• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

خطبات محمود ۔ خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رض ۔ جلد 16

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
خطبات محمود ۔ خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رض ۔ جلد 16


۱
نئے سال کے لئے جماعت احمدیہ کا پروگرام
(فرمودہ ۴؍ جنوری ۱۹۳۵ئ)
تشہّد، تعوّذاور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ وَلِکُلٍ وِّجْھَۃٌ ھُوَ مُوَلِّیْھَا ۱؎ یعنی ہر شخص کے سامنے کوئی نہ کوئی مقصود ہوتا ہے جسے وہ سامنے رکھ کر چلتا ہے ۔یہ مقصود آگے دو قِسم کے ہوتے ہیں ۔ایک وہ جو اتفاقی طور پر سامنے آ جاتے ہیں جیسے گاڑی چلتے چلتے جھٹکے سے یا کسی اور سبب سے انجن سے کٹ جاتی ہے مثلاً انجن کسی چڑھائی پر چڑھ رہا ہے اور گاڑی کٹ جائے اس کٹنے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ گر جائے گی۔ اب یہ اس کی جہت تو ہو گی مگر ایسی جہت جو ہنگامی طور پر آپ ہی آپ پیدا ہو گئی انجن اگر چڑھ رہا تھا تو خاص ارادہ سے اور اگر گاڑیاں گری ہیں تو بغیر کسی ارادہ کے تو مقصود ہر ایک چیز کا ہوتا ہے لیکن کبھی اتفاقی طور پر وہ پیدا ہو جاتا ہے اور کبھی ارادہ سے۔جومقصود اتفاقی طور پر پیدا ہو، اس کے لئے انسان تیار نہیں ہوتا لیکن جو ارادہ سے پیدا کیا جاتا ہے اس کے لئے انسان قبل از وقت تیار ہوتا ہے۔
اب ہمارے لئے ایک نیا سال چڑھا ہے اور اسے مدّ نظر رکھتے ہوئے ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ اس سال میں ہمارا مقصود کیا ہونا چاہئے۔ ہمارے مقصود دونوں قسم کے ہوسکتے ہیں یہ بھی کہ ہنگامہ میں ایک طرف چل پڑیں اور یہ بھی کہ سوچ سمجھ کر اپنا ایک مقصود قرار دے لیں۔ہنگامی مواقع پر طبائع کا جوش یہی چاہا کرتا ہے کہ جدھر حالات لیتے جائیں ،چلتے جائیں اور وہ اسے بہادری اور جرأت سمجھتے ہیں لیکن عقل کی ہدایت یہی چاہا کرتی ہے کہ سارے ماحول کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اپنے لئے ایک مقصود قرار دے لیں اور اس کے نزدیک یہی بہادری ہؤا کرتی ہے۔ عقل اور جوش دونوں میںاختلاف ہوتا ہے اور دونوں اپنے اپنے لئے دلائل رکھتے ہیں۔ جوش یہ کہتا ہے کہ اگر حاضر کو چھوڑ کر آئندہ کے پیچھے جاتے ہو تو یہ تم اپنے نفس کو دھوکا دیتے ہو یہ جو کہتے ہو کہ ہمارا مقصود اعلیٰ ہے، یہ تم موجودہ حالات سے بچنے کیلئے کہتے ہو لیکن عقل جوش سے یہ کہتی ہے تمہارا وجود حماقت پر دلالت کرتا ہے تمہیں وسعتِ نظر حاصل نہیں۔ بینائی کوتاہ ہے تم دور کے مرغزار نہیں دیکھ سکتے تمہارے صرف سامنے کی دو چار بوٹیاں تمہاری نظر میں ہیں اور انہی کودیکھ کر تم وہیں بیٹھ جاتے ہو۔ تمہارے قریب گدلے پانی کاچشمہ ہے تمہاری نظر اسی پر ہے مگر دور میٹھے پانی کا دریا بہہ رہا ہے اور تمہیں یہ ہمت نہیں کہ وہاںتک پہنچ سکو۔ تو جوش عقل کو بزدل اور بہانہ سازسمجھتا ہے اور اسی طرح عقل جوش کو نابینا اور وسیع النظری سے محروم قرار دیتی ہے اور دونوں کے پاس اپنی اپنی تائید میں دلائل ہیں۔دونوں اپنے اپنے رنگ میں مضبوط ہیں لیکن صداقت کیا ہے؟اسے اﷲ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے عام طور پر لوگوں کے لئے یہ سمجھنا مشکل ہوتا ہے کہ دونوں میں سے کون سی بات سچی ہے۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جوشیلی طبائع جوش کی رَو میں بہہ کر ایک طرف چل دیتی ہیںاور کچھ لوگ جو سمجھدار اور مستقل مزاج ہوتے ہیں وہ دوسری طرف چل دیتے ہیں۔نتائج کبھی اِس کے حق میں نکلتے ہیں اور کبھی اُس کے حق میں ۔جوش کی رَو میں بہنے والے بعض اوقات اتنے زور سے کام کرتے ہیں کہ حالات کے نقشہ کو بدل دیتے ہیں۔وہ نقشہ جو عقلمندوں نے اپنی عقل و دانش کی بناء پر تیار کیا ہوتا ہے اس میں شُبہ نہیں کہ وہ نقشہ صحیح ہوتا ہے مگر وہ نقشہ حالات کے مطابق تیار کیا ہؤا ہوتا ہے۔ ایک دریا بہتا ہے تم اُسے دیکھ کر یہ اندازہ کر سکتے ہو کہ یہ تین میل کے فاصلہ پر کہاں جا کر نکلے گااور کن کھیتوں کو سیراب کرے گامگر کوئی جوشیلا شخص اُٹھے اور دریا کے دہانہ کو کاٹ کر اُس کا رُخ دوسری طرف پھیر دے تو اس صورت میںاس اندازہ کا غلط ہونا لازمی ہے یا کوئی جوشیلا شخص دریا کے منبع کو اکھیڑ ہی ڈالے اور اس طرح پانی کو بکھیر دے تو وہ نہ دریا کی صورت اختیار کر سکے گا اور نہ کسی زمین کو سیراب کر سکے گا نہ کسی اور کام آ سکے گا۔پس اندازے ہمیشہ صحیح نہیں ہو سکتے کبھی جوش والے کامیاب ہو جاتے ہیں اور کبھی عقل کی پیروی کرنے والے اور درحقیقت کامیابی اسی کو ہوتی ہے جو وَالنّٰزِعٰتِ غَرْقاً ۲؎ کے ماتحت کام کرتا ہے اور یا پھر اُسے کہ جس کے شامل حال اﷲ تعالیٰ کا فضل ہو۔ اگر تو کوئی دینی کام ہو تو اس میںکامیابی محض اﷲ تعالیٰ کے فضل سے ہوتی ہے نہ کہ کسی تدبیر سے اور اگر دُنیوی ہو تو وَالنّٰزِعٰتِ غَرْقاً کے ماتحت کام کرنے والا کامیاب ہو جاتا ہے بعض اوقات ایک شخص اٹھتا ہے اور دیوانہ وار سب کچھ اپنے آگے بہا کر لے جاتا ہے اور بعض اوقات ٹھنڈی طبیعت والے کامیابی حاصل کر لیتے ہیں۔مختلف قوموں کی طبائع مختلف ہوتی ہیں۔کہتے ہیں کہ جس نے فرانسیسیوں کا پہلا حملہ برداشت کر لیا ،وہ جیت گیا۔ان میں جوش ہوتا ہے وہ اگر بات کریں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا کوئی آتش فشاں پہاڑ پھٹ رہا ہے زور زور سے بولیں گے۔ہاتھ،پیر،سر، سب حرکت کریں گے مگر اس کے بالمقابل ایک انگریز نہایت دھیما بیٹھا ہو گااس لئے فرانسیسیوں کے متعلق مشہور ہے کہ جس نے ان کا پہلا حملہ سہہ لیا،وہ جیت گیا۔وہ اپنا سارا جوش پہلے حملہ میں صرف کر دیتے ہیں اور جو قومیں دھیمی طبیعت کی ہوتی ہیں وہ اگر پہلا حملہ برداشت کر جائیں تو سمجھو جیت گئیںکیونکہ پھر کوئی ان کے استقلال کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔پس دونوں باتیں ہمارے سامنے ہیں اور ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ ان میں سے کون سی بات اختیار کی جائے۔ہم اس وقت ایک جنگ میں داخل ہیں، تمام مذاہب کے لوگوں میں ہمارے خلاف جوش ہے اور ایک بہت بڑا گروہ ہمیں دکھ دینے میں لذّت محسوس کر رہا ہے اور وہ قوم جس کے ہاتھ میں ہمارے ملک کا انتظام ہے اور جس کے یہاں ٹھہرنے کی وجہ ہی یہ بتائی جاتی ہے کہ تا ملک میں امن قائم رہے اس کے بعض افراد کو بھی یادھوکا دیا گیا ہے یا شاید بعض تعصب کا شکار ہو گئے ہیں۔حالانکہ سمندر پار کے رہنے والے انگریزوں کا اس ملک میں رہنے اور ہم پر حکومت کرنے کا حق صرف اس بناء پر ہے کہ ہندوستانی باہم امن و امان سے نہیں رہ سکتے اور وہ یہاں اس لئے ہیں کہ تا ملک کو فتنہ و فساد سے بچا کر امن قائم رکھیں۔یہی ایک دلیل ان کے یہاں رہنے کی ہے اور یہ دلیل ایک وقت تک صحیح تھی اور آئندہ بھی صحیح رہے گی مگر اس جنگ کے موقع پر ہم نے دیکھا کہ اس قوم کے بعض افراد نے ثابت کر دیاہے کہ وہ اپنی قوم کے اس جوہر سے محروم ہیں اور یہ ناممکن نہیں۔ لمبے قد والی قوموں میں بھی ٹھنگنے اور بالِشتیے پیدا ہو جاتے ہیں،سفید رنگ والوں میں بھی سیاہ رنگ کے ہو جاتے ہیں ۔پس یہ لوگ یا تو مستثنیات سے ہیں اور ان کی قوم میں جو خوبیاں ہیں،ان سے عاری ہیںاور یا پھر اس کا یہ مطلب ہے کہ اس قوم کا معیارِ قابلیت اب گرنے لگ گیا ہے لیکن ہمیں اس جھگڑے میں پڑنے کی ضرورت نہیں ۔مختصر یہ کہ اس قوم کے بعض افراد ان ذمہ داریوں کوبُھلا رہے ہیں جو ان کے یہاں رہنے کے لئے بطور دلیل پیش کی جاتی ہیں۔اگر ہم نے آپس میں لڑنا اور ایک دوسرے کے حقوق تلف ہی کرنا ہے تو پھر ان کے یہاں رہنے کا کیا فائدہ۔ ہم خود ہی لڑتے رہیں گے کیا وہ جھگڑا زیادہ اچھا ہوتا ہے جو انگریزوں کی موجودگی میں ہو۔یا کیا وہ حق تلفی یا بے انصافی اچھی ہو جاتی ہے جو ان کے ہوتے ہوئے کی جائے۔آج تک ان کی طرف سے بھی یہی کہا جاتا تھااور ہم بھی یہی کہتے تھے کہ انگریز یہاں قیامِ انصاف کے لئے ہیںمگر اس قوم میں ایسے افراد بھی ملتے ہیں جو انصاف نہیں کرتے۔اگر تو ایسے افراد مستثنیات سے ہیں تو اﷲ تعالیٰ اس قوم پر رحم کرے اور اسے بدنام ہونے سے بچائے۔اور اگر انگریز حکام کا معیارِ اخلاق عام طور پر گر رہا ہے جو میرے نزدیک درست نہیں تو بھی میں یہی کہوں گا کہ اﷲ تعالیٰ ان پر رحم کرے اور پھر پُرانے اعلیٰ معیار پر قائم کرے کیونکہ ہمارے اور ان کے تعلقات اچھے رہے ہیں۔جب تک اس قوم میں اچھے لوگ رہیں گے ان کے یہاں ٹھہرنے کا سامان رہے گا لیکن جس دن ان میں اچھے لوگ نہ رہے یا ان کا سٹینڈرڈ گر گیا تو اس دن نہ تیر ان کے کام آ سکیں گے ،نہ تفنگ،نہ توپیں نہ بمب،نہ ہوائی جہاز۔آپ ہی آپ ان کی حکومت میں اضمحلال پیدا ہونا شروع ہو جائے گا۔اﷲ تعالیٰ کی طرف سے جب کسی حکومت کے گِرنے کے سامان پیدا ہو جائیں پھر اسے کوئی قائم نہیں رکھ سکتااور وہ ریت کے قلعہ کی مانند گر جاتی ہے۔قرآن کریم میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق کیا اچھا نقشہ کھینچا گیا ہے کہ ایک کیڑا اندر ہی اندر گُھن کی طرح حکومت کو کھا گیا۔۳؎جس چیز کو گُھن لگ جائے وہ بظاہر درست نظر آتی ہے نقص کا پتہ اسی دن لگتا ہے جب ساری کی ساری گر جائے۔ جس مکان کی چھت کو گُھن لگا ہووہ دیکھنے میں ٹھیک معلوم ہوتا ہے لیکن ایک دن یکایک ساری چھت گر پڑتی ہے ،اسی طرح حکومتوں کا حال ہے بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ ہر چیز اپنی جگہ پر قائم ہے مگر ایک دن پتہ لگتا ہے کہ اندر ہی اندر گُھن نے اسے کھوکھلا کر دیا ہے۔پس ہم اﷲ تعالیٰ سے ہی دعا کرتے ہیں کہ وہ انگریزوں کو اس برے دن سے بچائے۔ سرِدست تو یہ حال ہے گو غیب کا علم تو اﷲ تعالیٰ کو ہے اور ہمیں پوری حقیقت کا علم نہیں ہو سکتا کہ ہمارے خلاف اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے ،اس میں بعض انگریز افسروں کا بھی دخل ہے۔گو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ جس حصہ کو حقیقتاً گورنمنٹ کہتے ہیں،اسے ان کارروائیوں کا علم ہے یا نہیں لیکن بہر حال خواہ ایسے واقعات حکومت کے علم کے بغیر ہوں،وہ حکومت کے لئے کسی طرح بھی مفید نہیں ہو سکتے کیونکہ فساد بڑھنے سے خود حکومت کو بھی ضُعف پہنچتا ہے ۔
اﷲ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ کیا ہو گا یا کیا نہ ہو گامگر میں نے تمام حالات کو مدّنظر رکھتے ہوئے ایک پروگرام تیار کیا ہے اور ایک سکیم جماعت کے سامنے رکھی ہے کہ اس طریق پر عمل کرو تو احراری فتنہ سے محفوظ رہو گے۔میں یقین رکھتا ہوں،خالی یقین نہیں بلکہ ایسا یقین جس کے ساتھ دلائل ہیںاور جس کی ہر ایک کڑی میرے ذہن میں ہے اور اس یقین کی بناء پر میں کہتا ہوں کہ گو جوشیلے لوگوں کووہ سکیم پسند نہ آئے لیکن ہماری جماعت کے دوست اس سکیم پر سچے طور پر عمل کریں تو یقینا یقینا فتح ان کی ہے۔میں نے روپیہ کے متعلق جو تحریک کی تھی،اس کا جواب جو جماعت کی طرف سے دیا گیا ہے وہ اتنا خوش آئند ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے یہ خیال نہیں کیا جا سکتا کہ باقی حصہ سکیم میں جماعت کمزوری دکھلائے گی۔مگر جیسا کہ میں نے کئی بار بیان کیا ہے بعض لوگ فوری بڑی قربانی کے لئے تو تیار ہو جاتے ہیں مگر مستقل اور چھوٹی قربانی نہیں کر سکتے۔میں نے ساڑھے ستائیس ہزار روپیہ کی تحریک کی تھی مگر اس وقت تک ساٹھ ہزار سے زائد کے وعدے آ چکے ہیں اور بیس ہزار کے قریب نقد آ چکا ہے اس لئے بالکل ممکن ہے کہ گو میں نے پندرہ جنوری تک صرف وعدوں کا مطالبہ کیاتھالیکن اس تاریخ تک نقد رقم مطالبہ کے برابر یا اس سے بڑھ کر آ جائے ۔
جیسا کہ میں نے جلسہ سالانہ پر اعلان کیا تھا زائد رقم کا ایک حصہ یعنی چھ سات ہزار روپیہ تو میں قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ پر خرچ کرنا چاہتا ہوں اور میرا خیال ہے کہ جلد سے جلد انگلستان آدمی بھیجے جائیں جو اس کی چھپائی وغیرہ کا جلد سے جلد انتظام شروع کر دیںاور باقی جو روپیہ بچے گا اسے آئندہ دونوں سالوں پر تقسیم کر دیا جائے گا۔اور اس صورت میں بجائے ۲۲ ہزار کے آئندہ سالوں میں صرف چودہ پندرہ ہزار روپیہ ہی جماعت سے مانگنا پڑے گا،باقی پہلے ہی جمع ہو گا۔مگر میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ روپیہ کی تحریک اصل تحریک کا سواں حصہ بھی نہیں،بقیہ تحریک میں جو اصول ہیں وہ بہت زیادہ مفید اور اہم ہیںاس لئے ان پر زیادہ سے زیادہ عمل کی ضرورت ہے خالی روپیہ جمع کر لینے سے کچھ نہیں بن سکتا کیونکہ سواں حصہ تو کوئی چیز نہیں۔ایک شخص ایک گلاس پانی یا دودھ میں تین چمچے شکر ڈالنے کا عادی ہے ،ایک چمچ میں ڈھائی تین ڈرام شکر آتی ہے اور اس طرح وہ قریباً ایک اونس شکر ڈالتا ہے لیکن اگر وہ اس کا سواں حصہ یعنی صرف اڑھائی رتی ڈالے تو کیا اس سے پیالہ میٹھا ہو جائے گا۔ہر گز نہیں۔اس میں اتنی مقدار کا تو پتہ بھی نہیں لگ سکے گا۔
پس جو چیز تحریک کا سواں حصہ ہے اس پر خواہ کس قدر جوش کے ساتھ عمل کیا جائے، کامیابی نہیں ہو سکتی۔اصل کام وہ ہے جو جماعت کو خود کرنا ہے روپیہ تو ایسے حصوں کے لئے ہے جہاں پہنچ کر جماعت کام نہیں کر سکتی باقی اصل کام جماعت کو خود کرنا ہے۔قرآن اور حدیث سے کہیں یہ پتہ نہیں چلتا کہ کسی نبی نے مزدوروں کے ذریعہ فتح حاصل کی ہو۔کوئی نبی ایسا نہ تھا جس نے مبلّغ اور مدرّس نوکر رکھے ہوئے ہوں۔خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں ایک بھی مبلّغ نوکر نہ تھااب تو جماعت کے پھیلنے کی وجہ سے سہارے کے لئے بعض مبلّغ رکھ لئے گئے ہیں۔جیسے پہاڑوں پر لوگ عمارت بناتے ہیں تو اس میں سہارے کے لئے لکڑی دے دیتے ہیں تا لچک پیدا ہو جائے اور زلزلہ کے اثرات سے محفوظ رہے۔پس ہمارا مبلّغین کو ملازم رکھنا بھی لچک پیدا کرنے کے لئے ہے وگرنہ جب تک افرادِ جماعت تبلیغ نہ کریں، جب تک وہ یہ نہ سمجھیں کہ ان کے اوقات دین کے لئے وقف ہیں،جب تک جماعت کا ہر فرد سر کو ہتھیلی پر رکھ کر دین کے لئے میدان میں نہ آئے اس وقت تک کامیابی نہیں ہو سکتی۔حضرت اسماعیل علیہ السلام کو جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے علیحدہ کیا ہے تو اس کے متعلق بائبل میں آتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا۔اس کے بھائیوں کی تلوار اس کے خلاف اُٹھے گی اور اس کی تلوار ان کے خلاف۔جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ نبی ہو گا کیونکہ نبی کے خلاف ہی ساری دنیا کی تلواریں اٹھتی ہیں۔
پس جب تک کوئی شخص ساری دنیا کی تلواروں کے سامنے اپنا سر نہیں رکھ دیتااس وقت تک اس کا یہ خیال کرنا کہ وہ اس مأمور کی بیعت میں شامل ہے فریب اور دھوکا ہے جو وہ اپنی جان کو بھی اور دنیا کو بھی دے رہا ہے۔ ہماری جماعت کے زمیندار اور ملازم اور تاجر یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ اپنے اپنے کاموں میں مشغول رہتے ہوئے اور چند مبلّغ ملازم رکھ کر کامیاب ہو جائیں گے کیونکہ وہ خدا کی جماعت ہیں حالانکہ یہ حالت خدا کی جماعتوں والی نہیں اس صورت میں ہم زیادہ سے زیادہ ایک انجمن کہلا سکتے ہیں ۔خدائی جماعت وہی ہے جس کا ہر فرد اپنے آپ کو قربانی کا بکرا بنا دے اور جس کا ہر ممبر موت قبول کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہے۔یادرکھوجو جماعت مرنے کے لئے تیار ہو جائے اسے کوئی نہیں مار سکتا اور نہ اس کے مقابلہ پر کوئی ٹھہر سکتا ہے۔پنجاب گورنمنٹ کی مردم شماری کی رُو سے ہماری تعداد چھپّن ہزار ہے مگر میں کہتا ہوں اسے جانے دو،اس سے پہلے وہ ۲۸ ہزار بتائی جاتی تھی اس لئے ۲۸ ہزار ہی سہی۔ مگرنہیں۔اس سے دس سال پہلے وہ ۱۸ ہزار کہی جاتی تھی اس لئے ۱۸ ہزار ہی سہی بلکہ اس سے دس سال قبل وہ گیارہ ہزار سمجھی جاتی تھی اس لئے میں گیارہ ہزارہی فرض کر لیتا ہوںمگر کیا اگر گیارہ ہزار لوگ جانیں دینے کے لئے تیار ہو جائیں تو کوئی قوم ہے جو انہیں مار سکے،ہرگز نہیں۔انہیں مارنے والی قوم خود تباہ ہو جاتی ہے۔یاد رکھو جو شخص دلیری کے ساتھ جان دیتا ہے وہ دیکھنے والے پر یہ اثر چھوڑ جاتا ہے کہ اس کے دل میں کوئی چیز ضرور تھی جس کے لئے اس نے اس قدر بشاشت سے جان دی۔آؤ ہم بھی دیکھیں اس سلسلہ میں کیا بات ہے اور یہ اثر گیارہ ہزار کے ختم ہونے سے پہلے ۲۲ ہزار اور پیدا کر دیتا ہے اور پھر ان بائیس ہزار کے ختم ہونے سے پہلے ستّر اسّی ہزار اور پیدا ہو جاتے ہیںاور ان کے مرنے سے پہلے کئی لاکھ اور ہو جاتے ہیںاور اس طرح ایک وقت وہ آ جاتا ہے کہ کوئی نہیں جو انہیں مار سکے اور جب تک جماعت کے ہر فرد کے اندر یہ روح پیدا نہ ہو اور جب تک ہر شخص اپنی جان سے بے پرواہ ہو کر دین کی خدمت کے لئے آمادہ نہ ہو جائے ۔کوئی کامیابی نہیں ہو سکتی ۔یہ اور بات ہے کہ ہم کسی پر ظلم نہ کریں ،فساد نہ کریں ،قانون شکنی نہ کریں مگر یہ روح ہمارے اندر ہونی چاہئے کہ ظالم کی تلوار سے مرنے کے لئے تیار رہیںاور میرے پروگرام کی بنیاد اسی پر ہے۔جب میں کہتا ہوں کہ اچھا کھانا نہ کھاؤتو اس کا یہ مطلب ہے کہ جو اس لئے زندہ رہنا چاہتا ہے،وہ نہ رہے اور جب کہتا ہوں قیمتی کپڑے نہ پہنو تو گویا طلبِ زندگی کے اس موجب سے میں تمام جماعت کے لوگوں کو محروم کرتا ہوںاور جب یہ کہتا ہوں کہ کم سے کم رخصتیں اور تعطیلات کے اوقات سلسلہ کے لئے وقف کرو تو اس بات کے لئے تیار کرتا ہوں کہ باقی اوقات بھی اگر ضرورت ہو تو سلسلہ کے لئے دینے کے واسطے تیار رہیںاور جب وطن سے باہر جانے کو کہتا ہوں تو گویا جماعت کو ہجرت کیلئے تیار کرتا ہوں۔طب میں سہولتیں پیدا کرنے کو اس لئے کہتا ہوں کہ جو لوگ تہذیب و تمدّن کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں اور اس لئے باہر نہیں جا سکتے کہ وہاں یہ سہولتیں میسر نہیں آ سکتیںاور معمولی تکلیف کے وقت بھی اعلیٰ درجہ کی دوائیں اور دوسری آرام دہ چیزیں نہیں مل سکتیںان کو اس سے آزاد کردوں اور تہذیب کے ان رسّوں کو توڑ دوں۔جب ایک کشتی کے زنجیر توڑ دیئے جائیں تو کسی کو کیا معلوم کہ پھر لہریں اسے کہاں سے کہاں لے جائیں گی۔
پس میں نے جماعت کی کشتی کا لنگر توڑ دیا ہے کہ خدا تعالیٰ کشتی کو جہاں چاہے لے جائے کیونکہ ہمیں نہیں معلوم کہ ہمارے لئے کس ملک میں ترقی کے لئے زیادہ سامان مہیاکئے گئے ہیں۔پس یہ مت خیال کروکہ دس بیس یا سَودو سَوروپیہ دے دیا اور فرض ادا ہو گیایہ تو ادنیٰ ترین قربانی تھی۔سکیم کے اصل حصے دوسرے ہیں جو زیادہ اہم ہیںاور جب تک ہر فردِ جماعت اس کی طرف توجہ نہ کرے اور اس احتیاط کے ساتھ ان پر عمل نہ کرے جس کے ساتھ ایک لائق اور ہوشیار ڈاکٹر اپنے زیرِ علاج مریض کو پرہیز کرواتا ہے،اس وقت تک فائدہ نہیں ہو سکتا۔میں نے اپنی ذات میں بھی تجربہ کیا ہے اور باہر سے بھی بعض دوستوں کے خطوط آئے ہیں کہ پہلے یہ خیال رہتا تھا کہ فلاں خرچ کس طرح پورا کریں مگر اب یہ خیال رہتا ہے کہ اس خرچ کو کس طرح کم کریں اس پر عمل کرنے سے اور بھی بعض فوائد حاصل ہوتے ہیں۔مثلاً ہمارے گھر میں لوگ تحائف وغیرہ بھیج دیتے ہیںاور میں نے ہدایا کو استعمال کرنے کی اجازت دے رکھی ہے مگر جب وہ میرے سامنے لائے جاتے ہیں تو میں کہتا ہوں کہ ایک سے زیادہ چیزیں کیوں ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ یہ کسی نے تحفۃً بھیج دیا تھا۔تو میں کہتا ہوں کہ ہمارے تعلقات تو ساری جماعت سے ہیںاس لئے ہمارے ہاں تو ایسی چیزیں روزہی آتی رہیں گی اس لئے جب ایسی چیزیں آئیں تو کسی غریب بھائی کے ہاں بھیج دیا کرو،ضروری تو نہیں کہ سب تم ہی کھاؤ۔اس سے غرباء سے محبت کے تعلقات بھی پیدا ہو جائیں گے اور ذہنوں میں ایک دوسرے سے اُنس پیدا ہو گا ۔کئی دوست لکھتے ہیں کہ اس سکیم کے ماتحت تو ہمیں فلاں خرچ بھی ترک کرنا پڑتا ہے اور میں انہیں جواب دیتا ہوں کہ یہی تو میری غرض ہے۔پس اس سکیم میں میں نے جو جو تحریکیں کی ہیں ،وہ ساری کی ساری ایسی ہیں کہ ان پر عمل کرنے سے تخفیف کی نئی نئی راہیں نکلتی ہیں اور ان کے نتیجہ میں ہم اپنی حالت کو زیادہ سے زیادہ اسلامی طریق کے مطابق کر سکتے ہیں۔میں ان لوگوں سے متفق نہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہمارا پہلا طریق اسلامی نہیں تھا۔جیسا کہ میں نے بتایا ہے اسلامی طریق یہی ہے کہ اَلْاِمَامُ جُنَّۃٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَّرَآئِہٖ ۴؎ یعنی وہ قربانی کرو جس کا امام مطالبہ کرتا ہے۔جب وہ کوئی مطالبہ نہ کرے ،اس وقت حلال و طیب کو دیکھنا چاہئے لیکن جہاں وہ حکم دے وہاں حلال و طیب کو بھی چھوڑ دینا چاہئے۔(ہاں مگر یہ ضروری ہے کہ یہ وقتی قربانی ہو اور اسلام کے دوسرے اصولوں کے مطابق ہو۔بِدعت کا رنگ نہ ہو)غرض میں پہلے طریق کو ناجائز قرار نہیں دیتا مگر اب جو طریق میں نے تجویز کیا ہے اس پر عمل کرنا ضروری ہے کیونکہ اب یہی اسلامی طریق ہے اور اب جو ڈھال کی پناہ میں نہیں آئے گا وہ دشمن کے تیر کھائے گا۔
بہر حال اس سال کے لئے ہمارا پروگرام یہی ہے اور ہر احمدی کو یہی چاہئے کہ اسے یاد کرلے اور اس پر عمل کرے۔میرے دل میں یہ تحریک ہو رہی ہے کہ اس سکیم کے چارٹ تیار کرائے جائیںاور پھر انہیں ساری جماعت میں پھیلا دیا جائے۔ہر احمدی کے گھر میں وہ لگے ہوئے ہوں تا سوتے جاگتے، اُٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے ان پر نظر پڑتی رہے۔ہمارے خطیب ہر ماہ کم سے کم ایک خطبہ میں نئے پیرایہ میں اسے دُہرا دیا کریں تا احساس تازہ رہے۔پھر ہمارے شاعر اردو اور پنجابی نظمیں لکھیںجن میں سکیم ،اس کی ضرورتیں اور فوائد بیان کئے جائیںجو بچوں کو یاد کروا دی جائیںاور اگر اس طریق پر سال بھر کام کیا جائے تو جماعت میں بیداری پیدا کی جا سکتی ہے۔ایک دوست کا مجھے خط آیا ہے کہ ایک بڑے سرکاری افسر نے ان سے کہا کہ ہماری رپورٹ یہ ہے کہ اس سکیم کا جواب جماعت کی طرف سے اس جوش کے ساتھ نہیں دیا گیالیکن کیا ہی عجیب بات ہے کہ حکومت قرضہ مانگتی ہے جس میں قرضہ دینے والوں کو زیادہ سے زیادہ نفع دیا جاتا ہے اور پھر اگر وہ دوگنا بھی ہو جائے تو تاریں دی جاتی ہیں کہ قرضہ میں بہت کامیابی ہوئی ہے لیکن ہم نے جس قدر طلب کیا تھا اس سے اڑھائی گنا آ جانے کے باوجود انہیں اس میں کامیابی نظر نہیں آتی اور وقت مقررہ کے ختم ہونے تک اِنْشَائَ اﷲُالْعَزِیْز پونے تین گنے بلکہ ممکن ہے اس سے بھی زیادہ آ جائے۔مگر وہ قرض کے دوگنا وصول ہونے کو کامیابی سمجھتے ہیںمگر میرے اس مطالبہ کے جواب میں انہیںکامیابی نظر نہیں آتی حالانکہ میں نے جو مانگا ہے اس کی واپسی نہیں ہو گی۔وہ قرض نہیں چندہ ہے۔سوائے امانت فنڈ کے کہ وہ بے شک امانت ہے اور واپس ملے گا۔جو لوگ اسے کامیابی نہیں سمجھتے وہ دنیا کی کسی اور قوم میں اس کی مثال تو پیش کریںاور پھر ہم نے جو لیا ہے، غریبوں کی جماعت سے لیا ہے کروڑ پتیوںاور لکھ پتیوں سے نہیں لیا گیا۔کروڑ پتی تو ہمارے مطالبہ سے بھی زیادہ رقم کی موٹریں ہی خرید لیتے ہیں۔بعض انگریزی موٹریں ایسی ہیں جن کی قیمت ساٹھ ہزار سے ایک لاکھ تک ہوتی ہے اس لئے ایسے لوگوں کیلئے ستائیس ہزار کی قربانی کوئی بڑی بات نہیں مگر ہماری جماعت کی مالی حیثیت کو مدّنظر رکھتے ہوئے اگر دیکھا جائے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہے اور جو لوگ اسے کامیابی نہیں سمجھتے،میں ان سے کہتا ہوں کہ وہ دنیا کی کسی اور قوم میں اس کے بالمقابل آدھی بلکہ اس کا چوتھائی حصہ قربانی کی ہی کوئی مثال پیش کریں۔خواہ انگریزوں کی قوم میں سے کریں، خواہ جرمنوں یا فرانسیسیوں میں سے،یہ اﷲ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جماعت میں احساس پیدا ہو رہا ہے مگر مجھے اس امر کا افسوس ہے کہ ہمارے دوستوں میں ابھی استقلال نہیںاور وہ اس کی قیمت کو ابھی تک نہیں سمجھے۔اور اب میرا منشاء یہ ہے کہ دوستوں کے اندر استقلال پیدا کروں چاہے اس کے لئے مجھے ان کے گلوں میں جھولیاں ڈلوانی پڑیں اور بھیک منگوانی پڑے۔اب میں ان کے اندر وہ حالت پیدا کرنا چاہتا ہوں کہ ان کی شکل سے ظاہر ہو کہ یہ اﷲ تعالیٰ کے در کے فقیر ہیں جس جس قدم کو ا ﷲ تعالیٰ ضروری سمجھے گا وہ میں اٹھاتا جاؤں گا اور جس رنگ میں وہ میری ہدایت کرتا جائے گا،میں اسے پورا کرنے کی کوشش کروں گا۔آج میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس سال میرا یہی پروگرام ہے جو سکیم میں بیان ہؤا ہے۔پس شاعر اس کے متعلق نظمیں لکھیں۔نقشے بنانے والے اس قسم کے نقشے تیار کریں۔
اب مَیں عملی حصہ کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں۔سب سے اوّل یہ کہ میں سائیکلسٹوں کو جلد بھجوانا چاہتا ہوں ۔پس چاہئے کہ سائیکلسٹ جلد از جلد دفتر میں حاضر ہوں تا ان کو مَیں کاموں پر بھیج سکوں۔ایک کام میں تو دیر بھی ہو چکی ہے وہ آج سے تین چار دن پہلے شروع ہو جانا چاہئے تھااس لئے اب دیر نہیں ہونی چاہئے۔جن طالب علموں نے تین سال کے لئے اپنی زندگیاں وقف کی ہیں ان میں سے پہلے اعلان کے علاوہ بھی بعض لوگ لئے جائیں گے۔ بعض نئے کام نکلے ہیں اس لئے انٹرنس سے کم تعلیم رکھنے والے نوجوان جن کے اندر تبلیغ کا مادہ ہو،وہ بھی اپنے آپ کو پیش کر سکتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ ہمارے دشمنوں کی طرف سے ہمارے خلاف روز روز شورش پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے، ہمیں ان چیزوں کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے کہیں ہمیں قتل کی دھمکیاں دی جاتی ہیں ،کہیں قتل کے لئے انگیخت کی جاتی ہے اور اپنے نام قتل کی دھمکیوں کے جھوٹے خطوط شائع کر کے لوگوں کو احمدیوں کے قتل پر اکسایا جاتا ہے اور حکومت کے بعض افسر بجائے اس کے کہ ایسے لوگوں کو تنبیہہ کریں اور انہیں ایسی حرکات سے روکیں ایسا رویہ اختیار کر رہے ہیں کہ ان کو اور بھی شہہ ہو رہی ہے۔مثلاً بجائے ان کا جھوٹ کھولنے کے ان کی حفاظت کا خاص انتظام کیا جاتا ہے جیسے کوئی واقع میں انہیں قتل کرنے لگا تھا۔ممکن ہے ان باتوں کے نتیجہ میں ہم میں سے بعض کی جانوں پر حملے ہوں ۔چنانچہ مجھے قتل کی دھمکیوں کے کئی خطوط ملے ہیں لیکن میں پھر بھی یہی کہوں گا کہ اَلْاِمَامُ جُنَّۃٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَّرَائِہٖ۔ہماری جماعت کے دوستوں کو چاہئے کہ اپنے جوشوں کو اپنے قابو میں رکھیں۔میں جانتا ہوں کہ وہ دوہرے طور پر جکڑے ہوئے ہیں۔ان پر ایک قانون کی گرفت ہے اور ایک ہماری اور ہماری گرفت قانون کی گرفت سے بہت زیادہ سخت ہے۔میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس ناراضگی کے بعد جو ہمارے دلوںمیں پیدا کی جا رہی ہے، قانون کی گرفت کسی احمدی کے دل پر رہ سکتی ہے کیونکہ اشتعال اس قدر سخت ہے کہ صبر ہاتھوں سے نکلا جا رہا ہے۔اگر احمدیت ہمیں نہ روکتی تو جس طرح سلسلہ کی بے حرمتی کی جا رہی ہے میں نہیں سمجھتا ایک منٹ کے لئے بھی قانون ہم میں سے کسی کو روک سکتالیکن بہر حال قانون چلتا ہے اور ہمارا مذہب ہمیں اس کی پابندی کرنے کا حکم دیتا ہے۔پس ایک طرف تو اس کی رکاوٹ ہے دوسری طرف سے ہماری گرفت جماعت کے دوستوں پر ہے کہ وہ حتّٰی الوسع اپنے جذبات کو دبائے رکھیں اور ہماری گرفت ایسی سخت ہے کہ اس کے مقابل میں قانون کی گرفت کوئی چیز نہیں ۔اور ان حالات میں میں دیکھ رہا ہوں کہ ان کے دل خون ہو رہے ہیں،طبیعتیں بے چین ہیں،صحتوں پر بہت برا اثر پڑ رہا ہے اور انہیں موت سے زیادہ تلخ پیالہ پینا پڑ رہا ہے مگر میں پھر بھی یہی کہتا ہوں کہ میں ان کی تکالیف سے ناواقف نہیں ہوں ۔جس وقت تک کہ میں دیکھوں گا کہ ہم دونوں پہلو نباہ سکتے ہیں ،میں ان کو صبر کی تلقین کرتا رہوںگامگر جب میں دیکھوںگا کہ ہمارے صبر کی کوئی قیمت نہیں،حاکم اسے کوئی وقعت نہیں دیتے بلکہ وہ اسے ہماری بزدلی پر محمول کرتے ہیں تو اس دن میں دوستوں سے کہہ دوں گا کہ میں ہر کوشش کر چکا لیکن تمہاری تکلیف کا علاج نہیں کر سکا اب تم جانو اور قانون کیونکہ قانون صرف اپنی پابندی کا مجھ سے مطالبہ کرتا ہے یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ میں اس کے حکم سے بھی زیادہ لوگوں کو روکے رکھوں۔ جیسا کہ میں اب کر رہا ہوںکہ جہاں قانون اجازت دیتا ہے وہاں بھی تمہارے ہاتھ باندھے رکھتا ہوں قانون یہ تو حکم دے سکتا ہے کہ یہ کرو اور وہ نہ کرو مگر اپنے مذہب کو اس کی تائید میں استعمال کرنے کا مجھے پابند نہیں کر سکتا۔حقیقت یہ ہے کہ اس وقت تک جو احمدی جوش میں آتے ہیں وہ قانون کے منشاء سے بھی بڑھ کر اپنے نفس پر قابو رکھتے ہیں اور اس کا باعث میری وہ تعلیم ہے جو میں اسلام کے منشاء کے مطابق انہیں دیتا ہوں۔جب میری آواز انہیں آتی ہے کہ رک جاؤ تو وہ رک جاتے ہیں۔جیسا کہ احرار کے جلسہ پر ہؤا کہ میں نے انہیں کہا کہ خواہ کوئی مارے تم آگے سے جواب نہ دوحالانکہ قانون خود حفاظتی کی اجازت دیتا ہے۔نتیجہ یہ ہؤا کہ ہمارے گھروں میں احرار گُھس گئے۔خود میری کوٹھی میں وہ لوگ آتے رہے اور بعض دوستوں نے ان کی تصاویر بھی لیںلیکن کسی نے انہیں کچھ نہ کہاحالانکہ گھر میںگُھسنے والوں پر وہ قانوناً گرفت کر سکتے تھے لیکن آئندہ کے لئے میں یہ سوچ رہا ہوں کہ حالات ایسی صورت اختیار کر رہے ہیں کہ ممکن ہے کسی وقت مجھے یہ بھی کہنا پڑے کہ میں اب تمہیں اپنے قانونی حق کے استعمال سے نہیں روکتا۔تم اپنے حالات کو خود سوچ لو، میری طرف سے تم پر کوئی گرفت نہ ہو گی لیکن اس وقت تک کہ میں کوئی ایسا اعلان کروں مجھے امید ہے کہ ہماری جماعت کے دوست اپنے جوشوں کو اسی طرح دبائے رکھیں گے جس طرح کہ اس وقت تک دباتے چلے آئے ہیں۔اور اگرچہ حکومت کے متعلق ان کے دل کتنے ہی رنجیدہ کیوں نہ ہوں اور انہیں بہت بُری طرح مجروح کیا جا چکا ہو مگر پھر بھی وہ میری اطاعت سے باہر نہیں جاسکتے اور انہیں صبر سے کام لینا چاہئے ۔میں جانتا ہوں کہ اس قسم کے مواقع پر کسی قسم کا ڈر یا خوف یا تعزیر کا خیال انسان کو نہیں روک سکتا۔میں نے مولوی رحمت علی صاحب کا واقعہ کئی بار سنایا ہے۔جس وقت ان کے کان میں یہ آواز پڑی کہ نیّر صاحب مارے گئے ہیں اور بعض احمدی زخمی ہو گئے ہیں تو وہ پاگل ہو کر اس مکان کی طرف جا رہے تھے وہ جانتے تھے کہ ممکن ہے وہاں لڑائی ہو اور میں مارا جاؤں یا زخمی ہو جاؤں۔ یا ممکن ہے مقدمہ چلے اور باوجود دفاعی پہلو اختیار کرنے کے میری براء ت ثابت نہ ہو اور میں قید یا پھانسی کی سزا پاؤں مگر پھر بھی وہ تھر تھر کانپ رہے تھے کہ کیوں ہمیں روکا جا رہا ہے اور کوئی خیال انہیں آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتا تھا۔اس وقت میری آواز تھی کہ اگر ایک قدم بھی آگے بڑھے تو جماعت سے نکال دوں گا ۔یہ لفظ تھے جنہوں نے ان کو آگے بڑھنے سے روکاورنہ کوئی قانون اس وقت تک نہ انہیں روکتا تھا اور نہ روک سکتا تھا ۔مگر کون سا قانون ہے جو مجھ سے یہ امید کرتا ہے کہ جب کسی کے بھائی بندوں پر یا اس پر دشمن حملہ آور ہو اور قانون اسے خود حفاظتی کی اجازت دیتا ہو میں اسے اس حق کے استعمال سے روکوں ۔جہاں تک مجھے معلوم ہے ایسا کوئی قانون نہیںاور میں صرف سلسلہ کی نیک نامی اور حکومت کی خیرخواہی کے لئے یہ کام کر رہا ہوں مگر حکومت کا بھی تو فرض ہے کہ وہ اس قربانی کی قدر کرے۔وگرنہ ہمارے دل اس قدر زخمی ہیں کہ اگر دشمنوں کے حملوںکا جواب ہم سختی سے دیں تو کوئی قانون ایک لمحہ کے لئے بھی ہمیں گرفت نہیں کر سکتا کیونکہ مجرم وہ ہے جو پہلے گالی دیتا ہے۔اس وقت تک میں یہی سمجھتا ہوں کہ انسانی فطرت ایسی سیاہ نہیں ہو گئی کہ ملک کے لوگ زیادہ دیر تک اس گند کی اجازت دیں اور نہ حکومت کی ساری کی ساری مشینری خراب ہو چکی ہے بلکہ اس کا بیشتر حصہ ابھی اچھا ہے چند مقامی افسر اسے دھوکا دے رہے ہیں اور ان کی نیت یہ ہے کہ احمدیوں کو گورنمنٹ سے لڑا کر وہ کام کریں جو کانگرس نہیں کر سکی مگر میں ان لوگوں کو ناکام کرنے کے لئے انتہائی کوشش کروں گااور جماعت کا قدم وفاداری کی راہ سے ہٹنے نہ دوں گا۔پس جب تک میں یہ نہیں کہہ دیتا کہ میری سب تدابیر ختم ہو چکی ہیں اس وقت تک ہماری جماعت کے احباب کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے نفوس کی قربانی کر کے اور دلوں کا خون کر کے بھی جوشوں کو دبائیں اور ایسی باتوں سے مجتنب رہیںجن سے میری گرفت ان پر ہو اور میں یہ کہہ سکوں کہ تم نے ایسا فعل کیا ہے جس کی سزا گوقانون نہ دیتا ہو مگر میں خود دینی چاہتا ہوں ۔
یاد رکھو کہ ہمارا سلسلہ کوئی ایک دو دن کا نہیں بلکہ یہ ایک لمبی چیز ہے۔ساری دنیا کی باگیں ایک دن ہمارے ہاتھ میں آنی ہیں اس لئے ہمارے مدّ نظر ہر وقت یہ بات ہونی چاہئے کہ ہمارا مقصود ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے۔ہمیں آدمیوں کا خیال نہیں کرنا چاہئے کہ ان میں سے کوئی زندہ رہتا ہے یا مرتا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق قتل کے منصوبے کئے گئے ،حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے زمانہ میں پیغامی آپ کو اس قدر بدنام کرتے رہتے تھے کہ جس کے نتیجہ میں دلوں کے اندر اس قدر شکوک پیدا ہو چکے تھے کہ آپ سے محبت رکھنے والے بعض لوگ یہ بھی پسند نہ کرتے تھے کہ ان میں سے کسی کی دی ہوئی دوائی آپ استعمال کریں۔اگرچہ میں آج بھی اس قدر مخالفت کے باوجود اس بات کو غلط سمجھتا ہوں اور میں یہ امید بھی نہیں کر سکتاکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے والے اس قدر گندے ہو سکتے تھے مگر میں دیکھتا تھا کہ ایسے لوگ موجود تھے جن کے دلوں میں یہ شکوک پائے جاتے تھے۔اب یہ زمانہ ہے اور مجھے صراحۃً ہر سال کئی کئی بار قتل کی دھمکیاں دی جاتی ہیں اور زمیندار کے مضمون کی اشاعت کے بعد متواتر تین چٹھیاں ایسی موصول ہوئیں۔ایک ابھی ۳۱؍دسمبر کو ملی تھی کہ یکم جنوری کے روز تم کو قتل کر دیا جائے گا۔میں ان کے بیشتر حصہ کو دھمکی سمجھتا ہوںمگر ایک حصہ ایسا بھی ہوسکتا ہے جو سنجیدگی سے میرے متعلق ایسا ہی ارادہ رکھتا ہو لیکن جیسا کہ میں نے کہا ہے ہمارا سلسلہ انسانوں کا نہیں کہ یہ سمجھ لیا جائے کہ کسی شخص کی وفات کے بعد یہ ختم ہو جائے گاحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں مخالف خیال کیا کرتے تھے کہ آپ کی زندگی کے ساتھ ہی یہ سلسلہ بھی ختم ہو جائے گا۔لیکن پھر حضرت خلیفہ اوّل کے زمانہ میں یہ کہا جانے لگا کہ مرزا صاحب تو جاہل تھے سارا کام مولوی صاحب ہی کرتے تھے ان کی آنکھیں بند ہونے کی دیر ہے تو بس یہ سلسلہ ختم۔پھر ان کی آنکھیں بند ہوئیںاور لوگوں نے خیال کیا کہ اصل کام انگریزی خوان لوگ کرتے تھے لیکن اﷲ تعالیٰ نے ان کو بھی نکال کر باہر کیا اور جماعت کی باگ ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں دے دی جس کے متعلق پیغامی کہتے تھے کہ ہم خلافت کے دشمن نہیں ہیںبلکہ ہماری مخالفت کی بناء یہ ہے کہ اگر جماعت کی باگ ایک بچے کے ہاتھ میں آ گئی تو سلسلہ تباہ ہو جائے گا ۔مگر دیکھو کہ اس بچے کے ہاتھ سے اﷲ تعالیٰ نے جماعت کی گاڑی ایسی چلائی کہ وہ ترقی کر کے کہیں سے کہیں جا پہنچی اور اب اﷲ تعالیٰ کا ایسا فضل ہے کہ ان لوگوں کے وقت میں جتنے لوگ جلسہ سالانہ پر شامل ہوتے تھے اس سے بہت زیادہ آج میرے جمعہ میں ہیں۔سوائے افغانستان کے باقی تمام بیرونی ممالک کی جماعتیں میرے ہی زمانہ میں قائم ہوئی ہیںاور یہ ساری باتیں بتاتی ہیں کہ یہ سلسلہ خدا کے ہاتھوں میں ہے اس لئے دشمن کی باتوں سے نہ گھبراؤ ۔وہ کسی کو مار بھی دیں تو بھی یہ سلسلہ ترقی کرے گا۔تمہیں چاہئے کہ تم اپنے اصول کو قائم رکھو،حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اپنے ایمان کو قائم رکھو اور آپ کی آمد کے مقصد کو یاد رکھو،خلافت کی اہمیت کو نہ بھولو اور اسے پکڑے رہوپھر تمہیں کوئی نہیں مٹا سکتا۔ڈر کی بات صرف یہ ہے کہ تم میں سے کچھ لوگ اپنے اصول کو نہ بھول جائیںاور سلسلہ کی وجہ سے جو فوائد حاصل ہو رہے ہیں انہیں اپنی طرف منسوب نہ کر لیں۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام آئے اور آپ کی نبوت اور مأموریت سے آپ کی جماعت نے فائدہ اُٹھایامگر بعض انگریزی دانوں نے سمجھا کہ ترقی ہم سے ہو رہی ہے اس لئے اﷲ تعالیٰ نے ان کو الگ کر دیااور پھر بھی سلسلہ کو ترقی دے کر بتا دیا کہ اس سلسلہ کی ترقی کسی انسان سے وابستہ نہیں۔
پس مجھے یہ ڈر نہیں کہ میرے بعد کیا ہو گا بلکہ ڈر یہ ہے کہ خلافت سے علیحدہ ہو کر تم لوگ نقصان نہ اٹھاؤ۔کسی خلیفہ کی وفات سلسلہ کے لئے نقصان کا موجب نہیں ہو سکتی لیکن خلافت سے علیحدگی یقینا نقصان کا باعث ہے۔یہ بات میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ میں نے ایک رؤیا دیکھا ہے جس کے دونوں پہلو ہو سکتے ہیں،منذر بھی اور مبشر بھی لیکن چونکہ باہر سے بھی قریباً ایک درجن خطوط آئے ہیںجن میں دوستوں نے لکھا ہے کہ ہم نے خواب میں دیکھا ہے کہ آپ کو قتل کر دیا گیا ہے اور اسی طرح دشمنوں کے ارادوں کے متعلق بھی دوست اطلاع دیتے رہتے ہیں ۔اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ دوستوں کو ہوشیار کر دوں کہ اصل چیز اصول ہیں۔اگر تم ان کو یاد رکھو گے تو کوئی تمہیں نہیں مٹا سکتا لیکن اگر اصول کو بھول جاؤ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام، حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل اور مَیں مل کر بھی تم کو نہیں بچا سکتے۔ بعض دوستوں نے لکھا ہے کہ ہم نے دعائیں کیں تو معلوم ہوا کہ آپ کی عمر بیس سال بڑھ گئی ہے مگر اصل بات اﷲ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔اگرچہ دعا سے مبرم تقدیریں بھی بدل جاتی ہیں مگر وثوق سے قبل از وقت کچھ نہیں کہا جا سکتا۔بہر حال اس جلسہ پر بھی شبہ کیا جاتا تھا کہ دشمن شرارت کریں گے اور اس کے آثار بھی موجود تھے اس لئے ہمارے دوستوں نے کئی قِسم کی تدابیر اختیار کیںلیکن چوبیس یا پچیس دسمبر کی شب کو میں نے ایک رؤیا دیکھاکہ لوگ کہتے ہیں کہ جلسہ کے ایام میں مجھ پر حملہ کیا جائے گااور بعض کہتے ہیں کہ موت انہی دنوں میں ہے۔میں نے دیکھا کہ ایک فرشتہ ہے جس سے میں یہ بات پوچھتا ہوں اس نے کہا کہ میں نے تمہاری عمر کے متعلق لوحِ محفوظ دیکھی ہے آگے مجھے اچھی طرح یاد نہیں رہا کہ اس نے کہا میں بتانا نہیں چاہتا یا بھول گیا ہوں۔زیادہ تر یہی خیال ہے کہ اس نے کہا میں بتانا نہیں چاہتا۔ لیکن جلسہ کی اور بعد کی دو ایک تاریخیں ملا کر اس نے کہا کہ ان دنوں میں یہ بات یقینا نہیں ہو گی۔ اس دن سے میں نے تو بے پرواہی شروع کر دی اور اگرچہ دوست کئی ہدایتیں دیتے رہے کہ یوں کرنا چاہئے مگر میں نے کہا کوئی حرج نہیں۔چند دن ہوئے میں نے ایک اور رؤیا دیکھا ہے جس کا مجھ پر اثر ہے اور اس سے مجھے خیال آیا کہ جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاؤں کہ وہ ہمیشہ اصل مقصود کو مدّ نظر رکھیں ۔میں نے دیکھا کہ ایک پہاڑی کی چوٹی ہے جس پر جماعت کے کچھ لوگ ہیں میری ایک بیوی اور بعض بچے بھی ہیں۔وہاںجماعت کے سرکردہ لوگوںکی ایک جماعت ہے جو آپس میں کبڈی کھیلنے لگے ہیں جب وہ کھیلنے لگے تو کسی نے مجھے کہا یا یونہی علم ہوا کہ انہوں نے شرط یہ باندھی ہے کہ جو جیت جائے گا،خلافت کے متعلق اس کا خیال قائم کیا جائے گا۔میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس فقرہ کا مطلب یہ تھا کہ جیتنے والے جسے پیش کریں گے وہ خلیفہ ہو گا یا یہ کہ اگر وہ کہیں گے کہ کوئی خلیفہ نہ ہو تو کوئی بھی نہ ہو گا۔بہر حال جب میں نے یہ بات سنی تو میں ان لوگوں کی طرف گیا اور میں نے ان نشانوں کو جو کبڈی کھیلنے کے لئے بنائے جاتے ہیںمٹا دیا اور کہا کہ میری اجازت کے بغیر کون یہ طریق اختیار کر سکتا ہے یہ بالکل ناجائز ہے اور میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔اس پر کچھ لوگ مجھ سے بحث کرنے لگے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ اکثریت پہلے صرف ایک تلعّب کے طور پر یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ کون جیتتا ہے اور خلیفہ کا تعیّن کرتا ہے اور کم لوگ تھے جو خلافت کے ہی مخالف تھے مگر میرے دخل دینے پر جو لوگ پہلے خلافت کے مؤیّد تھے وہ بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے گویا میرے روکنے کو انہوں نے اپنی ہتک سمجھا۔نتیجہ یہ ہؤا کہ میرے ساتھ صرف تین چار آدمی رہ گئے اور دوسری طرف ڈیڑھ ، دوسو۔اس وقت میں یہ سمجھتا ہوں کہ گویا احمدیوں کی حکومت ہے اور میں اپنے ساتھیوں سے کہتا ہوں کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے خون ریزی کے ڈر سے بھی میں پیچھے قدم نہیں ہٹا سکتااس لئے آؤہم ان پر حملہ کرتے ہیں ۔وہ مخلصین میرے ساتھ شامل ہوئے مجھے یاد نہیں کہ ہمارے پاس کوئی ہتھیار تھے یا نہیں مگر بہر حال ہم نے ان پر حملہ کیا اور فریق مخالف کے کئی آدمی زخمی ہو گئے اور باقی بھاگ کر تہہ خانوں میں چھپ گئے ۔اب مجھے ڈر پیدا ہؤا کہ یہ لوگ تو تہہ خانوں میں چُھپ گئے ہیں ہم ان کا تعاقب بھی نہیں کر سکتے ۔اور اگر یہاں کھڑے رہے تو یہ لوگ کسی وقت موقع پا کر ہم پر حملہ کر دیں گے اور چونکہ ہم تعداد میں بالکل تھوڑے ہیں ہمیں نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے اور اگر ہم یہاں سے جائیں تو یہ لوگ پُشت پر سے آ کر حملہ کر دیں گے۔پس میں حیران ہوں کہ اب ہم کیا کریں۔میری ایک بیوی بھی ساتھ ہیںاگرچہ یہ یاد نہیں کہ کونسی اور ایک چھوٹا لڑکا انور احمد بھی یاد ہے کہ ساتھ ہے۔میرے ساتھی ایک زخمی کو پکڑ کر لائے ہیں جسے میں پہچانتا ہوںاور جو اس وقت وفات یافتہ ہے اور بااثر لوگوں میں سے تھا۔میں اسے کہتا ہوں کہ تم نے کیا یہ غلط طریق اختیار کیا اور اپنی عاقبت خراب کر لی مگر وہ ایسا زخمی ہے کہ مر رہا ہے۔مجھے یہ درد اور گھبراہٹ ہے کہ اس نے یہ طریق کیوں اختیار کیامگر جواب میں اس کی زبان لڑکھڑائی اور وہ گر گیا۔اتنے میں پہاڑی کے نیچے سے ایک شور کی آواز پیدا ہوئی اور ایسا معلوم ہوا کہ تکبیر کے نعرے بلند کئے جا رہے ہیں۔میں نے کسی سے پوچھا کہ یہ کیا شور ہے؟تو اس نے بتایا کہ یہ جماعت کے غرباء ہیںان کو جب خبر ہوئی کہ آپ سے لڑائی ہو رہی ہے تووہ آپ کی مدد کے لئے آئے ہیں۔میں خیال کرتا ہوں کہ جماعت تو ہمیشہ غرباء سے ہی ترقی کیا کرتی ہے۔یہ خدا کا فضل ہے کہ غرباء میرے ساتھ ہیں مگر تھوڑی دیر بعد وہ تکبیر کے نعرے خاموش ہو گئے اور مجھے بتایا گیا کہ آنے والوں سے فریب کیا گیا ہے۔انہیں کسی نے ایسا اشارہ کر دیا ہے کہ گویا اب خطرہ نہیں اور وہ چلے گئے ہیں۔کوئی مجھے مشورہ دیتا ہے کہ ہمارے ساتھ بچے ہیں اس لئے ہم تیز نہیں چل سکیں گے آپ نیچے جائیں آپ کو دیکھ کر لوگ اکٹھے ہو جائیں گے اور آپ اس قابل ہو نگے کہ ہماری مدد کر سکیں ۔چنانچہ میں نیچے اترتا ہوں اور غرباء میں سے مخلصین کی ایک جماعت کو دیکھتا ہوں اور ان سے کہتا ہوں کہ میں یہاں اس لئے آیا ہوں کہ تا مخلصین اکٹھے ہو جائیں۔تم اوپر جاؤ اور عورتوں اور بچوں کو با حفاظت لے آؤ۔اس پر وہ جاتے ہیں اتنے میں مَیں دیکھتا ہوں کہ پہلے مرد اترتے ہیں اور پھر عورتیں لیکن میرا لڑکا انور احمد نہیں آیا۔پھر ایک شخص آیا اور میں نے اس کو کہا کہ انور احمد کہاں ہے۔اس نے کہا وہ بھی آ گیا ہے پھر جماعت میں ایک بیداری اور جوش پیدا ہوتا ہے۔چاروں طرف سے لوگ آتے ہیں۔ان جمع ہونے والے لوگوں میں سے میں نے شہر سیالکوٹ کے کچھ لوگوں کو پہچانا ہے۔ان لوگوں کے ساتھ کچھ وہ لوگ بھی آ جاتے ہیں جو باغی تھے اور میں انہیں کہتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ نے تمہیں اتحاد کے ذریعہ طاقت دی تھی اگر تم ایسے فتنوں میں پڑے تو کمزور ہو کر ذلیل ہو جاؤ گے۔کچھ لوگ مجھ سے بحث کرتے ہیں۔میں انہیں دلائل کی طرف لاتا ہوں اور یہ بھی کہتا ہوں کہ اس سے جماعت کاتو کچھ نہیں بگڑے گاالبتہ اس کے وقار کو جو صدمہ پہنچے گا اس کے لئے اﷲ تعالیٰ کے حضور تم ذمہ دار ہو گے۔اس پر بعض لوگ کچھ نرم ہوتے ہیں لیکن دوسرے انہیں پھر ورغلا دیتے ہیںاور اسی بحث مباحثہ میں میری آنکھ کھل جاتی ہے۔اس رؤیا کے کئی حصوں سے معلوم ہوتا ہے یہ واقعات میری وفات کے بعد کے ہیں وَاﷲُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ اور اس موقع پر اس رؤیا کا آنا شاید اس امر پر دلالت کرتا ہو کہ مجھے جماعت کو آئندہ کے لئے ہوشیار کر چھوڑنا چاہئے کیونکہ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔اس رؤیا سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ میرے ساتھ تعلق رکھنے والے خواہ تھوڑے ہوں اپنے دشمنوں پر غالب آئیں گے۔اِنْشَائَ اﷲُ۔جب میں ابھی بچہ تھااور خلافت کا کوئی وہم وگمان نہ تھا۔یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں اُس وقت بھی اﷲ تعالیٰ نے مجھے خبر دی تھی۔اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔یعنی تیرے ماننے والے اپنے مخالفوں پر قیامت تک غالب رہیں گے۔اس وقت میں یہی سمجھتا تھا کہ یہ الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق ہے کیونکہ میرے اتباع کا تو خیال بھی میرے ذہن میں نہ آ سکتا تھاکہ کبھی ہوں گے۔یہ عبارت قرآن کریم کی ایک آیت سے لی گئی ہے جو حضرت مسیح ناصریؑ کے متعلق ہے مگر آیت میں وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ ۵؎ہے اور میری زبان پر اِنَّ الَّذِیْنَ کے لفظ جاری کئے گئے۔غرضیکہ اﷲ تعالیٰ نے اس قدر عرصہ پہلے سے یہ خبر دے رکھی تھی اور کہا تھا کہ مجھے اپنی ذات کی قَسم ہے کہ تیرے متبع تیرے منکروں پر قیامت تک غالب رہیں گے۔اب اس کی ایک مثال تو موجود ہے۔کتنے شاندار وہ لوگ تھے جنہوں نے جماعت سے علیحدگی اختیار کی مگر دیکھو اﷲ تعالیٰ نے ان کو کس طرح مغلوب کیا ہے۔بعد کا میرا ایک اور رؤیا بھی ہے جو اس کی تائید کرتا ہے۔میں نے ایک دفعہ دیکھا کہ اﷲ تعالیٰ نور کے ستون کے طور پر زمین کے نیچے سے نکلا ۔یعنی پاتال سے آیا اور اوپر آسمانوں کو پھاڑ کر نکل گیا۔اگرچہ مثال بُری ہے لیکن ہندوؤںمیں یہ عقیدہ ہے کہ شِو جی زمین کے نیچے سے آیا اور آسمانوں سے گزرتا ہؤا اوپر چلا گیا۔یہ مثال اچھی نہیں مگر اس میںاسی قِسم کا نظارہ بتایا گیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ پاتال سے نکل کر افلاک سے بھی اوپر نکل گیا۔میں نے بھی دیکھا کہ ایک نور کا ستون پاتال سے آیا اور افلاک کو چیرتا ہؤا چلا گیا۔میں کشف کی حالت میں سمجھتا ہوں کہ یہ خدا کا نور ہے۔پھر اس نور میں سے ایک ہاتھ نکلا لیکن مجھے ایسا شبہ پڑتا ہے کہ اس کے رنگ میں ایسی مشابہت تھی کہ گویا وہ گوشت کا ہے۔اس میں ایک پیالہ تھا جس میں دودھ تھا جو مجھے دیا گیااور میں نے اسے پیااور پیالے کو منہ سے ہٹاتے ہی پہلا فقرہ جو میرے منہ سے نکلا وہ یہ تھا کہ اب میری امت کبھی گمراہ نہ ہو گی۔معراج کی حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺکے سامنے تین پیالے پیش کئے گئے۔پانی، شراب اور دودھ کا اور آپ نے دودھ کا پیالہ پیا تو جبرائیل نے کہا کہ آپ کی اُمت کبھی گمراہ نہ ہو گی۔ہاں اگر آپ شراب کا پیالہ پیتے تو یہ اُمت کی گمراہی پر دلالت کرتا۔۶؎ پس ان رؤیاؤں سے معلوم ہوتاہے کہ ممکن ہے دشمن باہر سے مایوس ہو کر ہم میں سے بعض کو ورغلانا چاہے لیکن بہر حال فتح ان کی ہے جو میرے ساتھ ہیں میں یقینی طور پر نہیں کہہ سکتا کہ یہ واقعات میری زندگی میں ہوں گے یا میرے بعدکیونکہ بعض اوقات زندگی کے بعد کے واقعات بھی رؤیا میں دکھا دیئے جاتے ہیں۔اور بظاہر ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ بعد کے واقعات ہیںمگر میں جماعت کو ہوشیار کرتا ہوں کہ یہ قیمتی اصول ہیں جن پر انہیں مضبوطی سے قائم رہنا چاہئے ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مأموریت اور آپ کے اُمتی ہونے کو کبھی نہ بھولو۔آپ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے سب سے بڑی لذّت اس میں ملتی ہے کہ میں اُمتی نبی ہوں۔ پس جس خوبصورتی پر آپ کو ناز تھا ،اسے کبھی نہ چھوڑو۔پھر آپ کی تعلیم اورالہامات کو سامنے رکھو۔اس کے بعد خلافت ہے جس کے ساتھ جماعت کی ترقی وابستہ ہے۔رسول کریم ﷺ کی پیشگوئی تھی کہ جس دن مسلمانوں نے اس چادر کو پھاڑ دیااس کے بعد ان میں اتحاد نہیں ہو گا۔ حضرت عبد اﷲ بن سلام نے جو یہود سے مسلمان ہوئے تھے ،حضرت عثمان کی شہادت کے وقت کہا کہ اب مسلمانوں میں قیامت تک اتحاد نہیں ہو سکتا پس خلافت بہت قیمتی چیز ہے۔بے شک خلیفہ کا وجود قیمتی ہوتا ہے مگر اس سے بہت زیادہ قیمتی چیز خلافت ہے جس طرح نبی کا وجود قیمتی ہو تا ہے مگر اس سے زیادہ قیمتی چیز نبوت ہوتی ہے۔پس یہ اصول ہیں ان کو مضبوطی سے پکڑو۔پھر یہ خیال نہ کرو کہ تم تھوڑے ہویا بہت کیونکہ ان اصولوں کے پیچھے خدا ہے اور جو تم پر ہاتھ ڈالے گا وہ گویا خدا پر ہاتھ ڈالنے والا ہو گا۔جس طرح بجلی کی تار پر غلط طریق پر ہاتھ ڈالنے والا ہلاک ہو جاتا ہے لیکن صحیح طور پر ہاتھ ڈالنے والا اس سے انجن چلاتا ہے اور بڑے بڑے فوائد حاصل کر لیتا ہے۔اسی طرح ان اصول کے اگر تم پابند رہو،اﷲ تعالیٰ پر توکّل رکھواور ہر قربانی کے لئے تیاررہو تو تم پر حملہ آور ہونیوالا ہلاکت سے نہیں بچ سکے گا۔پس یہ باتیں اپنے اندر پیدا کرو اور چھوٹی چھوٹی چیزوں کی پرواہ نہ کروکہ یہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں ۔ابھی اس قِسم کے واقعات کا کوئی وہم و گمان بھی نہ تھااور نہ ہی میری خلافت کاکوئی خیال تھا کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے بتا دیا تھا کہ ان باتوں کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہئے ۔میں نے ایک دفعہ خواب دیکھا کہ میں ایک پہاڑی سے دوسری پہاڑی پر جانا چاہتا ہوں اور کوئی مجھے کہتا ہے کہ راستہ میں بعض چیزیں آپ کو ڈرانا چاہیں گی اور کئی قِسم کی شکلیں بَن بَن کر آپ کی توجہ کو دوسری طرف پھیرنا چاہیں گی مگر آپ یہ کہتے جائیں۔ ’’خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ‘‘ اور سیدھے چلتے جائیںاور کسی چیز کا خیال نہ کریں۔پس میں بھی آپ سے یہی کہتا ہوں کہ آپ لوگ اپنے نفسوں پر قابو رکھیں اور ان چھوٹی موٹی چیزوں کی پرواہ نہ کریں ان کو چھوڑ دیں کہ یہ خَس و خاشاک کی مانند ہیں جس طرح ایک شخص جسے بہت جلدی ہواگر اس کے پاؤں میں کانٹا چُبھ جائے تو وہ چلتے چلتے ہی اس کو نکال دیتا ہے،ٹھہرتا بھی نہیں۔ آپ لوگ بھی ان مخالفتوںکو زیادہ وقعت نہ دیں بلکہ یاد رکھیں کہ بعض اوقات تو کام اتنا ضروری ہوتا ہے کہ کانٹا نکالنے پر بھی وقت ضائع نہیں کیا جاتا۔ایک شخص ڈوب رہا ہو تو اسے بچانے کے لئے جانے والا کب کانٹے نکالنے بیٹھتا ہے۔پس تم اپنے مقصود کے پیچھے چلوجو دنیا میں اسلام اور سلسلہ کی عظمت کو قائم کرنا ہے۔اس کے ذرائع میں نے اپنی سکیم میں آپ لوگوں کے سامنے پیش کر دیئے ہیں۔انہیں مدّنظر رکھتے ہوئے چلتے جاؤاور کوئی گالیاں بھی دے تو پرواہ نہ کرو۔عام طور پر یہ قاعدہ ہے کہ چرچے سے بھی جوش زیادہ ہو جاتا ہے۔یہی مکان جس میں اب انجمن کے دفاتر ہیں جب اس کا ایک مالک فوت ہؤا تو عورتیں بَین کر رہی تھیں ۔پھر کئی قصّے کہانیاں شروع ہو گئیں اور مرنے والے کی بیوی بھی دوسری باتوں میں مشغول ہو کر ہنسنے اور باتیں کرنے لگی۔اتنے میں باہر سے اور عورتیں روتی ہوئی آئیں۔اور ایک نے دوہتڑ مار کر پیٹنا شروع کر دیااس پر وہ بیوی بھی پیٹنے لگی اور اس قدر ماتم کیا کہ بال نوچ ڈالے اور بدن کو لہو لہان کر دیا۔تو دوسروںکو روتا دیکھ کر بھی رونا آ جاتا ہے اس لئے دل میں فیصلہ کر لو کہ ہم نے ان باتوں کی طرف زیادہ توجہ نہیں کرنی۔
بے شک بعض حکام نے اس وقت انصاف نہیں کیامگر جب وقت آئے گا ہم یہ سب سُود واپس لیں گے۔ایک بنیے کے پاس اس کا مقروض رقم لے کر جاتا ہے کہ لے لوتو وہ اسے ٹالنے کی کوشش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ چوہدری صاحب آپ کے پاس ہؤا یا ہمارے پاس ایک ہی بات ہے اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ سود چڑھتا جائے اور پھر چھ ماہ کے بعد اور سود لگا کر زیادہ رقم کا مطالبہ شروع کرتا ہے۔اسی طرح ان گالیاں دینے والوں کی رقمیں سود کے ساتھ واپس دی جائیں گی اور ایک وقت آئے گا کہ پبلک میں سے ظلم کرنے والوں اور حکام میں سے ان کا ساتھ دینے والوںکا سارا سُود چکا دیا جائیگااور خواہ بالا حکام کے ذریعہ سے یا خود ہی خدا تعالیٰ تمہارے صبر کا بدلہ دلا دے گا۔پس جماعت کو میری نصیحت یہی ہے کہ مقصود کو سامنے رکھو اور موجودہ شرارتوںکو بھول جاؤ۔یہ باتیں بالکل چھوٹی ہیں اگرچہ بعض حالات میں بڑی ہو جاتی ہیں اور مجھے بھی ان کی طرف توجہ کرنی پڑتی ہے۔مگر میں پسند یہی کرتا ہوں کہ ان باتوں کی طرف زیادہ توجہ نہ کی جائے ۔تم بس یہ سمجھ لو کہ کتّا بھونک رہا ہے ۔اگر کوئی پولیس کا ملازم قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے تو حکومت کے سامنے خود ملزم بن رہا ہے۔تم اسے ملزم بنا کر کیا کرو گے۔تم دعاؤں میں لگے رہو اور اﷲ تعالیٰ سے تعلقات کو مضبوط کرو۔اس مبارک مہینہ میں اگر تم نے دعائیں کی ہیں تو پھر تمہیں کسی سے خطرہ کی ضرورت نہیں ۔سچے دل سے کی ہوئی ایک منٹ کی دعا کے بعد بھی انسان کو اطمینان ہو جاتا ہے۔یہ خیال بھی مت کرو کہ رمضان ختم ہو گیا ہے رمضان تمہارے دلوں میں رہ جائے گا۔ایک شخص سیاہی کو ہاتھ مارے تو سیاہی لگ جاتی ہے ،اگر سرخی کو ہاتھ
لگائے تو سرخی لگ جاتی ہے پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ رمضان دل میں سے گزرا ہو اور اس نے اپنے نقش نہ چھوڑے ہوں ۔پس سارا سال رمضان سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اس لئے اپنے اوپر رمضان کی حالت طاری کرو،نیکیوں میں لگ جاؤ،دعائیں کرو،آپس کی لڑائیاں جھگڑے چھوڑ دواور ہر وقت اپنے مقصود کو مدّ نظر رکھو۔اس کے باوجود اگر کوئی حاکم یا رعایا کا فرد تمہیں خواہ مخواہ دکھ دینے اور دل دکھانے کی کوشش کرتا ہے تو یہ خیال کر لو کہ کتّا تھا جو بھونک گیا ایک وقت آئے گا کہ ایسے حاکموں کی گردنیں خود گورنمنٹ دبوچ لے گی جب ان کی فریب کاریوں کا پردہ فاش ہو گا ۔حضرت مسیح موعود ؑکے الہامات سے پتہ چلتا ہے کہ اس حکومت کے ساتھ ہمارا تعاون رہے گا اوراگر ایک ڈپٹی کمشنر یا سپرنٹنڈنٹ پولیس یا کمشنر بھی مخالفت کرتا ہے تو اس کی پرواہ نہ کرو۔وہ بھی تو آخر ایک ماتحت افسر ہی ہے اور ان کی مخالفت میں بھی اصول کو مدّ نظر رکھو۔میں نے بتایا تھا کہ جو افسر تمہاری عزت نہیں کرتا تم اس کی عزت نہ کرو اور دوسروں کو بھی یہی سمجھاؤ کہ اس کا ادب نہ کریں۔اگر وہ ایک چوہڑے کو بھی تُو کہہ کر مخاطب کرتا ہے تو اگر وہ تمہارے سامنے آئے تو اسے تُو کہہ کر مخاطب کرو ۔اگر وہ گالی دیتا ہے تو مؤمن کا یہ کام تو نہیں کہ گالی دے مگر کم سے کم اس سے اتنی بے رخی سے پیش آؤ کہ اسے ہوش آ جائے۔پھرخود حکومت انہیں ملامت کرے گی۔مگر یہ باتیں تمہارا اصل مقصود نہیں ہیں ۔اصل مقصود نیکی تقویٰ اور تبلیغ ہے۔تم میں سے کتنے ہیں جو تہجّد پڑھتے ہیں ۔مجھے معلوم ہے کہ مساجد میں بیٹھ کر دوسرے تذکرے کرتے رہتے ہیں اور لغو باتوں میں مصروف رہتے ہیں۔پس پہلے اپنی اصلاح کرو اور مساجد میں ایسی باتیں کرو جو دین کے لئے مفید ہوںجن سے سلسلہ کو مدد ملے،لغو باتیں نہ کرو۔ہماری مساجد میں ذکرِ الٰہی کم ہوتا ہے۔بہت سے ایسے ہیں کہ انہوں نے کبھی ذکر نہیں کیا ۔جس طرح اپنے مذہب سے بے پرواہی برتنے والا ہندو نہاتے وقت پانی کی گڈوی اوپر پھینکتا اور کود کر خود آگے نکل جاتا ہے۔ان کی نمازوں کی بھی یہی حالت ہے ۔پس ا ﷲ تعالیٰ سے محبت اور اخلاص پیدا کرو۔پھر یہ چیزیں یا تو خود بخود چھوٹی نظر آنے لگیں گی۔یا پھر اﷲ تعالیٰ ان کے علاج سمجھا دے گا۔رمضان کا مہینہ اب جاتا ہے اور یہ جمعہ جمعۃ الوداع ہے۔اگرچہ مومن کا رمضان تو ہمیشہ رہتا ہے مگر اس خیال والوں کے لئے بھی ابھی دو روز باقی ہیںان میں خدا سے صلح کی کوشش کرو اور اسے مضبوطی کے ساتھ پکڑ لو۔ان ایام کے متعلق اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے انی قریب اور اگر قریب ہونے پر بھی نہ پکڑا جا سکے تو اور کب پکڑا جائے گا۔اس لئے ایسی مضبوطی سے پکڑو جیسے پنجابی میں انّھے والا جپھا یعنی اندھے کی گرفت کہتے ہیں۔اور جب اﷲ تعالیٰ کو اس مضبوطی سے پکڑ لیا جائے تو وہ خود کمزور بن جاتا ہے اور بندے کو طاقتور کر دیتا ہے اور اﷲ تعالیٰ بندوں کے ساتھ ہمیشہ صلح کرتا رہتا ہے۔وہ قرآن میں فرماتا ہے کہ ہم نے نبی بھیجے،دنیا نے ان کی مخالفت کی مگر ہم برابر نبی بھیجتے رہے۔یہ خود بخود صلح کی کوشش کرنا نہیں تو اور کیا ہے۔کہتے ہیں ایک دھوبی تھا جو ہر روز روٹھ جانے کا عادی تھا ۔ایک دن گھر والوں نے کہا کہ آج اسے نہیں منائیں گے۔وہ اپنا بیل ساتھ لے کر چلا گیااور جب شام تک کوئی منانے نہ آیا تو خود ہی اس کی دم پکڑ کر چل پڑا ۔بیل نے گھر کو ہی جانا تھا یہ بھی دم پکڑے جا رہا تھا اور کہتا جاتا تھا کہ یار کیا کرتے ہو،کیوں مجھے کھینچ کر گھر لئے جاتے ہو میں نہیں جاؤں گا۔تو ہمارا ربّ بھی اگرچہ خالق اور مالک ہے اور چاہے تو ایک سیکنڈ کے کروڑویں حصہ میں ہمیں تباہ کر دے مگر اپنی محبت میں اس قدر بڑھا ہؤا ہے کہ بندوں سے صلح کرنے اور انہیںمعاف کرنے کے بہانے ہی تلاش کرتا ہے اور گویا زبردستی بندے کے دل میں داخل ہو جاتا ہے۔چنانچہ دیکھو محمد رسول ا ﷲصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی وہ زبردستی آیا حالانکہ مکّہ کے لوگ اسے نکالنا چاہتے تھے۔پس ایسے خدا سے خاص کر اِن دنوں میں جب کہ وہ کہتا ہے کہ میں قریب ہوں، ایسی صلح کرو کہ تمہارے دلوں میں، کانوں میں، زبانوں پر، سینوں میں اور جسم کے ذرّہ ذرّہ میںوہ سرایت کر جائے۔اور جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ فِیْ قَلْبِیْ نُوْرًا وَ فِیْ بَصَرِیْ نُوْرًاوَ اجْعَلْ فِیْ سَمْعِیْ نُوْرًا وَاجْعَلْ فِیْ بَصَرِیْ نُوْرًا وَاجْعَلْ فِیْ کُلِّ اَعْضَائِیْ نُوْرًا اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ اَمَامَیْ نُوْرًا وَ اجْعَلْ خَلْفِیْ نُوْرًا وَاجْعَلْ یَمِیْنِیْ نُوْرًا وَاجْعَلْ یَسَارِیْ نُوْرًا وَاجْعَلْ فَوْقِیْ نُوْرًا وَاجْعَلْ تَحْتِیْ نُوْرًا اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ نُوْرًا۔ تمہارے جسم کے ہر حصہ میں اﷲ تعالیٰ کا ہی نور ہو۔
قرآن کریم میں آتا ہے کہ اَﷲُ نُوْرُ السَّمٰوَاتِ وَالَْاَرْضِ ۷؎ اور اس لئے اس دعا کا یہ مطلب ہؤا کہ خدا ہی خدا ہمارے ہر طرف ہو اور ہم میں اور اس میں فرق نہ رہے اور اگر تم یہ مقام حاصل کر لو تو پھر جو تم پر حملہ کرے گا ،وہ خدا پر حملہ کرنے والا ہو گااور جو خدا پر حملہ کرے وہ اپنا ٹھکانا خود سمجھ لے کہ کہاں ہو گا۔اﷲ تعالیٰ آپ لوگوںکو صبر کی توفیق دے اور ایسی اعلیٰ ہمت دے کہ آپ لوگ دنیا کی چھوٹی چھوٹی مشکلات سے گھبرا کر اپنے اصل مقصود کو ترک نہ کریں بلکہ اپنے نفس کی اصلاح اور پھر کُل دنیا کی اصلاح میں لگے رہیں ۔اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ۔
(الفضل ۱۷ ؍جنوری ۱۹۳۵ئ)
۱؎ البقرۃ:۱۴۹ ۲؎ النّٰزعٰت:۲
۳ ؎ فَلَمَّا قَضَیْنَا عَلَیْہِ الْمَوْتَ مَا دَلَّھُمْ عَلیٰ مَوْتِہٖٓ اِلَّا دَآبَّۃُ الْاَرْضِ تَأْ کُلُ مِنْسَأَتَہٗ فَلَمَّاخَرَّ تَبَیَّنَتِ الْجِنُّ اَنْ لَّوْکَانُوْا یَعْلَمُوْنَ الْغَیْبَ مَا لَبِثُوْا فِی الْعَذَابِ الْمُھِیْنِ
(سبا:۱۵)
۴؎ بخاری کتاب الجھاد باب یقاتل مِن وراء الامام و یتقی بہٖ
۵؎ آل عمرٰن:۵۶
۶؎ بخاری کتاب مناقب الانصار باب المعراج
۷؎ النور:۳۶





۲
خدمتِ اسلام کے لئے جماعت کا ہر فرد اپنی زندگی
وقف کر دے
(فرمودہ ۱۱؍جنوری ۱۹۳۵ئ)
تشہّد، تعوّذاور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
جمعہ کے لحاظ سے یہ ہندوستان کے لئے میری تحریکات کے مالی حصہ کا آخری جمعہ ہے۔اس وقت تک جو وعدے جماعتوں کی طرف سے موصول ہو چکے ہیں وہ ستّرہزار کے قریب ہیں اور جو رقوم آ چکی ہیںوہ ۲۳ ہزار کے قریب ہیں۔آج گیارھویں تاریخ ہے اور چار دن اور باقی ہیںجس کے بعد یہ تحریک ہندوستان کے لوگوں کے لئے ختم ہو جائے گی سوائے بنگال کے ،کہ بنگال کی جماعت میں سے جوبنگالی بولنے والا حصہ ہے اور درحقیقت وہی زیادہ ہے اس نے احتجاج کیا ہے کہ چونکہ ہمارے صوبہ کے ننانوے فیصدی لوگ اردو نہیں جانتے اور ’’الفضل‘‘ میں شائع ہونے والے خطبات سے ہم آگاہ نہیں ہو سکتے اس لئے خطبات کا بنگالی زبان میں ترجمہ کرنے پر مہینہ ڈیڑھ مہینہ لگ جائے گا اور پھر ان کے شائع کرنے اور انہیں لوگوں تک پہنچانے کے لئے بھی وقت درکار ہے اس لئے انہوں نے زیادہ مُہلت طلب کی ہے۔جس پر میں اُنہیں پندرہ مارچ یا پندرہ اپریل تک (مجھے اچھی طرح یاد نہیں ) مُہلت دے چکا ہوں۔بنگال کی جماعت ایک غریب جماعت ہے اور جو تعلیم یافتہ جماعت ہے وہ میرے خطبات سے واقف ہو چکی ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں بنگال میں اس تحریک کی اشاعت سے ہمیں مالی لحاظ سے گو معتدبہ فائدہ نہیں ہو گا لیکن اپنے اخلاص کے اظہار کا انہیں ایک موقع مل جائے گاجو بذات خود ایک نہایت ہی قیمتی چیز ہے۔بنگال کو خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ فضیلت حاصل ہے کہ پنجاب کے بعد زیادہ کثرت اور سُرعت کے ساتھ بنگال میں ہی ہماری جماعت پھیلنی شروع ہوئی ہے۔ شاید بنگال اور پنجاب کے لوگوں میں کوئی مناسبت ہے کیونکہ اسلام بھی پہلے پنجاب میں پھیلا اور پھر بنگال میں ۔جتنے قلیل عرصہ میں بنگال کی جماعت پھیلی ہے اتنے عرصہ میں کوئی اور جماعت نہیں پھیلی۔یوں تو بہار میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کئی صحابی موجود ہیں،اسی طرح یو۔پی میں مگر بنگال میں بہت بعد احمدیت گئی اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس نے جلد جلد ترقی کی ۔گو یہ جلدی ایسی نہیں جو بنگال کی آبادی کے لحاظ سے ہومگر بہر حال دوسرے صوبوں کے لحاظ سے اس نے ترقی کی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ان لوگوں کا حق تھا کہ گو رقم کے لحاظ سے ان کی طرف سے قلیل روپیہ آئے مگر انہیں اپنے اخلاص کے دکھانے کا موقع دیا جائے ۔
باقی باہر کی جماعتیں ہیں اور کچھ وہ لوگ بھی جنہیں ابھی تک اس تحریک کی خبر نہیں ہوئی اور گو ایسے لوگ بہت قلیل ہیں مگر بہر حال ہوتے ضرور ہیں۔چنانچہ پرسوں ہی مجھے ایک خط آیا کہ مجھے اس تحریک کی ابھی ابھی اطلاع ملی ہے کیونکہ میں سفر پر تھا اور مجھے اخبار دیکھنے کا موقع نہیں ملا۔پس ہو سکتا ہے کہ ہندوستان میں بھی ایسے بے خبر لوگ موجود ہوں مگر یہ قلیل تعداد ہے۔اور ہمیں سمجھنا چاہئے کہ ان تما م حالات کو دیکھ کر اندازاً۷۵ ہزار کے لگ بھگ وعدے ہو جائیں گے جو میرے مطالبہ سے اڑھائی گنے سے زیادہ یعنی پونے تین گنے کی رقم ہے۔ان رقوم کے علاوہ جو کام دوسرا تھا اس میں دو کمیٹیوں نے کام شروع کر دیا ہے۔پروپیگنڈا کمیٹی نے بھی کام شروع کر دیا ہے اور امانت کمیٹی نے بھی اپنے اجلاس شروع کر دیئے ہیں۔گو عملی کام ابھی اس نے شروع نہیں کیا مگر امید ہے کہ یہ دونوں قِسم کے کام اس مہینہ میں اچھی طرح شروع ہو جائیں گے۔امانت میں جن دوستوں نے اپنے نام لکھوائے ہیںخواہ وہ قادیان میںرہتے ہوں یا باہر ان سب کو میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ چونکہ یہ ان کے اخلاص کاامتحان ہے اس لئے اس تحریک میں زیادہ یاددہانیاں نہیں کرائی جائیں گی۔اگر کوئی شخص باقاعدہ چندہ نہیں دے گا تو دفترامانت ایک دو یاددہانیوں کے بعد اس کا نام رجسٹر سے کاٹ ڈالے گا اور سمجھا جائے گا کہ اس نے اپنے اخلاص کا محض مظاہرہ کیا تھا، حقیقت اس میں نہیں تھی۔پس دوست اس امر کی امید نہ رکھیں کہ لوگ ان کے پاس پہنچیں گے اور کہیں گے کہ لاؤ چندہ۔صدر انجمن والے چندوں میں پیچھے پڑ کر چندہ لیا جاتا ہے مگر یہ مطاوعت والے چندے ہیںاس لئے جس طرح اس تحریک میں شامل کرنے کے لئے کسی پر جبر نہیں کیا گیااسی طرح شامل ہونے کے بعد بھی کوئی جبر نہیں ہو گا۔پس اگر کوئی دوست اس ثواب میں شریک ہونے سے اس وجہ سے محروم رہ جائے کہ اس سے چندہ مانگا نہیں گیا تو اس کی ذمہ داری اسی پر عائد ہو گی۔میری ہدایات دفاتر متعلقہ کو یہی ہوں گی کہ وہ چندہ لوگوں سے مانگیں نہیںمگر چونکہ انسان کے ساتھ نسیان بھی لگا ہؤا ہے اس لئے کبھی کبھار اگر ایک دو یاددہانیاں کرا دی جائیں تو کوئی حرج نہیں۔مگر وعدے والے پر بھی اصرار نہ کیا جائے اور خالص طور پر اس میں لوگوں کو اپنی مرضی اور شوق کے ظاہر کرنے کا موقع دیا جائے۔ممکن ہے اس لحاظ سے کہ چندہ مانگنے کیلئے دفاتر متعلقہ کی طرف سے زیادہ اصرار نہیں کیا جائے گا،رقم کچھ کم ہو جائے اور غفلت، سُستی یا کمزوریِ ایمان کی وجہ سے بعض لوگ رہ جائیں۔پھر کئی لوگ ایسے بھی ہوتے ہیںجو فوری جوش میں آ کر اپنا نام لکھا دیتے ہیں مگر بعد میں وہ اپنے وعدوں کو پورا نہیں کرتے اور گو ہماری جماعت میں ایسا عنصر بہت کم ہوتا ہے لیکن چونکہ دوسرے چندوں میں اصرار کی عادت کی وجہ سے امکان ہے کہ ان چندوں میں عدمِ اصرار انہیں سُست کردے اس لحاظ سے ممکن ہے کہ رقم میرے اوپر بیان کردہ اندازہ سے کچھ کم موصول ہو۔پھر جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کچھ رقم انگریزی ترجمۂ قرآن کے لئے علیحدہ کر لی جائے گی اور کچھ رقم خرچ کر کے اندازوں کی غلطی کی وجہ سے بیان کردہ مدّات میں ڈالنی پڑے گی کیونکہ بعد میں مزید غور کرنے سے بعض مدّات کے متعلق معلوم ہؤاہے کہ ان پر اس سے زیادہ خرچ آئے گا،جتنا میں نے بیان کیا تھا۔ان تما م اخراجات کے بعد جو رقم بچ رہے گی وہ آنے والے دونوں سالوں میں تقسیم کر دی جائے گی۔امانت کے متعلق جو وعدے ہوئے ہیں،ان سے میرا اندازہ ہے کہ تین چار ہزار روپیہ ماہوار کی رقم آئیگی لیکن ہم یہ خیال کرتے تھے اور بات بھی معقول تھی کہ جنوری سے مدِّ امانت میں ادائیگی شروع ہو جائے گی کیونکہ جنہوں نے دسمبر میں وعدے کئے تھے وہ وعدے انہوں نے اس وقت کئے جب کہ وہ اپنی تنخواہیں خرچ کر چکے تھے۔پس امید کی جاتی تھی کہ وہ جنوری سے امانتیں جمع کرانی شروع کر دیں گے اور میں اَب بھی امید کرتاہوں کہ جنہوں نے امانت کے وعدے کئے ہیں ان کے ذہن میں یہی بات ہو گی۔مگر جن کے ذہن میں یہ بات نہ ہوانہیں چاہئے کہ وہ یہ واضح کر دیں کہ وہ کس مہینہ سے اپنی امانت ادا کرنی شروع کریں گے۔اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو دفتر امانت یہی سمجھے گا کہ جنوری سے انہوں نے وعدہ کیا ہؤاہے اور یہ کہ انہوں نے اپنے وعدہ پر عمل نہیں کیا۔اس صورت میں ایک دو ماہ کی غفلت کے بعد ان کا نام دفتر سے کاٹ دیا جائے گا اور سمجھا جائے گا کہ انہوں نے صرف دکھاوے سے کام لیا،حقیقت اس میں نہیں تھی ۔پس میں اس اعلان کے ذریعہ قادیان والوں کو براہ راست اور باہر کی جماعتوں کو اخبار کے ذریعہ توجہ دلاتا ہوں کہ ہم نے مجوزہ سکیم پر کام شروع کر دیا ہے اور جماعتوں کے سیکرٹریوں اور امراء کو چاہئے کہ وہ میرا یہ خطبہ لوگوں کو پڑھ کر سنا دیںکیونکہ اس کے سوا میری آواز ان تک پہنچنے کا اور کوئی ذریعہ نہیں ۔ہماری جماعت اﷲ تعالیٰ کے فضل سے لاکھوں کی جماعت ہے مگر اخبار ’’ الفضل ‘‘ کی اشاعت پندرہ سولہ سَو کے درمیان رہتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہزارہا آدمی ہماری جماعت میں ایسے ہیں جن کے کانوں تک میری آواز نہیں پہنچتی۔بنگالی اردو کا ایک حرف تک نہیں جانتے پس وہ ’’الفضل‘‘ سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے۔پھر ہمارے ملک میں ایک بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے۔اندازہ لگایا گیا ہے کہ مسلمانوں میں سے صرف تین چار فیصدی تعلیم یافتہ ہیںباقی چھیانوے ستانوے فیصدی ایسے لوگ ہیں جو پڑھے لکھے نہیں۔پھر جو لوگ پڑھ بھی سکتے ہیں ،ان میں سے کچھ غریب ہوتے ہیں اور وہ اپنی غربت کی وجہ سے اخبار نہیںمنگوا سکتے۔بہت سے سُست ہوتے ہیںاور بہت سے ایسے بھی ہوتے ہیں جو لکھے پڑھے ہونے کے باوجود اخبار نہیں منگواتے اور اگر ان کے قریب کوئی اور شخص اخبار منگواتا ہو تو اسی سے پوچھتے رہتے ہیں سنائیے’’الفضل‘‘ میں سے کوئی تازہ بات۔گویا وہ اتنا ہی کافی سمجھتے ہیں کہ اخبار لے کر پڑھ لیا۔یا کسی دوسر ے سے کوئی ایک آدھ خبر معلوم کر لی خود اس کو خریدنا ضروری نہیں سمجھتے۔پس ان تمام لوگوں کو مدّ نظر رکھتے ہوئے یہ جماعت کے عہدیداروں کا فرض ہے کہ وہ جمعہ یا اتوار کے دن یا ہفتہ میں کسی اور موقع پر میرا ہر خطبہ لوگوں کو سنا دیا کریں بلکہ جماعت کا اصل کام یہی ہونا چاہئے اور ہر جگہ کی جماعت کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ وہ میرا خطبۂ جمعہ تفصیلاً یا خلاصۃً لوگوں کو جمعہ یا اتوار کے دن سنا دیا کریں۔جس شخص کے سپرد خدا تعالیٰ جماعت کی اصلاح کا کام کرتا ہے اسے طاقت بھی ایسی بخشتا ہے جو دلوں کو صاف کرنے والی ہوتی ہے اور جو اثر اس کے کلام میں ہوتا ہے،وہ دوسرے کسی اور کے کلام میں نہیں ہو سکتالیکن میں نے دیکھا ہے سیکرٹریوں یا امراء کو یہ شوق ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ خود ہی خطبہ پڑھیں ۔مجھے کئی رپورٹیں ایسی آتی رہتی ہیں کہ جماعت کے لوگ بعض اہم خطبات کی نسبت چاہتے ہیں کہ ’’الفضل‘‘ سے پڑھ کر سنا دیئے جائیں مگرسیکرٹری یا امیر مُصر ہوتے ہیں کہ نہیں ،وہ اپنا ہی خطبہ سنائیں گے۔گویا وہ اپنی تقریر کے شوق اور لیڈری کی اُمنگ میں ان فوائد سے قوم کو محروم کر دیتے ہیںجو جماعت کے لئے ایسے ہی ضروری ہوتے ہیں جیسے بچہ کے لئے دودھ۔پس چونکہ یہ نہایت ہی خطرناک پالیسی ہے اس لئے آئندہ جماعتوں کو چاہئے کہ جو خطبات میں پڑھوں انہیں وہ جب بھی موقع ملے جماعت کو سنا دیا کریں۔جو زیادہ اہم ہوںانہیں تو جمعہ کے خطبہ کے طور پر سنا دیںاور جن میں کسی خاص سکیم کا ذکر نہ ہواسے جمعہ یا اتوار کو کوئی الگ مجلس کر کے خطبہ یا خطبے کا خلاصہ سنا دیا کریں۔بعض دفعہ خطبہ لمبا ہوتاہے یا جماعت میں سے اکثر نے پڑھا ہؤا ہوتا ہے اس صورت میں خطبے کا خلاصہ سنا دینا چاہئے مگر بہر حال جماعت کے ہر فرد تک خطبات کی آواز پہنچنی چاہئے ۔جو دراصل آواز پہنچانے کا اکیلا ذریعہ ہے ۔ورنہ امام کے لئے اور کون سا طریق ہو سکتا ہے جس سے کام لے کر وہ جماعت کو اپنے مافِی الضمیر سے آگاہ کر سکے۔جماعت کے نام خطوط تو میں لکھ نہیں سکتا،اس کے علاوہ کتابیں بھی میں اب نہیں لکھتا پس یہ خطبات ہی ایسی چیز ہیں جس کے ذریعہ میں اپنا عندیہ یا وہ عندیہ جو خدا تعالیٰ سے معلوم کروں ،ظاہر کرتا رہتا ہوں۔
اس کے بعد میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ دوسرے کاموں میں سے بھی بعض کام شروع کر دیئے گئے ہیں۔مثلاً جو تبلیغ کا کام تھااور جس کے متعلق میں نے مطالبہ کیا تھا کہ دوست اپنی زندگیاں وقف کر دیں۔یا جو لوگ سال میں یا دودو تین تین سال کے بعد لمبی چھٹیاں لے سکتے ہوں ،وہ اپنی فرصت اور رخصت کے اوقات کو خدا تعالیٰ کے دین کے لئے وقف کردیںتا کہ انہیں تبلیغ پر لگایا جا سکے اور لوگوں کو احمدیت کی طرف متوجہ کیا جا سکے۔اس کام کے لئے فِی الحال دو مرکز قائم کئے گئے ہیں اور کام بھی شروع کر دیا گیا ہے لیکن میں ان مرکزوںکا نام نہیں بتاتا کیونکہ ان کا مخفی رکھنا ضروری ہے۔اس کے علاوہ چار سائیکلسٹ بھی روانہ ہو چکے ہیںلیکن ساری سکیم پر دوبارہ غور کرنے اور عملی پہلوؤں کو اپنے ذہن میں مستحضر کرنے کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں پانچ نہیں بلکہ سولہ سائیکل سواروں کی ضرورت ہے اور اب تجویز یہی ہے کہ سولہ سائیکلسٹ مقرر کئے جائیں ۔اور چونکہ تجویز کی وسعت کے ساتھ زیادہ سائیکلوں کی ضرورت ہے اس لئے میں دوستوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بعض دوست ایسے ہوتے ہیں جو پہلے سائیکل پر سوار ہؤا کرتے تھے مگر اسکے بعد انہوں نے موٹر خرید لیا۔یا پہلے سائیکل پر سوار ہؤا کرتے تھے مگر اس کے بعد انہوں نے گھوڑا خرید لیا۔یا اب سائیکل پر چڑھنا ہی انہوں نے چھوڑ دیااور اس طرح سائیکل ان کے پاس بیکار پڑے ہوئے ہوتے ہیں۔پس اگر ایسے دوست ہماری جماعت میں ہوں خواہ وہ قادیان کے ہوں یا باہر کے تو وہ اس طرح بھی ثواب کما سکتے ہیںکہ اپنے اپنے سائیکل یہاں بھجوا دیں۔اگر ہم خریدنے لگیں تو آٹھ نو سو روپیہ ہمارا خرچ ہو جائے گالیکن اگر اس طرح سائیکل آ جائیں تو ایک ایک سائیکل پر خواہ دس پندرہ روپے بطور مرمت خرچ ہو جائیں ،تو پھر بھی سو ڈیڑھ سو روپیہ میں کئی سائیکل تیار ہو سکتے ہیںاور اس طرح بہت سی بچت ہو سکتی ہے۔اب جو چار سائیکلسٹ گئے ہیں ۔ان میں سے ایک کے پاس اپنا بائیسکل تھا جسے مرمت کرا دیا گیا۔دو سائیکل بعض دوستوں کی طرف سے ہدیۃً ملے تھے اور ایک سائیکل خرید لیا گیا۔چونکہ یہ تمام سائیکل سوار پندرہ بیس دن کے اندر اندر روانہ ہونے والے ہیں اس لئے قادیان یا باہر کی جماعت میں سے اگر کوئی دوست سائیکل دے سکتے ہوں تو بہت جلد بھجوا دیں۔غرض اﷲ تعالیٰ کے فضل سے اب سروے کا کام بھی شروع ہو گیا ہے اور تبلیغ کاکام بھی شروع ہو گیا ہے ۔گو ابھی یہ کام چھوٹے پیمانہ پر شروع کیا گیا ہے۔تا تمام مشکلات اور حالات ہمارے سامنے آ جائیں اور پھر ان کو دیکھ کر اپنے کام کو پھیلا سکیں۔اگر پہلی دفعہ ہی کام کو زیادہ پھیلا دیا جائے تو بعد میں بعض دفعہ اپنی طاقت کو سمیٹنا پڑتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے بہت سی طاقت ضائع کر دی۔پس اس لئے کہ ابتداء میں ہم یکدم اپنی طاقت صرف نہ کردیں اور اس لئے کہ تا حالات کا تجربہ ہو جائے،کام چھوٹے پیمانہ پر شروع کیا گیا ہے جسے تجربہ کے بعد انشاء اﷲ تعالیٰ وسیع کر دیا جائے گا۔
جن لوگوں نے میرے مطالبہ پر رخصتیں وقف کی ہیں،ان کی تعداد ابھی بہت تھوڑی ہے۔غالباً زمینداروں اور ملازمت پیشہ لوگوں کو ملا کر سو کے قریب تعداد ہے حالانکہ زمینداروں کو ملا کر ہماری جماعت میںسے تبلیغ کے قابل آدمی ہندوستان میں ہزاروں کی تعداد میں مل سکتے ہیں۔پس چونکہ اس مطالبہ کے جواب میں ابھی بہت ہی کم لوگوں نے اپنے آپ کو پیش کیا ہے اس لئے میں پھر جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس رنگ میں اپنی زندگیوں کو دین کی خدمت کے لئے وقف کریں۔میں پہلے بھی کئی دفعہ بتا چکا ہوں کہ دنیا میں روپیہ کے ذریعہ کبھی تبلیغ نہیں ہوئی اور جو قوم یہ سمجھتی ہے کہ روپیہ کے ذریعہ وہ اکنافِ عالَم تک اپنی تبلیغ کو پہنچا دے گی اس سے زیادہ فریب خوردہ ،اس سے زیادہ احمق اور اس سے زیادہ دیوانی قوم دنیا میں اور کوئی نہیں ۔روپیہ کے ذریعہ ہونے والا کام صرف ایک ظاہری چیز ہے جس کے اندر کوئی حقیقت نہیں ۔تم روپیہ کو قلابہ تو سمجھ سکتے ہو جو دو چیزوں کو آپس میں ملا دیتا ہے مگر وہ عارضی چیز ہے ۔جس کے اندر کوئی پائیداری نہیں ۔تم کیلوں سے مکان نہیں بنا سکتے بلکہ کیلوں کا اتنا ہی کام ہے کہ وہ دروازوں اور کھڑکیوں کو جوڑ دیں۔ جس چیز کے ساتھ مذہبی جماعتیں دنیا میں ترقی کیا کرتی ہیں وہ ذات کی قربانی ہوتی ہے نہ کہ روپیہ کی۔روپیہ کے ذریعہ سے مذہبی جماعتوں نے دنیا میں کبھی ترقی نہیں کی کیونکہ مذہب دلوں کو جیتتا ہے اور روپیہ کسی کے دل کو فتح نہیں کر سکتا۔روپیہ سے فتح کئے ہوئے لوگ زیادہ سے زیادہ غلام کہلائیں گے مگر مذہب تو وہ چیز ہے جو غلامی سے لوگوں کو نجات دلاتا ہے۔اگر تم روپیہ سے دنیا کو فتح کرتے ہو تو تم لوگوں کو غلام بناتے ہوکیونکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ تم نے دنیا کو خرید لیامگر کیا غلام بھی دنیا میں کوئی کام کیا کرتا ہے۔اس صورت میں تم دنیا کو ترقی کی طرف نہیں لاتے بلکہ اسے اور بھی زیادہ ذلیل اور تباہ کرتے ہو۔کیا تم سمجھتے ہو کہ بچے جس طرح اپنے ماں باپ کی خدمت کرتے ہیں ،غلام اس سے بڑھ کر خدمت کیا کرتے ہیں ۔یا غلام اور بچہ کی ایک ہی قیمت ہوتی ہے اگر نہیں تو اس کی کیا وجہ ہے اور کیوں بچہ قیمتی ہوتا ہے مگر غلام قیمتی نہیں ہوتا۔اس کی یہی وجہ ہوتی ہے کہ تم نے غلام کو روپیہ سے خریدا ہؤا ہوتا ہے مگر بچہ کو ماں نے اپنی جان دے کر خریدا ہوتا ہے۔بچہ کی قیمت کیا ہے؟بچہ کی قیمت ماں کا نو مہینے اپنی زندگی کا اس کے لئے وقف کر دینا ہے۔پھر بچہ کی قیمت زچگی کے وقت ماںکا اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کر دینا ہے۔زچگی کیا ہے۔ایک موت ہے جس کے بعد بچہ پیدا ہوتا ہے۔جس دن بچہ کی پیدائش ہوتی ہے اس دن گھر میں دو پیدائشیں ہوتی ہیں،ایک ماں کی پیدائش ہوتی ہے اور ایک بچہ کی پیدائش ہوتی ہے۔پس ماں نو مہینے کے لئے اپنی زندگی بچہ کے لئے وقف کرتی ہے پھر اپنی جان کو قربانی کے بھینٹ چڑھاتی ہے جس میں کبھی تو وہ جان دے دیتی ہے اور کبھی بچ کر آ جاتی ہے۔در حقیقت زچگی کے وقت عورت کے جسم پر جو اثرات ظاہر ہوتے ہیں اور جس قدر شدائد و مشکلات میں سے وہ گذرتی ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ عورت اﷲ تعالیٰ کے فضل کے طور پر دوبارہ زندہ کر دی جاتی ہے ورنہ وہ حالت زندگی کی نہیں ہوتی اس لئے باوجود سخت احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے ہر سال ایک بڑی تعداد عورتوں کی ہلاک ہو جاتی ہے ۔کبھی ماں مر جاتی ہے اور بچہ زندہ رہتا ہے کبھی بچہ مر جاتا ہے اور ماں زندہ رہ جاتی ہے اور کبھی ماں اور بچہ دونوں مر جاتے ہیں اور اس طریق پیدائش میں ہزارہا قربانیاں عورتوں کی طرف سے ہر سال کی جاتی ہیں۔پھر بچہ بھی ایک طرح کا غلام ہی ہوتا ہے بلکہ جتنی غلامی وہ کرے اتنا ہی شریف اور نیک سمجھا جاتا ہے مگر اس میں کوئی عیب یا ذلّت کی بات نہیں کیونکہ وہ جان دے کر خریدا گیا ہے۔پس درحقیقت وہی انسان دنیا میں مفید کام کر سکتے ہیں جو تمہاری روحانی اولاد ہوں اور جنہیں تم نے اپنی جانیں دے کر خریدا ہؤا ہو۔جن کے غم میں تم گُھلے جا رہے ہو اور جن کی ہدایت کے لئے تم خدا تعالیٰ کے دروازے کے آگے گویا روحانی رنگ میںمر چکے ہوتب اس کے نتیجہ میں تمہیں جو فرزند ملیں گے وہ تمہارے روحانی فرزند ہوں گے۔ مگر جن کو مبلّغوں کے ذریعہ روپیہ دے کر تم خریدو گے وہ غلام ہوں گے اور غلام کے ذریعہ تم کسی کام کی توقع نہیں کر سکتے۔یورپ کے مشنریوں نے روپیہ کے ذریعہ کتنی تبلیغ کی مگر ایک جگہ بھی وہ آزاد نہیں بلکہ وہ بھی غلام بنے ان کے ملک بھی غلام بنے، ان کے بچے بھی غلام بنے اور ان کی بیویاں بھی غلام بنیں۔افریقہ کا بیشترحصہ عیسائی ہے مگر کیا وہ آزاد ہیں ۔وہ اخلاقی طور پر بھی غلام ہیں وہ روحانی طور پر بھی غلام ہیںاور وہ جسمانی طور پر بھی غلام ہیںاور جب بھی ان قوموں کی آزادی کا سوال پیدا ہوتا ہے ،یورپین ممالک ہمیشہ یہی کہا کرتے ہیں کہ ہم نے بہت سا روپیہ ان کی بہتری کے لئے صرف کیا ہے اس لئے ہم ان ملکوں کو نہیں چھوڑ سکتے۔غرض روپیہ سے خریدی ہوئی چیز بجز غلامی میں اضافہ کرنے کے اور کسی کام نہیں آ سکتی مگر خدا اور اس کے قائم کردہ رسول لوگوںکو آزاد کرنے کے لئے آتے ہیں انہیں غلام بنانے کے لئے نہیں آتے۔ پس اگر تم دنیا میں کامیاب ہونا چاہتے ہوتو روپیہ کے ساتھ نہیںبلکہ لوگوں کو اپنی جان کے ساتھ خرید کر لاؤ جس کو روپیہ کے ساتھ خرید کر لاؤ گے وہ خود بھی ذلیل ہو گا اور تم بھی ذلیل ہو گے۔مگر جس کو جان دے کر خریدو گے وہ تم پر جان دے گااور تم اس پر قربان ہو گے۔پس یہ غلط ہے کہ تم روپیہ یا مبلّغین کے ذریعہ کام کر سکتے ہو تم اگر دنیا میں فتح یاب ہو نا چاہتے ہو تو جان دے کر ہو گے اور جان دینے کے معاملہ میں ہرگز کوئی قوم نہیں کہہ سکتی کہ چونکہ فلاں شخص نے جان دے دی ہے،اس لئے اسکا فرض ادا ہو گیا۔جب تک تم میں سے ہر شخص اپنے آپ کو اس قربانی کے لئے پیش نہیں کرتا،جب تک تم میں سے ہر شخص یہ سمجھ نہیں لیتا کہ اس کی زندگی اس کی نہیں بلکہ اس کے خد ااور اس کے رسول اور اس کے امام اور اس کے بھائیوں کی زندگی ہے،جب تک اس کی جان ہر ایک کی نہیں ہو جاتی سوائے اپنے آپ کے اس وقت تک اس میدان میں کسی کو کامیابی نہیں ہوئی،نہیں ہو سکتی، نہیں ہو گی۔پس میں جماعت کے تمام افراد کو توجہ دلاتا ہوں کہ یہ قربانی روپیہ والی قربانی سے کم نہیں بلکہ اس سے ہزار ہا گنا زیادہ اہم ہے اور جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے روپیہ ادا کر کے اپنے فرض کو پورا کر دیا ،وہ تمسخر کرتے ہیں اپنے ایمان سے، وہ تمسخر کرتے ہیں احکامِ الٰہی سے اور تمسخر کرتے ہیں خدا اور اس کے رسول سے ۔کیا تم سمجھتے ہو کہ جس وقت رسول کریم ﷺ بدر یااُحد کی جنگ کے لئے جا رہے تھے اُس وقت اگر کوئی شخص رسول کریم ﷺ کو ایک سَو روپیہ دے دیتا اور کہتا یَا رَسُوْلَ اﷲِ !میرا فرض ادا ہو گیا تو اس کا نام مؤمنوں میں شمار ہوتا؟کیا تم سمجھتے ہو خدا کا کلام اسے منافق قرار نہ دیتا ،اگر سمجھتے ہو تو پھر تم تین ہزار نہیں دس ہزار روپیہ دے کر بھی کس طرح فرض کر لیتے ہو کہ تمہارا حق ادا ہو گیا۔تم سے جس چیز کا مطالبہ کیا گیا اور جو اکیلا حقیقی مطالبہ ہے وہ تمہاری جان کا مطالبہ ہے۔نہ صرف تمہیں اس وقت اس مطالبہ کو پورا کرنا چاہئے بلکہ ہر وقت یہ مطالبہ تمہارے ذہن میں مستحضر رہنا چاہئے کیونکہ اس وقت تک تم میں جرأت و دلیری پیدا نہیں ہو سکتی جب تک تم اپنی جان کوایک بے حقیقت چیز سمجھ کر دین کے لئے اسے قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار نہ رہو۔کیوں تم میں سے بعض لوگ معمولی تکلیفوں سے گھبرا جاتے ہیں ،کیوں مصیبت کے وقت ان کے قدم لڑکھڑا جاتے ہیں اور کیوں ابتلاؤں کے وقت ٹھوکر کھا جاتے ہیں اسی لئے کہ یہ بات تمہارے ذہن میں نہیں کہ تمہاری جان تمہاری نہیں بلکہ خدا اور اس کے رسول اور اس کے سلسلہ کی ہے۔تم جب جماعت میں داخل ہوتے ہو تو یہ سمجھ لیتے ہو کہ تم نے ایک آنہ فی روپیہ چندہ دینا ہے حالانکہ اﷲ تعالیٰ تو روپیہ میں سے پندرہ آنے بھی قبول کرنے کو تیار نہیں۔میں تو سمجھ بھی نہیں سکتا کہ ایک جاہل بھی ایسا خیال کرتا ہو کہ روپیہ میںسے پندرہ آنے لے کر اﷲ تعالیٰ راضی ہو جائے گاآخر کیا چیز ہے جس کو تم پیش کرتے ہو۔یاد رکھو کہ اس زمانہ کو خداتعالیٰ نے ذوالقرنین کا زمانہ کہا ہے تم نے قرآن مجید میں پڑھا ہو گا کہ لوگوں نے اس سے کہا ہم تمہیں روپیہ دیتے ہیں ذوالقرنین نے اس کے جواب میں کہا کہ مجھے روپیہ کی ضرورت نہیں بلکہ میری فتوحات اور ذرائع سے ہوں گی۔میں اس تفصیل میں نہیں پڑنا چاہتا کہ وہ کیا ذرائع تھے جن سے ذوالقرنین کام لینا چاہتا تھا مگربہر حال قرآن مجید سے یہ ثابت ہے کہ اس نے کہا میری فتوحات روپیہ سے نہیں ہوں گی بلکہ اور چیزوں سے ہوں گی۔پس جنہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے ستائیس ہزار کے مطالبہ پر ستّر ہزار روپیہ دے دیااور اب ہمارا فرض ادا ہو گیا وہ غلطی پر ہیں۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر ہماری جماعت ستائیس ہزار روپیہ کے مطالبہ پر ستائیس ہزار روپیہ پیش نہ کرتی تو یہ اس کی موت کی علامت ہوتی مگر ستّر ہزار یا ایک لاکھ روپیہ بھی اکٹھا کر دینا اس کی زندگی کی علامت نہیں کہلا سکتی۔زندگی کی علامت یہ ہے کہ تم میں سے ہر شخص اپنی جان لے کر آگے آئے اور کہے کہ اے امیر المومنین! یہ خدا اور اس کے رسول اور اس کے دین اور اس کے اسلام کے لئے حاضر ہے جس دن سے تم سمجھ لو گے کہ تمہاری زندگیاں تمہاری نہیں بلکہ اسلام کے لئے ہیں،جس دن سے تم نے محض دل میں ہی یہ نہ سمجھ لیا بلکہ عملاً اس کے مطابق کام بھی شروع کر دیا اس دن تم کہہ سکو گے کہ تم زندہ جماعت ہو ۔تمہارا منہ سے یہ کہہ دینا مجھے کیا تسلی دے سکتا ہے کہ ہماری جان حاضر ہے جبکہ میں تم سے یہ کہوں کہ تم اپنے بارہ مہینوں میں سے تین یا دو ماہ سلسلہ کے لئے وقف کر دواور تم میرے اس مطالبہ پر خاموش رہو۔اس صورت میں مَیں کس طرح مانوں کہ تم جانیں فدا کرنے کے لئے تیار اور اسلام کے لئے انہیں قربان کرنے کے لئے حاضر ہو ۔اگر تم سال میں سے دو تین ماہ تبلیغ احمدیت کے لئے وقف کر دو تو اس سے کیا ہو گا۔زیادہ سے زیادہ یہی ہو گاکہ تم ان دو تین ماہ میں اپنے والدین یا بیوی بچوں کو ملنے کے لئے اگر جایا کرتے تھے تو اب نہیں جا سکو گے۔مگر کیا تم نے کبھی غور نہیں کیا کہ ولایت سے ڈپٹی کمشنر اور اعلیٰ حکام جب آتے ہیں تو بعض دفعہ پندرہ پندرہ سال یہاں رہتے ہیں اور اپنے وطن نہیں جا سکتے ۔کیا ان کے والدین نہیں ہوتے،ان کی بیویاں اور بچے نہیں ہوتے پھر انہوں نے تو کالے کوسوں جانا ہوتا ہے مگر تمہیں زیادہ سے زیادہ اپنے ہی ملک کے کسی اور صوبہ میں جانا ہو گا اور وہ بھی نوکریوں یا تجارت اور زراعت سے فراغت کے اوقات میں اور پھر اپنے گھر آ جانا ہو گا۔بلکہ ایک دو سال کیا اگر تمہیں ساری عمر کے لئے خدا اور اس کے دین کے لئے یہ قربانی کرنی پڑے تو تمہیں اس سے دریغ نہیں ہونا چاہئے مگر جس قربانی کا میں تم سے مطالبہ کر رہا ہوں، وہ تو ایسی ہی ہے جیسے دستر خوان کی بچی ہوئی ہڈیاں۔پس تمہاری چُھٹیوں کی مثال تو ہڈیوں یادستر خوان کے بچے ہوئے ٹکڑوں کی سی ہے۔اور گو اب تم سے روٹی کے بچے ہوئے ٹکڑے مانگے جاتے ہیں مگر کبھی تم سے یہ مطالبہ بھی کیا جائے گا کہ تم اپنی ساری روٹی دے دواور خود ایک ٹکڑا بھی نہ کھاؤ۔پس سرِ دست تو بچے ہوئے ٹکڑوں کا تم سے مطالبہ کیا گیا ہے اگر تم اس مطالبہ کو پورا نہیں کرتے تو کس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ تم اگلی قربانیوں کے لئے تیار ہو۔
پس میں جماعت کے دوستوں سے پھر وہی مطالبہ کرتا ہوںاور امید کرتا ہوں کہ تم میں سے ہر فرد اس غرض کے لئے اپنے آپ کو پیش کرے گایہاں تک کہ لوگ تمہیں مجنون کہنے لگ جائیں۔مجنون کی طاقت جس قدر بڑھ جاتی ہے وہ کسی پر مخفی نہیں۔یہاں ہی ایک استانی ہؤا کرتی تھیں،انہیں کبھی کبھی جنون کا دورہ ہو جاتا،ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل درس دے رہے تھے کہ اسے دورہ ہو گیا اور کوٹھے پر سے اس نے چھلانگ لگانی چاہی۔عورتوں نے شور مچایا تو حضرت خلیفہ اوّل نے بھی اٹھ کر اسے پکڑ لیا۔یہ اس زمانہ کی بات ہے جب حضرت خلیفہ اوّل ابھی بیمار نہ ہوئے تھے۔آپ کا جسم خوب چوڑا چکلا اور مضبوط تھا۔مجھے یاد ہے ایک دفعہ آپ نے بانہہ نکال کر کہا تھا کہ کوئی جوان ہو تو بانہہ پکڑ کر دیکھ لے۔مگر باوجود ایسی مضبوطی کے اور باوجود اس کے کہ پانچ سات اور عورتوں نے بھی اسے پکڑا ہؤا تھاپھر بھی وہ عورت ہاتھ سے نکلی جاتی تھی ۔تو جس وقت انسان دماغی حدوں کو توڑ دیتا ہے اُس وقت اُسے ایک غیر معمولی طاقت ملتی ہے چاہے جسمانی حدوں کے توڑنے کی وجہ سے حاصل ہواور چاہے روحانی قیود کو توڑ دینے کی وجہ سے حاصل ہو۔جس طرح انسان کے دماغ کی جب کَل بگڑ جاتی ہے تو اس کی طاقتیں وسیع ہو جاتی ہیںاسی طرح خدا کی طرف سے جب آواز بلند ہو اور انسان دیوانہ وار کہے کہ آتا ہوں ،آتا ہوں تو پھر کوئی طاقت اور قوت اسے روک نہیں سکتی۔یہی روحانی دیوانے ہوتے ہیں جو دنیا میںکوئی کام کیا کرتے ہیں،یہی روحانی دیوانے ہوتے ہیں جو دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر دیا کرتے ہیں،ایساانقلاب جو اس کے تمدّن میں تبدیلی پیدا کر دیتا ہے ،اس کی سیاست میں تبدیلی پیدا کر دیتا ہے ،اس کی تعلیمی حالت میں تبدیلی پیدا کر دیتا ہے اور اس کے اخلاق میں تبدیلی پیدا کر دیتا ہے۔ورنہ وہ چند نقال جو یورپین مدرسوں میں پڑھنے کے بعد مغربی اصطلاحیں رٹنے لگ جاتے ہیں یا چند زمیندار جو صبح سے شام تک ہل چلا کر گھروں میں آ بیٹھتے ہیں انہوں نے دنیا میں کون سی تبدیلی کر دی یا کون سی وہ تبدیلی کر سکتے ہیںاگرچہ ہم اپنی ساری کمائی سامنے لا کر رکھ دیں۔ دنیا میں تبدیلی کرنے کے لئے پہلے اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے،پہلے اپنے اندر وہ چیز پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جو دنیا میں زندگی کی روح پھونکنے والی ہو۔پس میں اپنی جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس جسمانی قربانی کی اہمیت کو محسوس کریںاور یہ پہلا قدم ہے جس کے اٹھانے کا ان سے مطالبہ کیاگیا ہے۔ورنہ اصل قدم تو یہی ہے کہ ہر وقت ان کے ذہن میں یہ بات رہے کہ ان کی جان ان کی نہیں بلکہ خدا کے قائم کردہ سلسلہ کی ہے اور یہ کہ وہ بزدل نہیں بلکہ بہادر ہیں۔جو لوگ بہادر ہوں ان سے لوگ ہمیشہ ڈرا کرتے ہیں۔ہمارے صوبہ میں کبھی کوئی پٹھان آ جائے اور اس کا کسی سے جھگڑا ہو جائے تو زمیندار اسے دیکھ کر جھٹ کہنے لگ جاتا ہے کہ پٹھان ہے جانے بھی دو کہیں خون نہ کر دے۔حالانکہ ہمارے بعض پنجابی ایسے ایسے مضبوط ہوتے ہیں کہ اگر ان میں سے ایک بھی پٹھان کو پکڑ لے تو اسے ہلنے نہ دے مگر اس کا رُعب ہی ایسا ہوتا ہے کہ پنجابی کہنے لگ جاتے ہیں خان صاحب آ گئے اور ان کی ساری شیخیاں کافور ہو جاتی ہیں۔پس جو قوم مرنے کے لئے تیار ہو اس سے ہر قوم ڈرا کرتی ہے۔اسی طرح ہم بھی اگر اپنی جانیں دینے پر آمادہ ہو جائیں تو لوگ ہم سے بھی ڈرنے لگ جائیں گے مگر وہ ڈر خوف والا نہیں ہو گا بلکہ محبت والا ہو گا۔ہم عمارتوں کو اس لئے نہیں گرائیں گے کہ ان کے باغوں کو ویران اور ان کے محلّات کو کھنڈر کر دیں بلکہ ہم پاخانوں کو گِرا کر انہیں قلعے بنائیں گے اسی طرح کاغذوں کو جلائیں گے مگر اس طرح نہیں کہ دیا سلائی سے انہیں جلا دیابلکہ ان کی گندی عبارتیں مٹا کر ان پر پاکیزہ عبارتیں لکھیں گے۔پس ہمارے اصول تخریبی نہیں بلکہ تعمیری ہوں گے کیونکہ جو قومیں تباہی کے اصول دنیا میں رائج کیا کرتی ہیں وہ خود بھی تباہ ہوتی ہیں ان کے اصول بھی ناکارہ جاتے ہیں۔محبت ہی ہے جو آخر دنیا کو فتح کرتی اور عالمگیر مؤاخات کا سلسلہ قائم کر دیتی ہے۔
ہمارے نوجوانوں میں سے بعض نے اپنی زندگیاں وقف کی ہوئی ہیں اور میں آج کل ان کا امتحان بھی لے رہا ہوں۔ اس امتحان لینے سے جہاں مجھے یہ معلوم ہؤا کہ ان نوجوانوں میں اخلاص اور جرأت ہے ،وہاں مجھے یہ بات بھی نہایت افسوس اور رنج سے معلوم ہوئی کہ ان کی تربیت اس رنگ میں نہیں ہوئی جس رنگ میں اسلام لوگوں کی تربیت کرنا چاہتا ہے۔اسلام مؤمن کے دماغ میں ایک وسعت پیدا کر دیتا ہے اتنی بڑی وسعت کے ہر مؤمن اپنے آپ کو دنیا کا بادشاہ سمجھتا ہے وہ کسی ایک صوبہ یا ایک ملک یا ایک برّاعظم کا نہیں بلکہ ساری دنیا کا اپنے آپ کو بادشاہ سمجھتا ہے اور دنیا کے ہر شعبے کی طرف اپنی نگاہ دوڑاتا اور ہر شعبے سے اپنے لئے فوائد اخذ کرتا ہے۔اسی لئے صوفیاء کرام نے انسان کو عالَمِ صغیر کہا ہے اور گو ظاہری الفاظ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ہر انسان کو عالَمِ صغیر کہامگر درحقیت ان کی انسان سے مراد انسان کامل ہے۔ جس طرح ایک انچ کا شیشہ بھی اگر ایک وسیع باغ کے سامنے رکھ دیا جائے ۔تو اس باغ کے تمام پودے نہایت چھوٹے پیمانہ پر شیشے میں نمایاں ہو جاتے ہیںاور جس طرح سبزہ زار کو ظاہری طور پر دیکھ کر انسان لطف اندوز ہوتا ہے اسی طرح شیشہ میں دیکھ کر لطف اٹھا سکتا ہے۔بالکل اسی طرح ایک مؤمن کی نگاہ تمام دنیا پر وسیع ہوتی ہے اس کا دماغ روشن اس کی عقل تیز اس کے حوصلے بلند، اس کی امنگیں شاندار اور اس کی خیال آرائیاں بہت اونچی ہوتی ہیںمگر مجھے نہایت ہی افسوس سے معلوم ہؤاکہ ’’جامعہ احمدیہ ‘‘ میں جو طلباء تعلیم پاتے ہیں انہیں کنوئوں کے مینڈکوں کی طرح رکھا گیا ہے۔ان میں کوئی وسعتِ خیال نہ تھی،ان میں کوئی شاندار امنگیں نہ تھیں اور ان میں کوئی روشن دماغی نہ تھی میں نے کُرید کُرید کر ان کے دماغ میں داخل ہونا چاہا مگر مجھے چاروں طرف سے ان کے دماغ کا رستہ بند نظر آیا اور مجھے معلوم ہؤا کہ سوائے اس کے کہ انہیں کہا جاتاہے کہ وفات مسیح کی یہ یہ آیتیں رَٹ لو یا نبوّت کے مسئلہ کی یہ دلیلیں یاد کر لو،انہیں اور کوئی بات نہیں سکھائی جاتی۔جس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارا کام اتنا ہی ہے کہ کچھ لوگ خرابی کریں اور ہم اسے مٹا دیاکریںگویا خدا کے پاس نَعُوْذُ بِاﷲِ تعمیری کام کوئی نہیں اگر ہے توتخریبی کام ہی ہے۔اور پھر اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر چند مولوی یہ خیال نہ گھڑ لیتے کہ رسول کریم ﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہے یا چند مولوی یہ خیال نہ پھیلا دیتے کہ مسیح ناصری آسمان پر زندہ موجودہیں تو نہ مسیح موعود کی ضرورت تھی اور نہ سلسلہ احمدیہ کے قیام کی۔گویا ہماری جماعت صرف چند مولویوں کے ڈھکوسلوں کو دور کرنے کے لئے دنیا میں قائم ہوئی ہے۔میں نہیں سمجھ سکتا اس سے زیادہ ذلیل، اس سے زیادہ ادنیٰ، اس سے زیادہ رُسوا کن اور اس سے زیادہ کمینہ خیال بھی دنیا میں کوئی اور ہو سکتا ہے۔پس یہ عالم ہیں جنہیں جامعہ تیار کر رہا ہے اور یہ مبلّغ ہیں جنہیں احمدیت کی تبلیغ کے لئے تعلیم دی جا رہی ہے۔حالانکہ یہ ویسے ہی مسجد کے ملنٹے ہیں جن کو مٹانے کے لئے یہ سلسلہ قائم ہؤا ہے۔میں نے عام طور پر لڑکوں سے سوال کر کے دیکھااور مجھے معلوم ہؤا کہ کثرت سے طالب علم ایسے ہیں جنہوں نے کبھی اخبار کو پڑھا ہی نہیں ۔کیا دنیا میں کبھی کوئی ڈاکٹر کام کر سکتا ہے جسے معلوم ہی نہیں کہ مرضیں کون کون سی ہوتی ہیں۔میں نے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھا ہے آپ راتوں کو بھی کام کرتے اور دن کو بھی کام کرتے اور اخبارات کا باقاعدہ مطالعہ رکھتے۔اسی تحریک کے دوران مَیں خود اکتوبر سے لے کر آج تک بارہ بجے سے پہلے کبھی نہیں سویا اور اخبار کا مطالعہ کرنا بھی نہیں چھوڑا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تو میں نے اس طرح دیکھا ہے کہ جب ہم سوتے اس وقت بھی آپ جاگ رہے ہوتے اور جب ہم جاگتے تو اس وقت بھی آپ کام کر رہے ہوتے۔جب انہیں پتہ ہی نہیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے تو وہ دنیا میں کام کیا کر سکتے ہیں۔میں نے جس سے بھی سوال کیا ۔معلوم ہو اکہ اس نے اخبار کبھی نہیں پڑھا اور جب بھی میں نے ان کی امنگ پوچھی تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم تبلیغ کریں گے۔اور جب سوال کیا کہ کس طرح تبلیغ کرو گے تو یہ جواب دیا کہ جس طرح بھی ہو گا تبلیغ کریں گے۔یہ الفاظ کہنے والوں کی ہمت تو بتاتے ہیں مگر عقل تو نہیں بتاتے۔الفاظ سے یہ تو ظاہر ہوتا ہے کہ کہنے والا ہمت رکھتا ہے مگر یہ بھی ظاہر ہو جاتا ہے کہ کہنے والے میں عقل نہیں اور نہ وسعتِ خیال ہے۔جس طرح ہو گا تو سؤر کیا کرتا ہے۔اگر سؤر کی زبان ہوتی اور اس سے پوچھا جاتا کہ تُو کس طرح حملہ کرے گا تو وہ یہی کہتا کہ جس طرح ہو گا کروں گا۔بس سؤر کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ سیدھا چل پڑتا ہے آگے نیزہ لے کر بیٹھو تو وہ نیزہ پر حملہ کر دے گا ،بندوق لے کر بیٹھو تو بندوق کی گولی کی طرف دوڑتا چلا آئے گا۔پس یہ تو سؤروں والا حملہ ہے کہ سیدھے چلے گئے اور عواقب کا کوئی خیال نہ کیا حالانکہ دل میں ارادے یہ ہونے چاہئیں کہ ہم نے دنیا میں کوئی نیک اور مفید تغیر کرنا ہے ۔مگر اس قِسم کی کوئی امنگ میں نے نوجوانوں میں نہیں دیکھی اور اسی وجہ سے جتنے اہم اور ضروری کام ہیں وہ اس تبلیغی شعبہ سے پوشیدہ ہو گئے ہیںاور یہی وجہ ہے کہ جماعت ترقی نہیں کرتی۔حالانکہ مبلّغ کا کام یہ ہے کہ وہ دنیا میں ایک آگ لگا دے۔جہاں جائے وہاں دیا سلائی لگائے اور آگے چلا جائے ۔اگر مبلّغ ایک جنگل کو صاف کرنے بیٹھے تو وہ اور اس کی نسلیں بھی ہزار سال میں ایک جنگل کو صاف نہیں کر سکتیں لیکن اگر وہ سوکھی لکڑیوں اور پتوں وغیرہ کو اکٹھا کر کے دیا سلائی لگاتا چلا جائے تو چند دنوں میں ہی تمام جنگل راکھ کا ڈھیر ہو جائے گا۔پس مجھے نہایت ہی افسوس سے معلوم ہؤا کہ مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ کی تعلیم نہایت ہی ناقص اور نہایت ہی ردی اور نہایت ہی ناپسندیدہ حالت میں ہے۔اس میں شبہ نہیں کہ طالب علموں میں ایمان اور اخلاص نہایت اعلیٰ درجہ کا ہے۔چنانچہ ایک طالب علم سے جب میں نے پوچھا کہ تم یہ سمجھ لو کہ ہم نے جس امداد کا وعدہ کیا ہے ممکن ہے اتنا بھی نہ دے سکیں۔تو اس نے جواب دیا کہ جو کچھ آپ دے رہے ہیں یہ تو احسان ہے اﷲ تعالیٰ کی قَسم آپ اس وقت کہیں کہ چین چلے جاؤ تو میں ٹوکری ہاتھ میں لے کر مزدوری کرتا ہؤا روانہ ہو جاؤں گا۔یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ لڑکوں کی ذات میں اخلاص ہے مگر یہ اخلاص استاد توپیدا نہیں کرتے یہ ماحول کا نتیجہ ہے ورنہ جو کام استادوں کا ہونا چاہئے تھا وہ نہیں ہؤا وہ ہیرے ہیں مگر بے کاٹے ہوئے ۔ہم نے مدرسہ اور جامعہ میں انہیں اس لئے بھیجا تھا کہ تا وہ ہیرے ہمیں کاٹ کر بھیجے جائیںمگر وہ پھر بے کٹے ہمارے پاس آ گئے ۔یہ ایک اتنی بڑی کوتاہی ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ سینکڑوں طالب علم ہیں جن کی زندگیاں تباہ کر دی گئیںاور انہیں ملونٹے اور مسجد کے کنگال مولوی بنا دیا گیا ہے ۔نہ ان کے دماغوں میں کوئی تعمیری پروگرام ہے نہ ان کی آنکھوں میں عشق ہے اور نہ ان کے سینوں میں سُلگتی ہوئی آگ ہے اگر آگ ہے تو دبی ہوئی مگر دبی ہوئی آگ کیا فائدہ دے سکتی ہے۔بند ایمان کوئی فائدہ نہیں دے سکتا بلکہ وہی ایمان فائدہ دے سکتا ہے جو کُھلا ہو اور ایمان جب کُھلتا ہے تو انسان کو وسعتِ خیال حاصل ہو جاتی ہے ۔روز نئی نئی سکیمیں اسے سوجھتی ہیں،نئے سے نئے ارادے اور نئی سے نئی امنگیں اس کے دل میں موجزن ہوتی ہیںاور اگر امنگ پیدا ہو تو پھر وہ چُھپ نہیں سکتی بلکہ ظاہر ہو کر رہتی ہے ۔بند ہنڈیا میں بھی اگر دھوآں جمع ہو جائے تو وہ دھوئیں کی وجہ سے اُچھلنے لگ جاتی ہے۔پس ایک ہنڈیا دھوئیں سے اچھل سکتی ہے تو کیا مؤمن کے اندراگر وسعتِ خیال اور اُمنگیں داخل ہو جائیں تو وہ نہیں اچھلے گا ۔ریل ایجاد ہوئی تو محض اسی بات سے کہ ایجاد کرنے والے نے ایک دن دیکھا کہ بند ہنڈیا دھوئیں سے اُچھل رہی ہے۔اس کے ذہن میں معاً بات آئی اور اس نے ایک انجن بنایا جس میں دُھوآں بھر دیا اور وہ چلنے لگ گیا ۔تو بخارات بھی اگر بند ہوںتو ہنڈیا کو اچھال سکتے ہیں تو جس کے دل میں ایمان اور محبت کا دُھواں اُٹھ رہا ہو وہ کس طرح کم حوصلہ ہو سکتے ہیں ۔مگر میں نے جامعہ کے طالب علموں کو ایسا دیکھا کہ گویا وہ بڑے بڑے پتھروں کے نیچے دبے پڑے ہیں حالانکہ انہیں غباروں کی طرح اُڑنا چاہئے تھا اور بجائے اس کے کہ ہم کہتے جاؤ اور خدا کے دین کی تبلیغ کرو،وہ خود دیوانہ وار تبلیغ کے لئے نکل کھڑے ہوتے ۔مگر ان غریبوں نے جو ایمان پیدا کیا، مدرّسوں اور پروفیسروں نے اسے صیقل کرنے کی طرف دھیان ہی نہیں کیا اور میںیہ سمجھتا ہوں یہ سینکڑوں خون ہیں جو ان کی گردنوں پر رکھے جائیں گے ۔جس طرح ایک دیوار کے سامنے جب آدمی کھڑا ہو جائے تو اسے آگے جانے کا راستہ نہیں ملتا اسی طرح میں نے ان کے دماغ میں کُرید کُرید کر جانا چاہامگر مجھے معلوم ہؤا کہ ان کا دماغ محض ایک دیوار ہے، سر ٹکرا کر مر جاؤ مگر آگے راستہ نہیں ملے گا۔ غضب یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں تک انہوں نے نہیں پڑھیں ۔جس سے بھی سوال کیا گیا کورس کی کتابوں کے سِوا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں میں سے دو ایک کے علاوہ وہ کسی کا نام نہ لے سکا ۔اگر انہیں اپنے ایمانوں کی مضبوطی کا خیال ہوتا تو کیا ہو سکتا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کا مطالعہ نہ کرتے ۔مجھے تو یاد ہے جب میں سکول میں پڑھا کرتا تھا ہمیشہ مجھے کوئی نہ کوئی بیماری رہتی تھی اور مدرسہ سے بھی اکثر ناغے ہوتے مگر اس عمر میں ہی میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھی ہیں ۔بعض دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بستہ میں کوئی نئی کتاب رکھنی ، تو وہیں سے کِھسکا کر لے جانی اور شروع سے آخر تک اسے پڑھنا ۔بلکہ موجودہ عمر میں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کم کتابیں پڑھی ہیں کیونکہ اب میرے علم کے استعمال کرنے کا وقت ہے ۔مگر چھوٹی عمر میں جب مدرسہ کی پڑھائی سے بوجہ بیماری فراغت ہوتی اور اور کام نہ ہوتا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں مَیں بہت پڑھا کرتا تھا اور درحقیقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابیں ہی علم کا سمندر ہیں ۔اس وقت جب کہ اکثر لوگ خود ہی مسیح کو وفات یافتہ کہہ رہے ہیں ان بحثوں میں کیا رکھا ہے کہ وفات مسیح کے یہ دلائل ہیں اور فلانے علامہ نے یہ لکھا اور فلاں امام نے یہ لکھا۔کن چیزوں پر حصر کرنے کا نام علم رکھ لیا گیا ہے۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ یہ بالکل بے کار چیزیں ہیں یہ بھی مفید چیزیں ہیں مگر ان کی مزید تحقیق کی چنداں ضرورت نہیں ۔ان کے لئے کافی ذخیرہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب میں آ چکا ہے۔اب ان سوالات سے ایسا ہی تعلق ہونا چاہئے تھا جیسا سیر فِی الکتب کرتے ہوئے کوئی نئی بات آ گئی تو اسے معمولی طور پر نوٹ کر لیا مگر اس پر اپنے دماغوں کو لگانے اور اپنی محنت کو ضائع کرنے کے کیا معنی ہیں ۔تمہیں اس سے کیا تعلق کہ فلاں امام نے کیا لکھا۔ تمہیں تو اپنے اندر ایک آگ پیدا کرنا چاہئے ایمان پیدا کرنا چاہئے، اخلاق پیدا کرنے چاہئیں ،اُمنگیں پیدا کرنی چاہئیں اور تمہیں سمجھنا چاہئے کہ تمہیں خدا نے کسی خاص کام کے لئے پیدا کیا ہے اور تم زمین میں اس کے خلیفہ ہو ۔پھر تم اخبار میں پڑھتے اور جہاں جہاں مسلمانوں کو تکالیف و مصائب میں گرفتار پاتے ،تمہارے دلوں میں ٹیسیں اٹھتیں اور تم ان کی بہبودی کے لئے کوششیں کرتے ۔مگر تم دنیا کے حالات سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہو ۔اور جیسے ترکوں کے حرم مشہور ہیں اسی طرح طالب علموں کو حرم بنا کر رکھ دیا گیا ہے ۔پس جہاں ایک طرف مجھے خوشی ہوئی کہ لڑکوں میں اخلاص پایا جاتا ہے بلکہ بعض کا اخلاص تو ایسا تھا جو دلوں پر رقّت طاری کر دیتا اور وہ اپنی مثال آپ تھا ۔مگر وہ ان بے بس قیدیوں سے مشابہت رکھتے تھے جن کے ہاتھ پاؤں جکڑ دیئے جائیں اور وہ مرنے کے لئے تو تیار ہوں مگر انہیں یہ معلوم نہ ہو کہ اپنی جان کو کس طرح بچایا جا سکتا ہے۔لیکن مؤمن کو خدا تعالیٰ نے اس لئے تو پیدا نہیں کیا کہ وہ مر جائے بلکہ اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ خود بھی زندہ رہے اور دوسروں کو بھی زندہ رکھے ۔نپولین کے گارڈز کی مثال میں نے کئی دفعہ سنائی ہے کہ ایک جنگ میں ان کا سامان ختم ہو گیا۔لوگوں نے انہیں کہا کہ میدان سے بھاگتے کیوں نہیں ۔تو انہوں نے کہا کہ نپولین نے ہمیں بھاگنا سکھایا نہیں ۔اگر میں ان طالب علموں سے کہتا کہ جاؤ اور آگ میں کود پڑو تو وہ آگ میں کودنے کے لئے تیار تھے ۔اگر میں انہیں کہتا کہ سمندر میں کود جاؤ تو وہ سمندر میں بھی کودنے پر تیار تھے ۔مگر وہ آگ سے نکلنے کا راستہ نہیں جانتے اور نہ سمندر میں تیرنے کا مادہ ان میں ہے حالانکہ جب میں لوگوں سے کہتا ہوں کہ مر جاؤ تو اس کا یہ مطلب تو نہیں ہوتا کہ اس کا نتیجہ تمہاری موت ہو گا کیونکہ مؤمن کو خدا کبھی ہلاک نہیں کرتا ۔اور مؤمن کی جان سے زیادہ اور کوئی قیمتی چیز اﷲ تعالیٰ کے نزدیک نہیں ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود فرماتے ہیں کہاﷲ تعالیٰ کو اس سے زیادہ صدمہ اور کسی وقت نہیں ہوتا جتنا ایک مؤمن بندے کی جان نکالتے وقت اُسے ہوتا ہے ۔ ۱؎
پس مؤمن کی جان تو اتنی قیمتی چیز ہے کہ اس کے نکلنے سے عرشِ الٰہی بھی کانپ اٹھتا ہے۔اور گو مؤمن کو خدا ہلاک کرنے کے لئے پیدا نہیں کرتا مگر مؤمن کا یہ فرض ضرور ہوتا ہے کہ وہ اپنی جان دینے کے لئے تیار رہے۔ہاں اپنی تدبیروں کو وسیع رکھے اور نہ صرف اپنی جان بلکہ ہزاروں جانوں کو بچانے کے خیالات اس کے دل میں سمائے رہیں ۔
پس میں جہاں جماعت کو قربانیوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں ،وہاں ذمہ دار کارکنوں اور صدر انجمن کو بھی توجہ دلاتا ہوں کیونکہ ان پر بھی بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور وہ بھی اسی طرح ان طالب علموں کے خون میں شریک ہے جس طرح جامعہ کے پروفیسر اور اساتذہ اس میں شریک ہیں۔ صدر انجمن محض ریزولیوشنز پاس کر دینے کا نام نہیں، نہ صدر انجمن اس امر کا نام ہے کہ کسی صیغہ کے لئے افسر مقرر کر کے اسے نگرانی کے بغیر چھوڑ دیا جائے ۔صدر انجمن کا فرض ہے کہ وہ طالب علموں کے ذہنوں ،ان کی اُمنگوں اور ان کے ارادوں میں وسعت پیدا کر دے ،ان کے اندر ایک بیداری اور زندگی کی روح پیدا کرے،ان کے خیالات میں وسعت پیدا کرے ۔اور اگر مدرّس مفید مطلب کام کرنے والے نہ ہوں تو صدر انجمن کا فرض ہے کہ انہیں نکال کر باہر کرے ۔ہم نے طالب علموں کا خالی اخلاص کیا کرنا ہے اس کے ساتھ کچھ عقل اور سمجھ بھی تو چاہئے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیشہ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ میں تفقّہ کا مادہ دوسرے صحابہ سے کم تھا ۔مولویوں نے اس پر شور مچایا مگر جو صحیح بات ہو وہ صحیح ہی ہوتی ہے ۔آجکل جس قدر عیسائیوں کے مفید مطلب احادیث ملتی ہیں ،وہ سب حضرت ابو ہریرہ سے ہی مروی ہیں ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ سیاق و سباق کو نہ دیکھتے اور گفتگو کے بعض ٹکڑے بغیر پوری طرح سمجھے آگے بیان کر دیتے مگر باقی صحابہ سیاق و سباق کو سمجھ کر روایت کرتے ۔اسی طرح اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق روایتیںچَھپنی شروع ہوئی ہیں جن میں سے کئی ایسے لوگوں کی طرف سے بیان کی جاتی ہیں جنہیں تفقّہ حاصل نہیں ہوتا اور اس وجہ سے ایسی روایتیں چھپ جاتی ہیں۔ جن پر لوگ ہمارے سامنے اعتراض کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔چنانچہ ایک دفعہ روایت چَھپ گئی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب آتھم کی میعاد میں سے صرف ایک دن باقی رہ گیا تو بعض لوگوں سے کہا کہ وہ اتنے چنوں پر اتنی بار فلاں سورۃ کا وظیفہ پڑھ کر آپ کے پاس لائیں۔ جب وہ وظیفہ پڑھ کر چنے آپ کے پاس لائے تو آپ انہیں قادیان سے باہر لے گئے اور ایک غیرآباد کنوئیں میں پھینک کر جلدی سے منہ پھیر کر واپس لوٹ آئے ۔میرے سامنے جب اس کے متعلق اعتراض پیش ہؤا تو میں نے روایت درج کرنے والوں سے پوچھا کہ یہ روایت آپ نے کیوں درج کر دی ۔یہ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صریح عمل کے خلاف ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی نَعُوْذُ بِاللّٰہِ ٹونے وغیرہ کیا کرتے تھے ۔اس پر جب تحقیقات کی گئی تو معلوم ہؤا کہ کسی شخص نے ایسا خواب دیکھا تھا ۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سامنے جب اس خواب کا ذکر ہؤا تو آپ نے فرمایا اسے ظاہری شکل میں ہی پورا کر دو اب خواب کو پورا کرنے کے لئے ایک کام کرنا بالکل اور بات ہے اور ارادۃً ایسا فعل کرنا اور بات ۔اور ظاہر میں خواب کو بعض دفعہ اس لئے پورا کر دیا جاتا ہے کہ تا اگر اﷲ تعالیٰ چاہے تو اس کا مُضِر پہلو اپنے حقیقی معنوں میں ظاہر نہ ہو۔چنانچہ معبّرین نے لکھا ہے کہ اگر منذر خواب کو ظاہری طور پر پورا کردیا جائے تو وہ وقوع میں نہیں آتی اور خدا تعالیٰ اس کے ظاہر میں پورے ہو جانے کو ہی کافی سمجھ لیتا ہے ۔اس کی مثال بھی ہمیں احادیث سے نظر آتی ہے ۔چنانچہ رسول کریم ﷺنے دیکھا کہ سراقہ بن مالک کے ہاتھوں میں کسریٰ کے سونے کے کنگن ہیں۔اس رؤیا میں اگرایک طرف اس امر کی طرف اشارہ تھا کہ ایران فتح ہو گا تو دوسری طرف یہ بھی اشارہ تھا کہ ایران کی فتح کے بعد ایرانیوں کی طرف سے بعض مصائب و مشکلات کا آنا بھی مقدر ہے کیونکہ خواب میں اگر سونا دیکھا جائے تو اس کے معنی غم اور مصیبت کے ہوتے ہیں۔حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے رسول کریم ﷺ کے رؤیا کے اس مفہوم کو سمجھا اور سراقہ کو بلا کر کہا کہ پہن کڑے ،ورنہ میں تجھے کوڑے ماروں گا۔چنانچہ اسے سونے کے کڑے پہنائے گئے ۲؎اور اس طرح حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے رسول کریم ﷺ کی اس رؤیا کے غم اورفکر کے پہلو کو دور کرنا چاہا۔مگر ظاہری صورت میں خواب کو پورا کر دینے کے باوجود پھر بھی خواب کا کچھ حصہ حقیقی معنوں میں پوراہو گیا ۔کیونکہ حضرت عمر کو شہید کرنے والا ایک ایرانی ہی تھا۔ پھر ایران میں شیعیّت نے جو ترقی کی ،وہ ہمیشہ مسلمانوں کے لئے غم اور مصیبت ہی بنی رہی ہے۔مگر یہ بات تب کھلی جب میں نے دریافت کیا کہ ایسی روایت کیوں درج کر دی گئی ہے۔غرض عقل اور فہم کی زیادتی اخلاص کے ساتھ نہایت ہی ضروری ہوتی ہے ورنہ بڑی بڑی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کے پاس شکایت آئی کہ کچھ عورتیں اپنے مردے پر نوحہ کر رہی ہیں ۔آپ نے فرمایا انہیں منع کرو ۔مگر جب منع کرنے کے باوجود وہ نہ رُکیں ۔اور دوبارہ آپ کے پاس شکایت کی گئی۔تو آپ نے فرمایاکہ ان کے منہ میں مٹی ڈالو۔۳؎یہ تو عربی زبان کا ایک محاورہ ہے جس کا مطلب یہ ہو تا ہے کہ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو۔ہمارے ملک میں بھی کہہ دیتے ہیں کھیہہکھاوے۔اس کا یہ مطلب تو نہیں ہوتاکہ وہ مٹی کھاوے۔بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر نہیں مانتا تو نہ مانے ۔غرض عربی زبان کا یہ محاورہ ہے کہ جب کسی کے متعلق یہ کہنا ہو کہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دو تو کہتے ہیں کہ اس کے منہ میں مٹی ڈالو۔مگر سننے والوں نے یوں فرمانبرداری کرنی شروع کی کہ مٹی کے بورے بھر لئے اور ان عورتوں کے مونہوں پر مٹی پھینکنی شروع کر دی۔حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا کو معلوم ہؤا تو آپ سخت ناراض ہوئیں اور فرمایا ایک تو ان کے گھر میں ماتم ہو گیا ہے اور دوسرا تم ان پر مٹی ڈالتے ہو ۔رسول اﷲ کا یہ منشاء تو نہ تھا جو تم سمجھے۔ ۴؎پس اخلاص کے ساتھ عقل و فہم نہایت ضروری ہوتا ہے۔صرف عربی کتابیں رٹوا دینے سے کیا بن جاتا ہے جب تک فہم و فراست نہ پیدا کی جائے،وسعت حوصلہ نہ پیدا کی جائے اور اس بات کی ہمت نہ پیدا کی جائے کہ انہوں نے دنیا کو فتح کرنا ہے۔پس صدر انجمن پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور پروفیسروں پر بھی اور میں امید کرتا ہوں کہ صدر انجمن کورسوں کو بدل کر، استادوں کو بدل کر، نظام کو بدل کر،طریقِ نگرانی کو بدل کر ایسا انتظام کرے گی کہ ہمارے طالب علم ایک زندہ دل اور اُمنگوں سے بھرا ہؤا دل لے کر نکلیں گے۔اور ہر تغیّرجو دنیا میں پیدا ہو گا انہیں قربانی پر آمادہ کر دے گا اور ہر تغیّر ان کے دل میں ایسی گدگدی پیدا کردے گا کہ وہ خدا کے دین کی آواز پر لبیک کہے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ایسے طالب علم جب پیدا ہو جائیں گے تو ہمیں کسی مبلّغ کی ضرورت نہیں رہے گی۔یہ لوگ اپنی ذات میں مبلّغ ہوں گے اور بغیر کسی تحریک کے آپ ہی دنیا کی ہدایت کے لئے گھروں سے نکل کھڑے ہوں گے۔ورنہ پُر تکلّف مبلّغ سے دنیا کیا فائدہ حاصل کر سکتی ہے۔اب بہت سے لوگ شکایتیں کرتے رہتے ہیں کہ ہمارے مبلّغوں کی داڑھیاں چھوٹی ہوتی ہیں۔میں نے بھی یہ نقص دیکھا ہے اس میں شُبہ نہیں کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کی داڑھی چھوٹی تھی مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام لمبی داڑھی رکھا کرتے تھے حضرت خلیفہ اوّل کی بھی لمبی داڑھی تھی اور میری داڑھی بھی لمبی ہے۔اسی طرح رسول کریم ﷺ کی بھی بڑی داڑھی تھی،حضرت ابوبکر حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اﷲ عنھم کی بھی بڑی داڑھی تھی۔یہ مان لیا کہ حضرت علی ؓ کی چھوٹی داڑھی تھی مگر ممکن ہے اس کی وجہ ان کی کوئی بیماری ہو یا کوئی اور ۔اوراگر یہ بات نہ بھی ہو تب بھی کیوں رسول کریم ﷺ کی نقل نہ کی جائے اور حضرت علی ؓ کی نقل کی جائے بہرحال داڑھیوں میں نقص ہے۔اسی طرح ہمارے مبلّغ ظاہری تکلّفات کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور اکثر یہ شکایت کرتے رہتے ہیں کہ فلاں جگہ کی جماعت اتنی سُست ہے کہ ہم وہاں گئے مگر اس نے ہم سے کام نہیں لیا ۔حالانکہ یہ مبلّغ کا اپنا فرض ہے کہ وہ کام کرے کیونکہ ہم تو مبلّغ سمجھتے ہی اس کو ہیں جو آگ ہو۔ کبھی آگ بھی کہا کرتی ہے کہ مجھے سُلگایا نہیں جاتا وہ تو خود بخود سُلگتی ہے اور اگر ایک گھر کو لگتی ہے تو ساتھ کے دس گھروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے ۔پس اگر کوئی مبلّغ ایسا ہے تو وہ مبلّغ نہیں بلکہ اپنے دین اور ایمان سے تمسخر کرنے والا ہے ۔پھر عام طور پر شکایت آتی ہے کہ ہمارے مبلّغ اکثر انہی مقامات میں جاتے ہیں جہاں پہلے سے احمدی موجود ہوں حالانکہ رسول کریم ﷺ کا طریقِ عمل یہ تھا کہ آپ غیرقوموں کے پاس جاتے اور انہیں تبلیغ اسلام کرتے ۔یہ نقص اسی وجہ سے واقع ہؤا ہے کہ ہمارے مبلّغوں میں وسعتِ خیال نہیں ۔میرا یہ مطلب نہیں کہ مبلّغین میں کوئی خوبی نہیں ان میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھے اچھے مخلص ہیں اور جس قربانی کا بھی ان سے مطالبہ کیا جائے،اسے پورا کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔چنانچہ طالب علموں کے اخلاص کا جو مَیں نے ابھی ذکر کیا ہے اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے مبلّغین اﷲ تعالیٰ کے فضل سے کس قدراخلاص رکھتے ہوں گے ۔مگر ان کے یہ جوہر پوشیدہ رکھے گئے ہیں اور انہیں تراشا اور بنایا نہیں گیا ۔پس ذمہ دار کارکنوں کو میں توجہ دلاتا ہوں کہ طالب علموں کے اندر وُسعتِ خیال اور عُلُوِّ ہمت پیدا کرو ۔تمام قسم کی دیواروں سے نکال کر انہیں کھلی ہوا میں کھڑا کر دو۔اور ان کے ذہنوں کو بجائے مباحثات کی طرف لگانے کے دنیا کی روحانی، اخلاقی اور تمدنی ضروریات اور ان کے علاج کی طرف لگاؤ ۔پس اس خطبہ کے ذریعہ جہاں میں پروفیسروں ،ذمہ دار کارکنوں اور صدرانجمن کو ’’طلباء ِجامعہ ‘‘ کی طرف توجہ دلاتا ہوں ،وہاں جماعت سے بھی کہتا ہوں کہ وہ اپنے ایمان کا معیار صرف یہ نہ سمجھ لے کہ اس نے تحریک جدید میں حصہ لے کر میرے مطالبہ کو پورا کر دیا ۔بلکہ ہر جماعت کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے چندوں کی باقاعدہ ادائیگی کی طرف توجہ کرے اور ہر جماعت کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے اپنے بقائے پورے کرے ۔اس کے علاوہ جماعت کا ہر فرد یہ کوشش کرے کہ وہ اپنی زندگی کا ایک حصہ خدمتِ سلسلہ کے لئے وقف کر دے اور اگر اسلام کی طرف سے دوسری آواز اٹھے تو وہ اپنا سارا وقت خدمت اسلام پر لگانے کے لئے کمر بستہ رہے ۔یاد رکھو بغیر جانوں کی قربانی کے یہ سلسلہ ترقی نہیں کر سکتا ۔چونہ اور قلعی سے مکان نہیں بنا کرتا بلکہ مکان اینٹوں سے بنتا ہے ۔اسی طرح الٰہی سلسلے روپوں کے ذریعہ نہیں بلکہ جانوں کو قربان کرنے کے بعد ترقی کیا کرتے ہیں۔میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے دوست اس ماحول کو سمجھنے کی کوشش کریں گے اور ہر قسم کی افسردگی کو اپنے دلوں سے دور کر کے سلسلہ کی ضروریات کو سمجھتے ہوئے اس اخلاص کے ساتھ جس کے متعلق مجھے یقین ہے کہ پیدا ہو چکا ہے ،اس ایمان کے ساتھ جس کے متعلق مجھے یقین ہے کہ پیدا ہو چکا ہے ،آگے بڑھیں گے ۔اور چندوں کی ادائیگی کے علاوہ اپنی جانوں کی قربانی کر کے اﷲ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل کریں گے ۔میں سمجھتا ہوں کہ ابھی ہماری جماعت کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے سوتے ہوئے کسی شخص کو جگا دیا جائے تو وہ گھبرا کر یہ کہتا ہؤا اُٹھے کہ کیا ہو گیا کیا ہو گیا ۔مگر میں کہتا ہوں اب آنکھیں کھولو اور بیدار ہو کہ تمہارے گھر کو آگ لگنے والی ہے ۔پریشانی کی حالت دور کرو اور سمجھنے کی کوشش کرو ان حالات کو جو آج کل تمہارے خلاف پیدا ہو رہے ہیں ۔تب اور صرف تب تم میں ہمت پیدا ہو گی ۔تمہیں صحیح قربانی کی بھی توفیق ملے گی اور تبھی اس کے صحیح نتائج بھی تمہارے لئے پیدا ہوں گے۔ (الفضل ۲۴؍ جنوری ۱۹۳۵ئ)
۱؎ بخاری کتاب الرقاق باب التَّوَاضُع
۲؎ اسد الغابۃ جلد۲ صفحہ ۲۶۶ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۵ھ
۳؎، ۴؎ بخاری کتاب الجنائز باب مَا یُنْھٰی مِنَ النَّوْحِ وَالْبُکَائِ (الخ)







