• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

حقیقۃ الفرقان

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
گیا ہے اور کامکّررلانا اور پہلے اور دوسرے میںعَلٰی ھُدًی کہنا دوبارہ اُولٰٓئِکَ لانااورنئی خبر کا لانا صحابہؓ کے قول کو ترجیح دیتا ہے کیونکہ ان سب باتوں سے یہی ثابت ہوتا ہیکہ دو متغائر عبارتوں سے متغائر لوگ مراد ہیں لیکن سورہ بقرہ کے آخر میں جو یہ آیا ہے کہ ( بقرہ: ۲۸۶) تو یہ مجاہد کے قول کی تائید کرتا ہے کیونکہ اِس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ سب کا مومن بہ یکساں ہے اور آخرۃ چونکہ قرآن مجید میں بعض مقام پر دارؔیا یومؔ ملا کر لایا گیا ہے جیسا کہ آتا ہے (یوسف:۱۱۰)(اور ضرور پیچھے آنے والی حیاتی کی حویلی بہتر ہے) اور اَلْیَوْمُ الْاٰخِرِ(پیچھے آنے والا دن) اور دارِ آخرت اور یَومِ آخر سے مراد حشر کا وقت ہے لہٰذا مفسّروں نے یہاں پر اکیلے اَ لْاٰخِرَۃِ سے بھی حشر کا وقت اور قیامت ہی مراد رکھا ہے لیکن ماقبل پر یعنی مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ اورمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ پر نظر کرنے سے حضرت کاتم النّبیّینؐ کی دوسری بعثت ثابت ہوتی ہے جس کا کہ (جمعہ:۳،۴)[ اﷲ وہ ہے کہ جس نے اَن پڑھوں میں ایک رسول بھیجا ہے جو کہ ان سے ہے کہ ان پر اﷲ کی آیتیں پڑھتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور کتاب اور حکمت سکھاتا ہے اگرچہ اس سے پہلے کھلی کھلی گمراہی میں تھے اور ان آخرین میں بھی اس رسول کو بھیجے گا جو اَب تک ان پہلوں کے ساتھ نہیں ملے میں ذکر آیا ہے کیونکہ یہاں سے صاف صاف ثابت ہے کہ آنحضرتؐ ایک دفعہ تو اُمّی لوگوں میں مبعوث ہوئے یعنی بھیجے گئے اور ایک دفعہ ان پیچھے آنے والوں میں بھی مبعوث ہوں گے جو کہ ان پہلوں کے ساتھ نہیں ملے۔ پس ماقبل پر نظر کرنے سے وَ بِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ کے یہ معنے ہوں گے کہ وہ لوگ پیچھے آنے والی بعثت نبی کریمؐ پر یقین کرتے ہیں۔ یہ تو اس صورت میں ہوں گے جب ماقبل میں یعنی مَآ اُنْزِلَ میںمَا مصدر یہ لیا جائے یعنی دوسرے ترجمہ کے لحاظ سے یہاں پر بھی بعثت مراد ہو گی جیسی کہ مَآ اُنْزِلسے بعثت مراد ہے اور اگر مَاؔموصولہ بمعنی جوؔ بنایا جاوے یعنی پہلا ترجمہ لیا جائے تو اس سے وحی مراد ہے جو کہ پیچھے ًآنے والی ہے جیسے کہ مَآ اُنْزِلسے وحی مراد ہے۔ یعنی پہلے ترجمہ کے لحاظ سے وَ بِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ کے معنے ہو ں گے اور وہ لوگ پیچھے آنے والی وحی پر یقین کرتے ہیں۔
(رسالہ تعلیم الاسلام قادیان ماہِ نومبر ۱۹۰۶ء)
متّقی کی چوتھی علامت ۔ اور وہ لوگ جو اِس ( کلامِ الہٰی اور تمام اس وحی) کے ساتھ ایمان لاتے ہیں جو تیری طرف نازل ہؤا ( اور یہ امر اُن پر واضح ہونے سے کہ خدا کی صفتِ تکلّم ہمیشہ سے ہے ) تجھ سے پہلے جو ( کلامِ الہٰی) نازل ہوئی اس کو بھی مانتے ہیں اور اس صفتِ تکلّم کو صرف تجھؐ تک ہی محدود نہیں کرتے اور پیچھے آنے والی ( کلامِ الہٰی ) پر بھی یقین رکھتے ہیں۔
اِن آیات میں اﷲ تعالفیٰ بتلاتا ہے کہ متّقیکی صفِفت ایک یہ بھی ہے کہ مکالمہ الہٰی پر اس کا ایمان ہوتا ہے اور وہ خدا کو کسی زمانہ ماضی، حال اور مستقبل میں گونگا نہیں مانتا۔
خدا تعالیٰ کے اِس صفتِ تکلّم کا ذکر ایمان، اقام الصّلوٰۃ اور انفاقِ رزا کے بعد اِس لئے ضروری ہے کہ اِن اعمال کا یہ تقاضا عملی طور پر ایک متّقی کے واسطے ہونا چاہیئے کہ آیا اس کی محنت خدا شناسی کا کوئی راستہ اس کے واسطے صاف کر رہی ہے کہ نہیں؟ اور جس راہ پر مَیں نے قدم مارا ہے کیا اس پر دوسرے بھی قدم مار کر تسلّی یافتہ ہوئے ہیں کہ نہیں؟ تو اس کو یہ نظیر زمانہ ماضی، حال میں مِلتی ہے جس سے آئندہ کے لئے اُسے یقینی حالت پیدا ہو جاتی ہے۔
خدا تعالیٰ کی صفتِ تکلّم کے بارے میں انسان کے تین گروہ ہیں( ۱) وہ جو سِرے سے اِنکار کرتے ہیں اور خدا کو گونگا مان بیٹھے ہیں (۲) وہ جن کا یہ اعتقاد ہے کہ اَزمنہ گزشتہ میں خدا ایک حد تک بول چکا مگر آئندہ وہ لوگوں سے یا کِسی سے بولتا نہیں (۳) جن کا یہ اعتقاد ہے کہ خدا تعالیٰ ہر زمانہ میں کلام کرتا ہے۔ تیسری قِسم کے لوگ ہی ہمیشہ بامراد اور کامیاب ہوتے رہے ہیں اور ہر ایک مومن کی یہی صفت ہونی چاہیئے اور یہی اعتقاد ہے جو کہ اعلیٰ اعلیٰ مراتب اور درجات حاصل کرواتا ہے۔ اس کے مخالف جس قدر عقیدہ ہیں وہ اﷲ تعالیٰ کو ایک کامل ہستی نہیں مانتے بلکہ ان کا اﷲ ناقص خدا ہے۔ ان کا مذہب ناقص مذہب ہے۔ یہ شرف سچّے اور زندہ مذہب ہونے کا صرف اسلام ہی کو حاصل ہے اور چونکہ متکلّم ازل سے ایک ہی ذاتِ پاک ہے اِس لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اصولاً ہر ایک زمانہ کے الہام کی تعلیم ایک ہی ہو اور ہر زمانہ کے الہامات ایک دوسرے کے مؤیّد اور مصدِّق ہوں۔
مکالمۂ الہٰی کے ذکر کا اِس مقام پر یہ فائدہ بھی ہے کہ انسان کو حِرص پیدا ہوتی رہے کہ خدا مجھ سے بھی کلام کرے اور اپنے اعمال کو سنوار کر ادا کرے جیسے ایک شخص کو سخی دیکھ کر اس کے پاس سولی جمع ہو جاتے ہیں کہ ان کو بھی ملے اور جن اعمال سے یہ شرف مکالمہ کا حاصل ہو سکتا ہے ان کو اوّل بیان فرما دیا ہے کہ وہ سب اعمال مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ کے مطابق ہوں۔
کلامِ الہٰی کے نزول اور اس کی ضرورت پر ہمیں ریمارک دینے کی ضرورت نہیں ہے براہینِ احمدیہ سے اس کا عقدہ پورے طور پر حل ہوتا ہے۔مَآ اُنْزِلَ اِلَیْک کومَآ اُنْزِل مِنْ قَبْلِکَ پر اس لئے مقدّم رکھا ہے کہ سب سے مقدّم نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اِتّباع ہے یعنی وہ مَآ اُنْزِل مِنْ قَبْلِکَ جس کو مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکتصدیق کرتا ہے یہ نہیں کہ جو رطب و یابس اورترجمہ در ترجمہ پادریوں وغیرہ کے اپنے خیالات صُحفِ سابقہ میں ملے ہوئے ہیں ان کو بھی مَآ اُنْزِل مِنْ قَبْلِک میں شمار کر لیا جاوے بلکہ سابقہ اور آئندہ سب کا معیار مَآ اُنْزِلَ اِلَیْک ہے اور اِسی لئے بِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ سے بھی یہ مقدّم ہے۔
بِالْاٰخِرَۃِکے ساتھ مَآ اُنْزِل کاکلمہ استعمال نہیں کی ہے کیونکہ آئندہ مکالمہ الہٰی کا جس قدر سِلسلہ ہو گا وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے طفیل ہو گا اور مَآ اُنْزِلَ اِلَیْک سے اس کا وجود الگ نہ ہو گا اور چونکہ اس کے ذریعہ سے مَآ اُنْزِلَ اِلَیْک پرایک کامل یقین حاصل ہوتا جاوے گا اِس لئے اٰخرۃکے ساتھ یُوْقِنُوْنَ کا لفظ رکھا ہے اس کا اطلاق خود نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات پر اِس طرح ہؤا کہ اِس سورت کے بعد اَور بھی حصّہ قُرآن کریم کا آپؐ پر نازل ہؤا اور صحابہؓ اس کو مان کر گویا اِس آیت پر عامل ہو گئے۔
اٰخِرَۃ۔اِس کے معنے پیچھے آنے والی بات کے کئے ہیں۔ کلامِ الہٰی پر گفتگو کرتے ہوئے دکھایا ہے کہ آئندہ مکالمہ الہٰیّہ کی طرف اشارہ ہے۔ اب اعمال کے لحاظ سے دیکھا جاوے تو ہر ایک عمل کے بعد جو ایک نتیجہ اس کا ہے اس پر یقین کو ہونا ضروری ہے کیونکہ جب تک انسان کے دِل میں یقینی طور پر یہ بات نہ بیٹھ جاوے کہ میرا ہر ایک عمل خواہ اس کا تعلق رف قلب سے ہے یا اس میں اعضاء بھی شامل ہیں ضرور ایک نتیجہ نیک یا بَد پَیدا کرے گا اور میری اِس عملی تخمریزی پر ثمرات مرتّب ہوں گے تب تک گناہ سے رہائی ہرگز ممکن ہی نہیں ہے اور بُجز اِس علاج کے اَور کوئی علاج گناہ کا نہیں ( دیکھو البدر جلد ۱ صفحہ ۷۹) جب کوئی آگ کو جلانے والی جانتا ہے تو اس میں ہاتھ نہیں ڈالتا۔ بچّہ اُسی وقت تک انگارے کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے جب تک اُس کے دل میں یہ نہیں بیٹھا ہؤا ہوتا کہ یہ جلا دیوے گی لیکن جب یہ عِلم اُسے ہو جاتا ہے تو پھر ہرگز ہاتھ نہیں بڑھاتا۔ںغرضیکہ گناہ کا صدور اُسی وقت تک ہے جب تک یقینی عِلم گناہ کے بَد نتائج پر نہیں ہے۔ جس قدر حرام خوریاں اور فِسق و فجور ہوتے ہیں اگر انسان ایک قلبِ سلیم لیکراپنے اپنے محلہ میں یا تعارف میں ایسے بدکاروں کے آخرت یعنی نتائج دیکھے تو اسید پتہ لگے گا کہ یہ آکرت کا مسئلہ بالکل ٹھیک ہے۔ غفلت اور گناہ ایک ایسی شئے ہیکہ بِلا اثر کئے کے ہرگز نہیں رہ سکتا۔ مثلاي اگر غلطی سے ہی کانتا لگ جاوے تو کیا اس کا دُکھ نہ ہو گا یا زہر کھا لی جاوے تو کیا ہلاکت کا باعث نہ ہو گی۔ اِسی لئے خدا تعالیٰ نے بدکاروں کے انجام اپنمی کتاب میں لکھ دئے ہیں کہ عبرت ہو اور اِسی لئے پہلی باتوں کے ساتھ تو لفظ ایمان کا رکھا ہے مگر آخرت کے ساتھ یقین کا۔
اور جب متّقی کے اعمال مَآ اُنْزِلَ اِلَیْک کے موافق اپنے اپنے محل اور موقعہ پر ہوں گے تو اس کی آخرت یہ ہو گی کہ مرتبہ یقین کا اُسے حاصل ہو گا۔
(البدر ۶؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ۲۳)

یہی لوگ ( جن کا اُوپر ذکر ہؤا ) اٖنے رَبّ سے ہدایت پر ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو مظفّر و منضور ہوں گے۔
اِس سے سابقہ آیات میں متّقی کی تعریف اور معنے بیان کر کے اب اﷲ تعالیف نے بطور نتیجہ کے بتلا دیا کہ متّقیوں کے لئے اِس کتاب سے ہدایت پر ہونے کے یہ معنے ہیں کہ جب انسان ایمان بالغیب رکھ کر اور حقوقِ الہٰی اور ہقوق العباد کو کما حقّہ‘ ادا کر کے اور خدا تعالیٰ کے کلیم ہونے پر ایمان لا کر اپنے اعمال کے نتائج اور ثمرات پر کامل یقین رکھتا ہے تو ہر ایک حجاب دُور ہو کر اس کو کامیابی نصیب ہوتی ہے اور متّقی کے ہدایت پر ہونے کی یہ ایک دلیل بیان فرمائی ہے کہ اگر وہ کامیاب ہو جاویں تو پھر اُن کی کامیابی ان کے راہِ راست پر ہونے کی دلیل ہے۔دعوٰی کر کے دشمن پر ایک خاص غلبہ پانا ایک خاص نشان صداقت کا ہوتا ہے۔ آنحضرتؐ اور آپؐ کی جماعت کو دیکھو اﷲ تکالیف کا یہ کِس قدر احسان ہے اور کیسا سُکر کا مقام ہے کہ ہم لوگوں کو اَب ان باتوں کو سماعی طور پر نہیں ماننا پڑتا ہے بلکہ خدا کے کرم و فضل سے ایک علی ھدیاور مفلح وجود ہمارے زمانہ میں موجود ہے اور عرصہ بائیس سال سے جو کامیابی وہ دشمنوں پر حاصل کر رہا ہے وہ اس کے راہِ راست پر ہونے کی دلیل ہے اور یہی وہ منہاجِ نبوّت ہے جس کو وہ دکھلاتا ہے اور کم بخت نادان دشمن نہیں دیکھتے۔
کامیابی یعنی امن، آرام اور سُکھ کی زندگی کے اسباب اور اس کے اصول اس میں اﷲ تعالیٰ نے بیان فرما کر اَب آگے مغضوب علیہم گروہ کے حالات بیان کئے ہیں۔
( البدر ۱۳؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۰)

یہ غضب کُفر سے پیدا ہوتا ہے۔ پس فرماتا ہےجن لوگوں نے کُفر اختیار کیا وہ ایمان نہیں لائیں گے بطور جُملہ مُعترضہ اِس کی وجہ بیان فرمائی۔ جملہ مُعترضہ مبتدا اور خبر کے درمیان میں کئی وجوہات سے آتا ہے۔ ایک وجہ بیان کرنے کے لئے ۔ چنانچہ یہاں اِسی لئے فرمایا کہ برابر ہو گیا ہے ان پر تیرا ڈرانا یا نہ ڈرانا یعنی وہ کافر تیرے اِنذار اور عدمِ اِنذار کو مساوی سمجھتے ہیں۔ جب کسی کی نصیحت کا عدم و وجود برابر سمجھ لیا گیا تو پھر کچھ پرواہ نہ رہی۔ اِس ناعاقبت اندیشی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایمان نصیب نہیں ہوتا۔
تین مرضیں ہیں: سب سے پہلے تو وہ جو بات کو سُنتا ہی نہیں۔ پہلے ہی سے انکار کر دیا (۲) دوسرا وہ جس نے سُنا مگر اس کا سُننا نہ سُننے کے برابر ہے(۳) تیسرا وہ جو نگاہ سے کام نہیں لیتا کہ نہ ماننے والوں کا کیا حَشر ہو رہا ہے۔ کوئی بات ہو اس کو غور سے سُن لینا پھر فِکر کرنا بہتر ہے کہ یہ میرے لئیت برکت کا موجب ہے یا نقصان کا۔ پھر دیکھے کہ اس کے ماننے والے آرام میں ہیں یا نہیں اور اس کے نہ ماننے والوں کا انجام کیا ہو رہا ہے۔
(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍ فروری ۱۹۰۹ء)
بیشک وہ لوگ جنہوں نے انکار کیا اور تیرے اِنذار اور عدم اِنذار کو برابر جانا وہ مومن نہ بنیں گے یعنی اپنے اختیار سے کُفر کیا۔ کفر کے معنے انکار، حق کو چھُپانا، ڈھانک دینا۔ اور یہ سب باتیں انسانی اختیار میں ہیں۔ جس طرح سے اَدویات میں خواص اور تاثیرات ہیں کہ جو اُن کو استعمال کرتاہے وہ ان سے ضرور متاثر ہوتا ہے اسی طرح سے انسانی اعمال کی بھی تاثیرات ہیں کہ اس کا ہر ایک عمل اس کی رُوح پر ایک اثر کرتا ہے اور وہ اثر اس کی ایمانی حالت میں ایک کیفیّت پَیدا کرتا ہے۔ اور جس طرح سے کہ ایک طبیب اغذیہ اور ادویّہ کے خواص سے واقف انسانوں کو مفید اور مُضِر اشیاء کا عِلم بتلاتا ہے اور جو اس کی بتلائی ہوئی بات پر یقین کر کے عمل کرتے ہیں وہ سُکھ اور امن سے رہتے ہیں اور جو نہیں عمل کرتے بلکہ اس کے علم کو غیر ضروری خیال کر کے اپنی ضِد اور ہَٹ پر رہتے ہیں وہ دُکھ بھوگتے ہیں اسی طرح انبیاء کو انسانی اعمال اور افعال اور اقوال کے خواص کا عِلم ہوتا ہے وہ ایسے وقت میں آتے ہیں جبکہ انسان بسترِ بیماری پر ہوتے ہیں یعنی لایک معالج کے حکم میں ان کے پاس آتے ہیں جو لوگ اس کی باتوں کا انکار کرتے ہیں اور جن مُضِر باتوں سے وہ روکتا ہے اُس سے نہیں رُکتے بلکہ اس کی ضرورت کو ہی محسوس نہیں کرتے وہ ضرور دُکھ پاتے ہیں۔ یہی بَلا اَب اِس زمانہگ میں بھی لوگوں کو لاحقِ حال ہے کہ ایک نذیر کے وجود اور عدمِ وجود کو برابر خیال کر رہے ہیں۔ اِس آیت میں خدا تکالیف نے ایمان نہ لانے کی وجہ یہ بتلائی ہے کہانہوں نے ایمان بِالغیب سے کام نہ لیا اور کفر کیا اور آخرت یعنی نتائجِ اعمال پر جو یقین چاہیئے تھا اس کے نہ ہونے سے ایک مامور کے ڈرانے اور نہ ڈرانے کو برابر جانا یعنی اس کی ضرورت نہ سمجھی ۔ نتیجہ اِس سے یہ نکلا کہ جب خدا تکالیف کی کسی نعمت کی قدر نہیں کی جاتی اور ایک شئے کے ہونے اور نہ ہونے کو یکساں سمجھا جاتاہے تو وہ ایمان جس پر بڑے بڑے علومِ حقّہ کا مدار ہوتا ہے اُسے نصیب نہیں ہوتا جیسے کہ اِس سے پیشتر کِسی حصّہ درسِ قُرآن میں ذکر ہؤا ہے کہ اگر ایک شخص اُستاد کے بتلانے پر الف کو الف اور ب کو ب نہ مانے تو پھر وہ تحصیلِ علوم سے محروم رہے گا اِسی طرہ جب ایک شخص عربی یا انگریزی زبان کے سیکھنے اور نہ سیکھنے کو برابر خیال کرے تو وہ ان دونوں زبانوں سے کیا فائدہ حاصل کریگا۔ کچھ بھی نہیں۔ اِسی طرح سے جو لوگ خدا کے ماموروں پر ایمان نہیں لاتے اور ان کی ہداتیوں پر عمل در آمد نہیں کرتے وہ دو لتِ ایمان سے تہی دست رہتے ہیں۔ ایمان اُسی وقت نصیب ہوتا ہے جبکہ اِنذار کو ترجیح دیوے اور یہ بھی انسان کا اختیاری امر ہے کینوکہ ایمان لانے اور کُفر کرنے میں خدا نے کسی کو مجبور نہیں کیا بلکہ فرمایا(الدّھر:۴)یعنی ہم نے اسے راستہ دکھا دیا ہے اب وہ خواہ شاکر ہو خواہ کافر۔ بلکہ ایک اَور جگہ فرماتا ہے(الانعام:۳۶)یعنی اگر خدا نے جبر کرنا ہوتا تو ہدایت کے واسطے کرتا کہ سب کے سب مومن ہو جاتے۔
(البدر ۱۳؍ فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۰)
غرض جب خدا نے مخلوق کو پَیدا کیا اور اس پر اپنا کمال رحم کیا کہ اس کے فائدے کی اشیاء اس کے لئے بنائیں جس سے اس کے وجود کا قیام اور دفعیہ حوائج ہوتا رہتا ہے۔ تو جس حالت میں اس نے ہایت کے واسطے مجبور نہ کیا تو کفر اور ضلالت کے واسطے کیوں مجبور کرتا اور نیک اعمال کی بجاآوری پر رضا مندی اور بَد اعمالی پر نارضامندی کا کیوں اظاہر کرتا۔
۔قبل ازیں یہ بات تھی کہ ایک صادق صداقت لے کر آیا اور اس کا ان لوگوں نے کفر یعنی انکار کیا۔ اب دوسری بات یہکی کہ اس انکار کے بَد نتائج جو ایک صادق آ کر بیان کرتا ہے ان کو لوگ بیہُودہ اور لغو جان کر اس کے وجود کی ضرورت کو محسوس نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ اگر تُو مبعوث ہوتا تو کیا اَور نہ مبعوث ہوتا۔ تو کیا اس کی بعثت سے پہلی حالت جو ان لوگوں کی ہوتی ہے بعثت کے وقت اس میں کچھ تغیّر نہیں کرتے اِس لئے خدا تعالیٰ ان کو ایمان لانے کی توفیق بھی عطا نہیں کرتا ۔اِس لئے خدا تعالیٰ نے بطور نتیجہ کے آگے بیان کیا ہے کہ لا یؤمنون یہ لوگ ایمان نہ لاویں گے کیونکہ ایمان تو مان لینے کا نام ہے۔ مگر جب انہوں نے ایک شخص کے وجود اور عدمِ وجود کو ہی برابر جانا تو ایمان لانا کیسا۔ ایمان تو بع شنید اور بعد ارادہ اتّباع کے ہوتا ہے۔
خوب یاد رکھو کہ اِس آیت میں ( وہ اسباب بیان کئے ہیں جن کا نتیجہ ہؤا کرتا ہیکہ ایک صادق کے ماننے کی توفیق نہیں مِلا کرتی ۔ ایک تو انکار دوسرے اس کے وجود اور عدم وجود یا اِنذار اور عدم اِنذار کو برابر جانا۔ اب بھی جو لوگ مُنکر ہیں اور پھر اپنے انکار پر چلے آتے ہیں اس کا باعث یہی ہے۔ بعضوں کا اِنہماک تو دُنیاوی اشغال کی طر اِس قدر ہے کہ ان کو خبر ہی نہیں کہ خدا تعالیٰ ایسے لوگوں کو کیوں پَیدا کرتا ہے۔ اگر کِسی نے نام سُن بھی لیا تو پھر اِس امر کی ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ تحقیق و تفتیش کر کے اس کا جھُوٹ یا سچّا ہونا تو دیکھ لیں۔ اِس قِسم کے لوگ دَولتِ ایمان سے محروم رہتے ہیں۔
نتائج عمل
یہ دُنیا جائے اسباب ہے اور ہم رات دِن مشاہدہ کرتے ہیں کہ جیسے ایک نیک عمل کے بجا لانے سے دوسرے نیک عمل کی توفیق مِلتی ہے اسی طرح ایک بَدی کرنے سے دوسری بدی کرنیکی جرأت بھی پیدا ہوتی ہے۔ مثلاً دیکھو انسان جب اوّل بَد نظری کرتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہدوبارہ اس حُسن و اَدا کو دیکھتا ہے پھر کوئی خط و خال پسند آیا اور محبت نے غلبہ کیا تو آہستہ آہستہ اس کے کُوچہ اور گلی میں جانے کا شوق پَیدا ہوتا ہے جس پر اس نے بَد نظری کی تھی اور اگر ملاقات کا اِتفاق ہؤا تو ہاتھ، زبان، آنکھ اور خدا معلوم کِن کِن اعضاء سے وہ معصیّت میں مبتلا رہتا ہے پھر نتیجہ کِس بات کا تھا۔ اس اوّل معصیّت کا جو اس نے بَد نظری کے اِرتکاب میں کی۔ اِسی طرہ جو لوگ بَدصحبتوں اور بَد مجلسوں میں جاتے ہیں صرف وہاں جانا ایک خفیف سا فعل نظر آتا ہے مگر اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے انہیں بَدصحبتوںسے چور،ڈاکو،فاسق،فاجر اور ظالم وغیرہ بن جاتے ہیں اور پھر اِن باتوں کے ایسے خُوگر ہو جاتے ہیں کہ اگر کوئی خود بھی ان میں سے چھوڑنا چاہے تو مشکل سے چھوڑ سکتا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا ایک قانون یہ ہے کہ جب اِنسان ایک فعل کرے تو اس پر دوسرا فعلِ الہٰی بطور نتیجہ کے وارد ہوتا ہے جس طرح جب ہم ایک کوٹھڑی کیدروازے بند کرتے ہیں تو ہمارے اِس فعل پر دوسرا فعلِ الہٰی یہ ہوتا ہے کہ وہاں اندھیرا ہو جاتا ہے اِسی طرح سے انسان سے جو اعمال ایمان اور کفر کے لحاظ سے صادر ہوتے ہیں ان پر ایک فعلِ الہٰی یا قہرِخداوندی بھی صادر ہوتا ہے جس کا ذکر اس اگلی آیت میںہے۔ (البدر ۲۰؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۹، الحکم ۲۴؍جون ۱۹۰۴ء،الفضل۳۰؍جولائی ۱۹۱۳ء) چونکہ وہ لوگ اوّل انکار کر چکے تھے اِس لئے سخن پروری کے خیال نے ان کو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مجلسوں میں بیٹھنے اور آپؐ کی باتوں پر غور کرنے نہ دیا اور انہوں نے آپغ کے اِنذار اور عدمِ اِنذار کو برابر جانا۔ اِس کا نتیجہ کیا ہؤا۔لاَیُؤْمِنُوْنَ یعنی ہمیشہ کے لئے ایمان جیسی راحت اور سروربخش نعمت سے محروم ہو گئے۔یہ ایک خطرناک مرض ہے کہ بعض لوگ مامورین کے اِنذار اور عدمِ اِنذار کی پرواہ نہیں کرتے۔ ان کو اپنے علم پر ناز اور تکبّر ہوتا ہے اور کہتے ہیں کہ کتابِ الہٰیہمارے پاس بھی موجود ہے ہم کو بھی نیکی بدی کا عِلم ہے یہ کونسی نئی بات بتانے آیا ہے کہ ہم اس پر ایمان لاویں۔ اِن کم بختوں کو یہ خیال نہیں آیا کہ یہود کے پاس تو تورات موجود تھی اس پر وہ عمل در آمد بھی رکھتے تھے۔ پھر ان میں بڑے بڑے عالم،زاہد اور عابد موجود تھے پھر وہ کیوں مردُود ہو گئے۔ اِس کا باعث یہی تھا کہ تکبّر کرتے تھے، اپنے عِلم پرنازاں تھے اور وہ اطاعت جو کہ خدا تعالیٰ اسلمؔ کے لفظ سے چاہتا ہے ان میں نہ تھی۔ ابراہیمؑ کی طرزِ اعاعت ترک کر دی۔ یہی بات تھی کہ جس نے مسیہ علیہ السّلام اور اس کیرحمۃ للعالمین نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ماننے سے جس سے توحید کا چشمہ جاری ہے باز رکھا۔
(الحکم ۲۲؍فروری ۵ـ۱۹ء)
م
ختمؔ کہتے ہیں چھاپے کے ساتھ چھاپہ لگانے کو اور اس اثر کو جو کہ چھاپہ لگانے سے حاصل ہوتا ہے اور حفاظت اور آخر تک پہنچنے کو۔ اور قُلُوْبٌ قلب کی جمع کرتا کیونکہ وہ ایک جانب سے لیتا ہے اور دوسری طرف سے بدن کی طرف بھیجتا ہے یا اس کے تقلُّب کے لئے کیونکہ وہ قرار نہیں پکڑتا ۔ اور اِسی وجہ سے آنحضرت نے فرمایا ہے اَلْقَلْبُ بَیْنَ اِصْبَعَی الرَّحْمٰنِ یُقَلِّبُھَا کَیْفَ شَآئَ(دِل رحمن کی دو اُنگلیوں کے درمیان ہے اُلٹاتا ہے اس کو جیسا کہ چاہتا ہے) (رسالہ تعلیم الاسلام ماہ جنوری ۱۹۰۷ء)
(پارہ۱) ھمْ کا لفظ یہاں تین بار آیا ہے اور یہ ضمیر جمع مذکّر غائب کی ہے جس کے معنے ہیں’’ وہ لوگ‘‘ پس معلوم ہؤا کہ یہ ذکر ایسے لوگوں کا ہے جن کا پہلے کوئی ذکر آچکا ہے اِس لئے ’’ھُمْ ‘‘کے معنی سمجھنے کے لئے ضرور ہؤا کہ ماقبل کو ہم دیکھ لیں۔ ت جب ہم نے ماقبل کو دیکھا تو یہ آیت موجود ہے۔اِس بیان سے اِتنا تو معلوم ہؤا کہ وہ ایسے مُنکر لوگ ہیں جن کے لئے ختم اﷲکا ارشاد ہے۔ عام نہیں۔
پھر قُرآن کریم نے صاف صاف فرمایا ہے جہاں ارشاد کیا ہے:۔
( نساء آیت ۱۵۶)
یعنی ان کے کُفر کے سبب اُن کے دلوں پر مُہر لگا دی۔ اِس سے معلوم ہؤا کہ مُہر کا باعث کفر ہے انسان کفر کو چھوڑے تو مُہر ٹوٹ جاتی ہے۔ اِسی طرح فرمایا:
کَذٰلِکَ یَطْبَعُ اﷲُ عَلٰی کُلِّ قَلْبِ مُتَکَبِّرٍ جَبَّارٍ (المؤمن:۳۶)
پس تفصیل دونوں آیتوں کی یہ ہے:
(تحقیق ان لوگوں نے کفر کیا) یاد رکھو کہ کفر کرنا کافر انسان کا اپنا فعل ہے جیسے قرآن کریم نے بتایا اور یہ پہلی بات ہے جو کافر سے سر زد ہوئی ہے اور یہ کفر خدادادروحانی قوّتوں، طاقتوں سے کام نہ لینے سے شروع ہؤا جو دِل کی خرابی کا نشان ہے۔
(برابر ہو رہا ہے ان کے نزدیک خواہ ڈرایا تُو نے یا نہ ڈرایا تُو نے ) یعنی تیرے ڈرانے کی کچھ پرواہ نہیں کرتے۔ یہ دوسرا فعل کافر انسان کا ہے کہ اس نے اپنی عقل و فِکر سے اِتنا کام بھی نہیں لیا۔ اگر اس میں یہ خوبی نہ تھی کہ ایمان کے لئے خود فکر کرتا، سوچتا، عقل سے آپ کام لیتا تو کم سے کم رسول کریمؐ کے بیانات کو ہی سُنتا کہ کفر کا نتیجہ کیسا بُرا اور اِس کفر کا انجام کیسا بُرا ہے۔
۔نہیں مانتے۔ یہ تیسرا فعل کافر انسان کا ہے۔ اوّل تو ضرور تھا کہ قلب سے کام لیتا جو روحانی قوّت کا مرکز ہے۔ اگر اس موقع کو ضائع کر چکا تھا تو مناسب یہ تھا کہ نٔبی کریمؐ کی باتیں سُنتا۔ پس کان ہی اس کے لئے ذریعہ ہو جاتے کہ ایماندار بن جاتا۔ اور یہ دوسرا موقع حصولِ ایمان کا تھا۔ پھر اگر یہ بھی کھو بیٹھا تو مناسب تھا کہ پکّے ایمانداروں کے چال چلن کو دیکھتا جو ایسے موقع پر اُسی کے شہر میں موجود تھے اور یہ بات اس کافر کو آنکھ سے حال ہو سکتی تھی مگر اس نے یہ تیسرا موقع بھی ضائع کر دیا۔ غور کرو اگر کوئی دانا حاکم کسی کو مختلف عُہدے سپرد کرے لیکن وہ عہدہ دار کہیں بھی اپنی طاقت سے کام نہ لے تو کیا حاکم کو مناسب نہیں کہ ایسے نکمّے شخص کو عہدہ سے اُس وقت تک معزول کر دے جب تک وہ خاص تبدیلی نہ کرے۔
اَب اِسی ترتیب سے دوسری آیت پر غور کرو۔
۔مُہر لگا دی اﷲ نے ان کے دلوں پر ۔اِس لئے کہ انہوں نے اپنے دِل کا ستیاناس خو کیا اور کفر کیا۔
۔اور ان کے کانوں پر۔ یہ دوسری سا ہے کیونکہ انہوں نے اپنے کانوں سے کام نہ لیا۔
۔یہ تیسری سزا ہے کہ اُن کی آنکھوں پر پٹّی ہے کیونکہ انہوں نے آنکھ سے بھی کام نہ لیا۔
ظاہری مثال
آپ نے قرآن کریم کے فہم میں دل سے اب تک کچھ کام نہ لیا اور یہ بات مجھے تمہارے سوالوں سے ظاہر ہوئی اور نہ یہ کوشش کی کہ پہلے ان سوالات کے جوابات کسی مسلم متکلّم سے سُنتے۔اَب مَیں آپ کے آگے آپ کی آنکھ کے آگے یہ رسالہ رکھتا ہوں دیکھئے آپ روحانی آنکھ سے کام لیتے ہیں یا نہیں۔ اگر توجّہ کی اور کفر چھوڑا تو دیکھ لینا مُہر ٹوٹ جائے گی۔ بات یہ ہے کہ ایک عام قانون جنابِ الہٰی نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے جس سے یہ تمام سوال حل ہو جاتے ہیں اور وہ یہ ہے:
(الصّف:۶) جب وہ کج ہوئے خدا نے ان کے دلوں کو کج کر دیا۔
یہ بات انسانی ففطرت کے دیکھنے سے عیاں ہوتی ہے کہ انسان کو اﷲ تعالیٰ نے کچھ قوّتیں عطا فرماکر ان قوّتوں کے دینے کے بعد ان قوّتوں کے افعال کے متعلق انسان کو
جواب دِہ کیاہے اور انہیں طاقتوں کے متعلق نافرمانی کے باعث انسان عذاب پاتا ہے۔ مثلاً ایک ہَوادار روشن کمرہ کی کھڑکیاں عمدہ طور پر بند کی جاویں تو اس بند کرنے کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ کمرہ کے اندر اندھیرا ہو اور کمرہ کی ہَوا رُک جاوے۔ یہ مثل ٹھیک ان اعمال پر صادق آتی ہے جن کا انسان جواب دِہ ہے۔ اِسی طرح آتشک اور خاص سوزاک اُن لوگوں کو ہو گا جو بَدی کے مُرتکب ہوئے۔
پس جب کھڑکیاں کھول دی گئیں اور پُورا اور صحیح علاج کر لیا گیا تو کمرہ پھر ہَوا دار،روشن اور مریض اچھا ہو جائے گا۔ مُہریں اسلام کے رُو سے ٹوٹ بھی جاتی ہیں۔ اِسی واسطے قرآن کریم میں آیا ہے( بقرہ:۱۸۶) مُہریں ہی ٹوٹیں تو بنی کریم سے لیکر کروڑ در کروڑ آج تک مسلمان ہوئے۔ ہاں تمہارے مذہب کی رُو سے مُہر کا ٹوٹنا ضرور مہال ہے کینوکہ اگر مُہروں کا ٹوٹنا محالنہیں تو آپ کم سے کم اپنی گاؤ ماتا کو اس کے بھر شٹ جنم سے چھوڑاتے ۔ ہمیں اسے پنڈتانی بنا کر دکھاؤ تو سہی۔ اِس بیچاری کا جَنم صرف سزا ہی بھوگ رہا ہے کاش اس کی مُہر ٹوٹتی تو نہ انگریزا سے مارتے اور نہ ہم پر اِتنے مقدمات قائم ہوتے۔ (نور الدین صفحہ۵۷تا۶۰)
مسئلہ تقدیر اور انسانی تصرّف
ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کو خدا تعالیٰ نے جو قوٰی اور اعصاء دئے ہیں وہ دو قِسم کے ہیں۔ایک وہ جن پر انسان کو ئی دخل اور تصرّف نہیں ہے۔ مثلاً انسان کے جوڑ،ہڈّیاں،پَٹّھے،پَردے بنا دئے ہیں جن میں وہ کوئی دستِ تصّرف نہیں رکھتا۔ اس کا قدا گر لمبا ہے تو وہ اِسے چھوٹا نہیں کر سکتا اور اگر چھوٹا ہے تو برا نہیں کر سکتا۔ علیٰ ہٰذالقیاس اعضاء کی ساخت میں کچھ دخل نہیں دے سکتا۔ تو اِس قِسم کے اعضاء پر جن میں انسان کو کوئی دخل اور تصّرف نہیں ہے۔ سریعتِ اسلام نے بھی کوئی حکم انسان کو نہیں دیا کیونکہ اس میں انسان کے اِجتہاد کو کوئی دخل نہیں ہے صانع حقیقی نے جو کچھ بنا دیا وہ اُسے بہر ہال منظور کرنا پڑتا ہے اور اِسی لئے جو شریعت ایسے امور میں کوئی حکم تجویز کرتی ہے وہ کبھی خدا کی طرف سے نہیں ہو سکتی۔
دوسرے وہ اعضاء ہیں جن پر انسان کا دخل اور تصّرف ہوتا ہے اور ان کے فعل کے ارتکاب یا ترک پر وہ قدرت اور استطاعت رکھتا ہے مثلاً زبان کہ اِس میں ایک قوّت تو چکھنے کی ہے جس سے مزہ کی تمیز کرتی ہے کہ کھٹّا ہے یا میٹھا، نمکین ہے کہ پھیکا۔ یہ اس کی ایسی قوّت ہے کہ انسان کا اس پر تصرّف نہیں ہے جو مزا شئے کا ہو گا تندرست زبان وہی محسُوس کرے گی مگر زبان سے بولنا یہ اس کی ایک اَور قوّت ہے جس پر انسان مقدرت رکھتا ہے خواہ بولے یا نہ بولے۔ ایک امرِ وقعہ کے خلاف بیان کرے یا اس کے موافق کہے۔ اِسی طرح آنکھ ہے کہ اس میں جو قوّتِ بینائی ہے اس پر انسان کا تصرّف نہیں ہے مگر کہاں کہاں نظر کو ڈالے اور کہاں کہاں نہ دالے یا ایک دفعہ ڈالے مگر دوسری دفعہ نہ ڈالے اِس پر انسان کا تصرّف ہے اِس لئے ایسے امور میں جن میں انسان کا تصرّف ثابت ہے احکام بتلائے ہیں کہ انسان ان کی خلاف ورزی نہ کرے۔ (البدر ۲۰؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۹)
اِس بیان سے یہ ثابت ہے کہ انسان کِن کِن امور میں مجبور اور کِن کِن میں مختار ہوتا ہے۔ اِس لفظ مختار اور مجبور پر بھی لوگوں نے بحث کی ہے لیکن قرآن شریف اور آثارِ صحابہؓ میں یہ الفاظ کہیں استعمال نہیں ہوئے۔ پھر نہیں معلوم کہ اہل اسلام کو ان الفاظ پر بحث کرنیکی صرورت کیوں آ پری اور اگر یہ الفاظ استعمال میں آ گئے ہیں تو بھی ان سے زاتِ باری پر کوئی حَرف نہیں آ سکتا صاف ظاہر ہے کہ جیسے کایک مجبور کو سزا دینی ظلم ہے ویسی ہی ایک مختار کو پکڑنا بھی ظلم ہے۔ تم اس شخص کے حق میں کیا کہو گے جو ایک آدمی سے جبرًا ایک فعل کرواتا ہے اور پھر اسے اُس پر سزا دیتا ہے یا ایک شخص کو تمام اختیارات دے دئے ہیں کہ جو چاہے کرے مگر پھر اُس کی حرکتوں پر اُسے گرفت کیا جاتا ہے ایسے آدمی کا نام سوائے احمق کے اَور کیا ہو گا۔ پس یاد رکھو کہ خدا تعالیف کی ذات ایسے خطاب سے پاک ہے اور نہ اس کے علِماور قدرت کا یہ تقاضا ہو سکتا ہے کہ مختار یا مجبور کی حالت میں اِنسان کو سزا دیوے۔ اِس پر یہ سوال ہوتا ہے کہ پھر انسان سے کیوں بازپُرس ہے۔ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ جب ایک کو دخل اور تصرّف دے کر نتائج سے آگاہ کر دیا جاتا ہے یور یہ سب اُسے عالمانہ حیثیّت سے عطا کر کے بتلایا جاتا ہے تو اس وقت اگر کوئی خلاف ورزی کرے تو وہ قابلِ مؤاخذہ ضرور ہوتا ہے۔ دمنیاوی حکّاموں اور سلطنتوں میں اِس کی نظیریں موجود ہیں کہ ایک عہدہ دار یا ملازم کو دخل اور تصّرف مال و زَر دیگر اشیاء سرکاری پر دیا جاتا ہے، اس کے اختیارات کا اسے علم ہوتا ہے، اس کی حدود مقرر ہوتی ہیں اور جب ان کو ٹھیک ٹھیک بجا لاوے تو قابلِ انعام و شُکریہ ہوتا ہے خلاف ورزی کرے تو سزا پاتا ہے یئہی ہال انسان کا اِس دُنیا میں ہے اور خود آسمانی کتابوں کا نازل ہونا اِس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے ورنہ شریعت اور قانون کی کوئی ضرورت نہ تھزی۔ اِس سے ہم کو پتہ لگتا ہے کہ انسان کی جواب دہی اس حال میں ہیجب کہ وہ اپنے مولیٰ کریم کی طرف سے نتائجِ اعمال سے آگاہ کیا گیا ہے۔ یہ آگاہی اُسے بارگاہِ ایزدی میں جوابدہ بناتی ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو پھر آسمانی کتابوں کا نازل کرنا، انبیاء اور ان کے خلفاء کو مبعوث کرنا خدا کا ایک بے سُود فعل ہوتا۔ جیسے آنکھ اپنا کام کرتے اور وہ کان کا کام نہیں دے سکتی اِسی طرح انسان فرشتوں کی طرح بنایا جاتا مگر اس طرح کی بناوٹ سے وہ کسی ثواب اور اَجر کا مستحق نہ ہو سکتا تھا کیونکہ ثواب اور انعامات وغیرہ کا انسان اُسی وقت مستحق ہوتا ہے جب وہ کوئی امر خلافِ طبع کر کے دکھاتا ہے۔ ایک پیشہ ور اگر اپنی خواہشِ طبعی کے موافق گھر بیٹھا رہے اور اپنے نفس کے خلاف کوئی تکلیف حرکت کرنے کی اپنے اعضاء سے کام لینے کی گوارانہ کرے تو وہ کب کچھ حاصل کر سکتا ہے مگر جب تک وہ اس آرام کو چھور کر کچھ تکلیف خلافِ نفس گوارانہ کرے وہ کچھ ہاصل نہیں کر سکتا۔ اِسی طرح خادم اپنے آقا کو، ملازم اپنے افسر کو خوش نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ کچھ اپنے خلافِ نفس نہیں کرتا۔ یہ شب و روز کا نظّارہاِس امر کو خوب طاہر کرتا ہے کہ انسان کے اندر نتائجِ اعمال کا عِلم ہے جس سے وہ ترقّیٔ مراتب کی کوشِش کرتا رہتا ہے۔ پس جن راہوں پر وہ چل کر انعام اور ترقّی حاصل کرت ہے ضرور ہے کہ جب ان کو ترک کرے تو نقصان بھی اُٹھاوے۔
بعض لوگ یہ اعتراص کرتے ہیں کہ بعض انسانی قوٰی کی ساخت ہی اِس قِسم کی واقع ہوئی ہے کہ اس قِسم کے اعضاء والوں سے وہ حرکات ہی ناشائستہ سرزد ہوں ۔ مثلاً ڈاکو، چور وغیرہ جو ہوتے ہیں دیکھا جاتا ہے کہ ان کی کھوپریوں کی ساخت ایک خاص قِسم کی ہوتی ہے جو دوسرے لوگوں سے بالکل علیحدہ اور متمیّز ہوتی ہے پھر جس حال میں کہ قدرت نے ان کی ساخت ہی ایسی بنائی ہے وہ کسی طرح جواب دِہ ہونے چاہئیں۔
اِس کا جواب یہ کے اِس سوال کا تعلق عِلم قیافہ سے ہے جو ایک مومن کا کام ہے۔حدیث شریف میں ہے اِتَّقُوْا فِرَاسَۃَ الْمُؤْمِنِ فَاِنَّہ‘ یَنْظُرُ بِنُوْرَ اﷲِ کہ تم مومن کی فراست سے ڈرو کہ وہ اﷲ کے عطا کردہ نور سے ہر ایک شئے کو دیکھتا ہے یا کہ جا انسان کو اﷲ تعالیٰ نے ایسے اعظاء دئے ہیں کہ وہ ان کو دبا سکتا ہی نہیں ان کا نام مجنون رکھا ہے جن پر شریعت کا کوئی حکم جاری نہیں ہاں اگر اس کے اندر کچھ نہ کچھ قوّت ان اعضا ء کے تقاضا کو دبانے کی ہے تو وہ ضرور قابلِ مؤاخذہ ہیں کیونکہ جب وہ بعض حالتوں میں ان قوٰی کو دبا سکتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ حکمِ خدانودی سے نہیں دبا سکتے یا کم از کم اپنے اس فعل پر نادم ہو کر ان کے دبانے کے لئے اﷲ تعالیٰ سے مدد نہیں مانگ سکتے۔
ہم نے خود مجنونوں کو دیکھا ہے کہ ان میں کچھ نہ کچھ قوّت ضرور باقی رہتی ہے۔ روٹی وہ ضرور کھاتے ہیں بعض کو پیسہ مانگتے بھی دیکھا ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ کچھ نہ کچھ قوّت ضرور باقت ہوتی ہے۔ اِسی طرح ہم ایک چور اور ڈاکو کو دیکھتے ہیں کہ اگر یہ افعالِ بَد اُن سے بہ تقاضائے فطرتی صادر ہوتے ہیں تو پھر وہ حفاظت کا کیوں انتظام کرتے ہیں۔ اور جب ان کو خطرہ ہو کہ ہم پکڑے جاویں گے تو کیوں بھاگتے ہیں۔پس معلوم ہؤا کہ ان میں اپنے آپ کو سنبھالنے اور اپنے قوٰی کو دبانے کی قوّت بھی ہے اور اسی کا ناتوبہ ہے کہ جب انسان ایک طاقت کو بار بار دباتا تو وہ آخر کار زائل ہو جاتی ہے اور یہی شریعت کا حکم ہے۔ ہاں اگر اس میں دبانے کی طاقت نہیں ہے تو وہ مجنون اور پاگل ہے اس پر کوئی حکم شریعت کا نہیں ہے۔
جو شخص بَدی کو بَدی جان کر کرتا ہے وہ ضرور قبالِ مؤاخذہ ہے۔ بعض قومیں ایسی بھی ہیں کہ وہ کہتی ہیں کہ جن کو تم بَدی کہتے ہو ہم اُن کو بَدی نہیں تصوّر کرتے ۔ مگر وہ اپنے اقوال میں جُھوٹے ہیں اور شرارت سے یہ بات کہتے ہیں۔ ایک دفعہ ایک کنجر سے مجھے گفتگو کرنے کا اِتفاق ہؤا اُسنے کہا کہ ہم زنا کو ہرگز بدکاری نہیں سمجھتے۔ مَیں نے اُس سے پوچھا کہ اگر یہ تمہارے نزدیک بدکاری نہیں ہے تو پہوؤں سے یہ کام کیوں نہیں کرواتے۔ تب اُس نے کہا کہ وہ غیر کی لڑکی ہوتی ہے اُس سے یہ خرابی اور گند کروانا ٹھیک نہیں ہے۔ اس کم بخت نے اپنے مُنہ سے ابس کام کو خرابی اور گند کہا حالانکہ اوّل کہہ چکا تھا کہ ہم زنا کو بدکاری نہیں خیال کرتے ۔ مَیں نے اُسے ملزم کیا اور کہا کہ دوسرے تماش بین جو تمہاری لڑکیوں کے پاس آتے ہں وہ ان لڑکیوں کو اپنی لڑکیاں خیال کرتے ہیں؟ وہ بھی غیروں کی سمجھ کر آتے ہیں۔ اِس بات کو سُنکر پھر اُسے کلام کی جُرأت نہ ہوئی۔ ( البدر ۲۷؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۴۶)
اِسی طرح ایک دفعہ ڈاکو اور چوروں سے مَیں نے پوچھا کہ تم ڈاکہ اور چوری کو گناہ خیال کرتے ہو؟ انہوں نے کہا ہرگز نہیں۔ مجھے چونکہ ان کے انتظامات کا عِلم تھا کہ ڈاکو کِس طرح اکٹھے ہوتے ہیں اور چور کِس طرح نقب زنی کرتے ہیں۔ کہاں کہاں پہرہ ان کا ہوتا ہے۔ پھر ایک اندر جاتا ہے ایک سامان کو پکڑنے والا ہوتا ہے۔ ایک ڈاک چوروں کی بندھی ہوئی ہوتی ہے کہ مال کو جھٹ دوسری جگہ پہنچادیں۔ پھر جس زرگر سے ان کی سازش ہوتی ہے وہ سونا جاندی گلانیکا سامان تیار رکھتا ہے کہ دیر نہ ہو۔ مَیں نیی ان سے پوچھا کہ جب تم آپس میں مال ایک دوسرے کے حوالے کرتے ہو تو اگر اس میں سے دوسرا کچھ نکال لیوے یا اگر کہیں دباتے ہو تو دوسرا چوری سے کھود کر لے لے اور تم کو اطلاع نہ دے یا زرگر اپنے مقررہ حصّہ سے کچھ زیادہ رکھ لے تو پھر کیا کرتے ہو۔ اِس پر طیش میں آ کر انہوں نے جواب دیا کہ ہم ایسے بے ایمان کی گردن مار ڈالیں۔ مَیں نے کہا کہ خیانت اور چوری تو تمہارے نزدیک گناہ نہیں پھر اس کو سزا کیوں دیتے ہو؟ کہنے لگے کہ نہیں جی ایسے بے ایمان کو ہم کبھی شامل ہی نہیں کیا کرتے۔ پھر مَیں نے ان کو کہا کہ جب تمہارا مال کوئی نے ایمانی سے لے تو تم اسے گناہ کہتے ہو بتلاؤ تم جو دوسروں کا مال لیتے ہو اور وہ نامعلوم کن کن مشکلوں سے انہوں نے کمایا ہؤا ہوتا ہے یہ کونسی ایمانداری ہے؟
غرضیکہ اِن نظائر سے پتہ لگتا ہے کہ ہر بدکار اپنی بدی کے ارتکاب میں ضرور ملزم ہے۔ ہاں اب یہ سوال ہو سکتا ہے کہ اِنسان اِن بدکاریوں کا کیوں ایس مُرتکب ہوتا ہیکہ پھر چھوڑ نہیں سکتا یا اگر چھوڑنا چاہے تو اس کا کیا علان ہے؟ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو جو قوٰی عطا کئے ہیں اُن سے جب ان کے تقاضا کے موافق حسبِ فرمودہ الٰہی وہ کام نہیں لیا جاتا تو ان کی قوّت زائل ہو جاتی ہے اور جو قوّت ان کی بالضد بالمقابل ہوتی ہے وہ ترقّی پاتی ہے اور بہت نشوونما کرتی ہے۔ یہ ایک ایسا بندھا ہؤا قانون ہے کہ جس کے مشاہدات کثرت سے اِس عالَم میں ہیں۔ تم نے دیکھا ہو گا کہ بعض ہندو فقیروں کے ہاتھ سُوکھے ہوئے اور کھڑے ہوئے ہوتے ہیں اس کی یہی وجہ ہوتی ہے کہ وہ ہاتھوں کو ایک عرصہ تک کھڑا کر چھوڑتے ہیں اور قدرت کے منشاء کے موافق ان سے کام نہیں لیتے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کم کرنے کی طاقت ہاتھ سے زائل ہو جاتی ہے۔اِسی طرح اگر آنکھ کو تم چالیس دن تک ایسی پَٹّی باندھ چھوڑو کہ اُس سے کچھ نظر نہ آوے تو آخرکار وہ دن بدن کمزور ہو کر زائل ہو جاتی ہیں اور ان کے مقابل پر بَدی کی قوّت ترقّی پکڑتی پکڑتی آخر کار ایک جُزوِ طبیعت ہو جاتی ہے۔ پس جو لوگ بدکاریوں میں مُبتلا ہیں ان کا علاج یہی ہے کہ وہ ان کو دن بدن دبانا شروع کریں اور نفس کی مخالفت پر زور دیویں اور ساتھ ہی ساتھ اﷲ تعالیٰ سے بھی مدد مانگتے رہیں آکرکار وہ ایک دن اُن سے نجات پا جاویں گے کیونکہ جیسے ہم نے پیشتر بیان کیا ہے خدا کا لاتبدیل قانون یہی ہے کہ ہر انسانی فعل کے بعد ایک فعلِ الہٰی صادر ہوتا ہے۔ انسان اگر نیکی کے قوٰی سیکام لیتا ہے تو خدا تعالیٰ دن بدن اُسے اَور برکت دیتا ہے حتّی کہ نیکی اس کی طبیعت کا جُزو ہو جاتی ہے۔ شُکرِ نعمت پر ازدیادِ نعمت کی یہی فلاسفی ہے اور جو لوگ خدا تعالیٰ کے دئے ہوئے قوٰی سے ٹھیک کام نہیں لیتے وہ دن بدن بدیوں پر دلیر ہو کر خدا کا غضب حال کرتے ہیں یعنی وہ خدا کی نِعمت کا کفر کرتے ہیں اِسی لئے عذاب کے مستحق ہوتے ہیں۔
پس اِس تفصیل سے خوب ظاہر ہو گیا ہے کہ ختم اﷲ میں کسی قِسم کا جبر انسان کے اُوپر نہیں ہے کیونکہ ختم اﷲ توایک فعلِ الہٰی ہے جو کہ انسانی فعل کے بعد جب قانونِ قدرت ضروری صادر ہونا تھا۔ خدا تعالیٰ نے ہدایت کے سامان ان کے لئے مہیّا کئے مگر انہوں نے اُن سے کام نہ لیا اِس لئے جو قوٰی ترقّیٔ ایمان کے ان کو عطا ہوئے تھے وہ ان سے لے لئے گئے اور حکمتِ بالغہ کا یہی نتیجہ ہونا چاہیئے تھا۔ دیکھو اگر آج تم میں سے ایک کو تحصیلداری کے اختیارات دئے جاویں لیکن وہ ان کو استعمال نہ کرے اور تمام دن اَور ہی کام کرتا رہے تو کیا گورنمنٹ وہ اختیارات اس کے پاس رہنے دے گی ؟ ہرگز نہیں پس جبکہ دُنیاوی مصلحت اور حکمت اِس امر کا تقاضا نہیں کرتی تو خدا تعالیٰ پر کیوں یہ امر لام ہو سکتا تھا
خَتَم۔اِس کے معنے نشان کے ہیں۔ں دوسرے مُہر کے۔ اوّل معنوں کی رُو سے یہ معنے ہوئے کہ اﷲ نے ان کے دلوں اور کانوں پر نشان یا علامت کر دی تاکہ فرشتہ یا فرّتوں کے رنگ کی انسانی مخلوق ان کو پہچان کر ان سے مناسبِ حال سلوک کرے۔ اہلِ فراست ان کو پہچان کر ان سے پرہیز کریں۔
دوسرے معنوں کی رُو سے یہ معنے ہوئے کہ جب کسی شئے پر مُہر لگ جاتی ہے اس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ کوئی شئے اس کے اندر اَب نہ داخل ہو سکتی ہے نہ باہر آ سکتی ہے یعنی اَب ان کے دلؔ،کانؔاور آنکھؔ کسی حقیقت تک پہنچنے سے محروم کر دئے گئے ہیں۔ نہ حق داخل ہو سکتا ہے نہ کفر نِکل سکتا ہے۔
قُلُوْب… جمع قلب کی بمعنے دل۔اِس سے مراد گوشت کا وہ ٹکڑا نہیں ہے جو آنکھوں سے نظر اتا ہے وہ تو ایک گدھے میں بھی ہوتا ہے بلکہ قوّتِ ادراکیہ جس کا ایک مجہول الکنہ تعلق اس انسانی قلب کے ٹکڑے سے ہے۔ قلب پر خَتم کا یہ باعث ہؤا کہ ان کو قلبِ الٰہی اِس لئے دیا گیا تھا کہ وہ سوچتے کہ یہ شخص ( محمد صلی اﷲ علیہ وسلم ) مدّت سے ہم میں رہتا ہے۔ اِس کے اخلاق،عادات، تعلّقات، معاملات لین دین وغیرہ سب امور پر نظر مارتے، اس کی گذشتہ زندگی کو جانچتے، اس کی کَلوَت، جَلوَت کے حالات کا مطالعہ کرتے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے دعوٰی کیا اور فرمایا قَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ۔اِس دعوٰی اور تحدّی پر غور کرتے جب اس نے قلب سے قلب کا کام نہ لیا اور اس کو معطّل رکھا تو آخر اﷲ تعالیٰ نے وہ نورِ ایمان ان سے لے لیا۔
سَمْع۔بمعنے کان اور سُننا۔ اِس پر ختم کا یہ باعث ہؤا کہ اگر اس کا قلب اِس قابل نہ تھا تو پھر کانوں سے آپؐ کی(یعنی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم) کی تعلیمات اور دعاوی اور دلائل کو ہی سُنتا مگر جب یہ بھی نہ سُنا تو آخر خدا نے یہ قوّت بھی لے لی۔
ابصار۔بمعنی بصر یعنی بینائی۔ اس پر پَٹی اِس لئے پڑ گئی کہ سمع اور قلب کے جاتے رہنے کے بعد اگر قوّتِ بینائی سے جو باقی رہ گئی تھی اس کام لیتا۔ آپ کے ساتھ جو نشان تائیداتِ الہٰی کے تھے اُن پر نظر ڈالتا ۔ اپنے شہر کے چیدہ اور قابلِ قدر آدمیوں کو دیکھتا کہ وہ کِس کے ساتھ ہوتے جاتے ہیں تو بھی اُسے راہِ احق مِل جاتا مگر جب اس نے اس سے بھی کام نہ لیا تو خدا نے یہ بھی اس سے لے لیا ۔ غرضیکہ کفر کیا تو قلب گیا۔ اِنذار اور عدمِ اِنذار کو برابر جانا تو کان گئے۔ تائیداتِ سماویہ کو نہ دیکھا تو آنکھیں گئیں۔
غشاوہ کے معنے چپٹی، پَردہ۔
عظیم۔اُس کو جہتے ہیں جو ہر ایک پہلو سے بڑا ہو۔ چونکہ انہوں نے ہر ایک پہلو سے صداقت کو چھوڑا جس کے لئے عذابِ عظیم ہی مناسبِ حال تھا جو کہ ہر طرف سے اُن کو احاطہ کرتا۔ ( بدر جلد ۲ نمبر۷مورخہ ۶؍ مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۵۴)
اِسی قُرآن میں مُہر کی وجہ اور جس لاکھ کی مُہر ہے اس کا پتہ اور سبب مرقوم ہے وہ سبب اور مُہرا ور وہ لاکھ ہٹا دو۔ وہ خدائی مُہر خود اُکھڑ جائے گی۔ سُنو
وَ قَوْلِھِمْ قُلُوْبُنَا غُلْفٌ۔ (سورہ نساء رکوع ۲۲)
کَذٰلِکَ یَطْبَعُ اﷲُ عَلٰی کُلِّ قَلْبِ مُتَکَبِّرٍ جَبَّارٍ۔ (سورہ مومن رکوع ۴)
۔
(سورہ مطففین رکوع ۱)
دیکھو کفر اور تکبّر اور بَد اعمالی کے کَسب سے مُہر لگتی ہے ان بُری باتوں کو چھوڑ دو، مُہر ہتی ہوئی دیکھ لو۔ خدائے تعالیٰ نے اپنے قانونِ قدرت میں یہ بات رکھ دی ہے کہ جن قوٰی سے کام نہ لیا جاوے وہ قوٰی بتدریج اور آہستہ آہستہ کمزور ہوتے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ قوٰی جن سے کام نہیں لیا گیا اسی طرح بیکار اور معطّل رہتے رہتے بالکل نکمّے ہو جاتے ہیں اور ان پر صادق آتا ہے کہ اب ان قوٰی پر اور ان قوٰی کے رکھنے والوں پر مُہر لگ گئی ہے۔ ہر ایک گناہ کا مُرتکب دیکھ لے جب وہ پہلے پہل کسی بُرائی کا اِرتکاب کرتا ہے تو اس وقت اس کے مَلکی قوٰی کیسے مضطرب ہوتے ہیں پھر جیسے وہ ہر روز بُرائی کرتا جاتا ہے ویسے آہستہ آہستہ وہ اضطراب اور حیا اور تامّل جو پہلے دن اس بدکار کو لاحق ہؤا تھا وہ اُڑ جاتا ہے… انسانی نیچر اور فطرت اور اس کے محاورے کی بولی پر غور کرو۔ شریر اور بد ذات آدمی کو ایک ناصح فصیح نہیں کہتا؟ کہ ان کی عقل پر پتّھر پڑ گئے، ان کے کان بہرے ہو گئے، ان کی سمجھ پر تالے لگ گئے۔ کیا ان مجازوں سے حقیقت مراد ہوتی ہے؟ (فصل الخطاب حصّہ ۲ صفحہ ۱۹۳،۱۹۴)

ان تمام لوگوں میں بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو بتاتے ہیں کہ ہم اﷲ پر اور یَوم الآخر پر ایمان لائے اور وہ دراصل ایماندار نہیں ہیں۔
اِس سے پیشتر کے رکوع میں منعَم علیہم اور مغضوب علیہ گروہ کا ذکر ہؤا ہے اور اَب ضآلّین کا ذکر ہے یعنی ان لوگوں کا جو کہ گمراہی میں ہیں۔ منافق بھی چونکہ ڈِھل مِل یقین
ہوتاہے کبھی اِدھر اور کبھی اُدھر ۔ صراطِ مستقیم پر اس کا قدم نہیں ہوتا اِس لئے وہ بھی ضالّ یعنی گمراہ ہوتا ہے۔
قرآن کریم میں یہ ذکر اِس لئے ہیں کہ ہر ایک مومن اپنے نفس کو ٹٹولے اور جو مذموم صفت اسے نظر آوے اُسے دُور کرے اور نفس کے اِس دھوکے میں نہ آوے کہ اس سے مراد وہ منافق ہیں جو کہ کِھی نبی یا مامور پر ایمان کے بارے میں نفاق رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم تو حقیقی مومن ہیں۔ نہیں ہرگز نہیں۔ بلکہ اپنی حالتِ بَدظنّی اور اﷲ تعالیٰ کی عنایات اور تائیدات کا رنگ اپنے وجود میں امتحان کر کے اِس بات کو پرکھے کہ اگر مَیں منافق نہیں ہوں تو کیوں ناکامیاں میرے شامِل حال ہیں اور جن کو مَیں منافق کہتا ہوں ان سے میرے حالات متمیّز ہیں کہ نہیں۔ حضرت احمد مرسل یزدانی نے ۲۵؍مارچ کو ایک تقریر میں فرمایا ہے کہ ’’اگر یہ لوگ نیکی اور تقوٰی کا دعوٰی کرتے ہیں تو اِن کا دعوٰی کیوں قرآن کے برابر آ کر ٹھیک نہیں بیٹھتا۔ خدا تو وعدہ کرتا ہے وَ ھُوَ یَتَوَلَّی الصّٰلِحِیْنَ (اعراف:۱۹۷) اور (انفال:۳۵)اگر یہ لوگ واقعی طور پر متّقی ہیں تو خدا ان کا کیوں کفیل نہیں اور خداکا قول کیوں صادق نہیں آتا۔ پس ہر ایک نفس کو دیکھنا اور غور کرنا چاہیئے ۔ مَیں جو دوسروں کو منافق اور کافر وغیرہ کہہ کر الہٰی تائید اور نصرت سے محروم کہتا ہوں کہیں وہی محرومی میرے شامِل حال تو نہیں ہے۔ پس اگر دیکھے کہ وہ بھی ظلمتوں میں پھنسا ہؤا ہے اور الہٰی تائید اس کے معاملات اور کاروبار میں شریک نہیں ہے اور اُسے کُھلی کُھلی اور بّین صراطِ مستقیم ( حاصل) نہیں تو سمجھے کہ کوئی شعبہ نفاق یا کفر کا ضرور دِل میں ہے اور ممکن ہے کہ اس کی اسے خبر بھی نہ ہو۔
مَنْ۔ بمعنے جو ، وہ، کون۔ یہ لفظ ایک ، دو، تین اور اس سے زیادہ کے واسطے آتا ہے۔ یَقُوْلُ۔یعنے بتلاتا ہے۔ خواہ زبان سے خواہ ہاتھ سے خواہ اپنے اَور اعضاء سے ۔ تحریر سے یا تقریر سے۔ غرض دوسرے کو بتلا دینے کے موقعہ پر استعمال ہوتا ہے اس سے قال کالفظ عام ہے۔ یہ ضرور نہیں کہ بالمشافہ گفتگو ہو۔ اِسی لئے اکثر قصّے اِس قِسم کے بنے ہوئے ہوتے ہیں کہ دیوار نے میخ کو کہا کہ تُو مجھے کیوں چھید رہی ہے۔ میخ نے کہا ’’ اِس سے پُوچھ جو مجھے ٹھوک رہا ہے۔‘‘میخ اور دیوار کی زبان نہیں ہوتی۔ یہاں زبان سے مراد زبانِ حال ہے۔
امنا باﷲ۔اﷲ پر ایمان لانے کے یہ معنے ہیں کہ کُل قرآن شریف کی باتوں کو ماننا۔ اِسلام میں اﷲ لفظ کے یہ معنے ہیں کہ ایسا خدا جو کہ تمام صفاتِ کاملہ اور عالیہ سے متّصف اور جمیع خصائل اور زائل سے منّزہ ہو اور اسلام نے وہ خدا پیش کیا ہے جو کہ کتابیں نازل کرتا، اپنے بندوں سے کلام کرتا، ان کی ہدایت کے لئے بنی اور رسول اور مجدّد مبعوث کرتا، جو اس کا طالب ہوتا اس کو اپنی راہیں دکھاتا، نیکی کا بدلہ نیک اور بَدی کا بدلہ بَد دیتا، اور اپنے دوستوں کو عزّت دیتا اور ان کے لئے خوارق اعادت کام کرتا اور اپنے دوستوں کے دشمنوں کو ذلیل کرتا، ایسے خدا کو جو ماننے والا ہو اُسے نفاق کی کیا ضرورت ہے اور کِس کا ڈر ہے کہ وہ حق کو چھپاوے اور دَر پَردہ خدا کے دشمنوں سے بھی تعلّقات رکھے۔
الیوم الاخرپرایمان کے یہ معنے ہیں کہ انسان جزا سزا کا قائل ہو۔ اس کے دِل میں یہ بات جمی ہوئی ہو کہ نیکی کا بدلہ بَدی اور بَدی کا بدلہ نیکی نہیں ہو سکتا۔ پھر جس کو یہ ایمان حاصل ہو اور ادھر وہ خدا کو ایک متصرّف مقتدر ہستی مانتا ہو تو بتلاؤ نفاق کہاں رہیگا۔ اِس لئے خدا تعالیٰ آگے فرماتا ہے کہ یہ لوگ اِس دعوٰی میں جُھوٹے ہیں۔ صرف ظاہری باتوں اور فعلوں سے دکھلانا چاہیتے ہیں کہ ہم بھی مومن ہیں۔ وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ۔وہ مومن ہرگز نہیں ہیں۔ جب ماؔ کا صِلہ باؔ آوے تو اس سے تاکید مُراد ہوتی ہے واؤ یہاں حالیہ ہے۔
(البدر ۱۷؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۰۲ نیزرسالہ تعلیم الاسلام قادیان بابت جنوری ۱۹۰۷ء)
بہت لوگ ایسے ہیں جو کہہ تو دیتے ہیں کہ ہم اﷲ اور یومِ آخرت پر ایمان لائے مگر وہ ذرا بھی مومن نہیں ہوتے۔
ایمان کے سبق کا شروع اﷲ پر ایمان لانے سے ہے اور اسی سبق کا اختتام آخرت کے ماننے پر ہے اِس لئے اس کے اندرونی حصّوں کا ذکر نہیں آیا وہ سب ان دونوں کو ماننے میں آ گیا۔اﷲ پر ایمان جبھی مکمّل ومسلّم ہو سکتا ہے جب اس کے ملائکہ، کتب و رسولوں پر ایمان لایا جاوے۔ ماننے کے معنے صرف زبان سے کہنا نہیں بلکہ تصدیقِ قلب اور عملوں کے ذریعہ اپنے ایمان کا ثبوت ضروری ہے۔ (ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۴؍فروری ۱۹۰۹ء) قرآن شریف میں بہت جگہ پر اِس قِسم کا ذکر پایا جاتا ہے کہ اکثر لوگ اِس قِسم کے بھی ہؤا کرتے ہیں کہ زبان سے تو وہ بڑے بڑے دعوے کیا کرتے ہیں مگر عملی طور پر کوئی کارروائی نہیں دکھاتے۔ زبان سے وہ ایسی ایسی باتیں بھی کہہ لیتے ہیں جن کو ان کے دِل نہیں مانتے۔چنانچہ قُرّن کریم کے شروع میں ہی لکھا ہے (۱؍۲) ایسے لوگ اﷲ پر ایمان لانے اور آخرت پر ایمان لانے کے زبانی دعوے تو بہت کرتے ہیں مگر ان کے دِل مومن نہیں ہوتے۔ اِسی لئے باوجود اسکے کہ وہ اﷲ پر اور یَومِ آخرت پر ایمان لانے کا دعوٰی کرتے ہیں مگر اﷲ تعالیٰ ایسے لوگوں کو مومنوں میں سے نہیں سمجھتا ۔ وہ لوگ تو کہتے ہیں کہ ہم کو اﷲ پر اور آخرت پر ایمان ہے مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ اﷲ کے نزدیک مومن نہیں۔ (الحکم ۲۴؍دسمبر ۱۹۰۷ء صفحہ۱۱)

وہ اﷲ کو چھوڑتے ہیں اور ان کو جو ایمان لائے حالانکہ وہ تو اپنے نفسوں ہی کو ( دراصل) محروم کرتے ہیں اور اپنے نفع و نقصان کا کچھ شعور نہیں رکھتے۔
کاترجمہ ’’ دھوکہ دیتے ہیں ‘‘ کریں تو اس میں بہت سی مشکلات ہیں اِس لئے میرے نزدیک اس کے معنے ’’ ترک کرتے ہیں‘‘ صحیح ہے۔ ان لوگوں نے اﷲ کو چھوڑا تو اس کا خمیازہ یہ اُٹھایا کہ اپنے آپ کو محروم کر لیا۔
عبداﷲ بن ابیّ بن سلول ایک شخص تھا وہ بھی انہی ’’مِنَ النَّاسِ ‘‘میںسے تھا۔ نبی کریمؐ ایک مجلس میں وعظ کہنے لگے۔ اس روز بہت جھکّڑ تھا سواری میں غبار جو اُٹھا تو اس نے رومال اپنے مُنہ پر رکھ لیا اور کہا باتیں تو اچھی ہیں اگر گھر ہی سُناتے تو اچھا تھا یہاں ہم کو تکلیف ہو رہی ہے۔ اس پر صحابہؓ میں بہت گفتگو ہوئی۔ ایک صحابیؓ نے عرض کیا اس سے درگزر کر دیں۔ پہلے ہمارا ارادہ تھا کہ اسے اپنا بادشاہ بنا لیں یُتَوِّجُوْہُ وَ یُوَصِّبُوْہ‘ یعنی تاجِ شاہی اس کے سَر پر رکھ دیں اور نمبرداری کی پگڑی اسے بندھادیں مگر اب کُھل گیا کہ یہ شخص اِس قابل نہیں۔ اس نے اپنے تئیں ذلیل کر لیا۔ دیکھو وہ پھر کیسا تباہ ہؤا۔ مومنوں کے سامنے ہلاک ہؤا۔ اور اس نے کوئی شرف نہ پایا۔
منافق اپنے تئیں بڑا ہوشیار سمجھتا ہے اور اسے یہ خیال ہوتا ہے کہ مَیں بڑا دانا ہوں کہ دونوں طرفوں کو گانٹھ رکھا ہے لیکن درحقیقت منافق بڑا کمزور ہوتا ہے اس میں نہ قوّتِ فیصلہ ہوتی ہے نہ تابِ مقابلہ۔ (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍فروری ۱۹۰۹ء)
…سچّی اخلاص اور محبّت اور اطاعت سے جو نتائج پَیدا ہوتے ہیں وہ صرف زبانی باتوں اور ریاکاری کے اعمال سے حاصل نہیں ہو سکتے۔ اگر صرف زبانی قول پر نجات کا مدار ہوتا تو پھر قول تو منافقوں کا بھی اﷲ تعالیٰ نے نقل کر کے دکھایا ہے بلکہ وہ ایسے قول سے بجائے نجات کے عذاب کے حقدار بن گئے۔ ایک ہی قول ہے کہ ایک ایسے شخص کے زبان سے نکلتا ہے جس کا دِل اور زبان ایک ہے نیّت میں اِخلاص ہے۔ اسی قول سے وہ واصل اِلی اﷲ اور باری تعالیٰ کا مقرّب ہو جاتا ہے۔ وہی ایک قول ہے جو کہ ایسے شخص کی زبان سے نکلتا ہے جس کا قلب اور زبان ایک نہیں ہے۔ وہ خدا تعالیٰ سے بُعد اور قطع تعلق کا باعث ہوتا ہے۔ خدا اور یَومِ آکر پر ایمان کا اصل نتیجہ کیا تھا کہ خدا سے تعلّقات بڑھتے اور اس کے انعامات اور اکرام کا مورَد وہ ہوتا مگر اﷲ تعالیٰ سے اَور دُور ہوتے گئے اور ان کے نفسوں کو دھوکا لگا۔
یُخٰدِعُوْنَ کے معنے یتْرکُوْنَ یعنی چھوڑتے ہیں اور یُخٰدِعُوْنَ کے معنے محروم کر لیتے ہیں۔ عام ترجموں میں جو اس کے معنے فریب اور دھوکہ دینے کے کئے جاتے ہیں ان کی تصدیق قُرآن کی کِسی آیت سے نہیں ہوتی ہے بلکہ قاموس وغیرہ لُغت کی کتب میںخَادِعَہ‘ کے معنے تَرَکَہ‘ لکھے ہیں۔قرآن سے بھی اِن معانی کی تصدیق ہوتی ہے جیسے سورہ نساء میں ہے اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اﷲَ وَھُوَ خَادِعُھُمْ یعنی منافق خدا تعالیٰ کو چھوڑتے ہیں اور خدا ان کو چھوڑتا ہے۔
خدا کو چھوڑ دینے کے یہ معنے ہیں کہ اس کے اوامر اور نواہی کی پرواہ نہ کری۔ بعض وقت ایک انسان مصیبت میں گرفتار ہوتا ہے اور اس وقت شکایت کرتا ہے کہ خدا اس کی مدد کیوں نہیں کرتا؟ اس کا باعث یہی ہوتا ہے کہ اس نے اپنے تعلّقات خدا سے قائم نہیں رکھے ہوئے ہوتے اور اسی وجہ سے خدا نے اس کی حفاظت سے اپنا ہاتھ اُٹھایا ہؤا ہوتا ہے جیسے آجکل طاعون اس نظّارہ کو دکھا رہی ہے۔
وَمَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ۔خَدَعَ کے معنے اَمْسَکَ کے ہیںیعنی یہ لوگ نہیں روک سکتے فوائد سے یا نہیں بُخل کرتے یا نہیں محروم رکھتے مگر اپنی جانوں کو۔ جب اﷲ تعالیٰ اور اس کے بندوں سے قطع تعلق کر لیا تو تعلق سے جو فوائد حاصل ہوتے تھے اُن سے وہ محروم ہو گئے۔ محرومی نفاق کا نتیجہ ہے۔
وَمَا یَشْعُرُوْنَ۔ان میں شعور نہیں۔ شور ایک حیوانی صِفت ہے۔ اﷲ تعالیٰ یہاں منافقوں کو شرم دلاتا ہے کہ تم تو حیوانات سے بھی گئے گذرے ہوئے ہو ان میں شعور ہوتا ہے تو اس سے بھی محروم ہو۔ہمیشہ اِس امر کا خیال رکھو کہ کلمہ جو مُنہ سے نکالتے ہو اس کا تعلق دل اور زبان دونوں سے ہو اور تمہارا ہر ایک عمل اس کی تصدیق کرتا ہو۔
(بدر ۲؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۱۱)
خَارَعَ کے معنے ترک کرنے کے ہیں پس جہاں یُخٰدِعُوْنَ اﷲَہے وہاں ’’ وہ چھوڑتے ہیں اﷲ کو‘‘ ترجمہ کیوں نہیں کرتے۔ خَدَعَ کے معنے ہیں اَمْسَکَ ۔ محاورہ ہے فُلَانٌ کَانَ یُعْطِیْ فَخَدَعَ فلانا دیتا تھااب اُس نے دینا چھوڑ دیا ہے۔ پس وَھُوَخَادِعُھُمْ کے معنے یہ کیوں نہیں کرتے کہ اﷲ بھی منافقوں کو محروم رکھنے والا ہے اپنے عطایات سے۔ اِسی طرح تمام اَلوجوہ والنظائر میں بھی ایسا ہی برتاؤ کرو اور مثلاً وَ وَجَدَکَ ضَالَّامیںضلال کا اثبات نبیٔ کریمؐ کے لئے ہے مگر وَ مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ میں ضلال کی نفی آپؐ کے حق میں موجود ہے۔ تو دونوں پر ایمان لا کر ایک جگہ ضلال کے معنے محبّ ،طالب،سائل کرو جو اَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْھَرْکی تر تیب سے ظاہر ہوتے ہیں اور دوسری جگہ گمراہ کے معنے کرو جو وما غوی کے مناسبت سے درست ہیں۔ (نورالدین،دیباچہ صفحہ ۱۰،۱۱)
یُخٰدِعُوْنَ،مُخَادِعَۃُسے ہے اور مُخَادِعَہُ کے معنے ہیں ترک کے۔ پس یُخٰدِعُوْناﷲکے معنے ہوئے یَتْرُکُوْنَ اﷲَ(چھوڑتے ہیں اﷲ کو) جیسا کہ ایک دوسرے محل پر آیا ہے نَسُوا اﷲَ(توبہ:۶۷) (چھوڑ دیا انہوں نے اﷲ کو) کیونکہ اس کے مقابل اﷲ عزّوجلّ کی نسبت بھی نَسِیَھُمْ آیا ہے اور اس کے معنے بُجز ترک کے اَور کچھ نہیں ہیں اوریُخٰدِعُوْن ،خَدَعَ سے ہے اور خَدَعَ کے معنے امساک یعنی رُکنے اور بُخل کے ہیں جیسا کہ کہا جاتا ہے فُلَانٌ کَانَ یُعْطِیْ فَخَدَعَ(فلاںدیا کرتا تھا لیکن اَب دینے سے رُک گیا ہے اور بُخل کرتا ہے)اور منافقوں میں یہ وصف تھا جیسا کہ خداوندِ علیم نے اَور محل پر بیان فرمایا ہے کہ فَلَمَّآ اٰتٰھُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ بَخِلُوْا ( توبہ :۷۶) ( پس جب اﷲ نے اپنے فضل سے ان کو دیا تو بُخل کرنے لگے ( یا) انہوں نے بُخل کیا ) اور فرمایا(منافقون:۸)( یہ وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ نہ خرچ کرو ان پر جو رسول اﷲ کے پاس ہیں تاکہ وہ پراگندہ ہو جاویں) اور نفس کہتے ہیں ذات اور حقیقت اور عین شئے اور رُوح اور قلب اور خون اور پانی اور جسم اور حَشم اور عظمت اور عزّت اور ہمّت اور اکڑبازی اور فراخی اور تروتازگی اور کلامِ طویل کو اور بمعنے پاس بھی آتا ہے جیسا کہ فرمایا ہے (مائدہ:۱۱۷)(تُو جانتا ہے اس کو جو میرے پاس ہے اور مَیں اس کو نہیں جانتا جو تیرے پاس ہے) اور علماء نے کہا کہ یہ اجسام کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ خداوند تعالیٰ کے لئے بھی آتا ہے جو کہ جسم سے پاک اور منزّہ ہے جیسا فرمایا ہے ( انعام:۵۵)(تمہارے رَبّ نے اپنے نفس پر ( یعنی اپنے پر رحمت مقرر کی ہے) اور فرمایا(آلِ عمران:۲۹) ( اور اﷲ تم کو اپنے نفس سے ڈرا کر بچانا چاہتا ہے ) پس معنے یہ ہوئے وہ چھوڑتے ہیں اﷲ اور مومنوں کو ۔ حالانکہ وہ نہیں بخل کرتے مگر اپنی جانوں پر …منافقوں نے اپنے جانوں کو اﷲ کریم کی راہ میں خرچ کرنے سے روکا ۔ پس اس سے انہوں نے اپنے نفسوں کو اس عزّت و نصرت اور رزق و فلاح سے محروم کر دیا کہ جس کا خداوند کریم نے اﷲ کے راستہ میں صَرف کرنے والوں کو وعدہ فرمایا ہؤا تھا جیسا کہ اس نے فرمایا ہے (المنافقون:۹)(اور اﷲ ہی کے لئے عزّت ہے اور اس کے رسول اور مومنوں کے لئے لیکن منافق لوگ نہیں جانتے اور فرمایا اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا(المؤمن:۵۲) (ضرور ہم مدد دیتے ہیں اپنے رسولوں کو اور مومنوں کو دُنیا میں ) اور فرمایا (البقرۃ:۲۶)(جب کبھی رزق دیا جائے گا ان کو ( مومنوں کو) اس سے )… منافق لوگ لَآاِ لٰہَ اِلَّا اﷲُ کا اظہار کرتے ہیں تاکہ اس کے ذریعہ سے اپنے مال و جان کو حفاظت میں کرلیں۔پس منافق لوگ کشتی کے کناروں کی مانند ہوتے ہیں جب اور جس طرف ہَوا چلتی ہے تو اس وقت اور اسی طرف کشتی بھی چل پڑتی ہے۔ اور یہ بھی کچھ بعید نہیں کہ انفسؔ سے یہاں پر وہی مراد ہو جو کہ (النّور:۱۳)( کیوں نہ مومنوں اور مومن عورتوں نے اپنے آپ میں اچھا گمان کیا) اور (آلِ عمران:۶۲)( ہم پکاریں اپنے بیٹوں اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنے آپ کو اور تم کو) میں ہے اور کوئی اَور معنے انفسؔ سے یہاں پر نہ لئے جاویں تو اس صورت میں معنے یہ ہوں گے کہ منافق لوگ دعوٰی کرتے ہیں کہ ہم مومن ہیں اور پھر وہ خود ہی بخل کرتے ہیں اور لوگوں کو بخل کا حکم دیتے ہیں اور مومنوں پر خرچ کرنے سے لوگوں کو روکتے ہیں اور خدَع فساد کو بھی کہتے ہیں تو اس صورت میں معنے یہ ہوں گے کہ وہ نہیں بگاڑتے مگر انی جانوں کو … اور شعورؔ اس علم کو کہتے ہیں جو کہ بذریعہ حو اس یعنی آنکھٔ کان وغیرھما کے حاصل ہو۔(رسالہ تعلیم الاسلام قادیان بابت فروری ۱۹۰۷ء)
(آیت ۱۱)
ان کے دِلوں میں لایک مر ہے تو اﷲ نے ان کے اس مرض کو بڑھنے دیا اور ان کیلئے دُکھ دینے والا عذاب ہے بہ سبب اس کے کہ وہ جُھوٹ بولتے تھے۔ مرض کا بڑھنا اِس لئے فرمایا کہ جب تھوڑے مسئلوں میں اس کی کمزوری کا یہ حال ہے کہ کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا تو پھر جب یہ مسئلے بہت بڑھ جائیں گے تو یہ کمزوری اَور بھی بڑھے گی۔ پس یہ مرض روزافزوں ہے۔ اسی طرح جب چھوٹی سی جماعت کے سامنے حق بات نہیں کہہ سکتا تو بڑی جماعت کے سامنے تو اَور بھی جُھوٹ بولے گا اور یہی باتیں اُس کے لئے دُکھ دینے والی ہو جائیں گی۔ آخرت کا عذاب تو ہے ہی مگر منافق کے لئے دُنیا میں بھی یہ کم عذاب نہیں۔
زَادَھُمُ اﷲُپر مفسّروں نے بہت اختلاف کیا ہے کہ جب یہ امرِ واقعہ ہے تو اس پر اختلاف کیسا۔ یہ سب کچھ نتیجہ ہے جُھوٹ بولنے کا۔
(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۱؍فروری ۱۹۰۹ء)
نفاق ایک قلبی مرض کا نام ہے۔ اس کی علامت یہ ہوتی ہے کہ اس کے مریض میں قوّتِ فیصلہ بہت کمزور ہوتی ہے اور اُسے کسی کے مقابلہ کی طاقت نہیں ہوتی۔ ابتداء میں جبکہ اِسلام کی جمعیّت کم تھی اور مسائل تھوڑے تھے تو ایسی حالت میں جب ان کو جُھوٹ اور مداہنہ سے کام لینا پڑا حالانکہ اُس وقت اَدنیٰ سے اَدنیٰ انسان بھی مقابلہ کرتا تھا۔ تو جب اِسلام کی جمعیّت ترقی کرے گی اور مسائل بڑھتے جاویں گے تو اپنی اِس کمزوری کی وجہ سے ہر ایک بات اور حکم پر وہ امنا و صدقناکہیں گے حالانکہ ان کے دِل میں وہ بات نہ ہو گی۔ گویا اس طرح سے ان کو زیادہ جُھوٹ بولنا پڑتے گا اور جن جن باتوں کو ان کے دل تسلیم نہیں کرتے ان ان باتوں کو زبان سے ماننا پڑے گا اور انجام یہ ہو گا کہ ہلاکت کا طعمہ بن جاویں گے۔
(بدر ۲۴؍ اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۱۱)
جیسے ایک مریض بعض اَوقات اپنا ذائقہ تلخ ہونے کی وجہ سے مِری کو بھی تلخ بتلاتا ہے وہ کہہ دیتا ہے کہ مجھے اِس سے لذّت نہیں آتی۔ اس کے کہنے پر کیا انحصار ہے خداتعالیٰ نے خود فیصلہ کر دیا ہے اورپھر صاف صاف ارشاد کر دیا لَا یَمَسُّہ‘ اِلَّا الْمُطَھَّرُوْنَ۔جس جس قدر انسان پاکیزگیٔ تقوٰی طہارت میں ترقّی کرے گا اُسی اُسی قدر قرآن شریف کے ساتھ محبّت ٔ اس کے مطالعہ اور تلاوت کا جوشٔ اس پر عمل کرنے کی توفیق اور قوّت اسے ملے گی لیکن اگر خدا تعالیٰ کے اَحکام اور حدو کی خلاف ورزی میں دلیری کرتا ہے اور گندی صُحبتوں اور ناپاک مجلسوں اور ہنسی ٹھٹھے کے مشغلوں سے الگ نہیں ہوتا۔ وہ اگر چاہے کہ اس کو قرآن شریف پر غور و فِکر کرنے کی عادت ہو تدبیر کے ساتھ اسکے مضامینِ عالیہ سے حَظ حاصل کرے۔ ایں خیال است و محال است و جنوں
(الحکم ۱۰؍اپریل ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۷)
صرف زبانی دعوٰی کرنے والوں کے دِلوں میں ، جنہیںنہ قوّتِ فیصلہ نہ تابِ مقابلہ، مرض ہے۔ اﷲ اس مرض کو بڑھائے گا اِس طرح پر کہ جُوں جُوں اسلام کے مسئلے برھیں گے انکے دِل میں شبہات بڑھیں گے یا عملی طور پر انکار کریں گے۔ پھر یہ چھوٹی سی جماعت کے مقابل میں رَگیدی ہیں تو بڑوں کے سامنے کیا کچھ بُزلی نہ دکھائیں گے یا تھوڑے مسائل کا فیصلہ نہیں کر سکتے تو بہت سے مسائل کا فیصلہ کیا کریں گے۔ چونکہ انہوں نے جُھوٹا دعوٰی ایمان کا کیا اِس لئے ان کو دُکھ دینے والا عذاب ہے۔ (الفضل ۶؍ اگست ۱۹۱۳ٔء صفحہ ۱۵)
جب ہمارے نبی کریم اور رسول رؤف رحیم صلّی اﷲ علیہ وسلم مکّہ معظمہ سے مدینہ طیّبہ میں رنا افروز ہوئے تو چند منافق، دِل کے کمزور ، جن میں نہ قوّتِ فیصلہ تھی اور نہ تابِ مقابلہ، آپؐ کے لحضور حاضر ہوئے اور بظاہر مسلمان ہو گئے اور آکر بڑے بڑے فسادوں کی جَڑ بن گئے۔ وہ مسلمانوں میں آ کر مسلمان بن جاتے اور مخالفانِ اِسلام کے پاس پہنچتے تو مسلمانوں کی بَدیاں کرتے… اِس شریر گروہ کے متعلق یہ آیت ہے … اِس کا مطلب یہ ہے کہ سرِدست جماعتِ اسلام تعداد میں بہت ہی قلیل اور تھوڑی سی ہے اور مسائلِ اسلام بھی جو ان کے پیش ہوئے ہیں بہت کم ہیں۔ یہ بَدبخت منافق اگر اس قلیل جماعت کے سامنے تار مقابلہ نہیں لا سکتے اور اپنے دِل کی مرض سے بُزدل ہو کر مسلمانوں کی ہاں میں بظاہر ہاں ملاتے ہیں تو یاد رکھیں ان کا یہ کمزوری کا مَرض اَور بڑھے گا کیونکہ یہ جماعتِ اسلام روزافزوں ترقّی کرے گی اور یہ مُوذی بَدمعاش اَور بھی کمزور ہوں گے چنانچہ ایسا ہی ہؤا ۔
نیز اسلام کے مسائل روز بروز ترقّی کریں گے۔ جب یہ لوگ تھوڑے سے مسائل کا فیصلہ نہیں کر سکتے تو اُن مسائلِ کثیرہ کا کیا فیصلہ کر سکیں گے جو یَوماً فَیَوماً روزافزوں ہیں۔ بہرحال ان کا مرض اﷲ تعالیٰ بڑھائے گا اور اسلام کو ان کے مقابلہ میں ترقّی دے گا۔
(نور الدین صفحہ ۸،۹)
حضرت عبداﷲ بن عباسؓ اور عبداﷲ بن مسعودؓ سے اور بہت سے صحابہ کرامؓ سے بھی مروی ہے کہ مرض سے مُراد شک ہے یعنی ان کے دلوں میں شک کا مرض تھا یا بُزدلی اور صادق کاذب اور حق و باطل میں امتیاز کرنے والی قوّت کی کمی کی بیماری تھی یا حَسد کی بیماری تھی جس کی وجہ سے آنحضرت صلّی اﷲ علیہ وسلم کے اقبال اور رفعتِ شان کو دیکھ دیک کر حَسد اور غم کی آگ سے جَل جاتے تھے اورفزادھم اﷲ مرضا دعااور بشارت ہے۔ پس اِس صورت میں ترجمہ یہ ہو گا ( پس اﷲ ان کی بیماری کو زیادہ کرے) پس وہ بُزدل ہو گئے قلیل جماعت سے حالانکہ وہ روزافزوں ترقّی کر رہی ہے اور تھوڑے سے مسائل کو امتیاز نہ کر سکے حالانکہ وہ زائد ہو رہے ہیں۔ (رسالہ ’’ تعلیم الاسلام ‘‘ قادیان ماہ جنوری ۱۹۰۷ء)
بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَ ۔باء بمعنے سبب کے ہے اور ما مصدریہ ہے(جو کہ اپنے ما بعد کے فعل کو بمعنے مصدر بنا دیتا ہے)اورکاؔنَ کا مصدر کونؔہے اور یہ لُغتِ عرب میں مُستعمل ہے اورکاؔن دوام و استمرار کا فائدہ دیتا ہے جیسا کہ خداوندِ کریم نے فرمایا ہے کَانَ اﷲُ عَلِیْمًا (اﷲ ہمیشہ جاننے والا ہے)
انسان کو جُھوٹ سے بہت ہی بچنا چاہیئے۔ دیکھو کہ نفاق جیسے گندے گناہ اور مر کا سبب بھی یہی جُھوٹ ہے۔ پھر نفاق بھی ایسا کہ جس کی نسبت فرمایا ہیفَھُمْ لَایَرْجِعُوْنَ (پس وہ رجوع نہ کریں گے) اورجہاں پر آنحضرت صلّی اﷲ علیہ وسلم نے نفاق کے علامات بیان فرمائے ہیں وہاں پر فرمایا ہے کہ منافق کے پاس جب امانت رکھو تو خیانت کرے گا اورجب جھگڑتا ہے تو گالی گلوچ دیتا ہے اور جب وعدہ کرتا ہے تو خلاف کرتا ہے۔ اور جب بات کرتا ہیت تو جُھوٹ بولتا ہے اور قُرآن مجید میں جُسوٹ بولنے والوں پر *** آئی ہے اور آنحضرتؓ سے جب دریافت کیا گیا تو فرمایا۔ نہیں۔ الغرض کہ جُھوٹ بہت بُرا مرض ہے مومن کو اس سے ہمیشہ بہت ہی بچنا چاہیئے۔ (رسالہ ’’ تعلیم الاسلام‘‘ ماہ فروری ۱۹۰۷ء)



