیا کہ اوپر کی آیت میں مَسْحُور کے سارے ہی معنے مراد تھے ورنہ مَثَل کالفظ چاہیئے تھا ۔اس سے یہ بھی معلو م ہوجاتاہے کہ قرآن کریم کے جوالفاظ کئی معنے رکھتے ہیں جب و ہ سیاق و سباق سے مناسبت رکھتے ہوں توسب کے سب معنے بیک وقت مراد ہوتے ہیں ۔
وقالو اء آذاکنا عظاما و رفاتا ء انا لمبعوثون خلقاجدیداً٭
اورانہوں نے (یہ بھی )کہا ہے (کہ )کیا جب ہم (مر کر)ہڈیاں اور چُوراچُوراہوجائیں گے (توہمیں از سرنوزندہ کیا جائے گااور)کیا واقعی ہمیں ایک نئی مخلوق کی صور ت میں اٹھایاجائے گا ۵۱؎
۵۱؎ حل لغات ۔عِظَامًا:اَلْعِظَامُ اَلْعَظْمُ کی جمع ہے اورالعظم کے معنے ہیں۔ہڈی (اقرب)
رُفَاتًا:اَلرُّفَات کے معنے ہیں الحُطَام سوکھی ہوئی چیز کے ٹکڑے ۔کُلّ ماتکسر وبَلِیَ۔بوسید ہ اورچوراچیز (اقرب)
تفسیر ۔پیچھے ذکر ترقیات کاتھا اورپھر کفار کے جہنم میں گرائے جانے کاذکر تھا ۔اس کے متعلق جو کفار کو شبہ پیداہوسکتا تھا اس آیت میں اس کاذکر کیا گیاہے فرماتاہے کفاران باتوں کوسن کر اعتراض کرتے ہیں کہ جب ہم ہڈیاںاو رریزہ ریزہ ہوجائیں گے توکیاپھر ہماری نئی پیدائش ہوگی ۔
قل کونواحجارۃ اوحدیداً٭ اوخلقاً ممایکبر فی
تو(انہیں )کہہ(کہ )تم (خواہ)پتھر بن جائو یالوہا یاکوئی اورایسی مخلوق جوتمہارے دلوں میں عظمت
صدورکم فسیقولون من یعیدنا قل الذی
رکھتی ہو (تب بھی تم کو دوبار ہ زندہ کیا جائے گا)اس پر وہ ضرور کہیں گے (کہ )کو ن ہمیں دوبارہ (زندہ کرکے وجود میں )
فطرکم او ل مرۃ فسینغضون الیک رء وسہم ویقولون
لائے گاتو(انہیں )کہہ(کہ)وہی جس نے تمہیں پہلی با رپیداکیاتھا ۔اس پر وہ لازماً تعجب سے تمہاری طرف( دیکھتے ہوئے )اپنے
متٰی ھو قل عسیٰ ان یکون قریباً٭
سرہلائیں گے اورکہیں گے (کہ)وہ (از سرنوزندہ کیاجانا)کب ہوگا (جب وہ ایساکہیں تو)تو(ان سے )کہہ(کہ)بالکل ممکن ہے کہ وہ (وقت اب)قریب (آچکا)ہو ۵۲؎
۵۲؎ حل لغات ۔فَسَیُنْغِضُوْنَ:انْغَضَ سے مضارع جمع مذکر غائب کاصیغہ ہے اورانغض فلانٌ رَاْسَہٗ کے معنے ہیں حَرَّکَہٗ کَالْمُتَعَجِّبُ مِنَ الشَیئِ اپنے سرکوحرکت دی جیسے کو ئی متعجب سر کوحرکت دیتاہے (اقرب)پس فسینغضون الیک رُئُ و سہم کے معنے ہوں گے ۔کہ و ہ تمہاری طرف اپنے سرکو ہلائیں گے ۔
تفسیر ۔پہلی آیت میں جواعتراض پیش کیاگیاتھا اس کے جوا ب میں فرماتاہے کہ تمہارے اندرکتنا ہی تغیر آجائے ۔پتھر ہوجائو یا لوہا یااس سے بھی بڑی کوئی چیز توبھی تم خداکی سزاسے بچ نہیں سکتے ۔یااس کے معنے یہ ہیں کہ تم اپنے دلوں کوکتناہی سخت بنالو ۔پھر بھی ہمارے رسول کی ترقی ہوگی ۔تم میں سے بہت سے لوگ مسلمان ہوجائیں گے اور اللہ تعالی ان کے دلوں میں حشر برپا کردے گا۔
میں اس آیت سے نتیجہ نکالتاہوں کہ ممکن ہے انسانی جسم میں لمبے عرصہ کے بعد ایساتغیر پیداہوجاتا ہو کہ وہ کسی دوسرے مادہ کی شکل میں تبدیل ہوجاتا ہو۔سائنس کی تحقیقات سے توثابت ہے کہ کئی درخت جو کسی وقت زمین میں د ب گئے تھے ۔تغیرات زمانہ کے بعد پتھر کاکو ئلہ بن گئے۔اسی طرح یہ کہ ہیراکوئلہ سے بناہے ۔پس یہ تعجب کی بات نہیں ۔کہ انسانی جسم مرنے کے بعدزمین میں ایک لمباعرصہ دفن رہن پرپتھر بن جائے گوابھی تک آثار قدیمہ سے ایساکوئی نشان نہیں ملا ۔مگر یہ عقل کے خلاف نہیں ۔پس میرے نزدیک اس جملہ سے اس طرف اشارہ کیا گیاہے کہ خواہ انسانی دورحیات پرلاکھو ں کروڑوں سال کاعرصہ گزر جائے جس سے انسانی اجزاء کی جو زمین میں دفن ہیں شکل ہی تبدیل ہوجائے تب بھی انسان دوبار ہ بعثت سے نہیں بچ سکتا بعث ضرو ر ہوگا ۔
مَنْ یَّعُیْدُنَاسے یہ مراد نہیں کہ وہ سنجید گی سے سوال کرتے ہیں ۔کہ انہیںکون پیداکرے گابلکہ یہ تمسخر سے ہے کہ دکھلائو تو سہی جوکہتاہے کہ ایساہوگا ۔جیسے ہمارے ہاں کہتے ہیں کہ ذرااس کامنہ تودکھلائو جوایساکرنے کادعویدار ہے مطلب ا س سے صرف انکار ہوتا ہے ۔
فسینغضون الیک رء وسہم ۔انغض فلان راسہ۔حرَّکہ کالمعتجب من الشیئِ۔یعنی سرکوہلایا ایسے انسان کی طر ح جوکسی بات سے تعجب کرراہ ہے ۔اس سے مراد یہ ہے کہ وہ سرہلاہلاکر تمسخرانہ رنگ میں باتیں کریں گے اورکہیں گے اچھا یہ بات ہے ؟اب ہم سمجھے ۔
عَلیٰٓ اَنْ یکون قریبًا۔اس میں یہ بتایا ہے کہ جس حشر کا ہم اس سورت میں ذکرکررہے ہیں وہ وہ نہیں جس پر تم اعتراض کرتے ہو ہماری مراد اس سور ۃ میں اس حشر سے ہے جومسلمانوں کے ذریعہ سے اس دنیا میں ہونے والا ہے اوربتایا ہے کہ وہ حشر جس کا ہم نے یہاں ذکر کیاہے وہ توبس قریب ہی ہے ۔چنانچہ اس کے کچھ عرصہ بعد عرب کے لوگ مسلمان ہوگئے ۔اوراس سورۃ میں جس حشر کی خبر تھی و ہ ظاہر ہوگیا ۔
یوم یدعوکم فتستجیبون بحمدہٖ وتظنون ان لبثتم الاقلیلاً٭
(یہ وعدہ ان د ن پوراہوگا)جس دن وہ تمہیں بلائے گاتوتم اس کی تعریف کرتے ہوئے اس کاحکم مانو گے (اورفوراً حاضر ہوگے)اور تم سمجھ رہے ہو گے کہ تم (دنیا میں )تھوڑاہی ٹھیرے تھے ۵۳؎
۵۳؎ تفسیر ۔اس آیت نے ظاہرکردیا کہ وہ حشر جس کایہاں ذکر ہے ۔اسی دنیا میں ہوگا۔چنانچہ فرماتاہے کہ حشر اس دن مقر ر ہے جبکہ تم کو خداتعالیٰ یااس کارسولؐ بلائے گااور تم مردوں کی طرح خاموش نہیں رہوگے جس طرح آج خاموش ہو ۔بلکہ اس دن تم میں سے اکثر محمد رسول اللہؐ کی بات پرلبیک کہتے ہوئے دوڑ پڑیں گے اورتسبیح کرنے لگیں گے اوراس وقت تم حیران ہو گے کہ خوامخواہ ہم اسلامی ترقی کے ظہور کے زمانہ کو لمباسمجھتے رہے ۔اسلامی ترقی کا زمانہ توبڑی جلدی آگیا ۔
یہ بھی معنے ہوسکتے ہیں کہ جب لو گ ایمان لائیں گے اپنی کفر کی زندگی کو بہت حقیر سمجھیں گے اور سمجھیں گے کہ ااصل پیدائش توہماری اب ہوئی ہے ۔اسی طرح مومن بھی تکالیف کے ایام کو بھول جائیں گے ۔اورسمجھیں گے کہ یہ دن توآنکھ جھپکتے گذر گئے ۔غرض آیت میں زمانہ کی لمبائی ذکر نہیں بلکہ ان احساسات کاذکر ہے جواس وقت پیداہوں گے ۔ایک حدیث میں آتاہے کہ لیس علی اھل لاالہ الّا اللہ دقَّۃٌ فی قبورھم ولافی منشرھم وکاَنِّی بِاَھلِ لاالہ الّااللہ ینفضون التُّراب عن رئُ وسہم ویقولون الحمد للہ الذی اذھب عنا الحزن (روح المعانی بحوالہ ترمذی وطبری) کہ لاالہ الّا اللہ کہنے والوں کوقبر میں اورحشر میں بھی آرام ہی رہے گا ۔اوران کی وہ حالت گویا میں اب دیکھ رہاہوں جبکہ وہ حشر کلے دن اٹھیں گے اوراپنے سر سے مٹی جھاڑ رہے ہوںگے اوریہ کہتے جاتے ہوں گے کہ اللہ کاشکر ہے جس نے ہرقسم کے غم ہم سے دور کردئے ۔گویاراحت اورترقی کے ملتے ہی سب غم و حزن دور ہوجائیں گے اوراس زمانہ کووہ نہایت مختصرخیال کرنے لگیں گے
وقل لعبادی یقولوا التی ھی احسن ان الشیطٰن
اورتومیرے بندوں سے کہہ(کہ)وہ وہی بات کہا کریں جو (سب سے )زیادہ اچھی ہو(کیونکہ)شیطان یقینا
ینزغ بینہم ان الشیطٰن کان لانسان عدوًامبیناً٭
ان کے درمیان فساد ڈالتاہے ۔شیطان انسان کا کھلا (کھلا )دشمن ہے ۵۴؎
۵۴؎ حل لغا ت ۔یَنْزغیٔ:نَزَغَ سے مضارع واحد مذکر غائب کاصیغہ ہے ۔اورنزغ کے لئے دیکھو یوسف ۹۷؎
تفسیر ۔قرآن کریم کو پڑھ کر کیاہی لطف آتاہے ایک سورۃ پہلے نازل ہوئی ہے اوردوسری بعد میں ۔پھر پہلی کوترتیب میں بعد میں رکھ دیاگیا ہے اوربعد والی کو پہلے ۔لیکن ان کے مضمو ن اس طرح ایک جا ن ہوجاتے ہیں جیسے کہ ایک وقت میں لکھی ہوئی کتاب کے دوباب۔سورۃ النحل میں فرمایا تھا ۔اُدْعُ اِلیٰ سَبِیجلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالموعظۃِ الحسنۃِ وجادلھم بالتی ھی احسن ُ۔اسی ترتیب کے مطابق سور ۃ بنی اسرائیل کوشروع کیاگیاہے ۔چنانچہ قرآن پاک کی تعلیمی خوبیوں کے بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ذٰلِکَ مِمَّآاَوحٰٓی اِلَیْکَ رَبُّکَ مِنَ الحِکْمَۃِ(رکوع ۴)کہ یہ حکمت کی باتیں ہیں ۔اس کے بعد وَلَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ سے کلام شروع کیا اوراَلْمَوْعِظَۃُ الحسنۃ والی شق کو پوراکیا ۔
تیسری بات یہ فرمائی تھی وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ۔اسکاجواب اب قُلْ لِّعِبَادِیْ سے شروع فرمایا ۔اس ترتیب کو دیکھ کر کوئی شخص کیونکر کہہ سکتاہے کہ قرآن کریم میں کوئی ربط نہیں ہے ۔اس آیت میں نصیحت کی گئی ہے کہ نہایت سوچ سمجھ کر کلام کیاکرواوردوسرے لوگوں سے ایسے رنگ میں گفتگو کروجس سے ان کے دلوں پر اچھا اثر ہو ۔
اِنَّ الشَّطٰنَ یَنْزِغُ بَیْنَہُمْ اس آیت میں اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ انسان کو تواپنے دوستوں سے بھی اچھی بات کرنی چاہیئے ۔لیکن جبکہ دشمن دوسرے لوگوں کے دلوں میں نفرت اورعداوت پیداکررہاہو ۔تب تواوربھی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے ۔پس ایسے طریق سے کلام کرو اورگفتگو میں ایسی راہ اختیار کروجودوسروں کوبھی نرم کرلے ۔
شیطان سے بدکردار انسان بھی مراد ہوسکتے ہیں اوروہ مخصوص ہستی بھی ۔کیونکہ وسوسہ اندازی اس کاکام ہے ۔
اس آیت میں یہ اشا رہ بھی کیا ہے کہ اگر تم چاہتے ہوکہ یَوْمَ یَدْعُوْکُمْ والی بعثتِ اسلامی جلد ظہور پذیر ہو توایسااطریق اختیارکرو کہ یہ لوگ جلد مسلمان ہو ں ۔اس سے یہ بھی پتہ لگ گیا کہ تَسْتَجِیْبُوْنَ بِحَمْدِہٖ سے اسلام قبول کرنا ہی مراد ہے ۔
ربکم اعلم بکم ان یشا یرحمکم اوان یشا یعذبکم
تمہارارب تمہیں(سب سے )زیادہ جانتا ہے اگر وہ چاہے گاتوتم پر رحم کرے گااوراگر وہ چاہے گاتوتمہیں عذاب دے گا
وما ارسلنٰک علیھم وکیلا ٭
اور(اے رسول )ہم نے تجھے ان کاذمہ وار بناکرنہیں بھیجا ۔ ۵۵؎
۵۵؎ تفسیر ۔فرمایاہم ہی انسان کی دونوں حالتوں کو جاننے والے ہیں ۔نیکی کی حالت کو بھی اوربدی کی حالت کو بھی اوردل کاحال ہمارے سواکوئی نہیں جانتا ۔اس لئے ہم نے جزاسزاکامعاملہ اپنے ہاتھ میں رکھاہواہے اَورکسی کے ہاتھ میں نہیں دیا۔حتی کہ رسول اللہ کے سپرد بھی نہیں کیا ۔پس جیسے جیسے تمہاری حالتیں بدلتی جائیں گی ہمارامعاملہ بھی بدلتاجائے گا ۔
وربک اعلم بمن فی السموات والارض ط ولقد فضلنا
اورجو(کوئی بھی )آسمانوں اورزمین میں (بسنے والے )ہیں انہیں تمہارارب(سب سے )زیادہ جانتاہے اورہم نے یقینا
بعض النبین علی بعض واٰتینا داؤد زبوراً٭
انبیاء میں سے بعض کو بعض (دوسر ے انبیا ء )پر فضیلت دی ہے اوردائود کو(بھی)ہم نے ایک زبور دی تھی ۵۶؎
۵۶؎ تفسیر ۔پہلی آیت میں انبیاء کے مخاطبین کو جاننے کاذکرفرمایاتھا اب ا س آیت میں فرماتا ہے جس طرح ہم ان کو جانتے ہیں اسی طرح انبیاء کو بھی جانتے ہیں خواہ آسمان پر ہوں یعنی وفات یافتہ ہوں یازمین پرہوں یعنی زندہ ہوں۔یادوسرے لفظوں میں یہ کہ محمدرسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی خوب جانتے ہیں اوراس سے پہلے نبیوں کو بھی ۔اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ کس زمانہ میں کیسے نبی کی ضرورت ہوتی ہے اوراسی خیال سے ہم نے انبیاء کے بھی مدارج مقر رفرمائے ہیں ۔تاکہ ہرزمانہ کی ضرورت کے مطابق نبی آئے ۔
ان انبیاء میں سے دائود علیہ السلام کاذکرالگ بھی بیان فرمایا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہود کے ذکر میں ان کے دوعذابوں کاذکرفرمایاتھا ۔ایک حضرت دائود کے بعد جب کہ یہود میں دولت بہت ہوگئی اورتعیّش پیداہوگیا ۔اوردوسرے حضرت مسیحؑ کے بعد ان کے انکار کی وجہ سے ۔چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ مثیل موسیٰ ہیں جیساکہ فرمایا ۔اِنَّآاَرْسَلْنَٓااِلَیْکُمْ رسُوْلًاشَاھِدًاعَلَیْکُمْ کَمَآ ارسلنَٓا اِلیٰ فِرعونَ رَسولًا(مزمل ع ۱)ہم نے تم پر گواہ بناکر تمہارے اندر اپنا رسول بھجوایا ہے اوریہ بعثت ویسی ہی ہے جیسا کہ فرعون کی طرف موسیٰؑ کی بعثت تھی ۔اورتورات میں ایک مثیل موسیٰ کی خبردی گئی تھی ۔استثناء باب ۱۸آیت ۱۸۔اوراس کے مقابل پر امت محمدیہؐ کے مثیل بنی اسرائیل ہونے کی خبر سورۃ فاتحہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی دی گئی تھی ۔اس لئے اسی مشابہت کی بناء پر حضرت دائود کانام مسلمانوں کونصیحت کرتے وقت خاص طورپرلیا ۔تاانہیںتوجہ دلائی جائے کہ اے مسلمانوں!ترقی اورکامیابی کے وقت دائود کاواقعہ یاد رکھنا کہ کہیں ایسانہ ہو کہ جس طرح دائود کے زمانہ میںیہود نے دنیوی ترقیات سے فائدہ کی بجائے نقصان اٹھایا ۔اوردین سے غافل ہوگئے ۔تم بھی کہیں ایسا نہ کرنا اوراس وقت کوخوف اورخشیت میں گذارنا ۔
باوجوداس انذارکے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتنے ہی عرصہ کے بعد بگڑے جتنے عرصہ کے بعد بنی اسرائیل حضرت موسیٰ کے بعد بگڑے تھے ۔اورگو اس وقت ان میں دائود کی طرح نبی نہیں آیا لیکن ایسے نیک بادشاہ ضرور پیداہوئے جنہوں نے حضرت دائودؑ اورسلیمانؑ کی طرح نیکی کانمونہ دکھایا ۔مگراس وقت دولت کے نشہ میں سرشار تھے اوراسلام کی خدمت سیغافل ہورہے تھے ۔چنانچہ اتنا ہی زمانہ گذرنے کے بعدجتناحضرت موسیٰ اوریروشلم کی تباہی پر گذراتھا ۔بغداد ہلاکو خان کے ہاتھ سے تباہ ہوگیا ۔اوراسلامی شوکت مٹ گئی ۔جس کے بعد اسے کبھی پوری شان کے ساتھ قائم ہونے کاموقعہ نہیں ملا۔
قل ادعواالذین زعمتم من دونہٖ فلا یملکون
تو(انہیں )کہہ(کہ)اس کے سواجن لوگوں کے متعلق تمہارادعویٰ ہے (کہ و ہ الوہیت رکھتے ہیں )انہیں (اپنی مدد کے لئے بھلا)
کشف الضر عنکم ولاتحویلا ً٭
پکارو(تو)۔پس (تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ)نہ وہ (تمہاری کسی )تکلیف کو تم سے دور کرنے کا اختیاررکھتے ہیں اورنہ (تمہاری حالت میں )کوئی تبدیلی پیداکرنے کا ۵۷؎
۵۷؎ حل لغات ۔زعمتم :زَعَمَ سے جمع مخاطب کاصیغہ ہے ۔اورزعم الرجل (یزعم)کے معنے ہیں ۔قال قولاً حقًااس نے سچی بات کہی وکذاباطلاً وکِذْبًا(ضدّ)چونکہ یہ لفظ اضداد میں سے ہے اس لئے اس کے معنے جھوٹی بات کرنے کے بھی ہیں ۔واکثر ما یقال فی مایشک فیہ او یعتقد کذبہٗ ا ورا س کااکثر استعما ل ان باتوں میں ہوتاہے جن میں شک و شبہ ہو یا اس کے جھو ٹ ہو نے پر یقین ہو(اقرب)
فلا یَمْلکُونَ:مِلْکُ سے مضارع جمع کاصیغہ ہے اورملک کے لئے دیکھو رعد ۱۷؎
کشفٌ:کَشَفَ (یکشف) کامصدر ہے اورکشف الشَّیء کے معنے ہیں اظھرہ ودفع عنہ ما یواریہ ویغطِّیْہِ۔کسی چیز سے پرد ہ ہٹا کراسے ظاہر و ننگا کردیا ۔کشف اللہ غمَّہٗ ۔ازالہ ٗ۔اللہ تعالیٰ نے اسکے غم کو دور کردیا (اقرب)۔
اَلضُّرُّ:کے لئے دیکھو یوسف ۵۸؎
تَحْوِیْلًا:تحویل حَوَّلَ کامصدر ہے یہ لفظ لازم اور متعدی دونوں طرح استعمال ہوتاہے ۔ حَوَّلَہٗ(متعدی)نقلہٗ من موضعٍ الی اٰخر اسے ایک جگہ سے دوسر ی جگہ منتقل کردیا ۔حَوَّلَ الشیئَ الیہ ۔قلَّبَہٗ وازالہ کسی چیز کو کسی اورصورت میں تبدیل کردیا ۔حوَّلَ ھُوَ۔(لازم) اِنْتَقَلَ کوئی چیز اپنی جگہ سے دوسری جگہ چلی گئی (اقرب)
تفسیر ۔پچھلی تین چار سورتوںمیںیہ مضمون بیان ہواتھاکہ کفار حشر اسلام کی آیات سن کر یہ دھوکاکھاجاتے ہیں کہ شاید اس سے حشر اجساد مراد ہے اوراس پر اعتراضات کرنے لگ جاتے ہیں ۔لیکن وہ بھی مراد ہوتب بھی ان کااعتراض درست نہیں ۔لیکن اس موقعہ پر حشر اجساد کاذکر نہیں بلکہ حشرارواح کاذکر ہے ۔اوریہ ذکر ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ایک خاص وقت پر اپنے بندوں کو آواز دے گا توآئمہ کفار کے بنائے ہو ئے جال ٹو ٹ کر تاگہ تاگہ ہوجائیں گے اوران کے شکار ان میں سے نکل کر محمد رسول اللہ صلعم کی طرف چلے جائیں گے ۔پھر مسلمانوں کو اس ترقی کے زمانہ میں ہوشیار رہنے کاحکم دیاتھا ۔اب پھر پہلے مضمون کی طرف رجوع فرماتاہے اورکفار سے خطاب فرماتا ہے کہ یہ جومسلمانوں کی ترقی اورتمہاری ہلاکت کی پیشگوئی کی گئی ہے اسی سے اپنے دین کی سچائی او رشرک کی حقیقت کا پتہ لگا لو ۔ہم کہتے ہیں کہ تم پرعذاب آئے گا تم اپنے معبودوں سے دعائیں کرکے دیکھو کہ کیا وہ تمہاری دعائیں سن سکتے ہیں اورعذاب کوہٹاناتو الگ رہا ۔کیااسے کچھ عرصہ کے لئے ملتوی کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔
چونکہ آئندہ تباہی شرک سے ہونے والی تھی اسلئے اس کی تفصیل بتائی ہے ۔مسلمانوں میں بھی بغداد کی تباہی کے وقت شرک پیداہوگیاتھا ۔مسلمانوں نے فتوحات کے زمانہ میں ایرانی اورترکی عورتو ںسے شادیاں کیں جو کہ خوبصورت توتھیں مگرساتھ ہی متعصب مشرکہ بھی تھیں۔آخراولاد میں اس کااثر ظاہر ہوگیا۔ابن مقنع ۔عبداللہ بن صباح اسی زمانہ میں ہوئے تھے ۔
اولئک الذین یدعون یبتغون الی ربھم الوسیلۃ
و ہ لو گ جنہیں وہ پکارتے ہیں یعنی ان میں سے جو (خداتعالیٰ کے)زیادہ قریب ہیں وہ (بھی)اپنے رب کا (مزید)قرب چاہتے
ایھم اقرب ویرجون رحمتہ ویخافون عذابہ
ہیں اوراس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اوراس کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں
ان عذاب ربک کان محذوراً٭
تیرے رب کاعذاب یقیناایساہے جس سے خوف کیاجاتاہے ۵۸؎
۵۸؎ حل لغات۔الوسیلۃ:وَسَلَ (یَسِئلُ)کامصدر ہے اوروَسَلَ الی اللہ بالعملِ کے معنے ہیں رَغِبَ وتقَرَّبَ متوجہ ہوااورقرب چاہا ۔وَسَّلَ وَتَوَسَّلَ الی اللہ بوسیلۃٍ کے معنے ہیں عَمِلَ عملا تقرَّبَ بہٖ الیہ تعالیٰ نیک عمل کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کاقرب چاہا ۔تَوَسَّلَ الی فلانٍ بِکَذَا کے معنے ہیں تقرَّبَ الیہ بِحُرْمَۃِ آصِرۃِ تعطفہ ۔کسی شخص تک ایسے مضبوط ذریعہ سے رسائی کی کوشش کی جس سے وہ مہربان ہوجائے ۔الوسیلۃُ مایُتَقَرَّبُ بِہٖ الی الغَیْرِ۔ذریعہ قرب ۔اس کی جمع وَسَائِلَ آتی ہے ۔
مَحْذُوْرًا: حَذَرسے اسم مفعول ہے اس کے معنے ہیں مَایُحْتَرَ زُمِنْہُ جس سے ڈرااوربچاجائے ۔
تفسیر ۔اُوْلٰٓئِکَ کااشارہ اَلنَّبِیِّنَ کی طرف ہے ۔یعنی و ہ(انبیاء)ایسے لوگ تھے جوبنی نوع انسان کو خداکی طرف پکارتے تھے یایہ کہ وہ خداتعالیٰ کے حضورعجزوانکسار سے دعاکیاکرتے تھے ۔
یَبْتَغُوْنَ اِلیٰ رَبِّھِمُ الْوَسِیْلَۃَ خبر ہے اُوْلٰٓئِکَ کی۔اورمطلب یہ ہے کہ انبیاء جن کی صفت ہے کہ و ہ تبلیغ میں لگے رہتے ہیں یایہ کہ دعائوں میں لگے رہتے ہیں وہ بھی باوجود اس قدر نیک اورعاشق الٰہی ہونے کے صرف اپنے رب کاقرب تلا ش کرتے ہیں ۔دوسرے کسی وجود کو معبود بناکر اس کاقرب تلاش نہیں کرتے ۔
اَیُّھُمْ اَقْرَبُ۔علامہ زمخشری کاقو ل ہے اوراکثر مفسرین نے اسکی تائید کی ہے کہ اَیُّ موصولہ ہے اور اَیُّھُمْ اَقْرَبُ کے معنے ہیں مَنْ ھُمْ اَقْرَبُ کے ہیں اوریہ جملہ یَبْتَغُوْنَ کی ضمیر فاعل کا بدل ہے ۔یعنی یہ قرب حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہیں ۔اس میں اشارہ ہے کہ جب زیادہ قرب والے لوگ بھی اللہ تعالیٰ کے مزید قرب کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں توجن کو قرب حاصل نہی انکو توبہت ہی زیادہ کوشش کرنی چاہیئے ۔
خلاصہ یہ کہ خداکاقرب ایسی چیز نہیں ہے ۔جودوسروں کی پرستش کے ذریعہ سے حاصل ہوسکے ۔اورپھر جب بڑے سے بڑانبی بھی خداکے قرب کی تلاش میں ہے اوروہ بھی قرب الٰہی میں ترقی کی جستجوکررہاہے توو ہ تمہارے لئے زعیم اورٹھیکیدار کیسے بن سکتاہے ۔فرمایا جو اقرب ترین نبی ہے وہ بھی ابھی اَورقرب حاصل کرناچاہتاہے دوسرے توالگ رہے ۔جب نبیوں تک کی یہ بات ہے توتمہاری توہستی ہی کیا ہے ۔
ایک اَورمعنے بھی آیت کے ہوسکتے ہیں اوروہ یہ کہ اُوْلٰٓئِکَ کااشارہ معبودین کی طرف سمجھاجائے اوریَدْعُوْن کافاعل مشرکوں کو ۔ اس صورت میں آیت کا مطلب یہ ہوگاکہ وہ معبود جن کو مشرک بلاتے ہیں وہ تواپنے رب کے قرب کی تلاش کررہے ہیں اوراس کاخیال رکھتے ہیں کہ کون خداکازیادہ مقرب ہوتاہے ۔ان معنوں میں اَیُّ استفہامیہ سمجھا جائے گااوراس کاعامل فعل مخذوف یامصدر مخذوف سمجھا جائے گا ۔جیسے یَحْرُصُوْنَ اَیُّھُمْ اَقْرَبُ یایہ کہ بغیّہم اَیُّھُمْ اَقْرَبُ ۔
وان من قریۃٍ الانحن مھلکوھاقبل یوم القیٰمۃ اومعذبوھا
اور(روئے زمین پر)کوئی ایسی بستی نہیں (ہوگی )جسے ہم قیامت کے دن سے پہلے ہلاک نہ کردیں یااسے بہت سخت عذاب نہ دیں۔
عذاباً شدیداً ط کان فی ذٰلک فی الکتٰب مسطوراً٭
یہ بات تقدیر (الٰہی)میں (پہلے سے )لکھی ہوئی ہے ۵۹؎
۵۹؎ حل لغات ۔مَسْطُوْرًا:سَطَر سے اسم مفعول ہے ۔اورسَطَرَ الکاَتِبُ کے معنے ہیں ۔کَتَبَ۔کاتب نے لکھا (اقرب) پس مَسْطُوْرکے معنے ہوںگے لکھی ہوئی ۔
تفسیر ۔پہلے فرمایاتھاکہ اپنے معبودوںکو پکارو۔و ہ تمہاری تکلیف کونہ تودورکرسکتے ہیں اورنہ اسے بٹاسکتے ہیں۔اب ا سکی ایک مثال بیان فرماتاہے اوروہ یہ کہ ایک زمانہ ایساآنے والا ہے کہ دنیا کے پردہ پر مشرک قوموں کاغلبہ ہوجائے گا اورتوحید قریباً مٹ جائے گی ۔اس وقت جب شرک اپنی انتہاکوپہنچ جائے گا۔ہم ساری دنیا پر عذاب لائیں گے کیونکہ شرک تمام دنیا پرغالب ہوگا ۔اس کومٹانے کے لئے ساری دنیا کو عذاب میں مبتلاکرنا ہوگا۔اس وقت ہمارے اس دعوے کی صداقت نہایت واضح ہوجائے گی کیونکہ اس پیشگوئی کے ماتحت ساری دنیا پر عذاب آئے گا ۔لوگ جھوٹے معبودوں کو پکاریں گے مگرکچھ نہ بنے گا۔اس کی تفصیل آگے سورۃ کہف میں بیان ہوگی ۔
اس آیت میں مسلمانوں کو بھی اس دوسرے عذاب سے ہوشیارکیا گیاہے جس سے بوجہ محمدی سلسلہ اورموسوی سلسلہ میں مشابہت تامہ پائے جانے کے انہیں خطرہ ہوسکتا تھا ۔
ومامنعنا ان نرسل بالایٰت الا ان کذب بھا الاولون
اورپہلے لوگوں کی تکذیب کے سواہمیں نشانات کے بھیجنے سے کسی امر نے نہیں روکا۔(پس ہم نشان بھیجنے سے کسطرح رک سکتے تھے )
واٰتینا ثمودالناقۃ مبصرۃفظلموابھا ط وما نرسل بالاٰیٰت الا تخویفًا٭
اور(جب ) ہم نے ثمود کو (صالح کی )اونٹنی ایک روشن نشان کے طورپر دی ۔توانہوں نے اس پر ظلم (ہی)کیا۔اورہم نشانوں کو (بدانجام سے )ڈرانے کے لئے ہی بھیجا کرتے ہیں ۶۰؎
۶۰؎ حل لغات ۔ظلموابھا :ظَلَمَ سے جمع مذکر غائب کاصیغہ ہے اوراَلظُّلْم کے معنے ہیں ۔اَلتَّصَرُّفُ فی مِلْکِ الغَیْرِ ومجاوزۃُ الحدِّ حد سے بڑھ جانااور دوسرے کی ملکیت پر دست اندازی کرنا ۔انہی معنوں کے پیش نظرلفظ ظلم کی نسب اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں جاتی ۔نیز اس کے معنے ہیں وَضْعُ الشیئَ فی غَیْرِ موضِعِہٖ کسی بات یاکام کابے جا اور بے محل کرنا ۔وظلم البعیر ظلما اذانحرہٗ من غیرِدائٍ۔اورظلم البعیر کے معنے ہیں کہ اونٹ کو بغیر کسی بیماری کے ذبح کردیا (تاج)
تفسیر ۔اس آیت میں یہ بتایا گیاہے کہ کسی زمانہ میں بھی آسمانی معجزات کے متعلق یہ خیال نہ کرنا چاہیئے کہ اب ان کاسلسلہ بند ہوگیا ہے ۔یہ مسلمانوں کونصیحت ہے ۔کیونکہ مسلمانوں کے لئے بھی خطرہ تھا کہ جب وہ اللہ تعالیٰ سے غافل ہوجائیں اوراس کے تازہ نشانات دیکھنے سے محرو م ہوجائیں تو یہ سمجھنے لگیں کہ اب اللہ تعالیٰ کی طرف سے نشانات کاآنابند ہوگیاہے ۔پس انہیں ہوشیا رکردیاگیا کہ ایساکبھی خیال نہ کرنا ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ نشانات دکھاتارہتاہے تاکہ اسکے بندوں کے ایمان تاز ہ ہوتے رہیں۔
نشانات کے ہمیشہ جاری رکھنے کے لئے مندرجہ ذیل دلائل بیان کئے گئے ہیں ۔
(۱)نشانات دکھانے کے خلاف صرف یہ کہاجاسکتاہے کہ ان نشانوں سے پہلوں نے کیافائدہ اٹھایا کہ آپ اٹھائیں گے ۔فرماتاہے کہ اگر یہ وجہ نشان بھیجنے کے خلاف ہوتی تو پہلے نبی کے بعد پھر کوئی نشان ہی ظاہر نہ ہو ۔مگرایسا نہیں ہوا۔انبیاء کے دشمن نشانات کاانکارہی کرتے چلے گئے ہیں اورہم بھی نشانات بھیجتے چلے گئے ہیں ۔پس کسی وقت بھی اس وجہ سے نشانات کابھیجنا بند نہیں ہوسکتا۔ آدم کے وقت میں بھی نشانات دکھائے گئے ۔نوحؑ کے وقت میں بھی نشان دکھائے گئے ۔اورپھر باوجود تکذیب ثمود کی قوم کو بھی نشان دکھائے گئے جو آدم ؑ اورنوحؑ کے بعد گذری ہے ۔
ثمود کی مثال اس لئے دی گئی ہے کہ ثمود عرب قوموں میں سے تھے اوران کے مٹے ہوئے آثار عرب کے کفار۔یہود اورنصاریٰ سب کے سامنے موجود تھے ۔اورتینوں قومیں ان کے حالات سے عبرت حاصل کرسکتی تھیں ۔
اس کے بعد دوسری دلیل یہ دی کہ جب عذاب آئے اس سے پہلے نشانات کابھیجناضروری ہوتاہے ۔تاکہ جولو گ عذاب سے بچائے جاسکیں بچالئے جائیں ۔پس جب ہم یہ خبردے رہے ہیں کہ آئندہ زمانہ میں شدید عذاب آئیں گے حتیٰ کہ دنیا کی کوئی بستی ان عذابوں سے محفوظ نہ ہے گی۔تومسلمانوںکو سمجھ لیناچاہیئے کہ اس وقت آسمانی نشانات بھی ضرو ردکھائے جائیں گے کیونکہ بغیر تخویف کے عذاب کابھیجنا ہماری سنت کے خلاف ہے ۔
واذقلنا لک ان ربک احاط بالنا س ط وما جعلنا الرء یا
اورجب ہم نے تجھے کہاتھا ۔(کہ)تمہارارب ضرور ان لوگوںکو ہلا ک(کرنے کافیصلہ)کرچکا ہے ۔
وماجعلنا الرء یا التی ارینک الافتنۃ للنا س والشجرۃ
(تب انہوں نے کیا فائدہ اٹھایا )اورجورویا ہم نے تجھے دکھائی تھی ۔اسے (بھی )اورا س درخت کو بھی
الملعونۃ فی القرآن ونخوفھم فمایزیدھم الا طغیانا کبیراً٭
جسے قرآن میں ملعون قرار دیاگیا ہے ۔ ہم نے لوگوں کے لئے صرف امتحان کاذریعہ بنایا تھا اور(باوجود اس کے کہ )ہم انہیں ڈراتے (چلے جاتے )ہیں پھر (بھی )وہ (ہماراڈرانا)انمیں ایک بہت بڑ ی سرکشی ہی بڑھارہاہے ۶۱؎
۶۱؎ حل لغات ۔اَحَاطَ بِالنَّاسِ:اَحَاطَ بِالْاَمْرِ کے معنے ہیں اَحْدَقَ بِہٖ مِنْ جوانِبِہٖ کسی امر پر پورے طورپر قابوپالیا ۔اُحِیْطَ بِہٖ۔دَنَاھلَاکُہٗ اس کی ہلاکت قریب ہوگئی (اقرب)پس اِنَّ رَبَّکَ اَحَاطَ بِالنَّاسِ کے معنے ہوں گے کہ(۱)تمہارارب ان لوگوں کو ہلاک کرچکا ہے (۲)لوگ ہررنگ میں اللہ تعالیٰ کے قبضئہ قدرت میں ہیں ۔
فِتْنَۃ:فَتَن سے مصدر ہے اوراس کے معنے ہیں ۔اَلْخَبْرَۃُوَالاِبْتَلائُ۔آزمائش اورامتحا ن ۔اَلضَّلَالُ والاثم والکُفر۔گمراہی ۔گناہ ۔کفر۔ اَلْفَضِیْحَۃ۔رسوائی ۔ذلت۔اَلعذاب ۔عذاب ۔اَلمرض۔مرض ۔العِبرَۃ۔عبرت۔اِختلافُ النَّاسِ فی الاٰرَائِ وَمَا یَقَعُ بَیْنَہُمْ مِنَ القِتَالِ ۔اختلاف آراء اوراس کی وجہ سے لڑائی جھگڑا(اقرب)
طُغْیَان:طَغٰی یَطْغِی اورطَغِیَ یَطْغٰی کامصدر ہے ۔اورطَغٰی کے معنے ہیں جَاوَزَالقَدْروالحدّ۔اندازہ اورحد سے بڑھ گیا ۔طَغٰی فُلانٌ اَسْرَفَ فِی المعاصی والظُّلْم گناہوںاورظلم میں بڑھ جانا(اقرب)
تفسیر ۔اَحَاطَ بِہٖ۔کے معنے کسی چیز کااحاطہ کرلینے کے بھی ہوتے ہیں یعنی اس کے سب اجزاء کو قبضہ میں کرلیاجائے اوراس کے معنے عذاب کامل کے بھی ہوتے ہیں۔کیونکہ کسی قوم کااحاطہ کرلیاجاوے تووہ بھاگ کر بچ نہیں سکتی ۔اس جگہ اَحاَطَ کے معنے سب کو گھیر لینے یاایک حلقہ میں لے آنے کے ہیں ۔فرماتاہے کہ یاد کروجب ہم نے تم کوکہاتھا کہ ہم سب دنیا کااحاطہ کرنے والے ہیں یایہ کہ سب کوایک حلقہ میں لانے والے ہیں۔
اس سے اشار ہ اسی سورۃ کی پہلی آیت کی طرف ہے جس میں اسراء والاکشف بیان کیا گیا ہے۔اس کشف میں آپ کودکھایاگیاتھا کہ آپؐ نے سب نبیوں کو نماز پڑھائی ہے جس کی تعبیر یہ تھی کہ سب نبیوں کی امتیں آپ کے دین میں داخل ہوںگی۔سواَحَاطَ بِالنَّاسِ کہہ کر اس کشف کے مضمون کو بیان کیاگیاہے اوراس کے ذکر کاموقعہ یہ ہے کہ پہلی آیتوں میں بتایا گیا تھا کہ سب دنیا پر عذاب آنے والاہے اب اس کی وجہ بیان فرماتا ہے کہ اس عذاب کی وجہ یہ ہوگی کہ اللہ تعالیٰ اس کشف کو پوراکرے کہ سب انبیاء کی جماعتیں اسلام میں داخل ہوجائیں گی ۔اس عالمگیر عذاب کے بعد تبلیغ اسلام کاراستہ کھل جایء گااورسب اقوام کو مذہب کی طرف توجہ ہوجایء گی اورمادیت سے لوگ مایوس ہوجائیںگے تب اللہ تعالیٰ اپنے فضل اوراحسان سے ان کے دل سچائی قبول کرنے کے لئے کھول دیگا ۔اوروہ محمد رسول اللہ صلعم کے جھنڈے تلے جمع ہوجائیں گے اس موعود عذاب کے آثا ر اس وقت دنیا میں ظاہرہورہے ہیں اوراس کے بعد انشاء اللہ اسلام کے پھیلنے کے اسباب بہت کثرت سے پیداہوجائیں گے ۔
آیت کے اگلے حصہ میں اس مضمون کو واضح کردیاگیا ہے ۔چنانچہ فرماتا ہے کہ یہ نظارہ جو ہم نے دکھایاتھا یہ لوگوں کے لئے امتحا ن کاذریعہ تھا یعنی ہم پیشگوئی توصاف لفظوں میں بھی کرسکتے تھے مگر ہم نے اس نظارہ کو تمثیلی زبا ن میں اس لئے بیان کیا تالوگوں کاامتحان بھی لے لیاجائے ۔جوابوبکری صفا ت کے تھے انہوںنے اس نظارہ کاذکر سنااوراس پر ایما ن لے آئے اور جن کے دل تقویٰ سے خالی تھے انہوں نے اس پر اعتراض کرنا شروع کردیا۔
اس آیت سے ظاہرہے کہ اللہ تعالیٰ کے نشان ایک پہلوامتحان کابھی رکھتے ہیں ۔مگر اس کے باوجود آج مسلمان بھی ا س خیال میں مبتلا ہیں کہ پیشگوئیاں جب تک ایسے واضح الفاظ میں نہ ہوںکہ احمق سے احمق بھی ان کاانکار نہ کرے سچانہیں کہا جاسکتا۔
الشَّجَرَۃ الملْعُوْنَۃ۔فرمایاوہ رویا جو ہم نے تجھ کو دکھائی ہے اسے بھی ہم نے لوگوں کے لئے فتنہ یعنی آزمائش کاذریعہ بنایا ہے اوراس شجر کو بھی ہم نے لوگوں کے لئے آزمائش کاذریعہ بنایا ہے جس کے متعلق قرآن کریم میں آتاہے کہ وہ ملعونہ ہے ۔
یہ شجرئہ ملعونہ کیاشے ہے ؟اس بار ہ میں مفسرین میں جوبہت اختلاف ہواہے ۔بعض کہتے ہیں اس سے مراد شجرۃ الزّقوم ہے جس کاذکر قرآن کریم میں تین جگہ آیا ہے یعنی سورئہ واقعہ ۔سورہ صافّات اورسورۃ دخان میں ۔اوراس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ قرآن کریم میں جب یہ بیان ہواکہ دوزخیوں کاکھانازقّوم ہے توکفار نے ا سپر ہنسی اڑائی ۔کیونکہ یمن کی لغت میں زقّوم اس کھانے کوکہتے ہیں جومکھن اورکھجو رملاکرتیارکیاجاتاہے ۔کفار نے اس لفظ کو سن کرخوب شور مچایاکہ محمدصلعم ہمیں زقوم کی خبر دیتاہے یہ تواعلیٰ درجہ کاکھاناہے ۔ہمیں اورکیاچاہیئے ۔ا ن معنوں کے حق میں وہ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ شجرہ زقوم کے متعلق بھی قرآن کریم میں آتاہے ۔اِنَّاجَعَلْنَافِتْنَۃً لِّلظٰلِمِیْنَ(صافات ع ۲)ہم نے زقوم کو ظالموں کے لئے فتنہ کاموجب بنایا ہے ۔اوریہی الفاظ فتنہ کے شجرئہ ملعونہ کی نسبت آتے ہیں۔مگرانہیں یہ مشکل پیش آئی ہے کہ قرآن میں اس کے ملعون ہونے کاکہیں ذکر نہیں ۔اس کاجواب انہوں نے یوں دیاہے کہ زقوم کی نسبت قرآن کریم میں آتاہے کہ وہ جہنم میں ہوگا ۔اورجوچیز جہنم میں ہو و ہ ملعون ہے ۔کیونکہ جہنم خداکے غضب کامقام ہے ۔پھر اس توجیہ پر خود ہی انہوںنے یہ اعتراض اٹھایا ہے کہ شجرہ کیونکر ملعون ہوسکتاہے ۔ملعون تو نافرمان وجود کہلا سکتاہے اورشجرہ توبے جان چیز ہے ۔اس کاجواب انہوں نے یہ دیا ہے کہ چونکہ اس کے کھانے والے ملعون ہو گئے ۔اس لئے وہ شجرہ بھی ملعون کہلائے گا۔
بعض نے کہا ہے کہ شجرہ ملعونہ سے مراد شجرئہ کشوف ہے ۔یعنی و ہ بیل جو درختوں پر چڑھتی ہے تودرخت سوکھ جاتاہے ۔(کشوث افتیمون کے بیجو ںکو کہتے ہیں۔افتیمون ایک بیل ہوتی ہے جس کی باریک زرد شاخیں ہوتی ہیں ۔جس درخت کے گرد لپٹ جائے ۔وہ درخت خشک ہوناشروع ہوجاتاہے ۔اس کی جوقسم ہندوستان میں پائی جاتی ہے اسے اکاس بیل یاامر بیل یاامر لَتَّہ کہتے ہیں ۔پنجاب میں غالباً اسی کانام کوڑی ویل ہے ۔’’تُوکوڑی ویل دی طرح ودھیں۔‘‘یعنی اکاس بیل کی طرح جو بہت جلد پھیل جاتی ہے ۔تیری ترقی ہو ۔اورجس کے تُومخالف ہو وہ تباہ ہوجائے ۔کیونکہ یہ بوٹی جس درخت سے لپٹ جاتی ہے اسے خشک کردیتی ہے )۔لیکن ان معنوں کااتنا بھی ثبوت قرآن کریم سے نہیں ملتاجتناثبوت کہ شجرئہ زقوم سے ملتاہے ۔بعض روایا ت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف یہ منسوب کی گئی ہے کہ آپؐ نے مروان بن الحکم سے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہے کہ آپ نے تیرے باپ اورداداسے کہا کہ اِنَّکُمْ الشَّجَرَۃُ الْمَلْعُوْنَۃُ فِی الَقُرْاٰنِ۔یعنی قرآن کریم میں جو شجرئہ ملعونہ کالفظ آتاہے اس سے مراد تمہاراخاندان ہے۔بعض نے اس سے مراد وہ شجرئہ خبیثہ لیا ہے جس کاذکر سورئہ ابراہیم ع۵ میںگذرچکا ہے ۔میں خود بھی اس وقت تک یہی معنے کرتارہاہوں۔کیونکہ اس کے سواباقی جس قدر معنے کئے گئے ہیں ان کاکوئی تعلق آیت قرآنی کے الفاظ سے معلوم نہیں ہوتا ۔میں اس کی تشریح یہ کیاکرتاہوں کہ خبیث اس چیز کو کہتے ہیں جس میں کوئی خیر نہ ہو ۔اورجس چیز میںکوئی خیر نہ ہو اسکی نسبت قرآن کریم میں آتاہے کہ فَاَمَّاالزَّبَدُ فَیَذْھُبُ جُفَآئً۔یعنی جوچیز جھاگ کی طرح بے کار ہو اسے پھینک دیاجاتاہے ۔اورلعنت بھی دورکرنے کوکہتے ہیں ۔پس جس چیز کی نسبت یَذْھَبُ جُفَآئً کہاجائے ۔دوسرے لفظوں میں اسے ملعون بھی کہہ سکتے ہیں ۔
مگر اس وقت کہ می کہ نوٹ لکھنے بیٹھاہوں مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک اَورمعنے بھی سکھائے ہیں اورمیں وہ معنے بھی لکھ دیتاہوں کیونکہ ان معنوں کاآیت کے سیاق و سباق سے زیادہ گہراربط معلوم ہوتاہے ۔ان معنوں کو سمجھنے کیلئے پہلے شَجَرۃ کے معنے سمجھ لینے چاہئیں ۔شجرۃ کے معنے درخت کے بھی ہوتے ہیںاورشجرہ کے معنے خاندان یا قبیلہ کے بھی ہیں ۔چنانچہ لغت میں لکھا ہے شَجَرَۃُ النَّسَبِ مَایُبْتَدَاُ فِیْہَا مِنَ الْجَدِّ الاَعلیٰ الیٰ اَوْلَادِہٖ ثُمَّ اِلیٰ اَوْلَادِھِمْ وَھلمّ جرّا(اقرب)یعنی شجرئہ نسب اسے کہتے ہیں کہ کسی جدّاعلیٰ سے لیکر اس کی اولاد اورپھراس کی اولاد اورپھران کی اولادکاذکر کیاجائے ۔ان معنوں کے روسے شجرئہ ملعونہ کے معنے ایسے خاندان کے ہوسکتے ہیں جوکئی پشتوں تک خدائی *** کے ماتحت رہاہو یارہنے والاہو۔ان معنوں کی سند حضرت عائشہؓ کی طرف منسوب ہونے والی اس روایت سے بھی مل جاتی ہے جو میں اوپر بیان کرآیا ہوں ۔یہ روایت تومیرے نزدیک غلط ہے لیکن اس سے ہم عربی کے محاورہ کی سند لے سکتے ہیں ۔کیونکہ بہرحال راوی اورجامع حدیث عرب میں ہیں اورعربی کے محاورہ کو سمجھتے ہیں ۔
اس تشریح کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ کیاقرآن کریم میں کسی خاندان کو ایک لمبے عرصہ تک خدائی *** کے نیچے آنے والا بتایاگیاہے کہ نہیں ۔اگرایسا ہے تووہی خاندان شجرہ ملعونہ ہے ۔
قرآن کریم کودیکھنے سے معلوم ہوتاہے کہ ایک قوم اورخاندان کے لوگ ایسے ہیں جن کو خداتعالیٰ نے ایک لمبے عرصہ کے لئے ملعون قراردیا ہے ۔اوروہ حوالہ یہ ہے ۔ لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْامِنْ بَنِٓیِ اِسْرَآئِ یْلَ عَلی لسانِ دائودَ وَعیسَی ابنِ مریَمَ(مائدہ ع ۱۱)بنی اسرائیل میں سے جنہوں نے کفر کیا ان پر دائود اورعیسیٰ بن مریم نے *** کی ہے ۔اسی طرح سورئہ نساء میں یہود کاذکر کرکے فرمایا ہے کہ اے اہل کتاب محمدرسول اللہؐ پر اس دن سے پہلے ایمان لے آئوکہ تمہاری قوم پر عذاب آجائے یاہم ان پر *** ڈالیں جس طرح کہ ان کے با پ دادوں پرسبت کے انکار کیوجہ سے *** نازل کی گئی تھی ۔اسی طرح یہود کی نسبت آتاہے فَبِمَانَقْضِھِمْ مِّثَاقَھُمْ لَعَنّٰہُمْ (مائدہ ع ۳)یعنی یہود سے وعدہ لیاگیاتھا کہ وہ محمد رسول اللہ صلعم پر جب وہ ظاہر ہوں ایمان لائیں گے لیکن انہوں چونکہ اس وعدہ کوپورانہیں کیا اس لئے ہم نے ان پرلعنت بھیجی ہے اسی طرح سورئہ مائدہ میں یہود کی نسبت آتاہے مَنْ لَّعْنَۃُ اللّٰہُ وَغَضِبَ عَلَیْہِ وَجَعلَ مِنْہُمُ الْقِرَدَۃَوَالْخَنَازِیْرَ(مائدہ ع ۹)یعنی اے اہل کتاب تم تووہ قوم ہو ۔جس پر اللہ تعالیٰ نے *** کی اورغضب نازل کیا اوربندراورسؤربنادیا۔اس سے کچھ آیات آگے چل کر پھر آتاہے وَقَالَتِ الْیَھُوْدُیَدُاللہِ مَغْلُوْلَۃٌ ۔غُلَّتْ اَیْدِیْھِمْ وَلُعِنُوابَِاقَالُوا(ع۹)یعنی یہودی چندوں اورزکوٰۃ وغیرہ کے مسائل پر تمسخرکرکے کہتے ہیں ۔خداان کومال نہیں دیتا اس کے ہاتھ بند ہوگئے ہیں اوران کے اس گستاخانہ کلام کی وجہ سے اللہ تعالی نے فیصلہ کردیاہے کہ اس قوم میں بخل پیداہوجائیگا اورمال کی محبت بڑھ جایئگی اوران پر خداتعالیٰ کی *** پڑتی رہے گی ۔اس کے علاوہ اورمتعدد مقامات پر یہود کے ملعون ہونے کا ذکر آتاہے پس بنی اسرائیل جوایک نسل کے لوگ تھے ان پر متواترلعنت پڑی اورقرآن کریم نے بھی ان کی قوم پرلعنت ڈالی اورفرمایاکہ اس قو م کو صرف دوطرح امن ملے گا یاتویہ دوسری زبردست قوموں کی پناہ میں چلی جائے یا پھر مسلمان ہوجائے ۔ان دونوں طریقوں کے سواان کو کبھی امن نہ ملے گا۔پس میرے نزدیک آیت زیربحث میں شجرئہ ملعونہ سے مراد بنی اسرائیل کی قو م ہے ۔اورچونکہ یہ سورۃ بھی خصوصاً سورۃ بنی اسرائیل کے متعلق ہے ۔حتی کہ اس کاایک نام رسول کریم صلعم نے سور ئہ بنی اسرائیل بتایاہے اورچونکہ اس آیت میں بنی اسرائیل ہی کاذکر ہے کیونکہ ا س آیت میں اسراء کاذکر کیاگیا ہے جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو بنی اسرائیل کے مرکز میں دیکھا اوروہاں نماز پڑھائی ۔پس اسراء والی رویاکاذکرکرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمادیا کہ یہ رویا بھی لوگوں کے امتحان کاذریعہ ہے ۔اوربنی اسرائیل جن کااس رویا میں خصوصیت کے ساتھ ذکر ہے وہ بھی ایک امتحان میں یعنی وہ ہمیشہ اسلام کی بلاوجہ مخالفت کرتے رہیں گے ۔چنانچہ دیکھ لوکہ یہود کوسب سے زیادہ امن اسلامی ممالک میں ملتاہے اورپھر بھی یہ لوگ اسلام سے دشمنی ہی کرتے چلے جاتے ہیں اورنہیں سمجھتے کہ ان کے امن کاواحد ذریعہ اسلام ہے یہودی رہ کر وہ دنیاکے ظلموں کاتختہ مشق ہی بنے رہیں گے ۔آیت کے آخر میں فرمایا کہ ہم توا س قوم کو ان کاانجام بتابتاکر ڈراتے ہیں لیکن یہ سرکشی میں اورزیادہ بڑھتی جاتی ہے ۔
ا س آیت کاتعلق پہلی آیا ت سے یہ ہے کہ ان میں آخری زمانہ کے خطرناک عذاب کو بطور مثا ل پیش کیاگیاتھا۔اب اس آیت میں بتایا ہے کہ وہ عذا ب اسراء والے کشف کا طبعی نتیجہ ہے کیونکہ اس عذاب سے اسلام کی ترقی وابستہ ہے اوراس کے بعداسلام کی وسیع اورعالمگیر اشاعت مقدر ہے ۔اورساتھ ہی یہود کاذکر کرکے یہ بتایاکہ یہ قوم بھی فتنہ ہے یعنی وہ دوسرافتنہ اس فتنہ گرقوم کے ذریعہ سے پیداہوگاچنانچہ دیکھ لوکہ گزشتہ جنگ عظیم بھی یہود کی دخل اندازی کی وجہ سے ہوئی تھی اورموجودہ جنگ بھی انہی کی وجہ سے ہے ۔پہلی جنگ میں یہود نے منظم طورپر جرمنی قوم کے خلاف کام کیا ۔جس کانتیجہ یہ ہواکہ اب جرمنوں نے یہود پر ظلم کرنا شروع کیا اوربدلہ لیا ۔ انہوں نے پھر ان کے خلاف پروپیگنڈا کیااورموجود ہ جنگ شروع ہوئی ۔روس کے انقلاب میں بھی کہ وہ اس عذاب کاحصہ ہے یہود کاسب سے بڑادخل ہے اورروس کے کئی بڑے بڑے لیڈر یہود ی النسل ہیں ۔
پہلی جنگ عظیم سے پہلے بعض اخبارات نے یہود کی بعض تحریرات شائع کی تھیں کہ یہود سازش کررہے ہیں کہ ایک بڑی جنگ کراکے فلسطین واپس جانے کے سامان پیداکریں ۔آئندہ واقعات نے اس کی تصدیق کردی ۔مگرجیسا کہ قرآن کریم نے بتایا ہے یہود کافلسطین میں آناعارضی ہوگا ان کویہ ملک دائمی طورپر نہیں مل سکتا کیونکہ دائمی طورپرتویہ مسلمانوں کے لئے مقدرہوچکا ہے۔
واذقلناللملٰئکۃ اسجدوالادم فسجدواالا ابلیس ط
اور(اس وقت کو بھی یاد کرو)جب ہم نے فرشتوں کو کہا تھا (کہ)تم آدم کے ساتھ(ساتھ)سجدہ کروتوانہوں نے (تواسکے حکم کے
قال ء اسجدلمن خلقت طیناً٭
مطابق )سجدہ کیا ۔مگرابلیس (نے نہ کیا ) ۶۲؎
۶۲؎ حل لغات ۔لِاٰدم۔ل جارہ کے بائیس معنے ہیں ۔ان میں سے ایک معنے مع کے ہیں چنانچہ ایک شاعرکاشعرہے ؎
فَلَمَّا تَفَرَّقْنَاکَاَنِّیْ ومَالِکَا
لِطُوْلِ اجْتِمَاعِ لَمْ نَبِتْ لَیْلَۃً مَعَا
یہاں لطول میں ل کے معنے مع کے کئے گئے ہیں(مغنی اللبیب)پس وَاِذْ قِلْنَا لِلْمَلَائِکَۃِ اسْجُدُوْالِاٰدَمَ کے معنے ہوں گے کہ جب ہم نے فرشتوں کو کہا کہ تم آدم کے ساتھ سجدہ کرو۔ابلیس کے معنے کے لئے دیکھو حجر ۲۸؎
الطین :ترابٌ اورملٌ وکلسن یجعل بالماء ویطلی بہٖ۔مٹی یاریت اورچونہ جس میں پانی ملایاگیاہو ۔اوراس کے ساتھ لپائی کی جائے (اقرب)
تفسیر ۔چونکہ پہلی آیات میں یہود کی سرکشیوں کاذکر کیا تھا ۔اب اس پر روشنی ڈالنے کے لئے آدم کی واقعہ کو بطورتمثیل پیش کیا ہے کہ انبیاء کی مخالفت ہمیشہ سے ہوتی چلی آئی ہے ۔ابوالبشر آدم جوسب سے پہلے نبی تھا ۔اس کی بھی ایک ابلیس نے مخالفت کی اورکہاکہ یہ ادنیٰ ہے ۔میں اس سے اچھا ہوں ۔پھر اس کی اطاعت کیونکر کروں ۔یہی ابتلاء یہود کے سامنے ہے ۔و ہ بھی اپنے آپ کو محمدؐرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اوران کی قوم سے افضل سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے دل میں یہ خیا ل راسخ ہے کہ بنواسحاق سب ابراہیمی برکات کے وارث ہیں ۔اوربنواسماعیل گویا محروم الارث کئے ہوئے ہیں ۔پس یہ تکبر ان کے راستہ میں روک بننے والا ہے ۔
قال ارء یتک ھٓذاالذی کرمت علی لئن اخرتن الی
اس نے کہا(کہ)کیا میں اس کے ساتھ سجدہ کروں جسے تونے کیچڑ سے پیداکیا ہے (اورنیز)اسنے کہا (کہ توہی مجھے)بتا(کہ کیا ) یہ
یوم القیٰمۃ لاحتنکن ذریتہ الاقلیلا٭
(میرامطاع ہوسکتا)ہے جسے تونے مجھے شرف دیدیاہے ۔اگر تونے مجھے قیامت کے دن تک مہلت دی تو(مجھے تیری ہی ذات کی قسم ہے کہ )میں اسکی (تمام)اولاد کو قابو میں کر لوںگاسوائے تھوڑے سے لوگوں کے (جنہیں توبچالے ) ۶۳؎
۶۳؎ حل لغات ۔کَرَّمَت ْ عَلَیَّ: کرّمہ(تکریماً وتکرمۃ)کے معنے ہیں عظمہ ونزّھہ اسکو اعزازوشرف دیااوراس کو پاک ٹھیرایا (اقرب)پس ھٰذالَّذِیْ کَرَّمَتْ عَلَیَّ کے معنے ہوںگے کہ (کیا )یہ (میرامطاع ہوسکتا)ہے جسے تونے مجھ پر شرف دیدیا۔لَاَحْتَنِکَنَّ ۔احتنک سے مضارع واحد متکلم کاصیغہ ہے اوراحتنک الفرس کے معنے ہیں جعل الرسن فی فیہ۔گھوڑے کے منہ میں لگام دیا۔اوراس کوقابو میں کرلیا ۔احتنکم ۔استولیٰ علیہ۔اس پر غالب آگیا ۔اس پر قابو پالیا ۔احتنک زیدًااخذمالَہ کلّہ۔زید کاسارامال لے لیا ۔احتنک الجرادُالارضَ کے معنے ہیں اکلّ ماعلیھا واتی علیٰ نباتھا ۔ٹڈیوں نے زمین کی سب چیزوں کوختم کردیا (اقرب)پس لاحتنکن کے معنے ہوں گے کہ میں ضرور ان پر قابو پالوں گا۔
تفسیر ۔یعنی شیطان نے زبان حال سے مطالبہ کیا کہ مجھے اس وقت تک موقعہ مل جائے جوان کی ترقی کے لئے مقدر ہے ۔تومیں ان کے منہ میں لگام دیکر جدھر چاہو ں لئے پھروں گا(آدم اورشیطان کے واقعہ کے لئے دیکھو سور ۃ حجر ۲۷؎)اس آیت میں قیامت سیمراد مومنوں کی ترقی کا وقت ہے کیونکہ ا س وقت کافروں کی قیامت سے بذریعہ تباہی کے ۔اورمومنوں کی قیامت بذریعہ کامیابی کے آجاتی ہے ۔
الَّاقَلِیْلًا کے یہ معنے بھی ہوسکتے ہیں کہ تھوڑے سے آدمی میرے تصرف سے بچیں گے ۔اوریہ بھی کہ ان کے اعمال اکثر میری فرمانبرداری میں ہوں گے ۔تھوڑے اللہ تعالیٰ کے لئے ہوں گے ۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ شیطان نے ایک دعویٰ کیا اوراسے پوراکردکھایا۔اس نے کہاتھا لاحتنکن ذُرّیتہٗ چنانچہ دنیا میں بد ی بہت ہے اورنیکی کم ۔اس کے مقابل خداتعالیٰ نے ایک دعویٰ کیامگراس کو پورانہ کرسکا۔اس نے فرمایا تھا ۔مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّالِیَعْبُدُوْنَ۔مگر اکثر انسان خدا کے بندے نہیں شیطان کے بندے ہیں ۔
یہ اعتراض قلت تدبّرکانتیجہ ہے ۔کیونکہ حقیقتاً بدی نیکی کے مقابلہ میں بہت ہی کم ہے ۔بڑے سے بڑے جھوٹ بولنے والے کوہی لے لو ۔اس کی ساری عمر کے کلام کوجمع کرو توضرو را س کے سچ زیادہ ہوں گے اورجھوٹ بہت تھوڑے ۔یہی حال دوسری بدیوں کاہے ۔دنیا میں اکثر انسان نیک نیت ہیں اوراپنی طرف سے نیکی کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔گوبعض حالات میں جذبات سے دب بھی جاتے ہیں ۔پس یہ غلط ہے کہ شیطان کامیاب ہوگیا۔میں تو کہتاہوں کہ تھوڑی سی بدی کازیادہ مشہورہوجانا یہ بھی شیطان کی ناکامی کاثبوت ہے ۔کیونکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی فطرت نیک ہے اوروہ تھوڑے سے گناہ کی بھی برداشت نہیں کرسکتی ۔
قال اذھب فمن تبعک منہم فان جہنم جزاؤکم موفوراً٭
(اللہ تعالیٰ نے )فرمایا چل(دورہو )کیونکہ (تیری اور)ان میں سے جوبھی تیری پیروی کر یں گے توجہنم یقیناتمہاری (اوران کی )سب کی جزاہے (یہ)پوراپورابدلہ ہے ۶۴؎
۶۴؎ حل لغات ۔موفورًا۔وفَرَ(یَفِرُ)سے اسم مفعول ہے اوراس کے معنے ہیں الشیء السّام ۔مکمل چیز ۔جَزَاء مَوْفُورٌ۔لم ینقص منہ شیئُ ۔پوراپورابدلہ (اقرب)
تفسیر ۔شیئٌ موفورٌ :پوری چیز اوروہ چیز جس میں کسی قسم کی کمی نہ ہو ۔یعنی ہرایک شے کے لئے اس مقام میں جزاء تام ہوگی ۔یہ مراد نہیں کہ سزاکم نہ ہوگی ۔بلکہ مراد یہ ہے کہ سزاایسی چیز ہے کہ انسا ن اس کی نسبت یہ نہیں کہہ سکتاکہ مجھے اورچاہیئے ۔پس ہرشخص جہنم میں اپنی سزامیں مشغول ہوگا اورطرف توجہ نہ ہوسکے گی ورنہ جیساکہ قرآن کریم سے ثابت ہے اللہ تعالیٰ سزاکے معاملہ میں ہمیشہ عفواوررحمت کو مدنظر رکھتاہے ۔
اس آیت سے معلو م ہوتاہے کہ سزاقلبی ہوگی اورہرایک اپنے اپنے قلب کی کیفیت کے مطابق سزاپائے گا ۔جیسے درخت سے اپنی حالت کے مطابق غذاحاصل کرلیتا ہے ۔ہم دنیا میں ددیکھتے ہیں کہ دوانسانوں کے دل بھی پوری طرح مشابہ نہیں ۔حالانکہ کروڑہاانسان پیداہوئے اورہوں گے مگرہرایک کے دل کی کیفیت وحالت الگ الگ ہے اسی طرح اہر اک کی سزابھی الگ الگ ہونی ضروری ہے ۔اوریہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ سزاقلبی ہو اورہراک اپنے اعمال کے طبعی نتائج کو بھگتے ۔
واستفززمن استعطت منہم بصوتک واجلب علیہم
اور(ہم نے کہا جا)ان میں سے جس پر تیرابس چلے ۔اسے اپنی آواز سے فریب دے کر (اپنی طرف ) بلا۔اوراپنے سواروں
بخیلک ورجلک وشارکھم فی الاموال والاولاد وعدھم
اورپیادوں کو ان پر چڑھالا۔اور(ان کے)مالوں اوراولادوں میں ان کا حصہ دار بن ۔اوران سے جھوٹے وعدے کر(اورپھر اپنی
ومایعدھم الشیطٰن الا غروراً٭
کوششوں کانتیجہ دیکھ)اورشیطان جو وعدے بھی کرتا ہے فریب کی نیت سے ہی کرتا ہے ۔ ۶۵؎
۶۵؎ حل لغات ۔اِسْتَفْزِزْ:استفزَّسے امرکاصیغہ ہے ۔اوراستفزہ(الخوفُ)کے معنے ہیں ۔استخفّہُ۔خوف نے اسے حواس باختہ کردیا ۔استدعاہ ۔اسے بلند آواز سے بلایا ۔اخرجہ من دارہ۔اس کو گھرسینکال دیا ۔ازعجہ ۔اسے بنیادسے اکھیڑ دیا ۔ویقال ختلہٗ حتّی القاہ فی مھلکۃ۔بعض کہتے ہیں کہ استفزّ کے معنے کسی کودھوکادے کرہلاکت میں ڈالنے کے ہیں ۔قتلہ۔نیز اس کے معنے ہیں اس کوقتل کردیا (اقرب)وَاَجَْلِبْ عَلَیْھِمْ:اَجْلَبَ سے امرکاصیغہ ہے اوراجلب القو م کے معنے ہیں اِخْتَلطَتْ اصواتُھم وفجوا۔لوگوں کی آوازیں مختلط ہوگئیںاورانہوں نے شوربرپاکیا ۔تجمعوامن کل وجہ للحرب۔ہرطرف سے لڑائی کے لئے جمع ہوگئے ۔وفی القراٰن واجلب علیھم بخیلک ورجلک ای صِحْ اورقرآ ن مجید کی آیت واجلب علیھم من اجلب کے معنے آواز بلند کرنے کے ہیں (اقرب)
الخیل:جماعۃ الافراس ۔گھوڑوں کی جماعت۔اس کامفرد نہیں آتا۔والفرسان علی المجاز ای رکاب الخیل اورخیل بولکر سوارمرادلینے مجازی معنے ہیں ومنہ فی القراٰن واجلب علیھم بخیلک ورجلک ای بفرسانک ومشاتِک اورآیت واجلب علیھم میں خیل سے مراد سوار اور رَجِل سے مراد پیدل چلنے والے کے ہیں (اقرب)رَجلٌ۔رَاجِلٌ کی جمع ہے اورراجل اس شخص کے لئے بولتے ہیں جس کے پاس سواری نہ ہو۔
تفسیر ۔استفزِزْ کے معنے ہیں اپنی جگہ سے ہٹالے ۔اس سے معلو م ہواکہ انسان پہلے نیکی کے مقام پر کھڑاہوتاہے پھراگر اس پر شیطان کااثر ہوجائے ۔تواپنے اصل مقام کو چھو ڑکر بدی کی طرف چلاجاتاہے ۔اس بارہ میں عیسائی تعلیم اوراسلام کی تعلیم میں کتنا بڑافرق ہے ۔عیسائیت توکہتی ہے کہ انسان کی فطرت میں بدی اصل ہے۔اورکفارہ کے ذریعہ سے اسے بدی سے ہٹا کر نیکی کی طرف لایا گیاہے۔ مگر اسلام کہتاہے کہ اصل مقام نیکی ہے ۔مگرشیطان اس سے ہٹاکر لے جاتاہے ۔
بصوتک میں اسطرف اشارہ ہے کہ بعض طبائع ا سقدرکمزورہوتی ہیں کہ وہ صرف دھمکیاں سن کرہی ڈرجاتی ہیں یااعتراض سن کرہی شک میں پڑ جاتی ہیں ۔ان میں مقابلہ کی جرات نہیں ہوتی اورنہ تحقیق کی ہمت ۔
اس آیت میں شیطانی حملو ںکی اقسام بیان فرمائی ہیں ۔بعض کو وہ دھمکا کر اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرتاہے ۔یعنی شیطانی لوگ غرباء اوربیکس لوگوں کو ڈراڈراکر نبیوں کیساتھ شامل ہونے سے روکتے ہی ں۔بعض کوسواروں اورپیادو ںکے ذریعے سے نیکی سے روکنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔یعنی انہیں قسم قسم کے دکھ دیئے جاتے ہیں ۔اوربعض کوبدرسوم اور صحبت کے ذریعہ سے تباہ کیا جاتا ہے۔اوربعض کومال اوردولت کی لالچ دے کر حق کے ماننے سے روکاجاتاہے ۔مگر جن کے دل میں ایمان ہوتا ہے وہ ان باتوں سے قابو میں نہیں آتے ،وہی لو گ متاثرہوتے ہیں جن کے دل میں مرض ہوتی ہے ۔
یہ جو فرمایا ہے شَارِکْھُمْ فی الاموال والاد اس کایہ مطلب ہے کہ شیطانی لوگ انبیاء کے خلاف اپنے مالوں اوراولادوں کوجمع کرکے مفتقہ طور پر نبیوں پر حملہ کرتے ہیں گویا اپنی سب طاقتوں کو جمع کرلیتے ہیں
ان اقسا م پر اگر غورکیاجائے تامعلوم ہوتا ہے کہ آئمہ کفارین تین قسم کی چالیں انبیاء کے خلاف چلتے ہیں ۔جولوگ کمزور ہوں ۔ان کے لئے ڈرانے اورتکلیف دینے کا ہتھیار استعمال کرتے ہیں ۔جوبرابر والے ہوں ان سے جتھہ بازی کے ااصول پر اتحاد کرنے کی کوشش کرتے ہیں،۔اورجو طاقتور ہوں انہیں غنائم کے وعدے دے کر یالیڈری کی امیدیں دلاکر پھنساتے ہیں ۔نبیوں کے مقابلہ پر ان تینوں گروہوںکو ان تینوں طریقوں سے پھنسانے کی مثالیں اس قدر کثر ت اورتواترسے ملتی ہیں کہ اس کے متعلق مزید کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں ۔
ان عبادی لیس لک علیھم سلطن ط وکفیٰ بربک وکیلاً
جو میرے بندے ہیں ان پر ہرگز کچھ تسلط نہیں (ہوسکتا)اور(اے میرے بندے )تیرارب کارساز ہوکر (تیرے لئے )کافی ہے ۶۶؎
۶۶؎ تفسیر ۔اس آیت میں بتایاگیا ہے جو اللہ تعالیٰ کابندہ بن جائے ۔اس پر شیطان کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہوتا ۔کیونکہ شیطان کو صرف یوم قیامت تک کی مہلت حاصل ہوتی ہے ۔یعنی جب تک انسان روحانیت میں کمزور ہو ۔شیطان کے حملہ سے دیتا ہے ۔جب اس میں روحانی طاقت پیداہوجائے اس میں دلیری آجاتی ہے اوروہ دھمکیوں ،تکلیفوں اورلالچوں سے نہیں ڈرتا ۔
دوسرے اس آیت میں شیطانی حملوں سے بچنے کاگر بھی بتایاہے اوروہ یہ کہ انسان اللہ تعالیٰ کاعبد بن جائے ۔یعنی اپنے آپ کو اس کے سپرد کردے اوراپنی طاقتوں کی بجائے اس پر توکل کرے ۔جس کاخداتعالی وکیل ہوجائے شیطان اس کاکچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔
ربکم الذی یزجی لکم الفلک فی البحر لتبتغوامن فضلہ انہ کان بکم رحیماً٭
(اوراے میرے بندو)تمہارارب وہ (کریم ذات)ہے ۔جوتمہارے لئے کشتیوں کوسمندر میں چلاتاہے تاکہ تم اس کے فضل کو ڈھونڈو ۔وہ یقینا تم پر بار با ررحم کرنے والاہے ۔ ۶۷؎
۶۷؎ حل لغات ۔یُزْجِیْ:ازجٰی سے مضارع واحد مذکرغائب کاصیغہ ہے اورازجاہ (ازجائً)کے معنی ہیں زجاہ یعنی ا س کوچلایا اورآہستگی سے آگے کیا ۔ومنہ فی القرآن ربکم الذی یزجی لکم الفلک ۔ای یجریہ ویستوقہ اورآیت یزجی الفلک میں یزجی کے معنے چلانے کے ہیں (اقرب)پس ربکم الذی یزجی لکم الفلک فی البحر کے معنے ہوئے ۔تمہارارب وہ ہے جو تمہارے لئے کشتیوں کو سمندر میں چلا تا ہے ۔
تفسیر ۔اس میں بتایا ہے کہ حقیقی انعامات تو اللہ تعالی نے پیداکئے ہیں ۔مگرلوگ ان کی قدر نہیں کرتے ۔خشکی پر تو سامان ہیں ہی سمندر میں کشتیاں بناکر باہمی تعلقات کو وسیع کردیا ہے ۔ورنہ جزائرمیں بسنے والے لوگ براعظموں کے لوگوں سے اوربراعظموں کے لو گ جزائر والوں سے غافل رہتے ۔
میرے نزدیک یہ مثال اس جگہ اس امر کی طرف اشارہ کرنے کے لئے دی ہے کہ اسلام عالمگیر مذہب ہے اورسب دنیامیں پھیلے گا اوریہ امر چونکہ جہازوں کے ساتھ وابستہ ہے جن کے بغیر سمندروں کاسفر طے نہیں ہوسکتا۔اس لئے اس جگہ خصوصاً سمندر اورجہازوں کی نعمت کا ذکر فرمایا کہ یہ نعمت مسلمانوں کوخاص طور پر ملنے والی ہے ۔چنانچہ مسلمان گوآجکل جہاز رانی میں کمزورہیں ۔لیکن ایک زمانہ ایساتھا کہ سب دنیا میں مسلمانوں کے جہاز چلتے تھے ،بحری نقشے اورراستے سب مسلمانوں کے تیار کئے ہوئے ہیں ۔ ہندوستا ن کی طرف یورپ کے لوگوں کابحری سفر بھی ایک عرب مسلما ن کا ممنون احسان ہے۔جو بھٹکے ہوئے پُرتگیزی جہازوں کو افریقہ ک اوپر سے لاکر ہندوستان تک پہنچا گیا ۔
واذامسکم الضرفی البحرضل من تدعون الا ایاہ
اورجب سمندر میں (طغیانی پیداہونے کی وجہ سے )تمہیں تکلیف پہنچے۔توا س کے سوا(دوسرے وجود )جن کوتم پکارتے
فلما نجٰکم الی البراعرضتم ط وکان الانسان کفوراً٭
ہو(تمہارے ذہنوں سے )غائب ہوجاتے ہیں ۔پھر جب وہ تمہیں بچاکر خشکی پرلاتاہے ۔توتم (اس کی طرف سے )اعراض کرلیتے ہو۔اورانسان بہت ہی ناشکر گذار ہے ۶۸؎
۶۸؎ تفسیر ۔واذامسکم الضر۔الآیہ۔اوراگر سمندر میں کسی قسم کی تکلیف ہوتی ہے توسارے معبودان باطلہ تمہیں بھو ل جاتے ہیں ۔صرف اس وقت خداتعالیٰ ہی یا د آتاہے مگر جب وہ تم کو نجا ت دیکر خشکی پر پہنچاتاہے ۔توپھر اعراض کرنے لگ جاتے ہو ۔یعنی انسان بڑاہی ناشکراہے ۔ہمیشہ اپنی حالت کو بھول جاتا ہے ۔جب مصیبت میں ہوتاہے توکہتاہے کہ اگر اس سے نجات پاجائوں گا توضرور نیکی کروں گا ۔مگر جب وہ تکلیف کی حالت گذر جاتی ہے توپھر سب قول و قرار بھو ل جاتاہے ۔اس آیت میں مسلمانوں کو ہوشیار کیا ہے کہ کفار کے طریق کو اختیار نہ کرنا اورترقی کے زمانہ میں بھی خداتعالیٰ کو یاد رکھنا تامصیبت کے وقت و ہ تمہاری مدد کاخیا ل رکھے ۔
افامنتم ان یخسف بکم جانب البر اویرسل علیکم حاصباً ثم لاتجدو الکم وکیلا ً٭
توکیا تم اس بات سے بے خوف (اورمحفو ظ)ہو کہ وہ تمہیں خشکی کے کنارہ پر( ہی زمین میں )دھنسادے یاتم پر سنگریزے نازل کرے ۔(اور)پھر تم اپناکوئی کارساز (اورچارہ گر )نہ پائو ۔۶۹؎
۶۹؎ حل لغات ۔یَخسف :خسف سے مضارع ہے اوراس کے لئے دیکھو نحل ۴۶؎ حاصبًا حَصَبَ سے اسم فاعل ہے اورحَصَبَہٗ (یحصب) کے معنے ہیں رماہ بالحصباء۔اس کوکنکر مارا۔حاصب کے معنے ہیں ریحٌتحمل التراب والحصباء ۔سخت ہواجو مٹی اورکنکر اٹھاکرپھینکے ۔وقیل ھو ماتناثر من دقاق الثلج والبرد ۔بعض کہتے ہیں ۔وہ اولے جو ہواکے ساتھ گرتے ہیں ۔السحاب لانہ یرمی بالثلج والبرد ۔باد ل کیونکہ وہ بھی اولے برساتے ہیں (اقرب)
تفسیر ۔فرماتاہے خشکی میں دلیر ہوتے ہومگر کیاخداتعالیٰ تم پر خشکی میں عذاب نہیں بھیج سکتا۔کیا وہ تم کو زمین میں غاائب نہیں کرسکتا ۔ یاپتھروں کامینہ تم پر نہیں برساسکتا ۔پھر سمندر اورخشکی میں فر ق کرنے سے تم کیافائد ہ حاصل کرسکتے ہو ۔۔
میرے نزدیک اس آیت میں جنگ بدر کی پیشگوئی ہے ۔جنگ بدر کے موقعہ پر آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹھی میں کنکر پکڑ کرپھینکے تھے۔اسی وقت ایک تیز ہواچل پڑی جسکے ساتھ کنکر اڑ اڑ کر کفار کی آنکھو ں میں پڑنے لگے ۔نیز چونکہ کفار کے سامنے کی طرف سے ہواآرہی تھی کفارکے تیروں کازوراس ہواکی وجہ سے کم ہوجاتاتھا ۔اورمسلمانوں کے تیروں کازور بوجہ باد موافق کے بڑ ھ جانے کے بڑھ جاتاتھا ۔عرب کے بسنے والے کیا مسلما ن،کیایہودی ،کیامسیحی سمندر سے ڈرتے تھے ۔اسلئے سمندر کی مثال سے انہیں سمجھایا ہے کہ سمندر میں جاتے ہوئے توذراطوفان سے گھبراجاتے ہو کہ شائد بداعمالیوں کی وجہ سے عذاب آنے لگاہے لیکن خشکی پر دلیر ہوتے ہو ۔مگریاد رکھو ہم تم کو خشکی میں تباہ کردی گے ۔
اس جگہ مسلمانوں کو سمندری سفروں کی طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ جب خشکی تری دونوں میں خطرات ہیں توتم ا حماقت میں مبتلانہ ہونا کہ خشکی پر بیٹھے رہو اورسمندر کے سفرکونظرانداز کردو ۔
ام امنتم ان یعیدکم فیہ تارۃ اخری فیرسل علیکم قاصفاً
یاتم اس بات سے بے خوف ہو کہ وہ تمہیں (پھر )دوسری بار اس (یعنی سمندر)میں لوٹالائے ،۔اورتم پر ایک تُند ہواچھوڑ دے
من الریح فیغرقکم باکفرتم ثم لاتجدو الکم علینا بہ تبیعاً
اورتمہارے کفر کی وجہ سے تمہیں غرق کردے ۔(اور)پھر اس (عذاب)پرتم ہمارے خلاف اپنا کوئی مددگار نہ پائو ۷۰؎
۷۰؎ حل لغات ۔قاصفاً :قَصَفَ(یقصف)سے اسم فاعل ہے ۔اورقصف الشیء کے معنے ہیں ۔کسر ہ فانکسر کسی چیز کو توڑاتووہ ٹوٹ گئی ۔قصف الرَّعْدُ:اشتد صوتُہ بجلی کی کڑ ک کی آوا ز سخت ہوگئی اوررَعدٌ قاصفٌ کے معنے ہیں ای صیّتٌ۔خوب گرجنے والی بجلی ۔ریحٌ قاصفٌای شدیدۃ تکسر مامرت بہ ٖمن الشجر وغیر ہاورریح قاصف اورہواکو کہیں گے کہ جس درخت یا کسی اورچیز پر وہ گزرے تو اس کو توڑ دے (اقرب)
تَبِیْعًا:التبیع کے معنے ہیں الناصر۔مددگار ۔التابع۔تابع(اقرب)
تفسیر ۔ان یعیدکم فیہ تارۃ اخریٰ۔اس میں میرے نزدیک فتح مکہ کے وقت کی خبر دی ہے اس وقت بہت سے کفار مکہ چھو ڑ کربھاگ گئے تھے ۔اورکشتیوں میں سوا ہوکر یمن یاحبشہ کی طرف روانہ ہوگئے تھے ۔مگرسمند رمیں طوفان آگیا ۔اوربہت سے غرق ہوگئے ۔عکرمہ بن ابی جہل بھی بھاگنے والوں میں سے تھے ۔مگران کوجہاز نہ ملا اورپیچھے رہ گئے ۔اتنے میں ان کی بیوی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے انکے لئے معافی حاصل کرلی ۔اورساحل پر جاکر واپس لے آئی۔
ولقد کرمنا بنی ادم وحملنھم فی البر والبحر ورزقنٰھم
اورہم نے بنی آدم کو (بہت )شرف بخشاہے ۔اوران(کو اوران کے سامانوں )کو خشکی اورتری میں اٹھایا ہے اورانہیں پاکیزہ چیزوں
من الطیبٰت وفضلنھم علی کثیر ممن خلقنا تفضیلاً٭
سے رزق دیاہے ۔اورجن (اقسا م کی مخلوقات)کوہم نے پیداکیاہے ۔ان میں سے بہتوں پر ہم نے انہیں بڑی فضیلت دی ہے ۷۱؎
۷۱ ؎ تفسیر ۔اس میں بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب انسانوں کوعزت بخشی ہے ۔نہ کہ خاص اقوام کو پس قوموں کو ایک دوسرے پر تفاخر نہیں کرناچاہیئے ۔اس سے یہود اورقریش کو نصیحت کی ہے جو اپنے آپ کو دوسروں سے معزز سمجھتے تھے ۔اوربتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر اک قوم کو عزت دی ہے ۔مگربعض اقوام اس عزت سے فائد ہ نہیں اٹھاتیں اورخداتعالیٰ کے کھو لے ہو ئے رااستوں کو اپنے لئے بندکرلیتی ہیں ۔ وحملناھم فی البحر کہہ کر اس طرف اشارہ کیا ہے ۔کہ سمندر اورخشکی کویکساںطور پر اللہ تعالیٰ نے انسانی ترقی کے لئے مقررکیا ہے ۔پس اگرکوئی قوم عزت حاصل کرناچاہے تواسے یکساں طورپردونوں سے فائدہ اٹھاناچاہیئے ۔
لوگ کہتے ہیںکہ قرآن کریم محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کابنایاہواہے ۔کیایہ باتیں جو اس جگہ بیا ن ہوئی ہیں ۔ایک عرب کے رہنے والے کے منہ سے نکل سکتی ہیں ۔خصوصاً ا سکے منہ سے جس نے کبھی کشتی میں سفر تک نہیں کیا ۔
افسوس کہ مسلمانوں نے چندگذشتہ صدیو ںمیں اس نصیحت کو بھلادیا ۔اوران کی طاقت کمزورہوگئی ۔اگر وہ سمندری بیڑوں کاخیال رکھتے تواسلام کبھی اس قدرکمزور نہ ہوتاجس قد ر کہ اب ہے ۔
فضّلناھم علی کثیرٍ من خلقناسے بعض لوگ یہ استدلال کرتے ہیں کہ انسان بعض قسم کی مخلوق سے افضل ہے ۔سب قسم کی مخلوق سے نہیں ۔مگر یہ استدلال غلط ہے کیونکہ اس جگہ بنی آدام کاذکربہ حیثیت جماعت ہے ۔اوراس میں کیا شک ہے کہ سب انسان توسب مخلوق سے افضل نہیں ہیں ۔انسانوں میں بعض تونہایت گند ے ہیں اورجانوروں سے بھی بدتر ہیں ۔بعض معمولی بھلے مانس ہیں ۔اورجانوروں سے اچھے ہیں ۔بعض بہت اچھے ہیں ۔اورعام فرشتوں سے بھی اچھے ہیں ۔بعض اعلیٰ مقام پر ہیں اوراعلیٰ فرشتوں سے بھی اعلی ہیں ۔غرض انسان سب مخلوق سے افضل نہیں ۔بلکہ بعض انسان سب مخلوق سے اچھے ہیں ۔اورانسان بحیثیت انسان کے اکثر مخلوق سے اچھاہے ۔کیونکہ ،سورج،چاند ،ستارے ،گھوڑے ،بیل،اونٹ ،بکریاں یہ کافرو مومن سب ہی ک کام کررہی ہیں اورسب ہی کی خدمت پر لگائی گئی ہیں ۔پس انسان بلحاظ جنس کے اکثر مخلوق سے افضل ہے ۔اورانسان بلحاظ کامل فرد کے سب مخلوق سے افضل ہے۔
یوم ندعواکل اناس بامامھم فمن اوتی کتابہ بیمینہ
اور(اس دن کو بھی یاد کرو)جس دن ہم ہرایک گروہ کو ان کے پیشواسمیت بلائیں گے ۔پھرجن کے دائیں ہاتھ میں ان (کے
فاولئک یقرء ون کتبھم ولایظلمون فتیلا ٭
اعمال)کی کتاب دی جائے گی ۔وہ(بڑے شوق سے )اپنی کتاب کوپڑھیں گے ۔اوران پر ذرّہ بھر (بھی)ظلم نہیں کیاجائے گا ۷۲؎
۷۲؎ حل لغات ۔فتیلاً:الفتیل۔المفتول۔بٹی ہوئی چیز۔حبل دقیق من پزم اولیف ۔کھجورکے ریشوں کی باریک بٹی ہوئی رسی ۔السحاۃ التی فی شق النواۃ ۔گٹھلی کے شگاف کاپردہ۔ماقتلتہ بین اصابعک من الوسخ۔و ہ قلیل سی میل جوہاتھوں کے درمیان بٹی جائے(اقرب)آیت کامطلب یہ ہے ۔کہ ان پر ذرہ بھر بھی ظلم نہ کیاجاوے گا۔
تفسیر ۔مفسرین نے بامامھم کے معنے کتابھم کے لئے ہیں ۔یعنی ہرایک کو اس کے نامئہ اعمال کے ساتھ بلایاجائے گا ۔ مگرہم کہتے ہیں ۔جب ہر امت میں امام گذراہے توپھر امام کے لفظ کے وہی معروف معنے کرنے چاہئیں جن معنوں میں یہ لفظ اکثر استعما ل ہوتاہے ۔اورآیت کامفہوم یہی ہے کہ ہرقوم کو اس کے نبی کے نا م سے بلایاجائے گاکہ فلاں نبی کی قوم آئے ۔اورفلاں کی امت آئے ۔کیونکہ انہیں شہادت دینی ہوگی کہ ہم نے تبلیغ وغیر ہ کردی ۔جیسے قرآن کی دوسر ی جگہ سے ثابت ہوتاہے اورحدیثوں سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ نبی کے نام سے بلایاجائے گا۔
فمن اوتی کتابہ بہ بیمینہ ۔اسمیں کتابہ سے مراد اعمال نامہ ہے۔جیسے دوسری جگہ میں فرمایا ۔یالیتنی لم اوت کتابیہ ولم ادر ماحسابیہ (الحاقہ ع۱)یعنی کاش مجھے میری کتاب نہ دی جاتی اورمجھے یہ معلوم ہی نہ ہوتاکہ میراحساب کیا ہے ۔