۳
شریعت، قانون ،اخلاق اور دیانت کے خلاف کوئی
بات نہ کی جائے
(فرمودہ ۱۸؍جنوری ۱۹۳۵ئ)
تشہّد، تعوّذاور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
میں گلے اور سر درد کی وجہ سے اونچی آواز سے نہیں بول سکتا مگر پھر بھی کوشش کروں گا کہ آواز دوستوں تک پہنچ جائے ۔
میں آج اس اعتراض کا جواب دینا چاہتا ہوں جو کئی لوگ کرتے ہیں کہ ہمارے خلاف منافرت کا جذبہ آج کل اس شدت سے پھیلایا جا رہا ہے کہ اس کے نتیجہ میں ہندوستان کی مختلف احمدیہ جماعتوں کے لئے امن اور آرام سے رہنا مشکل ہو گیا ہے۔کہیں ہم لوگوں کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے، کہیں مارا اور پیٹا جا رہا ہے، کہیں گالیاں دی جاتیں اور بد زبانی کی جاتی ہے اور بھی کئی قسم کے دکھ دیئے جاتے ہیںمگر ہماری طرف سے سوائے خاموشی کے اور کچھ جواب نہیں ہے ۔خاموشی سے مراد یہ ہے کہ بے شک وہ سکیم جو میں نے بتائی ہے اس کی طرف جماعت کی توجہ ہے لیکن بعض دوستوں کی رائے ہے کہ سکیم کا طریقِ اصلاح بالکل اور قسم کا ہے اور ہمارے ملک کی حالت اس قسم کی ہے اور اتنی جلدی جلدی بدل رہی ہے کہ جب تک گورنمنٹ کو زور سے توجہ نہ دلائی جائے اور عارضی اصلاح کا انتظام نہ کیا جائے،بیرونی جماعتوں کے لئے خصوصاً چھوٹی جماعتوں کے لئے نہایت خطرناک صورت کے پیدا ہو نے کا امکان ہے ۔
جیسا کہ میں نے ایک گزشتہ خطبہ میں بیان کیا تھا میں جماعت کو قانون کی حدود سے بھی نیچے رکھتا ہوں جیسا کہ احرار کے جلسہ پر میں نے نصیحت کی تھی کہ خواہ تمہیں یا تمہارے کسی رشتہ دار کو مار بھی دیا جائے تمہیں ہاتھ نہیں اٹھانا چاہئے حالانکہ خود حفاظتی کے لئے ہاتھ اٹھانا قانوناً جائز ہے۔اگر کوئی شخص کسی کے گھر میں گھس جائے اور اس کا اسباب باہر پھینکنے لگے اور اسے کہے کہ نکل جاؤ تو قانون گھر والے کو اجازت دیتا ہے کہ اس سے لڑے اور اگر حملہ آور اپنی ضد پر قائم رہنے کی وجہ سے کوئی زیادہ نقصان بھی اٹھائے تو عدالت یہی فیصلہ کرے گی کہ گھر والا حق پر تھا اور حملہ آور ناحق پر۔تو باوجود اس کے کہ قانون دفاع کی اجازت دیتا ہے،اس کے علاوہ عقل اور مذہب بھی اس کی اجازت دیتے ہیںمگر میں نے یہی حکم دیا کہ خواہ مارے جاؤ ،ہاتھ ہرگز نہیں اُٹھانا ۔اس سے میرا مقصد یہ بتانا تھا کہ ہماری جماعت انتہا ء درجہ کی انگیخت کے باوجود جذبات کو دبا سکتی اور دبا لیتی ہے۔پس اس وقت جو خواہش مَیں نے اپنی جماعت سے کی تھی وہ قانون کی پابندی سے بھی زیادہ پابندی عائد کرتی تھی۔میں نے دسمبر کے پہلے خطبوں میں سے کسی میں بیان کیا تھا کہ ہماری جماعت ایک مذہبی جماعت ہے اور مذہبی جماعت ہونے کے لحاظ سے ہماری انجمنیں خالص مذہبی کاموں کے لئے بنائی گئی ہیں اور میری فطرت یہ پسند نہیں کرتی کہ ہم کوئی ایسا کام کریں جو دھوکا بازی ہو۔یعنی جو انجمنیں مذہبی کاموں کے لئے بنائی گئی ہیں وہ سیاسی امور میں دخل دیں۔ان انجمنوں میں سرکاری افسر اور معمولی ملازم بھی ہیں،ریاستوں کے لوگ بھی ہیں اس لئے کوئی ایسا کام کرنا جسے اخلاق اور شریعت ناجائز قرار دے،درست نہیں ہو سکتا ۔پس مَیں جماعت کو ہمیشہ نصیحت کرتا رہا ہوں کہ قانونی حدود کے اندر رہنے کے علاوہ وہ یہ احتیاط بھی کریں کہ سیاسی امور سے بھی علیحدہ رہیں تا دیانت کا اعلیٰ معیار پیش کر سکیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کے بڑے اور چھوٹے ملازم سب میں سے ایک طبقہ سیاسیات میں دخل دیتا ہے ۔کئی ہندوستانی افسر ہیں جو کانگرسیوں کو بُلاتے ،چندے دیتے اور انہیں حکومت کے خلاف اُکساتے ہیں مجھے ایک کانگرسی لیڈر نے بتایا کہ ایک ہندوستانی جج اپنی تنخواہ کا بیشتر حصہ کانگرس کو بطور چندہ دیتا ہے تا اس سے ان مسلمان مولویوں کو تنخواہیں دی جائیں جو مسلمانوں کو ورغلانے کیلئے کانگرس نے رکھے ہوئے ہیں۔میں نے اس امر کے متعلق ایک دفعہ دوران گفتگو میں سابق گورنر پنجاب سر جافری (SIR GEOFFREY) سے ذکر کیاکہ سرکاری ملازم اس طرح کی بددیانتیاں کرتے ہیں تو انہوں نے ایک جج کا نام لیااور مجھ سے دریافت کیا کہ یہ تو نہیں ہے اور کہا کہ ہمیں بھی اس کے متعلق شکایات پہنچی ہیں مگر چونکہ ہمارا طریق جاسوسی اور شکایت کرنے کا نہیں اس لئے میں نے نام تو نہ بتایا مگر جس کا نام انہوں نے لیا وہ نہیں تھا جس کا مجھ سے ذکر کیا گیا تھا۔بہرحال اس سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کے پاس بھی ایسی شکایتیں پہنچتی رہتی تھیںاور ایسے افسر ایک سے زیادہ تھے۔چونکہ سر جافری نے جس کا نام لیا وہ اور تھا اور میرے علم میں جو تھا اور تھااس لئے ثابت ہؤا کہ ایک سے زیادہ آدمی ایسے تھے جن کے متعلق اس قسم کے شُبہات تھے کہ وہ تنخواہ کا ایک حصہ اس امر پر خرچ کرتے ہیں کہ حکومت کے خلاف شورش میں اضافہ ہو۔تو کرنے کو تو لوگ سب قسم کے کام کر لیتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ طریق جائز ہے۔جو شخص حکومت سے تنخواہ وصول کرتا ہے وہ اگر دل میں اس کے بعض احکام کو بُرا بھی سمجھے تو بھی اس کا فرض ہے کہ جب تک ملازمت کرتا ہے حکومت کے قوانین کی اطاعت کرے اور اس کا خیر خواہ رہے۔اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو وہ اپنے اخلاق کو بٹہ لگاتا ہے اور اگرچہ حکومت اسے نہ بھی پکڑ سکے اس کے دل میں یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ میں مجرم ہوں اور جب وہ خدا تعالیٰ کے حضور پیش ہو گا تو اسے ماننا پڑے گا کہ میں مجرم ہوںاس لئے گو ہماری بہت سی انجمنوں میں سرکاری ملازم نہیں ہیں اور جماعت میں بھی شاید سرکاری ملازمین کی تعداد پانچ فیصدی ہو باقی پچانوے فیصدی احباب جماعت تاجر،پیشہ ور،زمیندار اور صنعت و حرفت سے تعلق رکھنے والے ہیں اور ان کے لئے قانونی حد تک سیاسیات میں دلچسپی لینا جائز اور درست ہے۔پھر ہماری انجمنوں میں سے بہت سی ایسی ہیں جن میں سرکاری ملازم کوئی نہیںمگر چونکہ بعض میں ہیں چاہے ایسی انجمنوں کی تعداد قلیل ہی کیوں نہ ہو اس لئے میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ سیاسیات سے مشابہ باتوں کی بھی اجازت جماعت کو دوں کیونکہ ہمارے اخلاق کا معیار دوسروں سے بلند ہونا چاہئے۔بے شک یہ باتیں دھوکا دینے والی قومیںکر لیتی ہیںمگر ہمیں ان کی نقل نہیں کرنی چاہئے اور ایسا طریق عمل اختیار کرنا چاہئے کہ کوئی ہم پر انگلی نہ اٹھا سکے لیکن چونکہ جماعت میں یہ احساس ہے اور صحیح ہے کہ خواہ ایک شخص کے ہاتھ پر دس کروڑ انسانوں نے بیعت کر رکھی ہو پھر بھی اس کی طرف سے جو آواز بلند ہو اس کے متعلق یہی حکومت سمجھتی ہے کہ ایک آواز ہے خواہ وہ دس کروڑ انسانوں کی آواز سے زیادہ وقیع ہو اس لئے جماعت کو اظہارِ خیال کا موقع ملنا چاہئے اس وجہ سے میں آج اس کا علاج بتانے لگا ہوں۔میں نے بھی دیکھا ہے جب ایک شخص کی طرف سے حکومت کو ایسی غلطیوں کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے جو ملک کے امن کو برباد کرنے والی ہوں تو حکومت یہی سمجھتی ہے کہ یہ ایک آدمی کہہ رہا ہے خواہ وہ کتنا بااثر ہو مگر ہے تو ایک ہی لیکن اگر وہی بات جماعت کی طرف سے پیش کی جائے تو چونکہ اس حکومت کی بنیاد ڈیموکریسی(DEMOCRACY) پر بتائی جاتی ہے اور برطانوی حکومت اس بات پر فخر کرتی ہے کہ وہ اس آواز کے ماتحت چلتی ہے جو ملک کی طرف سے پیدا ہو (اس میں اور دوسری حکومتوں میں یہ فرق ہے کہ دوسری حکومتوں میں رعایا حکومت کے تابع ہوتی ہے مگر ہماری حکومت رعایا کے تابع ہے)پس یہ حکومت اس وقت توجہ کرتی ہے جب ملک کی طرف سے کوئی مطالبہ پیش ہو۔اگرچہ یہاں ڈیموکریسی پوری طرح قائم نہیں اور انگلستان میں جو اصول ہیں وہ یہاں نہیں ہیں مگر ابتداء ہو چکی ہے اور مانٹیگو چیمسفورڈ ریفارمز۱؎ Montague Chelmsford Reforms) (کے بعد کوشش کی جاتی ہے کہ ہندوستان کی حکومت نیابتی اصول پر قائم کی جائے اور اب جو نئی سکیم تیار ہوئی ہے اس میں کئی باتیں پہلے سے بھی اچھی ہیںمگر بعض بری بھی ہیں مگر اچھی بہت سی ہیں۔پس قدرتی طور پر حکومت ہر معاملہ میں یہ دیکھتی ہے کہ ملک کی رائے کیا ہے اور اسی وجہ سے وہ حکام جو ہمارے نظام اورخلیفہ کے ساتھ جماعت کی فدائیت کو نہیں سمجھتے ان پر جماعت کی رائے ہی اثر پیدا کر سکتی ہے۔پس ان دونوں امور کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ جو جماعتیں یہ چاہتی ہیں کہ قانون کی حد میں رہتے ہوئے انہیں حکومت کے سامنے اپنے جذبات کے اظہار کی اجازت ہونی چاہئے وہ اپنی الگ انجمنیں بنائیںجن میں سرکاری ملازم نہ ہوں جو جماعتیں ایسا کریں گی انہیں میں اجازت دے دوں گا کہ وہ سلسلہ کے اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے سیاسیات میں دخل دے سکتی ہیں۔یہ الفاظ میں خوشی سے نہیں کہہ رہا بلکہ انہیں کہتے ہوئے ایک بوجھ محسوس کرتا ہوں کیونکہ پورے اکیس سال ہو گئے جب سے کہ میں نے ’’الفضل‘‘ جاری کیا میں برابر روز و شب اسی کوشش میں رہا ہوں کہ جماعت کو سیاسیا ت سے الگ رکھوںاور اس اصل کے لئے میں نے اپنوں سے بھی لڑائیاں کیں ۔حکومت کا کوئی وائسرائے یا گورنر یا کوئی اور ممبر حکومت یہ پیش نہیں کر سکتا کہ اسے اس وجہ سے مجھ سے زیادہ گالیاں ملی ہوں کہ وہ لوگوں کو سیاست سے روکتا ہے۔کسی ایک افسر کا نام ہی بتایا جائے کہ اسے اس وجہ سے مجھ سے زیادہ گالیاں ملی ہوں۔اکیس سال کا عرصہ کوئی معمولی عرصہ نہیں جو میں نے اس بات کے لئے خرچ کر دیا کہ جماعت احمدیہ سیاسیات میں حصہ نہ لے اور اس قدر لمبے عرصے تک میں نے ان اصول کے لئے جو انگریز بھی جاری کرنا نہیں چاہتے اپنوں اور بیگانوں سے گالیاں کھائیں۔انگریزوں کا اصل یہ ہے کہ ملک میں ایجی ٹیشن(AGITATION) ہونی چاہئے ۔میں نے حکام سے کئی دفعہ اس امر پر بحث کی ہے کہ یہ غلط پالیسی ہے میں نے سر اڈوائر (Sir O'Dwyer) پر اس کے متعلق زور دیا،سر میکلیگن۲؎ پر زور دیا اور انہیں سمجھایا کہ جب تک یہ پالیسی ترک نہ کی جائے گی نہ امن قائم ہو سکتا ہے نہ انصاف۔ حکومت کا اصل یہ ہونا چاہئے کہ سچ کیا ہے ۔اگر کروڑوں آدمی جھوٹی ایجی ٹیشن کرتے ہیں اور ان کے مقابل پر صرف ایک ہے جو سچا ہے تو خواہ وہ کنگال ہی کیوں نہ ہو حکومت کو چاہئے کہ اس کی بات مانے ۔جب حکومت کی طرف سے یہ کہا جائے گا کہ جب تک ایجی ٹیشن نہ ہو ،ہم نہیں مانیں گے،اس وقت تک لوگ ضرور ایجی ٹیشن کرنے پر مجبور ہوں گے۔مگر مجھے اس کا جو جواب دیا جاتا رہا وہ یہی تھا کہ یہ بات ڈیموکریسی کے اصول کے منافی ہے۔پس اکیس سال کی زبردست جدو جہد کے بعد میں آج یہ بات کہہ رہا ہوںلیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں اس اصل کو ترک کرتا ہوں۔میرا اصل ہمیشہ یہی رہے گا کہ سیاسیات سے جہاں تک ہو سکے جماعت کو الگ رکھوںاور اگر ہمیں اس میں دخل دینے کی ضرورت ہوئی تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ ہمیں مجبوراً دخل دینا پڑا ۔ہماری تعداد نہ سہی دس لاکھ،نہ سہی پانچ لاکھ، نہ سہی دو لاکھ ،چھپن ہزار ہی سہی مگر کیا چھپن ہزار انسانوں کی جانوں کی کوئی قیمت نہیں ہؤا کرتی۔ہمارے بھی جذبات اور احساسات ہیں ،ہماری بھی بیویاں اور بچے ہیں اور آج ان کی جانیں خطرہ میں نظر آتی ہیں ۔ہم نے سالہا سال تک مسلمانوں کی خدمت کی ۔جب ان کے بھائی بند ملکانے آریہ ہونے لگے تو ہم گئے ۔اس زمانہ میں لاہور میں ڈھنڈورہ پٹوایا گیا کہ کہاں ہیں احمدی وہ خدمت اسلام کے دعوے کیا کرتے ہیں ۔آخر ہمارے سینکڑوں آدمی وہاں گئے ہم نے لاکھوں روپیہ وہاں خرچ کیا اور ہماری کوششوں سے ہزارہا ملکانے واپس ہوئے مگر اس سب خدمت کا نتیجہ کیا ہؤا ؟یہ کہ قادیان میں ایک جلسہ ہؤا اور اس میں ایک مولوی نے بیان کیا کہ احمدی ہونے سے آریہ ہو جانا ہزاردرجہ اچھا ہے اور یہ کہ اس نے ملکانوں کو جا کر بھی یہی کہا تھا کہ آریہ بے شک ہو جاؤ مگر احمدی نہ ہونا۔
پھر اس کے بعد ۱۹۲۷ء میں مسلمانوں کی لاہور اور مختلف علاقوں میں جو حالت ہوئی اُس وقت کون تھے جو آگے آئے ۔ہم نے ہی اس وقت مسلمانوں کے لئے روپیہ خرچ کیا، تنظیم کی اور اس وقت ہر جگہ یہ چرچا تھا کہ احمدی بڑی خدمت کر رہے ہیں حتّٰی کہ سر میلکم ہیلی۳؎ (Sir Malcolm Hailey) نے جو اس وقت گورنر تھے مسٹر لنگلے(Lingley) سے جو اُس وقت کمشنر تھے مجھے خط لکھوایا کہ آپ تو ہمیشہ حکومت کا ساتھ دیتے رہے ہیں آج کیوں اس ایجی ٹیشن میں حصہ لیتے ہیں اور میں نے انہیں جواب دیا کہ حکومت کی وفاداری سے یہ مراد نہیں کہ مسلمانوں کا غدارہوں اور مسلمانوں کی خدمت سے یہ مراد نہیں کہ حکومت کا غدار ہوں میں تو دونوں کا بھلا چاہتا ہوں مجھے اگر سمجھا دیا جائے کہ مسلمان مظلوم نہیں تو اب اس طریق کو چھوڑنے کو تیار ہوں۔ انہوں نے تحریراً تو اس کا جواب نہ دیا مگر شملہ میں مَیں گیا تو چیف سیکرٹری نے جو غالباً ہمارے موجودہ گورنر تھے ،مجھے لکھا کہ لاٹ صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیںاور جب میں ان سے ملا تو زبانی گفتگو اس پر خوب تفصیلی کی مگر اس کا کیا نتیجہ نکلا یہی کہ مسلمانوں میں سے ایک اثر رکھنے والے گروہ نے کہا کہ احمدیوں کا بائیکاٹ کرویہ اصل میں ہمارے دشمن ہیں ۔پھر سیاسی جدو جہد کا زمانہ آیا ۔پہلے نہرو رپورٹ کے وقت اور پھر سائمن کمیشن کے وقت، پھر کانگرس کی مخالفتوں کے مواقع پر ہم نے مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کی، اپنے پاس سے روپیہ خرچ کیا،کتابیں لکھیں اور ہر رنگ میں مسلمانوں کی خدمت کی مگر اس کا یہی جواب ملا کہ یہ مسلمان نہیں ہیں ان سے ہمارا سیاسی اتحاد بھی نہیں ہو سکتا۔ان کی بیویوں کے نکاح ٹوٹ گئے،یہ مسلمانوں کے قبرستانوں میں دفن نہیں ہو سکتے ،اِس وقت بھی ڈیرہ دون میں ،جموں میں اور بھی کئی مقامات پر یہی سوال شروع ہے۔غرض یہ انعام تھا جو مسلمانوں نے ہمیں دیا لیکن یاد رہے کہ میں جب مسلمان کا لفظ استعمال کرتا ہوں تو میرا ہرگز یہ منشاء نہیں کہ سب مسلمان ایسے ہی ہیں ۔میں جانتا ہوں کہ ان میں ایک کثیر تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو یقینا دلوں میں ہمارے لئے درد رکھتے ہیں اور اس ظلم کی برداشت نہیں کر سکتے جو ہم پر ہو رہا ہے مگر وہ خاموش ہیں کیونکہ ان میں کوئی تنظیم نہیں۔اگرچہ ان کے دلوں کا درد ہمیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتا اور ہم پر مظالم کو کم نہیں کر سکتا لیکن ان کے دل کی ہمدردی کی بھی میں قدر کرتا ہوںاور دعا کرتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ ان کو نیک بدلہ دے۔ مسلمانوں کی ملازمتوں میں حق تلفی کا سوال آیا تو اس وقت بھی ہم نے ان کی حفاظت کی۔میں خود دو وائسراؤں سے ملا،میری ہدایت کے ماتحت دوسرے کارکنانِ جماعت دوسرے افسروں سے ملے اور مسلمانوں کی مشکلات کو دور کیا۔اسی سلسلہ میں موجودہ گورنر صاحب سے بھی جب وہ ہوم سیکرٹری تھے ،درد صاحب ملے اور ہز ایکسی لنسی لارڈ ولنگڈن۴؎ نے خود مجھے مشورہ دیا کہ میں ہوم سیکرٹری صاحب سے خود ملوں یا کسی اور آدمی کو بھیجوں اور وعدہ کیا کہ وہ انہیں فون بھی کریں گے۔چنانچہ درد صاحب ان سے ملے اور مسلمان کلرکوں کو اس ملاقات سے فائدہ بھی پہنچا اور انہوں نے گورنر ہونے سے پہلے ایسے قواعد تجویز کئے جو مسلمانوں کیلئے مفید ہیںمگر اس مدد دینے کا کیا نتیجہ نکلا یہی کہ آج سرکاری محکموں کے ملازموں میں سے کئی کیا محکمہ پولیس اور کیا دفاتر کے اور کیا دوسرے محکموں کے ہمارے خلاف حصہ لیتے ہیں ۔بعض جھوٹی رپورٹیں کرتے ہیں اور بعض ہمارے مخالفوں کو چندہ دیتے ہیں ۔یہ بدلہ ہے جو مسلمانوں کی خدمت کا ہمیں ملا ۔مجھے یقین ہے کہ کل جب پھر ان پر مصیبت آئے گی تو وہ پھر ہمارے پاس امداد کے لئے آئیں گے اور اﷲ تعالیٰ نے ہمیں جو وسیع حوصلہ دیا ہے،اس کی وجہ سے ہم پھر ان باتوں کو بھول کر ان کی امداد کریں گے لیکن کیا یہ لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ آسمان پر خدا ہے جو ان کے حالات کو دیکھتا ہے۔
اس کے مقابلہ میں گورنمنٹ ہے جس طرح میں نے مسلمانوں کے متعلق کہا ہے اسی طرح میرا یقین ہے کہ انگریز حکام کا بھی اکثر حصہ اچھا ہے ۔عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ جہاں ہندوستانی افسر ہوں، وہاں فساد ہوتے ہیں لیکن جہاں انگریز ہوں وہاں امن رہتا ہے اور جب بھی کہیں فرقہ وارانہ فسادات ہوتے ہیں ،ہندومسلم دونوں یہ مطالبے کرتے ہیں کہ انگریز افسر بھیجے جائیں ۔پس جو چیز اچھی ہے اسے ہم برا نہیں کہہ سکتے مگر ۱۹۱۳ ء سے لے کر آج تک میں نے زندگی کا ایک اچھا حصہ اس کوشش میں صرف کر دیا ہے کہ انگریزوں کی نیک نامی اور عزت قائم کروں ۔بڑے سے بڑا انگریز افسر جو زندہ موجود ہے اس امر کی شہادت دے سکتا ہے کہ مَیں نے اور جماعت احمدیہ نے حکومت کی مضبوطی کے لئے بہترین خدمات کی ہیں۔
جب کانپور میں مسجد کے متعلق جھگڑا ہؤا تو مسلمانوں میں بڑا جوش تھا کہ حکومت مذہب میں مداخلت کرتی ہے۔اس وقت میری یہی رائے تھی کہ مسجد نہیں گرائی گئی بلکہ غسل خانہ گرایا گیا ہے اور یوں بھی میری یہ رائے ہے کہ مساجد کو ایک جگہ سے دوسری جگہ بدل دینا سوائے اس کے کہ کوئی مسجد خاص طور پر مذہبی روایات کی حامل ہوجیسے بیت اﷲ ہے ۔یا سوائے ان مساجد کے جو مسلمانوں کی تاریخی مساجد ہیں جنہیں مسلمان بادشاہوں نے اسلام کی عظمت کے نشان کے طور پر تعمیر کرایا باقی عام مساجد کے متعلق میرا یہی خیال ہے کہ تمدّنی اور ملکی ضروریات کے لئے یا اگر وہ رستوں میں روک ہوں تو انہیں دوسری جگہ تبدیل کر دینے میں کوئی حرج نہیں۔اس رائے کی وجہ سے اپنوں نے اور بیگانوں نے میرا مقابلہ کیا میری انتہاء درجہ کی مخالفتیں ہوئیں ،مجھے قتل کی دھمکیاں دی گئیں ۔پھر جرمنی کی جنگ ہوئی اس موقع پر ہم نے کئی ہزار والنٹیئرز دیئے،سکولوں کے لڑکوں کی پڑھائیاں چھڑوا دیں اور کئی ایسے ہیں جو آج ڈرائیوریاں کرتے پھرتے ہیں محض اس وجہ سے کہ میرے کہنے پر وہ تعلیم ترک کر کے جنگ میں چلے گئے ورنہ آج وہ گریجوایٹ ہوتے ۔فرانس کے میدان ،مصر کے میدان، شام و فلسطین کے اور عراق کے میدان ،ایران کے میدان ان احمدیوں کے خون سے آج بھی رنگین ہیں جنہوں نے میرے کہنے پر وہاں جا کر جانیں دے دیں ۔ان واقعات کے ذکر پر بعض مسلمانوں کی طرف سے ہم پر یہ اعتراض کیا جاتاہے کہ ہم نے انگریزوں کی مدد کی اور ان کے لئے جانیں فدا کیں مگر معترضیں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ان کے ہم مذہبوں نے بھی جانیں دیں ۔تین لاکھ کے قریب مسلمان میدان جنگ میں گئے جن میں سے احمدی صرف تین ہزار تھے مگر انہیں اپنے آدمی بھول گئے ہیں اور صرف ہمارے یاد ہیں حالانکہ ہم تو اسے جائز سمجھتے ہیں کہ جس حکومت کے ساتھ ہمارا تعاون ہو،اس کی مدد کی جائے۔مگر ہم پر اعتراض کرنے والے اسے کفر سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی انہوں نے لاکھوں آدمی بھیجے ۔پس قابل الزام وہ ہیں نہ کہ ہم ۔پھررولٹ ایکٹ ۵؎کا زمانہ آیا میں نے اردگرد کے علاقوں کے سکھوں کو جمع کیا تا کہ اس علاقہ کو فساد سے بچا لیں ۔بعض نے میرے بلانے کا یہ مطلب سمجھا کہ شاید میں خود کوئی حکومت قائم کرنے کے خیال میں ہوں اور انہوں نے مجھے کہلا بھیجا کہ ہم جانتے ہیں آپ کا خاندان اس علاقہ کا حکمران تھا اور ہم آپ کے لئے جانیں دینے کو تیار ہیں ۔مگر میں نے دس دس میل کے فاصلہ سے لوگوں کو یہاں جمع کیا اور انہیں سمجھایا کہ فساد کے طریق سے بچو۔میرے اس مشورہ پر بعض لوگوں نے اس قدر بحثیں کیں کہ لڑنے مرنے پر آمادہ ہو گئے کہ آج ہمارے ملک کے آزاد ہونے کا موقع آیا ہے تو تم ہمیں روکتے ہو مگر میں نے منت سے سماجت سے اور مختلف طریقوں سے ان سے اقرار لئے اور انگوٹھے لگوائے کہ ہم امن قائم رکھیں گے حالانکہ اس علاقہ میں بعض ایسے گاؤں بھی تھے جہاں گورنمنٹ کے خلاف نفرت تھی اور جہاں سے پستول برآمد ہو چکے تھے مگر ان سے بھی میں نے اطاعت کا عہد لیااور حکومت ہند نے ایک خاص کمیونک(COMMUNIQUE) کے ذریعہ تسلیم کیا کہ جماعت احمدیہ نے فساد کو روکا ہے اور حکومت کی مدد کی ہے ۔ہوشیار پور کے ڈپٹی کمشنر نیز اور بھی کئی مقامات کے حکام نے اقرار کیا کہ احمدیوں کی کوشش سے ان کے علاقے فساد سے بچے رہے ہیں۔ حکومت ہند کا کمیونک کوئی معمولی بات نہیں ۔سند اور چیز ہے اور کمیونک اور ہے یہ گویا اعلان عام ہے۔ لارڈ چیمسفورڈ۶؎ (Lord Chelmsford) نے میرے نام اپنی چِٹّھی میں اس کا ذکر کیا کہ حکومت نے ایک کمیونک شائع کیا ہے کہ آپ کی جماعت نے بہت مدد دی ہے ۔پھر کابل کی لڑائی ہوئی اور اس موقع پربھی میں نے فوراً حکومت کی مدد کی ۔اپنے چھوٹے بھائی کو فوج میں بھیجا جہاں انہوں نے بغیر تنخواہ کے چھ ماہ کام کیا ۔جو اتنا اچھا تھا کہ افسروں نے بعد میں ان کو چھوڑنا پسند نہ کیا اور کوشش کی کہ وہ باقاعدہ تنخواہ دار ملازم ہو جائیں حتّٰی کہ انہیں فارغ کرانے کے لئے مجھے ایجوٹنٹ جنرل (Adjutant General) کو چِٹھی لکھنی پڑی اور پھر ان کے حکم سے انہیں فارغ کیا گیا۔ اس کے بعد نان کوآپریشن (Non Co-operation) کی تحریک کا زمانہ آیا اس کا مقابلہ کرنے کیلئے میں نے ایک کتاب لکھی جو ایسے زبردست دلائل رکھتی تھی کہ حکومت نے اس کی سینکڑوں کاپیاں خرید کر تقسیم کرائیں اور ہزاروں کاپیاں میں نے خود مُفت تقسیم کرائیں ۔کئی محکموں نے لکھا کہ ایسی مدلّل اور اعلیٰ کتاب کوئی نہیں لکھی گئی۔پھر ہجرت کا زمانہ آیا ،یہ مسلمانوں پر جنون کا زمانہ تھا ،وہ تجارت ،زمیندارہ اور دوسرے کاروبار ترک کر کے چلے جا رہے تھے ،میں نے اُس وقت مسلمانوں کو سمجھایا اور حکومت کی مدد کی ۔اس کے بعد ہر موقع پرجب کانگرس نے شورش کی ہم نے حکومت کی مدد کی ۔
گزشتہ گاندھی موومنٹ (MOVEMENT)کے موقع پر ہم نے پچاس ہزار روپیہ خرچ کر کے ٹریکٹ اور اشتہار شائع کئے اور ہم ریکارڈ سے یہ بات ثابت کر سکتے ہیں۔سینکڑوں تقریریں اس تحریک کے خلاف ہمارے آدمیوں نے کیں ،اعلیٰ مشورے ہم نے دیئے جنہیں اعلیٰ حُکّام نے پسندیدگی کی نظر سے دیکھا مگر ان سب خدمات کا کیا نتیجہ نکلا؟ یہی کہ جب وہ لوگ جن سے ہم اس وجہ سے لڑا کرتے تھے کہ وہ حکومت کے خلاف اور اس کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے والی حرکات کرتے ہیں جب ہم پر حملہ آور ہوئے تو ہمیں کچھ پتہ نہیں کہ حکومت کیا کر رہی ہے۔ممکن ہے حکومت کی طرف سے کچھ کارروائی ہو رہی ہو مگر مجھے معلوم نہیں اس لئے ان حالات میں مَیں مجبور ہوں کہ جماعت کو اجازت دے دوں جس حد تک شریعت اجازت دیتی ہے وہ سیاسیات میں دخل دے سکتی ہے اور حکومت تک اپنی شکایات پہنچا سکتی ہے ۔اگر مسلمانوں میں سے بولنے والے لوگ ہمیں دھتکارتے ہیں ،اگر حکومت کے افسر ہماری طرف متوجہ نہیں ہوتے تو ہم مجبور ہیں کہ کسی اور کی طرف ہاتھ بڑھائیںاور اس پر نہ مسلمانوں کو اور نہ حکومت کو شکوہ کرنے کا کوئی حق ہے۔اگر کانگرس ہم سے سمجھوتہ کرے کہ نان کو آپریشن اور بائیکاٹ وغیرہ امور جنہیں تم ناجائز سمجھتے ہو انہیں چھوڑ کر باقی جائز امور میں تعاون کرواور ہم اس بات کو منظور کر لیں تو حکومت کو کیا شکوہ ہو سکتا ہے۔ہم چھپّن ہزار جانوں کو کس طرح خطرہ میں ڈال سکتے ہیں بے شک ہمارا توکل اﷲ تعالیٰ پر ہے لیکن پھر بھی ظاہری سامانوں کی ضرورت بھی وہی بتاتا ہے۔پس چونکہ ڈیموکریٹک طرزِ حکومت میں کسی نہ کسی کے ساتھ ضرور مل کر رہنا پڑتا ہے اکیلی جماعتیں نہیں رہ سکتیں اس لئے ہمیں حکومت کے ساتھ، مسلمانوں کے ساتھ، کانگرس کے ساتھ غرض کسی نہ کسی سے ضرور ملنا پڑے گااور جو بھی ہماری طرف صلح کا ہاتھ بڑھائے گا ہم اس سے ملیں گے اور اس کے لئے ہر جگہ ہاتھ ماریں گے اور جو بھی ہمیں عزت کے مقام پر رکھ کر اور ہمارے اصول کی قربانی کا مطالبہ کئے بغیر ہم سے صلح کرنا چاہے گا اس کے ساتھ مل جائیں گے ۔اپنے اصول کی قربانی کے لئے ہم ہرگز تیار نہیں ہیں خواہ ہمیں کتنے خطرناک حالات کیوں نہ پیش آ جائیں ۔اگر مسلمان ہمارے ساتھ صلح کے لئے یہ شرط پیش کریں کہ ہندوؤں کے گلے کاٹو تو چونکہ ہم اسے ناجائز سمجھتے ہیں ایسا ہرگز نہیں کریں گے خواہ ہندو ہمیں نقصان ہی کیوں نہ پہنچاتے ہوں۔ہم حکومت کے ساتھ آج تک تعاون کرتے رہے ہیںمگر کوئی نہیں ثابت کر سکتا کہ ہم نے کسی کے خلاف جاسوسیاں کی ہوں یا کبھی ناجائز فائدہ اٹھایا ہو ۔یا کبھی ذاتی مفاد کے لئے ہم نے مسلم حقوق کو نظر انداز کیا ہو ۔آج حکومت کے کئی افسر ہمارے مخالف ہیں ۔اگر ہم نے کبھی ایسا کیا ہے تو انہیں چاہئے کہ ظاہر کریں ۔کوئی یہ ثابت کر کے دکھائے کہ ہم نے کبھی حکومت سے اپنے لئے وہ چیز مانگی ہو جو باقی مسلمانوں کے لئے نہیں مانگی۔پھر ہم نے مسلمانوں سے تعاون کیا ہے اور آج مسلمانوں کا ایک حصہ بھی ہمارے مخالف ہے ان میں سے ہی کوئی یہ ثابت کر دے کہ حکومت کے خلاف کبھی کوئی ساز باز کی ہو۔ جب ہم حکومت سے ملے ہیں تو مسلمانوں کو بیچنے کی کوشش نہیں کی اور جب مسلمانوں سے ملے ہیں حکومت کے مفاد کو نہیں بیچا۔ ہم ہر حال میں اپنے اصول کے پابند رہے ہیں اور رہیں گے، چاہے ہماری جانیں، ہماری عزتیں، ہمارے مال سب کچھ خطرہ میں کیوں نہ ہوں لیکن اس کے نیچے نیچے فتنہ و فساد کئے بغیر انصاف کو قائم رکھتے ہوئے اور محبت کے جذبات کو کچلے بغیر اپنی حفاظت کے لئے اگر اب ہمیں سیاسیات میں دخل دینا پڑے تو اس کی ذمہ داری اسی پر ہو گی جسے یہ بات ناپسند ہو مگر میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ ہر کام جائز حد تک کرو۔سرکاری ملازموں کو سیاسی معاملات میں دخل دینے کی ہرگز اجازت نہیں ۔اگر کسی کو پتہ نہ بھی لگ سکے تو بھی خدا تعالیٰ ضرور دیکھتا ہے اور جو سرکاری ملازم ایسا کرے گا وہ مجرم ہو گا ہمیں اس کی امداد کی ضرورت نہیں۔اس کی اصل ذمہ داری خدمتِ دین ہے اسے چاہئے کہ ا سے اداکرے۔
اس کے علاوہ میں انجمنوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اگر وہ واقع میں بے چین ہیں جیسا کہ کہا جاتا ہے توسب سے پہلے وہ علیحدہ انجمنیں بنائیں تا کوئی بد دیانتی نہ ہو اور جب وہ بنا لیں گی تو پھر اس سوال پر میں غور کروں گاکہ انہیں کس حد تک سیاسیات میںدخل دینے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔میں نے بتایا ہے کہ وہ جذبہ جس کے ماتحت میں اکیس سال تک کام کرتا رہا ہوں یہ الفاظ کہنے سے اب بھی مجھے روک رہا ہے اور اب بھی میں یہ کہتے ہوئے درد محسوس کرتا ہوں کہ الگ انجمنیں بناؤ۔میرے یہ کہنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میں اپنے گزشتہ کئے پر پشیمان ہوں ۔اب بھی مجھے یقین ہے کہ دنیا کے امن کی بنیاد برٹش امپائر(British Empire)پر ہے۔مذہبی طور پر بھی جیسا کہ پیشگوئیوں سے معلوم ہوتا ہے اور عقلی طور پر بھی میری یہی رائے ہے اور حکومت کے کسی بگاڑ کو میں ہمیشہ عارضی یقین کرتا ہوں۔برٹش ایمپائر بہت وسیع ہے اور بعض حکام کی زیادتیوں کی وجہ سے ساری امپائر کی خرابی ثابت نہیں ہو سکتی۔پھر سارے ہندوستان کے افسروں کا کیا قصور ہے ،پھر پنجاب کے بھی سارے صوبہ کے متعلق ہمیں ایسا کوئی تجربہ نہیں ہؤا صرف ضلع گورداسپور یا بعض اور مقامات کے افسر زیادتی کر رہے ہیں۔باقی اضلاع کے حکام کی جماعتیں تعریف ہی کرتی ہیںاس لئے یہ کہنے کا کسی کو حق نہیں کہ سارے کے سارے بگڑے ہوئے ہیںاس لئے میں اپنے گزشتہ کئے پر پشیمان نہیںہوں ۔میں جانتا ہوں کہ انگریز قوم میں خوبیاں ہیں اور اچھے افسر اُن افسروں کو جن میں خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں خود ہی دبا دیں گے اور اس وجہ سے میں کوئی ا یسی بات نہیں کرنا چاہتا کہ جس سے حکومت کے ساتھ ہمارے تعلقات ہمیشہ کے لئے منقطع ہو جائیں۔کانگرس اگر نان کوآپریشن چھوڑ دے تب بھی حکومت کے ساتھ اس کی لڑائی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ وہ مل نہیں سکتے لیکن میں یہ نہیں چاہتا کہ کوئی ایسی بات ہو کہ حکومت کے ساتھ ہمارے تعلقات منقطع ہو جائیں ہماری طرف سے یہ احتیاط ہمیشہ رہے گی ،ہاں اس کی طرف سے ا گر انقطاع ہو تو اس کی مرضی ۔اسی طرح مسلمانوں کے ساتھ بھی میں قطع تعلق کو پسند نہیں کرتا۔ سیاسی طور پر ہم ان کو اپنا شریک سمجھنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔میں افراد کی شرارتوں کو ساری مسلمان قوم سے منسوب نہیں کرسکتاان میں بہت اچھے آدمی ہیں۔چند ہی ہفتے ہوئے ایک آنریری مجسٹریٹ کی چِٹھی مجھے ملی ہے انہوں نے لکھا ہے کہ میں نے اخبار ’’زمیندار‘‘ کے بعض مضامین پڑھے تو مجھے خیال آیا کہ آپ کے سلسلہ کی کتب بھی پڑھنی چاہئیں چنانچہ میں نے پڑھیں تو مجھ پر یہ اثر ہؤا کہ آج اگر اسلام کی خدمت کرنے والی کوئی جماعت ہے،تو وہ آپ کی جماعت ہی ہے اس لئے میں نے اپنے منشی کو ہدایت کر دی ہے کہ وہ پانچ روپیہ ماہوار چندہ آپ کو بھیج دیا کرے۔تو دیکھو پڑھا اخبار ’’زمیندار‘‘ مگر نتیجہ یہ ہؤا کہ ہماری مالی مدد شروع کر دی حالانکہ وہ ہماری جماعت میں شامل نہیں ہیں۔پس لاکھوں مسلمان ہیں جو اس شرارت کو ناپسند کرتے ہیںاور ہم یہ بے ایمانی کس طرح کر سکتے ہیں کہ شریف لوگوںکو بھی ان شریروں کی وجہ سے جو اپنی ذات میں گندے ہیں بُرا کہنے لگ جائیںاس لئے ہماری کوشش رہے گی کہ مسلمانوں کے ساتھ رہیںاور ان کی جو خدمت ہم سے ہو سکے کریںلیکن اگر مسلمان خود ایسے لوگوں کے اثر کے نیچے آ جائیں تو یہ ان کی مرضی ہے۔ناک رگڑ کر ہم نہ حکومت سے صلح کے لئے تیار ہیں اور نہ مسلمانوں سے۔ ہاں ہمیں عزت کے مقام پر رکھ کر جو بھی ہمارے ساتھ ملے گا،اس کی مصیبت کے وقت ہم سب سے آگے ہو کر لڑیں گے مگر جس سے بھی دوستی رکھیں گے اپنی عزت قائم رکھتے ہوئے رکھیں گے۔
مومن ذلیل نہیں ہوتا اگر حکومت ہم سے دوستی نہ رکھنا چاہے گی تو پھر بھی ہم قانون کی پوری پوری پابندی کریں گے اور آرام سے گھر میں بیٹھے رہیں گے ہمیں اس سے ملنے کی کیا ضرورت ہے۔لیکن حکومت کے متعلق میرا گزشتہ تجربہ یہی بتاتا ہے کہ ایسے جھگڑے عارضی ہؤا کرتے ہیں اور آخر کار وہ ٹھیک ہو ہی جایا کرتے ہیں۔پہلے بھی کئی بار ایسا ہو چکا ہے۔حکومت کے ایک سیکرٹری ہیں، ایک دفعہ ان سے سخت لڑائی ہوئی مگر وہ پہلے بھی ہمارے دوست تھے اور آج بھی گہرے دوست ہیںاور اس شورش میں ہمارے ساتھ پوری ہمدردی رکھتے ہیں۔پس میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی عارضی چیز ہے اور اس لئے کوئی ایسی بات پسند نہیں کرتا جو اسے مستقل بنا دے اور اسی وجہ سے میں اب تک اس بات سے رُکتا رہا ہوں اور اب بھی دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ سیاسی امور میں دخل دیتے ہوئے پہلے دیانت کو مد نظر رکھیں ۔دوسرے اس امر کو کہ کوئی ایسی بات نہ کی جائے جو حکومت کے اور ہمارے یا ہمارے اور مسلمانوں کے درمیان کوئی ایسی خلیج منافرت پیدا کر دے جو بھری نہ جا سکے۔پس وہ جماعتیں جو قانون کی حدود کے اندر سیاست میں حصہ لینا چاہتی ہیں وہ الگ انجمنیں بنائیں۔یہ دیانت کا تقاضا ہے کیونکہ ہماری موجودہ انجمنیں خالص مذہبی ہیں اور دوسری بات یہ یاد رکھیں کہ سیاسی امور جوش پیدا کرنے والے ہوتے ہیں اس لئے کبھی بھی جوش کے ماتحت وہ کوئی ایسی حرکت نہ کریں جسے دوسرے وقت میں جائز نہ سمجھتے ہوںاور مجھے امید ہے کہ اس قدر لمبی ٹریننگ اور وعظ و نصیحت کے بعد وہ ضرور ایسے رنگ میں کام کریں گے کہ مسلمانوں کے ساتھ یا انگریزوں کے ساتھ ہمیشہ کے لئے کوئی تصادم نہ ہوجائے ۔اس کے علاوہ شریعت ،قانون ،اخلاق اور دیانت کے خلاف کوئی بات نہ کی جائے ۔باقی میں اس بات کا قائل نہیں ہوں کہ حقوق ہمیشہ قانون کو توڑنے سے ہی مل سکتے ہیں ۔میں نے کشمیر کا کام کیا ہے اور اپنے تجربہ کی بناء پر کہہ سکتا ہوں کہ یہ بات غلط ہے۔کشمیر کے لیڈر میرے پاس آتے تھے اور کہتے تھے کہ ہماری سمجھ میں ہی یہ بات نہیں آتی کہ قانون توڑے بغیر کس طرح ہم کامیاب ہو سکتے ہیں مگر میں نے انہیں ہمیشہ یہی کہا ہے قانون کے اندر رہتے ہوئے میں انشاء اﷲ آپ لوگوں کے حقوق دلوا دوں گاپس اس بارہ میں مَیں تجربہ کار ہوں۔میں نے جس وقت تک کشمیر کا کام کیا ہے ،اس وقت تک کے نتائج ظاہر ہیں اور جس وقت سے میں علیحدہ ہؤا ہوں اور کام دوسروں کے ہاتھ میں گیا،اس وقت کا کام بھی سب کے سامنے ہے۔میں نے سارے ریکارڈ خود جا کر ان لوگوں کو دیئے حالانکہ مسلمان انجمنوں کا گزشتہ تجربہ بتاتا ہے کہ جن حالات میں ہم الگ ہوئے تھے،اس قسم کے حالات میں کوئی سیکرٹری یا پریذیڈنٹ ریکارڈ نہیں دیا کرتااور یہ خدا کا فضل ہے کہ ایک پیسہ کے متعلق بھی کوئی اعتراض وہ ہم پر نہیں کر سکتے۔وہ شدید مخالفین جو آج ہمیں گالیاں دے رہے ہیں ،ان میں سے بعض تحریک کشمیر میں میرے ساتھ کام کر چکے ہیں مگر کسی کو جرأت نہیں کہ میرے کام کے متعلق ایک لفظ بھی کہہ سکیں یا مجھ پر کوئی اعتراض کر سکیں ۔
غرضیکہ کشمیر میں اﷲ تعالیٰ نے ہمیں قانون شکنی کئے بغیر کامیابی عطا کی ۔مجھے بتایا گیا ہے کہ حکومتِ کشمیر کی طرف سے ایک دفعہ حکومتِ پنجاب سے میرے متعلق شکایت کی گئی کہ میں وہاں شورش کراتا ہوں۔حکومتِ پنجاب نے اس کا ثبوت مانگا تو کشمیر سے ایک خاص افسر کاغذات لے کر آیا اور بعض خطوط پیش کئے ان میں سے صرف ایک خط میرا تھامگر اس میں یہ لکھا تھا کہ آپ لوگ شورش سے بچتے رہیںاس پر وہ نادم ہو گیا اور کوئی بڑے سے بڑا مخالف بھی یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ میں نے قانون شکنی کی انہیں تعلیم دی ہو۔میرا یقین ہے کہ اس کی ضرورت نہیں ہؤا کرتی۔قانون شکنی کی طرف ہمیشہ کم ہمت لوگ مائل ہؤا کرتے ہیںمگر ہم اپنے اندر صبر اور جرأت کی طاقت رکھتے ہیں اس لئے ہمیں اس کی ضرورت نہیں ۔یاد رکھو کہ قانون جب ایک دفعہ ٹوٹا تو پھر اسے قائم نہیں کیا جا سکتا۔میں قانون شکنی سے انگریزوں کی خاطر نہیں روکتا بلکہ اپنے فائدے کے لئے اس سے منع کرتا ہوںتا ہمارے اخلاق نہ بگڑ جائیںبلکہ اگر انگریز اس کی اجازت دے دیں تو بھی ہم ایسا نہیں کریں گے۔جب یہ عادت پیدا ہو جائے تو خواہ کوئی حکومت ہویہ قائم رہے گی اور اگر انگریز چلے جائیں تو بھی کوئی حکومت نہیں چل سکے گی اور میں نے جہاں تک غور کیا ہے ،قانون شکنی کے بغیر بھی سب کام ہو سکتے ہیں ۔حکومت کی بنیاد ڈیموکریسی پر ہے اس لئے اگر اس کی غلطیاں واضح کی جائیں ،انہیں دنیا کے سامنے پھیلایا جائے اور اپنی مشکلات بیان کی جائیں تو یہ بات بغیر اثر کئے نہیں رہ سکتی۔یاد رکھو نیکی اور سچائی کی ہمیشہ فتح ہؤا کرتی ہے ۔اگر حکومت بار بار کے مطالبات پر بھی توجہ نہ کرے تو اس کی غلطیوں کو کھولو،حکام کی زیادتیاں حکومت پنجاب تک پہنچاؤ ،اگر وہ بھی نہ سنے تو حکومت ہند تک پہنچاؤ،اگر وہ بھی توجہ نہ کرے تو حکومت برطانیہ تک پہنچاؤ ،وہ بھی نہ سنے تو برطانوی پبلک کو سناؤ اور تم دیکھو گے کہ تھوڑے عرصہ میں ہی تمہیں ایسی طاقت حاصل ہو جائے گی کہ شرفاء کا طبقہ تمہاری تائید کرے گا ۔کسی قوم میں بھی سارے کے سارے لوگ برے نہیں ہوتے اور میری رائے تو یہ ہے کہ احرار میں بھی سارے برے نہیں ہیں۔ پرسوں ہی ایک دوست کا خط آیا جو میں نے آج ہی پڑھا ہے ۔وہ لکھتے ہیں کہ ایک احراری مجھ سے ملنے آیا ۔وہ اعتراض کرتا تھا مگر جب اسے حقیقت حال سے آگاہ کیا جاتا تو ضد چھوڑ دیتا ۔یہ ایک خاص پولٹیکل خیالات کی جماعت ہے مگر ان میں بھی ایسے لوگ ہیں کہ اگر ان پر حقیقت واضح کی جائے تو مان لیتے ہیں تو پھر انگریزوں میں تو اچھے لوگ بہت زیادہ ہیں ۔انگریز قوم ان قوموں میں سے ہے جنہیں اﷲ تعالیٰ نے قیام امن کیلئے چُنا ہے اس لئے ان میں یقینا اچھوں کی زیادتی ہے اور جب پروپیگنڈا کیاجائے گا تو اچھے کھڑے ہو جائیں گے اور کہہ دیں گے کہ ان زیادتیوںکو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کیا جا سکتا اور بھی بیسیوں طریق ہیں جن سے شرفاء متأثر ہوں گے ۔اگر اﷲ تعالیٰ نے سلسلہ احمدیہ کو اس لئے قائم کیا ہے کہ تا حق و صداقت کو قائم کرے تو کیا تم سمجھتے ہو کہ اس نے ہمیں ہتھیاروں سے محروم ہی رکھا ہے ۔خدا تعالیٰ کبھی ایسا نہیں کیا کرتا ۔جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے
درمیان قعر دریا تختہ بندم کردۂ
باز می گوئی کہ دامن تر مکن ہشیار باش
وہ اگر کہتا ہے کہ بغاوت اور قانون شکنی نہ کرو تو ضروری ہے کہ اس نے حفاظت کے
اور ہتھیار رکھے ہوں ورنہ اس پر الزام آتا ہے کہ اس نے ہمیں فتح کے سامانوں سے محروم کر دیا ۔جن باتوں سے وہ منع کرتا ہے یقین جانو کہ وہ فتح کے سامان نہیں ہیں ۔
پس اپنے اندر نیکی تقویٰ طہارت پیدا کرو ،دیانت کو مد نظر رکھو ،قانون کی پابندی کرو،سلسلہ کی روایات کو برقرار رکھو اور ان دو باتوں کو بھی پیش نظر رکھو ۔
اوّل یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک شعر ہے ۔
اے دل تو نیز خاطرِ ایناں نگاہ دار
کآخر کنند دعوٰئے حُبِّ پیمبرم
آپ کے دل کو مخاطب کر کے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مسلمان کہلانے والے خواہ کتنے ہی دشمن کیوں نہ ہو جائیں پھر بھی ان کا لحاظ کرنا کیونکہ آخر وہ میرے پیمبر کی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں ۔
دوم یہ کہ حکومت برطانیہ کے جاہ وجلال کے لئے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعض پیشگوئیاں ہیں ۔آپ کے یہ الہامات ہمارے لئے ہدایت ہیں پس اپنے کاموں میں انہیں مد نظر رکھو۔ ہاں فتح حاصل کرنے کے لئے ہر قربانی اور جد وجہد کروصرف اس بات کا خیال رکھو کہ مسلمانوں سے یا حکومت سے ایسا بگاڑ نہ ہو جائے کہ بعد میں اسے دور کرنا مشکل ہو ۔مجھے یقین ہے کہ اگر آپ لوگ اس طرح کام کریں گے تو اچھے آدمی آگے آئیں گے ،ان کی نیکی پھر اُبھرے گی جو بُروں کی بُرائیوں کو دھو دے گی۔میں اس بات سے آج تک اس لئے روکتا رہا ہوں کہ مجھے ڈر تھا بے احتیاطی نہ ہو جائے اور اب کہ اس کی اجازت دے رہا ہوں پھر نصیحت کرتا ہوں کہ احتیاط سے کام کرو۔ان نصیحتوں کے ساتھ اور ان ہدایات کے ماتحت میں جماعتوں کو اجازت دیتا ہوں کہ جو جماعتیں سمجھتی ہیں کہ ان کے حالات اس کا تقاضا کرتے ہیں کہ وہ اپنے دردِ دل کو حکومت پر ظاہر کریں وہ الگ انجمنیں بنا لیں اور پھر بعد میں مَیں ان کو بتاؤں گا کہ وہ کن شرائط اور اقراروں کے ماتحت اپنے معاملات کو حکومت پنجاب،حکومت ہند،حکومت برطانیہ اور پبلک کے سامنے پیش کر سکتے ہیں ،اس کے علاوہ اور جو جائز ذرائع خدا نے مقرر کئے ہیں ان کو استعمال کر سکتے ہیں ۔اﷲ تعالیٰ ہماری جماعت کا محافظ ہو اور اسے اپنے مخالفوں پر فتح دے اور ہر غلط قدم سے اس کی حفاظت کرے ۔اے خدا تو ایسا ہی کر ۔
(الفضل ۲۹؍ جنوری ۱۹۳۵ئ)
۱؎ مانٹیگو چیمسفورڈ ریفارمز(Montague Chelmsford Report)جنگِ عظیم اوّل میں حکومتِ برطانیہ نے ہندوستانیوں سے وعدہ کیا تھا کہ اگر انہوں نے حکومت کو امداد پہنچائی تو انہیں زیادہ سے زیادہ مراعات کا مستحق سمجھا جائے گا جب جنگ ختم ہوئی توہندوستانیوں کی طرف سے مطالبات شروع ہوئے جو ایجی ٹیشن کا رنگ اختیار کرگئے۔لارڈ چیمسفورڈ، جو لارڈ ہارڈنگ کے بعد ۱۹۱۶ء میں ہندوستان آئے تھے اور اب وائسرائے تھے، نے مسٹر مانٹیگو (Mr.Montague)کی معیت میں ہندوستان کے سیاستدانوں اور مدبروں سے تبادلہ خیالات کرکے ایک رپورٹ تیار کی جو مانٹیگو چیمسفورڈ سکیم کے نام سے مشہور ہے۔پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد یہ سکیم گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۱۹ء کے نام سے شائع ہوئی۔ اس کا نفاذ ۱۹۲۱ء میں ہؤا، جس کے تحت ہندوستانیوں کو حکومت کے انتظام میں حصہ دیا گیا اور بعض وزارتوں پر ہندوستانیوں کو مقرر کیا گیا۔
(ملخّص از نیو تاریخ انگلستان صفحہ ۳۱۲،۳۱۳ مطبوعہ لاہور۔’’ آزاد قوم کی تعمیر اور پاکستان‘‘ صفحہ ۱۳۶ مطبوعہ لاہور ۱۹۴۷ء ۔ یونیورسٹی ہسٹری آف انڈیا صفحہ ۳۶۵،۳۶۶ مطبوعہ لاہور)
۲؎ سر اڈوائر(Sir O'Dwyer) میکلیگن سر ایڈورڈ ڈگلس۔۲۵؍اگست ۱۸۶۴ء کو پیدا ہوئے۔ اینو کالج آکسفورڈ میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد ۱۸۸۵ء میں آئی سی اے سے منسلک ہوئے۔ ۱۹۰۶ء میں حکومتِ ہند کے محکمہ مالیات وزراعت میں انڈر سیکرٹری اور ۱۹۱۰ء تا ۱۹۱۴ء سیکرٹری رہے۔ ۱۹۱۵ء تا ۱۹۱۸ء محکمہ تعلیم سے تعلق رہا۔ ۱۹۱۹ء تا ۱۹۲۱ء پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر اور ۱۹۲۱ء تا ۱۹۲۴ء گورنر رہے۔ سی ایس آئی، کے سی آئی ای اور کے سی ایس آئی کے خطابات کے حامل تھے۔(اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۶۷۷ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ئ)
۳؎ سر میلکم ہیلی۔ پیدائش ۱۸۷۲ء ۔ ۱۹۰۲ء میں آئی سی ایس جہلم میں آباد کاری کے افسر مقرر ہوئے۔ ۱۹۰۷ء میں حکومت پنجاب کے سیکرٹری بنے۔ ۱۹۰۸ء میںحکومت ہند کے ڈپٹی سیکرٹری بنے۔ ۱۹۱۲ء تا ۱۹۱۹ء چیف کمشنر دہلی رہے۔ ۱۹۱۹ء تا ۱۹۲۲ء حکومت ہند کے فنانس ممبر رہے۔ ۱۹۲۲ء تا ۱۹۲۴ء ہوم ممبر رہے۔ گورنر پنجاب اور گورنر یو پی بھی رہے۔ ان کاشمار نہایت قابل انگریز افسروں میں ہوتا ہے۔
(اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۸۸۵ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ئ)
۴؎ لارڈ ولنگڈن۔ مدراس اور بمبئی کے گورنر پھر ۱۹۳۱ء تا ۱۹۳۶ء وائسرائے ہند رہے۔ دوسری اور تیسری گول میز کانفرنس ان ہی کے عہد میں لندن میں ہوئی۔
(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۲ صفحہ ۱۸۱۰ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ئ)
۵؎ رولٹ ایکٹ۔ ۱۹۱۹ء میں جنگِ عظیم کے بعد ہندوستان میں تحریکِ آزادی کی ایک لہر پیدا ہوئی جسے روکنے کے لئے جسٹس رولٹ کی صدارت میں ایک کمیٹی قائم ہوئی۔ کمیٹی کی رپورٹ پر ایسا قانون بنایا گیا جس کی رُو سے حکومت کو تخریبی کارروائیاں روکنے کے لئے وسیع اختیارات مل گئے۔ اس قانون کو رولٹ ایکٹ کا نام دیا گیا۔
۶؎ لارڈ چیمسفورڈ۔ جنگِ عظیم کے دوران لارڈ ہارڈنگ کے چلے جانے پر لارڈ چیمسفورڈ ۱۹۱۶ء میں ہندوستان تشریف لائے اور ۱۹۱۶ء سے ۱۹۲۱ء تک وائسرائے رہے۔ انہوں نے جنگِ عظیم میں فوج اور سامانِ جنگ بھیجنے کا سلسلہ بدستور جاری رکھا۔
(یونیورسٹی ہسٹری آف انڈیا صفحہ ۳۶۵ مطبوعہ لاہور)



۴
مخلصین کا انتہائی اخلاص اور بعض لوگوں کا
قابلِ اصلاح رویہ
(فرمودہ ۲۵؍ جنوری۱۹۳۵ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃفاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :-
پہلے میں اس تأثر کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جو میری ایک خواب اور بعض اوردوستوں کی خوابوں کے متعلق جنہیں میں نے ۴- جنوری کے خطبہ میں بیان کیا تھا جماعت میں پیدا ہؤا ہے ۔ مختلف رنگ میں جماعت نے اس سے اثر قبول کیا ہے اور جس قسم کے اخلاص سے بھرے ہوئے اور محبت سے لبریز خطوط مجھے آئے ہیں وہ اس گہرے تعلق کو جو کہ جماعت کے امام کے ساتھ جماعت کو ہے خوب اچھی طرح ظاہر کرتے ہیں ۔بعض لوگوں نے تو انتہائی الفاظ جو اپنے اخلاص کے اظہار کے متعلق وہ استعمال کر سکتے تھے لکھنے کے بعد اپنی بیچارگی اور معذوری کا اظہار کیا ہے اورلکھا ہے کہ انہیںالفاظ ایسے نہیں ملتے جن سے وہ اپنے اخلاص کا اظہار کر سکیں ۔بعضوں نے خواہش ظاہر کی ہے کہ اگر انہیں اجازت ہو تو وہ اپنی ملازمتیں چھوڑ کر قادیان آجائیں اور میرے لئے پہرہ دینے والوں میں شامل ہوں۔ بعضوں نے خواہش ظاہر کی ہے کہ جماعت پر دس پندرہ یا بیس ہزار روپیہ کی رقم جو مناسب سمجھی جائے لگادی جائے اور یہ کہ وہ اپنے اخراجات کو ہر رنگ میں کم کر کے اسے پورا کریں گے تاکہ اس روپیہ سے آپ کی حفاظت کے لئے انتظام کیا جائے ۔غرض وہ جوش اور اخلاص جس کا اظہار ہماری جماعت نے کیا ہے ثابت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت ایک ایسے مقام پر پہنچ چکی ہے کہ گو اس میں بعض کمزوربھی ہوں مگر اس کاایک بڑا حصہ ایسا ہے جو اس بوجھ کواٹھائے چلا جائے گا جو احمدیت کے متعلق اس پر عائد ہوتا ہے یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کا مقدر پورا ہو ۔
کبھی کسی جماعت میں سارے مؤمن نہیں ہوئے بلکہ کچھ حصہ منافقین کا بھی ہوتا ہے۔ خود رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں تمام وہ لوگ جو آپ پر ایمان لائے مخلص نہیں تھے بلکہ منافق بھی تھے۔ پھر بہت سا حصہ جہاں قربانیاں کرتا وہاں ایک حصہ ایسا بھی تھا جو اسلام کے لئے قربانی کرنے پر تیار نہیں تھاحالانکہ اس موقع پر قربانیوں کے لئے ننگے ہو کر سامنے آنے کے بہت سے مواقع تھے لیکن اب ایک منظم اور قانون پر چلنے والی گورنمنٹ کی ما تحتی کی وجہ سے منافق اور غیر منافق میں تمیز کرنا بہت مشکل ہے ۔رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں جو شخص بھی ایمان لاتا اسے یہ ظاہر کرنا پڑتا کہ اس کی گردن اسلام کے لئے حاضر ہے اسے کاٹ لیا جائے مگر آج بعض لوگوں کو احمدی ہوئے بیس بیس سال گزر گئے مگر بوجہ ایک منظم گورنمنٹ کے ماتحت ہونے کے انہیں کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچی ۔گو ہزار ہا ایسے بھی ہیں جو احمدیت کی وجہ سے مارے پیٹے گئے ،انہیں اپنی جائیدادو ں سے بے دخل کر دیاگیا، ان کی بیویوں اور بچوں کو چھین لیا گیااور ان کی عزتوں اور آبروئوں پر حملہ کیا گیا لیکن ایک حصہ ایسا بھی ہو گا اور یقینا ہے جسے مخالفوں کی طرف سے کوئی قابلِ ذکر تکلیف نہیں پہنچی ۔پس آج جبکہ جماعت کے ایک حصہ کو سالہاسال سے کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچی کچھ منافق بھی ہماری جماعت میں شامل ہو جائیں تو ان کا پتہ لگانے کی کوئی صورت نہیں ہو سکتی ۔مگر رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں مخالفت اتنی کھلی تھی اور مخالفت بھی تلوار کی مخالفت کہ جو شخص اسلام قبول کرتا اسے اپنی جان قربان کر کے اسلام میں شامل ہونا پڑتا مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے باوجود بھی اس وقت منافق موجود تھے ۔تو موجودہ زمانہ میں ایسے لوگوں کی جماعت احمدیہ میں شمولیت کوئی بڑی بات نہیں ہو سکتی ۔پس کمزوروں کی کمزوری نہیں دیکھنی چاہئے بلکہ مخلصوں کا اخلاص دیکھنا چاہئے اور یہ کہ وہ اخلاص کس حد تک پہنچا ہؤا ہے۔ اور اگر معلوم ہو کہ سلسلہ میں ایسے مخلصین موجود ہیں جو اپنی جان، اپنا مال، اپنی عزت ،اپنی آبرو، اپنا آرام اور اپنی آسائش سب کچھ قربان کر کے سلسلہ کے پھیلانے اور اس کے اصول کو دنیا میں رائج کرنے کے لئے ہر وقت بے قرار رہتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کا مادہ اپنے اندر رکھتی ہے اور کوئی مخالفت اسے بڑھنے سے نہیں روک سکتی ۔
پہرے کے متعلق بھی دوستوں نے عجیب عجیب قسم کی تحریکیں کی ہیں ۔بعضوں نے لکھا ہے کہ رات کو جب آپ سوئیں تو کسی کو یہ معلوم نہیں ہونا چاہئے کہ آپ کس کمرہ میں ہیں حتّٰی کہ بیویوں کو بھی یہ علم نہیں ہونا چاہئے۔ بعضوں نے لکھا ہے کہ خیر بیویوں کو علم ہو تو کوئی حرج نہیں کسی اور کو معلوم نہیں ہونا چاہئے یہ تمام باتیں جماعت کے اخلاص اور محبت کا نہایت اچھی طرح اظہار کرتی ہیں گو ان پر عمل نہیں ہو سکتا کیونکہ اگر ایسا کیا جائے تو زندگی دو بھر ہو جائے۔ مگر جہاں جماعت کی طرف سے نہایت ہی اخلاص اورمحبت کا اظہار کیا گیا ہے وہاں جیسا کہ بندر کا تماشہ دکھانے والے روکنے کے باوجودچھینک پڑتے ہیں اسی طرح چھینکنے والے لوگ بھی ہماری جماعت میں موجود ہیں ۔چنانچہ مجھے بتایا گیا ہے کہ قادیان میں ایک شخص کو جب مسجد میں پہرہ کے لئے کہا گیا تو اس نے کہا کہ اس طرح پہرہ دینا میرے اصول کے خلاف ہے پس جہاں باہر کی جماعتوں میں ایسے ایسے مخلصین موجود ہیں جو پہرہ کے لئے اپنی نوکریاں چھوڑنے کے لئے تیار ہیں وہاں قادیان میں بعض ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو کہتے ہیں کہ پہرہ دینا ان کے اصول کے خلاف ہے حالانکہ ان کے وہ اصول کہاں سے آئے ہوئے ہیں کیا ان کے اصول کی صحت کا کوئی ثبوت ہے۔ ممکن ہے اس ایک شخص کی بات سنکر میں اسے نظر انداز کر دیتا خصوصاً ایسی حالت میں جبکہ یہ الفاظ ایک ایسے شخص کے منہ سے نکلے ہوئے ہیں جو ہمیشہ اپنی بے اصولی باتوں کو بااصول کہتا رہتا ہے اور اس کی عادت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ بہت سی بے اصولی باتیں کرتا ہے مگر انہیں اصول قرار دیتاہے مگر چونکہ ایسے آدمی ہر جگہ بات کرنے کے عادی ہوتے ہیںاور گو ہمیں تو اس بات کی ضرورت نہیں کہ دیکھیں کون پہرہ دیتا ہے اور کون نہیں مگر چونکہ اس قسم کی باتوں کے نتیجہ میں وہ مخلصین اور کام کرنے والے لوگ جو پہرہ دیتے ہیں ان پر اعتراض ہوتا اور وہ بے وقوف سمجھے جاسکتے ہیں حالانکہ بے وقوف پہرہ دینے والے نہیں بلکہ پہرہ پر اعتراض کرنے والے ہیں اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ اس کا جواب دے دوں۔ ورنہ اپنی ذات کے لئے مجھے اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کے اندرجو اخلاص میرے متعلق پیدا کیا ہے وہ اس قسم کی باتوں سے دور نہیں ہو سکتا مگر چونکہ ایک طبقہ ایسا بھی ہو سکتا ہے جو اس قسم کی باتوں سے متأثر ہو اور ممکن ہے کہہ دے کہ اعتراض کرنے والے نے کیسی اچھی بات کہی ۔نماز کا اس نے احترام کیا اور اس بات کو بے ضرورت سمجھا کہ خدا تعالیٰ کے فرض کی ادائیگی کے وقت کسی انسان کی حفاظت کے لئے نماز پڑھنی چھوڑ ی جائے اور اس طرح مخلصین کے اخلاص پر اعتراض واقع ہوتا اور وہ اس قسم کی باتوں کے نتیجہ میں احمق قرار پاتے ہیں اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ کچھ بیان کر دوں۔ پہلی چیز جو ہمارے سامنے ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ ہے ۔ابھی تک وہ لوگ زندہ ہیں جو باقاعدہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے گھرکا پہرہ دیا کرتے تھے،سکول کے طالب علم ،مہمان اور قادیان کے باشندے ہمیشہ پہرہ دیتے رہے بلکہ کچھ عرصہ تک ماسڑعبدالرحمن صاحب جالندھری کے سپرد بھی یہ ڈیوٹی رہی اور وہ سکول کے طالبعلموں کا پہرہ مقررکرتے اور باریاں مقررکرتے تھے اور یہ وہ لوگ تھے جو راتوں کو جاگ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکان کا پہرہ دیا کرتے ۔اس صورت میں اعتراض کرنے والے کے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے صحابہ کا یہ طریقِ عمل بھی اس کے اصول کے خلاف ہو گا اور اس کے نزدیک لوگوں کا پہرہ دینایا تو خدائی حفاظت کے باوجود جس کا آپ کو وعدہ دیا گیا ایک عبث فعل ہو گا اور یا ان کے وقار کے خلاف ہو گا۔ راتوں کو جاگنا اور پہرہ دینا جبکہ ایک شخص گھر میں بیٹھا ہؤا ہو اور دروازے بند ہوں، اتنا ضروری نہیں ہوتا جتنا کہ انسان جب باہر نکلے تو اس کی حفاظت ضروری ہوتی ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے زمانہ میں ایسا ہو تا رہا ۔یہ شخص اگر اس وقت ہوتا تو یہی کہتا کہ پہرہ دینا تو میرے اصول کے خلاف ہے۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب سفروں پر جاتے تو آپ کے ساتھ حفاظت کے لئے زائد سواریاں اور یکّے ہوتے ۔اگر آپ رَتھ میں جاتے تو علاوہ ان لوگوں کے جو حفاظت کے لئے رَتھ میں ہی آپ کے ساتھ بیٹھ جاتے ،دو تین رَتھ یا یکّے کے ساتھ ساتھ بھاگتے چلے جاتے ۔یہ شخص تو اگر اس وقت ہوتا اور اسے یکّے کے ساتھ چلنے کو کہا جاتا تو شاید خود کشی کو ترجیح دیتا کہ اس قدر ہتک کی گئی ہے ۔اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کبھی گھر میں ہدیۃً آئی ہوئی چیز بغیر دریافت کئے استعمال نہ کرتے بلکہ آپ پوچھ لیتے کہ یہ کہاں سے آئی ہے، کون دینے آیا تھا اور آیا وہ شخص جانا پہچانا ہے یا نہیں ۔جب مخالفت زیادہ بڑھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام کو قتل کی دھمکیوں کے خطوط موصو ل ہو نے شروع ہوئے تو کچھ عرصہ تک آپ نے سنکھیا کے مرکبات استعمال کئے تاکہ اگر خدا نخواستہ آپ کو زہر دیا جائے تو جسم میں اس کے مقابلہ کی طاقت ہو ،اس شخص کے نزدیک یہ بھی خدا تعالیٰ کے توکّل کے خلاف ہو گا ۔پھر اپنے بچوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام مغرب کے بعد کبھی باہرنہیں نکلنے دیتے تھے کیونکہ آپ سمجھتے تھے لوگ دشمن ہیں ممکن ہے وہ بچوں پر حملہ کر دیں اور انہیں نقصان پہنچائیں ۔مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام جب فوت ہوئے تو اس وقت میری ۱۹سال عمر تھی ۔۱۶ ،۱۷سال کی عمرتک حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے کبھی بھی مغرب کے بعد گھر سے نکلنے نہیں دیا اور اس کے بعد بھی آپ کی وفات تک میں اجازت لے کر مغرب کے بعد گھر سے جاتا ۔اس کے متعلق بھی وہ کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ یہ بالکل توکّل اور اصول کے خلاف امر ہے ۔پھر اس سے اوپر جاکر دیکھو توکّل کے سر چشمہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی یہی حال تھا ۔حدیثوں سے صاف ثابت ہے کہ روزانہ صحابہ میں سے چند لوگ آتے اور رسول کریم ﷺ کی حفاظت کے لئے پہرہ دیتے۔ پہلے تو وہ بغیر اسلحہ کے پہرہ دیاکرتے مگر ایک دن رسول کریم ﷺ نے ہتھیاروں کے چھنکار کی آواز سنی تو آپ باہر تشریف لائے دیکھا تو صحابہ اسلحہ سے مسلّح ہو کر پہرہ دینے آئے تھے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر صحابہ نے عرض کیا کہ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ کیا پتہ کوئی ایسادشمن آجائے جوبا ہتھیارہو اس لئے ہم مسلح ہو کر آئے ہیں ۔رسول کریم ﷺ نے جب یہ سنا تو ان کی تعریف کی اور ان کے لئے دعا فرمائی۔۱؎ اس آدمی کیلئے یہ بات بھی بڑی مصیبت ہو گی ۔پھر صحابہ کی حالت یہ تھی کہ رسول کریم ﷺ اگر ذرا بھی اِدھر اُدھر ہو جاتے تو وہ بے تحاشہ آپ کی تلاش میں دوڑ پڑتے۔بخاری میں آتاہے کہ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ ایک باغ میں بیٹھے تھے، تھوڑی دیر کے لئے آپ بغیر اطلاع دئیے اس باغ کے دوسرے کو نے کی طرف چلے گئے، صحابہ نے جب رسول کریم ﷺ کو نہ دیکھا تووہ چاروں طرف دَوڑپڑے ۔وہ مشہور حدیث جس میں آپ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہا تھا کہ جس نے لَااِلٰہَ اِ لَّااللّٰہُ کہا وہ جنت میں داخل ہوگیا ۲؎ اسی وقت کی حدیث ہے اس شخص کے نزدیک وہ سارے صحابہ جو اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں دَوڑے بے اصولے تھے اور ان کا دَوڑنا ان کے وقارکے خلاف تھابھلا مؤمن بھی کبھی ہِل سکتا ہے۔اسی طرح جنگ کے موقع پر رسول کریم ﷺکے اِردگرد ہمیشہ ایک گارد ہوتی۔ صحابہ کہتے ہیں کہ جو ہم میں سب سے زیادہ بہادر ہوتا وہ آپ کے گِردکھڑا کیا جاتا ۔گویا چُن چُن کر نہایت مضبوط اور توانا آدمی رسول کریم ﷺ کی حفاظت کیلئے مقرر کئے جاتے۔بدر کی جنگ میں صحابہ نے ایک عرشہ بنا دیا تھااور رسول کریم ﷺ کو اس پر علیحدہ بٹھاکر ایک تیز رفتار اونٹنی آپ کے پاس کھڑی کر دی اور کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ !ہمارے بھائیوں کو مدینہ میں معلوم نہ تھاکہ جنگ ہونے والی ہے اس لئے وہ نہ آئے لیکن یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ !اگر ہم سب کے سب مارے جائیں توآپ اس تیز رفتار اونٹنی پر سوار ہو کر مدینہ تشریف لے جائیں وہاں ہمارے بھائیوں کی ایک جماعت بیٹھی ہے جو اسلام کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے حاضرہے اسے آپ مدد کے لئے بلا لیں۔۳؎ پھر قرآن مجید میں صراحتاً اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خطرے کے وقت تمام مسلمان با جماعت نماز نہ پڑھیں بلکہ آدھے کھڑے رہا کریں اور آدھے نماز پڑھا کریں۔ جب ایک رکعت نماز پڑھ لی جائے تو نماز پڑھنے والے پہرہ پر کھڑے ہو جائیں اور پہرہ دینے والے نماز میں شامل ہو جائیں۔۴؎ گویا حفاظت کے لئے پہرہ دینے والوں کو یہاں تک معافی دی گئی ہے کہ جنگ کے وقت ان کی ایک رکعت نماز ہی خدا تعالیٰ قبول کر لیتا ہے اور بعضوں نے کہا ہے کہ ایک رکعت نہیں دوہی رکعت ضروری ہیں دوسری رکعت وہ بعد میں پڑھ لیں ۔
بہر حال قرآن مجید کا صراحتًا حکم ہے کہ حفاظت کے لئے مسلمانوں میں سے آدھے کھڑے رہا کریں اور گو یہ جنگ کے وقت کی بات ہے جب ایک جماعت کی حفاظت کے لئے ضرورت ہوتی ہے لیکن اس سے استدلال کیا جا سکتا ہے کہ چھوٹے فتنہ کے انسداد کے لئے اگر چند آدمی نماز کے وقت کھڑے کر دیئے جائیں تو یہ قابلِ اعتراض امر نہیں بلکہ ضروری ہو گا۔ اگر جنگ کے وقت ہزار میں سے پانچ سو حفاظت کے لئے کھڑے کئے جاسکتے ہیں تو کیوں معمولی خطرے کے وقت ہزار میں سے پانچ دس آدمی حفاظت کے لئے کھڑے نہیں کئے جاسکتے ۔یہ کہنا کہ خطرہ غیر یقینی ہے بیہودہ بات ہے۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے ساتھ کیا ہؤا آپ نماز پڑھ رہے تھے مسلمان بھی نماز میں مشغول تھے کہ ایک بدمعاش شخص نے سمجھا یہ وقت حملہ کرنے کے لئے موزوں ہے وہ آگے بڑھااور اس نے خنجر سے وار کر دیا ۔۵؎ اس واقعہ کے بعد بھی اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ نمازکے وقت پہرہ دینا اس کے اصول یا وقار کے خلاف ہے تو سوائے اپنی حماقت کا مظاہرہ کرنے کے اور وہ کچھ نہیں کرتا ۔اسکی مثال اس بیوقوف کی سی ہے جولڑائی میں شامل ہؤا اور ایک تیر اُسے آلگا جس سے خون بہنے لگا ۔وہ میدان سے بھاگا اور خون پونچھتا ہؤا یہ کہتا چلا گیا کہ یَا اَللّٰہ !یہ خواب ہی ہو ۔یہ شخص بھی گزشتہ واقعات کا علم رکھتا ہے بلکہ انہیں عملًا ہوتے ہوئے دیکھتا ہے مگر پھر کہتا ہے کہ یہ بات اصول کے خلاف ہے۔ تاریخ سے یہ بھی ثابت ہے کہ ایک موقع پر صحابہ نے اپنی حفاظت کا انتظام نہ کیا تو انہیں سخت تکلیف اُٹھانی پڑی۔ چنانچہ حضرت عمرو بن العاص جب مصر کی فتح کے لئے گئے اور انہوں نے علاقہ کو فتح کر لیا تو اس کے بعد جب وہ نماز پڑھاتے تو پہرہ کا انتظام نہ کرتے ۔دشمنوں نے جب دیکھا کہ مسلمان اس حالت میں بالکل غافل ہوتے ہیں تو انہوں نے ایک دن مقرر کر کے چند سَو مسلَّح آدمی عین اُس وقت بھیجے جب مسلمان سجدہ میں تھے۔ پہنچتے ہی انہوں نے تلواروں سے مسلمانوں کے سر کاٹنے شروع کر دئیے۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ سینکڑوں صحابہ اُس دن مارے گئے یا زخمی ہوئے۔ایک کے بعد دوسرا سر زمین پر گِرتا اور دوسرے کے بعد تیسرا اور ساتھی سمجھ ہی نہ سکتے کہ یہ کیا ہو رہا ہے ۔ حتّٰی کہ شدید نقصان لشکر کو پہنچ گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جب یہ معلوم ہؤا تو آپ نے انہیں بہت ڈانٹا اور فرمایا کہ کیا تمہیں معلوم نہ تھا کہ حفاظت کا انتظام رکھنا چاہئے مگر انہیں کیا معلوم تھا کہ مدینہ میں بھی ایسا ہی ان کے ساتھ ہونے والا ہے ۔اس واقعہ کے بعد صحابہ نے یہ انتظام کیا کہ جب بھی وہ نماز پڑھتے ہمیشہ حفاظت کے لئے پہرے رکھتے ۔پس اگر ان معترضین کو خدا تعالیٰ نے قرآن مجید کی سمجھ نہیں دی تھی تو ان کا فرض تھا کہ یہ ان لوگوں سے پوچھتے جو مسائل سے واقفیت رکھتے ہیں ۔خود بخود بغیر سوچے سمجھے ایک بات کہہ دینا سوائے اپنے بے اصولا پن کا اظہار کرنے کے اور کس کا ثبوت ہے۔آخر ایک نابینا کا یہی کام ہوتا ہے کہ وہ کسی بینا کا ہاتھ پکڑے تاکہ وہ گڑھے میں نہ گر جائے ۔جب وہ بھی دینی علوم سے ناواقف تھے تو ان کا کام تھا وہ کہتے میں بھی روحانی عالَم میں محتاجِ ہدایت ہوں مجھے راہ دکھایا جائے مگر بجائے اس کے کہ وہ کہتے مجھے کوئی دوسرا راہ دکھائے خود بخود چوہدری بننے لگے اور لوگوں سے یہ کہنے لگ گئے کہ آؤ ہمارے پیچھے چلو۔
دوسری بات مَیں یہ بیان کرنا چاہتاہوں کہ پچھلے جمعہ میں مَیں نے اعلان کیا تھا کہ جو جماعتیں سمجھتی ہیں کہ اب احرار کی شرارت حد سے بڑھ گئی ہے اور انہیں اس پر احتجاج کی اجازت ملنی چاہئے انہیں میں اجازت دے سکتا ہوں کہ وہ الگ سیاسی انجمنیں بنا لیں اور حکومت تک اپنے خیالات پہنچاکر دیکھ لیں اور گورنمنٹ کے سامنے اپنے دل کے زخم کھول کر رکھدیںکہ کیا اثر ہوتاہے اس امر کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی کہ میں دیکھتا تھا جماعت میں اشتعال ہے اور سُرعت سے بڑھ رہا ہے۔ چنانچہ میں جب ۱۶؍ جنوری کو لاہور گیا تو وہاں میں نے بعض لوگوں کا شکوہ کیا تھا کہ وہ پورے جوش سے کام نہیں کرتے لیکن جب میں واپس آیااور بعد میں آئی ہوئی ڈاک پڑھی تو میں نے سمجھا کہ میرا خیال غلط تھا۔باہر کی جماعتوں میں بھی شدید جوش تھا جس کے پھوٹ پڑنے کا ڈر تھا ۔تب یہ دیکھتے ہوئے کہ ہماری انجمنیں مذہبی ہیں اور ان میں سرکاری ملازم بھی شامل ہیں ایسا نہ ہو اس جوش کی حالت میں وہ بے سمجھے کوئی اقدام کر بیٹھیں۔میں نے فوراً سیاسی انجمنوں کے متعلق اعلان کر دیا حالانکہ پہلے دوچار دن انتظار کا ارادہ تھا ۔سرکاری ملازموں کے سوا دوسرے لوگوں کے لئے بھی میں نے یہ شرط کردی کہ جو ایسا کرنا چاہے کرے مجبوری یا حکم نہیں ہے اور یہ بھی شرط کر دی کہ سب لوگ قانون کی پابندی کریں اور شریعت کی بھی پابندی کریں ۔پس میں نے ان تجاویز کے ذریعہ ان لوگوں کے لئے جو بے اصولے بااصول بنتے تھے رستہ کھول دیا تھا کہ اگر وہ موجودہ انجمنوں میں شامل نہ ہوں تو کوئی انہیں منافق قرار نہ دے سکے کیونکہ اس میں شامل ہونا اختیاری رکھا گیا تھا مگر وہ ایسے بااصول نکلے کہ اس موقع پر بھی اعتراض کرنے سے نہ رہے حالانکہ اس میں ان کا اپنا بھلا مدنظر رکھا گیا تھا اور جہاں مذہبی انجمنوں میں شریک ہونا ضروری تھا وہاں ان انجمنوں میں شریک ہونا ان کے لئے ضروری نہ تھا مگر وہ اعتراض کرنے سے پھر بھی باز نہ رہے ۔چنانچہ قادیان میں سے تین آدمی ایسے ہیں جنہوں نے اس پر اعتراض کیا ۔قادیان جس طرح مخلصین کے لئے نیک نام ہے اسی طرح بعض مفسدین کے لئے بد نام بھی ہے ۔دو نے تو مجھے رقعے لکھے اور ایک نے کسی کے آگے بات بیان کی جو میرے پاس پہنچائی گئی ہے ۔ایک نے تو یہ اعتراض کیا ہے کہ آپ نے سیاسی انجمنوںکی اجازت دے کر بڑا غضب کر دیا ۔سیاست نہایت بُری اور خطرناک چیز ہے اور معلوم نہیں اب کیا ہو ۔یہاں تو خیرامن ہے باہر جو ہماری جماعتیں پھیلی ہوئی ہیں اور تعداد میں بالکل قلیل ہیں وہ تو اس سے بالکل ہی تباہ ہو جائیں گی۔
اسی طرح سیاسیات پر مسجد میں خطبے کیوں پڑھے گئے اگر گورنمنٹ ہماری مسجدوں پر قبضہ کرے دروازوں پر تالے لگا دے اور ہمیں بے دخل کر دے تو کیا ہو۔دوسرے صاحب نے تو کسی دلیل کی ضرورت ہی نہیں سمجھی اور انہوں نے صرف اتنا لکھنا ہی کافی سمجھ لیا کہ جس وقت میں نے خطبہ سنا اسی وقت میں نے دل میں کہا کہ اُف بھاری غلطی ہوگئی اور اس وقت تو میں نے صبر کیا مگر اب میں آپ کو لکھتا ہوں کہ آپ فوراً اس تجویز کو واپس لے لیں ۔یہ نہایت ہی تباہ کن ہے یہ وہی بااصول صاحب ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ نماز کے وقت پہرہ کیوں دیا جاتا ہے ۔انہوں نے اپنی بات کے ثبوت کے لئے کسی دلیل کی ضرورت ہی نہیں سمجھی ۔گویا ’’آفتاب آمد دلیلِ آفتاب ‘‘۔
یہ سمجھ لیا کہ جب میں کہہ رہاہوں تو اس سے بڑھ کر کسی ثبوت کی اب کیا ضرورت ہو گی۔ تیسرے صاحب کے متعلق میرے پاس بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے کہا جب میں نے خطبہ سنا تو اس وقت بے اختیار میرے منہ سے نکل گیا کہ اُف غضب ہو گیا، اب کیا ہو گا۔ اوّل تو میں کہتا ہوں کہ اس میں غضب ہونے کی بات ہی کونسی ہے اور کونسی اب نئی چیز جماعت کے سامنے رکھی گئی ہے جو اس سے پہلے نہیں تھی۔ میں نے سیاسی انجمنوں کے قیام کی اجازت دیتے ہوئے جو شرائط عائد کی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ قانون کے اندر رہ کر گورنمنٹ کے سامنے اپنے مطالبات رکھے جائیں ۔بھلا کیا یہ نئی چیز ہے؟ کیا ہم ہمیشہ گورنمنٹ کے سامنے اپنے حقوق کے لئے پروٹسٹ نہیں کرتے رہے آیا فتنہ مستریاں کے وقت ہم نے گورنمنٹ کے سامنے احتجاج کیا یا نہیں ۔پھر کیا اور موقعوں پر گورنمنٹ کے سامنے ہم نے اپنے حقوق کو پیش نہیں کیا ۔اگر کیا ہے تو اس میں نئی بات کونسی ہو گئی جس پر انہیں کہنا پڑا کہ اُف غضب ہو گیا۔ میں نے تو انہی لوگوں کے بچائو کے لئے یہ سب کچھ کیا تھا ہاں اتنی بات زائد کر دی تھی کہ پہلے ہماری جماعت کے تمام لوگ یہ کام کیا کرتے تھے مگر اب تھوڑے کیا کریں گے ۔اگر وہ ذرا بھی عقلمندی سے میرا خطبہ سنتے یا یہی سمجھ لیتے کہ خلیفہ میں تھوڑی بہت عقل ہے اور اس نے جو کچھ کہا ہو گا سوچ سمجھ کر کہا ہو گا تو اتنی معمولی بات کا ان کی سمجھ میں آنا کوئی مشکل امر نہ تھا لیکن نہ تو انہوں نے اپنی عقل سے کام لیا اور نہ میرے متعلق یہ سمجھا کہ اس میں کچھ عقل ہے اور اعتراض کر دیا حالانکہ اگر وہ سوچتے تو انہیں نظر آتا کہ جو پہلے ہؤا کرتا تھا وہی اب بھی ہؤا کرے گا ۔ہاں اس کام کو الگ کر دیاگیا ہے اور ساری جماعت کا اس کام میں حصہ لینا ترک کرادیاگیاہے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ مجھے جماعت کی طرف سے بعض ا س قسم کی چِٹھیاں موصول ہوئیں کہ ہم خطاب چھوڑنے کے لئے تیار ہیں،نوکریوں سے استعفے دینے کے لئے آمادہ ہیں ،بھوکا پیاسا رہنا بلکہ مرنا ہم برداشت کر لیں گے مگر ہم سے یہ برداشت نہیں ہو سکتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخالف کُھلے بندوں ہتک کریں ۔جب مجھے اس قسم کی چِٹھیاںموصول ہوئیں تو میں نے محسوس کیا کہ اگر میں نے اب اس میں دخل نہ دیا اور جماعت کے ایک حصہ کو سیاسی کام کے لئے الگ نہ کر دیا تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ بعض حکومت کے ملازم بھی اس میں دخل دینا شروع کر دیں گے جو ان کے لئے جائز نہیں۔پس گورنمنٹ کے ملازموں کو اس میںدخل دینے سے بچانے کے لئے میں نے الگ سیاسی انجمنیں قائم کرنے کی تحریک کی ۔پھر میرا یہ بھی مقصد تھا کہ ان انجمنوں میں شامل ہونا اختیاری رکھ کر ’’بااصول‘‘ کو ٹھوکر کھانے سے محفوظ رکھوں۔ مگر میری تمام احتیاطوں کے باوجود یہ بااصول لوگ بول ہی پڑے حالانکہ جن شرائط کے ماتحت میں نے سیاسی انجمنوںکی اجازت دی ہے وہ یہ ہیں کہ لوگ قانون کی پابندی کریں، شریعت کی پابندی کریں اور سلسلہ کی روایات کو برقرار رکھیں ۔مگر کیا ہم پہلے ایسے کام نہیں کرتے تھے جو قانون کے اندر ہوں ۔کیا پہلے ہم ایسے کام نہیں کرتے تھے جو شریعت کے ماتحت ہوں اور جن میں روایات سلسلہ کا احترام مد نظر ہو۔ اگر سب کچھ کرتے تھے تو اس میں نئی بات کونسی ایسی پیدا ہو گئی تھی جس پر انہیں حیرت ہوئی ۔نئی چیز جو پیدا ہوئی ہے وہ صرف آرگنائزیشن (ORGANIZATION) اور نظام ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ یہ نظام میں نے دو غرضوں سے قائم کیا ہے ایک تو اس لئے کہ سرکاری ملازم اس میں سے نکل جائیں اور دوسرے اس لئے کہ ایسے’’ بااصول‘‘ نکل جائیں ۔پس ایک طرف تو میں نے گورنمنٹ کی خیر خواہی کی تاکہ ملک میں بد دیانتی کی روح پیدا نہ ہواور دوسری طرف اس میں شمولیت کو اختیار ی رکھ کر اس قسم کے لوگوں کو دور رکھنا چاہا جو جماعت کے ساتھ نہیں چل سکتے کیونکہ میرا خیال تھا وہ کہہ دیں گے یہ مذہبی انجمنیں تو ہیں نہیں،ان میں شامل ہونا کیا ضروری ہے چلو چھٹی ہوئی ۔مگر انہوں نے خواہ مخواہ دخل دے دیا اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ پالیٹکس (POLITICS)میں دخل دیا گیا تو جماعت تباہ ہو جائے گی ۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس سے پہلے پالیٹکس میں دخل نہیں دیتے تھے ۔کیا سائمن کمیشن کی رپورٹ پر میں نے تبصرہ نہیں لکھاکیا نہرو رپورٹ پر تبصرہ میں نے نہیں کیا پھر کیا عدمِ تعاون کی تحریک کے دوران میں نے اس موضوع پر ایک کتاب نہ لکھی ۔کیا کانگرس کے متعلق جماعت نے ہمیشہ ریزولیوشنز پاس نہیں کئے اور کیا سلسلہ احمدیہ پر جب بھی کوئی حملہ ہؤا،اس کے ازالہ کے لئے ہماری جماعت نے کو ششیں نہیں کیں؟یہ سب کچھ ہوتا رہا مگر اس وقت اس مقصد کے لئے علیحدہ انجمنیں نہیں تھیں اور تمام جماعت کا ان امور میں دخل دینا میں نے اس لئے جائزرکھا کہ وہ کام گورنمنٹ کی بہبود ی سے تعلق رکھتا تھا اور گورنمنٹ کی بہبودی کے متعلق جو تحریکات جاری کی جائیں انہیں کسی صورت میں نہیں روکا جا سکتا ۔اسی لئے ایک دفعہ جب مَیں نے لارڈ اِرون۶؎(LORD IRWIN)سے شکایت کی کہ آپ کے بعض افسر ایسے ہیں جو کانگرس کے مخالف حصہ لینے والوں کو بھی سزائیں دیتے اور اس کا نام پالیٹکس میں دخل دینا قرار دیتے ہیں۔ تو میرے اس کہنے پرگورنمنٹ نے ایک خاص سرکلر جاری کیا جس میں وضاحت کی کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ سیاسیات میں حصہ نہ لو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ گورنمنٹ کے خلاف سیاست میں حصہ نہ لو ورنہ گورنمنٹ کی تائید میںسیاست میں حصہ لینا کوئی جرم نہیں ۔پس چونکہ اس سے پیشتر ہم گورنمنٹ کا اپنا کام کرتے رہے ہیں اسلئے علیحدہ انجمنوں کی ضرورت نہیں تھی مگر اس موقع پر گورنمنٹ کے بعض کاموں پر نکتہ چینی کی جانی تھی اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ اب علیحدہ سیاسی انجمنیں بنالی جائیں اور جہاں ملازموں کو الگ کر دیا جائے ،وہاں ایسے بے اصولوں کو بھی شامل نہ کیا جائے ۔یہ بے اصولے لوگ بھی دنیا میں کبھی کوئی کام کیا کرتے ہیں۔ کام تو وہ کیا کرتے ہیں جو دیوانے ہوں ورنہ یہ تو جتنے زیادہ پرے رہیں اتنی ہی جماعت کو تقویت حاصل ہو ۔غرض جو کام اب کیا جائیگا جماعت پہلے بھی یہ کام کرتی رہی ہے جیسے گورنمنٹ کی طرف سے جب کانگرس کے جتھوں پر مار پیٹ شروع ہوئی اور بعض جگہ ظلم ہونے لگا تو میں نے بحیثیت امام جماعت احمدیہ حکومت کو توجہ دلائی کہ یہ امر گورنمنٹ کو بدنام کرنے والا اور کانگرس سے لوگوں کو ہمدردی پیدا کر دینے والا ہے۔ میرے اس توجہ دلانے پر لارڈ اِرون نے مجھے لکھا کہ آپ اپنی جماعت کا ایک وفد اس امر کے متعلق تفصیلی مشورہ دینے کے لئے بھیجیں اور انہوں نے سر جافری سابق گورنرپنجاب کو تاکید کی کہ ان کی باتوں کو غور سے سنا جائے اور ان پر عمل کیا جائے چنانچہ ہمارا وفد گیا اور انہوں نے نہایت خوشی سے ہماری باتوں کو سنا اور اس کے بعد سر جافری نے مجھے شکریہ کی ایک لمبی چِٹّھی اپنے ہاتھ سے لکھ کر بھیجی ۔میں نے اس وقت انہیں یہی بتایا تھا کہ آپ بغیر بد نام ہوئے کانگرس کے اثر سے لوگوں کو بچا سکتے ہیں یہ ایک سیاسی بات تھی مگر ہم نے اس وقت اس میں دخل دیا۔ پس سیاسی کاموں میں ہم پہلے بھی حصہ لیتے رہے ہیں اور اب بھی لیں گے ۔فرق صرف یہ ہے کہ پہلے اس کام کی تمام جماعتوں کو اجازت تھی مگر اب چونکہ جوش کا وقت ہے اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ جو لوگ قربانی کے لئے تیار نہ ہوں وہ شامل نہ ہوں اور جو تیار ہوں انہیں شامل کر لیا جائے اور اس طرح میری غرض یہ تھی کہ ایک تو سرکاری ملازم اس میںسے نکل جائیں دوسرے اس قسم کے بے اصولے شامل نہ ہوں۔ پس یہ لوگ تو پہلے ہی آزاد تھے اور انہیں کسی نے مخاطب ہی نہیں کیا تھا پھر نہ معلوم انہیں خود بخود کیوں فکر ہونے لگا ۔ان کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں کہ ایک دفعہ جنگل میں کوئی لومڑی بھاگی جا رہی تھی کسی شخص نے دیکھا تو اس سے پوچھا کہ اس طرح جلدی سے کیوں بھاگی جاتی ہو۔ وہ کہنے لگی بادشاہ نے حکم دیا ہے کہ جس قدر اونٹ ہیں وہ پکڑ لئے جائیں ۔وہ کہنے لگا تو پھر تمہیں کیوں فکر ہے پکڑے تو اونٹ جائینگے تم کیوں بے تحاشا بھاگی جارہی ہو وہ کہنے لگی کیا معلوم بادشاہ کے سپاہی مجھے اونٹ سمجھ کر پکڑ کر لے جائیں ۔تو ہم نے اونٹوں کے پکڑنے کا حکم دیا تھا لومڑیوں کے پکڑنے کا حکم تو دیا ہی نہیں تھا خواہ مخواہ ان کے گھبرانے کے کیا معنی ہیں ۔پھر جس قسم کی سیاست میں حصہ لینے کا میں نے اپنی جماعت کو حکم دیا ہے حکومت کے وزراء بھی اس میں حصہ لیتے رہتے ہیں۔ چنانچہ مسلم لیگ اور مسلم کانفرنس میں ہمیشہ حصہ لیا جاتا ہے ۔پنجاب سے سر فیروز خان نون، یو۔پی سے نواب محمد یوسف خان صاحب اور بنگال سے ناظم الدین صاحب جو پہلے منسٹر تھے مگر اب گورنمنٹ کے ممبر مقرر ہو گئے ہیں، ہمیشہ مسلمانوں کی سیاسیا ت میں حصہ لیتے ہیں اسی طرح ہندومنسٹر بھی حصہ لیتے ہیں ۔تو جس قسم کی سیاسیات تک اپنے آپ کو محدود رکھنے کا میں نے حکم دیا ہے اس میں غیروں کا تو کیا ذکر گورنمنٹ کے وزراء بھی حصہ لیتے ہیں بلکہ گورنمنٹ کا قانون خود اس کی اجازت دیتا ہے۔ پھر اس میں غضب ہونے کا سوال ہی کونسا پیدا ہوتا ہے ۔یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی روٹی کھاتا جائے اور کہتا جائے غضب ہو گیا سرکار مجھے پکڑ نہ لے ۔مجھے اس پر لطیفہ یاد آگیا حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل کے پاس ایک بزرگ نے جو موجودہ زمانہ کے علماء میں سے ایک بہت بڑے عالم سمجھے جاتے تھے ،میں ان کا نام نہیں لیتا عربی زبان سے مس رکھنے والے انہیں جانتے ہیں، شکایت کی کہ میرا لڑکا پڑھتا نہیں اور یہ میرے لئے بہت بڑی بدنامی کا موجب ہے کیونکہ میرا تمام ہندوستان میں شہرہ ہے اور اگر میرا لڑکا ہی جاہل ہؤا تو یہ بڑی شرم کی بات ہے آپ اُسے نصیحت کریں کہ وہ پڑھے ۔حضرت خلیفہ اول فرماتے کہ میں نے اس لڑکے کو بلایا اور نصیحت کی تو وہ کہنے لگا میں گھاس کھودلونگا مگر پڑھوں گا نہیں ۔آخر جب بہت پوچھا کہ آخر تجھے ہؤا کیا ہے تو کہنے لگا والد صاحب کہتے ہیں کہ عربی پڑھو اور میں عربی کو موت سے بدتر سمجھتا ہوں ۔مجھے انگریزی پڑھائیں تو مجھے پڑھنے میں کوئی عذر نہیں مگر عربی تو میں ہرگز نہیں پڑھوں گا ۔آپ فرماتے میں نے اسے پھر نصیحت کی کہ عربی زبان سے تمہیں اتنی نفرت کیوں ہے دین کا اکثر علم عربی میں ہی ہے ۔پڑھ لو گے تو دینیات سے واقف ہو جائو گے ۔وہ کہنے لگا میں کیا بتائوں آپ جانتے ہیں میرے والد صاحب اگرچہ غریب ہیں مگر سارے ہندوستان میں ان کا شہرہ ہے، بڑے بڑے عالم ان کے شاگرد ہیں ،انہوں نے عربی پڑھی مگر انگریزی نہ پڑھی ۔ایک دفعہ یہ ریل پر سوار ہونے گئے اور تھرڈ کلاس کا ٹکٹ لیا ۔اس زمانہ میں قریبا ًسب ہی لوگ تھرڈ کلاس میں سوار ہوتے تھے اور مولوی تو کسی صورت میں انٹریا سکینڈ کلاس میں نہیں بیٹھتے تھے ۔ان سے غلطی یہ ہوئی کہ چونکہ انہیں پتہ نہ تھا تھرڈ کلاس کا کمرہ کونسا ہے اور سکینڈ کا کونسا ،یہ غلطی سے ایک فسٹ یا سیکنڈ کلاس کے کمرہ کے پاس کھڑے ہو گئے اور اندر بیٹھنے لگے اتفاقاً ًوہاںایک ٹکٹ کلکٹر آگیا اس نے جب دیکھا کہ یہ بظاہر معمولی حیثیت کا آدمی سکینڈ کلاس میں بیٹھنے لگا ہے تو کہنے لگا ٹکٹ دکھائو انہوں نے ٹکٹ دکھایا تو تھرڈکلاس کا تھا وہ کہنے لگا دیکھتا نہیں یہ کمرہ سیکنڈ کا ہے اور ٹکٹ تھرڈ کلاس کا ہے ۔ٹکٹ کلکٹر کا اتنا کہنا ہی تھا کہ والدصاحب کا رنگ فق ہو گیا اور وہ اسٹیشن چھوڑ کر بھاگ نکلے اور ڈر کے مارے آدھ میل تک بھاگتے چلے گئے حالانکہ اگر ٹکٹ کلکٹر نے انہیں کچھ کہہ دیا تھا تو انہیں گھبرانے کی کیا ضرورت تھی۔مجھے اس دن سے معلوم ہوگیا کہ یہ انگریزی نہ جاننے کی سزا ہے اور میں نے عہد کر لیا کہ چاہے یہ مجھے قتل کر دیں، ٹکڑے ٹکڑے کر دیں، میں نے عربی نہیں پڑھنی۔ پڑھنی ہے تو انگریزی ہی پڑھونگا ۔نہیں توگھانس کھود کر گزارہ کر لوں گا ۔تواسی قسم کا ڈر ان لوگوںکا بھی ہے۔ اگر ہماری جماعت کے لوگ سیاست میں حصہ لیں تو اس سے کیا غضب ہو جائے گا ۔اگر میں یہ کہتا ہوں کہ اٹھو اور گورنمنٹ کے خلاف شورش اور فساد کرو اور کانگرس میں شامل ہو جائو تب بھی ان کیلئے ڈر نے کی کوئی بات نہ تھی کیونکہ حکومت تمام کانگرسیوں کو نہیںپکڑتی بلکہ انہیں گرفتار کرتی ہے جو پکٹنگ کرتے یا بائیکاٹ کرتے ہیںورنہ کھلے بندوں کانگرسی پھرتے ہیں اور گورنمنٹ کا کوئی قانون انہیں گرفتار نہیں کر سکتا ۔پس اگر میں یہ بھی کہہ دیتا کہ کانگرس میں شامل ہو جائو تب بھی ڈرنے کی کوئی بات نہیں تھی ہاںاگر میں یہ کہتا کہ پکٹنگ کرو یانمک بنائو یا سِول ڈِس اوبیڈئینس (CIVIL DISOBEDIENCE) کا ارتکاب کرو تو بے شک وہ گھبراسکتے تھے لیکن کہا تو میں نے وہ جس سے زیادہ گورنمنٹ کے منسٹر کرتے رہتے ہیں اور ڈرنے یہ لگ گئے۔ بلکہ منسٹر تو صرف قانون دیکھتے ہیں اور میں نے کہا کہ شریعت کی بھی پابندی کرو جس میں قانون سے زیادہ امور کا خیال رکھنا پڑتا ہے ۔پھر میں نے یہ بھی کہا ہے کہ سلسلہ کی روایات کا احترام مد نظر رکھواور اس طرح بھی کئی قسم کی پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔ پس جو منسٹر کا م کرتے ہیں جب ان سے بہت زیادہ شرطیں میں نے اپنی جماعت پر لگا دی ہیں تو پھر ان کے دل کیوں دھڑکنے لگ گئے۔ لیکن میں فرض کر لیتاہوں کہ ہماری ہر قسم کی احتیاط کے باوجود پھر بھی گورنمنٹ ہماری جماعت کے افراد کو پکڑنے لگ جائے تو اس صور ت میں بھی ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ کانگرس سے بڑھ کر تو تم نے شور نہیں مچانا تھا اور اگر کانگرس کے تمام افرادشور مچانے کے باوجود پکڑے نہیں جاتے یا بعض پکڑے جاتے ہیں اور وہ نہیں گھبراتے تو تمہارے گھبرانے کی کیا وجہ تھی۔ لیکن میں فرض کر لیتا ہوں کہ کوئی ایسا ظالم حاکم بھی ہو کہ باوجود اس کے کہ تم قانون کی پابندی کرو ،شریعت کی پابندی کرو، سلسلہ کی روایات کو ملحوظ رکھو ،پھر بھی وہ تمہیں گرفتار کر لے تو اس پر بھی تمہیں بالکل ڈرنا نہیں چاہئے تھا کیونکہ اس صورت میں تم حق پر ہوتے اور وہ نا حق پراور حق پر ہوتے ہوئے قید وبند تو فخر کی بات ہوتی ہے نہ کہ گھبرانے کی ۔دیہات میں اس قسم کی مثالیںبعض دفعہ نظر آجاتی ہیں کہ کسی شخص سے دشمنی ہو اور وہ گائوں کے پاس سے بھی گزرے تو لوگ اسے پکڑ لیتے اور اس پر جھوٹا مقدمہ کھڑا کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں یہ چور بن کر آیا تھا اور جھوٹی گواہیاں دے کر اسے سزا دلادیتے ہیں۔پس اوّل تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی ایسا ظالم حاکم ہو لیکن فرض کر لو کہ قانون کی پابندی، شریعت کی پابندی اور سلسلہ کی روایات کی پابندی کرنے کے باوجود پھر کوئی افسر تمہیں پکڑ لیتا ہے ،جھوٹا مقدمہ کھڑا کر دیتا ہے جھوٹی گواہیاں لوگ دینی شروع کر دیتے ہیں اور وکلاء کی کوششیں بھی ناکام رہتی ہیں اور تمہیں سزا ہو جاتی ہے تو پھر بھی کیا ہؤا ۔حضرت مسیح علیہ السلام کو تو دشمنوں نے صلیب پر لٹکا دیا تھا تم کونسے ایسے مقدس ہو کہ تمہیں کبھی بھی کوئی تکلیف نہیں پہنچنی چاہئے مگر میں جانتا ہوں اصل غرض معترضین کی سلسلہ کا مفاد نہیں۔ چنانچہ انہی معترضین میں سے ایک کو باہر تبلیغ کے لئے بھیجا گیا تھا مگر وہ چار سال تبلیغ کی بجائے سیاسیات میں ہی گزارکر واپس آگیا۔اب وہی شخص ہماری جماعت کے سیاست میں دخل دینے پر اعتراض کر رہا ہے اور اعتراض بھی کس بھونڈے طریق سے کیا ہے کہ خط کے آخر میں اس نے لکھ دیا میں سمجھتا تھا کہ آپ کو قادیان کے حالات سے آگاہ کر دوں تامیں خدا تعالیٰ کے حضوران باتوں کو چھپانے کی وجہ سے گنہگار نہ ٹھہروں ۔گویا اس نے مجھے اتنا بیوقوف سمجھ لیا کہ میرے اس خطبہ پر اعتراض کرنیکے بعد جس میں میں نے ساری جماعت کو مخاطب کیا ہے اس کے آخر میں یہ لکھ دینے سے کہ میں قادیان کے حالات سے آپ کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں میں سمجھ لوںگا کہ گویا وہ قادیان کے حالات سے مجھے اطلاع دے رہا ہے اور اس کی نیت مجھ پر اعتراض کرنا نہیں ۔
میں یہ بھی بتادینا چاہتا ہوں کہ یہ تینوں شخص جنہوں نے اعتراض کئے مخلص ہیں ،منافق ہرگز نہیں۔ مگر ان تینوں کے دماغ کی کَل بگڑی ہوئی ہے ۔میں انہیں منافق قرار نہیں دیتا بلکہ مخلص سمجھتا ہوں مگر میں یہ بھی یقین رکھتا ہوں کہ ان تینوں کی دماغی کَلیں بگڑی ہوئی ہیں ۔انہی میںسے ایک کی مجلس میں ہمیشہ نظامِ سلسلہ کے خلاف باتیں ہوتی رہتی ہیںاور ہمیشہ میرے پاس رپورٹیں پہنچتی رہتی ہیں مگر اس خیال سے میں رکا رہتا ہوں کہ یہ مخلص شخص ہے صرف دماغی بناوٹ کی وجہ سے معذور ہے ۔
تیسرا شخص بھی اسی قسم میں سے ہے اس کے حالات میں سے ایک موٹی مثال میں پیش کرتاہوں جس سے پتہ لگ سکتا ہے کہ واقعی اس کی دماغی حالت میں نقص ہے ۔جب درد صاحب کے ولایت جانے پر یہاں کچھ شورش ہوئی اور لڑکوں سے غلطیاں ہوئیں اور میں نے لڑکوں کو ڈانٹا تو اس پر اس نے درد صاحب کو ایک چھٹی لکھی کہ میں آپ کو مبارک دیتا ہوں کہ آپ کی بر اء ت ہوئی مگر آپ خلیفہ کی خوشنودی کا خیال نہ رکھا کریں بلکہ خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کریں ۔اس نادان سے کوئی پوچھے کہ کیا خلیفہ کی خوشنودی کا خیال رکھنا خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے خلاف ہؤا کرتا ہے ۔اگر خلیفہ کی خوشنودی ضروری نہیں تو خدا تعالیٰ نے خلافت کو قائم ہی کس لئے کیا ہے ۔اگر مجھے اس شخص کے اخلاص کا خیال نہ ہوتا تو میں اس تحریر کو بد ترین نِفاق قرار دیتا کیونکہ منافق کی بھی یہی چال ہوتی ہے کہ وہ بدی کی تحریک نیکی کے پردہ میں کیا کرتا ہے۔ میں ان لوگوں کے اسی قسم کے بیسیوں واقعات جانتاہوں اور بتا سکتا ہوں کہ وہ خود مجرم ہیں اور ان کی مثال انہی لوگوں کی سی ہے جن کے متعلق قرآن مجید میں آتا ہے کہ وہ جب رسول کریم ﷺ کی مجلس سے اُٹھ کر چلے جاتے تو ایک دوسرے سے کہتے مَاذَا قَالَ اٰنِفًا۔۷؎ اس نے ابھی کیا بات کہی ہے ۔یہ لوگ نہ میری باتوںکو غور سے سنتے ہیں نہ سمجھنا چاہتے ہیں اور ہمیشہ جوش یہ ہوتا ہے کہ خلیفہ کی بات پر کچھ اعتراض کریں چونکہ اس قسم کے لوگوں کی باتوں سے سادہ لوح لوگوں کو دھوکالگتا ہے اس لئے دوستوں کو چاہئے کہ جب کبھی ایسے شخص سے گفتگوکا انہیں موقع ملے وہ فوراًلاحول پڑھیں اور سمجھیں کہ یہ شیطان کا حربہ ہیں۔ ممکن ہے ان میں سے بعض کے دل میں بھی اخلاص نہ ہو لیکن چونکہ مجھے یہی یقین ہے کہ یہ لوگ خلافت کے مخالف نہیں نہ میرے ذاتی مخالف ہیں بلکہ سلسلہ سے اخلاص رکھتے ہیں اور جو غلطی انہوںنے کی ہے یا پہلے کرتے رہے ہیں ،وہ ایک حد تک طبیعت کی افتاد کی وجہ سے ہے اس لئے بجائے کوئی اورقدم اٹھانے کے میںیہی نصیحت کرتا ہوں کہ دوستوں کے سامنے جب یہ لوگ اس قسم کی باتیں کریں تو فوراً اَعُوْذُ اور لَاحَوْلَ پڑھکر ان کی مجلس سے اٹھ جائیں ۔میں سمجھتا ہوں کہ اگراسی طرح چند روز ان کے سامنے اَعُوْذُ اور لَاحَوْلَپڑھا جائے تو کچھ تعجب نہیں کہ ان کی اصلاح ہو جائے ۔دوستوںکی غفلت ہوتی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں یہ ہمارا بھائی ہے اس لئے جو کچھ یہ کہتا ہے اسے ہمیں سننا چاہئے۔ وہ یہ نہیں خیال رکھتے کہ خلیفہ اور سلسلہ کا رشتہ ان سے زیادہ گہرا ہے ۔کیا کوئی بھائی کی خاطر باپ اور ماں کو قربان کیا کرتا ہے ۔پس انہیں چاہئے کہ وہ نظام سلسلہ کے خلاف باتیں سنکر فوراًچوکس ہو جائیں اور کہنے والے سے کہہ دیں کہ مجھے پتہ نہیں تھا آپ کو شیطان نے اپنا آلۂ کار بنا یا ہؤا ہے میں آپکی مجلس میں بیٹھنا نہیںچاہتا ۔
مجھے ان لوگوں کو ڈھیل دیتے دیتے ایک لمبا عرصہ ہو گیا ہے اور اب بھی میں انہیں کچھ نہیں کہتا مگر میں انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ سوچیں ان کا اپنا طریق عمل کیا ہے انکی اپنی تو یہ حالت ہے کہ وہ اس بات پر لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں کہ ہمیں فلاں عہدہ کیوںنہیں دیا گیا۔فلاں کیوں دیا گیا ۔فلاں کے ماتحت ہم رہنا نہیں چاہتے ۔کبھی تنخواہ پر جھگڑا شروع کر دیتے ہیں ۔یہ تمام باتیں بتلاتی ہیں کہ ان کے دماغ کی کَل بگڑی ہوئی ہے ۔ورنہ کیا وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اگر بُرا بھلا کہا جائے تو انہیں غصہ نہیں آتا لیکن اپنی کوئی بات ہو تو جھگڑے بغیر رہ نہیں سکتے ۔میں متکبر نہیں اور نہ مجھے ظاہری علوم کے حاصل ہونے کا دعویٰ ہے مگر جو علم خدا تعالیٰ نے مجھے دیا ہے اس کے ماتحت میں کہتا ہوں کہ یہ تینوں اپنی نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے بند کر رہے ہیں اور اگر یہ توبہ نہیں کریں گے تو کسی دن کوئی ایسی ٹھوکر انہیں لگے گی جس کے نتیجہ میں ان کا سارا اخلاص جاتا رہے گا ۔آخر وجہ کیا ہے کہ دنیا جہان کے تمام اعتراض انہی پر کھولے جاتے ہیں اور جو بات ان کے ذہن میں آتی ہے وہ کسی اور کے ذہن میں نہیں آتی لیکن کسی شعبہ میں کسی پائیدار خدمت کا موقع انہیں نہیں ملتا ۔انہیں سوچنا چاہئے کہ یہ کس طرح ہو سکتاہے کہ سلسلہ کے تمام کام تو خدا تعالیٰ مجھ سے لے لیکن میری غلطیوں سے ہمیشہ انہیں آگاہ کرے۔ اللہ تعالیٰ اس قسم کی تقسیمیں نہیں کیا کرتا ۔
پس مَیں ان کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ توبہ کریں ورنہ میرے ہاتھوں یا خداتعالیٰ کے ہاتھوں کسی دن ان پر ایسی گرفت ہو گی کہ رہا سہا ایمان ان کے ہاتھوں سے بالکل نکل جائے گا ۔
(الفضل ۵؍؍فروری ۱۹۳۵ئ)
۱؎ مسلم کتاب فضائل الصحابۃ باب فی فضل سعد بن ابی وقاص
۲؎ ترمذی کتاب الایمان باب ما جاء فیمن یموت وھو یشھد ان لا الہ الا اللّٰہ
۳؎ سیرت ابن ھشام جلد۲ صفحہ۱۵ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ء
۴؎ وَاِذْکُنْتَ فِیْھِمْ فَاَقَمْتَ لَھُمُ الصَّلٰوۃَ فَلْتَقُمْ طَآئِفَۃٌ مِّنْھُمْ مَّعَکَ وَلْیَاْخُذُوْٓا اَسْلِحَتَھُمْ قف فَاِذَا سَجَدُوْا فَلْیَکُوْنُوْا مِنْ وَّرَٓائِکُمْ ص وَلْتَاْتِ طَآ ئِفَۃٌ اُخْرٰی لَمْ یُصَلُّوْا فَلْیُصَلُّوْا مَعَکَ وَلْیَاْ خُذُوْا حِذْ رَھُمْ وَاَسْلِحَتَھُمْ ج وَدَّا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ تَغْفُلُوْنَ عَنْ اَسْلِحَتِکُمْ وَاَمْتِعَتِکُمْ فَیَمِیْلُوْنَ عَلَیْکُمْ مَّیْلَۃً وَّاحِدَۃً ط وَلَاجُنَاحَ عَلَیْکُمْ اِنْ کَانَ بِکُمْ اَذًی مِّنْ مَّطَرٍ اَوْکُنْتُمْ مَّرْضٰیٓ اَنْ تَضَعُوْٓا اَسْلِحَتَکُمْ ج وَخُذُوْا حِذْرَکُمْ ط اِنَّ اللّٰہَ اَعَدَّ لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّھِیْنًا (النسائ:۱۰۳)
۵؎ تاریخ ابن اثیر جلد۳ صفحہ۵۰ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ئ۔
۶؎ لارڈ اِرون (Irwin Lord) ۔بعد میں لارڈ ہیلی فیکس (Halifax)۔ انگریز سیاستدان۔ اس کا تعلق کنزرویٹو پارٹی سے تھا۔ ۱۹۱۰ء تا ۱۹۲۵ء پارلیمنٹ کا رُکن رہا۔ ۱۹۲۶ء تا ۱۹۳۱ء وائسرائے ہند رہا۔ ۱۹۳۸ء تا ۱۹۴۰ء سیکرٹری خارجہ رہا۔ ۱۹۴۴ء میں اسے ارل بنادیا گیا۔ اس دوران وہ امریکہ میں برطانیہ کا سفیر رہا۔ ۱۹۴۶ء میں اسے آرڈر آف میرٹ کا اعزاز ملا اس نے میونخ پیکٹ کی گُفت وشنید میں بڑا حصہ لیا۔
(اُردو جامع انسا ئیکلوپیڈیا جلد ۱ صفحہ ۹۰ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷ئ+ اُردو جامع انسا ئیکلوپیڈیا جلد ۲
صفحہ ۱۸۸۵ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ئ)
۷؎ محمد : ۱۷