اِذَاظرفِ زمان ہے۔
یہ عطف ہے مَنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ الخ پر۔ پس اوّل میں تو کمالِ ایمان کا اِدّعاہے ۔ گویا وہ کہتے ہیں کہ ہم کامل ایمان اور کامل اصلاح والے ہیں اور اِس زمین سے مراد مدینہ منّورہ کی زمین ہے۔ اور جن کو کہا جاتا ہے یا کہا جائے وہ تو منافق ہی ہیں۔ ہاں کہنے والوں کا یقینی پتہ نہیں لگتا کہ وہ کون ہیں۔ آیا اہلِ اسلام ان کو یہ کہتے تھے کہ مدینہ کی سر زمین میں فساد نہ کرو یا کہ کفّار ان کو یہ کہتے تھے۔ میرا خیال ہے کہ کہنے والے کفّار ہیں اور ان کے نزدیک منافق لوگ یہ فساد کرتے تھے کہ اہلِ ایمان کے پاس جاتے اور ان سے باتیں چلیتیں کرتے ہیں تو ان کے اس ملاپ کو فساد قرار دے کر اس سے منع کرتے ہیں کہ تم ان سے کیوں ملتے ہو اور جب ان کی اس ممانعت سے وہ باز نہ آتے تو پھر وہ کہتے کہ کیا ہم بھی ان نادانوں کی طرح ایمان لائیں چنانچہ انکا یہ سوال و جواب بھی اس کے بعد متّصل بدیں الفاظ خداوندِ علیم نے بیان فرمایا ہے کہا ور جب ان کو کہا جائے کہ تم ایمان لاؤ جیسا کہ وہ لوگ ایمان لائے ہیں تو کہیں گے کیا ہم ان کی مانند ایمان لائیں جو نادان ہیں)۔ (رسالہ ’’ تعلیم الاسلام‘‘ قادیان ماہ فروری ۱۹۰۷ء)
جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں نفاق سے فساد نہ پھیلاؤ تو کہتے ہیں ہم تو طرفین میں اِصلاح کرنے والے ہیں۔ سُنو! بے شک یہی لوگ مُفسد ہیں مگر وہ سمجھتے نہیں۔
(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ فروری ۱۹۰۷ء) جب واعظ وعظ کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ جو کام تم کرتے ہو اس کا نتیجہ خطرناک ہے۔ تم دُنیا میں فساد نہ کرو تو وہ کہتے ہیں تو بہ! ہم فسادی ہیں؟ ہم تو بامسلماں اﷲ اﷲ بابرہمن رام رام کے اصل پر چل سب کے ساتھ اپنا تعلق رکھتے ہیں اور بڑی سنوار والے ہیں۔ اﷲ فرماتا ہےکہ یہی بڑے مُفسد لوگ ہیں کہ دعوے زبان سے کچھ ہیں ہاتھ سے کچھ کرتے ہیں۔ ایک نماز ایسی چیز ہے کہ کلمہ شہادت کے بعد کوئی عمل نماز کے برابر نہیں۔ حضرت نبی کریمؐ نے فرمایا میرا جی چاہتا ہے کہ جب تکبیر ہو جائے تو مَیں دیکھوں کہ کون کون جماعت میں نہیں آیا اور ان کے گھر جَلا دوں ۔ مگر باوجود اس کے کئی لوگ جو نماز باجماعت نہیں پڑھتے تم ان میں سے نہ بنو۔ منافق اصل میں بڑا مُفسد ہوتا ہے اس میں شعور نہیں ہوتا۔ خدا تمہیں سمجھ دے جو مَیں نے کہا ہے اسے سمجھو۔ (الفضل ۶؍اگست ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۵)



ا
ماؔ مصدر یہ ہے جو کہ اپنے مابعد کے فعل کو بمعنے مصدر بنا دیتی ہے لہٰذا اٰمَنَ جو اسکے بعد آیا ہے اس کے معنے ایمان لانے کے ہیں نہ یہ کہ وہ ایمان لائے۔
ال جِنس کے لئے ہے یعنی جنس انسان اور کبھی اس سے معتبر افراد مُراد ہوتے ہیں تو اِس لحاظ سے یہاں پر کامل انسان مراد ہوں گے۔
سَفِیْہٌ کہتے ہیں ضعیف العقل، کذّاب، جَلدباز، بڑے ظالم، مخالفِ حق، ضعیف الرّائے، اَنجان کو ۔ اِسی وجہ سے بچّوں اور عورتوں کو سفھاء کہا گیا ہے جیسا کہ اِس آیتِ کریمہ میں ہے ( النّساء:۶) ( نہ دوضعیف العقلوں کو اپنے مال) یعنی بچّوں اور عورتوں کو ۔
اٰمَنَ النَّاسُ :کمال ایمان لانا، نامناسب کے ترک کرنے اور مناسب کے کرنے کے ساتھ ہوتا ہے۔
اَنُؤْمِنُ میںجو اسفہام کا ہمزہ ہے یعنی دریافت کرنے کا۔ یہ یہاں پر انکار کے لئے ہے۔ پس ’’ کیا ہم ایمان لائیں‘‘ کا مطلب یہ ٹھہرا کہ ہم سے ایسی بیوقوفانہ حرکت کبھی نہیں ہو سکتی۔ یعنی ہم ایسا ایمان نہ لائیں گے۔ اور ان دونوں کیلانے سے مطلب یہ بنا کہ گویا منافقوں کو کہا گیا کہ ایسا کامل ایمان لے آؤ جیسا کہ وہ کامل لوگ لائے ہیں۔ ان کے فساد کے وقت تو ان کی نسبت لَایَشْعُرُوْنَ فرمایا ہے اور ایمان کے بیان میںلَا یَعْلَمُوْنَ فرمایا ہے اِس لئے کہ فساد ایک ظاہری اور محسوس امر ہے لہٰذا اِس میں لَایَشْعُرُوْن فرمایا جو کہ حواسِ ظاہرہ کے علم کو کہتے ہیں اور ایمان کے بہت کچھ لوازم اور آثار اگرچہ محسوس بحواسِ ظاہرہ ہیں لیکن چونکہ نفسِ ایمان امورِ مخفیہ سے ہے اور حواسِ باطنہ سے تعلق رکھتا ہے لہٰذا ایمان کے بیان میںلَا یَعْلَمُوْن فرمایاہے جو کہ باطنی علوم پر بولا جاتا ہے۔ اور یہ بھی فرمایا کہ جس طرح یہاں پر کَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ فرمایا ہے اس طر ح کے فساد کے متعلق کَمَا کو ذکر نہیں فرمایا اِس لئے ایمان میں تو ان کو کہا گیا ہے کہ فلاں کی مانند ایمان لاؤ اور اس کی مثل ہو سکتی تھی لہٰذا یہاں پر کَمَا لایا گیا۔ اور فساد میں ان کے واقعی فساد کا بیان ہے اور چونکہ منافقوں کا فساد بے مثل تھا اور اس کے بے مثل ہونے کا بیان کرنا مقصود تھا لہٰذا فساد کے بیان میں کَمَا کو ذکر نہیں کیا۔
(رسالہ’’ تعلیم الاسلام‘‘ قادیان فروری ۱۹۰۷ء)
جب انہیں کہا جائے کہ لایمان لاؤ جیسے کہ عام لوگ ایمان لائے تو کہتے ہیں کیا ہم ایمان لائیں جیسے یہ کم عقل لوگ ایمان لا رہے ہیں۔ سُنو! یہی بے عقل ہیں لیکن یہ علم انہیں کہاں کہ اپنی بے عقلی کو سمجھیں… جب وہ ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے، اور جب اپنے سرداروں کے پاس تنہا ہوتے ہیں تو کہتے ہں ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم ت انہیں خفیف بنانے والے ہیں۔ ھُذوا کے معنے ہیں کسی کو خفیف بنانا اور یہ ٹھٹھے کالازمہ ہے۔ اﷲ انہیں ذلیل کرے گا اور ان کو ڈھیل دیتا ہے اور الہٰی حدبندیوں سے گزر کر اندھے ہو رہے ہیں اﷲ یستھذی بھمکالمبا جواب دینے کی ضرورت نہیں۔ چونکہ اِس مُلک کے لوگ عربی سے نابلد ہیں اِس لئے انہیں یہ سمجھانا کہ مشاکلت کے لئے ہے فضول ہے سیدھا جواب یہی ہے جو ہم نے معنوں میں ظاہر کیا۔ یہی لوگ ہیں کہ جنہوں نے ضلالت کو ہدایت کے بدلے خری لیا۔ تو ان کی تجارت نے نفع نہ دیا اور وہ ہدایت یاب نہ ہوئے۔
اشْتَرَوُا الضَّلٰلَۃَ بِالْھُدٰی پراعتراض ہے کہ جب ان کے پاس ہدایت نہیں تو یہ خرید و فروخت کیسی؟
اِس کا جواب ایک تو یہ ہے کہ ان کو ہدایت لینی چاہیئے تھی پر انہوں نے نہ لی ۔ دومؔ یہ کہ انسان کی فطرت میں ہدایت کا مادہ ہے مگر انہوں نے اس کے بدلے گمراہی کو لیا۔
(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍فروری ۱۹۰۹ء)
اﷲ تعالیٰ نے اِس (سورہ فاتحہ۔ ناقل) میں تین فرقوں کا ذکر کیا ہے کاایک ۲۔ایکمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ۳۔ایک۔میرا اعتقاد ہے کہ تمام قرآن سورۃ الحمد کی تفسیر ہے اور اس میں ایک خاص ترتیب سے انہی تین گروہوں کا ذکر ہے چنانچہ سورہ بقر کوہی لو کہ میںمُنْعَمْ عَلَیْھِمْ کا ذکر ہے میںمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمکا اور میں ضالّین کا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ ابتداء کا حال ہے اب جہاں قرآن ختم ہوتا ہے وہاں سورہ نصر میں مُنْعَمْ عَلَیْھِمْ کا بیان ہے اور میں مَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ کا اور ۔۔میں ضالون کی تردید ہے اِس واسطے ہم کو چاہیئے کو جب فکر کریں اور اپنا آپ محاسبہ کریں اپنے اعمال کو دیکھیں کہ ہم کِس فریق کے کام کر رہے ہیں آیامُنْعَمْ عَلَیْھِمکے یا مَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ کے یاضَالِّیْن کے…
تم اِن تین گروہوں کے اَوصاف پر غور کرو مُنْعَمْ عَلَیْھِمگروہ کے لئے سب سے پہلی صِفت بیان کرتا ہوں کہ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ ایمان بالغیب ایسا ضروری ہے کہ دُنیا کا کوئی کام اِس کے بغیر نہیں ہوتا۔ پہاڑے، مساحت، اقلیدس، طبعیات سب کے لئے فرضی بنیاد پر کام ہوتا ہے یہاں تک کہ پولیس بھی ایک بدمعاش کے کہے پر بعض مکانوں کی تلاش شروع کر دیتی ہے تو کیا وجہ سے کہ انبیاء کے کہنے پر کوئی کام نہ کیا جاوے جن کا تجربہ بارہا کئی جماعتیں کر چکی ہیں۔ پھر فرمایا یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ دعاؤں میں،نمازوں میں قائم رہتے ہیں، وہ مالوں کو خرچ کرتے ہیں بِمَا اُنْزِلَ الَیْکَ اور مِنْ قَْبْلِکَ اور اٰخرۃ پر ان کا ایمان ہوتا ہے۔
پھر دوسرے گروہ کی صفات بیان کیں کہ ان کے لئے تذکیر و عدم تذکیر مساوات کا رنگ رکھتی ہے۔ وہ سُنتے ہوئے نہیں سُنتے۔ ان میں عاقبت اندیشی نہیں ہوتی صُمٌّ بُکْمٌ ہوتے ہیں پھر انہی کی نسبت اخر قرآن میں فرمایا کہ ایسے لوگوں کو مَاکَسَبَ یعنی جتھا اور مال دونوں پر بڑا گھمنڈ ہوتا ہے مگر خدا تعالیٰ دونوں کو غارت کر دیتا ہے۔ پھر تیسرے گروہ ضَالُّوْن کا ذکر فرمایا کہ ان کو صفاتِ الہٰی کا صحیح علم نہیں ہوتا اور ان میں نہ تو قوّتِ فیصلہ ہوتی ہے نہ تابِ مقابلہ ۔قرآن شریف کے ابتداء کو آخر سے ایک نسبت ہے۔ پہلے مُفْلِحُوْنَ فرمایا ہے تو اِذَا جَآئَ نَصْرَ اﷲِ وَ الْفَتْحُ میں اس کی تفسیر کر دی اور مَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ کی تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَھَبٍ میں اور ضَآلِّیْن کا رَدّ قُلْ ھُوَ اﷲُ اَحَدٌ میں کر دیا ہے۔ غرض عجیب ترتیب سے اِن تینوں گروہوں کا ذکر کیا ہے۔ اِن تینوں کی صفات کا ذکر کر کے ، میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں تو سوچو مُنْعَمْ عَلَیْھِمْ میں سے ہو یامَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ میں… یا ان لوگوں میں جن کو ضَآلِّیْن کہا گیا ہے۔
(بدر ۲۱؍اکتوبر ۱۹۰۹ء صفحہ ۱۰)
لَقُوْا، لَقِیَ کی جمع ہے لِقَاء سے، جس کے معنے قریب کے ہیں۔ پس لَقِیَ کے معنے ہوئے قرب نزدیک اور لقوا کے معنے ہوئے وہ نزدیک ہوئے۔ جیسا کہ قرآن مجید کے ایک اَور مقام پر آیا ہے کہ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعٰنِ ( آل عمران: ۱۶۷) ( جس دِن قریب قریب ہوئیں دو جماعتیں) اور اِس کے معنے ملنے کے بھی ہوتے ہیں اور وہ بھی قریب ہی ہے۔
خَلَوْا، خَلٰی کی جمع ہے جس کے معنے ہیں مَضٰی گیا جیسا کہا کرتے ہیں اَلْقُرُوْنَ الْخَالِیَہ گذشتہ صدیاں۔ اور جب خَلَا کے بعد باء ؔ آتا ہے تو اس کے معنے اکیلا ہونے کے ہوتے ہیں جیسا کہ خَلَوْتُ بِہٖ ( مَیں اس کے ساتھ اکیلا ہؤا)۔
شَیْطٰن کے لفظ میں اختلاف ہے کہ یہ شَطَنَ سے ، یاشَیْط سے، پس اگر اوّل سے ہے تو اس کے معنے ہوئے بہت دُور ہونے والا کیونکہ شَطَنَ بمعنے بعد (دُور ہؤا) کے آیا ہے اور اگر دوم سے ہے تب اِس کے معنے ہوئے ، بہت ہلاک ہونے والا اور بہت بطلان والا۔ کیونکہ شَیْط ہلاکت اور بطلان کو کہتے ہیں اور ہر ایک سرکش چیز کو شیطان کہتے ہیں اور یہاں پر جو شَیٰطِیْنِھِمْ آیا ہے اس سے مُراد ان کے سردار اور بڑے ہیں۔ حضرت ابنِ عباسؓ اور ابنِ مسعودؓ اور بہت سے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے فرمایا ہے کہ اِس سے مُراد وہ لوگ ہیں جو کہ کُفر میں ان کے سردار تھے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے کہ وہ کہیں گے کہ (الاحزاب : ۶۸) (بے شک ہم نے اپنے سرداروں اور بزرگوں کی اطاعت کی تو انہوں نے ہم کو اس راستہ سے بہکا دیا) اور انما اس خبر کے لئے آتا ہے جس سے مخاطب جاہل نہ ہو اور نہ اس کی صِحت سے انکار کرتا ہو۔ دلائل الاعجاز میں عبدالقاھر جرجانی رحمتہ اﷲ علیہ نے کہا ہے استھذاء حقیر کرنے اور جاننے اور اہانت کو کہتے ہیں اور یہ لفظ ھذء سے بنایا ہؤا ہے اور ھذء کہتے ہیں ہلکاپَن اور ہلنے ہلانے کو۔ نقۃ تھذأ (اُونٹنی تیز اور ہلکی چلتی ہے)
(رسالہ ’’ تعلیم الاسلام ‘‘ قادیان ماہ فروری ۱۹۰۷ء)
(سورۃ البقرہ) یہ آتییں سورہ بقرہ کے دوسرے رکوع کی ہیں۔ الحمد شریف میں خدا تعالیٰ نے تین راہیں بتائی ہیں ایک کی راہ۔دوسرے مَغْضُوْب۔ تیسرے اَلضَّآلِّیْن کی راہ۔
کے معنے خود قرآن شریف نے بتائے ہیں کہ وہ انبیاء، صدقاء، شہداء اور صالحین کی جماعت ہے۔
انبیاء وہ رفیع الدّرجات اِنسان ہوتے ہیں جو خدا سے خبریں پاتے ہیں اور مخلوق کو پہنچاتے ہیں۔ پھر وہ راستباز ہیں جو انبیاء کی تصدیق کرتے ہیں اور پھر وہ لوگ ہیں جن کے لئے وہ باتیں گویا مشاہدہ میں آئی ہوئی ہیں اور پھر عام صالحین ۔
اِس گر وہ کی تفسیر خدا تعالیٰ نے آپ ہی سُورہ بقرہ کے شروع میں بیان کر دی کہ ہدایت کی راہ کیا ہے وہ یہ کہ اﷲ پر ایمان لاوے، جزا و سزا پر ایمان لاوے۔ اور پھر اﷲ ہی کی نیازمندی کے لئے تعظِیم لاِمراﷲ کے واسطے نمازوں کو درست رکھنا اور شفقت علیٰ خلقِ اﷲ کے واسطے جو کچھ اﷲ تعالیٰ نے اُن کو دیا ہے اس میں سے خرچ کریں ۔
پھر اِس بات اپر ایمان لاویں کہ ہمیشہ خدا تعالیٰ سے تسلّی اور تعلیم پا کر دُنیا کی اصلاح کے لئے معلّم اور مزکّی آئے ہیں۔ یاد رکھو صرف علِم تسلّی وبخش نہیں ہو سکتا جب تک معلّم نہ ہو۔ بائبل میں نصیحتوں کا انبار موجود ہے اور عیسائی بھی بَغل میں کتاب طئے پھرتے ہیں۔ پھر اگر ایمان صِرف کتابوں سے مِل جاتا تو کیا کمی تھی مگر نہیں ایسا نہیں۔ خدا تعالیٰ ایسے لوگوں کو بھیجتا ہے جو (الجمعۃ: ۳) کے مصداق ہوتے ہیں۔
ان مزکّی اور مطہّر لوگوں کی توجّہ ، انفاس اور رُوح میں ایک برکت اور جذب ہوتا ہے جو ان کے ساتھ تعلق پیدا کرنے سے انسان کے اندر تزکیہ کا کام شروع کرتا ہے۔ یاد رکھو اِنسان خدا کے حضور نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ کوئی اُس پر خدا کی آیتیں تلاوت کرنے والا اور پھر مزکّی کرنے والا اور پھر علِم اور عمل کی قوّت دینے والا نہ ہو۔ تلاوت تب مفید ہو سکتی ہے کہ علم ہو اور علِم تب مفید ہو سکتا ہے جب عمل ہو اور عمل تزکیہ سے پیدا ہوتا ہے اور علِم معلّم سے ملتا ہے۔
بہر حال مومنوں کا ذکر ہے کہ ان کو ایمان بالغیب کی، حَشر و نشر، صراط جنّت و نار سب داخل ہیں۔ یہ اس کا عقیدہ اوّل درست ہو جائے تو پھر نماز سے امرِ الہٰی کی تعظیم پَیدا ہوتی ہے اور خدا کے دئے ہوئے میں سے خرچ کرنے سے شفقت علیٰ خلقِ اﷲ ۔ پھر برہموؤں کی طرح نہ ہو جاوے جو الہام کی ضرورت محسوس نہیں کرتے بلکہ وہ اِس بات پر ایمان لائے کہ خدا تعالیٰ نے نبی کریم صلّی اﷲ علیہ وسلم پر اپنا کلام اُتارا اور آپؐ سے پہلے بھی اور آپؐ کے بعد بھی مکالماتِ الہٰیّہ کا سِلسلہ بند نہیں ہؤا۔ یہ تو منعم علیہ گروہ کا ذکر ہے۔
اِس کے بعد وہ لوگ مغضوب ہیں جو خدا تعالیٰ کے ماموروں کے وجود اور عدم وجود کو برابر سمجھ لیتے ہیں اور اُن کے انذار اور عدم انذار کو مساوی جان لیتے ہیں اور پرواہ نہیں کرتے اور اپنے ہی علِم و دانش پرخوش ہو جاتے ہیں وہ خدا کے غضب کے نیچے آ جاتے ہیں۔ یہی حال یہود کا ہؤا۔
پھر تیسرا گروہ گمراہوں کا ہے جن کا ذکر اِن آیات میں ہے جو مَیں نے پڑھی ہیں۔ ان کے کاموں میں دجل اور فریب ہوتا ہے۔وہ اپنے آپ کو کلامِ الہٰی کا خادم کہتے ہیں مگر مَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ بڑی بڑی تجارتیں کرتے ہیں مگر ہدایت کے بدلے تباہی خریدتے ہیں اور کوئی عمدہ فائدہ ان کی تجارت سے نہ ہؤا۔
میرے دِل میں بارہا یہ خیال آیا ہے کہ لایک تِنکے پر بھی شئے کا اطلاق ہوتا ہے اور وہی شئے کا لفظ وسیع ہو کر خدا پر بھی بولا جاتا ہے۔
یاد رکھو نفاق دو قِسم کا ہوتا ہے ایک وہ کہ دِل میں کوئی صداقت نہیں ہوتی۔ وہ اعتقادی منافق ہوتا ہے۔ اس کا اعلیٰ سے اعلیٰ نمونہ عیسائیوں کا مذہب ہے۔ انجیل کی حالت کو دیکھو کہ اس کی اشاعت پر کِس قدر سعیٔ بلیغ کی جاتی ہے مگر یہ پُوچھوکہ اِس کتاب کے جملہ جملہ پر اعتقاد ہے؟ تو حقیقت معلوم ہو جائے گی۔ اِسی طرح پر مَیں دیکھتا ہوں کہ خدا کا خوف اُٹھ گیا ہے۔ وہ دعوٰی اور معاہ کہ دین کو دُنیا پر مقدّم رکھوں گا قابلِ غور ہو گیا ہے۔ اب اپنے حرکات و سکنات ، رفتار و گفتار پر نظر کرو کہ اِس عہد کی رعایت کہاں تک کی جاتی ہے۔ پس ہر وقت اپنا محاسبہ کرتے رہو ایسا نہ ہو کہ ماھم بمؤمنین کے نیچے ا جاؤ۔ منافق کی خدا نے ایک عجیب مثال بیان کی ہے کہ ایک شخص نے آگ جلائی مگر وہ روشنی جو آگ سے حاصل کرنی چاہیئے تھی وہ جاتی رہی اور ظلمت رہ گئی۔ رات کو جنگل کے رہنے والے درندوں سے بچنے کے واسطے آگ جلایا کرتے ہیں۔ لیکن جب وہ آگ بُجھ گئی تو پھر کئی قِسم کے خطرات کا اندیشہ ہے۔ اِسی طرح پر منافق اپنے نفاق میں ترقّی کرتے کرتے یہانتک پہنچ جاتا ہے اور اس کا دل ایسا ہو جاتا ہے کہ وہ حق کا گویا شنوا اور حق کا بِینا نہیں رہتا ۔ایک شخص اگر راہ میں جاتا ہو اور سامنے ہلاکت کا کوئی سامان ہو وہ دیکھ کر بچ سکتا یا کِسی کے کہنے سے بچ سکتا یا خود کسی کو مدد کے لئے بُلا کر بج سکتا ہے مگر جس کی زبان، آنکھ، کان کچھ نہ ہو اس کا بچنا محال ہے۔ یا جوج ما جوج بھی آگ سے بڑے بڑے کام لے رہے ہیں مگر انجام دہی نظر آتا ہے۔ مومن کا کام ہے کہ جب دعوٰی کر لے تو کر کے دکھاوے کہ عملی قوّت کِس قدر رکھتا ہے ۔ عمل کے بُدوں دُنیا کا فاتہ ہونا محال ہے۔
یاد رکھو ہر ایک عظیم الشّان بات آسمان سے ہی آتی ہے۔ یہ امر خدا کی سُنّت اور خدا کے قانون میں داخل ہے کہ امساکِ باراں کے بعد مینہ برستا ہے۔ سخت تاریکی کے بعد روشنی آتی ہے فیج اَعوج اور سخت کمزوریوں کے بعد ایک روشنی ضروری ہے وہ شیطانی منصوبوں سے نہیں مل سکتی بُہتوں کے لے اس میں ظلمت اور دُکھ ہو اور ایک نمک کا تاجر جو اس میں جا رہا ہے اسے پسند نہ کرے۔
بہت سے لوگ روشنی سے فائدہ اُٹھا لیتے ہیں اور اکثر ہوتے ہیں جو اپنے کانوں میں اُنگلیاں دے لیتے ہیں مگر اَحمقوں کو اِتنی خبر نہیں ہوتی کہ خدائی طاقت اپنا کام کر چکی ہوتی ہے۔ غرص یہ ہے کہ علِم حاصل کرو اور پھر عمل کرو۔ علم کے لئے معلّم کی ضرورت ہے۔ یہ دعوٰی کرنا کہ ہمارے پاس علم القرآن ہے صحیح نہیں ہے۔ ایک نوجوان نے ایسا دعوٰی کیا۔ ایک آیت کے معنے اُس سے پُوچھے تو اَب تک نہیں بتا سکا ۔ ہمارے ہادیٔ کامل بنی کریمؐ کو تو یہ تعلیم ہوتی ہے قُلْ رَبِْ زِدْنِیْ عِلْمًا(طٰہٰ:۱۱۹) تم بھی دعا کرو۔
یاد رکھو کہ اگر اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ میں سے ہو تو اَور ترقّی کرو اور کِسی وجود کی جو خدا کی طرف سے آیا ہے وجود اور عدم وجود کو برابر نہ سمجھو۔ ظاہر و باطن مختلف نہ ہو۔ دُنیا کو دین پر مقدّم نہ کرو۔ بعض اَوقات دُنیاداروں کو دَولت ، عزّت اَندھا کر دیتی ہے۔ خدا کی برسات لگ گئی ہے وہ اَب سچّے پَودوں کو نشوونما دے گی ۔ خدا کی اِن ساری باتوں پر ایمان لا کر سچّے معاہدہ کو یاد رکھو ایسا نہ ہو کہ و اذا لقوا الذین امنوا قالوا امنا ہی کے مصداق رہ جاؤ۔ اِس کا اصل علاج استغفار ہے اور استغفار انسان کو ٹھوکروں سے بچانے والا ہے۔ (الحکم ۲۴؍نومبر ۱۹۰۱ء)
جس قدر انسانی فطرت اور اس کی کمزوریوں پر نظر کرو گے تو ایک بات فطرتی طور پر انسان کا اصل منشاء اور مقصد معلوم ہو گی وہ ہے حصولِ سُکھ۔ اس کے لئے وہ ہر قِسم کی کوششیں کرتا اور ٹکریں مارتا ہے لیکن مَیں تمہیں اس فطرتی خواہش کے پُورا کرنے کا ایک آسان اور مجرّب نسخہ بتاتا ہوں کوئی ہو جو چاہے اِس کو آزما کر دیکھ لے۔ مَیں دعوٰی سے کہتا ہوں کہ اِس میں ہرگز ہرگز کوئی خطا اور کمزوری نہ ہو گی اور مَیں یہ بھی دعوٰی سے کہتا ہوں کہ جس قدر کوششیں تم ناجائز طور پرسُکھ کے حاصل کرنے کے لئے کرتے ہو اس سے آدھی ہی اِس کے لئے کرو تو کامل طور پر سُکھ مِل سکتا ہے وہ نسخۂ راحت یہ کتابِ مجید ہے اور مَیں اِسی لئے اِس کو بہت عزیز رکھتا ہوں اور اِس وجہ سے کہ کامل مومن اس وقت تک انسان نہیں ہوتا جب تک اپنے بھائی کے لئے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے کرتا ہے۔مَیں اِس کتاب کا سُنانا بہت پسند کرتا ہوں۔ اِس کتابِ مجید کی یہ پہلی سورہ شریف ہے اور اس میں الحمد شریف کی گویا تفسیر ہے بلکہ یہ کہنا چاہیئے کہ الحمد شریف کی تفسیر میں سے پہلے سُورت ہے۔ الحمد شریف کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے اسماء ظاہری اﷲ، ربّ العٰلمین،الرحمٰن، مٰلک یَوم الدّین سے شروع فرمایا تھا اور اِس سورہ شریفہ کو اسماء باطنی سے شروع فرمایا یعنی الٓمٓ جس کے معنی ہیں اَنَا اﷲُ اَعْلَمُ۔ پھر الحمد شریف میں اﷲ تعالیٰ نے ایک کامل دعا تعلیم فرمائی تھی۔ ۔یعنی ہم کواَقرب راہ کی جو تیرے حضور پہنچنے کی ہے راہنمائی فرما۔ وہ راہ جو اُن لوگوں کی راہ ہے جن پر تیرا انعام ہؤا یعنی نبیوں ،صدّیقوں اور شہیدوں اور صالحوں کی راہ۔
سورۃ فاتحہ میں یہ دعا تعلیم ہوئی ہے لیکن اِس سورہ بقرہ میں اِس دعا کی قبولیّت کو دکھایا ہے اور اسی کا ذکر فرمایا جبکہ ارشادِ الہٰی پورا ہؤا
یہ وہ ہدایت نامہ ہے یعنی متّقی اور بامراد گروہ کا ہدایت نامہ۔ ہاں گروہ کی راہ یہی ہے۔ پھر منعم علیہ گروہ کے اعمال و افعال کا ذکر کیا ار ان کے ثمرات میں فرمایا۔ ان کے افعال و اعمال میں بتایا کہ وہ الغیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز کو قائم کرتے ہیں اور اﷲ کے دئے ہوئے میں سے خرچ کرتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ کی وحی اور کلام اور سلسلہ رسالت پر ایمان لاتے ہیں، جزا و سزا پر ایمان لاتے ہیں۔ یہ منعم علیہ گروہ کی راہ ہے۔
اب ہر ایک شخص کا جو قُرآن شریف پڑھتا ہے یا سُنتا ہے یہ فرض ہے کہ وہ اس رکوع کے آگے نہ چلے جب تک اپنے دِل میں یہ فیصلہ نہ کرے کہ مجھ میں یہ صفات یہ کمالات ہیں یا نہیں؟اگر ہیں تو وہ مبارک ہے اور اگر نہیں تو اسے فِکر کرنی چاہیئے اور اﷲ تعالیٰ سے رو رو کر دعائیں مانگنی چاہئیں کہ وہ ایمانِ صحیح عطا فرماوے۔ دراصل عقائدِ صحیحہ کو مشتمل ہے اور مسئلہ رسالت اور الہام و وحی کے متعلق ہے اور جزا و سزا کے متعلق ہے۔ پھر ان اعمال و افال کے ثمرات میں بتایا ہے۔
اگر انسان حقیقی کامیابی حاصل کرتا ہے اور بامراد ہو رہا ہے تو اسے خوش ہونا چاہیئے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے منعَم علیہ گروہ کے زُمرہ میں شامل ہے لیکن اگر نہیں تو پھر فکر کا مقام اور خوف کی جاہے۔
پس قرآن کریم کی تلاوت کی اصل غرض یہی ہے کہ انسان اس پر عمل کرے۔ منعَم علیہ گروہ کے ذِکر کے بعد بتایا کہ مغضوب علیھم کون لوگ ہیں ان کے کیا نشانات ہیں اور ان کا انجام کیا ہوتا ہے۔ ان کے عام نشانات میں سے بتایا کہ یب وہ گروہ ہے جو تیرے اِنذار اور عدمِ اِنذار کو برابر سمجھتا ہے اور چونکہ وہ وجود و عدمِ وجود کو برابر سمجھتے ہیں اِس لئے باوجود دیکھنے کے وہ نہیں دیکھتے اور باوجود سُننے کے نہیں سُن سکتے۔ دِل رکھتے ہیں پر نہیں سمجھ سکتے ایسے لوگوں کا انجام کیا ہوتا ہے عَذَابٌ اَلِیْمٌ۔
ؔ: بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ جو شخص آنکھ رکھتا ہے وہ کیوں انہیں دیکھتا، کان رکھتا ہے کیوں نہیں سُنتا۔ انہیں یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ نتیجہ ہے ایسے لوگوں کے ایک فعل کا۔ وہ فعل کیا ہے؟ انذار اور عدم انذار کو مساوی سمجھنا۔ اِس کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص انگریزی زبان کے بڑھنے یا نہ پڑھنے کو برابر سمجھے تو وہ اس کو کب سیکھ سکتا ہے اس صورت میں وہ اس زبان کی اگر کسی کتاب کو دیکھے تو بتاؤ اس دیکھنے سے اسے کیا فائدہ؟ اگر کسی دوسرے کو پذھتے ہوئے سُنے تو اس سُننے سے کیا حاصل۔ دیکھو وہ دیکھتا ہے اور پھر نہیں دیکھتا۔ سُنتا ہے اور پھر نہیں سُنتا ۔ اِسی طرح پر جو لوگ اﷲ تعالیٰ کے مامور و مُرسل کے انذار اور عدم انذار کو برابر سمجھتے ہیں تو وہ اس سے فائدہ کیونکر اُٹھا سکتے ہیں؟ کبھی نہیں۔ جب ایک چیز کی انسان ضرورت سمجھتا ہے تو اس کے لئے سعی اور مجاہدہ کرتا ہے اور پھر اژ مجاہدہ پر ثمرات مترتّب ہوتے ہیں لیکن اگر وہ ضرورت ہی نہیں سمجھتا تو اس کے قوی مجاہدہ کے لئے تحریک ہی پیا نہیں ہو گی۔ یہ بہت ہی خطرناک مرض ہے جو انسان رسولوں اور اﷲ تعالیٰ کے ماموروں اور اُس کی کتابوں کے وجود اور عدمِ وجود کو برابر سمجھ لے۔ اِس مرض کا انجام اچھا نہیں بلکہ یہ آخر کار تکذیب اور کُفر تک پہنچا کر عذابِ الیم کا موجب بنا دیتا ہے۔ پس تلاوت کرنے والے کو پھر اس مقام پر سوچنا چاہیئے کہ کیا خدا کے رسول و مامور کے اِنذار اور عدمِ انذار کے مساوات کی یہی صورت نہیں ہوتی جو آدمی زبان سے کہہ دے بلکہ اگر رسول کے فرمودہ کے موافق عمل نہ کرے تو یہی ایک قِسم کی اِنذار اور عدمِ اِنذار کی مساوات ہے۔ (الحکم ۳۰؍اپریل؍۱۰مئی ۱۹۰۴ء)
پھر الضّال کی تفسیر بیان فرمائی کہ یہ لوگ کون ہوتے ہیں۔ سورۃ فاتحہ میں جو دعا تعلیم کی تھی اس میں ضالّین کی راہ سے بچنے کی دعا تھی اور یہاں اُن لوگوں کے حالات بتائے کہ وہ کون ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا ظاہر کچھ اور باطن کچھ اَور ہوتا ہے۔ اِسی لئے فرمایایعنی یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی کو مُول لے لیا ہے پس ان کی تجارت ان کے لئے سُودمند تو نہ ہو گی اور وہ کب بامراد ہو سکتے تھے۔
ان لوگوں کی پہلی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ زبان سے تو ایمان باﷲ اور یَوم الآخر کی لاف و گزاف مارتے ہیں مگر خا تعالیٰ کا فیصلہ ان کے لحق میں یہ ہے مَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ اِس سے ایک حقیقت کا پتہ لگتا ہے کہ انسان اپنے مُنہ سے اپنے لئے خواہ کوئی نام تجویز کر لے اس نام کی کوئی حقیقت پَیدا نہیں ہو سکتی جب تک آسمان پر کوئی مبارک نام نہ ہو اور یہ امر اس وقت پَیدا ہوتا ہے جبکہ انسان اپنے ایمان کے موافق اعمال بنانے کی کوشِش کرے۔ ایمان جب تک اعمال کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا کوئی سُودمند نہیں ٹھہر سکتا۔ اور اگر بڑا ایمان رکھ کر انسان اعمال اس کے موافق بناے کی کوشِش نہ کرے تو اس سے مرضِ نفاق پَیدا ہوتا ہے جس کا اثر یہاں تک ہو جاتا ہے کہ نہ قوّتِ فیصلہ باقی رہتی ہے اور نہ تابِ مقابلہ۔ ان لوگوں کے دوسرے آثار اور علامات میں سے بیان کیا کہ وہ مُفسد علی ا لارض ہوتے ہیں اور جب ان کو کہا جاتا ہے کہ تم فساد نہ کرو تو وہ اپنے آپ کو مصلح بتاتے ہیں حالانکہ وہ بڑے بھاری مُفسد ہوتے ہیں۔
اِس طرح پر الضّال کی ایک تفسیر ختم کر دینے کے بعد پھر اِس سُورت میں فرمانبرداری کی راہوں کا ذکر کیا اور بتایا ہے کہ فرمانبرداری اختیار کرنا انسان کی اصل غرض اور مقصد ہے اور یہ بتایا ہے کہ حقیقی راحت اور سُکھ اﷲ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں ہے اور فرمانبرداری کے راہوں کے بیان کرنے میں قرآن کریم کا ذکر فرمایا جس سیے یہ مراد اور منشا ہے کہ قرآن شریف کو انا دستور العمل بناؤ اور اس کی ہدایتوں پر عمل کرو۔ پھر اِس بات کی دلیل پیش کی ہے کہ قرآن شریف خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور ایک زبردست تحدّی کی ہے کہ اگر کِسی کو اس کے مُنزل مِن اﷲہونے میں شک ہو تو وہ اس کی نظیر لاوے۔ پھر مُنعم علیہم قوم میں سے آدم علیہ السّلام ابوالبَشر کا ذکر کیا اور بتایا کہ راستبازوں کے ساتھ شریروں اور فساد کرنے والوں کی ہمیشہ سے جنگ ہوتی چلی آئی ہے اور آخر خدا کے برگزیدہ کامیاب ہو جاتے ہیں پسر مغضوب اور الضّال کا ذکر کیا ہے بالآخر ابوالملّتہ سیّدنا ابراہیم علیہ الصّلوٰۃ و السّلام کا ذکر فرمایا اور اس کی فرمانبرداری کو بطور نمونہ پیش کیا کہ اس کی راہ اختیار کر کے انسان برگزیدہ ہو سکتا ہے اور خدا تعالیٰ کے فیوض و برکات کو حاصل کر لیتا ہے۔ پھر نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ کی تاکید اور اِسی سورہ شریف میں عبادت کے طریق سکھائے ہیں پھر آخر میں یہ دعا سکھائی ہے۔
وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ
یہ نہایت مختصر سا خلاصہ ہے سورہ فاتحہ کا جو اِس سورہ بقرہ میں موجود ہے۔ اِس کی تفصیل اور تفسیر کے لئے تو بہت وقت چاہیئے مگر مَیں نہایت مختصر طریق پر صرف پہلے ہی رکوع پر کچھ سُناؤں گا چنانچہ ابتداء میں مَولیٰ کریم فرماتا ہے الٓمٓ۔ مَیں اﷲ بہت جاننے والا ہوں اس کی جانب سے یہ ہدایت نامہ ملتا ہے جس پر چل کر انسان روحانی راحتیں حاصل کر سکتا ہے۔ مَیں نے پہلے کہا ہے کہ قرآن شریف کا نام اﷲ تعالیٰ نے شفا رکھا ہے اور اس کے ماننے والوں کا نام متّقی رکھا ہے اور پھر فرمایا ہے وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَ لِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ(المنٰفقون:۹) یعنی جو لوگ ماننے والے ہوتے ہیں وہ معزّز ہوتے ہیں۔ ماننے والے سے مراد یہ ہے جو اس پر عمل در آمد کرتے ہیں۔ یہ خیالی اور فرضی بات نہیں ہے تاریخ اور واقعات صحیحہ اِس امر کی شہادت دیتے ہیں کہ جس قوم نے قرآن کو اپنا دستورالعمل بنایا وہ دُنیا میں معزّز و مقَتدر بنائی گئی۔ کون ہے جو اِس بات سے ناواقف ہے کہ عربوں کی قوم تاریخ ِدُنیا میں اپنا کوئی مقام و مرتبہ رکھتی تھی وہ بالکل دُنیا سے الگ تھلگ قوم تھی لیکن جب وہ قرآن کی حکومت کے نیچے آئی وہ کُل دُنیا کی فاتح کہلائی۔ علوم کے دروازے ان پر کھولے گئے۔ پھر ایسی زبردست شہادت کے ہوتے ہوئے اس صداقت سے انکار کرنا سراسر غلطی ہے۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ آجکل مسلمانوں کے تنزّل و ادبار کے اسباب پپر بڑی بحثیں ہوتی ہیں اور وہ لوگ جو قوم کے ریفارمر یا لیڈر کہلاتے ہیں اِس مضمون پر بڑی طبع آزمائیاں کرتے ہیں، لیکچر دیتے ہیں، آرٹیکل لکھتے ہیں مگر مجھے افسوس ہے کہ وہ اس نکتہ سے دُور ہیں ان کے نزدیک مسلمانوں کے ادبار کا باعث یورپ کے علوم کا حاصل نہ کرنا ہے اور ترقی کا ذریعہ انہیں علوم کا حاصل کرنا ہو سکتا ہے حالانکہ قرآن شریف یہ کہتا ہے کہ قرآن پر ایمان لانے والے اور عمل درآمد کرنے والے معزّز ہو سکتے ہیں بلکہ میرا تو یہ ایمان ہے کہ جب انسان کامل طور پر قرآن کی حکومت کے نیچے ا جاتا ہے تو وہ حکومت اس کو خود حکمران بنا دیتی ہے اور دوروں پر حکومت کرنے کی قابلیّت عطا کرتی ہے جیسا کہ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ سے پایا جاتا ہے۔ غرض اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں اﷲ جو بہت جاننے والا ہوں یہ ہدایت دیتا ہوں جس میں کوئی ہلاکت کی راہ نہیں اور نکتہ گیری کا کوئی موقع نہیں ہے ہاں یہ ضروری ہے کہ قرآن سے فائدہ اُٹھانے والا انسان تقوٰی شعار ہو، متّقی ہو۔
ابتداء میں اﷲ تعالیٰ نے قرآن شریف کو اُن لوگوں کے لئے ہدایت نامہ قرار دیا ہے جو متّقی ہیں اور دوسرے مقام پر علومِ قرآنی کی تحصیل کی راہ بھی تقوٰی ہی قرار دیا ہے جیسے فرمایا وَاتَّقُوا اﷲَ وَ یُعَلِّمُکُمُ اﷲُ یعنی تقوٰی اختیار کرو اﷲ تعالیٰ تمہارا معلّم ہو جائے گا۔
تقوٰی کے پاک نتائج بڑے عظیم الشّان ہوتے ہیں ان میں سے ایک تو وہ ہے جو مَیں نے ابھی بیان کی کہ اﷲ تعالیٰ اس کا معلّم ہو جاتا ہجے اور قرآنی علوم اس پر کُھلنے لگتے ہیں پھر تقوٰی ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے اﷲ تعالیٰ کی معیّت حاصل ہوتی ہے جیسے فرمایا
(النّحل:۱۲۹) بے شک اﷲ اُن لوگوں کے ساتھ ضرور ہوتا ہے جو متّقی ہوتے ہیں اور ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو مُحسنین ہوتے ہیں۔ احسان کی تعریف رسول اﷲ صلّی اﷲ علیہ وسلم نے یہ فرمائی ہے کہ وہ خدا کو دیکھتا ہو اگر یہ نہ ہو تو کم از کم یہ کہ وہ اِس پر ایمان رکھتا ہو کہ اﷲ اُس کو دیکھتا ہے۔ پھر یہ بھی تقوٰی ہی کے نتائج اور ثمرات میں سے ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہر تنگی سے متّقی کو نجات دیتا ہے اور اس کو مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ
( الطّلاق:۴) رزق دیتا ہے متّقی اﷲ کا محبُوب ہوتا ہے یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ۔ غرض تقوٰی پر ساری بناء ہے۔ پھر فرمایا کہ متقی کون ہوتے ہیں؟ اِس کی پہلی نشانی یہ ہے یومنون بالغیب وہ الغیب پر ایمان لاتے ہیں خلوت اور جلوت میں برابر مومن رہتے ہیں۔ ایک شخص کا مسجد میں اپنے ہم عصروں اور ملنے والوں کے سامنے ایماندار ہونا سہل ہے لیکن خلوت میں جہاں اسے کوئی نہیں دیکھتا بُجز اﷲ تعالیٰ کے اس کا مومن رہنا ایک امرِاہم ہے لیکن متّقی خلوت اور جلوت میں برابر مومن رہتے ہیں۔ اِسی بناء پر کسی نے کہا ہے
مشکلے دارم نہ دانشمند مجلس بازپُرس
توبہ فرمایاں چرا خود توبہ کمتر میکنند

واعظاں کِیں جلوہ بَر محراب و منبر میکنند
چُو بخلوت می روَندآں کارب دیگر میکنند
پھر ایمان بالغیب میں بہت سی باتیں ہیں جن کو ماننا چاہیئے۔ اصل میں ثواب کے حاصل کرنے کے لئے ایمان بالغیب ضروری شئے ہے۔ اگرکوئی شخص مثلاً آفتاب و ماہتاب پر ایمان لاوے تو تم ہی بتاؤ کہ یہ ایمان اس کو کِس ثواب کا مستحق اور وارث بنائے گا؟ کسی کا بھی نہیں ۔ لیکن جن چیزوں کو اُس نے دیکھا نہیں رف قرائِن قویّہ کی بناء پر ان کو مان لینا کہ وہ اﷲ تعالیٰ کی کتاب میںآئی ہیں ایمان بالغیب ہے جو سُود مند اور مفید ہے۔
پھر فرمایا کہ جب انسان ایمان لاتا ہے تواس کا اثر اس کے جوارح پر بھی پڑنا چاہیئے اور اﷲ تعالیٰ پر ایمان کے لئے تعظِیم لِامر اﷲ کا لحاظ ہو اِس لئے فرمایا وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ یہ متّقی وہ لوگ ہوتے ہیں جو نماز کو قائم کرتے ہیں کیونکہ نماز اﷲ کے حضور حاضر ہونے کا موقع ہے مومن کو چاہیئے کہ نماز کو اسی طرح پر یقین کرے۔ اِبتداء نماز سے جب اﷲ تعالیٰ کا نام لیتا ہے اور کانوں پر ہاتھ رکھتا ہے تو گویا دُنیا اور اس کی مشیختوں سے الگ ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ سے ہی سروکار رکھتا ہے پھر اپنے مطالب و مقاصد بیان کرے۔ نماز میں قیام ي رکوعي سجدہ اور سجدہ سے اُٹھ کر پھر دوسرے سجدہ میں اپنے مطالب بیان کر سکتا ہے پھر التّحیات میں صلوٰۃ اور درُود کے بعد دعا مانگ سکتا ہے۔ گویا یہ سات موقعے دعا کے نماز میں رکھے ہیں ۔ (الحکم ۱۷؍مئی ۱۹۰۴ء)
اﷲُ یَسْتَھْزِیُٔ بِھِمْ
اِستہزاء کا بدلہ دے گا یا حقیر کرے گا ان کو اور یَمُدُّ کے معنے یہاں پر زیادہ کرنے کے ہیں نہ عمر میں لمبائی کرنے کے ، کیونکہ اس کے بعد لام آیا کرتا ہے جو کہ یہاں پر نہیں ہے۔ پس یَمُدُّھُمْ کے معنے ہوئے ’’ زیادہ کرتا ہے ان کو ‘‘ جیسا کہ مَدَّ الْجَیْشَ اور اَمَدَّالْجَیْشَ کے معنے ہیں لشکر زیادہ کیا اور قوی کیا۔ طُغْیَان کے معنے سرکشی کے ہیں اور حضرت ابنِ عباسؓ اور بہت سے صحابہؓ سے مروی ہے کہ طُغْیْان سے مُراد کفر ہے اور معنے یہ ہوئے ’’ اور ان کو زیادہ کرتا یا مُہلت دیتا ہے کُفر میں ۔‘‘ یَعْمَھُوْنَ عَمَہٌ سے ہے اور عَمَہٌ کہتے ہیں تردّو کو۔ یَعْمَھُوْنَ حیران اور متردّد ہیں۔ (رسالہ ’’ تعلیم الاسلام‘‘ قادیان ماہِ فروری ۱۹۰۷ء)
ذَکَرَ حُجَّۃُ الْاِسْلَامِ اَلْغَزَالِیُّ اَنَّ الْاِسْتِھْزَائَ۔ اَلْاِسْتِحْقَارُ وَ الْاِسْتِھَانَۃُ وَالتَّنْبِیْہُ عَلَی الْعُیُوْبِ وَالنَّقَائِصِ عَلٰی وَجْہٍ یُضْحَکُ مِنْہُ (رُوح المعانی ) تحقیر کو استہزاء کہتے ہیں۔
۲۔ الھزأۃ اصلہ الخِفَّۃُ وَھُوَالْقَتْلُ السَّرِیْعُ ھَزَأَ یَھْزَأُ: مَاَت فَجْائَ ۃً وَتَھْزَأُبِہٖ نَاتَۃٌ: اَیْ تَسْرَعُ بِہٖ وَتَخَفُّ۔ فتح ، ہلکا، سمجھنے، جلدی قتل کرنے، اچانک مرنے کو ھزو کہتے ہیں۔
پس اﷲُ یَسْتَھْزِیُٔ بِھِمْ (البقرۃ:۱۶) کے معنے ہوئے اﷲ تحقیر کرے گا، اہانت کریگا اور ان کے عیوب و نقائص سے خلقت کو ایسی آگہی دے گا کہ ان کی ہنسی ہو اور اﷲ تعالیٰ ان کو خفیف کرے گا۔ جلدی ہلاک کر دے گا۔
یہ بیان ہے منافقوں کے حالات کا جن کا ظاہر کچھ اور باطن کچھ ہوتا ہے۔ دِل میں کپٹ ہوتی ہے اور ظاہر میں ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔ مومنو کی تحقیر و اہانت اور تخفیف کرتے ہیں۔ آکر اﷲ تعالیٰ ان کی تحقیر، اہانت اور تکفیر کرتا ہے اور کرتا رہے گا اور ہلاک کر دے گا۔ اور ان کے عیوب و نقائص کی اطلاغ دیتا ہے اور دیتا رہے گا اِس لئے کہ دُنیا میں ان کی ہنسی ہو یہ بڑی بھاری پیشگوئی ہے اور وہ روزِ روشن کی طرح پوری ہوئی کہ تمام وہ لوگ جو اسلام پر ہنسی اُڑاتے اور اس کی تحقیر کرتے تھے خدا تعالیٰ نے انہیں ضعیف حقیر کر دیا۔ صداقتوں اور واقعاتِ حَقّہ پر اعتراص کرنا سخت ناپاکی اور جہالت نہیں تو اَور کیا ہے۔ (نورالدین صفحہ ۳۱،۳۲)
اَلسُّفَھَائُ۔ مفاہت نام ہے اِضطراب کا۔ پتلے کپڑے کو بھی سفیہ کہتے ہیں۔
فَمَارَ بِحَتْ تِّجَارَتُھُمْ۔ ضالین بڑے تاجر ہوں گے مگر دینی ہدایت نہ لیں گے نہ دینی نفع اُٹھائیں گے۔ (تشحیذالاذہان جلد ۶ نمبر۹ صفحہ ۴۳۶)
اِس زمانہ کا حال دیکھ کر تعجّب آتا ہے کیونکہ اس میں منافق طبع بہت ہیں۔ زبان سے تو کہتے ہیں کہ ہم مومن ہیں کیونکہ ان کے عقائد سے ان کے اعمال کی مطابقت نہیں۔ عیسائیوں نے سوال کیا ہے کہ نجات کِس طرح ہوتی ہے اور مَیں نے جواب دیا ہے کہ نجات فضل سے ہے اور اس خدا کے فضل کو ایمان کھینچتا ہے۔ اِس واسطے یہ بھی صحیح ہے کہ نجات ایمان سے ہے۔ پھر کہتے ہیں عمل کوئی چیز نہیں حالانکہ کون دُنیا میں ایسا ہے کہ آگ کو آگ مان کر پھر اس میں ہاتھ ڈالے۔ پانی کو پیاس بجھانے والا جان کر پھر پیاس بجھاتا ہے تو پیساس لگنے کے وقت اس پانی سے پیاس ضرور بجھائی جاتی ہے۔ پس کیا وجہ ہے کہ یہ ایمان ہو قُرآنِ مجید خدا تعالیٰ کی کتاب ہے اور اعمال کی جزا اور سزا ضروری ہے اور پھر اس پر عمل در آمد نہ ہو۔ بہت سے لوگ ہیں جو اپنے اُوپر خدا کے بہت سے فضلوں کا اقرار کرتے ہیں ار اپنے مقابل دوسروں کا ایمان حقیر سمجھتے ہیں مگر عمل میں کچّے ہیں۔ مونہہ میں بہت باتیں بناتے ہیں مگر عمل در آمد خال بھی نہیں۔
ایسے لوگوں کو نصیحت کی جائے تو کہتے ہیں ہم تو مانتے ہیں مگر اپنے شیاطین اپنے سرغنوں کے پاس جا کر کہتے ہیں کہ ہم تو ان مسلمانوں کو بناتے ہیں ان کو حقیر سمجھتے ہیں۔ اِستہزاء ھذو سے نکلا ہے۔ بلکی چیز کو چونکہ آسانی سے ہلایا جا سکتا ہے اِس لئے اِستہزاء تحقیر کو کہتے ہیں۔
اﷲان کو ہلاک کرے گا کِسی کو جَلد کِسی کو دیر سے۔ اﷲ تو توبہ کے لئے ڈھیل دیتا ہے مگر اکثر لوگ خدا کی حد بندیوں کی پرواہ نہیں کرتے۔ حدبندی سے جوشِ نفس کے وقت یُوں نکل جاتے ہیں جیسے دریا کا پانی جوش میں آ کر کناروں سے باہر نکل جائے۔ ایسے لوگ ہدایت کو چھوڑ کر گمراہی لیتے ہیں۔ یہ ہدایت جس میں ہدایت چھوڑی اور گمراہی اختیار کی ان کے لئے نافع نہیںان کے لئے پاک ہدایت ایسی ہے جیسے مَیں نے طِبّ میں دیکھ ہے کہ بعض دفعہ نرم کِھچڑیشدّتِ صفراء کی وجہ سے نہایت تلخ ملوم ہوتی ہے۔ یہ لوگ ہدایت کی باتوں کی قدر اور حقیقت سے بوجہ اپنے مرضِ قلبی کے آگہ نہیں۔پس ایے لوگ اگر ایمان کا اظہار بھی کرتے ہیں تو اپنے نفع کے لئے جیسے کوئی آدمی جنگل میں آگ لگائے تو اس سے یہ فائدہ اُٹھا لیتا ہے کہ شیر، چیتے اور ایسے درندے اس کے پاس نہیں پھٹکنے پاتے۔ اِسی طرح منافق بظاہر اسلام کا اِقرار کر کے مصائب سے عارصی طور پر بچاؤ کر لیتا ہے لیکن بعد میں بَلائیں، جفائیں اسے گھیر لیتی ہیں۔ اس کا نفاق کُھل جاتا ہے پھر کچھ سوچ نہیں پڑتا۔ غرض اپنا ظاہر کچھ باطن کچھ بنانے والے ضرور نقصان اُٹھاتے ہیں۔ (الفضل ۱۳؍اگست ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵)
اِشْتَرٰی۔ یہاں پر کوئی حقیقی خریدوفروخت مراد نہیں ہے بلکہ یہاں پر اِس سے یہ مراد ہے کہ انہوں نے ہدایت کو ترک کر دیا ہے اور بجائے اس کے گمراہی کو اختیار کر لیا ہے…حضرت عبداﷲبن عباسؓاور عبداﷲبن مسعودؓ اور اَور بہت سے صحابہؓ نے یہی معنے کئے ہیں اور …مَا کَانُوْا مُھْتَدِیْنَ (نہ وہ راہ پانے والے بنے) سے یہ مراد ہے کہ وہ تجارت کی صحیح راہ نہ پا سکے یہاں تک کہ تجارت سے اصل مقصود تو یہ ہوتا ہے کہ اصل مال قائم رہے اور اس سے علاوہ کچھ زائد فائدہ بھی حاصل ہو جالتے لیکن منافقوں نے اصل مال (یعنی فطرتِ سلیم اور تحصیلِ کمالات کی فطرتی استعداد کو ہی ضائع کر دیا۔
(رسالہ’’تعلیم الاسلام‘‘ قادیان بابت مارچ ۱۹۰۷ء)



حضرت نبی کریم (صلی اﷲ علیہ وسلم )کا قاعدہ تھاکہ جہاں کوئی میلہ ہوتا یا کوئی مجلس تو آپؓ ضرور پہنچتے اور توحید کا وعظ فرماتے۔ اِس کے لئے سب سے عمدہ و اعلیٰ موقع حج تھا جس میں آپؓ ایک ایک قبیلے کے جتّھے میں وعظ فرماتے ۔ بڑے بڑے واقعات آپؓ کو پیش آتے۔ ایک شخص مشہور عاقبت اندیش تھا اس نے کہا اگر ایک آدمی میرے قابوں میں آ جائے تو مَیں اس کے ذریعہ ساری دُنیا کو فتہ کر سکتا ہوں۔ وہ نبی کریمؐ کے پاس آیا اور کہا کہ اگر میری ساری قوم تمہیں مان لے تو مجھے کیا دو گے؟ آپؓ نے فرمایا مَیں کسی کو کیا دے سکتا ہوں۔ میرے بعد خدا جانے کیا ہو۔ اِس پر وہ ناراض ہو کر چلا گیا۔ اپنی قوم سے کہنے لگا۔ ہے تو ایسا مرد جیسا کہ مَیں نے کہا تھا مگر مَیں اس پر ایمان لانے کا تمہیں مشورہ نہیں دیتا۔
آپؐ اِنہی حج کے ایّام میں منیٰ ایک مقام ہے وہاں وعظ فرما رہے تھے۔ چھ آمیوں نے جو مدینہ طیّبہ کے رہنے والے تھے اشارہ کیا کہ ہم آپؐ سے علیحدہ کچھ گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ آپؐ منیٰ کے پاس پہاڑیوں کا ایک سلسلہ ہے جو چکّر کھاتا ہؤا جاتا ہے اس کے اندر ایک ٹیلہ ہے وہاں چبوترہ پر جا بیٹھے اور ان کو دینِ اسلام کی تلقین کی۔ اُنہوں نے بَیعت کی اور کہا کہ ابھی ہمارا نام نہ لیویں ہم جا کر مشورہ کریں گے اور آئندہ سال انشاء اﷲ تعالیٰ اپنے بہت سے دوستوں کو بھیجیں گے چنانچہ آئندہ سال بارہ آدمی بھیجے اور تیسرے سال ۷۲ آدمی حاضر ہوئے اور حضرت نبی کریم (صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم) سے عرض کیا کہ ان چھ آدمیوں کی کوشِش اور بارہ دوستوں کی کمربستگی سے مدینہ میں کوئی گھر نہیں رہا جس میں آپؐ کا تذکرہ نہ ہو ہم چاہتے ہیں کہ آپؐ ہمارے شہر میں چلیں۔ عبّاسؓ رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کے ساتھ تھے گو وہ بظاہر مسلمان نہ تھے مگر حضرت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہمدرد تے آپؓ نے فرمایا کہ دیکھو ان کے لے جانے میں تم کو بہت سخت مشکلات ہیں یہاں تمام منافی و ہاشمی آپؐ کے ساتھ ہیں مگر وہاں یہ بات نہیں۔ اِس پر انہوں نے بڑا بھاری معادہ کیا اور اس معاہدہ میں رسل اﷲؐ نے اُن سے قسمیں لیں۔ آپؐ نے فرمایا میرے مدینہ میں لے جانے کے یہ معنے ہیں کہ سارے جہان سے لڑائی کے لئے تم تیار رہو۔ مکّہ میں قریش دشمن ہیں پھر نجدغطفان مصر کو ساتھ ملائیں گے پھر عراق و شام کے راستے کی قومیں ان کے ساتھ ہیں۔ اچھی طر ح سوچ سمجھ لو اگر یہ سب کچھ برداشت کر سکتے ہو لو لے چلو۔ انہوں نے عرض کیا کہ ہم حاضر ہیں۔
عرب میں بہت سے آگیں جلاتے تھے۔ ایک آگ نارالحَرب کہلاتی ہے چنانچہ قرآن شریف میں آیا ہے (المائدۃ: ۶۵) مَیں نے غور کیا تو معلوم ہؤا لڑائی آگ سے شروع ہوتی ہے چنانچہ پہلے دل میں ایک آگ اُٹھتی ہے پھر وہی آگ تمام گھر میں پھیلتی ہے پھر دوسرے لوگوں کے ساتھ ملانے کے لئے ان کی دعوتوں کے لئیت آگ جلانی پڑتی ہے پھر پہاڑ پر آگ جلا کر اس مہمانی کو وسیع کیا جاتا ہے ۔ پھر بارُود کی آگ ہے‘ پوٹاس کی آگ ہے ، توپ کی آگ ہے، ڈائنامیٹ کی آگ ہے۔ پھر رسول سے جنگ کرنے والوں کا اخیر انجام دوخ ہے کہ وہ بھی آگ ہے۔
اِس قدر تمہید کے بعد مَیں اِس آیت کے معنے کرتا ہوں۔ مدینہ میں جب آپؐ تشریف لائے تو اس وقت جو قوم تھی ان میں عبداﷲ بن ابیّ بن سلول ایک شخص تھا لوگوں نے ارادہ کیا کہ نمبرداری کی پگڑی اسے بندھائیں۔ جن دِنوں میں جلسئہ نمبرداری کا ارادہ تھا بنیٔ کریمؐ آ گئے اور اس کی بات بگڑ گئی۔ اُسے بہت رنج پیدا ہؤا اور وہ اکثر موقعوں پر رنج نکالتا رہا لیکنکُھل کر مخالفت نہ کر سکتا تھا اِس طرز کے آدمی منافق کہلاتے ہیں یہ اندر ہی اندر کُڑھتے رہتے ہیں۔ پس اِن کی مثال اُس شخص کی طرح ہے جس نے جلانا چاہا ہے آگ کو۔ گویا نبیٔ کریمؐ کو بُلوا کر سارے جہان سے جنگ کی تھانی۔ جب جنگ کی آگ اِرد گِرد بھی بھڑک اُٹھی تو ان لوگوں کا نورِ معرفت جاتا رہا۔ جب نار میں سے نور نِکل جائے تو پیچھے اس کی تپش ، دھوآں اور تکلیف رہ جاتی ہے اسی طرح اِن لوگوں کا حال ہے جب ان کا وہ نور جو حصہّ ہے ایمان اور معرفت کا اور اﷲ کو راضی کرنے کا، جاتا رہا تو وہ اندھیرے میں پڑ جاتے ہیں۔ اندھیرا بھی ایک نہیں بلکہ کئی اندھیرے جیسے کچھ رات کا اندھیرا پھر کچھ معًا روشنی گمم ہو جانے سے جو اندھیرا ہو جاتا ہے وہ۔ پھر بادلوں کا اندھیرا۔ پس وہ کچھ دیکھتے نہیں اور کچھ سو جھائی نہیں دیتا اور دکھائی کِس طرح دے جب کہ تمیز باقی نہیں۔ دِل کمزور ہے اِس لئے حق کے شنوا نہیں رہتے پھر حق کے گویا نہیں رہتے۔ حق کے گویا بننے میں بڑے فائدے ہیں۔ جب اِنسان دوسرول کو نیکی سمجھاتا ہے تو آخر اپنی حالت پر بھی شرم آتی ہے کہ مَیں جو اَوروں کو نصیحت کرتا ہوں خود میری اپنی حالت کیا ہے اور جب مَیں اپنی اِصلاح نہیں کرتا تو دوسروں کی اصلاح کے لئے کیا کر سکتا ہوں اِس لئے میرا پختہ اعتقاد ہے کہ انسان وعظ سُنے اور وعظ کرے کہ اس سے بھی راہِ حق مِلتی ہے لیکن اُس شخص کی حالت قابِل رحم ہے جو نہ تو آنکھ رکھتا ہے جس سے رستے میں ہلاکت کی چیز کو دیکھ کر بچ سکے اور نہ کان ہیں کہ کسی ہمدرد کی آواز سُنکر بچ جائے جو اُسے بتائے کہ دیکھو اِس رستے نہ آؤ اور نہ زبان ہے کہ خو دچِلّا کر کسی سے پُوچھ لے کہ میاں فلاں مقام پر پہنچا دو اور وہ اسے پہنچادے۔ پس وہ جو نہ حق کا شنوا ہے نہ حق کا گویا نہ حق کا بِینا ہلاکت کی طرف سے مُڑ کر نیک راہ پر نہیں آ سکتا۔
(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍فروری ۱۹۰۹ء)


اَوْ۔ دو چیزوں میں سے ایک کیلئے آتا ہے یعنی یہ یا ووہ۔ اور کبھی بمعنے بَلْ یعنی کبھی اسکے معنے بلکہ کے ہوتے ہیں اور گاہے بمعنی واؤ یعنی بمعنے اَور آتا ہے۔ پس اگر پہلے معنوں میں آئے تو گاہے شک پیدا ہوتا ہے اور گاہے ابہام و اجمال اور گاہے تفصیل ہوتی ہے، خبر میں، خواہ وہ تفصیل واقعی ہو یا متکلّم کے اِعتبار کے موافق ہو اور جب بمعنی واؤتو اس سے اباحت اور تخییر پیدا ہوتی ہے، انشاء میں ، اور یہاں پر دو امر میں ایک کے لئے ہے اور متکلّم کے اعتبار کے مطابق تفصیل ہے۔ مَیِّبؔ کہتے ہیں بارش کو۔ یہ صَوْب سے بنایا ہوا ہے اور صَوب کہتے ہیں نازل ہونے کو۔ سماءؔ کہتے ہیں ہر ایک بلند شئے کو جو کہ انسان کے اُوپر ہو۔ یہ سمّو سے ہے جو کہ صورت اور معنے کی رُو سے علوّ کی مانند ہے اور مِنْ کے معنے ’’ میں سے۔‘‘ رَعْد ؔ بادل کے گرجنے کی آواز کو کہتے ہیں۔ بَرْقؔ بجلی جو کہ بادل میں یا آسمان کے کناروں پر چمکا کرتی ہے۔ یَجْعَلُوْنَ جَعَلَ سے ہے جو بمعنے’’رکھنے‘‘ کے ہے۔ پس یَجْعَلُوْنَ کے معنے ہوئے ’’رکھتے ہیں‘‘۔ (رسالہ’’تعلیم الاسلام‘‘ قایان بابت مارچ ۱۹۰۷ء)
مِنَ السَّمّآئِ یعنی اس مینہ کی طرح جو بادل سے گبر رہا ہو۔ پھر وہ مینہ کِس وقت کا ہو جبکہ سُورج بھی نہیں ، چاند بھی نہیں، ستارے بھی نہیں۔اس پر بادلوں کا اندھیرا، اس میں رَعد ہے یعنی بجلی کی کڑک اور بَرق یعنی بجیل ۔ نادان انسان اپنی اُنگلیاں کانوں میں کر لیتے ہیں موت سے بچنے کے لئے۔ مگر ایسے لوگ واقعی کم عقل ہیں کیونکہ سائنسدان جانتے ہیں کہ بجلی بہت تیز ہے وہ روشنی سے بھی پہلے پہنچتی ہے اور آواز اس کے بعد آتی ہے چنانچہ چھاؤنیوں میں جہاں توپ دغتی ہے وہ جانتے ہیں کہ چمک پہلے پہنچتی ہے اور آواز اس کے پیچھے اِسی طرح بجلی کی آواز کا حال ہے۔ آواز پہنچنے پر اُنگلیاں کانوں میں کرنے اور چُھپ جانے والا بیوقوف ہے کیونکہ جو مار بجلی نے کرنی ہوتی ہے وہ تو اس سے پہلے کر چکتی ہے۔ منافق کی طبیعت کا حال بارش کی مثال سے نکلتا ہے جب بارش آتی ہے تو جو لوگ ندیوں کے کناروں پر ہیں یا جن کے مکان کچّے ہیں اور لپائی ٹھیک نہیں یا جنہوں نے نمک خرید رکھا ہے اُن کو بہت خطرہ ہوتا ہے اور بعض ایسے ہیں جو اس بارش کو اپنے لئے رحمت سمجھتے ہیں انہوں نے بجلی کی روک کے لئے سلاخیں اور تانبے کے تار کنوئیں میں ڈال رکھے ہوتے ہیں وہ بہرحال خوش حال ہوتے ہیں۔ اِسی طرح کمزور انسان زمانے کے حوادث کی تاب نہ لا کر ایمان سے دُور چلے جاتے ہیں۔ بعض وقت غریبی کے سبب خدا کو کوستے ہیں۔ لڑکا مَر جاتا ہے تو خدا کو گالیاں دیتے ہیں۔ ایسے نابکار بھی مَیں نے دیکھے ہیں جو خدا کی خدائی پر الزام دیتے ہیں اور تھوڑی سی مصیبت کو برداشت نہیں کر سکتے۔ ایک شاعر کا ذکر کرتے ہیں کہ اس نے شعر کہاجو اس کی نظر میں خاص طور سے قابلِ انعام تھا اور اس نے سُنس تھا کہ سعدیؒنے ایسا ایک شعر کہا تھا تو اُسے خاص طور سے انعامِ الہٰی ملے تھے۔ پس اِس امّید پر اس نے آسمان کی طرف مُنہ اُٹھایا۔ اِتفاق سے ایک چیل کی بیٹ مُنہ میں پڑ گئی اِس پر وہ بول اُٹھا کہ شعر فہمیٔ عالّمِ بالا معلوم شُد۔ غرض ایسے ایسے ناان لوگ ہوتے ہیں بعض خا کا اَدب کرتے تو گردشِ دار اور زمانہ کو کوستے ہیں مگر اس کوسنے کا فائدہ کیا۔
اﷲ جلّ شانہ‘ نے یہ بات فرمائی کہ مینہ پڑتا ہے اس میں کڑک بھی ہوتی ہے بجلی بھی ہوتی ہے اندھیرے بھی ہوتے ہیں اس پر نادان تو غیر محل وغیر موقع پر اپنے بچاؤ کے سامان کرتے ہیں مگر وہی بارش بُہتوں کے لئے مفید ہوتی ہے اسی طرح احکامِ شرع اور دُنیا کی مصیبتیں جب نازل ہوں تو بہت سے لوگ ایمان لاتے ہیں اور مشکلات میں گھبراتے نہیں۔ ایک جذامی کا حال مجھے معلوم ہے کہ مَیں نے اسے کہا کہ آپ کے علاج کا مجھ میں ایک جوش پیدا ہو گیا ہے۔ اُس نے کہا کہ رہنے دیجئے مَیں تو جس حال میں ہوں خوش ہوں ۔ تنہائی ہے لوگ کم آتے ہیں دُعاؤں کا موقع ملتا رہتا ہے اور بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ گھبرا جاتے ہیں اور خدا کو کوستے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ ہم خدا کا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔ وہ بجلی اگر گِرنے والی تھی تو ان کے روکنے سے رُک نہیں سکتی پھر وہ خدا کا شُکر کریں کہ ان کے کان تو ہیں اگر کان نہ ہوتے تو بجلی کی آواز کِس طرح سُنتے۔ ان کی آنکھیں تو ہیں اگر یہ نہ ہوتیں تو پک ڈنڈی کِس طرح نظر آتی۔ ہر ایک دُکھی اپنے سے بڑھ کر دُکھی کو اپنے ہی شہر میں دیکھ سکتا ہے پس اسے چاہیئے کہ خدا کی دی ہوئی نعمتوںکی قدر کرے اور مشکلات میں گھبرائے نہیں۔
(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍فروری ۱۹۰۹ء)
یَجْعَلُوْنَ اَصَا بَعَھُمْ فِیْ ٓ اٰذْانِھِمْ: منافق مشکالت کے وقت کانوں پر ہاتھ رکھتے ہیں۔ اَلصَّوَاعِق۔ بجلی کی چمک پہلے ہوتی ہے پھر کڑک۔ بجلی کی آواز سُنکر بچاؤ کی تدبیر فضول ہے۔ ( تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ۴۳۶ )
منافقوں کی مثال اُس شخص کی مثال ہے جس پر مینہ برستا ہے۔ گھٹا ٹوپ اندھیرا چھا رہا ہو جب ذرا بجلی چمکی تو آگے بڑھے ورنہ وہیں کھڑے کھڑے رہ گئے۔ جب کوئی فائدہ پہنچا تو اسلام کے مُعتقع بنے رہے جب کوئی ابتلاء پیش آیا تو جَھٹ انکار کر دیا ایسے لوگ بیوقوف ہیں جیسے بعض نادان بجلی کی کڑک سُنکر پھر کانوں میں اُنگلیاں دیتے حالانکہ روشنی کی رفتار آواز سے تیز ہے اور بجلی اس کڑک سے پہلے اپنا کام کر چکتی ہے۔
(الفضل ۱۳؍اگست ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵)


کوئی شخص کسی کے ساتھ نیکی کر کے صرف ہنس کے بولے یا کسی دُکھ کے وقت مدد دے تو آدمی اُس کا ممنون ہو جاتا ہے حالانکہ اگر غور کیا جاوے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہگ سب احسان در اصل اﷲ تعالیٰ کا ہے جس نے اس حُسن کو پَیدا کیا پھر اس چیز کو جس سے احسان کیا گیا پھر خود اسے جس پر احسان ہؤا۔ پس خدا کو بھُول جانا انسانیّت سے بعید ہے اﷲ تعالیٰ قُرآن کریم میں اِسی لئے اپنے رنگارنگ انعامات و احسانات کا ذکر فرماتا ہے چنانچہ یہاں بھی ارشاد کیا کہ لوگو! تم فرمانبردار بن جاؤ۔ کِس کے؟ اپنے پالن ہار کے ۔ جس نے تمہیں پَیدا کیا۔ پھر تمہیں ہی نہیں بلکہ تمہرے بڑوں کو بھی۔ یعنی پُشتہا پُشتسے اس مُحس کے احسان تم پر چلے آتے ہیں۔
لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ: فرمانبردار بنو گے تو اس سے کوئی خدا کی خدائی بڑھ نہ جائے گی بلکہ اِس میں تمہارا ہی فائدہ ہے وہ یہ کہ تم ہی دُکھوں سے بچو گے۔
مَیں دیکھتا ہوں آتشک اُنہی کو ہوتی ہے جو نافرمانی کرتے ہیں مَیں نے کبھی نہیں دیکھا کسی کو نماز پڑھنے سے سوزاک ہو گیا ہو یا زکوٰۃ دینے سے کوڑھ ہو گیا ہو۔ لوگ کہتے ہیں نیکی مشکل ہے یہ غلط ہے نیکی تو سُکھوں کی ماں ہے۔
(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍فروری ۱۹۰۹ء)
سُنو۔ او لوگو! فرمانبرداری کرو اپنے اس مُحسن، مربی کی جس نے تم کو اور تم (سے) پہلوں کو خَلق کیا۔ اِس سے فائدہ یہ ہو گا کہ دُکھوں سے بچ رہو گے۔
(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۵۶)
: لوگو اپنے رَبّ کے فرمانبردار بن جاؤ۔ فرمانبرداری ضروری ہے مگر کوئی فرمانبرداری بِدُوں فرمان کے نہیں ہو سکتی اور کوئی فرمان اس وقت تک عمل کے نیچے نہیں آتا جب تک کہ اس کی سمجھ نہ ہو۔ پھر اس فرمان کے سمجھنے کے لئے کسی معلّم کی ضرورت ہے اور الہٰی فرمان کی سمجھ بِدُوں کسی مُزکّی اور مُطَہِّر القلب کے کسی کو نہیں آتی کیونکہ لَا یَمَسُّہٰ اِلَّا الْمُطَّھَّرُوْنَ خدا تعالیٰ کا حکم ہے۔ پس کیسی ضرورت ہے امام کی ۔ کیسی مزکّی کی۔
(الحکم ۱۵؍اپریل ۱۹۰۱ء)


پھر اُس نے تمہیں اور تمہارے بڑوں کو ہی نہیں بنایا بلکہ تمہاری زندگی کے سامان بھی مہیّا کئے۔ رہنے کو زمین ،حفاظت کو آسمان ، بادل سے پانی اُتار کر طرح طرح کے میوے بطور رزق دئے۔ پس تم ایسے خدا کا کوئی ( مدِّ مقابل) نہ ٹھہراؤ۔ اور تم غور کرو تو خود اس نتیجہ پر پہنچ جاؤ اور یہ یقین ہو جائے کہ اﷲ کا نِدّواقعی کوئی نہیں۔ (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍فروری ۱۹۰۹ء)
سرکس میں تم لوگوں نے دیکھا ہو اگا کہ جانور کِس طرح اپنے مالک کے حکم کے ماتحت چلتے ہیں حالانکہ اس مالک نے نہ جان دی ہے نہ وہ کھانے پینے کی چیزیںپَیدا کی ہیں۔ جب ایک معمولی (احسان) سے اس کی اس قدر اطاعت کی جاتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ انسان اپنے مولیٰ کریم پر فدانہ ہو جس نے اسے حیات بخشی۔ رزق دیا۔ پھر قیام کا بندوبست کیا۔ اِس لئے فرمایا کہ منافقو! تم معمولی فائدہ کے اُٹھانے کے لئے جہان کا لحاظ کرتے ہو مگر کیوں نہیں اُس سچّے مربیّ کے فرمانبردار ہوتے جو تمام انعاموں کا سرچشمہ ہے۔ کم عقلو! اُس نے تمہیں پَیدا کیا۔ پھر تمہارے باپ دادا کو بھی پَیدا کیا۔ پھر فرمانبرداری کرنے میں اﷲکا کچھ فائدہ نہیں بلکہ تم ہی دُکھوں سے بچو گے اور سُکھ پاؤ گے۔ دیکھو! اس نے تم پر کیسے کیسے اِحسان کئے ہیں۔ تمہارے لئے زمین بنائی جو کیسی اچھی آرامگاہ ہے پھَل پھُول اور طرح طرح کی بناتات پیدا کرتی ہے جسے تم کھاتے ہو۔ پھر آسمان کو بنایا جیسے ایک خیمہ ہے۔ وہ زمین کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ پھر بادلوں سے پانی اُتارا اِس سے رنگارنگ کے پھَل اُگائے۔ یہ فضل ہوں اور پھر تم اس کا ندّ بناؤ۔ بڑے افسوس کی بات ہے۔ ندّ بنانا کیا ہے۔ سُنو۔ یہ کہنا کہ دوست آ گیا اس کی خاطر تواضع میں نماز رہ گئی۔ بچّوں کے کپروں اور بیوی کے زیوروں کی فِکر تھی نماز میں شامل نہ ہو سکا۔ رات کو ایک دوست سے باتیں کرتے کرتے دیر ہو گئی اِس لئے صبح کا نماز کا وقت نیند میں گزر گیا۔ غور کرو اس دوست یا اس شخص نے جس کے لئے تم نے خدا کے لحکم کو ٹالا ویسے احسان تمہارے ساتھ کئے ہیں جیسے خدا تعالیف نے تم سے کئے؟ اِسی طرح آجکل مجھے خط ا رہے ہیں کہ بارش ہو گئی ہے تخمریزی کا وقت ہے اگر آپ اجازت دیں تو روزے پھر سرما میں رکھ لیں گے۔ یہ خدا تعالیف کے احکام کا استخفاف ہے توبہ کر لو۔ یہ اپنے دُنیاوی کاموں کو خدا کا ندّ بنانا ہے جو کفرانِ نعمت ہے۔ (الفضل ۲۰؍اگست ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵)




اب جب فرمانبردار بننا ہے تو فرمان کی ضرورت ہے وہ فرمان قُرآن ہے جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا۔ اگر اس کے کلامِ الہٰی ہونے میں تمہیں کچھ شک ہے تو اس کی مثل لاؤ۔ یہ اسان فیصلہ ہے کیونکہ جیسے دوسری مخلوقات میں خدا کی بنائی ہوئی چیزیں انسان کی بنائی ہوئی چیزوں سے الگ نطر آتی ہیں اسی طرح یہ کلام اﷲ کلامِ انسانی سے لگا نہیں کھاتا۔ اگر تم نظیر نہ لائے اور لا بھی نہ سکو گے تو اس آگ سے بچاؤ کر لو جس کا ایندھن مُنکر لوگ اور پتّھرہیں۔
(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍فروری ۱۹۰۹ء)
اس کا سب سے بڑا انعام تم پر یہ ہے کہ قرآن ایسی کتاب دی۔ اگر تم کو یہ شک ہے کہ قرآن خدا کی کتاب نہیں ہے اور یہ بناوٹی ہے اور انسانی کلام ہے توتم بھی کوئی ایسی کتاب لاؤ بلکہ اِس کتاب کے ایک ٹکڑے جیسا بنا کر دکھاؤ۔ ہمیں بھی بعض لوگوں نے کہا کہ یہ قُرآن کو توڑ موڑ کر ترجمہ کر لیتا ہے مَیں کہتا ہوں جیسا تمہارے سُنانے والا ہے ایسا کوئی سُنانے والا لاؤ۔ مَیں تمہیں کہتا ہوں جھُوٹ نہ بولو کیا تم کوئی ایسا مترجم لا سکتے ہو جو کہے کہ قرآن میں لکھا ہے کہ تم جُھوٹ بولا کرو۔ مَیں کہتا ہوں کہ بَد معاملگی چھوڑ دو تو کیا کوئی ایسا مترجم آئے گا کہ جو کہے گا کہ بَد معاملگی کیا کرو۔ مَیں کہتا ہوں کہ راست باز بنو،لڑائی چھوڑ دو،آپس کا فساد چھوڑ دو، تو کیا کوئی ایسا مترجم آئے گا جو کہے گا کہ لڑائی کیا کرو، فساد مچایا کرو۔
غرض نہ تو قُرآن جیسی کتاب بنا کر لاتے ہو اور نہ اس سے بہتر بنا سکتے ہو تو پھر ڈرو اور بچاؤ اپنے آپ کو اس آگ سے جس کا ایندھن یہ سریر لوگ اور جس کے بھڑکنے کا موجب یہ معبود اِن باطل ہیں۔ جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے اعمالِ صالحہ کئے وہ باغوں میں ہوں گے جن کے نیچے ندیاں بہتی ہیں۔ ایمان توجنّات کے رنگ میں متمثّل ہو گا اور اعمالِ صالحہ اس کی نہریں ہیں جو پاک تعلیم کینیچے اتا ہے وہ ترقّی کرتا ہے اور پاک آرام میں آتا ہے۔ ہرآن میں اسے یقین آتا ہے کہ کیا عظیم الشّان اور کیا پاک اس کا کلام ہے جس نے فسانہ عجائب لکھی ہے۔
(الفضل ۲۰؍اگست ۱۹۱۳ء)
اگر تم شک میں ہو اس سے جو ہم نے اپنے بندے پر اُتارا تو اس کے مثل کوئی ایک ٹکڑا لاؤ اور اﷲ کے سوا اپنے گواہوں کو بُلاؤ اگر سچّے ہو۔ پھر اگر تم نے نہ کیا اور ہرگز نہ کر سکو گے تو ڈرو اُس آگ سے جس کا ایندھن ادمی اور پتّھر ہیں اور جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔
(فصل الخطاب حِصّہ دوم صفحہ ۹۳)
کے معنے یہ ہیں کہ انسانوں اور پتّھروں میں جو تعلق پَیدا ہؤا ہے کہ انسانوں نے پتّھروں کی پرستش شروع کر دی ہے یہی تعلق دوزخ کے استعال کا باعث اور اس کا ہیزم ہے۔ (نور الدین صفحہ ۱۹)