دائیں ہاتھ کواسلام نے برکت کانشان قراردیا ہے ۔اوربائیں کوسزاکانشان ۔انسانی خلقت میں بھی دائیں کو بائیں پرفوقیت معلوم ہوتی ہے ۔کیونکہ دائیں طرف کے اعضاء میںبالعموم کام کی طاقت زیادہ ہوتی ہے ۔پس دائیں ہاتھ میں حساب کی نقل دینے سے یہ مراد ہے کہ ایسے لوگوں کاحساب بابرکت ہو گا۔
دائیں ہاتھ کے استعمال کے متعلق ہم دیکھتے ہیں کہ انسانی شہادت بالاجماع موجود ہے ۔یہ کوئی مذہبی حکم نہیں کہ اسے مصنوعی فعل سمجھاجائے ۔بلکہ ہرمذہب و ملت کے آدمی مہذب یا غیر مہذب دائیں ہاتھ کااستعمال خاص طور پر کرتے چلے آئے ہیں ۔ایشیاکے لوگ ہوں یایورپ کے یاافریقہ کے یاامریکہ کے جاہل ہوںیا تعلیم یافتہ کسی مذہب کے پابند ہوں یاہر مذہب سے آزاد ۔سب ہی آدمی جو بیمار نہیں یاکسی غیر طبعی اثر کے نیچے نہیں ۔دائیں ہاتھ سے کام کرتے ہیں ۔اسی طرح تجربہ سے معلوم ہواہے کہ دائیں آنکھ بائیں سے بالعموم زیادہ مضبوط ہوتی ہے ۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ عادت کی وجہ سے دائیں کو انسان ترجیح دیتاہے ۔مگرسوال یہ ہے کہ یہ عادت کیوں پڑی ۔شروع میں انسان کو اس عادت کے ڈالنے پر کس نے مجبورکیا ۔آخر پہلے انسانوں نے طبعاً دائیں ہاتھ سے کام لینا شروع کیا توتبھی آئندہ نسلوں کو عادت پڑی۔پھر کیوں نہ کہاجائے کہ جس طرح ابتدائی انسانوں کو طبعی تقاضیٰ کے ماتحت دائیں ہاتھ سے کام کرنے کاخیال پیداہو ا۔اسی طرح آئندہ نسلوں کوہوا۔
بعض ڈاکٹر دائیں ہاتھ کے استعمال کی یہ وجہ بیان کرتے ہیں کہ چونکہ د ل بائیں طرف ہے بائیں طرف کے حصہ دماغ کی طرف خون نسبتًا زیادہ جاتاہے ۔اوروہ زیادہ طاقتور ہوتاہے ۔اورچونکہ بائیں طرف کادماغ بائیں طرف کے اعصاب سے کام لیتا ہے ۔اوردائیں طرف کادما غ بائیں طرف کے اعصاب سے کام لیتاہے ۔پس بائیں طرف کے دما غ کی زیادتی کی وجہ سے دائیں طرف کے اعصاب زیاد ہ مضبوط ہوتے ہیں اوراس وجہ سے انسان دائیں طر ف کے اعضاء سے کام لینے کی طرف طبعاً راغب ہوتاہے ۔یہ توجیہ درست ہویاغلط ہمیں اس سے تعلق نہیں ۔ہمیں توبس اتنی بات سے تعلق ہے کہ دائیں کوبائیں پر سب دنیا ترجیح دیتی آئی ہے ۔اوردائیں بازو سے کام لینا ایک طبعی تقاضاہے ۔
دائیں بائیں کے فرق کے متعلق ایک اورعجیب بات بھی قابل غور ہے ۔علم اعداد وشمار سے معلوم ہواہے کہ صحیح الدماغ لوگوں میں سے صرف چار سے آٹھ فیصدی تک بائیں ہاتھ سے کام کرنے والے لوگ ہیں ۔باقی سب دائیں ہاتھ سے کام لیتے ہیں ۔لیکن مجنونوں میں یہ نسبت بہت بڑ ھ جاتی ہے ۔اس سے بھی اس امر کاثبوت ملتاہے کہ قانون قدرت نے دائیں کوبائیں پر فضیلت دی ہے ۔(انسائیکلو پیڈیا برٹینکا جلد گیارہ زیرلفظ ہینڈڈنس)
اوپرکے حوالہ جات سے یہ امر ثابت ہوچکا ہے کہ دایاں ہاتھ کا م کرنے کے لئے زیادہ موزوں ہے ۔اوراکثر افراد عالم اسی ہاتھ سے کام کرتے ہیں ۔پس دایاں بازو قو ت عملیہ کانشان قراردیاجاسکتاہے۔اورقرآن کریم میں نیک لوگوں کے دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ دینے کاجہاں جہاں ذکر ہے درحقیقت اس سے اسی طر ف اشارہ کرنامقصود ہے کہ وہ لوگ کام کرنے والے ،محنت کرنے والے اورقربانی کرنے والے تھے ۔اوربائیںہاتھ میں اعمال نامہ دینے کا جہاں جہاں ذکر ہے ۔اس سے اس طرف اشارہ کیاگیاہے کہ وہ لوگ نکمے قربانی سے بچنے والے اورسست تھے ۔کیونکہ بایاں ہاتھ بہت کم کا م کرتاہے۔
ایک اور بات بھی یاد رکھنی چاہیئے ۔کہ دایاں ہاتھ اسلامی شریعت نے پاکیزہ کاموں کے لئے ،اوربایاں ہاتھ گندگی کی صفائی وغیرہ کے لئے تجویزکیا ہے ۔پس دائیں ہاتھ میں اعمال دینے سے یہ مراد بھی ہوسکتی ہے کہ تم لوگ پاکیزہ کام کرتے تھے ۔اوربائیں میں اعمال نامہ دینے سے مراد ہے کہ تم ناپاک کام کرتے تھے ۔
دائیں کے لفظ سے ایک اورامر کی طرف بھی اشارہ ہوتاہے ۔قرآن کریم میں خداتعالیٰ کے متعلق فاخذناہ بالیمین آتاہے (الحاقۃ)جس کے معنے مفسرین نے کئے ہیں ۔بالقدرۃ والطاقۃ۔یعنی ہم ا س کو مضبوطی سے پکڑ لیں گے ۔پس دائیں ہاتھ سے اعمال نامہ دینے سے اس طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے کہ انہوں نے مضبوطی سے نیکی کوپکڑاتھا اس لئے نجات پاگئے ۔اورجن کے بائیں ہاتھ میں اعمال نامہ دیاجائے گا،انہیں یہ بتایاجائے گاکہ تم نے نیکی اورتقویٰ کے لئے پورے زورسے کوشش نہ کی تھی ۔اورگویابایا ںہاتھ جو کمزور ہوتاہے استعمال کیا تھا ۔اس لئے آج تمہاراانجام خراب ہواہے ۔علاوہ ازیں یُمْن برکت کوبھی کہتے ہیں حدیث میں خداتعالیٰ کے متعلق آتاہے ۔کلتَایدی ربّی یمین کہ میرے رب کے دنو ںہاتھ برکت والے ہیں ۔اس کاکوئی شمال نہیں ۔پس دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ دینے سے اس طرف اشارہ ہوگا کہ تمہاراانجام بابرکت ہوا ۔
اولئک یقرؤن کتابَھم سے مراد یہ ہے کہ جسے انعام ملتاہے وہ خوب شوق سے اپنے فیصلہ کو پڑھتاہے لیکن جسے سزاملتی ہے وہ اپنے فیصلے کو پڑھنے کی تاب نہیں لاتا ۔اورحتی الوسع اس کے پڑھنے سے گریز کرتا ہے ۔
ولایظلمون فتیلا ۔فتیل تاگہ کو بھی کہتے ہیں ۔کیونکہ وہ بٹاجاتاہے ۔اورکھجور کی گٹھلی کے سوراخ میں جوجھلی ہوتی ہے اس کو بھی کہتے ہیں ۔استعارۃً تھوڑی سی چیز کے لئے بھی بولاجاتاہے ۔پس آیت کامطلب یہ ہے کہ ان پر ذرہ بھر بھی ظلم نہ کیاجائے گا۔
ومن کان فی ھذہٖ اعمیٰ فھو فی الاخرۃ اعمٰی واضل سبیلاً
اورجواس (دنیا)میں اندھارہے گا وہ آخر تمیں(بھی )اندھا (ہوگا)اور(اسی طرح وہ)اپنے (طورو)طریق میں سب سے بڑھ کر بھٹکاہواہوگا ۷۳؎
۷۳؎ تفسیر ۔جواس جگہ اندھاہے و ہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا۔یعنی جس شخص نے یہاں پر روحانی آنکھوں سے کام نہیں لیا وہاںپر بھی اسے روحانی آنکھیں نہیں ملیں گی اوردیدارالٰہی سے محروم ہوگا۔قرآن کریم میں دوسری جگہ فرمایا ہے ۔قَدْجَآئَ کُمْ بَصَآئِرُمِنْ رَّبِّکُمْ فَمَنْ اَبصر فلنفسہ ٖومن عَمِیَ فعلیھا (انعام ع ۱۳)کہ تمہارے پاس دلائل تمہارے رب کی طر ف سے آگئے ہیں جودیکھے گافائدہ پائے گا۔اورجونہ دیکھے گاوہ نقصا ن اٹھائے گا۔پھر فرمایا والذی اذاذُکِّرُوا بِاٰیَاتِ ربھم لم یَخِرُّوْاعلیھا صُمًّاوَعُمْیَانًا(فرقان ع ۶)یعنی مومن وہ ہوتے ہیں کہ جب ان کے سامنے ان کے رب کی آیات کاذکر کیا جائے تو و ہ انکی طرف بہرے اوراندھے ہوکر توجہ نہیں کرتے بلکہ کان اورآنکھیں کھو ل کر اللہ تعالیٰ کی آیات کو سنتے ہیں ۔اس آیت میں ان کوبھی اندھا کہا ہے جوکسی بات کو بغیر تحقیق کے مان لیتے ہیں ۔پھر فرمایا ہے ۔وَمَنْ اعرض عن ذکری فانّ لہ معیشۃً ضنکاً وَّ نَحْشُرُہٗ یوم القیامۃِاَعمیٰ(طٰہٰ رکوع ۷)یعنی کسی شخص کاآیات سے منہ پھیرناہی اس کااندھاہوناہے ۔
غرض اعمٰی و ہ ہے جوحقیقت اوران بصائر کو جوخداتعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں ۔نہ دیکھے توایساشخص وہاںبھی خداتعالیٰ کادیدار نہ کرسکے گااوراندھا رہے گا۔کیونکہ اس نے دنیا میں اپنی مرضی سے اپنے لئے اندھا ہونا پسند کیاتھا ۔
اس آیت کایہ مطلب نہیں کہ دنیاوی اندھے اگلے جہا ن میں بھی اندھے ہوں گے جسمانی نقص توبعث بعد الموت کے وقت سب کے سب دور ہوجائیں گے ۔کیونکہ پہلاجسم ہی یہاں رہ جائے گا۔پس اس سے مراد روحانی اندھاپن ہے۔
وان کادوالیفتنونک عن الذی اوحینا الیک لتفتری
اورقریب تھا کہ وہ اس (کلام )کی وجہ سے جوہم نے تجھ پر وحی سے نازل کیا ہے تجھے (سخت سے سخت )عذاب میں مبتلاکرتے ،
علینا غیرہ واذا لاتخذوک خلیلا ٭
تاکہ تو(ان سے ڈر کر)اس (کلام)کے سواکچھ اور(اپنے پاس سے )گھڑ کر ہماری طرف منسوب کرے ۔اور(اگر تم ایسا کرتے تو) اس صورت میں وہ یقیناتجھے (اپنا )گہرادوست بنالیتے ۷۴؎
۷۴؎ حل لغات ۔خلیل کے معنے ہیں الصدیق المختص ۔خاص کیا ہوادوست۔وقیل ھوالَّذی صادقتہ بعد اذ جَرَّبْتَہٗ اوربعض کہتے ہیں کہ خلیل اس دوست پر بولتے ہیں کہ جس کاتجربہ کرلینے کے بعد اس سے دوستی ڈالی جائے (اقرب)
تفسیر ۔اس آیت کی تفسیر میں مفسرین بعض روایات لکھتے ہیں جن کامفہوم یہ ہے کہ کفار نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خواہش ظاہر کی کہ اگر آپ ہمارے بتوں کوادب سے چھو لیں توہم آپ کے ساتھ ہوجائیں گے ۔اس پر نعوذباللہ من ذالک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں خیال گذراکہ اللہ تعالیٰ کوتو میرے توحید کے عقیدہ کاعلم ہے ۔اگر میںا س طرح کرلو ں اورقوم کوہدایت ہوجائے توکیا حرج ہے ۔(فتح البیان جلد ۵)
یہ معنے اس آیت سے ہرگز نہیں نکلتے اورنہ رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے مطابق یہ معنے ہیں اورعلاوہ ازیں اگلی آیات ا س مضمون کے بالکل الٹ مضمون کو بیا ن کررہی ہیں ۔
اس آیت میں کادکالفظ آیا ہے ۔کاد کالفظ جب استعامل کیاجائے تواگر وہ مثبت ہوتویہ معنے ہوتے ہیں کہ کاد کے بعد کافعل نہیں ہوا۔ اوراگرکاد سے پہلے نفی کاحرف آئے توکاد کے بعد کے فعل کے متعلق یہ سمجھاجاتاہے کہ وہ فعل ہوگیا ۔اس آیت میں کاد مثبت استعمال ہواہے ۔اس لئے کاد کے بعد کے فعل کے متعلق یہ سمجھا جائے گاکہ و ہ فعل صادرنہیں ہوا۔
اس آیت میں کاد کے بعدلیفتنونک کے الفاظ ہیں ۔پس کاد کے استعمال کے مطابق اس آیت کایہ مطلب ہوگا کہ فتنہ کافعل صادر نہیں ہوا۔فتنہ کے معنے ابتلاء میں ڈالنے کے بھی ہوتے کہیں ۔اگر اس کے معنے ابتلاء میں ڈالنے کے لئے جائیں توآیت کے یہ معنے ہوں گے کہ قریب تھا کہ کفار تجھے ابتلا ء میں ڈال دیتے ۔مگر وہ ڈال نہ سکے اوراگر فتنہ کے معنے عذاب کے کئے جائیں تومعنے یہ ہوں گے کہ قریب تھا کہ یہ لوگ تجھ کو عذاب میں ڈال دیتے مگروہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکے ۔ابتلاء کے معنوںسے اس طرف بھی اشارہ نکلتاہے کہ گویا قریب تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کفار کے دبائوکومان کرقرآن میں تبدیلی کرنے پرتیار ہوجاتے ۔گوآپ نے ایسانہیں کیا ۔ظاہر ہے کہ یہ معنے بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے خلاف ہیں ۔کسی شریف آد می کی نسبت یہ کہناکہ قریب تھا کہ و ہ چوری کرلیتا۔قریب تھا کہ وہ ظلم کرتا ۔قریب تھا کہ وہ اپنے ماں باپ کو پیٹتا یقینا اس کی ہتک کرنے والا فقرہ ہے پس خداکے رسو ل کی نسبت یہ کہناکہ قریب تھا کہ وہ خداپر افتراء کرلیتا بالکل غلط اورخلاف واقعہ ہے ۔مفسرین کااس امر پر خوش ہوجانا کہ آپ نے ایساکیا تونہیں کافی نہیں ۔کیونکہ خداکے نبی بدی کے قریب بھی نہیں جاتے ۔اورخداتعالی پر افترا ء توایسا فعل ہے کہ ایک ادنیٰ مومن کے متعلق بھی شبہ نہیں کیاجاسکتاکہ اسکاارتکاب توالگ رہا اس کے قریب بھی جائیگا۔پس میرے نزدیک اس قسم کے معنے کرنے میں قدیم و جدید مفسرین نے سخت غلطی کی ہے ۔
میرے نزدیک اس آیت میں فتنہ کے معنے عذاب کے ہیں اورعن کالفظ تعلیل کے معنوں میں آیا ہے چنانچہ قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ پر بھی ان معنوں میں یہ لفظ استعمال ہواہے فرماتاہے کفار نے کہا کہ مَانَحْنُ بِتَارِکِیْٓ اٰلِھَتِنَا عَنْ قَوْلِکَ(ھود ع ۵)ہم تیرے کہنے کی وجہ سے اپنے معبودوں کونہیں چھوڑ سکتے ۔عن کے یہ معنے لیکر آیت کایہ مطلب بنے گا کہ قریب تھا کہ کفار تجھ کو اس کلام کی وجہ سے جو تجھ پر وحی کیا گیاہے عذاب میں مبتلاکرتے ۔اوران کی غرض ایساکرنے کی یہ ہوتی ۔کہ توہم پر افتراء کرکے قرآن کی تعلیم کے خلاف کوئی اورتعلیم بیان کرے ۔ان معنوں کے روسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان پر کوئی حرف نہیں آتابلکہ اس میں یہ بتایا گیاہے کہ کفار کے ارادے تیر ے متعلق بڑے بڑے سخت تھے و ہ چاہتے تھے کہ تجھے پکڑ کر سخت عذابوں میں مبتلاکریں اور ان عذابوں سے تجھے مجبور کریں کہ توقرآن کوچھوڑ کران کے مطلب کی بات بیان کرے ۔اس سارے مضمون میں رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فعل یااراد ہ کاذکر نہیں بلکہ ساراکاسارافعل کفار کا ہے اوربتایاگیا ہے کہ کلام سے پھراناتوان کی طاقت میں نہ تھا ۔اس غرض سے عذاب دینے کے ارادہ سے بھی و ہ روکے گئے ۔اوراس اراد ہ میں بھی خداتعالیٰ نے ان کوناکام رکھا ۔قرآن کریم میں کفارکے ان ارادوں کا ایکدوسری جگہ ان الفاظ میں ذکر آیا ہے ۔واذیمکر بک الذین کفرو الیثبتوک اویقتلوک اویخرجوک ویمکرون ویمکراللہ اللہ خیر الماکرین (انفال ع۴)یعنی یاد کر اس وقت کو کہ کفار تیرے متعلق یہ ارادے کررہے تھے کہ تجھے قید کردیں یاتجھے قتل کردیں یاتجھے نکال دیں ۔و ہ تیرے ذلیل کرنے کی تدبیریں کررہے تھے اوراللہ اپنی تدبیروں میں لگاہواتھا اوراللہ ہی بہتر تدبیر کرنے والا ہے ۔یعنی آخ راللہ تعالیٰ کی تدبیرکامیاب ہوئی اورکفا ر کے ارادے باطل ہوئے ۔اس آیت سے ظاہرہے کہ کفار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر دبائو ڈالنے کیلئے قید،قتل اور جلاوطنی کے ارادے کررہے تھے۔مگرخداتعالیٰ نے ان کو ناکام رکھا ۔اسی مضمون کی طرف یہاں اشارہ ہے اوریہاںبھی یہی بتایا گیاہے کہ کفار عذاب دینے کے ارادہ میں ناکام رہے ۔
اس جگہ یہ کہا جاسکتاہے کہ قید اورقتل کے ارادوں میں تووہ ناکام ہوئے مگر اخراج کے ارادہ میں کامیاب ہوگئے ۔توا س کاجواب یہ ہے کہ اس اراد ہ میں بھی وہ ناکام رہے کیونکہ کفار کااراد ہ یہ نہ تھا کہ آپ کو صرف وہاںسے نکال دیں ۔کیونکہ اس سے ان کی غرض پوری نہ ہوتی تھی ۔ان کاارادہ تویہ تھاکہ ذلیل کرکے نکالیں تادنیا میں آپ کی بدنامی ہو ۔مگراللہ تعالیٰ نے آپ کو قبل از وقت خبر دیدی اورآپ خود ہجرت کرگئے اوریہ امر ان کی سازش کے مطابق نہ تھا ۔بلکہ خلاف تھا ۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جب معلو م کیا کہ آپ عزت کے ساتھ ہجرت کرگئے ہیں توآپ کاتعاقب کیا اورجب خود پکڑنے میں کامیاب نہ ہوئے توآپ کو پکڑ کر لانے والے کیی لئے سو اونٹ کاانعام مقرر کیا ۔(بخاری الجزالثانی باب ہجرۃ النبی صلعم )اگر صرف نکال دینا ان کے ارادوں می شامل ہوتا توآپ کے جانے پر وہ لوگ خوش ہوتے ۔نہ یہ کہ آپ کاتعاقب کرتے اورپھر آپ کے پکڑ لانے والے کے لئے انعام مقررکرتے ۔ پس کفار کاآپ کی ہجرت کے بعد کافعل بتاتاہے کہ وہ آپ کے نکل جانے کوکافی نہ سمجھتے تھے بلکہ چاہتے تھے کہ آپ کو اس طرح ذلیل کرکے نکالیں یاتوآپ نعوذ باللہ اپنی تعلیم سے باز آجا ئیں یاآپ کی ایسی سُبکی ہو کہ جس جگہ جائیں و ہ داغ آپ کے ساتھ جائے اوراس اراد ہ میں اللہ تعالیٰ نے انہیں ناکام رکھا ۔
خلاصہ یہ کہ یہ صورت ہجرت کے قریب کی ہے جس وقت کفار مقابلہ سے ہر طرح عاجز آکر مایوسی کے جوش میں اس بات پر تُل گئے تھے کہ قید کرکے ،قتل کی دھمکی دے کر یا ذلیل کرکے نکالنے کاڈراوادے کر آپ کوقرآن کی تعلیم سے پھرائیں اوراگر ا س کااثر نہ ہوتو پھر اپنے بدارادوں کو مکمل کرکے آپ کی جسمانی یااخلاقی زندگی کاخاتمہ کردیں ۔مگراللہ تعالیٰ نے ان کو اس اراد ہ میں بری طرح ناکام رکھا اوراسی ناکامی کی طرف اس ایت میں اشارہ کیاگیاہے نہ اس امر کی طرف کہ نعوذ باللہ من ذالک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی کمزور ی آسکتی تھی یاآنے کاامکا نتھا ۔
وَاِذًالَّاتَّخَذُوْکَ خَلِیلًا میں یہ بتایاہے کہ اگریہ عذاب دے کرتجھے سچائی سے پھرانے میں کامیاب ہوجاتے توتجھے اپنادوست بنالیتے ۔اس میں بھی کفار کی ہی اخلاقی حالت کوبیان کیاگیاہے نہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی کمزوری کو ۔کفار باربار کہتے تھے کہ اگرمحمد رسول اللہ صلعم اپنی تعلیم میں کفار کی خاطر کچھ بھی نرمی کرلیں تووہ انہیں اپنا سردار بنالیں گے ۔چنانچہ ایک دفعہ ان کاوفد آپ کے چچا ابوطالب کے پاس آیا اوریہ تجویز کی کہ ہم اب بھی یہ نہیں کہتے کہ محمد(صلعم)شرک کرے بلکہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے معبودوںکوبُرانہ کہے ۔اگر یہ اتنا ہی کردے توہم اسے اپناسردار بنالیں گے ۔
انہی واقعات کی طرف اس آیت میں اشارہ فرمایا ہے کہ اوربتایا ہے کہ جب لالچ دے کرکامیاب نہ ہوسکے ۔توانہوں نے ظلم کرکے تجھے مجبورکرنے کااراد ہ کیا ۔مگرخداتعالیٰ نے اس میں بھی انہیں ناکام رکھا ۔اورناکام رکھیگا۔مگران کے یہ ارادے خود ان کے اخلاق پر جوروشنی ڈالتے ہیں و ہ ان کے لئے کیسی شرمناک ہے ۔ان کی یہ کوششیں بتاتی ہیں کہ انہیں تیری عظمت کااقرار ہے ۔تبھی توکسی نہ کسی صورت سے تیری تائید حاصل کرناچاہتے ہیں ۔مگراس قسم کی تائید پر خوش ہونا نہایت پست اخلاق پر دلالت کرتاہے ۔
ولولاان ثبتنک لقدکدت ترکن الیھم شیئًاقلیلا ٭
اور(تیراتویہ حال ہے کہ )اگر ہم تجھے (قرآن دیکر )ثبات نہ بخشتے (اوروحی بھی تجھ پر نازل نہ ہوتی )توتُو(اس صورت میں بھی اپنی فطر ت کی پاکیزگی کیوجہ سے )قریب ہوتا کہ ان کی طرف کچھ (چھوٹی چھوٹی )باتوں میں جھک جاتا (مگرعملاً پھر بھی ان کے ساتھ شامل نہ ہوتا ۷۵؎
۷۵؎ حل لغات ۔ثبتانک :ثبت سے جمع متکلم کاصیغہ ہے ۔ثبت کے لئے دیکھو ابراہیم ۲۷؎
ترکن :رکن سے واحد مخاطب کاصیغہ ہے اوررکن الیہ کے معنے ہیں مال الیہ اس کی طرف مائل ہوا(اقرب)پس کِدْتَ ترکن کے معنے ہوں گے کہ تومائل ہوجاتا۔
تفسیر ۔یہ آیت اس تشریح کی تائید کرتی ہے جومیں نے اوپر بیان کی ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ اگرہم نے تجھے ثبات نہ بخشا ہوتاتوپھر ممکن تھاکہ تُوتھوڑاسا ان کی طرف مائل ہوجا تا ۔یعنی ثبات اگر حاصل نہ ہوتاتب توان لوگوں کے ساتھ پوری طرح نہ مل سکتاتھا بلکہ ایک خفیف سااشتراک تیرے اوران کے خیالات کاہوسکتا تھا ۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم کے روسے ثبتانک کے کیا معنے ہیں ۔قرآن کریم میں دوسر ی جگہ فرماتا ہے ۔یُثَبِّتُ اللہُ اٰمَنُوْا بِالقَوْلِ الثَّابِتِ فی الحیٰوۃ الدنیا وفی الاٰخرۃ(ابراہیم ع ۴)یعنی اللہ تعالیٰ مومنوں کوقول ثبات یعنی وحی کے ذریعہ سے اس دنیا کی زندگی اورآخری زندگی کے اعمال پر ثابت قدم رکھتاہے ۔اسیطرح سورۃ فرقان میں فرماتا ہے ۔کذالک لِنُثَبِّتُ بہ فُؤَادَک َ(ع۳) یعنی کفار اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن یکد م کیوں نازل نہ ہوا۔فرمایا ٹھیک ہے قرآن یکدم نازل نہیں ہوااوراس کی غرض یہ ہے کہ ہم اپنے رسول کے دل کومضبوط کریں اورقرآن کریم کو آہستہ آہستہ ناز ل کرکے اس کے دل کے گوشوں میں رچادیں ۔ان آیات سے معلوم ہوتاہے کہ تبثیت کاذریعہ کلام الٰہی کانزول ہے ۔پس لولاان ثبتناک کے معنے یہ ہوں گے کہ اگرقرآن ناز ل کرکے ہم نے تیرے دل کو ایمان پر ثبا ت نہ بخشاہوتا توممکن تھا کہ توکچھ تھوڑاسا ان کی طرف جھکتا۔
اس تشریح کے بعد یہ امر آسانی سے سمجھاجاسکتاہے کہ اس آیت میں یہ ذکر نہیں کہ قرآن کریم کے نزول کے بعد آپ کفار کی طرف مائل ہوسکتے تھے ۔بلکہ بتایایہ گیاہے کہ قرآن کے نزول کے بعد توتیراان کی بات مانناناممکن ہے ۔اگرقرآن بھی ناز ل نہ ہواہوتا تب بھی تیری فطرت اتنی پاک تھی کہ مشرکانہ باتوں میں توان کے ساتھ شریک نہ ہوسکتاتھا ۔ہاںممکن تھاکہ وحی کی روشنی کے نہ ہونے کے سبب سے بعض چھوٹی چھوٹی باتوں میں توان کے طریق پر عمل کرلیتا۔پس یہ آیت توانتہائی مدح کے مقام پر ہے اوراس میں یہ بتایا ہے کہ بغیر قرآن کے بھی کفار محمد رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے ساتھ کامل اتفاق کی امید نہیں کرسکتے تھے ۔پھر قرآن کے نزول کے بعد وہ ایسی امید کیونکر رکھتے ہیں ۔
اذالاذقنک ضعف الحٰیوۃ وضعف الممات تم لاتجد لک علینانصیر ا٭
اوراگر (جیساکہ ان کاخیال ہے توہم پر افتراء باندھنے والاہوتا)تواس صورت میں ہم تجھے زندگی کابڑاعذاب اورموت کا بڑاعذا ب چکھاتے (اور )پھر توہمارے مقابل پر اپناکوئی (بھی )مددگارنہ پاتا۔ ۷۶؎
۷۶؎ حل لغات ۔ضعف الحیٰوۃ وضعف الممات عربی میں کبھی درمیا نی مضاف الیہ کو حذف کرکے دوسرے مضاف الیہ کی طرف مضاف کی اضافت پھیر دیتے ہیں اس قانو نکے مطابق یہاں ضعف عذاب الحیٰوۃ اورضعف عذاب الممات کے جملو ں کو درمیانی مضاف الیہ کو مخذو ف کرکے ضعف الحیٰوۃ اورضعف الممات کی صورت میں بد لدیاگیا ہے نیز ضعف کسی چیز کی مثل یااس سے دگنی یاتگنی وغیر ہ کوکہتے ہیں ۔کم سے کم ایک مثل اورزیاد ہ خواہ کتنے گنے ہو۔چونکہ اردومیں اس کاترجمہ نہیں ہوسکتا۔اس لئے زیادتی پردلالت کرنے کے لئے بڑے کے لفظ سے ضعف کا ترجمہ کردیاگیا ہے۔
تفسیر ۔اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ اگرتورسول نہ ہوتا اوربعض چھوٹی باتوں میں اپنی قوم کے ساتھ شامل ہوجاتا توپھر ان کو کیا فائدہ ہوتا۔اس وقت توان کی نجات تونہیںہوسکتا تھا بلکہ خود عذاب کامستحق ہوتا ۔پھر ان کو تیری تائیدسے کیافائدہ تھا۔مطلب یہ کہ نبی کی سب عظمت کلام الٰہی کی وجہ سے ہوتی ہے ۔کفاراس امر کومحسوس نہیں کرتے اورسمجھتے ہیں کہ یہ کوئی خاص لیاقت کاآدمی ہے اگر اپنی تعلیم میں تبدیلی کرے اورہمارے ساتھ مل جائے توہماری قوم شائد خاص ترقی کرجا ئے ۔حالانکہ ان کایہ خیال باطل ہے ۔نبی کوکمال وحی سے حاصل ہوتاہے ۔وہ وحی جاتی رہے توو ہ بھی دوسر ے آدمیوں کی طرح ہوجائے پس ایسی خواہشات محض لغو اوربے فائد ہ ہیں
یہاںپر ضعف کے معنے مثل کے ہیں اورمضاف حذف کردیاگیاہے گویااصل یو ںہے ۔مثل عذاب الحیٰوۃ مثل عذاب الممات یعنی جس طرح دوسروں کو دنیا کاعذاب اورآخرت کاعذاب ملتاہے ۔ویساہی اگر نبی خداتعالیٰ کی وحی سے ہدایت پاکر خداتعالیٰ کی رضاحاصل نہ کرے ۔تووہ بھی باقی قوم کی طرح عذاب میں پکڑاجائے۔
وان کادولیستفزونک من الارض لیخرجوک منھا
اوروہ یقیناتجھے اس ملک سے نکالنے پر تلے ہوئے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوگا۔کہ وہ تجھے نکال ہی دیں گے ۔اوراس صورت میں و ہ
واذالایلبثون خلفک الا قلیلا٭
تیرے بعد (خود بھی )تھوڑا(عرصہ)ہی (یہاں )رہیں گے ۷۷؎
۷۷؎ تفسیر ۔استفزہ من الارض کے معنے زمین س نکال دینے کے ہیں ۔پس آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ قریب تھا کہ یہ لوگ تجھے اس زمین سے نکال دیتے ۔مگراس کے آگے فرماتاہے ’’تاکہ یہ تجھے نکال دیں ‘‘۔ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ استفزاکے معنے کچھ اورہیں ورنہ تکرار فضول لازم آتاہے ۔لیکن اگرلیخرجوک کے معنے اخراج کے لئے جائیں توتکرار نہیں رہتا ۔اس صورت آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ یہ لوگ قریب تھا کہ تجھے ملک سے اسطرح نکال دیتے کہ اس کانتیجہ یہ ہوتاکہ توانکی قومی زندگی سے نکالاجاتا یعنی تجھے ذلیل کرکے نکالدیتے جسکی وجہ سے تیرااثر عرب پرسے اٹھ جاتااورگویا تیرامعنوی طو رپر خاتمہ ہوجاتا ۔ یہ معنے پہلی آیات کیساتھ بالکل مطابق آتے ہیں اورمیرے نزدیک یہی مراد ہے اوربتایا یہ گیاہے کہ اگریہ اس ارادے میں کامیاب ہوجاتے کہ ہتک کرکے تجھے مکہ سے نکالتے تواس کانتیجہ یہ نکلتاکہ تیرے بعد جلد ہی عذاب میں مبتلاکرکے انکوتباہ کردیاجاتا مگراللہ تعالیٰ نے فضل کرکے تجھے آپ ہی ہجرت کاحکم دیدیا اوران کو تیری ہتک کے گناہ سے بچاکر شدید سزاسے محفوظ کردیا اورتیر ی عزت کوقائم رکھ کر اپنی محبت کاثبوت دیا ۔
سنۃ من قد ارسلنا قبلک من رسلنا ولاتجد لسنتنا تحویلا ً٭
(اورتجھ سے بھی )ان (گذشتہ انبیاء )کی طرح (سلوک ہوتا)جنہیں ہم نے تجھ سے پہلے (رسول بناکر )بھیجاتھا ۔اورتوہماری سنت میں کوئی تبدیلی نہ پائے گا۔ ۷۸؎؎
۷۸؎ تفسیر ۔اس آیت میں یہ بتایاہے کہ ہماری یہ قدیم سے سنت ہے کہ جب کسی نبی کو اسکی قوم ہتک آمیز سلوک کرکے نکالتی ہے تواس پر توبہ کادروازہ قریباً بند ہوجاتاہے اورسخت تباہ کردینے والے قومی عذاب میں مبتلاہوجاتی ہے ۔اس کی مثال قوم صالح ہے جنہوں نے صالح کی اونٹنی کومار کرانکے تبلیغی سفروں کو بند کردیا یاپھر یہود ہیں کہ انہوںنے مسیح کو صلیب پر لٹکایااوراس کے بعد حضرت مسیحؑ کوملک چھوڑناپڑا ۔یہ دونوں قومیں بالکل برباد کردی گئیں ۔قوم صالح توظاہری طور پر تباہ ہوگئی اوریہود اخلاقی اورسیاسی موت میں مبتلاہوگئے ۔اللہ تعالیٰ نے چونکہ عربوںکو ایسی موت سے بچانے کافیصلہ کیاتھاانکو اپنے ارادہ میں کامیاب نہ ہونے دیااورا س طرح عذاب سے بچالیا ۔
اقم الصلوۃلدلوک الشمس الی غسق الیل وقرآن الفجر
توسورج کے ڈھلنے(کے وقت )سے لیکر رات کے خوب تاریک ہوجانے (کے وقت )تک (کی مختلف گھڑیوں میں )نماز کوعمدگی
ان قراٰن الفجر کان مشھوداً٭
سے اداکیاکر۔اورصبح کے وقت(قرآن )کے پڑھنے کوبھی (لازم سمجھ)صبح کے وقت (قرآن )کاپڑھنایقینا(اللہ تعالیٰ کے حضورمیں ایک )مقبول (عمل)ہے ۷۹؎
۷۹؎ حل لغات ۔دُلُوک۔دلکت الشمس دُلوکًا۔غربت ۔سورج غروب ہوگیا ۔مفرّت سورج زرد ہوگیا ۔وقیل مالت وزالت عن کبداالسمأ بعض نے کہا ہے کہ دلکت الشمس کے معنی سورج ڈھلنے کے ہیں (اقرب)
غَسَق:غَسَقَتْ عینُہ غرقاً۔دَمَعَت وقیل الصبت۔وقیل الظلمت ۔اس کی آنکھ ڈبڈباآئی۔بعض محققین لغت کے نزدیک اسکے معنی آنکھ کے بہنے یاآنکھ پر تاریکی چھاجانے کے ہوتے ہیں ۔غسق اللیلُ غسقاً اشتدّ ظلمتُہ یعنی را ت سخت تاریک ہوگئی ۔الغسقُ۔ظلمۃُ اول اللیل اودخول اوّلہ حین یخلط الظلامُ۔غسق رات کے پہلے حصے کی تاریکی کو کہتے ہیں یارات کی ابتداء میں تاریکی شروع ہونے کو غسق کہتے ہیں (اقرب)
مشھودا:یہ شھد سے اسم مفعول کاصیغہ ہے ۔شھد کالفظ کسی جگہ پر ظاہر ہونے اوراس پر اطلاع پانے کے معنوں میں استعمال ہوتاہے ۔ کہتے ہیں شھد المجلسَ شھودًاحضرَہُ واطلع علیہ کہ وہ مجلس میںحاضر ہوا۔اوراس نے اسے دیکھا ۔شھِدَاللہُ۔ای عَلمَ اللہُ وقَبلَ اللہ ُ جب اللہ تعالیٰ کے لئے شھد کالفظ استعمال ہو تواس کے معنی یہ ہوتے ہیں ۔کہ اللہ تعالیٰ نے ا سکو جانااوراسے قبول فرمایا ۔وقیل کتب اللہ ُ۔بعض کے نزدیک اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عمل لکھ لیا ۔(اقرب)
تفسیر ۔ان آیات میں مسلمانوں کو آنے والی خطرناک مشکلات کامقابلہ کرنے ک لئے تیار کیاگیا ہے ۔ایک طرف ہجرت کے بعدان قوموں سے مقابلہ ہونے والاتھا ۔جوظاہر میں عبادت گذار تھیں۔اورمسلمانوں کی سستی انہیں اعتراض کوموقعہ دے سکتی تھی ۔ دوسری طرف مسلمانوں کو جلد فتوحات ملنے والی تھیں جس سے عبادات میں سستی ہوجاتی ہے ۔پس دونوں امو رکو ملحوظ رکھتے ہوئے مسلمانوں کو ہوشیار کیا ۔کہ دشمن کے طعن کا نشانہ اسلام کونہ بنانا۔اورنہ سست ہوکر خداتعالیٰ کے فضلوں کو کھو دینا۔اس آیت میں پانچوں نمازوں کے اوقات بتائے گئے ہیں ۔دلوک کے تین معنی ہیں ۔اورہرایک معنی کی روسے ایک ایک نماز کاوقت ظاہرکردیاگیا ۔
(۱)مالت وزالت عن کبد السماء یعنی زوال کو دلو ک کہتے ہیں ۔اس میں ظہر کی نماز آگئی(۲)اعصّرت۔جب سورج زرد پڑ جائے تواس کوبھی دلوک کہتے ہیں اسمیں نماز عصر کاوقت بتادیاگیا۔(۳)تیر ے معنی غربت یعنی غروب شمس کے ہیں اس میں نماز مغرب کاوقت بتایاگیاہے (۴)غسق اللیل کے معنی ظلمۃ اول اللیل کے ہیں ۔یعنی رات کے ابتدائی حصہ کی تاریکی ۔اس میں نماز عشاء کاوقت مقرر کردیاگیا ۔(۵)قراٰن الفجر کہہ کر صبح کی نماز کاارشاد فرمایا ۔اس کے سواکوئی اورتلاوت صبح کے وقت فرض نہیں ہے ۔
ان قراٰن الفجر کان مشھودا۔احادیث میں آتاہے کہ آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔کہ صبح کی نماز کے وقت دن کے فرشتے آتے ہیں اوررات کے فرشتے چلے جاتے ہیں ۔و ہ فرشتے جب خداکے پاس جاتے ہیں ۔تودریافت کرنے پرکہتے ہیں ۔کہ ہم جب دنیا میں گئے ۔توتیرے بندوں کونماز پڑھتے ہی دیکھا اورواپس آئے ہیں تونماز پڑھتے ہی چھوڑ کرآئے ہیں ۔عن ابی ھریرۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال تشھد ہ ملائکۃ اللیل وملائکۃا لنھار۔(الحدیث)اس کامطلب یہ ہے کہ صبح کی نماز خاص طورپر اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کی جاتی ہے ۔اورخاص ہی طور سے مقبول ہوتی ہے کیونکہ ا س وقت انسان میٹھی نیند کو چھو ڑ کراٹھتاہے ۔صبح کی نماز دراصل عام مسلمان کی تہجد ہی کی نماز ہے ۔بلاشبہ جوانسان صبح کی نماز پڑھے گا۔اگراس نے وہ نماز ایمانداری سے پڑھی ہوگی توباقی نماز یں بھی اسکے لئے آسان ہوجائیں گی ۔
ومن الیل فتھجد بہٖ نافلۃلک عسیٰ ان یبعثک ربک مقامامحموداً ٭
اوررات کو بھی تو اس(یعنی قرآن )کے ذریعہ سے کچھ سولینے کے بعد شب بیداری کیاکر ۔جوتجھ پر ایک زائدانعام ہے (اس طرح پر )بالکل متوقع ہے ۔کہ تیرارب تجھے حمد والے مقام پر کھڑا کردے ۸۰؎
۸۰؎ حل لغات ۔فَتَھَجَّدْ۔ھَجَد۔یھجد۔ھجوداً سے باب تفعل کا واحد مذکر امر کاصیغہ ہے ۔ھجد الرجل نام باللیل آدمی رات کوسویا ۔وسھرَرات کوبیدارہوا۔وفی اللسان تھجد القومُ۔استیقظوالِلصَّلوۃِ اوغیرھا ۔لسان العرب میں لکھا ہے ۔کہ تھجد القو م کے معنی لوگوںکے سونے کے بعدنماز وغیرہ کے لئے بیدار ہونے کے ہیں(اقرب)
نافلۃً۔نفل(ینفل ۔نفلًا)الرجلُ فلاناً۔اعطاہ نافلۃً من المعروفِ ممَّالایریدُ ثوابہ منہ ۔یعنی ایک شخص نے دوسرے پر ایسی بخشیش کی ۔ جس کے بدلے کا اس سے خواہش مند نہیں ۔نفل الامامُ الجُندَ۔جعل بہم ماغنوا۔امام نے لشکر کو مال غنیمت دے دیا ۔لفظ نافلہ نفل سے اسم فاعل مؤنث بمعنی مفعول ہے ۔یعنی دی ہوئی چیز۔دیاہواانعام النافلۃ کے معنی الغنیمۃ ۔غنیمت ۔العطیۃ۔بخشش۔ماتفعلہ ممالایجِبُ۔فرض سے زائدعمل کرنا ۔ولدالولد ۔پوتا۔اس کی جمع نوافل آتی ہے(اقرب)
تفسیر ۔تھّجد بہٖ میں ہٖ کی ضمیر قرآن کریم کی طر ف پھر تی ہے اورمراد یہ ہے کہ اس نماز میں تلاوت قرآن پرخااص زورہونا چاہیئے ۔
تہجد کے معنے سوکراٹھنے کے ہوتے ہیں ۔اسلئے تہجد کی نماز سے پہلے سوناضروری ہے ۔جولوگ ساری رات جاگنے کے چلّے کھینچتے ہیں ۔ وہ عباد ت نہیں کرتے ۔شریعت کے منشاء کے باطل کرتے ہیں ۔ایسی عباد ت قرآن کریم کے منشاء کی خلاف ہے ۔رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ پہلی رات سوتے تھے۔اورآخر رات میں اٹھ کر تہجد پڑھتے تھے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایاہے کہ عبادت کوموقعہ دینا ایک احسان الٰہی ہے ۔مگر افسوس ان لوگو ں پر جو نماز کوچٹّی سمجھتے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز اپنے رب کی زیارت ہے ۔اورزیارت الٰہی ایک انعام ہے۔اورکوئی عقلمند انسان اپنے محبوب کی زیارت کوچٹّی نہیں سمجھے گا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے توعبادت کیشان ہی یہ بتائی ہے کانک تراہ وان لم تکن تراہ فانہ یراک (مسلم جلد اول کتاب الایمان )یعنی صحیح نماز یہ ہے کہ توخداتعالیٰ کودیکھ لے ۔یاکم سے کم نماز کے وقت یہ یقین ہوکہ خداتعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے ۔پس اتنے بڑے انعام کو چٹی سمجھا سخت ظلم ہے نماز اللہ تعالیٰ کے بڑے انعامات میں سے ہے ۔میراتویہ عقید ہ ہے کہ انسان ایک نماز بھی چھوڑے تووہ نمازی نہیں کہلاسکتا ۔کیونکہ حکم اقامۃ الصلوٰۃ کا ہے ۔اوروہ دوام کوچاہتاہے ۔جب ایک بھی نماز چھوڑ دی گئی ہو تودوام نہ رہا ۔
نَافِلَۃً لَکَ سے ا س بات کااظہار کیا گیا ہے ۔کہ عبادت کاموقعہ دینا ہماراایک احسان ہے ۔یاممکن ہے ۔کہ تہجد کی نماز پہلے انبیاء پرواجب نہ کی گئی ہو ۔ا س صورت میں اس کے یہ معنی ہوں گے ۔کہ یہ عبادت کاموقعہ خاص تیرے لئے انعام ہے ۔
مقاماًمحموداً۔مقاماً محموداً میں ایک بہت بڑی پیشگوئی کی گئی ہے ۔دنیامیں کسی شخص کو بھی اتنی گالیاں نہیں دی گئیں ۔ جتنی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کودی گئیں ہیں ۔ڈاکو،بدکار،بدمعاش،فاسق سے فاسق انسان کو ان گالیوں کے کروڑویں حصہ کے برابربھی گالیا ں نہیں دی جاتیں ۔جتنی کہ آج تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی ہیں ۔مقا م محمود عطا فرماکر اللہ تعالیٰ نے ان گالیوں کاآپ کوصلہ دیاہے ۔فرماتا ہے جس طرح دشمن گالیاں دیتا ہے ۔ہم مومنوں سے تیرے حق میں درود پڑھوائیں گے اسی طرح عرش سے خود بھی تیری تعریف کریں گے ۔اس کے مقابل پر دشمن کی گالیاں کیاحیثیت رکھتی ہیں ۔
مقام محمودسے مراد مقام شفاعت بھی ہے ۔کیونکہ جیساکہ حدیثوں سے ثابت ہے ۔سب اقوام کے لوگ سب نبیوں کے پاس سے مایوس ہوکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شفاعت کی غرض سے آئیں گے ۔اورآپ شفاعت کریں گے۔اس طرح گویا ان سب اقوا م کے مونہہ سے آپ کے لئے اظہار عقیدت کروادیاجائے گا ۔جو اس دنیا میں آپ کو گالیاں دیتی تھیں ۔اوریہ ایک نہایت اعلیٰ درجہ کامقام محمود ہے۔
مقام محمود سے مراد میرے نزدیک خروج مہدی بھی ہے ۔کیونکہ اس کے ظورکاوقت وہی بیان ہواہے ۔جب مسلمانوںکے اسلام سے روگردان ہوجانے کی اورکافروں کے کفر میںترقی کرجانے کی خبر دی گئی ہے ۔ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ کے اس پہلوان کاظہور ان گالیوں کی روکو تعریف سے بدلوادے ۔مقام محمود کاہی ایک کرشمہ ہے ۔میں نے اسی خدمت میں حصہ لینے کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات بیان کرنے کے لئے سال میں ایک دن مقررکیا ہواہے جس میں ہر مذہب و ملت کے کے لوگ اپنے ان تاثرات کو بیان کرتے ہیں ۔جوآپ کے حالات پڑ ھ کران کے دلوں میں پڑتے ہیں ۔اقم الصلوٰۃ الآیتین ۔نماز پنجگانہ اورتہجد کے ذکر کے بعد جو مقام محمود کا ذکرکیا ہے ۔اس میں اس طرف اشار ہ ہے کہ جس شخص کے دشمن زیادہ ہو ںاوربدگولوگوں کی تعداد بڑھ جائے اس کایہ علاج نہیں ۔کہ وہ ان سے الجھتاپھرے ۔بلکہ ایسے وقت میں انابت الی اللہ اوربارگاہ الٰہی میں فریاد کرنا ہی ان فتنوںکودورکرتاہے ۔بلکہ اگرانابت بہت بڑھ جائے توخدمت تعریف سے اورگالیاں دعائوںسے بدل جاتی ہیں چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایساہی ہوا۔کہ جو لوگ آپ کو گالیاں دیتے تھے ایک دن عاشق صاد ق ہوگئے ۔عمر بن عاص۔خالد۔عکر مہ۔مردوں میں سے اور ہندہ عورتوں میں سے اس کی زبردست مثالیں ہیں ۔یہ لوگ آپ کی دعائوں سے ہی کھنچ کر آگئے ۔ورنہ جس قدر عداوت ان کے دل میں تھی ۔اس کادور کرنا انسانی بس کی بات نہ تھی ۔
بعض نادان کہتے ہیں کہ معلوم ہوتاہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نعوذ باللہ من ذالک کوئی نقص تھا تب ہی تو آپ کو اتنی گالیا ںدی جاتی ہیں۔میں کہتاہوںیہ بات نہیں۔آنحضرت اصلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں کسی عیب کی وجہ سے نہیں ۔بلکہ حضور کی خوبیوں کی وجہ سے دی جاتی ہیں ۔دنیاکے کسی اورنبی کو تمام انسانوں کے لئے اسوہ حسنہ نہیں بنایاگیاتھا ۔اس لیء کسی نبی کی زندگی کے مکمل سوانح محفوظ نہیں کئے گئے ۔اگردنیا کے مذہبی پیشوائوں میں سے کسی پیشواکی زندگی کے حالات تفصیلاً موجود ہیں ۔تووہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں ۔آپ کی زندگی کاہرواقعہ تاریخ میں موجود ہے ۔آپ کاکھانا ۔آپ کاپینا ۔آ پ کاچلناپھرنا اور بولنا اوربیٹھنا غرض ہرحرکت و سکون آپ کا محفوظ کرلیا گیا ہے ۔گویا جس طرح سے کسی شخص کی تلاشی لی جاتی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضورکے اعمال وخیالات کواکٹھاکرکے دنیا کے سامنے پیش کردیا ہے۔اس کے باوجود آپ کے دشمنوں کے سامنے میدان میں جمے رہنا اورعقل سے کام لینے والوں کی نگاہ میں عزت پاجاناکوئی معمولی معجز ہ نہیں ۔اوراگریہ عزت جوپورے امتحان کے بعد احاصل ہوئی ہے مقام محمود نہیں کہلا سکتی توپھر کوئی اورعزت مقام محمود نہیں کہلاسکتی ۔حق یہ ہے کہ آپ کی زندگی کے صرف ایک دن کے واقعات کے برابربھی دوسری نبیوں کی عمر بھر کے واقعات محفوظ نہیں۔پس ایسے مخفی وجودوں کی زندگی پر کوئی جرح کرے توکیاکرے ۔پس کسی قوم کااس پر خو ش ہوناکہ اس کے نبی پر اس قدراعتراض نہیں ہوتے کوئی معقول خوشی نہیں ۔
میرے نزدیک آپ کے لئے جومختلف مقامات محمود ہ مقرر ہیں ۔ان میں سے سب سے پہلا مقام محمودجواس آیت کے نزول کے بعد آپ کوملا ۔مدینہ منور ہ تھا ۔وہاں کی زندگی سے آپ کی حمدو ستائش دنیا میں پھیل گئی چنانچہ دعامندرجہ آیت میں اسی طرف اشار ہ ہے ۔
وقل رب ادخلنی مدخلاصدق واخرجنی مخرجاصدق
اورکہہ(کہ)اے میر ے رب مجھے ظاہر اً وباطناً اچھے طورپر (ہی)داخل کراورظاہر اً و باطناً اچھے طورپر (ہی)اس (سے )باہر لا
واجعل لی من لدنک سلطٰنانصیرا٭
اورمجھے اپنے حضو رسے کامل نصرت والا غلبہ عطافرما ۸۱؎
۸۱؎ حل لغات ۔مُدْخَلَ صِدْق:لفظ مدخل دَخَلَ سے باب افعال کامصدر میمی۔اسم مفعول او رظرف زمان و مکا ن ہے۔اس کے معنی داخل ہونا ۔داخل کیا ہوا۔داخل ہونے کاوقت اور داخل ہونے کی جگہ کے ہیں (اقرب)صدق کے معنی ہیں ۔نقیض الکذب ۔ سچائی ۔الفضل ۔فضیلت ۔الصّلاح ۔خوبی اور اچھا ئی۔لجد ۔سنجیدگی ۔اشدّہَ والصلابۃ۔سختی اورمضبوطی ۔فاذااضَفْتَ الیہ قلت رجل صدق ای نعم الرجل اگر لفظ صدق مضاف الیہ واقع ہو تومضاف کی ہررنگ کی خوبی پردلالت کرتاہے ۔چنانچہ رجل صدقٍ کے معنی ہوںگے ۔ہرلحاظ سے خوبیوں والا شخص (اقرب)ویعبّر من کل فعلٍ فاضلٍ ظاھراً و باطناًبصدق فیضان الیہ ذالک الفعل الذی یوصف بہ کسی فعل کی ظاہری و باطنی خوبی کا اظہارکرنے کے لئے اسے لفظ صدق کی طرف مضا ف کیا جاتاہے۔(مفردات )مزید تشریح ک لئے دیکھو یونس ۴؎ پس مدخل صدق کے معنے ہوںگے ظاھراً وباطناً اچھے طورپر داخل کرنا ۔
تفسیر ۔ صدقٍ کے معنی بتائے جاچکے ہیں یعنی اندرونی وبیرونی دونوں حالتیں یکساں طور سے اچھی ہوں ۔اس آیت میں دعااور انابت کے جواب میں جومقام محمود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوملنے والے تھے ۔ان میں سے پہلے مقام محمود کا ذکر کرتے ہوئے فرماتاہے کہ اب تجھے اسراء کی خبر کے ماتحت مکہ سے نکال کر ہم ایک اورجگہ کی طرف جو مقام محمود ہے لے جائیں گے ۔اس لئے اس کے متعلق ابھی سے دعائیں شرو ع کردے ۔اورکہہ کہ اے خدامجھے اس شہر میں ظاہری او رباطنی خوبیوں کے ساتھ داخل کر او راس مقام سے بھی جس میں میں اس وقت ہوں یعنی مکہ سے ظاہری اورباطنی خوبیوں کے ساتھ نکال یعنی کفار جواراد ہ کررہے ہیں ۔کہ مجھے ذلت سے نکالیں ۔جس سے میرارعب اور اثر جاتا رہے ۔اس میں وہ کامیاب نہ ہوں ۔چنانچہ یہ دونوں دعائیں قبول ہوئیں۔اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار اپنی مرضی کے مطابق نہ نکا ل سکے بلکہ خداتعالیٰ کے علم دینے سے آپ خو د ہی مناسب موقعہ پر مکہ سے ہجرت کرگئے ۔اسی طرح آپ کادخول مقام محمود میں بھی نہایت اعلیٰ ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے وہاں آپ کی شمع رخ کے ہزارو ں پروانے پیداکردیئے۔جو آپ کے منہ کی طرف ہروقت دیکھتے رہتے تھے ۔ااورجن کو آپ سے وہ عشق تھا ۔کہ اس عشق کی نظیر دنیا میں اورکہیں نہیں ملتی ۔
ان معنوں پر ایک اعترا ض ہوسکتاہے اوروہ یہ کہ خروج مکہ پہلے ہواہے ۔اوردخول مدینہ بعد میں ۔پھر قرآن کریم نے دخول کو پہلے کیوں بیا ن فرمایا ۔اس کاجواب یہ ہے کہ خروج کی خبر سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو لازما ً تکلیف ہوناتھی ۔اوریہ خیال پیداہوناتھا کہ مکہ سے نکل کر ہم کہاں جائیں گے ۔اس لئے اللہ تعالی نے اپنے رسول کی محبت کی وجہ سے اس امر کاپہلے ذکر فرمایاکہ عنقریب تجھ کوایک مبارک مقام ملنے والا ہے اورمکہ سے نکلنے کے ذکر کو اس کے بعد رکھا ۔تاکہ تسلی پہلے مل جائے اورغم کی خبر بعد میں ملے ۔
دوسرے معنے اس آیت کے یہ بھی ہوسکتے ہیں ۔کہ دخول سے مراد آپ کادوبار ہ مکہ میں واپس آنا ہے ،۔اورخروج سے مراد آپ کی ہجرت ہے ۔اس صورت میں بھی ترتیب کے متعلق اعتراض پڑے گا۔کہ ہجرت پہلے تھی۔اورفتح مکہ بعد میں ۔لیکن اس کابھی جواب وہی ہے ۔جوپہلے بیان ہوا۔کہ مکہ سے نکلنے کے صدمہ کو اس خبر سے کم کردیا ۔کہ آپ پھر مکہ میں آنے والے ہی ۔اوراس اکے بعد مکہ سے نکلنے کاذکر کیا ۔تاتسلی پہلے ہوجائے ۔اورغم کی خبر بعد میں بتائی جائے ۔اس صورت میں مقام محمود کے معنی یہ ہوں گے کہ فتح مکہ کے بعد دشمنوں کے سب اعتراضات دورہوجائیں گے ۔اورعربوں پر آپ کی سچائی ظاہرہوجائے گی ۔چنانچہ ایساہی ہوا۔سلطاناً نصیراً مجھے اپنے پاس سے ایساغلبہ دے ۔جو کہ نصیر ہو ۔یعنی وہ میرے کاموں میں میراممدو معاو ن ہو مضر نہ ہو کیونکہ بعض غلبے انسان کے لئے بجائے فائدہ پہنچانے کے نقصا ن دہ ثابت ہوتے ہیں ۔یعنی مجھے غلبہ توملے ۔مگر ایسانہ ہو جس کاانجا م میرے کاموں کی تباہی ہو ۔
یہ دعااسراء کے معنوں کی تائید کرتی ہے ۔جو میں اوپر بیا ن کرچکا ہوں اوراس سے معلو م ہوتا ہے کہ اسراء کے کشف کی ایک تعبیر مدینہ کی طرف ہجر ت کرنا تھی ۔
وقل جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقاً٭
اور(سب لوگوں سے )کہہ دے (کہ بس اب )حق آگیا ہے ۔اورباطل بھاگ گیا ہے اورباطل توہے ہی بھاگ جانے والا ۸۲؎
۸۲؎ حل لغات ۔زھق ۔زھق الباطل ۔اضمحلّ۔باطل کمزور ہوگیا ۔الشیء ُ بطل و ھلک ۔کوئی چیز بے اثر ہوگئی مٹ گئی (اقرب)
تفسیر ۔اس میں یہ اشارہ کیاگیا ہے ۔کہ مدنی زندگی کے شرو ع ہونے کے ساتھ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طاقت مضبوط ہوتی ۔اوربڑھتی جائے گی ۔اوردشمن کی کمزوری اورضعف و ناتوانی کے سامان پیداہوتے جائیں گے ۔یہاں تک کہ آخر باطل کمزورپڑتے پڑتے فناہوجائے گا۔اورمکہ کی فتح کے وقت عرب سے بت پرستی کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کردیاجائے گا۔قرآن کریم کو یہ بے نظیر کما ل ہے کہ وہ ہرموقعہ کے لئے ایسے الفاظ چنتاہے جوایک لمبے مضمو ن پر دلالت کرتے ہیں ۔اس آیت میں زھق کالفظ رکھا ہے ۔اس کی جگہ ھلک اور بطل وغیرہ الفاظ بھی رکھے جاسکتے تھے ۔مگر ان سے باطل کی تباہی ک تدریج کاعلم نہ ہوتا ۔جوزھوق کے الفاظ سے بتائی گئی ہے ۔زھو ق کے معنے کمزور ہوجانے او رہلا ک ہوجانے کے ہیں ۔اوراسی طرح مکہ والوں سے گزری یہ نہیں کہ وہ یکد م تباہ ہوگئے ۔بلکہ کمزو رہونے شروع ہو ئے پھر آہستہ آہستہ و ہ وقت آیا کہ بالکل فنا ہوگئے ۔پس زھو ق کے لفظ نے ہلاکت کی تفصیل بھی بتاد ی ۔
جب مکہ فتح ہوااورخانہ کعبہ میں رکھے ہوئے بتوں کوتوڑ کر پھینکا گیا ۔اس وقت رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہی آیت پڑھتے جاتے تھے ۔ایک ایک بت پر ضرب لگاتے اورفرماتے جاتے تھے ۔قل جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا۔یہ بھی قرآن کامعجزہ ہے کہ اس نے کعبہ سے بتوں کے دورکئے جانے کے موقعہ کے لئے جوآیت رکھی ہے ۔و ہ شعر کی طرح موزوں ہے۔ اس قسم کی خوشی کاموقعہ انسانی طبیعت کو شعر کی طرف راغب کرتا ہے ۔قرآ ن شعر نہیں مگراس کی آیات کے بعض ٹکڑے شعرکی سی موزونیت رکھتے ہیں ۔یہ آیت بھی اگراس کے شروع سے قل کالفظ اڑادیاجائے توشعر کی طرح موزوں ہوجاتی ہے ۔جاء الحق وزھق البطل ایک مصرعہ اوران الباطل کان زھوقا۔دوسرامصرعہ ہوتاہے ۔قل نے اس کو شعرکی تعریف سے نکا لدیا ۔لیکن جب ا س کے پڑھنے کاموقعہ آیا توچونکہ ا س آیت کو قل کے بغیر پڑھناتھا اس وقت یہ آیت اپنے شاندا رمعانی کے علاوہ ایک موزوں کلام کابھی کام دیتی تھی ۔اوراس خوشی کے موقعہ کے عین مناسب حال تھی ۔جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ آیت پڑھتے دیکھ کر صحابہ کس طرح لہریں لے لے کر اس آیت کو پڑھتے ہوں گے اورکس طرح ان کے ایما ن ہرلحظہ او رہرمنٹ بڑھتے ہوں گے ۔ا س کاانداز ہ اصحاب ذوق ہی لگاسکتے ہیں ۔
وننزل من القرآن ماھو شفاء ورحمۃ للمومنین ولایزید الظالمین الا خسارا٭
اورہم قرآن میں سے آہستہ آہستہ وہ( تعلیم) اتاررہے ہیں جو مومنوں کے لئے (تو)شفاء اوررحمت (کاموجب )ہے ۔اورجو ظالموں کو صرف خسار ہ می بڑھاتی ہے ۸۳؎
۸۳؎ حل لغات ۔خساراً خَسِرَ کامصد رہے خَسِرَ التاجر فی بیعہ کے معنے ہیںتاجرکو اپنی تجارت میں گھا ٹا ہوا۔ضل الرجلُ۔ضلَّ گمراہ ہوگیا ۔ھلک ۔ہلاک ہوگیا (اقرب)
تفسیر ۔اس کامطلب یہ ہے کہ ایک ہی چیز مختلف نظروں سے دیکھی جاتی ہے ۔اورجیسی کسی کی فطرت ہوتی ہے ۔ایسا ہی و ہ دوسر ی چیز وں کو سمجھتاہے ۔کتناہی اعلیٰ اورپاک کلام کیوں نہ ہو ۔لیکن گندے والے انسان کو اس میں گند ہی نظرآتے ہیں ۔میں یہ دیکھ کرحیران رہ جاتاہوںکہ پنڈت دیانند صاحب کو قرآن مجیدکے ابتداء سے لیکر آخر تک اعتراض ہی اعتراض نظرآئے ۔ اورانہیں کوئی خوبی اس میں دکھائی نہ دی یہی معنی اس آیت کے ہیں ۔کہ ظالم اس پر نکتہ چینیا ں کرکے اور بھی اپنے گناہوں کو بڑھاتے ہیں۔
ان عام معنوں کے علاوہ میرے نزدیک اس آیت کے یہ معنی بھی ہیں ۔کہ اس جگہ قرآن سے مراد وہ خاص حصہ ہے جوپہلے اترچکا ہے ۔یعنی مومنوں کی ترقی اورکامیابی کی پیشگوئیاں اوردشمنوں کی بربادی اور تباہی کی خبریں ۔فرمایا کہ ان خبروں کے پوراہونے کاوقت آگیا ہے ۔ان پیشگوئیوں کے نتیجہ میں مسلمانوں کے زخمی دلوں کو شفاحاصل ہوگی ۔اوران کے زخم مندمل ہو ں گے ۔ان کے ترقی کے سامان پیداہوں گے مگریہی پیشگوئیاں کافروں کے حق میں نقصان اور تباہی کے سامان ساتھ لائیں گی ۔
واذاانعمناعلی الانسان اعرض ونابجانبہٖ واذا مسہ الشر کان یئوسا ٭
اور جب ہم انسا ن پر انعام کریں تووہ روگردان ہو جاتاہے اوراپنے پہلو کو (اس سے )دور کرلیتاہے ۔اورجب اسے تکلیف پہنچے تو وہ بہت ہی مایوس ہوجاتاہے ۸۴؎
۸۴؎ حل لغات ۔ناٰبجانبہ۔نا کے معنے ہیں بَعُدَ دور ہوا۔ب لازم فعل کو متعدی بنانے کے لئے ہے پس ناٰبجانبہ کے معنی ہوںگے اس نے اپنے پہلو کو دورکرلیا (اقرب)
یؤُساً۔یہ یَئِسَ سے مبالغہ کاصیغہ ہے ۔یؤُوس کے معنی ہیں بہت مایوس ہونے والا(اقرب)۔
تفسیر ۔اس میں بتایا کہ مومن اور کافر میں بڑافرق ہے ۔مسلمانوں نے متواتر تیرہ سال تک مشکلات اورمصائب برداشت کئے ۔ماری کھائیں اورعذاب سہے مگر اف تک نہ کی ۔لیکن ان کافروں پر جب عذاب شرو ع ہوگااورمومنوں کی ترقی کے سامان ہوں گے تویہ کفار اسی دن ہتھیا ر ڈال دیں گے اورناامید ہوجائیں گے ۔چونکہ کافرکو خداپر ایمان نہی ہوتا ۔اس لئے و ہ ذراسی تکلیف سے بھی گھبراجاتاہے ۔مگرمومن خداکے لئے سب کچھ دلیری اورجرأت سے برداشت کرتاہے ۔
قل کل یعمل علی شاکلتہٖ فربکم اعلم بمن ھو اھدیٰ سبیلاً٭
تو(انہیں)کہہ(کہ ہم میں سے )ہرایک (فریق )اپنے (اپنے)طریق پر عمل کررہا ہے پس (اپنے رب پر ہی فیصلہ چھوڑ دو ۔کیونکہ ) تمہاررب اسے جو زیاد ہ صحیح راستہ پر ہے بہترجانتا ہے (اس لئے اس کافیصلہ سچے کی سچائی کو ضرور روشن کردیگا ) ۸۵؎
۸۵؎ حل لغات۔شاکلتہ ٗ۔اس کاماد ہ شَکَل ہے ۔اس کے معنی یہ ہیں الشکل۔صورت ۔شکل۔الناحیۃ۔طرف ۔النیۃ۔نیت ۔الطریقۃ۔ طریق ۔المذھب ۔راستہ ۔مذہب ۔الحاجۃ۔ضرورت(اقرب)
تفسیر ۔فرماتاہے منکرین سے کہہ دے کہ ہرشخص اپنے اپنے طریق پراوراپنی اپنی شکل و صورت اپنی اپنی قابلیت ۔اپنے اپنے دین اور اپنی اپنی نیت کے مطابق عمل کرتاہے ۔مومن کی نیت چونکہ خداتعالیٰ کاحصول ہوتی ہے ۔اس لئے وہ دنیا کے چلے جانے پرگھبراتانہیں۔بلکہ سب ابتلائوں کادلیری سے مقابلہ کرتا ہے۔لیکن کافرچونکہ دنیا پرست ہوتاہے او راس کاساراعمل دنیا کی خاطر ہوتاہے جب وہ دنیا کو جاتے دیکھتاہے توگھبراکرہتھیار ڈال دیتاہے ۔فرمایا تمہارارب خو ب جانتا ہے کہ کون ہدایت کی راہ پر عمل کررہا ہے ۔یعنی خداتعالیٰ بھی اس کے ساتھ ویساہی سلوک کرتاہے ۔جیسی کہ اس شخص کی نیت ہوتی ہے ۔فرمایاہم عمل کوبھی دیکھیں گے اورنیت کوبھی ۔اورپھر دونوں کے مطابق معاملہ کریں گے ۔جوخداتعالیٰ کی رضاکو مدنظررکھیں گے اوراس کے دین کے لئے قربانیاں کریں گے ۔ان کی تائید ونصرت کی جائے گی ۔
میں پچھلی آیات کی تفسیر میں کفار مکہ کومدنظر رکھا ہے لیکن یہی مضمون یہود کے متعلق بھی چسپا ں ہوتاہے ۔اوروہ بھی اس میں شامل ہیں ۔انہوں نے بھی مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کامقابلہ کیا ۔اورآخر تباہ وبرباد ہوئے ۔اورخیبر کی جنگ کے بعد ان کاعرب سے صفایا ہوگیا۔اورانہوں نے بھی دعوے توبڑے کئے مگر جب مسلمان مجبو رہوکر دفاع کے لئے کھڑے ہوگئے تواس طرح بزدلی سے ہتھیار ڈال دئے کہ ہمیشہ تاریخ ان کی بزدلی کی داستان بطور مثال قائم رکھے گی ۔
ویسئلونک عن الروح قل الروح من امر ربی ومااوتیتم من العلم الاقلیلاً٭
اورو ہ تجھ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں تو(انہیں )کہہ(کہ )روح تیرے رب کے حکم سے (پیداہوتی)ہے اورتمہیں (اس کے متعلق )علم سے کم ہی حصہ دیا گیاہے ۔ ۸۶؎
۸۶؎ حل لغات ۔الرُّوح کے لئے دیکھو حجر ۲۷؎
تفسیر ۔یہ روح جس کے متعلق سوال کیا گیاہے کیا چیز ہے ؟مفسرین نے اس کی مختلف تاویلیں کی ہیں بعض نے اس سے جبرائیل مراد لیا ۔اوربعض نے اس سے مراد قرآ ن کریم کو لیا ہے ۔کیونکہ اس سے پہلے بھی اوربعد میں بھی قرآن کریم کاذکر ہے (بحر محیط)بعض نے وہ فرشتہ مراد لیا ہے جس کے سپرد دنیا کی پیدائش ہے ۔بعض نے کہا ہے کہ ہر ایک فرشتہ کوروح کہتے ہیں ۔اوربعض کے نزدیک ایک خاص فرشتہ ہے ۔جس کو اللہ تعالیٰ نے صرف اپنی تسبیح کے لئے پیداکیا ہے بعض نے تواس روایت کو صحابہ رضوان اللہ علیھم تک پہنچایا ہے کہ اس کے سوسر ہیں ۔ہرایک سر میں سو مونہہ ہیں ۔اورہرایک منہ میں سوزبان ہے ۔اورہرایک زبان سوسوبولی میں خدتعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے ۔انہوں نے غالباً ا روایت کو بیان کرکے سمجھ لیا ہے کہ شاید اس طرح خداکی تسبیح کاحق پوراہوجائے گا ۔ حالانکہ اس تسبیح سے زیادہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہی اللہ تعالیٰ کی تعریف کررہی ہے ۔سار ی دنیا میں مسلمان پھیلے ہوئے ہیں ۔ہزاورں بولیا ں بولتے ہیں ۔اورہرزبان می آپ کی تعریف کررہے ہیں ۔استاذی المکر م حضرت مولوی نورالدین صاحبؓاس جگہ روح کے معنی کلام الٰہی کیاکرتے تھے ۔اوریہ معنی اوپر کے تمام معنوں سے اچھے ہیں اورزیاد ہ صحیح ہیں ۔کیونکہ اس سے پہلے اوراس آیت کے بعد بھی قرآن کریم کاہی ذکر ہے ۔مگرحضرت مسیح موعودؑ بانی سلسلہ احمدیہ نے نہایت وضاحت سے اس آیت پر بحث کی ہے ۔اوراس کے معنی انسانی روح ہی کے لئے ہیں ۔اورفرمایاہے کہ اس آیت میں روح کے متعلق بہت بڑے معارف بیان کئے گئے ہیں ۔
اس آیت میں جو یہ فرمایاہے کہ لوگ سوال کرتے ہیں کہ روح کیا ہے ۔اس کے متعلق احادیث میں مختلف روایات آتی ہیں ۔بعض میں تولکھا ہے ۔کہ یہ سوال یہود نے مدینہ میں کیاتھا ۔مگر اس کے خلاف یہ بات پیش کی جاتی ہے کہ یہ سورۃ مکی ہے ۔اس کاجواب وہ لو گ یہ دیتے ہیں ۔کہ اس سورۃ کی بعض آیتیں مدنی ہیں (مگر جیساکہ میں اوپر بیان کرآیا ہوں یہ درست نہیں )
بعض نے کہا ہے کہ یہ سوال پہلے مکہ میں ہواتھا ۔اورپھر دوبارہ مدینہ میں ہواعبداللہ بن مسعودؓکی روایت ہے کہ یہ سوال مدینہ میں ہواتھا۔اورعجیب بات یہ ہے کہ وہی اس بات کے راوی ہیں۔کہ یہ سورۃ مکی ہے ۔اسکاجواب بعض علماء نے یہ دیاہے کہ یہی سوا ل دوبار ہ پھر مدینہ میں ہواہوگا۔
جولوگ اس کومکہ کی روایت قراردیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ مکہ کے بعض لوگ مدینہ گئے تھے ۔اوروہاں جاکر انہوں نے یہود سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاذکر کیا ورکہا کہ اس طر ح پر ایک مدعی نبوت ہم میں کھڑاہواہے ہم اس سے کیا سوال کریں ۔جس سے اس کاجھوٹ کھل جائے ۔انہوں نے جواب دیا کہ روح اوراصحاب کہف اورذوالقرنین کے متعلق اس سے سوال کرو۔اس پر ان لو گوں نے مکہ میں واپس آکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا ۔اوریہ آیت نازل ہوئی ۔
میرے نزدیک پہلی دفعہ سوال مکہ می ہی ہواہے ۔اوروہیں اس کاجواب ملا ہے ۔ممکن ہے مدینہ می بھی یہود نے سوال کیا ہو۔بلکہ اغلب ہے کیونکہ جب یہود کی انگیخت سے یہ سوال ہوا تھا توانہوں نے بھی ضروریہ سوال کیا ہو گا۔مگر یہ درست نہیں کہ دوبار ہ یہ آلیت اتری ۔بلکہ جب مدینہ میں یہ سوال ہواہوگا ۔تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت جواب میں پڑھ دی ہوگی ۔اس واقعہ کو کسی راوی نے بیا ن کیا ۔اوربعد کے راویوں میں سے کسی نے سمجھ لیاکہ شائد اس سوال کے جواب میں یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی تھی ۔
سوال کی حقیقت بیان کرنے کے بعد میں جواب کو لیتاہوں ۔مفسرین لکھتے ہیں۔کہ اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے متعلق سوالوں کلے جواب تواللہ تعالیٰ نے تفصیلاً دیئے ۔اوراس سوال کاجواب یہ دیا ہے کہ روح خداکے حکم سے ہوتی ہے ۔اورتم کواس بارہ میں بہت ناقص علم دیا گیا ہے ۔اس لئے تم اس کی حقیقت کونہیں سمجھ سکتے ۔اس لئے ہم تفصیل سے جواب نہیں دیتے اسپر یہود شرمندہ اورخاموش ہوگئے ۔
س جواب پر آریہ مصنفین نے بہت اعتراض کئے ہیں ۔اولکھاہے کہ اس جواب سے یہود کوشرمند ہ ہونے کی کیاضرورت تھی ۔کونسا مدلل و مسکت جواب دیا گیا تھا کہ وہ شرمند ہ ہوجاتے ۔
جیسا کہ میں اوپر لکھ آیا ہوں ۔استاذی المکر م حضرت مولوی نورالدین صاحب اس کے یہ معنی کرتے تھے ۔کہ روح سے مراد اسجگہ کلام الٰہی ہے ۔اورجواب یہ دیاگیاہے کہ کلام الٰہی حکم الہی سے نازل ہوتاہے۔اوراس کی ضرورت یہ ہے کہ تم کو بہت کم علم دیا گیا ہے ۔پس انسان علم کے ناقص ہونے کی صورت می ضروری تھاکہ اللہ تعالی انسان کے علم کو رواحانیت کے بارہ میں مکمل کرتا ۔اس ضرورت کے ماتحت اس نے اپنا کلام نازل کیاہے ۔جیسا کہ میں بحر محیط کے حوالہ سے اوپر لکھ آیاہو ں پر انے مفسرو ںمیں سے بعض نے روح سے قرآن کریم مراد لیا ہے ۔اوران کی تفسیر استاذی المکرم کی تفسیر سے ملتی ہے ۔لیکن جیساکہ ظاہر ہے کہ روح سے قرآ ن کریم مراد لینا اس قدر واضح نہیں جس قد رکہ کلام الہی کامراد لینا ۔اس لئے اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت استاذ ی المکرم کاقوم زیادہ واضح اورموقعہ کے مناسب ہے ۔
میں ایک عرصہ تک انہی معنوں پر حصر کیاکرتاتھا ۔مگر جب میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ احمدیہ کی بعض تحریرات کو غو ر سے پڑھا ۔تومجھے اپنے خیا ل میں کچھ تبدیلی کر نی پڑی ۔اورتسلیم کرناپڑ ا کہ روح انسانی کی طرف بھی اس میں اشارہ ہے ۔او ران معنوں سے آیت کامضمون بہت وسیع اوربہت لطیف ہوجاتاہے ۔آپ تحریر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی خلق دوطرح کی ہے ۔(۱)ابتدائی خلق جو بغیر مادہ کے ہویت ہے ۔(۲)بعد کی خلق جوپہلے سے پیداکئے ہوئے مادہ سے ہوتی ہے ۔جس خلق میں اللہ تعالیٰ دنیوی اسباب سے کام لیتاہے ۔یعنی یسے ذرائع کواستعمال کرتا ہے ۔جوکسی چیز کی پیدائش سے پہلے موجود ہوں ۔اس کانام خلق رکھا جاتا ہے۔اورجس چیز کو اللہ تعالیٰ بغیر ان ذرائع کے جوپہلے سے موجود ہو ںپیداکرتاہے اس کانام امر رکھا جاتاہے ۔جس کی طرف کن فیکون کے لفظ میں اشارہ کیا گیا ہے اس آیت میں اسی قسم کی تخلیق کے متعلق جوب دیاگیا ہے ۔جواذن الہی سے ہوتی ہے ۔ آپ نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر کوئی آریہ اس پر اعتراض کریگااورمیرے مقا بل آئے گا تومیں ایک رسالہ لکھوں گا جس میں بتائوں گاکہ قرآن کریم نے روح کے اندر کیاکیاقوتیں اورطاقتیں بیان فرمائی ہیں ۔مگر افسوس کہ کوئی آریہ مقابل پر نہ آیا ۔اورہم اس قیمتی خزانہ سے محروم رہ گئے۔جو ہم کومفت می ملنے والاتھا۔پھر بھی آپ کی بعض کتب سے رہنما ئی حاصل کرکے ہم ایک کافی علم اس بار ہ میں حاصل کرتے ہیں ۔اورشاید اللہ تعالیٰ نے بقیہ علم کو کسی حکم کے ماتحت کسی اورزمانہ کے لئے محفوظ کرچھوڑاہو ۔
اب میں ان معنوں کی بناء پر جو بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام نے کئے ہیں ۔اس آیت کی تشریح اپنی سمجھ کے مطابق کرتاہوں ۔اورمجھے یقین ہے کہ جو شخص بھی تعصب سے خالی ہوکر ان معنو ں پرغورکرے گا ۔و ہ محسوس کرے گاکہ اس آیت میں یہود کے سوال کو بے جواب نہیں چھوڑاگیا بلکہ ا سکانہایت لطیف اور مسکت جواب دیا گیا ہے ۔اس جواب سے یہ بھی معلوم ہوجائے گاکہ جن لوگوں نے اس جگہ روح کے معنی کلام الہی کے کئے ہیں ۔یاقرآن کریم کے کئے ہیں ۔انہوں نے بھی غلطی نہیں کی ۔بلکہ صداقت ہی کو بیان کیاہے ۔
بات یہ ہے کہ پہلی آیتا میں قرآن کریم کی فضیلت اوراس کی ضرورت کوبیان کیاگیا تھا ۔بلکہ پہلی دوسورتوں میںاسی مضمون پر سارازور تھا ۔سورۃ حجر اورسورۃ نحل جیسا کہ میں ثابت کرآیا ہوں ۔قرآن کریم کی طاقت اوراس کی قوت کے متعلق ہی دلائل بیا ن کرتی ہیں ۔اس سورۃ میں بھی یہی بیان کیاگیاہے کہ جب تک یہود کلام الہی سے وابستہ رہے ترقی کرتے رہے جب انہوں نے کلام الہی کو چھو ڑ دیا ۔توان پرعذاب نازل ہوا۔یہود چونکہ اپنے خیال میں یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم پر سبت کی بے حرمتی کی وجہ سے عذاب آیا ہے انہیں یہ مسئلہ عجیب معلوم ہوا بلکہ برابھی لگا ۔خصوصاً اس لئے کہ عیسائی لوگ مسیح کوکلمۃ اللہ کے نام سے موسوم کرتے تھے ۔پس یہ الفا ظ کہ خدائی کلام کے انکار کی وجہ سے ان پر عٓذاب آیا ۔انہیں بہت دکھ دیتے تھے ۔ادھر یہود میں ایک اورنقص بھی پیداہوگیاتھا ۔جو مایو س اقوا م میں عام طور پر پیداہوجایا کرتا ہے ۔اوروہ یہ کہ جب وہ کلام الہی سے محروم ہوگئے ۔اورنبوت کاسلسلہ ان میں بند ہوگیا۔ تووہ جھوٹے تصوف کی طرف راغب ہوگئے ۔اورخاص خاص مشقوں کے ذریعہ سے بزعم خود اپنی روحانی طاقتوں کے بڑھانے میں مشغول ہوگئے ۔کوئی توذکر اذکار کے ذریع ہسے اپنی قوتوںکو بڑھاتا۔اور کوئی اسم اعظم کوقابو می لاکر اپنی روحانیت کو ترقی دیتاتھا ۔اوریہ سب لوگ خیال کرتے تھے کہ جو کمی وحی الہی کے نہ آنے سے پیداہوگئی تھی ۔وہ ا س طرح سے انہوں نے دور کرلی ہے۔یہ مرض حضرت دائود کے زمانہ سے پیداہوئی اورحضرت مسیح کے نزول کیی وقت تک بہت ترقی کرگئی ۔ان کاخیال تھا کہ ارواح کوقابو میں لاکر یااپنی روح کوجلادی کر انسان بہت بڑے بڑے معجزات دکھا سکتاہے ۔اورعلوم غیبیہ کوپاسکتا ہے ۔اوروہ اس علم کو دوحصوں میں تقسیم کرتے تھے ایک جائز علم جسے وہ اسم اعظم سے وابستہ کرتے تے ۔اورایک ناجائز جسے وہ بعل سے تعلق کا نتیجہ بتاتے تھے ۔چنانچ جب حضرت مسیح علیہ السلام نے دعوی کیا اورمعجزات دکھائے توانہوں نے ان کے معجزات کی یہی تشریح کی ۔کہ اس کابعل کے ساتھ تعلق ہے ۔چنانچہ اس کاذکر انجیل می ان لفاظ میں آتاہے ۔’’فقیہہ جو یروشلم سے آئے تھے یہ کہتے تھے کہ اس کے ساتھ بعلز بول ہے ۔اوریہ بھی کہ وہ بدروحوں کے سردارکی مدد سے بدروحوں کو نکالتا ہے ۔وہانہیں پاس بلاکر تمثیلوں میں انسے کہنے لگا ۔شیطان کو شیطان کس طرح نکال سکتاہے ۔‘‘(مرقس باب ۳آیت ۲۲۔۲۳)
(یہی ذکر متی باب ۹آیت ۳۴و باب۱۰۔۲۵۔لوقاباب ۱۱۔۱۵ اوریوحنا باب ۷۔۲۰ اورباب ۸۔۴۸۔۲۵ وباب ۱۰۔۲۰میں بھی آتاہے )بعل زبویا بعل زبول یابعل زبوب درحقیقت ایک ہمسایہ قوم کادیوتا تھا ۔چونکہ اس کی نسبت لوگوں میں معجزات مشہور تے ۔یہو د میں جب جادوکاخیال پیداہواتووہ اس کے متعلق یہ خیا ل کرنے لگے کہ یہ بعل سفلی دنیا کاسردار ہے ۔اوراس سے تعلق پیداکرکرے کفار لوگ معجزات دکھاتے ہی ۔(انجیل کے مذکورہ بالا حوالہ جات نیز انسائیکلو پیڈیا ببلیکا نیز جوئش انسائیکلوپیڈیا زیر لفظ بیل زبو ل)اسکے برخلاف جو روحانی طاقتیں بزعم خود و ہ حاصل کرتے تھے انہیں اسم اعظم کا نتیجہ بتاتے تھے۔اوراس جادوکو جائز جادو سجھتے تھے۔ جوئش انسائیکلوپیڈیا میں لکھاہے ۔کہ مسیح سے کم سے کم تین سوسال پہلے سے اسم اعظم کاروج یہود میں پایا جاتاہے (میں بتاچکا ہوں کہ میری تحقیق میں حضرت دائود کے زمانہ سے ان می یہ خیال پیداہوچکاتھا ۔حضرت سلیمان کے زمانہ میں اورترقی کرگیا ۔)و ہاسم اعظم کی نسبت یہ مشہورکرتے تھے ۔کہ وہ نہ بولاجاسکنے والانام ہے (جوئش انسائیکلو پیڈیا زیر لفظ NAMES)یہود میں جوجادوگر تھے ۔وہ اس کانام خاص طور پر اشاروں می لکھتے تھے ۔یہ لوگ خصوصاً مصر میں پائے جاتے تے ۔(حوالہ متذکرہ بالا)یہود کاخیال تھا کہ سیاہ جادواورسفید جاودودونوں حق ہیں ۔سیاہ جادو شیطانوں سے تعلق کی وج سے حاصل ہوتاہے ۔اورسفید جادواسماء الہی سے تعلق کی وجہ سے ۔سیاہ جادومنع ہے ۔اورسفید جادو جائز ہے ۔لکھا ہے کہ علماء یہود سیاہ جادو کے مخالف تھے ۔مگر سیا ہ جادوکامقابلہ کرن کے لئے سفید جادو کے استعمال میں ہرج نہ دیکھتے تھے ۔علماء یہود میں(بقول ان کے)اس جادو کے ذریعہ سے اس قدر طاقت پیداہوجاتی تھی ۔کہ وہ ایک نظر ڈال کر دشمن کو بھسم کردیتے تھے ۔یااسے ہڈیوں کاایک ڈھانچہ بنادیتے تھے ۔بیماروں کواچھا کرتے تھے ۔ان امور اکاان میںا سقدر رواج تھا کہ یونانی اوررومی لوگ یہود کوجادوگرکہاکرتے تھے ۔(جوئش انسائیکلوپیڈیا زیرلفظ میجک یعنی جادو جلد ۸)
اس کیی علاوہ یہود کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ مردہ ارواح سے تعلق پیدکرکے غیب کے علوم معلوم کئے جاسکتے ہیں ۔چنانچہ تورات میں بھی اس کاذکر ہے اوراس سے منع کیاگیا ہے ۔استثناء باب ۱۸۔۱۱میں بھی ا س کا ذکر آتاہے ۔اوراوربہت سی آیات میں بھی ۔اسی طرح یسعیا ہ باب ۸۔۱۹میں بھی ایسے لوگوں کاذکر کیا گیا ہے جوارواح سے تعلق پید اکرکے غیب کاحال معلوم کرتے تھے ۔ اوران سے تعلق پیداکرنامنع کیا گیا ہے ۔یسعیاہ کہتے ہیں کہ جولوگ تجھے ایسے لوگوں سے تعلق پیداکرنے کو کہیں توان سے کہہ کہ’’کیازندوں کی نسبت مردوں سے سوال کریں ‘‘۔جوئش انسائیکلوپیڈیا می لکھا ہے بنی اسرائیل نے یہ فن غالباایرانیوں سے سیکھ اتھا۔اوران میں کثر ت سے اس کاراج پایاجاتاتھا ۔(جلد ۹زیر لفظ نیکرمنسی یعنی علم الارواح)خلاصہ یہ کہ یہود کاعقیدہ تھا کہ ارواح سے تعلق پیداکرکے غیب کے علوم دریافت کئے جاسکتے ہیں ۔اورگوان کواس سے منع کیا گیا تھا ۔مگر پھر بھی وہ کثرت سے ا س علم کوسیکھتے اوراس پر عمل کرتے تھے