۵
مصلح موعود کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں
(فرمودہ یکم فروری ۱۹۳۵ئ)
تشہّد ،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :۔
چونکہ پچھلے خطبہ میں دیر ہوجانے کی وجہ سے مجھے اختصار کرنا پڑا تھا اس لئے بعض حصے چھوڑنے پڑے تھے جن حصوں کے ٹکڑے میں نے بیان کر دئیے تھے ان کے بقیہ حصوں کے بیان کی تو ضرورت نہیں لیکن ایک حصہ بالکل چھوٹ گیا تھا اور میں سمجھتا ہوں باہر سے خطوط جو آئے ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے متعلق کچھ بیان کرنا ضروری ہے اور میںآج اس حصہ کے متعلق بعض باتیںکہنی چاہتا ہوں۔
میں نے ایک گزشتہ خطبہ میں جو شاید ۴- جنوری کو پڑھا تھاذکر کیا تھا کہ بعض دوستوں کو ایسے رؤیا ہوئے ہیں جن کی بنا ء پر وہ شبہ کرتے ہیں کہ شاید اللہ تعالیٰ کے نزدیک میرے کام کا وقت پورا ہو چکا ہے اور وہ رؤیا میری وفات پر دلالت کرتے ہیں ۔اسی سلسلہ میںمَیں نے بعض اپنے رؤیا بھی بیان کئے تھے اور گو ان میں وضاحت ایسی باتوں کی نہ تھی لیکن ان میں اشتباہ کا رنگ تھا اور خیال کیاجا سکتا ہے کہ گو ان ایام میں جن میں لوگوں کو شبہ تھا یہ بات نہ ہو مگر ان کے بعد کے قریب کے ایام میں کوئی بات ایسی ہونے والی ہوکیونکہ فرشتہ کا چھپانا ایسا شبہ پیدا کر سکتا ہے اس پر باہر سے بعض دوستوں کے خطوط آئے ہیں جو میرے ساتھ اس قسم کے اخلاص کے اظہار پر مشتمل ہیں اور ان میں ایسا رنگ محبت کا پایا جاتا ہے جو مجھے مجبور کرتا ہے کہ ان کے متعلق اپنے خیالات ظاہر کروں ۔ان میں جوخالی محبت اور اخلاص ہے اس کے متعلق میں کیا اظہار خیالات کر سکتا ہوں ۔ہر شخض اپنے اخلاص کے مطابق اللہ تعالیٰ سے جزاء پاتا ہے۔جسے لِلّٰہِ فِی اللّٰہِ میرے ساتھ محبت کا تعلق ہو گا یقینا وہ اپنے اخلاص کے مطابق اس کی جزاء پائیگا اس لئے اس کے ذکر کی کوئی ضرورت نہیںلیکن بعض دوستوں نے ایسے خیالات کا اظہارکیا ہے کہ یہ امر ایک مذہبی مسئلہ بن جاتا ہے اور اس لئے میں اس کے متعلق کچھ کہنا ضروری سمجھتا ہوں۔
وہ خیال یہ ہے کہ بعض دوستوں نے لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض پیشگوئیاں آپ کے متعلق ہیں اور جب ہم ان پیشگوئیوں کو درست مانتے ہیں تو یہ کس طرح سمجھ لیں کہ آپ کی وفات اسی زمانہ میں ہونے والی ہے اور گو ان خوابوں کی بناء پر کوئی یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ آپ کی وفات کب ہوگی لیکن اس زمانہ میں اس کا امکان بھی ہم کیسے سمجھ سکتے ہیں۔ اور میں آج اس امرکے متعلق بیان کرنا چاہتاہوں کہ خوابوںکا کیا مقصد ہوتا ہے اور پیشگوئیاں کس طرح مشروط ہوتی ہیں ۔پہلی بات اس کے متعلق یہ یاد رکھنی چاہئے کہ کسی کی موت کے متعلق خواب کی یقینی تعبیر یہی نہیں ہوتی کہ وہ فوت ہو جائے گا کیونکہ رؤیا میں موت دیکھنے کے کئی معنی ہوتے ہیں موت کے معنی زندگی کی طوالت بھی ہوتی ہے جب کوئی شخص خواب میں دیکھے کہ کوئی شخض فوت ہوگیا ہے تو کبھی اس کے معنی یہ بھی ہوتے ہیں کہ اس کی عمر دراز ہوگی اگر کوئی دیکھے کہ کوئی قتل ہو گیا ہے تو اس کے معنی بسا اوقات یہ ہوتے ہیں کہ اس شخص کو یقین اور وثوق کا درجہ حاصل ہوگا ۔قتل بعض دفعہ یقینِ کامل اور ایمانِ کامل پر دلالت کرتا ہے اور کبھی موت کے معنی تعلق باِللہ کے ہوتے ہیں ۔صوفیاء کا مشہور قول ہے کہ مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا ۱؎۔یعنی مرنے سے پہلے مر جائو جس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے نفسوں کو کچل دو، نیکی تقویٰ پیدا کر لو، تو موت سے پہلے انسان پر جو موت آتی ہے یعنی جذبات کا مارنا وہ بھی موت ہی کہلاتی ہے ۔اس لحاظ سے موت کی تعبیر یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے نفس کی ایسی اصلاح کا موقع دے جو مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْاکے مطابق موت کہلا سکے ۔پھر قتل کے معنی قطع تعلق کے بھی ہوتے ہیں رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد جب صحابہ میں خلافت کے متعلق اختلاف پیدا ہؤا، انصار کا خیال تھا کہ خلافت ہمارا حق ہے ہم اہلِ بَلد ہیں کم سے کم اگر ایک مہاجرین میں سے خلیفہ ہو تو ایک انصار میں سے ہو ،بنو ہاشم نے خیال کیا کہ خلافت ہمارا حق ہے رسول کریم ﷺ ہمارے خاندان سے تھے اور مہاجرین گو یہ چاہتے تھے کہ خلیفہ قریش سے ہونا چاہئے کیونکہ عرب لوگ سوائے قریش کے کسی کی بات ماننے والے نہ تھے مگروہ کسی خاص شخص کو پیش نہ کرتے تھے بلکہ تعین کو انتخاب پر چھوڑنا چاہتے تھے مسلمان جسے منتخب کر لیں وہی خدا تعالیٰ کی طرف سے خلیفہ سمجھا جائے گا ۔جب انہوں نے اس خیال کا اظہار کیا تو انصار اور بنو ہاشم سب ان سے متفق ہو گئے مگر ایک صحابی کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی ۔یہ وہ انصاری صحابی تھے جنہیں انصار اپنے میں سے خلیفہ بنانا چاہتے تھے اس لئے شاید انہوں نے اس بات کو اپنی ہتک سمجھا یا یہ بات ہی ان کی سمجھ میں نہ آئی اور انہوں نے کہہ دیا کہ میں ابوبکر کی بیعت کے لئے تیارنہیں ہوں۔حضرت عمرؓ کا اس موقع کے متعلق ایک قول بعض تاریخوں میں آتا ہے کہ آپ نے فرمایا اُقْتُلُوْاسَعْدًایعنی سعد کو قتل کردو۔لیکن نہ انہوں نے خودان کو قتل کیا نہ کسی اور نے۔ بعض ماہرِ زبان لکھتے ہیں کہ حضرت عمر ؓکی مراد صرف یہ تھی کہ سعد سے قطع تعلق کرلو۔بعض تاریخوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت سعد باقاعدہ مسجد میں آتے تھے اور الگ نماز پڑھ کر چلے جاتے تھے اور کوئی صحابی ان سے کلام نہ کرتا تھا پس قتل کی تعبیر قطع تعلق اور قوم سے جُدا ہونا بھی ہوتی ہے اور ان معنوں کے لحاظ سے میرے متعلق جو خواب دوستوں کو آئے وہ پورے بھی ہو چکے ہیں ۔آج مسلمانوں کے ایک طبقہ نے ہمارا بائیکاٹ کیا ہؤا ہے اور وہ کہہ رہے ہیں کہ ان کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور اس کی تعبیر کے لحاظ سے یہ خواب پورے ہو چکے اور ہمیں انتظار کی بھی ضرورت نہیں۔ پس قتل اور موت کی تعبیریں مختلف ہوتی ہیں اور صرف ایک ہی تعبیر ایسی رؤیا کی نہیں ہوتی اور یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کاضروری یہی مطلب ہے اور یہ نہیں ہے ۔کبھی موت کے معنی موت کے بھی ہوتے ہیں اور کبھی اور میں نے اپنی زندگی میں بیسیوں دفعہ رؤیا میں دیکھا ہے کہ بعض دانت گر گئے ہیں اور عام طورپر اگر دیکھا جائے کہ دانت گر کر مٹی میں مل گئے ہیں تو اس کی تعبیر موت ہی ہوتی ہے لیکن اگر دیکھا جائے کہ مٹی میں نہیں ملے اور ہاتھ میں یا کسی اورمحفوظ جگہ میں ہیں اور صاف ہیں تو اسکی تعبیرلمبی عمر ہوتی ہے کیونکہ دانت عام طور پر لمبی عمر میں ہی گرتے ہیں۔خدا کی قدرت ہے کہ ادھر تو ایسے رؤیا ہوئے اور ادھر گزشتہ چند دنوں کی بات ہے میرے دانتوں میں ایسا شدید درد ہؤا کہ جو پہلے کبھی نہیں ہؤا تھا اوراس سے دانت ہلنے لگ گئے اور میں نے سمجھا کہ شاید اسی طرح بیماری سے دانت گر کر وہ خواب پوری ہوجائے گی اور اس کے معنی لمبی عمر کے نہیں ہوں گے مگر دوسرے تیسرے دن وہ پھر اپنی جگہ قائم ہو گئے۔ تو تعبیریں ایسے رنگ میں ہوتی ہیں کہ کوئی شخص قبل از وقت نہیں کہہ سکتا کہ خواب کس رنگ میں پورا ہو ۔پھر میں نے اس کا اظہار کیوں کیایہ میںآگے چل کر بیان کروں گا لیکن یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہئے کہ خواب کے ساتھ جب تک علامتیں ایسی نہ ہوں یا واضح طور پر بتانہ دیا جائے کسی ایک معنی پر حصر نہ کرنا چاہئے مثلاً اگر ایک شخص خواب میں دیکھتا ہے کہ اس کے دانت گر گئے ہیں اور اس کے ساتھ ایسی علامتیں بھی پیدا ہو جاتی ہیں یا الہاماًاسے بتا دیا جاتا ہے کہ عمر اب ختم ہے تو بے شک اس خواب کی تعبیر یہی سمجھی جائے گی لیکن اگر یہ نہ ہو تو صرف دانت گرنے سے یقینی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ موت واقع ہونیوالی ہے۔ تو بعض جگہ کوئی ایسی بات آجاتی ہے جو اسے قطعی بنادیتی ہے یا کوئی ایسی علامتیں ظاہر ہو جاتی ہیں لیکن اگر یہ دونوں صورتیں نہ ہوں تو رؤیا کایہ مطلب ہوتا ہے کہ اس نے انسان کو وسیع دائرہ سے نکال کر ایک چھوٹے دائرہ میں کھڑا کر دیا ۔مثلاً ایک انسان دیکھتا ہے کہ اس کے دانت گر گئے، اس کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ اس کا کوئی رشتہ دار فوت ہو گا ،یہ بھی کہ لمبی عمر پائے گا اور گو اب بھی یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ اس کا کوئی رشتہ دار فوت ہوگا یا وہ خود فوت ہوگا اور شُبہ باقی رہتا تھا مگر احتمال محدود ہو گیا اور یہ پتہ لگ گیا کہ دو چار باتوں میں سے ایک ضرور ہے حالانکہ انسان کے ساتھ ہزاروں احتمالات لگے ہوئے ہیں اس لئے یہ نہیں کہہ سکتے کہ رؤیا کا کوئی فائدہ نہیں ۔ایک شخص خواب میں دیکھتا ہے کہ وہ طاعون سے مرے گا اس کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ وہ قتل ہو گا ۔یہ بھی کہ اسے کھجلی کی بیماری ہو گی یہ بھی کہ اسے طاعون ہو گا اور یہ بھی کہ دشمن اس پر حملہ کرے گا اور سخت اعتراض کرے گا مگر کیا سارے انسان ان چاروں باتوں میں سے ایک نہ ایک میں ضرور مبتلا ہوتے ہیں ۔لاکھوں کروڑوں لوگ ایسے ہوتے ہیں جن میں یہ چاروں باتیں نہیں ہوتیں بلکہ اور بھی سینکڑوں نہیں ہوتیں۔پس خواب کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ انسانی مستقبل کو ہزاروں احتمالات کے دائرہ سے نکال کر چند احتمالات کے اندر محدود کر دیتی ہے پھر کبھی وہ تقدیر مبرم ہوتی ہے اور کبھی اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ انسان ہوشیار ہو جائے اور بچائو کی تدابیر کرے مثلاً ایک شخص خواب میں دیکھتا ہے کہ اسے بخار چڑھاہے تو اس کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ اگر وہ احتیاط نہ کرے گا تو حالت ایسی ہے کہ ضرور بخار چڑھ جائے گا لیکن اگر کونین کھالے تو ہو سکتا ہے کہ نہ چڑھے۔پس بسااوقات انسان کو حزم اور احتیاط سکھانے کے لئے بھی خواب آتے ہیں۔ایک شخص کو رؤیا ہو تا ہے کہ تم مر جائوگے گو اس کا مطلب یہی ہو کہ وہ مر جائیگا لیکن ہو سکتا ہے کہ یہ موت اس کے موجود ہ حالات کانتیجہ ہو اور اس کے لئے ان حالات کو بدل کر موت سے بچ جانا ممکن ہو ۔مثلاً وہ بیمار ہے اور پرہیز کرے یا علاج کرائے تو بچ جائے یا اگر دشمن کے حملہ سے موت کی خبر ہے اور وہ اس سے ہو شیار ہو جائے تو رؤیا کی تعبیر بھی بدل جائے غرض ہر رؤیا تقدیر مبرم نہیں ہوتی بلکہ بعض دفعہ اس کایہ مطلب ہو تا ہے کہ حالات ایسا چاہتے ہیں اور اگر حالات بدل جائیںگے تو تعبیر بھی بدل جائے گی ۔پس جن رؤیاؤں کا میں نے ذکر کیا ہے ان کایہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ حالات کے نتیجہ میں ایسا ہو سکتا ہے لیکن اگر احتیاط کرو ،دعائیں کرو اور صدقہ وخیرات کرو تو ممکن ہے خدا بدل دے اوریہ بھی ممکن ہے کہ ان خوابوںکے وہ اچھے معنی ہوں جو میں نے پہلے بیان کئے ہیں ۔
اب میں اس سوال کو لیتا ہوں جو بعض دوستوں نے لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض رؤیا اور پیشگوئیاں آپ سے منسوب ہیں ۔پھر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ آپ کی اتنی عمر ہی ہو اور چونکہ بعض دشمنوں کی طرف سے ابھی یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ سبز اشتہار والی پیشگوئی میرے متعلق نہیں اور کہ میں خود اس کے اپنے متعلق ہونے سے انکار کرتاہوں اس لئے میں اس کے متعلق بھی کچھ بیان کر دینا ضروری سمجھتا ہوں ۔
یہ بات قطعا ً غلط ہے کہ میں اس کے اپنے متعلق ہونے سے انکار کرتا ہوں میں جس بات کا انکار کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ اس پیشگوئی کو کسی مأمور کے متعلق سمجھا جائے یا یہ سمجھا جائے کہ جس کے متعلق یہ ہے اس کے لئے الہاماً ایسا دعویٰ کرنا لازمی ہے بعض باتوں کا بے شک الہاماً دعویٰ سے تعلق ہوتا ہے لیکن بعض کا ظاہری مادی حالات سے پتہ چل جاتا ہے کہ بات یوں ہے۔ کوئی شخص خواب میں دیکھتا ہے کہ اس کا کوئی عزیز فوت ہو گیا۔اب کیا ضروری ہے کہ اس کی وفات کے بعد دوسرے رشتہ دار الہاماً دعویٰ کریں کہ خواب اسی کے متعلق تھا جو فوت ہو چکا۔ احادیث میں ریل گاڑی کے متعلق پیشگوئی ہے تو کیا اس کے یہ معنی ہوں گے کہ ریل الہاما ًاس کا دعویٰ کرے تب اس پیشگوئی کے اس کے متعلق ہونے کایقین کیا جائے پس دعویٰ اوروہ بھی الہاماً ضروری نہیں ۔اگر یہ ضروری ہو تا تو احادیث میں بے جان چیزوں کے متعلق پیشگوئیاں نہ ہوتیں ۔پس میں جو بات کہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ضروری نہیں جس کے متعلق یہ پیشگوئی ہے اسے اس کے متعلق الہام بھی ہو اور پھر وہ دعویٰ کرے گو میں یہ بھی نہیں کہتا کہ ضروری ہے کہ الہام نہ ہو ممکن ہے ہو جائے لیکن ضروری نہیں ۔میں ابھی بچہ ہی تھا کہ حضرت خلیفہ اوّل کا خیال تھاکہ یہ پیشگوئی میرے متعلق ہے اور اس میں بہت سی باتیں ہیں جنہیں خدا نے میرے ذریعہ پورا کیا مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام کااکنافِ عالم میں پھیلنا مختلف قوموں کا سلسلہ میں داخل ہونا ۔حضرت خلیفہ ء اوّل کے زمانہ میں گو انگلستان میں مشن قائم تھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام کو خواجہ صاحب زہرِ ہلاہل سے تعبیر کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ سَمِّ قاتل ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ بات میرے ہی زمانہ میں پوری کی کہ آپ کا نام تمام دنیا میں پھیل گیا اور اب بیرونی ممالک میں ہزاروں کی جماعتیں ہیں اور مشن مختلف علاقوں میں پھیل گئے ہیں ۔اس وقت ہندوستان سے باہر بیسوں مقامات پر جماعتیںہیں جو سب میرے زمانہ میں قائم ہوئیں ۔سماٹرا، جاوا، سیلون ،ماریشس، ٹرینیڈاڈ، امریکہ کی جنوبی ریاستیں، انگلستان، روس، شام، فلسطین، مصر،الجزائر، گولڈ کوسٹ، نائیجیریا، سیرالیون، ایران یہ سب نئی جماعتیں ہیں جو میرے زمانہ میں قائم ہوئیں ۔ان کے علاوہ بھی کئی دوسرے ممالک میں اکادکا احمدی ہیں تو سوائے افغانستان کی جماعت کے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں قائم ہوئی۔یا ایک دو آدمیوں کے جو عرب میں تھے باقی جتنی جماعتیں باہر ہیں وہ سب میرے زمانہ میں قائم ہوئیں اور خدا کے فضل سے میرے ہی زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام چاروں طرف پھیلا۔پھر کثرت جو اس زمانہ میں حاصل ہوئی اور جو نظام قائم ہؤا وہ بھی غیر معمولی حیثیت رکھتا ہے۔ جتنے آدمی آج میرے جمعہ میں ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے آخری جلسہ میں اس سے چوتھا حصہ جلسہ سالانہ میں تھے ۔قبر سے گز بھر ورے تک مسجد تھی اور جہاں میں کھڑا ہوں صرف یہاں سے وہاں تک آدمی تھے اور آپ بہت خوش تھے کہ ہماری جماعت پھیل گئی ہے مگر آج اس سے چار گناہ جمعہ میں ہیں ۔عورتیں اس کے سوا ہیں اگر انہیں بھی شامل کر لیا جائے تو چار گنے سے بھی زیادہ آدمی آج جمعہ میں ہیں اور غور کرو یہ اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا فضل ہے پھر کوئی دن ایسا نہیں کہ جماعت میں اضافہ نہ ہو اور یہ ایسی بات ہے کہ بعض انگریزوں سے میں نے دوران گفتگو میں اس کا ذکر کیا تو وہ حیران رہ گئے ۔میری خلافت کے بیس سالہ عرصہ میں مجھے یاد نہیں کوئی دن بھی ایسا گزرا ہو جب کوئی شخص جماعت میںداخل نہ ہؤا ہو ۔بعض دنوں میں تو بیسیوں سینکڑوں تک داخل ہوتے ہیں مگر ایک دو سے خالی دن تو کبھی نہیں ہؤا۔ غور کرو کتنا لمبا عرصہ ہے، اکیسواںسال ختم ہونے والا ہے مگر ایک دن میری زندگی کا ایسا نہیں گزرا کہ کوئی احمدی نہ ہو ا ہو ۔اوّل تو ڈاک میں ہی درخواست بیعت میں کبھی ناغہ نہیں ہؤا لیکن اگر ڈاک میں کوئی ایسا خط کبھی نہ آئے تو میں جب باہر نکلا تو مسجد میں ہی کسی نے بیعت کر لی ۔پس اللہ تعالیٰ نے میرے زمانہ میں جماعت کو غیرمعمولی ترقی دی ہے اور پھر منظم ترقی۔ جو لوگ آتے ہیں وہ ٹھہرتے ہیں استقلال دکھاتے ہیں اور ایک لڑی میں پروئے جاتے ہیں اور جماعت برابر بڑھتی جارہی ہے ۔پچھلی مردم شماری کے موقع پر مردم شماری کے افسر نے صوبہ سرحد کے متعلق سرکاری رپورٹ میں لکھا کہ جماعت احمدیہ چار گُنا بڑھ گئی ہے اور اہلحدیث فرقہ کم ہو گیا ہے پس جماعت احمدیہ کی ترقی ایسے رنگ میں چلتی ہے کہ دوست دشمن سب کو حیرت میں ڈالتی جا رہی ہے۔
بیرونی ممالک میں بعض جگہ ہزارو ں کی جماعتیں ہیں اور ان میں سے ایسے ایسے مخلص لوگ ہیں کہ حیرت ہوتی ہے گزشتہ ہفتہ ہی امریکہ سے مجھے ایک چِٹّھی آئی ہے ،یورپ اور امریکہ کے لوگوں کی زندگی ایسی نہیں ہوتی جیسی ہمارے ملک کے لوگوںکی ہے ،کھانے پینے پہننے اور رہائش میں وہاںکے غریب ایسے پُر تکلّف ہوتے ہیں جیسے ہمارے ہاں کے امیر ۔امریکہ میں غریبوں کی آمدنی تین چار سو روپیہ ماہوار ہے لیکن یہاں اگر کسی کی اتنی آمدہو تو وہ زمین پر قدم نہیں لگنے دیتا ۔مگر وہاں کے غریب کا اتنا خرچ ہو تا ہے ۔ایسے ملک میں سمجھ لو کس قسم کی زندگی کے وہ لوگ عادی ہوں گے پھر وہ مذہبی پابندیوں سے بالا ہیں اور ایسے لوگوں میںاخلاص کا پیدا ہونا کس قدر خوشکن ہے ۔امریکہ کی ایک جماعت نے لکھا ہے کہ فلاں شخص نے ہمارے ساتھ ایسا معاملہ کیا ہے جو ٹھیک نہیں ۔میں یہ تو نہیں جانتا کہ اس شخص نے ایسا کیا ہے یا نہیں ،اس جماعت نے ایسا لکھا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے کہ ہمیں اس شخص کی بد سلوکی کی پرواہ نہیں ہم نے دین کو قبول کیا ہے اور اگر کوئی شخص ہم سے اچھا معاملہ نہیں کرتا تو اس سے احمدیت پر کیا اعتراض ہے ۔آپ کو صرف اس لئے لکھا ہے کہ چونکہ آپ ہمارے امام ہیں اس لئے لکھیں کہ اب ہمیں کس کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور کس سے دین سیکھیں ۔امریکہ کے رہنے والوں میں ایسا اخلاص حیرت انگیز ہے پھر وہاں مسٹر بارکرایک وکیل ہیں ،امریکہ کی کسی فرم نے ایک تاریخی کتاب کا اشتہار دیا جو ان کے پاس بھی آیااس کتاب کی قیمت باِلا قساط ادا کرنی تھی ،وہ کئی جلدوںکی کتاب تھی ،مسٹر بارکر نے بھی کتاب کی خریداری منظورکر لی ۔جب کتاب ان کے پاس پہنچی تو اس میں بعض ایسی باتیں رسول کریم ﷺ کے متعلق درج تھیں جو پادری غلط طور پر یورپ میں شائع کرتے رہتے ہیں انہوں نے کتاب کا وہ حصہ دیکھا جو خلافِ واقعہ اور ہتک آمیز تھا توفوراً اس فرم کو خط لکھا کہ میں اس کتاب کی قیمت نہیں دونگا کیونکہ یہ کوئی تاریخی کتاب نہیں بلکہ محض کہانیوںکا مجموعہ ہے اور ہمارے ہادی اورراہنما محمد ﷺ کے متعلق اس میںسرا سر غلط اور خلافِ واقعہ باتیں درج ہیں اور میرا مقصد قیمت کی ادائیگی کے انکار سے یہ ہے کہ تم مجھ پر نالش کرو تامیں عدالت میں ثابت کر سکوںکہ واقعی محمد ﷺ کی ہتک کی گئی ہے۔ فرم والے بھی بھلا کب خاموش رہنے والے تھے انہوں نے نالش کر دی۔
شکاگو کی عدالت میں مقدمہ پیش ہؤا،وہاں کی یونیورسٹی کے بعض پروفیسروں کی شہادت ہوئی، ہمارے مبلّغ صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالی کی بھی شہادت ہوئی اور عدالت نے فیصلہ دیا کہ واقعی کتاب میں محمد رسول اﷲ ﷺکے متعلق غلط باتیں درج ہیں اور مسٹر بارکر کا حق ہے کہ اس کی قیمت ادا نہ کرے ۔یہ باتیںبتاتی ہیں کہ بیرونی ممالک میں جماعتیں عمدگی سے ترقی کر رہی ہیں اور یہ سب ترقی میرے ہی زمانہ میں ہوئی ہے اور جب کسی امر کے متعلق واقعات ظاہر ہو جائیں تو پھر اس میں شک کرنا تو ایسا ہی ہے کہ جیسے کہتے ہیں کسی کوجنگ میں تیر لگ گیا وہ خون دیکھتا جائے اور کہتا جائے کہ خدایا! یہ خواب ہی ہو۔ پس جب سب باتیں میرے متعلق پوری ہو رہی ہیںتو میںمجبورہوں کہ دعویٰ کروں کہ یہ پیشگوئیاں میرے متعلق ہیں مگر باوجود اس کے میں کہتا ہوں کہ پیشگوئیوں کا تعلق عمر سے نہیں ہوتا ممکن ہے میری عمر بہت لمبی ہو لیکن اگر ایسا نہ بھی ہو تو بھی پیشگوئیوں پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ اگر اللہ تعالیٰ بیس سال میں مجھ سے اتنا کام لے لے جو دوسرے سو سال میں کرتے ہیںتو پیشگوئی پر کیا اعتراض ہو سکتاہے۔ پھریہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ پیشگوئیوںکی ساری کیفیت اسی کی زندگی میں پوری ہونی ضروری نہیں جس کے متعلق کوئی پیشگوئی ہو ۔رسول کریم ﷺ کے متعلق قرآن کریم میں پیشگوئی ہے کہ ہم نے رسول کو بھیجا ہے تا اسلام کو کُل ادیان پر غالب کردیں۔ ۲؎ مگر اس کا اظہار آپ کے زمانہ میں نہیں ہؤا بلکہ آپ کے بروزمسیح موعودؑکے زمانہ میں سارے ملکوں میں اسلام پھیلالیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ رسول کریم ﷺ کی پیشگوئی پوری نہیںہوئی جب آپ کے کسی شاگرد کے ذریعہ پیشگوئی پوری ہو تو وہ آپ کی سمجھی جائے گی ۔آج اگر خدا تعالیٰ میرے ذریعہ امریکہ و افریقہ میں اسلام کو پھیلاتاہے تو یہ کام میرا نہیں مسیح موعود علیہ السلام کا ہے اور آپ کا نہیں بلکہ رسول کریم ﷺ کا ہے ۔قرآن آپ لائے اور وہ آپ کے ہی دلائل ہیں جو اشاعت کا باعث بنتے ہیں۔ پس قرآن کریم کی یہ رسول کریم ﷺ کے متعلق پیشگوئی تیرہ سَو سال کے بعد پوری ہونی شروع ہوئی ہے جسے دیکھتے ہوئے ہمیں یقین ہے کہ اب یہ پوری ہو جائے گی مگر باوجود اس کے خدا تعالیٰ کا کلام سچا ہے کیونکہ اس کا آپ کے ذریعہ پورا ہونا بھی آپ کا ہی کام ہے پس اللہ تعالیٰ نے پیشگوئیوں میں میرے جو کام بتائے ہیں وہ ممکن ہے میرے ہاتھ سے ہی ہوں یا ممکن ہے میرے شاگردوں کے ہاتھوں سے ہوں اور اگر ایسا ہو تو بھی پیشگوئیوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا دیکھنے والی بات صرف یہ ہے کہ اس کا ظہور مجھ سے ہؤا یا نہیں اور جو شخص بھی اس بارہ میں غور کرے گا اسے معلوم ہو گا کہ یہ ہو چکا ہے ۔قوموں کی رستگاری اور آزادی میرے ذریعہ ہوئی ۔احمدیت کی اشاعت، نظام جماعت میرے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے قائم کیا،جماعت کی شدید مخالفتوں کے مقابل پراس نے مجھے اولوالعزم ثابت کیا، جب حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل کی وفات پر خطرناک فتنہ پیدا ہؤا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کے دبانے کی توفیق دی ،پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درجہ کم کرنے کی جو کوششیں پیغامیوں نے کیں ان کا کامیاب مقابلہ کرنے کی اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی اور اس کے لئے مافوق العاوت اور معجزانہ عزم مجھے بخشا اور اسطرح اولوالعز م کی پیشگوئی میرے متعلق پوری ہو گئی پھر دوسری خلافت پر مجھے متمکن کر کے اللہ تعالیٰ نے فضل عمروالی پیشگوئی کو بھی پورا کردیا ۔حضرت عمر ؓ کی تلوار سے جس طرح اسلام کے دشمن گھائل ہوئے اسی طرح میرے دلائل کی تلوار سے ہوئے اور اس طرح بھی یہ پیشگوئی پوری ہوئی، پھر جس طرح حضرت عمرؓ کے زمانہ میں مختلف بلاد میں اسلام پھیلا اسی طرح میرے زمانہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے سلسلہ کے نام اور اسکی شہرت کو دنیا کے کناروںتک پہنچادیا اور اس طرح بھی یہ پیشگوئی پوری فرمادی ۔پھر میرے ذریعہ جماعت کا نظام قائم کر کے بھی اللہ تعالیٰ نے یہ پیشگوئی پوری فرمائی وغیرہ وغیرہ ۔اب اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت چاہے کہ بقیہ حصے ان لوگوں کے ذریعہ پورے ہوں جو سچے طور پر میری بیعت میںشامل ہیں تو اس سے پیشگوئی پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا ۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کے متعلق فرماتا ہے کہ اَفَاِنْ مَّاتَ اَوْقُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ۳؎اگر آپ فوت ہو جائیں یا مارے جائیں تو کیا تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائو گے ۔جب صداقت کے ثبوت پورے ہو جائیں اور سب باتیں ظاہر ہو جائیں تو پھر کیا ابتلاء کا موقع رہ جاتا ہے پس یہ درست نہیں کہ عمر کی کمی سے پیشگوئی غلط ثابت ہوتی ہے جب بقیہ باتیں پوری ہو جائیں اور ایک اپنی سمجھ کے مطابق پوری نہ ہو تو اس کی تعبیر کرنی پڑے گی ۔
لیکن جیسا کہ میں بتا چکا ہوں یہ ضروری نہیں کہ موجودہ خوابوں کی تعبیر عمر کی کمی ہو لیکن اگر لفظی تعبیر بھی ہو تب بھی بعض لوگوں نے لکھاہے کہ ہم نے دعا کی تو معلوم ہؤا کہ آپ کی عمر بیس سال بڑھ گئی ہے اب کیا ممکن نہیں کہ کسی اور کی دعا سے تیس سال بڑھ جائے اور کسی اورکی دعا سے چالیس سال بڑھ جائے مگر میں کہتا ہوں کہ میرا کام سپاہی کی حیثیت رکھتا ہے میرا فرض یہی ہے کہ اپنے کام پر ناک کی سیدھ چلتا جائوں اور اسی میں جان دیدوں ۔میرا یہ کام نہیںکہ عمر دیکھوں ،میرا کام یہی ہے کہ مقصود کو سامنے رکھوں اور اسے پورا کرنے کی کوشش میں لگا رہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں اس یقین سے کھڑا ہوں کہ یہ مقصود ضرور حاصل ہو گا اور یہ کام پورا ہو کر رہے گا ۔یہ رات دن میرے سامنے ر ہتا ہے اور بسا اوقات میرے دل میں اتنا جوش پیدا ہو تا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہو تو میں دیوانہ ہو جائوں ۔اس وقت ایک ہی چیز ہو تی ہے جو مجھے ڈھارس دیتی ہے اور وہ یہ ہے کہ میری یہ سکیمیں سب خدا کے لئے ہیں اور میرا خدا مجھے ضائع نہیں کرے گا ۔ورنہ کام کا اور فکر کا اسقدر بوجھ ہوتا ہے کہ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ عقل کا رشتہ ہاتھ سے چھوٹ جائے گا اور میں مجنوںہو جائوںگا مگر اللہ تعالیٰ نفس پر قابو دیتا ہے ۔ظلمت میں سے روشنی کی کرن نظر آنے لگتی ہے اور چاروں طرف مایوسی ہی مایوسی کے معاملات کواللہ تعالیٰ امید اور خوشی سے بدل دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا میرے ساتھ یہ معاملہ شروع سے ہے جب میں خلافت پر متمکن ہؤا تو میری حالت کیسی کمزور تھی لیکن اس وقت خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا کہ کون ہے جو خدا کے کام کوروک سکے اور بعد کے آنیوالے حالات نے بتا دیا کہ واقعی کوئی ایسا نہیں ۔حضرت خلیفہ ا ولؓ کی وفات پر قادیان کو چھوڑ کرباہرکی اکثر جماعتیںمتردّد ہو گئی تھیں اور جب میں نے یہ اعلان کیا تو پیغامی لوگ میرا مضحکہ اڑاتے تھے مگر آپ میں سینکڑوںہزاروں ایسے ہیں جن کو سخت مخالفت کے بعداللہ تعالیٰ میری طرف کھینچ لایا ۔ پس جس کی ساری زندگی توکل پر گزری ہو جو برملا کہتا ہو کہ نہ مجھ میں علم ہے ،نہ طاقت، نہ قوت ہے، نہ دولت ،میں جاہل ہوں، کمزور ہوں، غریب ہوں اور میرے سب کام اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے وہ مشکلات سے کب گھبراسکتا ہے ۔میں نے کبھی نہیں کہا کہ میں بڑا عالم ہوں بلکہ ہمیشہ یہی کہتارہا ہوں کہ میں کچھ پڑھا لکھا نہیں ہوں مجھے نہ انگریزی آتی ہے نہ کوئی اور علم ۔مجھے صرف ایک ہی علم آتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی نصرت کا علم ہے اس سے میں نے ہر میدان میں غلبہ حاصل کیا ہے اور اسی نے میرے لئے ہر تاریکی کو روشنی سے بدل دیا اور جس کا ہرلمحہ اسی میں گزرا ہووہ بھلا کب مایوس ہو سکتا ہے ۔میں اپنے سہارے پر نہیں کھڑا ہوں بلکہ مجھے کھڑاکرنے والی ایک اور طاقت ہے ۔جب تک مجھے اس کا سہارا ہے نہ میری موت مجھے نقصان پہنچا سکتی ہے اور نہ حیات خطرات میں ڈال سکتی ہے ۔رسو ل کر یم ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں مگر کیا ان کا کام رُک گیا ۔میں اس بات سے نہیں گھبراتااگر مشیّتِ اِیزدی یہی ہے کہ میری موت واقعہ ہو جائے تو یقینا اسلام کی اور میری بہتری اسی میں ہے اور اگر مشیّتِ الٰہی مجھے زندہ رکھنا چاہتی ہے تو اسلام اور میری بہتری اسی میں ہے ۔
کبھی الہامی عبارتوں میں موت کے معنی ایک حالت سے دوسری میں انتقال کے بھی ہوتے ہیں دنیا میں انسان ہزاروں دفعہ زندہ ہوتا اور ہزاروں دفعہ مرتا ہے ۔کسی کو ایک بیوی سے انتہائی محبت ہوتی ہے مگر کسی وجہ سے وہ ٹوٹ جاتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ انسان جواُس عورت سے محبت کرتا ہے مر گیا، کبھی کسی انسان کو بدی سے محبت ہوتی ہے پھر وہ نیک ہو جاتاہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پہلا انسان مر گیا اور دوسرا پیدا ہؤا ۔پس کسی کو کیامعلوم ہے کہ موت کے کیا معنی ہوںحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ میں پہلے مریم تھا پھر عیسیٰ ہؤا اور پھربروزِ محمد ﷺ ۔یہ بھی گویا موت اور حیات کا ایک سلسلہ تھا اس لئے کسی کو کیا معلوم ہے کہ اس موت سے کیا مفہوم ہے ہاں مجھے اس پروثوق حاصل ہے کہ اسی وقت اگر میری جان چلی جائے تو جو باتیں میں نے کہی ہیں وہ قائم رہیںگی اور انہیں کوئی نہیں مٹا سکتا میں نے وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کہی ہیںاور اس لئے وہ ہمیشہ قائم رہیں گی ۔درمیان میں گو بظاہر ایسا معلوم ہو کہ دشمن نے انہیں مٹا دیا مگر وہ نہیں مٹیں گی ۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو باتیں آتی ہیں ان کی مثال ا س کھلونے کی سی ہوتی ہے جسے آپ میں سے بعض نے دیکھا ہو گا ایک بڈھے بابا کی شکل بنائی ہوتی ہے جس کے سفید با ل ہوتے ہیں وہ بکس میں بند ہو تا ہے اس کے ڈھکنے کوجب بند کردیا جائے تو وہ بڈھا نیچے چلا جاتا ہے اور جب کھول دیا جائے تو جَھٹ باہر آجاتا ہے پس
اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی باتیں بھی ایسی ہی ہوتی ہیں مجھے اللہ تعالیٰ سے آنے والی چیزوں سے تعلق ہے زندگی یا موت سے نہیں ۔اس سے آپ کو تعلق ہو گا کیونکہ جس سے محبت ہوتی ہے انسان کو اس کی زندگی کا فکر ہوتا ہے مگر میرے لئے یہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے کام کرنے کی توفیق ملے اور اسی میں جان چلی جائے چاہے آج چلی جائے چاہے پچاس سال بعد ۔اور جو اللہ تعالیٰ کے لئے مرتا ہے اسے اللہ تعالیٰ کی غیرت کبھی ضائع نہیں ہونے دیتی اور مجھے یقین ہے کہ ایسا ہی ہو گا اور پیشگوئیوں سے بھی ایسا ہی معلوم ہو تا ہے اس لئے دوست بے شک دعائیں کرتے رہیں میں بھی بعض اوقات دعا کرتا ہوں ۔یہ نہیں کہ نہیں کرتا اور وہ دعا اسی رنگ میں ہو تی ہے کہ الٰہی اسلام کی خدمت کی جو تجاویز میرے ذہن میں ہیں اگر ان کو بروئے کارلانے کا موقع ملے تو میں بھی اسلام کی ترقی کو دیکھ لوں اور کبھی نہیں بھی کرتا اور اس وقت دل پر اس خیال کا غلبہ ہو تا ہے کہ جس طرح خدا کی مرضی ہو ،ہو جائے ۔دوست بے شک دعائیں کریں مگر جوبات سب سے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اصل مقصدہمیشہ مدنظر رکھیں ۔میری ضرورت اسی لئے ہے کہ اسلام کی خدمت کر سکوں ۔پھر وہ بھی اسلام کی خدمت کے لئے اٹھیں اور اس کے لئے اسی طرح وقت دیں جس طرح میں چاہتا ہوں، اسلام اور احمدیت ایک ہی چیز ہیں اور اس وقت دونوں خطرہ میں ہیں اس لئے ہمیں چاہئے کہ عاجزی اور انکسارکے ساتھ خدا کے حضور گر جائیں اور اس کے ساتھ تبلیغ کے لئے پوری پوری کوشش کریں۔ آپ لوگوں میں سے ہزاروں ایسے ہیں جو گالیاں دیا کرتے تھے بعض لوگ بیعت کرنے لگتے ہیں تو ان کی چیخیں نکل جاتی ہیں کہ ہم بڑی گالیاں دیا کرتے تھے اور سینکڑوں خطوط ایسے آتے ہیں کہ ہم نے بہت مخالفت کی ہے اب دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ سلسلہ کی خدمت کی توفیق دے ۔پس یہ مت خیال کرو کہ لوگ نہیں سنیں گے نکلواورتبلیغ کرو، جاؤ اور پیغام حق لوگوں کو پہنچائو ،اخلاص محبت اور پیار سے باتیں سنائو تمہاری آنکھوں سے اخلاص ٹپکتا ہو، تمہاری باتوں سے محبت ظاہر ہو رہی ہو،تمہاری کسی حرکت میں کوئی رعونت نہ ہو، تمہارے دن رات اگر اس طرح تقسیم ہو جائیں کہ اگر اندر جائو تو یہی خیال ہو اور باہر آئو تو یہی مد نظر ہو اور اگر تم خدا کے سامنے جھک جائو تو پھر زندگی کی غرض پوری ہو سکتی ہے جس دن آپ لوگوں کے اندر ایسا جنون پیدا ہو جائے گا جس دن مجھے ایسے نائب مل جائیں گے اس دن ہم دنیا میں عظیم الشان تغیرات پیدا کردیں گے ۔
اسی غرض کے لئے میں نے ایک سکیم پیش کی تھی اس کے مالی حصہ کی طرف تو جماعت نے توجہ کی ہے مگر باقی کے لئے ابھی بہت توجہ کی ضرورت ہے باہر کی جماعتیں باقی حصہ کی طرف بھی توجہ کررہی ہیں مگر قادیان میں اس کی طرف توجہ نہیں کی گئی ۔میں محلوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس بات کا انتظام کریں کہ ہر فردجماعت سال میں ایک ماہ تبلیغ کیلئے وقف کرے اور جلد سے جلد ایسی فہرستیں تیار کرکے میرے سامنے پیش کریں ۔خالی روپیہ کی قربانی سے کچھ نہیں بنتا ۔اگر دس کروڑ روپیہ بھی جمع کر دیا جائے تو بھی جب تک جانی قربانی کے لئے دوست آمادہ نہ ہوں ترقی محال ہے اورجو شخص بارہ ماہ میں سے ایک ماہ بھی تبلیغ کے لئے نہیں دے سکتا اس سے یہ کیونکر توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ جان قربان کر سکتا ہے پس تم اپنے اوقات کو اس طرح صرف کرو کہ زیادہ سے زیادہ وقت تبلیغ کے لئے نکال سکو۔اس کے لئے روزانہ اٹھارہ گھنٹے بھی کام کرنا پڑے تو کرواور اس سے ہرگز نہ ڈروکہ اس طرح موت واقع ہو جائے گی کیونکہ خدا کے لئے جو جان جائے وہی حقیقی زندگی ہے ۔میں نے پہلے بھی بیان کیا ہے کہ ۱۷،۱۸؍ اکتوبر۱۹۳۴ء سے لے کر آج تک سوائے چار پانچ راتوں کے میں کبھی ایک بجے سے پہلے نہیں سوسکا اور بعض اوقات تو دو تین چار بجے سوتا ہوں ۔بسا اوقات کام کرتے کرتے دماغ معطل ہو جاتا ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ جب اسلام کا باطل سے مقابلہ ہے تو میرا فرض ہے کہ اسی راہ میں جان دے دوں اور جس دن ہمارے دوستوںمیں یہ بات پیدا ہوجائے وہی دن ہماری کامیابی کا ہو گا۔کام جلدی جلدی کرنے کی عادت پیداکرو اُٹھو تو جلدی سے اُٹھو، چلو تو چُستی سے چلو، کوئی کام کرنا ہو تو جلدی جلدی کرو ،دو گھنٹے کاکام آدھ گھنٹہ میں کرو اور اس طرح جو وقت بچے اسے خدا کی راہ میں صرف کرو۔ میرا تجربہ ہے کہ زیادہ تیزی سے کام کیا جا سکتا ہے ۔میں نے ایک ایک دن میں سو سو صفحات لکھے ہیں اور اس میں گو بازو شل ہو گئے اور دماغ معطل ہو گیا مگر میں نے کام کو ختم کر لیا اور یہ تصنیف کا کام تھا جو سوچ کر کرنا پڑتا ہے ۔دوسرے کام اس سے آسان ہو تے ہیں اسی ہفتہ میں مَیں نے اندازہ کیا ہے کہ میں نے دوہزار کے قریب رقعے اور خطوط پڑھے ہیںاور بہتوں پر جواب لکھے ہیں اور روزانہ تین چار گھنٹے ملاقاتوں اور مشوروں میںبھی صرف کر تارہا ہوں ۔پھر کئی خطبات صحیح کئے ہیں اور ایک کتاب کے بھی دو سَو صفحات درست کئے ہیں بلکہ اس میں ایک کافی تعداد صفحات کی اپنے ہاتھ سے لکھی ہے۔
پس میں جانتا ہوں کہ اگرسُستی نہ کی جائے تو تھوڑے وقت میں بہت سا کام ہو جاتا ہے اس لئے وقت ضائع نہ کرو ۔ہمیشہ اپنے نفس سے پوچھتے رہو کہ ہم وقت ضائع تو نہیں کر رہے اور جب فرصت ملے تو اسے باتوں میں گنوانے کی بجائے تبلیغ میں صرف کرو اورپھر ہر شخص کم سے کم ایک ماہ تبلیغ کے لئے وقف کر دے ۔کارکن بھی باریاں مقررکر لیں اور اس طرح ایک ایک ماہ دیں ۔صدر انجمن کو چاہئے کہ ان کے لئے انتظام کرے خواہ ان کی جگہ دوسرے آدمی رکھ کرہی ایسا کرنا پڑے ۔اور اگر قادیان کے لوگ اس طرف توجہ کریں تو مجھے تین چار سَو مرد مبلّغ مل سکتا ہے گویا تین چارسَو ماہ کام کرنے کے لئے مل گئے ۔جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک وقت میں پچیس تیس مبلّغ مل گئے ۔پس قادیان کے مختلف محلوں کو چاہئے کہ جس طرح مالی حصہ سکیم کے متعلق انہوں نے فہرستیں تیار کی تھیں ۔اس عملی حصہ سکیم کے متعلق بھی کریں کیونکہ یہ اس سے بہت اہم ہے ۔جلسے کر کے ایسے لوگوں کے نام لکھے جائیں جو ایک ایک ماہ دینے کو تیار ہوں اور یہ بھی معلوم کر لیا جائے کہ وہ کس ماہ وقت دینے کو تیار ہیں ۔اگر اس طرح کیا جائے تو قادیان کے لوگوں کے ذریعہ سے ہی سارے ضلع گورداسپور میں تبلیغ کی جا سکتی ہے ۔
پس میں امید کرتا ہوں کہ جماعتیں محبت اور اخلاص کا اظہار عملی طور پر کریں گی ۔اس سکیم کاعملی حصہ باقی ہے پچھلے خطبہ کے بعد باہرسے کثرت سے درخواستیں آئی ہیں مگر قادیان والوں نے ابھی تک توجہ نہیں کی سوائے ان کے جنہوں نے کئی کئی سال کے لئے اپنی زندگیاں وقف کی ہیں باقی ایک ماہ دینے والے ایک دو سے زیادہ نہیں ہیں۔ پس محلوں میں ایسا انتظام کیا جائے کہ دوست ایک ایک ماہ دینے کے لئے اپنے نام لکھوائیں اور یہ بھی معلوم کر لیا جائے کہ وہ کب وقت دے سکیں گے بعض یونہی نام لکھوادیتے ہیں ایسے لوگوں کو جب بلایا گیا تو کسی نے کہہ دیا مجھے فرصت نہیں ۔میں نے بھوپال میں زمین لی ہے میرا خیال تھا یہی کام وقف میں شمار کر لیا جائے ۔ایسے لوگوں نے سمجھا کہ جس طرح سکیم کے تمدنی حصہ کے متعلق میں نے کہا تھا کہ غرباء بھی ثواب میں شریک ہو سکتے ہیں شاید اس میں نام لکھوانا بھی ایسا ہی ہے پس جو دوست چاہیں یہ لکھوا سکتے ہیں کہ سال میں کوئی ایک مہینہ لے لیا جائے یا فلاںسے فلان مہینہ تک یاپھر کوئی خاص مہینہ معیّن کر دیں ۔اور جو لوگ وقت نہ دے سکتے ہوں وہ یونہی اپنے نام نہ لکھوائیں بلکہ پہلے جو ایسے لوگ نام دے چکے ہیں وہ بھی واپس لے لیں ۔ورنہ میں ان کے متعلق اعلان کر دونگا کہ انہوں نے محض شُہرت کے لئے نام لکھوادیئے تھے بعض طالب علموں نے نام لکھا دیئے ہیں جب بلایا جائے تو کہہ دیتے ہیں ہم طالب علم ہیں حالانکہ جب میںنے کہا تھاکہ طالب علم نام نہ لکھوائیں تو انہوں نے کیوں لکھوادیا ۔پس ایسے لوگ اپنے نام واپس لے لیں یا یہ لکھ دیں کہ ہمارا وقت فلاں وقت سے شروع ہو گا اس کے بعد ان پر اعتراض نہ ہو گا لیکن اگر( قادیان سے باہر کے لوگوں کے لئے خطبہ شائع ہونے کے )دس روز تک ایسے لوگوں نے نام واپس نہ لئے تو میں اعلان کردوں گا کہ انہوں نے محض شہرت کے لئے نام لکھوادیئے تھے ۔
میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتاہوں کہ جتنی بھی عمر ہمیں ملنی ہے وہ نیک اور پاک ہو اوروہ ہمیں توفیق دے کہ اپنی زندگیوں کو ہم اس کی رضاء میں صرف کرسکیں اور ہر روز زیادہ سے زیادہ اصلاح یافتہ اور خدا سے پیا ر کرنے والے ہوں ۔اس کے فضلوں کے مستحق ثابت ہوں۔جب موت آئے اس کی خوشنودی رضاء اور برکات کے ماتحت آئے اورموت کے بعد کی زندگی موجودہ زندگی سے لاکھوں درجہ بڑھ کر اچھی ہو ۔ہماری زندگیاں خدا کے لئے ہوں اور موت بھی خدا کے لئے ہو وہی ہمارا سہارااور ہمارے توکل کی جگہ ہو۔
(الفضل ۱۲؍فروری ۱۹۳۵ئ)
۱ ؎ موضوعات کبیر۔ ملّا علی قاری صفحہ ۷۵۔ مطبوعہ دھلی۱۳۴۶ئ۔
۲؎ ھُوَالَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْکَرِہَ االْمُشْرِکُوْنَ (الصف:۱۰)
۳؎ آل عمرٰن:۱۴۵



۶
ہر حا ل میںخلیفہ کی اطا عت فرض ہے
(فرمودہ ۸؍ فروری ۱۹۳۵ئ)
تشہّد ،تعوّذ اور سورۃفاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :
میں نے گزشتہ خطبہ جمعہ میں ایک انصاری صحابی کا ذکر کیا تھا کہ رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد بعض انصارکی تحریک تھی کہ انصار میں سے خلیفہ مقرر کیا جائے لیکن جب مہاجرین نے خصوصاً حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صحابہ کو بتایا کہ اس قسم کا انتخاب کبھی بھی ملتِ اسلامیہ کے لئے مفید نہیں ہو سکتا اور یہ کہ مسلمان کبھی اس انتخاب پر راضی نہیں ہونگے تو پھر انصار اورمہاجر اس بات پر جمع ہوئے کہ وہ کسی مہاجر کے ہاتھ پر بیعت کر لیں اور آخر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی ذات پر ان سب کا اتفاق ہؤا ۔میں نے بتایا تھا کہ اس وقت جب سعد نے بیعت سے تخلف کیا تو حضرت عمررضی اللہ عنہ نے کہا اُقْتُلُوْا سَعْدًایعنی سعد کو قتل کر دو۔مگر نہ تو انہوں نے سعد کو قتل کیا اور نہ کسی اورصحابی نے بلکہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت تک زندہ رہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں شام میں فوت ہوئے ۔جس سے آئمہ سلف نے یہ استدلال کیا ہے کہ قتل کے معنی یہاں جسمانی قتل نہیں بلکہ قطع تعلق کے ہیں اور عربی زبان میں قتل کے کئی معنی ہوتے ہیں جیسا کہ میں پچھلے خطبہ میںبیان کر چکا ہوں۔ اُردو میں بے شک قتل کے معنی جسمانی قتل کے ہی ہوتے ہیں لیکن عربی زبان میں جب قتل کا لفظ استعمال کیا جائے تو وہ کئی معنوں میں استعمال ہو تا ہے جن میں سے ایک معنی قطع تعلق کے ہیں اور لغت والوں نے استدلال کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مراد قتل سے قتل نہیں بلکہ قطع تعلق تھا ۔ورنہ اگر قتل سے مراد ظاہری طور پر قتل کر دینا تھا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو بہت جوشیلے تھے انہیں خود کیوں نہ قتل کردیا۔ یا صحابہ میں سے کسی نے کیوں انہیں قتل نہ کیا مگر جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نہ صرف انہیں اس وقت قتل نہ کیا بلکہ اپنی خلافت کے زمانہ میں بھی قتل نہ کیا اور بعض کے نزدیک تو وہ حضرت عمرؓ کی خلافت کے بعد بھی زندہ رہے اور کسی صحابی نے ان پر ہاتھ نہ اٹھایا ۔تو بہرحال اس سے ظاہر ہوتاہے کہ قتل سے مراد قطع تعلق ہی تھاظاہری طور پر قتل کرنا نہیں تھا ۔اور گو وہ صحابی عام صحابہ سے الگ رہے لیکن کسی نے ان پر ہاتھ نہ اُٹھایا۔پس میں نے مثال دی تھی کہ رؤیا میں بھی اگرکسی کے متعلق قتل ہونا دیکھا جائے تو اس کی تعبیر قطع تعلق اور بائیکاٹ بھی ہو سکتی ہے کیونکہ رؤیا بھی بسا اوقات الفاظ کے ظاہری معنی پر مبنی ہوتی ہے ۔مجھ سے ایک دوست نے بیان کیا ہے کہ انہی تین افراد میں سے جن کا میں نے ایک گزشتہ خطبہ میںذکر کیا تھا ایک نے خطبہ کے بعد کہا کہ سعد نے گو بیعت نہیں کی تھی لیکن مشوروں میں انہیں ضرور شامل کیا جاتا تھا ۔اس کے دوہی معنی ہو سکتے ہیں یا تو میرے مفہوم کی تردید یا یہ کہ خلافت کی بیعت نہ کرنا کوئی اتنا بڑا جرم نہیں کیونکہ سعد نے گو بیعت نہیں کی تھی مگر مشوروں میں شامل ہؤا کرتے تھے کسی شاعر نے کہا ہے ۔
تا مرد سخن نگفتہ باشد
عیب وہنزش نہفتہ باشد
انسان کے عیب وہنر اس کے بات کرنے تک پوشیدہ ہوتے ہیں جب انسان بات کر دیتا ہے توکئی دفعہ اپنے عیوب ظاہر کر دیتا ہے ۔اس شخص کا بات کرنا بھی یہ معنی رکھتا ہے کہ یا تو وہ خلافت کی بیعت کی تخفیف کرنا چاہتا ہے یا اپنے علم کا اظہار کرنا چاہتا ہے لیکن یہ دونوں باتیںغلط ہیں علم کے اظہار کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ بات اتنی غلط ہے کہ ہر عقلمند اس کو سُن کر سوائے مسکرادینے کے اور کچھ نہیں کر سکتا ۔
صحابہ کے حالات کے متعلق اسلامی تاریخ میں تین کتابیں بہت مشہورہیں اور تمام تاریخ جو صحابہ سے متعلق ہے انہی کتابوں پر چکر کھاتی ہے ۔وہ کتابیں یہ ہیں تہذیب التہذیب، اصابہ اور اسدالغابہ۔ ان تینوں میں سے ہر ایک میں یہی لکھا ہے کہ سعد باقی صحابہ سے الگ ہو کر شام میں چلے گئے اور وہیں فوت ہوئے ۱؎اور بعض لغت کی کتابوں نے بھی قتل کے لفظ پر بحث کرتے ہوئے اس واقعہ کا ذکر کیا ہے ۔ بات یہ ہے کہ صحابہ میں سے ساٹھ ستّر کے نام سعد ہیں۔انہی میں سے ایک سعد بن ابی وقاص بھی ہیں جو عشرہ مبشرہ میں سے تھے ۔حضرت عمرؓ کی طرف سے کمانڈرانچیف مقررتھے اور تمام مشوروں میں شامل ہؤا کرتے تھے۔ معلوم ہو تا ہے کہ اس شخص نے کمی ٔ علم سے سعد کا لفظ سُن کر یہ نہ سمجھا کہ یہ سعد اور ہے اور وہ سعد اور۔ جَھٹ میرے خطبہ پر تبصرہ کر دیا ۔یہ میں نے سعد بن ابی وقاص کا ذکر نہ کیا تھا جو مہاجر تھے بلکہ میں نے جس کا ذکر کیا وہ انصاری تھے ۔ان دو کے علاوہ اور بھی بہت سے سعد ہیں بلکہ ساٹھ ستّرکے قریب سعد ہیں جس سعد کے متعلق میں نے ذکر کیا ان کا نام سعدبن عبادہ تھا۔
عرب کے لوگوں میں نام دراصل بہت کم ہوتے تھے ۔اور عام طور پر ایک ایک گائوں میں ایک نام کے کئی کئی آدمی ہو اکرتے تھے جب کسی کا ذکر کرنا ہوتا تو اس کے باپ کے نام سے اس کا ذکر کرتے مثلاً ًصرف سعد یا سعید نہ کہتے بلکہ سعد بن عبادہ یا سعد بن ابی وقاص کہتے پھرجہاں باپ کے نام سے شناخت نہ ہو سکتی وہاں اس کے مقام کا ذکر کرتے اور جہاں مقام کے ذکر سے بھی شناخت نہ ہو سکتی وہاں اس کے قبیلہ کا ذکر کرتے۔ چنانچہ ایک سعد کے متعلق تاریخوں میں بڑی بحث آئی ہے چونکہ نام ان کا دوسروں سے ملتاجلتا تھا اس لئے مؤرخین ان کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیںکہ مثلاً ہماری مراد اَوسی سعد سے ہے یا مثلاً خزرجی سعد سے ہے۔ان صاحب نے معلوم ہو تا ہے ناموں کے اختلاف کو نہیں سمجھا اور یونہی اعتراض کر دیا مگر ایسی باتیں انسانی علم کو بڑھانے والی نہیں ہوتیں بلکہ جہالت کا پردہ فاش کرنے والی ہوتی ہیں۔خلافت ایک ایسی چیز ہے جس سے جُدائی کسی عزت کا مستحق انسان کو نہیںبناسکتی ۔اسی مسجد میں مَیں نے حضرت خلیفہ اول سے سنا آپ فرماتے تم کو معلوم ہے پہلے خلیفہ کادشمن کون تھا پھر خودہی اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ قرآن پڑھو تمہیں معلوم ہو گا کہ اس کا دشمن ابلیس تھا اس کے بعد آپ نے فرمایا مَیں بھی خلیفہ ہوں اور جومیرا دشمن ہے وہ بھی ابلیس ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خلیفہ مأمور نہیں ہوتا گویہ ضروری بھی نہیں کہ وہ مأمور نہ ہو۔ حضرت آ دم مأ مور بھی تھے اور خلیفہ بھی تھے۔حضرت دائودمأمور بھی تھے اور خلیفہ بھی تھے اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام مأمور بھی تھے اور خلیفہ بھی تھے پھر تمام انبیاء مأمور بھی ہوتے ہیں اور خدا کے قائم کردہ خلیفہ بھی ۔جس طرح ہر انسان ایک طور پر خلیفہ ہے اسی طرح انبیاء بھی خلیفہ ہوتے ہیں مگر ایک وہ خلفاء ہوتے ہیں جو کبھی مأمور نہیںہوتے ۔گو اطاعت کے لحاظ سے ان میں اور انبیاء میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔اطاعت جس طرح نبی کی ضروری ہو تی ہے ویسے ہی خلفاء کی ضروری ہو تی ہے ہاں ان دونوںاطاعتوں میں ایک امتیازاور فرق ہوتا ہے اور وہ یہ کہ نبی کی اطاعت اور فرمانبرداری اس وجہ سے کی جاتی ہے کہ وہ وحی الٰہی اور پاکیزگی کا مرکز ہوتا ہے مگر خلیفہ کی اطاعت اس لئے نہیں کی جاتی کہ وہ وحی الٰہی اور تمام پاکیزگی کا مرکز ہے بلکہ اس لئے کی جاتی ہے کہ وہ تنفیذ وحی الٰہی اور تمام نظام کا مرکز ہے ۔اسی لئے واقف اور اہلِ علم لوگ کہا کرتے ہیں کہ انبیاء کو عصمت ِکُبریٰ حاصل ہوتی ہے اور خلفاء کو عصمتِ صغریٰ۔اسی مسجد میں اسی منبر پر جمعہ کے ہی دن حضرت خلیفہ اول سے میں نے سنا آپ فرماتے تھے کہ تم میرے کسی ذاتی فعل میں عیب نکال کر اس اطاعت سے باہر نہیں ہو سکتے جو خدا نے تم پر عائد کی ہے کیونکہ جس کام کے لئے میں کھڑا ہؤا ہوں وہ اور ہے اور وہ نظام کا اتحاد ہے اس لئے میری فرمانبرداری ضروری اور لازمی ہے ۔تو انبیاء کے متعلق جہاںالٰہی سنت یہ ہے کہ سوائے بشری کمزوریوں کے جس میں توحید اور رسالت میں فرق ظاہر کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ دخل نہیں دیتا اور اس لئے بھی کہ وہ امت کی تربیت کیلئے ضروری ہو تی ہیں (جیسے سجدہ سہو کہ وہ بُھول کے نتیجہ میں ہوتا ہے مگر اس کی ایک غرض امت کو سہو کے احکام کی عملی تعلیم دینا تھی ) ان کے تمام اعمال خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہوتے ہیں وہاں خلفاء کے متعلق خدا تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ انکے وہ تمام اعمال خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہونگے جو نظامِ سلسلہ کی ترقی کے لئے اُن سے سر زد ہونگے اور کبھی بھی وہ کوئی ایسی غلطی نہیں کریں گے اور اگر کریں تو اس پر قائم نہیں رہیں گے جو جماعت میں خرابی پیدا کرنے والی اوراسلام کی فتح کو اس کی شکست سے بدل دینے والی ہو ۔و ہ جو کام بھی نظام کی مضبوطی اور اسلام کے کمال کے لئے کریں گے خدا تعالیٰ کی حفاظت اس کے ساتھ ہو گی اور اگر وہ کبھی غلطی بھی کریں تو خدا اس کی اصلاح کا خود ذمہ دار ہو گا۔گویا نظام کے متعلق خلفاء کے اعمال کے ذمہ دار خلفاء نہیں بلکہ خدا ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خلفاء خود قائم کیا کرتا ہے ۔اس کایہ مطلب نہیں کہ وہ غلطی نہیں کر سکتے بلکہ مطلب یہ ہے کہ یا تو ان ہی کی زبان سے یا عمل سے خدا تعالیٰ اس غلطی کی اصلاح کرا دے گا یا اگر ان کی زبان یا عمل سے غلطی کی اصلاح نہ کرائے تو اس غلطی کے بدنتائج کو بدل ڈالے گا ۔اگر
اللہ تعالیٰ کی حکمت چاہے کہ خلفاء کبھی کوئی ایسی بات کر بیٹھیں جس کے نتائج بظاہر مسلمانوں کے لئے مُضِرّ ہوں اور جسکی وجہ سے بظاہر جماعت کے متعلق خطرہ ہو کہ وہ بجائے ترقی کرنے کے تنزّل کی طرف جائے گی تو اللہ تعالیٰ نہایت مخفی سامانوںسے اس غلطی کے نتائج کو بدل دے گا اور جماعت بجائے تنزّل کے ترقی کی طرف قدم بڑھائے گی اور وہ مخفی حکمت بھی پوری ہو جائے گی جس کے لئے خلیفہ کے دل میں ذہول پیدا کیا گیا تھا۔مگر انبیاء کو یہ دونوں باتیں حاصل ہوتی ہیں ۔یعنی عصمت ِکبریٰ بھی اور عصمتِ صغریٰ بھی ۔وہ تنفیذ ونظام کا بھی مرکز ہوتے ہیں اور وحی وپاکیزگی ٔاعمال کا مرکز بھی ہوتے ہیں ۔مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر خلیفہ کے متعلق ضروری ہے کہ وہ پاکیزگی ٔاعمال کا مرکز نہ ہو۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ پاکیزگی ٔاعمال سے تعلق رکھنے والے بعض افعال میں وہ دوسرے اولیاء سے کم ہو۔
پس جہاںایسے خلفاء ہو سکتے ہیں جو پاکیزگی اعمال کا مرکز ہوں اور نظام سلسلہ کا مرکز بھی ،وہاں ایسے خلفاء بھی ہو سکتے ہیں جو پاکیزگی اور ولایت میں دوسروں سے کم ہوں لیکن نظامی قابلیتوں کے لحاظ سے دوسروں سے بڑھے ہوئے ہوں۔مگر ہر حال میں ہر شخص کے لئے ان کی اطاعت فرض ہو گی چونکہ نظام کاایک حد تک جماعتی سیاست کے ساتھ تعلق ہوتا ہے اس لئے خلفاء کے متعلق غالب پہلو یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ نظامی پہلو کو برتر رکھنے والے ہوں۔گو ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ دین کے استحکام اور اس کے صحیح مفہوم کے قیام کو بھی وہ مد نظر رکھیں اس لئے خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں جہاں خلافت کا ذکر کیا وہاں بتایا ہے کہ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَھُمْ۲؎ خدا ان کے دین کو مضبوط کرے گا اور اسے دنیا پر غالب کریگا ۔پس جو دین خلفاء پیش کریں وہ خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہوتا ہے مگریہ حفاظتِ صغریٰ ہوتی ہے ۔جزئیات میں وہ غلطی کر سکتے ہیں اور خلفاء کا آپس میں اختلاف بھی ہوسکتا ہے مگر وہ نہایت ادنیٰ چیزیں ہوتی ہیں جیسے بعض مسائل کے متعلق حضرت ابوبکرؓاور حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنھما میں اختلاف رہا بلکہ آج تک بھی امت محمدیہ ان مسائل کے بارے میں ایک عقیدہ اختیار نہیں کر سکی مگر یہ اختلاف صرف جزئیات میں ہی ہو گا ۔اصولی امور میںان میں کبھی اختلاف نہیں ہو گا بلکہ اس کے بر عکس ان میں ایسا اتحاد ہو گا کہ وہ دنیا کے ہادی و راہنما اور اسے روشنی پہنچانے والے ہوں گے ۔
پس یہ کہہ دیناکہ کوئی شخص باوجود بیعت نہ کرنے کے اسی مقام پررہ سکتا ہے جس مقام پربیعت کرنے والا ہو ۔در حقیقت یہ ظاہر کر تا ہے کہ ایسا شخص سمجھتا ہی نہیں کہ بیعت اور نظام کیا چیز ہے ۔مشورہ کے متعلق بھی یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ایک اکسپرٹ اور ماہرِ فن خواہ وہ غیر مذہب کا ہو اس سے مشورہ لے لیا جاتا ہے ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مقدمہ میں ایک انگریز وکیل کیا مگر اس کا یہ مطلب نہ تھا کہ آپ نے اُمورِ نبوت میں اس سے مشورہ لیا ۔جنگ احزاب ہوئی تو اُس وقت رسول کریم ﷺ نے سلمان فارسی ؓسے مشورہ لیا اور فرمایا کہ تمہارے ملک میں جنگ کے موقع پر کیا کیا جاتا ہے انہوںنے بتایا کہ ہمارے ملک میں تو خندق کھودلی جاتی ہے ۔آپ نے فرمایا یہ بہت اچھی تجویز ہے چنانچہ خندق کھودی گئی۳؎ اور اسی لئے اسے غزوہ خندق بھی کہا جاتا ہے ۔مگر باوجود اس کے ہم نہیں کہہ سکتے کہ سلمان فارسی ؓ فنونِ جنگ میں رسول کریم ﷺ سے زیادہ ماہر تھے ۔انہیں فنونِ جنگ میں مہارت کا وہ مقام کہاں حاصل تھا جو محمد ﷺ کو حاصل تھا ۔یا محمد ﷺ نے جوکام کئے وہ کب حضرت سلمان ؓ نے کئے بلکہ خلفاء کے زمانہ میں بھی انہیں کسی فوج کاکمانڈرانچیف نہیں بنایا گیا حالانکہ انہوں نے لمبی عمر پائی۔تو ایک اکسپرٹ خواہ وہ غیر مذہب کاہو اس سے بھی مشورہ لیا جا سکتاہے ۔میں جب بیمار ہو تا ہوں تو انگریز ڈاکٹروں سے بعض دفعہ مشورہ لے لیتا ہوں مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ خلافت میں مَیں نے ان سے مشورہ لیا ۔یا یہ کہ میں انہیں اسی مقام پر سمجھتا ہوں جس مقام پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کو سمجھتاہوں بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ میں نے طب میں مشورہ لیا۔ پس فرض کرو سعد بن عبادہ سے کسی دنیوی امر میں جس میں وہ ماہرِ فن ہوں مشورہ لینا ثابت ہو تب بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ مشوروں میں شامل ہوتے تھے مگر ان کے متعلق تو کوئی صحیح روایت ایسی نہیں جس میں ذکر آتاہو کہ وہ مشوروں میں شامل ہوتے تھے بلکہ مجموعی طور پرروایات یہی بیان کرتی ہیں کہ وہ مدینہ چھوڑ کر شام کی طرف چلے گئے تھے اور صحابہ پر یہ اثر تھا کہ وہ اسلامی مرکز سے منقطع ہو چکے ہیں اِسی لئے ان کی وفات پر صحابہ کے متعلق آتاہے کہ انہوں نے کہا فرشتوں یا جنوں نے انہیں مار دیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کے نزدیک ان کی موت کو بھی اچھے رنگ میں نہیں سمجھا گیا کیونکہ یوں تو ہر ایک کو فرشتہ ہی مارا کرتاہے ۔ان کی وفات پر خاص طور پر کہنا کہ انہیں فرشتوں نے یا جنوں نے ماردیا بتاتا ہے کہ ان کے نزدیک وفات ایسے رنگ میں ہوئی کہ گویا خداتعالیٰ نے انہیں اپنے خاص فعل سے اٹھالیا کہ وہ شِقاق کا موجب نہ ہوں ۔یہ تمام روایات بتلاتی ہیں کہ ان کی وہ عزت صحابہ کے دلوں میں نہیں رہی تھی جو ان کے اس مقام کے لحاظ سے ہونی چاہئے تھی جو کبھی انہیں حاصل تھا اور یہ کہ صحابہ ان سے خوش نہیں تھے ورنہ وہ کیونکر کہہ سکتے تھے کہ فرشتوں یا جنوں نے انہیں مار دیا بلکہ ان الفاظ سے بھی زیادہ سخت الفاظ ان کی وفات پر کہے گئے ہیں جنہیں میں اپنے منہ سے کہنا نہیں چاہتا ۔پس یہ خیال کہ خلافت کی بیعت کے بغیر بھی انسان اسلامی نظام میں اپنے مقام کو قائم رکھ سکتا ہے واقعات اور اسلامی تعلیم کے بالکل خلاف ہے اور جو شخص اس قسم کے خیالات اپنے دل میں رکھتاہے میں نہیں سمجھ سکتا کہ وہ بیعت کا مفہوم ذرہ بھر بھی سمجھتا ہو ۔
اس کے بعد میں ایک اور بات بیان کرنا چاہتا ہوں جو مجھے پہنچی ہے اور وہ یہ کہ ایک دوست کے متعلق مجھے بتایا گیاہے کہ انہوں نے کہا ہماری جماعت پر جو آجکل مشکلات آرہی ہیں یہ ہماری بعض غلطیوں کی سزا ہے جو ہمیں خدا تعالیٰ کی طرف سے مل رہی ہے اور اس کا علاج صرف یہ ہے کہ توبہ، استغفار اور دعائیں کی جائیں ۔میں اس امر میں ان سے بالکل متفق ہوںکہ ان مشکلات کا علاج توبہ، استغفار اور دعا ہے اور میں کئی بار پہلے یہ کہہ بھی چکا ہوں مگر استغفار اور انابت اِلَی اللہ عذاب کی دوری کے لئے ہی ضروری نہیں ہوتی بلکہ ہر حالت میں ضروری ہو تی ہے ۔رسول کریم ﷺ کی ذات تو عذاب سے بالکل پاک تھی بلکہ اللہ تعالیٰ یہاں تک فرماتا ہے کہ جہاں تُو ہو اس مقام پر بھی عذاب نازل نہیں ہو سکتا ۔۴؎ مگر رسول کریم ﷺ استغفار کرتے اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے رہتے۔ پس جب میں اپنی جماعت سے یہ کہتا ہوں کہ وہ استغفار کرے اور دعائوں پر زور دے تو اس کے ہرگز یہ معنی نہیں ہوتے کہ ہماری جماعت کسی عذاب میں گرفتار ہے اس کے ازالہ کے لئے اسے دعائیں کرنی چاہئیں ۔میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت اس وقت ایک ایسے مقام پر کھڑی ہے کہ اس کے بعض افراد سے غلطی بھی ہو سکتی ہے مگر بحیثیت مجموعی وہ خدا کے عذاب کی نہیں بلکہ اس کی رحمت کی مستحق ہے ۔میں وہ شخص ہوں جس نے اپنی جماعت کی غلطیاں بیان کرنے سے کبھی دریغ نہیں کیا ہر وہ شخص جو میرے خطبات پڑھنے کا عادی ہے میرے اس قول کی سچائی کی شہادت دے سکتا ہے کہ میں نے ہمیشہ کھلے الفاظ میں جماعت کو اسکی غلطیوں پر تنبیہہ کی اور ایسے کھلے الفاظ میں اسے ڈانٹا کہ دشمنوں نے میرے اس قسم کے الفاظ سے بعض دفعہ ناجائز فائدہ اُٹھانا چاہا۔ پس میں ان لوگوں میں سے ہرگز نہیں جنہیں اپنے لوگوں کی ہمیشہ خوبیاں ہی خوبیاں نظر آتی ہیں اور عیب دیکھنے سے ان کی آنکھ بند ہوتی ہے جیسا کہ مثل مشہور ہے کہ کسی بادشاہ نے ایک دفعہ ایک حبشی کو ٹوپی دے کر کہا کہ سب سے زیادہ خوبصورت بچہ جو تمہیں نظر آئے اس کے سر پر یہ رکھ دو ۔اس نے ٹوپی اٹھائی اور اپنے کالے کلوٹے بچہ کے سر پر جس کی ناک بہتی تھی جاکر ٹوپی رکھ دی ۔بادشاہ نے پوچھا کہ یہ کیا کیا ؟تو وہ کہنے لگا بادشاہ سلامت میری آنکھوں میں تو یہی بچہ سب سے زیادہ خوبصورت ہے تو بعض لوگ ایسے ہو تے ہیں کہ اپنے ساتھ تعلق رکھنے والے لوگوں کے عیوب انہیں نظر نہیں آتے؟ اگر میں بھی ایسا ہی ہوتا تو ممکن تھا کہ میں اپنی جماعت کے عیوب نہ دیکھتا اور دوسرے لوگوں کو وہ نظر آجاتے لیکن جماعت کے عیب دیکھنے میں جماعت کا ایک فرد بھی ایسا نہیں جو مجھ سے بڑھا ہؤا ہو۔ سوائے منافقوں کے کہ انہیں ہمیشہ عیب ہی عیب نظر آتے ہیں اور خوبی کی کوئی بات دکھائی نہیں دیتی۔ پس میں نے کبھی کمی نہیں کی جماعت کے عیب ظاہر کرنے میں ،کبھی کمی نہیں کی جماعت کو تنبیہہ کرنے میں اور کبھی کمی نہیں کی اسے کھلے اور واضح الفاظ میں نصیحت کرنے میںلیکن باوجود اس کے میں اس یقین پر قائم ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت اخلاص اور تقویٰ پر قائم ہے اور اس کے نَووارد اور نوجوان بھی بہت کچھ ترقی کر رہے ہیں ۔بے شک ان میں کمزور بھی ہیں اور بیشک ہم میں سے جو کامل انسان بھی ہے اس میں بھی کوتاہیاں ہیں کیونکہ آخر محمد ﷺ جیسا کامل تو کوئی ہو نہیں سکتا جو سارے عیوب سے پاک ہو۔بہر حال رسول کریم ﷺ سے نیچے ہی ہو گا پس اپنے درجہ تکمیل کے لحاظ سے اس میں غلطیاں اور کمزوریاں بھی پائی جائیں گی ۔ان غلطیوں پر تنبیہہ کرنا خلفاء کا کام ہے یا خلفاء کی طرف سے مقرر شدہ قاضیوں، مفتیوں اور مبلّغوں کا کام ہے کہ وہ نصیحت کریں بلکہ کوئی شخص جس کے دل میں جماعت کی ترقی کی ذرہ برابر بھی خواہش ہو وہ اپنے میںسے کسی فرد کا عیب دیکھ کر خاموش نہیں رہ سکتا اور ہم لوگ یہ کام کرتے ہی رہتے ہیں مگر یہ چیزیں کمال کے منافی نہیں ہوتیں ۔ایک حد تک کامل ہوتے ہوئے بھی انسان میں بعض کمزوریاں رہ جاتی ہیں ۔قرآن مجیدمیں ہی دیکھ لو رسول کریم ﷺ کی جماعت کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم لوگوںپر جب تک پہلے لوگوں کی طرح تکالیف نہ آئیں ،اور تم ان لوگوں کی طرح مصائب پر ثابت قدمی نہ دکھائو اور ان کی طرح خدا تعالیٰ کے راستہ میں جانیں قربان کرنے کے لئے تیار نہ ہو اس وقت تک تم خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث نہیں ہو سکتے ۔۵؎ اس قسم کی آیات سے بظاہر یہ معلوم ہو تا ہے کہ پہلے لوگ زیادہ کامل تھے ۔مگر کیا وہی قرآن حضرت موسٰی کی جماعت کے متعلق یہ نہیں بتاتا کہ اس نے ایک نہایت ہی نازک موقع پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہہ دیا کہ اِذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَآاِنَّا ھٰھُنَا قَاعِدُوْنَ۶؎ پس کیا خدا تعالیٰ نے موسیٰ کی جماعت کے عیب کو ظاہر نہیں کیا کہ انہوں نے کہہ دیا جا تو اور تیرا رب دشمنوں سے لڑائی کرتا پھر ہم تو یہیں بیٹھے ہیں مگر باوجود اس عیب کے قرآن مجید موسیٰ کی جماعت کا نمونہ پیش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اے صحابیو!جب تک تم موسیٰ کی جماعت کی طرح نہ ہو جائو اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتے ۔گویا ایک طرف ان کے عیب کا اظہار کرتا ہے اور دوسری طرف ان کی تقلید کا حکم دیتا ہے ۔جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بعض عیب کمال کے منافی نہیں ہوتے یہی یُکَفِّرُعَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ کے معنی ہیں پس نیکی کے ساتھ بدی کا پایا جانا انسان کو بد نہیں بناتا جیسے صحت کے ساتھ بیماری انسان کو بیمار نہیں بناتی بیماری کا غلبہ انسان کو بیمار بناتا ہے اسی طرح بدی کا غلبہ انسان کو بد بنا تاہے۔ پس حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جماعت کا ایک عیب قرآن مجید بیان کرتا ہے مگر چونکہ بعد میں وہ جماعت سنبھل گئی اس لئے مسلمانو ں سے کہا کہ جب تک تم موسیٰ کی قوم کی طرح نہ ہو جائو تمہارا ترقی کرنا محال ہے ممکن ہے کہ یہ آیت عام طور پر لوگوں کے ذہن میں نہ آتی ہو مگر کیا درود میں ہم روزانہ یہ نہیں کہتے کہ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ۔کیا آل ابراہیم ؑ میں یوسف کے بھائی شامل نہیںاور کیا آل ابراہیم میں حضرت موسیٰ کی قوم شامل نہیں ۔ اگر ہے تو جب ہم روزانہ یہ کہتے ہیں کہ اے خدا !رسول کریم ﷺ کی امت پر وہ فضل کر جو ابراہیم اور موسیٰ کی امت پر تو نے کیا تو کیا ہم اقرار نہیں کرتے کہ ہر کمزوری انسان کو برا نہیں بنا دیتی وہ کمزوریاں جن پر انسان غالب آجائے یا وہ جو وقتی جوش کے ماتحت سرزد ہوں یا وہ جو اجتہادی غلطی سے سرزد ہوں لیکن انسان بحیثیت مجموعی دینی احکام کا تابع ہو اور غلطیوں پر غالب آنے کے لئے کوشش کر رہا ہو اور ظالم نہ ہو اور بد نیت نہ ہو اور ملتِ اسلامیہ کا غدّار نہ ہو ایسی کمزوریاں انسان کو نہ معتوب بناتی ہیں اور نہ اسے بدکار ثابت کرتی ہیں ۔پس کسی جماعت کے متعلق چندغلطیوں کا گنا دینا اور اس کا نام خداتعالیٰ کا عذاب اور اس کی سزا رکھ دینا اس سے زیادہ ظلم اور کوئی نہیں ہو سکتا ۔
مجھ سے اس دوست نے زبانی گفتگو بھی کی اگرچہ وہ نہایت ہی مختصر گفتگو تھی اور ہم اس وعدہ پر اُٹھے تھے کہ دوبارہ اس موضوع پر گفتگوکریں گے مگر جس قدرگفتگو ہوئی اس سے میں نے یہ سمجھا کہ گو وہ عذاب کا لفظ اپنی زبان پرنہیں لاتے تھے مگر اس کی جو تشریح کرتے وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب اورسزا کی ہی ہوتی تھی اور الفاظ کے بدلنے سے کسی چیز کی حقیقت نہیں بدل سکتی۔میںان کی گفتگو سے جو سمجھا وہ یہ تھا کہ ان کے نزدیک ہماری جماعت کی موجودہ مشکلات خدا تعالیٰ کا عذاب ہے جو ہم پر آرہا ہے ۔لیکن اگر یہ عذاب ہے جو ہماری جماعت پر آرہا ہے تو اللہ تعالیٰ تو قرآن مجید میں فرماتا ہے ۔اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَاْ تِکُمْ مَثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْامِنْ قَبْلِکُمْ مَسَّتْھُمُ الْبَاْسَآئُ وَالضَّرَّآئُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہ‘ مَتٰی نَصْرُاللّٰہِ۷؎ یعنی جب تک تم پر وہ مصائب نہ آئیں جو پہلے لوگوں پر آئے اور جب تک تم ہلائے نہ جائو ۔اس وقت تک تمہیں خدا تعالیٰ کا قُرب حاصل نہیں ہو سکتا پس وہ لوگ جو موجودہ مشکلات کو اللہ تعالیٰ کا عذاب قرار دیتے ہیں انہیں سوچنا چاہئے کہ کیا وہ ابتلاء ہماری جماعت پر آگئے جن کا آنا خدا تعالیٰ کے فرمودہ کے مطابق مقدر ہے ۔اگر ہمارے ابتلا ء عذاب الٰہی قرار پاسکتے ہیں تو پھر ہماری ترقی کب ہو گی۔اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ جماعت کی ترقی ہمیشہ ابتلائوں کے بعد ہؤا کرتی ہے پس جب تک انعامی ابتلائوں کا سلسلہ ختم نہ ہو جائے اس وقت تک عذاب الٰہی ہماری جماعت پر آہی نہیں سکتاورنہ اگر پہلے ہی عذاب شروع ہو جائیں تو وہ کونسے دن ہوں گے جن میں جماعت ترقی کرے گی ۔عذاب کے بعد تو کوئی قوم ابھرا نہیں کرتی ۔اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جس امر کا ذکر فرمایا ہے وہ ایک قاعدہ کلیہ ہے اور کوئی نبی بھی ایسا نہیں گزرا جس کی قوم ان تمام ابتلائوں میںسے نہ گزری ہو پس جب تک ابتلائوں کا دور ختم نہیں ہو جاتا ہمارے تمام ابتلاء انعامی ہو سکتے ہیں عذابی نہیں ہو سکتے اور ہر ابتلاء ہمارے لئے ایسا ہی نتیجہ خیز ہو گا جیسا کہ مثنوی رومی والے کہتے ہیں ۔
ہربلاکیں قوم راحق دادہ اند
زیر آں گنج کرم بنہادہ اند
یعنی مسلمانوں کی جماعت پر جب بھی کوئی تکلیف آتی ہے تو وہ عذاب کی صورت میں نہیں آتی بلکہ اس کے نیچے فضل کا بہت بڑا خزانہ مخفی ہوتا ہے لیکن عذاب جب آتا ہے تو وہ قوم کو تباہ کو دیتا اور دلوں پر زنگ لگا دیتا ہے ۔بے شک ایسی سزائیں بھی ہوتی ہیں جو نجات کا موجب ہوتی ہیں مگر وہ فردی ہوتی ہیں قومی نہیں ہوتیں ۔پھر وہ کفارکے لئے ہو تی ہیں مؤمنوں کے لئے نہیں ہوتیں ۔ایمان کا دعویٰ کرنیوالوں کے لئے جب بھی قومی طور پر عذاب آتا ہے اس کے بعد وہ قوم ترقی نہیں کرتی بلکہ تنزّل میں گرتی چلی جاتی ہے پھر اس کے بعد جو خلفاء آتے یا جو مجدّد کھڑے ہوتے ہیں وہ قوم کے لئے ٹیکیں اور سہارے ہوتے ہیں قومی ترقی ان کے ذریعہ نہیں ہوتی ۔جیسے کسی گرنیوالی چھت کے نیچے کوئی ستون کھڑا کر دیا جاتا ہے اسی طرح قوم پرعذاب نازل ہونے کے بعد جومجدّدو محدّث پیدا ہوتے ہیں وہ ٹیکیں ہوتے ہیں ۔ترقی کا دورپھر واپس نہیں آسکتا جب تک دوبارہ نبی نہ آئے کیونکہ یہ کام خداتعالیٰ نے محض انبیاء سے مخصوص کیا ہے ۔پس عذاب کے بعد قوم دوبارہ اگر ترقی کر سکتی ہے تو نبی کے ذریعہ ہی کسی اور ذریعہ سے نہیں ۔چونکہ ممکن ہے وہ بات اس دوست نے اوروں کے آگے بھی بیان کی ہو بلکہ دو تین آدمیوں نے ذکر کیا ہے کہ ان کے پاس بھی انہوں نے یہی بیان کیا کہ ہماری جماعت اس وقت عذاب میں گرفتار ہے اس لئے میں اس حقیقت کو کھول دینا چاہتا ہوں کہ یہ قطعاً عذاب نہیں بلکہ ہمیں ترقی دینے کے لئے اللہ تعالیٰ کا ایک انعامی ابتلا ء ہے پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو سزائیں ہوتی ہیں ان کے ساتھ رؤیا اور الہام کے دروازے نہیں کُھلاکرتے مگر اس ابتلاء کے نتیجہ میںمَیں دیکھتا ہوں کہ مرد کیا اور عورتیں کیا‘ بچے کیا اور بوڑھے کیا ہر ایک کو خوابیں آرہی ہیں اور جس طرح رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ یَرٰی اَوْیُرٰی لَہ‘۔۸؎ مؤمن یا خود خواب دیکھتا ہے یا اس کے متعلق خوابیں لوگوں کو دکھائی جاتی ہیں ۔روزانہ میری ڈاک ایسے خطوط سے بھری ہوئی ہوتی ہے جن میں مختلف خوابوں اور الہامات کا ذکر ہو تا ہے ۔خود مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے کی نسبت بہت جلد اور بار بار حالات سے اطلا ع دی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ اس فتنہ کے نتائج جماعت کے لئے بہت زیادہ کامیابی اور ترقیات کا موجب ہونگے۔پس اس الٰہی گواہی کو چھوڑ کرجو قرآن مجید میں آتی ہے، اس الٰہی گواہی کو چھوڑ کر جس کا پہلے لوگوں میں پتہ چلتا ہے اور اس الٰہی گواہی کو چھوڑ کر جو آج ہم پر نازل ہو رہی ہے کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ جماعت گندی اور خراب ہو گئی اور خدا اب اس کو پکڑ نا چاہتا ہے۔ پس مَیں یہ الفاظ کہہ کر اپنی جماعت کو غافل نہیں کرنا چاہتا تم میں سے ہر فرد اصلاح کا محتاج ہے بلکہ تم میں سے ہر فرد کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی اصلاح کر لے ،وہ معترض بھی اس بات کا محتاج ہے کہ اپنی اصلاح کرے،میں بھی اس بات کا محتاج ہوں کہ اپنی اصلاح کروں،اور تم بھی اس بات کے محتاج ہو کہ اپنی اصلاح کرو۔پس اپنی اصلاح کرنے سے نہ وہ باہر ہے نہ میںنہ تم میںسے کوئی فرد بلکہ اگر تم روحانیت کے لحاظ سے اپنی تکمیل کو پہنچ جاتے ہو تب بھی تم میں اصلاح کی گنجائش ہے ۔رسول کریم ﷺ کا عمل تمہارے سامنے ہے ۔آپ ہمیشہ یہ دعا کیا کرتے تھے کہ رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا ۹؎ پس ہم نے تو اس مقام تک پہنچنا ہے جس کی انتہاء نہیں۔کسی ایسے مقام پر نہیں پہنچنا جس نے ختم ہو جانا ہو اس لئے ہماری زندگی میں کوئی لحظہ بھی ایسا نہیں آسکتا جس میں ہم اپنی اصلاح سے بے نیاز ہو جائیں۔ اسی مسجد میںمَیں ایک دفعہ نماز جمعہ کے بعد سلام پھیر کر بیٹھا ہی تھا کہ ایک اجنبی شخص آگے بڑھا اور کہنے لگا میں ایک سوال پوچھنا چاہتاہوں میں نے کہا فرمائیے۔ کہنے لگا اگر ہم ایک کشتی میں سوار ہوں اور وہ کنارے آلگے تو پھر ہم کیا کریں ۔اس کا یہ سوال کرنا ہی تھا کہ معاً خدا تعالیٰ نے میرے دل میں اس کا تمام سوال ڈال دیا اور میں نے بجائے یہ جواب دینے کے کہ اگر کنارہ آجائے تو اُتر پڑو یہ جواب دیا کہ اگر دریا محدود ہے تو اُتر جائے لیکن اگر غیر محدود دریا ہو تو پھر جہاں یہ کنارہ سمجھ کر اُترا وہیں ڈوبا۔ اس شخص کا مطلب یہ تھا کہ جب انسان خدا تعالیٰ تک پہنچ جائے تو پھر نماز روزے کا کیا فائدہ کیونکہ وہ خدا تعالیٰ تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں ۔یہ سوال کرنے والا معلوم ہؤا مسلمانوں کے اس بدبخت فریقہ سے تعلق رکھتا تھا جس کا عقیدہ یہ ہے کہ نماز روزہ اسی وقت تک کے لئے ہے جب تک انسان خدا تعالیٰ تک نہ پہنچا ہو اور اس کا مطلب یہ تھا کہ اگر میں کہہ دوں کہ کنارہ آنے پر انسان کو کشتی سے اُتر جانا چاہئے تو وہ کہہ دے کہ آپ کوا بھی خدا نہیں ملا ہو گا اس لئے آپ کو نماز روزں کی ضرورت ہو گی ۔مجھے تو نہیں ۔مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے پہلے ہی یہ تمام باتیں سمجھا دیں اور میں نے جواب دیا کہ اگر دریا غیرمحدود ہے تو پھر جہاں اترا ڈوبا۔ پس ہمارا جس ہستی سے تعلق ہے وہ غیر محدود ہے اور اس کے قرب کے مراتب لا متناہی ہیں ۔حتّٰی کہ محمد ﷺکی باکمال ذات کے لئے بھی ترقیات کی گنجائش ہے اور اگر کہا جائے کہ کوئی انسان ایسا بھی ہے کہ جس کے لئے اب ترقی کی گنجائش نہیں تو اس کا مطلب نَعُوْذُبِاللّٰہِ یہ ہو گا کہ وہ گویا خدا ہو گیا۔ بعض نادان کہا کرتے ہیں کہ محدود اعمال کی غیر محدود جزاء اللہ تعالیٰ کس طرح دے سکتا ہے ۔میں ایسے لوگوں کوا کثر یہ جواب دیا کرتا ہوں کہ محدود اعمال کی غیر محدود جزاء اس لئے اللہ تعالیٰ دے گا کہ تا اس کی توحید ثابت ہو ۔اگر محدود اعمال کی محدود جزاء دے کر اللہ تعالیٰ اور ترقیات کے دروازے انسان پر بند کر دیتا تو انسان یہ کہہ سکتا تھا کہ خدامجھے اور ترقی دینے سے ڈر گیا اوراسے یہ خطرہ لاحق ہونے لگا کہ میں اس کی خدائی میں شریک نہ ہو جائوں لیکن خدا نے کہا میں تمہیں غیر محدود جزاء دوں گا ۔تم بڑھتے جائو ،بڑھتے جائو مگر پھر بھی دیکھو گے کہ خدا احد ہے اور کوئی اس کا شریک نہیں ہو سکتا پس توحیدِ کامل انعامِ کامل کے بغیر ثابت ہی نہیں ہو سکتی ۔جو مذاہب یہ کہا کرتے ہیں کہ اعمال کی جزاء محدود ہو نی چاہئے وہ خدا تعالیٰ کی توحید کو مشتبہ کرتے ہیں۔ پس تکمیل کے مقامات غیر محدود ہیں اور ان کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ انسان توبہ واستغفارکرتا رہے اور اپنے اندر ایک بیداری وہوشیاری پیدا کرے پس دعائیں کرنا توبہ کرنا اور استغفار کرنا لازمی چیزیں ہیں اور ان کی روحانیت کی تکمیل کے لئے ہمیشہ ضرورت ہے اور اسی وجہ سے میں ان کی تاکید کرتا ہوں ۔کب میں نے کہا ہے کہ تم توبہ و استغفار نہ کرو ،کب میں نے کہا ہے کہ تم دعائیں نہ کرو میں نے تو ہر خطبہ میں کہا ہے کہ ہمارا کام خدا بنائے گا ظاہری تدبیریں کچھ چیز نہیں ۔پس دعائیں اور توبہ واستغفار ضروری ہے مگر نہ اس لئے کہ یہ عذاب ہے جو ہم پر آرہا ہے بلکہ اس لئے کہ روحانی تکمیل کے لئے ان امور کی ضرورت ہے اور کوئی شخص خواہ کتنے بڑے بلندمقامات پر بھی فائز ہو جائے ان سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ عذاب تو تب آتاہے جب جماعت کی اکثریت خراب ہو جاتی ہے مگر کب ہماری جماعت کی اکثریت خراب ہوئی ۔یا کب اس کی اکثریت نے ٹھوکرکھائی ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات جماعت کیلئے ایک بہت بڑاابتلاء تھا مگر کیااس وقت اکثریت نے ٹھوکر کھائی ۔پھر حضرت خلیفہ اوّل کے زمانہ میںجب صدر انجمن نے بغاوت کی تو کیا اُس وقت اکثریت نے ٹھوکر کھائی ۔آپ کی وفات پر خلافت کے متعلق جب جھگڑا ہو اتو کیا اُس وقت اکثریت نے ٹھوکر کھائی ۔جب نبوت اور کفرو اسلام وغیرہ مسائل پر بحث ہوئی اور یہ خیال رائج کرنے کی کوشش کی گئی کہ اس قسم کے عقائد کے نتیجہ میں لوگوں کے دلوں میں احمدیت سے منافرت پیدا ہو گی اور غیر وں کو انگیخت کر کے عملاً جماعت کو تکلیف پہنچائی بھی گئی مگر کیا اس وقت اکثریت نے ٹھوکر کھائی۔ پھر اب قربانی کا سوال میں نے جماعت کے سامنے پیش کیا تو جماعت نے قربانی کا کیسا شاندار نمونہ دکھایا ہے کیا جن پر عذاب آرہا ہو ان کی یہی حالت ہو ا کرتی ہے؟جن کو خدا تعالیٰ کی طرف سے سزا مل رہی ہو ان سے تو نیکی کی توفیق چھین لی جاتی ہے۔چنانچہ ابو جہل کو جب سزا ملتی تو وہ نیکی میں اور زیادہ گھٹ جاتا ۔اس کے مقابلہ میں حضرت ابو بکر ؓ یا دوسرے صحابہ پر جب ابتلاء آتے تو وہ نیکیوں میں ترقی کر جاتے یہی علامت اس بات کی ہو تی ہے کہ کونسا ابتلاء ہے اور کونسا عذاب۔ جب سزاآتی ہے تو اس وقت دل کا زنگ بڑھ جاتا ہے اور انعام پر دل کا نور ترقی کرتا ہے ۔اس وقت دیکھ لو کیا نیک تغیر ہے جو جماعت میں پیدا ہو رہا ہے ہر شخص اپنے دل میں ایک تازگی محسوس کرتا ہے ،ہر شخص پہلے سے زیادہ دعائوں میں مصروف ہے، پہلے سے زیادہ احتیاط کے ساتھ نیکیوں کی طرف توجہ رکھتا ہے،پہلے سے زیادہ زور کے ساتھ مالی قربانیاں کرتا ہے۔ ایک بیداری ہے جو جماعت میںپیدا ہو گئی،ایک تقویٰ ہے جو ہر شخص کے دل میں ہے اگر یہ تمام باتیں ہیں تو کو ن کہہ سکتا ہے کہ یہ سزا ہے ۔
پھر خدا تعالیٰ کا قول ہماری تائید میں ہے کیونکہ متواتر الہامات اور مسلسل خوابیں جو جماعت کے مختلف لوگوں کو آئیںظاہر کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ اس فتنہ کے ذریعہ ہماری جماعت کو بڑھائے اور پھیلائے اور ترقی دے اور یہ کو ئی عجیب امر نہیں کہ اللہ تعالیٰ تکالیف سے ترقی مدارج کی صورت پیدا کرے ایسا ہمیشہ ہی ہوتا ہے ۔اس بارہ میں میرا ایک عجیب تجربہ ہے ،میرے راستہ میں ایک دفعہ ایک سخت مشکل پیش آئی ،ایسی کہ فکر سے میری کمر جُھکی جاتی تھی اور میں سمجھتا تھا کہ اس روک کو دور کرنیکے ظاہری سامان مفقود ہیں ۔میں نے دعا کی مگر جب نتیجہ میں دیر ہونے لگی تو میں نے عہد کیا کہ میں اس وقت تک کہ دعا قبول ہو زمین پر سویا کروں گا چارپائی پر نہ لیٹوں گا۔ چنانچہ میں زمین پر سویا ،آدھی رات کے قریب میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ عورت کی شکل میں جسے میں اپنی والدہ سمجھتا ہوں آیا اس کے ہاتھ میں ایک باریک سی چھڑی ہے جو درخت کی تازہ کٹی ہوئی باریک شاخ معلوم ہوتی ہے اس کے سر پر کچھ پتے بھی لگے ہوئے ہیں چہرہ سے یوں معلوم ہو تا تھا کہ غصہ ہے مگر اس غصہ کے اندر پیار کی جھلک بھی نظر آتی ہے ،میرے قریب آکر اور چھڑی کو گھماتے ہوئے اس تمثیل نے مجھے کہا کہ چارپائی پر لیٹتا ہے کہ نہیں ،چارپائی پر لیٹتا ہے کہ نہیں ،پھر اس نے مجھے آہستہ سے چھڑی مارنی چاہی جیسے ایسے شخص کو تنبیہہ کرتے ہیںجس کے متعلق پیار کا غلبہ ہوتا ہے ۔میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ چھڑی مجھے لگی یا نہیں مگرمَیں معاً کُو دکر چارپائی پر چلا گیا اور اس کے ساتھ ہی میری آنکھ کھل گئی۔جب میری آنکھ کھلی تو اس وقت میں نے دیکھا کہ میں چارپائی کی طرف جا رہا تھا،اس کے بعد دوسرے ہی دن وہ بات جس کا مجھے فکر تھا خدا تعالیٰ کے فضل سے حل ہو گئی۔اس رؤیا میں پیار والے ابتلاء کو واضح کیا گیا ہے اور بتا یا ہے کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو تکلیف میں ڈالتا ہے دوسری طرف وہ اتنی بھی برداشت نہیں کرتا کہ وہ چارپائی کو چھوڑ کر زمین پر سوئے گویا جس تکلیف کو اس نے ترقی کے لئے ضروری سمجھا تھا وہ تو پہنچاتا ہے اس کے علاوہ ایک ذرا سا دکھ بھی پہنچے تو وہ بے تاب ہو کر اس طرح انسان کی طرف دوڑتا ہے جس طرح ماں اپنے بچے کی طرف ۔یہی حالت اس وقت ہے تم خود غور کرو کہ ان ابتلائو ںکا کیا نتیجہ نکلا ہے۔ان ابتلائوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں نے فیصلہ کیا کہ جماعت مالی قربانی کرے اور جماعت نے وہ مالی قربانی کی ۔میں نے کہاکہ جسمانی قربانی کرو اور کھانے میں بھی تخفیف کردو جماعت نے فورا ًاس پر لبیک کہا۔ پھر میں نے فیصلہ کیا کہ اپنے آپ کو خدمتِ دین کے لئے پیش کرو اور جائو باہر کے ملکوں میں تبلیغ کے لئے نئے میدان تلاش کرو کیونکہ یہ بیوقوفی ہو تی ہے کہ ایک شخص جسے ہماری باتوں سے غصہ آرہا ہو ،وہ ہمیں گالیاں دے رہا ہو اور ہم اس پر اپنی طاقتیں صرف کرتے چلے جائیں ۔ہمارا فرض ہو تا ہے کہ ہم اسے چھوڑیں اور کسی ٹھنڈے مزاج والے کے پاس جائیں اور اسے تبلیغ کریں۔ پس میں نے اپنی جماعت سے کہا کہ اگر ہندوستان میں شورش ہے اور ان لوگو ں کو تبلیغ کرنے سے فائدہ نہیں ہو تا تو جائو اور دوسرے ممالک میں اپنے لئے نئے میدان اور نئے راستے تلاش کرو ۔میری اس تحریک پرجماعت نے اپنے آپ کو پیش کیا اور ایسے اخلاص کے ساتھ جماعت کے افراد نے اپنے آپکو پیش کیا کہ اسے دیکھ کر حیرت ہو تی ہے پھر چھوٹے چھوٹے بچوں نے ویسا ہی نمونہ دکھایا جیساکہ رسول کریم ﷺ کے وقت دو بچوں نے دکھایا تھا جو بدر کی جنگ میں شامل ہو ئے تھے۱۰؎ یا جو حضرت علی ؓ نے دکھایا تھا جب کفار نے رسول کریم ﷺ کی دعوت حق کے جواب میں اسے قبول کرنے سے اعراض کیا تھا چنانچہ ایک بچہ سے جب دریافت کیا گیاکہ اگر تمہیں ہماری طرف سے کچھ نہ ملے تو تم کیا کرو گے ۔تو اس نے جواب دیاکہ اگرآپ مجھے حکم دیں تو میں اسی وقت ایک ٹوکری لے کر چل پڑو ںگا اور محنت مزدوری کرتا ہؤا پیدل اپنی منزلِ مقصود تک پہنچوں گا اور یہ ایک مثال نہیں بیسیوں نوجوان بیتابی سے اس قسم کی قربانی کے لئے تیار ہیں ۔وہ صرف اِذن چاہتے ہیں اور کوئی امدادنہیں چاہتے سوائے اس کے کہ کام کی جلدی کی وجہ سے ہم خود ان کی کوئی امداد کریں ۔کیا یہ ایک عذاب یا فتہ قوم کی حالت ہو ا کرتی ہے کیا جن لوگو ں پر اللہ تعالیٰ کی گرفت نازل ہو تی ہے ان میں ایسا ہی اخلاص اور تقویٰ پایا جاتا ہے پھر کون ہے جو کہہ سکے کہ یہ مشکلات اللہ تعالیٰ کا عذاب ہیں۔ بے شک میں سمجھتا ہوںکہ ہمارے اندرکمزوریاں ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ ہم ان کمزوریوں پر غالب آئیں لیکن تکالیف سے مقصود سزا دینا نہیں بلکہ اپنے قریب کرنا ہے ۔یہ ایسا ہی ہے جیسے ماں اپنے بچہ کا منہ دھوتی ہے تو وہ روتا ہے ۔وہ اسلئے اس کا منہ دھو کر اسے نہیں رُلاتی کہ اسے سزادے بلکہ اس لئے منہ دھوتی ہے کہ اسے چومے۔ اسی طرح خدا تعالیٰ ان ابتلائوں پر اس لئے خاموش نہیں کہ وہ ہمیں سزا دینا چاہتا ہے بلکہ وہ اس لئے خاموش ہے کہ اس ذریعہ سے ہمارا منہ دھویا جا رہا ہے جس کے بعد وہ ہمیں محبت سے بوسہ دے گا ۔اللہ تعالیٰ کی جماعت کے متعلق یہ خیال کر لینا کہ وہ عذاب یا فتہ قوم ہے، ایک بہت بڑا گناہ ہے ۔عبدالحکیم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہی لکھا تھا کہ آپ کی جماعت میں مولوی نورالدین صاحب ہی ایک کامل انسان نظر آتے ہیں اور لوگ تو ایسے نہیں۔اِس کا جواب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسے یہی دیا کہ مجھے تو اپنی جماعت میں لاکھوںانسان ایسے نظر آتے ہیں جو صحابہ کا نمونہ ہیں اورتم ان خیالات سے تو بہ کرو ورنہ اس کا انجام اچھا نہیں ۔حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھ کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے آپ نے نہایت سختی سے اپنی جماعت کے عیوب بیان کئے ہیں تو معالج والی نگاہ سے عیوب کا دیکھنا اور چیزہوتی ہے اور اعتراض کی نیت سے عیوب کادیکھنا بالکل اور چیز ہے۔جتنے عیب میں اپنی جماعت میں دیکھتا ہوں غالبا ًاس دوست کو بھی اتنے عیب نظر نہیں آتے ہوں گے اور یقینا نہیں آتے مگر جس نگاہ سے مجھے نظر آتے ہیں وہ اور ہے اور جس نگاہ سے انہیں نظر آتے ہیں وہ اور ہے۔ بے شک یہ ایک بہت بڑا ابتلاء ہے جو ہماری جماعت پر آیا اوربے شک ہم اگر اس ابتلاء کو نہیں سمجھیں گے، اس کا مقابلہ نہیں کریں گے اور اس سے بچنے کی تدابیر نہیں سوچیں گے تو ایسی مشکلات میں مبتلاء ہو سکتے ہیںجن سے نکلنے کے لئے سالہاسال درکار ہوں ۔مگر باوجود اس کے میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کا یہ منشاء نہیں کہ وہ ہمیںعذاب دے، اس کایہ منشاء نہیں کہ وہ ہمیںسزا دے بلکہ اس کا منشاء یہ ہے کہ وہ ہمیں ترقی دے ۔اس کا منشاء یہ ہے کہ وہ ہمیں بڑھائے اور اس کا منشاء یہ ہے کہ وہ ہمیں پھیلائے باقی اس راہ میں جان چلی جانا یا خدا کے لئے مٹی میں مل جانا یہ کوئی ذلت کی بات نہیں بلکہ عزت کی بات ہے کیونکہ خدا تعالیٰ یہ کہہ چکا ہے کہ اگر کوئی شخص اس کے دین کے لئے مالی قربانی کرتا ہے یا اس کے جلال کے لئے اپنی جان قربان کر دیتا ہے تو بہرحال دونوں صورتوں میں زمانہ میں اس کا نام قائم رہے گا اور دنیا کا کوئی حادثہ اس کے نام کو مٹا نہیں سکتا ۔بھلا غور تو کرو کبھی ایسا ہو سکتا ہے کہ گناہ تو ہم سب کریں مگر گالیاں جنہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے سزا کہا جاتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ملیں ۔فرض کرو آج ہماری جماعت کے آدمی گھروں میں چُھپ کر بیٹھ رہیں اور احمدیت کی اشاعت نہ کریں ،حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور رسول کریم ﷺکو نَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ ،نَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ، نَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ چھوڑدیں تو کیا کوئی دشمن ہم پر حملہ کرنے والا کھڑا رہ سکتا ہے ۔
ہماری مخالفت تو دنیا میںاسی لئے ہو رہی ہے کہ ہم اس زمانہ کے مأمور پر ایمان لائے ہم نے خدا تعالیٰ کو زندہ نشانات سے مانا اور ہم نے اسلام کے پھیلانے کا تہیہ کر لیا ۔پس لوگوں کو اگر دشمنی ہے تو خدا سے ،دشمنی ہے تو رسول کریم ﷺ کے نام سے، اور دشمنی ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے۔ کوئی اس لئے ہمارا دشمن ہے کہ ہم نے خدا کو مانا ،کوئی اس لئے ہمارا دشمن ہے کہ ہم نے رسول کریم ﷺ کو مانا اور کوئی اس لئے ہمارادشمن ہے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانا ۔پس اس صورت میںنَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ یہ سزاہمیں نہیں مل رہی بلکہ ان تینوں کو مل رہی ہے اگر ہم دنیا میں اپنا نام پیش کرتے اور اپنی ذات لوگوں سے منواتے تو اس صورت میںسزا ہم پر نازل ہو سکتی تھی جیسے مغلیہ حکومت تباہ ہوئی تو وہ سزا مغلیہ حکومت کے لئے تھی نہ کہ خدا اور اس کے رسول کے لئے کیونکہ مغلیہ حکومت خدا کا نام دنیا میں نہیں پھیلاتی تھی بلکہ اپنی حکومت لوگوں سے منواتی تھی ۔اسی طرح جو قومیں دنیا میں اپنی بڑائی کا اظہار کیا کرتی ہیں انہیں ان کے برے اعمال کی سزا مل جاتی ہے لیکن جو قوم خدا اور اس کے رسول کا نام دنیا میں پھیلا رہی ہو، جس کے دل کے کسی گوشہ میں اپنی ذاتی بڑائی کا خیال تک نہ ہو، جو ہمہ تن اسی ایک مقصد کے لئے منہمک ہو کہ دنیا پر خدا کا جلال ظاہر ہو ،ایسے لوگوں پر خدا تعالیٰ کی طرف سے سزا کس طرح نازل ہو سکتی ہے ۔ہمارے کونسے کام ہیں جو ہم اپنے لئے کرتے ہیں ۔ہمارے خاندان نے انگریز وں کی ہمیشہ خدمات کیں مگر ایک دفعہ بھی اس کے بدلہ میں کسی انعام کی خواہش نہیں کی بلکہ اگر کوشش کی تو یہ کہ مسلمانوں کا بھلا ہو جائے اور آئندہ بھی اِنْشَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی ہم اپنی ذات کو کبھی پیش نہیں کرینگے ۔پس ہم نے تو اپنے آپ کو ایسا خدا تعالیٰ کے لئے وقف کر دیا ہے کہ اب ہمارا مٹنا دنیا سے خدا تعالیٰ کے نام کا مٹنا قرار پاتا ہے ۔ہم اپنے لئے دنیا سے کچھ نہیں مانگتے بلکہ خدا کے لئے اور اس کے دین کی اشاعت کے لئے مانگتے ہیں۔ پھر جماعت کا کثیر حصہ ایسا ہے جو بھوکا رہتاہے، پیاسا رہتا ہے،ننگا رہتا ہے مگر دین کے لئے مالی قربانی کے مطالبہ کو پورا کرنے سے سرمو انحراف نہیں کرتا۔پھر کہا جائے کہ اشاعت دین کے لئے دوسرے ملکوں میں نکل جائو تو وہ اپنے بچوں، اپنی بیویوں اور اپنے عزیزواقارب کو چھوڑ کر دور دراز ممالک میں اعلائے کلمۃاللہ کے لئے نکل جاتے ہیں اس پر بھی اگر ہمیں خدا تعالیٰ کی طرف سے سزا ہی ملنی ہے تو نہ معلوم اللہ تعالیٰ کا انعام کن نیکیوں پر ملا کرتا ہے ۔میں سمجھتا ہوں جب تک ہماری جماعت کی یہ حالت رہے گی کہ وہ دین کے لئے مال خرچ کرتی رہے گی ،جب تک وہ تبلیغ کرتی رہے گی، جب تک وہ دنیا طلبی کی بجائے خدا طلبی میں لگی رہے گی، جب تک اسے اسلئے لوگوں کی طرف سے دکھ دیا جائے گا کہ کیوں یہ لوگو ںکی خیر خواہی کرتی اور انہیں احمدیت میں داخل کرتی ہے اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے جس قدر بھی ابتلاء آئیں گے وہ عذابی نہیں ہونگے بلکہ انعامی ہو ں گے ۔ہاں جس وقت ان کی کوششیں بجائے اشاعتِ دین کے اپنے نفس کے لئے خرچ ہونے لگیں گی ،جس وقت انہیں اپنے بچوں اور بیویوں میں بیٹھنا زیادہ مرغوب رہنے لگے گا، جس وقت وہ اسلام کے آرام پر اپنے نفس کے آرام کو مقدم کرلیں گے اس وقت ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی سزا نازل ہو مگر جب تک ہمارے دل بحیثیت جماعت اللہ تعالیٰ کی محبت سے پُر ہیں ایک لمحہ کے لئے بھی خیال نہیں کیا جاسکتا کہ بحیثیت جماعت خدا کا عذاب ہم پر نازل ہو ۔کون ایسا شخص ہے کہ کسی کو ایسی حالت میں گولی مارے جبکہ اس کا اپنا بچہ اس کی گودی میں بیٹھا ہو ا ہو۔ایک ڈاکو اور سفاک انسان بھی اس وقت گولی نہیں چلاتا جب وہ دیکھتا ہے کہ اس کااپنا بچہ دوسرے کی گود میں ہے پھر کیا ہمارا خدا نَعُوْذُبِاللّٰہِ ایک ڈاکو اور چور جیسی عقل وسمجھ بھی نہیں رکھتا کہ اسی دل پرگولی چلائے گا جس دل میں اس کی محبت جاگزین ہے ۔بیشک ہم جاہل ہیں مگر خدا کے نام کے جلال اوراس کے دین کو پھیلانے کے لئے اپنے سینوں میںتڑپ رکھتے ہیں،بے شک ہم میں کمزوریاں ہیں مگر ہمارے دل خدا تعالیٰ کی محبت سے لبریز ہیں اور ہم دل سے چاہتے ہیں کہ یہ کمزوریاں ہم میں نہ رہیں ،ہم دل سے چاہتے ہیں کہ ہماری عزتیں ،ہماری جانیں ،ہمارا آرام اورہماری آسائش سب کچھ خدا کے نام پر قربان ہو جائے ۔جب ہماری قلبی کیفیات یہ ہیں ،جب ہم رات دن اپنے مولیٰ کی محبت میں سرشار رہتے ہیں ،جب ہم اٹھتے بیٹھتے اسی کے نام کو پھیلانے میں کوشاں رہتے ہیں تو یقینا خدا ایسے دلوں پر گولی نہیں چلا سکتا۔میں اپنے دل کو جانتا ہوں اور میں مقدس سے مقدس مقام میں کھڑا ہو کر غلیظ سے غلیظ قَسم اس بات کیلئے کھا سکتا ہوںکہ خدا اور اس کے رسول کی عزت کے سوا میرے دل میں اور کسی کی عزت پھیلانے کا ولولہ نہیں ۔اس کے کلام کی محبت سے میرا دل لبریز ہے اور اس کی اشاعت کے لئے مجھے اتنا جوش ہے کہ اور کسی چیز کے لئے اتنا جوش نہیں اور میں جانتا ہوں کہ سوائے چندمنافقین کے تمام جماعت اپنے دلوں میںیہی ولولے اور یہی ارادے رکھتی ہے پس ایسے دلوںکو کوئی تباہ نہیں کیا کرتا ۔اللہ تعالیٰ ظالم نہیں اگر موجودہ مشکلات سزاہیں تونَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ کہنا پڑے گا کہ خدا ظالم ہے اس نے ہمارے دلوں کو دیکھا مگر ہمارے ساتھ وہ سلوک نہ کیا جس کے ہم مستحق تھے۔ باقی رہی کمزوروں کی اصلاح سووہ ہمیشہ ہمارے مدنظر رہتی ہے ۔اور کمزوریاں تو ہر انسان میں پائی جاتی ہیں اور ہر انسان اگر چاہے توانہیں چھوڑ کر زیادہ بلند مقام حاصل کرسکتا ہے ۔عمرؓ ابو بکرؓ بن سکتا ہے اور ابوبکرؓ اور زیادہ ترقی کر کے خدا تعالیٰ کی محبت کے مزید مقامات حاصل کر سکتا ہے پس اس قسم کا خیال رکھنے والے لوگوں کو میں سمجھاتا ہوں کہ وہ غور کریں اور سوچیں۔ میں زبردستی ان سے اپنی بات نہیں منوانا چاہتابلکہ انہیں کہتا ہوں کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کریں ۔اگر وہ توجہ کریں گے تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ ان کا یہ خیال بالکل باطل ہے اور نہ صرف باطل بلکہ انہیں نیکی کے راستہ سے دور پھینکنے والا ہے۔بہت دفعہ شیطان نیکی کے راستہ سے دھوکا دے دیا کرتا ہے جیسے عبد الحکیم کی مثال مَیں نے ابھی بیان کی ہے۔اس نے اعتراض کرتے وقت یہی لکھا تھا کہ جماعت کی اصلاح میرے مدّ نظر ہے مگر دیکھ لو کہ اس کا نتیجہ کیسا خطرناک نکلا۔ملّی نظام خداتعالیٰ کو بہت محبوب ہے اور جو شخص اس پر اعتراض کرتا ہے اس کے دل پر زنگ لگنا شروع ہو جاتا ہے۔ہاں اصلاح کے لئے جماعت کے عیوب بیان کرنا بالکل اور چیز ہے اور نیتوں کا فرق بات کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتا ہے۔بظاہر ایک ڈاکٹر بھی ہاتھ کاٹتا ہے اور ڈاکو بھی۔اسی طرح ڈاکو بھی لوگوں کو قتل کرتے ہیں اور گورنمنٹ بھی پھانسیاں دیتی ہے مگر ان دونوں میں کتنا بڑا فرق ہوتا ہے۔گورنمنٹ ہزاروں آدمیوں کی جانیں بچانے کے لئے مجرموں کو پھانسی دیتی ہے اور ڈاکو مال وغیرہ لوٹنے کے لئے دوسروں کو قتل کرتے ہیں پس کام تو ایک ہے مگر نیتوں میں فرق ہے۔اسی طرح جماعت کی اصلاح کے لئے نقص بیان کرنا اور بات ہے اور جماعت کے عیوب پر لذّت محسوس کرنا اور کہنا کہ اب یہ خداتعالیٰ کی طرف سے اسے سزا مل رہی ہے بالکل اور بات ہے اور دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ جس طرح ہر وہ قوم جس میں اصلاح کرنے والے نہ رہیں اور جس کے افراد ایک دوسرے کے عیوب نہ دیکھ سکیں تباہ ہو جاتی ہے اسی طرح وہ لوگ بھی ہلاک ہو جاتے ہیں جو عیب دیکھتے تو ہیں مگر ان کا اپنے دلوں میں ذخیرہ کرتے چلے جاتے ہیں اور بجائے اصلاح کے قوم کے متعلق بُری رائے قائم کر لیتے ہیں۔پس تقویٰ اختیار کرو اور اﷲ تعالیٰ پر امید نہ چھوڑواور یقینا یاد رکھو کہ بے شک ہمارے سامنے مشکلات ہیں مگر ان کا انجام اچھا ہے۔مجھے خود بعض رؤیا اور الہام ایسے ہوئے ہیں جو کامیابی اور فتح کی خبر دیتے ہیںاور بعض الہام تو بہت ہی مبارک ہیںمگر میں انہیں بیان نہیں کرتا کیونکہ ان کے مخفی رکھنے میں بعض مصالح ہیں۔ صرف ایک رؤیا بیان کر دیتا ہوں جو انہی دنوں مَیں نے دیکھا۔میں نے دیکھا کہ میں بھوپال میں ہوں اور وہاں ٹھہرنے کے لئے سرائے میں اترنے کا ارادہ ہے۔ایک سرائے وہاں ہے جو بہت اچھی اور عمدہ ہے مگر ایک اور سرائے جو بظاہر خراب اور خَستہ ہے اور وہاں میرے ساتھی اسباب لے گئے ہیں۔ایک ہمارے ہم جماعت ہؤا کرتے تھے ،اﷲ تعالیٰ مغفرت کرے،ان کا نام حافظ عبد الرحیم تھامیں نے دیکھا وہ اسی جگہ ہیں اور حکیم دین محمد صاحب کہ وہ بھی میرے ہم جماعت ہیں وہیں ہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حافظ عبد الرحیم صاحب مرحوم اس بظاہر شکستہ سرائے میں ہمیں لے گئے ہیں۔ میں اسے دیکھ کر کہتا ہوں کہ یہاں ٹھہرنے میں تو خطرات ہوں گے،سرائے بھی خراب سی ہے،دوسری اچھی سرائے جو ہے وہاں کیوں نہیں ٹھہرے۔وہ کہنے لگے یہیں ٹھہرنا اچھا ہے،پھر وہ میرے لئے بستر بچھاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ بستر بھی نہایت گندہ اور مَیلا سا ہے۔میں اسے دیکھ کر کہتا ہوں اگر مجھے معلوم ہوتا کہ بستر ایسا گندہ ملے گا تو میں اپنا بستر لے آتا۔تکیہ کی جگہ بھی انہوں نے کوئی نہایت ہی ذلیل سی چیز رکھی ہے۔پھر جس طریق پر وہ بچھاتے ہیں اس سے بھی مجھے نفرت پیدا ہوتی ہے کیونکہ ٹیڑھا سا بستر انہوں نے بچھایا ہے مگر پھر میں دل میں خیال کرتا ہوں کہ یہ بُری بات ہے میں کسی اور جگہ رہائش کا انتظام کروںجہاں باقی ساتھی ہیں وہیں مجھے بھی رہنا چاہئے۔اس کے بعد میں بستر پر لیٹ جاتا ہوںمگر لیٹتے ہی میں دیکھتا ہوں کہ بستر نہایت اعلیٰ درجہ کا ہو جاتا ہے اور جگہ بھی تبدیل ہو کرپہلے سے بہت خو شنما ہو جاتی ہے ،لحاف اور کمبل بھی جو بستر پر ہیں نہایت عمدہ قسم کے ہو جاتے ہیںاور تکیہ بھی مَیں دیکھتا ہوں کہ بہت اعلیٰ ہے اور باقی ساتھیوں کے بستر بھی صاف ستھرے ہو جاتے ہیں۔بستر پر لیٹتے وقت میرے دل میں خیال تھا کہ مجھے اپنے پاس کوئی ہتھیار رکھنا چاہئے کیونکہ خواب میں ہم باہر صحن میں ہیںاور گلابی جاڑے کا موسم ہے جب کہ لوگ باہر سوتے لیکن اوپر کچھ نہ کچھ اوڑھتے ہیں پس خطرہ محسوس ہو تا ہے کہ کوئی چور چکار نہ آ جائے۔میں اسی سوچ میں ہوں کہ میں خیال کرتا ہوں میری جیب میں ایک پستول پڑا ہے اسے دیکھوں کہ وہ موجود ہے کہ نہیں۔ چنانچہ کہنی کے بَل میں اٹھتا ہوں اور جیب پر ہاتھ مار کر دیکھتا ہوںتو مجھے نہایت اچھی قسم کا عمدہ سا پستول نظر آ جاتا ہے۔اس پر دل میں اطمینان پیدا ہو جاتا ہے۔اس رؤیا کا اثر اتنا گہرا تھا کہ فوراً آنکھ کھل گئی اور میں نے دیکھا کہ میں واقع میں اپنے کرتہ پر صدری کی جیب کی جگہ پر ہاتھ مار رہا تھاجیسے کوئی کچھ تلاش کرتا ہے ۔یہ رؤیاتو خیر تعبیر طلب ہے مگر اور بھی بہت سے واضح رؤیا ہوئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان ابتلاؤں میں ہمیں فتح دے گااور یہ کہ اس کا نشان یہ ہے کہ وہ احمدیت کو ان ابتلاؤں کے ذریعہ نہ صرف ہندوستان میں بلکہ دنیا کے تمام ممالک میں پھیلائے اور کوئی بڑی سے بڑی روک اس کی ترقی میں حائل نہیں ہو سکے گی۔
خدا تعالیٰ کی ان متواتر خبروں کے بعد میں کسی کی یہ بات کس طرح قبول کر سکتا ہوں کہ ہماری جماعت پر یہ عذاب آ رہا ہے۔پنجابی میں ضرب المثل ہے کہ ’’گھروں مَیں آیاں تے سنیہے تُوں دیویں‘‘یعنی گھر سے تو میں آ رہا ہوں اور گھر کے پیغام تم بتا رہے ہو۔اس طرح ہم خود خدا کے گھر سے آئے اور ہمیں اس نے بتایاہے کہ ان فتنوں کا کیا انجام ہے پس ہم پر ان وہمی باتوں کا کیا اثر ہو سکتا ہے کہ یہ خدا کا عذاب ہے جو آ رہا ہے ۔میرا یہ مطلب نہیں کہ میں جماعت کو اصلاح سے غافل کرنا چاہتا ہوں میں سمجھتا ہوں کہ مجھ میں بھی عیب ہیں اور تم میں بھی پھر کسی میں دس عیب ہیں ، کسی میں بیس،کسی میں سَو اور کسی میں ہزار،تم جتنی جلدی ان عیبوں کو دور کرو گے اتنی ہی جلدی تمہیںخدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہو گا بلکہ اگر تم میں آدھا عیب بھی باقی ہے اور تم اسے دور کرنے کی کوشش نہیں کرتے تو خدا سے دور رہتے ہو اور آدھا عیب کا کیا مطلب ، عیب کا ہزارواں حصہ بھی اگر تمہارے اندر ہے تو تمہیں اس سے شدید نفرت کرنی چاہئے اورشدید کوشش اس بات کی کرنی چاہئے کہ تم اس قدر عیب سے بھی پاک ہو جاؤ مگر میں یہ کہہ کر اپنی جماعت کو مایوس بھی نہیں کرنا چاہتا کہ گویا تمہیں سزا مل رہی ہے۔ بے شک خدا ہمیں اس وقت تکلیف میں ڈالے ہوئے ہے مگر اس لئے کہ تا ہمارے افکار کو وسیع کرے۔جب انسان پر مصائب و مشکلات آتی ہیں تو اس وقت ایسی ایسی تدبیریں اسے سوجھتی ہیں جو بہت جلد ترقی تک پہنچانے والی ہوتی ہیں ۔فاقہ کے وقت بعض دفعہ غریبوں کو ایسے ایسے ڈھنگ روٹی کمانے کے سوجھتے ہیں کہ انسان خیال کرتا ہے اگر یہ دنیا کے بادشاہ ہو جائیں تو تمام عالَم کو مسخر کر لیں اسی طرح اﷲ تعالیٰ ہمیں اس لئے مشکلات میں نہیں ڈالے ہوئے کہ وہ ہمیں دکھ دینا چاہتا ہے بلکہ اس لئے کہ تا ہماری عقلیں تیز ہو جائیں اور ہماری تدبیروں کا دائرہ وسیع ہو اور میں یقین رکھتا ہوں کہ جب ہم ان تدبیروں پر عمل کریں گے تو سحر ہو جائے گی اندھیرا جاتا رہے گا اور فتح اور کامیابی کا سورج ہمارے لئے نکل آئے گا ۔چند سال ہو ئے میں نے رؤیا میں دیکھا تھا کہ میں گھر کے اس حصہ میں ہوں جو مسجد مبارک کے اوپر کے صحن کے ساتھ ہے ۔میں نے مسجد میں شور سنا اور باہر نکل کر دیکھا کہ لوگ اکٹھے ہیں ان میں ایک میرے استاد بھائی شیخ عبد الرحیم صاحب بھی ہیں ۔سب لوگ مغرب کی طرف انگلیاں اُٹھا اُٹھا کر کہہ رہے ہیں کہ دیکھ لو مغرب سے سورج نکل آیا اور وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اب قیامت آ گئی ۔میں یہ بھی دیکھ رہا ہوں کہ اس وقت پہاڑیاں گر رہی ہیں ،درخت ٹُوٹ رہے ہیں اور شہر ویران ہو رہے ہیں اور ہر ایک کی زبان پر یہ جاری ہے کہ تباہی آ گئی قیامت آ گئی۔ میں بھی یہ نظارہ دیکھتا ہوں تو کچھ گھبرا سا جاتا ہوں مگر پھر میں کہتا ہوں مجھے اچھی طرح سورج دیکھ تو لینے دو ۔میں خواب میں خیال کرتا ہوں کہ قیامت کی علامت صرف مغرب سے سورج کا طلوع نہیں بلکہ اس کے ساتھ کچھ اور علامات کا پایا جانا بھی ضروری ہے ۔چنانچہ ان دوسری علامتوں کو دیکھنے کے لئے میں مغرب کی طرف نگاہ کرتا ہوں تو وہاں بعض ایسی علامتیں دیکھتا ہوں جو قیامت کے خلاف ہیں اور غالباً سورج کے پاس چاند ستارے یا نور دیکھتا ہوں اور کہتا ہوں کہ یہ قیامت کی علامت نہیں ۔دیکھو فلاں فلاں علامتیں اس کے خلاف ہیں ۔میرا یہ کہنا ہی تھا کہ میں نے دیکھا سورج غائب ہو گیا اور دنیا پھر اپنی اصل حالت پر آ گئی ۔پس ہمارے لئے تو ابھی کئی قیامتیں مقدر ہیں۔ان معمولی ابتلاؤں سے گھبرا جانا تو بڑی نا سمجھی ہے۔ جو شخص گھبرا کر یہ سمجھتا ہے کہ اب قوم تباہ ہو گئی وہ بھی غلطی کرتا ہے اور جو سمجھتا ہے کہ انسانی طاقتیں ہمارے سلسلہ کو مٹا سکتی ہیں وہ بھی غلطی کرتا ہے۔تمہارے سامنے اِس وقت ایک پُل صِراط پیش ہے تم اس پر چلو،تم حکومت کے قوانین کی پابندی کرو،تم شریعت کی پابندی کرو۔تم سلسلہ کی روایات کا احترام کرو اور چلتے چلے جاؤ اور یقین رکھو کہ کامیابی تمہارے لئے ہے۔تمہیں تلوار کی دھار پر اِس وقت چلنا پڑے گا ،تمہیں قانون کی بھی پابندی کرنی پڑے گی ،تمہیں شریعت کی بھی پابندی کرنی پڑے گی، تمہیں سلسلہ کی روایات کا احترام بھی مد نظر رکھنا ہو گا اور اس کے ساتھ تمہیں موجود ہ فِتن کا مقابلہ بھی کرنا ہو گا۔تم خیال کرتے ہو گے کہ ان شرائط کی پابندی کے بعد ظلموںکے دُور کرنے کا کون سا راستہ باقی رہ جاتا ہے لیکن میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ اِس تلوار کی دھار پر اتنا کُھلا راستہ ہے کہ تم بغیر کسی خوف و خطر کے منزلِ مقصود تک پہنچ سکتے ہو ۔تم میری بات سنو اور سمجھو اور میرے پیچھے چلے آؤ تمہیں ایک نہایت ہی کُھلاراستہ نظر آئے گا اتنا کُھلا راستہ کہ اس سے بڑھ کر ممکن نہیں اور سمجھو کہ کامیابی تمہارے لئے مقدر ہے،عزت تمہارے لئے مقدر ہے،بڑائی تمہارے لئے مقدر ہے،رُتبہ تمہارے لئے مقدر ہے۔جو لوگ آج تمہارے دشمن ہیں وہ کَل تمہارے دوست ہوں گے ،جو آج تمہیں مٹانے کے درپے ہیں وہ کل تمہارے میناروں کو اونچا کرنے والے ہوں گے۔پس دشمن کو دشمن نہ سمجھو بلکہ یقین رکھو کہ وہ تمہارا دوست بننے والا ہے سوائے اُس شخص کے کہ جس کے لئے ازل سے ہدایت مقدر نہیں۔تم مایوس مت ہو اور نہ اپنے حواس کھوؤ۔عقل قائم رکھو اور حوصلے بلند رکھو پھر قطعاً تمہیں کسی قسم کی گھبراہٹ کی ضرورت نہیں ۔خدا تمہارا دشمن نہیں بلکہ دوست ہے۔بے شک تم توبہ کرو اور استغفار کرو مگر تم توبہ اس لئے نہ کرو کہ کوئی عذاب ہے جسے تم دُور کرنا چاہتے ہو بلکہ اس لئے کروکہ تا اﷲتعالیٰ اپنے فضل کا اگلا دروازہ تمہارے لئے کھول دے، تم دعائیں کرو مگر اس لئے نہیں کہ خدا تمہیں تباہ کرنے کے لئے اُٹھا ہے بلکہ اس لئے کہ وہ تم پر رحم کرنے کے لئے اُٹھا ہے،تم دعائیں کرو کہ تم اس کے رحم سے زیادہ سے زیادہ حصہ لو۔پس صداقت کو سامنے رکھتے ہوئے کام کرو موجود ہ مشکلات سے گھبرانے کی تمہیں کوئی ضرورت نہیں ہے۔اس سے بہت زیادہ مشکلات ہیں جن پر تم نے غالب آنا ہے ۔تم آج اپنے جوشوں کو بھی ٹھنڈا رکھواور خدا پر بھی امید رکھو کہ خدا پر بد ظنی کرنے والا خود ہلاک ہوتا ہے۔پھر اپنی تدبیروں سے بھی پیچھے مت ہٹو اور تقدیر پر بھی بھروسہ رکھومگر تدبیر سے کام لینے کے یہ معنی نہیں کہ تم صبح تدبیر سے کام لو اور شام کو اﷲ تعالیٰ کی تقدیر دیکھنا چاہو ۔جو شخص اپنی بیوی کے پاس جاتا ہے اسے بھی اولاد کے لئے نو(9) مہینہ انتظار کرنا پڑتا ہے ہاں جتنی زیادہ تدبیریں کرو گے اتنی ہی زیادہ تقدیریں ظاہر ہوں گی۔محمد ﷺ کو بھی تدبیریںکرنی پڑتی تھیں اور ابو جہل بھی تدبیریں کرتا تھا مگر محمد ﷺ کی تدبیروں کی تقدیر مدد کرتی اور ابو جہل کی تدبیروں کی تقدیر مدد نہ کرتی۔پس تدبیریں کئے جاؤ اور یہ مت دیکھو کہ کب نتیجہ نکلتا ہے۔ ممکن ہے ہماری تدبیریں تین سال کے بعد نتیجہ خیز ہوں،ممکن ہے چھ سال کے بعدہوں اور ممکن ہے بارہ سال کے بعد ہوں ہاں جو نتیجہ نکلنا ہے وہ ہمیں معلوم ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم حق پر ہیں اور بہر حال ہم دنیا پر غالب آ کر رہیں گے ۔ہمارے دل جانتے ہیں کہ ہم میں خدا کی محبت ہے ہمارے دل جانتے ہیں کہ ہمارے اندر انبیاء کی محبت ہے ،ہمارے دل جانتے ہیں کہ ہم میں رسول کریم ﷺ کی محبت ہے،ہمارے دل جانتے ہیں کہ ہم میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت ہے اور ہمارے دل جانتے ہیں کہ ہم فتنہ و فساد نہیں چاہتے بلکہ لوگوں کے ساتھ احسان کرنا چاہتے ہیں پس ہم کس طرح مان لیں کہ ایسے بندوں کو خدا تعالیٰ برباد کرنے کے لئے تیار ہے ۔جب ہم جانتے ہیں کہ ہمارے دلوں میں خدا کی محبت ہے ،جب ہم جانتے ہیں کہ ہمارے دلوں میں اس کے رسولوں کی محبت ہے جب ہم جانتے ہیں کہ ہمارے دلوں میں اس کے مسیح موعود کی محبت ہے جب ہم جانتے ہیں کہ ہمارے دلوں میں تمام نوع انسان کی محبت ہے اور ہم حکومت اور رعایا سب کی خیر خواہی چاہتے ہیں ،تو بے شک دنیا جو ہمارے حالات سے ناواقف ہے ہم سے دشمنی کر سکتی ہے مگر خدا ہمارا دشمن نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ عَالِمُ الْغَیْب ہے۔ بالکل ممکن ہے حکومت ہماری دشمن ہو جائے ،ممکن ہے رعایا ہماری دشمن ہو جائے ،ممکن ہے چھوٹے بڑے سب ہمارے دشمن ہو جائیں مگر یہ ممکن نہیں کہ خدا ہماری جماعت کا دشمن ہو ۔مجھے اگر لوگ آ کر یہ کہیں کہ ہندوستان کے تمام افراد آپ کومارنا چاہتے ہیں تو ممکن ہے مَیں اِس بات کو مان لوں لیکن اگر کوئی آ کر یہ کہے کہ خدا ہمیں مٹانا چاہتا ہے تو مَیں اِس بات کو کبھی ماننے کے لئے تیار نہیں ۔میں اپنے نفس کو جانتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ سب سے زیادہ محبت اگر مجھے ہے تو خدا تعالیٰ سے ہے بلکہ بعض دفعہ مجھے رشک آ جاتا ہے اور میں کہتا ہوں کہ کیا نبیوں کے دل میں مجھ سے زیادہ خدا تعالیٰ کی محبت ہوتی ہے؟پس میں اپنے دل کو جانتا ہوں اور میرا ربّ میرے دل کو جانتا ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ جماعت کے لوگوں کے دلوں کی بھی یہی کیفیات ہیں ۔گو بعض ان میں سے کمزور بھی ہوں مگر غالب اکثریت ایسی ہے جو خدا اور اُس کے رسول کی محبت میں سرشار ہے پھر میں کس طرح مان لوں کہ یہ سزا ہے جو ہمیں مل رہی ہے ہاں خدا پر توکّل رکھو ، یقین رکھو اور اُس سے دعائیں کرو کہ وہ کامیابی کی گھڑی جلد تمہارے سامنے لائے ۔اگر تم میرے اِس وعظ کے نتیجہ میں اپنی اصلاح سے غافل ہو گئے تو یہ ایک بُرا نتیجہ ہو گاجس سے تمہیں بچنا چاہئے۔میں نے تمہیں خدا تعالیٰ کی برکت کی خبر دی ہے اور جب خدا تعالیٰ کی برکت کی خبر سنائی جائے تو انسان کو پہلے سے بہت زیادہ چُستی کے ساتھ نیکیوں پر عمل پَیرا ہونا چاہئے۔حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے ایک دفعہ رسول کریم ﷺ سے عرض کیا کہ یَا رَسُوْلَ اﷲِ! جب خدا تعالیٰ نے آپ کی اگلی پچھلی کمزوریاں معاف کر دیں تو آپ اتنی عبادت کیوں کرتے ہیں کہ آپ کے پاؤں سوج جاتے ہیں ؟رسول کریم ﷺ نے فرمایا اے عائشہ! کیا اﷲ تعالیٰ کے اس عظیم الشان احسان کے بدلہ میں مَیں اب شکر نہ کروں۔۱۱؎ پس تمہیں بھی اِس خطبہ کے نتیجہ میں اپنی اصلاح سے غافل نہیں ہو جانا چاہئے بلکہ آگے سے زیادہ ہوشیار ہو جانا چاہئے اور اﷲ تعالیٰ کے احسانات کے شُکر کے طور پرتمہیں یہ کہتے ہوئے اپنے ربّ کے سامنے جُھک جانا چاہئے کہ اے ہمارے فضل کرنے والے ربّ! ہم تیری بڑائی بیان کرتے ہیں۔ (الفضل ۱۷ ؍فروری ۱۹۳۵)
۱؎ اسدالغابۃ جلد۲ صفحہ ۲۸۴ مطبوعہ بیروت ۱۲۸۵ھ۔
۲؎ النور:۵۶
۳؎ تاریخ طبری جلد۳ صفحہ ۱۶۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۷ئ۔
۴؎ الانفال:۳۴ ۵؎ البقرۃ:۲۱۵ ۶؎ المائدۃ:۲۵
۷؎ البقرۃ:۲۱۵
۸؎ ترمذی ابواب الرؤیا باب ذھبت النبوۃ وبقی المبشرات۔
۹؎ طٰہٰ:۱۱۵
۱۰؎ بخاری کتاب المغازی باب فَضْل مَنْ شھِد بَدْرًا۔
۱۱؎ بخاری کتاب التفسیر باب قولہ لِیَغْفِرَلَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ (الخ)