مومنوں اور نیک عمل لانے والوں کے لئے آرام کی جگہیں ہیں جن کے تلے نہریں بہتی ہیں۔ جب کبھی ان سے کوئی میوہ دیا جائے گا کہیں گے یہ تو وہی ہے جس کا ہمیں پہلے وعدہ دیا جا چکا تھا اور پھر ایک نہیں بلکہ رنگارنگ ایک جیسے دوسرے دئے جاویں گے اور ان کے لئے اس میں جوڑے ہوں گے بیبیاں ہوں گی۔ (ضمیمہ اخبار قادیان ۱۱؍فروری ۱۹۰۹ء)
عربِ ریگستان کے باشندے ، خشن پوش ، کھجور پر زندگی بسر کرتے تھے ان کے لئے کہا گیا
۔ پھر دیکھا اَب تک ہم لوگ قریس اس جنّت کے مالک ہیں۔
(نور الدین صفحہ ۲۳۷)
ایک تارکِ اسلام کے اِس اعتراض کے جواب میں کہ ’’ بہست میں نہریں ہوں گی۔ بعض کہتے ہیں کہ دُودھ اور شہد کی نہریں۔‘‘ تحریر فرمایا:۔
’’او بد بخت! اسلامی نہروں سے محروم۔ دیکھ تیرے سام وید نے تجھے اب وید سے بھی متنفّر کرانے کی تجویز کی ہے۔
کو کوئی کہ اُس خلاص یعنی پومن (سوم) بھجن کو جسے خدا رسیدہ لوگوں نے جمع کیا پڑھتا ہے اس کے لئے سرسوتی،پانی،کمّھن،دمودھ اور مدھ برساتا ہے۔ دیکھو سام وید پر پاٹھک سوم پومن صفحہ۱۲۹ دیرپاٹھک ۹، سرسوتی) ہاں اُس سات بہنوں والی پیاری نہروں میں نہایت پیاری سرسوتی نے ہماری تعریف حاصل کی ہے۔
وہ اس کی نہر کے ساتھ اپنے تئیں صاف کر کے زرد سُرخ رنگ ہو کر چمکتا ہے۔ اس وقت جب کہ وہ مدح گوپوں کے ساتھ سات مُونہہ رکھنے والا تعریف کرنے والوں کے ساتھ کُلّی شکلوں کا احاطہ کرتا ہے۔ صفحہ ۵۱۔ وہ مصبوط پہاڑی ڈنٹھل مستانہ خوشی کے لئے نہروں میں نچوڑا گیا ہے باز کی طرہ وہ اپنی جگہ قرار پذیر ہوتا ہے۔ صفحہ ۵۳۔
اے اندر تیری نہر قوّت کے ساتھ دیوتاؤں کی ضیافت کے لئے بہتی ہے۔ اے سوم مدھ سے مالا مال ہمارے برتن میں نشست گاہ اختیار کر۔ صفحہ ۶۴۔
دُودھ ان کی طرف اِس طرہ دوڑا ہے جس طرح طُغیانیاں کسی چٹان پر دھکیلتی آتی ہیں۔ وہ اِندر کے پاس صاف ہو کر آتے ہیں۔ صفحہ۹۷
نیز اگر نہروں والی بہشت ناپسند تھی تو تمہارے آریہ کو جو تبت میں آباد تھے جب اپنے ملکوں سے اپنے کرموں انسار سے (نتائج اعمال ) جلاوطنی کا انعام ملا تھا تو چاہیئے تھا کہ افریقہ کے ریتستن میں جاتے انہوں نے انڈیا کو کیوں پسند کیا جس میں دُودھ اور شہد ہر قِسم تعیّش اور تنعّم کی نہریں بہتی ہیں۔ تم کیسے شریر ہو مکّہ معظمہ کا تذکرہ ہو تو اُسے ریگستان سمجھتے ہو اور اگر نہروں کا تذکرہ ہو تو اس پر ہنسی ٹھٹھا کرتے ہو۔ تم اس پر راضی ہو کہ تمہیں نرگ میں بھیج دیا جاوے۔
حقیقی جواب
نَھَر کے معنے کثرت کے ہیں اور نَھر کے معنے ندی کے ہیں۔ اور وہ آیات جن میں نہروں کے عطیہ کا تذکرہ ہے۔ وہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اصحابِ کرامؓ کے حق میں ان کی محنتوں، مشقّتوں اور تکالیف کے بدلہ جو انہوں نے اپنے پاک نبیؐ کی اِتّباع میں اُٹھائیں اﷲ کی طرف سے وعدہ تھا کہ انہیں اِسی جنم میں ریگستانِ عرب کے بدلہ نہروں والے ملک عطا کروں گا۔ چنانچہ جیسے فرمایا تھا ویسا ہی ہؤا اور آپؐ کے سچّے اور مخلص اتباع ان بلاد کے مالک ہو گئے جن میں دجلہ ،فرات، جیحوں،مسیحوں،یردن اور نیل بہت تھے اور اسی پَیروی کی برکت سے مسلمانوں نے آیرہ درت کو بھی لے لیا جس میں گنگا ،جمنا اور سرسوتی بہتے ہیں۔
سوچو اور خوب غور کرو کیسے قبل از وقت بتایا ہؤا وعدہ پورا ہوا… ان الفاظ کے حقائق کے سمجھنے کے لئے ہمیں کتب تعبیر الرُّؤیا کی طرف رجوع کرنا چاہیئے چنانچہ نھر کے حقائق کی نسبت ان میں ہم یہ پاتے ہیں۔
اَلنَّھْرُ یَدُلُّ عَلٰی اِقْلِیْمِہَ کَسَیْحُوْنَ وَ جَیْحُوَْنَ وَالْفُرَاتَونالنِّیْلَ۔
نہر سے مراد یہ ہے کہ ایسی اقلیمیں جن میں نہریں بہتی ہیں جیسے سیحوں اور فرات اور نیل اسلام کے قبضہ میں آ جائیں گی اور آخر وہ آ گئیں۔
وَ النَّھْرُ فِی الْمَنَامِ عَمَلٌ صَالِحٌ أَوْرِزْقٌ وَ نَھْرُ اللَّبَنِ دَلِیْلٌ عَلَی الْفِطْرَۃِ وَنَھْرُ الْخَمْرِ دَلِیْلٌ عَلَی السُّکَّرِ مِنْ حُبِّ اﷲِ تَعَالٰی وَ الْبُغْضِ عَنْ مَحَارِمِہٖ وَ نَھْرُالْعَسْلِ دَلِیْلٌ عَلَی الْعِلْمِ وَالْقُرْاٰنِ (تعطیر الانام صفحہ ۳۲۶)
اور خواب میں نہر کو دیکھنے سے مراد ہوتا ہے عملِ صالح اور دائمی رزا۔ یہ بھی مسلماقنوں کوملا۔ دُودھ کی نہر دیکھنے سے مراد ہے فطرتِ صحیحہ اور شراب کی نہر سے مراد ہے اﷲ تعالیٰ کی محبّت کے نشہ سے سرشار ہونا اور اس کی حرام کردہ اشیاء سے بُغض رکھنا اور شہد کی نہر سے مراد ہے علم ار قرآن کا حاصل ہونا۔
نَھْرُالْکَوْثَرِ فِی الْمَنَامِ نُصْرَۃٌ عَلَی الْاَعْدَائِ بِقَوْلِہٖ تَعَالٰی اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ (تعطیرالانام صفحہ ۳۲۵)
نہر کوثر کا رؤیا میں دیکھنا دلیل ہوتا ہے اَعداء پر مظفّر و منصور ہونے پر جیسا کہ خدا تعالیٰ کے کلام اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَسے مستنبط ہوتا ہے۔
چنانچہ بے چارگی اور بے سامانی کے زمانہ میں جبکہ ہمارے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مکّہ معظمہ میں دشمنوں کے ہاتھوں سے شکارِ لاغر کی طرح دُکھ اُٹھا رہے تھے۔ یہ وحی آپ کو عالم الغیب قادر خدا کی طرف سے ہوئی کہ ہم نے تجھ کو الکوثر عطا فرمایا ہے۔ دُنیا جانتی ہے کہ وہ مظلوم بیکس انسان جسے اپنے بیگانوں نے پاؤں کے نیچے مَسلنا چاہا تھا کِس طرح اپنے اَعداء پر منصور و مظفر ہؤا اور اس کے قوی اور متکبّر دشمن خال میں مِل گئے۔ سوچو اور غور کرو کہ یہ غیب کی باتیں کِس طرح حرفاً حرفاً پوری ہوئیں اور خدا کے غضب سے ڈرو۔ (نور الدین صفحہ ۱۳۹،۱۴۰)
جَنَّاتٍ: جنّت کیا ہے؟ آدمی کی آنکھ ہے، کان ہیں، زبان ہے، مزہ ہے، ٹٹولنا ہے… اﷲ تعالیٰ کے لئے جو اِن باتوں کو ترک کرتا ہے اُسے جنّت ملتا ہے… اﷲ کے لئے جو ہم قربان کریں اس کانِعم البدل جنّت ہے۔ (بدر ۷؍جنوری ۱۹۰۹ء صفحہ۷)
جَنّٰت: (۱) تعلیمِ نبوی (۲) مدینہ طیّبہ (۳) فتوحات (۴)عراق،عرب،عجم و مصر وشام (۵) قبر (۶) محشر (۷) جنّت۔
۔ یہ وہ چیز ہے جس کا ہم سے وعدہ تھا۔
۔ جس رنگ کے عمل کئے اُسی رنگ کی عنایاتِ الہٰیہ۔
(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر ۹ صفحہ۲۳۶)

یہ تو تھوڑی سی چيز ہے جو اﷲ بیان کرتا ہے اور جنّات کے نعماء کے مقابل میں ایسی ہے جیسی مچھّرکے سامنے ہاتھی ۔ تاہم کسی بات کے سمجھانے کے لئے مچھّرسی بلکہ اس سے بھی ادنیٰ مثال دینے سے اﷲ نہیں رُکتا۔ جو ایمان دار ہیں وہ تو کہتے ہیں کہ یہ ان کے رَبّ سے بَرحق ہے اور جو منکر ہیں وہ کہتے ہیں اِس مثال سے اﷲ نے کیا ارادہ کیا۔ بہت سے اس سے گمراہ ہوتے اور بہت ہدایت پاتے ہیں۔ گمراہ کون ہوتے ہیں وہی جو بَد عہد ہیں۔ اپنے عہد کا پاس نہیں رکھتے۔ جن سے اﷲ نے قطع تعلق کرنے کے لئے فرمایا ان سے تعلق جوڑتے ہیں اور جن سے تعلق جوڑنے کے لئے کہا ان سے قطع تعلق کرتے ہیں اور زمین میں فساد کرتے ہیں مگر شرارت کا پھَل سِوا ٹوٹا پانے کے کچھ نہیں۔ دیکھو تم کچھ نہ تھے خدا نے زندہ کیا پھر مارے گا اور جزاء اور سزا کے لئے زندگی دے گا۔ (ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۱؍فروری ۱۹۰۹ء)
دُنیا کی نعمتوں کی مثال تو ان کے مقابل میں مچھّر کی سی ہے یعنی دُنیا کی چیزوں کی بہشت کی نعمتوں کے سامنے ایک پشّہ کے برابر بھی حقیقت نہیں۔ ایسی مثالوں سیمومن حق کو پا لیتا ہے اور کافر کہتا تمثیلوں سے کیا فائدہ؟ بہت سے لوگ گمراہ ہو جاتے ہیں مگر گمراہ وہی ہوتے ہیں جو فاسق ہوں۔ (الفضل ۲۷؍اگست ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵)
: کیسا صاف مطلب ہے کہ فاسق اِس کتابِ کریم کو پڑھ کر گمراہ ہوتے ہیں ورنہ مومنوں کے لئے شفا اور راحت اور نور ہے۔
(فصل الخطاب صفحہ۴۲۴)
۔ گمراہ کرتا ہے اس سے بہتیرے اور راہ پر لاتا ہے اس سے بہتیرے اور گمراہ کرتا ہے انہیں کو جو بے حکم ہیں ۔ کیا صاف مطلب ہے کہ فاسق ہماری کتاب کو پڑھ کر گمراہ ہوتے ہیں ورنہ مومنوں کے لئے شفا اور راحت ہے۔ (فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ ۱۶۴)


اس نے تمہاری بھلائی کے لئے زمین کی سب چیزوں کو پیدا کیا پھر آسمان کی طرف متوجّہ ہؤا اور انہیںدرست کیا۔ سات آسمان۔ اگر کِسی طرح نہیں مانتے تو یُوں تو مانو کہ وہ ہر چیز کا عالم ہے اور علم والوں کی بات ماننا فطرتِ انسانی میں داخل ہے۔
(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۱؍فروری ۱۹۰۹ء)
خَلَقَ لَکُمْ۔اندازہ کیا تمہارے لئے کیونکہ قیامت تک خلق ہو گی۔سَبْعَ سَمٰوٰتٍ آسمان کے ستارے سات قِسم کے ہیں۔ (تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۳۶)

سُورہ الحمد میں دو گروہوں کا ذکر ہے منعَم علیہم ، مغضوب علیہم۔ منعَم علیہم کو متّقین فرمایا اور بتایا کہ وہ غیب پر ایمان لاتے ہیں نماز پڑھتے، اپنے مال و جان کو خدا کی راہ میں خرچ کرتے اور یقین رکھتے ہیں کہ وحی کا سِلسلہ ابتدائے خلقِ آدم سے تاقیامت جاری ہے۔ یہ لوگ ہدایت کے گھوڑوں پر سوار ہیں اور مظفّر و منصور ہوں گے۔ دومؔ وہ لوگ جن کے لئے سُنانا یا نہ سُنانا برابر ہے اور جو شرارت سے انکار کرتے ہیں مغضوب علیہم ہیں ایسے ہی منافق۔ سومؔ وہ جو غلطی سے گمراہ ہیں یا بدعہدیوں نکی وجہ سے یہ ضالّ ہیں۔
اب ایک منعَم علیہ کیمال دے کر سمجھاتا ہوں۔ اﷲ نے فرشتوں سے مشورہ نہیں کیا بلکہ انہیں اطلاع دی۔ یہ اطلاع دینا خدا کا خاص فضل ہے جو بعض خواص پر ہوتا ہے کہ مَیں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ خلیفہ کہتے ہیں گذشتہ قوم کے جانشین کو جو اپنے پیچھے کسی کو چھوڑے۔ بادشاہ کو (ظاہری باطنی سلطنت کو) شامل ہے۔
یہ ملائکہ وہ تھے جن کے عناصر کی زمینی خدمات ہوتی ہیں اور یہ ثابت ہے اِس آیت سے (ص ٓ: ۷۶)جس سے معلوم ہؤا کہ عالین اس حکم کے مکلّف نہیں تھے۔
صوفیوں نے لکھا ہے تمام عناصر کا مجموعہ انسان ہے۔ ہر عنصر پر ایک فرشتہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے اپنے متعلّقہ شئے کی ماہیت کو جانتے تھے وہ سمجھے کہ یہ تمام عناصر جب ملیں گے ضرور ان میں اختلاف ہو گا مگر انہیں معلوم نہ تھا۔ خدا انسان کو مجموعہ کمالات بنانا چاہتا ہے۔ واقعی ہماری غذا بھی عجیب ہے کچھ اس میں پتّھر (نمک) ہے۔ کچھ نباتات کچھ حیوانات ۔ پس وہ بول اُٹھے کہ وہ فساد کرے گا اور خوں ریزی۔ مگر ہم تیری تسبیح و تقدیس کرتے ہیں تیری ذات کو اِس بات سے منزّرہ سمجھتے ہیں کہ تیرا کوئی کام حکمت اور نیک نتیجہ سے خالی ہو۔ فرشتے جو اعتراض کر رہے تھے در اصل وہی ان پر وارد ہوتا تھا کہ وہ بنی آدم کی پیدائش اور اس کی نسل کی نسبت چاہتے تھے کہ نہ ہو گویا سفک دماء کرتے تھے اور یہ بھی فساد تھا۔
ایک دفعہ کسی شخص نے مجھے کہا بہت علماء تمہارے مرزا صاحب کو خلیفۃ اﷲ نہیں مانتے۔ مَیں نے کہا یہ تعجّب نہیں! خلفاء پر فرشتوں نے اعتراض کئے ہیں یہ علماء فرشتوں سے بڑھ کر نہیں مگر فرشتوں اور دوسرے لوگوں کے اعتراض میں فرق تھا فرشتوں نے نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَاورکہہسُبْحٰنَکَ لَا عِلْمَ لَنَا اِلَّامَا عَلَّمْتَنَا کراپنے اعتراض کو واپس لے لیا… فرشتوں کے سوال سے انسان کو عبرت پکڑنی چاہیئے جسے نہ تو خدا کی صفات کا عِلم ہے نہ صفات سے پیدا شدہ فعل کا بلکہ فعل کا اثر کچھ دیکھا ہے پس وہ کِس بات پر بڑھ بڑھ کر اعتراض کرتا ہے اور مامور من اﷲ کی نسبت کہتا ہے یہ نہیں چاہیئے تھا وہ چاہیئے تھا۔ (بدر ۲۴؍ستمبر۱۹۰۸ء صفحہ۲)
آئندہ آنے والی باتوں کی نسبت روبران ملک پیشگوئی کرتے ہیں جن کے تجارب صحیحہ آئندہ واقعات کے متعلق ہوں وہ تمدّن کے فلاسفر کہتے ہیں جو دوائی اور نسخہ تجویز کرتے ہیں وہ بھی مریضوں کے متعلق ایک پیشگوئی کرتے ہیں جن کی ایسی پیشگوئیاں کثرت سے صحیح ہوں وہ طبیبِ حاذق کہلاتے ہیں۔ ایک اَور قوم ہے جو کسی حساب کی بناء پر پیشگوئی کرتی ہے پھر یہ پیشگوئیاں جس کی زیادہ حیح ہوں وہ مُنجم کہلاتا ہے۔ پھر اِس سے بڑھ کر ایک اَور قوم ہے جس کے دماغوں کی بناوٹ اِس قِسم کی ہے کہ وہ آئندہ واقعات کے متعلق بعض اَوقات صحیح پیشگوئیاں کر سکتے ہیں ان میں سے جو اَخلاقِ فاضلہ اورعقیدہ صحیحہ رکھتے ہیں وہ ولی کہلاتے ہیں۔ دوسرے ہڑڑپوپو۔ پھر ایک اَور قوم ہے جو ملائکہ کے نام سے مشہور ہے ان کو بعض معاملات کی قبل از وقت اطلاع خدا کی طرف سے دی جاتی ہے۔ پھر اِن سے بالاتر ایک اَور قوم ہے جو ملائکہ سے میرے خیال میں افضل ہے انہیں رسول یا بنی کہتے ہیں ان کی اگر کوئی پیشتوئی بظاہر صحیح نہ تو یہ امر ان کی ترقّی کا موجب ہے کیونکہ ایسی بات پیش آنے سے توجّہ جنابِ الہٰی میں بڑھے گی اور ترقّیات کو طلب کرے گا۔ بہر حال خدا تعالیٰ نے ملائکہ کو اطلاع دی کہ مَیں زمین میں ایک خلیفہ مقرر کرنے والا ہوں۔
: اِس کے لتین معنے ہیں(۱) قوم کا قائم مقام یخلف قومًا (۳) وہ بادشاہ جو نافذالحکم ہو جیسے پنجابی میں ’’منّیا پروَنّیا‘‘ کہتے ہیں۔ آدم علیہ السّلام کے متعلق تینوں باتیں صحیح ہو سکتی ہیں۔ ان سے پہلے بھی قومیں ہو سکتی ہیںاور بعد میں بھی ہوئیں اور اﷲ نے انہیں طاقت بھی بخشی ۔ ایک اَور جگہ داؤدؑ کے متعلق یہی لفظ فرمایا (ص ٓ۲۷) حضرت حق سُبحانہ، نے یہ اطلاع ملائکہ کو دی ہے اور ہرگز ہرگز بطور مشورہ نہیں بتایا۔ جن لوگوں کا یہ خیال ہے وہ غلطی پر ہیں خدا کِسی سے صلاح نہیں پوچھا کرتا۔ اطلاع کا نام مشورہ نہیں ہو سکتا۔ اِس پر فرشتوں نے عرض کیا کہ کیا تُو مقرر کرے گا اسے جو فساد کرے گا اور خوں ریزی؟ اِن معنوں پر بع لوگوں کو اعتراض ہے کہ خدا کے سامنے ملائکہ نے اعتراض کیوں کیا اِس لئے اِس سے بچنے کے لئیت بعض نے یہ معنے کئے ہیں کہ کیا آپ خلیفہ ایسا بنانے لگے ہیں جو فساد و خوں ریزی کرے ؟ گویا استفہام انکاری ہے یعنی ایسا نہیں ہو سکتا۔ پھر یہ بھی خیال کر لینا چاہیئے کہ فرشتے جو عرض کرتے ہیں وہ خود اس اعتراض کے نیچے ہیں۔ وہ یہ بات کہہ کر آدم کو مُفسد ٹھہراتے اور اس کو مرواتے ہیں اور ان انبیاء و اُولیاء کے ظہور کے مانع ہیں جنہوں نے اپنے کمالات سے مخلوق کو فائدہ پہنچایا اور خدائی جلال کو ظاہر کیا اِس طرح وہ خوں ریزی کے مرتکب ہوتے ہیں مگر یہ صحیح نہیں۔
بہر حال مجھے تو وہی پہلے معنے پسند ہیں کیونکہ اس سے مجھے بہت فائدہ پہنچا۔ ایک دفگعہ ایک شخص نے مجھے ایک خاص آدمی کے بارے میں پوچھا کہ آپ اسے کیسا سمجھتے ہیں۔ مَیں نے کہا نیک ہے، بزرگ ہے۔ اس کے بعد اس نے مجھ سے پوچھا کہ وہ تو مرزا صاحب کا مخالف ہے۔ مَیں نے کہا پھر کیا ہؤا ۔ آدم کی خلافت پر اس کے خلاف کہنے والے تو ملائکہ کہلاتے ہیں اور مَیں نے اسے مَلک میں نہیں کہا۔ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَ نُقَدِّسُ لَکَ اس پچھلی بات کا فرشتے ازالہ کرتے ہیں کہ ہم تجھے کُل عیب سے پاک سمجھتے ہیں اور تیری ذات اس سے اعلیٰ و اَرفع ہے اور اقدس ہے کہ کوئی ایسا فعل کرے جس کا نتیجہ اچھا نہ ہو۔ یہ قول کہ فرشتوں نے گویا اپنے تئیں منصبِ خلافت کے قابل سمجھا مَیں نے کہیں نہیں دیکھا۔
اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مَیں تم سے اَعلم ہوں اور اَب اس اَعلم ہونے کا ثبوت دیتا ہے کہ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآئَ کُلَّھَا۔ (ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۱؍ فروری ۱۹۰۹ء)
دُنیا میں خلیفے پیدا ہوئے ، ہوتے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ چار قِسم کے آدمیوں پر تصریح کی ہے جنابِ الہٰی نے۔ ایک حضرت آدمؑ کو فرمایا اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً یعنی ہم نے آدم کو زمین میں خلیفہ بنایا۔ ایک حضرت داؤدؑ کو فرمایا(ص ٓ۲۷) سے داؤد ہم نے تجھے خلیفہ بنایا۔ ایک سارے آدمیوں کو خلیفہ کا لقب دیا (یونس:۱۵) ہر انسان کو فرماتا ہے تم کو خلیفہ بنایا اور ہم دیکھتے ہیں کہ تمہارے اعمال کیسے ہوں گے۔ ایک دفعہ جب میرا بیٹا پیدا ہؤا (اگر وہ نہ ہوتا تو اس وقت ایک شخص تھا جس کا خیال تھا مَیں ہی وارث ہو جاؤں گا) تو کسی شخص نے اُس شخص سے بھی ذکر کر دیا ۔ اس کو بڑا رنج ہؤا اور بے ساختہ اس کے مُنہ سے نکل گیا کہ یہ بَد بخت کہاں سے پیدا ہو گیا۔ میری تو سری امّیدوں پر پانی پھر گیا مگر آج مَیں دیکھتا ہوں کہ وہ بالکل لا ولد ہے نہ لڑکی نہ لڑکا اور پھر خدا کا ایسا فضل ہے کہ ایک باغ لگا دیا۔
سو کسی قِسم کا خلیفہ ہو اس کا بنانا جنابِ الہٰی کا کام ہے آدمؑ کو بنایا تو اﷲ نے، داؤدؑ کو بنایا تو اُس نے ، ہم سب کو بنایا تو اُس نے۔ پھر حضرت نبی کریمؑ کے جانشینوں کو ارشاد ہوتا ہے (نور:۵۶)
جو مومنوں میں سے خلیفہ ہوتے ہیں ان کو بھی اﷲ ہی بناتا ہے۔ ان کو خوف پیش آتا ہے مگر خدا تعالیٰ ان کو تمکنت عطا کرتا ہے۔ جب کسی قِسم کی بَدامنی پھیلے تو اﷲ ان کے لئے امن کی راہیں نکال دیتا ہے۔ جو اُن کا مُنکر ہو اس کی پہچان یہ ہے کہ اعمالِ صالحہ میں کمی ہوتی چلی جاتی ہے اور وہ دینی کاموں سے رہ جاتا ہے۔
جناب الہٰی نے ملائکہ کو فرمایا کہ مَیں خلیفہ بناؤں گا کیونکہ وہ اپنے مقرّبین کو کسی آئندہ معاملہ کی نسبت جب چاہے اطلاع دیتا ہے۔ ان کو اعتراض سُوجھا جو اَدب سے پیش کیا۔ ایک دفعہ ایک شخص نے مجھیکہا حضرت صاحب نے دعوٰی تو کیا ہے مگر بڑے بڑے علماء اس پر اعتراض کرتے ہیں۔ مَیں نے کہا وہ خواہ کتنے بڑے ہیں مگر فرشتوں سے بڑھ کر تو نہیں۔ اعتراض تو انہوں نے بھی کر دیا اور کہا اَتَحْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا وَ یَسْفِکُ الدِّمَآئَکیا تُو اسے خلیفہ بناتا ہے جو بڑا فساد ڈالے اور خون ریزی کرے۔ یہ اعتراض ہے مگر مَولیٰ! ہم تجھے پاک ذات سمجھتے ہیں، تیری حَمد کرتے ہیں، تیری تقدیس کرتے ہیں۔ خدا کا انتخاب صحیح تھا مگر خدا کے انتخاب کو ان کی عقلیں کب پا سکتی تھیں۔ (الفضل ۱۷؍ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵)
ایک خلیفہ آدم تھا اُس کی نسبت فرمایا ہے اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً۔اَب خود ہی اس کے بارے میں ارشاد ہے اٰدَمُ رَبَّہ‘ فَغَوٰی (طٰہٰ:۱۲۲) لیکن جب فرشتوں نے کہا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا وَ َیسْفِکُ الدِّمَآئَ وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَ نُقَدِّسُ لَکَ توان کو ڈانٹ پلائی کہ تم کون ہوتے ہو ایسا کہنے والے۔ پس فَاسْجُدُوْ ا لِاٰدَمَ آدم کو سجدہ چنانچہ ان ک ایسا کرنا پڑا۔ دیکھو خود تو عاصی اور غوی تک کہہ لیا مگر فرشتوں نے چُوں کی تو اس کو ناپسند فرمایا۔ مَیں نے کِسی زمانہ میں تحقیقات کی ہے کہ نبی کے لئے لازم نہیں کہ اس کے لئے پیشگوئی ہو اور خلیفہ کیلئے تو بالکل ہی لازمی نہیں۔ دیکھو آدمؑ پھر داؤدٓ کے لئے کیا کیا مشکلات پیش آئے۔ مَیں اس قِسم کا قِصّہ گو واعظ نہیں کہ تمہیں عجیب عجیب قصّے ان کے متعلق سُناؤں مگر (ص ٓ:۲۵) سے تو یہ پایا جاتا ہے کہ کچھ نہ کچھ تو تھا جس کے لئے یہ الفاظ آئے۔ تیسرا خلیفہ ابوبکرؓ ہے اس کے مقابلہ میں شیعہ جو کچھ اعتراض کرتے ہیں وہ اتنے ہیں کہ ۱۳۰۰ برس گذر گئے مگر وہ اعتراض ختم ہونے میں نہیں آئے۔ ابھی ایک کتاب مَیں نے منگوائی ہے جس کے ۷۴۰ صفحات میرے پاس پہنچے ہیں۔ اِس میں صرف اتنی بات پر بحث ہے کہ مولیٰ علی رضی اﷲ عنہ بہتر ہے یا ابوبکرؓ۔ پھر شیعہ کہتے ہیں کہ ان کے متعلق نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کچھ پیشگوئی نہ فرمائی ۔ چوتھا خلیفہ تم سب ہو چنانچہ خدا تعالیٰ نے فرمایا(یونس:۱۵) اگلی قوموں کو ہلاک کر کے تم کو ان کا خلیفہ بنا دیا لِنَنْظُرَ کِیْفَ تَعْمَلُوْنَ اَب دیکھتے ہیں کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔
چار کا ذکر تو ہو چکا اَب مَیں تمہارا خلیفہ ہوں۔ اگر کوئی کہے کہ الوصیّت میں حضرت صاحب نے نورالدین کا ذکر نہیں کیا تو ہم کہتے ہیں کہ ایسا ہی آدمؑ اور ابوبکرؓ کا ذکر بھی پہلی پیشگوئی میں نہیں۔ (بدر ۲۱؍اکتوبر ۱۹۰۹ء صفحہ ۱۰،۱۱)
سعیدوںکے ایک مورثِ اعلیٰ سعید کا قِصّہ قُرآن کریم نے مکرّر عبرت کے لئے بیان کر کے مشاہدہ کرایا ہے کہ ہمیشہ بُرے بھلوں پر حملہ آور ہوتے رہے مگر انجا مکار بھلوں ہی کی فتحیابی ہوتی رہی اور اشقیاء ہمیشہ شقاوت کا نتیجہ پاتے رہے۔ اس سعید کا نام آدم علیہ السّلام تھا اس کا مورثِ اعلیٰ ہونا یہود کو توریت سے اور سیعائیوں کو نیو ٹسٹمنٹ سے ظاہر ہے۔ عرب کیلوگوں کو اپنی قومی اور ملکی روایت اور یہود اور عیسائیوں کے قُرب سے یہ قصّہ معلوم تھا اور غالب عمرانات کے لوگ آدم علیہ السّلام کے اس دشمن کی بَد حالت سے واقف تھے اور ظاہر ہے کہ تمثیل سے بہتر اور نتائج کے دکھانے سے زیادہ کوئی عمدہ ذریعہ روحانی اور اَخلاقی تعلیم کے لئے نہیں ہو سکتا۔ باری تعالیف نے ایک خاص مُلک اور ایک خاص زمین میں آدم علیہ السّلام کو پیدا کرنا چاہا اور قبل اس کے کہ اﷲ تعالیٰ آدمؑ کو خلیفہ اور امام اور دینی و دُنیوی بادشاہ بنا دے۔ اس ملک کے دیوتا اور سرون اور ملائکہ کو الہاماي آگاہ فرمایا کہ مَیں اس زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں…اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃَّجب کہا تیرے رَبّ نے ملائکہ کو کہ مَیں اس سر زمین میں ایک خلیفہ بنانا حاہتا ہوں۔ الارص کا الف اور لام اگرچہ عموم ار استغراق کے معنے بھی دیتا ہے مگر خصوصیّت کے معنے بھی دیتا ہے۔ ہر دو معنے اپنے اپنے موقع پر کئے جاتے ہیں۔ یہاں آدم علیہ السّلام کے ایک جگہ سے نکالے جانے اور دوسری جگہ چلا جانے سے صاف واضح ہوتا ہے کہ جہاں آدم علیہ السّلام خلیفہ بنائے گئے تھے وہ ایک خاص مُلک تھا اور جہاں آدمؑ پیچھے روانہ کئے گئے وہ اَور مُلک تھا اِس لئے یہاں الف لام تخصیص کے معنے رکھتا ہے اور لفظ خلیفہ اور الارض کے معنے معلوم کرنے کے واسطے آیۂ ذیل کو پڑھنا چاہیئے:۔

(ص ٓ: ۲۷)
اے داؤد ہم نے تجھ کو اِس زمین میں خلیفہ بنایا سو تُو لوگوں میں حق حق فیصلہ دیا کیجو۔
اِس آیہ میں لفظ خلیفہ اور لفظ الارض سے اچھی طرح واضح ہو سکتا ہے کہ الف و لام خصوصیّت کے معنے دیتا ہے اور آگے چل کر لفظ جنّت کی تحقیق میں ہم اور زیادہ تفصیل کریں گے۔ تفاسیر میں لکھا ہے:۔
فَھِمُوْا مِنَ الْخَلِیْفَۃِ اَنَّہُ الَّذِیْ یَْصِلُ بَیْنَ النَّاسِ ۔ مَا یَقَعُ بَیْنَھُمْ مِنَ الْمَظَالِمِ وَیَرُدُّھُمْ مِنَ الْمَقَارِمِ وَ الْمَآثَمِ۔ (قرطبی۔ ابنِ کثیر)
لفظ خلیفہ سے یہ سمجھا ہے کہ اس کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کے تنازعاتِ باہمی کو فیصل کرے اور ناکرونی امور سے انہیں باز رکھے۔
وَ الصَّحِیْحُ اِنَّہ‘ اِنَّمَا سُمِّیَ خَلِیْفَۃً لِاَنَّہ‘ خَلِیْفَۃُ اﷲِ فِی اَرْضِہٖ لِاِقَامَتِہٖ حُدُوْدَہ‘ وَ تَنْفِیْذِ قَضَایَاہُ۔ (فتح البیان)


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور دراصل یہ ہے کہ اُسے خلیفہ اِسی لئے کہا گیا ہے کہ وہ اﷲ کا خلیفہ بن کر اُس کی زمین میں حدود قائم کرتا ہے اور اَور احکامات کو جاری کرتا ہے۔
اَلْخَلِیْفَۃُ ھُوَ مَنْ یَخْلُفُ غَیْرَہ‘ وَالْمَعْنٰی خَلِیْفَۃٌ مِنْکُمْ لِاَنَّھُمْ کَانُوْا سُکَّانُ الْاَرْضِ اَوْخَلِیْفَۃُ اﷲِ فِیْ اَرْضِہٖ وَکَذٰلِکَ کُلُّ نَبِیٍّ نَحْوَیٰدَاو‘ دُاِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِیْفَۃً فِی الْاَرْضِ۔ (تفسیر مدارک)
خلیفہ اسے کہتے ہیں جو کسی کا قائم مقام ہو۔ آیت کے معنی یہ ہیں کہ وہ تم میں کا خلیفہ ہے۔ کیونکہ وہ لوگ اس زمین کے باشندے تھے اور یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ وہ اﷲ کا خلیفہ ہے اس کی زمین میں اور اِسی طرح ہر نبی اس کا خلیفہ ہے۔ مثلاً اے داؤد ہم نے تجھے اسی زمین میں خلیفہ بنایا۔
غرض اِس زمین کے تمام مقدّس فرشتوں کے مقدّس فرشتوں کے مقدّس گروہ نے آدم علیہ السّلام سے پہلی قوموں کی بَد اطواری اور کافروں،ڈشٹوں، ویسیوں، شیطانوں اور آمروں کے بُرے کام اور بَد چلنی دیکھی ہوئی تھی۔ علام الغیب تو بجز ذاتِ پاک باری تعالیٰ کے کوئی بھی نہیں۔ اِلّاماشاء اﷲ ۔ نہ انبیاء نہ اَولیاء۔ وہ ملائکہ بھی ایسے ہی محدود العِلم، محدود التجربہ مخلوق تھے۔اپنی کم عِلمی اور غیب نہ جاننے کے باعث اور کچھ خلیفہ کے لفظ سے جس کے معنے نائب اور قائم مقام کے ہیں ۔ غلطی سے سمجھ بیٹھے کہ یہ آدم بھی آدم ہے پہلی قوموں کی طرح فساد، تقل اور سفکِ دِماء نہ کرے۔ اس آدم کی واقعی نیکی اور نیک چلنی کا ان کو علم نہ تھا اِس لئے باری تعالیٰ کی معلّی بارگاہ میں عرض کیا:
اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا وَ َیسْفِکُ الدِّمَآئَ وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَ نُقَدِّسُ لَکَ۔
پہلے ہی سے فتنہ و فساد کی رویں اور شر کے طوفان تھوڑے چل رہے ہیں؟ یہ بھی تو کوئی ارپ قبیل ہی ہو گا۔ تیرا جلال ظاہر کرنے کو ہم بھی آخر ہیں ہی۔
بزرگوں، دیوتاؤں کاکام تویہی تسبیحات اور تحمیدِ الہٰی اور باری تعالیٰ کی عبادت ہوتی ہے۔ وہ بیچارے اﷲ تعالیٰ کے علم و حِکمت اور اس کے کاموں کے اسرار سے کیا واقف کہ فقط لِسانی تحمید و تقدیس سے دنیوی انتظام اور دینی کام اِس دارِ ناپائیدار کے نہیں چلتے۔ میرا یہ کہنا کہ آدم سے پہلے اَور قومیں دُنیا میں آباد تھیں اوّل تو قُرآن کریم کی اِس آیت سے ظاہر ہے بلکہ مکذّب نے بھی اِس امر کو تکذیب میں تسلیم کیا ہے۔
فَسَجَدُوْا اِلَّا اِبْلِیْسَ اَبٰی وَاسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ۔
ان سب نے اطاعت کی مگر ابلیس نے اِبا کیا اور گردن کشی کی اور باغیوں میں سے ایک وہ بھی ہو گیا۔
اور لفظ مِنْ کے معنے بعض کے ہوتے ہیں کَانَ ماضی کا صیغہ ہے اور اخبار الاوّل اور آثار الاوّل کی چوتھی فصل میں لکھا ہے:
رَوَی مُجَاھِدٌ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اﷲُ عَنْہُ قَالَ کَانَ فِی الْاَرْضِ قَبْلَ الْجِنِّ خَلْقٌ یُقَالُ لَھُمُ الْجِنَّ وَالْبُنَّ وَ الطمَّ وَ الرمَّ وَانْقَرَضُوْا وَ ذَکَرَ غَیْرُہٌ اَنَّ اَوّلَ مَنْ سَکَنَ الْاَرْضَ اُمَّۃٌ یُقَالُ لَھُمُ الْجِنُّ وَالْبُنَّ ثُمَّ سَکَنَھَا الْجِنُّ قَامُوْا یَعْبُدُوْنَ اﷲَ زَمَانًا فَطَالَ عَلَیْھِمُ الْاَمْرُ فَفَسَدُوْا فَاَرْسَلَ اﷲُ اِلَیْھِمْ نَبِیًّا مِنْھُمْ بِقَوْلِہٖ تَعَالٰی یَا مَعْشَرَالْجِنِّ وَالْاِنْسِ اَلَمْ یَاْ تِکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ وَقِیْلَ مَلِکًا مُنْذِرًایُقَالُ لَہ‘ یُوْسُفُ فَلَمْ یُطِیْعُوْہُ وَ قَاتَلُوْا فَاَرْسَلَ اﷲُ عَلَیْھِمُ الْمَلَائِکَۃَ فَاَجَلَّتْھُمْ اِلَی الْبِحَارِ۔
مجاہد ابنِ عبّاسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ جن سے پہلے یہاں زمین پر ایک لوگ رہتے تھے جنہیں جنّ،بنّ،طمّ،رمّ کہتے تھے اور وہ سب ناپید ہو گئے اور ایک شخص کا قول ہے کہ زمین کے پہلے باشندے ایک قوم تھی جنہیں جنّ اور بنّ کہتے تھے۔ پھر اُس پر جنّ آباد ہوئے۔ کچھ دنوں تو اﷲ تعالیٰ کے فرمانبردار بندے بنے رہے پھر لگے آرارتیں کرنے تو اﷲ تعالیٰ نے انہی میں سے ان کی طرف ایک بنی بھیجا چنانچہ اﷲ تعالیف فرماتا ہے۔ اے گروہ ِ جنّ و اِنس کیا تم میں سے تمہاری طرف رسوں نہیں آئے۔ کہتے ہیں ڈرانے والا بادشاہ۔ اس کا نام تھا یوسف ۔ انہوں نے اُس کا کہا نہ مانا اور اس سے لڑنے کو کھڑے ہوئے۔ تب اﷲ تعالیٰ نے ان پر فرشتوں کو بھیجا انہوں نے ان باغیوں کو سمندر کی طرف نکال دیا۔
اور تفسیر فتح البیان میں ہے :۔
اَفْسَدَتِ الْجِنُّ فِی الْاَرْضِ فَبَعَثَ اِلَیْھِمْ طَائِفَۃً مِنَ الْمَلَائِکَۃِ فَطَرَدُوْھُمْ اِلَی الْبِحَارِ وَرُؤُوْسِ الْجِبَالِ وَ اَقَامُوْا مَکَانَھُمْ۔ (فتح البیان)
انہوں نے زمین میں فساد بَرپا کیا اﷲ تعقلیٰ نے ان پر ملائکہ کو بھیجا وہ انہیں پہاڑوں اور سمندر کی طرف ہَنکا کر ان کی جگہ آباد ہو گئے۔
اَسْکَنَ الْجِنُّ فِی الْاَرْضِ فَمَکَثُوْا فِیْھَا دَھْرًا طَوِیْلًا ثُمَّ ظَھَرَ فِیِْمُ الْحَسَدُ وَالْبَغْیُ فَاَفْسَدُوْا فِیْھَا فَبَعَثَ اﷲُ تَعَالٰی عَلَیْھِمْ جُنْدًا مِنَ الْمَلَائِکَۃِ یُقَالُ لَہُ الْجِنُّ وَ ھُمْ خَزَّانُ الْجَنَانِ اشْتَقَّ لَھُمْ اِسْمٌ مِنَ الْجِنَّۃِ رَأْسُھُمْ اِبْلِیْسَ وَکَانَ رَئِیْسُھُمْ۔
تفسیر سراج المنیر خطیب شربینی:۔
وَعَنْ مُجَاھِدٍ عَنْ عَبْدِ اﷲِ ابْنِ عُمَرَ وَکَانَ الْجِنُّ بَنُوالْجَانِّ فِی الْاَرْضِ قَبْلَ اَنْ یُخْلُقَ اٰدَمُ بِاَلْفَیْ سَنَۃٍ فَاَفْسَدُوْا فِی الْاَرْضِ وَسَفَکُوا الدِّمَائَ فَبَعَثَ اﷲُ جُنْدًا مِنَ الْمَلَا ئِکَۃِ فَضَرَ بُوْھُمْ حَتّٰی اَلْحَقُوْا لِجَزَائِرِ الْبُحُوْرِ۔(ابنِ کثیر)
اِن عبارات سے صاف واضح ہوتا ہے جیسے ہمیشہ فاتح لوگ قلبِ ملک پر قابض ہو جاتے ہیں ایسے ہی ملائکہ اور وہ دیوتا جن کے سامنے یا جن پر آدم علیہ السّلام خلیفہ بنائے گئے شیاطین پر فاتح تھے اور شیاطین ذلیل اور خوار ہو کر دُور دُور بلاد میں بھاگ گئے اور امام الائمہ حضرت سیّدنا امام محمد باقر علیہ السّلام سے روایت ہے جیسے تفسیر کبیر میں لکھا ہے اس آدم علیہ السّلام سے پہے ہزار در ہزار آدم گذر چکے ہیں۔ حضرت شیخ مُحی الدین بن عربی رحمتہ اﷲ فتوحاتِ مکّیہ کے بان حدوث الدنیا میں فرماتے ہیں’’ مَیں ایک دفعہ کعبہ کا طواف کرتا تھا۔ مجھے کچھ لوگ طواف کرتے ملے: ان کی حالت سے مجھے معلوم ہؤا کہ یہ کوئی روحانی گروہ ہے۔ ’’فَقُلْتُ کَمْ لَکُمْ مِنَ الذَّمَانِ وَالْمُدَّۃِ فَقَالَ بِضْع ٌ وَ اَرْبَعُوْنَ اَلّْفَ سَنَۃٍ فَقُلْتُ لَیَْسَ لِاٰدَمَ قَرِیْبٌ مِنْ تِلْکَ السِنِیْنَ۔
فَقَالَ عَنْ اَیِّ اٰدَمَ تَقُوْلُ عَنْ ھٰذَا الْاَقْرَبِ اِلَیْکَ اَوْغَیْرِہٖ فَفَکَّرْتُ فَتَذَکَّرْتُ حَدِیْثًا مِنْ رَّسُوْلِ اﷲُ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّ اﷲَ خَلَقَ قَبْلَ اٰدَمَ الْمَعْلُوْمِ عِنْدَنَا مِائَۃَ اَلْفٍ اٰدَمَ۔
شیخ صاحب کہتے ہیں مَیں عالَمِ کشف میں حضرت ادریس نبی علیہ الصّلوٰۃ والسّلام سے مِلا اور اس کشف کی صِحت پر سوال کیا۔ ’’ فَقَالَ اِدْرِیسُ صَدَقَ الْخَبَرُ وَصَدَقَ شُھُوُْکَ وَمُکَاشِفَتُکَ‘‘جب ملائکہ۔ دیوتا۔ نے اپنے اس غلط قیاس کے باعث وہ عرض کی جس کا ذکر آیت اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا میں گذرا تب باری تعالیٰ نے ملائکہ کو فرمایا اِنِّیْ اَعْلَمُ مَالَا تَعْلَمُوْنَمَیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔
اﷲ تعالیٰ علیم و خبیر کی غیب دانی پر غور کرو۔ کیسی غیب دانی ہے اور وہ پاک ذات اپنے علم کے ساتھ کیسا محیط الکُل ہے۔ کسی تاریخ سے قرآن کی کسی آیت سے معلوم نہیں ہوتا کہ آدم علیہ الصّلوٰۃ والسّلام سے کسی قِس کا فساد فی الارض یاسفک دماء ہؤا ہو۔ ملائکہ کا اعتراض حضرت آدمؑ پر تھا اور اعتراض بھی یہ کہ فساد فی الارض اور سفکِ دماء اس سے سرزد ہو گا مگر حضرت آدمؑ ان عیوب سے پاک اور بَری نکلے۔ اگر حضرت آدمؑ کی اولاد میں سے کوئی شخص اُن کی طرز پر نہ چلا تو اُس کے جُرم سے حضرت قصور وار نہیں ہو سکتے۔ اولاد کے گناہ سے باپ کو بدنام کرنا اور بیٹے کے قصور پر باپ کو ملامت کے قابل بنانا بے انصافی ہے۔ باپ کی کرتوت سے بیٹا بدنام ہو تو ہو مگر بالعکس غلط ہے۔ ہاں حضرت آدم،شیطان کی ناراستی اور قسم پر دھوکا کھا جائے تو ممکن تھا کیونکہ نیکوں کے نیک گمان ہوتے ہیں۔ نیک آدمی فریبیوں کی باتوں پر اپنے نیک گمان کے سبب غلطی کھا سکتے ہیں۔ (تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۱۱۹ تا ۱۲۶،۱۲۷)







اﷲ تعالیٰ نے ملائکہ،دیوتا اور سرون کو آدم کے خلیفہ بنانے پر جب یہ فرمایا اِنِّیْ اَعْلَمُ مَالَا تَعْلَمُوْن اِس دعوٰی کی نہایت لطیف دلیل بنائی۔ دعوٰی تو یہ فرمایا کہ بے رَیب مَیں وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے اور اِس دعوٰی کا ثبوت یُوں دیا وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآئَ کُلَّھَاآدم کو چیزوں کے نام سکھائے اس تعلیم سے جو اﷲ تعالیٰ نے آدم کو دی۔ اتنا تو ثابت ہؤا کہ جو چیز آپ کو سکھائی گئی وہ فرشتے نہیں جانتے تھے اگر وہ جانتے تو اس چیز کے بتانے سے عاجز آ کر یہ نہ کہتے:
سُبْحٰنَکَ لَاعِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا۔تُو پاک ہے ہمیں کوئی عِلم نہیں مگر جتنا تُو نے ہمیں سکھایا۔
آدم کو ایسی بات تعلیم کر دینی جس کا عِلم فرشتوں کو نہ ہو ضرور اِس امر کا مثبت ہے کہ اﷲتعالیٰ وہ کچھ جانتا ہے جسے فرشتے نہیں جانتے اگر فرشتے جانتے تھے تو اﷲتعالیٰ نے اگر آدم کو پڑھا دیا تھا گو ہم نے مانا کہ علیحدہ پڑھایا تھا تو واجب تھا کہ فرشتے بُدوں اس کے کہ خدا سے پڑھتے بتلا دیتے اور اگر نہ بتلا سکے تو معلوم ہؤا کہ اﷲ تعالیٰ کا فرمودہ وَ اَعْلَمُ مَالَا تَعْلَمُوْنَبالکل سچّ تھا کہ فرشتے اس کے علوم سے بے خبر ہیں تو اس کے کسی فعل پر کسی کو خواہ ملائکہ کیوں نہ ہوں اعتراض کا موقع نہیں۔ (تصدیق براہینِ احمدیہ صفحہ ۱۲۷،۱۲۸)
اَب ہرسہ گروہ (منعم علیہم،مغضوب علیہم اور ضالّین۔ مرتب) کا ذکر تمثیلی رنگ میں فرماتا ہے وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ یعنی یہ ایک سوال ہے مگر ہم آپ کو کُلّی عیوب سے پاک جانتے ہیں۔ اِنِّیْ اَعْلَمُ کا ثبوت عَلَّمَ اٰدَمَ سے دیایعنی اس کو سکھا دیا فرشتوں کو نہ پڑھایا اور بتایا۔ دیکھو جسے ہم پڑھاتے ہیں وہی جانتا ہے دوسرا نہیں۔ ان مسّمیات کو پیش وہ نام کیا تھے اس کا تفحص بیہُودہ ہے۔ صوفیوں نے اسمائِ الہٰی مراد لئے۔ فلاسفروں نے ہر چیز کا ربّ النّوع۔ مَاکُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَ۔ اﷲ نے اپنی عظمت کا ذکر فرمایا کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں یہ نہیں کہ فرشتے دل میں کوئی بُرا خیال رکھتے تھے۔اﷲ نے اپنی عظمت کا ذکر فرمایا کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں یہ نہیں کہ فرشتے دل میں کوئی بُرا خیال رکھتے تھے۔
(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۳۶،۴۳۷)
الاسماء: کچھ نام سکھا دئے وہ نام کیا تھے اس پر لوگوں نے بحث کی ہے۔ صوفی تو کہتے ہیں اﷲ نے اپنے نام سکھائے فلاسفر کہتے ہیں چیزوں کے نام اور خواص۔ یہ سب باتیں قیاسی طور پر کہی جاتی ہیں۔ کِسی وحی سے ثابت نہیں۔ پس مَیں اِتنا کہوں گا کہ اﷲ نے کچھ باتیں سکھائیں ان کو اﷲ خوب جانتا ہے پھر فرشتوں سے کہا کہ کیا تم بتا سکتے ہو۔ اس پر ایک عیسائی نے اعتراض کیا ہے کہ اﷲ نے ملائکہ سے ناانصافی کی کہ ان کو نہ بتایا اور آدم کو بتایا حالانکہ نادان نہیں جانتا کہ ثابت بھی یہی کرنا تھا کہ جسے مَیں علم دوں وہ عالم ہے اور جسے مَیں نہ دوں وہ جاہل ہے چنانچہ فرمایا ہے کُلُّکُمْ ضَالّ اِلَّامَنْ ھَدَیْتُہ‘ کُلُّکُمْ عَارٍ اِلَّا مَنْ کَسَیْتُہ‘ پہلیدونوں جاہل تھے اور دونوں تعلیم کے محتاج۔ آدم کو پڑھا دیا اسے آ گیا ملائکہ کو نہ پڑھایا اسے نہ آیا چنانچہ فرشتوں نے خود اقرار کیا سُبْحٰنَکَ لَاعِلْمَلَنَآ اِلَّامَا عَلَّمْتَنَا پھر فرمایا اَعْلَمُ عَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَالّاَرْضِ خدا تعالیٰ زمین و آسمان کی چھُپی ہوئی باتوں کو جانتا ہے وہ علیم و حکیم ہے۔ ایک بچّہ درزی کو دیکھے کہ اس نے تمام تھان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئے تو وہ گھبر ا اُٹھتا ہے کیونکہ نہیں جانتا کہ یہ ٹکڑے ایک اعلیٰ ملبوس بننے والے ہیں اسی طرح اﷲ کے مصالح اکثر نادانوں سے مخفی رہتے ہیں وہ ظاہری صورت دیکھ کر چلّا اُٹھتے ہیں۔
گلستان میں ایک شخص کی حکایت ہے کہ وہ لنگڑا ہو گیا اور ایک دن بیگار میں لوگوں کو پکڑ رہے تھے اُسے چھوڑ گئے تو وہ خدا کا شُکر بجا لایا۔
قرآن شریف میں موسٰی اور خضر کا قِصّہ ہے۔ خضر نے ایک کشتی کو عیب ناک کر دیا اور بعد میں اس کی حکمت ظاہر ہوئی۔
پس ہمیں چاہیئے کہ خدا کی حکمتوں پر ایمان لائیں اور اس کے حکم مانیں شیطان نے اپنی رائے کو ترجیح دی۔ اس نے انکار کیا۔ اکڑبازی کی۔ کافر ہو گیا۔
بہت سے لوگ خدا کا فضل لے کر غضب کما لیتے ہیں بعض غضب تو نہیں کماتے مگر بھُول جاتے ہیں۔ خدا کے انکار اور شرک وغیرہ کی سزائیں بعد الموت ہیں مگر شوخی، بے حیائی، کسی کو دُکھ دینا، کِسی کی ہتک کرنا، اِن سب کے عذاب اِسی دُنیا میں بھی آتے ہیں۔ جو محض خدا کے حقوق ہیں ان کے لئے فروگذاشت معاف کی جاتی ہے مگر حقوق العباد میں دسترس کرنے کی سزا بہت جلد مِلتی ہے۔
بعض آدمیوں کو خدا تعالیٰ حُسن دیتا ہے مگر وہ اسی نعمت سے عورتوں کو اپنے اُوپر رجھا کر اپنے لئے موجبِ غضب لبنا لیتے ہیں۔ دولتمند انسان کے پاس دولت ایک نعمت ہے مگر یہی نعمت خدا کا غب بن جاتی ہے اگر اسے فضولیوں اور عیاشیوں میں صَرف کیا جائے۔ یہی حال تندرستی، ذہانت، فراست، موزونیّت طبع کا ہے کہ بعض ایسی باتوں میں لگ جاتے ہیں جو حُسن و عشق سے وابستہ ہیں۔ ایک گندی کتاب ہمارے بچپن کے زمانہ میں پڑھائی جاتی تھی جس کا نام بہار دانش ہے۔ مَیں نہیں سمھ سکتا کہ ایک شاگرد اپنے استاد کے آگے کس طرح اس کا ترجمہ کر سکتا ہے۔ غرض خدا تعالیٰ ذہن و ذکا ، فہم و فراست، جاہ و جلال، حُسن و جمال دیتا ہے مگر انسان انعام لے کر غضب کے نیچے آ جاتا ہے۔ (ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۱؍فروری ۱۹۰۹ء)




اَب جو رکوع اِس وقت پڑھتا ہوں اس میں نام لے کر ایک منعم علیہم گروہ کا ذکر ہے یعنی آدم اور ایک مغضوب علیہم یعنی شیطان کا اور بھُول میں پڑنے والے گروہ ملائکہ کا۔
(ضمیہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۱؍فروری ۱۹۰۹ء)
اﷲ جو حکم دیتا ہے اس کے ساتھ کچھ نواہی بھی ہوتے ہیں یہاں اُسْکُنْ،کُلَامِنْھَا رَغَدًا تو احکام ہیں اور لَاتَقْرَبَا نہی ہے۔
ھٰذِہِ الشَّجَرَۃََ: ایک درخت سے منع کیا جوان کے لئے مُضِر تھا۔ بے جاتکلیف اُٹھائی ان لوگوں نے جنہوں نے اس درخت کا نام ڈھونڈھا ہے۔ میرے اپنے ذوق کے مطابق یہ اعتقاد ہے کہ ہر شخص کو کچھ حکم دیا جاتا ہے تو ساتھ ہی کچھ ممانعت بھی کی جاتی ہے کُلُوْا وَاشْرَبُوْا کے سات وَلَاتُسْرِفُوْا فرمایا ہے ایسا ہی آدم کو کسی بات سے جو اس کے لئے مُضِر تھی روکا۔
فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ایسا کرو گے تو جان پر بوجھ ڈالو گے۔ آدم خدا کا مصطفٰے اور مجتبیٰ تھا اور قرآنِ مجید میں آیا ہے ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْکِتٰبَ الَّذِی اصْطَفَیْنَاہُ ُمِنْ عِبَادِنَ فَمِنْھُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ جس سے معلوم ہؤا کہ برگزیدہ لوگ بھی ظالم ہیں مگر وہ ظالم نہیں جن کے ظلم کا نتیجہ بُرا ہے بلکہ وہ نفس پر رضائِ الہٰی کے لئے ظلم کرتے ہیں۔
(ضمیمہ اخبار بدرؔقادیان ۱۸؍فروری ۱۹۰۹ء) چونکہ حضرت آدمؑ کی خلافت ان کی کمالِ عِلمی کے باعث ثابت ہو گئی اور علمی کمال بطریق اولیٰ تسبیح اور تحمید کا باعث ہوتا ہے جیسے قرآن کریم نے کہااِنَّمَایَخْشَیاﷲَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَآئُ۔یَرْفَعُ اﷲُ الَّذِیَنَ اٰمَنُوْا مِنْکُم وَالّنذِیْنَ اُوْتُوالْعِلْمَدَرَجَاتٍ تو حضرت آدمؑ ملائکہ سے بڑھ گئے اور ان پر فضیلت پا گئے۔ جن باتوں پر خلافت کا مدار ہے اِس آیت میں بیان ہوئی ہے۔


(البقرۃ:۲۴۸)
اسی بناء پر اﷲ تعالیٰ نے ملائکہ کو حکم دیا کہ اس خلیفہ اور حاکم کی اطاعت کرو۔ الہٰی خلفاء کی تابعداری اور فرمانبرداری انسانی ضرورت ي تمدّن اور سیاست کا لابدی مسئلہ ہے اِسی واسطے جامع العلوم کتاب قرآن کریم اِس بارے میں حکم دیتی ہے اَطِیْعُوا اﷲَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنکُمْ تمام مذاہب یہ امر مسلّم ہے کہ عبادت نام ہے اﷲ تعالیٰ کی آ گیا کیپالن کا۔ یعنی اس کافر مانبردار ہونا۔ جب باری تعالیٰ نے ملائکہ کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو آدم کو سجدہ کرنا اور اس کی آ گیا کا پالن کرنا درحقیقت باری تعالیٰ کی جناب کو سجدہ تھا نہ آدم کو سچ ہے مَنْ یُّطِعِ الرّنسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اﷲَ اﷲ تعالیٰ کے حکم سے اس کے خلفاء کی فرمانبرداری بھی خود اﷲ تعالیٰ کی اطاعت ہوتی ہے اور حکامِ وقت کے بھلے حکموں اور اچھے ارشادوں کی اطاعت حضرت حق سُبحانہ، وتعالیٰ کی ہی اطاعت ہؤا کرتی ہے۔
سجدہ کا لفظ اِسلامی شرع میں ایک وسیع لفظ ہے اس کے معنے سمجھنے کے لئے اِن آیات و محاورات پر غور کرو (النحل:۵۰) (الدعد:۱۶)
سجدہ کا لفظ عرب کی لُغت میں انقیاد اور فرمانبرداری کے معنے دیتا ہے۔ زیدالخیل عرب کا ایک مشہور شاعر ایک قوم کی بہادری کا تذکرہ کرتا ہیاور کہتا ہے اس بہادر قوم کے سامنے ٹیلے اور پہاڑ سب سجدہ کرتے ہیں یعنی فرمانبردار ہیں ان میں ہے کوئی چیز بھی اِس قوم کو روک نہیں سکتی۔
بِجَمْعٍ تَضِلُّ الْیَلْقُ فِیْ حُجُرَاتِہٖ
وَتَرَی الدُکْمَ جِیْھَا سُجَّدًا لِلْجَوَافِرِ
والسجود التذلک والانقیاد بالسعی فی تحصیل ماینوط بہ معاشھم۔فتح۔ تفسیر مدارک ۱؎ میںہے وَاِذْقُلْنَا لِلْمَلَائِکَۃ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ اَیْ اَخْضَعُوْالَہ‘ وَاَقَرُّوْا بِالْفنصْلِ لَہ‘۔
غرض آدم علیہ السّلام وہاں رہے اور ہر طرح اﷲ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں زندگی بسر کرتے رہے اﷲ تعالیٰ نے کہہ دیا تھا کہ انگور یا الشجر اور انجیر کے پاس بھی نہ جانا۔
وَقُلْنَا یٰٓاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتن وَزَوْجُلَ الْجَنَّۃَ وَ کُلَا مِنْھَا رَغَدً حَیْثُ شِئْتُمَا و لَا تَقْرنبَا ھٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوْنَا مِنَالظّٰلِمِیْنَ۔
سعید بن جبیر۔ سدی۔ شعبی۔ جعدہ بن ہبیرہ۔ محمد بن قیس۔ عبداﷲ بن عبّاس۔ مُرّہ ابن مسعود اور کئی صحابہ رضوان اﷲ علیہم اجمعین کا یہی قول ہے کہ وہ انگور کا درخت تھا۔ مدارک میں لکھا ہے کہ یہی درخت تمام فتنوں کی جَڑ ہے اور منذربن سعید نے اپنی تفسیر میں ایسا ہی لکھا ہے جیسے امام ابنِ قیّم نے حادی الارواح میں بیان کیا اور وہ جنّت جس میں آدم علیہ السّلام رہے وہ زمین پر تھا غور کرو دلائلِ ذیل پر:
وَالْقَوْلُ بِاَنَّھناجَنَّۃً فِی الّاَرّضِ لَیْسَتْ بِجَنَّۃِ الْخُلْدِ قَوْلُ اَبِیْ حننِیْفَۃَ وَاَصْحَابِہٖ رَضِیَ اﷲُ عَنْہُ وَ ٍٰذَا ابَنُ عُیَیْنَۃَ یَقُوْلُ فِیْ تَوْلِہٖ عَذَّ وَجَلَّ وَ اَنَّلَخَ اَنَّ لَکَ اَنْ لَاتَجُوْعَ فِیْھَا وَلَاتَعْری اَالَ یَعْنِیْ فِی الْاَرْضِ وَابْنُ عُیَیْنَۃِ اِمَامٌ وَ اِْنُ نَافِعٍ اِمَامٌ وَھُمْ (اَیِ الْمُنْکِرُوْنَ) لَایَاتُوْنَنَا بِمِثْلِھِمَا۔
(ترجمہ از مرتّب) اور یہ قول کہ : ’’ وہ جنّت زمین پر ہے، اِس سے مراد جنّتِ کُلد یعنی ہمیشہ رہنے والی جنّت نہیں ہے۔‘‘ یہ ابوحنیفہ رضی اﷲ عنہ اور آپ کے رفقاء کا قول ہے۔ اور ابنِ
۱؎ تفسیر فتح البیان و مدارک التنزیل۔ مرتّب
عیینہ کے مطابق فرمانِ الہٰی: وَاَنَّ لَکَ اَنْ لَّا تَجُوْعَ فِیْھَا وَلَا تَعْدٰی ( کہ اس میں تُو بے خوراک و بے پوشاک نہ ہو گا) یعنی اس سر زمین میں۔ اور یاد رہے کہ ابنِ عیینہ اور ابنِ نافع ایسے امام ہیں جن کی مثال منکرین کے پاس نہیں ہے۔
اور امام ابنِ قتیبہ نے اپنی کتاب معارف میں فرمایا ہے:۔
خَلَقَ اٰدَمَ وَ زَوْجَہ‘ ثُمَّ تَرَکَھُمَا وَقَالّ اعْتنمِرُوْا وَ اَکْثِرُوْا وَ امْلَئُوا الْاَرْضن وَ تُسَلِّطُوْا عَلٰیاَلْوَانِ الْھُجُوْرِ وَطَیْرِالشَّمَائِ وَالْاَنْعَامِ وَعُشُبِ الْاَرْضِِ وَشَجَرِھَا وَثَمَرِھَا فَاَخْبَرَ اَنَّہ‘ فِی الْاَرْضِ ثُمَّ قَالَ وَنَصَبَ الْفِرْدَوْسَ فَانْقَسَمَ عَلٰی اَرْبَعَۃِ اننْھَارٍ۔ سَیْحُوْنَ۔ جَیْحُوْنَ وَ دَجْلَۃَ وَفُرَاتَ۔
ترجمہ:خدا نے آدمؑ اور اس کی بیوی کو پیدا کر کے یہ کہتے ہوئے چھوڑ دیا کہ جاؤ آبادکاری کرو،کثرتِ اولاد سے زمین کو بھر دو اور مختلف پتھریلی سر زمین آسمان کے پرندوں ،مویشیوں،بناتات،درختوں اور پھلوں پر غلبہ حاصل کرو۔ ابنِ قتیبہ نے بتایا کہ یہ اس کُرّۂ اَرص کے بارہ میں ذکر ہے۔ پھر کہا کہ اﷲ نے فردوس قائم کیا اور یہ چار نہروں: سیحونؔ،جیحونؔاور دجلہؔوفراتؔمیں تقسیم ہو گیا۔
وَقَالَ مُنْذِرُبْنُ سَعِیْدٍ۔ زٰذَا وَ ھنبُ ابْنُ مُنَبَّہٍ یُحْکِیْ اَنَّ اٰدَمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ خُلِقَ فِی الْاَرْضِ وَفِیْھَا سَکَنَ وَ فِیْھَا نُصِبَ لَ ہُ الْفِرْدنوْسُ وَ اِنَّہ‘ کَانَ بِعَدْنٍ وَاِنَّ اَرْبَعَۃَالْاَنْھنارب انْقَسَمَتْ مِنْ ذَالِکَ النَّھْرُالَّذِیْ کَانَ یُسَمّٰی فِرّدنوْسُ اٰدَمَ ون تِلْکَ الْاَنْھَارُ مُضَا فَیِالْاَرْضِ لَا اِخْتِلَافَ بَیْنَ الْمُصَلِّیْنَ فِیْ ذَالِکَ فَاعْفتنبِرُوْایَا اُولِی الْاَبْصنارِ۔
ترجمہ: اور منذرؔ بن سعید نے کہا کہ وہبؔ بن منبّہ بیان کرتے ہیں کہ آم علیہ السّلام زمین میں پیدا کئے گئے اور اسی میں رہے اور اسی میں ان کیے لئے فردوس بانئی گئی جو عدنؔ میں تھی۔ اور فردوسِ آدم نامی دریا چار دریاؤں میں تقسیم ہؤا اور یہ چاروں زمین میں واقع ہیں۔ اِس بارہ میں اہلِ صلوٰۃ یعنی مسلمانوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ فَاعْتنبِرُوْا یَا اُولِی الْاَبْصَارِ۔
(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۱۲۸تا۱۳۱)
اَبٰی وناسْتَکْبَرن وَ کَانَ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ:یعنی اس نے سرکشی کی اور انکار کیا ار وہ کافروں میں سے تھایا ہؤا۔ اِس سے صاف ظاہر ہے کہ ہلاکت کو خود اس نے اپنی سرکشی سے خریدا۔ خدا نے اسے بجر ہلاک نہیں کیا۔ (نور الدین صفحہ ۲۶)
پہلا گناہ دین میں خلیفۃ اﷲ کے مقابل یہی تھا اَبٰی وَاسْتَکْبَرَ ۔ابس میں شک نہیں کہ سُنّت اﷲ اسی طرح پر ہے کہ ماموروں پر اعتراض ہوتے ہیں۔ اچھے بھی کرتے ہیں اور بُرے بھی۔ مگر اچھوں کو رجوع کرنا پڑتا ہے اور بُرے نہیں کرتے۔ مگر مبارک وہی ہیں جو اعتراض سے بچتے ہیں کیونکہ نیکوں کوبھی آخر مامور کے حضور رجوع اور سجدہ کرنا ہی پڑا ہے۔ پس اگر یہ مَلَک کی طرحبھی ہو پھر بھی اعتراص سے بجے کیونکہ خدا تو سجدہ کرائے بغیر نہیں چھوڑے گا ورنہ *** کا طَوق گلے میں پڑے گا۔ (الحکم ۱۷؍جنوری ۱۹۰۳ء)
پہلا نافرمان جس کی تاریخ ہمیں معلوم ہے ابلیس ہے وہ کیوں نافرمان بن گیا اس کی خبر بھی قرآن شریف نے بتلا ئی ہے کہ اس نے ابیٰ اور استکبار کیا یعنی اس میں انکار اور تکبّر تھا جس کی وجہ سے وہ اَسْلِمْ کی تعمیل نہ کر سکا۔ اِس وقت بہت لوگ ہیں کہ اس ابیٰ اور استکابر کی وجہ سے اَسْلِمْ کی تعمیل سے محروم ہیں۔ کسی کو عقل پر تکبّر ہے۔ کسی کو علم پر۔ کسی کو اپنے بزرگوں پر جو کہ ان کے نقصان کا باعث ہو رہا ہے اور جب کبھی خدا کے مامور آتے رہے ہیں یہی اباء اور استکبار اُن کی محرومی کا ذریعہ ہوتے رہے ہیں۔ انسان جب ایک دفعہ مُنہ سے نہ کر بیٹھتا ہے تو پھر اُسے دوبارہ ماننا مشکل ہو جاتا ہے اور لوگوں سے شرم کی وجہ سے وہ اپنی ہَٹ پر قائم رہنا پسند کرتا ہے اس کا نتیجہ کُھلم کُھلا انکار اور آخرکار وَکَانَمِنَالْکٰفِرِیْنَ کا مصداق بننا پڑتا ہے۔
(الحکم ۲۲؍فروری ۱۹۰۵ء نیز الحکم ۱۷؍مئی ۱۹۰۵ء)
اَبٰی وَاسْتَکْبَرَ وَ کَانَ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ:اِس سے ظاہر ہے کہ اوّل انکار اور کِبرہی ایک ایسی شئے ہے جو کہ فیضانِ الہٰی کو روک دیتی ہے۔ طاعون کے گذشتہ دَورہ میں جو الہامِ حضرت اقدس کو ہؤا تھا اس میں بھی ایک شرط لگی ہوئی تھی کہ اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ اِلَّا الَّذیْنَ عَلَوْا بِالْاِسْتِکْبَارِ کِبر تزکیۂ نفس کی ضِد ہے اور دونوں چیزیں ایک جامع نہیں ہو سکتیں۔ (الحکم ۲۴؍جنوری ۱۹۰۴ء)



ان کو شیطان نے پھسلانا چاہا اور ھر ان کو جہاں وہ تھے وہاںسے نکال دیا۔ خازن کی تفسیر میں لکھا ہے:۔
اَزَلّ ای اِسْتَزَلَّ اٰدَمَ وَحَوَّا وَ دَعَا ھُمَا اِلَی الذَّلَّۃِ وَھِیَ الْخَطِیَّۃُ(کتاب التاویل تفسیر خازن)غرض آدم علیہ السّلام اس ملک سے چل دئے اور کسی اَور زمین میں جا کر آباد ہوئے۔ توریت شریف میں لکھا ہے’’ خداوند خدا نے آدم علیہ السّلام کو پہلے باغِ عدن میں رکھا کہ اس کی باغبانی اور نگہبانی کرے‘‘ (پیدائش۲باب ۱۸ اور پیدائش ۳ بان ۲۴) آیت میں ہے اس نے آدم کو نکال دیا اور باغِ عدن کے پورب کی طرف کروبیوں کو جو چمکتی تلوار کے ساتھ چاروں طرف پھرتے تھے مقرر کیا۔ تو غالباً یہ وہ مکان تھے جہاں قائن جا کر آباد ہؤا ۔ سو قائن خداوند کے حضور سے نکل گیا اور عدن سے پورب کی طرف نود کی زمین میں جا رہا‘‘۔ (پیدائش ۴ باب ۱۶) اور یہ بھی فرمایا کہ ہم اِس واسطے تم کو نکالتے ہیں کہ لوگوں میں باہمی عداوت ہے اور باہمی عداوت کا یہی نتیجہ ہوتا ہے کہ آخر کچھ قوموں کو نکلنا پڑتا ہے۔ سوچو آریہ ہند میں کِس طرح آئے۔ مقامِ تامّل اور غور ہے۔ اب بھی اگر ناعاقبت اندیشوں کے باعث محرّم۔ دسہرہ وغیرہ کے فسادات ہوتے رہے تو بہت ساروں کو حکم ہو گا پورٹ بلیئر چلے جاؤ اور یُوں مجبوراً قُلْنَا اھْبِطُوْا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَکُمْ فِی الْاَرْضِ (پورٹبلیئر)مُسْتَقَرٌ وَّ مَتَاعٌ اِلٰی حِیْنٍ کی تعمیل کرنی پڑے گی۔ (تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۱۳۵،۱۳۶)
فَاَزَلَّھُمَا الشَّیْطٰنُ: شیطان کو بھی ایک موقع معلوم ہؤا اس نے پھسلانا چاہا۔
عَنْھَا۔ اس درخت سے۔قرآن مجید میں لکھا ہے کہ (طٰہٰ:۱۱۶) کچھ مدّت کے بعد آدم حکمِ الہٰی کو بھُول گئے اور یہ کسی انسان کے لئے موجبِ تعجّب نہیں ہو سکتا ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آدمی نماز کے لئیت بڑے اہتمام کے ساتھ گھر سے آتا ہے وضو کرتا ہے۔ پھر پہلی رکعت دوسری سے بالکل مختلف ہے پھر بھی بھُول جاتا ہے۔ قرآن مجید کی آیات کا بھی یہی حال ہے۔ بعض وقت معمولی آیت قرأت کے وقت بھُول جاتی ہے۔ روزہ رکھا جاتا ہے مگر بھُول کر پانی پی لیتے ہیں یہ عجائباتِ قدرت ہیں۔
اَخْرَجَھُمَا: اﷲ نے نکال دیا اس حالت سے جس میں وہ تھے۔ پھر خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ جب بعض تمہارے دشمن بھی ہیں تو تم چَوکس رہو۔
(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۸؍فروری ۱۹۰۹ء)



اِھْبِطُوْا: میرا ایمان ہے کہ یہ سزا نہیں۔آدمؑ نے خدا سے کچھ باتیں سیکھیں جیسے حضرت ابراہیمؑ نے اِذِابْتَلٰی اِبْرٰھِیْمَ رَبُّہ‘ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّھُنَّ یعنی کچھ حکام دئے جن کو ابراہیم نے پُورا کیا تو امام بنایا گیا اسی طرح خدا نے حضرت آدمؑ کو درجات عطا فرمائے۔
ھُوَا لتَّوَّابُ الرَّحِیْمُ کے بعدقُلْنَا اھْبِطُوْا فرمنا اِس بات کی دلیل ہے کہ یہ بطورسزاہرگزنہیں۔ یہ قرآن شریف کے سیاق کے بالکل خلاف ہے۔
فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی: ہماراہدایت نامہ جب آئے تو قاعدہ یاد رکھو جو تابع ہو گا اس پر کوئی خوف و حزن نہیں۔ ہر زمانے میں ایک تغیّر آتا ہے اس تغیّرمیں ایک قوم خوف و حزن میں ہوتی ہے۔
رسولِ کریمؐ جب مبعوث ہو کر پبلک میں آئے تو لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ کا وعظ کیا۔ اس وقت دو مذہب تھے ایک موحّد دوسرے بُت پرست۔ ان میں سے جو متّبع تھے حضرت نبی کریمؐ کے وہ کامیاب ہوئے اور سارے عرب کو ساتھ ملا لیا مگر کافر اسی خوف و حزن میں رہے۔ عبداﷲ بن اُبَیّ اور ابوجہل کو تھوڑا رنج تھا اور پھر کفّار کو کتنا حُزن ہؤا ہو گا جبکہ دونوں کے بیٹے مسلمان ہو گئے۔ غرض جو فرمانبرداری اختیار کرتے ہیں وہ سُکھ پاتے ہیں اور جو مقابلہ کرتے ہیں وہ اصحابُ النّار جَل بھُن کے کباب ہو جاتے ہیں۔
ایک اعتراض کیا جاتا ہے کہ مومنون کو بھی خوف و حزن ہوتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مومنوں کے لئے یہ وعدہ ہے وَلَیُبَدِّ لَنَّھُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا۔ غرض یہ خوف و حزن ایک فریق کے لئے کامیابی کا موجب ہوتا ہے تو دوسرے کے لئے ناکامی کا۔
(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۸؍فروری ۱۹۰۹ء)
آدمؑ نے اپنے ربّ سے کچھ کلمات سیکھے اور اس پر فضل ہؤا اور اﷲ نے حکم دیا کہ اَب جب کبھی ہماری ہدایت پہنچے جو اس کے تابع ہو گا اس پر کسی قِسم کا خوف و حزن طاری نہ ہو گا اور جو حکم کی خلاف ورزی کرے گا اسے نقصان پہنچے گا تم سب دِل میں سوچو کہ تمہارا جی چاہتا ہے کہ تمہیں غم ہو خوف ہو۔ غموں اور خوفوں سے بچنے کا ایک ہی علاج ہے وہ یہ کہ ہدایت کی اتباع کرو اگر نہیں کرو گے تو دُکھ اُٹھاؤ گے۔ (الفضل ۲۴؍ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵)
اھْبِطُوْا مِنْھَا جَمِیْعًا: یہاں سے سب کے سب نکل جاؤ۔
یہ حکم تعالیٰ کے فضل کا نشان تھا۔ حضرت آدمؑ غالباً ہند بکہ سراندیپ میں چلے آئے جیسے جابر،ابنِعمر، سیّد ناعلی اور جماعت صحابہ اور تابعین اور من بعد ھم سے مروی ہے۔ کیونکہ جس مکان پر کسی سے غلطی ہوتی ہے وہ منحوس جگہ اِس قابل نہیں ہوتی کہ محتاط لوگ وہاں رہیں ۔ علاوہ بریں ایسے مکان سے ہجرت کرنا آئندہ کے واسطے ہشیار اور خبردار بنا دیتا ہے۔
(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۱۲۶)

سارا قرآن شریف حقیقت میں الحمد کی تفسیر ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن شریف میں تین گروہوں کا اور اپنی صفات میں سے چار صفات کا ذکر کیا ہے۔ ایک گروہ کا نام منعَم علیہم ہے۔ بہت سے لوگ منعَم علیہ ہو کر بھی مغضوب بن جاتے ہیں۔ مغضوب علیہ وہ ہوتا ہے جو علم پر عمل نہ کرے اور کِسی سے بے جا عداوت رکھے۔ احادیث میں یہود بتائے گئے ہیں ان میں یہی بات ہے کہ بے جا عداوت رکھتے ہیں اور جو اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ ہو کر علم نہیں رکھتے اور کسی سے بے جا محبّت رکھتے ہیں وہ ضالین ہیں۔ احادیث میں ان کا نام عیسائی آیا ہے۔ یہاں یعقوب کا نام چھوڑ دیا ہے۔ اسرائیل کو یونانی زبان میں س کی بجائے ش بولتے ہیں۔ اشر کے معنے سپاہی ،بہادر ۔خدا تعالیٰ نے یعقوب علیہ السّلام کا یہ نام رکھا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا بہادر سٌاہی ہے۔ ماں باپ نے تو یعقوب نام رکھا تھا اﷲ تعالیٰ نے اسرائیل نام رکھا ۔ یہاں ہم کو بتایا کہ تم کِن اسلاف کی اَولاد ہو۔
انعامات کو یاد کرنے سے یہ فائدہ ہے کہ ہمارے احکامات کی بجا آوری میں سُستی نہ کرو۔ ہمارے احکامات کی بجا آوری کا یہ نتیجہ ہو گا کہ جو نتائج پہلوں کو عطا ہوئے ہیں وہ تم کو بھی عطا ہو جائیں گے۔ بعض اَوقات انسان کو ایک اَور مشکل پیش آ جاتی ہے وہ یہ کہ بعض آدمی غریب ہوتے ہیں ان کو فِکر ہوتا ہے کہ ہم کسی بڑے آدمی کی مخالفت کریں تو ہم کو نقصان پہنچے گا۔
نِعْمَتِیَ الَّتِیْ ٓ اَنْمْتم عَلَیْکُمْ: سب سے بڑی نعمت تو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا وجودِ مبارک تھا۔
اُوْفِ بِعَھْدِکُمْ:میرے وعدوں کے پابند ہو جاؤ۔ جو مَیں نے ان پر ثمرات عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے وہ مَیں دے دوں گا۔
چونکہ کسی شرعی حکم پر عمل کرنے میں بعض آدمیوں کو مشکلات ہوتی ہیں اور بڑے آدمیوں کا خوف ہوتا ہے کہ شاید وہ تکلیف دیں۔ اِسی لئے فرماتا ہے اِیَّایَ فَارْھَبُوْنِ ڈر صرف میرا ہی رکھو۔انسان حق بات کا اظہار بوجہ مالی ضعف یا ضعفِ جاہ و جلال یا ضعفِ علم و ہمّت کر نہیں سکتا۔ مثلاً ایک آدمی غریب ہے اپنا جتھا نہیں رکھتا پس وہ دوسروں کا محتاج ہے۔ فرماتا ہے اگر تم اظہارِ حق میں کسی کی پرواہ نہ کرو تم میرے وفادار بنو اور میرا ڈر رکھو مَیں ضرور تمہاری مدد کروں گا۔ یہ ضعفاء کے لئے ہے۔ (ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۸؍ فروری ۱۹۰۹ء)
قرآن سُنانے والوں کو یہودیوں ، عیسائیوں میں قرآن سُنانے کا کم موقع ملتا ہے پس جہاں یہ ذکر ہے وہاں مسلمانوں کو متنبّہ کرنا مقصو ہے۔ پس مسلمان کو چاہیئے کہ جن ناپسند کاموں کی وجہ سے یہودی عیسائی عذاب پانے والے ہوئے ان سے بچے اور جن پسندیدہ کاموں کے سبب انعام پائے وہ کرے۔
اس قوم کے مورثِ اعلیٰ کا نام نہیں لیا بلکہ لقب بیان کیا ہے اس سے ان کو شرم اور جوش دلانا مقصود تھا۔
عربی زبان میں اسرائیل کے معنے ہیں خدا کا بہادر سپاہی۔ اِس نام سے یہ غیرت دلائی کہ تم بھی اﷲ کے بہادر نبو۔ ہماری سر کار سیّد الابرارؐ سے بڑھ کر اَور کون اﷲ کا پہلوان ہے۔ پس اِتنے بڑے انسان کی اُمّت اور اولاد ہو کر ہم نفس و شیطان کے مقابلہ میں بُزدلی دکھائیں تو ہم پر افسوس ہے…
نِعْمَتِیَ الَّتِیْ ٓ اَنْعَمْتن عنلَیْکُمْ وہ نعمت کیا تھی۔ دوسری جگہ فرمایا کہ تم میں سے انبیاء و ملوک بنائے اور وہ کچھ دیا جو دوسروں کو نہ دیا گیا۔
پس اے مسلمانو تم اپنی لحالت پر غور کرو کہ تم پر بھی یہ انعام ہو چکے ہیں۔ اِس کتاب پر ایمان لاؤ کیونکہ اِس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ تمام نصائح کی جامع ہے۔ اگر کسی اگلی کتاب میں تحریف ہو چکی ہے تو یہ اسے صاف کرتی ہے۔ (بدر ۲۶؍نومبر ۱۹۰۸ء صفحہ ۳)
اِس رکوع میں اﷲ تعالیٰ نے حضرت یعقوبؑ کی اولاد کو ، بنی نوع اسرائیل کو بہادر سپاہی کے بیٹوں سے خطاب کیا۔ مسلمانوں کی عبرت چاہیئے کہ تم بھی کسی بہادر سپاہی کی قوم ہو۔ محمد رسول اﷲؐ تمہارا امام تھا۔ صحابہ کرامؓ اور تابعین کی اولاد ہو۔ تمہیں یاد ہے تم پر کیا کیا فضل ہوئے۔ پہلا فضل تو یہی ہے کہ تم کچھ نہ تھے۔ پیدا ہوئے پھر مسلمان ہوئے۔ قرآن جیسی کتاب تمہیں دی گئی۔ محمد رسول اﷲ جیسا خاتم النّبییّنؐ رسول عطا فرمایا۔ تمہیں سمجھانے کے لئے متنبّہ کرنے کے لئے دوسروں کے حالات سُناتا ہے کہ ایک قوم کو ہم نے بڑی نعمتیں دی۔۔ فَکَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اﷲِ (نحل:۱۱۳) اس قوم نے اﷲ کی نعمتوں کی کچھ قدر نہ کی تو ہم نے ان کو بھُوک کی موت مارا ۔ بھُوک کی موت۔ بہت ذِلّت کی موت۔ بہت دُکھ کی موت ہوتی ہے۔ مَیں نے ان اپنی آنکھوں سے بھُوک کی موت مرتے لوگ دیکھے ہیں۔ دُودھ ان کے مُنہ میں ڈالیں تو وہ بھی حلق سے نیچے نہیں اُترتا ۔ کشمیر میں خطرناک قحط پڑا کافر تو سؤر بھی کھاتے ہیں ان کے باورچی خانہ کے اِرد گِرد لوگ جمع ہو جاتے کہ شاید کوئی چھچھڑا مِل جائے۔ یہ حالت اضطراری تھی اِس لئے مسلمان معذور تھے۔ پندرہ برے بڑے غرباء خانے تھے اور رئیس چار سیر گیہوں خرید کر سولہ سیر کے حساب سے دیتا مگر پھر بھی خدا ہی دے تو بندہ کھائے بندے کی کیا ہی طاقت ہے کہ اِتنی دُنیا کی رزق رسانی کر سکے۔ غرض اﷲ تعالیٰ ایک قوم کو نعمتیں یاد دلاتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے اَوْفُوْا بِعَ ھْدبکُمْ مجھ سے جو عہد کیا تھا وہ پُورا کرو تو مَیںوہ عہد پُورا کروں گا جو تم سے کیا تھا۔ اِس کا ذکر پہلے آ چکا ہے چنانچہ فرمایا(البقرہ:۳۹)یعنی تم میری ہدایت کے پَیرو بنو تو مَیں تمہیںلَازندگی دوں گا۔ اس وقت کسی مصیبت کے دن ہیں۔ سات کروڑ کے قریب مسلمان کہلاتے ہیں چھ کروڑ کے کان میں قرآن کبھی نہیں گیا ایک کروڑ ہو گا جو یہ سُنتا ہے کہ قرآن ہے مگر اسے سمجھنے کا موقع نہیں۔ پھر چند ہزار ہیں جو قرآن مجید باترجمہ بڑھتے ہیں۔ اب یہ دیکھو کہ عمل درآمد کے لئے کِس قدر تیار ہیں۔ مَیں نے ایک بڑے عالم فاضل کو دیکھا جن کا مَیں بھی شاگرد تھا۔ وہ ایک پُرانا عربی خطبہ پڑھ دیتے تھے۔ ساری عمر اسی میں گذار دی اور قرآنِ مجیدنہ سُنایا حالانکہ علم تھا، ذہین و ذکی تھے، نیک تھے، دُنیا سے شاید کچھ بی تعلق نہ تھا۔ پھر ان کی اولاد کو بھی مَیں نے دیکھا وہ بھی اسی خطبہ پر اِکتفا کرتی ۔ مَیں نے آنکھ سیروزانہ التزام درس کا کہیں نہیں دیکھا۔ ان بعض مَلکوں میں یہ دیکھا ہے کہ کِسی فِقہ کی کتاب کی عبارت عشاء کے بعد سُنا دیتے ہیں۔ پس مَیں تمہیں مخاطب کر کے سُناتا ہوں۔ اﷲ فرماتا ہے ہمارے فضلوں کو یاد کرو اور میرے عہدوں کو پُورا کرو مَیں بھی اپنے عہد پُورے کروں گا۔ کبھی ملونی کی بات نہ کیا کرو اور گول مول باتیں کرنا ٹھیک نہیں۔ حق کو چھُپایا نہ کرو بحالیکہ تم جانتے ہو۔ قرآن شریف میں دو ہی مضمون ہیں ایک تعظیم لِاَمر اﷲ۔ لَآ ابلٰہَ اِلَّا اﷲُ کے ساتھ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ اس کلمۂ توحید کی تکمیل کے لئے ہے۔ دومؔشفقت علیٰ خلق اﷲ۔ اِس ممون کو کھول کر بیان فرماتا ہے کہ خدا کی تعظیم کے واسطے نمازوں کو مضبوط کرو اور باجماعت پڑھو۔ آجکل تو یہ حال ہے کہ امراء مسجد میں آنا اپنی ہتک سمجھتے ہیں۔ حِرفت پیشہ کو فرصت نہیں۔ زمیندار صُبح سے پہلے اپنے گھروں سے نکلتے ہیں اور عشاء کے قریب واپس آتے ہیں۔ ایک وقت کی روٹی باہر کھاتے ہیں۔ پھر واعظوں اور قرآن سُنانے والوں کو فرماتا ہے کہ لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھُول جاتے ہو۔ علماء ،فقراء ، گدّی نشین سب کو ارشاد فرماتا ہے کہ بہادروں کے بیٹے بنو۔حق میں باطل نہ ملاؤ۔ وفادار بنو تاکہ بیخوف زندگی بسر کرو۔ دسروں کو سمجھانے سے پہلے خود نمونہ بنو۔ اگر تبلیغ میں کوئی مشکل پیش آجائے تو استقلال سے کام لو۔ بدیوں سے بچو۔ نیکیوں پر جمے رہو۔ نمازیں پڑھ پڑھ کر۔ دعائیں مانگتے رہو اور یہ یقین رکھو کہ آخر اﷲ کے پاس جانا ہے۔ زندگی کا کچھ بھروسہ نہیں۔ مَیں نے ایک شخص کو دیکھا بادشاہ کے پاس قلم و کاغذ لے کر گیا اِدھر پیش کیا اُدھر جان نکل گئی۔ ایک اَور شخص تھا بڑے شوخ گھوڑے پر سوار ۔ میری طرف مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھایا۔ مَیں نے کہا آپ کا گھوڑا شوخ ہے۔ کہنے لگا ہاں ایسا ہی ہے۔ مَیں ادھر گھر پہنچا کہ مجھے اطلاع ملی کہ وہ مَر گیا۔ غرض یہ دوست ، یہ احابب، یہ آشنا، یہ اقرباء، یہ مال یہ دلوت، یہ اسباب یہ دکانیں، یہ سازو سامان یہیں رہ جائیں گے۔ آخر کار باخداوند۔ اﷲ تم پر رحم کرے۔ (الفضل یکم اکتوبر ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵)