موجودہ زمانہ میں بھی اس کابہت رواج ہے ۔یورپ میں اس علم کو سپر چولسٹ کہتے ہیں ۔یعنی روحانین تھیا سوفیکل سوسائٹی کی بنا ہی اس علم پر ہے ۔موجودہ تھیاسونی کی بانی مسز اینی بسنٹ کایہ عقید ہ تھا ۔کہ ارواح سے وہ بہت کچھ سیکھتی ہیں ۔اوروہ اس کے ماتحت غیب کی خبریں بھی بتاتی تھیں ۔چنانچہ بزعم خود انہوں نے ا س علم سے کام لے کر ایک بڑے اوتار کے آنے کی خبر دی تھی۔ جس کی نسبت ان کاخیال تھا کہ کرشنا مورتی اس کامصداق ہے ۔ا ب یہ نوجوان جوتعلیم دیتاہے ۔وہ قریباًدہریت کی تعلیم ہے ۔
گزشتہ جنگ یورپ میں جب بہت سے گھرانوں کے نوجوان مارے گئے ۔اس کی طرف خاص توجہ ہوگئی ۔اورسرکینن ڈائل مشہور مصنف نے اپنی آخری عمراپنے ایک لڑکے کی یاد میں اس علم میں گزاردی ۔مشہور ادیب اورسیاستدان ڈبلیو ٹی سٹڈ بھی اسی خیال کے تھے ۔اورانہوں نے اپنے تجربوں کی کتاب بھی شائع کی ہے۔مشہور سائنسدا ن سرآلیورلاج بھی آخری عمر میں اس عقید ہ کے ہوگئے تھے ۔کہ ارواح سے تعلق پیداکیاجاسکتاہے اورانہوں نے بھی کئی کتب اس بار ہ میںلکھی ہیں ۔ہندوئوں میں یوگاکے نام سے یہ علم رائج ہے ۔اوران کے ایک شاسترمیں جسے پتنجلی کایوگ شاستر کہتے ہیں اس مضمو ن پرخاص بحث کی گئی ہے ۔مسلمان صوفیاء نے بھی تنز ل کے زمانہ میں اس علم کی طرف توجہ کی ۔اورعلم اشراق اورحاضرات وغیرہ کے نام سے بہت کچھ رطب و یابس اس پر لکھاہے ۔اورکہاہے اوراس نام نہاد علم کو استعمال کیاہے ۔
خلاصہ یہ کہ علم الارواح ایک قدیم علم ہے ۔اوریہود میں اس کاخاص رواج تھا ۔خصوصاً جب ان کاتعلق دین سے کم ہوااورالہام کادروازہ بند ہواتووہ اس کیطرف بہت متوجہ ہوگئے ۔حضرت مسیح ناصر ی کے وقوت میں ایک فرقہ یہود کا اسینیوں کے نام سے تھا ۔جن کی نسبت انجیل میں فریسیوںکے لفظ سے اشارہ کیاگیاہے ۔بعض لوگوں کاخیال ہے کہ حضرت مسیح اسی فرقہ سے تعلق رکھتے تھے ۔چنانچہ ایک پرانانسخہ کتاب کا جرمنی میں ملا ہے ۔جس میں ایک اسینی نے دعویٰ کیا ہے کہ مسیح ہمارے فرقہ کے ایک آدمی تھے۔اورمسیح کی زندگی کے حالات عجیب پیرایہ میں اس میں لکھے ہیں۔اوریہ بھی لکھا ہے کلہ و ہ صلیب پر سے زندہ اترآئے تھے ۔دیکھو THE CRUCIFIXION BY AN EYE WITNESS یہ کتاب میرے کتب خانہ میں موجود ہے ۔اس فرقہ کی نسبت انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا میں لکھا ہے ۔کہ یہ لو گ روزے رکھتے ۔اوربڑی پا ک زندگی بسرکرتے تھے ۔اورغیب کی خبریں بتاتے ھے ۔اورمعجز ے دکھاتے تھے ۔چنانچہ فائلو philo ان کی نسبت لکھتاہے ۔کہ غیر قوموں کے جادوگروں سے مرعوب نہ ہوناچاہیئے ۔ ہمارے اند ر بھی ایسے لوگ موجود ہیں ۔اورا س نے مثال کلے طور پر اسینیوں کو پیش کیا ہے ۔جوزیفس مشہور یہودی مصنف بھی ان کے ذکر میں لکھتاہے کہ وہ پیشگوئیاں کرتے تھے ۔اورغیب کی خبریں بتاتے تھے ان کی نسبت لکھا ہے کہ عبادت کے وقت مراقبہ کرتے تھے ۔تاان کی ارواح کاتعلق آسمانی باپ سے پیداہوجائے اوران کیی لیڈر اسم اعظم کے جاننے کادعویٰ کرتے تھے جوبقول ان کے بیالیس حرفوں کاہے ۔یہ لوگ عورتوں سے الگ رہنے کو پسند کرتے تھے ۔تاکہ ’’مزید الہام ان پر نازل ہو‘‘۔(انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا جلد۸صفحہ ۷۱۸تا۷۲۰) ایسامعلوم ہوتاہے کہ مدینہ کے یہود اسی فرقہ سے تعلق رکھتے تے ۔کیونکہ حدیث می آتاہے کہ مدینہ کے یہود میں سے ایک شخص عبداللہ بن صیاد پیشگوئیاں کیاکرتاتھا جب اس کی خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی توآپ ا س کاامتحان کرنے کے لئے گئے ۔اورچونکہ وہ غیب کے علم کادعویٰ کرتا تھا ۔آپ نے اس سے پوچھا ۔ کہ میں نے اپنے ذہن میں ایک لفظ رکھا ہے ۔تم بتائو کہ وہ کیاہے ۔آپ نے سورہ دخان کی آیت فارتقب یوم تاتی السمائُ بِدُخَانٍ مبین۔ذہن میں رکھی تھی ۔اس نے سوچ کرجواب دیا۔دخ۔دخ اورآگے خاموش ہوگیا ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔لن تعدوقدرک توجس حیثیت کاہے ۔اس سے آگے نہ بڑھے گا۔یعنی تیراعلم دماغی ہے ۔توالٰہی اخبار کونہیں بتاسکتا ۔اس شخص کے متعلق صحابہ کوخیال تھا کہ یہ دجال ہے ۔چنانچہ حضرت عمر ؓ نے اسے قتل کرنے کااراد ہ کیا۔مگررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو یہ کہہ کرمنع فرمایا۔کہ اگریہ دجال ہے توتم اس کومار نہیں سکتے ۔اوراگریہ دجال نہیں تواس کامارناناجائزہے ۔بہرحال اس واقعہ سے معلو م ہوتاہے کہ مدینہ کے یہود می اس قسم ک لوگ موجود تھے ۔جوارواح سے تعلق رکھنے کے مدعی تھے ۔اوریہ اس امر کاثبوت ہے کہ وہ اسینی فرقہ کے لوگوں سے تعلق رکھتے تھے ۔
اس تمہید کے بعد میں یہ بتاناچاہتاہوں کہ جب قرآن کریم نے غیب کی خبریں بتائیں ۔اورکفار نے جواب سے عاجز آکر یہود سے اس بار ہ می مدد چاہی توانہوں نے ان سے کہا کہ اس شخص سے روح کے متعلق سوال کرویعنی روح میں کیاکیا قوتیں ہیں ۔اس سوال کے جواب سے وہ پکڑاجائے گا ۔ان کاخیال تھاکہ اگر توآپ یہ جواب دیں گے ۔کہ روح میں بڑی بڑی طاقتیں ہیں ۔جن سے وہ علم غیب معلوم کرلیتی ہے ۔توہم کہیں گے کہ پھر قرآنی علوم کو ہم خداتعالیٰ کی طر ف سے کیوں سمجھیں ۔کیوںنہ اسے آپ کی بعض روحانی مشقوں کانتیجہ قرار دیں ۔اوراگر آپ یہ جواب دیں گے کہ روح میں کوئی ایسی طاقت نہیں ہے ۔توہم آپ کے اس جواب پر آپ کی جہالت کوثابت کریں گے ۔گویا ان کے نزدیک قرآنی علوم محض ایک دماغی مشق کانتیجہ تھے ۔
اس امر کاثبوت کہ یہود میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اراح سے تعلق پیداکرنے کا خیال پایاجاتاتھا۔قرآن کریم سے بھی ملتا ہے ۔چنانچہ سورئہ جن میں ایک ایسی جماعت کاذکر کرکے جوموسیٰ پر ایمان لائی تھی اورجن کی نسبت میں پہلے ثابت کر آیا ہوں ۔کہ وہ انسان ہی تھے ۔ان کایہ قول نقل فرمایاہے۔ اناکنا نقعد منھا مقاعد للسمع(سورہ جن ع۱)کہ ہم آسمانی خبروں کومعلوم کرنے کے لئے آسمان کی طرف توجہ کرکے بیٹھاکرتے تھے ۔یعنی مراقبہ کیاکرتے تھے ۔
اگریہود ایساسوال نہ کرتے تب بھی قرآن کریم میں اس سوال پر روشنی ڈالنی ضرو ری تھی۔کیونکہ یہ عقیدہ درحقیقت سب سچے مذہبوں پرحملہ ہے ۔اوراس سے یہ ظاہرہوتاہے کہ خداتعالی کے بتائے بغیر بھی انسان ارواح کی مدد سے ہدایت کے اصول دریافت کرسکتاہے ۔جیساکہ تھیاسونی والے ظاہر کرتے تھے ۔اوراس عقیدہ کے روسے ہرشخص جو بعض نام نہاد روحانی مشقیں کرے ۔علوم غیبیہ سے آگاہ ہوسکتا ہے ۔ظاہر ہے کہ اگر یہ عقیدہ صحیح ہو تومذہب کے بارہ میں امن بالکل اٹھ جاتا ہے ۔
قرآن کریم اس سوال کاجواب یہ دیتا ہے کہ قُلِ الرُّوحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ۔اے محمد رسول اللہ توان سے کہہ دے کہ روح کامل یعنی جوروح خداتعالیٰ سے صحیح تعلق رکھتی ہے اوربعض علوم غیبہ سے آگاہ کی جاتی ہے من امرربی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم سے تیارہوتی ہے ۔بغیر امر رب کے کوئی روح کامل نہیں ہوسکتی ۔اورجس قسم کی مشقوں ورجادوئوںاور یوگاکوتم روح کے کامل کرنے کاذریعہ بتاتے ہو ۔یہ بالکل غلط خیا ل ہے ۔روح صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے حکم سے کامل ہوتی ہے گویا اس جگہ الروح سے مراد کامل روح ہے جوسب روحانی صفات کو اپنے اندر۔رکھتی ہو ۔جیسے کہ قرآن کریم کے شروع میں ہی آتاہے ۔الحمدللہ کامل حمد جس میں حمد کی سب ضروری صفا ت پائی جائیں اللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہے ۔انہی معنوں میں الروح کا لفظ اس جگہ استعمال ہواہے ۔اوریہ بتایاگیا ہے کہ روح کوکامل کرنے کاکا م اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھاہے ۔بغیراذن الہی کے کوئی روح کامل نہیں ہوسکتی ۔خواہ اس کے کامل کرنے کے لئے کتنے ہی یوگ استعمال کئے جائیں ۔اورکتنی ہی مشقیں کی جائیں۔اس دعوے کی ایک تازہ مثال کرشنا مورتی کاوجود ہے ۔مسز اینی بینسٹ نے اس نوجوان کو اوران کے ایک اوربھائی کو خاص طور پر یوگا کے اصول کے ماتحت پالاتھا ۔اوربڑے بڑے ماہر فن ان کی تربیت پرمقر ر کئے تھے ۔کہ روزانہ توجہ سے ان کے خیالات کودرست رکھیں۔لیکن نتیجہ یہ ہواکہ جو بڑابھائی تھا وہ تو ہروقت شکایت کرتاتھا کہ ہم قید یوں کی طرح ہیں ۔اورخوامخواہ ہم پرجبر کیاجاتاہے۔اورچھوٹابھائی جسے بڑے کی بغاوت کی وجہ سے چنا گیا۔اب عل الاعلان مسزاینی بینسٹ کے خیالات کی تردید کررہاہے ۔
اگرکہاجائے کہ قرآن کریم کایہ جواب توایک دعویٰ ہے جواب کہلانے کامستحق نہیں ۔تواس کاجواب یہ ہے کہ اس حد تک توصرف اصل بتایاگیاہے ۔سوال کاجواب آیت کے اگلے حصہ سے شروع ہوتا ہے ومااوتیتم من العلم الاقلیلا کہہ کر یہ ظاہر کیاگیا ہے ۔کہ روح کی قوتوںکو نشوونمادینے کیلئے جو مشقیں انسانوں نے بنائی ہیں ۔گوان کے نتیجہ میں بعض قوتیں روح کو حاصل ہوجاتی ہیں ۔مگرو ہ حقیقی قوتوں کے مقابلہ میں بالکل ناقص اورتھوڑی ہیں۔پس ان کی بناء پر کلام الٰہی کاانکار عقل کے خلاف ہے ۔ناقص شے کامل کی قائم مقام کسی اصورت میں نہیں ہوسکتی ۔
اس امر کاثبوت کہ یہ علم بالکل ناقص ہے میں ہمیشہ یہ دیاکرتاہوں ۔کہ مختلف مذاہب کے لوگ جواس علم کی مدد سے روحانی باتیں دریافت کرتے ہیں ۔ان کی معلوم ہوئی خبروں میں شدید اختلاف پایا جاتاہے ۔اگرروحانی مشقوں سے سابق ارواح سے حقیقی طور پر علوم دریافت کئے جاسکتے ۔تویہ اختلاف کبھی نہ ہوتا ۔بھلایہ کیونکر ممکن ہوسکتاہے ۔کہ عیسٰی علیہ لسلام کی روح ایک ہندویوگی کو کچھ اوربتاجاتی ہے ۔اورایک مسیحی روحانی کوکچھ اوربتاجاتی ہے ۔اورایک یہودی کو کچھ اوربتاجاتی ہے ۔
جولوگ اس علم کے ماہر ہیں۔ان می سے ایک صاحب مسٹر انکسنس امریکن جو بہت سی کتب کے مصنف ہیں صاف لکھتے ہیں کہ ہم کو بری اورمنذرباتوں کاعلم ہوجاتاہے ۔اورآئندہ کی اچھی خبریں نہیں ملتیں ۔یہ گویا اپنے منہ سے اقرار ہے کہ ومااوتیتم من العلم الاقلیلا۔حالانکہ انبیاء کی نسبت قرآ ن کریم میں یہ فرماتاہے ۔ومانُرسِلُ المرسلین َ الامبشرین ومنذرین (کہف)رسولوں کاپہلاکام وہ اخبارغیبیہ بتاناہے۔جوبشارتوں پر مشتمل ہوتی ہیں اوردوسراکام انذاری خبروںکابتانا ہے ۔
ولئن شئنا لنذھبن بالذیٓ اوحینا الیک ثم لاتجد لک بہ علینا وکیلا ً٭
اوراگر ہم چاہیں تویقینا جو(کلام الٰہی )ہم نے تجھ پر وحی (کے ذریعہ سے نازل )کیاہے ۔اسے (دنیاسے )اٹھالیں ۔پھر تواس امر میں اپنے لئے ہمارے خلاف کوئی کارساز نہیں پاسکے گا ۸۷؎
۸۷؎ تفسیر ۔اس آیت میں گوخطاب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے ۔مگرمراد انسان ہے۔کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کانہ توکوئی اعتراض تھانہ سوال ۔جن کاسوال تھاانہی کو جواب دیاگیاہے پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب صرف مضمون پرزوردینے کے لئے ہے ۔
فرماتاہے کہ روح بغیر امر الٰہی کے ایسی ناقص شے ہے ۔کہ علوم روحانیہ کابراہ راست لے آناتوبڑی بات ہے جوعلوم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوچکے ہیں ۔وہ اگر مٹ جائیں توان کو بھی روحانی لوگ واپس نہیں لاسکتے خواہ کتنے لوگ مل کرکوشش کریں ۔مثلاً قرآن کریم ہی ہے اس کے علوم کو اگر ہم مخفی کردیں ۔توکوئی ان علوم کوواپس نہیں لاسکتا ۔شائدکوئی کہے کہ یہ ایک دعویٰ ہے تواس کاجواب یہ ہے کہ یہ دعویٰ نہیں بلکہ زبردست ثبوت ہے کیونکہ قرآن کریم آسمان پر توجائے گانہیں ۔ان کے لئے قرآنی علوم ویسے ہی ہیں جیسے کہ دنیا سے چلے گئے ۔وہ لوگ اگر چاہیں ۔کہ قرآنی تعلیم جیسی کوئی تعلیم پیش کردیں ۔تووہ ایسانہیں کرسکتے ۔چنانچہ اگلی ہی آیت میں ا س شبہ کابھی ازالہ کردیاگیاہے ۔
اس آیت میں ا سطرف بھی اشار ہ کیاگیاہے ۔کہ قرآن کریم زمین سے اٹھ جائیگا۔اوراحادیث میں بھی یہ ذکرآتاہے ۔ابن مسعود اورابن عمرسے ابن مردویہ نے روایت کی ہے کہ قرآن کریم دنیاسے اٹھ جائے گا۔اورصرف لاالہ الااللہ رہ جائے گا ۔اسی طرح بیہقی اورابن ماجہ نے حذیفہ سے روایت کی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام اورقرآن دنیاسے اٹھ جائیں گے ۔ان رویات سے معلوم ہوتاہے کہ اس آیت میں ایک پیشگوئی بھی کی گئی ہے ۔اوربتایا گیا ہے کہ ایک وقت میں صرف قرآن کریم کے الفاظ رہ جائیں گے ۔مگر حقیقت مٹ جائے گی ۔اورجھوٹے صوفی جوارواح سے تعلقات کے دعوے کرتے ہیں قرآن کے معارف کوواپس نہ لاسکیں گے ۔
میراہمیشہ یہ طریق ہے کہ ان جھوٹے صوفیوں کے بارہ میں یہ کہاکرتا ہوں کہ قرآن کریم کی مشکل آیات میں ان کے سامنے رکھتاہوں وہ اپنی ارواح سے ان کے مطالب حل کرکے ہمیں بتادیں ۔اگر قرآنی علوم انہوں نے معلوم کرلئے توسچے ورنہ جھوٹے ۔مگریہ کام نہ آج تک کوئی کرسکانہ کرسکتاہے ۔
الارحمۃ من ربک ان فضلہ کان علیک کبیراً٭
اپنے رب کی (خاص )رحمت کے سوا(کہ وہی اسے واپس لاسکتی ہے ۔مگریہ قرآن مٹ نیں سکتاکیونکہ تجھ پرتیرے ر ب کایقینا(بہت )بڑافضل ہے ۸۸؎
۸۸؎ تفسیر ۔تیرے رب کافضل تجھ پر بڑاہے ۔جب قرآن کریم دنیاسے ٹھ جائے گا ۔توپھر تیرارب ہی اس کو لائے گا۔اس سے مراد یہ ہے ۔کہ اسکی مثال لاناتو الگ رہا اس کے علوم کے مخفی ہونے پر کوئی شخص بغیر الٰہی مددکے ان کوظاہر بھی نہیں کرسکتا۔
قل لئن اجتمعت الانس والجن علی ان یاتوابمثل ھذا
تو(انہیں )کہہ(کہ )اگر تمام انسان(بھی)اورجن (بھی اسکی نظیر لانے کے لئے )جمع ہوجائیں ۔تو(پھر بھی)وہ اس کی مثل نہیں
القراٰن لایاتون بمثلہ ولوکان بعضھم لبعض ظھیرا٭
لاسکیں گے ۔خواہ وہ ایکد وسرے کے مددگار (ہی کیوں نہ)بن جائیں ۸۹؎
۸۹؎ حل لغات۔ظھیر۔ظَھَرسے صفت مشبہ ہے ۔اورظَھَرَ علیّ کے معنی ہیں ۔اَعَانَنَی اس نے میری مددکی ۔ظھر فلانً بفلانٍ وعلیہ ۔غلبَہ۔اس پر غالب آیا ۔ظھربزیدٍعلی بہ ورفع مَرتَبتَہ۔زیدکو ترقی دی اوراس کامرتبہ بلندکیا ۔الظھیر العین مدگار معاو ن(اقرب)
تفسیر ۔اس آیت سے روز روشن کی طرح ثابت ہوجاتاہے کہ جومعنی مںی نے اوپر کی آیات کے کئے تھے وہی صحیح ہیں ۔کیونکہ ا س میں آکر ااسی دلیل کو جو میں نے اوپر دی تھی مکمل کیاگیاہے ۔فرماتاہے کہ تم کہتے ہوکہ بعض روحانی مشقوں سے ترقی کرکے انسان سابق ارواح سے روحانی تعلیمات حاصل کرسکتاہے ۔اگر تمہارایہ دعویٰ سچا ہے تواے انسانو تم سب کے سب اکٹھے ہوجائو ۔اوران مخفی ارواح کوبھی اپنی مدد کے لئے بلالو ۔جن کی نسبت تہاراخیال ہے کہ تم کو علوم آسمانی سے خبردار کرتی ہیں ۔اورسب مل کرقرآن کی مثل کوئی کتاب پیش کردو۔اوراگر تم نے اس کی مثل پیش کردی ۔تب توبے شک تمہارادعویٰ سچاہوگا ۔ورنہ صاف ظاہر ہے کہ تم اس دعویٰ میں جھو ٹے ہو ۔جب تم سب کے سب مل کر اورتمہاری ساری مخفی ہستیا ں ملکر بھی قرآن کی مثل نہیں لاسکتیں ۔تویہ کہنا کہ محمد رسول اللہ نے بعض روحانی مشقوں سے ان علوم کوحاصل کرلیا ہے ۔کتناجھوٹادعویٰ ہے ۔
الجن سے اسجگہ مراد وہ ارواح ہیں جن کی مدد سے علوم روحانی سیکھنے کا یہ لوگ دعوایٰ کرتے یں ۔چونکہ وہ ارواح بقول ان کے نظروں سے غائب ہیں ۔ان کو جنات کے نام سے اجگہ یاد کیاگیا ہے ۔
ولقد صرفنا للنا س فی ھذالقران من کل مثل فابی اکثرالناس الا کفوراً٭
اورہم نے اس قرآن میں یقینا ہرایک(ضروری)بات کومختلف پیرایوں سے بیان کیا ہے ۔پھر(بھی)اکثر لوگوں نے (اس کے متعلق ) کفر (کی راہ اختیار کرنے)کے سواہر بات سے انکار کردیاہے ۹۰؎
۹۰؎ تفسیر ۔فرمایا یہ لوگ مثال لائیں گے کہاں سے ۔ان کے دماغ محدود ہیں ۔جس قسم کی یہ تربیت پائیں گے ۔اسی قسم کی بات پیش کرسکیں گے اورباقی باتیں ان سے رہ جائیں گے ۔لیکن اسقرآن میں سیاسیات کے متعلق سائنس کے متعلق ۔اخلاق تمدن اوراقتصادیات کے متعلق سیر کن بحثیں ہیں ۔پھر مختلف مذاہب کے اختلافات کافیصلہ کیاگیاہے ۔ان کوتو ان باتوں کے سمجھنے کی بھی قابلیت نہیں یہ مثل کس طرح لاسکتے ہیں۔ہاں اپنی ضد کی وجہ سے انکار کرناخوب جانتے ہیں۔سومختلف بہانے اوراعتراض بنا بنا کر انکار کرتے چلے جائیں ۔آخر ایک دن نتیجہ بھگتنا پڑیگا۔
وقالوا لن نومن لک حتی تفجر لنا من الارض ینبوعاً٭
اورانہوں نے(یہ بھی )کہا ہے (کہ )ہم ہرگز تیری(کوئی )بات نہیں مانیں گے ۔جب تک (ایسانہ ہو کہ )توہمارے لئے زمین سے کوئی چشمہ جاری کرے
اوتکون لک جنۃ من نخیل وعنب فتجر الانھر خللھا تفجیراً٭
یاتیراکھجوروں اورانگوروں کاکوئی باغ ہو اورتواس کے اندر خوب (کثرت سے )نہریں جاری کرے ۹۱؎
۹۱؎ حل لغات ۔تفجّر۔فجّر سے مضارع واحد اورمذکر مخاطب کا صیغہ ہے ۔اس کاماد ہ فجّر ہے ۔فجرالماء کے معنی ہیں یجسہ وفتح لہ طریقاً فجری ۔پانی کوکھود کرنکالا ۔ارواس کے بہنے کے لئے راستہ بنایا ۔فجّر میں عربی زبان کے قاعد ہ کے مطابق ان معنوں میں تشدید کے ساتھ زیادہ زور پیداہوگیا ۔
ینبوعاًکے معنی ہیں عین الماء پانی کاچشمہ ہے ۔الجدول الکثیر الماء بہت پانی والی نہر ۔اس کی جمع ینابع آتی ہے (اقرب)
تفسیر ۔جب یہود کے بتائے ہوئے اعترا ض کاایسادندان شکن جواب دیاگیا ۔توا ب انہوں نے پہلوبدلا۔اوریہ اعتراض کیا ۔کہ اچھا قرآن میں ہرعلم موجود ہے ۔؟اگرایساہے توزمین میں چشمہ پھوڑ کردکھائو یاباغ اگاکر دکھائو جسمیں نہریں چلتی ہوں ۔اپنی طرف سے کفار نے یہ بہت بڑااعتراض سوچا ۔حالانکہ یہ اعتراض کرنے والے کی عقل کی وکوتاہی کاثبوت ہے ۔اس اعتراض کی وجہ جیساکہ میں اوپر بتاآیا ہوں ۔یہود اوردوسرے جاہل لوگوں کایہ خیال تھا ۔کہ ارواح سے تعلق رکھنے والے یا اسم اعظم جاننے والے جادویااسم کے زورسے جوچاہیں کرسکتے ہیں ۔
اس زمانہ میں بھی بعض علماء نے یہ طریق اختیار کررکھاتھا ۔کہ بانی سلسلہ احمدیہ کے پاس آدمی بھجواتے کہ جاکر دوچار لاکھ روپے مانگو ۔ اورجب و ہ انکار کریں توکہنا کہ مسیح کی نسبت آتا ہے کہ دولت لٹائیں گے ۔آ پ کادعویٰ بھی مسیح ہونے کاہے ۔کیاآپ چندلاکھ روپیہ بھی نہیں دے سکتے ۔
اوتسقط الساماء کما زعمت علینا کسفااوتاتی باللہ والملئکۃ قبیلا ٭
یاجیساکہ تیرادعویٰ ہے توہم پرآسمان کے ٹکڑے گرائے یااللہ (تعالیٰ)اورفرشتوں کو (ہمارے )آمنے سامنے لاکھڑاکرے ۹۲؎
۹۲؎ حل لغات ۔کِسَفَا یہ کسفۃٌ کی جمع ہے ۔ا س کے معنے ہیں ۔القطعۃ من الشئی۔کسی چیز کاٹکڑا ۔(اقرب)قبیلاً القبیل کے معنی ہیں الجماعۃ من الثلاثلۃ فصاعداً تین یاتین سے زیادہ آدمیوں کی جماعت اوررأیتُہ قلیلا کے معنے ہیں رأیتُہ عیاناً ومقابلۃً کہ میں نے اسے اپنی آنکھوں سے آمنے سامنے دیکھا (اقرب)
تفسیر ۔یعنی انعامات نہیں لاسکتے چلوعذاب ہی سہی ۔آسمان ہم پرگرادو ،خدااورفرشتوں کوسامنے لائو کہ آکر ہمیں تباہ کردیں ۔
استاذی المکرم حضرت خلیفہ اولؓ فرمایاکرتے تھے کہ یہ وعدے قرآن کریم میں موجود ہیں اس لئے وہ ان کامطالبہ کرتے ہیں مگرمیرے نزدیک وہ مطالبہ نہیں کرتے بلکہ تمسخر کے رنگ میں یہ باتیں پیش کرتے ہیں ۔کیونکہ ان معنوں میں سے اکثر مدنی سورتوں میں بیان ہوئے ہیں اوریہ مکی سور ۃ ہے ۔دراصل کفار تمسخر کے رنگ میں کتے ہیں کہ جب سب کچھ قرآن میں موجود ہے تواس کے زور سے چشمے چھوڑدو اورباغ لگائویا عذاب ہی لائو ۔کیونکہ ان کے ذہن میں یہ وہم سمایاہواتھا کہ جادواورکلام کے زورسے ان باتوں کو پیداکیاجاسکتاہے ۔یہود کابھی یہی خیال تھا جیساکہ پہلے لکھا جاچکاہے ۔
اویکون لک بیت من زخرف اوترقی فی السما ء ط ولن
یاتیراسونے کاکوئی گھر ہو ۔یاتوآسمان پر چڑھ جائے ۔ اور ہم تیرے (آسمان پر )چڑھ جانے پر بھی نہیں مانیں گے
نومن لرقیک حتی تنزل علینا کتا بانقرؤہ ط قل سبحٰن
جب تک کہ تو(اورپر جاکر)ہم پر کوئی کتاب (نہ )اتارے ۔جسے ہم (خود )پڑھیں۔تو(انہیں )کہہ(کہ)
ربی ھل کنت الابشرارسولاً٭
میرارب (ایسی بے ہودہ باتوں کے اختیار کرنے سے )پاک ہے میں (تو)صرف بشر رسول ہو ں ۹۳؎
۹۳؎ حل لغا ت ۔الزخرف ۔ الذھب ُ سونا کمال حسن الشیء انتہائی خوبصورتی (اقرب)ترقیٰ۔رقی سے مضارع واحد مذکر مخاطب ہے رَقِیَ کے معنے ہیں ۔صَعِد اوپر چڑھا مصدر رَقِیَ اوررُقی آتاہے ۔لیکن رَقِیٌّ ۔یرقیٰ کامصد ربھی ہے ۔جسکے معنے منتراورجھاڑ پھونک کرناہے (اقورب)
تفسیر ۔یعنی ہم کوکچھ نہیں دیتے چلو اپنے لئے ہی کچھ کرو ۔فرعون نے کہاتھاکہ موسیٰ کے ہاتوں میں سونے کے کڑے نہیںہیںاس لئے سچا نہیں ۔انہوں نے ترقی کرکے کہہ دیا سونے کاگر ہوتب سچا ہوسکتاہے ۔ اوترقی فی السماء ولن نومن حتی تنزل علینا کتابانقرۃٌ اس میں انہوں نے معراج کے واقعہ پر اعتراض کیا ہے کہ اس قسم کاقصہ نہ سنادینا ہم توتب مانیں گے کہ توآسمان پر چڑھ جائے اورتووہیںرہے اورکتاب ہماری طرف پھینک گے تاکہ ہمیں تسلی ہوجائے کہ توواقعہ میں آسمان پرچڑھا ہے فرماتاہے قل سبحان ربی ھل کنت الابشر رسولا۔توان کوجواب دے کہ میرارب اس قسم کے تماشوں اورلغو باتوں سے پاک ہے ۔خداکاکلام جس طرح رسولوں پر نازل ہوتارہا ہے اسی طرح مجھ پرنازل ہوتارہاہے ۔اورجومعاملہ رسولوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کرتا ہے وہی میرے ساتھ بھی کرے گا ۔مگر جن باتوں کاتم مظالبہ کرتے ہو وہ اس کی شان کے بھی خلاف ہیں اورمیری رسالت اوربشریت کے بھی خلاف ہیں دوسرے اس کے یہ معنے ہیں کہ جوباتیں تم پیش کرتے ہو ۔ان میں سے بعض توتماشے کے طورپرہیں جو خداک شان کے خلاف ہیں ۔اس قسم کی باتوں سے اللہ تعالیٰ پاک ہے وہ توروحانیت کی ترقی کے لے کلام نازل کرتا ہے اوربعض باتیں بشریت اوررسالت کے خلاف ہیں مثلاً آسمان پرجانا اوروہاں سے کتاب کاپھینکنا ۔باوجود اس آیت کے مسلمان مانتے ہیں کہ عیسیٰؑ آسمان پر ہیں ۔حالانکہ وہ بشر رسول تھے نہ کہ ملائکہ میں سے ۔
ومامنع الناس ان یومنو ااذ جاء ھم الھدی الاان قالوا
اوران لوگوںکوجو ان کے پاس ہدایت پہنچی ایمان لانے سے صرف اس بات نے روکاکہ انہوں نے(اپنے دلوں میں ) کہا
ابعث اللہ بشرارسولاً٭
(کہ)کیاا للہ(تعالیٰ)نے ایک بشر کو رسول بناکر بھیج دیا ہے ۹۴؎
۹۴ ؎ تفسیر ۔پہلی آیت میں بتایاتھاکہ میں توبشر رسول ہوں ۔اس سے زیادہ میراکوئی دعویٰ نہیں ۔اب اس آیت میں بتایاگیا ہے کہ انبیاء پر جو بڑے بڑے اعتراض ہوتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ بشر رسول ہیں ۔یہ اعتراض ایک نہیں بلکہ ان الفاظ میں کئی قسم کے اعتراض آجاتے ہی ۔بعض لوگوںکویہ اعتراض ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ جو بڑی شان کاہے بشرکو رسول بناہی کیونکر سکتاہے۔یہ لوگ کلام الٰہی کے نزول کے ہی منکر ہوتے ہی ۔یعنی وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم بھی ایسے ہی انسان ہیں ۔جیساکہ یہ ہے اگراللہ تعالیٰ نے کلام بھیجنا تھا ۔توہم سب پر نازل کرتا ۔اسے کیوں مخصوص کیا گیا ۔اس لئے ہم اسے نہیں مان سکتے ۔یہ لوگ کلام الٰہی کے نزول کوناممکن قرار نہیں دیتے بلکہ اپنے آپ کوبڑاسمجھنے کی وجہ سے یہ نہیں تسلیم کرسکتے کہ اللہ تعالیٰ ان جیسے بڑے آدمیوں کی طرف بقول ان کے ایک گھٹیا درجے کے انسان کو پیغام دے کرکیوں بھیجے اگا۔ایک تیسراگروہ بشررسول کاانکار اس وجہ سے کرتاہے کہ اس کے نزدیک بشراپنی ذات میں کامل ہے ۔ورکسی بشر کوالہا م کی ضرورت نہیں ۔بلکہ اپنی جبلّی طاقتوں کی وجہ سے وہ اپنے لئے خود صحیح راستہ تلاش رکرسکتاہے ۔ایک چوتھاگروہ بشررسول پر اس لحاظ سے معترض ہوتاہے کہ ان کے نزدیک رسول کے لئے بشریت سے زیادہ طاقتوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ان کے سامنے ایک کمزور سے کمزور وجود کو یہ کہہ کر پیش کردوکہ یہ مافوق الانسانیت طاقتیں رکھتاہے ۔توفوراً ا س کے ماننے کے لئے تیار ہوجائیں گے ۔لیکن قوت قدسیہ اورقوت عملیہ کاعملی نمونہ دکھانے والا انسان جوجھوٹے فخرا اورجھوٹے دعووں سے بچتاہو ۔ان کے نزدیک ہرگز قابل اعتنا نہ ہوگا۔کیونکہ ان کی طبائع عجوبہ پسندی کاشکار ہوتی ہیں۔
ایسے لوگ بعض دفعہ بعض پہلے نبیوں کو بھی مانتے ہیں لیکن نئے نبی کے آنے پر ان کی طبیعت کے اس نقص کاظہور بتادیتا ہے کہ پہلے نبی پر بھی ان کاایمان محض رسمی اورورثہ کاایمان تھا ۔
قل لوکان فی الارض ملئکۃ یمشون مطمئنین لنزلنا
تو(انہیں )کہہ (کہ )اگرزمین پرفرشتے (بستے)ہوتے جو زمین پر اطمینان سے چلتے پھر تے تو(اس صورت میں )ہم ضرور
علیھم من السماء ملکا رسولاً٭
ان پر آسمان سے کسی فرشتہ کو (ہی )رسول بناکراتارتے ۔ ۹۵؎
۹۵؎ تفسیر ۔اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ ملائکہ سے مراد فرشتہ خصلت انسان ہی ۔ورنہ فرشتہ پردوسرافرشتہ آنے کی کیاضرورت ہے ۔اس آیت میں اس قسم کے لوگوں کے خیال کاجواب دیا ہے جویہ سمجھتے ہیں کہ و ہ بڑے لوگ ہیں ۔اوران کوبراہ راست الہام ہوناچاہیئے تھا ۔فرماتاہے کہ فرشتہ فرشتہ خصلت پر اترتاہے غیر جنس پر نہیں ۔تم فرشتے بن جاتے توتم پر بھی فرشتے اترتے پرتم تو شیطان بن گئے ہو ۔تم پر فرشتے کس طرح اتریں ۔دوسرے ان لوگوں کو جواب دیا ہے جویہ سمجھتے ہیں ۔کہ بشر سے بڑی طاقتوں والے وجود کی ضرورت تھی ۔بشرکام نہیں دے سکتا۔انہیں یہ بتایا ہے ۔کہ ہرجنس کے لوگوںکو ان کا ہم جنس ہی نجات دے سکتاہے ۔کیونکہ نمونہ وہی ہوسکتاہے جوان میں سے ہو۔پس بشر کے سوادوسری جنس بطوررسول انسانوں میں نہیں آسکتی ۔ا ن معنوںکے روسے رسول کے معنی صرف وحی لانے والے کے نہیں ہوں گے بلکہ رسالت کی وہ سب شرائط جن کے ساتھ بشررسول آتے ہیں مراد لی جائیں گی ۔
قل کفٰی باللہ شھیداً بینی وبینکم ط انہ کان بعبادہ خبیراً بصیراً٭
تو(انہیں )کہہ(کہ )میرے درمیان اورتمہارے درمیان گواہ کے طورپر اللہ ہی کافی ہے ۔وہ اپنے بندوں کوجاننے والا(اور)دیکھنے والا ہے ۹۶؎
۹۶؎ تفسیر ۔ اس میں اس اعتراض کے دوسرے پہلوئوں کاجواب دیا ہے ۔یعنی ان کوبھی جو انسان کوحقیر سمجھتے ہیں اورالہام کے ناقابل ۔اوران کو بھی جو انسان کو کامل سمجھتے ہیں اوالہام سے مستغنی ۔اورجواب یہ دیاہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کوخوب سمجھتا ہے کہ وہ کتنے کمزور ہیں یاکتنے طاقتورہیں ۔پس جب اس نے مجھے رسول بناکربھیجا ہے توتمہارایہ توحق ہے کہ اس امر کی تحقیق کرو کہ میں نبی ہوں یا نہیں ۔اوراس کے لئے میں خداتعالیٰ کی عملی گواہی پیش کرتاہوں ۔جب قول کے ساتھ اس کاعمل شامل ہے توتم میرے دعویٰ کو جھوٹاکس طرح کہہ سکتے ہو ۔مگربہرحال تم یہ دواعتراض معقولیت کو چھوڑے بغیر نہیں کرسکتے ۔کیونکہ اگریہ ثابت ہوجائے۔کہ مجھے خدانے بھیجا ہے ۔تومانناپڑے گا۔کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہ تو انسان ا س قدرحقیر ہے کہ اسے وہ مکالمہ مخاطبہ کافخر نہیں دے سکتا ۔ اورنہ اس قدرکامل کہ اسے الٰہی کلام کی احتیاج ہی نہیں ۔
ومن یھد اللہ فھو المھتد ومن یضلل فلن تجد لھم
اورجسے اللہ (تعالیٰ)ہدایت دے وہی ہدایت پرہوتاہے ۔ اورجنہیں وہ گمراہ کرے توتُواس کے (یعنی اللہ کے )مقابل پر اس کاکوئی
اولیاء من دونہ ط ونحشرھم یوم القیٰمۃ علی وجوھھم
بھی مددگار نہیں پائے گا ۔اورقیامت کے دن ہم انہیں ان کے مقاصد کے مطابق اندھے اورگونگے اوربہرے ہونے کی حالت
عمیاو بکماوصما ط ماوٰھم جھنم ط کلما خبت زدنھم سعیرا٭
حالت میں جمع کریں گے ۔ان کاٹھکانہ جہنم ہوگا ۔جب بھی وہ (ذرا)ٹھنڈی ہوگی توہم ان پرآگ (کاعذاب اوربھی) بڑھادیںگے ۹۷؎
۹۷؎ حل لغات ۔وجوھھم :۔وُجُوہٌ وجہٌ کی جمع ہے ۔اوروجہ کے معنے ہیں ۔المَقْصِدُ ۔مقصد۔اَلطَّریق المرَضی۔پسندیدہ طریق ۔
خَبَتْ:۔خَبَتِ النَّارُ والحربُ والحدَّۃُ کے معنے ہیں سَکَنَتْ وخَمَدَتْ وطفئَتْ۔آگ۔جنگ یاتیزی دھیمی یاٹھنڈی پڑ گئی ۔کمزورہوگئی ۔ بجھ گئی (اقرب)
سعیرا:اَلسَّعِیْرُ کے معنے ہیں النّارُ وَلَھٰبُھَا ۔آگ ۔شعلے ۔(اقرب) اولیآء جمع ولی کی ہے جس کے ایک معنی مددگار کے ہیں لیکن ترجمہ میں جمع کی جگہ مفرد ترجمہ کیاگیاہے ۔کیونکہ اردومیں ایس موقعہ پر مفرد ہی بولاجاتا ہے
تفسیر۔کیونکہ پچھلے سوالوں اورجوابوں سے کفار کی کج بحثی کاثبوت ملتاتھا ۔اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو تسلی دلائی کہ ان باتوںسے گھبرانانہیں چاہیئے۔ہدایت اورگمراہی کافیصلہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔جومستحق ہدایت ہو اسے ہدایت مل جاتی ہے خواہ درمیا ن میں کتنی روکیں ہو ں ۔اورجومستحق ہدایت نہ ہو و ہ گمراہ ہی رہتاہے یاآخر گمراہ ہوجاتاہے خواہ بظاہر اس کے لئے سہولتیں میسر ہوں پس ان ظاہری حالات سے مایوس نہ ہوناچاہیئے ۔بعض دفعہ شدیدمخالف اوربظاہر کج بحث لوگ آخر میں ایمان لے آتے ہیں ۔ اوراخلاص کانہایت اعلیٰ نمونہ دکھاتے ہیں ۔اصل توانجام کودیکھناچاہیئے ۔جس کاانجام خراب ہو خطرہ ا سکے لئے ہے ۔
خبت النار والحرب والحدۃ سکنت وخمدت وطفئت ۔یعنی آگ لڑائی اورتیزی کے متعلق خبت آتاہے جسکے معنے ہیں جوش جاتارہا۔کم ہوگیا ،۔بالکل ٹھنڈاپڑ گیا۔علی وجوھھم کے متعلق قرآن کریم میں دوسری جگہ آتاہے یوم یسحبون فی النار علی وجوھم (القمرع۳)جس دن وہ مونہوں کے بل گھسیٹ کرآگ میں ڈالے جائیںگے ۔اس آیت کا بھی یہی مطلب ہوسکتاہے کہ کفار مونہوں کے بل گھسیٹ کرڈالے جائیں گے ۔
بخاری اورمسلم میں انس ؓ سے روایت ہے کہ ان الذی اَمْشھم علی اَرجُلِھِمْ قادرٌ علی ان یمثیَہم علی وجوھھم کہ جس خدانے انکو پائوں کے بل چلایا ہے ۔وہ اس بات پربھی قادر ہے کہ ان کومونہوں کے بل چلائے ۔پھر ایک روایت میں ہے کہ تین طرح حشرہوگا۔کچھ سوارہوںگے ۔کچھ پیدل اوراوربعض مونہوں کے بل(روح المعانی جلد ۱۵) ایک اورروایت میں ہے تُجَرُّوْنَ علی وجوھکُمْ۔دوزخیوںکوان کے مونہوں کے بل گھسیٹاجاے گا۔(روح المانی جلد ۱۵)
معلوم ہوتا ہے کہ سوار توانبیاء ہیں اورپیدل چلنے والے مومن ہیں اورمونہوں کے بل گھسیٹے جانے والے کافرہیں ۔
چونکہ آخر تم یں ہرچیز ایک انعکاسی رنگ رکھے گی ۔اس لئے ان کے وہ اعمال جن کو دنیا میں کرتے ہوئے خداتعالیٰ کی طرف نظر نہیں رکھتے تھے ۔بلکہ سفلی اورارضی اغراض پر ان کی نظر ہوتی تھی ۔قیامت کے دن ان پر اس رنگ میں متمثل ہوں گے کہ وہ اوندھے منہ زمین پر چلیں گے ۔
(۲)عربی کا ایک اورمحاورہ ہے ۔مَرَّ القَوْمُ علی وجوھھم اَیْ اَسْرَعُوا۔یعنی وہ قوم دوڑ کرچلی گئی ۔اس محاور ہ کے روسے آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ قیامت کے دن جب ہم ان کا حشرکریں گے توو ہ دوڑ رہے ہوں گے جیسے دوسری جگہ فرماتاہے مُھْطِعِیْنَ مُقِْعِیْ رُئُ وْسِھِمْ کہ کفا ر سراٹھائے ہوئے دوڑے چلے جائیںگے۔اس میں گھبراہٹ کی کیفیت کااظہار کیا ہے ۔یعنی اس وقت ان میں بے اطمینانی او رگھبراہٹ پائی جائے گی ۔
(۳)الوجہ کے معنے عربی زبان میں مَایَتَوَجَّہُ الیہ الانسان ُ من عملٍ وغیرہٖ۔القصد والنیۃ کے بھی ہوتے ہیں ۔یعنی وہ کام جن کی طرف انسان توجہ کرتے ہیں اورقصداورنیت کو بھی وجہ کہتے ہیں ۔ان معنوں کی روسے آیت کایہ مطلب ہوگاکہ ان کے مقاصد اورنیتوں کے مطابق ہم ان کاحشر کریں گے ۔اگران کامقصد الٰہی سلسلوں سے دشمنی کرناتھا ۔تووہاں بھی وہ خداتعالیٰ سے دور اوراس کے دشمنوں کے ساتھ رکھے جائیں گے ۔گویاہرانسان اپنی اپنی نیت کے مطابق جزاء پائے گا۔چونکہ اگلے جہان کے متعلق کفا رکاکوئی مقصد نہیں ہوتا۔اس لئے فرمایاکہ وہ وہاں بھی اندھے گونگے اور بہرے ہوں گے ۔
خَبَت سے یہ مراد نہیں کہ آگ بجھ جائے گی ۔بلکہ بعض دفعہ کوئی مصیبت زیادہ دیر رہے توحس مٹ جاتی ہے ۔اس جگہ ایسی ہی کیفیت کی طرف اشارہ فرماتاہے ک جب عذاب محسوس کرنے کی حس کمزورہوجائے گی ۔ہم ان کی حس کو تیز کردیں گے جیسے فرمایا ۔کُلَّھا نُضِجَتْ جُلُودُھُمْ بَدَّلْنٰھُمْ جُلوداً غیرھا لیذوقوا العذاب (نساء ع ۸)جب ان کے چمڑے پک جائیں گے اورعذا ب کی حس کم ہوجایء گی توہم ان کی جلدیں بدل دیں گے تاکہ عذاب کامزہ چکھتے رہیں ۔توآگ کاٹھنڈاہونا کفار کی حس کے لحاظ سے ہے نہ کہ خود آگ کی تیزی یاکمی کے لحاظ سے ۔یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کہتے ہیں کہ پرنالہ چلتاہے ۔ حالانکہ پرنالہ نہیں چلتا بلکہ پرنالہ میں سے پانی بہہ رہاہوتاہے ۔
ذٰلک جزاؤھم بانھم کفروا بٰایٰتناوقالواء اذاکناعظاماورفاتاء انا لمبعوثون خلقاً جدیداً٭
یہ (آگ)ان (ہی کے اعمال)کی جزاہوگی کیونکہ انہوں نے ہمارے نشانوں کاانکارکیا ۔اورکہا(کہ )کیاجب ہم (مرکر)ہڈیاں اورچوراچوراہوجائیں گے (توہمیں ازسرنو زندہ کیا جاے گا اور)کیاواقعی ہمیں ایک نئی مخلوق کی صور ت میں اٹھایاجائے گا ۹۸؎
۹۸؎ تفسیر ۔یعنی یہ عذاب کلام الٰہی کے انکار کے سبب سے ہوگا۔اوریہ کلام الٰہی کاانکار درحقیقت بعد المو ت زندگی پرایمان نہ ہونے کی وجہ سے پیداہواہے ۔
قرآن کریم نے اس امر پر بہت زوردیا ہے کہ مذہب کے انکار یا اسکی تخفیف کی اصل وجہ بعد الموت زندگی کاانکار ہے ۔اس میں واعظوں اوراستادوں اوراماموں اورمربّیوں کے لئے ایک بہت بڑاسبق ہے ۔بچپن سے بعث بعد الموت کے دلائل نوجوانوں کے ذہن نشین کرنے چاہئیں ۔اس کے بغیر کبھی صحیح اورعمد ہ تربیت نہیں ہوسکتی ۔یہ آیات یہود پر بھی چسپاں ہوتی ہیں ۔کیونکہ ان میں سے اکثر بعث بعد الموت کے منکر تھے ۔
اولم یرواان اللہ الذی خلق السموات والارض قادرعلی
کیاو ہ (ابھی تک )سمجھ نہیں سکے کہ وہ (ہستی)جس نے آسمانوں اورزمین کوپیداکیا ہے ۔اس بات پر(بھی )قادر ہے ۔
ان یخلق مثلھم و جعل لھم اجلا لاریب فیہ ط فابی
الظٰلمون الاکفورا ٭
کہ وہ ان جیسے (اورلوگ )پیداکرے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نے ان کے لئے ایک معیاد مقرر کردی ہے پھر(بھی)ان ظالموں نے کفر(کی راہ اختیار کرنے )کے سواہربات سے انکار کردیا ہے ۹۹؎
۹۹؎ تفسیر ۔ان کے جواب میں یہ نہیں فرمایا کہ تم کو اللہ تعالیٰ دوبار ہ پیداکرسکتا ہے کیونکہ یہ صر ف دعویٰ ہوتاجس کے پیش کرنے کاکوئی فائدہ نہ تھا ۔پس جواب میں یہ فرمایاکہ کیا تم ا س پریقین رکھتے ہو کہ تم کو ہلاک کرکے خداتعالیٰ تمہاری شان و شوکت کسی دوسری قوم کو دیدے ۔پھر خود ہی جواب دیتا ہے کہ کفار اس با ت پر کبھی یقین نہ کریں گے بلکہ بڑی شدت سے اس کا انکار کریں گے پس یہی دلیل ہم ان کے سامنے بعث بعد الموت کی پیش کرتے ہیں کہ قرآن کریم جو بعث بعدالموت کی خبر دیتا ہے ۔اس نے یہ خبر بھی دی ہے کہ تم دشمنان اسلام کی حکومت مٹادی جائے گی اوران کی جگہ مسلمانوں کو دے دی جائے گی ۔اگریہ بات پوری ہوجائے تو ان کو سمجھ لینا چاہیئے کہ دوسری بات بھی عالم الغیب اور قادر خداکی طرف سے ہے ۔یہ بات کس لشان سے پوری ہوئی ؟ عرب۔ایران،روم اورمصر چند سالوں میں یکے بعد دیگرے اسلامی ضرب کی تاب نہ لاکر سرنگوں ہوگئے ۔اورفاقہ کش مزدوردنیاکے بادشاہ ہوگئے ۔اس حشر کاپیداکرنے والا کیادوسرے حشر سے عاجز آسکتاہے بعث بعدالموت کوعجیب سمجھنے والے وقوع سے پہلے کیا اس خبر کو بھی ویساہی عجیب نہ سمجھتے تھے ۔
قل لو انتم تملکون خزآئن رحمۃربی اذً الامستکم
تو(انہیں)کہہ(کہ)اگر تم میرے رب کی رحمت کے (غیر متناہی)خزانوں کے (بھی)مالک ہوتے تو(بھی )تم (ان کے )خرچ
خشیۃ الاملاق ط وکان الانسان قتوراً٭
ہوجانے کے ڈرسے (انہیں )روک ہی رکھتے ۔اورانسان بڑاہی کنجوس ہے ۱۰۰؎
۱۰۰؎ حل لغات۔ اَمَسْکتُمْ یہ اَمْسَکَ سے جمع کاصیغہ ہے ۔امسک الشیء بیدہ ۔قبضہٗ کسی چیز کوہاتھ سے پکڑا ۔امسک المتاع علی نفسہ ۔مال اپنے لئے روک رکھا ۔امسک عن الامر ۔کفّ عنہ وامتنع۔کسی امر سے رک گیا ۔(اقرب)
قتوراً:۔یہ قتر سے مبالغہ کاصیغہ ہے۔قتر علی عیالہ ۔ضیَّقَ علیھم فی النفقۃ۔اہل وعیال کے خرچ میں تنگی کی۔قترالشیء ۔ضمَّ بعضہ الی بعض۔کسی چیز کواکٹھا کیا اورجوڑ جوڑ کررکھا ۔القتور المفیق علی عیالہ فی النفقۃ۔اپنے خانگی خرچ میں بخل کرنے والا ۔البخیل ۔کنجو س (اقرب)
االانفاق :۔انفق الرجل کے معنے ہیں اِفتقرَ فَنِیَ زادہ ۔وہ مفلس ہوگیا ۔اوراس کاخرچ ختم ہوگیا ۔انفق مالہ ۔صرفہ وانفذہ ۔اس نے اپنامال خرچ کرکے ختم کردیا (اقرب)پس اَلاِنْفَاقُ کے معنے ہوںگے (۱)مفلس ہوجانا (۲)مال خرچ کردینا (۳)مال کا خرچ ہوجانا ۔
تفسیر ۔یہاں پھر قل الر وح والے مضمو ن کی طرف رجوع کیا ہے ۔اوربتایاہے ۔کہ خدائی الہام اور روحانیوں میں یہ فرق ہے کہ خداکاکلام لانے والے توبے دریغ آسمانی خزانے لٹاتے ہیں ۔اورانیں حکم ہوتاہے کہ بَلِّغْ بَلِّغْ۔لیکن یہ روحانی کہلانے والے اسراء اوراشار وں میں عمر بسر کرتے ہیں قسمیں لے لے کر اپنے شاگردوں کو گربتاتے ہیں یہ لوگ دنیاکے لئے ہادی اورراہنما کس طرح ہوسکتے ہیں ۔یہ مرض آجکل کے صوفیا ء میں بھی پیداہوگیاہے ۔ایک دفعہ میں نے ذکرالٰہی کے متعلق تقریر کی ۔اوراس کے بہت سے طریقے اورفائدے بیان کئے ۔ایک صاحب نے دوران تقریر میں رقعہ لکھا کہ آپ کیاغضب کررہے ہیں ۔ان میں سے ایک ایک نکتہ صوفیا ء دس دس سال خدمت لے کر بتایارکریت ہیں ۔آپ ایک ہی مجلس میں سب راز کھولنے لگے ہیں ۔
حق یہ ہے کہ مذہب میں کوئی راز نہیں ۔اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے متعلق یہ چاہتاہے کہ وہ اس کے قرب کے اعلیٰ درجوں کوحاصل کریں اوراسے بندوں کی ترقیات میں روک ڈالنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں کیونکہ وہ غیر محدود ہے ،۔اوراس تک پہنچنے کی منازل بھی غیر محدود ہیں اسے یہ ڈر نہیں کہ ایک دن علم ختم ہوجائے گا ۔اورپھر میرے پاس بنانے کو کچھ نہ رہے گا۔اورمیں اورمیرے بندے برابر ہوجائیں گے ۔لیکن یہ نام نہاد روحانی ایک محدود علم رکھتے ہیں جسکااکثر حصہ جھوٹاہوتاہے ۔وہ اگراپنی سب باتیں بتادیں تودوسرے ہی دن ان کوپوچھنے والاکوئی نہ رہے ۔چنانچہ آئے دن یہ نظارے نظر آتے ہیں کہ ایک پیر نے دوسرے کو خلیفہ بنایاواراس نے جھٹ جاکر الگ گدی بنالی۔مگرخدارسیدہ شخص کا کوئی شاگرد اس پر ایما ن رکھتے ہوئے جدانہیں ہوسکتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کاعلم جوخداسے آتاہے کبھی ختم نہیں ہوسکتا۔اسلئے اس سے جدائی اپنے علم کی ترقی روکنے کے مترادف ہے۔غرض نام نہاد روحانی لوگ سالہا سال خدمت لے کر ایک اسم یانقش اسی لئے بتاتے ہیں کہ جانتے ہیں کہ ہمارے پاس جوکچھ ہے جلد ختم ہوجائے گا۔مگراللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے علم اول توختم نہیں ہوتے اور اگرہوجائیں تووہ اور پیداکردیتاہے ۔اس لئے یہ جسمانی کسب الہا م کاقائم مقام کسی صورت میں نہیں ہوسکتا۔
ولقد اٰتیناموسیٰ تسع ایت بینت فسئل بنی اسراء یل
اورہم نے موسیٰ یقینا نوروشن نشان دیئے تھے ۔چنانچہ توبنی اسرائیل سے (ان حالات کوپوچھ )جب وہ ان (یعنی اہل مصر)
اذ جاء ھم فقال لہ فرعون انی لاظنک یموسیٰ مسحورا٭
کی طرف آیاتھا ۔توفرعون نے اس سے کہا تھا (کہ )اے موسیٰ میں یقیناتجھے فریب خوردہ سمجھتاہوں ۱۰۱؎
۱۰۱؎ حل لغات ۔مَسْحُورًا:۔یہ سَحرسے اسم مفعو ل ہے ۔سَحَرَہٗ:عمل لہ السحر وخدعہ ٗ سحرہ کے معنے ہیں اس پرجادوکیا ۔اسے فریب دیا ۔ سحرہٗ عن الامر :صَرَفَہ۔اس کو کسی بات سے ہٹادیا ۔سحر بکلامہ والحافظہ:استمالہ وسلَب لُبہٗ۔اسے باتوں اورنظروں سے اپنی طرف مائل کرلیا ۔اوراس کی عقل کولُبھالیا ۔(اقرب)
تفسیر ۔تِسْعُ اٰیاتٍ۔قرآن مجید میں دوسری جگہ ان نشانوں کی تفصیل موجود ہے اوروہ یہ ہیں ۔(۱)عصا۔جیسا کہ فرماتا ہے ۔فَاَلْقٰی عَصَاہُ فاذاھِیَ ثُعْبَانٌ مُّبْینٌ(اعراف ع۱۳)(۲)یدِبیضاء جیسے ک فرماتاہے ۔ونزعَ یَدَہٗ فاذا ھیَ بَیْضَآئُ لِلنَّاظِرِیْنَ(اوعراف ظ ۱۳)(۳)قحط جیساکہ فرماتا ہے ولقد اَخذنا اٰلِ فرعونَ بِالسِّنِیْنَ (اعراف ۱۶)(۴)پلوٹھوں کی موت ۔جیسے فرماتاہے وَنَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرَاتِ لعلَّھُمْ یَذَّکَّرُوْن۔(اعراف ع ۱۶)اس جگہ ثمرات سے مراد ثمرئہ قلب یا ثمرئہ فؤاد ہے جس نام سے بیٹو ں کوپکاراجا تا ہے۔(۵)طوفان (۶)ٹڈی (۷)جوئیں یا کھٹمل کاعذاب(۸)مینڈکوں کاعذاب(۹)خون کاعذاب ۔یعنی ایسی امراض کاعذاب جن سے انسان کاخون ضائع یا خراب ہو ۔جیسے نکسیروں کاپھوٹنا ۔اورایک خاص مرض بھی اس وقت پیداہواتھا۔یعنی ایک قسم کے پھوڑے نکلتے تھے جن میں سے کثرت سے خون بہتاتھا ۔جیساکہ فرماتا ہے ۔فارسلنا علیھمُ الطُّوفانَ والجرَادَوَالقُمَّلَ۔وَالضَّفادِعَ وَالدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلَاتٍ(اعراف ع ۱۶) بائبل میں ان نو عذابوں کی عجیب وغریب تشریح لکھی ہے ۔جس کے ماننے اورجاننے کی ہمیں ضرورت نہیں ۔ہمیں صرف اس امرسے تعلق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کونو نشان عطافرمائے جووقفہ وقفہ کے بعدظاہر ہوئے جیسا کہ مفصّلات کے لفظ سے ظاہر ہے ۔
حضرت موسی اوران کے نشانات کاذکرکرکے یہود کوتوجہ دلائی ہے کہ جس طر ح فرعون کو نشان دکھائے گئے تھے یہود کوبھی نشان دکھائے جائیں گے ۔مگرجس طرح فرعو ن نے فائدہ نہ اٹھا یاوہ بھی نہ اٹھائیں گے اورآخر معنوی طور پر غرق کئے جائیں گے ۔
اس آیت سے اس امر کی طرف بھی اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہود پربھی نوقسم کے عذاب نازل ہوں گے یانو نشان دکھائے جائیں گے ۔مگر مجھے اب تک تاریخ پر اس بارہ میں غور کرنے کاموقعہ نہیں ملا ۔
قال لقد علمت ماانزل ھولاء الا رب السموٰت والارض
اس نے کہا (کہ)تجھے یقینا علم ہوچکا ہے کہ ان (نشانات)آسمانوں اورزمین کے رب نے ہی بصیر ت بخشنے والابناکر
بصائر وانی لاظنک یفرعون مثبوراً٭
اتاراہے ۔اوراے فرعون میں تیری نسبت یقین رکھتاہوں کہ توہلا ک ہوچکا ہے ۱۰۲؎
۱۰۲؎ حل لغات ۔بَصَائِر:۔یہ بَصِیْرٌ کی جمع ہے البصیر ۃ کے معنے ہیں ۔العقل۔عقل ۔الفطنۃ۔ذہانت ۔مایُستدلُ بہ جس سے راہنمائی اوربصیرت حاصل ہو ۔الحُجّۃ۔دلیل ۔العبرۃ۔عبرت ۔الشاھد۔گواہ(اقرب)
مَثْبُورَا:یہ ثَبَرسے اسم مفعول ہے ثبرۃ کے معنے ہیں ۔خیّبہٗ۔اسے نامرادو ناکا م کیا ۔لَعَنَہٗ۔اس پر *** کی ۔طردہ۔اسے دھتکارا۔ثبرہٗ عن الامر :مَنْعَہٗ وَصرفہٗ اسے روک دیا ۔ہٹادیا ۔ثبراللہ زیداً۔اَھلکہ اھلاکاًدائماً لاینتعش بعدہٗ۔اللہ نے اسے ایساتباہ کیا کہ پھر و ہ سنبھلنے کے قابل نہ رہا ۔(اقرب)
تفسیر ۔موسیٰ نے کہا اے فرعون تیرادل جانتاہے ۔کہ ان نشانات کوآسمان و زمین کے خدانے بصیر ت کے طورپر نازل کیا ہے اورمجھے یقین ہے کہ توہلا ک کیاجائے گا ۔یایہ کہ تونے جو مجھے مسحور کہہ کر بدنام اورکمزورکرنے کی تدبیر سوچی ہے ۔خداتجھے اس میں
کامیا ب نہ کرے گابلکہ تواس اراد ہ میں خائب وخاسر ہوگا۔کیونکہ مثبورکے ایک معنے ناکام و نامراد کے بھی ہیں ۔اس ذکر سے یہ بتانامقصود ہے کہ جس طرح تم نشان پر نشان دیکتے ہومگرفریبی اوردھوکہ باز کہتے جاتے ہو ۔ایساہی اس سے پیشتر فرعون نے موسیٰ کو کہاتھا۔مگرجانتے ہواس کاانجام کیاہواتھا ؟
فارادان یستفزھم من الارض فاغرقنٰہ ومن معہ جمیعاً٭
اس پراس نے ان (کی بنیادوں )کواس ملک سے اکھاڑ دینے کاارادہ کرلیا ۔توہم نے اسے جواس کے ساتھ تھے سب کو غرق کردیا ۱۰۳؎
۱۰۳؎ تفسیر ۔یعنی اس نے بھی چاہاتھا کہ انکو ملک سے ذلیل کرکے نکال دے ۔مگرخود غرق ہوگیا ۔اہل کتاب نے کفار سے سازش کرکے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوقیصر کی فوج سے لڑانے کے لئے بھجوادیاتھا مگرخدانے ان کی تدبیر کوناکام کیا ۔اورآپ ؐ تبوک سے بغیر کسی نقصان کے باعزت واپس آئے۔
وقلنا من بعد ہ لبنی اسراء یل اسکنو ا الارض فاذاجاء وعد
الاخرۃ جئنا بکم لفیفا٭
اور اس کے(ڈوب مرنے کے )بعد بنی اسرائیل کو ہم نے کہہ دیا (کہ )تم اس (موعود)ملک میں (جاکر آرام سے )رہو ۔پھر جب پچھلی بار کاوعدہ (پوراہونے کاوقت )آئے گا۔توہم تم (سب )کو جمع کرکے لے آئیں گے ۱۰۴؎
۱۰۴؎ حل لغات ۔لَفِیْفًا:یہ لَفّ سے فعیل کے وز ن پر بمعنی مفعول ہے ۔لَفَّہٗ کے معنے ہیں ۔ضَمَّہٗ سمیٹا جَمَعَہٗ۔ا س کوجمع کیا ۔لَفَّ الشی ئُ بالشیء ۔ضمَّہٗ الیہ و وصلہُ بہٖ ایک چیز کودوسری سے ملادیا۔لَفَّ الکتیبین خلط بینہما فی الحرب ۔جنگ میں دودوستوں کو آپس میں ملا دیا ۔اللفیف ۔المجموع۔جمع کیا ہوا۔مااجتمع من الناس من قبائل شتّٰی ۔مختلف قوموں کے آدمیوں کی جماعت (اقرب)
تفسیر ۔اسکنواالارض ۔اس سے مراد مصر کی سرزمین نہیں ۔کیونکہ مصر میں تووہ نہی آباد ہوئے اس سے مراد ملک کنعان ہے یعنی وہ ملک جس کاتمہیں وعدہ دیاگیاہے۔گویاالارض سے مراد معہود ذہنی ہے ۔رسول کریم صلعم کو موسیٰ علیہ السلام پر یہ فضیلت ہے کہ ان کو جو جگہ ملی وہ مصر کے قائم مقام تھی۔ مصرنہیں ملا ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عین وہ جگہ ملی جوآ پ کاوطن تھا اورپھر دشمنوں کے ملک بھی ہاتھ آئے ۔فاذاجآئَ وعدُ الاٰخرۃِ۔یعنی اب تم کنعان میں جائو۔لیکن ایک وقت کے بعد تم کو وہاں سے نکلنا پڑے گا پھر خداتعالیٰ تم کو واپس لایء گا پھر تم نافرمانی کروگے اوردوسری دفعہ عذاب آئے گا اس کے بعد تم جلاوطن رہوگے یہاں تک کہ تمہاری مثیل قوم کے متعلق جو دوسری تباہی کی خبر ہے اسکاوقوت آجائے اس وقت پھر تم کو مختلف ملکوں سے اکٹھاکرکے ارض مقدس میں واپس لایا جائے گا۔
اس آیت سے ظاہرہے کہ جس طرح بنی اسرائیل کے لئے دوتباہیوں کی خبر اس سورۃ کے شروع میں دی گئی تھی ویسی ہی خبر مسلمانوں کے لئے بھی دی گئی ہے کیونکہ مسلمانوں کو بنی اسرائیل کامثیل قرار دیا گیا ہے۔جس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو موسیٰ ؑ کامثیل قراردیاگیا ہے ۔اوراس کاثبوت یہ ہے کہ سورۃ کی شروع میں دووعدوں کاذکر ہے اوردونوں عذاب کے وعدے ہیں ۔ایک بخت نصرشاہ بابل کے ہاتھوںپوراہوا۔اوردوسراٹائیٹس شاہ روم کے ہاتھ سے پوراہوا۔(دیکھو رکوع اول)ان دونوں وعدوں میں بنی اسرائیل کے اکٹھاکرنے کاذکر نہیں بلکہ ان کے پراگندہ ہونے کاذکر ہے ۔اس کے برخلا ف اس آیت می یہ ذکرہے کہ دوسرے وعدے کے وقت بنی اسرائیل کو پھر ارض مقدس میں لایاجائے گا۔اس سے معلوم ہواکہ یہ دوسراوعدہ کوئی اورہے اوراس دوسرے وعدے سے یہ بھی معلو م ہواکہ اس دوسرے وعدے کے ساتھ کوئی پہلاوعدہ بھی ہے ۔اب ہم غورکرتے ہیں توان دونوں وعدوں کا ذکرقرآن کریم میں صرف اس طرح ملتاہے کہ محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کومثیل موسیٰ قراردیاگیا ہے ۔اورسورۃ فاتحہ میں مسلمانوں کے ایک حصہ کے متعلق خبر دی گئی ہے کہ وہ اہل کتاب کے نقش قد م پر چلیں گے ۔پس ان دونوں باتوںکوملا کر ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں ۔کہ بنی اسرائیل کی طرح دوعذاب کے وعدے مسلمانوں کے لئے بھی کئے گئے ہیں ۔اوراس جگہ وعدُالاٰخرۃ سے مراد مسلمانوں کے دوسرے عذاب کاوعدہ ہے ۔اوربتایایہ ہے کہ مسلمانوں پر جب یہ عذاب آئے گا۔کہ دوسری دفعہ ارض مقد س کچھ عرصہ کے لئے ان کے ہاتھ سے نکل جائے گی تواس وقت اللہ تعالیٰ پھر تم کو اس ملک میں واپس لے آئے گا۔چنانچہ دیکھ لو اسی طرح واقعہ ہواہے ۔جس طرح نجت نصرکے وقت میں پہلی دفعہ ارض مقدس یہود کے ہاتھ سے نکلی ۔اسی طرح صلیبی جنگوں کے وقت مسلمانوںکے ہاتھ سے نکلی۔پھر جس طرح موسیٰ سے تیرہ سوسال بعد حضرت مسیحؑ کے صلیب کے واقعہ کے بعد جبکہ گویاوہ بظاہر اس ملک کے لوگوں کے لئے مرگئے تھے ۔بنی اسرائیل کو ارض مقد س سے دوبارہ بے دخل کردیاگیا ۔اسی طرح اس زمانہ میں جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر اتنا ہی عرصہ گذراہے مسلمانوں کی حکومت پھر ارض مقد س سے جاتی رہی ہے ۔ورجیساکہ قرآن کریم نے فرمایاتھا مسلمانوں کایہ دوسراعذاب یہودکے لئے ارض مقدس میں واپس آنے کاذریعہ بن گیا ہے ۔
تفسیر فتح البیان کے مصنف اس آیت کے متعلق لکھتے ہیں کہ بعض علما ء کے نزدیک وعدالاخرۃ سے اس جگہ مسیح موعود کانزول مراد ہے ان علماء کایہ قول میری تفسیر کی تائید کرتاہے ۔
وبالحق انزلنہ وبالحق نزل ط وماارسلنک الامبشرًاونذیرًا٭
اوراس (قرآن )کو ہم نے حق(وحکمت)کے ساتھ ہی اتاراہے ۔اورحق (وحکمت )کے ساتھ ہی یہ اُتراہے ۔اورہم نے تجھ صرف بشارت دینے والااور(عذاب سے )آگا ہ کرنے والا بناکر بھیجا ہے ۱۰۵؎
۱۰۵؎ تفسیر ۔یعنی یہ خبر ضرورپوری ہو کررہے گی ۔چونکہ موسیٰؑ کی پیشگوئی کے سلسلہ میںرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشگوئی کاذکر بھی آگیا ۔کہ مسلمانوں پر بھی دوکٹھن زمانے آنے والے ہیں ۔اس لئے اس آیت سے اس مضمون کی تائید کی گئی ہے ۔
اس آیت سے ضمناً اس خیال کی بھی تردیدہوتی ہے ۔جولوگ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی میں شیطان دخل دے دیتاتھا ۔کیونکہ فرماتاہے کہ ہم نے قرآن کوحق سے اتاراہے اوروہ محمد رسول اللہ تک حق سے ہی اُتراہے ۔پس جبکہ قرآن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک حق سے اترآیاتوشیطان کو دخل دینے کاموقعہ کب ملا ۔
آخر میں فرمایا کہ تجھے بھی موسیٰ کی طرح بشیر و نذیر بناکر ہم نے بھجوایاہے ۔جس طرح اس کی قوم نے ترقی کی ۔اسی طرح تیری قوم بھی ترقی کرے گی ۔اورجس طرح اس کے دشمن ہلاک ہوئے تیرے دشمن ہلاک ہوں گے ۔
وقراٰنًا فرقنٰہ لتقراہ علی الناس علی مکث ونزلنہ تنزیلا٭
اور(اسے )قرآن بناکر (اُتاراہے )اس حال میں کہ ہم نے اسے (کئی)ٹکڑوں میں تقسیم کیا ہے تاکہ تُواسے (سہولت اور)آہستگی کے ساتھ لوگوں کوپڑھ کرسناسکے اورہم نے اسے تھوڑاتھوڑاکرکے نازل کیاہے ۔۱۰۶؎
۱۰۶؎ حل لغات ۔فرقنہ :۔فرقَ بینہما۔فَصَلَ ابعاضہا۔دوچیزوں کے ٹکڑوں کو علیحدہ علیحدہ کیا ۔فرقَ لہ عن الشی:بَیّنَہٗ۔اسے کھو ل کربا ت بتائی (اقرب)وقرانًا فرقنٰہُ ای بیَّنَّا فیہ الاحکام و فصّلنٰہُ۔وقراٰناً فرقنا کے معنے ہیں ہم نے اسمیں احکام بیان کئے ہیں ۔اوراس کے جداجداحصے بنائے ہیں ۔وقیل انزلنٰہُ مُفرَّقًا۔اورفرقنٰہُ کے یہ معنی بھی کئے گئے ہیں ۔کہ ہم نے اسے ٹکڑے ٹکڑے کرکے اُتاراہے (مفردات )
مُکْثٍ:مَکَثَ یَمکُثُ کامصدرہے۔مَکَث کے معنی ہیں ۔لَبِثَ۔رُکا ۔ٹھہرا۔رَزُن۔آہستہ وباوقار ہوا(اقرب)المکث ۔ثباتٌ مع الانتظار۔ایسا توقف جس میں انتظا ر ھبی ہو (مفردات )
تفسیر ۔قُراٰنًافَرَقْنٰہّ۔کے معنے ہیں کہ ٹکڑے ٹکڑے کرکے ناز ل فرمایا ہے ۔یعنی ایک ہی وقت میں کئی کئی سورتوں کی آیات اُترتی رہتی ہیں۔اورپھر پہلی اتری ہوئی سورۃ پیچھے کردی جاتی ہے اوربعد کی پہلے ۔اس پر جو اعتراض پڑتاتھااس کاجوا ب دیا ہے کہ ایسااس لئے کیا گیاہے کہ تُواسے اپنی جگہ ٹھہر کرپڑھ سکے یعنی تیرے اندر بے اطمینانی او رگھبراہٹ پیدانہ ہو ۔یہ جوا ب دیکھو اعتراض کرنے والوں کے لئے کیسامسکت ہے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطب دوقسم کے تھے ۔ایک عارضی یعنی ا س وقت کے کفار اورایک مستقل یعنی مومن اوربعد میں آنے والے لوگ ۔مستقل ضرورت کے لئے قرآن کریم کی اَورترتیب چاہیئے تھی اورعارضی ضرورت کے لئے اور۔مستقل ضرورت کے لئے جن سورتوں کو آخر میں نازل کرناچاہیئے تھا ۔عارضی ضرورت کے لئے ان کی فوری ضرورت تھی ۔اسی طرح ایک سورۃ کے بعض مضامین کی ضرورت آخرمیں تھی بعض کی شروع میں ۔اگرعارضی ضرورت کو مدنظر نہ رکھاجاتا توسالہا سال تک مسلمان کفار کوصحیح جواب نہ دے سکتے ۔اواگر مستقل ضرورت کو نظرانداز کردیاجاتا ۔توقرآن جو آئندہ زمانہ میں ایسا مفید نہ ہوتاجیسااب ہے ۔پس فرمایا ہم نے قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے اتارا۔جوں جوں ضرورت تھی اُتارتے گئے ۔بعد والے مضمون کوپہلے ۔پہلے کے مضمون کوبعد میں۔تاکہ وقتی ضرورت پو ری ہوجائے ۔اوربعد می حکم د یکر مستقل ضرورت کے مطابق اس کی ترتیب کردی ۔جیسے دوسری جگہ فرماتاہے ۔اِنَّ علینا جَمْعَہٗ وفُرْاٰنَہٗ(القیامۃ ع۱)کہ اس کی آخری ترتیب ابھی نہیں ہوئی جب یہ وحی کے متفرق ٹکڑے اُترچکیں گے ۔توہم از سرنو ا س کتاب کوترتیب دیں گے ۔اورپھر وہ اس ترتیب کے مطابق پڑ ھی جائے گی ۔
اس آیت میں اس شبہ کاجواب دیاگیا ہے کہ اس سورۃ میں بعض ایسے مضامین کاجواب ہے جوبعد میں نازل ہونے والی سورتوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔
قل اٰمنو ا بہ اولا تؤمنو ط ان الذین اوتوالعلم من قبلہ
تُو(انہیں )کہہ(کہ)تم اس پر ایمان لائو یانہ لائو۔جن لوگوں کو ا س (کے نزول)سے پہلے (الہامی صحیفوں یا فطرت صحیحہ کے ذریعہ
اذایتلی علیھم یخرون للاذقان سجداً٭
سے)علم دیاجاچکا ہے جب ان کے سامنے (اسے )پڑھاجاتا ہے تووہ (اسے سن کر )کامل فرمانبرداری اختیار کرتے ہو ئے ٹھوڑیوں کے بل گرجاتے ہیں ۱۰۷؎
۱۰۷؎ حل لغات ۔الاذقان :ذقن کی جمع ہے ،۔اورذقن کے معنے ٹھوڑی کے ہیں ۔ذقن کالفظ عربی محاورہ کے رُوسے تذللّ پر دلالت کرنے کے لئے بولاجاتاہے ۔کہتے ہیں ۔مثقل استعان بذقنہ۔یضرت لمن استعان باذلّ منہ۔کہ فلاں نے اپنے سے بھی ذلیل انسان سے مدد چاہی(اقرب)پس یخِرُّوْنَ لِلْاذْقان میں انتہائی تذللّ کااظہار کیاگیاہے کہ وہ ٹھوڑیوں کے بل گرجاتے ہیں ۔
تفسیر ۔اُوتواالعلم من قبلہ سے مراد اس جگہ مسلمان ہیں جن کوپہلے سے یعنی آیت کے نزول سے قبل علم مل چکا تھا اوروہ اسلام کی سچائی کے قائل ہوچکے ہیں۔و ہ جانتے ہیں کہ آئندہ دنیا کیترقی قرآن مجید سے ہوگی ۔اس جگہ اوتواالعلم سے اہل کتاب مراد نہیں ہوسکتے ۔کیونکہ وہی تو اس سورۃ میں سب سے اہم مخاطب ہیں ۔
یخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ۔ذقن ۔ٹھوڑی کوکہتے ہیں ۔اورٹھوڑی نیچے کی طرف ہوتی ہے ۔پس ٹھوڑی کے لئے گرنے یاٹھوڑی پر گرنے سے مرادنیچے کیطرف جھکنے یا سجدہ کرنے کے ہوتے ہیں ۔
اس آیت میں خشوع و خضوع کے اظہار کااسلامی طریق بتایا گیا ہے ۔بعض قومیں مثلاً عیسائی وغیرہ سجدہ کے موقعہ پر نیچے کو جھکتے ہیں ۔ مگرمنہ کو اوپر کی طرف اٹھاتے ہیں ۔چنانچہ عیسائیوں کی تصویروں میں جہاں پر حضرت مسیح یاحضرت مریم کوعبادت کی حالت میں دکھایا ہے ۔وہاں پر ان کامنہ آسمان کی طرف دکھایاگیاہے ۔
ویقولون سبحان ربنا ان کان وعد ربنا لمفعولاً٭
اوروہ کہتے ہیں (کہ )ہمارارب(ہرایک عیب سے )پاک ہے (اوریہ کہ )ہمارے رب کاوعد ہ ضرور پوراہوکر رہنے والا ہے ۱۰۸؎
۱۰۸؎ تفسیر ۔اس آیت میں صاف ظاہر کردیا کہ اس سے پہلے مومنوں کے لئے ترقیات کے وعدے دیئے گئے ہیں اور’’اسراء‘‘ کاذکر صرف ایک خبر ہی نہ تھا بلکہ مومنوں کی اورحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ترقی کاوعدہ تھا ۔
سورۃ کے شروع میں بھی اسراء کے ذکر پر ’’سبحان الذی اَسریٰ ‘‘رکھا اوریہاں بھی ’’سبحان ربنا‘‘فرماکر بتایا کہ اس مقام میں مسلمانوں کی ترقی اورکامیابی کاوعدہ کیاگیاہے ۔پھر سبحان کے لفظ سے یہ اشارہ کرنا بھی مقصود ہے کہ مسلمان ضرو رکامیاب ہوں گے اورتم ضرورتباہ و برباد کئے جائو گے کیونکہ اگر ایسانہ ہو توخداتعالیٰ کی قدوسیت پرحرف آتاہے ۔
ویخرون للاذقان یبکون ویزیدھم خشوعاً٭
اوروہ روتے ہوئے ٹھوڑیوں کے بل گرجاتے ہیں ۔اوروہ (یعنی قرآن )انکی فروتنی کو (اوربھی )بڑھاتاہے ۱۰۹؎
۱۰۹؎ تفسیر ۔اس میں مومن کے سجدہ کے وقت کی قلبی کیفیت بیان فرمائی ہے کہ وہ انابت کے اعلیٰ مقام پرہوتاہے اس کاسجدہ دکھاوے کانہیں ہوتا۔بلکہ جبکہ و ہ سجدہ کررہاہوتاہے اس کے آنسوآپ ہی آپ بہنے لگ جاتے ہیں ۔پھر اس میں یہ صفت بھی پائی جاتی ہے کہ عبادت اسے متکبر نہیں بناتی ۔بلکہ ا س کاسجدہ کرنااسے خشوع وخضوع میں اوربڑھادیتاہے ۔
قل ادعوااللہ اوادعواالرحمن ط ایاماتدعوافلہ الاسمائُ
تو(انہیں )کہہ(کہ )تم(خداتعالیٰ کو )اللہ(کہہ کر )پکارویارحمن(کہہ کر)جو (نام لے کر )بھی تم (اسے )پکارو(پکارسکتے ہو)
الحسنیٰ ولاتجھر بصلاتک ولاتخافت بھا وابتغ بین ذٰلک سبیلا ٭
کیونکہ تمام (بہترسے )بہتر صفات اسی کی ہیں۔اورتُواپنے دعائیہ الفاظ اونچی آواز سے نہ کہا کر اورنہ انہیں (بہت) آہستہ کہا کر ۔ اوراس کے درمیان(درمیان)کوئی راہ اختیار (کیا )کر ۱۱۰؎
۱۱۰؎ حل لغات ۔لاتجھر :جھر سے نہی کا صیغہ ہے ۔اورجھر الکلام وبالکلام کے معنے ہیں ۔اَعلنہٗ۔سی بات کااعلان کیا ۔جھر الصوتَ۔اعلاہ۔آواز کواونچاکیا (اقرب)پس لاتجھر بصلاتک ولاتُخافِتْ بھا کے معنے ہوں گے کہ تواپنے دعائیہ الفاظ اونچی آواز سے نہ کہا کر اورنہ آہستہ ۔
لاتُخافِتْ:خافت سے فعل نہی ہے ۔اورخفت سے نکلا ہے ۔خفت او خافت بکلامہ کے معنے ہیں ۔اَسرَّ منطقہٗ۔پوشیدہ بات کی ۔خفت بصوتہ ۔خفضہٗ واخفاہ ولم یر فعہ بہت ہی آہستہ بولا۔آواز کااونچا کیا۔اوربلند نہ ہونے دیا(اقرب)
تفسیر ۔پہلی آیات می چونکہ سجد ہ اورتلاوت کاذکر کیا گیاتھا (جس کی مسلمانوں سے ترقیات کے زمانہ میں امید کی جاتی تھی )ا ب سجدہ میں دعاکاطریق بیان فرماتا ہے کہ ان سجدوں میں اللہ تعالیٰ سے اس کے وعدوں کے پوراہونے کے متعلق اوراپنی اصلاح کے متعلق اس طریق پر دعاکرو ۔جو ہم بتاتے ہیں ۔اس حکم کی تفصیل یہ ہے ۔
قرآن مجید میں اورحدیث میں مختلف دعائیں اوران کے مواقع کاذکر ہے اسلئے فرماتاہے کہ لہ الاسمآئُ ا لحسنٰی ہرکام کے لئے اس کے مناسب حال اللہ تعالیٰ کا ایک نام ہوتاہے ۔اس کے مطابق دعاکیاکرو۔جب تمہیں رحمانیت کی صفت کو جو ش دلانے کی ضرورت ہو توصفت الرحمن کو پیش کرکے دعاکرو۔جب تمہیں رحیمیت ۔رزاقیت اوروہابیت کے متعلق کو ئی مشکل درپیش ہو تواللہ تعالیٰ کو ا س وقت اسی نام سے پکارو ۔کیونکہ سارے اچھے نام اسی کے ہیں ۔جیساموقعہ ہو ویسی ہی قسم کی صفت کے ساتھ دعاکرنی چاہیئے ۔میراتجربہ ہے کہ اس طریق پر دعانہایت موثر ہوتی ہے ۔بعید نہیں کہ اس آیت میں یہود کے اسم اعظم والے دعویٰ کابھی جواب دیا گیا ہو ۔اوربتایا ہوکہ کسی ایک نام کو اسم اعظم کہنا غلطی ہے ۔حصول مقاصد کے لئے خداتعالیٰ کے اس نام کو لینا چاہیئے جوموقعہ کے مناسب ہو ۔اوراگر وہ نام ذہن میں نہ آئے تواللہ تعالیٰ کے سب نام ہی بڑے ہیں کسی نام کو لے کر دعاکرلو۔اللہ تعالیٰ تمہارے دل ک کیفیت کو دیکھ کر دعاسن لے گا ۔
ولاتجھر بصلاتک ولاتخافت بھا وابتغ بین ذالک سبیلا ۔صلوٰۃ کے معنے نماز کے بھی ہوتے ہیں ۔ اوردعاکے بھی ۔اس جگہ چونکہ دعاکاذکر ہے اس لئے دعاہی کے معنے زیادہ مناسب ہیں ۔
فرمایا۔اپنی دعابہت بلند آواز سے نہ مانگاکرواورنہ ہی بالکل دھیمی بلکہ درمیا ن کاراستہ اختیارکرو۔
حدیث میں آتاہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چند صحابہ کے پاس سے گذرے توآپؐ نے دیکھا کہ و ہ پکارپکار کردعاکررہے تھے ۔ آپ نے ان کو منع فرمایا اورکہا کہ تمہاراخدابہرہ نہیں ،اس قدراونچے پکارتے ہو و ہ توچیونٹی کے چلنے اکی آواز کو بھی سنتا ہے ۔قرآن مجید نے بالکل آہستہ دعاکرنے سے بھی منع کیا ہے ۔کیونکہ اس سے توجہ قائم نہیں رہتی ۔دعااس طرح کرنی چاہیئے کہ انسان کو کلمات زبان سے نکلتے ہوئے محسوس ہوں تاکہ اس کی توجہ بھی قائم رہے ۔
غرض دعابہت بلند آواز سے مانگنے سے توخداتعالیٰ کی شان کو مدنظر رکھتے ہوئے منع فرمایا ہے اورنہایت آہستہ دعامانگنے سے انسان کی کمزوری کو مدنظر رکھتے ہوئے منع فرمایا ہے ۔
وقل الحمد للہ الذی لکم یتخذ ولدولم یکن لہ شریک
اور(سب دنیا کوسناسنا کر)کہہ(کہ )کامل تعریف اللہ(تعالیٰ)کے لئے (ہی )مخصوص ہے جو نہ (تو)اولاد رکھتا ہے اورنہ حکومت
فی الملک ولم یکن لہ ولی من الذل وکبیرہ اکبر ٭
میں اس کاکوئی شریک ہے اورنہ (اس کے )عجز کی وجہ سے اس کاکوئی دوست (بنا)ہے ۔(بلکہ جو بھی اس کادوست ہوتاہے اس سے مددلینے کے لئے ہوتاہے )اوراس کی خوب (اچھی طرح)بڑائی بیان کر ۱۱۱؎
۱۱۱؎ تفسیر ۔اس میں اسراء کے انجام کی خبر دی ہے یعنی و ہ خدااپنے اس وعد ہ کوضرو رپوراکرے گا۔اوراسی واحد لاشریک خداکی تعریف کے گیت گائے جائیں گے اگراس کاکوئی بیٹاہوتا جیساکہ بیت المقدس والوں کاخیال ہے تومسلمانوںکو کس نے پوچھنا تھا ایسا ہی اگراس کے شریک ہوتے جیسا کہ مکے والے کہتے ہیں تومسلمانوں کوحکومت کو ن دیتایعنی یہ دونوں قومیں جو مشرک ہیں مسلمانوں کی دشمن تھیں اگرشرک صحیح ہوتا تومسلما ن دنیا می ہرگز کامیاب نہ ہوسکتے ۔لیکن جب اس خدانے باوجودانتہائی کمزوریوں کے مسلمانوں کو ان سب پر اغالب کردیا تویقینا سمجھا جائے گاکہ وہ خداواحد اورلاشریک ہے ۔
مِنَ الذُّلِّ:۔دوست دوقسم کے ہوتے ہیں ۔ایک دوست جو رحم کی وجہ سے اوراحسان کرنے کے لئے بنایاجاتاہے ایسے دوست اللہ تعالیٰ کے ہوتے ہیں یہ اس کی شان کے خلاف نہیں دوسرے و ہ دوست جو امداد اورموقعہ پر کام آنے کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ایسے دوست اللہ تعالیٰ کی شان کے خلاف ہیں ۔
کَبِّرْہُ تَکْبِرًا کہہ کر اسور ۃ کو ختم کیا گیاہے ۔اوراس میں گویا پھر اس امر کی طرف اشار ہ کیا ہے کہ مسلمانوں کو اہل کتاب پر غلبہ ملے گااورجس طر ح اہل مکہ پر غلبہ بتوں کے جھوٹے ہونے کی علامت ہو گااہل کتاب پر غلبہ ان لوگوں کے جھوٹاہونے کی دلیل ہوگا جومسیح ابن اللہ یاعزیرابن اللہ کہتے ہیں اوراس غلبہ کے ذریعہ سے خدائے واحد کی توحید تمام ملک میں پھیلادی جائے گی ۔اورخداکابیٹاماننے والے یااس کاشریک قرار دینے اولے سب کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں داخل کردیاجائے گا اورکمزوراورناتوان انسان کوطاقت بڑائی اورغلبہ دے کر ظاہر کیاجائے گاکہ وہ خداتمام طاقتوں سے بڑااوربلند ہے ۔اسی وجہ سے آخر میں فرمایا کَبِّرْہُ تَکْبِیْرًا۔
آئوہم بھی امتثال امر کے طور پر کہیں اللہ اکبر! اللہ اکبر !اللہ اکبر !
