• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

خطبات محمود ۔ خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رض ۔ جلد 22

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
خطبات محمود ۔ خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رض ۔ جلد 22



1
جلسہ سالانہ کے اختتام پر اظہار تشکر، وعدہ جات تحریک جدید بھجوانے اور غیر مبائعین کوتبلیغ کی تحریک
(فرمودہ3 جنوری 1941ء)
تشہّد، تعوّذ اور سورہٴ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘سب سے پہلے تو مَیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے باوجود اس کے کہ میری طبیعت جلسہ سے قبل بیماری اور کام کی زیادتی کی وجہ سے بہت ضعیف تھی اور مَیں اپنے نفس میں سمجھتا تھا کہ غالباً مَیں جلسہ کے موقع پر اس حد تک بھی تقریریں نہ کر سکوں گا جس حد تک کہ پہلے کیا کرتا تھا اور دوسرے کاموں میں بھی غالباً کمی کرنی پڑے گی۔ مگر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ کسی کام میں کوئی کمی نہیں کرنی پڑی بلکہ پہلے جلسوں کے بعد مَیں جس قدر کوفت محسوس کیا کرتا تھا اس سال اس سے بہت کم کوفت محسوس ہوئی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا جلسہ آیا ہی نہیں بلکہ کئی لحاظ سے مَیں اس وقت اپنی طبیعت کو جلسہ سے پہلے کی نسبت بہت بہتر پاتا ہوں۔ گویا ایک قسم کا علاج ہو گیا۔ بے شک جلسہ کے بعد کھانسی ضرور ہوئی ہے مگر یہ کھانسی حلق کی معلوم ہوتی ہے اور اس کھانسی سے ضعف نہیں ہوتا۔ اور پھر پہلے سالوں کی نسبت اس سال کھانسی میں بھی کمی رہی ہے۔ گو دو چار روز قبل کھانسی کچھ زیادہ تھی مگر کل قریباً نہیں اٹھی۔ آج کچھ کچھ اٹھ رہی ہے۔ مگر اس دفعہ کا حملہ اس کے مقابلہ میں کچھ نہیں جو پہلے سالوں میں جلسہ کے بعد ہوٴا کرتا تھا۔ پہلے تو جلسہ کے بعد ایسی شدید کھانسی ہوٴا کرتی تھی کہ مجھے رات کے ایک ایک دو دو بجے تک بستر میں بیٹھ کر وقت گزارنا پڑتا تھا اور نیند نہیں آتی تھی۔ اس سال گو صبح شروع ہوتی ہے مگر دس بجے تک ہٹ جاتی ہے اور پھر شام کو کچھ شروع ہو کر سونے کے وقت تک رک جاتی ہے۔ اس کے علاوہ سردی لگنے کی وجہ سے متلی کی بھی کچھ شکایت ہوئی اورجگر کی خرابی کا کچھ دورہ ہوٴا۔ مگر مجموعی لحاظ سے اور توقع کے بالکل خلاف میری طبیعت بہت اچھی رہی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ایسی نصرت کی ہے کہ کام بھی ہو گیا اور طبیعت میں بھی کوئی خرابی نہیں ہوئی۔ بلکہ طبیعت پہلے کی نسبت اچھی ہے۔ اس میں کچھ دخل ایک اور بات کا بھی ہے مگر وہ بھی خدا تعالیٰ کا فضل ہی ہے اوروہ یہ کہ مَیں ہمیشہ عام طور پر جلسہ کی تقریروں کے نوٹ دورانِ جلسہ میں لیا کرتا ہوں۔ چونکہ فرصت نہیں ہوتی اس لئے میرا قاعدہ ہے کہ سفید کاغذ تہہ کر کے جیب میں رکھ لیا کرتا ہوں اور دوسرے کاموں کے دوران جو وقت مل جائے اس میں کاغذ نکال کر نوٹ کرتا رہتا ہوں ۔ مثلاً ڈاک دیکھ رہا ہوں دفتر والے کاغذات پیش کرنے کے لئے لانے گئے اور اس دوران مَیں نوٹ کرنے لگ گیا یا نماز کے لئے تیاری کی، سنتیں پڑھیں اور جماعت تک جتنا وقت ملا اس میں نوٹ کرتا رہا۔ اس طرح مَیں یہ تیاری پندرہ سولہ دسمبر سے شروع کر دیتاتھا اور قریباً 22،23 دسمبر تک کرتا رہتا اور اس کے بعد دوسرے کاموں سے فراغت حاصل کر کے نوٹوں کی تیاری میں لگ جاتا ۔ لیکن ان کو درست کر کے لکھنے کا کام میں بِالعموم 27، 28 کو کرتا تھا اوراس کے لئے وقت انہی تاریخوں میں ملتا تھا۔ اس وجہ سے طبیعت میں کچھ فکر بھی رہتا تھا کہ صاف کر کے لکھ بھی سکوں گا یا نہیں۔ لیکن اس دفعہ قرآن کریم کی تفسیر کا کام رہا اور اس کے لئے وقت نہ تھا۔ 22 کی شام کو ہم تفسیر کے کام سے فارغ ہوئے۔ 23 کو بعض اور کام کرنے تھے وہ کئے۔ 24 کی شام کونوٹوں کا کام شروع کیا اور فکر تھا کہ یہ کس طرح کروں گا مگر اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہؤا کہ نوٹوں کی تیاری میں بہت آسانی ہو گئی۔ حوالے وغیرہ بہت جلد جلد ملتے گئے اور 25 کی شام کو تینوں لیکچروں کے نوٹوں سے میں فارغ ہو چکا تھا۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ مجھے زیادہ کوفت نہیں ہوئی کیونکہ زیادہ محنت نہ کرنی پڑی۔ اگر مضمون پیچیدہ ہو جاتا تو مجھے زیادہ محنت کرنی پڑتی اور پھر بوجھ بھی زیادہ محسوس ہوتا اور تکلیف ہوتی مگر اللہ تعالیٰ نے اس سے بچا لیا۔
اس کے بعد میں احباب کو تحریک جدید کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ گو اس بات سے زیادہ تر فائدہ قادیان کے دوستوں کو ہی پہنچ سکے گا کیونکہ یہ بات ان تک آج ہی پہنچ جائے گی۔ مَیں نے تحریک جدید کے وعدوں کے لئے آخری تاریخ 7جنوری 1941ء مقرر کی تھی۔ آج 3 ہے اور اس لحاظ سے صرف چار روز باقی ہیں اور اس تنگ وقت میں یہ بات بیرونی جماعتوں کو پہنچنی مشکل ہے۔ بیرونی جماعتوں کے لئے حسب قاعدہ سابق 8 جنوری کی تاریخ آخری ہے یعنی جن خطوط پر 8 جنوری کی مہر ہو گی وہ وعدے میعاد کے اندر سمجھے جائیں گے۔ آخری تاریخ تو سات ہے مگر سات کی شام کو چونکہ ڈاک نہیں نکل سکتی۔ اس لئے 8 کی مہر والے خطوط میعاد کے اندر سمجھے جائیں گے۔ اس دفعہ مَیں نے چونکہ میعاد بہت کم مقرر کی تھی اس لئے جو لوگ پوری طرح کام نہیں کر سکے اور جلسہ کی وجہ سے ان کو موقع بھی کم مل سکا ہے۔ دس دن تو کم سے کم جلسے میں چلے گئے۔ اس لئے ایسے لوگوں کے لئے مَیں اس میعاد میں توسیع نہیں کرتا البتہ جن کے لئے مجبوریاں تھیں ان کے لئے 17 جنوری دوسری میعاد مقرر کرتا ہوں۔ یہ میعاد قادیان کے لوگوں کے لئے نہیں کیونکہ ان کے حالات دوسروں سے مختلف ہیں۔ یہاں کے دوستوں کو اگر جلسہ میں کام کرنا پڑا ہے تو معاً بعد ان کے لئے فراغت بھی ہو گئی۔ انہوں نے کہیں آنا جانا نہ تھا یہیں کام شروع کرنا تھا اور یہیں ختم کر دینا تھا۔ پس یہ دوسری میعاد قادیان اور قادیان کے اردگرد یعنی جو جماعتیں جماعت قادیان کے تابع ہیں کے لئےنہیں۔ ان کے لئے میعاد 8 جنوری کو ختم ہو جائے گی باہر کی جن جماعتوں کے لئے مشکلات تھیں اور جلسہ کی وجہ سے یا اَور وجوہ سے جن کے لئے مجبوری تھی ان کے لئے مَیں پہلی میعاد کوتو لمبا نہیں کرتا البتہ دوسری میعاد مقرر کر دیتا ہوں۔ جو دوست اپنے خطوط 18 کو ڈاک میں ڈال دیں گے ان کے وعدے میعاد کے اندر سمجھے جائیں گے۔٭ ہندوستان سے باہر کی جماعتوں کے لئے حسبِ دستور سابق وعدوں کی آخری تاریخ آخر مارچ تک ہے اوریونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ یا امریکہ کے دوسرے ملکوں کے لئے اگر وہاں کوئی احمدی ہوں تو یہ میعاد جون تک ہے۔
میعاد کو مختصر کرنے کی وجہ سے دوستوں نے چستی سے کام کیا ہے مگر ابھی بہت بڑی مقدار وعدوں کی باقی ہے اور دوستوں کو چاہئے کہ باقی دنوں میں اس کمی کو پورا کریں تا یہ سال پہلے سالوں کی نسبت بہتر رہے اور ان سے پیچھے نہ رہے۔
اس کے بعد مَیں یہ اطلاع دینا چاہتا ہوں کہ تفسیر کبیر کی1730جلدیں بِک چکی ہیں اور 280کے وعدے ہو چکے ہیں اور اس طرح گویا اگر یہ وعدے پورے ہو جائیں تو دو ہزار دس جلدیں فروخت ہو جائیں گی اور قریباً ایک ہزار باقی رہ جائیں گی اور ابھی بعض بڑی بڑی جماعتیں باقی ہیں جنہوں نے اپنی ذمہ داری کو ادا کرنا ہے۔ انہوں نے ابھی خود خریدنا ہے اور دوسروں کے پاس بھی فروخت کرنا ہے۔ مثلاً لاہور، امرتسر، گجرات، راولپنڈی، جہلم، پشاور، ڈیرہ اسماعیل خاں، کراچی، بمبئی، مدراس، کلکتہ، بھاگلپور، پٹنہ، لکھنوٴ وغیرہ کی جماعتیں ہیں۔ پھر یو۔ پی کی اکثر جماعتیں ہیں، حیدر آباد اور سکندرآباد کی جماعتیں ہیں، پھر ہندوستان سے باہر کی جماعتیں ہیں اور یہ سب کوشش کریں تو بالکل معمولی کوشش سے چار پانچ ہزار جلدیں فروخت ہو سکتی ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں اگر صرف لاہور کی جماعت ہی محنت سے
کام کرے تو وہاں ہزار دو ہزار جلدیں ضرور لگ سکتی ہیں۔ مگر یہ دیکھتے ہوئےکہ ساری جماعت پوری طرح کام نہیں کرتی اگر لاہور کی جماعت احمدیوں میں اور دوسروں میں ملا کر پانسو نسخے بھی
٭ چونکہ یہ خطبہ آٹھ دن تک شائع نہیں ہو سکا۔ اب یہ میعاد 31 جنوری 1941ء تک بڑھائی جاتی ہے۔ امید ہے کہ اس عرصہ تک سب دوست اورجماعتیں اپنے وعدے دفتر میں بھجوا دیں گے۔ منہ
لگوا دے تو سمجھا جا سکتا ہے کہ اس نے کم سے کم ذمہ داری ادا کر دی ہے۔ حیدر آباد اور سکندر آباد وغیرہ میں امرا ء کی کثرت اور جماعت کے مخلصین کی حالت کو دیکھ کر مَیں سمجھتا ہوں پانسو سے کم وہاں نہیں فروخت ہونی چاہئیں۔ اور اس طرح ایک ہزار جلدیں تو انہی دو جگہوں میں فروخت ہو جانی چاہئیں۔ پھر ہندوستان سے باہر بھی کم سے کم پانسو لگنی چاہئیں اور اگر ساری جماعت پوری ذمہ داری کے ساتھ کام کرے تو اس کے دس ہزار نسخے فروخت ہو جانے چاہئیں۔ سرِ دست صرف ایک ہزار نسخے باقی ہیں اس لئے جماعتیں اگر جلدی نہ کریں گی تو انہیں بالکل محروم رہنا پڑے گا اس لئے دوستوں کو اس طرف جلد توجہ کرنی چاہئے اور اپنے اپنے علاقوں میں اس کی اشاعت کرنی چاہئے تا آئندہ کے لئے وہاں قرآن کریم کا بیج بو دیا جائے۔ اگر انہوں نے جلدی نہ کی تو پھر دوسرے ایڈیشن تک انتظار کرنا پڑے گا جو پہلے کے ختم ہونے پر ہی شائع ہو سکتا ہے اور اس لئے ممکن ہے سال دو سال بعد شائع ہو سکے او راتنا لمبا وقفہ پڑ جانے سے اپنے دل پر بھی زنگ لگ جاتا ہے اور دوسروں کا جوش بھی ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔بعض دوستوں نے تفسیر کی مفت اشاعت کے لئے قیمتیں دی ہیں۔ ایک دوست نے سو جلدوں کی، ایک نے بیس کی اور ایک نے گیارہ کی قیمت دی ہے۔ مجھے صرف انہی تین کا علم ہے۔ ہم نے ان کی قیمتیں شکریہ کے ساتھ لے لی ہیں مگر مَیں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ ایک ہی آدمی ڈیڑھ دو سو جلدوں کی قیمت دے دے اوراس طرح مخلصین اپنے اوپر چار چار پانچ پانچ سو کا بوجھ ڈال لیں بلکہ مَیں یہ پسند کرتا ہوں کہ دوسروں میں کتب فروخت کی جائیں ،دوسروں کو مفت دے دینے سے اپنے اوپر تو بوجھ پڑ جاتا ہے مگر فائدہ نہیں ہوتا۔ ایسے لوگ جن کو مفت دے دی جائے ان میں سے نوّے فیصدی اسے کھول کر بھی نہ دیکھیں گے لیکن جو شخص پانچ چھ روپیہ خرچ کرے گا وہ اسے پڑھے گا بھی۔
پس جن دوستوں نے رقوم دی ہیں ان کو ہم نے لے لیا ہے مگر مَیں یہ نہیں سمجھتا کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری کو ادا کر دیا ہے۔ یہ ان کی طرف سے زائد نیکی ہے اور نفل ہے۔ ان کی ذمہ داری ابھی باقی ہے جو انہیں ادا کرنی چاہئے اور یہ خریدار پیدا کرنے سے ہی ادا ہو سکتی ہے۔
جلسہ سے قبل مجھے یہ رپورٹ ملی تھی کہ قادیان کے لوگوں نے اپنی ذمہ داری کو اس بارہ میں ادا نہیں کیا۔ یہاں سینکڑوں نسخے لگنے چاہئیں تھے کیونکہ یہاں تعلیم زیادہ ہے اور لوگوں میں قرآن کریم کو سمجھنے کی اہلیت زیادہ ہے۔ مگر ابھی یہاں کے دوستوں نے اس طرف توجہ نہیں کی انہیں جلد سے جلد اپنے فرض کو ادا کرنا چاہئے۔
اس کے بعد میں نئے سال کے متعلق دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اس سال انہیں خصوصیت کے ساتھ پیغامیوں میں تبلیغ کرنی چاہئے۔ مَیں نے پچھلے سال بھی اس کے متعلق تحریک کی تھی مگر وہ دورانِ سال تھی اور گو بعض دوستوں نے اس طرف توجہ کی مگر ایسا اچھا کام نہیں ہوٴا۔ بعض دوستوں نے نئے نئے مضامین لکھے، بعض نے تبلیغ کی اور ان میں سے بعض نے بیعت بھی کی مگر ان کی تعداد بہت کم تھی۔ میرا اندازہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ دس بارہ بیعت میں شامل ہوئے ہیں اور گو پیغامیوں کی تعداد بھی تین چار ہزار ہی ہے اور اسی لحاظ سے ان میں سے احمدی ہو سکتے ہیں۔ مگر میرے نزدیک یہ تعداد کافی نہیں ہے اور اگر ہم پوری طرح ان پر ٹوٹ پڑیں اور سارا زور لگا کر تبلیغ کریں تو جلد از جلد کامیابی ہو سکتی ہے۔ ان میں ایک طبقہ تو ایسا ہے جو بہت بگڑ چکا ہے اور اس کی حالت ایسی ہے کہ اب میرے نزدیک ان کی اصلاح ناممکن ہے انہوں نے اپنے دل کو بہت گندہ کر لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر انہی کے دلوں کے تیار کردہ تالے لگا دئیے ہیں۔ انہوں نے سچائی کو قبول کرنے سے ایسا اعراض کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل نے بھی ان سے منہ موڑ لیا ہے اورجب تک ان کے اندر نئی تبدیلی نہ پیدا ہو، نئے سامانان کی ہدایت کے پیدا نہ ہوں ان کو ہدایت نہیں ہو سکتی۔ لیکن ایک طبقہ ان میں ایسا بھی ہے جو واقعی دل میں اپنے آپ کو ہدایت پر سمجھتا ہے اور صداقت سمجھ کر اسے اختیار کئے ہوئے ہے۔ یہ طبقہ خود بھی گمراہ ہے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ ان لوگوں کا حق ہم پر مقدم ہے اور جماعت کو ان کی ہدایت کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔ یہ لوگ احمدی کہلاتے ہیں حضر ت مسیح موعود علیہالصلوٰة و السلام کے سارے کلام پر ایمان رکھتے ہیں گو اس کے بعض حصوں کے معنے اور کرتے ہیں ۔ اور دوسروں کی نسبت ہمارے زیادہ قریب ہیں۔ گو ان کے دلوں میں ہم سے دشمنی ہے مگر وہ اپنے اَئمہ کی پیروی میں ہے جن کے دل ہمارے خلاف بُغض سے بھرے ہوئے ہیں اور ان کے اس بُغض کا پرتَو ہی عوام پر پڑتا ہے۔ ان کے اپنے دل کی یہ کیفیت نہیں اس لئے ان کا زیادہ حق ہے کہ ہم ان کی ہدایت کے لئے کوشش کریں۔
پس مَیں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی اپنی جگہ پر جہاں جہاں بھی پیغامی ہوں مثلاً لاہور، سیالکوٹ، راولپنڈی، فیروز پور، پشاور وغیرہ ان سب کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ خصوصیت کے ساتھ ان کی طرف متوجہ ہوں اور اس سال کوشش کریں کہ ان میں سے زیادہ سے زیادہ کو ہدایت نصیب ہو۔
گزشتہ سالوں میں ان لوگوں نے ہم پر ناواجب طور پر حملے کئے ہیں۔ انہوں نے ہمارے ایسے دشمنوں کی مدد کی ہے اور ان کو چندے دئیے ہیں جنہوں نے بلا وجہ ہم پر حملے کئے اور ہم پر ناواجب اتہامات لگائے۔ گو وہ انکار کرتے ہیں کہ ہم نے ان کی مدد نہیں کی مگر ان کے اپنے کئی لوگوں نے اس بات کا اقرار کیا ہے۔ دراصل ان کا انکار ایسا ہی ہے جیسے بعض پرانے مولویوں نے بعض ناجائز باتوں کو جائز کرنے کے لئے بعض حیلے تراش رکھے ہیں۔ مثلاً عید کی نماز کے بعد قربانی کا حکم ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر کسی کا دل چاہے کہ نماز سے پہلے اپنی قربانی کا گوشت کھائے تو وہ یوں کر سکتا ہے کہ کسی گاوٴں میں جانور لے جا کر ذبح کر لے کیونکہ جہاں عید کی نماز نہ ہوتی ہو وہاں یہ شرط نہیں۔ عید کی نماز تو شہر میں ہوتی ہے دیہات میں نہیں۔ پس کسی گاوٴں میں جاکر جہاں عید کی نماز نہ ہوتی ہو نماز سے پہلے قربانی کر کے اپنے گھر میں لائی جا سکتی ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب قربانی کو آدمی چٹی سمجھے۔ پیغامیوں کا ہمارے دشمنوں کو مدد دینے سے انکار بھی دراصل اسی قسم کا ہے۔ وہ حیلے بنا لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انجمن کے روپیہ سے ہم نے کوئی مدد نہیں دی۔ وہ زید، بکر سے چندہ کر کے دے دیتے ہیں۔ جب مستریوں نے فتنہ انگیزی شروع کی تو اس وقت بھی ان لوگوں نے ان کی مدد کی۔ مگر ساتھ ہی ساتھ انکار بھی کرتے رہے۔ لیکن ان کی پارٹی کے بغداد کے سیکرٹری نے ہمیں لکھ کر دیا کہ مجھے اپنے سنٹر سے ان لوگوں کے ٹریکٹ اور اشتہار وغیرہ تقسیم کے لئے آتے رہے ہیں۔ اب بھی انہوں نے ہمارے مخالفوں کی مدد کی ہے مگر اس سے انکار کرتے ہیں اور انکارسے ان کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے انجمن کے روپیہ سے ان کی مدد نہیں کی مگر کرتے ضرور ہیں اور وہ اس طرح کہ چھوٹی سی جماعت ہے مسجد میں بیٹھے ہوئے چند لوگوں کو تحریک کر دی اور ان سے روپیہ لے کر دے دیا تو یہ لوگ اس قسم کے حیلے بنا بنا کر ہمارے دشمنوں کو مدد دیتے ہیں جو ہم پر ناواجب حملے کرتے ہیں مگر ہمیں اس کی پرواہ نہیں۔ ان لوگوں میں سے ایک مالدار خاندان کا ایک فرد مصری صاحب کے فتنہ کے شروع میں یہاں آیا اور اس نے مصری صاحب کو ایک معقول رقم دی کہ ان لوگوں کا خوب مقابلہ کرو ہم تمہاری مدد کرتے رہیں گے۔ پھر مصری صاحب کے ساتھی مثلاً حکیم عبد العزیز اور عبد الرب پٹھان وغیرہ بھی اس خاندان کے پاس جاتے رہے اور ان سے مدد لیتے رہے۔ مگر خدا تعالیٰ کی قدرت کہ اسی سال اس خاندان کا ایک نوجوان پھر یہاں آیا اور مجھے کہا کہ ہمیں فلاں بڑا کام مل سکتا ہے آپ ہماری سفارش کر دیں۔ کوئی اور ہوتا تو ان کو جتاتا اور کہتا کہ تم تو ہماری اس طرح مخالفت کرتے رہے ہو مگر مومن کا بدلہ اَور رنگ کا ہوتا ہے اور وہ یہی کہ جو لوگ سالہا سال گالیاں دلواتے رہے وہ ان کے بھلے کا کام کرے۔ چنانچہ مَیں نے ان کی سفارش کی اور مجھے خوشی ہے کہ مَیں نے وہی بدلہ لیا جو محمد ﷺ کی سنت کے مطابق ہے ہمیں ان لوگوں سے کوئی دشمنی نہیں بلکہ خیر خواہی ہے۔ بے شک وہ دشمنی میں انتہاء سے بڑھے ہوئے ہیں مگر اصل دشمنی چند اَئمہ کو ہے باقیوں میں ان کی دشمنی کا انعکاس ہے۔ وہ اصل مجرم نہیں ہیں اس لئے ہم ان سے مایوس نہیں۔ اور اگر پوری توجہ سے تبلیغ میں لگ جائیں تو ضرور ان کو ہدایت ہو سکتی ہے۔ پس اس سال کے لئے جماعت کا بڑا مقدم کام یہی ہے کہ خصوصیت سے ان لوگوں میں تبلیغ کی جائے۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی خیال رکھیں کہ دوسری تحریکیں نظر انداز نہ ہوں ہماری عمریں بہت گزر چکی ہیں اور تھوڑی باقی ہیں۔ ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ اپنی زندگیوں میں احمدیت کو کم سے کم ہندوستان میں مضبوط حالت میں قائم شدہ دیکھ سکیں۔ ہر دن اور ہر رات ہمیں موت سے قریب کرتی جا رہی ہے اور صحابیوں کے بعد جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کو دیکھا یہ کام تابعین کے ہاتھ میں اور پھر ان کے بعد تبع تابعین کے ہاتھوں میں جائے گا۔ ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ آئندہ احمدی ہونے والے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کو نہیں دیکھا وہ یہ تو کہہ سکیں کہ ہم نے آپ کے دیکھنے والوں کو دیکھا یا یہ کہ آپ کے دیکھنے والوں کے دیکھنے والوں کو دیکھا۔ پس جن لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا ان کی زندگیاں بہت قیمتی ہیں اور جتنا کام وہ کر سکتے ہیں دوسرے نہیں کر سکتے۔ اس لئے ان کو کوشش کرنی چاہئے کہ مرنے سے قبل احمدیت کو مضبوط کر دیں تا دنیا کو معلوم ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ نے ایسی محنت سے کام کیا کہ احمدیت کو دنیا میں پھیلا کر مرے۔ اگر جماعتیں اس طرف پوری طرح متوجہ ہوں تو چند سال میں ہی دنیا میں تغیرِعظیم پیدا ہو سکتا ہے۔
اس کے بعد مَیں یہ اعلان کرتا ہوں کہ مَیں عنقریب تفسیر کبیر کی پہلی جلد کا کام شروع کرنے والا ہوں۔ احباب دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کی روکوں کو دور کر کے اس کی تکمیل کی توفیق عطا فرمائے اور دنیا کی ہدایت کا موجب بنائے۔ چونکہ جمعہ کی نماز کے بعد مہمانوں نے جانا ہے بارش بھی ہو رہی ہے اور نمازیں جمع ہونی ہیں اس لئے مَیں اسی پر خطبہ کو ختم کرتا ہوں۔’’ (الفضل14 جنوری 1941ء)

2
روحانی جماعتوں کی غیر معمولی ترقی بے سر و سامانی کی حالت میں ہی ہوتی ہے
(فرمودہ 24 جنوری1941ء)
تشہد، تعوّذ اور سورہٴ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘روحانی جماعتیں ہمیشہ روحانی اسباب سے فتح پاتی ہیں۔ ظاہری اسباب ہمیشہ روحانی جماعتوں کو کم میسر آتے ہیں اور ان کا میسر آنا ان جماعتوں کے لئے مفید بھی نہیں ہوتا۔ کیونکہ روحانی جماعتوں کے قیام کی غرض اللہ تعالیٰ کی ہستی کو ظاہر کرنا اور اس پر لوگوں کے دلوں میں یقین اور ایمان پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اور اگر کوئی قوم ظاہری سامانوں کے ساتھ ترقی کرتی چلی جائے تو اس کی ترقیات کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین اور ایمان پیدا نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پر اسی وقت یقین اور ایمان پیدا ہوتا ہے جب ایک جماعت خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت قائم کی جائے۔ اس کی ترقیات کی خبر دنیوی سامانوں کے مفقود ہوتے ہوئے بلکہ ان کے خلاف ہوتے ہوئے دی جائے اور پھر باوجود دنیوی سامانوں کے میسر نہ آنے کے وہ برابر ترقی کرتی چلی جائے۔ سب سے بڑا ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا یہی اختیار فرمایا ہوٴا ہے اور جب سے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے مامور فرمایا اُس وقت سے لے کر آج تک وہ اسی طریق کو اختیار کرتا چلا آیا ہے۔ دنیوی لوگ اس ذریعہ کو بظاہر بے اثر قرار دیتے ہیں لیکن ان کے یہ دعوے اُسی وقت تک ہوتے ہیں جب تک کہ وہ پیشگوئیاں اس جماعت کے حق میں پوری نہیں ہو جاتیں جس کو اللہ تعالیٰ اس کام کے لئے کھڑا کرتا ہے۔ جب تک وہ پیشگوئیاں پوری نہیں ہوتیں اور کمال و تمام کو نہیں پہنچ جاتیں اس وقت تک تو ماننے والوں میں سے بھی بعض جو کمزور دِل اور کمزور ایمان کے ہوتے ہیں شبہ میں مبتلا رہتے ہیں۔ گو کامل یقین اور کامل ایمان رکھنے والے مومن ان پیشگوئیوں کے پورا ہو جانے کی وجہ سے جو درمیانی عرصہ میں پوری ہوتی ہیں اپنے ایمان اور یقین میں بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن کمزور دل لوگ جن کی خلقی حالت ہی ایسی ہوتی ہے کہ وہ جلد شبہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یا اعصابی کمزوری والے انسان جو کبھی بھی یقین کے مقام پر کھڑے نہیں ہو سکتے یا ایسے لوگ جو منہ سے تو ایمان کا اظہار کرتے ہیں لیکن ان کے دل میں ایمان نہیں ہوتا۔ وہ تو اس زمانہ میں بھی جب خدا پے در پے نشانات نازل کرتا ہے کمزوری دکھاتے، شبہات میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور قسم قسم کی باتیں بناتے ہیں اور جو غیر ہیں وہ بھی درمیانی نشانات سے کم ہی فائدہ اٹھاتے ہیں اِلَّا مَا شَاءَ اللہُ۔ کوئی کوئی آدمی جس کے دل میں خدا تعالیٰ کی خشیت ہوتی ہے اِکّا دُکّا۔ ایک یہاں ایک وہاں اور کوئی اَور زیادہ پرے صداقت کو صحیح تسلیم کرتا ہوٴا مان لیتا ہے۔ لیکن جس وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے آخری نتیجہ نکلتا ہے اور نشانات اپنا مجموعی اثر دکھاتے ہیں یکدم غیب کی طرف سے ایسا دروازہ کھل جاتا ہے کہ ایک دن یا چند ایام میں ہی دنیا کی کایا پلٹ جاتی ہے اور وہ جو مقہور اور مغلوب ہوتے ہیں دنیا پر غالب آ جاتے ہیں۔ اس وقت وہ لوگ جو بار بار یہ سنتے چلے آتے ہیں کہ اس جماعت کی ترقی الٰہی نشانات سے ہو رہی ہے ان کے قلوب بھی صاف ہو جاتے ہیں اور وہ جوق در جوق اس سلسلہ میں داخل ہو جاتے ہیں۔ تب اس زمانہ کے لوگوں کے لئے صداقت کی سب سے قوی تر دلیل یہی ہوتی ہے کہ مخالف حالات کے باوجود یہ جماعت دنیا پر غالب آ گئی۔ اس کی مثال میں فتح مکہ کو دیکھ لو۔ مکہ ایک دن میں فتح نہیں ہوٴا۔ مکہ کی فتح اس جنگ کا نتیجہ نہیں تھی جو رسول کریم ﷺ کے بعض صحابہؓ کو مکہ کی بعض گلیوں میں کرنی پڑی۔ مکہ کی فتح اس لشکر کی آمد کا نتیجہ نہیں تھی جس کو لے کر رسول کریم ﷺ اس سفر پر روانہ ہوئے تھے بلکہ مکہ فتح ہوٴا بدر کے ذریعہ سے، مکہ فتح ہوٴا احد کے ذریعہ سے،مکہ فتح ہوٴا خیبر کے ذریعہ سے، مکہ فتح ہوٴا احزاب کے ذریعہ سے، مکہ فتح ہوٴااُن دسیوں چھوٹی بڑی جنگوں کے ذریعہ سے جو وقتاً فوقتاً رسول کریم ﷺ یا آپ کے صحابہؓ کو کفار سے لڑنی پڑیں۔ پس مکہ کی فتح صرف اُس لشکر کی وجہ سے نہیں تھی جس لشکر کو رسول کریم ﷺ آخری سفر پر لے کر چلے تھے بلکہ وہ نتیجہ تھی اُن بیسیوں واقعات کا جو پہلے نو(۹) سال میں متواتر پیش آتے رہے ، وہ نتیجہ تھی اُن واقعات کا بھی جو تیرہ سالہ مکی زندگی میں آپ کو پیش آتے رہے لیکن ان میں سے کوئی واقعہ بھی تو لوگوں کی آنکھیں اس طرح کھولنے کا موجب نہیں ہوٴا جس طرح مکہ کی فتح لوگوں کی آنکھیں کھولنے کا موجب ہوئی۔ بدر کی جنگ فتح ہوئی اور دراصل مکہ کا ایک دروازہ فتح ہو گیا مگر مکہ کے لوگوں اور عرب کے لوگوں کو یہ نظر نہیں آیا کہ بے سرو سامان مسلمانوں کی یہ فتح، فتح مکہ کا پیش خیمہ ہے۔ اُحد میں مسلمانوں کو معجزانہ فتح ہوئی اور دراصل مکہ کا دوسرا دروازہ فتح ہو گیا لیکن عرب کے لوگوں کو یہ نشان نظر نہیں آیا۔ جنگِ احزاب میں فتح نصیب ہوئی اور گویا مکہ کا تیسرا دروازہ فتح ہو گیا مگر باوجود اس کے مکہ والوں کو یہ نظر نہیں آیا اور نہ ہی عرب والوں کو کہ مکہ فتح ہو گیا۔ پھر خیبر کی جنگ میں مسلمانوں نے یہود پر غلبہ حاصل کیا اور ان ریشہ دوانیوں کا خاتمہ کر دیا جو یہود عرب میں کرتے تھے اور اس طرح گویا مکہ کا چوتھا دروازہ فتح ہو گیا لیکن یہ فتح عربوں کو نظر نہیں آئی۔ اسی طرح ہر وہ جنگ جو مسلمانوں کو کفار کے مقابلہ میں لڑنی پڑی اس کے نتیجہ میں درحقیقت مکہ کا ہی ایک حصہ فتح ہوتا تھا لیکن کسی ایک یا دو یا چار لوگوں کو ہی یہ نشان نظر آیا تو آیا ورنہ عرب پھر بھی فخر کرتے تھے اور کہتے تھے کہ مکہ ہمارے قبضہ میں ہے ۔ لیکن جب اس کے نتیجہ میں سب سے گھٹیا جنگ مسلمانوں نے کی جو فتح مکہ کہلاتی ہے جس میں صرف اتفاقی طور پر چند آدمی مارے گئے تھے ورنہ رسول کریم ﷺ کا حکم یہی تھا کہ کوئی لڑائی نہ کی جائے۔ چنانچہ ان اتفاقی مارے جانے والوں کو علیحدہ کر کے جو انفرادی طور پر منفرد مسلمانوں سے لڑ پڑے تھے اگر دیکھا جائے تو یہ حقیقت صاف طورپر نمایاں نظر آتی ہے کہ فتح مکہ کے وقت نہ تلواریں میانوں سے نکالی گئیں، نہ گردنیں کٹیں اور نہ ہی خونریزی ہوئی۔
پس فتح مکہ کے وقت مسلمانوں کا حملہ جنگ کے لحاظ سے کمزور ترین حملہ تھاآخر خود ہی غور کرو کیا انہوں نے کسی زبردست حریف کے مقابلہ میں کوئی خونیں جنگ کی؟ کیا انہوں نے دشمن کے سو دو سو یا ہزار آدمیوں کو مارا؟ یا کیا خود ان کے لشکر میں سے سو دو سویا ہزار آدمی مارے گئے؟ کچھ بھی نہیں ہوٴا۔ مگر یہ جو حقیر سی جنگ تھی جس میں کوئی خونریزی نہیں ہوئی ، کوئی قابل ذکر لڑائی نہیں ہوئی اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ ادھر آپ مکہ میں داخل ہوتے ہیں اور ادھر مکہ والے کہتے ہیں ہم ہار گئے پس گو فتح مکہ جنگ کے لحاظ سے ایک ادنیٰ ترین جنگ تھی مگر اس کے نتائج نہایت عظیم الشان نکلے۔ ایسا کیوں ہوا؟ صرف اس لئے کہ مکہ کے سفر کی ایک ایک منزل پر کہیں بدر کھڑا تھا، کہیں احد کھڑا تھا، کہیں احزاب کھڑا تھا، کہیں خیبر کھڑا تھا۔ اور مکہ والے سمجھتے تھے کہ یہ بدر میں سے بھی گزر چکے ہیں، احد میں سے بھی گزر چکے ہیں، احزاب میں سے بھی گزر چکے ہیں، خیبر میں سے بھی گزر چکے ہیں اب خالی مکہ رہ گیا ہے اس کے سوا ہمارے پاس کوئی چیز نہیں رہ گئی۔ تو جن جنگوں سے لوگوں نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا تھا ان کے معمولی سے نتیجہ سے سارا عرب مسلمان ہو گیا۔ بدر جس نے مکہ کو فتح کیا اس سے عرب نے کوئی فائدہ نہ اٹھایا۔ احد جس نے مکہ فتح کیا اس سے عرب نے کوئی فائدہ نہ اٹھایا۔ احزاب جس نے مکہ کو فتح کیا اس سے عرب نے کوئی فائدہ نہ اٹھایا۔ خیبر جس نے مکہ کو فتح کیا اس سے عرب نے کوئی فائدہ نہ اٹھایا۔ غزوہٴ بنو مصطلق جس نے مکہ کو فتح کیا اس سے عرب نے کوئی فائدہ نہ اٹھایا۔ اسی طرح اور کئی چھوٹی بڑی جنگوں سے جو بیس تیس کے قریب ہیں اورجو مکہ کی فتح کا موجب ہوئیں اہل عرب نے کوئی فائدہ نہ اٹھایا مگر جب مکہ میں امن اور سکون کے ساتھ لشکر اسلام داخل ہوٴا تو انہوں نے خود ہی کہہ دیا کہ آج ہم ہار گئے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا دار لوگ نتائج کے ظہور کے وقت فائدہ اٹھایا کرتے ہیں۔ کیونکہ گزشتہ فتوحات ان کے دلوں پر کوئی نہ کوئی نشان چھوڑ چکی ہوتی ہیں۔ بدر کی ضرب نے اہل مکہ کے دل پر ایک نشان ڈالا۔ پھر احد میں فتح ہوئی تو اس ضرب نے ان کے دل پر ایک اور نشان ڈال دیا۔ احزاب کی ضرب نے ان کے قلوب پر تیسرا نشان ڈالا اور خیبر کی ضرب نے ایک چوتھا نشان ان کے دل پر قائم کر دیا۔ جب یہ ساری ضربیں اپنے اپنے نشان ان کے قلوب پر چھوڑ گئیں تو ان کا مکمل نتیجہ فتح مکہ کی صورت میں ظاہر ہو گیا اورعرب کے لوگوں کو اسلام نصیب ہو گیا۔
پس انسان کو سب سے زیادہ خدا تعالیٰ کا یقین دلانے والی بات خصوصاً ان لوگوں کو جو ایمان نہیں رکھتے اور دنیا دار ہوتے ہیں بے سر و سامانی کی حالت میں الٰہی سلسلوں کی کامیابی ہوتی ہے۔ درمیانی کامیابیاں اعلیٰ تقویٰ واے لوگوں کو ایمان بخشتی ہیں اور آخری کامیابی ادنیٰ تقویٰ والوں کو ایمان بخشتی ہیں۔ پھر کچھ عرصہ تک تو یہ اثر باقی رہتا ہے مگر جیسا کہ قاعدہ ہے جب کسی قوم کو لمبے عرصہ تک کامیابیاں اور فتوحات ملیں تو وہ یہ خیال کرنے لگ جاتی ہے کہ یہ فتوحات اور کامیابیاں ہمارا ورثہ ہیں اور ان فتوحات کے حاصل کرنے کا ہماری قوم کو حق حاصل تھا۔ تب رفتہ رفتہ ایمان کی طاقت جو تمام کامیابیوں کا موجب ہوتی ہے کمزور ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ چنانچہ دیکھ لو عرب کی فتح شام کی فتح کے مقابلہ میں کیا حیثیت رکھتی ہے؟ عربوں کی نہ منظم فوج تھی نہ ان کے پاس خزانہ تھا نہ پولیس تھی اور نہ ان کے پاس قضاء ایسی تھی کہ سارے ملک کے جھگڑوں کا وہ فیصلہ کر سکتے۔ مختلف قبائل گو اپنے اپنے حاکموں کے ماتحت تھے مگر ہر فرد آزاد تھا۔ صرف موٹی موٹی غلطیوں کے متعلق باز پُرس کی جاتی تھی ۔ مثلًا کسی نے قتل کر دیا تو اس سے جواب طلبی کی گئی یا کسی نے ڈاکہ ڈالا تو پنچائت نے اس کے متعلق کوئی فیصلہ کر دیا۔ اس سے زیادہ نہ ان میں کوئی حکومت تھی اور نہ ہی کوئی نظام مگر عرب کی فتح نے جو ایمان پیدا کیا وہ شام کی فتح پیدا نہ کر سکی جو روم جیسی زبردست حکومت کے مقابلہ میں حاصل ہوئی تھی۔ شام کی فتح ایسی ہی تھی جیسے اس زمانہ میں افغانستان کے لوگ روس کا کوئی علاقہ فتح کر لیں یا افغانستان کے لوگ انگلستان یا جرمنی کا کوئی علاقہ لے لیں۔ اگر ایسا واقعہ ہو تو تم خود ہی سوچ لو دنیا میں کتنا شور مچ جائے۔ فرض کرو افغانستان کے لوگ روس کو سائبیریاکے باہر نکال دیں تو کس طرح ایک غلغلہ برپا ہو جائے اور لوگ کہنے لگ جائیں کہ حد ہو گئی افغانستان والوں نے تو کمال کر دیا۔ یہی حال اہلِ عرب کا قیصر کے مقابلہ میں تھا ۔ اور شام کی فتح ایسی ہی تھی جیسے افغانستان روس، انگلستان یا جرمنی کے کسی علاقہ کو فتح کر لے مگر باوجود اس کے مکہ کی فتح نے جو ایمان پیدا کیا وہ شام کی فتح پیدا نہ کر سکی۔ مکہ کی فتح نے لاکھوں انسانوں کے دلوں میں ایسا ایمان پیدا کر دیا تھا کہ ان کی گردنوں پر تلواریں رکھی گئیں مگر ان کے ایمان میں تزلزل پیدا نہ ہوٴا ۔ ان لوگوں کے دلوں سے دنیا کا رعب بالکل مٹ گیا تھا اور دنیا کی محبت ان پر ایسی سرد ہو گئی تھی کہ سوائے خدا کے انہیں کوئی چیز ڈرانے والی نہیں رہی تھی۔
کیا ہی عجیب نظارہ نظر آتا ہے کہ وہ لوگ جو کچھ سال پہلے اسلام کے خلاف تلواریں اٹھائے ہوئے تھے، جو اخلاقی اور علمی لحاظ سے بہت ہی گرے ہوئے تھے ان کے وفود آتے ہیں اور خلفائے اسلام ان سے کہتے ہیں کہ شام میں دشمن کی طرف سے بڑے زور کا حملہ ہو گیا ہے اور ہماری فوج کے آدمی کم ہیں تم جاوٴ اور دشمن کے لشکر کا مقابلہ کرو۔ ان کو معلوم ہے کہ دشمن کی تعداد دو یا چار لاکھ ہے، ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ اس کی منظم فوجیں رات اور دن لڑنے کی مشقیں کرتی رہتی ہیں،ان کو یہ بھی پتہ ہے کہ ان کے افسر سالہا سال سے حکومتیں کر تے چلے آتے ہیں،وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ فوجیں اپنے افسروں کے اشاروں کو سمجھتی اور ان کے حکموں پر جان دینے کے لئے تیار رہتی ہیں، انہیں اس بات کا بھی علم ہے کہ رات اور دن کی مشقوں کی وجہ سے وہ لڑائی کے قابل بنا دی گئی ہیں، وہ اس بات سے بھی آگاہ ہیں کہ ان کے پاس ایسے ایسے سامانِ جنگ موجود ہیں جن کے ناموں سے بھی عرب کے لوگ واقف نہیں۔ غرض وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ہمارا دشمن وہ ہے جس کا رعب دنیا کے چاروں طرف پھیل رہا ہے، وہ آدھی متمدن دنیا پر حکمران ہے، اس کے گورنر بیسیوں دور دراز علاقوں پر حکومت کر رہے ہیں اس کی تعداد بہت زیادہ ہے، اس کے پاس سامان جنگ بکثرت موجود ہے اور اس میں لڑنے کی قابلیت بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔ مگر جب ایسی حکومت کے مقابلہ میں خلفائے اسلام سو یا دو سو یا چار سوآدمیوں کو بھیجتے ہیں تو ایک ایک، دو دو، چار چار لاکھ کی فوج کا مقابلہ کرنے کے لئے وہ دو یا چار سو آدمی تیار ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں ہم دشمن کا مقابلہ کریں گے۔ پھر وہ سَو یا دو سَو دشمن کے مقابلہ میں جاتا اوراس یقین اور وثوق سے جاتا ہے کہ لاکھ یا دو لاکھ کی فوج ہمارے مقابلہ میں ایسی ہی ہے جیسے مولیوں یا گاجروں کا کھیت ہوتا ہے اور ہمارا کام اتنا ہی ہے کہ ان پر ہاتھ ڈالیں اور اُکھیڑ اُکھیڑ کر باہر پھینک دیں اوروہ مسلمان کمانڈر جو دربار خلافت میں یہ فریاد کر رہا ہوتا ہے کہ عیسائیوں کا بڑا بھاری لشکر ہمارے مقابلہ میں آ گیا ہے اورمیرے پاس بیس یا تیس یا چالیس ہزار کا لشکر ہے جلد ہی مجھے اور مدد پہنچائی جائے۔ اسے اطلاع جاتی ہے کہ گھبراوٴ نہیں ہم پانچ سو آدمی تمہاری مدد کے لئے بھیج رہے ہیں۔ اگر آج کسی کمانڈر کو جو پانچ پانچ سال کالجوں میں ٹریننگ حاصل کرتے ہیں اور بیس بیس سال چھاوٴنیوں میں کام کرتے ہیں اتنے بڑے لشکر کے مقابلہ میں اتنے قلیل آدمی بھجوائے جائیں تو وہ عَلَی الْاِعْلَان فوج کے سامنے اپنا سر پیٹ لے اور کہے مجھے کیسے بدھووٴں سے واسطہ پڑا ہے۔ مَیں لکھتا ہوں کہ ایک لاکھ منظم فوج، ساز و سامان سے آراستہ فوج، چھاوٴنیوں میں ٹریننگ حاصل کرنے والی فوج ہمارے مقابلہ میں ہے اور مدینہ سے مجھے چِٹھی پہنچتی ہے کہ گھبراوٴ نہیں پانچ سو آدمی آ رہے ہیں۔
اگر آج ایسا ہی کوئی واقعہ ہو تو کمانڈر استعفیٰ دے کر الگ ہو جائے اورکہے کہ ایسی جاہل منسٹری کے تابع میں کام نہیں کر سکتا۔ اگر ایک لاکھ منظم فوج کو فتح کرنے کے لئے مجھے بھیجا جاتا ہے تو کم سے کم سَوا لاکھ آدمی تو چاہئے اور اگر دفاعی جنگ ہو تب بھی ستّر اسّی ہزار آدمیوں سے کم تو کسی صورت میں نہیں ہونا چاہئے۔ مگر یہاں پانچ سو ہزار بلکہ بعض دفعہ سَو، دو سَو آدمی بھیج دئیے جاتے ہیں اور مسلمان ان کو دیکھ کر خوشی سے نعرہ بلند کرتے ہیں کہ اَللہُ اَکْبَرُ۔ مگر انہی نظاروں میں سے ایک نظارہ تو بہت ہی حیرت انگیز ہے۔ ایک جگہ اسلامی لشکر پر بہت دباوٴ پڑ گیا اور ہزارہا آدمی دشمن کی فوج کا حملہ آور ہو گیا۔ اس وقت اسلامی کمانڈر نے شکایت کی کہ ہمارے پاس فوج کافی نہیں حضرت عمرؓ نے دیکھا تومدینہ میں اس وقت جنگ پر بھیجنے کے لئے کوئی آدمی نہیں تھا اور باہر سے لوگوں کوبلانے میں دیر لگتی تھی۔ معدی کرب ایک صحابی تھے حضرت عمرؓ نے ان کو بلایا اور کہا میرا یہ خط کمانڈر انچیف کے پاس لے جاوٴ اور جا کر لڑائی میں شامل ہو جاوٴ۔ اس خط میں کمانڈر انچیف کے نام آپ نے لکھا تھا تمہاری امداد کی درخواست پہنچی مَیں معدی کرب کو بھیج رہا ہوں۔ مَیں نے اس کو رسول کریم ﷺ کے ساتھ لڑتے دیکھا ہے اوریہ ایک آدمی دو ہزار کے قائمقام ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب معدی کرب لشکرِ اسلامی میں پہنچے اورحضرت عمرؓ کا خط انہوں نے کمانڈر انچیف کو جا کر دیا تو مسلمانوں نے کوئی شکوہ نہیں کیا، انہوں نے کوئی گلہ نہیں کیا بلکہ سارے مسلمانوں میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی اور وہ کہنے لگ گئے کہ معدی کرب آ گیا اب ہماری فتح اور بھی یقینی ہو گئی ہے۔
غرض اسلامی تاریخ میں اس قسم کی کئی مثالیں پائی جاتی ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ عرب کے لوگوں نے جب فتح مکہ کا نظارہ دیکھا تو ان کے دل کی ایمانی حالت ایسی بدل گئی کہ ان کی نگاہ میں دنیا کی کسی چیز کی کوئی حقیقت نہ رہی۔ انہوں نے سمجھ لیا کہ جو کچھ کر سکتا ہے ایمان کر سکتا ہے کیونکہ محمد ﷺ نے ایمان سے ہی بے سامان ہوتے ہوئے مکہ فتح کیا۔ جب تک مسلمانوں میں یہ ایمان موجود رہا انہیں دنیا کی کوئی طاقت اپنی جگہ سے ہلا نہ سکی مگر شام کی فتح کے وقت چونکہ کچھ نہ کچھ ظاہری سامان پیدا ہو چکے تھے اس لئے شام کی فتح وہ ایمان پیدا نہ کر سکی جو مکہ کی فتح نے پیدا کیا۔ اسی طرح عراق کی فتح مسلمانوں میں وہ ایمان پیدا نہ کر سکی جو مکہ کی فتح نے پیدا کیا تھا۔ حالانکہ عراق کسریٰ کے ماتحت تھا اور کسریٰ کی حکومت اتنی وسیع تھی کہ چین اس کے ماتحت تھا، سائبیریا اس کے ماتحت تھا، عراق اس کے ماتحت تھا، افغانستان اس کے ماتحت تھا، ہندوستان کے کچھ حصے بھی اس کے ماتحت تھے، بلوچستان اس کے ماتحت تھا، یمن وغیرہ بھی اس کے قبضہ میں تھا۔ غرض اپنی وسعت کے لحاظ سے انگریزی حکومت بھی اتنی بڑی نہیں جتنی کسریٰ کی حکومت تھی۔ اس حکومت سے مسلمانوں نے عراق فتح کیا لیکن اتنی عظیم الشان فتح کے باوجود عراق کی فتح نے وہ ایمان پیدا نہیں کیا جو مکہ کی فتح نے پیدا کیا اس لئے کہ اب لوگ فتح کے عادی ہو چکے تھے وہ عراق کی فتح کو شام کی فتح کا اور شام کی فتح کو مکہ کی فتح کا نتیجہ سمجھتے تھے۔ مگر مکہ کی فتح کو مکہ سے رسول کریم ﷺ کے نکالے جانے کا نتیجہ سمجھتے تھے۔ اسی لئے عراق کی فتح باوجود اس کے کہ مکہ کی فتح سے سینکڑوں نہیں ہزاروں گنے بڑھ کر تھی اس کا فاتح دنیا میں وہ تغیر پیدا نہ کر سکا جو مکہ فتح کرنے والے نے دنیا میں تغیر پیدا کیا۔ اسی طرح شام اور مصر کے فتح کرنے والے دنیا میں وہ تغیر پیدا نہ کر سکے جو مکہ کو فتح کرنے والے نے دنیا میں تغیر پیدا کر دیا۔ اس لئے کہ مکہ کی فتح ایک بے سامان فوج کے نتیجہ میں ہوئی اور بعد کی فتوحات اُس وقت ہوئیں جب سامان کسی قدر پیدا ہو چکے تھے۔ مسلمانوں کے پاس خزانہ تھا، ان کے پاس غلہ تھا، ان کے پاس سواریاں تھیں، ان کے پاس روپیہ تھا، ان کے پاس ہتھیار تھے۔ غرض دنیا کو انسان کا ہاتھ کام کرتا نظر آتا تھا مگر محمد ﷺ کا مکہ میں داخلہ ایسا تھا کہ اس میں کسی انسان کا ہاتھ کام کرتا نظر نہیں آتا تھا۔ پس خدا تعالیٰ کی ذات پر جو ایمان مکہ کی فتح نے پیدا کیا وہ شام اور مصر اور عراق کی فتوحات نے پیدا نہ کیا۔ اس کے بعد جب اسلامی حکومت سپین تک وسیع ہو گئی تو سپین فتح کرنے والوں کا کام بھی کتنا عظیم الشان تھا۔ سپین کو جانے والا افریقی راستہ ایسا ہے کہ اس میں دو دو، تین تین سو میل تک کہیں پانی میسر نہیں آتا۔ پھر سپین میں خود ایک زبردست حکومت تھی مگر چند ہزار مسلمان سپاہی جن کی تعداد بیس ہزار سے کم تھی انہوں نے مصر سے اپنے گھوڑوں کی باگیں اٹھائیں اورسپین میں فرانس کے ساحل پر آ کر دم لیا۔ راستہ میں انہوں نے کسی جگہ دولاکھ کے لشکر سے مقابلہ کیا اور کسی جگہ تین لاکھ کے لشکر سے۔ مگر ان کی فتح نے بھی وہ ایمان پیدا نہ کیا جو مکہ کی فتح نے پیدا کیا تھا۔ کیونکہ ان کے اندر وہ باتیں پیدا ہو چکی تھیں جو فاتح قوم کا جزو ہوتی ہیں۔ اور دنیا اس بات کو سمجھتی ہے کہ فاتح قوم کے دل بالکل اور قسم کے ہوتے ہیں ۔ مگر محمد ﷺ کے ساتھ مکہ میں داخل ہونے والے ایک مغلوب قوم کا جزو تھے اور وہ ایسے تھے جن کو کفار نے اپنے گھروں سے نکال دیا تھا۔ طارق؂ 1 کے ساتھ جانے والے لشکر کا ہر شخص کہتا تھا کہ ہم باقی ساری دنیا فتح کر چکے ہیں اب اسی علاقہ کو فتح کرنارہ گیا ہے مگر مکہ کی طرف بڑھنے والے لشکر کا بیشتر حصہ وہ تھا جن کے سامنے یہ واقعات تھے کہ وہ کبھی رات کو پوشیدہ طور پر مکہ سے بھاگ نکلتے تھے اور کبھی دن کو کفار کی نظر بچا کر ہجرت کے لئے چل پڑتے۔ انہیں اپنی آنکھوں کے سامنے وہ گلیاں نظر آ رہی تھیں جن میں انہیں پیٹا جاتا، انہیں پتھروں پر گھسیٹا جاتا اورانہیں عبادت کرنے سے روکا جاتا۔ پس جس شہر کو وہ فتح کرنا چاہتے تھے اس میں رعب کے سارے سامان ان کے خلاف تھے۔ لیکن طارق کی فوج رعب کے سارے سامان اپنے ساتھ رکھتی تھی اس لئے طارق کی فتح جو مکہ کی فتح سے ہزاروں گُنے بڑھ کر ہے وہ نتیجہ پیدا نہ کر سکی جو مکہ کی فتح نے پیدا کیا۔ کیونکہ دونوں کے حالات مختلف تھے۔
پس ہماری جماعت کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اس کی فتوحات اور کامیابیوں میں سے بھی وہی فتوحات اور کامیابیاں بابرکت ہیں جو بغیر ظاہری سامانوں کے ہوں۔ آج ہماری حالت بھی درحقیقت وہی ہے جو بدر اور احد کی جنگوں میں صحابہ کی تھی ۔ ہمیں خدا تعالیٰ نے تلوار نہیں دی بلکہ روحانی ہتھیار دئیے ہیں اور انہی روحانی ہتھیاروں سے ہم قلوب پر فتح حاصل کر رہے ہیں۔ پس چونکہ ہماری لڑائی تلوار والی لڑائی نہیں اس لئے ہماری بدر بھی یہی ہے اور ہماری احد بھی یہی۔ جب کسی گاوٴں میں مخالفت کے باوجود کچھ لوگ احمدی ہو جاتے ہیں تو وہی تبلیغی جنگ ہماری بدر کی جنگ کہلائے گی۔ کیونکہ ہماری ساری جنگیں تبلیغی اور روحانی ہیں۔ اس جنگ کے نتیجہ میں بھی کچھ لوگوں کو تو ایمان نصیب ہوجاتا ہے اور بہت سے ایمان لانے سے محروم رہتے ہیں۔ مولوی ثناء اللہ صاحب یہی اعتراض کرتے رہتے ہیں کہ ابھی تو کروڑوں عیسائی اورکروڑوں غیر احمدی موجود ہیں احمدیت کوکونسی فتح حاصل ہوئی؟ مگر یہ ایسی بات ہے جیسے بدر یا احد کی فتح کے وقت کوئی شخص کہتا کہ ابھی تو لاکھوں عرب مخالف ہیں اور یہ بدر اور احد کی فتح کو ہی اپنا بہت بڑا کارنامہ قرار دے رہے ہیں۔ مگر جاننے والے جانتے ہیں، پہچاننے والے پہچانتے ہیں اور سمجھنے والے سمجھتے ہیں کہ جنگ بدر، بدر کی فتح نہیں بلکہ مکہ کی فتح تھی اور احد، احد کی فتح نہیں بلکہ مکہ کی فتح تھی۔ ویسے ہی جن کو خدا تعالیٰ نے آنکھیں دی ہیں وہ جانتے ہیں کہ جب کسی پہاڑی دامن میں ایک چھوٹے سے گاوٴں کے دو چار لوگوں کو ہم احمدی بنا لیتے ہیں تو درحقیقت یہ اس گاوٴں کی فتح نہیں ہوتی بلکہ خدا تعالیٰ کے دفتر میں تمام دنیا کی فتح ہوتی ہے۔ بے شک اس وقت وہ فتح بعض احمدیوں کے ایمان کی ترقی کا موجب بھی نہیں بنتی بلکہ بعض کہہ بھی دیتے ہیں کہ اگر فلاں جگہ دو چار احمدی ہو گئے ہیں تو کیا ہوٴا۔ مگر جب ان چھوٹی چھوٹی فتوحات کا مجموعی نتیجہ پیدا ہو گا تویک دم دنیا یوں گرنے لگے گی جیسے دریا کے کنارے کی زمین گرنے لگتی ہے اور اُس وقت کمزور ایمان والے گردنیں اٹھا اٹھا کر کہیں گے کہ ہم پہلے ہی اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ احمدیت ایک دن ساری دنیا پر غالب آ جائے گی اور دوسرے لوگ بھی کہیں گے کہ آثار تو ہمیں بھی دیر سے نظر آ رہے تھے۔ اُس وقت کے آنے تک مخالف ہنسی کرے گا،دشمن ٹھٹھے کرے گا اورکمزور ایمان والا طعنہ دے کر کہے گا کہ قربانیوں کا مطالبہ کر کے جماعت کو کمزور کیا جا رہا ہے۔ مگر مبارک ہیں وہ جن کے ایمان اُس وقت تقویت پاتے ہیں جس وقت ابھی خدا تعالیٰ کی طرف سے آخری نتیجہ نہیں نکلتا کیونکہ وہی ہیں جو خدا تعالیٰ کی درگاہ میں بڑے سمجھے جانے والے ہیں۔
دیکھ لو جب مکہ فتح ہوٴا تو رسول کریم ﷺ نے فرما دیا لَا ھِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ 2 اب اس فتح مکہ کے بعد کوئی ہجرت نہیں۔ ہجرت تو لوگ پھر بھی کرتے رہے ہیں او رکئی لوگ بعد میں بھی مدینہ میں مہاجر بن کر گئے۔ رسول کریم ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ وہ جو مہاجرین کے متعلق قرآن کریم نے خبر دی ہے کہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور بڑے بڑے انعام مقرر ہیں وہ اب فتح مکہ کے بعد ایمان لانے والوں کو نہیں مل سکتے۔ اب کوئی نیا ابو بکرؓ پیدا نہیں ہو سکتا، کوئی نیا عمرؓ پیدا نہیں ہو سکتا، کوئی نیا عثمانؓ پیدا نہیں ہو سکتا، کوئی نیا علیؓ پیدا نہیں ہو سکتا، کوئی نیا طلحہؓ پیدا نہیں ہو سکتا، کوئی نیا زبیرؓ پیدا نہیں ہو سکتا۔ غرض وہ لوگ جو اپنے ایمانوں کو پہلے تقویت دیتے اور اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کے لئے وقف کر دیتے ہیں وہی ہیں جن پر برکات کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ وہ تجارت نہیں کرتے۔ صحابہؓ بھی تجارت کیا کرتے تھے۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ وہ زراعت نہیں کرتے صحابہؓ بھی زراعت کیا کرتے تھے۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ وہ کوئی اور دنیوی کام کیا کرتے تھے بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ وہ تجارتیں تو کرتے ہیں مگر ان کے دل خدا تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہوتے ہیں اوران کے کان خدا تعالیٰ کی آواز سننے کے منتظر ہوتے ہیں جونہی ان کے کان میں موٴذن کی آواز آتی ہے وہ اپنی تجارت کو چھوڑ کر، وہ اپنی زراعت کو چھوڑ کر ، وہ اپنی صنعت وحرفت کو چھوڑ کر دوڑتے ہوئے مسجد میں حاضر ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح جب رات آتی ہے تو یہ نہیں ہوتا کہ وہ اس خیال سے کہ دن کو ہم نے ہل چلانا ہے یا کوئی اور مشقت کا کام کرنا ہے سوئے ہی رہیں اور اللہ تعالیٰ کی عبات کے لئے نہ اٹھیں بلکہ جب تہجد کا وقت آتا ہے تو وہ فوراً بستر سے الگ ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ذکر اوراس کی عبادت کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو دین کے لئے اپنے آپ کو وقف کرنے والے ہیں۔ وقف کرنا اسی کو نہیں کہتے کہ انسان نوکری نہ کرے یا تجارت نہ کرے یا زراعت نہ کرے اور ہمہ تن دینی کاموں میں مشغول رہے بلکہ وہ شخص بھی واقفِ زندگی ہی ہے جس کے تمام اوقات خدا تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت گزرتے ہیں، او روہ ہر آن اور ہر گھڑی خدا تعالیٰ کے حکم پر لبیک کہنے کے لئے تیار رہتا ہے۔ اگر وہ تجارت کرتا ہے تو اس لئے کہ خدا نے کہا ہے تجارت کرو۔ اگر وہ زراعت کرتا ہے تو اس لئے کہ خدا نے کہا ہے زراعت کرو۔ اگر وہ کسی اورپیشہ کی طرف توجہ کرتا ہے تو اس لئے کہ خدا نے کہا ہے تم پیشوں کی طرف بھی متوجہ ہو۔ پس اُس کی تجارت، اُس کی زراعت اور اس کی صنعت لَا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ ؂3 کی مصداق ہے جو خدا تعالیٰ کے ذکر سے اسے غافل نہیں کرتی۔ یہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آواز آئے اور وہ یہ کہنے لگ جائے کہ مَیں کیا کروں میری تجارت کو نقصان پہنچے گا، میری زراعت میں حرج واقع ہو گا بلکہ اسے اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہنے کے سوا اور کچھ سُوجھتا ہی نہیں۔ وہ جانتا ہی نہیں کہ مَیں تاجر ہوں، وہ جانتا ہی نہیں کہ مَیں زمیندار ہوں، وہ جانتا ہی نہیں کہ مَیں صنّاع ہوں بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ مَیں ساری عمر ہی خدا تعالیٰ کے سپاہیوں میں شامل رہا ہوں اور اس کی تنخواہ کھاتا رہا ہوں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ مَیں حاضر ہو جاوٴں اور اپنی جان اس کی راہ میں قربان کر دوں۔ پس باوجود تجارت کرنے کے وہ واقفِ زندگی ہے، باوجود زراعت کرنے کے وہ واقفِ زندگی ہے اور باوجود کوئی اور پیشہ اختیار کرنے کے وہ واقفِ زندگی ہے مگر وہ جو ایسا نہیں کرتا جس کے کانوں میں خدا تعالیٰ کی یا اس کے مقرر کردہ کسی نائب کی آواز آتی ہے اور بجائے اس کے کہ وہ اپنے دل میں بشاشت محسوس کرے اور کہے کہ وہ وقت آ گیا ہے جس کا مَیں منتظر تھا وہ اپنے دل میں قبض محسوس کرتا ہے اور قربانی کرنے سے ہچکچاتا ہے اور اسے اپنے لئے ایک تکلیف اور دکھ سمجھتا ہے تو ایسا انسان درحقیقت خدا تعالیٰ کی فوج میں شامل نہیں اور نہ اسے ایمان حاصل ہے۔ اس کو اُسی وقت ایمان میسر آ سکتا ہے جب آخری نتیجہ ظاہر ہو۔ مگر رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں لَا ھِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ۔ اگر فتح آ گئی تو اس کے بعد جو شخص ایمان لائے گا اسے اس ہجرت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے قرب کے اعلیٰ مراتب حاصل نہیں ہو سکیں گے۔ ہجرت صرف مدینہ کی ہجرت کا نام نہیں بلکہ ہجرت اپنے اندر اور مفہوم بھی رکھتی ہے چنانچہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں مَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہٗ اِلَی اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہِ فَھِجْرَتُہٗ اِلَی اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ 4؂ کہ کوئی انسان ایسا بھی ہوتا ہے جو خدا اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرتا ہے۔ پس اُس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہی ہے۔ تو ہجرت صرف مدینہ کی ہجرت کا نام نہیں، ہجرت صرف قادیان کی ہجرت کا نام نہیں بلکہ ہجرت نام ہے تمام دنیوی علائق سے آزاد ہو کر اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے لئے وقف کر دینے کا۔ اس وقف کے یہ معنے نہیں کہ انسان تجارت چھوڑ دے یا زراعت چھوڑ دے یا ملازمت چھوڑ دے۔ ایک حصہ کے لئے یہ بھی ضروری ہے مگر باقیوں کے لئے نہیں۔ ان کا وقف وہی ہو گا جس کا اس آیت میں ذکر آتا ہے کہ مِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ 5؂ کہ کئی تو ایسے ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے دین کے لئے کلیةً وقف کر دیا ہے اور انہوں نے تمام کام چھوڑ کر خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیا ہے اورکوئی ایسا بھی ہے جو مَنْ يَّنْتَظِرُ کے ماتحت ہے۔ وہ سَودا بیچ رہا ہوتا ہے اور کہتا ہے اب آدھ سیر ہو گیا ہے مگر اُس کے کان اِس طرف لگے ہوئے ہوتے ہیں کہ کب خدا کی آواز آتی ہے۔ وہ دال تول کر گاہک کی جھولی میں ڈال رہا ہوتا ہے اور اُس کے کان اِس بات کے منتظر ہوتے ہیں کہ کب خدا تعالیٰ کی آواز آتی ہے تا مَیں اپنا مال اور اپنی جان اس کی راہ میں قربان کر دوں۔
تم میں سے کئی کہہ دیں گے کہ ہم ایسے ہی ہیں کیونکہ انسان کا نفس ایسے موقع پر ہمیشہ اسے دھوکا دیاکرتا ہے۔ مگر تم سمجھ لو کہ اسی حقیقت کو تم پر ظاہر کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے پانچ نمازیں مقرر کی ہیں۔ ہر روز پانچ وقت خدا تمہارا امتحان لیتا اور پانچ وقت خدا تم پر تمہارے ایمان کی حقیقت آشکار کرتا ہے۔ پانچ وقت جب مُکَبِّر کھڑا ہوتا اور کہتا ہے حَیَّ عَلَی الصَّلٰوةِ حَیَّ عَلَی الصَّلٰوةِ ۔ اے لوگو! آوٴ نمازکی طرف۔ اے لوگو! آوٴ نماز کی طرف۔ تو اس وقت جب تمہارے کانوں میں یہ آواز آتی ہے اگر تمہارے ہاتھوں پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے، تمہارے جسم میں کپکپی طاری ہو جاتی ہے اور تمہیں بھول جاتا ہے کہ تم تاجر ہو، تمہیں بھول جاتا ہے کہ تم زمیندار ہو، تمہیں بھول جاتا ہے کہ تم صنّاع ہو، تمہیں بھول جاتا ہے کہ تم ملازم ہو، تمہیں بھول جاتا ہے کہ تم نجّار ہو، تمہیں بھول جاتا ہے کہ تم معمار ہو، تمہیں بھول جاتا ہے کہ تم لوہار ہو۔ تمہیں صرف ایک ہی بات یاد رہ جاتی ہے اور وہ یہ کہ تم خدا کے سپاہی ہو تب اور صرف تب تم اپنے دعویٰ ایمان میں سچے سمجھے جا سکتے ہو لیکن اگر تمہارے اندر یہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی اور خدا تعالیٰ کی آواز تو تمہیں یہ کہتی ہے کہ حَیَّ عَلَی الصَّلٰوةَ اے میرے بندو! میری عبادت کے لئے آوٴ اور تمہارا نفس تمہیں کہہ رہا ہوتا ہے کہ اور دو گاہک دیکھ لوں اور چند پیسے کما لوں۔ اور بعض دفعہ تو یہ بھی کہنے لگ جاتا ہے کہ مسجد میں جا کر نماز کیا پڑھنی ہے اسی جگہ پڑھ لیں گے۔ بلکہ کئی دفعہ واقع میں تم مسجد میں نہیں آتے اور گھر پر یا دکان پر ہی نماز پڑھ لیتے ہو تو تم سمجھ لو کہ پانچ وقت خدا نے تمہارا امتحان لیا اور پانچوں وقت تم فیل ہو گئے۔
مجھے خوشی ہے کہ جب سے خدام الاحمدیہ نے کام شروع کیا ہے جماعت میں بہت حد تک نمازباجماعت ادا کرنے کی رغبت پیدا ہو چکی ہے مگر ابھی ایک طبقہ ایسا ہے جس کے دل میں یہ رغبت پیدا نہیں ہوئی اور ابھی ایک طبقہ ایسا ہے جو نمازیں باجماعت ادا کرنے میں جو فوج کی حاضری کے برابر ہے سُستی اور غفلت سے کام لیتا ہے۔
جو لوگ صرف خدام الاحمدیہ کے نظام کے ماتحت باجماعت نمازیں ادا کرتے ہیں مَیں ان سے کہتا ہوں کہ تم اپنے اندر ایسا ایمان پیدا کرو کہ اگر دنیا کی سطح سے خدام الاحمدیہ کا وجود مٹ جائے تب بھی تم نماز باجماعت ادا کرنے میں کبھی غفلت سے کام نہ لو۔ اور جو لوگ اس فریضہ کی ادائیگی میں کوتاہی سے کام لینے کے عادی ہیں ان سے مَیں کہتا ہوں کہ روزانہ پانچ وقت خدا تعالیٰ تمہارا امتحان لیتا ہے اگرتم بغیر کسی معقول عُذر کے باجماعت نمازیں ادا کرنے میں سُستی سے کام لیتے ہو اور اگر تمہارے دنیوی مشاغل اس فریضہ کی ادائیگی میں روک بنتے ہیں تو تم سمجھ لو کہ کس طرح تم روزانہ پانچ وقت اپنی شکست اور ایمان کی کمزوری کا اقرار کرتے ہو۔ ہر مومن جو پانچ وقت تمہارے گھر کے دروازے یا دکان کے قریب سے نماز کے لئے گزرتا ہے اور تمہیں نماز کے لئے اٹھتے نہیں دیکھتا وہ اس یقین اور وثوق سے تمہارے گھر یا دکان کے پاس سے گزرتا ہے کہ یہاں ایک منافق رہتا ہے جسے رسول کریم ﷺ نے بھی منافق قرار دیا ہے۔ تم بعض دفعہ جب تمہیں کوئی منافق کہتا ہے تو اُس سے لڑ پڑتے ہو مگر تمہیں خود ہی سوچنا چاہئے کہ جب محمد ﷺ کے منافق کہنے سے تم نہیں گھبراتے تو ہمارے منافق کہنے سے تم کیوں گھبراتے ہو۔ اِس سے تو معلوم ہوٴا کہ محمد ﷺ کی قدر تمہارے دلوں میں کچھ نہیں مگر ہماری قدر تمہارے دل میں ہے۔ کیونکہ محمد ﷺ کے منافق کہنے کی تو تمہیں کوئی پرواہ نہیں ہوتی لیکن اگر کوئی اَور معمولی حیثیت والا آدمی تمہیں منافق کہتا ہے تو تمہارے تن بدن میں ایک آگ سی لگ جاتی ہے اور کہنے لگ جاتے ہو کہ وہ بڑا جھوٹا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کا یہ مطلب ہے کہ محمد ﷺ کی حیثیت تمہارے دلوں میں اس ادنیٰ ترین آدمی کی حیثیت سے بھی کم ہے کیونکہ جس کی وقعت انسانی قلب میں ہوتی ہے اُسی کی ناراضگی سے خوف کھاتا ہے۔ ایک چھوٹا بچہ گالی دے تو انسان مسکراتا ہوٴا گزرجاتا ہے لیکن اگر کوئی بڑا آدمی گالی دے تو دوسرا شخص چلتے چلتے ٹھہر جاتا ہے اور اس سے پوچھتا ہے کہ مَیں نے تمہارا کیا بگاڑا تھا کہ تم نے مجھے گالی دے دی۔
پس مَیں جماعت کے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اَور بھی زیادہ اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوں۔ نہ صرف قادیان کے دوست ہی بلکہ باہر کی جماعتوں کے دوست بھی۔ اور دعاوٴں پر زور دیں کیونکہ جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے روحانی جماعتوں کی ترقی محض خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوتی ہے اور خداتعالیٰ کے فضل دعاوٴں سے نازل ہوتے ہیں۔ پس باجماعت نمازیں ادا کرنے کی عادت ڈالو۔ دعائیں مانگو اور اپنے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی خشیت پیدا کرو تا تمہارے قلب پر اللہ تعالیٰ کا عشق ایسا غالب آ جائے کہ تم مجسم دعا بن جاوٴ۔ تم نماز پڑھ رہے ہو تو دعا مانگ رہے ہو، کام کر رہے ہو تو دعا مانگ رہے ہو، سفر کر رہے ہو تو دعا مانگ رہے ہو، سفر سے واپس آ رہے ہو تو دعا مانگ رہے ہو۔ غرض اس قدر دعائیں کرو کہ خدا اپنے فرشتوں سے کہے کہ میرا یہ بندہ تو مجسم سوال بن گیا ہے اب ہمیں شرم آتی ہے کہ اس کے سوال کو ردّ کر دیں۔ اوروہ سوال جو خدا تعالیٰ کی درگاہ سے کبھی ردّ نہیں ہوتا۔ مجسم سوال بن جانے والے کا ہی سوال ہوتا ہے۔ اس کا اپنا وجود مٹ جاتا ہے اور وہ سوال ہی سوال بن جاتا ہے۔
پس دعائیں کرو اور اپنے اندر نیک تبدیلی پیدا کرو تا خدا ان بلاوٴں اور ابتلاوٴں سے جو درمیانی عرصہ میں آنے ضروری ہیں ہماری جماعت کو محفوظ رکھے اور اپنے فضل اور رحم سے ایمان اور یقین کے ہم پر وہ دروازے کھول دے جو انبیاء کے بھیجنے کا اصل مقصود ہوتے ہیں۔’’ (الفضل 8 فروری 1941ء )
1 طارق:خلافت بنو امیہ کے عہد کا پہلا اسلامی جرنیل جس نے یورپ میں اسلامی پرچم لہرایا۔ سپین کو فتح کیا اور اسے اسلامی عملداری کا حصہ بنا دیا۔
2 بخاری کتاب الجِھَاد وَ السَّیْر باب لَا ھِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ
3 النور: 38
4 بخاری کتاب الْاِیْمَان باب مَا جَاءَ اَنَّ الْاَعْمَالَ بِالنَّیِّةِ
5 الاحزاب: 24