مُصَدِّقًا لِّمَامَعَکُمْ۔ مُصَدِّقًا بعض عیسائیوں نے اعتراض کیا ہے کہ پھر مسلمان کیوں انجیل پر عمل نہیں کرتے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم مصدّق ہونے کو تیار ہیں بشرطیکہ انجیل وہ ہو جو عیسٰیؑ پر نازل ہوئی۔ اگر وہ انجیل ہو تو ہم اس کے مصدّق ہیں۔
پھر کوئی چیز مصدّق اُس چیز کے لئے ہو سکتی ہے جو تصدیق کی محتاج ہو۔ مثلاً سبت مناؤیا یہ کرو تو یہ محتاجِ تصدیق نہیں۔ تصدیق کی محتاج پیشگوئیاں ہوتی ہیں اِسلام کی وجہ سے جو تغیرّ ان کے بلاداؤ مذہب میں ہؤا۔ عیسائیوں سے ہمارا سوال ہے کہ آیا اس کے متعلق کوئی پیشگوئی تمہاری کتابوں میں ہے یا نہیں۔ اگر ہے تو وہ پوری ہو چکی۔
تصدیق کے دوسرے معنے سچ کو سچ کہنے والا۔ جھُوٹ کو جھُوٹ کہنے والے کو مصدّق نہیں کہتے۔ پس جو اِن کتابوں میں سچ ہے اس کو اپنی تعلیم میں لے کر سچّا ثابت کر دیا اور جو جھُوٹ ہے اسکی تکذیب کر دی۔ مثلاً یہود کہتے ہیں کہ خدا ایک ہے اور مسیحی کہتے ہیں کہ خدا تین ہیں۔ پس فرمایا:۔
(مائدہ: ۷۴)
وَلَا تاَکُوْنُوْ آ اَوّلَ کَافِرٍبِہٖ یعنی تم پڑھے ہوئے کافر بنو گے تو اوّل درجہ کے کافر کہلاؤگے۔ گو مُشرک پہلے کافر ہوئے تھے مگر وہ جاہل تھے۔ اِسی لئے پڑھے ہوؤں سے کہا کہ تم اوّل درجہ کے کافر بنو گے کیونکہ تم کو منہاجِ بنوّت کا علم ہے اور پھر کافر بنے۔
ثَمَنًا قَلِیْلًا کے یہ معنی نہیں کہ قرآن کی قیمت تھوڑی نہیں لینی چاہیئے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جھُوٹے مسئلے بنا کے اپنی بڑائی یا دُنیا چاہنا بہت بُرا ہے۔ قرآن مجید میں آیا ہے کہ (النّساء :۷۸) جس سے ثَمَنًا قَلِیْلً کے معنے کُھل سکتے ہیں۔
فَاتَّقُوْنِ: میرا تقوٰی اختیار کرو۔
(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۸؍ فروری ۱۹۰۹ء)
اوّل نمبر کے کافر نہ بنو یا پہلا بُرا نمونہ تم نہ بنو کہ دوسرے اس سے متاثر ہوں گے اور سب کا گناہ تمہارے ذمّہ ہو گا۔ کلامِ الہٰی کی بے اَدبی نہ کرو۔ جس شخص نے ’’ بہار دانش‘‘ لکھی ہے اُس سے کسی نے پوچھا کہ کیا کر رہے ہو؟ جواب دیا اِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ کی تفسیر کر رہا ہوں۔ راگ والی کتاب کسی نے بنائی اور اُوپر لکھ دیا (الذّمر:۱۹)۔یہ سب لَاتَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیلاً کی خلاف ورزی ہے۔


دُنیا میں ایک فرقہ ایسا بھی ہے کہ راستبازی ان کی فطرت میں داخل ہوتی ہے۔ ایک فرقہ وہ ہے جو حق کو باطل کے ساتھ ملا دیتا ہے اور پھر اپنے تئیں سچّا ثابت کرنے کے لئے حق کو چھپا دیتا ہے۔ بچّے کا حال بیج کی مانند ہے کہ تخم اچھا ہو پر زمین اچھی نہ ہو۔ زمین اچھی نہ ہو۔ زمین اچھی ہو تو آب پاشی نہ ہو۔ آب پاشی ہو تو حفاظت نہ ہو۔ پس خوش قِسمت انسان کو نیک ماں باپ، نیک ہم نشین ، عمدہ تربیت و نگرانی حاصل ہوتی ہے۔ (بدر: ۱۰؍دسمبر ۱۹۰۸ء صفحہ۲)
اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ: جب کہ تم پر حق واضح ہو چکا ہو۔ یہ سب علماء سے خطاب ہے کیونکہ ایسے لوگ علماء میں بہت ہیں۔ مثلاً ایک امیر شیعہ نے ایک عالم سے پُوچھا کہ کربلا جانا بہتر ہے یا مکّہ جانا۔ اُس نے جواب دیا مکّہ کے واسطے تو زادِراہ اور امن کی شرط ہے اور کربلا کے واسطے یہ شرط نہیں۔اوہ کربلا کی اتنی عظمت؟ اور اس کی طرف جان جوکھوں میں ڈال کر جانا ۔یہ سُنکر سُبحان اﷲ پڑھتا چلا گیا۔ بعد میں کسی دوست نے پُوچھا کہ کیوں حضرت یہ کیا فرمایا۔ کہنے لگے کہ اس نے دھوکہ کھایا۔ میرا مطلب یہ تھا کہ کربلا جانا ثابت بی نہیں۔ دیکھو اگر اسے حق کہنا منظور ہوتا تو ایسے مشتبہ لفظ نہ بولتا ۔
پھر فرمایا کہ نمازیں سنوار سنوار کر پڑھو اور زکوٰۃ دیتے رہو۔ مَیں نے بہت کم عالموں کو زکوٰۃ دیتے دیکھا ہے۔ ان میں زکوٰۃ کا رواج کم ہے۔
اِرْکَعُوْا: فرمانبرداروں کے ساتھ ہو جاؤ۔
(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۸؍فروری ۱۹۹۰۹ء)
اَقِیْمُوا الصَّلوٰۃَ: نماز کو قائم کرو۔ بعض کام روزمرّہ کی عادت بن جاتے ہیں۔ پھر ان کا لُطف نہیں رہتا ۔ دیکھا گیا ہے کہ زبان سے اَللّٰھممَّ صَلِّ عَلٰی ہو رہا ہے مگر قلب کی توجّہ کام کی طرف ہے۔
پس نماز کو سنوار کر پڑھو اور جو معاہدہ نماز میں کرتے ہو عملی زندگی میں اس کا اثر دیکھو۔ زبان سے کہتے ہو اِیَّاکَ نَعْبُدُ ہم تیرے فرمانبردار ہیں مگر کیا فرمانبرداری پر ثابت قدم ہو ؟ پھر واعظوں کو ڈانٹا ہے کہ تم دوسروں کونیکی کی نسبت کہتے ہو اور اپنے تئیں بھُلاتے ہو۔ پس تم دونوں سُنانے والے اور سُننے والے ثابت قدمی سے کام لو اور دُعا کرو۔ نماز پڑھو کہ یہ دونوں کام خاشعین پر گراں نہیں۔
جن کو اﷲ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کا یقین ہو وہی حقیقی خشوع کر سکتے ہیں۔
(بدر ۱۰؍دسمبر ۱۹۰۸ء صفحہ۲)
اﷲ تعالیٰ اِن آیات میں اپنے احسانات یاد دلاتا ہے کیونکہ انسان کی فطرت ہے کہ اپنے احسان کرنے والے کا شُکر گذار ہوتا ہے اور اس کی فرمانبرداری کرتا ہے اور اس کو خوش رکھنا اپنا فرض جانتا ہے۔ پس اﷲ تعالیٰ انسان کو کہتا ہے کہ تم خدا کے ناشکرے کِس طرح بنتے ہو۔ اپنا حال تو دیکھو تم مُردہ تھے، بے جان ذرّات تھے، تمہارا نام و نشان نہ تھا خدا نے تمہیں زندہ ، جاندار بنایا پھر تم مَر جاؤ گے پھر زندہ کئے جاؤ گے اور خدا کی طرف پھیرے جاؤ گے۔۔ پھر احسانِ الہٰی کو یاد کرو کہ اس نے زمین کی تمام اشیاء تمہارے فائدہ کے واسطے بنائیں۔ پھر تم زمین سے لیکر آسمان تک بلکہ عرش تک نگاہ ڈالو ہر امر میں خدا تعالیٰ کے تمام کاموں کو حِکمت سے پُر پاؤ گے۔ کوئی بات ایسی نہیں جس میں کوئی کمزوری یا خرابی نگاہ میں آ سکے اور خا سب باتوں کا علیم ہے وہ تمہارے افعال کو دیکھ رہا ہے اور اُن سے باخبر ہے۔ (بدرؔ۱۷؍ستمبر ۱۹۰۸ء صفحہ۲)

اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ: ایسے نہ بنو کہ لوگوں کو تو نیکی کا حکم کرو اور اپنے تئیں ترک کر دو۔
تَنْسَوْنَ کے معنے ترک کر دینے کے ہیں۔ قرآن شریف میں ایک جگہ آیا ہے نَسُوا اﷲَ فَنَسِیَھُمْ (التوبۃ:۶۷)
اَفَلَاتنعْقِلُوْنَ: تم کیوں نہیں رُکتے۔ عقل ایک صفت ہے۔ انسان اپنے تئیں بدیوں سے روک سکتا ہے۔
یہ دو گروہ ہوئے ضعفاء اور علماء۔ اب تیسرے گروہ کا ذکر آتا ہے یہ اُمراء کا گروہ ہے۔ ہمارے ملک میں اِن لوگوں کے لئے تو گویا کوئی شریعت ہی نہیں اور نہ کوئی واعظ ہے۔ ہر قِسم کی بدی ان کیلئے مباح ہے۔ ان کی مجلسوں والے نرے خوشامدی ہیں۔ ایک امیر نے بَینگن کی تعریف کی۔ حاضرینِ مجلس نے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔ دوسرے دِن اُس نے بَینگن کا نوکر نہیں۔ پس امراء کو خضوصیّت سے حکم دیتا ہے کہ روزے رکھو، نماز پڑھو۔ یہ طریق مشکل ہے مگر خشوع اختیار کرنے والوں کو نہیں۔ (ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۸؍فروری ۱۹۰۹ء)

اِنَّھَا کی ضمیر مؤنث ہے جو صبر و صلوٰۃ کی طرف پھرتی ہے۔ عربوں میں قاعدہ ہے کہ مذکّر و مؤنث مِل جاویں تو مذکّر کو ترجیح دیتے ہیں لیکن اگر علیحدہ مؤنث و مذکّر کو ضمیر پھرتا ہو تو مؤنث ہو گا۔ قرآن مجید میں ایک جگہ فرمایا (التوبۃ:۳۴) ھَا ضمیر فِضَّۃ کے لحاظ سے مؤنث آیا ہے حالانکہ اشارہ دونوں کی طرف ہے۔ یہ انگریزوں میں بھی رواج ہے کہ ہاتھ ملانے ، خطاب کرنے میں عورتوں کو مقدّم کرتے ہیں۔ عرب کے شعراء کا بھی یہی مَسلک ہے ایک شعر ہے ؎
وَمَ ذِکْر الرَّحْمٰن یَوْمًا وَ لَیْلَۃً
مَلَکْنَاکَ فِیْھَا لَمْ تَکُنْ لَیْلَۃُ الْبَدْرِ
اَلَّذِیْنَ یَطُنُّوْنَ: یقین کرتے ہیں۔
(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۸؍فروری ۱۹۰۹ء)
اَسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ میں بھی صبر کے معنے روزے کے کئے لگئے ہیں۔ روزے کے ساتھ دُعا قبول ہوتی ہے۔ (بدر ۱۷؍جون ۱۹۰۹ء صفحہ ۲)


: اﷲتعالیٰ مخاطب کرتا ہے ایک قوم کو کہ تم بہادر سپاہی کی اولاد ہو اور بہادر نبو۔
مَیں سمجھتا ہوں تمہیں بھی مخاطب کر کے یہی کہتا ہے۔ تم اپنے بزرگوں کو دیکھو کہ کِس طرح نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم و صحابہ کرامؓ نے اِسلام کی اشاعت میں اپنی جان تک لڑا دی۔ صحابہ ؓ ایسے بہادر تھے کہ ایک دفعہ نبی کریمؐ نے ان سے کہا دریا کے کنارے پر جاؤ کچھ کام ہے۔ تین سَو آدمی روانہ ہوئے اور مَیں حیران ہؤا کہ یہ نہیں پُوچھا کہ ہماری رَسد کا کیا اِنتظام ہو گا۔ کچھ کھچوریں مدیہ سے لے گئے جو رستے ہی میں ختم ہو گئیں۔ جب کچھ پاس نہ رہا تو کیکر کے پتّے پھانک کر گزارہ کرتے رہے۔ پھر ایک ویل مچھلی مِل گئی جس پر تین سَو آدمیوں نے سترہ روز تک گزارہ کیا۔ دیکھو اتّباع۔ کیا محبّت اتھی جو ان لوگوں میں تھی اَب مَیں دیکھتا ہوں کہ کسی کو مالی نقصان ہی پنچ جائے یا عزّت میں فرق آ فاوے یا کِسی کے خیال کے خلاف ہی کوئی ہِکم شرعی ہو تو اسے گراں گزرتا ہے۔ (ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۸؍فروری ۱۹۰۹ء)
اﷲ تعالیٰ ہمارا مالک۔ ہمارا خالق۔ ہمارا رازق۔ کثیر اور بے اِنتہاء انعام دینے والا مُولیٰ فرماتا ہے کہ میری نعمتوں کو یاد کرو۔ انسان کے اندر قدرتِ نے ایک طاقت و دیعت رکھی ہے کہ جب کوئی اُس کے ساتھ احسان کرتا ہے تو اس کے اندر اپنے مُحسن کی محبّت پیدا ہوتی ہے جُبِلَتِ الْقُلُوغبُ عَلٰی حُبِّ مَنْ انحْسَنَ اِلَیْھَا۔اور ایسا ہی اُس آدمی سے اُس کے دبل میں ایک قبسم کی نفرت اور رنچ پیدا ہو جاتا ہے جس سے اُس کو کِسی قِسم کی تکلیف یا رنج پہنچے اور یہ ایک فطرتی اور طبعی تقاضا انسان کا ہے۔ پس اسی فطرت اور طبیعت کے لحاظ سے اﷲ تعالیٰ اِس مقام پر فرماتا ہے کہ اﷲ کریم کے احسانوں کا مطالعہ کرو اور ان کو یاد کر کے اس مُحسن اور مُنعم کی محبت کو دل میں جگہ دو۔ اُس کے بیشامر اور بینظیر احسانوں پر غور تو کرو کہ اُس نے کجیسی منوّر ار روشن آنکھیں دیں جن سے وسیع نظارۂ قدرت کو دیکھتے اور ایک حَظّ اُٹھاتے ہیں۔ کان دئے جن سے ہر قِسم کی آوازیں ہمارے سُننے میں آتی ہیں۔ زبان دی جس سے کیسی خوشگوار اور عمدہ باتیں کہہ کر خود بخود خوش ہو سکتے ہیں۔ ہاتھ دئے کہ جن سے بہت سے فوائد خود ہم کو اور دوسروں کو پہنچتے ہیں۔ پاؤں دئے کہ جن سے چل پھر سکتے ہیں۔ پھر ذرا غور تو کرو کہ دُنیا میں اگر کوئی شخص کسی کے ساتھ اَدنیٰ سا احسان بھی کرتا ہے تو وہ اس کا کِس قدر ممنون ہوتا ہے اور ہر طرح سے اس احسان کو محسوس کرتا ہے۔
…غرص کُل دُنیا کی نعمتوں سے جو انسان مالا مال ہو رہا ہے یہ اس کی ہی ذرّہ نوازیاں ہیں۔ جسمانی نعمتوں اور برکتوں کو چھوڑ کر اَب مَیں ایک عظیم الشّان نعمت رُوح کے فطرتی تقاضے کو پُورا کرنے والی نعمت کا ذکر کرتا ہوں۔ وہ کیا۔ یہ اُس کا پاک اور کامل کلام ہے جس کے ذریعے سے انسان ہدایت کی صاف اور مصفّا راہوں سے مطلع اور آگاہ ہؤا اور ایک طلمت اور تاریکی کی زندگی سے نکل کر روشنی اور نور میں آیا۔ ایک انسان دوسرے انسان کی ،باوجود ہم جنس ہونے کے، رضاء سے واقف نہیں ہو سکتا تو پھر اﷲ تعالیٰ کی رضاء سے واقف ہونا کِس قدر محال اور مشکل تھا۔ یہ خدائے تعالیٰ کا احسانِ عظیم ہے کہ اس نے اپنی رصاء کی راہوں کو بتلانے اور اپنی وراء الوراء مرضیوں کو ظاہر کرنے کے لئے انبیاء علیہم السّلام کا سِلسلہ قائم فرمایا… یہ احسان ہے اﷲ تعالیٰ کا جو اسلام سے مخصوص ہے کہ بھولی بسری متاع اﷲ تعالیٰ جیسا وقت ہوتا ہے اس کے لحاظ سے اُس کا یاد دلانے والا بھیج دیتا ہے۔ یہ انعام ہے۔ یہ فضل اور احسان ہے اﷲ تبارک و تعالیٰ کا… اِس آیت میں خدا تعالیٰ اُس فطرت کے لحاظ سے جو انسان میں ہے ارشاد فرماتا ہے کہمیری نعمتوں کو یاد کرو جو مَیں نے تم پر کی ہیں۔ وَاَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ بنیاسرائیل کو کہتا اور مسلمانوں کو سُناتا ہے کہ اور مَیں نے تم کو دُنیا میں ایک قِسم کی بزرگی عطا فرمائی ہے۔ خدا تعالیٰ کے حکموں پر چلنے والا آسمانی اور پاک علوم سے دلچسپی رکھنے والا جیسی زندگی بسر کر سکتا ہے اُس سے بہتر اور افضل وہم میں بھی نہیں آ سکتی ۔ منافق کا نفاق جب طاہر ہوتا ہے تو اس کو کیسی شرمندگی اُٹھانی پڑتی ہے ۔ جھُوٹ بولنے والے کے جھُوٹ کے ظاہر ہونے پر وعدہ خلافی کرنے والے کے خلاف وعدہ پر ان کو کیسا دُکھ ہوتا ہے مگر محمد رُسول اﷲ صلّی اﷲ علیہ وسلم کے ماننے والے مذہبی حیثیّت سے اپنے پاک اور ثابت شدہ بیّن اور روشن عقائد اور اصولِ مذہب کے لحاظ سے کُل دُنیا پر فضیلت رکھتے ہیں۔ کیا خدا تعالیٰ کے حضور کوئی صرف دعوٰی سے افضل ہو سکتا ہے۔ ہرگز نہیں۔ خدا تعالیٰ مخفی در مخفی ارادوں اور نیّتوں کو جانتا ہے اس کے حضور نفاق کام نہیں آ سکتا بلکہ مَنْ اَتَی اﷲَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ (الشعراء:۹۰) کام آتا ہے۔ (الحکم ۳؍مارچ ۱۸۹۹ء صفحہ ۳تا۵)
قرآن کریم عجیب عجیب پَیرائے میں نصیحتیں فرماتا ہے۔ بہادر سپاہی کی اولاد تم بھی غور کر لو۔ کوئی اپنے آپ کو سیّد سمجھتا ہے وہ اپنے بڑوں کی بہادری پر کتنا فخر کرتا ہے۔ کوئی قریشی کہلاتا ہے وہ سیّدوں کو اپنی جُزو قرار دیتا ہے۔ اِسی طرہ کوئی مُغل ہے۔ کوئی پٹھان ، کوئی شیخ۔ غرض مخلوق کے تمام گروہ اپنے آپ کو سکسی بڑے آمی سے منسُوب کرتے ہیں مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ بڑا آدمی کیوں بنا۔ اپنے اعمال سے۔ پس اگر تم ان اعمال کے خلاف کرو گے تو کیا بڑے بن سکتے ہو۔ ہرگز نہیں۔ جو بہادری انسان کو بڑا بنا سکتی ہے کیا اُس بہادری کو ترک کر دینا انسان کو بُزدل نہیں بنا سکتا …
پس میرے پیارو! اگر تم بڑوں کی اولاد ہو اور خدا نے تمہیں تیرہ سَو برس سے عزّت دی تو بڑوں کے کاموں کو نابُود کرنے والے نہ بنو۔ تم خود ہی بتاؤ کہ وہ شِرک کرتے، جھُوٹ بولتے، دھوکا کرتے، وہ دوسروں کو دُکھ دیتے تھے؟ ہرگز نہیں۔ تو کیا تم ان افعال کے مُرتکب ہو کر بڑے بن سکتے ہو؟ بنی اسرائیل کو تو خدا نے شام میں بڑائی دی تھی مگر اسلام نے یہاں تک معزّز کیا کہ تمہیں سارے جہان کا عظیم انسان بنا دیا۔اِس نعمت کا شُکر کرو کیونکہ آیت نِعْمَتِیَ الَّتِیْ ٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عنلَی الْعٰلَّمِیْنَ تمہیں انعاماتِ الہٰی یاد دلانے کے لئے نازل ہوئی ہے۔ اگر تم ان انعاماتِ الہٰی کی ناقدری کرو گے تو اس کا وعید تیار ہے کیونکہ جس طرح نیکی کا پھَل اعلیٰ درجے کا آرام ملتا ہے ایسا ہی بَدی کا پھَل بھی ذِلّت و اِدبار کے سوا کچھ نہ ہو گا۔ یہود کو کُفرانِ نعمت کی سزا میں پہلے مدینہ سے نکالا گیا تو لَئِنْ اُخْرِجْتُمْ لَنَخْرُجَنَّ مَعَکُمْ…وَاِنْ قُوْتِلْتُمْ لَنَنْصُرننَّکُمْ (الحشر:۱۲)کہنے والے کچھ کام نہ آئے۔ پھر جب مدینہ سے نکالے گئے تو ان کا کوئی مددگار نہ ہؤا ۔ اِسی طرح مسلمانوں کے ساتھ بھی معاملہ ہؤا۔ سپینؔ سے ایک دن نکال دئے گئے۔ لاکھوں لاکھ جنہوں نے جانے سے ذرا چُون و چرا کی ان کو عیسائی بنا لیا گیا۔ اَب سیاحوں سے پُوچھو اسلام کا وہاں نام و نشان تک نہیں۔ مسجدیں ہیں اور چند عدالت کے کمرے۔ وہ تمہارے رُلانے کے لئے رکھ چھوڑے ہیں…
غرص اگر نبی اسرائیل کو یہ احسان یاد دلایا ہے تو مسلمانوں کے فرعون کو خشکی میں غرق کر کے اس کے بعد کئی انعامات ان پر کئے۔ اَب اگر وہ ناشکری کریں گے تو سزا پائیں گے۔ جس طرح حضرت موسٰیؑ کو چالیس روز خلوت میں رکھا اُسی طرح ہماری سرکارؐ بھی غارِ حرا میں رہے۔


احمدی قوم پھر قادیان کے رہنے والے خصوصیّت سے اس پر غور کریں۔ ایک وقت ایسا آ جاتا ہے کہ کوئی جی کسی جی کے کام نہیں آ سکتا۔ والدہ کو کتنی محبّت ہوتی ہے مگر ذرا بچّے کے پیٹ میںدَرد اُٹھے وہ اس دَرد کو بانٹ ہی نہیں سکتی۔ سب سے زیادہ محبّت کرنے والے تو پِیر ہوتے ہیں۔ ان پِیروں میں سے سب سے بزرگ حضرت محمّد رسول اﷲ صلّی اﷲ علیہ وسلم ہیں جنہوں نے ہمیں ہگنے مُوتنے کی جانچ سکھائی۔ پھر ہم نے اپنے امام کو دیکھا۔ مَیں بیمار ہوتا تو وہ میرے لئے قربانیاں کرتے اور بار بار مکان کی تبدیلی کراتے اور دَم بدم خبر منگواتے ۔ ایسا دَرد کسی میں ہو سکتا ہے؟ پھر جب وہ فوت ہونے لگے تو ہم نے کجیا کر لیا۔ بعض وقت سفارش بھی کام دے جاتی ہے مگر ایک وقت سفارش بھی نہیں مانی جاتی۔ مؤاخذہ الہٰی کا وقت ایسا آتا ہے کہ وَلَا یُقْبَلُ مِنْھَا شَفَاعَۃٌ۔ یہاں شفاعت کی مطلق نفی نہیں ہے کیونکہ اِلَّا بِاِذْنِہٖ کا اِستثنا ء دوسرے مقام پر موجود ہے۔ (الانبیاء:۲۹) قرآن میں آ چکا ہے۔ دیکھو یہودیوں پر ایک وقت آیا کہ (الحشر:۱۲) کہنے والے بھی اُن کے کام نہ آ سکے۔ (ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۸؍فروری ۱۹۰۹ء)
اﷲتعالیٰ کے اِنعام کو یاد کر کے مومن اِس بات کو سوچے کہ ایک وقت آتا ہے۔
وَاتَّقُوْا یَوْمًا: ایک وقت آتا ہے کوئی دوست ،دوست،آشنا ،اپنا بیگانہ کچھ کام نہیں آتا۔ دُنیا میں نمونہ موجود ہے انسان بیمار ہوتا ہے تو ماں باپ بھی اس کی بیماری کو نہیں بٹا سکتے۔ یہ نمونہ اِس بات کا کہ یہ سچّی بات ہے کہ خدا تعالیٰ کی پکڑ کے وقت کوئی کام نہیں آتا۔ کسی کی سپارش اور جُرمانہ کام نہیں آتا اسلئے اُس دن کے لئے آج سے ہی تیار ہو۔ پس خدا تعالیٰ کے فضل کو یاد کر کے محبّتِ الہٰی کو زیادہ کرو اور غفلتوں اور کمزوریوں کو چھوڑ دو اور اپنے وعدوں کا لحاظ کرو کہ ’’ دین کو دُنیا پر مقدّم رکھیں گے۔‘‘ رنج و راحت، عُسر و یُسر میں قدم آگے بڑھائیں گے۔ اﷲ تعالیٰ کی مخلوق اور بھائیوں سے محبّت کریں گے۔ پھر کہتا ہوں کہ یہ بڑی خطرناک بات ہے کہ جو وعدوں کے خلاف کرتا ہے وہ منافق ہوتا ہے۔ جھُوٹ اور وعدوں کی خلاف ورزی کرتے کرتے انسان کا انجام نفاق سے مبدّل ہو جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ مجھ کو اور آپ کو اِس سے بچائے اور صدق ، اِخلاص اور اعمالِ حَسنہ کی توفیق دے۔ آمین
(الحکم ۳؍مارچ ۱۸۹۹ء صفحہ۶)
لَا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ: جب مدینہ کے بنی اسرائیل کو بہکایا تو وہ جلاوطن ہوئے یقینا یہی دِن مراد ہے قیامت کا ذکر نہیں۔ (تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر ۹ صفحہ ۴۳۷)



یَسْتَحْیُوْنَ: عورتوں کو زندہ رکھتے۔ دوسرے معنے میرے نزدیک یہ ہیں کہ ان کے حیا کو سَلب کرتے۔ (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍فروری ۱۹۰۹ء)
بَلَآئٌ مِّنْرَّبِّکُمْ: انعام (تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر ۹ صفحہ ۴۳۷)


فَرَقْنَابِکُمْ: دریا کو تمہارے لئے الگ کر دیا۔ کس طرح کیا؟ دوسری آیت میں فرمایا (طٰہٰ:۷۸)ہے ایک راستہ اِس دریا میں خشک نکال دیا ہے۔
اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ: ایک فضل تو یہ تھا کہ دشمن کو ہلاک کر دیا اب دوسرا فضل یہ ہؤا کہ دشمن کو تمہاری آنکھوں کے سامنے ہلاک کیا۔ (ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۸؍فروری ۱۹۰۹ء)
تَنْظُرُوْنَ میں ایک خاص لذّت ہے۔ دشمن کو ہلاک تو کیا مگر آنکھوں کے سامنے۔ دشمن تو مَرا ہی کرتے ہیں مگر آنکھوں کے سامنے کسی دشمن کا ہلاک ہونا ایک لذیذ نظارہ ہے جو آخر اس متّقی کو نصیب ہؤا۔ (بدر ۲۳؍ جنوری ۱۹۰۸ء)



وَاَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ: اور تم مُشرک ہو گئے۔(لقمٰن:۱۴)
تَشْکُرُوْنَ: تا تم قدر کرو۔ (ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۸؍فروری ۱۹۰۹ء)
عَفَوْنَا: اِس لئے کہ اس شرک سے توبہ کر لی۔ (تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر ۹ صفحہ ۴۳۷)



اَلْفُرْتَانَ: وہ مدد جس سے د؟شمن اور موسٰیؑ کے درمیان فیصلہ ہؤا وہ یہی کہ فرعون غرق ہو گیا اور نبی اسرائیل نجات پا گئے اور عمدہ ملکوں کے وارث ہوئے۔
حضرت موسٰی علیہ السّلام ایک زمانہ میں طُور پر تشریف لے گئے۔ ایک شریر آدمی نے بچھڑا بنایا اور ان لوگوں سے کہا کہ یہی موسٰیؑ کا معبود تھا وہ بھُول کر پہاڑ پر چلا گیا۔ تم لوگ غالباً تعجّب کرو کہ ایک قوم بچھڑے کو کیونکر خدا ٹھہرا سکتی ہے سو مَیں تمہیں سُناتا ہوں کہ دیکھو آجکل ہندو کیسے ذہین اور چالاک ہیں پھر بھی پتّھروں کو معبود سمجھتے ہیں۔ بچھڑے میں تو پھر ایک آواز تھی پتّھر میں یہ بات بھی نہیں۔ پھر پتّھروں پر ہی اِکتفا نہیں بلکہ جمنا جی، گنگاجی اور اِس قِسم کی کئی بدیوں کی پرستش کرتے ہیں۔ خیر یہ تو ہندو ہیں مسلمانوں کا حال بھی اچھا نہیں لاہور دارالسلطنت ہے اس کی نسبت داراشکوہ لکھتے ہیں کہ یہاں تیس ہزار حفّاظ قرآن شریف موجود ہیں باوجود اِس کے پھر علمِ قُرآن ایسا مفقود ہے کہ وہاں بھی گھوڑے شاہ کی خانقاہ ہے پھر اِس قِسم کی ہزاروں قبریں ہیں جن پر ٹلیاں یا رسّے چڑھتے ہیں۔ اِس کی وجہ کیا ہے صرف یہی کہ کوئی قوم خواہ کِس قدر اچھی ہو جب بُروں سے اس کا تعلق ہو تو ان کی رسم و عادات نیکوں میں بھی رواج پذیر ہو جاتی ہیں۔ دیکھو مسلمان جانتے ہیں کہ پبر بھی اچھی چیز ہے اور یہ بھی جانتے ہیں کہ بے صبری کا نتیجہ کچھ بھی نہیں اور پھر یہ بھی جانتے ہیں کہ چیخ کر رونا جائز نہیں باوجود اس کے شیعہ کو دیکھ کر سُنّی بھی محرّم میں روتے پیٹتے ہیں اور تعزئے بناتے ہیں۔ مَیں نے تعزیہ بنانے والوں کو پُوچھا ہے کہ یہ واقعی امام حسینؑ کی قبر ہے تو وہ کہتے ہیں۔ نہیں۔ پھر جب یہ جتایا گیا کہ جو دن امام حسینؑ کے قبر بنانے کا ہے اس دن تم اس قبر کو توڑتے ہو تو وہ بہت نادم ہوئے۔
غرض انسان کی غیرت آُٹھ جاتی ہے اور وہ بدی کو نیکی سمجھنے لگ جاتا ہے۔ یہاں بنی اسرائیل نے بھی ایسا ہی کیا کہ فرعونیوں میں رہتے رہتے وہ اپنے خدا کو بھُول گئے اور گائے کی عظمت ان کے دِلوں میں گھر کر گئی اور وہ اس کی پُوجا کرنے لگ گئے تو خدا نے فرمایا تُوْبُوْ ٓا اِلٰی بانارِئِکُمْ تماپنے گھڑنے والے کی پرستاری کرو۔
فَاقْتُلُوْ ٓا اَنْفُسَکُمْ: اِس کے معنے میرے نزدیک یہ ہیں کہ اِس جُرم کے جو سرغنہ ہیں ان کو قتل کر دو۔ جو عام تھے ان کو خدا نے معاف فرما دیا جیسے کہ آگے فرمایا فَتَابَ عَلَیْکُمْ۔
(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍فروری ۱۹۰۹ء)
اَلْفُرْقَانَ: جب دشمن کی کمر ٹوٹ جائے۔
(الانفال:۴۲)
بڑے تعجّب کی بات ہے کہ لوگ شرارتیں کرتے ہیں لیکن سمجھتے نہیں۔ موسٰیؑ نے اپنی قوم کو کہا (البقرۃ:۵۵)تم نے بچھڑے کو خدا بنا لیا اور اپنے اُوپر ظلم کیا حالانکہ خدا کے تم پر بڑے بڑے اِحسان ہیں۔ فَتُوْبُوْ ٓا اِلٰی بَارِئِکُمْ اپنے پروردگار کی طرفتوجّہ کرو اور اﷲ نے انسان پر بڑے بڑے فضل و احسان کئے ہیں۔ اس کے قابو میں انسان نے ہر چیز کر دی ہے۔ ہاتھی جیسا بڑا جانور انگوٹھے کے اشارہ پر چلتا ہے۔ اُونٹ کو ایک نکیل کے اشارہ سے چلا لیتا ہے۔ اِسی طرح پر ہزروں کام جانوروں سے نکالتا ہے۔ طوطے سے توپ بندوق چلوا لیتا ہے ۔ بعض لوگ اَحْسَن تَقْوِیْم کے یہ معنے کرتے ہیں کہ انسان کو خوبصورت بنایا مگر بعض انسان تو سیاہ رنگ اور بَد صورت بھی ہوتے ہیں بلکہ اِس کے معنے یہ ہیں کہ ہر چیز کو اس کے قابوں میں کر دیا۔ سرکس میں کسی نے تماشا دیکھا ہو گا کہ کیسے کیسے کام جانوروں سے لیتے ہیں۔ یہ سب اﷲ تعالیٰ کے اِحسان ہیں۔ ہر قوم میں غریب سے غریب اور امیر سے امیر لوگ موجود ہیں لیکن اُمراء کو خیال تک نہیں آتا کہ ہم پر بڑا احسن ہؤا ہے۔ اِس زمانہ کا بڑا بچھڑا روپیہ ہے جس کے پاس یہ ہؤا اس کی بڑی عزّت و توقیر ہوتی ہے۔ اگر وہی روپیہگ والا اِنسان غریب ہو جاوے تو اُسے پوچھتا بھی کوئی نہیں۔ روپے کے پیچھے خواہ نماز روزہ بھی جائے مگر کوئی پرواہ نہیں۔ (الفضل ۱۵؍اکتوبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۵)







جَھْرَۃً: خدا کو کُھلا دیھ لیں یا یہ بات کُھل کر کہہ دی۔
مَوْتِکُمْ: غشی ازصاعقہ۔
ظَلَّلْنَا عَلَیْکُمُ الْغَمَامّٰ: مصیبتوں کے وقت بادلوم کا سایہ بھیجا۔
مَنّ: جو رزق بِلا محنت کسی انسان کو ملے ۔ اَلْکُمِئَۃُ مِنّ الْمَنِْ (کھمبی) لڑکے جو روٹی کھاتے ہیں میرے خیال میں وہ بھی منّ ہے کیونکہ ان کو وجہ معاش کے لئے کچھ پریشانی نہیں اُٹھانی پڑتی۔
سَلْوٰی: عربی زبان میں شہد کو بھی کہتے ہیں جو جنگلوں میں بافراط مِل جاتا تھا ار چھوٹے چھوٹے پرندوں کو بھی کہتے ہیں۔
ظَلَمُوْنَا: ہمارا نقصان نہیں کیا۔ (ضمیمہ اخبار بدر:ؔ قادیان ۱۸؍فروری ۱۹۰۹ء)
نَرَی اﷲَ جَھْرَۃً: یہ گستاخی کی۔
اَلصَّاعِقَۃُ:عذاب (تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر ۹ صفحہ۳۴۷)
سخت محنت کے بغیر جو رزق ملتا ہے اس کو عربی میں منّ کہتے ہیں اِس لئے لکھا ہے اَلْکُمْأۃُ مِنَ الْمَنَّ یعنی کُھنبی منّ سے ہے اور ترنجین۔ اور اسی کے معنے ہیںشیرخشت اور تمام جنگل کی اشیاء۔ اِن سب کو منّؔ میں داخل کیا گیا ہے۔ ایک دفعہ پنچاب میں قحط پڑا تھا۔ بہت بُڈھے ابھی تک اس کو جاننے والے موجود ہیں اس میں ( مَرْکَنْ) نام ایک بُوٹی بہت پیدا ہوئی تھی اسی پر لوگوں کا گزارہ تھا۔ اِسی واسطے اس سال کو مُرْکن کا سال کہتے ہیں۔ اِسی طرح خدا تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو جنگل کے درمیان مصیبت کے ایّام میں جنگلی اشیاء سے سہارا بخشا ہے اور بھُوک کے عذاب سے ہلاک نہ ہونے دیا…
بنی اسرائیل چالیس برس اس ملک میں رہے جو ملکِ فلسطین اور بحیرہ قُلزم کے درمیان ہے۔ انسانی ضرورتیں بغیر پانی کے پُوری نہیں ہو سکتیں۔ اﷲ تعالیٰ نے ان دنوں ضروری وقتوں پر مینہ برسائے یہ ان پر خاص فضل تھا اور کرم کی نگاہ تھی۔ وا لِا خشک سالیوں میں ہلاک ہو جاتے۔
جب موسٰی علیہ السّلام کے قصّہ میں مشکلات پیش آویں تو ہمارے بنی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے معاملات سے وہ مشکل بخوبی حل ہو سکتی ہے۔ موسٰی علیہ السّلام کا قضّہ بسط کے ساتھ قُرآن کریم میں صرف اِسی واسطے ہیکہ ہمارے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو موسٰی علیہ السّلام کا مثیل قرار دیا گیا ہے چنانچہ آپؑ کیلئے ضرورت کے موقع پر اﷲ تعالیٰ نے بادل کا سایہ کر دیا جیسے کہ غز وۂ بدرؔ اور احزابؔ میں اور حضرت موسٰی علیہ السّلام کی طرح بارش کی سخت صرورت پیش آئی تو اُس وقت خدا تعالیٰ نے بارش کے ذریعہ مومنوں کو ہلاکت سے محفوظ رکھا۔ اِستسقاء کی نماز ایسے ہی وقتوں کے لئے مسنون ہے۔ (نورالدین ایڈیشن سوم صفحہ ۱۶۷،۱۶۸)
انتشاری بجلی سے ہلاکت اور نقصان اگر تم نے نہیں سُنس تو کِسیسائنسدان سے دریافت کرو اور کچھ ہم بھی بتا دیتے ہیں۔ یہ تو ظاہر ہے کہ جس وقت جنابِ موسٰی علیہ السّلام چند منتخب لوگوں کو طُور کے قریب لے گئے اُس وقت پہاڑ پر آتش فشانی ہو رہی تھی اور بجلیاں اپنی چمک دمک دکھلا رہی تھیں۔ جناب موسٰی علیہ السّلام نے حسبِ ارشادِ الہٰی قوم کو روک دیا تھا کہ پہاڑ کے اُوپر کوئی نہ جاوے اور ہم نے ظاہر کا لفظ اِس لئے استعمال کیا ہے کہ بائیبل کو قرآن پر دھرم پال نے ترجیح دی ہے پس اُس نے بائیبل کو پڑھا ہو گا۔ کتب خروج میں مفصّل موجود ہے اور قرآن کریم کے اِن کلمات طیّبات پر اعتراض کیا ہے۔ اوّلؔ: فَاَخَذَتْکُمُ الصّٰعِقَۃُ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ پکڑ لیا تم کو کڑک نے اور حال یہ ہے کہ تم دیکھتے تھے۔ دومؔ: ثُمَّ بَعَثْنٰکُمْ مِّنْ بَعْدِمُوْتِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ پھر اُٹھایا تم کو تمہاری موت کے بعد تاکہ تم قدردانی کرو۔
صَاعِقَہ، صَعَقَ سے نِکلا ہے۔ صَعنقَ کے معنی میں لکھا ہے:۔
اَلصَّعْقُ اَنْ یُغْشٰی عَلَیْہِ مِنْ صَوْتٍ شَدِیْدٍ یَسْمَعُہ‘ وَرُبَّمَامَاتَ مِنْہُ (مجمع البحار)
صعق یہ ہے کہ بیہوشی پڑ جاوے کسی پر کسی سخت آواز سے جس کو اس بیہوش ہونے والے شخص نے سُنا اور کبھی اس سے موت بھی ہو جاتی ہے۔
قرآن کریم میں آیا ہے:۔
(الاعراف:۱۴۴) موسٰیؑ بیہوش ہو کر گِر پڑے پس جب افاقہ آیا۔
پھر مجمع البحارمیں لکھا ہے:۔
یُنْتَظَرُ بِالْمَصْعُوْقِ ثَلَاثٍ مَالَمْ یَخَفُوْا عَلَیْہِ ننتَنًا وھُوَالْمَغْشٰی عَلَیْہِ اَوْ مَنْیَّمُوْتُ فَجْائَۃً ونلَا یُعْجنلُ دَفْنُہ‘۔
جس پر صاعقہ گِرے اس کو تین دِن تک دفن نہ کیا جاوے جب تک سَڑ جانے کا ڈرنہ ہو۔ اور یہ وہ ہے جس پر غشی ہو یا اچانک مَر جاوے دفن میں جلد بازی نہ کی جاوے۔
مفرداتِ راغب میں لکھا ہے اَلصَّاعِقنہ تین قِسم کا ہوتا ہے:
اوّلؔ موت ۔ فرمایا ہے (الذّمر:۶۹)
دومؔ عذاب۔ فرمایا ہے اَنْذَرْتُکُمْ صٰعِقَۃً مِّثْلَ صٰعِقنۃِ عَادٍوَّ ثَمُوْدَ (فضّلت:۱۴
سومؔآگ۔فرمایا(الدعد:۱۴)
اِس بیان سے اِتنا معلوم ہو گیا کہ صاعقہؔ بیہوشی،موت،عذاب اور نار کو کہتے ہیں۔ دوسرا لفظ قابلِ غور مَوتؔکا لفظ ہے۔ مَوتؔ کے معنی مجمع البحار میں جو لُغت قرآن و حدیث کی جامع کتاب ہے یہ ہیں:۔
۱۔ موت کے معنے سو جانا۔ حدیث میں آیا ہے اَحْیَانَا بَعْدَمَا اَمَاتَنَا۔
۲۔ موت کے معنی سکون۔ کیامعنی حرکت نہ کرنا۔ مَاتَتِ الرِّیْحُ ہَوا ٹھہر گئی۔
۳۔ موت حیٰوۃ کے مقابلہ میں ہؤا کرتی ہے اور حیٰوۃ کے معنی میں آیا ہے قوّتِ نامیہ کا بڑھنا۔قرآن کریم میں آیا ہے (الحدید:۱۸) زمین کو اﷲ تعالیٰ اُس کی موت کے بعد زندہ کرتا ہے۔
۴۔ قوّتِ حِسّیہ کے زوال پر موت بولتے ہیں۔ قرآن کریم میں آیا ہے (مریم:۲۴) کیا معنے۔ بچّہ جَننے سے پہلے میری قوّتِحسّیہ نہ رہتی کہ دَر تکلیف دِہ ہوتا۔
۵۔جہل و نادانی کو موت کہتے ہیں۔ قرآن میں یہ معنی آئے ہیں(الانعام:۱۲۳)
۶۔ حُزن۔ خوف کمدّر کو موت کہتے ہیں۔ قرآن میں یہ محاورہ آیا ہے
(ابراھیم:۱۸) ہر طرف سے اس پر خوف اور غم آتے تھے۔
۷۔ احوالِ شاقہ۔ فقر۔ ذلّت۔ سوال کرنا۔ بڑھاپا اور معصیّت وغیرہ کو موت کہتے ہیں۔ حدیث میں آیا ہے اَوَّلَ مَنْ مَاتَ اِبْلِیْسُ اور آیا ہے اَللَّبَنُ لَا یَمُوْتُ۔ زندہ سے جو جُزو اگ ہو وہ مُردہ ہے مگر دُودھ۔ بال۔ اُون مُردہ نہیں ہوتے ۔
یہ موت کے معنے ہوئے ۔ اور اِسی طرح مُفرداتِ راغب میں موتؔ کے بہت معنے بتائے ہیں۔ اور تیسرا لفظ بعثؔ کا ہے۔ بعثؔ کے معنی بھیجنا۔ قرآن میں ہے (النحل:۳۷)
۲۔اُٹھانا۔ قرآن میں ہے ثُمَّ بَعَثْنٰھُمْ (الکھف:۱۳)
۳۔ متوجّہ کرنا۔ قرآن میں ہے (التوبۃ:۴۶) لیکن خدا نے انہیں متوجّہ کرنا نہ چاہا۔
۴۔ جگا دینا۔ اَتَنِیْ اٰتِیَانِ۔ فَبَعَثَانِیْ اَیْ اَیْقَظَانِیْ مِنَ النّنوْمِ۔ انہوں نے مجھے نیند سے جگایا۔
۵۔ بھڑک اُٹھنا۔ قرآن میں ہے اِذَا انْبَعَثَ اَشْقٰھِا(الشّمس:۱۳) جب کہ اُ ن میں کا بدبخت بڑک اُٹھا اور
۶۔ بعث بمقابلہ موت کے بھی ہوتا ہے اِس لئے جس قدر موت کے معنی ہیں ان کے مقابلہ میں بعثؔ ہوگا۔ قرآن میں ہے (البقرۃ:۵۷)

۔۔۔۔۔۔۔۔
صَاعِقَہ: موت اور بعث کے معنی جب معلوم ہوئے اور سمجھے گئے تو معلوم رہے کہ صاعقہ کے دو طریق ہیں۔ اس کا آنا اور گِرنا ۔ اس میں تو نقصان کم پڑتا ہے اور ایکدو تین سے زیادہ آدمی اس سے نہیں مرتے۔ دوسرا واپس ہونا اور اس کا اِنتشار کرنا۔ واپسی کے وقت بچلی یا صاعقہ بہت کم لوگوں کو دُکھ دیتی ہے۔ غشی ہوتی۔ ہڈیاں ٹوٹتی۔ نفاظات نکلتے ہیں۔
اَب ہر دو آیہ کریمہ کے معنی بتاتے ہیں مگر اِتنا اَور یاد رہے کہ یہاں جنابِ الہٰی نے اَخَذَتْکُمُ الصّٰعِقَۃُ فرمایا ہے اَھْلَکُھُمُ الصَّا عِقَۃُ َ نہیں فرمایا۔ پھر اس کے ساتھ بتایا ہے کہ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ اِس کے کیا معنے کہ جنہیں بجلی یا صاعقہ نے پکڑا وہ دیکھ رہے تھے۔ لہٰذا اِس آیہ شریفہ اَخَذَتْکُمُ الصّٰعِقَۃُ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ (البقرۃ:۵۶) کے یہ معنے ہوئے کہ تم کو خاص صاعقہ نے پکڑ لیا اور تم دیکھ رہے تھے۔
خاصؔ کا ترجمہ ہم نے لفظ الؔ سے لیا ہے جو اَلصَّاعِقَہ کے پہلے ہے اور اس صاعقہ سے مراد وہ صاعقہ ہے جو رجعت کے وقت اِنتشار کرتی ہے اور دوسری آیتِ کریمہ کا ترجمہ یہ ہے ثُمَّ بنعَثْنٰکُمْ مِّنْ بَعْدِ مَوْتِکُمْ (البقرۃ:۵۷)پھر اُٹھایا ہم نے تم کو تمہاری موت کے بعد۔ چونکہ موت کے معنی میں دُکھ ا ور تکلیف بھی آیا ہے اِس لئے یہاں تلیف ہی لیں گے کیونکہ معانی مختلفہ میں حسبِ قرینہ و امکان معنی کئے جاتے ہیں…
حضرت موسٰی علیہ السّلام کی قوم صاعقہ میں سخت مُبتلا ہوئی اور امیدِزیست نہ رہی اور ایک قِسم کی موت ان پر طاری ہو گئی تو جنابِ موسٰیؑ کی اس قوم پر الہٰی رحم ہؤا اور آخر وہ بچ گئی۔
(نورالدین طبع سوم صفحہ ۱۶۴ تا ۱۶۷)

وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا: کسی بستی میں جاؤ تو پکّا عہد کر لو کہ فرمانبردار ہو کر رہیں گے اور خللِ امن کے مُرتکب نہ ہوں گے۔
حِطَّۃٌ: توبہ کرنے سے پہلے ہم تمہارے گناہ بخش دیں گے۔ اور سُجَّدًا کا اجر نَذِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ سے ظاہر ہے۔ (ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۸؍فروری ۱۹۰۹ء)










وَاِذِاسْتَسْقٰی مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ: دُنیا میں قحط پڑتے ہیں ان کے دُور کرنے کے لئے دو راہیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ مدبّران ملک نے مِل کر سوچا کہ اب کیا تدبیر کریں اور پھر جو مجموعی طور سے رائے قائم ہو اس پر عمل کیا چنانچہ اس زمانے میں ریل گاڑی کو قحط کا علاج سمجھا گیا تاکہ جس جگہ پیداوار ہو وہاں سے اس جگہ فورًا پہنچائی جاوے جہاں پیداوار نہیں ہوئی پھر گرانی و ار زانی کی اطلاع جلد بہم پہنچانے کے لئے تار ایجاد کی گئی۔
دوسری تجویز یہ ہے کہ جنگلوں کو آباد کر دیا تاکہ لوگوں کے لئے کافی غلّہ بہم پہنچ سکے۔ ایک دُنیادار تو اِس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا مگر انبیاء کی راہ ان راہوں سے علیحدہ ہے۔ وہ ہر مصیبت کا علاج اﷲ کے حکم کے ماتحت کرتے ہیں۔ دیکھو بعض صحابہ کرامؓ کو جب کفّار سے تکالیف پہنچیں تو وہ اَور ملکوں کو ہجرت کر کے چلے گئے مگر نبی کریمؐ خود نہیں گئے بلکہ ایک دن حضرت ابوبکرؓ کے گھر گئے اور فرمایا کہ ہم اور آپ اکٹھے چلیں گے۔ مَیں امّید کرتا ہوں کہ خدا مجھے بھی ہجرت کا حکم دے۔ اَوروں نے اگر اپنے ارادے اور تکالیف سے سفر کیا مگر نبی کریمؐ حہمِ الہٰی کے منتظر رہے۔ اسی طرح آپؐ کے زمانہ میں قحط ہؤا آپؐ اَور بھی تدابیر کر سکتے تھے مگر انبیاء کا طریق دعا ہے اسی پر عمل کیا۔ چنانچہ موسٰی علیہ السّلام کی قوم کو بھی جب ایسی مصیبت پیش آئی تو انہوں نے پانی منگا قوم کے لئے۔ کِس سے؟ چونکہ یہ بات بدیہی ہے کہ ایک بنی، اﷲ ہی سے مانگتا ہے اِس لئے اﷲ کا ذکر نہیں کیا۔ اس پر ہم نے الہام کیا۔
اْرِبْ بِّعنصَاکَ الْحَجَرَ: اس کے کئی معنے ہیں۔ سبھی معنے صحیح ہوں گے۔ ایک تو یہ کہ اس پہاڑ پر تم اپنا عصا مارو۔ وہاں بارہ چشمے پھُوٹ نکلے اور یہ امر ممکن ہے کیونکہ زمین کے اندر پانی چلتا ہے اور جہاں اﷲ کی مرضی ہو پھُوٹ نکلتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے موسٰیؑ کو کشفِ صحیح عطاء کیا۔ آپ کو جب اعلامِ الہٰی سے معلوم ہؤا کہ یہاں کوئی پانی قریب ہی جاتا ہے تو برچھا مارا اور اس سے پانی پھُوٹ نکلا ۔ میرے خیال میں فلسفی کا اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ مگر ایک اَور معنے بھی مجھے پسند ہیں وہ یہ کہ لے جا اپنی جماعت کو پہاڑ پر۔
عَصا کے معنے عربی زبان میں جماعتِ اسلام یعنی فرماں بردار جماعت کے ہیں۔ لاٹھی کو بھی اِس لئے عطا کہتے ہیں کہ اس پر اُنگلیوں کی جماعت اکٹھی ہوتی ہے۔
لَاتَعْثَوْا : جب گھر سے بِلا محنت کھانا ملے اور پیٹ بھر جائے ت بعض لوگ فرمانبرداری کی قدر نہیں کرتے اور ان کے دماغ میں باغیانہ خیالات اُٹھتے ہیں۔ پس وہ امن میں خلل ڈالتے ہیں۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اﷲ نے انہیں بے محنت رزق دیا تو بجائے سُکر فساد نہ کرو۔ عثی سخت فساد کو کہتے ہیں۔ لَاتَعْثَوْا بہت شرارت نہ کرو۔
لَنْ نَّصْبِرَ عَلٰی طَعَامٍ وَّ احِدٍ: اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے تمہارے پانی ہی کا اِنتظام نہیں کیا بلکہ تمہیں اپنی جناب سے طیّب کھانا بھی دیا۔طَعَامٍ وَّ احِدٍ ایک ہی طرزینعی جنگل سے۔
یا یہ کہ منّ جو انہیں ملتی تھی وہ ہمیشہ ہی ملتی۔ سلوٰی کی نسبت تورات میں لکھا ہے کہ چند روز ملی۔
بَقْلِھَا: ترکاریاں زمین کی۔
قِثَّآئِھَا: ککڑیاں زمین کی۔
فُوْم لہسن کو کہتے ہیں اور گیہوں کو بھی۔ میری سمجھ میں انہوں نے اِن چیزوں کا ذکر کر کے زمیندارہ چاہا۔
بِالَّذِی: بدلے اِس کے۔
خَیْرٌ: یہ خیر کیا تھی؟ سُنو! مجھے اِن معنوں پر یقین ہیکہ وہ خیر فرعون کی غلامی اور ماتحتی سے چھُڑا کر جہاں ان کی صِحت و قوٰی جسمانی میں فتور آ گیا۔ آزادی اور جنگل اور پہاڑوں کی رہائش اور بے محنت رزق کی بخشش تھی۔ خدا کا مقصود یہ تھا کہ ان میں حُریّت کی رُوح بھر جائے اور پھر یہ فاتح بنیں مگر انہوں نے اس انعامِ الہٰی کی قدر نہ کی اور یہ کہا کہ زمیندارہ کریں گے۔
بعض حدیثوں سے ثابت ہے کہ آپؐ نے ایک گھر میں زمیندارہ کے آلات دیکھے تو فرمایا ذِلّت کے سامان ہیں۔ اِس ارشادِ نبویؐ سے یورپ کی قوموں نے نفع اُٹھایا۔ دیکھو کہ جنگلوں (ہندوستان کے ۔ ناقل) کو آباد کر دیا ہے مگر وہ زمینیں ہمیں دیتے ہیں۔ انگریزوں کو عمومًا نہیں دلاتے۔ یہ السئے کہ انہوں نے دیکھ لیا مسلمانوں کی چار قومیں سیّد،مغل، پٹھان، ترک فاتح ہو کر آئیں لیکن آکر زمیندارہ شروع کر دیا تو آخرکار کمزور ہو گئیں۔ کیونکہ وہی زمین جو کسی مورثِ اعلیٰ کے پاس ہزار بیگھ تھی اولاد میں تقسیم ہوتے ہوتے ہر ایک کے پاس چار چار بیگھ رہ گئی جس سے قوت لایموت بھی حاصل نہیں ہو سکتی۔
ضُرِبَتْ: لگا دی گئی۔
ذِلَّۃٌ: دن بدن کم ہونے لگے۔ ذِلّت کے معنے کمی کے ہیں۔
مَسْکَنَۃُ: بے دست و پا ہو گئے۔ زمیندارہ چھوڑ کر کہیں نہ جا سکتے تھے۔ پھر یہ غضب زمیندارہ سے نازل نہیں ہؤا بلکہ اِس لئے کہ وہ آیات اﷲ کا کفر کرتے۔ انبیاء کیقتل کی تدبیریں کرتے رہتے۔ یہ جُرأت کیوں ہوئی؟ پہلے چھوٹی چھوٹی نافرمانیاں کرتے تھے جن سے جُرأت بڑھتے بڑھتے یہاں تک نوبت پہنچی ۔ اِس بات کا تماشا مَیں نے آگ سے دیکھا ہے کہ پہلے ایک دِیا سلائی ہوتی ہے جس کی تِیلی کے ایک کنارہ پر آگ مخفی ہوتی ہے کہ ذرا گھِسنے سے وہ بھڑک اُٹھتی ہے اور پھر بڑھتے بڑھتے وہ مکانوں اور شہتیروں کو جلا سکتی ہے۔ اِسی طرح گناہ پہلے تھوڑا سا ہوتا ہے پھر بڑھتے بڑھتے فسق و فجور تک نوبت پہنچتی ہے پھر اس سے کفر تک ۔ یہاں تک کہ دوزخ کی آگ اس کا انجام ہے۔ تم اپنے تئیں پہلے ہی سے بچاؤ۔ ہلاکت میںنہ پڑو۔ بنی اسرائیل کی مثال سے عبرت پکڑو۔ (ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۸؍فروری ۱۹۰۹ء)
اضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْحَجَرَ: اِس کے دو معنی ہیں عَصا پتھّر پر مارو۔ پانی کا چشمہ کُھل گیا۔ اﷲ صاحبِ کشف کوآگاہ فرما سکتا ہے کہ اِس پتھّر کے نیچے پانی کا سوتا ہے۔ ۲۔ پہاڑ پر جماعت کو لے جاؤ۔ فَاقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ۔ مُشرکوں کجرموں کو قتل کرو۔
بَآعُوْ بِغَضَبٍ مِّنَاﷲِ: بتا دیا کہ مغضوب علیہم کا ذکر تھا۔
(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر ۹ صفحہ ۳۴۷)
فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعنصَاکَ الْآحَجَرَ فَانْفَچَرَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشَرَۃَ عَیْنًا: انپی جماعت کو لے کر پہاڑوں پر چلا جا۔ وہاں کیا دیکھتا ہے کہ بارہ چشمے جاری ہیں۔
اِس آیت میں تین لفظ ہیں ان کے معنی سُنو:۔
۱۔ ضَرْبِ۔ اِیْقَعُ شیٍٔ۔ مِنْہُ ضَرْبُ الرِّقَابِ ثُمَّ ضَرْبُ الْخَیْمَۃِ وَضَرْبُ الذِّلَّۃِ۔ضرب کے معنے ہیں ایک چيز کا دوسری پر مارنا۔ گردن کا مارنا۔ خیمہ کا لگانا اور ذِلّت کی مار مارنا اِسی سے نکلا ہے۔
۲۔وَ الضَّرْبُ فِی الْاَرْضِ۔اَلذِھِابُ فِیْہِ وَ مِنْہُ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ وَاضْرِبُوْا مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَ مَغَارِبَھَا۔وَمِنْہُ ضَرَبَ یَعْسُوْبُ الدِّیْنِ۔ اَیْ اَسْرَعَ الذِّھَابَ فِی الْاَرْضِ فِرَارًا مِنَ الْفِتَنِ۔(لسانؔ،تاجؔ،مجمعؔ البحرین)
اور ضَرْب کے معنی ہیں زمین میں جانا اور اسی سے ہے جب تم زمین کیں جاؤ اور زمین کی مشرق و مغرب میں جاؤ اور اسی محاورہ سے ہے یعسوب دین چلا یعنی فِتنوں سے بھاگ کر جلدی کہیں کو نِکل گیا۔ یعسوب الدین مولیٰ مرتضیٰ علیہ السّلام کا لقب ہے۔
۳۔ وَالضَّرْبُ الْاِقَامَۃُ حَتّٰی ضَرَبَ النَّاسُ بِعَطَنٍ اَیْ رَوِیَتْ اِبِلُھُمْ حَتّٰی بَرِکَتْ وَاَقَامَتْاور ضرب کے معنی ہیں اقامت کرنا۔ محاورہ ہے لوگوں نے اپنے اپنے ڈیروں میں آرام کیا۔ کیا معنی؟ اُونٹ پانی پی کر بیٹھ گئے اور ٹھہرے۔ اپنے آپ کو زمین میں ٹھہرایا۔
یُقَالُ صَرَبَ بِنَفْسِہِ الْاَرْضَ۔ اَیْ اَقَامَ وَالضَّرْبم یَقَعُ عَلٰی کُلِّ فِعْلٍ وَعَلٰی جَمِیْعِ الْانعْمَالِ اِلَّا قَلِیْلًا (تاجؔ،لسانؔ)
ضَرَبَ کالفظ ہر فعل پر اور تمام اعمال پر بجزرندک کے اطلاق پاتا ہے (پس) ضَرَبَ کے معنے ہوئے کسی چیز کا کِسی پر ڈالنا۔ کہیں جانا۔ کہیں اقامت کرنا یا کوئی کام کرنا۔
۲۔ اَلْعَصَا:جَمَاعنۃُ الْاِسْلَامِ۔
قاموسؔ اور صحاحؔ میں ہے: شَقَوْا عَصَا الْمُسْلِمِیْنَ اَیْ اِجْتَمَازنھُمْ وناِیٔتِلَافَھُمْمسلمان لوگوں کے اتفاق اور باہمی محبّت اور اُلفت کو توڑ دیا انہوں نے اور لاٹھی کو اِس لئے عصا کہتے ہیں کہ اس پر اُنگَلیاںاور ہاتھ جمع ہوتے ہیں۔
۳۔ حجر کے معنے وادی ،ویلی(VALLYیعنی وادی۔ ناقل) ۔پتھّر ۔ حدیث جسّاسہ و دجّال میں ہییَتْبَعُہ‘ اَھْلُ الْحَجَرِ اَیْ اَھْلُ الْبَادِیَۃِ۔
پس آیت کا ترجمہ ہؤا۔ پس کہا ہم نے لے جا اپنی فرمانبردار جماعت کو یا جا ساتھ اپنی فرمانبردار جماعت کے فلاں وادی میں۔ پس چل رہے تھے وہاں بارہ چشمے۔
(نورالدین ایڈیشن سوم صفحہ ۱۵۷،۱۵۸)
اِس رکوع شریف میں ہم لوگوں کو آگاہ کیا گیا ہے کہ انسان دُنیا میں کِس طرح ذلیل ہوتے ہیں۔کِس طرح مسکین بنتے ہیں اور کِس طرح خدا تعالیٰ کے عقاب کے نیچے آتے ہیں۔ کِس طرح ذلیل ہوتے ہیں۔ کِس طرح مسکین بنتے ہیں اور کِس طرح خدا تعالیٰ کے عقاب کے نیچے آتے ہیں ۔ کِس طرح ابتداء اور انتہا ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ دُنیا میں ہیں جب وہ بدی کرنا چاہیتے ہیں اگر وہ نیکوں کے گھر پَیدا ہوئیہیں یا کِسی نیکی کی کتاب پڑھتے اور مطالعہ کرتے ہیں تو پہلے پہل ان کو حیاء مانع ہوتا ہے اور وہ بدی میں مضائقہ کرتے ہیں۔ پہلے چُپکے سے ایک چھوٹی بدی کر لی۔ پھر اس بدی میں تکرار کرتے ہیں۔ پھر بدی میں ترقّی کرتے ہیں۔ رفتہ رفتہ بدیوں میں کمال پیدا کر لیتے ہیں۔ کُل جہان میں دیکھو بدی اسی طرح آتی ہے کبھی یکدم نہیں آتی۔ حضرت موسٰیؑ اپنی قوم کو کہتے ہیں کہ جو ہم کہتے ہیں وہ مان لو۔ انہوں نے جواب دیا یہ تو ہم سے نہیں ہو سکتا۔ نافرمانی کا نتیجہ کیا ہؤا ذلیل اور مسکین ہو گئے…
ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّ کَانُوْا یَعْتَدُوْنَ:پہے انسان اَدنیٰ نافرمانی کرتا ہے پھر ترقّی کرتا کرتا حد سے بڑھ جاتا ہے…حضرت موسٰیؑ کی قوم باوجود کمزور ہونے کے پانی تک کے لئے اجازت مانگتی ہے۔ حضرت موسٰیؑ نے خا سے دعا کی۔ حکم ہؤا پہاڑ پر جاؤ وہاں پانی بہتا ہے پیو۔ ایک کھانے پر بَس نہیں کی۔ کہنے لگے۔ دعا کریں ہم کھیتی باڑی کریں۔ ترکاریاں، ککڑیاں، لہسن ، مسور اور پیاز کھائیں۔ موسٰی علیہ السّلام نے فرمایا یہ بڑی غلطی ہے۔ یہ اَدنیٰ چیزیں ہیں ۔ یہ تو تمہاری محنت سے مِل سکتی ہیں۔ کم عقلو! چھوٹے کوموں میں لگ جاؤ گے تو حکومت کِس طرح کرو گے۔ ان میں سے جو کمزور تھے ان کو حکم دیا کِسی گاؤں میں جا کر آباد ہو۔ فُوْمِھَا کاترجمہ بعض نے گندم کیا ہے یہ غلط ہے مَیں کبھی نہ کروں گا۔ مَیں نے ایک کتاب دیکھی اگرچہ وہ مجھے ناپسند آئی مگر مَیں نے اس کو خرید لیا۔ رات کو مجھے رؤیا ہؤا کہ ایک بازار ہے اس میں بہت خوبصورت پیاز اور لہسن خرید لیا۔ جب جاگ آئی تو زبان پرفُوْمِھَا تھاتو سمجھ آئی کہ لہسن پر خوب ہاتھ مارا۔ (الفضل ۲۲؍اکتوبر ۱۹۱۳ء)



یہاں تین باتوں کا ذکر آیا ہے ایک ت یہ کہ اسلام کے بعد دوسروں کے ساتھ تعلّقات کیسے ہوں۔ دومؔ ایمان کے بعد ہمارا عمل درآمد کیا ہو۔ سومؔیہ کہ اگر کہا نہ مانو گے تو حال کیا ہو گا۔
اِن دو باتوں کا ذکر اِس لئے کیا کہ ایمان کی جَڑ اﷲ پر ایمان ہے اور ایمان منتہی آخرت پر ایمان اور جو آخرت پر ایمان لاتا ہے اس کا نشان بھی بتا دیا کہ (الانعام:۹۳) وہ ایک تو تمام قُرآن مجید پر ایمان لاتا ہے دومؔ اپنی صلوات کی محافظت کرتا ہے۔ آج ہی ایک نوجوان سے مَیں نے پوچھا نماز پڑھتے ہو؟ اُس نے کہا صبح کی نماز تو معاف کر۔… باقی پڑھتا ہوں۔ یہ مومن کا طریق نہیں ۔ایک مقام پر فرمایا (البقرۃ:۸۶) پس تمام کتاب پر ایمان و عثل موجبِ نجات ہے۔ اِس آیت میں اﷲ نے بتا دیا ہے کہ ایک ہندو، ایک عیسائی، ایک چُوہڑا، ایک چمار جب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِپڑھ لیتا ہے اور یومِ آخرت کا قائل ہو جاتا ہے تو وہ مسلمان بنتا ہے اور پھر تم سب ایک ہو جاتے ہو۔ یہ اخوّت اسلام کے سوا کِسی مذہب میں نہیں۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ شرفاء، حکماء، غرباء، ایک صَف میں مِل کر کھڑے ہو تے ہیں۔ اِس فرمانبرداری کا نتیجہ بھی بتا دیا کہ وہزندگی بسر کرتا ہے۔
(الفضل ۵؍نومبر ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵)
:چونکہاس وقت ایک مذہبی جنگ شروع تھی اِس واسطے تمام قومیں خوف کی حالت میں تھیں کہ خدا جانے ہمارا مذہب اور ہماری عزّت باقی رہتی ہے یا نہیں۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو مومن ہیں ان کا نشان یہ ہے کہ ان کے لئے کوئی ڈر نہیںاور ان میں حزن باقی نہ رہے گا۔ (ضمیمہ اخبار بدرؔقادیان ۱۸؍فروری ۱۹۰۹ء)
بعض لوگ قُرآن مجید کی اِس آیت (البقرۃ:۶۳) سے غلط فہمی میں پڑے ہیں۔ ان کا اعتقادیہ ہے کہ جو لوگ مسلمان ہوں،یہودی ہوں،صابی ہوں،جو ایمان لائیں اﷲ پر اور روزِآخرت پر اور عمل کریں نیک۔ پس ان کے لئے رَبّ کے حضور اَجر ہے۔ نہ ان کو خوف ہے نہ حُزن مِطلب یہ ہے کہ پس اﷲ کو مان لینا اور روزِ آخرت پر ایمان نجات کے لئے کافی ہے مگر یہ ان کی غلطی ہے کیونکہ قرآنِ مجید کے متعدّد مقامات پر اِس مسئلہ کو واضح کیا گیا ہے کہ یومِ آخرت پر ایمان کِن لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔
(تشحیذالاذہان جلد ۷ نمبر۷ صفحہ ۳۲۴)


اور جب لیا ہم نے مضبوط وعدہ تمہارا اور اُوپر رکھا تم پر طُور کو۔ لو جو دیا ہم نے تمہیں قوّت سے اور عمل کرو جو اس میں ہے تاکہ تم متّقی بن جاؤ۔
دوسرے مقام پر رَفَعْنَا کے بدلہ آیا ہے(الاعراف:۱۷۲) مجاہد جو قرآن کے معافی بیان کرنے میں عظیم الشّان تابعی ہے اس نے کہا ہے نَتَقْنَا کے معنے زَعْزَعْنَا کے ہیں۔ زَعْزَعْنَا کے معنے ہوئے ہلا دیا ہم نے۔ اور فرّاء نے کہا ہے نَتَقْنَا کے معنی رَفَعْنَا کے ہیں اور رَفَعْنَا کے معنے ہیں اُوپررکھا ہم نے۔ کیا تم نے نہیں سُنا کہ راویؔ لاہورؔ کے نیچے بہتی ہے اور لاہورؔ راویؔ کے اُوپر آباد ہے۔ ٹیمس لندن کے نیچے بہتا ہے۔ پہاڑوں میں ایسے نظّارے عام ہیں کہ پہاڑ سر پر ہوتا ہے اور اگر زلزلہ پہاڑ میں آ رہا ہو اور پہاڑ آتش فشاں ہو تو اَور بھی وہ نظّارہ بھیانک ہو جاتا ہے…
معنی آیت کے اِس صورت میں یُوں ہوئے (وَرَفَعْنَا فَوْقَکُمُ الطُّوْرَ) جب بلند کیا تم پر اس چیز کو جو طُور میں نازل ہوئی۔ آگے کا فقرہ اس معنی کی طرف راہنمائی بھی کرتا ہے خُذُوْامَآ اٰتَیْنٰکُمْ بِقُرَّۃٍ وَّاذْگُرُوْا مَا فِیْہِ۔لو جو دیا ہم نے تم کو بڑی قوّت سے اور عمل درآمد میں لاؤ جو اس میں ہے۔ (نورالدین (ایڈیشن سوم) صفحہ ۱۵۸،۱۵۹)

لَقَدْ عَلِمْتُمْ:خاسروں میں سے ہونے کی ایک مثال دیتا ہے کہ جو لوگ اﷲ کے حکم کو نہیں مانتے وہ کِس طرح دُکھوں میں مُبتلا ہوتے ہیں۔ عَلِمْتُمْ یعنی تمہیں یہ واقعہ خوب معلوم ہے۔
عْتندَوْا مِنْکُم:خدا کے حکموں سے نکل کر کام کیا اور الہٰی حد بندیوں کو توڑ دیا۔
فِی السَّبْتِ:سبت کے معنے ہیں آرام، راحت، آسُودگی۔ لُغت میں ہے اَلسَّبْتُ: الرَّاحَۃُ۔اکثر لوگ جب خدا انہیں دولت و مال ، جاہ و جلال ، جتّھا، صحت عافیّت دیتا ہے تو اس آسُودگی میں خدا کو راضی کرنے کی بجائے ناراض کر لیتے ہیں اور قِسم قِسم کی بدیاں اور حق تلفیاں کرتے ہیں اور اس آرام میں حدودِ الہٰیّہ سے نکل جاتے ہیں سَبت کے ایک اَور معنے بھی ہیں۔ وہ ایک دن کا نام ہے جیسے ہمارے ہاں جمعہ ہے۔ یہودیوں میں بھی ہفتہ ایک دِن ایسا مقرر کیا گیا تھا جس میں ارشادِ الہٰی تھا کہ شکار نہ کرو۔ وہ یُوں کرتے تھے کہ گڑھوں میں مچھلیوں کو روک لیتے تھے اور دوسرے دن اُٹھا لاتے اور کہتے آج تو سبت نہیں ہے۔ شریعت کے احکام میں کئی لوگ ایسے حیلے بنا لیتے ہیں جس سے ظاہر ی طور طوئی اعتراض نہیں ہو سکتا مگر خدا تو ان کے دِلوں کی نیّتوں کو خوب جانتا ہے اس کو یہلوگ کیونکر دھوکہ دے سکتے ہیں۔ یاد رکھو اِس آیت میں یہ نصیحت ہے کہ مُرَفَّہ الحال ہو کے کوئی شخص اﷲتعالیٰ کو ناراض کرے تو وہ بھی بُرا اور خدا نے جو عبادت کے وقت مقرر کر رکھے ہیں ان میں حیلہ گریوں سے کام لے تو وہ بھی بُرا۔ پس اِن دونوں باتں سے بچو۔ دیکھو ایک قوم نے ایّامِ راحت اور یومِ عبادت کی قدر نہ کی۔ حکمِ الہٰی کی بجا آوری میں طرح طرح کے حِیلے کئے تو اﷲ نے ان کو یہ عذاب دیا کہ بندروں کی طرح ذلیل بنا دیا۔ وہ احکام کو ٹال کو اپنی عزّت چاہتے تھے مگر خدا نے انہیں ذلیل کر دیا اور یہ واقعہ ایسا خطراناک ہؤا کہ فَجَعَلْنٰھَا نَکَالًّا کہ اسے دہشت بنا دیا اُن لوگوں کے لئے جو اس وقت موجود تھے اور ان کے لئے بھی جو پیچھے آئیں گے۔
پارہ ۹ رکوع گیارہ اور پھر پارہ ۶ رکوع ۱۳ میں فرمایا ہے کہ یہ لوگ کِس طرح بندر بنائے گئے۔(۱)۔
۔

(الاعراف:۱۶۷تا۱۶۹)
پس جب ممنوعہ امور کو گردن کشی سے کرنے لگے تو ہم نے کہا ہو جاؤ تم بندر ذلیل۔ اور جب تیرے ربّ نے آگاہ کر دیاکہ ان (یہود) پر ایسے لوگوں کو مسلّط رکھے گا جو قیامت تک انہیں بڑے بڑے دُکھ پہنچاتے رہیں۔ تحقیق تیرا ربّ جلد اعمال کا بڑا نتیجہ دینے والا ہے اور بات یہ ہے کہ وہ بخشنے والا مہربان بھی ہے۔ اور ہم نے انہیں گروہ در گروہ بنا کر ملک میں مُنتشر کر دیا۔ ان میں سے بعض نیکوکار ہو گئے اور انہی میں سے بعض اَور طرح کے رہے اور انہیں ہم نے دُکھوں سُکھوں سے آزمایا تاکہ رجوع کریں۔ (ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۵؍فروری ۱۹۰۹ء)
(۲)

۔
۔

۔ (المائدۃ: ۶۱تا۶۳)
میں تمہیں آگاہ کروں کہ اﷲکے حضور بَدتر بدلہ پانے والا کون ہے وہی گروہ جسے اﷲ نے اپنی رحمت سے دُور کیا اس پر غضب نازل کیا جن کو بندر اور سؤر بنایا کیونکہ انہوں نے طاغوت کی فرمانبرداری کی ۔ انہی لوگوں کا بُرا ٹھکانا ہے اور سیدھے راستے سے بہت دُور ہیں۔ جب وہ تمہارے پاس آتے تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے حالانکہ وہ کُفر سے بھرے ہوئے آئے اور اسی کے ساتھ نِکل گئے اور اﷲ جانتا ہے جسے وہ چھُپاتے ہیں اور تُو ان میں سے بہت کو دیکھے گا کہ گناہ اور زیادتی میں اور حرام خوری میں پیش دستی کرتے ہیں۔ بہت بُرا ہے وہ امر جو وہ کر رہے ہیں۔ اِس سے صاف ثابت ہؤا کہ ان کی شکلیں مَسخ نہیں ہوئیں۔ وہ لوگ گائے کی پرستش کرتے تھے خدا نے ان سے دَرشنی گائے ذبہ کرائی۔
(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۵؍فروری ۱۹۰۹ء)
اور تم جان چکے ہو ان لوگوں کو جنہوں نے تم میں سے ہفتے کے دِن میں زیادتی کی۔ پس ہم نے کہا اُن کو ذلیل بندر ہو جاؤ۔
سَبت لُغت میں آرام کو کہتے ہیں۔ دیکھو قاموس۔ اَلسَّبْتم اَلرَّاحَۃُ۔اور ہفتے کے دِن کو بھی کہتے ہیں۔ یہودی آرام کے دِنوں میں یا یُوں کہو سَبت کے دن خداوند خدا کی نافرمانی کرتے اور ان کی سرکشی اور بغاوت پر جب باری تعالیٰ کا غضب بھڑکتا تو ذلیل اور خوار ہو جاتے اور ان کی حالت اس ذِلّت اور اوبار کی وجہ سے گویا بندروں، سؤروں اوت کُتّوں کی سی ہو جاتی ۔ اسی مجاز کو قرآن کریم بیان کرتا اور اہلِ کتاب کو جو زمانہ ٔ نبویؐ میں تھے ان کے اسلاف کا عبرت انگیز حال یاد دلا کر نصیحت دیتا ہے… ایسے مجازوں کو جو کتبِ الہامیہ میں خصوصًا اور ہر زبان میں عموماً مستعمل ہوتے ہیں حقیقت اور نفس الامری سمجھ لینا غلطی ہے اور یہ خوش فہمی انہیں حضراتِ نصارٰی سے ہی مخصوص ہے۔ (فصل الخطاب جِلد اوّل ایڈیشن دوم صفحہ ۱۴۹،۱۵۰)
چونکہ یہود کو سبت کی حفاظت کی تاکید شدید تھیے جیسا خروج باب ۲۰ آیت ۹ اور باب ۳۵ سے پایا جاتا ہے مگر وہ شریر قوم بخلاف حکمِ ربّانی بغاوت اور عصیان کرتی تھی اِس لئے غضبِ خداوندی ان پر نازل ہوتا اور وہ آلیل و مردُود ہو جاتے اور اس کو سؤر اور بندر کے اسعارے میں مجازًا ذکر کیا ہے۔ (فصل الخطاب جلد اوّل ایڈیشن دوم صفحہ ۱۵۱)











مُسَلَّمَۃٌ: اِن کاموں (تُثِیْرُ الْاَرْضَ وَ لَا تَسْقِی الْحَرْثَ)سے بچے۔بے داغ۔
(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۵؍فروری ۱۹۰۹ء)
انبیاء بنی اسرائیل شرک اور بُت پرستی کے دشمن تھے۔ بعض نادان فرقوں میں ایک گائے کی پرستش ہوتی تھی اور وہ ان میں درشنی گائے تھی۔ چنانچہتَسُرُّ النّٰظِرِیْنَ اورلَا ذَلُوْلٌ تُثِیْرُ الْاَرْضَ وَ لَا تَسْقِی الْحَرغثَ مُسَلَّمَۃٌ لَّا شِیَۃَ فِیْھَا (سے)اس کا صاف پتہ لگتا ہے۔ اس کا ذبح کرنا بُت پرستی کی جَڑ کاٹنی تھی۔ (نورالدین ایڈیشن سوم صفحہ ۱۶۸)
فرعون… کے آباء و اجداد گائے کی پرستش کرتے تھے۔ اسکندریہ میں ایک لائبریری تھی اس کو بروچیم کہتے تھے۔ بروچیم بَیل کا نام ہے۔ اِس لائبریری کے آگے ایک بَیل بنا ہؤا تھا لائبریری کی حفاظت کے لئے ۔ مؤرخوں کا اِس میں اختلاف ہے کہ بنی اسرائیل مصر میں ڈھائی سَو سال رہے یا چار سَو سال۔ خیر یہ تمہاری دلچسپی کی بات نہیں۔ اور فرعون کے سر کا تاج بھی گؤ مکھی کا تھا اور اس کا ثبوت قُرآن سے یُوں ملتا ہے کہ جب بنی اسرائیل وہاں سے آئے تو یار بن کر سیّد نا موسٰی علیہ السّلام کے زیرِ اثر تھے۔ سیّدنا موشٰی علیہ السّلام کے بعد انہوں نے بچھڑے کی پرستش کی۔ گائے کو تو پہلے ہی مانتے تھے… انبیاء کو تو شِرک سے نفرت ہی ہوتی ہے۔ موسٰی علیہ السّلام کو بچھڑے کی پرستش بُری لگی… سیّدنا موسٰی علیہ السّلام نے فرمایا کہ گائے کی قربانی کرو۔ عادت بُری بَلاء ہے۔ لگے ہیچ پیچ بنانے۔ سیدھی بات تھی گائے ذبح کر دیتے… موسٰیؑ اِتنا بڑا اولوالعزم نبی تھا کتنے نشان دکھلائے۔ فرعون کی غلامی سے بچایا۔ یَدِبیضاء عصا، جراد،وباء حمل، طوفان وغیرہ وغیرہ دکھائے۔ فرعون غرق ہؤا۔ اسی دریا سے بنی اسرائیل بچ کر نکل آئے۔ ان کے دِل میں کوئی اَدب معلوم نہیں ہوتا اور کہنے لگے کیا آپ ہنسی کرتے ہیں۔ کہا اَعُوْذُ بِاﷲِ یہتو جاہلوں کا کام ہے۔ ہماری سرکار نے فرمایا، صلّی اﷲ علیہ وسلّم، کہ مَیں تم سے بڑا عالم اور متّقی ہوں۔ ٹھٹھا یا مخول کرنا عالم کا کام نہیں۔ مجھے یاد نہیں کہ کبھی درس میں یاطِبّ میں ٹھٹھا کیا ہو۔ وہ بدمعاش خوب سمجھتے تھے کہ سیّد ناموسٰیؑ کی کیا غرض تھی مگر رسم کے خلاف کرنا بھی مشکل تھا اِسی لئے
خوئے بدرا بہانہ ہا لمبسیار
کہتے ہیں۔
اُدْعُ لَنَارنبَّکَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَاھِیَ: یہ تمسخر ہے۔ جواب ملا گائے ہے، نہ بچھیا ہے اور نہ بڑھیا اور جوان ہے جو حُکم ہؤا ہے اس پر عمل کرو۔ شریر پابند رسوم و عادات بھلا کیسے جلد سیدھا ہو۔ لگے پوچھنے کہ اس کا رنگ کیسا ہو۔ علاج تو یہ تھا کہ دو جُوت لگا دیتے مگر انبیاء رحیم کریم ہوتے ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ زرد رنگ اور شوخ ڈھڈھا رنگ ہے یعنی گُوڑھا گورا۔ خوش کرتی ہے دیکھنے والوں کو۔ کیا معنی؟ درشنی گائے ہے۔ ہندو ایسی عمدہ گھروں میں رکھتے ہیں اور ان کو گُندھا آٹا کھلاتے ہیں۔ اَب یہ بَدبختی پیچھا نہیں چھوڑتی ۔ کہتے ہیں حضور گائیں بہت ہیں۔ گوریاں بھی ہیں ذرا تفصِیل سے پوچھو ہم کو تو شُبہ پڑ گیا ہے۔ پھر تاڑ گئے کہ یہ شِرک کو تو پسند نہ کرے گا۔ اور فرمایا کہ وہ ذلیل نہیں ہے۔ وہ تو کھا کھا کر اتنی موٹی ہوئی ہے کہ وہ زمین پر کُھر مارتی ہے کبھی کھیتی میں نہیں لگائی گئی۔ اس میں کِلّا کوئی نہیںاور نہ داغ ہے۔
مجبور ہو گئے۔ آخر ذبح کرنی پڑی۔ آخر انبیاء علیہم السّلام کے حضور کیا پیش جاتی۔ ایک اَور بات سُناتا ہوں کہ جب انسان کسی جگہ کو آگ لگاتا ہے تو پہلے دِیاسلائی کو جلاتا ہے۔ پہلے چیتھڑے اور کاغذ وغیرہ کو آگ لگاتا ہے۔ ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ بڑے بڑے کھنڈر تباہ کر دیں۔ اِسی طرح فساد کیلئے بعض لوگ ایک امر کو دینی اور مذہبی امر تجویز کر کے اس سے افساد شروع کرتے ہیں اور شاید ان کی اتنی عقل ہوتی ہے یا یہ ان کی بد عادت ہے اس کو پُورا کرنے کو ایک ایمانی امر تجویز کرتے ہیں اِس لئے مَیں اوّل اپنا ایمان ظاہر کرتا ہوں۔ ہمارے ایمان میں جو کچھ ہے یہ ہے کہلَآاِلٰہَ اِلَّا اﷲُ اورگواہ رہو قیامت کے دِن پوچھے جاؤ گے کہ کوئی معبود برحق ،محبوب، مطلوبِ حقیقی جس کے آگے کامل اطاعت کریں، تذلّل اختیار کریں اﷲ ہے۔ اس کے مقابل میں کوئی نہیں۔ ربّ، رحمن ،رحیم، مالکِیَوم الدّین اس کی صفتیں ہیں۔ لاکھوں فرشتے اس نے بنائے میں جو اسکے کارخانے میں اس کے حکم کے ماتحت کارکن ہیں۔ ان کی معرفت حکمِ الہٰی آتا ہے اور بالواسطہ بھی آتا ہے اور جن کے پاس آتا ہے اگر وہ مامور ہوں تو وہ رسول کہلاتے ہیںاور سب کے سردار نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں۔ اس کے بعد دوزخ، جنّت، پُل صراط، قیامت برحق ہیں۔ (الفضل ۱۲؍نومبر ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵)




وَ اِذْقَتَلْتُمْ نَفْسًا:ایک یہودی عورت نے ایک مُسلم عورت کو مار دیا۔ قریب المرگ حالت میں بتا گئی میرا قاتل کون ہے۔ پس حکم ہؤا اس کو مار دو۔
بِبَعْضِھَا:بعض کے بدلے میں۔ اِس لئے فرمایا کہ (ا)کوئی خواہ سَو کو مارے آکر اسی ایک قاتال کو قتل کیا جائے گا۔(ب)دوم۔ جُرم کا اِرتکاب خدا جانے کتنی بار کر چکا ہے اور اَب پکڑا گیا۔
یُحِیْ اﷲُ الْمَوْتٰی: وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰو ۃٌاس قاتل کو مارنے سے آئندہ قتل ہونیوالے بچ گئے۔
(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ نیز دیکھیں ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۵؍فروری ۱۹۰۹ٔ)
مَیں نے اِس آیت پر غور کیا ہے وَ اِذْقَتَلْتُمْ نَفْسًایہ ایک سیدھی بات ہے اِس کے معنے ’’ تم نے ایک آدمی کو مار ڈالا۔‘‘ آدمی کو تو مارا ہی کرتے ہیں۔ یہ ترجمہ اِس کا صحیح نہیں۔ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ تم نے ایک جی ( یا جان) کو مارا پھر اپنے آپ سے ہٹانے لگے کہ ہم نے نہیں مارا ۔معلوم ہؤا کہ وہ جان ایسی نہ تھی جس کا وہ بہادری کا کام سمجھ کر اقرار کرتا۔
کعب بن اشرف مارا گیا۔ اس کے قاتل کا پتہ پوچھنے پر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا مَیں نے مارا ہے۔ ابورافع مارا گیا اس کے لئے بھی نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم نے اس کو مارا ہے کُشت و خون جیسا کہ آجکل سرحدیوں ، وزیریوں اور قحسودیوں وغیرہ میں ہے ایسا ہی عرب میں تھا۔
سب کے نزدیک عورت کا مارنا بہت معیوب ہے۔ ابوسفیان نے کہا تھا کہ آپ اِس لڑائی میں عورتوں کو بھی مقتول پائیں گے مگر مَیں نے یہ حکم نہیں دیا۔
مَیں ایک دفعہ ایک رئیس کے ساتھ جس کے ساتھ انگریز بھی تھے سؤر کے شکار میں گیا۔ سامنے سے ایک سؤر آیا۔ اس کا گھوڑا اس سے ڈر گیا ۔ جُھک کر گھوڑے کو ایک طرف دوڑا کر لے گیا۔ ایک مسخرہ انگریز بھی ان میں تھا اس نے اس رئیس کو کہا کہ وَل۔ آپ کاگھوڑا سؤر سے ڈر گیا تو اس رئیس نے کہا کہ آپ نے دیکھا نہیں۔ مَیں جھُکا تھا۔ مَیں نے دیکھا کہ وہ سؤر کی مادہ سؤرنی تھی۔ ہم سپاہی معدہ کو نہیں مارا کرتے۔ تو اس انگریز نے دوسرے انگریز کو کہا شُکر ہے ہم نے اس کو نہیں مارا ورنہ ہماری تو بدنامی ہوتی۔
اِس آیت میں جس نفس کا ذکر ہے وہ عورت ہے۔ مرد کو اگر مارتے تو کچھ حَرج نہ تھا۔ تحقیقات کرنے پر انہوں نے لایک دوسرے پرتھوپا۔ آخر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے مدینہ کے سارے بدمعاشوں کو جمع کیا اور اس عورت کے آگے سب کو پیش کیا۔ وہ بول تو نہ سکتی تھی مگر قوّتِ ممیزّہ اس میں تھی۔ جب قاتل کو اس کے سامنے لایا گیا تو اُس نے سر سے اشارہ کیا کہ یہی ہے۔ اس کو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کئی پیچوں سے اس عورت پر پیش کیا مگر وہ اس کو پہچان لیتی۔ اس کا ذکر بخاری شریف میں ہے۔ اس بدمعاش نے اس عورت کو سر دو پتھّروں کے درمیان کُچل دیا تھا ( کچھ زیور کے لالچ سے)۔
وَاﷲُ مُخْربجٌ مَّاکُنْتُمْ تنکْتُمُوْنَ :اﷲ اِس بات کو نکالنے والا تھا آخر وہ بات نکل آئی۔
فَقُلْنَا اضْرِبُوْہُ بِبَعْضِھَا:تب ہم نے اس قاتل کو مارنے کا حکم دیا اور یہ اس کے بعض کا بدلہ تھا۔ اس نے پہلے بھی کئی بدمعاشیاں کیں اور آ‘ے بھی وہ کرتا۔ اِس لئے یہ سزا اس کے بعض کی ہے۔
اَور جگہ فرمایاوَلَکُمْ فِی الْقبصَاصِ حَیٰوۃٌ (البقرۃ:۱۸۰)بدلہ لینے میں تمہارے لئے حیات ہے۔ یُحْیٖ کا لفظ رکھاہے یہ ان کی بے حیائی ہے کہ انہوں نے عورت کو مارا۔ عورت کو مارنا کوئی بہادری نہیں۔
(الفضل ۱۹؍نومبر۱۹۱۳ء صفحہ ۱۵ نیز ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۵؍فروری ۱۹۰۹ء)