۷
دنیاکو اعلیٰ اخلاق کے ساتھ فتح کرو
(فرمودہ ۱۵؍ فروری ۱۹۳۵ئ)
تشہّد، تعوّذ، سورہ فاتحہ اور سورۃ جمعہ کے پہلے رکوع کی درجِ ذیل آیات تلاوت فرمائی یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰ تِ وَمَا فِی الْاَرْضِ الْمَلِکِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ ھُوَالَّذِیْ بَعَث فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیَاتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِہِمْ وَھُوَالْعَزِیْزُالْحَکِیْمُ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَائُ وَاللّٰہُ ذُوْالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوا التَّوْرٰۃَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْھَا کَمَثَلِ الْحِمَارِیَحْمِلُ اَسْفَارًابِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ قُلْ یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ ھَادُوْا اِنْ زَعَمْتُمْ اَنَّکُمْ اَوْلِیَائُ لِلّٰہِ مِنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُاالْمَوْتَ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ وَلَا یَتَمَنَّوْنَہ‘ اَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْھِمْ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ بِالظّٰلِمِیْنَ قُلْ اِنَّ الْمَوْتَ الَّذِیْ تَفِرُّوْنَ مِنْہُ فَاِنَّہ‘ مُلٰقِیْکُمْ ثُمَّ تُرَدُّوْ نَ اِلٰی عَالِمِ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِفَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ۱؎
اِس کے بعد فرمایا:۔
گلے کی تکلیف کی وجہ سے ایک عرصہ سے مردوں میں میرا درس قرآن بند ہے لیکن اس لئے کہ قرآن کی برکات کے بیان کرنے سے زبان کُلّی طور پر محروم نہ رہے مَیں عورتوں میں ہفتہ میں ایک دن درس دیتاہوں ۔دل میں ہمیشہ یہ خواہش رہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر گلے کی تکلیف دُور کر دے تو مردوں میں بھی درس دیا جا سکے اور عورتوں میں ہفتہ بھر جاری رکھا جا سکے لیکن ابھی اس کا وقت نہیں آیا ۔
اِس ہفتہ عورتوں میں جو درس تھا وہ سورہ جمعہ کے اس رکوع کا تھا جو میںنے ابھی پڑھا ہے۔ جب میں نے درس شروع کیا تو معلوم ہؤا کہ الٰہی تصرف میرے قلب پر اور میری زبان پر ہے اور الٰہی منشاء کے ما تحت بعض ایسی باتیں میری زبان پر جاری ہو رہی ہیں جو پہلے کبھی میرے ذہن میں نہیں آئیں اور چونکہ مَیں نے دیکھا کہ گو ہم پہلے ہی اِس رکوع کو سمجھتے ہیں کہ یہ اِس زمانہ کے متعلق ہے اور اِس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کی جماعت کے متعلق پیشگوئی ہے مگر درس کے وقت اِس کے مضامین زیادہ وضاحت کے ساتھ میرے ذہن میں آنے لگے اور مجھے معلوم ہو ا کہ خصوصًا ان ایام کے ساتھ اِس رکوع کا زیادہ تعلق ہے ۔تب مَیں نے ارادہ کیا کہ اس کے متعلق مردوں میں بھی تقریر کروں اور چونکہ ان ایام میں جمعہ میں ہی اس کا موقع مل سکتا ہے اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ خطبہ میں اس رکوع کے متعلق بعض باتیں بیان کروں جو تفسیر سے تعلق رکھتی ہیں ۔الٰہی تصرف جس وقت ہو تاہے اس کی نقل تو دوسرے وقت نہیں کی جا سکتی لیکن جو مضمون یادرہے اسے اپنے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے ۔پس میں اس کے وہ مضامین جو نہایت اہم اور اس قابل ہیں کہ جماعت کو ان سے آگاہ کیا جائے اِس وقت بیان کرتا ہوں ۔
سب سے پہلے میں اس امر کی تشریح ضروری سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح سے اس جگہ کیا مراد ہے ۔اللہ تعالیٰ اس سورۃ کی پہلی آیت میں فرماتا ہے یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰ تِ وَمَا فِی الْاَرْضِ الْمَلِکِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ یعنی زمین وآسمان کی ہر چیز تسبیح کرتی ہے اللہ تعالیٰ کی جو بادشاہ ہے، جو قدوس ہے ،جو عزیز ہے اور جو حکیم ہے ۔یہ چار صفات اللہ تعالیٰ کی بیان کی گئی ہیں جن کی تسبیح کو بندوں کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ملکیت کی پاکیزگی اور صفائی کس طرح ہے؟ ّمَلِکْ کے معنی بادشاہ کے ہوتے ہیں اور بادشاہ کا کام ہو تا ہے ظالم ومظلوم میں انصا ف کر نا اوراختلافات کو دور کرنا۔ بادشاہ دراصل تمدنِ انسانی کا ایک نتیجہ ہے ،لوگ اکٹھے رہتے ہیں تو ان کے حقوق کے بارے میں جھگڑے بھی ہوتے ہیں ،زید، بکر اور خالد اگر الگ الگ رہیں تو ان تینوں میں کوئی جھگڑا نہیں ہو گا لیکن ان کو ایک جگہ بسا دو تو آپس میں اختلاف شروع ہو جائیں گے ۔ جُوں جُوں ضرورتیں بڑھتی جائیں گی اختلافات بھی بڑھتے جائیں گے ۔ایک گائوں میں جہاں ایک ہزارایکٹر زمین ایک ہی جیسی قابلِ زراعت ہو اور اس میں پانچ چھ گھرآباد ہوں تو وہاں لوگ بہت کم لڑیں گے ۔ہر شخص زیادہ سے زیادہ دس بیس ایکٹر زمین کاشت کر سکتا ہے پس چونکہ ضرورت کے مطابق ہر ایک کو زمین مل سکے گی اس لئے کوئی جھگڑا ان میں نہیں ہو گا لیکن اگر کچھ حصہ زمین کا اچھا ہو اور کچھ خراب تو اچھی بُری زمین پر جھگڑا ممکن ہے یاپانی پر جھگڑا ہو جائے یا چراگاہ پر یا پھر گھروں میں لڑائیاں ہونی ممکن ہیں لیکن کافی زرخیز زمین کے موجودہونے کے چراگاہ پر جھگڑا نہیں ہو سکتا غرضیکہ جب فراغت سے چیز میسر ہو تو آپس میں لڑائی کم ہوتی ہے لیکن پانچ چھ گھرسے جب دس، بیس،تیس گھر ہوتے جائیںگے تو ان میں لڑائی کے سامان بھی زیادہ ہوتے جائیں گے پس بادشاہت تمدن کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور اس کی ضرورت ذَوِی العقول اور ذَوِی الحاجات موجودات کے اکٹھے رہنے سے پیدا ہوتی ہے ۔اگر ذَوِی العقول نہ ہوں یا میل جو ل نہ ہو تو بادشاہت کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا ۔بادشاہت کی ضرورت انہی وجوہات کے ماتحت ہوتی ہے اور سب حکومتیں اس ضرورت کے لئے قائم ہوتی ہیں خواہ بعد میں اسے پورا کریں یا نہ کریں ۔دنیا میں ہم دیکھتے ہیں بیسیوں حکومتیں قائم ہو نے کے بعد اس غرض کو پورا نہیں کرتیں جن کے لئے وہ قائم ہوتی ہیں بلکہ وہ یہ کرتی ہیں کہ زید کو یا بکر کو توڑ کر علیحدہ کردیتی ہیں اور پھر ایک کو ساتھ ملا کر دوسرے کے حقوق تلف کرنے لگ جاتی ہیں ۔بعض حکومتوں میں امراء کا زور ہو تا ہے اور وہاں غرباء کی بہت حق تلفی کی جاتی ہے ان سے مُفت کام لیا جاتاہے اور اگر کوئی اُجرت مانگے تو اُسے گالیاں دی جاتیں اور ٹھڈّے مارے جاتے ہیں۔
تاریخوں میں لکھا ہے کہ فرانس میں پُرانے زمانہ میں غرباء سے بہت سخت سلوک کیا جاتا تھا۔ بیچارے کسانوں کو گھروں سے زبردستی باہر نکال دیا جاتاکہ جاکر مینڈکوں کو چُپ کرائیں تا نوابوں کی نیند میں خلل نہ آئے ۔وہ بیچارے بیوی بچوں کو ساتھ لے کر باہر نکل جاتے ۔ذرا غور تو کرو ان غریبوں کی کیا حالت ہوتی ہو گی ؟بچوں کو گودیوں میں لے کر کناروں پر بیٹھے ہیں تا جب کوئی مینڈک آکر ٹرانے لگے جھٹ روڑا مارکر اُسے چُپ کرا دیں۔یہ بھی بادشاہت تھی ۔آج بھی کئی ایسی حکومتیں ہیں جہاں جابرانہ اور متشدد انہ کارروائیاں ہوتی ہیں ۔پُرانے زمانہ میں انگلستان میں بھی کئی ایسی کارروائیاں ہوتی تھیں۔حال ہی میں یورپ نے ایک شخص کو ولی اللہ قرار دیا ہے اورانگریزقوم اس پر خوشی کا اظہار کر رہی ہے اس شخص نے اس لئے بغاوت کی تھی کہ حکومت چاہتی تھی کہ ملک کو مذہب کی قیود سے آزاد کر دے اور اسی بغاوت میں اس نے جان دے دی آج بھی جہاں ابھی منظم حکومتیں قائم نہیں ایسی باتیں ہوتی ہیں ۔چین میں کئی ایسے علاقے ہیں جہاں ایسی باتیں ہو تی ہیں،مہذّب ممالک میں بھی بعض قسم کے مظالم جاری ہیں ،یورپ میں سوشلسٹ امراء کو اتنا غلبہ دیتے ہیں کہ غرباء ترقی نہیں کرسکتے پھر مذہبی لحاظ سے بھی ایسی زبردستیاں حکومتوں کی طرف سے کی جاتی ہیں ۔
افغانستان میں ہمارے چار آدمی محض احمدی ہونے کی وجہ سے سنگسار کر دیئے گئے۔ان کا قصور صرف اتنا تھا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی آواز کو سنا اور اس زمانہ کے مأمور کو قبول کر لیا ۔ان کی شہادت کے واقعات کا بعض یوروپین مصنفوں نے ذکر کیا ہے اٹلی کے ایک انجینئر نے اپنی تصنیف Under The Absolute Amirمیں لکھا ہے کہ صاحبزادہ عبدالطیف کا کوئی جُرم نہ تھا اور امیر ان کے خلاف سوائے اس کے کچھ نہ کہہ سکتا تھا کہ اس نے جہاد کا انکار کیا ہے ۲؎ جس سے میری طاقت کمزور ہوتی ہے اگر مسلمانوں میں سے جہاد کی روح نکل جائے تو میری طاقت ٹُوٹ جائے گی اور اسی وجہ سے آپ کو سنگسار کرادیاگیا ۔تو دنیا کی حکومتیں باوجودمَلِک ہونے کی مدعی ہونے کے مذہبی طور پر بھی، سیاسی اور تمدنی طور پر بھی سختیاں کرتی ہیں ۔بعض لوگ اس قانون کو جو حکومت ہند نے ایک خاص عمر سے پہلے لڑکے لڑکیوں کی شادی نہ کرنے کے متعلق پاس کیا ہے مذہبی سختی قرار دیتے ہیں ۔ٹرکی میں سب کو انگریزی ٹوپی پہننے پر مجبورکیا جاتا ہے جو تمدنی سختی ہے کانگرس والے ہر اُس شخص کے مخالف ہیں جو کھدّر نہ پہنے یہ بھی تمدنی تصرف کی ایک مثال ہے جو ایک طبقہ دوسرے پر کرتا ہے پھر کئی تعلیمی جبر ہوتے ہیں دو مختلف اللّسان اقوام ایک ملک میں بستی ہیں اور حکومت چاہتی ہے کہ ایک زبان کو مٹا دے اور دوسری کو پھیلائے اور وہ قانون سے مدد لے کر ایسا کر لیتی ہے۔ہندوستان میں ہندی کو رواج دینے اور اردو کو مٹانے کی کوششیں ہو رہی ہیں ،مشرقی یورپ میں کئی حکومتیں دوسری زبانوں کو مٹانے میں لگی ہیں ،یہ ملکیت کا علمی لحاظ سے ناجائز استعمال ہے غرضیکہ دنیوی ملکیت کئی قسم کے اعتراضات کے نیچے آتی ہے ۔کبھی اس پرتمدنی،کبھی علمی، کبھی سیاسی اور کبھی مذہبی نقطہ نگاہ سے اعتراض کئے جاتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰ تِ وَمَا فِی الْاَرْضِ الْمَلِکِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ یعنی اللہ تعالیٰ کی بادشاہت کودیکھو صاف نظرآتا ہے کہ اس کی بادشاہت پر کوئی اعتراض نہیں پڑ سکتا ۔خدا کی حکومت کو دیکھو ،ابو جہل پر اللہ تعالیٰ ناراض ہو تا ہے مگر اس کا سورج برابر اسے روشنی پہنچاتا ہے، اللہ تعالیٰ کی ہوائیں بدستور اسے فائدہ پہنچاتی ہیں ،گوشت اور ترکاریاں اُسے اسی طرح طاقت پہنچاتی ہیں جس طرح دوسروں کو۔ وہ خدا کے دین کو زبان سے گالیاں دیتا ہے مگر پھر بھی اس کی زبان ہر چیز کا ذائقہ محسوس کرتی ہے ،اس کے کان محمد رسول اﷲ ﷺ ،خدا کے نائب اور وائسرائے کی چُغلیاں سنتے رہتے ہیں مگر پھر بھی سماعت کی قوت سے محروم نہیں ہوتے اور وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے محروم نہیں کیا جاتا یہ اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے ۔ابوجہل کو اُس کے گناہوں کی جو سزاپہنچتی ہے وہ اسی دائر ے کے اندر پہنچتی ہے جس میں وہ اسے مجرم قرار دے لیتا ہے ۔چور چوری کرتا ہے اور کسی کا حلوا چُرا لیتا ہے خدا تعالیٰ اسے چور قرار دیتا ہے مگر یہ نہیںکرتا کہ وہ حلوا اس کی زبان کو کڑوا لگے بلکہ ممکن ہے کہ وہ اسے زیادہ لذیذ معلوم ہو کیونکہ اُس نے اپنے آپ کو خطرات میں ڈال کر اسے حاصل کیا تھا پھر ممکن ہے وہ چور کے اعصاب کو مالک کی نسبت زیادہ قوت پہنچائے بوجہ اس کے کہ اس کا معدہ زیادہ اچھا ہو پس اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں سزاکا ایک طریق ہے اور وہ اس سے باہر نہیں جاتا ۔وہ یہ نہیں کرتا کہ چونکہ اس نے جُرم کیا ہے اس لئے ہم اسے ہر طرف سے پکڑیں گے۔ پھر دنیا کی حکومتیں ہر جُرم پر پکڑ تی ہیں مگر اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرتا بلکہ وہ انتظار کرتا ہے تابندہ کو اصلاح کا موقع ملے لیکن جب دیکھتا ہے کہ اب یہ شخص بند نہیں ہوتا تو پھر گرفت کرتا ہے لیکن اس کی سزائیں محدود ہوتی ہیں ۔دُنیاوی حکومتیںچاہے کتنا اعلیٰ انصاف کرنے والی ہوں پھر بھی ان میں اور الٰہی حکومت میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔الٰہی حکومت دیکھو کتنی ہلکی حکومت ہے کہ اس کا پتہ بھی نہیں لگتا اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے کہ ایک شخص دوسرے سے کہتا ہے میں تمہیںتباہ کر دوں گا، میں یہ کردوں گا وہ کردوں گا اور اس طرح گویا وہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ خود خدا ہو گیا ہے ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے پاس جاتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ پر ایمان لائے اور وہ کہتا ہے میں خود خدا ہوں مگر پھر بھی اس کی زبان کڑوا میٹھا چکھتی ہے، کان سُنتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ سب چیزیں اُسے فائدہ پہنچاتی ہیں ۔ غور کرو اللہ تعالیٰ کی حکومت کیسی ہلکی ہے۔فرعون روز دیکھتا ہے کہ اس کا سونا، کھانا، پِینا ،موت ،حیات، بچوںکی پیدائش، بارشیں لانا اور لے جانا، ہوائوں کا چلانا اور روکنا، مختلف امراض کا پیدا ہونا سب باتیں اس کے اختیار سے باہر ہیں مگر پھر بھی اسے محسوس نہیں ہوتا وہ عَلَی الْاِعْلَان کہتاہے کہ میں ہی خدا ہوں اور کون ہے؟ مگر سورج اسے روشنی پہنچانا بند نہیں کرتا اور اپنی جسمانی طاقتوں سے وہ محروم نہیں ہو جاتا تو خدا کی حکومت اتنی ہلکی ہے کہ اس کا پتہ لگانا بھی مشکل ہوتا ہے اور اسی بات کو اس آیت میں بیان فرمایا ہییُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰ تِ وَمَا فِی الْاَرْضِ الْمَلِکِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ۔
خدا کی بادشاہت کا مظہر قرآن کریم ہے اوردیکھو کونسی قوم ہے جس کے حق قرآن کریم میں مارے گئے ہیں ۔ہر ملک، ہر قوم اور ہر طبقہ کے لوگوں کے حقوق کا اس میں لحاظ رکھاگیا ہے ۔وہ خود بادشاہ ہے مگر کہتا ہے کہ اپنے بادشاہوں کی اطاعت کرو ،خود بادشاہ ہے مگر کہتاہے کہ رعایا کو دُکھ اور تکلیف مت دو، وہ سب دولتوں کا مالک ہے مگر حکم دیتا ہے کہ امراء غریبوں پر ظلم نہ کریں اور غریبوں کو ہدایت کرتا ہے کہ امیروں سے معاملات درست رکھو۔غرض بادشاہ ہو یا رعایا، بڑا ہویا چھوٹا، عورت ہو یا مرد، سب کے حقوق کی حفاظت قرآن کریم نے کی ہے اور دیکھ لو سب قومیں ہر طرف سے دھکّے کھا کھا کر آخر اسلام کے آستانہ پر آرہی ہیں ۔اسلام میں طلاق کی اجازت ہے پہلے اس پر بہت اعتراض کئے جاتے تھے اور اسے ظلم قرار دیا جاتا تھا مگر اب یہ حال ہے کہ امریکہ کی ایک عورت فوت ہوئی تو ٹائمز نے لکھا کہ اس کے ۱۷ شوہر تھے جن میں سے گیارہ اس کے جنازے میں شریک تھے ۔ایک سے اُس نے اِس وجہ سے طلاق حاصل کی کہ اُس نے ایک ناول لکھا ہے جسے خاوند چھاپنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ایک سے اس بناء پر کہ میں سات بجے سے اس کا انتظار شروع کرتی ہوں لیکن یہ آٹھ بجے آتا ہے۔ یا تو وہ حالت تھی کہ مرد عورت کی علیحدگی کسی صورت میں جائز نہ سمجھی جاتی تھی اوراسے ایک بہت بڑا ظلم کہا جاتا تھا یا آج یہ حالت ہے ۔اگر چہ اسلام میں طلاق جائز ہے لیکن مَیں نے اِس زمانہ میں کبھی نہیں سنا کہ کسی مسلمان عورت کے چار سے زائد خاوند ہوئے ہوں۔جنگی زمانوں میں جب لوگ جان ہتھیلی پر لئے پھرتے تھے بے شک ایسا ہو نا ممکن ہو گا۔ پھر ٹائمز نے جو خبر شائع کی ہے اس کا کیاثبوت ہے کہ یہی ریکارڈ ہے ممکن ہے کہ کوئی ۲۷ یا ۳۷ خاوند والی عورت بھی ہو جس کا اُسے علم نہ ہو سکا ہو اسی طرح اور بہت سی تمدنی چیزیں ہیں جن میں دنیا مجبور ہو کر اسلام کی طرف آرہی ہے ۔اسلام نے جوئے سے منع کیا ہے کہا جاتا تھاکہ اس کے بغیر زندگی نہیں مگر اب یہ سوال پیدا ہو رہے ہیں کہ فلاں قسم کا جؤاجائز ہے یا کہ نہیں؟ ایک سے زیادہ بیویوں کا سوال تھا مگر اب یورپ کے تمام بڑے بڑے مصنّفین دھڑلے سے لکھ رہے ہیں کہ ایک سے زیادہ شادیاں نہ کرنا بیوقوفی ہے ۔پھر سود کی اسلام نے ممانعت کی ہے اس کی بھی مخالفت کی جاتی تھی مگر آج سود کی تباہ کاریوں کا سب کو اعتراف ہے غرضیکہ اسلام کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں جس کی متمد ن دنیانے مخالفت نہ کی ہو اور پھر دھکّے کھا کر اِسی کی طرف نہ آئی ہو۔ یہی مطلب ہے یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰ تِ وَمَا فِی الْاَرْضِکا ،خدا کی بادشاہت کی زمین وآسمان میں تعریف ہو رہی ہے ۔جس طرح خدا کی بادشاہت بغیر عیب کے ہے اور کوئی نہیں لیکن اس بے عیب بادشاہت کے باوجود اُس نے یہ نہیں کہا کہ تم اپنے میں سے اور بادشاہ نہ بنائو بلکہ یہ حکم دیا ہے کہ اُولِی الاَْمْرکی اطاعت کرو جس کا مطلب یہ ہؤا کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ جس طرح کا میں ملک ہوں ویسے ہی دوسرے بننے کی کوشش کریں ۔ہماری جماعت میں ملکیت نہیں کہ اسکی مثال پیش کی جا سکے ابھی ہم ہر ملک میں رعایا ہی ہیں کسی جگہ ہماری کوئی ریاست بھی نہیں مگر رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ ۳؎ یعنی تم میں سے ہر شخص بادشاہ ہے اور اسکی رعیت کے متعلق اس سے سوال کیا جائے گا اور جب آپ نے فرمایا ہے کہ ہر شخص بادشاہ ہے تو معلوم ہؤا کہ رعایا ہوتے ہوئے بھی انسان ایک رنگ میں بادشاہ ہو سکتاہے ۔گھروں میں خاوند یا باپ کو جو حکومت حاصل ہے اسے ناجائز نہ محسوس ہونے دے ۔باپ حکومت کرتا ہے مگر بچوں کو محسوس بھی نہیںہوتا کہ ہم پر حکومت کی جارہی ہے تم لاکھوں د یہات میں پھر جائو اور بچوں سے دریافت کرو تمہارا باپ کیسا ہے؟ سب کہیں گے بڑا اچھا ۔ان سے پوچھو کیا وہ تم پر حکومت کرتا ہے ؟تو وہ شاید اس سوال پر حیران ہو کر تمہارامنہ دیکھیں گے ۔
اسی طرح خدا تعالیٰ کی حکومت بھی نظر نہیں آتی اور اللہ تعالیٰ چاہتاہے کہ یہی بات ہر شخص میں پیدا ہو ۔ہرشخض بادشاہ ہے جو اپنی رعیت کے متعلق جواب دِہ ہو گا اس سے پوچھاجائیگا کہ اس نے اپنی بیوی، بچوں، مزدوروں، کلرکوں اور ماتحتوں کے ساتھ کیا سلوک کیا پس ہمارے دوستوں کوچاہئے کہ دیکھیں وہ اپنے دائرہ حکومت میں ایسے کام کر رہے ہیں یا نہیں جن سے ان کی تسبیح ہو اگر وہ ایسا ہے تو وہ اس آیت کے مصداق ہو جاتے ہیں ۔(اِس موقع پر بارش شروع ہو گئی اور لوگوں میں حرکت ہونے لگی اِس پر حضور نے فرمایا ۔جب بھی بارش ہو تی ہے تو میں توجہ دلاتا ہوں کہ افسر مسجد کے برآمدہ کو وسیع کرنیکی کوشش کریں مگر وہ بُھول جاتے ہیں ۔خیر ان کے متعلق تو کئی شکوے میرے دل میں بھرے ہوئے ہیں اور میں کسی دن اِن کا اظہار کروں گا اس وقت میں قادیان کے محلوں والوں سے کہتا ہوں کہ وہی اپنے اپنے ہاں چندہ جمع کر کے یہ کام کرنے کی طرف متوجہ ہوں ۔یہ مت خیال کرو کہ ہم کو چندے زیادہ دینے پڑتے ہیں ۔دراصل مال کوئی چیزنہیں اصل چیز قربانی ہے ۔وہی مال کام آتا ہے جو خدا کی راہ میں خرچ ہو باقی جوہو وہ ضائع جاتا ہے )پس ہمیں دیکھنا چاہئے کہ ہم اپنے ماتحتوں سے کیا سلوک کرتے ہیں ۔کیا ہم اپنے ملازموں سے وہی سلوک کرتے ہیں جو خدا اپنے بندوں سے کرتا ہے ؟پچھلے سے پچھلے سال ایک افسر کے متعلق میرے پاس شکایت کی گئی تھی کہ وہ ماتحتوں کو ’’ تُو‘‘ کہہ کر مخاطب کرتا ہے حالانکہ وہ سلسلہ کا افسر تھا اور میں نے متواتر بتایا ہے کہ ہمارا معیار فضیلت اخلاق ہے۔یہ افسری ماتحتی تو صرف نظام کے لئے ہے تمدنی طورپر اس کا کوئی اثر نہیں۔ممکن ہے افسر اخلاق کے لحاظ سے ادنیٰ اور ماتحت اعلیٰ ہو ۔ اسی طرح ممکن ہے بادشاہ اس لحاظ سے رعایا کے بعض افراد سے ادنیٰ ہو انسانیت کے لحاظ سے چھوٹا بڑا کوئی نہیں ۔نیرو۴؎ بھی تو ایک بادشاہ تھا جس کے متعلق لکھا ہے کہ اس نے روم کو بالکل جلا کر راکھ کردیا تھا اور جب شہر جل رہا تھا تو وہ کھڑا بانسر ی سن رہا تھا اور اس پر خوشی کا اظہار کر رہا تھا ۔اگرچہ آجکل اس واقعہ کو صحیح نہیں سمجھاجاتا لیکن سات آٹھ صدیوں تک یہ بالکل درست سمجھا جاتا رہا ہے تو ایک طرف ایسے بادشاہ بھی ہوئے ہیں اور دوسری طرف ایسے غریب بھی جو اپنا سب کچھ قربان کرکے بھی دوسروں کو بچا لیں گے اور ایک قربانی کرنے والا غریب یقینا ظالم بادشاہ سے ہزار گُنا اعلیٰ ہے ۔میں حیران ہوں کہ اس افسرنے یہ کس طرح سمجھ لیا کہ ماتحت پر اُسے تمدنی طور پر بڑائی جتانے کا بھی حق حاصل ہے مجھے اس سے بہت افسوس ہؤا ۔ا س میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک میں چونکہ بہت جہالت ہے اس لئے بعض بچے اپنے والد کو بھی اُوئے باپو! کہہ کر مخاطب کرتے ہیں لیکن ہمیں اسلام کے اخلاق دکھانے چاہئیں کیونکہ ہم نے تمدنی طور پر دنیا میں مساوات قائم کرنی ہے ۔اگر ناظر کے لئے یہ جائز ہے کہ کلرک کو’’ تُو‘‘ کہے تو خلیفہ کے لئے ناظر کو ایسا کہنا درست ہو گا مگر کیا اسے پسند کیا جائے گا ؟
پس افسروں کو ماتحتوں کے ساتھ ایسا معاملہ کرنا چاہئے کہ جس سے ظاہر ہو کہ وہ انہیں ادنیٰ نہیں سمجھتے بلکہ برابر کا ہی سمجھتے ہیں ۔ہاں انتظام کے بارے میں ماتحت کا فرض ہے کہ افسرکی فرمانبرداری کرے ،اس کے احکام پر نکتہ چینی نہ کرے اور حُجّت نہ کرے کیونکہ یہ بھی بڑا نقص ہے اور مساوات کے اصول کے خلاف ہے ماتحت کا فرض ہے کہ اسے جو حکم دیا جائے اگر ضرورت ہو تو مؤدب طور پر اس کے متعلق اپنی رائے پیش کردے اور پھر اطاعت کرے۔ماتحتوں کیلئے ملکیت کے اعتراف کا طریق یہی ہے کہ افسروں کی اطاعت کریں ہا ںجو بات سچ ہو وہ کہہ دیں ۔جو سچی بات کو چُھپا ئے رکھتا ہے وہ نالائق ہو تا ہے ۔اسی طرح افسرسمجھیں کہ خدا تعالیٰ نے اگر ان کو حکومت دی ہے توا نہیں اللہ تعالیٰ کی ملکیت کا نمونہ دکھانا چاہئے ۔مزدورکو مزدوری وقت پر دینا بھی ضروری ہے یہ نہیں کہ بیچارے نے پیسے مانگے تو گالیاں دینے لگ گئے اور ٹُھڈّے مار کر نکال دیا ۔جوشخص ایسا کر تا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ملکیت کی نقل نہیں کرتا اور انعامات کے مستحق وہی لوگ ہو سکتے ہیںجو اس کی ملکیت کی نقل کرتے ہیں پس اگر کوئی رعایا میں سے ہے تو اسے چاہئے اپنے حاکموں کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرے جوخدا چاہتا ہے اور اگر قوت حاصل ہے، افسر ہے، ہیڈ ماسٹر ہے ،سپرنٹنڈنٹ ہے اور اس طرح بعض دوسرے لوگ ہیں جن کو اَوروں پر تصرف حاصل ہے تو اس تصرف کو اتنا پیارا اور میٹھا بنا دیں کہ دوسروں کوذرا بھی گِراں نہ گزرے ۔پھر یہ بھی نہیں چاہئے کہ آج ایک سے لڑائی ہوئی تو دوسرے دن اُس کے خلاف محض جھوٹی سازش شروع کر دی ۔اگر کسی سے لڑائی ہوئی ہے اور اسے معاف نہیں کر سکتے تو اختلاف کواُس کی حد کے اندر رکھو ۔یہی بات خدا کی بادشاہت میں ہمیں دکھائی دیتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ زمین وآسمان کی ہر چیز اُس کی تسبیح کر رہی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ تم میں سے جس کو جتنی بادشاہت دے اسے چاہئے کہ اس میں اس کی نقل کرے اگرہندوستان کا بادشاہ بنادیا جائے تو ہندو ،سکھ اور مسلمان میں کوئی تمیز نہ کرو ،غریب و امیرکا خیال نہ کرو ،ہندی کو اُڑا کر اردو زبردستی جاری کرنے کے منصوبے نہ کرو ،یا ایک تمدن کی جگہ دوسرا تمدن، ایک مذہب کی جگہ دوسرا مذہب جبراً قائم کرنے کا خیال بھی دل میں نہ لائو بلکہ جس طرح خدا تعالیٰ کر رہا ہے تم بھی اسی طرح کرو ۔پھر جو وزارت پر ہو اُسے چاہئے کہ اپنے دائرہ حکومت میں اللہ تعالیٰ کی جتنی نقل کر سکتا ہے کرے ۔اس سے نیچے اُتر کر سیکرٹری اور ڈائریکٹر اور دوسرے افسر سب جس قدر ممکن ہو اللہ تعالیٰ کی ملکیت کی نقل کریں ۔
دوسری صفت یہاں یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ قدوس ہے ۔دنیا اُسے پاک قرار دیتی ہے ۔ملکیت کی تسبیح اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ظاہرًا معاملہ صحیح ہو لیکن قدوسیت کا یہ مطلب ہے کہ دل میں بھی معاملہ صحیح ہو یعنی منافقت سے نہ ہو ۔دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص دوسرے کے پاس جاتا ہے اور وہ کہتا ہے آئیے تشریف رکھئے آپ کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی لیکن دل میں اس کے متعلق یہ ارادہ رکھتا ہے کہ موقع ملے تو اُسے تباہ کردوں یہ بات قدوسیت کے خلاف ہے۔قدوسیت یہ ہے کہ ظاہر وباطن دونوں میںپاکیزگی ہو اللہ تعالیٰ قدوس ہے وہ فریب ،منافقت، مدا ہنت اور ٹھگی نہیں کرتا ۔اللہ تعالیٰ جو کچھ چاہتا ہے وہ یہی ہے کہ لوگ گمراہی سے بچ جائیں یہ نہیں کہ بظاہر اچھا سلوک کرے لیکن دراصل سزا دینے کے لئے موقع کا منتظر رہے وہ جب سزا نہیں دیتا تو چاہتا بھی یہی ہے کہ نہ دے بلکہ جب دیتا ہے اُس وقت بھی چاہتا یہی ہے کہ نہ دے لیکن سزاپانے والا اپنے اعمال سے اُسے سزادینے پر مجبور کر دیتا ہے ۔پس دیکھو اللہ تعالیٰ کی قدوسیت کس طرح ثابت ہو رہی ہے وہ لوگوں کے فائدہ کے لئے اور ان کو تباہی سے بچانے کیلئے نبی بھیجتا ہے بلکہ دس سال بیس سال بلکہ سَو دو سَو سال تک وہ یا ان کی جماعتیں ظلم سہتی ہیں ۔مخالف کودتے ناچتے اور ان کو طرح طرح سے تنگ کرتے اور سارا زور ان کو تباہ کرنے کے لئے صَرف کر دیتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ جس کا دین ہوتا ہے سب کچھ دیکھتا ہے میںیہ تو نہیں کہتا کہ مُسکراتا ہے لیکن کہاجا سکتا ہے کہ اس کے مشابہہ سلوک اس کی طرف سے ہوتا ہے ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں آئے ان پر اور ان کے پیروئوں پر بڑے بڑے ظلم ہوئے اور تین سَو سال تک ہوتے چلے گئے مگر اللہ تعالیٰ کی قدوسیت دیکھو کہ وہ یہی چاہتا رہا کہ اب بھی ان کے مخالفوں کی اصلاح ہو جائے، اب بھی ہو جائے جس دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر لٹکایا گیا ،کیا خدا تعالیٰ یہ نہیں کر سکتا تھا کہ اُسی دن سب یہودی ہلاک ہو جاتے اور روما کی حکومت تہہ وبالا ہو جاتی لیکن اُس نے ایسا نہیں کیا ۔رومی بھی ویسے ہی رہے ان کی حکومتیں بھی ویسی ہی رہیں اور یہودی بھی ویسے ہی رہے ،ان کے بینک، ان کی صرافیاں، ان کی تجارتیں سب کچھ ویسے کا ویسا ہی رہا اور انہیںمحسوس بھی نہ ہؤا کہ ہم نے کیا کیا ہے۔انہیں اتنا بھی احساس نہ ہؤا جِتنا ایک چیونٹی کو مارنے سے ہو سکتا ہے بلکہ یہودی خوش تھے کہ اپنے ایک دشمن کو مار دیا ہے ۔نہ ان کے بینک فیل ہوئے ،نہ تجارتیں اور نہ زراعتیں ہاں اس دن خدا تعالیٰ کا عرش ہی ہِلا اور اسے بے کلی ہوئی ،رنج پہنچا تو اللہ تعالیٰ کو، تکلیف ہوئی تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو، تکلیف دینے والوں کو کچھ بھی نہ ہو ا۔وہ اپنی جگہ پر کہتے تھے کہ ہم نے اپنی حکومت کا زور دکھا دیا اور کون ہے جو ہمارے مقابلہ پر کھڑا ہو سکے؟ جو مقابلہ کر سکتا تھا وہ دیکھتا تھا اور کہتا تھا کہ ہم مقابلہ تو کر سکتے ہیں مگر چاہتے ہیں کہ تمہاری اصلاح ہو جائے ،ہم چاہتے ہیں کہ اہلِ روم ہدایت پاجائیں ،ہم چاہتے ہیں کہ یہود ہلاکت سے بچ جائیں کیونکہ ہم ان کے دشمن نہیں ہیں یہ اس کی قدوسیت کی علامت تھی جو دکھا وے اور بناوٹ کا شائبہ نہیں رکھتی ۔تکلّف والا ایک حد تک چلتا ہے اور پھر رہ جاتا ہے۔ ایک لطیفہ مشہور ہے کہ ایک لکھنؤ کے سید صاحب اور دلی کے مرزا صاحب سٹیشن پر اکٹھے گاڑی میں سوار ہونے کیلئے کھڑے تھے اوردونوں کا خیال تھا کہ اپنے آپ کو دوسرے سے زیادہ مہذّب ظاہر کرے ۔جب گاڑی آئی تو سید صاحب کہنے لگے مرزا صاحب تشریف رکھئے ۔اور مرزا صاحب کہہ رہے تھے سید صاحب آپ پہلے سوار ہوجئے۔لوگ تماشا دیکھ رہے تھے ۔اتنے میں گاڑی نے وسل کیا تو دونوں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے اورسوار ہونے کے لئے ایک دوسرے کو کُہنیاں مارنے لگے۔ تو جب موقع آئے تصنّع اور بناوٹ کے اخلاق بھول جاتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کو غضب دلانے والا موقع اِس سے زیادہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ اُس کے ایک نبی کو لوگوں نے سُولی پر لٹکا دیا ۔ہم مسیحیوں کے اِس مشرکانہ عقیدہ کے تو دشمن ہیں کہ مسیح خدا کے بیٹے تھے مگر ہم انہیں عظیم الشان نبی سمجھتے ہیں اور یہود نے اِس عظیم الشان نبی کو سُولی پر لٹکا دیا مگر کیا ہؤا کیا خدا نے سُولی پر لٹکانے والی حکومت کو تباہ کر دیا یا سُولی پرلٹکوانے کی موجب یہودی قوم کو ہلا ک کردیا؟ نہیں ۔بلکہ خدا تعالیٰ نے کہا تم نے یہ بہت گندی حرکت کی ہے مگر ہم اب بھی تمہیں مُہلت دیتے ہیں کہ توبہ کرلو ممکن ہے ان میں سے بعض کو انفرادی طور پر سزا بھی دے دی ہو۔ کسی کو کیا معلوم ہے کہ وہ یہودی مولوی جس نے یہ فتویٰ دیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب دیا جائے کس طرح ہلاک ہؤ اہو گا یا وہ سرکاری حُکّام جن کا اس میں دخل تھا کس طرح تباہ ہوئے؟ یہ اتنی غیر معروف ہستیاں ہیں کہ تاریخ میں ان کے حالات محفوظ نہیں مگر اس قدر عظیم الشان واقعہ پر اللہ تعالیٰ نے رومیوں اور یہود کے ساتھ بہ حیثیت قوم جس رحم اور عفو کا معاملہ کیا وہ ظاہر کرتا ہے کہ اس کا رحم تسبیح کے لائق ہے۔غرض رحم خدا تعالیٰ کی ذاتی صفت ہے نہ کہ تکلّف سے ظاہر ہو نے والی خوبی ۔پھر فرمایا الْعَزِیْزُالْحَکِیْمُ وہ غالب ہے۔ عزیزیت نیچر پر تصرف کو ظاہر کرتی ہے۔ عزیزیت وہ تصرف ہے جو جانوروں ،دریائوں، پہاڑوں اوردیگر اشیاء پرہے ۔اس کی عزیزیت کے متعلق بھی دیکھو دنیا میں کتنی تسبیح ہو رہی ہے جس طرح قدوسیت میں بتایا ہے کہ تم اپنے اندرذاتی رأفت اور ہمدردی پیدا کرو عزیزیت میں یہ بتایا ہے کہ تمہارا غلبہ بھی ایسا ہو جیسا خدا کا ہے ۔اللہ تعالیٰ کا غلبہ جاری ہے مگر اس میں رأفت اور شفقت ہے کوئی چیز تم نہیں دیکھو گے جس میں کسی قسم کی نافرمانی یا بغاوت یا عہد شکنی نظر آتی ہو ۔سورج چاند رات دن اپنے کام پر لگے ہوئے ہیں ۔سنکھیا کو جو حکم دیا گیا ہے وہ اس کا ہمیشہ کیلئے تابع ہے ،افیون کو حکم ہے کہ قبض کرے اور بے ہوش کر دے سو اس کی یہ خاصیتیں برابر جاری ہیں ،آگ ہمیشہ جلا رہی ہے تو عزیزیت استقلال اور دوام پر دلالت کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم بھی اپنے کاموں میں مستقل رہو۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ کبھی نہیں ہؤا کہ آج ایک شخص سنکھیا کھائے اور مر جائے لیکن کل ایک دوسرا شخص اسی طریق اور اسی مقدار میں کھائے تو اسکی صحت اچھی ہو جائے ۔لوہے کی جو خاصیت آج ہے وہی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی یہ نہیں کہ آج لوہے کا جوچاقو بنایا جائے وہ چِیرنے پھاڑنے کا کام دے لیکن دوسرے دن جو چاقو بنایا جائے اس میں کاٹنے کی صفت نہ پائی جائے پس اللہ تعالیٰ کی عزیزیت کو دیکھو وہ ایک منصفانہ قانون بناتا ہے اور پھر اسے جاری رکھتا ہے اور اس سے بندے کو یہ سکھاتا ہے کہ تم بھی سوچ سمجھ کر ایک بات اختیار کرو اور پھر اس پر قائم رہو ۔یہ کیا کہ آج ایک شخص کہتا ہے میری جان ومال حاضر ہے لیکن کل کہہ دیتا ہے کہ میرے رستہ میں فلاں فلاں روکاوٹیں ہیں ۔اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے قانون میں بھی مستثنیات ہیں لیکن وہ خود ایک دوسرے قانون کے ماتحت ظاہر ہو تے ہیں اور ان سے دنیا میں عظیم الشان تغیر اور انقلاب پیدا ہو تے ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ منصفانہ قانون بناتا ہے اور پھر اسے قائم رکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ بندے بھی جو بات کہیں سوچ سمجھ کر کہیں اور پھر اس پر قائم رہیں۔ اگر تم سمجھتے ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سچے ہیں اور تم نے ان کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا رستہ پا لیا ہے تو حکومتیں بدل جائیں، زمین آسمان ہِل جائیں مگر تمہارے ایمان میں بال بھر بھی لغزش نہ آئے حتّٰی کہ موت آجائے تو یہ عزیزیت ہے اور جو شخص اپنے اندر یہ بات پیدا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کی عزیزیت کا مظہر نہیں ہو سکتا۔ دیکھو اچھا شوفر (CHAUFEUR)وہی سمجھا جاتا ہے جوموٹر کو رستہ سے اِدھر اُدھر نہیں ہو نے دیتا، سوار وہی اچھا ہو تا ہے جو گھوڑے کو سیدھا چلاتا ہے وہ ڈرائیور جس کی گاڑی کبھی اِدھر ہو جائے کبھی اُدھر، نالائق سمجھا جاتا ہے حقیقی سائیکلسٹ، حقیقی سوار، حقیقی ڈرائیور اور حقیقی شوفر وہی ہے جوجس طرف کا عزم کر لیتا ہے اس طرف اپنی سواری کو سیدھالے جاتا ہے۔
شوکت تھانوی صاحب نے سودیشی ریل پر ایک مزاحیہ مضمون لکھا تھا ہمارے ملک کے مزاحیہ نویسوں میں ایک نقص ہے کہ وہ عام طور پر پھکڑ ہوتے ہیں مگر شوکت صاحب کے مضامین عام طور پر اس نقص سے پاک ہوتے ہیں ۔میں نے ان کے ایک مضمون میں صرف یہ رنگ پایا ہے اگر کسی اور میں ہو تو میرے علم میں نہیں بہر حال انہوں نے سودیشی ریل کا نقشہ کھینچا ہے ۔وہ لکھتے ہیں کہ گویا عالَمِ خیال میں ہندوستانیوں کی حکومت ہو گئی اوراِس کا نقشہ یوں کھنچتے ہیں کہ سٹیشن کا عملہ گاڑی کا وقت نہیں بتاتا بلکہ یہ کہتا ہے کہ جب سواریاں پوری ہو نگی ٹرین چلے گی اور ریل کے جانے کی جِہت بھی متعیّن نہیں کرتا بلکہ یہ کہتا ہے کہ جِدھر کی سواریاں زیادہ ہونگی اُدھر ٹرین جائے گی ۔اسی طرح جب گاڑی چلنے لگتی ہے تو معلوم ہو تا ہے کوئلہ نہیں اور اس وقت کوئلہ منگوایا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔غرض انہوں نے ایسا لطیف نقشہ کھینچا کہ ہندوستانی کریکٹر کو ننگا کر کے رکھ دیا ہے یہ ہندوستانی کریکٹرعزیزیت کے خلاف ہے اور خدا کی جنت میں وہی داخل ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے مشابہ ہو جائے ۔عزیزیت کا یہ مفہوم ہے کہ سوچ سمجھ کر اِقدام کریں اور پھر خواہ جان جائے، آن جائے ،آبرو جائے ،مال جائے پیچھے نہ ہٹیں ،اگر ہٹنا ہے تو پہلے ہی آگے کیوں بڑھا جائے ۔بہت سے لوگ دنیا میں سودیشی ریل والا نظارہ دکھاتے ہیں کہ جِدھر کی سواریاں زیادہ ہوئیں اُدھر کا رخ کر لیا یعنی جدھر فائدہ نظر آیا اُدھر ہو گئے۔ بعض کہتے ہیں کہ ہم احمدی ہو جاتے ہیں ہماری شادی ہو جائے ،ہمیں کام مل جائے، ہمارے گزارے کی کوئی صورت پیدا کر دی جائے حالانکہ احمدیت کسی دکان کانام نہیں بلکہ یہ تو مذہب ہے ۔مذہب کے متعلق ایسی باتیں کرنا سودیشی ریل والا نظارہ پیش کرنا ہے ۔اس کے برعکس حقیقی ریل دیکھو جس نے دس بجے روانہ ہو نا ہوتا ہے کوئی سواری آئے یا نہ آئے وہ وقتِ مقررہ پر چل دے گی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مؤمن کو عزیز بننا چاہئے۔اگر وہ کسی عقیدہ کو قبول کرتا ہے تو اپنے آپ کو اُس کے لئے وقف کردے۔ دھوکا بازی نہ کرے جس نے راستہ میں رہ جانا ہو وہ پہلے ہی ساتھ کیوں چلے ۔
پھر فرمایا خداتعالیٰ حکمت والا ہے بعض لوگ ہوتے ہیں کہ انہیں جب کسی کام پر لگایا جائے وہ عقل سے کام نہیں لینا چاہتے اور یہ نہیں دیکھتے کہ خدا کا ایک نبی اُٹھتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ فلاں شخص یا قوم تباہ ہو جائے گی لیکن مقررہ وقت آجاتا ہے اور ان پر کوئی تباہی نہیں آتی اور پھر وہ اعلان کر دیتا ہے کہ ان لوگوں نے توبہ کر لی تھی اس لئے بچ گئے جس سے معلوم ہو ا کہ اللہ تعالیٰ بھی حکمت کے ماتحت رستہ بدلتا ہے لیکن اس کی مثال ایسی ہوتی ہے جیسے ایک انجینئر دیکھتا ہے کہ رستہ میں ایک بلند پہاڑی ہے جس کے اوپر سے سڑک یا پٹڑی گزارنے پر بہت خرچ آئے گا تو وہ اس کے اندر سُرنگ لگا کر رستہ بنا دیتا ہے وہ اپنے مقصد کو نہیں چھوڑ تا، ہاں رستہ بدل دیتا ہے اس لئے مؤمن کو بھی حکمت سے کام کرنا چاہئے۔استقلال کا یہ تقاضانہیں ہو نا چاہئے کہ جس بات پر آج عمل ہے حالات بدلنے کے بعد بھی اسے نہ چھوڑا جائے ۔ایک شخص آج ہمارا دشمن ہے اور کل وہ صلح کیلئے آتا ہے تو یہ نہیں کہنا چاہئے کہ ہم مستقل مزاج ہیں ہم اس سے صلح کیونکر کر سکتے ہیں ۔ایک شخص کی شادی ہو جاتی ہے شادی سے پہلے وہ دونوں ایک دوسرے سے پردہ کرتے تھے لیکن اگر اب بھی وہ کہیں کہ ہم مستقل مزاج ہیں، پردہ کیوں ترک کریں تو یہ حماقت ہو گی ۔یا طلاق کے بعد بھی کہا جائے کہ ہم اکٹھے رہیں گے کیونکہ ہم مستقل مزاج ہیں تو یہ بیہودگی ہو گی ۔حضرت خلیفہ اول سنایا کرتے تھے کہ ایک مولوی کی بیوی بہت تیزطبع تھی اس نے اُسے طلاق دے دی اور کہا گھر سے نکلو مگر عورت نے کہا میں تو تمہاری بیوی ہوں نکلوں کس طرح ۔اُس نے ہزار کوشش کی مگر وہ نہ نکلی آخر مولوی اسباب اُٹھا کر دوسرے مکان میں چلا گیا لیکن وہ بھی وہیں پہنچ گئی ۔آخر اُس نے شہر چھوڑ دیا اور لاہور یا کسی اور جگہ پہنچ کر مدرسہ جاری کر لیا۔ کئی سال وہ وہاں کام کرتا رہا لیکن ایک صبح لوگوں نے دیکھا وہ اسباب وغیرہ باندھ کر چلنے کی تیاری کر رہا ہے ۔لوگوں نے وجہ دریافت کی تو اُس نے کہاکہ رات کیا دیکھتا ہوں کہ میری سابقہ بیوی دیوار پھاند کر گھر میں داخل ہو رہی ہے رات تو جُوں تُوں کر کے گذاری اب اِس شہر کو بھی چھوڑنے کا ارادہ ہے کہ اس سے نجات پائوں۔ پس اِس قسم کی ضد حماقت کی علامت ہے یہ استقلال نہیں ،استقلال اصول کی پابندی کا نام ہے اور ضِد بے اصولے پن کی پابندی کا نام ہے ۔استقلال کا مطلب یہ ہے کہ اپنے مقصود اور عقیدے کو نہ چھوڑے یہ نہیں کہ دوست دشمن ہو جائے تو پھربھی اس سے دوست والا ہی سلوک روا رکھے اور دشمن دوست بن جائے تو پھر بھی اسے دشمن ہی سمجھے ۔استقلال سے کام کرتے ہوئے جو تغیرات ہو ں ان کے ماتحت حکمت سے کام لینا بھی ضروری ہے جس طرح سواریوں کی زیادتی پر شاہجہان پورکی گاڑی کو دہلی لے جانا بے اصولا پن ہے اسی طرح پٹڑی ٹوٹی ہوئی دیکھ کر ٹرین کو لئے جانا بھی وقت کی پابندی نہیں بلکہ حماقت کا کام کہلائے گا ۔دیکھو قرآن کریم میں لکھا ہے یہ کافر کبھی ایمان نہیں لائیں گے لیکن کچھ عرصہ بعد خالد مسلمان ہو جاتے ہیں اور تھوڑے دِنوں بعد رسول کریم ﷺ انہیں سَیْفٌ مِنْ سُیُوْفِ اللّٰہِ کا خطاب دے دیتے ہیں ۔۵؎ ابو سفیان منافقوں اورکافروں کا سردار تھا مگر کلمہ پڑھ لیتا ہے تو اس کی عزت کی جاتی ہے پس مؤمن کو حکمت سے کام لینا چاہئے ۔سؤرکی طرح بغیر سوچے سمجھے سیدھے ہی نہیں چلے جانا چاہئے اگر حکمت کے ماتحت رستہ بدلنا پڑے تو کوئی حرج کی بات نہیں ہاں مقصود کو ہمیشہ سامنے رکھو جو یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی تسبیح اور پاکیزگی دنیا میں قائم ہو ۔اس کی راہ میں جوروکیں ہوں انہیں دور کرو چونکہ اب وقت نہیں میں اِس تمہید پر آج کا خطبہ بند کرتا ہوں لیکن ختم کرنے سے پہلے ایک بات کہنی چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ آج مجھے ایک شکایت پہنچی ہے اور پہلے بھی پہنچی تھی کہ بعض پولیس والوں کے ساتھ بعض احمدیوں کا سلوک اچھا نہیں۔ شکایت کرنے والے کو تو میں نے کہا تھا کہ اس کی مثالیں پیش کرو لیکن جماعت کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارا اصل مقصد تسبیح ہے اور یہ کہ احمدیت دلوں میں قائم ہو جائے ۔اس کی وجہ سے اگر کوئی شخص ہم سے لڑتا ہے تو ہمیں اس کی پرواہ نہیں لیکن اگروہ صلح کے لئے آتا ہے تو چاہئے کہ اگر وہ ایک قدم بڑھے تو ہم دو قدم اُس کی طرف بڑھیں اور ہمارا رویّہ ایسا ہونا چاہئے کہ کسی حالت میں بھی ہم پر کوئی نکتہ چینی نہ کر سکے ۔ہمیں اپنے تمام اعمال میں پاکیزگی دکھانی چاہئے۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ تم لوگ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ یہ شکار ہے جو شیر کے کچھار میں آیا ہے ہم ان لوگوں تک کہاں اپنے مبلّغ پہنچا سکتے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو یہاں بھیج دیا ہے اور خدا کے مہمان کی قدرنہ کرنا اچھا نہیں۔میں جانتا ہوں کہ جس نے یہ اعترض کیا ہے وہ پھر بھی کہے گا کہ احمدی ورغلانے لگے ہیں مگر ہمارا کام یہ ہونا چاہئے کہ اعلیٰ اخلاق دکھائیں اور اخلاق کی تائید میں اگر اعتراض بھی ہو تو اُسے برداشت کریں ہمیں حکم ہے کہ مسافر سے حُسنِ سلوک سے پیش آئیں۔ پس اِس حکم کے ماتحت ان لوگوں سے اچھا سلوک کرنا چاہئے لیکن احمدی کہلانے والے آوارہ گرد نوجوانوں کو ان سے ملنے کی اجازت نہیں ہو نی چاہئے کیونکہ ایسے لوگوں کو بعض پولیس والے ساتھ ملا کر جھوٹ بُلوالیتے ہیں جیسا کہ پہلے کیا جا چکا ہے ۔ان کے سِوا تجربہ کار اور دیندار لوگ ان سے ضرور ملا کریں ۔وہ اگر کوئی جگہ دیکھنے آئیں تو دکھانے کے لئے ساتھ آدمی مقرر کر دیئے جائیں،اگر کوئی قرآن کریم یا دوسری دینی کتب پڑھنا چاہے تو اسے پڑھایا جائے ۔مجھے معلوم ہوا ہے کہ ان میں سے بعض لوگ قرآن کریم پڑھتے بھی ہیں یا گزشتہ پانچ سات روز ہوئے پڑھتے تھے آج کا علم نہیں ۔پس جو چاہیں ان کے لئے پڑھنے کا انتظام کرو اور دُنیوی آرام کے لئے جہاں تک ممکن ہو ان کی مدد کرو۔ جس امر پر آج ہمیں رنج ہے وہ تو صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عزت پر حملہ کا سوال ہے ورنہ ہم تو دشمن سے بھی اچھا سلوک کرنا چاہتے ہیں ۔ان لوگوں میں سے سارے بُرے نہیں ہیں اگر ان سے اچھا سلوک نہ ہو تو پھر بے شک کہیں گے کہ ہمارے مولوی ٹھیک کہتے تھے کہ احمدی اچھے نہیں ہوتے احمدی واقع میں بُرے ہیں لیکن اگر نمونہ اچھا ہو تو جس جگہ بھی یہ لوگ جائیں گے تعریف کرینگے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک عرب سوالی یہاں آیا آپ نے اسے ایک معقول رقم دیدی ۔بعض نے اس پر اعتراض کیا تو فرمایا یہ جہاں بھی جائیگا ہمارا ذکر کرے گا خواہ دوسروں سے زیادہ وصول کرنے کے لئے ہی کرے مگر دُور دراز مقامات پر ہمارا نام پہنچا دے گا تو حُسنِ سلوک تعریف کرواتا ہے اس لئے پولیس والوں سے بھی حُسنِ سلوک کرو۔ اگر ان میں سے کوئی کچھ پوچھتا ہے تو یہ کیوں فرض کرلو کہ جاسوسی کے لئے ہی آیا ہے بلکہ ا سے سمجھائو کہ ہم سب کے خیر خواہ ہیں اور ہمارے متعلق یونہی بدظنی کی جاتی ہے ۔اگر پانچ میں سے ایک کی سمجھ میںبھی یہ بات آجائے تو یہ بہت اچھی بات ہے پس اپنا رویّہ خدا تعالیٰ کی صفات کے مطابق رکھو ۔پولیس والے ابو جہل سے بھی تو بُرے نہیں ہیں اس لئے ان سے مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں ۔ان سے ملو اور انہیں بتائو کہ ہمارے نزدیک افسری ماتحتی کوئی چیز نہیں ۔انسانیت کے لحاظ سے سب برابرہیں اور انسانی لحاظ سے ہمارے نزدیک ایک کمشنر اور ایک کانسٹیبل (CONSTABLE)دونوںبرابر ہیں ۔ایک دفعہ ایک سپرنٹنڈنٹ پولیس چائے پر میرے ہاںآئے ۔ان کے ساتھ ایک سب انسپکٹر بھی تھے ۔ میں نے کہا انہیں بھی بُلا لیا جائے۔اس پر مجھے بتایا گیا کہ سپرنٹنڈ نٹ صاحب پولیس نے یہ امر پسندنہیں کیا ۔میں نے کہا خیر یہ ان کی اپنی تفریق ہے ورنہ ہمارے لئے تو سب برابر ہیں ۔ہاں نیکی کے لحاظ سے فرق ہو تو ہو ورنہ سلوک ہمارا سب سے اچھا ہو گا ۔جوشخض کمشنر سے ڈر کر اس سے اچھا سلوک کرتا ہے اور سپاہی سے اس لئے انسانیت کے ساتھ پیش نہیں آتاکہ وہ اٹھارہ انیس روپیہ کا ملازم ہے وہ روپیہ کی عزت کرنے والا ہو گا انسانیت کی نہیں ۔پس چاہئے کہ ہمارا سب سے اچھا سلوک ہو، تا کوئی ہمارے متعلق بُرا اثر لے کر نہ جائے ۔چاہئے کہ یہ لوگ باہرجا کر کہیں کہ احمدی اچھے حاکم ہیں ،ان میں ذاتی نیکی پائی جاتی ہے ،وہ گواہی دیں کہ احمدی بڑے عزیز ہیں مستقل مزاج ہیں۔ہم نے ان میں سے بعض کو روپے دیکر پھسلانا چاہا مگر کسی نے ہماری نہیں سنی ،وہ حکیم ہیں جو بات بھی کرتے ہیں ایسی ہی کرتے ہیں جس میں اپنابھی اورغیروں کابھی فائدہ ہو ،یو نہی دھینگا مشتی نہیں کرتے ۔یہ نمونہ دکھائو پھر دیکھو ان میں تبلیغ کس طرح ہو تی ہے ،یہ نہ کرو کہ بعض کی غلطیاں سب کی طرف منسوب کرو ۔ورنہ تم بھی انہی حُکّام کی طرح کے ہو جائو گے جو کبھی تو جھوٹ بنا کر ہماری طرف منسوب کر دیتے ہیں اور کبھی ایک احمدی کی غلطی ساری جماعت کی طرف منسوب کر دیتے ہیں۔ جس کے ساتھ مخالفت ہو اُسے بھی اُس کے دائرہ میں محدود رکھوپھر ہرشخص تمہاری تعریف کرے گا ۔یہ جو میں نے بیان کیا ہے یہ تو تمہید تھی بقیہ حصہ اِنْشَائَ اللّٰہ اگلے ہفتہ بیان کروں گا اِس وقت پھر نصیحت کرتا ہوں کہ دنیا کواخلاق سے فتح کرو۔ اخلاقی اعتراض کی زد بڑی سخت ہوتی ہے تو پوں اورگولیوں سے زیادہ اس بات کو اپنے لئے خطرناک سمجھو کہ کہا جائے کہ احمدی فریبی ہیں یا جھوٹ بولتے ہیں۔ اپنے اخلاق سے ثابت کرو کہ تم ہی وہ قوم ہو جسے خدا تعالیٰ نے چُن لیا ہے جو خدا تعالیٰ سے محبت کرتی ہے اور جس سے خدا محبت کرتا ہے ۔
(الفضل ۲۶؍فروری ۱۹۳۵ئ)
۱؎ الجمعۃ:۲ تا۹
‏۲؎ UNDER THE ABSOLUTE AMIR by Frank A. Martin P.203-204
۳؎ بخاری کتاب النکاح۔ باب اَلْمَرْأَۃُ رَاعِیَۃٌ فِیْ بَیْتِ زَوْجِھَا۔
۴؎ نیرو : پورا نام ۔ نیرو کلاڈیس سیزر (NERO CLAUDIUS CASESAR) رومی شہنشاہ۔ ایگری پینا روم کا بیٹا۔ اس نے ماں اور بیوی کو قتل کرایا۔ رومہ کو آگ لگانے کا ذمہ دار بھی اسی کو ٹھہرایا جاتا ہے،لیکن اس نے آگ لگانے کا ذمہ دار عیسائیوں کو ٹھہراکر انہیں ظلم وستم کا نشانہ بنایا۔ اس کے خلاف ایک شورش کامیاب ہونے کو تھی کہ اس نے خود کشی کرلی۔ اسے شاعر اور فنکار ہونے کا بڑا زعم تھا۔ (اُردو جامع انسا ئیکلو پیڈیا جلد ۲۔ صفحہ ۱۷۶۷ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء )
۵؎ بخاری کتاب فضائل اَصْحاب النَّبِیِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم باب مناقب خالد
بن الولید رضی اللّٰہ عنہ