3
روحانیت میں ترقی حاصل کرنے کا طریق
(فرمودہ 31، جنوری 1941ء بمقام لاہور)

تشہّد، تعوّذ اور سورہٴ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘میری نیت تو قادیان جا کر جمعہ پڑھانے کی تھی مگر گھر سے چونکہ زیادہ بیمار ہو گئے اور کل سے میری کھانسی میں بھی شدت پیدا ہو گئی اس لئے مَیں نہیں جا سکا لیکن آج میری کھانسی کی جو حالت ہے اس کی وجہ سے یہاں بھی زیادہ دیر تک بلند آواز سے نہیں بول سکتا۔ خصوصاً آج صبح کے وقت تو مجھے اس قسم کا ضعف محسوس ہوتا تھا کہ بعض دفعہ بالکل بیٹھنا بلکہ لیٹنا بھی دوبھر معلوم ہوتا تھا۔
ہماری لاہور کی جماعت اس طرح مختلف علاقوں میں پھیلی ہوئی ہے کہ اسے کسی ایک نظام کے نیچے لانا آسان کام نہیں۔ کسی محلہ میں دس پندرہ آدمی ہیں، کسی میں بیس، کسی میں پچاس، کسی میں دو چار اور کسی میں ایک ہی ہے اور اس وجہ سے باجماعت نمازوں میں باقاعدگی بہت مشکل ہے۔ گو ایک لحاظ سے مشکل نہیں بھی۔ کیونکہ اگر آدمی ارادہ کر لے تو اس کے پورا کرنے میں زیادہ دقّت محسوس نہیں ہوتی۔ مگر اس زمانہ میں لوگ نماز باجماعت کو زیادہ ضروری نہیں سمجھتے۔ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں یہ حال تھا کہ ایک نابینا حضور کی خدمت میں حاضر ہوٴا اور عرض کیا کہ یَا رَسُوْلَ اللہ! مَیں نابینا ہوں لوگوں نے گلیوں میں پتھر رکھے ہوئے ہیں۔ اُس وقت کچے مکان ہوتے تھے اور جس طرح ہمارے ملک میں بھی لوگ کچے مکانوں کے ساتھ ساتھ پتھر وغیرہ رکھ چھوڑتے ہیں تاکہ پرنالہ وغیرہ سے گلیں نہیں عرب میں بھی لوگ پتھر وغیرہ رکھ چھوڑتے تھے۔ اس نابینا نے عرض کیا کہ رستوں میں پتھر وغیرہ ہوتے ہیں اندھیرے میں دوسرے لوگوں کو بھی ٹھوکریں لگتی ہیں اور ان کے پاوٴں بھی زخمی ہو جاتے ہیں اور مَیں تو نابینا ہوں۔ اگر اجازت ہو تو رات کی نمازیں گھر میں ہی پڑھ لیا کروں۔ آپ نے فرمایا اچھا اجازت ہے۔ مگر جب وہ چلا تو فرمایا اسے بلاوٴ اور وہ دوبارہ آیا تو فرمایا تمہارے گھرتک اذان کی آواز پہنچتی ہے یا نہیں؟ اس نے عرض کیا پہنچتی ہے۔ تو آپ نے فرمایا کہ پھر گھر میں پڑھنے کی اجازت نہیں جس طرح بھی ہو مسجد میں آ کر باجماعت نماز ادا کیا کرو ۔؂1
غرض آنحضرت ﷺ نے تو نابینا کے لئے بھی صحت کی حالت میں مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنا ضروری قرار دیا ہے مگر اب لوگ اس بات کی زیادہ پرواہ نہیں کرتے۔ مگر ساتھ یہ شکایت ضرور کرتے ہیں کہ وہ روحانیت نظر نہیں آتی جو پہلے بزرگوں میں تھی اورجس کا ذکر پہلی کتابوں میں ملتا ہے۔ حالانکہ وہ روحانیت کس طرح حاصل ہو سکتی ہے جب تک وہ کام نہ کئے جائیں جو وہ کرتے تھے۔ وہ کثرت سے ذکر الٰہی کرنا، درود شریف پڑھنا، مساجد میں بیٹھ کر اللہ کو یاد کرنا اور نمازوں کو باجماعت ایسی پابندی سے ادا کرنا کہ جس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کے فضل نازل ہوتے تھے۔ اب بالکل نہیں۔ مثل مشہور ہے کہ ہندوستان میں افغانستان کے ایک بادشاہ وہاں سے بھاگ کر آئے ہوئے تھے۔ یہ مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب2؂ کا زمانہ تھا۔ مہاراجہ صاحب ان کی مدد کرتے تھے تا ان کے ملک میں بھی اثر و نفوذ بڑھ جائے۔ چنانچہ وہ یہاں سے مدد لے کر گئے اورپھر وہاں اپنی حکومت قائم کی۔ یہاں قیام کے دوران ایک دن مہاراجہ صاحب نے ان سے فرمایا کہ آپ کے افغانستان میں لوگوں کی اولادیں بڑی ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں اتنی نہیں ہوتیں ا س کی کیا وجہ ہے؟ اس کا کوئی نسخہ ہمیں بھی بتائیں۔ بادشاہ نے کہا کہ اس کا جواب میں افغانستان جا کر ہی دے سکتا ہوں۔ آپ میرے ساتھ اپنا کوئی آدمی بھیج دیں مَیں اسے بتا دوں گا۔ چنانچہ جب وہ واپس جانے لگے تو مہاراجہ صاحب نے اپنا ایک آدمی ساتھ بھیجا کہ نسخہ معلوم کر آئے۔ وہاں وہ جا کر دو چار روز رہا اور پھر کہا کہ بتائیے کیا نسخہ ہے؟ بادشاہ نے کہا کہ آپ کل صبح آ جائیں مَیں بتاوٴں گا۔ چنانچہ وہ اگلی صبح چلا گیا۔ بادشاہ اپنے کام میں مشغول رہا جب ناشتہ کا وقت آیا تو بادشاہ نے قریباً آدھ سیر بادام، پستہ، کشمش اورمرغ مسلّم کے کباب کھائے اور اس کے بعد کچھ اور کاموں میں مشغول ہوگئے۔ دوپہر کے کھانے کا وقت آیا تو پھر دنبے کا پلاوٴ اور اس کی چکی اور اسی قسم کے آٹھ دس کھانے اور کھائے۔ عصر کے وقت پھر مرغ مسلّم کھایا اور بادام اور پستہ پھانکا۔ اسی طرح شام کو بھی کھایا مگر مہاراجہ صاحب کے آدمی سے کوئی بات نہ کی۔ عشاء کے وقت اس نے کہا کہ آپ نے فرمایا تھا نسخہ بتائیں گے مگر بتایا کوئی نہیں۔ بادشاہ نے کہا کہ سارا دن بتاتا تو رہا ہوں۔ مہاراجہ صاحب سے کہہ دیں کہ ان کے ملک میں لوگ غذا ہی ایسی نہیں کھاتے جس سے کثرت سے اولاد پیدا ہو۔ اس سوال کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ ایک انسان سارا دن ہل چلاتا ہے، ہاتھ سے اپنے جانوروں کے لئے چارہ لاتا اور اسے کترتا ہے، دودھ دوہتا ہے اور اسی طرح مشقت کے کام سارا دن کرتا اور پھر اس کے بعد سوکھی روٹی لسّی کے ساتھ یا دودھ یا مکھن کے ساتھ کھا لیتا ہے تو اس کے جسم میں جس قسم کی طاقت پیدا ہو گی وہ ایسے شخص میں کہاں ہو سکتی ہے جو دس پندرہ مرغن غذائیں کھا کر سارا دن چارپائی پر بیٹھا رہتا ہے۔ قوت زیادہ کھانے سے نہیں بلکہ ہاضمہ سے پیدا ہوتی ہے۔ بالکل یہی حال روحانیات میں ہے۔ جو لوگ ذکر الٰہی تو کرتے ہیں مگر نفس کی تربیت نہیں کرتے ان کو بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچتا اور جو ذکر الٰہی نہیں کرتے اور صرف تربیت نفس کی طرف ہی متوجہ رہتے ہیں وہ بھی محروم رہتے ہیں۔ جس طرح جسمانیات میں اگر کوئی شخص ورزش تو کرے مگر کھائے کچھ نہیں بیمار ہو جاتا ہے اور جو زیادہ کھاتا تو رہے مگر ورزش نہ کرے وہ بھی بیمار ہو جاتا ہے۔ صحت کی درستی اور طاقت کے لئے دونوں چیزوں کی ضرورت ہے۔ یہی حال روحانیت کا ہے۔ ایک طرف قلب، خیالات اور ارادوں کو پاک و صاف کرنا ضروری ہے اور دوسری طرف ذکر الٰہی کرنا، کثرت سے درودشریف پڑھنا اور خدا تعالیٰ کی یاد میں کچھ وقت خاموش بیٹھنا اور اس کی صفات پر غور و فکر کرنا ضروری ہے۔ پھر نمازوں کی باقاعدگی اورنماز میں دعائیں کرنا بھی ضروری ہے۔ نفسانی تربیت ایسے ہی ہے جیسے جسمانی غذا، نماز کی ظاہری حرکات، روزے یا دوسرے ضروری امور مثلاً چندے وغیرہ دینا، تبلیغ کرنا بھی روحانیت کی طاقت کو مضبوط کرتے ہیں۔ دعا دل اور ارادوں کی تطہیر اور ذکر الٰہی نئی طاقتیں پیدا کرتے ہیں اور پہلی طاقتوں کو نشو و نما دیتے ہیں اور یہ سب چیزیں مل کر ہی روحانیت کو طاقت دے سکتی ہیں۔ دونوں میں انسان ترقی کرے تو اس کی روحانیت میں ترقی ہو سکتی ہے اس کے بغیر نہیں مگر مَیں دیکھتا ہوں کہ اس زمانہ میں مغربی تعلیم کے زیر اثر ذکر الٰہی اور دل کی تطہیر کی طرف توجہ بہت کم ہے او رلوگ بِالعموم اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کو ایک سودا سمجھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جب ہم نے فرض ادا کر دیا تو اور کوئی ذمہ داری ہم پر باقی نہیں رہی۔ حالانکہ فرائض کی ادائیگی صرف انسان کو سزا سے بچا سکتی ہے۔ انعام کا مستحق اسے صرف نوافل ہی بنا سکتے ہیں۔ حکومتیں کئی قسم کے ٹیکس لگاتی ہیں۔ مثلاً بعض میونسپل ٹیکس ہیں، انکم ٹیکس ہے یا بعض اور ٹیکس ہوتے ہیں جنہیں انسان ادا کرتا ہے یا منی آرڈر وغیرہ پر فیس ہوتی ہے۔ کیا کوئی جاہل سے جاہل بھی کبھی افسروں سے کہتا ہے کہ مَیں نے منی آرڈروں کی فیس کے طور پر ہزاروں روپے حکومت کے خزانے میں داخل کئے ہیں مجھے خطاب دیا جائے؟ اگر کوئی یہ کہے بھی تو وہ کہہ دیں گے کہ تم نے فیس دی اورہم نے تمہار اروپیہ پہنچا دیا بات ختم ہو گئی۔ خطاب کس بات کا؟ پس فرائض کی ادائیگی کسی انعام کا مستحق نہیں بنا سکتی۔ انعام کے طالب وہی ہو سکتے ہیں جو کوئی زائد کام کریں۔ محض ٹیکس کا ادا کرنا کسی خطاب کا مستحق نہیں بنا سکتا۔ ہاں اگر کسی ملک یا شہر میں فساد ہو اور کوئی شخص اسے فرو کرنے میں مدد دے تو وہ کہہ سکتا ہے کہ فرض کے طور پر میرا کام صرف یہ تھا کہ مَیں کسی فساد میں حصہ نہ لوں ۔ مگر مَیں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ پولیس کے ساتھ مل کر مَیں نے اسے دور کیا اور اس طرح اپنے فرض سے زائد کام کیا۔ فرض صرف یہی تھا کہ مَیں فساد میں خود حصہ نہ لوں لیکن اس سے زائد کام کرنے کی وجہ سے مَیں انعام کا مستحق ہوں تو اس کا مطالبہ معقول ہو گا۔
غرض انعام کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ فرض سے بڑھ کر کام کیا جائے۔ فرائض کو ادا کر دینا انسان کو سزا سے تو بچا سکتا ہے مگر قُرب الٰہی کا موجب نہیں ہو سکتا۔ قرب نوافل سے ہی ملتا ہے اور نمازباجماعت بھی فرائض میں داخل ہے۔ اس کے بعد وہ چیزیں ہیں جو نوافل کا درجہ رکھتی ہیں مثلاً ذکر الٰہی کرنا، استغفار کرنا، صفات الٰہی پر غور کرنا۔ دن میں، اپنے کام کے دوران میں جب بھی وقفہ ملے تسبیح، تحمید اور تکبیر کرتے رہتا بلند آواز سے ہی ضروری نہیں بلکہ آہستہ آہستہ بھی یہ ذکر کیا جا سکتا ہے۔ یہ چیزیں روح میں طاقت پیدا کرتی ہیں اور انسان کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرتی ہیں۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ مومن نوافل سے ہی خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرتا ہے اور جوں جوں وہ نوافل میں ترقی کرتا ہے خدا تعالیٰ کے زیادہ قریب ہوتا جاتا ہے۔ اگر وہ ایک قدم خدا تعالیٰ کی طرف اٹھاتا ہے تو خداتعالیٰ دو قدم اس کی طرف آتا ہے۔ اگر وہ چل کر خدا تعالیٰ کی طرف جاتا ہے تو خدا تعالیٰ اس سے تیز چل کر اس کی طرف آتا ہے۔ اگر وہ تیز چل کر جاتاہے تو خدا تعالیٰ دوڑ کر اس کی طرف آتا ہے یہاں تک کہ نوافل کے ذریعہ ایک دن ایسا آ جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس کے ہاتھ بن جاتا ہے جن سے وہ کام کرتا ہے ، خدا تعالیٰ اس کے پاوٴں بن جاتا ہے جن سے وہ چلتا ہے، خدا تعالیٰ اس کی زبان بن جاتا ہے جس سے وہ بولتا ہے اور خدا تعالیٰ اس کی آنکھیں بن جاتا ہے جن سے وہ دیکھتا ہے اور خداتعالیٰ اس کے کان بن جاتا ہے جن سے وہ سنتا ہے۔3؂ مگر یہ مقام سوائے اس حالت کے حاصل نہیں ہو سکتا جو عشق کی ہوتی ہے۔
عاشق کے معنی عام طور پر پاگل کے ہی سمجھے جاتے ہیں جن کا قصوں میں ذکر ہے مثلاً مجنوں، فرہاد وغیرہ۔ مگر عشق دراصل شدید محبت کا نام ہے۔ جیسے ماوٴں کو اپنے بچوں سے ہوتی ہے یا باپ کو بچوں سے ہوتی ہے، خاوند کو بیوی سے اور بیوی کو خاوند سے ہوتی ہے۔ ان کے قلوب کی جو کیفیت ہوتی ہے کیا وہ فرائض والی حالت ہوتی ہے؟ فرائض والی کیفیت تو نوکر اور آقا کی ہوتی ہے جس میں بسااوقات یہ شرائط ہوتی ہیں کہ مَیں یہ کام کروں گا اور یہ نہیں کروں گا مگر گھروں میں کبھی یہ باتیں نہیں ہوتیں۔ کیا بچوں کے معاملہ میں یا خاوند اور بیوی کے معاملہ میں کوئی شرائط ہوتی ہیں؟ دس پندرہ روپیہ تنخواہ لینے والے نوکر سے بھی اگر کہو کہ پاخانہ اٹھائے تو کبھی خوشی اور بشاشت سے نہیں اٹھائے گا۔ مگر دس ہزار روپیہ ماہوار کمانے والے انسان کی بیوی جو اس کے درجہ میں برابر کی شریک ہے اگر کوئی ایسا موقع آ جائے تو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے خاوند کا پاخانہ اٹھا دے گی اور اسی طرح خاوند بیوی کا اٹھا دے گا۔ خواہ وہ گورنر، وائسرائے بلکہ بادشاہ ہی کیوں نہ ہو۔ اگر کوئی ایسا موقع آئے کہ نوکر پاس نہ ہو اور بیوی کو قے ہو جائے تو کیا وہ انتظار کرے گا کہ نوکر کو بلائے اور وہ اسے صاف کرے۔ وہ اس وقت یہ خیال نہیں کرے گا کہ یہ کام چوہڑوں کا ہے بلکہ وہ خود اسے صاف کرے گا۔
تو محبت کے موقع پر فرائض کو نہیں دیکھا جاتا۔ مولویوں نے شریعت کی حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے فقہ کی کتابوں میں عجیب مسائل لکھ دئیے ہیں مثلاً خاوند پر فرض یہی ہے کہ بیوی کو دو جوڑے کپڑے دے دے اور کھانا مہیا کر دے خواہ کوئی غریب ہو یا بادشاہ بس اس پر دوجوڑے ہی فرض ہیں حالانکہ بعض لوگ چاہتے ہیں کہ ان کی بیوی کئی کئی جوڑے دن میں بدلے اور بعض دو بھی نہیں دے سکتے تو ایسے فتووں پر انسان کس طرح عمل کر سکتا ہے؟ بعض گھروں میں کام زیادہ ہوتا ہے عورتیں کپڑے خود نہیں دھو سکتیں اور بعض مرد نفاست پسند ہوتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ بیوی دوسرے تیسرے روز کپڑے بدلے۔ اب یہ دو جوڑوں سے تو نہیں ہو سکتا اور اس لئے وہ بغیر اس خیال کے کہ فقہ کی کتابوں میں کیا لکھا ہے کافی کپڑے بنا دیتے ہیں۔
پھر بعض لوگ دو جوڑے بھی نہیں بنا کر دے سکتے اس لئے یہ کوئی پابندی نہیں کی جا سکتی۔ بعض لوگ بیوی کو پچاس سو بلکہ ہزاروں روپیہ ماہوار جیب خرچ دے دیتے ہیں مگر کئی لوگ ہیں جو روٹی بھی مہیا نہیں کر سکتے۔ اب اس معاملہ میں کون یہ دیکھتا ہے کہ فقہاء کیا کہتے ہیں۔ میاں بیوی کے تعلقات میں ان باتوں کو نہیں دیکھا جا سکتا بلکہ اس تعلق کی بنیاد محبت پر ہوتی ہے۔ ہر ایک کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ جتنا بھی ہو سکے ایک دوسرے کے زیادہ قریب ہوں۔
غرض جوڑوں کی قید صرف فرائض کی ادائیگی تک تو ہو سکتی ہے مگر محبت کے تعلقات میں اسے قائم نہیں رکھا جا سکتا بلکہ میاں یہ دیکھتا ہے کہ اپنی بیوی کو زیادہ سے زیادہ آرام پہنچائے اوربیوی یہ کہ زیادہ سے زیادہ خدمت خاوند کی کر سکے اور وہ ایسی خدمت کرتی ہے کہ بعض اوقات چار پانچ روپیہ کا نوکر بھی نہیں کر سکتا۔
مَیں دوسروں کا نہیں کہتا خود اپنے گھر کا تجربہ بیان کرتا ہوں۔ کئی بار شدید بیماری کی حالت میں ایسے مواقع بھی آئے ہیں کہ چارپائی کے قریب ہی کموڈ پر پاخانہ یا پیشاب کرنا پڑا اور ملازمہ وغیرہ کو جب اٹھانے کو کہا گیا تو اس نے کہا کہ ابھی چُوہڑی آتی ہے وہ اٹھا لے جائے گی۔ مگر بیوی نے فوراً اٹھا کر باہر رکھ دیا اسے یہ احساس تک بھی نہیں ہوٴا کہ یہ چُوہڑی کا کام ہے بلکہ اس وقت اسے یہ پتہ بھی نہیں لگ سکا کہ یہ ایسا کام ہے جو میرے کرنے والا نہیں۔ یہی حال خاوند کا ہوتا ہے۔ تومحبت کے تعلقات ایسی ہی بنیادوں پر قائم ہوتے ہیں۔ فرائض کی ادائیگی پر نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام فرمایا کرتے تھے کہ کسی صوفی سے کسی نے پوچھا کہ مجھے کوئی ایسا کلمہ بتا دو جس کا مَیں ذکر کیا کروں۔ انہوں نے کوئی کلمہ بتا دیا۔ اس نے پھر پوچھا کہ کتنی دفعہ روزانہ یہ ذکر کیا کروں؟ وہ صوفی خدا رسیدہ تھے یہ سوال سن کر حیرت میں پڑ گئے۔ تھوڑی دیر بالکل خاموش رہے اورپھرفرمایا کہ ‘‘یار دا ناں لینا تے گِن گِن کے؟’’ یعنی کیا محبوب کے ذکر پر بھی گنتی اور شمار کی قید لگائی جا سکتی ہے؟ اگر محبت ہو تو جو بھی فرصت کا وقت ہو اس میں اس کی یاد آ گئی۔ گننے کا کیا مطلب؟
تو سوائے ان عبادتوں کے جو فرض ہوتی ہیں اور جن کا گننا بھی ضروری ہوتا ہے نوافل میں سے بھی بعض نوافل سنت کا رنگ رکھتے ہیں۔ ان کے سوا جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام سے کوئی پوچھتا کہ فلاں ذکر کتنی بار کرنا چاہئے تو آپ فرماتے کہ جب تک طبیعت میں بشاشت پیدا ہو۔ تعداد آپ نے کبھی نہیں بتائی۔ تو یہ نوافل ہیں جو انسان کے اندر حقیقی محبت پیدا کرتے ہیں۔ عبادت کو صرف فرائض تک محدود رکھنے کے معنے تو صرف یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ آقا ہے اور مَیں اس کا نوکر ہوں اس سے زیادہ نہیں۔ اور نوکر و آقا کے تعلقات خواہ کیسے بھی کیوں نہ ہوں محبوب اور محب اور عاشق و معشوق کے پاکیزہ تعلقات کا مقابلہ ہرگز نہیں کر سکتے۔
مُحِبّ اور محبوب کا تعلق امن و راحت کا تعلق ہوتا ہے اور یہ تعلق اسی وقت پیدا ہو سکتا ہے جب انسان کے اندر محبت کا رنگ پیدا ہو اور وہ حدود و قیود کو نظر انداز کر دے اور ہر وقت دل میں یہ احساس رہے کہ مَیں نے اس تعلق میں ترقی کرنی ہے۔ یہ نہیں کہ صبح کی نماز پڑھنے کے بعد صرف یہ احساس ہو کہ اب مَیں نے صرف ظہر کی نماز پڑھنی ہے اور ظہر کے بعدیہ کہ عصر کی پڑھنی ہے بلکہ ہر وقت خدا تعالیٰ کی طرف دھیان رہے۔ صبح کی نماز کے بعد جب ایک دکاندار دکان کا دروازہ کھولے تو اس وقت بھی خدا تعالیٰ کی یاد دل میں ہو اور دل و زبان خدا تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کر رہے ہوں اورجب کسی کو سودا دے رہا ہو تو اس وقت بھی دل اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو۔ اور جب گاہک کو سودا دے لے تو دل میں اطمینان ہو کہ مَیں نے اس کا حق نہیں مارا۔ مگر پھر بھی اَسْتَغْفِرُ اللہ پڑھتا رہے کہ شاید مجھ سے کوئی کمی رہ گئی ہو تو اللہ تعالیٰ اسے معاف کر دے۔ وزن پورا دیا ہو، سودا بھی ناقص نہ ہو۔ سب کچھ ٹھیک کرنے کے بعد بھی یہ خیال ہو کہ کوئی ایسی بات مجھ سے نہ ہو گئی ہو کہ جو میرے محبوب کی ناراضگی کا موجب ہو اور اس لئے استغفار کرتا رہے۔ یہی حال زمیندار کا ہو وہ پورے زور کے ساتھ ہل چلا رہا ہو مگر دل میں ذکرِ الٰہی کرتا رہے۔ یہ دونوں کام ایک ہی وقت ہو سکتے ہیں۔ صرف یہ کافی نہیں کہ صبح کی نماز پڑھ لی ہے اور اب ظہر کی پڑھنی ہے اور ظہر کی پڑھ لی ہے تو اب عصر کی پڑھنی ہے بلکہ جب بھی موقع ملے خداتعالیٰ کو یاد کرتا رہے۔ یہی وہ چیز ہے جو روح کو طاقت دیتی اور دل کو صاف کرتی ہے اور اسی کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہو سکتا ہے۔ پس اس زمانہ میں شہروں اور قصبوں میں جو دقتیں ہیں ان کے لحاظ سے ان جگہوں کے رہنے والوں کو ان امور کی طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے۔ خصوصاً لاہور میں جہاں میلوں کا فاصلہ ہے۔ بے شک اِس زمانہ میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے کے لئے سواریاں بھی ہیں مگر وہ سب کو میسر نہیں اور لاہور میں تو وہ ابھی رائج بھی نہیں۔ یورپ میں شہروں کے اندر بھی ریلیں چلتی ہیں، بسیں ہیں اور بھی کئی قسم کی سواریاں ہیں مگر یہاں گلیوں کی تنگی کی وجہ سے ایسا انتظام بھی مشکل ہے۔ اس لئے لوگ باجماعت نمازوں میں سست ہو جاتے ہیں۔ لاہور میں بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو مَیں نے سنا ہے جمعہ میں بھی سستی کرتے ہیں مگر یہ لوگ بالکل مُردہ دل ہوتے ہیں اور اس موقع پر مَیں ان کا ذکر نہیں کر رہا ان کے لئے اَور قسم کی نصیحت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اِس وقت تو میرے مخاطب وہ لوگ ہیں جو باقاعدہ نمازیں ادا کرتے ہیں اور باجماعت نماز کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ مَیں ان سے کہتا ہوں کہ ان کی یہ حالت بھی قابل تسلی نہیں۔ ان کو اور آگے بڑھنا چاہئے اور ذکر اذکار کی عادت ڈالنی چاہئے۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ تعلیم یافتہ لوگ ذکر اذکار کو غیر ضروری اور حقیر کام سمجھتے ہیں۔ بہت ہی کم ہیں جن کو مَیں نے اس طرف متوجہ دیکھا ہے۔ بیشک ایسے لوگ ہیں جو مساجد میں بیٹھ کر تسبیح و تحمید کرتے ہیں مگر ان کی تعدادکم ہے۔ تسبیح و تحمید کے لئے یہ ضروری نہیں کہ ہاتھ میں ضرور تسبیح پکڑ لی جائے بلکہ زبان سے اور دل و دماغ سے خدا تعالیٰ کی یاد کرنی چاہئے۔ مگر بہت کم لوگ ایسا کرتے ہیں اوریہی وجہ ہے کہ دلوں میں صفائی پیدا نہیں ہوتی اور جلدی ٹھوکر کھا جاتے ہیں۔ خدا تعالیٰ سے ان کا تعلق کمزور ہوتا ہے اور ان کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کوئی شخص سر پر برتن رکھ کر جا رہا ہو۔ ایسے شخص کو اگر ذرا سی ٹھوکر لگے تو برتن بھی نیچے گر جائیں گے ایسے لوگوں کا تعلق خدا تعالیٰ سے ایساہی ہوتا ہے۔ اسی لئے وہ ذرا سی ٹھوکر کے ساتھ خدا تعالیٰ سے الگ ہو جاتے ہیں لیکن محبت ایک ایسی چیز ہے جو بندے اور خدا تعالیٰ کو باندھ دیتی ہے اورجو چیز دوسری سے باندھ دی جائے وہ گرا نہیں کرتی۔ اسے جب پھینکا بھی جائے تو وہ بندھی رہتی ہے۔ تو نوافل خدا اور بندے کو اسی طرح باندھ دیتے ہیں جس طرح ایک چیز دوسری سے رسی یا زنجیر کے ساتھ باندھ دی جاتی ہے یا جس طرح ویلڈنگ کرتے ہیں۔ نوافل سے خدا تعالیٰ اور بندے کے درمیان ویلڈنگ ہو جاتا ہے اور ایسے انسان کو جب ٹھوکر لگے اور وہ گرے تو خدا تعالیٰ بھی ساتھ گرتا ہے تا تفرقہ نہ ہو اور اگر اسے کوئی اوپر پھینکتا ہے تو خدا تعالیٰ بھی ساتھ ہی اوپر جاتا ہے مگر جب تک یہ ویلڈنگ نہ ہو ذرا سی ٹھوکر سے وہ ادھر جا پڑتا ہے اور یہ ادھر۔ اس زمانہ میں ابتلاوٴں کی جو کثرت ہے وہ اسی وجہ سے ہے کہ لوگوں نے نوافل اور ذکر اذکار کو بھلا دیا۔ پس مَیں احباب کو خصوصیت سے نصیحت کرتا ہوں کہ نوافل اور ذکر الٰہی جو فرائض اور نماز باجماعت کے بعد ضروری چیزیں ہیں ان کی عادت ڈالیں تا اللہ تعالیٰ اور ان کے درمیان ایسا مضبوط رشتہ قائم ہو جائے جو ذراذرا سی ٹھوکروں سے نہ ٹوٹ سکے۔ رسول کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تم سے پہلی قوموں پر ایسے عذاب آئے ہیں کہ ان میں سے بعض آروں سے چِیرے گئے مگر وہ مرتد نہیں ہوئے۔4؂
عیسائیوں کی تاریخ میں ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ روم کے بادشاہوں نے ان میں سے بعض کو آروں سے چروا دیا مگر انہوں نے اپنے ایمان کو نہ چھوڑا۔ مگر اب دیکھ لو کتنی جلدی ٹھوکر لگ جاتی ہے۔ یہ فلسفہ اور دہریت کا زمانہ ہے اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت پیدا کرنے والے ذرائع کو لوگوں نے نظر اندا زکر دیا ہے۔ اس لئے قلوب میں صفائی پیدا نہیں ہوتی اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس قسم کا جوڑ اور تعلق پیدا نہیں ہوتا جو ایسے بد اثرات سے انسان کو بالا کر دے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جب تک قلب، دماغ اور خیالات میں صفائی نہ ہو ذکر اذکار بھی مفید نہیں ہوتا۔ یہ ایسی ہی بات ہوتی ہے جیسے کوئی انسان عمدہ عمدہ مرغّن کھانے تو کھائے مگر سارا دن چارپائی پر ہی بیٹھا رہے۔ ذکرِ الٰہی اس وقت تک قرب الٰہی کا موجب نہیں ہو سکتا جب تک اس کے ساتھ دل و دماغ میں صفائی نہ ہو۔ محض زبان سے بعض الفاظ کہہ دینا کافی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی نظر دل کی صفائی پر ہوتی ہے اس کے بغیر بسا اوقات ذکرالٰہی عذاب کا موجب ہو جاتا ہے جیسے پیشاب کی بوتل میں اگر کوئی عمدہ شربت ڈال لے تو وہ اسے کوئی بشاشت نہیں پہنچا سکتا یا کوئی عمدہ کھانا پاخانہ کے برتن میں ڈال لے تو وہ اسے کوئی بشاشت نہیں پہنچا سکتا یا کوئی عمدہ کھانا پاخانہ کے برتن میں ڈال لے تو وہ کوئی طاقت نہیں پیدا کرے گا بلکہ صحت کو اور خراب کر دے گا۔ عمدہ غذا اسی وقت مفید ہو سکتی ہے جبکہ وہ برتن بھی صاف ہو جس میں وہ ڈالی جائے۔ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ فلاں شخص بڑے وظائف کیا کرتا تھا مگر مرتد ہو گیا اور یہ نہیں سوچتے کہ عمدہ سے عمدہ شربت بھی پیشاب کے برتن میں پڑ کر خراب ہو جاتا ہے جس کا دل اور دماغ صاف نہیں اسے ذکر اذکار کوئی فائدہ نہیں دے سکتے۔ جس طرح کہ اچھی غذا خراب برتن میں پڑ کر خراب ہو جاتی ہے یا جیسے کسی اچھے برتن میں خراب غذا ڈال دی جائے تو وہ اچھی نہیں بن جاتی۔ یہ دونوں چیزیں ضروری ہیں یعنی اپنے دل و دماغ اور خیالات کی صفائی اور پھر ذکر الٰہی کی عادت۔ شاہ ولی اللہ صاحب بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں ان کی ایک پوتی بہت ذکر کیا کرتی تھیں۔ ایک دفعہ ان کے ایک بھائی شاید ان کا نام شاہ عبد الغنی تھا ان سے ملنے آئے تو دیکھا کہ وہ مصلّٰی پر بیٹھی ہیں۔ انہوں نے کہا بہن تم مصلّٰی پر بہت بیٹھی رہتی ہو۔ انہوں نے کہا کہ مجھے ذکر الٰہی میں بڑی لذت آتی ہے۔ شاہ صاحب نے فرمایا کہ مجھے تو یوں نظر آتا ہے کہ تم اس میں غلو کرنے لگی ہو ایسا نہ ہو کہ فرائض میں سُستی ہو جائے۔ یہ نصیحت کر کے وہ چلے آئے۔ اگلے جمعہ کے بعد پھر ملنے گئے۔ جمعہ کے جمعہ جاتے تھے تو بہن نے کہا کہ اب تو مجھے فرائض سے زیادہ نفلوں میں لذت آتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہی اصل چیز ہے۔ بھائی نے کہا ہشیار رہو شیطان خدا تعالیٰ سے دور لے جا رہا ہے۔ اگلے جمعہ کو وہ پھر آئے تو بہن نے کہا بھائی بات تو آپ نے ٹھیک کہی تھی اب تو بعض دفعہ مجھے طبیعت پر جبر کر کے فرائض ادا کرنے پڑتے ہیں کوئی علاج بتاوٴ۔ بھائی نے کہا لَا حَوْلَ پڑھا کرو۔ اگلے جمعہ وہ پھر آئے تو بہن نے کہا بھائی! خدا آپ کا بھلا کرے مَیں نے کشف میں دیکھا ہے کہ شیطان بندر کی صورت میں بیٹھا غصہ سے دانت پیس رہا ہے اور آپ کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے کہ اس نے تمہیں بچا لیا ورنہ مَیں تو تمہیں جہنم میں لے جاتا۔ تو جب تک دماغ اور قلب کی صفائی نہ ہو اور اس کے ساتھ فرائض کی پابندی، ذکر الٰہی بھی عذاب بن جایا کرتا ہے۔ پس یہ دونوں چیزیں بہت ضروری ہیں۔ ایک ہی طرف لگ جانا بے وقوفی کی بات ہے اور اس سے قرب الٰہی حاصل نہیں ہو سکتا۔ بیک وقت دونوں چیزیں ضروری ہیں اور جب یہ دونوں مل جائیں تو خدا تعالیٰ سے ایسی پیوستگی ہو جاتی ہے اور ایسا لگاوٴ پیدا ہو جاتا ہے کہ دنیا کی کوئی چیز پھر ایسے انسان کو خدا تعالیٰ سے جدا نہیں کر سکتی۔ اس کامل محبت کی ایک مثال اسی لاہور میں ظاہر ہو چکی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب دعویٰ کیا تو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے بہت مخالفت کی اور سارے ملک میں پھر کر آپ کے خلاف کفر کے فتوے حاصل کئے بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ مَیں نے ہی اس شخص کو اوپر اٹھایا تھا اور اب مَیں ہی اسے گراوٴں گا۔ وہ یہاں لاہور میں آ کر بیٹھ گئے اور خوب زور سے مخالفت شروع کر دی۔
لدھیانہ کے ایک اَن پڑھ سے دوست میاں نظام الدین صاحب تھے بہت ہنس مکھ آدمی تھے حج کا ان کو بے انتہا شوق تھا اور باوجود اس کے کہ ریلیں نہ تھیں اورجہاز بھی دُخانی نہ تھے پھر بھی انہوں نے 8، 10 حج کئے تھے۔ اس زمانہ میں بہت سا سفر پیدل کرنا پڑتا تھا اور ایک ایک حج میں دو دو سال لگ جاتے تھے۔ ان کی طبیعت میں مذاق بہت تھا اور بچوں میں بہت خوش رہتے تھے۔ ہمیں بھی وہ اپنے لطائف سنایا کرتے تھے اور ہم ہنس ہنس کر لوٹ لوٹ جاتے تھے بہت سادہ آدمی تھے اور چائے کے بہت عادی تھے۔ چونکہ لدھیانہ میں افغان شہزادے رہتے ہیں اس لئے وہاں چائے کا عام رواج ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ میاں! معلوم ہے حج کو جاتے ہوئے ہم چائے کس طرح پیتے ہیں؟ وہاں رستہ میں سماوار وغیرہ کہاں ہوتے ہیں مَیں تو یوں کرتا تھا کہ جہاں چائے کا وقت آیا اور چائے نہ ملی تو چائے کی پتی لی اور پھانک لی پھر جب کہیں گرم پانی ملا اوپر سے وہ پی لیا بس پیٹ میں جا کر آپ ہی چائے بن گئی۔ ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بہت محبت تھی اور وہ مولوی محمد حسین صا حب کے بھی بڑے مداح تھے ان کے اوپر بھی اہلحدیث کا رنگ چڑھا ہوٴا تھا۔ انہوں نے جب سنا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا ہے تو کہا کہ نہیں مرزا صاحب کفر کی بات نہیں کر سکتے ان کو کوئی غلطی لگی ہو گی وہ قرآن کے عاشق ہیں۔ وہ یہ شور سن کر قادیان آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے؟ لوگ کہتے ہیں آپ قرآن کریم کے خلاف عقائد رکھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا میاں نظام دین! آپ نے کبھی دیکھا ہے کہ مَیں نے قرآن کریم کے خلاف کوئی بات کہی ہو ؟ انہوں نے کہا اللہ آپ کا بھلا کرے مَیں نے تو پہلے ہی کہا تھا کہ لوگ غلط کہتے ہیں یہ بھی تو جھوٹ ہے نا کہ آپ کہتے ہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا یہ تو سچ ہے مگر قرآن کریم میں یہی لکھا ہے۔ میاں نظام الدین صاحب نے کہا کہ قرآن کی بیسیوں آیات ان کے زندہ ہونے کی شاہد ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر ایک بھی ہو تو مَیں مان لوں گا۔ وہ کہنے لگے کہ بس مَیں نے پہلے ہی کہا تھا کہ کوئی غلط فہمی ہو گئی ہو گی اب معاملہ صاف ہو گیا۔ مَیں ایک سو آیات مسیح علیہ السلام کی زندگی کے ثبوت میں لکھوا لاتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ نہیں سَو کی تو کوئی ضرورت نہیں ہم تو ایک بھی ہو تو مان لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اچھا پچاس لے آوٴں؟ آپ نے فرمایا مَیں تو ایک کو بھی ماننے کو تیار ہوں۔ آخر میاں نظام الدین صاحب نے کہا اچھا مَیں دس آیات لکھوا لاتا ہوں کیا آپ ان کو دیکھ کر اپنے خیال سے رجوع کر لیں گے؟ آپ نے فرمایا کہ ہم تو ایک آیت بھی دیکھ کر رجوع کر لیں گے۔ اس پر وہ اٹھے اور کہا پھر یہ وعدہ کریں کہ لاہور چل کر شاہی مسجد میں اپنی غلطی کا اعتراف کریں گے تاکہ سب ملک کو معلوم ہو جائے۔ آپ نے فرمایا بہت اچھا۔ وہ خوش خوش لاہور کی طرف روانہ ہو گئے جہاں اُس وقت مولوی محمد حسین صاحب اُن دنوں مخالفت کا شور بلند کر رہے تھے اور چینیاں والی مسجد میں جہاں اہلحدیثوں کا جمعہ ہوتا ہے اس میں مقیم تھے۔ اتفاق سے حضرت خلیفہ اول بھی ان دنوں چھٹی لے کر یہاں آئے ہوئے تھے اور مولوی محمد حسین صاحب نے ان کے خلاف بھی اشتہار بازی شروع کر رکھی تھی کہ کافر کا چیلا یہاں آ گیا ہے اور اعتراض کر رہے تھے۔ حضرت خلیفہ اول بھی جواب دیتے تھے۔ مولوی محمد حسین صاحب کہتے تھے کہ قرآن کریم کی جو تفسیر احادیث میں ہو وہی قابل قبول ہے اور آپ فرماتے تھے کہ بعض احادیث غلط بھی ہو سکتی ہیں۔ آخر آپ نے مان لیا کہ اچھا قرآن کریم اور بخاری میں جو بات ہو وہ مَیں مان لوں گا اور مولوی محمد حسین صاحب اپنے معتقدین میں بیٹھے بڑے زور سے یہ کہہ رہے تھے کہ دیکھا مَیں نے کس طرح نور الدین کو قابو کیا اور آخر حدیث کی طرف لے آیا ہوں۔ انہیں اپنی تعریف آپ کرنے کی بہت عادت تھی اور اس بات کو بڑے فخر سے بیان کررہے تھے کہ اُدھر سے میاں نظام الدین پہنچ گئے اور کہا کہ بس چھوڑئیے اب فیصلہ ہو گیا۔ مَیں قادیان گیا تھا مرزا صاحب میرے دوست ہیں مجھے یقین تھا کہ وہ قرآن کریم کو نہیں چھوڑ سکتے۔ اب مَیں آیا ہوں اور اُن سے یہ فیصلہ کر آیا ہوں کہ دس آیات وفات مسیح کی تائید میں مَیں ان کو دکھا دوں گا اور وہ شاہی مسجد میں آ کر اپنے خیالات سے توبہ کر لیں گے۔ بس آپ مجھے دس آیات لکھ دیں۔ یہ بات سن کر مولوی محمد حسین صاحب کی آنکھیں سرخ ہو گئیں اور بڑے غصہ سے کہا کہ تم جاہل آدمی ہو تمہیں کس نے کہا ہے کہ علمی باتوں میں دخل دو۔ مَیں تین ماہ تک کوشش کر کے نور الدین کو حدیث کی طرف لایا تھا یہ پھر قرآن کی طرف لے جا رہا ہے۔ یہ بات مولوی محمد حسین صاحب نے غصہ میں کہہ دی اور یہ خیال نہ کیا کہ اس سے ان کی کمزوری کا اظہار ہوتا ہے۔ میاں نظام دین تھے تو بیشک اَن پڑھ مگر جب یہ بات سنی تو ان کی آنکھیں کھل گئیں۔ تھوڑی دیر خاموش رہے اور پھر یہ کہہ کر مولوی صاحب! ‘‘اچھا جدھر قرآن اُدھر ہم۔’’ اٹھ کر چل پڑے اور قادیان میں آ کر بیعت کر لی۔ ان کا خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق محبت کا تھا۔ وہ یہ محسوس کرتے تھے کہ مَیں ہر چیز کو چھوڑ سکتا ہوں مگر خدا تعالیٰ کے کلام کو نہیں چھوڑ سکتا۔ اس لئے جب دیکھا کہ مولوی محمد حسین قرآن کریم کو چھوڑ رہے ہیں تو کسی اور دلیل کی ضرورت ہی نہ رہی۔ اورجب مومن کی یہ حالت ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ اسے محبت کا ایسا تعلق ہو جائے تو پھر اسے کوئی ابتلاء پیش نہیں آ سکتا وہ یہی کہتا ہے کہ اچھا جدھر قران اُدھر ہی ہم۔ دوسرا کلمہ اس کی زبان سے نہیں نکلتا اور جو شخص خدا تعالیٰ کا قرب چاہتا ہے اسے یہی مقام حاصل کرنا چاہئے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ مضبوطی سے بندھا ہوٴا ہونا چاہئے۔ یہ نہیں کہ تعلق کمزور ہو اور ذرا سی ٹھوکر لگنے پر یہ ادھر اور وہ ادھر جا پڑے۔ یہی اصل اطمینان کا مقام ہوتا ہے۔ اور اسی سے خدا تعالیٰ کے وہ فضل نازل ہوتے ہیں جن کے بغیر نجات حاصل نہیں ہو سکتی۔ جب خدا تعالیٰ کے ساتھ ایسا مضبوط تعلق قائم ہو جائے تو ایسے انسان کو گو دنیا بھی چھوڑ دے، لوگ کتنا اسے بدنام کریں مگر خدا تعالیٰ اسے نہیں چھوڑتا۔ جس دن حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کو صلیب دیا گیا اس دن کون کہہ سکتا تھا کہ ان کے بعد بھی کوئی ان کا نام لے گا حتّٰی کہ حواری بھی ان کو چھوڑ گئے۔ مگر ان کا خدا تعالیٰ سے مضبوط تعلق تھا۔ پس خدا تعالیٰ نے ان کو نہ چھوڑا اور آخر ان کا نام عزت سے دنیا میں قائم ہو گیا۔ دشمنوں نے جب حضرت امام حسین علیہ السلام کو کربلا کے میدان میں شہید کیا توکون کہہ سکتا تھا کہ ان کا نام دنیا میں عزت سے یاد کیا جائے گا۔ اس وقت دشمن کتنے فخر سے کہتے ہوں گے کہ ہم نے موذی کی نسل کا ہی صفایا کر دیا اور دیکھ لو کیسا برا انجام ان لوگوں کا ہوٴا۔ مگر زمانہ نے آخر کیا ثابت کیا؟ یہی کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھنے کی وجہ سے خاندان کی تباہی کے باوجود بھی ان کا نام ہمیشہ عزت کے ساتھ زندہ ہے۔ اور اولاد بھی اتنی پھیلی ہے کہ دنیا کے ہر گوشہ میں سادات موجود ہیں اور دوسری طرف دیکھ لو آج بھی کہ جو ایمانی تنزل کا زمانہ ہے کسی کو یہ جرأت نہیں کہ اپنے بیٹے کا نام یزید رکھ سکے۔ جس طرح بعض زمانوں میں خدا تعالیٰ کا نام بھی دنیا سے مٹ جاتا ہے بیشک اس کے بندوں کا بھی مٹ جاتا ہے مگر جب بھی پھر خدا تعالیٰ کا نام ابھرتا ہے ساتھ ہی ان کا بھی ابھر آتا ہے۔ اگر انسان خدا تعالیٰ کے نام کو دل سے نکالتا ہے تو ان کا بھی نکل جاتا ہے مگر جب خدا تعالیٰ کا نام زندہ ہوتا ہے ان کا بھی ساتھ ہی ہو جاتا ہے۔ پس اپنی حالت کو اس رنگ میں سنوارو کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ مستقل رشتہ پیدا ہو جائے اور اس رشتہ کے پیدا کرنے کا طریق میں نے بتا دیا ہے۔ اس کے بعد مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بے شک لاہور کی جماعت بڑھ رہی ہے مگر لاہور کا شہراِن سے بہت زیادہ نسبت سے بڑھ رہا ہے۔ پہلے کبھی جمعہ میں مَیں نے اتنے آدمی نہیں دیکھے جتنے آج ہیں مگر پہلے شہر بھی اتنا بڑھا ہوٴا نہیں دیکھا جتنا آج ہے اور اگر شہر زیادہ بڑھے اور جماعت اس نسبت سے کم بڑھے تو یہ جماعت کی کمی پر دلالت کرتی ہے۔ اس لئے احباب کو تبلیغ کی طرف بھی خاص طور پر توجہ کرنی چاہئے۔ اب تو تبلیغ کے لئے ایک بہانہ بھی پیدا ہو گیا ہے۔ ہر شخص تفسیر کبیر لے کر اپنے دو دو چار چار دس دس بیس بیس بلکہ پچاس پچاس اور سَو سَو دوستوں کے پاس جائے اور اس کی خریداری کی تحریک کرے۔ یہ مَیں کسی ذاتی نفع کے لئے نہیں کہہ رہا کیونکہ یہ تفسیر سلسلہ کا مال ہے میرا ذاتی نہیں۔ نیز اس تفسیر کی اشاعت پر اس قدر زور دینے کی بھی مجھے ضرورت نہیں کیونکہ اس کا اکثر حصہ فروخت ہو چکا ہے۔ پس مَیں اس کی فروخت کے لئے نہیں بلکہ تبلیغ کے لئے ایک موٴثر ذریعہ ہونے کی وجہ سے اس کی تحریک کر رہا ہوں اور اس سے تبلیغ کے لئے موقع پیدا ہو سکتا ہے۔ بعض لوگ اسے ہتک سمجھتے ہیں کہ اسے دوسروں کے پاس فروخت کریں۔ حیدر آباد کے بعض دوستوں کو مَیں نے تحریک کی تو انہوں نے کہا کہ ہم خرید کر امراء کو بطور تحفہ پیش کر دیں گے مگر مَیں نے کہا کہ مجھے یہ منظور نہیں اور مجھے پیسوں کی ضرورت نہیں بلکہ مَیں چاہتا ہوں کہ تحریک کی جائے کہ لوگ خود خریدیں۔ انہوں نے کہا یہ بڑی مشکل بات ہے۔ مَیں نے کہا جب تک تم اسے بیچو گے نہیں تمہارا نفس بھی نہیں مرے گا اور اگر خود خرید کر کسی کو دے دو گے تو یہ خدا تعالیٰ کی خاطر نہیں بلکہ انسان کی خاطر نیکی ہو گی ۔پس اگر لاہور کے دوست دس دس بیس بیس دوستوں کے پاس جائیں تو اسی ذریعہ سے ہزاروں لوگوں کو تبلیغ کا موقع مل جائے گا۔
کوئی گالیاں دے گا، کوئی برا بھلا کہے گا ، مگر کوئی خرید بھی لے گا اور کسی نہ کسی کے کان میں آواز پڑے گی تو کسی نہ کسی کو ہدایت بھی ہو جائے گی۔ ہم نے دیکھا ہے کئی لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی کتاب خریدی تو اسی کے ذریعہ ان کے پوتے نے بیعت کر لی اور اس نے بیان کیا کہ اس طرح کتاب پڑی تھی مَیں نے اسے پڑھا تو مجھے سمجھ آ گئی اور مَیں نے مان لیا۔ پس دوستوں کو تبلیغ کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے کیونکہ یہ مرکزی مقام ہے اور اس میں جماعت جتنی ترقی کرے گی اور جتنی مضبوط ہو گی اتنا ہی اس کا اثر سارے صوبہ پر اچھا ہو گا۔ پس تبلیغ مقامی لحاظ سے بھی اور جماعت کے لحاظ سے بھی لاہور کی جماعت کے لئے بہت ضروری ہے اور اس طرف ان کو خاص توجہ کرنی چاہئے۔’’ (الفضل 22 مارچ 1941ء)
1 مسند احمد بن حنبل جلد 3 صفحہ 423 مطبوعہ بیروت 1978ء، مسلم کتاب المساجد باب یَجِبُ اِتْیَان الْمَسْجد عَلٰی مَنْ سَمِعَ النِّدَاءَ
2 مہاراجہ رنجیت سنگھ پنجاب میں سکھ سلطنت کا بانی۔ (اردو انسائیکلو پیڈیا)
3 بخاری کتاب الرقاق باب التَّوَاضُع
4 بخاری کتاب المناقب باب مَا لَقِیَ النَّبِیُّ ﷺ وَ اَصْحَابُہٗ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ بِمَکَّةَ