یَخْرُجُ مِنْہُ الْمَآئُ:جب بعض پتھّر ایسے ہیں کہ ان سے پانی نِکلتا ہے تو مومن کے اندر سے تو اس سے بڑھ کر کچھ نکلنا چاہیئے یعنی اتنی ندیاں پھُوٹ کر نکلیں کہ عالَم سیراب ہو۔ پتھّروں سے پانی نِکل کر فارغ البالی، سرسبزی کا ذریعہ بنتا ہے تو مومن کے اندر سے بھی ایسے کلمات نکلنے چاہئیں جن سے رُوحانی سر زمین میں بہار آتی ہو۔
لَمَا یَھْبِطُ مِنْ خَشْیَۃِ اﷲُ :پتھّر کے اُوپر سے گِرنے کا نظّارہ انسان میں خشیت پَیدا کرتا ہے یا ضمیر قلوب کی طرف ہو۔
وَمَا اﷲُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ:گناہ سے بچنے اور خشیت اﷲ پَیدا کرنے کا ایک ذریعہ یہی ہے کہ انسان کو یہ یقین ہو اﷲ میرے کاموں سے بے خبر نہیں ۔
(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۵؍فروری ۱۹۰۹ء)
مَیں اِس آیت کو سُنا کو افسوس کرتا ہوں ۔ مسلمانوں کو بتلایا تھق کہ تم ایسا کام نہ کرنا۔ صدہا قتل کرتے ہو ڈرتے نہیں۔ ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ:تمہارے دِل سخت ہو گئے۔
بعض پتھّروں سے نہریں چلتی ہیں اور ان سے نفع پہنچتا ہے مگر تم تو ان پتھّروں سے بھی بدتر ہو۔ تم جس قدر ہو تم میں سے ندیاں اور نہریں جاری ہتیں اَور کچھ نہیں تو پانی نکلتا۔ مَیں تمہار ا خیر خواہ ہوں۔ مَیں نے تمہیں سمندر کے سمندر سُنائے مگر تم بھی بہادر ہو۔ بعض ہیں کہ ان کے کانوں پر جُوں رینگتی ہی نہیں قَسَتْ قُلُوْبُکُمخداساری قوم کو بُرا نہیں کہتا۔ بعض نیک بھی تو ہوتے ہیں جواِنَّ مِنْھَا لَمَا یَھْبِطُ مِنْ خَشْیَۃِ اﷲِ کے مصداق اہوتے ہیں۔
مِنْھَامیں جو ضمیر ہے اس میں اختلاف ہے۔ بعض پتھّروں کی طرف پھیرتے ہیں بعض قلوب کی طرف ۔ جیسے (لٰہٰ:۴۰)موسٰیؑ کو صندوق میں ڈال دو اور صندوق کو دریا میں ڈال دو۔
(الفضل ۱۹؍نومبر ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵)





: تم یہ چاہتے ہو کہ تمہاری بات مان لیں مگر یہ وہ لوگ ہیں کہ جس کتاب کو کلام اﷲ مانتے ہیں اس کی بھی خلاف ورزی کوئی نیک نتیجہ نہیں رکھتی۔
: حُجّت میں غالب آئیں گے۔
(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۵؍فروری ۱۹۰۹ء)
انسان کے ذمّہ تین طرح کے حقوق ہیں۔ اوّلؔ اﷲ تعالیٰ کے ۔ دومؔ نفس کے۔ سومؔ: مخلوقات کے۔ اِن حقوق کے متکفّل قرآن کریم اور احادیثِ صحیحہ ہیں۔ جنابِ الہٰی کے حقوق کو کون بیان کر سکتا ہے عقل میں تو نہیں آ سکتے۔ںجس طرح وہ واراء الوراء ہستی ہے اس کے حقوق بھی ویسے ہی ہیں۔ جب انسان ایک دوسرے انسان کی رصامندی کے طریقے کو بھی اچھی طرح نہیںجان سکتا تو خدا تعالیٰ کی حقوق کو کِس طرح سمجھ سکتے ہیں۔ مثلاً مَیں یہاں کھڑا ہوں تم میری رضامندی کی راہ کو نہیں جانتے۔ تو وہ ذات جولَیْسَ کُمِثْلِکہٖ شَیْئٌ (شورٰی:۱۲) ہیاس کے حقوق اکو کیونکر انسان سمجھ سکتا ہے۔
اِسی طرح انسان کے حقوق بھی ہیں۔ انسان بہت کچھ غلطیاں کر جاتا ہے۔ اِس لئے خدا تعالیٰ نے انسان کے لئے ایک قانون بنایا ہے۔ ایک صحابیؓ دن کو روزے رکھتے اور رات کو عبادت کرتے تھے۔ وہ حضرت سلمان فارسیؓ کے دوست تھے۔ ایک دفعہ سلمانؓ ان کے گھر تشریف لے گئے تو ان کی بیوی کے کپڑے خراب تھے۔ انہوں نے ان کی بیوی سے پُوچھا کہ بھاوجہ صاحبہ آپ کی لایسی حالت کیوں ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میرے کپڑوں کی حالت کیونکر اچھی ہو تماہرے بھائی کو تو بیوی سے کچھ غرض ہی نہیں۔ وہ تو دن بھر روزے اور رات کو عبادت میں مشغول رہتے ہیں۔ حضرت سلمانؓ نے کھانا منگوایا۔ اس دوست کو کہا کہ آؤ کھاؤ۔ انہوں نے جواب دی کہ مَیں روزے دار ہوں۔ تو حضرت سلمانؓ نے ناراضگی ظاہر کی تو مجبورًا اُس صحابیؓ نے آپ کے ساتھ کھانا کھا لیا۔ پھر حضرت سلمانؓ نے جب رات ہوئی تو چارپائی منگوا کر ان کو کہا کہ سو جاؤ۔ انہوں نے اس سے انکار کیا اور کہا کہ مَیں رات کو عبادت کیا کرتا ہوں تو پھر حضرت سلمانؓ نے ان کو زبردستی سُلا دیا۔
صحابہؓ ایسے نہ تھے کہ (النّسآء:۸۴)جب کوئی امن و خوف کی بات اہوتی تو اسے پھیلا نہ دیتے تھے۔ تم میں سے اکثر ایسے ہیں جو بات سُنی تو فورًا اس کو پھیلا دیتے ہیں۔
آخر ان کا معامکہ حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پیش ہؤا تو آپؐ نے اُس صحابی ؓ کو فرمایا کہ تمہارے متعلق ہمیں یہ بات پہنچی ہے تو انہوں نے یہ عرض کیا کہ بات تو جیسے حضورؐ کو کسی نے پہنچائی وہ صحیح ہے۔ تب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو فرمایا نَّ لِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقًّا وَ لِزَوْجِکَ عَلَیْکَ حَقًّا۔ یہ بھی فرمایا تھاوَ لِعنیْنَیْکَ عَلَیْکَ حَقًّا۔ تیرے پر نفس کے بھی حقوق ہیں تیری بیوی کے بھی حقوق ہیں۔ اس نے عرض کیا یا رسول اﷲ علیہ وسلم نے جرمایا کہ اچھا ایک مہینے میں تین روزے رکھ لیا کرو (چاند کی تیرہ، چودہ، پندرہ) اُس نے پھر کہا یا رسول اﷲؐ (مطلب یہ تھا کہ مَیں بہت طاقتور ہوں آپ ؐ مجھے اَور اجازت دیں) تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا دو دن افطار کر کے ایک دن روزہ رکھ لیا کرو۔ اُس نے پھر یا رسول اﷲ … تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا۔ سب سے بڑھ کر تو صومِ داؤ دی تھا۔ تم ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن افطار کر لیا کرو۔ پھر کہا یا رسول اﷲؐ(مطلب یہ تھا کہ مجھے قرآن کریم کے روزانہ ختم کرنے کی تو اجازت فرماویں) تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہفتہ میں ایک ختم کر لیا کرو۔ تو اُس نے پھر عرض کیا یا رسول اﷲ۔ تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہفتہ میں ایک ختم کر لیا کرو۔ تو اُس نے پھر عرض کیا یا رسول اﷲ ۔ تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا قرآن کریم کا ختم تین دن میں کر لیا کرو اِس سے جلدی کی بالکل اجازت نہیں ہے۔ جب وہ بوڑھے ہو گئے تو پھر ان کو اس سے تکلیف ہوئی اور اب نبیٔ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہوئے تھے۔ اب لگے رونے اور پچھتانے کہ مَیں نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کیاجازت کو اس وقت کیوں نہ مانا! جب ایسے ایسے صحابہؓ کو رضامندی کا پتہ نہیں لگ سکا تو تم کو کیوں کر لگ سکتا ہے؟
ہم بیمار ہو جاتے ہیں یا ہمیں کوئی خوشی ہوتی ہے تو تم میں سے بعض ایسے ہیں (جن کا ہم سے کوئی تعلق نہیں) کہ وہ ہماری رنج و راحت میں بالکل شریک نہیں ہوتے اور ہمیں پوچھتے تک نہیں۔
وَ اِذَاخَلَا بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ:اور جب یہ آپس میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ دیکھو تم نے فلاں بات جو تم کو سمجھ آ گئی وہ کیوں بتلائی۔ اَب وہ تم کو خدا کے رُوبرو ملزم ٹھہرائے گا۔ (البقرۃ:۷۸)کہ یہ نہیں جانتے کہ اﷲ اُن کے چھُپے اور ظاہر اور ان کے سب بھیدوںکو جانتا ہے تو وہ پھر چھپاتے کِس سے ہیں۔ (الفضل ۲۶؍نومبر ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵)



اَمَانِیَّ:امانی کے تین معنے ہیں (۱) امانی جمع امید کی امیدیں(۲) امانی کے معنے تلاوت۔ (۳) امانی کے معنے اکاذیب ۱؎ ۔اَن پڑھ اِن تینوں باتوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ جھُوٹے خیالات ، جھُوٹی امیدیں۔ عبارت تو سُن لیتے ہیں مگر مطلب نہیں سمجھتے۔
ثَمَنًا قَلِیْلًا :دُنیا ۔ جیسا کہ فرمایا مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌ(النّساء:۷۰)مطلب یہ کہ وہ دُنیا کے چند روزہ فائدہ کے لئے دین کو چھوڑتے ہیں۔
مِمَّا کَتَبَتْ اَیْدِیْھِمْ :بائیبل خصوصًا اس میں اناجیل اور اس کے ملحقات ترجمہ در ترجمہ اسکی مصداق ہو چکی ہے اور اب کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اصل کیا تھا۔
(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۵؍فروری ۱۹۰۹ء)
یہ سچّی بات ہے کہ ترجمہ مترجم کے ذاتی خیالات ہوتے ۔ اب دیکھ لو نصارٰی قوم تراجم کو لے کر کہتے پھرتے ہیں خدا کا کلام ہے۔ کتابِ مقّرس میں یُوں لکھا ہے حالانکہ اصل کتاب کا پتہ بھی نہیں لگتا کہ کہاں گئی۔ بلکہ یہاں تک مشکلات میں پھنسے ہوئے ہیں کہ ابھی تک یہ فیصلہ بھی نہیں ہؤا کہ وہ اصلی زبان جس میں انجیل تھی عبری تھی یا یونانی۔ حالانکہ مسیح علیہ السّلام کے آخری کلمات ایلِیْ ایْلِیْ لِمَ سَبَقْتَانِیْاوران کی قومی اور مادری زبان سے صاف طور پر یہ پتہ لگتا ہے کہ وہ عبرانی ہی تھی مگر یہ یونانی کہتے جاتے ہیںاصل یہ ہے کہ اصل کتاب کا پتہ ہی نہیں ہے۔
۱؎ جھوٹی باتیں۔ مرتّب
اب جو کچھ ان کے ہاتھ میں ہے وہ ذاتی خیالات ہیں۔
غرض اِس قِسم کا تو مذہب کمزور ہے اور پھر اس پر طرفہ یہ کہ انہوں نے اپنے طریقِ اشاعت کی وجہ سے، کہیں خوبصورت عورتوں کے ذریعہ تبلیغ کر کے، کہیں ہسپتالوں کے ڈھنگ ڈال کر اخبارات اور رسالجات کی اشاعت سے کوئی قوم، کوئی خاندان ایسا نہیں چھوڑا جس میں سے کسی نہ کِسی کو گمراہ نہ کر لیا ہو۔ (الحکم ۳۱؍مارچ ۱۹۰۱ء صفحہ۷)







:اس پر دعوٰی کہ ہم کو آگ نہ چھُوئے گی وہ جھُوٹ کہتے ہیں۔ ہم جنابِ الہٰی کا قاعدہ بتلاتے ہیں جنہوں نے بدیاں کیں اور ان کو ان کی بدیوں نے گھیر لیا تو وہی دوزخی ہیں اور جو لوگ ایمان لالتے اور عملِ صالح کرتے ہیں ان کو دُنیا میں بھی جنّت اور آخرت میں بھی جنّت ہے۔
(الفضل ۲۶؍نومبر۱۹۱۳ء صفحہ۱۵)
اور کہتے ہیں ہم کو آگ نہ لگے گی مگر کئی دن گنتی کے۔ تُو کہہ۔ کیا لے چکے ہو اﷲ کے یہاں سے قرار تو البتہ خلاف نہ کرے گا اﷲ اپنا اقرار ۔یا جوڑتے ہو اﷲ پر جو معلوم نہیں رکھتے۔ کیوں نہیں؟ جس نے کمایا گناہ اور گھیر لیا اس کو اس کے گناہ نے۔ سو وہی ہیں لوگ دوزخ کے۔ اُسی میں رہیں گے۔ (فضل الخطاب حِصّہ دوم صفحہ ۱۰۳)
اِسی لئے فرقے یہود کے خلوت نشین اور جَتی ستی جنگلوں میں وحشیانہ زندگی بسر کرتے تھے اور عیسائی پوپوں کی طرح خداداد انعامات سے محروم تھے۔
(فصل الخطاب جلد۲صفحہ ۱۰۴۔ ایڈیشن دوم)




حضرت نبی کریم(صلی اﷲ علیہ وسلم) نے چالیس سال کی عمر میں اطلاع دی کہ خدا نے مجھے رسول بنایا۔ تیرہ برس آپؐ مکّہ میں رہے۔ اس کے بعد جب آپؐ کی عمر ۵۳ سال کی ہوئی حکمِ الہٰی کے مطابق ہجرت کر کے چلے گئے۔ مکّہ میں آپؐ کو کئی قِسم کی سہولتیں تھیں۔ اوّل تو یہ کہ ایک ہی قِسم کے مخالفین سے پالاپڑتا تھا یعنی مُشرکوں سے، اور پھر بوجہ اس کے کہ آپؐ کا خاندان نہایت معزّز تھا اور آپؐ کے قرابت دار بھی وہاں تھے کوئی ایذاء رسانی کی جرأت نہ کر سکتا تھا۔ آپؐ ان لوگوں کے رسم و عادات کو بھی سمجھتے تھے۔ آپؐ کے کئی پُرانے دوست سبھی تھے جو ہر وقت مدد کرتے۔ برخلاف اسکے مدینہ میں جب آپؐ آئے تو بڑی مشکلات پیش آئیں۔ پہلی مشکل تو یہ کہ مکّہ کی مخالفت بدستور تھی(۲) پھر مدینہ میں بھیمُشرکین مونود تھے(۳) ایک منافقوں کا گروہ بھی وہاں پیدا ہو گیا یہ بد ذات گروہ بڑا خوفناک ہوتا ہے، اندر سے کچھ باہر سے کچھ ۔ (۴) عیائی بھی تھے (۵) بنو قینقاع یہودی بڑے شُہدے اور اوباش تھے(۶) بنو قریظہ۔ پھر ان کے علاوہ مدینہ کے اِرد گِرد غطفان۔ مصر کا گروہ تھا(مجھے یہاں ایک نکتہ یاد آ گیا ۔ ایک شیعہ نے مجھ سے کہا
(المائدۃ:۶۸)سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بڑا خطرناک کام تھا۔ مَیں نے کہا کہ بیشک۔ اتنی قوموں کی مخالفت میں پیغامِ الہٰی پہنچانا بڑا مشکل تھا یہی وجہ ہے کہ آپؐ کی تسلّی کے واسطے (المائدۃ:۶۸)آیت نازل ہوئی)۔
مکّہ کے لوگ تو ایسے تھے کہ نہ ان کے پاس کتاب نہ انبیاء کے علوم ۔ نہ وہ اتنے چالاک۔ مگر مدینہ کا دشمن بڑا خطرناک اور چالاک دشمن تھا کیونکہ عیسائی اور یہودی سب پڑھے ہوئے تھے۔ ان کا ایک کالج بھی وہاں تھا جسے بَیت المدراس کہتے تھے۔ پھر ان میں رُہبان بھی تھے جو کچھ روحانفی حالتیں بھی رکھتے تھے اور اپنا خاص اثر بھی ۔ اِس واسطے حضرت نبی کریم (صلی اﷲ علیہ وسلم) نے تجویز کی کہ سب قوموں کو بُلایا اور ان سے کہا کہ تم جانتے ہوئیں یہاں آ کر آباد ہو گیا ہوں میری قوم کے لوگ میرے دشمن ہیں۔ تم جانتے ہو کہ اس قوم کا رُعب تمام علاقہ عرب پر ہے پس ان کے ساتھ اَور قومیں بھی مِل کر ہمیں ایذاء پہنچائیںگی۔ پس ضرور ہے کہ ہم بَیرونی دشمنوں سے بچنے کے لئے اتفاق کریں۔ مَیں اس کے لئے چند شرائط پیش کرتا ہوں جن پر اگر ہمارا اتفاق ہو جائے تو کوئی فساد نہ رہے چنانچہ آپؐ نے ان کیسامنے عہدنامہ کا یہ مسوّدہ پیش کیا جو انہوں نے مان لیا اور جو اِس رکوع میں مفصّل مذکور ہے۔ اس میں حقوقِ الہٰی اور حقوق العباد دونوں آگئے۔
لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اﷲَ :یہی آپؐ کا اصل منشاء تھا جو ان سے منوا لیا کہ ہم لوگ اﷲ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں گے۔ یہودیوں کے لئے اس کا مان لینا کوئی مشکل امر نہ تھا۔
بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا:یہ عام اَخلاقی باتیں ہیں۔
قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا: خوش معاملگی کرنا۔قُوْلُوْاحُسْنًا کے یہی معنے ہیں۔
اَقِیْمُوا الصَّلوٰۃَ : اپنے اپنے طور سے نمازیں پڑھنا اور زکوٰۃ دیتے رہنا تو دین الہٰی کے متعلق معاہدہ ہؤا۔ اب دوسری طرف یہ وعدہ لیا (۱) تم اپنے خون نہ بہاؤ گے یعنی آپس میں نہ لڑو گے (۲) اپنے لوگوں کو گھروں سے باہر نکال کر انہیں در بدر نہ کراؤ گے۔
(ضمیمہ اخباربدرؔقادیان۲۵؍فروری ۱۹۰۹ء نیز نورالدین صفحہ ۱۶)
خلاصہ دین انبیاء کیا ہے؟ تمام انبیاء کے دین کا خلاصہ یہی ہے جو اﷲ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے وعدہ لیا ہے۔ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اﷲَ۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ۔اﷲ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرنی۔ بس یہی خلاصہ ہیتمام دینوں کا اور یہی لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ کے معنے ہیں۔
عبادت کسے کہتے ہیں لوگوں کو اِس کے معنے نہیں آتے۔ بعض اِس کے معنے بندگی کرنے کے کرتے ہیں اور بعض پرستش اور پُوجا کے کرتے ہیں۔ اس کے کئی ارکان ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کی بے نظیر تعظیم جیسی اس کی تعظیم کرے اَور کسی کی نہ کرے۔ مثلاً ہاتھ باندھنے ۔ اس کے آگے جھُکنا (رکوع) اس کے آگے سجدہ میں گِر جانا۔ حج کرنا۔ روزے رکھنا۔ اپنے مال میں سے ایک حِصّہ اس کے لئے مقرر کر دینا ۔ اُٹھنے بیٹھنے میں اُس کا نام لینا ۔ آپس میں ملتے وقت اس کا نام لینا جیسے السّلام علیکم و رحمتہ اﷲ اور اس کی تعظیم میں قطعًا دوسرے کو شریک نہ کریں۔
دوسرا رکن۔ اس کی محبّت کے مقابلہ میں کسی د وسرے سے محبّت نہ کرنا۔
تیسرا رکن۔ اپنی نیازمندی اور عجزو انکساری کامل طور پر اس کے آگے ظاہر کرے۔
چوتھا رکن۔ یہ ہے کہ اس کی فرمانبرداری میںکمال کر دے۔ ماں باپ، مُحسن و مربّی ، بھائی بہن، رسم و رواج اس کے مقابلہ میں کچھ نہ ہوں۔ لَا تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ اَنْدناوًا لَا تَعْبمدُوْا اِلَّا اﷲَ ۔اﷲ کے سوا کِسی کی عبادت نہ کریں۔ بعض روپیہ سے محبّت کرتے ہیں۔ جو لوگ چوری ، جھُوٹ، دغا سے کماتے ہیں وہ اﷲ سے نہیں بلکہ روپیہ سے محبّت کرتے ہیں کیونکہ اگر اس کے دِل میں خدا کی محبّت ہوتی ہے وہ ایسا نہ کرتا ۔
اسسے اُتر کر ماں باپ کے ساتھ احسان ہے۔ بڑے ہی بد قِسمت وہ لوگ ہیں جن کے ماں باپ دُنیا سے خوس ہو کر نہیں گئے۔ باپ کی رضامندی کو مَیں نے دیکھا ہے اﷲ کی رصامندی کے نیچے ہے اور اس سے زیادہ کوئی نہیں۔ افلاطُون نے غلطی کھائی ہے۔ وہ کہتا ہے ’’ ہماری رُوح جو اُوپر اور منزّہ تھی ہمارے باپ اسے نیچے گِرا کر لے آئے۔‘‘
وہ جھُوٹ بولتا ہے۔ وہ کیا سمجھتا ہے کہ رُوح کیا ہے۔ نبیوں نے بتلایا ہے کہ یہاں ہی باپ نطفہ تیار کرتا ہے پھر ماں اس نطفہ کو لیتی ہے اور بڑی مپیبتوں سے اسے پالتی ہے۔ نو مہینے پیٹ میں رکھتی ہے۔ بڑی مشقّت سے (احقاف:۱۶)اسے مشقّت سے اُٹھائے رکھتی ہے اور مشقّت سے جَنتی ہے۔ اس کے بعد وہ دو سال یا کم از کم پونے دو سال اسے بڑی تکلیف سے رکھتی ہے اور اسے پالتی ہے۔ رات کو اگر وہ پیشاب کر دے تو بستر کی گیلی طرف اپنے نیچے کر دیتیہے اور خشک طرف بچّے کو کر دیتی ہے۔ انسان کو چاہیئے کہ اپنے ماں باپ (یہ بھی مَیں نے اپنے ملک کی زبان کے مطابق کہہ دیا ورنہ باپ کا حق اوّل ہے ابس لئے باپ ماں کہنا چاہیئے ) سے بہت ہی نیک سلوک کرے۔ تم میں سے جس کے ماں باپ زندہ ہیں وہ ان کی خدمت کرے اور جس کا ایک یا دونوں وفات پا گئے ہیں وہ ان کے لئے دعا کرے، صدقہ دے اور خیرات کرے۔
ہماری جماعت کے بعض لوگوں کو غلطی لگی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مُردہ کو کوئی ثواب وغیرہ نہیں پہنچتا۔ وہ جھُوٹے ہیں ان کو غلطی لگی ہے۔ میرے نزدیک دعا، استغفار، صدقہ و خیرات بلکہ حج ، زکوٰۃ، روزے یہ سب کچھ پہنچتا ہے۔ میرا یہی عقیدہ ہے اور بڑا مضبوط عقیدہ ہے۔
ایک صحابی نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میری ماں کی جان اچانک نکل گئی اگر وہ بولتی تو ضرور صدقہ کرتی۔ اَب اگر مَیں صدقہ کروں تو کیا اُسے ثواب ملے گا۔ تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ہاں۔ تو اس نے ایک باغ جو اس کے پاس تھا صدقہ کر دیا۔
میری والدہ کی وفات کی تار جب مجھے ملی تو اُس وقت مَیں بکاری پڑھا رہا تھا۔وہ بخاری بڑی اعلیٰ درجہ کی تھی۔ مَیں نے اس وقت کہا اے اﷲ میرا باغ تو یہی ہے تو پھر مَیں نے وہ بخاری وقف کر دی۔ فیروز پور میں فرذند علی کے پاس ہے۔
وَذِی الْقُرْبٰی: پھر حسبِ مراتب قریبیوں سے نیک سلوک کرو یتیموں اور مسکینوں سے نیک سلوک کرو۔
قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا:قَالَؔ کالفظ عربی زبان میں فَعَلَ کے برابر لکھا ہے بلکہ اس سے وسیعلکھا ہے اس سے کم ضَرَبَ کا لفظلکھا ہے۔ لوگوں کو بھلی باتیں کہو۔ بدمعاملگیاں چھوڑ دو۔ بدمعاملگیوں سے باز آجاؤ۔
وَ اَقِیْمُوا الصَّلوٰۃَ واٰتُوا الذّنکوٰۃَ :نمازیں پڑھو اور زکوٰۃ دیا کرو۔
ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ اِلَّاقَلِیْلًا مِّنْکُمْ وَاَنْتُمْ مَُّعْرِضُوْنَ:تم پھر جاتے ہو۔ باز نہیں آتے۔ اگر کسی کا روپیہ ہاتھ میں آ گیا تو اسے شِیرِ مادر سمجھ لیا اور اسے دینے میں آتے ہی نہیں۔ اﷲ تم پر رحم کرے۔ (الفضل ۳؍دسمبر ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵)







وَ اَنْتُمْ تَشْھَدُوْنَ: تم نے اِس معادہ پر اپنی گواہیاں ثبت کر دیں۔ اِس سے آگے خدا تعالیٰ فرماتا ہے پھر تم وہی ہو کہ اپنے لوگوں کو قتل کرانا اور جلاوطن بنانا چاہیتے ہو اِس طرح کہ تَظٰھَرُوْنَ عَلَیْھِمْ بِالْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ ۔بدکاری اور ظلم کے لئے ان کی پیٹھ بھرتے ہو۔ مدد دیتے ہو۔ قیدیوں کو تو چندہ دے کر چھڑاتے ہو مگر جو اس سے بُرا کام ہے جلاوطن کرانا اس سے باز نہیں آتے۔ (ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۵؍ فروری ۱۹۰۹ء)
اَفَتُؤْمِمُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ :یہ مرض آجکل بہت ساری ہے کہ ایک ہی کتاب کے بعض احکام کی تو تعمیل کی جاتی ہے بعض کی مطلق پرواہ نہیں کرتے۔ کئی لوگ ایسے ہیں جو نماز بڑھتے ہیں مگر زکوٰۃ کا خیال تک نہیں ۔ روزے رکھتے ہیں مگر نہیں سوچتے کہ کسی پر ظلم کرنا بُرا ہے۔ یُوں تو تہجّد گذار ہیں مگر لڑکیوں کو میراث دینے کی قَسم ہے۔ یہ بہت بُری بات ہے اس سے بچو ورنہ اسکی سزاجہنّم ہے۔
وَمَا اﷲُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ :یہ ایک پیشگوئی تھی جو اپنے وقت پر پوری ہوئی۔
(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۵؍ فروری ۱۹۰۹ء)
اﷲ تعالیٰ نے اپنے کامل احسن اور کامل فضل اور کامل رحمانیّت سے مسلمانوں کو ایک کتاب دی ہے۔ اس کا نام قُرآن ہے مَیں نے اس کو سامنے رکھ کر بائیبل اور انجیل کو پڑھا ہے اور ژندو اوستا کو پڑھا ہے اور ویدوں کو بھی پڑھا ہے وہ اس کے سامنے کچھ ہستی نہیں رکھتے ۔ قرآن بڑا آسان ہے۔ مَیں ایک دفعہ لاہور میں تھا۔ ایک بڑا انگریزی خوان اس کے ساتھ ایک اَور بڑا انگریزی خوان نوجوان تھا۔ ہم ٹھنڈی سڑک پر چل رہے تھے۔ اُس نے مجھے کہا کہ قرآن کریم میں آتا ہیوَ لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ (القمر:۴۱)مگر قُرآن کہاں آسان ہے۔ ہم دوسری کتابوں کو جمع کرتے اور ان کی زبانوں کو سیکھتے کہ پہلے ہمیں ان کتابوں کا ملنا مشکل اور پھر ان زبانوں کا سیکھنا مشکل اور پھر ان کو ایک زبان میں کرنا مشکل۔ پھر اس کی تفسیر کون کرتا۔ قرآن کریم نے دعوٰی کیا ہیفِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ (البیّنۃ:۴)جو کتاب دُنیا میں آئی اور جو اس میں نصیحتیں ہیں ان تمام کا جامع قرآن ہے باوجود اس جامع ہونے کے ایک ایسی زبان میں ہے جو ہر ایک ملک میں بولی جاتی ہے۔
قرآن کریم میں تین خوبیاں ہیں۔ پہلی کتابوں کی غلطیوں کو الگ کر کے ان کے مفید حصّہ کو عمدہ طور پر پیش کیا ہے اور جو ضروریات موجود ہ زمانہ کی تھیں ان کو اعلیٰ رنگ میں پیش کیا اِس کے سوا جتنے مضامین ہیں اﷲ کی ہستی ، قیامت ،ملائکہ، کتب، جزا و سزا اور اَخلاق میں جو پیچیدہ مسئلے ہیں ان کو بیان کیا جیسے کہ کوئی بدکار ہمارے مذہب پر ناپاک حملہ کرے تو اس کے مقابلے کے لئے فرمایا کہ انکو گالیاں مت دو۔فَیَسُبُّوا اﷲَ عَدْوًآ بِغَیْرِ عِلْمٍ (الانعام:۱۰۹)ہر ایک اُمّت کے لئے وہ اعمال جو اس کے کرنے کے قابل تھے وہ اس کے سامنے خوبصورت کر پیش کئے گئے تھے۔ مگر پھر اندھوں کیلئے روشنی کا کیا فائدہ ۔ مَیں نے اس کا مقابلہ دوسری کتابوں سے کیا ہے۔ انجیل کو دیکھو وہ تو اِس سے شروع ہوتی ہے کہ فلاں بیٹا فلاں کا اور فلاں بیٹا فلاں کو مِگر قرآن کریم الحمد سے شروع ہوتا ہے اور انجیل کے آخر میں لکھا ہیکہ پھر اس کو یہودیوں نے پھانسی دے دیا۔ ہماری کتاب کےآخر میں قُلْ انعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ۔ مَلِکِ النَّاسِ۔ اِلٰہِ النّاسِ(النّاسِ:۲تا۴)لکھا ہے۔ بڑا افسوس ہے کہ مسلمانوں کے پاس ایک ایسی اعلیٰ کتاب ہے مگر وہ عمل درآمد کے لئے بڑے کچّے ہیں ۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اگر کوئی کِسی کی اُنگلی پھر زمین ظلم سے لے لے گا تو قیامت کے دن سات زمینیں اس کے گلے کو طَوق ہوں گی مگر اس پر کوئی عمل نہیں ہے۔ اِسی طرح معاملات میں دیکھا جاتا ہے کہ ایک آدمی رات بھر سوچتا رہتا ہے کہ کسی کے گھر روپیہ ہو تو اس سے کسی طریق سے لیا جائے ۔ پھر اگر کسی نہ کھی طریقہ سے لے لیتے ہیں تو پھر واپس دینے میں نہیں آتے۔ اسی طرح زنا، لواطت،چوری،جھُوٹ، دغا، فریب سے منع کیا گیا تھا مگر آجکل نوجوان اسی میں مُبتلا ہیں۔ اسی طرح تکبّر اور بے جا غرور سے منع فرمایا تھا لیکن اس کے برخلاف مَیں دیکھتا ہوں کہ اگر کِسی کو کوئی عمدہ بُوٹ مِل فاوے تو وہ اکڑتا ہے اور دسروں کو پھر کہتا ہے اوبلیک مَین ( کالا آدمی) دوسروں کو تحقیر کرتا ہے اور بڑا تکبّر کرتا ہے۔
ہمارے نبی کریم صلّی اﷲ علیہ وسلم جب مکّہ سے مدینہ تشریف لے گئے تو مکّہ میں آپؐ کے چھوٹے بڑے، بوڑھے ادھیڑ ہر قسم کے رشتہ دار بھی تھے۔ اور آپؐ کے حمایتی بھی وہاں بہت تھے۔ مکّہ میں آپؐ کے دست غمخوار بھی تھے اور آپؐ دشمنوں کو خوب جانتے تھے اور ان کی منصُوبہ بازی کا آپؐ کو خوب علم ہو جاتا تھا اور آپؐ ان کی جالاکیوں اور اپنے بچاؤ کے سامان کو جانتے تھے۔ تو جب آپؐ کے یہاں اَور بھی دشمن تھے۔ بنو قینقاع اور بنو قریظہ اور بنو نضیر آپؐ کے دشمن تھے اور اپھر جہاں آپؐ امترے تھے وہاں ابوعامر راہب جو بنی عمر بن عوف میں سے تھا اس کا جتھا آپؐ کا دشمن تھا۔ یہود چاہتے تھے کہ ایران کیساتھ مِل کر آپؐ کو ہلاک کروادیں اور عیسائی قیصر کے ساتھ ملنا چاہتے تھے اور انہوں نے اپنے ساتھ غطفان اور فزارہ کو بھی ملا لیا تھا۔ یہ نو مشکلات آپؐ کو تھیں۔
اِس سے بڑھ کر یہ کہ یہاں ایک منافقوں کا گروہ بھی پیدا ہو گیا تھا۔ ان منافقوں نے عجیب عجیب کارروائیاں کیں۔ وہ آپؐ کے پاس بھی آتے تھے اور آپؐ کے دشمنوں کے پاس بھی جاتے تھے۔ اور بارھویں بات جو اس سے بھی سخت تھی وہ یہ کہ مکّہ والے اَن پڑھ تھے اور وہ بے قانون تھے۔ ان کا مقابلہ صرف عقل سے ہی تھا۔ مگر یہاں تمام اہلِ کتاب پڑھے لکھے ہوئے تھے اور ان کے پاس بڑی بڑی کتابیں تھیں تورات اور انجیل اور اس کے سوا اَور بھی کتابیں ان کے پاس تھیں۔ بنی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے سوچا کہ مدینہ میں مشکالت نہت ہیں اِس لئے آپؐ نے عیسائیوں اور مُشرکوں سے معادہ کروا دیا کہ لَا تَسْفِکُوْنَ دِمَآئَ کُمْ آپس میں خوں ریزی نہ کرنا وَ لَا تُخْرِجُوْنَ اَنْفُسَکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ ایک دوسرے کو اپنے ملک سے نکالنا نہیں ثممَّ انقْرَرْتُمْ تم نے اقرار تو کیا۔(وَاَنْتُمْ تَشْھَدُوْنَ) اور تم گواہی دیتے ہو۔
جیسے تم نے ہمارے ہاتھ پر اقرار کیا۔ کہنا تو آسان تھا مگر معاملات میں دین کو دُنیا پر مقدّم کر کے دکھلانا۔ ثُمَّ اَنْتُمْ ھٰٓؤُلَآئِ تَقْتُلُوْنَ اَنْفُسَکُمْ پھرتم وہی ہو کہ تم نے وعدہ تو کیا مگر ایفا نہ کیا اور تم خوں ریزی کرتے ہو وَتُخْرِجُوْنن فَرِیْقًا مِّنْکُمْ مِّنْ دِیَارِھِمْ اورتمہیں اس سے منع کیا تھا کہ کسی کو اپنے گھر سے نہ نکالنا۔ مگر تم ان کو ان کے گھروں سے باہر نکالتے ہو۔ تَظٰھَرُوْنَ عَلَیْھِمْان کی پیٹھ بھرتے ہو ظلم اور زیادتی سے کبھی کبھی کوئی نیک کام بھی کر لیتے ہو۔ وَ اِنْ یَّاْتُوْکُمْ امسٰرٰی تمفٰدُوْھُمْ اگرکوئی قیدی آ جاوے تو اُسے چھُڑا دیتے ہو حالانکہ تمہیں اِس سے منع کیا گیا تھا۔نفَتُؤْ مِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَ تَکْفُرُوْن بَبَعْضٍَکتاب کے بعض حصّے پر تو ایمان لاتے ہو اور بعض سے انکار کرتے ہو۔ فَمَا جَزَآئُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلَّاخِزْیٌتم تو دُنیا کی عزّت بڑھنے کے واسطے ایسا کرتے ہو ۔ مگر پھر ایسوں کی جزاء یہ ہے کہ وہ ذلیل ہوںگے۔ آخرت کی ذلّت تو ہو گی ہی وہ دُنیا میں بھی ذلیل ہوں گے اور سخت دِلّت اُؔٹھائیں گے اور ان کو سخت سے سخت عذاب ملے گا اور آخرت میں بھی ان کو سخت عذاب میں دھکیلا جائے گا۔وَمَا اﷲُ بِغَافِلٍ عَمَّ تنعْمَلُوْنَ اﷲتمہاری کرتوتوں سے غافل نہیں ہے۔
(الفضل ۱۰؍دسمبر ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵)
کیا اِس تحریر کا کچھ حِصّہ مانتے ہو اور کچھ سے انکاری ہو گئے ہو۔ پس کوئی نہیں سزا اس کی جو ایسا کرے تم میں سے مگر یہ کہ ذلیل ہو اِس دُنیا میں اور قیامت کے دن بڑے عذاب کی طرف بھیجے جاویں گے اور اﷲ غافل نہیں تمہاری کرتوتوں سے۔
مدینہ کے بارعب بنی اسرائیل اور یہود کو یہ خطاب ہے۔ یہ لوگ مدینہ کے نواح میں خیبر ۔ فبدک وغیرہ کے مالک تھے اور بڑے جاہ و حشم کی جماعت تھی۔ نبی کریں(صلی اﷲ علیہ وسلم ) نے ان سے معاہدہ کیا تھا۔ آکر ان بدعہدوں نے اس عہدنامہ کے بعض حصّوں کی خلافورزی کی اور یہاں تک گستاخی میں بڑھے کہ استیصالِ اسلام کی دھمکیاں دیں۔ ان کے متعلق یہ آیت قَرآن کریم میں ہے۔ اِس میں دو خبریں دی ہیں اوّل تو یہ کہ اس بدعہدی پر تم دُنیا میں ذلیل ہو گے اور یہ امر بظاہر محال تھاکیونکہ ایک طرف کمزور قلیل جماعت اسلام کی اور مقابلہ میں یہ زبردست زمینوں کے مالک۔ تجارتوں میں ممتاز۔
دوسری خبر یہ ہے کہ قیامت میں تم پر عذاب ہو گا۔ یہ دو اطلاعیں قبل از وقت دی گئیں ۔ پھر تیسری بات یہ ہے کہ کہ وہ قوم بارعب و صاحبِ جاہ وحشم مع تمام قبائل عرب کے جن کو احزاب کہتے ہیں مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے مگر آخر وہ یہود عرب سے جلاوطن کئے گئے۔ ان کا نام بنو نضیر اور بنو قینقاع تھا اور بنو قریظہ کے یہود بالع سب کے سب مارے گئے۔ دیکھو دُنیوی خبر اور اخروری خبر دو خبریں تھیں اور ان کے مقابلہ میں دو واقعات تھے جن کے متعلق دو خبریں تھیں۔ ایک خبر نے اپنے واقعہ کے ساتھ صداقت کی مُہر لگا دی ہے کہ دوری خبر عذابِ قیامت بھی اپنے واقعہ کو ضرور لائے گی۔ (دیباچہ نورالدین صفحہ ۳۴،۳۵)


مدینہ طیّبہ میں ایک شخص ایک مسلمان کے ہاتھ سے اتفاقیہ طور پرماراگیا۔ یہ واقعہ گزر گیا مگر رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم ) نے تمام شہر کے لوگوں کو بُلا کر فرمایا کہ ہم مقتول کے وارثوں کو خوں بہا دینا مناسب سمجھتے ہیں تاکہ اس کی قوم کے لوگ ہماری مخالفت نہ کریں مگر امنِ عامہ کے شریک اس دیت کے دینے میں شریک نہ ہوئے بلکہ ایک مسلمان عورت تکلا سیدھا کرناے کے لئے قینقاع (جو لوہار تھے) کے محلّہ میں گئی۔ وہ گھونگٹ نکالے ہوئے تھی۔ شریر لوہار نے کہا کہ یہ کپڑا کیوں مُنہ پر ڈالے ہوئے ہو۔ اُس نے جواب دیا۔ ہمارے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہمیں بَرہ کا حکم دیا ہے۔ اس پر اس بدمعاش نے شرارت سے لوہے کی ایک میخ بچھلی طرف کپڑے میں ٹھونک دی۔ عورت اُٹھنے لگی تو اس کا کپڑا بھی پھَٹ گیا اور گھونگٹ بھی اُتر گیا۔ یہ حالت دیکھ کر بجائے اس کے کہ معذرت کرتے انہوں نے تمسخر اُڑایا ۔ عورت نے گھبرا کر کہا کہ کوئی ہے جو میری مدد کرے۔ ادھر سے ایک مسلمان بھائی نے یہ بات سُن لی وہ مدد کو دَوڑا۔ آپس میں وہاں لڑائی چھڑ گئی جس سے ایک قتل ہو گیا۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو جب خبر بھیجی تو فرمایا کہ ہم نے بَیرونی انتظام کے لئے یہ معاہدہ کیا تھا۔ تم اندرونی معاملات میں ایسے تیز ہو جاتے ہو کہ قتل تک نوبت پہنچ گئی ہے۔ جب وہ بہت تنگ ہوئے تو مدینہ چھوڑ کر چلے گئے۔
ادھر بنو نضیر سے ایک حماقت ہوئی کہ کسی اپنے معاملہ کے لئے بنی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو اپنے محلہ میں بُلا لیا اور وہاں ایک شخص کو سکھایا کہ جب دیوار کے پاس بیٹھے ہوں تو تم اُوپر سے چکّی کا پاٹ گِرا دو۔ آپؐ کو ان کی بَد نیّتی کی خبر کسی نہ کسی طرہ مِل گئی اِس لئے آپؐ یکدم اُٹھ کر چلے گئے اور ان کا داؤ نہ چل سکا۔ یہ بات بڑھ گئی۔ ان میں کچھ شاعر بھی تھے وہ مکّہ میں گئے اور وہاں کے سرداروں کو جا کر بھڑ کایا اور بعض نے مسلمان عورتوں سے تغزّل کیا۔ اِس لطے بنو نضیر کو حکم ہؤا کہ یہاں سے چلے جاؤ جلد وطن کر دیا گیا حالانکہ ان سے معاہدہ کیا جا چکا تھا کہ وہ ایسے کام نہ کریں گے جس سے جلاوطنی کرنی پڑے۔ ادھر مکّہ والوم نے پیغام بھیجا کہ تم ان مسلمانوں کی عورتوں کو مارو اور ہم باہر سے لشکر لے کر اُن پر حملہ کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ ایک اپنے ساتھ گِرد و نواح کی قوموں کو جمع کر لائے سورہ احزاب میں اس کو ذکر ہے۔ آخر خدا تعالیٰ نے اس لڑائی سے مسلمانوں کو بچا لیا۔ جب وہ لوگ چلے گئے تو آپؐ نے بنو قریظہ سے پوچھا کہ تم پہلے دو واقعے قینقاع اور نبو نضیر کے دیکھ چکے ہو اور پھر بھی شرارتوں سے باز نہ آئے اور اب تمہارے حق میں ایک فیصلہ کرتا ہوں جو تمہیں ماننا پڑے گا۔ بد قسمت انسان نیک کی بات کو نہیں مانتا اِس لئے انہوں نے کہا ہمیں سعد بن معاذ کا فیصلہ منظور ہے نہ آپ کا۔ اس نے کہا میرے رائے تو یہ ہے کہ جنگ کے شرکاء کو قتل کر دیا جاوے۔ یہ فیصلہ انہیں چارو نا چار منظور کرنا پڑا۔ جن کو قتل کی سزار دی گئی ان کی تعداد کم از کم دو سو پچّاس اور زیادہ سے زیادہ نو سَو کی بتائی (گئی ہے)۔
خیر یہودیوں کے فرقے تو اِس طرح تباہ ہوئے۔ باقی رہے عیسائی ان کالاٹ پادری عامر تھا اُسنے لوگوں کو خوب سُنایا کہ مَیں نے محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کو دیکھا ہے کہ وہ پراگندہ (حال) اور ملک بملک اکیلا پھرتا ہؤا مَر جائے گا۔ آپ ؐ نے فرمایا خواب تو سچ دیکھا ہے مگر میرا نہیں اپنا بد انجام دیکھا ہے چنانچہ ایسا ہی ہؤا ۔ وہ مکّہ گیا اِس خیال سے کہ کچھ انتظام مسلمانوں کے خلاف کروں مگر وہاں اس نے شراب پی کر بدمستی کی تو نکالا گیا مگر روماؔ چلا گیا۔ وہاں بادشاہ کو سکھایا مگر بادشاہ کسی امر پر ناراض ہؤا راتوں رات نکل بھاگنا پڑا اور آکر اسی طرح مرا گیا۔ حدیث میںوَحِیْدًا وَّ طَرِیْدًا عَشَرِیْدًا آیا ہے۔اب میدان صاف تھا۔ دو گروہ رہ گئے ایک منافقوں کا اور دوسرے مسلمانوں کا۔ منافقوں کی نسبت اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَۃَ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے ورلی زندگی کو اختیار کر لیا اِس لئے ان سے عذاب ہلکا نہ کیا جائے گا اور نہ وہ مدد دئے جائیں گے چنانچہ جب ان لوگوں کی تباہی آئی کوئی ان کا حامی و ناصر نہ رہا۔ (ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۵؍فروری ۱۹۰۹ء)
اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں نصیحت کرتا ہے بایں طور کہ جو اگلی قوموں کی بُرائیاں اور خوبیاں ہیں ان کا بیان کرتا ہے تاکہ مسلمان ان بُرائیوں سے بچیں۔ اِس کا فائدہ یہ ہو گا کہ وہ ان عذابوں سے محفوظ رہیں گے جو ان بُرائیوں کی وجہ سے ان پرنازل ہوئے اور ان کوبیوں کواختیار کریں جن کی برکت سے ان پر طرح طرح کے انعام ہوئے۔
ابن آیات میں یہودیوں کے متعلق فرمایا کہ بہت سے لوگ وَرلی زندگی کو پسند کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ موجودہ حالت اچھی رہے پس وہ اس آواز کی طرف رغبت کرتے ہیں جو چند منٹ کے لئے لُطف دے اور وہ نظارہ اُن کے مرغوبِ خاطر ہوتا ہے جو عارضی ہو لیکن اس سچّے سرور کی پرواہ نہیںکرتے جو دائمی ہے اور جس پر کبھی فنا نہیں ہوتی۔
ایسے لوگوں کے لئے بھی دین کو دُنیا پر مقدّم کرنا ایک عذاب ہو جاتا ہے اور وہ ہر لحظہ ، ہر گھڑی ان کو دُکھ دیتا رہتا ہے اور کسی وقت بھی کم نہیں ہوتا۔ چونکہ عاقبت انہوں نے پسند نہیں کی وہ خدا سے بُعد میں ہوتے ہیں۔ جو عذاب ہے وہ اس سے معذَّب ہوتے ہیں لیکن اس قِسم کے عذابوں کے وعدے ہر مذہب میں نہیں۔ اِسلام کی خصوصیّت ہے کہ جس عذاب کا وعدہ دیا جاتا ہے اس کا نمونہ دُنیا میں بھی دکھایا جاتا ہے تاکہ یہ عذاب اس آنے والے عذاب کے لئے ایک ثبوت ہو۔
دیکھو وہ قوم جس میں آج اچھے لڑکے نہیں ان پر کبھی وہ وقت بھی آ جاتا ہے کہ ان میں اچھے لڑکے پیدا ہوں۔ وہ قوم جن میں زور آور نہیں ایک وقت ان پر آتاہے کہ ان میں زورآور پَیدا ہوں اگر ان کے پاس آج سلطنت نہیں تو اس زمانہ کی امّید کی جا سکتی ہے جب ان میں بھی امارت آ جائے۔ ہندوؤں کی حیات گذشتہ و موجودہ پر غور کرو۔ جب ہم بچّے تھے تو یہ ہندو اتنے تعلیمیافتہ نہ تھے کہ معلّم بن سکیں اِسی لئے اکثر مسلمان معلّمین نظر آتے تھے پھر ہمارے دیکھتے دیکھتے یہ تعلیم میں اِس قدر ترقّی کر گئے ہیں کہ اَب معلّم ہیں تو ان میں سے۔ افسر ہیں تو ان میں سے۔ وہ اپنی طاقت پر اَب یہاں تک بھروسہ رکھتے ہیں کہ ہم کو اِس ملک سے نکال دینے یا گورنمنٹ پر دباؤ ڈال دینے پر تُلے بیٹھے ہیں۔ اِس بات کا ذکر مَیں نے صرف اِس لئے کیا ہے کہ قوموں میں جہالت کے بعد علم آ جاتا ہے۔ زوال کے بعد ترقّی ہو سکتی ہے اور ایسا ہوتا رہتا ہے مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے ایک قوم ہے ( یہود) جنہوں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا مقابلہ کیا تھا ہم نے ان کو یہ سزا دی کہ اَور قوموں میں تو تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں مگر ان میں کوئی تبدیلی نہ ہو گی اور ان کا کوئی ناصر و مدد گا ر نہ ہو گا چنانچہ یہودیوں کی کوئی مقتدرانہ سلطنت رُوئے زمین پر نہیں۔ چَپّہ بھر زمین پر بھی ان کا تسلّط نہیں۔ اگر ان کو تکلیف دی جاوے تو کوئی نہیں جو ان کی حامی بھرے۔ تیرہ سَو برس سے خدا کا یہ کلام سچّا ثابت ہو رہا ہے۔ پس ہمیں اِس سے یہ سبق لینا چاہیئے کہ خدا کے خلاف جنگ نہ کریں اور ہرگز ہرگز ورلی زندگی کو مقدّم نہ کر لیں ورنہ لَایُنْصَرُوْنَ کی سزا موجود ہے۔ (بدر ۳۱؍دسمبر ۱۹۰۸ء صفحہ۲)



ہم نے تو ان لوگوں کی بہتری کے لئے موسٰیؑ کو کتاب دی۔ پھر اَور رسول بھیجے۔ اخیر میں عیسٰی بن مریم کو کُھلے نشانات کے ساتھ مبعوث کیا اور اسے اپنے کلامِ پاک سے مؤید کیا۔ پھر بھی اکثر لوگوںف کی عادت ہے کہ جب کوئی رسول آیا اور اُس نے اُن کی خواہشوں کے خلاف کہا تو یہ اَکڑ بیٹھے ۔ پھر بعض کی تکذیب کی اور بعض کے قتل کے منصُوبے کرنے لگے مگر اس کا انجام ان کے حق میں اچھا نہیں ہؤا۔ اﷲ تعالیٰ آپ لوگوں کو فہم عطا کرے۔ عاقبت اندیشی دے۔ یہ دُنیا چند روزہ ہے۔ سب یارو آشنا الگ ہونے والے ہیں ہاں کچھ دوست ایسے ہیں جو دُنیا و آخرت میں ساتھ ہیں۔ (بدر ۳۱؍دسمبر ۱۹۰۸ء صفحہ۲)
کیسا اﷲ کا فضل اور اس کا رحم اور اس کی غریب نوازی ہے کہ ہمیشہ اپنا پاک کلام ہماری تاہذیب کے لئے بھیجتا رہتا ہے۔ اگر کِسی آدمی کے نام و ائسرائے یا حاکم یا کِسی امیر کا خط آ جاوے تو وہ اس سے بڑا خوش ہوتے ہیں اور اس کی تعمیل کو بہت ضروری سمجھتے ہیں اور اس کی تعمیل کرتے ہیں مگر قُرآن کریم جو ربّ لعٰلمین اور تمام جہان کے مالک و خالق کا حُکم نامہ ہے اس کی لوگ پرواہ نہیں کرتے اور ہمیشہ اس کی مخالفت ہی کرتے ہیں ۔
کوئی موسٰیؑ پر ہی مدار نہ تھا وَ قَفَّیْنَا مِنْ م بَعْدِہٖ بالرُّسُلٍاس کے بعد بھی رسول آتے رہے سلیمان ، داؤد بھی اِس کے بعد ہی آئے عیسٰی بن مریم کو بھی کُھلے کُھلے نشانات اور تعلیمیں جن پر کوئی اعتراض نہ آتا تھا دئے۔ وہ اَخلاتی تعلیم تھی۔ مان لیتے تو کیا حَرج تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پھر جب تعلیم آئی بَمَا لَا تَھْوٰٓی اَنْفُسُکُمُ اسْتَکْبَرْتماسے پسند نہیںکرتے اور تم اسے اپنے مناسبِ حال بناتے ہو۔ فَرِیْقًا کَذَّبْتُمْ ایک کو تو تم نے جھٹلایا وَ فَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَاور ایک کو اَب قتل بھی کرنا چاہتے ہو۔ (الفضل ۱۷؍دسمبر ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵)
اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے موسٰیؑ کو بھیجا اور پھر اس کے بعد کئی رسول اَور بھیجے حتّٰی کہ عیسٰی کو بھیجا اَیَّدْنٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِاور اسے اپنے کلا سے مؤیّد کیا۔ پارہ ۲۵ سورہ شورٰی کے آخری رکوع کی آیت وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا سے معلوم ہوتا ہے کہ رُوح سے مراد کلام ہے۔ (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۵؍فروری ۱۹۰۹ء)


غُلْفٌ: جس کا ختنہ نہ ہو اس پر ایک پَردہ رہ جاتا ہے۔ اَغْلَف وہ شخص جو نامختون ہے۔ دوسرے معنے غلاف میں ہیں جیسے کہ آیا ہیقُلُوْبُنَا فِیْٓ اَکِنَّۃٍ (حٰمٓ السّجدۃ:۶)تیسرے معنے ہم بڑے مکرّم معظّم لوگ ہیں جن پر کسی کا اثر نہیں ہوتا۔
فَقَلِیْلًامَّ یُؤْمِمُوْنَ:کم ہی ایمان لاتے ہیں یہ محاورہ ہے یعنی ایمان نہیں لاتے۔
(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۵؍فروری ۱۹۰۹ء)
وَ قَلُوْا قُلُوْبُناعُلْفٌ:عربی زبان میں نامختون کو غلف کہتے ہیں اور عرب لوگ نامختون کو اچھا نہ جانتے تھے۔ مگر انہوں نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے مقابلہ کیلئے اِس لفظ کو بھی انے لئے پسند کیا اور کہا کہ ہمارے دل نامختون ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا بَلْ لَّعَنَھُمُ اﷲُ بنکُفْرِھِمْیہ تمہارے کُفر کے سبب تم پر *** ہوئی۔ (الفضل ۱۷؍دسمبر ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵)
بہت سے لوگفَرِحُوْا بِمَا عِنْدَھُمْ مِّنَ الْعِلْمِ (المؤمن:۸۴) پر نازاں ہوتے ہیںاور نئی ہدایت کے ماننے سے پس و پیش کرتے ہیں وہ کہتے ہیں قُلُوْبُنَا عُلْفٌیعنی ہمارے دِل نامختون ہیں۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے یہ بات نہیں بلکہ کفر کے سبب ان پر *** پڑ گئی۔
(بدر ۲۸؍جنوری ۱۹۰۹ء صفحہ۹)


مُصَدِّقٌ:ایسے لوگوں کی وہ کتابیں تھیں جن میں کچھ باتیں آئندہ کی نسبت لکھی ہوئی تھیں۔ قرآن کریم سے ان کی تصدیق ہو گئی۔ چنانچہ تورات استثناء ۱۸:۱۸ میں مذکور ہے کہ جب حضرت موسٰیؑ کے ساتھ جانے والوں نے گھبرا کر کہا کہ اَے خدا ہم تیری آواز سُننا نہیں چاہتے تو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ اَب وحی تم میں نہیں بلکہ تمہارے بھائیوں میں اُترے گی اور پھر اس رسول کے نشان بتائے۔ (۱) وہ بُت پرستی کا دشمن ہو گا (۲) بنی اسرایل کے بھائیوں میں سے ہو گا (۳) اپنا کلام اُسکے مُنہ میں ڈالوں گا۔ (۴) جو کہے وہ مانیو ورنہ دُکھ پاؤ گے (۵) جو کہے گا وہ پورا ہو گا (۶) وہ موسٰیؑ کا مثل ہو گا۔ اعمال حواریوں میں اِس مسئلہ کو بالکل حل کر دیا گیا ہے جہاں لکھا ہے کہ تم دعائیں کرو۔ ضرور ہے کہ مسیحؑ کے دوبارہ آنے سے پہلے وہ باتیں پوری ہو جاویں جو ہمارے باپ دادا کو کہی گئیں۔ اِس سے صاف ثابت ہے کہ یہ پیشگوئی مسیحؑ کے حق میں نہ تھی۔
یَسْتَفْتِحُوْنَ:یہ باتیں تم کافروں پر کھولا کرتے تھے اور ان کے مقابلہ میں فتوحات کی دعائیں کیا کرتے تھے۔
مَائَرَفُوْا: دوسری جگہ فرمایا (البقرۃ:۱۴۷)
(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۵؍فروری ۱۹۰۹ء)
وَ لَمَّا جَآئَ ھُمْ کِتٰبٌ مِّنْ عِنْدِ اﷲِ:جب ان کے پاس اﷲ کی کتاب آئی جو اس کتاب کی اَور پیشگوئیوں کی تصدیق کرتی ہیں جو تمہارے پاس ہیں۔
تم نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی آمد آمد کی خبر دے رہے تھے جیسا مَیں نے اپنے زمانہ میں دیکھا کہ لوگ مہدی کے لئے رو رو کر دعائیں کرتے تھے مگر وہ آیا بھی اور چلا بھی گیا مگر کِسی کو خبر نہ ہوئی … اصل بات یہ فَلَمَّا جَآئَ ھُمْ مَّا عَرَفُوْا کَفَرُوْابِہٖ۔آئے ۔پر انکار ہی ہوتا ہے ۔ پھر دل *** ہو جاتے ہیں ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ (الفضل۱۷؍دسمبر۱۹۱۳ء صفحہ۱۵)
انسان میں ایک مرض ہے جس میں یہ ہمیشہ اﷲ کا باغی بن جاتا ہے اور اﷲ کے رسول اور نبیوں اور اس کے اولوالعزموں اور ولیوں اور صدّیقوں کو جھُٹلاتا ہے۔ وہ مرض عادت، رسم و رواچ اور دَم نقد ضرورت یا کوئی خیالی ضرورت ہے۔ یہ چار چیزیں مَیں نے دیکھا ہے چاہے کِتنی نصیحت کرو۔ جب وہ اپنی عادت کے خلاف کوئی بات دیکھے گا یا رسم کے خلاف یا ضرورت کے خلاف تو اس سے بچنے کے لئے کوئی نہ کوئی عذر تلاش کر لے گا۔ مَیں نے کئی آدمیوں کو دیکھا ہے انکو کِسی بُرائی یا بند عادت سے منع کیا جاوے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم کتنی نیکیاں کرتے رہتے ہیں۔ یہ بدعادت ہوئی تو کیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ بدی ان کو بدی نہیں معلوم ہوتی۔
انبیاء اور خلفاء اور اَولیاء اور ماموروں کی مخالفت کی یہی وجہ ہے۔ یہ قرآن کریم آیا اور اس نے ان کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہی پہلے لوگوں سے بیان کیا کرتے تھے مگر جب قرآن شریف آیاکَفَرُوْابِہٖ انہوں نے اس کا انکار کر دیافَلَعْنَۃُ اﷲِ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ تواﷲ سے وہ بعید ہو گئے۔ ایک آدمی جب جھُوٹ بولنے لگتا ہے تو پہلے تو مخاطب کو کہتا ہے کہ میری بات کو جھُوٹا نہ سمجھنا مَیں تمہیں سچ سچ بتاتا ہوں مَیں تو جھُوٹے کو *** سمجھتا ہوں مگر ہوتا در اصل وہ خود ہی جھُوٹا ہے۔ (الفضل ۲۴؍دسمبر ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵)

:یہ بہت بُری بات ہے۔ وہ اﷲ کا انکار کرتے ہیں صرف بغاوت کی وجہ سے۔
داؤد و سلیمان کا انکار کیا اور ان کی مخالفت کی۔ اِس وجہ سے ان پر *** پڑی اور وہ تِتّر بِتّر ہو گئے۔ ہسپانیہ میںاﷲ کی مخالفت ہوئی۔ ان پر عذابِ الہٰی نازل ہؤا ۔ مسلمانوں کو وحاں سے نکال دیا گیا۔ صرف عمدہ عمدہ کتابیں لے جانے کی اجازت دی گئی ۔ مگر ان کتابوں کے تینوں جہاز جو انہوں نے بھرے تھے بمع آدمیوں کے غرق کر دئے گئے۔ بغداد میں احکامِ الہٰی کا مقابلہ کیا گیا تو ان کا نام و نشان مٹا دیا دَارُالشَْلَامِ عِنْدَرَبِّھِمْ کیتفاؤل پر اس کا نام دارالسْلام رکھا گیا تھا۔
عیسائیوں نے مسیحؑ کی مخالفت کی۔ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا اور ان پر غضب نازل ہؤا ۔ ان کی کتاب میں لکھا تھا کہ اگر تم آخری نبی کو مان لو گے تو تم کو اجر ملے گا اور تم کو نجات دی جائے گی مگر انہوں نے نہ مانا اِس لئے ان کو عذابِ مہین ہو گا۔
(الفضل ۲۴؍دسمبر ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵)
بِغَضَبٍ عَلٰی غَضَبٍ:مسیحؑ کی مخالفت کا غضب پھر اس نبی کی مخالفت کا غضب۔
(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۵؍ فروری ۱۹۰۹ء)
عَذَابٌ مُّھِیْنٌ :یہ سزا ہے استکبار کی جس کی وجہ سے انکار کیا۔
(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر ۹ صفحہ ۴۳۸)


وَھُوَالْحَقُّ:اور وہ حق ہے اگر کتاب سچّی بھی ہو اور آپ کے کلام کی تصدیق کرنے والی بھی ہو تو پھر کیوں نہ مانے۔
تَقْتُلُوْنَ :مقابلہ کرتے رہے۔ اگر کہیں کہ وہ نبی نہ تھے تو اس کے جواب میں فرمایا کہ اچھا موسٰیؐ کو تو سب نبی مانتے ہو پس تم نے اس کی کیوں حکم عدولی کی۔
(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ فروری ۱۹۰۹ء)
فَلِمَ تنقْتُلُوْنَ :دیکھو متی باب ۲۳ آیت ۳۷۔ (تشحذالاذہان جلد ۸نمبر۹صفحہ۴۳۸)
جہاں تک تاریخ پتہ دے سکتی ہے اﷲ تعالیٰ کے مُرسل و مامور اپنے اعداء کے سامنے ناکام ہو کر نہیں مرتے اور نہ ہلاک ہوتے اور نہ مارے جاتے ہیں۔ مامورین کے ساتھ جدال وقتال ہوتا ہے… مگر یہ مقاتلہ و مقابلہ کرنے والے ناکام و نامراد مرتے ہیں اور مامور لوگ اﷲکے فضل سے مظفّر و منصور اور کامیاب ہو کر دُنیا سے جاتے ہیں۔ (نور الدین صفحہ ۱۴۷)
وَاِذَا قِیْلَ لَھُمُ اٰمِنُوْا بِمَآ اَنْذَلَ اﷲُ: اور جب ان کو کہا جاوے کہ اس کتاب کو مانوں جس کو اﷲ نے اُتارا ہے تو وہ کہتے ہیں ہم اس کو مانتے ہیں جو ہمارے اُوپر اتاری گئی۔ حالانکہ وہ بھی ایک حق ہے۔
فرمایا: اگر تم اس کو ماننے والے ہوتے تو تم نبیوں کا مقابلہ کیوں کرتے۔ وہ اگر کہیں کہ ہم ان کو نبی نہیں سمجھتے تو فرمایا کہ موسٰیؑ بھی تو توحید لائے تھے تم نے ان کا کیوں انکار کیا۔
(الفضل ۲۴؍دسمبر ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵)





عَصَیْنَا :مان تو لیا مگر ہم سے اس پر عمل نہیں ہو سکتا ۔
اُشْرِبُوْا :رَچ گئی تھی۔
(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۵؍ فروری ۱۹۰۹ء)
ایک پہاڑی پر جس کا نام حراء ہے ہماری سرکار سے بھی اﷲ نے کلام کیا۔ ایسا ہی حضرت موسٰیؑ سے بھی ایک پہاڑ پر کلام ہؤا جس کا نام لُور ہے۔ رَفَعْنَا فَوْقَکُمُ الطُّوْرَکے معنے ہیں کہ اس کے دامن میں سب قوم کو کھڑا کیا۔ جیسے بولتے ہیں لاہور شہر راوی کے اُوپر ہے۔ ایسا ہی ہجرت کی ایک حدیث میں ہے فَرُفِعنتْ لَنَا صَخْرَۃٌ تواس کے یہ معنے نہیں کہ پہاڑ اُکھیڑ کر نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے اُوپر رکھ دیا گیا۔
خُذُوْامَآ اٰتَیْنٰکُمْ بِقُوَّۃٍ :جیسے بنی اسرائیل کو تورات مُحکم پکڑنے کا حُکم تھا ایسا ہی ہمیں قرآنِ مجید کے بارے میں حکم ہے۔ اگر مانو گے تو فائدہ ہو گا نہ مانو گے تو گھاٹا ہی گھاٹا ہے۔ عورتوں کا بڑا حصّہ تو قُرآن سُنتا ہی نہیں۔ امیر بھی بدبختی سے قرآن نہیں سُن سکتے نہ با جماعت نماز پڑھ سکتے ہیں۔ زمینداروں کو فرصت نہیں۔ فصلِ خریف سے فراغت پا کر کماد پِیڑ نے کا موسم آ جائے گا۔ پھر ہم سے سوال کئے جاتے ہیں کہ سفر میں روزہ معاف ہے تو کٹائی کے موقع پر بھی کر دیجئے حالانکہ مَیں ایسا مُجتہد نہیں۔ تمہیں دُنیا میں خبر ہے یہود نے کیا کِیا ؟ انہوں نے سَبت ، خواہ ہفتہ میں ایک دن عبادت کا ، اسکے معنے کرو، خواہ آرام کے معنے لو، میں بے اعتدالی کی۔ آرام میں۔ آسُودگی میں انسان اپنے مولیٰ ، اپنے حقیقی مُحسن کو بھُول جاتا ہے۔ مَیں نے اپنی اولاد کے لئے بھی دولت کی دعا نہیں کی۔ اِس اعتداء کی پاداش میں ان کو ایسا ذلیل کیا جیسے بندر، کہ قلندر کے نچانے پر ناچتا ہے۔ یہی حال آج مسلمانوں کا ہے۔ ان کا اپنا کچھ بھی نہیں انگریزوں کے نچانے پر ناچتے ہیں۔ جو لباس ان کا ہے وہی یہ اختیار کرتے ہیں۔ جو فیشن وہ نکالتے ہیں، جو ترقی کی راہ بتلاتے ہیں بِؤلا سوچے سمجھے اس پر چل پڑٹے ہیں۔ ایسی حالت میں کب لَا خَوْفٌ وَلَا یَحْزُنُ ہو سکتے ہیں۔ یہ حالت کیوں ہوئی اِس لئے کہ خدا کی کتاب کو چھوڑ دیا۔
میرے پیارو! تم خدا کی کتاب پڑھو۔ اس پر عمل کرو!! (الفضل ۵؍نومبر۱۹۱۳ء صفحہ۱۵)



تَمَنَّوُا الْمَوْتَ: اِس کے دو معنے ہیں۔ دونوں پسند ہیں۔ ایک تو فیہ کہ تم سب مِل کر اس نبی کے مَرنے کی دعائیں کرو اور پھر دیکھو کہ یہ دعا مقبول ہوتی ہے یا نہیں یا اُلٹی تم پر پڑتی ہے یا وہ جنگ کر لو جو ایک گروہ کو فنا کر دے۔ موت بمعنی جنگ ۔ قرآن کریم میں بھی آیا ہے۔ چنانچہ فرمایاوَ لَقَدْ کُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمُوْتَ (اٰلِ عمران:۱۴۴)
(ضمیمہ اخبار بدر ؔ قادیان ۲۵؍فروری ۱۹۰۹ء)



:یہ تو زیادہ جینے کی حِرص میں مجوسیوں سے بھی بڑھے ہوئے ہیں جن میں ایک دعائیہ فقرہ ہے کہ ہزار سال بِزی۔
(ضمیمہ اخابر بدرؔ قادیان ۲۵؍فروری ۱۹۰۹ء)
:ہزار سال بِزی (۲)یاجوج ماجوج کے خروج کی بابت پیشگوئی ہے کہ ہزار سال بعد ہو گی بعض کہتے تھے اس وقت تک حبُیں۔ پھر تو مان لیں۔ فرمایا یہ بات عذاب سے نہیں بچا سکتی۔ (تشحیذالاذہان جلد ۸نمبر۹صفحہ ۴۳۸)




: لوگ کِس طرح اﷲ کی بات سے محروم رہتے ہیں اور کیونکر راستبازوں کے دشمن ہو جاتے ہیں اور کِس طرح ضِدّ اور عداوت بے جا کلمات کے لئے جرأت دلاتی ہے۔ اِن تین باتوں کا بیان اِس رکوع میں ہے۔
بہت سے لوگ ملائکہ کے مُنکر ہیں۔ بعض مسلمانوں نے بھی ان پر ایمان لانے کو اِتنا ضروری نہیں سمجھا حالانکہ تمام نیک تحریکوں کے سر چشمے یہی ہیں۔ علمِ عقائد میں ایک کتاب ، کتاب ؔالتّوحیدمیں نے دیکھی ہے جس میں اس نیک بخت نے ملائکہ کا ذکر نہیں کیا۔ مَیں ملائکہ کی نسبت کچھ تفصیل سے بیان کرنا چاہتا ہوں کیونکہ ان پر ایمان نے مجھے بہت بڑا فائدہ پہنچایا ہے۔
اِس دُنیا میں کوئی مسبّب بغیر ان سبب نہیں۔ ایک چیز دوسری چیز سے پیدا ہوتی ہے۔ اس زمانہ کے فلاسفر بھی اِس بات کو مانتے ہیں۔ پس خیال کرو کہ بعض وقت بیٹھے بیٹھے آدمی کے دل میں نیک کام کیلئے ایک لہر اُٹھتی ہے اور ایک نیکی کے کرنے کے لئے جوش پَیدا ہو جاتا ہے اور اس میں جدید تحریک نظر آتی ہے۔ حالانکہ انسان اور اس کا عِلم اور اس کے قوٰی پہلے سے موجود تھے مگر یہ تحریک یکدم پیدا ہوتی ہے جس سے معلوم ہؤا کہ کوئی نہ کوئی وجود اس کا محرّک ہے۔ پس ایسی تحریک کرنے ولفے کا نام حدیث و قرآن کی رُو سے مَلک ہے۔ مَلک کو عِلم ہوتا ہے اِس لئے وہ حسبِ موقع و محل ایک کام کی تحریک کرتا ہے جو انسان فورّا اس پر عمل کرتا ہے ( ہمارے حضرت اقعسؐ اپنے قلبِ صافی میں جس وقت کسی کام کی تحریک پاتے تو اس وقت خواہ رات کے بارہ بچے ہوں اس کے کرنے میں مشغول ہو جاتے اور مشکلات کی پرواہ نہ کرتے) تو مَلک کو اس شخص کے ساتھ ایک محبّت پیدا ہو جاتی ہے اِس لئے وہ اَور تحریکیں کرتا ہے اور پھر دوسرے ملائکہ کو بھی جو اس کے قریب ہوتے ہیں اطلاع دیتا ہے کہ یہ قلب اِس قابل ہے کہ ہم اسے نیک تحریکیں کرتے رہیں۔ اِس طرح تمام ملائکہ حتّٰی کہ ملائِ اعلیٰ میں اس کی نسبت ایک توجّہ پَیدا ہوتی ہے اور اس کا تعلق بڑھتے بڑھتے وہ زمانہ آتا ہے کہتَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تنخَافُوْا وَلاَتنحْزَنُوْا (حٰمٓ السّجدۃ:۳۱) یہ بالکل سچّی بات ہے جو مَیں نے کہی تم تجربہ کر کے دیکھ لو۔
پھر احادیث سے مولوم ہیکہ تمام ملائکہ کا آفیسر جبرائیل امین ہے یعنی تمام محکمے نیکیوں کی تحریک کے جو قلب سے متعلق ہیں ان کا افسر جبرائیل ہے چنانچہ قرآن مجید میں عِنْدَذِی الْعَرْشِ مَکِیْنٍ مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِیْنٍ (التکویر:۲۱،۲۲)آیاہے۔ رسول کریمؐ نے فرمایا اُوْتِیْتُ جَوَامِعَ الْکَلِمِمیری تعلیم تمام دُنیا کی پا ک تعلیموں کی جامع ہے کیونکہ تمام نیکیوں کی تحریکوں کے آفیسر کا تعلق میرے قلب سے ہے۔ جامع کے یہ معنے ہیں کہ دُنیا میں کوئی ایسی صداقت ( جو قلبی اور رُوحانی ہو) نہ ہو گی جس کیلئے قرآن مجید سے کوئی آیت نہ ملے۔
اﷲتعالیف فرماتا ہے کہ جبرائیل کا کوئی دشمن ہو سکتا ہے جبکہ وہی نیک تحریکوں کا سرچشمہ ہے۔ اِسی نازل کیا ہے یہ قرآن تیرے قلب پر۔ آئندہ جو ہو گا وہ دُنیا دیکھ لے گی مگر موجود ہ تعلیمات دُنیا میں جس قدر ہیں ان سری پاک تعلیموں اور نیک تحریکوں کا عطر نکالو پھر محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی تعلیم سے مقابلہ کرو تو وہ سب کچھ اس میں موجود ہو گا اور مَیں (نورالدین) اِس بات کا گواہ ہوں کہ مَیں نے ساری بائیبل کو دیکھا ہے اور تین (سام،یجراور رگ) ویدوں کو خوب سُنا ہے پھر دساتیر کو بہت توجّہ سے پڑھا ہے اور برہموؤں کی کتابوں کو دیکھا یہی کتابیں میرے نزدیک رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے کی ہیں۔ اِن سب میں کوئی ایسی صداقت نہیں جو قرآن مجید میں نہ ہو اور پھر ا تم نہ ہو۔ مُصَدِّقَّا لِّمنبنیْنن یَدَیْہِ وَھُدٍی وَّ بُشْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَپھرفرماتا ہے کہ جو اگلی کتابوں میں سچ ہے اس کی تصدیق کرنے علاوہ اس میں اَور بھی کچھ ہدیتیںہیں جو پچھلی کتابوں میں نہیں ۔ایک بات سُناتا ہوں۔ اگلی کتابوں میں جو نصائح ہیں ان پر دلائل نہیں۔ چنانچہ ان میں لکھ ہے خدا ایک ہے۔ زمین و آسمان میں تیرے لئے کوئی دوسرا خدا نہ ہو۔ پڑوسی کی مدد کر۔ سبت منا۔ مبارک وہ جو غریب دِل ہیں۔ اِس قِسم کی تعلیمات ہیں مگر ان کے ساتھ دلائل کوئی نہیں مگر قرآن شریف میں یہ خاصہ ہے کہ ایک طرف دعوٰی ہے دوسری طرف اس کے دلائل بھی ساتھ دیئے ہیں۔
(البقرۃ:۱۶۵)
یہ قرآن مجید پہلے مصدّق ہوا ۔ پھر اِس میں نئی باتیں بھی ہیں۔ یہ بھی تو کئی پہلو سے اِس کا کمال ہے۔اب عملی پہلو میں اِس کا ثبوت لو۔ وہ یہ کہ قرآن کریں پر عمل کرو تو دُنیا کے فاتح بن جاؤ گے چنانچہ صحابؓ کی ذات میں یہ پیشکوئی پوری ہوئی ۔ بُشّرٰیکی ایک تشریح یہ بھی ہے۔
(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۵؍فروری ۱۹۰۹ء)
مِیْکٰیْلَ:ان تمام ملائکہ کا آفیسر ہے جن کے علوم دماغ سے وابستہ ہیں مثلاً ریاضی (موسیقی، ہندسہ، جبرومقابلہ) اور طبعیات (اسٹرانومی،کیمیا) یہ علوم الہٰیّات سے کم درجہ پر ہیں اِس لئے جلد سمجھ میں آ جاتے ہیں۔ مگر جُوں جُوں علوم اعلیٰ ہوتے جاتے ہیں تو باریک بھی ہوتے جاتے ہیں۔ ایک دفعہ ایک اپنے عزیز کو مَیں نے وہ لیکچر سُننے کے لئے بھیجا جو سُورج گرہن کو دیکھ کر ایک انگریز نے دینا تھا۔ وہ لڑکا کہنے لگا مَیں نے تو کچھ نہیں سمجھا ۔ پھر اس نے اپنے ماسٹر سے پوچھا تو اس نے کہا۔پانچ سال مَیں اس کی صُحبت میں رہوں تو اس کی باتیں سمجھنے کے قابل ہو سکتا ہوں۔ غرض دُنیا میں کئی قِسم کے علوم ہیں اور وہ تمام علوم ملائکہ کی معرفت لوگوں پر کھُلے ہیں۔ وہ الہٰیات کے ہوں یا طبیعات کے ، دونوں کا انکار ملائکہ اور ملائکہکے آفیسرز جبرائیل و میکائیل کا انکار ہے۔ پھر رسولوں کا انکار ہے جو اِن ملائکہ کی تحریکات کے مَہبط ہیں۔ پھر حضرت محمد رسول اﷲ علیہ وسلم کا انکار ہے جو تمام رسولوں کے کمالات کے جامع ہیں اور ایسے لوگوں کا اﷲ تعالیٰ مخالف ہے۔ اور پھر ایسا کُفر کرنے والوں کا ایک نشان ہے کہ وہ سب بد عہد ہیں اور فاسق و فاجر، اور یہ کھُلی ہوئی بات ہے کیونکہ جبرائیل و میکائیل کا دشمن وہی ہو گا جو دین و دُنیا کے متعلق عمدہ اور نیک تحریکوں کو مخالف ہو اور وہ فاسق و فاجر کے سوا کون ہو سکتا ہے۔
(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍مارچ ۱۹۰۹ء)
مَیں نے بارہا سُنایا ہیکہ مُلک پر ایمان لانے کا منشاء کیا ہے۔ صرف وجود کا ماننا تو غیر ضروری ہے۔ اِس طرح تو پھر ستاروں، آسمانوں ، شیطانوں کا ماننا بھی ضروری ہو گا۔ پس ملائکہ پر ایمان لانے سے یہ مراد ہیکہ بیٹھے بیٹھے جو کبھی نیکی کا خیال پَیدا ہوتا ہے اُس کا محّرک فرشتہ سمجھا جائے اور اس پر عمل کیا جاوے کیونکہ جب وہ تحریک ہوتی ہے تو وہ موقع ہوتا ہے نیکی کرنے کا۔ اگر انسان اس وقت نیکی نہ کرے تو مَلک اُس شخص سے محبّت کم کر دیتا ہے۔ پھر نیکی کی تحریک بہت کم کرتا ہے اور جُوں جُوں انسان بے پرواہ ہوتا جائے وہ اپنی تحریکات کو کم کرتا جاتا ہے اور اگر وہ اس تحریک پر عمل کرے تو پھر مَلک اَور بھی زیادہ تحریکیں کرتا ہے اور آہستہ آہستہ اس شخص سے تعلقاتِ محبّت قائم ہوتے جاتے ہیں بلکہگ اَور فرّتوں سے بھی یہی تعلق پَیدا ہو کر تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ (حٰمٓ السّعدۃ:۳۱)کا وقت آ جاتا ہے۔
یہاں خدا تعالیٰ نے خصوصیّت سے دو فرشتوں کا ذکر کیا ہے اس میں ایک نام جبرائیل ہے۔ دوسرے مقام پر اس کے بارے میں فرمایا ہے۔۔ ۔(التکویر:۲۰تا۲۲)
یعنی وہ رسول ہے اعلیٰ درجہ کی عزّت والا۔ طاقتوں والا ۔ رُتبے والا۔ اور ملائکہ اس کے ماتحت چلتے ہیں۔ اﷲ کی رحمتوں کے خزانہ کا امین ہے۔ پس جب یہ امر مسلّم ہے کہ تمام دُنیا میں ملائکہ کی تحریک سے کوئی نیکی ہو سکتی ہے اور ملائکہ کی فرمانبرداری مومن کا فرص ہے تو پھر اس ملائکہ کے سردار کی تحریک اور بات تو ضرور مان لینی چاہیئے ۔ چونکہ یہ تمام محکموں کا افسر ہے اس کی باتیں بھی جامع ہیں۔ پس ہر ایک ہدایت کی جَڑ بھی جبرائیل ہے جس کی شان میں ہے (البقرۃ:۹۸)یعنیاس کی تمام تحریکوں کا بڑا مرکز حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا قلب ہے۔
پس ہمہ تن اس کے احکام کے تابع ہو جاؤ کیونکہ یہ جامع تحریکات جمیع ملائکہ ہے اور اِس لحاظ سے قرآن شریف جامع کتاب ہے جیسا کہ فرماتا ہے (الِیّنۃ:۹۸)
تو گویا جو جبرائیل کا مُنکر ہے وہ اﷲ کا دشمن ہے۔ پھر اﷲ کے کلام کا کافر ہے۔ پھر حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا مخالف ہے۔ پھر ایک اَور مَلک کا ذکر فرمایا ہے۔ جہاں تک مَیں نے سوچا ہے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی (البقرۃ:۲۰۲)سے یہ مسئلہ حل ہوتا ہے کہ انسان کو دو ضرورتیں ہیں ایک جسمانی جیسے عزّت، اولاد۔ ان کے اخراجات۔ کھانے کیلئے چیزیں۔ ایک روحانی۔ جبرائیل کے بعد ایسی تحریکوں کا مرکز میکائیل ہے۔ اﷲ نے دین بنایا دُنیا بھی بنائی۔ یہ جہان بھی بنایا وہ جہان بھی ۔ دونوں تحریکوں کا مرکز ہمارے بنی کریمؐ کا قلبِ مبارک تھا۔ اِسی لئے فرمایااُوْتِیْتُ جَوَامِعِ الْکَلِمِ قرآن شریف میں دُنیا و دین دونوں کے متعلق ہدایتیںہیں۔
بہت سے لوگ ہیں کہ جب فرشتوں کی تحریک ہوتی ہے تو وہ اس تحریک کو پیچھے ڈال دیتے ہیں اور اﷲ کی نیک آیات کو واہیات بتاتے ہیں ۔ بڑے تعجّب کی بات ہے کہ جب قبض وغیرہ ہو تو اِنسان میکائیلی تحریکوں کے ماننے کو تیار ہو جاتا ہے مگر جب روحانی قبض ہو تو پھر کہتے ہیں کہ خیر اﷲ غفور رحیم ہے۔ اس کی جڑ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات کو مقدّم کر لیتا ہے۔
(بدر ۴؍فروری ۱۹۰۹ء صفحہ۳)
لِجِبْرِیْلَ:اِس کا ذکر دانیال بابت آیت ۱۲ میں ہے۔ جابرایل ۔ خدا کا مقرّب۔ دینیات کا مرکز جبرائیل ہے اور دنیوی کارخانہ کا میکائیل۔
(تشحیذالاذہان جلد۸نمبر۹صفحہ۴۳۸)