سورۃ الکہف مکیہ
سورہ کہف ۱؎ یہ سورہ مکی ہے
وھی مع البسملۃ واحدی عشر ۃ ایۃً واثنا عشر رکواعاً
اوربسم اللہ سمیت اس کی ایک سو گیارہ آیتیں ہیں اوربارہ رکوع ہیں۔
۱؎ :ابن عباسؓ ااورابن زبیر کے نزدیک یہ سورۃ سب کی سب مکی ہے (درمنثور)تمام مفسرین کابھی اس امر پر اتفاق معلوم ہوتاہے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت سے بھی معلوم ہوتاہے کہ نہ صرف مکی ہے بلکہ ابتدائی ایام کی ہے ۔وہ فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل ،کہف،اورمریم ابتدائی سورتو ں سے ہیں اورمیرے پرانے مال میں سے ہیں (بخاری جلد ۳ص ۲۰۷)
بعض کے نزدیک یہ سورۃ ان سورتوںمیں سے ہے جو یکدم نازل ہوئی ہیں ۔دیلمی نے انسؓ سے یہی روایت کی ہے کہ یہ سور ۃ یکدم نازل ہوئی تھی اورسترہزارفرشتہ ساتھ تھا اورا س کی خاص طورپر حفاظت کی گئی تھی ۔
ان روایات کایہ مطلب نہیں کہ بعض سورتوں کی حفاظت کم ہوئی ہے اوربعض کی زیادہ ۔کیونکہ اگریہ تسلیم کیا جائے تویہ بھی مانناپڑے گاکہ بعض سورتوں کامحفو ظ ہونا زیادہ یقینی ہے اوربعض کاکم ۔لیکن یہ امر بالبداہت غلط ہے پس جہاں جہاں حدیثوں میں آتاہے کہ فلاں سورۃ کی حفاظت کے لئے اتنے فرشتے اترے ۔اس سے نزول کے وقت کی حفاظت مراد نہیں ۔بلکہ نزول کے بعدکی حفاظت مراد ہوتی ہے ۔اوروہ اس طرح کہ ہرسورۃ کسی خاص مضمون کے بارہ میں ہوتی ہے اوربعض دفعہ اس میں پیشگوئیاں ہوتی ہیں جن کے پوراہونے پر اس سورۃ کی سچائی کاانحصار ہوتاہے ۔یہ پیشگوئیاں بعض دفعہ طبعی تغیرات کے متعلق ہوتی ہیں اوربعض دفعہ انسانی اعمال کے متعلق ۔انسانی اعمال کے متعلق جوپیشگوئیاں ہوتی ہیں وہ اس لحاظ سے خاص اہمیت رکھتی ہیں کہ جن کے عذاب کی ان پیشگوئیوں میں خبرہو ۔وہ اس عذاب کو ٹالنے کی پوری کوشش کرتے ہیں اورچونکہ پیشگوئیاں عموماً غیر معمولی طورپر مخالف حالات میں کی جاتی ہیں۔اس لئے دنیوی سامانوں کے لحاظ سے ان کاپوراہونا بظاہرناممکن یاغیراغلب نظر آتاہے اوراسی وقت ان کے پوراہونے کی کوئی صورت پیداہوسکتی ہے ۔جبکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیبی امدادکاانتظام کیا جائے ۔پس جس سور ۃ میں اس قسم کی پیشگوئیاں ہو ں جن کے باطل جانے کے متعلق زبردست قوموں نے زورلگاناہو ان کے بارہ می اللہ تعالی کی طرف سے ان ملائکہ کو جو دنیا کے مختلف کاموں پر بطور مدبّر مقرر ہیں ہدایت کیجاتی ہے کہ وہ ایسے سامان پیداکریں کہ وہ پیشگوئیاں بغیر روک کے پوری ہوجائیں ۔یہ ظاہر ہے کہ جس قدر وسیع الاثر پیشگوئی ہوگی اسی قدروسیع ا سکے مخالفو ں کی تعداد ہوگی اوراسی قدر وسیع ذرائع اس کے باطل کرنے کیی لئے دشمن استعمال کرے گا۔اوراس کے مقابل پر اسی قدر وسیع ذرائع اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی تائید میں استعمال کئے جائیں گے ۔پس چونکہ دنیا کے تمام اسباب ملائکہ کے سپرد ہیں اوروہ خداتعالیٰ کے مقرر کردہ قوانین کے مطابق ان کے لئے بطور مدبّرہیں اس لئے جب کوئی ایسی پیشگوئی کی جاتی ہے ۔اسی قدر ملائکہ کوجن کے زیر تدبیر سامانوں سے اس کے پوراہونے کا تعلق ہوحکم دیاجاتاہے کہ تم اس سورۃ کے مضمون کی حفاظت کرو یعنی ان تدابیر میں لگ جائو جواس پیشگوئی کے پوراکرنے ک لئے ضروری ہیں ۔پس حفاظت آسمان سے زمین کے نزول تک نہیںہوتی بلکہ حفاظت کااصل کام نزول کے بعد شروع ہوتاہے اوراس وقت تک جاری رہتاہے جب تک کہ اس سورۃ میں بیان کردہ پیشگوئیا ں پوری نہ ہوجائیں ورنہ شیطانی ایاانسانی دخل اندازی کے لحاظ سے ہرسورۃ ہرآیت ہرلفظ بلکہ ہر حرف اورحرکت قرآن کر یم کی یکساں محفوظ ہے اوراس کی یکساں حفاظت کی جاتی ہے اورکسی سورۃ یاکسی آیت یا کسی حرف یا حرکت کو دوسری سورتوں یا دوسری آیتوں یادوسرے حرفوں اورحرکات سے امتیاز حاصل نہیں ۔
غرض اس سورۃ کے ساتھ ستر ہزا ر فرشتے اتارنے کایہ مطلب ہے کہ چونکہ اس میں یاجوج ماجوج جیسی طاقتورقوموں اورآخری مسیحی فتنہ کے استیصال کی خبر دی گئی ہے اس لئے ہزاروں فرشتوںکو اس پیشگوئی کے پوراکرنے کیلئے نزول قرآن کے زمانہ سے لگادیاگیاہے۔
زمانہء نزو ل
مسیحی مصنف اس کے نزول کازمانہ نبوت کے چھٹے سال میں قرار دیتے ہیں۔مگر میرے نزدیک یہ چوتھے یاپانچویں سال کی معلوم ہوتی ہے ۔کیونکہ حضرت عبداللہ بن مسعود کی مذکورہ بالا روایت سے ا یساہی ثابت ہوتاہے ۔
اس سورۃ کااسراء سے تعلق
اس کاتعلق پہلی سور ۃ سے مفسرین یہ قرار دیتے ہیں کہ یہود نے تین سوال کئے تھے ۔
(۱)روح کے متعلق ۔(۲)اصحاب کہف کے متعلق (۳)ذوالقرنین کے متعلق ۔ان تین سوالوں میں سے ایک کاجواب دیر سے آیا (یعنی روح القدس کے متعلق )اوروہ سو رۃ اسراء میں درج ہوا۔
دوسرے دوسوالوںکاجواب جلدی اوراکٹھا آگیا ۔اس لئے ان دونوں کو ایک ہی سورۃ یعنی کہف میں اکٹھا بیان کردیا (بحر محیط)لیکن یہ جوا ب کافی نہیں ۔کیونکہ اس سورۃ میں اور بھی کئی واقعات ہیں ۔مثلاً دوباغ والوں کی تمثیل موسیٰ کاسفر وغیرہ۔سوال یہ ہے کہ ان واقعات کویہاںکیوں بیان کیا گیا ہے ۔مفسرین ا سکے جواب میں خاموش ہیں
پادری ویری اپنی تفسیر میں اس سور ۃ کے واقعات کی بناء پر لکھتے ہیں کہ اس سورۃ کو سورۃ العجائب کہناچاہیئے ۔
میرے نزدیک نہ مفسرین کی توجیہہ صحیح ہے اورنہ ویری کااعتراض معقول ۔یہ توجیہہ بھی او ریہ اعتراض بھی سور ۃ کا مضمو ن اوراس کی غرض نہ سمجھنے کی وجہ سے پیداہوئے ہیں ۔
چونکہ بعض نامکمل یاکمزورروایات کیوجہ سے مفسرین کے دماغوں میں یہ بات سمائی ہوئی تھی کہ یہود نے آنحضرت صلعم سے تین عجیب سوال کئے تھے اوریہاںان کاجواب دیاگیا ہے اس لئے انہوں نے کسی اورپہلوپر غو کرنے کی کوشش ہی نہیں کی ۔اوران کاخیال ان کمزور روایات میں ہی الجھا رہا۔حالانکہ یہ امربالکل ماننے کے قابل نہیں کہ قرآن کریم میں کوئی واقعہ یہود کے سوال کی وجہ سے ناز ل ہواہو۔قرآن کریم توایک مکمل ہدایت نامہ ہے اسے اس سے کیا تعلق کہ کوئی سوال کرتاہے یا نہیں ۔اس نے توبہر حال ہروہ علم جواخلاق ۔عبادت ۔روحانیت۔ تقویٰ۔تمدن ۔اقتصاد اورسیا ست وغیرہا کے متعلق ہوبیان کرنا ہی تھا ۔پس اگر ان واقعات کا دین اور دیانت سے کوئی تعلق ہے توانہوں نے بہرحال بیان ہوناتھا ۔اوراگرنہیں تویہود یلاکھ سوال کرتے ان کے بیا ن کرنے کی قرآن کریم کو کوئی ضرورت نہ تھی ۔یہ امر بھی ناقابل تسلیم ہے کہ ان واقعات کو اس لئے اکٹھا بیان کیا گیا ہے کہ یہود نے اکٹھاسوال کیا تھا ۔ ایک وقت میں انسان مختلف مضامین کے متعلق سوال کردیتا ہے اس مجلس میں اس ترتیب سے ان کاجواب دینا تومعقول ہوسکتاہے لیکن ایک مستقل کتا ب میں جس کاتعلق کسی خاص قوم یازمانہ سے نہیں ۔ان سوالوں کاجواب اکٹھادینا قطع نظر اس کے کہ ان کا آپس میں کوئی جوڑبھی ہویا نہ ہوہرگز پسندید ہ امر نہیں کہلاسکتا۔پس میرے نزدیک یہ خیالات قلت تدبر سے پیداہوئے ہیںیاشاید اس وقت ابھی ان سوالات کے حل ہونے کاوقت نہ آیا تھا ۔
میرے نزدیک یہ امر بھی بالکل خلاف عقل ہے اورقرآن کریم کی شان کے خلاف ہے کہ دوسوالوں کاجواب جلدی آگیا اس لئے اسے کہف میں رکھ دیا اورایک کاجواب بعد میں آیااس لئے اسے سورۃ اسراء میں بیان کر دیاکیونکہ اس جواب پر یہ معقول اعتراض ہوتاہے کہ کیوں دوسوالوں کے جواب پہلے آگئے ۔بعض مفسرین اس فرق کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ دوسوالوں کاجواب چونکہ دیاگیا ہے اورایک کے جواب سے لاعلمی ظاہر کی گئی ہے ا س لئے جن کاجواب دیاگیاتھا انہیں ایک سورۃ میں بیان کردیا ۔اورجس سوال کے جواب سے لاعلمی ظاہر کی گئی ہے اس لئے جن کاجواب دیاگیاتھا انہیں ایک سورۃ میں بیان کردیا ۔اورجس سوال کیی جواب سے معذوری ظاہر کی اسے سورئہ اسراء کے ساتھ شامل کردیا ۔اول تویہ جواب جواب دینے والے کی لاعلمی پردلالت کرتاہے ۔قرآن کریم نے ہرگز کسی معذوری یالاعلمی کااظہار نہیں کیا بلکہ روح کے متعلق جو سوال تھا اس کامکمل جواب دیاہے دوسرے یہ جواب بھی اس خیا ل پرمبنی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی آخر ی اورجامع کتاب کے مضامین کے لئے یہود کے سوالوں کامحتاج تھا ۔یامجبورتھا کہ وہ سوال کریں توان کاجواب دے ۔قرآن کریم میں یہود و مشرکین کے سارے ہی شبہات کاجواب ہے مگراس طرح نہیں کہ انہوں نے سوال کیا اورقرآن نے جواب دیا ۔بلکہ جو مضمون قرآن میں بیا ن ہوتا ہے اس کے متعلق جو شبہات اور وسوسے پیداکئے جاسکتے ہیں وہ ان کاجواب اس جگہ دے دیتاہے خوا ہ عملاً کفا ر ومشرکین نے وہ وسوسے پیش کئے ہوں یا نہ کئے ہوں اورکسی اوروقت پیش کئے ہوں یااس وقت پیش کئے ہوں ۔درحقیقت قرآ ن ان عارضی موجبات کی ذرّہ بھر بھی پرواہ نہں کرتا ۔و ہ تواپنے مضمون سے کام رکھتاہے کیونکہ وہ صر ف اس زمانہ کے لوگوں کے لئے نہیں اُتراتھا بلکہ ہرزمانہ کے لوگوں کے لئے اُتراتھا ۔پس اس کے جوابات صرف اس مضمون پر پڑنے والے اعتراضات کے متعلق ہوتے ہیں جو و ہ بیان کررہاہوتاہے ۔
یہ امر بھی قابل غور ہے کہ مفسرین نے اپنے خیالات کی بناجن روایتوں پر رکھی ہے وہ خود عقلا ً اورنقلاً مجروح معلوم ہوتی ہیں وہ روایتیں یہ ہیں (۱)مکہ والوں نے ایک وفد مدینہ کے یہود کی طرف بھجوایا کہ مکہ میں ایک مدعی پیداہواہے اس کے بارہ میں ہمیں مشورہ دو کہ ہم کیا کریں انہوں نے جواب دیا کہ اس سے تین سوال کرواگر وہ جواب دے دے توسچا ہے ورنہ جھوٹاہے ان لوگوں نے واپس آکر وہ تین سوال رسول کریم صلعم پر کئے ۔(الف)اصحاب کہف کون تھے(۶)ذوالقرنین کے واقعات کیا ہیں (ج)روح کیا چیز ہے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں کل جواب دوں گا ۔مگردس پندر ہ دن تک وحی نہ آئی آپ بہت گھبرائے اورکفار بہت خوش ہوئے ۔آخر جبریل وحی لائے اورآپ نے ان سے شکایت کی کہ اسقدر دیر کیوں کی ۔انہوںنے کہا کہ آپ نے چونکہ انشاء اللہ نہ کہاتھا اللہ تعالیٰ نے سزاد ی ہے اورتینوں سوالوںکے جواب بتادیئے جن میں سے دوسورہ کہف میں بیان ہوئے ہیں اورایک سورۃ اسراء میں بیان کیا گیا ہے یہ روایت ابن عباسؓ کی طرف منسوب کرکے بیان کی گئی ہے (درمنثوربہ حوالہ ابن اسحاق ابن جریر وغیراہا)دوسری روایت بھی حضرت ابن عباس ؓ کی طر ف منسوب ہے اوروہ یہ ہے کہ کفارنے ایک وفدمدینہ کے یہود کی طرف بھجوایا اوران سے آپؐ کے بارہ میں مشورہ کیا ۔انہوں نے کہا کہ اس سے تین سوال پوچھو کہ اصحاب کہف ۔ذوالقرنین اورروح میں کیا ہیں ۔ان میں سے پہلے دوکاجواب اگروہ دیدے اورتیسرے کے جواب سے معذوری ظاہر کرے تووہ سچا ہے اوراگر تینوں کاجواب وہ نہ دے یا روح کے متعلق بھی وہ کوئی جواب دیدے تووہ جھوٹاہے اوریہ بھی کہا کہ ہم نے مسیلمہ کذاب سے بھی یہ سوال کیاتھا مگر وہ کوئی جواب نہ دے سکا۔آگے پہلی روایت کی طرح کی روایت ہے سوائے اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحاب کہف اورذوالقرنین کی بابت سوالوں کاجواب تودے دیا ۔لیکن روح کے بارہ میں یہ کہا کہ قُلِ الرُّوحُ مِنْ اَمْرِرَبِّیْ(اسراء ع۱۰)اوراس طرح معذوری ظاہر کردی (درمنثور بحوالہ دلائل النبوّۃ ابونعیم )
اول تویہ روایتیں حضرت ابن عباسؓ کی طرف منسوب ہیں جواس واقعہ کے تین چار سال بعد پیداہوئے تھے اگریہ واقعہ اہم نہ ہوتا توہم کہتے کہ باقی صحابہؓ نے اسکاذکر کرنے کیضرورت نہ سمجھی یاکوئی گھر کامعاملہ ہوتا توبھی ہم سمجھتے کہ گھر کے کسی فرد کو اس کا بہتر علم ہوسکتا تھا لیکن اہم تووہ اس قدر ہے کہ مکہ کے لوگ ایک وفد تین سومیل مدینہ کی طرف بھجواتے ہیں پھر وہ لوگ آکر رسول کریم صلعم پر سوال کرتے ہیں پھر کئی دن تک جواب نہ آنے کے سبب سے مکہ کے لوگ خوش اوررسول کریم صلعم غمگین ہوتے ہیں لیکن اس زمانہ کے صحابہ میں سے ایک بھی اس واقعہ کوبیان نہیں کرتا ۔اگر کرتاہو توو ہ شخص جو اسوقت پیدابھی نہ ہواتھا ۔
دوسرااعتراض ان روایات پر یہ ہے کہ دونوں ہی روایات حضرت ابن عباس ؓ کی طر ف منسوب ہیںاوردونوں ایک دوسرے کے خلاف ہیں ۔ایک روایت تو کہتی ہے کہ اگر ان تین سوالوں کاجواب اس شخص نے نہ دیا تووہ جھوٹا۔دوسری یہ کہتی ہے کہ اگران تین سوالوں میں سے ودکا جواب اس نے دیاتوسچا اوراگر تیسرے سوال کاجواب بھی دیدیا توجھوٹا ۔اب ہم کس روایت کو مانیں جوروایت یہ کہتی ہے کہ تینوں کاجواب دیں تو سچے ہیں یاجویہ کہتی ہے کہ تینوں کاجوا ب دیں تو جھوٹے ہیں ۔اگراس روایت کو ماناجائے جوکہتی ہے کہ تینوں کا جواب دیں توسچے ہیں توجولو گ کہتے ہیں کہ تیسرے سوال کاجواب نہیں ملا و ہ کیا کریں کیا اس حدیث کو جھو ٹاکہیں یا(نعوذباللہ من ذالک )رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ۔اوراگر اس حدیث کو سچاکہا جائے جو یہ بتاتی ہے کہ اگر روح کے متعلق سوال کاجواب محمد (رسول اللہ صلعم)دے دیں تو وہ جھوٹے ہیں توبتائو کہ جو شخص قرآن کریم کے اس جواب کو کہ قل الروح من امر ربی کوایک مکمل اورشافی جواب سمجھتاہے وہ اس حدیث کو جھو ٹاکہے یانعوذ باللہ محمد رسول اللہ صلعم کو ۔میرے نزدیک توچونکہ دونوںحدیثوں میں جودعویٰ پیش کیا گیا ہے وہ خلاف عقل ہے اس لئے دونوں ہی جھوٹی ہیں خداکارسول بہرحال سچا ہے ۔
یہ روایات خلاف عقل اس طرح ہیں کہ جن سوالات کا ان میں ذکر ہے سوال یہ ہے کہ ان کے جواب یہود جانتے تھے یا نہیں ۔اگرو ہ جانتے تھے توکیا اس سے احمقانہ طریق بھی کسی نبی کے پرکھنے کاہوسکتا ہے کہ اس سے ایسے امر کے متعلق سوال کیا جائے جسے سینکڑوں ہزاروں لوگ جانتے تھے ۔فرض کرو کسی کذاب کو بھی ان باتوں کایہود سے سن کر علم ہوتا۔توکیا ان سوالوں کاجواب دیکر وہ سچانبی ہوجاتا ۔اگر مذکورہ بالا سوال کا جوا ب یہ ہے کہ یہود ان سوالوں کاجواب نہیں جانتے تھے توانہیں کس طرح معلوم ہوتا کہ جوجواب دیئے گئے ہیں وہ غلط ہیں یاصحیح اور کیا محض جواب دیدینے سے مدعی کی سچائی ثابت ہوسکتی تھی ۔یہی اعتراضات کم سے کم دوسری روایت کے دوسوالوں کے بارہ میں بھی پیداہوتے ہیں اورچونکہ ان سوالات کاکوئی معقول جواب نہیں دیاجاسکتا ۔اس لئے ظاہر ہے کہ یہ روایات بعض وضاعین کی بنائی ہوئی ہیں ۔
تیسرااعتراض دوسری روایت پر یہ پڑتاہے کہ اس میں لکھا ہے کہ ہم نے مسیلمہ کذاب سے بھی پوچھا ہے وہ بھی جواب نہیں دے سکا ۔ یہ حصہ روایت کاروایت کو جھوٹاثابت کرنے کیلئے کافی ہے ۔کیونکہ گومسیلمہ بنو حنیفہ میں معززآدمی تھا مگر تاریخ سے ثابت ہے کہ بنوحنیفہ اسلام لانے سے پہلے عیسائی تھے اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر صلح حدیبیہ کے بعد مسلمان ہوئے اورمسلمان ہونے کے بعد مسیلمہ مرتدہوکر مدعی نبو ۃ بنا ۔اوریہ خود مدینہ آیااسلام لا یا ۔اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قوم کو حکم دیا کہ واپس جا کر اپنے گرجاکو مسجد بنائو اورنمازوں کے پابند رہو ۔(زرقانی جلد ۴۔اورلائف آف محمد مصنفہ سرمیور)اب یہ ظاہر ہے کہ جس شخص نے نبوت کا دعویٰ رسول کریم کی مدنی زندگی کے آخری سالوں میں کیا ۔اس سے مدینہ کے یہود ا س وقت یہ سوال کرنے کہاں سے گئے تھے جبکہ رسو ل کریم صلعم ابھی مکہ میں تھے اور اس شخص نے نبوت کادعویٰ ہی اس وقت نہ کیا تھا ۔
خلاصہ یہ کہ یہ روایات بالکل غلط اور باطل ہیں۔اوران پر کسی صورت میں بھی تفسیر کی بنیا د نہیں رکھی جاسکتی ۔
جب یہ روایا ت غلط ثا بت ہوگئیں تواب ہمیں یہ دیکھنا چاہیئے کہ قرآن کریم سے اس سورۃ کے مضامین کی ترتیب کی کیا وجوہ معلوم ہوتی ہیں اورایسی روایات کی طرف ہمیں توجہ ہی نہیں کرنی چاہیئے ۔
اب میں بتاتاہوں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اس بار ہ میں کیا علم دیاہے اوراس کے مطابق سورۃ کہف کا جوڑ پہلی سورۃ سے کیا ہے اورجوواقعات اس میں بیان ہیں ان کاسورئہ بنی اسرائیل سے کیا تعلق ہے ۔سویاد رکھنا چاہیئے کہ جیساکہ سورئہ نحل میں ثابت کیا جاچکا ہے ۔سورئہ نحل میں یہودونصاریٰ سے مقابلہ کی پیشگوئی کی گئی تھی اورسورئہ اسراء میں اس کی مزید تشریح اس طر ح کی گئی تھی کہ اللہ تعالیٰ محمدرسول اللہ صلعم کو ایک ایسے علاقہ میں لے جائے گاجہاں ان کاتعلق یہودونصاریٰ سے پیداہوگا اورو ہ بھی آپ کی مخالفت کریں گے اورشکست کھائیں گے اورساتھ ہی ایک کشف کا ذکرکیا گیاتھا جس می خبر دی گئی تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان علاقوں پر قابض ہوجائیں گے جویہود کے لئے موعود تھے اوریہ کہ یہود کے لئے مقدر مقدر ہوچکا ہے کہ وہ دوبغاوتیں کریں گے ۔ایک بغاوت حضرت دائود کے بعد جس کے نتیجہ میں وہ اپنے ملک سے نکالے جائیں گے لیکن اس کے بعد توبہ کرکے اپنے ملک میں واپس آنے کے توفیق پائیں گے ۔دوسری بغاوت و ہ مسیح کے زمانہ میں کریں گے جس کے نتیجہ میں پھر ان کے معبد گرائے جائیں گے اورانہیں اپنے موعود وطن سے نکال دیاجائیگا۔ان پیشگوئیوں میں موسوی سلسلہ کی پہلی کڑی کے حالات بتائے گئے تھے اب ایک سوال تورہ جاتاتھا کہ موسوی سلسلہ کی دوسری کڑی توموجود ہے جو ان عذابوں میں پہلی کڑی یعنی یہود کے شریک حال نہیں پس کیوں نہ سمجھاجائے کہ یہود کی تباہی کے بعد و ہ ان پیشگوئیوں کے مصداق نہیں بنیں گے جوموسوی سلسلہ کی ترقی کی نسبت پہلی کتب میں بیان ہوچکی ہیں اوردوسراسوال یہ رہ جاتاتھا کہ مسلمانوں کو جو ہوشیا ر کیاگیاہے کہ تم یہود کے نقش قدم پر چل کراپنے آپ کو یہود کی طرح ان دوعذابوں میں مبتلانہ کرلینا ۔اس کے متعلق آئندہ کیا ہونے والاہے ؟ ان دونوں سوالوں کاجواب سورئہ کہف میں دیاگیا ہے اورموسوی سلسلہ کی دوسری کڑی کے حالات بیان کئے گئے ہیںاوریہ بھی بتایا گیاہے کہ وہ مسلما ن جو یہود کے نقش قد م پر چلیں گے ان کے ساتھ کیا معاملہ گذرے گااورکس طرح گذرے گا ۔
رہا یہ سوال کہ اصحاب کہف اوردوباغوں کی تمثیل سے اورموسیٰ کے اسراء کے واقعہ اورپھر ذوالقرنین اوریاجوج ماجوج کے ذکرکاان امور سے کیا تعلق ہے ۔سواس کاجواب یہ ہے کہ ان واقعات میں مسیحی قوم کی ابتداء اورانتہاء کاذکر کیاگیاہے اورساتھ ہی ان مشکلات کاذکر کیاگیا ہے جومسلمانوں پر ان کی بے دینی کیوجہ سے مسیحی اقوام کی طرف سے پیش آنے والی تھیں ۔
اصحاب کہف و ہ ابتدائی مسیحی ہیں جنہوںنے دین کی خاطربڑی بڑی تکالیف اٹھائیں اورآخراللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی قربانیوں کابدلہ ملا۔اوراللہ تعالیٰ نے ان پر فضل کرکے دینی اوردنیوی ترقیات انہیں دیں ۔یہ واقعات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت نصاریٰ بھی سچے راستہ کو چھو ڑ چکے تھے ان کے ذکر سے اس طرف اشارہ کیا گیاہے کہ جب یہود نے اللہ تعالیٰ کوناراض کردیا تواللہ تعالیٰ نے اپنے دین کے لئے اصحاب کہف یادوسرے لفظوں میں ابتدائی مسیحیوں کو جوراستی پر قائم تھے اپنے فضلوں کے لئے چن لیا ۔اس کے بعد مضمون کا گریز اس طرف ہونا چاہیئے تھا کہ پھر ان پر سے فضل کو کیوں ہٹایا گیا تواس کاجواب دو باغوں والے کی تمثیل سے دیا کہ موسوی سلسلہ کو ہم نے دوباغ دئے تھے یعنی یہود کی ترقی کا باغ ۔اورمسیح کی امت کی ترقی کاباغ۔جن دونو ں میں سے ایک کاذکر سورئہ اسراء میں کیا گیا ۔اوردوسرے کاذکر اصحاب کہف کے ذکر سے کیا گیاہے پھر یہ بتایا کہ ان دوباغوں کی ملکیت سے یہ قوم منکر ہوگئی اورخداتعالیٰ کو بھو ل گئی اوراپنے بھائیوں یعنی بنواسماعیل کو حقیر سمجھنے لگی اوریہ سمجھ بیٹھی کہ گویا اس پریہ فضل کسی ذاتی حق کی بناء پر ناز ل ہورہے ہیں تب اللہ تعالیٰ نے مظلوموںاورا ن کی جو حقیر سمجھے گئے تھے فریاد کوسنا ۔اورموسوی سلسلہ کے باغوں کوجلادیا ۔ یعنی دونوں قومو ں کی شان و شوکت کوتوڑ دیا اوراسمٰعیل نسل پر جو حقیر سمجھی گئی تھی فضل کرکے ان سے اچھے باغ ان کو دے دئے ۔
اس تمثیل کے بعد مضمو ن کو اورواضح کرنے کے لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ایک اسراء کاذکر فرمایا جس می انہیں موسوی سلسلہ کی ترقیات اسی طرح دکھائی گئی تھیں جس طر ح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوسورئہ اسراء میں بیان شدہ اسراء میں محمدی سلسلہ کی ترقیات دکھائی گئی تھیں اوراس اسراء کے ذکر سے وضاحت سے اس مضمون کو بیا ن کیا کہ موسوی سلسلہ کی ترقی جسے اسراء کی شکل میںدکھایاگیا تھا کس طرح ہوگی اورکس مقام پر پہنچ کر وہ ترقی رک جائے گی اوراسمٰعیل نسل کی طرف برکات منتقل ہوجائیں گی ۔اس امر کے بیان کرنے کے بعد اس ذکر کو شروع کیا کہ اسمٰعیلی نسل کیطرف برکات سماوی کے منتقل ہوجانے کے بعد اللہ تعالیٰ ان نافرمانوں کو جومحمدی سلسلہ میں سے دین سے غافل ہوجائیں گے موسوی سلسلہ کی بگڑی ہوئی دوسر ی کڑی کے ہاتھوں سے سزادلوائے گا اوریہ سزایاجوج ماجو ج کے ذریعہ سے ہوگی جونصرانی دین کے پابند ہوں گے اور ایک دن سب دنیا پر چھا جائیںگے ۔اوریہ سمجھانے کے لئے کہ یہ اقوام اب بھی موجود ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی حکمت کاملہ نے ان کو پھیلنے او رترقی کرنے سے روکاہواہے ۔ ان وجوہ کو بیان کیاجوان اقوام کو روک رہی ہیں اوریاجوج ماجوج کے ایک عرصہ تک باقی دنیا سے الگ رہنے کا سبب ایک وجود کو بتایا جس کانام ذوالقرنین فرمایا ہے اوراس طرح نصرانی قوم کے دونوں حصو ں کے واقعات بیا ن کردیئے ایک وہ جو اصحاب کہف کی شکل میں سچے اوراصل نصرانی تھے ۔اورایک وہ جو اصحاب کہف کی روح کے کچلے جانے کے بعد مسیحیت کو قبول کریں گے اوروہ نصرانی دین پر صرف ظاہر میں قائم ہوں گے درحقیقت و ہ اس دین کی روح سے بالکل بے خبر ہوں گے ۔
آخر میں بتایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے عذاب بھیج کر اس یاجوجی ماجوجی فتنہ کو کچل دے گا۔اورایک ذوالقرنین ثانی کے ذریعہ سے مسلمانوں کی نجات کے سامان پیداکرے گا۔
خلاصہ یہ کہ اس سورۃ میں مسیحی سلسلہ کے دودوروں کا ذکرکیا گیا ہے اس دورکابھی جو نیکی کادور تھا اوراس کابھی جو بدی کادور تھا ۔ اوربتایاہے کہ ان دونوں دوروں کے درمیان محمدی سلسلہ کاقیا م مقدر ہے اورمحمدی سلسلہ کے نافرمانوں کی سزاکے لیء اللہ تعالیٰ نے عیسوی سلسلہ کے بے دین لوگوں کوچھپارکھا ہے ایک دن وہ ظاہر ہوں گے اوراسلامی شوکت کو توڑ دیں گے مگرپھر اللہ تعالیٰ فضل کرکے اسلام کو فتنہ سے محفوظ کرلے گا۔
یہ خلاصہ ہے ۔باقی تفصیلات سورۃ کے مختلف حصوں میں ساتھ کے ساتھ بیان کی جائیں گی ۔
یہ ترتیب تووہ ہے جواس سور ۃ کے دوسری سورتوں سے تعلق کو مد نظررکھ کربیا ن کی گئی ہے ۔باقی رہا اس سورۃ کی ابتداء کا تعلق پہلی سورۃ کے آخر سے سو و ہ بھی ظاہر ہے ۔اسراء کے آخر میں فرمایاتھا وقُلِ الحمد للہ الذ ی لم یتَّخِذْ وَلَدًاوَّلم یکن لہ شریکٌ فی المُلکِ ولم یکن لہ ولیٌّ من الذُّلِّ وکَبِّرْہُ تکبیراً اوراس سور ۃ کے شروع میں فرماتاہے کہ محمد رسول اللہ صلعم پر قرآن ہم نے جن اغراض سے ناز ل کیاہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ویُنذرالذین قالواتَّخذاللہ ُولدًا۔پس پہلی سورۃ کوختم اس ذکر سے کیا تھا کہ خداکاکوئی بیٹانہیں اوراس سورۃ کو شروع اس ذکر سے کیا ہے کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس قوم کی تباہی کی خبر دیتے ہیں جوخداکابیٹاتجویز کرتی ہے ۔اسی طرح پہلی سورۃ کے آخر میں فرمایاتھا کہ علم والے لوگ وہ ہوتے ہیںجوخداتعالی کی عبادتیں کرتے اوراس کے وعدوں پر یقین رکھتے ہیںاورکہف کے شروع میں یہ بتایاہے کہ جوخداتعالیٰ کابیٹاتجویز کرتے ہیں وہ علم والے نہیں کہلاسکتے ۔گویا پہلی سورۃ میں علم کی تشریح کی ۔اوردوسری میں جہالت کی ۔تیسراتعلق سورئہ اسرا کے آخر ی حصہ اورسورئہ کہف کے ابتدائی حصہ میں یہ ہے کہ سورئہ اسراکے آخر میں تویہ بیان فرمایاہے کہ لم یکن لہ شریکٌ فی الملکِ اللہ تعالیٰ کاحکومت میں کوئی شریک نہیں ۔اورسورئہ کہف کے شروع میں یہ بیان فرمایاہے کہ لینذر باساً شدیداًمن لدنہُ قرآن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواس لئے ملا ہے تاکہ لوگوںکو اس عذاب سے ڈرائیں جو خداتعالیٰ کی طرف سے آتاہے یعنی جولوگ اپنی حکومتوں پر گھمنڈ کرتے ہیںاورخیال کرتے ہیں کہ دنیوی سامانوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کامقابلہ کرنے والا اورانہیں تباہ کرنے ولاکوئی نہیں ان کوبتادے کہ تباہیاں ایسے ذرائع سے بھی ہواکرتی ہیں جوکسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے ۔پس اس خداکے عذاب سے مطمئن نہ رہو جو اس دنیا کااصل باد شاہ ہے ۔چوتھاتعلق دونوں سورتوںکے آخری اورابتدائی حصوں میں یہ ہے کہ سورہ اسرا ء کے آخری الفاظ یہ تھے کہ کبّرہ تکیرًاخداتعالیٰ ہی کی بڑائی بیان کرواوراس سورۃ کی شروع کی آیات میں خداکابیٹا بنانے والوں کاذکرکرکے فرماتاہے کَبُرَتْ کَلِمَۃً تخرج ُ من افواھہم ۔یہ بہت بڑی بات ہے جو ا نکے مونہوں سے نکل رہی ہے ۔یعنی بڑائی تواللہ تعالیٰ کاحق ہے اوریہ ظلماً وہ حق اس کی ناچیز مخلوق کودے رہے ہیں ۔
اب میں بعض احادیث درج کرتاہو ں جن سے ثابت ہوتاہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس سورۃ کو نصاریٰ کے متعلق ہی کہا ہے اورانہی پرچسپاں کیا ہے ۔امام احمد بن حنبل ابوالدرداءؓ سے روایت کرتے ہیں کہ قال رسول اللہ صلعم من حفظ عشر اٰیاتٍ من اولِ سورۃ الکھف عُصِمَ من الدَّجَّال ۔یعنی جس شخص نے دس آیتیں سورئہ کہف کی ابتداء سے یاد کرلیں و ہ دجال کے فتنہ سے بچایاجائے گا۔(مسند احمد بن حنبل جلد ۶ص ۴۴۹)
اس حدیث سے صاف طور پر معلوم ہوتاہے کہ یہ سورۃ دجال کے فتنہ سے تعلق رکھتی ہے ۔اوراحمداورمسلم اورنسائی نے ابولدرداء سے روایت کی ہے کہ قال رسول اللہ مَنْ قَرأَ عشر الاَوَاخر َ من سورۃِ الکھف عُصِمَ من فتنۃ الدجال۔کہ جس شخص سورئہ کہف کی آخری دس آیتیں یاد کرلیں وہ دجال کے فتنہ سے محفوظ ہوجائے گا(مسند احمد بن حنبل جلد۶ص ۴۴۶)
ان احادیث سے ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سورۃ کو دجال کے فتنہ کے متعلق سمجھا ہے لیکن دجال کانام اس سورۃ میں نہیں آیا۔ہاں پہلی آیات میں خداکابیٹابنانے کاذکر ہے جوعیسائیوں کاعقید ہ ہے اورآخری آیات میںا سی قوم کاذکر ہے جورات اوردن دنیا کی ترقیا ت کی سعی میں خرچ کردیں گے اورایجادات اوراختراعات میں ا س طرح لگ جائیں گے کہ انہیں خیا ل ہوجائے گا کہ شائد اب کائنات کاراز ہم دریافت کرلیں گے لیکن جس قدر ایجادات و ہ کریں گے اسی قدر یہ بات کھلتی جائے گی کہ ہررازقدرت کے بعد ایک اورراز قدر ت موجود ہے اوراللہ تعالیٰ کے کاموں کی کوئی حد بندی نہیں کرسکتا ۔اوریہ نقشہ بھی مسیحی اقوام کا ہے پس جب پہلی اورپچھلی سورتوں میں مسیحی مذہب اورمسیحی ترقیات کاذکر ہے ۔تویہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جوبھی پہلی دس اورآخر ی دس آیتیں سورہ کہف کی پڑھے گا دجال کے فتنہ سے محفوظ ہوجائے گااس کے یہی معنے بنتے ہیں کہ آپ نے بگڑی ہوئی مسیحیت کانا م دجال رکھاہے ۔اوراگر یہ نہ سمجھاجائے تورسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم پرنعوذ باللہ من ذالک ۔یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ آپ نے دجال کے فتنہ سے بچنے کے لئے بالکل بے جوڑ آیتیں بتائیں لیکن آپ کی شان ایسے فعل سے بلندوبالا ہے
اس سور ۃ کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کتاب اس لئے اتاری ہے کہ پہلی کتب کی غلطیوں کودورکر ے۔اورخداکابیٹابنا نے والوں کو ڈراوے ۔ان لوگوں کو بہت کچھ ترقی ملے گی اوروہ اسلام سے بہت کچھ تنفّر کریں گے ۔لیکن ان کی ابتداء اس قسم کی نہ تھی جس قسم کی انتہاء ہوگی۔ابتداء میں یہ لوگ نہایت کمزور تھے اوران کو بہت سخت تکالیف دی جاتی تھیں ۔لیکن اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم کیا اوران کو مصائب سے بچایا ۔اورترقی کاراستہ دکھایامگرو ہ ترقی حاصل کرکے شرک میں مبتلاہوگئے اوربجائے دین کی طرف جھکنے کے دنیا کی طرف جھک گئے اوراسی میں مشغول ہوگئے ۔پس مسلمانوں کوبھی چاہیئے کہ اس قوم کے حالات سے عبرت حاصل کرتے ہوئے اپنی ترقی کے زمانے میں تین مفاسد سے بچیں(۱)عبادت میں سستی نہ ہو (۲)دنیو ی اموال کی طرف حد سے زیاد ہ رغبت نہ ہو ۔(۳)عیش و عشرت کواختیارنہ کریں ۔
پھر فرمایااس وقت مسلمانوں اور ان کے اہل کتاب بھائیوں کی مثال ایک دولتمند اورغریب بھائی کی طرح ہو گی ۔ایک بھائی تودولت پر غرورکریگا اوردوسراخدا کی طرف توجہ کرے گا۔آخر تکبر کاسر نیچا ہوگا اوربغیر انسانی ذرائع کے ایسے سامان پیداہوں گے کہ دولتمند کی قوت زائل ہوجائے گی ۔
پھر ان تفصیلا ت کوبیان کیا ۔جوا ن تغیرات کے متعلق حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پہلے سے بتادی گئی تھیںاوراس سلسلہ میں یہ بتایا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس اسراء میں یہ بتادیاگیاتھا کہ ان کے سلسلہ کی ترقی ایک اورشخص کی ترقی کے بالمقابل بہت کم اورادنیٰ ہوگی ۔اوروہ آنے والا ان تمام امو رکی تکمیل کرے گاجن کوموسیٰ نہ کرسکیں گے ۔پس اسراء کی تعبیر کے مطابق مسیحی قوم کے زوال کے وقت اسلام کوفتح ہوگی ۔اورپھر اس فتح کے بعد کے حالات بیان فرماتاہے کہ آخر ایک دن مسلمان بھی دین کو بھول جائیں گے اوراللہ تعالیٰ ان کو سزادینے کے لئے پھرمسیحیوں کوترقی دے گا۔اوریہ ان اقوام کے ذریعہ سے ہوگا ۔جن کو کچھ زمانہ پہلے جنوبی اورمشرقی علاقوں کیطرف بڑھنے سے روک دیاگیا تھا ۔اس وقت دنیاپر سخت تباہی آئے گی ۔اورسب اقوام دوبڑی نسلوںیادوبڑے اصولوں کے تابع ہوجائیں گی ۔اورظلم بڑ ھ جائے گا۔اس وقت اللہ تعالیٰ پھر ایسے ساما ن پیداکر ے گا۔کہ اس بڑھتے ہوئے سیلاب کو روک دیاجائے گا ۔اوراس طرف بھی اشار ہ فرمایاکہ اس سیلاب کو روکنے میں پھراس قوم کاحصہ ہوگا۔جس نے ایک دفعہ پہلے یاجوج ماجوج کے سیاسی زور کو توڑاتھا ۔
غرض یہ سورۃ سور ہ اسراء کا تتمہ ہے اوراس کے واقعات بے جو ڑ نہیں ہیںجیسا کہ بعض مفسرین نے سمجھا ہے بلکہ یہ سورۃ نہایت اعلیٰ ترتیب پر مشتمل ہے اورپہلی سورتوںسے اس کاگہراتعلق ہے ۔
بسم اللہ الرحمن ا لرحیم
میں اللہ(تعالی )کام لے کر (شروع کرتاہوں)جوبے حدکرم کرنے والا (اور)باربار رحم کرنے والا ہے
الحمد للہ الذی انزل علی عبدہ الکتب ولمم یجعل لہ
کامل تعریف اللہ (تعالیٰ)کے لئے (ہی )ہے جس نے یہ کتاب اپنے (اس)بندہ پر اتاری ہے ااور اس میں کوئی کجی نہیں رکھی
عوجا ٭ قیمالینذرباساًشدیداً من لدنہ ویبشر المومنین
(اوراس نے اسے)ا س حال میں (اتار اہے )کہ و ہ سچی ہے اورراہنمائی کرنے والی ہے تاکہ و ہ(لوگوں کو )اس کی(یعنی اللہ تعالیٰ
الذین یعملون الصٰلحٰت ان لھم اجراحسناً٭ماکثین فیہ ابداً٭
کی)طرف سے (آنے والے)ایک سخت عذاب سے آگاہ کر ے اوران ایما ن لانے والوں کو جو نیک (اورمناسب حا ل )کام کرتے ہیں بشار ت دے کہ ان کے لئے (خداتعالیٰ کی طر ف سے)اچھا اجر (مقدر)ہے و ہ اس (اجر کے مقام )میں ہمیشہ رہیں گے ۲؎
۲؎ حل لغات ۔العَبْدُ:کے لئے دیکھو سورۃ بنی اسرائیل ۱؎
عِوَجًا:العوج ۔عوج(یعوج عوجًا)سے اسم ہے ااوراس کے معنے ہیں ٹیڑھا ہونا۔کجی۔جسموں کے ٹیڑھا ہونے کے لئے عوج کالفظ استعمال ہوتاہے ۔معانی و صفا ت کجی اورنادرستی کیلئے عوج کالفظ استعمال ہوتاہے ۔(اقرب)مزید تشریح کے لئے دیکھو ہود ۱۹؎
عوج الطریق :زیغہ۔راسے کاٹیڑھا پن۔عوج الدین والخُلُقِ۔فسادہُ۔دین اوراخلاق کی خرابی (تاج)
قَیِّمًا:۔قیم الامر کے معنے ہیں مُقِیْمہُ کسی کام کوسنبھالنے والا ۔وامرٌ قیمٌ مستقیم ۔درست امر ۔وخلقٌ قَیِّمٌ۔اچھے اخلا ق ۔ودینٌ قیمٌ مستقیم لازیغ فیہ ۔ایسا درست مذہب جس میں کوئی کجی نہ ہو ۔وکُتُبٌ قَمِّۃٌ ای مستقیمۃٌ۔تبیّن الحق َّ من الباطل کتب جو حق کواباطل سے واضح اورجداکردیں۔القیم السیّد ُ وسائس الامر ۔سردار ار کسی کام کامتولی (تاج)دیناً قیِّمًا کے معنے ہیں ثابتًامقوّمًالامورمعاشہم ومعادھم ۔دائم رہنے والا ۔اوردنیا اورآخر ت کے امور کو درست کرنیی واالا دین ۔(مفردات )
لینذر:انذر سے مضارع کاصیغہ ہے انذر ہ کے معنے کسی امر کی حقیقت سے اسے آگاہ کیا ()۲اس امر کے نتائج ظاہر ہونے سے پہلے اسے ہوشیار کردیا (۳)خبر دیتے ہوئے اچھی طرح ہوشیار کرنے والے کوبھی انذار کہتے ہیں۔(اقرب)تفصیل کے لئے دیکھو یونس ۱۴؎
الباسُ:کے معنے ہیں العذاب ۔عذاب ۔والباسُ۔الشدۃ فی الحر ب ۔گھسمان کی جنگ ۔وقا ل ابن سیدہ الباس۔الحر بُ ثمَّ کثُرَ حتّٰی قیل لاباس علیک ای لاخوف ۔ابن سید ہ نے کہا ہے کہ بأس کے اصل معنے تولڑائی کے یں لیکن اس کااستعمال اس لے علاوہ دوسرے معنوں میں بھی بکثر ت ہوتا ہے ۔چنانچہ لابأس علیک بول کر یہ معنے مراد لیتے ہیں کہ لاخو ف علیک یعنی کوئی خوف نہیں (تاج)
یُبَشِّرُ:بشّرَسے مضارع واحد مذکرغائب کاصیغہ ہے اوربشّر کے لئے دیکھو نحل ۵۹؎
اجر:کے لیء دیکھو سورۃ یوسف ۵۷؎
مَاکثین :مکث سے اسم فاعل ماکثٌ آتاہے اورماکثون اسکی جمع ہے ۔مکث بالمکا ن(یمکث مکثاً)کے معنے ہیں لبث واقام کسی جگہ ٹھہر ا(اقرب)
اَبدًا:الابدُ کے معنے ہیں الدَّھر ُ لمبازمانہ ۔الدّائم ۔ہمیشہ رہنے والا ۔القدیم۔قدیم ۔الازلیُّ ۔ازلی(اقرب) الابدُ رعبار ۃٌ عن مدۃ الزمان ۔الممتدّ الذی لایتجزء غیر معین زمانہ (مفردات )
تفسیر ۔قَیِّمًا…الخ و ہ بطو ر دارو غہ کے ہے (۱)پچھلی کتابوں پر تاکہ ان کی غلطیوںکو دورکرے(۲)نیز داروغہ ہے آئندہ زمانے کے لوگوں پراکیونکہ انہی ان کے اعمال کی اطلاع دیتی ہے جوانہیں کرنے چاہئیں یہی وج ہے کہ قیماًکاحا ل نہیں بیان کیا ۔تاکہ دونوں زمانو ں کے متعلق حکم سمجھاجایء ۔
لغت میں قیمُ الامر کے معنے متولی کے لکھے ہیں یعنی قیم الامو روہ ہے جس کے سپرد نگرانی اورتربیت ہو ،۔ان معنوں کے روسے آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ یہ کتاب آنے والے لوگوں کے لئے مربّی ہے اورپہلو ں کے لئے نگران ۔
لِیُنْذِربَاسًاشَدیدًا۔عر بی زبا ن میں بُؤس کے معنے تنگی اورفقر کے ہوتے ہیں اوربأس کے معنے بہاد ری اورطاقت کے یاخو ف ۔ عذاب اورجنگ کے ہوتے ہیں ۔اس جگہ خوف اور عذاب کے معنے ہیں ۔
ویُبَشِّرَ المُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یعملو ن الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لھم اجر امحسنا ً۔اس آیت میں مومنوں سے اجرِحسن کاوعدہ کیا گیا ہے اجرحسن سے مراد صرف یہ نہیں کہ انہیں انعامات ملیں گے کیونکہ یہ معنے خالی اجر سے بھی نکل آتے ہیں ۔چنانچہ کئی جگہ قرآن کریم میں صرف اجر کالفظ مومنوں ے لئے استعمال ہواہے ۔مثلاً اس سورۃ میں آگے چل کرفرماتاہے انَّا لَانُضِیْعُ اجر من احسن عملاً۔ہم نیکوں کے عمل کوضائع نہیںلکریں گے یہاں موقعہ کے لحاظ سے اجر کالفظ استعمال کیاجاتاتواس کے معنی موقعہ کے مطابق اچھے اجر کے ہی ہوتے ۔پس اجرًا حسنًا کہہ کر اس طرف اشا رہ کیا ہے کہ یہ اجر نیک پیداکر نے والا نتیجہ ہوگا ۔اس کے معلنے سے مومن بگڑیں گے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوںکو اچھے طورپراستعمال کرکے مزید ثواب اپنے لئے جمع کریں گے ۔۔
ماکثین فیہ ابدًا۔وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے یعنی ان کاوہ اجر کبھی ختم نہ ہوگا ۔اس سے یہ مراد نہیں کہ کسی صورت میں بھی ختم نہ ہوگابلکہ مطلب یہ ہے کہ جب تک وہ مومن رہیں گے اجر ملتارہے گا ۔یہ معنے اس صورت میں ہیں کہ اس آیت کو ان انعامات کے متعلق سمجھا جائے جومومنوں کو دنیا میں ملنے والے ہیں لیکن اگر اخر وی انعامات لئے جائیں توپھر یہی معنیی ہوںگے کہ وہ ہمیشہ اس اجر سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے کبھی بھی ان کا اجر ختم نہ ہوگا اس آیت میں اشارہ کیا ہے کہ اگردائمی فضل چاہتے ہو توایمان کو کبھی ہاتھ سے نہ دینا ۔
وینذرالذین قالوااتخذاللہ ولداً٭مالھم بہٖ من علم ولا
اور(نیز اس نے اس لئے اسے اتارا ہے کہ)تاوہ ان لوگو ںکو آگا ہ کرے جوکہتے ہیں (کہ)اللہ (تعالیٰ)نے (فلاں شخص کو ) بیٹا
لابائھم ط کبرت کلمۃً تخر ج من افواھھم ط ان یقولون الا کذباً٭
بنالیاہے ۔انہیں اس بار ہ میں کچھ بھی توعلم (حاصل )نہیں اورنہ ان کے بڑوں کو (اس بار ہ میں کوئی علم)تھا ۔یہ بہت بڑی( خطرناک )بات ہے ۔جو ان کے مونہوں سے نکل رہی ہے (بلکہ)وہ محض جھوٹ بول رہے ہیں ۳؎
۳؎ حل لغات ۔الولد:ولد کے اصل معنے اولاد کے ہیں ۔خواہ نرہو ماد ہ۔لیکن چونکہ اس جگہ بیٹامراد ہے۔ترجمہ میں بیٹے کالفظ استعمال کیاگیا ہے ۔
الکلمۃ:کے معنے ہیں لفظ یاجوکچھ بولیں خواہ مفرد ہویا مرکب ۔مزید تشریح کے لئے دیکھو یونس ۳۴و۹۳؎
الکذب:کذب کامصدر ہے۔اورکذب الرجل کے معنے ہیں ۔اخبر عن الشیء بخلافِ ماھومع العلم بہ منہ صدق۔کسی چیز کے متعلق باوجو دعلم کے خلاف واقعہ خبردینا کذب کہلاتاہے اوریہ لفظ صدق کے مخالف کے لئے بھی استعمال ہوتاہے ۔وسوائٌ فیہ العمد والخطاء اوراس صورت میں جان بوجھ کر خلاف حقیقت بات کہنایا غلطی سے کہنا ودنوں کذب میں شامل ہوتے ہیں (اقرب)
تفسیر ۔دوسراکام اس کتاب کایہ ہے کہ ان لوگوںکو ڈرائے جنہوں نے کہا ہے کہ خدانے بیٹابنالیاہے (العیاذ باللہ)
عجیب بات ہے کہ پہلے کتاب کاکام انذار بتایا پھر مومنوں کو بشار ت دینا اس کاکام بتایا ۔اس کے بعد پھر انذارکاذکر فرمایا۔اور یہ انذار خاص اس قوم کے متعلق بتایا جواللہ تعالیٰ کا بیٹابناتے ہیں ۔اس پر سوال پیداہوتاہے کہ کیوں انذار کا ذکراکٹھا نہ رکھا اوربشارت کاذکر بعد میں نہ رکھا ۔اس کا جواب یہ ہے کہ اس ترتیب سے قرآن کریم نے ان زملانوںکابھی اظہا رکردیا ہے جن میں قرآن کریم کا انذار تبشیر ااورپھر دوسراانذرظاہر ہوگا ۔پہلے انذار سے مکے والوں اور دوسری تمام ان اقوام کاانذار مراد ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میںاسلام کی مخالف تھیں۔چاننچہ قرآن کریم کے ا س انذراکے نتیجہ میں وہ اقوام تباہ کی گئیں ۔اس کے بعد مومنوں کی بشارت کاذکر کیا چنانچہ مخالفین اسلام کی تباہی کے بعد مسلمانوں کوانعام ملے اور ماکثین فیہ ابدًا کے حکم کے ماتحت مسلمانوں کے صدیوں تک دنیا میں حکومت کی ۔اس کے بعد صرف مسیحی قو م کے انذراکاذکرکیا ۔جس سے اس طرف اشار ہ ہے کہ اسلامی ترقی کے بعطد پھر مسیحیت زورپکڑے گی اوردنیا پر اس طرح چھاجائے گی کہ گویا وہی ایک قو م اسلام کے مخالف رہ جائے گی اس وقت قرآن کاانذار خصوصیت سے مسیحی اقوا م کے لئے ہوگا اگراس طرح انذار کو دوٹکڑوں میں تقسیم نہ کیاجاتااورمسلمانوں کے انعامات کو درمیان میں بیان نہ کیاجاتا تویہ لطیف معنے جو عذاب کے اوقات اورآئندہ زمانے کے سیاسی تغیرات کو بھی ظاہرکررہے ہیں پیدانہ ہوسکتے تھے ۔
کبرت کلمۃًوہ بڑی بات ہے جوان کے منہ سے نکلتی ہے یہ کلمہ تمیز واقعہ ہواہے یعنی کَبُرَت ھِیَ کلمۃً۔یعنی یہ بات کہنے کے لحاظ سے بہت بڑی ہے یادوسرے لفظوں میں اس بات کاتومنہ پر لانابھی بڑاخطرناک ہے ۔اورنیز خلاف عقل ہے ۔اس میں بتایا ہے کہ نہایت گستاخی کاعقید ہ ہونے کے علاوو ہ اس عقیدے کوتوانسانی عقل بھی رد کرتی ہے یہ کس طرح ہوسکتاہے کہ ایک انسان پھانسی پر چڑھایاجائے اورپھر و ہ خداکا بیٹاکہلائے ۔
انذار کی خبر دیتے ہوئے مسیحیت پر ایک کار ی ضرب بھی لگادی فرماتاہے کہ بیٹاتوخداکابناتے ہیں لیکن بیٹاہونے کی کوئی دلیل ان کے پاس موجود نہیں نہ ان کے باپ دادوں کے پاس تھی ۔یعنی باپ داودں نے یہ دیکھتے ہوئے کہ مسیح کے حواری اوران کے شاگر د موحد تھے شرک بعد میں پیداہواہے اسے خداکا بیٹابنادیا اوران کے پاس اعلیٰ توحید کی تعلیم اسلام نے پیش کردی ہے اورمشرکانہ خیالات کاپوری طرح قلع قمع کردیاہے مگر نہ پہلوں نے اپنی آنکھوں دیکھی باتوں سے فائد ہ اٹھایا۔اورنہ بعد میں آنے والوں نے اسلام کے دلائل سے نفع حاصل کیا ۔دونوں گروہوں نے بغیر دلیل اوربغیر ثبوت کے اپنے رب کوچھو ڑ کر ایک انسان کو خدابنالیا ۔
اِلَّاکَذِباکہہ کر بتایا کہ خود مسیح بھی اس قسم کی بنیّت سے منکر ہے چنانچہ موجود ہ اناجیل سے بھی مسیح کے خداکابیٹاہونے کاکوئی ثبوت نہیں ملتا بیشک مسیح علیہ السلام کی نسبت بیٹے کے الفاظ آتے ہیں ۔لیکن یہ الفاظ دوسرے انسانوںکے لئے بھی آتے ہیں چنانچہ خروج باب۲ آیت ۲۲میں لکھا ہے ۔کہ’’خداوند نے یوں فرمایا ہے ۔کہ اسرائیل میرابیٹابلکہ پلوٹھا بیٹاہے ‘‘۔
فلعلک باخع نفسک علی اثارھم ان لم یومنوا بھذالحدیث اسفاً٭
توکیا اگر وہ ا س عظیم اللشان کلام پر ایمان نہ لائیں توتُو ان کے پیچھے شدت غم سے اپنی جان کوہلاکت میں ڈال دے گا ۴؎
۴؎ حل لغات ۔لعلّ کے لیء دیکھو سورہ ہود ۱۲؎
باخِعٌ:بَخَعَ سے اسم فاعل ہے ۔اوربخع نفسہٗ کے معنے ہیں قتلہا من وجد ٍاوغیظٍ کہ اپنے نفس کو غم یا غصہ سے ہلاک کردیا (اقرب)نیز تاج العروس میں ہے بخع نفسہٗ قتلہا غمًّا۔اپنے نفس کو غم کی وجہ سے ہلاک کردیا ۔بخع بالحق بخوعاً۔اقرَّبہٖ وخضعَ لہٗ۔صداقت کااقرار کیا اور اس کے لیء سر تسلیم خم کیا ۔بخع لہ نُصحہٗ ای اخلصہٗ وبالخ۔اس کیلئے اپنی نصیحت کو خاص کیا و رنصیحت میں کوئی کمی نہ رہنے دی اورفلعلک باخعٌ نفسک کے معنی ہیں مھلکہا مبالغا فیہا حرصًاعلی اسلامھم ۔کہ شائد تواپنے نفس کوان کے اسلام میں داخل ہونے کی شدید خواہش سے ہلاکت میں ڈال دے گا (تاج)
اٰثار:اثر کی جمع ہے ۔اورالاثر کے معنے ہیں ۔مابقی من رسم الشیء ۔کسی چیز کاباقی ماندہ نشا ن ۔
الحدیث ۔حدیث ۔السنۃ۔سنت (اقرب)
اَسَفًا۔اسِف سے مصدر ہے اوراسِف علیہ کے معنے ہیں ۔حَزن اشد الحز ن وتلھَّف ۔وہ سخت رنجیدہ اورغمزدہ ہوا(اقرب)
تفسیر ۔اس آیت میں بتایا ہے کہ جس طرح یہود کی تباہی کی خبرپر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں درد اٹھتاتھا (نحل ع۱۶)………اسی طرح ا سقوم کی تباہی پر بھی آپ کو سخت صدمہ ہوگا۔پس اللہ تعالیٰ صدمہ پہنچنے سے پہلے ہی آپ سے اظہار ہمدردی فرماتا ہے اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتا ہے کہ اب اس خبر کو سن کر بھی تیرے دل کو ایساصدمہ ہوگا کہ گویا تواپنی جان کو ہلاک کرنے لگا ہے لیکن توصبر سے کام ے کر یہ تیرے رب کی مشیت ہے دیکھ لو ۔اس جگہ دوسرے مشرکین کاذکر نہیں صرف عیسائیوں کا ذکر ہے پس رسول کریم صلیاللہ علیہ وسلم کے جس غم کی اس آیت میں خبر دی گئی ہے وہ عیسائیوں کی تباہی پر ہی ہوسکتاتھا ۔ لیکن کیسے افسوس کی بات ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تواس عذاب پر جو مسیحیوں پر تیرہ سوسال بعد آناتھا ایساغم محسوس کرتے ہیں کہ گویا اپنی جانکوہلاک کردیتے ہیں مگر مسیحیوں کے بعض مصنف اپنے محسن کورات دن گالیاں نکالتے رہتے ہیں ۔
بِھٰذَ الحدیثِ اَسَفًا میں اس طرف اشارہ کیاہے کہ قرآ ن کریم تواپنی صداقت کی آپ ہی دلیل ہے اورمسیحی اقوام کو جومشکلا ت پیش آنے والی ہیں ان کاحل اسمیں موجود ہے ۔پس تجھے ا س کاسخت صدمہ ہوگا کہ اس علاج کی موجودگی کے باوجود یہ قوم جو دنیوی شان و شوکت میں خا ص طورپر ترقی کرچکی ہوگی اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے گی اور اس کاانکار کرکے تباہ ہوجائے گی ۔
اناجعلنا ماعلی الارض زینۃ لھا لنبلوھم ایھم احسن عملاً٭
جوکچھ (روئے )زمین پر (موجود )ہے ا سے یقیناہم نے اس کی زینت (کاموجب)بنایاہ ے ۔تاکہ ہم ان کاامتحا ن لیں (کہ)ان میں سے سب سے اچھا کام کرنے والا کون ہے ۵؎
۵؎ تفسیر ۔فرماتا ہے ہم نے دنیا می ںہزاروں چیز یں پیداکی ہیں اورغرض یہ ہے کہ انسان کے لئے ایک شغل پیداکریں تاوہ ان اشیاء کو دریافت کرنے پھر ان سے کام لے اور زینۃً کہہ کر اس طرف اشارہ کیا ہے کہ دنیا کی ہرچیز کوئی نہ کوئی فائدہ رکھتی ہے ۔کوئی بھی ایسی چیز نہیں جس میں کوئی فائدہ نہ ہو ۔اسی ایک لفظط سے کس طرح اس نکتہ کو واضح کردیاگیاہے کہ دنیا کی کوئی چیز لغو نہیں اگربعضہا زینۃًہوتا تو یہ خیال کیا جاسکتاتھا کہ بعض اشیاء مفید ہیں اربعض غیر مفید ۔مگراللہ تعالیٰ سب اشیاء کوجودنیا پر ہیں دنیا کے لئے زینت کاموجب قر اردیتاہے پس معلو م ہواکہ اسلام کے نزدیک دنیا کی ہرلشے میں فوائد ہیں اوروہ ایک حسن یعنی خوبی اپنے اندررکلھتی ہے ۔اورکوئی بھی چیز نہیں جو دنیا کاحسن بڑ ھانے والی نہ ہو ۔افسوس کہ اس حکم سے مسلمانوں نے فائدہ اٹھاناچھوڑ دیا اورتحقیق اورایجاد کے کام کو نظرانداز کردیا ۔اوریورپ نے باوجود قرآن کریم کونہ ماننے کے اس حکم پر عمل کیا اورعلم میں اس قدر ترقی کہ ساری دنیا پرغالب آگئے ۔
لنبلوھم ایھم احسن عملاً۔میںاس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ دنیا کی اشیا ء اس لئے پیداکی گئی ہیں تاکہ لوگ ان کے متعلق تحقیق کریں دیناکی حالت کوسدھاریں ۔اس حصے کے متعلق مسیحیوں سے کوتاہی ہوئی ہے انہوں نے دنیا کے راز تو دریافت کئے مگر اچھے عمل کانمونہ نہ دکھایایعنی اس تحقیق اورتدقیق کے نتیجہ میں انہوںنے دنیا میں ظلم اورفساد کی بنیادرکھ دی اورغالباً اس طرف اس آیت میں اشار ہ کیا گیاہے ۔
وانالجٰعلون ماعلیھا صعیداً جرزاً٭
اورجوکچھ اس (زمین )پر(موجود )ہے اسے ہم یقینا (ایک دن مٹاکر)ویران سطح بنادیں گے ۶؎
۶؎ حل لغات ۔صعیداً۔صعید کے معنے ہیں ۔التراب ۔مٹی ۔وقیل وجہ الارض تراباً کام ام غیرہ ۔زمین کی سطح خواہ مٹی کی ہو یاکسی اورچیز کی ۔المرتفع من الارض۔بلند زمین۔وقیل ھومالم یخالطہ رمل ولا سبختہ اوربعض نے صعید اس مٹی کو قر ردیا ہے جس می ریت اور کلّر نہ ہو ۔الطریق ۔رستہ ۔القبر۔قبر(اقرب)کہتے ہیں صادت الحدیقۃ صعیداً۔باغ چٹیل میدان ہوگیا یعنی اس میں کھیتی نہ رہی (تاج )
جُرُزا:جرزہ(یجرزُ) کے معنے ہیں قطعہ اسے کاٹا۔جرزالزمان زیداً۔اجتاحَہٗ۔زمانے نے اسکو تباہ کردیا ۔ارضٌجرزٌوجُرُزٌ کے معنی ہیں التی لاتنبت اواکل نباتھا اوقُطِع وہ زمین جس میں کوئی چیز نہ اُگے ۔یااس کی نباتات کاٹ کر استعمال کرلی گئی ہو ۔اورپررو ہ چٹیل رہ جائے ۔(اقرب)نیز صعیدٌ جُرُزٌ کے معنے ہیں ای منقطع النبات۔چٹیل میدان جس میں کوئی سبزی نہ ہو ۔(مفردات )
تفسیر ۔فرمایاوہ دنیا کاسامان توایک عارضی اچیز اورعارضی سامان ہے ۔حقیقی نہیں ۔صر ف قومی مقابلہ کاایک ذریعہ خداتعالیٰ نے بنایاہے تابنی نوع انسان کی خدمت کرکے ثواب حاصل کریں ۔لیکن مسیحی لوگ اس غرض کو پوری نہ کریں گے خداکے پیداکئے ہوئے سامانوں کی جستجوتوکریں گے لیکن ان کو حسن عمل کاذریعہ نہ بنائیں گے اورلڑائی جھگڑے کاذریعہ بنالیں گے ۔پس چونکہ ہمار امقصد توان اشیاء کے پیداکرنے سے دنیا کوزینت دینا ہے چونکہ وہ مقصد ان کی تحقاتوں اورایجادوں سے پورانہ ہوگا ۔ہم ان کے کام کومٹادیں گے غر ض اس جگہ سب دنیا ک تباہی مراد نہیں بلکہ ان کاموں کی تباہی مراد ہے جواللہ کابیٹابنانے والی قوم کرے گی ۔
اس آیت کے الفاظ میں نہایت لطیف طورپر ایک تمثیل کی طرف جواس سور ۃ میں آگے چل کربیان ہوئی ہے اشارہ فرمایاگیاہے اوروہ اشار ہ صعیداً جرزاکے الفاظ میں ہے ۔
صعید کے معنے اس زمین کلے ہوتے ہیں جس میں سے درخت وغیر ہ کٹ جائیں ۔چنانچہ عرب کامحاورہ ہے صار ت الحدیقۃ صعیداً(تاج)باغ اُجڑ گیا اس کے درخت فناہوگئے ۔اورجرز کے معنی بھی اس زمین کے ہوتے ہیں جس کی سبزی تباہ ہوگئی ہو آگے چل کرجہاں دوباغوں کی تمثیل دی گئی ہے (کہف ع ۵)وہاںبھی متکبرباغوںوالے کو اس کاناصح بھائی کہتاہے کہ تکبر نہ کر ایسانہ ہو کہ آسمانی عذاب نازل ہوکر تیرے باغوں کوصعیداًزلقابنادے ۔صعیداً کالفظ تووہی ہے جویاں استعمال ہواہے ۔جُرُزاکی جگہ وہا ںزلقاکالفظ رکھا گیا ہے اوراس کے معنے بھی یہی ہیں کہ جہاں کوئی کھتی نہ ہو ۔عرب کہتے ہیں کہ ارض زلقاً ایسی زمین جس پر کوئی کھیتی نہ ہو ۔پس اس آیت سے اس طرف اشار ہ ہے کہ آگے جو تمثیل بیان کی گئی ہے مسیحی قوم بھی اس میں شامل ہے اوراللہ تعالیٰ ان کے لگائے ہوئے باغوں کوتباہ کردے گا ۔
ام حسبت ان اصحٰب الکھف والرقیم کانو ا من اٰیٰتنا عجباً٭
کیا توسمجھتا ہے کہ کہف اورقیم والے (لوگ)ہمارے نشانوں میں سے کوئی اچھنبھا (نشان )تھے (جن کی نظیر کبھی نہ پائی جاسکتی ہو ) ۷؎
۷؎ حل لغات ۔الکھف ۔کالبیت المنقور فی الجبل۔گھر کی شکل پر پہاڑ میں کھود کر بنایا ہوامکا ن۔اس کی جمع کھو ف آتی ہے ۔غار اور کہف میں یہ فرق ہے کہ کہف وسیع ہوتی ہے اورغار تنگ۔الکھف ایضاً الوزر۔حفاظت کی جگہ ۔الملجا ء ۔پناہ کی جگہ (اقرب)
رقیم :رقم(یرقم رقما)کے معنے ہیں کتبہٗ ۔اس کو لکھا۔رقم الکتا ب ۔اعجمہ وبیّنہٗ۔کسی کتاب یا خط کے الفاظ کو واضح طور پر لکھا ۔رقم الثواب ۔خطّطہٗ واعلمہٗ۔اس پر لکیریں ڈالیں اورشاندار کیا ۔کسی چیز پر تصویر بنانا ۔لکھنا ۔نقش بنانا ۔
الرقیم ۔الکتاب ۔المرقوم ۔لکھی ہوئی چیز ۔اصحاب الرقیم کے معنے ہوں گے ۔نقش یا تصویریں بنانے والے لوگ ۔مفسرین نے لکھا ہے کہ پتھر یالوہے پر کھو دنے والے لوگ ۔تواس لحاظ سے یہ معنے ہوں گے پتھروں پر یاکاغذوں پر لکھنے والے یا نقش ونگار کرنیی والے یاتصویریں بنانے والے یاکھودنے والے ۔رقیم بمعنے مرقوم بھی ہوسکتا ہے اس لحاظ سے اصحاب الرقیم کے معنے ہوں گے جن کے پاس لکھی ہوئی چیز یں ہو ں۔کتابیں یا ساما ن جن پرنام لکھاہواہو یاکتبوں والے وغلیر ہ وغیر ہ۔
العجب (۱)جب کوئی ایساامر پیش آئے کہ اس کے ماننے می طبیعت کو انقباض اور انکار ہو ۔تواس انکار کی حاکت کو عجب کہتے ہیں (۲) پیش آمد ہ امر کے پسند کرنے کوبھی عجب کہتے ہیں (۳)اس حالت رعب کو بھی عجب کہتے ہیں جوانسان پر کسی چیز کو بہت ہی بڑا سمجھنے کے وقوت طاری ہوتی ہے ۔(اقرب)تفصیل کے لئے دیکو سورہ یونس ۴؎
تفسیر ۔کیا لطیفہ ہے بلکہ رونے کامقام ہے کہ خداتعالی توکہتاہے کہ اصحا ب کہف کو ئی عجوبہ چیز نہ تھے بلکہ اورآیتوں کی طرح یہ بھی ایک آیت ہی تھے ۔مگر ہمار ے مسلمان اس کوایک عجوبہ بنارہے ہیں (اصحاب کہف کی تفصیل کے لئے دیکھو اگلی آیات)
اذ اوی الفتیۃ الی الکھف فقالواربنا اًتنا من لدنک رحمۃً وھیی لنا من امرنا رشداً٭
جب وہ (چند )نوجوان وسیع غار میں پناہ گزین ہوئے اور(دعاکرتے ہوئے )انہوں نے کہا (کہ )اے ہمارے رب ہمیں اپنے حضور سے (خاص )رحمت عطاکر ۔اورہمارے لئے ہمارے(اس )معاملہ میں درست روی کاسامان مہیا کر ۸؎
۸؎ حل لغات ۔اَوَی الی منزلہ ومنزلہٗ کے معنے ہیں نزل بہ لیلاًاونھاراًوہ اپنے مقام میں رات کو یادن کو اترا ۔(اقرب) الفتیۃ: الفتیٰ کی جمع ہے اورالفتٰی کے معنے ہیں الشَّاب الحدث ۔نوجوان۔السخی الکریم ۔فیاض اورسخی (اقرب)
الرّحمۃ:یقّۃ القلب والانعطاف یقتضی التفضّل ولااحسان والمغفرۃ۔رقت قلب جو ترس احسان اوربخشش کی مقتضی ہو تی ہے ۔نیز رحمت کے معنے مغفر ت کے بھی ہوتے ہیں (اقرب)
تفسیر ۔رشدکے معنی ہدایت کے ہیں مگررَشد زیادہ تر دینی امورمیں اوررُشد دینی اوردنیوی امور کی ہدایت کے لئے آتاہے ۔پس دعاکامطلب یہ ہواکہ اے اللہ ہمارے لئے اس معاملہ میں آزادی اورکامیابی کارستہ نکال ۔
فضربنا علی اذانھم فی الکھف سنین عددًا٭
جس پر ہم نے اس غار میں چند گنتی کے سالوں کے لئے انہیں (بیرونی حالات کے )سننے سے محروم کردیا ۹؎
۹؎ حل لغات ۔ضرب علی اذنہٖ منع ان یسمع ۔اس کو سننے سے روک دیا (اقرب)
تفسیر ۔ضربنا علی اذانھم کے معنے ہیں ہم نے ان کو سننے سے روک دیا ۔یعنی کچھ سال تک ان کو کہف میں رکھ کر باقی لوگوں کے حال سے ناواقف رکھا ۔ان کومعلوم نہ ہوتاتھا کہ زمانہ کاکیاحال ہے ۔(اصحاب کہف کون تھے اس کے لئے دیکھو اگلی آیت )
ثم بعثنٰھم لنعلم ای الحزبین احصیٰ لما لبثوا امداً٭
پھر ہم نے انہیں اٹھایاتاکہ ہم جان لیں کہ جتنی مدت وہ (وہاں )ٹھہرے رہے تھے اسے دونوں گروہو ںمیں سے زیادہ محفوظ رکھنے والا کون ساگروہ ہے ۱۰؎
۱۰؎ حل لغات ۔بَعَثْنَا:بَعَثَ سے جمع متکلم کاصیغہ ہے ۔اوربعث کے لیء دیکھو حجر ۳۲؎
الحزبین :الحزب سے تثنیہ کاصیغہ ہے اورالحزب کے لئے دیکھو رعد ۳۶؎
اکے معنے ہیں الغایۃ المدی ۔آخری حد غایت و انتہا ۔الامدوالابدُیتقاربان لکن الابد عبارۃٌ عن مُدَّۃالزمان التی لیس لھا حدٌّ محدودٌ ولایتقیّدُ ۔والامد مدَّۃٌ لھاحدٌّ مجھولٌ۔اَمَد اورابَد تقریباایک ہی جیسے معنے رکھتے ہیں لیکن ابد اس زمانہ کو کہتے ہیں جوغیر محدود ہو ۔ اوراَمَد اس مدت کو کہتے ہیں جس کی انتہا معلوم نہ ہو ۔والفرقُ بین الزمان والامدانَّ الامد یُقالُ باختیار الغایۃِ والزمانُ فی المبدَئِ والغایۃ۔ولذلک قال بعضھم المدی والامد یتقاربا ن ۔اورزمان اورامد کے لفظ کے درمیان یہ فرق ہے کہ امد کالفظ انتہا ء کااعتبا رکرتے ہوئے بولاجاتاہے۔اورزمانہ عام ہے ۔وہ مبداء پر بھی اورانتہاء پر بھی بولاجاجتا ہے ۔اس فرق کے پیش نظر بعض نے مدی اورامد کو متقارب المعنی قراردیاا ہے (مفردات)
تفسیر ۔اصحاب کہف کون تھے ؟ کہاں تھے اوران کے حالات کیا ہے ؟یہ ایک نہایت اہم سوال ہے جو صدیوں سے مفسرین کے دلوں میں ہیجان پیداکر تاچلاآیا ہے ۔
میں اس سوال کوحل کرنے کے لئے سب سے پہلے بعض رویات بیان کرتاہوں جواصحا ب کہف کے متعلق پرانے مفسرو ں نے بیان کی ہیں ۔
(۱)مشہور مؤرخ ابن اسحا ق اوربعض دوسرے مصنفوں نے یہ لکھا ہے کہ جب مسیحیوں میں شر ک پیداہوگیا ۔بتوں کی پوجا اور ان کے لئے قربانی شروع ہوگئی توان میں سے کچھ لوگوںکو جوموحد تھے ۔یہ امر برالگا ۔اس زمانہ میں دقیانوس نامی مسیحی بادشاہ تھا ۔بعض روایات میں اس کانام دقیوس آیا ہے ۔یہ بادشاہ موحد نصاری کو قتل کرتا تھا انہی ایا م میں موحد نصاریٰ میں سے کچھ امراء نوجوانوں کو جوافیوس یا بعض روایا ت میں لکھا ہے کہ طرطوس کے رہنے ولاے تھے شاہی سپاہیوں نے پکڑ لیااوربادشاہ کے سامنے پیش کیا ۔ا س نے انہیں بتوں کو سجدہ نہ کر نے پر ڈانٹا۔مگر وہ توحید پر قائم رہے ۔اس پر بادشاہ نے ان کوکچھ مہلت دی کہ اس عرصہ میں سوچ لو ۔انہوں نے اس موقعہ کو غنیمت سمجھا اوروہاں سے بھاگ کر ایک غار میں چھپ گئے جس کانام مجلوس تھا ۔باقی توعبادت میں مشغول ہوگئے اوراپنے میں سے ایک کو جس کانام یملیخاتھا ۔سوداسلف لانے پ رمقر کردیا ۔و ہ بھیس بدل کر شہر میں جاتااورسودالے آتا۔ ایک دن اسے معلوم ہواکہ بادشاہ جو باہ رکسی مہم پر گیا ہواتھا واپس آگیا ہے اوراس نے ان نوجوانوں کو پھر طلب کیا ہے ۔و ہ روتاہواآیا اورسب کو اس کی خبر دی ۔انہوں نے خوب روروکردعائیں کرنی شروع کیں ۔جب دعائیں ختم ہوئیں تواللہ تعالیٰ نے ان کو سلادیا ۔ان کاسامان ا ن کے سرہانے پڑاتھا اورکتادہلیز پرتھا ۔بادشاہ نے ان کاپتہ لے کر ان کا پیچھا کیا ۔مگرجب غار میں بعض لوگوں کوبھیجا توکوئی غار میں نہ جاسکا۔اس پر ایک صاحب نے کہا کہ اے بادشاہ آپ کی غرض ان کومار نا ہی توہے ۔آپ اس غار کے دروازہ پر دیوار کھیچوادیں آپ ہی بھوکے پیاسے مرجائیں گے ۔بادشا ہ نے اسکے مشورہ کے مطابق دیوار کھنچوادی ۔اسکے بعد وہ کچھ گذراجو اللہ تعالیٰ نے اگلی آیات میں بیا ن فرمایا ہے ۔(روح المعانی جلد ۵ ص ۱۶ بحوالہ ابن اسحاق)
(۲)بعض نے لکھا ہے کہ حضرت مسیح کے ایک حواری تھے وہ سفر کرتے ہوئے ایک ایسے شہر میں پہنچے جس کاباد شاہ بت پرست تھا ۔اوراس نے حکم دے رکھا تھا کہ جوشہر میں داخل ہوپہلے درواز ہ پرنصب کئے ہوئے بت کو سجدہ کرے انہوں نے ایسانہ کیا ۔اورشہر کے باہر ایک حمام میں ٹھیر گئے اوروہیں تبلیغ شروع کردی ۔جس کی وجہ سے کئی لوگ ان کے ہم خیا ل ہوگئے ۔ایک بادشاہ کالڑکا ایک فاحشہ کو لے کر حما م کرنے کے لئے آیا۔اس حواری نے اسے نصیحت کی ۔و ہ اس دن رک گیا ۔دوسری دفعہ پھر آیا توانہوں نے اسے ڈانٹا اس نے بات نہ مانی اوراس فاحشہ سمیت حمام میں چلا گیا ۔صبح کے وقت و ہ مردہ پایا گیا ۔بادشاہ کو لوگوں نے کہا کہ حمام والے نے ماردیا ہے ۔بادشاہ نے تحقیق شروع کی ۔حمام والا بھاگ گیااوراس کے سب دوست بھی ۔کچھ نوجوا ن جو مسیحی ہوچکے تھے وہ بھی ڈر کر بھا گے اورایک زمیندار کے پاس جوان کادوست تھا گئے وہ بھی ان کا ہم خیال تھا ۔وہ ان کو لے کر ایک غار میں جاچھپا ۔بادشاہ کو علم ہوا۔تو و ہ پکڑے گیا ۔اس سے آگے وہی لوگوں کے ڈرنے اوربادشا ہ کے دیوار بنانے کاواقعہ ہے ۔(اَخرجَہٗ عبدالرزاق وابن المنذر عن وھب بن منبہ۔روح المعانی جلد۵ ص ۱۹)
ابن المنذر اورابن ابی شیبہ اورابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ میں حضرت معاویہؓ کے ساتھ رومیوں کے مقابلہ پر جہاد کے لئے گیا تھا۔اس سفر میں ہم نے اصحاب کہف کی غار دیکھی ۔معاویہؓ نے کچھ لوگ اس غار کو دیکھنے کے لئے بھیجے مگر آندھی آگئی اور وہ لو گ اند ر نہ جاسکے ۔(درمنثور جلد۴ ص ۲۱۴)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ میں نے اصحاب کہف کی ہڈیا ں دیکھیں ۔و ہ تین سو سال کی پرانی تھیں (درمنثور جلد ۴ ص ۲۲)
ان کے انجام کے متعلق مندرجہ ذیل روایات کتب تفسیر میں بیان کی گئی ہیں۔(۱)ایک لمبے عرصہ تک اللہ تعالیٰ نے ان کو سلائے رکھا پھر جگادیا ۔انہوں نے اپنے میں سے ایک شخص کو کھانا لینے بھیجا ۔اس نے دکاندار کوجوسکہ دیا ۔اسے دیکھ کروہ حیران رہ گیاکیونکہ وہ سکہ پراناتھا ،۔ا س نے اَوردکانداروں کودکھایا ۔سب اس سکہ کو دیکھ کرحیران ہو ئے کہ یہ کس ملک کاسکہ ہے ۔آخر بادشاہ تک معاملہ پہنچا جس کانام نندوسیس تھا ۔بادشاہ نے اس نوجوان سے سب واقعہ سنا اوراس کے ساتھ غار تک آیا ۔وہاں سب اصحاب کہف سے ملا اوران سے بغلگیر ہوا۔کچھ دیر باتیں ہو ئیں ۔پھر اصحاب کہف نے اس کونصائح کیں اور لیٹ گئے اوراسی وقت مر گئے (روح المعانی وابن کثیر )
(۲)بعض دوسری روایات میں آتاہے کہ جب لوگ غار پر پہنچے تووہ لوگ اسی وقت مرگئے ۔اوروہ ان کو زندہ نہ دیکھ سکے ۔اورجو کھانالینے گیاتھا وہ بھی وہاں پہنچ کر مرگیا ۔(عبدالرزاق وابن ابی حاتم عن عکر مہؓ درمثورجلد ۴ ص ۲۲۴)
دقیس والا واقعہ مسیحی کتب میں بھی لکھا ہواہے ۔مشہورانگریز مؤرخ گبن اپنی کتاب ’’رومن حکومت کی ترقی اورتباہی ‘‘میں لکھتاہے کہ ایک کہانی سات سونے والوں کے متعلق طورس کے پادری گریگوری نے لکھی ہے جسے میں لکھ دینا ضروری سمجھتاہوں ۔یہ کہانی شامی مسیحیوں میں مشہورتھی ۔اورا ن کی کتب سے گریگوری نے نقل کی ہے ۔گبن نے آگے جوکہانی نقل کی ہے ۔وہ ابن اسحاق کی روایت سے بہت ملتی ہے ۔اس میں لکھاہے کہ دقیس بادشاہ کے وقوت یہی افیس شہر کے چند امراء نوجوان جو مسیحی تھے انہوں نے مسیحیوں پر باد شاہ کاظلم دیکھ کر اپنے آپ کو ایک غار میں چھپادیا ۔بادشاہ نے غار کامنہ بندکروادایا۔ایک سواسی سال تک اللہ تعالیٰ نے ان کو سلائے رکھا ایڈولیس جس کے پاس وہ علاقہ تھا اس کے غلاموں نے کسی ضرورت کے لئے غار کے منہ پرسے پتھر ہٹائے اورسورج کی شعاع اند رجانے پر اللہ تعالیٰ نے ان کو زندہ کردیا ۔و ہ جاگے توسمجھے کہ چند گھنٹے ہم سوئے ہیں ۔انکوبھوک لگی توانہوں نے اپنے ایک ساتھی جیمبلیکس کو خوراک لینے بھجوایا ۔اس نے شہر کوبدلاہواپایا اوردروازہ پر صلیب دیکھی تواس کی حیرت کی کوئی حد نہ رہی ۔نانپز کو جب اس نے سکہ دیا تواس کے لباس اورعجیب سکہ کودیکھ کر وہ حیران رہ گیا ۔اوریہ سمجھ کر کہ اسے کوئی خزانہ ملاہے اسے قاضی کے سامنے پیش کیا ۔جب انہوں نے واقعہ سنا توبادشاہ تھیو ڈوسیس اورسب امراء مل کر غار پر گئے ۔جہاں اصحاب کہف نے انہیں برکت دی اپنا قصہ سنایا اورفوت ہوگئے ۔(جلد او ل ص ۱۹۷)
علامہ ابوحیان بحر محیط میں لکھتے ہیں کہ سپین میںایک جگہ لوشاہے اس می ایک غا رہے وہاں اصحاب کہف کی لاشیں بتائی جاتی ہیں اوراس میں ان کاکتابھی ہے ۔ابن عربی عطیہ کہتے ہیں کہ میں نے وہ جگہ دیکھی ہے ۔چار پانچ سوسال سے وڑہاں ان کی لاشیں پڑی ہیں(بحر محیط جلد ۶ ص ۱۰۲)اسی طرح و ہ لکھتے ہیںکہ غرناطہ کے پاس ایک اجڑاہواشہر ہے ۔جسے دقیو س کاشہر کہتے ہیں جو بڑے بڑے پتھروں سے بنا ہواہے ۔اس میں عجیب عجیب قبریں ہیں۔
مفسرین نے اصحاب کہف کے نام بھی لکھے ہیں ۔چنانچہ ابن عباسؓ سے مروی ہے وہ یہ نام بتاتے ہیں ۔میکسل مینا ،تملیخا،مرطونس ،کشتونس ،بیرونس،ویلنموس ،بطونس ،قایوسن۔(ابن کثیر جلد ۶ص ۱۳۱)
رقیم کے متعلق بھی مختلف روایات ہیں بعض کہتے ہیں کہ تانبے اورپتھر کی لوح پر ان کے نام لکھے تھے ۔اس لیئے ان کانام رقیم ہوگیا ۔بعض کے نزدیک ان کے شہرکانام رقیم تھا ۔بعض کے نزدیک درہمو ں کانام تھا ۔اوربعض کہتے ہیں کہ ان کے کتے کا نام تھا ۔اوربعض کہتے ہیں کہ ان کی شریعت اکانام تھا ۔اوربعض کے نزدیک ان کی وادی کانام تھا ۔اوربعض کے نزدیک پہاڑ کانام تھا ۔جس پر وہ غار تھی۔
ان روایا ت سے جو مسلمانوں کی کتب اورمسیحیوں کی کتب میں آئی ہیں یہ بات توثابت ہوجکاتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے پہلے اصحاب کہف کے قصے سے ملتے ہوئے واقعات لوگوں میں مشہور تھے ۔لیکن ان میں اس قدر اختلاف تھا کہ جیساکہ قرآن کریم فرماتاہے ان پر اعتبار نہیں کیاجاسکتا ۔کیونکہ جھوٹ سچ ان میں ملاہواتھا ۔
ان روایات کے علاوہ مفسرین نے ایسی بہت سی روایات بھی لکھی ہیں جن میں کتے کے حالات بیان کئے گئے ہیں ۔یہاںتک کہ کہا گیا ہے کہ جنت میںصرف دوحیوان ہوں گے ایک اصحاب کاکتا اورایک بلعم کاگدھا ۔
صاحب فتح البیان اس قسم کی بعض رویات نقل کرکے لکھتے ہیں لاادری ای تعلق لھذالتدقیق والتحقیق بتکسیر الکتاب العزیز وماالذی حملھم علی ھذا الفضول الذی لامستندلہ فی السمع ولافی العقل ٹ(جلد۵)یعنی میں نہیں سمجھتا کہ اس نام نہادتدقیق اور تحقیق کا تعلق قرآن کریم کی تفسیر کے ساتھ کیا ہے ۔اور ان مفسرین کو ان لغویا ت کے نقل کی طرف جن کا نہ کوئی عقلی ثبوت ہے نہ نقلی ۔کیوں رغبت ہوئی ہے ۔
سابق مفسرین کے خیالات لکھنے کے بعد میں استاذی المکرم حضرت مولوی نورالدین خلیفہ اول جماعت احمدیہ ؐ کی تحقیق اس بارہ میں لکھتا ہوں ۔آپ کا خیال تھا کہ اصحاب کہف ابتدائی زمانہ کے مسیحیوں میں سے ایک موحد جماعت تھی ۔ان لوگوںنے شرک کی اشاعت سے ڈرکر کسی دوسرے ملک کاسفر کیا۔اور وہاں مدتوں تک گمنامی میں پڑے رہے ۔آخر اللہ تعالیٰ نے انہیں ترقی دی اور سب دنیا میں پھیلادیا۔آپ کاخیال تھا کہ اس واقعہ میں یوسف آرمیتیا کے ایک سفر کی طرف اشارہ ہے جب کہ وہ اپنے بعض ساتھیوں کو لے کر انگلستان چلے گئے تھے ۔وہاں انہوں نے پہلے مسیحی گرجا کی بنیاد رکھی ۔آپ کااشارہ اس روایت کی طرف ہے جوانگلستان میں صدیوں سے مشہور چلی آتی ہے ۔اوروہ یہ ہے کہ فلپ حواری نے یوسف آرمیتیا اور چند لوگوں کو انگلستان تبلیغ کے لئے بھجوایاتھا ۔وہاں انہوں نے Glostonburyکے مقام پر ایک گرجابنایا اور عیسائیت کی تبلیغ شروع کی یہ قصہ’’ گلاسٹبنری کے گرجا کی قدامت‘‘ نامی کتاب میں مذکور ہے جوولیم نا می ایک شخص نے جو مالمس بری Malmes bury کاباشندہ تھا گیارہ سو پچیس عیسوی میں لکھا تھا ۔لیکن اس کے اس نسخہ میں جو اس نے خود لکھا اس واقعہ کا ذکر نہیں بلکہ یہ لکھا ہے کہ معتبر روایات سے معلوم ہوتاہے کہ انگلستا ن کے ایک بادشاہ لو سیئس (Lucuis)کے کہنے پر پوپ نے ۱۶۶ ؁ء میں ایک تبلغی مشن انگلستان بھجوایاتھا جس نے یہ گرجا بنایا ۔ساتھ ہی ا س میں یہ بھی لکھااہے کہ ایک روایت اس گرجے کو اس سے بھی پہلے کابتاتی ہے ۔مگرمیںاس روایت کی تصدیق نہیں کرسکتا۔ولیم کے مرنے کے بعد اس کی ایک کتاب کو دوبار ہ لکھوایاگیاتواس میں اوپر والاواقعہ بیان کردیاگیا ۔گویایہ واقعہ ولیم کے بعداس کتا ب میں کسی اورنے لکھ دیاہے اوراس کی سند ا سنے کوئی نہیں دی ۔
یہ جوکہف کالفظ قرآن کریم میں آتاہے ا س کے متعلق حضرت مولوی صاحب ؓ کاخیال تھا کہ اس سے مراد وہ (cape)ہے جوگلاسٹنبڑی کے پاس ساحل پر ہے جہاں تک کیپ کے لفظ کاتعلق ہے میرے نزدیک آپ کی رائے درست نہیں کیونکہ کیپ انگریزی کا لفظ فرانسیسی لفظ cap اورلاطینی capute سے بناہے جن کے معنے سرکے ہیں ۔اورخشکی کاایک حصہ جس کی نوک آگے نکلی ہوئی ہو اسے کیپ (e cap )کہتے ہیں ۔لیکن عربی لفظ کہف کے معنے وسیع غار کے ہیں ۔جو پہاڑی جگہ پر ہو یا پتھریلی زمین میں ہواوراسے کیپ سے جسے عربی جغرافیہ نویس رأس کے لفظ سے یاد کرتے ہیں ۔(جیسے ہندوستان کی ایک کیپ کانام رأس کماری ہے )دورکابھی کوئی تعلق نہیں ۔میرے نزدیک جس حد تک اصحاب کہف کے واقعہ کاتعلق یوسف آرمیتیا کے سفر سے ہے ۔میں اس کے متعلق بھی آپ کی تحقیق سے متفق نہیں ۔کیونکہ یوسف آرمیتیا کایہ سفر محض کہانی کیطورپر انگلستان میں مشہور رہاہے ۔اورسواگیارہ سوسال بعد مسیح اس کاذکر پہلی دفعہ ولیم کی کتاب میں ملتاہے اوروہ بھی ایک نامعلوم شخص نے س کی موت کے بعد اسکتاب میں لکھ دیاہے ۔ایسے اہم امور کے متعلق توایک صد ی کی خاموشی بھی شبہ ڈال دیتی ہے ۔کجا یہ کہ ایک ہزار سال تک دنیا میں اسبار ہ میں کوئی روایت نہ ہو اورہزار سال کے بعد جاکر یہ روایت لکھی جائے ۔اگر آج کوئی شخص ایک نئی روایت جو کتب احادیث اورتاریخ میں موجود نہ ہو ۔لوگوں کی زبانی روایت پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بیان کرے توایک شخص بھی اسے تسلیم کرنے کو تیارنہ ہوگا ۔جب تک کہ کوئی ایسے تاریخی شواہد اسکی تائید میں نہ ملیں جواس واقعہ کو دوسرے ثابت شد ہ واقعات کی کڑی میں اس طرح پرودیں کہ انکار کی گنجائش نہ رہے ،۔
نیز اہل انگلستان جن کو اس قسم کی روایات پر فخر ہونا چاہیئے اورایسی جھوٹی روایتوںکو بھی سچا بنا نا ا ن کے فائدہ کا موجب ہے وہ بھی تحقیق کرکے ان امو رکوغلط قراردے چکے ہیں ۔چنانچہ ولیم آف مالمسبری کے بعد اس گرجا کہ قدیم کاغذات ملے ہیں جن کوپڑھ کر یہ نتیجہ نکالاگیاہے کہ یہ گرجا اس وقت سے زیادہ سے زیادہ تین ساڑھے تین سوسال پہلے بنا تھا ۔یعنی اس کی تعمیر کاوقت زیادہ سے زیادہ آٹھویں صدی مسیحی کے آخرمیں تجویز کیا جاسکتا ہے اوران کاغذات میں بھی اس روایت کاکوئی ذکر نیں ۔اس لئے تحقیقات کے بعد انگریز مؤرخو ں نے لکھا ہے کہ ’’بہرحال یہ تاریخی واقعہ نہیں ہاںایک شاعرانہ خیال ضرور ہے‘‘(انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا جلد ۱۳ص ۱۵۲)
ان معمولی اختلافات کے اظہار کے بعد جو کہ صر ف افراد او ابتدائی مقما کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ۔میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جہاں ت کاصحاب کہف کا تعلق گذرے ہوئے واقعات سے ہے ۔ان کے بارے میں حضرت مولوی صاحب ؓ کی تحقیق ایک ایسی شمع ہدایت ہے جس کی قیمت کا انداز ہ نہیں لگایا جاسکتا ۔او ر بغیر اس روشنی کے جو انہوں نے اس مضمون پر ڈالی ہے یہ حصہ قرآن کریم کا تاریخی طورپر حل نہیں ہوسکتا تھا ۔فجزاہ اللہ احسن الجزاء
میںجو تشریح آگے بیان کروں گاوہ جزئی اختلاف کو چھو ڑ کر مقام اورقوم اورزمانہ کے سواایک حد تک حضرت مولوی صاحب کی تحقیق پر مبنی ہوگی ۔ہاں ایک حصہ جو ان آیا ت کے اصل مقصد کے ساتھ وابستہ ہے آپ کی تحقیق سے باہر رہ گیا تھا اس کی طرف ہم کو حضرت مسیح مواعود علیہ السلام بانی سلسلہ احمد یہ نے توجہ دلائی ہے اورو ہ یہ کہ اس پیشگوئی میں مسیح موعود کے دوبار ہ نزول کے متعلق خبریں ہیں اوراس زمانہ کوبتای اہے کہ ویسے ہی حالات آئندہ زمانہ میں مسلمانوںکی ایک جماعت کوبھی پیش آنے الے ہیں ۔
ان تمہیدوں کے بعد میں اصحاب کہف کے بارے میں اپنی تحقیق بیا نکرتاہوں میں نے جب یہ دیکھا کہ یوسف آرمیتیا کاواقعہ ایک قصہ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔تومی نے اصحاب کہف کے بارے میں مزید تحقیق شروع کی ۔اس تحقیق کے دوران میں میرے خسر ڈاکٹرخلیفہ رشیدالدین صاحب مرحوم ایک کتاب میرے پاس لائے اورکہا کہ اس کتا ب میں جوواقعا ت بیا ن ہوئے ہیں وہ اصحاب کہف کے واقعات سے ملتے ہیں ۔اس کتاب کانا م روم کے کیٹاکومبز catacombs of rome تھا ۔میں نے وہ کتاب لے کر پڑھی اورمیری بھی یہ رائے ہوئی کہ اس میں بیان کردہ روایات پر اصحاب کہف کی تحقیق کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے ۔س کتاب کے مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ مسیحی ابتدائی زمانہ میں مشرک نہ تھے اوراس کاثبوت اس نے یہ پیش کیا ہے کہ روم کے پاس ایسے غارملکے ہیںجن میں ابتدائی زمانہ میں مسیحی لوگ رومی حکومت کے ظلم سے بچنے کیلئے چھپ جایاکرتے تھے ۔وہاںبہت سے کتبے پائے گئے ہیں جن میں اس وقت کے حالات ہیں ۔اوران سے معلوم ہوتاہے کہ شروع عیسائیت میں شرک کا نام نہ تھا ۔اوروہ لوگ مسیح علیہ السلام کو صرف ایک نجات دہندہ نبی سمجھتے تھے ۔یہ ظلم اس کتاب کے مطابق صدیوں تک ہوتارہااورجب ظلم زیادہ ہوتاوہ لو گ ان مقامات میں جاکر چھپ جاتے اورخفیہ طورپر رسد جمع کرکے وہاں رہتے ۔حتی کہ بعض دفعہ انہیں کئی کئی سال تک وہاں چھپنا پڑاآخرتین سوسال کے بعد جب روم کا ایک بادشاہ عیسائی ہوگیا ۔توعیسائیوں کی تکلیف دورہوئی ا س کے بعد گاتھ قوم نے روم پر حملہ کیا اوران تہ خانوں کو لوٹ لیا اورتوڑ دیا جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ ان کا ذکر مٹ گیا ۔مگرآثار قدیمہ کے بعض محققین نے روم کے کھنڈرات کی تلاش کرتے ہوئے ان کومعلوم کیااورایک ہزار سال بعد پھر یہ چھپاہواتاریخی مواد دنیا کومعلوم ہوا۔
میں نے جب یہ کتاب پڑھی تومیں نے یہ سمجھا کہ ہماری تفسیروں میں جو اموربیان کئیی گئے ہیں گووہ بہت کچھ رطب و یابس پر مشتمل ہیں مگر ان واقعات کی موجودگی میں انہیں اصل واقعہ سے کلی طو رپر مختلف نہیں کہاجاسکتااورمیں نے نئے سرے سے تفسیروں کے بیا ن کردہ واقعات پر غور کیا چنانچہ میں نے اوپر جو تین روایات بیان کی ہیں ۔ایک ابن اسحاق کی اوردوکتب احادیث کی ان کو دیکھ کرمیں نے محسوس کیا کہ صداقت کابیج ان روایا ت میں موجود ہے ۔
اگر اس تفسیر کو پڑھنے والے ایک دفعہ پھر ان روایات کو پڑھ کر دیکھیں گے توانہیں معلوم ہوگا کہ ان روایا ت میں یہ امور بیان ہوئے ہیں (۱) یہ واقعہ مسیحیوں کی ایک قوم سے گذراہے (۲)یہ مظالم رومیوں کے ہاتھ سیہوئے ہیں (۳)ایک روایت کہتی ہے کہ ایک حواری رومی بادشاہ کے دارالحکومت میں گیا تھا اس وقت وہاں یہ واقعہ گذراہے (۴)دوسری روایت کہتی ہے کہ دقیو س جس کادوسرانام عربوں اورہندوستانیوں میں دقیانو س بھی مشہور ہے ۔اورجسے لاطینی میں دسیسس DECUISکہتے ہیں ۔اس کے زمانے میں ااصحاب کہف کاواقعہ ہواہے اوراس سے ڈر کرکچھ مسیحی غار میں چلے گئے تھے (۵)سب روایات متفق ہیں کہ وہ قو م جس نے مظالم کئے تھے بت پر ست تھی ۔(۶)ایک روایت جسے میں نے لکھا نہیں یہ بھی کہتی ہے کہ اس ملک کے بادشاہ اپنے بتوں کے آگے سجدہ کرنے اوران پر قربانیاں چڑھانے کے لئے مجبورکرتے تھے (۷)حضرت ابن عباسؓ کی روایت بتاتی ہے کہ ان کے زمانے سے تین سوسال پہلے یہ واقعہ گزراہے (۸)ایک روایت بتاتی ہے کہ تندوسیسس کے زمانہ میں اصحاب کہف غار سے باہر نکلے تھے یہ تندوسیسس بھی ایک رومی بادشاہ تھا ۔اوراس کانام لاطینی میں theodosis لکھتے ہیں ۔