4
بعض حکّام کے افسوسناک رویہ پر صبر اور دعاؤں سے کام لو
(فرمودہ 7 فروری 1941ء)
تشہّد، تعوّذ اور سورہٴ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘مجھے کھانا کھانے کے بعدچونکہ شدید متلی کی تکلیف ہو گئی ہے اس لئے میں زیادہ دیر تک نہیں بول سکتا لیکن موقع اور اہمیت کے لحاظ سے مَیں ضروری سمجھتا ہوں کہ ایک اہم امر کی طرف جماعت کو توجہ دلا دوں او ر وہ یہ ہے کہ گزشتہ چند ہفتوں سے حکام کا رویہ پھر کچھ ایسا ہو رہا ہے جو اس نیت پر دلالت کرتا ہے کہ وہ جماعت احمدیہ کو بدنام کرنا چاہتے ہیں یا اسے بلا وجہ دِق کرنا چاہتے ہیں۔ ابھی تک مَیں اس نتیجہ پر نہیں پہنچ سکا کہ اس کی اصل ذمہ داری کس حاکم پر عائد ہوتی ہے لیکن بہرحال سکھوں کے دیوان کے بعد سے لے کر اب تک باوجود اس بات کو تسلیم کرنے کے کہ جماعت احمدیہ کا نمونہ نہایت اعلیٰ درجہ کا تھا اور تحریری طور پر اس کا اظہار کرنے کے عملی کارروائی یہی ہو رہی ہے کہ مختلف مواقع پیدا کر کے جماعت احمدیہ کو دِق کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ گو میں نہیں سمجھ سکا کہ اگر اس حالت کا موجب کوئی انگریز ہے تو انگریز قوم جو اتنی ہوشیار ہے اور جو اس بات کو سمجھتی ہے کہ ایامِ جنگ میں کسی قسم کا فتنہ پیدا کرنا بِالخصوص ایسی جنگ کے دنوں میں جس میں خود انگلستان کی ہستی معرضِ خطر میں ہے کوئی دانائی کی بات نہیں ہو سکتی۔ وہ کس طرح اس قسم کی فتنہ انگیزی کو جائز سمجھ رہی ہے؟ اس قسم کا فعل کسی قوم کا فرد اُس وقت تک نہیں کر سکتا جب تک وہ اپنی قوم کا دشمن نہ ہو یا حد درجہ احمق اور بیوقوف نہ ہو لیکن چونکہ مَیں نہیں کہہ سکتا کہ اس کی ذمہ داری ہندوستانیوں پر ہے یا انگریزوں پر ہے یا کسی اور پر ہے۔ اس لئے باوجود اس بات کو نہایت ہی ناپسند کرنے کے میں اس کے متعلق کسی قسم کے خیالات کا اظہار کرنا نہیں چاہتا لیکن مَیں یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ واقعات ہر ایک کو نظر آ رہے ہیں۔ صرف یہی نہیں کہ میرے سامنے ہیں بلکہ جماعت کے دوستوں نے بھی ان واقعات کو دیکھا ہے۔ مثلاً یہ کوئی پوشیدہ بات نہ تھی کہ سکھوں کا یہاں دیوان ہوٴا اور وہ تلواریں اور کلہاڑے ہلاتے ہوئے ہماری گلیوں میں سے گزرے۔ آخر ایک مذہبی دیوان کے ساتھ اس قسم کے پروسیشن(PROSESSION) کا کیا تعلق ہو سکتا تھا جس میں وہ نیزے، تلواریں اورکلہاڑے لے کر نکلتے اور جب وہ تلواریں اور کلہاڑے لے کر نکلے اور انہیں ہلاتے ہوئے ہماری گلیوں میں سے گزرے تو اس کے سوائے اس کے اور کیا معنے تھے کہ وہ یہ بتانا چاہتے تھے کہ ہم تلواروں اور کلہاڑوں سے لڑنے کے لئے تیار ہیں اگر آنا ہے تو آ جاوٴ۔ گویا یہ ایک خاموش اشتعال انگیزی تھی۔ مگر ہماری جماعت نے صبر کیا اور اس نے سکھوں کے اس رویہ کے باوجود اپنے جذبات کو قابو میں رکھا۔ لیکن اب جبکہ خدام الاحمدیہ کا جلسہ ہوٴا اور اس میں اتفاقی طور پر بعض لوگ کلہاڑیاں لے کر آ گئے تو باوجود اس کے کہ خدام الاحمدیہ نے اس قسم کا کوئی پروسیشن نہیں نکالا تھا جس قسم کا سکھوں نے نکالا۔ حکام نے یہ نوٹس دے دیا کہ اس جلسہ میں بعض لوگ کلہاڑے لے کر آئے ہیں جو امن عامہ کے منافی ہے اسے روکا جائے۔ گویا اس وقت حکومت کے دو قانون جاری ہیں۔ ایک قانون وہ ہے جو سکھوں کے لئے ہے اور دوسرا قانون وہ ہے جو احمدیوں کے لئے ہے۔ سکھوں کے متعلق تو یہ قانون ہے کہ وہ ڈپٹی کمشنر، سپرنٹنڈنٹ پولیس، ریذیڈنٹ مجسٹریٹ اور پولیس کی ایک بہت بڑی جمعیت کے سامنے احمدیوں کے محلوں میں سے کلہاڑیاں اور تلواریں ہلاتے ہوئے جلوس کی صورت میں گزریں تو یہ بالکل جائز اور درست ہے لیکن احمدیوں کے لئے یہ قانون ہے کہ وہ اس قسم کا پروسیشن نکالیں یا نہ نکالیں اگر ان میں سے کچھ لوگ عادتاً جیسا کہ زمینداروں کی عام طور پر عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنے ہاتھ میں سونٹا یا کلہاڑی وغیرہ رکھتے ہیں۔ ایسے طور پر نہیں کہ کسی کو اشتعال دلانا مقصود ہو یا گلیوں میں سے وہ کلہاڑیوں کو ہلاتے ہوئے گزریں، کسی جگہ جائیں تو ان کے لئے یہ بات ناجائز ہے۔ جس کے معنے سوائے اس کے کچھ نہیں کہ بعض حکام کی ذہنیت یہ ہے کہ جو طاقتور ہو اس کے آگے جھک جاوٴ اور جو کمزور ہو اس کو دباوٴ۔ احمدی چونکہ تھوڑے ہیں اس لئے ان کے لئے اَور قانون ہے لیکن سکھ چونکہ زیادہ ہیں اور ان کے متعلق گورنمنٹ کو یہ خطرہ ہے کہ اگر ان سے مقابلہ کیا تو بھرتی بند ہو جائے گی اور ملک میں اشتعال پیدا ہو جائے گا اس لئے ان کے لئے اور قانون ہے۔
میری غرض ان واقعات کو خطبہ میں بیان کرنے سے یہ ہے کہ اس قسم کے حالات کو دیکھ کر بسااوقات جماعتوں میں بے چینی اور بے اطمینانی پیدا ہو جاتی ہے۔ مَیں نے کل خدام الاحمدیہ کو اسی لئے مخفی طور پر اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ صبر سے کام لو اور اپنے جذبات کو قابو میں رکھو۔ کچھ مواقع اس قسم کے ہوتے ہیں کہ اگر کوئی نادان نادانی بھی کرے تو انسان کو صبر سے کام لینا پڑتا ہے۔ یہ زمانہ جس میں سے ہم گزر رہے ہیں ایسا نازک ہے کہ خواہ ہندوستانی حماقت کریں یا انگریز کسی بیوقوفی کا ارتکاب کریں ہم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اس قسم کی انگیخت اور شرارت پر صبر کرتے ہوئے اپنے نفس کو دبائے اور جذبات کو بے قابو نہ ہونے دے۔ آج ہندوستان کے لئے زندگی اور موت کا سوال درپیش ہے اور ہمارے ملک کی قسمت انگلستان سے اس طرح وابستہ ہو چکی ہے کہ جب تک یہ دونوں جہاز الگ الگ نہ ہو جائیں اور جب تک یہ دونوں حکومتیں علیحدہ علیحدہ نہ ہو جائیں اُس وقت تک انگلستان کو جو نقصان پہنچے گا اس سے بہت زیادہ سخت نقصان ہندوستان کو پہنچے گا۔ پس بنی نوع انسان کی خیر خواہی اور ملک کی محبت اسی میں ہے کہ ہم اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں اور سب سے مقدم اس امر کو سمجھیں کہ جو شخص فوج میں بھرتی ہو سکتا ہے وہ فوج میں بھرتی ہو جائے، جو مالی مدد دے سکتا ہے وہ مالی مدد دے اور جو کچھ بھی نہیں کر سکتا وہ دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اس فتنہ سے ہم سب کو بچائے اور ہمارے طفیل انگلستان کو بھی محفوظ رکھے۔ پس ان عارضی باتوں پر جوش میں آ جانا عقلمندی کے خلاف ہے۔ بیشک مجھے ان باتوں کی وجہ سے شکوہ ہے اور بے شک تمہارے دل میں بھی غصہ پیدا ہوتا ہو گا مگر غصہ نکالنے کا موقع وہ ہو گا جب جنگ ختم ہو جائے گی۔ اس وقت تمہارا کام یہی ہے کہ تم اپنے جذبات کو دبا کر صرف اس امر کی طرف متوجہ رہو کہ یہ عظیم الشان تباہی جو جنگ کی صورت میں آ رہی ہے اس سے اللہ تعالیٰ ہمیں بھی بچائے اور انگلستان کو بھی محفوظ رکھے۔
یاد رکھو ہماری اور ان بے وفا حکام کی مثال ان دو عورتوں کی سی ہے جو ایک ہی خاوند کی بیویاں تھیں اور دونوں کے پاس ایک ایک لڑکا تھا۔ خاوند کچھ عرصہ کے لئے باہر چلا گیا تو وہ دونوں اپنے اپنے رشتہ داروں کو ملنے کے لئے گئیں جب وہ واپس آ رہی تھیں تو راستہ میں ان میں سے ایک کا لڑکا بھیڑیا کھا گیا جس کے لڑکے کو بھیڑیا کھا گیا تھا اس کے دل میں خیال پیدا ہوٴا کہ جب خاوند واپس آیا تو جس کے پاس بیٹا دیکھے گا اس کی طرف زیادہ توجہ کرے گا اور جس کے پاس بیٹا نہیں ہو گا اس کی طرف کم توجہ کرے گا۔ معلوم ہوتا ہے وہ خاوند ایسے وقت میں باہر چلا گیا تھا جب وہ بچے بہت ہی چھوٹے تھے اور اسے خیال تھا کہ جب وہ واپس آیا تو اسے یہ یاد ہی نہیں رہے گا کہ یہ کس بیوی کا بچہ ہے۔ چنانچہ اس نے جھٹ دوسری عورت کا لڑکا اٹھا لیا اور کہنے لگی کہ یہ میرا بیٹا ہے تیرے بیٹے کو بھیڑیا کھا گیا ہے۔ وہ کہنے لگی یہ تمہارا نہیں میرا بیٹا ہے۔ اس پر تکرار بڑھ گئی اور دونوں گتھم گتھا ہو گئیں۔ قریب ہی یروشلم تھا جب ان کی لڑائی بہت بڑھ گئی تو انہوں نے یروشلم میں آ کر قضاء میں دعویٰ دائر کر دیا۔ ایک نے کہا کہ یہ میرا بیٹا ہے اوردوسری نے کہا کہ یہ میرا بیٹا ہے اور دونوں اس پر قسمیں کھاتی تھیں۔ گواہ کوئی تھا نہیں کہ پتہ لگے کہ یہ لڑکا واقع میں کس کا ہے۔ آخر یہ معاملہ حضرت داوٴد علیہ السلام کے سامنے پیش ہوٴا۔ انہوں نے چاہا کہ کوئی گواہی مل جائے مگر کوئی گواہی نہ ملی اور ان عورتوں کی یہ حالت تھی کہ دونوں اس بات پر قسمیں کھاتی تھیں کہ لڑکا ان کا ہے۔ ایک کہتی میرا ہے اور دوسری کہتی میرا ہے۔ حضرت داوٴد علیہ السلام کو کچھ پتہ نہ چلتا تھا کہ وہ اس مقدمہ کا کس طرح فیصلہ کریں۔ آخر یہ معاملہ حضرت سلیمان علیہ السلام تک بھی پہنچ گیا جو خود قاضی تھے ۔ وہ ان دنوں نوجوان تھے اور بعض دفعہ جوانی میں نئے نئے خیالات سوجھ جاتے ہیں۔ انہوں نے حضرت داوٴد علیہ السلام کو کہلا بھیجا کہ اگر آپ برا نہ منائیں تو یہ مقدمہ میرے سپرد کر دیں۔ مَیں اس کا بڑی آسانی سے فیصلہ کر دوں گا۔ چنانچہ حضرت داوٴد علیہ السلام نے مقدمہ ان کے پاس بھیج دیا۔ انہوں نے بھی پہلے کوئی گواہی معلوم کرنی چاہی مگر جب کوئی گواہی معلوم نہ ہوئی تو ان دونوں عورتوں سے کہا بات یہ ہے کہ پہلا لڑکا اگر بھیڑیا کھا گیا ہے تو نقصان دراصل باپ کا ہوٴا ہے کیونکہ لڑکا اس کا تھا۔ اب صرف ایک لڑکا رہتا ہے اور یہ بھی اسی کا ہے۔ بہتر ہے کہ اس کو بھی قتل کر کے دو ٹکڑے کر دئیے جائیں اور آدھا آدھا تم دونوں میں بانٹ دیا جائے۔ اس طرح تم دونوں برابر ہو جاوٴ گی اور کسی کے پاس بھی کوئی بچہ نہیں رہے گا۔ چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے حکم دیا کہ چھری لاوٴ ۔ مَیں اس بچے کو کاٹ کر ابھی ان دونوں عورتوں میں آدھا آدھا تقسیم کر دیتا ہوں۔ جب چھری لائی گئی اور آپ دکھاوے کے طور پر اس بچے کو کاٹنے لگے تو وہ جو اس بچہ کی اصلی ماں تھی چلّا اٹھی کہ بچے کو نہ ماریں۔ مَیں نے دراصل جھوٹ بولا تھا بچہ میرا نہیں بلکہ اس کا ہے اور دوسری کہنے لگی انصاف یہی ہے کہ بچے کو آدھا آدھا تقسیم کر دیا جائے۔ یہ دیکھ کر حضرت سلیمان علیہ السلام نے بچے کو اٹھایا اور اس عورت کی گود میں ڈال دیا جس نے کہا تھا کہ یہ میرا بچہ نہیں مَیں نے جھوٹ بولا تھا اور جس نے کہا تھا بچے کو کاٹ کر نصف نصف کر دیا جائے اس کے خلاف فیصلہ دیا۔
تو سچے خیر خواہ کی علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے نقصان کو برداشت کر لیتا ہے مگر جس سے محبت ہوتی ہے اس کے متعلق یہ پسند نہیں کر سکتا کہ اسے کوئی تکلیف پہنچے۔ اسی طرح ہم ملک اور حکومت کے خیر خواہ ہیں مگر اس قسم کے حکام ملک اور حکومت کے بد خواہ ہیں۔ اس وقت ہمارا کام یہی ہے کہ ہم کہہ دیں کہ ہمارا کوئی حق نہیں انہی کا حق ہے کہ جلوس نکالیں، انہی کا حق ہے کہ کلہاڑیاں، تلواریں اور چھریاں لے کر جلوس نکالیں اور انہی کا حق ہے کہ کلہاڑوں، تلواروں اور چھریوں کو ہلاتے ہوئے احمدی آبادی میں سے گزریں۔ پس ہمارا فرض ہے کہ ہم لڑائی کے ختم ہونے تک اس قسم کے تمام جھگڑوں کو بالائے طاق رکھ دیں کیونکہ بنی نوع انسان کی ہمدردی اس بات کا تقاضا کرتی ہے اور خدائی جماعتوں سے بڑھ کر ہمدردی اور کسی میں نہیں ہو سکتی۔ ہمیں خدا تعالیٰ نے دنیا میں اس لئے کھڑا کیا ہے کہ ہم سب سے بڑھ کر بنی نوع انسان کی ہمدردی کا نمونہ دکھائیں اور ہم انگلستان کے اس سے بھی زیادہ خیر خواہ ہوں جتنا ایک انگریز انگلستان کا خیر خواہ ہو سکتا ہے اور ہم ہندوستان کے اس سے بھی زیادہ خیر خواہ ہوں جتنا کوئی دوسرا ہندوستانی ہندوستان کا خیر خواہ ہو سکتا ہے۔ اگر ہم ایسا کریں تو ہر انسان تسلیم کرے گا کہ دنیا کے سچے خیر خواہ ہم ہیں اور یہ کہ ہم اگر سگی ماں ہیں تو وہ سوتیلی ماں ہیں۔ کیونکہ ہم ہی ہیں جو فساد نہیں ہونے دیتے اور امن کوہر حالت میں قائم رکھتے ہیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے اس رویہ سے بعض نادان حکام یہ خیال کر لیں گے کہ اب جو کچھ ان کی مرضی میں آئے وہ کر سکتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ وہ ایسا کب تک کرتے چلے جائیں گے۔ یہ دنیا نہ پنجاب کے وزراء کے قبضہ میں ہے نہ پنجاب کے گورنر کے قبضہ میں ہے، نہ وائسرائے کے قبضہ میں ہے، نہ وائسرائے کی کونسل کے قبضہ میں ہے، نہ انگلستان کے قبضہ میں ہے نہ انگلستان کی پارلیمنٹ کے قبضہ میں ہے۔ اسی طرح نہ انگلستان کے بادشاہ کے قبضہ میں ہے نہ جرمنی کے قبضہ میں ہے اور نہ اٹلی کے قبضہ میں ہے بلکہ یہ اس خدا کے قبضہ میں ہے جو آسمان و زمین کا مالک ہے اور جس کی مُٹھی میں دنیا کی ہر چیز ہے۔ وہ ہمارے صبر کو آسمان پر سے دیکھے گا اور ہمیں اس صبر کی جزا دے گا۔ مگر جس دن ہمارا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا جس دن اس نے سمجھا کہ حکام ہمارے صبر سے ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں اس دن وہ انہیں آسمانی ہتھیاروں سے خود ہی مروڑ کر رکھ دے گا۔ پس تم گھبراوٴ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرو کیونکہ اس وقت صرف انگریزوں کی ہستی ہی نہیں، صرف ہندوستان کی ہستی ہی نہیں بلکہ تمام دنیا کی ہستی خطرہ میں ہے۔ اگر تم روپیہ سے مدد دینے کی طاقت رکھتے ہو تو روپیہ سے مدد دو۔ اگر فوج میں بھرتی ہو سکتے ہو تو فوج میں بھرتی ہو جاوٴ اور اگر ان دونوں طریقوں میں سے کسی طریق پر بھی عمل نہیں کر سکتے تو اللہ تعالیٰ سے اس جنگ کے بُرے اثرات کے دور ہونے کی دعائیں کرو اور خوب کرو۔ باقی رہے ایسے حکام سو ان کو یا تو ان کے حال پر چھوڑ دو یا پھر خود کوئی قدم اٹھانے کی بجائے ان کے متعلق بھی دعا کرو کہ یا تو خدا تعالیٰ ان کے دلوں کو بدل کر ان کی اصلاح کر دے یا پھر جس طرح خداتعالیٰ کا عذاب آتا ہے تو وہ اَعِزَّة کو اَذِلَّة بنادیتا ہے اورجو لوگ تکبر سے اکڑاکڑ کر چلتے ہیں ان کے لئے اپنی کمر سیدھی کرنی بھی مشکل ہو جاتی ہے۔ اسی طرح وہ ان کے ساتھ سلوک کرے۔
پس یہ مت خیال کرو کہ تمہارا صبر رائیگاں جائے گا۔ اسی طرح حکام یہ مت خیال کریں کہ وہ ہم پر ظلم کر کے سُکھ پا سکتے ہیں۔ ہم ان سے بے انصافی نہیں چاہتے، ہم ان سے کسی غیر پر ظلم کرنے کا مطالبہ نہیں کرتے ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ ہم سے بھی وہی سلوک کرو جو تم غیروں سے کرتے ہو اور اگر اس مطالبہ کے بعد بھی وہ اپنی حرکتوں سے باز نہ آئیں تو تم مت گھبراوٴ اور تسلی رکھو کہ ہم سب کے سروں پر ایک اور عظیم الشان بادشاہ موجود ہے اور وہ اتنا بڑا بادشاہ ہے کہ اس کے سامنے یہ دنیوی حکام اتنی حیثیت بھی نہیں رکھتے جتنی ایک نوکر آقا کے سامنے رکھتا ہے۔ وہ خود ان سے بدلہ لے گا اور ایسا لے گا کہ یہ تو کیا ان کی اولادیں تک بھی اس کی چوٹ کی شدت سے چلّائیں گی۔
پس یہ ایک ضروری بات تھی جس کے متعلق خطبہ میں مَیں نے جماعت کو ہدایت دینا مناسب سمجھا کیونکہ جماعت کے افسر جو مجھ سے ملتے ہیں ان کی طبیعت میں بھی مَیں جوش دیکھتا ہوں اورلوگوں کے متعلق بھی میں محسوس کر رہا ہوں کہ ان کی طبائع میں جوش ہے۔ میں ان سب سے کہتا ہوں کہ یہ جوش دکھانے کا وقت نہیں تم اس وقت اپنے دانتوں تلے زبان دے کر بیٹھ جاوٴ اور اپنی ساری طاقت موجودہ جنگ میں فتح حاصل کرنے کے لئے صرف کر دو۔ جو مال دے سکتا ہے وہ مال دے اور جو فوج میں بھرتی ہو کر یا والنٹیرز دے کر مدد کر سکتا ہے وہ فوج میں بھرتی ہو کر اور والنٹیرز بہم پہنچا کر مدد کرے۔ اگر ان امور کی طرف توجہ کرنا ضروری ہؤا تو جنگ کے بعد دیکھا جائے گا۔ کہتے ہیں یار زندہ صحبت باقی۔یہ وزراء بھی ابھی باقی ہیں، حکام بھی ابھی باقی ہیں اور افسر بھی ابھی باقی ہیں۔ اور ہم بھی خداتعالیٰ کے فضل سے باقی ہوں گے بلکہ ہم تو ہر سال پہلے سے زیادہ طاقتور ہوتے چلے جائیں گے مگر موجودہ وقت شور کرنے کا نہیں۔ اگر اس وقت بعض حکام تمہارا حق غصب بھی کرتے ہیں تو جس طرح اس ماں نے کہہ دیا تھا کہ میرا بچہ نہیں اسی طرح تم بھی کہہ دو کہ ہمارا کوئی حق نہیں۔ ’’ (الفضل 9فروری1941ء)

5
ان باتوں کی طرف توجہ کرو جن کے نتیجہ میں روحانی یا مادی فوائد حاصل ہو سکیں
(فرمودہ 14 فروری 1941ء)
تشہّد، تعوّذ اور سورہٴ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر احسان ہے اور بہت ہی بڑا احسان ہے۔ اتنا بڑا احسان کہ انسان اس کی قدر و قیمت کا اندازہ ہی نہیں لگا سکتا کہ اس نے اپنے فضل اور کرم سے انسانی دماغ کو ان الجھنوں اور پریشانیوں سے بچا لیا ہے جن کا شکار ہونا اس کی مدد کے بغیر اس کے لئے لازمی اور ضروری تھا۔ اور واقعات اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ جنہوں نے خدا تعالیٰ کی مدد لینے سے انکار کر دیا ان کے دماغ انہی الجھنوں اور پریشانیوں میں مبتلا ہیں۔ صرف وہی ان الجھنوں سے محفوظ ہیں جنہوں نے الٰہی مدد کو قبول کرتے ہوئے اپنے آپ کو اس مرض سے بچایا ہے۔ انسان اس دنیا میں جسے وہ کسی وقت سب سے بڑی چیز سمجھا کرتا تھا پیدا ہوٴا توسورج اسے ایک تھال نظر آتا تھا چاند اسے تھالی کی مانند دکھائی دیتا اور ستارے اسے کوئی دانوں کے برابر، کوئی بیروں کے برابر اور کوئی اخروٹوں اور کوئی سیبوں کے برابر نظر آتے تھے۔ زمین کی جھاڑیاں اور درخت بھی اسے سورج چاند اور ستاروں سے بڑے معلوم ہوتے تھے۔ اس کے لئے یہ بات حیرت انگیز تھی کہ دور جہاں تک اس کا ہاتھ نہیں پہنچ سکتا تھا، پہاڑوں پر چڑھ کر بھی نہیں پہنچ سکتا تھا ایک چھوٹی سی ٹکیا نمودار ہو کر ساری دنیا کو روشن کر دیتی ہے اور رات کے وقت ایک چھوٹی سی سفید تھالی ظاہر ہو کر سارے عالم کو چاندنی سے بھر دیتی ہے۔ ہزاروں ہزار ٹمٹمانے والے ستارے جَوّ میں پھیل جاتے ہیں اور چمک چمک کر اس کی آنکھوں کو خیرہ کرتے ہیں۔ اس کی نظر کے لئے دلفریب نظارہ پیدا کرتے اور جب دن آتا تو غائب ہو جاتے ہیں۔ یقینا یہ چیزیں اسے حیرت میں ڈالنے والی تھیں اور حیرت میں ڈالنے والی ہوتیں اگر خدا تعالیٰ کا ہاتھ ابتدا میں ہی اسے پکڑ کر سیدھا رستہ نہ دکھا دیتا۔ ہم دیکھتے ہیں گھر میں کوئی معمولی سا کھٹکا ہوتا ہے تو گھر والے اٹھ کر تجسّس شروع کر دیتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے چوہا ہو گا اورکوئی کہتا ہے چور ہو گا۔ ایک معمولی سا کھٹکا چھپکلی اور چوہے سے لے کر چور تک پہنچا دیا جاتا ہے تو ظاہر ہے کہ ایسے نظارے اسے کس طرح حیران کر سکتے تھے مگر جونہی کہ انسانیت سنِ شعور کو پہنچی اورجونہی پہلا انسان سنِ شعور کو پہنچا اللہ تعالیٰ نے اس کے کان میں یہ آواز ڈال دی کہ مَیں تیرا اللہ ہوں جس نے یہ سب دنیا پیدا کی ہے۔ اورجو کچھ تجھے نظر آتا ہے یہ سب میری مخلوق ہے جس طرح کہ تُو مخلوق ہے۔ اور تُو ایک دن مر کر میرے سامنے آنے والا ہے۔ یہ سب چیزیں جو تجھے نظر آتی ہیں خواہ قریب ہوں خواہ دور مَیں نے تیرے فائدے اور تیرے کام آنے کے لئے پیدا کی ہیں اورسب تجھے نفع پہنچانے کے کاموں میں لگی ہوئی ہیں۔ اس آواز نے اسے کتنی پریشانیوں سے بچا لیا۔ اگر پہلا انسان یعنی آدم اپنے سنِ شعور کو پہنچنے کے بعد اس آواز کو نہ سنتا تو اس کے لئے کس قدر مصیبت ہوتی اور وہ کتنی پریشانیوں میں مبتلا ہو جاتا۔ دن چڑھتا تو اس کے لئے ایک تکلیف کا آغاز ہو جاتا کہ سورج کی کُنہ کو معلوم کرے اور رات ہوتی تو ایک پریشانی کا دروازہ کھل جاتا کہ چاند کی حقیقت کو معلوم کرے اور پھر یہ پتہ لگائے کہ ان چیزوں کا اس سے کیا تعلق ہے؟ یہ اسے کوئی نفع یا نقصان پہنچا سکتی ہیں یا نہیں؟ اس سے خوش یا ناراض ہو سکتی ہیں یا نہیں؟ اور ہم دیکھتے ہیں کہ جنہوں نے اس آواز سے فائدہ نہیں اٹھایا وہ ان چکروں میں پڑ گئے ہیں۔ ہزارہا بُت پرست قومیں ان الجھنوں میں مبتلا ہیں۔ کوئی کہتی ہے کہ چاند اور سورج پر ارواح چھا جاتی ہیں اور وہ ناراض یا خوش ہوتی ہیں۔ نہ ہم سورج اور چاند تک پہنچ سکتے ہیں اور نہ وہ اپنا منشاء ہم پر ظاہر کر سکتے ہیں۔ نہ ہم یہ پتہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کس طرح خوش اور کس طرح ناراض ہوتی ہیں۔ آج کسی شخص نے کوئی کام کیا جس کا نتیجہ خراب نکل آیا تو اس نے خیال کر لیا کہ چاند پر چھائی ہوئی ارواح کو یہ بات پسند نہیں آئی اور کسی نے کوئی کام کیا جس کا نتیجہ اچھا نکلا تو اس نے سمجھ لیا کہ سورج کی روح کے نزدیک یہ کام اچھا ہے۔ نہ تو چاند نے خود بولنا ہے اور نہ سورج نے اور نہ ان ارواح نے جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ان پر چھا جاتی ہیں۔ مگر آدم کیسا مطمئن تھا اور بشاشت قلب سے بیٹھا تھا کیونکہ اسے خدا تعالیٰ نے بتا دیا تھا کہ یہ سب چیزیں اس نے اس کے لئے مسخر کر دی ہیں اور یہ اس کی خدمت پر لگی ہوئی ہیں۔ اس لئے اسے سورج اور چاند کی ناراضی یا خوشنودی کے سامانوں کی تلاش میں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ موحّد اور خدا رسیدہ آدم ان سب پریشانیوں سے مامون و محفوظ تھا اور ان سامانوں سے فائدہ اٹھانے اور خدا تعالیٰ کی عبادت میں لگا ہوٴا تھا نہ سورج کا چڑھنا اور نہ اس کا ڈوبنا اس کے دل میں کوئی گھبراہٹ پیدا کر سکتا تھا۔ سورج اور چاند کا چڑھنا اور غروب ہونا اس کے لئے ایسا ہی تھا جیسا اس کا اپنا سونا اور جاگنا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ یہ سب مادی چیزیں ہیں جو خدا تعالیٰ نے میرے فائدہ کے لئے پیدا کی ہیں۔ یہ بھی ویسی ہی ہیں جیسے گھوڑے، گائیں وغیرہ ہیں۔ نہ ان کی خوشی میرے لئے کسی نفع کا اور نہ ناراضگی کسی نقصان کا موجب ہو سکتی ہے۔ مگر دوسروں نے کس کس رنگ میں ان چیزوں کے وجود پر بحثیں کی ہیں۔ ہندوستان کے فلسفیوں کو ہی لے لو حیرانی ہوتی ہے کہ کس طرح ایک ایک چیز کے متعلق انہوں نے مختلف نظریات قائم کئے ہیں اور وہ کس کس قسم کی الجھنوں میں پڑے رہے ہیں۔ یونانی فلسفہ کو دیکھو یہی حالت وہاں ہے۔ قیاس اور وہم سے پیدا شدہ مختلف باتیں ان کو پریشان کرتی رہی ہیں۔ اگر تو یہ تجسس ہو کہ سورج ایک مادی چیز ہے اس کی شعاعوں میں اللہ تعالیٰ نے کیا کیا فائدے رکھے ہیں تو یہ ایک سائنس کی تحقیقات ہے اس میں گھبراہٹ کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ جو اس میں لگا ہے اگر تو وہ تاجرانہ ذہنیت کا ہے تو سمجھتا ہے کہ اگر کامیاب ہو گیا تو اس تحقیقات کو فروخت کر کے مالی فائدہ حاصل کروں گا۔ اگر علمی مذاق رکھتا ہے تو سمجھتا ہے کہ علمی کتاب شائع کروں گا لوگ میری قدر کریں گے۔ لیکن اگر کامیاب نہ ہوٴا اور معلوم نہ کر سکا تو بھی کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ میرے باپ دادوں کو بھی تو یہ علم نہ تھا اور اس کے نہ ہونے سے ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ لیکن اگر وہ ان چیزوں کو ہی خدا کا مرتبہ دیتا اور سمجھتا ہے کہ ان کا تعلق اس کی زندگی موت سے ہے یہ اس کے اور اس کے بیوی بچوں کے آرام و راحت پر اثر انداز ہوتی ہیں تو اسے دن رات ایک خلش رہے گی کہ پتہ نہیں مجھے یہ چیزیں کیا نقصان پہنچائیں غیر معروف چیزیں معروف کی نسبت ہمیشہ زیادہ گھبراہٹ کا موجب ہوتی ہیں۔ انسان سامنے آنے والے دشمن سے اتنا نہیں ڈرتا جتنا پوشیدہ سے۔ لوگ تلوار کے ساتھ سامنے سے حملہ کرنے والے سے اتنا نہیں ڈرتے جتنا چور سے ڈرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ چور بڑا بہادر ہوتا ہے بلکہ بعض چور مسلول ہوتے ہیں بعض ایسے ہوتے ہیں کہ اگر ایک تندرست آدمی تھپڑ مارے تو چھ سات دانت ٹوٹ جائیں مگر پھر بھی لوگ چور سے بہت ڈرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ علم نہیں ہوتا کہ وہ کہاں سے آئے گا کس طرح آئے گا، کس طرح نقصان پہنچائے گا۔ ایک شخص بیمار ہوتا ہے ڈاکٹر بتا دیتا ہے کہ اسے پتھری ہے اور سب متعلقین کو گونہ اطمینان ہو جاتا ہے۔ وہ سمجھ لیتے ہیں کہ بیماری کا پتہ لگ گیا اب ہسپتال جا کر اپریشن کرائے گا اور آرام ہو جائے گا۔ لیکن ایک اور شخص کو معمولی بخار ہوتا ہے ڈاکٹر کہتا ہے کچھ پتہ نہیں لگتا کہ بخار کیوں ہوٴا؟ اور سب گھر والے پریشان ہو جاتے ہیں۔ یہ گھبراہٹ اس وجہ سے ہوتی ہے کہ بخار کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی مگر پتھری سے اتنی گھبراہٹ نہیں ہوتی کیونکہ اس کا پتہ لگ چکا ہے اور آدمی سمجھتا ہے کہ علاج سے آرام ہو جائے گا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے ماننے والوں کو بھی بعض دفعہ گو گھبراہٹ ہوتی ہے کہ فلاں نافرمانی ہو گئی ہے اس کی سزا نہ مل جائے۔ ہم اپنے خالق کے منشاء کو اچھی طرح پورا کر سکیں گے یا نہیں مگر یہ معیّن حد تک ہوتی ہے لیکن جسے پتہ ہی نہیں کہ خدا تعالیٰ کیونکر ناراض ہوتا ہے اور اسے خوش کرنے کے ذرائع کیا ہیں؟ وہ کیا ذرائع اور اعمال ہیں جن سے انسان اللہ تعالیٰ سے قریب اور بعید ہو جاتا ہے ؟اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو اکیلا جنگل میں بیٹھا ہو، چاروں طرف سے آوازیں آ رہی ہوں کہ اس پر چور ڈاکو اور جانور حملہ کرنے والے ہیں مگر اسے پتہ نہ ہو کہ اس پر حملہ کب ہو گا؟ کس طرف سے ہو گا؟ شیر کرے گا یا بھیڑ یا، چور کرے گا یا کوئی درندہ؟
ایک مثال لڑائی کی ہمارے سامنے ہے۔ تجربہ سے ظاہر ہے کہ جو قوم حملہ کرتی ہے وہ زیادہ مطمئن ہوتی ہے بہ نسبت اس کے جو دفاع کرتی ہے۔ اٹلی کو اس لڑائی میں پے در پے شکستیں ہو رہی ہیں۔ ماہرین کی رائے اس کے متعلق یہ ہے کہ اٹلی کی فوجوں کو حملہ کرنا نہیں آتا وہ صرف دفاع کرسکتی ہیں اور اسی طرف متوجہ رہتی ہیں۔ حملہ آور اگر دس ہوں اور دفاع کرنے والے ایک ہزار تو بھی ان کا پہلو کمزور رہے گا ان کو کھٹکا لگا رہے گا کہ معلوم نہیں دس حملہ آور کس طرف سے حملہ کریں۔ جنوب سے کریں، شمال سے کریں، مشرق سے کریں یا مغرب سے۔ اورپھر ان اطراف کے بھی کس گوشہ سے کریں۔ ان میں سے ہر دس آدمی ہوشیار رہیں گے اور ڈرتے رہیں گے ۔ لیکن اگر ہزار نے دس پر حملہ کرنا ہو تو وہ اتنے پریشان نہیں ہوں گے۔ دس پندرہ آدمی بھیج دیں گے کہ جا کر حملہ کر دو اور باقی اطمینان کے ساتھ بیٹھے رہیں گے مگر دفاع کرنے والے خواہ زیادہ ہی ہوں گھبراہٹ میں رہیں گے کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ حملہ کس طرف سے ہو گا۔ یہی فرق خدا تعالیٰ کے ماننے اورنہ ماننے والوں میں ہے۔ جو مانتا ہے اسے پتہ ہے کہ خطرہ کہاں سے آئے گا اور اس سے بچنے کا کیا طریق ہے۔ مگر جو نہیں مانتا وہ صرف قیاسی گھوڑے دوڑاتا ہے۔ وہ ہر ذرہ کو خدا سمجھتا اور اس سے ڈرتا ہے۔ وہ قدم قدم پر امیدیں باندھتا اور قدم قدم پر ان کومٹاتا ہے اور قدم قدم پر خوف اس کی جان نکالتا ہے۔
پس یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ اس نے آدم کے سنِ شعور کو پہنچنے کے ساتھ ہی اس پر الہام نازل کر کے اسے بتا دیا کہ یہ سب کچھ میری مخلوق اور تمہارے فائدہ کے لئے ہے اور پھر ہر نبی کے ذریعہ یہ پیغام پہنچاتا رہا اور اس زمانہ میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اس نے یہ آواز سنائی ہے۔ بے شک آپ کے ماننے والوں کو بھی خطرات پیش آتے ہیں مگر وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو دور کرنے اور اس کے انعامات کے وارث بننے کے کیا ذرائع ہیں۔ ان کو اپنی غلطی کا علم ہو جائے تو وہ جانتے ہیں کہ اس کی اصلاح کیسے ہو سکتی ہے اور کس طرح ترقی کی جا سکتی ہے مگر جن لوگوں نے اپنی عقل سے کام لیا وہ جس گھبراہٹ کا شکار ہوتے ہیں اس کا اندازہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب انسان اس کا کوئی نظارہ دیکھے۔
کل ایک ہندو صاحب مجھ سے ملنے آئے نہ معلوم اس کی کیا وجہ تھی۔ وہ کانپور کے رہنے و الے تھے ان کے لڑکے کو پھانسی کی سزا ہو چکی ہے۔ بعض لوگ غلطی سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ چونکہ چوہدری سرظفر اللہ خان صاحب اس جماعت میں ہیں مَیں ان کے پاس سفارش کر دوں گا اور ان کا کام ہو جائے گا اور وہ شاید سمجھتے ہیں کہ ساری دنیا کا کام چوہدری صاحب کے ہی سپرد ہے اس لئے مَیں ایسے لوگوں سے ملا نہیں کرتا۔ مگر ان کے متعلق بتایا گیا کہ وہ صرف دعا کرانا چاہتے ہیں سفارش نہیں۔ اس لئے مَیں نے ان کو ملاقات کا موقع دے دیا۔ وہ آئے اور بیٹھ گئے اور ذکر کیا کہ ان کا لڑکا کانگرسی تھا، زمینداروں کے معاملات میں بہت دلچسپی لیتا تھا اور کسانوں کی زمینداروں کے مقابلہ میں بہت حمایت کیا کرتا تھا۔ کسی جگہ کسانوں نے ایک زمیندار کو ہلاک کر دیا اور چار کسانوں کے ساتھ اس کو بھی اس الزام میں پکڑ لیا گیا اسے بھی پھانسی کی سزا ہوئی جو ہائی کورٹ تک بحال رہی اور اب رحم کی اپیل بھی مسترد ہو چکی ہے۔ یہ ان کا بیان تھا۔ مَیں نہیں کہہ سکتا کہ یہ صحیح ہے یا محض والد ہونے کی وجہ سے وہ ایسا سمجھتے تھے کہ ان کا لڑکا اس جرم میں شریک نہ تھا۔ محض اس وجہ سے اسے دھر لیا گیا کہ وہ کانگرسی تھا اور زمینداروں کے خلاف کسانوں کا ہمدرد تھا۔ وہ جب باتیں کر رہے تھے تو مَیں نے دیکھا کہ ان کی آخری امید بھی قریباً جاتی رہی تھی اوران کے اندر ایک گھبراہٹ اور اضطراب تھا اور مَیں نے پوچھا تو نہیں مگر میرا قیاس ہے کہ شاید ان کا یہی ایک لڑکا تھا۔ وہ بوڑھے آدمی ہیں۔ اسی گھبراہٹ اور اضطراب میں باتیں کرتے کرتے انہوں نے کہا کہ معلوم نہیں بھگوان کہاں سو رہے ہیں؟ پھر تھوڑی دیر خاموشی کے بعد کہا معلوم نہیں مجھے کس جنم کے کون سے گناہ کی سزا مل رہی ہے۔ ان کے ان دونوں فقروں نے مجھے ایسی حیرت میں ڈال دیا کہ مَیں ان کے متعلق اپنے معمولی فرض کو بھی بھول گیا۔ مَیں نے ان سے ہمدردی کا اظہار تو کیا اور ان سے کہا کہ مَیں دعا کروں گا مگر جس قدر ہمدردی ظاہر کرنی چاہئے تھی نہ کر سکا۔ کیونکہ ان دونوں فقروں کی گہرائیوں میں میرے خیالات اُلجھ گئے اور مَیں سوچنے لگا کہ الہامی اور غیر الہامی مذاہب میں کتنا فرق ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّ لَا نَوْمٌ 1؂ یعنی اسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند۔ مگر بعض دوسرے مذاہب والے یہ سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ سوتا بھی ہے اور جاگتا بھی۔ اس لئے یہ شخص حیران ہے کہ میرا بیٹا پھانسی پا رہا ہے اور خدا معلوم نہیں کس جگہ سویا ہوٴا ہے۔ مَیں اسے امداد کے لئے بلاوٴں بھی تو کیسے؟ معلوم نہیں وہ کس جگہ سو رہا ہے۔ مسلمان جانتا ہے کہ اگر مجھے کوئی سزا بھی مل رہی ہے تو اس میں میرا کوئی قصور ہو گا۔ اور اگر قصور نہیں ہے تو میرا خدا سویا ہوٴا نہیں بلکہ سب کچھ دیکھ رہا ہے اور وہ ضرور میری مدد کرے گا اور اس سے اس کا دل مطمئن ہوتا ہے۔
ماوٴں کے بچے مر بھی جاتے ہیں اور گم بھی ہو جاتے ہیں مگر جس کا بچہ مر جائے وہ چندروز میں غم کو بھول جاتی اور کام کاج کرنے لگتی ہے مگر جس کا بچہ گم ہو گیا ہو وہ ہر وقت اس کے غم میں پریشان رہتی ہے کیونکہ اسے ہر وقت یہی گھبراہٹ رہتی ہے کہ معلوم نہیں وہ کس حال میں ہو گا کسی ظالم کے پنجہ میں ہو گا۔ معلوم نہیں وہ اسے کتنی تکلیف دے رہا ہو گا، اسے مارتا پیٹتا ہو گا یا اگر کوئی لڑکی ہو تو وہ ہر وقت اسی خیال میں رہتی ہے معلوم نہیں کہ کن ظالموں سے اس کو پالا پڑا ہو گا جو تمام دن اس سے کام لیتے ہوں گے اور رات کو اس سے دبواتے ہوں گے۔ خواہ وہ مر ہی چکی ہو مگر چونکہ اسے علم نہیں ہوتا اس لئے وہ ہر وقت یہی خیال کرتی ہے کہ وہ تکلیف میں ہو گی اور اس لئے پریشان رہتی ہے اور ہر وقت اسے یہی غم لگا رہتا ہے۔
امید کا منقطع ہو جانا بھی ایک لحاظ سے آرام کا موجب ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جو شخص جانتا ہے کہ میرا خدا جاگتا ہے اور سب کچھ دیکھتا ہے وہ کسی وقت سوتا نہیں۔ وہ سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے شاید مجھے سزا دینے کافیصلہ کر لیا ہے اور اس طرح وہ اس ماں کی طرح جو جانتی ہے کہ اس کا بچہ مر چکا ہے مطمئن ہو جاتا ہے۔ مگر جو لوگ خیال کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ سو بھی جاتا ہے وہ اسی تردّد میں رہتے ہیں کہ خدا تو شاید سو رہا ہے اور اس کے جگانے کی کوئی ترکیب ہمیں معلوم نہیں۔ پھر یہ معلوم نہیں کہ وہ کہاں سو رہا ہے؟ کونسا دروازہ کھٹکھٹائیں اور کس مکان پر جا کر اسے جگائیں؟ ادھر ہمارے بچہ کے پھانسی پانے کا وقت قریب آ رہا ہے۔ یہ کیسی اضطراب کی کیفیت ایسے لوگوں پر طاری ہوتی ہے۔ اور وہ کیسی مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں؟ اور یہ سارا ظلم ان کم بخت فلاسفروں نے ان پر کیا ہے جنہوں نے یہ خیالات ان کے اندر پیدا کئے۔ ایسے لوگ سخت سے سخت سزا کے مستحق ہیں جنہوں نے جاہل لوگوں کو ایسے خیالات میں مبتلا کر کے ان کا چین اور سکھ برباد کر دیا۔ وہ تو اپنے خیال میں ایک علمی مشغلہ میں لگے تھے اور دنیا کی پہیلی حل کرتے تھے مگر دراصل انہوں نے لاکھوں انسانوں پر شدید ترین ظلم کیا اور ان کا اطمینانِ قلب چھین کر ان کو ہلاکت کے گڑھے میں دھکیل دیا۔
ایک شخص کا بچہ اگر سخت بیمار ہو اور ڈاکٹر علاج کے لئے پاس بیٹھا ہو تو گو اس کے بچہ کی حالت کیسی خطرناک ہو پھر بھی اسے ایک اطمینان ہوتا ہے اور گو اس کی حالت بھی قابلِ رحم ہوتی ہے مگر اس سے بہت زیادہ قابلِ رحم حالت اس انسان کی ہے جس کا بچہ خطرناک طور پر بیمار ہو اور وہ ڈاکٹر کے مکان پرپہنچے تو معلوم ہو کہ وہ سیر کو چلا گیا ہے۔ وہ اس کے پیچھے جائے تو پتہ لگے کہ گھر واپس چلا گیا ہے اور جب وہ پھر اس کے مکان پر پہنچے تو معلوم ہو کہ وہ کسی او رمریض کو دیکھنے چلا گیا ہے۔ ایسے شخص کی حالت بہت قابلِ رحم ہوتی ہے کیونکہ ایک طرف تو وہ ڈاکٹر کی تلاش میں حیران ہو رہا ہوتا ہے اور دوسری طرف اسے یہ اضطراب ہوتا ہے کہ بچہ میرے بعد فوت ہی نہ ہو گیا ہو۔ اسی طرح جو شخص جانتا ہے کہ میرا خدا سوتا نہیں بلکہ جاگتا ہے اور میں اس سے مدد مانگوں تو اگر کسی مصلحت کے خلاف نہ ہو تو وہ ضرور میری مدد کرے گا اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی کے بیمار بچے کے پاس ڈاکٹر موجود ہو۔ ایسے شخص کا بچہ بھی مر سکتا ہے مگر پھر بھی اسے ایک اطمینان ہوتا ہے لیکن جو سمجھتا ہے کہ خدا ممکن ہے میری مدد کے وقت کہاں سویا ہوٴا ہو۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی کابچہ خطرناک بیمار ہو اور اسے ڈاکٹر نہیں ملتا۔ پس اس شخص کا یہ کہنا کہ معلوم نہیں بھگوان کہاں سوئے ہوئے ہیں بتا رہا تھا کہ اس کے دل میں ایک خلجان ہے کہ یہ کیسی مصیبت ہے کہ بھگوان یہ بھی نہیں بتاتے کہ وہ کہاں سو رہے ہیں۔ مَیں ان کے پاس مدد کے لئے جاوٴں بھی تو کہاں جاوٴں؟ ادھر میرے بچہ کی پھانسی کا وقت مقرر ہو چکا ہے اور حکومت اس وقت پر ضرور پھانسی دے دے گی۔ پھر یہ معلوم نہیں کہ یہ کس جنم کے قصور کی سزا ہے مگر ایک مسلمان جانتا ہے کہ اس کا خدا سوتا کبھی نہیں ہر وقت جاگتا اور دیکھتا ہے۔ پھر وہ یہ بھی جانتا ہے کہ جو سزا بھی ملتی ہے اسی جنم کی ملتی ہے۔ بلکہ ضروری نہیں کہ کسی گناہ کی ہی سزا ہو۔ دنیا میں ایک شریعت کا قانون ہے اور ایک طبعی قانون ہے۔ بعض حالتوں میں انسان کو طبعی قانون کے ماتحت دکھ پہنچ جاتا ہے۔ وہ کسی گناہ کی سزا نہیں ہوتی اور جس شخص کا ان باتوں پر ایمان ہو اس کا دل اطمینان سے بھرا ہوتا ہے وہ جانتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے بتا دیا ہے کہ استغفار کرو، توبہ کرو، دعائیں کرو تو یہ گناہ معاف ہو سکتے ہیں۔ مگر جو سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ بھی ایک بنیے کی طرح ہے اس نے ہمارے سب گناہوں کا بھی کھاتہ بنا رکھا ہے اور ضرور ہے کہ ہر گناہ کی کسی نہ کسی جنم میں سزا مل کر رہے۔ خدا تعالیٰ گناہ کی سزا دئیے بغیر چھوڑتا نہیں۔ اس کی حالت کیسی قابل رحم ہے اسے ہر وقت فکر رہتا ہے کہ میرا کوئی گناہ معاف تو ہونا نہیں بلکہ ضرور اس کی سزا ملنی ہے معلوم نہیں کس جنم میں کس گناہ کی سزا ملے۔ اب تو بنیوں کی زیادتیاں روکنے کے لئے حکومت نے بعض قوانین بنائے ہیں مگر پہلے یہ نہ تھے اور سینکڑوں ہزاروں لوگوں کو انہوں نے تباہ کیا۔ کئی لوگوں نے مجھے ایسے واقعات بتائے اور مَیں نے تحقیقات کی تو وہ درست ثابت ہوئے کہ کسی نے کسی بنئے سے کسی وقت تیس چالیس روپے لئے اور تین تین سو روپے ادا کر دئیے پھر بھی اتنی ہی رقم کی ڈگری ان پر ہو گئی۔ انہوں نے ایک وقت روپیہ دے دیا اور بنیے نے کہہ دیا کہ بس حساب صاف ہو گیا۔ انہوں نے غفلت کی اور سمجھ لیا کہ بس حساب صاف ہو چکا لیکن کچھ عرصہ کے بعد بنیا پھر آ گیا۔ اول تو انکار کر دیا کہ مَیں نے حساب صاف ہو جانے کا کہا ہی نہ تھا او راگر مانا بھی تو کہہ دیا مجھے غلطی لگ گئی تھی ۔ دراصل دس روپے باقی رہ گئے تھے جو اب 25 ہو گئے ہیں۔ معمولی زمیندار دس پانچ روپیہ سے زیادہ ایک وقت نہیں دے سکتے۔ اتنے دے دئیے اور بنیا چلا گیا مگر آٹھ دس سال کے بعد بڑھتے بڑھتے پھر وہ روپے سینکڑوں ہو گئے۔ غرضیکہ مشہور ہے کہ بنیے کا حساب کبھی ختم نہیں ہوتا۔
یہی حال خدا تعالیٰ کا ہندو مذہب پیش کرتا ہے۔ وہ کبھی حساب صاف نہیں ہونے دیتا بلکہ کچھ نہ کچھ ضرور بقایا رکھتا ہے۔ پھر بندے کو یہ بھی علم نہیں ہونے دیتا کہ جو سزا اسے مل رہی ہے وہ اس کے پہلے جنم کے کسی ابتدائی گناہ کی ہے یا آخری کی۔ وہ صرف یہ کہتا ہے کہ جیل جاوٴ مگر یہ نہیں بتاتا کہ جرم کیا ہے نہ یہ کہ جرم کی شدت کیسی ہے، سزا کتنی ہے اور نہ یہ بتاتا ہے کہ سزا سے بچنے کا کوئی ذریعہ بھی ہے یا نہیں۔ یہ بالکل بنیوں والا طریق ہے۔ معلوم نہیں بنیوں نے پرمیشور سے یہ طریق سیکھا یا پرمیشور نے بنیوں سے۔ تو ایسے خیالات نے لاکھوں انسانوں کے قلوب میں بے اطمینانی پیدا کر رکھی ہے۔ آجکل کے تعلیم یافتہ آریہ سماجی جن کے دلوں میں کچھ اطمینان معلوم ہوتا ہے حقیقت یہی ہے کہ وہ تناسخ کو نہیں مانتے۔ بےشک وہ مناظرے کرتے ہیں، بحثیں کرتے ہیں، مگر دل سے ایسے عقائد کے قائل نہیں۔ ورنہ ان کو کبھی اطمینان قلب حاصل نہ ہو سکتا یا اگر مانتے بھی ہیں تو محض فلسفیانہ مسئلہ کی حیثیت سے ورنہ ان کے عقائد وہی ہیں جو مسلمانوں کے ہیں۔ وہ محض دماغی تعیّش کے لئے ان بحثوں میں پڑتے ہیں۔ ان کی عملی زندگی پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اور اگر غور سے دیکھا جائے تو تناسخ ماننے والوں کے عقیدہ کے مطابق خدا اوربنئے میں کوئی فرق نہیں۔ بلکہ ایک لحاظ سے بنیا زیادہ نیکی کرتا ہے کیونکہ خواہ وہ دھوکا سے ہی سہی وہ چند سال تو اپنے مقروض کے اطمینان سے گزرنے دیتا ہے۔ جب اسے کہہ دیتا ہے کہ تمہارا حساب اب صاف ہو گیا۔ مگر جس پرمیشور کو یہ مذہب پیش کرتا ہے وہ تو کبھی دھوکا سے بھی نہیں کہتا کہ اب تمہارے گناہوں کا حساب صاف ہو چکا ہے۔ تو ان فلسفیوں نے اتنا ظلم مخلوق پر کیا ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں۔ دنیا میں ایک انسان کے مارنے والے کو پھانسی کی سزا دی جاتی ہے اور ان نالائقوں نے کروڑوں کروڑ آدمی مار ڈالے ہیں اور پھر ان کو ایک ہی دفعہ نہیں مارا بلکہ کُند چھریوں سے ذبح کیا ہے۔ کسی کو اسّی سال میں، کسی کو ساٹھ اور کسی کو پچاس اور کسی کو چالیس سال میں ذبح کیا ہے۔ صرف اور صرف وہی ہیں جو ان تمام لوگوں کی گھبراہٹ اور اطمینانِ قلب چھیننے کا موجب ہوئے ہیں۔ کیا عجیب بات ہے کہ یہ کہتے ہیں کہ معلوم نہیں کون سے جنم کی سزا مل رہی ہے۔ یہ غور نہیں کرتے کہ یہی اعمال ہیں جو ہمارے سامنے آ رہے ہیں۔ کیا ہم دیکھتے نہیں کہ آج ایک شخص زیادہ مرچیں کھاتا ہے اور کل اسے پیچش ہو جاتی ہے ۔ آج ہی پانی پیتا تو پیاس بجھتی اور روٹی کھاتا ہے تو پیٹ بھرتا ہے۔ یہ سب اسی زندگی کے اعمال کے نتائج ہیں۔ سب اعمال کی وجوہ اور نتائج یہیں نظر آتی ہیں۔ ہاں اگر دوچار کی وجوہ کو ہم نہیں سمجھ سکے تو باقی پر ان کا قیاس بھی کیا جا سکتا ہے جو باقی کی تشریح ہے وہی ان کی سمجھ لینی چاہئے۔ اگر زندگی میں انسان کو گزشتہ اعمال کا ہی نتیجہ ملتا ہے تو چاہئے کہ وہ شادی نہ بھی کرے پچھلے جنم کے کسی عمل کے نتیجہ میں اگر اس کے ہاں بچے ہونے ہیں تو ہو جائیں۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ انسان شادی کرے تب ہی بچہ پیدا ہوتا ہے، پانی پیتا ہے تو پیاس بجھتی ہے، روٹی کھاتا ہے تو پیٹ بھرتا ہے۔ یہ سب اعمال کے نتائج ہیں جو ساتھ ساتھ ظاہر ہوتے ہیں اور طبعی قانون کے نتائج ہیں۔ مثلاً کوئی شخص آگ کے پاس بیٹھے تو اس کے کپڑے گرم ہو جائیں گے۔ اسی طرح اگر ماں باپ کی صحت خراب ہے تو بیٹا اندھا پیدا ہو گا۔ ماں کے رحم میں کوئی نقص ہے تو بیٹے کے ہاتھ کی دو ہی انگلیاں ہوں گی یا پاوٴں میں کوئی نقص ہو گا یا اسی طرح کوئی اورنقص ہو گا اورجب تک ماں کے رحم میں وہ نقص رہے جو بچہ پیدا ہو گا اس کا اثر اس پر ہو گا۔ ہاں وہ دور ہو جائے تو پھر تندرست بچے پیدا ہوں گے۔ غرض طبعی نتائج ورثہ میں بھی ملتے ہیں۔ تندرست ماں باپ کا بچہ تندرست اور بیمار کا بیمار پیدا ہو گا اسی طرح آگ کے پاس بیٹھنے والے کے کپڑے گرم ہو جائیں گے اور برف ہاتھ میں پکڑنے والے کا ہاتھ سرد ہو گا۔ مگر ان سیدھی باتوں کو فلسفیوں نے کیسی پریشان کُن الجھنیں بنا دیا اور افسوس ہے کہ مسلمانوں میں بھی بدقسمتی سے یہ خیالات رائج ہو گئے۔ اس کی بنیاد دراصل یہ خیال ہے کہ انسان کی روح باہر سے آتی ہے۔ باہر سے روحیں آنا ماننے کے نتیجہ میں ہی تناسخ وغیرہ عقائد نکلے ہیں۔ لیکن قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے کہ روح کہیں باہر سے نہیں آتی بلکہ انسان کے اندر سے پیدا ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیمار جسم سے بیمار بچہ اور تندرست سے تندرست بچہ پیدا ہوتا ہے۔ باہر سے آنا مانیں تو پھر تو بے شک اعتراض ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اسے بری جگہ کیوں رکھ دیا لیکن جب اس کا باہر سے کوئی تعلق ہی نہ ہو تو پھر اعتراض کی کوئی بات نہیں۔ ایک شخص غریب ہے اور اپنے معمولی سے مکان میں رہتا ہے لیکن اس پر کوئی اعتراض نہیں کرتا مگر کسی کے ہاں کوئی معزز مہمان آئے اور وہ اسے پاخانہ میں جگہ دے تو ہر ایک اس پر اعتراض کرے گا۔ غریب شخص کے گھر پر کوئی اعتراض اس لئے نہیں آتا کہ وہ سمجھتا ہے اس نے تو یہیں رہنا تھا لیکن جو باہر سے آیا ہے اسے پاخانہ میں ٹھہرانے پر ہر کوئی اعتراض کرے گا اور کہے گا کہ وہ تو مہمان تھا اس کی عزت کرنی چاہئے تھی۔ تو روحوں کا باہر سے آنا تسلیم کرنے سے ہی یہ اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ اسے خراب جگہ کیوں رکھا گیا؟ لیکن اگر اس کا اندر سے پید اہونا ہی مانا جائے توپھر کوئی اعتراض نہیں۔ ہر قوم کا یہ طریق ہے کہ جب وہ مذہب سے غافل ہو جائے تو ایسے خیالات میں پڑ جاتی ہے۔ ورنہ کوئی اصل مذہب یہ نہیں سکھاتا۔ مَیں ایک منٹ کے لئے یہ نہیں مان سکتا کہ کرشن، رامچندر اور بدھ جیسے خدا رسیدہ لوگ ایسے لغو خیالات میں مبتلا تھے۔ ان کے سامنے تو بہت بڑا کام یعنی دنیا کی اصلاح تھا وہ ان باتوں کی طرف دھیان ہی کیسے دے سکتے تھے؟ انہوں نے دنیا کی اخلاقی، دماغی اور سیاسی اصلاح کرنی تھی اور آئندہ نسلوں کی بھی اصلاح کا کام ان کے سپرد تھا۔ اور ظاہر ہے کہ اس قدر بڑے کام سے ایک منٹ کی بھی فراغت نہیں ہو سکتی کہ ایسے لغو خیالات کی طرف توجہ کی جا سکے۔ انبیاء کے زمانہ میں یہ خیالات پیدا نہیں ہوتے بلکہ بعد میں جب ترقیات حاصل ہو جاتی ہیں تو یہ سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ تیز طبیعت لوگ پامال رستہ کو پسند نہیں کرتے اگر اس رستہ پر چلتے جائیں تو انہیں رام چندر یا کرشن کا شاگرد ہی کہا جائے گا لیکن اگر پتنجلی کایوگ شاستر بن جائے تو اس آزادیٴ علم کی وجہ سے لوگ مصنف کی تعریف کریں گے اوراس کی خوب شہرت ہو گی۔ پس اس جھوٹی شہرت اورعزت کی خاطر لوگ ایسے رستے تجویز کرتے، خود ٹھوکر کھاتے، گمراہ ہوتے اور دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَ اَضَلُّوْا ۔2؂ یہی حال سامی مذاہب میں ہمیں نظر آتا ہے۔ حضرت موسیٰؑ ایک سیدھی سادی تعلیم لائے تھے مگر بعد میں یہودیوں نے اس میں عجیب الجھنیں پیدا کر دیں۔ پھر حضرت عیسیٰؑ آئے او ر انہوں نے کہا کہ اصلی تعلیم تو وہی ہے جو موسیٰؑ لائے تھے۔ صرف زمانہ کے حالات کا تقاضا ہے کہ نرمی سے کام لیا جائے اور باطنی صفائی کی طرف توجہ زیادہ دی جائے۔ مگر دیکھو نکالنے والوں نے اس میں بھی کیا کیا باتیں نکالیں۔ کسی نے ان کو خدا بنا دیا او رکسی نے خدا کا بیٹا۔ پھر اقانیم ثلاثہ کا گورکھ دھندا گھڑ لیا گیا۔ جسے نہ گھڑنے والے خود سمجھیں او رنہ کوئی اور سمجھ سکے۔ مسلمانوں کو آنحضرت ﷺ نے جو تعلیم دی تھی اس کے مطابق وہ سمجھتے تھے کہ ہمارا کام دنیا کی اصلاح کرنا ہے۔ اس لئے وہ ان باتوں کی طرف توجہ ہی نہ کر سکتے تھے۔ کیونکہ اتنا بڑا کام جس کے ذمہ ہو اسے ایسی باتوں کے لئے وقت ہی کہاں مل سکتا ہے۔ اب ہم وہی کام کرتے ہیں دیکھ لو سر کھجلانے کی بھی فرصت نہیں ملتی۔ تو اگر کوئی قوم دیانتداری سے دنیا کی اصلاح میں لگ جائے تو ایسی باتوں کے لئے اسے فرصت ہی نہیں مل سکتی۔ مگر جب مسلمانوں نے اس کام سے غفلت کی تو یونانی فلاسفروں کی کتابوں کے تراجم کرنے لگ گئے۔ اپنے خیال میں تو وہ علمی ترقی کر رہے تھے مگر میرے خیال میں وہ بدترین جہالت پھیلا رہے تھے۔ خداتعالیٰ کی صفات پر بحثیں اسی زمانہ میں شروع ہوئیں۔ خدا تعالیٰ کا کلام عارضی ہے یا ہمیشہ سے؟ ایسی ایسی بے ہودہ اور لغو باتیں ہونے لگیں۔ پھر خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا اور آپ کے ذریعہ پھر وہی سیدھا سادہ اسلام دنیا میں آیا اور آپ نے پھر ہمیں یہ بتایا کہ خداتعالیٰ نے جن چیزوں کو پیدا کیا ہے ان کی تحقیقات بیشک کرو۔ یہ سائنس کی ترقی ہے لیکن خدا تعالیٰ خالق ہے اسے اگر پھاڑ کر دیکھنا چاہو گے تو کامیاب نہ ہو سکو گے۔ اگر اسے دیکھنا چاہتے ہو تو اس کا یہی طریق ہے کہ اس کی عبادت کرو اور اس کا قُرب حاصل کرو۔ لیکن اسے پھاڑنے کا خیال بھی دل میں نہ لاوٴ۔ ہماری جماعت اگر ان باتوں کو اچھی طرح سمجھ لے اور ان پر عمل کرے تو وہ گرنے سے بچ سکتی ہے۔ مگر مَیں نے دیکھا ہے اب بھی بعض اوقات ایسی بحثیں شروع ہو جاتی ہیں کہ مادہ ازلی ہے یا نہیں۔ مادہ سے تمہیں کیا کہ کب تھا اورکیسے تھا۔ اس مسئلہ کا حل نہ زراعت کو کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے اورنہ تجارت یا صنعت و حرفت کو۔ پس ایسی لغو باتوں کی طرف توجہ کی کیا ضرورت ہے؟ اور نہ ان کو کوئی حل کر سکتا ہے۔ بھلا یہ تو کوئی حل کرے کہ دنیا محدود ہے یا غیر محدود! مادہ تو ہمارے سامنے نہیں دنیا تو سامنے ہے۔ پہلے یہ تو طے کرو کہ یہ دنیا محدود ہے یا غیر محدود۔ اگر محدود ہے تو حد کہاں ہے اور جب حد قائم ہو گئی تو پھر اس حد کے متعلق سوال پیدا ہو گا کہ وہ کیا ہے اور محدود ہے یا غیر محدود۔ یہ ہمارے سامنے کے سوالات ہیں جو حل نہیں ہو سکتے۔ تو مادہ کی بحثوں میں وقت ضائع کرنے کا کیا فائدہ؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے کہ کوئی احمق کبھی یہ نہیں کہتا کہ میں اپنے بیٹے سے اس وقت تک محبت نہیں کر سکتا جب تک اس کا پیٹ چیر کر یہ نہ دیکھ لوں کہ اس کا دل کہاں ہے اورجگر کہاں او رگردے کہاں ہیں۔ پھر خدا تعالیٰ سے محبت کرنے سے قبل کیوں اسے پھاڑ کر دیکھنا چاہتے ہو؟ اس کی شان و عظمت بالکل جداگانہ ہے اور تمہاری یہ اہلیت اور قابلیت کہاں کہ اسے سمجھ سکو۔ پس جس طرح ایک بھینس غالب کے اشعار کو نہیں سمجھ سکتی تم اس سے بھی کم اللہ تعالیٰ کے متعلق تفاصیل کو سمجھنے کے اہل ہو۔ تمہیں تو بس یہی سمجھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کا تمہارے ساتھ کیا تعلق ہے وہ تم سے کس طرح خوش ہو سکتا ہے او رکس طرح ناراض۔ بس اتنی ہی بات تمہارے کام کی ہے۔ باقی سب باتیں لغو ہیں اور ان میں وقت ضائع کرنا بالکل بے فائدہ ہے۔
اگر اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو توفیق دے اور وہ ان باتوں سے بچے تو ایسی مثال دنیا میں قائم کر سکتی ہے جو بے نظیر یادگار ہو۔ مگر کون کہہ سکتا ہے کہ جب جماعت ترقی کرے گی تو آئندہ نسلیں اس طرف نہ لگ جائیں گی کہ دنیا کب سے ہے کہاں سے ہے اور پید اکس طرح ہوئی ہے۔ کم بختو! وہ کس طرح پیدا ہوئی ہے تمہیں یہ کیا فکر ہے؟ تم تو یہ فکر کرو کہ خد اتعالیٰ نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ تو زندگی سے اچھے فوائد حاصل کرو۔ ایسے لغو خیالات میں پڑنے والوں نے ہی پہلے مسلمانوں کو تباہ کیا ہے۔ اس لئے ان کے خیالات سے بچو۔ صرف ان باتوں کی طرف توجہ کرو جن کے نتیجہ میں روحانی یا مادی فوائد حاصل ہو سکیں۔ دین کے علاوہ زراعت، تجارت اور صنعت و حرفت کی ترقی میں مدد مل سکے۔ ان باتوں کی طرف توجہ کرنے کی تو قرآن کریم بار بار ہدایت کرتا ہے مگر لغو باتوں پر وقت ضائع کرنے سے روکتاہے۔
پس ہماری جماعت خصوصاً نوجوانوں کو یہ نقطہ نگاہ مضبوطی سے پکڑ لینا چاہئے کہ ایسی لغو بحثوں سے بچنا ضروری ہے۔ مَیں نے دیکھا ہے آریوں کی کسی مجلس میں بیٹھے ایسی باتیں سنیں تو خود بھی اسی طرف لگ جاتے ہیں۔ وہ بھی پاگل اور یہ بھی پاگل۔ ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ بھی خدا سے ویسے ہی دور رہیں گے جیسے آریہ وغیرہ ہیں۔ تم اس رستہ پر چل کر کیا حاصل کر سکتے ہو جس پر چلنے سے پہلے کوئی کچھ حاصل نہ کرسکا۔ پس ان باتوں سے بچو۔ بہترین طریق وہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات پر غور کرو وہی تمہیں بتا سکتا ہے کہ وہ کس طرح ناراض ہوتا ہے اور کس طرح خوش۔ تمہاری اپنی کوششیں بے سود ہیں۔ اگر وہ تمہاری کوششوں سے تمہارے قابو میں آ جائے تو وہ خدا نہیں تمہارا غلام ہے۔ پس یہی رستہ صحیح ہے اسے مضبوطی سے پکڑو، لغو باتوں سے خود بھی بچو اور علم نما جہالت سے دوسروں کو بھی دھوکا میں نہ ڈالو کیونکہ جو شخص کوئی بدعت جاری کرتا ہے آئندہ جن لاکھوں کروڑوں کے دلوں میں اس سے بے اطمینانی پیدا ہوتی ہے ان سب کا گناہ اسی کی گردن پر ہوتا ہے۔’’
(الفضل 22 فروری 1941ء)
1: البقرة : 256
2 : المائدة : 78