جب آدمی میں آسائش آ جاتی ہے تو وہ ہر نٔی چیز میں بڑی دلچسپی لیتا ہے اور اس انہماک میں پھر جائز و ناجائز امر کو نہیں دیکھتا۔ حتّٰی کہ جس طرح شیعہ حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ وعثمانؓ کو بُرا کہتے ہیں اور خارجی اہلِ بَیت کو۔ اسی طرح وہ ایک دوسرے پر نکتہ چینی کرنے لگ جاتے ہیں مگر اس کا نتیجہ اچھا نہیں ہوتا۔ شیعہ نے اِس نکتہ چینی سے کیا فائدہ اُٹھایا ۔ اِسی طرح حضرت داؤدؑ کے بیٹے سلیمانؑ برگزیدہ نبی تھے مگر ان لوگوں نے ان کی بھی عیب چینی شروع کر دی اور ان سے ایسی باتیں منسُوب کیں جو ایک نبی کی شان سے بالکل بعید ہیں۔ اس کی اصلیّت یہ ہیکہ حضرت سلیمانؑ کے عہد میں جب ان کی آسُودگی ہوئی تو ہندوستان، چین اور مصر سے نئے نئے آدمی وہاں جا آباد ہوئے اور ان لوگوں کی دلچسپی کے کئے عجیب عجیب فن پیش کئے جن میں وہ ایسے مشغول ہوئے کہ سب کچھ بھُول گئے۔
جیسا کہ انسان کی عادت ہیکہ جب ایک طرف متوجّہ ہو تو دوسری طرف توجّہ ضرور کم ہو جاتی ہے اسی طرح بنی اسرائیل کی خدا کی طرف توجّہ کم ہو گئی اور ان بے ہُو وہ باتوں کی طرف بڑھ گئی اور ایسی بڑھی کہ اس کا اثر مسلمانوں تک بھی پہنچا۔ نقشِ سلیمانی، سحر ہاروت ماروت اور ایسی کتابیں اسی بیہُودگی اور لغویّت کی یادگار ہیں اور غضب یہ ہے کہ یہ کُفر سلیمانؑ پر تھوپا جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سلیمانؑ نے یہ کفر نہیں کیا اور ہرگز نہیں کیا۔ آپ پر جو الزام لگائے گئے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ بلقیس نام ایک ملکہ پر عاشق ہو گئے اور پھر اس کو راضی کرنے کے لئے بُت پرستی بھی کی۔ یہ سب جھُوٹ ہے۔ خدا نے اصل واقعہ سُورۂ نمل رکوع ۸ میں بیان فرمایا ہے اور وہاں ظاہر کر دیا ہے کہ وہ ملکہ تو خود مسلمان ہوئی اور عُذر خواہ ہو کر سلیمانؑ کے دربار میں آئی۔قَلَتْ رَبِّ اِنِّ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَاَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمٰنَ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔بعض وقت انبیاء کی نسبت جو الفاظ بولے جاتے ہیں ان سے ان کی تعریف مقصود نہیں ہوتی بلکہ صرف اس الزام کا اُٹھانا ہوتا ہے جو اُن پر لگایا گیا ہے یہاںمَاکَفَرَ اِسی لئے آیا ہے۔
وَلٰکِنَّ الشَّیٰطِیْنَ کَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسن السِّحْرَ:وہ قومیں جو اﷲسے دُور تھیل (الشَّیٰطِیْنَکے یہاں یہی معنی ہیں) جب وہ ملکِ سلیمانؑ میں آئیں تو بنی اسرائیل کو اپنے ڈھب کا پا کر اپنی طرف متوجّہ کر لیا اور انہیں سحر کی تعلیم شروع کر دی۔ سحر کہتے ہیں دِل رُبا باتوں کو خواہ از قِسم عملیات ہوں یا شعبدہ بازی یا تسخیرکُلّ مَا دِقّن وَ لَطُفَ مَأْخَذُہ‘ جس کی دریافت نہایت باریک در باریک ہو۔
اِنَّ مِنَالْبَیَانَ لَسِحْرٌبھی آیا ہیاِس لئے ناول بھی سحر میں داخل ہے۔ بعض ناول ایسے ہوتے ہیں کہ انسان بغیر ختم کرنے کے ہاتھ سے چھوڑ ہی نہیں سکتا۔ حضرت عمرؓ سے کسی نے پوچھا تھا آپ کی طبیعت میں وہ تیزی نہیں رہی جو زمانۂ جاہلیّت میں تھی۔ آپ نے جواب دیا۔ تیزری تو وہی ہے مگر اَب وہ کفّار کے مقابلہ میں دکھائی جاتی ہے۔ اِسی طرح جن لوگوں کو لکھنا آتا ہے اور طبیعت موزوں واقع ہوئیہے وہ ناول نویسی کی طرف متوجّہ ہو گئے ہیں۔ ایسے شغلوں میں پر کر انسان اپنی کتاب سے بے خبر ہو جاتا ہے اور اکثر اَوقات یہ بھی نہیں سمجھا جاتا کہ میری رحانی حالت دن بدن بگڑ رہی ہے۔
اس کے بعد ایک اَور نضیحت فرمائی وہ یہ کہ اِنسان کب کسی کے ساتھ دشمنی کرتا ہے تو پھر اس دشمنی کے بڑھانے یا اس سے انتقام لینے کے لئے اپنے دشمن کی باتیں سُنتا اور اس کے خلاف منصوبے کرتا اور اپنے ساتھ اَور لوگوں کو ملاتا ہے۔ ہر وقت اس کو یہی دھت لگی رہتی ہے اور وہ اپنے دین سے بے خبر ہو جاتا ہے۔ بنی اسرائیل جب قید تھے وہ زمانہ دانیال ، عزرا، حزقیل اور یرمیاہ وغیرھم انبیاء کا تھا۔ جب بابل میں گئے تو بابل والے آسُودہ تھے اور آسُودگی کی وجہ سے طرح طرح کے گندوں میں مُبتلا۔ دانیال باب۱ درس ۱۶ اور باب۵ درس ۲،۳ میں شراب پینے کا ذکر ہے۔ اﷲ نے ہاروت ماروت دو فرشتے نازل کئے۔ ہرت کہتے ہیں زمین کو صاف کرنے کو۔ مرت کہتے ہیں نشیب و فراز دبا کر درخت گھاس کٹوا کر صاف میدان کر دینے کو ۔ ان فرشتوں کے ذریعہ یسعیاہ کو آگاہ کیا کہ یہ لوگ خراب ہو گئے ہیں اِس واسطے تم اَور کسی سلطنت سے گانٹھو اور اس کے ذریعے سے ان کو ہلاک کر دو۔ یہ علم ملائکہ کے ذریعے ان پر نازل ہؤا چنانچہ میدوفارس کے بادشاہوں سے دوستی لگا کر بنی اسرائیل نے بابل والوں کو تباہ کر دیا۔ بابل بڑا شہر تھا۔ یہ بھاری آبادی تھا۔ کوئی پچّاس ساتٍ میل میں ۔ چونکہ بابل کی تباہی میں اﷲ نے فارس کے بادشاہوں کے ذریعہ سے ضل کیا اِس لئے بنی اسرائیل کے تعلّقات فارس والوں سے قائم رہے۔ جب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اور ان کی جماعت کا استیصال کریں چنانچہ فارس کے بادشاہ نے اپنے یمنی گورنر کے ذریعہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو گرفتار بھی کرنا چاہا مگر رسول کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے ان فرستادوں سے کہا کہ جس نے تمہیں میری گرفتاری کے لئے بھجوایا ہے اُس کو میرے خدا نے اسی کے بیٹے کے ہاتھ سے ہلاک کروا دیا ہے چنانچہ ایسا ہی ہؤا۔ لیکن چونکہ یہ ایک نبی کا مقابلہ تھا اِس لئے اس میں ناکام رہے۔ اﷲ تعالیٰ اِن آیات میں انہی واقعات کی طرف ایماء فرماتا ہے۔
وَوَآ اُنْزِلَ عَلَی الْمَلَکَیْنِ بِبَابِل َھَارُوْتَ وَمَارُوْتَ:پیچھے پڑے ہوئے ہیں اس کے جو ایک زمانہ میںدو فرشتوں پر نازل ہؤا تھا(ان فرشتوں کا کام تھا کہ بابل کو ویران کر کے صاف کر دیں اِسی واسطے ان کو ہاروت و ماروت کہا گیا)اس وقت تو یہ کامیاب ہو گئے کیونکہ خدا کے منشاء کے ماتحت تھا مگر اَب تو یہ کُفر ہے کیونکہ ایک نبی کے مقابلہ میں ہے۔ اس وقت تو ہم نے ان کو ہایت کر دی تھی کہ اسے بے موقع استعمال کر کے کافر نہ بننا اور دوسری یہ بات ہے کہ اپنی عورتوں کو بھی اِس راز کی خبر نہ کرنا کینوکہ عورت کمزور ہے اس کے ذریعے بات نکل جاتی ہے یہ مطلب ہے یُفَرِّقُوْنَ بِہٖ بَیْنَ الْمَرْئِ وَ زَوْجِہٖ کا۔بس یہاں یہ بات ختم ہوئی۔ اَب فرماتا ہے وَیَتَعَلَّمُوْنَ مَا یَضُرُّھُمْ اَب یہ یہود پھر انہی باتوں کو تعلیم و تعلّم کرتے ہیں مگر بجائے فائدے کے نقصان اُٹھاتے ہیں اِس لئے کہ آگے تو ملائکہ کے ذریعہ یہ باتیں القاء ہوئی تھیں۔ چنانچہیَتَعَلَّمُوْنَ کے ساتھ مِنْھُمَا (ان فرشتوں سے آیا ہے ) اَب یہ شیطانی القاء ہے۔ بہتر تھا کہ وہ ان شرارتوں کی بجائے ایمان لاتے اور تقوٰی اختیار کرتے اور دُنیا و آخرت میں فلاح پاتے۔ ایسی منصُوبہ بازیوں کی کمیٹیوں کا سورۃ مجادلہ:۹ میں مفصّل ذکر ہے جہاں فرمایا اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ نُھُوْا عَنِ النَّجْوٰی ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ لِمَا نُھُوْاعَنْہُ وَ یَتَنٰجَوْنَ بِالْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِیَتِ الرَّسُوْلِ کیاتجھے معلوم نہیں ان لوگوں کا حال جن کو منصُوبہ بازی کی خفیہ کمیٹیوں سے منع کیا اور وہ پھر وہی کرتے ہیں جن سے منع کئے جا چکے ہیں اور وہ خفیہ سازشیں کرتے ہیں۔ گناہ، سرکشی اور رسول کی مخالفت کی۔ اور پھر آگے چل کر ارشاد فرماتا ہے
(المجادلۃ:۱۰،۱۱)
سُنو! اے مومنو! جب کوئی تم خفیہ مشورہ کرو تو اس میں کوئی گناہ اور سرکشی کی اور رسول کی مخالفت کی بات نہ ہو بلکہ نیکی اور تقوٰی کے متعلق سر گوشی ہو۔ اُس اﷲ سے ڈرو جس کے حضور اکٹھے کئے جاؤ گے یہ جو خفیہ انجمنیں ہیں یہ شیطانی کام ہے صرف مومنوں کو گھبراہٹ میں ڈالنے کے لئے مگر الہٰی اِذن کے سوا کوئی ضرور انہیں نہیں پہنچا سکتے اور اﷲ تعالیٰ پر ہی چاہیئے کہ مومن توکّل کریں۔ (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍مارچ ۱۹۰۹ء)
یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ:فری میسنوں کے لاج کا نام جادو گھر اَب تک مشہور ہے۔ ہاروت و ماروت فرشتوں کے نام۔ ان کے ذریعے علم پا کر یہود نے دشمنوں پر فتح حاصل کر لی۔ ان کو بتایا گیا اب تم محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے مقابلہ میں ان ہتھیاروں سے کام نہیں لے سکتے کیونکہ الہٰی حکم سے یہ خفیہ کمیٹی نہیں۔ بَیْنَ الْمَرْئِ وَ زَوْجِہٖ۔آجکل بھی فری میسن عورتوں کو شامل نہیں کرتے۔ وَمَا ھُمْ بِضَآرِّیْنَ اس کی تشریح(المجادلۃ:۹)میں پڑھو اس میںلَیْسَ بِضَآرِّھِمْ شنیْئًا اِلَّا بِاِذْنِ اﷲِ بھی ہے۔ (تشحیذالاذہان جلد ۸نمبر۹ صفحہ ۴۳۸،۴۳۹)
بہت سے لوگ ہیں کہ جب فرشتوں کی تحریک ہوتی ہے تو وہ اس تحریک کو پیچھے ڈال دیتے ہیں اور اﷲ کی نیک آیات کو واہیات بناتے ہیں۔ بڑے تعجّب کی بات ہے کہ جب قبض وغیرہ ہو تو پھر کہتے ہیں کہ خیر اﷲ غفور رحیم ہے۔ اس کی جَڑ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات کو مقدّم کر لیتا ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السْلام کے عہد میں جب لوگوں کو امن حاصل ہؤا اور مال ثروت کی فراوانی ہوئی تو ان میں نٔی نٔی تحریکیں ہونے لگیں۔ آسمانی کتب کا جو مجموعہ ان کے پاس تھا اس سے طبیعت اُکتا گئی تو کِسی اور تعلیم کی خواہش ہوئی۔ مگر وہ تعلیم ایسی تھی جو خدا سے دُور پھینکنے والی تھی۔ نقشِ سلیمانی وغیرہ اسی تعلیم کی یادگار بعض مسلمانوں میں مروّج ہے۔ بنی اسرائیل نے جب خدا کی کتاب سے دِل اُٹھایا تو ان لغو باتوں میں پڑ گئے جو بعض شیطانی اثروں کے لحاظ سے دِلرُبا باتیں بن گئیں۔ خدا تعالیٰ نے فرمایا یہ سب اِس زمانہ کے شریروں کی کارروائی ہے سلیمان علیہ السّلام نے ان کو یہ تعلیم نہیں دی بلکہ از خود یہ باتیں انہوں نے گھڑ لیں اور ایسی دِلرُبا باتوں کی اشاعت کی۔ (بدر ۴؍فروری ۱۹۰۹ء صفحہ۳)
اِنسان میں عجیب در عجیب خواہشیں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ جب وہ بچّہ ہوتا ہے۔ پھر جب ہوش سنبھالتا ہے۔ پھر جب جوان ہوتا ہے۔ پھر جب بُری صحبتوں میں پھنستا ہے۔ جب اچھی صحبتوں میں آتا ہے۔ جب کامیاب زاندگی بسر کرتا ہے۔ جب ناکام ہوتا ہے تو اس کے حالات میں تغیّر پیش آتے رہتے ہیں۔ مَیں نے ایک خطرناک ڈاکو سے پوچھا کہ کبھی تمہارے دِل نے ملامت کی ہے تو وہ کہنے لگا کہ تنہائی میں ضرور صمیر ملامت کرتا ہے مگر جب ہماری چاریاری اکٹھی ہوتی ہے تو پھر کچھ یاد نہیں رہتا اور نہ یہ افعال بُرے لگتے ہیں یہ سب صحبتِ بَد کا اثر ہے۔ قُرآن کریم میں(التوبۃ:۱۱۹) کااِسی واسطے حکم ٓآیا ہے تاکہ انسان کی قوّتیں نیکی کی طرف متوجّہ رہیں اور نیک حالات میں نشوونما پاتی ارہیں۔ غرض انسان کے دُکھوں میں اَور خیالات ہوتے ہیں سُکھوں میں اَور۔ اور کامیاب ہو تو اَور طریق ہوتا ہے اور ناکام ہو تو اَور طرز ۔ طرح طرح کے منصُوبے دِل میں اُٹھتے ہیں اور پھر ان کو پُورا کرنے کے لئے وہ کِسی کو محرم راز بناتے ہیں اور جس کے بہت سے ایسے محرم راز ہوتے ہیں تو پھر انجمنیں بن جاتی ہیں اﷲ تعالیٰ نے اِس سے روکا تو نہیں مگر یہ حکم ضرور دیا۔
۔ (المجادلۃ:۱۰،۱۱)
ایمان والو! ہم جانتے ہیں کہ تم منصوبہ کرتے ہو۔ انجمنیں بناتے ہو مگر یاد رہے کہ جب کوئی انجمن بناؤ ت گناہ، سرکشی اور رسول کی نافرماں برداری کے بارے میں نہ ہو بلکہ نیکی اور تقوٰی کا مشورہ ہو۔
بنی اسرائیل جب مصر کی طرف گئے تو پہلے پہل ان کو یوسف علیہ السّلام کی وجہ سے آرام ملا۔ پھر جب شرارت پر کمر باندھی تو فراعنہ کی نظر میں بہت ذلیل ہوئے مگر آخر خدا نے رحم کیا اور موسٰی علیہ السّلام کے ذریعہ سے ان کو نجات ملی یہاں تک کہ وہ فاتح ہو گئے اور وہ اپنے تئیں (المآئدۃ:۱۹) سمجھنے لگے لیکن جب پھر ان کی حالت تبدیل ہو گئی۔ ان میں بہت ہی حرام کاری، شِرک اور بَد ذاتیاں پھیل گئیں تو ایک زبردست قوم کو اﷲ تعالیٰ نے ان پر مسلّط کر دیا۔
(بنیٓ اسرآء یل:۶)
ستّر برس وہ اس بلاء میں مُبتلا رہے۔ آخر جب بابل میں دُکھوں کا زمانہ بیت ہو گیا اور ان میں سے بہت صلحاء ہو گئے حتّٰی کہ دانیال ، عزرا، حزقیل، یرمیاہ ایسے برگزیدہ بندگانِ خدا پَیدا ہوئے اور انہوں نے جنابِ الہٰی میں خشوع و خضوع سیدعائیں مانگیں تو ان کو الہام ہؤا کہ وہ نسل جس نے گناہ کیا تھا وہ تو ہلاک ہو چکی اب ہم ان کی خبر گیری کرتے ہیں۔
اﷲ تعالیٰ کے کام دو طرح کے ہوتے ہیں ایک تو ایسے کہ انمیں انسان کو مطلق دخل نہیں۔ مثلاً اِن سردی ہے اور آفتاب ہم سے دُور چلا گیا ہے پھر گرمی ہو جائے گی اور آفتاب قریب آ جائے گا۔ یہ کام اپنے ہی بندوں کی معرفت کرایا اور ان لوگوں کو سمجھایا کہ یہ بادشاہ اَب ہلاک ہونے والا ہے پس تم میدوفارس کے بادشاہوں سے تعلق پیدا کرو کیونکہ عنقریب یہ دُکھ دینے والی قوم اور ان کی سلطنت ہلاک ہو جائے گی۔ پس اﷲ نے دو فرشتے ہاروت اور ماروت نازل کئے۔ ہرتؔ کہتے ہیں زمین کو مصفّا کرنے کو اور مرتؔ زمین کو باکل چٹیل میدان بنا دینا ۔ گویا یہ امر ان فرشتوں کے فر میں داخل تھا کہ یہ لوگ برباد ہو جائیں گے اور بنی اسرائیل نجات پا کے اپنے ملک میں جائیں۔
پس ہاروت ماروت نبیوں کی معرفت ایسی باتیں سکھاتے تھے اور ساتھ یہ ہدایت کرتے تھے کہ ان تجاویز کو یہاں تک مخفی رکھو کہ اپنی بیبیوں کو بھی نہ بتاؤ کیونکہ عورتیں کمزور مزاج کی ہوتی ہیں اور ممکن بلکہ اغلب ہے کہ وہ کِسی دوسرے سے کہہ دیں۔ پس اس تعلیم کو پوشیدہ رکھنے کے لحاظ سے میاں بی بی میں بھی اِفتراق ہو جاتا تھا۔ یعنی میاں اپنی بیوی کو اس راز سے مطلع نہ کرتا تھا۔ اور پھر جب یہ بات پختہ ہو گئی تو میدوفارس کے ذریعہ بابل تباہ ہو گیا اور خدا نے بنی اسرائیل کو بچا لیا مگر جتنا ضرر دشمنوں کو پہنچایا گیا چونکہ اﷲ کے اِذن سے تھا اِسی واسطے وہ اس میں کامیاب ہو گئے۔
اب آَحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جب مدینہ طیّبہ میں تشریف لائے تو مکّہ ولاوں کو بڑا غیظ و غضب پَیدا ہؤا ۔ پس انہوں نے یہودیوں سے دوستی گانٹھی اور یہودی وہی پُرانا نسخہ استعمال کرنے لگے کہ آؤ کِسی بادشاہ سے مِل کر اس محمدی سلطنت کا استیصال کریں اسی واسطے ایرانیوں سے توسل پَیدا کیا۔ یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ ایرانیوں کے گورنر بعض عرب کے مضافات میں بھی تھے۔ انہوں نے اپنے بعض آدمی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو گرفتار کرنے کے لئے بھی بھجوائے مگ کچھ کامیابی نہ ہوئی۔ اسکی وجہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہیکہ آگے تو تم اے یہود یو!خدا کے حکم سے ایسے منصوبوں میں کامیاب ہوئے تھے۔ اب تم چونکہ یہ نسخہ اﷲ تعالیٰ کے رسول کے مقابلہ میں استعمال کرتے ہو اِس لئے ہرگز کامیاب نہ ہو گے۔ چنانچہ چند آدمی شاہ فارس کی طرف سے گرفتار کرنے آئے آپؐ نے ان کو فرمایا مَیں کل جواب دوں گا۔ صبح آپؐ نے فرمایا کہ جس نے تمہیں میری طرف بھیجا ہے اُس کے بیٹے نے اسے قتل کر دیا ہے۔ وہ یہ بات سُنکر بہت حیران ہوئے۔
بات میں بات آ گئی ہے ہر چند کہ وہ ایسی عظیم الشّان نہیں ہے۔ وہ یہ کہ جب دو ایلچی نبی کریمؐ کے حضور آئے تو صبح صبح داذھیاں مُنڈوا کر آئے۔ آپؐ نے فرمایا یہ تم کیا کرتے ہو۔ ہم اِس امر کو کراہت کے ساتھ دیکھتے ہیں ( جہاں اُوپر کاقِصّہ لکھا ہے وہاں یہ بات بھی ہے خیر) اورغائبوخاسر واپس پھرے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَب یہ یہودی ایسی باتیں سیکھتے ہیں جو ان کو ضرر دیتی ہیں ان کے حق میں مفید بالکل نہیں ہیں۔ جو اَب یہ کرے ہیں آخرت میں ان کے لئے کوئی کامیابی کا موجب ہؤا ۔ لیکن اَب چونکہ اسکی نافرمانی میں وہ ہتھیار چلتا ہے اِس لئے کچھ کام نہ دے گا۔ل کیا اچھا ہوتا کہ وہ ایسی بُری شَے کے بدلے میں اپنی جانوں کو نہ بیچتے بلکہ اَب تو یہ ان کے لئے بہتر ہے کہ ایمان لائیں۔ متّقی بن جاویں تو اﷲ کے ہاں بہت اجر پائیں۔
(بدر۴؍فروری ۱۹۰۹ء صفحہ۳،۴)
سحر کے کئی ایک اقسام ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں (۱) ترکیب و تحلیل کا عِلم (۲) پولٹیکل اکانومی۔ پالیٹکس (۳)ہاتھ کی چالاکی (۴) قوّتِ نفس رُوہ جس میں توجّہ سے کام لیا جاتا ہے۔ سلبِ امراص وحُبِ! عداوت کے کام لئے جاتے ہیں ۔ وہ توہّمات یعنی اَرواح خبیثہ سے تعلق پَیدا کر کے پھر ان سے کام لینا یہ تعلق پیدا کرنے اور پھر اس کو قائم رکھنے کے لئے عجیب عجیب کام ان کو کرنے پڑتے ہیں ۔ ہر وقت جنبی رہتے ہیں۔ مرگھٹ کی آگ پر مُدوں کی کھوپریوں میں کھانا پکاتے ہیں۔ انسانی چمڑے پر بیٹھتے ہیں وغیرہ ذٰلک۔ایسے لوگ بھی ہم نے بچشمِ خود دیکھے ہیں جو سُورج کو چڑھنے کے وقت سے ڈوبنے تک برابر دیکھتے رہتے ہیں پھر ان کی قوّتِ نفس بہت بڑھ جاتی ہے اور وہ غیر معمولی کام دُنیا میں کر سکتے ہیں۔
(تشحیذالاذہان جلد ۷نمبر ۷ صفحہ ۳۲۵)
















اﷲ جلّ شانہ، نے اِن آیات میں چند باتیں بطور نضیحت فرمائی ہیں ۔ پہلی بات بہت سے لوگ جن کے دلوں میں کینہ اور عداوت ہوتی ہے تو اپنے حریف کو ایسے الفاظ سے مخاطب کرتے ہیں جس میں ایک پہلو بدی کا بھی ہوتا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہیکہ وہ ڈرپوک ہوتے ہیں کُھل کر کسی کو بُرا نہیں کہہ سکتے۔
رَاعِنَاایک لفظ ہے جس کے کئی معنی ہیں۔ یہ رعونت ، بُرائی ، خودپسندی، حماقت کے معنوں میں بھی آتا ہے اور اس کے یہ معنے بھی ہیں کہ آپ ہماری رعایت کریں۔
تعالیٰ نے مومنوں کو یہ سکھایا ہے کہ ایسا لفظ اپنے کلام میں اختیار نہ کرو جو ذومعنی ہو بلکہ ایسے موقع پراُنْظُرْنَا کہا کرو۔اِس میں بدی کا پہلو نہیں ہے۔
ایک شخص نے مجھ سے اصلاح کا ثبوت قرآن مجید سے پوچھا مَیں نے یہی آیت پڑھ دی۔ اﷲ تعالیٰ یہ نصیحت فرما کر متنبّہ کرتا ہے کہ جو لوگ انکار پر کمر باندھے ہیں اور حق کا مقابلہ کرتے ہیں وہ دُکھ دَرد میں مُبتلا رہتے ہیں۔
اس کے آگے کافروں کا رویّہ بتایا ہے کہ یہ اہلِ کتاب اور مشرکین تمہارے کسی سُکھ کو محض از رُو ئے حَسد دیکھ نہیں سکتے۔ اس حَسد سے ان کو کچھ فائدہ سوا اِس کے کہ جَل جَل کر کباب ہوتے رہیں نہیں پہنچ سکتا۔
یہ حَسد بڑا خطرناک مرض ہے اِس سے بچو ۔ اﷲ تعالیٰ کے علیم و حکیم ہونے پر ایمان ہو تو یہ مرض جاتا رہتا ہے۔ دیکھو مُلمل کا کپڑا ہے کوئی اسے سر پر باندھتا ہے۔ کوئی اس کی قمیص بناتا ہے۔ کوئی زخموں کے لئے پٹی ۔ سب جگہ وہ کام دیتا ہے اور سبھی جگہ واقعہ میں اس کی ضرورت ہے۔ اِسیطرح اگر انسان سمجھ لے کہ خدا تعالیٰ کے عجائباتِ قدرت سے جو کام ہو رہے ہیں وہ بِلاضرورت و حکمت کے نہیں تو معترض کیوں ہو۔ اگر خدا تعالیٰ نے ایک قوم کو اپنی رحمتِ خاصّہ کے لئے چُن لیا ہے تو یہ کیوں جلتے ہیں؟ یہ تو عام قانونِ قدرت ہیکہ آج ایک درخت بغیر پھُول اور پھَل پتّوں کے بالکل سو ختنی ہئیت میں کھڑا ہے ۔ اَب بہار کا موسم ؟آ گیا تو اس میں پتّے لگنے شروع ہوئے پھر پھُول پھر پھَل۔ اِسی طرح قوموں کی نشوونما ہے ایک وقت ایک قوم برگزیدہ ہوتی ہے لیکن جب وہ انعامات کے قابل نہیں رہتی تو خداتعالیٰ دوسری قوم کو چُن لیتا ہے اور وہ پہلی قوم ایسی مِٹ جاتی ہے کہ بالکل بھُلا دی جاتی ہے یا اس کی حالت تبدیل ہو جاتی ہے۔ غرض اِس جہان میں اِس طرح بہت تغیّر ہوتے رہتے ہیں۔ لایک شریعت دی جاتی ہے پھر اس کی بجائے دوسری۔ اِس بناء پر اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم کوئی نشانِ قدرت نہیں بدلتے اور نہ اسے ترک کرتے ہیں مگر کہ اس کی مثل یا اس سے اچھا لاتے ہیںکیا تم کو یہ خبر نہیں کہ اﷲ تالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ اسی کا راج آسمانوں اور زمینوں میں ہے۔ وہ حق و حِکمت سے اس میں تبدیلیاں کرتا رہتا ہے۔ اس پر کِسی کا بَس نہیں چلتا۔ اس کے سوا کسی کو مددگار اور کارساز نہ پاؤ گے۔
(بدر ۱۱؍ فروری ۱۹۰۹ء صفحہ۲)
لَاتَّقُوْلُوْارَاعِنًا:بعض لوگ شرارت کے طور پر ایسیت الفاظ استعمال کرتے ہیں جو ذومعنی ہوتے ہیں۔ ہمارے ایک آشنا تھے۔ ان کی ایک کتاب جو مناظرہ کے متعلق تھی۔ بڑھی۔ ایک جگہ یہ فقرہ لِکھا تھا۔ آپ ہر ایک صداقت اکو ایک ہی کو لہو میں نہ پِیڑیں۔ مَیں نے کہا کہ اِس محاورہ کے استعمال کی کیا ضرورت تھی؟ کہنے لگے کہ مخاطب تیلی ہے یہ اس پر چوٹ کی ہے! پھر ایک جگہ دکھائی جہاں لکھا ہؤا تھا کہ مَٹ کا مَٹ ہی بگڑا ہؤا ہے اور بڑے فخر سے کہا کہ یہ شخص جس کے مقابلہ میںیہ تحریر ہے رنگ ریز ہے۔
میرے نزدیک یہ طریق اچھا نہیں متانت کے خلاف ہے۔ افسوس کہ مسلمانوں میں بھی یہ بُرائی پھیل گئی۔ ایک قپیدہ کے چند اشعار مجھے یاد ہیں جو اوّل سے آخر تک اسی قِسم کی شرارت سے پُر تھے ایک مصرعہ تمہیں سُناتا ہوں
تاسرت باشد ہمیشہ تاجدار
یہاں تاجدار کے ایک معنے ظاہر ہیںاور دوسرے یہ کہ تاجدار یعنی تیرا سر دیوار سے ٹکر کھائے گیا ہو۔ اِس طرح کے کلام سے ہمارے سردار نے ہمیں منع کیا ہے چنانچہ وہ فرماتا ہے رَاعِنَانہ کہو کیونکہ اِس کے معنے ایک تو یہ ہیں کہ ہماری رعایت کرو۔ ہم نہیں سمجھے دوبارہ سمجھا دو۔
سومؔراعنؔکا لفظ عبر میں گالی ہے۔ احمق ، رعونت والے کو کہتے ہیں۔ اگر ایسی ضرورت پیش آ جائے ت بجائے رَاعِنَاکے جو ذومعنی لفظ ہے اُُنْظُرْنَا بولوجس کے معنے ہیں ہم غرباء کی طرف بھی آپ نظر رکھیں۔
ان منکروں کے لئے جو اِس قِسم کے الفاظ نبی کریمؐ کے حضور بولتے ہیں دُکھ دینے والا عذاب ہے۔
اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا: یہ کافر دو قِسم کے ہیں اہل کتاب( یہود، نصارٰی، مجوس) دوسرے وہ جن کے پاس کوئی کتاب نہیں۔ سُنی سُنائی باتوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ غرض یہ دونوں گروہ پسند نہیں کرتے کہ تم پر کوئی ایسا امر اُتارا جائے جو خیروبرکت کا موجب ہو مگر اﷲ تعالیٰ خصوصیّت دے دیتا ہے اپنی رحمت سے جسے چاہیے۔ مکّہ والوں نے کہا کہ (الزخرف:۳۲)مگر ان کا یہ اعتراض فضول تھا کیونکہ واقعات نے ثابت کر دیا کہ واقعی یہی مبارک وجود ( حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم) اِس رسالت کا مستحق تھا ۔ میرا اعتقاد ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم خاتم انسانیّت ہیں۔ نہ ایسا کوئی عظیم الشّان ہؤا اور نہ ہو گا۔ ایک شخص نے مجھے پوچھا کہ اس کی کیا دلیل ہے؟ مَیں نے کہا کہ تم کسی اصلِ مذہبی کے قائل ہو یا نہیں۔ کہا۔ دعا کا قائل ہوں۔ مَیں نے کہا ۔ دیکھو تم مانتے ہو کہ تمام مسلمان نماز بڑھتے ہیں اور زمین کول ہے۔ پس رُوئے زمین پر کوئی ایسا وقت نہیں گزرتا جب کوئی مسلمان نماز نہ پڑھ رہا ہو اور نماز میں درود شریف نہ پڑھتا ہو۔ پھر مَیں پوچھتا ہوں کیا دُنیا میں کوئی ایسا پیشوا ہے جس کے مرید ہر وقت اس کے علّوب مدارج کے لئے دعا کر رہے ہوں اور پھر اَلدَّالُ عَلَی الْخَیْرِ کَفَاعِلِہٖکے مطابق وہ تمام نیکیاں جو یہ لوگ (مسلمان) کرتے ہیں حضور کے نامئہ اعمال میں بھی لکھی جاتی ہوں گی یا نہیں۔ پھر فضائلِ نبوی ؐ میں دوسری بات مجھے یہ سُوجھی ہے کہ دُنیا میں جس قدر مرکز ہدایت کے ہیں وہ در اصل صرف دو ہیں ایک آتشکدۂ آذر اور دومؔ بَیت المقدس ۔ ان دونوں کا اثر عرب پر بالکل نہیں پڑا مگر ہمارے سردارنے عرب الوں کو اپنا دین منوا لیا اور پھر ان کے ذریعہ ان دونوں مرکزوں (بیت المقدس، آتشکدہ آذری) پر بھی فتح پائی۔
مَانَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْنُنْسِھَا:نسخ کے معنے ہیں نقل کے۔ اِنَّ کُنَّ نَنْسَکُ مَاکُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَاورنسخ کے معنے ہیں مٹا دینے کے جیسے فرمایا (الحج:۵۳)نُنْسِھَانکلا ہے نسیان سے۔ اِس صورت میں اس کے معنے ہیں’’ ہم بھُلا دیتے ہیں‘‘ یانسأبمعنی تاخیر ہے۔ اِس صورت میں اِس کے معنے ہیں’’ ہم مؤخر کر دیتے ہیں۔ ‘‘
سو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر ہم کسی چیز کو بدلاتے یا مٹاتے ہیں یا بالکل بھُلاتے اور کسی دوسرے سے تاخیر میں ڈال دیتے ہیں تو اس میں ہمارے مصالح ہوتے ہیں۔
اس کی مثال سُنئے!قرآنِ مجید میں ایک تعلیم ہے ۔۔(المدّثّر:۲تا۴)اور پھر اخیر میں کھانے پینے کے احکام نازل فرمائے اور ارشاد کی (المآئدۃ:۴)تواَب پہلی تعلیم کو جو مقدّم کیا اور دوسری کو مؤخر تو خاص مصلحت سے ہے ( یعنی پہلے عقیدہ درست ہو جاوے پھر شریعت نازل ہو)۔
دوسری مثال یہ ہے کہ بعض مذاہب ایسے ہیں جو بالکلنسیًا منسیًا ہو گئے اور بعض ایسے جن کے اصول کچھ تو موجود ہیں مگر بہت کچھ تبدیل ہو گئے۔
پھر آیت کیمعنے علاوہ کلامِ الہٰی کے مطلق نشان بھی ہیں مثلاً خزاں میں درختوں کے پتّے مِٹ جاتے ہیں پھر ان جیسے یا ان سے بہتر پَیدا کرتے ہیں۔
نفسِ نسخ کے متعلق بحث فضول ہے کیونکہ یہ ممکن ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ کارخانۂ ہستی میں ایسا ہوتا رہتا ہے۔ ہاں یہ بات کہ ( قرآن مجید میں) نسخ ہے یا نہیں؟اِس کے منتعلق جہاں تک میرا فہم ہے مَیں یہی کہوں گا کہ آج تک کوئی ایسی آیت نظر نہیں آئی جو منسُوخ اور موجود فی القرآن ہو۔ حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم یا ابوبکر و عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کی زبان سے بھی کوئی ایسا لفظ مروی نہیں جس سے ایسی آیات کا موجود فی القرآن ہونا پایا جاتا ہے۔
اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اﷲَ لَہ‘ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ:فرمایا کہ اِس نسخ(تغیّر) کا سبب ہم نہیں بلکہ تمہارے حالات میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے اِس لئے ہمیں احکام میں تغیرّر کرنا پڑتا ہے۔
کَمَا سُئِلَ مُوْسٰی مِنْ قَبْلُ:موسٰی علیہ السّلام سے کیا سوالات ہوئے؟ ایک کا ذکر سُورۂ نساء پارہ ۶ کے پہلے رکوع میں ہے جہاں فرماتا ہیفَقَالُوْآ اَرِنَ اﷲَ جَھْرَۃً (آیت:۱۵۴)
حَتّٰی یَاْتِیَ اﷲُ بِاَمْرِہٖ : وقت تک کہ اَور حکومت تمہیں دے تمہیں جاہیئے کہ درگذر سے کام لو اور نماز اسنوار کر پڑھتے رہو اور زکوٰۃ دیتے رہو۔ زکوٰۃ ہر ایک دیسکتا ہے۔ یہ بھی زکوٰ؟ۃ ہے کہ کوئی اپنے نفس کا تزکیہ کرے پھر کِیس کو نیک بات بتانا یہ بھی زکوٰۃ ہے۔ نیا لباس ملے تو پُرانا کِسی غریب کو دینا یہ بھی زکوٰۃ ہے اور ایک وہ زکوٰۃ ہے جو مشہور ہے۔
(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۱؍مارچ ۱۹۰۹ء)



قَالُوْالَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّۃَ:آدمی جب اکیلے بیٹھتے ہیں تو دوسروں کی عیب چینی کرنے لگ جاتے ہیں اور پھر اپنے تئیں کچھ سمجھنے لگتے ہیں یہاں تک کہ دوسروں کی حقارت سما جاتی ہے اور کہتے ہیں کہ ہم ہی جنّت میں جائیں گے۔ یہ صرف ہوائی باتیں ہیں۔
ھَاتُوْا بُرْھَانَکُمْ:برہ کے معنے ہیں قطع کے۔ اگر تم سچّے ہو تو کوئی دلیل قاطع یا حُجّتنیّرہ پیش کرو اور بَرْھَنَ کے معنے ’’ ظاہر کیا‘‘ کے ہیں۔
(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍مارچ ۱۹۰۹ء) بَلٰی مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہ‘ لِلّٰہِ:کے فرمانبردار بنیں اور اسکے حکم کے مقابل کِسی اَور حکم کی پرواہ نہ کریں۔ فرمانبرداری کا اثر اور امتحان مقابلہ کے وقت ہوتا ہے۔ ایک طرف قوم اور رسم و رواج بُلاتا ہے دوسری طرف خدا تعالیٰ کا حکم ہے۔ اگر قوم اور رسم و رواج کی پرواہ کرتا ہے تو پھر اُس کا بندہ ہے اور اگر خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری کرتا ہے اور کسی بات کی پرواہ نہیں کرتا تو پھر خدا تعالیٰ پر سچّا ایمان رکھتا ہے اور اس کافرمانبردار ہے اور یہی عبودیّت ہے۔ قرآن مجید نے اِسلام کی یہی تعریف کی ہے۔مَنْ اَسْلَمُ وَجْھَہ‘ لِلّٰہِ وَھُوَ مُحْسِنٌ۔ سچّی فرمانبرداری یہی ہے کہ انسان کا اپنا کچھ نہ رہے۔ اس کی آرزوئیں اور امّیدیں، اس کے خیالات اور افعال سب کے سب اﷲ تعالیٰ ہی کی رضا اور فرمانبرداری کے نیچے ہوں۔ میرا اپنا تو یہ ایمان ہے کہ اس کا کھانا پینا، چلنا سب کچھ اﷲ تعالیٰ ہی کے لئے ہو تو مسلمان اور بندہ بنتا ہے۔
خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری اور رضا مندی کی لراہوں کو بتانے والے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں۔ چونکہ ہر شخص کو مکالمہ الہٰیہ کے ذریعہ الہٰی رضا مندیوں کی خبر نہیں ہوتی ہے۔ اگر اکسی کو ہو بھی تو اُس کی وہ حفاظت اور شان نہیں ہوتی جو خدا تعالیٰ کے ماموروں اور مُرسلوں کی وحی کی ہوتی ہے اور خصوصًا سرورِ انبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم کی کہ جس کے دائیں بائیں، آگے پیچھے ہزاروں ہزار ملائکہ حفاظت کے لئے ہوتے ہیں اِس لئے کامل نمونہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ہی ہیں اور نہ ہی مقتداء اور مطاع ہیں۔ پس ہر ایک نیکی تب ہی ہو سکتی ہے کہ جب وہ اﷲ تعالیٰ ہی کیلئے ہو اور پھر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اتّباع کے نیچے ہو۔
(بدر ۵؍مارچ ۱۹۰۸ء صفحہ ۵،۶)
خدا تعالیٰ سے غافل اور بے پرواہ نہ ہو یہ منشائے اِسلام ہے۔ پس یاد رکھو کہ عقائد کیلحاظ سے دُنیا میں بینظیر چیز اسلام ہے۔ مَیں راستی سے کہتا ہوں کہ ایمان کے لحاظ سے، اعمال کے لحاظ سے دُنیا میں کوئی مذہب اِسلام سے مقابلہ نہیں کر سکتا مگر مَیں یہ بھی ساتھ ہی کہوں گا کہ اسلام ہو دعوٰیٔ اسلام نہ ہو۔ مَنْ اَسْلَمُ وَجْھَہ‘ لِلّٰہِ وَھُوَ مُحْسِنٌ کامِصداق ہو۔ ساری توجّہ خدا تعالیٰ ہی کی طرف لگا دیوے اور ایسے طریق پر کہ گویا وہ خدا کو دیکھ رہا ہے یا کم از کم اِتنا ہی ہو کہ اِس بات کو کامل طور پر سمجھے کہ خدا مجھ کو دیکھ رہا ہے۔ خدا تعالیٰ کے انعام کو یاد کر کے اور یہ دیکھ کر کہ کیسی کتاب ، کیسا مذہب اُس نے عطا کیا ہے۔ (الحکم ۳؍مارچ ۱۸۹۹ء صفحہ۵)



یہود کہتے ہیں نصارٰی کچھ بھی نہیں اور نصارٰی کہتے ہیں یہود کچھ بھی نہیں حالانکہ وہ کتاب (مقدّس) کو پڑھتے ہیں۔ نادان ایسا ہی کہا کرتے ہیں۔ یہود نے کہا عیسائی کچھ راہ پر نہیں حالانکہ ممکن ہے بلکہ واقعی یُوں ہے کہ عیسائیوں میں بہت سی خوبیاں ہوں۔ پس یہود کا عام طور پر یہ کہنا کہ عیسائی کچھ راہ پر نہیں غلطی اور نا سمجھی ہے۔ ایسا ہی ممکن ہے بلکہ واقعی ہے کہ یہود میں کچھ بھلائی بھی۔ ہو پس عیسائیوں کا علی العموم یُوں کہہ دینا کہ یہود کچھ بھی راہ پر نہیں بڑی ناسمجھی اور بے انصافی ہے۔ غرض علی العموم کسی مذہب کو یُوں کہہ دینا کہ وہ بالکل ہی بھلائی سے مبّرا ہے کوئی عِلمی بات نہیں۔ (تصدیق براہینِ احمدیہ صفحہ ۲۵)
ہمیں تو قرآن کریم یہود و نصارٰی کے اِس قول کو نصیحت کے طور ہمیں بتاتا ہے۔
(البقرۃ:۱۱۴) یہود نے کہا نصرانی کچھ بھی نہیں۔ نصرانیوں نے کہا یہود کچھ بھی نہیں حالانکہ کتاب پڑھتے ہیں۔ اِس طرح تو بے علم لوگوں نے کہا ہے یا کیا ہے۔
(دیباچہ نورالدین صفحہ ۸ ایڈیشن سوم)
یہ ایک عیب ہے کہ کوئی شخص دوسرے کی نسبت رنچ پیدا کر لیتا ہے۔ اگر آدمی حد سے بڑھ جائے تو یہ بھی ایک قِسم کا کنون ہے۔ ایسا ہی نصارٰی اور یہود میں رنج پیدا ہو گیا کیونکہ یہودیوں نے حضرت عیسٰیؑ کو حقارت سے دیکھا اور رنج کیا تھا اِس لئے نصارٰی ان پر عیب جوئی کرتے ہیں ، اور ایک دوسرے کو لاشَیٔ یقین کرتے ہیں۔
:حالانکہ وہ کتاب پڑھتے ہیں اور پڑھے ہوؤں کا یہ حال ہے۔ ایسا ہی آجکل مولوی، وہابی یا حنفی اور یا دوسرے متفرق الطریق لوگ دوسروں پر اس قدر فتوے لگاتے ہیں جن کا شمار نہیں ہو سکتا۔ پھر وہ سب پڑھے ہوئے۔ اَب جاہلوں کی بات تو سمجھتے نہیں۔ اَب ان کو سمجھائے کون۔
:یہ لوگ جو مسجدوں سے منع کرتے ہیں آخر ذلیل ہوں گے۔ کامیابی کا مُنہ نہ دیکھیں گے۔ (ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۱؍مارچ ۱۹۰۹ء)
عیب چینی کی راہ بہت ہی خطرناک راہ ہے۔ عیسائیوں نے اس راہ پر قدم مارا نقصان اُٹھایا۔ ایک نبی کی معصومیّت کے ثبوت کے لئے سب کو گُناہ گار قرار دیا۔ پھر آریہ نے بھی یہی طریق اختیارکیا۔ وہ بھی دوسرے مذاہب کو گالیاں دینا جانتے ہیں۔ پھر شیعہ ہیں وہ بھی خلفائے راشدین پر تبّرہ بھیجنے کے گناہ میں پڑ گئے ۔ ایک دفعہ امرتسر میں مَیں نے ایک شخص کو قُرآن کی بہت ہی باتیں سمنائیں۔ میرا ازاربند اِتفاق سے ڈھیلا ہو گیا۔ آخر اُس نے مجھ پر یہ اعتراض کیا کہ تمہارا پاجامہ ٹخنوں سے کیوں نیچا ہے مَیں نے کہا اِتنے عرصہ سے جو تم میرے ساتھ فہو تمہیں کوئی بھلائی مجھ میں نظر نہیں آئی سوائے اس عیب کے اور یہ عیب جو نے نکالا یہ بھی ٹھیک نہیں کیونکہ حدیث میںجَرَّ ثَوْبَہ‘ خمیلَائَ آیا ہے اور یہاں اِس بات کا وہم تک نہیں۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے

۔
گویااِس طرحلَا یَعْلَم کہنا لوگوں کا دستور ہے۔ عیب شماری کی طرف ہر وقت متوجّہ رہنا ٹھیک نہیں ۔ کچھ اپنی اصلاح بھی چاہیئے۔ ہمیشہ کسی دوسرے کی عیب چینی سے پہلے اپنی گذشتہ عمر پر نگاہ ڈالو کہ ہم نے اتّباعِ رسولؐ پر کہاںتک قم مارا اور اپنی زندگی میں کتنی تبدیلی کی ہے۔ ایک عیب کی وجہ سے ہم کِسی شخص کو بُرا کہہ رہے ہیں۔ کیا ہم میں بھی کوئی عیب ہے یا نہیں اور اگر اس کی بجائے ہم میں یہ عیب ہوتا اور ہماری کوئی اس طرح پر غیبت کرتا تو ہمیں بُرا معلوم ہوتا یا نہیں… عیب شماری سیکوئی نیک نتیجہ نہیں نکل سکتا ۔ کسی کا عیب بیان کیا اور اُس نے سُن لیا۔ وہ بُغض و کینہ میں اَور بھی بڑھ گیا تمہیں کیا فائدہ ہؤا؟ بعض لوگ بہت نیک ہوتے ہیں اور نیکی کے جوش میں سخت گیر ہوتے ہییں اور امر بالمعروف ایسی طرز میں کرتے ہیں کہ گناہ کرنے والا پہلے تو گناہ کو گناہ سمجھ کر کرتا تھا پھر جھنجھلا کر کہہ دیتا ہے کہ جاؤ ہم یُونہی کریں گے۔
(بدر ۲۸؍جنوری ۱۹۰۹ء صفحہ ۹)


:خدا کا خوف دل میں رکھ کر اَدب و تعظیم و عاجزی سے آتے اور کسی کا نقار دل میں نہ ہوتا۔ (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍مارچ ۱۹۰۹ء) افسوس کہ لوگ اگر ذرا بھی آدُودگی پاتے ہیں تو مخلوقِ الہٰی کو حقارت سے دیکھتے ہیں۔ اس کا انجام خطرناک ہے۔ ان لوگوں میں تحقیر کا مادہ یہاں تک بڑھ جاتا ہے کہ اگر کِسی کی طاقت مسجد کے متعلق ہے تو وہ ان لوگوں کو جو اس کے ہم خیال نہیں مسجد سے روک دیتا ہے اور یہ نہیں سمجھتا کہ آخر وہ بھی خدا ہی کا نام لیتا ہے۔ ایسا کر کے وہ اس مسجد کو آباد نہیں بلکہ ویران کرنا چاہتا ہے۔ بارسویں صدی تک اِسلام کی مسجدیں الگ نہ تھیں بلکہ اس کے بعد سُنّی اور شیعہ کی مساجد الگ ہوئیں پھر وہابیوں اور غیر وہابیوں کی اور اَب تو کوئی حساب ہی نہیں۔ ان لوگوں کو شرم نہ آئی کہ مکّہ کی مسجد تو ایک ہی ہے اور مدینہ کی بھی ایک ہے۔ قُرآن بھی ایک ، نبی بھی ایک ، مُرشد بھی ایک ۔ پھر ہم کیوں ایسا تفرقہ ڈالتے ہیں۔ ان کو چاہیئے کہ مسجدوں میں خوفِ الہٰی سے بھرے داخل ہوتے۔
صرف اِسی وجہ سے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب مسجد میں آئے اور جماعت ہو رہی ہو تو وقار اور سکینت سے آئے اور اَدب کرے جیسا کہ کسی شہنشاہ کے دربار میں داخل ہوتا ہے لیکن وہ اگر خوفِ الہٰی سے کام نہیں لیتے اور مسجدوں میں نماز پڑھنے سے روکتے ہیں اُن کے لئے دُنیا میں بھی ذِلّت ہے اور آخرت میں بھی بڑا عذاب ہے۔ یاد رکھو کسی کو مسجد سے روکنا بڑا بھاری ظلم ہے۔ اپنے نبی کریم (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے طرزِ عمل کو دیکھو کہ نصرانیوں کو اپنی مسجد مبارک میں گرجا کرنے کی اجازت دے دی۔
صحابہ کرامؓ کو تسلّی دیتا ہیکہ اگر تمہیں مسجد میں داخل ہونے سے روکتا ہے تو کچھ غم نہ کرو مَیں تمہار ا حامی ہوں جس طرف تم گھوڑوں کی باگیں اُٹھاؤ گے اور مونہہ کرو گے اسی طرف میری بھی توجّہ ہے چنانچہ جدھر صحابہ ؓ نیرُخ کیا فتہ و ظفر استقبال کو آئے۔ یہ بڑا اعلیٰ نسخہ ہے کہ کِسی کو عبادت گاہ سے نہ روکو اور کسی مخلوق کی تحقیر نہ کرو۔ مگر اِس سے یہ مطلب نہیں کہ دُنیا میں امر بالمعروف نہ کرو۔ ہرگز نہیں ۔ بلکہ صرف حُسنِ سلوک اور سلامت رَوی سے پیش آؤ۔ جو کسی کی غلطی ہو اس کی فورًا تردید کرو۔ مثلاً عیسائی ہیں جب وہ کہیں کہ خدا کا بیٹا ہے تو ان کو کہو خدا تعالیٰ اِس قِسم کی احتیاج سے پاک ہے۔ جب آسمان و زمین میں سب کچھ اسی کا ہے اور سب اس کے فرماں بردار ہیں تو اس کو بیٹے کی کیا ضرورت ہے۔ (بدر ۱۸؍فروری ۱۹۰۹ء صفحہ ۲)






اور اﷲ کی ہے مشڑق اور مغرب۔ سو جس طرف تم مُنہ کرو دونوں ہی (طرف) متوجّہ ہے اﷲ۔ (فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۱۲۹)
:جدھر تم توجّہ کرو گے ادھر ہی خدا کی بھی توجّہ ہو گی کیونکہ مشرق و مغرب اسی کا ہے۔
:اتّخاذِ ولد کی تردید فرماتا ہے۔ ایک یہ فرما کر کہ سُبحانہ‘۔ دومؔ ۔ سومؔ۔ چہارمؔ۔۔
کے معنے ایک تو اَمَرَ دومؔخَلَقَ سومؔ اَخْبَرَ چوتھاؔ فارغ ہؤا۔ اِس کی مثال(الاحقاف:۳۰)
(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان۱۱؍مارچ ۱۹۰۹ء)
اَ: جس طرف تم مُنہ کرو اُسی طرف خدا کا مُنہ پاؤگے۔
(نوالدین صفحہ۴۳)
: جدھر (صحابہؓ ) توجّہ کرو اُدھر جنابِ الہٰی کی توجّہ ہو گی۔ ملک فتح ہو جائے گا۔ وحدتِ وجودی غلطی پر ہیں۔
سُبْحٰنَہ‘: عقائدِ باطلہ عیسائیوں کے مطابق کامل قدّوس نہیں بن سکتا۔
کُنْ نَیَکُوْنُ: مرنے کے بعد زندہ وہی کرتا ہے۔
(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۳۹)



لَوْ لَا یُکَلِّمُنَا اﷲُ:یعنی اﷲ ہمیں کیوں الہام نہیں کرتا۔ اِس کی مثال یہ ہے جیسے کوئی جاہل جٹ کہے کہ بادشاہ پیادوں کی معرفت احکام بھیجتا ہے خود کیوں ہم سے مطالبہ نہیں کرتا۔
(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۱؍مارچ ۱۹۰۹ء)




الحمد شریف میں تین قوموں کا ذکر ہے ایک کا۔ایک مَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْکا اور ایک ضَآلِّیْن کا۔قرآن کریم نے یہاں تک ان تین گروہوں کا رنگ برنگ میں ذکر کیا ہے۔
اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنپھر مَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ کاذکر فرمایا ہے اور ان کا وعید بیان کیا۔اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ پھر ضَآلِّیْن کا ذکر کیااُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُ الضَّلٰلَۃَ ان کی سزا ہے۔ فَمَ رَبِحَتْ تِجَارَتُھُمْرکوع سوم میں فرمایا ہے کہ قرآن کریم پر عمل کرنے سے مُنعم علیہم بن جاؤ گے اور اس کے خلاف کرنے کی سزا دوزخ کی آگ ہے۔ وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ۔پھرضَآلِّیْن کاذکر فرمایا کہ مَا یُضِلُّ بِہٖ اِلَّا الْفٰسِقِیْنَ۔رکوع چہارم میں ایک مُنعم علیہ (آدم) ایک مغضوب و ضال شیطان کا قِصّہ بیان کیا۔ پھر رکوع ۵ میں بنی اسرائیل کا ذکر شروع کیا اور اَنْمْتَ عَلَیْھِمْ سے ظاہر کر دیا کہ وہ ایک مُنعم علیہ قوم تھی۔ پھر قِسم قِسم کے انعاموں کا جوان پر ہوئے مذکور ہیتاور ساتھ ہی ان اسباب کا ذکر فرماتا ہے جن سے یہی منعم علیہ قوم مغضوب علیہ بنی۔ ازاں جملہ گائے کی پرستش ، موسٰیؑ کی فرمانبرداری چھوڑ کر زمیندارہ پسند کرنا۔ چھوٹے چھوٹے گناہوں کی پرواہ نہ کرنا۔ یہاں تک کہ کفرو قتل انبیاء تک نوبت پہنچ گئی۔ پھر سلیمانؑ کے زمانہ میں امن و آسودگی میں بجائے شکرِ الہٰی کے بغاوت و عملیات و خفیہ کمیٹیوں کی طرف مائل ہونا۔ مسیحؑ کا انکار۔ پھر اس رسول علیہ السّلام کا انکار۔ اَب اس رکوع ۱۵ میں یہ قصّہ ختم ہوتا ہے۔
فرماتا ہے کہ او بہادر سٌاہی کی اولاد! مَیں نے تمہیں ہم عصر لوگوں پر بہت سی بزرگیاں دیں، پر تم نے اس بزرگ کی شان کو قائم نہ رکھنا چاہا۔ تم اس دِن سے ڈرو جب کہ کوئی جی کسی کے کام نہ آئیگا چنانچہ بنی قریظہ قتل ہوئے۔ سعدبن معاذ کو انہوں نے خیر خواہ سمجھا پر اس نے بھی ان کے خلاف ہی رائے دی۔ بنی نضیر کا تعلق عبداﷲ بن اُبَیّ سے تھا اس نے کہا۔ یہی۔ وَلَئِنْ قُوْتِلْتُمْ لَنَنْصُرَنَّکُمْ (حشر:۱۲) مگر موقع پر نہ کوئی سفاش کر سکا اور نہ ہی نصرت دے سکا۔
وَلَا ھُمْ یُنْصَرُوْنَکیسی عظیم الشّان پیشگوئی ہے۔ تیرہ سَو برس گذر چکے مگرلَا یُنْصَرُوْنَ کا فتوٰی ایسا اٹل فتوٰی ہے کہ اب تک کوئی قوم بنی اسرائیل کی ناصر دُنیا میں نہیں۔ چپّہ پھر کہیں ان کی سلطنت نہیں ہے۔ جس ملک میں جاتے ہیں ایسے اسباب مہیّا ہو جاتے ہیں کہ ذلیل ہو کر نکلنا پڑتا ہے اس کی جڑ یہ ہے کہ یہ سُود خوار ر قوم ہے۔ جب لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کے پنجے سے چھٹکارا نہیں ہو سکتا تو اپنے بادشاہوں کے پاس چُغلیاں کھاتے ہیں اور پھر انہیں حکم ہوتا ہے نکل جاؤ۔ مَیں اکثر مخالفانِ اِسلام کو چیلنج دیا کرتا ہوں کہ ایسی پیشگوئی کسی قوم کی نسبت کر دکھاؤ ۔ راست بازوں سے مقابلہ کرنا بڑا خطرناک ہے۔
(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍مارچ ۱۹۰۹ء)
:یہ اس پہلے بات کو دُہرایا ہے لیکچرار کو بھی ایسا ہی چاہیئے کہ بات کی تشریح کر کے پھر خلاصہ دُہراوے۔
اور رکوع ۶ یعنی شفاعت پہلے ہے اِس کی وجہ یہ ہے دُنیا میں دو قِسم کے آدمی ہیں۔ پہلے وہ شفاعت کی طرف جھُکتے ہیں۔ جب اُس نے کام نہ دیا تو جُرمانہ بھرنے پر بھی حاضر۔ دوسرے اس کے خلاف ہیں۔
اس کے بعد اَور سلسلہاَنْعنمْتُ کا لیا ہے۔ (تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر ۹ صفحہ ۴۳۹)


: اَب بنی اسرائیل کے بعد ایک اَور سلسلہ کی طرف متوجّہ ہؤا ہے۔ وہ بھی اَنْمْتَ عَلَیْھِمْ تھے۔ مُنعَم ہونے کے بعد ان میں سے بھی مغوب و ضال ہو گئے۔
ابْتَلٰی:عربی زبان میں کہتے ہیں کسی چیز کے ظاہر کر دینے کو۔ قرآن شریف میں یہ محاورہ ہییَوْمَ تُبْلَی السَّرَائِرُ فَمَلَہ‘ مِنْ قُوَّۃٍ وَّ لَانَصِرٌ (الطارق:۱۰،۱۱)اَبْلَاہُ:اَظْھنرنرَدْائَ تَہ‘ وَ جَوْدَتَہ‘فلاںچیز کے ردّی یا جیّد ہونے کو ظاہر کیا۔ پس اﷲ نے ابراہیمؑ کو کچھ احکام دئے (کَلِمٰتٍ کے یہی معنے ہیں)جو انہوں نے پُورے کئے ۔ تو ان کا جیّد ہونا ظاہر ہو گیا۔
ایک دوسرے مقام پر فرمایا۔ (السْجدۃ:۲۵) یعنی ہم امام اُس وقت بناتے ہیں جب انسان احکامِ الہٰی پر ثابت قدم ہو جاوے اور ہماری آیات پر پُورا یقین رکھے۔ خیر جب ابراہیمؑ کے جیّد ہونے کو ظاہر کر دیا تو ارشاد ہؤا کہ مشرک اس عہد کے لائق نہیں۔ اِس سے معلوم ہؤا کہ آپ کی قوم میں ایسے لوگ بھی ہونے والے تھے۔
(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۱؍ مارچ ۱۹۰۹ء)



: بَیت اﷲ کو لوگوں کے لئے جھُنڈ در جھُنڈ آنے کی جگہ بنایا۔ (نور الدین صفحہ۲۵۰)
مَثَا بَۃً:ایسا بنایا کہ یہاں لوگ آتے رہیں ۔ثُبَۃٌکہتے ہیں جماعت کو۔ثائب ایکجماعت کو جو دوسری جماعت سے آ کر مِل جائے ۔ یَثُبُّ بَعْضِھُمْ اِلٰی بَعْضٍ۔ مَثَا بَۃًکے دوسرے معنے ثواب کی جگہ۔ یہاں دونوں معنے صحیح ہیں۔
عَھِدْنَآ:مضبوط وعدہ لیا۔ (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍مارچ ۱۹۰۹ء)
وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰھٖم مُصَلَّی:جس مقام پر ابراہیمؑ نے نماز پڑھی اس درجہ کی تم فرماں برداری کرو اور عبادت کرو۔ (تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۳۹)
طَھِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ وَ الْعٰکِفِیْنَ وَ الرُّکَّعِ السُّجُوْدِکا مطلب یہ کہ مکّہ معظّمہ کو بُت پرستی اور بُتوں سے پاک کر دو۔ (نور الدین صفحہ ۵۳)
سُتھرا رکھو اِس میرے گھر کو طواف کرنے والوں ، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے۔ (نور الدین صفح ۲۵۰)



جب کہا ابراہیمؑ نے اے ربّ کر اِس شہر کو امن کا اور روزی دے اِس کے لوگوں کو میوے جو کوئی ان میں یقین لاوے اﷲ پر اور پچھلے دن پر۔ (فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ ۲۰)
:واقعی بَیت اﷲ امن کا گھر بنا کر (عنکبوت:۶۸)(قریش:۵)
چونکہ حضرت ابراہیمؑ لَا یَنَالُ عَھْدِی الظّٰلِمِیْنَسے سمجھ گئے تھے کہ یہاں کچھ شریر بھی ہوں گے اِس لئے عرض کیا کہ وَارزُق اَھْلَہ‘ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْھُمْ بِاﷲِ ْ یعنی مومنوں کو رزقِ للیّب دے۔ اﷲ نے فرمایا۔ نہیں۔ ہم رحمن ہیں اِس لئے ہم کافر کو بھی روٹی دیں گے۔ مگر دُنیا میں۔ مومن کی طرح آخرت میں بھی نہیں۔
(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍مارچ ۱۹۰۹ء)
وَارزُق اَھْلَہ‘ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْھُمْ:یہ قید حضرت ابراہیمؑ نے پچھلے خوف سے لگائی کہ وہاں وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ کے جواب میں لَا یَنَالُ عَھْدِی الظّٰلِمِیْنَ فرمایا تھا مگر یہ قیاس غلط نکلا۔ فرمایا وَمَنْ کَفَرَفَاُ مَتِّعُہ‘ قَلِیْلًا کافر کو بھی رزق دوں گا۔
(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۳۹،۴۴۰)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیِمْ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط نَحْمَدُہ‘ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ ط
تَفْسِیْرُالْقُرْآن
نزولِ قُرآن کی غرض
نزولِ قرآن کی اصل غرض (۱) شُبہات کو دُور کر دے( (بنی اسرائیل:۸۳)(۲) رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْنَ جنابِ الہٰی کے ساتھ براہِ راست تعلق ہو جائے ( ۳) تمیز حق و باطل ہو جائے(۴) کوئی ایسا سوال نہیں جس کا جواب نہ دیا۔ کافی ہتھیار۔(عنکبوت:۵۲)
(تشحیذالاذہان بابت ماہِ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۴۳۴)
کلامِ الہٰی کے سمجھنے کے اصول
میرے فہم میں کلامِ الہٰی کے سمجھنے کے لئے یہ اصول ہیں:
اوّل ؔ : دعا ( پرارتھنا) جنابِ الہٰی سے صحیح فہم اور حقیقی عِلم طلب کرنا۔ قرآن مجید میں آیا ہے قُلْ رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا(طٰہٰ:۱۱۴)میرے رَبّ میرے علم میں ترقی بخش۔
اور دعا کے لئے ضرور ہے طیّب کھانا۔ طیّب لباس۔ عقدِ ہمّت۔ اِستقلال۔ دومؔ: صرف الہٰی رصامندی اور حق تک پہنچنے کے لئے خدا میں ہو کر کوشِش کرنا جیسے فرمایا (عنکبوت: ۷۰)سومؔ: تدبّر، تفکّر۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے (محمد:۲۵)اور فرمایالَاٰیَاتٍ لُّاِ ولِی الْاَلْبَابِ الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اﷲَ قِیَامًا وَّ قُعُوْدًا عَلٰی جُنُوْبِھِمْ
(آلِ عمران:۱۹۱) چہارمؔ: حُسنِ اعتقاد و حُسنِ اقوالو حُسنِ اعمال اور فقر۔ بیماری۔ مقدّمات و مشکلات میں صبرو استقلال۔ اِس مجموعہ کو قرآن نے تقوٰی کہا ہے۔ دیکھو رکوع
البقرۃ:۱۷۸)اور اس کا ایک درجہ سورہ بقرہ کے ابتداء میں ہے جیسے فرمایا ہے کہ اَلْغَیْبپرایمان لاوے۔ پرارتھنا اور دا اور بقدرِ ہمّت و طاقت دوسرے کی ہمدردی کے لئے کوشِش کرنیوالا متّقی ہے۔ اور تقوٰی کے بارے میں ارشادِ الہٰی ہے (البقرۃ:۲۸۳)لیکن خود پسند آدمی آیاتِ الہٰی کے سمجھنے سے قاصر ہے جیسے فرمای(الاعراف:۱۴۷)
پنجمؔ: قرآن کریم کے معانی خود قرآن مجید اور فرقانِ حمید میں دیکھے فاویں۔ ششم ؔ: اسمائے الہٰیّہ اور الہٰی تقدیس و تنزیہ کے خلاف کسی لفظ کے معنے نہ لئے جاویں۔ ہفتم: تعامل سے جس کا نام سُنّت ہے معانی لے اور اس سے باہر نہ نکلے۔ ہشتم ؔ: سننِ الہٰیہ ثابتہ کے خلاف ورزی نہ کرے۔ نہمؔ: لُغتِ عرب و محاوراتِ ثابتہ عن العرب کے خلاف نہ ہو۔ دہمؔ: عُرفِ عام سے جس کو معروف کہتے ہیں معانی باہر نہ نکلیں۔ یازؔدہم: نورِ قلب کے خلاف نہ ہو۔ دوازؔدہم: احادیثب صحیحہ ثابتہ کے خلاف نہ ہو۔ سیزؔدہم: کتبِ سابقہ کے ذریعہ بھی معانی قرآن حل کئے جاتے ہیں۔ چہارؔدہم: کِسی وحیِ الہٰی اور الہامِ صحیح کے ذریعہ سے بھی معانی قرآن حل ہو سکتے ہیں۔ ہر ایک اصل کی مثالیں دوں ت ایک مجلّہ ضنحیم بن جاوے اور بعض اصول عام لوگوں کے استعمال میں آنے والے نہیں معلوم ہوتے اِس لئے نمونہ کے طور پر بعض امور کے استعمال کی مثال بتاتے ہیں۔ (دیباچہ نور الدین صفحہ ۸،۹ نیز تشحیذالاذہان ماہِ ستمبر ۱۹۱۳ء)
قرآن شریف کے علوم کے حصول کے ذرائع اﷲ تعالیٰ نے خود قرآن شریف میں بیان کر دئے ہیں اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرّاٰن قرآن شریف کا سکھانا اﷲ تعالیٰ کی صفتِ رحمانیّت کا تقاضا ہے۔ اِس واسطے ضرورت کِن چیزوں کی ہے وہ بھی خدا تعالیٰ نے خود بیان فرما دی ہیں۔
وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ یُعَلِّمُکُمُمتّقی کو خداتعالیٰ معارف اور علومِ قرآنی سے خبردار کر دیتا ہے اور تقوٰی ایک ذریعہ ہے قرآن دانی کے لئے۔ دوسری جگہ فرمایا (عنکبوت:۷۰)تقوٰی کے ساتھ جہاد اور کوشِش بھی شرط ہے۔ پس علومِ قرآنی کا معلّم خود اﷲ تعالیٰ ہے اور اس فیض اور فضلِ رحمانی کا جاذب تقوٰی اور جہاد فی اﷲ ہے۔
ہمارے نزدیک ہم نے ایک راہ کا تجربہ کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ انسانی دل میں سچّی تڑپ اور پیاس علومِ قرآنی کے حصول کے واسطے پَیدا کر کے تقوٰی تام سے دعائیں کرے اور اِس طرح سے قرآن شریف شروع کرے۔ دَور اوّلؔ: خود تنہا ایک مترجَم قرآن شریف لے کر جس کا ترجمہ لفظی ہو انسان کی اس میں اپنی ملاوٹ کچھ نہ وہ اور اس کے واسطے مَیں شاہ رفیع الدین صاحب علیہ الرحمتہ کا ترجمہ پسند کرتا ہوں لیکن ہر روز بقدر طاقت بلاناغہ کچھ حصّہ قرآن کا پڑھا کرے اور لفظوں کے معنوں میں غور کرے پھر جہاں آدم اور شیطان کا حال مذکور ہو اپنے نفس میں غور کرے کہ آیا مَیں آدم ہوں یا کہ ابلیس ۔ موسٰی ہوں کہ فرعون ۔ مجھ میں یہودیوں کے خصائل ہیں یا کہ مسلمانوں کے۔ اور اِسی طرح عذاب کی آیات سے ڈرے اور پناہ مانگے اور رحمت کی آیات سے خوش ہو اور اپنے کو رحمت کا مورَد بنے کے واسطے دعائیں کرے۔ ہر روز درود، دعا، استغفار اور لاحَول پڑھ کر شروع کرے اور اِسی طرح ختم کرے۔ اِسی طرح سیدَورِ اوّل ختم کر دیوے۔ اور اس دُور میں ایک نوٹ بُک پاس رکھے مشکل مقامات اس میں نوٹ کرتا جاوے پھر دَورِ دومؔ شروع کرے اور اس میں اپنی بیوی کو سامنے بٹھا کر سناوے اور یہ جانے کہ قرآن شریف ہم دونوں کے واسطے نازل ہؤا ہے بیوی خواہ توجّہ کرے یا نہ کرے یہ سُنائے جاوے اور پہلے دَور کی نسبت کسی قدر بسط کرتا جاوے اور پہلے طریق کی طرح اِس دَور کو بھی ختم کرے اور وہ پہلی نوٹ بُک پاس رکھے اور اسے دیکھتا رہے پھر اِس دَور میں یہ دیکھے گا کہ بہت سے وہ مشکل مقامات جو دَورِ اوّل میں نہیں سمجھتا تھا اِس دَور میں حل ہو جائیں گے۔ اِس دَورِ ثانی کی بھی ایک الگ نوٹ بُک تیار کرے۔
پھر اِسی طرح سے دَورِ ثالث شروع کرے اور گھر کے بچّوں،عورتوں اور پڑوسیوں کو بھی اِس دَور میں شامل کرے مگر وہ لوگ ایسے ہوں کہ کوئی اعتراض نہ کریں اور پہلی اور دوسری دونوں نوٹ بُکیں اپنے سامنے رکھے اِس طرح اِس دَور میں دیکھے گا بہت سے مُشکلات جو پہلے دونوں دَوروں میں حل نہ ہوئے تھے اِس دفعہ حل ہو جاویں گے۔ اِس دَور کی ایک الگ نوٹ بُک تیار کرے۔
دَورِ ثالث کے بعد چوتھا دَور عام مجمع کے سامنے شروع کرے مگر سامعین ہوں۔ ان کے اعتراضات وغیرہ کے اگر جواب آتے ہوں تو دیتا جاوے ورنہ نوٹ بُک میں نوٹ کرتا جاوے اور ان کے حل کے واسطے اﷲ تعالیٰ کے حضور دردِ دل سے دعائیں کرتا رہے اور پانچواں دَور شروع کردے اور بِلاامتیاز مسلمان و مشرک ، کافر و مومن کو سُنانا شروع کر دے اﷲ تعالیٰ کا فضل اور فیضان اس کے شامِل حال ہو گا اور ایک بہت بڑا حِصّہ قرآن کا اسے سکھا دیا جاویگااور باریک در باریک حقائق و معار اور اسرار کلامِ ربّانی اس پر کھولے جاویں گے۔ غرض یہ ہمارا مجرّب اور آزمودہ طریقہ ہے پس جس کو قرآن سے محبّت اور علومِ قرآن سیکھنے کیپیاس اور سچّی تڑپ ہو وہ اِس پر کار بند ہو کر دیکھ لے۔ (الحکم ۷؍اکتوبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۶)
یاد رکھو کہ قرآن شریف پڑھو اِس لئے کہ اس پر عمل ہو۔ ایسی صورت میں اگر تم قرآن شریف کھول کر اس کا عام ترجمہ پڑھتے جاؤ ار شروع سے اخیر تک دیکھتے جاؤ کہ تم کِس گروہ میں ہو کیا منعَم علیہم ہو یا مغضوب ہو یا ضالّین ہو اور کیا بننا چاہیئے۔ منعَم علیہم بننے کے لئے سچّی خواہش اپنے اندر پیدا کرو پھر اس کے لے لئے دعائیں کرو۔ جو طریق اﷲ تعالیٰ نے انعامِ الہٰی کے حصول کے رکھے ہیں ان پر چلو اور محض خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے واسطے چلو۔ اِس طریق پر اگر صرف سُورۃ فاتحہ ہی کو پڑھ لو تو مَیں یقینا کہتا ہوں کہ ّرآن شریف کے نزول کی حقیقت کو تم نے ھمجھ لیا اور پھر قرآن شریف کے مطالب و معانی پر تمہیں اطلاع دینا اور اس کے حقائق و معارف سے بہرہ ور کرنا یہ اﷲ تعالیٰ کا کام ہے اور یہ ایک صورت ہے مجاہدہ صحیحہ کی۔
(الحکم ۲۴؍اپریل ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۲)
قرآن کریم میں عظمتِ الہٰی کا ذکر زیادہ ہَے
احکام کے متعلق تو اذھائی سَو کے قریب آیات ہیں مگر عظمتِ الہٰی کے بیان سے کوئی رکوع خالی نہیں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ جب انسان کے دل میں اﷲ کی عظمت بیٹھ جائے تو دولت و اَسباب و دیگر سامانِ دُنیا کی پرواہ جو احکامِ الہٰی کی بجا آوری میں مانع ہو سکتے ہیں مُطلق نہیں رہتی اور خود بخود انسان اپنے مَولیٰ کا فرمانبردار بن جاتا ہے۔
(تشحیذالاذہان جلد ۶ نمبر۹ صفحہ ۳۵۳)
قرآنِ مجید کے مقابلہ میں انجیل
متی کی انجیل کا پہلا صفحہ اُٹھا کر دیکھو وہاں کیا لکھا ہے نسب نامہ یُسوع مسیح ، داؤد اور ابراہیم کے بیٹے کا۔ ابراہام سے اِسحاق پیدا ہؤا اور اسحاق سے یعقوب پیدا ہؤا… متان سے یعقوب پیدا ہؤا اور یعقوب پیدا ہؤا جو مریم کا شوہر تھا جس کے پیٹ سے یُسوع جو مسیح کہلاتا ہے پَیدا ہؤا۔
حالانکہ یہ وہ کام ہے جو ہمارے مُلک میں تو میراثی کرتے ہیں اس کے مقابل میں قرآن شروع ہوتا ہے سے۔یہ وہ آیت ہے جس سے تمام مذاہب کا رَدّ ہوتا ہے۔ نہ یسوعیوں کا خداوند اقنومِ ثالث رہ سکتا ہے نہ رحم بلا مبادلہ کے بہانے کسی بے گناہ کو پھانسی چڑھانا پڑتا ہے اور نہ آریوں کا مادہ جو رُوح اَزلی اَبدی بن سکتا ہے نہ تناسخ والوں کی کوئی دلیل باقی رہتی ہے۔ نہ سو فسطائیوں کو آنے کی تاب ہے اور نہ برہموؤں کو مسئلہ الہام میں ترڈّد رہ سکتا ہے اور نہ شیعہ صحابہ کرامؓپر اعتراص کر سکتے ہیں نہ دہریہ کسی حُجّتِ نیّرہ کی بناء پر خا کی ہستی کے مُنکر رہ سکتے ہیں۔ یہ تو ایک آیت کے متعلق ہے اگر سات آیتیں پڑھی جاویں تو پھر تمام مذاہب کی صَداقتوں کا عطرِ مجموعہ اس میں ملتا ہے اور دُنیا کے آخر تک پیش آنے والے دینی اہم واقعات کی خبر اس میں مجموعہ اس میں ملتا ہے اور دُنیا کے آخر تک پیش آنے والے دینی اہم واقعات کی خبر اس میں موجود ہے۔ ان تمام مفاسد و عقائدِ فاسدہ کا ابطال ہے جو دُنیا میں پیدا ہوئے یا ہو سکتے ہیں اور ان اعمالِ صالحہ و عقائدِ صحیحہ کا تذکرہ ہے جو انسان کی روحانی و جسمانی ترقّیات کے لئے ضرورت ہے۔
اِسی طر ح انجیل کا اخیر دیکھو اس میں لکھا ہے کہ یسوع جف خداوند کہلاتا ہے اپنے دشمنوں کے قبضہ میں آ گیا اور اُس نے اِیْلِیْ اِیْلِیْ لِمَا سَبَقْتَانِیْ(یعنی اے میرے خدا تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا ) کہتے ہوئے اپنی جان دی۔ برخلاف اِس کے قرآنِ مجید ختم ہوتا ہے
۔ ۔ ۔
۔
قرآنِ مجید پڑھنے والا۔ قرآن شریف کا متّبع بڑے زور سے علی الاِعلان دعوٰی کرتا مَیں اس خدا کی پناہ میں ہوں جو تمام انسانوں کو پَیدا کرنے والا اور پھر انہیں کمال تک پہنچانے والا ہے۔ وہ سب حقیقی بادشاہ حقیقی معبود ہے۔ اَللّٰہُ اَکْبَرْ ایک معمولی تھانیار یا صاحبِ ضِلع بلکہ نمبردار اور پٹواری کی پناہ میں آ کر کئی لوگ مطمئن ہو جاتے ہیں پس کیا مرتبہ ہے اُ س شخص کا جو تمام جہان کے ربّ اور بادشاہ اور سچّے معبود کی پناہ میں آ جائے پرف اِس کتاب کا اوّل و آخر ہی اسلام اور عیسائیّت میں فیصلہ کُن ہے اگر کوئی خدا ترس دِل لے کر غور کرے۔
(تشحیذالاذہان جلد۶ نمبر۹ صفحہ ۳۵۳، ۳۵۴)




سُوْرَۃُ الْفَاتِحَۃِ مَکِّیَّۃٌ
تمہید
اِس سُورہ شریف کی بہت سی تفاسیر لوگوں نے لکھی ہیں۔ ہمارے گھر میں اِس سورۃ کی ایک قلمی تفسیر باریک لکھی ہوئی ساٹھ جُزو کی تھی۔ حضرت صاحب (مسیح موعود علیہ الصّلوٰۃ و السّلام ) تین مبسُوط تفسیریں اِس سورہ شریف پر لکھی ہیں جن میں سے ایک اُردو میں ہے اوت کتاب براہین احمدیہ میں ہے اور و عربی میں ہیں۔ ایک کا نام ’’ کرامات الصّادقین ‘‘ ہے اور دوسری کا نام ’’ اعجاز المسیح ‘‘ ہے۔ وہ بڑا خوش قِسمت ہو گا جس کو اﷲ تعالیٰ توفیق دے ہ وہ کم از کم اِن تفسیر کا مطالعہ کرے ميں اِس امر کی طرف تم کو خاص توجّہ دلاتا ہوں۔ جو عربی نہیں جانتے وہ کم از کم اُردو کو پڑھ لیں۔ محمد عبدہٰ مصری نے بھی ایک کتاب سورۃ فاتحہ کی تفسیر میں الگ لکھی ہے اور ضخیم کتاب سورہ فاتحہ کی تفسیر میں صدر الدین قنوی نے لکھی ہے۔
فاتحہ خلف الامام
بچپن سے لے کر اِس بڑھاپے تک جو کچھ مَیں نے تحقیقات کی ہے اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہے خواہ انسان الگ نماز پڑھتا ہو خواہ جماعت کے ساتھ کسی امام کے پیچھے پڑھ رہا ہو ہر دو صورتوں میں سورۃ فاتحہ پڑھنی جاہیئے۔
تعداد رکعات
چونکہ سورہ فاتحہ کا ہر رکعت میں پڑھنا ضرری ہے اِس واسطے ایک مسلمان دن رات میں سورۃ فاتحہ عموماً ۸۰ بار پڑھتا ہے یا کم از کم ۴۰ بار۔ کیونکہ رکعات کی تفصیل یہ ہے :۔ فجر : سُنّت ۲۔ فرض۲ = میزان پانچ نماز:۴۴ ظہر : سُنّت ۴۔فرض۴ ۔ سُنّت ۴ = ۱۲ آشراق : ۲ ضحٰی:۸ عطر : سُنّت ۴۔ فرض ۴ =۸ تہجّد:۸ کُل میزان: ۶۲ مغرب:فرض ۳۔ سُنّت ۲۔ نفل ۲ = ۷ زوال: ۴ تحیۃالوضو:۶ عشاء : فرض ۴ ۔سُنّت۴ ۔وتر ۳۔ نفل ۲ =۱۳ تحیۃالمسجد: ۶
اگر اشراق اور اوّابین کے نوافل انسان نہ پڑھ سکے اور ایسا ہی ظہر اور مغرب اور عشاء کے نوافل بھی نہ پڑھ سکے اور ظہر اور عصر اور عشاء کی سُنّتیں بجائے چار کے دو پڑھے تو تہجّد ملا کر پھر بھی ۴۰ رکعتیں ہو جاتی ہیں۔
سُنّتوں کی تاکید
بڑے بڑے تجربہ کاروں کا قول ہے کہ جو لوگ مستحب کے ادا کرنے میں سُستی کرتے ہیں وہ رفتہ رفتہ سُنّتوں کے تارک ہو جاتے ہیں اور جو لوگ سُنّتوں کے تارک ہوتے ہیں وہ رفتہ رفتہ فرائض سے غافل ہو جاتے ہیں اور فرائض سے غافل ہونے والے کے واسطے فتوٰی سخت ہے۔
ایک غلطی کا ازالہ
حضرت صاحب(مسیح موعود علیہ الصّلوٰۃوالسّلام)کی عادت تھی کہ آپ فرض پڑھنے کے بعد فوراً اندرونِ خانہ چلے جاتے تھے اور ایسا ہی اکثر مَیں بھی کرتا ہوں۔ اِس سے بعض نادان بچّوں کو بھی غالباً یہ عادت ہو گئی ہے کہ وہ فرض پڑھنے کے بعد فوراً مسجد سے چلے جاتے ہیں اور ہمارا خیال ہے کہ پھر وہ سُنّتوں کی ادائیگی سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ان کو یاد رکھنا چاہیئے کہ حضرت صاحب اندر جا کر سب سے پہلے سُنّتیں پڑھتے تھے اور ایسا ہی مَیں بھی کرتا ہوں۔ کوئی ہے جو حضرت صاحب کے اِس عمل در آمد کجے متعلق گواہی دے سکے؟ (اس پر صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب جو حسب العاوت درس میں تشریف فرما تھے کھڑے ہوئے اور بآوازِ بلند کہا کہ بیشک حضرت صاحب کی ہمیشہ عادت تھی کہ آپ مسجد جانے سے پہلے گھر میں سُنّتیں پڑھ لیا کرتے تھے اور باہر مسجد میں فرض ادا کر کے گھر میں آتے تو فوراًسمنّتیں پڑھنے کھڑے ہوتے اورنمازِ سُنّت پڑھ کر پھر اَور کوئی کام کرتے۔ ان کے بعد صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی یہی شہادت دی اور ان کے بعد حضرت میر ناصر نواب صاحب نے اور ان کے بعد صاحوبزادہ میر محمد اسحٰق صاحب نے پھر حضرت مرحوم کے پُرانے خادم حافظ حامد علی صاحب نے بھی اپنی عینی شہادت کا اظہار کیا۔ (ایڈیٹر بدر)
(ضمیمہ اخبار بدر ۴؍فروری ۱۹۰۹ء)
وتر
وتر میں بعض لوگوں کو غلطی لگی ہے کہ وہ صرف ایک رکعت پڑھ لیتے ہیں۔حضرت صاحب کا یہ طریق نہ تھا بلکہ آپ دو رکعت پڑھ کر اور سلام پھیر کر پھر ایک رکعت پڑھتے تھے۔
الحمدمتنِ کتاب ہَے
شیخ محی الدین ابنِ عربی لکھتے ہیں کہ مَیں نے جتنی دفعہ الحمد شریف پڑھا ہے ہر دفعہ اس کے نئے معنے میری سمجھ میں آے ہیں مَیںاگرچہ ایسا دعوٰی تو نہیں کر سکتا مگر مَیں نے بغور دیکھا ہے اور میرا اعتقاد ہے کہ سارا قرآن مجید الحمد شریف کے اندر ہے۔ الحمد متین ہے اور قرآن شریف اس کی شرح ہے۔
الحمد میں شفا ہَے
صحابہؓ کے زمانہ میں ایک شخص کو جو کسی گاؤں کا نمبردار تھا سانپ نے ڈسا تھا صحابہ ؓ نے الحمد شریف پڑھ کر اس کا علاج کیا تھا اور اُسے شفا ہو گئی تھی۔ ایسا ہی ابنِ قیّم نے لکھا ہے کہ جب مَیںمکّہ معظمہ میں تھا اور طبیب کی تلاش میرے واسطے مشکل تھی تو مَیں اکثر الحمد کے ذریعہ اپنی بیماریوں کا علاج کر لیا کرتا تھا۔ ابنِ قیّم کا مَیں بہ سبب اس کے علم کے معتقد ہوں اور اسے ایسا آدمی جانتا ہوں جو لاکھوں میں ایک ہوتا ہے۔ میرا اپنا بھی تجربہ ہے کہ مَیں نے بہت سے بیماروں پر الحمد کو پڑھا اور انہیں شفا ہوئی۔ مَیں چاہتا ہوں کہ لوگ سوچ سوچ کر الحمد کو نماز میں پڑھا کریں اور اس سے فائدہ اُٹھائیں۔
(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۴؍فروری ۱۹۰۹ء)
الحمد متنِ قرآن ہے باقی تمام قرآن اس کی شرح ہے۔
(تشحیذالاذہان بابت ماہِ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۴۳۵)
سُورہ فاتحہ کا پڑھنا ضرورت ہے خواہ آدمی امام کے پیچھے ہو۔ دِن کی نمازوں میں یا رات کی نمازوں میں۔ قرآن شریف کی کوئی آیت اس کے مخالف نہیں نہ کوئی حدیث اس کے مخالف ہے۔ (بدرؔ۲۳؍مئی ۱۹۱۲ء صفحہ۳)
اِس سُورۃ شریف کا نام اُمّ الکتٰب اور سبع مِن المثانی بھی ہے۔ یہ سُورۃ شریف ایک مَتن ہے اور قرآن شریف اس کی تفسیر ہے۔
کلامِ الہٰی کی تین اقسام ہیں۔ اوّل بعض نافہم اور ناخواند وہ لوگ اِس بات سے ناواقف ہوتے ہیں کہ سرکار و دربار میں کِس طرح اور کِس مضمون کی درخواست دی جاوے تو اِس لئے کوئی دوسرا شخص جو دربار کے آداب اور قانون سے واقف ہو تو اگر وہ ایسی عرضی لکھ دیوے یا وہ مضمون بتلاویوے جس کی دربار میں شنوائی ہو سکے اور اگرچہ مدّعا اور آرزُو اسی سائل کا اپنا ہو تو ایسے بتلانے والے اور لکھ دینے والے کو مجرم نہیں قرار دیا جاتا۔
دُنیاوی گورنمنٹ جو کہ آسمانی گورنمنٹ کا ظِلّ ہوتی ہے اس میں ایسے قواعد ہوتے ہیں۔ بعض فارمیں چَھپی ہوئی ہوتی ہیں ان پر صرف سائل کے دستخط کرائے جاتے ہیں۔ اس کی مثال قرآن شریف میں یہ سورۃ ہے جو بطور عرضی کے ہم کو عطا ہوئی۔ دومؔ جو لوگ حکّام کی پیشی میں بعہدہ سر رشتہ دار وغیرہ ہوتے ہیں وہ کوئی حکم باضابطہ حاکم کی طرف سے اجازت پا کر لکھ دیا کرے ہیں وہ بھی اصلی حاکم کا حکم ہی سمجھا جاتا ہے۔ اِس کی مثال قرآن شریف میں یہ ہے
سومؔ بعض اَوقات خود حاکم اپنے پروانہ جات سے براہِ راست حکم سُنا دیتا ہے اس کی مثال سارا قرآن کریم علی العموم ہے۔
کلام کی ان تین قِسموں سے یہ امر بخوبی واضح ہوتا ہے کہ سورۃ فاتحہ میں اور قرآن میں
اور دیگر دعاؤں وغیرہ کے الفاظ اِس لحاظ سے محلِّ اعتراض نہیں ہو سکتے کہ جس حالت میں قرآن شریف خدائے پاک کا کلام ہے تو اس میں ایسی عبارتیں کیوں موجود ہیں جو کہ بندوں کی زبانی ہونی چاہیئے تھیں۔ گویا اِس طریق سے خدا تعالیٰ نے ایک اَدب اور طریق بارگاہِ عالی میں دا کرنے کا بتلا دیا ہے۔
(البدر ۹؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ۸۷)
الحمد ایک جامع دعا ہے اور اس کا مقابلہ کوئی دعا نہیں کر سکتی نہ کِسی مذہب نہ کسی احادیث کی دائیں۔
(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۱ صفحہ ۴۳۴)
عمدہ دعا الحمد ہے اس میں دونو ترقّی کے فقرے موجود ہیں۔ (بدر ۳۱؍اکتوبر ۱۹۱۲ء صفحہ۳)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
باؔ بہت سے معانی کے لئے آتی ہے اور یہاں پر استعانت کے لئے ہے۔ وَ اللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ اور خصوصًا اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ اس کے مؤیّد ہے استعانت کسی فعل میں ہوتی ہے۔ س فعل میں بہت کچھ بحث کی گئی ہے لیکن چونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو شروع میں اِقْرَأْبِاِسْمِ رَبِّکَ ارشاد ہؤا تھا۔ لہٰذا کتاب اﷲ کے افتتاح کے وقت فعل قِرَائَ ت میںاَقْرَأُ) استعانت بہت موزوں ہے۔
(رسالہ تعلیم الاسلام قادیان جلد نمبر۱ و نمبر۱)
اِسمؔ نام کو کہتے ہیں۔ اس میںزمانہ دراز سے بحث چلی آئی ہے کہ اس کا ماخذ اور اصل سمو ؔہے جو بمعنی علوّ ہے یا وسم ؔہے جو بمعنی علامت ہے لیکن اب حضرت امام ہمام واجب الاتباع اور مطاع نے (جس کی نسبت مخبرِ صادقؐ نے خبر دی تھی کہ وہ اَحکم الحاکمین کی طرف سے حَکم عَدل ہو کر آئے گا) یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ اِسمؔ وسمؔ سے بنایا ہوا ہے اوروہ اپنے مسمّٰی پر دالّ اور علامت ہوتا ہے۔
اَللّٰہؔ نام ہے اُس ذات کا جو کہ سب نقصوں سے پاک اور سب کمالات کی جامع ہے اور یہی اس کے معنے ہیں۔
(رسالہ تعلیم الاسلام جلد اوّل نمبر۱ نیز البدر ۹؍جنوری ۱۹۰۳ء)
اﷲ سب خوبیوں کا جامع۔ سب بدیوں سے منزّہ۔ معبودِحقیقی۔
عربی کے سوائے کسی دوسری زبان میں خدا تعالیٰ کے نام کے واسطے کوئی بھی ایسا مفرد لفظ نہیں ہے جو خاص اسی کے واسطے ہو اور کسی دوسرے پر اس کا اطلاق نہ پا سکے۔ انگریزی کا لفظ گاڈ (GOD)دیوی دیوتا سب پر بولا جاتا ہے اور لفظ لارڈ (LORD)تو بہت ہی عام ہے۔ سنسکرت کا لفظ اومؔ بھی مرکّب ہے غالبا اَمّ سے نکلا ہے کیونکہ یہ عبادت میں اومؔ سے دعائیں مانگتے ہیں۔ عبرانی کا ایلؔ اِلَا سے نکلا ہے اور یہوواہؔ یَاھُوَ سے نکلا ہے۔
(ضمیمہ اخبار بدر ۴؍فروری۱۹۰۹ء)
اَلرَّحْمٰن۔اِس کے معنے ہیں بِن مانگے اور بے عوض رحمت کرنے والا جیسا کہ قرآنِ مجید کے استعمال سے ثابت ہے۔ مثلاً فرماتا ہے۔
(رسالہ تعلیم الاسلام جلد اوّل نمبر۱ نیز البدر ۹؍جنوری ۱۹۰۳ء و ضمیمہ بدر ۴؍فروری ۱۹۰۹ء)
اَلرَّحِیْمُ۔ وہ ہے جو نیک اعتقاد اور نیک اعمال اور نیک اَخلاق پر اور مانگنے سے رحمت کرنے والا ہو۔ اس پر قرآن مجید کا استعمال شاہد ہے۔ مثلاً فرمایا ۔وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا۔
(رسالہ تعلیم الاسلام جلد اوّل نمبر۱)
بِسْمِ اﷲِ جَہْراً(نماز میں ۔ مرتّب) اور آہستہ پڑھنا ہر دو طرح جائز ہے۔ ہمارے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب (اَللّٰھُمَّ اغْفِرْہُ وَارْحَمْہُ) جو شیلی طبیعت رکھتے تھے۔ بسم اﷲ جَہراً پڑھا کرتے تھے۔ حضرت مرزا صاحب جہراً نہ پڑھتے تھے۔ ایسا ہی مَیں بھی آہستہ پڑھتا ہوں۔ صحابہؓ میں ہر دو قِسم کے گروہ ہیں۔ مَیں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ کِسی طرح کوئی پڑھے اس پر جھگڑا نہ کرو۔ ایسا ہی آمین کا معاملہ ہے ہر دو طرح جائز ہے، بعض جگہ یہود اور عیسائیوں کو مسلمانوں کا آمین پڑھنا بُرا لگتا تھا تو صحابہؓ خوب اُونچی پڑھتے تھے۔ مجھے ہر دو طرح مزہ آتا ہے کوئی اُونچا پڑھے یا آہستہ پڑھے۔
(بدر ۲۳؍مئی ۱۹۱۲ء صفحہ)
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
اَلْحَمْد۔ ال بمعنے سب۔ وہ خاص۔ اور حمد کسی کی اچھے اختیاری کام پر اس کی تعریف کرنا۔ الحمد کے معنے وہ خاص تعریفیں جو کہ کسی کے اختیاری کام پر سرزد ہوں۔
(البدر ۹؍جنوری ۱۹۰۳ نیز ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍فروری ۱۹۰۹ء)
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِِ۔ایسا پاک کلمہ ہے اور اس میں ایسے سمندر حکمتِ الٰہی کے بھرے ہوئے ہیں کہ جن ا خاتمہ ہی نہیں۔ مَیں بعض اَوقات نماز میں اَلْحَمْدُہ پڑھنے کے بعد ٹھہر جاتا ہوں۔ اِس کی وجہ یہی ہے کہ مَیں ان کے معانی میں غوروخوض کرتا ہؤا غرق ہو جاتا ہوں۔ دیکھو بعض وقت مجھے بھی سخت سے سخت مشکلات اور تکالیف پہنچتی ہیں کہ ان سے جان جانے کا بھی اندیشہ ہؤا ہے مگر مَیں نے جب قرآن شریف کو شروع کیا ہے اور اس میں اوّل ہی اوّل اَلْحَمْدُ لِلّٰہسے شروع ہؤا ہے اور مَیں نے اِس آیت پر غور کیا ہے تب دل میں بسا اَوقات جوش آیا ہے کہ بتاؤ تو سہی اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کاکیا مقام ہے۔ ان مصائب اور دُکھوں کے سمندر میں کِس طرح سے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہوگر اور ممکن ہے کہ دوسرے مومن کے دِل میں بھی آیا ہو کیونکہ میرے دل میں ایسا بارہا آیا ہے تو اس کے واسطے مَیں نے غور سے دیکھا ہے کہ مصائب اور مشکلات میں واقعی اﷲ تعالیٰ کی ذات سات طرح سے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہے جانے کے لائق ذات ہے ؎
ہر بَلاکیں قوم راحق دادہ است
زیر آن گنجِ کرم نبہادہ است
۱۔ اوّلؔ ت اِس لئے کہ مصائب اور شدائد کفارۂ گناہ ہوتے ہیں۔ سو یہ بھی اس کا فضل ہے ورنہ قیامت میں خدا جانے ان کی سزا کیا ہے اِس ُنیا ہی میں بُھگت کر نپٹ لیا۔
۲۔ اِس لئے کہ ہر مصیبت سے بڑھ کر مصیبت ممکن ہے اس کا فضل ہے کہ اعلیٰ اور سخت مصیبت سے بچا لیا۔
۳۔ مصائب دو قِسم کے ہوتے ہجیں دینی اور دُنیوی ۔ ممکن ہے کہ گناہ کی سزا میں انسان کی اولاد مرتد ہو جاوے یا یہ خود ہی مرد ہو جاوے۔ یہ اس کا فضل ہے کہ اس نے دینی مصائب سے بچا لیا اور دینی مشکلات پر اکتفا کر دیا۔
۴۔ مصائب شدائد پر صبر کرنے والوں کو اَجر ملتے ہیں۔ چنانچہ حدیث شریف میں آیا کہ ہر مصیبت پر اِنَْا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن پڑھ کر یہ دعا مانگو۔ اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَاخْلفْنِیْ خَیْرً امِّنْھَا۔
اور قرآن شریف میں مشکلات اور مصائب پر صبر کرنے ولاوں کے واسطے تین طرح کے اَجر کا وعدہ ہے
۔۔ ۔(بقرہ آیت ۱۵۶ تا ۱۵۸) یعنی مصائب ر صبر کرنے والوں اور کہنے والوں کو تین طرح کے انعامات ملتے ہیں۔
۵۔ صَلَوٰت ہوتے ہیں ان پر اﷲ کے۔
۶۔ رحمت ہوتی ہے ان پر اﷲ کی۔
۷۔ اور آخر کار ہدایت یافتہ ہو کر ان کا خاتمہ بالخیر ہو جاتا ہے۔
اَب غور کرو جن مصائب کے وقت صبر کرنے والے انسان کو ان انعامات کا تصوّر آ فاوے جو اس کو اﷲ کی طرف سے عطا ہونے کا وعدہ ہے تو بھلا پھر وہ مصیبت ، میبت رہ سکتی ہے اور غم، غم رہتا ہے ؟ ہرگز نہیں۔ پس کیسا پاک کلمہ ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ اورکیسی پاک تعلیم ہے وہ جو مسلمانوں کو سکھائی گئی ہے۔ یہ نہایت ہی لطیف نکتۂ معرفت ہے اور دل کو موہ لینے والی بات۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف اِسی آیت سے شروع ہؤا اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے تمام خطبات کا ابتداء بھی اِس سے ہؤا ہے۔ (الحکم ۱۰؍ مارچ ۱۹۰۸ء نیز دیکھیں رسالہ تعلیم الاسلام جلد اوّل نمبر۱ ۱۹۰۶ء)
رَبّ۔ پَیدا کرنے والا۔ ترقّی دینے والا۔ بتدریج کمال تک پہنچانے والا۔
(رسالہ تعلیم الاسلام جلد اوّل نمبر۱)
عَالَمِیْن۔ جمع ہے عَالَم کی جو اسمِ آلہ ہے۔ مَایُعْلَمُ بِہٖ جس کے ذریعے سے عِلم آتاہے۔ (البدر ۹؍جنوری ۱۹۰۳ء نیز رسالہ تعلیم الاسلام جلد اوّل نمبر۱ ۱۹۰۶ء)
مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ
َمالِک۔ یعنی وہ جو انی مخلوق کے ساتھ مالکانہ سلوک کرتا ہے۔
(البدر ۹؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۷)
یَوْم۔ وقت دِیْن۔ جزا و سزا۔ اِسلام
جزا و سزا کے وقت کا مالک خدا ہے اسی کے حکم سے کسی کو جزا یا سزا مِل سکتی ہے۔ اَب بھی اور آئندہ بھی ہے ۔
اِسلام کے وقت کا مالک خدا ہے وہ اس کی آپ حفاظت اور نصرت کرے گا۔
(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍فروری ۱۹۰۹ء)
یَوم۔ کا لفظ عربی زبان میں وسیع معنے رکھتا ہے منجملہ ان معنی کے یومؔ کے معنی وقت ہے۔ سُنو!محاورۂ عرب یَوْمَ وُ لِدَ لِلْمَلِکِ وَلَدٌ یَکُوْنُ سُرُوْرٌ عَظِیْمٌ۔ یَوْمَ مَاتَ فُلَانٌ بَکَتْ عَلَیْہِ الْفِرَقُ الْمُخْتَلِفَۃُحالانکہ لڑکے کا پیدا ہونا اور آدمی کا مرنا کبھی دِن کو ہوتا ہے اور کبھی اپنے عمالِ نیک کے بدلے انعام اور بَد اعمال کے بدلے سزا ملتی ہے اس وقت کا مالک باری تعالیٰ ہے بلکہ یومؔ اتنے وقت کو کہتے ہیں کہ جس میں کوئی واقعہ گزرا ہو۔ دیکھو یومِ بغاث۔وَ ذَکِرْھُمْ بِاَیَّامِ اﷲِ۔ہمارے ملک میں دنؔ ٹھیک ترجمہ یوم ؔ کا ہے۔ لوگ کہتے ہیں آج فلاں شخص کے دن اچھے آئے ہیں اور فلاں شخص کے بُرے آئے ہیں۔ پس یوم ؔ کا ترجمہ دن بھی کریں تو کوئی عیب نہیں۔ (تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۱۷۹)
بجائے لفظ وقتؔ اور حینؔ کے قرآن نے یومؔ کا لفظمیں کیوں استعمال کیا؟ سو گزارش ہے کہ عرب لوگ کبھی رات کی طرف ان امور کی نسبت کرتے ہیں جن میں نقص اور عیب ہوتا ہے۔ دیکھو شِعر حماسہ کا۔
لاَذَتْ ھُنَالِکَ بِالْاَسْعَافِ عَالِمَۃً اَنْ قَدْ اَطَاعَتْ بِلَیْلٍ اَمْرعَادِیْھَا
اگرچہ بعض اَوقات کسی خاص مصلحت کے واسطے لیلؔ کی طرف بھی بعض امور کو منسُوب کرتے ہیں مگر وہال لیلؔ کو خاص صفت سے موصوف کر لیتے ہیں یا اُسے مُعرَّف بِاللّام بنا لیتے ہیں جیسے (دخان:۴) (القدر:۲) (بنی اسرائیل :۸۰)۔
اِسی واسطے باری تعالیٰ فرماتا ہے ہم جو انصاف کرتے ہیں وہ بے نقص ہوتا ہے اس میں حَرف گیری کا موقع نہیں ہوتا۔ ہمارا انصاف اور ہماری سزا روزِ روشن کا معاملہ ہوتا ہے ۔
(تصدیق براہینِ احمدیہ صفحہ ۱۸۱،۱۸۲)
یومؔبمعنے وقت،دین،جزا و سزا
اہل عرب بُرے کاموں کو یا جن کاموں کے نتائج بَد ہوں ان کو رات سے منسُوب کیا کرتے ہیں اور اچھے کاموں پر یومؔ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ چونکہ اﷲ تعالیٰ کی جزا و سزا میں نتائج بَد نہیں ہوتے لٰہذا یومؔ کا لفظ یہاں استعمال کیا گیا ۔ (البدر ۹؍جولائی ۱۹۰۳ء)
۔مسئلہ جزا و سزا رحم پر مبنی ہے اور اس تکمیلِ نفس مقصود ہے۔
(تشخیذالاذہان ماہِ ستمبر ۱۹۱۳ء)
اﷲ تعالیٰ محامِد کاملہ سے مووف ہے ار فصاتِ کاملہ کا مقتضا ہے کہ مؤثر ہوں۔ مثلاً۔۔۔۔کیا معنی ؟ اﷲ تعالیٰ میں یہ صفات ہیں۔ پس جب اس میں یہ صفات ہیں اور اﷲ تعالیٰ سوتا یا اُونگھتا نہیں تو اگر خلق پیدا نے کرے ت اس کے لئے حَمد ،ربوبیّت،رحمانیّت،مالیّت کیونکر ثابت ہو۔ کیا آنکھ ہو تو دیکھے نہیں اور کان ہو اور سُنے نہیں۔ (دیباچہ نورالدین صفحہ ۲۷)
پانچواں رُکن ایمان کا جزا و سزا پر ایمان ہے۔ یہ ایک فطرتی اصل ہجے اور انسان کی بناوٹ میں داخل ہے کہ جزا اور بدلے کے لئے ہوشیار اور سزا سے مائقہ کرتا ہے… کوئی نہیں چاہتا کہ محنت کا بدلہ نہ ملے اور بچاؤ کا سامان نہ ہو۔ پس جب یہ فطرتی امر ہے تو اس کو بھی اﷲ تعالیٰ نے ایمان کا جُز و رکھا ہے کہ جزا و سزا پر ایمان لاؤ اور مالکِ یَوم الدین ہے۔ روزِ روشن کی طرح اس کی جزائیں سزائیں ہیں اور وہ مخفی نہ ہوں گی اور مالکانہ رنگ میں آئیں گی جیسے مالک اچھے کام پر انعام اور بُر کام پر سزا دیتا ہے اِس حصّہ پر ایمان لا کر انسان کامیاب ہو جاتا ہے مگر اس میں سُستی اور غفلت کرنے سے ناکام رہتا ہے اور قُربِ الٰہی کی راہوں سے دُور چلا جاتا ہے ۔ (الحکم ۱۷؍جنوری ۱۹۰۳ء نیز تشحیذالاذہان ماہِستمبر ۱۹۱۳ء)