کیٹاکومبز کی تاریخ پڑھنے کے یہ روایات بجا ئے ہمارادماغ پریشان کرنے کے ہماری راہنمائی موجب ہوجاتی ہیں ۔اورو ہ اس طرح کہ کیٹاکومبزاورکلیسیا کی تاریخ سے ہمیں معلوم ہوتاہے کہ فرداًفرداًمسیحیوں پر ظلم توحضرت مسیح کے واقعہ صلیب سے شروع ہواتھا ۔مگربحیثیت جماعت نیروکے زمانہ سے روم میں مسیحیوں پر ظلم شروع ہوئے ہیں ۔اورنیروبادشاہ حواریوں کاہم عصر ہے ۔اس کازمانہ حکومت ۵۴ ؁ بعد مسیح سے ۶۸ ؁بعد مسیح تک ہے ۔پرانے عیسائیوں میں یہ خیال پایا جاتاہے کہ پطرس کواس کے زمانہ میں پھا نسی دیاگیا۔ہمیں کوئی شک نہیں کہ جدید ناقدین تاریخ جو ہرتاریخی واقعہ میں شک پیداکرنے کی کوشش کرتے ہیں انہوں نے اس بار ہ میں شک پیداکرنے کی کوشش کی ہے ۔لیکن پوری تنقید کے بعد بھی وہ اسے رد نہیں کرسکے کہ پطرس روم گیااوروہاں ہی مرا۔پرانے مسیحی لٹریچر سے قریباً ۱۷۷ ؁ بعد صلیب کی ایک تحریر بشپ ڈایو ینسیس کی ملتی ہے جوپیٹر کے روم جانے کی خبر دیکتی ہے ۔چونکہ پطرس واقعہ صلیب کے بعد ستاسٹھ سے ستر اسی سال تک زندہ رہا ہے یہ تحریر کوئی اسی سے سوسال تک پطرس کی وفات کے بعد لکھی گئی ہے اوراتنے قریب کے زمانہ کی شہادت معمولی شہادت نہیں ہوسکتی ۔خصوصاًجبکہ اس کالکھنے والا گرجے کا بڑاپادری ہے ( انسائیکلو پیڈیا ببلیکا زیرلفظ سائمن پیٹر)
انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا میں لکھا ہے کہ یہ امر تاریخ سے ثابت ہے کہ واقعہ صلیب کے دوسوسال کے بعد کے زمانہ میں روم میں پیٹرکی قبر ذائروں کو دکھائی جاتی تھی اوریہ کہ ۲۵۸ ؁ء میں اس کی ہڈیا ں کیٹاکومبزمیں منتقل کی گئی تھیں ۔یہ کہ واقعہ میں و ہ قبر اورہڈیاں پیٹر کی تھیں یانہیں ۔انسائیکلو پیڈیا برٹینیکااس بارہمیں لکھتاہے کہ اس کی تحقیق کاسامان ہمارے پاس موجود نہیں ۔مگر یہ ظاہرہے کہ جوسامان اَورباتوں کی تحقیق کے ہیں وہ یہاں بھی ہیں ۔قریب زمانہ کے لوگ اس واقعہ کو بیا ن کرتے ہیں اوراس کی وفات کے صر ف سواسوسال کے بعد کے زمانہ کاتاریخی ثبوت موجود ہے ۔کہ روم میں اس کی قبر دکھائی جاتی تھی ۔غرض یہ امر کہ اسے نیرو نے قتل کیا یانہ کیا ۔اگر ثابت بھی نہ ہو تب بھی یہ امر ثابت ہے کہ پطرس روم گیا اور وہیں مرا اوریہ کہ اس زمانہ میں مسیحیوں پر سختیاں ہوتی تھیں اوران کو ادھر ادھر بھاگ کر جانیں بچانی پڑتی تھیں ۔(سٹوری آف روم مصنفہ مسٹر ناروڈینگ)۔
پھر ہم کو تاریخ سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ ڈیسس یادقیانوس کے زمانہ میں مسیحیوں پر سختیاں بہت بڑھ گئی تھیں اورقانون بناکر انہیں سزادی جاتی تھی ۔اورجوبتوں کو سجدہ نہ کرتے تھے ان کو مسیحی سمجھ کر قید یاقتل کیاجاتاتھا۔انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا زیر لفظ ڈیسس نیز زیر لفظ تاریخ کلیسیا ،ڈیسیس کا زمانہ حکومت ۲۴۹ ؁ء ۲۵۱ء تھا ۔اوراس نے ۲۵۰و۲۵۱؁ء میں مسیحیوں کے خلاف سختی کے قانون پاس کئے تھے ۔
پھر تاریخ سے ہمیں معلوم ہوتاہے کہ ۳۱۱ ؁ء میں گالیس بادشاہ روم نے مرتے وقت مسیحیوں کے خلاف جوقانون تھا اسے منسوخ کیا ۔قسطنطین شاہ روم ۳۳۷ ؁ء میں عیسائی ہوا۔اورتھیو ڈوسیس مشرقی رومی حکومت کے وقت میں مسیحیت بہت پھیل گئی اورپبلک کی طرف سے بھی اسے امن حاصل ہوگیا ۔
ان تاریخی شواہد سے ہم پریہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہیروڈیٹس کے واقعہ سے فلسطین میں اورنیروکے زمانہ سے لیکر ۳۱۱ ؁ء تک روم میں مسیحیوں پرسخت ظلم ہوئے اوریہ کہ مظالم کے زمانہ میں وہ وہا ں سے بھا گ کر ادھر ادھر غاروں میں پناہ لیا کرتے تھے ۔
ان واقعات پر نظر ڈال کر ہم کو آسانی سے سمجھ میں آسکتا ہے کہ اصحاب کہف ابتدائی زمانہ کے رومی مسیحی تھے۔نیز سینکڑوں سال تک ان پر ظلم ہوتارہا۔جس کی ابتداایک مسیح کے حواری کے زمانہ میں ہوئی ڈیسیس کے زمانہ میں ظلم انتہاکوپہنچا اورگالیس کے زمانہ میں ان کو معاف کی اگیا قسطنطین کے زمانہ می ان کے مظالم قانونی طو ر روکے گئے اور تھیوڈیسیس کے زمانہ میں انہیں عام ترقی حاصل ہوگئی۔اب اگر ان واقعات کی روشنی میں مفسرین کی روایات کودیکھیں تواس مبالغہ کو نظر انداز کرکے جومسیحی او ریہود ی راویوں نے کئے ہوں گے وہ روایات ہمیں اصحاب کہف کاصحیح پتہ دیدیتی ہیں او ران میں اختلاف بھی کوئی نہیں ۔اختلا ف صرف اس وجہ سے معلوم ہوتاتھا کہ لوگ اصحابکہف کے واقعہ کوکسی ایک جماعت کاواقعہ سمجھتے تھے ۔لیکن یہ واقعہ درحقیقت ایک جماعت سے یا ایک زمانہ میں نہیں گذرا۔بلکہ کئی جماعتوں سے مختلف زمانوں میں گذراہے ۔یہ واقعہ نیروکے وقت میں بھی ہواجبکہ پطرس روم میں موجود تھے ۔اورابن اسحاق کی روایت اسی وقت کے متعلق ہے اوریہ واقعہ ڈیسس کے وقت مں بھی ہو ا۔اورابن المنذر کی راویت اس کے متعلق ہے ۔معلوم ہوتاہے چونکہ تین سوسال تک مسیحیوں پرظلم ہوتارہااور وہ ظلم کے خاص ایام میں غاروں میں چھپ کر گذاراہ کیا کرتے تھے ۔ان کی قربانیوں کے کئی واقعات لو گوں میں مشہور ہوگئے تھے ۔کسی کوپطرس کے زمانہ کاواقعہ معلوم ہواتوا سنے سمجھ لیا کہ اصحاب کہف کا واقعہ بس اتنا ہی ہے ۔غرض مختلف زمانوں کے مظالم اور مسیحیوں کی قربانیوںکی داستانوں کو مظالم کی تاریخ قراردینے سے اختلاف پیداہواہے ۔جب روایات کو مختلف واقعات سمجھا جائے توپھر عام مبالغہ کوخارج کرکے جوایسی روایات میں ہوجایاکرتا ہے ۔و ہ سب ہی روایات درست معلوم ہوتی ہیں اورابتدائی مسیحیوں کی پردرد داستان کاایک مختصر نقشہ ہیں۔
اب میں کہف کے بارے میں مختصراً بعض واقعات بتاتاہوں ۔جیسا کہ میں بیا ن کرچکا ہوں کہف سے مراد کیٹاکومبز ہیں جوزمین دوز تہ خانوں کانام ہے۔رومیو ںاوریہود میں رواج تھا کہ وہ مردوں کو کمروں میں رکھتے تھے ۔رومی حکومت کے بڑے بڑے شہرو ںمیں شہروں سے باہر ایسی جگہیں بنی ہوئی تھیں اورکیٹاکومبزکہلاتی تھیں ۔جب مسیحیوں پر ظلم ہوئے توانہوںنے جان بچانے کے لئے ان قبرستانوں میں پناہ لینی شروع کی جس کی دو وجہیں معلوم ہوتی ہی ۔ایک تویہ کہ زمین دوز کمروں میں وہ آسانی سے چھپ سکتے تھے ۔ اوربیٹھنے ۔سونے اورموسم کی شدت سے محفوظ رہنے کابھی سامان ہواتاتھا ۔دوسر ے اس لئے بھی کہ عام طور پر لوگ قبرستانوں سے ڈر تے ہیں ۔اوراس طرح لو گوں کی نظروں سے بچنے کاوہاں امکان زیادہ تھا ۔یہ کیٹاکومبز روم کے پا س۔اسکندریہ جومصر کاشہر ہے اس کیی پاس۔سسلی میں ۔مالٹامیں ۔نیپلز کے پاس اسوقت تک دریافت ہوئے ہیں ۔مسٹر بنجمن سکاٹ اپنیں کتا ب’’د ی کیٹاکومز اَیت روم ‘‘میں لکھتے ہیں ۔کہ’’میری راے ہے کہ اس ابتدائی زمانہ میں بھی(جب پولو س روم گیا تھا)عیسائی اپنی حفاظت کے خیال سے لوگوںکے غصہ اور یہودیوں کے ظلموں اوررومی حکومت کے مظالم سے بچنے کیلئے ان تہ خانوں میں پنا ہ لیا کرتے تھے ‘‘۔(ص ۶۳)پھر و ہ ذراآگے چل کرلکھتے ہیں ۔’’وہ یقینا مجبور تھے کہ ان گڑہوں اورزمین دوز غاور ں میں پنا ہ لیتے ‘‘۔اس جگہ مصنف نے ان تہ خانوں کے لئے کیو CAVE کالفظ استعمال کیا ہے ۔جو عر بی زبان کے لفظ کھف کا ہی بگڑاہواہے ۔گویا اس طرح اس انگریز مصنف نے عین وہی لفظ استعمال کردیا ہے جوقرآن کریم نے کیا ہے ۔یہ کہ ان کوایساکرنے کی ضرورت تھی رومی مؤرخ ٹیسٹس TACITUS کی شہادت سے ثابت ہوجاتاہے ۔وہ کہتاہے کہ نیرو نے لوگوں کو خوش کرنے ک لئے مسیحیوں کوزندہ جلانے ۔کتوں سے پھڑوانے ۔اورصلیب دینے ک مختلف طریق اختیار کررکھے تھے ۔اورا س غرض سے اس نے اپناشاہی باغ دیاہواتھا ۔جس قوم پر جس قدر عام ظلم ہوگا ۔ظاہر ہے کہ وہ ادھر ادھر بچ کر پناہ لے گی ۔
جب مسیحیو ں نے ان جگہوں پر پنا ہ لینی شروع کی توپنا ہ کے دنوں می انہوں نے زیاد ہ حفاظت کی خاطران کے اندراورکمرے بنانے شروع کردئے۔اسی طرح جو لوگ شہید ہوتے تھے ان کی لاشوں کوبے حرمتی سے بچانے کے لئے بھی و ہ ان تہ خانوں میں لاکردفن کرتے تھے ۔اورچونکہ یہ سلسلہ تین سوسال تک چلاگیا ۔اس لئے یہ تہ خانے اس کثرت سے ہوگئے کہ بعض لوگوںکے اندازے کے مطابق وہ پندرہ میل کی لمبائی تک چلے گئے ہیں۔
چونکہ ظلم یکسا ں نہیں چلتا۔درمیان میں بعض باد شا ہ نرمی کرنے لگ جاتے تھے اورمسیحی پھر واپس شہر میں آجاتے تھے ۔پھر جب سختی کادور آتا توبھاگ کر ان جگہوں میں چھپ جاتے ۔اورمعلوم ہوتا ہے کہ بعض دفعہ انہیں وہاں مہینوں یا سالوں رہنا پڑتاتھا ۔کیونکہ ان کے اندر سکولوں اورگرجوں کی کمرے بھی پائے گئے ہیں ۔
یہ تہ خانے تین منزل می بنے ہوئے ہیں ۔اور ۱۹۲۴ ؁ء میں انگلستان جاتے ہوئے رو م میں میں نے خود اپنی آنکھ سے دیکھا ہے ۔پہلی منزل کے کمروں کو توانسان بغیر تکلیف کے دیکھ سکتا ہے ۔دوسر ی منز ل میں بہت دم گھٹتاہے ۔اورتیسریمنز ل یعنی سب سے نیچے کے تہ خانہ میں جاناتونمی اورتاریکی کی وجہ سے قریباً ناممکن ہوتاہے ۔میں نے دیکھا ہے کہ ان تہ خانوں کو مسیحیوں نے اپنی ضرورت کے مطابق ا سطرح بنا لیا تھا جیسے بھول بھلیا ںہوتی ہی ۔اورحفاظت کے مندرجہ ذیل طریق ان می استعمال کئے گئے ہیں ۔
(۱)و ہ لوگ دروازو ں پر کتے رکھتے تھے تااجنبی آدمی کے آتے ہی ان کواس کے بھونکنے سے علم ہوجائے (۲)زمین دوز کمرے جن میں وہ رہتے تھے جہاں سے انہیں زمین کی سطح پر سے داخل ہونے کاراستہ تھا۔وہاں مٹی کی سیڑھی نہ ہوتی تھی ۔بلکہ لکڑ ی کی سیڑھی رکھتے تھے تاکہ اپنا آدمی اترنے کے بعد وہاںسے سیڑھی ہٹادی جائے ۔اورتاکہ دشمن آئیں توفوراًکمروں میں نہ پہنچ سکیں ۔(۳)لیکن اگر وہ کود کر یاسیڑھیاں اپنے ساتھ لاکر اترہی آئیں ۔تواس کے آگے حفاظت کایہ علاج کیا گیاتھا کہ ہرکمرہ سے چار راستے بنائے گئے تھے ۔ان میں سے ایک راستہ تواگلے کمرہ کی طرف جاتاتھا اورباقی راستے کچھ دور جاکر بندہوجاتے تھے ۔اس کافائدہ یہ تھاکہ عیسائی توواقف ہونے کی وجہ سے جھٹ اگلے کمرے کی طرف دوڑ جاتے تھے اورتعاقب کرنے والے غلط راستہ کی طرف چلے جاتے اور آگے راستہ بند دیکھ کر پھر دوسرے راستہ کی طرف لوٹتے ۔اس طرح بار بار غلط راستوں کی طرف جانے کیوجہ سے بھاگنے والے عیسائیوں سے بہت پیچھے رہ جاتے ۔اول تویہ تعاقب ہی پولیس کو پریشان کردیتاتھا ۔لیکن اگرآخری حد تک تعاقب کربھی لیتے تو(۳)مسیحی دوسری منزل یعنی نچلے تہ خانوں میں چلے جاتے جوپہلوں سے زیاد ہ تنگ زیادہ تاریک اور زیادہ پیچید ہ ہیں اگربالفرض یہاں تک بھی تعاقب کامیاب ہوجاتا تو(۵)ان سے نیچے تیسرے تہ خانے موجود تھے ۔جن میں ہم لوگ تودوچار منٹ بھی نہیں ٹھیر سکے۔گواس کی ایک وجہ یہ بھی تھی ۔کہ اب وہ گر کر بہت زیادہ نمناک ہو گئے ہیں ۔مگر بہرحال وہ بھیانک جگہیں ہیں جہاں غالباً صرف تعاقب کے وقت میں تھوڑی دیر کیلئے مسیحی پنا ہ لیتے تھے ۔چونکہ سارے راستوں کی لمبائی کئی سومیل تک جاتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ ان جگہوں میں عیسائیوں کاپکڑنا آسان کام نہ ہوتاتھا ۔مگرگورنمنٹ آخر گورنمنٹ ہوتی ہے کئی دفعہ پولیس پکڑ بھی یتی تھی ۔اوروہیں ان لوگوں کوقتل کردیتی تھی۔می نے ایسے شہداء کی بہت سی قبریں وہاں دیکھی ہیں ۔ہم نے بعض کتبے پادری سے پڑ ھواکر معلوم کیا ۔کہ ان میں وہ درد ناک واقعات بیان کئے گئے ہیںجو شہادت کے وقت ان کو پیش آتے تھے ۔
قریب زمانہ میں جو نئی قبریں اور کتبے دریافت ہوئے ہیں ۔ا ن میں ان لوگوں کی قبریں بھی ملی ہیں جن کے پاس پطرس ٹھیرے تھے یاجن کابائبل میں ذکر ہے ۔(انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا زیر لفظ کیٹاکومبز)
ڈسیس کے وقت میں چونکہ قانون بنادیاگیا تھا کہ مسیحی بتوں کو سجدہ کر نے پر مجبورکئے جائیں اوربہت سختی سے مسیحیوں کو ماراجاتا تھا ۔یہ زمانہ قریباً ساراکاساراعیسائیوں نے کیٹاکوکومبز میں گذارا۔سوائے ان کے جنہوں نے ڈر کر مذہب کو ظاہر اً خیر بادکہدیا ۔اس لئے اس زمانہ ہمیں اصحاب کہف نے ایک نہایت شاندا رمثال قربانی پیش کی تھی ۔
ان کتبوں سے جوکیٹاکومبز میں لگے ہوئے ہیں۔معلوم ہوتاہے کہ اس وقت مسیحیوں میں شرک نہ تھا ۔ان لفظوں میں کوئی لفظ شرک کا نہیں ۔مسیح کو خداکابیٹا نہیں بلکہ محض ایک گڈریے کی شکل میں دکھایا جاتاہے ۔ان کی والدہ کے لئے کوئی غیر معمولی عزت کانشان نہیں ملتا۔زیاد ہ تریونس نبی کے واقعہ کو اورحضرت نوح کے طوفان کے آخر میں جو کبوتر اس بات کی خبرلایا تھا کہ پانی ہٹ کرزمین ننگی ہوگئی ہے اس واقعہ کوتصویروں میں دکھا یا جاتا ہے ۔جس سے معلوم ہوتاہے کہ عہد نامہ قدیم کو ان لوگوں نے نہیں چھوڑاتھا اورمسیح کوصرف ایک نبی اورروحانی گڈریا خیال کرتے تھے (کیٹاکومبز کے واقعات کے لئے دیکھو انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا ۔دی کٹاکومبزایٹ روم مصنفہ بنجیمن سکاٹ اورڈاکٹر میٹ لینسڈ کی کتاب وغیرہ)
خلاصہ یہ کہ اصحاب کہف کے واقعہ میں مسیحیوں کے ابتدائی زمانہ کلے حالات کو بیان کیا گیا ہے اوربتایا ہے کہ مسیحی قوم کی ابتداء تواس طرح ہوئی تھی کہ وہ بت پرستی کے خلاف جہاد کرتے تھے اورشرک سے بچنے کے لئے انہوں نے صدیوں تک بڑی بڑی قربانیا ں کیں ۔لیکن انتہاء ا س طرح ہوئی ہے کہ اصلی دین کاکوئی نشان بھی اب مسیحیوں میں نہیں پایاجاتا۔
نحن نقص علیک نباھم بالحق ط انھم فتیۃ اٰمنوابربھم وزدنھم ھدیً٭
ہم ان کی اہم خبر بالکل صحیح طور پر تیرے پاس بیان کرتے ہیں ۔وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر (حقیقی)ایما ن لائے تھے اورانہیں ہم نے ہدایت میں (اوربھی )بڑھایاتھا ۱۱؎
۱۱؎ حل لغات ۔نَقُصُّ۔:قَصَّ سے جمع متکلم کاصیغہ ہے ۔اس کے لئے دیکھو یوسف ۴؎ نَبَاٌکے لیء دیکھو یوسف ۳۸؎ الحقُّ کے لئے دیکھو رعد ۱۵؎
تفسیر ۔نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ نباَھُمْ بِالحقِّ۔یعنی ہم تیرے سامنے ان کے واقعات جس طرح ہوئے ہیں اسی طرح بیان کرتے ہیں ۔ا س سے معلو م ہوتاہے کہ جوپرانے قصے تھے وہ صحیح نہ تھے ۔اوریہ بھی پتہ لگاکہ ااس وقت کچھ قصے ان کے متعلق ضرور مشہور تھے۔
اس امر کاثبو ت کہ ان کے بارہ میں کچھ قصے ضرور مشہو رتھے پہلی آیات سے بھی ملتاہے ۔کیونکہ قرآنی واقعہ تواس آیت سے شروع ہوتاہے ۔اس سے پہلے جوبیان کیاگیا تھا معلوم ہوتاہے وہ اس وقت کی مشہور روایتوں کاصحیح خلاصہ تھا ۔
اِنَّھُمْ فِتْیَۃٌ اٰمَنُوْابِرَبِّھِمْ۔وہ نوجوان یا شریف اورسخی لوگوں کی ایک جماعت تھی جواپنے رب پر ایمان لائی ۔فَتًی کے معنے سخی۔شریف۔ لوگوں کے لئے مال خرچ کرنے والا ۔یانوجوان کے ہیں ۔کیونکہ دینی کاموں میں نوجوان ہی زیادہ حصہ لیتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لانے والے سوائے چند ایک کے باقی سب آپ سے عمر میں کم تھے ۔
وَزِدْنٰھُمْ ھُدًی۔اورہم نے ہدایت می ان کو زیادہ کردیاتھا ۔یعنی ان کی قربانیوںکی وجہ سے ہم نے ان کے ایمان کو بہت بڑھادیاتھا ۔ فِتْیَۃٌ سے یہ بھی مراد ہوسکتی ہے کہ مختلف پناہ لینے والی پارٹیوں میں سے جوسب سے زیاد ہ قربانی کرنے والی تھی ۔اس جگہ ذکر کیا گیا ہو ۔اوریہ بھی ہوسکتاہے کہ اس آیت میں کسی خاص جماعت کاذکر نہ ہو ۔بلکہ یہ مراد ہو کہ شریف مسیحی جواپنے دین میں پکے ہوتے تھے ۔ایساکیاکرتے تھے ۔اورا س طرح اس آیت میں تین سوسال کے عرصہ میں جس قدر لوگوں نے قربانیاں کی تھیں۔سب ہی کاذکر ہو ۔میں ذاتی طورپر ان معنوں کوترجیح دیتاہوں ۔
وربطنا علی قلوبھم اذقاموا فقالواربنا رب السمٰوٰت
اورجب و ہ(اپنے وطن سے نکلنے کے لئے )اٹھے توہم نے ان کے دلوں کو مضبوط کردیا تب انہوں نے (ایک دوسرے سے )کہا
والارض لن ندعوا من دونہ الھالقد قلنا اذًاشططاً٭
(کہ)ہمارارب (و ہ ہے جو )آسمانوں اورزمین کا(بھی)رب ہے ہم ا س کے سواکسی اورکو معبود ہرگز (کبھی )نہیں پکاریں گے ورنہ ہم ایک حق بات سے دور بات کہنے والے ہوں گے ۱۲؎
۱۲؎ حل لغا ت ۔ربطنا علی قلو بھم :۔ربط الشیء (یربِطُ ویربَطُ )کے معنے ہیں ۔ارثقہ وشدّہٗ۔کسی چیز کو مضبوط طور پر باندھ دیا ۔رَبَطَ جَاْشُہٗ(رِباطۃ)کے معنی ہیں ۔اِشْتدَّ قلبُہٗ اس کادل مضبوط ہوگیا ۔ربط اللہ علی قلبہٖ صَبَّرَہٗ۔اللہ نے مصائب کے برداشت کی اسے طاقت دی اورقدم نہ لڑکھڑانے دیا (اقرب)
شططًا:شطَّ (شططاً)کے معنے ہیں ۔جَارَ۔ظلم کیا ۔اَفْرَطَ۔زیادتی کی ۔شطط فی سلعتِہٖ شططاً۔جاوزالقدر المحدودَ اپنے سامان میں مقرراندازہ سے بڑھ گیا ۔تَبَاعَہَ عن الحقِّ۔حق سے دورہوگیا۔شطَّ فی السَّومِ۔ غالی فی الثَّمَن۔قیمت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ۔نیز شططٌ کے معنے ہیں۔مُجاوزۃُ القدرِ والحدِّ۔حداوراندازہ سے آگے گذرجانا (اقرب)
تفسیر ۔باوجود اس کے کہ بادشاہ اوررعایا سب ہی ان کے مخالف تھے ۔اللہ تعالیٰ نے ان کے دل کوطاقت دی اورصبر بخشا ۔اورو ہ سب کے مقابل پر کھڑے ہوکر اپنے عقیدہ کااظہار کرتے رہے ۔
ھولاء قومنا اتخذوامن دونہ الھۃ ط لولایاتون علیھم
ان لوگوں نے یعنی ہماری قوم نے اس (معبود حق )کوچھوڑ کر (اپنے لیء )اور(اور)معبود بنالئے ہیں وہ ان کے ثبوت میں کیوں
بسلطٰن بین ط فمن اظلم ممن افتری علی اللہ کذبا٭
کوئی روشن دلیل نہیں لاتے ۔پھر (و ہ کیوں نہیں سمجھتے کہ )جوشخص اللہ (تعالی )پر جھوٹ باندھے اس سے بڑھ کر ظالم کون (ہوسکتا )ہے ۱۳؎
۱۳؎ حل لغات ۔سُلْطٰن کے لئے دیکھو ابراہیم ۱۱؎ بَیِّن: البَیِّنُ۔الواضحُ ۔الجَلِیُّ۔بالکل واضح (اقرب)
تفسیر ۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ قرآن کریم کے نزدک جس قوم می سے اصحاب کہف نکلے تھے و ہ بت پرست تھی اورکئی معبود انہوں نے بنائے ہوئے تھے ۔یہی حال رومیوں کاتھا ۔ان میں بھی کئی بت پوجے جاتے تھے ۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ یہ موحدوں کی جماعت کوئی پراگندہ نوجوان نہ تھے ۔بلکہ ایک مذہب سے تعلق رکھتے تھے اورآپس میں ملتے رہتے تھے ۔کیونکہ اس آیت کامضمون بتاتاہے کہ و ہ لوگ یہ باتیں باہم علیحد گی میں کیاکرتے تھے ۔
واذاعتزلتموھم ومایعبدون الااللہ فاواالی الکھف
اور(اب اس وقت )جب (کہ)تم نے ا ن سے اور(نیز )اللہ (تعالیٰ)کے سواجس چیز کی (بھی )وہ پرستش کرتے ہیں اس سے
ینشرلکم ربکم من رحمتہ و یھیی لکم من امر کم مرفقاً٭
کنارہ کشی کرلی ہے تو(اب )تم اس وسیع پہاڑی پناہ گاہ میں پناہ لو (ایساکروگے تو)تمہارارب اپنی رحمت (کی کوئی راہ)تمہارے لئے کھو لدے گا اورتمہارے لئے تمہارے (اس )معاملہ می کوئی سہولت کاسامان مہیا کردے گا ۱۴؎
۱۴؎ حل لغات ۔ینشُر:نَشَرسے مضارع واحد مذکر غائب کاصیغہ ہے ۔اورنشر الثَّوابَ والکتاب کے معنے ہیں بَسَطَہٗ خلافَ طواہ کسی کتاب کو کھولااو رکپڑے کوپھیلا یا۔نشرت اوراقُ الشَّجَرِ اِمتَدَّتْ وانبسطت ۔درخت کے پتے پھیل گئے ۔نشر الخبر نشراً۔اذاعہٗ۔کسی خبر کوپھیلا یا (اقرب)
مِرْفَقًا:رفق بہٖ وعلیہ ولہ( یرفق ُ مرفقاً)کے معنے ہیں لَطُفَ وَلَمْ یُعَنِّفْ ۔اس پر نرمی کی اورسختی سے کا م نہ لیا (اقرب)پس مرفق کے معنے ہوئے نرمی ۔
تفسیر ۔یہاں پر جوالکھف کالفظ ا ستعمال کیا گیاہے ۔یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان لوگوں کے ذہن میں کوئی خاص جگہ تھی ۔ ورنہ وہ الی کھف کہتے کہ کسی غار کی طرف چلے جانا۔مگروہ الی کھفٍ نہیں کہتے ۔بلکہ الی الکھفِ کہتے ہیں ۔جس سے معلو م ہوتاہے کہ ان کے علاقہ میں کوئی خاص کہف(غار)تھی ۔جوملشہور تھی ۔اوراس کی طرف اشار ہ کرنے سے ہرایک شخص اس مقام کوپہچان جاتاتھا ۔
دوسرے اس سے معلوم ہوتاہے کہ اس کہف میں جانے سے پہلے دیرسے ا ن پر ظلم ہورہاتھا اورانہوں نے آپس میں یہ سکیم کررکھی تھی کہ جب ظلم حد سے بڑ ھ جائے اورباہر رہنا مشکل ہوتواس کہف میں چلے جائیں گے کیونکہ اِذِاعْتَزَلْتُمُوْھُمْ بتاتاہے کہ ان کابائیکاٹ ہوچکاتھا اوروہ اپنی قوم سے الگ اپنے جتھے میں رہتے تھے۔
اس کہف (غار)کی شہر ت پہلے سے اس وجہ سے تھی کہ رومی غلامو ں پر جب ان کے آقا ظلم کیا کرتے تھے تووہ بھاگ کر وہاں چلے جایا کرتے تھے ۔وہ بھی ان کی مثال پر عمل کرناچاہتے تھے ۔پس انہوں نے باہم مشور ہ کرکے فیصلہ کرلیا کہ اگرظلم حدسے بڑھ جائے اورباہررہنا دین کے لئے مضرہو تو اس غار میں چلے جائیںجہاں غلام بھاگ جایا کرتے تھے ۔اگرچہ وہ غا رانہی لوگوںنے بہت کچھ بڑھائی لیکن و ہ پہلے بھی بہت وسیع تھی ۔
وتری الشمس اذاطلعت تزاورعن کھفھم ذات الیمین واذا
اور(اے مخاطب )توسورج کو دیکھتاہے کہ جب و ہ چڑھتاہے توان کی وسیع جایء پنا ہ سے دائیں طر ف کوہٹ کر گذرتا ہے اورجب
غربت تقرضھم ذات الشما ل وھم فی فجوۃٍ منہ ط
و ہ ڈوبتاہے توان سے بائیں طرف کو ہٹ کرگذرتا ہے اوروہ اس (کہف )کے اندرفراخ جگہ میں (رہتے )ہیں ۔
ذٰلک من آیات اللہ ط من یھداللہ فھوالمھتد ومن
یہ بات اللہ(تعالیٰ کی نصرت )کے نشانوں میں سے(ایک نشان)ہے جسے اللہ (تعالیٰ ہدایت )کاراستہ دکھائے وہی ہدایت پر ہوتا
یضلل فلن تجد لہ ولیا ًمرشدا٭
ہے اورجسے وہ گمراہ کر ے اس کاتو(کبھی )کوئی دوست (اور)راہ نمانہیں پائے گا ۱۵؎
۱۵؎ حل لغات ۔تَزٰوَرُ:اصل میں تتزاورُہے اور تزاورَ سے مضارع مؤنث غائب کاصیغہ ہے ۔اورتَزاورعنہُ کے معنے ہیں عَدَلَ وَ اِنْحَرَفَ منحرف ہوگیا ۔اورعلیحد ہ ہوگیا(اقرب)باب تعافل سے پہلے جومضارع کی تاء آتی ہے بوجہ ودت جمع ہوجانے کے ۔ان میں سے پہلی ت کو عر بی میں حذف کردین کی اجازت ہے۔
تقرِضُھُمْ:قرَض سے مضارع مؤنث غاء ب کاصیغہ ہے ۔قرض الشیء (یقرضُ قرضًا)کے معنے ہیں قَطعَہٗ کسی چیز کوکاٹا۔قرض الوادی ۔جازہٗ۔وادی کو طے کیا ۔قرض المکان عدل عنہ وتنکبَّہٗ کسی چیزسے علیحدہ اور ایک طرف ہوگیا (اقرب)
الفجوۃُ:الفُرْجۃُ بین الشیئین دوچیزوں کے درمیا ن کشادہ جگہ ۔ماَتَّسَعَ من الارض۔ وسیع زمین ۔باحۃ الدار گھر کاصحن (اقر ب)
مُرشِدًا:اَرْشَدَ سے اسم فاعل ہے اورارشد کے معنے ہیں ھداہُ اسے راستہ دکھایا ۔۲۔بتایااورواضح کیا ۔۳۔اوراس کے آگے چل کر منزل مقصود تک لے گیا ۔۴۔ایمان کی طرف راہنمائی کی (اقرب)
تفسیر ۔اس آیت میں اغار کامقام بتایا گیاہے ۔آیت میں جو علامات بتائی گئی ہیںان سے ظاہر ہے کہ یہ قوم اونچے شمالی علاقوں میں بسنے والی تھی کیونکہ جب شمال کی طرف جائیں اورمشرق کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوں توسورج دائیں طرف رہتاہے اورجب جنوب میں آئیں اورمشرق کی طرف منہ کریں توبائیں طرف رہتاہے ۔یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ اس غا ر کامنہ شمال مغرب کی طرف تھا ۔جوعمارت شمالی ر خ ہوگی اس سے سورج دائیں سے بائیں ہی کوگزرے گا۔
فجرۃ سے پتہ لگتاہے کہ اند روسیع علاقہ تھا۔چنانچہ ان غاروں کے دیکھنے سے تصدیق ہوجاتی ہے کیونکہ وہ بہت ہی وسیع جگہ ہے ۔ بعض نے اس کی گلیو ںاوراوپر نیچے کے تہ خانوں کا مجموعی اندازہ ۸۷۰میل تک کالگایا ہے (یعنی اگر سب گلیوں اورکمروں کو ایک دوسرے کے آگے رکھتے چلے جائیں)اوریہ بھی پتہ لگتا ہے کہ وہاں روشنی بہت کم پڑتی تھی ۔ورنہ لوگ پکڑے جاتے ۔انہوں نے غار کوایسی طرز پر بنایاکہ ہوابھی آئے اوران کاپتہ بھی نہ لگے ۔چنانچہ سینٹ جیرون چوتھی صدی میں لکھتاہے کہ و ہ کمرے اس قد ر تاریک ہیںکہ حیرانی ہوتی ہے ۔کہیں سے عمارت پھٹی ہوئی ہی ہوتوسورج کی کوئی شعاع پڑ سکتی ہے ورنہ نہیں ۔
اس کی جائے وقوع بتانے سے یہ مقصد تھاکہ شمال میں کوئی مسلمانوں کادشمن ہے مسلما ن اس سے ہوشیار رہیں مگرمسلمانوں کی غلطی ہے کہ انہوں نے اس طر ف توجہ نہیں کی ۔اورپھر مَنْ یَّھْدِ اللہُ فَھُوَالْمُھْتَد میں یہ بتایاہے کہ ہم نے اشار ہ توکردیا ہے مگرسمجھ وہی سکتاہے جوہدایت پر ہو ۔یعنی ان قوموں سے جو دوستانہ سلوک کرے گا وہ ہلاک ہوگا اورجو آپس میں اتفاق کریں گے کامیاب ہوں گے مگرمسلمانوں نے آپس میں لڑائیاں کیں لیکن روم کے بادشاہوں نے صلح رکھی۔سوائے ابتدائی زمانہ کے جب رومی بادشاہ نے حضرت علیؓ اورحضرت معاویہؓ کی جنگ کی خبر معلوم کرکے اسلامی مملکت پر حملہ کرناچاہاتوحضرت معاویہؓ نے اسے لکھا کہ ہوشیا ر رہنا ہمارے آپس کے تعلقات سے دھوکا نہ کھانا اگرتم نے حملہ کیا توحضرت علیؓ کی طرف سے جوپہلا جرنیل تمہارے مقابلہ کے لئے نکلے گاوہ میں ہوں گا ۔
اس کے برخلاف جب مسلمان اسلام سے دورجاپڑے توبغداد کے بادشاہو ں نے سپین کو نقصان پہنچانے کے لئے مشرقی رومی حکومت سے جوبازنطینی حکومت کہلاتی تھی صلح کی ۔اورسپین کے مسلمان بادشاہوں نے بغدادی حکومت کے خلاف مددلینے کے لئے پاپائے روم کوتحفے بھیجے اوراس سے صلح کی ۔اناللہ واناالیہ راجعون۔اس نکتہ کی طرف مجھے قرآنی حروف مقطعات المٓرٰ نے توجہ دلائی اورمسلمانوں کی یہ دردناک اورعبرتناک غلطی مجھے معلو م ہوئی ۔
وتحسبھم ایقاضاً وھم رقود ونقلبھم ذات الیمین
اور(اے مخاطب)توانہیں بیدار سمجھتاہے ۔حالانکہ وہ سوتے ہیں ۔اورہم انہیں دائیں طرف (بھی)
وذات الشمال وکلبھم باسطٌ ذراعیہ بالوصید ط
اوربائیں طرف (بھی)اوران کا کتّا (بھی ان کے ساتھ ساتھ)صحن میں ہاتھ پھیلائے (موجود )رہے گا ۔
لواطلعت علیھم لولیت منھم فرارًاولملئت منھم رعباً٭
اگر توان کے حالات سے آگاہ ہوجائے توتواُن سے بھاگنے کے لئے پیٹھ پھیر لے اوران کی وجہ سے رعب سے بھر جائے ۱۶؎
۱۶؎ حل لغات ۔تَحْسَبُھُمْ:حسب (یحسَبُ)سے مضارع کاصیغہ ہے ۔اورحسبہُ کے معنے ہیں ظَنَّہُ۔اس کے بارے میں گما ن کیا (اقرب)
اَیْقَاظًا: یہ یقظٌ ویقُظٌ وَیَقْظَان کی جمع ہے اوریقِظٌ یَقُظٌ ویقظانً صفت مشبہ کے صیغے ہیں اوریقظ َ الرَّجُلُ(یَقَظًا)کے معنے ہیں ۔ضِدُّ نَامَ وتنبّہَ للامور وحذِروَفطنَ۔و ہ بیدار رہا ۔معاملات میں محتاط ہوا۔چوکس ہوا،۔سمجھدار ہوا۔(اقرب)
رُقُودٌ:رَاقدٌ کی جمع ہے ۔اوریہ رَقَدَ سے اسم فاعل ہے اوررقد الرجلُ (یرقُدُ۔فقدًورُقُوداًورُقادًا)کے معنیی ہیں ۔نَامَ۔سوگیا ۔رقدالحرُّسکَن۔گرمی ہٹ گئی ۔رقد عن الامر ۔غفَل۔کسی کام سے غافل ہوا۔رقدالثَّوابُ ۔اَخْلقَ۔کپڑابوسید ہ ہوگیا ۔اورالرّاقد کے معنے ہیں ۔النّائمُ۔سویاہوا۔اس کے علاوہ اس کی جمع رُقَدٌ بھی آتی ہے (اقرب)
نُقَلِّبُھُمْ:قلّبَ(باب تفعیل)سے مضارع جمع متکلم کاصیغہ ہے اورقلّبَہٗ کے معنے ہیں حَوَّلَہٗ عن وجھہ۔اس کو اصل مقصد سے پھیر دیا ۔ قلَّبَ الشَّیئَ۔حوّلہ وجعل اعلاہ اسفلَہ۔کسی چیز کو اس طرح تبدیل کیا کہ اس کے نیچے کی سطح اوپر آگئی ۔قلّب الشیء للابتیاع۔تصفّحہ فرأی داخلہ وباطنہ۔کسی چیز کو خرید نیی کے لئے اس کے متعلق پوری واقفیت اورپوراعلم حاصل کرلیا ۔قلّب الامرَظھرًالبطنٍ۔اختبرہٗ۔معاملہ کاامتحا ن کیا ۔قلّب القوم ۔صَرَفَہم ۔لوگوں کورخصت کیا (اقرب)
وَصِیْدٌ:الفنائُ :گھر کاصحن ۔العُتْبۃُ۔دروازہ کی دہلیز ۔بیتٌ کالحطیرۃ یُتَّخَذُ من لحجارۃِ ۔للمالِ اَیْ الغنمِ وغیرِھَا فی الجِبالِ۔باڑے کی طرح کاچھوٹاسامکان جو پتھروں سے پہا ڑی جگہوں میں جانوروں کے لئے بناتے ہیں ۔الجَبَلُ۔پہاڑ ۔اَلنَّبَاتُ المُتَقَارِبُ الاُصُولِ۔ چھوٹے تنوں والے پودے ۔الضَیقُ وَ المطبق۔تنگ (اقرب)
تفسیر ۔میرے نزدیک اس آیت میں اصحاب کہف کے ابتدائی ایام کاذکر نہیں بلکہ ان کی اس وقت کی کیفیت بیان کی گئی ہے جوقرآن کریم کے وقت میں تھی اوریہ بتایاگیاہے کہ تم سمجھتے ہو کہ یہ شمالی اقوام جاگ رہی ہیں ۔وہ جاگ نہیں رہیں اس وقت وہ سورہی ہیں ۔آئندہ زمانہ میں جاگیں گی۔گویا ان کی موجودہ حالت آئندہ کی حالت کے مقابل پر ایسی ہے کہ ان کوسوتے ہوئے سمجھنا چاہیئے۔ اس سے اس طرف اشارہ کیاہے کہ ان دنوں میں تم ان کے زور کوتوڑدوتوآئندہ ان کے شرسے محفوظ رہو گے ۔مگر افسوس حضرت عثمان ؓ کے بعد سے اس قوم کی طرف مسلمانوں کی توجہ کم ہوگئی ۔اگر اس وقت مسلمان حملہ کرکے بازنطینی حکومت کو تباہ کردیتے اوراس کاان کو حق تھا ۔کیونکہ رومیوں نے حملہ کرنے میں پہل کی تھی ۔تویقینا آج دنیا کانقشہ مختلف ہوتا ۔
وَنُقَلِّبُھُمْ ذَاتَ الْیَمِیْنِ وَذَاتَ الشِّمَالِ میں بتایا ہے کہ ان کو آئندہ زمانہ میں ہم دنیا پر پھیلانے والے ہیں وہ وقت ان کی بیداری کاہوگا۔پس اس وقت کے آنے سے پہلے مسلمانوں کو اپنی حفاظت کے لئے تدابیر کرلینی چاہئیں ۔
وَکَلْبُھُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَیْہِ بِالْوَصِیْد سے رومی بازنطینی حکومت کی طر ف اشارہ ہے جو بحیرہ مامورہ کے دونوں جانب یورپ کی حفاظت کررہی تھی ۔اگربحیرہ مامورہ کودیکھا جائے توبالکل یوںمعلوم ہوتاہے کہ کوئی کتادائی بائیں لاتیں پھیلائے پہر ہ دے رہاہے ۔ترکوں نے اس علاقہ کو فتح کیا مگر اسوقت تک مقابلہ کااصل موقعہ نکل چکا تھا اورشمالی قوتیں طاقت پکڑ چکی تھیں۔جن کاترک مقابلہ نہ کرسکتے تھے۔اگر بغداد اورسپین کی حکومتیں مل کر اپنے زمانہ میں شمالی ملکوں میں پھیل جاتیں تووہ ایک زریں موقعہ تھا ۔یقینا اس وقت اسلا م ان ملکوں میں پھیل جاتا اورآج کے تایک دن دیکھنے میں نہ آتے ۔
کہاجاسکتاہے کہ الٰہی تقدیر کو کس طرح روکا جاسکتاتھا لیکن یہ اعتراض الہامی کلام کی حقیقت کی نافہمی سے پیداہوگا ۔الٰہی قانو ن یہ ہے کہ انذاری پیشگوئیاں ٹل بھی جاتی ہیں ۔کم سے کم اسلام کو جو ضعف اآج پہنچ رہاہے ۔ان حالا ت میں وہ ایساشدید نہ ہوتا اوریو رپ میں اسلام کے ہمدرداورمددگار موجود ہوتے جومسیحی حملہ کی شدت کو بھی کم کردیتے ۔
یہ جوفرمایا کہ اگر تجھے ان کاعلم ہو تو تُوان سے مرعوب ہوجائے ۔اس کاتعلق ا س وقت سے ہے جبکہ ان کو شمال اورجنوب میں پھیلادیاجائے گا ۔چنانچہ دیکھ لو ۔اس وقت ان شمالی قوموں کاکس قدر رعب ہے ۔دنیا کی دوسری حکومتیں اگر کوئی ہیں بھی توان کے رحم پر ہیں ۔اوران کارعب ساری دنیا پر چھایا ہواہے۔
وَکَلْبُھُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَیْہِ سے اس طر ف بھی اشارہ ہوسکتاہے کہ ان قوموں میں کتے رکھنے کابہت رواج ہوگا ۔چنانچہ دیکھ لویورپین قومیں عام طور پر کتے رکھتی ہیں جوان کے گھروں کے پہرے دیتے ہیں اورپہلاخوف ان کی کوٹھیو ں پرجانے والے کے لئے ان کے کتوں سے ہی پیداہوتاہے ۔
لَوِاطَّلَعَتْ عَلَیْھِمْ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مخاطب نہیں ہوسکتے ۔کیونکہ یہ نُقَلِّبُہُمْ کے بعد کی حالت کے اثر کابیان ہے ۔پس اس میں ہرسننے والا ہی مخاطب ہوسکتاہے ۔یعنی ہرایک پر اُن کا رعب طاری ہوجائے گا ۔چنانچہ کچھ عرصہ پیشتر توساری دنیا میں ہی اس قوم کارعب ماناجاتاتھا ۔اب اللہ تعالیٰ نے اس قوم کی تباہی کے سامان پیداکرکے دنیا سے اس کے رعب کوکم کردیا ہے ۔ورنہ اس قوم کاپہلے اس قدر رعب تھا کہ لوگ ریل گاڑی کے اول ودوم درجہ میں بیٹھنے تک سے بھی خو ف کھاتے تھے ۔ اوریورپین لوگوں کی شکل تک دیکھنے سے مرعوب ہوجاتے تھے ۔
وکذٰلک بعثنٰہم لیتساء لوابینہم ط
اوراسی طرح ہم نے انہیں (بیکسی کی حالت سے )اٹھایا اس پر وہ آپس میں (حیرت سے )ایک دوسرے سے سوال کرنے لگے
قال قائل منھم کم لبثتم ط قالوالبثنا یوماً اوبعض یو م
(اور)ان میں سے ایک کہنے لگا (کہ )تم (یہاں )کتنی دیر ٹھہرے رہے ہو (جواس کے مخاطب تھے )انہوں نے کہا (کہ)ہم ایک
قالوا ربکم اعلم بمالبثتم فابعثوااحدکم بورقکم ھذہٖ
دن یادن کاکچھ حصہ ٹھہرے ہیں ۔(تب)انہوںنے( یعنی دوسروں نے)کہا (کہ )جو(عرصہ)تم (یہاں)ٹھہرے رہے ہو
الی المدینۃ فلینظر ایھا ازکی طعاماً فلیاتکم برزق منہ
اسے تمہارارب(ہی)بہتر جانتا ہے پس (اس بحث کو چھوڑواور )یہ اپنے روپے دیکر اپنے میںسے کسی ایک کواس شہرکی طرف بھیجو اور
ولیتلطف ولایشعرن بکم احداً٭
وہ (جاکر )دیکھے کہ اس (شہر)میں سے کس کاغلہ سب سے اچھا ہے پھر (جس کاغلہ سب سیاچھا ہو )اس سے کچھ کھانے کاسامان لے آئے اوروہ ہوشیاری سے (لوگوں کی )راز کی باتیں معلوم کرنے کی کوشش کرے ۔اورتمہارے متعلق کسی کو ہرگز (کوئی)علم نہ ہونے دے ۱۷؎
۱۷؎ حل لغات ۔بورقکم :الورقُ ۔الدَّراھم ُ المضروبۃُ۔سرکاری مہر والے سکے (اقرب)اَزکٰی :زکاہُ(یَزکیٰ زکاً)الفَ دِرھمٍ۔نَقَدَہٗ اِیَّاہ اوعجَّلَ لہ نقذھا ۔ا سکو ہزار درہم نقددیئے یاجلدی ہی اداکردئے ۔زکافلاناًحقَّہٗ۔قضاہُ ایَاہُ۔اس کے حق کواداکیا (اقرب) زکاالشیئُ(یزکُو)نَمَا۔کوئی چیز بڑھ گئی ۔وَکَاالر َجُلُ۔صَلُحَ وَتَنَعَّمَ وَکَانَ فی خَصَبٍ ۔کسی شخص کی حالت درست ہوگئی ۔اورو ہ آسودہ حال ہوگیا اورخوب عیش سے رہنے لگا(اقرب)الزَّکاہُ کے معنے الَطَّھارَۃُ ۔پاکیزگی ۔والنَّمَائُ والبرکۃُ ۔ہر چیز کابڑھنا اوراس میں برکت پیداہونا ۔(تاج)
اَلطَّعَامُ:اسمٌ لما یُؤْکَلُ۔خوراک۔کھانا ۔وقد غلب الطعا علی البُرِّ۔اورزیادہ گند م پر طعام کالفظ بولاجا تا ہے۔ورُبّما اُطلِقَ علی الحبُوب کلّھا ۔اوربسااوقات تمام قسم کے دانوں کے لئے استعمال ہوتاہے(اقرب)
الرزق:مایُنْتَفَعُ بہٖ۔ہر وہ چیز جس سے نفع اٹھا یاجاء ے۔مایخر ج للجندی رأس کلّ شھر ۔ہرما ہ کے اخیر پر تنخواہ جو سپاہی کو دی جائے (اقرب) وَلْیَتَلَطَّفُ:تَلَطَّف۔(باب تفعل)سے امر کاصیغہ ہے اورتلطّف الامرَفی الامرِکے معنے ہیں ترفّق فیہ ۔اس نے کسی معاملہ میں نرمی کی ۔تخشّع۔عاجز ی کی ۔تلطّف بفلانٍ:احتال لہ حتّٰی اطّلع علی اسرارہ اس نے حیلوں کے ذریعہ سے اس کے بھیدوں پر اطلا ع پائی (اقرب)ولایُشْعِرَنَّ بِکُمْ۔یشعرن شَعَرَ کے باب افعال کاصیغہ مضارع واحد مذکر غائب ہے ۔شَعَرَ کے لئے دیکھو سورئہ یوسف ۱۰۴؎
تفسیر ۔اس جگہ بھی ان اصحاب کہف کاذکر نہیں جوابتدائی ایام میں غاروں میں چھپتے تھے ۔بلکہ وَنُقَلِّبُھُمْ ذَاتَ الْیَمِیْنِ وَذَاتَ الشِّمَالِ کے وقت کاحال بتایا ہے اوربَعَثْنٰھُمْ سے مراد آئندہ زمانہ میں شمالی اقوام کی ترقی کاجومسیحی ہو چکی ہوں گی ذکر کیا گیاہے ۔ماضی کے صیغہ سے آئندہ کی خبر دینا قرآن کریم کاعام محاورہ ہے اورجیساکہ متعدد بار پہلے ثابت کیاجاچکا ہے۔ماضی کے صیغہ سے آئند ہ کی خبر دینے سے اسکے یقینا واقع ہوجانے کی طرف اشارہ ہوتاہے۔جیساکہ اَتٰی اَمْرُاللّٰہِ فَلَا تَستعجلو ن (نحل ع۱) وغیرہ بہت سی آیات ہیں ۔اسی طریق کلام کو یہاں اختیارکیاگیا ہے غرض اس آیت میں یہ بتایاہے کہ ہم ایک دن ان قوموں کو جو ا سوقت سورہی ہیں بیدارکریں گے ۔اس کانتیجہ یہ ہوگاکہ وہ آپس میں یہ سوال کریں گی کہ تم کس قدرعرصہ تک سورتے رہے ہویعنی اب بیدار ہوناچاہیئے ۔چنانچہ صلیبی جنگوں کے وقت ان اقوام میں بیداری پیداہوئی اورانہوں نے اسلام کے خلاف جتھہ بازی کی اوراسلامی ممالک پر حملہ شروع کیا۔یہ جوفرمایا ہے کہ لَبِثْنَا یَوْمًا او بعض َیومٍ۔اس سے یہ مراد نہیں کہ ان کوشک تھا کہ ہم دن یادن کاکچھ حصہ سوتے رہے ہیں ۔بلکہ اسکے معنے عربی محاورہ میں غیرمعین اورلمبی مدت کے بھی ہوتے ہیں ۔ چنانچہ قیامت کے دن کفارکے سوال وجواب میں بھی یہ الفا ظ استعمال ہوئے ہیں۔فرماتا ہے قیامت کے دن ہم کفار سے پوچھیں گے ۔کم لبثتم فی الارض عددسنین بتائوکہ تم دنیا میں کس قدر عرصہ رہے۔اس کے جواب میں کفار کہیں گے لبثنا یوماً او بعض یومٍ فسألِ العَآدِّینَ۔ہم دن یادن کاکچھ حصہ رہے ۔پس آپ ان سے پوچھئے جو گننے پرمقرر ہیں۔(مومنون ع۶)ان آیات میں سوال کی عبارت سے بھی اوراس جواب سے بھی ظاہر ہے کہ ان کی مرادیہ ہے کہ ایک غیر معین عرصہ تک ہم رہے ۔یہی معنے اس جگہ ہیں۔کہ ایک غیر معین عرصہ تک ہم سوئے رہے۔ایک اورجگہ قرآن کریم میں اس عرصہ کو ایک ہزارسال بتایاگیاہے ۔سورۃ طٰہٰ میں فرماتاہے ۔یومَ یُنفخُ فی الصُّورِ ونَحْشُرُ المجرمین یومئِذٍ زُرْقًایَّتَخَافَتُونَ بینہم اِنْ لَّبِثتم الَّا عَشْرًا(طٰہٰ ع۵) یعنی جب صورپھونکا جائے گا اورہم مجرموں کو ہوشیا ر کرکے کھڑاکردیں گے جونیلی آنکھ والے رومی قوم کے ہوں گے وہ آپس میں آہستہ آہستہ باتیں کریں گے اورکہیں گے کہ تم دس تک سوتے رہے ۔دس سے مراد دس صدیا ں ہیں یعنی ہزار سال تک سوتے رہے ۔
زُرْق کالفظ جوآیت میں آیا ہے اس کے معنے نیلی آنکھو ں والوں کے ہیں ۔یورپین لوگوں کی آنکھیں بوجہ رنگ کی سفیدی کے نیلی ہوتی ہیں اورعرب لوگ رومیوں کو ازرق کہتے تھے یعنی نیلی آنکھوں والے ۔چنانچہ لغت میں لکھا ہے ارزق کے معنے دشمن کے بھی ہوتے ہیں اوراس کی وجہ یہ ہے کہ روم اوردیلم کی آنکھیں نیلی ہوتی ہیں اورعرب لوگ ان کواپنا بڑادشمن سمجھتے تھے اس لئے آہستہ آہستہ اس لفظ کے معنے عربوں میں دشمن کے ہوگئے (اقرب)
خلاصہ یہ کہ اس آیت کا یہ مفہوم نہیں کہ انہیں شبہ تھا کہ وہ شاید تھوڑی دیر تک اس غفلت کی حالت میں رہے ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ ایک لمباغیر معین عرصہ اس حالت میں رہے ہیں۔سورۃ طٰہ میں اس عرصہ کی مقدار ایک ہزارسال بتائی جاتی ہے ۔چانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے ایک ہزار سال کاعرصہ شمارکیاجائے توحساب یوں بنتاہے ۔رسول کریم صلعم کی پیدائش مطابق شمار سرولیم میور ۵۷۰ ؁ء میں ہوئی ۔(لائف آف محمد)دعویٰ نبوت چالیس سال بعد ہوا۔پس دعویٰ کی تاریخ ہوئی ۶۱۱ ؁ء ۔اس میں ہزار سال جمع کئے جائیں تو ۶۱۱ ؁ء یا ۶۱۲ ؁ء بنتے ہیں۔اوریہی وہ تاریخیں ہیں جن میں ہندوستان میں انگریزوں کے قدم جمے ۔ ۶۱۱ ۱ ؁ء میں مغلیہ حکومت نے خلیج بنگا ل میں کام کرنے کی انگریزوں کواجازت دی ۔اور ۱۶۱۲ ؁ء میں سُورتؔمیں پہلا کارخانہ کھولنے کی اجازت دی (مارچ آف مین MARCH OF MAN مطبوعہ انسائیکلو پیڈیا برٹینیکاسوسائٹی )دنیاجانتی ہے کہ یورپ کی ترقی اوراس کے دنیامیں پھیلنے کی یہ پہلی بنیاد تھی ۔یورپ نے انگزیزوں کے نقش قدم پر اوران کے سہار ے پر ترقی کی ہے ۔ اورانگریزوں کی ترقی کا رازہندوستان میں ان کاوارد ہوناہے ۔ہندوستان ہی میں قد م جمنے پر انہوں نے دوسرے ایشائی ممالک پراورافریقہ پر قبضہ کیا ۔اوران کے اس طرح اقتدار حاصل کرنے پر دوسری یورپین اقوام نے دنیا ترقی کی ۔
شاید کوئی کہے کہ ذکر تو رومیوں کاتھا انگریزوں کاان امو رسے کیا تعلق ؟تواس کاجواب یہ ہے کہ یورپ کاموجودہ تمدن رومی اثر کاہی نتیجہ ہے اورسب یورپ روم کاشاگرد ہے اوراسی کی تہذیب کی یاد گار۔اوریو رپ میں عیسائیت بھی روم کے ذریعہ سے ہی قائم ہوئی ہے اس لئے شاخوں کاکام جڑ ہی کی طرف منسوب کیاجاتاہے ۔
ازکیٰ۔ازکیٰ کے معنے اصلح کے ہوتے ہیں ۔یعنی مناسب حال ۔اوراس کے معنے اعلیٰ درجہ کے بھی ہیں یورپ کی قوموں کے پھیلنے کی بڑی وجہ یہی ہوئی ہے کہ ان کے ملکو ں میں غلہ کافی نہیں ہوتا اورو ہ غلے اور مصالحے ایشیا سے لے جاتے تھے ۔پہلے عربوں کی معرفت وہ چیزیں خریدتے تھے ۔لیکن جب ہندوستان کاراستہ دریافت ہوگیاتوانہوں نے براہ راست ان اشیاء کی تجارت اپنے ہاتھ میں لے لی ۔اورآہستہ آہستہ دوسری چیزوں کی تجارت بھی ان کے ہاتھ میں آگئی ۔
طعام کے معنے اس جگہ پکے ہوئے کھانے کے نہیں ۔عربی زبان میں طعام ہرکھانے کی چیز کو کہتے ہیں ۔خصوصاً گند م کو ۔اورجب تک امریکہ نے گندم کی پیداوار میں کوشش نہیں کی جوبالکل قریب زمانہ کی بات ہے دوسو سال تک یورپ کو ہندوستان ہی گند م مہیاکرتارہاہے ۔
گویا انہوں نے اس غلہ خریدنے والے کو ہدایت کی کہ چونکہ ہم نے اس غلہ کو ذخیرہ کرنا ہے اوردیر تک جمع رکھنا ہے اس لئے مناسب طعام دیکھ کرلانا ۔
ی جوفرمایا ہے وَلَیَتَلَطَّفْ یہ مغربی قوموں کاخاصہ ہے ۔ان کے باہر جانے والے افسروں کوخاص ہدایت ہوتی ہے کہ و ہ بہت میٹھے طورپر باتیں کریں اورتاجربھی ایسے میٹھے رہتے ہیں کہ لوگوں میں جوش پیدانہیں ہوتا ۔
ولا یُشْعِرَنَّ بِکم اَحَداً اس آیت میں گواَحَداً کالفظ آیا ہے ۔اورضمائربھی مفرد کے ستعمال ہوے ہیں۔لیکن میرے نزدیک یہ ضروری نہیں کہ ایک ہی آدمی کابھجوایاجانایہاں مراد ہو ۔قرآن کریم میں حضرت آدم کے قصے میں ابلیس کاذکر آتا ہے اورسب باتیں اسی کومخاطب کرکے کہی گئی ہیں ۔لیکن دوسرے مقامات پر س کے ساتھ اورجماعت بھی تسلیم کی گئی ہے ۔جیسے کہ فرماتاہے ۔ بعضکم لبعض عدو تم میں سے بعض بعض کے دشمن ہو ںگے اسی طرح دوسرے مقامات پر ابلیس کی ذریت کابھی ذکر کیا ہے ۔پس گولفظ احد کم کااستعمال ہواہے مگر مراد یہ ہے کہ اپنے میں سے بعض کو سوداخریدنے کے لیء بھجوائواورمفردکالفظ میرے نزدیک اس نظام پردلالت کرنے کے لئے رکھاگیاہے کہ ایک نظام کے ماتحت جائیں اورذمہ دار اورجوابدہ ایک ہی شخص ہو ۔
کسی کوتمہاراعلم نہ ہونے سے یہ مراد ہے کہ اپنے وجود کومحسوس نہ ہونے دینا کہ تمہاری قوم کی نیت ان ممالک میں نفو ذ پیداکرنے کی ہے ۔بلکہ ایسی طرح معاملہ کرنا کہ تمہاری آمد کی اغراض کو لوگ تاڑ نہ جائیں اورتمہارے اصلی منشاء کو نہ پہچانیں ۔
اوراس میں مشورہ دینے والوں کے لئے اورجن کومشورہ دیاگیا ہے ان کیی لئے جوجمع کاصیغہ استعمال کیاگیاہے اس سے میرے نزدیک اسطرف اشارہ ہے کہ یہ وفدبھیجے والی ایک کمپنی ہوگی کوئی بادشاہ یہ کام نہ کرے گا۔چنانچہ انگریزی وفد جوہندوستان آیا۔یافرانسیسی وفدجوآئے یہ سب کمپنیوں کی طرف سے تھے ۔ان کاآقاکوئی ایک فرد نہ تھا بلکہ کمپنیا ں تھیں۔
انھم ان یظھرواعلیکم یرجموکم اویعیدوکم فی ملتھم ولن تفلحوااذاً ابدًا٭
(کیونکہ)اگر وہ تم اپر غلبہ پالیں تویقینا تمہیں سنگسارکردیں گے یا(جبراً )تمہیں واپس اپنے مذہب میں داخل کرلیں گے اوراس صورت میں کبھی (بھی )کامیاب نہیں ہوگے ۱۸؎
۱۸؎ حل لغات ۔یظھرواعلیکم :ظَھَرَ (یظھَرُ علیہ)غَلَبَہٗ۔اس پر غالب آیا ۔ظھر فلان ٌ علیٰ سِرِِّہٖ۔اطّلع علیہ۔کسی بھید پرمطلع ہوا(اقرب) یَرْجُمُوْکُمْ:رَجَمَ سے مضارع جمع مذکر غائب کاصیغہ ہے ۔رجم کے معنے کے لئے دیکھو سورۃ حجر ۱۶؎
الملّۃ:اس کے لئے دیکھو ابراہیم ۱۴؎
تفسیر ۔اس میں بتایا گیا ہے کہ اگر ان اقوام کو جن کی طرف تم وفد بھیج رہے ہو تمہاراعلم ہوگیا (ظھر علی السِرّکے معنے ہوتے ہیں اس کوراز معلوم ہوگیا )یایہ کہ اگرجھگڑاہوگیا اورقدم جمانے سے پہلے ان سے لڑائی ہوگئی اورتم مغلوب ہوگئے تووہ تم کو اپنے ملکوں سے نکال دیں گے ۔(رجم کے معنے دھتکار دینے کے بھی ہوتے ہیں)یااگرنہ نکالیں توتم کو مجبور کریں گے کہ ان کے مذہب میں داخل ہوجائو ۔اوراگر ایساہوایعنی تم کو انہوں نے ملک سے نکال دیا۔یایہ کہ تم کواپنے مذاہب میں داخل کر دیا ۔توتمہارازورہمیشہ کے لئے ٹوٹ جائے گا اورپھر کبھی ترقی نہ کرسکو گے ۔چاننچہ دیکھ لوکہ یورپین قومیں سیاسی اغراض کی وجہسے ہمیشہ عیسائی مذہب کی مدد کرتی ہیںاوردوسری اقوام کے خیالات اپنے اند رپھیلنے سے روکنے کے لئے ہر قسم کی تدابیراختیار کرتی ہیں ۔
وکذٰلک اعثرنا علیھم لیعلمواان وعداللہ حقٌ وان
اور اسی طرح ہم نے (لوگوں کو )ان (کے حالات سے) آگاہ کیا ہے تاانہیں معلوم ہو کہ اللہ(تعالیٰ)کاوعدہ پوراہوکر رہنے والا ہے
الساعۃ لاریب فیھا اذ یتنازعون بینھم امرھم فقالوابنوا
اور(یہ بھی )کہ اس (موعودہ)گھڑی (کے آنے)میں کچھ بھی شک نہیں (اوراس وقت کو بھی یاد کرو)جب و ہ اپنے کا م کے متعلق
علیھم بنیاناٰط ربھم اعلیم بھم ط قال الذین غلبواعلی
آپس میں گفتگوکرنے لگے اورانہوں نے (ایک دوسرے سے)کہا (کہ)تم ان (کے رہنے کے مقام )پرکوئی عمارت بنائو۔ان کا
امرھم لنتخذن علیہم مسجداً٭
رب ان( کے حال)کوسب سے بہترجانتاتھا ۔(آخر)جنہوں نے اپنے قول میں غلبہ حاصل کرلیا انہوں نے کہا(کہ)ہم(تو)ان (کے رہنے کے مقام )پر مسجد (ہی )بنائیں گے ۱۹؎
۱۹؎ حل لغات ۔ اَعْثَرْنَا:اَعْثَرَ سے جمع متکلم کاصیغہ ہے اوراعثرنا فلاناً علی السِرّوغیرہ کے معنے ہیں ۔اَطلعہٗ۔اس کو بھیدوں پر مطلع کیا ۔اعثر فلاناً علی اصحابِہ دَلَّہٗ علیہم ۔کسی کو اپنے دوستوںکے متعلق آگاہ کیا ۔اعثربہ عندالسلطان ۔قَدَحَ فیہ و طلبَ توریطَہ ان یَقع فی عاثورٍ۔بادشاہ کے ہاں اس پر جرح کی اوراس کے مرتبہ کو گرایا (اقرب)
الساعۃ:کے لیء دیکھو سور ۃ نحل ۳۸؎
رَیْبُ: راب(یَریْبُ ریباً)کامصدرہے اوررَابَ کے معنے ہیں ۔اَوْقَعَہٗ فی الرّیبِ واَوْصَلَ الیہ الرّیبۃَ۔اسے شک میں ڈالا نیز الریب کے معنے ہیں الظّنَۃُ والتھمۃ۔ظن ۔تہمت ۔الشک ۔شک ۔الحاجۃ۔حاجت (اقرب)
یتنازعون :تنازع سے مضارع جمع مذکر غائب کاصیغہ ہے اورتنازَعُوْا کے معنے ہیں اِخُتَلَفُوْا۔انہوں نے آپس میں اختلاف کیا ۔ تنازعوافی الشی ئٍ۔تخاصَمُوا۔کسی چیز میں جھگڑاکیا (اقرب)
بنیاناً:بنی کامصدر ہے اوربناہ (یبنیہ بنیاناً)کے معنے ہیں ۔نقیضُ ھَدَمَہ۔کسی چیز کوبنایا ۔بنی الارض۔بنی فیھاداراًونحوھا۔کسی زمین میں مکان بنایا (اقرب)
المسجد والمسجد ُ:الموضع الذی یسجد فیہ ۔وہ جگہ جہاں سجدہ کیا جائے ۔کلُّ موضعٍ یتعبّدُفیہ ۔ہروہ جگہ جہاں عبادت کی جائے ۔ وقیل انّ المسجدَ بالکسر اسم لموضع العبادۃ یُسجَدُ فیہ اَوْلم یُسْجَدْ۔اوربعض نے کہاہے کہ مسجِد(بکسرجیم)مطلق عبادت کی جگہ کو کہتے ہیں ۔خواہ اس میں سجدہ کیاجائے یانہ (اقرب)
تفسیر ۔اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ یہ اقوام جو عرصہ تک دنیاسے الگ رہی تھیں ۔اس طرح پھر دنیاسے روشناس ہوگئیں اوردنیا کومعلوم ہوگیا کہ مسیحی اقوام کے آخری ایام میں غلبہ کی جو خبر ہم نے دی تھی و ہ بالکل سچی تھی اوریہ کہ وہ موعود گھڑی جس سے ہم ڈرارہے تھے ظاہر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی تھی ۔
اذ یتنازعون سے پھر اصحاب کہف کی ابتدائی حالت کاکچھ ذکرفرمایااوران کی ایک علامت بتائی ۔فرماتا ہے کہ اسقوم نے جب سے ہوش سنبھالی ہے ان میں یہ عادت ہے کہ اپنے وفات یافتوں کے نام پر مساجد یعنی معابد بناتے ہیں ۔جوان کے بزرگ گذرے ہیں ان کی یاد میں ہرگرجے بناتے ہیں ۔چنانچہ دیکھ لومسیحی ہی ایک قوم ہے جن میں بزرگو ںکے نام پر گرجے بنائے جاتے ہیں ۔ مسلمانوں کی کوئی مسجد کسی بزرگ کے نام پر نہیں بنائی جاتی اورنہ یہود میں ایساہوتاہے ۔مگر مسیحیوں کے ہزاروں گرجے بزرگوں کی یاد میں ہیں ۔ابتدائی اصحاب کہف کی یاد گارمیں بھی کیٹاکومبزمیں بہت سے گرجے بنے ہو ئے ہیں۔
سیقولون ثلثۃ رابعھم کلمبھم ویقولون خمسۃ سادسھم
وہ (لوگ جو حقیقت حال سے بیخبر ہیں ضرور)غیب کے متعلق نشا ندہی کرتے ہوئے (کبھی)کہیں گے (کہ و ہ صرف)تین(آدمی)تھے جن کے ساتھ چوتھاان کاکتاتھا اور(کبھی )کہیں گے (کہ وہ )پانچ تھے
کلبھم رجماً بالغیب ویقولون سبعۃ وثامنھم کلبھم
جن کے ساتھ چھٹا ان کاکتاتھا ۔اور(ان میں سے بعض یوں بھی )کہیں گے (کہ وہ )سات تھے اوران کے ساتھ آٹھواں ان کاکتا
قل ربی اعلم بعدتھم مایعلمھم الاقلیل فلاتمارفیہم
تھاتو(انہیں )کہہ (کہ)ان کی(صحیح)گنتی کواللہ (تعالیٰ ہی)بہترجانتاہے (اور)تھوڑے لوگوں کے سوانہیں کوئی جانتا۔پس توان
الامرائً ظاھرًاولا تستفت فیہم منہم احداً٭
کے متعلق مضبوط بحث کے سواکوئی بحث نہ کر اوران کے بارہ میں ان میں سے کسی سے حقیقت حال دریافت نہ کر ۲۰؎
۲۰؎ حل لغات ۔رجماً بالغیب:الرجم ۔اَنْ یُتَکلَّم بالظّنِ۔یقال ’’رجماً بالغیب ‘‘ای لایوقف علی حقیقتہ۔رجم کے معنے ظنی طورپر بات کرنے کیی ہیں۔اوررجمابالغیب انہی معنوں میں ہے کہ اس نے بات توکی لیکن اس کی حقیقت سے بے خبرتھا ۔مزید تشریح کے لئے دیکھو سورہ حجر ۳۰؎
تُمارِ:ماراہُ(مماراۃً ومرائً)کے معنے ہیں جادلمونا عہ ۔اسنے اس سے جھگڑاکیا ۔ولاجَّہَ وطعن فی قولہٖ تزییفًاللقول وتصغیرًاللقول ۔اس نے نہایت سختی سے جھگڑاکیااورمدمقابل کی بات کوساقط قرار دیتے ہوئے طعنہ زنی کی اورکلام کی اہانت کی (اقرب)
لاتستفتِ:اِسْتَفْتٰی سے نہی کاصیغہ ہے اوراِستفتٰی فلانٌ العالِمَ فی مسئلۃٍ (استفتائً)کے معنے ہیں سَألہٗ اَنْ یُفْتِیَہٗ فیھا۔اس نے کسی عالم سیچاہاکہ وہ ا س کے متعلق اسے واقفیت بہم پہنچائے (اقرب)
تفسیر ۔اس آیت میں پھر ابتدائی اصحاب کہف کی نسبت ایک اوربحث کاذکر فرمایا ہے کہ کوئی ان کو تین بتاتاہے کوئی چار کوئی پانچ ،مگر یہ سب ظنی باتیں ہیں اورکوئی کہتاہے کہ سات ہیں آٹھواںان کاکتاہے۔
بعض نے اس سے یہ نتیجہ نکالاہے کہ سات تھے۔کیونکہ پہلے اعداد کے ساتھ توفرمایا یہ ظنی باتیں ہیںاوراس آخر ی تعداد کو بعد میں بیان کیا ہے معلوم ہوایہ قول درست ہے ۔حالانکہ یہ قول بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب نہیں کیا ۔بلکہ دوسروں کی طرف منسوب کیاہے اوراس کے بعد فرمایاہے کہ توان سب لوگوں سے کہہ دے کہ اللہ ان کی گنتی کوجانتاہے ۔اگریہ آخری گروہ صحیح اندازہ بیان کرنے والاہوتا توان کو یہ کہاجاتا کہ اللہ تعالی ان کی گنتی کوجانتاہے ۔پھرتویہ کہناچاہیئے تھا کہ تُوان لوگوں سے کہہ دے کہ تمہارابیان صحیح ہے ۔پس درحقیقت اس قول والوں کی بھی تردید کی گئی ہے کیونکہ اصحاب کہف پانچ سات نہ تھے ۔بلکہ و ہ تومختلف اوقات میں غاروں میں چھپتے رہے اورہزاروں کی تعداد میں تھے ۔پس اصل بات یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سواان کی گنتی کوئی نہیں جانتا۔مایعلمُھُمْ اِلَّاقلیلٌ۔کے یہ معنے نہیں کہ تھوڑے سے لوگوںکو ان کی گنتی معلوم ہے ۔بلکہ یا توااس کایہ مطلب ہے کہ ان کی گنتی کوئی بھی نہیں جانتا۔کیونکہ قلیل کالفظ عربی میں اسی طرح نفی کے لئے آتاہے جس طرح انگریزی میں فیو FEW کالفظ نفی کے لئے آتاہے ۔چنانچہ کہتے ہیں قلیل من الرّجال یقول ذالک۔اوراس کے ی معنے ہوتے ہیں کہ کوئی یہ نہیں کہتا(اقرب)یا پھر ا س آیت میں چونکہ گنتی کالفظ نہیں اس آیت کایہ مطلب ہے کہ اصحاب کہف کی حقیقت کو تھوڑے آد می جانتے ہی ۔یعنی وہ جو صحیح تاریخ سے واقف ہیںوہ جانتے ہیں کہ یہ ابتدائی مسیحی لو گ تھے جو کیٹاکومبز میں چھپاکرتے تھے ۔باقی لوگ ان کے بار ہ میں مختلف قصوں سے دھوکاکھارہے ہیں ۔چنانچہ ان قلیل کے علم کا ہی نتیجہ ہے کہ آخر ان کی اصل حقیقت ظاہرہوگئی ۔
آگے فرمایا کہ ان کے بارہ میں سوائے اصولی بات کے اورکوئی بات نہ کر و۔یعنی تفاصیل دنیاکومعلوم نہیں ہیں ۔پس صرف اصو لی باتیں کرواورتفاصیل میں نہ پڑو۔اوریہ کہہ کرلوگوں سے ان کے بار ہ می سوال نہ کرویہ بتایا ہے کہ تاریخ کایہ حصہ مٹ گیاہے کوئی بھی پور ی تفصیل اس واقعہ کی نہیں بتاسکتا۔ا س لئے اگر تفصیلی معلومات حاصل کرناچاہو گے توغلطی کروگے ۔مگر افسوس کہ مسلمانوں نے اس حکم کے باوجود کتے کارنگ اوراس کاقد تک یہود ونصاریٰ سے پوچھنے کی کوشش کی اوراس طرح تفاسیر میں بے ثبوت روایات کاوہ ذخیرہ جمع کردیا کہ اسے پڑ ھ کررونا آتاہے ۔
ولاتقولن لشایئٍ انی فاعل ذالک غدا٭الاان یشاء اللہ
اورتُوکسی بات کے متعلق (دعویٰ سے)ہر گز نہ کہہ (کہ)میں کل یہ (کام)ضرور کروں گا ۔سوائے (اس صورت )کے کہ اللہ( تعالیٰ
واذکر ربک اذانسیت وقل عسی ان یھدین ربی لاقرب من ھذارشداً٭
کسی امر کے متعلق ایسا کہنا )پسند کرے ۔اورجب (کسی وقت)توبھول جائے تو(یاد آجانے پر )اپنے رب کو یاد (کیا )کراور (لوگوں سے )کہہ دے (کہ مجھے کامل )امید ہے کہ میرار ب مجھے اس (راستہ )پرچلائے گا جوہدایت پانے کے لحاظ سے اس ( میرے موجود ہ طریق )سے (بھی تکمیل کے )زیادہ قریب ہوگا ۲۱؎
۲۱؎حل لغات۔الغد:کے معنے ہیں ۔الیومُ الَّذی یاتی بعد یومکَ علیٰ اثرتُمّ تُوَسَّعُوْا فیہ حَتّی اُطلقَ علی البعید المترقّب۔کل ۔دوسرادن ۔آئندہ زمانہ کاکوئی دن جس کا انتظار ہو(اقرب)
تفسیر ۔اس آیت میں پھر اس قوم کی ترقی کے زمانہ کے متعلق ایک خبر دی ہے ۔اورو ہ یہ کہ اس قوم کے مقابلہ پر دعویٰ نہ کرنا اوریہ نہ کہنا کہ بس ہم کل ان کوتباہ کردیں گے سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ تم کو ان کے متعلق کوئی خبردے یعنی الہام سے بتائے کہ ان سے اب فلاں سلوک ہونے والاہے ۔
بعض لوگوں نے اس آیت کے یہ معنے کئے ہیں کہ اے محمد رسول اللہ کوئی بات بغیر ان شآئَ اللہُ کے نہ کہاکرو۔اورا س حکم کے متعلق بعض نہایت افسوسناک روایات نقل کی ہیں جن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح ہتک ہے ۔حالانکہ آیت کے الفاظ صاف بتارہے ہیں کہ یہاں ان شآئَ اللہ کہنے کاکوئی ذکر نہیں ۔اگر وہ مضمون ہوتاتو الفا ظ یوں چاہیئے تھے الَّا ان تقول ان شآئَ اللہ ۔مگر یہاں تواللہ تعالیٰ فرماتاہے الَّاان شآئَ اللہ ۔یعنے اوپر والا فقرہ اس وقت تک نہ کہیو جب تک ک اللہ تعالیٰ تجھے اس فقرہ کے کہنے کاحکم نہ دے۔پس آیت کا مطلب تو صرف یہ ہے کہ اس قوم کاامقابلہ مسلمان اپنی طاقت سے نہ کرسکیں گے ۔ بلکہ وہ ان کامقابلہ کرے گا جسے اللہ تعالیٰ اپنی مشیت سے ان کے مقابلہ کے لئے کھڑاکرے گا۔
اس آیت میں مسلمانوں کی اس وقت کی حالت کی طرف اشارہ ہے جب ان اقوام کی ترقی کو دیکھ کر جوش میں آئیں گے اوران کامقابلہ کرنے کی تیار یاں کریں گے ۔لیکن وہ اس میں کامیا ب نہ ہوںگے ۔دوسرے اس زمانہ کے مسلمانوں کی حالت بتائی ہے کہ وہ کام کی بجائے کَل کی امیدوں پر آجائیں گے اورہمیشہ یہ کہیں گے کہ ہم کَل یہ کردکھائیں گے یعنی قوت عملیہ مفقود ہوجائے گی اورڈراوے اوردھمکیاں رہ جائیں گی اورہمیشہ کل کالفظ بولتے رہیں گے کبھی وہ کل آج کی صورت اختیارنہ کرے گا ۔چاننچہ دیکھ لوکہ اس زمانہ میں یہ صداقت ساری مسلمان اقوام کے اعمال سے ا س طرح ظاہر ہورہی ہے کہ افسوس بھی آتاہے اورتعجب بھی ۔
وَاذکررَّبَّکَ اذانسیتَ کہہ کر یہ بتایا کہ اگر کبھی جوش میں آکر ان قوموں کے مقابلہ کاخیال تمہارے دل میں پیداہو تواللہ تعالیٰ کے وعدوں کویاد کرلیا کروکہ خداتعالی کاوعدہ سچا ہے کہ ایک دن مسلمانوں کو ان کے حملہ سے بچائے گااورغیب سے مسلمانو ں کی نجات کے ساما ن پیداکر یگا۔اس لے الہی تدابیر کے سوادوسری تدابیر کاخیال دل سے نکال دینا چاہیئے۔
وقل عسیٰ ان یَّھدِیَنِ ربی لاَقْرَبَ من ھٰذارَشَدً میں بھی یہ سبق دیا کہ تمہاری ظاہر ی تدابیر توسینکڑوں سالوں میں ان اقوام کو تباہ نہیں کرسکتیں ۔لیکن اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے بہت جلد ایسے سامان پیداکردے گا کہ تم ان فتنوںسے محفوظ ہوجائو ۔
افسوس مسلمانوں نے اس نصیحت سے بھی فائدہ نہ اٹھایا اوریورپین اقوام کے مقابل پر با ربار جہاد کے اعلانات کرکے اسلام کے رعب کو او ربھی مٹادیا ۔بلکہ جن خیر خواہوں نے ان کو اس قسم کی باتوں سے روکا ان کواسلام کادشمن قرار دیا اوریہ نہ سمجھے کہ جو قرآن کریم کی تعلیم کی طرف بلاتے ہیں وہ اسلام کے دشمن نہیں بلکہ وہ دشمن ہیں جوباوجود قرآن کریم کے منع کرنے کے پھر بھی غلط طریقہ کو اس تعمال کرتے چلے جاتے ہیں۔
ولبثوافی کھفھم ثلث مائۃ سنین وازدادواتسعاً٭
اور(یہ بھی کہتے ہیں کہ )وہ (اس)اپنی وسیع پہاڑی پنا ہ گاہ میں تین سوسال تک رہے تھے اور(اس عرصہ پر )نو(سال)انہوں نے اوربڑھائے تھے ۔ ۲۲؎
۲۲؎ تفسیر ۔اس آیت میں قدیم اصحاب کہف کی مصیبتوں کازمانہ بتایاہے جس زمانہ تک کہ ان پر ظلم ہوتے رہے اوران کو بار بار غاروں میں جاکر چھپنا پڑا ۔فرماتاہے کہ و ہ تین سونوسال کازمانہ ہے ۔تاریخ سے اس امر کی تصدیق ہوتی ہے ۔کیونکہ یہ مصائب کازمانہ حضرت مسیحؑ کے صلیب پانے کے وقت سے شرو ع ہوتاہے اورپوراامن کانسٹنٹائن (بانی قسطنطنیہ)کے عیسائی ہوجانے کے وقت حاصل ہواہے ۔کانسٹسٹائن ۳۳۷ ؁ء میں عیسائی ہواہے جیسا کہ اورپر لکھاجاچکا ہے (انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا جلد ۵ص۶۷۶) بظاہر یہ زمانہ قرآنی بیان کے خلاف معلوم ہوتاہے ۔لیکن جب ہم مسیحی تاریخ پر غورکریت ہیں تومعلوم ہوتاہے کہ یہ تریخ غلط ہے ۔ اصل سال جس میں کانسٹنٹائن بادشاہ روم عیسائی ہوا ۳۰۹ ؁ء ہے اوراس اکاثبوت یہ ہے کہ خود مسیحی جغرافیہ نویسوں نے تسلیم کیاہے کہ مسیحی کلنڈر میں غلطی ہوگئی ہے چانچہ آرچ بشپ اشرز(USHERS)نے اپنی کتاب علم تاریخ(CHRONOLOGY)میں اورڈاکٹر کٹو KITTO نے اپنی کتاب ’’ڈیلی بائبل السٹریشنز ‘‘میں ثابت کیاہے کہ جوتاریخ مسیحی کلنڈر میں واقعہ صلیب کی دی گئی ہے وہ غلط ہے ارویہ غلطی ۵۲۷ ؁ء میں لکگی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ اس تاریخ سے صرف چار یاچھ سال پہلے مسیح پیداہوئے تھے ۔پس اس وقوت ان کی عمر صرف چار سے چھ سال تک کی ہوتی ہے لیکن وہ صلیب پر تنتیس سال کی عمر میں لٹکائے گئے تھے ۔اب اس بیان کے مطابق اگرچار اور چھ سال کی اوسط نکالی جائے توپانچ بنتی ہے ۔چونکہ مسیح کوصلیب تینتیسویں سال میں دیاگیاتھا اس لئے مسیح سن میں سے اٹھائیس سال منہاکرنے پڑیں گے کیونکہ مسیحی کلنڈر سے اٹھائیس سال بعد صلیب کاواقعہ ہواہے ۔اب اٹھائیس سال کو ۳۳۷ ؁ء میں سے نکالوتوپورے ۳۰۹ ؁ء سال ہوتے ہیں ۔یہ تومسیحی روایات کوصحیح تسلیم کرکے ہے ورنہ اگر یہ شہادت نہ بھی ہوتب بھی قرآن کریم جس کی سب خبریں بائبل کے مقابل میں صحیح ثابت ہوتی ہیں اس کی بات کوبہرحال مقد م رکھناہوگا ۔
اس آیت میں یہ بتایاگیاہے کہ لمبے مصائب سے گھبرانانہیں چاہیئے ۔ہم سے پہلے مسیحی جماعت کو تین سونوسال تک دکھ دئیے گئے ۔ لیکن انہوں نے صبرسے کام لیا اورآخر اس صبر کانہایت شیریں پھل کھایا ۔پس تم کو جلدی نہیں کرنی چاہیئے بلکہ اپنے کام میں لگے رہناچاہیئے اوراستقلا ل سے مصائب کامقابلہ کرناچاہیئے۔
قل اللہ اعلم بمالبثوا لہ غیب السموات ولارض ابصر
تو(انہیں )کہہ(کہ )جو(عرصہ)و ہ ٹھہرے رہے تھے اسے اللہ (تعالیٰ)بہترجانتاہے ۔آسمانوں اورزمین کاغیب (کاعلم )اسی
بہ واسمع مالھم من دونہ من ولی ولایشرک فی حکمہٖ احداً٭
کے لئے (مسلّم )ہے ۔و ہ خوب ہی دیکھنے والا اورخوب ہی سننے والاہے ۔ان(لوگوں )کا اس کے سواکوئی بھی مددگار نہیں ہے ۔اوروہ اپنے حکم (اوراپنے فیصلوں )میں کسی کو (اپنا )شریک نہیں بناتا ۲۳؎
۲۳؎ حل لغات ۔اَلْغَیْبُ:غیبٌ غاَبَ کامصدر ہے اورغیب کے معنے کے لئے دیکھو رعد ۱۰؎
اَبْصِربِہِ واَسْمِعْ:دونوں فعل تعجب ہیں ۔یعنی وہ کیا ہی خوب دیکھنے والاہے ۔اورکیا ہی خوب سننے والا ہے ۔
تفسیر ۔قُلِ اللہُ اَعْلَمُ بَمَالَبِثُوْا کہہ کر بتایاکہ مسیحیوں کی تاریخیں اس بیا ن کی مخالفت کریں گی جیسے کہ ان کے ہاں ۳۳۷ ؁ کی مدت لکھی ہے ۔لیکن ان کی بات کااعتبار ن ہکرنا اللہ تعالی جانتاہے کہ ان کی غلطی ہے ۔چنانچہ بعدکی تحقیق نے ان کی غلطی ثابت بھی کردی ۔
اگرکہاجائے کہ اس جگہ قل اللہ اعلم بمالمبثواآیاہے اس سے توپتہ لگتاہے کہ پہلی بات غلط تھی اس کاجوا ب یہ ہے کہ اگرپہلاقو ل لوگوں کاہوتاتوا س فقرہ سے اس کی تردید نکلتی ۔لیکن پہلی آیت میں چونکہ کفار کاقول نقل نہیں کیا بلکہ بغیر ان کے حوالہ کے زمانہ بتایا ہے اسلئے اس جملہ سے تردید نہیں نکلے گی بلکہ تاکید نکلے گی اورمطلب یہ ہوگا کہ اس زمانہ کے بارہ میں لوگ اختلاف کریںگے مگروہ غلطی پر ہوں گے صحیح زمانہ یہی ہے ۔
اَبصر بہٖ وَاَسْمِعْ۔وہ خو ب دیکھنے والا اورسننے والا ہے ۔یعنی اللہ تعالیٰ کابیان درست ہے دوسروں کانہیں ۔نیزان الفاظ سے اس طرف اشار ہ کیا ہے کہ انسانوں کے حالات کو اللہ تعالیٰ خوب جانتاہے جب تک انسان شرک سے پاک رہیں وہ ان کی دمدکرتاہے جب شرک میں مبتلاہوجائیںاللہ تعالیٰ کی نصرت جاتی رہتی ہے ۔
واتل مااوحی الیک من کتاب ربک لامبدل لکلمٰتہٖ ولن تجد من دونہٖ ملتحداً٭
اورتیرے رب کی کتاب میں سے جو(حصہ)تجھ پروحی (کے ذریعہ سے نازل)ہوتاہے اسے پڑھ(کرلوگوںکو سنا )اس کی باتوں کو کوئی بھی تبدیل کرسکنے والانہی ہے اوراسے چھو ڑکر توکوئی پناہ کی جگہ نہیں پائیگا ۲۴؎
۲۴؎ حل لغات ۔اُتْلُ:تَلَایَتْلُوسے امر کاصیغہ ہے اورتلاالکلام تلاوۃً کے معنے ہیں قرأہٗ۔اس کو پڑھا (اقرب)پس اُتْلُ کے معنے ہیں پڑھ۔ اَلْمُلْتَحَدُ:الملجأ۔پنا ہ گاہ (اقرب)
تفسیر ۔اس آیت میں یہ مضمون آکر کھو ل دیاکہ اس واقعہ کوہم بطورقصہ نہیں بیا ن کررہے بلکہ اسی طرح تیری امت کے ساتھ بھی ہونیوالاہے ۔اوریہ بھی کہ جومضمون اوپر بیان ہواہے اس کے بعض حصے پیشگوئی کے طورپر ہیںاوربعض اخبار صادقہ ہیں ۔اس مضمون کااشاردہ لامُبَدِّلَ لکلماتہٖ کے الفاظ سے نکلتاہے ۔اگریہ پیشگوئی نہ ہوتی توکیوں فرماتاکہ خداکی باتوں کو کوئی نہیں بدل سکتا ۔سابق کے واقعات کے بدلنے یانہ بدلنے کاتوکوئی سوال ہی نہیں ہوتا۔پس اس آیت نے میری راوپرکی تفسیر کی تصدیق کردی ہے اوراس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنہوں نے اوپر اکی آیات کو صرف ماضی کاایک واقعہ سمجھا ہے انہوں نے غلطی کی ہے ۔ا ن میں کچھ سابق کے واقعات ہیں اورکچھ اصحاب کہف کے قائم مقاموں اوران کی آئندہ نسل کے متعلق پیشگوئیا ں ہیں۔
ایک اوررنگ میں بی یہ آیات پیشگوئیوں پر مشتمل ہیں ۔اورو ہاس طرح کہ جیساکہ میں بتاچکا ہوں اس قصہ کے بتانے میں یہ بھی حکمت ہے کہ ایسے ہی واقعات مسلمانوں کے ایک حصہ کو بھی پیش آنے والے ہیں ۔یعنی ان کوبھی اللہ تعالیٰ کے کلام پر ایمان لانے کی وجہ سے تکالیف دی جانے والی ہیں ۔چاننچہ اس کی تصدیق حضرت ابن عباسؓ کی ایک روایت سے بھی ہوتی ہے آپ فرماتے ہیں قال رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اصحابُ الکھف اعوانُ المَھدی (درمنثور بحوالہ ابن مردویہ)یعنی اصحاب کہف مہد ی کے مرید اوراس پر ایما ن لانے والے لوگ ہیں ۔اب ا سکے یہ معنے نہیں کہ پہلے کوئی اصحاب کہف نہیں گذرے ۔کیونکہ خود حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اصحاب کہف کی ہڈیاں تک دیکھی ہیں (جیسا کہ اوپر روایت گذر چکی ہے )بلکہ اس کے صرف یہ معنے ہیں کہ اصحاب کہف کاسامعاملہ مہد ی پرایمان لانے والوں سے بھی گذرے گااوران کو بھی خداکے کلام پر ایمان لانے کیوجہ سے تکالیف دی جائیں گی ۔
واصبرنفسک مع الذین یدعون ربھم بالغدٰوۃ والعشیی
اوراپنے آپ کوان لوگوں کے ساتھ رکھ جو اپنے رب کو اس کی خوشنودی چاہتے ہوئے صبح و شام پکارتے ہیں
یریدون وجھہ ولاتعد عینٰک عنھم ترید زینۃ الحیوۃ
اورورلی زندگی کی زینت چاہتے ہوئے تیری آنکھیں ان سے نہ بڑھیں ۔
الدنیا ولاتطع من اغفلنا قلبہ عن ذکرنا واتبع ھوئہ وکان امر ہ فرطا٭
اورجس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیاہو اوراسنے اپنی گری ہوئی خواہش کی پیروی اختیارکی ہو اوراس کامعاملہ حد سے بڑھا ہواہواس کی فرمانبرداری مت کر ۲۵؎
۲۵؎ حل لغات ۔واصبر :صَبَرَ سے امر کاصیغہ ہے ۔اورصبر نفسہ علی کذاکے معنے ہیں حبسھا ۔نفس کو کسی بات پر روکے رکھا (اقرب) مزید تشریح کے لئے دیکھو رعد۲۳؎
الغَدٰوۃ:الغداۃ کے معنے صبح ۔صبح کی نماز سے لے کر سورج کے طلوع ہونے تک کاوقت ۔اس کی جمع غُدُوّہے ۔مزید تشریح کے لیء دیکھو رعد ۱۶؎
العشییّ:اٰخر النَّھار وقیل من صلوٰۃ المغرب الی العمتۃ۔دن کے آخری حصہ کو عشی کہتے ہیں بعض کے نزدیک مغرب سے عشاکاوقت عشیّ کا ہے(اقرب)الوجہُ۔نفس الشیئِ۔خود وہی چیز ۔الوجہ من الدھر ۔اوّلُہ۔زمانہ کی ابتداء۔سید القوم ۔قوم کاسردار ۔الجاہُ ۔عزت ۔ الجِمَۃُ۔طرف ۔مایتوجہ الیہ الانسان من عملٍ وغیر ہ۔مطمع نظر ۔القصد والنیۃُ۔قصداور ارادہ ۔المرضاۃ۔رضامندی (اقرب)
لاتعدُ:عَدَا(یَعْدُ وعدوًا)سے نہی مخاطب کاصیغہ ہے اورعَدَیٰ فلاناً عن الامر کے معنے ہیں صَرَفَہٗ وشغلہ۔اس کو کسی کام سے ہٹایا اورروکے رکھا ۔ عداالامر وعن الامرِ جاوزہٗ وترکہٗ۔کسی کام کوترک کردیا اورچھو ڑ دیا ۔
اَغفلنا:اغفلَ سے جمع متکلم کا صیغہ ہے اوراغفل الشیئُ بمعنے غفل عنہ(ترکہ وسھّاعنہ)کسی چیز کو ترک کردیا۔اوراسے بھو ل گیا ۔
الھویٰ:اراد ۃالنفس۔نفس کااراد ہ خواہش۔العشقُ یکو ن فی الخیر والشرِّ۔کسی عمدہ یابری چیز کی خواہش کی شدت ۔الھویُّ محمودًاوکان اومذموماًثُمَّ غلب علی غیر المحمود ِ۔جس سے محبت کیجائے خواہ وہ محبوب پسندید ہ ہو یا ناپسندیدہ۔لیکن آہستہ آہستہ اس کااستعمال بر ے معنوں میں ہونے لگ گیا ہے ۔اورجب فلان اتَّبَع ھواہُ کامحاور ہ بولتے ہیں تواس کلے معنے یہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنی خواہشات کے پیچھے لگارہا ۔اوریہ بول کر مذمت مقصود ہوتی ہے (اقرب)
فُرُطًا:الفُرُطُ۔الظلم ُ والاعتدائُ۔ظلم اورزیادتی ۔الامرُ المجاوزُعن الحدِّ۔حدارور انتہاء سے بڑھا ہواالامرالمتروک ۔چھوڑاہواکام ۔ جیسے کہتے ہیں ۔کان امر ہ فرطا۔وقیل اسرافًاوتصنییعاً۔اوربعض نے فرط کے معنے اسراف او رتصنییع کے کئے ہیں(اقرب)
تفسیر ۔اس آیت نے اوپر کے معنوں اکو اورواضح کردیاہے ۔اس آیت کے مخاطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہیں ۔بلکہ قرآن کریم کے پڑھنیوالے وہ شخص ہیں جن کواس زمانہ کے دیکھنے کاموقعہ ملے ۔ورنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو خود نمازیں پڑھایا کرتے تھے ۔ان کو کس طرح کہا جاسکتاتھاکہ جو صبح و شام نمازیں پڑھ رہے ہیں توان کے ساتھ رہ ۔
اصل میں یہاں یہ بتایا ہے کہ مسیحی اقوام کی ترقی کے وقت ایک ایسی جماعت ہوگی جو اسلام پر قائم ہوگی اوران کے ساتھ لوگوںکوملنے کاحکم دیاگیاہے ۔اس آیت کے مخاطب یقینا وہ مسلمان ہیں جواس زمانہ میں اسلام کی ترقی کو دیکھ کر سیاسی اسباب کے ساتھ وابستہ قرار دیتے ہوں گے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس غلطی میں مبتلانہ ہونا بلکہ ان لوگوں کے ساتھ شامل ہوجانا جوصبح شام نمازوں میں دعائیں کررہے ہوں گے اوراللہ تعالیٰ کے فضل کو دعائوں کے ذریعہ سے بلارہے ہوںل گے ۔پھر فرماتاہے اس نمازی جماعت سے اپنی نظر یں ہٹاکراو ر طرف نہ لے جانا کیونکہ گودنیا کی زینت اوراس کی ترقی کے سامان ان سے باہر ملیں گے لیکن اس میں خداتعالیٰ کی رضاتوحاصل نہ ہوگی ۔پس دنیاوی لالچوں کیوجہ سے اس بظاہر حقیر نظرآنے والی جماعت کوحقیر مت جاننا اوران لوگوں کی پیروی نہ کرنا جوذکر الٰہی اورتبلیغ سے غافل ہوںگے اورڈنڈے کے زورسے ان قوموں کو سیدھاکرناچاہیں گے اورافراط و تفریط کی مرض اورسیاسیات کی ہواوہوس میں مبتلاہوں گے ۔
اس آیت میں اس طر ف بھی توجہ دلائی ہے کہ اس زمانہ میں تین باتیں مسلمانوں کے مصائب کاموجب ہوں گی۔ایک تویہ لوگ عبادت سے غافل ہوجائیں گے عبادت کی طرف توجہ نہ رہے گی ۔دوسری بات یہ ہے کہ لوگوں کے دل میں دنیا کے اموال کی محبت بڑھ جائے گی تیسری بات یہ کہ عیش وعشرت کابڑازور ہوگا ۔ایسے وقت میں مومن کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ عبادت میں مشغول رہے اورمال کی طرف رغبت نہ کرے اوراپنی جائزضروریات پوری کرکے باقی حصہ مال کا دین کی اشاعت میں خرچ کرے ۔
والحق من ربکم فمن شآء فلیومن ومن شآء
اور(لوگوںکو)کہدے(کہ)یہ سچائی تیرے ر ب کی طرف سے ہی (نازل ہوئی)ہے پس جوچاہے (اس پر )ایمان لائے اورجو
فلیکفر ان اعتدنا للظالمین ناراًاحاط بھم سرادقھا
چائے (اس کا )انکار کرد ے (مگریہ یاد رکھے کہ )ہم نے ظالموںکے لیء یقینا ایک آگ تیار کی ہے جس کی چار دیوار ینے (اب
وان یستغیثوایغاثوابمائٍ کالمھل یشوی الوجوہ ط
بھی)انہیں گھیراہواہے ۔اوراگر وہ فریاد کریں گے توایسے پانی سے ان کی فریاد رسی کی جائے گی جوپگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہوگا
بئس الشراب ط وساء ت مرتفقاً٭
(اور)چہروں کوجھلس د یگا ۔و ہ بہت بُری پینے کی چیز ہوگی ۔اوروہ (یعنی آگ)بُراٹھکانہ ہے ۲۶؎
۲۶؎ حل لغات ۔سُرَادِق:کے معنے ہیں (۱)وہ سائبان جوصحن پر لگایا جاتا ہے(۲)پردہ یاقنات یاخیمہ کے چاروں طرف کا پردہ (۳)کپڑے کاخیمہ (۴)غبار(۵)دھوئیں کابگولہ (اقرب) اَلْمُھْلُ:مہل سب معدنیات کو کہتے ہیں مثلاً چاندی لوہے وغیر ہ کو ۔ (۲)پتلا تیل۔سیال چیز جس میں جل اٹھنے کامادہ ہوتاہے۔(۳)زہر(۴)پیپ(۵)خصوصاً مردہ کی پیپ(۶)پگھلاہواتانبہ (۷)تیل(۸)تلچھٹ یعنی تیل کی میل جواس کی تہ میں بیٹھ جاتی ہے (اقرب)یَشْوِیْ:شو ی سے مضارع ہے اورشوی اللحمُ کے معنی ہیں جعلہٗ شواء گوشت کا بھُونا۔الماء:اسخَنَہٗ۔پانی کوگرم کیا (اقرب)
مُرْتَفَقا:المرتفق:ارتفق الرجلُ۔طلب رفیقاً۔اس نے کسی ساتھی کی تلاش کی ۔اِستعانَ۔مددمانگی ۔اِنَّکَأ علی رفقٍ وقیل علی مخِدّۃٍ۔کہنی یاتکیہ پر ٹیک لگائی ۔ارتفق الانا ء۔امتلاء۔برتن(پانی وغیر ہ سے )بھر گیا ۔ارتفق القوم ۔ترافقوُافی سفرٍ۔لوگ سفر میں ایک دوسرے کے رفیق بنے۔المر تفقُ ارتفق سے اسم مفعول ہے اس کے معنے ہیںالمتکاء۔تکیہ او رسہارالگانے کی چیز (اقرب)
تفسیر ۔وقل الحق من ربکم ۔توکہہ دے کہ یہ بات جو میں نے بتائی ہے یعنی مسلمانوں کی ترقی اوران قوموں کی تباہی ۔ یہ ہوکر رہے گی ۔اس سے صاف پتہ لگتاہے کہ یہ پیشگوئی ہے ۔
فمن شآء فلیومن ومن شآء فلیکفر الآیہ یعنی دین ے معاملہ میں زبردستی توہے نہیں۔جوشخص جس بات کو چاہے اختیار کرے وہ اپنے عمل کا نتیجہ بھگتے گامگراسے جبراً نہیں منوایاجائے گا ۔
اس آیت میں اس طر ف اشارہ ہے کہ وہ جہاد کازمانہ نہ ہوگا ۔بلکہ تبلیغ کازمانہ ہو گا ۔لوگوں کے سامنے صداقت رکھنا مسلمانوں کافرض ہوگاآگے کوئی مانے یانہ مانے۔کسی سے جنگ کرنی جائزنہ ہو گی ۔
چونکہ ایہ سوال ہوسکتاتھا کہ اگر جنگ اورجہاد نہ ہوگا تومسلمانوں کی کمزورحالت کس طرح بدلے گی ۔ا س کاجواب یہ دیا کہ ہم اس کے سامان خود پیداکریں گے اوریورپین اقوام کوجنگ کا عذاب گھیر لے گا ۔اورگویا جنگ ان کے گھروں کے گرد خیمے لگالے گی ۔اورجس قد روہ امن کے لیء کوشش کریں گے اروامن امن کہہ کر چلّائیں گے ۔اسی قدر پگھلتاہوالوہا اورتانبہ ان کے مونہوں پر ڈالاجائے گا ۔یعنی ان کی امن کی پکار توہو گی لیکن نتیجہ توپوں کے گولے اوربم ہی نکلے گا ۔اوران کے ملک رہائش کے قابل نہ رہیں گے ۔بلکہ براٹھکانہ بن جائیںگے ۔
ارتفق کے معنے تعاون اوررفاقت کے بھی ہوتے ہیں ان معنوں کے روسے یہ معنے ہوں گے کہ قومیں امن کی خاطر دوسری قوموں سے دوستیاں کریں گی ۔لیکن ان دوستیوں کانتیجہ جنگ ہی نکلے گانہ ک صلح۔
ان الذین امنواوعملواالصلحٰت انا لانضیع اجر من احسن عملا٭
(ہاں)یقینا جولو گ ایما ن لائے ہیں او رانہوں نے نیک (اورمناسب حال )عمل کئے ہیں(وہ بڑے اجر پائیں گے )جنہوں نے اچھے کام کئے ہوں ہم ان کااجر ہرگز ضائع نہیں کیا کرتے ۲۷؎
۲۷؎ تفسیر ۔یعنی اس کے مقابل پر جولوگ خداکے کلام پر ایما ن لائیں گے اورا س ایما ن کے مطابق عمل کریں گے ان کے اجر ضائع نہ ہوںگے یعنی باوجود اس کے وہ ظاہر شان وشوکت سے محروم ہوں گے پھر بھی ان کے اعمال آہستہ آہستہ دنیا میں امن کی صورت پیداکرتے چلے جائیں گے ۔
اولائک لھم جنت عدن تجری من تحتھم الانھر یحلون
ان کے لئے دائمی رہائش کے باغات (مقدر)ہیں (ان میں )ان کے (اپنے انتطام کے )نیچے نہریں بہتی ہوںگی ان کے لئے ان
فیھا من اساور من ذھب و یلبسون ثیاباخضرا من سندس
میں سونے کے کنگنوں کے قسم کے زیوربنوائے جائیں گے اوروہ باریک ریشم کے اورموٹے ریشم کے
واستبرق متکئین فیھا علی الارائک ط نعم الثواب ط وحسنت مرتفقا٭