6
ایک عدالتی بیان کے متعلق غیر مبائعین کا اعتراض اور اس کا جواب
(فرمودہ 21 فروری 1941ء)
تشہّد، تعوّذ اور سورہٴ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘ایک ہفتہ پہلے میری کھانسی کچھ کم ہو گئی تھی مگر گزشتہ جمعہ کے بعد پھر زیادہ ہو گئی ہے جس کی وجہ سے آج میرے لئے زیادہ بولنا مشکل ہے تاہم آج مَیں ایک ایسے مضمون کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جو اخبارات میں کئی دفعہ آچکا ہے اور وہ پیغامیوں کے ایک اعتراض کا جواب ہے۔ مَیں جہاں تک میرا خیال ہے اس کے متعلق پہلے بھی کسی خطبہ میں یا شاید جلسہ سالانہ کے موقع پر کچھ بیان کر چکا ہوں لیکن چونکہ ابھی وہ اعتراض بار بار دوہرایا جا رہا ہے اس لئے دوبارہ اس کے متعلق بیان کر دیتا ہوں۔ اس اعتراض کا جواب دینے کی غرض سے نہیں بلکہ یہ بتانے کے لئے کہ جب انسان تقویٰ کو چھوڑتا ہے تو کس طرح خدا تعالیٰ کا خوف اس کے دل سے جاتا رہتا ہے اور وہ کس حد تک گر جاتا ہے۔ اور جماعت کو بیدار کرنے اور ایسی باتوں سے بچے رہنے کے لئے اس ذکر کو دوبارہ چھیڑتا ہوں۔ یہ اعتراض اخبار ‘‘پیغام صلح’’ میں ایک صاحب میاں محمد صادق صاحب ریٹائرڈ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کی طرف سے کچھ ماہ ہوئے شائع کیا گیا تھا اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ مَیں نے کسی عدالت میں گواہی دیتے وقت یہ بیان کیا کہ مَیں نہیں جانتا کہ
مستری محمد حسین صاحب بٹالہ کے رہنے والے نے (جو کہا جاتا ہے کہ محمدعلی خان صاحب احمدی مرحوم جو پشاور کی طرف کے رہنے والے تھے۔ ان کے ہاتھ سے مارے گئے تھے ) مستری عبد الکریم صاحب کی ضمانت دی تھی۔ میاں محمد صادق صاحب کا اعتراض یہ ہے کہ اس سے پہلے مَیں بعض خطبات میں یہ بیان کر چکا تھا کہ مستری محمد حسین صاحب نے مستری عبد الکریم صاحب کی ضمانت دی تھی اورچونکہ میں یہ بیان کر چکا ہوٴا تھااس لئے عدالت میں میرا یہ کہنا کہ مجھے علم نہیں ہے خلافِ واقعہ بات تھی۔ مَیں اختصاراًپہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ عدالتی علم اورعام سوسائٹی کا علم دونوں میں فرق ہوتا ہے۔ عدالت میں علم کے اور معنے ہیں اور سوسائٹی میں علم کے اور معنے لئے جاتے ہیں۔ مثلاً کوئی شخص یہ خبر مشہور کرتا ہے کہ زید فوت ہو گیا۔ بکر خالد سے آ کر پوچھتا ہے کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ زید فوت ہو گیا ہے؟ اگر تو خبر دینے والا ان لوگوں کے نزدیک قابلِ اعتبار آدمی ہے تووہ کہے گا کہ ہاں بہت افسوس ہے مجھے بھی معلوم ہو چکاہے کہ وہ فوت ہو چکا ہے۔ یہاں علم کے معنے صرف یہ ہیں کہ مَیں نے ایک یا ایک سے زیادہ لوگوں سے جو بظاہر قابلِ اعتبار ہیں یہ بات سنی ہے لیکن اگر عدالت میں متوفی کی جائداد کے متعلق کوئی دعویٰ چل رہا ہو اور بکر یا خالد کو کوئی کہے کہ چل کر گواہی دے دو کہ زید شخص فوت ہو چکا ہے تو وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمیں علم ہے کہ وہ فوت ہو چکا ہے کیونکہ عدالتًا وہ یہ اسی صورت میں کہہ سکتے ہیں جب وہ ان کے سامنے فوت ہوٴا ہو یا انہوں نے اس کی لاش کو دیکھا ہو۔ یہ کہنا کہ مَیں نے فلاں سے سنا تھا کہ وہ فوت ہو چکا ہے عدالت کے نزدیک علم نہیں کہلا سکتا۔ گو عُرفِ عام میں یہ علم کہلاتا ہے۔ عام دستور سوسائٹی کا یہی ہے کہ جب ہم دو چار معتبر آدمیوں سے کوئی بات جو راز کی قسم کی نہیں ہوتی سنتے ہیں تو اسے درست مان لیتے ہیں۔ مستری محمد حسین صاحب کا ضمانت دینا ایک عدالتی فعل تھا اورمَیں اس عدالت میں موجود نہیں تھا۔ بہرحال مَیں نے یہ بات سنی ہو گی کہ اس شخص نے مستری عبد الکریم کی ضمانت دی ہے۔ ممکن ہے جو کچھ مَیں نے سنا صحیح ہو اور ممکن ہے غیر صحیح ہو جس حد تک جماعت کو نصیحت کا تعلق تھا اور مَیں نے اسے یہ بتانا تھا کہ ایسے مواقع پر اسے اشتعال میں نہیں آنا چاہئے اس سنی ہوئی بات پر اپنے وعظ کی بنیاد رکھنا میرے لئے کافی تھا کیونکہ اگر وہ بات غلط بھی ہوتی تب بھی کوئی ہرج نہ تھا۔ کیونکہ میں نے تو صرف یہی کہنا تھا کہ جماعت کو ایسی باتوں پر جوش میں نہیں آنا چاہئے۔ اگر مستری محمد حسین نے ضمانت نہ دی ہوتی تب بھی یہ نصیحت ٹھیک تھی لیکن عدالت میں جاکر بات اورہو جاتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہوتے کہ میرے سامنے یہ ضمانت دی گئی تھی مجھے اس قسم کی باتوں سے ایک سے زیادہ مرتبہ واسطہ پڑا ہے۔ ایک دفعہ مجھے اچھی طرح یاد ہے ہم غالباً ڈاک بنگلہ میں یا کسی کوٹھی میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ سر ظفر اللہ خان صاحب بھی ساتھ تھے۔ جب کچہری کو جانے لگے تو مَیں نے ان سے دریافت کیا کہ ایسے سوالات ہوٴا کرتے ہیں مجھے کیا جواب دینا چاہئے۔ یہ کہنا چاہئے کہ علم ہے یا یہ کہ علم نہیں۔ چوہدری صاحب نے بتایا کہ ایسے مواقع پر عدالت میں علم کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ کوئی بات خود دیکھی یا اگر وہ سننے سے تعلق رکھتی ہے تو براہ راست سنی ہو۔ کسی واسطہ سے سنی ہوئی یا دیکھنے والی بات کسی دیکھنے والے سے سنی ہوئی عدالتی لحاظ سے علم نہیں کہلا سکتا۔ مَیں نے ان سے کہا کہ ہمارے چاروں طرف دشمن ہیں ، مخالف ہیں، بعض باتیں مشہور ہیں اور ہم نے بھی سنی ہوئی ہیں گو دیکھی نہیں یا براہ راست نہیں سنیں اگر مَیں کہہ دوں کہ علم نہیں تو مخالف شور مچا دیں گے کہ جھوٹ بولا ہے۔ کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ مَیں عدالت کے سامنے کھول کر یہ صورت رکھ دوں۔ چوہدری صاحب نے کہا کہ ہاں اس میں کوئی ہرج نہیں۔ شیخ بشیر احمد صاحب بھی غالباً ساتھ تھے۔ ان سے بھی مَیں نے ذکر کیا تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ عدالتی طور پر یہ علم نہیں کہلاتا۔ چنانچہ ایسے سوالات مجھ سے کئے گئے تو مَیں نے عدالت سے کہا کہ یہ بات مَیں نے براہ راست دیکھی یا اس شخص سے سنی نہیں جس سے یہ متعلق ہے لیکن یوں مَیں نے سنی ہوئی ہے۔ ایسی صورت میں مجھے کیا جواب دینا چاہئے؟ آیا کہوں مجھے علم ہے یا یہ کہ علم نہیں۔ عدالت نے مجھے کہا کہ آپ یہی کہیں کہ مجھے علم نہیں ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس پر مَیں نے پھر کھول کر یہ بات بیان کی کہ ہمارے بہت سے مخالف ہیں وہ اس کے معنی یہ لیں گے کہ مَیں نے جھوٹ بولا اور گو مجھے ذاتی طور پر علم نہیں اورمَیں نے آپ فلاں بات نہیں دیکھی یا سننے سے تعلق رکھنے والی براہ راست متعلقہ آدمی سے نہیں سنی۔ مگر یوں مجھے معلوم ہے۔ اس لئے ایسی صورت میں میرا کیا جواب صحیح ہو گا؟ اس پر عدالت نے پھر یہی جواب دیا کہ صحیح جواب یہی ہے کہ مجھے علم نہیں۔ حالانکہ عُرفِ عام کے لحاظ سے مَیں کہہ سکتا تھا کہ علم ہے۔ مَیں نے اخبار الفضل میں پڑھا ہے کہ میاں محمد صادق صاحب نے لکھا ہے کہ مَیں نے عدالت میں یہ جواب لکھوایا کیوں نہیں؟ وہ پولیس کے محکمہ سے تعلق رکھتے ہیں اور مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ ان کا یہ کہنا کہ میں نے یہ بات لکھوائی کیوں نہیں ناواقفیت یا غفلت کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ گواہ عدالت کو مجبور نہیں کر سکتا کہ چاہے سرکاری قانون اجازت دے یا نہ دے ضرور اسی طرح لکھا جائے۔ میرا کام صرف یہی تھا کہ مَیں نے ساری صورت حالات عدالت کے سامنے رکھ دی۔ باقی ایسے مجبور کر کے اپنی مرضی کے مطابق لکھوانا میرے اختیار میں نہ تھا۔ واقعہ کی گواہی پر بیشک عدالت پر زور دیا جا سکتا ہے لیکن ایسے امور کے متعلق جو گواہی سے تعلق نہیں رکھتے ان کا تعلق صرف میاں محمد صادق صاحب کی قسم کے لوگوں سے ہوتا ہے عدالت کو مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ یہ گواہی کا واقعہ ایک دفعہ دیوان سکھانند صاحب کی عدالت میں پیش آیا ہے اور ایک دفعہ اس سے پہلے ایک اور عدالت میں۔ مَیں خیال کرتا ہوں کہ خود مجسٹریٹ صاحبان کو بھی یہ امور یاد ہوں گے۔ پولیس افسر سے امید کی جاتی ہے کہ وہ عدالتوں کے ضابطہ سے واقف ہے اور اس سے اس علم کی بھی امید کی جا سکتی ہے کہ کسی عدالت کو سوالات کے جواب کے سوا اور کسی بات کے لکھنے پر مجبورنہیں کیا جا سکتا۔ پس میاں محمد صادق صاحب کا ان امور کو جانتے ہوئے اس اعتراض پر اصرار کرنا صرف یہ بتاتا ہے کہ وہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنانا چاہتے ہیں۔ جس وقت تک بات کھلی نہ تھی اس وقت تک تو یہ خیال ہو سکتا تھا کہ یہ اعتراض نادانستہ کیا گیا تھا اوروہ غلطی میں مبتلا تھے۔ مگر پوری وضاحت اور تشریح کے باوجود اس پر اصرار کے یہ معنے ہیں کہ وہ جان بوجھ کر لوگوں کو مغالطہ میں ڈالنا چاہتے ہیں اور اس صورت میں مَیں ان کے اعتراض کا جواب سوائے اس کے اور کچھ نہیں دے سکتا کہ اللہ تعالیٰ ان کو اس ظلمت سے نجات دے۔ اس قسم کے معترضین کو خاموش کرانا کسی انسان کے اختیار میں نہیں۔ جب ایسے لوگ حد سے بڑھ جایا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ خود ان کو خاموش کر دیاکرتا ہے ۔ مگر کیا ہی بدقسمت ہے وہ انسان جو اللہ تعالیٰ کے غضب کو بھڑکا کر ان نعمتوں سے بھی محروم ہو جائے جو اسے پہلے حاصل تھیں ۔
پس مَیں میاں صاحب موصوف کو کچھ نہیں کہنا چاہتا ان کا معاملہ اب میں نے اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیا ہے جو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ اس وقت میں جماعت کو یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ دیکھو اہلِ پیغام جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے ماننے والے کہلاتے ہیں۔ اوربعض ان میں سے صحابی بھی کہلاتے ہیں۔ شروع دن سے ہی ان کے سر کردوں کی یہ حالت رہی ہے کہ میرے خلاف غلط بیانی کرتے رہے ہیں۔ مجھے وہ زمانہ خوب یاد ہے جبکہ بھیرہ کا ایک مکان حکیم فضل دین صاحب نے انجمن کو وصیت میں دیا اور انجمن نے اسے بیچنا چاہا اس کی قیمت سات آٹھ ہزار روپیہ تک ملتی تھی۔ وہ مکان حکیم صاحب مرحوم کا ذاتی نہ تھا بلکہ انہوں نے خود یا ان کے خاندان نے کسی اور سے خرید کیا تھا اورجن سے وہ مکان خریدا گیا تھا وہ بھی بھیرہ کے ہی معزز لوگ تھے۔ کسی مصیبت میں مبتلا ہو کر ایسے وقت میں جب وہ کوئی رقم ادا نہیں کر سکے، وہ یا نیلام ہو گیا تھا، یا رقم اداکرنے کے لئے انہوں نے خود فروخت کر دیا تھا اور پانچ ہزار روپیہ میں نیلام یا بیع ہوٴا تھا۔ جب انہوں نے سنا کہ انجمن اس مکان کو نیلام کرنے لگی ہے تو انہوں نے حضرت خلیفہ اول کو لکھاکہ یہ مکان ہمارا ہے مصیبت کے وقت ہمارے ہاتھ سے نکل گیا تھا۔ اب ہم سے پانچ ہزار روپیہ لے لیا جائے اور یہ ہمیں ہی دے دیا جائے۔ ہم نے بھی پانچ ہزار میں دیا تھا اورمکان زیادہ قیمت کا ہے اور اس وجہ سے کہ ہم نے بھی مصیبت کے وقت اور قرضہ کی ادائیگی کے لئے اسے فروخت کر دیا تھا ہم اس رعایت کے مستحق ہیں اور اگر یہ مکان اب ہمیں اسی قیمت پر دے دیا جائے تو یہ ایک طرح کا ہم پر رحم ہو گا۔ یہ بات حضرت خلیفہٴ اول کے دل کو لگی اور آپ نے سفارش کی اور فرمایا کہ یہ مکان ان لوگوں کو پانچ ہزار روپیہ میں دے دیا جائے۔ ان کارپردازانِ انجمن نے حضرت خلیفہٴ اول کو لکھا کہ مکان زیادہ قیمت کا ہے اورزیادہ قیمت مل سکتی ہے۔ اگر پانچ ہزار میں دے دیا گیا تو سلسلہ کو نقصان ہو گا۔ اس پر حضرت خلیفہٴ اول نے فرمایا کہ بے شک یہ زیادہ مالیت کا ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ ان لوگوں نے مصیبت کے وقت قرضہ کی رقم پوری کرنے کے لئے دے دیا تھا اور ہمارے سلسلہ کی بنیاد چونکہ اخلاق پر ہے اس لئے ہمیں ان لوگوں سے حسن سلوک کرنا چاہئے مگر ان لوگوں نے پھر اصرار کیا کہ بعض لوگ سات آٹھ ہزار دیتے ہیں اورممکن ہے نَو ہزار ہی مل جائے۔ اور جب انہوں نے زیادہ اصرار کیا تو حضرت خلیفہٴ اول نے ناراض ہو کر تحریر فرما دیا کہ جس طرح مرضی ہو کرو مَیں اس میں دخل نہیں دیتا۔
انجمن کا اجلاس بلایا گیا۔ مسجد مبارک کے ساتھ جو کوٹھڑی ہے جس میں مولوی محمد اسماعیل صاحب مرحوم بیٹھا کرتے تھے ، مولوی شیر علی صاحب بھی بیٹھ کر کام کرتے رہے ہیں یہاں مولوی محمد علی صاحب نے دفتر بنایا ہوٴا تھا اورانجمن کے اجلاس یہیں ہوٴا کرتے تھے۔ یہ کسی زمانہ میں غسلخانہ بھی رہا ہے اور اس سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی بیٹھک بھی رہی ہے اور اسی جگہ سرخ چھینٹوں والا نشان ظاہر ہوٴا تھا۔ خیر اس جگہ سب ممبر جمع ہوئے۔ سوال اس رنگ میں پیش ہوٴا کہ اس مکان کو زیادہ سے زیادہ قیمت پر فروخت کر دیا جائے۔ یہ لوگ باتیں کرتے رہے مَیں بیٹھا رہا۔ میری عمر اُس وقت 22، 23 سال کی تھی۔ وہاں مولوی محمد علی صاحب، شیخ رحمت اللہ صاحب، ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب اور ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب بھی تھے۔ خواجہ کمال الدین صاحب کے متعلق یاد نہیں کہ تھے یا نہیں۔ باتیں ہوتی رہیں اورمَیں خاموش بیٹھا رہا آخر مجھ سے پوچھا گیا کہ آپ کی کیا رائے ہے۔ مَیں نے کہا میری رائے آپ لوگ کیا پوچھتے ہیں۔ حضرت خلیفة المسیح کی مرضی ہے کہ سابق مالکوں کو اسی رقم میں مکان دے دیا جائے اور میری بھی یہی رائے ہے۔ میرے جواب میں ان میں سے کسی نے کہا کہ میاں صاحب خلیفة المسیح نے اجازت دے دی ہے۔ ان لوگوں نے جب حضرت خلیفة المسیح اول کے خلاف کوئی بات کرنی ہوتی تو ان کا قاعدہ تھا کہ آپ کے تقویٰ و طہارت کی بہت تعریف کرتے تھے۔ چنانچہ کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ کاہم پر کتنا احسان ہے کہ اس نے ہمیں ایسا خلیفہ دیا ہے جو بہت متقی اور دین کے اموال کا بہترین محافظ ہے۔ چنانچہ آپ نے اجازت دے دی ہے۔ مَیں نے کہا خوب۔ پھر تو بہت اچھی بات ہے مگر وہ اجازت ذرا مجھے بھی دکھائیے۔ چنانچہ مجھے آپ کی تحریر دکھائی گئی۔ اسے دیکھ کر مَیں نے کہا کہ یہ اجازت تو نہیں یہ تو ناراضگی کا اظہار ہے۔ میرا یہ کہنا تھا کہ سب کے سب میرے پیچھے پڑ گئے اور کہنے لگے کہ میاں صاحب! تقویٰ اختیار کریں۔ یہ قوم کا مال ہے، خدا تعالیٰ کا مال ہے، خدا تعالیٰ کو کیا جواب دیں گے؟ مَیں نے کہا کہ ہم سب سے زیادہ تقویٰ کا خیال حضرت خلیفة المسیح کو ہے اور خدا تعالیٰ کو جواب دینے کی فکر بھی ان کو سب سے زیادہ ہے اور وہ خدا تعالیٰ کے سامنے ہم سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں۔ جب ہم مانتے ہیں کہ وہ علم میں ہم سب سے زیادہ ہیں اور جماعت کا خلیفہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بنایا ہے تو سلسلہ کے اموال کے متعلق سب سے زیادہ درد اور تقویٰ کا معیار انہیں کو حاصل ہے۔ اس لئے وہ جو فرماتے ہیں وہی درست ہے اور میرے نزدیک ہمارے لئے تقویٰ کی راہ یہی ہے کہ ان کی بات مان لی جائے۔ اس پر سب نے مل کر تقویٰ کرو تقویٰ کرو کی بوچھاڑ شروع کر دی۔ مَیں نے کہا مَیں نے اپنی رائے دے دی ہے اور مَیں تو اکیلا اس رائے کا ہوں آپ لوگوں کی کثرت ہے جس طرح چاہیں کریں۔
غرض انہوں نے اس قسم کا ریزولیوشن پاس کر دیا کہ اس مکان کو زیادہ سے زیادہ قیمت پر فروخت کر دیا جائے۔ اسی دن یا غالباً ایک دو روز بعد مَیں اپنے گھر میں بیٹھا تھا کہ حکیم میر احمد صاحب قریشی جو حضرت خلیفہٴ اول کے بھتیجے یا بھانجے ہیں آئے اور دروازہ پر دستک دی اور مجھے کہا کہ حضرت خلیفة المسیح بلاتے ہیں۔ حضرت خلیفة المسیح الاول اس کمرہ میں بیٹھے تھے جو مسجد کے اوپر ہے اورجہاں آجکل شیخ بشیر احمد صاحب پلیڈر آ کر ٹھہرتے ہیں۔ ایک زمانہ میں وہاں مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم بھی رہا کرتے تھے۔ اس وقت ہمارے مکان کی شکل اور تھی جس دروازہ سے مَیں گرمیوں میں مسجد میں آیا کرتا ہوں اس جگہ اس زمانہ میں چھوٹی سی کھڑکی ہوتی تھی۔ اب اس کے آگے ہمارے گھر کی طرف صحن ہے مگر اس وقت وہاں صرف ایک راستہ بنا ہوٴا تھا۔ باقی جگہ چھتی ہوئی نہ تھی بلکہ وہ کھلی ہوئی تھی اور اس کے نیچے دوسری منزل کا ایک صحن تھا جس میں لکڑی کی سیڑھیاں لگی ہوئی تھیں اورجہاں مسجد مبارک کی اوپر کی حد ختم ہوتی ہے سیڑھیوں سے چڑھ کر وہاں سے ہوتے ہوئے مسجد میں سے گزر کر اس کمرہ میں پہنچتے تھے۔ مَیں اسی راستہ سے آیا اور اس کمرہ میں داخل ہوٴا۔ حضرت خلیفہ اول کی پیٹھ شمال کی طرف تھی اورمُنہ جنوب کی طرف تھا یہ سب وہاں بیٹھے تھے۔ ان لوگوں کامُنہ شمال کی طرف اور پیٹھ جنوب کی طرف تھی۔ مغرب کی جانب کچھ جگہ تھی مَیں اس طرف بیٹھ گیا۔ حضرت خلیفہ اول نے میری طرف مُنہ کر کے بہت ناراضگی میں فرمایا کہ میاں اب ہماری مخالفت شروع ہو گئی ہے۔ مَیں طرز سے بھانپ گیا کہ ضرور کوئی فساد کی بات ہوئی ہے مگر میرا ذہن اصل بات کی طرف نہیں گیا۔ مَیں نے کہا کہ مَیں نے تو کوئی مخالفت نہیں کی۔ آپ نے فرمایا کہ ہم نے حکم دیا تھاکہ اصل مالکوں کو پانچ ہزار روپیہ میں یہ مکان دے دیا جائے مگر ہماری مرضی کے خلاف یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اسے زیادہ قیمت پر فروخت کر دیا جائے۔ مَیں نے کہا کہ فیصلہ تو بے شک ہوٴا ہے مگر میری یہ رائے نہیں تھی۔ حضرت خلیفہ اول نے ان لوگوں کی طرف ہاتھ کر کے فرمایا کہ آپ لوگ تو کہتے تھے کہ میاں صاحب کی بھی یہی رائے تھی۔ ان لوگوں نے کہا کہ ان کے مشورہ سے ہی فیصلہ ہوٴا تھا۔ مَیں نے کہا کہ بالکل غلط ہے۔ مَیں نے تو کہہ دیا تھا کہ میری رائے وہی ہے جو حضرت خلیفة المسیح کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے اجازت دے دی ہے اس پر مَیں نے کہا کہ مجھے اجازت دکھاوٴ اور اسے دیکھ کر مَیں نے صاف کہہ دیا کہ یہ اجازت تو نہیں یہ تو اظہارِ ناراضگی ہے۔ اور میری رائے یہی ہے کہ جس طرح حضرت خلیفة المسیح نے فرمایا ہے اسی طرح کیا جائے۔ حضرت خلیفہٴ اول نے ان لوگوں سے فرمایا کہ اب بولو یہ تو انکار کرتے ہیں۔ اس پر شیخ رحمت اللہ صاحب نے کہا کہ انہوں نے زور دے کر یہ فیصلہ کرنے سے ہم کو روکا نہیں تھا۔ اس پر حضرت خلیفہٴ اول نے غصہ سے فرمایا کہ تم انہیں بچہ بچہ کہتے رہتے ہو یہ تو میری تحریر کو سمجھ گئے مگر تمہاری سمجھ میں نہ آئی۔ یہ کس طرح روکتا؟ تمہارے ہاتھ پکڑ لیتا؟ انہوں نے پھر یہی کہا کہ انہوں نے زور دے کر نہیں روکا تھا۔ مَیں نے کہا کہ میرے پاس روکنے کے لئے کیا اختیار تھا؟ آپ لوگ بھی ممبر تھے اور مَیں بھی ایک ممبر تھا۔ مَیں کیا کر سکتا تھا؟ یہ لوگ ہیں جو صحابی کہلاتے ہیں مگر افسوس میرے خلاف ہمیشہ جھوٹ سے کام لیتے رہے ہیں۔ پس ہماری جماعت کو یہ سبق حاصل کرنا چاہئے کہ صرف مُنہ سے کوئی صحابی نہیں بن سکتا۔ صحابی بننے کے لئے صداقت پر عمل بہت ضروری ہے مگر ان لوگوں نے میرے معاملہ میں ہمیشہ یہی راہ اختیار کی ہے اور جھوٹ بولا ہے۔ اس قسم کے بہت سے واقعات ہیں صرف یہی نہیں۔ اس زمانہ میں تو ایک نہ ختم ہونے والا فساد تھا جو چلتا ہی جاتا تھا۔ مگر مَیں ان باتوں سے گھبراتا نہیں۔ مَیں جانتا ہوں کہ ان لوگوں کی طرف سے ایسی باتیں ہمیشہ سے ہوتی رہی ہیں۔ یہ برادرانِ یوسف ہیں۔ پہلے برادرانِ یوسف کو تو توبہ نصیب ہو گئی تھی۔ خدا جانے ان کو توبہ نصیب ہو گی یا گناہوں کی وجہ سے اس سے محروم ہی رہ جائیں گے۔ بہرحال مَیں اپنی جماعت سے کہتا ہوں کہ دیکھو تمہارے لئے اس میں بہت بڑا سبق ہے۔ ان واقعات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ محض کوئی نام اختیار کر لینا کوئی کام آنے والی چیز نہیں۔ نام کے لحاظ سے تو ان میں صحابی بھی ہیں مگر واقعات بتاتے ہیں کہ جب بھی موقع ملا انہوں نے خواہ مخواہ نیش زنی کی اور کبھی غلط بیانی سے باز نہیں رہے۔
ایک اور واقعہ حضرت خلیفہ اول کی وفات کے وقت کا ہے جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا تو مَیں نے ایک اشتہار لکھا کہ حضرت خلیفة المسیح کی بیماری شدید ہے۔ یہ شاید وفات سے ایک دو روز پہلے کی بات ہے۔ مَیں نے اس میں جماعت کو یہ نصیحت لکھی کہ ہم لوگوں کو اس وقت سارے جھگڑے مٹا دینے چاہئیں کیونکہ حضرت خلیفة المسیح کو بیماری کی حالت میں ان باتوں سے تکلیف ہوتی ہے اس لئے ہمیں قربانی کرنی چاہئے کہ خاموش رہیں۔ مَیں نے یہ اشتہار لکھ کر مولوی محمد علی صاحب کے پاس بھیجا کہ اس پر دستخط کر دیں اور ہم دونوں کی طرف سے یہ شائع ہو جائے اور یہ بھی کہلا بھیجا کہ چاہیں تو اس میں مناسب اصلاح بھی کر دیں۔ مگر مولوی صاحب نے جواب دیا کہ باہر کی جماعت تو ان جھگڑوں کو جانتی بھی نہیں۔ یہ تو قادیان کے چند لوگوں تک محدود ہیں۔ خواہ مخواہ باہر کی جماعتوں کو ان سے آگاہ کرنے کی کیا ضرورت ہے مگر ادھر حضرت خلیفہٴ اول فوت ہوئے اور ادھر ان لوگوں کی طرف سے سب جماعتوں میں چھپے ہوئے اشتہار تقسیم کر دئیے گئے۔ جب مَیں نے اشتہار مولوی صاحب کے پاس بھیجا تھا اس وقت وہ اپنے اشتہار لکھ کر لاہور میں چھپوانے کے لئے بھجوا چکے تھے۔ مگر مجھے یہ جواب دیا کہ بیرونی جماعتوں کو ان جھگڑوں سے آگاہ نہیں کرنا چاہئے اورجو شخص اس طرح صداقت کا خون کر سکتا ہے اس سے دنیا میں اور کیا امید ہو سکتی ہے؟ میرے اشتہار پر دستخط تو اس خوف سے نہ کئے کہ لوگ کہیں گے کہ ایک طرف تو خود یہ باتیں پھیلا رہے ہو اور دوسری طرف کہتے ہو کہ ان جھگڑوں کو بند کر دیا جائے۔ مگر میرے پاس یہ عذر کر دیا کہ بیرونی لوگوں کو تو ان جھگڑوں کا پتہ نہیں ان کو آگاہ کرنے سے کیا فائدہ۔ اسی طرح مولوی محمد علی صاحب یہ کہہ کر سلسلہ کی بہت سی کتب قادیان سے لے گئے کہ مَیں پہاڑ پر جا کر ان کی مدد سے ترجمہٴ قرآن کروں گا لیکن آج تک وہ کتب واپس نہیں کیں اور ان کی مدد سے کیا ہوٴا ترجمہ اور سلسلہ سے تنخواہ لے کر کیا ہوٴا ترجمہ اپنا اور اپنے بیوی بچوں کی ملکیت قرار دے دیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے واقع میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی صحبت پائی ہے۔ پس ہماری جماعت کو سمجھ لینا چاہئے کہ خالی صحبت فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ نام کا صحابی ہونا یا نام کی احمدیت یا اسلام کسی فائدہ کا موجب نہیں بلکہ انسان کو چاہئے کہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے کہ معلوم نہیں کہ کس قصور اور کس گناہ کی وجہ سے کس عذاب میں مبتلا ہو جائے۔ خوب یاد رکھو کہ اصل جڑ تقویٰ ہے۔ ہمیشہ خدا تعالیٰ کا خوف دل میں رکھنا چاہئے۔ خدا تعالیٰ کا خوف جس دل میں نہ ہو وہ متکبر ہے۔ یہ خیال کر لینا کہ ہم بہت نمازیں پڑھتے ہیں یا بہت چندے دیتے ہیں یا بہت روزے رکھتے ہیں اور اس طرح اللہ تعالیٰ پر احسان کرتے ہیں بہت خطرے کی بات ہے اور ایسا خیال کرنے والوں کا انجام ہمیشہ برا ہی ہوتا ہے۔ مَیں نے ایک شخص کو دیکھا وہ صحابی تھا مگر نماز نہیں پڑھتا تھا۔ باہر کسی جگہ رہتا تھا، مَیں وہاں گیا (خلافت اولیٰ کے وقت) تو مَیں نے محسوس کیا کہ یہ نمازوں میں باقاعدہ نہیں۔ مَیں نے وہاں کے دوستوں سے کہا کہ مجھے شبہ ہے یہ شخص نمازوں میں غافل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ آپ کے سامنے تو نماز پڑھ لیتا ہے مگر ویسے نہیں پڑھتا اور چندہ بھی نہیں دیتا بلکہ جب کہا جائے تو کہہ دیتا ہے کہ ہم نے بہت نمازیں پڑھی ہیں، بہت چندے دئیے ہیں۔ خدا تعالیٰ کا خزانہ کافی بھر دیا ہے۔ اب ہمیں نمازوں کی اور چندے دینے کی ضرورت نہیں۔ ایسا خیال اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان خیال کر لے کہ میرا نمازیں پڑھنا یا چندے دینا اللہ تعالیٰ پر احسان ہے اور اب مَیں نے کافی احسان کر دیا کب تک کرتا جاوٴں۔ حالانکہ اگر وہ نیکیوں کی توفیق ملنے کو اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کا احسان سمجھتا تو کبھی اس سلسلہ کو بند نہ کرتا۔ کیونکہ کوئی انسان اپنے اوپر احسان کا دروازہ بند کرنا نہیں چاہتا کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ مجھے کچھ مل ہی رہا ہے میرا نقصان نہیں ہو رہا۔
مَیں نے دیکھا ہے ہمارے بعض دوست ان لوگوں کی ایسی باتوں سے چڑتے ہیں حالانکہ چڑنے کی کوئی وجہ نہیں بلکہ ہوشیار اور بیدار ہونے کی بات ہے۔ ان باتوں کودیکھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور گر جاوٴ اور ہمیشہ استغفار کرتے رہو۔ کسی نے کہا ہے کر، تب بھی ڈر، نہ کر، تب بھی ڈر۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندے کا معاملہ بہت ہی نازک معاملہ ہے کیونکہ ایک طرف تو احسان ہی احسان ہے اور دوسری طرف ناشکری ہی ناشکری ہے۔ انسان کتنی نمازیں پڑھے، کتنے روزے رکھے، کتنے حج کرے، کتنی زکوٰتیں دے، کتنا ذکر الٰہی کرے پھر بھی اللہ تعالیٰ کا احسان وہ نہیں اُتار سکتا۔ ایک طرف تو احسان ہی احسان ہے اور دوسری طرف کوتاہیاں ہی کوتاہیاں ہیں اور اگر دل میں ذرا بھی کبر پیدا ہو جائے تو بس بیڑا تباہ ہے۔ یہ لوگ تمہارے لئے عبرت کا مقام ہیں۔ جس طرح آباد گھروں کے پاس اجڑے ہوئے گھر عبرت کے لئے ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں کسی بادشاہ نے کسی بزرگ سے کہا کہ ہمیں تو آپ پر بہت حسن ظنی ہے مگر آپ کبھی نصیحت کے لئے ہمارے پاس نہیں آئے۔ وہ بزرگ بادشاہ کو لے کر اس قلعہ کی ایک کھڑکی کے پاس گئے اور فرمایا وہ دیکھئے! آپ کے سامنے آپ سے پہلے بادشاہ کے قلعہ کے کھنڈرات ہیں جس کے سامنے اس قدر عبرت کا سامان ہو اس کے پاس میرے آنے کی کیا ضرورت ہے۔ کیا اس بادشاہ کے پاس سامان آپ سے کم تھے؟ یہی حال آپ کا بھی ہو سکتا ہے۔تو ہمیں ان لوگوں سے عبرت حاصل کرنی چاہئے اور اللہ تعالیٰ کے حضور استغفار کرتے رہنا چاہئے۔ نادان معترض کہتے ہیں کہ کیا محمد مصطفی ﷺ گناہ کرتے تھے جو استغفار کرتے تھے حالانکہ اللہ تعالیٰ کے سامنے بندے کا مقام ہی استغفار کا ہے کوئی کتنی قربانیاں کرے، کتنی عبادات بجا لائے پھر بھی اس کا عمل اللہ تعالیٰ کے احسان سے کم ہی رہتا ہے۔ پس جتنا زیادہ کوئی استغفار کرے اتنا ہی زیادہ وہ خدا تعالیٰ کی شان کو سمجھنے والا ہے اور اتنا ہی زیادہ وہ اس کا فرمانبردار ہے۔
پس ہر وقت استغفار کرتے رہو اور توبہ میں لگے رہو۔ اور روحانیت کے یہ گرے ہوئے کھنڈرات یعنی پیغامی جو تم کو نظر آتے ہیں ان کو دیکھ کر عبرت حاصل کرو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت بھی ان کو تقویٰ پر قائم نہ کر سکی اور ان کے دلوں میں احمدیت کے نام لیواوٴں کا بُغض اتنا بڑھ گیا کہ یہ ہر انسان کے ساتھ حسن ظنی کر سکتے ہیں مگر احمدیت کے نام لیواوٴں کے ساتھ نہیں کر سکتے۔ جب غیر احمدیوں کے کفر کا سوال آتا ہے تو یہ کہتے ہیں کہ اگر کسی میں 99 وجوہ کفر کی اور ایک ایمان کی ہو تو پھر بھی اس کے متعلق حسن ظنی سے کام لینا چاہئے اور اسے کافر نہیں کہنا چاہئے۔ مگر ہمارے متعلق اگر99 وجوہ حسن ظنی کی اور ایک بد ظنی کی ہو تو اس وقت بھی یہ امام ابو حنیفہؒ کا یہ قول بالکل بھول جاتے ہیں اور ہمیشہ بدظنی سے کام لیتے ہیں۔ یہ حالت کیوں ہوئی؟ محض اس وجہ سے کہ ان کی طرف سے کوئی اندرونی گستاخی ہوئی جس سے یہ اللہ تعالیٰ کی نصرت سے محروم ہو گئے ۔ اور یاد رکھو! کہ ایسے خطرات میں تم بھی اور مَیں بھی گرفتار ہو سکتا ہوں۔ پس استغفار کرتے رہو اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے رہو تا وہ اس مقام سے بچائے اور ہمیشہ اپنی حفاظت میں رکھے۔ ’’ (الفضل 5 مارچ1941ء)

7
روحانیت کی ترقی کے لئے اخلاقِ فاضلہ کا حصول نہایت ضروری ہے
(فرمودہ 28 فروری 1941ء)