کلام تین قِسم کا ہوتا ہے (۱) عرضی نویس کسی قانون کے ناواقف کی طرف سے عرضی لِکھ دیتا ہے (۲) متکلّم اپنے رنگ میں ادا کرتا ہے (۳) کبھی حاکم سمجھا دیتا ہے کہ اِس قِسم کی عرضی لِکھ دو قرآن میں تینوں قِسم کے کلام موجودہیں۔ پس ایاک نعبد و ایاک نستعین
ایک ایسی عرضی ہے جسے حق سُبحانہ‘ نے خود سمجھایا ہے کہ ہمارے حضور پوری عرضی دو۔
(تشحیذالاذہان ماِ ستمبر ۱۹۱۳ء)
اِیَّاؔ ضمیر ہے۔ واحد،تثنیہ، جمع مذکّر اور مؤنث، غائب، مخاطب،متکلّم،سب کے لئے آتئی ہے۔ فرق کے لئے اس کیساتھ ہ،ھا،ھما،ھم،ھُنّ،لَ،کِ،کُمَا،کُم،کنّ،ی،نالگایا جاتا ہے۔یہاں پر یہ ضمیر خطاب ہے اور مخاطَب اﷲ ہے۔ عبادت کہتے ہیں اعلیٰ درجہ کی تعظیم کے ساتھ لوازم عبودیّت بجا لانے کو عبادت کے لئے چار چیزوں کی ضرورت ہے محبّت،خضوع،کمالِتصرّف کا یقین یا بالفاظِ یُوں کہنا چاہیئے کہ امید و بیم کے یقین اور جوشِ محبّت کے ساتھ خضوع کرنے کو عبادت کہتے ہیں۔
(رسالہ تعلیم الاسلام قادیان جلد اوّل نمبر۱ بابت جولائی ۱۹۰۶ء)
جب…کاملہ صفات سے متّصف معبود کی ہستی پر آگاہی ہوتی ہے ت ایک سلیم الفِطرت انسان بول اُٹھتا ہے ایاک نعبد۔ کصوصیّت کے ساتھ ایسی ہی ذاتِ پاک ہر ایک قِسم کی عظمت اور پرستش کے قابل ہے۔ اے مَولیٰ ! ہم صرف ہی عبادت کرتے ہیں اور چونکہ اِس عالَم کے ایک ایک ذرّہ پر تیری ربوبیّت کام کر رہی ہے اور تُو ہی مرتبٔہ کمال تک پہنچانے والاہے اِس لئے تجھ سے ہی استعانت یعنی مدد اور دستگیری طلب کرتے ہیں ۔
بعض لوگ اِس مقام پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اوّل مقدّم ہونا چاہیئے تھا اور اس کے بعد کیونکہ عبادت کے لئے استعانت اﷲ تعالیٰ سے اوّل طلب کرنی چاہیئے۔
اِس کا جواب یہ ہے کہ شرعی امور میں خدا تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ انسان اوّل خدا تعالیٰ کے عطا کردہ انعامت سے کام لے کر اس کا شُکریہ ادا کرے تو پھر اﷲ تعالیٰ اَور انعامات کرتا ہے چنانچہ یہ امر نبی کریم صلّی اﷲ علیہ وسلم کی اِس حدیث سے بھی ثابت ہوتا ہے جس میں یہ بیان ہے کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر میرا بندہ میری طرف ایک بالشت بھر آوے تو مَیں ایک ہاتھ اسکی طرر آتا ہوں اور اگر وہ ہاتھ پھر چل کر آوے تو باع پھر چل کر آتا ہوں اور اگر چل کر آوے تو مَیں دوڑ کر آتا ہوں۔ اِس کے علاوہ خود قرآن شریف نے اِس مضمون کو لیا جہاں فرماتا ہے(ابراہیم آیت ۸)۔
پھر ایک اَور جگہ فرماتا ہے (محمد آیت ۱۸)خدا تعالیٰ نے جو قوّتیں انسان کو دی ہیں ان سے تو اس نے ابھی کام لیا ہی نہیں تو اس کو اَور زیادہ مانگنے کی کیا ضرورت پڑ گئی اور ایسی حالت میں کیوں خدا تعالیٰ اسے اَور دیوے۔ ایسی صورت میں تو اگلا دیا ہؤا بھی واپس لے لینا چاہیئے کیونکہ اس سے کام نہیں لیا گیا اور خداداد نعمت کی قدر نہ کی گئی۔ تو کے یہ معنے ہیں کہ انسان اعتراف کرتا ہے اور عمل کر کے دکھلاتا ہے کہاے مَولیٰ!جس قدر تُو نے انے فضل سے عطا کیا ہے اس سے تو کام لے رہا ہوں اور موجودہ استعانت طلب کرتا ہوں۔ گویا اِن آیات کی ترتیب ایک طبعی ترتیب ہے جس کے بدلنے سے لازم آتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا موجودہ قانونِ قدرت ایک احسن اور اَبلغ نظام پر نہیں ہے۔
عبادت کے معنے ہیں عاجزی ،اِنکساری سے فرمانبرداری کرنا۔ عبادت کے مفہوم میں اِس نکتہ کو ضور یاد رکھنا چاہیئے کہ نماز اور روزہ اور دیگر معروفہ عبادات جس ہَیٔت اور طرز سے ادا کی جاتی ہیں اس کے خلاف ہَیٔت اختیار کرنے سے ممکن نہیں کہ ان پر ثواب ملے یا رضائے الٰہی کا موجب ہوں۔ مثلاً یہ روزہ جو کہ ہم رکھتے ہیں اگر ایک خاص وقت تک کھانے پینے سے باز رہنے کا نام ہے ت ضرور ہے کہ ہم جمعہ کو یا عید کے دن بھی روزہ رکھ لیا کریں تو ثواب ملے لیکن اِن ایّام میں روزہ رکھنے سے تو ثواب کی بجائے عذاب ہوتا ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ مطلق روزہ اپنی ذات سے عبادت نہیں ہے۔ اِسی طرح اگر نماز بہایں ہیئت کہ ہم ادا کرتے ہیں اگر عبادت ہے تو فجر کی دو رکعت کی بجائے اگر تین یا چار بڑھ لیں تو بھی ثواب ہونا چاہیئے بلکہ زیادہ ہونا چاہیئے کیونکہ محنت زیادہ ہوئی۔ وہی کلمات ہیں جن کی تکرار کثرت سے کی گئی ہے مگر ظاہر ہے کہ دو کے بجائے ۴ تو درکنار صرف ایک رکن نماز ہی بڑھا دینے سے نماز باطل ہو کر موجبِ عذاب ہو جاتی ہے تو معلوم ہؤا کہ نماز مطلق اپنی ذات سے عبادت نہیں ہے ۔ پھر ہم معاشرت کو دیکھتے ہیں کہ وہی چہل ہل اور محبّت اور پیار اور راز و نیاز کی باتیں اور معاشرت کی حرکات ہیں کہ جب انسان اپنی منکوحہج بیوی سے معاشرہ کرتا ہے تو ثواب پاتا ہے لیکن جب ایک نامحرم عورت سے کرتا ہے تو عذاب کا مستحق ہے حالانکہ عورت ہونے میں ت بیوی اور نامحرم ایک ہی ہیں اور وہی حرکات ہیں۔ تو اِن نظائر سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز روزہ معاشرت اور دیگر عباداتِ شرعیہ مطلق اپنی ذات اور ہیٔت کے لحاظ سے ہرگز نہیں ہیں بلکہ اِس لئے عبادت کا لفظ ان پر آتا ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کے حکم سے کی جاتی ہیں اور جب ان میں ایک ذرا سی بات بھی اپن۸ی طرف سے ملا دیجاوے تو پھر یہ عبادت نہیں رہتیں اور اس سے یہ بات ظاہر ہو گئی کہ عبادت کے معنے اصل میں اطاعت کے ہی ہیں اور ہر قابلِ اطاعت چونکہ تعظِیم کا مستحق ہوتا ہے اِس کے معنے عظمت اور عزّت کے بھی ہیں۔
کاکلمہ خالص توحید کی طرف راہنمائی کرتا ہے کہ خدا تک پہنچنے کے واسطے صرف خدا کو ہی ذریعہ بنایا جاوے اور اس کلمہ کا قائل یہ اقرار کرتا ہے کہ وہ خدا شناسی کا مرحلہ طے کرنے کے واسطے کسی اَور شَے کو ذریعہ نہیں بناتا۔ نہ کسی بُت کو۔ نہ مخلوق کو۔ نہ عقل کو۔ نہ عِلم کو اور اپنی ہر ایک اِحتیاج کے واسطے وہ خدا ہی کی طرف رجوع کرتا ہے۔
(البدر ۱۶؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۹۵)
َُنماز میں ہر روز محبوبِ حقیقی جامع جمیع کمالات، رحمن رحیم، حضرت ربّ العٰلمین، مالکِ یَوم الدّین کی تعریف کر کے آپ پڑھا کرتے ہو۔۔ ۔ے معنی ہیں تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور کریں گے۔ یہ دعوٰی سب مسلمان رات دن کئی بار خداوندِ عالَم سے کرتے ہیں۔ پیارے دیکھ اِس دعوٰی میں ہم کِس قدر سچّے ہیں۔ رات کو سو رہے۔ چار پہر تین پہر سوتے رہے صبح کو اُٹھے پاخانے گئے۔ وہاں سے آئے باتیں کیں۔ پھر کھانے کی فِکر میں لگے۔ روٹی کھائی۔ پھر کچہری میں دُنیا کمانے کو گئے پھر جو جو کام وہاں کرتے ہیں اس کو ہم ہی خوب جانتے ہیں۔ پھر آئے۔ ہَوا خوری۔ کُوچہ گردی۔ سَیر بازار ۔ گھر آئے بال بچّہ میں لگ گئے۔ لیاقت و استعداد پر الف لیلہ۔ فسانہ آزاد۔ کفارسیان وغیرہ وغیرہ پڑھنے بیٹھ گئے۔
بتاؤ یہیکامطلب ہے پھر اگر کوئی بہت بڑا نیک ہؤا توپنجگانہ نماز بھی درمیان میں پڑھ لی۔ پھر اس میں ریاء، سُمْعَۃ سُستی،کاہلی، تاخیر وقت نقان سجود، رکوع، قمہ، جلسہ وقرأت ہوتا ہے۔ جو منصف ہے اسے خوب جانتا ہے۔ بھلا پیارے یہی معنی کے ہوں گے؟نہیں نہیں۔ بلہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہم کو ہر ایک کام میں اور بات میں رضامندی جنابِ باری تعالیٰ کی مدِّ نظر رکھنی چاہیئے۔ نوکری کریں مگر اِس نیّت پر کہ روپیہ حاصل کر کے صِلہ رحمی کرینگے ماں کو، بہن کو، بھائی، بھانجا بھتیجا وغیرہ کو دیں گے صِلہ رحمی سے ربِّ تعالیٰ رای ہو گا جہاں تک ہو سکا لوگوں کی بہتری میں کوشش کریں گے۔ سوتے ہیں مگر اِس نیّت سے کہ خواب سے طاقت کمانے کی حاصل ہو گی۔ بدن کو صحت میں عبادت پر لگائیں گے۔ وہ روزی جس سے صِلہ رحمی ہو اور آپاور آپ سوال،چورعی،فریب،دغا،قمار وغیرہ وغیرہ سے آدمی بچے۔ کمانے کی طاقت اُسے نیند سے حاصل ہوتی ہے اِس واسطے سوتے ہیں۔ لوگوں سے باتیں کرتے ہیں اِس خیال سے کہ باہم محبّت بڑھے اِتفاق پَیدا ہو۔ جو خداوند کریم کا حکم ہے اسی طرح ہر ایک کام میں رضامندی مَولیٰ مقصود ہو اور وہی مدِّ نظر رہے توکے معنے صیحح ہم پر صادق آویں اور دعوٰی درست ہو۔ اَب چلّو:! اِس کے معنے ہیں تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں یہ بھی دعوٰی ہے سچّا تب ہو جب ہر کام میں ہم کو یہی خیال رہے کہ اس کا انجام اور اتمام بُدوں رضامندی حضرت حق سُبحانہ، و تعالیٰ اور اس کی عنایت کے نہیں ہو سکتا۔ اے خدا تُو ہی مَمد اور معاون رہ۔ دیکھو کبھی زمیندار کاشتکاری کرتا ہے ۔ خِرمن بناتا ہے۔ امّیدوار ہے کہ دانہ گھی کو لے جاویں خرمن کو آگ لگ جاتی ہے اور گناہ کی شامت وہ خِرمن خاکستر کا اَنبار ہو جاتا ہے۔ اسی کا رحم ہو کہ معاصی عفو ہو جاویں اور اس خرمن سے ہم نفع اُٹھاویں پس ضرور ہؤا کہ میں ذاتِ باری پر اعتماد رہے۔
(الحکم ۲۸؍فروری ۱۹۰۲ء صفحہ ۲)
عبادات نام ہے کامل درجے کی محبّت۔ کامل تعظیم اور اپنی طرف سے کامل تذلّل کا۔ عبادت وہی ہے جو خود اﷲ تعالیٰ اپنے رسول کی معرفت بتائے باقی سب ہیچ۔ واؤ حالیہ ہے۔ تیری عبادت ہم اس وقت کر سکتے ہیں کہ تُو ہی توفیق دے۔ (تشحیذالاذہان بابت ماہِ ستمبر ۱۹۱۳ء)
واؤ حالیہ ہے ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور اِس حال میں کہ تجھ سے مدد چاہتے ہیں کیونکہ تیرے فضل کے سوائے عبادت کی توفیق بھی حاصل نہیں ہو سکتی۔
(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍ فروری ۱۹۰۹ء)
اِس اعتراض کے جواب میں کہ چوری،قتل،ڈکیتی، قماربازی کے لئے بھی یہی کلام
(۔ناقل) مسلمانوں اور ان کے مُلّانوں کا وظیفہ ہؤا کرتا ہے فرمایا چوری،ڈکیتی،قماربازی خدا کی عبادت نہیں اور نستعین سے پہلے ایاک نعبدکا لفظ ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ تیرے ہی فرماں بردار ہوں یا رہیں اور نستعین کے بعداھدنا الصراط المستقیم موجود ہے جس کے معنے ہیں دکھا ہمیں سیدھی راہ۔ (تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۱۸۲)

۔ خطِ مستقیم اسے کہتے ہیں جو دو نقطوں کے درمیان چھوٹے سے چھوٹا خط کھِچ سکے۔ اِس لئے اِس کے معنے ہوئے بہت ہی اَقرب راہ جو ہر ایک قِسم کی افراط اور تفریط سے پاک ہو۔ (البدر ۱۶؍جنوری ۱۹۰۳ء)
ہم کو سیدھی راہ یا قریب ترین راہ (پر) چلا۔
کے معنے ہدایت کر۔
ہدایت کے معنے قرآن شریف میں چار طرح پر آئے ہیں:۔
۱۔ قوٰی یا خواصِ طبعی۔ کہ جس سے ہر ایک شئے اپنے اپنے فرضِ منصبی کو بجا لا رہی ہے۔ قرآن شریف نے یہ معنے بیان کئے ہیں جہاں فرمایا (اطٰہٰ آیت: ۵۰)یعنی ہر ایک شَے کو پَیدا کر کے اس میں اس کے خواص رکھ دئے ہیں۔
۲۔ حق کی طرف بُلانا۔ (شورٰی:۵۳) یعنی تُو خدا شناسی کی بہت اَقرب راہ کی طرف بُلاتا ہے۔
۳۔ توفیق جیسے (محمّد آیت ۱۸)
۴۔ کامیاب بامراد کرنا جیسے فرمایا (اعراف:۴۴)
(البدر ۱۶؍جنوری ۱۹۰۳ء)
۔چلا ہم کو۔
جمع کا صیغہ ہے۔ مومن کو چاہیئے کہ صرف اپنے واسطے دعا نہ کرے بلکہ دوسروں کو بھی ساتھ شامل کر لے۔ ہدایت عموماً چار ذرائع سے ہے۔ ۱۔ قوّت دینا۔ فطری قوٰی بخشنا۔ ۲۔ایک نیکی کے بعد دوسری نیکی کی توفیق دینا۔ ۳۔ اس مقصد پر پہنچانا جو نیکی کے واسطے مقدّر ہو۔ ۴۔ راستہ بتلا دینا۔
مُسْتَقِیْمٍ۔اقرب راہ۔ جو سب سے زیادہ نزدیک ہو۔
(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍ فروری ۱۹۰۹ء)
۱۔ ہدایت۔ قوٰی فطری کا عطا کرنا۔(طٰہٰ:۵۰) ۲۔ عطاء فہم ۳۔ انبیاء کی تعلیم سے بُرے بھلے راہوں کو دکھانا۔ وَ ھَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِ(البلد:۱۱) ۴۔ بہشت میں پہنچانا۔ چنانچہ جنتی کہیں گے (الاعراف:۴۴) ( تشحیذالاذہان بابت ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء)
۔اِس کا یہ مطلب ہے کہ کوئی کام اِس دُنیا میں بِدُوں کسی سبب کے نہیں ہوتا۔ ظاہری اندھیرے کے لئے سُورج،چاند،چراغ،برق وغیرہ کیلئے روشنئی چاہیئے سینے کو ہَوائے سرما کے واسطے گرم کپڑا الگ چاہیئے۔ دوسرے دوست کے مطالب سمجھنے کو خط و کتابت، پیغام چاہیئے۔ دریا سے پار اُترنے کو کشتی چاہیئے شنائی تلہ وغیرہ چاہیئے۔ پیاس کے دُور کرنے کو پانی۔ بُھوککے لئے غذا۔ جلد پہنچنے کو ریل۔ جلد خط بھیجنے کو تار کی خبر۔ اِسی طرح دیکھتے جاؤ کوئی کام بِدُوں سبب نہیں جن کاموں کو آپ بدوں سبب جانتے ہو وہ بھی حقیقت میں سبب کے ساتھ پیوستہ ہیں۔
سے یہ مطلب ہے کہ الٰہی کوئی کام بِدُوں سبب واقعی نہیں ہؤا کرتا اور ہم کو کاموں کے اسباب ٹھیک ٹھیک معلوم نہیں اِس لئے ہمارے کام نہیں ہوتے۔ اگر بیماری کی صحت کا ٹھیک سبب معلوم ہو تو ہمارے بیمار کیوں بیمار رہیں؟ اور اگر دفع افلاس کے واقعی اسباب معلوم ہوں تو ہم کیوں مُفلس رہیں؟ عزّت کے اسباب دریافت ہو جاویں تو جلد ترذِی عزّت ہو رہیں۔ ذِلّت کے اسباب معلوم ہوں تو ان سے بچیں اور ذلیل نہ ہوں۔ پادشاہ ہو جانے کے اسباب دریافت ہوں تو پادشاہ بنیں۔ غرض ہر وقت ہر آن میں ہم کو ضرور ہے کہ خداوندِ کریم کی درگاہ میں سوال کرتے رہیں کہ الٰہی فلاں کام میں سببِ حقیقی کی راہنمائی فرما۔ فلاں میں راہنمائی عطا کر۔ اگر ہر وقت کاموں کی ضرورت وہ تو ہر وقت کی ضرورت بھی لگی ہوئی ہے۔ ہر صبح نماز کے بعد کئی بار اسی طرح کیا ساری الحمد فکروں کے ساتھ پڑھنی چاہیئے۔ (الحکم ۲۸؍فروری ۱۹۰۲ء صفحہ ۲)


۔ جن پر تیرا انعام ہؤا۔ منعَم علیہ کی تفسیر خود قرآن نے کر دی ہے۔ (نساء:۷۰)
انسانی افعال کے چار ہی مراتب ہؤا کرتے ہیں۔ اوّلؔ مطلق کام صلاحیّت سے کرنا۔ اسے صالح کہتے ہیں۔ دوسرےؔ جب آقا یا حاکم سر پر کھڑا ہو تو وہ اِس کام کو اَور بھی تیزی سے کرتے ہیں تو اسے شہید کہتے ہیں۔ تیسرےؔ ٹھیکہ کے طور پر کام کرنا جس میں انسان کو خود بخود ہی ایک فِکر لگی ہوتی ہے کہ اس میں کوئی نقص نہ رہے اور بڑی دیانت سے کام لیتا ہے اسے صدّیق کہتے ہیں۔ چوتھےؔ ایک کام میں اپنے آپ کو ایسا محو کرنا کہ وہ طبعی تقاضا ہو جاورے اور جیسے ایک مشین انجن کے زور سے خود بخود کام کرتی ہے نہ تھکتی ہے نہ سُست ہوتی ہے اسی طرح افعالِ حَسنہ کا اس سے سرزد ہونا۔ اسے نبی کہتے ہیں۔ (البدر ۱۶؍جنوری ۱۹۰۳ء)
۔جن پر انعام ہؤا۔ وہ نبی۔ صدیق ۔ شہید اور صالح ہیں۔
(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۴؍فروری ۱۹۰۹ء)
خدا کا کِسی کو نِعمت دینا اور بِدُوں کسی سابق مزدوری اور کسی محنت کے اﷲ تعالیٰ کا اِنعام اور اِکرام کرنا اس کی رحمت اور فضل کا نشان ہے جو باری تعالیٰ کی اعلیٰ درجہ کی صِفت ہے۔
(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۱۸۷)
۔نہ ان لوگوں کی راہ جن پر تیرا غضب دُنیا میں ہی آیا۔ اِس سے پہلی آیت میں جلبِ خیر کا ذکر ہو چکا اَب دفع ضر کی دعا تعلیم کی اور اس سے مراد یہودی ہیں جنہوں نے غضبِ الٰہی حاصل کیا۔ وہ کیا افعال تھے جن سے وہ مغضوب ہوئے اس سے سارا قرآن بھرا ہؤا ہے انشاء اﷲ اپنے وقت پر ذکر ہو گا۔ (البدر ۱۶؍جنوری ۱۹۰۳ء)
مَغْضُوْب : یہود جن میں بے جا عداوت ہے اور عِلم پڑھ کر عمل نہیں کرتے۔
ضَآلِّیْنَ : بہکے ہوئے نصارٰی جنہوں نے اپنے نبی سے بے جا محبّت کی اور علومِ اِلٰہی کو سیکھنے کی بجائے اپنی رائے کے تابع ہوئے۔ (ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۴؍فروری ۱۹۰۹ء)
: راستہ سے بہک جانے والے۔ بے جا محبّت کرنے والے بے علم۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اِس کے معنے گُم ہو جانے والے کے کئے ہیں کیونکہ یہ لوگ آخر اسی سِلسلہ میں گُم ہو جائیں گے اور اِس مضمون پر دلیل یہ آیتِ قرآنی ہے۔ (سجدہ آیت ۱۱) (البدر ۱۶؍جنوری ۱۹۰۳ء)
ضَآلِّیْن :ان کے دو نشان ہیں۔ ۱۔ الٰہیّات کا عِلم نہ ہو(کہف آیت ۶)۔ ۲۔کِسی سے بے جا محبّت جیسے نصارٰی۔ضَآلِّیْن
میںچونکہ شدّ و مد ہے اس میں بتایا کہ ان کا زمانہ لمبا اور مضبوط ہو گا۔
(تشحیذالاذہان ماِ ستمبر ۱۹۱۳ء)
اس اُمّت میں۔مَغْضُوْب اورضَالّ تینوںقِسم کے لوگ موجود ہیں پس وہ مسیح موعود علیہ السّلام بھی موجوبد ہے جس نے ہم میں نازل ہونا تھا وہ مہدی معہود اور اس وقت کا امام بھی ہے اور انہی میں موجود ہے۔ وہ اختلافوں میں حَکم۔ ہم نے اس کی آیاتِ بیّنات کو دیکھا اور ہم گواہی دیتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ سے ڈر کر،جزاسزا،حَشراجساد،جنّت و نار، اپنی بے ثبات زندگی کو نصبُ العَین رکھ کر اس کو امام مان لیا ہے۔
(دیباچہ نورالدین صفحہ ۵۷)
ہم نے تین دعائیں الحمد میں کی ہیں۔ منعَم علیہ بنیں۔مَغْضُوْب عَلَیْھِمْاورنہ ضَالّبنیں۔ہرسِہ خدا نے قبول کی ہیں۔ انعام ان پر ہؤا جو متّقی ہیں۔ مغضوب بے ایمان ، منکر ہیں جن کو وعظ کرنا نہ کرنا برابر ہو۔ ضالّین منافق لوگ ہیں۔ ہرسِہ کا ذکر الحمد میں ہے پھر ترتیب وارہرسہ کا ذکر سُورہ بقرہ کے ابتداء میں ہے۔ یہ قرآن شریف کی ترتیب کا ایک نمونہ ہے۔
(بدر ۲۳؍مئی ۱۹۱۲ء صفحہ۳) سُوْرَۃُ الْبَقَرَۃِ مَدَنِیَّۃُ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
الٓمّٓ(آیت:۲)
مُقَطَّعات کی نسبت اِس زمانہ میںاعتراض ممکن تھا کیونکہ آزادی حد سے بڑھی ہوئی ہے مگر اﷲ تعالیٰ نے تمام متمدّن قوموں(جو انِتظام مدائن کو خوب کر سکیں) میں اس کا رواج دیکر انہیں مُلزم کر دیا۔ یوروپ ،امریکہ کے لوگوں کے لئے تو یہ مسئلہ صاف ہے کیونکہ اوہ اپنی قلموں، دواتوں، پنسلوں اور چھڑیوں اور سِلے ہوئے کپڑوں کو مقطِّعات کے نام سے وابسیہ کرتے ہیں۔
ایف۔اے،بی۔اے،ایم۔اے کو تو سب لوگ جانتے ہیں۔ ریلوں کے این۔ ڈبلیو۔آر کو بھی اکثر سمجھتے ہوں گے اور بعض خطابات اور قومی دکانوں کے مقطّعات تو ذرا غور سے معلوم ہوتے ہیں مگر مخفی نہیں۔
عرب میں بھی اِن مقطّعات کا رواج تھا چنانچہ بالام ایک مشہور شاعر گزرا ہے۔ الم کی تشریح دو عظیم الشّان بزرگوں نے کی ہے جنہیں قرآن دانی نے بُرا نہیں کہا وہ عبداﷲ عباس اور عبداﷲ بن مسعود تھے۔ انہوں نے بالاتفاق ایک معنے کئے ہیں۔ صحابہؓنے اِن معنوں کا اِنکار نہیں کیا اور نہ یہ کہا ہے کہ یہ احتیاط کے خلاف کرتے ہیں اِس لئے مَیں اِن معنوں کو اپنے فہم کے مطابق صحیح سمجھتا ہوں۔
پھر ان کے بعد ہمارے زمانہ میں امام نے بھی یہی معنے کئے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آپ نے ابِن عباس اور ابِن مسعود کی تفسیر سے یہ معنے نہیں کئے بلکہ اپنے ذوق سے بیان کئے۔ وہ معنے یہ ہیں کہ انا اﷲ اعلم مَیںاﷲ بہت جاننے والا ہو۔انا کا پہلا حَرف لے لیااﷲکا درمیانی اعلمکا آخریم مجموعی حیثیّت سے لوگوں نے طبع آزمائیاں کی ہیں اور دوسرے معانی بھی اپنے ذوق کے مطابق بیان کئے ہیں چنانچہ ایک بزرگ نے لکھا ہے کہ یہ اشارہ ہے اِس بات کی طرف کہ اِس سُورۃ میں آدمؑ، بنی اسرائیل اور ابراہیمؑ کا قِصّہ آئے گا۔
(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍ فروری ۱۹۰۹ء)
الٓمّّٓٓ۔ اِس قِسم کے الفاظ قرآن شریف کی اکثر سُورتوں میں آتے ہیں اور ان کا نام عربی زبان میں حروفِ مقطّعات ہے اور دراصل یہ مختصرنویسی کا ایک طریق ہے۔ انگریزی زبان میں بھی اِس کی نظیریںموجود ہیں جیسے ایم۔اے اور بی۔اے اور ایم۔ڈی وغیرہ۔ ہجر ایک محکمہ اور دفتر کی اِصطلاحِ اختصار الگ الگ ہے۔ محدّثین نے اِس سے کام لیا ہے چنانچہ بخاری کی بجائے لفظ خ لکھتے ہیں۔
طِبّ میں بھی اِس سے کام لیتے ہیں۔ بسم اﷲ الرحمن الرحیم کی جگہ بسملہ کہتے ہیں جس سے مقصود ساری آیت ہوتی ہے۔ اِسی طرح لاحَول ( کے لئے حَوْ قَلَ)
اِسی طرح کا ایک اِلہام حضرت مسیح موعودؑ کو ہؤا تھا کہ ’’یلاش‘‘ جس کے معنے ہیں یَامَنْ لَا شَرِیْکَ لَہٗ۔غرض اِن مقطّعات میں باریک اشارات ہوتے ہیں۔ ( چونکہ ان کی تفصیل لمبی ہے اِس لئے درج نہیں کی جاتی )۔ (البدر ۱۶؍جنوری ۱۹۰۳ء)
الٓمٗ۔ اَنَا اﷲُ اَعْلَمُ۔ حضرت علی،ابِن عبّاس،ابِن مسعود، اُبَیّ ابِن کعب رصی اﷲ عمہم ہر چہارنے بالا تفاق یہی معنے کئے ہیں۔ (تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹)
حروفِ مقطّعات سے متعلق ایک اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:۔
اگر مقطّعات کا استعمال معمّے و چیستان اور پہیلی ہے اور اِس لئے تم کو اس سے تنفُّر ہے تو ایف۔ اے اور پھر بی۔ اے کیوں ہوئے اور اس پر تمہارا فخر کیوں ہو۔ تم نے بی۔اے وغیرہ تو مقطّعات ہیں۔ مطلب تم نے خوب سمجھ لیا۔ بی۔ اے اگر معمّا نہیں تو المکیوں معمّا ہے؟ دومؔ تمحارا مُنہ کالا کرنے کیلئے اِس وقت تمام دُنیا کے مہذّب بِلا د اور تعلیم یافتہ قوموں کی دُلانوں ،مکانوں، چیزوں ،ناموں،عُہدوں،ڈگریوں اور اعلیٰ عزّت و عظمت کے خطابوں میں انہی معمّے و پہیلی اور مقطّعات کا استعمال ہو رہا ہے۔ لوگوں نے ہی عام طور پر اس کو قبول نہیں کیا بلکہ گورنمنٹ نے اپنے محکوں۔ ریلوں۔ سٹیشنوں کو بھی یہی ٹیکا لگایا ہے۔ فارن آفس کی تمام تحریروں کا انہیں پر مدار ہے جو حکومت کی اصل کَل ہے۔ ڈی ۔ اے۔ وی دیانندی کالج اِس پہیلی سے زینت یافتہ ہیں۔ یونانی ( ا)اغطس۔ اگست، ایلوس،بنرس،سال،ایٹیکو پُرانے وغیرہ ندرہ کلمات کے اختصار پر بولا کرتے ہیں (ل) لوئیس۔ لوکس۔ جگہ کے معنی میں۔ (م) مجسٹریٹ۔مانومنٹ یعنی یادگار پر بولتے ہیں…اوم کا لفظ جو آ۔اُ۔م کے مقطّعات سے بنا ہے… اپنے ابتداء اور انتہاء سے قرآن کے مقطّع الم کے الف پہلے حرف اور میم آخری حرف کا شاہد ہے…
صحابہ کرامؓ نے فرمایا ہے۔ دیکھ یہ وہی اصحاب الرّسول ہیں جن کی نسبت تُو نے بکواس کی ہے کہ اصحاب الرّسول بھی زور لگا چکے مگر… ابِن جریر۔ معالم التنزیل ابِن کثیر ۔ تفسیر کبیر۔ دُرِّمنثور وغیرہ میں لکھا ہے علی المرتضیٰ، ابِن مسعود اور ناس مِن اکثر اصحاب النّبی اور ابِن عبّاس کے نزدیک یہ تمام حروف جو سُورتوں کے ابتداء میں آئے ہیں اسمائِ الہٰیّہ کے پہلے اجزاء ہیں۔ ابِن جریر نے بہت بسط سے اِس بحث کو بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ قرآن کریم کُھلی عربی میں ہے پھ ممکن نہیں کہ اس میں ایسے الفاظ ہوں جو ہدایتِ عامہ کے لئے نہ ہوں پھر صحابہؓ و تابعین کی رایات کا بسط کیا ہے۔ آخر کہا ہے کہ ان مقطّعات کو صحابہ کرامؓ نے اسمائِ الہٰیّہ کا جُزو مانا ہے اور بعض نے ان پر اسمائِ الہٰیّہ کا اطلاق کیا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ ان سے قَسم لی گئی ہے ان کو اسماء السور، القرآن، مِفتاح القرآن بھی کہتے ہیں۔ آخر مجاہد کی رایت لی ہے کہ یہ بامعنی الفاظ ہیں اور الربیع بن انس تابعی کا قول نقل کیا ہے کہ ان کے بہت معنی لینے چاہئیں اور یہ بھی کہا کہ یہ اسماء و افعال کے اجزاء ہیں۔
بالآخر الربیع بن انس کی روایت ر کہا کہ یہ سب معانی صحیح ہیں اور ان میں تطبیق دی ہے۔ مَیں کہتا ہوں بات کیسی آسان ہے کیونکہ ان حروف کا اسمائِ الہٰیّہ کی جزو ہونا تو قول حضرت علی المرتضٰی علیہ السّلام کا ہے اور ابِن مسعود اور بہت صحابہ اور ابِن عبّاس کا، رضوان اﷲ علیہم اجمعین۔ پس یہ معنے اصل ہوئے اور جن لوگوں نے کہا کہ یہ اسمائِ الہٰیہ ہیں انہوں نے اصل بات بیان کر دی کیونکہ آخر ان اسماء سے اسمائِ الہٰیہ ہی لئے گئے اور چونکہ اسماء الہٰیہ کے ساتھ قَسم بھی ہوتی ہے اِس لئے یہ تیسرا قول بھی پہلا قول ہی ہؤا۔ پھر چونکہ سُورتوں کے نام ان کے ابتدائی کلمات سے بھی لئے جاتے ہیں اِسی واسطے فاتحتہ الکتاب کو اور سُورہ اِخلاص کوکہتے ہیںاور اِسی لئے یہ حروف مفاتح السور اور اسماء السور ہوئے اور چونکہ ہر ایک سورۃ کو قرآن کہتے ہیں جیسے آیا ہے اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا اور فرمایا ہے وَ اِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ۔اِس لئے بعض نے ان کو اسماء القرآن بھی کہا ہے۔ پس مجاہد کا قول کہ یہ حروف موضوع ہیں معانی کے لئے۔ اور ربیع بن انس کا یہ قول کہ ان کے بہت معانی ہیں درست و صحیح ہے اور یہ تمام اقوال پہلے قول کے مؤید ہیں اور انہی معنوں کے قریب بلکہ عین ہے وہ قول جو ابِن جریر میں ہے کہالم کے معنی اَنَا اللّٰہُ اَعْلَمُ ہیں۔پس جو معانی صحابہ کرامؓ نے کئے ہیں وہ بالکل صحیح ہوئے ۔اوّل ت اِسی لئے کسی نے ان صحابہ کرامؓ پر اعتراض نہیں کیا۔ نہ صحابہ ؓ نے اور نہ تابعین نے۔ نہ پچھلے علماء نے۔ اور اگر کسی نے ان کے علاوہ کہا تو اس کا کہنا صحیح ہے جیسا ہم نے دکھایا ہے۔ ابِن جریر نے اِن کُل معانی بلکہ ان کے سوا اور معانی لے کر سب کو جمع کرنے کو بہت پسند کیا ہے اور اپنے طور ان کو جمع کر کے بھی دکھایا ہے۔ ابِن جریر کی یہ عبارت بڑی قابل قدر ہے جو آخر مقطّعات پر لکھی ہے اِنَّہٗ عَنْ ذِکْرِہٖ اَرَادَ بِلَفْظِہِ الدَّلَالَۃَ بِکُلِّ حَرْفٍ مِنْہُ عَلٰی مَعَانٍ کِثَیْرَۃٍ لَا مَعْنَی وَاحِدٍ کَمَا قَالَ الرَّبِیْعُ عَنْ اَنَسٍ وَ اِنَّ کَانَ الرَّبِیْعَ قَدْ اِقْتَصَرَ عَلٰی مَعَانٍ ثَلٰثَۃٍ دُوْنَ مَازَادَ علیھا۔ وَالصَّوَابُ فِیْ ذٰلِکَ عِنْدِیْ اَنَّ کُلَّ حَرْفٍ مِنْہُ یَحْوِی مَا قَالَہُ الرَّبِیْعُ وَمَا تَالَہٰ سَائِرُ الْمُفَسِّرِیْنَ وَاسْتَثْنٰی شَیْئًا۔ ربیع کے تین معنی یہ ہیں ۔اوّلؔ الم میں الف سے اﷲ ۔ لام سے لطیف اور میم سے مجید۔ دومؔ۔الف سے اﷲ تعالیٰ کے آلاء و انعامات اور لام سے اس کا لطف اور میم سے اس کا مجد پھر الف سے ایک لام سے تیس۔ میم سے چالیس عدد۔ ابِن جریر کا منشاء یہ ہے کہ اگر کوئی اَور معانی بھی لے لے ( جیسے کہا گیا ہے کہ الف سے قصّہ آدم اور لام سے حالات بنی اسرائیل اور میم سے قصّئہ ابراہیم مراد ہے) جب بھی درست ہے۔ زمخشری اور بیضاوی نے علومِ قراء ت و صَرف کے بڑے بڑے ابواب کا پتہ ان سے لگایا اور شاہ ولی اﷲنے غیب غیر متعیّن کو متعیّن اِس عالَم میں مانا ہے اور مبرد اور دیگر محقّقین فراء و قطرب و شیخ الاسلام الامام العلّامہ ابوالعبّاس۔ ابِن تیمیہ اور الشیخ الحافظ المجتہد ابوالحجاج المزی اور زمخشری کا قول ہے کہ یہ منکروں کو ملزم کرنے کے لئے بھی بیان کئے گئے ہیں مثلاً مخالفوں کو تحدّی سے کہا گیا کہ الف حرف ہے جو گلے سے نکلتا ہے اور لام درمیانی مخارج سے اور میم آخری مخرج ہونٹ سے ہے۔ پس جبکہ ان معمولی لفظوں سے قرآن کریم بنا ہؤا ہے تو تم اس کی مثل کیوں نہیں بنا سکتے۔
اب ہم تینوں الزامی اور تینوں نقلی جواب سے فارغ ہو کر عقلی جواب دیتے ہیں۔ ناظرین کیا معجزہ قرآنی نہیں کہ مقطّعاتِ قرآن کریم پر مخالفانِ اِسلام کا اعتراض ہو اور تمام دُنیا کے مخالفانِ اسلام اسلامیوں سے بڑھ چڑھ کر ان حروفِ مقطّعہ کے استعمال میں مبتلا دکھائے جائیں اور ہم نے تو صحابہ کرامؓ کے اقوال سے ان کے معانی کو ثابت کیا ہے مگر معترض لوگ اَ۔اُ۔م کے معنی ملہمان وید کے صحابہ سے بتائیں تو سہی! دو اَرب برس کی تصنیف کتاب کونسی ہے جس میں یہ معانی لکھے ہوئے ہیں جو سندھیا ورہی بلکہ ستیارتھ کے پہلے ہی صفحے میں لکھے ہیں اور پھر جب اسلام کی کتب میں یہ معانی موجود ہیں تو ان پر اعتراض کیوں ہے اور اِس طرح اختصار سے کلام کرنا تو عربی علوم میں عام مروّج ہے بلکہ اس کے علاوہ کئی طریق سے اختصار کیا جاتا ہے مثلاًبَسْمَلَ۔حَمْدَلَ۔حَوْتَلَ۔رَجَّعَ۔ھَلَّلَ اورمثلاً خود قرآن کریم کے آیات کے نشان پر ط مطلق اور ج جائز۔
صؔ صلی کا اختصار ہے اور قرآنوں کے اُوپر ع رکوع کا چنانچہ ؟ اِس طرح کے نشانوں میں اُوپر کا نشان پارہ کا یا سورۃ کا اور اُوپر والا اگر پارہ کا نشان ہے تو نیچے والا سورۃ کا اور اگر اُوپر والا سورۃ کا ہے تو نیچے والا پارہ کا۔ درمیانی ہندسہ آیات رکوع کا نشان ہے۔
علمِ قرأت میں فمی بشوق کے مقطّعات سات منازل قرأت کا نشان ہے۔
علمِ حدیث میں نا۔ انا ۔ح۔ ت ۔ ن ۔د۔ ق م۔ خ ۔حدّثنا ۔اخبرنا ۔حول السند۔ترمذی۔نسائی۔ابوداؤد۔ متفق علیہ۔ مسلم و بخاری کے نشآن ہؤا کرتے ہیں۔
علمِ فِقہ میں صدہا علامات ہوتی ہیں۔ ان کا ایک فقرہ ہے مسئلہ البئر حجط۔کنوئیں کے پانی میں ایک خاص امر میں اختلاف پر لکھا ہے کہ اِس وقت پانی نجس ہؤا ہے یا بر حال رہتا ہے یا طاہر و پاک رہتا ہے۔
علمِ صَرف میں سؔ سمٰع یسمع کا نشان، کؔکرم، نؔ نصر ،ض ضرب کا،ف فتح یفتح کا۔ نحو میں ط عطف کا نشان ، حد تعلق کا، مف مفعول کا وغیرہ۔
لغتؔ میں ۃبلاۃ کا،ج جمع کا، کاف کسرہ عین ماضی، فتح عین مضارع کا نشان ہے۔ طِبّ میں مکدمن کل واحد کا نشان جس کے معنٰی ہیں ہر ایک سے۔
قبل اِس کے کہ عقلی جواب بیان ہو ہمیں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ عقلاء کی بعض اصطلاحات بیان کی جاویں اور اِس وقت ہم صرف ویدک معتقدوں اور اسلامی فلسفیوں کی اصطلاحات پر اکتفا کرتے ہیں۔ علّتِ فاعلیہ یا فاعل کام کرنے والے کو کہتے ہیں۔ سنسکرت میں اِس کا نام نست کارن ہے، علّتِ مادیہ: مادہ جس سے کوئی چیھ بنتی ہے اس کو اپاوان کہتے ہیں۔ علّتِ صوریہ صورت۔ شکل ار آلات وغیرہ کو سادہارن کارن کہتے ہیں۔ علّتِ غاتیہ اصل مقصود کو پریوجن کہتے ہیں مثلاي اِس کتاب کا مصنّف و متکلّم فاعل ہیاور اس کا نست کارن۔ مصنّف کے علوم وغیرہ اور پاوان کارن ہے اور اس کے آلات و اسباب مثلاً قلم و سیاہی کاغذ وغیرہ سادہارن کارن ہیں۔ اس کا اصل مقصود یعنی ناجہموں کے سامنے صداقتوں کا اظہار اس کا پریوجن ہے۔ (۱) انہی اقوال یا اچھے لوگوں کی بات سے سَند لینا سمعی دلیل ہے اور اس کو سنسکرت میں شَبد کہتے ہیں (۲) تشبیہ کو ایمان کہتے ہیں۔ عِلّت سے معلول کو سمجھنا لمِؔ کہلاتا اور معلول سے علّت کو سمجھنا اِنّ ہے(۳) اور استقراط سے پتہ لگانا تمثیل ہے اور ان سب کو انومان کہتے ہیں ۔ (۴) مشاہدات سے استدلال سنسکرت میں پرتکیس ہے حو اِس ظاہرہگ سے استدلال ہو یا حواسِ باطنہ سے۔
دلائل میں پہلی دلیل شبد ہے اِس سے ہم نے استدلال نقلی دلائل میں کیا ہے۔
دوسری دلیل ایمان یا تشبیہ ہے۔ اِس دلیل سے ہم نے یوں کام لیا ہے کہ جس طرح مقطْعات تمہارے مقدْس وید میں ہیں اسی طرح ہماری مقدّس کتاب میں ہیں۔ جس طرح وہاں اسمائِ الہٰیّہ لئے گئے ہیں اسی طرح یہاں لئے گئے ہجیں فرق اتنا ہے کہ اسلامیوں کے پاس ایک قاعدہ ہے اور تمہارے یہاں دھینگا دھانگی ہے کہ آؔ سے یہ لو اور اُؔ سے یہ اور مؔ سے یہ مراد لو۔
تیسری دلیل انومان سے ہم نے یوں کام لیا ہے کہ ہم نے استقراء کیا ہے کہ ہندو، سناتن، آریہ، یوروپ، امریکہ کے لوگ مقطّعات کو اجزاء کلمات تجویر کرتے ہیں تو ہم نے اسی استقراء سے مقطّعات قرآنیہ کو اجزاء کلماتِ طیّبات لیا ہے۔
اب چوتھی دلیل پرتیکس یُوں ہے کہ کلمہ طیّبہ الٓمّٓ ۔ذٰلِکَ الْکِتٰبُ۔لاَ رَیْبَ فِیْہِ۔ چار جملے ہیں۔ چوتھا جملہ مطلب وغایت کو ادا کرتا ہے اور تیسرا جملہ سروپ کو۔ دوسرا جملہ مادہ کتاب کہ آپ کو تو ان مشاہداتِ ثلاثہ سے یہ پتہ لگا کہ پہلا جملہ اِس کتاب کے متکلّم و مصنّف کا پتہ دیتا ہے۔ (نورادین صفحہ ۲۴۳ تا ۲۴۸)
حروفِ مقطّعات کے معنے
یہ حروف اسمائِ کے ٹکڑے ہیں اور ان کے ساتھ اُن اسمائِ الہٰی کی طرف اشارہ کیا جا تا ہے کہ جن کی یہ جُزو ہوتے ہجیں اور یہ دعوٰی ہم از خود نہیں کرتے بلکہ حضرت علیؓ اور ابِن مسعود ؓ اور ابِن عبّاسؓ اور بہت سے صحابہ رضوان اﷲ علیہم اجمعین سے اور خیرالتابعین فی التفسیر مجاہد اور سعید بن جبیر اور قتادہ اور عکرمہ اور حسن اور ربیع بن انس اور سعدی اور شعبی اور اخفش اور تابعین کی ایک بڑی جماعت سے مروی ہے کہ ان حروف کے ستاھ اسمائِ الہٰیّہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور یہ کہ یہ ان اسماء الہٰی کے ابعاض اور اجزاء ہیں اور ضحاک نے اِس پر یہ اِستدلال کیا ہے کہ کلمہ کے بع کو ذکر کر کے پُورا کلمہ مراد لینا یہ عربوں کی عادت میں داخل ہے اور اس کی تائید کے لئے اُس نے کچھ اَشعار پیش کئے ہیں بلکہ جو قرآنِ مجید کہ ہدایت اور شفا ہے اس میں بھی تم دیکھتے ہو کہ وقفوں کے رُُوز کے لئے حروف لکھے ہوئے ہیں مثلاي مطلق کا نشان ط ہے اور جائز کا نشان ج ہے اور رکوع کا نشان حاشیہ پر ع ہے۔ اِسی طرح کتبِ احادیث میں نا۔ انا۔ نبا۔ ح رموز ہیں اور علمِ کلام میں ہٰذا خلف کے عوض ہفؔ ہوتا ہے اور کتبِ فِقہ میں حجط وغیرہ رموز موجود ہیں اور کتبِ لُغت میں ل۔ س۔ ن۔ ض ۔ ک۔ ف۔ ح بابوں کے رموز ہیں اور ت۔ ع۔ ج۔ بلدہ اور معروف اور جمع کے رموز ہیں اور کتبِ طِبّ میں مکد من کل احد کی رمز ہے۔ پس یہ سب رموز اس بات کے شاہد ناطق ہیں کہ یہ طریقہ اختصار عربوں میں دائر اور سائر ہے بلکہ قرآن مجید اور احادیث میں بھی موجود ہے اور اِس زمانہ میں تو قریباً ہر ایک قوم میں اِس کی اِس قدر کثرت ہے کہ جس کے ثبوت پیش کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ پس جبکہ یہ طریقِ اختصار زبانِ عرب بلکہ خود قرآن میں موجود ہے اور بہت سے جلیل القدر صحابہ ؓ اور اہل علم تابعین اور ائمہ سے مری ہے تو اَ ب اس سے بے وجہ عدول کرنا اور محض احتمالاتِ بے وجہ سے ان کے معنوں میں اشتباہ پَیدا کر کے ان کو متشابہات میں داخل کرنا درست نہیں اور بعض لوگ بعض روایات کو بزعمِ خود ان معنوں کے مخالف تصوّر کرتے ہیں حالانکہ فی الحقیقت وہ انہی معنوں کی مؤید اور مثبت ہیں نہ مخالف۔ مثلاًحضرت ابِن مسعودؓ اور ابِن عبّاسؓ اور شعبی سے مروی ہے کہ یہ حروف اسمائِ الہٰی ہیں تو اگرچہ بعض نے غلطی سے اِس روایت کو پہلی روایت کے خلاف خیال کیا ہے لیکن فی الحقیقت یہ اس کی مؤید ہے کیونکہ دونوں روایتوں کا مطلب یہ ہے کہ ان حروف سے مراد اسمائِ الہٰی ہے۔ اگرچہ اِس قدر فرق ہے کہ پہلی میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ یہ حروف اسمائِ الہٰی پر اِس لئے دلالت کرتے ہیں کہ یہ اُن کی جُزو ہیں،اور دوسری روایت میں یہ نہیں بیان کیا گیا بلکہ جُزو کا کُل پر بلکہ بدل کا مبدّل منہ پر اطلاق کر کے انہی حروف کو اسماء بول دیا ہے اور یہ استعمال عام اور شائع ہے اور ان دونوں روایتوں کے متحد المطلب ہونے پر یہ بڑا قرینہ ہے کہ قائل دونوں کے ایک ہی ہیں اور دوسری کی عبارت ان معنوں کی متحمّل ہے جو کہ پہلی کے معنی ہیں۔ اِسی طرح بعض سے مروی ہے ک ہ یہ حروف اسمائِ الہٰی ہیں تو یہ بھی مخالف نہیں بلکہ پہلی روایت کے مؤید ہے کیونکہ پہلی روایت کے مطابق ان سے مراس اسمائِ الہٰی ہیں اور ظاہر ہے کہ اسمائِ الہٰی عموماً خدا کی صفت اور ثنا ہوتے ہیں۔ مثل ربّ العالمین، الرحمن،الرحیم،الرزاق،ذوالقوّۃ، المتین وغیرہ کے۔ پس یہ روایت بھی مؤید ہینہ مخالف۔ اِسی طرح حضرت ابِن عباسؓ اور عکرمہ سے مروی ہے کہ یہ حروف قَسم ہیں کہ جن کے ساتھ قَسم کھائی گئی ہے تو یہ بھی مخالف نہیں بلکہ مؤید ہے کیونکہ قَسم بھی اسمائِ الہٰی کے ساتھ کھانے کا حکم ہے۔ پھر بعض مفسّرین نے لکھا ہے کہ الم نام ہے سُورۃ کا اور یہ وہ بات ہیکہ جس پر اکثر مفسّرین کا اِتفاق ہے اور اکثر محققین نے اِسی کو پسند کیا ہے اور خلیل اور سیبوَیہ جیسے جلیل القدرامام بھی اِسی طرف گئے ہیںاور اس پر ان احادیث سے اِستدلال کیا گیا ہے کہ جن میں کسی سُورت کو ان حروف کے ساتھ نامزد کر کے ذکر کیا گیا ہے جیسا کہ صحیحین کی حدیث میں ہے کہ آنحضرتؐجمعہ کی صبح کی نماز میںالم سجدۃ اور ھل اَتٰیپڑھا کرتے تھے۔ اور ایک حدیث میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یٰس قرآن مجید کا دل ہے اور ایک دوسری میں آیا کہ آنحضرتؐ نے صؔ میں سجدہ کیا۔ مجاہد نے کہا کہ یہ سورتوں کے اوّل کے حکم میں ہیں یعنی جس طرح سُورتوں کے اوّل سے ان سورتوں کو نامزد کیا جاتا ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے سورۂ قُلْ یٰٓاَیُّھَا الْکٰفِرُوْنَ یا قُلْ ھُوَ اﷲُ و غیرھما ۔اِسی طرح اِن حرفوں سے بھی ان سورتو کو نامزد کیا جاتا ہے اور یہی قول ہے مجاہد اور حس اور زید بن اسلم کا۔ تو یہ قول بھی مخالف نہیں بلکہ مؤید ہے کیونکہ جب یہ مسلّم بات ہے کہ سورتوں کے نام ان کے ابتداء کے ساتھ رکھا جاتا ہے اور ان کے ادائل کے فی الحقیقت کچھ معنے بھی ضرور ہی ہوتے ہیں تو پھر یہ حروف جو سُورتوں کے ادائل میں ہیں اگر باوجود اسمائِ الہٰی کی طرف مشیر ہونے کے ان سورتوں کے نام بھی ہوں تو اِ س میں کیا حرج ہے۔
پھر مجاہد سے مروی ہے کہ یہ قرآن مجید کے نام ہیں اور یہ بھی مخالف نہیں بلکہ مؤید ہے کیونکہ ہر ایک سورۃ قرآن ہے تو جب یہ سورتوں کے نام ہوئے تو بالضرور قرآن مجید کے ہی نام ہوئے اور جس طرح کہ سوورتوں کے اسماء اور اسمائِ الہٰ ی کے اجزا ء ہونے میں کسی قِسم کی منافات نہیں وبلکہ دونوں ہو سکتیہیں اسی طرح اسماء قرآن مجید اور اسمائِ الہٰی کے اجزاء ہونے میںکوئی مخالفت نہیں اور نہ اسماء قرآن مجید اور اسماء الہٰی ہونے میں کچھ نقص عائد ہو سکتا ہے۔
پھر مجاہد سے مروی ہیکہ حروف سورتوں کے مفاتح ہیں اور چونکہ سورتیں بھی قرآن مجید ہیں لہٰذا وہ مفاتح القرآن بھی ہیں اور یہ بھی مخالف نہیں بلکہ مؤیّد ہے اِس لئے کہ سورتوں کا اِفتتاح بھی تسبیح و تحمید اور اسمائِ حسنیٰ کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ پس اگر باوجود ان کے اسمائِ الہٰی کی طرف مشیر ہونے کے مفاتح القرآن بھی ہوں تو کچھ حرج کی بات نہیں اور پھر بعض کا قول ہے کہ یہ اسماء الہٰی اور افعال سے ہیں اور یہ حضرت ابِن عبّاسؓ سے مروی ہے تو یہ بھی مخالف نہیں بلکہ مؤید ہے اِس لئے کہ اسمائِ الہٰی میں سے وہ بھی ہیں جو افعالِ پر دال ہیں۔
پھر بعض نے کہا ہے کہ یہ معنے کیلئے یا بہت معانی کے لئے موضوع ہیں تو یہ بھی مخالف نہیں بلکہ مؤید ہے اور پہلا مجاہد ہی کا قول ہے اور مؤید اِس وجہ سے ہے کہ مجاہد وغیرہ نے جو معنے بیان کئے ہیں وہ وہی ہیں جو پہلے ہم بیان ک آئے ہیں اور ان کا مؤید ہونا ہم پہلے بیان کر آئے ہیں اور وضع یہاں پر مجاز کو بھی ًامل ہے کہ جس کو وضعِ نوعی کہتے ہیں اور اصل معنوں کی تائید اس دلیلِ عقلی سے بھی ہوتی ہے جو کہ اِس دَور کے امام حضرت مسیح موعود اور مہدیٔ مسعود علیہ السّلام نے بیان فرمائی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر ایک واقعی شئی کے لئے چار عِلّتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایکؔ علّتِ ماری کہ جس میں وہ شئی بننے کی استعداد اور قابلیّت ہوتی ہے۔ دومؔعلّتِ صوری کہ جس کے ساتھ وہ چیز موجود ہو جاتی ہے۔ سومؔ علّتِ غائی۔ اور یہ وہ غرض اور فائدہ ہے کہ جو اس شئے پر مرتّب ہوتا ہے اور اسی کیلئے وہ شئے بنائی جاتی ہے۔ اور چہارم علّتِ فاعلی، اور یہ وہ ہے جو کہ اس شئے کو بنانے والی ہوتی ہے ۔ (رسالہ تعلیم الاسلام قادیان بابت ستمبر ۱۹۰۶ء)
تو یہاں پر علّتِ مادی ہے یعنی چو کہ اﷲ کے علم میں ہے اور علّتِ صوری ہے اورعلّتِ غائی ہے۔اب باقی رہی علّتِ فاعلی۔ تو یقینا ثابت ہوتا ہے کہ اس کا بیان الم میں ہے۔ پس ثابت ہؤا کہ الف،لام میم میں اشارہ ہے اﷲ ،لطیف،معلّم اور مُرسِل اور مُنزِل کتاب کی طرف یا کی طرف یا اَنَا اﷲُ اَعْلَمُکی طرف یعنی مَیں ہوں بہت جاننے والا اﷲ ۔ پس اِس دلیلِ عقلی سے بھی یہی ثابت ہے کہ اِن حروف سے مراد اسمائِ الہٰی ہیں یا بالفاظِ دیگر یُوں کہنا چاہیئے کہ یہ اﷲ علیم کے ان پروانوں پر اپنے خاص دستخط ہیں۔ (رسالہ تعلیم الاسلام قادیان بابت ماہِ ستمبر ۱۹۰۶ء)

وہ جو کہ سُورۃ فاتحہ میں لوگوں کی طلب کی گئی تھی وہ بتلائی جاتی ہے کہ اگر تم انعاماتِ الہٰی سے بہرہ ور ہونا چاہیتے ہو تو یہ ہدایت نامہ جو کہ تم کو دیا جاتا ہے اس پر عمل کرو۔ (البدر ۱۶؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۹۶)
۔یہ وہ لکھی ہوئی چیز ہے۔ لکھی ہوئی اِس لئے فرمایا کہ جب آیت نازل ہوتی تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم بڑے اہتمام سے اپنے سامنے لکھا لیتے۔ دوسری وجہ یہ کہکتیبۃ لشکرکو بھی کہتے ہیں اور جیسے لشکر بہت سے افراد کو اپنے اندر جمع رکھتا ہے اسی طرح یہ کتاب بہت سے مضامین کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے اور جیسے لشکروں سے دشمن بھاگتے ہیں ایسے ہی شبہات انسانیہ اس کتاب کے لشکر سے بھاگ جاتے ہیں اِس لئے فرمایا ذلک الکتب یعنی یہ ایک عظیم الشّان کتاب ہے جس کے عظیم الشّان ہونے میں کچھ بھی شک نہیں یا جس میں کسی قِسم کی کوئی شُبہ والی بات نہیں۔
پھر میں جو فرمایایہی ایک کتاب ہے تو اس سے ظاہر ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی آنکھ نے اَور کوئی کتاب نہیں دیکھی جس کو کتاب کہا جا سکے۔ آپؐ کے زمانہ میں بھی ایک کتاب تھی جو حقیقی معنوں میںکتاب کہلا سکے۔
(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍فروری ۱۹۰۹ء)
۔ یہی وہ کتاب ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے اَور کوئی کتابکتاب کہلانے کی مستحق نہیں۔ اس کا ثبوت بنی کریمؐاور آپؐ کی جماعت نے اپنی عملی حالت سے یُوں دیا ہے کہ جب تک انہوں نے قرآن کی اشاعت نہیں کر تی تب تک کوئی دوسری کتاب بالکل نہیں دیکھی۔
بنی کریمؐ نے اس کا اَداب یہ کیا ہے کہ جن امور کے دلائل قرآن شریف نے بیان کئے ہیں ان امور پر آپؐ نے کوئی سِلسلہ دلائل کا بیان قطعًا نہیں کیا۔
۔مکتوب ( مِن اﷲ) ۔ حدیث میں ہے کہ جب جبرئیل علیہ السّلام قرآن شریف لاتے تو حریر پر لکھا ہؤا ہوتا اور خود رسول کریم صلی اﷲعلیہ وسلم کے پاس کاتب موجود ہوتے تھے جب آیت نازل ہوتی بڑی احتیاط سے اسی وقت لکھائی جاتی۔
۔ابنِ عبّاس ،مجاہد ، سعید، اخفش، ابوعبیدہ نے کہا ہے کہ یہاں پر اِس کے معنے ھذاکے ہیںیعنی اس کا لام ؔدُوری کے لئے نہیں بلکہ تاکید کے لئے ہے جیسا کہ قرآنِ مجیدمیں آیا ہے (آلِ عمران: ۵۸)(ترجمہ : یہ وہ ہے جو کہ ہم تیرے پر پڑھتے ہیں) اور پھر فرمایا (آلِ عمران: ۶۳)( ترجمہ: بیشک یہ حق بیان ہے) ۔ تو پہلے قرآنِ مجید یا ایک سُورۃ یا ایک واقعہ کے لئے لانااور پھر اسی کے لئے وہاں پر ہیلانا صاف دکھاتا ہے کہ اِن دونوں کے ایک ہی معنے ہیں ورنہ ایک چیز ایک ہی وقت میں بعید اور قریب کِس طرح ہو سکتی۔ اور ایک دوسری آیتِ کریمہ میں قرآنِ مجید کے لئے بھی آیا ہے جیسا فرمایا (ص : ۳۰)یہ کامل کتاب ہے جو ہم نے تیری طرف اُتاری ہے۔ تو اِس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ،کے معنوں میں ہے اور فراء نے کہا کہ دُوری کے لئے ہے لیکن دُوری اکثر تو مکانی ہوتی ہے اور کبھی مرتبہ کے لحاظ سے ہوتی ہے اور یہاں پر بھی مرتبہ کے لحاظ سے ہے۔ یعنی وہ عظیم الشْان کتاب جو کہ اپنی عظمت اور رفعت کے لحاظ سے نوعِ انسان سے بہت دُور اور اَرفع ہے جیسا کہ حضرت یوسف ؑکی نسبت عزیز مصر کی بی بی کا قول نَقل ہے (یوسف : ۳۳)(یہ وہ عظیم الشْان شخص ہے کہ جس کی نسبت تم مجھے ملامت کرتی ہو)۔
(رسالہ تعلیم الاسلام قادیان ستمبر ۱۹۰۶ء) ۔ کے معنے ہلاکت۔ یعنی کوئی ہلاکت اور شک نہیں عربی زبان میں کا لفظ جُھوٹ پر بھی بولا جاتا ہے۔ (البدر ۱۶؍جنوری ۱۹۰۳ء)
۔پس ایک کتاب جس میں کوئی ہلاکت کی راہ نہیں یا شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔کے دو معنے ہیں شک و شُبہ اور ہلاکت۔ اور دونوں ہی یہاںخوب لگتے ہیں۔ قرآن کریم میں شک و شُبہ نہیں۔ بالکل درست ہے۔ اِس کی ساری ہی تعلیم یقینیات پر مبنی ہے ظنّی اور خیالی نہیں۔ یا آجکل کی اِصطلاح میں یُوں سمجھ لو کہ قرآنِ مجید میں تھیوریاں نہیں بلکہ بصائر ہیں۔ وہ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُہے۔ پھر قرآنِ مجید میں ہلاکت کی راہ نہیں۔ یہ بھی سچّ ہے کیونکہ اِس میں تو شفاء لِلنّاس ہے۔
(بدر ۴۔ جولائی ۱۹۱۲ء صفحہ ۴) الٓمّٓ۔۔یہ سُورت جس کا نام الم ہے۔وہ کتاب ہے ( جس کے اُتارنے کا موسٰی علیہ السّلام کی کتاب استثناء کے باب ۱۸ میں وعدہ ہو چکا) اِس میں شک و رَیب کی جگہ نہیں۔ (ایک عیسائی کے تین سوال اور اُن کے جوابات صفحہ ۵۰)
۔میںدُعا مانگی گئی تھی کہ ہمیں راہ ہدایت دکھا۔ یہاں منعم علیہم گروہ کا دوسرا نام متّقی رکھ کر فرمایا کہ یہ کتاب ان دعا مانگنے والوں کے لئے موجبِ ہدایت ہے جو انعمتکے مورد بننا چاہتے ہیں یا بن چکے ہیں یا آئندہ بنیں گے سب کے لئے راہنمائی کا قانون ہے۔ حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے اِنسان خواہ کیسا متّقی ہو جائے قرآنِ مجید میں اس کی آئندہ ترقی کے لئے سامان موجود ہے۔
(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍فروری ۱۹۰۹ء)
مَیںنے دُنیا کی بہت سی کتابیں پڑھی ہیں اور بہت ہی پڑھی ہیں مگر ایسی کتاب دُنیا کی دِلرُبا راحت بخش، لذّت دینے والی، جس کا نتیجہ دُکھ نہ ہو نہیں دیکھی جس کو بار بار پڑھتے ہوئے، مطالعہ کرتے ہوئے اور اس پر فِکر کرنے سے جی نہ اُکتائے، طبیعت نہ بھر جائے اور یا بَد خُو دِل اُکتا جائے اور اسے چھوڑ نہ دینا پڑا ہو۔ مَیں پھر تم کو یقین دلاتا ہوں کہ میری عمر،میری مطالعہ پسند طبیعت،کتابوں کا شوق اِس امر کو ایک بصیرت اور کافی تجربہ کی بناء پر کہنے کے لئے جرأت دلاتے ہیں کہ ہرگز ہرگز کوئی کتاب ایسی موجو نہیں اگر ہے تو وہ ایک ہی کتب ہے۔ وہ کونسی کتاب؟

کیسا پیارا نام ہے۔ مَیں سچ کہتا ہوں کہ قرآن شریف کے سوا کوئی ایسی کتاب نہیں کہ اس کو جتنی بار پڑھو جس قدر پڑھو اور جتنا اس پر غور کرو اسی قدر لُطف اور راحت بڑھتی جاوے گی طبیعت اُکتانے کے بجائے چاہے گی کہ اُور وقت اس پر صَرف کرو ۔ عمل کرنے کے لئے کم از کم جوش پیدا ہوتا ہے اور دل میں ایمان ، یقین اور عرفان کی لہریں اُٹھتی ہیں۔
(الحکم ۱۰؍اپریل ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۶)
کلمہ طیّبہ الم۔۔۔ ۔چارجملے ہیں۔ چوتھا جملہ مطلب اور غایت ک ادا کرتا ہے اور تیسراجملہ سروپ ک۔ دوسرا جملہ مادہ کتب کو۔تواِن مشاہداتِ ثلاثہ سے یہ پتہ لگا کہ پہلا جملہ اِس کتاب کے متکلّم اور مصنّف کا پتہ دیتا ہے۔ (نور الدین صفحہ ۲۴۸)
متّقی : عجیب در عجیب حواس ملتے ہیں اور ذاتِ پاک سے اس کے خاص تعلّقات ہوتے ہیں۔ قرآن مجید میں بھی متّقیوں کیلئے آیا ہے یعنی اگر مظفّر و منصور فتحمند ہونا ہو تو بھی متّقی بنو۔ (بدر ۲۳؍جون ۱۹۰۸ ء صفحہ ۹)
ہدایت اُن لوگوں کا حِصّہ ہے جو گناہ آلُود زندگی سے بچنے والے ہوں۔ پھر ایمان بِالغیب رکھیں۔ دعاؤں میں لگے رہیں اور کچھ صدقہ خیرات بھی کریں۔
(تشحیذالاذہان جلد نمبر صفحہ ۱۳۷)
۔ نور ہے متّقیوں کے لئے۔ یہی مروی ہے ابِن مسعودؓ اور ابِن عبّاسؓ اور اَور بہت سے صحابہ ؓ سے۔ اور قرآنِ مجید میں آیا ہے وَاتَّبَعُو النُّوْرَ الَّذِیْ اُنْزِلَ مَعَہ‘ (اعراف : ۱۵۸)اس نور کی اِتْباع کی جو کہ اس کے ساتھ اُتارا گیا ہے۔ اور فرمایا قَدْ جَآئَ کُمْ مِنَ اﷲِ نُوْرٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبِیْنٌ(ضرور اﷲ کی طرف سے تمہارے پاس ایک نور یعنی بیان کرنے والی کتاب آئی ہے)۔
خداوند کریم نے انی کتاب میں یہ تفسِیرفرمائی ہے ۔(بقرہ :۱۷۸) ( لیکن نیکی اس کی ہے جو کہ اﷲپر اور آخرت کے دن پر اور فرشتوں اور کتابوں اور نبیوں پر ایمان لائے اور باوجود مال کی محبّت کے پھر بھی مال دے قرابت والوں اور یتیموں،مسکینوں،مسافروں کو اور گردنوں میں۔ اور جب عہد کرتے ہیں تو اس کو پُورا کرنے والے ہوتے ہیں اور سختی اور تکلیف میں اور جنگ کے وقت صبر کرنیوالے ہوتے ہیں ۔ انہیں لوگوں نے صدق دکھایا اور تقوٰی اخیار کیا ہے) اور دوسرے مقام پر فرمایا ہے(زمر : ۳۴)ر اور جو سچائی لایا اور اس کی تصدیق کی وہی متّقی ہیں) اور فرمایا ۔ ۔

۔( آلِ عمران ۱۳۴ تا ۱۳۶) (جو تیار کیا گیا ہے ان متّقیوں کے لئے جو خرچ کرتے ہیں خوشی اور تکلیف میں اور غصّہ کو کھاتے اور لوگوں سے معاف کرتے ہیں اور اﷲ مخلصوں سے محبّت کرا ہے اور جو کہ جب کوئی بیحیائی کرتے ہیں یا اپنی جانوں پر کوئی ظلم کرتے ہیں تو معًا اﷲ کو یاد کرتے ہیں پھر اس سے مغفرت مانگتے ہیں اپنے گناہوں کی اور اﷲ کے سوا اَور کون ہے گناہوں کی مغفرت کرنے والا اور کئے ہوئے پر جان کر اصرار نہیں کرتے) اور ایک اَور مقام پراتَّقَوْاکے بعد فرمایا ۔(آلِ عمرانؔ۱۷،۱۸) ( جو کہتے ہیں اے ہمارے ربّ ہم ایمان لائے ہیں پس ہمارے گناہ معاف کر اور ہم کو آگ کے عذاب سے بچا ۔ اور صبر کرنے والے اور سچّ بولنے والے اور عبادت بجا لانے والے اور خرچ کرنے والے اور سہریوں کے وقت استغفار کرنے والے ) پھر ایک اَور محل پر ذِکْرًا لِّلْمُتَّقِیْنَ کے بعدفرمایا (انبیاء:۵۰)(جو غیب میں اپنے ربّ سے ڈرتے ہیں اور اس گھڑی سے خوف کرنے والے ہیں) پھر ایک جگہ اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍ الخ کے بعد فرمایا (زاریات:۱۷ تا ۲۰)( بے شک وہ اس سے پہلے مخلص تھے۔ رات سے بہت تھوڑا آنکھ لگاتے تھے اور سحرویوں کے اَوقات مغفرت مانگتے تھے اور ان کے مالوں میں مانگنے والوں اور نہ مانگنے والوں کا حِصّہ تھا) اور تقوٰی کے آثار جو قرآنِ مجید نے بیان فرمائے ہیں اور وہ یہ ہیں۔ تقوٰی سے انسان اﷲ تعالیٰ کا محبوب ہو جاتا ہے۔ فرمایا ( توبہ:۴) ( بے شک اﷲ متّقیوں سے محبت کرتا ہے)اﷲ متقی کا ولی ہوتا ہے۔ فرمایا وَاﷲُ وَلِیُّ الْمُتَّقِیْنَ( جاثیہ:۲۰) ( اور اﷲ متّقیوں کا سر پرست ہوتا ہے)۔ اﷲ ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ فرمایا(بقرہ:۱۹۵)(بے شک اﷲمتقیوں کے ساتھ ہوتا ہے) متقی کی اﷲ قبول کرتا ہے فرمایامائدہ:۲۸)( اﷲ تو متّقیوں ہی سے قبول کیا کرتا ہے ) عاقبت اور آخرت اور اچھا انجام متّقی کیلئے ہوتا ہے فرمایا( اعراف:۱۲۹) (اور آخرت اﷲ کے نزدیک متّقیوں کیلئے ہے ) ( زخرف:۳۶)( اور آخرت اﷲ کے نزدیک متّقیوں کیلئے ہے ) (ص:۵۱) ( بے شک متّقیوں کے لئے اچھا انجام ہے)متّقی کو اﷲ ہر ایک تنگی سے کوئی نہ کوئی مخلصی دے دیتا ہے۔ فرمایاوَ مَنْ یَّتَّقِ اﷲَ یَحْعَ لَّہ‘
( اطلاق:۲۰) ( جو اﷲ سے ڈر کر اس کی نافرمانی سے بچتا ہے تو خدا اس کے لئے خلاصی کی راہ نبکال دیتا ہے ) متّقی کو اﷲ ایسی راہوں سے رزق دیتا ہے کہ اس کو خیال تک نہیں ہوتا۔ متّقی کو اﷲ ایسا امتیازی نشان دیتا ہے کہ اہل دُنیا سے اس کو ممتاز کر دیتا ہے۔ فرمایا(انفال:۳۰) ( اگر تم تقوٰی کرو گے تو اﷲ تمہارے لئے مابہ الامتیاز بنا دے گا) اﷲ علیم متّقی کا معلّم ہوتا ہے۔ فرمایا وَاتَّقُوا اﷲَ وَ یُعَلِّمُکُمُ اﷲُ( بقرہ:۲۰۳) ( اﷲ سے تقوٰی کرو اور اﷲ تم کو تعلیم دے گا) متقی کو جنّت ملتی ہے اور جو چاہے گا وہی اس کو دیا جائے گا۔۔

( نحل:۳۱،۳۲)(متقیوں کا گھر کیا ہی عمدہ ہے اور وہ عدن کے جنٹ ہیں جنمیں وہ داخل ہوں گے۔ ان کے نیچے نہریں بہتی ہونگی ان کے لئے ان میں وہ سب کچھ مہیّا ہو گا جو کہ وہ چاہیں گے۔ اﷲ اسی طرہ متقیوں کو جزادیگا) (رسالہ تعلیم الاسلام قادیان بابت ماہِ ستمبر ۱۹۰۶ء)