سبزکپڑے پہنیں گے ۔ان (بہشتوں )میں آراستہ پلنگوں پر تکئے لگائے (ہوئے بیٹھے )ہوں گے ۔یہ کیا ہی اچھا اجر ہے اوروہ بہت ہی اچھا ٹھکانہ ہے ۔ ۲۸؎
۲۸؎ حل لغات ۔یُحَلَّوْنَ:حَلَّی سے مضارع جمع مذکر غائب کاصیغہ یَحُلّوْنَ ہے اوریُحَلُّوْنَ ا س سے مجہول کاصیغہ ہے ۔اورحلّی المراۃ تحلیۃ کے معنے ہیں البسھا حلیاً۔عورت کو زیور پہنائے (اقرب) ثیاباً:ثوب کی جمع ہے اورثوب کے معنے ہیں ۔اللباس من کتانٍ وقطنٍ وصوفٍ خزونسراء۔روئی۔اون۔ریشم ۔پوستین وغیرہ کے کپڑے (اقرب) سُندُس: کے معنے ہیں نہایت باریک اور نفیس ریشمی کپڑا یادیبائے نازک۔اورکلیا ت میں اس کیمعنے ریشمی گدیلے اوربسترو ں کے ہیں (اقورب)
اِستبرق:الدیباج الغلیظ ۔موٹاریشم ۔اسے معرّب یعنی غیر عربی زبان کاقرار دیاگیاہے (اقرب) الارائک: اَرِیکَۃَ کی جمع ہے اوراریکۃٌ کے معنے ہیں ۔سریرٌ منجدٌ مزیّنٌ فی قُبّۃٍ اوبیت۔ایسامزین تخت جوکسی قبّہ یاخیمہ میں لگایا گیاہو (اقرب)
تفسیر ۔سونے کے کڑوں پراعتراض ہوتاہے کہ مردوں کے لئے سونے کے کڑے پہننے ناجائز ہیں ۔ا س کاجواب یہ ہے کہ اگر توا سے مرا د دنیاہو تواس سے مراد یہ لی جائے گی کہ ان کو بادشاہتیں ملیں گی ۔سونے کے کنگن پہننے سے مراد بادشاہت ہے ۔پرانے زمانہ میں سونے کے کنگن بادشاہ پہنا کرتے تھے ۔پس یہاں بتایا ہے کہ مسلمانوں کابادشاہ بنایاجائیی گااوراگر اس سے مراد اگلاجہان ہوتواس جہاں کی ہرشے روحانی ہے ۔وہاںسونے کے کڑوں سے مادی سونے کے کڑے مراد نہیں ہوسکتے ۔بلکہ خاص قسم کے اعزازمراد لئے جائیں گے ۔
من سندسٍ واستبرقٍ:یعنی جیسے ریشمی کپڑا پہننے سے آرام اورلذت محسوس ہوتی ہے ۔اسی طرح وہاں بھی ایساآرام ملے گاجس سے لذت اورآرام محسوس ہوگااوراس کے یہ معنے بھی وہسکتے ہیں ،۔کہ یہ چیز یں جن کے لائق ہوں گی انکو پہنائی جائیں گی ۔جیسے حضرت عمرؓ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ریشمی کپڑادیاتوانہوں نے کہا یارسول اللہ مجھے آپ نے یہ کیسے دیا ۔مردوں کے لئے توریشم پہننا ناجائز ہے اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اسے اپنی بیوی کو پہناسکتے ہو ۔
نعم الثواب وحسنت مرتفقا۔یعنی قرآن کریم پر سچاایمان لانے والوں کو جوانعامات ملیں گے وہ تباہی کی طرف نہ لے جائیں گے بلکہ ان کے نتیجہ میں امن اوراطمینان پیداہوگا اورحسنت مرتفقاسے یہ بتایا ۔کہ قرآنی تعلیم پر چل کر جودوستیاں اوررفاقتیں ہوں گی و ہ چونکہ اخلاص پر مبنی ہوں گی اورذاتی اغراض ان کی پیچھے پوشید ہنہ ہوںگی ۔ان دوستیوں کے نتیجہ میں لڑائیاں نہیں ہو ں گی بلکہ امن حاصل ہوگا ۔
واضرب لھم مثلارجلین جعلنا لاحدھما جنتین من
اورتوان کے سامنے ان دوشخصوںکی حالت بیان کر جن میں سے ایک کوہم نے انگوروں کے دوباغ دیئے تھے ۔اورانہیں
اعناب وحففنھما بنخل وجعلنابینھما زرعا٭
ہم نے کھجوروں کے درختوں سے (ہرطر ف سے)گھیر رکھاتھا ۔اورہم نے ان کے درمیا ن کچھ کھیتی بھی پیداکی تھی ۔
کلتاالجنتین اتت اکلھا ولم تظلم منہ شیئا وفجرنا خللھمانھرا٭
ان دونوں باغوں نے اپنا (اپنا )پھل (خوب )دیا ۔اوراس میں سے کچھ(بھی)کم نہ کیا۔اوان کے درمیان ہم نے ایک نہر جاری کی (ہوئی )تھی ۔ ۲۹؎
۲۹؎ حل لغات ۔واضرب لھم مثلاً کے معنی ہیں ان کے سامنے مثال بیان کر مزید تشریح کے لئے دیکھو ابراہیم ۲۵؎
جنّتین :جنۃٌ کاتثنیہ ہے مزید تشریح کے لئے دیکھو رعد ۲۴؎ حففنٰھما ۔حففنا۔حفّ سے جمع متکلم کاصیغہ ہے اورحفّہ القومُ وبہ دحوالیہ کے معنی ہیں احدقوابہ اطاقو اراستداروا لوگوں نے اسے ہر طرف سے گھیرلیا اوراس کے اردگردحلقہ بنالیا (اقرب)پس حففنھما کے معنی ہوں گے کہ ان دونوں کو ہم نے گھیر رکھاتھا۔
ولم تظلم منہ شیئًا۔تظلم ظلم سے واحد مؤنث غائب کا صیغہ ہے ۔اورظلم فلاناً حقہ کے معنے ہیں نقَصَہ ایَّاہ اسے اسکے حق سے کم دیا ۔اورلم تظلم منہ شیئا کے معنی ہیں ۔لم تنقص۔کہ اسنے کچھ بھی کم نہ دیا(اقرب)
تفسیر ۔بعض نے کہاہے کہ اس آیت میں کسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے ۔لیکن اکثرمفسرین کاخیال ہے کہ یہ ایک مثال ہے ۔جنہوں نے اس کوواقعہ کہاہے ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ دوآدمی یہود میں سے تھے ۔اوربعض نے کہاہے کہ عرب میں سے تھے ۔لیکن دو باغ کی حیثیت والا کوئی آدمی اس رتبہ کانہیں سمجھاجاسکتا ۔جس کاذکر تاریخ میں کیاجائے ۔یہ اسی صورت میں ہوسکتاہے کہ یاتویہ تسلیم کیاجائے کہ اس قسم کے فخریہ کلمات دیان میں اورکوئی شخص نہیں کہتا۔بس اسی شخص نے کہے تھے ۔اوریایہ تسلیم کیاجائے ۔کہ اس زمانہ می دنیا بھر میں کوئی درخت نہ تھے بس ایک اس شخص کے دوباغ تھے۔اس لئے اس کے واقعہ کوتاریخ میں محفوظ رکھاگیا ۔
اس مثال کی تفصیل سے معلو م ہوتاہے کہ اس سے ہمیں کچھ سمجھانامقصود ہے ۔ورنہ اس کے بیان کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی ۔
میراخیال ہے کہ الہامی کتابوں میں جبکوئی ایسی مثال ہو جوادبی نہ ہو بلکہ اس میں باریک مضمون کی طرف اشارہ ہو تواس کی حقیقت معلوم کرنے کابہترین ذریعہ یہی ہے ۔کہ اپنی عقل سے کام لینے کی بجائے ہم تعبیر رویا کے علم سے مدد لیں کیونکہ خواب بھی ایک تمثیلی زبان ہے اورضروری ہے کہ دونوں قسم کی تمثیلیں جن کامنبع ایک ہے آپس میں مشابہت رکھتی ہوں ۔
باغ کی تشریح ہم دنیاوی لحاظ سے مال و دولت سے کرسکتے ہیں ۔اوردرختوں سے یہ مراد لے سکتے ہیں کہ وہ کھیت کی حفاظت کرتے ہیں ۔کیونکہ زمینداروں کے کھیت کی حد بندی درختوں سے اچھی طرح ہوسکتی ہے ۔بے شک یہ بھی ایک تعبیر ہے ۔جوہم اپنے ذہن سے کرسکتے ہیں۔لیکن ہم کیوں علم تعبیر سے مدد لیں ۔اورپھر قرآن کریم کو دیکھیں ۔کہ کیا و ہ ان معنوں کی تصدیق کرتا ہے یانہیں ۔
علم تعبیرالرویا میں باغ دیکھنے کے متعلق لکھاہے ۔ورُبَّما دلَّ البستان علی الزوجۃ والولد والمال رطیب العیش وزوال الھموم ورُبَّما دلَّ علی دار السلطان الجامعۃ للجیوش والجنود (تعطیر الانام )یعنی اگرکوئی خواب میں باغ دیکھے تواس سے مراد بعض دفعہ بیوی ،اولاد ،مال،زندگی کے اچھے سامان غموں کادور ہوناہوتاہے اوربعض دفعہ شاہی محل مراد ہوتاہے جس میں فوج اورلشکر جمع ہوتے ہیں ۔یعنی چھائونیاں یاہیڈکوارٹرز۔اورانگور خواب میں دیکھنا رزق حسن پر دلالت کرتاہے اورایسے دائم ووسیع رزق پر جس کاذخیرہ رکھاجائے ۔اوراس نفع پر جوعورتو ں کے ذریعے پہنچے (تعطیر الانا م )
کھجور کے متلق لکھا ہے کہ مَن مَلِکَ نخلاً کثیراً فَاِنَّہ یتولَّی علی رجالٍ بقدرذالک وان کان تاجراً اردادتجارتہٗ(تعطیر الانام )یعنی جو خوا ب می دیکھے کہ وہ کھجور کامالک ہواتواسی تعداد میں آدمیوں پر وہ حکومت کریگا۔اوراگر و ہ تاجر ہوتواس کی تجارت میں زیادتی ہوگی ۔پھلوں کے متعلق لکھا ہے الاثمارٌ کرامۃٌ جدیدۃٌ طریَّۃَیعنی تازہ بتازہ عزت کے سامان ملنا ۔ومَن رَأَیْ اَنَّہ زرع فی الارض فھم لِلسُّلطانِ سعۃٌ فی مملِکَتِہٖ والزَّرْعُ یدُلُّ علی العملِ یعنی جودیکھے کہ اس نے کسی زمین میں کھیتی کی ہے ۔تواگر وہ بادشاہ ہے تواس کی حکومت وسیع ہوگی ۔اورباقی لوگوں کے لئے کھیتی سے مرادعمل ہوتاہے ۔
نہر کے متعلق لکھا ہے کہ اس سے مراد عالیشان انسان ہوتا ہے ۔(تعطیرالانام )اسی طرح لکھا ہے کہ جوخواب میں دیکھے کہ اس کے گھر سے نہر نکلی ہے ۔اس کی تعبیر یہ ہوگی کہ وہ نیک تعلیم دیگا جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں گے۔
تواب یہ معنی ہوں گے کہ جعلنا لاحدھما جنَّتَینِ ہم نے ان میں سے ایک کے لئے دوباغ بنائے تھے یعنی مال اوردولت عطاکی تھی ۔اورمن اعناب کے معنی دائم رہنے والے کے بھی ہیں ۔پس مراد یہ ہے کہ ان کے مال اوراولاد کی ترقی لمبی ہوگی ۔ چنانچہ قرآن کریم اس کی تصدیق کرتاہے جیساکہ آگے فرمایا انا اکثَرَ منک مالاً واعزنفراً۔کہ میں مال اوراولاد میں تجھ سے زیادہ ہو ں۔حالانکہ پہلی آیات میں تعداد کاکوئی ذکرنہ تھا وحففنھما بنخل پہلے بتایا جاچکا ہے ۔کہ نخل سے مراد آقا کے غلام ہوتے ہیں ۔پس انگور کے باغ کااحاطہ نخل سے کرنے کے یہ معنی ہوں گے ۔کہ فوجی طاقت سے وہ اپنے مال اوراولاد اورملک کی حفاظت کرے گا ۔
وجعلنا بینھما زرعاً۔زرع کے معنی عمل کے ہوتے ہیں ۔پس دونوں باغوں کے درمیان عمل ہوگا کے یہ معنی ہوں گے کہ ادھر بھی بادشااہت ہوگی جس کی حفاظت فوجیں کررہی ہوں گی ۔اورادھر بھی بادشاہت ہو گی جس کی حفاظت فوجیں کررہی ہوں گی اوران دونوں کے درمیان زرع ہوگی ۔یعنی درمیان میں معمولی حیثیت کی جائدا دہوگی جو بے حفاظت ہوگی ۔
وکلتاالجنتین اتت اکلھا ۔یعنی یہ دونوں باغ اپنے اپنے وقت پر پھل دیتے رہے ۔
ولم تظلم منہُ شیئًا۔اورکبھی انہوں نے اپنے پھل دینے میں کمی نہیں کی ۔
یہ عبارت بھی بتارہی ہے کہ اس جگہ با غ تمثیلی ہیں معروف باغ مراد نہیں ۔کیونکہ یہ قانون قدر ت ہے کہ پھل کسی سال زیاد ہ آتا ہے۔کسی سال کم آتاہے ۔نیزاس آیت سے ایک اوربات بی معلوم ہوتی ہے اوروہ یہ کہ گودوباغوں کاذکر کیا ہے ۔لیکن باوجود ان کے ایک جہت سے دوہونے کے دوسری جہت سے و ہ ایک بھی تھے ۔کیونکہ باغوں کے لئے ضمیر مفرد کی استعما ل کی ہے ۔یعنی اٰتتاکی جگہ اٰتت فرمایا ہے ۔اورلم تظلما کی جگہ لم تظلم کالفظ استعمال کیاہے ۔اوریہ دونوں واحد مونث کے صیغے ہیں ۔ظاہر ہے کہ اس فرق سے یہی مضمون پیداکرنامقصود ہے کہ بظاہردوباغ ہیں ۔لیکن اصل می ایک ہی ہے ۔یایوں کہو کہ ایک باغ کے دوحصے ہیں (اس میں کوئی شک نہیں کہ کلتاکی طرف لفظاً ضمیر واحد مونث بھی پھرائی جاسکتی ہے ۔لیکن معناً ضمیر تثنیہ کی آنی چاہیئے ۔علامہ بیضادی نے لکھا ہے ۔وفی الحاشیۃ السعدیۃ فانہ اسم مفراللفظ عند البصریین ومثنی المعنی ومثنی لفظاً ومعنی عند البغدادیین (تفسیر بیضادی زیر آیت کلتاالجنتین)کہ حاشیہ سعدیہ میں ہے کہ بصریوں کے نزدیک کلتاکالفظ بلحاظ معنی تثنیہ ہے ۔اوربلحاظ لفظ مفردہے مگربغدادیوں کے نزدیک کلتا لفظاً اورمعناً دونوں طرح تثنیہ ہے ۔
القندی اعلی البیضادی میں لکھاہے ۔کہ حریری نے درَّہ الخواص میں کہا ہے کہ یقولون کلاالرجلین خرجا وکلتا المرأتین حَضَرتَا۔یعنی عرب کِلاَ اورکِلتَاکے بعد فعل تثنیہ لاتے ہیں ۔
پس بغدادی ائمہ لغت کے مذہب کی بناء پر توقرآنی آیت میں اٰتتاآناضروری تھا ۔اورحریری کے قول کے مطابق بھی ا س کوترجیح حاصل ہے صیغہ تثنیہ کاآنا بہرحال جائز ہے ۔پس میرااستدلال یہ ہے کہ اول توتثنیہ کاصیغہ استعمال کرنا انسب تھا کم سے کم جائز تھا ۔ اورلفظی طورپر انسب کو چھوڑ کردوسرے طریق کو اختیار کرنا قرآن کریم کے مسلمہ اصول کے مطابق ضرورکوئی معنوی حکمت رکھتا ہے ۔ اوراس کی مثالیں کثر ت سے قرآن کریم میں پائی جاتی ہیں۔کہ وہ جائز اورصحیح الفاظ اورضمائر کے انتخاب میں بھی حکمتوں اورنئے مضمونوں کومدنظررکھتاہے ۔
وکان لہ ثمرٌ فقال لصاحبہ وھو یحاورہ انااکثرمنک مالا واعزنفرا٭
اورسے بہت پھل حااصل( ہوتا)تھا ۔اسی وجہ سے اس نے اپنے ساتھی کو ا س سے باتیں کرتے ہوئے (فخریہ طورپر)کہا(کہ دیکھ)تیری نسبت میرامال زیادہ اورجتھا معززہے ۳۰؎
۳۰؎ حل لغات ۔ثمرکے لئے دیکھو ابراہیم ۳۶؎ یحاورہ:حاوَرَ سے مضارع واحد مذکرغائب کاصیغہ ہے ۔اورحاورہ (محاورۃً) کے معنی ہیں ۔جاء بہ اس سے بات چیت کی ۔رَاجَعَہ فی الکلام اس ک بات کا جواب دیا (اقرب)
اعزّ:یہ عَزّسے اسم تفضیل ہے اورعَزّہ(یعُزُّ۔عَزًّ)کے معنی ہیں ۔قوّاہ۔ اس کی طاقت بڑھائی۔اسے تقویت دی ۔ غلبہ۔اس پر غالب آگیا ۔اورعزّ(یَعِزُّ عِزًّ کے معنی ہیں صار عزیزًاوہ معززہوگیا زبردست ہوگیا ۔قَوِیَ بعد ذلّۃٍ کمزور ہونے کے بعد طاقتور ہوگیا ۔ضَعُف ۔چونکہ یہ لفظ اضداد میں سے ہے ۔اسلئے اسکے معنی کمزورہوجانے کے بھی ہیں (اقرب)
نفرًا:الناس کلھم تمام لوگ من ثلاثہ الی عشرۃ وقیل الی سبعۃ من الرجال تین سے دس مردوں تک کاگرو ہ اوربعض کے نزدیک تین سے سات اشخاص تک کے گروہ کو نفر کہتے ہیں (اقرب)
تفسیر ۔کان لہ ثمر۔اس کی محنت کے بڑے بڑے نتیجے پیداہورہے تھے ۔اس حالت کو دیکھ کرا سنے اپنے ساتھی سے کہا کہ میرامال تجھ سے زیادہ ہے ۔اورقوم کے لحاظ سے بھی تجھ سے زیادہ معززہوں۔
اب میں اس تمثیل کی حقیقت بیا ن کرتاہوں ۔سورۃ کے شروع میں بتایا گیاتھا ۔کہ رسول کریم اصلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ والوں کوخداکاپیغام پہنچایا ۔اوریہود کو پہنچانے والے ہیں ۔اسی طرح آپ مسیحیوں کوبھی بیدار کرنے والے ہیں اورپھر مسیحی قوم کی ابتدائی تاریخ بتائی کہ یہ قوم ان حالات میں شروع ہوئی تھی ۔کہ توحید کے لئے انہوں نے سخت سے سخت تکلیفیں اٹھائیں ۔مگربعد میں مشرک ہوگئی اوردنیا کے پیچھے پڑ گئی ۔
اب اس تمثیل کے ذریعہ سے مسلمانوں اورمسیحیوں کے مقابلہ کاذکر آتا ہے ۔اس تمثیل میں باغ والے سے مراد مسیحی قو م ہے ۔ اورانگوروں کے باغ کی تمثیل اس لئے دی ہے کہ مسیحی قوم کوانگورکاباغ خود حضرت مسیح ناصر ی نے قراردیا ہے ۔اوراس با غ کی تمثیل ان آیات کی تمثیل سے ملتی ہے ۔حضرت مسیح کہتے ہیں ’’ایک شخص نے انگو رکاباغ لگایا ۔اوراس کے چاروں طرف گھیرااورکولہو کی جگہ کھودی ۔اورایک بُرج بنایا ۔اوراسے باغبانوں کے سپرد کرکے پردیس گیا ۔پھر موسم میں اس نے ایک نوکر کو باغبانوں کے پاس بھیجا ۔تاکہ وہ باغبانوںسے انگور کے باغ کے پھل میں سے کچھ لے ۔انہوں نے اسے پکڑ کے مارا۔اورخالی ہاتھ بھیجا ۔اس نے دوبارہ ایک اورنوکر کو ان کے پاس بھیجا انہوں نے اس پر پتھر پھینکے ۔اس کاسر پھوڑا۔اوربے حرمت کرکے پھر بھیجا ۔پھراس نے ایک اورکوبھیجا ۔انہوں نے اسے قتل کیا۔پھر اوربہتیروں کوان میں سے بعضوں کو پیٹااوربعضوں کو مارڈالا ۔اب اس کاایک ہی بیٹاتھا جواس کوپیاراتھا ۔آخر اس نے اسے بھی اس کے پاس یہ کہہ کر بھیجا کہ وے میرے بیٹے سے دبیں گے ۔لیکن باغبانوں نے آپس میں کہا یہ وارث ہے ۔آئوہم اسے مارڈالیں ۔تومیراث ہماری ہوجائے گی ۔اوانہوںنے اسے پکڑ کرقتل کیا ۔اورانگورکے باغ کے باہر پھینک دیا ۔پس باغ کامالک کیا کہے گا۔وہ آوے گااور ان باغبانوں کو ہلاک کرکے انگوروں کاباغ اوروں کو دیگا۔کیا تم نہ یہ نوشتہ نہیں پڑھا۔ کہ وہ پتھر جسے معماروں نے ناپسند کیا وہی کونے کاسراہوا‘‘(مرقس باب ۱۲ آیت ۱تا۱۰)
اس تمثیل میں حضرت مسیح نے مذاہب کو انگور کے باغ سے تشبیہ دی ہے ۔اورباغ کامالک خداتعالیٰ کو بتایاہے ۔با غ کے متعلق وہی تشریح ہے جو قرآن کریم میں ہے ۔کہ بیچ میں انگوراورچاروں طرف باڑ۔صر ف یہ فرق ہے کہ قرآن کریم نے باڑ کے درختوں کانام بھی بتایا ہے جس سے زائد معنی پیداکردیئے ہیں ۔غرض حضرت مسیح نے نبیوں کی مخاطب امتوں کو باغ بتایا ہے ۔اوران کی نگرانی کرنے والے علماء اوربادشاہوں کومالی۔وہی معنی قرآن کریم میں ہیں۔باغ سے مراد عیسائیت ہے اورانگور اسے مراد مال اوردولت اوراولاد کی زیادتی ہے ۔اورکھجوروں سے مراد یہ ہے کہ مسیحیت اپنی ترقی کے زمانہ میں فوجوں پرانحصار رکھے گی ۔اوراپنی حفاظت کے زبردست سامان کرے گی ۔اورباغ کو ایک لحاظ سے دواورایک لحاظ سے ایک اس لئے قرار دیاہے ۔کہ سابق قوموں کے برخلاف مسیحیت کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس کی ترقی دوزمانوں میں ہوئی ہے ۔ایک اسلام سے پہلے اس کی ترقی کازمانہ تھا ۔اوردوسرازمانہ اسلام کے تین سوسال بعد شروع ہوااورسات سوسال میں جاکر تکمیل کوپہنچا ۔یعنی سترھویںصدی میں ۔ان ترقی کے دوزمانوں کے درمیان ان کی حالت زرع کی سی رہی ۔کہ وہ جانوروں کے پائو ںتلے روندے جانے اوراکھیڑے کے خطرہ میں ہوتی ہے ۔اوران دونوں زمانوں کے درمیان جومسیحیت کے باغ کہلانے کے مستحق تھے۔اللہ تعالیٰ نے ایک نہر چلادی تھی ۔یعنی اسلام کازمانہ رکھ دیاتھا ۔جس نے مسیحی قوم کے دونوں باغوں کو ایک دوسرے سے جداکردیاتھا ۔ان دونوں زمانوں کے درمیان ایک عظیم اللشان انسان پیداہوا۔۔اوراللہ تعالیٰ نے امر معروف کاسلسلہ جاری کیا ۔۔
پھر بتایا ہے کہ جب اسلام دنیا میں آگیا ۔تودونوں باغوں کے مالک نے یعنی عیسائی قوم کے لیڈروں نے مسلمانوں کو طعنہ دینا شروع کیا ۔کہ تمہاری کیاطاقت ہے ۔ہم کو توغیر معمولی طور پر دوزمانوں میں حکومت ملی ہے ۔خصوصاً و ہ زمانہ ترقی کا جو مسلمانوں کے زمانہ میں آیا ۔و ہ توبہت ہی شاندار ہوگا ۔اس پر انہیں خاص ناز ہوگا ۔کیونکہ اسی سے مسلمانوں کامقابلہ ہوگا ۔
ودخل جنتہ وھو ظالم لنفسہٖ قال مااظن ان تبید ھذہٖ ابداً
اور(ایک دفعہ)وہ اپنی جان پر ظلم کرتے ہوئے اپنے باغ میں داخل ہوا۔(اوروہ اس طرح کہ )اس نے (اپنے ساتھی سے)کہا (کہ)میں نہیں سمجھتا کہ یہ کبھی تباہ ہو ۳۱؎
۳۱؎ حل لغات ۔تَبِید بَادَ سے مضارع واحد مؤنث غائب کاصیغہ ہے ۔اوربَادَ(یَبِیدُ ۔بُیوداً)کے معنی ہیں ھلَک کوئی چیز ہلاک ہوگئی ۔(اقرب)پس مااظنَ ان تبیدھذہ ابداً کے معنے ہوں گے ۔کہ میں خیال نہیں کرتا کہ وہ کبھی تباہ وہلاک ہو
تفسیر ۔اب فرماتاہے کہ وہ اپنی حکومتوں پر شان وشوکت پر بہت ناز کریں گے اورسخت بے دین ہوجائیں گے کیونکہ ظالمٌ لِنفسہٖ کایہی مطلب ہوتاہے ۔اورپھر ان کویہ خیال ہوگا کہ ہماری حکومت کبھی تباہ نہ ہوگی ۔اس جگہ جنت کالفظ استعمال کیاگیا ہے ۔حالانکہ باغ دوتھے ۔کیونکہ گومسیحی قو م کوناز اپنی پہلی تاریخ پر بھی ہے ۔مگراصل ناز انکو آخری زمانہ کی ترقی پر ہے ۔اوراسلام کے مقابل پر وہ اسی کو پیش بھی کرتے ہیں ۔اسلئے اب اس جگہ سے دوباغوں کاذکر ترک کرکے سب مفرد کے صیغے ہی استعمال کئے گئے ہیں ۔جنتین کی جگہ جنت کہنے سے یہ بھی مراد ہوسکتی ہے ۔کہ ان دونوں جنتوںکو ایک لحاظ سے ایک ہی سمجھنا چاہیئے کیونکہ درحقیقت یہ ترقی ایک ہی قوم کی ہے گوایک وقفہ پڑ جانے کی وجہ سے دوحصوں میں تقسیم ہوگئی ہے ۔ان معنوں کے روسے میرے اس خیال کی تائید ہوتی ہے ۔جومیں اوپر بیان کرآیاہوں کہ کِلْتَا کے لئے باوجود تثنیہ کی ضمیر کے استعمالی کی اجازت ہونے کے جومفرد کی ضمیر پھیری گئی ہے اس سے اس طرف اشارہ کرنامقصود ہے ۔کہ من جہۃٍ وہ دونوں باغ ایک ہی باغ سمجھے جانے چاہئیں۔
ومااظن الساعۃ قائمۃولئن رددت الی ربی لاجدن خیرامنھا منقلبا٭
اورمیں نہیں سمجھتاکہ وہ (موعودہ)گھڑی (کبھی)آنے والی ہے ۔اوراگر(بالفرض)مجھے میرے رب کی طرف لوٹا(بھی)دیاجائے تومیں (وہاں بھی )یقینااس اسے بہتر ٹھکانہ پائوں گا ۳۲؎
۳۲؎ حل لغات ۔اظنُّ:ظَنَّ سے مضارع متکلم کاصیغہ ہے ۔اورظنَّ الشیئَ کے معنی ہوتے ہیں ۔علمہ وتاتی ظنَّ الدلالۃ علی الرجصان ۔اوربعض اوقات راجح خیال کوظاہر کرنے کے لئے بھی ظنّ کافعل استعمال کرتے ہی (اقورب)پس مااظن کے معنی ہوں گے میں یقین نہیں کرتا ۔میں نہیں سمجھتا ۔
الساعۃ کے لیء دیکھو سورہ ہذا ۶۲؎
منقلباًیہ انقلب سے مصدرمیمی ہے اورظرف مکان بھی ہے ۔انقلب کے معنی ہیں انکب الٹ گیا ۔رجع۔لوٹا(اقرب)
تفسیر ۔اس میں اشارہ کیا ہے کہ اس قوم می دوخیالات کے لوگ ہوں گے ایک تووہ جو قیامت کے قائل نہ ہوںگے۔سب کچھ اسی دنای کو سمجھیں گے ۔اوردوسراگروہ قیامت کاقائل ہوگا ۔مگراس کایہ خیال ہوگا ۔کہ اگلے جہان کے انعامات بھی انہی کے لئے مقرر ہیں ۔چنانچہ یہی حال مسیحیوں کاہے ۔کچھ ان میں سے اس امر کے قائل ہیں کہ مرنے کے بعد کوئی(زندگی نہیں ۔بلکہ قومی ارتقاء کے معنی ہی جنت کے ہیں اوریہ مسیحیوں کومل گئی ہے ۔اورمل جائے گی ۔لیکن ان کا یہ خیال ہے کہ چونکہ مسیح نے ہمار ے گناہ اٹھالیئے ہیں اوردوسروں کے گنا ہ اٹھانے والا کوئی نہیں ۔اس لیء ہم تونجات پاجائیں گے دوسرے سب لوگ دوز خ میں جائیںگے ۔
قال لہ صاحبہ وھو یحاورہ اکفرت بالذی خلقک من تراب ثم من نطفۃ تم سوئک رجلا ٭
اس کے ساتھی نے اس سے سوال وجواب کرتے ہوئے کہا (کہ )کیاتونے اس (ہستی) کاانکار کردیاہے جسنے تجھے (اولاً)مٹی سے (اور)پھر نطفہ سے پیداکیا ۔(اور)پھر اس نے تجھے پوراآدمی بنایا ۳۳؎
۳۳؎ حل لغات ۔نطفہ:کے معنی کے لئے دیکھو نحل ۵؎
سَوَّاکَ رَجُلًا۔سَوَّی الشَیئَ کے معنی ہیں جعلہٗ سوِّیًا کسی چیز کوٹھیک اورمکمل بنادیا(اقرب)مزید تشریح کے لئے دیکھو حجر ۲۷؎ پس سواک رجلاً کے معنی ہوں گے تجھے پورامکمل آدمی بنادیا ۔
تفسیر ۔یہ تمثیلی زبان میں مسلمانوں کی طرف سے جواب دیاہے ۔یعنی اس مثال میں ایک اوربھی شخص تھا ۔اس نے اس تکبر کرنے والے کونصیحت کی ۔اورکہا کہ کیا تم خداتعالیٰاکانکار کرتے ہو ۔جس نے تم کوپیداکیا ۔پھر ادنیٰ حالت سے ترقی دے کر کمال تک پہنچا دیا ۔یعنی تمہاری حالت عملاً اللہ تعالیٰ کے انکار کے متراد ف ہے۔ورنہ خداتعالیٰ پر حقیقی ایمان رکھتے ہوئے کوئی ایسے خیالات نہیں رکھ سکتا جیسے کہ تمہارے ہیں ۔
قرآن کریم کایہ عام طریق ہے کہ جب کسی کو یہ کہتاہے ۔کہ اپنی ترقی پر غرورنہ کر توا سکی ابتدائی حالت کی طرف توجہ دلاتاہے ۔جس طرح مسلمانوں کوکہا ہے کہ تم مایوس نہ ہو ۔جواس وقت کی ترقی یافتہ قومیں ہیں یہ بھی پہلے کمزورتھیں۔اب عیسائیوں کو فرمایا ۔کہ تم یہ خیال نہ کرو۔کہ مسلمان کمزورہیں ۔تم اپنی پہلی حالت کو دیکھو کہ وہ کس قدر کمزور تھی ۔اورجسمانی پیدائش بھی انسان کی مٹی اورپھر نطفہ سے ہی ہوتی ہے ۔
اس تمثیل میں دونوں اشخاص کی گفتگوکے ساتھ یہ فرمایا ہے کہ وھو یحاورہ جس سے اس طرف اشارہ کیا ہے ۔کہ ان دونوں قوموں میں مباحثات ہوں گے ۔اورمباحثات کے دوران میں مسیحی لوگ مسلمانوں کی کمزوراوراپنی قوت کو اپنا سچاہونے ک دلیل قراردیا کریں گے ۔
لکنا ھواللہ بی ولا اشرک بربی احدً٭
(تمہاراتویہ حال ہے )لیکن (میں تویہ کہتاہوں کہ)حق تویہ ہے ۔کہ اللہ (تعالیٰ)ہی میرارب ہے اورمیں کسی کو(بھی )اپنے رب کاشریک نہیں بناتا۔۳۴ ؎
۳۴؎ تفسیر ۔یعنی میراسہارااوراطمینان اپنی تدبیر پر نہیں مجھے توجوکچھ دے گا خداتعالیٰ ہی دے گا۔ہمارے پاس توکچھ بھی نہی ہے ۔اورہمیں اسی نہ ہونے پر فخر ہے کہ تازہ بتازہ خداتعالیٰ کے نشانات دیکھتے رہتے ہیں۔ولااُشرک بربی احداً میں کیالطیف بات بیان فرمائی ہے۔کہ خداتعالیٰ نے تم کودیاہے ۔اورپھر تم اسکے ساتھ شریک ٹھیراتے ہو ۔لیکن خداتعالی نے مجھے دناکامال نہیں دیا ۔پھر بھی میں اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ٹھہراتا ۔یعنی شبہ تومجھے ہوسکتاتھا ۔کہ شائددوخداہوں ۔کہ تمہارے خدانے تم سے حسن سلوک کیا ۔اورمیرے خدانے نہ کیا ۔مگر میں غربت میں بھی ایک ہی خداکا ماننے والاہوں ۔
ولولااذدخلت جنتک قلت ماشاء اللہ لاقوۃ الاباللہ
اورجب تواپنے باغ میں آیاتھا توکیوں نہ تونے کہا (کہ وہی ہوگا)جواللہ(تعالیٰ)چاہے گا(کیونکہ )اللہ (تعالیٰ)ہی (کے فضل)
ان ترن انا اقل منک مالاًوولدا٭
سے ہر ایک قوت (حاصل ہوتی )ہے ۔اگرتومجھ (ناچیز)کواپنی نسبت مال اوراولاد میں کم سمجھتاہے توبالکل ممکن ہے ۳۵؎
۳۵؎ تفسیر ۔مسلمان کے دل میں پھر بھی ہمدردی ہے ۔وہ اسے کہتاہے کہ کیوں تونے باغ میں داخل ہوتے ہوئے یہ نہ کہا ۔کہ سب قوت اللہ یتعالیٰ کوہی ہے ۔اوراپنے آپ کوطاقتورسمجھا ۔
یہ جوفرمایا ہے مَاشَاء اللہُ اس میں ما موصولہ ہے ۔اوراس سے پہلے مبتداء محذوف ہے ۔جوالامر کالفظ ہے اورترجمہ یہ ہے کہ جب توباغ می داخل ہواتھا تونے یہ کیوں نہ کہا کہ ہوتاوہی ہے جو اللہ چاہتاہے ۔
اِنْ تَرَنِ اَنَا اَقَلَّ مِنْکَ مَالاً وَّوَلَدًا۔اس جملہ کامضمو ن اگلی آیت سے مل کرمکمل ہوتاہے ۔اوردرحقیقت یہ دونوں آیتیں مل کر پورامطلب دیتی ہیں ۔شرط تواس آیت میں بیان ہوئی ہے اورجزااگلی آیت میں ۔
فعسٰی ربی ان یوتین خیرامن جنتک ویرسل علیھا
کہ میرارب مجھے تیرے باغ سے کوئی بہتر(باغ ) دے دے ۔اوراس (تیرے باغ)پراوپر سے کوئی آگ
حسبانامن السماء فتصبح صعیدازلقا٭
کاشعلہ گرائے ۔جس کی وجہ سے وہ ایک صاف اورچٹیل میدان ہوجائے ۳۶؎
۳۶؎ حل لغات ۔حُسْبَانًا:حسبان ۔حَسبَ (یَحْسِبُ)کامصدر ہے ۔حَسَبَہٗ کے معنی ہیں۔عَدَّہٗ اسے شمار کیا ۔اورحُسبان کے معنی ہیں الحسابُ حساب کرنا ۔العذابُ۔عذاب ۔البلاوالشرّ۔آفت مصیبت ۔العجاج ۔غبار۔الجراء۔ٹڈی دل ۔النار۔آگ (تاج) صعیداً کے معنی کے لئے دیکھو سورۃ ہذا۵؎
زَلقًا۔الزَّلقُ۔موضع الزلق لایثبت علیہ قدم پھسلنے کی جگہ جہاں پائوں جم نہ سکے ۔ارضٌ زلقٌ ای ملعالیس بھاشیٌ۔چٹیل میدان بے آب وگیاہ زمین (اقرب)
تفسیر ۔اس آیت میں بھی جنت کا لفظ جوایک باغ پر دلالت کرتاہے استعمال ہواہے ۔اوراس کے بعد یُرْسِل علیھا فرمایا ہے علیھما نہیں فرمایا ۔کیونکہ ایک باغ اسلامی زمانہ سے پہلے ہلاک ہوچکاتھا اس پر فخر تواس رنگ می تھا ۔جیسے کہ لوگ اپنے آباء کی بڑائی پر فخر کرتے ہیں۔اصل فخر موجودہ زمانہ کے باغ پرہے ۔اس لئے فرمایا کہ اگر تومجھے ادنیٰ حالت میں دیکھتا ہے اوراس پرنازاں نہ ہو ۔کیونکہ یہ بات ناممکن نہیں ۔کہ میرارب تیرے باغ سے بہتر باغ مجھے دے دے ۔اورصرف یہی نہیں بلکہ آسمانی عذاب نازل کرکے تیرے باغ کو جلادے ۔اورتیرے ہمیشہ حکومت کر نے کے عاوی دھرے کے دھرے رہ جائیں ۔
اس جگہ صعیداًزلقاکے الفاظ آئے ہیں ۔یہ وہی لفظ ہیں جو شروع سور ۃ میں خداتعالیٰ کابیٹابنالینے والوں کی نسبت آچکے ہیں جس سے ظاہرہوگیا ۔کہ اس قوم کے متعلق اس جگہ مثال بیان کی گئی ہے ۔
مِنَ السماء میں یہ بتایا ہے ۔کہ زمینی تدابیر سے اس قوم کامقابلہ نہ ہوسکے گا چنانچہ یاجوج ماجوج کے متعلق جومسیحیت کی دنیاوی ترقی کے دوظہور ہیں لکھا ہے کہ لَایدانِ لاحدٍ بِقِتَالِھِمْ (مسلم جلد ۲باب ذکرالدجال) کہ ان سے لڑنے کی کسی کوطاقت نہ ہوگی ۔ان کامقابلہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوگا ۔
اویصبح ماؤھا غورافلن تستطیع لہ طلبا٭
یااس کاپانی خشک ہوجائے (اور)پھراتواسکی تلاش کی (بھی)طاقت نہ پائے (چنانچلہ ایساہی ہوا) ۳۷؎
۳۷؎ حل لغات ۔غوراً۔غارالمائُ غوراً کے معنی ہیں ذھب فی الارض وسفل فیھا پانی زمین میں جذب ہوکر نیچے چلاگیا۔الغورُ غار کامصدر ہے ۔نیز اس کے معنی ہیں المائُ الغائر ایساپانی جو زمین میں جذب ہوکر خشک ہوگیاہو(اقرب)
تفسیر ۔اس آیت سے ظاہرہوگیا کہ نھر سے مراد مسیحی باغ کاپانی نہ تھا ۔کیونکہ اس آیت کی نسبت فرماتا ہے کہ اس کے باغ کاپانی زمین ہی میں غائب ہوجائے ۔اورنہروںکاپانی زمین میں غائب نہیں ہوتا ۔بلکہ باہر سے آتاہے ۔پس ا ن باغوں کاپانی الگ تھا ۔ جوان باغوں میں موجود تھا ۔اورا سکے زمین میں ہی غائب ہوجانے کی خبر دی گئی ہے یعنی اس قوم کی اندرونی طاقتیں تبا ہ ہوجائیں گی اوروہ ذہنی قوتیں جو پہلے باغوںکو آباد کرنے کاموجب تھیں۔خشک چشموں کی طرح ہوکر باغ کے اجڑنے کاموجب بن جائیں گی ۔
واحیط بثمرہ فاصبح یقلب کفیہ علی ماانفق فیھا وھی
اوراس کے (تمام )پھلو ں کوتباہ کردیاگیا ۔اوروہ اس حال می کہ وہ (یعنی باغ)اپنی ٹٹیوں پر گراہواتھا اس (مال)پرجو اس نے اس
خاویۃ علی عروشھا ویقول یلیتنی لم اشرک بربی احداً٭
(باغ کی ترقی)کے لئے خرچ کیاتھا ۔اپنے دونوں ہاتھ ملنے لگا ۔اورکہنے لگا(کہ )اے کاش میں کسی کو اپنے رب کاشریک نہ بناتا ۳۸؎
۳۸؎ حل لغات ۔اُحیطُ بِثمرہِ:احیط کے معنی ہیں ۔دناھلاکُہ۔اس کی ہلاکت کاوقت آپہنچا ۔(اقرب)نیز جب محاورہ بولیں ۔ اَلسَّنۃُ الجدیدۃ تُحیطُ بالاموال تواس کے یہ معنی ہوتے ہیں ۔تُھْلِکُھَا کہ قحط سالی مالو ں کوتباہ کردیا (تاج)س احیط بثمرہ کے یہ معنی ہوں گے کہ اسکے پھل کوتباہ کردیا ۔
اَصْبَحَ یُقَلِّبُ کَفّیہ۔اَی یتندَّم جب اصبح یُقلِّبُ کامحاور ہ بولیں تویہ مراد ہوتی ہے کہ وہ نادم ہوگیا(اقرب)
خاویۃٌ ۔خَویَ یَخْوَی یاخوی یَخْوِیْ سے اسم فاعل مؤنث کاصیغہ ہے ۔خوت الدار ُ کے معنی ہیں اورت سقطت وتھدَّمَتْ مکان اجڑ گیا ۔گرگیا منہدم ہوگیا ۔خویت الدار ُ کے معنی ہیں خَلَتْ من اھلھا گھر رہنے والوں سیخالی ہوگیا (اقرب)
عروشٌ۔عَرْشٌ کی جمع ہے اورالعرشُ من البیت کے معنی ہیں سقفہ گھر کی چھت (اقرب)پس خاریۃٌ علی عروشھا کے معنی ہوں گے ۔کہ وہ اپنی چھتوں پر گراہواتھا ۔
تفسیر ۔احیط بثمرہ یعنی جونتائج پہلے ان کی محنتوں کے نکلے تھے پھر نہ نکلیں گے ۔اوروہ افسوس کرنے لگ جائیں گے کہ اس قدر روپیہ خرچ کرکے جوسامان تیار کئے تھے ۔اب کسی کام کے نہیں رہے ۔جواقوام دینی شان وشوکت پر روپیہ خرچ کرتی ہیں ان کے اند ر تباہی کے وقت حسرت پیداہوتی ہے ۔کیونکہ وہی عمارتیں جن پر وہ فخر کرتے تھے ۔اب ان کی مرمتیں بھی ان کے لیء مشکل ہوجاتی ہیں ۔لیکن جوقومیں اپنے اموال اپنی قوم کی علمی اوراخلاقی ترقی کے لیء خرچ کرتی ہیں ۔ان کاخرچ ان کے لئے کبھی حسرت کا موجب نہیں ہوتا ۔وھی خاویۃٌ علی عروشھا کہہ کر بتایا کہ ان میں بڑی بڑی عمارتیں تیارکرنے کامرض ہوگا۔وھی خاویۃٌ علی عروشھا باغ کے لئے نہیں آسکتا ۔
اس وقت ان میں افسوس پیداہوگاکہ کیوں شرک کیا اوتوحید کوقبول کرکے اورناصح کی نصیحت کومان کر ہم اس عذاب سے نہ بچ گئے ۔
خاویۃٌ علی عروشھا میں ا س طرف بھی اشارہ ہے کہ ان پرایسے عذاب آئیں گے کہ شہر برباد ہوجائیں گے اورعمارتیں گرادی جائیں گی ۔
ولم تکن لہ فئۃ ینصرونہ من دون اللہ وماکان منتصرا٭
اور(اس وقت )کوئی جماعت بھی اس کے ساتھ نہ ہوئی جواللہ (تعالیٰ)کوچھوڑ کر اس کی مددکرتی ۔اورنہ وہ (اس کاکوئی )انتقام ہی لے سکا ۳۹؎
۳۹؎ حل لغات ۔الفئۃ۔الطائفۃ۔گروہ ۔الجماعۃ ۔جماعت (اقرب)
مُنْتَصِرٌ۔اِنْتَصَرَ سے اسم فاعل کاصیغہ ہے ۔اورانتصر کے معنی ہیں اِنْتَقَم منہ اس سے انتقام لیا ۔انتصر علیہ استظھر اس پر غالب آیا (اقرب) پس منتصرٌ کے معنی ہیں انتقام لینے والا۔
تفسیر ۔یعنی اس قوم کو مسیح کی تائید پر بہت بھروسہ ہوگا۔لیکن اس دن مسیح بھی ان کی کوئی مدد نہ کرسکیں گے ۔
ھنالک الولایۃ للہ الحق ط ھوخیر ثواباوخیر عقبا٭
اس موقعہ پر مد داللہ (تعالیٰ)کی ہی(مفید)ہوتی ہے ۔جومعبودحقیقی ہے ۔اور وہ بدلہ دینے میں(بھی)سب سے اچھا ہے اور(اچھا) انجام (پیداکرنیکی)روسے بھی سب سے اچھا ہے ۴۰؎
۴۰؎ تفسیر ۔اس آیت سے صاف ظاہرہوگیا ۔کہ اس جگہ پیشگوئی کاذکر ہے ۔کیونکہ فرماتاہے ۔اس موقعہ پر حکومت اللہ تعالیٰ ہی کی ہوجائے گی اوروہ ان لوگوں پر فضل کرے گا جواس کے موحد بندے ہوں گے ۔اوردنیا کی بجائے آخرت کی طرف توجہ کرنے والے ہوں گے ۔
واضرب لھم مثل الحیوۃ الدنیا کماء انزلنہ
اورتو ان کے سامنے اس ورلی زند گی کی حالت(بھی کھول کر )بیانکر(کہ وہ )اس پانی کیطرح (ہے)جسے ہم نے بادل سے برسایا
من السماء فاختلط بہ نبات الارض فاصبح ھشیما تذروہ
پھر ا س میں زمین کی روئیدگی مل گئی ۔پھر(آخر)وہ (بھوسے کا)چورابن گئی ۔جسے ہوائیں اڑاتی (پھر تی) ہیں
الریح ط وکان اللہ علی کل شیئٍ مقتدرا٭
اوراللہ (تعالیٰ)ہربات پر خوب قدر ت رکھنے والا ہے ۴۱؎
۴۱؎ حل لغات ۔اِختلط بہٖ۔کے معنی ہیں اِمْتَزَجَ مل گیا (اقرب)
الھشیمٌ۔ھشیم کے معنے ہیں المھشوم ٹوٹاہوانبتٌ یابسٌ متکسرٌ خشک شکستہ پودہ یابس کلُّ کلاٍ وشجرٍ۔ہرخشک گھاس ودخت (اقرب)
تَذْرُوْہُ :ذَرَاسے مضارع مونث غائب کاصیغہ ہے۔اورذرت الریح التراب کے معنی ہیں فرتتہ واطارتہ واذھبتہُ ہوانے مٹی کواڑاکربکھیردیا (اقرب)پس تذروہ کے معنے ہوں گے اسے ہوائیں اڑاتی ہیں ۔
مُقْتَدِرًا:اِقتدر(جوقدرسے نکلاہے )سے اسم فاعل ہے اِقتدرَ علیہ کے معنی ہیں قَوِیَ علیہ وتمکّن منہ ۔اس پر پوری قدرت پائی ۔اس پر قابو پالیا (اقرب)پس مقتدرًا کے معنی ہوں گے خوب قدرت والا ۔
تفسیر ۔اس زندگی کی مثال میں اسابق تمثیل کے مضمو نکو ایک اورتمثیل سے واضح فرمایاگیا ہے ۔فرماتاہے کہ دنیوی زندگی پہلے نہایت خوبصورت نظرآتی ہے ۔مگراس اکاانجام بڑابدنماہوتاہے ،۔اوراس کے بالمقابل دینی زندگی پہلے بظاہر بدنماہوتی ہے۔مگر اس کاانجام نہایت خو ش شکل ہوتاہے ۔
جب مادی پانی آسمان سے اترتاہے توکس قدر سبزی اس سے پیداہوتی ہے ۔اورٹہنیاں کثرت کی وجہ سے ایک دوسری میں گھس جاتی ہیں ۔لیکن پھر سبزہ خشک ہوکر ہوامیں اڑتاپھر تاہے ۔لیکن اس کے مقابل پر روحانی پانی سے جوکھیتی تیا رہوتی ہے ۔و ہ کبھی بھی خشک نہیں ہوتی ۔بظاہر اس مثال پر یہ ااعتراض پڑتاہے ۔کہ کھیتی توخشک ہوکر ہی کھانے کے کام آتی ہے ۔مگراس جگہ کھانے والے کی تمثیل نہیں دی ۔کھیتی کی تمثیل دی ہے ۔بتایاہے کلہ دنیاوی ترقی کے وقت قومیں بہت لہلہاتی نظر آتی ہیں ۔مگرزوال کے وقت ان کوکوئی پوچھتابھی نہیں ۔اس کے برخلاف جوقومی دین کی طر ف توجہ کرتی ہیں۔اگلے جہان میں توان کوعزت ملے گی سوملے گی ۔اس دنیا میں بھی ان کی عزت ہمیشہ قائم رہتی ہے ۔نوح کی کوئی قوم باقی نہیں۔مگردیکھو نوح کی آج بھی عزت ہے ۔یہی حال ابراہیم کاہے ۔ یہودی ذلیل ہوئے ہیں مگرموسیٰ کی عزت بدستورہے ۔قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی دیناوی فتوحات جاتی رہیں ۔لیکن ان کی دینی خدمات کی وجہ سے آج بھی ان میں سے ادنیٰ سے ادنیٰ کے نام پر جانیں قربا نکرنے والے لوگ موجود ہیں ۔
المال والبنون زینۃ الحیوۃ الدنیا والبٰقیٰت الصالحت خیر عند ربک ثواباً وخیرٌ املا٭
مال اوربیٹے اس ورلی زندگی کی زینت ہیں۔ اورباقی رہنے والے نیک (اورمناسب حال )کام ہی جوان چیز وں سے لئے جائیں)تیرے رب کے نزدیک بدلہ کے لحاظ سے(بھی)بہترہیں ۔اورامید کے لحاظ سے (بھی)بہتر ہیں ۴۲؎
۴۲؎ حل لغات ۔اَلْاَمَلُ۔کے لئے دیکھو رحجر ۴؎
تفسیر ۔اس جگہ پر بھی تشریح فرمادی کہ نبات الار ض سے کیامراد ہے ۔پہلی تمثیل میں باغ بیان کرکے اس کی تشریح میں اس صاحب الجنۃ کایہ قول بیان کیاتھا انا اکثر منک مالًاواعزُّ نفراً کہ میرے پاس مال زیادہ ہے۔اورمیری تعداد بھی زیادہ ہے ۔اس جگہ پر نبات الارض بیان فرماکر اس کی تعبیر میں فرمایا۔المال والبنون زینۃ الحیوۃالدنیا ۔جس سے ظاہر ہے کہ جنت سے یہی مراد تھی ۔
اس آیت میں بتایاہے کہ مال اوراولاد بے شک دنیاکی زینت ہیں لیکن اگرانہیں صحیح طورپر استعمال کیاجائے یعنی دین میں مال خرچ ہو ں۔اوردین کی خدمت کے لئے اولاد لگادی جائے ۔توپھر اللہ تعالیٰ ان کوبھی دوام بخش دیتاہے روپیہ خرچ ہوجاتاہے لیکن اس کانیک اثر باقی رہ جاتا ہے اولاد مرجاتی ہے لیکن ان کاذکر خیر بھی باقی رہ جاتاہے ۔اوران کی وجہ سے ان کے ماں باپ کاذکر خیر بھی زندہ رہتاہے ۔
اَلبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ کُلُّ عَمَلٍ صَالِحٍ نیک اوراچھے کام باقیات صالحات کہلاتے ہیں ۔
خیرٌ عند ربک ثواباً وخیرٌ املاً اس کے دومعنی ہیں (۱)نیک کام کادنیامیں نتیجہ نکلتاہے اوراس کے متعلق آئندہ بھی اچھی امیدیں ہوتی ہیں ۔گویاثواباً دنیاکے نتیجہ کے متعلق ہے ۔اوراملاً آخرت کے متعلق ہے ۔(۲)ثوابا ً سے مراد خود اس عمل کرنے والے کی ذات کے متعلق بہترنتائج کاپیداہونا ہے۔اوراملاًسے مراد آئندہ نسل کے لئے بہترین امیدوںکاہوناہے۔مطلب یہ کہ نیک کاموں کانتیجہ تم کو بھی نیک ملے گا۔اورتمہاری اولادوں کو بھی کیونکہ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ و ہ نیک کی اولاد کوبھی فائدہ پہنچاتاہے ۔
ویوم نسیرالجبال وتری الارض بارزۃ وحشرنھم فلم نغادر منہم احدا٭
اور(اس دن بھی ان کے بہترنتائج نمودار ہوںگے)جس دن ہم ان پہاڑوں کو (اپنی اپنی جگہ سے)چلادیں گے اورتوسب (اہل) زمین (کوایکدوسرے کے مقابلہ میں)نکلتاہوادیکھے گا۔اورہم ان (سب)کواکٹھاکریں گے اوران میں سے کسی کو( بھی باقی) نہیں چھوڑیں گے ۴۳؎
۴۳؎ حل لغات ۔بارزۃٌ:بَرَزَ(یبرزُ۔بردزًا)سے اسم فاعل مونث کاصیغہ ہے ۔برزکے معنی ہیں خرج نکل آیا (اقرب)پس بارزۃ کے معنی ہوں گے نکلنے والی ۔
حشرناھم حشر سے جمع متکلم کاصیغہ ہے اورحشر کے لئے دیکھو سورئہ حجر ۲۵؎
لم نغادر:نُغادر ۔غادر سے جمع متکلم کاصیغہ ہے ،۔اورغادرَ کے معنی ہیں ترکَہٗ وَاَبقَاہ اس کوچھوڑ دیا ۔اورباقی رکھا (اقرب)پس لما نغادر کے معنی ہوں گے کہ ہم باقی نہیں رکیں گے ۔ہم نہیں چھو ڑیں گے ۔
تفسیر ۔جبل کے معنی بڑے پہاڑ کے بھی ہوتے ہیں اورسیّرکے معنی چلانے کے ۔اس جگہ جبال سے مراد بڑے لوگ ہی ہیں ۔کیونکہ اس جگہ آدمیوں کاذکر ہے پہاڑوں دریائوںکاذکر نہیں ۔اوبتایاگیا ہے کہ یہ سب پیشگوئیاںاس دن پوری ہوںگی ۔جب بڑے بڑے لوگ جنگوں کے لئے نکل کھڑے ہوں گے ۔اورتوساری زمین کو یعنی سب اہل زمین کودیکھے گاکہ جنگ کے لئے ایک دوسرے کے مقابل پر کھڑے ہوجا ئیں گے اورایسی جنگ ہوگی کہ گویا ان میں سے ایک بھی نہ بچے گا۔
اس واقعہ کیطرف انجیل میں بھی اشارہ ہے ۔حضر ت مسیح فرماتے ہیں کہ آخری زمانہ میں قوم قو م پر اوربادشاہت بادشاہت پر چڑھائی کرے گی ۔‘‘(متی باب ۲۴آیت ۷)
الارض سے مراد اہل ارض(اہل زمین)ہیں ۔عربی زبان کامحاورہ ہے کہ بعض دفعہ مضاف کو محذوف کردیاجاتاہے جیسا کہ سورئہ یوسف میں آتاہے وَاسْئَلِ القریۃ الَّتِی کُنَّافیھاوالعیرَ الَّتی اَقْبَلْنَافیھا۔یاں القریۃ اورالعیر سے مراد اہل قریہ اوراہل عیر ہیں ۔ہوسکتاہے کہ الارض سے ادنیٰ طبقہ کے لوگ مراد ہوں ۔اورالجبال سے مراد بڑے لوگ یادوسرے لفظوں میں ڈکٹیٹر نکلیں گے ۔اوردوسری طرف سے ارض یعنی ڈیماکریسز کے حامی اورحکومت عوام کے نمائندے نکلیں گے ۔اورآپس میں خوب جنگ ہوگی ۔
حشرنٰھم ۔حَشَر کے معنی کھڑاکردینے کے ہوتے ہیں ۔اورحشر لشکر کے لئے بھی آتاہے۔کیونکہ وہ بھی سامنے کھڑاہوتاہے ۔فرمایاہم ان سبکو ایک دوسرے کے مقابل پر کھڑاکردیںگے اورسب کوسزادیں گے ۔
وعرضواعلی ربک صفّاً ط لقد جئتموناکما خلقنٰکم اول
اوروہ صف باندھے ہوئے تیرے رب کے سامنے پیش کئے جائیں گے (اوران سے کہاجائیگاکہ )تم (اب)یقینا( اسی طرح بحالت ناچارگی )ہما رے پاس آئے ہو جسطرح (کی حالت میں )ہم نے تمہیں پہلی بارپیداکیاتھا
مرۃ بل زعمتم الن نجعل لکم موعدا٭
(اورتم یہ امید نہیں رکھتے تھے )بلکہ تمہیں دعویٰ تھا کہ ہم تمہا رے لئے کوئی وعدہ (کے پوراہونے)کی ساعت مقررنہیں کریں گے ۴۴؎
۴۴؎ تفسیر ۔و ہ اپنے رب کے حضور صفیں باندھ کر کھڑے کئے جائیں گے ۔یعنی اللہ تعالیٰ کافیصلہ ان کے متعلق جاری کیا جائے گا خداکے حضور پیش ہونے میں باطنی صفیں باندھنا ہی مراد ہے ظاہری صفوں کاہونامرا دنہیں ۔جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کی تباہی کافیصلہ کرتا ہے تووہ اس کی قیامت ہی ہوتی ہے ۔
لقد جئتموناکماخلقنٰکم اوَّل مرَّۃٍ بل زعمتم الن نجعل لکم موعداً تم ہمارے پاس آئے ہو۔جیساکہ ہم نے تم کو پہلی مرتبہ پیداکیا تھا ۔یعنی پھر تم ماتحت ہوگئے ہو کیاتمہاراخیال تھا کہ ہم نے تمہارے لئے کوئی وعدہ مقرر نہیں کیاتھا ۔یعنی تمہاری تباہی کاوقت مقرر نہ تھا ۔
اس آیت سے بھی ظاہر ہے کہ یہ دوسری تمثیل پہلی کی شرح ہے۔کیونکہ پہلی تمثیل میں بھی یہ کہا گیاتھا ۔مااظنّ ان تعید ھٰذہٖ ابدً۔
ووضع الکتاب فتری المجرمین مشفقین مما فیہ ویقولون
اور(ان کے اعمال کی )کتاب (ان کے سامنے )رکھ دی جائے گی ۔پس (اے مخاطب)توان مجرموں کو اس کی وجہ سے جواس میں
یویلتنامال ھٓذ االکتاب لایغادر صغیرۃ ولاکبیرۃ الا
(لکھا)ہوگا۔ڈرتے دیکھیگا۔اور(اسوقت )وہ کہیں گے کہ اے (افسوس)ہمار ی تباہی (سامنے کھڑی ہے )اس کتاب کوکیا (ہوا)
احصھا ووجدواماعملو احاضراً ط ولایظلم ربک احد ا٭
ہے (کہ )نہ کسی چھوٹی بات کو اس کااحاطہ کئے بغیر چھوڑتی ہے اورنہ کسی بڑی بات کو اورجوکچھ انہوں نے کیا (ہوا)ہوگا۔اُسے (اپنے سامنے )حاضرپائیں گے ۔اورتیرارب کسی پ رظلم نہیں کرتا ۔ ۴۵؎
۴۵؎ حل لغات ۔مُشفقین:اَشفَقَ سے اسم فاعل مشفقٌ آتاہے ۔اورمشفقون اس کی جمع ہے اشفق علیہ کے معنی ہیں۔ خافَ وحاذَر۔ڈرااوراس نے بچائوکیا (اقرب)
اَحْصٰھَا۔اَحصیٰ الشیئَ احصاًء کے معنی ہیں عدَّہ اسے شمار کیا (اقرب)
تفسیر ۔وضع الکتاب ۔کتا ب کے رکھاجانے کے معنی یہ ہیں ۔کہ وہ ان میں جاری ہوجائے گی ۔یعنی اس کافیصلہ نافذ ہوجائے گا۔وَضعنا السیفَ فیھم کے معنی ہوتے ہیں کہ تلوار نے ان میں اپناکام کرناشروع کردیا ۔یعنی خوب قتل کرنے لگ گئی ۔
فَتَرَی المجرمین ۔یعنی ان اقوام کے دل سے وہ خیال مٹ جائے گاکہ ہماری حکومت ہمیشہ رہے گی بلکہ دلوں میں ڈرپیداہوجائے گا۔کہ جس تہذیب پر ہم کو اس قدرناز تھا وہ تباہ ہونے کوہے ۔یٰویلتنا مالِ ھٰذاالکتاب سے اس طرف اشار ہ ہے ۔ کہ تمام گزشتہ غلطیوں کی سز اایک ایک کرکے ملنی شروع ہوجائے گی ۔اوران کے دل محسوس کریں گے کہ ا س دنیاکاحاکم خداہے ۔جوانسانی اعمال کو بغیر نتیجہ کے نہیں چھوڑتا اوروہ سب اپنے اعمال کانتیجہ بھگتیں گے۔
آخر میں یہ بتایاکہ گوانجام بڑاتلخ ہوگا ۔مگریہ خداتعالیٰ کی طرف سے ظلم نہ ہوگا۔بلکہ اعمال کے مطابق جزاہوگی ۔
وا ذ قلنا للملئکۃ اسجدوالادم فسجدواالاابلیس ط کان
اور(اس وقت کو بھی یاد کرو)جب ہم نے فرشتوںکوکہاتھا(کہ )تم آدم کیساتھ(ساتھ)سجد ہ کروتوانہوںنے (تواس حکم کے مطابق )سجدہ کیا ۔مگرابلیس نے (نہ کیا )وہ تھا
من الجن ففسق عن امر ربہ ط افتتخذونہ وذریتہ اولیآء
جنوں میں سے پھراس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی ۔توکیا تم مجھے چھوڑ کر اسے اوراس کی نسل کو (اپنے )دوست بناتے ہو ۔
من دونی وھم لکم عدو بئس للظلمین بدلا٭
حالانکہ و ہ تمہارے دشمن ہیں ۔ظالموں کے لئے وہ (یعنی شیطان خداتعالیٰ کا)بدل ہونے کے لحاظ سے بہت ہی بُراہے ۴۶؎
۴۶؎ حل لغات ۔لاٰدم ۔ل بمعنی مع ہے ۔تفصیل کے لئے دیکھو سورئہ بنی اسرائیل ۱۶۲؎
اسجدوا۔سَجَد سے جمع کاصیغہ ہے ۔تشریح کے لئے دیکھو حجر ۲۷؎ ابلیس کے لئے دیکھورعد ۲۸؎
الجنّ کے لئے دیکھو حجر ۲۶؎ فَسَقَ کے لئے دیکھو یونس ۳۴؎ بدلاً۔البدل کے معنی ہیں العوض۔بدلہ ۔الخلف ۔قائمقام (اقرب)
تفسیر ۔قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر جہاں کسی ایسی تباہی کاذکر ہو ۔جومامورکی نسبت دنیا پر آئی ہو ۔وہاں آدم کے واقعہ کا ذکر بھی کیا جاتاہے ۔اس سے لوگوںکو اس طرف توجہ دلانامقصود ہوتاہے کہ اے لوگو تم سے پہلے آدم کاواقعہ گذر چکا ہے ۔اس سے فائدہ حاصل کرو۔اورشطان کواپنا دوست نہ بنائو ۔
اس آیت کے ذریعہ گویا لوگوں کوہوشیار کیاگیا ہے کہ مسلمانوںکواوردوسری قوموں کوہوشیار رہناچاہیئے ۔کہ پہلے بھی شیطان نے آدم کو گمراہ کرنا چاہا تھا ۔اوروہ شیطان کے پیچھے چل پڑے تے ۔مگر اے آدم کی ذریت تم ہوشیار رہنا اورشیطانی آواز کی اطاعت نہ کرنا ۔
مااشھدتم خلق السموات والارض ولاخلق انفسھم وماکنت متخذ المضلین عضدا٭
میں نے انہیں نہ آسمانوں اورزمین کی پیدائش( کے موقعہ)پرحاضرکیاتھا ۔اورنہ (خود )ان کی (اپنی )جانوں کی پیدائش کے موقعہ پر اورنہ ہی میں گمراہ کرنے والوںکو(اپنا )مددگاربناسکتاتھا ۔ ۴۷؎
۴۷؎ حل لغات ۔عَضُدٰا:اَلْعَضُدُ مابین المِرْفَقِ الی الکتِفِ کہنی سے کندھے تک بازوکے حصہ کو عضد کہتے ہیں ۔ویستعارا العضدُ لِلمُعِین ۔استعارۃ مددگار اورمعاون کو بھی عضد کہتے ہیں (مفردات )
تفسیر ۔مااشْھَرْتُّھُمْ کی ضمیر شیطان اوراس کی ذریت ک طرف جاتی ہے اوراس میں یہ بتایاگیا ہے ۔اے لوگوتم شیطان کو کیا اس لئے دوست بناتے ہوکہ اس سے ترقی کرلوگے ۔حالانکہ تمہاری پیدائش میں اس کاکوئی دخل نہ تھا ۔اورنہ اسکاکوئی حصہ زمین و آسمان کی پیدائش میں تھا ۔بلکہ انسان کی تما م قوتیں نیکی کی خاطرپیداکی گئی تھیں ۔اوراللہ تعالیٰ گمراہ کرنے والوںکواپنا ساتھی اورخدمت گار نہیں بناسکتا ۔پس دنیا میں اگرکوئی قوم جو خداتعالیٰ س یدور ہو ترقی بھی کرجائے توکبھی یہ نہ خیال کرناچاہیئے ۔کہ اللہ تعالی دنیا کاکام اب اس کے ہاتھ میں دیدے گا۔اللہ تعالیٰ تودنیا کی حکومت اپنے ہاتھ میں رکھتاہے اوررکھے گا ۔ایسے لوگوں کی کامیابیاں تومحض عارضی ہوتی ہیں اورخداتعالیٰ پھر انسان کو نیکی کی طرف لے جاتاہے ۔
اس آیت پر ذراسا تدبّر کرنے سے معلوم ہوسکتا ہے کہ اس میں ایک عظیم الشان مضمون بیان کیاگیاہے گزشتہ مضمون بتارہاہے ۔کہ شیطان یا اس کی ذریت کو زمین و آسمان کے پیداکرنے میں کوئی دخل حاصل ہونا توالگ رہا انکو اس سے کوئی دور کاتعلق بھی نہیں ہے ۔ پس صاف معلوم ہوتا ہے کہ جس زمانہ کااس آیت میں ذکر ہے ۔اس میں بعض آدم کے مخالف یادین سے بے بہر ہلوگ ایک نئی دنیاکے بسانے مدعی ہوں گے اورکہیں گے کہ وہ اپنے زورسے ایک نئی دنیا بسائیں گے ۔اورایک نیانظام قائم کریں گے ۔اللہ تعالیٰ اس کاجواب دیتاہے اورفرماتاہے ۔کہ کیاکبھی پہلے ایساہواہے کہ نئی دنیا اورنیا نظام بنانے میں اللہ تعالیٰ نے شیطان اورا سکی ذریت کی مدد لی ہو ۔اگرپہلے کبھی ایسانہیں ہوا۔توآئندہ کس طرح ممکن ہے ہمیشہ نئی دنیا اورنیانظام اللہ تعالیٰ آدم اورفرشتوںکے ذریعہ سے بنایاکرتاہے ۔پس اب بھی اسی طرح ہوگ ا۔نیانظام اورنئی دنیا بھی آدم ہی کے ذریعہ سے بنائے جائیں گے ۔اورانسان کی تخلیق یعنی بنی نوع انسان کے اندر جو خرابیاں پیداہوجائیںگی ۔ان کی اصلاح کرکے انسان کو ازسرنودرست کرنے کاکام بھی دنیاوی تدابیر سے نہ ہوسکے گا بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدیم سنت کے ماتحت ہوگا۔
قرآن کریم کا یہ کتنا بڑامعجز ہ ہے ۔تیرہ سوسال پہلے اس نے ان اصطلاحات تک کو بیا ن کردیا ہے جو آخری زمانہ میں استعمال ہونے والی تھی ۔
‏NEW WORLD اور NEW ORDER کاذکر کن خوبصورت الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے کردیاہے ۔اورکس طرح اس کابھی جواب دے دیا ہے ۔کہ آج تک نئی دنیا او رنیانظام آدم کے مخالفوں کے ہاتھ سے خداتعالیٰ نے تیار نہیں کروایا ۔بلکہ ہمیشہ آدم اورفرشتوں کے ہاتھ سے کروایا ہے ۔اسی طرح اب ہوگا ۔
ویوم یقول نادواشرکآء ی الذین زعمتم فدعوھم فلم
اور(اس دن کوبھی یاد کرو )جس دن و ہ(یعنی خدائے برتر۔مشرکوں کو)کہے گا (کہ اب )تم میرے (ان )شریکو ںکوبلائو جن کے
یستجیبوالھم وجعلنا بینھم موبقاً٭
(شریک ہونے کے)متعلق تم دعوے کرتے تھے ۔جس پر وہ انہیں بلائیں گے مگر وہ انہیں (کوئی )جواب نہیں دیں گے ۔اوران کے (او ر ان کے شریکوںکے)درمیان ہم ایک آڑ(حائل)کردیں گے ۴۸؎
۴۸؎ حل لغات ۔موبقاً۔وَبَقَ۔یُوبقُ۔کامصدر یااسم ظرف ہے ۔وَبَقَ کے معنی ہلاک ہون کے ہیں ۔موبق مصدرکے معنی کسی مصیبت میں پھنس کرہلاک ہونے کے ہیں ۔اوراگرظرف ہوتوا سکے مندرج ذیل معنی ہوں گے اَلْمھلَکُ ۔ہلاکت کی جگہ ۔الموعِدُ۔وعدہ کی جگہ ۔المحبِسُ۔قید خانہ ۔کل شیء حال بین شیئین ہرایسی چیز جودوچیز وں کے درمیان آڑ ہوجائے ۔وقیل مسافۃ تھلک فیھا الابعدھا ۔بعض نے ا سکے معنی دشوا رگزارسفر کے کئے ہیں ۔(اقرب)
تفسیر ۔یعنی اس وقت اپنے معبودان باطلہ کوبلائیںگے کبھی اپنے اولیاء کو پکاریں گے جن کوشفاعت کاذریعہ خیا ل کرتے ہیں ۔کبھی حضرت مسیح کوپکار یںگے کبھی ان کی والدہ کو ۔لیکن ان میں سے کوئی ان کی دعانہیں سنے گا۔
وجعلنا بینھم موبقاً۔کے معنی علاوہ اورمعنوں کے پرد ہ اورروک کے بھی ہوتے ہیں ۔اورہلاکت کے بھی ہیں۔پردہ کے لحاظ سے اس کے یہ معنی ہوں گے ۔کہ ان جنگوں میں وہ لوگ ایک دوسرے کاپوراپورابائیکاٹ کریں گے اورہلاکت کے معنوں کے لحاظ سے یہ معنی ہو ں گے کہ ایک دوسرے کوہلاک کریں گے ۔اوراگربینھم کی ضمیر معبودان باطلہ اورپرستش کرنے والوں کیطرف پھیر ی جائے ۔تواس میں پہلے مضمون کی تاکید سمجھی جائے گی ۔یعنی ایسے پردے درمیان میں آجائیں گے کہ ان کی کوئی آواز نہ سنی جائے گی ۔یایہ کہ ان معبودا ن کی ارواح ہی ان کے خلاف دعائوں میں لگ جائیں گی ۔
وراالمجرمون النار فظنواانھم مواقعوھا ولم یجدواعنھا مصرفاً٭
اورمجرم ا س آگ کودیکھیں گے اورسمجھ جائیں گے کہ وہ اس میں پڑنے والے ہیں ۔اوروہ اس سے (پیچھے )ہٹنے کی کوئی جگہ نہیں پائیں گے ۴۹؎
۴۹؎ حل لغات ۔مُوَاقِعُوھَا۔وَاقَعَ سے اسم فاعل مواقع آتاہے ۔اورمواقعون اس کی جمع ہے ۔وقع(وقوعاً)کے معنی ہیں سَقَطَ گرگیا ۔رقع فی الشَرَکِ جال میں پھنس گیا (اقرب)پس مواقعوھا کے معنی ہو ں گے اس میں پڑنے والے ہیں ۔
مَصْرَفاًیہ صَرَفَ سے اسم ظرف ہے صرفہ کے معنی ہیں رَدَّہ عن وجھہ اس کو اس کے قصد سے پھیر دیا (اقرب)پس مصرف کے معنی ہوں گے پھرنے کی جگہ ۔
تفسیر ۔یعنی اس وقت انہیں ہلاکت نظر آئے گی نار کے معنی جنگ کے بھی ہوتے ہیں چنانچہ اقرآن کریم می آتاہے۔کُلَّمَا اُوْقِدُوْانَاراً لِلْحَرْب اَطْفَأھَااللہُ (مائدہ ع۹)یعنی جب بھی یہود جنگ کی آگ بھڑکائیں گے اللہ تعالیٰ اسے بجھادے گا۔ ان معنوں کے روسے یہ مطلب ہو گاکہ جنگ کاخطرہ پیداہوجائیگا ۔اورانہیں یقین ہوجائے گا۔کہ اب ا س جنگ سے چھٹکارانہیں ۔ اوربہتیری تدبیریں اس جنگ کو روکنے کی کریں گے ۔لیکن کوئی صورت بھی ا س جنگ سے محفوظ رہنے کی نہ پیداہوسکے گی ۔
اس آیت میں ظنُّوْاکالفظ استعمال ہواہے ۔ا سکے معنی یقین کے ہیں خیال یاشک کے نہیں۔ظنّ کا لفظ عربی میں اضداد میں سے ہے ۔ یعنی اس کے معنی گما ن کے بھی ہوتے ہیں اوریقین کے بھی ہیں ۔
ولقد صرفنا فی ھذاالقرآن للناس من کل مثل وکان الانسان اکثر شیئٍ جدلاً٭
اورہم نے اس قرآن میں یقینا ہرایک(ضروری)بات کو مختلف پیرائیوں میں بیان کیا ہے اور(ایساکیوں نہ کرتے کہ)انسان سب سے بڑھ کر بحث کرنے والاہے ۵۰؎
۵۰؎ حل لغات ۔الجدل۔شدَّۃ الخصومۃِ سختی سے جھگڑنا (اقرب)
تفسیر ۔اکثر شیئٍ جدلاً کے دومعنی ہیں (۱)اکثر شیء یتاتّٰی منہ الجد ل یعنی سمجھانے کی خاطرجوتدبیر بھی کیجائے اسکے نتیجہ میں اس کی طرف سے جھگڑے کاپہلو ہی پیداکرلیا جاتاہے ۔اطمیان حاصل کرنے کی وہ کوشش نہیں کرتا ۔(۲) جَدْلُ الانسانِ اکثرُ من کُلِّ مجَادِلٍ۔یعنی انسان سب مخلوق کی نسبت زیاد ہ جھگڑاکرتاہے مطلب یہ ہے کہ اسے توہم نے عقل اس لئے دی تھی ۔کہ روحانی ترقیات کرے ۔اورخداتعالی کاعرفان حاصل کرے ۔مگر وہ اس قوت کوجواسے دوسرے حیوانوں سے ممتاز کرتی ہے ۔ایک بڑے امتیاز کاذریعہ بنالیتا ہے ۔اوربجائے اس کے کہ اس کے ذریعہ سے دوسرے حیوانوں سے افضل بنے ۔وہ ان سیبھی ادنیٰ حالت میں چلاجاتاہے ۔
اس آیت میں الناس تما م انسانوں کے متعلق ہے ۔اورالانسان ان انسانوں کے متعلق جن کااوپر ذکرآچکا ہے ۔اورمطلب یہ ہے کہ ہم نے قرآن کریم میں تمام مسائل کو اچھی طرح سے اورمختلف پیرائوں میں بیان کیا ہے ۔کہ بنی نوع انسان اس سے دفائدہ اٹھائیں ۔مگروہ قسم انسانوں کی جس کاذکر اوپر گذراہے ۔اسے جھگڑنے کاذریعہ بنالیتی ہے ۔اوران ہی تفصیلات کو جو ان کے فائدہ کے لئے ہیں۔اعتراض کاموجب سمجھ لیتی ہے ۔اس میں اس طر ف اشارہ ہے کہ مسیح لوگ شریعت کی تفصیلات کو *** قرار دے کر انسے آزاد ہوناچاہتے ہیں ۔حالانکہ اوہ تفصیلات انسان کو ہلاکت سے بچانے کے لئے بیان کی گئی ہیں ۔
ومامنع الناس ان یومنوا اذجآء ھم الھدی ویستغفرواربھم
اوران لوگوںکو جب ان کے پاس ہدایت آئی تو(اس پر)ایما ن لانے اوراپنے رب سے بخشش چاہنے سے صرف اس بات نے روکا
الاان تاتیھم سنۃ الاولین اویاتیہم العذاب ٭
کہ پہلے لوگوں کی سی حالت ان پر (بھی)آئے۔یاپھر عذاب ان کے سامنے آکھڑاہو ۵۱؎
۵۱؎ حل لغات ۔السنۃ کے لئے دیکھو حجر ۱۲؎ قُبَلاً ۔القُبُل نقیض الدّبرِ۔سامنے کاحصہ(اقرب)
تفسیر ۔یعنی قرآن کریم میں ہدایت کاایساسامان موجود ہے کہ اس کے بعد ہدایت میں کوئی روک نہیں ہونی چاہیئے تھی ۔اورچاہیئے تھا کہ اس کے مضامین کو سن کریہ لوگ اپنے غلط عقائدسے تائب ہوتے لیکن یہ اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے ۔گویا یہ فیصلہ کرچکے ہیں کہ ہم توضرور عذاب ہی لیں گے۔سُنَّۃ الاوَّلین اس سے مراد آخری ہلاکت ہے اوراویاتیھم العذا قُبلاً سے مراد درمیانی عذا ب ہیں یعنی دونوں قسم کے عذابوںکو یہ بلارہاہے ۔
وما نرسل المرسلین الامبشرین ومنذرین ویجادل الذین
اورہم رسولوں کوصرف بشارت دینے والا اور(عذاب کی آمد سے )آگا ہ کرنے والابناکربھیجتے ہیں ۔اورجن لوگوں نے انکار کیا ہے ۔
کفروابالباطل لیدحضوابہ الحق واتخذوااٰیٰتی وماانذرواھزوا٭
و ہ جھوٹ کے ذریعہ سے اسلئے جھگڑتے ہیں ۔کہ اسکے ذریعہ سے حق کومٹادیں ۔اورانہوں نے میرے نشانوں کو اور(میرے )انذارکو ہنسی کانشانہ بنالیاہے ۔ ۵۲؎
۵۲؎ حل لغات ۔الباطل کے لئے دیکھو نحل ۷۳؎
لِیُدْحِضُوابہِ ۔دَحَضَ سے مضارع جمع مذکر غائب کاصیغہ ہے اورادحصَ اَلقدمَ کے معنی ہیں ازلقہا پائوں کو پھسلا دیا ۔ ادحض الحجۃ اَبْطَلَھَاوازالھا ودفعھادلیل کو پوری طرح رد کیا دورکی مٹایا (اقرب)پس لیدحضوابہ الحق کے معنی ہوں گے ۔کہ وہ حق کومٹادیں ۔دورکردیں ۔
تفسیر ۔لیدحضوا بہ الحق کے معنے یہ ہوئے کہ کافرلوگ باطل کو لے کر جھگڑااوربحث کرتے ہیں ۔تاکہ اسکے ساتھ حق کو دنیاسے نکال دیں ،باطل کردیں ۔
وَاتَّخَذُوااٰیٰتِی وَمَااُنْذِرُوْاھُزُوًا۔یعنی ہم نشانات تودکھاتے ہیں لیکن یہ ہنسی کرتے ہیں ۔اس وقت یورپ والو ں کی یہی حالت ہے ۔نشانات کی طرف ان کی بالکل توجہ نہں ۔بلکہ ان امور کو بیوقوفوں کے توہما ت سمجھتے ہیں ۔اورعقلی ڈھکونسلوں کی طرف توجاتے ہیں ۔مگرخدائی نشانوں کو حقیر سمجھتے ہیں ۔
ومن اظلم ممن ذکر بایات ربہ فاعرض عنھا ونسی ما
اوراس شخص سے زیاد ہ ظالم کون (ہوسکتا)ہے ۔جسے اس کے رب کے نشانوں کے ذریعہ سے سمجھایاگیا۔(لیکن )پھر بھی وہ
قدمت یدٰہ ط اناجعلنا علی قلوبھم اکنۃ ان یفقھوہ وفی
ان سے روگردان ہوگیا ۔اورجوکچھ اس کے ہاتھوں نے (کماکر )آگے بھیجا تھا ۔اسے اس نے بھلادیاان(لوگوں )کے دلوں پر ہم
اٰذانھم وقراً ط وان تدعھم الی الھدیٰ فلن یھتدوااذاًابداً٭
نے یقینا کئی پردے ڈال دیئے ہیں کہ وہ اسے سمجھیں اوران کے کانوں میں گرانی(پیداکردی ہے)اوراگرتوانہیں ہدایت کی طرف بلائے تو(وہ تجھ سے اسقدر حسد رکھتے ہیں کہ)اس صورت میں وہ ہدایت کو(بھی)کبھی قبول نہیں کریں گے ۵۳؎
۵۳؎ تفسیر ۔فرماتاہے اس سے زیادہ ظالم اورکون ہوسکتاہے جسے ا س کے رب کی باتیں سنائی جائیں تووہ ان کوحقیر سمجھے اوان سے اعراض کرے اوراس بات کونہ سوچے کہ میں نے خود اپنی عقل سے جوکام کئے ہیں ۔وہ کس قد رفساد فتنہ اورجنگ کے موجبات بن رہے ہیں ۔پس باوجود اس تجربہ کے کہ وہ اپنی عقل سے امن پیدانہیں کرسکا۔پھر بھی خدائی امداد اورہدایت کی طرف اسکاتوجہ نہ کرناگویااپنے تجربہ کوٹھکرادینے کے مترادف ہے پھر وہ قوم جوتجربوں پر اپنے کاموں کی بنیا د رکھنے کی مدعی ہے وہ کس قدرمجرم اورغافل ہوتی ہے کہ جزئی تجربوںکوتوا س قدر قیمت دیتی ہے ۔مگرساری قوم کے تجربہ اوراسکے نتیجہ سے فائدہ نہیں اٹھاتی ۔
فرماتاہے اسکانتیجہ اس کے سوااورکیا نکل سکتاتھا۔کہ جب انہوں نے سمجھ سے کام لینے سے انکار کردیا توہم بھی ان کوسمجھ سے محروم کردیں ۔اورانہیں ان کے حال پر چھو ڑدیں کہ خواہ کوئی کتنی ہی انہیں نصیحت کرے یہ فا ئدہ نہ اٹھاسکیں ۔
وربک الغفورذوالرحمۃ ط لویؤاخذھم بماکسبوالعجل
اورتیرارب بہت ہی بخشنے والا (اوربہت ہی )رحمت کرنے والا ہے ۔اگروہ اس کی وجہ سے جوانہوں نے (اپنی جانوں کے لئے )
لھم العذاب ط بل لھم موعد لن یجدوامن دونہ موئلاً٭
کمایا ہے۔انہیں ہلاک کرناچاہتاتووہ ان پر فوراً عذاب نازل کردیتا ۔(مگر وہ ایسانہیں کرتا )بلکہ ا ن کے لئے ایک معیاد (مقرر)ہے جس سے ورے (یعنی پیشتراس کے کہ عذاب کوبھگتیں)ہرگز کوئی جائے پناہ نہ پائیں گے ۵۴؎
۵۴؎ تفسیر ۔لویواخذھم بماکسبوالعجّل لھمُ العذاب۔اگران کو خداتعالیٰ اان کے اعما ل کی وجہ سے سزادینے لگتا توکبھی کاہلاک کردیتا ۔مگرخداتعالی ہوشیار کئے بغیر کسی قوم کوہلاک نہیں کرتا۔اس لئے وہ پہلے انکوہوشیار کرے گا۔اورزمانہ کے مامورکے ذریعہ سے حجت پوری کرکے پھر پکڑے گا۔بَلْ لَّھُمْ مَوْعِدٌ لَّنْ یَّجِدُوْامِنْ دُوْنِہٖ مَوْئِلًا۔ان کے لئے وعدہ مقرر ہے ۔و ہ ہرگز اس سے ہٹ کرکوئی پنا ہ کی جگہ نہ پائیں گے یعنی خداتعالیٰ کو چھو ڑ کر اورکوئی بھی نجا ت کی جگہ ان کو نہ مل سکے گی ۔
وتلک القریٰ اھلکنھم لما ظلمواوجعلنا لمھلکھم موعداً٭
اوروہ (گزشتہ نبیوں کے مخالفوںکی)بستیاں جوہیں تو(انکاواقعہ یوں ہے کہ)ہم نے اس وقت انہیں ہلاک کیا جب انہوں نے ظلم کیا ۔اوران کی ہلاکت کے لئے (بھی )ہم نے ایک معیاد مقرر کردی تھی ۔(تاو ہ چاہیں توتوبہ کرلیں ) ۵۵؎
۵۵؎ تفسیر۔یعنی ہزاروں قومیں گذرچکی ہیں جب انہوں نے ظلم کیا ۔یعنی اللہ تعالیٰ کے انذار کی قدرنہ کی توہم نے ان کو ہلاک کردیا ۔اوران کی ہلاکت کی پہلے سے خبر دے دی جسکے مطابق وہ ہلاک ہوگئے ۔پس اس قوم کو بھی سوچنا چاہیئے کہ ان کو خواہ کس قدر ترقیا ت ہی کیوں نہ ملی ہوں ۔پھر بھی وہ انسان ہیں ۔پس کوئی وجہ نہیں کہ جب پہلے انسان خداتعالیٰ سے منہ پھیر کرہلاک ہوئے تویہ ہلاک نہ ہو ں۔آجکل قریباً ۹۹فیصدی لوگوں کاخیال ہے کہ اب یورپ تبا ہ نہیں ہوسکتا۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ یہ بیوقوفی کی بات ہے پہلی بادشاہتوں کے زمانوں میں کو ن کہتاتھا کہ وہ تبا ہ ہوں گی ۔مسلمانوں کے متعلق کون کہتاتھا کہ ان کی حکومت تبا ہ ہوگی۔اسی طرح رومیوں کی حکومت او رایرانیوں کی حکومت کے متعلق بھی کوئی اس وقت گمان نہ کرتاتھا ۔لیکن ساری تباہ ہوگئیں ۔اسی طرح ان کی بادشاہت کے تباہ ہونے کے متعلق بھی حیرانی اورتعجب خلاف عقل ہے ۔
واذقال موسیٰ لفتٰہ لاابرح حتیٰ ابلغ مجمع البحرین او مضیی حقبًا٭
اور(تم اس وقت کو بھی یاد کرو)جب موسیٰ نے اپنے نوجوان (رفیق)سے کہا تھا (ک )میں(جس راستے پرجارہاہوں اس پر قائم رہنے سے )نہیں ٹلوں گایہاں تک کہ ان دونوں سمندروں کے اکٹھے ہونے کے مقام پر پہنچ جائو ں یاصدیوں تک (آگے ہی آگے) چلتاچلاجائوں ۔ ۵۶؎
۵۶؎ حل لغات ۔الفَتٰی کے معنے نوجوان کے ہیں ۔اسکی جمع فتیان آتی ہے ۔مزید تشریح کے لئے دیکھو یوسف ۶۲؎ لاَابرح کے لئے دیکھویوسف ۷۷؎
اَمْضِیْ:مَضَی سے مضارع متکلم کاصیغہ ہے اورمَضَی الشیئُ(یَمْضِی ویَمْضُو) کے معنے ہیں ذَھَب وخَلا۔کوئی چیز گزر گئی اورچلی گئی (اقرب)پس اَمْضِی کے معنے ہوں گے کہ میں چلتاچلاجائوں۔
حُقبًا۔حُقُبُ حُقْبٌ کی جمع ہے ۔اوراس کے معنے ہیں ثمانون سنۃ۔اسّی سال کاعر صہ۔ویُقالُ اکثر من ذالک اوربعض کہتے ہیں اس سے بھی زائاد عرصہ کوحُقُب کہتے ہیں ۔الدھر ۔زمانہ۔السنَۃ وقیل سنین ۔مطلق ایک سال کے عرصہ کے لئے بھی یہ لفظ استعمال کرتے ہیں اوربعض کہتے ہیں کہ کئی سال کاعرصہ حقب کہلاتاہے (اقرب)
تفسیر ۔پہلے توتمثیلوں سے اس امر کوبتایاکہ عیسائیت اوراسلام کامقابلہ گوکمزوراورطاقتورکامقابلہ ہے لیکن غورکیا جائے توطاقتوروہ ہے جوخداتعالیٰ کی طر ف توجہ کرتاہے ،وہ نہیں جو دنیا کے کاموں میں مشغول ہے ۔اوراشارۃً یہ بھی بتایا کہ مسیحیت کی ترقی اس رنگ میں مقد رتھی کہ پہلے ایک دفعہ یہ قوم ترقی کرے ۔پھررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاظہورہو ۔اورکچھ عرصہ اسلام ترقی کرے ۔پھر دوبارہ انہیں ترقی ملے ۔اب اس مضمون کاآسمانی کتب کے حوالہ سے ثابت فرماتاہے ۔
یادرکھنا چاہیئے کہ جیساکہ میں پہلے بتاآیا ہوں اسلام کے دشمنوں کایہ اعتراض ہے کہ اس سورۃ میں بغیر تعلق کے واقعات جمع کردیئے گئے ہیںاورخود مسلمانوں کے لئے بھی ان واقعات کا اجتماع حیرانی پیداکرنے کاموجب بنا رہاہے ۔اورانہوں نے یہ کہہ کر اپنے آپ کوتسلی دی ہے کہ یہود نے کچھ سوالات کئے تھے ،ان کاجواب اللہ تعالیٰ نے اکٹھاکرکے دیدیاہے ۔لیکن جیساکہ ظاہر ہے یہ بات نہیں۔ کیونکہ اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے متعلق اگرکوئی سوال تھا بھ تو ان دونوں واقعات کے درمیان میں اورپر کی تمثیلات اورپھر حضرت موسیٰ کے اس واقعہ کو جواس رکوع میں بیان ہواہے کیوں رکھ دیاگیاہے ۔کم سے کم ان دونوں سوالوں کے جواب اکٹھے رکھے جاتے ۔اصل بات یہ ہے کہ یہ سب مضامین ترتیب سے بیان ہوئے ہیں ۔اورہرواقعہ اورتمثیل کو خاص ضرورت سے اپنے اپنے مقام پر رکھاگیا ہے ۔چنانچہ اصحاب کہف کے ذکر کے بعد ان تمثیلات کے رکھنے کی حکمت تومیں بتاآیاہوں ۔اب میں حضرت موسیٰ کے اس واقعہ کو اس جگہ رکھنے کی وجہ بتاتاہوں ۔
میں ذکر کرچکاہوں کہ عیسائیوں کی قومی زندگی میں ایک عجیب بات پائی جاتی ہے جس کی کوئی اورمثال کم سے کم مجھے معلوم نہیں۔اور وہ یہ کہ انہیں حضرت مسیح علیہ السلام کے بعد ایک ترقی کادور ملا ۔درمیان میں ا یک اورنبی پیداہوااوراس کی قوم کو ترقی کاایک دورملا۔ اس کے بعد پھر مسیحی قوم کی ترقی شروع ہوگئی ۔ا س واقعہ کی طرف پہلے تمثیل میں نہر کے لفظ سے اشار ہ کیاگیاتھا ۔اب حضرت موسیٰ کے واقعہ کو اس جگہ رکھ کر اس مضمون کوواضح کیاگیاہے ۔اوروہ اس طرح کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مثیل موسیٰؑ تھے۔جیساکہ استثناء باب ۱۸آیت ۱۸ میں پیشگوئی کی گئی تھی ۔کہ’’میں ان کے لئے ان ہی کے بھائیوں میں تیری مانند ایک نبی برپاکروں گا۔ اوراپناکلام اس کے منہ میں ڈالوں گا ۔اورجو کچھ میں اُسے حکم دو گاوہی وہ ان سے کہے گا‘‘۔
قرآن کریم میں بھی اس پیشگوئی کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیاگیاہے کہ اناارسلنا الیکم رسولاًشاھداً علیکم کما ارسلنا الی فرعون رسولاً(مزمل ع ۱)سوحضرت موسیٰ کے واقعہ کو مسیحیوں کی ترقی کے دونوں دوروں کے درمیان میں بیان کرکے اس طرف اشارہ کیا گیاہے کہ مثیل موسیٰ ان دونوں دوروں کے درمیان میں پیداہوناضروری تھا ۔تااس شبہ کاازالہ کیاجائے کہ اگرمسیحی ترقی کے پہلے دور کے بعد ایک سچانبی آیا تھا توکیوں مسیحی ترقی کادور ختم نہیں ہوگیا ۔پس اس دوسرے دور کاپھر پہلے سے بھی زیادہ زورسے شرو ع ہوجانابتاتاہے کہ درمیانی نبی سچانہ تھا ۔ورنہ وہ ان کی ترقیات کوروک دیتا ۔
یہ بات ذوقی نہیں بلکہ حضرت موسیٰ کاجوواقعہ آگے بیان ہواہے ۔اس کامضمون بھی ا سی کی تصدیق کرتاہے ۔جس کی تشریح اگلی آیات میں کیجائے گی ۔سردست میں نے اسطرف اشارہ کردیاہے کہ چونکہ مسیحی ترقی کے پہلے دور اوردوسرے دور کے درمیان محمد رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کاظہور مقد رتھا ۔اس لئے مسیحی ترقی کے دونوں دوروں میں فاصلہ رکھاگیاہے۔اوردرمیان میںحضرت موسیٰ علیہ السلام کاذکر کردیااگیاہے۔جن کے مثیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے ۔تاجس طرح واقعات نے ظاہر ہوناتھا اسی طرح ان کاذکر کیاجائے ۔
یہ واقعہ جو اس رکوع میں بیان ہواہے ۔اس کے بارہ میں مفسرین میں اختلاف ہے مفسرین اکثر اس طرف گئے ہیں اوربعض احادیث میں بھی ا س کاذکر آتاہے کہ خضرنامی ایک شخص سے ملاقات کے لئے حضرت موسیٰؑ تشریف لے گئے تھے ۔ان آیات میں ا س سفرکے حالات بیان کئے گئے ہیں ۔
یہ سفرانہوں نے کیوں کیاتھا اس کے متعلق بھی اختلاف ہے ۔بعض نے لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ نے خداتعالی سے پوچھاکہ کیامجھ سے زیاد ہ علم والابھی کوئی شخص ہے ۔تواللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہاں ایک شخص ہے ۔اورپھر اس شخص کاپتہ بتایا ۔جس پرحضرت موسیٰ علیہ السلام اس شخص کو ملنے کے لئے گئے ۔
ایک روایت میں یہ آتاہے کہ بعض لوگوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیا آپ سے بڑھ کر بھی کوئی اورعالم ہے ۔ توانہوں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں ۔اس پر اللہ تعالیٰ نے ان پر وحی کی اوراس شخص کاپتہ دیا ،جوان سے بڑھ کرعالم تھا ۔اورا س پروہ اس سے ملنے کے لئے گئے ۔
درحقیقت اس واقعہ کے سمجھنے میں لوگوں کو غلطی لگی ہے ۔بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کاواقعہ سورئہ بنی ااسرائیل میں بیان کیاگیاتھا ۔اوراس اسراء کے نتائج بیان کئے گئے تھے کہ آئندہ کیاکیا واقعات ظاہر ہوں گے اورمسلمانوںکو کس طرح ترقیات ملیں گی ۔پھر اسراء کی بیان کر دہ کامیابیوں میں مسلمانوں کے لئے جوخطرات پیش آنے والے تھے ان کاذکرکیاتھا ۔یعنی یہود اورنصاریٰ کی مخالفتوں کاذکر کیاگیاتھا ۔ان عظیم الشان خطرات میں سے ایک بڑاخطرہ یہ تھا کہ حضرت موسیٰ کی امت کاایک گروہ جوعیسائی کہلاتے ہیں (اگرچہ وہ اپنے آپ کو حضرت موسیٰ کی امت نہ کہیں مگر خداکے نزدیک وہ حضر ت موسیٰ ہی کی امت میں شامل ہیں )مسلمانوں کوآخری زمانہ میں سخت صدمہ پہنچانے والاتھا ۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی تشریح کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسراء کے علاوہ خود حضرت موسیٰ کے اسراء کوبھی اس جگہ بیان فرمایا ہے ۔جس سے ا س امر کی تصدیق مطلوب ہے کہ آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غالب آئیں گے اورآپ کی امت کو غلبہ دیاجائے گا ۔اورموسوی امت کابقیہ حصہ (عیسائی لوگ )غالب نہ ہوسلے گا۔یہ واقعہ حضر ت موسی کاایک کشف ہے میرے نزدیک ظاہرجسم کے ساتھ ایساکوئی واقعہ انہیں پیش نہیں آیا ۔استاذی المکرم حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کی یہی رائے تھی۔اورمیں اس بارے میں غور کرکے اسی نتیجہ پر پہنچاہوں کہ ان کی یہ رائے درست تھی ۔اورمیرے نزدیک بھی یہ کشف ہی ہے جس کے ثبوت مَیں ذیل میں بیان کرتاہوں ۔
(۱)پہلاثبوت ا سکایہ ہے کہ اس قسم کے کسی سفرکے واقعہ کا ذکر بائبل میں موجودنہیں ۔جس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ واقعہ ظاہر ی طورپر ظہور میں نہیں آیا ۔یہ اتوہوسکتاہے کہ اس کے طرز بیان میں کچھ اختلاف ہوجائے مگرسرے سے ہی اس واقعہ کانہ پایاجاناایک عجیب بات معلوم ہوتی ہے ۔
بنی اسرائیل کی روایات سے معلوم ہوتاہ کہ حضرت موسیٰ کوبھی معرا ج ہواتھا (چنانچہ مجھے معلوم ہواہے کہ عزیزم مولوی جلال الدین شمس صاحب نے یہودی روایات لندن میوزیم کی کتب دیکھ کرنکالی ہیں جن میں اس واقعہ کاذکرہے ۔اوریہودی کتب میں اس سفرکو جسمانی سفرقرار دیاہے ۔مگر ان کا یہ لکھنا ہم پر حجت نہیں۔مسلمانوں سے بعض نے بھی تواسراء کو بلکہ معراج کو جسمانی قرا دیدیاہے )
(۲)بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہونے سے پہلے حضر ت موسیٰ کاایک ہی سفرثابت ہے جومدین کی طرف ہوا۔قرآن کریم میں بھی متعد د بار اس کاذکر آیاہے ۔اورقرآن اوربائبل دونوں اس با ت پرمتفق ہیں کہ اس سفر میں وہ اکیلے تھے ۔لیکن زیربحث واقعہ میں ان کے ساتھ ایک ساتھی کابھی ذکر ہے ۔جوان کے ماتحت معلوم ہوتاہے کیونکہ فَتٰی کے لفظ کو جب مضاف بناکراستعمال کیاجائے ۔اس کے معنے بیٹے کے یاماتحت کے ہوتے ہیں۔پس سفر مدین پر یہ الفاظ چسپاں نہیں ہوسکتے ۔اواس کے سوااورکوئی سفر ان کابائبل سے ثابت نہیں ۔لہٰذااسے کشف ہی مانناپڑے گا۔
(۳)بعثت کے بعد بھی حضرت موسیٰ کاکوئی ایساسفر ثابت نہیں جو انہوں نے اپنی قوم سے علیحدہ ہوکر کیاہو ۔بائبل میں شروع سے لے کر آخیر تک انکے واقعات ترتیب کے ساتھ موجود ہیں ۔لیکن اس سفرکاکہیں ذکر نہیں جس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ سفرکوئی مادی واقعہ نہ تھا ۔
(۴ )حضرت موسیٰ بنی اسرائیل سے چالیس دن کیلئے چند میل دورپہاڑ پر خداکاکلام سننے کے لئے گئے تواتنے ہی دنوں میں بنی اسرافیل نے بچھڑے کو معبود بنالیا ۔جب چالیس دن کی غیرحاضری نے یہ تباہی مچادی تھی تواتنے لمبے سفر کی صورت میںکیانتیجہ ہواہوگا ۔مگراس موقعہ پر بنی اسرائیل کے اندر کوئی فساد نہیں ہوا۔کیونکہ بائبل میں اس فساد کے علاوہ اورکسی فساد کاذکرنہیں ۔نیز اس فساد کے بعد یہ دانشمندی کے خلاف ہوتاکہ آپ اتنالمباسفر کرتے ۔
(۵)چالیس دن کے سفر پرجاتے ہوئے حضرت موسیٰ اپنے بعد حضر ت ہارون کو خلیفہ مقررکرک جاتے ہیںمگراس ایک دفعہ کے واقعہ کے بعد کہیں بھی ثابت نہیں کہ حضرت موسیٰ نے حضرت ہارون یاکسی اورکو اپناخلیفہ مقرر کیاہو۔اگر سفر کاذکر نہیں تھا توکم از کم اس نیابت کاذکروتوضرور تورات میں ہوناچاہیئے تھا۔مگرچونکہ ایساکوئی ذکر بائبل میں نہیںہے ۔تویہی مانناپڑے گاکہ ایساکوئی جسمانی سفرواقعہ نہیں ہوا۔کیونکہ یہ توہرگزتسلیم نہیں کیاجاسکتا۔کہ حضر ت موسیٰ سفر پرگئے ہوں اوراپنا جانشین مقررنہ کرگئے ہو ں۔
(۶)یہ امر انبیاء کی سنت کے خلاف معلوم ہوتاہے کہ نبوت کے بعد وہ اپنی قوم سے ایک لمبے عرصہ کے لئے الگ ہوئے ہو ں۔جن انبیاء کاہمیں تاریخ سے پتہ چلتاہے ان میں سے ایک کی سوانح میں بھی اس امر کاپتہ نہیں چلتا۔بے شک ہمارے عقیدہ کی روسے حضرت مسیح اپنی قوم سے الگ ہوئے۔مگروہ درحقیقت ایک حصہء قوم سے جداہوکر دوسرے حصہ کیطرف گئے تھے ۔اوراس کی مثالیں بکثر ت انبیاء میں پائی جاتی ہیں ۔کہ انہوں نے اپنی قوم کے اند رتبلیغی سفرکئے ہیں ۔مگرحضرت موسیٰ کایہ سفرتبلیغی نہیں ۔نہ اپنی قوم کے علاقہ میں ہے ۔بلکہ وہ صرف یہ معلوم کرنے کے لئے اپنی امت کوچھوڑ کرچلے جاتے ہیں کہ ایک شخص مجھ سے بھی زیادہ عالم ہے ۔
(۷)حضرت ابن عباسؓ نے اس واقعہ کے اند ر جوکنز کالفظ ہے اس کی تعبیر میںفرمایا ہے۔ماکان الکنز الاعلمًا(ابن کثیر )یعنی اسواقعہ میں جو کنز کاذکر ہے ۔اس سے علم کے سوااورکچھ مراد نہیں ۔ظاہرہے کہ یہ تعبیر ہے اورتعبیرکشف ہی کی ہوسکتی ہے ۔اگروہ کنز علم تھا تویہ بھی ظاہرہے کہ وہ دیوار جو حضرت موسیٰ اور ان کے ساتھی نے بنائی وہ بھی ماد ی دیوار نہ تھی ۔اورکھا ناطلب کر نے کاواقعہ بھی مادی نہ تھا۔اورجب یہ حصہ کشف تھا توظاہر ہے کہ ساراواقعہ ہی کشف تھا۔
(۸) واقعہ کی اندرونی شہادت بھی یہی ثابت کرتی ہے کہ یہ کوئی جسمانی واقعہ نہیں ۔مثلاً خرق سفینہ کے واقعہ کو لے لو ۔اس میں جولکھا ہے کہ انہوں نے کشتی میں بڑاسوراخ کردیا ۔تاکہ بادشاہ اس کوچھین نہ لے ۔اس پر سوا ل یہ ہے کہ کیااس شگاف سے وہ کشتی بے کار ہوگئی تھی ؟اگرکہاجائے کہ نہیں ۔توا س پر سوال پیداہوتاہے کہ پھر بادشاہ نے اس کوکیوں نہ چھینا جبکہ وہ ابھی کارآمد تھی ۔اوراگرکہو کہ بالکل نکمی ہوگئی تھی ۔توپھر سوال ہوتاہے کہ اس سوراخ کی وجہ سے و ہ دریامیں غرق کیوں نہ ہوگئی ۔
ظاہر ی طورپر کوئی کشتی جس کاتختہ نکال کر اس کو بالکل بیکا رکردیاگیاہو غرق ہونے سے بچ نہیں سکتی تھی ۔ہاں کشف میں یہ نظارہ دیکھنا خلاف عقل نہیں ہوتا کہ کوئی تختہ بھی نکال دیاجائے اورکشتی غرق بھی نہ ہو۔
پھرقتل نفس کاواقعہ ہے ۔یہ بھی ظاہری واقعہ نہیں ماناجاسکتا ۔کیونکہ احضرت موسیٰ کو سبق سکھانے والایاکوئی نبی ہوگا یاکوئی بڑابزرگ ۔ لیکن قتل نفس بغیر نفس توکوئی ادنیٰ مومن بھی نہیں کرسکتا۔کجایہ کہ ایک عظیم الشان نبی ایسے فعل کاارتکاب کرے ۔
اس کے جواب میں بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس نوجوان نے چونکہ آئند ہ قتل کرنے تے ۔اس لئے اس کوقتل کردیا ۔مگر ہم کہتے ہیں کہ یہ بھی ظلم ہے اورخلاف شریعت ۔اگر ارتکاب جرم سے پہلے محض علم کی بناء پر سزادیناجائز ہے توپھر خداتعالیٰ کو سب لوگوں کے گناہوں کا قبل از وقت علم ہے وہ کیوں سب کوسزانہیں دیتا۔