تشہّد، تعوّذ اور سورہٴ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘دنیا میں ہر ایک چیز کا ایک ظاہر ہوتا ہے اور ایک باطن ہوتا ہے۔ ظاہر اپنی جگہ پر ایک ضروری چیز ہے اور باطن اپنی جگہ پر ایک ضروری چیز ہے اور ان دونوں کی اہمیت ایسی ہی ہے جیسے انسان کے لئے جسم اور روح۔ دونوں کا وجود نہایت اہم ہوتا ہے۔ روح بغیر کسی جسم کے خواہ وہ کتنا ہی لطیف کیوں نہ ہو کوئی کام نہیں کر سکتی اور جسم بغیر کسی روح کے کوئی اختیاری فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ کسی قسم کا بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ کیونکہ جس قسم کے فوائد کسی جسم میں پائے جاتے ہیں وہی اس کی روح بھی کہلائیں گے مثلاً پاخانہ ایک فُضلہ ہے جو پھینک دیا جاتا ہے مگر فضلہ میں بھی ایک روح موجود ہوتی ہے اور وہ روح زمین کی قوتِ پرورش کو بڑھانے کی طاقت ہے جو اس میں پائی جاتی ہے۔ پس وہ خالی جسم نہیں بلکہ اس میں روح بھی ہے ہاں اگر کھاد بلحاظ کھاد کے مر چکی ہو یعنی وہ ایسے رنگ میں خراب ہو چکی ہو کہ وہ کھاد کا کام بھی نہ دے سکے تو وہ بے شک جسم بے روح کہلائے گی ورنہ ہر روح جسم کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔ یہاں تک کہ جب لوگ خواب دیکھتے ہیں تو اس وقت بھی صرف روح کوئی نظارہ نہیں دیکھتی بلکہ خواب میں اس روح کو ایک نیا جسم مل جاتا ہے اور روح اس جسم کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔ مثلاً جب تم خواب میں دیکھتے ہو کہ تم لاہور جا رہے ہو یا خواب میں دیکھتے ہو کہ تم ہوا میں اڑ رہے ہو یا خواب میں دیکھتے ہو کہ تم دریا میں تیر رہے ہو یا خواب میں دیکھتے ہو کہ تم کسی دور دراز کے سفر پر جا رہے ہو یا خواب میں دیکھتے ہو کہ تم کوئی چیز کھا رہے ہو تو اس وقت تمہارا جسم چارپائی پر ہی ہوتا ہے تم بے شک اپنے آپ کو دیکھتے ہو کہ تم دریا میں تیر رہے ہو لیکن تمہارا جسم اس وقت کسی دریا میں نہیں بلکہ چارپائی پر ہوتا ہے۔ اسی طرح تم بے شک دیکھتے ہو کہ تم سفر پر جا رہے ہو لیکن تمہارا جسم چارپائی پر ہی پڑا ہوٴا ہوتا ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب تم خواب میں اپنے آپ کو تیرتے دیکھتے ہو یا یہ دیکھتے ہو کہ تم کہیں سفر پر جا رہے ہو تو تم خالی روح نہیں دیکھتے بلکہ اپنے ساتھ اپنا ایک جسم بھی دیکھتے ہو۔ اسی طرح جب تم اپنے آپ کو ہوا میں اڑتے دیکھتے ہو تو اس وقت خالی روح نہیں ہوتی بلکہ ایک جسم کو بھی تم اپنے ساتھ دیکھتے ہو۔ اسی طرح خواب میں جب تم کوئی چیز کھاتے ہو یا کوئی چیز پیتے ہو یا کسی سے لڑتے ہوئے اپنے آپ کو دیکھتے ہو یا کسی سے صلح کرتے ہوئے اپنے آپ کو دیکھتے ہوتو تم اپنا ایک جسم بھی محسوس کرتے ہو۔ یہ نہیں ہوتا کہ صرف روح ہی ہو اور جسم اس کے ساتھ کوئی نہ ہو۔
پس وہ جسم ایک علیحدہ چیز ہوتا ہے تمہارا ظاہری جسم نہیں ہوتا کیونکہ یہ جسم تو اس وقت چارپائی پر پڑا ہوٴا ہوتا ہے اور یہ بالکل ناممکن ہے کہ ایک ہی جسم ایک وقت میں چارپائی پر بھی ہو اور دریا میں بھی تیر رہا ہو یا چارپائی پر بھی ہو اورپہاڑ کی چوٹی پر بھی ہو یا چارپائی پر بھی ہو اور دور دراز کا سفر بھی کر رہا ہو یا چارپائی پر پڑا سو بھی رہا ہو اور کسی سے لڑ جھگڑ بھی رہا ہو یا ایک ہی وقت میں وہ تندرست بھی ہو اور بیمار بھی ہو۔ غرض وہ ایک نیا جسم ہوتا ہے جو روح کو ملتا ہے کیونکہ روح بغیر جسم کے نہیں رہ سکتی۔ اسی طرح مرنے کے بعد ہر شخص کو ایک نیا جسم ملے گا۔ وہاں خالی روح نہیں ہو گی بلکہ ایک جسم بھی اس کے ساتھ ہو گا اور وہ جسم لطیف ہو گا جیسے خواب میں انسان کو ایک لطیف جسم ملتا ہے۔ خواب کا جسم تو ایسا لطیف ہوتا ہے کہ انسان تو یہ دیکھ رہا ہوتا ہے کہ وہ ہزاروں کا مقابلہ کر رہا ہے یا دریا میں تیر رہا ہے یا پہاڑوں سے گزر رہا ہے یا بڑے بڑے ہاتھیوں اور گھوڑوں کو وہ ایک چپت رسید کرتا ہے اور وہ تمام اس کے مطیع اور فرمانبردار ہو جاتے ہیں۔ مگر اس کے پاس لیٹی ہوئی بیوی اور اس کے بچے ان نظاروں میں سے کوئی نظارہ بھی نہیں دیکھ رہے ہوتے۔ یہ تو دیکھ رہا ہوتا ہے کہ مَیں ہزاروں انسانوں کے ساتھ لڑ رہا ہوں اور وہ یہ دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ اس کے ناک پر مکھی بھن بھن کر رہی ہے اوریہ اسے اڑا بھی نہیں سکتا۔ یہ تو دیکھتا ہے کہ مَیں سفر کر کے ہزاروں میل دور نکل گیا ہوں اور یہ دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ اس نے ایک کروٹ تک نہیں بدلی۔ پس وہ جسم جو انسان کو خواب میں ملتا ہے ایک روحانی جسم ہوتاہے جسے وہ خود تو دیکھ رہا ہوتا ہے مگر اس کے بیوی بچوں کو نظر نہیں آتا کیونکہ انسان کی مادی آنکھیں صرف کثیف جسم دیکھنے کی طاقت رکھتی ہیں۔ اسی وجہ سے جن باتوں کو ایک خواب دیکھنے والا شخص اپنی روحانی آنکھوں سے دیکھتا یا اپنے روحانی کانوں سے سنتا ہے انہیں جسمانی آنکھیں نہیں دیکھتیں اور نہ جسمانی کان ان باتوں کو سن سکتے ہیں۔ پس وہ ایک جسم تو ہوتا ہے مگر اس جسم سے بہت اعلیٰ ۔اور وہ ان آنکھوں سے نظر نہیں آسکتا۔ پھر صرف خواب پر ہی منحصر نہیں اس دنیا میں بھی اس قسم کی کئی چیزیں پائی جاتی ہیں مثلاً مَیں نے اس وقت عینک لگائی ہوئی ہے۔ اگر اس عینک کے شیشہ میں سے میں ایک سلائی گزاروں تو وہ نہیں گزرے گی مگر میری آنکھ کی بینائی اس میں سے گزر رہی ہے اورمجھے پتہ بھی نہیں چلتا کہ میری آنکھوں اور لوگوں کے درمیان کوئی چیز حائل ہے۔ پس باوجود اس کے کہ میری آنکھوں اور لوگوں کے درمیان ایک روک حائل ہے۔ اور 10/1 یا 12/1 انچ کا شیشہ آنکھ کے سامنے ہے میں سب کو دیکھ رہا ہوں۔ حالانکہ بظاہر چاہئے یہ تھا کہ مجھے اس روک کی وجہ سے کچھ نظر نہ آتا۔ مگر حالت یہ ہے کہ مجھے اس شیشہ کی وجہ سے بجائے کچھ نظر نہ آنے کے زیادہ نظر آ رہا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ شیشے کا جسم کثیف نہیں بلکہ وہ ایک شفاف جسم ہے اور وہ میری بینائی کے رستہ میں روک نہیں۔ بلکہ بوجہ اس کے کہ اس کی ساخت اور اس کا شیشہ میری آنکھ کے مطابق ہے وہ میری بینائی کو تیز کر رہا ہے۔ تو دنیا میں خدا تعالیٰ نے ایسی مادی چیزیں بھی رکھی ہوئی ہیں کہ جن میں سے دوسری چیز نظر آ جاتی ہے اور وہ روک نہیں بنتیں۔ مثلاً اگر تم لیمپ جلاوٴ اور اس پر چمنی نہ ہو تو تمہیں اندھیرا سا دکھائی دے گا اور اس سے دھوٴاں اٹھتا رہے گا لیکن جونہی تم اس پر چمنی رکھو اس کی روشنی بیسیوں گنے بڑھ جائے گی حالانکہ چمنی بظاہر اس کی روشنی میں روک بنتی ہے مگر چونکہ اس کو جو جسم ملتا ہے وہ نہایت شفاف قسم کا ہوتا ہے اس لئے بوجہ شفاف ہونے کے وہ اس روشنی کو روکتا نہیں بلکہ اسے زیادہ اچھا بنا دیتا ہے۔ اسی طرح خواب میں انسان کو جو روحانی جسم ملتا ہے وہ بھی ایک شفاف چیز ہوتی ہے اور اس وجہ سے گو وہ جسم کا ہی کام دیتی ہے مگر اس دنیا کے لوگ اسے دیکھ نہیں سکتے۔ وہ صرف ظاہری جسم کو دیکھنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ ان کی بینائی ایسی تیز نہیں ہوتی کہ وہ ان مادی آنکھوں سے روحانی جسم کو بھی دیکھ سکیں۔ یہی حال اگلے جہان میں ہو گا اور وہاں ہر انسان کو لطیف قسم کا ایک روحانی جسم ملے گا بلکہ وہاں کا جہان چونکہ اس جہان سے بہت زیادہ لطیف اور وسیع ہے اس لئے خواب کی حالت میں انسان کو جو جسم ملتا ہے وہ جسم اس سے بھی زیادہ شفاف اور مصفّٰی ہو گا اوراسی لئے وہ جسم ان آنکھوں اور قویٰ سے نظر نہیں آ سکتا۔
تو ہر چیز کے لئے ایک جسم کی ضرورت ہوتی ہے مگر وہ جسم اپنی اپنی حالت کے مطابق بدلتے چلے جاتے ہیں۔ جتنی روح کثیف ہوتی ہے اتنا ہی اس کو جسم کثیف ملتا ہے اورجتنی روح شفاف ہوتی ہے اتنا ہی اس کو جسم بھی شفاف ملتا ہے۔ چنانچہ روح کی حالت جو خواب میں ہوتی ہے وہ اس سے زیادہ صاف ہوتی ہے جو جاگتے ہوئے روح کی حالت ہوتی ہے اورمرنے کے بعد جو حالت ہو گی وہ خواب کی حالت سے بھی زیادہ مصفّٰی اور زیادہ اعلیٰ ہو گی اور انسان کو خواب کے جسم سے بھی زیادہ شفاف جسم اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کیا جائے گا۔ بہرحال ہر روح کے لئے ایک جسم ضروری ہوتا ہے اورکوئی جسم روح کے بغیر کارآمد نہیں ہو سکتا۔ جس طرح دنیا میں ہر انسان کا ایک مادی جسم ہوتا ہے اور جسم میں روح ہوتی ہے اسی طرح مذہب اور روحانیت کے بھی جسم ہوتے ہیں اور انسان کی ذہنی اور دماغی ترقیات کے بھی جسم ہوتے ہیں۔ مثلاً اسلام نے نماز کی ادائیگی کے لئے بعض خاص حرکات مقرر کی ہوئی ہیں۔ اب اصل غرض تو نماز کی یہ ہے کہ انسان کے دل میں خد اتعالیٰ کی محبت پیدا ہو اس کی صفات کو انسان اپنے ذہن میں لائے اور ان کے مطابق اپنے آپ کو بنانے کی کوشش کرے اس کا قرب اسے حاصل ہو اور اس کا عشق اس کی غذا ہو۔ ان باتوں کا ہاتھ باندھنے یا سیدھا کھڑا ہونے یا زمین پر جھک جانے سے کیا تعلق ہے؟ ظاہر ہے کہ انسان اگر سرسری نگاہ سے اس بات کو دیکھے تو اسے نماز کی اصل غرض کے مقابلہ میں یہ باتیں بظاہر بے جوڑ دکھائی دیں گی مگر چونکہ کوئی روح جسم کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی اس لئے خدا تعالیٰ نے جہاں نماز کا حکم دیا وہاں بعض خاص قسم کی حرکات کا بھی حکم دے دیا۔ جن مذاہب نے اس حقیقت کو نہیں سمجھا اور انہوں نے اپنے پیرووٴں کے لئے عبادت کرتے وقت حرکات کو ضروری قرار نہیں دیا وہ رفتہ رفتہ عبادت سے ہی غافل ہو گئے ہیں۔ اور اگر ان میں کوئی نماز ہوتی بھی ہے تو ایک تمسخر سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ مثلاً عیسائیوں میں یہ طریق ہے کہ وہ ہفتہ میں ایک دن عبادت کے لئے گرجا میں اکٹھے ہوتے ہیں پادری لیکچر دیتا ہے اور وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔ بلکہ بعض تو لکھتے ہیں کہ گرجوں میں نوجوان مرد صرف نوجوان عورتیں دیکھنے کے لئے جاتے ہیں اس سے زیادہ ان کے جانے کی اور کوئی غرض نہیں ہوتی۔ گویا ان کے مذہب نے عبادت کا ایک تھوڑا سا حصہ جو رکھا تھا اسے بھی ان لوگوں نے ملاقات کا ذریعہ اور مقام بنا لیا اور عبادت کی غرض و غایت کو بالکل فراموش کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ صحیح رنگ میں خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے والے عیسائیوں میں بہت تھوڑے ہوتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں مسلمانوں کے لئے روزانہ پانچ وقت کی نمازیں مقرر ہیں اور باوجود اس کے کہ ایک مسلمان کو دن رات میں پانچ مرتبہ مسجد میں جانا پڑتا ہے اور عیسائی ہفتہ میں ایک دن گرجا میں جاتے ہیں، مسجدیں گرجوں کی نسبت زیادہ بھری ہوئی ہوتی ہیں۔ بلکہ اس گئی گزری حالت میں بھی مسجد میں جانے والے مسلمان زیادہ ملیں گے اورگرجا میں جانے والے عیسائی کم ملیں گے۔ اس لئے کہ ان کے لئے بعض قواعد اور اصول وضع کر دئیے گئے ہیں اور ان قواعد اور اصول کو پورا کرتے ہوئے جو شخص مسجد میں جاتا ہے وہ لازماً اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہتا ہے۔ اگر خالی دل کی عبادت ہی کافی سمجھ لی جاتی تو نتیجہ یہ ہوتا کہ مسلمان بھی عیسائیوں کی طرح سُست ہوجاتے اور تھوڑے ہی عرصہ میں وہ نماز سے بالکل غافل ہوجاتے۔ کیونکہ کسی کو یہ کہنے کے لئے کہ مَیں دل میں خدا تعالیٰ کو یاد کر رہا ہوں انسان جھوٹ سے بھی کام لے سکتا ہے مگر ایک مسلمان ایسا نہیں کہہ سکتا کیونکہ پہلے وضو کرنا پھر چل کر مسجد میں آنا اور پھر تمام لوگوں کااکٹھے ہونا اور اس طرح اجتماعی رنگ میں سب کا عبادت کرنا ایسی باتیں ہیں جو نماز سے غافل ہونے ہی نہیں دیتیں اور اگر کوئی غفلت کرے تو وہ فوراً نظر آ جاتا ہے۔ چنانچہ غور کر کے دیکھ لو مسلمانوں میں ایسے لوگ بہت ہی کم ہوں گے جو کبھی بھی مسجد میں نہ جائیں۔ بہت سے لوگ تو ایسے ہیں جو پانچ وقت مسجد میں جاتے اور اللہ تعالیٰ کی عبات کرتے ہیں اور جو اس میں کسی قدر سُست ہیں وہ تین یا چار نمازوں میں چلے جاتے ہیں اور جو اس سے بھی زیادہ سست ہیں وہ دو وقت کی نماز میں شامل ہو جاتے ہیں اور جو اس کے بھی پابند نہیں وہ ایک نماز میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی کسی نماز کے لئے بھی مسجد میں نہ جائے تو جمعہ پڑھنے کے لئے ضرور چلا جاتا ہے اور جو جمعہ کا بھی پابند نہیں ہوتا وہ عیدین میں شامل ہو جاتا ہے۔ بہرحال کسی نہ کسی نماز میں وہ ضرور شامل ہوتا ہے اور ایسے لوگ مسلمانوں میں بہت ہی کم ملیں گے جنہوں نے دو دو یا چار چار سال تک کوئی ایک نماز بھی نہ پڑھی ہو۔ اس کے مقابلہ میں عیسائیوں میں لاکھوں لوگ ایسے مل جائیں گے جنہوں نے چالیس چالیس سال تک گرجے کامنہ نہیں دیکھا ہو گا۔
یہی حال ہندووٴں وغیرہ کا ہے۔ ان میں بھی عبادت کا بہت کم رواج ہے۔ جنہوں نے بت خانے بنا کر ان پر پھول چڑھانا اور ان کے آگے سجدہ کرنا عبادت قرار دے دیا ہے۔ ان میں تو پھر بھی عبادت زیادہ پائی جاتی ہے مگر آریوں نے چونکہ اس طریق کو غلط قرار دے دیا اس لئے اب ہزاروں میں سے کوئی ایک آریہ ہی ہو گا جو دیانند جی کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق عبادت کرتا ہو۔ اخباروں میں وہ شور مچائیں گے، جلسوں میں وہ تقریریں کریں گے، مذہب کی سچائی پر وہ دھواں دھار لیکچر دیں گے مگر ان میں سے شاید کوئی ایک سورما اور قومی خادم ایسا نکلے گا جو سال بھرمیں ایک دفعہ دیانند جی کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق عبادت کرنے والا ہو۔ تو ظاہری جسم بھی ایک بڑی مفید اور کارآمد چیز ہے اورجن قوموں نے عبادت میں جسم کو شامل نہیں کیا وہ رفتہ رفتہ عبادت سے بالکل غافل ہو گئی ہیں۔ اسی طرح عبادت میں روزہ شامل ہے اور ظاہر ہے کہ بھوکا پیاسا رہنا ایک جسم ہے روح نہیں۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ اصل روزہ تو دل کا روزہ ہے مگر چونکہ خالی دل کا روزہ کوئی انسان نہیں رکھ سکتا اس لئے خدا تعالیٰ نے بھوکا اور پیاسا رہنا بھی ضروری قرار دے دیا۔ پھر حج ایک عبادت ہے اور اس کی اصل غرض یہ ہے کہ انسان ہر قسم کے تعلقات کو توڑ کر دل سے خدا کا ہو جائے مگر اس غرض کو پورا کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے ایک ظاہری حج بھی رکھ دیا اور صاحبِ استطاعت لوگوں پر یہ فرض قرار دے دیا کہ وہ گھر بار چھوڑ کر مکہ جائیں۔ سب مسلمان جمع ہوں اور اس طرح اپنے وطن اور عزیز و اقرباء کی قربانی کا سبق سیکھیں۔ بے شک حقیقی حج یہی ہے کہ انسان ہر قسم کے تعلقات کو منقطع کر کے خدا کا ہو جائے مگر اس کے لئے خدا تعالیٰ نے ایک ظاہری جسم بھی رکھ دیا۔ یہی حال صدقہ و خیرات کا ہے۔ حقیقی طہارت اور پاکیزگی تو انسان کے خیالات کی ہے لیکن اس کے ساتھ خدا تعالیٰ نے مال کی پاکیزگی بھی ضروری قرار دے دی کیونکہ اس کے بغیر اسے جسم حاصل نہیں ہو سکتا۔ اگر خالی لوگوں کی خیر خواہی کا حکم دے دیا جاتا تو لوگ اس حکم کو بھول جاتے مگر اب چونکہ خدا تعالیٰ نے اس خیر خواہی کا یہ نشان رکھ دیا ہے کہ انسان غریبوں کو صدقہ و خیرات دے۔ اس لئے جب بھی وہ روپیہ دینے لگتا ہے اسے یہ حکم یاد آ جاتا ہے اور وہ سمجھ جاتا ہے کہ اصل حکم یہ ہے کہ مَیں سب کا خیر خواہ بنوں اور حتی المقدور انہیں فائدہ پہنچاوٴں۔ ورنہ انسان ان سے تو محبت کیا ہی کرتا ہے جن سے اس کے دوستانہ تعلقات ہوں۔ اسلام یہ ایک زائد حکم دیتا ہے کہ انسان ان سے بھی حسن سلوک کرے جن سے اسے کوئی فائدہ نہ پہنچا ہو بلکہ جن سے فائدہ پہنچنے کی کوئی امید بھی نہ ہو او ریہ نیکی قائم نہیں رہ سکتی تھی جب تک وہ صدقہ و خیرات نہ دے اور جب تک وہ عملاً غرباء اور مساکین سے حسن سلوک نہ کرے۔
پس غریبوں کی محبت کا خیال اور ان سے حسن سلوک کرنے کی تعلیم جو ہے اسے قائم رکھنے کے لئے خدا تعالیٰ نے صدقہ و خیرات کا حکم دے دیا۔ اب جو شخص سال بھر میں ایک دفعہ زکوٰة دیتا ہے یا وقتاً فوقتاً صدقہ و خیرات دیتا رہتا ہے اس کے دل میں تو غریبوں کی محبت رہ سکتی ہے مگر جو ایسا نہیں کرتا اس کا دل بھی غریبوں کی محبت سے خالی ہو جاتا ہے۔ اسی طرح خدا نے روحانیت کے جو جسم بنائے ہیں ان میں سے ایک جسم اخلاق ہیں۔ اخلاق روحانیت کا نام نہیں اور نہ روحانیت اخلاق کا نام ہے مگر اخلاق روحانیت کے لئے بمنزلہ جسم ضرور ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات انسان کو نظر نہیں آتی صرف اس کا حسن اس کی صفات پر غور کر کے نظر آ سکتا ہے۔ پس چونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات مخفی اور وراء الوراء ہے اس لئے اس نے اپنی محبت بندوں کی محبت اور ان کے ساتھ نیک تعلقات رکھنے سے وابستہ کر دی ہے۔ جب ان میں سے ایک چیز کو تم حاصل کر لو گے تو لازماً دوسری چیز بھی تمہیں حاصل ہو جائے گی۔ گویا یہ دونوں چیزیں لازم ملزوم ہیں۔ جسے براہِ راست خدا تعالیٰ کی محبت حاصل ہو گی وہ خدا تعالیٰ کی محبت اپنے دل میں پیدا ہونے کے بعد بندوں کی محبت سے اپنے دل کو لبریز پائے گا جیسے رسول کریم ﷺ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دَنَا فَتَدَلّٰى 1؂ یعنی ہمارا یہ رسول پہلے خدا کے قریب ہوٴا اور پھر نیچے اترا۔ گویا خدا کی محبت محمد ﷺ کو پہلے حاصل ہوئی اور پھر اس کے ساتھ ہی بنی نوع انسان کی محبت آپ کے دل میں ایسی پیدا ہوئی کہ آپ اس جذبہ کو برداشت نہ کر سکے اور ان کی ہدایت کی طرف متوجہ ہو گئے۔ مگر کچھ انسان ایسے ہوتے ہیں جنہیں پہلے بنی نوع انسان کی محبت حاصل ہوتی ہے اور پھر وہ خدا تعالیٰ کی محبت کی طرف لوٹتے ہیں۔ گویا روحانی کمال کے حصول کے دونوں ذریعے ہیں۔ کبھی خدا سے پہلے محبت ہوتی ہے اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کے دل میں بندوں کی محبت پیدا ہو جاتی ہے اورکبھی بندوں سے پہلے محبت ہوتی ہے اور خدا سے محبت اس کے بعد پیداہوتی ہے۔ محمد ﷺ کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پہلے ان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہوئی اور پھر بنی نوع انسان کی۔
یہ محبت وہبی ہوتی ہے مگر جن کو کسب سے محبت حاصل ہوتی ہے ان کے دل میں پہلے بنی نوع انسان سے محبت پیدا ہوتی ہے اور وہ ان کے لئے ہر قسم کی قربانی کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب ان کے تعلقات بنی نوع انسان سے کامل ہو جاتے ہیں تو خدا تعالیٰ سے بھی ان کا تعلق پیدا ہو جاتا ہے۔ پس خدا تعالیٰ کو پانے کے یہ دونوں ذرائع ہیں۔ کوئی خدا کو اس طرح پا لیتا ہے اور کوئی اس طرح۔ کوئی خدا سے مل کر بندوں کو پا لیتا ہے اور کوئی بندوں سے مل کر خدا کو پا لیتا ہے۔ جہاں وہب ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا فضل انسان کے شامل حال ہوتا ہے وہاں پہلے خدا کی محبت ملتی ہے اور پھر بندوں کی محبت دل میں پیدا ہوتی ہے اورجہاں کسب اور محنت کا دخل ہو وہاں پہلے بندوں کی محبت پیدا ہوتی ہے اورپھر خدا کی محبت۔ گویا ایک تو نیچے سے اوپر جاتا ہے اور دوسرا اوپر سے نیچے آتا ہے۔ تو ان اخلاق کا اپنے اندر پیدا کرنا دین کی حفاظت کے لئے نہایت ضروری ہوتا ہے۔ یہ اخلاق آگے کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ بعض براہ راست بنی نوع انسان سے تعلق رکھتے ہیں اور بعض بالواسطہ تعلق رکھتے ہیں۔ مثلاً غریب کی مدد کرنا یہ تو ہر شخص کو نظر آتا ہے کہ ایک ثواب کا کام ہے اور اس کا دوسروں کو فائدہ پہنچتا ہے مگر سچ کے متعلق انسان نہیں سمجھتا کہ اس کے بولنے سے بنی نوع انسان کا کیا فائدہ حاصل ہو گا۔ حالانکہ سچ بولنا بھی انہی نیکیوں میں سے ہے جن سے بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچتا ہے جو شخص سچ نہیں بولے گا وہ لازماً دوسرے کو دھوکا دے گا اور دھوکا ایک ایسی چیز ہے جس سے لوگوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ مثلاً ایک شخص کسی سے پوچھے کہ فلاں شخص قادیان میں ہے یا لاہور گیا ہوٴا ہے۔ اسے معلوم ہو کہ وہ لاہور گیا ہوا ہے مگر جھوٹ بول دے اور کہہ دے کہ قادیان میں ہی ہے تو اب دوسرا شخص اس سے ملنے کے لئے جائے گا فرض کرو اس کا مکان میل بھر دور ہے تو وہ ایک میل کا چکر کاٹ کر اس کے مکان پر پہنچے گا اورجب اس کے متعلق دریافت کرے گا تو گھر سے پتہ لگے گا کہ وہ توکل کا لاہور گیا ہوٴا ہے۔ اب خود ہی سوچو کہ اس نے جھوٹ بول کر ایک شخص کو کتنا نقصان پہنچایا یا فرض کرو ایک شخص مثلاً زید سے معاہدہ کیا ہوٴا تھا کہ تم لاہور چلو مَیں وہاں تم سے کل چل کر مل جاوٴں گا۔ اب جب کل آتا ہے اوروہ شخص ایک تیسرے شخص سے اس بارہ میں پوچھتا ہے کہ کیا وہ لاہور چلا گیا ہے؟ اور وہ جھوٹ بول کر کہتا ہے کہ نہیں تو لازماً یہ شخص بھی اب لاہور نہ جائے گا اور دوسرے شخص کے سامنے جھوٹا بنے گا اور اس دوسرے شخص کا سفر بھی ضائع جائے گا۔ تو بظاہر انسان یہ خیال کرتا ہے کہ سچ بولنے کا کسی دوسرے کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ حالانکہ اگر ایک شخص سچ بولتا ہے تو وہ سب کو آرام پہنچاتا ہے اور اگر ایک شخص جھوٹ بولتا ہے تو وہ سب کو تکلیف پہنچاتا ہے۔ اسی طرح محنت کرنا بھی انہی اخلاق میں سے ہے جن کا دوسروں کے ساتھ تعلق ہوتا ہے۔ بظاہر انسان سمجھتا ہے کہ میں کام کروں یا نہ کروں دوسروں کا اس کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ حالانکہ وہ مشین کا ایک پُرزہ ہوتا ہے اور اس کی خرابی کے ساتھ ساری مشین کی خرابی اور اس کی عمدگی کے ساتھ ساری مشین کی عمدگی وابستہ ہوتی ہے اگر یہ پُرزہ ناکارہ ہو گا تو مشین پر لازماً اثر پڑے گا۔ جیسے دو بیل ایک گاڑی میں جُتے ہوئے ہوں تو کیا ایک کہہ سکتا ہے کہ یہ امر میری مرضی پر منحصر ہے کہ مَیں چلوں یا نہ چلوں۔ وہ دونوں چلیں گے تو گاڑی چلے گی اور اگر ان میں سے کوئی ایک بھی رہ جائے گا تو گاڑی نہیں چل سکے گی۔ اسی طرح تمام بنی نوع انسان مشین کے پُرزے ہیں۔ ایک ملک کے رہنے والے اپنی حدود میں مشین کے پُرزے ہیں۔ اور ایک شہر کے رہنے والے ان پرزوں سے زیادہ قریب کے پُرزے ہیں۔ اگر ان میں سے ایک بھی صحیح طور پراپنے فرائض کو سر انجام نہیں دے گا اور محنت سے جی چرائے گا تو لازماً اس کا دوسروں پر بھی اثر پڑے گا۔ قادیان میں اس کی مثالیں کثرت سے ملتی رہتی ہیں۔ ایک شخص محنت نہیں کرتا اور نہ اپنے بیوی بچوں کے گزارہ کی کوئی صورت اختیار کرتا ہے لوگ اسے سمجھاتے ہیں کہ دیکھو مزدوری کرو، محنت کرو اور اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا انتظام کرو۔ مگر وہ کہتا ہے تم کو کیامَیں محنت کروں یا نہ کروں یہ میرا اختیار ہے تمہیں اس میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے؟ اب بظاہر یہ جواب صحیح معلوم ہوتا ہے مگر جب نتیجہ دیکھا جائے تو اس کی حقیقت معلوم ہو جاتی ہے اور وہ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تھوڑے ہی عرصہ کے بعد اس کے بیوی بچے کہتے پھرتے ہیں کہ ہم بھوکے مر گئے، ہمارا کوئی خیال کرے۔ اب ایک تو وہ غریب اور یتیم ہوتے ہیں جن کو کما کر کھلانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اور ایک یہ غریب ہوتے ہیں کہ ان کا کمانے والا موجود ہے مگر وہ کماتا نہیں اور محنت سے جی چراتا ہے۔ اگر وہ محنت سے کام کرتا اور خود کما کر بیوی بچوں کو کھلاتا تو صدقہ و خیرات کا ایک حصہ اس کے بیوی بچوں پر خرچ کرنے کی بجائے ان غرباء پر خرچ کیا جاتا جن کو کما کر کھلانے والا کوئی نہیں۔ اور حق بحقدار رسید پر عمل ہوتا ۔ لیکن اگر بعض گھروں میں کمانے والے تو موجود ہوں مگر وہ کما کر نہ لائیں تو نتیجہ یہ ہو گا کہ صدقہ و خیرات کی رقم بٹ جائے گی اور کچھ تو ان غرباء کو ملے گی جن کا کمانے والا کوئی نہیں اورکچھ ان کو ملے گی جن کے کمانے والے تو ہیں مگر وہ محنت نہیں کرتے اور اس طرح اصل مستحقین کی روٹی آدھی ہو جائے گی۔ آخر محلے والوں کے پاس کوئی جادو تو نہیں ہوتا کہ وہ جتنا روپیہ چاہیں دوسروں کو دے دیں وہ اپنے اخراجات میں سے تنگی برداشت کر کے کچھ روپیہ بچاتے اور غرباء کو دیتے ہیں مگر یہ نکمے لوگ غرباء کے حصہ کو کھا جاتے اور اپنی قوم اور اپنے محلہ والوں پر ایک بوجھ بنے رہتے ہیں۔ اگر اس قسم کے لوگوں کے بیوی بچے دوسروں سے کچھ مانگیں نہ اور یہ نہ کہیں کہ ہمیں کچھ دو ہم بھوکے مر رہے ہیں تو کم از کم یہ ضرور کہیں گے کہ ہمیں اتنا ادھار دے دو۔ جو لوگ شریف ہوتے ہیں وہ ان کو دے تو دیتے ہیں مگر دل میں یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ نہ ان لوگوں نے روپیہ کمانا ہے اورنہ ان سے ہمیں واپس ملنا ہے۔ اب دیکھ لو محنت نہ کرنے کا اثر قوم پر پڑا یا نہیں؟ پھر بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ بیوی بچوں کو قادیان میں چھوڑ کر آپ کہیں باہر بھاگ جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے بیوی بچے سلسلہ پر بار بن جاتے ہیں اور پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں کے پاس چِٹھیوں پر چِٹھیاں آنی شروع ہو جاتی ہیں کہ ہم بھوکے مر گئے ہمارا کوئی انتظام کیا جائے۔
اب بظاہر تو ایسا شخص جو بیوی بچوں کو قادیان میں بٹھا کر آپ کہیں غائب ہو جائے کہہ سکتا ہے کہ کسی کو مجھ پر اعتراض کرنے کا کیا حق ہے۔ بیوی بچے چھوڑے ہیں تو مَیں نے اور اگر بھوکے مریں گے تو میرے بیوی بچے مریں گے نہ کہ کسی اور کے۔ لیکن اگر یہی اصل قوم اختیار کر لے اور ان کی طرف توجہ نہ کرے توآیا تمام جماعت ایک ملامت کے نیچے آئے گی یا نہیں کہ فلاں فلاں آدمی بھوکے مر گئے اورجماعت نے ان کی طرف کوئی توجہ نہ کی۔ تو یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ لوگوں کا اس کے ساتھ کیا تعلق ہے ؟ ان کا تعلق ہے اور ضرور ہے کیونکہ اگر وہ ان کی خبر نہ لیں تو بدنام ہو جائیں۔
پس قوم ان کی خبرگیری کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ حالانکہ اگر ایسے لوگ خود محنت کریں اور مشقت کا کام کر کے اپنی روزی کمائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اور ان کے بیوی بچے قوم پر بار ثابت ہوں۔ پس محنت نہ کرنا بھی کسی کا ذاتی فعل نہیں بلکہ ایک قومی جرم ہے۔ اسی طرح گو آجکل یہ بات کسی قدر کم ہو گئی ہے مگر پہلے بالعموم مسلمان تاجر اور کارخانہ دار بھی ہندووٴں کو ملازم رکھتے تھے مسلمانوں کو نہیں۔ اور جب پوچھا جائے کہ مسلمانوں کو کیوں ملازم نہیں رکھتے تو ہمیشہ یہی جواب دیتے کہ کوئی مسلمان دیانتدار ملتا نہیں۔ حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔ مسلمانوں میں بھی بڑے بڑے دیانت دار لوگ پائے جاتے ہیں مگر جانتے ہو اس کی تہہ میں کیا بات ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب مسلمانوں کا ایک حصہ بددیانت ہو گیا تو اس نے باقیوں کو بھی بد دیانت مشہور کر دیا اورنتیجہ یہ ہوٴا کہ چند بد دیانت اور خائن مسلمانوں کی وجہ سے سب مسلمانوں کو نوکری ملنا مشکل ہو گئی۔ گویا ان بد دیانتوں نے صرف اپنا ہی رزق بند نہ کیا بلکہ دوسرے مسلمانوں کے رزق کوبھی بند کیا۔ لوگوں میں یہ عام رواج ہوتا ہے کہ جب انہیں کسی شخص سے نقصان پہنچتا ہے تو وہ اس کی تمام قوم کا نام لے کر کہتے ہیں کہ وہ سب قوم ایسی ہی ہے۔ ہم اپنے کاموں میں بھی دیکھتے ہیں کہ جہاں کسی احمدی سے کوئی غفلت ہوتی ہے ۔ سب لوگ یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ بس جی دیکھ لیا۔ احمدی ایسے ایسے ہوتے ہیں۔ بلکہ خود بعض دفعہ احمدی بھی اس قسم کے الفاظ اپنی زبان سے نکال دیتے ہیں۔ اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ ایسے مقامات میں بعض کارخانے دار اوروں کو ملازم رکھ لیتے ہیں مگر احمدیوں کو نہیں رکھتے اورکہتے ہیں کہ احمدی اچھے نہیں ہوتے۔ اب کوئی احمدی ایسا ہوٴا ہو گا جس نے اپنا برا نمونہ لوگوں کے سامنے پیش کیا ہو گا مگر اس ایک کی وجہ سے بدنام ساری قوم ہوئی۔ لیکن اگر اس میں محنت کی عادت ہوتی اگر وہ دیانت اور امانت کے ساتھ کام کرنے کا عادی ہوتا تو نہ صرف وہ اپنی روٹی کما سکتا بلکہ کئی دوسرے احمدیوں کی روٹی کا بھی انتظام ہوجاتا۔ کیونکہ لوگ کہتے یہ احمدی تھا جس نے بڑی دیانتداری سے کام کیا اب اور کاموں پر بھی ہم احمدیوں کو ہی مقرر کریں گے۔ تاکہ ہمارے کام خوش اسلوبی سے ہوتے رہیں۔ غرض اگر ایک آدمی اچھا کام کرتا ہے تو دوسرے کی روٹی کا دروازہ بھی کھل جاتا ہے اور اگر ایک آدمی فرائض کی ادائیگی میں غفلت اورکوتاہی سے کام لیتا ہے تو اور لوگوں کی روٹی بھی بند ہو جاتی ہے۔
تو اخلاق میں سے بعض بظاہر انسان کی اپنی ذات کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں لیکن درحقیقت ان کا تعلق تمام قوم کے ساتھ ہوتا ہے جیسے جھوٹ ہے یا سستی ہے یا غفلت ہے یا دھوکا اور فریب ہے۔ یہ ساری بدیاں ایسی ہیں کہ جن کے متعلق بظاہر انسان یہ سمجھتا ہے کہ ان کا صرف اس کی ذات کے ساتھ تعلق ہے حالانکہ وہ ویسے ہی قوم کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں جیسے ان کا تعلق اس کی ذات کے ساتھ ہوتا ہے اور اگر وہ ان اخلاق کی درستی نہ کرے تو تمام قوم کو نقصان پہنچتا ہے۔
مَیں دیکھتا ہوں کہ مسلمانوں میں اخلاق کی طرف بہت ہی کم توجہ ہے بلکہ ابھی تک احمدیوں نے بھی اخلاق کی اہمیت کو پوری طرح نہیں سمجھا۔ میرے سامنے اس وقت بچے بیٹھے ہیں جو تحریک جدید کے بورڈنگ میں رہتے ہیں۔ مَیں نے تحریک جدید کے مطالبات میں ایک شق اخلاق فاضلہ کی بھی رکھی ہوئی ہے۔ مگر مَیں نہیں سمجھتا کہ ان بچوں کے سپرنٹنڈنٹ اور اساتذہ وغیرہ اخلاق کی اہمیت کو ان پر پورے طور پر ظاہر کرتے ہوں۔ اس لئے کہ تحریک جدید کے بورڈنگ سے نکل کر جو طالب علم باہر گئے ہیں ان کے متعلق بھی کوئی زیادہ اچھی رپورٹیں نہیں آ رہیں۔ حالانکہ ان کے ماں باپ کی اپنے بچوں کو تحریک جدید کے بورڈنگ میں داخل کرنے کی اصل غرض یہ تھی کہ تعلیم کے علاوہ ان کی اعلیٰ تربیت ہو، ان میں محنت کی عادت ہوتی، ان میں اعلیٰ درجہ کی دیانت پائی جاتی، ان میں ہمدردی کا مادہ ہوتا، ان میں سچ کا مادہ ہوتا، ان میں قربانی اور ایثار کا مادہ ہوتا۔ اسی طرح وہ ہر کام کے کرتے وقت عقل سے کام لیتے اور وقت کی پابندی کرتے۔ اور یہ تمام باتیں ایسی ہیں کہ جب تک ان کو بار بار دہرایا نہ جائے اور جب تک بچوں کو ان باتوں پر عمل نہ کرایا جائے اس وقت تک وہ قوم اور دین کے لئے مفید ثابت نہیں ہو سکتے۔ یہ اخلاق ہی ہیں جو انسان کو کہیں کا کہیں پہنچا دیتے ہیں چنانچہ جن لوگوں کو محنت سے کام کرنے کی عادت ہوتی ہے وہ خواہ کسی ملک میں چلے جائیں انہیں کامیابی ہی کامیابی حاصل ہوتی چلی جاتی ہے۔ مگر جو سست ہوتے ہیں انہیں گھر بیٹھے بھی کوئی کام نظر نہیں آتا۔ مَیں نے دیکھا ہے بعض افسر سارا دن فارغ بیٹھے رہتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے محکمہ میں کوئی کام ہی نہیں۔ انہیں کبھی یہ سوچنے کی توفیق ہی نہیں ملتی کہ ہمارے سپرد جو کام ہوٴا ہے اس کی کیا کیا شاخیں ہیں اور کس طرح وہ اپنے کام کو زیادہ وسیع طور پر پھیلا سکتے اور اس کے شاندار نتائج پیدا کر سکتے ہیں؟ وہ صرف اتنا ہی کام جانتے ہیں کہ رجسٹروں اور کاغذات پر دستخط کئے اور فارغ ہو کر بیٹھ رہے لیکن اسی جگہ اور اسی دفتر میں جب کوئی کام کرنے والا افسر آتا ہے تو وہ اپنے کام کی ہزاروں شاخیں نکالتاچلا جاتا ہے اور اسے ہر وقت نظر آتا رہتا ہے کہ میرے سامنے یہ کام بھی ہے میرے سامنے وہ کام بھی ہے۔ یوروپین قوموں کو دیکھ لو یہ جہاں جاتی ہیں انہیں کام نظر آ جاتا ہے۔ ہندوستانی کہتے ہیں کہ ہم بھوکے مر گئے مگر یوروپین لوگوں کو ہندوستان میں بھی دولت نظر آ رہی ہے اور وہ اس دولت کو سمیٹتے چلے جاتے ہیں۔
اسی طرح سیلونی کہتے ہیں کہ ہم بھوکے مر گئے مگر انگریزوں کو سیلون میں بھی دولت دکھائی دیتی ہے۔ افغانی کہتے ہیں کہ ہم بھوکے مر گئے مگر انگریزوں کو افغانستان میں بھی دولت دکھائی دیتی ہے۔ پھر عرب جیسے سنگلاخ خطّہ اور اس کے جنگلوں میں بھی انگریزوں کو دولت دکھائی دیتی ہے۔ مصر جیسی وادی میں بھی انہیں دولت دکھائی دیتی ہے۔ چین جاتے ہیں تو وہاں دولت کمانے لگ جاتے ہیں مگر چینی کہتے ہیں کہ ہمیں کچھ نہیں ملتا۔ تو یہ انگریزوں کی نظر کی تیزی کا ثبوت ہے کہ وہ جہاں جاتے ہیں انہیں دولت دکھائی دینے لگ جاتی ہے اور یہ نظر کی تیزی اخلاق فاضلہ سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ اگرکسی قوم میں اخلاق فاضلہ پیدا ہو جائیں تو اس کے افراد کی نظر اسی طرح تیز ہو جاتی ہے۔
غرض قربانی اور ایثار کا مادہ ایسی چیز ہے جو انسان کی ہمت کو بڑھاتا ہے اور سچ بولنا ایک ایسا وصف ہے جو انسان کا اعتبار قائم کرتا ہے اور محنت کی عادت ایک ایسی چیز ہے جو کام کو وسعت دیتی ہے اور جب کسی شخص میں یہ اخلاقِ فاضلہ پیدا ہو جائیں تو ایسا آدمی ہر جگہ مفید کام کر سکتا اور ہر شعبہ میں ترقی حاصل کر سکتا ہے۔ پس میں تحریک جدید کے کارکنوں کو خصوصیت سے اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ یہ امر طالب علموں کے ذہن نشین کرتے رہیں کہ انہیں ہمیشہ سچائی سے کام لینا چاہئے اور محنت کی عادت اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے اور اس امر کو ان کے اتنا ذہن نشین کریں کہ یہ امر ان کے دل کی گہرائیوں میں اتر جائے کہ ان باتوں کو چھوڑنا ایسا ہی ہے جیسے طاعون میں گرفتار ہونا۔ آخر وجہ کیا ہے کہ ایک چور مل جاتا ہے تو وہ دوسرے کے دل میں چوری کی محبت پیدا کر دیتا ہے ۔ ایک جھوٹا اور کذّاب انسان مل جاتا ہے تو وہ دوسرے کو جھوٹ اور کذب بیانی کی عادت ڈال دیتا ہے ایک سست اور غافل انسان کسی دوسرے کے پاس رہتا ہے تو اسے بھی اپنی طرح سست اور غافل بنا دیتا ہے۔ اگر ان بدیوں کے مرتکب اثر پیدا کر لیتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ کارکنوں کے دلوں میں سوز اور گداز پیدا ہو جائے اور وہ اخلاق کی اہمیت کو سمجھ جائیں۔ تو بچوں میں سچ بولنے کی عادت پیدا نہ کر سکیں، ان میں محنت کی عادت پیدا نہ کر سکیں اور کیوں بچّے ان اخلاق فاضلہ سے دوری کو ایک عذاب نہ سمجھنے لگیں۔ اگر متواتر طالب علموں کو بتایا جائے کہ جھوٹ بولنا ایک عذاب ہے اور ایسا ہی ہے جیسے طاعون یا ہیضہ میں مبتلا ہو جانا۔ اگر متواتر طالب علموں کو بتایا جائے کہ سستی اور غفلت ایک عذاب ہے اور ایسا ہی ہے جیسے طاعون یا ہیضہ میں گرفتار ہونا یا بھڑکتی ہوئی آگ میں گر جانا۔ اسی طرح تمام اخلاقِ فاضلہ ان کے ذہن نشین کرائے جائیں تو کیا وجہ ہے کہ ان میں بیداری پیدا نہ ہو اور وہ صحیح اسلامی اخلاق کا نمونہ نہ بنیں۔ مگر اس کے لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ طالب علموں کے سامنے متواتر لیکچر دئیے جائیں اور انہیں بتایا جائے کہ جھوٹ کیا ہوتا ہے؟ سچ کیا ہوتا ہے؟ سچ بولنے کے کیا فوائد ہیں؟ اور جھوٹ بولنے کے کیا نقصانات ہیں؟ میرے نزدیک سو میں سے نوّے انسان یہ سمجھتے ہی نہیں کہ سچ کیا ہوتا ہے۔ یہ ایک عام قاعدہ ہے کہ جتنا زیادہ کسی بات کودُہرایا جائے اتنا ہی لوگ اس کو کم سمجھتے ہیں۔ تم کسی شخص سے پوچھو حتّٰی کہ کسی گاوٴں کے رہنے والے شخص سے بھی دریافت کرو کہ سنیما کیا ہوتا ہے تو وہ ضرور اس کی کچھ نہ کچھ تشریح کر دے گا۔ لیکن اگر تم اس سے پوچھو کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کی کیا تشریح ہے یا اسلام کو تم نے کیوں مانا ہے تو وہ ہنس کر کہہ دے گاکہ یہ باتیں مولویوں سے دریافت کریں۔ آخر یہ فرق کیوں ہے؟ اور کیوں وہ سنیما کی تشریح تو کسی قدر کر سکتا ہے مگر یہ نہیں بتا سکتا کہ اس نے اسلام کو کیوں قبول کیا۔ اسی لئے کہ وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کو ہر وقت رٹتا رہتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ مجھے اس کے سمجھنے کی ضرورت نہیں مگر سنیما کا لفظ وہ کبھی کبھی سنتا ہے اور اس لئے لوگوں سے پوچھ لیتاہے کہ یہ سنیما کیا چیز ہے۔ مگر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کو چونکہ اس نے بچپن سے سنا ہوتا ہے اس لئے وہ خیال کر لیتا ہے کہ مجھے اس کے متعلق کسی سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ تم میں سے کسی کے بچہ نے اگر ریل کو نہیں دیکھا اورکسی دن تم اسے ریل دکھانے کے لئے لے جاوٴ تو وہ جاتے ہی تم پر سوالات کی بوچھاڑ کر دے گا۔ اگر پنجابی ہو گا تو اپنے باپ سے کہے گا کہ باپو ایہہ کس طرح چلدی ہے؟ کبھی کہے گا کہ کیا یہ دھوئیں کے ساتھ چلتی ہے اور کبھی یہی خیال کرنے لگ جائے گاکہ اس کے اندر کوئی جنّ بیٹھا ہے جو اسے حرکت میں لاتا ہے۔ غرض وہ تھوڑے سے وقت میں تم سے بیسیوں سوالات کر دے گا لیکن کیا اس نے کبھی تم سے یہ پوچھا کہ سورج کیوں بنا ہے؟ اس کی روشنی کہاں سے آتی ہے؟ اس کے اندر گرمی کس طرح پیدا ہوتی ہے؟ اور اس کی روشنی اور گرمی ختم کیوں نہیں ہو جاتی؟ وہ کبھی تم سے یہ سوالات نہیں کرے گا لیکن انجن کے متعلق تم سے بیسیوں سوالات کر دے گا اس لئے کہ انجن اس نے ایک نئی چیز کے طور پر دیکھا ہے اور سورج کو اپنی پیدائش سے ہی وہ دیکھتا چلا آیا ہے۔ اور وہ سمجھتا ہے کہ مجھے اس کے متعلق کچھ پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں۔ پس جتنی زیادہ کوئی چیز کسی انسان کے سامنے آتی ہے اتنا ہی وہ اس کی حقیقت اور ماہیت سے ناواقف ہوتا ہے۔ یہ ایک قانون ہے کہ جو فطرت انسانی میں داخل ہے کہ جو چیز کبھی کبھار سامنے آئے گی اس کے متعلق وہ سوالات کی بوچھاڑ کر دے گا اور جو بار بار سامنے آتی رہے گی اس کے متعلق وہ کبھی کوئی سوال نہیں کرے گا۔ کیونکہ بار بار سامنے آنے سے دریافت کرنے کی حس ہی ماری جاتی ہے اور انسان یہ خیال کرنے لگ جاتا ہے کہ مجھے اس کا علم ہے حالانکہ اسے علم نہیں ہوتا۔ چنانچہ تم کسی سے پوچھ کر دیکھ لو کہ سچ کیوں بولنا چاہئے۔ وہ کبھی تم کو اس سوال کا صحیح جواب نہیں دے سکے گا۔ تم اپنے محلہ میں ہی کسی دن لوگوں سے دریافت کر کے معلوم کر سکتے ہو کہ آیا وہ اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں یا نہیں۔ جب تم کسی سے پوچھو گے کہ سچ بولنا چاہئے یا نہیں تو وہ کہے گا کہ ضرور سچ بولنا چاہئے مگر جب پوچھا جائے کہ سچ کیوں بولنا چاہئے تو وہ ہنس کر کہہ دے گا کہ یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ سچ کا لفظ بار بار سن کر لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہو گیا ہے کہ یہ چیز کسی دلیل کی محتاج نہیں۔ حالانکہ یہ بھی ویسی ہی دلیل کی محتاج ہے جیسے اور باتیں دلیل کی محتاج ہیں۔ تو لوگ سچ کی تعریف سے بھی واقف نہیں ہوتے، وہ سچ کی ضرورت سے بھی واقف نہیں ہوتے، وہ سچ کے فوائد سے بھی واقف نہیں ہوتے، وہ سچ کو چھوڑنے اور جھوٹ بولنے کے نقصانات سے بھی واقف نہیں ہوتے۔ مگر جب ان سے سچ کے بارے میں کچھ پوچھا جائے تو وہ کہہ دیں گے کہ یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے۔
میرے پاس کئی لوگ آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ احمدیت کی صداقت کا کیا ثبوت ہے۔ مَیں نے حضرت خلیفہ اول کو دیکھا کہ آپ سے جب بھی کوئی شخص یہ سوال کرتا آپ ہمیشہ اسے یہ جواب دیا کرتے کہ تم نے دنیا میں کسی سچائی کو قبول کیا ہوٴا ہے یا نہیں؟ اگر کیا ہوٴا ہے تو جس دلیل کی بناء پر تم نے اس سچائی کو قبول کیا ہے وہی دلیل احمدیت کی صداقت کا ثبوت ہے۔ اس کے جواب میں پوچھنے والا بسا اوقات یا تو ہنس کر خاموش ہو جاتا یا جو دلیل پیش کرتا اسی سے آپ اس کے سامنے احمدیت کی صداقت پیش فرما دیتے۔ میرا بھی یہی طریق ہے اور مَیں نے اپنے تجربہ میں اسے بہت مفید پایا ہے۔ چنانچہ مجھ سے بھی جب کوئی شخص یہ سوال کرتا ہے کہ احمدیت کی صداقت کا کیا ثبوت ہے۔ تو میں اسے یہی کہا کرتا ہوں کہ تم پہلے یہ بتاوٴ کہ تم محمد ﷺ کو کیوں مانتے ہو اورکن دلائل سے آپ کی صداقت کے قائل ہو۔ جو دلائل رسول کریم ﷺ کی صداقت کے تمہارے پاس ہیں وہی دلائل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مَیں پیش کرنے کے لئے تیار ہوں۔ اس کے جواب میں کئی لوگ تو خاموش ہی ہو جاتے ہیں اور کئی یہ کہہ دیتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کی صداقت کے دلائل ہم کیا بتائیں وہ تو ظاہر ہی ہیں۔ پھر جب ان کے اس جواب پر جرح کی جاتی ہے تو صاف کھل جاتا ہے کہ انہیں پتہ ہی نہیں کہ وہ رسول کریم ﷺ کو کیوں سچاسمجھتے ہیں۔ میرے پاس آج تک اس قسم کے جتنے لوگ آئے ہیں ان میں سے نوّے فیصدی کا میں نے یہی حال دیکھا ہے۔ سو میں سے دو چار ایسے بھی ہوئے ہیں جنہوں نے کوئی جواب دیا ہے مگر ان کا وہ جواب بھی بہت ہی ادھورا تھا۔ مثلاً یہی کہہ دیتے ہیں کہ چونکہ رسول کریم ﷺ کی پیشگوئیاں پوری ہوئیں اس لئے ہم آپ کو سچا سمجھتے ہیں اور اس طرح وہ خود ہی قابو میں آجاتے ہیں کیونکہ ہم کہہ دیتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بھی بہت سی پیشگوئیاں پوری ہو چکی ہیں۔ تو جو سچائی ہر وقت انسان کے سامنے رہتی ہے اسے وہ کریدنے کا عادی نہیں ہوتا اور نہ اس کے دلائل اسے معلوم ہوتے ہیں۔ اس لئے یہ کہنا کہ سچائی وغیرہ کے بارہ میں کسی کو سمجھانے کی کیا ضرورت ہے یہ عام باتیں ہیں جو تمام لوگ جانتے ہی ہیں بہت بڑی غفلت ہے۔ کیونکہ جو چیزیں زیادہ سامنے آتی ہیں وہی اس بات کا حق رکھتی ہیں کہ ان کے متعلق بار بار سمجھایا جائے اور بار بار ان کے دلائل بیان کئے جائیں ۔ کیونکہ لوگ بار بار سامنے آنے والی چیزوں کے متعلق سوال نہیں کیا کرتے۔ بلکہ وہ غیر معروف چیزوں کے متعلق زیادہ سوال کیا کرتے ہیں۔ قادیان میں قرآن کریم کا درس تو اکثر ہوتا ہی رہتا ہے تم غور کر کے دیکھ لو کہ وہ لوگ جو رسول کریم ﷺ کے متعلق سوالات کرنے والے ہوں وہ بہت ہی تھوڑے ہوتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق اس سے زیادہ سوال کرتے ہیں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزوں کا ذکر آ جائے تو اور زیادہ سوالات کرتے ہیں لیکن جب آدم کا قصہ آ جائے تو بے تحاشہ سوالات کرنے لگ جاتے ہیں۔ اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا دل میں بے اختیار گدگدیاں ہونی شروع ہو گئی ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ آدم کا واقعہ بہت دور کا ہے اور محمد ﷺ کے معجزات کا بار بار ذکر سن کر اعتراض کا خیال دل میں پیدا نہیں ہوتا۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ ان باتوں کے دلائل موجود نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو دلائل سے ناواقفیت ہے اور اس کی وجہ کسی بات کا بار بار سامنے آتے رہنا ہے۔ لوگ اس چیز کے بار بار سامنے آنے کی وجہ سے دلائل پر غور نہیں کرتے اور اس کی حقیقت معلوم کرنے سے غافل رہتے ہیں۔ پس تم مت خیال کروکہ جب تم کہتے ہو کہ سچ بولنا چاہئے تو تمہارا بچہ بھی جانتا ہے کہ سچ کیوں بولنا چاہئے۔ وہ اس بات کو ہرگز نہیں جانتا کہ سچ کیوں بولناچاہئے۔ بلکہ تم مجھے یہ کہنے میں معاف کرو کہ تم جو کہتے ہو کہ ہمارا بچہ جانتا ہے کہ اسے سچ کیوں بولنا چاہئے تم خود بھی نہیں جانتے کہ سچ کیوں بولنا چاہئے۔ اسی طرح تم میں سے وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے بچوں کو یہ کہنے کی کیا ضرورت ہے کہ وہ محنت کریں۔ یہ بات تو سب جانتے ہیں وہ مجھے یہ کہنے میں معاف کریں کہ ان کے بچے تو کیا وہ خود بھی نہیں جانتے کہ محنت کس قدر ضروری چیز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان چیزوں کے متعلق بہت زیادہ زور دینے، بار بار توجہ دلانے اور زیادہ سے زیادہ ان کی اہمیت لوگوں کے ذہن نشین کرانے کی ضرورت ہے۔
ماں باپ کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کے کانوں میں بار بار یہ باتیں ڈالیں۔ اسی طرح اساتذہ کا فرض ہے کہ وہ طالب علموں کے دماغوں میں ان چیزوں کو راسخ کر دیں۔ اور ان باتوں کی کُرید، تلاش اورجستجو کا مادہ ان میں پیدا کریں۔ کیونکہ لوگ سچائی کو نہیں جانتے کہ وہ کیا چیز ہوتی ہے۔ وہ صرف سچ کا لفظ جاننا ہی کافی سمجھ لیتے ہیں۔ اسی طرح وہ نہیں جانتے کہ محنت کتنی ضروری چیز ہے۔ بلکہ وہ صرف محنت کے لفظ کو رَٹ لینا اپنے لئے اور اپنے بچوں کے لئے کافی سمجھتے ہیں۔ اسی طرح لوگ جھوٹ سے بچنے کے الفاظ تو سنتے ہیں مگر جانتے نہیں کہ جھوٹ کیا ہوتا ہے۔ اسی طرح انہوں نے بنی نوع انسان کی محبت اور خیر خواہی کے الفاظ سنے ہوئے ہوتے ہیں مگر جانتے نہیں کہ محبت اور خیر خواہی کیا ہوتی ہے۔ اسی طرح انہوں نے غیبت کا لفظ سنا ہوٴا ہوتا ہے مگر جانتے نہیں کہ غیبت کیا ہوتی ہے۔ یہ نہیں کہ ہماری شریعت میں ان چیزوں کا حل موجود نہیں۔ حل موجود ہے قرآن کریم نے ان امور کی وضاحت کر دی ہے۔ احادیث میں رسول کریم ﷺ نے تمام باتوں کو کھول کر بیان کر دیا ہے۔ مگر لوگ ہیں کہ ان باتوں کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے۔ حدیثوں میں آتا ہے ایک دفعہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ غیبت نہیں کرنی چاہئے اس پر ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ! اگر مَیں اپنے بھائی کا وہ عیب بیان کروں جو اس میں فی الواقع موجود ہو تو آیا یہ بھی غیبت ہے؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا غیبت اسی کا تو نام ہے کہ تم اپنے بھائی کا اس کی عدم موجودگی میں کوئی ایسا عیب بیان کرو جو فِی الواقع اس میں پایا جاتا ہے۔ اور اگر تم کوئی ایسی بات کہو جو اس میں نہ پائی جاتی ہوتو یہ غیبت نہیں بلکہ بُہتان ہو گا۔2 اب دیکھو رسول کریم ﷺ نے اس مسئلہ کو حل کر دیا اور بتا دیا کہ غیبت اس بات کا نام نہیں کہ تم کسی کا وہ عیب بیان کرو جو اس میں پایا ہی نہ جاتا ہو۔ اگر تم ایسا کرو تو تم مفتری ہو، تم جھوٹے ہو، تم کذاب ہو۔ مگر تم غیبت کرنے والے نہیں۔ غیبت یہ ہے کہ تم اپنے کسی بھائی کا کوئی سچا عیب اس کی عدم موجودگی میں بیان کرو۔ یہ بھی منع ہے اور اسلام نے اس سے سختی کے ساتھ روکا ہے۔ مگر باوجود اس کے کہ محمد ﷺ نے اس بات کو ساڑھے تیرہ سو سال سے حل کر دیا ہے اور قرآن میں اس کا ذکر موجود ہے۔ اگر اب بھی کوئی غیبت کر رہا ہو اور اسے کہا جائے کہ تم غیبت مت کرو تو وہ جھٹ کہہ دے گا کہ میں غیبت تو نہیں کر رہا میں تو بالکل سچا واقعہ بیان کر رہا ہوں۔ حالانکہ ساڑھے تیرہ سو سال گزرے رسول کریم ﷺ یہ فیصلہ سنا چکے اور عَلَی الْاِعْلَان اس کا اظہار فرما چکے ہیں۔ مگر اب بھی اگر کسی کو روکو تو وہ کہہ دے گا کہ یہ غیبت نہیں یہ تو بالکل سچی بات ہے حالانکہ کسی کا اس کی عدم موجودگی میں سچا عیب بیان کرنا ہی غیبت ہے اور اگر وہ جھوٹ ہے تو تم غیبت کرنے والے نہیں بلکہ مفتری اور کذّاب ہو۔
یہ چیزیں ہیں جن کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے مگر بوجہ اس کے کہ بار بار ان کے الفاظ کانوں میں پڑتے رہتے ہیں لوگ حقیقت معلوم کرنے کی جستجو نہیں کرتے۔ پس ان باتوں پر بار بار زور دو اوراس امر کو اچھی طرح سمجھ لو کہ جب تک یہ جسم مکمل نہیں ہو گا اس وقت تک مذہب کی روح بھی قائم نہیں رہ سکتی۔ گویا ایمان ایک روح ہے اور اخلاق فاضلہ اس روح کا جسم ہیں۔ پس میں تحریک جدید کے تمام کارکنوں اور خدام الاحمدیہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ نوجوانوں میں ان باتوں کو پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ سپرنٹنڈنٹ کو چاہئے کہ وہ بچوں کے کانوں میں یہ باتیں بار بار ڈالیں اور ماں باپ کو چاہئے کہ وہ اپنی اولاد کو ان باتوں پر پختگی کے ساتھ قائم کریں اور کوشش کریں کہ ان میں جھوٹ کی عادت نہ ہو، غیبت کی عادت نہ ہو، چغل خوری کی عادت نہ ہو، ظلم کی عادت نہ ہو، دھوکا اور فریب کی عادت نہ ہو۔ غرض جس قدر اخلاق ہیں وہ ان میں پید اہو جائیں اور جس قدر بدیاں ہیں ان سے وہ بچ جائیں تاکہ وہ قوم کا ایک مفید جسم بن سکیں۔ اگر ان میں یہ بات نہیں تو وفات مسیحؑ پر لیکچر دینا یا مُنہ سے احمدیت زندہ باد کے نعرے لگاتے رہنا کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا کیونکہ کوئی روح بغیر جسم کے نہیں رہ سکتی اور کوئی جسم بغیر روح کے مفید کام نہیں کر سکتا۔ جسم کی مثال ایک پیالے کی سی ہے اور روح کی مثال دودھ کی سی۔ جس طرح دودھ بغیر پیالہ کے زمین پر گر جاتا ہے اسی طرح اگر اخلاق فاضلہ کا جسم تیار نہیں ہو گا تو تمہارے لیکچر اور تمہاری تمام تقریریں زمین پر گر کر مٹی میں دھنس جائیں گی لیکن اگر اخلاق فاضلہ کا پیالہ تم ان کے دلوں میں رکھ دو گے تو پھر وعظ بھی انہیں فائدہ دے گا اور تقریریں بھی ان میں نیک تغیّر پیدا کر دیں گی۔’’ (الفضل 14 مارچ 1941ء)
1 النجم: 9
2 ترمذی اَبْوَابُ الْبِرِّ وَ الصِّلَةِ باب مَا جَاءَ فِی الْغِیْبَةِ

8
حقیقی کامیابی رسول کریم ﷺ کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری میں ہے
(فرمودہ 7 مارچ 1941ء)