۔متّقی کون لوگ ہیں جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔ غیب الغیب تو اﷲ کی ذات ہے پھر مابعدالموت حالات۔ پھر ملائکہ، رسول اور اس کی کتابیں اس میں شامل ہیں۔ رسول بحیثیّت انسان ہونے کے اس کی ذات غیب میں داخل ہے۔
(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍فروری ۱۹۰۹ء)
ایمان لاتے ہیں۔ ایمان کہتے ہیں ماننے کو۔ اِس طرح سے ماننا کہ جو دِل کی بات ہے وہ دِل سے مانی جاوے۔ جو ہاتھ سے ماننے کی ہے وہ ہاتھ سے مانی جاوے۔ غر اِسی طرح زبان، آنکھ، کان اور ہر ایک اعاء سے جو بات حسب فرمودۂ الہٰی ماننے کی ہے وہ مانی جاوے۔
اعضاء سے اِس طرح مانا کرتے ہیں کہ اِس بات یا امر کو عملاً کر کے دکھلا دیا جاوے۔
۔ اِس سے مراد اﷲتعالیٰ بھی ہے کیونکہ وہ ایک نہاں درنہاں ہستی ہے جو اِن آنکھوں سے نہیں دیکھی جاتی اِن ہاتھوں سے نہیں ٹٹولی جاتی۔ اِن کانوں سے اس کی آواز نہیں سُنی جاتی۔ یہ اس کی صفت ہے منجملہ اَور صفات کے۔
اِس کے معنے تنہائی کے بھی ہیں جیسے فرمایا یَخْشَرْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَیْبِ یعنی ایمانداری کی یہ نشانی ہے کہ عالمِ تنہائی میں جب اس کے پاس کوئی نہیں ہوتا نہ کوئی رشتہ داری، نہ برادری، نہ قوم، نہ شاہی چوکیدار وغیرہ ت اس وقت جن جرائم کو وہ کر سکتا ہے ان کو اِس لئے نہیں کر تا کہ خدا کی ہستی پر اُسے یقین ہے اور وہ جانتا ہے کہ اگر کوئی اَور نہیں دیکھتا تو خدا کی ذاتِ پاک دیکھ رہی ہے۔ ایسے عالم ِتنہائی میں گناہوں سے بچنا دراصل ایمان کا ثبوت اور اس کا پتہ ماہِ رمان میں بھی خوب مِلتا ہے جبکہ ایک شخص اپنے گھر کے اندر کوٹھڑی میں بیٹھا ہے پینے لیلئے سرد پانی، کھانے کے لئے نعمتیں اور شہواتی ضرورتوں کے لئے بیوی موجود ہے۔ کوئی اُسے دیکھنے والا نہیں دِل بھی للچاتا ہے مگر پزر خدا تعلایٰ کے خوف سے وہ پرہیز کرتا ہے۔ اکثر لوگ جب انے محلہ یا شہر کو چھوڑ کر دوسرے ممالک میں چلے جاتے ہیں تو سرارتوں اور بدکاریوں میں دلیر ہو جاتے ہیں۔ اِس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اپنے مقام پر ان کو برادری اور قوم وغیرہ کا ڈر ہوتا ہے جب وہ نہ ہو تو پھر کُھلم کُھلا وہ جا چاہتے ہیں کرتے ہیں۔ اگر ان کا ایمان اﷲ تعالیٰ مقتدر ہستی پر ہوتا تو جہاں رہتے گناہ سے بچتے۔ یہ ایک لطیف حقیقت سے معلوم ہوتی ہے۔
وہ تقوٰی جو کہ ہر ایک کامیابی اور فلاح کی جَڑ ہے اس کا ابتداء کیوں سے شروع ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر ایک کامیابی خواہ دُنیا کی ہو خواہ دین کی، اس کا ال اصول ایمان بالغیب ہی ہے اور اسی کے ذریعے سے انجام کار بڑے بڑے علوم اور باریک در باریک اسرار کا پتہ لگتا ہے۔ مثال کے طور پر دیکھو کہ اگر ایک لڑکا ابتدائی قاعدہ شروع کرتے وقت اگر الف کو الف نہ مانے اور اُستاد سے کہے کہ تم اسے الف کیوں کہتے ہو کچھ اَور نام لو تو کیا وہ کچھ ترقی کر سکتا ہے۔ ہرگز نہیں۔ بہرحال اُسے ماننا پڑے گا کہ جو کچھ استاد کہتا ہے وہ ٹھیک ہے تو ہی ترقّی کرے گا۔
پھر جس قدر علوم۔ ریاضی، اقلیدس، الجبرا اور جغرافیہ، طبعی وغیرہ ہیں ان میں جب تک اوّل اوّل کچھ باتیں فرضی طور پر نہ مان لی جاویں تو آگے اِسان چل ہی نہیں سکتا۔ ابتداء میں جب وہ کچھ مان کر آگے چلتا ہے تو پھر بڑے بڑے علوم و فنونِ حقّہ کا دروازہ اس پر کُھل جاتا ہے۔
محکمہ پولیس جب کسی مقدمہ کا سراغ لگاتا ہے تو وہ بعض اَوقات شریر لوگوں کی بات پر بھی اعتبار کر لیتا ہے اور پھر ان فرضی باتوں کے ذریعے سے مقدمات کی اصل حقیقت کو پا لیتا ہے۔ غرضیکہ دیکھا جاتا ہے کہ اکثر فرصی باتوں کو مان کر انسان بڑے بڑے علوم حاصل کر لیتا ہے ۔ اِسی طرح اگر دہریہ طبع لوگ اﷲ تعالیٰ کو فرضی مان کر ہی آنحضر ت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیم کے مطابق کام کریں تو دیکھ لیں کہ کیا کیا نتائج نکلتے ہیں اور وہ لوگ جن کو براہِ راست مکالمہ الہٰیہ کا شرف حاصل نہیں ہے ان کے لئے اﷲ تعالیٰ ابھی غیب میں ہی ہے اگر وہ بھی فرض کر کے اﷲ تعالیٰ سے دعائیں شروع کروادیں تو نتائجِ حَسنہ پالیویں گے۔
ایمان بالغیب کی حقیقت کو حضرت احمد مُرسل یزدانی مسیح موعود علیہ اللصّلٰوۃ والسّلام نے اپنی کتاب’’آئینہ کمالاتِ اسلام‘‘ کے صفحہ ۳۳۰ میں اور اپنی دوسری مقدّس تالیفات میں بھی دکھایا ہے وہاں دیکھ لیا جاوے کہ انسانی نجات کے واسطے کِس قدر ضرورت ایمان بالغیب کی ہے اور اگر یہ نہ ہو تو پھر دُنیا میں کوی بھی ایسا عمل ہرگز نہیں ہے کہ جس کے ذریعے سے انسان انعاماتِ الہٰی کا مستحق ہو سکے۔ کیونکہ جیسے انسان دُور سے ایک دھوآں دیکھ کر یہ گمان کرتا کہ وہاں آگ ہو گی اور اس وقت اس کا ایک ظنّی عِلم ہوتا ہے جب تک وہ اس دھوئیں کی طرف قدم بڑھا کر نہ چلے اور اس آگ میں ہاتھ ڈال کر نہ دیکھ لیوے تب تک تفصیلی علم کا مرتبہ نہیں حاصل کر سکتا۔ در اصل ایسی علمی حالت کا نام ایمان ہے اسی طرح بعض قرائِن مرجعہ سے اس کو ایک ظنّی عِلم خدا کی ہستی کا پیدا ہوتا ہے وہ اس کے دل میں ایک جوش اس ہستی کا یقینی علِم حاصل کرنے کے لئے پیدا کرتا ہے جو کہ اس کی ترقّیات کا موجب ہوتا ہے۔
ظنّی امور سے یقینی امور کی طرف آنے کے لئے چونکہ انسان کو ضرور کچھ نہ کچھ محنت کرنی پڑتی ہے اور اس کے دِل میں ایک اضطراب ہوتا ہے اِس لئے متّقی کی دوسری صِفت یہ فرمائی یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَوہ نماز کو قائم کرتے ہیں۔ (البدر ۲۳؍۳۰ جنوری ۱۹۰۳ء)
ایمان کیا ہے خداوند تعالیٰ نے فرمایا (الحجرات:۱۶) مومن تو وہی ہیں جو اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور پھر شک میں نہ پڑے اور اﷲ کی راہ میں مال و جان سے کوشِش کی۔ بے شک وہی سچّے ہیں اور فرمایا
( النساء:۶۶)
تیرے رَبّ کی قَسم ہے کبھی مومن نہ ہوں گے جب تک کہ تجھے حُکم نہ بنائیں ان امور میں کہ جن میں ان کے مابین نزاع ہو اور پھر تیرے فیلہ میں کسی قِسم کی اپنے جی میں تنگی نہ پائیں اور پورے طور پر تسلیم کر لیں اور فرمایا
(النّور:۶۳) مومن تو وہی ہیں جو کہ اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور جب کسی ایسے اہم امر پر اس کے ستھ ہوں جو لوگوں کو جمع کرتا ہے تو اِذن لینے کے سوا نہیں جاتے اور فرمایا۔۔( السّجدۃ:۱۶،۱۷)ہماری آیتوں پر تو وہی ایمان لائے ہیں کہ جب ان کو ان کو ان کے ساتھ نضیحت (یا یاددہانی) کی جاتی ہے ت سجدہ میں گِر پڑتے ہیں اور اپنے ربّ کی حَمد کرتے ہوئے تسبیح کہتے ہیں اور تکبّر نہیں کرتے ان کے پہلو بستروں سے جُدا رہتے ہیں اور خوف و امّید سے اپنے رَبّ کو یاد کرتے ہیں اور ہمارے دئے ہوئے سے خرچ کرتے ہیں اور فرمایا(الاحزاب:۳۷)کسی مومن مرد اور مومن عورت کو اختیار نہیں جبکہ اﷲ اور رسول کسی اَمر میں فیصلہ کر لیں اور فرمایا (النّور:۵۲) مومن لوگ جب اﷲ اور اسکے رسول کی طرف فیصلہ کے لئے بُلائے جاتے ہیں تو اُن کا یہی قول ہوتا ہے کہ ہم نے سُنا۔ قبول کیا اور اطاعت کی۔ اور فرمایا
(النّساء:۱۳۷) اﷲ اور اس کے رسول اور اس کتاب پر ایمان لاؤ جو کہ اﷲ نے اپنے رسول پر اُتاری ہے اور اس کتاب پر جو کہ اس سے پہلے اُتاری ہے ۔

(النّساء:۶۰)اے ایمان والو اﷲ کی فرمانبرداری کرو اور رسول کی فرمانبرداری کرو اور اپنے میں سے حکومت والوں کی اور اگرکسی شئے میں تمہارا تنازع ہو تو اس کو اﷲ اور اس کے رسول کی طرف پھیرو۔ اگر تم اﷲ اور آخر آنے والے دن(یا وقت) پر ایمان رکھتے ہو اور فرمایا
(المجادلۃ:۲۳)تم کوئی لوگ نہ پاؤ گے جو کہ اﷲ اور یومِ آخرت پر ایمان لاتے ہوں اور پھر ان سے محبّت اور دوستی رکھتے ہوں جو کہ اﷲ اور اس کے رسول سے دشمنی کرتے ہوں اور فرمایا
(المائدۃ:۸۲) اور اگر یہ اﷲ اور آخری دِن پر اور اس پر جو اﷲ نے اُتارا ہے ایمان رکھتے تو پھر ان سے کبھی دوستی نہ لگاتے۔ اور فرمایا(الانفال:۷۵) اور جو ایمان لائے اور ہجرت کی اور اﷲ کی راہ میں انہوں نے مجاہدہ کیا اور جگہ دی اور مدد کی۔ وہی پکّے مومن ہیں۔ اور فرمایا(الحجرات:۱۱)مومن تو بھائی ہی ہیں نہ اَور کچھ ۔ اور فرمایا(البقرۃ:۲۷۹)اور چھوڑ دو جو سُود باقی رہا ہے اگر تم مومن ہو۔ اور فرمایا (اٰل عمران: ۱۴۰)اور نہ سُست ہو اور نہ غمناک ہو اور تم ہی ٹھیک ٹھیک غالب آنے والے ہو اگر تم مومن ہو۔ اور فرمایا
(البقرۃ:۱۶۶)اور جو ایمان لاتے ہیں وہ اﷲ سے سخت محبت رکھنے والے ہوتے ہیں۔ اور فرمایا…(التوبۃ:۱۱۱) اور جو ایمان لاتے ہیں وہ اﷲ کی راہ پر جنگ کرتے ہیں۔ اور فرمایا(الاعراف:۸۶)اور ترازو کو پورا کرو (پورا ماپو اور پورا تولو) اور لوگوں کی چیزوں میں نقصان مت ڈالو اور زمین میں امن کے بعد فساد مت ڈالو ۔ یہ بہتر ہے تمہارے لئے اگر تم مومن ہو۔ اور فرمایا
(الانفال:۲تا ۴)
پس اﷲ سے ڈرو اور اپنے درمیانی تعلّقات کی اِصلاح کرو اور اﷲ اور رسول کی اطاعت کرو اگر تم مومن ہو۔ مومن تو وہی ہیں کہ جب اﷲ کا ذکر ہوتا ہے تو اُن کے دل ڈر جاتے ہیں اور ان کو اس کی آیتیں سُنائی جاتی ہیں تو وہ اُنکے ایمان کو بڑھاتی ہیں اور وہ اپنے رَبّ پر ہی سہارا رکھتے ہیں اور جو نمازیں قائم کرتے ہیں اور ہمارے دئے ہوئے سے کچھ خرچ کرتے ہیں۔ اور فرمایا(البقرۃ:۱۴۵)لیکن جو کتاب دئے گئے ہیں پس وہ جانتے ہیں کہ وہ ان کے ربّ کی طرف سے حق ہے۔
اور حدیثوں کے لحاظ سے ایمان کی تعریف یہ ہے حیث میں آیا ہے کہ حضرت جبرئیل نے آنحضرتؐ سے دریافت کیا کہ ایمان کیا ہے تو حضور علیہ السّلام نے فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ تُو اﷲاور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کی ملاقات اور اس کے رسولوں اور آخری دن پر ایمان لائے۔ اور ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ آخرت میں اُٹھائے جانے پر اور اس پر ایمان لاؤ کہ اچھائی اور بُرائی کا اندازہ اﷲ کی طرف سے ہے تو جبرئیل ؑ نے کہا صَدَقْتَ(آپؐ نے سچ فرمایا) یہ حدیث بخاری،مسلم،ابِن ماجہ میں ہے۔ اور فرمایا ہے تم میں سے کوئی بھی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ مَیں اس کو اپنے والد اور اولاد اور سب لوگوں سے زیادہ پیارا نہ ہوں۔ یہ حدیث بخاری میں ہے اور ابِن خزیمہ میں اس پر زیادہ یہ بھی آیا ہیکہ اپنے اہل و عیال اور مال سے اور بخاری میں ایک اَور حدیث میں فرمایا ہے تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کیلئے وہ پسند نہ کرے جو کہ وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے۔ اور شعبؔ الیمان میں ایک حدیث میں فرمایا ہے اُس شخص کا ایمان نہیں جس کے لئے امانت نہیں۔ اور حضرت عبداﷲ ابِن عبّاسؓ نے عبدالقیس کے قافلہ کے قِصّہ میں روایت کیا ہیکہ آنحضرتؐ نے فرمایا کے کہ ایمان اِس امر کی شہادت ہے کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمدؐ اﷲ کے رسول ہیں اور صلٰوۃ کا قائم کرنا اور زکوٰۃ کا دینا اور رمضان کے روزے رکھنے اور مسجدِ حرام کا حج کرنا ہے امام احمد اور ابوعوانہ نے اپنی صحیح میں اِ حدیث کو روایت کیا ہے اور نسائی میں مروی ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا ہے کہ مومن وہ ہے کہ جس کو لوگ اپنے مال و جان پر امین سمجھیں ۔ اور امام احمدؐ اور عبدالرزاق نے روایت کیا ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ زانی جب زنا کرتا ہے تو زنا کرنے کے وقت ہرگز مومن نہیں ہوتا اور نہ چور چوری کرنے کے وقت مومن ہوتا ہے اور نہ شرابی شراب پینے کے وقت مومن ہوتا ہے اور نہ کوئی اُچَکّا کِسی ذی قدر شئے کے اُچک کر لے جانے کے وقت مومن ہوتا ہے جب لوگ نظریں اُٹھا کر اس کو دیکھتے ہوتے ہیں اور وہ پھر بھی اُچک لے جاتا ہے او ر نہ خائن خیانت کے وقت موکن ہوتا تم اس سے بچو۔ اور ایک دوسری روایت میں آیا کہ ان سے ایمان نکل کر سایہ بان کی طرح ہے ان کے اُوپر ہوتا ہے۔ تو جب اوہ اس عمل کو قطع کر دیتا ہے تو اﷲ اس کی طرف ایمان کو لَوٹا دیتا ہے اور صحیح مسلم میں مروی ہے کہ آنحضرت ؐ نے فرمایا کہ ایمان کی ستّر سے کچھ زیادہ شاخیں ہیں۔ سب سے اَدنیٰ راستہ سے مُوذی چیز کا دُور کرنا ہے۔ اور حیا ایمان کی ایک بڑی شاخ ہے اور جب آنحضرتؐ سے یہ سوال ہؤا ہے کہ کونسا ایمان افضل ہے تو آپؐ نے یہ جواب دیا ہے کہ اَخلاقِ حَسنہ۔ اس کو امام احمدؒ نے روایت کیا ہے۔ اور امام احمدؒ کی ایک دوسری روایت میں آیا کہ تُو محبت بھی اﷲ ہی کیلئے کرے اور عداوت بھی محض اﷲ ہی کے لئے کرے اور اپنی زبان کو اﷲ کے ذکر میں لگائے اور فرمایا ہے کہ جو شخص محض اﷲ ہی کے لئے دیتا ہے اور اﷲ ہی کے لئے روکتا ہے تو اس نے اپنا ایمان کامل کر لیا ہوتا ہے۔ اس کو ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور بخاری میں ہے کہ بخاری میں ہے کہ ایمان کا مل کا نشان انصار کی محبت ہے اور مسلم میں ہے کہ حضرت علیؓ نے فرمایا ہے کہ مجھ سے مومن ہی پیار کرے گا نہ اَور ۔ اور ابوسلیماندارانی سے مروی ہیکہ آنحضرتؐ نے قافلہ کو فرمایا تھا کہ تمہارے ایمان کا کیا نشان ہے تو انہوں نے عرض کی کہ آپؐ کے بھیجے ہوؤں نے ہم کو پانچ چیزوں کا حکم دیا ہے کہ ہم شہادت دیں کہ اﷲکے سوا اَور کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمدؐ اﷲ کے رسول ہیں اور صلوٰۃ کو قائم کریں۔ اور زکوٰۃ دیں اور رمضان کے روزے رکھیں اور خانہ کعبہ کا حج کریں اور ان پر عمل کریں اور پانچ اشیاء کا حکم دیا ہے انہوں نے کہ ہم ان پر ایمان لائیں۔ اﷲ پر اور اس کے فرشتوں پر اور کتابوں پر اور رسولوں پر اور بعد الموت اُٹھائے جانے پر۔ اور پانچ چیزوں کو ہم نے جاہلیّت اور اسلام میں اپنا خلق بنایا ہے اور وہ یہ ہیں کہ مصیبت کے وقت صبر کرنا اور آرام و آسائش کے وقت شُکر کرنا اور قضاء و قدر کی رفتار پر راضی رہنا۔ اور دوسروں کی ملاقات کے مقاموں پر صدق دکھانا اور دشمنوں پر شماتت نہ کرنا اور اس سے زیادہ آنحضرتؐ نے اُن کو یہ فرمایا کہ وہ جمع نہ کر جو تم نہ کھاؤ اور نہ وہ بناؤ کہ جن میں نہ رہو۔ اور نہ ان اشیاء کی رغبت یا ان میں ترقی کرو کہ جنکو تم چھوڑ جانے والے ہو۔ اور اس میں اﷲ تعالیٰ سے ڈرو کہ جس کے طرف تماہرا رجوع ہو گا اور جس پر تم پیش کئے جاؤ گے اور اسی کی خواہش کرو کہ جس کی طرف تم جانے والفے ہو اور جس میں تم رہو گے اور یہ ایمان کبیر میں مذکور ہیں۔
۔ایمان لاتے ہیں اِس حالت میں کہ وہ لوگوں سے غائب ہوتے ہیں جیسا فرمایا(یٰس ٓ:۱۲) جو ڈرا الرحمن سے غائب ہونے کی حالت میں۔ اور فرمایا(الانبیاء:۵۱) ڈرتے ہیں اپنے ربّ سے پوشیدہ ہونے کی حالت میں۔ پس اس کی مثال ایسی ہے جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السّلام کا قول قرآن مجید میں منقول ہے کہ (یوسف:۵۳)تاکہ وہ جان لے کہ غائبَانہ حالت میں مَیں نے اس کی خیانت نہیں کی۔ تو اِن معنوں کے رُو سے مطلب یہ ہو گا کہ متّقی لوگ ان لوگوں کی مانند نہیں ہوتے کہ جن کے حق میں آیا ہے (البقرۃ:۱۵)جب مومنوں کو ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اور جب اپنے شیطانوں کو اکیلے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تو تمہارے ہی ساتھ ہیں بلکہ جیسے وہ لوگوں کے سامنے ایمان لاتے ہیں اِن اشیاء ( اﷲ اور نبوّت،رسالت،کتاب اﷲ کے منجانب اﷲ ہونے اور قیامت وغیرھا) پر جو کہ لوگوں سے غائب ہیں۔ پس بالغیب یہاں پر ایسا ہے جیسا کہ باﷲ۔ امنا باﷲ میں ہے۔ اور دلائل ؔبیہقی میں ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا اَ لَا انَّ اَعْجَبَ الْخَلْقِ اِلَیَّ اِیْمَانًا قَوْمٌ یَکُوْنُوْنَ بَعْدَ کُمْ یَجِدُوْنَ صُحُفًا فِیْھَا کُتُبٌ یُؤْمِنُوْنَ بِمَا فِیْہِ ہاں سب مخلوق سے مجھے زیادہ پسند ان لوگوں کا ایمان ہے جو کہ تم سے پیچھے آئیں گے تو کچھ صحیفے پائیں گے کہ جن میں کتابیں ہوں گی اور وہ ان پر ایمان لائیں گے۔
(رسالہ تعلیم الاسلام قادیان ماہِ اکتوبر ۱۹۰۶ء)
۔کی اقامت سے یہ مراد ہے کہ سجود، رکوع، تلاوت کو پُورا کیا جائے اور خشوع اور حور کے ساتھ پڑھی جائے اور خوب توجّہ رکھی جائے۔ تفسیر ابِن جریر میں ہے کہ حضرت عبداﷲ بن عباسؓ نے یہی معنے بیان فامائے ہیں۔ اقامت چٌز کے ادا کرنے کو بھی کہتے ہیں۔ پس اِن معنوں کے لحاظ سے یہ مقصد ہو گا کہ صلوٰۃ کا حق ادا کرتے یا یُوں کہنا چاہیئے کہ اس کو کما حقّہا ادا کرتے ہیں اور امام راغبؒ نے لکھا ہے کہ یہ لکڑی کی اقامت سے ہے جو کہ سیدھا کرنے کے معنوں میں ہے یا بمعنے مداومت یا بمعنے محافظت ہے۔ پس معنے یہ ہوں گے کہ صلوٰۃ کو سیدھا کرتے ہیں یا اس پر مداومت کرتے ہیں یا اس کی محافظت کرتے ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں آیا (المعارج:۲۴)وہ اپنی نمازوں پر مداومت کرتے ہیںھُمْ عَلٰی صَلَوٰتِھِمْ یُحَافِظُوْنَ (المؤمنون:۱۰)وہ اپنی نمازوں پر حفاظت کرتے ہیں۔ (رسالہ تعلیم الاسلام قادیان نومبر ۱۹۰۶ء)
۔وہ نماز کو قائم کرتے ہیں یعنی کھڑی کرتے ہیں۔ اِس لفظ کے استعمال میں یہ لطیفہ ہے کہ چونکہ ابتدائی منازل میں مومن کی نفسِ امّارہ سے جنگ ہوتی ہے نفس اس کو بار بار دُنیا اور اس کے لذّات اور افکار کی طرف کھینچتا ہے اور ادھر یقینی امر کے تحصیل کے واسطے اس کے دِل میں امنگ ہوتی ہے۔ ایسے موقع پر متقی کو ایک جنگ کرنا پڑتا ہے اِس لئے فرمایا کہ بوجہ وساس کے متقی کی نمزا بار بار گِرعتی ہے مگر ہرآن اسے پھر قائم کرتا ہے۔
یہ ایک ایسی حالت ہے جسے پڑھنے والے خوب مشاہدہ کرتے ہوں گے یا کر چکے ہوں گے زیادہ تفصیل کی کیا ضرورت ہے۔
۔ وہ خاص نماز جو کہ رسول اﷲ علیہ وسلم نے پرھ کر دکھلائی… صلوٰۃ کا لفظ صلّی سے نکلا ہے جس کے معنے ہیں کِسی لکڑی کو گرم کر کے سیدھا کرنا ۔ اور چونکہ نماز سے بھی انسان کی تمام کجی نکل کر وہ سیدھا ہو جاتا ہے اِس لئے نماز کو صلوٰۃ کہتے ہیں۔ وہ کجیاں کیا ہیں۔ جحش اور غیر پسندیدہ امور کی طرف انسان کا میلان۔ ان سے یہ نماز روکتی ہے جیسے فرمایا(العنکبوت: ۴۶)
اِنسان کی نجات کا مدار ایمانکے بعد دو باتوں پر ہے ایک تعظیم لِاَمرِ اﷲ۔ دوسرے شفقت علیٰ خَلقِ اﷲ۔ پہلی بات تعظیم لامر اﷲ کے لئے صلوٰۃ ہے کہ انسان دُنیاوی حکّام کی ملازمت مشغول ہوتا ہیاور اس کی ناراضگی کا خطرہ ہوتا ہیاور نماز کا وقت آتا ہے تو ان سب حاکموں کو چھوڑ کر وہ احکم الحاکمین کے حکم کی اطاعت کرتا ہے اور نماز ادا کرتا ہے اور جس اَلغیب ہستی پر وہ ایمان لایا تھا پانچ دفہ دن میں اس ایمان کی عملی شہادت اپنے اعضاء سے دیتا ہے اسی طرح تاجر اپنی تجارت اور ہر پیشہ ور اپنے پیشے میں جب نماز کے اَوقات کی پابندی کما حقّہ ، کرتا ہے تو یہ اس کے مومن ہونے کی دلیل ہوتی ہے اور یہ ثبوت ہوتا ہے اِس امر کا کہ اس نے اپنا معبود، اپنا حاکم اور اپنا رازق اﷲ تعالیٰ ہی کو مانا ہؤا ہے اور اپنی تجارت یا پیشہ کو اس کا شریک نہیں بنایا ہے۔
صلوٰۃکے معنے دعائے رحمت کے بھی ہیں اور اختصاراً یہاں تمام حقوقِ الہٰی شامل ہے اس لحاظ سےکے یہ معنے بھی ہوئے کہ وہ تمام احقوقِ الہٰی کو قائم کرتے ہیں۔
(البدر ۲۳؍۳۰ جنوری۱۹۰۳ء)
قرآن مجید کی اصل غر ض اور غایت تقوٰی کی تعلیم دینا ہے۔ اِتقاء تین قِسم کو ہوتا ہے پہلی قِسم اتّقاء کی عِلمی رنگ رکھتی ہے یہ حالت ایمان کی صورت میں ہوتی ہے اس کو کے الفاظ میں ادا کیا اور دوسری قِسم عملی رنگ رکھتی ہے جیسا کہ میں فرمایا ہے۔اِنسان کی وہ نمازیں جو شبہات اور وساوس میں مُبتلا ہیں کھڑی نہیں ہوتی ہیں اِس لئے اﷲ تعالیٰ نے یَقْرَؤْنَ نہیں فرمایا بلکہ فرمایایعنی جو حق ہے اس کے ادا کرنے کا۔ ہر ایک چیز کی ایک عِلّتِ غائی ہوتی ہے اگر اس سے رہ جاوے تو وہ بے فائدہ ہو تی ہے۔سے لوازم معراج ہے اور یہ وہ حالت ہے کہ اﷲ تعالیٰ سے تعلق شروع ہو جاتا ہے مکاشفقت اور رؤیا صالحہ آتے ہیں۔ لوگوں سے اِنقطاع ہو جاتا ہے اور خدا کی طرف ایک تعلق پَیدا ہونے لگتا ہے یہاں تک کہ تبتّلِ تام ہو کر خدا سے کامل تعلق پیدا کر لیتا ہے۔ (الحکم ۲۱؍مراچ ۱۹۱۰ء صفحہ۳ )
صَلٰوۃ۔ اس تعظیم اور عبادت کا نام جو زبان، دِل اور اضاء کیاتّفاق سے ادا کی جاوے کیونکہ ایک منافق کی نماز جو کہ ریاء اور دکھلاوے کی غر ض سے ادا کی گئی ہو نماز نہیں ہے۔ نماز بھی ایک تعظیم ہے جس کا تعلق بدن سے ہے۔ بدن سے ہے۔ بدن کا بڑا حِصّہ دل اور دماغ ہیں۔چونکہ زبان نماز کے الفاظ ادا کرنے میں اور دل و دماغ اس کے مطالب و معانی میں غور کر کے توجّہ اِلی اﷲ کرنیمیں اور ظاہر اعضاء ہاتھ پاؤں وغیرہ ظاہر حرکات تعظیم کے ادا کرنے میں شریک ہوتے ہیں اور ان سب کے مجموعہ کا نام بدن یا جسم ہے اِسی لئے بَدنی عبادت کا نام صلوٰۃ ہے ۔ (الحکم ۲؍اپریل ۱۹۰۸ء)
اسلامی نماز
اِسلامی دوسری اصل نماز ہے… نماز کیا ہے خدا سے دِلی نیاز۔ اوریہ عبادت تمام مذاہب میں اصل عبادت ہے۔
اور کچھ شک نہیں دِلی جوشوں کا اثر ظاہری حرکات اور سکنات پر ضرور پڑتا ہے اور ظاہر حرکات و سکنات کی تاثیر قلب پر ضرور پہنچتی ہے۔ باری تعالیٰ ہی کے دستِ قدرت میں محبوس رہنے کا ثبوت اور اس کی بارگاہ میں بکمال اَدب حاضر ہونے کا بیان اگر ہمارے اعضاء کر سکتے ہیں تو نماز کا قیام اور نماز میں ہاتھ باندھنا بیشک عمدہ نشان ہے۔ دِلی عجز و انکسار غایت درجے کا تذلّل اگر کوئی ظاہری نشان رکھتا ہے تو حالتِ رکوع و سجدہ ہرگز کم نہیں۔
اِسلامی نماز میں جو کلمات ہیں ان میں صرف باری تعالیٰ کا معبود ہونا اور اس کی رحمتِ عامّہ اور کاصّہ اور سزا اور جزا کا بیان ہے پھر اسی مالک کی عبودیّت کا اِقرار اور اسی کی امداد کا اِعتراف ہے پھر نمازی اپنے اور تمام لوگوں کے لئے راہِ راست پر چلنیکی دعا مانگتا ہے اور بارگاہِ میں عرض کرتا ہے مجھے ایسے لوگوں کی راہ دکھا جن پر تیرا فضل ہے اور اُن بُروں کی راہ سے بچا جن پر الہٰی تیرا غضب ہے یا جو لوگ راہ سے بہک گئے۔
پھر کچھ الہٰی تعریف کے الفاظ ہیں پھر تمام نیک لوگوں کے لئے دعا ہیبپھر واعظِ توحید ابراہیم راست باز پر ( جو تمام بنی اسرائیل اور بنی اسمعٰیل کے مورثِ اعلیٰ ہیں اور جن کی اولاد میں محمدؐ صاحب بھی ہیں ) اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے دعا ہے کیونکہ ان کی مساعی ٔ جمیلہ سے شرک کا بڑا استیصَال ہؤا اور توحید نے عروج پایا۔ پھر اپنے لئے دعا ہے۔
انسان کا خاصّہ ہے اِس لئے دل پر کسی واغط کی نصیحت کا اثر ایک ہی بار کچھ نہیں پڑتا ۔ اِنسان کے دِل کا زنگ جو اسے محسوست میں لگائے رکھنے سے پَیدا ہو جاتا ہے ایک دفعہ کے تذکار سے دُور نہیں ہوتا۔ قانونِ قدرت میں محسوسات میں زنگ زہ اشیاء ایک دفعہ کئے مصقلہ پھیرنے سے روشن اور چمک دار نہیں ہوتیں۔ سورہ فاتحہ بھی بڑی بڑی روہانی بیماریوں کے زنگ کا مِصقلہ تھی اِسی واسطے ایک نماز میں کئی بار بڑھی جاتی ہے۔
بتاؤ کون قوم ہے جو مناروں پر چڑھ کر بلند آواز سے کمال دلیری اور جوش سے اپنے معبود اور نہایت ہی بڑائی والے خدا کی عظمت اور اس کے معبود ہونے کی شہادت دے اور اپنے مُحس ہادی کی رسالت پر شہادت دے۔ پانچ وقت مکرّر الفاط سے اﷲ تعالیٰ کی عبادت کی طرف بڑی بلند آواز سے منارے پر چرھ کر بُلاوے اور اپنی عبادت کی خوبی بتلاوے اور پھر اپنی اس منادی کو خدا کی کمال تعظیم پر ختم کرے۔ سوچو یہی معنی کلماتِ اذان کے ہیں۔ ہاں ہادیٔ اِسلام نے قوم کو گھنٹوں ،سیپوں،ناقوسوں، سارنگیوں، بربطوں سے معافی بخشی بلکہ یُوں کہئے بچا لیا۔
یہ اسلامی مذہب ہی کی خصوصیّت ہیکہ اپنی ہر ایک کتاب کی ابتداء میں اپنے خالق کی ستائِش کریں۔ اپنے مُحسن کی تعریف کریں۔ اس کے لئے دعا مانگیں ۔ لیکچروں کی ابتداء میں یہی حال ہے ( لیکچر کا ترجمہ خطبہ ہے) بلکہ لیکچر کی خوبی بھی اسلامیوں پر ختم ہے کھڑے ہو کر لیکچر دینا تو ان کی ہر نمازِ جمعہ میں دیکھ لو مگر غور کے قابل یہ ہیکہ عین لیکچر میں جہاں اَور قوموں کو تلی بجانے کا موقع ملتا ہے وہاں اِسلام میں اﷲ اکبر اور سُبحان اﷲ موزوں ہے۔
(فصل الخطاب جلد اوّل صفحہ ۳۵،۳۶(ایڈیشن دوم)
(۱) دُنیا کے مذاہب پر عور کرنے اور قریباً کُل اقوامِ عالَم کو ایک ہی بڑے مرکز اور مزحع کی طرف بالاِشتراک رجوع ہو ہو دیکھنے اور قانونِ قدرت کے معجزبے نقص کتاب کے مطالعہ کرنے سے فطرتِ سلیم، قوّتِ ایمانی نورِ فراست کے اِتفاق سے فوراٍ شہادت دے اُٹھتی ہے کہ ایک ہمارا خالقِ زمین و آسمان ہے جس کی قدرتِ کاملہ کُل عالَم پر محیط اور تمام اشیاء میں جاری و ساری ہے غرض ایک ہمہ قدرت ، فوق الکُل وجود کا خیال یا اِعتقاد قریباً کُل اقوامِ دُنیا میں پایا جاتا ہے۔ یہ فطرت کا اِشتراک ار قائے باطمیہ کی اضطراری توجّہ ایک اعلیٰ ہستی کی جانب وجودِ باری کی عجیب دِل نشین دلیل ہے۔ اب عالَمِ اسباب یا اسبابِ عالم پر جب انسان نظر کرتا ہے تو خوب سمجھتا ہے کہ عالَمِ کون و فساد کے اِنقلابات میں وہ ہمیشہ مجبور معذور ہے اور یہ کہ تمام اختیارات کے مواد اور مقدورات کے اسباب اس کی قدرت سے باہر ہیں۔ مثلاً جب دیکھتا ہے کہ بڑے بڑے قوائے طبعی سُورج، چاند، ستارے، ہوا، بادل وغیرہمیرے بے مُزد خدمتگار ہیںبلکہ جب وہ اپنے اسبابِ قریبہ یعنی جسم ہی کو دیکھتا ہے کہ کیسے مناسب آلات اور موافق ادوات اس کو ملے ہیں کہ اگر ان میں سے ایک بھی مفقود ہو جاوے تو جبر کسر کے لئے اس کا یا اس کے مثل بے نقص جزو کا موجود کرنا اس کے اِمکان سے خارج ہے۔
پس یہ تصوّرات اِنسان کے دِل میں ضرور سخت جوش اور عجیب جذبات پیدا کرتے ہیں اور دلی نیاز بڑی شکر گزاری کے ساتھ مِل کر اس کو اس منعم و مُحسن کی ستائش و حَمد کی طرف مائل کرتا ہے اور جس قدر زیادہ اس کو اپنی احتیاج و افتقار کا عِلم اور فوق القدرت سامانوں کے بآسانی بہم پہنچ جانے کا یقین ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ اس کا دِل اس منعم کے اِحسانات کی شکر گزاری سے بھر جاتا ہے۔ یہی دِلی نیاز اور قلبی شکر گزاری جو سچّی محبت اور باطنی اخلاص سے ناشی ہوتی ہے اور یہی جوش و خروش جو انسان کے دِل میں ہوتا ہے واقعی اور اصلی نماز ہے۔
(۲) اِمیں کچھ (شک) نہیں کہ ہمارے ظاہری اقوال و افعال، حرکات و سکنات کا اثر ہمارے قلب پر پڑتا ہے یا یُوں کہو کہ جو کچھ ہمارے باطن میں مرکوز ہے حرکاتِ ظاہری ہی اس کی آئینہ دارہیں۔ بہت صاف بات ہے کہ اچھا بیج اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے۔ مشاہدہ گواہ ہے کہ جس وقت ہم کسی سچّے دوست یا کِسی برے محسن کو دیکھتے ہیں جس کی مہربانیاں اور عطایات ہمارے شامِل حال ہیں تو بے اختیار بشاشت اور طلاقت کے آثار ہمارے چہرہ پر آشکار ہتے ہیں اور اگر کِسی مخالف طبع مکروہ شکل کو دیکھ پاویں تو فی الفور کشیدگی اور انزجار کا نشان پیشانی پر نمودار ہو جاتا ہے۔ غرض اِس سے انکار کرنے کی وجہ نہیں ہو سکتی کہ تمام واردات اور عوارض مثلاي انبساط، انقباض، یاس، رجا، فرحت، غم، محبت،اور عداوت اعضائے ظاہری کو باطنی سمیت یکساں متغیّر و متاثر کر دیتے ہیں۔ پس اَب سوچنا چاہیئے کہ جب اس خالق، مالک، رازق منعم کا تصوّر انسان کے قلب میں گزرے گا اور اس کے عطایات اور نعمتوں کی تصدیق سے اس کا سل و جان معمور ہو جائے گا تو یہ دِلی چوش اور اضطراری ولولہ اس کو ساکن، غیر متحرّک چھوڑ دے گا؟ نہیں نہیں۔ ضرور طَوعًا و کرہًا اعضائے ظاہری سے ٹپک پڑے گا۔ جَڑ کو صدمہ پہنچے اور شاخوں کو حِس تک نہ ہو غیر معقول بات ہے۔
غیر مہذّب اقوام کے مذہبی رسوم کے آزاد دل سے تحقیقات کرو تو عجیب و دِلکش اصول کا مکموعہ تمہیں ملے گا کہ اس اُوپر دیکھنے والی ہستی نے قوائے روحانی کی ابتدائی شگفتگی کے زمانہ میں جس کو زمانۂ حال کے مذّبین زمانٔ جہالت و تاریکی بنولتے ہیں کِن کِن صورتوں اور رنگوں میں اس فیاض مطلق کی حَمد و سٖاس کے قلبی زبردست اثر کو طاہر کیا ہے۔ خارجی بَد آثاری اور عوارض کو چھوڑ دو۔ اصلی بے رنگ و بے لَوث فطرت پر غور کرو تو تمہیں دُنیا کی قوموں میں رنگارنگ حرکات دکھائی دیں گے جو بایں ہمہ رنگارنگی کیسے اس بے رنگ کا معبود و مسجود ہونا ثابت کر رہے ہیں۔
ہر قوم میں جوشِ قلبی کی تحریک اور اس کی آگ بھڑکانے کے لے کسی ایک ظاہری اعمال کا التزام پایا جاتا ہے مثلاي بدن کو پانی سے ظاہر کرنا، کپڑا صاف رکھنا، مکان لطیف و نظیف رکھنا۔ ظاہری صفائی اور حسبِ فطرت اصلاحِ بدن سے بیشک اَخلاق پر قوی اثر پڑتا ہے۔ نجاست ، گندگی، ناپاکی، جرک ، غچلاپَن سے کبھی وہ علوّ ہمّت، بلند حوصلگی، پاکیزگی اخلاق پَیدا نہیں ہو سکتی جو واجبی صفائی اور طہارت لا لازمی نتیجہ ہے۔ بد یہی بات ہے کہ ہاتھ مُنہ دھونے وغیرہ افعال جوارہ سے حتماً ایک قِسم کی بشاشت اور تازگی عقلی قوٰی میں پیدا ہوتی ہے۔ علی الصّباح بستِر غفلت سے اُٹھ کر بدنی طہارت کی طرف متوجّہ ہونا تمام مذّبین بلاد میں ایک عام لازمی عادت ہے۔ صاف عیاں ہوتا ہے کہ تقاضائے فطرت سے اس کے زورو اجبار سے یہ دائمی عادات پیدا ہوئی ہیں اور طبیعت اعضاء و جوارہ سے جبراً اس خدمت کا لینا پسند کرتی ہے۔ پس اگر ایسی عبادت میں جس میں روہانی جوشوں اور الی باطنی طہارت کا اِظہار مقصود ہو ایسی طہارت طاہری کو لازمی اور لابدی کر دیا جاوے تو کِس قدر اس شوق و ذوق کو تائید حاصل ہو گی۔ صاف واضح ہیکہ جہاں خالی طہارت اور ظاہری صفائی کا حکم ہو گا وہاں باطنی طہارت اور ربّنی صفائی کی کتنی اَور زیادہ تاکید ہو گی۔
غرص اِس میں شک نہیں کہ صفائی ظاہر کی طرف طبعًا ہر قوم متوجّہ ہے اور اِس میں بھی شک نہیں کہنہایت بد بخت سیاہ درُوں ہیں جو صرف جسمانی صفائی اور ظاہری زیب و زینت کی فِکر میں لگے رہتے ہیں۔ یقینا بہت سے انہیں ظاہری رسوم کی پابندی اور انہیں فانی قیود میں ایسے اُلجھے ہیں کہ قساوتِ قلبی اور بَد اَخلاقی کے سوا کوئی نتیجہ ان کے اعمال و افعال پر مترتّب نہیں ہؤا۔ اِس کی وجہ صرف یہ ہوئی کہ انہوں نے ظاہر ہی کو مقصود بالذّات اور قِبلۂ ہمّت ٹھہرا لیا یا ان کے پاس کوئی روحانی شریعت نہ تھی جو مجاز سے حقیقت کی طرف ان کو لے جاتی مگر اس سے نفسِ فعلِ طہارت قبیح یا مستوجب ملامت نہیں ٹھہرتا۔ اِس عملی افراط و تفریط کے اَور ہی موجبات اور بواعث ہیں۔
ہمیں اِس وقت اَور قوموں کے رسوم سے تعرّض کی ضرورت نہیں اس وقت ہم اسلامی طہارت ( وضو) کو پیشِ نطر رکھتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ غیر قوموں نے اسلامی اعمال پر انصاف سے غور نہیںکیا۔ انہیں یاد رکھنا چاہیئے کہ مسلمانوں نے ، ہاں محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی سُنّت پر چلنے والوں نے ہرگز ظاہری طہارت میں خوض نہیں کیا۔ وہ اسی کو مقصود بالذّات نہیں سمجھتے کیونکہ ایک پیچھے آنے والے جلیل الشّان حقیقی فعل نماز کا یہ عملی مقدمہ ہونا ثابت کرتا ہے کہ یہ عمل تو صرف نشان یا دلیل دوسرے امر کی ہے۔
وضو یں مسلمانوں کو جو دعا پڑھنے کی نصیحت کی گئی ہے یقینا مُعترض کو راہِ حق پر آنے کی ہدایت کرتی ہے۔ سُنواور غور کرو۔ وَ ھُوَ ھٰذَا:
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّابِیْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَطَھِّرِیْنَ۔ سُبْحٰنَکَ
اَللّٰھُمَّ وَ بِحَمْدِکَ اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ اَسْتَغْفِرُکَ وَ اَتُوْبُ اِلَیْکَ۔
غسلِ جنابت میں بھی یہی دعا مانگی جاتی ہیاور بعد اِس دعا کے یہ فقرہ کہا جاتا ہے
’’ اَب غسل پُورا ہؤا‘‘۔ یعنی ظاہر باطن سے مِل کر پُورا ہوا۔
یاد رکھنا چاہیئے کہ عذر اور ضرورت کے وقت یہ طہارت ساقط ہو جاتی ہے۔ یہ کافی دلیل اِس امر کی ہیکہ عمل ہی صرف مقصود بالغرض ہے۔ مثلاً پانی نہ ملنے کی ورت میں غسل اور وضو دونوں حالتوں میں اِس آسان شریعت نے تیمم کر لینے کا حکم دیا ہے جس سے مقود اِتنا ہے کہ اعضائے ظاہری کا جَرس بجا کر قوائے باطنی کے غافل قافلے کو بیدار اور برسرِکار کیا جائے۔
یہ ناپاکی اور پاکی ( طہارت ) کا لفظ اور اس کا مفہوم اسلام میں ایسا نہیں بَرتا گیا جیسا وسوسہ ناک طبائع اور وہمی مزاجوں کیدرمیان معمول ہؤا ہے کہ انسان کی ذات میں کوئی ایسی نجاست نفوذ کر گئی ہے جس نے اس کو گھناؤ نا اور لوگوں کے پرہیزو اجتناب کا محل بنا دیا ہے اور جس کا ازالہ سوائے اس ظاہر طہارت کے ہو نہیں سکتا۔ مَیں سچ سچ تمہیں بتاتا ہوں کہ اسلام ان توہمات سے بالکل پاک ہے۔
اَحبار باب ۱۵ آیت ۱ تا ۱۸ میں ہے کہ ’’ جریان والا کپڑے دھووے اور غسل کرے۔ شام تک ناپاک ہے اور جس پر وہ سوار ہو اور جو کوئی اس کی سواری کو چُھوئے وہ بھی ناپاک۔‘‘ اور خروج باب ۱۹ آیت ۱۰،۱۱ ’’اور خدا نے موسیٰ سے کہا کہ لوگوں کے پاس جا اور انہیں پاک کر اور ان کے کپڑے دُھلوا اور تیسرے دن تیار رہیں کہ خداوند تیسرے دن لوگوں کی نظر میں کوہ سینا پر اُتر آئے گا۔ ‘‘ اسلامی شریعت کے احکام سے انہیں مقابلہ کر لو صاف کُھل جائے گا۔ اسلامی شریعت نے روحانیّت کی کیسی توجّہ دلائی ہے۔ ذرارنگ یا پانی چھڑکنا اور چُلّو بھر…میں…کفارے والی بادشاہت میں داخل ہونے کی شرط قرار دی گئی ہے۔ اس پر رسوم ظاہری سے ناکر۔ قرآن سُنئے۔ اس کے مقابل کیا فرماتا ہے۔
صِبْغَۃَ اﷲِ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اﷲِ صِبْغَۃً (سورہ بقرہ ع۱۶)
رنگ اﷲ کا اور کِس کا رنگ اﷲ سے بہتر ہے۔
یہی اعتقاد قدیم سے مسلمانوں میں چلا آیا ہے کہ طہارتِ باطنی ہی راساً مطلوب ہے چنانچہ اسلام کے قدیم فلاسفر امام غزالی ؒ نے ان لوگوں کی نسبت جو صرف طاہری طہارت پر مَرتے ہیں اور جن کے قلوب کِبروریا سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں لکھا ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ سب سے اہم اور اعظم طہارت پاک کرنا دِل کا ہے تمام بُری خواہشوں اور بیہُودہ رغبتوں سے اور دفع کرنا ہے نفس سے تمام مکروہ وہ مذموم خیالات کو اور ان تصوّرات کو جو انسان کے دِل کو خدا کی یاد سے باز رکھتے ہیں۔
جب ہم نے اِتنا ثابت کر دیا کہ قلبی حالت اعضاء و جوارح کو حرکت دئے بغیر رہ نہیں سکتی اور یہ کہ ظاہر و باطن میں لازم و ملزوم کی نسبت ہے تو گویا نفس ارکانِ نماز سے کچھ بحث نہیں کیونکہ جذباتِ قلب اور اس کی واردات کا ظہور اور کیفیّتِ روحانی کے عورض کا ثبوت اعضاء و جوارح کی زبانِ حال ہی سے مِل سکتا ہے البتہ گفتگو اِس امر میں رہ جاتی ہے کہ آیا یہ ہیٔت مقتضائے فطرتِ انسانی سے مناسبت رکھتی ہے یا نہیں یا اس سے بڑھ کر اور پسندیدہ صورت و ترکیب فلاں قانون اور فلاں مذہب میں رائج ہے یا اب نئی صورت وہم و تصوّر میں آ سکتی ہے۔
مَیں بڑی جرأت اور قوی ایمان سے کہتا ہوں کہ اس کی مثال یا اس سے بڑھ کر مقبول و مطبوع صورت نہ تو کِسی مذہب میں رائج ہے اور نہ اَور نئی عقل میں آ سکتی ہے۔ یہ جامع مانع طریق ان تمام عمدہ اصولوں اور مسلّمہ خوبیوں کو حاوی ہے جو دُنیا کے اَمذاہب میں فرداً فرداً موجود ہیں اور تمام اُ ن نیازمدنی کے آداب کو شامل ہے جو ذوالجلال معبود کے عرشِ اعظم کے سامنے قوائے انسانی میں پیدا ہونے ممکن ہیں وہ خاص اَور ادوکلمات جو اس مجموعی ترکیب کے اجزاء۔ قومہ، رکوع، قعدہ، سجود، جِلسے وغیرہ میں زبان سے نہیں دِل سے نکالے جاتے ہیں۔ اِس کی بے نظیری کے کافی ثبوت ہیں۔
انصاف سے سوچئے کہ یہ ہَیٔات قوائے قلبی پر کِس قدر قوی اثر کرنے والی ہے۔ تعیین ارکان سے کون قوم انکار کر سکتی ہے۔ دعا میں سرِ ننگا کرنا، سیدھا کھڑا ہونا، آنکھیں بند کرنا، آخر میں برکت دیتے وقت ایک ہاتھ لمبا کرنا اور ذرا اُنگلیوں کو نیجے کی طرف جُھکانا اور کبھی کبھی خاص ہالت میں گُھٹنے ٹیکنا یا گُھٹنے پر کُہنی ٹکا کر اُوپر سر رکھ دینا۔ یہ سب امور تبفاوت نصارٰی میں معمول ہیں۔ کوئی انہیں کہے ان ظاہری رسوم سے کیا نکلتا ہے عبادت دِل سے تعلق رکھتی ہے اسی پر اکتفا کرنا چاہئیے صاف بات کا وہ کیا جواب دیں گے۔ پس اسلامی صورت سے کیوں چڑتے ہیں۔
(۳) مجھے امید ہے نصارٰی نفس وجود ارکان سے تو کچھ تعرّض نہ کریں گے کیونکہ اس طبعی حالت میں وہ اضطرارًا اہلِ اسلام کے ساتھ شریک کر دئے گئے ہیں بایں معنی کہ وہ یہی دعا یا نماز میں کسی نہ کسی صورت و رُکن کا ہونا تو ضرور تسلیم کرتے ہیں۔ اگر زبان سے اور مذہبی مباحث کے وقت میں عملاي تو ثابت کر رہے ہیں پس اب اصل وجود ارکان پر زیادہ قلم فرسائی کرنے کی ضرورت نہیں رہی ہاں شاید مقابلہ بَین الصّور تین منظور ہو تو خدا پرست قلب کی اعانت سے عور کریں کہ اسلامی طریق میں کیسا جلال ، کمال، تمکین اور وقار پایا جاتا ہے۔ اس بیرنگ، بیُچوں، واحد، لَم یلد، لَم یُولد کے حضورِاقدس میں بے رنگ، بے تصویر مکان میں باوقار ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونا، اﷲ اکبر سے افتتاح کرنا اور سورۂ فاتحہ جیسی پُر معنی دعا کا بڑھان اور پھر فرطِ انکسار سے اﷲ اکبر کی عظمت کا تصوّر کر پُشتِ مستقیم کو جُھکا کر سبحان ربی العظیم پڑھنا اورپھر زمین پر مُنہ رکھ کر بال گِرا کر سبحان ربی الاعلی کہنا کیایہ کم اثر کرنے والے اعمال ہیں۔ کیا یہ فطرتِ انسانی کے موافق نہیں ہیں؟ مَیں نہیں سمجھتا کہ ایک ایسے شخص کو جو عبادتِ حق کو سکی صورت میں کیوں نہ ہو انسان کی عبودیّت کا لازمی فرض جانتا ہے اسلامی صورت نماز سے انکار ہو۔
یہاں ایک اَور لطیف بات سوچنے کے قابل ہے کہ اسلامی احکام دو قِسم کے ہیں احکامِ اصلی اور تابع یا محافظ اصلی۔ مقصود بالذّات احکامِ اصلی ہوتے ہیں اور احکامِ محافظ صرف احکامِ اصلی کی بقا اور حفاظت کے لئے وضع ہوئے ہیں۔
نماز کے سب ارکان ظاہری احکامِ محافظ ہیں اور اِس امر کا ثبوت اس وقت بخوبی ہوتا ہے جب یہ ارکان عُذر کی حالت میں انسان کے ذمّے سے ساقط ہو جاتے ہیں مثلاً نماز میں بہالت مرص علیٰ اختلاف الاَحوال قومہؔ، قعدہؔ،جِلسہؔوغیرہ سب معاف ہو جاتے ہیں مگر وہ اصل حکم اور حقیقی فرص جو مقصود بالذّات ہے یعنی قلبی خشؤع و خضوع جب تک قالبِ عنصری میں سانس کی آمد و رفت کا سِلسلہ جاری ہے کِسی بھی انسان کے ذمّے سے نہیں ٹلتی۔ یہی اور صرف یہی نماز ہے جسے اِسلام نے لائقِ اعتبار اور مستحق ثواب کہا ہے۔ سُنو
وَاذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَۃً وَّ دُوْنَ الْجَھْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَ الْاَصَالِ وَلَا تَکُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ۔ (سیپارہ ۹ سورہ اعراف رکوع ۲۴)
اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ وَلَذِکْرُ اﷲِ اَکْبَرُ وَ اﷲُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ۔
(سیپارہ ۲۱ سورہ عنکبوت رکوع)
اور اِن آیات سے نماز کی علّتِ غائی خوب طاہر ہوتی ہے کہ نماز مُنکرات اور فواحش سے محفوظ رہنے کے لئے فرص کی گئی ہے اگر نماز کی اقامت اور مداومت سے نمازی کے اقوال و افعال میں کچھ روحانی ترقّی نہیں ہوئی تو شریعتِ اسلامی ایسی نماز کو مستحق درجات ہرگز نہیں ٹھہراتی۔ اب مجاز و ظاہر کہاں رہا۔
نبی ٔ عرب علیہ الصّلوٰۃ کے لئے کچھ کم فخر کی بات نہیں اور اس کے خا کی طرف سے ہونے کی قوی دلیل ہے کہ اس نے خدا کی عبات کو طبلوں، مزماروں، سارنگیوں اور بربطوں سے پاک کر دیا۔ اﷲ کے ذکر کی مسجدوں کو رقص و سرود کی محفلیں نہیں بنایا اور یہاں تک احتیاط کی کہ تصاویر اور مجسّمہ بنانے کی اور مسجدوں میں مُوہم بالشرک نقش و نگار کرنے کی قطعی ممانعت کر دی کہ ایسا نہ ہو یہی مجاز رفتہ رفتہ مبدّل بحقیقت ہو کر اور یہی مجسّمے معبودی تمثیل بن کر توحید کے پاک چشمے کو مکدّر کر ڈالیں۔
جب ہم ایک خوش قطع گر جا میں عیسائی جُھند کو بزعم عبادت جمع ہوئے دیکھتے ہیں۔ سجے سجائے بنے ٹھنے۔ نیٹو انیاں اور گوری گوری یورپنیاں قرینے سے کُرسیوں پر ڈٹی ہوئیں۔ اس وقت ہمیں عیسائیوں کا یہ فقرہ ’’ کہ مسلمانوں میں صرف رسمی اور مجازی عبادت ہے‘‘ بڑا حیرت انگیز معلوم ہوتا ہے۔ یقیناً اہل اسلام کی غیّور طبیعت نصارٰی کی اس حقیقت سے آشنا ہونے کی کبھی کوشِش نہ کرے گی۔
(۴) اِس موقع پر طریق اذان پر بھی کچھ تھوڑا سا لکھنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
ہر قوم نے پراگندہ افراد کو جمع کرنے یا منشائے عبادت کو حرکت دلانے کے لئے کوئی نہ کوئی آلہ بنا رکھا ہے۔ کسی نے ناقوس نرسنگا کِسی نے گھنٹے گھنٹیاں مگر انصاف شرط ہے۔ ان میں سے کوئی وضع بھی اذان سے مقابلہ کر سکتی ہے؟
اس پیارے رسولؐ نے جس کی واقعی صفت میں قرآن فرماتا ہے:
وَ یَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَ غْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ
(سیپارہ ۹ سورہ اعراف رکوع ۱۹)
ان تمام رسمی بندشؤں،سیپوں اور سینگوں کی تلاش سے اُمّت کو سبکدوش کر دیا۔ ذری اِنصاف سے اِن کلمات کو سوچو۔ اس ترکیب کے سر پر نگاہ کرو کہ کوئی قوم بھی دُنیا میں ہے جو اِس شَدّ و مَد سے پہاڑوں اور مناروں پر چڑھ کر اپنے سچّے اصولوں کی ندا کرتی ہے؟ عبادت کی عبات اور بُلاہٹ۔ دُنیا میں ہزاروں حکماء اور ریفارمر گزرے ہیں اور قومی گڈرئے پَیدا ہوئے ہیں مگر تِتّر بِتّر ہوئی بھیڑوں کے اکٹھا کرنے اور ایک جہت میں لانے کا کِس نے ایسا طریق نکالا؟ کِس نے کبھی ایسی ترئی پھُونکی جس کی دِلکش آواز معًا روہانی جوش اور ولولہ تمام طاہر وباطن میں پَیدا کر دئے۔ اﷲ اکبر کیسی صداقت ہے کہ ایک قوم علی الاعلان صبح و شام پانچ دفعہ اپنے بے عیب عقیدے کا اشتہار دیتی ہے۔ تعیین اَوقات، پابندیٔ اَوقات۔ آہ کیسے مقبول کلمات ہیں کہ جب کِسی قوم کی ترقّی کی راہ کُھلی اسی مشعلِ جان افروز کے نور سے تمام موانعات کی تاریکی دُور ہوئی۔ شریعتِ موسوی میں احکامِ نماز منضبط نہیں ہوئے تھے۔ توریت طریقِ نماز سے بالکل ساکت ہے صرف علمائے دین کو وہ یکی لدیتے اور پلوٹھے لڑکے کوہیکل مقدّس میں نذر کر دیتے وقت خاص دعا پڑھی جاتی اور لڑکے کا باپ تمام احکامِ شرعی کو بجا لا کر یہوواہ سے دا مانگتا تھا کہ اس اسرائیلی لڑکے کو برکت دے جیسے تُو نے اس کے آباؤ اجداد پر برکت نازل کی تھی۔ لیکن جب یہود اور ان کے علماء کا اعتقاد باری تعالیٰ کی نسبت زیادہ تر معقول اور پاکیزہ ہو گیا اور خداوندِ عالَم کے شکل بشکل اِنسان ہونے کا فاسد قعیدہ دفع ہونے لگا تب نماز یا دعا کی حقیقت ان کی سمجھ میں آنے لگی کہ نماز اندان کے لئے بارگاہِ الہٰی سے تقرّب کا وسیلہ ہے مگر چونکہ شریعتِ موسوی میں کوئی خاص قاعدہ نماز کا مقرر نہ تھا لہٰذا روایت اور رواج پر مدار رہا اور بقول ڈالنجر صاحب کے یہود بھی ایک نماز گذار قوم ہو گئے اور ہر روز تین گھنٹے عبادتِ خدا کے قرار دئے گئے یعنی نو بجے اور بارہ بجے اور تین بجے مگر چونکہ نماز میں مجتہدین کی ضرورت تھی اور اس کا عِلم قطعی نہ تھا کہ خود حضرت موسٰیؑ کیونکر نماز پڑھتے تھے لہٰذا اکثر اَوقات یہود کی نماز صرف ایک مصنوعی فعل ہوتا تھا۔
حضرت مسیحؑ نے جو آخری رسول یہود کے تھے اور ان کے حوارییّن نے بھی عبادت کی تاکید کی مگر افسوس اس میں بھی یہ نقص رہ گیا کہ کوئی محدود و معیّن قاعدہ نماز کا انہوں نے ترتیب نہ دی اِس لئے چند عرصے کے بعد عبادتِ خدا کا معاملہ بالکل عوام النّاس کی رائے پر موقوف ہو گیا اور پادریوں ہی کے اختیار میں رہا جنہوں نے نماز کی تعداد اور مدّت اور الفاظ وغیرہ مقرر کرنا اپنے اپنے ہی فرقے میں منحصر کر دیا اِسی وجہ سے دعاؤں کی کتابین تصنیف ہوئیں اور قسّیسین کی کمیٹیاں اور مجلسیں منعقد ہوئیں تاکہ اصولِ دین اور ارکانِ ایمان مقرر کریں اور اِسی وجہ سے راہبوں نے عجیب پُر تکلّف طریقہ عبادت کا نکالا اور گرفجوں میں ہفتہ وار نماز قرار دی گئی۔ یعنی چھ روز کی غذائے روحانی نہ ملنے کی مکافات صرف ایک روز کی نماز سی کی گئی۔ الغرض یہ سب خرابیاں منتہٰی درجے کو پہنچ گئیں کہ ساتویں صدی عیسوی میں رسولِ عربیؐ نے ایک مہذّب اور معقول مذہب تلقین کرنا شروع کیا۔ آنحضرتؐ نے نمازِ پنجگانہ کا طریقِ اِس لئے جاری کیا کہ آپؐ خوب جانتے تھے کہ انسان کی روح حق سبحانہ،و تعالیٰ کی حَمو ستائِش کرنے کی کیسی مشتاق رہتی ہے اور نماز کے اَوقات مقرر کر دینے سے آپؐ نے ایک ایسا مبوط قادہ نماز گزاری کا معیّن کر دیا کہنماز کے وقت انسان کا دِل عالَمِ روحانی سے عالَمِ مادی کی طرف ہرگز متوجّہ نہیں ہو سکتا۔ جو صورت اور ترکیب آپؐ نے نماز کی اپنے قول و فعل سے مقرر کر دی ہے اس میں یہ خوبی ہیکہ اہلِ اسلام ان خرابیوں سے محفوظ رہے ہیں جو اس لڑائی جھگڑے سے پَیدا ہوتی تھیں جو عیسائیوں میں نماز کی ترکیپر ہمیشہ ہؤا کرتے تھے اور پھر ہر مسلمان کو گنجائِش رہی کہ بکمال خشوع و خضوع سے عبادتِ خدا میں مصروف ہو۔ ۱؎
پابندیٔ اَوقات میں ایک قدرتی تاثیر ہے کہ وقتِ معیّنہ کے آنے پر قلبِ انسانی میں بے اختیار جذب و مَیلان اِس ڈیوٹی کے ادا کرنے کے لئے پیدا ہو جاتا ہے اور روحانی قوٰی اس مفروض عمل کی طرف طَوعًا و کرہًا منجذب ہو جاتے ہیں۔ جُو نہی اس غیر مصنوعی ناقوس ( اذان) کی آواز سُنائی دیتی ہے ایک دیندار مسلمان فی الفور اس الیکٹرسِٹی کے عمل سے متاثر ہو جاتا ہے۔ پابندِ صلوٰۃ گویا ہر وقت نماز ہی میں رہتا ہیکیونکہ ایک نماز کے ادا کرنے کے بعد معًا دوسری نمازاکی تیاری اور فکِرہو جاتی ہے۔
نمازِ پنجگانہ کا باجماعت پڑھنا اورجمعہ و عیدین کی اقامت جس حکمت کے اصول پر مبنی ہیں انتظاماتِ ملکی کا دقیقہ شناس اس کی خوبی سے انکار نہیں کر سکتا۔ ہزاروں برسوں کے دَور کے بعد جو دُنیا نے ترقفی کی اور چاروں طرف غلغلۂ تہذیب بلند ہؤا اس سے بڑھ کر اَور کوئی تجویز کِسی کی عقل میںنہ آئی کہ کلب بنائے جائیں انجمنیں منعقد ہوں اور وقت کی ضروریات کے موافق قوم کو بیدار کرنے والی تقریریں کی جائیں لیکن ظاہر ہیکہ بایں ہمہ ترقّی عُلوم ایسی انجمنوں
۱؎ (تنقید الکلام ترجمہ لائف آف محمدؐ از سیّد امیر علی)
کے قیام و استحکام میں کِس قدر دِقّتیں واقع ہوتی ہیں مگر مبارکی ہو اس افضل الرّسل خاتم الرسالۃ کو کہ اس نے کیسے وقت میں کیسی انجمنیں قائم کیں۔ ان کے قیام و استحکام کے کیا کیا طریقے نکالے جنہیں کوئی مزاحم کوئی مانع تڑ نہیں سکتا۔ اعضائے انجمن کے اجتماع کے لئے ٹِکٹ جاری کئے جاتے ہیں۔ اشتہار چھاپے جاتے ہیں۔ اِس الہٰی طریق میں وقتِ معیّن پر اذان دی جاتی ہے جو اس پاک انجمن ( مسجد ) میں پہنچائے بغیر چھوڑ ہی نہیں سکتی۔
قُرب و جوار کے لوگوں کو ہر روز پانچ مرتبہ ایک جگہ میں جمع ہونا اور پھر شانے سے شانہ جوڑ اور پاؤں سے پاؤں ملا کر ایک ہی سچّے معبود کے حضور میں کھڑا ہونا قومی اتفاق کی کیسی بڑی تدبیر ہے ساتویں دن جمعہ کو آس پاس کے جٍوٹے قریوں اور بستیوں کے لوگ صاف و منظّف ہو کر ایک بڑی جامع مسجد میں اکٹھے ہوں اور ایک علام بلیغ تقریر ( خطبہ) حَمد و نعت کے بعد ضروریاتِ قوم پر کرے۔
عیدین میں کسی قدر دُور کے شہروں کے لوگ ایک فراخ میدان میں جمع ہوں اور اپنے ہادی کی شوکت مجسّم کثیر جماعت بن کر دُنیا کو آفتابِ اسلام کی چمک دکھاویں اور بالآخر اس پاک سر زمین میں اس فاران میں جہاں سے اوّلاً نورِ توحید چمکا کُل اقطارِ عالَم کے خدا دوست حاضر ہوں ساری بچھڑی ہوئی متفرّق اُمّتیں اسی دنگل میں اکٹھی ہوں۔ وہاں نہ اس مٹی اور پتّھر کے گھر کی بلکہ اس رَبّ الارباب معبود الکُل کی جس نے اس اَرضِ مقدّسہ سے توحید کا عظیم الشّان واعظ بے نظیر ہادی نکالا، حَمد و ستائش کریں۔
(۵) اِسی طرح ہر سال اس یادگار ( بَیت اﷲ ) کو دیکھ کر ایک نیا جوش اور تازہ ایمان دِل میں پَیدا کریں جو بحسب تقاضائے فطرت ایسی یادگاروں اور نشانوں سے پیدا ہونا ممکن ہے۔ سخت جہالت ہے اگر کوئی اہلِ اسلام کسی موحّد قوم کو مخلوق پرستی کا الزام لگاوے۔ ایسے شخص کو انسانی طبعت کے عام مَیلان اور جذابات کو مدِّنظر رکس کر ایک واجب القدر امر پر غور کرنا چاہیئے کہ اگر قرآن کے پورے اور خالص معتقدین کے طبائع میں بُت پرستی ہوتی تو ان کو اپنے ہادی منجّی محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم کے روضۂ مقدّسہ سے بڑھ کر کونسا مرجع تھا۔ اﷲ تعالیٰ نے مکّہ معظمہ میں آنحضرتؐ کا مرقد مبارک نہیں ہونے دیا تاکہ توحیدِ الہٰی کا سرچشمہ پاک ہر قِسم کے شائبوں اور ممکن خیالات کے گرد و غبار سے پاک صاف رہے اور مخلوق کی فوق العادت تعظیم کا احتمال بھی اُٹھ جائے۔
مسلمانوں کے ہادی علیہ الصّلوٰۃ و السّلام کی آخری دُعا
’’ اَللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلْ قَبْرِیْ مِنْ بَعْدِیْ عِیْدًا‘‘اے اﷲ میری قبر کو میرے بعد عید نہ بنائیو۔ خوب یاد ہے اور وہ بجان و دل اپنے نبیؐ کی اس دُعا کے ظاہر نتیجیکی تصدیق کر رہے ہیں اور ہمیشہ اَشْھَدُ اَنْ لَّا ٓاِلٰہَ اِلَّا اﷲُکے ساتھ اَشْھَدُ اَنْ مُحَمَّدًا عَبْدُہ‘ وَ رَسُوْلُہ‘ پڑھااﷲ اور عبد میں امتیازبیّن دکھلاتے ہیں۔ بہت اف امر اور حقیقت شناس عقل کے نزدیک کچھ بھی محّلِ اعتراض نہیں ۔ اُس ہادی کو جس نے تمام دُنیا کی متداولہ عبادت کے طریقوں سے جن میں سِرک اور مخلوق پرستی کے جُزوِ اعظم شامل تھے اپنے طریقِ عبادت کو خالص کرنا منظور تھا اور ایک واضح و ممتاز مَسلک قائم کرنا ضرور اِس لئے واجب ہؤا کہ وہ اپنی اُمّت کے رُخِ ظاہر کو بھی ایسی سمت کی طرف پھیرے جس میں قوٰی روحانی کی تحریک اور اشکال کی قدرت و مناسبت ہو۔
ہر ایک مسلمان کو یقین ہے کہ مکّہ میں بَیت اﷲ کو توحید کے ایک بڑے واعظ نے تعمیر کیا اور آخری زمانے میں اسی کی اَولاد میں سے ایک زبردست کامل بنی مکمّل شریعت لے کر ظاہر ہؤا جس نے اس پہلی تلقین و تعلیم کو پھر زندہ اور کامل کیا۔ پس نماز میں جب ادھر رُخ کرتے ہیں یہ تمام تصوّر آنکھوں میں پھر جاتے ہیں اور اس مصلحِ عالَم کی تمام خدمات اور جانفشانیاں جو اس نے اعلائے کلمتہ اﷲ میں دکھلائیں یاد آ جاتی ہیں۔
یاد رہے کہ نماز علاوہ ان تمام خوبیوں کے جو اس پر مداومت کا لازمی نتیجہ ہیں بڑا بھاری قومی امتیاز اور نشان ہے۔ روزہ ، حج، زکوٰۃ وڈیرہ میں ایک منافق مسلمانوں کو دھوکا دینے یا انکے رازوں پر مطلع ہونے کے لئے شامل ہو سکتا ہے اور اس کی قوم کو اس پر اطلاع بھی نہ ہو کیونکہ ان امور کی بجا آور ی میں اپنی قوم کے نزدیک وہ کسی بیماری لزوم فاقہ سفر و تفرّج یا خیرات کا حیلہ تراش سکتا ہے اور مسلمان بھی اُسے بے تردّد و فادار مسلمان کہہ سکتے ہیں بشرطیکہ انہیں مامور میں مسلمان ہوتا محصور ہو مگر سخت مشکل اور پردہ بر انداز امر نماز ہے جسے کوئی شخص بھی جو اپنے مذہب کا کچھ بھی پاس اور ہَیبت دِل میں رکھتا ہو کبھی بھی ادا کرنا گوارا نہیںکر سکتا خصوصًا ایک علیحدہ قومی نشان اور ایک بالکل الگ ہَیٔت میں الگ مذہبی سمت کی طرف متوجّہ ہو کر اور بایں ہمہ اپنی قوم میں بھی شامل رہے ناممکن ہے۔ اب غور فرمائیے آنحضرتؐ کو اس خصوص میں کیا مشکلات پیش آئیں۔
تاریخ اور قومی روایت متّفقًا شہادت دیتی ہے کہ بَیت اﷲ زمانہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام سے برابر ابا عن جد قوموں کا مرکز اور جائے تعظیم چلا آیا ہے۔ کفّارِ مکّہ گو بُت پرستی کے لباس میں تھے اس بَیت ایل کو مقدّس عبادت گاہ یقین کرتے۔ جب آنحضرتؐنے دینِ حق کا وعظ شروع فرمایا اور کا کا کلام ن بدن پھیلنے لگا اور دشنانِ دین مخالفت میں ہر طرح کے زور لگا کر تھک گئے آخر یہ حیلہ سوچا کہ نفاقًااِسلام میں داخل ہو گئے اور اِس طرح وہ لوگ سخت سخت اذیّتیں اور مخفی دیرپا مصائب مسلمانوں کو پہنچانے لگے بناء علی ھذا۔ بانی ٔ مذہب کو ضرور ہؤا کہ اس معجونِ مرکّب کے اجزاء کی تحلیل کے لئے کوئی بھاری کیمیاوی تجویز نکالے۔ آپ ؐ نے ابتداء ً مکّہ میں بَیت المقدس کی جانب نماز میں مُنہ پھیرا۔ اس ربّانی الہامی تدبیر سے قریشِمکّہ جو نہایت بُت پرست تھے اور اہلِ کتاب اور ان کے مذاہب کو بہت بُرا جانتے تھے مسلمانوں کی جماعت سے بالکل الگ ہو گئے اب کوئی منافق طاہر طور پر بھی شامل ہونے کو گارا نہ کر سکا اور خالص مکّہ میں بُجز خالص مخلص اصحاب اور یارانِ جاں نثار کے اَور کوئی پَیرو نہ بنا۔ اِس تدبیر سے ایک اَور عظیم فائدہ یہ ہؤا کہ بانی کو اپنے مِشن کت ترقّی اور خاصل پَیروؤں کا اندازہ معلوم ہو گیا اور آئندہ کے واسطے معتمد وفاداروں اور ذدّار منافقوں میں امتیاز کُلّی ہو گیا۔
پھر جب مدینہ میں آپ تشریف لے گئے جہاں بکثرت یہود رہتے تھے اور جو اوّل اوّل باغراصِ مختلفہ آپؐ کی تشریف آوری سے خوش ہوئے اور آپؐکے تابعین میں خوب مِل جُل گئے۔ پھر آخر اپنی امیدوں کے برخلاف دیکھ کر خفیہ خفیہ اِضرارو اِفساد میں ریشہ دوانی کرنے لگے تب آنحضرتؐ نے ربّانی الہامی ہدایت سے، جو ایسے تاریک وقتوں میں اپنے پاک نبیوں کو کشائش کی راہ دکھاتی ہے، اصل قدیمی ابراہیم ؑ و اسمٰعیل ؑ کے بَیت اﷲ کی طرف نماز میں توجّہ کی اِس سے خالص انصار اور غدّار یہودیوں میں امتیاز کی راہ نکل آئی۔ قرآن بھی اسی مطلب کا اشارہ کرتا ہے۔
(بقرۃ رکوع ۱۷)
اِس بات کو بھُولنا نہیں چاہیئے کہ ایسی جدید قوم کو جس کے استیصال کے درپے مختلف قومیں ہو رہی تھیں ایسے نئے مذہب کو جسے مخلصین و منافقین میں تمیز کرنا اور دشمنوں کے جابرانہ حملوں کا اِنفاع اختیار کرنا تھا نہایت ضرور تھا اور عقلاً، نقلاً اس سے بہتر نہیں ہو سکتا تھا کہ ایسی ہی تدبیر سے کام لے۔
پس گو ابتداء میں سمتِ قبلہ کسی مصلحت کے لئے معیّن کی گئی ہو اور عادۃ اﷲ نے اس میں کوئی راز مرکوز رکھا ہو مگر انتہا میں بھی یادگار کے طور پر اور اِس امر کے نشان اور یاد آوری کیلئے کہ یہ کامل مذہب ،یہ توحید کا آفتاب اُسی پاک زمین سے نمودار ہؤا۔ وہ خاوندی حکمت بحال رکھی لگئی ورنہ اہلِ اسلام کا عقیدہ تو یہ ہیکہ خدائے تعالیف کی ذات مکان اور جہت کی قید سے منزّہ ہے اور عنصری و کونی صفات سے اعلیٰ اور مبّرا ہے۔ کوئی جہت نہیں جس میں وہ مقیّد ہو۔ کوئی خاص مکان نہیں جس میں مخصوصًا وہ رہتا ہو ۔ اسی مطلب کی طرف قرآن کریم اشارہ کرتا ہے اور معترض کے اعتراص کو اپنے علِم بسیط سے پہلے ہی رَدّ کر دیا ہے۔
۔
(بقرہ رکوع ۱۴)
پھر اَور زیادہ مقصودِ حقیقی کی راہ بتاتا اور فرماتا ہے:

۔
(سورہ بقرہ رکوع ۲۲)
ان آیات نے صاف بتا دیا کہ سمتِ قبلہ کی جانب توجّہ کرنا مقصود بالذّات اور اہم نہیں ہے اصلی اور ابدی نیکیاں اور آسمانی خزانے میں جمع ہونے والی خوبیاں یہی ہیں جو اِن آیات میں مذکور ہوئیں۔
ایک اَور لطیف بات قابلِ غور ہے کہ آغازِ نماز میں جبکہ مسلمان رُو بقبلہ کھڑا ہوتا ہے یہ آیت پڑھتا ہے:
۔(سیپارہ ۷ سورہ انعام رکوع ۹)
وریہ آیت:
۔ ۔ (سیپارہ۸ سورہ انعام رکوع ۲۰)
اِس آیت کا افتاح میں پڑھنا خوب آشکار کرتا ہے کہ اہلِ اسلام کا باطنی رُخ اور قلبی توجّہ کدھر ہے۔ کعبۂ حقیقی اور قبلۂ حقیقی انہوں نے کِس چیز کو ٹھہرا رکھ ہے۔
ایک انگریز مؤرخ لکھتا ہے کہ:
’’ فضائلِ اسلام میں سے ایک یہ بھی فضیلت ہیکہ اسلام کے معابد ہاتھ سے نہیں بنائے جاتے اور خدا کی خدائی میں ہر مقام پر اس کی عبادت ہو سکتی ہے اَیْنَمَا تُوَ تُوْ افَثَمَّ وَجْہُ اﷲِ (سیپارہ۱۔ سورہ بقرہ رکوع ۱۴) جس مقام پر خدا کی عابدت کی جاوے وہی مقام مقدّس ہے اور اُسی کو مسجد سمجھ لیجئے۔ مسلمان چاہے سفر میں ہو چاہے حَضر میں جب نماز کا وقت آتا ہے چند مختصر اور پُر جوش فقرات میں اپنے خالق سے اپنے دِل کاعرض ہال کر لیتا ہے۔ اس کی نماز اتنی طولانی نہیں ہوتی کہ اس کا جی گھبرا جائے اور نماز میں جو کچھ وہ پڑھتا ہے اُ سکا مضمون یہ ہوتا ہے کہ اپنے عجز و انکسار کا اظہار اور خداوندِ عالم کی عظمت اور جلال کا اقرار اور اُس کے فضل و رہمت پر توکّل ۔ عیسائی کیا جانیں کہ اسلام میں عبادتِ خدا کا مزا کیسا کُوٹ کُوٹ کے بھرا ہے۔‘‘ (تنقید الکلام ترجمہ لائف آف محمد از سیّد امیر علی)
(فصل الحظاب (ایڈیسن دوم) جلد دوم صفحہ ۱۱۷ تا ۱۳۱)
نماز میں ایک خاص قِسم کا فیضان اور انوار نازل ہوتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کا برگزیدہ بندہ ان میں ہوتا ہے اور ہر ایک شخص اپنے ظرف اور استغداد کے موافق ان سے حِصّہ لیتا ہے پھر امام کے ساتھ تعلق بڑھتا ہے اور بیعت کے ذریعہ دوسرے بھائیوں کے ساتھ تعلّقات کا سِلسلہ وسیع ہوتا ہے۔ ہزاروں کمزوریاں دُور ہوتی ہیں جن کو غیر معمولی طور پر دُور ہوتے ہوئے محسوس کر لیتا ہے اور پھر کمزوریوں کی بجائے خوبیاں آیت ہیں جو آہستہ آہستہ نشوونما پا کر اَخلاقِ فاضلہ کا ایک خوبصورت باغ بن جاتے ہیں ۔ (الحکم ۲۱؍مئی ۱۹۰۴ء صفحہ ۸)
: مِنْ کے معنے یہاں پر ہیں بعضؔ اور کچھؔ کے۔ اور مَا کے ہیں جوؔ یا شئےؔ کے یا اسؔ کے اور رَزَقْنَا رزا سے بنایا ہؤا لفظ ہے اور رزا کہتے ہیں اس چیز کو جس سے نفع اُٹھا سکتے ہوں اور کبھی بمعنے نصیب اور حصّہ کے آتا ہے اور کبھی بمعنے مرزوق یعنی جو چیز رزق کے طور پر دی جاتی ہے اور گاہے اس کے معنے شکر اور مِلک کے ہوتے ہیں۔ دوم اور سوم معنوں کی مثال قرآن مجید میں بھی آئی ہے جیسا کہ فرمایا ہے (واقعہ:۸۳)(اور اپنا نصیبہ اور حصّہ یہ بناتے ہو کہ تکذیب کرتے ہو) اور فرمایایونس:۶۰)( تم بتاؤ تو سہی کہ جو رزا اﷲ نے تمہارے لئے اُتارا ہے پس تم نے خود ہی اس میں سے کچھ تو حلال بنا دیا اور کچھ حرام قرار دیا) اور فرمایا وَمَا مِّنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اﷲِ رِزْقُھَا( ہود:۷)(اور جو کوئی زمین پر چلنے والی چیز ہے ان سب کا رزق اﷲ ہی پر ہے) ھُمْ کے معنے ہیں ان کو۔ (رسالہ تعلیم الاسلام قادیان ماہِ نومبر ۱۹۰۶ء)
تیسری صفت متّقی کی اِس مقام پر یہ بیان کی کہ جو کچھ رزق ہم نے ان کو دیا اس میں سے کچھ اﷲ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔
متّقی کی چونکہ ابتدائی منازل میں نظر بہت وسیع نہیں ہوتی اور خدا شناسی کے مکتب میں ابھی اس کے داخلہ کا ہی ذکر ہے اِس لئے فرمایا کہ جو کچھ رزا ہم نے ان کو دیا ہے وہ اس میں سے کچھ ہماری راہ میں دیتا ہے۔ اصل میں حق تو یہ تھا کہ سب کا سب ہی دے دیتا کیونکہ جس کا دیا ہے اُسی کو دیتا ہے مگر ابتدائی حالت میں جو بخل بتقاضائے نفس دخیل کار ہوتا ہے وہ ایسا کرنے سے روکتا ہے۔ یہ نکتہ ایک دفعہ حضرت اقدس ۱؎ نے بیان فرمایا تھا۔ یہاں رزق سے مراد خوردنی اشیاء ہی نہیں ہیں بلکہ ہر ایک نعمت جو خدا کی طرف سے انسان کو ملی ہے وہ مراد ہے یعنی وہ ہمہ تن بنی نوع انسان کی ہمدردی کے لئے تیار رہتا ہے اور ہر ایک گوشہ اور پہلو سے اس خدمت کو بجا لاتا ہے۔ اِس کی نظیر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیم ہے جو کہ انسان ککے ہر ایک حال اور مذاق کے موافق آپؐ نے دی ہے آپ کے انفاق سے جیسے کایک تاجر اسلامی اصول کے مطابق تجارت کر کے خدا کی رصا حاصل کرتا ہے ویسے ہی ایک جنگجو جنگ کی تعلیم لیکر رضائے الٰہی کو حاصل کر سکتا ہے۔
خدا تعالیٰ کی رضا مندی کے واسطے اپنی عادتوں کو بدلنا، اخلاقِ رذیلہ کو چھوڑ دینا یہ بھی ایک انفاق فی سبیل اﷲ ہے۔ اِسی طرح زبان سے نیک باتیں لوگوں کو بتلانی اور بُرائیوں سے روکنا بھی اس میں داخل ہے۔ اگر خدا نے علم دیا ہے تو اسے لوگوں کو پڑھاوے۔ اگر مال و دولت دی ہے تو اُسے اﷲ تعالیٰ کے بتلائے ہوئے طریقوں سے اس کے محل پر صَرف کرے۔
اﷲ تعالیٰ کی رصامندی کے واسطے خرچ کرنے والا کبھی ضائع نہیں ہوتا بلکہ اس کی اَولاد تک کی اﷲ تعالیٰ حفاظت کرتا ہے اور نہ مال اﷲ کی راہ میں خرچ کرنے سے کبھی کم ہوتا ہے بلکہ اس میں اَور زیادتی ہوتی ہے ؎
زبذل مال در راہش کسے مفلس نمے گردد خدا خود میشود ناصر اگر ہمّت شود پَیدا
فی زمانہ حال انفاق کا بڑا محل یہ ہے کہ اپنے حوصلوں کو وسیع کر کے اِس الہٰی سلسلہ احمدیہ کی اشاعت کے واسطے مال و زَر دیا جاوے۔ اُس وقت بھی جس نے مال و زَر سے پیار نہ کیا اور دین کی خدمت میں اُسے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہاتھوں سے صَرف کیا وہی اعلیٰ مرتبہ پا گیا اور صدّیق بنا۔ اب بھی جو کرے گا بنے گا اور خدا اس کی محنت اور سعی کو ضائع نہ کرے گا۔
اُدیدِ دِین رواں گرداں،اُمیدِ تو روا گردد
زصد نومیدی و یاس و اَلَم، رحمت شوَد پَیدا

در انصارِ نبیؐ بِنگر، کہ چُوں شُد کار تادانی
کہ از تائیدِ دین، سر چشمۂ دولت شوَد پَیدا

بجو از جان و دِل، تاکدمتے از دستِ تو آید
بقائے جاوداں یابی، گر ایں شربت شوَد پَیدا
(البدر ۲۳؍۳۰ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۶)
دوسری بات جو سکھائی گئی ہے مُنعَم علیہ بننے کے واسطے وہ شفقت علیٰ خلقِ اﷲ ہے یعنی مما رزقنھم ینفقوناﷲ تعالیٰ کے دئے ہوئے میں سے کچھ خرچ کرتے رہو۔ یہاں کوئی چیز مخصوص نہیں فرمائی بلکہ جو کچھ اﷲ تعالیٰ نے دی ہے اس میں سے خرج کرتے رہو… اپنے ہاتھوں اور پاؤں کو خدا کے لئے مخلوق کی ہمدردی اور بھلائی میں خرچ کرو اور ایسا ہی اگر اﷲ تعالیٰ نے مال دیا ہے ، کپڑا دیا ہے ، غرض جو کچھ دیا ہے اسے مخلوق کی ہمدردی اور نفع رسانی کیلئے خرچ کرو۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ اکثر لوگ نئے کپڑے بناتے ہیں لیکن وہ پُرانے کپڑے کسی غریب کو نہیں دیتے بلکہ اسے معمولی طور پر گھر کے استعمال کیلئے رکھ لیتے ہیں مگر مَیں کہتا ہوں کہ اگر سکی کو خدا کے فضل سے نیا مِلتا ہے اور کدا تعالیٰ نے اسے اِس قابل بنا دیا ہے کہ وہ نیا کپڑا خرید کر بنائے تو وہ کیوں پُرانا اپنے کسی غریب اور نادار بھائی کو نہیں دیتا۔ اگر نیا جُو تا مِلا ہے تو کیوں پُرانا کِسی اَور کو نہیں دے دیتے۔ اگر اتنی سی ہمّت اور حوصلہ نہیں پڑتا تو پھر نیا دینا تو اَور بھی مشکل ہو جائے گا۔ خدا تعالیٰ نے تکمیلِ ایمان کے لئے دو ہی باتیں رکھی ہیں تعظیم لِاَمرِ اﷲ اور شفقت علیٰ خلقِ اﷲ ۔ جو شخص اِن دونوں کی برابر رعایت نہیں رکھتا وہ کامل مومن نہیں ہو سکتا۔ کیا تم میں سے اگر ایک ہاتھ ایک ٹانگ کسی کی کاٹ دی جاوے تو وہ نقصان نہ اُٹھا وے گا اِسی طرح پر ایمان کا بہت بڑا جزو ہے شفقت علیٰ خلقِ اﷲ۔ مگر مَیں دیکھتا ہوں کہ اس پر زیادہ توجّہ نہیں رہی اور یہی وجہ کہ ایمانکا پہلا جزو تعظیم لِاَمر اﷲ بھی نہیں رہی ہے … جب انسان اِس قِسم کا بن جاتا ہے کہ اَلغیب پر ایمان لاتا ہے اور خدا کی عبادت کرتا اور اُس کی مخلوق پر شفقت کرتا ہے پھر خدا تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ ہم اس کا بدلہ کیا دیں گے یہ لوگ مظفّر و منصور ہو جائیں گے۔ دُنیا میں بامراد اور کامیاب ہونے کا یہ زبردست ذریعہ ہے اور اِس کا ثبوت موجود ہے۔ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی لائف پر نظر کرو ان کی کامیابوں اور فتحمندیوں کی اصل جَڑ کیا تھی؟ یہی ایمان اور اعمالِ صالحہ تو تھے ورنہ اس سے پہلے وہی لوگ موجود تھے، وہی اَسباب تھے ،وہی قوم تھی۔ لیکن جب ان کا ایمان اﷲ تعالیٰ پر بڑھا اور ان کے اعمال میں صلاحیّت اور تقوی اﷲ پَیدا ہؤا تو کدا تعالیٰ کے وعدوں کے موافق وہ دُنیا میں بھی مظفّر و منصور ہو گئے تاکہ ان کی اِس دُنیا کی کامیابیاں آخرت کی کامیابیوں کے لئے ایک دلیل اور نشان ہوں۔ یہ نسخہ صرف کتابی نسخہ نہیں ہے بلکہ ایک تجربہ شدہ اور بارہا کا آزمودہ نسخہ ہے جو اسے استعمال کرتا ہے وہ یقینا کامیاب ہو گا اور منعَم علیہ گروہ میں داخل ہو جاوے گا۔ پس اگر تم چاہتے ہو کہ بامراد ہو جاؤ، تم چاہتے ہو کہ مُنعَم علیہ بنوتو دیکھو اِس نسخہ کو استعمال کرو۔
(الحکم ۱۰؍جون ۱۹۰۴ء صفحہ ۸)

سے وہ سب وحی مراد ہے جو کہ خداوندِ کریم نے حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر نازل فرمائی ہے خواہ وہ کِسی رنگ میں ہو اور ما انزل من قبلک وہ کُل وحیٔ الہٰی ہے جو کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے انبیاء پر نازل کی گئی… اور کُل اِس لئے لیا ہے کہ مَا کا لفط جبکہ یہ موصولہ یعنی بمعنے جوؔ ہو تو عام اور سب کو شامل ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ سب انبیاء ؑکا ہم کو علم نہیں جیسا کہ خداوندِ کریم نے فرمایا ہے وَ مِنْھُمْ مَّنْ لَّمْ نَقْصُصْ عَلَیْکَ مومن:۷۹) ( اور بعض انبیاء سے وہ ہیں جو کہ ہم نے تیرے آگے بیان نہیں کئے) ت پھر جو کچھ ان پر اُتارا گیا ہے اس کا ہمیں کب علم ہو سکتا ہے۔ پس لفظ مَا کو موصولہ یعنی بمعنے جوؔ قرار نہیں دینا چاہیئے اِس کو مصدر یہ قرار دیا جائے یعنی جو کہ مابعد کے فعل کو مصدر بنا دیتا ہے جس سے فعل اور باقی اسماء بنائے جاتے ہیں تاکہ ترجمہ یہ ہو جائے اور جو ایمان لاتے ہیں تیری طرف اُتارے جانے پر اور تجھ سے پہلے اُتارے جانے پر اور پیچھے آنے والی پر یقین کرتے ہیں اور اِس صورت میں اُن کا رَدّ ہو گیا جو کہ نبوّت کے اور وحی کے مُنکر ہیں جیسے کہ بر ہمو لوگ ہیں کہ نبوّت کے صریح مُکر ہیں۔ اور عبداﷲ بن عبّاسؓ اور عبداﷲ بن مسعودؓ اور بہت سے اَور صحابہ ؓ نے فرمایا ہے کہ الخسے مراد وہ مومن ہیں جو کہ عربوں میں سے ہوئے ہیں اور الخ سے مراد اہلِ کتاب کے مومن ہیں اور مجاہد تابعیؒ نے کہا ہیت کہ ان دونوں سے عام مومن مراد ہیں اور تفسیر ابِن کثیر میں اسی کو پسند کیا
 
Top