شریعت کااصولی قانون یہی ہے کہ جب تک کوئی کسی گناہ کامرتکب نہ ہوجائے ،اسکوسزانیں دی جاسکتی۔اس اصل پر شرائع کااختلاف اثرانداز نہیںہوسکتا۔یعنی بعض کہتے ہیں کہ وہ عملاً قتل کیا کرتا تھا ۔مگراس کاپتہ نہ لگتاتھا ۔یہ جواب بھی نہایت بوداہے ۔ اگریہ بات صحیح ہے ۔توقرآن مجید کوچاہیئے تھا کہ یہ وجہ بتاتا۔تاکہ لوگوں کی تسلی ہوجاتی ۔اورانہیں معلوم ہوجاتاکہ بلاوجہ اس نوجوان کو قتل نہیں کیا گیا ۔
آخری واقعہ دیوار کاہے ۔اس کوبھی ظاہری حالت میں تسلیم نہیں کیاجاسکتا۔بھلایہ کیسے ممکن ہوسکتاہے کہ اپنے ساتھی کے دیوار بنادینے پر حضرت موسیٰ ؑ جیسا وسیع الحوصلہ او رعظیم الشان نبی اس لئے اعتراض کرے کہ شہر کے لوگوں نے ہمیں کھانا نہیں کھلایا ۔شہر والوں کے کھانانہ کھلانے کاالزام ان پر تھا نہ کہ ان دو بیکس یتیموں پر جن کی وہ دیوار تھی ۔اوریو ں بھی یہ بات حضرت موسیٰؑ کی شرافت نفس سے بہت بعید ہے کہ و ہ دویتیموں کی دیوار پر اجر نہ لینے پر اعتراض کریں ۔
غرض واقعہ کی اندرونی شہاد ت بھی ثابت کرتی ہے کہ یہ ایک کشف ہے نہ کوئی ظاہر ی واقعہ ۔
(۱۰)یہ ساراواقعہ بحیثیت مجموعی بھی ثابت کرتاہے کہ یہ ایک کشف تھا۔کیونکہ جو تین باتیں اس سفرمیں بتائی گئی ہیں ۔اگرو ہ ظاہر ی لی جائیں تووہ ایسی نہیں ہیں کہ ان کے لئے کوئی معمولی مومن بھی سفرکرے کجا یہ کہ حضرت موسیٰؑ کو ان باتوں کے سیکھنے کے لئے بھیجاجائے ۔کیاحضرت موسیٰؑ یہ سیکھنے گئے تھے۔ کہ کشتی کاتختہ کیسے توڑاجاتاہے یاقتل کیونکر کیا جاتاہے یادیوار بنانے کی کیاترکیب ہے یااس پر اجر لیناچاہیئے یانہیں ۔ان باتوں کے سیکھنے کے لئے توایک جاہل گنواربھی سفر نہیں کرے گا۔غرض ان باتوںمیں سے کوئی بھی ایسی بات نہیں کہ جس کو ظاہرصورت میں مان کر حضرت موسیٰؑ جیسے اولوالعز اورذی شان نبی کاسفرجائزاورمعقول قرار دیاجاسکے۔
(۱۱)ماوردی نے روایت کی ہے کہ جس شخص کے پاس حضرت موسیٰ گئے تھے وہ ایک فرشتہ تھا (ابن کثیر)
پس یہ واقعہ توکشف ہی ماننا پڑے گاورنہ ظاہر ی سفر کرکے فرشتے کے پاس جانے کے کیا معنے ہوں گے ۔فرشتہ توپل مارنے میں خود انکے پاس آسکتاتھا ۔
(۱۲)آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ’’وَدَدْنَا ان موسیٰ کان صبر حتی یقصّ اللہ علینا من خبرھما (بخاری کتاب التفسیر )کاش موسیٰؑ صبرکرتے اورخاموش رہتے تاکہ خداتعالیٰ ہمیں ان کی اورخبریں بھی بتادیتا ۔
اگرا س واقعہ کو ظاہر ی واقعہ سمجھاجائے توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان توبہت ارفع ہے میں بھی اپنے ذہن میں ان امورکے معلوم کرنے کاکوئی شوق نہیں پاتااورنہ ہی میرے نزدیک کوئی سمجھدار انسان ایسی سطحی باتوں کے متعلق زیادتی علم کی خواہش کرسکتاہے ۔پس معلوم ہواکہ یہ آئندہ کی اخبار تھیں جوکشفی رنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے متعلق حضرت موسیٰ علیہ السلام پرظاہر ہوئیں اورچونکہ وہ غیب پرمشتمل تھیں اورآئندہ امت محمدیہؐ کے حالات کوظاہرکرتی تھیں اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش تھی کہ کاش موسیٰؑ خاموش رہتے ۔اوراوربھی باتیں کھل جاتیں ۔ان دلائل سے ثابت ہے کہ یہ واقعہ کشف کاواقعہ ہے ۔
اگرچہ مصدقہ بائبل کاکوئی حوالہ ہمیں نہیں ملتا جسمیں اس واقعہ کاکسی رنگ میں بھی ذکر ہو ۔مگر یہود کی روایات کی کتب میں ایسی رویات موجود ہیں اورمسلمانوں کی روایات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے ابتدائی یام میں بھی یہود میں ضروراس قسم کی روایات پائی جاتی تھیں ورنہ مسلمان انہیں کہاں سے لے سکتے تھے ۔مگر یہود کی روایات کاہمار ی تحقیق پر کوئی اثر نہیں ہوسکتا ۔جب تک قرآن کریم عقل اورمشاہد ہ ان کی تصدیق نہ کرے ۔ہم ان کوماننے پر مجبور نہیں ۔بلکہ بغیر ان قیود کے انکاماننا خطرہ سے خالی نہیں ۔
خلاصہ یہ کہ عقل ونقل اس واقعہ کو ایک کشف قرار دیتے ہیں۔
وہ شخص جس سے حضرت موسیٰؑ اسراء میں سبق لینے گئے تھے ۔اس کے متعلق استاذی المکر م حضرت مولوی نورالدین صاحب ؓ کی رائے تھی کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاوجود متمثل ہواتھا ۔میں نے جب اس پرغورکیا۔ تومیں بھی اس یقین پر پہنچا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی حضرت موسیٰؑ کو متمثل ہوکر نظر آئے تھے ۔اوریہی وجہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خواہش کی کہ کاش موسیٰ خامو ش رہتے ۔توہمیں اورحالات بھی معلوم ہوجاتے ۔یعنی ہمیں پتہ لگ جاتاکہ ہمارے ساتھ کیا واقعات پیش آنے ہیں ۔
میرااپنا یہ خیال ہہے ۔گویہ خیال ایک ذوقی نظریہ ہے کہ جس وقت کوہ سیناء پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق حضرت موسیٰؑ کو بشارت دی گئی (دیکھو استثناء باب ۱۸آیت ۱۸)اورانہیں معلوم ہواکہ ایک عظیم الشان نبی میرے بعد پیداہونے والا ہے ۔توان کے دل میں یہ معلوم کرنے کی خواہش پیداہو ئی ۔کہ وہ کونسی تجلّی ہوگی جواس نبی پر ظاہر کی جائیگی ۔جس پرانہوں نے عرض کیا ۔’’رَبّ اَرنِی انظر الیکَ۔‘‘ذرامجھ پر بھی وہ محمدی تجلّی ظاہر فرما۔تاکہ میں بھی تودیکھو ں۔کہ اس پر توکس شان سے ظاہر ہوگا ۔ اس کاانیں یہ جواب دیاگیا ۔کہ ایسانہیں ہوسکتا ۔ہرشخص اپنے مناسب حال ہی تجلی دیکھ سکتاہے ۔میرے اس بیان کی تائیداس سے بھی ہوجاتی ہے کہ حضرت موسیٰؑ اس سے پیشتر روحانی تجلی دیکھ چکے تھے ۔جیساکہ انہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’انی اناربک فاخلع نعلیک انک بالواد المقدس طُویً‘‘۔پھر جبکہ و ہ اللہ تعالیٰ کی تجلی دیکھ چکے تھے تواان کے اس قو م کے کیامعنے ہوئے کہ اے اللہ مجھے اپناآپ دکھا۔اگراس کے یہ معنے کئے جائیں کہ پہلے روحا نی تجلی دیکھی تھی اب وہ اللہ تعالیٰ کواس کی اصل صورت میں دیکھناچاہتے تھے ۔تواس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے برگزیدہ نبی کوبیوقوف قرار دیاجائے ۔نعوذ باللہ من ذالک۔کیونکہ کسی کایہ کہنا کہ اے خداتومجھے مجسم ہوکرنظرآ۔نادانی کی بات ہے ۔اوریہ بات حضرت موسیٰ کی طرف ہر گز منسوب نہیں ہوسکتی ۔پس یہ رؤیت کی درخواست روحانی ہی قرار دی جاسکتی ہے ۔اورچونکہ موسوی تجلی پہلے ان پر ہوچکی تھی۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ اب جو خواہش انہوں نے کی توو ہ کسی اوررؤیت کے لئے تھی ۔اورچونکہ اس درخواست سے معاً پہلے انہیں محمدرسول اللہ صلعم کی بشار ت دی گئی تھی ۔مَیں یہی قیاس کرتاہوں ۔کہ یہ درخواست ان کی محمدی تجلی کے دیکھنے کے بار ہ میں تھی ۔جس کاجواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ ’’’لَنْ تَرانِی‘‘کہ تومجھے اس صورت میں نہیں دیکھ سکتا۔جس صورت میں کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھنا ہے ۔ کیونکہ اس کے دیکھنے کے لیئے محمدی رتبہ کی ضرورت ہے ۔جوتجھے حاصل نہیں ۔یہی وجہ تھی کہ ’’لن ترانی ‘‘کہکر پھر اللہ تعالیٰ نے جلوہ دکھایا ۔چنانچہ موسیٰ نے دیکھ لیا کہ واقعہ میں وہ اس جلوہ کے مطابق ظرف نہ رکھتے تھے ۔اس وجہ سے وہ اس جلوہ کودیکھتے ہی بیہوش ہوگئے ۔
میں سمجھتاہوں کہ حضر ت موسیٰ علیہ السلام کو رسول کریم صلعم کی شان اعلیٰ کے دکھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ کشف دکھایا اوراس کشف کاخضر میرامحمدہی ہے جس کے ساتھ چلنے کی موسیٰ علیہ السلام کوطاقت نہ تھی ۔اللھم صل علیٰ محمد وعلیٰ اٰل محمد وبارک وسلم انک حمید مجید ۔
واذقال موسیٰ لفتٰہ۔فتی کے متعلق روایات میں لکھا کے کہ وہ یوشع بن نون تھے ۔کوئی تعجب نہیں کہ کشف میںحضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کوساتھ ہی دیکھا ہو ۔لیکن میری اپنی رائے یہ ہے کہ دوسراشخص حضرت عیسیٰ علیہ السلام تھے ۔جنہوں نے موسوی سلسلہ کے سفرکے آخری دور میں قوم کی راہنمائی کرنی تھی ۔اورگویا موسوی سفر کااختتام ان کی معیت میں ہونا تھا ۔
اس کاثبوت میرے نزدیک اس آیت سے بھی ملتاہے کیونکہ اس ایت میں یہ ذکر نہیں کہ موسیٰ علیہ السلام گھر سے ایک نوجون کو لے کرچلے ۔بلکہ خود ان کے چلنے کابھی ذکر نہیں ۔ذکر ہے تویہ کہ موسیٰ نے اپنے آپ کوسفر کی حالت میں دیکھا اوراس وقوت ان کے ساتھ ایک نوجوان تھا۔انہو ں نے اس نوجوان سے کہا کہ جب تک میں مجمع البحرین تک نہ پہنچ جائو ں میں اپناسفرختم نہ کروں گا ۔خواہ مجھے صدیوں تک ہی کیوں نہ سفرکرنا پڑے۔زمانہ کے لئے جولفظ اس آیت میں استعمال ہواہے ۔وہ حُقُب کاہے ۔اوریہ لفظ حُقُبٌ کی جمع ہے ۔حُقُب کے معنی اسی سال یااس سے زیادہ سالوں کے ہوتے ہیں ۔درحقیقت یہ لفظ عربی میں صدی کاقائمقام ہے ۔پس حُقُبٌ جو جمع ہے ۔اس کے معنے ہوئے صدیاں ۔مگر بعض ادفعہ اس لفظ کو ایک سال یاکئی سال کے لئے بھی استعمال کرلیتے ہیں ۔اگر یہی معنے لئے جائیں توبھی آیت کے معنے یہ ہوں گے کہ سالوں چلتاجائوں گا۔یایہ کہ دسیوں سال چلتاجائو ںگا۔ظاہر ہے کہ ایک نبی کاامت سے سالہا سال تک جدارہنا عقل کے خلاف ہے ۔بلکہ خود نبوت کی ضرورت کو مشتبہ کردیتاہے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ ہجرت کرنی پڑی ۔توآپؐ نے مکہ سے صحابہ کووہاں بھجوادیا اورپھر خود مدینہ میں بھی آپؐ پر ایمان لانے والے موجود تھے ۔ پس حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اگر سالہاسال کہا ہے ۔تب بھی یہ ثبوت ہے کہ یہ کشف تھا ۔اوراگرصدیوں کہا ہے اورمیرے نزدیک یہی کہا ہے ۔توپھر تویہ قطعی طور پر ثابت ہے ۔کہ ان الفاظ کوموسیٰ کے منہ سے نکلواکر اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ موسیٰ کاروحانی سفر یعنی ان کی امت کازمانہ صدیوں تک ممتدّچلاجائے گا۔
میرے نزدیک اس فقر ہ کے اس جگہ بیان کرنے کی بھی ایک حکمت ہے اورو ہ یہ کہ موسوی سفر کی اس منزل میں جہاں کہ فتٰی آپ کے ساتھ شامل ہونا مقدر تھا ۔ایک حصئہ قوم میں یہ خیال پیداہونے والاتھا کہ اب موسیٰ کاسفر ختم ہوگیا ۔اب اس نوجوان یعنی حضرت عیسیٰ کاسفر شروع ہوگا۔یعنی بعض لوگوں میں یہ شبہ پیداہونے والاتھا ۔کہ حضر ت عیسیٰ کے آنے سے موسوی شریعت ختم ہوگئی ۔اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے نیادین جار ی کیا ہے ۔ان الفاظ میں اس شبہ کاازالہ کیاہے اورموسیٰؑ کے منہ سے یہ کہلوایاہے کہ ا س نوجوان کے ملنے سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کاسفرختم نہیں ہوتا۔بلکہ مجمع البحرین پر یعنی ظہورمحمد صلعم کے زمانہ پر جاکر ختم ہوگا ۔گویاعیسیٰ علیہ السلام کے ظہور پر کسی نئے دین کااجراء نہیں ہوگا۔بلکہ وہ موسوی دین کی تائید کریں گے اورموسیٰ کے سفرکوختم کرنے والے نہ ہونگے ۔بلکہ موسیٰ کی نیابت میں ان کے سفرکو پوراکریں گے ۔خود احضرت مسیح نے بھی اس امر کی تصدیق کی ہے ۔فرماتے ہیں :۔’’یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یانبیوں کی کتابوںکو منسوخ کرنے آیا ہوں منسوخ کرنے نہیں بلکہ پوراکرنے آیاہوں ‘‘۔(متی ۱۷؍۵)
اس کشف سے معلو م ہو تاہے کہ یاتوحضرت موسیٰ نے جب یہ کشف دیکھا اس کاشروع ہی یہ تھا کہ گویا وہ ایک راستہ پر ایک نوجوا ن کے ساتھ چل رہے ہیں ۔اورمنزل مقصود نہ ملنے پر حیران ہیں یایہ کہ اس سے پہلے بھی حصہ کشف کاتھا۔جس میں لمبے سفر کاذکر تھا مگراس کو بے ضرورت سمجھ کر قرآن کریم نے چھوڑ دیاہے ۔کیونکہ وہی آدمی یہ کہہ سکتاہے کہ جب تک مجمع البحرین تک نہ جاپہنچوں چلتاچلاجائوں گاخوا ہ صدیاں چلنا پڑے جو ایک عر صہ تک راستہ تلاش کرکے حیران ہورہاہو کہ منزل مقصود کہاں گئی ۔میرے نزدیک یہ اس امر کی دلیل ہے کہ وہ نوجوان حضر ت مسیح تھے ۔جوموسوی سفرکے اختتام کے قریب آکر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ملے اورپھر اس روحانی سفر میں ان کے ہمرکاب ہوگئے ۔
ا س آیت میں جو لفظ مجمع البحرین آیاہے یہ بھی ا سپر روشنی ڈالتاہے کہ یہ کشفی واقعہ ہے ۔کیونکہ مجمع البحرین کسی معروف جگہ کانام نہیں ۔اورسوائے اس کے کہ اس کے معنے دوسمندروں کے ملنے کی جگہ کے لئے جائیں اورکوئی معنے ظاہر میں نہیں کئے جاسکتے ۔ اورموسیٰ علیہ السلام کی ہجر ت کے بعد کی رہائش میں قریب ترین علاقے جہاںدوسمندر ملتے تھے یہ تین تھے ۔باب المندب ۔جہاںبحیرہ احمر اوربحرالہندملتے ہیں ۔دردانیال ۔جہاں بحیرہ روم اوربحیر ہ مامور ہ ملتے ہیں یاپھر البحرین جہاں خلیج فارس کاسمندر بحرالہند سے ملتاہے ۔یہ تینوں علاقے قریباً ہزارہزار میل دور ان کے وطن سے تھے ۔اوراس زمانہ کے حالات کو مدنظر رکھ کر کوئی سال بھر کاسفربنتاتھا ۔لیکن چونکہ کشف سے معلوم ہوتاہے کہ سمندر کے کنارے کنارے آپ سفرکررہے تھے ۔اس لئے دردانیال کادرہ ہی ظاہری سمندر بنتاہے ۔کیونکہ تینوں جگہوں میں سے صرف وہی جگہ ہے ۔جہاں تک موسیٰؑ کی جائے رہا ئش ہے ۔سمندر کے کنارے کنارے راستہ جاتاہے ۔مگر یہی و ہ راستہ ہے جس میں کنعان پڑتاہے ۔اورجس کے متعلق بائبل شاہد ہے کہ موسیٰ علیہ السلام اپنی زند گی میں وہاںنہیں جاسکے ۔پس یہ واقعہ بھی اس امر کاثبوت ہے کہ یہ ایک کشف تھا ۔اورمجمع البحرین کسی جگہ کانا م نہیں بلکہ ایک تعبیر طلب نام ہے ۔چنانچہ تعطیرالانام میں لکھا ہے ۔’’اَلْبَحْرُ فی المنام یدُلُّ علی ملکٍ قوِیٍّ مُھابٍ عادلٍ شفیقٍ یَحتاجُ اِلیہِ الخلائقُ۔اورپھر لکھاہے رُبَّمَا دَلَّ البحرعلی التَّسبیح والتَّھلیل(تعطیر الانام )سمندرسے مراد زبردست بادشاہ جوعاد ل ہو ،شفیق ہو ،اوردنیا اس کی محتاج ہو ۔ہوتاہے ۔اورایساہی سمندر کے معنے تسبیح و تہلیل کے بھی ہوتے ہیں ۔اوراس میں گویا ’’سُبحان الذی اسرٰی بعبدہٖ ‘‘کی طر ف اشارہ ہے ۔
پس مجمع البحرین سے مراد درحقیقت و ہ زمانہ تھا ۔جہاں حضر ت موسیٰ علیہ السلام کازمانہ ختم ہوا۔اورمحمد رسول اللہ صی اللہ علیہ وسلم کازمانہ شروع ہوا۔یعنی وہ گھڑی جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلاالہام نبوت ہوا۔مجمع البحرین تھی ۔وہاں موسیٰ جو ایک روحانی عادل،شفیق اوردنیاکے لئے ضروری بادشاہ تھے ان کاعلاقہ ختم ہوتاتھا اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو اور بھی بڑے روحانی سمند ر تھے ان کازمانہ شروع ہوتا تھا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کشف میں دوبڑے سمندروں کے ملنے کامقام دکھا کر گویایہ بتایاگیا کہ اس زمانہ تک آپ کی امت کازمانہ ہے ۔آگے ایک اورسمندر شروع ہوتاہے ۔آپ کازمانہ ختم ہوکر اس نئے نبی کاکام شروع ہوگا۔اوروہی شخص روحانی زندگی کاسامان حاصل کرسکے گا جواس سمندر میں غوطہ لگائے گا۔
ا س رویا میں اس طرف بھی اشارہ کیا گیاہے کہ موسوی سلسلہ محمدی سلسلہ کے لئے بطور ارہاص ہے ۔اورآخر یہ سمندراس سمندرمیں جاکرمل جائے گا۔اسی وجہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوجوکشف دکھایاگیاتھااس میں تویہ نظارہ دکھایاگیا تھا کہ جبریل خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ۔مگرحضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ نظارہ دکھایا کہ وہ مجمع البحرین کی طرف اپنے ساتھی کو لے کر گئے اوروہاں جاکران کاسفر ختم ہوگیا ۔
فلمابلغ مجمع بینھما نسیا حوتھما فاتخذ سبیلہ فی البحر سرباً٭
پس جب وہ ان(دونوں سمندروں کے)باہر ملنے کی جگہ پرپہنچے تووہ اپنی مچھلی (وہاں)بھول گئے ۔جس پراس نے تیزی سے بھاگتے ہوئے سمندر میں اپنی راہ لی ۵۷؎
۵۷؎ حل لغات ۔الحوتُ کے معنے ہیں اَلسَّمَکَ وقد غلب فی الکبیر ۔مچھلی او رزیاد ہ تربڑی مچھلی پر بولاجاتاہے ۔اَلسَّرَبُ۔حُجرالوحشی ۔وحشی جانور کے رہنے کی جگہ ۔الحفیر تحت الارض۔زمین کے اندرگڑھا ۔القناۃ۔یدخل منھا الماء ۔پانی کی نالی ۔نیز سَربٌ مصد ربھی ہے جسکے معنی تیزی سے چلنے کے ہیں (اقرب)
تفسیر ۔نَسِیَاحُوتھما:۔حوت کے معنی علم التعبیر میں یہ لکھتے ہیں ۔’’ربما دلّت رؤیتہ علی معبد الصالحین ومسجد المتعبدین ‘‘(تعطیر الانام)
حوت یعنی مچھلی کادیکھنا بہت نیک لوگوں کی عبادت کی جگہ اورعبادت گزاروں کی مسجد پر دلالت کرتاہے ۔
جیسا کہ اس آیت سے او راگلی آیت کے بعد کی سے معلوم ہوتاہے ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مجمع البحرین کے مقام کی شناخت یہ بتائی گئی تھی کہ وہاںمچھلی غائب ہوجائے گی ۔پس نَسِیَا حُوْتَھُمَاکے معنے یہ ہوئے ۔کہ جس مقام پر ان لوگوں کے ہاتھوںسے نیک لوگوں کی عبادت گاہیں اورعبادت گزاروں کی مساجد نکل جائیں گی ۔وہی مقام مجمع البحرین ہوگا ۔یعنی جہاں موسوی سلسلہ ختم ہوجائے گااورمحمدی سلسلہ شروع ہوگا ۔
یہ مضمون کس قد واضح ہے۔ایک نئے نبی کے آنے سے نیکی اورعبادت پہلی قوم سے چھین لیجاتی ہے ۔اوراس نبی کی قوم کی طرف منتقل ہوجاتی ہے ۔اسی کی طرف اس کشف می اشارہ کیا گیا ہے اوربتایا ہے کہ سلسلہ محمدیہ کے اجراء پر بنی اسرائیل یعنی موسوی سلسلہ کے لوگوں کی عبادات خداتعالیٰ ے حضو ر می مقبول نہ رہیں گی۔اورمحمد رسو ل اللہ کی امت کی عبادتیں ہی مقبول ہوں گی اورعبادت اورصلاحیت کے جوآثار ہیں موسوی سلسلہ کے لولگوں سے غائب ہوجائیں گے اورنسیا حوتھما کہکر یہ بتایا ہے کہ خالص اسرائیلی قوم توا س وقت اسے پہلے ہی صحیح عبادت اورتقویٰ کوکھوچکی ہوگی ۔صرف وہی قوم عبادت اورصلاحیت اپنے اندررکھتی ہوگی جوصرف موسی کی قوم نہیں کہلاسکیگی۔یعنی حضرت مسیح کے آنے کے بعد مسیحیوں میں عبادت رہ جائے گی۔بنی اسرائیل اس سے محروم ہوجائیں گے ۔لیکن چونکہ حضرت مسیح حضرت موسیٰ کے سلسلہ کے ہی نبی ہوںگے ۔اس لئے ان کی حوت بھی ایک رنگ میں موسیٰ کی حوت ہوگی۔اس لئے وہ دونوں کی طر منسوب وہ گی ۔مگر مجمع البحرین کامقام آئے گا تواس قوم کے ہاتھ سے بھی جن کے موسیٰ اورعیسیٰ علیہ السلام مشترک طورپر معلم ہوںگے ۔عبادت اورصلاحیت جاتی رہے گی ۔
اس آیت اسے بھی معلوم ہوتاہے کہ یہ کشف تھا ۔کیونکہ اظاہر مجمع البحرین توایسی جگہ ہوتی ہے کہ اسے کوئی بھول ہی نہیں سکتا اوراس کے لئے کسی حوت کی علامت کی ضرورت نہیں ۔پس یہ روحانی مجمع البحرین ہے جو علامتوںسے سمجھا جاسکتاہے ۔کیونکہ ظاہر می اس کی کوئی علامت نہیںہوتی ۔بلکہ لوگ دوسرے بحر کے زمانے میں اس کی مخالفت کرتے اور اسے جھوٹاکہتے ہیں ۔اوریہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے کہ مجمع البحرین آگیا ہے ۔یعنی پہلے نبی کازمانہ ختم ہوگیا ہے اوردوسرے نبی کازمانہ شرو ع ہوگیاہے ۔اس کی علامت یہی ہوتی ہے کہ پہلے نبی کی عبادت اورصلاحیت جاتی رہتی ہے ۔اورعقلمند لوگ اللہ تعالیٰ کے سلوک میں ،اس فرق کو دیکھ کر کہ اب وہ پہلی قوم کی عبادات کی کوئی قد رنہیں کرتا اوردوسری قوم کی عبادتوںکو قبول کرتا اوراس کی دعائوں کوسنتاہے سمجھ جاتے ہی کہ مجمع البحرین آگیا ہے ۔
اس مضمون کی طر ف قرآن کریم کی ایک اورآیت می کھلے لفظوں میں اشارہ کیاگیاہے فرماتا ہے ۔محمد ٌ رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار رُحمائُ بینہم ترٰئھم رُکَّعاً سُجَّداًیبتغون فضلاً من اللہ ورضواناً ط سِیمٰھم فی وجوھھم من اَثَرِ السُّجُود ط ذٰلک مَثَلُھُم فی التورٰئۃ (فتح ع ۴) یعنی محمد ؐ اللہ کے رسول ہیں ۔اوروہ لوگ جو ان کے ساتھ ہی کفار کے مقابل پر بہت سخت ہیں ۔اورآپس میں بہت رحم کرنے والے ہیں ۔ توان کودیکھے گاکہ رکوعوںاور سجدوںمیں لگے رہتے ہیں ۔اوراللہ تعلایٰ کے فضل اورا س کی رضاکے متلاشی ہیں۔ان کے مونہوں سے ان کے سجدوں کی قبولیت کے آثار ظاہر ہیں۔یہ ان کی مثال تورات میں بان ہوچکی ہے ۔اس آیت میں صاف بتایا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ سے بتایاگیاتھا کہ محمد رسو ل اللہؐ اوان کی جماعت کی سچائی کاثبوت یہ ہوگاکہ ان کے چہروں سے یہ معلوم ہوگاکہ خداتعالی ٰ نے ان کے سجدوں کوقبول کرلیا ہے ۔جبکہ ان کے مخالفوں کی عبادتیں رد کردی جائیں گی۔اوراللہ تعالیٰ کے فضلوں کے آثا ر ان کے چہروں سے ظاہر نہ ہو ں گے ۔
میں اس آیت کو دیکھتے ہوئے سمجھتاہوں کہ تورات میں ا کشف کاذکر تھا۔مگریہود میں سے بعض نے جہا ں اورتحریفیں تورات میں کیں وہاں اسے بھی نکال دیا۔کیونکہ اس سے ان کیقوم پر ایک زد پڑتی تھی ۔لیکن ان کی زبانی روایات میں ا س کشف کاذکر باقی رہ گیاہے ۔جیساکہ یہود کے دوسرے لٹریچر میں اس کشف کابگڑی ہوئی صورت میں وجود پایاجاتاہے ۔
ا س آیت سے یہ بھی ثابت ہوتیاہے کہ موسوی سلسلہ محمدی سلسلہ کی ایک کڑی تھا ۔کیونکہ مجمع البحرین کاظاہر میں کوئی نشان نہ ہونابتاتاہے کہ یہ دونوں سمندر ااس طرح آپس میں ملے تھے۔کہ دوسمندر نہ معلوم ہوتے تھے بلکہ اگلا سمندر پہلے کا تسلسل ہی معلوم ہوتاتھا ۔گویا پہلے سمندر کاپانی دوسرے میں آملاتھا۔ایک دوسرے کے مقابل کے سمندر نہ تے کہ ان کے ملنے کی جگہ کاالگ نشان نظر آتا ۔
فلما جاوزاقال لفتٰہ اٰتنا غداء نا لقدلقینا من سفرنا ھذانصبا٭
پھر جب وہ(اس جگہ سے )آگے نکل گئے تواس نے اپنے نوجوان (رفیق ) سے کہا (کہ)ہماراصبح کاکھانا ہمیں دے ہمیں یقینا اپنے اس سفر کی وجہ سے تکان ہوگئی ہے ۔ ۵۸؎
۵۸؎ حل لغات ۔غدائَ نا:الغدائُ کے معنے ہیں طعام الغُدَوَۃ۔صبح کاکھانا(اقرب) نصبًا:نصبٌ کے معنے تھکان کے ہیں ۔مزید تشریح کے لئے دیکھو حجر ۴۱؎
تفسیر ۔یہ ضروری نہیں کہ ان تمام واقعات کی تعبیر ہی کی جائے ۔کیونکہ بعض دفعہ کشف کی صورت میں بعض ایسے واقعات بھی ہوتے ہیں جوصرف رویا کوایک مکمل نظار ہ کی صورت دینے کے لئے شامل کئے جاتے ہیں ۔خود وہ تعبیر کے قابل امورحصہ نہیں ہوتے ۔مثلاً ایک شخص خواب میں ایک موت کا نظارہ دیکھتاہے تواس کے ساتھ کوئی مکان وغیرہ بھی دیکھ لیتاہ ۔وہ مکان تعبیر طلب نہیں ہوتا۔بلکہ صرف وہ نظارہ جسسے کسی کی موت پر دلالت کی جاتی ہے ۔تعبیر طلب ہوتاہے ۔لیکن اگر اس واقعہ کی بھی تعبیر ک جائے تومضمون میں وسعت پیداہوتی ہے ۔اس لئے میں اس کی بھی علم تعبیر کے مطابق تشریح کردیتاہوں
غداء کے معنے علم التعبیر میں یہ لکھے ہیں کہ جو اپنا غداء طلب کرے ۔اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ تھک جایء گا(تعطیر الانام )
ان معنوں کے روسے یہ مراد ہوگی کہ جب مجمع البحرین یعنی رسول کریم صلعم کازمانہ آجائے گا توحضرت موسیٰ اورعیسیٰ کی قوم ا س سے فائدہ نہ اٹھائے گی (کیونکہ یقینا ا س کشف میں موسیٰ اورعیسیٰ علیہ السلام سے مراد ان کی قومیں ہیں نہ کہ وہ خود۔ کیونکہ انہوں نے محمد رسول اللہ ؐ کازمانہ نہیں پایا ۔بلکہ ان کی قوم نے یہ زمانہ پایا )بلکہ ان کاانکار کرکے اپنے سفر کوجاری رکھے گی اوراپنے مذہب کے زمانہ کے ختم ہونے کو تسلیم نہ کرے گی ۔تب ایک لمبے سفر کے بعد وہ اپنے اند رتکان محسوس کرے گی حیران ہوگی کہ ہمیں جو کہاگیاتھا کہ ایک رسول کامل آنے والاہے وہ کیوں نہیں آیا ۔اس وقت تھک کروہ سوچ میں پڑ جایء گی کہ کہیں ہم سے غلطی تونہیں ہوئی ۔کہیں وہ آتو نہیں چکا ۔اورہم ا س کے ماننے سے محرو م تونہیں رہ گئے ۔
قال ارء یت اذاوینا الی الصخر ۃ فانی نسیت الحوت وما
اس نے کہا (کہ )بتائیے (اب کیا ہوگا) جب ہم (آرام کے لئے )اس چٹان پر ٹھیر یتومیں مچھلی(کاخیال )بھول گیا ۔اورمجھے یہ
انسنیہ الاالشیطٰن ان اذکر ہ واتخذ سبیلہ فی البحر عجباً
(بات )شیطان کے سواکسی نے نہیں بھلائی ۔اوراس نے سمندر میں عجیب طرح سے اپنی راہ لے لی ۵۹؎
۵۹؎ حل لغات ۔عجباً:العجب کے لئے دیکھو یونس ۶؎
تفسیر ۔الصخر ۃ۔الحَجر العظیم الصَّعْبُ(اقرب)یعنی عربی زبان میں بڑے اور سخت پتھرکوکہتے ہیں اورعلم تعبیر میں صخر ہ کے معنے لکھے ہیں ۔وتدلّ علی قبیح من الفجورِ (تعطیر الانام )یعنی خواب میں کوئی صخر ہدیکھے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ وہ نہایت گندے فسق و فجور میں مبتلاہوگیا ہے ۔اس تعبیر کی روسے اذاوینا الی الصخرۃ کے معنے یہ ہوں گے ۔کہ جب ہم فسق وفجو رمیں مبتلاہوگئے اورمیں بتاآیا ہو ں کہ اس کشف میں موسیٰ علیہ السلام اورحضرت عیسیٰؑ سے مراد ان کی قوم ہیں ۔کیونکہ محمد رسول اللہ صلعم کازمانہ انہوں نے پایا تھا کہ نہ خود حضرت موسیٰ اورحضر ت عیسی نے ۔پس یہ تعبیر ہمیں دھوکے میں نہیں ڈال سکتی ۔مراد یہ ہے کہ جب و ہ قوم جو حضرت موسی ااور حضر ت عیسیٰ کی مشترکہ تھی ۔فسق وفجور میں مبتلاہوجائے گی ۔وہی زمانہ مجمع البحرین کا ہوگایعنی اس وقت محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظاہر ہونگے اور یہ ظاہر ہے کہ نبی تبھی دنیا میںآتے ہیں جبکہ اس وقت کے لوگ فسق و فجور میں مبتلاہوجاتے ہی ۔
پس ا س نظارہ کی تعبیر یہ ہوگی ۔کہ جب مسیحی قو م فسق وفجور میں مبتلاہوگئی تھی وہی وقت محمد رسول اللہ ؐ کے ظہور کاتھا ۔اوریہ خیا ل مسیحیوں کو ایک لمبے عرصہ کے بعد اپنے میں سفرمیں تھک جانے اوراپنی کوششوں میں ناکا م رہنے کے بعد پیداہوگا اوروہ افسوس کریں گے کہ ہم نے اس زمانہ کوکیوں کھودیا ۔
وماانسٰیہُ الا الشیطان نے اس مضمون کواوربھی واضح کردیا ہے یعنی محمد رسول اللہ کی پہچان سے ہم شیطانی وساوس کی وجہ سیمحروم رہے ۔ ورنہ جبکہ ہمار ی قو م کے ہاتھ سے عبادت کے ثمرجاتے رہے تھے ۔اورہم فسق و فجور میں مبتلاہواگئے تھے ۔توکیوں ہم نے یہ نہ سمجھ لیا کہ اب مجمع البحرین کامقام آگیاہے ۔اورہمار یقوم سے خدا تعالیٰ نے اپنی مدد ہٹالی ہے ۔اورموعود نبی کازمانہ آچکا ہے ۔ اورواتخذ سبیلہٗ فی البحر عجباً۔جو فرمایا اس میں وہ اپنی غلطی پر تعجب کرتے ہیں کہ حوت ہمارے ہاتھ سے نکل کر کس طرح دوسرے سمندر میں چلی گئی۔یعنی عبادت کے ثمرات مسلمانوں کی طرف منتقل ہوگئے اور ہم خالی ہاتھ رہ گئے ۔
یہ نظار ہ بھی کشف پر دلالت کرتاہے ۔ورنہ مجمع البحرین کے سمجھانے کے لئے کسی ظاہر ی مچھلی کے نشان کی کویء ضرورت نہ تھی ۔ اوراگر ظاہری طور پر مچھلی کو دیکھ کر و ہ ونوں چل رہے تھے ۔توپھر بھولنے کے معنے ہی کوئی نہیں ۔کیا کبھی ا س دنیا میں ایسا ہواہے کہ مثلاً اگر کوئی شخص موٹر میں سفر کررہاہو ۔پھر ایک لمباسفر طے کرنے کے بعد وہ بھول جائے کہ میں موٹر میں سفر کررہاتھا ۔اورپید ل سفرکرنے لگ جائے ۔اورکچھ دورجاکر اسے یہ بات یاد آئے ۔غرض جب مچھلی کے نشان پر و ہ چل پڑے تے ۔ اس می بھولن کاکوئی امکان ہی نہ تھا ۔
قال ذٰلک ماکنا نبغ فارتداعلی اثارھما قصصا٭
اس نے کہا (کہ )یہی وہ (مقام )ہے جس کی ہمیں تلاش تھی ۔پھر وہ اپنے پائوں کے نشان دیکھتے ہوئے واپس لوٹے ۔ ۶۰؎
۶۰؎ حل لغات ۔نَبْغ:بغاہ کے معنے ہیں طلبہ اسے چاہا (اقرب)نبغ جمع متکلم کاصیغہ ہے اس کے معنے ہوں گے کہ ہم چاہتے ہیں ۔
تفسیر ۔یعنی اس موقعہ پر وہ سمجھ جائیں گے کہ انہوں نے غلطی سے اپنا الگ سفر جاری رکھا ۔مجمع البحرین کو تووہ پیچھے چھو ڑآئے ہیں ۔
فوجداعبداً من عبادنا اٰتینہ رحمۃً من عندنا وعلمنٰہ من لدنا علماً٭
توانہوں نے ہمار ے(برگزید ہ)بندوں میں سے ایک ایسابندہ (وہاں)پایا جسے ہم نے اپنے حضور سے رحمت (کی سیرت)بخشی تھ ۔اوراسے ہم نے اپنی جناب سے (خاص )علم (بھی)عطاکیاتھا ۶۱؎
۶۱؎ تفسیر ۔عبدًامِنْ عِبَادِنَا:قرآن مجید میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوعبدٌ کے لفظ سے یاد کیاگیا ہے ۔سورۃ الجن میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔وَاَنَّہٗ لَمَّا قَامَ عَبْبُ اللہِ یَدْعُوْہُ کَادُوْایَکُوْنُوْنَ عَلَیْہِ لِبَدًا۔(الجن ع ۱)کہ آپ جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں ۔تولوگ آپ ہجوم کرکے امڈ آتے ہیں ۔صوفیاء نے تویہاں تک بحث کی ہے کہ عبدکامقام سب درجات سے بڑادرجہ اوربلند مقام ہے ۔اورسوائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی کامل عبد نہیں ہے ۔
اٰتَیْنَاہُ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِنَا میں بھی آپ کے وجود کی طرف اشار ہ فرمایاہے ۔جیساکہ فرماتاہے ۔وماارسلنک الا رحمۃ للعالمین ۔(انبیاء ع ۷)یعنی ہم نے تجھے جہان کے لئے رحمت ہی رحمت بناکربھیجاہے ۔
عَلَّمْنَاہُ مِنْ لَّدُنَّاعِلْمًا۔یعنی ا سکو خاص علم دیاگیاہے جوپہلو ں کو نہ ملا ۔سورۃ انعام میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔وعَلَّمَکَ مَالَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ وَکَانَ تَعلمُ وکان فضلُ اللہ ِ عَلیک عَظیماً(نساء ع ۱۷)کہ اے رسول ہم نے تجھے وہ کچھ سکھایاہے جوتوپہلے نہ جانتاتھا ۔اورتجھ پر اس ذریعہ سے بڑافضل کیاہے ۔اسی طرح فرماتاہے ۔وَعَلِّمْتُمْ مَّالَمْ تَعْلَمُوْااَنْتُمْ وَلآَ اٰبَآئُ کُمْ ( انعام ع ۱۱) یعن اس نبی کے ذریعہ سے تم کو وہ علم عطاکیاگیاہے جواس سے پہلے کسی کو نہیں دیاگیا۔اورپہلوں میں موسیٰ و عیسیٰ بھی شامل ہیں ۔اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔اِنَّکَ لَتُلْقّٰی القُرْٰنَ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ عَلیمٍ(نمل ع ۱) یعنی تجھ کو قرآن حکیم اورعلیم خداکی طرف سے سکھایاجاتاہے ۔اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دعاسکھائی گئی ہے کہ قل رب زدنی علما ً(طٰہٰ ع ۶)یعنی اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)تواللہ تعالیٰ سے دعاکرتارہاکرکہ الٰہی میراعلم اوربڑھادے ۔میراعلم اوربڑھادے ۔
قال لہ موسیٰ ھل اتبعک علی ان تعلمن مماعلمت رشدا
موسیٰ نے اس سے کہا(کہ )میں اس (مقصد کے )لئے آپ کے ساتھ چل سکتاہوں ۔کہ جوعلم آپ کو عطاہواہے ۔اس میں سے کچھ رشد (کی باتیں)مجھے بھی سکھائیں ۔ ۶۲؎
۶۲؎ حل لغات ۔رُشدٌ۔حق کے راستے پراستقامت اختیار کرنارشد کہلاتاہے (اقرب)
تفسیر ۔اس آیت سے موسوی مقام اورمحمدی مقام کامقابلہ کرکے دکھایاگیاہے اوربتایا ہے کہ موسوی مقام محمدی مقام کے تابع ہے اورجن امور کی تہ تک محمدی علوم پہنچے ہیں۔ان تک موسوی علوم نہ پہنچے ۔اور کشف میں ا س لطیف مقابلہ کو ایک مکالمہ اورمصاحبت کی صورت میں دکھایاگیاہے ۔
قال انک لن تستطیع معی صبراً٭
اس نے کہا (کہ)تومیرے ساتھ رہ کر ہرگزصبرنہیں کرسکے گا ۶۳؎
۶۳؎ تفسیر ۔اس آیت میں گویا لن ترانی والے مضمون کو بیان کیاگیاہے کہ محمدی کمالات کی بلندی کو موسوی کمالات نہیں پہنچ سکتے ۔اوربتایا ہے کہ محمدی قوم کاصبر اورمرتبہ رکھتاہے اورموسوی قم کاصبراور مرتبہ رکھتاہے ۔جن ابتلائوںاورمشکلا ت کامسلمانوں نے مقابلہ کیا ،موسوی سلسلہ کے لوگ وہاں آکر رہ گئے ۔ا س میں اس طرف بھی اشارہ کیا ہے ۔کہ گومسیحی سلسلہ ک لوگوںنے ایک لمبے عرصہ تک مشکلات برداشت کیں ۔مگروہ مشکلات جسمانی تھیں ۔علمی آزمائیشیں نہ تھیں ۔علمی مشکلات کاوہ مقابلہ نہیں رسکے۔چنانچہ خود حضرت شاکی رہے کہ میرے مقام کوکوئی نہیں سمجھا ۔حتی کہ انجیل میں تویہاں تک لکھا ہے ۔کہ امسیحؑ نے اپنی فلسطینی زندگی کے آخری سال میں جبکہ صلیب کاواقعہ قریب تھا ۔شاگرد پطرس سے پوچھا کہ لوگ مجھے کیا سمجھتے ہیں ۔اورجب انہوں نے بتایاکہ مَیں توآپ کومسیح سمجھتاہوں تووہ بہت خو ش ہوئے (متی باب ۱۶ آیت ۱۸،۱۹)جس سے معلوم ہوتاہے کہ اورتواورحواری بھی ان کومسیح ماننے کے لئے تیار نہ تے ۔صرف ایک معمولی نبی سمجھتے تھے ۔پس پطرس کے ایمان کودیکھ کر ان کوخوشی ہوئی ۔
اس آیت میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورحضرت موسیٰؑ کی طبیعتوںکابھی مقابلہ ہے ۔حضرت موسیٰؑ جلد سوال کرنے لگ جاتے ۔ اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہتے ۔یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ہی آپ پر ہربات ظاہرکرتا ۔اوریہی فرق دونوں کی امتوں میں تھا ۔
تورات پر نظر ڈالو۔کہ بنی اسرائل سوال پر سوال کررہے ہیں ۔مگرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کا یہ حال ہے کہ صحابہؓ کہتے ہیں کہ ہم انتظار کیاکرتے تھے ،کہ کوئی اعرابی آوے ۔اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی سوال پوچھے ۔تاہم بھی سن لیں ۔گویا اس قدر وقار اورصبر نفس حاصل تھا ۔کہ خود نہ پوچھا کرتے تھے ۔اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خداتعالیٰ فرماتا ہے ۔اَمْ تُریدون ان تسئلو ا رسولکم کما سُئِلَ موسیٰ من قبلُ(بقرہ ع ۱۳)کہ کیاتم سے بعض موسیٰ کی قوم کی طرح سوال کرناچاہتے ہیں ۔ایسانہ کرنا ۔وہ لوگ انہیں بار بار خداتعالیٰ کی طرف توجہ کرنے پر مجبورکیاکرتے تھے ۔چنانچہ اس حکم پر عمل کرتے ہوئے صحابہؓ نے ادب کے طریق کومضبوطی سے پکڑ لیا ۔خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کایہ حال تھا کہ جو خداتعالیٰ بتاتاسن لیتے ورنہ صبر سے انتظارکرتے ۔اوراس حکم پر عمل فرماتے کہ ولا تجعل بالقراٰنِ من قبلِ ان یُّقضٰی اِلیک وَحیُہٗ وقل رب زدنی علماً(طٰہٰ ع ۶)یعنی قرآن کریم کواپنے وقت پر نازل ہونے دو ۔اورا سکی وحی کے آنے سے پہلے سوال نہ کیاکرو۔اوریہ دعاکروکہ الٰہی میرے علم کوبڑھاتارہ ۔
وکیف تصبر علی مالم تحط بہ خبراً٭
اورجس بات کے علم کاتونے احاطہ نہیںکیا اس پر توصبر کر(بھی )کیونکرسکتاہے ۶۴؎
۶۴؎ حل لغات ۔لَمْ تُحْطِ بہٖ خُبْرًا:۔کہتے ہیں ۔احاطَ بہِ علماً اَحْدَق علمُہ بِہِ من جمیع جھاتہِ وعَرفہُ۔کسی بات کی خوب واقفیت اورآگاہی حااصل کی (اقرب)پس لم تحط بہ خبراً کے معنے ہوں گے کہ جس بات کے علم کاتونے احاطہ نہیں کیا ۔
تفسیر ۔اس میں اس طر ف اشار ہ ہے کہ موسوی سلسلہ کے لوگوں کے لئے محمدی علوم کاسمجھنا واقعہ میں مشکل ہوگا۔کیونکہ ا س دین میں بہت سے مسائل نئے بتائے جائیں گے۔اوراس شخص کے لئے جواپنے آپ کوعالم سمجھتاہو ۔نئی بات کوماننامشکل ہوتاہے ۔چنانچہ کفار جن کے دل صاف تختی کی طرح تھے ۔وہ تو بہت جلد آپ پر ایما ن لے آئے ۔مگریہودونصاریٰ جن کے پاس خداکاکلام موجود تھا محروم رہے ۔کیونکہ ہربات جواسلام میں ان کی کتب کے خلاف ہوتی تھی۔ان کے صبر کے پیمانہ کوچھلکادیتی تھی ۔اوروہ ابتلاء میں پڑ جاتے تھے ۔حضرت مسیحؑ کے وقت میں بھی اسی وجہ سے یہود ہدایت سے محروم رہے۔اورغیرقومیں اصرار کرکے اس دین میں شامل ہونے لگیں ۔
قال ستجدنی ان شاء اللہ صابراً ولا اعصی لک امراً٭
اس نے کہا (کہ )اگراللہ(تعالیٰ)نے چاہاتوآپ مجھے صابر پائیں گے ۔اورمیںآ پ کے حکم کی نافرمانی نہیں کروں گا ۶۵؎
۶۵؎ تفسیر ۔ موسیٰؑ نے کہا۔کہ تومجھے صابر پائے گا۔اورمیں تیرے حکم کی نافرمانی نہیں کروں گا۔اس آیت سے بھی ظاہر ہے ۔کہ یہ خواب تھی ۔کیونکہ حضرت موسیٰؑ جومستقل نبی تھے ،دوسرے شخص سے خواہ وہ کوئی ہو ،یہ نہ کہہ سکتے تھے کہ امورروحانیہ میں میں تیری فرمانبرداری کروںگا۔
اس آیت میں یہ اشار ہ ہے کہ موسوی قوم میں سے جولوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کو پائیں ،ان کے لئے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ واسلم کی اطاعت فرض ہے ۔اوراسی طرف حدیث میں ان الفاظ میں اشارہ موجود ہے۔کہ ’’لوکان موسیٰ وعیسیٰ حیّین لماوسعھما الااتّباعی ‘‘۔(ابن کثیر جلد ۲ص ۲۴۶)اگرموسیٰ اورعیسیٰ بھی زندہ ہوتے تووہ بھی میری پیروی کرتے ۔
قال فان اتبعتنی فلاتسلئنی عن شیئٍ حتی احدک لک منہ ذکراً٭
اسنے کہا (کہ)اچھا اگرتومیرے ساتھ چلے ۔توتوکسی چیز کے متعلق جب تک میں اس کے متعلق تجھ سے ذکرکرنے میں پہل نہ کروں مجھ سے سوال مت کیجئیو ۔ ۶۶؎
۶۶؎ حل لغات ۔اُحْدِثُ: اَحْدَثَہُ کے معنے ہیں۔ابتدأہٗ۔اس کی ابتداکی ،پہل کی (اقرب)پس حتّٰی اَحْدِثَ کے معنے ہوںل گے یہاں تک کہ میں پہل کروں ۔
تفسیر ۔یعنی اس عبد نے کہا ۔کہ بہت اچھا ،چلو میرے ساتھ مگرجب تک میں خود نہ بولو ں تم نہ بولنا ۔
یہ عجیب لطیفہ ہے ۔کہ موسیٰ سے پہلے سے اس قدرعہد لئے گئے ۔اورپھر بھی وہ پوچھتے چلے گئے ۔مگرمحمد رسول اللہ صلعم کے اسرا ء میں جبریل نے ان سے کوئی عہد نہ لیا۔مگرپھر بھی جب دنیااورشیطان کے تمثیلی وجودوں کے کرنے کے موقعہ پر جبریل نے آپؐ کو سوال کرنے سے روکا ،توآپؐ نے اس کی بات مان لی اورسوال نہ کیا ۔حالانکہ آپ نے کوئی عہد نہ کیاتھا۔اس سے بھی محمدی مقام اورموسوی مقام کافرق ظاہر ہوتاہے ۔
فانطلقا حتی اذارکبافی السفینۃ خرقھا ط
پھر و ہ (دونوں وہاں سے )چل پڑے ۔یہاں تک کہ جب وہ کشتی میں سوار ہوئے ۔تواس(خداکے برگزیدہ )نے اس میں شگاف
قال اخرقتھا
لتغرق اھلھا لقد جئت شیئًاامراً٭
کردیا ۔اس نے کہا(کہ )کیا آپ نے اس لئے شگاف کیا ہے کہ آپ اس کے اندر (بیٹھ کرجانے )والوںو کو غرق کردیں آپ نے یقینا (یہ)ایک ناپسندیدہ کام کیا ہے ۶۷؎
۶۷؎ حل لغات ۔انطلقا:انطلق سے تثنیہ کاصیغہ ہے ۔اورانطلق کے معنے ہیں ۔ذھب چلا گیا (اقرب)پس انطلقاکے معنے ہوں گے وہ دونوں چل پڑے ۔
خَرَقہا :خرق الثَّوبَ کے معنے ہیں ۔مَزّقہٗ کپڑے کو پھا ڑ دیا ۔(اقرب)الخرقُ:قطعُ الشیء علی سبیل الفسادِ من غیر تدبُّرٍ ولاتفکّرٍ۔کسی چیز کوخراب کرنے کے لیء ۔بغیر سوچے سمجھے کاٹ دینا(مفردات )
اِمْرًا:الامر کے معنے ہیں۔العجیب ۔عجیب ۔المنکر۔اوپرا۔ناپسندیدہ (اقرب)
تفسیر ۔اس مقام سے حضرت موسیٰ کے اسراء کاااصل واقعہ شروع ہوتا ہے ۔اورامت محمدیہ اورامت موسویہ کے حالات کامقابلہ کیاگیا ہے ۔
استاذی المکر م حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ فرمایاکرتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسراء اور حضرت موسیٰ کے اسراء میں یہ فرق ہے کہ رسول کریم صلعم نے سوال سیپرہیز کیا ۔اورموسیٰ علیہ السلام نے صبر نہ کیا ۔اس سے بتایاگیاہے کہ محمد رسول اللہ صلعم کی امت صبر سے دین پر قائم رہے گی۔اورحضر ت موسیٰ علیہ السلام کی امت بے صبری کرکے دین کو چھوڑ بیٹھے گی ۔یہ ایک لطیف نکتہ ہے اورواقعات اس کی تصدیق کرتے ہیں ۔اسی طرح آپ فرماتے تھے کہ آنحضرت صلعم کے اسراء میں بھی تین واقعا ت دکھائے گئے تھے ۔اورحضرت موسی علیہ والسلام کے اسراء میں بھی تین ہی واقعات دکھائے گئے ہیں۔مجھے اللہ تعالیٰ نے ا سپر مزید علم یہ بخشاہے ۔ کہ صرف تین واقعات میں ہی مشابہت نہیں بلکہ دونوں کے اسراء میں جوواقعات دکھائے گئے ہیں ۔ان کی تعبیر بھی وہی ہے ۔اورصرف تمثیلی زبان میں فرق ہے ورنہ حقیقت ایک ہی ہے ۔اورہونابھی یہی چاہیئے تھا کیونکہ موسوی اسراء میں محمدی ظہورکی خبر د ی گئی تھی۔پس ضروری تھا کہ محمدی اسراء کے واقعات کی طرف اشارہ کیاجاتا ۔
مجھے یادنہیں کہ حضرت مولوی صاحب سفینہ کے کیامعنے کیاکرتے تھے ۔میں جوا سکے معنے کرتاہوں وہ مال کے ہیں ۔علم تعبیرالرویامیں سفینہ کی بہت سی تعبیریں لکھی ہیں ۔اوران میںسے ایک تعبیر مال ہے(تعطیر الانام)میرے نزدیک اس کشف سے یہی مراد ہے اورقرآن کریم بھی اس کیتصدیق کرتاہے کیونکہ قرآن کریم میں آتاہے ۔ربکم الذی یزجی لکم الفُلکَ فی البحر لتبتغوامن فضلہ انہ کان بکم رحیماً۔(بنی اسرائیل ع ۷)یعنی تمہارارب وہ ہے جس نے سمندر میں تمہارے لئے کشتیاںچلائی ہیں تاکہ تم اللہ کے فضل کویعنی مال ودولت کوحاصل کرو۔و ہ تم پر بہت مہربان ہے ۔پس میر ے نزدیک سفینہ سے مراد دنیاوی مال ہی ۔اورکشتی میں دونوں کے سوار ہونے سے مرا د یہ ہے کہ دونوں کی امتوں پر ایک وقت ایساآئے گاکہ انہیں دنیو ی مال بافراغت ملے گا ۔
آگے لکھا ہے جب وہ دونوں کشتی میں سوار ہوئے توا س ساتھی نے کشتی کوپھاڑ دیا۔خرق الثوب کے معنے ہوتے ہیں اسے ٹکڑے ٹکڑے کردیا ۔خرقھا کے معنے ہوئے ۔اس کے تختے نکال کرکشتی کو ٹکڑے ٹکڑ کردیا ۔اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یادوسرے لفظوں میں ان کی قوم نے اعتراض کیا کہ کیا تیرامنشاء ی ہے کہ کشتی کے سوار غرق ہوجائیں ۔تونے یہ بہت بُراکام کیا ہ ۔میرے نزدیک خرق سفینہ سے مراد یہ ہے ۔کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی دنیاکوبہت سے شرعی احکام سے چھید ڈالا ہے ۔مثلاً اول زکوٰ ۃ کاحکم دیاہے۔جس سے مال کم ہوتاہے پھر صدقات کاحکم دیاہے پھر سود سے منع کرکے دولت کونقصان پہنچایاہے ۔پھرورثہ کاحکم دے کرمال کرتقسیم کردیاہے ۔اوردولت کو بڑھنے سے روک دیا ہے ۔گویا دنیا داروں کی نگاہوں میں اپنی قوم کی دنیاوی زندگی تبا ہ کردی ہے اورنیکو کاروں کی نگہ میں قوم کو دنیا کی محبت کے بداثرات سے اورقوم کو امراء کی غلامی سے بچالیا ہے ۔یہ تعلیم موسوی سلسلہ کے لوگوں پر سخت گراں گزرتی ہے یہود پر بھی اورنصاریٰ پربھی ۔کیونکہ گونصاریٰ منہ سے یہی کہتے ہیں کہ سوئی کے ناکہ میں اونٹ کاگزرجاناآسان ہے لیکن دولت مند کاخداکی بادشاہت میں داخل ہونا بہت مشکل ہے(مرقس باب۱۰ آیت ۲۵)لیکن عمل ان کایہ ہے کہ ان کے ممالک کے سب قوانین دولت مندوں کے اموال بڑھانے میں ممدہیں ۔زکوٰۃ کاکوئی حکم ان میں نہیں۔سود کی کھلی اجازت ہے جوئے کی اجازت ہے جائداد کوبہت سے ورثاء میں تقسیم کرنے کاکوئی حکم نہیں ۔بہت سے امراء اپنے بڑے بیٹوں کودولت سپرد کرکے خاندان کی دولت کو بڑھاتے جاتے ہیں ۔اسی طرح ان کی شریعت میں مزدوروں کے حقوق ک حفاظت نہیں ۔حالانکہ اسلام نے اس کیلئے بھی قواعد مقرر کئے ہیں تاکہ چندامراء غرباء کوغلام بنا کر اپنے اموال نہ بڑھاتے رہیں ۔ان امتیازات کی وج سے یہود اورنصاریٰ اسلام میں داخل ہونے سے کتراتے ہیں اورسمجھتے ہیں کہ اسلام نے قوم کو غرق کرنے کی راہ کھول دی ہے ۔
جس طرح یہ پہلاسبق ہے ۔جواسراء می حضرت موسیٰ علیہ السلام کوملا ہے بالکل اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کواسراء کے دن پہلے ایک بڑھیا دکھائی گئی ۔اورا سکے بعد جب پیالے پیش ہوئے توان میںسے پہلاپیالہ پانی کاتھا ۔اورحضرت جبریل نے عورت کی بھی یہی تعبیر کی ۔کہ یہ بڑھیا دنیاتھی اورپانی کی بھی یہی تعبیر کی ۔کہ یہ مال تھا ۔کیونکہ انہوں نے کہاکہ اگر تُو پانی پی لیتا توتوبھی غرق ہوجاتا اورتیری امت بھی غرق ہوجاتی ۔یعنی دنیا کے کاموں میں منہمک ہوجاتی اوراللہ تعالیٰ سے تعلق کمزور پڑجاتا ۔
دیکھو حضرت موسیٰ کی قوم اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیالا ت میں کتنا فرق ہے ۔رسول کریم صلعم کوتوجبریل یہ کہتا ہے کہ اگرتوپانی پی لیتاتوتیری قوم غرق ہوجاتی ۔گویا وہ بے عیب سفینہ کو یعنی دنیاوی زندگی کو غرق ہوناقراردیتے ہیں ۔لیکن حضرت موسیٰ یادوسرے لفظوں میں ان کی قوم ٹوٹی ہوئی سفینہ کا یعنی زکوٰۃ وغیر ہ قواعد سے دنیاوی اموال کے چندہاتوںمیں جمع ہوجانے کوروکنے کانام قوم کاغرق ہونارکھتے ہیں ۔جہاں اس قدراختلاف آراء ہو وہاں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کس طرح ہوسکتاہے ۔ اورایک فریق دوسرے کی معیت پر کب تک صبر کرسکتاہے ۔قرآن کریم سے معلوم ہوتاہے کہ جس طرح کشف میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عبداللہ پراعتراض کیا ہے کہ کشتی کے پیندے میں سوراخ کیوں کیا ۔اسی طرح حضرت موسیٰ کی قوم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پراعتراض کیا ہے کہ چندے وغیر ہ لے کرقو مکوتبا ہ کیوں کرتے ہو ۔چنانچہ قرآن کریم میں یہود کایہ اعتراض ان الفاظ میں بیان ہواہے ۔وقالتِ الیھو دُ یدُ اللہِ مَغلُولَۃٌ(مائدہ ع ۹)یعنی یہود چندوں وغیرہ کے مطالبات کو دیکھ کرکہتے ہیں کہ خوامخواہ انہوں نے قو م پر بوجھ ڈال دیاہے ۔کیا خداتعالیٰ کے خزانوں میں کمی ہے کہ ہمارے محدود اموال کووہ خرچ کرائے گا جس کو اس نے دیناہوگاخود دیدیگا ۔دوسرے لوگوں سے غرباء کی خدمت کیوں کروائی جاتی ہے ۔گویا دوسرے لفظوں میں یہ کہ کشتی والوں کی کشتی کوکیوں چھیداجاتاہے۔اسی طرح عام کفار کے متعلق بھی قرآن میں آتاہے ۔اوران میں یہود ونصاریٰ سب ہی شامل ہیں کہ واذاقیل لھُم انفقوا مما رزقکمُ اللہ ُ قال الذین کفروالِلَّذین اٰمنو ااَنُطْعِمُ مَنْ لَّوْ یشآ ئُ اللہُ اَطعمہٗ ان انتم الا فی ضَلٰلٍ مُّبینٍ(یٰس ع ۳) یعنی جب لوگوں کو محمدرسول اللہ یہ تعلیم دیتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے جوتم کومال دیا ہے وہ صرف تمہارے لئے نہیں ہے سب دنیاکے لئے ہے ۔اسے اللہ تعالیٰ کے غریب بندوں پر خرچ کرو۔تووہ آگے سے مسلمانوں کو کہتے ہیں کہ کیا خداتعالیٰ خود ان کو نہیں کھلا سکتا ۔پھر جب خدانے باوجود بڑے خزانوںکے ان کو نہیں کھلایا۔ توہم کس طرح ان کو اپنے اموال میں سے حصہ دیں ۔اورپھر یہ کہ کفار مسلمانوں سے کہتیں ہیں کہ تم توبڑے ہی بے راہ ہو کہ اس طرح اپنے اموال کو تباہ کرتے ہو ۔پس ایہ اعتراضات اسلام کی تعلیم پریہود اوردوسرے کفار کی طرف سے بکثرت ہوتے رہے ہیںاورآج تک ہورہے ہیں ۔لیکن خداکاعاشق ٹوٹی ہوئی کشتی میں ہی اس دنیاکاسفر کرنازیاد ہ پسند کرتاہے بہ نسبت اس سلامت کشتی کے جو ا سکے دل سے خداتعالیٰ کی یاد کوبھلادے ۔
نصاریٰ کے لئے یہ ابتلاء سب سے زیادہ ہے کیونکہ وہ زیادہ مالدار ہیں ۔اس آیت سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہ کشف ہے ورنہ جب کشتی میں چھیدکیاتھا توکشتی غرق کیوں نہ ہوجاتی ۔
قال الم اقل انک لن تستطیع معی صبراً٭
اس (برگزیدہ خدا))نے کہا ۔(کہ)کیا میں نے (تجھے )کہانہیں تھا (کہ)تومیر ے ساتھ رہ کر ہرگز صبر نہیں کرسکے گا ۶۸؎
۶۸؎ تفسیر ۔یعنی میں نے توپہلے سے ہی کہد یا تھا کہ میری تعلیم اورتمہار ی تعلیم میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔تم لوگ میرے ساتھ سفرنہیں کرسکتے جب تک اپنے نفوس کو بالکل مار نہ دو ۔
قال لاتواخذنی بمانسیت ولاترھقنی من امر ی عسراً٭
اس نے کہا (کہ اس دفعہ)آپ مجھ پر گرفت نہ کریں کیونکہ میں (آپ کی ہدایت کو)بھو ل گیاتھااورآپ میری (اس )بات کی وجہ سے مجھ پرسختی نہ کریں ۶۹؎
۶۹؎ حل لغات ۔تُرھِقْنِیْ: اَرْھَقَہٗ عُسرًا کے معنے ہیں کلّفہٗ ایّاہ۔اس پر سختی کی (اقرب)پس لَاتُرھقنی من امری عسرًا کے معنے ہوں گے کہ آپ مجھ پر میری بات کی وجہ سے سختی ن کریں (اقرب)
تفسیر ۔یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ اچھا اس دفعہ معاف کرو ۔پھر ایسی بات ن ہکروں گا ۔اس آیت یں بتایا ہے کہ شروع شروع میں یہود و نصاریٰ محمد رسول اللہ صلعم سے صلح کریںگے مگربعد میں اعتراضات شروع کردیں گے اورآخرقطع تعلق ہوجائے گا۔ چنانچہ جب آپ مدینہ تشریف لائے توپہلے یہود نے آپ سے صلے کی ۔اورآپ کی پار ٹی میں شامل ہوئے ۔مگر جب ان قربانیوں کودیکھا جوآپ کیساتھ مل کر کرنی پڑی تھیں توجھگڑاشرووع کردیا چنانچہ بنوقینقاع نے آپ سے اس بات پراختلاف کیا کہ ایک تاوان جوبعض مسلمانوں پر پڑاتھا اورجس میں حصہ لینا معاہدہ کے روسے یہود پت بھی فرض تھا ۔اس میں حصہ لینے کے لئے یہود کو کیوں کہاجاتاہے ۔
نصاریٰ کابھی یہی حال تھا ۔شروع شروع میں وہ مسلمانوں سے اچھے تعلقات رکھتے تے ۔حتی کہ آپؐ نے جب بادشاہوں کو خطوط لکھے توقیصر نے شروع میں آپ کی تعریف کی ۔لیکن بعد میں جب دیکھا کہ اسلامی سیاست مسیحی سیاست سے ٹکراتی ہے تواسلام سے جنگ شروع کردی ۔جس کاخمیازہ اس نے حضرت ابوبکرؓ اورحضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایسا بھگتا کہ صدیوں تک ا سکا اثر نہ مٹا۔
فانطلقا حتی اذالقیا غلمافقتلہ قال اقتلت نفسا زکیۃ
پھر و ہ(دونوں وہاں سے )چل پڑے یہاں تک کہ وہ جب ایک لڑکے کوملے تواس(خداکے بندہ)نے اسے مارڈالا۔(اسپر )اس
بغیر نفس ط لقد جئت شیئاً نکرا٭
نے(یعنی موسیٰ نے )کہا(کہ )کیا (یہ سچ نہیں کہ )آپ نے (اس وقت )ایک پاکباز(اوربے گناہ)شخص کوکسی(کے خون)کے عوض کے بدوں (ناحق ہی)مارڈالاہے۔آپ نے یقینا (یہ)بہت براکام کیا ہے ۷۰؎
۷۰؎ حل لغات ۔نُکراً:اَلنَّکْرُ۔اَلْمُکَرُ ۔ناپسندید ہ بات ۔الامر الشدیدُ۔مشکل کام ۔القَبِیْحُ برا(اقرب)
زکیَّۃ:یہ زکیٰ(یزکو)سے فعیل کے وزن پر ہے ۔اورزکی الشئی کے معنے ہیں ۔نَمَا۔اس چیز نے نشوونما پائی ۔زکی الرجلُ۔صَلحُ وہ نیک و پاک ہوگیا ۔تنعَّمَ وکان فی خصبٍ۔خوب نارونعمت اورآسودگی می ہوگیا ۔بیضاوی نے غلاماًزکیّا کے معنے طاھرًامن الذنوب نامیاً علی الخیر کے کئے ہیں یعنی گناہوں سے پاک اور نیکی میں نشوونماپانے والالڑکا (اقرب)
تفسیر ۔اس موقعہ پربھی حضرت استاذ ی المکرم یہ توجہ دلاتے تھے کہ اسراء کی حدیث میں آنحضرت صلعم کو جب جبریل بار با ر انطلق انطلق کالفظ کہتے تھے موسیٰ کے واقعہ میں بھی انطلق کالفظ بار بار آیا ہے ۔پس ی بھی دلیل ہے کہ یہ اسراء روحانی تھا
حتی اذالقیاغلاماً فقتلہٗ۔جب ایک نوجوان کوملے تواسے اس ساتھی نے قتل کردیا ۔حضرت استاذی المکر م فرماتے تھے ۔اس جگہ ان اعتراضو ںکی طرف اشار ہ کیا ہے ۔جوموسوی امت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پرکرنے والی تھی ۔کہ کعب بن اشرف وغیرہ کو انہوں نے کیوںقتل کروایاہے اوراس کاجوب دیاہے ۔میرے نزدیک یہ نظارہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے نظارہ کے مشابہ ہے اوراسی کے ہم معنی ہے ۔رسول کریم صلعم نے واقعہ اسراء میں بڑھیاکے دیکھنے کے بعد دیکھاتھا کہ کوئی شخص آپ کو اپنی طرف بلاتا ہے مگرآپ نے اسے جواب نہ دیا ۔نیز اس انظارہ کی تشریح کے لئے آپ کے سامنے شراب کاپیالہ پیش کیاگیا ۔ جس کے پینے سے آپ نے انکار کردیا۔اورجبریل نے ا س آدمی کی تعبیر شیطان کی ۔اوراس پیالہ کی تعبیر غوایۃ۔جوشیطان کاکام ہے۔اسی طرح دوسرانظارہ حضرت موسیٰ کوغلام کادکھایاگیاہے ۔جس کو محمدی جمال نے قتل کردیا۔اب ہم علم تعبیر رویا میں نوجوان آدمی کو خواب میں دیکھنے کی تعبیر دیکھتے ہیں ۔توعلاوہ اورتعبیروں کے ایک تعبیر یہ لکھی ہے ’’تدلّ علی الحر کۃ والقوّۃ والجہل(تعطیر لاانام )یعنی خواب میں نوجوان مرد کو دیکھے توا سکے معنے قوت نشاط اورجہالت کے ہوتے ہیں اوریہی امورانسان کوشیطان کے پیچھے چلانے والے ہوتے ہیں ۔یعنی ایکطرف طاقت ہو ۔دوسسری طرف سیر تماشہ دیکھنے کی خواہش ہو ۔اورتیسری طرف علم روحانی سے ناواقفیت ہو ۔یہ تین چیز یں جب جم ہوجاتی ہیںتوانسان شیطان کے پیچھے چل پڑتاہے۔پس یہ دونوں نظارے بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورحضرت موسیٰ کے اسراء میں ایک دوسرے کے مشابہ ہیں۔
اوریہ جودکھایاگیاکہ اس عبد نے اسغلام کو مار دیا۔اوراس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اعتراض کیا اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اسلام کی دوسر ی تعلیم جو نصاریٰ کے لیء قابل اعتراض ہوگی وہ اسلام کالغو اموراورلہوولعب اورشراب سے روکناہوگا ۔اس پر موسوی سلسلہ کے لوگ (یعنی خصوصاً مسیحی ۔کیونکہ میں بتاچکاہو ں کہ دوسراساتھی جوحضرت موسیٰ نے دیکھاہے وہ حضرت مسیح ہیں ۔اورمجمع البحرین کے پاس حضرت موسی کی وہ امت باقی تھی جوحضرت مسیح ناصر ی کے ذریعہ سے آپ کوملی تھی ۔ہاںل دوسرے درجہ پر یہودبھی اس میں شامل ہیں )یہ اعتراض کریں گے کہ اسلام جوانی کوامار تاہے اورانسان کوزندگی کالطف لینے نہیں دیتا ۔اوریہ ظلم ہے اللہ تعالیٰ نے یہ طاقتیں زندگی کامزہ لینے کے لئے دی ہیں نہ اس لئے کہ انکو تباہ کردیاجائے ۔چنانچہ غورکرکے دیکھو لو کہ ان شیطانی اعمال کی وجہ سے بالعموم مسیحی لوگ اسلام سے متنفر ہیں کیونکہ ا س میں انہیں ان شیطانی افعال سے روکاگیاہے اور ان کے نزدیک گویا جوانی کااسلام نے خون کردیاہے۔
قال الم اقل لک انک لن تستطیع معی صبرا٭
اس (خداکے پیارے )نے کہا (کہ)میں نے تجھے کہانہیں تھا (کہ)تومیرے ساتھ رہ کرہرگزصبر نہیں کرسکے گا ۷۱؎
۷۱؎ تفسیر ۔یہ آیت بھی ثبوت ہے اس کا کہ یہ کشف ہے کیونکہ جاگتے ہوئے کسی کو بلاوجہ قتل کردینا قطعاً حرام ہے ۔
قال ان سالتک عن شیئٍ بعدھا فلاتصٰحبنی قد بلغت من لدنی عذراً٭
اس نے کہا(کہ)اگر اس کے بعد میں نے کسی بات کے متعلق آپ سے پوچھا تو(بیشک)آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھئے گا (اس صورت میں)آ پ یقینا میر ی طر ف سے معذور سمجھے جانے کی حد تک پہنچ چکے ہوں گے ۷۲؎
۷۲؎ تفسیر ۔یعنی اب کی دفعہ جانے دواور تعلق نہ توڑو ۔پھر ایساہی کیاتوتعلق توڑ دینا ۔اس میں بھی ا سطرف اشارہ ہے کہ یہود اورنصاریٰ بار بار مسمانوں سے معاہدات کریں گے لیکن پھر ان کوتوڑدیں گے اوروہ عداوت جو انہیں اسلام سے ہے ان پر غالب آجائے گی ۔
فانطلقا حتی اذااتیا اھل قریۃ استطعمھا اھلھا فابواان
پھروہ (وہاں سے بھی ) چل پڑے یہاں تک کہ جب وہ ایک بستی کے لوگوںکے پاس پہنچے تواس (بستی )کے باشندوں نے انہوں
ایضیفوھما فوجدافیھا جدارایریدان ینقض فاقامہ ط
نے کھانامانگامگرانہوں نے انہیں (اپنے)مہمان بنانے سے انکار کردیا پھر انہوں نے اس(بستی)میں ایک ایسی دیوار پائی جوگرنے کوتھی ۔اس (خداکے بندہ)نے اسے درست کردیا
قال لوشئت لتخذت علیہ اجراً٭
(اس پر )اس نے (یعنی موسیٰ نے )کہا(کہ )اگرآپ چاہتے تویقینا اس کی کچھ (نہ کچھ)اجرت لے سکتے تھے ۷۳؎
۷۳؎ تفسیر ۔اھل قر یۃ سے مراد قوم ہے کیونکہ قوم کوجب دکھایاجاتاہے گائوں ک شکل میں دکھایاجاتاہے اورضیافت کی تعبیر تعاون ہوتی ہے لکھاہے ضیافۃ خواب میں اجتماع علی خیر کے معنے رکھتی ہے۔(تعطیر الانام )یعنی کسی نیک کام می باہم تعاون کرنے کافیصلہ ضیافت کی شکل میں دکھایاجاتاہے پس ’’دونوں نے کھانامانگا‘‘کی تعبیر یہ ہوگی کہ دونوں نے تعاون کی درخواست کی ۔اورضیافت کے انکار کے معنے ہوں گے کہ قوم نے دونوں کے سوال کے جواب میں تعاو ن کرنے سے انکارکردیا ۔
اس کے بعد لکھا ہے کہ انہوں نے ایکدیواردیکھی جوگرنے کوتھی ۔تعطیر الانام میں لکھاہے کہ جب کوئی دیوار دیکھے جس میں خرابی ہوگئی ہو تواس سے مراد کوئی عالم یا امام ہوتاہے جس کامال جاتا رہتاہے ۔پھر اگریہ دیکھے کہ اس کی مرمت کردی گئی ہے تواس کے یہ معنی ہوں گے کہ اس عالم کے کام کودرست کردیاجائے گا۔اواگردیکھے کہ مرمت نہیں یک گئی توا س کاکام تباہ ہوجائے گا اورنیز امام ابن سیرین کے تعبیر نامہ میں لکھاہے کہ دیوار کے کچھ حصہ می خرابی دیکھ کر اسے درست کرن کی تعبیر اس جگہ کے والی کی بجائے دوسرے والی کامقرر ہوناہوتاہے ۔
ان تعبیروں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سارے نظار ہکایہ مطلب ہو گا کہ حضرت موسی اوروہ اللہ کابندہ جس کے ساتھ وہ چلے تھے ایک جماعت سے تعاون چاہیں گے مگر و ہ تعاون نہ کرے گی۔اوروہ کسی بزرگ کے کام کوخراب ہوتادیکھیں گے ۔اس پرموسیٰ علیہ السلام توخاموش رہیں گے لیکن اوہ عبداللہ اس کام کودرست کردے گایایہ کہ اس قوم کے لئے دوسراحاکم مقررہوجائے گاموسیٰ علیہ السلام اس امر کو دیکھ کرکہیں گے کہ اس پرکوئی اجر لیتے تواچھاہوتا مگروہ اس بات کو سن کرناراض ہوجایء گااورکہے گاکہ بس اب ہماراتعلق ختم ہے ۔
اس حصہ کی تعبیر حضرت استاذی المکر م مولوی نورالدین صاحب یہ فرمایاکرتے تھے کہ یاتو اوس اورخزرج مراد ہیں کہ دیرسے یہ قومیں ترقی سے محروم تھیں۔اللہ تعالیٰ رسول کریم صلعم کومدینہ لے گیا۔اوران کے لئے بھی ترقی کی راہیں کھل گئیں یافرماتے تھے کہ مرادحضرت اسمٰعیل اورحضرت اسحاق کی اولاد ہے کہ ان کاکام خراب ہورہاتھا ایک کے حق کی حفاظت حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کردی ۔اوردوسرے کے حق کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۔
میری رائے میں ا س نظارے کاپہلاحصہ بتاتاہے کہ قریہ سے مراد عالم یہودیت اورنصرانیت ہے ۔جب اس سے تعاون کی درخواست کی گئی تواس نے انکار کردیا ۔اودیوارسے یہود ونصاریٰ کے بزرگ مراد ہیں۔اوراس کے گرنے کے قریب پہنچنے سے مراد ان کے بزرگوںکااثر زائل ہونا ہے اورمرمت کرنے کے یہ معنے ہیں کہ ان کی تعلیم کو پھر سے قائم کردیا اوران کے اند رایک نیا والی یاحاکم مقررکردیا ۔اورموسی علیہ السلا م نے جوکہا کہ اجر کیوں نہ لے لیا ۔اس سے مراد یہ ہے کہ موسوی قوم میں تجارتی حرص بہت بڑھ جائے گی اوروہ ہراک کام کو اس کے دنیوی فائدہ کاانداز ہ لگاکر کریں گے اورخالصۃً للہ کام کرنا ن کے لئے مشکل ہوگا۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ موسوی سلسلہ کی آخر ی کڑی یعنی مسیحیت کایہ حال ہے کہ ان کی تعلیم بھی دنیووی اغراض سے ہوتی ہے ۔ان کی ہمدردی بھی دنیوی اغراض سے ہوتی ہے ۔حتی کہ وہ تبلیغ کرتے ہیں تواس میں بی سیاسی اوردنیوی فوائد مدنظر ہوتے ہیں خالصۃً للہ کام جس میں کوئی دنیاوی خیال مدنظر ن ہو ۔ان میں قریباً مفقود ہے ۔
یہ جو فرمایاکہ اہل کتا ب سے اپنے کاموں میں تعاو ن کی خواہش کی توانہوں نے انکا رکردیا ۔اسکی مثال حضرت موسی کی زندگی میں تویہ موجود ہے کہ جب وہ اپنی قوم کو کنعان کاملک دیئے جانے کاوعدہ دے کر مصر سے لائے اورکئی چھوٹی اقوام سے جنگیں ہونے کے بعد انکو اہل کنعان پر حملہ کرنے کاحکم دیا توانہوں نے حضرت موسیٰ کاساتھ دینے سے صاف انکار کردیا ۔چنانچہ قرآن کریم میں اتاہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کے حکم کے جواب میں انہوں نے کہا ۔قالوایاموسیٰ انا لن ندخلہا ابداما داموافیہا فاذھب انت وربک فقائلا اناھھنا قاعدون (مائدہ ع۵)یعنی جب موسی علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ اب وقت آگیاہے کہ دشمن پر حملہ کرکے موعود ملک کو لیاجایء توانہوں نے جواب دیاکہ وعدہ یاخداکاتھایاتمہاراتھا ہم اس وعد ہ کے پوراکرنے کے لیء اپنی جانیں کیو ںگنوائیں ۔اے موسی تم اورتمہاراخداجاکر لڑو ۔اوراپنے وعدہ کو پوراکرو۔ہم تواپنی جگہ سے نہ ہلیں گے ہاںجب آپ دونوں ا س ملک کوفتح کرلیں گے توہم بھی ملک میں داخل ہوجائیں گے اس واقعہ سے ظاہرہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کی قو م نے عین اس وقت جب اللہ تعالیٰ کاوعدہ پوراہون کو تھا ایک لغو عذر کی بناء پر حضرت موسیٰؑ سے تعاون کرنے سے انکار کردیا ۔حالانکہ اللہ تعالی کے بعض وعدے اس کے بندوں کے ذریعہ سے پورے کرائے جاتے ہیں اوربندوں کافرض ہوتاہے کہ اس قسم کے وعدوں کے پوراکرنے میں انبیاء سے تعاون کریں ۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عدم تعاون کی مثال قرآن کریم نے یہ بیان فرمائی ہے قل یٰاَھل الکتاب تعالواالی کلمۃٍ سوآئٍ بیننا وبینکم ان لانعبدالااللہ ولانشرک بہ شیئاً ولایتخذبعضنا بعضاً ارباباً من دون اللہ فان تولو افقولوااشھدوبانّا مسلمون (آل عمران ع۷)یعنی اے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہود ونصاریٰ کویہ دعوت دے کہ آئواپنی ضدیں چھوڑ کر ایک بات میں توہم سے مل کرکام کرو اوروہ یہ کہ ہم سب مل کرتوحید کوقائم کریں نہ خداتعالی کے سواکسی اَورکی عبادت کریں اورنہ عقیدۃً اس کاکسی کوشریک قرار دیں اورنہ ناواجب طورپر جتھا بند ی کریں بلکہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق عدل اورانصاف سے دنیا میں کام کریں(گویا اللہ تعالیٰ اوربندوں سے صلح رکھنے کے بارہ میں اشتراک عمل کرنے کی ان سے درخواست کر )پھر فرماتاہے کہ اگریہ لوگ ایسی منصفانہ بات بھی نہ مانیں اوراس مشترک پروگرام پر عمل کرنے اورتعاون کرنے کے لئے تیار نہ ہو ں تواے مسلمانو !تم ہی ہمارے رسول کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ان یہودونصاری سے کہہ دینا کہ جائو تم تعاو ن نہیں کرتے تونہ کروہم اپنے خداکی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس کے رسول سے تعاون کریں گے اوراگر غورسیدیکھا جائے تومسیح کیقوم نے بھی ان سے تعاو ن نہیں کیا کیونکہ صلیب کے موقعہ پر سب لوگ حضرت مسیح کوچھو ڑ کربھاگ گئے ۔
قال ھذافراق بینی وبینک سانبئک بتاویل مالم تستطع علیہ صبراً٭
اس (خداکے برگزیدہ)نے کہا(کہ)یہ میرے درمیان اورتمہارے درمیان جدائی (کاوقت)ہے ۔جس بات پرتوصبر نہیں کرسکا میںابھی تجھے اس کی حقیقت سے آگاہ کرتاہوں ۷۴؎
۷۴؎ تفسیر ۔یعنی عبداللہ نے جب یہ معاملہ دیکھا کہ برابر اعتراض ہوتے ہی چلے جاتے ہیں توا س نے کہہ دیاکہ ہم آپس میں جداہوتے ہیں ۔اس میں اسطرف اشارہ کیاگیاکہ باوجوددعوتِ اشتراک اور توحید کے نقطہ پر جمع ہوجانے کی درخواست کے جب اہل کتاب باز نہ آئیں گے اوراپنے شرک کو نہ چھو ڑیں گے تومحمدرسو ل اللہؐ یہود اورنصاریٰ سے قطع تعلق کرلیں گے اور آپس میں مقابلہ شروع ہوجایء گا ۔
اماالسفینۃ فکانت لمسٰکین یعملون فی البحر فاردت ان
کشتی توچند مساکین کی تھی جودریام میں کام کرتے ہیں اوران کے سامنے (دریاپار)ایک (ظالم )بادشاہ تھا
اعیبھا وکان وراء ھم ملک یاخذکل سفینۃ غصبا٭
جوہرکشتی کو زبردستی چھین لیتاتھا۔اس لیء میں نے چاہاکہ اسے عیبدار کردوں ۷۵؎
۷۵؎ تفسیر ۔اس آیت میں وہ تشریح بیان کی گئی ہے جوگزشتہ واقعات کی اس عبداللہ نے بیان کی ہے ۔
اس کے متعلق یادرکھنا چاہیئے کہ بعض دفعہ انسان خوب میں ہی تعبیرکر تاہے کبھی وہ تعبیر واضح ہوتی ہے اورکبھی وہ جزئی انکشاف کرتی ہے اوریقظہ کی حالت میں پھرایک دوسری تعبیر کی محتاج ہوتی ہے وہی معاملہ یہاں ہے جوتشریح عبداللہ نے کی ہے وہ کسی قدراغلاق کو ضرور دورکرتی ہے مگر واضح تعبیر نہیں بلکہ اس امر کی محتاج ہے کہ مادی دنیا کے اصول کے مطابق اس کی دوبارہ تشریح کی جائے ۔
سب سے پہلے عبداللہ نے سفینہ والاواقعہ لیا ہے اوراس کی تشریح یہ کرتے ہیں کہ یہ کشتی مسکینوں کی تھی جواس سمند رمیں کام کریت تھے پس میں نے چاہاکہ اس کو عیب دارکردوں اوراس کی وجہ یہ تھی ںکہ ان کے پرے ایک اوربادشاہ ہے جوہردرست کشتی کو جبراً چھین لیتاہے پس اس بادشاہ کے ضررسے بچانے کے لے میں نے کشتی کوتوڑ دیا۔
باقی سب امو ر کی تعبیر تومیں پہلے بتاآیاہوں صرف مسکینوںاوربادشاہ کی تعبیر باقی ہے ۔سومسکینوں کی تعبیر تو مسکن دل لوگ ہیں جن کو دنیا کے اموال اورترقیاں غریبوں کی خبرگیر ی اورا ن کی ہمدردی اوران کے ساتھ مل کررہنے سے نہیں روکتے ۔اوربادشاہ سے مراد اس نظارہ میں دنیا پرستی کی روح ہے کیونکہ دنیوی بادشاہ دنیا کاایک ظہور ہوتے ہیں اورچونکہ جبراً کشتیاںچھین لینے کاذکر ہے اس لئے اس سے مراد دنیا کی محبت کی روح ہے اورمراد یہ ہے کہ جن کی دنیا میں دینی روح نہیں ہوتی اورجن کے مالوں کاکافی حصہ غرباء اوررفاہ عامہ کے کاموں ک لئے نہیں نلکلتا۔ان کودنیا کی محبت انی طرف کھینچ لیتی ہے ۔اوران کے مال شلیطان کے قبضہ میں چلے جاتے ہیں ۔اسلئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کے حکم سے اپنی امت کو حکم دیاہے کہ وہ اپنی سفینہ میں سوراخ کردیں یعنی ان کے مال دین کی خدمت اوربنی نوع انسان کی خدمت میں خرچ ہوتے رہیں تاکہ دنیا کی محبت ان کے دلوں پر قابو نہ پالے اوران کے اموال خداکے لیء ہونے کی بجائے ظالم دنیاکے لئے نہ ہوجائیں ۔
اس جگہ یہ لطیفہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواسراء میں دنیا یک عورت کی شکل میں دکھائی گئی ہے ۔لیکن موسیٰ علیہ السلام کو وہی دنیا ا نکے سراء میں ایک ظالم بادشاہ کی شکل میںدکھائی گئی ہے ۔اس میں اس طرف اشارہ معلوم ہوتاہے کہ دنیاکاحملہ امت محمدیہ پر بہت کمزورہوگا۔اوروہ ایک بڑھیا کی طاقت کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ کرے گی۔لیکن حضرت موسی علیہ السلما کی امت پر اس کاحملہ شدیدہوگا اس لئے ان کی امت کو مدنظررکھتے ہوئے دنیا انہیں ایک ظالم بادشاہ کی شکل میں دکھائی گئی ۔
واماالغلام فکان ابوٰہ مومنین فخشینا ان یرھقھما طغیاناً وکفراً٭
اوراس لڑکے (کے واقعہ کی حقیت یہ ہے کہ اس )کے ماں باپ (دونوں)مومن تھے (اوروہ ایمان کادشمن تھا)اس لئے ہم نے ناپسندکیا کہ وہ (اپنی )سرکشی اورکفر سے انہیں ایذاپہنچائے ۷۶؎
۷۶؎ تفسیر ۔میں اوپر بتاآیاہو ںکہ غلام کی تعبیر الحرکۃ والقوۃ والجہل ہوتی ہے چنانچہ عبداللہ(یعنی اللہ کے بندے)نے جوتشریح فرمائی ہے وہ بھی ا سکے مطابق ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ غلام دونیک ماں باپ کابچہ تھا ۔پس ہم ڈرے کہ اگر اسے زندہ رہنے دیاگیاتووہ اپنے ماں باپ کے لیء سرکشی اورکفرکاموجب ہوگا ۔
میں یہ توبتاچکاہوں کہ سرکش اولاد کوقتل کرنا بغیر کسی جرم کے ناجائزہے پس یہ نظارہ بھی تعبیر طلب ہے اورجب غلام کی تعبیر حرکت قوۃ اورجہالت کی ہے تولازماً اس کے ماں باپ بھی اسی قسم کے ہونے چاہئیں کیونکہ حرکت قوت اورجہالت معنوی اشیاء ہیں مادی نہیں ہیں ۔جب ہم دیکھتے ہیں کہ حرکت قوت اورجہالت کہاں سے پیداہوتی ہیں توہمیں معلوم ہوتاہے کہ یہ اشیاء انسانی وح اورجسم سے پیداہوتی ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے روح اورجسم میں جوزوجین یعنی میاں اوربیوی کی حیثیت رکھتے ہیں یہ خاصیت رکھی ہے کہ وہ مل کرانسان میں قوت حرکت اورجہالت یعنی عواقب سے بے پرواہوکرکام کرنے کی طاقت پیداکردیتے ہیں ۔لیکن یہ تینوں چیزیں جہاںل انسان کی کامیابی کے لئے ضروری ہیں وہاںان کاحدود کے اندررہنابھی ضروری ہے ۔اگران کوآزادچھو ڑدیاجائے توانسانی روح اورجسم طغیان او رکفرمیں مبتلاہوجاتے ہیں ۔
کسی چیز کے جوش کو کم کردینا عربی زبان میں قتل کہلاتاہے ۔چنانچہ عربی کامحاورہ ہے قتل الشراب مزجہٗ بالماء یعنی شراب میں پانی ملاکر اس کے جوش کوکم کردیا (اقرب)
قتل الجو ع والبردونحوذالک کسر شدّتہٗ یعنی جب قتل الجوع والبرد وغیر ہ الفاظ بولیں تومراد یہ ہوتی ہے کہ بھوک سردی وغیرہ کی تیزی کوکم کردیا (اقرب)قتل غَلِیلَہ سقاہ فزال غلیلہ یعنے قتل غلیلہ کے معنے ہیں اسے پانی پلاکر پیاس کو بجھادیا (اقرب)غرض اقتل کالفظ صرف جاندارکے لئے ہی نہیں بولاجاتا۔بلکہ جذبات اوراحساسات کے لئے بھی بولاجاتا ہے اوراس سے مراد ان جذبات اوراحساسات کی تیزی کو دورکرناہوتاہے پس عبداللہ کی تاویل کایہ مطلب ہوکہ حرکت قوت اورجہالت کے ماں باپ تومومن ہیں یعنی ان میں احکام الٰہی کے ماننے کامادہ ہے ان کو اعلیٰ سے اعلی اعما ل کی قوت بخشی گئی ہے اوران قوتوں کوعمل میں لانے کے لئے حرکت قوت اورجہالت کی طاقتیں ان میں سے پیداکی گئی ہیں ۔یعنی ایک توروح اوردماغ انسانی میں آگے بڑھنے کاشدید مادہ ہے دوسرے بڑے بڑے کام کرنے کی طاقت ہے تیسرے بڑے بڑے خطرات برداشت کرنے کی ہمت ہے ان تینوںقوتوں سے جوروح اورجسم کے امتزاج سے انسان میں پیداہوتی ہیں وہ اپنی زندگی کیمقصد کوپوراکرسکتاہے۔لیکن اگران قوتوں کو بے لگام چھوڑ دیاجائے تویہی قوتیں انسانی روح اورانسانی جسم کو نافرمانی اورکفرکی طرف لے جاتی ہیں اوروہ ہلاک ہوجاتاہے ۔پس اللہ تعالیٰ نے پسند نہ فرماایا کہ انسانی روح اورانسانی جسم جیسے اعلی اورکارآمد وجودوں کو طغیانی اورکفر میں مبتلاہونے دے ۔پس اس نے جلو ئہ محمدی کے ذریعہ سے ان تین قوتوں کوقتل کروادیا ۔یعنی شریعت کے احکام کے ذریعہ سے ان کوسمودیا اوران کی شدت کوکم کردیاتاکہ اس کے بعد جوجذبات انسان میں کام کریں وہ نیکی کی قیو دکے ماتحت اوراس کے حلقہ می کام کریں۔
فاردنا ان یبدلھما ربھما خیرامنہ زکوۃ واقرب رحما ٭
اس لئے ہم نے چاہاکہ ان کارب انہیں پاکیز گی میں ان سے اچھا اوررحم(وشفقت)میں (اپنے ماں باپ سے)زیادہ قریب (لڑکا)بدل دے ۷۷؎
۷۷؎ تفسیر ۔یعنی یہ قیود اورپابندیاں اس لئے لگائی گئیں تاکہ انسان کے اندر آزاد جذبات کی بجائے پابند اخلاق جذبات پیداہوں گویاپہلے جذبات قتل ہوکر ایک نیا صالح بیٹا ان کوملے جوانسان کامطیع ہو اوربجائے اس کو کفراورطغیان کے گڑھے میں گرانے کے اس کورحمت الٰہی کامستحق بنائے ۔
زکٰوۃ کے معنے پاکیزگی اورترقی کے ہوتے ہیں ۔اوررحم کے معنے رقت اورتلطّف کے ہوتے ہیں ۔پس معنے یہ ہوئے کہ جونیابیٹاہوگا وہ ان کی ترقی اورپاکیزگی کاموجب اوران کی باتیں ماننے والا اوران کی اطاعت کرنے والاہوگا یعنی جب آزاد قوائے انسانی کو شریعت کی تلوار سے قتل کردیاجائے گا ۔اوران کی وحشیانہ آزادی کی شدت کوتوڑ دیاجائے گاتووہ ایسی شکل اختیارکرلیں گے کہ روح و جسم کی بات مانیں گے اوران کی ترقی اورپاکیزگی کاموجب ہوں گے ۔
مگرجیساکہ بتایاجاچکاہے موسوی قو م نے ا س نکتہ کو نہ سمجھا ورعیش پرستی اوربے پروگی اورلہوولعب میں مشغول ہو گئے ۔جس کی وج سے ان کی حرکات میں تیزی ان کی قوتوں میں حدت اوران کی بے باکانہ جرأت میں ایک شان تونظر آتی ہے لیکن یہ طاقتیں انہیں طغیان وکفرمیں بڑھارہی ہیں اورنیکی اورتقویٰ سے دورکررہی ہیںاورمذہب و عقل جوروح اورجسم کے نمائندے ہیں ان کی بات ماننے کے لئے جذبات تیارنہیں ہوتے ۔
واماالجدار فکان لغلمین یتیمین فی المدینۃ وکان تحتہ
اوروہ دیوار اس شہر کے دویتیم لڑکوں کی تھی اورا سکے نیچے ان کا کچھ
کنزلھما وکان ابوھما صالحا فارادربک ان یبلغااشدھما
خزانہ (گڑاہوا)تھا ۔اوران کاباپ نیک (اورمناسب حال عمل کرنے والا )تھا ۔اس لئے تیرے چاہا ۔کہ وہ اپنی مضبوطی کی عمرکو
ویستخرجاکنزھما رحمۃ من ربک ومافعلتہ عن امری ط
پہنچ جائیں اور(بڑے ہوکر)اپناخزانہ(خود)نکالیں ۔تیرے رب کی طرف سے (ان پر خاص )رحم (ہوا)ہے اوریہ (کام )میں
ذلک تاویل مالم تسطع علیہ صبراً٭
نے اپنے نفس کے حکم سے نہیں کیا ۔یہ اس بات کی حقیقت ہے جس پرتوصبر نہیں کرسکا ۷۸؎
۷۸؎ حل لغات ۔الکنزُ:کے معنے ہیں المالُ المدفونُ فی الارض۔دفینہ۔وقیل اسم للمال اذااحرزفی وعاء اوربعض اس مال کوکہتے ہیں جو تھیلے وغیرہ میں محفوظ رکھاجائے ۔الذھب۔سونا۔الفضّۃ۔چاندی (اقرب) تاویل :کے معنوں کے لئے دیکھو یونس ۴۰؎
تفسیر ۔یعنی اب ایک سوال حل طلب رہ گیا ہے جس میں ہماراتمہارااختلاف ہے اوروہ یہ کہ تم یہ نہیں سمجھ سکتے کہ بغیر کسی ذاتی غرض کے ہم نے ایک گرتی ہوئی دیوار کس طرح بنادی ۔سواس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دیوار ایک خزانہ کی محافظ تھی اوریہ خزانہ دویتیموں کاتھا جن کاباپ صالح تھا ۔
جیساکہ میں بتاچکا ہوں دیوارسے مراد یہود ونصاریٰ کے بزرگ ہیں یعنی خود موسی و عیسیٰ علیہ السلام اوران کے باپ حضرت ابراہیمؑ ہیں جنکی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتاہے وَاِنَّہٗ فی الاٰخرۃِ لمن الصّٰلِحینَ(نحل ع ۱۶)اورکنز سے مراد وہ علمی خزانہ ہے جسے موسیٰ اورعیسٰی علیہماالسلالم کی تعلیم نے محفوظ کیا ہواتھ ا۔مگریہود ونصاریٰ کی بے توجہی اوردین سے دوری کی وجہ سے موسیٰ اورعیسٰی علیہما السلام کاتصرف جوان خزانوں کی حفاظت کے لیئے کام کررہاتھا کمزورپڑ گیاتھا۔محمد رسول اللہ صلعم نے پھر اس دیوار کوبنادیایعنی ایک نئے قانون کے ذریعہ سے ان صداقتوں کو جو موسیٰ اورعیسیٰ علیہماالسلام کی تعلیم میں پائی جاتی تھی ں محفوظ کردیا یعنی جوسچائیاں ان میں تھیں خصوصاً و ہ پیشگوئیاں جواسلام اورمحمد رسول اللہ صلعم کے ظہور کے متعلق تھیں ان کوقرآن کریم میں محفوظ کردیاگیا تاکہ جب کبھی یہود ونصاریٰ کوعقل آئے وہ اپنے بزرگوں کی پیشگوئیوں سے ہدایت پاکر محمد رسول اللہ صلعم پرایما ن لاکر اپنی حالت درست کرسکیں ۔
رحمۃً من ربک۔یعنی یہ سب کام اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہواہے ۔باوجود یہود و نصاریٰ کی سرکشیوں کے اللہ تعالیٰ نے ان کوچھوڑنا پسند نہیں کیا ۔چنانچہ قرآن کریم کیاند ران خزانوں کو جومحفوظ رکھنے کے قابل ہیںجمع کردیاگیاہے تاکہ جب بھی یہود ونصاریٰ کو توجہ ہو اس سے فائدہ اٹھا سکیں ۔