تشہّد، تعوّذ اور سورہٴ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘ مَیں نے بہت دفعہ جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ مذہب ایک ایسی چیز ہے جو صرف اقرار کے ساتھ ہی مکمل نہیں ہو جاتی بلکہ وہ اپنے ساتھ کئی شرائط رکھتی ہے اور جب تک ان تمام شرائط کو مدنظر نہ رکھا جائے اُس وقت تک مذہب سے پورا فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔
مَیں نے کئی دفعہ مثال دی ہے کہ تم ایک مکان کی تین دیواریں بنا کر محفوظ نہیں رہ سکتے۔ اگر تین دیواریں بناوٴ گے تو چوتھی طرف سے ہوا بھی آئے گی ،دھوپ بھی آئے گی، بارش بھی آئے گی۔ اسی طرح چور بھی آ سکتا ہے اور دشمن بھی اس طرف سے حملہ کر سکتا ہے۔ غرض وہ سب چیزیں جن سے بچنے کے لئے مکان بنایا جاتا ہے اس چوتھی دیوار کے نہ ہونے کی وجہ سے آجائیں گی اور تین دیواریں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکیں گی صحابہ کرامؓ کی ترقی کی وجہ یہی تھی کہ انہوں نے اس راز کو سمجھ لیا تھا اور وہ رسول کریم ﷺ کی چھوٹی سے چھوٹی بات کو بھی بڑا سمجھتے تھے۔ مگر آجکل لوگوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ بڑی باتوں کو بھی چھوٹا قرار دے دیں۔ بہت سے لوگ دین کے احکام کو ایک چٹّی خیال کر لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس سے بھی بچ جائیں اس سے بھی بچ جائیں۔ مگر صحابہؓ کی یہ حالت ہوٴا کرتی تھی کہ وہ چاہتے تھے ہم کو یہ بھی مل جائے ہم کو وہ بھی مل جائے، ہم اس حکم کی بھی فرمانبرداری کریں اورہم اس کی بھی فرمانبرداری کریں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بہت جلد ترقی کر گئے اور بعد میں آنے والے ویسی ترقی حاصل نہ کر سکے کیونکہ رسول کریم ﷺ کے پُرحکمت کلام کی قدر ان کے دلوں میں نہ رہی۔ اگر ان کے دلوں میں بھی رسول کریم ﷺ کے احکام کی وہی قدر ہوتی جو صحابہؓ کے دلوں میں تھی تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ صحابہؓ سے پیچھے رہتے۔ صحابہؓ رسول کریم ﷺ کے بتائے ہوئے امور پر چلنے کے لئے ایسے مشتاق تھے کہ معلوم ہوتا ہے وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ ہماری ساری نجات رسول کریم ﷺ کی فرمانبرداری میں ہے۔
حدیثوں میں ایک واقعہ آتا ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ ان میں کس قدر فرمانبرداری کی روح پائی جاتی تھی بظاہر وہ ایک ایسی بات ہے جسے سن کر کوئی انسان کہہ سکتا ہے کہ یہ کیسی بے وقوفی کی بات ہے لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے ان کی ترقی کا راز اسی میں مضمر تھا کہ وہ رسول کریم ﷺ کی زبان سے جب کوئی حکم سنتے تو اسی وقت اس پر عمل کرنے کے لئے آمادہ ہو جاتے۔
احادیث میں آتا ہے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کی مجلس کی طرف آ رہے تھے۔ آپ ابھی گلی میں ہی تھے کہ آپ کے کانوں میں رسول کریم ﷺ کی یہ آواز آئی کہ ”بیٹھ جاوٴ“ معلوم ہوتا ہے ہجوم زیادہ ہو گا اور کچھ لوگ کناروں پر کھڑے ہوں گے۔ رسول کریم ﷺ نے انہیں فرمایا۔ ‘‘بیٹھ جاوٴ’’ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ جو ابھی مجلس میں نہیں پہنچے تھے اور گلی میں آ رہے تھے۔ جب انہوں نے رسول کریم ﷺ کی یہ آواز سنی تو وہ وہیں بیٹھ گئے1 اور بیٹھے بیٹھے جیسے بچے چلتے ہیں، گھسٹ گھسٹ کر مسجد میں پہنچے۔ کسی شخص نے جو اس راز کو نہیں سمجھتا تھا کہ اطاعت اور فرمانبرداری کی روح دنیا میں قوموں کو کس طرح کامیاب کیا کرتی ہے جب حضرت عبد اللہ بن مسعود کو اس طرح چلتے دیکھا تو اس نے اعتراض کیا اورکہا کہ یہ کیسی بے وقوفی کی بات ہے۔ رسول کریم ﷺ کا مطلب تو یہ تھا کہ مسجد میں جو لوگ کناروں پر کھڑے ہیں وہ بیٹھ جائیں مگر آپ گلی میں ہی بیٹھ گئے اور گھسٹتے ہوئے مسجد میں آئے۔ آپ کو چاہئے تھا کہ آپ جب مسجد میں پہنچ جاتے تو اس وقت بیٹھتے گلی میں ہی بیٹھ جانے کا کیا فائدہ تھا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے جواب دیا۔ ہاں یہ ہو تو سکتا تھا لیکن اگر مسجد میں پہنچنے سے پہلے ہی میں مر جاتا تو رسول کریم ﷺ کا یہ حکم میرے عمل میں نہ آتا اور کم سے کم ایک بات ایسی ضرور رہ جاتی جس پر میں نے عمل نہ کیا ہوتا۔ اس لئے میں نے مناسب نہ سمجھا کہ میں چلتا ہوٴا آوٴں اور پھر مسجد میں آ کر بیٹھوں۔ میں نے خیال کیا کہ زندگی کا کیا اعتبار ہے شاید میں مسجد میں پہنچوں یا نہ پہنچوں اس لئے ابھی بیٹھ جانا چاہئے تاکہ اس حکم پر بھی عمل ہو جائے۔
انہی عبد اللہ بن مسعودؓ کا واقعہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہٴ خلافت میں ایک دفعہ حج کے ایام میں مکہ مکرمہ میں چار رکعتیں پڑھیں۔ رسول کریم ﷺجب حج کے لئے تشریف لائے تھے تو آپ نے وہاں دو رکعتیں پڑھیں تھیں کیونکہ مسافر کو دو رکعت نماز پڑھنے کا ہی حکم ہے۔ پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنے زمانہٴ خلافت میں تشریف لائے تو آپ نے بھی دو ہی پڑھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حج کے لئے تشریف لائے تو انہوں نے بھی دو ہی پڑھی تھیں۔ مگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے چار رکعتیں پڑھا دیں۔ اس پر لوگوں میں ایک شور برپا ہو گیا اور انہوں نے کہا کہ عثمانؓ نے رسول کریم ﷺ کی سنت کو بدل دیا ہے۔ چنانچہ حضرت عثمانؓ کے پاس لوگ آئے اور انہوں نے دریافت کیا کہ آپ نے چار رکعتیں کیوں پڑھی ہیں؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا بات یہ ہے کہ میں نے ایک اجتہاد کیا ہے اور وہ یہ کہ اب دور دور کے لوگ مسلمان ہو گئے ہیں اوران میں سے اکثر کو اب اسلامی مسائل اتنے معلوم نہیں جتنے پہلے لوگوں کو معلوم ہوٴا کرتے تھے۔ اب وہ صرف ہمارے افعال کو دیکھتے ہیں اور جس رنگ میں وہ ہمیں کوئی کام کرتے دیکھتے ہیں اسی رنگ میں خود کرنے لگ جاتے ہیں اورکہتے ہیں کہ یہی اسلام کا حکم ہے۔ یہ لوگ چونکہ مدینہ میں بہت کم جاتے ہیں اور انہیں وہاں رہ کر ہماری نمازیں دیکھنے کا موقع نہیں ملتا اس لئے میں نے خیال کیا کہ اب حج کے موقع پر اگر انہوں نے مجھے دو رکعت نماز پڑھاتے دیکھا تو اپنے اپنے علاقوں میں جاتے ہی کہنے لگ جائیں گے کہ خلیفہ کو ہم نے دو رکعت نماز پڑھاتے دیکھا ہے۔ اس لئے اسلام کا اصل حکم یہی ہے کہ دو رکعت نماز پڑھی جائے اورلوگ چونکہ اس بات سے ناواقف ہوں گے کہ یہ دو رکعت نماز سفر کی وجہ سے پڑھی گئی ہے اس لئے اسلام میں اختلاف پیدا ہو جائے گا اورلوگوں کو ٹھوکر لگے گی۔ پس میں نے مناسب سمجھا کہ چار رکعت نماز پڑھا دوں تاکہ نماز کی چار رکعتیں انہیں بھولیں نہیں۔ باقی رہا یہ کہ میرے لئے چار رکعت پڑھانا جائز کس طرح ہو گیا سو اس کا جواب یہ ہے کہ میں نے یہاں شادی کی ہوئی ہے اور چونکہ بیوی کا وطن بھی اپنا وطن ہی ہوتا ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ میں مسافر نہیں ہوں اور مجھے پوری نماز پڑھنی چاہئے۔ غرض حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے چار رکعت نماز پڑھانے کی یہ وجہ بیان فرمائی اور اس توجیہہ کا مقصد آپ نے یہ بتایا کہ باہر کے لوگوں کو دھوکا نہ لگے اور وہ اسلام کی صحیح تعلیم کو سمجھنے میں ٹھوکر نہ کھائیں۔ ان کی یہ بات بھی بڑی لطیف تھی اورجب صحابہ نے سنی تو اکثر سمجھ گئے اور بعض نہ سمجھے مگر خاموش رہے۔ مگر دوسرے لوگوں نے شور مچا دیا اور کہنا شروع کر دیا کہ حضرت عثمانؓ نے رسول کریم ﷺ کی سنت کے خلاف عمل کیا ہے۔ چنانچہ انہی میں سے کچھ لوگ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے پاس بھی پہنچے اور کہنے لگے آپ نے دیکھا کہ آج کیا ہوٴا۔ رسول کریم ﷺ کیا کیا کرتے تھے اور عثمانؓ نے آج کیا کیا۔ رسول کریم ﷺ تو حج کے دنوں میں مکہ آکر صرف دو رکعتیں پڑھایا کرتے تھے مگر حضرت عثمانؓ نے چار رکعتیں پڑھائیں۔ انہوں نے کہا دیکھو ہمارا یہ کام نہیں کہ ہم فتنہ اٹھائیں کیونکہ خلیفہٴ وقت نے کسی حکمت کے ماتحت ہی ایسا کام کیا ہو گا۔ پس تم فتنہ نہ اٹھاوٴ۔ میں نے بھی ان کی اقتداء میں چار رکعتیں ہی پڑھی ہیں۔ مگر نماز کے بعد میں نے ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ لی تھی کہ خدایا تو ان چار رکعتوں میں سے میری وہی دو رکعتیں قبول فرمانا جو رسول کریم ﷺ کے ساتھ ہم پڑھا کرتے تھے اور باقی دو رکعتوں کو میری نماز نہ سمجھنا۔
یہ کیسا عشق کا رنگ ہے جو حضرت عبد اللہ بن مسعود میں پایا جاتا تھا کہ انہوں نے چار رکعتیں پڑھ تو لیں مگر انہیں وہ ثواب بھی پسند نہ آیا جو محمد ﷺ کی پڑھی ہوئی دو رکعتوں سے زیادہ تھا اور دعا مانگی کہ الٰہی دو رکعتیں ہی قبول فرمانا چار نہ قبول کرنا۔ اورپھر خلافت کی اطاعت کا بھی اس میں کیسا عمدہ نمونہ پایا جاتا ہے۔ ان کو معلوم نہ تھا کہ حضرت عثمانؓ نے کس وجہ سے دو کی بجائے چار رکعتیں پڑھائی ہیں۔ حالانکہ یہ وجہ ایسی ہے جسے بہت سے لوگ صحیح قرار دیتے ہیں۔ وہ بیوی کے گھر جاتے ہیں تو اسے سفر نہیں سمجھتے، بیٹے کے گھر جاتے ہیں تو اسے سفر نہیں سمجھتے ماں باپ کے گھر جاتے ہیں تو اسے سفر نہیں سمجھتے۔ پس یہ مسئلہ ٹھیک تھا اور پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی یہ احتیاط کہ باہر کے لوگوں کو دھوکا نہ لگے اور اسلام میں کوئی رخنہ نہ پڑ جائے ان کے اعلیٰ درجہ کے تقویٰ کا ثبوت ہے۔ مگر حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کو اس وقت تک اس حکمت کا علم نہیں تھا لیکن انہوں نے یہ نہیں کیا کہ نماز چھوڑ دی ہو بلکہ انہوں نے نماز بھی پڑھ لی اور خلافت کی اطاعت بھی کر لی اور بعد میں خداتعالیٰ کے حضور عرض کر دیا کہ یا اللہ میری دو رکعتیں ہی قبول ہوں چار نہ ہوں۔ یہ کیسی فرمانبرداری اور رسول کریم ﷺ کے قدم بقدم چلنے کی روح تھی جو اُن میں پائی جاتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ باوجود اس بات کے کہ صحابہ بالکل اَن پڑھ تھے (سارے مکہ میں کل سات آدمی پڑھے لکھے تھے) ساری دنیا پر چھا گئے۔ لیکن اب ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص بی۔ اے ہوتا ہے، ایم۔ اے ہوتا ہے، مولوی فاضل ہوتا ہے اور وہ سب دنیا کے علوم کو کھنگال ڈالتا ہے مگر قوت عملیہ اس میں بالکل مفقود ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ رسول کریم ﷺ کے عمل کی نقل اور اس کی اتباع کا پورا خیال دل میں نہیں ہوتا۔ مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے صحابہ میں یہ اہتمام انتہا درجہ کا پایا جاتا تھا۔ ایک دفعہ لوگ ایک جنازہ لئے جا رہے تھے کہ ایک صحابی نے دوسرے صحابی سے کہا میں نے رسول کریم ﷺ سے سنا ہوٴا ہے کہ جب کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کے جنازہ میں شامل ہو تو اسے ایک قیراط ثواب ملتا ہے اور ایک قیراط ثواب احد پہاڑ کے برابر ہو گا۔ لیکن اگر جنازہ پڑھنے کے بعد اسے دفن کرنے کے لئے قبر تک جائے تو اسے دو قیراط ثواب حاصل ہوتا ہے۔ دوسرے صحابی یہ بات سن کر اس صحابی پر ناراض ہوئے اور کہنے لگے کہ تم نے یہ بات ہمیں پہلے کیوں نہ بتائی۔ نہ معلوم ہم اب تک ثواب کے کتنے قیراط ضائع کر چکے ہیں2 تو چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی وہ لوگ رسول کریم ﷺ کے بتائے ہوئے طریق کی نقل کرتے۔ آپ کے احکام کی اتباع کرتے اور سمجھتے کہ اسی میں ان کی ترقی اور اسی میں ان کی عزت ہے۔ اور درحقیقت یہ ہے بھی صحیح۔ آخر کونسی بات ہے جو رسول کریم ﷺ نے ہمیں بتائی ہو اور اس میں کوئی فائدہ نہ ہو۔ ایک بات بھی کوئی شخص ایسی بتا نہیں سکتا۔
اس کے مقابلہ میں دوسرے مذاہب کی سَو میں سے نوّے باتیں ایسی ہوں گی جن کی حکمت یا تو ان کے مذاہب نے بتائی ہی نہیں یا اس کے اندر کوئی حکمت ہے ہی نہیں۔ مگر رسول کریم ﷺنے ہمیں جو احکام دئیے ہیں وہ ایسے ہیں کہ سَو میں سے سَو کی حکمتیں ہی بیان کی جا سکتی ہیں، سَو میں سے سَو کی ہی غرض و غایت بیان کی جا سکتی ہے اور سَو میں سَو کے ہی فوائد بیان کئے جا سکتے ہیں۔
پس کوئی وجہ نہیں کہ مسلمانوں کے دلوں میں یہ جوش پیدا نہ ہو کہ ہم رسول کریم ﷺ کے احکام کی اتباع کریں اور ایک ایک بات جو ہمیں نظر آئے خواہ وہ بظاہر چھوٹی سے چھوٹی ہو اس کو بھی نہ چھوڑیں لیکن افسوس کہ مسلمانوں میں ادھر توجہ بہت کم ہے صرف فرقہٴ اہل حدیث نے اس طرف توجہ کی ہے مگر وہ بھی لفظی طور پر اور انہوں نے بھی قشر کو تو لے لیا مگر مغز کو چھوڑ دیا۔
انہی باتوں میں سے جو رسول کریم ﷺ نے بیان فرمائی ہیں اور جن کو بدقسمتی سے مسلمانوں نے یہ سمجھ کر کہ وہ چھوٹی باتیں ہیں چھوڑ دیا ہے ایک بات یہ بھی ہے کہ جب مسلمان کسی اجتماع میں شامل ہوں تو انہیں صاف کپڑے پہن کر آنا چاہئے۔ مجلس کی جگہ کو بھی صاف رکھنا چاہئے اور ہو سکے تو عطر لگا کر آنا چاہئے جیسے آج جمعہ کا دن ہے اس دن مسلمانوں کا ہر جگہ اجتماع ہوتا ہے اور مسلمانوں کا فرض ہے کہ جب وہ جمعہ پڑھنے کے لئے آئیں تو نہا دھو کر آئیں کپڑے صاف پہنیں اور عطر استعمال کریں۔ اسی طرح رسول کریم ﷺ نے یہ حکم بھی دیا ہے کہ اجتماع کے مواقع پر کوئی بدبو دار چیز کھا کر نہیں آنا چاہئے مثلاً کچا پیاز ہوٴا یا گندنا وغیرہ ہوٴا۔ ان کو کھا کر مسجد میں آنے کی رسول کریم ﷺ نے ممانعت فرمائی ہے۔ اسی طرح اوربہت سی چیزیں ہیں جو بدبودار ہوتی ہیں یا بدبو پیدا کر دیتی ہیں ان سب کو استعمال کرنے سے رسول کریم ﷺ نے منع فرمایا ہے۔ خود رسول کریم ﷺ اس قدر احتیاط فرمایا کرتے تھے کہ دن میں کئی کئی مرتبہ آپ مسواک کرتے تھے۔ اس میں بھی دراصل یہی حکمت تھی کہ آپ کے مُنہ سے بُو نہ آئے۔ رسول کریم ﷺ سے چونکہ ہر شخص نے بات کرنی ہوتی تھی اورہر ایک نے آپ سے مسائل پوچھنے ہوتے تھے اس لئے آپ دن میں کئی کئی دفعہ مسواک کیا کرتے تھے تا ایسا نہ ہو کہ آپ کے منہ سے بدبُو آئے اور دوسرے کو تکلیف محسوس ہو۔
صحابہؓ کہتے ہیں آپ دن میں اتنی دفعہ مسواک کیا کرتے تھے کہ ہم سمجھتے مسواک رسول کریم ﷺ کے نزدیک بہترین پسندیدہ چیز ہے پھر یہ شغف آپ کو اس قدر تھا کہ جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا تو اس وقت آپ نے دیکھا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بھائی کے ہاتھ میں مسواک ہے۔ اس وقت آپ اچھی طرح بول بھی نہیں سکتے تھے۔ آپ نے ہاتھ سے اشارہ کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ مجھے مسواک دو حضرت عائشہؓ نے مسواک لے کر آپ کو دے دی مگر چونکہ آپ میں اس وقت طاقت نہیں تھی اور آپ مسواک کو چبا نہیں سکتے تھے اس لئے آپ نے پھر اشارہ فرمایا کہ اس کو چبا دو۔ چنانچہ انہوں نے مسواک کو چبا کر رسول کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کی اور آپ نے اس وقت بھی مسواک کی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں مجھے خوشی ہے کہ رسول کریم ﷺ کی زندگی کے آخری لمحات میں میرا لعابِ دہن آپ کے لعابِ دہن سے ملا۔3
لیکن اس زمانہ میں میرا اندازہ ہے کہ شائد سَو میں سے نوّے آدمیوں کے مُنہ سے بدبُو آتی ہے اور پھر ان نوّے فیصدی لوگوں میں سے بھی ایک کثیر حصہ اس بے وقوفی میں مبتلا ہے کہ وہ سمجھتا ہے شاید بات سننے والا کان کی بجائے ناک سے سنتا ہے۔ ہمارے ملک میں یہ ایک عام رواج ہے ۔ خصوصاً ان لوگوں میں جن پر صوفیاء کا اثر چلا آتا ہے کہ وہ بات کرتے وقت بجائے اس کے کان کی طرف مُنہ کریں دوسرے کی ناک کے پاس مُنہ لے جا کر بات شروع کریں گے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ تمام سنڈاس جو ان کے مُنہ میں بھرا ہوٴا ہوتا ہے دوسرے کے ناک میں چلا جاتا ہے ۔مَیں نے ان علاقوں میں یہ مرض بہت دیکھا ہے جو ایک عرصہ سے پیروں کے ماتحت چلے آتے ہیں مثلاً گجرات ہے اس ضلع کے رہنے والے جب بھی بات کرنے لگیں گے دوسرے کے عین ناک کے قریب اپنا مُنہ لے جائیں گے اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس سے بات کریں گے۔ مَیں اس ذریعہ سے اپنی جماعت کے لوگوں میں ہمیشہ سے گولیکی اور سدوکی کے رہنے والوں کو پہچان لیتا ہوں۔ جب بھی ان میں سے کوئی مجھ سے بات کرنے لگے مَیں اس سے پوچھ لیتا ہوں کہ آپ گولیکی کے ہیں یا سدوکی کے۔ اور شاید سَو میں سے ایک دفعہ غلطی ہوئی ہو ورنہ ننانوے دفعہ میرا قیاس صحیح ہوتا ہے اوروہ ان دونوں جگہوں میں سے کسی ایک جگہ کے رہنے والے ثابت ہوتے ہیں۔ حالانکہ خدا تعالیٰ نے سننے کے لئے ناک تو نہیں بنائی خدا نے تو سننے کے لئے کان بنایا ہے۔ پس اگر کوئی شخص اپنے مُنہ کو صاف نہیں رکھ سکتا تو دوسرے پر اتنا تو رحم کرے کہ بات کرتے وقت اپنا مُنہ اس کے کان کی طرف لے جائے اس کی ناک کے سامنے نہ رکھے۔
غرض یہ عیب مسلمانوں میں شدید طور پر پایا جاتا ہے کہ وہ صفائی کی طرف توجہ نہیں رکھتے اور اجتماع کے مواقع پر بالخصوص رسول کریم ﷺ کی بیان کردہ ہدایات کو ملحوظ نہیں رکھتے۔ حالانکہ رسول کریم ﷺ نے نہایت لطیف رنگ میں اس مسئلہ کی طرف اپنی امت کو توجہ دلائی ہے۔ آپ فرماتے ہیں تم جب کسی اجتماع میں شامل ہونے کے لئے آوٴ تو کوئی بودار چیز کھا کرنہ آوٴ۔ اس کے یہ معنے نہیں کہ کہ بدبودار چیز کھا کر تو نہ آوٴ لیکن خوشبودار چیزکو مُنہ میں سڑا کر اور اسے بدبودار بنا کر مسجد میں بیشک آ جایا کرو۔ اگر کوئی ایسے معنے کرتا ہے تو وہ حد درجہ کا نالائق انسان ہے۔ جب آپ نے فرمایا ہے کہ کچا پیاز اورگندنا وغیرہ کھا کر مسجد میں نہ آوٴ تو اسی میں یہ بات بھی آ جاتی ہے کہ اگر کوئی اچھی چیز انسان کھائے اور پھر اپنے مُنہ کو صاف نہ کرے اور اس کی سڑاند مُنہ میں پیدا ہو جائے تو اس صورت میں بھی اسے اجتماع سے دور رہنا چاہئے۔ پھر رسول کریم ﷺ نے اس کی کیا ہی لطیف حکمت بیان فرمائی ہے۔ آپ فرماتے ہیں بدبودار چیزوں سے فرشتوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ اب فرشتہ کوئی جسمانی چیز تو ہے نہیں کہ بدبو سے اسے تکلیف ہو۔ مراد یہی ہے کہ ہر نیک فطرت انسان اس سے اذیت محسوس کرتا ہے اور پاک لوگوں کو اس طرح تکلیف ہوتی ہے اس لئے تم مسجد میں ایسی چیزیں کھا کر نہ آیا کرو جن سے انہیں تکلیف ہو۔ ہاں گندے لوگوں کو بدبو سے بے شک کوئی تکلیف نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ شخص جو چیزوں کو سڑا کر اپنے مُنہ میں رکھتا ہے اور اس کی بُو محسوس نہ کرتا ہو اسے کسی اور کے مُنہ سے کس طرح بُو آ سکتی ہے۔ تکلیف تو اسے ہی ہو گی جو فرشتہ خصلت ہو گا اور پاک صاف رہنے والا ہو گا۔ اسی لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جمعہ کے لئے آوٴ تو کپڑے بدل کر آوٴ۔ اس کی حکمت تو ظاہر ہی ہے ۔ کپڑے کو پسینہ لگتا رہتا ہے اور پسینہ میں چونکہ زہر بھی ہوتی ہے اور بُو بھی۔ پس اس کا انسان کی اپنی صحت پر بھی برا اثر پڑتا ہے اور دوسروں کوبھی بُو سے اذیت پہنچتی ہے۔ اس لئے رسول کریم ﷺ نے ہدایت دے دی کہ کپڑے بدل کر آیا کرو۔ ہمارے ملک میں عام طور پر لوگ نہانے دھونے کے بہت کم عادی ہیں لیکن عرب میں اس کا بڑا رواج تھا۔ مَیں نہیں جانتا یہ رواج اس وقت ہے یا نہیں مگر حضرت خلیفہٴ اول فرمایا کرتے تھے کہ جب ہم مکہ میں گئے تھے تو اس وقت تک عرب لوگوں میں یہ رواج تھا کہ رات کے وقت وہ اپنا تمام لباس اُتار کر شب خوابی کا علیحدہ لباس پہن لیتے اور عورتیں روزانہ رات کے وقت دن کے پہنے ہوئے کپڑوں کو دھو لیتیں۔ اس طرح سوتے وقت وہ روزانہ اپنے کپڑوں میں سے پسینہ دھو ڈالتے تھے حالانکہ وہاں پانی کی کمی تھی مگر ہمارے ملک میں بعض امراء تو روزانہ بھی کپڑے بدل لیتے ہیں لیکن بعض دوسرے تیسرے دن بدلتے ہیں اور معمولی حیثیت کے لوگ آٹھویں دن کپڑے بدلتے ہیں اور غرباء کپڑا پہن کر اس کے پھٹنے تک اسے نہیں اتارتے۔ حالانکہ اگر کسی شخص کو صابن سے کپڑے دھونے کی توفیق ہے تو اسے چاہئے کہ صابن سے کپڑے دھو لیا کرے اور اگر کسی کو صابن خریدنے کی توفیق نہیں تو وہ یہ تو کر سکتا ہے کہ رات کے وقت کپڑوں کو پانی میں ڈال دے اور صبح انہیں اچھی طرح مل کراور نچوڑ کر دھوپ میں لٹکا دے۔ اس طرح چاہے وہ کپڑا سفید نہ ہو مگر پسینہ جو ضرر رساں چیز ہے اور اس کی بُو جو دوسروں کے لئے اور خود اس کے لئے اذیت کا موجب بنتی ہے وہ اور دوسرے لوگ اس سے محفوظ ہو جائیں گے۔ مَیں نے بتایا ہے کہ عرب میں کم سے کم اس وقت تک یہ رواج ضرور تھا جب حضرت خلیفہٴ اول حج کے لئے مکہ تشریف لے گئے تھے اور پھر پڑھنے کے لئے وہیں ٹھہر گئے۔ ممکن ہے یہ رواج اب بھی ہو کیونکہ قومی رواج جلدی نہیں مٹ جایا کرتے۔ لیکن اگر اب مغربی اثر کے ماتحت اس میں کمی آ گئی ہو تو پھر بھی کچھ نہ کچھ رواج اہل عرب میں ضرور ہو گا۔ بہرحال اسلام نے جسم اور کپڑوں کی صفائی کے متعلق جو احکام دئیے ہیں وہ معمولی نہیں مگر کتنے ہیں جو ان پر غور کرتے ہیں، کتنے ہیں جو لباس کو صاف رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، کتنے ہیں جو اپنے مونہوں کو صاف رکھتے ہیں، کتنے ہیں جو پسینہ وغیرہ کی بو اور دوسری بدبو دار چیزوں سے مسجد کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں؟ مَیں نے ایک دفعہ جماعت کو مساجد میں صفائی رکھنے کی طرف توجہ دلائی تو بعض لوگوں نے میری تحریک پر یہ کام شروع کر دیا اور مسجد کی صفائی کا وہ خیال رکھنے لگے۔ چنانچہ مدرسہ احمدیہ کے طالب علم بھی اس صفائی میں حصہ لیا کرتے تھے مگر کچھ عرصہ کے بعد یہ بات جاتی رہی حالانکہ مساجد کو صاف رکھنے کا رسول کریم ﷺ نے خاص طور پر حکم دیا ہے۔ کیونکہ جو مذہب اجتماع پر اپنی بنیاد رکھتا ہو اور مدنیت سے اس کے کثیر احکام کا تعلق ہو وہ جب تک یہ خیال نہ رکھے کہ اجتماع کے موقعوں پر حفظانِ صحت کے خلاف کوئی بات نہ ہو اس وقت تک وہ اپنی جماعت کو کبھی ترقی کی طرف نہیں لے جا سکتا۔ اسی طرح رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب کسی کو طاعون نکل آئے تو وہ اپنی جگہ سے نکل کر کسی اور جگہ نہ جائے اورنہ باہر والے وہاں جائیں۔4 اس طرح اسلام نے طاعونی ضرر سے لوگوں کو بچانے کی کوشش کی ہے۔ غرض جو چیزیں صحت پر بُرا اثر ڈالنے والی ہیں ان سب سے اسلام نے سختی کے ساتھ منع کیا ہے۔ مثلاً اسلام نے بتایا ہے کہ ہوا خارج ہونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ اب اگر یہ مسئلہ نہ ہوتا اور ایک اصول قائم نہ کر دیا جاتا تو کئی لوگ مسجدوں میں آتے اور ہوائیں خارج کرتے رہتے۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ بدبو سے لوگوں کا دماغ خراب ہو جاتا۔ پس اس میں بھی اسلام نے حکمت رکھی ہے۔ اسی طرح رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ مسجد میں تھوکنا یا بلغم پھینکنا گناہ ہے۔5 اور اگر کوئی شخص تھوک دے یا بلغم پھینکے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ وہ اپنے ہاتھ سے اس تھوک کو اٹھا کر زمین میں دفن کرے۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ مسجد ایک ایسی جگہ ہے جہاں سب مسلمانوں نے اکٹھا ہونا ہوتا ہے اگر تھوک یا بلغم پڑا ہو تو لوگوں کو تکلیف ہو۔ نمازیں پڑھنی ہوتی ہیں ایسی صورت میں نمازیوں کو جو تکلیف پیش آ سکتی تھی وہ ہر شخص سمجھ سکتا ہے ۔ مسجد میں تھوکنے کی عادت تو مسلمان اب چھوڑ بیٹھے ہیں لیکن مسجد میں بے احتیاطی سے کھانا کھانے کی عادت ابھی ان میں سے نہیں گئی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سالن گر جاتا ہے اورپھر اس سالن پر یا دال پر مکھیاں بیٹھتیں اور بُو پیدا ہوتی ہے۔ حالانکہ اگر وہ اس بات کو سمجھتے کہ مسجد میں تھوکنے کو رسول کریم ﷺ نے منع فرمایا ہے تو وہ مسجد میں دال وغیرہ گرا کر تھوک سے بھی زیادہ غلاظت نہ پھیلاتے۔ تھوک بیشک ایک کراہت کی چیز ہے مگر اس کی سڑاند بعد میں قائم نہیں رہتی لیکن سالن اور دال وغیرہ جب مسجد میں گر جائے تو چونکہ ان چیزوں میں گھی ہوتا ہے اس لئے اس کی سڑاند بعد میں بڑھتی رہتی ہے۔ مگر لوگ تھوک تو مسجد میں نہیں پھینکتے اور دال یا سالن گرا کر اس سے بہت زیادہ سڑاند پیدا کر دیتے ہیں۔ مسجد میں بے شک کھانا کھانا منع نہیں مگر اتنی احتیاط تو ضرور کر لینی چاہئے کہ انسان کھاتے وقت کوئی کپڑا بچھا لے اور پھر احتیاط سے کھائے تاکہ مسجد میں چیونٹیاں اور مکھیاں اکٹھی نہ ہوں اورنمازیوں کو تکلیف نہ ہو۔ غرض مساجد کو صاف رکھنا اور اپنے کپڑوں کو صاف کر کے اور عطر وغیرہ لگا کر اجتماع میں شامل ہونا کیا بلحاظ ایک مذہبی حکم کے اور کیا بلحاظ دوسرے لوگوں پر اس کے اثرات کے ایک نہایت ضروری مسئلہ ہے اور اس کا صحت پر شدید اثر پڑتا ہے۔
مجھے، جیسا کہ قریب بیٹھنے والے دوستوں کو معلوم ہے آج اس مضمون کی اس طرح تحریک پیدا ہوئی کہ جب میں مسجد میں پہنچا تو چونکہ سائبان لگا ہوٴا تھا لیکن مشرق کی طرف سے زمین کی طرف جھک گیا تھا اور کھڑکیاں بند تھیں اس لئے لوگوں کے سانسوں کی وجہ سے اس قدر شدید بُو پیدا ہو چکی تھی کہ جیسے برسات میں گھر کے اندر گیلے کپڑے پڑے ہوئے ہوں اور منبر پر کھڑے ہوتے ہی میرے سر میں درد شروع ہو گیا حالانکہ احکام شریعت کے ماتحت میرے آنے سے پہلے ہی دوستوں کو فوراً اس کا انسداد کرنا چاہئے تھا۔ آخرہر ایک کو خدا تعالیٰ نے ناک دی ہے اور ہر ایک کو یہ مسئلہ بھی معلوم ہے۔ آج دھوپ نہیں تھی اس لئے فوراً سائبان کو اتروا دینا چاہئے تھا اور کھڑکیوں کو ہوا کی آمد و رفت کے لئے کھول دینا چاہئے تھا مگر ہمارے ملک کے لوگوں کو چونکہ عادت نہیں خوشبو کے استعمال کی اور چونکہ انہیں عادت نہیں بُو سے بچنے کی اس لئے بہتوں کو شاید اس بُو کا پتہ بھی نہیں لگا ہو گا حالانکہ انسانی سانس اتنا زہریلا ہوتا ہے کہ اگر دو آدمی اکٹھے لحاف میں مُنہ ڈال کر سوئیں تو دونوں بیمار ہو جاتے ہیں۔ بلکہ اکیلا آدمی اگر لحاف میں مُنہ ڈال کر سوئے تو اپنے سانس کی زہر سے ہی وہ بیمار ہو جاتا ہے جن لوگوں کو دائمی نزلہ ہوتا ہے وہ بالعموم وہی لوگ ہوتے ہیں جو لحاف میں سر چھپا کر سونے کے عادی ہوتے ہیں۔ جو لوگ لحاف سے سر نکال کر سوتے ہیں یا کم سے کم ناک کا حصہ ننگا رکھتے ہیں انہیں نزلہ کی دائمی شکایت بہت کم ہوتی ہے مگر تعجب ہے یہ ہزاروں آدمیوں کا مجمع اس طرح بیٹھا تھا گویا لحاف میں اس نے اپنا مُنہ چھپا رکھا تھا۔ اور سب کے سانسوں سے شدید بدبو پیدا ہو گئی تھی۔ اگر اس بارہ میں احتیاط سے کام نہ لیا جائے تو کمزور آدمیوں کی صحت پر بہت برا اثر پڑ سکتا ہے۔ پھر مساجد میں بیماروں نے بھی آنا ہوتا ہے انہی لوگوں میں وہ بھی ہوتے ہیں جنہیں نزلہ کی شکایت ہوتی ہے اور شاید بعض ایسے لوگ بھی ہوں جنہیں سل کی شکایت ہو۔ ایسی حالت میں سائبان کو ایک برقع کی طرح اوڑھ کر بیٹھ رہنے اور تنفس کی بدبو سے نہ بچنے کا مطلب یہ ہے کہ مسلول کا سانس تندرستوں کے سینہ میں جائے اور انہیں بھی بیمار کر دے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ نقص اسی وجہ سے ہے کہ لوگوں نے عام طور پر یہ سمجھ لیا ہے کہ رسول کریم ﷺ کی بعض باتیں معمولی ہیں حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔ رسول کریم ﷺ کی کوئی بات معمولی نہیں، سب کے اندر فوائد ہیں، سب کے اندر حکمتیں ہیں اورسب کے اندر اغراض اور مقاصد ہیں۔ ایک چھوٹے سے چھوٹا حکم بھی رسول کریم ﷺ نے بے وجہ اور بغیر حکمت کے بیان نہیں فرمایا۔
ہمیں دوسرے مذاہب پر جو فوقیت اور افضلیت حاصل ہے وہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو کتاب دی ہے وہ پُر حکمت ہے اور جو رسول ہماری رہنمائی کے لئے اس نے بھیجا وہ بھی پُر حکمت ہے۔ پس ہمارے پاس جو کتاب ہے اس میں کوئی بات ایسی نہیں جس کے متعلق ہم کہہ سکیں کہ ہم اسے کیوں کریں یا کیوں نہ کریں۔ اسی طرح ہمارے رسول نے جو کچھ فرمایا ہے اس میں کوئی بات بھی ایسی نہیں جس کے متعلق ہم کہہ سکیں کہ چونکہ رسول کریم ﷺ نے ایسا فرما دیا ہے اس لئے ہم کرتے ہیں ورنہ اس میں حکمت کوئی نہیں۔ ہر چھوٹی سے چھوٹی بات سے لے کر بڑی سے بڑی بات تک پُر حکمت ہے۔ بیشک بعض باتوں کی حکمت ایک وقت سمجھ میں نہ آئے مگر دوسرے وقت اس کی حکمت ضرور سمجھ میں آجاتی ہے۔ پس قرآن اور رسول کریم ﷺکی کوئی بات بھی حکمت سے خالی نہیں ہر بات ہمارے فائدہ کے لئے ہے اور ہر حکم ہماری ترقی کے لئے دیا گیا ہے۔
دوستوں کوچاہئے کہ اخلاقی اور روحانی ترقی کے لئے رسول کریم ﷺ کے احکام کی طرف زیادہ توجہ کریں اور ہمیشہ ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ میں نے شروع خطبہ میں فرقہٴ اہلحدیث کا ذکر کیا ہے۔ مگر مَیں نے یہ نہیں کہا کہ تم اہلحدیث کی طرح بن جاوٴ۔ وہ خشک لوگ ہیں انہوں نے رسول کریم ﷺ کی باتوں کی حکمتوں کو نہیں سمجھا مگر تم رسول کریم ﷺ کے ہر حکم کی حکمت کو سمجھو اور اس پُر حکمت کلام کو سمجھ کر اس پر عمل کرو۔ رسول کریم ﷺ کے پُرحکمت کلام کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ وہ بنی نوع انسان کی ہر ضرورت کو پورا کرتا ہے مگر اہلحدیث سے یہ غلطی ہوئی کہ انہوں نے جب دو حدیثوں کو بظاہر آپس میں متضاد دیکھا تو کہہ دیا کہ فلاں حدیث ضعیف ہے اور فلاں قوی۔ حالانکہ بسا اوقات وہ دونوں صحیح ہوتی ہیں البتہ دونوں کے مواقع مختلف ہوتے ہیں۔ جیسے مشہور ہے کہ کوئی مالدار شخص حد سے زیادہ موٹا ہو گیا۔ اس نے دور دور تک اپنے آدمی بھجوائے ہوئے تھے اور انہیں ہدایت دی تھی کہ کھانے کی جو بھی اچھی چیز نظر آئے وہ فوراً مجھے بھجوا دیا کرو۔ کروڑ پتی آدمی تھا اورجب کسی کا شغل ہی یہ ہو کہ ہر وقت چاروں طرف اس کے گماشتے پھرتے رہیں اور کھانے کے لئے عمدہ سے عمدہ چیزیں بھجواتے رہیں تو خود ہی سمجھ لو کہ کھا کھا کر اس کی کیا کیفیت ہو گئی ہو گی۔ وہ مالدار آدمی بھی آخر اتنا موٹا ہو گیا کہ چلنا پھرنا اور زندگی کے دن گذارنا اس کے لئے مشکل ہو گیا۔ وہ اپنے علاج کے لئے ایک ڈاکٹر کے پاس گیا اس نے کہا میرا مشورہ آپ کو یہ ہے کہ آپ فلاں ڈاکٹر کے پاس جائیں وہ بڑے مشہور آدمی ہیں اور علاج میں اچھی مہارت رکھتے ہیں میرے علاج سے آپ کو فائدہ نہیں ہو گا۔ آپ اگر صحت چاہتے ہیں تو اسی کے پاس جائیے۔ چنانچہ وہ اس ڈاکٹر کے شہر کی طرف گیا اور وہاں پہنچ کر بمشکل دو نوکروں کاسہارا لیتا اور قدم بقدم چلتا ہؤا وہ اس ڈاکٹر کے پاس پہنچا اور اس نے دیکھا کہ ڈاکٹر نے دستر خوان بچھایا ہوٴا ہے اور مریضوں کو پاس بٹھا کر انہیں کہہ رہا ہے کہ یہ بھی کھاوٴ اور وہ بھی کھاوٴ۔ کسی سے کہتا ہے کہ تمہیں یہ شوربہ کی پیالی ضرور پینی پڑے گی دوسرے سے کہتا کہ تیتر کی ٹانگیں تم نے چھوڑ دی ہیں یہ بھی کھا کر اٹھو، کسی سے کہتا کہ یہ کباب تمہیں ضرور کھانے پڑیں گے اور کسی سے کہتا کہ جب تک انڈے نہ کھا لو میں تمہیں اٹھنے نہیں دوں گا۔ وہ امیر یہ دیکھ کر بڑا خوش ہوٴا اور کہنے لگا وہ کیسے بیوقوف ڈاکٹر تھے جو مجھے فاقہ کرنے کی نصیحت کرتے تھے۔ علاج تو یہ ہے کہ زور دے کر مریض کو اچھی چیزیں کھلائی جائیں۔ غرض جب ڈاکٹر انہیں کھلا کر فارغ ہو گیا تو یہ پیش ہوٴا۔ اس نے کہا میں آپ کا علاج کرنے کے لئے تو تیار ہوں مگر شرط یہ ہے کہ ایک مہینہ کے لئے آپ اپنے نوکر واپس بھجوا دیں اور جس طرح میں کہوں اس طرح عمل کریں۔ وہ کہنے لگا ڈاکٹر صاحب مَیں آپ کے مزاج کو سمجھ گیا ہوں اور مجھے نوکروں کو واپس بھجوا دینے میں کوئی عذر نہیں۔ اس نے خیال کیا کہ میں اگر دو مرغ کھانے کے لئے مانگوں گا تو یہ تین مرغ دے گا اور اگر میں چار انڈے مانگوں گا تو یہ چھ دے گا۔ غرض اس نے خوشی خوشی نوکر واپس بھجوا دئیے اور انہیں کہہ دیا کہ فلاں تاریخ آ جانا۔ جب نوکر چلے گئے تو اس ڈاکٹر نے پہلے دن تو اسے خوب اچھا کھانا کھلایا اوروہ بڑا خوش رہا۔ مگر دوسرے دن صبح کے وقت اس نے ایک سوکھا ٹوسٹ چائے کے ساتھ اپنے نوکر کے ذریعہ بھجوا دیا۔ وہ کہنے لگا پاگل ہوئے ہو یہ تو میرے ملازم بھی نہیں کھاتے۔ اس نے کہا ڈاکٹر صاحب نے آپ کے لئے یہی کچھ بھجوایا ہے۔ خیر تھوڑی دیر کے بعد ڈاکٹر آیا تو اس سے کہنے لگا۔ ڈاکٹر صاحب آپ نے یہ میرے لئے کیا بھجوا دیا؟ اس نے کہا صاحب گھبرائیے نہیں اور یہی کھا لیجئے سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ابھی تو پہلا دن ہے۔ خیر اس نے وہ ٹوسٹ کھایا اور پھر ڈاکٹر اسے اپنے ساتھ ایک کمرہ میں لے گیااور کھڑا کر کے جلدی سے باہر نکل کر دروازہ بند کر لیا وہ کمرہ جس میں اس نے اسے کھڑا کیا حمام تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں حمام گرم ہونے لگا اور اس نے اپنے پاوٴں اٹھانے شروع کر دئیے۔ کبھی ایک پاوٴں اٹھاتا اور کبھی دوسرا اور جب فرش بہت زیادہ گرم ہو گیا تو بے اختیار اچھلنے کُودنے لگ گیا اور آخر تھک کر اور نڈھال ہو کر فرش پر گر گیا۔ ڈاکٹر نے دروازہ کھولا اور اسے باہر نکال دیا۔ وہ گالیاں دینے لگ گیا کہ مجھے تم نے مار ڈالا ہے۔ مگر اس نے کوئی پرواہ نہ کی اور وہ روزانہ ایک طرف اسے فاقہ سے رکھتا اور دوسری طرف حمام میں کھڑا کر دیتا اور وہ خوب اُچھلتا کُودتا۔ مہینہ ختم ہوٴا اور اس کے نوکر آئے تو وہ بغیر اجازت لئے ان کے ساتھ چلا گیا اور سیدھا اس ڈاکٹر کے پاس پہنچا جس نے اسے اس ڈاکٹر کے پاس آنے کا مشورہ دیا تھا اور کہا کہ تُو نے مجھ سے بڑا فریب کیا جو ایسے ظالم قصاب کے پاس مجھے بھیج دیا۔ وہ بھی کوئی ڈاکٹر ہے وہ تو سخت دھوکے باز انسان ہے۔ اس نے پہلے میرے نوکر نکلوا دئیے اور پھر مجھے فاقوں پر فاقے دینے شروع کر دئیے۔ خیر وہ سنتا رہا سنتا رہا جب اس کا غصہ کسی قدر ٹھندا ہوٴا تو اس نے کہا کہ بجائے اس کے کہ میں آپ کو کوئی جواب دوں آپ شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر ذرا اپنی شکل تو دیکھ لیں اس نے شکل دیکھی تو نظر آیا کہ چہرے پر رونق آئی ہوئی ہے اور جس قدر نحوست تھی سب جاتی رہی ہے۔ نہ پہلے کی طرح کلّے لٹک رہے ہیں اور نہ جسم بھدّا اوربھاری ہے۔ جب وہ آئینہ دیکھ چکا تو ڈاکٹر اسے کہنے لگا۔ مجھے بڑا افسوس ہے کہ آپ جلدی چلے آئے اگر آپ ایک مہینہ اور ٹھہر جاتے تو آپ کی صحت بالکل درست ہو جاتی۔ وہ کہنے لگا یہ تو بتاوٴ کہ اس نے یہ کیوں کیا کہ وہ بعض کو تو زور دے کر کھانا کھلاتا تھا اور مجھے اس نے فاقے دینے شروع کر دئیے۔ وہ ڈاکٹر کہنے لگا جن کو وہ زور دے کر کھانا کھلاتا تھا وہ غرباء تھے اور ان کی بیماریاں ان کی فاقہ کشی کی وجہ سے پیدا ہوئی تھیں مگر آپ کی بیماری زیادہ کھانے کا نتیجہ تھی اس لئے اس نے آپ کا علاج تو فاقہ سے کیا اور ان کا علاج کھانا کھلا کر کیا۔ اسی طرح رسول کریم ﷺ کے تمام احکام حکمت پر مبنی ہیں۔ نادان اور بے وقوف انسان سمجھتے ہیں کہ اس قسم کی باتوں کی وجہ سے حدیثوں میں اختلاف ہو گیا اور اس وجہ سے وہ کسی کو ضعیف اور کسی کو حَسن قرار دیتے ہیں اور وہ یہ نہیں جانتے کہ دونوں ہی رسول کریم ﷺ کے قول ہیں۔ البتہ وہ دو مختلف حالات کے لئے ہیں ایک ہی حالت کے لئے نہیں۔ مسلمانوں نے اسی نادانی کی وجہ سے ایک دوسرے کے سر پھوڑے ہیں کہ الامان۔ محض اس بناء پر یہ کہ فلاں سینہ پر ہاتھ باندھتا ہے ناف کے نیچے نہیں باندھتا یا ناف کے نیچے باندھتا ہے اور سینہ پر نہیں باندھتا۔ اسی طرح انہوں نے ایک دوسرے کی انگلیاں توڑی ہیں محض اس بات پر کہ بعض لوگ رفع یَدَیْنِ کیوں کرتے ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں میں آمین بالجہر کہنے پر لڑائیاں ہوئیں اور علماء میں ان مسائل پر بڑی بڑی بحثیں ہوئیں اور ان بحثوں میں انہوں نے چار پانچ سو سال ضائع کر دئیے کہ وہ حدیثیں صحیح ہیں جن میں رفع یَدَیْنِ کا حکم آتا ہے یا وہ حدیثیں صحیح ہیں جن میں رفع یدین کا کوئی ذکر نہیں۔ اسی طرح علماء نے اپنی قلمیں گھِسا دیں، دواتوں کی سیاہیاں خشک کر دیں اور اپنی عمریں برباد کر دیں محض اس بات پر کہ آمِیْن بِالْجَہْر کہنی چاہئے یا آمِیْن بِالسِّرّ۔ پھر انہوں نے اپنے اوقات اور اپنے اموال سینکڑوں سال تک اس جھگڑے میں ضائع کر دئیے کہ نماز پڑھتے وقت ہاتھ اوپر باندھنے چاہئیں یا نیچے۔ پھر کس طرح انہوں نے صدیوں تک اس لغو بحث کو جاری رکھا کہ تشہّد کے وقت انگلی اٹھانی چاہئے یا نہیں اٹھانی چاہئے۔
یہ ساری بحثیں ایسی ہی تھیں جیسے مثنوی رومی والے لکھتے ہیں کہ چار فقیر تھے انہوں نے کسی سے خیرات مانگی تو اس نے ایک پیسہ دے دیا اور کہا کہ چاروں مل کر کوئی چیز کھا لو۔ اب ایک نے کہا میں تو انگور کھاوٴں گا ، دوسرا کہنے لگا کہ میں تو داکھ کھاوٴں گا، تیسرا کہنے لگا کہ میری خواہش تو عِنَب کھانے کی ہے اور چوتھا ترکی تھا اس نے اپنی زبان میں کوئی انہی الفاظ کے ہم معنی لفظ کہا اورکہا کہ میری تو خواہش وہ چیز کھانے کی ہے۔ اب چاروں آپس میں لڑنے لگ گئے ایک کہے کہ دو گھنٹے مانگ مانگ کر ایک پیسہ ملا ہے اس سے تو میں انگور ہی کھاوٴں گا، دوسرے نے کہا میں تو عِنَب کھاوٴں گا تیسرے نے داکھ پر زور دیا اور چوتھے نے اپنی زبان کا کوئی لفظ استعمال کیا۔ آخر وہاں سے کوئی زبان دان گزرا اور اس نے ان چاروں کو جو لڑتے دیکھا تو ٹھہر گیا اور پوچھا کہ کیوں لڑ رہے ہو۔ انہوں نے بتایا کہ ہماری لڑائی کی یہ وجہ ہے۔ اس نے کہا پیسہ تم مجھے دے دو میں تم سب کے لئے ایک ایسی چیز لاوٴں گا جس سے تم سب خوش ہو جاوٴ گے۔ چنانچہ انہوں نے اسے پیسہ دے دیا اور وہ انگور لے آیا۔ عنب مانگنے والا کہنے لگا یہی میرا مطلب تھا۔ داکھ چاہنے والا کہہ اٹھا یہی تو میں مانگتا تھا اورترکی کہنے لگا میری بھی یہی خواہش تھی۔ غرض چاروں خوش ہو گئے اور ان کی لڑائی ختم ہو گئی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی ان جھگڑوں کو ایسا مٹایا ہے کہ اب کسی احمدی کے دل میں خیال بھی نہیں آتا کہ آمین بالجہر کہنی چاہئے یا آمین بِالسِّرّ، ہاتھ اوپر باندھنے چاہئیں یا نیچے ،رفع یَدَیْن کرنا چاہئے یا نہیں کرنا چاہئے۔ آپ نے ایک اصول لوگوں کے سامنے رکھ دیا اور فرمایا کہ یہ بھی ٹھیک ہے اوروہ بھی ٹھیک ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام سے ایک دفعہ کسی نے ان مسائل کے بارہ میں پوچھا تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے انبیاء حکمت سے کلام کیا کرتے ہیں۔ کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی طبائع میں جوش ہوتا ہے۔ ان کا جوش جب تک نکلتا نہ رہے ان میں استقلال پیدا نہیں ہو سکتا اور کئی لوگ خاموش طبیعت ہوتے ہیں وہ اگر اظہار ِجذبات کرنے لگ جائیں تو ان کا جوش مدھم پڑ جاتا ہے۔ اس لئے دونوں قسم کی طبائع کو مدنظر رکھ کر رسول کریم ﷺ نے دو مختلف احکام دے دئیے۔ وہ لوگ جو اپنی طبیعت میں جوش رکھتے ہیں وہ آمین بِالجہر کہہ لیا کریں اور جو خاموش طبیعت ہیں ان کے لئے شریعت نے دل میں ہی آمین کہہ لینے کا دروازہ کھول دیا۔ اسی طرح بعض لوگ حرکات سے اظہار عقیدت میں زیادہ لذت محسوس کرتے ہیں ان کے لئے شریعت نے رفع یَدَیْن کا حکم رکھ دیا مگر بعض طبائع ایسی ہوتی ہیں جنہیں حرکات کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ سکون کی ضرورت ہوتی ہے ان کے لئے شریعت نے رفع یَدَیْن کی صورت کو اڑا دیا۔ اسی طرح ہاتھ باندھنا ہے کوئی شخص سپاہیانہ طبیعت رکھنے والا ہوتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ہاتھ اونچے باندھے۔ اس کے لئے شریعت نے نماز میں ہاتھ اونچے باندھنے کا مسئلہ رکھ دیا اور کوئی ایسا ہوتا ہے جو بڈھا اوربیمار ہوتا ہے اس کے ہاتھ اوپر اٹھتے ہی نہیں اور خود بخود نیچے ڈھلک جاتے ہیں ایسے لوگوں کے لئے شریعت نے یہ آسانی رکھ دی کہ وہ نیچے ہاتھ باندھ لیا کریں۔ غرض رسول کریم ﷺ نے دونوں طبائع کا خیال رکھ لیا اور ہر ایک کے حسب حال حکم دے دیا ۔ مجھے ایک دفعہ ان معنوں کا بڑا لُطف آیا۔ میں بیمار تھا اورنماز پڑھ رہا تھا کہ یکدم مجھے محسوس ہوٴا کہ ضعف کی وجہ سے میں نے ہاتھ نیچے باندھے ہوئے ہیں۔ اُس وقت مجھے خیال آیا کہ شریعت کی یہ اجازت دراصل اسی لئے ہے کہ ہر طبیعت کا آدمی فائدہ اٹھا سکے۔ ایک بیمار آدمی جو ہاتھ اوپر باندھ ہی نہیں سکتا اس سے شریعت یہ کس طرح مطالبہ کر سکتی ہے کہ وہ اپنے ہاتھ ضرور اوپر باندھے۔ پس بیمار اور کمزور یا سکون رکھنے والی طبیعت کے انسان کے لئے ہاتھ نیچے باندھنے کی رسول کریم ﷺ نے اجازت دے دی مگر جو ہمت والا اور قوّی اور تندرست ہے اور سپاہیانہ روح اپنے اندر رکھتا ہے اس کے لئے ہاتھ اوپر باندھنے کا حکم دے دیا۔ اس طرح ایک ہی کلمہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تمام جھگڑے طے کر دئیے اور ان نادانوں کو جو رسول کریم ﷺ کی ایک حدیث کو ضعیف اور دوسری کو قوی قرار دیتے تھے بتا دیا کہ دونوں حدیثیں ہی قوی ہیں البتہ تم ان کا مفہوم سمجھنے میں ضعیف ہو۔ غرض رسول کریم ﷺ کے کلام پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سب کے فائدے کے لئے ہیں، ہر زمانہ کے لئے ہیں اور ہر حالت کے لئے ہیں اور ان میں بڑی بڑی حکمتیں ہیں۔ ان حکمتوں کے نہ سمجھنے کی وجہ سے ہی لوگ ان بحثوں میں پڑ جاتے ہیں کہ فلاں حدیث ضعیف ہے اور فلاں قوی۔حدیثوں میں سے بعض ضعیف بھی ہوتی ہیں مگر وہی حدیثیں ضعیف ہوتی ہیں جو اصول دین یا اصول اخلاق کے خلاف ہوں۔ ان حدیثوں کو ضعیف قرار دینا جو ایک ہی وقت میں قابل عمل ہوں حماقت اور نادانی ہے اور اہل حدیث اس حماقت میں سب سے زیادہ گرفتار ہیں۔ جتنا زیادہ وہ اپنے آپ کو اہل حدیث کہتے ہیں اتنا ہی انہوں نے رسول کریم ﷺ کے جائز اور درست کلام پر جرح کی ہے اور انہوں نے رسول کریم ﷺ کے جائز، درست، صحیح اور پُرحکمت کلام کو ضعیف قرار دے کر رسول کریم ﷺ کے کلام کے ایک ٹکڑہ کو بالکل باطل کر دیا ہے۔ اتنے حصہ میں میرے نزدیک حنفی ان سے بہت زیادہ بہتر ہیں۔ انہوں نے یہ اصول قرار دے دیا ہے کہ قرآن مقدم ہے اور حدیث موٴخر۔ اس وجہ سے جن حدیثوں کو اہل حدیث کمزور کہتے ہیں ان کو بھی انہوں نے صحیح قرار دے دیا۔ ہاں ان سے غلطی یہ ہوئی کہ اہل حدیث کی مخالفت میں انہوں نے ان حدیثوں کی طرف زیادہ توجہ دے دی جن کو اہل حدیث کمزور کہتے تھے اور اس طرح اہلحدیث اور حنفی دونوں صحیح راستہ پر قائم نہ رہے۔
پس رسول کریم ﷺ کے کلام کی حکمتوں کو سمجھو ان کا احترام اپنے دل میں پیدا کرو اور کسی چھوٹی سے چھوٹی بات کو بھی نظر انداز مت کرو کہ وہ فوائد کے لحاظ سے درحقیقت بہت بڑی ہوتی ہے۔ انہی چھوٹی باتوں سے جن کو لوگ بِالعموم نظر انداز کر دینے کے عادی ہیں مگر ان کے فوائد بہت بڑے ہیں رسول کریم ﷺ کا ایک حکم یہ ہے کہ مساجد کو صاف رکھو اور جب جمعہ کے لئے مسجد میں آوٴ تو اپنے کپڑوں کو صاف کر کے آوٴ اور اگر ہو سکے تو عطر بھی لگاوٴ۔6
رسول کریم ﷺ گو ہمیشہ غربت سے گزارہ کیا کرتے تھے مگر آپ عطر کا ضرور استعمال فرمایا کرتے تھے ۔ مجھے یاد ہے جب میں حضرت خلیفہ اول سے بخاری پڑھا کرتا تھا تو حضرت خلیفہ اول اپنی سادہ طبیعت اور کام کے غلبہ کی وجہ سے جمعہ کے دن بعض دفعہ انہی کپڑوں میں جو آپ نے پہنے ہوئے ہوتے تھے اُٹھ کر جمعہ کے لئے آ جاتے تھے۔ میں اپنی بغل میں بخاری دبائے کمرہ سے نکل رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے دیکھ لیا اور فرمایا محمود یہ کیا ہے؟ میں نے کہا۔ حضرت مولوی صاحب سے بخاری پڑھنے چلاہوں۔ دراصل آپ نے ہی مجھے فرمایا تھا کہ محمود قرآن پڑھ لو، بخاری پڑھ لو اور طب بھی پڑھ لوکیونکہ طب ہمارا خاندانی پیشہ ہے یہ تمہارے لئے کافی ہے۔ غرض جب مَیں نے کہا کہ مَیں مولوی صاحب سے بخاری پڑھنے جا رہا ہوں تو آپ نے فرمایا مولوی صاحب سے کہنا۔ یہ حدیث بخاری میں آتی ہے یا نہیں کہ رسول کریم ﷺ جمعہ کے دن نئے کپڑے پہنتے اور خوشبو لگایا کرتے تھے۔ میں نے اِسی طرح جا کر کہہ دیا۔ حضرت خلیفہ اول نے یہ سنا تو ہنس پڑے اور فرمانے لگے ٹھیک ہے آتی تو ہے پر ہم لوگوں سے کچھ سسُتی ہی ہو جاتی ہے۔
غرض رسول کریم ﷺنے جمعہ کے دن صفائی کا خاص طور پر حکم دیا ہے اور اس احتیاط کی وجہ یہی ہے کہ مجمع میں کمزور لوگ بھی ہوتے ہیں۔ اگر صفائی نہ ہو تو ان کی صحتوں پر برا اثر پڑے اوروہ اور بھی زیادہ کمزور اور بیمار ہو جائیں۔ ممکن ہے کوئی شخص کہہ دے کہ جب حضرت خلیفہ اول نے بھی اس پر عمل نہیں کیا تو ہم اگر عمل نہ کریں تو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ مگر یہ کہنا صحیح نہیں کیونکہ ان کی وجہ اور تھی۔ وہ بہت زیادہ دینی کام میں مشغول رہتے تھے اور جو شخص زیادہ کام کرنے والا ہو اس سے ایسے امور میں بعض دفعہ سُستی ہو ہی جاتی ہے۔ پھر انہوں نے بھی یہ نہیں کہا کہ مَیں جو کچھ کر رہا ہوں ٹھیک کر رہا ہوں۔ بلکہ انہوں نے یہی فرمایا کہ سستی ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر کسی کی اس جواب سے تسلی نہ ہو تو میں ایسے شخص کی عقل پر تعجب ہی کروں گا جسے رسول کریم ﷺ کی بات سنائی جائے اور وہ کہے کہ حضرت مولوی صاحب نے ایسا نہیں کیا۔ بعض انسان ایسے ہوتے ہیں جو کثرت سے کام کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ آپ چونکہ طبیب تھے اس لئے دن کا اکثر حصہ بیماروں کے دیکھنے میں صرف ہو جاتا۔ پھر سارا دن وہ قرآن و حدیث پڑھاتے رہتے تھے اور درس بھی دیتے تھے۔ اس وجہ سے ان سے بعض دفعہ سستی ہو جاتی تھی۔ مگر بہرحال وہ اس قدر محتاط ضرور تھے کہ کپڑوں میں بُو پیدا نہیں ہونے دیتے تھے۔ میں تو ان سے پڑھتا رہا ہوں مجھے یاد نہیں کہ کبھی ان کے کپڑوں میں سے بُو آئی ہو۔ بعض دفعہ بُو پیدا ہونے لگتی تو آپ جھٹ نیا کرتہ منگوا کر بدل لیتے۔ آپ چونکہ طبیب تھے اورجانتے تھے کہ بدبو کا انسانی صحت پر کیا اثر ہوتا ہے اس لئے اس بات کا خیال رکھتے تھے۔ بہرحال رسول کریم ﷺ کا یہ حکم ہے کہ مساجد کو صاف رکھا جائے۔ جمعہ کے موقع پر کپڑے بدلے جائیں اور ہو سکے توخوشبو لگائی جائے تاکہ جن کے جسم میں کوئی بیماری ہو اور ان کے سانس سے دوسروں کے بیمار ہو جانے کا خطرہ ہو ان کے مقابلہ میں لوگوں کے جسموں اور ان کے کپڑوں میں سے خوشبو آتی رہے اور اس طرح بیماری کا ازالہ ہوتا چلا جائے۔ زمینداروں کو یہ کہنا کہ وہ عطر لگا کر آیا کریں یہ تو ایک ایسا مطالبہ ہے جسے وہ پورا نہیں کر سکتے۔ جنہیں کھانے کے لئے روٹی بھی میسر نہ ہو وہ عطر کس طرح خرید سکتے ہیں۔ ان کے لئے صرف اتنا ہی حکم ہے کہ وہ اپنے کپڑوں کو صاف رکھا کریں۔ ان میں بعض بے شک اچھی حیثیت رکھنے والے ہوتے ہیں ان کے لئے عطر لگانا ضروری ہے اور پھر عطرکوئی ایسی چیز بھی نہیں جو بہت زیادہ خرچ چاہتی ہو۔ پس غرباء کے لئے گو عطر خریدنا مشکل ہو مگر جو آسودہ حال ہیں وہ آسانی سے خرید سکتے ہیں۔ اور پھر عطر کا خرچ بھی بہت تھوڑا ہوتا ہے۔ ذرا سا انگلی سے اگر لگا لیا جائے تو اتنی خوشبو آنے لگ جاتی ہے جو جمعہ میں آنے کے لئے کافی ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص عطر خرید ہی نہ سکتا ہو تو اس کے لئے اس بات میں تو کوئی بھی مشکل نہیں کہ وہ کپڑے دھو لیا کرے۔ اسی طرح جو مساجد کے نگران ہیں انہیں بھی میں اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ جمعہ کے دن مسجدوں کی صفائی کرایا کریں اور جیسا کہ رسول کریم ﷺ کی سنت سے ثابت ہے کوئی نہ کوئی خوشبو مسجد میں جلا دینی چاہئے۔ 7
ہماری انجمن کا لاکھوں کا بجٹ ہوتا ہے پھر کیا ہم چند پیسے خرچ کر کے رسول کریم ﷺ کے ایک حکم کو پورا نہیں کر سکتے۔ ایک مسجد میں لوبان اگر جلا دیا جائے تو ایک دھیلے یا پیسے کا کافی ہو سکتا ہے اور ہمارے قادیان کی تمام مساجد میں سارے سال کا خرچ دو تین روپیہ سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔ آخر ہماری مالی حالت اتنی تو گری ہوئی نہیں کہ ہم اپنی مسجدوں کے لئے دو تین روپیہ کا سالانہ خرچ بھی برداشت نہ کر سکیں۔ غریب سے غریب زمینداروں کی جماعت بھی یہ خرچ بآسانی پورا کر سکتی ہے۔ پندرہ بیس یا تیس چالیس نمازی ہوں تو ذرا سی توجہ سے یہ خرچ پورا ہو سکتا ہے۔ صرف اہتمام کی ضرورت ہے اور صرف اس خیال کو اپنے دل میں پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے جو کچھ فرمایا ہے ہمارے فائدہ کے لئے فرمایا ہے اور اس کا چھوڑنا ہمارے لئے مُضِر ہے۔ ’’ (الفضل18 مارچ1941ء)
1 ابو داؤد اَبْوَابُ الْجُمُعَةِ باب اَلْاِمَامُ یُکَلِّمُ الرَّجُلَ فِیْ خُطْبَتِہٖ
2 بخاری کتاب الجنائز باب فَضْلُ اِتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ۔ باب مَنْ اِنْتَظَرَ حَتّٰی یُدْفَنَ
3 بخاری کتاب الجمعة باب مَنْ تَسَوَّکَ بِسِوَاکِ غَیْرِہٖ
4 مسلم کتاب السلام باب الطَّاعُوْن (الخ)
5 بخاری کتاب الصَّلٰوة باب کَفَّارَةُ الْبُزَاقِ فِی الْمَسْجِدِ
6 بخاری کتاب الصلٰوٰة باب اَلدُّھْنُ بِالْجُمُعَةِ
7 ابو داؤد کتاب الصلٰوة باب اِتِّخَاذُ الْمَسَاجِدَ فِی الدُّوْرِ



9
نیک وہی ہیں جو عُسر اور یُسر دونوں حالتوں میں خدا تعالیٰ کے منشاء کو پورا کرنے کی کوشش کریں
( فرمودہ 14 مارچ 1941ء )