۸
زمین و آسمان کا ذرّہ ذرّہ خدا تعالیٰ کی تسبیح کر رہا ہے
(فرمودہ۲۲؍فروری ۱۹۳۵ء )
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
میں نے پچھلے خطبہ جمعہ میں سورہ جمعہ کی پہلی آیت یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰ تِ وَمَا فِی الْاَرْضِ الْمَلِکِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ ۱؎ کے متعلق یہ بیان کیا تھا کہ اﷲ تعالیٰ کے مَلِک ہونے کی تسبیح اور قُدُّوْس ہونے کی تسبیح اور عَزِیْز ہونے کی تسبیح اور حَکِیْم ہونے کی تسبیح سے مراد کیا ہے ،کس طرح ان امور میں خدا تعالیٰ کی تسبیح کی جاتی ہے اور اس تسبیح کے ذکر کرنے سے اس کا مقصد کیا ہے۔وہ مقصد میں نے یہ بتایا تھا کہ اﷲ تعالیٰ بندوں سے چاہتا ہے کہ وہ بھی ایسے ہی مَلِک بنیں جن کی تسبیح کی جائے ،ایسے ہی قُدُّوْس بنیں جن کی تسبیح کی جائے ،ایسے ہی عَزِیْز بنیں جن کی تسبیح کی جائے اور ایسے ہی حَکِیْم بنیں جن کی تسبیح کی جائے،اخلاقی طور پر جب تک انسان تسبیح والا مَلِک نہیں بنتا اﷲ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث نہیں ہو سکتا ،جب تک وہ تسبیح والا قُدُّوْس نہیں بنتا اﷲ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث نہیں ہو سکتا، جب تک وہ تسبیح والا عَزِیْز نہیں بنتا اﷲ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث نہیں ہو سکتا،جب تک وہ تسبیح والا حَکِیْم نہیں بنتا اﷲ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث نہیں ہو سکتا۔اس امر کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتنی ضروری یہ بات ہو جاتی ہے کہ ہر مؤمن مَلِک بھی ہو ،ہر مؤمن قُدُّوْسبھی ہو، ہر مؤمن عَزِیْز بھی ہواور ہر مؤمن حَکِیْم بھی ہو۔ کتنا بلند مقام ہے جو ہمارے ربّ نے ہمارے سامنے رکھا ہے لیکن بالعموم لوگوں سے جب ذکر ہو تو وہ کہہ دیا کرتے ہیں جی !ہم تو غریب ہیں کمزوروناتواں اور مسکین ہیں حالانکہ قرآن مجید کہتا ہے کہ اگر تم خدا تعالیٰ کے مؤمن بندے ہو توتم غریب نہیں بلکہ مَلِک ہو اورمَلِک بھی وہ جس کی تسبیح کی جائے اور اگر تم سچے مؤمن ہو تو تم قُدُّوْس ہو اور قُدُّوْسبھی وہ جس کی تسبیح کی جائے اسی طرح اگر تم سچے مؤمن ہو تو تمعَزِیْز اور حَکِیْم ہو اورعَزِیْزاور حَکِیْم بھی وہ جس کی تسبیح کی جائے۔ ہو سکتا ہے کوئی بادشاہ ہو اور اس کی رعایا اسے بادشاہ نہ مانے جیسے پرانے زمانے میں کئی بادشاہ بھاگے بھاگے پھرتے تھے اور انہیں رعایا میں سے کوئی شخص بادشاہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا تھا۔مثلاً ہمایوں کے متعلق ہی لکھا ہے کہ وہ بھاگ کر ایران پہنچا ۔مگر اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مؤمن خواہ کتنا ہی غریب اور کتنا ہی کمزور نظر آئے ، کتنا ہی ضعیف اور کنگال کیوں نہ ہو اگر وہ سچا مؤمن ہے تو ضروری ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی نگاہ میں مَلِک ہو اور آسمان پر ایک بادشاہ کی حیثیت میں اس کا نام لکھا گیا ہو ۔تم کہہ سکتے ہو کہ ہم کیونکر یہ تسلیم کریں کہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ہماری حیثیت ایک بادشاہ کی سی ہے۔میں اس کی تشریح کے لئے تمہیں قرآن مجید کی ایک آیت اور ایک حدیث کی طرف توجہ دلاتا ہوں ۔قرآن مجید میں یہ ذکر آتا ہے کہ ادنیٰ سے ادنیٰ مؤمن کو بھی جنت میں جو مقام حاصل ہو گا عَرْضُھَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۲؎ اس کی قیمت زمین و آسمان کے برابر ہے ۔رسول کریم ﷺ نے بھی اس کی تشریح کرتے ہوئے فرمایاکہ ادنیٰ سے ادنیٰ درجہ کے مؤمن کو بھی جو جگہ جنت میںملے گی وہ زمین و آسمان کے برابر ہو گی ۳؎ اگر ایک ضلع کا حاکم ہو کر کوئی شخص بادشاہ کہلا سکتا ہے، اگر ایک ملک کا حاکم ہو کر کوئی شخص بادشاہ کہلا سکتا ہے اور اگر دو یا تین ملکوں کا حاکم ہو کر کوئی شخص بادشاہ کہلا سکتا ہے تو جس کے متعلق خدا تعالیٰ کہے کہ اُسے زمین و آسمان دے دیا جائے گا وہ کیوں بادشاہ نہیں ہو سکتا۔ معلوم ہو ا کہ کوئی مؤمن اُس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک کہ بادشاہ نہ بنے۔پس ہر مؤمن بادشاہ ہے اور پھر ہر مؤمن قُدُّوْس بھی ہے اس میں شبہ نہیں کہ انسان خواہ کتنے بڑے بلند مقامات حاصل کر لے اور انتہائی کمالات تک پہنچ جائے ،اس کا مقام خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہوئے یہی ہے کہ وہ کہے میں کمزور اور گناہگار ہوں ۔اﷲ تعالیٰ کی قدوسیت کے مقابلہ میں میری قدوسیت کی کچھ حقیقت ہی نہیں ۔لیکن ادنیٰ سے ادنیٰ مؤمن کو بھی ایسی پاکیزگی ضرور حاصل ہونی چاہئے کہ دنیا اسے دیکھ کر کہے کہ یہ نیک آدمی ہے اور اس کی بات پر اعتبار کیا جا سکتا ہے۔ اگر دنیا اس کی بات پر اعتبار کرنے کے لئے تیار نہیں تو معلوم ہؤا کہ اس کا ایمان مشتبہ ہے۔ میں نے دیکھا ہے احمدیوں میں سے بعض لوگ اپنے علاقوں میں مقہور اور ذلیل سمجھے جاتے ہیں لیکن جب کبھی معاملے کا وقت آتا ہے تو لوگ ان کی گواہی کو ترجیح دیتے ہیں ۔ہماری جماعت کا ایک غریب آدمی تھا مجھے معلوم نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس نے بیعت کی تھی یا نہیں مگر حضرت خلیفہ اوّل کے ابتدائی زمانہ میں وہ یہاں آیا کرتا تھا اُس کا نام مغلا تھا اور وہ جھنگ کی طرف کا رہنے والا تھا اس کے رشتہ دار سب چوریاں کرتے تھے۔اﷲ تعالیٰ نے اسے ہدایت دی اور وہ احمدی ہو گیا ۔بہت مسکین اور غریب احمدی تھا جب بھی وہ یہاں آتا تو بتاتا کہ احمدیت کی وجہ سے اسے لوگ بہت مارتے ہیں ۔ایک دفعہ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا تمہارے بھائی بھی تمہاری مدد نہیں کرتے ؟ وہ کہنے لگا بھائی تو مجھے زیادہ مارتے ہیں ۔پھر اس نے سنایا کہ ہمارے ہاں عام طور پر لوگ جانوروں کی چوری کرتے ہیں۔ یہ مرض جھنگ،گجرات،گوجرانوالہ اور شیخوپورہ کے اضلاع میں بہت پھیلا ہؤا ہے ۔وہ لوگ جانوروں کی چوری کو کوئی ذلیل کام تصور نہیں کرتے بلکہ ایک قسم کا مقابلہ سمجھتے ہیں اور اگر ایک کے جانور چوری ہو جائیں تو وہ موقع پا کر چوری کرنے والے کے جانور چُرا کر لے آتا ہے ۔چونکہ مغلا کے بھائی وغیرہ بھی چوریاں کیا کرتے تھے اس لئے باوجود غریب ہونے کے چوریوں کی وجہ سے اپنے علاقہ میں بااثر سمجھے جاتے تھے ۔اس نے بتایا کہ جب سے میں احمدی ہؤا ہوں ،سارا علاقہ مجھے کافر کہتا ہے مگر جب کسی کے ہاں چوری ہوتی ہے تو انہیں میرے بھائیوں پر شُبہ ہو جاتا ہے ۔جب وہ آتے ہیں تو میرے بھائی قَسمیں کھانے لگ جاتے ہیں کہ ہم نے چوری نہیں کی قرآن تک اُٹھا لیتے ہیں مگر لوگ ان کی بات پر اعتبار نہیں کرتے اور نہ قَسموں کا یقین کرتے ہیں بلکہ کہتے ہیں کہ مغلا اگر کہہ دے کہ تم نے چوری نہیں کی تو ہم مان جائیں گے اس پر میرے بھائی میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں لَے مغلیا! اب ہماری عزت تیرے ہاتھ میں ہے ۔اگر تُو یہ کہہ دے کہ انہوں نے چوری نہیں کی تو وہ مان جائیں گے مگر میں کہتا ہوں یہ تو جھوٹ ہو گا میں کس طرح کہوں کہ آپ لوگوں نے چوری نہیں کی جبکہ واقع میں چوری کر کے ان کا مال لائے ہیں ۔کیا میں سچ بولنا چھوڑ دوں؟اس پر وہ یہ کہتے کہ’’ سچ کا کچھ لگتا ‘‘ اور مارنے پیٹنے لگ جاتے ہیں ۔دوسرے فریق کو جب پتہ لگتا کہ مغلا کو محض اس کے سچ بولنے پر مارا جا رہا ہے تو وہ اور زیادہ اِصرار کرنے لگ جاتا کہ اگر مغلا کہے گا تو ہم مانیں گے ورنہ نہیں مانیں گے۔اس پر وہ پھر میری طرف آتے ہیں اور مجھے مارنے پیٹنے لگ جاتے ہیں اور جب مار پیٹ کر الگ ہوتے ہیں اور پوچھتے ہیں’’ دس مغلیا اساں ایہہ چیز چُرائی ہے‘‘ تو میں پھر سچ بولتا اور کہتا ہوں۔ لی تو ہے ۔اس پر وہ پھر مارنے لگ جاتے ہیں ۔باپ الگ ناراض ہوتا ہے کہ کوئی ایسا بھی احمق ہوتا ہے جو اپنے بھائیوں کو نقصان پہنچائے پس کہنے لگا میرا تو یہی حال ہوتا ہے ۔جس دن میرے بھائی گھر میں کوئی مال چُرا کر لاتے ہیں میں کہتا ہوں اب میری ہڈیوں کی خیر نہیں ۔پھر وہ کہنے لگا کبھی میں پیچھا چُھڑانے کے لئے یہ بھی کہہ دیا کرتا ہوں کہ میں تو تمہارے نزدیک کافر ہوں میری گواہی کا کیا اثر ہو سکتا ہے ۔اس پر وہ کہتے ہیں تُو ہے تو کافر مگر بولتا سچ ہے ۔
غرض احمدی مرتد بھی کہلاتے ہیں ،بے دین بھی کہلاتے ہیں ،یہ بھی سنتے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں ۔تم رسول اﷲ ﷺ کی ہتک کرنے والے ہو مگر پھر بھی لوگ ان کے متعلق یہ کہنے سے نہیں رہ سکتے کہ احمدی سچ بولتے ہیں ۔یہ زندہ مثال اِس بات کی ہے کہ مؤمن قُدُّوْس ہوتا ہے دنیا ایک سانس میں اسے بُرا کہتی ہے اور دوسرے سانس میں اس کی تعریف کرنے پر مجبور ہوتی ہے لوگ ایک طرف سارے عیوب اس کی طرف منسوب کرتے ہیںاور دوسری طرف یہ بھی کہتے ہیں کہ اس سے بڑھ کر دیانتدار کوئی نہیںاور نہیں سوچتے کہ کیا ساری دیانت کُفر میں رہ گئی ہے؟ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم کبھی مؤمن نہیں ہو سکتے جب تک قُدُّوْس نہ بنو ۔دشمن سے بھی اگر پوچھا جائے تو وہ کہے کہ ہے تو یہ کافر اور پلید مگر اس کی بات پر میں اعتبار کرتا ہوں۔ تھوڑے ہی دن کی بات ہے ایک غیر احمدی یہاں آیا اس کا مقدمہ کسی احمدی مجسٹریٹ کے پاس تھا لوگوں نے اسے کہا کہ قادیان سے جا کر سفارش کراؤتا مقدمہ کا فیصلہ تمہارے حق میں ہو۔جب وہ یہاں آیا تو کسی نے اسے بتایا کہ سفارش کے کیا معنی ہیں ۔مجسٹریٹ سرکار سے اسی بات کی تنخواہ لیتے ہیں کہ انصاف کریں پھر احمدی جو ہوتا ہے، اس کا خصوصیت سے یہ فرض ہوتا ہے کہ انصاف کو کسی لمحہ بھی اپنے ہاتھ سے نہ جانے دے ،پھر سفارش کی کیا ضرورت ہے کیا تم سمجھتے ہو کہ اس مجسٹریٹ کو یہاں سے بد دیانتی کرنے کی تعلیم دی جائے گی؟چونکہ اس کا پہلے بھی احمدیوں سے واسطہ پڑتا رہتا تھا اس لئے یہ بات اس کی سمجھ میں آ گئی اور جب وہ میرے پاس آیا تو کہنے لگا میں آیا تو کسی اور مقصد کے لئے تھا مگر لوگوں نے مجھے بتایا ہے کہ وہ بات پیش کرنی مناسب نہیں اس لئے اب میں وہ بات تو پیش نہیں کرتا صرف درخواست کرتا ہوں کہ دعا کریں اگر احمدیت سچی ہے تو اﷲ تعالیٰ مجھے بھی اس میں داخل ہونے کی توفیق عنایت فرمائے ۔پھر اُس نے خود ہی ذکر کیا کہ میرا ایک مقدمہ ایک احمدی مجسٹریٹ کے پاس ہے مجھے رشتہ داروں نے کہا تھا کہ قادیان میں جا کر سفارش کراؤ۔ میں نے انہیں کہا بھی کہ یہ فضول بات ہے اگر وہ مجسٹریٹ احمدی ہے تو خود ہی انصاف کرے گاکسی سفارش کی کیا ضرورت ہے مگر وہ نہ مانے اور میں یہاں چلا آیا ۔یہاں آ کر بھی لوگوں نے یہی بتایا کہ وہ احمدی ہی کیسا ہے جو انصاف نہیں کرے گاان باتوں سے اب میری تسلّی ہو گئی ہے اور میں نے سفارش کرانے کا ارادہ ترک کر دیا ہے ۔
مقدمہ میں پھنسے ہوئے لوگوں کی عقل کس قدر پراگندہ ہو جاتی ہے مگر ایسے مجبور آدمی کا بھی یہ سمجھ جانا کہ احمدی جج انصاف کرے گا بتاتا ہے کہ اسے یہ محسوس ہؤا کہ اس جماعت میں قدوسیت ہے ورنہ اگر اسے احمدیوں سے ذاتی واقفیت نہ ہوتی تو وہ ضرور اصرار کرتا کہ میری سفارش کرو لیکن چونکہ وہ احمدیوں کے حالات سے واقف تھا اس لئے باوجود اس کے کہ وہ دور سے چل کر آیا تھا کہنے لگا کہ اب میری تسلی ہو گئی ۔تو احمدیت کے ساتھ قدوسیت یا ایمان کے ساتھ قدوسیت ایک لازمی چیز ہے۔ خداتعالیٰ کے مقابلہ میں انسان کتنی ہی اپنے آپ میں کمزوریاں دیکھے ،دنیا کے مقابلہ میں قُدُّوْس ہو گا۔صرف فرق یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہر نسبت سے قُدُّوْسہے اور مؤمن نسبتی طور پر قُدُّوْس ہوتا ہے۔ جب مؤمن کی خدا تعالیٰ کی طرف نگاہ اٹھتی ہے تو وہ اپنے آپ کو کمزوریوں سے پُر پاتا ہے مگر جب بندوں کی طرف دیکھتا ہے تو اپنے آپ کو قُدُّوْسسمجھتا ہے ۔اسی طرح خدا تعالیٰعَزِیْز ہے اور چاہتا ہے کہ اس کے بندے عَزِیْزبنیں ان کے اندر بھی استقلال ہو ان کے اند بھی غیر معمولی مضبوطی اور پختگی ہو اور گو میں ہمیشہ شکایت کرتا ہوں کہ ہماری جماعت میں استقلال نہیں مگر اس میں کیا شبہ ہے کہ جو ہماری جماعت میں مؤمن ہیں وہ استقلال کا بہترین نمونہ ہیں ۔دنیاوی انجمنیں قائم ہوتی ہیں تو کوئی ایک مہینہ تک کام کرتی ہے کوئی دو مہینہ تک اور کوئی زیادہ کام کرے تو سال دو سال تک کام کرتی رہے گی مگر آخر تھک کر رہ جائے گی ۔پھر ان انجمنوں میں آج ایک کام کرتا ہے تو کَل دوسرااور اگر بیس تیس سال بھی کوئی انجمن قائم رہی تو اس کے کارکن ہمیشہ بدلتے رہے مگر بجز جماعت احمدیہ ایسی جماعت ہندوستان میں اَورکونسی نظر آ سکتی ہے جو پچاس سال سے متواتر قربانیاں کرتی چلی آ رہی ہو۔ اگر کسی کو احمدیت میں داخل ہوئے پچاس سال ہوئے ہیں تو وہ پچاس سال سے قربانیاں کر رہا ہے، اگر کسی کو احمدیت میں داخل ہوئے چالیس سال ہوئے ہیں تو وہ چالیس سال سے قربانیاں کر رہا ہے، اگر کسی کو احمدیت میں داخل ہوئے تیس سال ہوئے ہیں تو وہ تیس سال سے قربانیاں کر رہا ہے اور اگر کسی کو احمدیت میں داخل ہوئے بیس سال ہوئے ہیں تو وہ بیس سال سے قربانیاں کر رہا ہے پھر اگر باپ نے سلسلہ کے لئے قربانی کی تھی تو اس کے بعد بیٹے نے قربانی شروع کر دی اور بیٹے کے بعد اس کے پوتے نے قربانی شروع کر دی ۔غرض عزیزیت کے نمونے بھی ہماری جماعت میں ملتے ہیں اور جو ابھی تک اس قسم کا نمونہ نہیں بنے انہیں چاہئے کہ نمونہ بننے کی کوشش کریں ۔جو ملک نہیں وہ ملک بننے کی کوشش کریں جو قدوس نہیں وہ قدوس بننے کی کوشش کریں ۔جو عَزِیْز نہیں وہ عَزِیْز بننے کی کوشش کریں۔ اور جو حَکِیْم نہیں وہ حَکِیْمبننے کی کوشش کریں ۔حَکِیْمہمیشہ حکمت کے ماتحت کام کیا کرتا ہے اور میں سمجھتا ہوں جتنا ہماری جماعت حکمت کے ماتحت ہر کام کرنے کی عادی ہے خود یورپ بھی اتنا حکمت کے ماتحت کام کرنے کا عادی نہیں حالانکہ وہ تعلیم میں بہت آگے ہے ۔مثلاً جتنا ہمیں اشتعال دلایا جاتا اور مخالفوں کی طرف سے گالیاں دی جاتی ہیں کیا دنیا کی کوئی اور قوم ہے جو اس قسم کی اشتعال انگیزی کو برداشت کر سکے ۔صرف ہماری جماعت دنیا میں ایسی ہے جو صبر کا بہترین نمونہ پیش کر رہی ہے اور یہ اسی لئے کہ ہماری جماعت حکمت کو سمجھتی ہے ۔وہ جانتی ہے کہ اگر گالیوں کے مقابلہ پر میں نے بھی گالیاں دے لیں تو ان سے اتنا فائدہ نہیں ہو گا جتنا چُپ رہنے سے اور مار کھا کر خاموش رہنے سے ہو گا ۔اسی طرح ہماری جماعت اپنے اصل مقصود کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے لوگوں کے قلوب میںجو تبدیلی پیدا کرنا چاہتی ہے خدا تعالیٰ کے فضل سے کرتی چلی جاتی ہے توالْمَلِکِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ یہ چاروں صفات مؤمن کے اندر پائی جانی چاہیئں۔جو شخص اپنے آپ کو مَلِکْنہیں بناتا۔جو شخص اپنے آپ کو قُدُّوْسنہیں بناتا۔جو شخص اپنے آپ کو عَزِیْز نہیں بناتا۔ اور جو شخص اپنے آپ کو حَکِیْم خیال نہیں کرتا ،اسے سمجھنا چاہئے کہ اس کے ایمان میں کمزوری ہے۔ایک حافظ محمد صاحب پشاوری ہماری جماعت میں ہؤا کرتے تھے ،اب تو وہ فوت ہو چکے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سَابِقُوْن میں سے تھے ،کئی سال انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں قادیان رہنے کا موقع ملا ،ان کی طبیعت میں بہت جوش تھا ،اگر کسی کی ذرا سی غلطی بھی دیکھ لیتے تو جھٹ کہہ دیتے وہ منافق ہے ۔شیعوں کی طرح ان کا یہ خیال تھا کہ ہماری جماعت میںصرف اڑھائی مؤمن ہیں ۔ایک وہ ،ایک حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اوّل اور آدھے مولوی عبدالکریم صاحب ۔احمدیہ چوک میں سے ایک گندہ نالہ گزرا کرتا تھا اور اس پر ایک پھٹہ پڑا رہتا تھا اب تو وہاں سڑک بن گئی اور نواب صاحب کے مکانات تعمیر ہو گئے ہیں۔انہوں نے وہاں بیٹھ جانا اور ہاتھ اُٹھا کر بڑے زور زور سے یہ دعائیں کرنا کہ خدایا ! اپنے مسیح کو منافقوں سے بچااس جماعت میں تو ہم صرف اڑھائی مؤمن رہ گئے ہیں ۔ایک دفعہ وہ پشاور جا رہے تھے ساتھ اور بھی احمدی تھے کسی نے رستہ میں کوئی بات جو کہی تو انہوں نے کہا کہ یہ بات یوں ہے ۔وہ کہنے لگا اس بات کا ثبوت کیا ہے کہ یہ بات یوں ہے حافظ محمد صاحب کہنے لگے اس کا ثبوت یہ ہے کہ میں کہتا ہوں اور میں مؤمن ہوں ۔وہ کہنے لگا یہ آپ نے بڑا بھاری دعوٰی کر دیا آپ کے اندر تکبر معلوم ہوتا ہے توبہ کیجئے۔وہ پوچھنے لگے کہ کیا آپ مؤمن نہیں؟ وہ کہنے لگا میں بھلا مؤمن کہاں ہوں میں تو گناہگار بندہ ہوں ۔یہ کہنے لگے اچھا اگرآپ مؤمن نہیں بلکہ گنہگار ہیں تو میں آپ کے پیچھے آئندہ نماز نہیں پڑھوں گا۔ ایک اور مولوی صاحب بھی ان میں موجود تھے ان سے پوچھا گیا تو وہ کہنے لگے میں بھی اپنے آپ کو مؤمن کہنے سے ڈرتا ہوں۔ یہ کہنے لگے اچھا جناب ۔اب آپ کے پیچھے بھی آئندہ سے نماز بند۔کچھ عرصہ کے بعد جب دوبارہ یہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آئے تو انہوں نے شکایت کی کہ حافظ صاحب الگ نماز پڑھتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہوئی کہ انہوں نے جب پوچھا کہ کیا تم مؤمن ہو تو ہم نے کہا کہ ہم تو گنہگار بندے ہیں اس پر حافظ صاحب نے ہمارے پیچھے نماز پڑھنی چھوڑ دی۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ واقعہ سن کر فرمایا حافظ صاحب سچ کہتے ہیں جب کوئی اقراری مُجرم ہو جائے تو اُس کے پیچھے نماز کس طرح جائز ہو سکتی ہے۔اس کے بعد آپ نے فرمایاجسے خدا تعالیٰ ایک مأمور کی شناخت کی توفیق دیتا ہے اور وہ پھر بھی کہتا ہے کہ میں مؤمن نہیں تو وہ آپ مُجرم بنتا ہے اور یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی عدالت میں جا کر کہہ دے کہ میں چور ہوں یا ڈاکو ہوں پس جو شخص اپنے آپ کو چور اور ڈاکو کہتا ہے جس طرح وہ مُجرم ہے اسی طرح چونکہ مؤمن اور متقی ہونا ایک ہی چیز ہے اس لئے جو شخص کہتا ہے کہ میں متقی نہیں اس کے پیچھے نماز کیوں پڑھی جائے۔پس درحقیقت اﷲ تعالیٰ کی جو جماعتیں ہوں ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ مؤمن ہوں۔جس کا مطلب یہ ہے کہ ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ مَلِک ہوں، ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ قُدُّوْس ہوں ،ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ عَزِیْز ہوں اور ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ حَکِیْم ہوں پس اﷲ تعالیٰ ہمیشہ اپنی جماعت سے یہ چاہتا ہے کہ اس میں مَلِکیت پائی جائے،اس کے اندر قدوسیت پائی جائے ا س کے اندر عزیزیت پائی جائے اور اس کے اندر حکیمیت پائی جائے پس اس آیت نے تمہیں یہ سبق دیا ہے کہ تم کبھی اپنے آپ کو کمزور نہ سمجھو۔بے شک خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہوئے ہم کہیں گے کہ ہم بے کس ہیں ہمارے اندر کوئی طاقت نہیں مگر دنیا کے مقابلہ میں ہم مَلِک ہوں گے ۔بے شک خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہوئے ہم کہیں گے کہ ہم گنہگار ہیں ہمارے اندر کئی قِسم کی کمزوریاں پائی جاتی ہیں مگر دنیا کے مقابلہ میں ہم قُدُّوْس ہو ں گے ،بے شک خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہوئے ہم کہیں گے کہ ہمارے اندر استقلال کہاں مگر دنیا کے مقابلہ میں ہم عَزِیْز ہوں گے ۔اسی طرح بے شک خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہوئے ہم کہیں گے کہ ہم بیوقوف ہیں مگر دنیا کے مقابلہ میں ہم حَکِیْم ہوں گے مگر یہ ایسی ہی بات ہے جیسے سورج کے مقابل میں دِیا کہے کہ میں تاریک ہوں لیکن کیا دِیا اندھیرے میں بھی کہا کرتا ہے کہ میں روشن نہیں ۔یوں تو روشن سے روشن لیمپ بھی اگر سورج کے سامنے رکھ دو تو اُس کی روشنی غائب ہو جائیگی لیکن اگر اندھیرے میں اسے لائو تب تمہیں معلوم ہو گا کہ اس کے اندر کتنی بڑی چمک پائی جاتی ہے اسی طرح اگر دین کے مخالفوں کے مقابلہ میں بھی جو روحانی لحاظ سے تاریک ہیں کوئی شخص کہتا ہے کہ میں روشن نہیںتووہ واقع میں روشن نہیں۔ اور جو شخص غیر قوموں کے مقابلہ میں بھی اپنے اندر مَلِکیت نہیں پاتا ،جو شخص غیر قوموں کے مقابلہ میں اپنے اندر قدوسیت نہیں پاتا، جوشخص غیر قوموں کے مقابلہ میں بھی اپنے اندرعزیزیت نہیں پاتا اور جو شخص غیر قوموں کے مقابلہ میں بھی اپنے اندر حکیمیت نہیں پاتا وہ ایک بُجھا ہؤا دیا اورگُل کی ہوئی لالٹین ہے ۔تاریکی کے مقابلہ میں توجگنو بھی چمکتا ہے کُجا یہ کہ ایک لالٹین ہو اور وہ روشن نہ ہو۔جگنو کیوں دن کو نظر نہیں آتے اور رات کو نظر آتے ہیں ۔اسی لئے کہ دن کو سورج مقابل پر ہوتاہے اور رات کو تاریکی مقابل پرہوتی ہے۔ بچپن میں ہم ایک کھیل کھیلا کرتے تھے مصری کی ڈلیاں لیتے اور رات کو لحاف اوڑھ کر انہیں توڑتے تو اس میں سے روشنی نظر آتی ۔بعض بچے جو نا واقف ہوتے ڈر جاتے اور سمجھتے کہ جِنّ آگیا ہے مگر دن کو مصری توڑو تو اس میں سے کبھی روشنی نظر نہیں آ سکتی۔پس بے شک ہم اپنے آپ کو ادنیٰ سمجھتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں جو چمکتے ہوئے سورج کی سی حیثیت رکھتا ہے ، اس کی مَلِکیت کے مقابلہ میں ہم جب اپنی مَلِکیت کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اپنی بے بسی نظر آتی ہے ،اس کی قدوسیت کے مقابلہ میں جب ہم اپنی قدوسیت کو دیکھتے ہیں تو کہہ اُٹھتے ہیں ہم اس کے فضل کے بغیر کب پاک ہو سکتے ہیں ، اسی طرح جب ہم اس کے عَزِیْز ہونے کو دیکھتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ اگر خدا ہمیں سہارا نہ دے تو ہم کچھ بھی نہیں،پھر جب ہم خدا تعالیٰ کی حکمت کو دنیا کے ذرّہ ذرّہ میں دیکھتے ہیں تو ہم کہتے ہیں ہماری حکمت اس کے مقابلہ میں کیا حیثیت رکھتی ہے ہم تو نادان ہیں مگر جب ہم رات کی تاریکی میں آتے ہیں تو ہمیں پتہ لگتا ہے کہ ہم نہ صرف خود رَوشن ہیں بلکہ اپنے اِردگِرد کو بھی روشن کر رہے ہیںاور جو اس وقت ہماری روشنی کا انکار کرتا ہے ہم اسے نابینا اور اندھا کہتے ہیں۔جیسے سورج کے مقابل پر اگر کوئی شخص جگنو کی چمک نہ دیکھے تو یہ اس کی نابینائی کا ثبوت نہیں ہوتا ہاں اگر رات کو اسے جگنو چمکتے نظر نہ آئیں یا رات کو لیمپ جلتے دکھائی نہ دیں تو اسے نابینا کہا جاتا ہے اور لوگ کہتے ہیں میاں! اپنی آنکھوں کا علاج کراؤ۔یہی حال مؤمن کا ہوتا ہے جب وہ خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو کسی اور کی روشنی اسے نظر نہیں آتی مگر خدا جب اسے تاریکی میں کھڑا کرتا ہے تو اسے اپنی روشنی بھی نظر آنے لگتی ہے اور دوسروں کی بھی ۔
یہ وہ ایمان ہے جو خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے اندر پیدا کرے۔اگر ہم میں سے ہر شخص باوجود اس کے کہ وہ دنیا کی نگاہوں میں ذلیل اور حقیر ہو یہ سمجھنے کے لئے تیار نہیں کہ وہ مَلِک ہے یا یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کہ وہ قُدُّوْس ہے تو یقینا اس کے ایمان میں نقص ہے۔ اسی طرح اگر وہ دوسری دنیا کے مقابلہ میں اپنے آپ کو عزیزیت کے مقام پر فائز نہیں سمجھتا اور نمایاں طور پر اپنے ہر کام میں حکمت اختیار نہیں کرتا تو یہ بھی اس بات کا ثبوت ہو گا کہ اس کے ایمان میں نقص ہے اور اگر اس کیمَلِک ہونے کے باوجود قُدُّوْس ہونے کے باوجود عَزِیْز اور حَکِیْم ہونے کے باوجود دنیا اسے نہیں دیکھتی تو یہ دنیاکی نابینائی کا ثبوت ہو گا۔مگر یہ نابینائی اُسی وقت کہی جا سکتی ہے جب دنیا کو کوئی ایک مؤمن بھی مَلِکیت ،قدوسیت، عزیزیت اور حکیمیت کا مظہر نظر نہ آئے۔اگر زید اور بکر میں سے وہ زید کو ان صفات کا مظہر سمجھتی ہے اور بکر کو نہیںتو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ بکر میں نقص ہے نہ یہ کہ اس کی بینائی میں قصور ہے۔جیسے اگر کسی شخص کواَور لالٹینیں تو روشن نظر آئیں مگر ایک نظر نہ آئے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہو گا کہ اس کی آنکھیں اسے نہیں دیکھتیںبلکہ یہ مطلب ہو گا کہ وہ لالٹین اندھیری ہے۔
پس یہ وہ مقام ہے جس کی مؤمن سے امید کی جاتی ہے اب تم میں سے ہر شخص اپنے دل میں سوچے اور غور کرے کہ کیا وہ مَلِک ہے، کیا وہقُدُّوْس ہے، کیا وہ عَزِیْز ہے اور کیا وہ حَکِیْمہے؟جو شخصمَلِک ہو وہ دنیا میں کبھی ڈرا نہیں کرتا اور جوقُدُّوْس یعنی نیکی کا مجسمہ ہو لوگ اس پر حقیقی اعتراض نہیں کر سکتے ۔جھوٹے اعتراض بے شک کریں گے مگر وہقُدُّوْس شخص کا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔جتنا زیادہ لوگقُدُّوْس مؤمن پر اعتراض کریں اتنی ہی زیادہ ان کی روسیاہی ثابت ہوتی ہے۔اسی طرح جو شخص عَزِیْز ہو اور استقلال سے کام کرنے والا ہویاحَکِیْمہو اور اپنے کام میں دانائی کو مدِّ نظر رکھتا ہو اس پر اعتراض کر کے کیا بگاڑ سکتے ہیں۔جب کوئی نیا احمدی ہو تو لوگ اسے کہا کرتے ہیں بیوقوفی سے اس نے حضرت مرزا صاحب کو مان لیا مگر کیا وہ دیکھتے نہیں کہ کاموں میں اس احمدی کی بیوقوفی ظاہر ہوتی ہے یا ان کی؟لوگ اسے اشتعال دلاتے ہیں دل آزار کلمات اس کے لئے استعمال کرتے ہیں مگر یہ خاموش رہتا اور اپنے جوشوں کو دبا کر انہیں تبلیغ کرتا رہتا ہے۔صاف پتہ لگتا ہے کہ یہحَکِیْم ہے اور جانتا ہے کہ کن موقعوں پر جوشوں کو دبانا چاہئے اور کس موقع پراپنی غیرت کا اظہار کرنا چاہئے۔
اب میں یہ بتاتا ہوں کہ یہ جو کہا گیا ہے کہ یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ۔ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے وہ خدا تعالیٰ کی تسبیح کرتا ہے یہاں تسبیح سے مراد کیا ہے اور اگر وہ چیزیں تسبیح کرتی ہیں تو کہاں کرتی ہیں؟ہمارے سامنے اس وقت مینار کھڑا ہے یہ کب تسبیح کر رہا ہے،مکان کی دیواریں ہیںیہ کہاں تسبیح کر رہی ہیں،فرش اور چھت ہے یہ کہاں تسبیح کر رہا ہے،ہم نے لباس پہنا ہؤا ہے یہ کہاں سُبْحَانَ اﷲِ سُبْحَانَ اﷲِ کر رہا ہے ۔ہمیں تو ان چیزوں کی تسبیح سنائی نہیں دیتی مگر اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے وہ خداتعالیٰ کی تسبیح کر رہا ہے اب اگر واقع میں تسبیح ہو رہی ہے تو کیا ہم بہرے ہیں کہ وہ تسبیح ہمیں سنائی نہیں دیتی یا وہ تسبیح ہی نہیں کرتیں؟اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا میں کئی دفعہ تسبیح ہوتی ہے مگر سُنی نہیں جاتی۔مثال کے طور پر گراموفون کا ریکارڈ لے لواس کا ریکارڈ آیا بولتا ہے یا نہیں۔ہر شخص جانتا ہے کہ اس کا ریکارڈ بولتا ہے مگر جب تک سُوئی نہیں رکھی جاتی اس سے آواز پیدا نہیں ہوتی۔یا کیا ایک اَن پڑھ کے لئے دنیا میں کتاب بولا کرتی ہے۔قرآن مجید میں ہمیں بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۴؎ یہ ہزاروں الفاظ نظر آتے ہیں اور جب ہم پڑھتے ہیں تو قرآن مجید ہمارے لئے بول رہا ہوتا ہے۔لیکن ایک اَنْ پڑھ کے سامنے قرآن مجید رکھ دو تو وہ یہی کہے گا کہ کاغذوں پر سیاہی گری ہوئی ہے۔پس اَن پڑھ کے لئے قرآن کے الفاظ کاغذ پر گری ہوئی سیاہی کی سی حیثیت رکھتے ہیں لیکن جب ایک پڑھا لکھا شخص دیکھتا ہے تو اسے عبارتوں کی عبارتیں نظر آنے لگتی ہیں۔اسی طرح اگر ایک انجینئر کے سامنے انجینئرنگ کی کوئی کتاب رکھ دو تو وہ کتاب اس کے لئے بولتی ہوئی نظر آئے گی۔کہیں وہ کتاب اسے یہ بتلائے گی کہ چھتوں کے لئے گارڈر کتنے مضبوط ہونے چاہیئں۔کتنے اور کیسے گارڈر چھت کا بوجھ برداشت کر سکتے ہیں،کہیں وہ کتاب اسے یہ بتائے گی کہ محراب کس صورت میں بوجھ زیادہ اُٹھا سکتا ہے،کہیں وہ کتاب اسے یہ بتائے گی کہ عمارت کے لئے کتنی بنیاد کھودنی چاہئے اور کتنی گہری بنیادوں پر کتنی بلند عمارت کھڑی کی جا سکتی ہے۔غرض وہ کتاب اس کے سامنے بول رہی ہو گی لیکن ایک نادان کے سامنے رکھ دو تو وہ کہے گا کچھ لکیریں سی کھچی ہوئی ہیں۔
پس ایک صاحب ِعلم کے لئے جو کتاب بولتی ہے جاہل کے سامنے وہ خاموش ہوتی ہے بلکہ خداتعالیٰ کی پاکیزہ کتاب بھی ایک جاہل کے لئے گری ہوئی سیاہی کی حیثیت رکھتی ہے مگر ایک عالِم کے لئے کیسی بولنے والی ہے بلکہ اس قرآن سے زیادہ بولنے والی چیز دنیا میں اور کوئی ہے ہی نہیں۔ تیرہ سو سال سے برابر آج تک بولتا ہی چلا جاتا ہے اور نئی سے نئی باتیں غور کرنے والوں پر کھولتا ہے پس جب اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ زمین و آسمان کی ہر چیز خداتعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے تو ہمارا یہ سمجھ لینا کہ تسبیح کے صرف اتنے ہی معنی ہیں کہ خداتعالیٰ کے قانون میں کوئی عیب نہیں ظلم ہے۔ یقینا زمین و آسمان کا ذرّہ ذرّہ کسی رنگ میں بولتا اور اﷲ تعالیٰ کی تسبیح کرتا ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ خواب اور رؤیا میں جو یقظہ سے زیادہ واضح ہوتی ہے۔ بعض دفعہ دیواریں بولتی دکھائی دیتی ہیں ،بعض دفعہ جانور مثلاً کُتّے اور بلیاں بولتی دکھائی دیتی ہیں اور خوابوں میں یہ جانور بہت معقول باتیں کرتے نظر آتے ہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایک دفعہ اسی رنگ میں الہام ہؤا کہ’’ خاکسار پیپرمنٹ‘‘ ۵؎
دشمنانِ سلسلہ ہمیشہ اس الہام پر ہنسی اُڑاتے رہتے ہیں حالانکہ اگر بہرہ اس بات پر ہنسی اُڑائے کہ لوگ باتیں کرتے ہیں یا اندھا اس بات پر ہنسے کہ لوگ چمکنے والے سورج کا ذکر کرتے ہیں تو یہ بیہودہ بات ہو گی۔’’ خاکسار پیپرمنٹ‘‘ کی آواز سننے کا جو اہل تھا اس نے اس آواز کو سن لیااور جن کے اس آواز کو سننے اور سمجھنے کے کان نہیں ہیں وہ اس آواز کو کیسے سن سکتے ہیں۔جس طرح ایک اَن پڑھ کے سامنے اگر انجینئرنگ کی کتاب رکھ دی جائے تو وہ سوائے اس کے کچھ نہیں کہے گا کہ لکیریں کھچی ہوئی ہیں ۔بلکہ اب تو لوگ تعلیمی زمانہ میں ہونے کی وجہ سے سمجھتے ہیں کہ یہ کتاب ہے اوراس میں کچھ لکھا ہؤا ہے اگر ایک ایسا اَن پڑھ آدمی ہو جسے پتہ ہی نہ ہو کہ کتاب کیا ہوتی ہے اگر اس کے سامنے کتاب کھول کر رکھ دو تو وہ کیا کہے گا ،یہی کہے گا کہ سیاہی گری ہوئی ہے ۔مشہور ہے کہ ایک انگریز نے افریقہ کے قبائل پر اسی بناء پر قبضہ کیا کہ ایک دفعہ اس نے ایک لکڑی پر کوئلہ سے کچھ لکھ کر ایک حبشی کو بلایا اور اسے کہا کہ یہ لکڑی وہ اس کے گھر لے جائے اور اس کی بیوی جو چیز دے وہ لیتا آئے۔وہ کہنے لگا میں کونسی چیز لاؤں ؟انگریز کہنے لگا کہ یہ لکڑی خود بتا دے گی کہ کس چیز کی ضرورت ہے۔جب وہ لکڑی اس نے بیوی کو لا کر دی تو اس نے وہ پُرزہ نکال کر جو اُس نے مانگا تھا دے دیا۔حبشیوں پر اس کااتنا اثر ہؤا کہ وہ اس لکڑی کو پوجنے لگ گئے۔تو ناواقف اور اَن پڑھ آدمی سمجھ ہی نہیں سکتا کہ کتاب وغیرہ میں کیا لکھا ہے مگر پڑھے ہوئے آدمی کے لئے وہی لکھی ہوئی چیز بولنے لگ جاتی ہے۔اَن پڑھ ممکن ہے یہی خیال کرنے لگے کہ یہ تحریر باتیں کرتی ہے۔
پس یہ مخالف معرفت سے تو دور کا بھی تعلق نہیں رکھتے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات پر اعتراض کرنے اور ہنسی اُڑانے لگ جاتے ہیں۔ دنیا کی کوئی چیز ایسی نہیں جو نہ بولتی ہو، پیپر منٹ بھی بولتا ہے اور دوسری چیزیں بھی مگر ان کی آواز سننے کے لئے وہ کان چاہیئں جن کی ضرورت ہے حدیثوں میں آتا ہے رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ایک درخت جس سے آپ ٹیک لگایا کرتے تھے جب آپ کا ممبر بنا اور آپ نے اُس درخت پر سہارا لگانا چھوڑ دیا تو وہ رو پڑا ۔۶؎ اگر پیپرمنٹ کے کلام کرنے پر ہنسی جائز ہے تو پھر یہاں بھی ہنسی جائز ہو سکتی ہے لیکن اگر وہاں یہ کہا جائے کہ وہ شخص جھوٹ بولتا ہے جو کہتا ہے کہ درخت نہیں رویا،البتہ اس رونے کی آواز سننے کے لئے کان چاہیئں۔یا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کی آواز محمد ﷺ،حضرت ابوبکر اور اسی مذاق کے دوسرے لوگ سن سکتے تھے تو یہاں بھی جو اُس آواز کے سننے کا اہل تھا اُس نے سن لیامگر جو ادنیٰ درجہ کے لوگ ہیں وہ تو ان باتوں پر ہنسی ہی اُڑائیں گے۔جیسے مثلاً گراموفون کسی ناواقف کو دو اور اس سے دریافت کرو کہ کیا یہ بول سکتا ہے ؟وہ کبھی اس کے بولنے کو تسلیم نہیں کرے گا بلکہ انکار کرے گا۔اسی طرح اگر کوئی پٹھان جو صرف پشتو بولتا ہو آئے اور ایسے لوگوں کو جو پشتو کا ایک حرف بھی نہیں سمجھتے گھنٹہ بھر تقریر کرے اور اپنے درد بھرے واقعات لوگوں کو سنائے تو کیا کوئی ہو گا جو اس کی بات کو سمجھ سکے۔ لوگوں سے پوچھا جائے تو وہ یہی کہیں گے کہ کچھ غبر غبر کر رہا تھا۔ اسی طرح اگر چینی آ جائے اور وہ اپنی زبان میں تقریر کرے تو لوگ سن کر کیا سمجھیں گے؟ کچھ بھی نہیں،یہی خیال کریں گے کہ چِیں چِیں کر رہا ہے۔یا مثلاً فرض کرو ایران کی ایک عورت فارسی زبان سے ناواقف ہندوستانیوں میں آتی ہے اور اپنی درد بھری کہانیاں لوگوں کو سناتی اور اپنے مصائب کا قصہ ان کے سامنے دُہراتی ہے ۔وہ بیان کرتی ہے کہ کس طرح اس کا خاوند فوت ہو گیا،پھر اس کے رشتہ داروں نے اس کے ساتھ غداری کی اور اس کی جائداد وغیرہ سب چھین لی اور اسے گھر سے باہر نکال دیا،وہ در بدر ٹھوکریں کھاتی رہی،جنگلوں کی خاک اس نے چھانی ،پاؤں میں اس کے چھالے پڑ گئے ،آگے آئی تو ڈاکوؤں نے اسے پکڑ لیا اور اسے زَدو کُوب کیا ۔فرض کرو یہ تمام قصہ وہ سناتی ہے اور اپنی ساری قوتِ بیان وہ صرف کر دیتی ہے لیکن اگر پنجاب کے کسی گاؤں میں وہ یہ باتیں بیان کرے تو عورتیں اور بچے اس کی تقریر سن کر کیا سمجھیں گے وہ ایک حرف بھی اُس کی داستانِ غم کا نہیں سمجھ سکتے کیونکہ وہ اس آواز کو نہیں سمجھ سکتے۔وہ یہی کہیں گے کہ یونہی ہست بود کر رہی ہے یا مثلاً اُسی وقت ایک چڑیا چہچہائی ہے ہم نہیں جانتے ان کی کوئی زبان ہوتی ہے یا نہیں لیکن اگر ہوتی ہے تو ممکن ہے اس چڑیا نے یہی کہا ہو کہ میرے پیارے بچے! میرے پاس آ جا لیکن چونکہ ہم اس کی زبان سے نا آشنا ہیں اس لئے ہم اس آواز کو بے معنی سمجھتے ہیں ۔
غرض دنیا میں جب کوئی شخص کسی چیز کو نہیں سمجھتا تو وہ خیال کرتا ہے کہ وہ بے معنی اور ناکارہ ہے مگر سمجھنے والا اس آواز کو سمجھتا اور اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے۔حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام جب کھانا کھایا کرتے تو بمشکل ایک پُھلکا آپ کھاتے اور جب آپ اُٹھتے تو روٹی کے ٹکڑوں کا بہت سا چُورہ آپ کے سامنے سے نکلتا۔آپ کی عادت تھی کہ روٹی توڑتے اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرتے جاتے پھر کوئی ٹکڑا اٹھا کر منہ میں ڈال لیتے اور باقی ٹکڑے دستر خوان پر رکھے رہتے ۔معلوم نہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایسا کیوں کیا کرتے تھے مگر کئی دوست کہا کرتے کہ حضرت صاحب یہ تلاش کرتے ہیں کہ ان روٹی کے ٹکڑوں میں سے کون سا تسبیح کرنے والا ہے اور کون سا نہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اس قسم کی بات سننی مجھے اِس وقت یاد نہیں مگر یہ یاد ہے کہ لوگ یہی کہا کرتے تھے۔پس اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ زمین و آسمان میں سے تسبیحوں کی آوازیں اُٹھ رہی ہیں اب کیوں اﷲ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ زمین و آسمان کی ہر چیز تسبیح کر رہی ہے جبکہ ہم اس تسبیح کی آواز کو سن ہی نہیں سکتے اور جس چیز کو ہم سن نہیں سکتے اس کے بتانے کی ہمیں کوئی ضرورت نہ تھی۔کیا قرآن میں کہیں یہ لکھا ہے کہ جنت میں فلاں مثلاً عبدالرشید نامی ایک شخص دس ہزار سال سے بیٹھا ہؤا ہے ہمارے لئے چونکہ اس کے ذکر سے کوئی فائدہ نہ تھااس لئے اﷲ تعالیٰ نے ہمیں ایسی باتیں نہیں بتائیں، پھر جب اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَافِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ زمین و آسمان کی ہر چیز تسبیح کر رہی ہے تو اس کا یہی مطلب ہو سکتا ہے کہ اے لوگو !تم اس تسبیح کو سنو ۔جب ہم کہتے ہیں کہ چاند نکل آیا تو اس کا مطلب یہ ہؤا کرتا ہے کہ لوگ آئیں اور دیکھیں یا جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص گا رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ چلواور اس کا راگ سنو ،اسی طرح جب خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ زمین و آسمان کی ہر چیز تسبیح کر رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اس تسبیح کو سنو پس معلوم ہؤا کہ یہ تسبیح ایسی ہے جسے ہم سن بھی سکتے ہیں۔ایک تو سننا ادنیٰ درجہ کا ہے اور ایک اعلیٰ درجہ کا مگر اعلیٰ درجہ کا سننا انہی لوگوں کو میسّر آ سکتا ہے جن کے ویسے ہی کان اور آنکھیں ہوںاسی لئے مؤمن کو یہ کہا جاتا ہے کہ جب وہ کھانا شروع کرے تو بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ کہے کھانا ختم کرے تو اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہے، کپڑا پہنے یا کوئی اور نظارہ دیکھے تو اسی کے مطابق تسبیح کرے۔گویا مؤمن کا تسبیح کرنا کیا ہے؟ وہ ان چیزوں کی تسبیح کی تصدیق کرنا ہے۔وہ کپڑے کی تسبیح اور کھانے کی تسبیح اور دوسری چیزوں کی تسبیح کی تصدیق کرتا ہے مگرکتنے ہیں جو اس پر عمل کرتے ہیں وہ رات دن کھاتے اور پیتے ہیں،پہاڑوں پر سے گزرتے ہیں ،دریاؤ ں کو دیکھتے ہیں،سبزہ زاروں کا مشاہدہ کرتے ہیں ،درختوں اور کھیتوں کو لہلہاتے ہوئے دیکھتے ہیں،پرندوں کو چہچہاتے ہوئے سنتے ہیں مگر ان کے دلوں پر کیا اثر ہوتا ہے۔کیا ان کے دلوں میںبھی ان چیزوں کے مقابلہ میں تسبیح پیدا ہوتی ہے اگر نہیں پیدا ہوتی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے ان چیزوں کی تسبیح کو نہیں سنامگر تم کہو گے کہ ہمارے کانوں میں تسبیح کی آواز نہیں آتی۔میں اس کے لئے تمہیں بتاتا ہوں کہ کئی آوازیں کان سے نہیں بلکہ اندر سے آتی ہیں۔مثلاً خوشی ہے کیا اس کی آواز کو کسی نے کانوں سے سنا؟ جب کسی کے ہاں بیٹا پیدا ہوتا ہے اور وہ خوش ہوتا ہے تو کیا اس موقع پر اس کے کان میں خوشی کی آواز آیا کرتی ہے یا دل میں کیفیت پیدا ہؤا کرتی ہے ؟فرض کرو ایک ایسا شخص ہو جس کی شادی پر بیس برس گزر گئے ہوں اور اس کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی ہو،اکیسویں سال اس کے ہاں لڑکا پیدا ہؤا ہوتو کیا اس خوشی کے موقع پر اس کے کانوں میں یہ آواز آیا کرتی ہے کہ میرے ہاں لڑکا پیدا ہؤا یہ بہت اچھی بات ہے ۔یا خوشی کی خبر سنتے ہی معًا اس کی قلبی کیفیات بدل جاتی ہیں۔اسی طرح جب کسی کا اکلوتا بیٹا مر جاتا ہے تو کیا اس وقت اُس کے کانوں میں یہ آواز آیا کرتی ہے کہ میرا اکلوتا بچہ مر گیا، یہ بڑی بُری بات ہوئی ؟یا معًا اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے اور دل میں انقباض سا پیدا ہو جاتا ہے پس خوشی اور رنج کی آوازوں کو آج تک کسی نے اپنے کانوں سے نہیں سنا بلکہ خوشی کی آواز تمہارے دل میں پیدا ہوتی ہے اور رنج کی آواز تمہارے دل میں پیدا ہوتی ہے اسی طرح وفا کے جذبات انسان کے دل میں پیدا ہوتے ہیں اور باوجود اس کے کہ ہم رنج ،خوشی اور وفا کے جذبات کو محسوس کرتے ہیں پھر بھی ہمارے کانوں میں ان چیزوں کی آوازیں نہیں آتیں بلکہ دل ان کی آوازوں کو محسوس کرتا ہے۔اسی طرح ماں بعض دفعہ اپنے بچے کی طرف جبکہ وہ دیکھتی ہے کہ وہ کنویں میں گرنے لگا ہے بے اختیار دَوڑ پڑتی ہے حالانکہ اُس وقت بچہ اُسے بُلا نہیں رہا ہوتا اور نہ اُس کے کانوں میں بُلانے کی آواز آتی ہے مگر باوجود اس کے وہ دَوڑ پڑتی ہے کیونکہ اس آواز کو اس کا دل محسوس کرتا ہے۔پس ساری آوازیں کانوں سے ہی نہیں سنی جاتیں بلکہ دل سے بھی سنی جاتی ہیں۔کوئلہ جب گرم ہو تو کیا اُس وقت خود کہا کرتا ہے کہ میں گرم ہو گیا یا پاس بیٹھنے والا خود بخود محسوس کر لیتا ہے کہ اب یہ گرم ہو گیا،تم کوئلہ کے پاس بیٹھو تمہیں خود بخود یہ آواز آنی شروع ہو جائے گی کہ اب میں گرم ہو گیا۔یہی تسبیح کے معنی ہیں۔زمین و آسمان کے ذرّہ ذرّہ میں تسبیح پائی جاتی ہے جو لوگ اس تسبیح کو سمجھنے اور محسوس کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں ،وہ اس تسبیح کو محسوس کرتے ہیں مگر جو بے ہوش یا فالج زدہ ہیں وہ ان کی تسبیح نہیں سن سکتے۔ایک فالج زدہ آدمی کو آگ کے پاس بٹھا دو پھر بھی وہ اس کی گرمی کو محسوس نہیں کرے گااور نہ اسے آگ میں سے یہ آواز آئے گی کہ میں گرم ہو گئی۔اسی طرح بے ہوش آدمی کے کان میں جا کر کہو کہ تیرے گھر لڑکا پیدا ہؤا تو اس کے دل میںکوئی خوشی کی کیفیت پیدا نہیں ہو گی۔
پس اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ زمین و آسمان کا ذرّہ ذرّہ خدا تعالیٰ کی تسبیح کر رہا ہے تمہارا فرض ہے کہ تم اس تسبیح کو سنو اور اگر تم اپنے گھر کو دیکھتے ہو جس میں تم رہتے ہو، اس چارپائی اور بستر کو دیکھتے ہو جس پر تم سوتے ہو اور اس فرش کو دیکھتے ہو جس پر اپنی چیزیں رکھتے ہو ،اس چھت کو دیکھتے ہو جس کے نیچے رہتے ہو، اس ٹرنک کو دیکھتے ہو جس میں تمہارا اسباب پڑا ہؤا ہے،اس تھالی کو دیکھتے ہو جس میں تمہارے لئے سالن پڑا ہے ،اس روٹی کو دیکھتے ہو جسے تم کھا رہے ہو، اس پانی کو دیکھتے ہو جس سے تم پیاس بُجھاتے ہو مگر ان تمام چیزوں کو دیکھنے کے باوجود تمہارے دل ان چیزوں کی تسبیح کونہیں پہچانتے اور تمہارے دل بھی ان چیزوں کو دیکھ کر سُبْحَانَ اللّٰہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ نہیں کہہ اٹھتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے دل کو فالج ہو چکا ہے ورنہ کیوں تمہارے دل بھی مقابل میں وہی کچھ نہ کرنے لگیں جو یہ چیزیں کرتی ہیں ۔اﷲ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ زمین و آسمان کی ہر چیز اس کی تسبیح کر رہی ہے اگر ہمارے دل اس کی چیزوں کو دیکھنے کے باوجود تسبیح نہیں کرتے تو ہم مُردہ دل ہیں ۔ایک مجلس میں بیٹھ کر دیکھ لو لوگوں کو چاند کا انتظار ہو اور ایک شخص دیکھ لے اور کہے چاند نکل آیا تو کس طرح تمام لوگ شور مچادیتے ہیں کہ کِدھر ہے کِدھر ہے؟اسی طرح کس طرح ممکن ہے کہ دیواریں سُبْحَانَ اللّٰہِکر رہی ہوں مگر ہمارے دل سُبْحَانَ اللّٰہِ نہ کرتے ہوں۔ بندر والے بندر نچاتے ہیں تو تماشہ دیکھنے والے لڑکے ناچنے لگ جاتے ہیںتقریر کرنے والا تقریر کرتا ہے تو سننے والوں کے دلوں میں ولولے اُٹھنے شروع ہو جاتے ہیںپھر کس طرح ممکن ہے کہ ذرّہ ذرّہ تسبیح کر رہا ہو اور زمین و آسمان میں ایک شور پڑا ہؤا ہو مگر ہمارے دل میں کوئی تسبیح کا احساس نہ ہو ۔حضرت مظہر جان جاناں صاحب دلّی کے ایک مشہور بزرگ گزرے ہیں ان کے غلام علی نام ایک خلیفہ تھے ۔غالباً بٹالہ کے رہنے والے تھے ایک دن مظہر جان جاناں صاحب کے پاس کوئی شخص ہدیۃً بالائی کے لڈو لایا۔بالائی کے لڈو بہت چھوٹے ہوتے ہیں ہمارے پنجاب میں جو بوندی کے لڈو بنائے جاتے ہیں وہ بالائی کے لڈوؤں سے چار گُنا زیادہ بڑے ہوتے ہیں انہوں نے بالائی کے دو لڈو اپنے خلیفہ اور شاگرد میاں غلام علی صاحب کو دے دیئے ۔انہوں نے اُسی وقت منہ میں ڈالے اور کھا لئے ۔ہمارے پنجاب میں تو اکثر آدھا لڈو یکدم منہ میں ڈال لیا جاتا ہے بلکہ بعض لوگ سارا لڈو ہی منہ میں ڈال لیتے ہیں اور وہ تو بالائی کے لڈو تھے اور بہت ہی چھوٹے چھوٹے۔ اُنہوں نے دونوں لڈو کھا لئے تھوڑی دیر کے بعد حضرت مظہر جان جاناں صاحب نے دریافت کیا کہ میاں غلام علی! میں نے تمہیں لڈو دیئے تھے وہ کہاں گئے۔انہوں نے کہا حضور !وہ تو میں نے کھا لئے۔فرمانے لگے میاں !میں نے تو تمہیں دو لڈو دیئے تھے کیا دونوں کھا لئے وہ کہنے لگے حضور! دو کیا اور بھی ہوتے تو منہ میں آ جاتے وہ کون سے بڑے ہوتے ہیں۔حضرت مظہر جان جاناں صاحب نے حیرت سے شکل بنا کر ان کی طرف دیکھا اور فرمایا معلوم ہوتا ہے تمہیں لڈو کھانے نہیں آتے پھر کسی دن لڈو آئیں تو مجھے یاد کرانا۔کچھ عرصہ کے بعد پھر کوئی شخص ان کے لئے بالائی کے لڈو لایاظہر کی نماز پڑھ کر آپ بیٹھے ہی تھے کہ میاں غلام علی صاحب نے ان سے عرض کیا کہ آج لڈو آئے ہیں اور حضور نے وعدہ کیا تھا کہ تم کو لڈو کھانا سکھائیں گے ۔مرزا صاحب نے ایک لڈو نکال کر رومال پر رکھ لیا اور اس میں سے ایک چھوٹا سا ٹکڑا توڑ کر منہ میں ڈال لیا اور پھر فرمایا۔میاں غلام علی! یہ لڈو جو پڑا ہے تم جانتے ہو اس میں ایک چیز نہیں بلکہ کئی چیزیں ہیںاس میں میٹھا ہے ،اس میں گھی ہے ،اس میں بالائی ہے، پھر اس کے اندر کچھ میدہ بھی ہے ،خوشبو بھی آ رہی ہے پس یہ کئی چیزیں ہوئیںمگر یہ تمام چیزیں حلوائی نے تو نہیں بنائیں۔کیا تمہیں کبھی خیال آیا ہے کہ اس کے اندر میٹھا جو پڑا ہے یہ کہاں سے آیا ؟میٹھا حلوائی نے آخر کسی اور دُکان سے خریدا ہو گا مگر اس دُکان والے نے بھی آپ نہیں بنایااُس نے زمیندار سے لیا ہو گامگر زمیندار نے بھی خود نہیں بنایا بلکہ اس نے ایک سال پوری محنت کی ،اُس نے سردی کے موسم میں گنّوں کو بونے کی تیاری کی اور دوسرے موسم میں اسے کاٹا۔بارہ مہینے یہ زمین کی گوڈائی کرتا رہا،گنّوں کو پانی دیتا رہااور یہ ساری محنت خدا تعالیٰ نے اس سے اس لئے کرائی کہ تا مظہر جان جاناں ایک لڈو کھا لے۔زمیندار خودہی محنت نہیں کرتا تھا بلکہ اس کی بیوی بھی محنت کرتی تھی وہ بھی اس کا ہاتھ بٹاتی اس کیلئے وقت پر کھانا کھیت میں لے جاتی۔پھر جب گنّے تیار ہو گئے تو اس کی رس نکالی گئی پھر اس سے شکر تیار کی گئی۔وہ شکر انہوں نے بازار میں بیچی اور حلوائی نے اس سے خریدی اور یہ تمام تگ و دَو اس لئے ہوئی کہ اﷲ تعالیٰ نے چاہا مظہر جان جاناں ایک لڈو کھالے۔اس کے بعد فرمایا زمیندار نے گنّے خود تو نہیں بنائے تھے گنّے کا بیج اس کے پاس محفوظ تھا جو سالہا سال سے ایک نسل دوسری نسل کو دیتی چلی آئی اور صرف اس لئے کہ مظہر جان جاناں ایک لڈو کھالے۔اسی طرح ایک ایک چیز کو انہوں نے لیا اور بتایا کہ جب سے دنیا بنی ہے اُس وقت سے ایک لڈو کے بنانے کے لئے سب لوگ محنت کر رہے تھے۔اگر زمیندار نے ہل چلایا تو اس کے لئے لوہے کا حصہ اَور لوگوں نے بنایا اور اس کے لئے انہوں نے بڑی بڑی محنتیں کیں۔پس در اصل ساری دنیا ایک لڈو کے بنانے میں لگی ہوئی تھی بلکہ بادشاہ بھی اس لڈو کے بنانے میں مدد دے رہے تھے کیونکہ اگر وہ امن قائم نہ رکھتے تو کھیت ویران ہو جاتے۔اسی طرح پولیس اور مجسٹریٹ وغیرہ بھی لڈو بنانے میں مدد دے رہے تھے کیونکہ اگر دشمن کھیتوں کو جلا دیتا تو وہ شکر کس طرح تیار ہو سکتی جس سے لڈو بننا مقدر تھا۔غرض مظہر جان جاناں صاحب اسی طرح ایک ایک چیز کا ذکر کرتے اور اﷲ تعالیٰ کے احسانات کی طرف اپنے خلیفہ میاں غلام علی صاحب کو توجہ دلاتے رہے یہاں تک کہ عصر کی نماز کا وقت ہو گیااور وہ سُبْحَانَ اللّٰہِ سُبْحَانَ اللّٰہِکہتے ہوئے نماز پڑھانے لگ گئے۔پس مظہر جان جاناں صاحب نے اسی بات کی طرف توجہ دلائی کہ لڈو جب میرے سامنے آتا ہے تو اس کا ذرّہ ذرّہ مجھے سُبْحَانَ اللّٰہِ کہتا دکھائی دیتا ہے۔ہمارے غلام علی کو کیوں یہ خیال نہ آیا کہ ایک لڈو اﷲ تعالیٰ کے کتنے بڑے احسانات کا نتیجہ ہے۔تب انہیں پتہ لگا کہ لڈو کھانے کا کیا مفہوم تھا۔پس اس لحاظ سے زمین و آسمان کا ذرّہ ذرّہ خداتعالیٰ کی تسبیح کر رہا ہے چھوٹا بھی اور بڑا بھی،ادنیٰ بھی اور اعلیٰ بھی مگر ان چیزوں کی تسبیح کا ایک اور طریق بھی ہے وہ یہ کہ اگر بندہ تسبیح کرنے لگے تو پھر بھی زمین و آسمان میں تسبیح ہونے لگتی ہے کسی نے کہا ہے
؎ جدھر دیکھتا ہوں اُدھر تُو ہی تُو ہے
اب معشوق تو ہر طرف نہیں ہوتا۔محبت ہے جس کے نتیجہ میں انسان اپنے محبوب کا جلوہ ہر طرف دیکھتا ہے اسی طرح اﷲ تعالیٰ سے جسے سچی محبت ہو اسے ہر طرف سے تسبیح کی آوازیں اُٹھتی سنائی دیتی ہیں۔وہ روٹی کھاتا ہے تو اسے تسبیح کی آواز آتی ہے پانی پیتا ہے تو تسبیح کی آواز آتی ہے اس لئے کہ وہ روٹی کھاتے ہوئے اﷲتعالیٰ کی تسبیح کرتا ہے اور پانی پیتے ہوئے اﷲ تعالیٰ کی تسبیح کرتا ہے ۔تم اگر ایک گنبد کے نیچے کھڑے ہو جاؤ اور زور زور سے آواز دو تو کیا تمہاری آواز واپس آتی ہے یا نہیں ؟ تم اگر زور سے آواز دیتے ہو کہ رشید تو گنبد سے بھی آواز آتی ہے کہ رشید!اسی طرح خدا تعالیٰ کہتا ہے کہیُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْض جب دنیا میں میرے ایسے بندے پیدا ہو جائیںجن کے دلوں سے تسبیح کی آوازیں اُٹھ رہی ہوں تو دنیا کے ذرّہ ذرّہ سے تسبیح پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے۔جس طرح گنبد کے نیچے کھڑے ہو کر جب تم رشید کہتے ہو تو تمہیں آواز آتی ہے کہ رشید۔جب تم تُوکہتے ہو تو تمہیں بھی یہی آواز سنائی دیتی ہے کہ تُو۔اسی طرح جب تمہارے دل اﷲ تعالیٰ کی محبت سے بیتاب ہو جائیں، جب اس کے عشق میں مدہوش ہو کر تمہاری زبانوں پر بے اختیار سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی جاری ہو تو اُس وقت پہاڑ اور دریا اور زمین کا ذرّہ ذرّہ یہ کہہ اُٹھے گا کہسُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی اگر بالکل آہستہ بولو گے تو تسبیح کی آواز بھی مدہم ہو گی اور اگر بلند آواز سے بولو گے تو تسبیح کی آواز بھی زیادہ زور سے پیدا ہو گی۔پس خدا تعالیٰ مسلمانوں کو یہ سبق دیتا ہے کہ اگر تم چاہتے ہو کہ دنیا میں کامیاب ہو تو تم تسبیح اتنی بلند آواز سے کرو کہ زمین کے ذرّے ذرّے خدا تعالیٰ کی تسبیح کرنے لگ جائیں اور وہ بھی بے اختیار پکار اُٹھیں کہسُبْحَانَ اللّٰہ سُبْحَانَ اللّٰہ۔پس تمہیں دنیا میں تسبیح کرنی ہو گی اور اتنی بلند آواز سے تسبیح کرنی پڑے گی کہ دریا اور پہاڑ اور میدان اور جنگل بھی تسبیح کرنے لگ جائیںیہاں تک کہ وہ مکانات بھی تسبیح کرنے لگ جائیں جن میں تم رہتے ہو اور وہ بازار بھی تسبیح کرنے لگ جائیں جن میں تم چلتے ہو۔اگر اس قسم کا کوئی انسان بن جائے تو اسے ہر جگہ تسبیح نظر آنے لگ جاتی ہے اگر ایک فونوگراف عشقیہ اور گندے اشعار گا سکتا ہے تو کیوں زمین اور آسمان خدا تعالیٰ کی تسبیح نہیں کر سکتے۔تم یہ تو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہو کہ ایک گراموفون اشعار گا سکتا ہے ،تم یہ تو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہو کہ مرے ہوئے بھینسے کا چمڑا ڈھم ڈھم کر سکتا ہے،تم پیتل کی نفیریوں کے متعلق تو یہ تسلیم کر سکتے ہو کہ وہ راگ الاپ سکتی ہیں،تم فوجی میوزک کے متعلق تو یہ تسلیم کر سکتے ہو کہ وہ گاڈ سیو دی کنگ (God save the king) کہہ سکتا ہے مگر تم یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ زمین و آسمان اپنے پیدا کرنے والے کی تسبیح کرتا ہے۔اگر پیتل کی نفیریاں گیت گا سکتی ہیں،اگر چمڑے کے ڈھول ڈھم ڈھم کر سکتے ہیں، اگر فوجی میوزک مارسیلز کا گیت گا سکتا یا گاڈ سیو دی کنگ(God save the king) کہہ سکتا ہے ،اگر پیانو کی تاریں چھیڑنے سے وہ کئی قِسم کی سُریں نکال سکتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ زمیں و آسمان خداتعالیٰ کی تسبیح نہیں کر سکتے۔یقینا یہ چیزیں بھی خدا تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہیں ہاں فرق صرف یہ ہے کہ جس کے دل میں گند ہوتا ہے وہ گند سُن لیتا ہے۔اور جس کے دل میں پاکیزگی ہوتی ہے وہ پاکیزہ باتیں سن لیتا ہے۔ایک پشتو زبان والا فارسی زبان کو کیا سمجھے اور ایرانی پشتو کو کیا جانے۔جس کے اندر گند ہی گند بھرا ہؤا ہو اسے تسبیح کہاں سے سنائی دے۔پس اصل سوال یہ نہیں کہ کوئی چیز تسبیح کرتی ہے یا نہیں ،سوال اس بولی کے سمجھنے کا ہے۔اگر تسبیح کی بولی کوئی شخص سمجھ لے تو اسے تسبیح کی آوازیں آنی شروع ہو جائیں گی اور اگر عشقیہ اشعار سے کوئی شخص مناسبت پیدا کر لے تو اسے وہ سنائی دینے لگتے ہیںتو یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ میں اسی امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یعنی یا تو اس طرح جس کا حضرت مظہر جان جاناں صاحب نے ایک مثال میں ذکر کیا اور بتایا کہ زمین و آسمان کا ذرّہ ذرّہ اس کی تسبیح کرتا ہے یا اس طرح کہ ہماری تسبیح کے مقابلہ میں زمین و آسمان گونجتا اور اس سے تسبیح کی آوازیں پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں۔انہی معنوں کو اس سورۃ کی اگلی آیت بالکل واضح کر دیتی ہے۔اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ اِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُبِیْنٍ۔۷؎ فرمایا اگر زمین و آسمان کے ذرّات کی تسبیح تمہیں سنائی نہیں دیتی اور تمہارے کان اس کے سننے سے بہرہ ہیں، اگر تم نہیں جانتے کہ دریا کس طرح اس کی تسبیح کر رہے ہیں اور تمہارے کان اس کے سننے سے بہرہ ہیں، اگر تم نہیں جانتے کہ پہاڑ کس طرح اس کی تسبیح کر رہے ہیں اور تمہارے کان اس کے سننے سے بہرہ ہیں، اگر تم نہیں جانتے کہ ریت کے ذرّات کس طرح اس کی تسبیح کر رہے ہیں اور تمہارے کان اس کے سننے سے بہرہ ہیں، تو آؤ اس کی تسبیح کی ہم تمہیں ایک مثال سناتے ہیں۔فرمایاایک اُمّی قوم تھی وہ خدا تعالیٰ کی تسبیح سے بالکل ناواقف تھی دنیا کے لوگ بھی نہیں سمجھ سکتے تھے کہ اس میں خداتعالیٰ کی تسبیح ہونے لگے گی۔
مکہ، مدینہ اور طائف کے لوگ محض شرک کو جانتے اور سمجھتے تھے۔کون کہہ سکتا ہے کہ وہ مشرک جو توحید کے نام تک سے ناواقف تھے توحید پر جانیں قربان کرنے والے بن جائیں گے اور کون انسان مکہ والوں اور مدینہ والوں اور طائف والوں اور یمامہ والوں کو دیکھ کر کہہ سکتا تھا کہ ان میں تسبیح کی آوازیں پیدا ہونی شروع ہو جائیں گی مگر فرمایاھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ ہم نے اپنا ایک آدمی ان میں بھیجا جو روحانیت کی سُریں نکالنی جانتا تھا،جس طرح میوزک کا ماہر پیانو کی تاروں کو بجا کر ان میںسے آوازیں پیدا کر لیتا ہے ناواقف آدمی آوازیں پیدا نہیں کر سکتااسی طرح مکہ ،مدینہ، طائف اور یمامہ والوں کی حالت تھی ان سے اگر آواز آتی تھی تو یہ کہ لات اچھا اور عزّٰی اچھا ۔تب ہم نے ان کی اس حالتِ زار کو دیکھ کر وہ رسول بھیجا جو دلوں کی سارنگیاں بجانے والا تھا اس نے ان میں وہی چاروں صفات پیدا کر دیں جو ہم ہر مؤمن میں پیدا کرنا چاہتے ہیںحالانکہ پہلے ان کے دلوں سے کوئی آواز نہ آتی تھی۔جس کے معنی یہ ہیں کہ اس رسول کے آنے کے ساتھ ہی ان کے دلوں میں تسبیح کی آواز پیدا ہونی شروع ہو گئی ۔جس طرح ایک واقف اور ماہر گویّا سارنگی کی تاروں کو بجا کر ان سے قِسم قِسم کے گیت پیدا کر لیتا ہے اسی طرح محمد رسول اﷲ ﷺ نے کیا اور سارا عرب تسبیح کی آوازوں سے گونج اُٹھا پس فرمایا یہ مثال تمہارے سامنے ہے ۔کیا مکہ والوں کے دلوں سے کسی تسبیح کی آواز سننے کی توقع کی جا سکتی تھی ؟کیا تم نہیں جانتے کہ وہ توحید سے عاری تھے اور بُتوں پر فریفتہ؟ مگر دیکھو تو محمد ﷺآئے تو آپ نے کس طرح ان میں سُریں پیدا کر دیں ۔پس جس کو علم ہوتا ہے ،جو واقف اور ماہر ہوتا ہے وہ زمین کے ذرّہ ذرّہ سے تسبیح کی آوازیں پیدا کر لیتا ہے ۔اس مثال کے ذریعہ اﷲ تعالیٰ مسلمانوں کو توجہ دلاتا ہے کہ جب دنیا سے بظاہر خدا تعالیٰ کی تسبیح مٹ جائے تو تم مت سمجھو کہ خدا تعالیٰ کی تسبیح مٹ گئی ہے۔تسبیح اس کے ذرّہ ذرّہ میں پائی جاتی ہے ہاں ضرورت ایک گویّا کی ہوتی ہے ایسے شخص کی ضرورت ہوتی ہے جو پیانو کی تاروں کو چھیڑے اور اس سے گاڈ سیو دی کنگ (GOD SAVE THE KING) کی آواز پیدا کرے۔اگر چاہو تو تم بھی زمین کے ذرّہ ذرّہ سے تسبیح کہلوا سکتے ہو مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ تمہیں واقفیت ہو ۔تم روحانی گویّے بننے کی کوشش کرو اور اگر تم روحانی گویّے بن جاؤ گے تو زمین و آسمان کی بے جان چیزیں بھیسُبْحَانَ اللّٰہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ کہنے لگ جائیں گی۔پس ان آیات میں ایک طرف تو یہ بتایاکہ جس طرح اﷲ تعالیٰ مَلِک ہے ،قُدُّوْس ہے ،عَزِیْز ہے،حَکِیْم ہے اور دوسری طرف یہ بتایا کہ جس طرح ہم مَلِک ہیں اور زمین و آسمان کا ذرّہ ذرّہ ہماری تسبیح کر رہا ہے، جس طرح ہمقُدُّوْس ہیں اور دنیا کے ذرّات ہماری قدوسیت کا اقرارکر رہے ہیں ،جس طرح ہم عَزِیْز ہیں اور دنیا کے ذرّات ہماری عزیزیت کا اظہار کر رہے ہیں ،جس طرح ہمحَکِیْم ہیں اور دنیا کے ذرّات ہماری حکمت کا اعتراف کرتے ہیں اسی طرح اگر تم بھی مَلِکبن جاؤ ۔تم بھی قُدُّوْس بن جاؤ،تم بھی عَزِیْزاورحَکِیْم بن جاؤتو تمہارے ہاتھوں بھی یہ دنیا کی چیزیں سُبْحَانَ اللّٰہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ کرنے لگ جائیں گی۔صرف اس امر کی ضرورت ہے کہ تم اپنے آپ کو جاہل نہ سمجھوبلکہ مَلِک،قُدُّوْس ، عَزِیْزاور حَکِیْم سمجھو۔غلطی تم کو یہ لگی ہوئی ہے کہ گویا تم کچھ بھی نہیں حالانکہ تم سب کچھ ہو ۔تم مَلِک بھی ہو تم قُدُّوْس بھی ہو تم عَزِیْزبھی ہو تم حَکِیْمبھی ہو ۔اور دوسری طرف تم یہ سمجھو کہ دنیا کے ہر ذرّہ میں قابلیت موجود ہے صرف اس کے تاروں کو چھیڑنے کی ضرورت ہے۔اگر تم عقلمندی سے اس کے تاروں کو چھیڑو گے تو زمین و آسمان کے ذرّہ ذرّہ سے تسبیح کی آوازیں بلند ہونا شروع ہو جائیں گی۔
(الفضل ۳؍مارچ۱۹۳۵ئ)
۱؎ الجمعۃ:۲ ۲؎ اٰل عمرٰن:۱۳۴
۳؎ مسلم کتاب الامارۃ باب ثبوت الجنۃ للشھید
۴؎ الفاتحۃ:۱ تا ۳
۵؎ تذکرہ صفحہ ۵۲۷ ۔ ایڈیشن چہارم
۶؎ بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوۃ فی الاسلام
۷؎ الجمعۃ:۳






۹
ظالم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا
(فرمودہ یکم مارچ ۱۹۳۵ئ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
میں نے پچھلے جمعہ کے خطبہ میںیہ ذکر کیا تھا کہھُوَالَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ ۱؎ میں الْمَلِکِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِِ ۲؎کی تفسیر بیان کی گئی ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح اﷲتعالیٰ کے مَلِک، قُدُّوْس، عَزِیْز اور حَکِیْم ہونے کی تسبیح دنیا کر رہی ہے۔اور مثال یہ دی گئی ہے کہ رسول کریم ﷺ کی بعثت سے پہلے عرب کے لوگ تسبیح ،تحمید اور توحید سے بالکل خالی تھے۔جس طرح ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے والا بچہ علوم سے خالی ہوتا ہے ویسے ہی وہ لوگ روحانی علوم اور نیکی و تقو ٰی سے خالی تھے اور اُن کو دیکھ کر کوئی یہ خیال بھی نہیں کر سکتا تھا کہ ان میں سے ایسے لوگ پیدا ہو جائیں گے جو اﷲتعالیٰ کی تسبیح اور تحمید کو دنیا میں پھیلائیں گے۔ایسی حالت میں اﷲتعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کو مبعوث فرمایا اور آپ کی بعثت کی برکت سے عرب کے وہ لوگ جن کا گزارہ ہی شرک پر تھا اور جو توحید کے نام تک سے ناواقف تھے اﷲتعالیٰ کی ایسی تسبیح اور تحمید کرنے لگ گئے کہ دنیا حیران رہ گئی وہ لوگ اس سے پہلیضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ ۳؎میں تھے اور ان کو دیکھنے والا ہر شخص یہ خیال کرتا تھا کہ یہ کبھی ہدایت کا راستہ نہیں پا سکتے۔ایک گمراہی مشتبہہ ہوتی ہے اور ایک صاف نظر آتی ہے۔ایک ہندو جو رات دن عبادتِ الٰہی میں مشغول رہتا ہے، محبتِ الٰہی پرتقریریں کرتا ہے، اپنی زندگی غرباء کی پرورش کے لئے وقف کر دیتا ہے، اپنے مال و دولت سے حاجت مندوں کی حوائج پوری کرتا ہے ،ہمیشہ سچ بولتا ہے، جھوٹ سے پرہیز کرتا ہے، چوری ،ڈاکہ ،فساد ،خون ریزی، بغاوت سے مجتنب رہتا ہے ایسے انسان کے متعلق اگر کسی ایسے مسلمان کے سامنے جو ساری صداقت کو اسلام میں ہی سمجھتا ہے سوال کیا جائے کہ اس ہندو کو تم کس طرح گمراہ کہتے ہو تو اس کے لئے اس کی گمراہی کا ثابت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔اسی طرح عیسائیوں میں بھی ایسے لوگ ہیں جو اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں، توحید کے قائل ہیں، دنیا کے آرام کے لئے خود تکلیف اُٹھاتے ہیں ،ایسے ایسے جنگلی علاقوں میں پہنچ کر جہاں کے رہنے والے دوائی کا نام نہیں جانتے، لوگوں کو بیماریوں سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں،مردم خوروں میں جا پہنچتے ہیں ایک کو وہ کھا لیتے ہیں تو دوسرا سامنے آ جاتا ہے،ان کے متعلق اگر سوال کیا جائے کہ ان کے متعلق تم کس طرح کہہ سکتے ہو کہ یہ گمراہ ہیں تو ان کی گمراہی کو ثابت کرنا مشکل ہو گا کیونکہ ان میں بہت سی ہدایت کی باتیں ہوتی ہیں اس لئے تمیز کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔
جب نور اور ظلمت ملے ہوئے ہوں تو ان میں امتیاز کرنے میں غلطی لگ سکتی ہے۔شام کے وقت جب سورج غروب ہو چکا ہو اگر دریافت کیا جائے کہ اس وقت اندھیرا ہے یا روشنی ،تو کئی لوگ کہہ دیں گے اندھیرا ہے اور کئی روشنی بتائیں گے۔اسی طرح صبح جب پَوپھوٹ چکی ہو لیکن سورج ابھی نہ نکلا ہو تو کئی کہہ دیں گے دن چڑھ گیا ہے اور کئی کہیں گے ابھی نہیں چڑھا کیونکہ اُس وقت امتیاز مشکل ہوتا ہے۔ اور اﷲتعالیٰ فرماتا ہے کہ مکہ کے لوگوں کی گمراہی مشتبہہ نہ تھی یہ نہیں کہ ان کے اعمال میں خرابی تھی لیکن عقائد درست تھے یا عقائد میں خرابی تھی مگر اعمال درست تھے یا بعض عقائد اچھے اور بعض خراب تھے اور اسی طرح بعض اعمال اچھے اور بعض خراب تھے بلکہ ان کی گمراہی اس قدر کُھلی ہوئی تھی کہ ہر دیکھنے والا یہی خیال کرتا تھا کہ یہ کبھی راستی پر نہیں آ سکتے مگر رسول کریم ﷺ نے جب ان کو ہاتھ لگایا تو وہ پیتل سے سونا بن گئے جس طرح کیمیا گر پیتل کو سونے میں تبدیل کر دیتا ہے۔٭اسی طرح رسول کریم ﷺ نے جب ان کو ہاتھ میں لیا تو وہ چمکتا ہؤا سونا بن گئے اور ہر سُنار نے کہا کہ یہ خالص سونا ہے۔ یورپ والوں نے تاریخیں لکھی ہیں اور تسلیم کیا ہے کہ ان کی حالت بالکل بدل گئی تھی، ٭(نوٹ:حضور نے وضاحت فرمائی کہ ’’میں تو پیتل سے سونا بننے کا قائل نہیں۔بعض مثالیں خطابی ہوتی ہیں۔اس میں بھی کیمیا گر کے دعوے پر مثال کی بنیاد رکھی گئی ہے نہ کہ اپنے عقیدہ پر‘‘(الفضل ۳۰ مارچ ۱۹۳۵ئ)
ایشیا والوں نے یہی تسلیم کیا ہے ،ایرانیوں نے یہی تسلیم کیا ہے، مسلمان ابی سینیا میں پہنچے اور وہاں کے لوگوں نے مان لیا کہ یہ اب کچھ اور ہی ہو گئے ہیں۔مصر میں گئے ،ہندوستان میں آئے اور اسی تبدیلی کی وجہ سے جو رسول کریم ﷺ نے ان میں پیدا کر دی تھی لوگ انہیں پہچان نہ سکے۔ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کے اندر یہ چاروں باتیں پیدا ہو گئیں انہیں مَلِکیت بھی حاصل ہو ئی، قدوسیت ،عزیزیت اور حکیمیت بھی۔مؤمن کی مَلِکیت کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ اس کے پاس بڑی فوجیں ہوں، خزانے ہوں، وسیع سلطنت زیر نگیں ہو، یونیورسٹیاں جاری ہوں بلکہ اس کی حکومت روحانی ہوتی ہے۔رسول کریم ﷺ نے ان لوگوں کو خدا کی آیات سنائیں، اس کی صفات کھول کر بیان کیں اور انہوں نے ان کو اپنے اندر جذب کر لیا اور اس طرح وہ بھی روحانیت کے بادشاہ ہو گئے۔آپ نے ان کو قدوسیت کی باتیں سکھائیں اور ان کو پاک کر دیا اور وہ خود بھی پاک ہو گئے اور دوسروں کو بھی پاک کرنے والے بن گئے ۔اسی طرح اﷲتعالیٰ عزیز ہے رسول کریم ﷺ نے ان کے اندر بھی عزیزیت پیدا کی ۔آپ نے ایک قانون مقرر کر دیا کہ فجر کے وقت نماز پڑھنی ہے اب ہر صبح ہر ایک مؤمن اُٹھتا ہے اور نماز پڑھتا ہے، ظہر کی نماز ہے جب اس کا وقت ہو سب مؤمن نماز میں لگ جاتے ہیں ،پھر عصر کے وقت ایک خاص طرز پر نماز پڑھنے کا حکم ہے جو وقتِ مقررہ پر ہمیشہ پڑھی جاتی ہے پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھائی ہوئی عبادت میں ایسا استقلال ہے اور احکام ایسے واضح ہیں کہ انسان اِدھر اُدھر نہیں ہو سکتا اور یہ عزیزیت ہے ہر مسلمان اپنے نفس کے گھوڑے پر مضبوطی سے سوار اسے خدا کی طرف دَوڑائے لئے جا رہا ہے۔قرآن کریم میں اﷲتعالیٰ نے مؤمنوں کیلئے عَلٰی ھُدًی مِّنْ رَّبِّھِمْ۴؎ فرمایا ہے یعنی مؤمن ہدایت پر سوار ہے اور نفس کے گھوڑے کو قابو میں رکھتے ہوئے نیکی اور تقویٰ کی راہ پر لئے جا رہا ہے۔پھر اﷲتعالیٰ حکیم ہے اور رسول کریم ﷺ نے صحابہ کو حکمت کی باتیں سکھائیں اور ان کے اندر ایسا عرفان پیدا کر دیا،ایسی عقلمندی سکھائی کہ مؤمن بے وقوفی کی باتیں کرتا ہی نہیں۔اسے جوش آتا ہے تب بھی عقل قائم رہتی ہے اور محبت کے جذبات غالب ہوتے ہیں تب بھی عقل قائم رہتی ہے۔رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ مؤمن اگر کسی سے محبت کرتا ہے تو ایسے رنگ میں کہ خیال رکھتا ہے ممکن ہے کل یہ میرا دشمن ہو جائے اور اگر کسی سے دشمنی رکھتا ہے تو اس خیال سے کہ ممکن ہے کل یہ میرا دوست ہو جائے ۵؎گویا وہ غصہ اور محبت دونوں حالتوں میں عقل کو نہیں کھوتا۔تین ہی حالتیں ایسی ہو سکتی ہیں جو انسان کی عقل مار دیں،شہوات ،محبت اور غصہ مگر اسلام نے ان سب حالتوں کے متعلق ایسا طریق سکھایا ہے کہ کسی میں بھی عقل نہ ماری جائے۔ مثلاً شہوات کو ہی لے لو رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب آدمی اپنی بیوی کے پاس بھی جائے تو خدا کا ذکر کرے اور یہ دعا مانگے اَللّٰھُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ وَ جَنِّبِ الشّیَْطَانَ مَارَزَقْتَنَا ۶؎ غرض کوئی حالت نہیں جب مسلمان عقل کو کھو ڈالے۔
اب فرماتا ہے وَ اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِہِمْ وَ ھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ۷؎ یعنی محمد رسول اﷲ ﷺ ایک اور جماعت کو بھی یہی تعلیم دیں گے۔اس کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ رسول کریم ﷺ کو پھر مبعوث کرے گااور یہ بھی کہ رسول کریم ﷺ پھر تزکیہ کریں گے اور حکمت سکھائیں گے ان لوگوں کو جو صحابہ سے اس وقت تک نہیں ملے تھے۔بخاری میں حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہکُنَّا جُلُوْسًا عِنْدَ الْنَّبِیِّ ﷺ فَاُنْزِلَتْ عَلَیْہِ سُوْرَۃُ الْجُمُعَۃِ وَ اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِہِمْ وَ ھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ قَالَ قُلْتُ مَنْ ھُمْ یَا رَسُوْلَ اﷲِ!فَلَمْ یُرَاجِعْہُ حَتّٰی سَاَلَ ثَلَاثًا فَوَضَعَ یَدَہ‘ عَلٰی سَلْمَانَ الْفَارِسِیِّ وَ قَالَ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَوْ کَانَ الْاِیْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُّرَیَّا لَنَا لَہ‘ رِجَالٌ مِنْ ھٰؤُلَائِ۔ ۸؎ یعنی ہم رسول کریم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جس وقت سورۃ جمعہ نازل ہوئی اور آپ نے وہ سورۃ پڑھی جب آپ وَ اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِہِمْ پر پہنچے ایک شخص نے سوال کیا۔یَا رَسُوْلَ اﷲِ! وہ کون لوگ ہیں جو اب تک ہم سے نہیں ملے۔اس پر آپ نے اپنا ہاتھ سلمان فارسی پر رکھا اور فرمایا مجھے اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر ایمان ثریا سے بھی جا چمٹے تو ان میں سے کچھ لوگ اسے وہاں سے بھی اُتار لائیں گے۔اس طرح آپ نے بتا دیا کہ جب اسلام مٹ جائے گا تو فارسی الاصل لوگوں میں سے ایسے افراد پیدا ہوں گے جو اسے پھر دنیا میں قائم کر دیں گے۔اٰخَرِیْن ہونے کے مدّعی سوائے آپ کے دنیا میں اور کوئی نہیں اور آج تک کوئی بھی مدعی ایسا نہیں گزرا جس نے اِس آیت کے مطابق دعویٰ کیا ہو۔
بے شک بعض بہائی کہتے ہیں کہ اس کا مصداق بہاء اﷲ ہے مگر یہاں رسول کریم ﷺ کی دوبارہ بعثت اور آپ ہی کی شریعت کے دوبارہ قیام کا ذکر ہے اور بہاء اﷲ نئی کتاب اور نئی شریعت کا مدعی ہے۔اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایسا ہی شخص مراد ہے جو قرآن کریم کی تعلیم کو پھیلائے اور اس کی خدمت کرے ، اس کا تزکیہ محمد رسول اﷲ ﷺ کا تزکیہ کہلا سکے، اس کا کتاب سکھانا اور تلاوت آیات محمد رسول اﷲ ﷺ کی طرف منسوب ہو سکے اور جب تک کوئی ایسا آدمی کھڑا نہ ہو اُس وقت تک پیشگوئی پوری نہیں ہو سکتی۔اگر اسے بہاء اﷲ پر چسپاں کر دیا جائے تو یہ پیشگوئی باطل ہو جاتی ہے کیونکہ یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ قرآن کریم ہی دوبارہ سکھایا جائے گا۔پس بہاء اﷲ پر تو یہ پیشگوئی چسپاں ہی نہیں ہو سکتی اور فارسی الاصل صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات ہی باقی رہ جاتی ہے اور آپ ہی نے اپنے دعویٰ کی بنیاد اس پیشگوئی پر رکھی ہے اور فرمایا ہے کہ مجھے اﷲتعالیٰ نے اس لئے بھیجا ہے کہ شریعتِ اسلامیہ کو دوبارہ قائم کروں جسے لوگ بھول گئے ہیں ۔مَیں کوئی نیا ایمان نہیں لایا بلکہ اس لئے آیا ہوں کہ محمد رسول اﷲ ﷺ کے ایمان کو ہی دلوں میں قائم کروں اور یہی اس آیت سے ثابت ہے کہ کوئی نئی چیز نہیں بلکہ محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہؤا دین ہی وہ موعود دوبارہ قائم کرے گا۔اس کے ساتھ فرمایا ھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ہم عزیز ہیں جب ہم نے کہہ دیا کہ یہ آخری تعلیم ہے تو اگر دنیا کے اختتام سے پہلے ہی اس کی حفاظت اور خبر گیری چھوڑ دیں تو یہ عزیز ہونے کے منافی ہو گا۔(کیونکہ عزیز کے معنی غالب کے ہیں اور غالب درمیان میں کام نہیں چھوڑا کرتے ۔کام وہی چھوڑتے ہیں جو کام کر نہ سکیں یا نفس کے غلام ہوںاور شہوات انہیں اِدھر سے اُدھر لے جائیں) ایک شخص ظہر کی نماز کے فرض شروع کرتا ہے اور چار رکعت پوری کر کے چھوڑتا ہے تو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس میں استقلال نہیں لیکن جو دو پڑھ کر ہی چھوڑ دیتا ہے اس کے متعلق ہر شخص یہی کہے گا کہ یہ غیر مستقل ہے ۔جس لڑکے کے والدین اسے انٹرنس تک ہی تعلیم دلوا سکتے ہیں وہ اگر امتحان پاس کرنے کے بعد سکول میں نہیں جاتا تو کوئی شخص اسے غیر مستقل نہیں کہہ سکتا لیکن اگر وہ امتحان سے چھ ماہ قبل ہی سکول چھوڑ دے تو یقینا غیرمستقل کہلائے گا ۔تو اﷲتعالیٰ فرماتا ہے کہ جب ہم نے محمد رسول اﷲ ﷺ کو قیامت تک کے لئے مبعوث کیا ہے تو یہ ہو نہیں سکتا کہ آپ کی لائی ہوئی تعلیم میں کوئی خرابی پیدا ہو اور ہم اس کی اصلاح کا بندوبست نہ کریں اس صورت میں تو ہم غیر مستقل ٹھہریں گے جو صفت ِعزیز کے خلاف ہے اس لئے یہ امر لازمی ہے کہ قیامت سے پہلے جب بھی کوئی خرابی ہو، ہم ایسے لوگوں کو جو آپ کے تابع اور آپ کی نبوت کے حصہ میں شامل اور آپ ہی کے سایہ کے نیچے ہوں، کھڑا کرتے رہیں ۔تا عدمِ استقلال کا الزام ہم پر نہ آ سکے۔پھر فرمایا ہم حکیم بھی ہیں اس لئے جہاں بیماری دیکھتے ہیں وہاں نسخہ تجویز کرتے ہیں۔ہمارے ہاں حکیم طبیب کو کہتے ہیں لیکن عربی میں وکیل کو بھی کہہ سکتے ہیں اور تاجر کو بھی۔ غرض ہر ماہر فن کو جو اپنے فن کی تمام جزئیات کو مد نظر رکھتے ہوئے مناسب موقع کام کرے۔ماہر فن طبیب بھی حکیم کہلا سکتا ہے ایسا شخص جب بیماری دیکھتا ہے تو اس کا علاج بھی کرتا ہے اور مفاسد کی اصلاح کرنا ضروری سمجھتا ہے۔اگر کوئی بیمار آئے اور حکیم کہہ دے کہ کوئی بات نہیں جاؤ کھاؤ پیؤ تو وہ اسے مارنے والا ہو گا ۔اسی طرح اﷲتعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم حکیم ہیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم خرابی دیکھیں اور اصلاح نہ کریں۔کس قدر عجیب بات ہے کہ آج مسلمان یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ مسلمان بگڑ سکتے ہیں اور بگڑ چکے ہیں مگر وہ یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ کوئی مصلح بھی آ سکتا ہے۔اگر ان کا یہ دعویٰ ہوتا کہ رسول کریم ﷺ کے بعد مسلمانوں میں خرابی پیدا ہو ہی نہیں سکتی تو یہ ایک بات تھی لیکن وہ کہتے تو یہ ہیں کہ مسلمان بگڑ گئے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ محمد رسول اﷲ ﷺ کے بعد ان کے بگاڑ کا کوئی علاج اب نہیں ہو سکتا۔بیماری تو ہے مگر صحت کے سامان مفقود ہیںلیکن اﷲتعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم حکیم ہیں یہ ہو نہیں سکتا کہ بیماری ہو اور ہم علاج نہ کریں۔ اس کے بعد فرمایا ذٰلِکَ فَضْلُ اﷲِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَائُ ۹؎ یہ کوئی معمولی فضل نہیں بلکہ صحابہ کی پہلی یا دوسری جماعت میں شامل ہونااﷲتعالیٰ کا خاص فضل ہے ،جسے چاہے دے دے۔محمد ﷺ اور آپ کے بروز کے زمانہ میں پیدا ہونا اور پھر ان کے ساتھ شامل ہونا اپنے کسی زور اور طاقت سے نہیں ہو سکتا بلکہ فضل سے ہی ہو سکتا ہے۔دیکھو اِس وقت بھی دنیا کے کتنے بڑے بڑے عالم کہلانے والے ہیں مگر وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو محمد رسول اﷲ ﷺ کا بروز سمجھنے کے بجائے نَعُوْذُ بِا للّٰہِدجّال اور کیا کیا کہہ رہے ہیںاس کے مُقابلہ میں تم میں سے کتنے جاہل کہلانے والے ہیں جنہیں اﷲتعالیٰ نے اس فضل سے حصہ پانے کی توفیق عطا کر دی۔پُرانے زمانوں میں لوگ فلسفہ ،منطق ،احادیث اور تفاسیر اور کیا کیا علوم پڑھتے تھے اور پھر صوفی بنتے تھے اور روحانی علوم سیکھتے تھے مگر آج وہ لوگ روحانی علوم رکھتے ہیں جو بظاہر بالکل جاہل ہیں۔لوگ جاہل کہے جانے پر ناراض ہوتے ہیں مگر میں تو خوش ہوتا ہوںکیونکہ جب وہ مجھے جاہل کہتے ہیں تو گویا اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ میں خدا تعالیٰ کا ہتھیار ہوں اور جب اس نے دین کی خدمت کا مجھے موقع دیا تو یہ اس کا فضل ہے۔اگر میں اَن پڑھ ہونے کے باوجود علم کی باتیں بیان کرتا ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے مجھے چن لیااور مجھے جاہل کہہ کر میرے مخالف گویا یہ تسلیم کرتے ہیں کہ میری باتیں میری نہیں بلکہ خدا کی سکھائی ہوئی ہیں۔یہ اﷲتعالیٰ کا فضل ہے کہ جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب پڑھتے ہیں وہ مانتے ہیں کہ ان میں بڑا علم ہے حالانکہ آپ کے دشمن آپ کو جاہل کہتے ہیں۔آپ کا درجہ تو بڑا ہے ہم جو آپ کے ادنیٰ خدام ہیں ہمارے ساتھ بھی اس کا یہی معاملہ ہے، مجھے اپنے اور بیگانے جاہل کہتے چلے آئے ہیں لیکن چند سال ہوئے فرانس کی رائل ایشاٹک سوسائٹی نے جو بہت وقیع سوسائٹی ہے اور جس کی ممبر شپ کا اظہار لوگ فخریہ طور پر اپنے ناموں کے ساتھ کرتے ہیں میری کتاب ’’احمدیت ‘‘کا حوالہ دے کر اسلام کے متعلق ایک مضمون لکھااور میری کتاب کے متعلق لکھا کہ اسلام کے متعلق وہ تصنیف اہم ترین ہے ۔پس میں گو جاہل ہوں مگر ایسی بانسری ہوں جو خدا تعالیٰ کے منہ میں ہے اور خدا تعالیٰ کی آواز پہنچانے والی بانسری کے متعلق کون کہہ سکتا ہے کہ یہ حقیر لکڑی ہے،حقیر لکڑی بھی خدا تعالیٰ کا آلہ بن کر بڑی قیمتی ہو جاتی ہے۔لوگ پرانے بادشاہوں کی تلواروں کو بڑی حفاظت سے رکھتے ہیں حالانکہ وہ کسی خاص لوہے کی بنی ہوئی نہیں ہوتیں ان کی فضیلت اسی وجہ سے ہوتی ہے کہ وہ خاص ہاتھوں میں استعمال کی جا چکی ہیں پھر جو تلوار اﷲتعالیٰ کے ہاتھ میں ہو اسے فضیلت کیوں نہ ہو گی ۔بے شک ہے تو وہ لوہا مگر خدا کے ہاتھ میں ہے۔حضرت خالد بن ولید کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سَیْفٌ مِنْ سُیُوْفِ اﷲِ ۱۰؎ کہا تو کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ ان کی ہتک کی گئی ہے انہیں لوہا کہا گیا ہے جو بے جان چیز ہے کیونکہ جو لوہا خدا کے ہاتھ میں ہو وہ حقیر نہیں ہو سکتا اسے خدا نے نوازا ہے ۔پس صرف جاہل کہہ دینے سے کچھ نہیں بنتادیکھنے والی بات یہ ہے کہ کام عالموں والے ہیں یا نہیں ہیںاگر ہیں تو ماننا پڑے گا کہ کسی عالم ہستی کے ساتھ تعلق ہے۔پھر وَاﷲُ ذُواالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ ۱۱؎ فر ما کر یہ بتایا ہے کہ جن لوگوں پر یہ فضل ہؤا دوسروں کو ان پر ناراض ہونے اور بگڑنے کی ضرورت نہیںہم جسے چاہیں یہ فضل دے سکتے ہیں، وَاﷲُ ذُواالْفَضْلِ الْعَظِیْمِاﷲتعالیٰ بڑے فضلوں والا ہے اگر اس نے دینی علوم اپنے مسیح موعود یا خلفاء کو دیئے ہیں تو تمہیں اس پر غصہ ہونے اور حسد کرنے کی ضرورت نہیں اﷲتعالیٰ ویسے ہی فضل تم پر بھی کر سکتا ہے۔حسد کی گنجائش وہاں ہوتی ہے جہاں ساری چیز ہی دوسرا لے جائے اور اپنے لئے اسے حاصل کرنے کا کوئی موقع نہ رہے مگر اﷲتعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کے فضل ختم نہیں ہوتے۔آؤ اس کے مسیح پر ایمان لے آؤ اور یہی علوم تم بھی حاصل کر سکو گے۔حسد تو وہاں ہوتا ہے جہاں خزانہ خالی ہو جائے مگر خدا کا خزانہ تو کبھی خالی نہیں ہوسکتا۔پھر فرمایا مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوا التَّوْرٰۃَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْھَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًا۱۲؎ اے مسلمانو! ہم تمہیں کتاب سکھاتے ہیں، آیات کی تلاوت کراتے ہیں، قدوس بناتے ہیں ،حکمت سکھاتے ہیں محمد رسول اﷲ ﷺ تمہیں ایسی تعلیم دیتا ہے جو خدا کا بروز اور اس کا مثیل بنا دیتی ہے ۔تمہارے ذریعہ خدا تعالیٰ کا ظہور دنیا میں ہو گا مگر یہ خصوصیات تمہارے اندر اس وقت تک رہیں گی جب تک حقیقی تعلق تمہارا اس کتاب کے ساتھ رہے گا جب یہ نہیں رہے گا تو تمہارے اندر بھی کوئی خوبی نہ رہے گی اور اس کی مثال یہ دی ہے کہ محمد ﷺسے پہلے بھی ایک نبی آیا جس کے پاس تورات تھی۔یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تورات کے ذریعہ اپنی قوم کا درجہ بہت بلند کر دیا تھا وہ قوم سانپ تھی مگر اس کے ہاتھ میں آ کر عصا بن گئی۔سانپ جان لیتا ہے اور عصا جان کی حفاظت کرتا ہے ۔گویا جو قوم گمراہ کرتی تھی وہ خود ہادی بن گئی۔ان کے اندر یہ تغیر کس طرح پیدا ہؤا؟ یہ تورات کے ساتھ ان کا تعلق ہی تھا جس نے ان کی کایا پلٹ دی اور انہیں مَلِک و قدوس وعزیز اور حکیم بنا دیا اور انہیں روحانی اور جسمانی دونوں بادشاہتیں حاصل ہوئیں لیکن جب ان کا تعلق اس کے ساتھ نہ رہا تو ان کی یہ خصوصیات بھی ساتھ ہی مٹ گئیں۔ تورات موجود تھی مگر اس سے انہیں کوئی فائدہ نہ تھا کیونکہ تعلق باقی نہ رہا تھا ۔کوئی کتاب خواہ کتنی مفید کیوں نہ ہو خالی اوپر رکھ دینے سے فائد ہ نہیں پہنچا سکتی فائدہ اُس پر عمل کرنے سے پہنچتا ہے ۔کتاب کا موجود ہونا اگر اس سے فائدہ نہ اُٹھایا جائے ایسا ہی ہے جیسے گدھے پر کتابیں لاد دی جائیں،کیا اُس گدھے کو جس پر کتابیں لادی ہوئی ہوں کوئی عالِم کہتا ہے ؟اگر ایک مزدور کے سر پر ہیروں کی گٹھڑی رکھی ہوئی ہو تو وہ امیر نہیں کہلا سکتا اسے ہیرے اونچا نہیں کرتے بلکہ اس کے سر کو نیچا ہی کرتے ہیں۔ اگر کسی شخص کے سر پراَڑھائی تین مَن سونا رکھ دیا جائے تو اس سے اس کا سر نیچے جھکے گا، بلند نہیں ہو گا،ہاں اگر اتنا روپیہ اس کے پاس ہو تو یقینا وہ دنیا میں عزت پائے گا۔اسی طرح روحانی علوم کو اگر کوئی شخص اپنے اندر جذب نہ کرے ان کی حقیقت تک نہ پہنچے بلکہ صرف چھلکے پر ہی اکتفا کرے تو وہ کوئی عزت نہیں پا سکتااس لئے فرمایا یاد رکھو بے شک اﷲتعالیٰ بڑا فضل کرنے والا ہے اور اس کتاب پر عمل کر کے تم ملک ،قدوس ،عزیز، حکیم بن سکتے ہو مگر مغرور نہ ہونا کہ ہم ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو گئے ہیں جس طرح یہ کتاب ملک بنا سکتی ہے اسی طرح اسے نظر انداز کر دینا ذلیل بھی کر دیتا ہے ،جس طرح یہ عزیز بناتی ہے اسی طرح ذلیل بھی کر دیتی ہے، جس طرح یہ حکیم بناتی ہے اس کی خلاف ورزی پاگل اور بے وقوف بھی کردیتی ہے جب تم قرآن کو چھوڑ دو گے تو تمہاری مثال اُس گدھے کی سی ہو گی جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں۔یاد رکھو کہ تم سے پہلے یہود نے ایسا کیا اور ان کی حالت ذلیل ہو گئی ہے اگر کسی قوم کے پاس خدا کا کلام نہ ہو تو وہ عذر کر سکتی ہے کہ پتہ نہ تھا لیکن جب صداقت موجود ہو تو اس کا انکار کر کے کوئی قوم سزا سے کیونکر بچ سکتی ہے۔
اس کے بعد فرمایاوَاﷲُ لَایَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ ۱۳؎ ھُدًی کے معنی راستہ دکھانے یعنی کامیاب ہونے کے ہیں اور اس میں بتایا ہے کہ ظالم کو اﷲتعالیٰ کامیاب نہیں کرتا۔جب کوئی قوم ظالم ہو جائے تو اس کی کامیابی کے رستے آپ ہی آپ بند ہو جاتے ہیں۔یہ ایک اٹل قانون ہے جسے اﷲتعالیٰ نے دنیا میں قائم کیا ہے مگر افسوس کہ لوگ بھول جاتے ہیں جس طرح موت اگرچہ یقینی ہے اور ہر شخص جانتا ہے مگر پھر بھی لوگ اسے بھول جاتے ہیں ۔دنیا میں اور جتنی چیزیں ہیں ان میں سے کسی کو کوئی ملتی ہے اور کوئی کسی اور سے حصہ پاتا ہے ۔آنکھیں ہیں کسی کی ہوتی ہیںکوئی نابینا ہوتا ہے،زبان ہے کوئی بولتا ہے کوئی گونگا ہوتا ہے،حِسّ ہے کسی کی ہوتی ہے اور کوئی فالج زدہ ہوتا ہے، بال کسی کے ہوتے ہیں اور کوئی گنجا ہوتا ہے ،ناک کسی کی ہوتی ہے کوئی نکٹا ہوتا ہے ہاتھ کسی کے ہوتے ہیں اور کسی کے شل ہوتے ہیںغرض دنیا کی کوئی چیز لے لو کسی کو کوئی ملی ہو گی اور کسی کو کوئی لیکن موت ایسی چیز ہے جس سے ہر جاندار حصہ لیتا ہے مگر پھر بھی لوگ اسے بھول جاتے ہیں آخری وقت آ پہنچے تب بھی یہی امید ہوتی ہے کہ شاید اب بھی بچ جائیں۔قوموں کی ترقی اور تنزّل کا بھی یہی حال ہوتا ہے ایک قوم کوترقی حاصل ہوتی ہے وہ سمجھ لیتی ہے اب تنزّل نہیں ہو گااور دوسری گر جاتی ہے اور پھر خیال بھی نہیں کر سکتی کہ ہمیں بھی ترقی ہو گی۔میں نے خود چوہڑوں وغیرہ کو سمجھایا ہے کہ تم اپنے آپ کو ذلیل نہ سمجھا کرو مگر وہ یہی جواب دیتے ہیں کہ جس طرح پرمیشور نے ہمیں رکھا ہے ویسے ہی رہنا بہتر ہے،ان کے اندر ترقی کا احساس ہی نہیں رہتا ۔تو یاد رکھنا چاہئے کہ جس طرح موت ہر ایک کے ساتھ لگی ہوئی ہے اسی طرح یہ بھی اﷲتعالیٰ کا ایک قانون ہے کہ جب کوئی قوم ظالم ہو جائے ،خواہ وہ کتنی بڑی کیوں نہ ہو تنزّل کرے گی۔ہم سمجھتے ہیں ہم ظلم سے ترقی کریں گے حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے۔ اسی طرح بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس زمانہ میں سچ بولنے سے گزارہ نہیں ہو سکتا حالانکہ قرآن کریم سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ جھوٹ سے کبھی ترقی اور کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔اﷲتعالیٰ فرماتا ہے وَاﷲُ لَایَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ جب کوئی قوم اپنی قوت کا ناجائز استعمال کرتی ہے تو تباہ ہو جاتی ہے۔
اس کے متعلق اپنی جماعت کو یہ نصیحت کرنی چاہتا ہوں کہ اس بات کا خاص خیال رکھیں ہم اِس وقت کمزور ہیں لیکن کہیں ہمیں بھی قوت اور طاقت حاصل ہوتی ہے۔کوئی احمدی بڑا زمیندار یا تاجر یا کوئی افسر ہوتاہے جہاں بھی ایسا ہو، چاہئے کہ اپنی طاقت کا صحیح استعمال کیا جائے۔میں دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ سارے ہندوستان میں کوئی ایسا زمیندار نہیں ہو گا جو اپنے مزارعین اور کسانوں سے ایسا سلوک کرے جو ہم یہاں کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی مالکان میں سے سارے ملک میں شاید کوئی اتنا بدنام نہیں ہو گا جتنا ہم ہیں۔ہم تو قادیان کے واحد مالک ہیں لیکن کسی اور گاؤں میں جا کر دیکھ لو کوئی زمیندار چوتھے حصے کا ہی مالک کیوں نہ ہو کیا مجال جو اُس کے خلاف کوئی بات کر سکے مگر ہمارے سامنے سب بولتے ہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے قریب کے زمانہ کا واقعہ ہے کہ بندوبست کا کوئی تحصیلدار یا کوئی افسر یہاں آیا میں اُس زمانہ میں ابھی پڑھ رہا تھا ،اس محکمہ کا شاید کوئی قاعدہ ہے کہ مالیہ وغیرہ کے متعلق کسی کو اعتراض ہو تو دریافت کر لیتے ہیں شاید ایسی ہی کوئی بات تھی یا کوئی اور بات تھی اور افسر یہاں آیا ہؤا تھا مجھے بھی بلایا گیا تو ایک مزارع مجھے دیکھ کر کہنے لگا کہ جی! ان کو کیا پوچھتے ہوان کا تو روپیہ میں ایک آنہ ہی ہے۔کیا کہیں کوئی اور جگہ ہے جہاں کسان اس طرح بول سکیں حالانکہ جیسا سلوک ان لوگوں سے ہم یہاں کرتے ہیں ویسا اور کوئی نہ کرتا ہو گا۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں ایک دفعہ یہاں ایک مجسٹریٹ آیا اور آپ سے یہاں کے ہندوؤں کے متعلق ذکر کیا کہ وہ کچھ شاکی ہیں آپ نے ہندوؤں کو بلایا اور اس کے سامنے ان پر اپنی نوازشیں گنوانی شروع کیں ۔آپ نے بتانا شروع کیا کہ ہم نے ان لوگوں کے لئے یہ کیا ،یہ کیا اور فرمایا کہ یہ لوگ سامنے بیٹھے ہیں ان سے کہیں انکار کر دیں۔بڈھے شاہ وغیرہ سب بیٹھے تھے مگر کسی کو انکار کی جرأت نہ ہوئی۔اسی طرح یہاں کے ہندوؤں میں ایک دفعہ کچھ شورش ہوئی جو دراصل ان سب شورشوں کا پیش خیمہ ہے،ان دنوں بٹالہ کے ایک تحصیلدار جن کا نام شاید دیوان چند تھا یہاں آئے اور کہا کہ مَیں بطور سفارش آپ کے پاس آیا ہوں آپ ان کی شکایات کا خود ہی علاج کر دیں۔میں نے ان کے سامنے وہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام والا طریق پیش کیا اور بتایا کہ ان کے ساتھ فلاں موقع پر ہم نے یہ کیا اور فلاں موقع پر یہ کیا اور ان سے کہیں کہ ان میں سے ایک بات کا بھی انکار کر دیں انہوں نے تسلیم کیا کہ مَیں سمجھ گیا ہوںاب میں ان کی سفارش نہیں کروں گا اور ان کو جا کر ڈانٹا اور اس جھگڑے کی صلح صفائی کرا دی۔ہمارا سلوک ایسا ہے کہ گو کوئی ہمیں ظالم ہی کہے لیکن دلوں میں ہماری خوبی کو مانتے ہیں۔اب بھی ان لوگوں کو کوئی مصیبت پیش آئے تو امداد کے لئے ہمارے پاس آتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ظالم کے پاس مدد کے لئے کوئی نہیں جایا کرتا۔ہماری عادت یہ نہیں کہ نام ظاہر کریں لیکن اگر ضرورت ہو تو مَیں ثابت کر سکتا ہوں کہ ہم نے ہندوؤں، سکھوں اور غیراحمدیوں سب کی مدد کی ہے۔انہیں وظائف دیئے ہیں، کپڑے دیئے ہیں ،روپے دیئے ہیں اور اگر ضرورت ہو تو ان لوگوںکو سامنے بٹھا کر مَیں اقرار کرا سکتا ہوں کہ تم لوگوں کی فلاں فلاں مدد کی گئی یا نہیں۔۱۹۲۸ء میں جب میں ڈلہوزی گیا تو قادیان کے لالہ شرمپت صاحب کے لڑکے لالہ گوکل چند صاحب تحصیلدار جو فوت ہو چکے ہیں ،وہ بھی وہاں گئے ،ہمارے ساتھ کی کوٹھی میں گجرات کے ایک رئیس جو غالباً آنریری مجسٹریٹ بھی تھے مقیم تھے،لالہ گوکل چند صاحب دو چار روز کے لئے ہی وہاں گئے تھے اور ان کے ساتھ تعلقات تھے اس لئے ان کے ہاں ہی ٹھہرے ۔ایک دن مجھے ملنے آئے تو کہا کہ آپ کو ایک بات بتاتا ہوں میں نے اپنے میزبان سے کہا تھا کہ آپ مرزا صاحب سے ابھی تک کیوں نہیں ملے تو وہ کہنے لگے کہ وہ تو اس قدر ظالم اور متعصّب ہیں ،ان سے میں کیسے مل سکتا تھا۔وہ ہندوؤں سے بہت تعصّب رکھتے ہیں۔اس پر میں نے ان سے کہا کہ میں تو قادیان کا رہنے والا ہوںمیں خوب جانتا ہوں کہ یہ سب باتیں جھوٹی ہیں۔اس پر وہ حیران ہوئے اور کہنے لگے کہ اچھا یہ بات ہے ۔بہر حال جو انصاف کرنے والا ہے وہ خواہ کتنا بدنام ہو جائے مگر پھر بھی کامیاب وہی ہوتا ہے اب بھی ہمارے خلاف بہت شور ہے مگر اب بھی مَیں ایسی تحریریں دکھا سکتا ہوں کہ کوئی جھگڑا ہو تو کہتے ہیں آپ فیصلہ کر دیں۔ہم بار بار کہتے ہیں کہ عدالت میںجاؤ مگر کہتے ہیں کہ نہیں آپ ہی فیصلہ کر دیں۔تواﷲتعالیٰ کے فضل سے ہمیں اس زمانہ میں اس بات کی توفیق ملی ہے کہ انصاف قائم کریں گو اس وقت بدنام ہیں مگر یہ بدنامی زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی دلوں میں ہماری قدر خدا کے فضل سے ہے۔مجھے ایک دوست نے سنایا کہ ٹریبیون میں جب میری وفات کی غلط خبر شائع ہوئی تو ایک مخالف نے مجھے فون کیا کہ سناؤ کوئی خبر قادیان کے متعلق ہے مجھے چونکہ کئی لوگ پہلے بھی پوچھ چکے تھے اور مجھے غصہ چڑھا ہؤا تھااس لئے میں نے اسے کہا کہ چُپ رہومگر اس نے کہا کہ نہیں میں بدنیتی سے نہیں پوچھتا بتاؤ کیا بات ہے مگر مجھے چونکہ غصہ تھا اس لئے میں نے پھر کہا کہ چُپ رہومگر اس نے کہا کہ خدا کے لئے بتاؤ کیا بات ہے مجھے فکر ہے اس لئے پوچھتا ہوںاور جب میں نے بتایا تو اُس نے ذرا پرے ہو کر کہا جس کی مجھے آواز آئی کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِتو اﷲتعالیٰ کے فضل سے مخالفوں کے دلوں میں بھی ہماری قدر ہے،تم کبھی یہ خیال بھی نہ کرو کہ ظلم کامیاب ہو سکتا ہے ۔اگرچہ اس وقت ہمیں بدنام کیا جا رہا ہے مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ جب دیکھتے ہیں کہ یہ ہمیں دیتے ہیں تو خیال کرتے ہیںکہ سب کچھ کیوں نہیں دیتے مگر جب انہیں معلوم ہو گا کہ رحم اور انصاف کی کیا حدود ہیں تو ضرور نادم ہوں گے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ ولسلام جب فوت ہوئے تو ہندو ،سکھ، غیر احمدی سب رو رہے تھے حالانکہ زندگی میں یہی لوگ آپ کو گالیاں دیا کرتے تھے۔میں نے اِس وقت جماعت کو ایک گُر بتا دیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ظالم کو کبھی ہدایت نہیں دیتا اس لئے اپنے اعمال میں ظلم مت پیدا ہونے دو۔اپنے رویہ میں نرمی رکھو۔ اﷲ تعالیٰ دولت دے تو تمہارے اندر اِنکسار پیدا ہو ،علم سے تواضع پیدا ہو اور وہ تمہیں جتنا اونچا کرے اُسی قدر جھکواور کوشش کرو کہ اﷲ تعالیٰ کے فضلوں سے اس کے بندوںکو فائدہ پہنچاؤ۔بادشاہ کی دولت رعایا کے لئے ہوتی ہے اور مَلِک کہہ کر اﷲ تعالیٰ نے یہی بتایا ہے کہ ہم تمہیں جو کچھ دیں گے بادشاہ کر کے دیں گے تا تم دوسروں کو فائدہ پہنچاؤ،قدوسیت اس واسطے دیں گے کہ دوسروں کو پاک کرو،عزیز بنائیں گے تا دوسروں کو بڑا کرو عزیز اسے بھی کہتے ہیں جو دوسروںکو ذلیل نہ کرے ،ہم تمہیں حکمت دیں گے مگر اس لئے کہ دوسروں کو سکھاؤ۔جس پانی کو نکلنے کا رستہ نہ ہو وہ سڑ جاتا ہے پس ہم تمہیں علم دیں گے لیکن اگر اس سے دوسروں کو فائدہ نہ پہنچاؤ گے تو یہ سڑ کر تمہارے دماغ میں تعفّن پیدا کر دے گا۔ (الفضل ۱۲؍ مارچ ۱۹۳۵ئ)
۱ ؎ الجمعۃ:۳ ۲؎ الجمعۃ:۲ ۳؎ الجمعۃ:۳
۴؎ البقرۃ:۶
۵؎ ترمذی کتاب البروالصلۃ باب ماجاء فی الاقتصاد فی الْحُبِّ وَالْبُغْضِ۔
۶؎ بخاری کتاب الدعوات باب ما یقول اِذَا اتٰی اَھْلَہٗ۔
۷؎ الجمعۃ:۴
۸؎ بخاری کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ الجمعۃ۔
۹؎ الجمعۃ:۵
۱۰؎ بخاری کتاب فضائل اَصحاب النَّبِیِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم باب مناقب خالد بن الولید رضی اللہ عنہ۔
۱۱؎ الجمعۃ:۵ ۱۲؎ ،۱۳؎ الجمعۃ:۶