ومافعلتہ عن امری میں اس طرف اشار ہ کیا ہے کہ یہ ددیوارجونئی بنائی گئی تھی قرآنی دیوار ہے اورقرآن کریم میں (جوخالصۃً اللہ تعالیٰ کے امر سے ہے میرااس میں کوئی دخل نہیںجیساکہ وما ینطقُ عن الھویٰ (نجم ع ۱) میں فرمایاگیاہے )وہ خزانہ جمع کردیاگیاہے ۔پھرعبداللہ کی زبانی یہ کہلوایاگیاہے کہ اے موسیٰ یہ وہ حقیقت ہے جس کے متعلق تم صبرنہیں کرسکے ۔
یہ آخر ی حصہ موسیٰ علیہ السلام کے کشف کابھی رسول کریم صلعم کے اسراء کے مشابہ ہے کیونکہ آپ کے کشف کاآخر ی حص یہ تھا کہ آپ کو حضرت ابراہیم اورحضرت موسیٰ اورحضرت عیسیٰ علیہم السلام نے سلام کیا جس کے یہ معنے ہیں ۔کہ موسیٰ علیہ السلام کے کشف کے سب سے آخر ی نظارہ میں جوخدمت اولاد ابراہیمؑ اورامت موسیٰؑ اوراَتباع عیسیٰ کی آپؐ نے سرانجام دی تھی اس کاانکشاف چونکہ ان پر ہوگیا وہ آپ کے بیت المقدس تشریف لے جانے کے موقعہ پر اس کاشکریہ اداکرنے کے لئے آگے آئے بیشک موسیٰؑ نے اپنے کشف میں اس کی حقیقت کو پوری طرح نہ سمجھا اواس پر اعتراض کردیا ۔مگر جب اللہ تعالیٰ نے ان پر حقیقت کھول دی تونہ صرف وہ بلکہ ابراہیم اورعیسیٰ علیہما السلام بھی اظہار امتنان کے لئے رسول کریم صلعم کو ملے ۔ابراہیم ا س لئے کہ انکی دونوںاولادوں اسماعیل اوراسحاق کی نجات کے لئے آپ نے کوشش کی اورایک نسل کی نجات کے لئے آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی اوردوسری نسل کی نات کے لئے آپ کی قوم اصلی بیت المقدس کی طرف بڑھی ۔اورموسی علیہ السلام جنہوں نے بغیر مزدوروں کے دیوار بنانے پر اعتراض کیا تھا یہ معلوم کرکے کہ یہ دیوارتووہ خود تھے اوراس کے نیچے کاخزانہ انہی کی تعلیم تھی جسے آنحضرت صلعم نے محفوظ کیا اپنے اعتراض کاکفارہ اداکرنے کلئے حضرت مسیح کوساتھ لے کر جوآنحضرت صلعم کے آپ سے کم ممنون نہ تھے استقبال کے لئے آئے جس کے یہ معنی تھے کہ ہم نے آپ کی اس خدمت کو براسمجھاتھا مگراب اللہ تعالیٰ نے ہم اپر حقیقت کھول دی ہے اس لئے اے محمدؐ آپ پر سلام ہو آیئے ہمارے گھروں کو برکت دیجئے ۔اورہماری امتوں کونجات دلائیے ۔ا ب دیکھو کہ یہ مضمو ن جو علم تعبیرالرویا سے نکلتاہے یہ توایساضروری ہے کہ اس کے لئے رسول کریم صلعم فرماتے کہ کاش موسیٰ علیہ السلام خاموش رہتے توامت محمدیہ اورمیرے کاموں کی کچھ اورتفصیل ہمی ان کے اسراء اسے معلوم ہوجاتی ۔مگرکون عقلمند کہہ سکتاہے کہ محمد رسول اللہ صلعم نے یہ فرمایاکہ یہ سینما کچھ دیراورہوتا توہم بھی کشتیوں کے ٹوٹنے ،نوجوانوں کے قتل ہونے اوردیواروں کے تعمیرکانظارہ دیکھتے ۔نعوذ باللہ من ذالک ۔والحمد للہ الذی و ھب لی من لدنہ علما ً رب زدنی علما ً واسلاماً ۔آمین
اسراء موسیٰ : ان واقعات اوران تشریحا ت کوپڑھ لینے کے بعد جومیں نے اوپربیان کی ہیں یہ آسانی سے سمجھ میں آسکتاہے کہ موسیٰ کے اسراء کو اس جگہ پر اس لئے بیان کیاگیاہے تایہ بتایاجائے کہ(۱)حضرت مسیح ناصری کیقوم جوامت موسویہ کاآخر ی حصہ ہے اس کے بگڑ جانے کے بعد بعثت محمدیہ مقدر تھی ۔(۲)پس جب دورتوحید کے مسیحی بگڑ گئے تومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاظہور ضروری تھا۔(۳)اسلام کی تعلیم ایسے قوانین اورایسے اصول پر مبنی ہ کہ موسوی تعلیم اس سے بعض جگہ شدید اختلارف رکھتی ہے ۔اس وجہ سے موسوی اورعیسوی امتوں کے لئے اس کے سات تعاون کرنا مشکل ہے مگراس تعلیم کے بغیرنجات بھی نہیں۔(۴)یہودی اورمسیحی لوگ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوان کے دعویٰ کے وقوت نہیں مانیں گے بلکہ بحیثیت قوم ایک لمبے عرصہ کے بعد مانیں گے ۔اس عرصہ میں وہ اپناروحانی سفرالگ طور پر جاری رکھیں گے (۵)آخر ایک لمبے عرصہ کے بعدوہ تھک جائیں گے اوران کے دل اپنی کوششوں کے ذریعہ امن حاصل کرنے سے مایو س ہوجائیں گے تب و ہ اپنی حالت کاجائز ہ لیں گے اورسمجھ لیں گے کہ یہ سفرہم نے بغیرکسی مقصد کے جاری رکھ ا۔درحقیقت ہمارااکیلا سفر بہت پیچھے ختم ہوچکا ہے ۔(۶)اس وقت وہ پیشگوئیاںجوقرآن کریم نے ان کی کتب سے محفوظ کرلی ہیں ان کی ہدایت کاموجب ہوں گی اور(۷)وہ ان قیود کوتسلیم کرنے کے لئے تیار ہوجائیں گے جن کوماننے کے لئے تیار نہ تھے ۔اوراپنے وحشی جذبات کوقتل کرکے اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار جذبات پیداکرنے پر آمادہ ہوجائیں گے تب اللہ تعالیٰ کارحم ان پرنازل ہوگا اوروہ اس کی رحمت کے سمندر میں داخل ہوجائیں گی جس کاکوئی کنارہ نہیں جس کے بعد کوئی اورسمندر نہیں ۔سوائے اس کے جواس کاحصہ ہو اوراسی میں سے ہو۔
ویسئلونک عن ذی القرنین ط قل ساتلواعلیکم منہ ذکراً
اوروہ تجھ سے ذوالقرنین کے متعلق بھی سوال کرتے ہیں تو(انہیں )کہہ (کہ)میں ضروراس کے متعلق کچھ ذکرتمہارے سامنے کروں گا ۷۹؎
۷۹؎ حل لغات ۔القرنین:القرنُ کاتثنیہ ہے اورالقر ن کے معنے ہیں ۔الروق من الحیوان ۔جانورکاسینگ ۔القرن ۔مائۃ سنۃ ۔سوسال ۔القرنان کنایۃ عن مشرق الارض ومغربھا یعنی قرنان کالفظ بول کر کنایۃً مشرق اورمغرب کے ممالک مرادلیتے ہیں(اقرب)
تفسیر ۔یہ ذوالقرنین کاواقعہ بھی ایساہے کہ خداتعالیٰ نے استاذی المکرم حضرت مولوی نورالدین صاحب ؓکواس کی طرف راہنمائی کرنے کافخر بخشا ہے ۔اس می کوئی شک نہیں کہ اس مضمون پرزمانہ حال لکے بعض دوسرے مصنفوں نے بھی روشنی ڈالی ہے اوراس غلط خیال کی تردید کی ہے کہ اس سے مراد سکندررومی ہے۔اوربعض نے ذوالقرنین کے یہ معنے کئے ہیں کہ ایک باد شاہ جس کی حکومت مشرقی اورمغربی ممالک میں پھیل گئی تھی ۔بلکہ ایک جرمن ڈاکٹر ہربیلاٹ مصنف ببلیااورنینٹل نے تویہ کہہ کر کہ اس سے مراد ایران کے ابتدائی بادشاہوں میں سے کو ئی ہے قریباً صداقت پرہاتھ جاماراہے ۔(ویریز کمنٹری آن قرآن )حضرت مولوی صاحب نے ذوالقرنین کے بارہ می اپنی تحقیق کی بنیاد بائبل پررکھی ہے ۔آپ فرماتے ہیں ۔دانیا ل نبی کی ایک خواب بائبل میں لکھی ہے اس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رویا میں ایک مینڈھا دیکھا جس کے دوسینگ تھے ۔اوروہ پچھم اتردکن کی طرف سینگ مارتاتھا اورکوئی جانوراس کے سامنے نہ ٹھہرسکتاتھا اوروہ جوچاہتاتھا کرتاتھا ۔(دانیال باب ۸ آیت۳،۷)پھر لکھا ہے کہ خداتعالی نے مجھے اس کی تعبیر یہ بتائی کہ ’’وہ میڈھا جسے تو نے دیکھا کہ اسکے دوسینگ ہیں سوو ہ مادہ اورفارس کے باد شاہ ہیں (باب۸ آیت۲۰)
اس خواب کی بناء پر جس میں ماد ہ اورفارس کے بادشاہوں کودوسینگ والے مینڈھے کی شکل میں دکھایا گیاہے آپ فرماتے تھے کہ ذوالقرنین سے مراد ماد ہ اورفارس کاکوئی باد شا ہ ہے ۔نیز آپ کایہ بھی خیال تھا کہ یہ بادشاہ کیقباد تھا ۔
ذوالقرنین کاواقعہ بیا ن کرنے ک حکمت
حضرت استاذی المکرم کا خیال بیان کرنے کے بعد اب میں اپنی تحقیق بیان کرتاہوں ۔مگرپیشتراس کے کہ میں ذوالقرنین کے متعلق اپنی تحقیق بیا ن کروں میں یہ امر بیان کرناچاہتاہوں کہ ذوالقرنین کاواقعہ قرآن کریم میں کیوں بیان کیا گیا ہے اوراسے سورۃ کہف کے اس حصہ میںواقعہ اسراء کے بعد کیوں رکھاگیاہے ۔
میں اوپربیان کرآیاہوں کہ سورۃ کہف میں اسلام اورمسیحیت کے مقابلہ کاذکر ہے خصوصاً ا س حصہ کامقابلہ جونیم سیاسی کہلاسکتاہے یعنی ہے تومذہبی مگردونوں مذہبوں کی سیاسیات سے وابستہ ہے ۔
سب سے پہلے اصحاب کہف کاواقعہ بیان کرکے بتایا کہ مسیحیت کی ابتداء کس طرح ہوئی اوروہ کس طرح بگڑے پھرموسیٰ علیہ السلام کے اسراء کے واقعہ کوبیان کرکے بتایا کہ اصحاب کہف کی نسلوں کی ترقی ایک حد تک جاکر رک گئی ۔کیونکہ موسیٰ کے اسراء میں یہ بات بتائی گئی تھی کہ موسیٰؑ کی قوم ایک حد تک جاکر روحانی ترقی سے محروم ہوجائے گی اوراس وقت ایک او رنبی خداتعالیٰ اکی طر ف سے ظاہرہوگا اوریہ بھی بتایاگیاتھا ۔کہ موسیٰ ک قوم سے مراد اس جگہ موسوی سلسلہ کاآخری حصہ ہے یعنی مسیحی ۔ورنہ خاالص موسوی حصہ توپہلے ہی مردہ ہوچکا ہے ۔غرض اصحاب کہف کے واقعہ کے بعد اسرا ء موسیٰ کاواقعہ بیا ن کرکے مسیحی قوم کی پہلی ترقی کادورمحمد رسول اللہ صلعم کی بعثت کے ساتھ ختم ہوجایء گا۔چنانچہ بعدکے واقعات سے یہ پیشگوئی زبردست طورپرپوری ہوئی اورمومنوں کے ایما ن کو اس سے بے انتہاتقویت ملی ۔کیونکہ مکی زندگی میں یہ خبر دینا کہ مسلما ن عیسائیوں کو زک دیں گے ایک ایسی زبردست پیشگوئی ہے جس کی نظیر نہیں مل سکتی ۔اس کے بعد ذوالقرنین کاواقعہ مسیحی قوم کے ترقی کے دوسرے دور کی خبردینے کے لئے بیان کیاگیاہے ۔
اگر کہاجائے کہ اس طریق کواختیار کرنے کی کیاضرورت تھی معمولی طور پر مسیحیت کی ساری ترقی کواکٹھابیان کردیاجاتا ۔تواس کایہ جواب ہے کہ دنیاداروں کی نگاہ میں بے شک یہ معمولی بات ہے لیکن جو شخص دین کی اہمیت کو سمجھتاہووہ اسے کسی صورت میں جائز نہیں کہے گا۔بلکہ قرآن کریم کے اختیار کئے ہوئے طریق کو ہی درست اورضرور ی قراردے گا ۔
تفصیل اس اجما ل کی یہ ہے کہ الٰہی قانون کے مطابق جوشروع زمانہ سے چلا آیاہے اقوام کی مذہبی حالت چا رقسم کی ہوتی ہے (۱)وہ قومیں جو نبیء وقت پرایما ن لاتی ہیں اوراس ایما ن پر ثابت قدم رہتے ہوئے دینی ،دنیوی ترقیا ت حاصل کرتی ہیں (۲) و ہ قو میں جونبی وقت پر ایما ن لاتی ہیں لیکن بدکاریوں اورشرارتوں میں مبتلاہوجاتی ہیں۔یہ قومیں گواللہ تعالیٰ کے غضب کے نیچے ہوتی ہیں لیکن اپنی قومی ہیئت تبدیل کئے بغیر اسی مذہب میں رہتے ہوئے اپنی اصلاح کرکے خداتعالیٰ کے فضل کودوبار ہ جذب کرسکتی ہیں کیونکہ نبئی وقت پر انہیں ایمان ہوتاہے صرف عمل خراب ہوتے ہیں(۳)و ہ قومیں جو نہ صرف بدعمل ہوجاتی ہیںبلکہ ان کی خرابی کے زمانہ میں دوسرانبی آجاتاہے اوروہ اس کے ماننے سے محروم رہ جاتی ہیں ۔اس وقت ان کی طرف سے کسی قسم کی اصلاح کی کوشش بھی خداتعالیٰ کوراضی نہیں کرسکتی جب تک کہ وہ اپنی قومی ہیئت کو نہ بدلیں ۔اوراللہ تعالیٰ کے آخر ی نبی کوقبول نہ کریں ۔(۴)و ہ قومیں جو کسی نبی پر ایما ن ہی نہیں رکھتیں اورا نکی سب ترقیات خالص دنیو ی ہوتی ہیں۔اورخداتعالیٰ سے روحانی تعلق پیداکرنے کے لئے ضروری ہوتاہے کہ وہ وقت کے نبی پر ایما نلاکر اسکے احکام کے مطابق عمل کر یں ۔
ان چاروں حالتوں کے سمجھ لینے کے بعد یہ امر آسانی سے سمجھ میں آسکتاہے کہ مسیحی ترقی کے دوراول کا آخر ی حصہ اس قوم کودوسری اقوام میں شامل کرتاہے یعنی اس وقت و ہ دین سے دور توجاچکے تھے ۔مگراپنی ہیئت بدلے بغیر اللہ تعالیٰ سے صلح کرسکتے تھے کیونکہ وہ حضرت مسیح کوجووقت کے نبی تھے مانتے تھے ۔مگراس کے بعد اسراء موسیٰ کی پیشگوئی کے مطابق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظاہر ہوگئے ۔اورا ب مسیحی قسم دوم سے نکل کر قسم سوم میں شامل ہوگئے ۔کیونکہ وہ مجمع البحرین کو بھول کر آگے نکل گئے یعنی ان کی عملی اوراعتقادی حالت ہی خراب نہ رہی بلکہ خداتعالیٰ سے صلح کرنے کے لئے اب ضروری ہوگیا کہ وہ اپنی سیاست اورنظام کوبھی ترک کردیں اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرایما ن لا کر اسلامی نظام اوراسلامی سیاست میں شریک ہوجائیں۔
ظاہر ہے کہ جب یہ دونوں قسمیں اس قدر مختلف ہوں اورخصوصاً جبکہ گونیم سیاسی اثرات کے متعلق ہوتواس عظیم الشان فرق کونظرانداز نہیں کیاجاسکتا اورجبکہ س طریق کلام سے مزید فائدہ یہ پہنچتاتھا کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاوجودمسیحی دنیا کے سامنے پیش کیا جائے تویہ ترتیب نہ صرف ضرور ی معلوم ہوتی ہے بلکہ ایک معجزانہ ترتیب معلوم ہوتی ہے ۔
خلاصہ یہ کہ پہلے اصحاب کہف اکاذکرکیا گیا ہے جبکہ مسیحی یاتونیک تھے یا بگڑ چکے تھے مگرنبئی وقت کے ماننے والے تھے اورخداتعالیٰ سے صلح کرنے کے لئے انہیں اپنی قوم اوراپنی سیاست چھوڑنے کی ضرورت نہ تھی۔اس کے بعد موسیٰ کی زبانی محمد رسول اللہ صلیاللہ علیہ وسلم کے ظہورکی خبر دی اوربتایاکہ اس نبی کے پیداہونے کے بعد مسیحی قوم کی حالت بدل جائے گی ۔انہیں پھر بھی ترقی توملے گی لیکن اس ترقی کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے صلح کرنی ناممکن ہوگی کیونکہ وقوت کے نبی کوپیچھے لچھوڑ کر وہ آگے نکل چکے ہو ں گے ۔ جب تک وہ واپس آکر اس نبی کے ہمرکاب نہ ہوں گے ان کی ترقیات خالص دنیو ی ہوں گی اورآخرت کااس میں کوئی بھی حصہ نہ ہوگا۔پس اس زمانہ کاحال الگ بیان کیاکیونکہ اس زمانہ کی مسیحی قو م نہ صرف سیاستاً بلکہ مذہباًبھی پہلے مسیحیوں سے جداگانہ حیثیت رکھتی ہے ۔
یہاں ایک اوربات قابل تشریح ر ہ جاتی ہے اورو ہ یہ کہ ذوالقرنین کاذکربیچ میں کیوں کیا ۔جبکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کاتھا ۔سواس کاجواب یہ ہے کہ مسیحی ترقی کے دودوروںکانام آسمانی کتب میں الگ الگ رکھاگیا ہے ۔ایک دوراصحاب کہف کادورہے ۔یعنی جبکہ اصحاب کہف والی کیفیت ان میں پیداتھی۔یا وہ اصحاب کہف کی طرح نیک بننے کی صلاحیت رکھتے تھے عملاً نیک نہ ہوں ۔دوسرادورآسمانی کتابوں میں دور یاجوج ماجو ج کہلاہتاہے یعنی وہ دور جس می نیک بننے کی قابلیت ہی ان سے جاتی رہے گی اورایک نئے نبی کے ظہور کی وجہ سے وہ اپنی ہیئت قومی چھو ڑکرہی خداتعالیٰ کو پاسکیں گے ۔اس نئے دورکے ساتھ ذوالقرنین کا تعلق ہے اورذوالقرنین کے بعض اعمال اس دور کے پیداہونے کاموجب ہوئے ہیں ۔اوروہ اس طرح کہ یاجوج وماجوج ان قومو ں کانام ہے جو شمالی ایشیا اورمشرقی یورپ کے علاقوں میں رہتی تھیں ۔ایشیا کی زرخیزی کی وجہ سے وہ اس پر حملے کرتی تھیں ۔اگران حملوں میں وہ کامیا ب ہوجاتیں توجس طرح آریہ قوم ہندوستان میں بس کر دوسری پرانی قوموں میں مل جل گئی ہے یہ قومیں بھی ایشیا کے مختلف ممالک میں پھیل کردوسری اقوام کے ساتھ مل جاتیں اورہرملک کے مطابق مذہب اختیا رکرلیتیں اورکسی ایک مذہب پر جمع نہ ہوتیں ۔لیکن خداتعالیٰ کی قدرت سے ہوایہ کہ ذوالقرنین (جس کے متعلق تفصیل آگے آئے گی)نے ان اقوام کے حملو ں کو بڑی سختی سے روک دیا ۔اوریہ قوم ایشیاکے انتہائی شمال مغرب اوریورپ کے مشرق میں گھر گئیں اورذوالقرنین نے اس امر کاانتظام کیا کہ ان اقوا م کے ایشیا میں آنے کی صورت ہی نہ رہے اورگویا ایک قسم کابائیکاٹ کردیاگیا ۔نتیجہ یہ ہواکہ یہ اقوام یورپ میں پھیلنی شروع ہوئیں ۔اورچونکہ یو رپ میں مذاہب میں سے صرف مسیحی مذہب تھا باقی بت پرستی ہی بت پرستی تھی ۔اس لئے دنیا کے پرانے مذاہب میں سے ان اقوام کو صرف مسیحیت سے واسطہ پڑا اوریہ اقوام آہستہ آہستہ سب کی سب مسیحی ہوگئیں اورساری قومیں ایک ہی مذہب میں شامل ہوکر دوسری دنیا کے مقابلہ میں ایک زبردست جتھابن گئیں۔اس طرح مذہبی عداوت کابیج بویاگیا ۔ اس کے علاوہ چونکہ ذوالقرنین کے ماتحت اوراس کی پالیسی پر عمل کرکے سب ایشیا نے ان کو شمال کی طرف دھکیل دیا جوا س زمانہ کے لحاظ سے سب سے ردّی اورسب سے حقیر علاقہ تھا ۔ان قوموں کے اندر ایشیا اورمشرق کی طرف آنے کی ایک زبردست خواہش پیداہوگئی جواپنی شدت کی وجہ سے ہرنسل سے دوسری نسل کی طرف وراثتہً منتقل ہوتی چلی گئی او راس طرح سیاسی عداوت کابیج بویاگیا
غرض ذوالقرنین ایک لحاظ سے یاجوج ماجوج یادجالی فتنہ کے پیداکرنے کاموجب ہوا۔پس اللہ تعالیٰ نے مسیحی ترقی کے اس دور کاذکر کرنے سے پہلے ذوالقرنین کاذکر کیااورخصوصاً اس کے اس فعل کا جس کی جوہ سے یاجوج ماجوج کی ایک علیحدہ قو می اورسیاسی بنیاد پڑی۔
ذوالقرنین کے ذکر میں یاک اورحکمت بھی ہے ۔اوروہ یہ کہ ذوالقرنین ماو ہ اورفارس کابادشاہ تھا ۔پس اس لحاظ سے کہہ سکتے ہیں کہ یاجوج ماجوج کی پیدائش ایک فارسی نسل کے انسان کے ذریعہ سے ہوئی ۔اوراللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ جو اس کے نیک بندے ہو ںجب ان کے کسی نیک فعل کے ثانوی ردعمل کے طور پر کوئی بدی پیداہو تووہ انہی کی اولاد یاہموطن یا مثل کے ذریعہ سے اس بدی کوورکرواتاہے کہ اس کے نیک بندے کے نام سے ایک دورکا عیب بھی منسوب نہ ہو ۔پس ذوالقرنین کاذکر اس جگہ اس لئے کیا گیا ۔تااس خبرکوبطورپیشگوئی بیان کرکے ایک دوسرے ذوالقرنین کی خبر دی جاسکے جوفارسی الاصل ہوگااوریاجوج ماجو ج کامقابلہ کرکے اس کے زورکوتوڑے گااور اس طرح پہلے ذوالقرنین پر سے الزام کودور کر ے گا اورذوالقرنین کانام اس وجہ سے پاء یگا ۔کہ اللہ تعالیٰ اسے دوقوتوں کاوارث بنائے گا۔ایک مہدویت کی قوت اورایک مسیحیت کی قوت ۔وہ محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ ولسم کے علوم کاوارث ہونے کی وجہ سے مہدی کہلائے گا اورحضرت مسیحؑ کی صفات کو اخذ کرنے کی وجہ سے مسیح کہلائے گا ۔جیساکہ حدیثوں میں ہے کہ لامھدی الا عیسیٰ۔پس ان دونوں قوتوں کے حاصل ہونے کے سبب اس کانا م ذوالقرنین ہو گا ۔نیزاس وجہ سے بھی کہ و ہ بعض پیشگوئیوں کے مطابق دوصدیوںکو پائے گا۔یعنی ایک صدی کے خاتمہ پروہ خداتعالیٰ سے الہام پائے گااوردوسری صد ی کے شروع ہونے پر اپناکام ختم کرکے اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھایاجائے گا ۔اسی کی طرف حدیث ابن ماجہ میں اشارہ ہے کہ لامھدی الاعیسیٰ یعنی آنے والاموعود ذوالقرنین ہو گا من جہت مہدی اورمن جہت عیسیٰ ہوگا۔
احادیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض صحابہ نے پوچھا کہ یارسول اللہ یہ جوقرآن کریم میں آتاہے کہ ایک اورجماعت بھی ہو گی جن کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر قرآن پڑھائی گے اس سے کیا مراد ہے ۔یعنی اگرآپ فوت ہوچکے ہو ں گے تویہ کام کس طرح کریں گے اس کے جواب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمان فارسیؓ کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ والذی نفسی بیدہ لوکان الایمان بالثُّریا لنالہ رجالٌ ھٰٓؤلآئِ(بخاری عن ابی ہریرہ)اورابن مردویہ نے سعد ابن عباد ہ سے جوروایت کی ہے۔اس میں لکھا ہے رجال من فارس کہ فارسی لوگ پھر ایما نکو واپس لے آئیں گے ۔اوربعض روایات میں رجُلٌ کالفظ بھی آتاہے (بخاری)یعنی ایک خاص موعود کیطرف اشارہ کیا گیاہے ۔ان سب روایات کو ملاکر معلوم ہوتاہے کہ ایک خاص موعود شخص جو فارسی الاصل ہوگاآخری زمانہ میں ایمان کے اٹھ جانے کے بعد پھر ایما ن کوواپس لائے گا۔اوراس کے اس کام میں بعض ااورفارسی الاصل لوگ بھی اس کے مؤیدہوںگے ۔اب رہایہ سوال کہ اس کا یاجوج ماجوج کے زمانہ سے کیاتعلق ہے ؟تواس کاجواب یہ ہے کہ قرآن کریم اوراحادیث سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ اسلام کی یہ حالت آخر یزمانہ میں ہوگی جبکہ یاجوج ماجوج اوردجال کا ظہور ہوگا اوریہ بھی معلوم ہوتاہے کہ دونوں نام ایک ہی مذہب والوں کے ہیں ۔فرق یہ ہے کہ یاجوج ماجوج کالفظ سیاسی فتنہ پردلالت کرتاہے اوردجال کامذہبی فتنہ پر ۔پس دونوں قسم کی روایات کوملاکریہ حقیقت ظاہرہوجاتی ہے کہ یاجوج ماجوج کے زمانہ میں جواشاعت کفر ہوگی اس کامقابلہ ایک فارسی مردکرے گا۔اوراس کے اس کام میں معاون بعض اورفارسی مرد بھی ہوں گے ۔پس فارسی الاصل ذوالقرنین کے فعل پر جواعتراض پڑتاتھا۔اسکابھی اس کے تفصیلی حالات بیان کرکے ازالہ کردیا اوراس واقعہ کو قرآن کریم میں بطورپیشگوئی کے بیان کرکے یہ بھی بتادیا کہ اگر ایک ذوالقرنین نے دنیوی طور پر یاجووج ماجوج کے حملوں کی روک تھام کی تھی توایک اورذوالقرنین ان کے مذہبی حملوں کی جوآئندہ زمانہ میں ہونے والے ہیں روک تھام کرے گا۔
(صاحبان ذوق کے لئے یہ نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جس طرح دوسرے ذوالقرنین پر اعتراض کیاگیاہے کہ یہ اصل میں فارسی الاصل نہیں کیونکہ اس کے آباء فارسی ہونے سے پہلے چینی علاقہ کے رہنے والے تھے ۔اسی طرح ذوالقرنین اول کی نسبت تاریخ میں آتاہے کہ وہ اصل میں ماد ہ کاتھا فارسی صرف عارضی تعلقات کی وجہ سے کہلاتاہے )
میں اس جگہ ایک اورشبہ کاازالہ بھی کردینا چاہتاہوں کہ بعض بہائی لوگ ان پیشگوئیوں کوبہاء اللہ پر چسپاں کرتے ہیں کہ وہ فارسی الاصل تھے ۔مگریہ درست نہیں ۔کیونکہ احادیث سے صاف ظاہر ہے کہ جس موعود کاذکر ہے وہ قرآن کریم کی تعلیم دے گااورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علہ وسلم کانائب ہوگا ۔کیونکہ سورئہ جمعہ کی جس آیت کے متعلق آپ نے جو کچھ فرمایا۔اس کاتومضمو ن ہی یہ ہے کہ ایک دفعہ تواب قرآن کی تعلیم محمد رسول اللہ صلعم نے عربوں کو دی ہے اورایک دفعہ پھر وہ ایک اورقوم کو جوابھی تک پیدانہیں ہوئی یہی تعلیم دیں گے ۔پس وہی شخص ا س پیشگوئی کو پوراکرنے والا ہوسکتاہے جو (۱)فارسی الاصل ہو (۲)دوسرے محمد رسول اللہ کے شاگردہونے کامدعی اورقرآن کریم کی تعلیم دینے والاہو (۳)آیات قرآنیہ کوساتھ ملالیا جائے تویہ شرطیں بھی شامل کرنی پڑیں گی کہ وہ ذوالقرنین ہو یعنی دوصدیوں کوپانے والاہو (۴)وہ یاجوج ماجوج کے فتنہ کو جس کاجزواعظم بندوں کو خدائی صفات دینا ہے تباہ کرے ۔
ان میں سے فارسی الاصل ہونے کے علاوہ کوئی بات بہاء اللہ میں نہیں پائی جاتی ۔نہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شاگرد ہیں نہ قرآن کی طرف لوگوں کوبلاتے ہیں نہ انہوںل نے دوصدیاں پائی ںاورنہ انہوں نے یاجوج ماجو ج کے فتنہ کوتوڑابلکہ انہوں نے تواپنے آپ کو خداکہہ کر اس فتنہ کی آگ میں تیل چھڑکاہے اوراسے اوربھی بھڑکادیاہے ۔
ان تمہیدوں اورترتیب مضمو ن کوبیا ن کرنے کے بعد اب میں ذوالقرنین کے متعلق اپنی تحقیق بیان کرتاہوں ۔
میں اوپربتاچکاہوں کہ جیساکہ سابق مفسروں اوریورپین محققین کاخیا ل ہے اورجیسا کہ حضرت مولو ی نورالدین صاحبؓ خلیفہ او ل جماعت احمد یہ نے بیان کیا ہے ۔میرے نزدیک بھی ذوالقرنین ایرانی باد شاہوں میں سے کسی ایک باد شاہ کانا م ہے ۔حضرت مولوی صاحب رضی اللہ عنہ اس کانام کیقباد بتاتے تھے ۔
بعض نے آپ کی تحقیق میں یہ فرق کردیا ہے کہ اس بادشاہ کودارائے اول قرار دیا ہے ۔مگرمیرے نزدیک ہمیں سب سے اول ان شرائط کودیکھنا چاہیئے کہ جوقرآن کریم میں بیا ن ہوئی ہیں اورپھر اس بادشاہ کی تعیین کرنی چاہیئے ۔اقرآن کریم سے معلو م ہوتاہے کہ (۱)ذوالقرنین کو الہا م یا خوابیں آتی تھیں (۲)وہ اپنے علاقہ سے توملک فتح کرتے ہوئے مغرب کی طرف چلا گیا جہاں ایک سیاہ چشمہ میں سورج ڈوب رہاتھا (۳)اس کے بعد و ہ مشرق کی طرف متوجہ ہوااورمشرقی ممالک کوفتح کیا (۴)پھر وہ ایک درمیانی علاقہ کی طرف گیا ۔جہاں سے یاجوج ماجوج حملہ کررہے تھے اورا س نے وہاں دیوا ربنائی ۔
ہمیں ذوالقرنین کی تعیین کرنے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ جوشخص ہمارے ذہن میں مشارٌ الیہ ذوالقرنین کہلانے کامستحق ہے اس میں یہ باتیں پائی جاتی ہیں یانہیں ۔خصوصاً ا س امر کو کہ وہ صاحب الہام اورخداتعالیٰ کامقبول بھی ہے یا نہیں ۔
یہ امرتوپہلے طے ہوچکا ہے کہ میدااورفارس کے بادشاہوں میں سے ہی کوئی بادشاہ یہاں مراد ہے کیونکہ دانیا ل کی رویا نے ان ہی کو ذوالقرنین کانام دیاہے ہم نے یہ دیکھناہے کہ ان میں سے کونسا بادشااہ یہ صفات اپنے اندررکھتاہے ۔سب سے اول اوراہم صفت الہام کی صفت ہے ۔اس بار ہ میں ہم تاریخ کودیکھتے ہیں توفارس کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ ہم کوایساملتاہے کہ جسے الہام ہوتاتھا اورجس کی نیکی اورتقویٰ کی تعریف ہم کو دوسرے انبیاء کے کلام سے بھی ملتی ہے اوریہ بادشا ہ خورس ہے جسے انگریزی میں CYRUS لکھتے ہیں۔یسعیاہ نبی اسبار ہ میں لکھتے ہیں :۔
’’خداوند مسیح خورس کے حق میں یوں فرماتاہے کہ میں نے اسکاداہناہاتھ پکڑاکہ امتوں کو اس کے قابومیں کروں اوربادشاہوں کی کمریں کھلواڈالوں اوردہرائے ہوئے درواز ے اس کے لیء کھول دوں اوروہ درواز ے بندنہ کئے جائیںگے میں تیرے آگے چلو ں گااورٹیڑھی جگہوں کوسیدھا کروں گامیں پیتل کے دروازو ں کے جداجداپُلوں کوٹکڑے ٹکڑے کروں گااورلوہے کے بینڈوں کو کاٹ ڈالوں گااورمیں گڑے ہوئے خزانے اورپوشیدہ مکانوں کے گنج تجھے دوں گاتاکہ توجانے کہ میں خداوند اسرائیل کا خداہوں جس نے تیرانام لے کے بلایا ہے اورمیں نے اپنے بندے یعقوب اوراپنے برگزیدے اسرائیل کے لئے تجھے تیرانام صاف صاف لے کے بلایا۔میں نے تجھے مہربانی سے پکاراکہ تومجھ کونہیں جانتا۔‘‘(یسعیاہ باب ۴۵ آیت ۱تا۴)
یسعیاہ نبی کے اس کلام سے ظاہر ہوتاہے کہ خورس نامی میدااورفارس کابادشاہ خداتعالیٰ کی طرف سے برکت دیا گیا کیونکہ اسے مسیح کہاگیاہے (ی حقیقت یاد رکھنے کے قابل ہے کہ خورس کوجوذوالقرنین تھا مسیح کہا گیا ہے اورمسیح موعودکو ذوالقرنین )پھر لکھا ہے کہ اسے حکومت اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے دی تھی۔یہی قرآن کریم ذوالقرنین کی نسبت فرماتاہے اِنَّا مَکَّنَّا لہ فی الارض واٰتَیْنٰہُ من کُلِّ شیئٍ سَبَبًا۔ہم نے اسے بادشاہت د ی تھی اورہرضروری امرکوحاصل کرنے کے ذرائع بخشے تھے اسی طرح لکھا ہے کہ میں تیرے آگے چلوں گااورتیر ی ٹیڑھی جگہوں کوسیدھا کرو ںگا ۔جس سے اشارہ ہے کہ و ہ بہت سفر کرے گا ۔یعنی قرآن کریم سے ظاہرہوتاہے ۔پھریسعیاہ کے الہام میں ہے کہ میںخداوند اسرائیل کاخداہوں جس نے تجھے نام لے کے بلایاہے۔قرآن کریم میں بھی آتاہے قلنا یاذاالقرنین ہم نے ذوالقرنین کو نام لے کرپکاراہے ۔پھرلکھا ہے کہ گوتومجھے نہیں جانتا۔اوریہ اس طرف اشارہ ہے کہ وہ خداتعالیٰ کی پرستش تورات کے نامو ں سے نہیں کرتاتھا بلکہ دوسرے ناموں سے ۔چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ وہ زردشت نبی کاپیروتھا ۔
خورس کی بزرگی کاثبوت تمام تاریخوں سے ملتاہے ۔اس کے بارہ میں لکھاہے کہ اس کے دشمن بھی اس سے محبت کرتے تھے ۔بلکہ جب و ہ کسی حکومت پرحملہ کرتاتواس کی نیکی اوراس کے انصاف کی وجہ سے شہروالے دروازے کھو ل کر اس سے جاکر مل جاتے اوراپنے بادشاہ کو چھو ڑدیتے ۔یسعیاہ نبی نے بھی اپناالہا م اس بارہ میں لکھا ہے جس کے یہ الفاظ ہیں ۔’’خورس کے حق میں کہتاہوں کہ یہ میراچرواہا ہے و ہ میر ی ساری مرضی پوری کرے گا۔‘‘(باب ۲۴آیت ۲۸)اس کی نیکی اوراس کے اخلا ق کے متعلق مورخین نے جوآراء ظاہر کی ہیں وہ یہ ہیں :۔ہسٹورینز ہسٹری آف دی ورلڈ جلد ۲ص ۵۹۶)
‏ (HISTORIANS HISTORY OF THE WORLD )میں مشہور مورخ ڈینو فین کی رائے لکھی ہے کہ:۔
’’میں نے ایک دفعہ انسانی فطرت پرغورکیااوراس نتیجہ پرپہنچاکہ انسان کے لئے اپنی فطرت کے مطابق دوسرے جانوروں پرحکومت کرناآسان ہے ،مگرانسان پرحکومت کرنامشکل ہے ۔کیونکہ میں نے غورکیا کہ کتنے ہی آقاہیں جن کے گھر میں تھوڑے یازیاد ہ نوکر ہیںمگروہ اپنے نوکروں سے بھی اطاعت نہیں کرواسکتے ۔پس اس سے میرایہی خیا ل ہواکہ ایساایک بھی آدمی نہیں جوانسان پرحکومت کرسکتاہو ۔دوسرے جانداروں پر حکومت کرنے والے کئی ہیں ۔مگریہ سوچتے سوچتے مجھے خورس بادشاہ کاخیال آیا جس نے میری رائے بدل دی اورمیں نے کہا کہ انسانوں پرحکومت کرنی مشکل نہیں۔میں نے دیکھاکہ بعض ایسے لوگ تھے جنہوں نے خوشی سے سائرس کی ماتحتی اختیار کی ۔حالانکہ بعض ان میں ایسے تھے جواس سے دومہینے کی راہ پر بعض چار مہینے کی راہ پر تھے ۔بعض ایسے بھی تھے جنہوں نے کبھی اسے دیکھاہی نہ تھا اورایسے بھی تھے جنہیں اسے دیکھنے کی توقع بھی نہ ہوسکتی تھی ۔‘‘
پھر لکھا ہے ’’اس نے لوگوں کے دل میں ایک پرزورخواہش پیداکردی تھی کہ وہ اسے خوش رکھیں اورکہ وہ ہمیشہ ان پرحکومت کرتارہے اس نے اتنی قوموں پرحکومت کی کہ ان کی تعداد کاشمار مشکل ہے مشرق سے مغرب تک اس کی حکومت پھیلی ہوئی تھی۔‘‘
پھر اسی کتاب میں موجودہ زمانہ کے مؤرخین کی رائے کا یہ خلاصہ لکھاہے ۔
’’اگرلڑائی انصاف کے لئے لڑنے بلکہ اسکے لئے جان دینے کے لئے تیاررہنے کانام ہے تووہ (یعنی خورس)بڑابادشاہ تھا ۔‘‘
پھر لکھا ہے :۔
’’و ہ محض اپنی ذات کے لئے کچھ نہ کرتاتھا ۔وہ ایساتھاکہ جب میڈیا کی حکومت ،بائبل کی حکومت اورمصر والوں نے اتفاق کرکے اس پرحملہ کیا توا سنے محض دفاع کی خاطرتلواراٹھائی ۔سب سے بڑھ کریہ کہ و ہ رحم مجسم تھا ۔اس کی ڈھال پرناجائز خون کاقطرہ نہ گراتھا ۔ نہ بھیانک انتقام یا ظلم سے اُس نے ہاتھ رنگے ۔اس نے مقدونیہ والے بادشاہ کیطرح کبھی شہر نہیں جلائے ۔اس نے دیگربادشاہوں کی طرح مغلوب بادشاہوں کے ہاتھ پائوں نہیں توڑے ا س نے یہودی بادشاہوں کی طرح کبھی دیواروں پر ان کو نہیں گھسیٹانہ اس نے رومیوں کی طرح مغلوب بادشاہوں کو پھانسی دی ۔نہ اس نے یونانیو ںکے پاگل خداسکندر کی طرح خونریزی کی ۔وہ بے شک ایشیائی تھا مگر وہ ایسے لوگوں میں سے تھا جواپنے زمانہ سے بہت پہلے پیداہوجاتے ہیں ۔
و ہ دوسرے انسانوں سے بہت نرم دل تھا ۔و ہ اپنی قوم کے رواج اوردستورسے بہت آگے نکلا ہواتھا انسانی عقل کی انتہائی ترقی جوآئندہ ہونے والی تھی اس پروہ قائم تھا ۔اس نے اپنی زبردست حکو مت کی بنیاد اس پر رکھی تھی کہ ملکوں کوفتح کرکے ان کے درجہ کوبڑھایاجائے اورمفتوحوںکو مساوی حقو ق دیئے جائیں ۔ٹائرکاوہ شہر جس نے نبوکدنضر اورسکندرکے آگے بڑے بڑے محاصروں کے بعد اپنے آپ کوسپردکیا اس شہر نے اس کے جاتے ہی اپنی مرضی سے اپنے دروازے کھو ل دیئے ۔‘‘پھرلکھا ہے کہ :۔
’’وہ اپنے زمانہ کی پیداوارنہ تھا ۔بلکہ اس نے زمانہ کوپیداکیا اوروہ اسکا باپ تھا ۔و ہ تاریخ انسانی میں ایک منفرد اوربے مثل بادشاہ تھا ۔‘‘(ہسٹورینز ہسٹر ی آف دی ورلڈ جلد ۲ص ۵۹۷تا۶۰۰)
اب میں اس مضمون کولیتاہوں کہ وہ خداتعالیٰ سے سچی خوابیں پانے کامدعی تھا ۔
اسی کتاب میں لکھا ہے کہ و ہ ایک دفعہ ایک مہم پرجارہاتھاکہ اس نے خواب دیکھا ۔کہ داراؔجواس کارشتہ میں بھتیجاتھا ۔اس کے دوپر نکلے ہیں ایک یورپ پر پھیلاہواہے اوردوسراایشیا پر ۔اس نے صبح ا س کے با پ کوبلایا جواسکے ساتھ تھااوراسے کہا تمہارالڑکامعلوم ہوتاہے میرے خلاف سازش کررہاہے ۔پھراس نے کہا کہ میں اس یقین کی وجہ بھی بتادیتاہوں اوروہ یہ کہ آج میں نے ایسا ایساخواب دیکھا ہے اورخداتعالیٰ کامیرے ساتھ اس محبت کی وجہ سے جو وہ مجھ سے رکھتاہے یہ سلوک ہے کہ ایسے تمام اہم امورجو میری ذات پرگہرااثر ڈالنے والے ہوں و ہ مجھے بتادیاکرتاہے ۔(جلد ۲ص ۵۹۵)
اس خواب کی تعبیر میں گوا سنے غلطی کھا ئی اورسمجھا ہے کہ شائد دارااس کے خلا ف کوئی ساز ش کرکررہاہے ۔لیکن جواس کی تعبیر تھی وہ اپنے وقت پرشاندار طورپر پور ی ہوئی ۔اورو ہ اس طر ح کہ خورس کے بعد اس کابیٹابادشاہ ہوااوراسے لوگوں نے قتل کردیا۔اس پردارانے چندشہزادوں کے ساتھ مل کر اس غاصب کوقتل کردیا اورآخر متفقہ فیصلہ سے داراکوبادشاہ بنایا گیا ۔جس نے یورپ اورایشیا کے بڑے حصے کوفتح کرکے ایرانی حکومت کو بہت بڑھادیا ۔
بائبل سے بھی معلو م ہوتاہے کہ اسے الہا م ہوتاتھا ۔کیونکہ بائبل می لکھا ہے :۔
’’اورشاہ فارس خورس کی سلطنت کے پہلے برس میں اس خاطرکہ خداوند کاکلام جو یرمیاہ کے منہ سے نکلا تھا پوراہو۔خداوند نے شاہ فارس خورس کادل اُبھارا کہ اسنے اپنی تمام مملکت میں منادی کرائی اوراسے قلمبند بھی کرکے یوں فرمایا ۔شاہ فارس خورس یوں فرماتاہے کہ خداوند آسمان کے خدانے زمین کی ساری مملکتیں مجھے بخشیں اورمجھے حکم کیا ہے کہ یروشلم کے بیچ جویہوواہ ہے اس کے لئے ایک مسکن بنائوں ۔پس اس کی ساری قوم میںسے تمہارے درمیان کون کون ہے اس کاخدااس کے ساتھ ہو اوروہ یروشلم کو جو شہریہوواہ ہے جائے اورخداوند اسرائیل کے خداکا گھربنائے جو یروشلم میں ہے ‘‘۔(عزرباب۱آیت ۱تا۳)گویاخدتعالیٰ نے اسے برگزیدہ کرکے اسے مملکتیں اورحکومتیں بخشیں پھر اسے الہام کرکے یروشلم کامقد س گھربنانے اوریہودیوں کے قید سے رہاکرنے کاحکم دیا ۔
دوسری علامت قرآن کریم سے ذوالقرنین کی یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس کی فتوحات پہلے مغرب کی طر ف شروع ہوئیں اوروہ ملک پرملک فتح کرتے کرتے ایسے مقام پر پہنچ گیا ۔جہاں اس نے سورج کو ایک ایسے چشمہ میں ڈوبتے ہوئے دیکھا جس می سیا ہ مٹی ملی ہوئی تھی(یعنی اس کیی پانی کارنگ سیاہ تھا ا س سے مراد بحیرہ اسود ہے جسے انگریز ی میں BLACK SEA کہتے ہیں )چنانچہ خورس کے ساتھ ایساہی معاملہ گذراہے ۔جب اسے اللہ تعالیٰ نے طاقت بخشی تومغربی ممالک کے باشاہوں نے ایکاکرکے اس پر حملہ کردیا اوراس طرح اس کی فتوحات اپنے ملک سے باہرمغربی طرف شروع ہوئیں اوربابل۔نینوااوریونانی نوآبادیات جوایشیائے کوچک کے شمال میں بحیر ہ ماموراتک پھیلی ہوئی تھیں ۔خورس نے فتح کرلیں اوراس طرح اس چشمہ تک پہنچا ۔جواس کے ملک کی مغرب کی طر ف تھا اورجس کاپانی سیاہ تھا(یہ تمام علاقے تاریخ سے ثابت ہے کہ ا سنے فتح کئے تھے )۔(دیکھو ہسٹورینز ہسٹری آف دی ورلڈ نیز جیؤش انسائیکلو پیڈیا جلد ۴ص ۴۰۳)
تیسری علامت قرآ ن کریم نے یہ بیا ن فرمائی ہے کہ مغربی علاقوں کوفتح کرنے کے بعد ذوالقرنین نے مشرق کی طرف توجہ کی اورتاریخ سے ا س امر کابھی پتہ ملتاہے کہ مغربی علاقوں کی فتح کے بعدخورس نے مشرقی ممالک کوفتح کیا اورافغانستان تک او ربخاراورثمر قند تک اس کی حکومت پھیل گئی (ہسٹورینز ہسٹری آف دی ورلڈجلد ۲ص ۵۹۳)
چوتھی علامت قرآ ن کریم بتاتاہے کہ اس نے ان کے درمیا ن بعض علاقوں کی طرف توجہ کی ۔اوروہاں ایک دیواربنائی ۔کیونکہ یاجوج ماجو ج وہاں سے حملے کرتے تھے تاریخ سے مندرجہ ذیل امورکاثبوت ملتاہے ۔
اول۔خورس کی جنگ یاجو ج ماجو ج سے ہوئی ہے اوراس نے ان کے حملوں سے اپنی مملکت کے بعض علاقوں کو بچایا ہے ۔
اس مسئلہ کو سمجھنے کے لئے پہلے یہ سمجھنا چاہیئے کہ یاجوج ماجو ج کن قبائل کو کہتے ہیں ۔اس کے لئے بھی ہم کو بائبل سے مدد ملتی ہے بائبل میں یاجوج ماجوج کی نسبت لکھا ہے ۔
’’اے آدم زاد توجوج کے مقابل جوماجوج کی سرزمین کاہے اورروس اورمسک اورٹوبالسک کاسردارہے اپنا منہ کر اوراس کے برخلاف نبوت کر ۔‘‘(حزقیل باب ۳۸ آیت ۲)
اس سے معلوم ہوتاہے کہ بائبل جس نے سب سے پہلے ہمیں یاجوج ماجو ج سے روشناس کرایا ہے شمالی علاقہ کے رہنے والے لوگوں کویاجو ج ماجو ج کہتی ہے اوران کامقام روس،ماسکو اورٹوبالسک بتاتی ہے جو ساراعلاقہ شمالی ہے ۔اس کے بعد بائبل سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ ان کامقابلہ فارس کاکوئی بادشاہ کرے گاکیونکہ لکھا ہے کہ وہ فارس پر قابض ہوگئے ہوے ہیں چنانچہ لکھا ہے ۔
’’اوران کے ساتھ فارس اورکوش اورفوط (ہیں)۔‘‘(حزقیل باب ۳۸ آیت ۵)
یعنی جب یہ پیشگوئی کی گئی ہے ۔یاجوج کے ماتحت فارس کاعلاقہ تھا ۔
اب ہم تاریخوں کودیکھتے ہیں کہ و ہ یاجوج ماجوج کی نسبت کیارائے ظاہر کرتی ہیں ۔پرانے مورخو ں میں سے جوزیفس کابیا ن ہے کہ یہ سید ین (SEYTHIENS ) قبائل کانام ہے ۔تورات سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے ۔کیونکہ پیدائش باب ۱۰ آیت ۲ میں لکھا ہے کہ ’’یافث کے بیٹے یہ ہیں۔جمر اورماجوج اورمادی‘‘جمر سِمّیرِ یَنْزْ (CIMMERIANS ) کانام ہے جوایشیائے کوچک کے مشرقی طرف رہتے تھے ۔اوماد ی میدیا والوں کا نام ہے ان دونوں کے درمیان کاعلاقہ میدینز ہی کاعلاقہ ہے ۔جیروم لکھتاہے کہ ماجوج کوہ قاف کے اوپر بحیرہ اخضر کے اوپر رہتے ہیں یہ بھی وہی شمالی علاقہ ہے جس میں سیدین رہتے تھے (جیؤش انسائیکلو پیڈیا جلد ۶ص ۱۹)
اس تحقیق کے بعد اب ہم دیکھتے ہیں کہ جیساکہ بائبل نے لکھا ہے کہ یاجوج ماجوج اس زمانہ میں فارس پر قابض ہوگئے تھے ۔کیا سیدینز کے بارہ میں یہ امر ثابت ہے سوا س کے متعلق ہم تاریخ میں یہ لکھاپاتے ہیں ۔’’تب جیسا کہ ہم لکھ آئے ہیں فارس سیدینز کے ہاتھو ں میں آگیا یادوسر ے لفظوں میں مادیوں کے بادشاہ کے ہاتھو ں میں آگیا (مادیاپر اس وقت سیدینز حکومت کررہے تھے )جس باد شاہ کاپائیہ تخت اس وقت اکباتانا(ECBATANA ) میں تھا جس کے ہاتھ سے فارس کو خورس اعظم نے چھڑوایا‘‘۔ (ہسٹورینز ہسٹری آف دی ورلڈ جلد ۲ص ۵۸۰)اس واقعہ سے نہ صرف یہ معلو م ہوتا ہے کہ یاجوج ماجو ج کاقبضہ فارس پر ر ہ چکاتھا بلکہ یہ بھی کہ خورس نے یاجوج ماجوج کو شکست دے کر فارس کو ان کے قبضہ سے آازد کرایا تھا ۔ان کابار بار حملہ کرکے جنوبی اقوام کو تکلیف دینا بھی تاریخ سے ثابت ہے ۔چنانچہ ہیروڈیٹس لکھتاہے کہ سیدینز کوہ قاف اوربحیرہ اخضر کے درمیان سے درّہ دربندکے راستے شمالی ممالک کی طرف سے جنوبی ممالک پرحملہ کیاکرتے تھے ۔
دوسری شق آخری علامت کی قرآن کریم سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ ذوالقرنین نے یاجوج ماجوج کے حملوں سے بچانے کے لئے ایک دیوار بنائی تھی ۔
پہلے توہم دیکھتے ہیں کہ کیا اس علاقہ میں کسی دیوار کاپتہ ملتاہے ؟
اس کاجواب یہ ہے کہ ہاں عین اسی مقام پرجسے ہیروڈوٹس نے سید ینز کے حملہ کاراستہ بتایا ہے دیوار بنی ہوئی تھی ۔و ہ دربند کی دیوار کے نام سے مشہورہے اورغالباً دربند اسی وجہ سے اس جگہ کانام پڑاہے کہ اس جگہ دیوار کھینچ کر سید ینزکوروکھاگیاتھا ۔چنانچہ دربند کے متعلق انسائیکلو پیڈیا برٹینکا میں لکھا ہے کہ ا س جگہ ایک دیوار تھی جواپنی تعمیر کے وقت ۲۹فٹ اونچی تھی اوردس فٹ چوڑی تھی اس میں لوہے کے دروازے تھے اورتھوڑے تھوڑے فاصلہ پر نگرانوں کے لئے مینار بنے ہوئے تھے تاکہ وہاں سے نگرانی کرسکیں یہ پچاس میل لمبی ہے اور بحیرہ اخضر سے کوہ قاف تک چلی گئی ہے پھر انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا میں لکھا ہے کہ یہ دیوار سکندر کی دیوارہے ۔مگراسے قباد ؔ نے جوساسانی بادشاہ تھا دوبار ہ مرمت کروایا تھا ۔
ان بیانات سے یہ تومعلوم ہوگیا کہ یہاں کوئی دیوار موجو د تھی ۔مگریہ کہ اس دیوار کو خورس نے بنایاتھا ۔اسکا ثبوت تاریخ سے اس وقت تک مجھے نہیں مل سکا۔ہاں میں سمجھتاہوں کہ سکندرکااس دیوارکو بنانا بالکل خلاف عقل ہے۔سکندر کے متعلق تاریخ سے معلوم ہوتاہے کہ ۳۳۰ ؁قبل مسیح کی گرمی کے موسم میں اس نے داراکو آخر ی شکست دی ہے اورداراماراگیاہے ۔(انسائیکلوپیڈیا برٹینکا جلد اول ص ۵۶۹)لیکن اس فتح سے اسے ایران پرقبضہ حاصل نہیں ہو ا۔بلکہ اسکے مقابل پر کئی صوبوں کے لشکر ابھی موجود تھے اس لئے وہ بغیر دم لئے آگے بڑھتاگیا ۔لیکن جونہی وہ آگے بڑھا پچھلے علاقہ میں بغاوت ہوگئی اوراسے واپس آنا پڑا ۔بغاوت کوفروکرکے سکندر کابل کی طرف بڑھا جہاں اس کی فوج میں بغاوت شروع ہوگئی ۔اورمورخین کے نزدیک ۳۲۹ ؁قبل مسیح کی سردی کے موسم میں وہ ہندوستان کی طرف بڑھا ۔یہ سفراس قد رسرعت سے طے ہواکہ بعض مورخ اس ک متعلق شک ظاہر کرتے ہیں ۔بہرحال یہ امر ثابت ہے کہ سکندر راستہ میں کہیں ٹھہرانہیں ۔بلکہ لڑتابھڑتاہندوستان کی طرف چلاگیا ہے ۔جہاں سے وہ جہازوں کے راستہ واپس لوٹا۔اور ۳۲۴ ؁قبل مسیح میں ایران پہنچا وہاں تھوڑاساعرصہ رہنے کے بعد جس میں اسے اپنی فوجوں کی بغاوت فروکرنے کی پھر ضرورت پیش آئی وہ گھرکوروانہ ہو ا۔اور۱۳؍جون ۳۲۳ ؁قبل مسیح راستہ ہی میں مرگیا ۔ان حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے اتنی بڑی دیوار بنانے کاہرگز موقع نہ مل سکتاتھا ۔پس معلوم ہوتاہے کہ یہ دھوکا اس امر اسے لگاہے کہ بعض مفسرین کاخیا ل تھا کہ سکند رذوالقرنین تھا ۔پس اس سے مسیحی مصنفوںنے دھوکا کھا کر اس دیوار کو سکند رکی دیوار سمجھ لیا ۔
مگر صرف اتنا ثابت کرناکافی نہیں کہ سکندرنے یہ دیوار نہیں بنائی بلکہ اس سے زیادہ ایسے ثبوت کی ضرورت ہے جس سے معلوم ہوکہ یہ دیوار اگر یقینا نہیں توغالباً خورس نے بنائی تھی چونکہ تاریخ سے اس وقت تک کوئی ایساثبوت نہیں ملا جس سے قطعی طور پر ثابت ہوکہ یہ دیوا رخورس نے بنائی ہے ۔ہم قیاس سے ہی کام لے سکتے ہیں ۔چنانچہ میں نے تاریخی واقعات کی بناء پر یہ نتیجہ نکالاہے کہ یہ دیوار خورس ہی نے بنائی ہے اورمیرے دلائل یہ ہیں ۔
(۱)تاریخ سے معلوم ہوتاہے کہ دارانے جو خورس کے بیٹے کے بعد بادشاہ ہوااورجس کے متعلق خورس نے خواب دیکھی تھی کہ مشرق و مغر ب میں اس کی حکومت ہوگی ۔سیدینز کازورتوڑنے کے لئے یونان میں سے گزر کریورپ کی طرف سے جاکر سیدینز پرحملہ کیاتھا۔ اب یہ بات خلاف عقل معلوم ہوتی ہے کہ جبکہ سیدینز اس کے شمالی جانب اس کے ملک کے پاس ہی بستے تھے وہ ان پرحملہ کرنے کے لئے یورپ سے گیا ہو ۔پس اس واقعہ سے قیاس کیاجاسکتاہے کہ چونکہ خورس نے دربند کے پا س دیوار بنادی تھی اورایک بڑی فوج کو لے کر ان کے ملک پر صرف چند چھوٹے چھوٹے دروازوں سے حملہ کرنا خالی از خطرہ نہ تھا ۔اوردیوار کوتوڑنا اوربھی پُرخطرتھا ۔پس دارانے سیدینز کازورتوڑنے کے لئے یورپ کی طرف سے جاکر حملہ کیا ۔تاکہ ایک طرف سے دیوار ان کوروک رہی ہو اوردوسری طرف سے اس کی فوجیں ان پر حملہ آورہوجائیں ۔
(۲)دوسراامر جس سے اس بار ہ میں قیاس کیاجاسکتا ہے یہ ہے کہ اگر درّہ دربند میں داراسے پہلے دیوار موجودنہ تھی تودارائے اول جیسے عقل مند بادشاہ کی نسبت یہ خیال نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اپنے ملک کوننگاچھوڑ کر ہزارمیل کاچکر کاٹ کر سیدینز پر حملہ کرنے کے لئے گیا تھا ۔کیونکہ اس صورت میں یہ صریح خطرہ موجود تھا کہ اس کے جانے کے بعد سیدینز بغل میں سے نکل کر اس کے ملک پرحملہ کردیتے اورنہ و ہ اپنے ملک کوہی بچاسکتا۔نہ اس کاملک اسکی ضرورت پرمزید کمک بھجواسکتا ۔پس اس کااطمینان سے یورپ کی طرف سے جاکر حملہ کرنا بتاتاہے کہ دربند کی طرف سے اس سے پہلے دیوار موجود تھی اوروہ اس امر سے مطمئن تھا کہ سیدینز اس کے ملک پر دیوار کیوجہ سے اس طرف سے حملہ نہیں کرسکتے ۔
میں سمجھتاہوں کہ اب میں چاروں علامتوں کو سوائے دیواروالے حصہ کے یقینی طورپر خورس کے حق میں ثابت کرچکاہوں ۔اوردیوار والے حصہ کے متعلق بھی اس قدر ثابت کرنے میں کامیاب ہوگیا ہوں کہ جہاں تک اس زمانہ کے واقعات سے(جودرحقیقت بہت کم ہم تک پہنچے ہیں )قیاس کیاجاسکتاہے کہ خورس ہی دربند کے پاس دیوار بنانے والاتھا۔خصوصاً جبکہ تاریخ سے ثابت ہے کہ یاجوج ماجو ج خورس کے برسراقتدار آنے سے پہلے اس کے اپنے ملک پرقابض تھے اوران کے حملے فارس پر اوراس کی وسیع سلطنت پر برابر جاری تھے ۔اورجبکہ ہم کو تاریخ سے یہ مزید ثبوت ملتاہے کہ دربند کی طرف سے سیدینز کے حملے خورس کے زمانہ کے بعد رک گئے تھے ۔
خلاصہ یہ کہ یہ امر ایک ثابت شدہ حقیقت معلوم ہوتاہے کہ ذوالقرنین بادشاہ سے مراد قرآن کریم میں خورس بادشاہ ہی ہے اواس امر کے ثابت کرچکنے کے بعد میں قرآن کریم کی آیات کی تفسیر الگ الگ بیان کرتاہوں ۔
انامکنا لہ فی الارض واٰتینہ من کل شیئٍ سببًا٭
ہم نے یقینا اسے زمین میں حکومت بخشی تھی ۔اورہم نے اسے ہرایک چیز (کے حصول )کاذریعہ عطاکیاتھا ۸۰؎
۸۰؎ حل لغات ۔مَکَّنَّا:مکّنَ سے جمع متکلم کاصیغہ ہے ۔اورمکَّنَہٗ منَ الشیئِ کے معنے ہیں جَعَلَ لہ علیہ سلطاناً وَّقُدرۃً۔اس کوکسی بات پرطاقت قدرت اورغلبہ بخشا(اقرب)پس مکّنّا کے معنے ہوں گے ۔ہم نے اسکو حکومت و غلبہ دیاتھا ۔
سَبَبًا:مَایتوصَّلُ بہٖ الی غیرہٖ۔کسی چیز کے حصو ل کے ذریعہ کو سبب کہتے ہیں(اقرب)
تفسیر ۔یعنی ہم نے ذوالقرنین کو دنیا میں بڑی طاقت بخشی تھی ۔اورہرقسم کے سامان اسے بخشے تھے یہ اوپر ثابت کیاجاچکا ہے کہ خورس کواللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے خاص طات دی تھی۔جیساکہ بائبل اوراس کے اپنے بیانات سے ثابت کیاجاچکاہے ۔دیکھونوٹ نمبر۱
حتی اذابلغ مغر ب الشمس وجدھاتغرب فی عین حمئۃ
یہاں تک کہ وہ سورج ڈوبنے کے مقام پر پہنچا تواس نے ایساپایا کہ (گویا)وہ ایک گدلے چشمے میں ڈوب رہاہے اوراس نے اسکے
ووجدعندھا قوماً ط قلنا یٰذاالقرنین اماان تعذب واما
پاس کچھ لوگ (آباد )پائے (اس پر )ہم نے (اسے)کہا (کہ )اے ذوالقرنین تجھے اجازت ہے کہ ان کو عذاب دے یاانکے
ان تتخذ فیھم حسنا٭
بارہ میں حسن سلوک سے کام لے ۸۱؎
۸۱ ؎ حل لغات ۔حَمِئَۃٌ:الحمئۃُ کے معنے ہیں ذات ُ الحمئۃِ۔کیچڑ والا(اقورب)پس عینٌ حَمِئَۃٌ کے معنے گدلا ۔کیچڑ والاچشمہ ۔
تفسیر ۔مغربَ الشَّمْسِ سے یہ مراد نہیں کہ دنیا کے آخر ی سرے پرپہنچا ۔بلکہ مراد یہ ہے کہ اپنی فتوحات کی مغربی حدتک جا پہنچااورمراد ایشاء کوچک کی شمالی اورمغر بی سرحد ہے ۔
عَینٌ حمئۃٌ کے معنے مٹی ملے ہوئے پانی کے ہیں۔اورمراد بحیرہ اسود سے ہے ۔کیونکہ مٹی سے پانی کارنگ گدلا اورسیاہی مائل ہوجاتاہے اوراس سمندر کاپانی بوجہ عمیق گہرائی کے سیاہی مائل ہے ۔مٹی ملے ہویء پانی کے الفاظ لفظاًبھی اس سمندر پرصادق آتے ہیں ۔کیونکہ یہ سمند رسارے سمندروں سے اس امرمیںنرالاہے کہ اس میں باقی سمندروں کی نسبت نمکین پانی کم شامل ہوتاہے اوراس کے پانیوں کابڑاحصہ زمینی دریائوں کے پانی سے بنتاہے ۔جوروس آرمینیا اوربلغاریہ کے ملکوں سے آکر اس میں گرتے ہیں (انسائیکلوپیڈیا برٹینکا زیر لفظ بلیک سی)پس چونکہ اکثر پانی اس کادریائو ںسے آتاہے اس میں دوسرے سمندروں کی نسبت مٹی کی آمیزش زیادہ ہے اورنمک سب سمندروں سے کم ہے۔
یہ جوفرمایا کہ اس میں سورج ڈوبتاہواپایا ۔اس سے مرادیہ ہے کہ چشمہ کے لفظ سے دھوکانہ کھائو۔چشمہ سے صر ف یہ مراد ہے کہ اسکاپانی گہراہے اورسطح زمین کے اندرسے نکل کر بھی اسمیں پانی ملتارہتاہے ورنہ چھوٹاچشمہ مراد نہیں ۔بلکہ وہ اسقدر وسیع ہے کہ اسکے کنارہ پرکھڑے ہوں تو یوں معلوم ہوگا کہ گویا سورج اسی میں ڈوب رہاہے ۔
وجدعندھاقوماً سے مراد وہ حکومت ہے جوایشاء کوچک کے مشرقی ساحل پر حکومت کررہی تھی اورجس نے بابل کی فتح کے بعد دوسری حکومتوں سے مل کر بلاوجہ خورس پر حملہ کردیاتھا۔
اس قوم کے متعلق فرماتاہے کہ ہم نے اسے کہا کہ خواہ اسکی شراارت کی وجہ سے اسے سزادوخواہ ان پر احسان کرکے اپناگروید ہ بنالو ۔
قال اما من ظلم فسوف نعذبہ ثم یرد الی ربہ فیعذبہ
عذاباًنکراً
اس نے کہا(ہاں میں ایساہی کروں گا اور)جوظلم کرے گا اسے توہم ضرورسزادیں گے پھر وہ اپنے رب کی طرف لوٹایاجائے گااوروہ اسے سخت عذاب دے گا ۸۲؎
۸۲؎ تفسیر ۔یعنی خورس نے اس الہام کے جواب میںیہ عرض کی کہ میرایہ منشاء ہے کہ اگر یہ دوبارہ شرارت کریں توان کوسزادوں ورنہ نہیں۔
یہ جوفرمایا ثُمَّ یُرَدُّ الی ربِّہٖ اس سے معلوم ہوتاہے کہ خورس کا ایک ایسے مذہب سے تعلق تھا جوقیامت پر خاص طور پر ایمان رکھتاتھا ۔چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ خورس زردشتی مذہب کامخلص پیروتھا ۔جومذہب کہ اسلام کے بعدسب مذاہب سے زیادہ بعث بعد الموت پرزوردیتاہے (جیؤش انسائیکلوپیڈیا جلد ۴ ص ۴۰۴)اس می لکھاہے کہ یہ امر یقینی طورپرثابت ہے کہ خورس خالص زردشتی مذہب کاپیروتھا ۔
وامامن آمن وعمل صالحاً فلہ جزاء الحسنیٰ وسنقول لہ من امرنا یسراً٭
اورجوایمان لائے گااورنیک(اورمناسب حال عمل )کرے گاتواس کے لئے (خداتعالیٰ کے ہاں اس کے اعمال کے)بدلہ میں اچھا
انجام (مقدر)ہے اورہم(بھی )ضروراس کے لئے اپنے معاملہ میں آسانی والی بات کہیں گے ۔ ۸۳؎
۸۳؎ تفسیر ۔اس آیت سے ذوالقرنین کے اخلاق کاپتہ چلتاہے اورجیسا کہ نوٹ نمبر۱میں بتایاجاچکا ہے ۔خورس بہت رحم دل تھااورمفتوح اقوام سے نہایت محبت اوررحم کاسلوک کرتاتھا۔
اس جگہ اگرکوئی اعتراض کرے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کیوں کہا کہ چاہوتوسزادوچاہوتورحم کر و۔تواس کاجواب یہ ہے کہ یہ ایک لطیف طریق رحم کی تعلیم دینے کاہے پہلے عذاب کاذکر کیا کہ اس قوم نے شرارت توکی ہے اورتمہاراحق ہے کہ ان کوسزادو ۔پھر یہ فرمادیاکہ اگرچاہوتوان پر رحم بھی کرسکتے ہو ۔یعنی ایک راستہ رحم کابھی کھلا ہے ۔اس طرح رحم کی طرف ایک لطیف اشارہ کرکے ذوالقرنین کو خالص نیکی کاموقعہ عطاکیا ۔اگر حکماً رحم کرنے کو کہاجاتاتوذوالقرنین کے طبعی نیکی کے اظہار کاموقعہ نہ ملتا ۔لیکن اس حکم کے بعدجواس نے نیکی کی یہ اس کاذاتی فعل تھااوراسے زیادہ ثواب کامستحق بناتاتھا ۔
ثم اتبع سببًا٭حتی اذابلغ مطلع الشمس وجدھا تطلع
پھر وہ ایک اورراستہ پر چل پڑا ۔یہاں تک کہ وہ سورج کے نکلنے کے مقام پرپہنچا تواس نے ایسے لوگوں
علی قومٍ لم نجعل لھم من دونھا ستراً٭
لوگوں پر چڑھتاپایا ۔ جن کے لئے ہم نے (ان کے اور)اس کے درمیان کوئی پردہ نہیں بنایاتھا ۸۴؎
۸۴ ؎ تفسیر ۔اس میں ذوالقرنین کے مشرقی سفر کاذکر فرامایاہے جوافغانستان تک ہوا۔لم نجعل لھم من دونھا سِتراً سے یہ بھی مراد ہوسکتاہے کہ وہ قوم ایسی مہذب نہ تھی اورمکان وغیرہ ان میں کم تھے ۔بلکہ جھونپڑوں یا خیمو ں میں رہتے تھے ۔افغانی قبائل کی اسوقت یہی حالت تھی ۔وہ تہذیب کے اعلیٰ مقام پر نہ تے ۔مگرمیرے نزدیک الفاظ قرآن پر غورکرنے سے یہ معلوم ہوتاہے کہ وہ بلوچستان کاعلاقہ تھا ۔کیونکہ اللہ تعلیٰ فرماتاہے ۔وَجَدَھا تَطْلُعُ علی قومٍ لم نجعل لھم من دونھا ستراً۔کہ اس نے سورج کو دیکھا کہ وہ ایسی قوم پرچڑھتاہے جس کے اورسورج کے درمیا ن ہم نے کوئی پردہ نہیں بنایا یعنی اوٹ کوئی نہیں ۔سیدھی شعاعیں اس پر پڑتی ہیں ۔مطلب یہ کہ وہ علاقہ چٹیل میدان ہے ۔درخت وغیرہ یااونچے پہاڑ ا س علاقہ میں نہیں ۔ عام طورپر مورخین یونانی ہی ہیں اس لئے انہوں نے اپنی طرف کے علاقوں کی فتوحات کای ذکر کیا ہے ۔مشرقی طرف کی فتوحات کاذکر بالتفصیل نہیں کیا ۔ہاں اختصارًا وہ لکھتے ہیں کہ خورس نے مشرق کی طرف افغانستان کے نواح میں حملہ کیا تھااواس علاقہ کوفتح کرلیاتھا ۔مگرچونکہ سیستان بھی فارسی حکومت میں شامل تھا ۔میرے نزدیک یہ بلوچستان کے علاقہ کاذکرمعلوم ہوتاہے جہاں ریت کاصحرااورٹیلے وغیر ہ ہیں ۔لیکن اگر تاریخ کے بیان کوکافی سمجھاجائے توپھر لم نجعل لھم من دونھا سِتراً سے اس صحرااورمیدان میں بسنے والی قوم مراد لی جائے گی جوسیستان اورہرات کے مغربی جانب اوردُزداب سے شمالی جانب کومشہد تک کئی سومیل تک لمباچلاگیاہے ۔
کذٰلک ط وقد احطنا بمالدیہ خبراً٭
(یہ واقعہ ٹھیک )اسی طرح تھااورجوکچھ اس کے پاس تھا اس کاہم نے (اپنے )علم سے احاطہ کیا(ہوا)تھا۔ ۸۵؎
۸۵؎ تفسیر ۔یعنی جس طرح ہم نے بتایاہے ایساہی ہواتھایعنی اس کا ان علاقوں کو فتح کرنا ایک یقینی بات ہے
قَداحطنا بمالدیہ خبراً سے مرادیہ ہے کہ ہم اس کی ہرسفر میں حفاظت کرتے تھے کیونکہ اس کی ہربات کی خبررکھنے کے یہی معنے ہیں کہ اس کے حالات کی نگرانی کرتے تھے ۔
ثم اتبع سببًا٭
پھر و ہ ایک راستہ پر چل پڑا ۸۶؎
۸۶؎ تفسیر ۔اس تیسرے اتبع سببًامیں خورس بادشاہ کے اس سفرکاذکر ہے جواس نے ایران سے شمالی جانب بحیرہ کیپین اورکوہ قاف کی درمیا ن علاقہ کی جانب کیا ۔
حتی اذابلغ بین السدین وجد من دونھما قوماً لایکادون یفقھون قولاً٭
یہاں تک کہ جب وہ دوپہاڑوں کے درمیان پہنچا تواس نے ان کے ورے کچھ ایسے لوگ پائے جوبمشکل اس کی بات سمجھتے تھے ۸۷؎
۸۷؎ حل لغات ۔السَّدَّیْن: السَدُّ سے تثنیہ ہے اورالسدُّ کے معنے ہیں ۔الجبل پہاڑ ۔الحاجز بین الشیئین ۔دوچیزوں کے درمیان روک (اقرب)
تفسیر ۔اس جگہ کے بسنے والوں کی نسبت فرماتاہے کہ وہ بمشکل ذوالقرنین کے لوگوں کی باتیں سمجھتے تھے ۔یہ پہلے بتایاجاچکاہے کہ کاد سے پہلے نفی آئے تواس کے معنے مثبت کے ہوتے ہیںاورمثبت کالفظ آئے توا سکے معنے نفی کے ہوتے ہیں ۔پس اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ بمشکل ذوالقرنین اوراس کے لوگوں کی باتیں سمجھتے تھے ۔مگرساتھ ہی یہ بھی نکلتاہے کہ و ہ بات کسی حد تک سمجھ جاتے تھے ۔اس سے ظاہر ہے کہ وہ فارس کے لوگوں کے ہمسائے اوران کے ساتھ میل ملاپ رکھنے والے تھے ۔پس گوان کی زبان اورتھی مگر ہمسائگت اورکثر ت سے میل جول رکھنے کی وجہ سے فارس اورمیدیاوالوں کی کچھ کچھ بات وہ سمجھ لیتے تھے ۔
جغرافیہ کے دیکھنے سے معلوم ہوتاہے کہ دربندکاعلاقہ جس کی نسبت بتایا جاچکا ہے کہ وہاں دیوار بنائی گئی تھی ایساہی علاقہ ہے یہ علاقہ مادہ اورفارس کے ساتھ لگتاہے بلکہ بعد کے زمانہ میں توفارس کاحصہ ہی بن گیا تھا ۔گواب روس والوں نے اس علاقہ کو لے کر اپنی حکومت میں شامل کرلیا ہے ۔
یہ جو فرمایا ہے کہ بین السدین پہنچا اس سے مراد یہ ہے کہ اس راستہ کے ایک طرف بحیرہ اخضر ہے اوردوسری طرف کوہ قاف ۔اوریہ دونوں چیزیںدونوں طرف سے سدّیعنی روک کاکام دے رہی تھیں ۔صرف درمیانی درّ ہ غیرمحفوظ تھا ۔
قالوایٰذاالقرنین ان یاجوج وماجوج مفسدون فی الارض
انہوں نے کہا (کہ )اے ذوالقرنین یاجوج ماجو ج یقینا اس ملک میں فساد پھیلا رہے ہیں
فھل نجعل لک خرجاًعلی ان تجعل بیننا وبینھم سدًّا٭
پس کیاہم (لوگ )آپ کے لئے کچھ خراج اس شرط پرمقررکردیں کہ آپ ہمارے درمیان اوران کے درمیان ایک روک بنادیں ۸۸؎
۸۸؎ حل لغا ت۔خَرْجًا:الخرج ۔الخراجُ خرج کے معنے خراج یعنی لگان کے ہیں (اقرب)
تفسیر ۔یعنی چونکہ یہ لوگ یاجوج ماجو ج کے دروازہ پر تھے وہ کثرتسے ان کے حملوں کاشکار ہوتے رہتے تھے ۔اس لئے اس علاقہ کے لوگوں نے خورس سے خواہش کی کہ ان کے حملوں سے بچنے کے لئے ایک دیواربناد یجائے اوراس کاخرچ ہم دیں گے ۔
قال مامکّنی فیہ ربی خیر فاعینونی بقوۃ اجعل بینکم
اس نے کہا (کہ )اس (قسم کے کاموں )کے متعلق میرے رب نے جوطاقت مجھے بخشی ہے وہ (دشمنوں کے سامانوں سے )بہت بہترہے اس لئے تم مجھے (اپنے )مقدوربھر مدد دوتاکہ میں تمہار ے درمیان
وبینہم ردماً٭
اوران کے درمیان ایک روک بنادوں ۸۹؎
۸۹؎ حل لغات ۔رَدْمًا:الرَّدْمُ مایسقُطُ من الجدار المھدم ۔گری ہوئی دیوار کاڈھیر( اقرب)
تفسیر ۔یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھے ان کاموں کاخو ب علم دیاہے اورمیں اس کام کوخوبی اچھی کرسکتاہو ںاس لئے تم مزدوری کے ذریعہ سے میری مددکروتاکہ میں یہ دیواربنادوں۔
قوۃٌ سے مراد مزدوری ہے یعنی تم لوگ اس جگہ بستے ہو۔مزدوری کاکام تم ہی کرسکتے ہو ۔پس میںسکیم تجویزکرتاہوں تم اس کے پوراکرنے میں میراہاتھ بٹائو۔
اتونی زبرالحدید ط حتی اذاساوی بین الصدفین قال
تم مجھے لوہے کے ٹکڑے دو(چنانچہ وہ روک تیارہونے لگی )یہاں تک کہ جب اس نے (پہاڑی کی )ان (دونوں )چوٹیوں کے
انفخوا ط حتی اذاجعلہ ناراً قال اتونی افرغ علیہ قطراً٭
درمیان برابری پیداکردی تواس نے (ان سے )کہا (کہ ا ب اس پرآگ)دھونکو ۔حتی کہ جب اس نے اسے (بالکل)آگ (کی طرح )کردیاتو(انسے )کہا(کہ اب)مجھے(گلاہوا)تانبا(لا)دوتاکہ میں (اسے )س پر ڈال دوں ۹۰؎
۹۰؎ حل لغات ۔زبرالحدید :زبر ۔زبرۃٌکی جمع ہے اورالزبرۃ کے معنے ہیں القطعۃ الضخیمۃ بڑاٹکڑا(اقرب)پس زبرالحدید کے معنے ہوں گے لوہے کے ٹکڑے ۔ساوٰی الشیئین وساوٰی بینھما کے معنے ہیں سَوَّی دونوں کے درمیان برابری کردی (اقرب)
الصَّدَفَیْنِ:الصَّدَفُ سے تثنیہ ہے اورالصدف کے معنے ہیں کلّ شیئٍ مرتفعَ عظیمٌ۔ہراونچی بلند چیز ۔الجبل۔پہاڑ ساوٰی بین الصدفین ای بین رأسیَ الجبَلِ المتقابلین ۔آمنے سامنے کے دونوں پہاڑوںکی چوٹیوں کے درمیان برابری پیداکردی (اقرب)
اُفْرِغْ:افرغ المائَ کے معنے ہیں ۔صَبَّہٗ اس نے پانی کوڈالا۔افرغ الدِّمائَ اراقھا ۔خون بہایا ۔افرغ الذَّھَبَ والفِضَّۃَ : صَبَّھَا فی قالبٍ سونے اورچاند ی کو کسی سانچے میں ڈال کرڈھالا(اقرب)
القطر:اَلنُّحَاسُ الذَّائِبُ:پگھلاہواتانبا(اقرب)اٰتونی اُفرغ علیہ قِطراً کے معنے ہوں گے ۔تم مجھے تانبالاکردو کہ میں اس پر ڈالو ں۔
تفسیر ۔یعنی علاوہ مزدوری کے تم یہ مددبھی دو کہ لوہااور تانبامہیاکرو۔کیونکہ گودیوار بناناحفاظت کے لئے ضروری تھا مگراس کے ساتھ دیوار میں دروازے بنانے بھی ضروری تھے ۔تاکہ تجارت کو نقصان نہ پہنچے اورتجارتی قافلوں کے آنے جانے کاراستہ کھلارہے ۔پس مضبوط در واز ے بنانے کے لئے لوہے کی اوران کو زنگ سے بچانے کے لئے تانبے کی ضرورت تھی جوان سے طلب کیا گیا ۔
فمااسطاعواان یظھروہ ومااستطاعوالہ نقباً٭
پس (جب وہ دیوار تیار ہوگئی تو)و ہ(یعنی یاجوج ماجو ج)اس پر چڑھ نہ سکے اورنہ اس میں کوئی سوراخ کرسکے ۹۱؎
۹۱؎ تفسیر ۔یعنی جب دیوار بن گئی ۔تویاجوج ماجو ج کے حملے رک گئے ۔وہ دیوار اس قدراونچی تھی کہ وہ ا سپرچڑھ بھی نہیں سکتے تھے اوراتنی موٹی تھی کہ اس میں نقب بی نہیں لگاسکتے تھے۔
یہ مراد نہیں کہ دیواراس قسم کی تھی کہ اس پرچڑھنا یااسمیں نقب لگانا ناممکن تھا ۔بلکہ چونکہ اس میں بُرج اورقلعے تعمیر کئے گئے تھے جہاں سپاہی پہرہ کے لئے مقرررہتے تھے اس لیء دیوار پر چڑھنایانقب لگاناناممکن تھا ۔کیونکہ پہرہ دارہراس شخص کو جو چڑھنے کی کوشش کرے یانقب لگائے مارسکتے تھے ۔ظاہر ہے کہ جو دیوارپر چڑھنے میں یانقب لگانے میں مشغول ہو وہ لڑ نہیں سکتا ۔اودیوارکے اوپر بیٹھے ہوئے سپاہی اسکاآسانی سے مقابلہ کرسکتے ہیں اوراسے روک سکتے ہیں ۔
قال ھذارحمۃ من ربی فاذاجاء وعد ربی جعلہ دکاء وکان وعد ربی حقاً٭
(اس پر )اس نے کہا (کہ)یہ(کام محض)میرے رب کے خاص احسان سے(ہوا)ہے ۔پھر جب (عالمگیرعذاب کے متعلق ) میرے رب کاوعدہ (پوراہونے پر)آئے گاتووہ اسے(توڑکر)ایک زمین سے پیوست شدہ ٹیلابنادے گااورمیرے رب کاوعدہ (ضرور)پوراہوکر رہنے والا ہے ۹۲؎
۹۲؎ تفسیر ۔یہ فقر ہ اس کے ایمان کے اظہارکے لئے بیان کیاگیاہے اوربتایا ہے کہ مومن بڑے سے بڑاکام کرکے بھی متکبر نہیں ہوتا۔بلکہ اپنے کاموں کواللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتاہے ۔
فاذاجائَ وعدُ ربی ۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ الہا م خورس کوبتادیاتھا کہ ایک دن یہ قومیں پھر جنوب مشرق کی طرف بڑھیں گی اوریہ دیوار بیکار ہوجائے گی ۔کیونکہ دیوارٹوٹنے سے یہی مراد ہے جسکاثبوت انبیاء ع۷ کی آیات سے ملتاہے ۔ کیونکہ وہاںصاف لکھاہے کہ یہ قومیں سمندرکے ذریعہ سے دنیا میں پھیلیں گی ۔یہ بی ہوسکتاہے کہ دیوارٹوٹنے سے مراد مسلمانوں کی حکومت کازوال ہو ۔
وترکنا بعضھم یومئذ یموج فی بعض ونفخ فی الصورفجمعنھم جمعاً٭
ااور(جب اس کے پوراہونے کاوقت آئے گاتو)اس وقت ہم انہیں ایک دوسرے کے خلاف جوش سے حملہ آورہوتے ہوئے چھو ڑ دیں گے اوربگل بجایا جائے گاتب ہم ان (سب)کوبالکل اکٹھاکردیں گے ۹۳؎
۹۳؎ تفسیر ۔یہاں سے اللہ تعالیٰ کاکلام شروع ہوتاہے ۔اوربتایاہے کہ جب اس وعد ہ کاوقت آء ے گاجسکاذکر ذوالقورنین نے کیا تھا ۔اللہ تعالیٰ ان اقوام کو پھر ترقی د یگااورمختلف اقوام عالم آپس میں لڑیں گی اورشمالی اورمغربی اقوام ،جنوبی اورمشرقی اقوام سے مل جائیں گی اوراللہ تعالیٰ سب دنیاکو جمع کردے گا یعنی وہ ایسا زمانہ ہوگاکہ سفرآسان ہوں گے اورساری دنیاایک ملک کی طرح ہوجائے گی چنانچہ موجودہ زمانہ ایساہی ہے ۔
قرآن کریم میں دوسر یجگہ یاجو ج ماجوج کے پھیلنے کاذکران الفاظ می کیاگیاہے ۔حَتّٰی اذافتحت یاجوج وماجوج وھم من کل حدبٍ ینسلون ۔واقترب الموعدُ الحقُّ فاذاھی شاخصۃٌ ابصارالذین کفروایاوَیلنا قدکنا فی غفلۃٍ من ھذابل کنا ظالمین ۔(انبیاء ع ۷) یعنی جب یاجو ج ماجوج کی روک کو ہم دورکردیں گے اوروہ سمندرکی لہروں پرسے تیزی سے سفر کرتے ہوئے سب دنیا میں پھیل جائیں گے اس کے بعد ہماراوعدہ ان کی تباہی کے متعلق پوراہو گااورعذاب آئے گاتب و ہ حیران ہوکر کہیں گے کہ ہمیںتواس عذاب کاخیال تک نہ تھا اورہم تودنیا پر ظلم کرتے رہے ۔اب ہماری تباہی میں کیاشک ہے ۔اس آیت می یہ بھی بتایاگیاہے کہ یاجوج ماجوج مشرق کی طرف کسی دیوار کے رخنہ میں سے نہیںبلکہ سمندر کے راستہ سے آئیں گے اوریہ بھی بتایاگیاہے کہ انکاسمندروں پرقبضہ ہوگا۔اورسب دنیا کے سمندروں پر ان کے جہاز چلیں گے ۔کیونک مِنْ کُلِّ حَدَبٍ کے الفاظ آیت میں استعمال ہوئے ہیں جن کے معنے ہیں کہ سمندرکی سب لہروں پرسے وہ آئیں گے۔نیزاس آیت میں یہ بھی بتایاگیاہے کہ ان کے یہ سفربڑی جلدی سے طے ہوں گے۔اس سے دخانی جہازوں کی ایجاد کی طرف اشارہ ہے چنانچہ دیکھ لویہ پیشگوئی کس طرح حرف بہ حرف پو ری ہوئی ۔سمندرہی کے ذریعہ سے یہ اقوام مشرق میں پھیلیں۔اورسمندر ی سفر جس طر ح ان کے زمانہ میں جلدی طے ہونے لگاہے اس کی نظیر پہلے نہیں ملتی ۔
وعرضناجھنم یومئذ للکافرین عرضا٭
اورہم اس دن جہنم کو کافروں کے بالکل سامنے لے آئیں گے ۹۴؎
۹۴؎ تفسیر ۔و ہ دن جہنم کے سے ہوں گے ایک دوسرے سے دشمنی بڑھ جایء گی اورملک ملک پرغلبہ پانے کی کوشش کرے گااوریہ بھی مراد ہے کہ یہ اقوام سخت بے دین ہو ںگی اوراللہ تعالیٰ سے غافل ۔اورایسے کام کریں گی جوانسان کوجہنم کامستحق بنادیتے ہیں ۔
الذین کانت اعینہم فی غطائٍ عن ذکری وکانوالایستطیعون سمعاً٭
جن کی آنکھیں میرے ذکر(یعنی قرآن کریم )کی طرف سے (غفلت کے )پردہ می تھیں اوروہ سننے کی طاقت (بھی )نہیں رکھتے تھے ۹۵؎
۹۵؎ تفسیر ۔اس میں بتایاہے کہ عبادت اس قوم سے بالکل اٹھ جائیگی اوریا توشروع زمانہء ترقی میں خداتعالیٰ ک لئے انہوں نے بڑی بڑی تکالیف اٹھائی تھیں اوریااس زمانہ میں یہ حال ہوگاکہ اللہ تعالی کانام مٹ جائے گااوریہ لوگ ہرکام کو اپنے کما ل کیطرف منسوب کریں گے ۔
وکانو الایستطیعون سمعاً میں بتایاہے کہ اس قدرزنگ دل پر لگ جائے گاکہ خداکاکلام سننے کی طاقت بالکل دلوں سے جاتی رہے گی ۔چاننچہ ا س وقت مغربی اقوام کایہی حا ل ہے خداکے نئے کلام کاسننا توالگ ابات ہے۔وہ اس کلام کی بھی دھجیاں اڑارہے ہیں جس کوظاہر میںتسلیم کرتے ہیں اورآئے دن ان میں کتب لکھی جاتی ہیں ۔جن میں کبھی توحضرت مسیحؑ کو ایک خیالی وجود ثابت کیاجاتاہے۔کبھی بائیبل پر جرح کرکے اسے انسانی کلام ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔
رکوع پراجمالی نظر
اوپرکی آیات میں مسیحی اقوام کی آخری زمانہ کی ترقی اوردنیا میں پھیل جانے اوردین سے بے پرواہ ہوجانے اورخداتعالیٰ کو بھول جانے کاذکرکیاگیاہے اوربتایا ہے کہ اس ترقی کے بعد اللہ تعالیٰ غیب سے سامان پیداکرے گااوران کی ترقی تنزل سے بدل جاائے گی ۔تب مایو س ہوکر موسیٰؑ کے کشف کے مطابق ان کو دین کی طرف توجہ ہوگی اوروہ اپنی غلطی کومحسوس کرکے پھر مجمع البحرین کی طر ف لوٹیں گے اوراسلام کی طرف رجوع کریں گے۔
میں اس جگہ یاجوج ماجوج کے انجا م کے متعلق جوپیشگوئیاں بائبل میں ہیں ان کو بھی لکھ دینا مناسب سمجھتاہوں ۔
مکاشفا ت باب ۲۲ آیات ۷،۸ میں لکھا ہے کہ ’’جب ہزاربرس پورے ہوچکیں گے توشیطان قید سے چھو ڑدیاجائے گااوران قوموں کو جو زمین کے چاروں طرف ہوں گی یعنی یاجوج ماجوج کوگمراہ کرکے لڑائی کے لئے جمع کرنے کو نکلے گا۔‘‘یہاں پرہزاربرس سے مراد ۰ ؁ہجری کے ہزار برس ہیں ۔یعنی حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہزارسال بعدشیطان اپنی قید سے چھوٹے گا۔چنانچہ ایساہی ہواکہ ۱۶۱۱ ؁ء میں ہندوستان میں مغربی اقوام کے قدم جم گئے اوریاجوج کی ترقی کازمانہ شروع ہوا۔
حزقیل باب ۳۸و۳۹ اورمکاشفات کوملاکر پڑھاجائے تویہ نتیجہ نکلتاہے کہ ان کی ترقی توسولہویں صدی میں شروع ہوگی (مکاشفات)اورتمام دنیا پرغالب ہوجانا اورتمام ملکوں پرپھیل جانا آخری دنوں میں ہوگا(حزقیل باب۳۸ آیت ۸۔۱۶)
میں اوپر اشارہ کرآیا ہوں کہ ذوالقرنین کے حالا ت کے مشابہ حالات آخر ی زمانہ میں بھی ایک مثیل ذوالقرنین کے لیء مقدر ہیں اواس واقعہ کو قرآن کریم میں بطورپیشگوئی بیان کیاگیاہے ۔اس تفصیلات کے لئے دیکھو بانی سلسلہ احمدیہ کی کتاب (براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۹۰تا۹۷طبع اول)
افجسب الذین کفرواان یتخذواعبادی من دونی اولیاء ط
انا اعتدنا جھنم للکافرین نزلا٭
(تو)کیا (یہ سب کچھ دیکھکر )پھر(بھی)و ہ لو گ جنہوں نے کفر(کاطریق )اختیار کیا ہے (یہ)سمجھتے ہیں کہ و ہ مجھے چھوڑ کر میرے بندوں کو مددگار بناسکیں گے ہم نے (تو)کافروں کی ضیافت کے لئے جہنم کوتیار کررکھا ہے ۹۶؎
۹۶؎ حل لغات ۔نُزُلًا:النزل۔ماھُیِیئَ لِلّضَّیفِ۔مہمانی(اقرب)
تفسیر۔یہ ان ہی لوگوں کاذکر ہے جوحضرت مسیحؑ کو نجات دہندہ اورخداکابیٹامانتے ہیں۔جن کاابتدائے سورۃ میں ذکرآیتاتھا۔ اوراس آیت سے ظاہر ہوگیا کہ اوپر کی آیات میں مسیحیو ںکا ہی ذکر تھانہ کہ کسی اورقوم کا ۔
قل ھل ننبئکم بالاخسرین اعمالاً٭
تو(انہیں)کہہ(کہ)کیا ہم تمہیں ان لوگوں سے آگاہ کریںجواعمال کے لحاظ سے سب سے زیادہ گھاٹاپانے والے ہیں ۔
الذین ضل سعیھم فی الحیٰوۃ الدنیا وھم یحسبو ن انھم یحسنون صنعاً٭
(یہ وہ لوگ ہیں )جن کی (تمام تر)کوشش اس ورلی زندگی میں ہی غائب ہوگئی ہے ۔اور(اسکے ساتھ )و ہ(یہ بھی)سمجھتے ہیں کہ وہ اچھاکام کررہے ہیں ۹۷؎
۹۷؎ حل لغات ۔صُنْعًا:الصنع کے معنے ہیں ۔العملُ ۔کام ۔الاحسان ۔احسان۔ایجادُ شیئٍ مسبُوقٍ بالعدم ِ۔غیرموجود چیز کی ایجاد کی (اقرب)
تفسیر ۔یعنی دنیا کونفع پہنچانے کے لئے ایجادات کرناہی اپنی زندگی کامقصد سمجھتے ہیں دین کی طرف توجہ نہیں ۔بلکہ اُسے فضول سمجھتے ہیں ۔
اولائک الذین کفروابایات ربھم ولقائہ فحبطت اعمالھم
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کے نشانوں کا اوراس سے ملنے کاانکا رکردیاہے ۔اسلئے ان کے (تمام )اعمال گرکر(اسی دنیا
فلانقیم لھم یوم القیامۃ وزناً٭
میں)رہ گئے ہیں ۔چنانچہ قیامت کے دن ہم انہیں کچھ بھی وقعت نہیں دیں گے ۔ ۹۸؎
۹۸؎ تفسیر ۔یعنی ان کی بنائی ہوئی چیزوںکانام و نشان باقی نہ رہے گااورہم قیامت کے دن ان کے لئے کوئی وزن قائم نہ کریں گے ۔کیونکہ ان کے تمام اعمال دنیا کے لیء تھے نہ کہ آخرت کے لیء ۔
ذٰلک جزاؤھم جھنم بماکفرواواتخذوااٰیٰتی ورسلی ھزواً٭
یہ ان کابدلہ یعنی جہنم اس وجہ سے ہوگا کہ انہوں نے کفر(کاطریق )اختیارکیا اورمیرے نشانوںاورمیرے رسولوں کو(اپنی )ہنسی کانشانہ بنایا ۹۹؎
۹۹؎ تفسیر ۔ذالک جزآؤھم ۔یعنی ان کے کاموں کا اُخروی بدلہ نہ ملنا کوئی سزانہیں بلکہ ان کی مناسب جزاہے ۔جب وہ خداتعالیٰ کی خاطرکوئی کام نہ کرتے تھے تواخروی جزاء یادینی بدلہ کی امید انہیں کسطرح ہوسکتی ہے ۔
جھنم ،جزاؤھم کاعطف بیان ہے اورمراد یہ ہے کہ جزاء سے مراد ہماری جہنم ہے اوریہ جزاء ان کے کفراوراللہ تعالیٰ کے نشانات اوراس کے رسولوں سے ہنسی ٹھٹھے کی وج سے ہو گی ۔یعنی ان قوموں کی نگاہ میں الٰہی کلام اوراس کے رسولوں کی کوئی عزت نہ ہوگی ایک انسان کوخدابناکر سب نبیوں پر ہنسی اورتمسخر کریں گے ۔چنانچہ دیکھ لو کہ مسیحی لوگ مسیح کوخداکابیٹاقرار دینے کی وجہ سے سب انبیاء کی سخت ہتک کرتے ہیں اوران کے وجود کولغواور فضول قرار دیتے ہیں اورشریعت کولعنت بتاتے ہیں ۔
ان الذین امنواوعملواالصالحات کانت لم جنتالفردوس نزلا٭
جولوگ ایما ن لاتے ہیں اورانہوں نے نیک(اورمناسب حال)عمل کئے ہیں ان کاٹھکانہ یقینا فردوس کے بہشت ہوںگے
خٰلدین فیھا لایبغون عنھا حولا٭
(وہ)ان (ہی)میں رہاکریں گے(اور)ان سے الگ ہونانہیں چاہیں گے ۱۰۰؎
۱۰۰؎ حل لغات ۔فِردَوس: کے معنے ہیں ۔الجنَّۃُ الّتی تنبتُ ضروباً من النَّبَتِ۔وہ باغ جوکئی قسم کی نباتات اُگاتاہے ۔ البستان یجمع کلّ مایجمع فی البساتین۔و ہ باغ جس میں تمام وہ اشیاء ہوں جوباغوں میں ہوسکتی ہیں (اقرب)
حِوَلًا:الحول۔الزوال والانتقال ۔علیحدہ ہونا ۔الگ ہونا۔(اقرب)پس لایبغون عنہا حِوَلًا کے معنے ہوں گے ۔کہ وہ اس سے علیحدہ ہونانہیں چاہیں گے ۔
تفسیر۔جب ان پرعذاب آئے گاتومومنوںکی ترقی کاوقت شروع ہوگااوان کے صبرکابدلہ ان کومل جائے گا اوراللہ تعالیٰ کے لئے
اوراس کے دین کے لئے قربانیوںمی ان کوایسی لذت محسوس ہوگی کہ باوجود مال اورجان کی قربانیو ں کے و ہ اپنی حالت کو بدلنا پسند نہ کریں گے بلکہ اس ’’ٹوٹی ہوئی سفینہ‘‘میں ہی سفرکرنے میں ساری لذت محسوس کریں گے اوراسے چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہوں گے
قل لوکان البحر مدادً لکلمٰت ربی لنفدالبحر قبل ان تنفد کلمٰت ربی ولوجئنا بمثلہ مددا٭
تو(انہیں )کہہ (کہ )اگر(ہرایک )سمندرمیرے رب کی باتوں(کے لکھنے )کے لئے روشنائی بن جاتا تومیرے رب کی باتوں کے ختم ہونے سے پہلے (ہرایک )سمندر(کاپانی)ختم ہوجاتا ۔گو(اسے )زیادہ کرنے کے لئے ہم اتنا(ہی )اور(پانی سمندرمیں ) لاڈالتے ۱۰۱؎
۱۰۱؎ حل لغات ۔مِدادًا:کے معنے ہیں ۔الفنس ۔سیاہی ۔روشنائی (اقرب)
تفسیر ۔یعنی وہ لوگ دعوے کرتے ہیں کہ ہم نے یہ یہ ایجادات کی ہیںاوراتنے علوم دریافت رکئے ہیں اورکائنات کاراز دریافت کر نے کے قریب ہیں ۔فرماتاہے ۔اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم توان سے کہہ دے (یعنی اس زمانہ کے محمد رسول اللہ صلعم کے اتباع ان سے یوں کہدیں )کہ تمہارارازکائنات کودریافت کرنے کی کوشش کرنا ہمیشہ روزاول ہی رہے گااورباوجوداس قدر کوششوں کے تم کولہوکے بیل کی طرح وہیں کے وہیں کھڑے رہوگے اوروہ قوتیں جو اللہ تعل نے اپنی مخلوقات میں پیداکی ہیں۔ان میں سے اس قدربھی دریافت نہ کرسکو گے کہ جس قدرسمندر کے مقابل پر ایک قطرہ کی حیثیت ہوتی ہے ۔
اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ وہ تصانیف کازمانہ ہوگااوریہ قومیں سائنس پرکثرت سے کتابیں لکھیں گی ۔
قل انماانابشر مثلکم یوحیٰ الی انما الھکم الہ واحدٌ ط
تو(انہیں )کہہ(کہ )میں صرف تمہار ی طرح کاایک بشرہوں (فرق صرف یہ ہے کہ )میری طرف (یہ)وحی (نازل) کیجاتی ہے کہ تمہارمعبود ایک ہی (حقیقی)معبود ہے۔
فمن کان یرجوالقآء ربہٖ فلیعمل عملاً صالحا ً ولا یشرک بعبادۃ ربہ احداً٭
پس جو شخص اپنے رب سے ملنے کی امید رکھتاہو اسے چاہیئے کہ نیک (اورمناسب حال) کام کرے ۔اوراپنے رب کی عبادت میں کسی کو (بھی)شریک نہ کرے ۱۰۲؎
۱۰۲؎ تفسیر ۔ان سب پیشگوئیوں اورعلوم غیبیہ کے بیان کرنے کے بعد فرماتاہے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)توان سے کہہ دے کہ میں تواس قدرعلوم سماویہ کے بتانے کے بعد بھی نہیں کہتاکہ میں خداکابیٹاہوں یاخدائی صفات میر ے اندرہیں ۔میں توصرف ایک بشر ہو ںجس کی ساری خوبی یہ ہے کہ اس پراس کے رب نے اپناکلام نازل فرمایاہے ۔پس اگر تم بھی ان انعامات کو حاصل کرناچاہتے ہو توآئومیر ی طرح موحد ہوجائو۔اوراللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق عمل کرو۔اورشرک چھو ڑدو۔پھر دیکھو کہ اللہ تعالیٰ کس طرح تم پر فضل کرتاہے ۔اورغیب کے خزانے تمہارے لئے کھولتاہے ۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ جوکہف کی آخر ی دس آیات پڑھتاہے دجال کے فتنہ سے محفوظ رہے گا۔یہ بھی اس امرکاثبوت ہے کہ دجّال اوریاجوج ماجو ج سے مراد مسیحی فتنہ ہے ۔کیونکہ ان آیات میں اسی قوم کاذکر ہے ۔جیساکہ ہرانسان جو ان آیتوں کو سمجھ کرپڑھے معلوم کرسکتاہے ۔
تَمَّتْ بِالْخَیْر
 
Top