تشہّد، تعوّذ اور سورہٴ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘اللہ تعالیٰ کے قرآن کریم سے دو نام معلوم ہوتے ہیں۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ اس کے دو ہی نام ہیں بلکہ یہ ہے کہ جس مضمون کے متعلق میں اس وقت بیان کرنا چاہتا ہوں اس کے متعلق دو نام ہیں۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ وَ اللّٰهُ يَقْبِضُ وَ يَبْصُۜطُ 1 ہے۔ یعنی وہ قبض کرتا ہے اور پھر بسط بھی کرتا ہے۔ یعنی کبھی تو اپنے بندوں سے اس کا معاملہ اس قسم کا ہوتا ہے کہ وہ ان کے ساتھ مہربانی، شفقت اور رحم سے پیش آتا ہے، ان کو ترقیات بخشتا ہے، ان کے کاموں میں برکت دیتا ہے اور ان کی کوششوں کے اعلیٰ درجہ کے نتائج پیدا کرتا ہے اور کبھی اس کے قابض ہونے کی صفت ظہور میں آتی ہے اور وہ اپنے بندے پر تکالیف، ابتلاء اور مصائب نازل کرتا ہے اور دیکھتا ہے کہ ان ابتلاوٴں اور تکالیف کے زمانہ میں اس کے بندے کا معاملہ کیسا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ معاملہ افراد اور اقوام دونوں کے متعلق ہوتا ہے مومنوں کے ساتھ یا مومن جماعتوں کے ساتھ۔ اس کا معاملہ کبھی تو قبض کا اور کبھی بسط کا ہوتا ہے۔ یا تو وہ قبض کے بعد بسط کا سلوک کرتا ہے یا یہ دونوں معاملے بدلتے رہتے ہیں اور اگر وہ کبھی لمبے زمانہ تک قبض کا معاملہ کرتا ہے تو آخر میں ضرور بسط کا معاملہ کرتا ہے اور انجام کار کشائش عطا کر دیتا ہے اور بالعموم انجام اچھا ہوتا ہے۔ سوائے اس کے کہ دنیا کے مصائب اس کے علم میں اس مومن کے لئے آخرت کے لحاظ سے بہتر ہوں۔ ایسی حالت میں تو بعض اوقات انجام بھی تکلیف کا ہی ہوتا ہے۔ مگر اس کا عام طریق یہی ہے کہ مومن سے وہ ابتداءً قبض کا اور آخر کار بسط کا معاملہ کرتا ہے اور مومن جماعتوں سے بھی عام طور پر اس کا معاملہ اسی رنگ میں ہوتا ہے۔ یعنی ابتداءً قبض کا ہوتا ہے مگر آخر ایک دن ایسا آتا ہے کہ بسط کا معاملہ ہو جاتا ہے اور ترقیات عطا کر دیتا ہے اور ان دونوں حالتوں میں وہ اپنے بندے کا امتحان کر کے دنیا کو دکھاتا ہے کہ دیکھو میرا بندہ دونوں حالتوں میں اچھا رہا۔ دنیا میں کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں کہ وہ مصیبت کے ایام میں زیادہ اچھے اور شاندار اعمال کرتے ہیں مگر کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو مصائب کے وقت گھبرا جاتے ہیں اورخوشیوں کے زمانہ میں اچھے رہتے ہیں۔ یہ دراصل فطری نقائص ہوتے ہیں ان کو نیکی نہیں کہا جا سکتا۔ بعض کی بناوٹ ہی ایسی ہوتی ہے کہ جب ان پر مصیبت کا وقت آئے تو ان کے اخلاق نمایاں طور پر اُبھر آتے ہیں یا جب خوشی کا وقت آئے تو ان کے اخلاق زیادہ اُبھر آتے ہیں۔ بعض ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو کھانے کو ملتا رہے، بیوی بچے اچھے رہیں تو وہ خوب نمازیں پڑھتے، روزے رکھتے اور نیک اعمال بجا لاتے ہیں لیکن جب ذرا بھی مصیبت آ جائے تو نمازیں چھوڑ دیتے ہیں، روزہ رکھنا ترک کر دیتے ہیں اور کہنے لگ جاتے ہیں کہ بس بہت نمازیں پڑھ کر اور روزے رکھ کر دیکھ لیا ہے کچھ نہیں بنتا۔ لیکن بعض طبائع ایسی ہوتی ہیں کہ جونہی ذرا کھانے کو ملا نمازوں میں سست ہو جاتے ہیں، نیک اعمال سے غافل ہو جاتے ہیں، لیکن جب کوئی گھر میں بیمار ہوٴا فوراً مصلّٰی بچھا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ لیکن نہ تو وہ لوگ جو خوشی کے وقت میں اچھے اخلاق دکھاتے اور اپنی حالت کو درست رکھتے ہیں شریعت یا اخلاق کے مطابق عمل کرنے والے ہوتے ہیں اور نہ وہ جو مصیبت کے وقت ایسا کرنے والے ہوتے ہیں بلکہ مومن کا کمال یہ ہوتا ہے کہ خوشی اور مصیبت دونوں وقت خدا تعالیٰ کو راضی رکھنے کی کوشش کرے اور اس کے منشاء کو پورا کرے۔ ایسے ہی لوگوں کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ فطرت پر عمل کرنے والے نہیں بلکہ شریعت پر عمل کرنے والے ہیں۔ فطرت کے مطابق عمل کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس انسان میں استقلال نہیں۔ جب تک حالات اس کی فطرت کے مطابق ہوں وہ ٹھیک چلتا جاتا ہے اور جب حالات میں تبدیلی ہو نیکی کو چھوڑ دیتا ہے۔ جس شخص کی فطرت ایسی ہے کہ وہ خوشی میں خدا تعالیٰ کو یاد کرتا ہے جب تک حالات اس کی فطرت کے مطابق ہوں یعنی خوشی اور راحت کے سامان پیدا رہیں وہ ایسا کرتا ہے مگر جب حالات اس کی فطرت کے مطابق نہ رہیں وہ خدا تعالیٰ کو بھول جاتا ہے یا جس کی فطرت ایسی ہے کہ مصیبت کے وقت میں اسے خدا تعالیٰ یاد آتا ہے جب تک اس پر مصائب رہیں وہ خدا تعالیٰ کو یاد رکھتا ہے مگر جب ذرا خوشی کا زمانہ آئے وہ سمجھ لیتا ہے کہ نمازوں وغیرہ کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایسے لوگ گویا اندھا دھند اپنی فطرت کے مطابق چلتے جاتے ہیں اور نتائج کو مدنظرنہیں رکھتے اور جب وہ اس راستہ سے ہٹ جائیں جو ان کی فطرت کے مطابق ہے تو وہ حیران و پریشان ہو جاتے ہیں اور قوت عملیہ بالکل معطل ہو کر رہ جاتی ہے لیکن جو شخص سوچ سمجھ کر کام کرتا ہے وہ جانتا ہے کہ سب حالتیں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ اس لئے ہر حال میں اس کے منشاء کے مطابق چلنے کی کوشش کرتا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہ کرام کو ابتداءً ہر قسم کے مصائب پیش آئے اور پھر ہر قسم کی ترقیات بھی حاصل ہوئیں مگر انہوں نے دونوں حالتوں میں خدا تعالیٰ کو خوش کرنے کی کوشش کی اور یہ امر بتاتا ہے کہ ان کی نیکیاں اپنے فطری میلان کے مطابق نہ تھیں بلکہ خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے تھیں۔ مکہ کی زندگی میں ان پر کتنی مصیبتیں آئیں ان کا خیال کر کے بھی انسان کانپ جاتا ہے۔ آپ لوگ غور کریں کہ کتنے ہیں جو ایسے مصائب کو برداشت کر سکتے ہیں؟ ان کو گرم ریت پر عین دوپہر کے وقت لٹا دیا جاتا اور پھر رسیاں باندھ کر گھسیٹا جاتا اور کنکریلی زمین پر بے تحاشہ کھینچا جاتا تھا حتّٰی کہ جسم سے خون بہنے لگتا مگر وہ سب کچھ صبر سے برداشت کرتے اور یہ حالت ایک لمبے عرصہ تک جاری رہی۔ ایک صحابی کے متعلق لکھا ہے کہ ایک دفعہ انہوں نے غسل کے لئے اپنا کرتا اتارا تو اس وقت کچھ اَور لوگ بھی وہاں تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ ان کی پیٹھ کا چمڑا بالکل بھینس کے چمڑے کی طرح سخت، کُھردرا اور سیاہ تھا۔ انہوں نے دریافت کیا کہ کیا یہ کوئی بیماری ہے تو اس صحابی نے بتایا کہ بیماری کوئی نہیں بلکہ جب ہم اسلام لائے تو ہمارے مالک (یہ سلوک عام طور پر غلاموں سے کیا جاتا تھا) ہم کو تپتی ہوئی ریت پر ننگا کر کے دوپہر کے وقت لٹا دیتے تھے اور اس سے خون پک پک کر جل گیا اور یہ حالت ہو گئی2 اور اگر ان کا زمانہ اس پر ختم ہو جاتا تو کوئی کہہ سکتا تھا کہ بعض لوگ طبعاً ضدی ہوتے ہیں اور ان کو جتنا ڈانٹا اور دبایا جائے وہ اتنا ہی زیادہ مقابلہ کرتے ہیں۔ اس لئے صحابہ کی یہ حالت کسی نیکی کی وجہ سے نہ تھی بلکہ ان کے فطری میلان کے مطابق تھی۔ ان کی فطرت ہی ایسی تھی۔ اس لئے جب ان پر ظلم ہوئے تو وہ مقابلہ کے لئے کھڑے ہو گئے مگر پھر اللہ تعالیٰ اسلام کا زمانہ لایا اور مسلمانوں کو غلبہ اور فتوحات حاصل ہوئیں اورہم دیکھتے ہیں کہ ان لوگوں نے اس وقت بھی اسی تقویٰ کا نمونہ دکھایا اور نماز، روزہ، حج، زکوٰة اور دوسری نیکیوں میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔ اسی طرح قربانیاں کرتے رہے۔ اس لئے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ ضدی طبیعت کے تھے بلکہ ماننا پڑتا ہے کہ مصائب کے وقت میں بھی وہ خدا تعالیٰ کی خاطر نیک اعمال بجا لاتے تھے اور خوشیوں میں بھی اسی کے لئے نیکیاں کرتے تھے۔ یا اگر اللہ تعالیٰ شروع سے ہی اسلام کو مدنی زندگی عطا کر دیتا ادھر رسول کریم ﷺ دعویٰ کرتے اور ادھر خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت حاصل ہو جاتی تو صحابہ کے نیک نمونہ کو دیکھ کر کوئی کہہ سکتا تھا کہ ان لوگوں کو آرام پہنچا اس لئے وہ نیکیاں کرتے رہے۔ کیا پتہ کہ اگر ان کو مصائب پیش آتیں تو ان کا ایمان کیسا رہتا۔ ان کی طبیعت ہی ایسی تھی کہ خوشی میں خدا تعالیٰ کو یاد کرنے والے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو دونوں زمانے دئیے اس لئے کوئی یہ اعتراض نہیں کر سکتا اور ان کے حالات کو دیکھتے ہوئے ہر ایک کو یہ ماننا پڑتا ہے کہ انہوں نے جو کچھ کیا تقویٰ اور دینداری کے ماتحت کیا۔ کیونکہ دونوں حالتوں میں خدا تعالیٰ کو نہ چھوڑا۔
مجھے اس امر کی ایک مثال یاد آئی ہے کہ کس طرح بعض لوگ نرمی سے ہر قسم کا کام کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں مگر ذرا سی سختی کو برداشت نہیں کر سکتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے زمانہ میں یہاں ایک شخص جو عرب کہلاتے تھے آئے۔ وہ رہنے والے تو برما کے تھے مگر عرب کہلاتے تھے۔ ابوسعید ان کا نام تھا وہ یہاں رہے مگر بعد میں کچھ ابتلاء آیا اور چلے گئے۔ پھر سیاسی آدمی بن گئے اورہندوستان سے شاید ترکی چلے گئے تھے اور غالباً وہیں فوت ہو گئے۔ بہرحال پھر کبھی ان کا ذکر نہیں سنا۔ وہ بڑے اخلاص سے یہاں آئے تھے مگر بعد میں بعض باتوں کی وجہ سے ابتلاء آ گیا اور چلے گئے۔ جب آئے تو اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر گورداسپور میں ایک مقدمہ3 شروع ہو گیا جو مولوی کرم دین بھیں والے کے مقدمہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کو اکثر گورداسپور جانا پڑتا تھا اور آپ بعض اوقات دس دس پندرہ پندرہ دن بلکہ مہینہ مہینہ وہاں رہتے تھے۔ وہ بھی ساتھ رہتے اور خواجہ کمال الدین صاحب اور دوسرے لوگ جو مقدمات کا کام کرتے تھے ان سے خوب خدمت لیتے تھے اور وہ بڑی خدمت کرتے تھے۔ حتّٰی کہ مجھے بعض لوگوں نے سنایا کہ وہ ان کے پاخانہ والے پاٹ بھی دھو دیتے تھے۔ حالانکہ وہ کسی زمانہ میں اچھے تاجر اور آسودہ حال آدمی رہ چکے تھے لیکن ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام مجلس میں تشریف فرما تھے مَیں بھی وہیں تھا۔ خواجہ صاحب آئے شاید اپنے لئے یا شاید ان کے ساتھ کوئی ایسا آدمی تھا جس سے وہ اچھا سلوک کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے آتے ہی کہا کہ عرب صاحب وہ چٹائی گھسیٹ کر ادھر لے آئیے مگر خواجہ صاحب کا لہجہ قدرے تحکمانہ تھا اور طریقِ خطاب میں کچھ حقارت کا رنگ بھی تھا۔ اس لئے ان کے جواب میں عرب صاحب نے باوجودیکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام بھی وہیں تشریف رکھتے تھے۔ بڑے جوش سے کہا کہ کیا مَیں تمہارے باپ کا نوکر ہوں۔ گویا جو شخص محبت سے پاخانہ تک اٹھا دیتا تھا جب اسے خطاب کرتے وقت حکومت کا رنگ آیا تو اس کی فطرت نے بغاوت کی اور اس نے بڑے جوش سے کہا کہ کیا مَیں تمہارے باپ کا نوکر ہوں۔ اس کے بالمقابل بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ محبت سے نہیں مانتے۔ مگر جب ان کو ماراجائے تو بڑے فرمانبردار ثابت ہوتے ہیں۔ مگر جونہی ان سے نرمی کا برتاوٴ کیا جائے فوراً بگڑ جاتے ہیں۔ اس کی بھی ایک مثال مجھے یاد آ گئی ہے وہ شخص ابھی زندہ ہے جب وہ بچہ تھا اور غالباً یتیم تھا۔ ہمارے نانا جان مرحوم اس جوش میں کہ اسے پالیں گے اور اس طرح ثواب حاصل کریں گے اسے گھر میں لے آئے۔ اور باوجودیکہ آپ کی طبیعت بڑی جوشیلی تھی ثواب حاصل کرنے کے شوق میں اس کی بہت خاطرو مدارت کرنے لگے۔ اسے کھلائیں، پلائیں، اس کے لئے بستر کریں اور پھر اسے سلائیں۔ ایک دو روز تو وہ ٹھیک طرح کھاتا پیتا رہا مگر تیسرے چوتھے روز اس نے بگڑنا شروع کیا۔ میر صاحب مرحوم اسے کہیں کھانا کھا لو تو وہ کہے مَیں نہیں کھاوٴں گا۔ نماز کے لئے چلو تو کہے نہیں جاوٴں گا حتّٰی کہ اس نے کھانا چھوڑ دیا۔ اب میر صاحب مرحوم کھانا لے کر بیٹھے ہیں کہ میاں کھا لو بڑی خوشامد کر رہے ہیں مگر وہ یہی کہتا جاتا ہے کہ نہیں مَیں نہیں کھاوٴں گا۔ شام کے کھانے کا وقت اس طرح گزرا اور اس نے نہ کھایا۔ صبح ہوئی تو پھر آپ نے اسی طرح اس کی خوشامد شروع کی کہ میاں فضل الٰہی کھانا کھا لو تمہیں اچھے اچھے کپڑے بنوا دیں گے، یہ لے دیں گے، وہ لے دیں گے مگر اس نے ایک نہ مانی اور اپنی ضد پر اَڑا رہا۔ اور اس طرح دوسرا وقت بھی فاقہ سے ہی رہا۔ تیسرا وقت آیا تو پھر یہی حالت رہی۔ بہت منت خوشامد کی مگر اس نے ایک نہ مانی۔ نانا جان مرحوم کی طبیعت جوشیلی تو تھی ہی آخر ان کو جلال آ گیا اور انہوں نے سوٹی لے کر کہا کہ کھاتا ہے یا نہیں؟ جب اس نے دیکھا کہ آپ مارنے لگے ہیں تو جھٹ کہنے لگا کہ مَیں کھانا کھا لیتا ہوں۔ تین وقت کی منت و سماجت سے تو نہ کھایا مگر جب دیکھا کہ مار پڑنے لگی ہے تو جھٹ کھا لیا اور اس دن سے خوش رہنے لگا۔
تو بعض طبائع مار کے آگے جھکتی ہیں اور بعض پیار کے آگے مگر یہ دونوں طاقتیں نیکی نہیں کہلا سکتیں۔ یہ فطرت کی مختلف حالتیں ہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کو اپنا محسن سمجھتا اور خواہ وہ پیار کرے یا ناراض ہو اس کا ساتھ نہیں چھوڑتا تو یہ نیکی ہے۔ کیونکہ اس نے دونوں صورتوں میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا تعلق ثابت کر دیا۔ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ایک دفعہ منافقین کی طرف سے یہ افواہیں بہت زور سے پھیلائی گئیں کہ روما کا قیصر مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لئے فوجیں جمع کر رہا ہے۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ یہ سن کر رسول کریم ﷺ اس کے مقابلہ کے لئے جائیں گے اور جاتے ہی حملہ کر دیں گے اور اس طرح مسلمانوں اور رومیوں میں لڑائی شروع ہو جائے گی۔ یہ منافقین کی ایک شرارت تھی۔ رسول کریم ﷺ کو یہ افواہیں پہنچیں تو آپ نے حکم دیا کہ بجائے اس کے کہ رومی ہم پر چڑھ آئیں اور حملہ کر دیں ہمیں چاہئے کہ سرحد پر ہی جا کر ان کو روکیں۔ آپ نے مسلمانوں کو تیاری کا حکم دیا۔ حکم بڑا سخت تھا کہ کوئی پیچھے نہ رہے۔ بیس ہزار کے قریب لشکر تیار ہوٴا جسے لے کر آپ روانہ ہوئے۔سب مسلمان ساتھ گئے صرف منافقین پیچھے رہ گئے یا تین مسلمان۔ ان میں سے ایک اپنا واقعہ خود بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے سمجھا کہ میں تیاری کر لوں۔ رسول کریم ﷺ تو فوراً چل پڑے تھے مگر میں نے سمجھا مَیں امیر آدمی ہوں سامان رکھتا ہوں کل چلوں گا تو جا ملوں گا۔ دوسرے روز بھی اسی خیال میں رہا کہ کیا ہے۔ کل چل کر بھی مل سکتا ہوں مگر تیسرے دن بھی نہ جا سکا اور چونکہ حالات خطرناک تھے۔ رسول کریم ﷺ اس قدر تیزی سے بڑھتے جاتے تھے کہ تین دن کے بعد میں نے سمجھا کہ اب نہیں مل سکتا اور رہ گیا۔ رسول کریم ﷺ واپس تشریف لائے تو جو لوگ نہیں گئے تھے ان کی حاضری کا حکم دیا۔ ایک ایک غیر حاضر آپ کے سامنے جاتا۔ آپ نہ جانے کی وجہ پوچھتے وہ کوئی عذر پیش کر دیتا آپ ہاتھ اٹھا کر اس کے لئے دعا کر دیتے اور اسے رخصت کر دیتے۔ مَیں بھی پہنچا تو جو صحابی پہرے پر تھے ان سے دریافت کیا کہ اب تک کیا ہوٴا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس طرح لوگ جاتے ہیں عذر پیش کر دیتے ہیں رسول کریم ﷺ ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے اور پھر رخصت کر دیتے ہیں۔ یہ سن کر میرے دل میں خیال آیا کہ یہ تو چھٹکارے کی آسان راہ ہے۔ مَیں بھی کوئی عذر کر دوں گا مگر پھر خیال آیا کہ معلوم کروں کہ کوئی ایسے بھی ہیں جنہوں نے عذر نہ کیا ہو۔ میں نے پوچھا تو اس صحابی نے بتایا کہ ہاں فلاں فلاں دو شخص ایسے ہیں جنہو ں نے کوئی عذر نہیں کیا اور کہہ دیا ہے کہ ہم سے غلطی ہوئی اور ہم قصور وار ہیں اور مَیں نے دیکھا کہ وہی دو مخلص تھے۔ باقی عذر کرنے والے سب ایسے تھے جن کو ہم پہلے ہی منافق سمجھتے تھے اور مَیں نے دل میں فیصلہ کیا کہ میں بھی مخلصین کے ساتھ رہوں گا۔ چنانچہ میں پیش ہؤا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ مالکؓ تم بھی نہیں گئے۔ کیا عذر تھا۔ میں نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!کوئی عذر نہ تھا۔ صرف نفس کا دھوکا تھا۔ آپ نے فرمایا تم ٹھہرو تمہارے متعلق بعد میں فیصلہ کیا جائے گا اور پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم کے مطابق آپ نے ان تینوں کے بائیکاٹ کا اعلان فرمایا اور حکم دیا کہ کوئی شخص ان سے سلام کلام نہ کرے ۔ پھر کچھ دن کے بعد حکم دیا کہ ان کی بیویاں بھی ان سے قطع تعلق کر لیں۔ مالکؓ کہتے ہیں کہ میری بیوی نے کہا کہ فلاں کی بیوی نے اجازت لے لی ہے تم کہو تو میں بھی لے آوٴں۔ میں نے کہا کہ وہ تو کمزور اور بیمار ہے اس وجہ سے اس کی بیوی نے اجازت لی ہے۔ میں کوئی اجازت لینا نہیں چاہتا اور چونکہ خطرہ ہے کہ کسی وقت تم مجھے بلا لو یا مَیں تمہیں بلا لوں اس لئے تم اپنے میکے چلی جاوٴ تا یہ حکم پوری طرح ادا ہو سکے۔ وہ کہتے ہیں میرے دل میں ایک درد تھا، دکھ تھا کہ منافق تو سزا سے بچ گئے اورہمیں سزا مل گئی۔ کہیں یہ تو بات نہیں کہ ہم پر بہت بڑے منافق ہونے کا شبہ ہو۔ میرا ایک رشتہ دار تھا اور ہم دونوں میں باہم اس قدر محبت تھی کہ اکٹھے ہی کھانا کھاتے اور اکثر اکٹھے رہتے تھے۔ ایک دوسرے سے گویا عشق تھا۔ جب یہ خیال میرے دل میں آیا تو وہ اپنے باغ میں کام کرتا تھا۔ مَیں گھبراہٹ کے عالم میں اس کے پاس گیا اورکہا کہ بھائی دیکھو اور لوگوں کو تو ہو سکتا ہے کہ اچھی طرح سب حالات معلوم نہ ہوں مگر تمہیں تو سب کچھ معلوم ہے۔ صرف یہ بتاوٴ کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ مَیں منافق ہوں۔ مگر اس نے میری طرف مُنہ کر کے دیکھا بھی نہیں اور اپنے کام میں لگا رہا۔ میں نے پھر کہا کہ میں صرف اتنا پوچھتا ہوں کہ تم تو میرے حال سے واقف ہو” کیا میں منافق ہوں“؟ مَیں چاہتا تھا کہ وہ کہہ دے نہیں اور میرا کلیجہ ٹھنڈا ہو جائے مگر اس نے پھر کوئی جواب نہ دیا اور آسمان کی طرف سر اٹھا کر کہا کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ ایک ایسے شخص سے جو میرے حالات کا پوری طرح واقف تھا، رشتہ دار تھا اور اس سے نہایت گہرے تعلقات تھے یہ جواب سن کر گویا زمین اور آسمان مجھ پر تنگ ہو گئے اور مجھ پر جنون کی حالت طاری ہو گئی۔ یہاں تک کہ مَیں باغ کے دروازہ کی طرف بھی نہیں گیا بلکہ دیوار پھاند کر پاگلوں کی طرح شہر کو چل پڑا۔ جب میں شہر میں داخل ہوٴا تو ایک یہودی نے کہا کہ ایک شخص تمہیں تلاش کرتا پھرتا ہے مَیں ذرا آگے بڑھا تو وہ ایک اور شخص سے میرا پتہ پوچھ رہا تھا اور وہ شخص میری طرف اشارہ کر کے بتا رہا تھا کہ وہ ہے۔ وہ میرے پاس آیا اورکہا کہ یہ غسّان کے بادشاہ نے آپ کے نام خط بھیجا ہے۔ مَیں نے اسے کھولا تو اس میں لکھا تھا کہ میں نے سنا ہے تمہارے سردار نے تمہارے ساتھ بہت سختی کا معاملہ کیا ہے حالانکہ تم اپنی قوم کے سردار اور رئیس تھے تمہیں بہت ذلیل کن سزا دی گئی ہے جسے ہم بھی سخت ناپسند کرتے ہیں اورہمیں تمہارے ساتھ بہت ہمدردی ہے اگر تم ہمارے پاس آ جاوٴ تو ہم تمہاری شان کے مطابق عزت کریں گے۔ مالک کہتے ہیں یہ خط پڑھ کر مَیں نے کہا کہ شیطان کا آخری حملہ ہے۔ میں چلتا گیا آگے ایک تنور جل رہا تھا وہ خط میں نے اس میں ڈال دیا اور اس قاصد سے کہا کہ اپنے آقا سے کہہ دینا کہ تمہارے خط کا یہ جواب ہے۔ وہ کہتے ہیں مَیں نمازوں میں جاتا، جا کر اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہتا اورکان لگا کر سنتا کہ شاید رسول کریم ﷺ نے جواب آہستہ دیا ہو۔ مگر جب معلوم کرتا کہ آپ نے جواب نہیں دیا تو تھوڑی دیر بیٹھ کر مجلس سے باہر چلا جاتا اورباہر یونہی تھوڑی دیر ادھر ادھر پھرنے کے بعد مجلس میں آتا اور پھر اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہتا اور رسول کریم ﷺ کے ہونٹوں کی طرف دیکھتا کہ شاید آپ نے آہستہ سے جواب دیا ہو مگر آپ جواب نہیں دیتے تھے ہاں یہ مَیں نے کئی دفعہ دیکھا کہ مَیں نظریں نیچی کئے بیٹھا ہوں۔ آنکھ اٹھا کر جو دیکھا تو رسول کریم ﷺ کو اپنی طرف دیکھتے ہوئے پایا اور یہ دن اسی طرح گزرتے گئے۔ یہاں تک کہ غسّان کے خط کا واقعہ ہوٴا۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان کے اخلاص کو دیکھ کر آنحضرت ﷺ کو الہام فرمایا کہ تینوں کو معاف کر دیا جائے۔ مالک کہتے ہیں کہ مَیں نماز پڑھ کر جلد گھر آ گیا تھا اور بعد میں مجلس میں آپ نے یہ فرمایا یہ سنتے ہی ایک صحابی تو گھوڑے پر سوار ہو کر مالک کو خبر دینے گئے مگر ایک ان سے بھی ہشیار نکلے اور انہوں نے ایک ٹیلے پر چڑھ کر بلند آواز سے پکارا کہ مبارک ہو خدا تعالیٰ اور اس کے رسول نے تم کو معاف کر دیا۔ مالک کہتے ہیں یہ پیغام پہنچا تو مَیں رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوٴا اور عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! آپ نے ہمیں معاف کر دیا؟آپ نے فرمایا ہاں۔ مَیں نے عرض کیا کہ اس معافی کے بعد میں سب سے پہلا کام یہ کرتا ہوں کہ میری دولت نے ہی مجھے غافل کر رکھا تھا۔ اس لئے مَیں ساری دولت اور جائداد خدا تعالیٰ کی راہ میں دیتا ہوں تا نہ یہ پاس ہو اور نہ پھر کبھی ایسی غفلت میں مبتلا ہو سکوں 4 اور اس کے بعد یہ خوشخبری پہنچانے والے کو اپنے کپڑے انعام دئیے اور خود کسی سے مانگ کر پہنے۔
تو دیکھو کس قدر مصیبت کے وقت میں شاندار اخلاص کا نمونہ دکھایا۔ آنحضرت ﷺ بیعت کے وقت یہ عہد لیتے تھے کہ عُسر یُسر دونوں حالتوں میں فرمانبرداری کروں گا اور ان لوگوں نے اس عہد کو پورا کر دکھایا۔ پس نیک وہی ہے جو خوشی اور مصیبت دونوں حالتوں میں خدا تعالیٰ کے منشاء کو پوراکرنے کی کوشش کرتا ہے اور کسی حالت میں بھی گھبراہٹ ظاہر نہیں ہونے دیتا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے دین سے سچا تعلق رکھتا ہے اور ہر حال میں خدا تعالیٰ کا ساتھ دیتا ہے۔ یہی لوگ ہیں کہ اللہ تعالیٰ بھی ہر وقت ان کا ساتھ دیتا ہے۔ اور ایسے ہی بہادر لوگ ہیں جو ہر حال میں قربانیاں کرتے ہیں۔ جن کے ناموں کو دنیا ہمیشہ یاد رکھتی ہے۔ مسلمانوں میں گرے ہوئے زمانہ میں بھی ایسے لوگوں کی کافی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ یہی لوگ حقیقی بہادر ہوتے ہیں۔ بہادر وہ نہیں جو صرف تکلیف کے وقت قائم رہتا ہے۔ یہ بہادری نہیں تہوّر کہلا سکتا ہے اور اسی طرح وہ بھی نہیں جو خوشی میں بات مانتا ہے۔ اسے ہم صرف نرم اور کمزور دل کہہ سکتے ہیں۔ بہادر وہی ہے جو نہ ڈر کے وقت ساتھ چھوڑتا ہے اور نہ خوشی کے وقت۔ اسلامی تمدن کے زمانہ میں اس کی بہترین مثال سپین کے ایک سردار کی نظر آتی ہے۔ سپین کو پہلی صدی کے آخر میں مسلمانوں نے فتح کر لیا تھا۔ چنانچہ جبل الطارق جسے اب جبرالٹر کہا جاتا ہے ایک مسلمان جرنیل طارق بن زیادکے نام پر ہی ہے۔ یہ یورپ اور امریکہ سے بحیرہ روم میں داخل ہونے کا دروازہ ہے۔ بنو امیہ کے زمانہ میں ایک اسلامی لشکر افریقہ سے ہوتا ہوٴا یہاں پہنچا اور ایسی ہمت کے ساتھ سپین کو فتح کیا کہ حیرت آتی ہے ۔ اس لشکر کی تعداد صرف بیس ہزار تھی۔ جب یہ فوج کشتیوں سے اتری تو طارق نے اپنے سپاہیوں سے کہا کہ دیکھو ہم بہت تھوڑے ہیں سارا ملک ہمارا دشمن ہے۔ لڑائی اگر شدید ہو تو ممکن ہے بعض کے دل میں یہ کمزوری پیدا ہو کہ لَوٹ جائیں۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ ہم ان کشتیوں کو جلا دیں تا واپسی کا خیال ہی نہ رہے۔ بعض نے کہا کہ یہ خطرہ کی بات ہے مگر طارق نے کہا کہ اگر ڈرنا تھا تو گھر سے ہی کیوں نکلنا تھا۔ آخر کشتیاں جلا دی گئیں سپین پر حملہ کیا اور اس کے اکثر حصہ کو فتح کر لیا گیا اور وہاں ایک زبردست حکومت قائم کی اوربڑے بڑے فقیہہ اور علماء جن کے متعلق مسلمان یہ جانتے بھی نہیں کہ وہ عربی نہیں بلکہ یورپین تھے وہیں پیدا ہوئے ہیں۔
محی الدین ابن عربی بڑے بلند پایہ صوفی گزرے ہیں۔ فتوحاتِ مکیہ ان کی مشہور کتاب ہے وہ یورپین اور سپین کے رہنے والے تھے۔ اسی طرح بہترین تفاسیر جو ہیں ان میں قرطبی فقہی مسائل کے لحاظ سے اور بحر محیط نحوی لحاظ سے بہترین تفسیریں سمجھی جاتی ہیں۔ اس میں رطب و یابس اور لغو باتیں نہیں بلکہ قرآن کریم پر قرآن کریم سے بحث کی گئی ہے اوریہ دونوں مفسر یورپ کے رہنے والے تھے۔ ابن حجر کا نام ایسا ہے جسے عام طور پر مسلمان جانتے ہیں۔ حضرت خلیفہ اول تو گویا ان کے عاشق تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ ابن حجر اسلام کے لئے ننگی تلوار تھے یہ بھی سپین کے رہنے والے تھے۔ تو سپین ایک زمانہ میں اسلام کا مرکز تھا کیا بلحاظ فقہی مسائل کی تحقیق و تدقیق کے اور کیا بلحاظ فقہ، علمِ کلام، تفسیر قرآن اور احادیث پر عبور کے۔ پھر دنیوی علوم میں سے طب، فلسفہ اور علم ادب کے لحاظ سے بھی وہاں چوٹی کے علماء گزرے ہیں لیکن عام لوگ غلطی سے سمجھتے ہیں کہ یہ سب بڑے بڑے علماء و فقہاء عرب اور بغداد وغیرہ کے رہنے والے تھے۔
سپین میں مسلمانوں کی حکومت آٹھ سو سال تک قائم رہی اور بڑی شان سے رہی۔ فرانس کے بعض علاقے بھی مسلمانوں نے فتح کئے۔ یورپ کے بہت سے جزائر بھی ان کے قبضہ میں تھے، جنوبی اٹلی کے بعض حصوں پر بھی ان کی حکومت تھی۔ مگر یہ ساری حکومت آہستہ آہستہ باہمی مخالفتوں اور عداوتوں کی وجہ سے کمزور ہوتی گئی حتّٰی کہ صرف دار السلطنت غرناطہ اور اردگرد کے بعض دیہات تک ہی اسلامی حکومت محدود رہ گئی۔ اس وقت سپین کے ایک حصہ کا بادشاہ فرڈیننڈ خامس اور ایک کی ایک عورت ازبیلا تھی۔ دونوں نے باہم شادی کر لی اور ساری طاقت اکٹھی کر کے غرناطہ پر حملہ کر دیا۔ مسلمان بہت تھوڑے تھے مگر پھر بھی ہمت والے تھے اور اسلامی اثر ان پر تھا ۔ مقابلہ بڑا سخت کیا مگر آخر محاصرہ کی حالت ہو گئی سات ماہ تک محاصرہ جاری رہا اور پھر خوراک میں بھی کمی ہونے لگی اس وقت وہاں کے بادشاہ ابو عبد اللہ محمد بن سلطان ابو الحسن ناصری تھے انہوں نے مجلس مشاورت منعقد کی کہ کیا کیا جائے۔ اکثر لوگوں کا مشورہ یہی تھا کہ صلح کر لی جائے مقابلہ فضول ہے کیونکہ ہم مقابلہ کر نہیں سکتے۔
موسیٰ بن غسان سوار فوج کے جرنیل تھے انہوں نے کہا کہ صلح کی بات فضول ہے۔ عیسائیوں کوبتا دو کہ مسلمان تلوار اور خنجر اور گھوڑے پر چڑھ کر لڑنے کے لئے ہی پیدا ہوٴا ہے ۔ اگر مسیحی بادشاہ ہمارے ہتھیاروں کا مطالبہ کرتا ہے تو وہ آکر ہم سے جبراً چھین لے لیکن اسے معلوم ہو جائے گا کہ ہمارے ہتھیار اسے بہت مہنگے پڑیں گے۔ میرا تو یہ حال ہے کہ غرناطہ کی فصیل کے نیچے کی قبر مجھے غرناطہ کے پُرتکلف مکانوں کی رہائش سے زیادہ عزیز ہے۔ جس میں مجھے کفار کی اطاعت میں رہنا پڑے۔ لوگوں پر ان کی باتوں کا اثر ہوٴا اور جنگ جاری رکھنے کا فیصلہ ہوا اور باہر نکل کر حملے شروع کئے مگر کجا ایک شہر اور کجا سارا ملک۔ مسلمان کثرت سے شہید ہونے لگے اور محاصرہ لمبا ہو گیا یہاں تک کہ سردی کا موسم آ گیا او رخوراک کا ذخیرہ ختم ہونے لگا آخر ابو القاسم گورنر غرناطہ نے رپورٹ کی کہ ذخائر خوراک ختم ہونے کو ہیں اورلوگوں میں گھبراہٹ پیدا ہو رہی ہے لیکن موسیٰ نے پھر صلح کی مخالفت کی اور باہر نکل کر دشمن کا مقابلہ کرنے کی رائے دی اور پھر باہر نکل کر مقابلہ شروع ہوٴا لیکن پیدل سپاہ کو شکست ہوئی اور لشکر اسلام پھر قلعہ میں محصور ہو گیا۔ پھر صلح کی کانفرنس ہوئی۔ پھر موسیٰ نے مخالفت کی اور کہا کہ ہر مرد کو ہتھیار دو کہ وہ نکل کر مقابلہ کرے اور مَیں تو غرناطہ کی حفاظت میں لڑ کر مر جانا پسند کروں گا مگر مغلوب ہونے کو ہرگز برداشت نہ کروں گا لیکن اس دفعہ ان کی بات کا اثر نہ ہؤا اور ابو القاسم وزیر کو صلح کی شرطیں طے کرنے کو بھجوایا گیا اور وہ یہ شرائط طے کر کے آئے کہ ستر دن لڑائی بند رہے گی۔ اس اثناء میں اگر مسلمانوں کو افریقہ سے مدد پہنچ گئی تو وہ لڑائی جاری کر دیں گے ورنہ ہماری ماتحتی میں رہیں گے۔ ان کی مساجد کا احترام کیا جائے گا، اسلامی مدارس جاری رکھے جائیں گے، کسی عیسائی یا یہودی کو ان پر حاکم نہیں مقرر کیا جائے گا۔ وزیر جب یہ شرائط معلوم کر کے واپس آیا تو سب نے ان کو پسند کیا مگر ہزار سال کی حکومت کے بعد اس طرح حکومت کھونے کے خیال سے کئی عمائد رو پڑے۔
موسیٰ کھڑے ہوئے اور کہا کہ اے سردارانِ قوم اس رونے کے کام کو عورتوں اور بچوں کے لئے رہنے دو ہم مرد ہیں ہمارا کام آنسو بہانا نہیں خون بہانا ہے۔ بے شک لوگوں میں مایوسی پھیلی ہوئی ہے مگر ابھی ایک راستہ شرفاء کے لئے کھلا ہے اور وہ یہ کہ لڑ کر مر جائیں۔ زمین ہماری لاشوں کو سنبھالنے کے لئے موجود ہے اور اگر وہ بھی نہ ملے تو آسمان ہماری قبر بننے کے لئے کافی ہے۔ خدا تعالیٰ ہم کو اس طعنے سے بچائے کہ یہ لوگ اسلامی حکومت کے بچانے سے موت کے ڈر کی وجہ سے رک گئے۔ ان کی یہ تقریر سن کر بادشاہ نے کہا کہ یہ میری بد قسمتی ہے کہ اس ملک میں اسلام کی تباہی میرے ہی زمانہ میں مقدر تھی مگر امراء پر اس پُرحسرت کلام کا بھی کوئی اثر نہ ہوٴا اور وہ صلح نامہ پر دستخط کرنے کے لئے تیار ہو گئے تب موسیٰ پھر جوش سے کھڑے ہوئے اور کہا کہ اپنے آپ کو دھوکا نہ دو اور یہ خیال نہ کرو کہ عیسائی صلح کے شرائط کی پابندی کریں گے۔ موت تو سب سے کم خطرہ والی شے ہے۔ صلح کے بعد ہمارے شہروں کا تباہ کیا جانا، مسجدوں کی بے حرمتی، گھروں کی تباہی، ہماری بیویوں اور لڑکیوں کی عصمت دری، ظلم اور بے انصافی، زنجیریں اور کوڑے اور قید خانے، دہکتی ہوئی آگ میں جلایا جانا مجھے نظر آ رہا ہے۔ اور وہ لوگ جو زندہ رہیں گے ان امور کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔ باقی رہا مَیں سو خدا کی قسم ہرگز اس دن کو نہیں دیکھوں گا۔ یہ کہہ کر موسیٰ بن غسان اٹھے اور بغیر کسی سے مخاطب ہوئے اپنے گھر گئے اور ہتھیار لگا کے گھوڑے پر سوار ہوئے اور شہر سے باہر نکل گئے ۔ اسلامی تاریخ کہتی ہے کہ اس کے بعد پھر کسی نے ان کو نہ دیکھا مگر مسیحی موٴرخ فرے انٹونیو گائیڈا لکھتا ہے کہ اسی دن ایک دستہ پندرہ سواروں کا دریا کے کنارے چکر لگا رہا تھا کہ انہوں نے دیکھا کہ ایک مسلمان ہتھیار لگا کے ان کی طرف بڑھا چلا آ رہا ہے انہوں نے اسے کھڑا ہونے اور اپنے آپ کو ان کے حوالے کرنے کے لئے کہا لیکن اس نے کوئی جواب نہ دیا او ربڑھ کر ایک سوار کو مار گرایا اس پر لڑائی شروع ہو گئی اور یہ سوار زخموں اور چوٹوں سے بالکل بے پرواہ تھا اس کی ایک ہی غرض معلوم ہوتی تھی کہ جس قدر عیسائی سواروں کو مار سکے مار دے۔ اسے فتح کا خیال نہ تھا اسے صرف دشمن کو مارنے کا خیال تھا ۔ قریباً آدھا دستہ سواروں کا اس نے مار گرایا آخر سخت زخمی ہوٴا اور اس کا گھوڑا بھی زخمی ہو کر گر گیا لیکن وہ پھر بھی لڑتا رہا اور زمین پر گرا ہوٴا گھٹنوں کے بل اس نے لڑائی جاری رکھی اور آخر جب بالکل چُور ہو گیا تو دریا میں کود کر ڈوب گیا۔ یہ ماننا کہ موسیٰ دریا میں خود کُودے ناممکن ہے کیونکہ مسلمان خودکشی کو جائز نہیں سمجھتے ۔ پس بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ یا تو وہ تڑپ کر گر گئے یا ذلیل مسیحی سپاہیوں نے اُن کو غصہ میں دریا میں دھکیل دیا۔یہ تھا سپین کا آخری مخلص جس نے آرام کے دنوں میں ہی خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق نہ رکھا بلکہ مصیبت کے وقت بھی اُس کو نہ چھوڑا۔ خدا تعالیٰ کی رحمت اس اسلام کے سپاہی پر ہو۔ مسلمان بادشاہوں کو بھول سکتے ہیں مگر اسلام کے اس بہادر سپاہی کو نہیں بھول سکتے۔ جب تک ایک سچے مسلمانوں کی رگوں میں ایمان کا خون جاری ہے اس وقت تک موسیٰ بن غسان کا ذکر بھی نیکی اور دعا کے ساتھ جاری رہے گا۔ ایسے ہی لوگوں کے حالات نوجوانوں کے اندر ہمت اور عزم پیدا کرتے ہیں اور مَیں جماعت کے نوجوانوں سے خصوصاً اور دوسرے احباب سے عموماً یہ کہوں گا کہ اعلیٰ درجہ کا خلق یہی ہے جس کی مثال موسیٰ نے پیش کی اور وہ اسے اپنے اندر پیدا کریں۔ خوشی اور مصیبت دونوں حالتوں میں خدا تعالیٰ کو خوش رکھنے کی کوشش کریں۔ رسول کریم ﷺ تو صحابہؓ سے بیعت میں یہ عہد لیتے تھے کہ عُسر اور یُسر دونوں حالتوں میں فرمانبرداری کروں گا اور یہی سچا ایمان ہے اور جس کے ا ندر یہ نہیں وہ مُنہ سے تو مومن ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے مگر حقیقت میں وہ ایماندار نہیں ہے۔ ’’ (الفضل 27 مارچ 1941ء)
1 البقرة : 246
2 یہ حضرت خباب بن الارت تھے۔ الاستیعاب جلد 2 صفحہ 21-22 مطبوعہ بیروت 1995ء
3 یہ مقدمہ 28 جنوری 1903ء کو رائے سنسار چند مجسٹریٹ کی عدالت میں دائر ہوٴا جو بعد میں لالہ چندو لال مجسٹریٹ درجہ اول گورداسپور کی عدالت میں منتقل ہو گیا۔ اس مقدمہ میں مجسٹریٹ نے حضور کو پانچ سو روپیہ جرمانہ کی سزا دی ۔ ہائیکورٹ میں اپیل پر حضور کو باعزت طور پر رہا کر دیا گیا اور جرمانہ واپس کر دیا گیا۔ (تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ 289 تا 310)
4 بخاری کتاب المغازی باب حدیث کعب بن مالک

10
دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ جنگ کے بد اثرات سے اسلام اور احمدیت کو محفوظ رکھے
( فرمودہ 21، مارچ 1941ء )

تشہّد، تعوّذ اور سورہٴ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘سردیوں کا موسم گزر چکا ہے اور گرمیوں کاموسم آ رہا ہے۔ جہاں یہ موسم بیماریوں کے اسباب کو بھڑکانے کا موجب ہوتا ہے وہاں یہ موسم لڑائیوں اور فسادوں کے بھڑکانے کا بھی موجب ہوتا ہے۔ چنانچہ کل پرسوں سے خبریں آ رہی ہیں کہ بنگال کے مشرقی حصہ کے صدر مقام ڈھاکہ میں مسلمانوں اور ہندووٴں میں خونریزی ہو رہی ہے۔ سینکڑوں آدمی زخمی ہو گئے ہیں اور بہت سے مارے جا چکے ہیں۔ جو پرائیویٹ اطلاعات ہیں ان کی رُو سے تو زخمیوں اور مرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن گورنمنٹ نے بھی مرنے والوں اور زخمیوں کی تعداد ڈیڑھ سو کے قریب ظاہر کی ہے۔
مَیں نے دیکھا ہے اس موسم میں فساد اور جھگڑے کچھ زیادہ ہو جاتے ہیں شاید اس لئے کہ خون میں جوش پیدا ہو جاتا ہے۔ سردی میں خون گاڑھا ہوتا ہے اور جلدی جوش میں نہیں آتا۔ مگر گرمی میں خون پتلا ہو جاتا اورجلدی ہی رگوں میں دوڑنے لگتا ہے جس کی وجہ سے انسان آپے سے باہر ہو جاتا ہے لیکن یورپ میں تو یہ وجہ بھی ہوتی ہے کہ وہاں سردیاں اتنی شدید ہوتی ہیں کہ لوگ آسانی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ نہیں جا سکتے۔ سمندروں میں بعض جگہ برفوں کے تودے پھرنے لگتے ہیں، در یا منجمد ہو جاتے ہیں اورہوائی جہازوں کی مشینوں کے انجن بھی اوپر جا کر اتنا عمدہ کام نہیں کر سکتے جتنا وہ گرمیوں میں کام کر سکتے ہیں۔ اس وجہ سے یورپ میں جو لڑائیاں ہوتی ہیں وہ سردی میں کم ہو جاتی ہیں اور گرمی میں نئے سرے سے تیز ہو جاتی ہیں۔ پچھلے سال کا تجربہ بھی یہی ہے کہ نومبر، دسمبر، جنوری، فروری اور مارچ میں لڑائی کم رہی۔ مارچ کے آخر میں بیداری شروع ہوئی ، اپریل، مئی میں لڑائی نے زور پکڑا اور جون میں وہ قومیں جو اس وقت جرمنی کے مقابلہ میں برسرِپیکار تھیں ختم ہو گئیں۔ اب پھر وہ دن قریب آ رہے ہیں۔ گزشتہ سال تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس عظیم الشان تباہی سے جو بالکل قریب نظر آ رہی تھی بچا لیا تھا مگر اب پھر حالات بدل رہے ہیں اور پھر اس امر کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور کثرت سے دعائیں کی جائیں۔ نادانوں کے نزدیک تو ان حالات کی کوئی اہمیت نہیں مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ حالات کس قدر خطرناک ہیں۔
مَیں نے اگست 1939ء میں ایک خواب دیکھی تھی جس میں مجھے بتایا گیا تھا کہ انگلستان کی حالت خطرے میں ہے۔ مَیں یہ خواب پہلے بھی بیان کر چکا ہوں بلکہ الفضل 1 میں شائع بھی ہو چکی ہے۔ مَیں نے دیکھا کہ میں ایک جگہ بیٹھا ہوٴا ہوں اور کوئی فرشتہ میرے سامنے بعض کاغذات پیش کر رہا ہے۔ وہ کاغذات انگلستان اور فرانس کی باہمی خط و کتابت سے تعلق رکھتے تھے۔ مختلف کاغذات پڑھنے کے بعد ایک کاغذ میرے سامنے پیش کیا گیا مَیں نے اسے دیکھا تو مجھے معلوم ہوٴا کہ وہ ایک چِٹھی ہے جو حکومت انگریزی کی طرف سے حکومت فرانس کو لکھی گئی ہے اور ا س چِٹھی کا مضمون یہ ہے کہ جنگ کے خطرناک صورت اختیار کر لینے کا سخت خطرہ ہے اور ڈر ہے کہ جرمنی انگلستان پر قبضہ کر لے۔ ان حالات میں ہم فرانس کے سامنے یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ فرانس اورانگلستان کی حکومتیں ایک نظام کے ماتحت ہو جائیں اور دونوں کو آپس میں ملا دیا جائے۔ یہ اس وقت کی روٴیا تھی جب جنگ ابھی شروع بھی نہیں ہوئی تھی۔ دو ایسی حکومتوں کا آپس میں مل جانا اور ان کا اپنے نظاموں کو بدل کر ایک ہو جانا جو دنیا کی سب سے بڑی حکومتیں سمجھی جاتی تھیں کسی انسان کے خیال اور واہمہ میں بھی آنے والی بات نہیں تھی۔ یہ ایسے ہی حالات میں ہو سکتا تھا جو نہایت خطرناک ہوں۔ اور جب انسان باقی تمام جذبات اور احساسات کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو جائے اور صرف یہی بات اس کے سامنے رہے کہ کسی طرح جان بچ جائے ۔ میں نے جب اس چٹھی کو پڑھا تو روٴیا میں ہی مَیں سخت گھبرا گیا مگر اسی حالت میں یکدم مجھے آواز آئی کہ یہ چھ مہینے پہلے کی بات ہے یعنی اس حالت کے چھ ماہ بعد حالات بدل جائیں گے۔
جب مَیں نے یہ روٴیا دیکھی تو اس وقت لوگوں کو ابھی تک جنگ کے شروع ہونے کے متعلق بھی یقین نہیں آتا تھا اور لوگ عام طور پر سمجھتے تھے کہ ہٹلر ڈراوے دے رہا ہے۔ اس کے بعد جنگ شروع ہوئی۔ مارچ تک کوئی خیال بھی نہیں کر سکتا تھا کہ ہٹلر غالب آ جائے گا۔ بالعموم یہ خیال کیا جاتا تھا کہ یہ برابر کی ٹکر ہے۔ بے شک پولینڈ مٹ چکا تھا مگر فرانس کے ساحلوں پر نہ یہ آگے بڑھ رہے تھے نہ وہ۔ بعض جگہ فرانسیسی اگر میل دو میل آگے بڑھتے تو جرمن بھی ایک دو میل آگے نکل آتے۔ اس طرح دونوں میں ایک رنگ کی مساوات رہتی تھی کوئی نمایاں تغیر پیدا نہیں ہوتا تھا۔ عام طور پر ایسا ہی ہوتا تھا کہ پہلے میل دو میل علاقہ فرانس والوں نے لے لیا اور پھر جرمنی نے مقابلہ کر کے اسے واپس لے لیا یا ایک دو میل علاقہ ان کے ہاتھ سے گیا تو اتنا ہی علاقہ جرمنی کے ہاتھ سے نکل گیا۔ اور ایسے ممالک جو ہزاروں لاکھوں مربع میل کے رقبہ میں ہوں ان میں سے ایک دو میل علاقہ کا چلے جانا کوئی بڑی بات نہیں ہوتی بلکہ اتنا علاقہ تو بعض دفعہ خود ملک والے ہی چھوڑ دیتے ہیں تاکہ فوجیں آسانی سے حرکت کر سکیں۔ بہرحال مارچ کے آخر تک یہی حالت رہی۔ اس کے بعد جرمنی نے نہایت شدت سے حملہ کیا اور ڈنمارک، ناروے، اور پھر ہالینڈ اور بیلجئم پر قبضہ کر لیا۔ پھر وہ فرانس کی طرف بڑھا اور اسے بھی مغلوب کر لیا۔ 9 مئی کو اس نے حملہ کیا تھا اور تین ہفتہ کے اندر اندر مئی کے آخر تک یہ تمام طاقتیں بالکل مضمحل ہو چکی تھیں اور جون میں تو فیصلہ ہی ہو گیا تھا۔ اس وقت بظاہر یہ نظر نہیں آتا تھا کہ انگریز کوئی مقابلہ کر سکیں گے گویا وہی حالت جو روٴیا میں مجھے دکھائی گئی تھی کہ انگلستان سخت خطرہ میں گھِر جائے گا رونما ہو گئی۔ مگر ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے بتایا گیا تھا کہ چھ ماہ کے بعد یہ حالات بدل جائیں گے۔
جب مَیں نے یہ خواب اپنے خطبہ میں بیان کی تو اُس وقت پیغامی لوگ جن کو ہمارے خلاف ہمیشہ کسی نہ کسی مشغلہ کی ضرورت ہوتی ہے اُن کے ایک ایجنٹ نے جو مصری صاحب کے ساتھیوں میں سے تھا میری دعاوٴں کی قبولیت کے خلاف ایک ٹریکٹ شائع کیا اور اُس میں لکھا کہ ‘‘اِس وقت خلیفہ صاحب حکومت کے مصائب میں اَور اضافہ کرنے کا باعث بن رہے ہیں او رانہیں الٹا اپنے سامنے جھکانا چاہتے ہیں اوران کی کامیابی کو مشکوک نظروں سے دیکھ رہے ہیں حالانکہ ہمارے بادشاہ کی کامیابی یقینی ہے۔ ’’
یہ بات یوں تو غلط تھی کیونکہ اُس وقت ہر شخص اندر سے گھبرا رہا تھا اور اس علاقہ کے سِکھ کیا اور ہندو کیا اور مسلمان کیا سب یہ خیال کرتے تھے کہ انگریزوں کی حکومت اب چند روزہ ہے۔ بلکہ سکھوں نے تو ہتھیار بھی جمع کرنے شروع کر دئیے تھے اس خیال سے کہ جب انگریزوں کی طاقت کمزور ہو جائے گی تو ہم ملک پر قبضہ کر لیں گے۔ چنانچہ لاہور میں بعض دوست کارتوس لینے کے لئے گئے تو انہوں نے بتایا کہ سارے لاہور میں سے جہاں لاکھوں کا اسلحہ ہوٴا کرتا ہے بیس روپے کے کارتوس بھی نہ مل سکے۔ وہ تمام دکانوں پر پھرے مگر کسی کے پاس کارتوسوں کا ایک ڈبہ نکلا اور کسی کے پاس دو حالانکہ وہاں اسلحہ کی دس بارہ دکانیں ہیں اوربڑی بڑی دکانیں ہیں۔ تو یہ بات غلط ہے کہ انگریزوں کے متعلق اس وقت کسی کو یہ خیال نہیں تھا کہ یہ ہار جائیں گے۔ اس وقت عام طور پر یہی سمجھا جاتا تھا کہ انگریز جرمنی کا زیادہ دیر تک مقابلہ نہیں کر سکتے۔
پس اس کا یہ لکھنا تو غلط تھا لیکن کل ایک انگریز مدبّر کے الفاظ پڑھ کر مجھے بہت ہی خوشی ہوئی کہ اس نے کیا ہی لطیف طور پر اس بات کی تردید کی ہے۔ انگریزوں کے جو وزیر بحری ہیں ان کی ایک تقریر حال ہی میں چھپی ہے۔ اس تقریر کے الفاظ پڑھ کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ مصریوں اور پیغامیوں کے ردّکے لئے ہی کہے گئے ہیں۔ ان کا نام مسٹر الیگزنڈر ہے وہ کہتے ہیں جون، جولائی میں (یعنی جب حکومت برطانیہ نے حکومت فرانس کو تار دیا تھا کہ دونوں ملکوں کی حکومت ایک کر دی جائے اور فرانس کا برطانیہ سے الحاق ہو جانا چاہئے) ہر وہ شخص جو جنگی فنون سے ذرا بھی واقفیت رکھتا ہے یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ ہم پھر امن میں آ جائیں گے اس نے تو یہ لکھا تھا کہ ‘‘ہمارے بادشاہ کی کامیابی یقینی ہے’’ مگر مسٹر الیگزنڈر انگلستان کے وزیر بحری کہتے ہیں کہ کوئی جاہل ہی یہ سمجھ سکتا تھا کہ ہم جیت جائیں گے۔ ورنہ ہماری حالت ایسی خراب تھی کہ کوئی عالم اور جنگی فنون سے واقفیت رکھنے والا انسان ایسی بات نہیں کہہ سکتا تھا۔ گویا اس نے مصری پارٹی کے اس شخص کے اعتراض کا جواب دے دیا کہ جاہل بے شک کہتا ہو کہ انگریز شکست نہیں کھا سکتے مگر کوئی عالم ایسا خیال نہیں کر سکتا تھا۔ اس کے الفاظ یہ ہیں کہ ہر وہ شخص جسے جنگی فنون سے ذرا بھی مَس ہے، جانتا تھا کہ ہماری حالت کتنی خطرناک ہے۔
پس جاہل تو یہ امید رکھ سکتا تھا مگر جنگی فنون سے واقف ایسی امید نہیں کر سکتا تھا۔ اس کے بعد وہ لکھتے ہیں مگر اب حالت بہت بدل چکی ہے اور ہم پہلے سے بہت زیادہ مضبوط ہیں۔
یہ بات مَیں نے صرف ضمناً بیان کی ہے درحقیقت میں اس بات کا ذکر کر رہا تھا کہ اب حالات پھر خطرناک صورت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ جلسہ سالانہ کے موقع پر میں نے موجودہ جنگ کے متعلق اپنی بعض خوابیں بیان کی تھیں۔ ان کے علاوہ بعض اور خوابیں بھی ہیں جو مُنذِر ہیں۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ مُنذِر روٴیا پوری ہو چکی ہیں یا ابھی ان کا کوئی حصہ پورا ہونا باقی ہے۔ اورپھر بعض دفعہ دَوری طور پر خوابیں ظہور میں آ تی رہتی ہیں۔ ایک دفعہ کسی رنگ میں پوری ہوتی ہیں اور دوسری دفعہ کسی رنگ میں۔ پس مَیں نہیں کہہ سکتا کہ وہ تمام خوابیں پوری ہو چکی ہیں یا ابھی بعض خوابیں جو اپنے اندر انذاری پہلو رکھتی ہیں پوری نہیں ہوئیں۔
بہرحال اب چونکہ جنگ کے بھڑکنے کے ایام پھر قریب آ رہے ہیں ہماری جماعت کو دعاوٴں کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔ اگلے چار مہینے جنگ کے لحاظ سے نہایت خطرناک ہیں۔ اپریل، مئی، جون، جولائی، اگست بلکہ اگر ستمبر بھی شامل کر لو تو چار ماہ کی بجائے چھ ماہ نہایت خطرناک ہیں۔ ان میں پھر رستوں کی آسانیاں پیدا ہو جائیں گی۔ پھر حملوں کے لئے سہولتیں میسر آ جائیں گی پھر جرمن آبدوز کشتیاں زیادہ شدت سے انگریزی جہازوں پر حملے کر سکیں گی اور پھر انگریزوں کو خوراک پہنچنے کے رستے دشمن بند کر سکے گا۔ اسی طرح جرمن ہوائی جہاز زیادہ آسانی سے انگلستان پر حملہ کر سکتے ہیں۔ اس کی فوجیں سرعت سے حرکت میں آ سکتی ہیں اوروہ مشرق کی طرف بھی بڑھ سکتا ہے اور انگلستان کی طرف بھی۔
غرض وہ ہر قسم کے حالات پھر جمع ہونے والے ہیں جو دنیا کا امن برباد کرنے کے لئے نہایت خطرناک ہیں۔ یہ سال اگر خیریت سے گزر گیا تو امید کی جا سکتی ہے کہ 1942ء میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے حالات زیادہ بہتر ہو جائیں گے۔
وہ لوگ جنہوں نے میرے خطبات سنے ہوئے ہیں وہ جانتے ہیں کہ 1938ء میں مَیں نے ایک خطبہ 2 پڑھا تھا جس میں مَیں نے بتایا تھا کہ 1942ء یا 1944ء خطروں کا آخری سال معلوم ہوتا ہے۔ اس کے بعد حالات میں تبدیلی پیدا ہو جائے گی۔
اسی طرح 1927ء کی مجلس شوریٰ میں مَیں نے بیان کیا تھا:۔
‘‘ آج سے دس سال کے اندر اندر ہندوستان میں اس بات کا فیصلہ ہو جانے والا ہے کہ کونسی قوم زندہ رہے اور کس کا نام و نشان مٹ جائے۔ حالات اس سرعت اور تیزی کے ساتھ بدل رہے ہیں کہ جو قوم یہ سمجھے کہ آج سے بیس پچیس سال بعد کام کرنے کے لئے تیار ہو گی وہ زندہ نہیں رہ سکے گی اورجو قوم یہ خیال رکھتی ہے وہ اپنی قبر آپ کھودتی ہے۔ اگر دس سال کے اندر اندر ہماری جماعت نے فتح نہ پائی اور وہ تمام راہیں جو ارتداد کی ہیں بند کر کے وہ تمام دروازے جو اسلام قبول کرنے کے ہیں کھول نہ دئیے تو ہماری جماعت کی زندگی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔3
1928ء کی مجلس مشاورت میں بھی مَیں نے کہا تھا کہ:۔
‘‘ اسلام کے لئے نہایت خطرناک دن ہیں۔ قریب ہے کہ چند سال کے اندر اندر قو میں فیصلہ کر لیں کہ کون زندہ رہنے کے قابل ہے اور کسے برباد ہوجانا چاہئے۔ “ 4
غرض مَیں نے بتا دیا تھا کہ اگر دس سال کے اندر اندر ترقی نہ کی گئی تو اس کے بعد ایک ایسی مصیبت کا دروزہ کھلنے والا ہے جس کا اسلام اور احمدیت کو خطرہ ہو گا۔ چنانچہ اس کے عین دس سال کے بعد 1939ء میں موجودہ جنگ کا آغاز ہو گیا۔
جہاں تک میں سمجھتا ہوں 1942ء ہی ایسا سال ہے جو فیصلہ کُن معلوم ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے نہیں کہ جنگ بند ہو جائے گی بلکہ اس لحاظ سے کہ ممکن ہے ایک قوم ایسی غالب آ جائے کہ اس کے بعد جنگ صرف دفاعی رہ جائے۔ یہ امر مشتبہ نہ رہے کہ کونسی قوم جیتے گی اور کونسی ہارے گی۔
پس ان حالات کو دیکھتے ہوئے جماعت کے دوستوں کو خصوصیت سے دعائیں کرنی چاہئیں۔ اس وقت ہماری سب سے زیادہ قیمتی چیز خطرہ میں ہے اور وہ ہمارا دین اور ہمار امذہب ہے۔ بے شک انگلستان خطرے میں ہے کیونکہ ڈر ہے کہ جرمنی انگلستان پر قبضہ نہ کر لے۔ بے شک فرانس خطرے میں ہے کیونکہ گو وہ شکست کھا چکا ہے مگر ایک حصہ ابھی ایسا ہے جو جرمنی کے ماتحت نہیں اور اس وجہ سے جرمنی اسے پورے طور پر دبا نہیں سکتا۔ اگر وہ حصہ بھی جرمنی کے قبضہ میں چلا جائے تو وہ پورے طور پر اسے کُچل سکتا ہے۔ اسی طرح بے شک مشرقی یورپین ممالک خطرے میں ہیں کیونکہ جرمنی ان پر غالب آ سکتا اور انہیں اپنا تابع بنا سکتا ہے۔ بے شک جرمنی بھی خطرہ میں ہے کیونکہ انگلستان اور امریکہ کو اگر طاقت حاصل ہو گئی تو جرمنی اور اٹلی کی اپنی ترقی کی خوابیں سب باطل ہو جائیں گی مگر جو چیز ان کے ہاتھ سے جاتی ہے وہ ایسی نہیں کہ آج کی بجائے کل بھی کام آنے والی ہو یا ایسی نہیں کہ وہ زندگی کے بعد بھی کام آنے والی ہو مگر جس مال اورجس دولت کی حفاظت کے لئے احمدیت کھڑی ہے وہ ایسی ہے کہ وہ آج ہی کام آنے والی نہیں بلکہ کل بھی کام آنے والی ہے اور وہ دنیا میں ہی کام آنے والی چیز نہیں بلکہ اگلے جہان میں بھی کام آنے والی چیز ہے۔ پس جس مال کی حفاظت کے لئے احمدیت کھڑی ہے وہ بہت زیادہ قیمتی ہے بہ نسبت ان چیزوں کے جن کی حفاظت کے لئے دنیا کی حکومتیں برسرِ پیکار ہیں۔ اور جتنی زیادہ کوئی چیز قیمتی ہوتی ہے اتنی ہی اس کی حفاظت بھی زیادہ ضروری ہوتی ہے۔ وہ چیز جو انسان کو آج ہی فائدہ دے سکتی ہے کل نہیں، اس کے متعلق ایک انسان اپنے دل کو یہ کہہ کر تسلی دے سکتا ہے کہ اگر وہ ضائع ہو گئی ہے تو کیا ہوٴا؟ آج مَیں تکلیف اٹھا لوں گا کل تو آرام سے گزرے گا۔ اسی طرح جو چیز صرف کل فائدہ پہنچانے والی ہو اس کے ضائع ہونے پر بھی ایک انسان یہ کہہ کر اپنے دل کو تسلی دے سکتا ہے کہ آج آرام سے گزر رہا ہے پرسوں بھی آرام سے گزرے گا درمیان میں ایک دن اگر تکلیف آتی ہے تو اسے برداشت کر لوں گا مگر جو چیز آج اور کل اور پرسوں اورہر کل اور پرسوں کو کام آنے والی ہو اورانسان کا تمام مستقبل اس کے ساتھ وابستہ ہو اسے وہ آسانی کے ساتھ ضائع کرنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا۔ وہ سمجھے گا کہ اگر یہ چیز ضائع ہو گئی تو میرا آج کا دن بھی مصیبت سے گزرے گا، کل کا دن بھی مصیبت سے گزرے گا ، پرسوں کا دن بھی مصیبت سے گزرے گا ، اترسوں کا دن بھی مصیبت سے گزرے گا اور ہر آنے والا دن میرے لئے تکلیف دہ ہو گا۔ پھر انسان بعض دفعہ یہ خیال بھی کر سکتا ہے کہ اگر میری زندگی کے دن ہی مصیبت سے گزریں تو بھی میں انہیں گزار لوں گا۔ کم از کم میری اولاد تو اس مصیبت سے حصہ نہیں لے گی لیکن اگر کوئی چیز ایسی ہو جس کے ضائع ہونے کا نقصان صرف اس کو نہ ہو بلکہ اس کی اولاد کو بھی نقصان پہنچانے والا ہو تو ایسی حالت میں اس چیز کی اہمیت اور بھی بڑھ جائے گی اور اگر وہ چیز ایسی ہو کہ صرف اس کی اولاد پر ہی اس کا اثر نہ ہو بلکہ اولاد کی اولاد اور اس اولاد کی اولاد بھی قیامت تک اس کے نتیجہ میں دکھ اور تکلیف میں مبتلا رہنے والی ہو تو وہ خیال کرے گا کہ مَیں اس چیز کو کیوں ترک کروں جبکہ قیامت تک میری نسل کے افراد اس کی وجہ سے دکھ اٹھاتے چلے جائیں گے۔ اور اگر کوئی چیز ایسی ہو جو مستقبل سے تعلق رکھنے والی ہو اور اس کی اولاد در اولاد کو اس کے نہ ہونے کی وجہ سے تکلیف پہنچنے کا خطرہ ہو تو پھر بھی کوئی انسان یہ خیال کر سکتا ہے کہ دنیا ایک قید خانہ ہے اگر اس جہان میں تکلیف پہنچی بھی تو کیا ہوٴا اگلے جہان کا سکھ تو حاصل ہو جائے گا لیکن اگر کوئی چیز ایسی ہو کہ اس کے ذریعہ امن اور آرام صرف اس دنیا میں ہی حاصل نہ ہوتا ہو بلکہ اگلے جہان میں بھی حاصل ہوتا ہو تو وہ ہر قسم کی موت، ہر قسم کی تکلیف اور ہر قسم کی تنگی برداشت کر لے گا مگر اس بات کو برداشت نہیں کرے گا کہ وہ چیز اس کے ہاتھ سے نکل جائے کیونکہ وہ سمجھ لے گا کہ اگر وہ چیز اس کے ہاتھ سے گئی تو اس کا اور اس کی اولاد کا امن بھی گیا۔ اس جہان میں بھی اور اگلے جہان میں بھی۔ مَیں جانتا ہوں کہ قرآن کو نہ پڑھنے اور اس کو سمجھنے کا ملکہ اپنے اندر نہ رکھنے کی وجہ سے بہت سے لوگ اس اہمیت کو نہیں سمجھتے بلکہ احمدیوں میں بھی بعض لوگ ایسے موجود ہیں جو احمدیت کی ضرورت کو نہیں سمجھتے۔ یہی وجہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی بات پر انہیں ٹھوکر لگ جاتی ہے، چھوٹی چھوٹی بات پر انہیں دھکا لگ جاتا ہے اور چھوٹی چھوٹی بات پر وہ احمدیت کو چھوڑنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ ان کی مثال بالکل ان چار نابینوں کی سی ہے جو ہاتھی کو دیکھنے کے لئے گئے تھے ان میں سے ایک نے سونڈ پر ہاتھ مارا اور سمجھ لیا کہ اس نے ہاتھی دیکھ لیا۔ دوسرے نے دم پر ہاتھ مارا اور سمجھ لیا کہ اس نے ہاتھی دیکھ لیا۔ تیسرے نے پاوٴں پر ہاتھ مارا اور سمجھ لیا کہ اس نے ہاتھی دیکھ لیا۔ چوتھے نے پیٹھ پر ہاتھ لگایا اور سمجھ لیا کہ اس نے ہاتھی دیکھ لیا۔ جب بعد میں وہ سب ایک جگہ جمع ہوئے تو آپس میں بحث کرنے لگ گئے۔ ایک نے کہا کہ ہاتھی نرم نرم لچکدار اور موٹی سی چیز ہوتی ہے اور اس کے آگے ایک سوراخ ہوتا ہے۔ دوسرے نے کہا کہ بالکل غلط وہ تو ایک پتلی اور باریک سی چیز ہوتی ہے اور اس کے آگے بالوں کا گچھا ہوتا ہے۔ تیسرے نے کہا ہرگز نہیں وہ تو سیدھی آسمان کی طرف جاتی ہوئی ایک موٹی سی چیز ہوتی ہے۔ چوتھے نے کہا ہاتھی تم میں سے کسی نے بھی نہیں دیکھا وہ تو ایک ڈھول کی طرح چپٹی سی چیز ہوتی ہے۔ جس نے پیٹھ پر ہاتھ مارا تھا اس نے سمجھ لیا کہ ہاتھی ڈھول کی طرح چپٹی سی چیز ہوتی ہے، جس نے دم پر ہاتھ مارا تھا اس نے خیال کر لیا کہ وہ ایک پتلی اور باریک سی چیز ہوتی ہے جس کے آگے بالوں کا گچھا ہوتا ہے۔ جس نے سونڈ پر ہاتھ رکھا تھا اس نے سمجھ لیا کہ وہ ایک نرم نرم لچکدار اور موٹی سی چیز ہوتی ہے اور اس کے آگے ایک سوراخ ہوتا ہے اورجس نے اس کی ٹانگوں پر ہاتھ مارا تھا اس نے سمجھ لیا کہ وہ آسمان کی طرف جاتی ہوئی ایک موٹی سی چیز ہوتی ہے۔ یہی حال ان احمدیوں کا ہے جنہوں نے قرآن اور رسول کریم ﷺ کی احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی کتابوں کو اچھی طرح نہیں پڑھا۔ انہوں نے احمدیت کو بھی نہیں دیکھا بلکہ احمدیت کے کسی کونے کو دیکھا ہے۔ جب ہم لیکچر دیتے ہیں اورکہتے ہیں کہ احمدیت ایک نہایت ہی قیمتی چیز ہے اسے ضائع مت کرو اور ا س کی قدر و قیمت کو سمجھو تو وہ حیران ہوتے ہیں اور اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ یہ کیوں ہمیں دھوکا دے رہے ہیں۔ احمدیت تو ایک معمولی سی چیز ہے۔ رہی رہی، نہ رہی نہ رہی۔ ان کا احمدیت کے ساتھ اخلاص صرف اتنا ہی ہوتا ہے جتنا کسی کو اپنی قوم کی پچ ہوتی ہے۔ وہ اپنے آپ کو احمدی کہیں گے۔ احمدیت کے لئے بعض دفعہ لڑنے کے لئے بھی تیار ہو جائیں گے مگر یہ نہیں سمجھیں گے کہ احمدیت ایک ایسی چیز ہے جس کے ساتھ نہ صرف ان کا، نہ صرف ان کی اولادوں کا بلکہ قیامت تک ان کی تمام نسل کا سکھ اور آرام وابستہ ہے اور نہ صرف اس جہان کا سکھ اور آرام احمدیت سے ہے بلکہ اگلے جہان کا سکھ اور آرام بھی احمدیت سے ہی ہے۔ ان کے نزدیک احمدیت صرف اس بات کا نام ہے کہ زید نے ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا ہے اور بکر نے ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا اور جب ان کے ساتھ کوئی حسن سلوک سے پیش نہیں آتا تو کہنے لگ جاتے ہیں کہ ہم نے احمدیت کو دیکھ لیا اور اس ایک یا دو شخصوں پر قیاس کر کے کہنے لگ جاتے ہیں کہ سارے احمدی ہی ایسے ہوتے ہیں گویا وہی نابینوں والی بات ان میں پائی جاتی ہے جن میں سے ایک نے سونڈ پر ہاتھ لگا کر سمجھ لیا تھا کہ اس نے ہاتھی بھی دیکھ لیا، دوسرے نے بھی دم پر ہاتھ لگا کر سمجھ لیا کہ اس نے ہاتھی دیکھ لیا، تیسرے نے ٹانگوں پر ہاتھ لگا کر سمجھ لیا تھا کہ اس نے ہاتھی دیکھ لیا اور چوتھے نے پیٹھ پر ہاتھ لگا کر سمجھ لیا تھا کہ اس نے ہاتھی دیکھ لیا۔ انہوں نے بھی نہ احمدیت کو دیکھا ہے اور نہ اس کی شکل و صورت کو۔ البتہ انہوں نے احمدیت کے ہاتھی کے کسی حصہ پر اپنا ہاتھ رکھا ہے اور یہ سمجھ لیا ہے کہ انہوں نے احمدیت کو دیکھ لیا مگر وہ لوگ جنہوں نے قرآن کو سمجھا ہے جو احادیث کو جانتے ہیں اور جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کو پڑھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ احمدیت ایک ایسی قیمتی چیز ہے کہ جس طرح ایک اکلوتے بچے والی ماں کو جو آپ بڑھیا ہو چکی ہو، اس اکلوتے بچے والی ماں کو جس کا بچہ چھوٹا ہو، اس اکلوتے بچے والی ماں کو جس کے پاس اپنے بچہ کے لئے چھوڑ جانے کے لئے کوئی مال و دولت نہ ہو رات دن اپنے بچہ کے متعلق دھڑکن لگی رہتی ہے اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ احمدیت کے متعلق ہر احمدی کے دل کو دھڑکن لگی رہنی چاہئے۔
وہ جنہوں نے نابینوں کی طرح احمدیت کو دیکھا، جنہوں نے دم کو ہاتھ لگایا یا سونڈ کو ہاتھ لگایا یا پیٹھ کو ہاتھ لگایا یا ٹانگوں کو ہاتھ لگایا اور سمجھ لیا کہ انہوں نے احمدیت کو دیکھ لیا۔ وہی ہیں جو ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں اور آج اگر کچھ عقیدہ رکھتے ہیں تو کل کوئی اور عقیدہ رکھنے لگ جاتے ہیں اوربعض دفعہ تو اس قسم کے نابینا احمدی ایسی مضحکہ خیز حرکت کرتے ہیں کہ وہ کسی مخلص احمدی کی زندگی کو بھی نہیں دیکھتے بلکہ کسی منافق کی زندگی پر قیاس کر کے خیال کر لیتے ہیں کہ یہی احمدیت ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ انہوں نے ہاتھی کی دم کو بھی ہاتھ نہیں لگایا، انہوں نے ہاتھی کے سونڈ کو بھی ہاتھ نہیں لگایا، انہوں نے ہاتھی کے پاوٴں کو بھی ہاتھ نہیں لگایا ، انہوں نے ہاتھی کی پیٹھ کو بھی ہاتھ نہیں لگایا بلکہ انہوں نے ہاتھی کے گوبر کو ہاتھ لگا کر سمجھ لیا کہ انہوں نے ہاتھی دیکھ لیا۔ پس تم ان لوگوں کو جانے دو۔ ان کے سوا جو لوگ سچے طور پر احمدیت کو قبول کئے ہوئے ہیں وہ جانتے ہیں کہ احمدیت ایک ایسا قیمتی مال ہے کہ اس کی حفاظت کے لئے اگر ہمیں اپنی جانیں بھی قربان کرنی پڑیں تو یہ ایک معمولی قربانی ہو گی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ احمدیت خدا تعالیٰ کا قائم کردہ سلسلہ ہے اور اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اسلام اور احمدیت کی ترقی کا خدا نے وعدہ کیا ہؤا ہے لیکن اگر احمدیت ہمارے ہاتھ سے نکل جائے تو اس کے دنیا میں رہ جانے سے ہمیں کیا خوشی ہو سکتی ہے۔ پھر یہ بات بھی بالکل غلط ہے کہ سچائیاں ہر حالت اور ہر صورت میں ہمیشہ قائم رہتی ہیں۔ سچائیاں اسی وقت تک قائم رہتی ہیں جب تک ان کو قائم رکھنے کی لوگ کوشش کرتے رہتے ہیں۔ آخر اسلام اپنے پہلے نزول میں کب ہمیشہ رہا؟ اور کیا رسول کریم ﷺ کے بعد یزید جیسے لوگوں نے اسے کھیل نہیں بنا لیا اورکیا بعد میں آنے والے فقہاء اور علماء نے فقہ اور علم کے نام سے اسلام کے پرخچے نہیں اڑائے؟ یہ پہلے بھی ہوٴا اور اب بھی ہو سکتا ہے بلکہ اس وقت بھی ہو رہا ہے۔ چنانچہ پیغامی یہی کچھ کر رہے ہیں، مصریوں نے بھی یہی کچھ کیا اورکر رہے ہیں۔ چند سال ہوئے اسی ممبر پر کھڑے ہو کر میں نے مصری صاحب کا ایک اشتہار دوستوں کو پڑھ کر سنایا تھا جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ عقائد وہی صحیح ہیں جو جماعت احمدیہ قادیان کے ہیں اور مَیں ان عقائد پر قائم ہوں۔ میرا اختلاف صرف موجود خلیفہ سے ہے لیکن ابھی اس پر زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ ہم بھی زندہ ہیں مصری صاحب بھی زندہ ہیں۔ ان کا وہ اشتہار بھی موجود ہے مگر آج ان کی یہ حالت ہے کہ اسی سال لاہور میں پیغامیوں کے جلسہ پر انہوں نے تقریر کی جس میں کہا کہ مرزا صاحب اور پہلے اولیاء امت کی نبوت ایک سی ہے صرف زیادہ اور تھوڑے نمبروں کا فرق ہے۔ پھر یہی وہ شخص تھا جس نے کہا تھا کہ مَیں مسئلہ خلافت کے خلاف نہیں صرف نئے خلیفہ کے انتخاب پر میں زور دیتا ہوں۔ مگر اب وہی شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ خلافت کوئی چیز نہیں۔ آخر وجہ کیا ہے کہ میری عداوت کی وجہ سے ان کا مذہب بدل گیا اور ان کے عقائد میں ایسا عظیم الشان تغیر پیدا ہو گیا۔ قرآن نہیں بدلا، حدیثیں نہیں بدلیں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں نہیں بدلیں۔ وہی آیات جو پہلے قرآن میں موجود تھیں اب بھی ہیں، وہی حدیثیں جن سے پہلے اجرائے نبوت ثابت کی جاتی تھی اب بھی ہیں اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہی تحریریں جن سے پہلے خلافت کا مسئلہ ثابت ہوتا تھا اب بھی ہیں پھر وجہ کیا ہے کہ ان کے عقائد بدل گئے اورمیری مخالفت کی وجہ سے انہیں قرآن کے بھی اور معنے نظر آنے لگ گئے، حدیثوں کا بھی اور مفہوم دکھائی دینے لگ گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں کا بھی کچھ اور مطلب بتایا جانے لگا۔ آخر یہ کیا بات ہے کہ قرآن کی وہ آیتیں جن سے پہلے وہ ہماری تائید میں استدلال کیا کرتے تھے اب ان کے معنے ان کے نزدیک کچھ اور ہو گئے ہیں اور وہی حدیثیں جن سے پہلے ہمارے دعاوی کی تصدیق کی جاتی تھی اب ان کا مفہوم ان کے نزدیک کچھ اور ہو گیا ہے۔ صاف پتہ لگتا ہے کہ ان کے دل کے زنگ کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا کہ نیکی کا ایک حصہ جب انہوں نے خود چھوڑ دیا ہے تو نیکی کا دوسرا حصہ جو اعتقاد کے ساتھ تعلق رکھتا ہے وہ ہم چھڑا دیتے ہیں جیسے فرماتا ہے طَبَعَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ۔5 یہی پیغامیوں کا حال ہے۔ انہوں نے بھی اپنی تحریروں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بار بار نبی، مقدس نبی، برگزیدہ رسول اور نجات دہندہ وغیرہ لکھا بلکہ پیغمبر آخر الزمان اور نبی آخر الزمان“ 6 کے الفاظ بھی آپ کے متعلق استعمال کئے جو ہم بھی استعمال نہیں کرتے مگر اب ان کا سارا زور اس بات پر صَرف ہو رہا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نبی نہیں تھے۔ تو ایمان میں بگاڑ بھی پیدا ہو جاتا ہے اور مومنوں کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ ایمان کو زور سے قائم رکھیں۔ ایمان صرف خدا ہی قائم نہیں رکھتا بلکہ انسان کی اپنی جد و جہد کا بھی اس میں دخل ہوتا ہے۔ جب تک کسی کے اندر ایمان رہتا ہے اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایقان کی صورت بھی پیدا ہوتی رہتی ہے اور جب کسی کا ایمان متزلزل ہو جاتا ہے تو ایقان کی صورت بھی جاتی رہتی ہے یہی وجہ ہے کہ انسان ایک وقت تو سمجھتا ہے کہ اگر میرے جسم کی بوٹیاں بوٹیاں بھی اڑا دی جائیں تو میں اپنے عقیدہ کو نہیں چھوڑ سکتا مگر دوسرے وقت یہ حالت نہیں رہتی۔ صاف پتہ لگتا ہے کہ کوئی چیز ہوتی ہے جو غائب ہو جاتی ہے۔ آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت پر مصری صاحب کو جو پہلے ایمان تھا یا مولوی محمد علی صاحب کو جو پہلے ایمان تھا اس کی موجودگی میں وہ یہ کس طرح کہہ سکتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نبی نہیں یا ایسے ہی ہیں جیسے باقی مجدد ہیں یا یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ ایک وقت تو کہتے کہ خلافت ضروری ہے اور حضرت خلیفہ اول کی بیعت بھی کرتے مگر دوسرے وقت کہہ دیتے کہ خلیفہ کی کوئی ضرورت نہیں۔ آخر جو حالات پہلے تھے وہ تو نہیں بدل گئے، جو حوالجات پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کو ثابت کر رہے تھے وہ اب بھی موجود ہیں اور جس ضرورت کی بناء پر حضرت خلیفہ اول کی خلافت کو تسلیم کیا گیا تھا وہی اب بھی ہے پھر جبکہ حالات وہی ہیں اور ان کے عقائد وہ نہیں ہیں تو معلوم ہوٴا کہ ان کے دل کی حالت ہی بدل گئی ہے اور خدا تعالیٰ نے ان کے دلوں سے وہ یقین نکال لیا ہے جو ایمان کا نتیجہ ہوتا ہے۔ پس ایمان کی حفاظت کرنا بندوں کا بھی کام ہے۔ اس شخص سے زیادہ کوئی جاہل اور احمق نہیں جو یہ کہے کہ یہ خدا کی چیز ہے اور خدا اس کی آپ حفاظت کرے گا۔ یہ ایک خطرناک نادانی ہے جب خدا نے ایک چیز کی حفاظت ہمارے سپرد کی ہے اور ہم اس کی حفاظت نہیں کرتے تو ہم غدار اور باغی ہیں نہ کہ خدا تعالیٰ پر توکل کرنے والے۔
پس احمدیت چاہتی ہے کہ ہم ہر قسم کی قربانی کریں۔ آجکل جنگ کی وجہ سے چونکہ خطرہ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے اس لئے قربانیوں میں بھی پہلے سے بہت زیادہ حصہ لینے کی ضرورت ہے مگر ہمارے پاس کون سے ہوائی بیڑے ہیں کہ جن سے ہم اس خطرہ کو دور کر سکتے ہیں۔ ہمارے پاس نہ فوجیں ہیں، نہ توپیں ہیں، نہ ہوائی جہاز ہیں، نہ گولہ بارود ہے۔ ہمارے پاس صرف دعا کا ہتھیار ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس سے بڑا ہتھیار اور کوئی نہیں بشرطیکہ دعا اخلاص کے ساتھ کی جائے، بشرطیکہ انسان کے دل میں تڑپ ہو اور بشرطیکہ اسے یہ فہم ہو کہ احمدیت خطرے میں ہے۔ اگر یہ حالت ہو تو دعاوٴں کی قبولیت بہت زیادہ یقینی ہوتی ہے لیکن یونہی ہاتھ اٹھا لینا یا زبان سے چند الفاظ کہہ دینا دعا نہیں ہوتی۔ ایسی دعا انسان کے مُنہ پر ماری جاتی ہے۔
پس اس خطرہ کے زمانہ میں مَیں پھر جماعت کے دوستوں کو ہوشیار کرتا ہوں اور انہیں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ دعاوٴں میں مشغول ہو جائیں۔ حکومت کی طرف سے ہندوستان میں دعا کے لئے ایک دن مقرر کیا گیا ہے اس دن بھی بے شک جلسہ کر لیا جائے اور دعائیں مانگی جائیں لیکن وہ دن اتوار کا ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنی دعا کے لئے بھی اتوار کو ہی مخصوص کریں۔ اگر عیسائی اس دن کو مقدس سمجھتے ہیں تو یہ اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ ہم بھی اسی دن کو ترجیح دیں۔ اور مَیں تو سمجھتا ہوں اب وقت آ گیا ہے کہ ہمیں عیسائیوں سے صاف طور پر کہہ دینا چاہئے کہ ہمارا مذہبی احترام جمعہ کے ساتھ وابستہ ہے اور اگر وہ ہمارا تعاون حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان کا فرض ہے کہ وہ ہمارے مذہبی احساسات کو ملحوظ رکھیں۔ مگر حالت یہ ہے کہ پنجاب میں جہاں مسلمانوں کی آبادی باقی تمام اقوام سے زیادہ ہے اور جس کا وزیر اعظم بھی مسلمان ہے جس کے متعلق ہندو یہ شور مچاتے رہتے ہیں کہ وہ ہندو کش ہے اس پنجاب میں مسلمانوں کو جمعہ کی نماز کے لئے بھی عام چھٹی نہیں دی جاتی۔ آخر اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ یہ حقارت کا سلوک کب تک چلا جائے گا اور کیا وجہ ہے کہ عیسائیوں اور ہندووٴں کے تو ان جذبات کا احترام کیا جائے جو اتوار کے ساتھ وابستہ ہیں مگر مسلمانوں کے ان جذبات کا احترام نہ کیا جائے جو جمعہ کے ساتھ وابستہ ہیں۔ پس اس دن بھی بے شک جلسہ کرو مگر ہم الگ بھی دعا کے لئے جمعہ کا کوئی دن مقرر کریں گے جو ہمارے لئے قبولیت دعا کا دن قرار دیا گیا ہے۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ ہر جمعہ کی نماز سے لے کر خطبہ کے ختم ہونے تک ایک ایسی گھڑی آتی ہے کہ جس میں بندے کے دل سے جو دعا بھی نکلتی ہے وہ قبول ہو جاتی ہے ۔7 پس حکومت کے نظام کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے اتوار کے دن بھی جلسے کئے جائیں مگر کسی جمعہ کو بھی خاص طور پر دعا کی جائے کہ اللہ تعالیٰ فتنہ و فساد کی آگ سے تمام دنیا کو بچائے خصوصاً اسلام اور احمدیت کی حفاظت کرے اور ان خطرات کو مٹا دے جو اسلام اور احمدیت کی ترقی اور آسانی اور سہولت کے ساتھ ترقی میں روک ہوں۔
مَیں آئندہ دعا کے لئے چار اپریل جمعہ کا دن تجویز کرتا ہوں دوستوں کو چاہئے کہ جمعرات کو روزہ رکھیں اور اس دن تہجد میں خاص طور پر الگ الگ یا مل کر دعا کریں اور پھر جمعہ کے دن جمعہ کی نماز میں خصوصیت کے ساتھ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس جنگ کے بد اثرات سے سب دنیا اسلام اور احمدیت کو محفوظ رکھے اور انگریزوں کی مشکلات کو بھی دور فرمائے۔ یہ دعا جمعہ کی آخری رکعت میں رکوع سے قیام کے وقت مانگی جائے تاکہ ایک وقت میں سب نمازی اس دعا میں شامل ہوں اور اخلاص کے ساتھ اور دیر تک مانگی جائے۔ ’’ (الفضل 28 مارچ 1941ء )
1 الفضل 28 جون 1940ء
2 الفضل 13جنوری 1938ء
3 رپورٹ مجلس مشاورت 1927ء صفحہ 179
4 رپورٹ مجلس مشاورت 1928ء صفحہ 139
5 النحل: 109 ، محمد: 17
6 ریویو جلد 6 صفحہ 81 ، 99
7 بخاری کتاب الجمعۃ باب الساعۃ الّتی فِیْ یَوْمِ الْجمعۃ