۱۰
اظہارِ حقیقت اور گالی میںفرق
(فرمودہ ۸؍ مارچ ۳۵ئ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ جمعہ کی درج ذیل آیات تلاوت فرمائیں۔
قُلْ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ھَادُوْا اِنْ زَعَمْتُمْ اَنَّکُمْ اَوْلِیَائُ لِلّٰہِ مِنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُاالْمَوْتَ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ وَلَا یَتَمَنَّوْنَہ‘ اَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْھِمْ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ بِالظّٰلِمِیْنَ قُلْ اِنَّ الْمَوْتَ الَّذِیْ تَفِرُّوْنَ مِنْہُ فَاِنَّہ‘ مُلٰقِیْکُمْ ثُمَّ تُرَدُّوْنَ اِلٰی عَالِمِ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِفَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۱؎
اس کے بعد فرمایا-:
پچھلی آیت میں اس بات کا ذکر تھا کہ محض خدا تعالیٰ کی کتاب کے حامل ہونے سے کچھ نہیں بنتا اور جب تک اس کے مطابق اپنی زندگیاں بسر نہ کی جائیں اس وقت تک صرف اُس کتاب کو اُٹھا لینا ایسا ہی ہے جیسے گدھے پر کتابیں لاددی جائیں۔جس طرح قرآن مجید کے بھرے ہوئے بکس ایک گدھے کی پیٹھ پر لاد دینے سے وہ زیادہ عقلمند نہیں ہو جاتا اور نہ تورات اور انجیل کے لادنے سے وہ زیادہ عقلمند سمجھا جا سکتا ہے۔اسی طرح اگر ایک اَن پڑھ اور جاہل آدمی جو قرآن مجید کے مطالب کو نہیں سمجھتا اور نہیں سمجھنا چاہتا ،بیس، تیس یا چالیس قرآن مجید بھی اپنے سر پر اُٹھا لے تو کیا اُس کے دل میں معرفت کا دریا پھوٹ سکتا ہے ؟معرفت کا دریا اس کے دل میں پھوٹے گا اور وہی شخص روحانیت سے حصہ پائے گا جس کے دل میں قرآن ہو گا اور جس کے سر میں قرآن ہو، سر پر قرآن اُٹھانا کام نہیں دیتا اور نہ پیٹھ پر قرآن لاددینا کوئی کام دے سکتا ہے بلکہ جب سر میں قرآن ہو اور دل میں قرآن ہو تب انسان ان ثمرات کو پا سکتا ہے جو قرآن مجید پر عمل کرنے کے نتیجہ میں حاصل ہوتے ہیں ۔اس مثال کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو متوجہ کرتا ہے کہ تم سے پہلے ایک کتاب یعنی تورات دنیا میں نازل ہوئی اور لوگوں کے لئے اسے راہنما قرار دیا گیامگر اس کے ماننے والوں نے کچھ عرصہ کے بعد اس کتاب کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا ،زندگیاں اس کے مطابق نہ بنائیں اور نہ اس کے اوامر پر کاربند رہے۔اس کا نتیجہ کیا ہؤا ؟اﷲ تعالیٰ کے حضور ان کی اتنی قیمت بھی نہ رہی جتنی ایک گدھے کی اس کے مالک کے نزدیک ہوتی ہے ان پر عذاب پر عذاب آئے، تکلیفوں پر تکلیفیں آئیںاور مصائب پر مصائب آئے بجائے اس کے کہ خدا تعالیٰ ان کی مددکرتا ،نصرت کرتا اور ان کے دشمنوں کو خائب و خاسر اور ناکام و نامراد رکھتاجب لوگ ان کے دشمن ہوئے تو خدا کا عذاب بھی ان پر نازل ہونا شروع ہو گیا۔جس طرح آسمان سے جب پانی برستا ہے تو زمین سے بھی چشمے پھوٹنے لگتے ہیں اس کے بالکل اُلٹ زمین سے جب ان پر عذاب نازل ہونا شروع ہؤا تو آسمان نے بھی ان پر آگ برسانی شروع کر دی پس اﷲ تعالیٰ مسلمانوں کو اِس واقعہ سے عبرت دلاتا اور انہیں نصیحت کرتا ہے کہ تم ایسے مت بننا۔ جس قوم کے متعلق یہ کہا جائے کہ اس کی مثال گدھوں کی سی ہے ضرور ہے کہ وہ اس بات پر بُرا منائے اور کہے کہ ہمیںگالی دی گئی ہے اور یقینا جس وقت یہ آیت یہود کی مجالس میں پڑھی جاتی ہو گی۔ مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوا التَّوْرٰۃَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْھَا کَمَثَلِ الْحِمَارِیَحْمِلُ اَسْفَارًا۲ ؎ کہ وہ لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ نے تورات دی مگر انہوں نے اس پر عمل نہ کیا ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس نے کتابیں اٹھائی ہوئی ہوں ان پر یہ عبارت سخت شاق گزرتی ہو گی اور یقینا وہ اس پر ناراض ہوتے ہوں گے اور کہتے ہوں گے کہ ہمیں کیوں گدھا کہا گیا۔لیکن اگرٹھنڈے دل سے قرآن کریم کے اس دعوے پر غور کیا جائے اور یہودی، عیسائی یا مسلمان کا سوال درمیان سے اُٹھا دیا جائے تو کون سا شخص اس مضمون کی صداقت سے انکار کر سکتا ہے ۔تم عیسائیوں سے پوچھ دیکھو کہ اگر ایک عیسائی انجیل پر عمل نہ کرے تو اسے کیا کہا جائے اور گو انجیل ہمارے نزدیک کوئی شرعی کتاب نہیں لیکن عیسائیوں کے نزدیک وہ ایک کامل ہدایت نامہ ہے اور عمل کے لحاظ سے ہر عیسائی مجبور ہے کہ وہ انجیل کی ہدایات کو اپنے مد نظر رکھے اور اپنے اعمال کی انجیل پر بنیاد رکھے۔پس اگر ایک عیسائی سے پوچھا جائے کہ جب کوئی عیسائی کہلا کر انجیل پر عمل نہیں کرتا انجیل اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے مگر اپنے دل میں نہیں رکھتا تو کیا اُس کی مثال اُس گدھے کی سی ہے یا نہیں جس پر کتابیں لاد دی جائیں ۔تو اگر اسے یہ خیال پیدا نہ ہو کہ تم اُس پر طعن کر رہے ہو تو یقینا وہ یہی کہے گا کہ یہ درست ہے ۔اسی طرح اگر ایک مسلمان سے پوچھو کہ وہ شخص جو قرآن مجید پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتا ہے مگر عملی لحاظ سے قرآن کو پسِ پُشت ڈال رہا ہے،منہ سے تو دعوے کرتا ہے کہ میں اسلام کا عاشق اور قرآن مجید کا متبع ہوں لیکن اس کے اعمال قرآن مجید کے خلاف ہیںتو بتاؤ اگر ایسے شخص نے اپنے ہاتھ یا سر پر قرآن اُٹھایا ہؤا ہے تو کیا اس کی مثال اس گدھے کی سی ہے یا نہیں جس پر کتابیں لادی گئی ہوں۔پس اگر اسے یہ خیال پیدا نہ ہو کہ تم اس کی ذات کی طرف اشارہ کر رہے ہو تو یقینا وہ کہے گا کہ ہاں یہ درست ہے۔البتہ اگر اسے یہ وہم ہو جائے کہ تم اس پر اتمامِ حجت کرنی چاہتے ہو اور اس پر طعن کر رہے ہو تو پھر وہ لڑ پڑے گا اور کہے گا کہ تم نے مجھے گالی دی لیکن اگر ذاتیات کو درمیان میں نہ لایا جائے اور اصولی طور پر سوال کیا جائے تو خواہ کسی قوم کے فرد سے دریافت کر لیا جائے ان میں سے ہر ایک یہی کہے گا کہ بے شک ایسا شخص اس گدھے کی طرح ہے جس نے کتابیں اُٹھائی ہوئی ہوں۔اسی طرح اگر یہودیوں سے پوچھا جائے تو وہ بھی یہی جواب دیں گے۔اگر ایک ہندو سے پوچھا جائے کہ ایک شخص ویدوں پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتا ہے مگر نہ اپنے عقائد ویدوں کی تعلیم کے مطابق رکھتا ہے نہ اعمال ان کے مطابق رکھنے کی کوشش کرتا ہے تو بتاؤ اگر اس کے سر پر یا اس کے ہاتھوں میں وید ہو مگر اس کے دل میں ویدوں کی عظمت نہ ہو تو کیا اس کی مثال اس گدھے کی سی ہے یانہیں جس پر کتابیں لا دی گئی ہوں۔تو وہ بھی یہی کہے گا ہاں واقع میں وہ گدھے کی مانند ہے اور اس پر وہ ہرگز برا نہیں منائے گا۔برا لگنے کا سوال تب پیدا ہوتا ہے جب انسان یہ سمجھے کہ یہ میرے متعلق کہا جا رہا ہے لیکن جب کسی بات کو ایک علمی سوال بنا دیا جائے تو پھر کوئی شخص بُرا نہیں منا سکتا۔ فرض کرو کوئی شخص میرے پاس آئے اور کہے کہ اگر ایک شخص احمدی کہلاتا ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابیں ہر وقت اُٹھائے پھرتا ہے لیکن ان کتابوں پر عمل نہیں کرتا تو کیا اس کی مثال گدھے کی سی ہے یا نہیں؟ تو کیا تم سمجھتے ہو میں اس حقیقت سے انکار کر دوں گا۔یقینا میں یہی جواب دوں گا کہ اگر کوئی احمدی ایسا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم پر عمل نہیں کرتا اور صرف کتابیں اُٹھائے پھرتا ہے تو وہ اس گدھے کی مانند ہے جس پر کتابیں لا دی گئی ہوں۔پس دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جس کے سامنے اصولی طور پر یہ سوال رکھا جائے کہ اگر کوئی شخص منہ سے ایمان لانے کا دعویٰ کرے مگر نہ اس کے عقائد ایمان کے مطابق ہوں اور نہ اعمال ایمان کے مطابق ہوں تو کیا وہ گدھے کی مانند ہے یا نہیں اور وہ اس کا نفی میں جواب دے ۔پس اس میں کسی قوم کی خصوصیت نہیں اور اس قسم کے الفاظ گالی نہیں بلکہ اظہار ِحقیقت ہوتے ہیں ۔پس نادان لوگ اس قسم کے الفاظ کو گالیاں قرار دیتے ہیں حالانکہ جب قرآن مجید میں یہ لکھا ہؤا موجود ہے کہ وہ یہود جو تورات پر عمل نہیں کرتے گدھوں کی طرح ہیں تو پھر مسلمانوں کو اس طریق کلام پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے کیا مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ان کے متعلق کوئی سخت لفظ بطور اظہارِ واقعہ کہہ دیا جائے تو وہ ناجائز ہے لیکن اگر دوسروں کے متعلق ویسا ہی سخت لفظ بطور اظہار واقعہ کہہ دیا جائے تو وہ جائز ہے۔ جو لوگ آج یہ شور مچاتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتب میں مخالفوں کی نسبت سخت الفاظ استعمال کئے ہیں وہ سوچیں کہ جب یہودیوں کے سامنے یہ کہا جائے کہ تمہیں تورات دی گئی تھی مگر تم نے اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا اس لئے اب تم اس گدھے کی مانند ہو گئے ہوجس پر کتابیں لدی ہوئی ہوںتو کیا وہ یہ سنتے ہی اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہتے ہوئے بغلگیر ہو جائیں گے اور کہیں گے جَزَاکَ اﷲُ آپ نے کیسا اچھا لفظ استعمال کیا یا وہ برا منائیں گے اور اس لفظ کے استعمال کو اپنی ہتک سمجھیں گے ؟مگر تعجب ہے مسلمان قرآن مجید میں تو پڑھتے ہیں کہ یہود گدھے کی مانند ہیں اور خاموش رہتے ہیں لیکن جب ان کے سامنے ان کی حقیقت پیش کی جائے تو وہ شور مچانا شروع کر دیتے ہیں ۔آخر قرآن مجید نے یہ طریق کیوں اختیار کیا ؟اسی لئے کہ انہوں نے الٰہی کتاب پر عمل کرنا چھوڑ دیا تھا۔پھر اگر مسلمان اﷲ تعالیٰ کی کتاب پر عمل کرناچھوڑ دیں تو کیوں انہی الفاظ کے مستحق نہیں جن کی پہلی قومیں مستحق ہوئیں۔قرآن تو خود کہتا ہے یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًا وَّ یَھْدِیْ بِہٖ کَثِیْرًا ۳؎ یعنی جو طریق ہم نے اختیار کیا ہے یہ کئی لوگوں کو اچھا لگے گا اور کئی لوگوںکو برا،کئی لوگ ہدایت پائیں گے اور کئی گمراہ ہوں گے۔مسلمان آخر کیوں یہ امید رکھتے ہیں اگر یہ دوسری اقوام کے بزرگوں کے متعلق ہنسی کی باتیں کریں تو وہ ادبی لطائف قرار دیئے جائیں لیکن اگر دوسری قوم کے افراد مسلمانوں کے بزرگوں کو بُرا بھلا کہیں تو واجبُ القتل قرار پائیں ۔اگر یہ صحیح ہے کہ سکھ مسلمانوں کے بزرگوں کے متعلق سخت الفاظ استعمال کریں، اگر ہندو مسلمانوں کے بزرگوں کے متعلق سخت الفاظ استعمال کریں، اگر عیسائی مسلمانوں کے بزرگوں کے متعلق سخت الفاظ استعمال کریں تو مسلمانوں کا حق ہو جاتا ہے کہ سخت الفاظ کہنے والوں کو قتل کر دیں تو پھر غیر مسلموں کا بھی حق ہے کہ جو مسلمان ان کے بزرگوں پر ہنسی اُڑائیں ایسے مسلمانوں کو وہ قتل کر دیں۔
مگر کیا اس طرح دنیا میں امن قائم ہو سکتا ہے اور کیا اس طرح صلح اور محبت کی فضا پیدا ہو سکتی ہے؟ ہر عقلمند انسان کہے گا کہ اگر یہ راستہ کھول دیا جائے تو فتنہ فساد کا دروازہ کبھی بند نہیں ہو سکتا ۔جس نے سمجھ لیا کہ فلاں نے اس کے خلاف بات کہی ہے وہ اُٹھے گا اور اُسے قتل کر دے گاحالانکہ کوئی مذہبی کتاب ایسی نہیں جس میں اس قسم کے الفاظ نہ پائے جاتے ہوں ۔ویدوں میں بھی اس قسم کے الفاظ آتے ہیں، تورات میں بھی اس قسم کے الفاظ آتے ہیں ،ژند اوستا میں بھی اس قسم کے الفاظ آتے ہیں اور قرآن کریم میں بھی اس قسم کے الفاظ موجود ہیں مگر وہ گالیاں نہیں ،اظہارِ حقیقت ہے ۔گالی وہ چیز ہوتی ہے جو حقیقت حال کا اظہار نہیں کرتی اور اس میں جھوٹ ہوتا ہے مگر اظہارِ واقعہ حقیقت کے مطابق ہوتا ہے ۔
دراصل سخت الفاظ ہمیشہ دو قسم کے ہوتے ہیںایک گالی اور ایک اظہارِ حقیقت۔پھر اظہارِ حقیقت بھی دو قسم کا ہوتا ہے ایک بُرا اظہارِ حقیقت ہوتا ہے اور ایک اچھا۔گالی یہ ہے کہ کسی کو کتا کہہ دیا جائے بغیر اس کے کہ کتے کی کسی صفت کی طرف اشارہ ہو۔مثلاً کتے میں بھونکنے کی عادت ہے اگر کوئی شخص ایسا ہو جو راہ چلتے لوگوں کو بلا وجہ گالیاں دے اور منع کرنے کے باوجود نہ رکے ،ہاں اسے کچھ رقم دے دی جائے توخاموش ہو جائے تو اگر ایسے شخص کو ہم کتا کہیں گے تو یہ اظہار حقیقت ہو گا لیکن اس کی بجائے اگر ہم کوئی اور لفظ اس کے متعلق استعمال کریں مثلاً سؤر کہہ دیں تو یہ گالی ہو گی کیونکہ یہ واقعہ کے مطابق نہیں۔ یا فرض کرو کسی مسئلہ پر کوئی شخص کسی دوسرے شخص سے گفتگو کر ر ہا ہو اور دوسرا لاَجواب ہو کر کہہ دے کہ تو خبیث کتا سؤر ہے،تو کوئی نہیں کہے گا کہ یہ اظہارِ حقیقت ہے کیونکہ کتے مسائل میں اختلاف نہیں کیا کرتے اور نہ سؤر مسائل پر بحثیں کیا کرتے ہیں۔
پس اس جگہ جو کتا، سؤر اور خبیث کہا جائے گا یہ گالی ہو گی کیونکہ اس میں کوئی استعارہ مدّ نظر نہیں اور نہ کوئی ایسی بات مدّ نظر ہے جو حقیقت حال کے مطابق ہو۔آگے حقیقت حال بھی جیسا کہ میں نے بتایا ہے دو قسم کی ہوتی ہے ایک غلط قسم کی حقیقت حال ہوتی ہے اور ایک صحیح حقیقتِ حال ہوتی ہے۔ایک حقیقتِ حال کے اظہار کا برا طریق تو یہ ہے کہ مثلاً کسی کانے کو دل آزاری کے طور پر میاں یک چشم کہہ دیا جائے ۔یہ ہو گا تو حقیقت حال کا اظہار اور گو یہ صحیح ہے کہ اس کی ایک آنکھ ہی ہو گی لیکن اگر بلا وجہ اسے کانا کہا جائے تو ہر شخص کہے گا کہ تم نے ظلم کیا اور بِلا وجہ دل آزاری کی۔وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ گالی نہیں بلکہ حقیقت حال کا اظہار ہے کیونکہ اس نے بِلا وجہ محض دل آزاری کے طور پر اسے کانا کہا ہے لیکن اگر ایک شخص جس کی صرف ایک آنکھ ہے اپنی آنکھ کی کسی بیماری کے وقت ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ یہ مرض خطرناک ہے اگر آپریشن نہ کرایا تو تمہاری دوسری آنکھ بھی جاتی رہے گی،آپریشن کی صورت میں ممکن ہے عرصہ تک بینائی قائم رہے تو یہ جائز ہو گااور اظہارِ حقیقت کا اچھا طریق ہو گا پس گو پہلا شخص بھی’’ کانا ‘‘کہتا ہے اور ڈاکٹر بھی اسے یک چشم کہتا ہے لیکن یہاں چونکہ ڈاکٹر مجبور تھا کہ اس کے کانا ہونے کا ذکر کرے اور بتائے کہ اگر علاج نہ کرایا تو دوسری آنکھ بھی ضائع ہو جائے گی اس لئے کوئی اسے بد اخلاق قرار نہیں دیتا اور نہ اس کے کانا کہنے کو گالی سمجھتا ہے لیکن دوسرا جب دل آزاری کے لئے بغیر کسی وجہ کے یونہی کانا کہہ دے تو وہ گالی سمجھی جاتی ہے ۔اسی طرح جب مجسٹریٹ کے سامنے کسی شخص پر چوری کا مقدمہ پیش ہوتا ہے اور پولیس اس کے چور ہونے کو ثابت کر دیتی ہے تو کیا فیصلہ کرتے وقت مجسٹریٹ یہ لکھا کرتا ہے کہ زید چور ہے اور اسے چوری کی سزا دی جاتی ہے۔یا یہ لکھا کرتا ہے کہ زید بڑا شریف، نیک ،عابد اورزاہد ہے اس لئے میں اسے دو سال قید کی سزا دیتا ہوں۔پھر کیا جب مجسٹریٹ چور کو چور کہتا ہے تو کوئی اسے گالی سمجھتا ہے؟ کوئی بھی شخص اس لفظ کو گالی نہیں سمجھتا کیونکہ مجسٹریٹ کو ضرورتاً اور حاجتاً اس قسم کے الفاظ استعمال کرنے پڑتے ہیں۔
غرض جب کوئی الفاظ حقیقتِ حال کے مطابق ہوں اور ضرورت ان الفاظ کے کہے جانے پر مجبور کرے تو وہ گالی نہیںبلکہ تمثیل اور تنبیہہ کہلاتی ہے۔گالی وہ ہوتی ہے جومعنوی لحاظ سے مخاطب میں پائی نہیں جاتی اور اگر پائی جاتی ہو تو اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔مشہور ہے کہ کوئی آدمی ایک ایسے محلہ سے گزرا کرتا تھا جس میں ایک کانی عورت رہا کرتی تھی۔وہ جب اسے پنجابی زبان میں کہتا بھابھی کانیئے! سلام۔ اس پر وہ شور مچانا شروع کر دیتی اور لوگ جب اکٹھے ہوتے تو وہ کہتا کہ میں نے تو اسے سلام کیا ہے اور کانی کو کانی نہ کہوں تو اور کیا کہوں ۔مگر یہ طریق باوجود حقیقتِ حال کے مطابق ہونے کے برا سمجھا جاتا ہے اور سمجھا جانا چاہئے کیونکہ اس کا مقصد محض دل آزاری ہوتا ہے لیکن وہ مأمور جو دنیا کی ہدایت کے لئے آئے آخر لوگوں کو کیا کہے۔کیا موسیٰ علیہ السلام جب آئے تو انہوں نے فرعون اور اس کے ساتھیوں سے یہ کہا تھا کہ آپ لوگ بڑے ہادی و راہنما ،پارسا، خدا رسیدہ اور اعلیٰ درجہ کے اخلاق رکھنے والے ہیں میں آپ کی اصلاح کرنے آیا ہوں اگر وہ ایسا کہتے تو کیا ہر شخص نہ کہتا کہ یہ پاگل ہو گیا ہے ایک طرف تو کہتا ہے کہ ہم بڑے نیک اور پارسا ہیں اور دوسری طرف کہتا ہے کہ میں اصلاح کے لئے آیا ہوں آخرحضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہی کہنا پڑا کہ تم گمراہ ہو اور روحانی لحاظ سے اندھے ہو میں اس لئے آیا ہوں کہ تمہیں وہ آنکھیں دوں جن سے تم خدا تعالیٰ کو دیکھو۔اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے لوگوں کی بدکاری اور فسق و فجور کو دیکھ کر انہیں بدکار کہا، ان کی ایذاء رسانیوں کے رو سے انہیں ڈسنے والے سانپ قرار دیا لیکن اگر وہ یہ کہتے کہ تم لوگ یوں تو بڑے امن پسند ہو ،نیک بھی ہو،خدا تعالیٰ کی محبت بھی تمہارے دلوں میں ہے ،عدل و انصاف کو بھی تم نے دنیا میں قائم رکھا ہے مگر اﷲ تعالیٰ نے مجھے تمہاری اصلاح کے لئے بھیجا ہے تو کیا ساری دنیا انہیں پاگل قرار نہ دیتی۔ یوں بھی تو دنیا انبیاء کو مجنون کہا کرتی ہے مگر وہ اس قسم کی باتیں کہتے تو ہر ایک ان کی بات پر ہنستا اور کہتا کہ یہ عجیب آدمی ہے ایک طرف تو ہمیں بزرگ کہتے ہیں اور دوسری طرف دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ہم تمہاری اصلاح کے لئے آئے ہیں۔ آخر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہی کہنا پڑا کہ تم سانپ ہو، سانپوں کے بچے ہو۴؎ اور اسی انجیل میں جس میںیہ لکھا ہے کہ اگر کوئی ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دیا جائے ۵؎ حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنے مخالفوں کو کہا کہ تم حرامکار ہو، شیطان کی اولاد ہو۶؎ اور ان میں سے ہر لفظ اپنے مقام پر صحیح طور پر چسپاں تھا۔ شیطان کی اولاد کے کیا معنی ہیں شیطان ہمیشہ نیکی سے روکتا ہے اور شیطان کی اولاد کے یہ معنی ہیں کہ تم شیطانی کام کر رہے ہو اور لوگوں کو سچائی کے قبول کرنے سے روکتے ہو۔پھر کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دشمن واقع میں ایسے نہ تھے؟اسی طرح جب انہوں نے حرامکار کہا تو سچ کہا کیونکہ حضرت مسیح علیہ السلام تو اپنے ماننے والوں کو اطاعت کی تعلیم دیتے مگر مخالف یہ مشہور کرتے کہ یہ حکومت کا باغی ہے،حضرت عیسٰی علیہ السلام ان کی جان بچانے کی فکر میں تھے اور وہ ان کو قتل کرانے کی فکر میں تھے پھر وہ حرامکاری نہیں کرتے تھے تو اور کیا کرتے تھے۔پھر وہ سانپ بھی تھے کیونکہ جس طرح سانپ بلا وجہ ڈستا ہے اسی طرح وہ بھی نیش زنی کرتے اور ایذا رسانی پر کمر بستہ رہتے۔اسی طرح جب رسول کریم ﷺ دنیا میں آئے اور خداتعالیٰ نے آپ کو کتاب دی تو اُس وقت یہودیوں کے پاس تورات، عیسائیوں کے پاس انجیل، زرتشتیوں کے پاس ژند اوستااور ہندوؤں کے پاس وید تھے ، کیا رسول کریم ﷺ یہ کہتے کہ آپ لوگوں کی کتابیں تو بڑی اعلیٰ درجہ کی ہیں اور ان میں نور اور ہدایت بھری ہوئی ہے اور ان کی تعلیم پر چل کر انسان اپنے ربّ کے پاس پہنچ سکتا ہے لیکن دیکھو! میری خاطر ان کو چھوڑ دو اور جو کتاب مَیں پیش کرتا ہوں اسے مان لو۔لازماً آپ کو یہی کہنا پڑتا کہ وہ کتابیں خدا تعالیٰ کی طرف سے تھیں مگر اب ان میں سے نور اُٹھ گیا ہے اور انسانی ہاتھوں نے ان میں تغیر و تبدل کر دیاہے۔
پس رسول کریم ﷺ نے ان کی کتابوں کو برا بھلا نہیں کہا بلکہ ان کے متعلق ایک حقیقت حال کا اظہار کیااور ان کی ہمدردی اور خیر خواہی کیلئے وہ بات کہی جو سچی تھی۔ ایسا ہی آجکل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بعض الفاظ کہے ہیں اور لوگ ان پر اعتراض کرتے ہیںحالانکہ وہ ان باتوں کو قرآن مجید میں پڑھتے ہیں اور نہیں سمجھتے کہ ان کو اپنے زمانہ پر بھی انہیں چسپاں کرنا چاہئے اﷲ تعالیٰ بالکل صاف اور کھلے الفاظ میں فرماتا ہے کہ جن لوگوں نے تورات پر عمل نہیں کیا ان کی مثال گدھے کی سی ہے لیکن آج اگر یہودی شور مچا دیں اور کہیں کہ قرآن نے ہمیں گالی دی ہے تو یہ سب مخالف جو آج ہم پر اعتراض کرتے ہیں، انہیں کہنے لگ جائیں کہ ان کی عقل ماری گئی ،یہ تو اظہارِ حقیقت ہے نہ کہ گالی مگر یہی حرکت آپ کرتے ہیں اور نہیں سمجھتے کہ کس قدر بے جا حرکت کر رہے ہیں۔بہرحال انہوں نے بھی اعتراض کر دیا تھا جیسا کہ آج کل غیر احمدی ہماری جماعت پر کرتے ہیں ۔یہودی کوئی نیک تو تھے نہیں کہ وہ خاموش رہتے انہوں نے اس لفظ کے استعمال کرنے پر اعتراض کیا اور جیسا کہ قرآن مجید کا طریق ہے کہ وہ بغیر اعتراض کو بیان کئے اعتراض کا جواب دے دیا کرتا ہے ایساہی یہاں بھی کیا گیا ہے اور یہودیوں کے اسی اعتراض کا جو گدھا کہنے پر ان کے دل میں پیدا ہؤا تھا جو اب اگلی آیت میں دیتے ہوئے فرماتا ہے۔قُلْ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ھَادُوْا اِنْ زَعَمْتُمْ اَنَّکُمْ اَوْلِیَائُ لِلّٰہِ مِنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُاالْمَوْتَ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَفرماتا ہے دیکھو! ہم نے غلط بیانی نہیں کی، گالی نہیں دی بلکہ مجبوری سے ایک بات کہی ہے اور واقعہ یہی ہے کہ وہ کتاب جو تمہیں دی گئی ہے آج تم اس پر عمل نہیں کرتے اور نہ اس تعلیم کو دنیا میں قائم کرنے کی کوشش کرتے ہو۔ تم کہتے ہو کہ تمہارے سِوا دنیا کی اور کوئی قوم خدا تعالیٰ کی پیاری نہیں،تم کہتے ہو کہ تمہارے سوا اور کوئی قوم اس کے سچے دین کی حامل نہیں،تم کہتے ہو کہ تمہارے سوا اور کسی قوم کے لئے آج نجات مقدر نہیں مگر کیا تمہارے اعمال ایسے ہیں جو اس قوم کے ہونے چاہیئں جو اکیلی خدا تعالیٰ کی محبوب ہو؟اگر کوئی شخص ایسا ہو جس کا یہ دعویٰ ہو کہ میرے سِوا اس جگہ اور کوئی تیراک نہیںتو کیا وہ ایک ڈوبتے ہوئے بچہ کو دیکھ کر یہ انتظار کیا کرتا ہے کہ کوئی اور آئے اور اس کی جان بچائے۔یا اسے دیکھتے ہی چھلانگ لگا دیتا ہے اگر وہ سمجھتا کہ اورتیراک بھی وہاں موجود ہیںتو اس صورت میں ممکن ہے وہ اس انتظار میں کھڑا رہتا کہ کوئی اور ڈوبنے والے بچہ کو بچانے کے لئے کُودے اور گو اس صورت میں بھی جُرم سے وہ بالکل بَری نہیں ہو گا البتہ اس کا جُرم ہلکا ہو جائے گا۔لیکن وہ شخص جو اپنے آپ کو اکیلا تیراک سمجھتا ہو اگر وہ ایک ڈوبتے ہوئے بچہ کی جان بچانے کی فکر نہیں کرتا تو وہ کتنے الزام کے نیچے آتا ہے۔ایک مالک مکان کے کئی نوکر ہوں اور فرض کرو اس کے گھر میں آگ لگ گئی ہو اور پہلے باورچی خانہ میں لگی ہو تو دوسرے نوکر ممکن ہے یہ خیال کر لیں کہ باورچی اس آگ کو بُجھا لے گا اور اس خیال کے ماتحت خاموش بیٹھے رہیںگو وہ جرم سے بالکل بری نہیں ہوں گے لیکن ان کا جرم کسی قدر کم ضرور ہو جائے گا کیونکہ انہوں نے سمجھا کہ اور بھی آگ کو بجھانے والے ہیں لیکن اگر ایک نوکر کو یہ یقین ہو کہ گھر میں اور کوئی خادم نہیں اور پھر بھی وہ آگ کو نہ بجھائے تو بتائو وہ مجرم ہو گا یا نہیں ؟اسی رنگ میں اللہ تعالی فرماتا ہے اے یہودیو !ہم نے تمہارے متعلق جو کچھ کہا اگر یہ گالی ہے تو ہم تمہارے سامنے ایک معیار پیش کرتے ہیں۔ تم کہتے ہو کہ تمہیں تورات ملی جو خدا تعالیٰ کا کلام ہے تم کہتے ہو کہ تمہیں تورات ملی اور اس میں سچائی اور نور ہے، تم کہتے ہو کہ تمہیں تورات ملی اور تم ہی خدا کی چنیدہ جماعت ہو ،تم کہتے ہو کہ تمہیں تورات ملی اور تم ہی خدا کی محبوب قوم ہو،تمہارا دعویٰ ہے کہ اَنَّکُمْ اَوْلِیَائُ لِلّٰہِ مِنْ دُوْنِ النَّاسِتم ہی خدا کے دوست ہو اور کوئی قوم خدا تعالیٰ کی دوست کہلانے کی حقدار نہیں، پھر بتاؤ تم نے خدا تعالیٰ کے دوست اور محبوب کہلا کر اس ظلمت اور تاریکی کے مٹانے کے لئے کیا کوششیں کیں جو آج دنیا میں پھیلی ہوئی ہے ۔جس طرح ایک بچے کو سخت بیمار دیکھ کر اس کی ماں مرنے کے قریب ہو جاتی ہے ،جس طرح ایک بچے کو ڈوبتا دیکھ کر اس کا باپ اپنی جان سے بے پرواہ ہو کرکُود پڑتا ہے ،جس طرح ایک مالک اپنے گھر میں آگ لگی دیکھ کر بے تحاشہ اسے بجھانے کے لئے دَوڑ پڑتا ہے،جس طرح ایک ملک پر جب دشمن حملہ آوار ہو تو نوجوان اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں ،جس طرح قوموں پر حملہ کے وقت چھوٹے اور بڑے سب اپنی جان اور اپنے مال لٹانے پر آمادہ ہو جاتے ہیں ،تم بتاؤ کہ کیا تم نے اسی طرح خدا تعالیٰ کے دین کے لئے اپنی جانیں قربان کیں۔تمہارے سامنے خداتعالیٰ کی کھیتیاں برباد کی جا رہی ہیں، تمہارے سامنے خدا تعالیٰ کی عبادت گاہیں مٹائی جا رہی ہیں، تمہارے سامنے اس کے نام کی بے حرمتی کی جا رہی ہے،تم بتاؤ کیاتم نے وہ قربانی کی جو اپنے بچہ کے لئے ماں اور اپنے ملک کے لئے سپاہی کیا کرتا ہے۔جب تم کہتے ہو کہ تمہارے سوا دنیا کی اور کوئی قوم خدا تعالیٰ کی دوست نہیں تو تمہاری ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے ۔اگر تم یقین رکھتے کہ عیسائی بھی خداتعالیٰ کے دوست ہیں ، اگرتم یقین رکھتے کہ ہندو خدا تعالیٰ کے دوست ہیں، اگر تم یقین رکھتے کہ زرتشتی بھی خدا کے دوست ہیں، تو تم کہہ سکتے تھے ظلمت و تاریکی کو وہ لوگ دور کر لیں گے کفر کی جو آگ بھڑک رہی ہے اسے وہ لوگ بجھائیں گے مگر تمہارا تو یہ دعویٰ ہے کہ تم مِنْ دُوْنِ النَّاس اَوْلِیَائُ لِلّٰہِہو پھر یہ جو خدا تعالیٰ کے نور کی بے حرمتی کی جارہی ہے اس کی کھیتی کو کاٹا جاتا اور اس کے نام پر ہنسی اُڑائی جاتی ہے اس کا تم نے کیا علاج کیا؟اگر تم اس کے دوست ہوتے تو کیا ممکن تھا کہ تم ایسے نازک موقع پر خاموش ہو کر بیٹھے رہتے۔ فَتَمَنَّوُاالْمَوْتَ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ پس اگر تم سچے ہو تو آؤ اور اپنی جانیںاور اپنے اموال خدا تعالیٰ کی راہ میں لوٹا کر اپنے آپ پر موت وارد کرو۔اگر تم خدا تعالیٰ کے جلال کے لئے اپنی جانیں نہیں دیتے، اگر تم خدا تعالیٰ کے جلال کے لئے اپنے اموال ایک حقیر چیز کی طرح نہیں لٹا دیتے تو معلوم ہؤا کہ تورات تمہارے اندر نہیں اور نہ اپنے دعویٰ محبت میں تم سچے ہو ۔کس طرح ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کانور تمہارے اندر ہو مگر جب اس کے نور کو مٹانے کے لئے دنیا میں کوششیں کی جارہی ہوں تو تمُہارے اندر قربانی کا جوش پیدا نہ ہو۔دیکھو یہ وہ معیارہے جو قطعی اور یقینی ہے اس کے ماتحت معلوم ہو سکتا ہے کہ کونسی قوم اپنے دعوے میں سچی ہے اور کونسی نہیں ۔
میں اپنی جماعت سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ دیکھو تم بھی کہتے ہو کہ ہم مِنْ دُوْنِ النَّاسِ اَوْلِیَائُ لِلّٰہِہیں ،تمہارا بھی دعویٰ یہی ہے کہ آج سوائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے کے نجات نہیں پس معلوم ہو ا ٰکہ تم بھی اس بات کے مدعی ہو کہ اولیاء اللہ تم ہی ہو اور تمہارے سِوا اور کوئی خدا کا پیارا نہیں ورنہ کس طرح ممکن ہے کہ خدا کا کوئی اور بھی پیارا ہو اور نجات صرف تمہارے لئے مقدر ہو۔اگر کوئی اور قوم بھی اِس وقت خدا تعالیٰ کی پیاری ہے تو نجات صرف تمہارے لئے مقدر نہیں ہو سکتی بلکہ اس کے لئے بھی ہو گی اور اگر تم دعویٰ کرتے ہو کہ نجات صرف تمہارے لئے ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آج خدا کا سپاہی تمہارے سِوا اور کوئی نہیں۔کیا دنیا میں کوئی بھی شریف انسان ایسا ہو سکتا ہے جو کسی سے خدمت لے مگر اسے اُجرت نہ دے پھر اگر تمہارے نزدیک مسیحی بھی خدا تعالیٰ کے دین کوروشن کرنے والے ہوں، زرتشتی بھی خدا تعالیٰ کے دین کو پھیلانے والے ہوں، یہودی بھی اس کے دین کی اشاعت کرنے والے ہوں ،ہندو بھی اس کے نام کو بلند کرنے والے ہوں اور غیر احمدی بھی اسلام کا درد اپنے سینہ میں رکھنے والے اور اس کی رضا کو حاصل کئے ہوئے ہوں تو کیا تمہاری عقل کے کسی گوشہ میں بھی یہ بات آسکتی ہے کہ وہ مزدوری کی اُجرت صرف تمہارے ہاتھ میں رکھے گا اور انہیں نجات سے محروم کر دے گا۔کیا تم خدا تعالیٰ کو ظالم اور بے انصاف سمجھتے ہو؟اگر نہیں تو پھر جب تم کہتے ہو کہ مسیح موعود کے ماننے میں ہی نجات ہے تو دوسرے معنوں میں تم یہ کہتے ہو کہ آج خدا کا تمہارے سوا اور کوئی نوکر نہیں ،آج خدا کا تمہارے سوا اور کوئی سپاہی نہیں،پس جب کہ تم بھی ویسا ہی دعویٰ کرتے ہو جیسا کہ یہود نے کیا یا جس طرح رسول کریم ﷺ کے صحابہ دعویٰ کیا کرتے تھے کہ ان کے سوا اور کوئی نجات یافتہ نہیں،تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَتَمَنَّوُاالْمَوْتَ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنیہ دعویٰ تبھی سچا ثابت ہو گا جب تم مرکر دکھادو ۔اگر آج خدا تعالیٰ کے دین کی تمہارے سوا اور کوئی خبر لینے والا نہیں ،اگر آج دنیا کی تمام قوموں میں سے صرف تم ہی ہو جو خدا تعالیٰ کی محبت اپنے دل میں رکھتے ہو تو پھر اسلام پرجو مصیبتیں آرہی ہیں ان کے لئے تم کونسی قربانی کر رہے ہو ۔کیا مہینہ کے بعد ایک آنہ روپیہ کے حساب چند ہ دیدینا یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ تم مِنْ دُوْنِ النَّاسِ اَوْلِیَائُ لِلّٰہِ ہو۔ کیا اگر ایک گھر کو آگ لگی ہوئی ہو تو تم اس پر ایک گلاس پانی ڈال دینا کافی سمجھ لیتے ہو ؟اگر نہیں تو پھر تم کس طرح کہہ سکتے ہو کہ تمہاری وہ قربانیاں جو تم اب تک کرتے چلے آئے ہو تمہارے لئے کافی ہیں۔ اس کے لئے تو تمہیں موت میں سے گزرنا پڑے گا۔
پس سوچو کہ کیا تم موت لینے کے لئے تیار ہو ۔میں جانتا ہوں کہ جب بھی میں نے کسی قربانی کا اپنی جماعت سے مطالبہ کیا جماعت کے نوّے فیصدی افراد نے اس پر کہا کہ ہاں ہم تیار ہیں۔پس میں اس وقت تمہیں الزام نہیں دے رہا بلکہ تمہیںمیں یہ کہتا ہوں کہ اس مقصود کو تم ہمیشہ اپنے سامنے رکھو۔ جب تک تم مِنْ دُوْنِ النَّاسِ اَوْلِیَائُ لِلّٰہِہونے کا دعویٰ کرتے ہو اُس وقت تک ضروری ہے کہ تم خدا کیلئے مرنے کے لئے تیار رہو۔ہاں جب تم کہہ دو کہ اورقوموں کا بھی نجات پانے کا حق ہے تو بے شک اُس وقت وہ بھی ذمہ دار ہوں گی اور گو پھر بھی اگر کوئی بالکل خاموش بیٹھا رہے اور دین پر مصیبت آتی دیکھ کر اس کے دل میں کوئی احساس پیدا نہ ہو تو وہ جرم سے کُلّی طور پر بری نہیں ہو گا صرف اس کا جُرم کسی قدر کم ہو جائے گا مگر جب تک تمہارا یہ دعویٰ ہے کہ دنیا میں اکیلی خدا کی محبوب جماعت صرف جماعت احمدیہ ہی ہے تو اُس وقت تک اگر تم مرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے تو تمہارا جرم خطرناک حیثیت اختیار کر لیتا ہے ۔غرض علاوہ مباہلہ کے جس کا ان آیات میںذکر ہے مجھے اﷲ تعالیٰ نے یہ سمجھایا ہے کہ اس آیت میں جس موت کا ذکر ہے وہ وہ موت ہے جو دین کی خدمت کے لئے خدا کی ہر قوم کو اپنے نفوس پر وارد کرنی پڑتی ہے۔چنانچہ انہی معنوں کی تائید میں میرے دل میںایک اور آیت سورہ بقرہ کے بتیسویں رکوع میں ڈالی گئی ہے یہاں بھی یہودیوں کا ذکر ہے اور وہاں بھی یہودیوںکا بیان ہے۔اﷲ تعالیٰ یہود کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ وَ ھُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَالْمَوْتِ فَقَالَ لَھُمُ اﷲُ مُوْتُوْا ثُمَّ اَحْیَاھُمْ ۔اِنَّ اﷲَ لَذُوْفَضْلٍ عَلَی النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَشْکُرُوْنَ وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ وَ اعْلَمُوْا اَنَّ اﷲَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ۷؎ فرماتا ہے وہ وقت تمہیں معلوم ہے جب کہ ہزار ہا یہود اپنے گھروں سے موت کے ڈر سے نکلے یا یہود کے چند خاندان موت کے ڈر سے باہر نکلے کیونکہ بعض ادیبوں نے اَلْفٌ کے معنی قبائل اور خاندان کے بھی کئے ہیں ۔پس فرمایا تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ وہ ہزارہا یہود جو مختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے اپنے گھروں سے نکلے انہیں اپنی تباہی و بربادی اپنے سامنے نظر آتی تھی وہ دیکھتے تھے کہ ساری دنیا انہیں کچلنے کے لئے تیار ہے ،در و دیوار انہیں مارنے کیلئے دَوڑتے تھے،زمین ان کے لئے تنگ تھی اور آسمان ان پر آگ برسا رہا تھا تب وہ یہود اپنے زمانہ کے نبی کی طرف متوجہ ہوئے اور انہوں نے کہا کہ اب تو ہم اس مخالفت سے مرنے لگے۔ فَقَالَ لَھُمُ اﷲُ مُوْتُوْا۔تب اﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ انہیں کہا کہ اگر دشمن تمہیں مارنے کیلئے آرہا ہے تو اس کا علاج یہ ہے کہ تم اس کے مارنے سے پہلے خود اپنے آپ کو مار دو۔اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب ہم نے یہ حکم دیا تو وہ مر گئے۔ ثُمَّ اَحْیَاھُمْ۔ اس پر اﷲ تعالیٰ نے پھر ان کو زندہ کر دیا اس جگہ صاف الفاظ میںاﷲ تعالیٰ نے یہ بتا دیا ہے کہ یہود کو جب دشمن تباہ کرنے لگا تو میں نے یہ حکم دیا تھا مُوْتُوْا۔یعنی اگر تم موت سے بچنا چاہتے ہو، اگر تم دائمی حیات کے وارث بننا چاہتے ہو تو بجائے اس کے کہ دشمن آئے اور تمہارے اموال لوٹے کیوں تم اپنے مال خدا تعالیٰ کی راہ میں چندوں میں نہیں لٹا دیتے ،بجائے اس کے کہ دشمن آئے اور تمہیں اپنے گھروں سے نکالے کیوں تم آپ تبلیغِ دین کے لئے اپنے گھروں کو چھوڑ کر غیر ملکوں میں نہیں نکل جاتے اور بجائے اس کے کہ دشمن آئے اور تمہیں مارے کیوں خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی جانوں کو خود قربان نہیںکر دیتے۔کیا یہ اچھا ہے کہ دشمن مارے یا یہ اچھا ہے کہ تم خود اپنے آپ کو خدا کی راہ میں قربان کر دو؟جب دشمن مارے گا تو اس کے بعد زندگی کا سامان تمہارے لئے کوئی نہیں ہو گا لیکن جب اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کرو گے تو زندہ ہو جاؤ گے۔اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمارے اس حکم پر وہ مر گئے جس کا نتیجہ یہ ہؤا کہ اَحْیَاھُمْ۔ اﷲ تعالیٰ نے انہیں زندۂ جاوید کر دیا۔پس فرمایاقومی ترقی کا گر یہ ہے کہ افراد اپنے آپ کو خدا کے لئے ہلاکت میں ڈال دیں تب اس کے نتیجہ میں انہیں دائمی حیات ملتی ہے۔بندہ موت خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کرتا ہے اور خدا زندگی بندے کو عطا فرماتا ہے جس طرح دو دوستوں میں جب تبادلۂ اشیاء ہو تو ایک دوست اپنی بہترین چیزیں دوسرے کو دیتا ہے اور دوسرا دوست اپنی بہترین چیزیں اسے دے دیتا ہے اسی طرح مخلص بندوں کے پاس جو کچھ ہوتا ہے وہ خدا تعالیٰ کو دے دیتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے پاس جو کچھ ہوتا ہے وہ اپنے بندوں کو دے دیتا ہے۔بندہ اپنی چیز دیتا ہے اور خدا اپنی چیز،بندوں کے پاس موت سے بڑھ کر اور کوئی چیز نہیں پس بندہ موت اپنے خدا کے قدموں میں ڈال دیتا ہے اور خدا جو حیات کا مالک ہے وہ دائمی زندگی کی چادر اُس پر ڈال دیتا ہے۔
پس فرماتا ہے کہ یہ درست ہے کہ ایک وقت میں ہم نے کہاتھا کہ آج نجات صرف تمہارے لئے ہی مخصوص ہو چکی ہے اور کسی قوم کے لئے نجات نہیں ۔نجات محصور ہے مصر اور کنعان کے لوگوں میں یا مصری اور یہودی قبائل میں ۔اور بے شک ہم نے کہا تھا کہ مصریوں اور یہودیوں میں سے کوئی شخص نجات نہیں پا سکتا سوائے ان لوگوں کے جو حضرت موسیٰ پر ایمان لائے مگر فرمایا اس کے ساتھ ایک شرط بھی تھی اور وہ یہ کہ ہم نے انہیں کہا تھا مُوْتُوْا۔ اگر مر جاؤ گے تو ہم تمہیں دائمی زندگی دیں گے۔اُس وقت کے لوگوں نے ہمارے اس حکم کے مطابق اپنے لئے موت قبول کی اور خدا تعالیٰ نے انہیں زندگی دے دی اگر تم سمجھتے ہو کہ اب بھی تم موسیٰ کے اَتباع میں شامل ہوتو فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ ۔موسیٰ کی جماعت والی قربانیاں پیش کرو۔کیا تم اسی طرح اپنی جانیں اور اپنے اموال اور اپنی عزت اور اپنی آبرو اور اپنے جذبات اور اپنے احساسات اور اپنی شہؤات کو خدا تعالیٰ کے لئے قربان کر رہے ہو جس طرح موسیٰ کے ساتھیوں نے کیااگر نہیں کر رہے تو تمہارا کیا حق ہے کہ یہ کہو کہ ہم مِنْ دُوْنِ النَّاسِ اَوْلِیَائُ لِلّٰہِ ہیں۔دیکھ لو سورہ بقرہ کی آیت میں بھی اس مضمون کے بعد یہ فرمایا ہے کہ وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ وَ اعْلَمُوْا اَنَّ اﷲَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ۔ یعنی اے مسلمانو! ہم نے موسیٰ ؑ پر ایمان لانے والوں سے کہا تھا کہ اب تمہارے زندہ رہنے کی یہی صورت ہے کہ دشمن کا مقابلہ کرو اور اپنی جانیں اس مقابلہ میں قربان کر دو پس تم بھی اسی طرح اﷲ تعالیٰ کی راہ میں جان دینے کو تیار ہو جاؤ ۔ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ نے تشریح کر دی ہے کہ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ کے کیا معنی ہیں ۔فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَکے یہی معنی ہیں کہ تم اپنی ہر چیز خدا تعالیٰ کے رستہ میں لٹا دو۔پس اﷲ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ ڈالا ہے کہفَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ میں مُوْتُوْا والی موت کی طرف اشارہ ہے اور گو اس کے وہ بھی معنی ہیں جن سے مباہلہ کا استنباط ہوتا ہے مگر اس کے یہ دوسرے معنی بھی ہیںاور قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ کے الفاظ ان معنوں پر دلالت کرتے ہیںمگر فرمایاوَلَا یَتَمَنَّوْنَہ‘ اَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْھِمْ یہ کبھی اس موت کو اپنے نفوس پر وارد کرنے کی کوشش نہیں کریں گے ان کی ساری زندگی جب کہ گناہوں میں گزری تو انہیں اس عظیم الشان نیکی کی توفیق کس طرح مل سکتی ہے۔اخلاص، اخلاص کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے اور نیکی ،نیکی کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے ۔جن کے دل میں ایمان نہ ہو وہ اگرچہ زبان سے فدائیت کے دعوے کرتے چلے جاتے ہیں مگر وقت آنے پر ان کا قدم پھسل جاتا ہے۔منافق آدمی بھی منہ سے بظاہر یہ کہتا ہے کہ دین کے لئے میں اپنی جان فدا کر دوں گا لیکن وقت آنے پر اسے قربانی کی توفیق نہیں ملتی کیونکہ قربانی اس کے دل میں نہیں ہوتی۔
اگر یہودیوں کے دلوںمیں بھی سچا ایمان ہوتا تو کیا ممکن تھا کہ وہ صحابہ کے مقابلہ پر قربانیاں نہ کرتے۔محمد ﷺ کے صحابہ نے تو اپنی جانیں خدا تعالیٰ کے لئے قربان کر دیں،اپنے اموال اس کے راستہ میں لٹا دیئے ،اپنی عزتیں اس پر نچھاور کر دیں،اور اپنے وقار کی کوئی پرواہ نہ کی ۔اگر دشمن آیا تو اس سے کوئی خوف نہ کیا۔اس کے مقابلہ میں یہود کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم نے کیا کیا ؟اگر کچھ بھی نہیں کیا تو کس طرح تم کہہ سکتے ہو کہ تمہارے اندر دین کی حقیقی روح پائی جاتی ہے۔دیکھو یہاں مسلمانوں اور یہودیوں کی قربانیوں کا مقابلہ کیا گیا اور یہود سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اگر تم واقعی اَوْلِیَائُ لِلّٰہِ ہو تو تم مسلمانوں سے قربانیوں میں مقابلہ کرلو۔اگر مسلمانوں سے تم قربانیوں میں بڑھ جائو توظاہر ہو جائیگا کہ تم میں دین کا زیادہ جوش ہے اور اگر مسلمان ان قربانیوں میں بڑھ جائیں تو یہ تمہارے جھوٹے ہونے کا ثبوت ہو گا ۔یہی آجکل ہم غیر احمدیوں سے کہہ سکتے ہیں ۔میں کہتا ہوں وہ احرار جو یہ کہتے ہیں کہ احمدی رسول کریم ﷺ کی ہتک کرنے والے ہیں ،وہ احرار جو یہ کہتے ہیں کہ اسلام کا درد احمدیوں کے دلوں میں نہیں ،وہ احرار جو یہ کہتے ہیں کہ احمدی اسلام کے دشمن اور رسول کریم ﷺسے عناد رکھنے والے ہیں میں انہیں چیلنج کرتا ہوں کہ وہ آٹھ کروڑ مسلمانان ہند کے نمائندہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور ہمارے متعلق کہتے ہیں کہ ہم چھپن ہزار ہیں ،گو نہ یہ صحیح ہے کہ وہ آٹھ کروڑ مسلمانانِ ہندکے نمائندہ ہیں اور نہ یہ صحیح ہے کہ ہماری تعداد چھپن ہزار ہے مگر ان کے منہ کا دعویٰ چونکہ یہی ہے اس لئے بفرض محال اسے درست تسلیم کرتے ہوئے میں کہتا ہوں کہ اگر وہ اپنے دعویٰ میں سچے ہیں تو بجائے اس کے کہ وہ بیہودہ طریق پر لڑیں اور گند پھیلائیں ،کیوں قرآن مجید کے اس بیان کردہ معیار کے مطابق آپس میں فیصلہ نہیں کر لیتے ۔اگر وہ اپنے دعویٰ میں سچے ہیں تو آئیں اور غیر قوموں یعنی ہندوئوں اور عیسائیوں وغیرہ کو مسلمان بنانے کے لئے وہ بھی قربانیاں کریں اور ہم بھی قربانیاں کرتے ہیں ۔وہ بھی آٹھ کروڑ مسلمانانِ ہند کو لے کر اشاعتِ اسلام کے لئے جانی اور مالی قربانیاں کر کے دکھلائیں اور ہم بھی اپنے چھپن ہزار افراد کو لیکر مالی اور جانی قربانیاں کرتے ہیں ۔پھر دنیا پر خود بخود ظاہر ہو جائے گا کہ کون اسلام کی محبت کے دعویٰ میں سچا ہے اور کون کاذب ،کون اپنے منہ کی لاف وگزاف سے دنیا کو قائل کرنا چاہتا ہے اور کون عملی رنگ میں اسلام سے اپنی محبت کا ثبوت پیش کرتاہے ۔صرف منہ سے اسلام کی محبت کا دعویٰ کرنا تو ایسا ہی ہے جیسے کہتے ہیں سوگز واروں گزبھر نہ پھاڑوں ۔ہم سے جانی اور مالی قربانیوں میں مقابلہ کر لیں اور پھر دیکھیں کہ کون اسلام کا سچا درد اپنے سینہ میں رکھتا ہے۔ان میں اسلامی محبت تو صرف اتنی رہ گئی ہے کہ اگر کسی غیر مسلم نے رسول کریم ﷺکے متعلق سخت الفاظ لکھے تو اُٹھے اور اُسے قتل کر دیا ۔بے شک ایسا شخص جو رسول کریم ﷺ کے لئے اپنی جان کی پرواہ نہیں کرتا اس کے دل میں کسی قدر اسلام سے محبت تو ضرور ہوتی ہے مگر وہ نادان محبت کرنے والا ہوتا ہے ۔ایسا ہی اسلام کا نادان دوست جب کسی غیر مسلم کو مار دیتا ہے تو یہ سارے لوگ اس کی تعریفیں کرنے لگ جاتے ہیں حالانکہ اگر یہ قابلِ تعریف کام ہے کہ کسی غیر مسلم کو اسلام کے نام پر قتل کر دیا جائے تو کیوںایسے مواقع پریہ اپنے بچوں کو نہیں بھیجتے یا خود نہیں جاتے ۔کیا عبدالقیوم اور محمد صدیق کے ماں باپ نہیں تھے ؟کیا ان کے رشتہ دار اور عزیزواقارب نہیں تھے ؟اگرتھے تو پھر زمیندار والے اختر علی خان کو کیوں نہیں بھیجتے کہ وہ جاکر کسی غیر مسلم کو قتل کریں یا دوسرے لوگ جو تعریفیں کرنے والے ہیں وہ اپنے بچوں کو کیوں نہیں بھیج دیتے ۔اگر ان کی تعریف سچی ہوتی اور اگر وہ دل سے سمجھتے کہ محمد ﷺ کی محبت کا یہی تقاضا ہے کہ بد زبان غیر مسلم کو قتل کردیا جائے تو آپ گھروں میں کیوں بیٹھ رہتے ہیں اور کیوں صرف دوسرے کی قربانی پر اظہارِ مسرت کرتے ہیں ۔اس کا صاف یہ مطلب ہے کہ وہ خود اسلام کے لئے کسی قسم کی قربانی نہیں کرنی چاہتے حالانکہ اس جگہ اللہ تعالیٰ یہ معیار قرار دیتا ہے کہ اگر کوئی قوم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے محبت کا دعویٰ کرتی ہو تو ضروری ہے کہ وہ ایسی قربانیاں کرے جو دوسروں سے ممتاز حیثیت رکھتی ہوں۔پس اگر احرار بھی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اسلام کا درد اپنے سینہ میں ہم سے زیادہ رکھتے ہیں تو آئیں اور ہم سے قربانیوں میں مقابلہ کر لیں۔ وہ بھی مالی قربانی کریں اور ہم بھی مالی قربانی کرتے ہیں، وہ بھی جانی قربانی کریں اور ہم بھی جانی قربانیاں کرتے ہیںپھر دیکھتے ہیں کہ کون اس مقابلہ میں فائق رہتا ہے ۔ہمارے آدمی ہمیشہ اپنے اموال قربان کرتے چلے آئے اور کرتے چلے جائیں گے ،اسی طرح ہمارے آدمی جانی قربانیاں بھی کرتے ہیں ،وہ اپنی بیویوں اور بچوں کو چھوڑ کر اعلائے کلمۃاللہ کیلئے ممالکِ غیر میں نکل جاتے ہیں۔ احراری آٹھ کروڑ مسلمانانِ ہند کے نمائندہ ہو نے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن یادرکھیں کہ اگر وہ اس مقابلہ پر آئے تو ہمارا چھپن ہزار بھی اِنْشَائَ اللّٰہُ ان سے ہر قسم کی قربانی میں بڑھ کر رہے گا اور اگر وہ اس مقابلہ میں ہم سے بڑھ جائیں تو پھر ہم جھوٹے ہونگے ۔میں یہ نہیں کہتا کہ ہمارے اندرمنافق نہیں، قادیان میں بھی بعض منافق ہیں اور باہر کی جماعتوں میں بھی لیکن میں یہ جانتا اور یقین رکھتا ہوں کہ اگر آج ضرورت پڑے اور میں اپنی جماعت سے یہ مطالبہ کروں کہ صرف جوتیاں پہن لو اور گھر بار چھوڑ کر میرے پیچھے چلے آئوتو میں یقین رکھتا ہوں کہ جب میں یہاں سے نکلوں گا تو بہت تھوڑے منافق پیچھے رہ جائیں گے ،باقی سب میرے ساتھ چل پڑینگے ۔میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر آج میں یہ اعلان کروںکہ جس قدر تاجر ہیں وہ اپنی تجارتوں کو چھوڑ کر اور اپنی دُکانوں کے دروازے بند کرکے اسلام کی تبلیغ کے لئے نکل کھڑے ہوں تو میں سمجھتا ہوں کہ ہر تاجر اس آواز پر لبیک کہے گا ۔اسی طرح میں اگر زمینداروں سے کہوں تو وہ اپنے ہل چھوڑ کر آنے کے لئے تیار ہوجائیں گے اور اگر ملازموں سے کہوں کہ ملازمتیں چھوڑ کر تبلیغ کے لئے نکل کھڑے ہو تو وہ ملازمتیں چھوڑ کر آنے کے لئے تیار ہو جائیں گے اور بہت کم منافق ایسے رہ جائیں گے جو نہ آئیں۔ باقی سب تاجر کیا، اور زمیندار کیا، ملازم کیا، اور غیر ملازم کیا اس آواز پرلَبَّیْکَ کہتے ہوئے آجائیں گے۔یہ آٹھ کروڑ مسلمانانِ ہند کے نمائندے بھی تو ایسا کمال کر کے دکھلائیں ۔کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ محمد ﷺ کے نام پر تو ہم اپنی جانیں اور اپنے اموال قربان کر رہے ہوں لیکن محبت ان لوگوں کے دلوں میں گھر بیٹھے موجزن ہو اور یہ کسی بھولے بھالے مسلمان نوجوان کے کسی ہندو کو قتل کر دینے پر واہ واہ! کرنے کے سوا اور کوئی کام کرنا ہی نہ جانتے ہوں ۔اگر وہ صحیح طریق ہے جو غریب محمد صدیق اور عبدالقیوم نے اختیار کیا تو کیوں یہ اپنے بچوں کو اسی طریق پر چلنے کی ہدایت نہیں کرتے ۔میں تو جس طریق کو ضروری سمجھتا ہوں اس پر چلنے کی اپنے ہر بچے کو تاکید کیا کرتا ہوں ۔میں نے اپنے ہر بچہ کو دین کی خدمت کے لئے وقف کیا ہؤا ہے اور اگر میں انہیں تعلیم دلاتا ہوں تو یہ کہہ کر تعلیم دلاتا ہوں کہ تم پر یہ قرض ہے اور تمہارا فرض ہو گا کہ تم اپنے علم کو اشاعتِ اسلام کے لئے صرف کرو ۔پھر جب بھی کبھی جماعت کے سامنے مالی تحریک ہوتی ہے میں بعض دفعہ قرض لے کر بھی اس تحریک میں حصہ لیتا ہوں تا کسی کو یہ شبہ نہ ہو کہ قربانی کے لئے ہمیں تو کہا جاتا ہے مگر خود قربانی نہیں کی جاتی ۔پھر اوقات کی قربانی ہے اس میں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے مَیں کسی سے پیچھے نہیں ۔اگر کوئی دس گھنٹہ کام کرتا ہے تو میں خدا تعالیٰ کے فضل سے بارہ چودہ بلکہ بعض دفعہ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کرتا ہوں پس فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَکے مطابق میں اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جانتے ہوئے کہہ سکتا ہوں کہ وہ قربانی کے ارادے جو میرے اندر ہیں ان کے ماتحت قربانیوں کے وقت میں خدا تعالیٰ کے فضل سے کسی کے پیچھے نہیں رہتا بلکہ آگے ہی بڑھنے کی کوشش کرتا ہوں ۔غرض ہم جو کچھ کہتے ہیں وہ کر کے بھی دکھا دیتے ہیں اورفَتَمَنَّوُا الْمَوْتَکے مطابق ہماری جماعت موت قبول کررہی ہے اور ہر وقت موت قبول کرنے کے لئے تیار ہے ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ابھی ہماری جماعت سے ایسا سخت مطالبہ نہیں ہؤا کہ تمام لوگ گھر بار چھوڑ کر تبلیغِ اسلام کے لئے نکل کھڑے ہوں اور دیکھنے والوں پر ایک گہرا اثر ہو مگر اس میں بھی شبہ نہیں کہ اب تک ہماری جماعت سے کوئی ایسا مطالبہ نہیں ہؤا جسے اس نے پورا نہ کیا ہو بلکہ ہر مطالبہ پر اس نے خوشی کے ساتھ لَبَّیْکَ کہا ۔پھر خداتعالیٰ ان کے لئے جو موت قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے فرماتا ہے ۔قُلْ اِنَّ الْمَوْتَ الَّذِیْ تَفِرُّوْنَ مِنْہُ فَاِنَّہ‘ مُلٰقِیْکُمْموتیں دو قسم کی ہوتی ہیں ایک وہ موت جو دشمن کے ہاتھوں آتی ہے اور دوسری وہ موت جو خود انسان اپنے نفس پر خدا تعالیٰ کی محبت کے لئے وارد کرتا ہے۔گویا ایک طَوعی موت ہوتی ہے اور ایک جبری موت ہوتی ہے ۔جبری موت تو یہ ہے کہ دشمن مارنے آئے اور انسان اپنی حفاظت کے لئے قلعوں میں چھپے اور اس سے خوف کھائے لیکن طَوعی موت وہ ہے جس پر دل راضی ہو تا ہے اور انسان کسی مصیبت کی پرواہ نہیں کرتا پس فرمایا ہم نے جو موت پیش کی ہے اسکے بعد تمہارے لئے زندگی مقدر تھی ۔تمہارے باپ دادوں نے اس راز کو سمجھا اور وہ موت کا پیالہ بخوشی پی گئے تب خدا تعالیٰ نے انہیں دائمی حیات کا وارث کر دیا اگر تمہارا آج بھی یہ دعویٰ ہے کہ تم اﷲ تعالیٰ کے اولیاء ہو تو تم کیوں وہ قربانیاں نہیں کرتے جو تمہارے باپ دادوں نے کیں۔تم شاید یہ سمجھتے ہو کہ اگر تم نے یہ قربانیاںکیں تو تم تباہ ہو جاؤ گے حالانکہ تباہی حَذَرَالْمَوْت والی موت کے نتیجہ میں آتی ہے۔مُوْتُوْا والی موت کے نتیجہ میں تو زندگی حاصل ہوتی ہے ۔تمہارے بڑے جب موت کے ڈر سے بھاگے تھے تو خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے منہ سے یہ کہلوایا تھا کہ مر جاؤ پھر وہ مر گئے اور زندہ ہو گئے مگر اب تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اسی موت سے بھاگے جا رہے ہو اور سمجھتے ہو کہ یہ زندگی کا موجب نہیں ہو سکتی۔قُلْ اِنَّ الْمَوْتَ الَّذِیْ تَفِرُّوْنَ مِنْہُ فَاِنَّہ‘ مُلٰقِیْکُمْدیکھو !ہم نے تمہارے سامنے زندگی والی موت پیش کی اور تم نے سمجھا کہ جو موت تمہارے سامنے پیش کی گئی ہے وہ زندگی والی نہیں بلکہ ہلاکت کے گڑھے میں گرانے والی ہے تم اس سے بھاگے مگر اے کم بختو! اب تم کدھر بھاگے جا رہے ہو جس موت سے تم بھاگ رہے ہو وہ تو زندہ کرنے والی ہے مگر جس موت کی طرف جا رہے ہو وہ تمہیں ہمیشہ کے لئے فنا کر دینے والی ہے یعنی وہ قوم جو دین کے لئے قربانی نہیں کرتی ،جو اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے لئے فنا کرنے کو تیار نہیں ہوتی وہ مر جاتی اور اس کا نام دنیا سے مٹ جاتا ہے تو اَلْمَوْت میں حَذَرَالْمَوْتکی طرف اشارہ ہے اور تَمَنَّوُا الْمَوْتَ میں اس موت کا ذکر ہے جو مُوْتُوْا والی ہے۔اور اس طرح بتایا ہے کہ تم جس طرف بھاگے جا رہے ہو درحقیقت موت وہ ہے اور جس موت سے ڈر رہے ہو وہ زندگی کا پیالہ ہے جسے تم نہیں پینا چاہتے۔بے شک اگر تم زندگی والی موت اپنے نفوس پر وارد کرنے کے لئے تیار نہیں تو نہ کرو مگر یاد رکھوثُمَّ تُرَدُّوْنَ اِلٰی عَالِمِ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِایک دن تم اس خدا کے سامنے حاضر کئے جاؤ گے جو غیبوںکا جاننے والا ہے وہ تمہارے کالے اور سیاہ دل تمہارے سامنے پیش کرے گا اور کہے گا کہ بتاؤ کیا ان دلوں میں حضرت محمد ﷺ کی محبت تھی یا اس احمدی کے دل میں رسول کریم ﷺ کی محبت تھی جو سفید اور نورانی دل لے کر میرے پاس آیا ہے وہ خدا یہ تمہارے دل تمہارے سامنے پیش کرے گاجو غیب اور ظاہر کا خدا ہے۔فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ پھر وہ بتائے گا کہ تم نے میرے پیاروں اور میرے رسول کے پیاروں کوجو دنیا میں میرانام بلند کر رہے تھے کس قدر دکھ دیا اور یہ کہہ کہہ کر دُکھ دیا کہ ہم رسول کریم ﷺ سے محبت کرنے والے ہیں حالانکہ تم نے ان لوگوں کے سینوں پر خنجر چلائے اور ان کے دلوں میں چھریاں ماریں جو میرے دین کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے والے تھے۔ (الفضل ۱۹ ؍مارچ ۱۹۳۵ئ)
دوسرا خطبہ پڑھنے کے بعد حضور نے فرمایا۔
میرا دیر سے ارادہ تھا کہ مَیں جماعت کے لئے ایک اعلان کروںمگر آج ایک الٰہی بشارت کے ماتحت میں چاہتا ہوں کہ فوری طور پر اس کے متعلق اعلان کر دیا جائے ۔اس فتنہ کے متعلق جو آجکل ہماری جماعت کے خلاف برپا ہے۔نومبر دسمبر سے میرا ارادہ تھا کہ مَیں مارچ یا اپریل کے دنوں میں جماعت کے مخلصین سے مطالبہ کروں گااور آج الٰہی بشارت کے ماتحت میں اپنی جماعت کے مخلصین سے کہتا ہوں کہ وہ اﷲ تعالیٰ کے حضور فریاد کرنے اور اپنی تکالیف کے متعلق اپیل پیش کرنے کے لئے اُس ہفتہ سے جو عید کے بعد شروع ہوگا ہر جمعرات کو روزہ رکھیں ۔عید ۱۶؍ مارچ کو ہو گی اس کے بعد کے ہفتہ سے لے کر سات ہفتوں تک جماعت کے افراد کو چاہئے کہ وہ ہر جمعرات کے دن روزہ رکھیں اور اﷲ تعالیٰ سے دعائیں کریں کہ وہ ہمیں سچا تقویٰ اور طہارت نصیب کرے اور ان لوگوں کوجو آجکل ہمارے خلاف کھڑے ہیں ہدایت دے یا ان کے ہاتھ بند کر دے۔میں تمہیں دعا بھی بتا دیتا ہوں۔ یہ دعا ان ایام میں خصوصیت سے پڑھو۔اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ۸ ؎ یعنی اے خدا! ہم اپنے دشمنوں کی شرارتوں اور ان کی ایذا ء رسانیوں کے بدنتائج سے تیری پناہ چاہتے ہیں تو ہی ہمیں ان کے حملوں سے بچا وَنَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ اور اے خدا! جب وہ ہم پر حملہ کریں تو تُو ہمارے اور اس حملہ کے درمیان حائل ہو جا اور ہمیں خود اپنی نصرت اور تائید سے اس حملہ سے محفوظ رکھ۔ یہ دعا دوست اِن ایام میں کثرت سے پڑھیں بلکہ ابھی سے شروع کر دیں مَیں تو دو تین ہفتہ سے یہ دعا پڑھ رہا ہوں۔وہ الٰہی بشارت جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے یہ ہے کہ رات کو تہجد کے وقت اﷲ تعالیٰ نے میرے دل پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کا ایک شعر نازل کیا میں سو رہا تھا کہ یکدم میری آنکھ کھلی میں نے دیکھا ایک سیکنڈ کے اندر اندر وہ شعر کئی دفعہ میری زبان اور قلب پر جاری ہؤا جو لوگ الہامی دنیا سے واقفیت رکھتے ہیں جانتے ہیں کہ ایک سیکنڈ میں بعض دفعہ اتنے تواتر سے الہام نازل ہوتا ہے جسے دوسرے وقت بیان کرنے کے لئے کئی منٹ درکار ہوتے ہیں ایک ہی سیکنڈ گزرا ہو گا کہ کئی دفعہ یہ شعر میری زبان پر جاری ہؤا
ہیں تری پیاری نگاہیں دلبرا اک تیغ تیز جن سے کٹ جاتا ہے سب جھگڑا غمِ اغیار کا
تہجد کے وقت اﷲ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ شعر میرے دل پر جاری کیااور اتنے زور سے اور اتنی جلدی جلدی میری زبان پر آیا کہ اس کی وجہ سے میری آنکھ کھل گئی اور جب مَیں بیدار ہؤا تو نیم خواب ہونے کی حالت میں بھی تین چار دفعہ یہ شعر میری زبان پر آیا
ہیں تری پیاری نگاہیں دلبرا اک تیغ تیز جن سے کٹ جاتا ہے سب جھگڑا غمِ اغیار کا
اﷲ تعالیٰ کی پیاری نگاہیں ہی ہیں جن کے دیکھ لینے کے بعد دنیا کا کوئی غم انسان کے دل میں باقی نہیں رہتا۔اس شعر کا یہ بھی مطلب ہے کہ جسے خدا تعالیٰ پیار کی نگاہوں سے دیکھ لے اغیار کی عداوتوں اور شرارتوں سے اسے کوئی خطرہ نہیں رہتااور یہ بھی ہے کہ جسے اﷲ تعالیٰ کے ساتھ کامل محبت ہوتی ہے وہ دشمنوں کی شرارتوں کی کچھ پرواہ نہیں کرتا غرض اس شعر کے دونوں معنی ہیں یہ بھی کہ اﷲ تعالیٰ کی پیاری نگاہیں جب قلوب پر پڑتی ہیں تو جھگڑا دُور ہو جاتا ہے اور دشمنوں کی شرارتیں مٹ جاتی ہیں اور یہ بھی کہ جسے اﷲ تعالیٰ سے محبت ہو جاتی ہے اسے دشمن کی پرواہ ہی نہیں رہتی۔پس ان پیاری نگاہوں کو ڈھونڈو اور خدا تعالیٰ کی محبت بھری نظرکو تلاش کرو پھر تمام جھگڑے خود بخود طَے ہو جائیں گے۔مجھے یقین ہے کہ آخر ایسا ہی ہو گا جیسا کہ خدا تعالیٰ نے اس شعر میں بتایا ہے ۔جس وقت یہ شعر میرے قلب پر جاری ہؤا اُس وقت میں نے اپنے آپ کو اس طرح محسوس کیا جس طرح ایک بچہ اپنی ماں کی بغل میں ہوتا ہے یاایک عاشق اپنے محبوب کے سامنے بیٹھا ہوتا ہے ۔میرے جسم کا ذرّہ ذرّہ ایک لطف محسوس کر رہا تھا اور میں نے دیکھا کہ گویا میں خدا تعالیٰ کے سامنے پڑا ہؤا کہہ رہا ہوں کہ :۔
ہیں تری پیاری نگاہیں دلبرا اک تیغ تیز
جن سے کٹ جاتا ہے سب جھگڑا غمِ اغیار کا
غرض اب یہ جو ۱۶ تاریخ آنے والی ہے اس کے بعد کے ہفتے سے ہر جمعرات کو سات ہفتوں تک روزہ رکھا جائے اور خصوصیت سے یہ دعائیں کی جائیں کہ اﷲ تعالیٰ اپنی نصرت کے سامان ہمیں عطا فرمائے اور اگر ہماری کمزوریاں اس کے فضلوں کے نازل ہونے میں مانع ہیں تو وہ مَلِک ہمیں اپنی ملکیت عطا فرمائے ،وہ قُدُّوس ہمیں اپنی قدوسیت عطا فرمائے، وہ عزیز ہمیں اپنی عزیزیت بخشے اور وہ حَکِیْم ہمیں اپنی حکمت عنایت کرے۔بے شک ہم کمزور ہیں مگر ہم کا م اسی کا کر رہے ہیں اور نام بھی اسی کا باقی رہے گا ہم مٹ جائیں گے اس دنیا میں نہ وہ رہیں گے جو آج ہماری مخالفت کر رہے ہیں نہ ہم رہیں گے جو خدا تعالیٰ کا نام پھیلا رہے ہیںمگر ہم بھی اور وہ بھی جو اِن میں سے ہمارے ساتھ مل گئے دائمی حیات کے وارث ہوں گے اور مخالف محروم رہیں گے پس ہمارے ہاتھوں جو کام ہو گا وہ اگرچہ خدا تعالیٰ کا ہی ہے مگر ہمیں دعائیں کرنی چاہیئں کہ اﷲ تعالیٰ ہماری کمزوریوں کو دُور فرمائے۔اور دشمن کو جو شرارت کر رہا ہے ہدایت دے ہم اس کے لئے بد دعا نہیں کرتے اور نہ کریں گے مگر ہم اﷲ تعالیٰ کے حضور یہ کہے بغیربھی نہیں رہ سکتے کہ یا تو وہ انہیں ہدایت دے اور جن کے لئے مقدر نہیں ان کے ہاتھوں کو روکے اور ان کی شرارتوں سے اسلام اور احمدیت کو محفوظ رکھے ۔
(الفضل ۹،۱۰؍ مارچ ۱۹۳۵ئ)
۱؎ الجمعۃ:۷ تا ۹ ۲؎ الجمعۃ:۶ ۳؎ البقرۃ:۲۷
۴؎ متی باب ۱۲ آیت ۳۴ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء ۔
۵؎ متی باب ۵ آیت ۳۹ برٹش اینڈفارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء ۔
۶؎ عبرانیوں باب۱۲ آیت ۸ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ئ۔
۷؎ البقرۃ:۲۴۴،۲۴۵
۸؎ ابوداؤدکتاب الوتر باب ما یقول الرجل اذا خاف قومًا۔
۱۱
اگر دائمی حیات چاہتے ہو تو اشاعتِ احمدیت کے لئے
ممالکِ غیر میں نکل جاؤ
(فرمودہ۱۵؍مارچ ۱۹۳۵ئ)
تشہّد، تعوّذاورسورۃ فاتحہ کے بعد درج ذیل آیات تلاوت فرمائیں۔
یٰاَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اﷲِ وَذَرُوا الْبَیْعَ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۔فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اﷲِ وَاذْکُرُوا اﷲَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ وَاِذَا رَأَوْا تِجَارَۃً اَوْ لَھْوَانِ انْفَضُّوْا اِلَیْھَا وَ َترَکُوْکَ قَائِمًا۔قُلْ مَا عِنْدَ اﷲِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّھْوِ وَ مِنَ التِّجَارَۃِ وَاﷲُ خَیْرُا لرَّازِقِیْنَ ۱؎
فرمایا:۔
سارے قرآن کریم پر نظر ڈالنے سے یہ بات واضح اور روشن ہو جاتی ہے کہ اس کی کوئی دو آیتیں بھی آپس میں بے جوڑ نہیں بلکہ شروع سے لے کر آخر تک قرآن کریم اسی طرح پرویا ہؤا ہے جس طرح موتیوں کا ہار پرویا ہؤا ہوتا ہے۔ہر آیت جو آتی ہے وہ اپنی پہلی آیت سے تعلق رکھتی ہے اور ہر آیت جو گزر جاتی ہے وہ اپنے بعد میں آنے والی آیت سے ربط رکھتی ہے۔ پھر ہر سورۃ کے بعد دوسری سورۃ ایک خاص غرض اور مقصد کے لئے رکھی ہوئی ہے اور یہ التزام سارے کے سارے قرآن مجید میں پایا جاتا ہے۔یہ سورۃ بھی اس التزام سے مستثنا نہیں ہو سکتی۔اور جو قانون سارے قرآن کریم میں جاری ہے یقینا اس سورۃ میں بھی جاری ہونا چاہئے لیکن بظاہر یہ عجیب بات معلوم ہوتی ہے کہ اِنَّ الْمَوْتَ الَّذِیْ تَفِرُّوْنَ مِنْہُ فَاِنَّہ‘ مُلٰقِیْکُم ۲؎ فرمانے کے بعد یٰاَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اﷲِ کہا گیا ہے اور بظاہر ان دو آیتوں کا جوڑ آپس میں ملتا نہیں کیونکہ پہلے تو یہود کا ذکر تھا اور یہود کو ہی چیلنج دیا گیا تھا کہ اگر واقع میں تم اپنی اس تعلیم پر قائم ہو جو تمہیں دی گئی تو اس موت کو قبول کیوں نہیں کرتے جس کے بغیر کوئی قوم خدا تعالیٰ کی مقبول ،پیاری اور اس کی پسندیدہ نہیں ہو سکتی اور کیا وجہ ہے کہ تم اس سے بھاگتے ہو۔اس کے معاً بعد فرماتا ہے یٰاَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اﷲِتو کوئی نہ کوئی ان آیتوں کا آپس میں تعلق ہونا چاہئے مگر بظاہر وہ تعلق ان میں نہیں پایا جاتا لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے چونکہ سارے قرآن مجید میں ربط اور تعلق ہے اس لئے ضروری ہے کہ یہاں بھی ہو اور یہ یقینی بات ہے کہ ان دونوں آیتوں میں تعلق ہے جیسا کہ میں ابھی بیان کروں گا۔
درحقیقت جمعہ کی نماز جو ساتویں دن کی نماز ہے مشابہت رکھتی ہے ایک اور روحانی زمانہ سے جو ساتویں ہزار سال کا ہے یعنی مسیح موعودؑ کا زمانہ۔دنیا جمعہ کے دن آ کر خصوصیت کے ساتھ اسلامی احکام کے ماتحت تبلیغِ اسلام کرتی ہے یعنی باقی نمازوں میں تو خاموشی سے نماز پڑھ لی جاتی ہے لیکن جمعہ کے دن خطبہ اور وعظ بھی ہوتا ہے پس جمعہ اسلامی عبادتوں میں وعظ کا دن ہے اور اﷲ تعالیٰ نے اس دن کو دوسرے دنوں پر فضیلت دی ہے کیونکہ دوسرے دنوں میں بندے کھڑے ہو کر صرف اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں لیکن اس دن نہ صرف عبادت کی جاتی ہے بلکہ بندوں کو وعظ و نصیحت کرنے کے لئے خطاب بھی کیا جاتا ہے۔گویا جمعہ نشان ہے اﷲ تعالیٰ کی عبادت اور بندوں پر شفقت کرنے کا اور یہی اسلام کا خلاصہ ہے ۔اسلامی تعلیم کا لُبِّ لباب یہی ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کا کامل مطیع ہو ا ور اس کے بندوں پر شفقت کرنے والا ہو۔چنانچہ اس دن خطیب وعظ کرتا ہے جو شَفْقَتْ عَلَی النَّاسِکی مثال ہے اور پھر عبادت کی جاتی ہے جو اطاعت الٰہی کا نام ہے پس جمعہ کا وعظ جامع ہیشَفْقَتْ عَلَی النَّاس اور اطاعتِ الٰہی کا ۔غرض تبلیغ اور اشاعت کا زمانہ جو ہے اس کا جمعہ ایک نشان ہے اور مسیح موعود کے زمانے کو بھی تبلیغ و اشاعت کا زمانہ کہا گیاہے۔جیساکہ ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ۳؎ میں بیان کیا گیا ہے ۔
یہ آیت قرآن کریم میں تین جگہ آتی ہے اور تینوں جگہ مسیح کے ذکر کے ساتھ آتی ہے اور اَئمّہ اسلام کا اس پر اتفاق چلا آتا ہے کہ یہ آیت مسیح موعود کے زمانے کے لئے ہے پس ادھر قرآن مجید سے ثبوت ملتا ہے کہ نشرو اشاعت کا زمانہ مسیح موعود کا زمانہ ہے اور ادھرآئمہ اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ مسیح موعود کا زمانہ نشر و اشاعت کا زمانہ ہو گا ۔پھر الہامی کتب سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ مسیح موعود کا ظہور ساتویں ہزار سال میں مقدر ہے ادھر جمعہ ایام ہفتہ میں سے ساتواں دن ہے اور جمعہ کے دن نشر و اشاعت کا کام ہی کیا جاتا ہے حتّٰی کہ ظہر کی چار رکعتیں مقرر کی گئی ہیں مگر آج کے دن خدا تعالیٰ نے کہا دو رکعتیں میں اپنے بندوں کی خاطر چھوڑتا ہوں پس خطبہ کیا ہے؟ یہ تحفہ ہے جو خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کے سامنے پیش کیا۔جس طرح گورنمنٹ بعض دفعہ رعایا کا ٹیکس معاف کر دیتی ہے اسی طرح خدا تعالیٰ نے کہا میں اپنے بندوں کی خاطر دو رکعتیں چھوڑتا ہوں وہ ان کی بجائے خطبہ سن لیا کریں تو خطبہ جوہے وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک تحفہ اور ہدیہ ہے جو وعظ و نصیحت کی صورت میں مؤمنوں کو ملتاہے ۔پھر جمعہ کا دن ساتواں دن ہونے کے لحاظ سے ساتویں ہزار سال سے مشابہت رکھتا ہے اور نشرو اشاعت کے لحاظ سے تبلیغِ دین سے مشابہت رکھتا ہے ۔غرض جمعہ میں وہ دونوں باتیں پائی جاتی ہیں جو مسیح موعود کے زمانہ کی علامت ہیں ۔یعنی وہ ساتویں ہزار سال میں مبعوث ہو گا اور یہ کہ وہ اسلام کو ادیانِ باطلہ پر تبلیغ و اشاعت کے ذریعہ غالب کر دے گا پس جمعہ اور مسیح موعود ایک ہی چیز ہیں ۔اس سورۃ کے شروع میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا تھا وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِہِمْ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ۴؎ یعنی محمدصلی اللہ علیہ وسلم ایک اور قوم میں بھی دوبارہ ظاہر ہوں گے جو ابھی تم سے نہیں ملی بلکہ بعد میں آئے گی اور رسول کریم ﷺ نے اس کی یہ تشریح فرمائی تھی کہ لَوْکَانَ الْاِیْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُّرَیَّا لَنَا لَہ‘ رِجَالٌ مِنْ اَبْنَائِ فَارِس ۵؎ یعنی اگر ایمان ثریا پر بھی چلا گیا ہو گا تو چند فارسی الاصل لوگ یا ایک جگہ رَجُلٌ آتا ہے یعنی ایک فارسی الاصل مرد پھر ثریا پر گئے ہوئے ایمان کو واپس لائے گا اور اس سورۃ کے شروع میں رسول کریم ﷺ کی دوسری بعثت کا ذکر تھا جو مسیح موعود کی بعثت ہے اور مسیح موعود کی بعثت ھُوَ الِّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖوالی آیت اور اَئمّہ سلف کے کشوف کی رو سے جمعہ کے دن سے مشابہت رکھتی ہے۔اب یہود کو یہ بتانے کے بعد کہ تمہیں باوجود تورات کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرنے کے نجات کی امید نہیں رکھنی چاہئے اور باوجود تورات سے وابستگی کے دعویٰ کے اور باوجود اﷲ تعالیٰ کے دوست کہلانے کے تمہارا حق نہیں کہ تم اپنے آپ کو نجات یافتہ کہو کیونکہ تورات تمہارے دلوں میں نہیں صرف اپنے سَروں پر تم اسے اُٹھائے ہوئے ہو۔یہ بتایا ہے کہ محبت کی علامت یہ ہوتی ہے کہ سچا محبّ اپنے محبوب کے نام پر قربان ہو جاتا ہے مگر تمہاری یہ حالت ہے کہ تم تسلیم کرتے ہو دنیا میں کفر پھیلا ہؤا ہے ،تم تسلیم کرتے ہو کہ اس کے دین کی بے حرمتی کی جا رہی ہے مگر خدا جو تمہارا محبوب ہے اس کے لئے تم قربانی کرنے کے لئے تیار نہیں کیونکہ تم موت سے ڈرتے ہو حالانکہ اگر تم واقع میںخدا تعالیٰ سے محبت رکھتے ،اگر واقع میں اس کے دوست ہوتے، تو جب تم دیکھتے کہ خدا تعالیٰ کا نام دنیا سے مٹایا جاتا، اس کے کھیت کو برباد کیا جاتا اور اس کے دین کی تباہی کے سامان پیدا کئے جاتے ہیں تو تم اپنی جانوں پر کھیل جاتے مگر جب تم ایسا نہیں کرتے تو صاف ظاہر ہے کہ نہ تم کو خدا تعالیٰ سے محبت ہے اور نہ خدا تعالیٰ کو تم سے ۔پھر جیسا کہ قرآن مجید سے ثابت ہے سورہ فاتحہ میں یہ دعا سکھلائی گئی تھی کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّالِّیْن ۶؎ جس کا مطلب یہ تھا کہ ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے جبکہ مسلمان یہود کے ہمرنگ ہو جائیں گے اور رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ جس طرح ایک جوتی دوسری جوتی کے مشابہ ہوتی ہے اسی طرح مسلمان یہود کے مشابہ ہو جائیں گے ۷؎ پس جب یہود کو اللہ تعالیٰ نے ایک طرف یہ فرمایا کہ صرف کتاب تمہارے لئے کافی نہیں ہو سکتی جب تک تم اس پر عمل نہ کرو ،ادھر یہ بھی پیشگوئی تھی کہ مسلمان ایک زمانہ میں یہود کے مشابہہ ہو جائینگے تو ضروری تھا کہ یہود کا ذکر کرنے کے بعد مسلمانوں کو توجہ دلائی جاتی کہ تم پربھی چونکہ وہ زمانہ آنے والا ہے جبکہ تم یہود کے مشابہہ ہو جائو گے اس لئے ہوشیار ہو جائو اور تمثیلی طور پر اس کے لئے جمعہ کے دن کو بیان کیا جو ساتویں ہزار سال یعنی مسیح موعود کے زمانہ سے مشابہت رکھتا ہے۔ قرآن کریم میں بھی آتا ہے اِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِمَّا تَعُدُّوْنَ ۸؎ یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک دن ایک ہزار سال کا قائم مقام سمجھا جاتا ہے پس اس لحاظ سے ساتواں دن ساتویں ہزار سال کے قائم مقام ہؤا جو مسیح موعود کی بعثت کا زمانہ ہے غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔یٰاَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اﷲِ وَذَرُوا الْبَیْعَ ۔اے مسلمانو!ایک زمانہ تم پر بھی ایسا آنیوالا ہے جبکہ تمہارا امتحان لیا جائیگا اور تم بھی خدا تعالیٰ کے دین سے غافل ہو جائو گے ،تم میں بھی سستیاں اور کمزوریاں پیدا ہو جائینگی اور یہ دنیا کی پیدائش کے ساتویں ہزار سال میں ہو گا ۔یاد رکھو تمہیں حکم دیا گیا ہے کہ جس وقت تم جمعہ کی اذان سنو فوراً اس کی طرف دَوڑ پڑو ۔اسی طرح جب وہ ساتویں ہزار سال کی آواز بلند ہو تو یہ بہانہ نہ بنانے لگ جانا کہ ہم قرآن مانتے ہیں، محمد ﷺ کو رسول تسلیم کرتے ہیں ،حدیثیں پڑھتے ہیں، ہمیں اس آواز کے سننے کی کیا ضرورت ہے تمہیں قرآن کو مانتے ہوئے جمعہ کی نماز کی ضرورت ہوتی ہے یا نہیں؟ تمہیں حدیث کو مانتے ہوئے جمعہ کی نماز کی ضرورت ہوتی ہے یا نہیں ؟اگر ہوتی ہے تو کس طرح کہہ سکتے ہو کہ قرآن کو مانتے ہوئے تمہیں ساتویں ہزار سال کی خدائی آواز کو سننے اور اسکی طرف دَوڑ پڑنے کی ضرورت نہیں ۔ جمعہ میں علاوہ عبادت کے کیا ہوتا ہے اور کس لئے خدا تعالیٰ نے یہ کہا کہ جب جمعہ کے دن اذان کی آواز آئے تو تم فوراً اس کی طرف چل پڑواس لئے کہ ایک خطیب کھڑا ہو کر وعظ کرتا ہے صرف اس بات پر خدا تعالیٰ اپنے بندوں سے کہتا ہے کہ جائو اور اس کی آواز سنو ۔اگر ایک ملاّ بھی خطبہ کے لئے کھڑا ہو تو خدا تعالیٰ اُس وقت یہ کہتا ہے اس ملاّ کا خطبہ ہماری دو رکعتوں کا قائم مقام ہے تم جائو اور اس کی آواز کو سنوورنہ ہماری بے ادبی ہو جائے گی ۔آخر محمد ﷺ نے ہی تو ہمیشہ خطبہ نہیں پڑھنا تھا پس یہ حکم آپ کو ہی مد نظر رکھ کر نہیں بلکہ تمام آنے والے خطیبوں کو مد نظر رکھ کر ہے اسی لئے کہ جہاںجمعہ ہو رہا ہو وہاں حکم ہے فَاسْعَوْااِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ کہ جائو اور خطبہ سنو۔جمعہ کس چیز کا نام ہے زید، عمر یا خالد کے خطبہ کا مگر چونکہ وہ دو رکعتوں کی قائم مقامی میں رکھا گیا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر خطبہ نہیں سنو گے تو وہ دو رکعتیں جاتی رہیں گی اور نماز باطل ہو جائے گی ۔یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ بڑے تعہّد سے یہ حکم دیا کرتے تھے کہ جمعہ کے دن جلد سے جلد مسجد میں پہنچا جائے (میں ضمنی طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ قادیان میں بعض لوگ درمیان خطبہ میں آتے ہیں )رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے یہ ثابت ہے کہ بعض لوگ جب دیر سے آئے تو آپ نے ان سے جواب طلبی کی کہ دیر کرنے کی کیا وجہ ہے۔۹؎ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اﷲِ۔جمعہ کے دن جب اذان ہو جائے تو جلدی کرو اور دَوڑ پڑو تا خطبہ نہ رہ جائے۔بعض لوگ پوچھا کرتے ہیں کہ جمعہ کیلئے جلدی کا حکم کیوں دیا گیا ہے ؟میں انہیں بتا نا چاہتا ہوں کہ یہ حکم اسی لئے دیا گیا ہے کہ تا خطبہ نہ رہ جائے ہاں جو لوگ اذان سے پہلے مسجد میں آجائیں گے وہ زیادہ ثواب کے مستحق ہو نگے ۔پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جمعہ کی نماز تمہارے سامنے ہے اس کے احکام تمہیں معلوم ہیں ،تم جانتے ہو کہ اگر ایک معمولی خطیب بھی کھڑا ہو تو اُس وقت تمہیں حکم ہے کہ جائو اور اس کی باتوں کو سنو پھر اگر محمد ﷺ اور قرآن مجید پر ایمان لانا ایک ملاّ کے خطبہ سے انسان کو مستغنی نہیںکرسکتابلکہ حکم ہوتا ہے کہ جائو اور اُسکی باتیں سنو توتم کس طرح امید کر سکتے ہو کہ جب ساتویں ہزار سال کا خطیب آئے تو تم یہ کہہ کر خدا تعالیٰ کی گرفت سے بچ جائو کہ ہم جب قرآن مانتے اور محمد ﷺ کی رسالت پر ایمان رکھتے ہیں تو ہمیں اسکی آواز پر کان دھرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اگر جمعہ کے دن ملاّنوں کے خطبہ کے متعلق خدا تعالیٰ کاحکم ہے کہ جائو اور انہیں سنو تو کیا خدا تعالیٰ کا مأمور اتنی بھی حیثیت نہیں رکھتا کہ تم اس کی طرف متوجہ ہو اور یہ کہتے رہو کہ جب ہم قرآن کو مانتے ہیں تو کسی اور کی کیا ضرورت ہے۔ پس اس جگہ اللہ تعالیٰ نے یہ امر بیان فرمایا ہے کہ اے قرآن کے ماننے والو !تم جمعہ کا خطبہ کیوں سنتے ہو؟ اس لئے کہ تمہیںخدا کا حکم ہے کہ فَاسْعَوْااِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ جائو اور خطبہ سنو پھراگر ایک ملاّ کا خطبہ نہ سننے کی وجہ سے تم گنہگار سمجھے جاتے ہو تو کس طرح ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ کے مأمور کی آواز کو تم نہ سنو اور پھر بھی تم گنہگار نہ سمجھے جائو ۔پس فرمایا فَاسْعَوْااِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ ۔ جلدی کرو ذکرُ اللہ کی طرف اور دَوڑو اس کے مأمور کی آواز کی طرف ۔اس جگہ ذکرُ اللہ کے الفاظ لا کر یہ بیان کر دیا کہ انبیاء پر ایمان لانا درحقیقت خدا تعالیٰ پر ایمان لانا ہے ۔اگر ہم محمد ﷺ کی رسالت کو الگ کردیں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رسالت کو الگ کر دیں ،حضرت موسیٰ علیہ السلام کی رسالت کو الگ کر دیں ،حضرت نوح علیہ السلام کی رسالت کو الگ کردیں تو یہ کیا ہیں ؟ہمارے جیسے انسان ہی ہیں ۔ہم مان سکتے ہیں کہ وہ ہم سے زیادہ لائق اور سمجھ دار ہونگے ،ہم مان سکتے ہیں کہ ان میں قابلیت کے ذاتی جوہر ہم سے زیادہ ہو ںگے مگر نبوت ورسالت کو الگ کر کے ان کی ہم پر حکومت نہیں رہ سکتی ۔جیسے بڑے بڑے ادیب گزرے ہیں مشہور فلسفی اور صوفی ہوئے ہیں اسی طرح ان کی بھی حیثیت ہو گی اس سے زیادہ نہیں ۔جو چیز انہیں حاکم اور ہمیں ان کا فرمانبردار بنا دیتی ہے وہ نبوت و رسالت ہی ہے ۔اور نبوت ورسالت کا ماننا دراصل خدا تعالیٰ کو ماننا ہے ۔حضرت نوح کو ماننا انہیں ماننا نہیںبلکہ خدا کو ماننا ہے ،حضرت موسیٰ کو ماننا انہیں ماننا نہیں بلکہ خدا کو ماننا ہے،حضرت عیسیٰ کو ماننا انہیں ماننا نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کو ماننا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننا انہیں ماننانہیں بلکہ خدا تعالیٰ کو ماننا ہے ۔اسی لئے فرماتا ہے فَاسْعَوْااِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ۔ اللہ کے ذکر کی طرف دَوڑو یہ معنی نہیں کہ بندے کی اطاعت کرو ۔بندہ آخر کتنے سال جئے گا؟دس،پندرہ، بیس ،تیس سال کے بعد آخر فوت ہو جاتا ہے ۔ان چند سالوں میں اسکی اطاعت کے لئے کتنا موقع مل سکتا ہے یا فرض کرو ایک شخص کو نبی کی وفات سے صرف دس دن قبل اس کی آواز پہنچتی ہے اور وہ اسے مان لیتا ہے تو وہ ان دس دنوں میں کونسا پہاڑ گرا دیگا آخر اسے ذکر اللہ کی طرف ہی آنا پڑے گا ۔رسول کریم ﷺ کے متعلق ہی دیکھ لوآپ کو وفات پائے اب کئی سو برس گزر گئے مگر ہم جو اطاعت کرتے ہیں تو اس سے آپ کو کونسا نفع پہنچاتے ہیں ۔ساڑھے تیرہ سو برس گزر گئے مگر ہر شخص جانتا ہے کہ ہم رسول کریم ﷺ کی ذاتی اطاعت نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کر رہے ہیں اور اسی کی کتاب کے احکام پر عمل کرتے ہیں ۔محمد ﷺ کو اس سے کیا فائدہ کہ ہم نمازیں پڑھیں، روزے رکھیں اور زکوٰۃ دیں یہ تمام باتیں ہمارے فائدے کے لئے ہی ہیں ۔تو انبیاء کی اطاعت درحقیقت اللہ تعالی کی اطاعت ہوتی ہے اور اس جگہ اللہ تعالی یہی فرماتا ہے کہ یہ سوال فضول ہے کہ ہم فلاں شخص کی بات کیوں مانیں ۔ فَاسْعَوْااِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ تمہیں چاہئے کہ تم ذکرُ اللہ کی طرف دَوڑو۔جب ہم یہ کہتے ہیں کہ جائو اور مسجد میں پہنچو تو کیاہمارایہ مطلب ہو تا ہے کہ جائو اور مُلاّ کی خدمت کرو یا یہ مطلب ہو تا ہے کہ وہ ملاّ چونکہ ہماری باتیں سنا رہا ہے اس لئے سنو ۔اِسی طرح جب دنیا میں کوئی مأمور آتا ہے اور ہم حکم دیتے ہیں کہ جائو اور اُس کی اطاعت کرو تو اس کی اطاعت سے اُس کو ذاتی فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کی عظمت ہو تی ہے اس لحاظ سے جو کلام بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے ضروری ہے کہ ہم اس کی اطاعت کریں۔چاہے وہ محمد ﷺ کے ذریعہ آئے اور چاہے مسیح موعود کی معرفت آئے کیونکہ یہ ان کی اطاعت نہیں ہو گی بلکہ خدا تعالیٰ کی اطاعت ہو گی اور اللہ تعالیٰ کا کلام کہیں سے آجائے ہمارا فرض ہے کہ ہم اُسے سنیں اور اس پر عمل کریں ۔اگر ایک دیوار سے بھی خدا تعالیٰ کی آواز آئے تو ہمیں چاہئے کہ ہم اسے اسی نگاہ سے دیکھیں جس نگاہ سے ایک نبی کی بات کو دیکھا جاتا ہے۔ وَذَرُوا الْبَیْعَ اور تمام وہ کام چھوڑ دو جن سے دُنیوی نفع کی امید کی جاسکتی ہے۔اس میں صرف تجارت یا مزدوری ہی داخل نہیں بلکہ ملازمتیں بھی اس میں شامل ہیں ۔نوکری میں کیا ہوتا ہے نوکر کہتا ہے تم اتنا روپیہ مجھے دو اور میرا اتنا وقت اور اتنی طاقتیں تم لے لو ۔یہی مزدوری میں ہوتا ہے فرق صرف یہ ہے کہ تاجر دوسرے کو غلہ یا کپڑا دیتا ہے اور یہ اپنے ہاتھ کی طاقت اور دماغ کی محنت اسے دیتا ہے ۔
پس یہ بھی تجارت کرتا ہے مفت تو روٹی کوئی نہیں کھاتا ۔پس دنیا کے جتنے ایسے کام ہیں جن میں انسان کو نفع حاصل ہوتا ہے وہ بیع ہیں خواہ پیشے ہوں خواہ تجارتیں ہوں،خواہ زراعتیں ہوں، خواہ مزدوری اور نوکری ہو، اور خواہ بادشاہت ہو ۔بادشاہ بھی اپنا وقت اور دماغ رعایا کو دیتا اور انہیں فائدہ پہنچاتا ہے پس فرمایا وَذَرُوا الْبَیْعَ تمام وہ کام جن میں دُنیوی نفع ہو تم انہیں چھوڑ دو اور جاؤ اور اس کی بات سنو ۔ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۔اگر تمہیں علم ہو تو تم سمجھو کہ یہ بات تمہارے لئے بہت زیادہ بہتر اور نتائج کے لحاظ سے بابرکت ہے اگر حماقت سے تم کہے جاؤ کہ کیوں ہم کسی شخص کی بات کومانیں تو یہ اور بات ہے لیکن اگر علم کے ماتحت غور کرو گے تو تمہیں معلوم ہو گا کہ خداتعالیٰ کی آواز کا کسی زبان پر جاری ہونا کوئی معمولی بات نہیں اور نہ اس میں کسی چھوٹے بڑے کا کوئی سوال ہے بلکہ جس شخص کی زبان پر بھی خدا تعالیٰ کا کلام جاری ہو ضروری ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے ۔
یہ تو تمہید تھی اس کے بعداِنَّ الْمَوْتَ الَّذِیْ تَفِرُّوْنَ مِنْہُ فَاِنَّہ‘ مُلٰقِیْکُمْ کے ساتھ جوڑ ملتا ہے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اﷲِ وَاذْکُرُوا اﷲَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ایک چھوٹی موت تو وہ تھی جو ظاہری جمعہ میں شامل ہونے پر ہر انسان کو برداشت کرنی پڑتی ہے یعنیوَذَرُوا الْبَیْعَ کے حکم کے مطابق اسے اپنی تجارتیں اورخرید و فروخت کے سامان تھوڑی دیر کے لئے چھوڑنے پڑتے اور نماز میں شامل ہونا پڑتا ہے مگر وہ نہایت ہی حقیر موت ہے اور اس سے بڑی موت یہ ہے کہ مسیح موعود کو قبول کرنے اور اس پر ایمان لانے کے لئے ہر انسان قربانی کرے کیونکہ جب مسیح موعود پر ایمان لایا جائے گا اس کالازماً یہ نتیجہ نکلے گا کہ بعض دفعہ بیٹے کو باپ چھوڑنا پڑے گا اور باپ کو بیٹا،خاوند بیوی سے الگ ہو جائے گا اور بیوی خاوند سے علیحدہ، لوگ بُرا بھلا کہیں گے ،ظلم و ستم کریں گے اور ماریں پیٹیں گے اور مجبور کریں گے کہ مسیح موعود سے علیحدہ ہو جائیں لیکن اگر یہ موت بھی جو پہلی موت سے بڑی ہے انسان کے راستہ میں روک نہ ہوتو اس کے بعد ایک اور موت ان کے سامنے رکھی جاتی ہے۔اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اﷲِ جمعہ کی نماز کے بعد تو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے یہ اجازت ہے کہ لوگ منتشر ہو جائیں مگر ساتویں ہزار سال میں جب مسیح موعود کی بعثت ہو گی تو اس کے بعد اجازت نہیں بلکہ حکم ہو گا کہفَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ جاؤ اور دنیا میں تبلیغ کے لئے پھیل جاؤ ۔دیکھو میں نے سورہ بقرہ کی ایک آیت پیش کر کے بتایا تھا کہ وہاں اﷲ تعالیٰ نے یہ فرمایا تھا اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ وَ ھُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَالْمَوْتِ فَقَالَ لَھُمُ اﷲُ مُوْتُوْا ثُمَّ اَحْیَاھُمْ ۔اِنَّ اﷲَ لَذُوْفَضْلٍ عَلَی النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَشْکُرُوْنَ وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ وَ اعْلَمُوْا اَنَّ اﷲَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ۱۰؎ وہاں موت کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا تھا کہ ہم نے یہود کو کہا مر جاؤ چنانچہ وہ مر گئے اور ہم نے انہیں زندہ کر دیا اسی طرح فرمایا اگر تم بھی زندہ رہنا چاہتے ہو تو اپنی جانوں کو جہاد میں لگاؤ اور خداتعالیٰ کی راہ میں مر جاؤ یہ قَاتِلُوْا کا حکم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے لوگوں کے لئے تھا اوراِنَّ الْمَوْتَ الَّذِیْ تَفِرُّوْنَ مِنْہُ میں مسیح موعود کے زمانہ کی موت کی طرف اشارہ ہے اور یہاں چونکہ تلوار سے جہاد کرنے کا موقع نہیں تھا اس لئے یہ نہیں کہا گیا کہ جاؤ اور تلوار سے جہاد کرو بلکہ فرمایا فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ اپنے وطنوں کی قربانی کرو اور انہیں چھوڑ کر ممالکِ غیر میں نکل جاؤ ،مالوں کی قربانی کرو، چندے دو اور اشاعتِ اسلام کرو ۔آج تلوار کے جہاد کے ذریعہ ہم سے قربانی کا مطالبہ نہیں کیا جاتا بلکہ آج قربانی چاہئے اپنے وقت کی، قربانی چاہئے اپنے مال کی، قربانی چاہئے اپنے رشتہ داروںاور عزیزوں سے جدائی کی ،اور قربانی چاہئے نفس کے اندرونی جذبات و شہوات کی۔ یہ قربانیاں وہ ہیں جو محمد ﷺ کے صحابہ سے بھی طلب کی گئیں۔ لیکن ان میں سے بعض پر اُس وقت زور تھا اور بعض پر آج زور ہے مثلاً رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں تبلیغ کے لئے اس طرح قربانی کا مطالبہ نہیں کیا گیا جس طرح اس زمانہ میں کیا گیا ۔اُس زمانہ میں چونکہ اسلام کوتلوار کے زور سے مٹایا جاتا تھا اس لئے حکم تھا کہ جاؤ اور اپنی جانوں کو اسلام کے لئے قربان کردواسی لئے پہلے زمانہ کے مسلمان جہاں مخاطب کئے گئے تھے وہاں قَاتِلُوْا کا حکم دیا گیا تھا مگر یہاں چونکہ آخری زمانہ کے مسلمان مخاطب تھے اس لئے انہیں یہ کہاگیا ہے کہ فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ فرمایا وہ مسلمان جو یہود کے ہم رنگ ہیں وہ تو اس موت کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے مگر جب تم کہو گے کہ ہم اس موت کے لئے تیار ہیں تو ہم تمہارے سامنے ایک مطالبہ پیش کریں گے اور وہ یہ کہفَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ جب تم خدا کے مسیح کی باتیں سن لو، اس کے مسائل کو سیکھ جاؤ اس کی تعلیم پر مضبوطی سے قائم ہو جاؤ اور اس کے ان مسائل سے آشنا ہو جاؤ جن کو وہ دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے تو پھر تمہارا یہ کام ہے کہ تم اپنے وطن چھوڑ دو اور دوسرے ملکوں میں زمین کے کناروں تک اس کی تبلیغ کے لئے نکل جاؤ ۔یہ موت ہے جو اس زمانہ کے احیاء کے لئے خد اتعالیٰ نے مقرر کی ہے ۔یہ جوڑہے اِنَّ الْمَوْتَ الَّذِیْ تَفِرُّوْنَ مِنْہُ سے ۔ورنہ بھلا یہود کے ذکر، تورات کے نزول اور جمعہ کے بیان کا آپس میں تعلق ہی کیا ہو سکتا ہے۔ بعض مفسرین نے یَوْمُ الْجُمُعَۃ سے سبت کا ذکر مراد لیا ہے۔ بے شک یہ مراد بھی لی جا سکتی ہے لیکن چونکہ سبت ایک محدود سوال ہے ضروری ہے کہ اس کے سِوا کوئی زیادہ وسیع معنی بھی اس کے ہوں۔پھر اِس زمانہ کے یہود نے تو سبت کو چھوڑا بھی نہیں بلکہ آج کل تو وہ اسے بہت زیادہ منانے لگ گئے ہیں دراصل پہلے چونکہ موت کا ذکر تھا اس لئے بعد میں آ کر بتایا کہ تم بھی اس زمانہ میں یہود کے مثیل ہو جاؤ گے اور یہ واقعہ ساتویں ہزار سال میں ہو گا اِس وقت تم اگر دوبارہ زندگی چاہتے ہو تو تمہارا کام یہ ہے کہ پہلے مسیح موعود کی آواز سن کر اس کے پیچھے چلو اور اس کی تعلیم پر عمل کرو پھر دنیا میں اس کی تعلیم پھیلانے کے لئے نکل جاؤ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اﷲِاور اﷲ تعالیٰ کا وہ فضل تلاش کرو جس کے نتیجہ میں تمہاری تمام تکالیف ،ذلّت اور رُسوائیاں دور ہو جائیں۔یہی وہ چیز ہے جسے میں نے اپنی نئی تحریک میں پیش کیا ہے اور جسے بار بار میں جماعت کے سامنے لا رہا ہوں۔ ہمارے ہندوستان کے لوگوں میں یہ مرض ہے کہ وہ ایک جگہ سمٹ کر بیٹھنا چاہتے ہیں حالانکہ اﷲ تعالیٰ موجودہ زمانہ میں ہم سے یہ چاہتا ہے کہفَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ ہم باہر جائیں اور زمین میں پھیل کر تبلیغِ احمدیت کریں اس میں شبہ نہیں کہ یہ ایک ایسی بات ہے جس میں موت نظر آتی ہے اور اسی لئے موت کو ہلکا کرنے کے لئے ہم نے کہا کہ ہم غیر ممالک میں جانے والوں میں سے بعض کو کرایہ دے دیں گے یا چھ چھ ماہ وہاں رہنے کا خرچ دے دیں گے یہ تمام باتیں موت کو ہلکا کرنے والی ہیں کیونکہ جسے امید ہو کہ اُسے باہر جانے کے لئے کرایہ مل جائے گا اور امید ہو کہ وہاں کچھ عرصہ رہنے کے لئے خرچ بھی مل جائے گاوہ کسی قدر اپنی موت سے بے فکر ہو جاتا ہے لیکن اصل قربانی انہی لوگوں کی ہے جو موت کے منہ میں اپنے آپ کو ڈال دیتے اور یہ سمجھ لیتے ہیں کہ جب کئی فقیر دنیا میں بھیک مانگتے ہیں تو ہم بھی بھیک مانگ کر اپنا گزارا کر لیں گے یا مزدور مزدوری کر کے اپنا پیٹ پالتے ہیں تو ہم بھی مزدوری کر کے اپنا پیٹ پال لیں گے پھر اگر مرنا ہے تو یہاں بھی مرنا ہے اور وہاں بھی پھر کیوں ایسی جگہ نہ مریں جہاں مر کر خدا کی رضا حاصل ہو۔بے شک کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو غیر ممالک میں جاتے ہیںتو اپنے علمی زور سے رزق کما لیتے ہیں مگر جب تک ہماری جماعت پریہ زمانہ نہیں آتا کہ ہم اپنے علمی لوگ فارغ کر کے غیر ممالک میں بھیج سکیں اُس وقت تک جماعتی طور پر ضرورت ہے کہ ہم باہر جائیں اور غیر ممالک کے لوگوں کو احمدیت میں داخل کریں۔ یاد رکھو خداتعالیٰ ہم سے یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ ہم زمین میں پھیلیں اور احمدیت کی تبلیغ کریں میں نے اس تحریک کے ذریعہ اس کی ابتدا کر دی ہے اسی طرح جس طرح باغ لگانے والا پنیری تیار کرتا ہے اور یہ ارادہ کیا ہے کہ سرِ دست چند آدمی ایسے تیار کریں جو مختلف ممالک میں جائیں اور احمدیت کا بیج بوئیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ جماعت کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے اکثر لوگ باہر جائیں اور مختلف ممالک میں پیغامِ احمدیت پہنچانے لگ جائیں ۔دراصل ہمارے لئے اس بات کا جاننا اور سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ کس ملک کو اﷲ تعالیٰ نے اشاعتِ احمدیت کا مرکزقرار دیا ہے۔قادیان کا مرکز بنایا جانا محض اس بات کی دلیل ہے کہ قادیان قابلیت رکھتا ہے لیڈری کی اور قادیان قابلیت رکھتا ہے پنیری کی تیاری کی مگر یہ ضروری تو نہیں کہ یہ باغ کے بڑھنے کے لئے بھی اچھی جگہ ہو۔جو قابل لیڈر ہو ضروری نہیں ہوتا کہ وہ اچھا سپاہی بھی ہو بعض جرنیل بڑے اچھے ہوتے ہیں لیکن اگر انہیں سپاہی بنا دیا جائے تو ناقص ثابت ہوتے ہیں اسی طرح بعض قابل سپاہی ہوتے ہیں لیکن انہیں جرنیل بنا دیا جائے تو ناقص ثابت ہوتے ہیں۔ پس قادیان کو مرکز بنا دینے کے یہ معنی نہیں کہ یہاں جماعت بھی زیادہ پھیلے گی پچاس سال کے قریب سلسلہ احمدیہ پر گزر گئے مگرابھی تک یہاں غیر احمدی موجود ہیں اور ان میں ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو ہمارا شدید دشمن ہے اور نہ اس نے احمدیت قبول کی ہے اور نہ وہ احمدیت قبول کرنے کے لئے تیار ہے۔پھر وہ اتنا گند اُچھالنے والا اور اتنا جھوٹ بولنے والا طبقہ ہے جو بات ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتی وہ اسے ہماری طرف منسوب کر دیتا ہے مکہ میں بھی دیکھ لو یہی حالت تھی۔چنانچہ مکہ میں اس سُرعت سے اسلام نہیں پھیلا جس سُرعت سے مدینہ میں پھیلا۔رسول کریم ﷺ کی تیرہ سالہ تبلیغی مساعی کا یہ نتیجہ تھا کہ اسّی یا بعض روایات کی رو سے تین سَو افراد آپ پر ایمان لائے مگر مدینہ میں دو سال کے اندر سارے مدینہ نے اسلام قبول کر لیا تو بعض مقام لیڈری کے لحاظ سے مرکز ہوتے ہیں اور بعض اشاعت کے لحاظ سے مرکز ہوتے ہیںاسی نکتہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے رسول کریم ﷺ کی وفات پر انصار نے یہ کہا تھا کہ جب قبولِ اسلام میں ہم زیادہ ہیں تو خلافت کے اہل بھی ہم ہی ہیں حالانکہ مکہ لیڈری کے لحاظ سے مرکز تھا اور مدینہ اشاعت کے لحاظ سے اسلامی مرکز تھا اور اشاعت میں زیادہ حصہ لینے کی وجہ سے کوئی قوم لیڈری کے قابل نہیں بن سکتی۔
پس قادیان میں یا ہندوستان میں مسیح موعود کے نزول کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہندوستان اشاعتِ احمدیت کے قابل ہے بلکہ ہندوستان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے صرف یہ معنی ہیں کہ یہ ملک لیڈری کا اہل ہے اور اسی لئے مسیح موعود یہاں مبعوث ہؤالیکن ہمیں ابھی ایک مرکز اشاعت کی ضرورت ہے اور خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس زمانہ میں احمدیت کے لئے ایک مدینہ کے مثیل کی تلاش کریں ایسا ملک ہمیں میسر آئے جو احمدیت کے لئے اپنے ہاتھ کھول دے اور خداتعالیٰ کے دین کیلئے اس کے دل کی کھڑکیاں کھلی ہوں اور وہ اس نور کے حاصل کرنے کیلئے بیتاب ہو جو اس زمانے میں خدا تعالیٰ نے ظلمت کے دور کرنے کیلئے نازل فرمایا ہے اور یہ نوجوانوں کا کام ہے کہ وہ نکلیں اور تلاش کریں کہ کون سا ملک ہمارے لئے مدینہ کا مثیل ثابت ہو تا ہے۔یہی وہ امر ہے جس کی طرف ان آیات میں اشارہ کیا گیا ہے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اﷲِ جاؤ اور دنیا میں پھیل جاؤ ۔وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اﷲِ اور اﷲ تعالیٰ کا فضل تلاش کرو یہاں بتایا نہیں کہ کون سا ملک ایسا ہے جو احمدیت کو زیادہ قبول کرے گا بلکہ اسے تلاش کرنا اﷲ تعالیٰ نے ہم پر چھوڑ دیا ہے۔ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں تو الہاماً خدا تعالیٰ نے بتا دیا تھا کہ مدینہ اشاعتِ اسلام کے لئے اچھا مقام ہے لیکن یہاں چونکہ نشر و اشاعت کا زمانہ ہے اور اﷲ تعالیٰ کے حضور یہ مقدر ہو چکا ہے کہ وہ دنیا کے تمام ممالک میں احمدیت پھیلائے اس لئے اگر خدا تعالیٰ یہ بتا دیتا کہ احمدیت کی اشاعت کے لئے فلاں ملک موزوں ہے تو ہم سارے وہاں جا کر اکٹھے ہو جاتے اور باقی ممالک میں احمدیت پھیلانے سے غافل ہو جاتے اس لئے آج خدا تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ دنیا کے تمام ممالک میں ہم جائیں اور دنیا میں گھوم کر وہ ملک تلاش کریں جو احمدیت کے لئے مثیلِ مدینہ کا کام دے۔اس مقصد کے ماتحت جب ہم دنیا کے تمام ممالک میں پھریں گے تو ہر ملک میں احمدیت کا بیج بوتے جائیں گے اس طرح خدا تعالیٰ کا یہ منشاء بھی پورا ہو جائے گا کہ دنیا کے تمام ممالک میں احمدیت پھیلے اور آخر ہمیں وہ مقام بھی نظر آ جائے گا جسے ہم تلاش کرنے کے لئے نکلے ہوں گے۔ہم جاپان جائیں گے اور وہاں کے لوگوں کو احمدیت کا پیغام دیں گے کچھ لوگ مان لیں گے اور کچھ انکار کریں گے پھر ہم چین جائیں گے اور انہیں احمدیت کا پیغام دیں گے ان میں سے بھی کچھ لوگ مان لیں گے اور کچھ انکار کریں گے، اور پھر چین ایک ملک کا نام نہیں اس کے دس بارہ حصے ہیں ہر حصہ کی علیحدہ علیحدہ زبان ہے ،نہ معلوم کس حصۂ ملک کے لوگ احمدیت زیادہ قبول کریں اور کس حصہ کے لوگ احمدیت کو کم قبول کریں ۔اسی طرح ہم روس جائیں گے، افغانستان جائیں گے ،ایران جائیں گے، عرب جائیں گے، جزائر فلپائن جائیں گے، سماٹرا، جاوا ،نیپال،یونان اور امریکہ جائیں گے اور انہیں احمدیت کا پیغام دیں گے پھر یورپ کی بیس پچیس ریاستیں ہیں ان میں سے ہر ریاست میں احمدیت کی تبلیغ کے لئے پھریں گے ۔اس تمام کوشش کے نتیجہ میں نہ معلوم کہاں صرف احمدیت کا چھینٹا پڑے گا اور کہاں موسلا دھار بارش برسنے لگ جائے گی پس چونکہ آج تبلیغ کا زمانہ ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے اُس ملک کا نام نہیں بتایا جو احمدیت کی اشاعت کے لئے موزوں ہے بلکہوَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اﷲِ کہہ کر اﷲ تعالیٰ کے اس فضل کی تلاش کرناہمارا فرض قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ جاؤ اور اس مرکز کی تلاش کرو کہیں نہ کہیں دنیا میں تمہیں ضرور مل جائے گا اﷲ تعالیٰ یہ وعدہ کرتا ہے کہ جب تم دنیا کے تمام ممالک میں پھرو گے تو کوئی نہ کوئی ملک تمہیں ایسا مل جائے گا جو احمدیت کی طرف اسی طرح دَوڑے گا جس طرح ایک پیاسا پانی کی طرف دَوڑتا ہے ہے پس جب تک ہم ساری دنیا میں نہ پھیل جائیں اُس وقت تک ایسا مرکز ہمیں حاصل نہیں ہو سکتا ممکن ہے خدا تعالیٰ کی حکمت سب سے آخر اس ملک کو ہمارے سامنے لائے کیونکہ اگر پہلے یا درمیان میں وہ ملک ہمیں مل جائے تو ہم باقی ممالک میں احمدیت پھیلانے سے غافل ہو جائیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ تبلیغی ملک ہمیں پہلے ہی مل جائے مگر اﷲ تعالیٰ اُس وقت تک وہاں کے لوگوںکو احمدیت میں داخل ہونے سے اپنی مشیت کے ماتحت روکے رکھے جب تک کہ ہم سارے ملکوں میں نہیں پھر لیتے تا کہ ہم غافل نہ ہو جائیں لیکن اﷲ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ جب ہم تلاش کے لئے نکلیں گے تو ایسا ملک ہمیں جلد یا بہ دیر مل کر رہے گا۔
وَاذْکُرُوا اﷲَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَپھر دوسری بات یہ بتائی کہ جب باہر کے ملکوں میں جاؤ تو کثرت سے تبلیغ کرو پہلے بھی تبلیغ کا نام ذکر اﷲ رکھا تھا جیسے فرمایا تھا فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اﷲِاور یہاں بھی یہ بتایا ہے کہ وَاذْکُرُوا اﷲَ کَثِیْرًا جس کا مطلب یہ ہے کہ جاؤ اور خوب تبلیغیںکرو۔ یہ بھی مطلب ہے کہ مختلف ملکوں میں جا کر تبلیغ کرو اور یہ بھی مطلب ہے کہ تبلیغ میں تنوع پیدا کرو۔ چھوٹے چھوٹے اشتہارات شائع کئے جائیں اور تبلیغ کی جائے، بڑے بڑے پوسٹر شائع کئے جائیں اور تبلیغ کی جائے ،معمولی ٹریکٹ لکھے جائیں اور تبلیغ کی جائے، بڑی بڑی کتابیں لکھی جائیں اور تبلیغ کی جائے، پھر ایک ایک مضمون پر علیحدہ علیحدہ ٹریکٹ لکھے جائیں اور مختلف مضامین پر جامع کتابیں لکھی جائیں، اسی طرح چھوٹے چھوٹے قطعات لکھے جائیں اور تبلیغ کی جائے، پھر بڑی بڑی نظمیں لکھی جائیں اور تبلیغ کی جائے ،غرض کَثِیْر کے یہ بھی معنی ہیں کہ کثرت سے تبلیغ کرو اور یہ معنی بھی ہیں کہ کثرت سے تبلیغ کے لئے ہر قسم کا مصالحہ بہم پہنچاؤ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ تاکہ تم دنیا میںکامیاب ہو جاؤ۔ یہ دو چیزیں اگر جماعت قبول کر ے یعنی موت قبول کرے اور باہر کے ملکوں میں نکل جائے اور وہاں کثرت سے اور مختلف طریقوں سے کام لے کر تبلیغ کرے تو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ہم تم پر اپنا فضل نازل کرنا شروع کر دیں گے کسی شاعر نے کہا ہے
بس اِک نگاہ پہ ٹھہرا ہے فیصلہ دل کا
ہمارا بھی ایک ہی نگاہ پر فیصلہ ٹھہرا ہے ۔اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے تم موت کے بعد ترقی کر سکتے ہو وہاں موت یہ تھی کہ تلوار کا جہاد کرو اور اپنی جانیں دے دو یہاں یہ موت ہے کہ اموال خرچ کرو اور جاؤ اورہر ملک میں تبلیغ کروجس دن تم فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ پر عمل کرو گے اور ذکرِ کثیر کرو گے ،اُسی دن تم کامیاب ہو جاؤ گے۔ خدا تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ ایک وقت تک ترقی کو اپنے اختیار میں رکھتا ہے اور پھر اسے لوگوں کی مرضی پر چھوڑ دیتا ہے ۔جب تک قرآن مجید مکمل نازل نہیں ہؤا تھا اُس وقت تک ہدایت اُس نے اپنے اختیار میں رکھی تھی مگر جب قرآن مجید مکمل نازل ہو گیا تو یہ بندوں کی مرضی پر منحصر ہو گیا کہ اگر وہ چاہیں تو ہدایت قبول کریں اور چاہیں تو نہ کریں ۔اس زمانہ میں بھی خدا تعالیٰ نے قرآن مجید کی تفسیر اور اس کے معارف کا اظہار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ کر دیا، نشانات ظاہر کئے اور بیّنات سے سلسلہ احمدیہ کی صداقت روشن کر دی، پھر ہمارے ہاتھ میں دلائل کی تلوار بھی دے دی کہ ہم اسے استعمال کریں اب اگر ہم احمدیت کی اشاعت نہیں کرتے تو یہ ہمارا قصور ہے ورنہ اﷲ تعالیٰ نے دین کی اشاعت کے لئے جن دلائل و بیّنات کی ضرورت تھی وہ ہمیں دے دیئے اور اپنا کام ختم کر دیا ۔اب یہ ہمارا کام ہے کہ باہر کے ملکوں میں نکلیں اور احمدیت کو پھیلائیں اور یقینا جس دن ہم ساری دنیا میں پھیل جائیں گے، جس دن کوئی ملک ایسا نہیں رہے گا جس میںاحمدیت کا بیج ہم نے نہ بویا ہو تو اُس دن اس ملک کی کنجیاں بھی خدا تعالیٰ ہمارے ہاتھ میں دے دے گا جو ہمارے لئے مثیلِ مدینہ ہو گا اور ہمیں وہ قومیں مل جائیں گی جو جماعت درجماعت اور گرو ہ در گروہ احمدیت میں داخل ہونی شروع ہو جائیں گی۔
اس کے بعد فرماتا ہے وَاِذَا رَأَوْا تِجَارَۃً اَوْْ لَھْوَانِ انْفَضُّوْا اِلَیْھَا وَ َترَکُوْکَ قَائِمًا بعض لوگ غلطی سے بعض حدیثوں کی بناء پر یہ خیال کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ خطبہ پڑھا رہے تھے کہ بازارمیں بعض تاجر غلّہ وغیرہ لے کر آئے صحابہ کو معلوم ہؤا تو وہ رسول کریم ﷺ کو چھوڑ کر چلے گئے اور غلّہ خریدنے لگ گئے ۱۱؎ ۔یہ حدیث ایسی عجیب قسم کی ہے کہ جن الفاظ میں بیان کی جاتی ہے ان میں مَیں اسے صحیح ماننے کے لئے تیار نہیں ۔ممکن ہے چند کمزور ایمان کے لوگ کسی وقت اُٹھ کر چلے گئے ہوں مگر یہ ماننا کہ آپ خطبہ کر رہے ہوں اور آپ کو چھوڑ کر اکثر صحابہ بھاگ گئے ہوں اس نظّارہ کا خیال بھی میرے دل پر لرزہ طاری کر دیتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس شکل میں اس روایت کو کوئی مسلمان ماننے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا۔ مدینہ تو سارے مسلمانوںکا ہی شہر تھا وہاں منڈی میں غلّہ کس نے خریدنا تھا کہ تمام مسلمان خطبہ میں سے اُٹھ آئے۔ جب تمام مسلمان اُس وقت مسجد میں موجود تھے اور رسول کریم ﷺ کا خطبہ سن رہے تھے تو غلّہ کس نے خریدنا تھا ؟کیا دیواروں اور دروازوں نے، اسی جگہ مثلاً قادیان کے بازار میں اگر تجارت کا مال لایا جائے تو جو خریدنے والے ہوں گے وہ تو یہاں بیٹھے ہوں گے انہیں دَوڑ کر جانے کی کیا ضرورت ہے ؟ہاں ممکن ہے مسلمان تاجروں کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ ہندو تاجر خرید لیں گے اسی طرح وہاں بھی چند مسلمان تاجروں کے دل میں یہ خیال ہو سکتا تھا کہ یہودی تاجر مالِ تجارت کہیں خرید نہ لیں مگر اس صورت میں بھی زیادہ سے زیادہ دس بیس تاجر مسجد سے جا سکتے تھے مگر اکثر صحابہ کیوں بھاگے؟سب کے سب صحابہ تو اس قسم کی تجارت نہیں کیا کرتے تھے پس یہ بالکل خلافِ عقل بات ہے کہ تسلیم کیا جائے رسول کریم ﷺ کھڑے خطبہ پڑھا رہے ہوں اور اکثر مسلمان بھاگ گئے ہوں ممکن ہے دو تین آدمی اُٹھ کر چلے گئے ہوں اور کسی نے دوسرے کے پاس یہ بات بیان کی ہو تو سننے والے نے یہ سمجھا ہو کہ اکثر ہی چلے آئے تھے اور رسول کریم ﷺ کی ذات اکیلی رہ گئی تھی۔بہر حال صحابہ کے متعلق اس قسم کاخیال درست نہیں کیونکہ وہ تو اس پایہ کے انسان تھے کہ اگر انہیں کہا جائے بیٹھ جاؤ تو ان میں سے سننے والا گلی میں ہی بیٹھ جاتا۱۲؎۔پھر صحابہ وہ قربانی کرنے والے انسان تھے کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ کہتے ہیں مجھے رسول کریم ﷺ کی باتیں سننے کا اس قدر شوق تھا کہ میں گھر نہ جاتا اور مسجد میں ہی بیٹھا رہتا یہاں تک کہ سات سات دن کے فاقے ہو جاتے۔ میں خیال کرتا کہ اگرمَیں روٹی کھانے گیا تو ممکن ہے میرے بعد رسول کریم ﷺ مسجد میں آ کر کوئی بات کریں اور میں وہ سننے سے محروم رہ جاؤں ۔۱۳؎پس صحابہ تو ایسی قربانی کرنے والے انسان تھے کہ وہ رسول کریم ﷺ کی باتیںسننے کے اشتیاق میں سات سات دن کا فاقہ برداشت کر لیتے پھر ان کے متعلق کس طرح باور کیا جا سکتا ہے کہ رسول کریم ﷺ تو منبر پر کھڑے وعظ فرما رہے ہوں اور وہ بھاگ کر بازار میں مال خرید نے چلے گئے ہوں ۔پس اس جگہ یہ مراد نہیں جو عام طور پر سمجھی جاتی ہے بلکہ تَرَکُوْکَ میں کَ سے مراد محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا روحانی وجود ہے اور یہ آئندہ زمانہ کے متعلق پیشگوئی ہے کہ وَاِذَا رَأَوْا تِجَارَۃً اَوْ لَھْوَا نِ انْفَضُّوْا اِلَیْھَا وَ َترَکُوْکَ قَائِمًاغرض ان الفاظ میں پیشگوئی مخفی ہے کہ اے محمد !ﷺ ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے جب کہ تیری قوم بگڑتے بگڑتے ایسی حالت تک پہنچ جائے گی کہ کچھ حصہ اِس کا دنیا کی تجارت کی طرف جھک جائے گا یعنی وہ اپنا مقصدِحیات صرف دنیا کمانا قرار دے لے گااور کچھ حصہ ایسا ہو گا جو لہو یعنی سستی اور غفلت میں مبتلاء ہو جائے گا ۔گویا ایک حصہ عملِ بد کی وجہ سے تجھے چھوڑ بیٹھے گا اور ایک حصہ غفلت ،سستی اور بے عملی کی وجہ سے تجھے چھوڑ دے گا کیونکہ دین کے مقابلہ میں تجارت کا لفظ بد عملی پر دلالت کرتا ہے اور لھوکا لفظ بے عملی پر دلالت کرتا ہے ۔ لھو تو یہ ہے کہ سیر تماشا اور ہنسی مذاق کی باتوں میں اپنا وقت کھویا جائے اور تجارۃ کے معنی بد عمل کے ہیں یعنی دین کی بجائے دنیا کے کاموں میں اپنا وقت گذارا جائے پس فرمایا اے محمد! ﷺ ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے جب کہ تیری اُمت بگڑتے بگڑتے بد عملی اور بے عملی کی وجہ سے تجھے چھوڑ بیٹھے گی ۔اِنْفَضَّکے معنی اِنْکَسَرَ کے بھی ہیں یعنی وہ تجھ سے قطع تعلق کر لے گی۔ وَ تَرَکُوْکَ قَائِمًا اور تو اکیلا رہ جائے گا کوئی دین کو پوچھنے والا نہ رہے گا ۔یہ وہی امر ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس شعر میں بیان فرمایا ہے کہ
ہر طرف کفر است جوشاں ہمچو افواجِ یزید
دین حق بیمار و بے کس ہمچو زین العابدیں
یعنی کُفر کی طاقتیں یزید کی فوج کی طرح احاطہ کئے ہوئے ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہؤا دین زین العابدین کی طرح اکیلا ہے جسے کوئی پوچھنے والا نہیں پس اے محمد! ﷺ دینِ اسلام پر ایک ایسا وقت آنے والا ہے جب کہ تُو اکیلا رہ جائے گا اور لوگ یا تو دنیا کے کاموں میں مشغول ہو جائیں گے یا نکمے ہو کر عیّاشیوں میں مبتلا ء ہو جائیں گے دین کی طرف ان کی کوئی توجہ نہیں رہے گی۔ موجودہ زمانے میں ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں پر یہ علامت بالکل چسپاں ہو رہی ہے۔ان میںامراء ہیں، روپیہ ہے ،دولت ہے، وقت ہے لیکن وہ اپنی ساری طاقتیں دنیا کمانے پر صَرف کر رہے ہیں اور ایک حصہ ایسا بھی ہے جو بے عمل ہے اور غفلت اور سستی سے اپنی طاقتوںکو تباہ کر رہا ہے۔
یہی اس آیت میں بتایا گیا تھا کہ وَاِذَا رَأَوْا تِجَارَۃً اَوْ لَھْوَانِ انْفَضُّوْااِلَیْھَا وَ َترَکُوْکَ قَائِمًاکہ جب وہ تجارت اور لَہو دیکھیں گے اس کی طرف جھک جائیں گے اور تجھے اکیلا چھوڑ دیں گے لھو کا لفظ بھی اس جگہ تجارت کے ساتھ بڑھانا بتاتا ہے کہ اس کا اس حدیث سے کوئی تعلق نہیں جو بیان کی جاتی ہے کیونکہ حدیثوں میں یہ کہیں ذکر نہیں آتا کہ وہاں کوئی تماشا بھی آیا ہؤا تھا جسے دیکھنے کے لئے صحابہ ؓ چلے گئے۔ اگر حدیث کے بیان کردہ واقعہ میں اسی آیت کا ذکر ہوتا تو چاہئے تھا کہ وہاں یہ بھی ذکر ہوتا کہ وہاں تجارت کے ساتھ لھو کا بھی کوئی سامان تھا لیکن حدیثوں میں اس کا کوئی ذکر نہیں بلکہ اس کو حل کرنے کے لئے یہ بیان کیا گیا ہے کہ لوگ دحیہ کلبی کو دیکھنے چلے گئے تھے یا یہ کہ قافلہ کے ساتھ کی دَفوں کو سننے، حالانکہ دَفیں تو مدینہ کے گھر گھر میں ہوتی تھیں وہ کون سا تماشا تھا ؟وہ تو اس زمانے کے جنگی طبل کا قائمقام تھا۔ پس صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت پرزبردستی واقعہ کو چسپاں کرنے کے لئے بات بنائی گئی ہے پس صاف طور پر پتہ چلتا ہے کہ یہ مسلمانوں کی آئندہ زندگی کے متعلق پیشگوئی تھی یعنی یہ بتایا گیا تھا کہ مسلمان نکمّے ہو جا ئیں گے ان کا ایک حصہ کام نہیں کرے گا اور جو حصہ کام کرنے والا ہو گا وہ دین کو چھوڑ کر دنیا کے کاموں میں مشغول ہو جائے گا ایسی حالت میں تو اکیلا رہ جائے گا اور کوئی اسلام کا غمگسار نہ ہو گا ۔قُلْ مَا عِنْدَ اﷲِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّھْوِ وَ مِنَ التِّجَارَۃِ یہ خطاب محمد ﷺ کے بروز مسیح موعود سے ہے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے اے بروزِ محمد! ﷺ تو لوگوں سے کہہ مَا عِنْدَ اﷲِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّھْوِ وَ مِنَ التِّجَارَۃِ دین کو دنیا پر مقدم کرو ۔یہ بالکل اس آیت کا ترجمہ ہے کہ قُلْ مَا عِنْدَ اﷲِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّھْوِ وَ مِنَ التِّجَارَۃِ اور یادرکھو کہ جو اﷲ تعالیٰ کے پاس ہے وہ تجارت اور لھو سے بہت زیادہ بہتر ہے اگر تم اپنی سستیاں چھوڑ دو، قربانیاں کرو اور دین کی اشاعت کاکام اپنے ذمّہ لو تو یہ تمہارے لئے بہت زیادہ بہتر ہے ۔
پس اے پروفیسرو !اے ڈاکٹرو !اے وکیلو !اور اے سرکاری ملازمو! اے تاجرو ! اے صنّاعو! اور اے ہر قسم کا پیشہ کرنے والو! اگر تم چاہتے ہو کہ تم خدا تعالیٰ کی برکت حاصل کرو تو آؤ دین کے کام میں لگ جاؤ اور اشاعتِ اسلام کے لئے اپنی زندگیوں کو وقف کر دو وَاﷲُ خَیْرُ الرَّازِقِیْنَ اور یہ مت خیال کرو کہ تم دین کے لئے اپنا مال خرچ کرو گے ،دین کے لئے اپنی جانیں قربان کرو گے اور دین کے لئے اپنا وقت دو گے تو تمہیں اس سے نقصان ہو گا بلکہ یاد رکھو وَاللّٰہُ خَیْرُ الرَّازِقِیْنَ۔جب اس طرح مال خرچ کرو گے تو خدا تعالیٰ تمہیں دنیا کا بادشاہ بنا دے گا ،دولت تمہارے قدموں میں آئے گی اور یہ چھوٹی چھوٹی قربانیاں تمہیں بالکل حقیر اور ذلیل نظر آنے لگیں گی۔
(الفضل ۲۹ ؍مارچ ۱۹۳۵ئ)
۱؎ الجمعۃ:۱۰ تا ۱۲ ۲؎ الجمعۃ:۹ ۳؎ التوبۃ:۳۳
۴؎ الجمعۃ:۴
۵؎ بخاری کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ الجمعۃ باب قولہ و آخرین منھم (الخ)
۶؎ الفاتحۃ:۶،۷
۷؎ ترمذی ابواب الایمان باب ما جاء فی افتراق ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ۔
۸؎ الحج:۴۸
۹؎ بخاری کتاب الجمعۃ باب مَنْ جَاء وَالْاِمَامُ یَخْطُبُ (الخ)
۱۰؎ البقرۃ:۲۴۴،۲۴۵
۱۱؎ بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورۃ الجمعۃ باب وَاِذَا رَأَ وْا تِجَارَۃً اَوْ لَھْوًا۔
۱۲؎ اسد الغابۃ جلد۳، صفحہ ۱۵۷، مطبوعہ ریاض۱۲۹۵ھ
۱۳؎ اسد الغابۃ جلد۵، صفحہ ۳۱۷، مطبوعہ ریاض۱۲۹۵ھ

۱۲
اجتماعی عبادت اور دعاؤں کی تحریک
(فرمودہ ۲۲؍مارچ ۱۹۳۵ئ)
تشہّد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
میں نے دو جمعے گزرے کہ جماعت کو خصوصیت کے ساتھ سات روزے رکھنے اوراس فتنہ کے بارے میں جو اس وقت جماعت کے خلاف اُٹھ رہا ہے دعائیں کرنے کے لئے کہا تھا مجھے افسوس ہے کہ ہمارے سلسلہ کے اخبارات نے اس مضمون کو وہ اہمیت نہیں دی جو دینی چاہئے تھی یعنی اس اعلان کو صرف ایک دفعہ شائع کر کے بند کر دیا حالانکہ ہزارہا لوگ ایسے ہیں جو کبھی اخبار کا کوئی صفحہ پڑھ لیتے ہیں اور کبھی کوئی انہیں اتنی فرصت نہیں ہوتی کہ سارا اخبار پڑھیں ۔اشاعت کا اصول اس امر کا متقاضی ہے کہ مضمون کو تکرار کے ساتھ اور بار بار مختلف شکلوں میں سامنے لایا جائے لیکن ایسا نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے بالکل ممکن ہے کہ ہزاروں ایسے لوگ ہوں جو اس جمعرات کو ہمارے ساتھ دعاؤں میں شامل نہ ہو سکے ہوں مَیں نے اگر ایک دن مقرر کیا تھا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ میں اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہوں کہ اجتماعی عبادت اور دعا انفرادی عبادت اور دعا سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے ورنہ میں کہہ سکتا تھا کہ سات روزے رکھ لئے جائیں۔ کوئی کسی دن رکھ لیتا اورکوئی کسی دن ،کوئی مسلسل رکھ لیتا اور کوئی وقفہ سے اور اس طرح سات کا عدد پورا ہو جاتا مگر اس طرح اجتماعی عبادت اور دعا کا مقصد پورا نہ ہوتا یہی وجہ ہے کہ میں نے ایک دن کا انتخاب کیا اور تمام جماعت سے خواہش کی کہ ایک خاص دن کو سب روزے رکھیں تا اس دن جماعت خصوصیت سے عبادت کرے اور اﷲ تعالیٰ کے فضل کو طلب کرے۔ اس دن کے لئے میں نے خاص طور پر دودعائیںبتائی تھیں تا علاوہ اور دعاؤں کے دو دعائیں ایسی ہوں جن میں جماعت متحد ہو۔اگر ہر شخص اپنے اپنے طور پر دعا کرتا تو کوئی کچھ دعا کرتا اور کوئی کچھ لیکن جس طرح انفرادی عبادت اجتماعی عبادت کا مقابلہ نہیں کر سکتی اسی طرح انفرادی دعا بھی اجتماعی دعا کا مقابلہ نہیں کر سکتی جب سارے کے سارے مل کر ایک چیز اﷲ تعالیٰ سے مانگیں تو یہ بہت مفید ہوتا ہے۔اس طرح کمزور کو طاقتور سے طاقت ملتی ہے اور طاقتور کو کمزور سے۔یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ کمزور سے طاقتور کو کس طرح طاقت مل سکتی ہے کیونکہ کمزور سے کمزور انسانوں کا مجموعہ بھی طاقتوروں کی امداد کا موجب ہو سکتا ہے بہت سے بچے اگر مل جائیں تو ایک طاقتور انسان ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔
اس میں شبہ نہیں کہ بعض بندے ایسے ہوتے ہیں کہ جن کی دعائیں ہزاروں انسانوں کی دعاؤں سے زیادہ سنی جاتی ہیںلیکن اگر ایسے بندے کی دعاؤں کے ساتھ پچاس ہزار یا لاکھ ڈیڑھ لاکھ اور لوگوں کی دعائیں بھی مل جائیں تو وہ دعا اور زیادہ مؤثر اور طاقتور ہو جائے گی۔ اس میں شبہ نہیں کہ اﷲ تعالیٰ کے بعض بندے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کی دعائیں ساری دنیا سے زیادہ سنی جاتی ہیں مگر یہ مقابلہ کفر و اسلام میں ہوتا ہے اسلام اسلام میں نہیں۔ جن کی دعائیں ساری دنیا کے مقابلے میں سنی جاتی ہیں ان کی ایسی دعائیں کفر کے مقابلہ میں ہوتی ہیں۔رسول کریم ﷺ کی ایسی دعائیں عیسائیوں ،یہودیوں اور بت پرستوں کے مقابلے میں ہوتی تھیں۔صحابہ کی اور آپ کی دعائیں ایک ہی غرض کے لئے ہوتی تھیں اس لئے ان میں مقابلہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔بہرحال صحابہ کی دعائیں آپ کی دعا کے ساتھ مل کر زیادہ مؤثر ہو جاتی تھیںاسی لئے صحابہ کو آپ دعا کی تحریک فرماتے رہتے تھے۔حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام بھی دوسروں کو دعا کے لئے کہا کرتے تھے بلکہ بعض اوقات بچوں کو بھی دعا کی تحریک کرتے تھے مجھ سے بھی آپ کئی مواقع پر دعا کے لئے کہا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ آپ نے مجھے دعا کے لئے فرمایا اُس وقت میری عمر صرف نو سال کی تھی اس کے علاوہ ایک بات اور بھی ہے کہ جہاں روحانی عالم میں طاقتور کی دعا اس لئے سنی جاتی ہے کہ وہ مقبول ہے وہاں کمزور کی اس لئے سنی جاتی ہے کہ وہ رحم کا زیادہ مستحق ہے ۔بعض مواقع پر اللہ تعا لیٰ کی رحمت کمزور کی دعا زیادہ جلدی قبول کر لیتی ہے کیونکہ وہ جانتی ہے کہ جسے روحانی طاقت حاصل ہے اسکی دعا اگرجلدی نہ بھی قبول کی گئی تو یہ امر اس کے ایمان کی کمزوری کا موجب نہیں ہو سکتا لیکن کمزورکی طرف وہ فوراً لپکتی ہے کہ ایسا نہ ہو اسے ٹھوکر لگ جائے اسلئے دعا کرنے میں بہر حال کُل جزوسے زیادہ اہم ہے اور کُل میں طاقتوراور کمزور دونوں شامل ہیں اس لئے میں نے خواہش ظاہر کی تھی کہ تمام جماعت ایک وقت میںایک ہی قسم کی دعائیں کرے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جماعت کا ایک بہت بڑا حصہ اس سے اخبارات کی سُستی کے باعث محروم رہا ہے۔مجھے خود بھی ان ایام میں وقت نہیں مل سکا کہ میں بار بار توجہ دلائوں ۔آٹھ دس روز تک میں ارادہ کرتا رہا کہ دوستوں کو اخبار کے ذریعہ دوبارہ توجہ دلائوں مگر اس کے لئے موقع نہ مل سکا اس لئے میں اس خطبہ کے ذریعہ پھر جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس تحریک کو معمولی بات نہ سمجھیں بلکہ جتنے لوگ بھی روزہ کی طاقت رکھتے ہیں سب رکھیں اور جن سے یہ روزہ رہ گیا ہے وہ بعد میں رکھ لیں ۔سات روزے پھیلا کر میں نے اس لئے مقرر کئے تھے کہ ہندوستان سے باہر کے لوگ بھی اس میں کچھ نہ کچھ حصہ لے سکیں۔میں نے دو ہفتہ پہلے اعلان کیا تھا اور دوہفتہ میں بہت سے بیرونِ ہند کے مقامات پر ڈاک پہنچ جاتی ہے ۔پھر کئی لوگوں کو ان کے دوست ہوائی ڈاک سے اطلاع دے دیتے ہیں پھر قریباً ساری دنیا میں ایک ماہ کے اندر اندر ڈاک پہنچ جاتی ہے اور اس طرح ایسے مقامات کے لوگ زیادہ سے زیادہ دو روزوں میں شریک نہ ہو سکتے اور پانچ میں وہ بھی شریک ہو سکتے اور باقی دو وہ اپنے اپنے ملک کے لحاظ سے اجتماعی طور پر رکھ لیتے ۔پس جو لوگ استطاعت رکھتے ہوں وہ یہ روزے ضرور رکھیں ۔باقی رہی دعا سووہ روزوں سے مخصوص نہیں یہ روزانہ ہو نی چاہئے اور اس کے لئے بچوں اورعورتوں میں بھی تحریک کی جائے ۔اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلا م کو جو دعا سکھائی کہ رَبِّ کُلُّ شَیْئٍی خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ ۱؎۔اس کے متعلق فرما یا کہ یہ اسمِ اعظم ہے اور ہر مصیبت سے نجات کا ذریعہ ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اسے اس زمانہ کے لئے اسمِ اعظم قرار دیا ہے ۔اسمِ اعظم ہر زمانہ کے لئے الگ الگ ہوتے ہیں اگر اس بات کو تسلیم نہ کیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں اسمِ اعظم کو ئی نہ تھا حالانکہ کوئی نعمت ایسی نہیں جو محمد رسول اﷲ ﷺ اور آپ کے صحابہ کو نہ ملی ہوپس ماننا پڑے گا کہ ہر زمانہ میں اسمِ اعظم الگ ہو تا ہے ۔محمد رسول اﷲ ﷺ کے زمانہ میں آپ کے حالات کے مطابق تھا اور اس زمانہ میں موجودہ حالات کے مطابق ،اللہ تعالیٰ کی صفات مختلف دَوروں سے تعلق رکھتی ہیں بعض زمانوں میں بعض صفات کا اظہار ہوتا ہے اور بعض میں بعض اور کا ۔اور اس دعا سے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سکھائی پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفتِ حفیظ، ناصر یا نصیر، رحیم یا رحمٰن کی اس زمانہ میں بندوں کو زیادہ احتیاج ہے ۔اس میں شُبہ نہیں کہ جس قدر مکمل نظام مخالفت کا اس زمانہ میں ہے وہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں دشمنوں کا نہیں تھا ۔اُس زمانہ میں انفرادی مقابلہ تھا کفر وشرک کو اجتماعی طاقت حاصل نہ تھی جو آج ہے ۔آپ کو پہلا مقابلہ عرب سے پڑا جہاں کوئی حکومت ہی نہ تھی ،مکہ میں الگ، مدینہ میں الگ اور یمامہ میں الگ انتظام تھا ،اسی طرح ہر گائوں اور ہر بستی کی حکومت علیحدہ تھی اور ایک شخص ایک حکومت سے نکل کر جھٹ دوسری حکومت میں جا سکتا تھا مگر آج چند متّحدالخیال حکومتوں نے سب دنیا پر غلبہ حاصل کیا ہؤا ہے ۔اس زمانہ میں اصل طاقت یورپ اور امریکہ کی ہے۔جاپان بے شک ایک علیحدہ ہستی ہے مگر ان کے مقابلہ میںوہ کچھ نہیں۔ مذہبی نقطہ نگاہ سے عیسائیت ساری دنیا پر چھائی ہوئی ہے اور جس کی مخالف یہ ہو اُسے دنیا میں کوئی پناہ نہیں ملتی اس لئے اس زمانہ میں حفاظت، نصرت اور رحم کا سوال بہت خصوصیت رکھتا ہے ۔پھر رسول کریم ﷺ کی زندگی میں آپ کو بادشاہت بھی حاصل ہو گئی تھی اور اس وجہ سے آپ غیر کی حفاظت کے محتاج نہ رہے تھے اور بعد میں توساری دنیا پر مسلمانوں کی حکومت ہو گئی مگر اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ اسلام کی حفاظت دلائل سے کرے اور احمدیت کو عرصہ تک حکومت سے علیحدہ رکھے کیونکہ دشمنوں نے یہ دھوکا کھایا تھا یا وہ یہ فریب دینا چاہتے ہیں کہ پہلے زمانہ میں مسلمانوں نے تلوار چلائی اور اس وجہ سے اسلام پھیل گیا ۔گو یہ اعتراض لغو، بے ہودہ اور غلط ہے اور رسول کریم ﷺکی زندگی اپنی ذات میں اس امر پر شاہد ہے کہ یہ اعتراض غلط ہے اور اسلام کا نور دلائل اور براہین سے پھیلا ہے اور صحابہ کرام کی مقدس زندگیوں کے نمونہ سے اس کی اشاعت ہوئی ہے لیکن بہرحال چونکہ اس زمانہ میں تلوار چلائی گئی اس وجہ سے دشمن کو اس اعتراض کا موقع ملا لیکن غیرتِ الٰہی نے تقاضا کیا کہ وہ اس زمانہ میں اسلام کو بغیر تلوار کے پھیلا کر یہ ثابت کر دے کہ یہ اعتراض بے ہودہ ہے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک شاگرد دلائل سے اسلام پھیلا سکتا ہے تو آپ کیوں نہیں پھیلا سکتے تھے ۔
پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ذریعہ اسلام کو دلائل سے پھیلا کر اللہ تعالیٰ ان دشمنوں کا منہ بند کرنا چاہتا ہے جو کہتے ہیں کہ اسلام تلوار سے ہی پھیل سکتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ احمدیت ایک عرصہ تک حکومت سے محروم رہے اور اسے مظلوم بنایا جائے۔احمدی طرح طرح کے مظالم کا تختۂ مشق ہوں تا ان کی کمزوریوں اور ان پر ظلموں کو دیکھ کر ہر شخص یہ کہنے پر مجبور ہو کہ اس کی ترقی محض خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوئی ہے ورنہ کوئی صورت نہ تھی ۔پس اللہ تعالیٰ کی حفاظت، نصرت اور رحم کی صفات کے ظہور کا یہ ایک خاص زمانہ ہے اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان صفات کوچُن کر ہماری جماعت کے سامنے رکھا تاہم خصوصیت سے ان کو یاد کریں اور ان میں جوش پیدا ہو اور سلسلہ کی ترقی میں کوئی روک پیدا نہ ہو سکے ۔رَبِّ کُلُّ شَیْئٍی خَادِمُکَ میں یہ بتایا ہے کہ الٰہی! ہم بہت ادنیٰ حالت میں ہیں،غلام ہیں اور دنیا میں ہر جگہ محکوم ہیں ،کہیں عیسائی ہم پر حاکم ہیں تو کہیں ہندو ،کہیں دوسرے مسلمان کہلانے والے ہیں تو کہیں کنفیوشس کے پَیرو ہم پر حاکم ہیں ،ہماری حکومت کہیں بھی نہیں اور ہم دنیا کے خادم ہیں مگر اے ربّ! جن کے ہم خادم ہیں وہ بھی تیرے خادم اور تیری حکومت کے تابع ہیں ۔ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ تو ان کا آقا ہے اور ہم مظلوم ہیں ان کے مظالم سے تو ہماری حفاظت کر اور نصرت کر اور رحم کر ۔اگر دُنیوی حکومتیں ہماری حفاظت نہیں کرتیں تو اے خدا! تو جواِن حکومتوں پر بھی حاکم ہے ہماری حفاظت کر ۔اگر وہ لوگ جو اسلام کے نام میں ہمارے شریک ہیں، بجائے اس کے کہ اسلام کی خدمت میں ہماری مدد کریں ہماری مخالفت کرتے ہیں تو تو ہماری نصرت کر۔ وہ لوگ طاقتور ہیں اور ہم کمزور ہیں پس تو ہم پررحم کر کہ تو سب سے بڑا طاقتور ہے۔ یہ دعا ہے جو اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام کو سکھائی اور اسے اسمِ اعظم قرار دیا اس لئے اس میں اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنیکی طاقت ہے ۔اسمِ اعظم اسی دعا کو کہتے ہیںجو سب دعائوں سے بھاری ہو اور مصائب کو ٹلا دیتی ہو ۔
ایک سوال مجھ سے کیا گیا ہے کہ کیا یہ دعا جمع کے صیغہ میں بھی کی جاسکتی ہے اور کیا یہ الہامِ الٰہی میں دخل اندازی تو نہیں میںتو اکثر ایسا کرتا ہوں کیونکہ میری دعائیں ساری جماعت کے لئے ہوتی ہیں اور میں سمجھتا ہوں ایسا کرنا الہامِ الٰہی میں دخل اندازی نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے دعا کو آخر ایک لفظ میں ہی سکھانا تھا ۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو دعائیں آتی ہیں وہ ایک لفظ میں ہی ہو تی ہیں کبھی مفردکے صیغہ میں کبھی جمع کے صیغہ میں ۔پھر دعا کرنے والے اپنے حالات کے مطابق اسے ڈھا ل لیتے ہیں ۔اگر ایک دعا کرے تو وہ مفرد صیغہ استعمال کر سکتا ہے ،اگر کئی دعا کرنے والے ہوں تو وہ جمع کا صیغہ استعمال کر سکتے ہیں یہ ایسی بات ہے جیسے قرآن کریم میں احکام کا ذکر کرتے ہوئے اکثر ضمائر ذکور کے لئے ہیں لیکن ان میں مرداور عورت دونوں مخاطب ہیں ۔ان سے یہ دھوکا نہیں ہو سکتا کہ عورتیں اس حکم میں شامل نہیں ہیں بلکہ اس سے عورتوں کے لئے بھی استدلال کر لیا جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک خاص موقع پر یہ دعا سکھائی گئی اور آپ چونکہ اس کے مخاطب اول تھے۔ اس لئے نِیْ کا لفظ استعمال کیا ۔اب ہمارے خلاف جماعتی فتنہ ہے اگر کوئی شخص اپنے جوش میں یہ دیکھتا ہے کہ اس کا وجود جماعت میں غائب ہو گیا ہے تو وہ نَا کا لفظ بھی استعمال کر سکتا ہے اور یہ الہام میں دست اندازی نہیں ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کی آیات کو اپنی عبارت میں بعض لفظ بدل کر استعمال کر لیا ہے گویا انہیں اپنا لیا ہے اور اگر قرآن کریم کی آیتیں اس طرح استعمال ہو سکتی ہیں تو یقینا دعائیں بھی ہوسکتی ہیں ۔پس جو لوگ اپنی حالت ایسی پائیں کہ اپنے آپکو منفرد دیکھیں ،وہ نِیْ کہہ لیں لیکن جو ایسی کیفیت محسوس کریں کہ گویا ان کا دکھ ساری جماعت کا دکھ ہے اور وہ سکھ اور رحم اپنے لئے نہیں مانگتے جب تک ساری جماعت کو نہ ملے وہ نَاکہہ لیںتو کوئی اعتراض کی بات نہیں ۔ان باتوں کا انسان کے جذبات کے ساتھ تعلق ہے اور زبان جذبات کے ماتحت آتی ہے ۔انسان منافقت سے اسی وقت دور ہو تا ہے جب دل اور زبان دونوں متحد ہوںورنہ نفاق چھا جاتا ہے ۔
دوسری دعا جو رسول کریم ﷺکی ہے ۔یہ دعا آپ اُس وقت مانگتے تھے جب قومی طور پر کوئی فساد دیکھتے ۔کئی حدیثوں میں ہے جب آپ کو کسی قوم سے خوف ہو تا کہ اسلام کے مقابلہ پر کھڑی ہے اور اسے نقصان پہنچانا چاہتی ہے تو آپ اُس وقت یہ دعا مانگتے تھے اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ ۲؎ یہ دعا رسول کریم ﷺ کے دستور میں شامل ہے اور ایسے ہی موقع کے لئے ہے جب اقوام ایک جتھے کے طور پر جمع ہو کر اسلام پر حملہ آور ہوں اور چونکہ ہماری حالت بھی آجکل ایسی ہی ہے کہ سب قومیں حتیّٰ کہ حکومت کا ایک حصہ بھی متحدہ طور پر ہمیں نقصان پہنچانے کے در پے ہے اس لئے اس دعا کے پڑھنے کا یہ خاص موقع ہے ۔اس میں اللہ تعالیٰ سے دشمن کے مقابلہ میں امداد چاہی گئی ہے دشمن کی طرف سے حملہ بھی دو طرح کا ہوتا ہے ،ایک حملہ جو سامنے سے کیا جاتا ہے اور ایک وہ جو پیچھے سے ہوتا ہے جو سامنے سے کیا جائے اس کی زدچھاتی اور سینہ ہوتی ہے۔ دشمن چھپ کر بھی کئی رنگ میں حملے کرتے ہیں کبھی اندر ہی اندر نفاق پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،حکومت میں ریشہ دوانیا ں کی جاتی ہیں اور اسے بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، ڈرایا جاتا ہے، لالچ دیا جاتا ہے اور یہ سب حملے وہ ہیں جو پیچھے سے کئے جاتے ہیں ۔اس دعا میں دونوں طریق کو مدنظر رکھا گیا ہے ۔ نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ ظاہر حملہ کے لئے ہے ۔نَحَرْ چھاتی کے اوپر کے حصہ کو کہتے ہیں اس دعا میں پہلے اللہ تعالیٰ سے اس حملہ میں مدد مانگی گئی ہے جو سامنے سے آتا ہے دوسرے جملہ میں اس حملہ کا ذکر ہے جو پوشیدہ کیا جاتا ہے کئی دشمن منافق اور بزدل لوگ پوشیدہ حملے کرتے ہیں اور بعض اوقات بہادر دشمن بھی خُفیہ طریق اختیار کرتا ہے ۔اس دعا میں اللہ تعالیٰ سے درخواست ہے کہ ہمیں دسیسہ کار یوں۳؎ اور مخفی شرارتوں کے بدانجام سے بچائے ۔
مثلاًآج کل ہمارے خلاف جھوٹ بولا جاتا ہے ہم آرام سے قادیان میں بیٹھے ہیں اور کہا جاتاہے کہ ہم لڑتے ہیں، فساد کرتے ہیں ۔ہم نے حکومت کی وہ خدمت کی ہے کہ بڑی بڑی تنخواہیں لینے والے افسر بھی نہیں کر سکے مگر ہمیں اس کا مخالف کہا جاتا ہے ،ہم اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دیتے ہیں لیکن کہا جاتا ہے کہ ہماری جماعت نے بعض حکام کو حرام زادہ کہا ہے ،یہ سب باتیں مخفی طور پر کہی گئیں اور اگر حکومت کے بعض افسر بول نہ پڑتے تو ہمیں پتہ بھی نہ لگتا ایسے شرور سے اللہ تعالیٰ ہی بچا سکتا ہے۔ ان دعائوں کے بعد اللہ تعالیٰ یا تو بالا افسروں پر حق کوکھول دے گا اور انہیں شریر اور بد وضع لوگوں کے متعلق سمجھ عطا کر دے گا ،وہ سچ اور جھوٹ کو نتھا ر سکیں گے اور اس کے بعد اگر وہ اصلاح کر لیں تو اللہ تعالیٰ کا رحم ان پر ہو گا لیکن اگر ضد کریں گے اور سمجھیں گے کہ ہم بادشاہ ہیں، حاکم ہیں جماعت خواہ کچھ کہے ہم اپنے ایجنٹوں کی بات ہی مانیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے منصوبوں کو توڑنے کے لئے ایسے سامان کر دے گا جو آسمانی ہوں گے اور ان کے ضرر سے ہمیں بچا لے گا اور ان سے بڑے حاکموں کو توفیق دے دے گا کہ ان کی ناانصافی کا ازالہ کر سکیں۔
پس ہمیں چاہئے کہ ان ہتھیاروں سے مقابلہ کریں جن کا مقابلہ کوئی کرہی نہیں سکتا۔اللہ تعالیٰ نے ہم سے تلواریں چھین لی ہیں تاہم دلائل کے زور سے اسلام کو پھیلا کر اس اعتراض کو دور کریں جو اسلام کی اشاعت پر کیا جاتا ہے اس لئے تلوار، بندوق، تو پ، مشین گن، بم اور دوسرے ایسے ہی ہتھیاروں سے مقابلہ کا خیال ہمارے وہموں سے بھی بالا ہے ہمیں پہلے دن سے ہی یہ سبق دیا گیا ہے کہ مر کر نخلِ اسلام کی آبیاری کرنی ہے ۔دوسروں کا خون نہیں بہانا بلکہ اپنی گردنیں ان کی تلواروں کے نیچے رکھ دینی ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہمیشہ دوقسم کی قربانی چاہا کرتا ہے یا تو اس طرح کہ تلوار لو خود مر جائو یا دشمن کو ماردو اور یا پھر اس طرح کہ تلوار چھوڑ دو اور دشمن کے پاس چلے جائو اگر وہ تمہیں مار دے تو بے شک مر جائو،نہیں تو وہ تمہارا بھائی بن جائے گا۔
آج اللہ تعالیٰ ہم سے اسی قسم کی قربانی کا مطالبہ کرتا ہے کہ مر جائو ،رعایا ہو کر حاکموں کے دل فتح کرو ۔اللہ تعالیٰ کے تمام کام اپنے اندر حکمت رکھتے ہیں۔خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں مغل قوم کو اشاعتِ اسلام کے لئے اسی واسطے چُنا ہے کہ اسلام پر تلوار کے زور سے اشاعت کا جو اعتراض کیا جاتا ہے وہ دور ہو ۔مغل ہی ہیں جنہوں نے بغداد سے اسلامی خلا فت کو مٹا دیا۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ اس سے زیادہ مصیبت اسلام پر اور کوئی نہیں آئی ،اٹھارہ لاکھ مسلمان چنددنوںمیں بغداداور اس کے نواحی علاقہ میں قتل کر دیئے گئے ۔مسلمانوں کے لئے سوائے افریقہ اور سپین کے کوئی ایسی جگہ نہ تھی کہ جہاں وہ پناہ لے سکتے ۔سب خیال کررہے تھے کہ کفر اسلام پرپھر غالب آگیا لیکن اللہ تعالیٰ دکھانا چاہتا تھا کہ بادشاہ ہو کر بھی وہ اسلام میں داخل ہونگے چنانچہ وہی قوم تیسری پشت میں مسلمان ہوگئی ،یہ پہلاثبوت تھا اس بات کا کہ اسلام تلوار کے زور سے نہیں پھیلا ۔اب پھر اللہ تعالیٰ نے مغلوں میں سے ہی ایک شخص کو چُنا ہے اور تلوار چھین کر دلائل کے ذریعے اسلام کی اشاعت کا کام اس کے سپرد کیا ہے۔ پس ہمارے لئے توپ،بندوق یا تلوار کا خیال کرنا بھی ناممکن ہے اگر ہم ایسا کریں تواس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم اپنے مقصودِ پیدائش کو باطل کرتے ہیں کیونکہ ہماری پیدائش کی بناء یہی ہے کہ ہم نے اسلام کودلائل سے غالب کرنا ہے اور اگر ہم جبر سے کام لیں تو ان پیشگوئیوں کو خودہی غلط ثابت کریں گے پس سچ یہی ہے کہ ہمیں حکومت اُسی وقت ملے گی جب جماعت مضبوط طور پر قائم ہو جائے گی تا یہ پوری طرح ثابت ہو جائے کہ ہم نے اسلام کو دلائل سے منوالیا ہے ۔ابھی تو ہر شخص ہمیں تکلیف پہنچاتا ہے جس کو کوئی کام بھی کرنے اور دنیا میں کوئی اہمیت حاصل کرنے کا خیال ہو وہ للچائی ہوئی نظروں سے ہماری طرف دیکھتا ہے۔ عیسائیوں کو زور آزمائی کا شوق ہو تا ہے تو ہماری طرف متوجہ ہو جاتے ہیں، آریوں کو گالیاں دینے کا شوق چراتا ہے ،مسلمانوں کو تیس مارخانی کا اظہار کرنا ہوتا ہے تو ہماری طرف ہی رُخ کرتے ہیں حکومت کے افسروں کو اپنی حکومت دکھانے کا شوق ہو تا ہے تو وہ بھی ہمیں ہی دباتے ہیں اور خیال کر لیتے ہیں کہ یہ نرم نرم ہڈیاں خوب چبائی جا سکتی ہیں ۔غرضیکہ ہر ایک نظر ہم پر ہی پڑتی ہے ،ہر کوئی ہمیں تر نوالہ سمجھتا ہے ایسی صورت میں اگر اللہ تعالیٰ ہمیں تلواردیدے تو یہ ثابت نہ ہو سکے گا کہ دین کی اشاعت دلائل سے ہوئی اور اسلام پر قدیم سے پڑنے والا اعتراض قائم کا قائم رہے گا اس لئے سب طاقت خدا کی ذات میں ہے ہماری توپ،ہماری تلوار، ہماری بندوق خدا ہے اور اس کی مدد کے ساتھ ہم وہ کام کر سکتے ہیں جو بندوق تو پ اور تلوار سے نہیں ہو سکتا ۔
میں نے کئی دفعہ ایک بزرگ کا قصہ سنایا ہے ان کے ہمسایہ میں بادشاہ کا کوئی درباری رہتا تھا جس کے ہاں ہر وقت رقص و سرود اور باجہ گاجہ کا شغل رہتا تھا گندے اشعار پڑھے جاتے تھے جن سے عورتوں کو تکلیف ہوتی تھی ،ان کی اپنی عبادت میں بھی خلل آتا اور لوگوں نے بھی آ کر شکایات کیں انہوں نے اس شخص کو جاکر سمجھایا مگر وہ حکومت کے نشہ میں تھا اس نے کہا مجھے تم لوگوں کی کیا پرواہ ہے کون ہے جو ہمارے سامنے بول سکے، ہم تمہاری بات نہیں سن سکتے ۔اس بزرگ نے کہا کہ پھر ہم تمہارا مقابلہ کریں گے ۔اُس نے اگلے روز دروازہ پر سپاہی لا کر کھڑے کردیئے جیسے ہم پر دفعہ ۱۴۴لگا دی گئی ہے اور کہا کہ تم کہتے تھے روک دیں گے اب شاہی فوج آگئی ہے ، اب روک کر دکھائو ۔اُس بزرگ نے کہا کہ بے شک ہم نے کہا تھا مقابلہ کریں گے مگر یہ مقابلہ مادی طاقت سے نہیں بلکہ رات کے تیروں سے ہو گا اور جب میں نے کہا تھا کہ روک دیںگے تو یہ مطلب نہیں تھا کہ ڈنڈے کے زور سے روک دیں گے بلکہ مطلب یہ تھا کہ خدا سے اپیل کریں گے ہماری بھی مثال یہی ہے آج حکومت نے بھی ہمیں ذلیل کرنا چاہا ہے اور وہ لوگ جو نبی کریم ﷺ کے نام میں ہمارے شریک ہیں وہ بھی ہماری مخالفت کر رہے ہیں۔ان کے نزدیک ہمارا جُرم یہ ہے کہ ہم دنیا پر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا تھا اور ہمارے وہ بھائی کہتے ہیں کہ یہ کہہ کر تم دین کو کمزور کرتے ہولیکن ہم ان سے کہتے ہیں کہ تم اسلام اپنی گندی زندگیوں کا نام رکھتے ہو اور ہمارے نزدیک محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات کا نام اسلام ہے تم جس اسلام کو زندہ رکھنا چاہتے ہو ایسے اسلام اگر ہزاربھی مرجائیں تو ہم کو کوئی پرواہ نہیں ۔ہمارے مدِّنظر یہ ہے کہ رسو ل کریم ﷺ زندہ ہوں اور وہ اسلام زندہ ہو جسے آپ دنیا میں لائے۔
غرضیکہ آج ہر قوم ہماری مخالفت پر کمر بستہ ہے اور ذلّت پہنچانا چاہتی ہے اور ہمارے لئے سوائے اس کے کو ئی چارہ نہیں کہ اپنے رب کے پاس جائیںاور اسی سے کہیں کہ اے خدا! ہم ذلیل کئے گئے، ہمیں مسل دیا گیا ،کچل دیا گیا، ہمارے ساتھ سخت ناانصافی کی گئی ،ہمیں خواہ مخواہ تکالیف دی گئیں ،ہماری دل آزاری کی گئی، توہین کی گئی اور ان مخالفوںکے مقابلہ کی ہم میں طاقت نہیں تو جوطاقت والا ہے خود اپنی طاقت دکھا ۔اے تمام بادشاہوں کے بادشاہ! تو اپنی بادشاہت دکھا ۔اے مالک !تو ہی اپنی ملکیت دکھا ان کے ہاتھ روک اور ہماری مدد کر۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ اگر خدا تعالیٰ کے پاس جا کر روئوگے ،زاری کرو گے تووہ تمہاری مدد نہیں کرے گا ۔کیا ہم یونہی مظلوم ہو کر ظالم کہلاتے رہیں گے؟ یہ کبھی نہیں ہو سکتا کیونکہ اگر یہ ہو تو دنیا سے خدا کا نام مٹ جائے خدا تعالیٰ غیورہے ،طاقتور ہے ۔ہم نے دنیا میں ہر شخص سے عجز وانکسارکا برتائو کیا اپنے بھائیوں سے بھی، غیر قوموں سے بھی اور حکمرانوں سے بھی کیا ۔ہم نے بار بار کہا کہ ہم کسی کے دشمن نہیں ہیں ،خدا کی قسم !ہم سب کے خیر خواہ ہیں مگر ہماری باتوں کو ردّ کر دیا گیا ،ہماری دوستی کو ٹھکرا یا گیا ،ہمارے اطاعت کے دعووں سے ہنسی کی گئی اور کہا گیا کہ یہ باغی ہیں ۔ہم پہلے بھی حکومت کے مطیع رہے ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے اور حسبِ سابق سب کی خیرخواہی مدِّ نظر رکھیں گے ۔تلوار سے لڑائی ہمارے لئے مقدر نہیں اور جنگ کے لئے یہ سلسلہ پیدا ہی نہیں ہؤا ۔ہمیں جس مقصد کے لئے پیدا کیا گیا ہے اس میں ہم اسی طرح کامیاب ہو سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کریں ۔پس میں ہو شیار کرتا ہوں ان لوگوں کو جن کی طاقت، قوت اور بھلائی کے لئے ہم کھڑے ہیں کہ وہ ظلم اور بے انصافی کو چھوڑ دیں ،ہم محمد رسول اﷲ ﷺ کے نام پر جان دینے والے اور دین کے لئے قربانیاں کرنے والے ہیں۔پھر میں ہوشیار کرتا ہوں ہندوئوں اور سکھوں کو اور ان سے کہتا ہوں کہ خدا گواہ ہے ہم ان کے دشمن نہیں ہیں ،ہم اسلام کو ان کے سامنے پیش کرتے ہیں اس لئے کہ اسی میں ہم ان کی نجات یقین کرتے ہیں ان کی تذلیل اور توہین ہمارے مدنظر نہیں بلکہ بھلائی مدنظر ہے، پھر حکومت سے کہتا ہوں کہ ہم حکومت کے خواہاں نہیں ہیں ہم خدمت کے لئے پیدا ہوئے ہیں ۔ہم نے بار بار کہا ہے کہ ہم حکومت نہیں چاہتے ہم تو چوہڑوں کے بھی خادم ہیں ہم پر بِلا وجہ بدظنی نہ کی جائے ُہمیں مت ستائو خواہ مخواہ ہم پر دفعہ ۱۴۴ نافذ نہ کرو ،ہمارے خلاف الزامات کی تلاش میں مت لگو ،ہماری اطاعت کا نام بغاوت نہ رکھو ،ہماری فرمانبرداری کو شورش مت کہو اور اللہ تعالیٰ سے خوف کھائو کہ وہ تم پر بھی بادشاہ ہے خدا کوحاضر ناظر جان کر میں کہتا ہوں کہ اس کے سِوا ہمارے کوئی ارادے نہیں ہیں ہم سب کے خیر خواہ ہیں ۔ظلم اور مخالفت ایک حد تک ہی چل سکتی ہے ۔ہم نے یہ باتیں بار بار کہی ہیںمگر وہ باز نہیں آتے اس لئے اب خدا کی طرف متوجہ ہوتے ہیں مگر یہ پھر بھی نہیں کہتے کہ خدا ان کو تباہ کر دے بلکہ صرف یہ دعا کرتے ہیں کہ ان کے دلوں کی اصلاح کر دے اور انہیں ٹھیک کر دے ۔اگر وہ سمجھانے کے باوجود نہ سمجھیں تو ان کے شر سے ہم اس کی پناہ چاہتے ہیں اور اگر وہ اصلاح کرلیں تو اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے ۔میں پھر کہتا ہوں کہ ہم ساری دنیا کے خیر خواہ ہیںلیکن پھر بھی اگر کوئی ہمیں دشمن سمجھتا ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں ۔ہم کسی کو اپنا دل چیر کر نہیں دکھا سکتے ۔جب واقعات سب کے سامنے ہیں حکومت اگر چاہے تو آزاد کمیشن مقرر کرکے فیصلہ کر دے بلکہ ہم تو یہ بھی کہتے ہیں کہ کسی انگریز کو ہی جج مقرر کرلو مگر ہمیں موقع دو کہ سارے حالات کو اس کے سامنے رکھیں ہمیں اس کا فیصلہ منظور ہو گا ۔
میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ دعائوں میں لگ جائو اور دعائوں میں وہ رنگ پیدا کرو جس کے بعد اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہوتا ہے ۔قدیم روایات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت یونس علیہ السلام کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو عذاب مقدر تھا وہ اس لئے ٹلا دیا گیا کہ ان کی قوم نے (جیسا کہ ان کی روایات سے پتہ چلتا ہے گو قرآن کریم میں ان تفصیلات کا ذکر نہیں )جب عذاب کے آثار دیکھے تو سب عورتیں ،مرد ،بچے ،بوڑھے مویشیوں کو بھی ساتھ لے کر شہر سے باہر نکل گئے ٹاٹ کے کپڑے پہن لئے حتیّٰ کہ امراء نے بھی امیرانہ لباس اُتار کر ٹاٹ کے کپڑے پہن لئے ،مائوں نے بچوں کو دودھ دینا بند کر دیا ،جانوروںکو چارہ پانی سے محروم کردیا گیا نتیجہ یہ ہؤا کہ بچے بھوکے علیحدہ چیخیں مار رہے تھے ،جانور علیحدہ بلبلا رہے تھے اور ایک کہرام مچ گیا ۔تب خدا تعالیٰ نے کہا کہ گو ہم نے نبی سے عذاب کا وعدہ کیا ہؤا تھا مگر یہ نظارہ نہیں دیکھا جاتا اور میں ان پر رحم کرتاہوں ۔پس اگراللہ تعالی نے حضرت یونس کے دشمنوں سے موعود عذاب کو ٹال دیاتھا تو اگر تم جو نبی کی قوم ہو اس کے آگے اسی طرح گڑگڑائو اور تضرع کرو تو وہ فضل نہ کرے گا ؟پس سب دعائوں میں لگ جائو اورخصوصاً ہر جمعرات کی رات کو جس دن روزہ رکھنا ہے ،سب اُٹھیں خواہ انہوں نے روزہ نہ بھی رکھنا ہو ،عورتیں اور بچے بھی دعائیں کریں ،جو حائضہ عورتیں نماز نہ پڑھ سکتی ہوں وہ بھی اُٹھ کر دعائیں کریں،گریہ کریں اور کہیں کہ اے خدا! ہم ذلیل کئے گئے ، ہمیں کچل دیا گیا اس لئے کہ ہم رسول کریم ﷺ کا نام بلند کرتے ہیں ہماری عزت پر حملہ کیا گیا ہماری سچائی کی قدر نہیں کی گئی اب ہم تجھ ہی سے التجاء کرتے ہیں کہ ہماری مدد کے لئے اُتر ۔عورتوں کو بھی بچوں کو بھی دعائیں کرنے کی تحریک کرو اور خودبھی کرو۔راتوں کو بھی اُٹھو جس طرح قیامت خیززلزلہ کے وقت لوگ اٹھ بیٹھتے ہیں اور خوب دعائیں کرو ۔جب زمین پر کہرام مچ جاتا ہے تو آسمان پر بھی شور پڑ جاتا ہے اور جب ملائِ اعلیٰ میں اللہ تعالیٰ تحریک کرتا ہے تو زمین اس کی تابع ہو جاتی ہے اس لئے میں یہی نصیحت جماعت کو کرتا ہوں کہ ان دنوں کو اسی طرح استعمال کرو جس طرح استعمال کرنے کا حق ہے میں نے روزوں کے لئے سات دن رکھے ہیں۔ سات تکمیل کا بھی عددہے اور اس میں یہ بھی حکمت ہے کہ اس طرح چالیس دن پورے ہو جاتے ہیں اور اس طرح دو تکمیلیں جمع ہو جاتی ہیں اور عبادت پھیل بھی جاتی ہے ۔پس ان دنوں میں خصوصیت سے دعائیں کرو اور سب کے لئے اللہ تعالیٰ سے رحم مانگو ۔
حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی ایک روایت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ بیت الدعا ء میں دعا کر رہے تھے اور آپ اس کمرہ میں رہتے تھے ۔جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کے لئے بیت الدعا کے اوپر بنوایا تھا ۔مولوی صاحب کی روایت ہے کہ مجھے کراہنے کی ایسی آواز آرہی تھی جیسے کو ئی عورت درد زِہ میں مبتلا ء ہو نے کی وجہ سے بیتاب ہو اور جب میں نے غور کیا تو معلوم ہؤا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام دعا کر رہے تھے ۔یہ طاعون کے ایام تھے آپ یہ دعا کر رہے تھے کہ خدایا !اگر یہ لوگ ہلاک ہو گئے تو ایمان کون لائے گا ۔سو آپ بھی پہلے یہی دعا کریں کہ اﷲ تعالیٰ ان کو ہدایت دے ،دلوں سے بغض و کینہ کو نکال دو اور ان ناراضگیوں ،ظلموں ،تعدیوں کو بھول جاؤ اور اﷲ تعالیٰ سے کہوکہ ان کو معاف کر دے ۔ان کے سینے کو کھول دے لیکن اگر ان کے لئے سزا ہی مقدر ہو چکی ہے تو اے خدا! ہم تیرے دین ،تیرے رسول اور تیرے مسیح موعود کی عزت کے لئے نہ کہ اپنے لئے تجھ سے درخواست کرتے ہیں کہ ان کے ہاتھوں کو روک دے اور ہم کو توفیق دے کہ تیرے دین کو دنیا میں پھیلا سکیں آمِیْنَ ثُمَّ آمِیْنَ۔ (الفضل ۵؍اپریل ۱۹۳۵ئ)
۱؎ تذکرہ طبع چہارم ، صفحہ۶۵۴
۲؎ ابوداؤد کتاب الصلٰوۃ باب ما یقول الرجل اذا خاف قومًا۔
۳؎ دسیسہ کاری: سازش کرنا، فریب دینا۔ دھوکا دینا۔
۱۳
گورنمنٹ جو کچھ کرنا چاہتی ہے کھلم کھلا کرے
(فرمودہ ۲۹؍مارچ ۱۹۳۵ئ)
تشہّد اور تعوذ اور سورۃفاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :
انسانی عادت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ اپنے گرد وپیش کی چیزوں کی نقل کرتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہر بچہ فطرتِ اسلام پر پیدا ہوتا ہے فَاَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہٖ اَوْ یُنَصِّرَانِہٖ اَوْ یُمَجِّسَانِہٖ ۱ ؎ پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی بنا دیتے یا عیسائی بنا دیتے یا زرتشتی بنا دیتے ہیں۔یعنی فطرت تو اسلام کی ہی ہوتی ہے لیکن جونہی کہ وہ آنکھیں کھولتا اور اس کا دماغ باتیں سمجھنے کے قابل ہوتا ہے وہ گرد وپیش کے حالات کی نقل کرنی شروع کر دیتا ہے حتّٰی کہ ہوتے ہوتے اس کی فطرتِ اسلامیہ بالکل مٹ جاتی اور وہ یہودی،عیسائی یا مجوسی بن جاتا ہے۔یہ نقل کا مادہ اپنے اندر بہت بڑی خوبی بھی رکھتا ہے اور جیسا کہ اس حدیث سے پتہ چلتا ہے بہت بڑے نقائص بھی رکھتا ہے۔ خوبی تو یہ ہے کہ نقل کے ذریعہ انسان دنیا میں بہت سے کام عمدگی اور سُرعت کے ساتھ کر سکتا ہے اگر نقل کا مادہ نہ ہوتا تو بہت تھوڑے کام کر سکتا ۔اگر ہم دنیا کے ہر امر میں تحقیق کرنے لگیں تو سمجھ لو کہ ہم ساری عمر میں اتنا کام بھی نہیں کر سکتے جتنا اب ایک مہینہ میں کر لیتے ہیں ۔مثلاً ہم کھانا کھانے لگیں تو پہلے اس بات کی تحقیق کریں کہ آیا ہمارا معدہ بالکل خالی ہے یا نہیں ۔اور کیا ایسا تو نہیں کہ کچھ کھانا معدہ میں موجود ہو اور ہم کھانے کے لئے بیٹھ گئے ہوں۔ایسی حالت میں یا تو مثلاً معدہ کو دُھلوا کر اس کا پتہ لگائیں یا کسی ڈاکٹر کے پاس جائیں اور اس سے دریافت کریں ۔اب دیکھ لو اگر ہم اس طرح کرنے لگیں تو ہمارا سارا دن اسی کام پر لگ جائے گا ۔اس کے بعد دوسرا سوال ہمارے سامنے یہ آئے گا کہ ہمارے معدہ کے مناسب حال کون سی غذا ہے اور پھر اس وقت ہمارے لئے کون سی غذا مفید ہو سکتی ہے پھر ہم اس کی تحقیق میں لگ جائیں اور بہت سا وقت خرچ کریں ۔اس کے بعد کھانا کھاتے وقت تمام ذرائع کو استعمال کریں جن کے ماتحت ہمیں معلوم ہو کہ معدہ میں کس قدر غذا گئی ہے اور کس قدر غذا کی ضرورت ہے ۔غرض اس طرح اگر ہر امر کی تحقیق شروع کر دی جائے تو کھانا کھانے پر ہی ایک مہینہ لگ جائے اتنی دیر زندہ کون رہ سکتا ہے کہ وہ تحقیق کرتا رہے ۔یا کوئی شخص ہم سے بات کرنے لگے تو ہم یہ تحقیق کرنے لگ جائیںکہ اس کے گزشتہ حالات کیسے تھے آیا یہ نیک ہے یا مشتبہ آدمی ؟پھر ہم اس کے وطن جائیں اور اس کے حالات کی سراغ رسانی کریں اور دریافت کرتے پھریں کہ یہ ہر دن اور ہر رات کہاں بسر کرتا ہے ۔اس طرح ایک شخص کی زندگی کے حالات معلوم کرنے کے لئے ہمیں دو چار سال کی ضرورت ہو گی مگر ہم اس طرح نہیں کرتے بلکہ سیدھے دوسروں کے پاس چلے جاتے ہیں اور ان سے دریافت کرتے ہیں یہ کیسا آدمی ہے وہ کہہ دیں کہ اچھا آدمی ہے تو ہم اس پر اعتبار کر لیتے ہیں اور جب وہ ملنے کے لئے آتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ ہمیں آپ کی ملاقات سے بڑی خوشی ہوئی آپ نے بہت عنایت فرمائی جو ہمیں شرف ملاقات بخشا،چاہے پیچھے سے وہ چور یا ٹھگ ہی نکل آئے ۔ہم اس کے ملنے والوں یا دوستوں کی بات مان لیتے ہیں اور اگر ہم ہر ملنے والے کے متعلق تحقیق کرنے لگیں تو ہماری عمر ختم ہو جائے مگر تحقیق مکمل نہ ہو ۔یا مثلاً سانس آنے لگے تو ہم سانس روک کر کھڑے ہو جائیں اور کہیں کہ پہلے ہم خوردبین منگواتے ہیں اور دیکھنا چاہتے ہیں کہ کمرے کی ہؤا اِس وقت کیسی ہے ۔آیا اس میں کوئی مہلک جراثیم تو موجود نہیںتو ہمارا کیا حال ہو ۔ہم کبھی غور نہیں کرتے کہ کمرے کی ہوا اچھی ہے یا بُری بلکہ سانس آپ ہی آپ آتا جاتا ہے گویا ایک عادت ہے جو خدا تعالیٰ نے ہم میں پیدا کر دی ۔جونہی کہ بچہ پیدا ہوتا ہے اور اس کی چھاتیوں پر دباؤ پڑتا ہے سانس جاری ہو جاتا ہے ۔پھر ہماری مرضی ہو یا نہ ہو ،آپ ہی سانس آتا رہتا ہے ۔گویا اس کی وہی مثال ہو جاتی ہے جوکہتے ہیںکہ ایک بنیا کسی زمیندار کو برات میں لے گیا اسے خیال آیا کہ اس کے سسرال کنجوس ہیں اور اسے کھانا پیٹ بھر کر نہیں کھلائیں گے اس لئے ابھی سے کچھ نصیحت کرنی چاہئے تا کہ مشکلات پیش نہ آئیں ۔یہ سوچ کر وہ زمیندار سے کہنے لگا حکماء کہتے ہیں کہ کھانا کھاتے وقت پیٹ کے تین حصے کرنے چاہئیں۔ایک روٹی کے لئے ایک پانی کے لئے اور ایک سانس کے لئے ۔اس نے سمجھا کہ شاید اس کے سسرال اگر اسے کچھ تھوڑا کھلائیں اور اس کے معدہ کا تیسرا حصہ خالی رہے تو کچھ شرم رہ جائے ۔وہ زمیندار کہنے لگا میرا طریق تو یہ ہے کہ ناک تک پیٹ بھر کر روٹی کھا لیتا ہوں ،پانی آپ ہی آپ راہ بنا لے گا اور سانس آئے یا نہ آئے اس کی پرواہ نہیں اگر بھوکے رہے تو سانس لے کر کیا کرنا ہے در حقیقت اس کا مطلب یہی تھا کہ سانس آتا ہی رہے گا کیونکہ سانس آنے جانے کی اﷲ تعالیٰ نے انسان میں ایک عادت پیدا کر دی ہے روٹی کیوں کم کھائی جائے تو اﷲ تعالیٰ نے بعض چیزوں کی انسان کو عادت ڈال دی ہے۔ ہم سورہے ہوتے ہیں اور ہمیں کچھ پتہ نہیں ہوتا مگر سانس برابر جاری ہوتا ہے اور دل و دماغ اپنے اپنے کام کر رہے ہوتے ہیں ۔ہاں اگر دل کو ہاتھ سے پکڑ کر کوئی شخص بیٹھ رہے تو ایک منٹ میں وہ اپنا کام ختم کر دے گا ۔یا کوئی شخص کسی کا سانس روک دے تو تھوڑے عرصہ میں ہی سانس آنے جانے کی عادت ختم ہو جائے گی ۔تو بہت سی چیزیں دنیا میں عادت یا دوسروں پر اعتبار کرنے سے چلتی ہیں جسم کی اندرونی حرکات عادت پر اور جسم سے باہر کے کام اعتبار پر چلتے ہیں ۔ہمیں بعضوں پر اعتبار ہوتا ہے اور ہم جھٹ ان کی بات بغیر تحقیق کئے مان لیتے ہیں ،بعض پر اعتبار نہیں ہوتا تو ہم فوراً بغیر تحقیق کئے ان کی بات کو ردّ کر دیتے ہیں۔ ایک ایسا شخص جس کے متعلق ہمیں معلوم ہو کہ وہ اکثر جھوٹ بولا کرتا ہے اگر ہمارے پاس آ کر کہتا ہے کہ فلاں بات یوں ہوئی تو ہم بغیر تحقیق کئے اسے جھوٹ قرار دیتے ہیں پھر ایک اور شخص ہمارے پاس ایسا آتا ہے جسے سچ بولنے کی عادت ہے اور ہمیں اسے سچا سمجھنے کی عادت ہو گئی ہے اور وہ بتاتا ہے کہ بات یوں ہوئی تو ہم کہہ دیتے ہیں کہ ٹھیک ہے حالانکہ ہم اس کی بات کی تحقیق نہیں کرتے ۔تو اعتبار بھی در حقیقت ایک عادت کا نام ہے کیونکہ جس پر اعتماد ہو اس کی بات کی تحقیق کی ضرورت ہم نہیں سمجھتے ۔
ایک ایسے آدمی کے پاس چلے جاؤجو آرام سے اپنے خیال میں مگن بیٹھا ہو اور تیزی سے اُنگلی اس کے پیٹ کی طرف لے جاؤ تو وہ فوراً کانپ جائے گا ۔فرض کرو جس کے پیٹ کی طرف ہنسی مذاق میں تم تیزی سے اپنی اُنگلی لے جاتے ہو وہ تمہاری بیوی ہے اور تم اُس کے خاوند ہو یا وہ تمہارا بیٹا ہے اور تم اس کے باپ ہو یا وہ تمہارا بھائی یا دوست ہے یا اور کوئی قریبی تعلق رکھنے والا ہے مگر تم اس کے پیٹ کی طرف تیزی سے اُنگلی لے جا کر دیکھ لو وہ فوراً پیچھے کو ہٹے گا اس لئے کہ انسانی جسم کو یہ عادت ہے کہ وہ حملے سے بچنا چاہتا ہے۔ خواہ تمہارا کتنا ہی گہرا دوست ہو اور اسے تم پر اعتبار بھی ہو ،یہ نہیں ہو گا کہ وہ کھڑا رہے بلکہ اگر تم اُنگلی اس کی آنکھ کے پاس جلدی سے لے جاؤ گے تو اس کی آنکھ جھپک جائے گی اور سر پیچھے کی طرف جھک جائے گا اور اگر پیٹ کی طرف لے جاؤ گے تو وہ کانپ کر پیچھے ہٹ جائے گا ۔چاہے حقیقت سے آگاہ ہو کر وہ تھوڑی دیر کے بعد ہنس پڑے مگر فوری طور پر وہ گھبرا جائے گا کیونکہ انسانی جسم کو یہ عادت ہے کہ وہ حملہ کا دفاع کرتا اور اپنے آپ کو اس سے محفوظ رکھتا ہے ۔
تو اﷲ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں یہ بات رکھی ہے کہ وہ دوسروں کی نقلیں کرتا اور گرد و پیش کے حالات کے مطابق اپنے آپ کو بنانے کی کوشش کرتا ہے ۔ان حالات کو دیکھتے ہوئے اﷲ تعالیٰ نے ایک نصیحت کر دی ہے اور وہ یہ کہ تم نے نقل تو کسی کی ضرور کرنی ہے آؤ ہم تمہیں بتاتے ہیں لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اﷲِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ ۲؎ تم بجائے ہر ایک کی نقل کرنے کے محمد ﷺ کی نقل کر لیا کرو کیونکہ جب تم نے نقال بننا ہے اور اس کے بغیر تم گزارہ نہیں کر سکتے اور یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ ہر بات کی تم تحقیق کرو تو ضروری ہے کہ تم دوسروں کے پیچھے چلو اور جس طرح وہ کام کرتے ہیں اسی طرح تم بھی کرو ۔اور در حقیقت انسان کی زندگی کے افعال میں سے ننانوے فیصدی وہ افعال ہوتے ہیں جو دوسروں پر اعتبار کر کے کئے جاتے ہیںاور ایک فیصدی بلکہ اس سے بھی کم وہ افعال ہوتے ہیں جنہیں ذاتی تحقیق کے بعد انسان سر انجام دیتا ہے اور میں سمجھتا ہوں مَیں مبالغہ نہیں کرتااگر میں یہ کہوں کہ عام انسان کے افعال میں سے ننانوے ہزار نو سو ننانوے ایسے ہوتے ہیں جونقل کے ماتحت کئے جاتے ہیں اور ایک کام وہ اپنی ذاتی تحقیق کے ماتحت سوچ سمجھ کر کرتا ہے ۔اِسوقت جو میں باتیں کر رہا ہوںاگرچہ سوچ سمجھ کر کررہا ہوں مگر میرا دل جو کچھ کر رہا ہے اس میں میرے ارادہ کا دخل نہیں،میرے اعضاء کی جو حرکات ہیں ان میں میرے ارادہ کا دخل نہیں، میرے جسم میں جو خون دورہ کر رہا ہے یہ کسی میرے حکم کے ماتحت نہیں بلکہ آپ ہی آپ ایک عادت کے مطابق ہو رہا ہے ۔میرے جسم کا ذرّہ ذرّہ اس وقت چیزوں کو محسوس کر رہا ہے مگر اس احساس میں میرا دخل نہیں ۔یہ اعضاء کا کام ہے جو وہ خودبخود کر رہے ہیں۔ مَیں اپنے جسم کے ان افعال کے نتیجہ میں ایک اثر تو قبول کر لیتا ہوں مگر اس کی تمام جزئیات سے واقف و آگاہ نہیں ہوتا اس لئے میرے نزدیک ننانوے ہزار نوسو ننانوے کام انسان سے بلا ارادہ سرزد ہوتے ہیں اور لاکھ میں سے ایک سوچ سمجھ کر ہوتا ہے باقی سب نقل کے ماتحت ہوتے ہیں ۔ممکن ہے کوئی خیال کرے کہ اگر ہم تمام کام نقل کے ماتحت کرتے ہیں تو ہم کامیاب کیونکر ہوتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ہم اچھے کام کرنے والوں کی نقل کرتے ہیں اور انہوں نے آگے اچھے کام کرنے والوں کی نقل کی ہوئی ہوتی ہے اور پھر انہوں نے آگے اچھے کام کرنے والوں کی نقل کی ہوئی ہوتی ہے تو ہم کامیاب ہو جاتے ہیں ورنہ نہیں ۔اس صورت میں باوجود اس کے کہ ننانوے ہزار نو سو ننانوے کام نقل کے مطابق ہوتے ہیں جب ہم اچھے کام کرنے والوں کی نقل کرتے ہیں تو ننانوے ہزار نو سو ننانوے کام ٹھیک ہو جاتے ہیں اور دس غلط لیکن اگر ہم بُرے کام کرنے والوں کی نقل کرتے ہیں تو ننانوے ہزار نو سو نوّے کام غلط ہو جاتے ہیں اور دس ٹھیک اسی لئے کسی نے کہا ہے ’’ نقل را عقل باید‘‘ یعنی نقل کرنے کے لئے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے ۔غرض اﷲ تعالیٰ نے ہمیں کامیابی کا گُر یہ بتایا ہے کہ جب تم نے دنیا میں نقل ہی کرنی ہے تو محمد ﷺ کی نقل کرو کیونکہ محمد ﷺ نے کسی کی نقل نہیں کی بلکہ اﷲ تعالیٰ نے ان کے اعمال پر اپنے فعل کو جاری کیااس لئے وہ کسی بندے کی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی نقل ہوتی ہے اور انسان اس نقل میں تمام قسم کے خطرات اور خدشات سے محفوظ ہو جاتا ہے یہی نبی کی سب سے بڑی ضرورت ہوتی ہے ۔دنیا میں ہر انسان دوسرے انسان کی نقل کرتا ہے سوائے نبی کے کیونکہ نبی اگر عقل سے کام لینے کے نتیجہ میں بنتا تو وہی شخص نبی ہو سکتا جو شاید نوّے ہزار سال کی عمر پاتا۔تمام دنیا کے حالات پر کامل غور و فکر کرنے کے بعد لوگوں کے لئے اپنا نمونہ قائم کرتا مگر نبی تو بنتا ہے منٹوں میں کیونکہ خدا تعالیٰ اسے کہہ دیتا ہے کہ آج سے تیرے سب کام ہمارے قبضہ میں ہیں گویا وہی کام جو انسان اگر کرنے لگے تو ہزاروں لاکھوں سال درکار ہوں ،انہیں خدا ایک سیکنڈ میں کر دیتا ہے اور کہہ دیتا ہے آج سے تم ہماری نگرانی میں آگئے اب تمہارے سارے افعال ہمارے قبضہ میں ہیں ۔پس نبوت ایک بہت بڑی ضرورت ہے کیونکہ نقل کے بغیر چارہ نہیں اور عقل کے ذریعہ سے کامل ہونے کے لئے لاکھوں سال کی ضرورت ہے جو کسی انسان کو میسر نہیں آ سکتے ان حالات میں ضروری ہے کہ اﷲ تعالیٰ کوئی ایسا شخص بھیجے جس کے اعمال زمانہ کے ماتحت نہ ہوں بلکہ خدا تعالیٰ کی حفاظت کے نیچے ہوں اور خدا تعالیٰ کے لئے کسی لمبی میعاد کی ضرورت نہیں وہ تو کُنْ کہتا ہے اور کام ہو جاتا ہے ۔غرض اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ جب تم نے نقل ہی کرنی ہے تو محمد ﷺ کی نقل کر لیا کرو مگر لوگوں میں یہ ایک مرض ہے کہ وہ اچھا نمونہ ملنے کے باوجود پھر ظاہری آن بان والوں کی نقل کرنی شروع کر دیتے ہیں۔
محمد ﷺ کے نمونہ پر جب ایک عرصہ گزر گیا اور لوگوں کی نظروں سے آپ کا اُسوہ اوجھل ہو گیا تو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیج دیا مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو رسول کریم ﷺ کا بروز بنایا گیا ۔
اِس وجہ سے آپ کے اُسوہ پر چلنا آپ کی نقل نہیں بلکہ رسول کریم ﷺ کی ہی نقل ہے پس رسول کریم ﷺ کا اسوہ ہمارے سامنے ہے ۔اصلی بھی اور بروزی بھی لیکن کمزور لوگ پھر بھی دوسرے رستوں پر چل پڑتے ہیں ۔میں نے ہمیشہ اپنی جماعت کو بتایا ہے کہ تم دوسری قوموں کی نقل نہ کرو مگر مجھے افسوس ہے کہ جماعت پھر بھی احتیاط نہیں کرتی ۔میں نے دیکھا ہے جب میں کسی راستہ سے گزر رہا ہوں تو آگے ہٹو ہٹو، راستہ دو ،کی آوازیں بلند ہوتی جاتی ہیں معلوم ہوتا ہے ان لوگوں نے کسی نواب یا حاکم کو چلتے ہوئے دیکھ لیا تو اس کی نقل کرنی شروع کر دی مگر ہر چیز ہر ایک کو سجا نہیں کرتی۔ اگر ایک چھوٹے سے سر والے آدمی پر ایک بڑے سر والے کا کلاہ رکھ دیا جائے تو اسے اچھا نہیں بلکہ بد نما معلوم ہو گا اور اس سے اس کی عزت نہیں بڑھے گی بلکہ ذلّت ہو گی اور لوگ تمسخر کریں گے اسی طرح نبیوں کے تابعین کا لباس اگر دنیاداروں کو پہنا دیا جائے یا دنیا داروں کا لباس نبیوں کے تابعین کو پہنا دیا جائے تو یہ بھی بُرا معلوم ہوتا ہے اور یہ ایسا ہی ہو گا جیسا کہ ایک مضبوط ڈیل ڈول والے آدمی کو چار پانچ برس کے بچے کا لباس پہنا دیا جائے ۔وہ آدمی اگر بچے کی قمیص اپنے جسم پر پہننے لگے گا تو اس کی باہیں پھٹ جائیں گی اور کُرتا گلے میں لٹک کر رہ جائے گا ،پاجامہ پہنے گا تو اوّل تو وہ پھٹ جائے گا اور اگر کچھ کھلا بھی ہو تب بھی جا نگھیے سے چھوٹا ہو گا ،نیچے سے لاتیں اور اوپر سے دھڑ ننگا رہے گا اور معمولی سا کپڑا گلے اور لاتوں میں پھنسا ہؤا نظر آئے گا جسے دیکھ کر ہر کوئی نفرت کرے گا اور ہنسے گا۔
یہی حال انبیاء کی جماعتوں اور دنیا داروں کا ہوتا ہے انبیاء کی جماعتیں دیو کی طرح ہوتی ہیں اور دنیا داروں کی جماعتیں چھوٹے بچے کی طرح ۔جس طرح ایک بڑی عمر والا آدمی چھوٹے بچے کا لباس پہن کر مضحکہ خیز صورت اختیار کر لیتا ہے اسی طرح تم دنیا کی اور قوموں کی نقل کر کے اپنے سلسلہ کو لوگوں کے لئے سُخْرِیّہ ۳؎ بناتے ہو ۔جہاں کی مٹی ہو وہیں لگا کرتی ہے جو خدا تعالیٰ کی چیزیں ہوں وہ خدا تعالیٰ کے بندوں پر چسپاں ہوں گی اور جو دنیا کی چیزیں ہوں گی وہ دنیاداروں پر چسپاں ہوں گی پھر زیادہ ذلّت یہ ہو گی کہ ہم بجائے کسی اچھی چیز کی نقل کرنے کے ایسی باتوں کی نقل کرنے والے ہوں گے جو اسلام کے خلاف ہوں گی ۔ہمیں تو خدا تعالیٰ نے دنیا میں عقلیں قائم کرنے اور نقلوں کو تباہ کرنے کے لئے بھیجا ہے نہ کہ دنیا داروں کی نقلیں کرنے کے لئے ۔
پس مَیں اپنی جماعت کے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے تمام کاموںمیں شریعت کی پیروی کیا کریں ،محمد ﷺ کی پیروی کیا کریں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیروی کیا کریں۔ ابھی تھوڑے دن ہوئے مجھے ایک کاغذ دکھایا گیا میں نے تو اتنا ہی دیکھاکہ اس کاغذ پر اس قسم کا نقشہ تھا جیسے فارموں وغیرہ پر ہوتا ہے مگر بتانے والے نے بتایا کہ یہ ایک آنہ پر بکتا ہے اور معلوم ہؤا کہ ہماری لوکل انجمن نے اس کوایجاد کیا ہے ۔انہوں نے سرکاری اسٹامپ دیکھے تو خیال آیا کہ ہم بھی ایک کاغذ بنا کر اس کی کچھ قیمت مقرر کر دیں ۔کہتے ہیں کوّا ہنس کی چال چلا اور وہ اپنی چال بھی بھول گیا ۔میں یہ تو نہیں کہہ سکتا مگر یہ ضرور کہوں گا کہ ہنس کوّے کی چال چلا اور اپنی چال بھی بھول گیا ۔ہمیں دُنیوی گورنمنٹوں سے بھلا واسطہ ہی کیا ہے کہ ہم ان کی نقل کریں ۔محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس قسم کی فارمیں کبھی نہیں بنائیں پھر دشمن کواعتراض کا خواہ مخواہ موقع دینا کہاں کی عقلمندی ہے ۔اسی قسم کی باتوں کے نتیجہ میں دشمن کو حرف گیری کا موقع ملتا ہے اور وہ کہتا ہے خبر نہیں یہ کیا چیز بنا رہے ہیں ،کرنے والا کوئی ہوتا ہے اور بدنام سلسلہ ہوتا ہے ۔لوکل کمیٹی والوں کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے گورداسپور میں ایک بڈھا شخص رہا کرتا تھا لمبا سا قد اور بڑی سی ڈاڑھی تھی ،عرائض نویس یا نقل نویس تھے ،ان کا طریق تھا جب کسی دوست کودورسے دیکھتے تو بجائے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کے اَﷲُ اَکْبَرُاَﷲُ اَکْبَرُ کہنا شروع کر دیتے اور جب پاس پہنچتے تو اس کے انگوٹھے پکڑ کر اَﷲُ اَکْبَرُ کہنے لگ جاتے اور ساتھ ساتھ اُچھلتے بھی جاتے تھے ،حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس اکثر ملنے کے لئے آ جاتے تھے ۔انہیں بھی ہمارے لوکل کمیٹی کے پریذیڈنٹ کی طرح نقل کا شوق تھا ۔وہ غریب چونکہ روزمِسلوں کا کام سنا کرتے اس لئے ان کا بھی دل چاہتا کہ میں مجسٹریٹ بنوں اورمِسلیں لانے کا آرڈر دیا کروں مگر چونکہ یہ ہوس پوری نہ ہو سکتی تھی اس لئے انہوں نے گھر میں نمک کی مسل ،گھی کی مسل، مرچوں کی مسل اور ایندھن کی مسل بنا رکھی تھی۔جب وہ دفتر سے فارغ ہو کر گھر آتے تو ایک گھڑا اُلٹا کر اُس پر بیٹھ جاتے ۔بیوی کہتی نمک چاہئے وہ بیوی کو مخاطب کر کے کہتے۔ ریڈر! فلاں مسل لاؤ۔بیوی مسل لے آتی اور وہ اسے پڑھنے کے بعد تھوڑی دیر غور کرتے پھر کہتے اچھا اس میں درج کیا جائے کہ ہمارے حکم سے اتنا نمک دیا جاتا ہے ۔ایک دن اس بیچارے کی بد قسمتی سے کچہری میں سے کچھ مسلیں چرائی گئیںتحقیق شروع ہوئی تو اس کا ایک ہمسایہ کہنے لگا سرکار مجھے انعام دے تو میںمسلوںکا پتہ بتا سکتا ہوں ۔اسے کہا گیاا چھا بتاؤ۔اسے چونکہ روز ہمسایہ کے گھر سے مسلوں کا ذکر سنائی دیتا تھا اس نے جھٹ اس بوڑھے کانام لے دیا ۔اب پولیس اپنے تمام سازو سامان کے ساتھ اس کے گھر کے گرد جمع ہو گئی اور تلاشی شروع ہوئی مگر جب مسلوں کی برآمد ہوئی تو کوئی نمک کی مسل نکلی،کوئی گھی کی مسل،اور کوئی مرچوں کی ۔یہی نظارہ میں آج کل یہاں دیکھتا ہوں ہمارے کچھ دوست یہ سمجھ کر کہ مغربی چیزیں بڑی اچھی ہیں ،ان کی نقل کرنی شروع کر دیتے ہیںمثلاً کاغذ پر بلاوے کی بجائے سمن لکھ دیتے ہیں اس پر جھٹ گورنمنٹ کو فکر پڑ جاتی ہے کہ یہ پَیرالَلْ گورنمنٹ قائم ہو رہی ہے اور وہ جاسوس چھوڑ دیتی ہے ۔مگر ثابت ہوتا ہے تو یہ کہ ایک رُقعہ کو جو غلطی سے سمن کہہ دیا گیا تھا یا ایک اور ناواقف نے اسٹامپ کی نقل کرتے ہوئے کاغذ کی قیمت ایک آنہ رکھ لی ۔نقلیں کرنے والا تو اپنے عمل سے انگریزوں کی تعریف کرتا ہے مگر وہ اُلٹا اسے اپنی توہین سمجھتے ہیں صاف پتہ لگتا ہے کہ اپنی نقل کرنے کی اجازت دینا بھی بڑے حوصلہ والوںکا کام ہوتا ہے ۔یہ محمد رسول اﷲ ﷺ کا ہی کام تھا کہ آپ نے ساری دنیا کو کہا آؤ اور میری نقل کر لو۔انگریزوں میں یہ حوصلہ نہیں کہ اپنے کاموں کی دوسروں کو نقل کرنے دیں پس یہ حوصلے والوںکا کام ہوتا ہے کہ وہ کہیں کرو ہماری نقلیں مگر یہاں تو اِن بیچاروں کو سمن کا لفظ لکھنے سے ہی گھبراہٹ شروع ہو جاتی ہے ۔یا کسی نے مدّعی کا لفظ لکھ دیا تو اس پر شور مچانا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ یہ لفظ عربی کا ہے اور ہمارا ہے مگر تعجب ہے کہ انہوں نے یہ لفظ تو ہم سے لیا اپنے گھر سے نہیں لائے مگر اب ہم پر ہی یہ اعتراض کرنا شروع کر دیا کہ تم اسے کیوں استعمال کرتے ہو لیکن میں کہتا ہوں اس جھگڑے سے فائدہ کیا ؟ جھگڑا ایک ذلیل چیز ہے اسے چھوڑ دو۔پھر ہمارے لئے تو ان اصطلاحات کو چھوڑنا اس لحاظ سے بھی واجب ہے کہ ہمیں خدا تعالیٰ نے کہا ہے محمد ﷺ کی نقل کرو اور کسی کی نقل نہ کرو پس تمہاری مثال تو اس وقت بالکل ایسی ہی ہے جیسے بچہ بعض دفعہ بھول کر کسی اور عورت کی گود میں چلا جاتا ہے وہ ناک چڑھاتی اور نفرت کی نگاہ سے اسے دیکھتی ہے اتنے میں اس کی اپنی ماں اسے دیکھ لیتی ہے اور وہ پیار سے کہتی ہے میرے بچے! آ جا ۔پس تم اس وقت جس کو ماں سمجھ کر اس کی گود میں بیٹھنے کے لئے جاتے ہو وہ تمہاری ماں نہیں تمہاری ماں تو محمد ﷺ ہیں ان کی گود میں بیٹھوپھر تمہیں کوئی شخص کچھ نہیں کہہ سکتا پس بدل دو ان الفاظ کو جن کے متعلق لوگ کہتے ہیں کہ یہ ہمارے ہیں، بدل دو ان اصطلاحات کو جن کے متعلق لوگ کہتے ہیں کہ یہ ہماری ہیں تم محمد ﷺ کی اتباع میں ان الفاظ کو استعمال کرو جو تمہارے ہیں اور دوسرا کوئی شخص ان پر قبضہ نہیں کر سکتا ۔بھلا کیا ضرورت ہے ہمیں مدّعی یا مدّعا علیہ کہنے کی ۔حدیثوں میں کہیں اس قسم کے الفاظ نہیں آتے ،بے شک فقہاء نے ان الفاظ کو استعمال کیا مگر ہمیں فقہاء کی نقل کرنے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ محمد ﷺ کی نقل کرنے کا حکم ہے۔حدیثوں سے صرف اتنا پتہ چلتا ہے کہ ایک شخص نے شکایت کی اور جس شخص کے خلاف شکایت کی گئی تھی اسے بلا کر دریافت کیا گیا اسی طرح لکھا جا سکتا ہے کہ زید نے شکایت کی اور بکر نے یوں کیا ،نہ مدّعی کا لفظ لکھو نہ مدعا علیہ کا ،نہ پیرالل گورنمنٹ کا کوئی الزام لگائے اور نہ سی۔آئی۔ڈی والے دھکے کھاتے پھریں۔ان کو الگ تکلیف ہے اور تم کو الگ بلکہ تم پرخدا تعالیٰ کی بھی ناراضگی ہو گی اور وہ کہے گا دوسروںکی بغل میں گھس کر تم نے کیا لیا ۔پس میں جماعت کے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اصطلاحات کے استعمال میں اسلامی شریعت کی نقل کریں نہ کہ دنیا کی دوسری قوموں کی اور جماعت کو خواہ مخواہ بد نام نہ کریں ۔حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی ایک دفعہ حواریوں سے کہیں کہہ دیا کہ تلواریں خریدو ۴؎ تو جَھٹ ان کے خلاف شکایت کی گئی ۔حالانکہ اُس وقت حکومت نے تلواریں رکھنے کی اجازت دی ہوئی تھی مگر شکایت پر حکومت ان کے خلاف کُرید کُرید کر دریافت کرنے لگی اس پر حضرت مسیح نے اپنے حواریوں سے کہا اگر کوئی تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دو اور تلواروں کو جانے دو ۵؎ تو چھوٹی چھوٹی چیزوں پر وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔تمہیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ فارمیں بناؤاور حکومت کے دل میں شبہ پیدا کرو۔ اس میں شک نہیں کہ لوگوں کے معمولی جھگڑوں کا ہم آپس میں تصفیہ کرا دیتے ہیںمگر یہ اس لئے کہ گورنمنٹ خود کہتی ہے جن امور میں پولیس کی دخل اندازی ضروری نہ ہو ان میں آپس میں فیصلہ کر لینے کی اجازت ہے اور اس سے کوئی شخص روک نہیں سکتا۔پس شوق سے جھگڑوں کا فیصلہ کرو مگر یہ احتیاط رکھو کہ وہ الفاظ استعمال نہ کرو جن کو گورنمنٹ استعمال کرتی ہو ۔عربی کے لفظ لواور ان کو استعمال کروبلکہ عربی کے جو الفاظ انہوں نے لے لئے ہیں انہیں بھی ترک کر دو ۔ان لفظوں کے بغیر جب محمد ﷺ کے زمانہ میں کام چلتا تھا تو اب کیوں نہیں چل سکتا۔ایسی نقل تو وہی شخص ضروری سمجھے گا جس کے دل میں کبر ہو مگر اﷲ تعالیٰ کو کبر پسند نہیں ۔وہ نہیں چاہتا کہ تم نقل کر کے یہ بتاؤ کہ تم بھی کچھ شان رکھتے ہو بلکہ اﷲ تعالیٰ یہ بتانا چاہتا ہے کہ شان کوئی نہیں تم سب ہمارے غلام ہو پس بجائے شان دکھانے کے اﷲ تعالیٰ کے غلام بن جاؤ پھر کوئی شخص تم پر حرف گیری نہیں کر سکتا۔اس موقع پر مَیں حکومت کو بھی نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ وہ جو کچھ کہتی ہے اس پر عمل کرے ۔جب یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ کہا کرتی ہے معمولی جھگڑوں کو آپس میں طَے کر لینا چاہئے اور جو تنازعات قابلِ دست اندازی پولیس نہ ہوں ان میں خود بخود فیصلہ کیا جا سکتا ہے عدالتوں میں جانے کی ضرورت نہیں تو پھر یہ انصاف کے بالکل خلاف ہے کہ ان جھگڑوں کے تصفیہ کرنے کا نام پیرالَل گورنمنٹ رکھا جائے اگر ایسا کیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ گورنمنٹ منہ سے کچھ اور کہتی ہے اور اس کے دل میں کچھ اور ہوتا ہے۔ منہ سے تو وہ یہ کہتی ہے کہ ہمارا معمولی جھگڑوں سے کیا واسطہ،جو جھگڑے قابلِ دست اندازی پولیس نہ ہوں ان کا فیصلہ بیشک لوگ خود کریں مگر دل میں اس کے یہ ہوتا ہے کہ لوگ معمولی جھگڑوں کا بھی آپس میں فیصلہ نہ کریںکیونکہ یہ پیرالَل گورنمنٹ کا قیام ہے۔گورنر کے بعد گورنر، آفیسرز کے بعد آفیسرز ہندوستان میں آئے اور زور دے کر کہتے ہیںکہ ہندوستانی لوگ مقدمہ باز ہیںیہ آپس میں کیوں جھگڑوں کا فیصلہ نہیں کرتے لیکن جب اس کے مطابق ایک جماعت کھڑی ہوتی اور وہ کہتی ہے انگریز سچے ہیں انہوں نے جو کچھ کہا دل سے کہا اور خیر خواہی کو مدّ نظر رکھ کر کہا ہم ان کے فرمان کے مطابق معمولی جھگڑے خود بخود طَے کر لیا کریں گے تو جھٹ جاسوس چھوڑے جاتے ہیں کہ یہ پیرالَل گورنمنٹ قائم کی جا رہی ہے اس کا انسداد کرنا چاہئے۔ ہمارے نزدیک تو وہ انگریز راستباز ہیں جنہوں نے کہا کہ ہندوستانیوں میں مقدمہ بازی کی عادت بہت بڑھی ہوئی ہے اور اس کا علاج یہ ہے کہ آپس میں فیصلہ کرلیا کریںمگر یہ مقامی حکام جو جاسوسیاں کرتے پھرتے ہیں ان کے متعلق سوائے اس کے کیا کہا جا سکتاہے کہ یہ فتنہ و فساد پر آمادہ ہیں۔(خطبہ کے بعد میری نظر سے ایک اخبار گزرا۔جس میں درج ہے کہ گجرات کے ایک پٹواری کو ہزایکسی لینسی گورنر پنجاب نے ایک خاص خوشنودی کی سند بھجوائی ہے کیونکہ وہ پچیس سال سے گاؤں کے جھگڑے گاؤں میں ہی طَے کرا دیا کرتا تھا۔ہِز ایکسی لیسنی کا تو یہ رویہ ہے کہ وہ اس شخص کو جو لوگوں کو عدالتوں کے اخراجات سے بچاتا تھا سند خوشنودی دیتے ہیں مگر ان کے ماتحتوں کا یہ رویہ ہے کہ وہ ایک ویسا ہی کام کرنے والی جماعت کی جاسوسیاں کرتے اور اسی کام کی وجہ سے اس کے خلاف رپورٹیں کرتے ہیں اور ناواجب ذرائع سے بغیر اس کے کہ انہیں صفائی پیش کرنے کا موقع دیں ،ان کے خلاف بزعمِ خود مواد جمع کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ایک ہی کام کے لئے ایک کو خوشنودی کی سند دی جاتی ہے اور دوسرے کی پچاس سالہ خدمات پر پانی پھیر دیا جاتا ہے اور اسے ظالمانہ طور پر بدنام کیا جاتا ہے)
ہم کس طرح مان سکتے ہیں کہ معز زسے معزز انگریز تو یہ کہیں کہ ہندوستانیوں میں مقدمہ بازی بہت بڑھی ہوئی ہے اور اس کا علاج یہ ہے کہ وہ بجائے عدالتوں میں جانے کے گھروں میں فیصلہ کر لیا کریں مگر جب ہم ان کی بات مان کر گھروں میں جھگڑوں کا تصفیہ کرنے لگیں تو یہ پیرالَل گورنمنٹ بن جائے ۔اگر معمولی جھگڑوں کا گھر میں فیصلہ کرنے کا نام ہی پیرالَل گورنمنٹ ہے تو حکومت وضاحت سے اس کے متعلق اعلان کر دے ہم اُسی وقت یہ کام چھوڑ دیں گے مگر اِدھر یہ بھی جرأت نہ کرنی تا کہ ملک میں شور نہ پیدا ہو اُدھر چپکے چپکے ہمارے خلاف کارروائیاں کرنا اورخفیہ سرکلر جاری کرنے انصاف کے بالکل خلاف ہے ۔گورنمنٹ اگر فوری طور پر اعلان نہیں کر سکتی تو وہ ایک میٹنگ کرے اور اس میں فیصلہ کرے کہ پیرالَل گورنمنٹ کس چیز کا نام ہے ؟پھر اگر وہ یہ فیصلہ کر دے کہ رعایا میں سے کسی کو اتنا حق بھی حاصل نہیں کہ وہ امور جو ناقابلِ دست اندازی پولیس ہوں ان میں فیصلہ دے سکے اور جھگڑوں کو باہم نمٹا سکے تو اس کے بعد اگر ہم کوئی مقدمہ سنیں تو بے شک پیرالَل گورنمنٹ کا الزام ہم پر لگائے لیکن اگر وہ یہ فیصلہ کرنے کی جرأت تو نہ کرے مگر الزام بدستور قائم رکھے تو وہ سمجھ لے کہ یہ امر اس کی نیک نامی نہیں بلکہ بدنامی کا موجب ہو گا اور لوگ سمجھیں گے کہ وہ ظالم ہے اور ہم مظلوم ۔
پھر ہمارے معاملہ میں تو گورنمنٹ کو کوئی دقّت ہوہی نہیں سکتی کیونکہ ہمارامذہب یہ ہے کہ حکومتِ وقت کی اطاعت کی جائے ۔پس جس دن وہ اعلان کر دے گی اُسی دن ہم اس کی بات مان لیں گے لیکن ہمارے اس اعلان کے باوجود کہ ہم گورنمنٹ کی ہر وقت اطاعت کرنے کے لئے تیار ہیں اگر حالت یہ ہو کہ حکومت پنجاب کے اعلیٰ افسر لاہو ر میں بیٹھے ہوئے تو کہہ دیں کہ گورداسپور کے فلاں فلاں افسروں سے کہہ دیا گیا ہے کہ وہ فلاں فلاں آدمیوں سے کام نہ لیں اور احمدیوں کے خلاف جاسوسی نہ کرائیں مگر گورداسپور کے وہ افسران لوگوں کو بدستور ہفتہ میں دو بار ملاقات کا موقع دیں اور گھنٹوں ان سے سرگوشیاں کریں تو اسے ہم کیونکر انصاف کہہ سکتے ہیں ۔آخر کیوں ان افسروں کو سزا نہیں دی جاتی جو باوجود اعلیٰ حکام کی ہدایات کے ان کارروائیوں سے باز نہیں آتے۔ہم سے کہا جاتاہے کہ ہم نے اس طریق کو روک دیا اور حکام کو سمجھا دیا ہے کہ وہ اپنی روش میں تبدیلی کریں مگر وہاں برابر ممنوع لوگ جاتے ہمارے کاغذات چرائے جاتے اور ہمارے خلاف خفیہ اجلاس ہوتے رہتے ہیںحالانکہ ہم نے بارہا کہا ہے گورنمنٹ دلیری سے کہہ دے کہ اس قسم کے جھگڑوں کا تصفیہ کرنا قانون کے خلاف ہے آئندہ مت فیصلے کیا کرو ہم نہیں کریں گے۔آخر وجہ کیا ہے کہ وہ اس قسم کا اعلان نہیں کرتی جب ہم کہتے ہیں کہ جب تک ہم اس ملک میں رہیں گے گورنمنٹ کی اطاعت کریں گے اور مشکل سے مشکل وقت میں بھی اطاعت کا دامن اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑیں گے تو اس کے لئے اس قسم کے اعلان میں دقّت ہی کیا ہے مگر ایسا اعلان بھی نہیں کیا جاتا اور برابر ہمارے خلاف کارروائیاں کی جا رہی ہیں جو ہمارے دلوں میں یہ شبہ پیدا کرتی ہیں کہ خفیہ طور پر ہمارے سلسلہ کے خلاف ریکارڈ جمع کیاجارہا ہے تا کہ الزام بھی لگ جائے اور ہم تردید بھی نہ کر سکیں ۔انصاف تو یہ ہے کہ یا اس طریق کو بند کیا جائے یا نالش کر کے الزام ثابت کیاجائے ۔اگر وہ یہ کہیں کہ نالش کر کے ہم پر الزام ثابت نہیں کیا جا سکتا تو وہ نالش نہ کریں یونہی کہہ دیں کہ ایسانہ کرو ہم نہیں کریں گے مگر اِدھر یہ جرأت نہ کرنا اور ہم پرمقدمہ نہ چلانا اور اُدھر یہ ہونا کہ خفیہ طور پر لوگ آ رہے ہیں اور مسلیں تیار ہو رہی ہیں ایسی بات ہے جسے کوئی شخص پسند نہیں کر سکتا بلکہ وہ لوگ جو اِس وقت پنجاب کے اعلیٰ افسر ہیں اگر ان کے سامنے بھی یہ بات رکھی جائے تو وہ بھی اس بات کو کبھی پسند نہیں کریں گے اسی لئے میں اس خطبہ کے ذریعہ ایک طرف تو اپنی جماعت سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ چھوڑ دو ان اصطلاحات کو جن کے متعلق لوگ کہتے ہیں کہ یہ ہماری ہیں اور ان کی نقلیں نہ کرو اور اُدھر گورنمنٹ کو توجہ دلاتا ہوں کہ جو طریق اس ضلع کے بعض افسروں نے اختیار کر رکھا ہے وہ اچھا نہیں۔ہم گورنمنٹ کا مقابلہ نہیں کرتے بلکہ مذہبی طور پر اس کی اطاعت ضروری سمجھتے ہیں ۔اگر وہ سمجھتی ہے کہ ہمارا فلاں طریق صحیح نہیں تو علی الاعلان اس کا اظہار کر دے اور اگر اس کا منشاء ہمیں قید کرنا ہے تو مقدمہ چلائے اور ہمیں قید کرے مگر اس طریق کو روکے جو اخلاقی طور پر نہایت ہی معیوب ہے ۔یعنی ایک طرف تو مقدمہ نہ چلایا جائے اور نہ حکماً کسی کام سے ہمیں روکا جائے اور دوسری طرف خفیہ ریشہ دوانیوں کے ذریعہ جماعت کو بدنام کرنے کی کوشش کی جائے ۔گورنمنٹ کا فرض ہے کہ وہ اس معاملہ کی تحقیق کرے کیونکہ ضلع گورداسپور میں بعض افسر ایسے ہیں جو ہمارے لئے مشکلات پیدا کرنے کا موجب بن رہے ہیں ۔اگر وہ ہم سے پوچھے تو جو ہمارا علم ہے وہ ہم اسے بتا دیں گے لیکن اگر وہ خود تعاون چھوڑتی ہے اور ان حرکات کی طرف کسی مصلحت کی وجہ سے توجہ نہیں کرتی، چاہے یہی وجہ ہو کہ اپنے افسروں کی بدنامی کا اسے خوف ہو تو پھر اِس معاملہ کو ہم خدا تعالیٰ پر چھوڑتے ہیںوہ آپ دیکھ لے گا کہ کون ظالم ہے اور کون مظلوم۔
(الفضل ۹؍اپریل ۱۹۳۵ئ)
۱ ؎ بخاری کتاب الجنائز باب اِذَا اَسْلَمَ الْصَّبِیُّ فَمَا تَ (الخ)
۲؎ الاحزاب:۲۲
۳؎ سخریہ: موجبِ تمسخّر
۴؎ لوقا باب ۲۱ آیت ۳۶ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۴۳ء
۵؎ متی باب ۵ آیت ۳۹ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۴۳ء






۱۴
اپنے نفسوں کو قربان کردو اور آستانۂ الٰہی پر گر جاؤ
(فرمودہ ۵؍اپریل ۱۹۳۵ئ)
تشہّد، تعوّذا ور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :۔
میری تحریک کے مطابق تین روزے ہو چکے ہیں اور اب یہ چوتھے روزہ یعنی وسطی روزہ کا ہفتہ گزر رہا ہے گویا وہ تحریک چند روز میں اپنے شباب کو پہنچنے والی ہے۔ یہ سات روزے جو ہماری جماعت کے دوست ہندوستان میں بھی اور باہر بھی رکھیں گے ،مَیں یقین کرتا ہوں کہ اصلاحِ حالات میں ممد ہوں گے اور ان لوگوں کے شر کو دور کرنے کا موجب ہوں گے جن کو سلسلہ کی مخالفت کے سِوا آج کل کوئی اور شغل ہی نہیں ہے مگر ہمارے دوستوں کویہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ ان سات روزوں کے ساتھ وہ سارے شرور سے بچ جائیں گے بلکہ یہ ایک چِلّہ دعاؤں کا ہے اور نہ معلوم ایسے کتنے چلّے اور ہمیں اختیار کرنے پڑیں گے ۔ہمارے دوستوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ اﷲ تعالیٰ کی اصل غرض ہماری جماعت کے قیام سے یہ ہے کہ ایک مصفّٰی اور پاکیزہ جماعت دنیا میں قائم ہو اور سونے کو صاف کرنے کے لئے کٹھالی میں ڈالنا ضروری ہوتا ہے ۔
پس یہ ابتلاء ہماری اصلاح کے لئے ہیںاور ہمیں صحیح راستے پر قائم کرنے کیلئے ہیں جس پر چلانے کے لئے اﷲ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث فرمایا ہم میں سے ابھی بہت ہیں جو اصلاحوں کے محتاج ہیں اﷲ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ایسے لوگوں کو یاتوجماعت سے نکال دے اور یا پھر ان کی اصلاح کر دے۔خدا تعالیٰ جماعت کو ایسے مقام پر لے جانا چاہتا ہے جس پر اسے دیکھ کر اپنے اور غیر سارے ہی تعریف کریں ۔کیا چھوٹا سا کیڑا انسان کے نطفہ میں ہوتا ہے جس کو اﷲ تعالیٰ ظلمات میں سے گزارتا ہے جیسا کہ وہ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ وہ کئی ظلمات میں سے گزر کر کتنا خوبصورت بچہ ہو جاتا ہے۔۱؎ نطفہ سے انسان کتنا گِھن کھاتا ہے لیکن بچہ کو ماں باپ اور دوسرے رشتہ دار کتنا پیار کرتے ہیں سو اﷲ تعالیٰ چاہتا ہے کہ جماعت ظلمتوں سے گزرے تا اس کی اصلاح ہو جائے وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ مختلف فتنوں سے گزرتے ہوئے بھی ہم کس طرح راستی پر قائم رہتے ہیں اور اپنے کام کو نہیں بھولتے اس وجہ سے فتنہ کے بعد فتنہ آتا ہے ایک حرکت احرار کی طرف سے ہو جاتی ہے وہ دبتی ہے اور دوست سمجھتے ہیں کہ نجات ہو گئی اور معاً ایک حرکت مقامی حکام کر دیتے ہیں اس کا اثر ابھی ہوتا ہے کہ پھر احرار کی طرف سے دوسری حرکت ہو جاتی ہے گویا احرار اور مقامی حکام ایک ہی ٹیم کے دو وِنگ ہیں ایک لیفٹ اور ایک رائٹ۔کبھی لیفٹ وِنگ والے فٹ بال ہمارے گول کی طرف لاتے ہیں ہم ا نہیں روکتے ہیں تو وہ بال کوجَھٹ پاس کر کے رائٹ ونگ والوں کی طرف پاس کردیتے ہیں پھر وہ کوشش کرتے ہیں کہ گول ہو جائے اور ہم جب ان کے حملہ کو روکتے ہیں تو وہ ٹیم کے دوسرے حصہ کی طرف بال بھیج دیتے ہیں۔ اِس وقت ہماری حالت اس ٹیم کی ہے جو سارا زور گول کو بچانے میں خرچ کر رہی ہو تی ہے ہم جب ایک طرف کے حملہ کو روکتے ہیں تو دوسری طرف سے ہو جاتا ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ احرار اور مقامی حکام ایک ہی ٹیم کے دو وِنگ ہیں۔جب ایک وِنگ پر زور پڑتا ہے تو وہ بال کو دوسری طرف بھیج دیتے ہیں احرار تو احرار ہی ہیں ان کا کیا کہنا حکومت کے جو افراد اِن کی ٹیم میں شامل ہیں ان پر اَور بے شک نگران ہیں پنجاب کی حکومت، ہندوستان کی حکومت اور پھر انگلستان میں حکومت ہے ۔جب ان کی طرف سے کوئی حرکت ہوتی ہے تو دوستوں کی نگاہ قدرتی طور پر بالا افسروں کی طرف اُٹھتی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ احرار کو تو کوئی روکنے والا نہیں ۔حکامِ ضلع گورداسپور جو کارروائیاں کرتے ہیں ان پر حکومت پنجاب ضرور ایکشن لے گی اور اس لئے ان کی طرف سے کسی ایسی حرکت پر ساری جماعت کی نگاہیں لاہور کی طرف اُٹھتی ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے اوپر اور افسر ہیں ان کو ہم سے کوئی ضد نہیں اس لئے وہ ضرور انصاف کریں گے لیکن جسے یہ خلافِ آئین حرکت سمجھتے تھے جب اس کی گونج لاہور پہنچتی ہے اور وہاں سے بھی کوئی حرکت نہیں ہوتی تو وہ مایوس ہو جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ ساری گورنمنٹ ہی ہمارے خلاف ہے مگر اس خیال سے پھر انہیں تسلی ہو جاتی ہے کہ ممکن ہے معاملہ ان پر واضح نہ ہؤا ہو اور ان کو معاملات غلط پہنچائے گئے ہوں اس خیال سے پھر ان کے دل میں امید پیدا ہو جاتی ہے کہ پھر جب حق کھلے گا تو وہ ضرور دخل دیں گے یہاں تک کہ پھر ایک نیا واقعہ ہوتا ہے اور ان کی نگاہیں پھر لاہور کی طرف اُٹھتی ہیں مگر پھر صدائے برنخواست والا معاملہ ہوتا ہے جیسا کہ گذشتہ چھ ماہ کے واقعات میں سوائے ایک اس نوٹس کے جو مجھے دیا گیا تھا ہوتا رہا ہے کسی ایک معاملہ میں بھی حکومت پنجاب نے ہمارے علم میں کوئی کارروائی نہیں کی۔ممکن ہے کوئی دخل دیا گیا ہو مگر ہمارے علم میں نہیں اِس وجہ سے قدرتی طور پر جماعت میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ شاید اوپر کے افسر بھی ہمارے مخالف ہیں یا انہیں دھوکا دیا گیا ہے یہ تو ہم نہیں مان سکتے کہ وہ عملاً ایسا کر رہے ہوں کیونکہ انگریز افسروں کو احرار اور احمدیوں کے جھگڑوں سے کیا تعلق ہو سکتا ہے۔ہندوستانی افسروں کو تو مذہبی طور پر یا قومی طور پر یا دوستوں کے لحاظ کی وجہ سے کسی کی رعایت ہو سکتی ہے مگر انگریزوں کے متعلق اس کے سوائے کچھ نہیں سمجھا جا سکتا کہ انہیں دھوکا دیا گیاہومگر ان کی طرف سے خاموشی کی وجہ سے قدرتی طور پر جماعت کے دوست پریشان ہوتے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ممکن ہے بعض طبائع میں غصہ بھی پیدا ہوتا ہو اور ان خطوط سے جو مجھے چاروں طرف سے موصول ہوتے رہتے ہیں میں سمجھتا ہوں بعض طبائع میں غصہ پیدا ہوتا ہے مگر پھر جب عقل کہتی ہے کہ انگریز افسروں کو ان جھگڑوں سے کیا واسطہ ہو سکتا ہے اور ان کا کیا دخل ہو سکتا ہے تو پھر خیال آ جاتا ہے کہ اب کوئی موقع ہؤا تو پھر دیکھیں گے یہ ایک لمبا سلسلہ چلا جا رہا ہے اورا س بات کا محتاج ہے کہ اس کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کر دوں۔
مگر پیشتر اس کے کہ میں ایسا کروں میں ایک تازہ واقعہ کا اظہار کرتا ہوں جو پچھلے تمام حالات اور واقعات سے بہت زیادہ سنگین اور بہت زیادہ خطرناک ہے یہاں کے چند طلباء نے مل کر ایک سوسائٹی مذہبی تقریروں کی مشق کے لئے بنائی ہوئی ہے میں نے اس کے کاغذات منگوا کر دیکھے ہیں وہ ہمیشہ صداقتِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور وفاتِ مسیح علیہ السلام پر تقریریں کرتے ہیں باقی اس کے علاوہ نظم یا کبھی کوئی چُٹکلہ ہو گیا تو ہو گیا ورنہ تقریریں سب انہی دو موضوع پر ہوتی ہیں ۔یہ مجلس کئی ماہ سے قائم ہے اور اس کی کئی میٹنگیں ہو چکی ہیں اس کے تمام ممبر طالب علم ہیں جو ۱۰ سے ۱۸ سال تک کی عمر کے ہیں ۔کل ممبر ۲۷ ہیں مولوی غلام احمد متعلم جامعہ احمدیہ اس کے صدر ہیں اور اس کے ممبروں کی فہرست حسب ذیل ہے۔
۱۔ غلام احمد متعلم جامعہ احمدیہ صدر
۲۔ مولوی محمد احمد ۱۸ سال ہفتم احمدیہ سکول
۳۔ صوفی محمود احمد ۱۶ سال نہم ہائی سکول
۴ ۔ صلاح الدین ۱۵ سال نہم ہائی سکول
۵۔ سلطان احمد ۱۶ سال ہشتم ہائی سکول
۶۔ مولوی برکات احمد ۱۷ سال نہم ہائی سکول
۷۔ مبارک احمد ۱۴ سال ہشتم ہائی سکول
۸۔ محمد صادق ۱۶ سال نہم ہائی سکول
۹۔ شریف احمد ۱۳ سال ہشتم ہائی سکول
۱۰۔ محمد عثمان ۱۲ سال ہفتم ہائی سکول
۱۱۔ مولوی نور الحق ۱۸ سال ششم احمدیہ سکول
۱۲۔ حافظ مسعود احمد ۱۲ سال ہفتم ہائی سکول
۱۳۔ جلال الدین ۱۱ سال ششم ہائی سکول
۱۴۔ عبد الحیٔ ۱۵ سال نہم ہائی سکول
۱۵۔ عبد القیوم ۱۰ سال ششم ہائی سکول
۱۶۔ محمد اکرم ۱۵ سال ہفتم ہائی سکول
۱۷۔ بشارت الرحمن ۱۴ سال ہشتم ہائی سکول
۱۸۔ مبشر احمد ۱۰ سال ششم ہائی سکول
۱۹۔ حلیم احمد ۱۷ سال ہفتم ہائی سکول
۲۰۔ عبد الرؤوف ۱۲ سال ششم ہائی سکول
۲۱۔ فضل حق۱۳ سال دوئم احمدیہ سکول
۲۲۔ محمد علی ۱۷ سال ہفتم ہائی سکول
۲۳ ۔بشیر علی ۱۶ سال نہم ہائی سکول
۲۴۔ عبد الرشید ۱۵ اسال پنجم احمدیہ سکول
۲۵ ۔ منور حسین ۱۵ سال ششم ہائی سکول
۲۶۔ بشارت احمد۱۱ سال پنجم ہائی سکول
۲۷۔ ہادی ۱۱ سال چہارم ہائی سکول
۲۸۔ محمد یعقوب کوکب سیکرٹری
یہ ۲۷ لڑکے علاوہ سیکرٹری کے ہیں گویا کُل مل کر ۲۸ ہو گئے اور انہوں نے ایک انجمن حزبُ اﷲ بنائی ہوئی ہے جس میں وفاتِ مسیح علیہ السلام اور صداقتِ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام پر تقریریں ہوتی ہیں ۔یہ ممبر سب چھوٹے بچے ہیں جو اور انجمنوں میں جا کر تقریریں کرنے سے شرماتے ہیں جیسا کہ چھوٹے بچے ہمیشہ شرمایا ہی کرتے ہیں۔پرسوں ان کا اجلاس تھا سیکرٹری کا بیان ہے کہ پہلے ایک پولیس انسپکٹر یاسب انسپکٹر وہاں پہنچے اور کہا کہ ہمیں اندر آنے کی اجازت دی جائے ۔میں نے ان سے کہا کہ یہاں تو چھوٹے چھوٹے بچے تقریریں کریں گے وہ تو اپنے رشتہ داروں کے سامنے تقریر کرتے ہوئے بھی شرماتے ہیںاور اسی وجہ سے الگ ایک مکان میں ہم جلسہ کرتے ہیں اگر پولیس کے لوگ وردیاں پہن کر آ گئے تو ان کے تو ہوش اُڑ جائیں گے ۔سب کے سب طالب علم ہوتے ہیں ہاں کبھی کسی مدرّس کو صدر بنا لیتے ہیں آپ کے آنے پر لازمی بات ہے کہ ان سے بولا نہیں جائے گا ۔اس پر انہوں نے ایک حکم نکال کر دکھایا کہ یہ سرکاری حکم ہے ۔سیکرٹری کہتا ہے کہ اس پر مَیں نے ان سے کہا کہ آپ ہمارے محلہ کے پریذیڈنٹ سے کہیںاگر انہوں نے کہا تو ہم اجازت دے دیں گے چنانچہ وہ صدر کے پاس گئے اور حکم ان کو دکھا یا یہ حکم مجسٹریٹ علاقہ کی طرف سے تھا اور اسی ایکٹ کے ماتحت جس کیpreamble میں لکھا ہے کہ حکومت کا تختہ اُلٹ دینے کے لئے جو انجمنیں بنائی جاتی ہیں یہ ان میں دخل دینے کے لئے ہے اور ظاہر ہے کہ دس سال کی عمر کے بچوں پر جو اپنے بھائیوں سے بھی تقریریں کرتے ہوئے شرماتے ہوں باوردی پولیس اور نمبردار پٹواریوں کو لے جانا اور اس کے لئے کریمینل لاء ایمنڈ منٹ ایکٹ کو استعمال کرنا حکومتِ برطانیہ کی ڈیڑھ دوسَو سالہ حکومت میں شاید پہلا واقعہ ہے۔ یہ جلسہ چند ایک بچوں کا تھا جس میں وفاتِ مسیح علیہ السلام اور صداقتِ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر تقریریں ہونے والی تھیں اس پر ۱۲ آدمی جن میں کئی پولیس کے افسر اور نمبردار وغیرہ کو شہادت کے لئے لے جانا کہ دیکھیں احمدی بچے صداقتِ مسیح موعود پر لیکچر دے کر حکومت کو اُلٹنے کے لئے کیا پروگرام بناتے ہیں یا وفاتِ مسیح کی تقریریں کرتے ہوئے حکومت کے خلاف کیا کارروائیاں کرتے ہیں،ایک ایسا غیر منصفانہ فعل ہے جس کے متعلق میں جذبات کا اظہار نہیں کر سکتا ۔پہلے میں صرف اس کا ذکر کر کے اسے حکومت تک پہنچاتا ہوں کہ یہ ایک پرائیویٹ میٹنگ تھی جس میں صرف ممبر بُلائے گئے تھے اور صرف نوٹس ملنے کے بعد دس بارہ لڑکے طالبِ علم ڈر کی وجہ سے سیکرٹری نے بلوا لئے تھے حکومت بتائے کہ کیا کبھی احرار کی کسی میٹنگ کے متعلق بھی ایسا کیا گیا ہے۔لڑکوں کو جو سوجھتی ہے عجیب سوجھتی ہے جب پولیس گئی تو کئی بچے تو ڈر کر بھاگ گئے دوسروں نے کہا کہ جب ہم اپنے رشتہ داروں کے سامنے تقریریں نہیں کر سکتے تو ان لوگوں کے سامنے کس طرح کر سکتے ہیں اور انہوں نے تقریر کرنے سے انکار کر دیا۔ اس پر بچوں نے جو کیا وہ نہیں کرناچاہئے تھا مگر بچے تھے مَیں کیا کہوں ۔ان کو چاہئے تھا کہ اُسی وقت کھڑے ہو جاتے اور پروٹسٹ(protest) کے طور پر ریزولیوشن پاس کر کے جلسہ ختم کر دیتے کہ اس طرح بچوں کو ستایا جاتا اور ان کی مشقی تعلیم کو روکا جاتا ہے ہم اس کے خلاف پروٹسٹ کر کے جلسہ کو برخاست کرتے ہیں لیکن بچے جہاں بے وقوف اور بے سمجھ ہوتے ہیں وہاں ذہین بھی کمال کے ہوتے ہیں اور جب دِق کرنے پر آئیں تو بہت سخت دِق کرتے ہیں پس انہوں نے جو کچھ کیا اس کے لئے مَیں ان کی ذہانت کی تو داد دیتا ہوں مگر پسند نہیں کرتا۔ انہوں نے بعض بڑی جماعت کے طلباء کو بلا کر کھڑا کر دیا کہ عربی میں تقریریں کریں اب عربی میں تقریریں ہو رہی ہیں اور بیچارے پولیس والے بیٹھے ہیں۔پولیس کے علاوہ اِردگرد کے دیہات کے نمبردار تھے وہ بھلا کیا سمجھیں جو اردو کی تقریروں کو بھی نہ سمجھ سکیں وہ عربی تقریر کو کیا سمجھ سکتے ۔میرے نزدیک طلباء کا یہ طریق تھا تو غلط کیونکہ پولیس والوں کو شرارت کا موقع مل سکتا تھا ۔جو پولیس کے آدمی وہاں بھیجے گئے اُن کو مَیں جانتا تو نہیں ہاں ایک کے متعلق مجھے معلوم ہے کہ وہ سلسلہ کا شدید دشمن ہے اور ہمارے متعلق اس کی رپورٹیں اکثر غلط ہوتی ہیں بہر حال پولیس کے جو آدمی گئے ان کا تو کوئی قصور نہ تھا وہ مجسٹریٹ کے حکم کے پابند تھے اس لئے میں ان کو بیچارہ ہی کہتا ہوں وہ بیچارے بھی وہاں حیران بیٹھے ہوں گے کہ ہم کہاں پھنس گئے ۔بہر حال ان میں سے کوئی شریر یہ کہہ سکتا تھا کہ وہاں اتنی گالیاں دی گئی ہیں کہ ہم بیان بھی نہیں کر سکتے اور برداشت بھی نہیں کر سکتے تھے بجائے اس کے کہ جا کر کہتے تقریریں عربی میں تھیں اس لئے سمجھ نہ سکے وہ شرارت بھی کر سکتے تھے کہ زبانوں میںتو فرق ہوتا ہی ہے اور ایک زبان کے بعض اچھے بھلے لفظوں کا دوسری زبان میں جا کر مفہوم بدل جاتا ہے۔ ایک لطیفہ مشہور ہے کہ کسی نے دوسرے سے خط لکھ دینے کے لئے کہا وہ صرف ہندی جانتا تھا اس لئے اس نے کہا میں ہندی میںخط لکھ دیتا ہوں لکھوانے والے نے پنجابی میںلکھوایا کہ قطب الدین گھر دی کڑیاں ویچ کے اجمیر گیا اب ہندی میں ق تو ہوتا نہیں نہ ہی ط ہوتی ہے اس لئے ہندی میں لکھا ہؤا خط جب منزلِ مقصود پر پہنچا اور خط والے نے کسی ہندی دان سے خط پڑھوایا تو اُس نے یوں پڑھا کتّا بے دین گھر دی کُڑیاں ویچ کے اَج مر گیا ۔اس لئے ممکن تھا کہ عربی کے بعض الفاظ کو وہ خواہ مخواہ گالیاں بنا کر پیش کر دیتے اس لئے ان طلباء کا لطیفہ تو قابلِ داد ہے میں ان کی ذہانت کی داد دیتا ہوں مگر سمجھ کی داد نہیں دے سکتا ان کو چاہئے تھا کہ وہ پروٹسٹ کرتے اور ریزولیوشن پاس کر کے جلسہ کو بند کر دیتے۔ اگر حکومت چاہتی ہے کہ ہمارے بچے مذہبی تعلیم حاصل نہ کریں تو وہ نہ کریں گے ہم ان کو تعلیم کے لئے دوسرے ملکوں میں بھیج دیں گے۔فارسی میں ضرب المثل ہے کہ’’ پائے گدالنگ نیست ملکِ خدا تنگ نیست ‘‘ اگر حکومت کہتی ہے کہ مذہبی تعلیم نہ دو تو ہم اِس ملک کو چھوڑ جائیں گے۔ جس کے پاس زور ہو وہ تو ڈرا لیتا ہے اور رُعب دے لیتا ہے مگر جس کے پاس طاقت نہ ہو وہ یہی کہہ سکتا ہے کہ اچھا تجھ سے اﷲ تعالیٰ سمجھے ہم جاتے ہیں اگر اس ایکٹ کو اسی طرح استعمال کیا جانے لگا تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ ہم تمام مدرسے بند کر کے اور مکانوں کو مقفّل کر کے قادیان سے نکل جائیں اور لاہور یا کسی اور جگہ جا رہیں۔ بہر حال طلباء کو چاہئے تھا کہ ریزولیوشن پاس کر کے حکومت کو بھیج دیتے اگر تو وہ توجہ کرتی تو فَبِھَا اور اگر گزشتہ سلوک کی طرح کوئی توجہ نہ کرتی اور جلسے بند کرنے کی ہدایت کرتی تو کر دیتے۔ میں خوش ہوں گا اگر حکومت بتائے کہ احرار کی کسی میٹنگ پر بھی اس کی طرف سے کبھی اس ایکٹ کو استعمال کیا گیا ہے حالانکہ وہ عَلَی الْاِعْـلَان کہتے ہیں کہ ہم حکومت کو تباہ کر دیں گے ہم تو کہتے ہیں کہ ہم حکومت کے وفادار اور قانون کے پابند ہیں اور احرار کا دعویٰ ہے کہ ہم مصلحتاً قانون کو مانتے ہیں ورنہ ہمارا مقصد یہی ہے کہ جب موقع ملے حکومت کو تباہ کر دیں ۔یہ ایکٹ جن لوگوں کے لئے بنایا گیا تھا گو احرار کا عمل اس وقت نہیں مگر قول ان کے مطابق ہے مگر ہمارا نہ یہ قول ہے اور نہ عمل۔پس جو شخص ہمارے بچوں پر اس لئے کہ وہ وفاتِ مسیح اور صداقتِ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر تقریریں کرتے ہیں یہ ایکٹ لگاتا ہے میں نہیں سمجھتا اس نے اپنی ذمّہ داری کو ادا کیا ۔میرے نزدیک قانون کا منشاء ہرگز یہ نہیں۔جب ہم نے یعنی ہمارے نمائندوں نے اس کی تائید میں ووٹ دیئے تو یقینا یہ سمجھ کر نہیں دیئے تھے کہ اس کا استعمال اس طرح کیا جائے گا اور جب حکومت نے ووٹ مانگے تو اس لئے نہیں مانگے تھے کہ اس طرح اس کا استعمال کیا جاسکے اگر حکومت اُس وقت بتا دیتی کہ اس ایکٹ کا استعمال بچوں کی ایسی مجالس پر کیا جائے گا جن میں وفاتِ مسیح اور صداقتِ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر تقریریں کی جاتی ہیں تو میں سمجھتا ہوں گو بزدل ممبر بھی ہوتے ہیں مگر کوئی ہندوستانی ممبر ایسا بے غیرت نہ ہوتا کہ اس کے حق میں ووٹ دے دیتا اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں حکومت کے کسی رُکن کے اپنے ذہن میں بھی یہ بات نہ تھی کہ اس کا استعمال اس طرح کیا جائے گا اور نہ ہی اب حکومتِ پنجاب یا حکومتِ ہند کے کسی رُکن کے ذہن میں یہ بات ہو سکتی ہے کہ اس کا اس طرح استعمال کیا جائے گا ۔مجھے یقین ہے کہ انگلستان کی پانچ کروڑ آبادی میں سے ایک فرد بھی اسے جائز سمجھنے والا نہ ہو گا بلکہ انسانیت کی نیکی اور اس کے جوہر کو مدّنظر رکھتے ہوئے میں یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ دنیا بھر کے شرفاء میں سے کسی ایک کو بھی کبھی یہ خیال نہیں ہو سکتا کہ اس کا یہ استعمال صحیح ہے ۔میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس ایکٹ کو اس جگہ استعمال کرنے والے نے اسے کس طرح استعمال کیا ممکن ہے اسے دھوکا دیا گیا ہو یا ڈرایا گیا ہو کیونکہ میں یہ سمجھ ہی نہیں سکتا کہ اس نے اس ایکٹ کا اس طرح استعمال درست سمجھ کر کیالیکن اگرواقعی اس نے صحیح سمجھ کر کیا ہو تو میں سوائے اِنَّالِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۲؎ کے اور کیا کہہ سکتا ہوں۔ جب یہ امرِ واقعہ ہے کہ احرار کی پرائیویٹ میٹنگوں اور کانگرس کی میٹنگوں پر اس ایکٹ کا اس طرح استعمال نہیں کیا جاتا حالانکہ وہ کھلے بندوں حکومت کی مخالفت کرتے ہیں تو پھر جماعت احمدیہ جو وفادار جماعت ہے اور جو حکومت کی خاطر بیش بہا قربانیاں کر چکی ہے اس کے بچوں کی ایک مذہبی میٹنگ پر اس ایکٹ کے استعمال کئے جانے کا علم ہونے کے بعد بھی اگر حکومت یہ کہے کہ یہ ٹھیک کیا گیا ہے تو میں سمجھوں گا حکومت کا مطلب یہ ہے کہ احمدی قادیان چھوڑ کر چلے جائیں ہم جائیں یا نہ جائیں یہ علیحدہ بات ہے یہ ہمارا کام ہے کہ دیکھیں جانا چاہئے یا نہیں لیکن ابھی تک مجھے یقین نہیں کہ حکومت کو اس کا رروائی کا علم ہو ۔ہاں اب اس خطبہ کے ذریعہ اسے علم ہو جائے گا اور ہم دیکھیں گے وہ کیا ایکشن لیتی ہے ۔ایسا مجسٹریٹ جو چھوٹے چھوٹے بچوں کی ایک بے ضرر مذہبی مجلس پر باغیانہ ایکٹ لگاتا ہے اُس نے خواہ عمداً ایسا کیا ہو یا اَنجان ہونے کی وجہ سے وہ شدید ترین سزا کا مستحق ہے اور ہم گورنمنٹ کے انصاف سے ،برطانوی انصاف سے،برطانوی عدل سے جس کا دعویٰ ہے کہ وہ ہمیشہ مظلوم کی تائید کرتا ہے حتّٰی کہ انگریزی محاورہ ہے کہ انگریز انڈر ڈاگ (Under Dog)کی مدد کرتا ہے یعنی اگر دو کتّے بھی لڑ رہے ہوں تو انگریز اُس کی مدد کرتا ہے جو مظلوم ہو ۔میں اس روایتی انصاف سے اپیل کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ اگر حکام ہمیں انسانیت سے خارج سمجھتے ہیں تب بھی ان کا فرض ہے کہ ہم پر اِس قسم کے ظلم کو روکیں اور میں اس خطبہ کے ذریعہ حکومت پر حجّت پوری کرتا ہوں۔میں نے مؤدّب اور نرم الفاظ میں حکومت کو توجہ دلا دی ہے اور یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ کوئی یہ نہ سمجھے میں دھمکی دے رہا ہوں۔ہمارا اصول وفاداری ہے اور ہم وفادار ی کریں گے۔اگر حکومت یہ کہے کہ ہم اپنے مدرسے بند کر دیں تو کر دیں گے ،اگر وہ کہے قادیان کو چھوڑ دو تو ہم چھوڑ کر چلے جائیں گے، اگر وہ کہے کہ مذہبی تعلیم نہ دو تو ہم ایسا حکم دینے والے صوبہ کو چھوڑ کر کسی دوسرے صوبہ میں چلے جائیں گے جہاں احمدیوں کے لئے آزادی ہو ۔غرضیکہ وہ کوئی حکم دے کر دیکھ لے ہم اس کی پابندی کریں گے یہ ہمارا اصول ہے مگر برطانوی انصاف سے مَیں یہ درخواست کروں گا کہ وہ اس قسم کے ہاتھوں کو روکے جو صریح ظلم ہم پر کر رہے ہیں۔چاہے یہ سمجھ لیا جائے کہ ہم کمزور ہیں ،چاہے یہ سمجھا جائے ہمارا مذہبی اصول ہے بہرحال یہ ہمارا اصول ہے اور اسے ہم مذہب کی طرف منسوب کرتے ہیں کوئی مخالف کہدے کہ ڈر کر کرتے ہیں تو اُس کی مرضی مگر امرِ واقعہ یہی ہے کہ ہم قانون کی خلاف ورزی نہیں کرتے اور ہمارا اصول یہی ہے کہ قانون کی پابندی کریں گے۔خواہ وہ دفعہ ۱۴۴ ہو یا کریمنل لاء ایمنڈمنٹ ایکٹ (Criminal Law Amendment Act) یہاں بِلا وجہ دفعہ ۱۴۴ لگائی گئی اور احمدی وکلاء نے مجھے بار بار کہا کہ یہ ناجائز اور غلط ہے۔آپ کسی کو اس کی خلاف ورزی کے لئے نہ کہیں مگر روکیں بھی نہیں۔ نیشنل لیگ ایک جلسہ کرے اور پولیس چالان کرے ہم ذمّہ وار ہیں کہ یہ حکم غلط ثابت ہو گا اور جلسہ کرنے والے بَری کئے جائیں گے۔اس صورت میں واقعات پر بھی بحث ہو سکے گی اور سب اندرونی کاغذات حکومت کو ظاہر کرنے پڑیں گے مگر میں نے اس کی اجازت نہیں دی کہ ہم قانون توڑ کر اپنی قدیم روایات کے خلاف جائیں حالانکہ یہ صرفTest case ہوتا اور Test case قانون شِکنی نہیں کہلا سکتا اس قسم کا مقدمہ جن لوگوں پر ہو اُن سے عدالتیں بھی نرمی کا سلوک کیا کرتی ہیں تو مجھے یہ مشورہ دیا گیا کہ میں کسی کو جلسہ کرنے سے نہ روکوں مگر میں نے اسے پسند نہیں کیا کیونکہ میں یہ نہیں چاہتا کہ ہم رسمی طور پربھی یہ الزام لیں بلکہ ہمارے آدمی تو اس قدر گئوہیں کہ دفعہ ۱۴۴ کے دَوران میں ایک واقعہ ہؤا جس کے کاغذات مجھے اس کے بعد دیکھنے کا اتفاق ہؤا۔قادیان کے مختلف محلوں کے پریذیڈنٹوں نے ایک مجلس کی کہ خلیفۃ المسیح کے پہرہ کا انتظام کس طرح کیا جائے؟ ایک محلہ کے پریذیڈنٹ کو جب اس میں شامل ہونے کے لئے لکھا گیا تو اس نے جواب دیا کہ چونکہ دفعہ ۱۴۴ لگی ہوئی ہے اس لئے میں اس میں شامل نہیں ہو سکتاحالانکہ اس دفعہ کی رو سے بھی پرائیویٹ جلسوں کی ممانعت نہیں تھی اور نہیں ہو سکتی تو ہمارے آدمی تو قانون کے اس قدر پابند ہیں کہ اس دفعہ کے نفاذ کے بعد انہوں نے جلسوں کو سؤر کی طرح سمجھ لیا اور جن جلسوں کو حکومت نے ناجائز نہیں کہا تھا ان کو بھی ناجائز سمجھ لیا پس جو جماعت قانون کی اس قدر پابند ہو اُس کے متعلق افسروں کو اس قدر وسیع اختیارات دے دینا کہ وہ بچوں کی مذہبی مجالس پر بھی باغیانہ ایکٹ لگا دیں یہ نہ ایکٹ بنانے والوں کا منشاء تھا اور نہ حکومت کا۔ اگر حکومت یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ ہم کہاں تک قانون کی پابندی کرتے ہیں اور وہ Test کرنا چاہتی ہے تو بے شک کرتی جائے وہ کبھی نہیں دیکھے گی کہ ہم قانون شکنی کریں لیکن میں یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ یہ Test حکومت کو مہنگا پڑے گا۔ حکومت ضلع گورداسپور کے افسروں کا نام نہیں، حکومت پنجاب کا نام نہیں، حکومت ہند کا نام نہیں بلکہ تمام سلطنت ِبرطانیہ کا نام ہے اب اگر یہ باتیں تمام سلطنت میں پھیلیں کہ چھوٹے چھوٹے طالب علموں کی مذہبی میٹنگ پر کریمنل لاء ایمنڈمنٹ ایکٹ کا استعمال کر کے ایک درجن پولیس کے آدمی وہاں تعینات کر دیئے گئے تو تما م دنیا اسے ٹیررازم(Terrorism) سمجھے گی۔اسے ڈراوا اور دھمکی خیال کر ے گی لندن کی پولیس نے ایک دفعہ ایک عورت کوبطور گواہ طلب کیا اس پر دو تین گھنٹے جرح کرتی رہی اس پر تمام انگلستان میں ایک شور مچ گیا کہ ایک عورت کو اِس قدر پریشان کیا گیا ہے اور ایک مشہور جرنیل کو جو سارے انگلستان میں معزز تھا استعفیٰ دینا پڑا۔اگر دنیا کو یہ معلوم ہو کہ ضلع گورداسپور کے حکام دس سال کی عمر کے بچوں پر جو مذہبی لیکچروں کی مشق اپنے گھروں میں کرتے ہیں پولیس کی گارد متعیّن کر دیتے ہیں کہ ان کی باتوں کو نوٹ کریں اور نوٹ کرنے کے لئے آدمی بھیجنے کے یہی معنی ہو سکتے ہیں کہ ان باتوں کو قابلِ اعتراض خیال کیا جاتا ہے تو یہ ایک ایسی بات ہے کہ جہاں جہاں پہنچے گی دنیا اسے ٹیررازم سے تعبیر کرنے پر مجبور ہو گی۔بچے کا دل ہی کتنا ہوتا ہے اسے ماں باپ ہی ذرا جھڑک دیں تو اس کا پیشاب نکل جاتا ہے ایسے چھوٹے بچے جن کا ماں باپ کی جھڑک سے پیشاب خطا ہو جاتا ہے اُن پر ۱۲ پولیس والوں کی گارد لگا دینا کتنا بڑا ظلم ہے۔ ذرا غور کرو ان بیچاروں کا کیا حال ہو ا ہو گا ۔چھوڑ دو حکومت کے سوال کو ،چھوڑ دو قانون کے سوال کو، خالی انسانیت کو لے لو تو ماننا پڑے گا کہ یہ بہت بڑی سختی ہے مگر میں برطانوی انصاف سے مایوس نہیں ہوں۔ اگرچہ میرا تجربہ یہی ہے کہ سوائے اس نوٹس والے معاملہ کے جو مجھے دیا گیا حکومت نے اور کسی واقعہ میں ہماری دِلجوئی نہیں کی مگر پھر بھی میں مایوس نہیں ۔اب بھی میرا یہی خیال ہے کہ انگریزوں میں اچھے آدمی ہیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ ایک نہ ایک دن ان کا برطانوی انصاف انہیں مجبور کر دے گاکہ پرسٹیج(Prestige) کے اصول کو بھول کر انصاف قائم کریں اور جو ظلم ان کے نام پر کیا جارہا ہے اس سے اپنی برأ ت کریں اور اپنے عمل سے بتا دیں کہ وہ اس میں شریک نہیں ہیں۔اس واسطے میں نے بجائے خاموش رہنے کے حکومت تک اس واقعہ کو پہنچا دینا مناسب سمجھا ۔انسان خاموش اُس وقت ہوتا ہے جب وہ سمجھتا ہے کہ کچھ بنتا نہیں مگر میں خاموش نہیں رہا اور مجھے یقین ہے کہ یہ معاملہ اس قدر واضح ہے کہ اس پر ضرور نوٹس لیا جائے گا لیکن اگر اس پر کوئی ایکشن نہ لیا گیا اور اس مجسٹریٹ کو سزا نہ دی گئی تو پھر میں سمجھ لوں گا کہ شور مچانا فضول ہے اور اس کے بعد غالباً خاموش ہو جاؤں گا خواہ کچھ ہوتا رہے۔ ہم اﷲ تعالیٰ کے حضور تو اپیل دائر کر ہی چکے ہیں اب جو ہو گا سہتے رہیں گے دنیا میں لوگوں پر سختیاں بھی ہوتی ہیں اور نرمیاں بھی ۔جب اﷲ تعالیٰ پر ہمارا توکّل ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ سب بادشاہوں، وائسرائیوں اور گورنروں کے دل اسی کے قبضے میں ہیں تو یقین رکھنا چاہئے کہ وہ خود سے ہی فیصلہ کر دے گا ۔معلوم ہوتا ہے حکومتِ پنجاب کے افسر غلط فہمی میں مبتلاء ہیں اور انہیں معلوم نہیں کہ ضلع گورداسپور کے بعض حکام دشمنی اور بے انصافی اور ظلم کی وجہ سے ہمیں تکلیف پہنچا رہے ہیں ۔ابھی تک وہ یہی سمجھ رہے ہیں کہ حکام انصاف کرتے ہیںاور ہم شورش کر رہے ہیں اس لئے جس قدر مؤدب الفاظ میں ممکن تھا اور جس قدر نرم الفاظ میں بات کہی جا سکتی تھی میں نے کہہ دی ہے اس لئے مجھ سے کسی کو یہ شکوہ نہیں ہو سکتا کہ میں نے سخت کلامی کی ہے اور اسے یا اس کے افسروں کو بُرا بھلا کہا ہے باقی یہ واقعہ اپنی ذات میں اس قسم کا ہے کہ دنیا کی کسی اور قوم سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اس پر ان الفاظ میں اظہارِ خیال کرے گی جن میںمَیں نے کہا ہے ۔میں نے مجسٹریٹ سے بھی الزام دور کرنے کی کوشش کی ہے اور کہا ہے کہ شاید اُسے غلط فہمی ہوئی ہو۔اس کے بعد میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اپنی اصلاح کریں خدا تعالیٰ چاہتا ہے ہماری اصلاح ہو۔ تم دنیا کی طرف نگاہیں اُٹھانا چھوڑ دو میں نے بے شک حکومت سے اپیل کی ہے مگر اس لئے نہیں کہ اس کے ساتھ میری امیدیں وابستہ ہیں بلکہ صرف اس لئے کہ میں سمجھتا ہوں شریف انسان پر جب حق کھل جائے تو وہ ظلم کے خلاف آواز اُٹھاتا ہے اور پولیٹیکل قوموں میں سے انگریز خصوصیت کے ساتھ ظلم کو برداشت نہیں کر سکتااس لئے میں نے تو توجہ دلا دی ہے مگر میری سب امیدیں اﷲ تعالیٰ سے وابستہ ہیں ۔حاکم اگر انصاف نہ کریں تب بھی مجھے یقین ہے کہ ہمارے ساتھ انصاف ضرور ہو گا ۔ہاں اگر حاکم کریں گے تو وہ مظلوم کی مدد کے ثواب میں شریک ہوں گے اس لئے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی امید گاہ صرف اﷲ تعالیٰ کو بناؤ اپنے اندر نیکی اور تقویٰ پیدا کرو خدا تعالیٰ توحید سکھاتا ہے اور تم بھی روز لَااِلٰہَ کہتے ہومگر یہ آسان کام نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بارہا فرمایا کرتے تھے کہ جو منگے سو مر رہے جو مرے سو منگن جائے ۔یہ کسی پُرانے بزرگ کا قول ہے یعنی جو مانگتا ہے وہ مر جاتا ہے اور مرے بغیر کوئی مانگنے کے لئے نہیں جا سکتا آپ فرمایا کرتے تھے کہ جب تک انسان مرے نہیں اﷲ تعالیٰ کے پاس بھی اس کی دعا قبول نہیں ہو سکتی اسی طرح توحید بھی ایسا مسئلہ ہے کہ موت کے بغیر قائم نہیں ہو سکتا ۔زید جو دعا کرتا ہے جب تک اس کا اپنا وجود موجود ہے وہ موحدّ نہیں کہلا سکتا ۔تمہارا دعا کرنا ہی ثابت کرتا ہے کہ تم مشرک ہو اگر تم نے کامل توحید کو پا لیا ہوتا تو ’’مَیں ‘‘کہاں رہ سکتی تھی جب تک مانگنے والا اور جس سے مانگنا ہے ایک نہیں ہو جاتے اُس وقت تک توحید قائم نہیں ہو سکتی ۔پس نفس کو مارو کہ یہ’’ مَیں‘‘ مٹ جائے۔ تم کہو گے کہ یہ کیسی جہالت کی تعلیم ہے خدا تعالیٰ نے دعا کرنے کا حکم دیا ہے، رسول کریم ﷺ نے تاکید کی ہے، حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اس پر زور دیتے رہے جو امام الزمان تھے مگر میں کہوں گا کہ تم نے ان سب کے احکام کا مطلب ہی نہیں سمجھا ۔دعائیں دو قسم کی ہوتی ہیں ایک تو یہ کہ اے خدا! مجھے فلاں بات کی حاجت ہے مجھے دے۔ یہ شرک ہے دعا سے پہلا مقام موت ہے یعنی انسان اپنے آپ کو خدا کے آستانہ پر گرا دے اور کہے کہ اے خدا! میں راضی ہوں جہاں تو رکھنا چاہے وہیں رہنا پسند کروں گا اگر تو مارنا چاہتا ہے تو مروں گا، اگر غرق کرنا چاہتا ہے تو غرق ہونا ہی منظور ہے ،میں اپنی طرف سے تجھ سے کچھ نہیں مانگوں گا تب اسے خدا کی آواز آئے گی کہ تومر گیا اب میں تجھے زندہ کرتا ہوں اور کہتا ہوں مجھ سے مانگ اوروہ جو کہا گیا ہے کہ دعا مانگو وہ اس مقام کے بعد کہا گیا ہے۔ تم جو دعائیں مانگتے ہو ان کے متعلق خیال کرتے ہو کہ فلاں قبول نہیں ہوئی حالانکہ اگر خدا کے کہنے کے مطابق دعا مانگتے تو قبول یا عدمِ قبول کا سوال ہی تمہارے لئے پیدا نہ ہو سکتا۔ جب تم شکوہ کرتے ہو کہ فلاں دعا ہماری قبول نہیں ہوئی تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ تم اپنے وجود کو قائم سمجھتے ہو حالانکہ اگر خدا کے کہنے پر دعا مانگی جائے تو قبول نہ ہونے کا شکوہ کیسا۔ کوئی شخص کہتا ہے الٰہی !میرے گھر بیٹا ہو اور اگر وہ یہ دعا خدا کے حکم کی تعمیل کے لئے کرتا ہے تو نہ ہونے کی صورت میں اسے کیا۔ اور اگر اپنے لئے دعا مانگتا ہے تو توحید کہاں ہوئی۔ قرآن کریم نے دعا سکھائی ہے کہ رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَ اَنْتَ خَیْرُا لْوَارِثِیْنَ ۳؎ اور جو شخص اس دعا کے مطابق بیٹا مانگتا ہے یہ سوال اس کے لئے پیدا ہی نہیں ہو سکتا کہ قبول ہوئی یا نہیں ہوئی۔ مگر تم جو دعائیں کرتے ہو وہ سودا کرتے ہو اور سودا غیر سے ہوتا ہے اس صور ت میں توحید باقی نہیں رہ سکتی ایک بزرگ کا واقعہ میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ ان کا ایک مرید ان کے پاس آیا وہ بزرگ تہجد کے وقت اُٹھے اور دعا میں مشغول ہو گئے انہیں الہام ہؤا جو مرید نے بھی سنا کہ تو بے شک کتے کی طرح بھونکتا رہ تیری دعا نہیں سنی جائے گی۔ مرید نے دل میں کہا کہ یہ اچھے پیر ہیں جنہیں ایسی ڈانٹ پڑی ہے لیکن ادب تھا خاموش رہا، دوسرے دن پھر ایسا ہی ہؤا مرید نے کہا یہ عجیب آدمی ہے کوئی بھلا مانس ہوتا تو دوبارہ نام نہ لیتا ،تیسرے دن پھر دعا کرنے کے لئے اُٹھے تو مرید نے پکڑ لیا کہ کچھ شرم کرو جانے بھی دو دوروز سے ایسی جھاڑ پڑتی ہے اور پھر آج وہی کام کرنے لگے ہو۔ پیر صاحب نے کہا کہ تم جا کر آرام سے بیٹھو تم دو دن میں ہی گھبرا گئے اور میں بیس سال سے یہ آواز سن رہا ہوں اور نہیں گھبرایا۔ اُس دن انہوں نے پھر دعا کی اور الہام ہؤا کہ جا ہم نے تیری بیس سال کی سب دعائیں سن لیں کیونکہ تو امتحان میں پکّا نکلا ۔مرید نے پوچھا کہ یہ کیا ہؤا؟ پیر نے کہا خدا نے تجھے تیرا ایمان اور مجھے میرا ایمان بتا دیا ہے ۔خدا نے مجھے مانگنے کو کہا ہے اس لئے میں مانگتا ہوں ،میں بندہ ہوں میرا کام مانگنا ہے وہ آقا ہے اُس کاکام ماننا یا نہ ماننا ہے یہ توحید والی دعا تھی جو اِس واسطے نہیں کی جاتی کہ خدا سنتا ہے یا نہیں بلکہ اس لئے کی جاتی ہے کہ خدا کا حکم ہے پس توحیدِ کامل سیکھو اور اﷲ تعالیٰ سے کامل امید رکھو، بندوں سے تمام امیدوں کو توڑ دو یہ یقین رکھو کہ انسان کو اﷲ تعالیٰ نے جو نیکی اور شرافت دی ہے وہ آخر غالب آتی ہے ۔دیکھو! دنیا میں سب کچھ تھا قرآن ،حدیث، مسلمان اور پھر ان میں صوفی، اہلِ حدیث ،اہلِ قرآن سب موجود تھے ظاہری بادشاہ،امیر،فقیر سب موجودتھے تاجر،سیاست دان، مدبّر سب یہاں بستے تھے پھر وہ کونسی چیز تھی جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبعوث کئے گئے دنیا میں سب کچھ تھا مگر توحید نہ تھی اﷲ تعالیٰ نے تم کو کھڑا کیا اسی لئے کہ تم توحید خالص دنیا میں قائم کرو۔پس خدا کو ایک سمجھو انسانوں کا رُعب دل سے نکال دو، بندوں سے امیدیں منقطع کر دو اور خدا کے آگے گر جاؤ کہ وہی ہے جو دعائیں سنتا ہے یہ خیال بھی دل میں نہ لاؤ کہ خدا ہماری دعاؤں کو نہیں سنتا ۔وہ بادشاہ ہے اور کون ہے جو بادشاہ سے کہہ سکے کہ میری درخواست کیوں منظور نہیں کی گئی۔ بادشاہ تو بڑی چیز ہے کسی گورنر بلکہ ڈپٹی کمشنر اور تحصیلدار تک کا دامن کوئی نہیں پکڑ سکتا کہ میری درخواست منظور کیوں نہیں کی گئی پس تم ایسے کہاں کے تیس مار خاں ہو کہ خدا سے کسی دعا قبول نہ کرنے کا شکوہ کرتے ہو۔ وہ بادشاہ ہے جو چاہے سنے جو چاہے نہ سنے تمہارا کام مانگنا ہے سو تم مانگتے جاؤ ۔ یہ تمہاری عبادت ہے اور جب تک یہ مقام حاصل نہ کرو تمہاری دعائیں نہیں سنی جائیں گی خدا تعالیٰ صرف موحدّ کی دعائیں سنتا ہے بے شک دعائیں کرتے کرتے دس بیس سو سال گزر جائیں بے شک موت تک تمہاری ایک دعا بھی نہ سنی جائے تب بھی تمہارا فرض ہے کہ خدا سے مانگتے جاؤ۔ لوگ آئیں اور روپیہ سے تمہارا دامن بھر جائیں، آئیں اور تم سے علوم سیکھتے جائیں مگر خدا تمہاری ہر دعا کو ردّ کرتا جائے اور پھر بھی تم یہ سمجھو کہ جو کچھ مل رہا ہے یہ خدا ہی دے رہا ہے اور خوب یاد رکھو کہ موحدّ نہیں مرتا جب تک کہ خداتعالیٰ کی طرف سے یہ آواز نہ سن لے کہ میں نے تیری سن لی۔ مجھے اس پر یقین ہے اور ایسا یقین کہ *** کی وعید کے ساتھ قسم کھا سکتا ہوں کہ ملائکہ کی مجال نہیں کہ کسی موحدّ کی جان نکال لیں جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے اُس کے کان میں یہ آواز نہ پڑے کہ مَیں نے تیری دعا سن لی ہے۔ سچے موحدّ کی موت پر تو عرش بھی کانپ اُٹھتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ تم موحدّ بنو اور توحید پر قائم ہو جاؤ ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے خُذُوا التَّوْحِیْدَ خُذُواالتَّوْحِیْدَ یَا اَبْنَائَ الْفَارِسْ۴؎ اس میں اوّل آپ کی جسمانی اولاد مخاطب ہے اور پھر روحانی اور اس میں بتایا گیا ہے کہ توحید کو ہاتھ سے نہ جانے دو۔ پس تم نیکی اور تقویٰ اختیار کرو، نیک نمونہ دکھاؤ مت ڈرو اس بات سے کہ کوئی کیا کہتا ہے صرف یہ دیکھو کہ خدا کیا کہتا ہے۔ اگر تم دنیا کے سامنے سچے اور خدا کے سامنے جھوٹے ہو، دنیا کے سامنے امین اور خدا کے نزدیک چور ہو تو اِس صورت میں تمہارے اندر توحید کا ایک ذرّہ بھی نہیں ہو سکتا۔ پس اپنے نفسوں کو قربان کرو تا صرف خدا کی ذات باقی رہے تب تم حقیقی نور پا سکو گے ۔چھوڑ دو اِس خیال کو کہ افسر کیا کرتے ہیں خدا سے اپیل کرو اور اپنے کام میں لگ جاؤ ۔کتنا عرصہ ہؤا کہ مجھے خدا نے بتایا تھا کہ مشکلات اور مصائب آئیں گے مگر تم’’ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ‘‘’’خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ‘‘ کہتے ہوئے آگے بڑھتے جاؤ اور میں وہی پیغام آپ لوگوں تک پہنچاتا ہوں تم اپنے نفسوں کی بھی اور دنیا کی بھی اصلاح میں لگے رہو کوئی مارے کوئی گالیاں دے لیکن تم یہ کہتے ہوئے اپنے کام میں لگے رہوکہ :
’’ایں ہم اندرعاشقی غم ہائے بالائے دگر‘‘
(الفضل ۱۲ ؍ اپریل ۱۹۳۵ئ)
۱؎ الزمر:۷ ۲؎ البقرۃ:۱۵۷ ۳؎ الانبیائ:۹۰
۴؎ تذکرہ صفحہ ۵۲۔ ایڈیشن چہارم






۱۵
ان قربانیوں کے لئے تیار ہو جاؤ جو خدا تعالیٰ ہم سے
چاہتا ہے
(فرمودہ ۱۲ ؍اپریل ۱۹۳۵ئ)
تشہّد، تعوّذ اورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :
میرا پچھلا خطبہ وقت کی تنگی کی وجہ سے نامکمل رہ گیا تھا اور میرا ارادہ تھا کہ خدا توفیق دے تو دوسرے جمعہ میں اسے مکمل کر دوں گا لیکن اس عرصہ میں چونکہ مجھے یہ معلوم ہؤا ہے کہ حکومت کے نزدیک بھی وہ احکام جو ہمارے بچوں کو ملتے رہے ہیں غلط ہیں اس لئے میں سمجھتا ہوں اب اس کے متعلق کچھ کہنا بے فائدہ ہو گا جو غرض تھی وہ پوری ہو چکی ہے ۔
اس کے بعد میں یہ بات کہنی چاہتا ہوں کہ جیسا کہ میں نے جماعت کو توجہ دلائی تھی کہ ان میں سے ایک حصہ حیران ہے ،وجہ کیا ہے کہ ایک آواز اُٹھتی ہے گورداسپور سے اس کی گونج پیدا ہو کر لاہور جا پہنچتی ہے مگر پھر بھی صدا بصحرا کا معاملہ رہتا ہے ۔میں نے اشارۃً اس طرف توجہ دلائی تھی کہ انسانی فطرت پاکیزہ ہے اور جب تک یقینی طور پر یہ معلوم نہ ہو جائے کہ کوئی شخص بد دیانتی کر رہا ہے اس کے متعلق حسنِ ظنی سے ہی کام لینا چاہئے پھر اس امر کے لئے بھی یقین کی وجوہ ہمارے پاس موجود ہیں کہ انگریز حکام کے لئے بد دیانتی کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔انگریزوں کو ہمارے جھگڑوں میں کوئی دخل نہیں اور بددیانتی انسان کسی وجہ سے ہی کر سکتا ہے کسی انگریز کو کسی خاص احمدی سے کوئی بغض یا عداوت ہو توہو ورنہ انہیں ہمارے جھگڑوں سے کیا واسطہ ہے۔پس سوائے خاص حالت کے ہمارا فرض ہے کہ حسنِ ظنّی سے کام لیں۔اکثر واقعات جو ضلع گورداسپور میں ہوتے ہیں ان کی طرف اگر بالا افسر توجہ نہیں کرتے تو اس کی یہ وجہ نہیں کہ وہ ہمیں دکھ دینا چاہتے ہیں بلکہ یہ ہے کہ ان پر حقیقتِ حال ظاہر نہیں ہوئی۔فطرتی طور پر انسان اپنے ساتھ کام کرنے والوں کی بات زیادہ مانتا ہے ۔دو بچے آپس میں لڑتے ہیں اور روتے ہوئے اپنی اپنی ماں کے پاس جاتے ہیں ہر ایک کی ماں اپنے بچے کو گلے سے چمٹا لیتی ہے اور دوسرے کے بچے کے متعلق کہتی ہے کہ وہ بڑا نالائق ہے کئی دفعہ سمجھایا ہے کہ دوسرے بچوں کو نہ مارا کرے مگر وہ باز نہیں آتا۔تو یہ فطرتی بات ہے کہ انسان پر پہلا اثر پاس رہنے والوں کا ہوتا ہے جب ایک احمدی ہمارے سامنے آ کر ایک بات کہے تو ہم ضروری طور پر اسے درست سمجھیں گے سوائے اس کے کہ بات کرنے والے کا جھوٹ ظاہر ہو چکا ہو اور جب ہمارے لئے یہ ایک فطرتی بات ہے توحکومت کے متعلق بھی ہمیں ایسا ہی سمجھنا چاہئے ۔حکومت کے لئے بھی یہ طبعی امر ہے کہ وہ سپاہی، مجسٹریٹ یا ڈپٹی کمشنر کی رپورٹ کو سچا سمجھے ،ایسا کرنا انسان کا ایک طبعی مَیلان ہے اور فطرت کا ایک ایسا تقاضا ہے جس کا شکار قریباً ہر انسان کو ہونا پڑتا ہے ۔دنیا میں بہت کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اس اثر سے بالا ہوتے ہیں ورنہ باِلعموم سب اس اثر کے ماتحت ہوتے ہیں اور گورنمنٹ بھی اس سے بالا نہیں ہو سکتی اس لئے جب تک اس کے خلاف کوئی قطعی ثبوت نہ ہو ہمیں یہی سمجھنا چاہئے کہ حکومت کے بالا افسر بھی اس انسانی کمزوری کا شکار ہیں جس کا ہم بھی ہوتے ہیںاور شرارت سے ہمیں نقصان نہیں پہنچا رہے۔
اگر کوئی احمدی میرے سامنے آ کر کوئی بات کہے تو میں اسے سچ سمجھ لوں گاہاں اگر بعد میں وہ جھوٹ ثابت ہو جائے تو یہ اور بات ہے اور جو اثر ہم اپنی طبیعتوں پر محسوس کرتے ہیں وہی دوسروں کے متعلق سمجھنا چاہئے۔
شکایت کا موقع اُس وقت ہوتا ہے جب حق کھل جائے اور پھر بھی ضدّ کی جائے ورنہ یہ انسان کا طبعی تقاضا ہے کہ وہ اپنے ساتھ کام کرنیوالوں کی بات زیادہ مانتا ہے ۔مجھے اپنی اس کمزوری کا اعتراف ہے کہ باوجود انصاف کی پوری خواہش کے سوائے قضا ء کے وقت کے کہ اُس وقت میں بالکل خالی الذہن ہوتا ہوں،اگر دو شخص آ کر میرے پاس کوئی روایت کریں ایک احمدی اور دوسرا غیر احمدی تو میں احمدی کی بات کو ضرور سچ مانوں گا اور اسے زیادہ وزن دوں گا اس کی وجہ چاہے یہ سمجھ لو کہ میں ہمیشہ سچ کی تعلیم دیتا ہوں اور اس وجہ سے احمدیوں سے اسی کے مطابق عمل کرنے کی امید رکھتا ہوں ۔یا یہ کہ مجھے احمدیوں کے ساتھ دوسروں سے زیادہ اُلفت ہے ۔اور یا یہ کہ اس احمدی کے ساتھ مجھے کام کرنے کا موقع مل چکا ہو اور اس طرح معلوم ہو چکا ہو کہ اس کے اندر سچائی زیادہ ہے۔بہر حال وجہ خواہ کچھ ہو یہ قدرتی بات ہے کہ میں احمدی کو زیادہ سچا سمجھوں گا سوائے اس کے کہ مَیںقاضی کی حیثیت میں بیٹھا ہوں ۔یا اس احمدی کے کیریکٹر کی کمزوری اور غیر احمدی کی راست گفتاری کا مجھے پہلے سے تجربہ ہو چکا ہو۔ہندوؤں ،سکھوں، عیسائیوں ، غیر احمدیوں غرضیکہ سب قوموں میں سچ بولنے والے لوگ ہوتے ہیں اور احمدیوں میں بھی بعض ایسے کمزور ہو سکتے ہیں جو کسی وقت جھوٹ بول دیں۔
پس اس کمزوری کو جو سب انسانوں میں پائی جاتی ہے حکومت کے معاملہ میں ہم نظر انداز نہیں کر سکتے اور اتنی ڈھیل ہمیں دینی پڑے گی جب تک کہ یقین نہ ہوجائے کہ عمداً بد دیانتی کی جارہی ہے ۔عام حالات میں یہ سمجھنا پڑے گا کہ جو حال ہمارا ہے وہی حکومت کا بھی ہو سکتا ہے۔
پس ان حالات میں جو اصل علاج ہے وہ یہی ہے کہ ہم اﷲ تعالیٰ کی طرف زیادہ توجہ کریں دلوں کا حال سوائے اﷲ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا جسے میں سچا سمجھتا ہوں بالکل ممکن ہے اس نے بیس دفعہ سچ بولا ہو اور اکیسویں دفعہ جھوٹ بول دے اور حکومت جسے سچا سمجھتی ہے اور جس کا سچا ہونا بیس دفعہ اس پر ظاہر ہو چکا ہے ہو سکتا ہے کہ وہ اکیسویں بار جھوٹ بول دے اور اس وجہ سے چونکہ کسی بات کو یقینی اور قطعی نہیں کہہ سکتے اس لئے جن حکومتوں کی بنیاد سیاسیات پر ہوتی ہے ان کے لئے بہت سی دقتیں ہوتی ہیں جن کا اندازہ ہم نہیں کر سکتے پس حقیقی کامیابی کا رستہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہی مل سکتا ہے ۔ آج سے بائیس سال قبل غالباً اگست یا ستمبر کا مہینہ تھا جب میں شملہ گیا ہؤا تھا تو میں نے رؤیا دیکھا کہ میں ایک پہاڑی سے دوسری پہاڑی پر جانا چاہتا ہوں ۔ایک فرشتہ آیا اور مجھ سے کہنے لگا کہ تمہیں پتہ ہے یہ رستہ بڑا خطرناک ہے اس میں بڑے مصائب اور ڈراؤنے نظارے ہیں ایسا نہ ہو تم ان سے متأثر ہو جاؤ اور منزل پر پہنچنے سے رہ جاؤ اور پھر کہا کہ میں تمہیں ایسا طریق بتاؤں جس سے تم محفوظ رہو میں نے کہا ہاں بتاؤ۔ اس پر اس نے کہا کہ بہت سے بھیانک نظارے ہوں گے مگر تم اِدھر اُدھر نہ دیکھنا اور نہ ان کی طرف متوجہ ہونا بلکہ تم’’ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ‘‘ کہتے ہوئے سیدھے چلے جانا ان کی غرض یہ ہو گی کہ تم ان کی طرف متوجہ ہو جاؤ اور اگر تم ان کی طرف متوجہ ہو گئے تو اپنے مقصد کے حصول میں ناکام رہ جاؤ گے اس لئے اپنے کام میں لگ جاؤ ۔چنانچہ میں جب چلا تو میں نے دیکھا کہ نہایت اندھیرا اور گھنا جنگل تھا اور ڈر اور خوف کے بہت سے سامان جمع تھے اور جنگل بالکل سنسان تھا ۔ جب میں ایک خاص مقام پر پہنچا جو بہت ہی بھیا نک تھا تو بعض لوگ آئے اور مجھے تنگ کرنا شروع کیا تب مجھے معاً خیال آیا کہ فرشتہ نے مجھے کہا تھا کہ’’ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ‘‘کہتے ہوئے چلے جانا اس پر میں نے ذرا بلند آواز سے یہ فقرہ کہنا شروع کیا اور وہ لوگ چلے گئے۔ اس کے بعد پھر پہلے سے بھی زیادہ خطرناک راستہ آیا اور پہلے سے بھی زیادہ بھیانک شکلیں نظر آنے لگیں حتّٰی کہ بعض سر کٹے ہوئے جن کے ساتھ دھڑ نہ تھے ہوا میں معلّق میرے سامنے آتے اور طرح طرح کی شکلیں بناتے اور منہ چڑاتے اور چھیڑتے ۔مجھے غصہ آتا لیکن معاً فرشتہ کی نصیحت یاد آ جاتی اور میں پہلے سے بھی بلند آواز سے ’’خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ‘‘ کہنے لگتا اور پھر وہ نظارہ بدل جاتا یہاں تک کہ سب بلائیں دور ہو گئیں اور میں منزلِ مقصود پر خیریت سے پہنچ گیا ۔یہ رؤیا میں نے ۱۹۱۳ء کے اگست یا ستمبر میں بمقام شملہ دیکھا تھا ۔
اور شملہ میں یہ خواب دیکھنے کا شاید یہ بھی مطلب ہو کہ حکومت کے بعض ارکان کی طرف سے بھی ہماری مخالفت ہو گی ۔اس رؤیا کو آج کچھ ماہ کم بائیس سال ہو گئے ہیںاسی دن سے جب میں کوئی مضمون لکھتا ہوں تو اس کے اوپر’’ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ‘‘ ضرور لکھتا ہوں ۔تو اﷲ تعالیٰ نے ہم کو بتایا ہے کہ تمہار ے سامنے ایک مقصد ہے اسے پورا کرو ۔دشمن پورا زور لگائیں گے کہ تم دوسرے کاموں کی طرف متوجہ ہو جاؤ لیکن اگر ہم ایسا کریں تو ہمارا جو اصل کام ہے وہ نہیں ہو سکے گا ۔اگر ہم لڑائیاں کرنے لگیں، مقدمہ بازیاں کریں تو تبلیغ کس طرح کر سکیں گے ۔ایک اُٹھتا ہے اور گالیاں دینے لگتا ہے اور ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ میرا مقصد یہ ہے کہ آؤ اور مجھ پر مقدمہ کرو ،پھر دوسرا اُٹھتا ہے اور اسی طرح کرنے لگتا ہے اگر میں ایسا کرنے لگ جاؤںتو پھر میرا جو کام ہے وہ کون کرے گا ان کی تو غرض ہی یہی ہے مگر ہمارا فرض یہ ہے کہ وہ بے شک گالیاں دیں، منہ چڑائیں مگر ہم اپنا کام کرتے جائیں ۔وہ ہمیں بے شک دنیا کی نظروں سے گرانے کی کوشش کریں لیکن اگر ہم اس رستہ پر چلتے جائیں جو کامیابی کا رستہ ہے تو ان کے چڑانے کا کیا نتیجہ ہو سکتا ہے ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے کہ لَا نُبْقِیْ لَکَ مِنَ الْمُخْزِیَاتِ ذِکْرًا۔۱؎ یعنی جو گالیاں دی جا رہی ہیں ہم ان کا ذکر بھی نہیں رہنے دیں گے اس کا یہی مفہوم معلوم ہوتا ہے کہ جب ساری دنیا تعریف کرنے لگ جائے گی تو گالیاں خود بخود بند ہو جائیں گی ورنہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کاغذی گالیاں باقی نہ رہیں گی وہ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود ہی نقل کر دی ہیں۔اس کا مطلب یہی ہے کہ گالیاں دینے والوں کی اولادیں تعریف کرنے لگ جائیں گی اور کہیں گی کہ ہمارے بڑے ایسے بیوقوف تھے کہ خدا تعالیٰ کے برگزیدہ کو گالیاں دیتے تھے۔پس اس میں اسی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ اے ہمارے مسیح! تُو اپنے کام میں لگا رہ اور ان گالیوں کی طرف توجہ نہ کر کہ ان کو ہٹانا ہمارا ہی کام ہے اس لئے میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے مقصد کو نہ بھولے بلکہ ایک لحاظ سے تو ہمیں ان مخالفوں کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ ان کے ذریعہ ہمارے اندر بیداری پیدا ہو گئی مؤمنوں کو غفلت سے جگانے کے لئے کبھی اﷲ تعالیٰ دشمن سے بھی کام لے لیتا ہے ۔حضرت معاویہ کے متعلق آتا ہے کہ ایک دفعہ شیطان انہیں نماز کیلئے جگانے آیا ،واقعہ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ ایک دفعہ ان کی آنکھ نہ کھلی اور صبح کی نماز باجماعت سے رہ گئے یا نماز کا وقت گزر گیا اور وہ سوئے رہے ،اس کا انہیں اتنا صدمہ ہؤا کہ سارا دن روتے رہے اور سارا دن سخت کرب میں گزرا۔دوسری رات وہ سوئے تو دیکھا کہ کوئی جگا رہا ہے وہ اُٹھے کشفی نظارہ تھا ،کوئی کہہ رہا تھا کہ اُٹھو نماز پڑھو ۔جگانے والے سے پوچھا کہ تُو کون ہے ؟تو اس نے کہا مَیں ابلیس ہوں ۔آپ نے کہا کہ تیرا کام تو نماز سے روکنا ہے پھر تُونماز کے لئے کس طرح جگا رہا ہے۔اس نے کہا بے شک میرا کام تو روکنا ہی ہے مگر کل جو آپ کی نماز رہ گئی تو آپ اس قدر روئے کہ اﷲ تعالیٰ نے کہا دیکھو! میرے بندے کو کتنا صدمہ نماز چھوٹ جانے کا ہے اسے سو نماز کا ثواب دیا جائے اس لئے میں نے سوچا کہ اگر آج بھی سوئے رہے تو سو نماز کا ثواب لے جاؤ گے اور میرا کام ثواب سے محروم رکھنا ہے اس لئے جگاتا ہوں کہ ایک کاہی ثواب حاصل کر سکو اور سو کا نہ پا سکو تو کبھی انسان کو مخالف کی طرف سے بھی نیکی کی تحریک ہو جاتی ہے اگرچہ وہ تو مخالفت نقصان پہنچانے کے لئے ہی کرتا ہے مگر اس میں مؤمن کا فائدہ ہو جاتا ہے ایک مدت سے میری خواہش تھی کہ جماعت کو اس روش پر چلاؤں جوصحابہ کی تھی اور ان کو سادہ زندگی کی عادت ڈالوں ،مغربی تمدن کے اثرات اور ایشیائی تمدن کے گندے اثرات سے بھی ان کو علیحدہ رکھوں مگر کوئی ایسی صورت نہ نکلتی تھی ۔کبھی میں یہ سکیم بناتا تھا کہ ایک بورڈنگ بناؤں ،کبھی انصاراﷲ قائم کرنے کی تجویز کرتا تھا مگر ان میں سے کوئی تجویز دل کو نہ لگتی تھی تب اﷲ تعالیٰ نے جماعت کو ایسا دھکا لگایا کہ میں نے سمجھا اِس وقت میں جو کچھ کہوں گا سب مان لیں گے پس یہ اﷲ تعالیٰ نے اس مخالفت سے ہمیں کتنا بڑا فائدہ پہنچایا ہے کہ مغربی اثرات بلکہ ان مشرقی اثرات سے بھی جو مسلمانوں کی کمزوری کے زمانہ میں ان کے اندر پیدا ہو گئے تھے ہمیں بچا لیا ۔ہماری جماعت کے ۹۷، ۹۸ فیصدی لوگ ایسے ہیں کہ انہوں نے اپنی طرزِ زندگی کو بدل کر سادہ غذاء اور سادہ لباس اور سادہ زندگی اختیار کر لی ہے ۔اگرچہ یہ ابھی ابتدائی قدم ہے مگر دھکّے کون سے ختم ہو گئے ہیں ۔اﷲ تعالیٰ نے ہمیں ایک رستہ بتا دیا ہے جسے ہم بیس سال میںمعلوم نہ کر سکے وہ ایک دم بتا دیا اور ابھی جو کمزوریاں باقی ہیں اور سوشل و تمدنی زندگی میںجو تغیرات ابھی ضروری ہیں ،ان کے لئے اﷲ تعالیٰ اور دھکّے لگا دے گا ۔ایسے دھکّوں کے ساتھ ہمارا امتحان بھی ہو جاتا ہے کہ ہم ان سے کتنا متأثر ہوتے ہیں اور اپنے کام کو کس طرح کرتے ہیں پس یہ بڑے فائدہ کی چیز ہے۔ میں تو جب ماضی پر غور کرتا ہوں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رحمت کا ایک ایسادروازہ ہمارے لئے کھول دیا گیا ہے جس کا شکریہ ہم ادا نہیں کر سکتے۔ہم میں جو امیر غریب کا امتیاز تھا ،بعض لوگ کئی کئی کھانوں کے عادی تھے ،عورتوں میں زیورات،لیس وفیتے،گوٹا کناری کا رواج تھا ،اسے دور کرنے کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی۔میں سوچتا تھا کہ ایک کو روکا جائے تو دوسرا کرے گا اور دوسرے کو منع کیا جائے تو تیسرا کرے گا مگر اﷲ تعالیٰ نے ہمارے لئے ایک ایسا رستہ کھول دیا کہ سب کو بچا لیا ۔گو میں نے اس کے لئے تین سال کی میعاد رکھی ہے مگر جب نیکی کی عادت ہو جائے تو پھر خواہ پابندی اُٹھا بھی دی جائے اس پر عمل رہتا ہے اسی طرح جب دوستوں کو ان باتوں کی عادت ہو جائے گی پھر میں خواہ اس قید کو اُڑا دوں تب بھی وہ کہیں گے کہ یہ ہمارے فائدہ کی بات ہے اسے کیوں چھوڑیں ۔ممکن ہے بعض واپس ہو جائیںاور یوں تو بعض کمزور اب بھی ہوں گے ۔ایسے لوگ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں بھی تھے ،حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں بھی اور اب بھی ہیںایسے لوگوںکو چھوڑ کر باقی جماعت کا بیشتر حصہ ایسا ہے جس نے تغیر پیدا کر لیا ہے اور ایسا صحیح قدم ہم نے اُٹھایا ہے کہ خدا کا فضل ہو تو کامیابی یقینی ہے ۔میں نے بار ہا بتایا ہے کہ جب تک ہم ان اصولوں پر نہیں چلیں گے جن پر پہلے انبیاء کی جماعتیں گامزن ہوئیں ،اس وقت تک کامیابی محال ہے ۔قرآن کریم میں بار بار یہ آیا ہے اور اِس قدر کرات و مرات۲؎ اس کا ذکر ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی سورۃ بھی کم ہی ہو گی جس سے یہ بات نہ نکلتی ہو کہ ہر نبی پہلے نبی کے طریق پر آتا ہے ۔نبیوں کے ماننے والے پہلے ماننے والوں کے طریق پر ہوتے ہیں اور نہ ماننے والے پہلے نہ ماننے والوں کے طریق پر،اور قرآن میں یہ بات اس قدر وضاحت سے بیان ہے کہ جس طرح سورج کا انکار نہیں ہو سکتا اِس کا بھی نہیں ہو سکتا ۔تو انبیاء کی جماعتوں کے دشمنوں کی شرارتوں میں بھی مشابہت ہوتی ہے اسی طرح مؤمنوں کا بھی ایک سا ہی حال ہوتا ہے اور ان اصولوں سے بھٹک کر کامیابی محال ہے جو پہلے انبیاء کے ماننے والوں نے اختیار کئے ہمیں ایک نہ ایک دن اسی طریق پر آنا ضروری تھا جس پر صحابہ چلے اور یہ خدا کا کتنا فضل ہے کہ وہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کی زندگی میں ہی اس طریق پر لے آیا۔ابھی ہم میں سینکڑوں ہزاروں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا اور ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں کی موجودگی میں تغیر بہت محفوظ ہے ۔بعد میں آنے والے ممکن ہے ایسا تغیر کریں جو نقصان کا موجب ہو جائے ۔ان کی نیت تو نیک ہو مگر پھر بھی ایسا قدم اُٹھا بیٹھیں جو فساد کا موجب ہو جائے۔ دیکھو! عیسائیوں میں جب شہوت کازور ہؤا تو ان کے دینی پیشواؤں نے رہبانیت کی تعلیم دینی شروع کر دی۔ قرآن کریم میں انکے متعلق آتا ہے وَرَھْبَانِیَۃَ نِ ابْتَدَعُوْھَا مَا کَتَبْنَا عَلَیْھِمْ اِلَّا ابْتِغَائَ رِضْوَانِ اﷲِ فَمَا رَعَوْھَا حَقَّ رِعَایَتِہَا ۳؎ انہوں نے نیک ارادہ کے ساتھ قوم کو گمراہی اور تباہی میں ڈال دیا ۔اس لئے ہو سکتا تھا کہ بعد میں جو تغیرات ہوتے وہ خطرناک ثابت ہوتے ۔ہم میں ابھی سینکڑوں ہزاروں وہ لوگ ہیں جنہیں اﷲ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت سے مستفیض ہونے کا موقع دیا ،ابھی بہت ہیں جنہوں نے آپ کے ہاتھوں میں پرورش پائی اور آپ سے براہ راست راہنمائی حاصل کی اس لئے ہماری زندگی میں تغیر ہو جانا مناسب تھا ورنہ ابھی بہت سے ابتلاء آنے والے ہیں اور ان کے علاج بھی ہوتے رہیں گے اور اگر یہ تغیر ہماری زندگیوں میں نہ ہوتا تو بہت ممکن تھا کہ بعد میں جو قدم اُٹھایا جاتا وہ غلط ہوتا اور جماعت کیلئے تنزل کا موجب بن جاتا۔ گو یہ کام ابھی ابتدائی حالت میں ہے مگر بہر حال ہم نے رستہ پا لیا ہے ۔
میں اس جگہ یہ بھی ذکر کر دینا چاہتا ہوں کہ میں نے جو سکیم بنائی تھی باوجودیکہ اس پر پانچ ماہ گزر چکے ہیں پھر ابھی تک ہم بجٹ بھی نہیں بنا سکے ۔میں نے جس وقت مطالبات کئے تھے اُس وقت دفتر کا کوئی انتظام میرے ذہن میں بھی نہ تھا ،تبلیغِ ہند کا اس میں کوئی حصہ نہ تھا اور اب معلوم ہو رہا ہے کہ قرآنِ کریم کی طباعت کے لئے روپیہ کو علیحدہ کر کے بجٹ ساٹھ ہزار کا ہو گا اور قرآن کی طباعت کے اخراجات شامل کر کے ستّر ہزار کا اور ظاہر ہے کہ جس کام کے شروع کرنے میں اتنا وقت لگے اُس کے نتائج بھی سالوں میں نکل سکتے ہیں بہر حال یہ شکر ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ہمیں جگا دیا ہے ورنہ ہماری نماز قضاء ہو رہی تھی۔ذرا غور کرو تم پر اﷲ تعالیٰ نے کتنا فضل کیا کہ اپنا مسیح تمہیں دکھایا پھر دنیا پر تمہیں کیا اتنا بھی رحم نہیں آتا کہ مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ ہی اسے دکھا دو۔ پچاس ساٹھ سال بعد یہ صحابہ ہم میں نہ ہو ں گے غور کرو یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ ہم دنیا کو جا کر جب آپ کا پیغام سنائیں اور لوگ پوچھیں کہ وہ کہاں ہیں تو ہم کہہ دیں وہ فوت ہو گئے۔ اور جب وہ پوچھیں کہ کون لوگ ہیں جو آپ کے ہاتھ پر ایمان لائے تھے تو کہہ دیں کہ وہ بھی فوت ہو گئے مجھے یہ واقعہ کبھی نہیں بھولتا میں جب انگلستان میں گیا تو وہاں ایک بوڑھا انگریز نَو مسلم تھا اسے علم تھا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بیٹا اور خلیفہ ہوں مگر پھر بھی وہ نہایت محبت واخلاص سے کہنے لگا کہ میں ایک بات پوچھتا ہوں آپ ٹھیک جواب دیں گے؟ میں نے کہا ہاں۔ وہ کہنے لگا کیا حضرت مسیح موعود نبی تھے میں نے کہا ہاں تو اس نے کہا اچھا مجھے اس سے بڑی خوشی ہوئی ۔پھر کہنے لگا آپ قسم کھا کر بتائیں کہ آپ نے انہیں دیکھا؟ میں نے کہا ہاں میں ان کا بیٹا ہوں ۔اس نے کہا نہیں میرے سوال کا جواب دیں کہ ان کو دیکھا؟ میں نے کہا ہاں دیکھا۔ تو وہ کہنے لگا کہ اچھا میرے ساتھ مصافحہ کریں اور مصافحہ کرنے کے بعد کہا مجھے بڑی ہی خوشی ہوئی کہ میں نے اس ہاتھ کو چھؤا جس نے مسیح موعود کے ہاتھوں کو چھؤا تھا اب تک وہ نظارہ میرے دل پر نقش ہے وہ شخص گزشتہ سال ہی فوت ہؤا ہے اُسے رؤیا اور کشوف بھی ہوتے تھے اور وہ اس پر فخر کرتا تھا کہ اسلام لانے کے بعد اسے یہ انعام ملا ہے۔ تو مجھے اس کی یہ بات کبھی نہیںبُھولتی کہ کیا آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کو دیکھا ہے اور جب میں نے کہا ہاں تو کہا کہ مجھے بڑی ہی خوشی ہوئی ہے میں نے آپ کو دیکھا ہے۔
مجھے اس خیال سے بھی گھبراہٹ ہوتی ہے کہ وہ لاکھوں انسان جو چین ،جاپان، روس، امریکہ، افریقہ اور دنیا کے تمام گوشوں میں آباد ہیں اور جن کے اندر نیکی اور تقویٰ ہے ان کے دلوں میں خدا کی محبت ہے مگر ان کو ابھی وہ نور نہیں ملا کہ ہم ان تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام پہنچائیں اور وہ خوشی سے اُچھلیں اور کہیں کہ ہمیں حضرت مسیح موعود دکھلاؤ اور جب ہم کہیں کہ وہ فوت ہو گئے تو وہ پوچھیں کہ اچھا ان کے شاگرد کہاں ہیں؟ تو ہم انہیں کہیں کہ وہ بھی فوت ہو گئے احمدیوں کایہ جواب سن کر وہ لوگ کیا کہیں گے۔ اگر ایسا ہو تو وہ ہمارے مبلّغوں کو کس حقارت سے دیکھیں گے کہ ان نالائقوں نے ہم تک پیغام پہنچانے میں کس قدر دیر کی ہے تو ہمیں پوری کوشش کرنی چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کی موجودگی میں ہم ساری دنیا میں احمدیت کا پیغام پہنچا دیں تا ہر ایک کہہ سکے کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ سے مصافحہ کیا ہے اور دنیا کے ہر ملک بلکہ ہر صوبہ میں بسنے والے لوگ اور ہر زبان بولنے والے اور ہر مذہب کے پیرو یہ کہہ سکیں کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ میں ہاتھ دینے والوں کے ہاتھ میں ہاتھ دیا ہے۔ یہ اتنی بڑی خوشی ہے کہ اس سے ہمیں دنیا کو محروم نہیں رکھنا چاہئے۔ حضرت مسیح موعود کو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ’’ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے‘‘۴؎ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کپڑوں میں برکت زیادہ ہوتی ہے بلکہ اس میں بتایا ہے کہ جب انسان نہ ملیں گے تو لوگ کپڑوں سے ہی برکت ڈھونڈیں گے ورنہ انسان کے مقابلہ میں کپڑے کی کیا حیثیت ہوتی ہے وہ کپڑا جو جسم کو لگا اُس ہاتھ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھ سکتا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ میں گیا اور وہیں پیوست ہوگیا آپ سے نور اور برکت لی اور آپ کے نور میں اتنا ڈوبا کہ خود نور بن گیا ۔کبھی ممکن نہیں کہ ایسے ہاتھ کوچُھونے سے تو برکت نہ ملے اور کپڑوں کوچُھونے سے ملے ۔کپڑوں سے برکت ڈھونڈنے سے مراد تو حالتِ تنزّل ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب لوگ آپ سے ملنے والوں کو ڈھونڈیں گے اور جب کوئی نہ ملے گا تو کہیں گے اچھا کپڑے ہی سہی اور جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے بتایا ہے ایک وقت آئے گا کہ بادشاہ بھی آپ کے کپڑوں کے لئے ترسیں گے۔ پس براہِ راست حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو چُھونے والے انسان ہمیشہ نہیں رہ سکتے اور ہم سے یہ اتنی بڑی غفلت ہو رہی تھی اﷲ تعالیٰ نے ہمیں جگا دیا۔احرار اور بعض حکام کی مخالفت کوگو ہم بُرا ہی کہیں مگر ہمارے دل کے گوشہ میں یہ بات ضرور ہے اور ہم اسے تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ چاہے نادانستہ ہی کیا ہے مگر کیا تو ان لوگوں نے ہم پر رحم ہی ہے اس لئے اے خدا! تو بھی ان پر رحم کر اور ان کو ہدایت دے دے ۔ہماری جماعت کے سامنے عظیم الشان کام ہے اس کی ذمہ داری بہت بڑی ہے ،موت انسان کے لئے لازمی ہے اور مؤمن موت سے نہیں ڈرتا مگر اس خیال سے ہی ہمارے دل کانپ جانے چاہئیں اور جسموں پر لرزہ طاری ہو جانا چاہئے کہ ہم دنیا کو ہدایت دینے سے پہلے فوت ہو جائیں اور دنیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہاتھ لگانے والوں کو بھی ہاتھ نہ لگا سکے اس لئے ان قربانیوں کے لئے تیار ہو جاؤ جو خدا ہم سے چاہتا ہے ۔اب جو کچھ ہو رہا ہے یہ کچھ بھی نہیں ۔ابھی بہت سے مراحل ہم نے طَے کرنے ہیں ۔پس سستیوں کو چھوڑ دو، غفلتوں کو ترک کر دو ۔بعض لوگ خیال کرلیتے ہیں کہ اس سال ہم نے چندہ دیدیا اب دنیا فتح ہو جائے گی مگر یہ چیزیں کچھ حقیقت نہیں رکھتیں ۔جس طرح دانہ کو کولھو میں ڈال کر پیلا جاتا ہے ،تم جب تک اسی طرح نہ پیلے جاؤ گے اُس وقت تک دنیا میں امن اور دین قائم نہیں ہو سکتا ۔
پس تم مطمئن مت ہو اور ان دُکھوں کو دکھ نہ سمجھو یہ تو صرف ہوشیار کرنے اور بیدار کرنے کے لئے ہیں اصل درد وہ ہے جو دل میں ہوتا ہے۔ دیکھو! جس کے کپڑوں میں آگ لگی ہو وہ کس قدر شور مچاتا ہے پھر جس کے دل میں آگ لگی ہو وہ کس طرح آرام سے بیٹھ سکتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں ایک جہنّم میں ڈالنا چاہتا ہے اور ایسی بڑی جہنّم کہ جس کی مثال کوئی نہیں وہ عشق و محبت اوردنیا کی خیر خواہی کی آگ ہے۔ دیکھو! مجنوں عرب کا ایک معمولی سا رئیس زادہ تھا جس کی حیثیت اِس زمانہ کے معیار کے مطابق شاید دس روپے کی بھی نہ ہو مگر عشق کی وجہ سے اسے ایسی شہرت ہوئی کہ کئی لوگ اس کا ذکر کرتے کرتے خود مجنوں بن جاتے ہیں، فرہاد ایک معمولی لوہار تھا مگر اس عشق کی وجہ سے جو اُسے ایک انسان سے تھا آج بادشاہ بھی شعروں میں اس کا ذکر پڑھتے اور سر دھنتے ہیں۔ پس جس دل میں خدا کی محبت کی آگ ہو اُس کے اندر کتنا سوز ہونا چاہئے ۔اﷲ تعالیٰ نے ہمارے لئے جو جہنّم مقدر کر رکھی ہے وہ محبت کی جہنّم ہے جو شخص اپنے دل میں یہ جہنّم پیدا کر لے اسے خدا ہمیشہ کی جنّت عطا کرتا ہے اور اگر تم یہ سوز اپنے دلوں میں پیدا کر لو گے تو خود ہی قربانیاں کرتے جاؤ گے نہ تحریکِ جدید کی ضرورت ہو گی اور نہ تحریکِ قدیم کی ۔جس کے کپڑوں میں آگ لگی ہو وہ خود بخود دَوڑا پھرتا ہے ۔
پس یہ رنگ پیدا کرو اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو یہ پہلا قدم ہے جو اسی پر ٹھہر جائے گا وہ گر جائے گا ۔تمہارے لئے آرام سے بیٹھنا مقدر نہیں آرام خدا کی گود میں ہی جا کر ملے گا اور اس دھکے کے بعد جو جماعت کو لگا ہے جو سستی کرے گا اﷲ تعالیٰ اسے جماعت سے خارج کر دے گا ۔اب وقت تمہارے لئے بہت نازک ہے اس لئے بہت احتیاط کرو ۔اب تم ایسے مقام پر ہو کہ اس سے پیچھے قدم اُٹھانا ہلاکت کا موجب ہو گااور اس پر ٹھہرنا بھی ہلاکت کا موجب ہو گا پس ’’خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ‘‘ کہتے ہوئے آگے چلتے چلے جاؤ یہاں تک کہ موت تم کو خدا تعالیٰ کی گود میں ڈال دے۔
(الفضل ۱۷؍اپریل ۱۹۳۵ئ)
۱؎ تذکرہ صفحہ ۵۳۸۔ ایڈیشن چہارم
۲؎ کَرَّات و مَرَّات: بار بار۔ متعدد بار
۳؎ الحدید:۲۸
۴؎ تذکرہ صفحہ ۱۰ ۔ایڈیشن چہارم








۱۶
اسلام کا بلند ترین نصب العین دنیا میں کامل مساوات
قائم کرنا ہے
(فرمودہ۱۹؍اپریل ۱۹۳۵ئ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ اور آیات قرآنیہ اَﷲُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ مَثَلُ نُوْرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ فِیْھَا مِصْبَاحٌ اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَۃٍاَلزُّجَاجَۃُ کَاَنَّھَاکَوْکَبٌ دُرِّیٌّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ زَیْتُوْنَۃٍ لَّا شَرْقِیَّۃٍ وَّلَا غَرْبِیَّۃٍ یَّکَادُ زَیْتُھَا یُضِیْئُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌ نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ یَھْدِی اﷲُ لِنُوْرِہٖ مَنْ یَّشَآئُ وَ یَضْرِبُ اﷲُ الْاَمْثَالَ لِلْنَّاسِ وَاﷲُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اﷲُ اَنْ تُرْفَعَ وَ یُذْکَرَ فِیْھَا اسْمُہ‘ یُسَبِّحُ لَہ‘ فِیْھَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ رِجَالٌ لَّا تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلاَ بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اﷲِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوۃِوَ اِیْتَائِ الزَّکٰوۃِ یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ لِیَجْزِیَھُمُ اﷲُ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَ یَزِیْدَھُمْ مِنْ فَضْلِہٖ وَاﷲُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآئُ بِغَیْرِ حِسَابٍ ۱؎ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
چونکہ جمعہ کے بعد مجلس شوریٰ کا اجلاس ہو گا ،اس لئے جمعہ کی نماز کے ساتھ ہی مَیںعصر کی نماز جمع کر کے پڑھا دوں گا ۔یہ چند آیات جو میں نے قرآن کریم کی تلاوت کی ہیں اپنے اندر ایک نہایت ہی وسیع مضمون رکھتی ہیں اور اس کے بہت سے چھوٹے چھوٹے جملے لمبی تفسیر چاہتے ہیں ایسی تفسیر کہ جو اختصار کے ساتھ بھی ایک خطبہ میں بیان نہیں کی جا سکتی اس لئے اگر اﷲ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی تو سورہ جمعہ کی طرح آئندہ خطبات میں تفصیلاً اس کو بیان کردوںگا فی الحال جس غرض کیلئے میں نے یہ آیات پڑھی ہیں وہ یہ ہے کہ انبیاء کی بعثت کا اصل مقصد دنیا میں قومیتوں اور دائروں کو مٹانا ہوتا ہے۔ انبیاء جو نور لے کر دنیا میںآتے ہیں اور جس نور کے ذریعہ وہ دنیا کو روشن کرتے ہیںوہ لَاشَرْقِیَّۃٍ وَّلَا غَرْبِیَّۃٍ ہوتا ہے نہ وہ مشرقی ہوتا ہے نہ مغربی بلکہ وہ آسمانی ہوتا ہے اور اﷲ تعالیٰ کسی خاص جگہ کا نہیں بلکہ اَﷲُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۔وہ مغرب کا ہے نہ مشرق کا ،شمال کا ہے نہ جنوب کا، زمین کا ہے نہ آسمان کا بلکہ آسمان اورزمین کا نور ہے ۔جب تک کسی جماعت میں یہ تعلیم قائم رہتی ہے وہ فاتح،غالب،کامیاب اور کامران رہتی ہے اور جب کوئی جماعت اس تعلیم کو بھول جاتی ہے اس کے اندر تنزل، اختلاف ،انشقاق اور افتراق پیدا ہو جاتا ہے ۔دل تبھی پھٹتے ہیں جب دوئی آ جائے جب ایک مشرق ہو اور ایک مغرب ۔جس کے معنی یہ ہیں کہ دنیا میں دو چیزیں ہوں لیکن جب نہ مشرق ہو نہ مغرب بلکہ اﷲ تعالیٰ ہی انسان کا مقصود ہو جو نُوْرُ السَّمٰوَاتِ وَاْلَارْضِ ہے مغرب میں بھی وہی نور ہے اور مشرق میں بھی ،شمال میں بھی وہی نور ہے اور جنوب میں بھی ،پس جب وہی چیز ہر جگہ ساری و طاری ہو تو پھر یہ جھگڑا کہاں سے پیدا ہو سکتا ہے کہ ہم کون اورتم کون ۔رسول کریم ﷺ جب دنیا میں مبعوث ہوئے ،اس وقت قوموں کے سوال زوروں پر تھے آپ کی بعثت عرب میں ہوئی اور عرب قومیت کے بڑے پابند تھے ۔ان کے اندر یہ پابندی اس حد تک تھی کہ بعض قبائل کے آدمی اگر کسی دوسرے قبیلہ کے کسی شخص کو مار دیتے تو انہیں سزا نہ دی جاتی کیونکہ لوگ کہتے یہ چھوٹے قبیلے کا آدمی تھا اور وہ بڑے قبیلے کا آدمی ہے ۔تو بڑے بڑے قبائل اپنے لئے دوسرے قانون کا تقاضا کرتے اور چھوٹے قبائل اور قانون کا تقاضا کرتے یہاں تک کہ ان کے شودر بھی بالکل کوئی مطالبہ نہ کر سکتے۔ اگر کوئی غلام ماراجاتا تو اس کے بدلے آزاد شخص قتل نہ کیا جا سکتا ۔پھر یہ امتیاز اس حد تک تھا کہ اگر ایک بڑے آدمی کا غلام چھوٹے آدمی کے غلام کو مار دیتا تو پھر بھی فرق کیا جاتا اور کہا جاتا کہ گویا ایک غلام نے غلام کو مارا ہے مگر یہ بھی تو دیکھو کہ کس کے غلام نے کس کے غلام کو مارا۔مارنے والا بڑے آدمی کا غلام ہے اور مارا جانے والا چھوٹے آدمی کا غلام ہے اس صورت میں سزا کس طرح دی جا سکتی ہے ،تو امتیازِ نسل اور امتیازِ مدارج ان میں انتہاء درجہ پر ترقی یافتہ تھا۔رسول کریم ﷺ آئے تو آپ نے یہ امتیاز ایسا مٹایاکہ آج کل باوجود تنزّل کے، باوجود اس کے کہ مسلمانوں نے ہندوؤں اور عیسائیوں سے پھر امتیازات لے لئے ہیں ،آج تک غیر قومیں یہ کہتی ہیں کہ اچھوت اگر کھپ سکتے ہیں تو مسلمانوں میں ہی دوسری قوموں میں نہیں ۔یہ مسلمانوں کی گری ہوئی حالت کی اب تک کیفیت ہے۔ عرب کا ایک قبیلہ تھا بہت زبردست قبیلہ کوئی ساٹھ ہزار آدمی اس میں تھے یہ پُرانے زمانہ میں عیسائی ہو چکے تھے۔حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے زمانہ میں غالباً پھر مسلمان ہوئے ،ان کا ایک سردار جبلہ نامی تھا ،یہ لوگ شام کی سرحد پر رہتے تھے ایک دفعہ جبلہ حج کے لئے یا کسی اور غرض کے لئے عرب میں آیا تو وہ ایک دن پھر رہا تھا کہ کسی اور مسلمان کا پاؤں اس کے ازار یعنی تہ بند پر پڑ گیا جس سے اسے جھٹکا لگا اور وہ ڈھیلا ہو گیا ۔جبلہ نے یہ دیکھا تو اس نے مسلمان کو چپیڑ ماری اور کہا بد تمیز آدمی! تم شریف اور وضیع میں فرق کرنا نہیں جانتے اور دیکھتے نہیں کہ کس کے ازار پر تم نے پاؤں رکھا ۔اس شخص نے تو یہ دیکھ کر کہ یہ کوئی نووارد آدمی ہے ۔خاموشی اختیار کر لی مگر کسی اور شخص نے جبلہ سے کہا کہ تجھ سے ایک ایسی حرکت ہوئی ہے کہ تیری بڑی عزت بھی اس کی سزا سے تجھے نہیں بچا سکتی بہتر یہی ہے کہ تم اس سے معافی مانگو ۔جبلہ نے کہا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ میں معافی مانگوں ۔اسی جوش میں وہ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پاس گیا اور کہا اے بھائی ! میں آپ سے پوچھتاہوں کہ کیا آپ میں چھوٹے بڑے کا لحاظ نہیں ہوتا ۔حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا مسلمان سب برابر ہیں چھوٹے بڑے کا ہم میں کوئی سوال نہیں ۔اس نے پھر پوچھا کہ دنیا میں کوئی چھوٹا ہوتا ہے کوئی بڑا ۔آپ نے پھر فرمایا کہ ہم میں کوئی بڑا چھوٹا نہیں ۔اس نے کہا اگر کوئی چھوٹا آدمی گستاخی کرے اور بڑا اسے مارے تو کیا اس صورت میں بھی آپ لوگوں میں کوئی امتیاز نہیں ۔حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے فرمایاجبلہ کہیں تم نے تو کسی کو نہیں مارا ؟ خدا کی قَسم اگر تم نے کسی کو مارا ہے تو جب تک میں تجھے اس کے بدلہ میں پٹوا نہ لوں گا مجھے چَین نہیں آئے گا اس وقت تو جبلہ وہاں سے بہانہ بنا کر آ گیا مگر واپس آ کر گھوڑے پر سوار ہؤا اور اپنے قبیلہ کی طرف بھاگ گیا اور اپنے تمام قبیلہ سمیت پھر عیسائی ہو گیا مگر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی ۔
غرض اسلام قوموں کے امتیازات کو مٹا دیتا ہے مگر یہ امتیازات بھی قلوب میں کچھ اس طرح داخل ہو چکے ہیں کہ لوگ ان کے مٹنے کو برداشت نہیں کر سکتے حالانکہ اسلام نام ہے ایک نئی زندگی اور نئی پیدائش کا۔گویا ہر انسان جو اسلام لاتا ہے یا احمدیت قبول کرتا ہے وہ اپنے پچھلے جسم پر ایک موت وارد کرتا اور پھر اسلام کے گھر میں پیدا ہوتا ہے ۔وہ چھوڑ دیتا ہے اپنے آباء و اجداد کو ،وہ چھوڑدیتا ہے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کواور سب کچھ ترک کر کے اسلام کے گھر میں جنم لیتا ہے ،اسلام ہی اس کا باپ ہوتا ہے ،اسلام ہی اس کی ماں ہوتی ہے اور تمام کے تمام مسلمان اس کے بھائی اور بہنیں ہوتے ہیں اور ایک ماں باپ کی اولاد میں فرق تھوڑا ہو سکتا ہے ۔انگریزی قوم اپنی فتوحات کی وسعت کے لحاظ سے اپنے آپ کو کتنا بڑا سمجھے لیکن اس میں کیا شبہ ہے کہ جب ایک انگریز احمدی ہوتا ہے تو اس سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنے سارے غرور کو پیچھے چھوڑ کر آئے گا اور اب اپنے آپ کو مسلمانوں کا ایک بھائی سمجھے گا ، ہندوؤں میں سے ایک برہمن جب اسلام لاتا ہے تو اس سے امید کی جاتی ہے کہ وہ آئندہ اپنے آپ کو صرف مسلمان سمجھے گا برہمن نہیں سمجھے گا،اسی طرح کوئی ہندوستانی، افغانی، چینی، جاپانی یا روسی جب اسلام لاتا ہے تو وہ اپنی قومیت کو بھول جاتا ہے یہ نہیں کہ وہ اپنے ملک کی خدمت نہیں کرتا ۔رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْاِیْمَانِ ۲؎ اور اسلام ہمیں نصیحت کرتا ہے کہ اگر تمہارے قریب کے لوگ گندے ہوں تو ان کی زیادہ اصلاح کرو ۔اس لحاظ سے ا گر کوئی جاپانی جاپانیوں کی ،چینی چینیوں کی اور پٹھان پٹھانوں کی اصلاح کرتا ہے تو وہ اسلام کے خلاف نہیں بلکہ اس کے مطابق کرتا ہے لیکن یہ اصلاح اسی حد تک ہو کہ انسان عیوب دور کرے اور قوم کی گری ہوئی حالت کو درست کرے لیکن اگر وہ امتیاز کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ انگریز ہے اور یہ ہندوستانی ، یہ جاپانی ہے اور وہ چینی تو اس کی اسلام اجازت نہیں دیتا ۔ ہماری جماعت میں بھی اﷲ تعالیٰ نے اب اس نور کو قائم کیا ہے جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ آج سے تیرہ سو برس پہلے قائم کیاگیا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اب یہی پیغام لے کر آئے ہیں کہ اپنے آپ کو صرف خدا تعالیٰ کا بندہ سمجھو اور چھوڑ دو ان باتوں کو کہ ہم مدراسی ہیں اور فلاں بنگالی،ہم برمی ہیں اور فلاں پنجابی۔ان چیزوں نے دنیا میں بڑے بڑے تفرقے پیدا کئے ہیں اور جب تک کسی کے دل میں اس قسم کا خیال رہے وہ حقیقتاً مسلمان نہیں ہو سکتا ۔اسلام چاہتا ہے کہ وہ دنیا کو ایک چیز بنا دے اور ان امتیازات کی موجودگی میں ہم ایک چیز بن کس طرح سکتے ہیں۔نا ممکن ہے کہ تم پانی لو اور اس سے مکان تیار کر سکو۔ ممکن نہیں کہ تم اینٹیں کھاؤ اور اس طرح اپنی پیاس بجھا سکو ۔جب کوئی متضاد پروگرام اپنے سامنے ہو تو اس وقت کام کس طرح ہو سکتا ہے ۔یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے دو کشتیوں پر پاؤں رکھا جائے ۔مگر دو کشتیوں پر پاؤں رکھنے والا کام نہیں کیا کرتا بلکہ یا تو وہ غرق ہو جاتا ہے یا چر جاتا ہے ۔اگر ہم بھی اپنے دل میں یہی خیال رکھیں کہ ہم پٹھان ہیں یا ہم عرب ہیں یا ہم انگریز ہیں یا ہم ہندوستانی ہیں یا ہم جرمن ہیں یا چینی ہیں یا ہم جاپانی ہیں تو یقینا اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم کچھ بھی نہیں اور ہم ایسی مخلوق ہیں جس نے نور کو تو دیکھا مگر نور کو دیکھ کر اس کی آنکھیں اندھی ہو گئیں ۔یہی سورج روشنی دیتا ہے اور یہی سورج اندھا بھی کرتا ہے ۔کئی بیوقوف لوگ جب کئی کئی گھنٹے متواتر سورج کی طرف دیکھنا شروع کر دیتے ہیں تو وہ اپنی آنکھوں کو ضائع کر لیتے ہیں۔ پس نور ضروری نہیں کہ روشنی بخشے بلکہ وہ اندھا بھی کر دیا کرتا ہے اس صورت میں ہم سمجھیں گے کہ خدا تعالیٰ کا نور تو آیا اور ہم نے اسے دیکھا مگر وہ ہمیں اندھا کر گیا اور ہم نے اس سے کچھ فائدہ نہ اُٹھایا۔پس اس موقع پر جب کہ آج ہم میں بنگالی بھی موجود ہیں، ساؤتھ انڈیا کے لوگ بھی موجود ہیں ،بمبئی ،یو ۔پی ،بہار ، افغانستان اور پنجاب کے مختلف علاقوں کے لوگ بھی آئے ہوئے ہیں اور یوں بھی ہمارے اندر ہمیشہ سماٹرا اور جاوا وغیرہ کے لوگ رہتے ہیں ،جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ ہمارے اندر سے اس قسم کے امتیازات مٹ جانے چاہئیں ۔ مجھے خصوصیت سے یہ اس لئے خیال پیدا ہؤا ہے کہ بعض تازہ واقعات نے مجھے ادھر متوجہ کر دیا ہے دو صوبے ایسے ہیں جن میں بد قسمتی سے ہمیشہ سے یہ سوال رہتا ہے ،ایک صوبہ بنگال اور دوسرا صوبہ سرحد، میں اس وقت نہ بنگالیوں کو الزام دیتا ہوں اور نہ سرحدیوں پر الزام لگاتا ہوں مجھے اس سے غرض نہیں کہ کون مجرم ہے اور کون نہیںلیکن میں سمجھتا ہوں کہ کسی دل میں جب تک یہ خیال ہو کہ ہم سرحدی ہیں اور ہم پنجابی، اس وقت تک احمدیت اس دل میں جمع نہیں ہو سکتی اور جب کبھی میرے سامنے ایسا سوال آیا ہے میں نے اس کو مٹانے کی کوشش کی ہے ۔ میں تو اپنے آپ کو اﷲ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کبھی پنجابی نہیں سمجھتا اور میں سمجھتا ہوں کہ جب ایک انسان اسلام قبول کرتا ہے اس وقت وہ تمام امتیازات کو مٹا کر اپنے آپ کو صرف مؤمن سمجھتا ہے ۔ہم اس وقت دائرہ سیاست کے لحاظ سے اور اس وجہ سے کہ گورنمنٹ کا قانون ہمیں وسعت نہیں دیتا صرف ہندوستان کی بہتری کی تجاویز سوچتے ہیں ورنہ جس دن احمدیت کا زور چلے گا وہ ان تمام امتیازات کو مٹا دے گی،اس سوال کو کہ ہندوستانی کون ہے اور چینی کون ، جاپانی کون ہے اور جرمن کون ،یہ وہ منزلِ مقصود ہے جس کو پانے کے لئے ہر سچا احمدی کوشش کرتا رہے گا اور اگر ہم اس مقصود کو حاصل نہ کر سکیں تو یہ اس بات کی علامت ہو گی کہ ہم نے اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کی ۔
خدا تعالیٰ کے قانون میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ جب تک کسی قوم کا قدم ترقی پر ہوتا ہے ،اس وقت تک ہر آنے والی رَو اس کی پہلی رَو سے زیادہ تیز ہوتی ہے ۔پہاڑوں پر جاتے ہوئے ہی دیکھ لو پہلے معمولی سی اونچائی دکھائی دیتی ہے ،پھر ٹیلے نظر آتے ہیں یوں جیسے کہ پزاوے۳؎ ہوتے ہیں پھر اور اونچی جگہ آتی ہے پھر اور اونچی جگہ آتی ہے یہاں تک کہ نہایت ہی بلند و بالا پہاڑیوں تک انسان پہنچ جاتا ہے ۔اسی طرح آندھی آتی ہے تو پہلے ایک معمولی جھونکا آتا ہے پھر اس سے بڑا جھونکا آتا ہے اور پھر اس سے بڑا جھونکا آتا ہے یہاں تک کہ اتنے زور کی آندھی آتی ہے کہ وہ چھتوں کو اُڑا کر لے جاتی ہے۔ یہی گرمی کا حال ہے پہلے تھوڑی گرمی ہوتی ہے پھر زیادہ گرمی ہو جاتی ہے اسی طرح سردی ایک دن کم ہوتی ہے ، دوسرے دن اس سے بڑھ کر اور پھر اس سے زیادہ۔اﷲ تعالیٰ کے اس قانون کے ماتحت اسلام کی پہلی رَو چلی تو مسلمانوں نے اس حد تک اس رَو کو پہنچا دیا کہ مساوات دنیا میں قائم کر دی ،اب دوسرا جھونکا احمدیوں کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے چلایا ہے اور ہمارا فرض ہے کہ جو امتیازات کی بنیادیں ابھی باقی ہیں ان کو دنیا سے مٹا دیں ۔
پس ہمارے خیالات ہمیشہ اس نقطۂ نگاہ کے ماتحت رہنے چاہئیں کہ ہم احمدی ہیں یہ نہ ہو کہ ہم سرحدی ہیں اور وہ بنگالی ۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر یہ فطرتی بات ہوتی تو ہمارے اندر کیوں نہ ہوتی۔ افغانستان کے آدمی یہاں آتے ہیں ،مدراس کے آدمی یہاں آتے ہیں ، بنگالی یہاں آتے ہیں مگر کبھی ایک سیکنڈ کے لئے مجھے یہ خیال نہیں آیا کہ یہ اور ہیں اور ہم اور، اور ہمیں چونکہ یہ بتانا پڑتا ہے کہ فلاں شخص کہاں سے آیا ،اس لئے ہم کہتے ہیں کہ فلاں سرحدی ہے اور فلاں بنگالی ۔ورنہ ہمیں نہ تو بنگالیوں میں بنگالیت نظر آتی ہے اور نہ پنجابیوں میں پنجابیت بلکہ ہمیں تو ہر چہرہ میں احمدیت نظر آتی ہے لیکن چونکہ انسانی عادات میں فرق ہوتا ہے اس لئے مناسب یہی ہؤا کرتا ہے اور کامیابی اسی میں ہوتی ہے کہ جس صوبہ کا کوئی آدمی ہو اسے اس صوبہ میں ہی کام کرنے کا موقع دیا جائے اس لئے نہیں کہ وہ سرحدی ہے اور اسے سرحد میں کام کرنے کا موقع دینا چاہئے، اس لئے نہیں کہ وہ بنگالی ہے اور اسے بنگال میں کام کرنے کا موقع دینا چاہئے بلکہ اس لئے کہ وہ کام کو اپنے صوبہ میں ہم سے زیادہ بہتر کر سکتا ہے اور چونکہ وہ اپنے صوبہ کی زبان اور لوگوں کی عادات و اطوار کا بہر حال زیادہ واقف ہو گا اس لئے مناسب سمجھا جا تاہے کہ اسے کام کرنے کا موقع دیا جائے لیکن اگر اس لحاظ سے کوئی مقرر کیا جائے کہ صوبہ سرحد میں سرحدی ہونا چاہئے اور بنگال میں بنگالی ہونا چاہئے تو میں اس کا شدید مخالف ہوں گا لیکن اگر اس لحاظ سے ایک سرحدی کو صوبہ سرحد میں اور ایک بنگالی کو صوبہ بنگال میںکوئی عہدہ دیا جائے کہ وہ اپنے صوبہ میں ہم سے بہتر کام کر سکتا ہے تو یہ جائز ہو گا پنجابیوں میں سے بھی آخر ہر ایک کو امیر یا جماعت کاپریذیڈنٹ نہیں بنایا جاتا بلکہ قابلیت دیکھی جاتی ہے پھر اس میں کیا شبہ ہے کہ بنگال کا آدمی ایک پنجابی کی نسبت اپنے صوبہ میں کام کرنے کے لحاظ سے زیادہ قابل ہو گا وہ لوگوں تک بخوبی باتیں پہنچا سکتا ہے پھر عادات کا فرق بھی ہوتا ہے جس کا طبائع پر بھاری اثر پڑتا ہے ۔انسان بعض دفعہ ایک طرز کے آدمی سے بات زیادہ جلدی سمجھ لیتا ہے مگر دوسری طرز کے آدمی سے بات جلدی سمجھ نہیں سکتا ۔پس اس لئے کہ قدرت نے اس کو قابلیت زیادہ دی ہے میں سمجھتا ہوں کہ وہ وہاں کے لوگوں کا زیادہ عمدگی سے نگران بن سکتا ہے لیکن صرف اسی نقطہء نگاہ سے جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے ۔اور اگر اس لحاظ سے سوال اٹھایا جائے کہ چونکہ سرحدی صوبہ ہے اس لئے وہاں ضرور ایک سرحد کا رہنے والا مقرر کرنا چاہئے۔یا بنگال میں بہر صورت بنگالی مقرر کرنا چاہئے تو میں اس کو سخت ناپسند کروں گا بلکہ یہ زیادہ پسند کروں گا کہ وہ جماعت ٹوٹ جائے بہ نسبت اس کے کہ وہ جماعت رہ جائے پس اس موقع پر جبکہ چاروں طرف سے ہماری جماعت کے نمائندگان آئے ہوئے ہیں میں انہیں بتاتا ہوں کہ ہمارے لئے اب نہایت ہی نازک وقت ہے جب تک تم اپنی زندگیوںکو تبدیل نہیں کرو گے، جب تک تم ایک نئی پیدائش حاصل نہیں کرو گے اس وقت تک کامیابی حاصل کرنا محال ہے۔ مجھے بعض دفعہ حیرت آتی ہے کہ کیا انسانی دماغوں میں اتنا عظیم الشان فرق ہوتا ہے کہ کوئی شخص کچھ سمجھتا ہے اور کوئی کچھ، جس نقطہء نگاہ سے میں اس وقت دنیا کو دیکھ رہا ہوں اس کے لحاظ سے مخالفت کا ایک دوزخ ہے جو دنیا میں چل رہا ہے اس فتنہ کو مدنظر رکھتے ہوئے نہیں جو اس وقت احرار نے اٹھایا ہؤا ہے بلکہ اس فتنہ کو مدنظر رکھتے ہوئے جس کو دور کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خدا تعالیٰ کی طرف سے مبعوث کیا گیا ۔احراری تو اب ہماری مخالفت کیلئے اُٹھے ہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اﷲ تعالیٰ نے آج سے کئی سال پہلے دنیا کے فتن دور کرنے کے لئے بھیجا میں حیران ہوں کہ ان بڑے فتنوں کو ہماری جماعت کیوں نہیں دیکھ سکتی۔ اگر ہماری جماعت انہیں محسوس کر لے تو یہ سارے امتیازات اس طرح بھول جائیں کہ ہمیں کبھی یاد بھی نہ آئیں ۔لطیفہ مشہور ہے کہ لکھنؤ کا ایک سیّد اور دہلی کا ایک مغل کسی سٹیشن پر اکٹھے ہو گئے مغل اپنی بادشاہت کے گھمنڈ میں تھا اور سیّد اس گھمنڈ میں کہ میں ایسے خاندان میں سے ہوں جس کا دنیا میں کوئی ثانی نہیں ۔پھر لکھنؤ اور دہلی والوں کے تہذیب و شائستگی کے دعوے ایک طرف تھے ۔ریل آئی تو ایک کہے مرزا صاحب آپ پہلے تشریف رکھیں اوروہ کہے کہ سید صاحب آپ تشریف رکھیں اب جھک جھک کر سلام ہو رہے ہیں ایک کہتا ہے آپ چلئے دوسرا کہتا ہے آپ چلئے اتنے میں ریل نے سیٹی دی وہ چل پڑی اب سید مغل کو دھکا دے کر آپ بیٹھنا چاہے ،اور مغل سید کو دھکا دے کر آپ بیٹھنا چاہے تو تکلفات سے کام انسان اسی وقت لیتا ہے جب انسان کے دماغ میں آرام کے خیالات ہوں لیکن جب آگ لگ جاتی ہے تو اس وقت کب انسان معمولی معمولی باتوں پر جھگڑا کرتا ہے ہزارہا واقعات ایسے ہوئے ہیں کہ لوگ سینما دیکھنے کے لئے گئے اور وہاں آگ لگ گئی تو مائیں اپنے بچوں کو روندتے ہوئے گزر گئیں۔
غرض جب مصیبت سامنے ہو تو اس وقت نہ محبت کے امتیاز قائم رہتے ہیں اور نہ دشمنی کے امتیاز نظر آتے ہیں اگر ایک سینما ،ایک دعوت گھراور ایک سٹیشن میں آگ لگ جانے کی وجہ سے تمام ظاہری امتیازات مٹ جاتے ہیں تو دنیا میں ہماری مخالفت میں جب اتنی بڑی آگ لگی ہوئی ہے جس کی نظیر نہیں، جب ہم پر وہ بوجھ لادا گیا ہے جس سے کمریں جھکی چلی جا رہی ہیں، اس وقت یہ جھگڑا کرنا کہ فلاں پریذیڈنٹ کیوں بنا فلاں بننا چاہئے یا فلاں امیر کیوں ہؤا فلاں ہونا چاہئے ،ایسی ذلیل باتیں ہیں جنہیں سن کر مجھے پسینہ آ جاتا ہے اور مجھے حیرت آتی ہے کہ کیا احمدیت نے جو تغیرہم میں پیدا کرنا چاہا تھا وہ اب تک ہم میں پیدا نہیں ہؤا جب ایک مقصود ہمارے سامنے ہوتا ہے اس وقت باقی چیزیں ہماری نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہیں کسی شاعر نے کہا ہے ۔
جدھر دیکھتا ہوں اُدھر تُو ہی تُو ہے
اس کے مطابق اگر اﷲ تعالیٰ ہمیں نظر آ جائے تو پھر اور کون ہے جسے انسانی آنکھ دیکھ سکتی ہو یہی چیز ہے جسے ہم دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں ورنہ اس کے سوا اور کیا چیز ہے جو ہم دنیا کو دکھا سکتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مبعوث ہو کر ہمیں کیا دیا ہے آپ نے ہمیں عہدے نہیں دئیے، زمینیں نہیں دیں، مربعے نہیں دیئے، بادشاہتیں نہیں دیں اور اگر لوگ ہم سے پوچھیں کہ حضرت مرزا صاحب علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آپ لوگوں کو کیا دیا تو ہم سوائے اس کے کیا کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے ہمیں خدا دے دیا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقع میں ہمیں خدا مل گیا۔ تھوڑے ہی دن ہوئے میں نے ایک رؤیا دیکھا تھا بلکہ رؤیا کیا وہ ایک کشف کی سی حالت تھی میں اسے بیان بھی کر چکا ہوں میں نے دیکھا کہ اﷲ تعالیٰ میرے سامنے ہے اور میں اس سے چمٹا چلا جاتا ہوں اور یہ کہتا جاتا ہوں
ہیں تیری پیاری نگاہیں دلبرا اک تیغ تیز
جن سے کٹ جاتا ہے سب جھگڑا غمِ اغیار کا
تو اﷲ تعالیٰ کی نگاہیں تیغ تیز کی طرح ہوتی ہیں جس کے دیکھنے سے باقی تمام جھگڑے کٹ جاتے ہیں۔ یہی اﷲ تعالیٰ ان آیات میں فرماتا ہے کہ مؤمن کا دماغ ایسے زیتون سے روشن ہوتا ہے کہ اس کے متعلق شرقی غربی کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص جس کے دل میں وہ تیل جل رہا ہو جو لَاشَرْقِیَّۃٍ وَلَا غَرْبِیَّۃٍکا مصداق ہو وہ قومیتوں اور امتیازات کو مٹا دیتا ہے لیکن وہ شخص جس کے دل میں قومیت اور ملکی رسوم و رواج کا دخل ہو ،اس کے متعلق یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس کے دل میں ابھی وہ نور روشن نہیں ہؤا جو خدا تعالیٰ ہر مؤمن کے دل میں روشن کرنا چاہتا ہے۔ پس مٹا دو ان تمام خیالات کو اور یہ سمجھنے لگ جاؤکہ ہم احمدی ہیں اور احمدی بھی ہم باقی دنیا سے امتیاز کرنے کے لئے اپنے آپ کو کہتے ہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ہم تو عباد اﷲ یعنی اﷲ تعالیٰ کے خادم ہیں اور اگر کوئی ہم سے پوچھے تو دراصل ہمارا نام عبد اﷲ ہے۔ پس جب ہم اﷲ تعالیٰ کے غلام ٹھہرے تو غلاموں میں بھلا کیا امتیاز ہؤا کرتا ہے، غلام کو تو جہاں مقرر کیا جائے اس کا فرض ہے کہ وہ وہاںکام کرے اگر غلام کہلاتے ہوئے کوئی شخص جھگڑے تو اسے کون حقیقی غلام کہہ سکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے میں نے ایک لطیفہ سنا ہؤا ہے جو شاید مقاماتِ حریری یا کسی اور کتاب کا قصہ ہے آپ فرمایا کرتے کہ کوئی مہمان کسی جگہ نہانے کے لئے گیا حمام کے مالک نے مختلف غلاموں کو خدمت کے لئے مقرر کیا ہؤا تھا اتفاق ایسا ہؤا کہ اس وقت مالک موجود نہ تھا جب وہ نہانے کے لئے حمام میں داخل ہؤاتو تمام غلام اسے آ کر چمٹ گئے اور چونکہ سر کو آسانی سے ملا جا سکتا ہے اس لئے یکدم سب سر پر آ گرے ، ایک کہے یہ میرا سر ہے ،دوسرا کہے یہ میرا سر ہے ،اس پر آپس میں لڑائی شروع ہو گئی اور ایک نے دوسرے کے چاقو مار دیا جس سے وہ زخمی ہو گیا شور ہونے پر پولیس آئی اور معاملہ عدالت تک پہنچ گیا عدالت کے سامنے بھی ایک غلام کہے یہ میرا سر تھا، دوسرا کہے میرا سر تھا عدالت نے نہانے والے سے پوچھا تو وہ کہنے لگا حضور یہ تو بے سر تھے ان کی باتوں پر تو مجھے تعجب نہیں تعجب یہ ہے کہ آپ نے بھی سوال کر دیا حالانکہ سر نہ اِس کا ہے نہ اُس کا ،سر تو میرا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ مثال اس لئے دیا کرتے تھے کہ دنیا کے جھگڑے بیہودہ ہوتے ہیں میرا کیا اور تیرا کیا۔غلام کا تو کچھ بھی نہیں ہوتا وہ تو جب اپنے آپ کو کہتا ہے کہ میں عبد اﷲ ہوں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب اس کا کچھ نہیں سب کچھ خدا تعالیٰ کا ہے، اس کے بعد میرے تیرے کا سوال ہی کہاں باقی رہ سکتا ہے۔ قرآن مجید پڑھ کر دیکھ لو اس میں رسول کریم ﷺ کا نام بھی عبد اﷲ رکھا گیا ہے جیسا کہ آتا ہے لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللّٰہِ ۴؎ تو خداتعالیٰ کا غلام ہوتے ہوئے ہماری کوئی چیز نہیں رہتی بلکہ سب کچھ خداتعالیٰ کا ہوجاتا ہے اسی لئے قرآن مجید نے بالوضاحت بتایا ہے کہ ہم نے مؤمنوں سے مال وجان لے لی دوست، عزیز ،رشتہ دار سب جان کے ماتحت آتے ہیں اور باقی مملوکات مال کے ماتحت آتی ہیں اور یہی دو چیزیں ہوتی ہیں جن کا انسان مالک ہوتا ہے اور اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے یہ دونوںچیزیں مؤمنوں سے لے لیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ تم میں یہ جھگڑے نہیں ہونے چاہئیں کہ یہ چیز میری ہے اور وہ اس کی ۔ تم اپنی منزلِ مقصود تک پہنچنے کے لئے زور لگاؤ اور چھوڑ دو ان باتوں کو کہ تم کہو فلاں پریذیڈنٹ کیوں بنا فلاں کیوں نہ بنا، فلاں سیکرٹری کیوں ہؤا فلاں کیوں نہ ہؤا، یا جب تک فلاں شخص امام نہ بنے ہم فلاں کے پیچھے نماز نہیں پڑھ سکتے۔ مجھے افسوس ہے کہ کئی دفعہ اس قسم کی شکایا ت پہنچ جاتی ہیں کہ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں ہم فلاں احمدی کے پیچھے نماز نہیں پڑھیں گے حالانکہ میں نے یہ بات کہ کسی احمدی کے پیچھے نماز پڑھنا مت چھوڑو اتنی دفعہ دہرائی ہے کہ میں سمجھتا ہوں اگر ایک طوطا میرے پاس ہوتا تو وہ بھی یہ ضرور سیکھ جاتا کہ اختلاف کی بناء پر کسی احمدی کے پیچھے نماز پڑھنی کبھی نہیں چھوڑنی چاہئے۔ پس تعجب کہ میاں مٹھو تو یہ سیکھ سکتا ہے مگر ابھی تک ہماری جماعت کے بعض میاں مٹھو ایسے ہیں جو اس بات کو ابھی تک نہیں سمجھے۔ میں اس قسم کے لوگوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر تم نے اپنی ضد کو نہیں چھوڑنا تو تم احمدی ہی کس لئے ہوئے تھے اگر احمدیت کے بعد بھی یہ *** کا طوق تمہارے گلے میں رہنا تھا تو تم معمولی اختلاف کی بناء پر ایک دوسرے کے پیچھے نمازپڑھنے سے انکار کر دیتے تو تم نے کیوں احمدیت میں داخل ہو کر اس پاک اور مقدس چشمہ کو گندہ کیا۔ تم میں سے اس قسم کے لوگوں کی مثال بالکل اس شخص کی سی ہے جس کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ مکہ گیا تو چشمۂ زمزم میں پیشاب کرنے بیٹھ گیا لوگوں نے اسے مارا پیٹا تو وہ کہنے لگا پیشاب میں نے اس لئے کیا ہے کہ لوگ باتیں تو کریں گے کہ فلاں شخص آیا اور اس نے یہ حرکت کی۔ یہی ان لوگوں کا حال ہے یہ تو خالص انبیاء اور ان کے خلفاء کا حق ہے کہ وہ کہیں فلاں کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہئے۔ زید یا بکر کو کس نے حق دیا ہے کہ ان میں سے جس کا جی چاہے وہ اپنے میں سے کسی احمدی کے پیچھے نماز پڑھنے سے انکار کر دے۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی گالیاں دیتا ہے، بُرا بھلا کہتا ہے، معاملات کے لحاظ سے خراب ہے، حتّٰی کہ وہ اپنے لوگوں کو مرتد بھی کہہ دیتا ہے، پھر بھی کسی کا حق نہیں کہ اس کے پیچھے نماز پڑھنی ترک کرے۔ اور یہ بات میں نے اتنی بار کھول کھول کر بیان کی ہے کہ اگر ایک طوطے کو مَیں یہ سبق پڑھاتا تو وہ ضرور پڑھ جاتا مگر ہم میں سے بعض ایسی موٹی عقل کے آدمی ہیں کہ وہ معمولی معمولی باتوں پر لڑتے جھگڑتے اور یہ سوال پیدا کر دیتے ہیں کہ ہم فلاں کے پیچھے نماز نہیں پڑھیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طریقِ عمل تمہارے سامنے ہے اسے دیکھ لو اﷲ تعالیٰ آپ کو اشارے کر رہا ہے کہ غیر احمدیوں کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے مگر آپ ان کے پیچھے نماز پڑھنا نہیں چھوڑتے یہاں تک کہ خدا تعالیٰ صاف الفاظ میں کہتا ہے کہ تم پر حرام اور قطعی حرام ہے کہ کسی مکفّر یا مکذّب یا متردّد کے پیچھے نماز پڑھو ۔پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عمل یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ آپ کو کہتا ہے کہ آپ نبی ہیں مگر پھر بھی آپ ان کے پیچھے نماز ترک کرنے کا فتویٰ نہیں دیتے یہاں تک کہ خدا تعالیٰ اشارے چھوڑ کر نصِّ صریح کے ذریعہ کہتا ہے کہ اب حرام اور قطعی حرام ہے کہ کسی مکفّر و مکذّب وغیرہ کے پیچھے نماز پڑھی جائے جیسا کہ تحفہ گولڑویہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا ذکر کیا۔
ایک طرف بانی سلسلہ احمدیہ کا یہ نمونہ ہے حالانکہ یہ ایک مذہبی سوال تھا اور اس ذات پر ایمان لانے کا سوال تھا جس کی بعثت کی خبر تمام انبیاء دیتے چلے آئے مگر آپ اشاروں کے باوجود نماز پڑھتے رہتے ہیں یہاں تک کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے تم پر غیر احمدیوں کے پیچھے نمازپڑھنا حرام اور قطعی حرام ہے مگر ہماری جماعت کے بعض لوگوں کی یہ حالت ہے کہ وہ اتنی سی بات پر کہ فلاں شخص کیوں پریذیڈنٹ ہو گیا یا فلاں سیکرٹری کیوںبن گیا ناراض ہو کر کہہ دیتے ہیں کہ ہم الگ جمعہ پڑھیں گے ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھیں گے ۔مجھے حیرت آتی ہے کہ اس قسم کے لوگ مخلص بھی کہلاتے ہیں اور پھر ایسی حرکات کرتے ہیں جو میرے نزدیک منافق بھی نہیں کرتے۔ آخر رسول کریم ﷺ کے زمانہ کے منافقوں کے متعلق بھی تو یہ کبھی نہیں سنا گیا کہ انہوں نے اتنے معمولی سے اختلاف کی بناء پر دوسروں کے پیچھے نماز پڑھنی چھوڑ دی ہو ۔پھر منہ سے ایمان کا دعویٰ کرنا اور عمل وہ اختیار کرنا جو منافق بھی اختیار نہ کرتے ہوں کس قدر افسوسناک امر ہے ۔اس کا سوائے اس کے اور کیا مطلب ہو سکتا ہے کہ یا تو یہ لوگ باتیں سنتے نہیں اور اگر سنتے ہیں تو ایسی حالت میں کہ ان کی آنکھیں بند ہوتی ہیں اور کانوں میں روئی ٹھونسی ہوئی ہوتی ہے اور اخباریں بھی جب ان کے پاس جاتی ہیں تو وہ انہیں نہیں پڑھتے۔ ورنہ وجہ کیا ہے کہ اتنے تواتر سے بات کہی جاتی ہے اور پھر بھول جاتی ہے میں اس بات کو سمجھ سکتا تھا کہ وہ جماعت یہ کہہ دیتی کہ ہم خلیفہ کو نہیں مانتے ،میری عقل تسلیم کر سکتی تھی کہ انسان ایک وقت گر کر یہ کہہ سکتا ہے کہ خلافت کی ضرورت نہیں مگر ایک طرف منہ سے یہ دعویٰ کرنا کہ خلافت پر ہماری جان قربان ہے اور دوسری طرف یہ کہنا کہ ہم خلیفہ وقت کے فلاں حکم کو نہیں مانیں گے ایسی بات ہے جسے میری عقل کبھی ماننے کے لئے تیار نہیں ہو سکتی۔میں نے ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کو رؤیا میں دیکھا آپ ایک اور شخص سے فرما رہے تھے اَ تُصَدِّقُنِیْ وَلَا تُؤْمِنُ بِیْ ارے تُو میری تصدیق تو کرتا ہے مگر میری بات نہیں مانتا ۔گویا یہ ایک حدیث ہے جو رسول کریم ﷺ کے منہ سے میں نے براہِ راست سنی ۔لوگ تو احادیث کے متعلق یہ بحثیں کیا کرتے ہیں کہ یہ احاد میں سے ہے اور یہ تواتر میں سے۔ فلاں کے راوی ثقہ ہیں اور فلاں کے نہیں ۔مگر یہ وہ حدیث ہے جو میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہِ راست سنی کہ اَ تُصَدِّقُنِیْ وَلَا تُؤْمِنُ بِیْ یعنی تُو میری بات کو تو سچا سمجھتا ہے مگر اسے مانتا نہیں۔ یہی حالت ہماری جماعت کے بعض لوگوں کی ہے میں حیران ہوتا ہوں کہ ہمارے بعض دوستوں کی یہ کیا عادت ہے کہ وہ نہ تو خلافت کا انکار کرتے ہیں اور نہ میری بات مانتے ہیں اس لئے ایک دفعہ پھر اس موقع پر جبکہ تمام جماعتوں کے نمائندے جمع ہیں میں کہتا ہوں کہ اس قسم کی غیرمعقول باتیں مؤمنانہ شان سے بہت بعید ہوتی ہیں ۔اول تو یہ اتنی چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں کہ انسانی ذہن کو انہیں یاد بھی نہیں رکھنا چاہئے ۔میری اپنی یہ حالت ہے کہ بعض دفعہ میرے پاس کوئی شخص آتا ہے اور کہتا ہے چھ مہینے ہوئے مجھ سے یہ غلطی ہوئی تھی آپ معاف فرما دیں میں کہتا ہوں مجھے یاد ہی نہیں کہ ایسی بات کب ہوئی تھی وہ واقعات کو دہرانا چاہتا ہے تو میں کہتا ہوں واقعات کو کیوں دُہراتے ہو میری عادت ہے کہ میں دوسروں کی کوتاہیوں کو بھلا دیا کرتا ہوں اور میں کوشش کیا کرتا ہوں کہ اگر کسی کی نیکی ہو تو مجھے یاد رہے اور اگر کسی کی بدی ہو تو وہ مجھے بھول جائے اور اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ لوگوں کی بدیاں مجھے بھول جایا کرتی ہیں بلکہ یاد دلانے پر بھی یاد نہیں آتیں ۔لوگوں کی ہزارہا بدیاں میرے سامنے آتی ہیں اور میں انہیں اتنا بھلاتا ہوں ،اتنا بھلاتا ہوں کہ میرے ذہن کے کسی گوشہ میں بھی ان کی یاد نہیں رہتی بلکہ کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ بتانے والا بتاتا ہے اور میں کہتا ہوں مجھے یاد نہیں اور میں سمجھتا ہوں ہر مؤمن کا فرض ہے کہ وہ دوسروں کی خوبیاں یاد رکھے اور عیوب کو بھلا دے اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی جھگڑا اور فتنہ و فساد پیدا کرنے کی کوشش نہ کرے ۔میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کسی بزرگ کا ایک شاگرد تھا جب وہ تعلیم حاصل کر کے اپنے وطن جانے لگا تو وہ بزرگ اسے کہنے لگے میاں تمہارے وطن میں شیطان بھی ہوتا ہے یا نہیں ۔وہ حیران ہو کر کہنے لگا حضور شیطان بھلا کس جگہ نہیں ہوتا ۔فرمانے لگے ۔اچھا یہ تو بتاؤ اگر شیطان تم پر حملہ کرے تو تم کیا کرو گے (اس موقع پر بعض بچوں کے شور کی آواز بلند ہوئی تو حضور نے فرمایا بچے شور مچا رہے ہیں اگر کسی کو توفیق مل جاتی کہ وہ بچوں کو سمجھا دیتا کہ نماز شور مچانے کے لئے نہیں ہوتی تو بہتر ہوتا ۔خطبہ بھی نماز کا ایک حصہ ہوتا ہے اور خطبہ میں بولنا بھی ویسا ہی منع ہے جیسا کہ نماز میں ) وہ شاگرد کہنے لگا کہ میں اس حملہ کو روکوں گا اور اس کا مقابلہ کروں گا۔ بزرگ کہنے لگے اچھا اگر ایک دفعہ رک گیا اور تم نے پھر خدا تعالیٰ کی طرف بڑھنے کی کوشش کی اور وہ پھر تم پر حملہ آور ہو گیا تو پھر کیا کرو گے ۔کہنے لگا پھر مقابلہ کروں گا۔وہ فرمانے لگے اگر تیسری دفعہ پھر ایسا ہی ہؤا اور تم خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے جونہی بڑھے وہ تم پر حملہ آور ہو گیا ۔تو تم کیا کرو گے وہ کہنے لگا میں پھر مقابلہ کروں گا فرمانے لگے اگر تم اس طرح کرنے لگے تو پھر تمہاری ساری عمر شیطان سے لڑتے ہی گزر جائے گی خدا تعالیٰ کی محبت کب حاصل ہوگی ۔وہ کہنے لگا پھر میں کیا بتاؤں اور تو کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی ۔وہ فرمانے لگے اچھا یہ بتاؤ اگر تم کسی دوست سے ملنے جاؤ اور اس کا کتا تم پر حملہ کر کے تمہاری ایڑی پکڑ لے تو تم کیا کرو گے ۔وہ کہنے لگا میں کتے کو مار کر ہٹاؤں گا اور اپنے دوست کی طرف بڑھوں گا ۔فرمانے لگے اچھا اگرپھر ایسا ہی ہؤا اور جب تم دوست کے مکان میں داخل ہونے لگے تو اس نے پھر تمہاری ایڑی پر حملہ کر دیا تو کیا کرو گے ۔کہنے لگا حضور پھر میں اس دوست کو آواز دوں گا کہ اپنے کتے کو ہٹانا یہ اندر آنے نہیں دیتا۔تو اس بزرگ نے اس رنگ میں اپنے شاگرد کو یہ سمجھایا کہ تمہاری روحانی مدارج طے کرتے وقت یہی حالت ہونی چاہئے ۔بجائے شیطان سے لڑنے اور اپنے وقت کو ضائع کرنے کے خدا تعالیٰ سے کہو کہ اے خدا! تو شیطان کو میرے راستہ سے ہٹا ۔یہ مجھے تیرے پاس آنے نہیں دیتا ۔اگر ہم بھی معمولی معمولی باتوں پر لڑنے لگ جائیں، کہیں انجمنوں کے قیام کے سوال پر لڑیں ،کہیں امامتوں کے سوال پر جھگڑیں ،کہیں عہدوں کے حصول کے لئے لڑائی کریں ،تو پھر وہ کام کون کرے گا جس کے کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں اس وقت دنیا میں کھڑا کیا ہے ہمیں تو ان تمام باتوں کو بھول جانا چاہئے ۔ہمارے سامنے ایک عظیم الشان کام ہے ۔ہم نے تمام دنیا کو فتح کرنا ہے ۔تم سوچ کر دیکھ لو اپنے بچوں کو تم نے سمجھانا ہوتا ہے ۔ان کی اصلاح کے لئے تمہاری کوششیں کس طرح بیکار ثابت ہوتی ہیں ۔بیسیوں لوگ مجھے لکھتے ہیں کہ میرا بچہ بڑا شوخ ہے اس کی اصلاح کے لئے کئی تدابیر اختیار کیں مگر سب ناکام ہوئیں آپ دعا کریں خداتعالیٰ اسے نیک کرے ۔جب انسان کو ایک بچے کو سمجھانے کے لئے مشکلات میں سے گزرنا پڑتا ہے تو ہم نے تو لاکھوں لوگوں کو سمجھانا ہے ۔پھر ان لوگوں کو سمجھانا ہے جو طاقت، عظمت ، عزت و دولت اور وجاہت میں ہم سے زیادہ ہیں ۔حکومت میں ان کا دخل ہے ،رعایا پر ان کا اقتدار ہے ،ان حالات میں ان کی اصلاح کے لئے ہمیں کتنی بڑی جد و جہد کی ضرورت ہے اس کے لئے تو ہمیں پاگل ہو جانا چاہئے اور ہمیں دنیا کی بگڑی ہوئی حالت کودیکھ دیکھ کر اضطراب اور بے چینی کے ساتھ کہنا چاہئے کہ یہ بھی خراب ہے اور وہ بھی خراب ہم اصلاح کریں تو کس کس کی کریں ۔مگر ہم میں سے بعض اس طرح مطمئن ہو کر بیٹھے ہیں جیسے دنیا کو فتح کر کے کوئی شخص بیٹھ رہتا ہے ۔بیسیوں دفعہ میں نے اپنی جماعت کے لوگوں سے کہا ہے کہ آرام تمہارے نصیب میں نہیں اگر تم اخروی اور دائمی آرام چاہتے ہو تو تمہیں اس چند روزہ آرام کو قربان کرنا پڑے گا بلکہ اب تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک بھاری پروگرام ہمارے سامنے ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کے مطابق کام بھی شروع ہے مگر بہت ہیں جنہوں نے ابھی تک اس پروگرام پر عمل کرنا شروع نہیں کیا ۔میں نے کہا تھا کہ اپنی زندگیوں کو خدمت دین کے لئے وقف کرو اور سال میں سے مہینہ دو مہینے یا تین مہینے تبلیغ کے لئے دو مگر اب تک اتنے آدمیوں نے بھی اپنے آپ کو وقف نہیں کیا جتنے قادیان میں رہتے ہیں حالانکہ دو اڑھائی مہینے سے کام شروع ہے اور اﷲ تعالیٰ کے فضل سے اس کام کے نتیجہ میں تھوڑے دنوں میں ہی اتنا عظیم الشان تغیر پیدا ہو گیا ہے کہ میں خیال کرتا ہوں اگر سارے احمدی اس کام پر لگ جائیں تو دنیا دیکھتی کی دیکھتی رہ جائے اور ہمارا قدم ترقیات کی بلند ترین چوٹیوں پر پہنچ جائے ۔اس نئی تحریک کے نتیجہ میں تبلیغ کر کے مختلف مقامات پر دیکھا گیا ہے کہ ایک شخص مضبوط ہاتھوں سے احمدیوں پر پتھر چلا رہا ہے مگر اس کا دل اﷲ تعالیٰ کی خشیت سے اندر ہی اندر خوف زدہ ہوتا ہے اور وہ آپ ہی علیحدگی میں ملتا ہے اور کہتا ہے میری بڑی بیوقوفی تھی کہ میں نے آپ کو تکلیف پہنچائی ۔پس ان ظالموں میں سے بھی وہ لوگ نکل آتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم سمجھتے ہیں اس وقت احمدیوں پر ظلم ہو رہا ہے ۔ابھی ایک واقعہ کی اطلاع موصول ہوئی ہے ،ایک جگہ ایک احمدی تبلیغ کرنے کے لئے گیا تو ایک مخالف مولوی نے اس احمدی پر حملہ کر دیا اور اسے بُرا بھلا کہا اور کچھ مارا پیٹا بھی ۔چند دنوں کے بعد وہ احمدی پھر اس گاؤں میں تبلیغ کے لئے آیا تو اسی غیر احمدی نے پھر حملہ کر دیا اس پر غیر احمدیوں نے خود اپنے مولوی کو ملامت کی اور کہا تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم نے پہلے بھی اسے تکلیف دی اور اب پھر گالیاں دے رہے ہو ۔تو ان مخالفوں میں سے اﷲ تعالیٰ کے فضل سے ایسے ایسے دل نکل رہے ہیں جو محسوس کرتے ہیں کہ احمدیوں پر ظلم انتہاء کو پہنچ گیا۔ ظلم کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہوتی ۔تم کسی سے انتہاء درجہ کی محبت تو کر سکتے ہو مگر کسی پر انتہاء درجہ کا ظلم نہیں کر سکتے ۔بیسیوں ظالموں کو ہم نے دیکھا ہے وہ مار مار کر اپنے دشمن کو بے ہوش کر دیتے ہیں لیکن جب وہ بے ہوش ہو جاتا ہے تو اس سے چمٹ جاتے اور اس کے منہ میں پانی ڈالتے اور اسے پنکھا کرنے لگ جاتے ہیں ۔کبھی دل میں یہ خیال آ جاتا ہے کہ اگر یہ مر گیا تو میں قاتل نہ سمجھا جاؤں، کبھی ضمیر انسان کو ملامت کرتی اور وہ اپنے فعل پر پشیمان ہوتا ہے ،کبھی خدا کا خوف اس کے دل میں پیدا ہو جاتا ہے تو انتہاء درجہ کا ظلم کبھی نہیں کیا جا سکتا ۔میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت بہت بڑا تغیر ہو رہا ہے اور گو کام بہت تھوڑی جگہ شروع کیا گیا ہے لیکن جبکہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اتنا بڑا نور نازل کیا ہے تو آخر کب تک لوگ اس کے دیکھنے سے اپنی آنکھوں کو بند رکھیں گے۔ یقینا ایک دن ایسا آئے گا کہ وہ ہدایت پائیں گے ۔
اﷲ تعالیٰ کا اگر ہم فعل دیکھیں تو اس سے بھی صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اندھا پن انتہاء نہیں رکھتا مگر محبت الٰہی انتہاء کو پہنچ جاتی ہے ۔چنانچہ دیکھ لو محبت الٰہی کے نتیجہ میں غیر مقطوع جنت کا وعدہ دیا گیا ہے مگر روحانی اندھا پن کے نتیجہ میں غیر مقطوع دوزخ کا وعدہ نہیں کیا گیا بلکہ کہا گیا ہے کہ لمبی دوزخ ہو گی اور بالآخر دوزخیوں کو اس میں سے نکال لیا جائے گا۵؎ اس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ نابینائی انتہاء کو نہیں پہنچتی مگر بینائی انتہاء کو پہنچ جاتی ہے۔غضب اور ظلم کی سزا غیر محدود نہیں لیکن محبت اور رحم کی جزاء غیر محدود ہے ۔صاف پتہ لگتاہے کہ محبت کو ہم انتہاء تک پہنچا سکتے ہیں لیکن ظلم کو انتہاء تک نہیں پہنچا سکتے ۔پس اس عظیم الشان مقصد کو مت بھولو جو تمہارے سامنے ہے بہت بڑا کام ہے جسے تم نے سرانجام دینا ہے ۔وہی سکیم لے لوجو میں نے تمہارے سامنے پیش کی ہے اور جو دریا میں سے ایک قطرہ کی حیثیت رکھتی ہے اس پر ہماری جماعت نے ابھی کامل طور پر عمل نہیں کیا ۔کل ہی مجھے معلوم ہؤا کہ ہماری انجمن پر ایک لاکھ تین ہزار روپیہ کا قرض ہے ۔کیا کوئی عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اگر ہم متفقہ طور پر کوشش کریں تو یہ ایک لاکھ تین ہزار کا قرض ہم نہیں اتار سکتے ۔میں تو سمجھتا ہوں اگر ہم پوری جدو جہد سے کام لیں تو ایک مہینہ میں ہی یہ قرض اتر سکتا ہے مگر مجھے افسوس ہے کہ جماعت کے بعض افراد کو اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں ۔مجھے ہمیشہ اس پالیسی سے اختلاف رہا ہے کہ جماعت کے کمزوروں کو چھوڑ کر صرف مخلصین جماعت سے کام لیا جائے کیونکہ اس طرح جماعت کا ایک حصہ ترقی کرنے سے کلیۃً محروم ہو جاتا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں اگر میں یہ بھی کہوں کہ جانے دو کمزوروں کو اور آؤ صرف مخلصینِ جماعت کے ذریعہ اس قرض کو اتارا جائے تب بھی یہ قرض اتر سکتا ہے ۔کئی لوگ کہا کرتے ہیں کہ اس طرح کیا جائے مگر میرا طریقِ عمل یہی ہے کہ میں ساری جماعت کو اُبھارا کرتا ہوں اور یہی ضروری ہؤا کرتا ہے ۔ورنہ ایک دفعہ پہلے میں نے یہ تجویز کی اور آٹھ دس مخلصین سے کہا کہ جماعت کی مالی حالت اس وقت ایسی ہے کہ ضروری ہے کہ ہم اپنی ساری جائدادیں اس کے لئے دے دیں۔ گو اس وقت اس تجویز کو عملی جامہ نہ پہنایا گیا لیکن میں نے دیکھا کہ اگر وہ آٹھ دس آدمی ہی اپنی ساری جائدادیں سلسلہ کو دے دیتے تو لاکھ ڈیڑھ لاکھ روپیہ کی جائدادیں دے سکتے تھے حالانکہ صرف چند آدمیوں سے میں نے وہ وعدے لئے تھے ۔پس اگر خدا تعالیٰ وہ دن لائے اور خدا کرے کہ ہماری جماعت پر وہ دن نہ آئے جب جماعت کے کمزور حصہ کو چھوڑ دینا پڑے تب بھی چند مخلصین مل کر سلسلہ کی مالی حالت کو مضبوط کر سکتے ہیں اور اپنی جائدادیں اسے دے سکتے ہیںگو یہ الگ سوال ہے کہ جائدادوں کا بیچنا بہت مشکل ہوتا ہے ۔اب موجودہ فِتن کو دور کرنے اور تحریک جدید کو وسعت دینے کے لئے میں نے ایک تجویز کی ہے جس کا آج اعلان کرتا ہوں اور وہ یہ کہ ہر مہینہ میں ایک خطبہ جمعہ تمام احمدیہ جماعتوں میں میری جدید تحریک کے متعلق پڑھا جائے اور اس میں جماعت کو قربانیوں پر آمادہ کرتے ہوئے ان میں نیکی اور تقویٰ پیدا کرنے کی کوشش کی جائے ۔ میری مفصل تحریک کو مد نظر رکھ کر ہر جماعت مہینہ میں ایک خطبہ جمعہ اس کے متعلق پڑھے اور تحریک کے مختلف حصوں کو مختلف خطبات میں بیان کر دیا جائے۔ مثلاً ایک خطبہ مالی قربانی کے متعلق پڑھ دیا جائے دوسرا خطبہ زندگی وقف کرنے کے متعلق پڑھ دیا جائے اور تیسرا خطبہ جماعت میں صلح و محبت قائم کرنے کے متعلق پڑھ دیا جائے۔ اسی طرح تحریک کے تمام حصے ایک ایک کر کے مختلف خطبات کے ذریعہ جماعت تک پہنچائے جائیں ۔پھر ایک اور تجویز میں نے یہ کی ہے کہ ہر چھ ماہ کے بعد ایک دن مقرر کر کے ہر جگہ کی جماعتیں اپنے اپنے مقام پر جلسے کریں جس میں تحریک جدید کے متعلق لیکچر دیئے جائیں ۔اس سال کے لئے میں نے ۲۶؍ مئی کی تاریخ مقرر کی ہے اور اس تاریخ کو غالباً اتوار کا دن ہو گا بلکہ مجھے یاد آیا اس تاریخ کو اتوار کا ہی دن ہے کیونکہ اس کے متعلق میرے ذہن میں ایک واقعہ بھی تازہ ہو گیا ۔ایک دفعہ میں یہی سوچ رہا تھا کہ کون سا دن اس غرض کے لئے مقرر کیا جائے کہ مجھے خیال آیا ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کا دن ایسا ہے جس دن جماعت اپنے فرائض کی طرف زیادہ عمدگی سے متوجہ ہو سکتی ہے اس پر میں نے ایک دوست سے کہا کہ حساب کرو اس تاریخ کو کون سا دن ہو گا انہوں نے حساب کیا تو اتوار نکلا ۔پس ۲۶؍ مئی اتوار کے دن ہر جگہ کی جماعتیں جلسے کریں اور مختلف لوگ مختلف موضوعات پر لیکچر دیں ۔مثلاً کوئی صلح و محبت پر لیکچر دے، کوئی اس پر لیکچر دے کہ چندوں کے بقائے صاف کئے جائیں ،کوئی اس بات پر لیکچر دے کہ لڑکوں کو تعلیم کے لئے قادیان بھیجا جائے ،کوئی اس بات پر لیکچر دے کہ تحریک جدید کے آئندہ سال کے چندہ کے لئے جماعت کو تیار رہنا چاہئے ،اس سال کا چندہ ہی گو وعدوں کے لحاظ سے ایک لاکھ دس ہزار تک پہنچ گیا تھا مگر نقد رقم اب تک صرف پچپن ہزار وصول ہوئی ہے حالانکہ بجٹ جو تحریک جدید کے متعلق بنایا گیا ہے ستّر ہزار کا بنا ہے اور یہ ستّر ہزار کا بجٹ بہت سے ایسے کام ترک کر کے بنایا گیا ہے جن کے ذریعہ دنیا میں شور مچایا جا سکتا تھا۔ یہ تجاویز جو میں نے بیان کی ہیں انچارج تحریک جدید کی طرف سے چھپوا دی گئی ہیں اسی طرح ایک چارٹ بھی ایک کاتب دوست تیار کر رہے ہیں دوستوں کو چاہئے کہ جب وہ تیار ہو جائیں تو انہیں خرید کر اپنے کمروں میں لٹکا لیں تا کہ ہر وقت سکیم انہیں یاد رہ سکے مجھے یقین ہے کہ اگر جماعت اس تحریک پر عمل کرے تو یہ اس کے لئے بہت بابرکت ہو گا تحریک کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ ہر شخص اپنا روپیہ امانت فنڈ میں جمع کرائے بہت سے دوست ایسا کر رہے ہیں مگر بعض نہیں بھی کرتے حالانکہ اگر کوئی دس میں سے ایک روپیہ بھی ہر مہینے جمع کرا دے تو یہ اس کے لئے مفید ہو گا اور ایسے کام درمیان میں نکل سکتے ہیں جن کے ماتحت اس کا تھوڑا سا روپیہ بھی بہت بڑی آمد کا ذریعہ بن جائے ۔
غرض۲۶؍ مئی کی نسبت مَیں یہ اعلان کرتا ہوں کہ اس دن تمام جماعت کو چاہئے کہ وہ جلسے کرے اور جس طرح عید کے دن مرد اور عورتیں اکٹھی ہوتی ہیں اسی طرح اس دن جمع ہو کر تحریک جدید کے ہر حصہ پر تقریریں کی جائیں اگر کسی جماعت کے افراد تھوڑے ہوں تو ان میں سے ایک ایک شخص تحریک کے دو دو چار چار حصوں پر تقریریں کر سکتا ہے اور اگر زیادہ ہوں تو ایک ایک حصہ پر علیحدہ علیحدہ ہر شخص لیکچر دے سکتا ہے یہ ضروری نہیں کہ وہی دلائل دیئے جائیں جو میں بیان کر چکا ہوں بلکہ اگر کوئی شخص اس کے علاوہ دلائل رکھتا ہو تو وہ بھی بیان کئے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح ہر مہینہ میں ایک خطبہ جمعہ جماعت کے سامنے تحریک جدید کے متعلق پڑھا جائے اور کسی میں جماعت میں صلح و محبت پیدا کرنے کی کوشش کی جائے، کسی میںنمازوں کی پابندی کی تاکید کی جائے، کسی میں چندوں کی ادائیگی کی طرف متوجہ کیا جائے اور کسی میں جماعت کو تقویٰ اور طہارت پیدا کرنے کی نصیحت کی جائے۔ کئی لوگ ایسے ہؤا کرتے ہیں جو اپنے آدمیوں سے بات عمدگی سے سمجھ سکتے ہیں اس لئے وہ اس طریق سے زیادہ فائدہ اٹھاسکتے ہیں پھر کئی ایسے ہوتے ہیں جو سلسلہ کی اخباریں نہیں پڑھتے اور اس طرح انہیں پورا علم نہیں ہوتا غرض ہر مہینہ میں اگر ایک خطبہ جمعہ اس تحریک کے متعلق پڑھا جائے اور اپنی زندگیوں کو خدمت دین کے لئے وقف کر کے تبلیغ کی جائے تو میں سمجھتا ہوں اگر جماعت تعہدّ سے اس پر عمل کرے توجن فتن کو دور کرنے کے لئے میں نے سکیم بنائی ہے وہ فتن خدا تعالیٰ کے فضل سے دور ہو جائیں اور چھ سات ماہ کے بعد ہی ایک نیا رنگ دنیا میں پیدا ہو جائے ۔میں اﷲ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہماری جماعت کی اصلاح فرمائے اور اسے یہ سمجھنے کی توفیق دے کہ ایک سیکنڈ جو ضائع جا رہا ہے یہ ہمیں بہت بڑی مشکلات میں مبتلا کرنے والا اور اسلام کو نقصان پہنچانے والا ہے۔
(الفضل ۲۴؍اپریل ۱۹۳۵ئ)
۱؎ النور: ۳۶ تا ۳۹
۲؎ موضوعات ملّا علی قاری۔ صفحہ ۳۵۔ مطبع مجتبائی دھلی
۳؎ پزاوے : بھٹا
۴؎ الجن:۲۰
۵؎ تفسیر معالم التنزیل الجزء الثالث۔ صفحہ ۲۴۳۔ مطبوعہ بیروت۱۹۸۵ء







۱۷
احراریوں کی مسلمانوں کو تباہ کرنے والی حرکات
(فرمودہ ۲۶ ؍اپریل ۱۹۳۵ئ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
جب کسی قوم کے بُرے دن آتے ہیں تو اﷲ تعالیٰ اس کے بڑے لوگوں کی سمجھ مار دیتا ہے اور وہ ایسی حرکات کرنے لگ جاتے ہیں جو خود ان کی تباہی کا موجب ہو جاتیں اور ان کی قوم کے لئے مہلک ثابت ہوتی ہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ پچھلے ایام سے مسلمانوں میں سے ایک حصہ کے سرداروں کی یہی حالت ہو رہی ہے میں یہ جانتا ہوں کہ وہ سب مسلمانوں کے سردار نہیں اور نہ سارے ہندوستان کے مسلمانوں سے تعلق رکھتے ہیں ان کا زیادہ زور پنجاب میں ہے یا پنجاب کے قریب کے علاقوں میںباقی سارا ہندوستان ان کے زہریلے اثرات سے پاک اور بہت حد تک بچا ہؤا ہے پھر پنجاب اور اس کے گرد و نواح کے سب مسلمان ان سے متأثر نہیں بلکہ زیادہ تر شہری حصہ متأثر ہے اور شہروں میں سے بھی لاہور اور امرتسر کا وہ حصہ متأثر ہے جو متواتر لڑائیوں اور جھگڑوں کی وجہ سے فتنہ و فساد کا عادی ہو چکا ہے۔ انسانی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ جو کام وہ ایک دو دفعہ کرے اس کی توجہ بار بار اسی کی طرف لوٹتی ہے اس وجہ سے وہ لوگ جو لڑائی جھگڑے کی عادت ڈال لیں جلدی غصہ میں آ جاتے اور فتنہ و فساد کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ چونکہ پچھلے ایام میں سیاسی اختلاف کی وجہ سے چند شہروں کے لوگوں میں بے چینی پیدا ہو گئی تھی اور ان کے قلوب کاا طمینان جاتا رہا تھا اس لئے ان شہروں کے باشندوں کا ایک حصہ خواہ وہ مسلمانوں پر مشتمل ہو یا ہندوؤں، سکھوں اور عیسائیوں پر، اپنا دماغی توازن کھو چکا ہے اور وہ ذرا ذرا سی بات پر جوش میں آ جاتا ہے اور ایسے کاموںکا اقدام کر لیتا ہے جو خود ان کے لئے بھی مضر ہوتے ہیں۔ چونکہ شہر عام طور پر دوسروں کے لئے نمونہ سمجھے جاتے ہیں اس لئے ان کا اثر بطور صدائے بازگشت چھوٹے شہروں اور قصبات پر بھی پڑتا ہے مگر اس کی حدّت اور تیزی چند شہروں میں ہی پائی جاتی ہے جیسا کہ لاہور ہے، امرتسر ہے ،سیالکوٹ ہے، گوجرانوالہ ہے، لدھیانہ ہے، بٹالہ ہے بقیہ شہروں میں اس وقت وہ بات نظر نہیں آتی جو ان میں پائی جاتی ہے۔ سیالکوٹ کی حالت بھی اب پہلی سی نہیں رہی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کا وہ طبقہ جوجلدی پریشان ہو جاتا یا دوسروں کو پریشان کر دینے کا عادی ہے یا تو اپنی غلطی کو سمجھ گیا ہے یا تھک کر آرام کر رہا ہے جس گروہ کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے، ان سے احرار کا گروہ مراد ہے اور موجودہ فتنہ سے مراد ان کی وہ تحریکات ہیں جو جماعت احمدیہ کے متعلق وہ کچھ عرصہ سے کر رہے ہیں وہ تحریکات مسلمانوں کے لحاظ سے اتنی خطرناک اور نقصان دہ ہیں کہ بعض دفعہ یقین ہی نہیں آتا کہ وہ خود اس کے بانی ہوں بعض دفعہ خیال آتا ہے کہ ممکن ہے کہ ان کے پیچھے کوئی اور محرک ہو شاید بعض ایسی جماعتیں اس تحریک کی محرک ہوں جو جماعت احمدیہ کو اپنے رستہ میں حائل سمجھتی ہیں اور خیال کرتی ہیں کہ اس جماعت کی وجہ سے ان کا مسلمانوں پر حملہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔ پس بعض دفعہ خیال آتا ہے کہ ممکن ہے کہ ایسی جماعتوں نے ان کو اپنا آلہ کار بنا لیا ہو مگر چونکہ اس کا کوئی بدیہی ثبوت نہیں ملتا اس لئے عقل چکر کھا کر اس بات کی طرف آ جاتی ہے کہ ان کی عقلیں ہی ماری گئی ہیں اور وہ مسلمانوں کے فوائد کو نہیں سمجھتے۔
پچھلے دنوں سے متواتر یہ تحریک کی جارہی ہے اور یہاں جو احرار کانفرنس ہوئی تھی اس میں بھی کہا گیا تھا کہ احمدیوںکو مسلمانوں میں شمار نہ کیا جائے بلکہ انہیں مسلمانوںمیں سے نکال دیا جائے اور غیرمسلم تصور کیا جائے۔ یہ سوال موجودہ زمانہ میں جبکہ مسلمان پہلے ہی ہندوستان میں اقلیت ہیں اور جبکہ ان کی حالت خطرناک ہو رہی ہے، کسی عقلمند ی اور دانش کا نتیجہ نہیں کہلا سکتا چند سال ہوئے ایک دفعہ پٹنہ میں مسلمانوں کی میٹنگ ہوئی اور اس میں اسی موضوع پر گفتگو شروع ہو گئی مولانا محمد علی صاحب جو علی برادرز میں سے تھے اور اب فوت ہو چکے ہیں اس جلسہ کے صدر تھے بہار کے ایک مولوی صاحب نے اس ذکر کے دوران میں کہ ہندوؤں کو سکھوں سے زیادہ طاقت مل رہی ہے کیونکہ وہ اقلیت میں ہو کر حکومت سے زیادہ حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں تمسخر کے طور پر کہہ دیا کہ اس کا علاج آسان ہے ہم بھی احمدیوں کو عام مسلمانوں سے الگ کر دیں اور انہیں کہیں کہ وہ حکومت سے زیادہ حقوق کا مطالبہ کریں اس پر مولانا محمد علی صاحب نے جو اس جلسہ کے صدر تھے بڑی سختی سے ان مولوی صاحب کو ڈانٹا اور کہا کہ کیا تم اسلام کے دوست ہو یا دشمن؟ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ مسلمانوں میں پہلے ہی کافی تفرقہ ہے تم چاہتے ہو کہ ان میں اور زیادہ تفرقہ پیدا کر دو مگر وہاں صدر مولانا محمد علی صاحب تھے اور صوبہ بہار تھا اور اب جو سوال پیش ہو رہا ہے وہ پنجاب میں پیش ہے اور سوال اٹھانے والے مولوی ظفر علی صاحب، چوہدری ا فضل حق صاحب ،مولوی حبیب الرحمن صاحب اور سید عطاء اﷲ شاہ صاحب بخاری جیسے انسان ہیں ۔یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ وہ اس طرح ہمیں نقصان پہنچا رہے ہیں حالانکہ ہمیں نقصان کس طرح پہنچ سکتا ہے ؟کہا جاتا ہے ہم چھپّن ہزار ہیں اور اگرچہ ہم اُس وقت بھی چھپّن ہزار نہیں تھے جبکہ مردم شماری ہوئی اور اب تو مردم شماری پر بھی تقریبا ً پانچ سال گزر چکے ہیں اگر اس وقت ہماری تعداد ایک لاکھ بھی سمجھ لی جائے تب بھی حکومت کو ایک نمائند ہمارا ضرور لینا پڑے گا کیونکہ اقلیتوں کو ان کی نسبت سے زیادہ حقوق دیئے جاتے ہیں پس اگر ہماری جماعت کو ایک نمائندگی مل جائے تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس لحاظ سے مسلمانوں کی ایک ممبری کم ہو جائے گی اگر مسلمانوں کی ایک ممبری اس طرح عام کانسٹی چیوانسی (CONSTITUENCY) سے کم کر دی جائے تو امکان ہے کہ خاص حالات کے پیدا ہونے پر جیسے نامزدگیاں وغیرہ ہوتی ہیں، ایک اور احمدی بھی ممبر بن جائے مسلمانوں کی کل ممبریاں اسمبلی میں ۸۹ سمجھی جاتی ہیں اگر ۸۹ میں سے دو نکال دی جائیں تو مسلمانوں کی ممبریاں ۸۷ رہ جاتی ہیں چونکہ کُل ۱۷۵ ممبریاں ہوں گی اس لئے ۸۸ کے مقابلہ میں ۸۷ مسلمانوں کی ممبریاں رہ جائیں گی جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ ہمیں اپنے میں سے نکال کر اپنے آپ کو اقلیت بناتے اور اپنے قومی فوائد کو خطرناک نقصان پہنچاتے ہیں ۔لیکن کسی نے کہا ہے
ایاز قدرے خود را بشناس
یہ مسلمانوں کے نمائندے ہی کب بنے ہیں اور کب انہیں کسی نے اختیار دیا ہے کہ جن کے متعلق ان کا جی چاہے انہیں مسلمانوں میں سے خارج قرار دے دیں پنجاب میں سے مسلمانوں کا بیشتر حصہ ایسا ہے جو ان لوگوں کی رائے کو اتنی وقعت دینے کے لئے بھی تیار نہیں جتنی وقعت ایک معمولی عقل و سمجھ رکھنے والے انسان کی بات کو دی جاتی ہے۔ منہ سے یہ کہہ دینا کہ ہم آٹھ کروڑ مسلمانانِ ہند کے نمائندے ہیں بالکل آسان ہے مگر یہ تو بتائیں کہ ان میں سے کتنے آدمیوں نے اس اعلان کے خلاف آواز اٹھائی ہے جو حال ہی میں احمدیوں اور احراریوں کے متعلق بعض معززین کی طرف سے شائع ہؤا ہے۔ اسمبلی کے نو دس نمائندوں نے جس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے ایک تہائی حصہ نے اس اعلان میں حصہ لیا ہے ممکن ہے اگر مزید موقع ملتا تو اور ممبر بھی اس اعلان میں شامل ہو جاتے، کونسل آف سٹیٹ کے ممبر بھی شریک ہیں ،اسمبلی کے قریباً تمام سندھی نمائندوں نے اس اعلان پر دستخط کئے ہیں اور اس طرح سندھ کا سارا صوبہ نکل جاتا ہے ،پھر بہار کے اکثر نمائندوں نے اس پر دستخط کئے ہیں پس صوبہ بہار بھی نکل گیا ،اسی طرح بنگال کے بھی اکثر نمائندوں نے اس پر دستخط کئے ہیں پس صوبہ بنگال بھی آٹھ کروڑ مسلمانوں میں سے نکل گیا ۔پنجاب کے ممبران کی بھی ایک معقول تعداد نے اس پر دستخط کئے ہیں پس وہ تعداد بھی ان مسلمانانِ ہند میں سے نکل گئی جن کی نمائندگی کا احرار کو دعویٰ ہے ۔بنگال میں مسلمان تین کروڑ کے قریب ہیں ،بہار میں شاید تیس لاکھ کے قریب ہیں ،پنجاب کا تہائی حصہ لے لیا جائے تو چالیس لاکھ بن جاتا ہے پھر سندھ کے تیس لاکھ مسلمان لے لئے جائیں تو نصف کے قریب مسلمانوں کی تعداد ایسی نکل جاتی ہے جو احرار کی ہمنوا نہیں بلکہ ان کے خلاف ہے۔پس تین چار کروڑ مسلمانانِ ہند کے نمائندے جب اپنے دستخطوں سے ان میں سے نکل گئے تو پھر یہ نمائندے کس کے ہیں ؟ باقی چار کروڑ جو ہیں ان کے متعلق بھی یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ احراری ان کے نمائندہ ہیں ۔آخر ملک نے جن بہترین دماغوں کو اپنا نمائندہ چن کر بھیجا ہے،انہی کی رائے کو وقعت دی جا سکتی ہے نہ کہ ان کی رائے کو جن کی نمائندگی کے دعویٰ کو کوئی تسلیم کرنے کے لئے تیار ہی نہیں۔ غرض آٹھ کروڑ مسلمانوں میں سے جن کی نمائندگی کا احرار کو دعویٰ ہے قریباً نصف ملک کے نمائندوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ ان فسادات کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو احرار نے پیدا کر رکھے ہیں ۔پس جب چار کروڑ مسلمانوں کے نمائندے اعلان کرتے ہیں کہ وہ احرار کی فتنہ پردازیوں سے بیزار ہیں اور چار کروڑ خاموش ہیں تو پھر انہیں چوہدری کس نے بنایا ہے ۔یہ آپ ہی آپ آٹھ کروڑ مسلمانوں کے نمائندہ بنے پھرتے ہیں۔آٹھ کروڑ تو الگ رہے یہ پنجاب کے سارے مسلمانوں کا ہی اپنے آپ کو نمائندہ ثابت کر دکھائیں تو بات ہے۔ چوہدری ظفر اﷲ خان صاحب کے اعزاز میں پچھلے دنوں لاہور میں جو دعوت دی گئی اس میں پنجاب کے نمائندگان کا ۸۰ فیصدی حصہ شامل تھا گویا پنجاب کے ۸۰ فیصدی لوگ سمجھتے ہیں کہ احرار محض فتنہ برپا کر رہے ہیں ۔اس کے سوا ان کی کوئی اور غرض نہیں آج تو یہ لوگ کہہ دیں گے کہ چوہدری اسد اﷲ خان صاحب ایک قانونی سوال کی وجہ سے رہ گئے مگر حلقہ سیالکوٹ کو ہی لے لوجب چوہدری ظفر اﷲ خان صاحب پنجاب کونسل کے ممبر منتخب ہونے والے تھے تو احرار نے کتنا زور لگایا تھا کہ کسی اور کو ان کے مقابل پر کھڑا کر دیں مگر انہیں کوئی شخص نہ ملا ۔اگر وہ آٹھ کروڑ مسلمانانِ ہند کے نمائندہ تھے تو اس وقت چوہدری صاحب بِلا مقابلہ منتخب کس طرح ہو گئے۔ اسی طرح پچھلے دنوں جب الیکشن ہؤا تو اس میں مولوی مظہر علی صاحب بھی کھڑے ہوئے اور شیخ عطا محمد صاحب بھی۔ ہماری جماعت شیخ عطا محمد صاحب کی تائید میں تھی۔اس وقت احرار کے نمائندوں نے شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کے ذریعہ ہم سے خواہش کی کہ ہمارے ووٹ انہیں ملیں ۔اگر احراری آٹھ کروڑ مسلمانوں کے نمائندے تھے تو ہماری طرف ہاتھ پھیلانے کی ضرورت انہیں کیوں محسوس ہوئی اور کیوں انہوں نے ہم سے اپنے لئے ووٹ مانگے ۔گو یہ علیحدہ امر ہے کہ ہم نے ان کی درخواست کو نہ مانا اور کہا کہ وہ تحریری طور پر ہمیں درخواست لکھ کردیں جس پر وہ آمادہ نہ ہوئے ۔پس یہ غلط ہے کہ یہ لوگ آٹھ کروڑ مسلمانوں کے نمائندہ ہیں ۔آٹھ کروڑ چھوڑ ۸۰لاکھ مسلمانوں کے بھی نمائندے نہیں لیکن بہر حال یہ جو دعویٰ کرتے ہیں اپنی ذات میں بہت بڑا اور مسلمانوں کے لئے بہت بُرا ہے ہم نے کبھی سیاسی حقوق کے مطالبہ کے وقت دوسرے مسلمانوں میں اور اپنی جماعت میں فرق نہیں کیا ۔ہم نے ہمیشہ ان کی تائید کی اور اپنی مقدرت سے زیادہ ان کے لئے قربانیاں کیں نہرو رپورٹ کے شائع ہونے کے موقع پر اس کے خلاف آواز بلند کی اور اپنی مقدرت سے زیادہ مسلمانوں کے لئے کوششیں کیں ،راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کے موقع پر اپنی مقدرت سے زیادہ مسلمانوں کی مدد کی، مسلمانوں کے جو نمائندے انگلستان گئے ان کی امداد کی ،ان میں لٹریچر تقسیم کیا مگر اس کے مقابلہ میں احراریوں کی طرف سے کوئی چیز پیش نہیں کی جا سکتی ۔انہوں نے نہرو رپورٹ کے وقت اس کی تائید کی اور راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کے موقع پر کچھ نہ کیا ۔گویا ایک موقع پر مسلمانوں کی مخالفت کی اور ایک موقع پر کچھ بھی نہ کیا ۔پھر ہمیشہ یہ مشترکہ انتخاب کے حامی رہے ہیں اور اس کے لئے پُر زور جدّو جہد کرتے رہے ہیں حالانکہ مسلمانوں کی اکثریت اس کے خلاف ہے ۔ایسی جماعت کا یہ دعویٰ کرنا کہ وہ آٹھ کروڑ مسلمانانِ ہند کی نمائندہ ہے اور اس کی طرف سے اس کوشش کا ہونا کہ وہ مسلمانوں کے ایک حصہ کو الگ کر دے ،اس سے زیادہ مضحکہ خیز اور مسلمانوں کے لئے نقصان رساں چیز کیا ہو سکتی ہے۔ پھر سوال یہ ہے ہمیں مسلمانوں میں سے نکالنے والا ہے کون ؟حکومت کو کیا اختیار ہے کہ وہ کہے کہ ہم تمہیں مسلمان نہیں سمجھتے۔ کہا جاتا ہے کہ احمدی چھپّن ہزار ہیں ۔میں کہتا ہوں نہ سہی چھپّن ہزار ۔اگر احمدی تمام دنیا میں چھ بھی ہوتے یا ایک ہی ہوتا تب بھی دنیا کی کوئی گورنمنٹ نہیں جو اسے مسلمانوں میں سے نکال سکے ۔مذہب منہ کے دعویٰ پر مبنی ہوتا ہے اور جب کوئی شخص کہتا ہے کہ مَیں مسلمان ہوں تو کون ہے جو کہہ سکے کہ تم مسلمان نہیں ۔ہم تمہیں مسلمانوں میں سے نکالتے ہیں پس ان کی طرف سے جو یہ سوال پیدا کیا گیا ہے کہ احمدیوں کو مسلمانوں میں سے نکال دیا جائے محض لغو اور فضول ہے ۔جب تک ہم کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اس وقت تک دنیا کی کوئی طاقت ہمیں مسلمانوں میں سے نکال نہیں سکتی ۔ہمیں مسلمانوں میں سے نکالنے کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ہم دوسروں کو کافر کہتے ہیں مگر دوسروں کو کافر کہنے کا مفہوم تو یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو ہی پکا مسلمان سمجھتے ہیں پھر کیا پکے مسلمانوں کو بھی کوئی شخص نکال سکتا ہے ۔ہمارا جُرم یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو زیادہ پکا مسلمان سمجھتے اور دوسروں کو اپنے جیسا پکا مسلمان نہیں سمجھتے اس جُرم کی وجہ سے وہ کہتے ہیں چونکہ یہ پکے مسلمان بنتے ہیں، اس لئے انہیں مسلمانوں میں سے نکال دو ۔کتنی معقول وجہ ہے جو بیان کی جاتی ہے ۔پس اول تو یہ جُرم ہی نہیں لیکن اگر اسے جُرم بھی فرض کر لیا جائے تب بھی میں کہتا ہوں
ایں گنا ہیست کہ در شہر شما نیز کنند
یہ قصور اور خطا وہ ہے جو تمہارے شہر میں بھی کی جاتی ہے مسلمانوں کی کونسی جماعت ہے جو ایک دوسرے کو کافر نہیں کہتی۔کیا مولوی ظفر علی صاحب پر کفر کے فتوے نہیں لگے ،کیا احرار کے لیڈروں مولوی حبیب الرحمن صاحب اورسید عطاء اﷲ شاہ صاحب بخاری پر کفر کے فتوے نہیں لگے ؟یہ مسلمان مولوی تو ہیں ہی کافر گر۔اس کفر کے سمندر میں اگر ان کے خیال کے مطابق کفر کا ایک قطرہ ہم نے بھی ڈال دیا تو اس سے ان پر گھبراہٹ کیوں طاری ہو گئی ۔ان کے ہاں تو اگر کسی کا ٹخنے کے نیچے تہہ بند یا پاجامہ ہو جائے تو کفر کا فتویٰ لگ جاتا ہے،ہاتھ اوپر باندھنے سے کفر کا فتویٰ لگ جاتا ہے ،تشہّد کے وقت انگلی اوپر اٹھانے سے کفر کا فتویٰ لگ جاتاہے پس ایسی مشاق جماعت جو کفر کے میدان کی شہسوار ہے ہمارے کافر کہنے سے گھبرا کیوں گئی ۔یا تو ہمارے کافر کہنے میں کوئی ایسی بات ہے جس سے انسان گھبرا جاتا ہے یا کفر کے فتوے پر ان کا شور مچانا فتنہ پردازی ہے ۔کیا شیعہ سنیوں کو اور سنّی شیعوں کو کافر نہیں کہتے ۔کیا اہل حدیث حنفیوں کو اور حنفی اہل حدیث کو کافر نہیں کہتے کیا چکڑالوی غیر چکڑالویوں کو اور غیر چکڑالوی چکڑالویوں کو کافر نہیں کہتے ۔چکڑالوی تو کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے قرآن مجید منسوخ کر دیا پھر قرآن مجید کو منسوخ کرنے کے بعد اسلام کا کیا باقی رہ جاتا ہے ۔اسی طرح غیر چکڑالوی کہتے ہیں کہ چکڑالویوں نے رسول کریم ﷺ کی ہتک کر دی اورسول کریم ﷺ کی توہین کرنے کے بعد کوئی شخص کب مسلمان کہلا سکتا ہے ۔
پس کفر کی اس گرد و غبار میں اگر ہم نے بھی تھوڑی سی گرد اُڑا لی تو اس میں بات ہی کون سی ہوئی جس پر انہیں اتنا غصہ آیا ۔سوائے اس کے کہ بھیڑیے اور بکری والی بات سمجھی جائے ۔کہتے ہیں کوئی بھیڑیا اور بکری ایک نالے سے پانی پی رہے تھے ۔بکری پانی کے بہاؤ کی طرف تھی اور بھیڑیا اوپر کی طرف۔بھیڑیے کا بکری کو مارنے کو دل جوچاہاتو غصہ سے بکری کو کہنے لگا ۔تجھے شرم نہیں آتی، ہم پانی پی رہے ہیں اور تو پانی گدلا کر رہی ہے ۔وہ ک