11
بعض شکایات اور ان کے جوابات
( فرمودہ 28 مارچ 1941ء )

تشہّد، تعوّذ اور سورہٴ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘آج میرے پاس ایک دوست نے کچھ شکایات بھجوائی ہیں جو ایک ناظر کے متعلق ہیں۔ ان کا کچھ حصہ تو ذاتی ہے اور کچھ دفتری۔ دفتری شکایات کے متعلق قاعدہ یہ ہے کہ اگر کوئی کارکن اپنے افسر کے فیصلہ کے خلاف اپیل کرنا چاہے تو صدر انجمن احمدیہ کے پاس کرے اور اس کے فیصلہ کے خلاف اپیل کرنا چاہے تو خلیفہٴ وقت کے پاس کر سکتا ہے۔ خلیفہ کے پاس اپیل کے متعلق قواعد سے بھی بعض لوگ واقف نہیں۔ اور مَیں نے دیکھا ہے کہ بعض کارکن بھی انجمن کے فیصلہ کے خلاف اپیل براہ راست مجھے بھیج دیتے ہیں حالانکہ قاعدہ یہ ہے ایسی اپیل بھی انجمن کے واسطہ سے آنی چاہئے۔ بعض خیال کرتے ہیں کہ انجمن چونکہ خلاف فیصلہ کر چکی ہے اس لئے شاید اپنے فیصلہ کے خلاف اپیل میرے پاس نہ پہنچنے دے اور روک لے۔ حالانکہ قانون یہ ہے کہ وہ ایسی اپیل کو روک نہیں سکتی۔ اس کی وساطت سے آنے کے معنے صرف یہ ہیں کہ وہ اپنا جواب بھی ساتھ شامل کر دے اور وقت ضائع نہ ہو۔ ورنہ صدر انجمن کو یہ اختیار نہیں کہ وہ میرے پاس کسی اپیل کو آنے سے روک دے اور کہہ دے کہ ہم یہ اپیل اوپر نہیں بھیجتے۔
اس دوست کی شکایات کا جو حصہ دفتری ہے اس کے متعلق تو نہ مَیں کچھ کہہ سکتا ہوں اور نہ کہنا چاہتا ہوں اس لئے کہ وہ خلاف قاعدہ بھی ہے اور اس کا تعلق دوسروں کے ساتھ بھی نہیں مگر بعض باتیں ایسی ہیں کہ ممکن ہے بعض اور لوگوں کے دلوں میں بھی ویسے خیالات ہوں۔ اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ خطبہ میں ان کے متعلق بعض باتیں بیان کر دوں۔
ایک شکایت یہ ہے کہ ایک ناظر نے مسجد میں فلاں آدمی سے کہا کہ میرے پَیر دبا دو۔ اگر تو یہ شکایت ہوتی کہ ناظر جہاں بیٹھتے ہیں لوگوں کو اکٹھا کر لیتے ہیں کہ آوٴ ہمارے پَیر دباوٴ تو یقینا یہ قابلِ اعتراض بات تھی اور میرے لئے اس کے تدارک کا فکر کرنا لازمی ہوتا لیکن کسی ایک ناظر کا ایک مرتبہ کسی خاص شخص سے ایسا کہنا ایک ایسی بات ہے کہ میری سمجھ میں نہیں آ سکتا کہ اس میں شکایت کی کیا بات ہے۔ دبوانے کا رواج ہمارے ملک میں عام ہے۔ بیمار بھی دبواتے ہیں، دوستوں کو دوست اپنی خوشی سے بھی دباتے ہیں۔ ہم نے سینکڑوں کو ایک دوسرے کو دباتے دیکھا ہے۔ جو شکایت کی گئی ہے ممکن ہے جس نے کہا ہو وہ ناظر کا دوست ہی ہو یا اس کے ساتھ اور کسی رنگ میں ایسے تعلقات ہوں کہ دبانے کو کہہ دیا۔ ناظر قطع نظر اس سے کہ وہ ناظر ہے انسان بھی ہے اور ہر انسان کے دوست ہوتے ہیں۔ دوست دوستوں کو دباتے بھی ہیں، ملنے والے بھی دبا دیتے ہیں۔ ایک آدمی کمزور ہوتا ہے تو بعض دفعہ دوسرے سے کہہ دیتا ہے کہ مجھے ذرا دبا دو۔ ہم نے تو بیسیوں دفعہ دیکھا ہے کہ ایک شخص دوسرے سے کہہ دیتا ہے کہ میری کمر میں درد ہے ذرا دبا دو۔ اس میں تکبر، حکومت کا رعب، ناجائز دباوٴ یا نظارت کا کوئی تعلق نہیں اور اس میں شکایت کا کوئی پہلو میں نہیں سمجھ سکا۔ہاں اگر تو وہ ناظر یا دوسرے ناظر جہاں بیٹھیں لوگوں کو بلائیں کہ آ کر ہمیں دباوٴ تو شکایت کی بات ہے۔ یا ایسے لوگوں سے دبوائیں جن سے ان کا کوئی تعلق نہ ہو صرف ناظر ہونے کی وجہ سے وہ احمدیوں کو دبوانے کو کہیں تب بھی ان کا یہ رویہ قابل اعتراض کہلا سکتا ہے۔ مگر جو بات عام انسان کرتے ہیں ویسے ہی حالات میں وہ بات ایک ناظر کے متعلق شکایت کیونکر بن سکتی ہے۔ ایک زمیندار ڈنٹر پیلتا ہے تو کسی دوست سے کہہ دیتا ہے مجھے مالش کر دو۔ اس طرح لوگ ہر روز ایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہیں مگر اس میں نہ کوئی ناجائز دباوٴ ہے نہ تکبر ہے اورنہ حکومت کے رعب کی کوئی بات ہے۔ کسی ناظر کا دوست ہو، واقف ہو یا اس سے اور کوئی لین دین کا تعلق ہو اسے اگر اس نے کہہ دیا کہ ذرا میرے پیر دبا دو تو یہ کوئی شکایت کی بات نہیں۔ اس شخص نے اس ناظر کا بھی ایک ہی ایسا واقعہ لکھا ہے۔ گویا ساری عمر میں اس نے ایک ہی مرتبہ اور ایک ہی شخص سے ایسا کہا اور یہ بات بھی دو سال کی ہے۔ اسے شکایت کا رنگ دینا ایسی بات ہے جو میری سمجھ میں نہیں آ سکی۔ اگر یہ تکبر ہے تو اس سے کوئی بھی خالی نہیں شاید ہزار میں سے ایک ہو جو کبھی بھی اپنے دوستوں یا واقفوں سے ایسی خدمت نہ لیتا ہو۔ طبیعت خراب ہو تو بیویاں خاوندوں کو دباتی ہیں اور خاوند بیویوں کو۔ سینکڑوں مرتبہ میری بیوی نے مجھے دبایا ہو گا اور بیسیوں مرتبہ مَیں نے ان کو دبایا ہو گا۔ دوست دوستوں سے یہ سلوک کرتے ہیں اور اگر یہ سلوک نہ رہے تو انسان انسان نہیں بلکہ وحشی بن جائے۔ انسانوں کے انسانوں سے تعلقات ہوتے ہیں۔ کیا ایسا ہونا چاہئے کہ جو ناظر بن جائے وہ ہر ایک کو کُتّے کی طرح بھونکتا پھرے۔ ہم اسے تکبر سے تو روک سکتے ہیں مگر انسانیت سے خارج نہیں کر سکتے۔ وہ بھی اسی طرح کا انسان ہے جیسے دوسرے اور اسے بھی اپنے دوستوں سے خدمت لینے،فائدہ اٹھانے یا فائدہ پہنچانے کا اسی طرح حق ہے جیسے دوسرے انسانوں کو۔ اس میں نہ کوئی تذلیل ہے نہ تحقیر۔ ساری دنیا میں یہ کام ہو رہا ہے۔ بچہ ماں باپ سے ماں باپ بچوں سے، دوست دوستوں سے چھوٹے بھی اور بڑے بھی اس قسم کے سلوک ایک دوسرے سے کرتے ہیں۔ اس میں اعتراض کی کوئی بات نہیں بلکہ بعض لوگ توایسے ہوتے ہیں کہ ان سے اگر خدمت نہ لی جائے تو وہ ہتک اورتکلیف محسوس کرتے ہیں۔
یہاں بھائی عبد الرحمان صاحب قادیانی ہیں مَیں جب سے ان کو جانتا ہوں مَیں نے دیکھا ہے کہ ان کو دوستوں کی خدمت کا شوق اور جوش ہے۔ اب تو یہاں کی آبادی وسیع ہو گئی ہے اور حالت بدل گئی ہے مگر جب یہاں احمدی تھوڑے تھے مجھے یاد ہے کوئی شادی بیاہ ہو یا اور کوئی تقریب ہو۔ بھائی جی وہاں خدمت کے لئے موجود ہوتے اور دوست بھی ان سے کہتے کہ بھائی جی! یہ کام کر دیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہاں متواضع صرف وہی تھے باقی سب متکبر تھے بلکہ ان میں خدمت کرنے کی خواہش اور شوق تھا اور وہ اسے حقیقی بھائی ہونے کی علامت سمجھتے اور لوگ بھی اپنے کام کے لئے یا ان کے دلی شوق کو دیکھتے ہوئے ان سے کہہ دیتے۔ سالہا سال تک یہی حالت رہی کہ کوئی مجلس ہو یا کوئی دعوت ہو بھائی جی وہاں کھڑے کام کر رہے ہیں۔ ان کی طبیعت کا میلان اسی طرف ہے کہ وہ خدمت کے رنگ میں دوستوں سے سلوک کرنا چاہتے ہیں اور لوگ بھی ان کے جوش یا اپنے کام کے لئے ان کو کہہ دیتے تھے۔ مَیں مسجد میں بیٹھتا ہوں تو بیسیوں لوگ دبانے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کو اس سے روکا جائے تو وہ تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ ایسے لوگ خدمت کرنے کو تکلیف اور ہتک نہیں سمجھتے بلکہ اگر ان کو اس سے روکا جائے تو ہتک سمجھتے اور تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ آجکل تو مَیں نے دعوتیں بند کی ہوئی ہیں۔ مگر پھر بھی بعض لوگ خط لکھتے رہتے ہیں اور پیچھے پڑ جاتے ہیں کہ ضرور منظورکریں۔ اور مَیں کہتا ہوں کہ اگر ایک کی منظور کروں تو دوسرے کو کیا جواب دوں۔ دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں یا تو اسے کہوں کہ فلاں شخص اخلاص میں بہت بڑھا ہوٴا تھا اس لئے اس کی دعوت منظور کر لی اور یا یہ کہ وہ منافق تھا اس لئے منظور کر لی کہ اسے ابتلاء نہ آئے۔ اور دونوں صورتیں دونوں میں سے ایک کے لئے تکلیف دہ ہیں۔ اس لئے مَیں نے یہ سلسلہ ہی بند کیا ہوٴا ہے سوائے اس کے کہ کوئی میرا جسمانی رشتہ دار بھی ہو۔ بعض لوگ اس پر بھی اعتراض کر دیتے ہیں کہ آپ فلاں رشتہ دار کے ہاں گئے تھے۔ ان کو معلوم نہیں کہ رشتہ داروں کے بھی اللہ تعالیٰ نے حقوق رکھے ہیں اور روحانی و جسمانی دونوں رشتے جہاں ہوں وہاں رشتہ داری کے لحاظ سے بعض حقوق بھی ادا کرنے ضروری ہیں اور ان پر اعتراض کرنا نادانی ہے۔
آنحضرت ﷺ اپنی ازواج مطہرات کے ہاں روز جاتے تھے مگر کیا دوسرے لوگوں کے ہاں بھی روز جاتے تھے؟ جس طرح دوسرے لوگ بیٹوں کی خدمت کرتے ہیں میرا بھی فرض ہے کہ اپنے بیٹوں کی خدمت کروں اور اس پر کسی کو اعتراض کا حق نہیں۔ قریبی رشتہ داروں سے حسن سلوک صلہ رحمی میں داخل ہے جس کا اسلام نے خاص طور پر حکم دیا ہے اور اس لئے مَیں مجبور ہوں کہ ان کو مستثنیٰ رکھوں۔ جو لوگ مجھے دعوت دیتے ہیں وہ کھانا کھلانے کے لئے ہی دیتے ہیں مجھ سے کچھ مانگتے تو نہیں۔ زیادہ نہیں تو مجھ پر دو تین آنے تو ضرور خرچ ہوتے ہوں گے مگر ان کو یہ خرچ کرنے میں زیادہ راحت ملتی ہے اورنہ کرنے میں تکلیف۔ اب اگر کوئی یہ شور مچانے لگے کہ بڑا اندھیر ہو گیاآپ نے فلاں شخص کی دعوت منظور کر کے اس کا خرچ زیادہ کرا دیا تو یہ اس کی حماقت ہو گی۔ یہاں ایک غریب احمدی تھا وہ سالہا سال میرے پیچھے پڑا رہا کہ میری دعوت منظور کریں اور مَیں ٹالتا رہاتا اسے تکلیف نہ ہو۔ مگر پھر مَیں نے محسوس کیا کہ اسے یہ احساس ہو رہا ہے کہ اس کی غربت کی وجہ سے مَیں انکار کرتا ہوں اس لئے مَیں مان گیا۔ اس کے مکان پر گیا اس بے چارے کے ہاں کوئی سامان وغیرہ بھی نہ تھا چٹائی تھی جس پر اس نے مجھے بٹھا دیا۔ میرے اکیلے کی دعوت تھی۔ اس نے ایک کٹورے میں سالن لا کر میرے آگے رکھ دیا۔ مَیں جب کھا کر باہر نکلا تو دروازہ پر ہی ایک دوست مل گئے ان کو اعتراض کرنے کی بہت عادت تھی کہنے لگے کہ آپ ایسے غریبوں کی دعوت بھی قبول کر لیتے ہیں۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ آپ نے اس غریب پر خواہ مخواہ بوجھ ڈالا ہے حالانکہ وہ کئی سال پیچھے پڑا رہا اور مَیں ٹالتا رہا اور پھر جب اس کے اندر یہ احساس پیدا ہوٴا کہ غریب سمجھ کر مَیں نہیں مانتا تو مَیں اس کے ہاں گیا مگر باہر نکلتے ہی اس دوسرے دوست نے اعتراض کر دیا کہ آپ ایسے غریبوں کی دعوت بھی مان لیتے ہیں۔ مَیں نے کہا کہ ہاں ماننی پڑ ہی جاتی ہے۔
تو دیکھو دونوں کے نقطہٴ نگاہ میں کتنا اختلاف ہے۔ ایک میرے نہ ماننے سے تکلیف محسوس کرتا تھا اور دوسرے نے ماننے کو قابلِ اعتراض سمجھ لیا اور مَیں دونوں کو تو خوش نہیں کر سکتا تھا ایک کو ہی کر سکتا تھا۔ تو ایسے اعتراضات عقل کے خلاف ہیں۔انسانوں کے ساتھ انسانوں کے تعلقات ہوتے ہی ہیں اور ناظر بھی انسان ہیں۔ ناظر بنتے ہی کوئی شخص جانور تو نہیں بن جاتا۔ ہاں اگر یہ ثابت ہو کہ ناظر یہاں بیٹھتے ہیں لوگوں کو اکٹھا کرتے ہیں کہ آوٴ ہمارے پَیر دباوٴ تو اعتراض کی بات ہو سکتی ہے۔ مگر کسی ناظر کا ایک مرتبہ کسی ایسے شخص کو جس پر ممکن ہے اس کے احسان ہوں ایسا کہناکوئی شکایت کی بات نہیں۔
دوسری شکایت یہ ہے کہ اس ناظر نے فلاں کلرک کے متعلق کہا کہ وہ خود کاغذ لے کرآ ئے اور میرے سامنے خود پیش کرے۔ اب تو یہ بات ظاہر ہو چکی ہے اس لئے مَیں بتا دیتا ہوں کہ یہ جھگڑا میرے تک آ چکا ہے اور اس کا فیصلہ مَیں نے ہی کیا تھا۔ میرے نزدیک کسی کلرک کویہ حق نہیں کہ وہ کہے کہ ناظر چپڑاسی بھیج کر کاغذ منگوا لیا کرے مَیں خود لے جا کر پیش نہیں کروں گا۔ بعض دفعہ ان کاغذات میں سے کوئی بات سمجھنے والی ہوتی ہے اور کلرک جس نے وہ کام کیا ہو وہی سمجھا سکتا ہے۔
پس یہ بات عقل کے بالکل خلاف ہے کہ کاغذات چپڑاسی لے جائے اور کلرک خود پیش نہ کرے۔ بعض دفعہ میرے پاس بعض کاغذات آئے ہیں مَیں کہتا ہوں کہ ناظر اعلیٰ خود پیش کریں کیونکہ سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح ناظر کو بھی کوئی کاغذ بھیجنے کی ضرورت پیش آ سکتی ہے وہ عالم الغیب تو ہوتا نہیں اور سمجھا بھی وہی سکتا ہے جس کے ہاتھ سے کاغذ نکلا ہو اور اس پر کسی کلرک کو اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں۔ میرے پاس جو معاملہ آیا تھا اور مَیں نے ہی یہ فیصلہ کیا تھا کہ اگر ناظر ضروری سمجھتا تھا تو کلرک کو ضرور جانا چاہئے تھا۔ ایسی باتوں کو ہتک سمجھنے والے کے لئے دفتر میں کام کرنے کی ضرورت نہیں ۔ اسے چاہئے کہ اپنے گھر میں بیٹھا رہے۔ ایسی باتوں کو ہتک سمجھنے والا دفتر میں کام کرنے کے اہل نہیں۔
ایک اور شکایت یہ کی گئی ہے کہ ایک دفعہ فلاں شخص دفتر میں بیٹھا تھا یہ ناظر وہاں آیا اور اس سے کہا کہ تم کھڑے کیوں نہیں ہوئے جس شخص کے متعلق یہ واقعہ ہے وہ آجکل میرے ہی ماتحت ایک جگہ ملازم ہے میری ہی زمین پر ہے۔ اس لئے گویا میرا ہی ملازم ہے۔مَیں نہیں کہہ سکتا کہ اس واقعہ کے وقت وہ دفتر میں ملازم تھا یا نہیں۔ اگر وہ ملازم نہ تھا اورناظر نے یہ بات اسے کہی تو تکبر سے کام لیا۔ ناظروں کے لئے میرا یہ حکم ہے کہ اگر کوئی ان سے ملنے آئے تو کھڑے ہوں دوسروں کو نہیں۔ اور کسی ناظر کا کسی مہمان سے یہ کہنا کہ تم کھڑے کیوں نہیں ہوئے تکبر اور آداب کے خلاف ہے۔ لیکن اگر وہ شخص اس وقت انجمن کے دفتر میں کلرک تھا تو پھر اگر ایسا کہا تو درست کہا۔ یا تو ہم جماعتی لحاظ سے یہ فیصلہ کر دیں کہ کسی کا کسی کی تعظیم کے لئے کھڑا ہوناجائز نہیں اور یہ شرک ہے۔ ورنہ ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ افسر کے آنے پر کھڑا ہونا چاہئے ورنہ نظام قائم نہیں رہ سکتا۔
بعض علماء کا خیال ہے کہ کسی کی تعظیم کے لئے کھڑا ہونا جائز نہیں اور یہ شرک ہے۔ قاضی امیر حسین صاحب مرحوم بھی اسے شرک سمجھتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام تشریف لاتے تو دوست تعظیم کے لئے کھڑے ہو جاتے مگر قاضی صاحب مرحوم اسے شرک کہتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے سامنے تو نہیں مگر بعد میں دوستوں کو الگ الگ اس سے روکتے تھے۔
ایک دفعہ آپ نے میری معرفت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کو یہ پیغام بھجوایا کہ یہ شرک کی بات ہے آپ اس کو روک دیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے یہ پیغام سن کر فرمایا کہ قاضی صاحب سے کہہ دو کہ بعض شرک ایسے ہوتے ہیں کہ نیت ہو یا نہ ہو وہ شرک ہی رہتے ہیں اور بعض کام نیت کے ساتھ شرک بنتے ہیں اور تعظیماً کھڑا ہونا ان شرکوں میں سے نہیں کہ نیت ہو یا نہ ہو یہ شرک بن جائے۔ بعض شرک بے شک ایسے ہیں کہ نیت کے بغیر بھی شرک ہی رہتے ہیں مثلاً کسی انسان کو سجدہ کرنا یا گیارھویں دینا وغیرہ۔ مگر تعظیم کے لئے کھڑا ہونا ایسی بات نہیں کہ نیت کے بغیر بھی شرک ہو جائے۔ یہ شرک اس وقت ہوتا ہے جب ارادہ مشرکانہ ہو محض محبت سے مجبور ہو کر شرک کے ارادہ اور نیت کے بغیر آپ ہی آپ کسی فعل کے سرزد ہونے کا نام شرک نہیں رکھا جا سکتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے فرمایا کہ قاضی صاحب سے کہنا کہ آنحضرت ﷺ کی وفات پر حضرت عائشہؓ کا ہاتھ بے اختیار مُنہ پر پڑا جیسے پیٹا جاتا ہے مگر معاً آپ کو یاد آ گیا کہ آنحضرت ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے اور آپ فوراً رُک گئیں اور ان کے اس ہاتھ مارنے کو گناہ قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ یہ ایک غیر ارادی فعل تھا جسے آپ نے خیال آتے ہی معاً چھوڑ دیا۔ پس اگر کوئی شخص یہ خیال کئے بغیر کہ اس انسان کے اندر خدا کی صفات جلوہ گر ہیں ملکی دستور کے مطابق تعظیم کے لئے بے اختیار کھڑا ہوتا ہے تو یہ شرک نہیں بلکہ آداب اور نیکی کا طریق ہے۔ میں نے یہ جواب قاضی صاحب کو پہنچا دیا اور وہ خاموش ہو گئے گو ان کے دل میں یہ بات کھٹکتی رہی۔ میرا اپنا طریق یہ ہے کہ مجھے کوئی بھی ملنے آئے میں کھڑا ہوتا ہوں۔ بعض اوقات نو مسلم دوست جو پہلے چوہڑے تھے ملنے آئے ہیں اور مَیں ان کے لئے بھی کھڑا ہوٴا ہوں۔ کوئی چپڑاسی بھی آئے اس کے لئے بھی کھڑا ہوتا ہوں۔ وہی میرے دفتر کا کلرک جو روز کاغذات پیش کرتا ہے اور ضرورتاً عرصہ تک کھڑا رہتا ہے جب کسی ذاتی کام کے لئے ملنے آئے تو مَیں کھڑا ہو جاتا ہوں کاغذات دکھانے کے وقت تو وہ کھڑا رہتا ہے کیونکہ سامنے بیٹھ جائے تو کاغذات دکھا نہیں سکتا اس لئے پہلو میں کھڑا ہو کر دکھاتا ہے مگر وہی جب کسی ذاتی بات کے لئے آئے تو مَیں ضرور کھڑا ہوتا ہوں۔ ہزاروں لوگ مجھ سے ملتے ہیں۔ کوئی بتائے کہ کبھی ایسا ہوٴا ہو کہ مجھ سے کوئی ملنے آیا اور مَیں کھڑا نہ ہوٴا ہوں۔ سوائے اس کے کہ مَیں حد سے زیادہ بیمار ہوں اور کھڑا نہ ہو سکوں اور ایسے مواقع بھی ساری عمر میں پانچ سات ہی آئے ہوں گے۔ یا پھر جلسہ کے موقع پر کہ ہزاروں آدمی ملنے والے ہوتے ہیں اور اس پر عمل ناممکن ہوتا ہے۔ تو یہ ایک آداب کا طریق ہے اور اس سے توجہ کا اظہار ہوتا ہے۔ اس لئے ناظروں کو بھی میرا یہی حکم ہے کہ کسی کے آنے پر وہ اٹھ کر اسے ملیں اور اس لئے اگر افسر کے آنے پر کلرک کھڑا نہیں ہوتا تو افسر کے اسے پوچھنے پر شکایت کی کوئی وجہ نہیں اس کے لئے توکھڑا ہونا زیادہ ضروری ہے کیونکہ وہ ناظر اس کا بھائی بھی ہے اور افسر بھی۔ اس لئے بلا کسی دغدغہ کے کھڑا ہونا چاہئے۔ ہاں جماعتی طور پر یہ قرار دے دیں کہ کسی کے لئے کھڑا نہیں ہونا چاہئے تو اور بات ہے لیکن جبکہ یہ ایک آداب کا طریق ہے جس پر عمل ہوتا ہے۔ تو افسر کے آنے پر جو کلرک کھڑا نہیں ہوتا اگر وہ نادانستہ طور پر ایسا کرتا ہے تو بے سمجھ ہے اور اگر دانستہ کرتا ہے تو گستاخ ہے اور ناظر نے اگر اسے ٹوکا تو درست کیا اور اس کا اعتراض جائز تھا۔ خصوصاً جبکہ مَیں نے ناظروں کوبھی یہ ہدایت کی ہوئی ہے کہ کھڑے ہوں تا یہ احساس پیدا ہو کہ ناظر اپنے آپ کو بڑا نہیں سمجھتے اور جبکہ میں ہر ایک کے لئے کھڑا ہوتا ہوں اس کے باوجود بھی اگر کوئی کلرک کام کے لئے اپنے افسر کے پاس کھڑا ہونے کو ہتک سمجھتا ہے تو وہ بے وقوف ہے۔ ایک اور شکایت یہ ہے کہ ایک شخص نے اس ناظر کو سلام نہ کیا تو اس نے اسے کہا کہ تم نے سلام کیوں نہیں کیا۔ اگر یہ بات درست ہے تو یہ یقینا تکبر نہیں تو ناظر کی بے وقوفی ضرور ہے۔ وہ لوگوں سے زبردستی سلام نہیں کرا سکتا مَیں خود سیر کے لئے جاتا ہوں اور مَیں نے دیکھا ہے کہ اگر پچاس آدمی رستہ میں ملتے ہیں تو ان میں سے25 سلام کرتے ہیں اور25 نہیں۔ اگر آدمی ہر ایک سے پوچھتا پھرے کہ تم نے سلام کیوں نہیں کیا تو وہ تو باوٴلہ کتا ہو جائے۔ رسول کریم ﷺ کا حکم یہی ہے کہ تم کسی کو پہچانو یا نہ پہچانو اسے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہو۔ 1مگر اس میں کیا شک ہے کہ اس حکم کا نہ اس قدر وسیع مفہوم ہے اور نہ مسلمان ایسا وسیع عمل اس پر کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ اس حکم کی قدر نہیں کرتے بلکہ بعض دفعہ خیال بھی نہیں ہوتا کہ کوئی پاس سے گزر گیا ہے اور جب ہم اپنے خیال میں بعض دفعہ گزر جاتے ہیں اور دوسرے کو دیکھتے بھی نہیں تو دوسرے کے متعلق یہ خیال کیوں نہ کریں کہ وہ بھی اپنے خیال میں گزر گیا ہو گا۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ مَیں سیر کے لئے جاتا ہوں تو کئی دفعہ بعض لوگ پاس سے گز رجاتے ہیں اور مجھے پتہ بھی نہیں لگتا اور کسی کے بتانے سے علم ہوتا ہے کہ فلاں شخص گیا ہے۔ اگر میری یہ حالت ہو سکتی ہے تودوسرے کی بھی ہو سکتی ہے۔ یہ خیال کرنا کہ دوسرا ضرور سلام کرے ورنہ وہ گستاخ ہے بے وقوفی کی بات ہے۔ اس صورت میں ناظر خود ہی سلام کیوں نہ کر دیں اور اس طرح دوسروں کے لئے نمونہ بنیں۔ یہاں ایک شخص تھا جو دماغی مریض تھا اور اسے یہ خیال تھا کہ مَیں بڑا آدمی ہوں اور کسی کو سلام نہیں کہتا تھا۔ بعض دوستوں نے مجھے بتایا کہ وہ کسی کو سلام نہیں کہتا تو مَیں نے ان سے کہا کہ تم خود اسے کیوں سلام نہیں کہہ دیتے۔ مَیں نے پہلے تو اس بات کا کوئی خیال نہ کیا تھا مگر اس شکایت کے بعد غور کیا تو دیکھا کہ وہ میرے پاس سے بھی گزرا اور سلام نہ کہا اس پر مَیں نے یہ کیا کہ جب وہ میرے سامنے آتامَیں خود اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہتا اور تین چار بار ایسا کرنے کے بعد مَیں نے دیکھا کہ وہ جونہی سامنے آتا فوراً اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہہ دیتا۔ تو اگر کوئی شخص سلام نہیں کہتا تو ناظر خود کیوں نہ اسے سلام کہیں۔ خدا تعالیٰ نے ہم کو معلم بنایا ہے اور ہمارا کام یہ ہے کہ دوسروں کو اخلاق سکھائیں۔ یہ کیا کہ کوئی سلام نہ کرے تو اسے پکڑیں کہ کیوں تم نے سلام نہیں کیا۔ یہ شکایت صحیح ہے تو اسے مَیں ناظر کی غلطی سمجھتا ہوں اور یہ ایسی غلطی ہے کہ اس خطبہ کو پڑھتے ہوئے بھی مجھے تو شرم سے پسینہ آ گیا کہ اسے یہ ضرورت کیونکر ہوئی کہ کسی سے ایسی بات کہے۔ یہ توایسی ہی بات ہے جیسے کسی سے کہا جائے کہ میری دعوت کرو۔ یہ نہایت ادنیٰ اور ذلیل بات ہے اور اس معاملہ میں ناظر کی اتنی غلطی ہے کہ اسے پڑھتے ہوئے بھی مجھے شرم محسوس ہوئی۔ آنحضرت ﷺ کے احکام سب کے لئے یکساں طور پر واجب العمل ہیں۔ اگر کوئی دوسرا عمل نہیں کرتا تو خود کیوں نہ کریں؟ یہ احکام دوسروں کے لئے ہی نہیں بلکہ ہمارے لئے بھی ہیں۔ اگر تو آپ کا یہ حکم ہوتا کہ ضرور چھوٹا سلام کرے بڑا نہ کرے تو ہم مجبور ہوتے کہ عمر یا درجہ یا علم میں جو چھوٹا ہو اس کو سلام نہ کرنے پر پوچھیں کہ تم نے کیوں عمل نہیں کیا۔ مگر جب چھوٹے بڑے سب کے لئے یکساں حکم ہے تو یہ کیوں امید رکھیں کہ دوسرا کرے ہم نہ کریں۔ نیکی میں خود ابتدا کیوں نہ کریں؟ صحابہ تو نیکی میں پہل کرنے کا اس قدر خیال رکھتے تھے کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا ہے کہ ایک دفعہ حضرت امام حسنؓ اور امام حسینؓ کسی بات پر آپس میں لڑ پڑے۔ دونوں بھائی بھائی تھے مگر بعض دفعہ کوئی جھگڑے کی بات ہو جاتی ہے حضرت امام حسینؓ کی طبیعت تیز تھی ان سے سختی ہو گئی اور امام حسنؓ برداشت کر گئے۔ رات کو کسی ذکر پر ایک صحابی نے بیان کیا کہ میں نے آنحضرت ﷺ سے سنا ہے کہ اگر کوئی اپنے بھائی سے صلح کرنے میں پہل کرے تو وہ پانسو سال پہلے جنت میں جائے گا۔ یہ بات سنتے ہی حضرت امام حسنؓ اٹھے اور راتوں رات امام حسینؓ کے مکان پر پہنچے اور دستک دی۔ امام حسین باہر آئے اور پوچھا کہ بھائی اس وقت کیسے آئے۔ امام حسنؓ نے کہا کہ معافی مانگنے آیا ہوں۔ یہ سن کر ان کے دل میں بھی ندامت محسوس ہوئی اور کہاکہ معافی تو مجھے مانگنی چاہئے تھی مگر امام حسنؓ نے کہا کہ ابھی مَیں نے یہ حدیث سنی تھی اور مجھے خیال آیا کہ سختی بھی آپ نے کی تھی اب ایسا نہ ہو کہ معافی مانگنے کا ثواب آپ ہی لے جائیں۔ اس لئے مَیں معافی مانگنے آ گیا ہوں۔ تو نیکی اس طرح قائم نہیں ہو سکتی کہ جہاں دونوں کو حکم ہو وہاں بھی ہم دوسرے کو پکڑ کر کہیں کہ تم نے اس حکم پر عمل کیوں نہیں کیا اور خودنہ کریں۔ قرآن کریم میں ایسے لوگوں کے متعلق آتا ہے کہ يُحِبُّوْنَ اَنْ يُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوْا 2 کہ وہ ایسی تعریف کرانا چاہتے ہیں جس پر خود عمل نہیں کرتے۔ دوسرے پر بھی اسی بات کا اثر ہو سکتا ہے جس پر اپنا عمل ہو۔ اگر کوئی غریب آدمی کسی امیر کو کہے کہ آپ زکوٰة کیوں نہیں دیتے تو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ تم خود کیوں نہیں دیتے بلکہ اس پر اس نصیحت کا اثر ہو گا لیکن اگر کوئی ایسا شخص جس پر زکوٰة فرض ہے خود تو نہ دے مگر دوسرے سے کہے کہ کیوں نہیں دیتے تو وہ یہی کہے گا کہ تم خود کیوں نہیں دیتے پس اس ناظر کو اگر کسی نے سلام نہیں کہا تھا تو بجائے اس کے کہ اس پر اعتراض کرتا اسے چاہئے تھا کہ خود سلام کہنے میں پہل کرتا کیونکہ سلام کرنے کا حکم دونوں کے لئے یکساں ہے۔
مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک شعر سنا ہوٴا ہے کہ :۔
وہ نہ آئے تو تُو ہی چل اے میر تیری کیا اس میں شان گھٹتی ہے
اگر رسول کریم ﷺ کا حکم ایک بھائی نہیں مانتا توکیوں نہ ہم خود اس پر عمل کر لیں۔ پس اگر شکایت درست ہے تو یہ فعل عقل کے خلاف اور اخلاق سے گرا ہوٴا ہے۔ یہ کہیں حکم نہیں کہ سلام صرف چھوٹا کرے بڑا نہ کرے۔ اگر ماتحت نے نہیں کیا تو افسر خود پہلے کر دے۔ میرا اپنا یہ طریق ہے کہ جب خیال ہوتا ہے تو مَیں خود پہلے سلام کہہ دیتا ہوں۔ بعض دفعہ خیال نہیں ہوتا تو دوسرا کر دیتا ہے ایسی باتوں میں ناظروں کو اعتراض کرنے کی بجائے خود نمونہ بننا چاہئے۔
ایک اَور شکایت مجھے امور عامہ کے واسطہ سے پہنچی ہے۔ اس کے متعلق بھی مَیں بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ کسی شخص نے کہا ہے کہ یہاں انصاف نہیں ہوتا۔ ایک ہی جرم پر بعض لوگوں کو سزا ہو جاتی ہے اور بعض کو نہیں ہوتی۔ فلاں آدمی نے یہی جرم کیا تو اسے سزا نہیں ہوئی اور فلاں کو ہو گئی۔ ایسے اعتراض بھی کئی لوگوں کے لئے ٹھوکر کا موجب ہو جاتے ہیں لیکن ایسے اعتراض کرنے والے دراصل انسانیت کے سمجھنے سے عاری ہوتے ہیں۔ یہ اگر جرم ہے تو یہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں بھی ہوٴا حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور دوسرے انبیاء کے زمانہ میں بھی ہوٴا اور ہمیشہ ہوتا جائے گا۔ ہر ایک کو ایک ہی جرم پر سزا دینا انصاف کے لئے ضروری نہیں۔ اللہ تعالیٰ بھی کسی کو سزا دے دیتا ہے اور کسی کو معاف کر دیتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ کسی کو سزا نہ دینا رحم کی بات ہے نا انصافی نہیں۔ بعض اوقات بعض مصالح یا کسی حکمت کی بناء پر ایسا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ رسول کریم ﷺ کے پاس ایک دفعہ ایک شخص آیا اور کہا یَا رَسُوْلَ اللہ! آپ نے فلاں شخص کو مال دے دیا اور فلاں کو نہیں دیا حالانکہ وہ بھی مومن ہے۔ آپ یہ سن کر خاموش رہے۔ اس نے پھر کہا یَا رَسُوْلَ اللہ! آپ نے فلاں شخص کو مال دیا اور فلاں کو نہیں دیا حالانکہ وہ اس سے اچھا مومن ہے۔ مگر آپ پھر خاموش رہے اور اس نے پھر تیسری بار یہی اعتراض دُہرایا اور کہا کہ فلاں شخص جسے آپ نے مال نہیں دیا فلاں سے جسے دے دیا اچھا مومن ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ ضروری نہیں کہ مَیں ایمان کی وجہ سے کسی کو مال دوں۔ میں بعض اوقات کمزوروں کو مال دے دیتا ہوں تاوہ ڈگمگا نہ جائیں۔3
فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت ﷺ نے جب اموال تقسیم کئے تو بعض مکہ والوں کو بڑے بڑے گلّے دے دئے۔ کسی کو سَو اونٹ، کسی کو پچاس، کسی کو بیس اور وہ انہیں لے کر خوش ہو کر چلے گئے۔ ایک نوجوان آیا اور آپ کی پشت کی طرف تلوار ٹیک کر کھڑا ہو گیا اور کہا کہ خدا کی قسم اس تقسیم میں انصاف سے کام نہیں لیا گیا۔ آپ نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ اگر مَیں انصاف نہیں کرتا تو دنیا میں اور کون انصاف کرے گا اور آپ نے فرمایا کہ اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے کہ وہ منہ سے قرآن کریم پڑھیں گے مگر وہ ان کے حلقوں سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ نمازیں پڑھیں گے مگر وہ نمازیں ان کے لئے *** کا موجب ہوں گی۔ ان سے اسلام میں تفرقہ اور بغاوت پیدا ہو گی۔ حضرت عمرؓ اس وقت شاید پرے بیٹھے تھے یا شاید بعد میں آئے اور یہ بات سنی تو تلوار کھینچ لی کہ مَیں اس شخص کو قتل کر دوں گا مگر رسول کریم ﷺ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اسلام میں تفرقہ پیدا کرنے والی جنگ ہو گی اور اس میں یہ شخص پکڑا جائے گا تو اس کے بازو پر گوشت کا لوتھڑا ہو گا جیسے عورت کا پستان ہوتا ہے۔ حضرت عمرؓ نے اسے مارنے کا ارادہ کیا مگر اللہ تعالیٰ نے اسے بچانا تھا اس لئے وہ حضرت عمرؓ کو ملا نہیں اور آخر اس کی لاش جنگ صفین کے بعد ملی۔ 4 تو اس کے بازو پر بالکل عورت کے پستان کی طرح گوشت کا لوتھڑا پایا گیا۔
تو نظاموں اور سلسلوں کا کام چلانے کے لئے بعض حکمتوں کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے جن کو مدنظر رکھنا خلیفہ کا فرض ہے۔ ورنہ خلافت کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی۔ اگرہر ایک کو سزا ہی دینی ہو تو خلیفہ کی کیا ضرورت ہے۔ اس کے لئے تومشین ہی کافی ہے۔ خلیفہ کی ضرورت تو یہی ہوتی ہے کہ وہ مصلحت اور حکمت کو دیکھتا ہے۔اگر وہ دیکھے کہ ایسے جرائم میں جن کے لئے حد شرعی مقرر نہیں یا دوسروں کے حقوق تلف نہیں ہوتے۔ کسی کوسزا نہ دینے میں سلسلہ کا کوئی نقصان نہیں اور اس کا ایمان بچتا ہے تو اسے سزا نہ دینا نا انصافی نہیں بلکہ اگر کسی کو مال دینے میں سلسلہ کا نقصان نہ ہوا اور کسی کا ایمان سلامت رہے تو مال دے دینا بھی کوئی نا انصافی نہیں۔ پس سزا نہ دینا اور کسی کو معاف کر دینا شرعاً جائز ہے۔ سامانہ کا ایک شخص آجکل لوگوں میں یہ پروپیگنڈا کرتا پھرتا ہے کہ میں نے فلاں فلاں لوگوں کے متعلق اطلاع دی تھی کہ وہ منافقوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور ان کو سزا نہیں دی گئی۔ یہ شخص مجھ سے خود خواہش کر کے اور اجازت لے کر ملتا رہا جن سے ملنے کی اجازت نہیں اور خود اس نے مجھ سے یہ خواہش کی کہ اس کی کسی رپورٹ پر کارروائی نہ کی جائے ورنہ اس کا راز فاش ہو جائے گا۔ مَیں نے اسے کہا کہ بعض اوقات کارروائی کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ اس لئے یہ طریق اختیار کرو کہ جب تم یہ سمجھو کہ فلاں بات ایسی ہے جس کے متعلق تم گواہی پیش کر سکتے ہو تو اسے رپورٹ میں نہ لکھنا بلکہ اسے الگ کاغذ پر لکھ کر لفافہ میں رپورٹ کے ساتھ رکھ دینا اورمیں وہ کاغذ امور عامہ میں بھیج دیا کروں گا۔ مگر اب وہ کہتا پھرتاہے کہ مَیں نے رپورٹیں کیں اور کوئی کارروائی نہیں کی گئی حالانکہ اس نے خود یہ خواہش کی تھی کہ اس کی رپورٹوں پر کارروائی نہ کی جائے ورنہ اس کا راز فاش ہو جائے گا۔ اگر میں اس کی رپورٹوں پر کارروائی کرتا تو وہ کہہ دیتا کہ وعدہ کے خلاف کیا جا رہا ہے لیکن اگر یہ بات نہ بھی ہوتی تو بھی یہ میرا کام ہے کہ دیکھوں کس رپورٹ پرکارروائی کرنی چاہئے یا نہیں اور کس کو سزا دینی چاہئے یا نہیں۔ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں عبد اللہ بن ابی بن سلول اندرونی دشمنوں میں سے سب سے بڑا دشمن تھا۔ واقعہ افک کے متعلق قرآن کریم نے یہ فرمایا ہے کہ وہ سب سے بڑا مجرم ہے مگر رسول کریم ﷺ نے اسے کوئی سزا نہیں دی اور دوسروں کو دے دی۔سوچنا چاہئے کہ اگر میں کسی کو سزا نہیں دیتا تو کیا اپنے کسی فائدہ کے لئے نہیں دیتا۔ اگر سلسلہ کے مصالح کا تقاضا ہو کہ اسے سزا نہ دی جائے تو میں تو تعریف کا مستحق ہوں کہ سلسلہ کے مفاد کے لئے میں اپنے جذبات کو قربان کرتا ہوں اور دینی مصالح کو ذاتی جذبات پر مقدم رکھتا ہوں۔ پس ایسا اعتراض کرنے والا نادان ہے اور دین کی باتوں کو نہیں سمجھتا۔ یہ میرا حق ہے کہ دیکھوں کس کو سزا دینی چاہئے اور کس کو نہیں۔ کس کو سزا دینے میں سلسلہ کا نقصان ہے اور کس کو چھوڑ دینے سے اس کی اصلاح ہو سکتی ہے۔
واقعہ افک کے سلسلہ میں آنحضرت ﷺ نے حسّان کو تو کوڑے لگوائے 5مگر عبد اللہ بن ابی جس کے متعلق قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ وہ سب سے بڑا مجرم تھا اور جس کے متعلق تَوَلّٰى كِبْرَهٗ 6فرمایا اُسے ایک جُوتا بھی نہیں لگوایا۔ کتنے تعجب کی بات ہے کہ قرآن کریم میں ایک مسئلہ ایسی وضاحت سے بیان ہو اور کوئی احمدی اسے سمجھ نہ سکے۔ اللہ تعالیٰ کا سلوک بھی ایسا ہی ہے۔ ایک شخص کی زبان سے کوئی بات نکلتی ہے اور وہ فوراً پکڑا جاتا ہے اور ایک خدا تعالیٰ کو بھی عمر بھر گالیاں دیتا ہے اور اسے کوئی گرفت نہیں ہوتی۔
میں ایک دفعہ لکھنوٴ گیا وہاں ندوہ میں ایک مولوی عبد الکریم صاحب افغان تھے انہوں نے ہمارے خلاف جلسے کئے اور ایک جلسہ میں کہا کہ مرزا صاحب نبی بنے پھرتے ہیں اور حالت یہ ہے کہ مجھے مرزا حیرت دہلوی نے سنایا کہ مرزا صاحب دلّی میں آئے اور مجھے علم ہوٴا تو مَیں انسپکٹرپولیس بن کر اس مکان پر گیا جہاں آپ ٹھہرے ہوئے تھے اور نوکر سے کہا کہ مرزا صاحب کو جلدی اطلاع دو کہ پولیس افسر آیا ہے۔ نوکر نے جا کر اطلاع دی اور مرزا صاحب گھبراہٹ میں جلدی جلدی نیچے اترے اور آخری سیڑھی پر پہنچ کا ان کا پاوٴں پھسل گیا اور گر پڑے۔ یہ واقعہ سنا کر وہ مولوی خوب ہنسا کہ ایسا شخص بھی نبی ہو سکتا ہے۔ اب یہ تمسخر تو ہے مگر کیا اتنا بڑا جو مولوی ثناء اللہ صاحب ہمیشہ کرتے ہیں؟ لیکن دیکھ لو مولوی ثناء اللہ صاحب کو اتنی لمبی عمر ملی ہے اور مولوی عبد الکریم صاحب تیسرے ہی دن کوٹھے سے گرا اور مر گیا۔ بالکل اسی طرح جس طرح اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف غلط واقعہ منسوب کیا تھا اللہ تعالیٰ نے اسے سزا دے دی۔ پس یہ تو ایسی بات ہے جو خدا تعالیٰ بھی کرتا ہے، اس کے نبی بھی کرتے رہے ہیں اور مجھے بھی کرنی پڑتی ہے۔ بعض اوقات میں دیکھتا ہوں کہ ایک شخص ایسا بے حیا ہے کہ اس پر گرفت کرنے کے کا کوئی فائدہ نہیں اور اس کے برے نمونہ کا دوسروں پر بھی اثر نہیں ہوتا۔ کیونکہ سب پر اس کی حالت عیاں ہوتی ہے اور سب جانتے ہیں کہ وہ بے حیا ہے اس لئے اسے چھوڑ بھی دیتا ہوں۔ مگر دوسرا وہی جرم کرتا ہے تو چونکہ لوگوں کو اس سے حسن ظنی ہوتی ہے مَیں سمجھتا ہوں کہ اگر اسے سزا نہ دی گئی تو دوسروں پر بُرا اثر ہو گا۔ اسے چونکہ لوگ اچھا آدمی سمجھتے ہیں وہ خیال کریں گے کہ شاید یہ کام بھی اچھا ہو۔ اس لئے اسے سزا دے دی جاتی ہے یا بعض اوقات یہ خیال ہوتا ہے کہ سزا سے اس کی اصلاح ہو جائے گی اس لئے سزا دے دی جاتی ہے۔ سزا دینے یا نہ دینے کے متعلق بیسیوں وجوہ ہو سکتے ہیں۔ کبھی اس کا خیال رکھنا ہوتا ہے کبھی اس کے دوستوں اور رشتہ داروں کا اور سلسلہ کا۔ اور خلیفہ کا حق ہے کہ دیکھے کس موقع پر کیا طریق عمل اختیار کرنا مناسب ہے۔ یہ ایسی باتیں ہیں کہ ہر ایک کے متعلق ان کو ظاہر نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس طرح حکمت باطل ہو جاتی ہے۔ اگر ہر ایک واقعہ کے متعلق جلسہ کیا جائے جس میں بتایا جائے کہ فلاں شخص ایسا بُرا ہے کہ اس کی اصلاح کی کوئی صورت نہیں اس لئے اسے سزا نہیں دی گئی تو سزا نہ دینے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ یہ چیزیں ایسی نہیں کہ عام لوگوں کو بتائی جا سکیں۔ اسلام نے معمولی انسان پر بھی حُسن ظنی کا حکم دیا ہے تو کیا خلیفہ ہی کا وجود ایسا ہے کہ اس پر کوئی حسن ظنی نہیں کی جا سکتی؟ لوگ اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے متعلق حسن ظنی سے کام لیتے ہیں، بیٹوں کے متعلق حسن ظنی کرتے اور کہتے ہیں ہمارا بیٹا جھوٹ نہیں بول سکتا۔ تو کیا پھر بدظنی خلیفہ کے لئے ہی ہے؟ اگر کوئی شخص بیعت کی اہمیت اور خلیفہ کی حیثیت کو سمجھے تو خلیفہ کا حق اسے دینا پڑے گا اور یہ خلیفہ کا حق ہے کہ سوائے ایسے شرعی حدود والے جرائم کے جن میں سزا دینا اس کے اختیار میں ہے باقی امور میں چاہے تو کسی کو سزا دے اور چاہے نہ دے۔ رسول کریم ﷺ کے متعلق آتا ہے کہ آپ ایک دفعہ ایک شخص کے متعلق ذکر فرما رہے تھے کہ وہ بہت برا آدمی ہے کہ اتنے میں وہ شخص وہیں آ گیا آپ اس کے لئے کھڑے ہو گئے۔ اپنا گدّا دے دیا اور عزت سے بٹھایا۔ جب وہ چلا گیا تو حضرت عائشہ نے دریافت کیا کہ یَا رَسُولَ اللہ! آپ بھی ایسا کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا اس کے شر کو دور کرنے کے لئے مصلحت کا تقاضا یہی تھا۔7 یعنی اگر اسے پتہ لگ جائے کہ مجھے اس کی برائیوں کا علم ہو چکا ہے تو شرارت میں بڑھ جائے گا بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کسی کو علم ہو جائے کہ اس کے بھائی یا باپ کو علم ہو چکا ہے کہ وہ چور ہے تو وہ اور بھی دلیر ہو جاتا ہے لیکن اگر سمجھے کہ علم نہیں تو کوشش کرتا ہے کہ چوری چھوڑ دے تا ان کو پتہ نہ لگ سکے۔ اس لئے عقلمند جب اس قسم کی مصلحت دیکھیں تو دوسرے کی کمزوری کو اس پر ظاہر نہیں کرتے تا وہ بے حیا نہ ہو جائے۔ پس سزا دینے میں کئی باتوں کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے اور ان حکمتوں کو اگر تم سمجھ نہیں سکتے تو خواہ مخواہ اعتراض نہ کرتے رہو۔ بے شک بعض کو سزا نہیں دی جاتی مگر اس میں حکمت ہوتی ہے۔ بعض اوقات اسے سزا دینے سے ایسے فتنہ کا دروازہ کھل جاتا ہے جو سلسلہ کے لئے مضر ہوتا ہے اور بعض اوقات یہ مدنظر رکھنا پڑتا ہے کہ اگر اسے پتہ لگ گیا کہ اس کی کمزوری ظاہر ہو چکی ہے تو وہ بے حیا ہو جائے گا۔ کبھی سزا نہ دینے سے ہی کسی کی اصلاح ہو سکتی ہے اور کبھی دینے سے ہو سکتی ہے۔ اس لئے جیسا موقع مناسب ہو کیا جاتا ہے اور جب تک کسی قوم کو حکومت نہ مل جائے ان مصلحتوں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ ہاں جن جرائم کی حدیں شریعت نے مقرر کر دی ہیں ان کے متعلق اور صورت ہے۔ مگر ان میں بھی تمام شرائط کو جو شریعت نے رکھی ہیں مدنظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ ایک جرم کے اثبات کے لئے شریعت نے اگر چار گواہ ضروری قرار دیئے ہیں تو دو ہونے کی صورت میں سزا نہیں دی جا سکتی۔ خواہ وہ دو کتنے ہی بڑے پارسا اور نیک کیوں نہ ہوں اور جہاں وہ گواہ ضروری ہیں وہاں ایک کی گواہی پر سزا نہیں دی جا سکتی خواہ وہ کتنا بڑا متقی کیوں نہ ہو۔ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ اتنے بڑے معتبر کی بات بھی نہیں مانی جاتی۔ ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ سب سے بڑا معتبر خدا ہے اور اس کا حکم ہے کہ اس موقع پر ایک معتبر کی مانو۔ پس خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں اس کی بات کیسے مان لی جائے۔ پس اگر کوئی اپنے آپ کو بڑا معتبر سمجھتا ہے تو وہ اپنے گھر ہو گا۔ میرے نزدیک سب سے معتبر خدا ہے اور جب اس نے حکم دیا ہو کہ فلاں موقع پر چار کی گواہی مانو تو دو خواہ سورج کی طرح روشن اور آسمان کے تارے کیوں نہ ہوں مَیں ان کی بات کیسے مان لوں اور جہاں اس نے دو کی گواہی ضروری رکھی ہے وہاں ایک کی نیکی خواہ زمین و آسمان پر حاوی کیوں نہ ہو میں اس کی گواہی نہیں مان سکتا۔ پس ایسے امور کے سوا جن میں بعض شرائط کے موجود ہونے کی صورت میں شریعت نے خاص سزا مقرر کر دی ہے باقی امور میں سزا دینا یا نہ دینا خلیفہ کا اختیار ہے اور اگر وہ خدا تعالیٰ کے لئے یا سلسلہ کے مفاد کے لئے کسی کو چھوڑتا ہے تو اس پر اعتراض کرنے والا نادان ہے۔ ہاں اگر میں ذاتی طور پر کسی سے ڈر کر چھوڑتا ہوں تو بھی ان کو گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ میرے اوپر مجھ سے بہت بڑا حاکم ہے جس کے سامنے مجھے جواب دینا ہو گا مگر مَیں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مَیں نے کبھی ذاتی طور پر یا کسی سے ڈر کر کسی کو نہیں چھوڑا۔ ہاں سلسلہ کے مفاد کے لئے اگر کوئی حکمت اور مصلحت سمجھوں تو ان امور میں جن کی سزا شریعت نے مقرر نہیں کی اور سزا دینا یا نہ دینا مجھ پر چھوڑ دیا ہے بعض اوقات چھوڑ بھی دیتا ہوں۔ جن امور میں شریعت نے سزا مقرر کر دی ہے ان میں کبھی ایسا نہیں ہوٴا کہ پورا ثبوت موجود ہو اور مَیں نے چھوڑ دیا ہو لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ چونکہ مَیں یہ بات کہتا ہوں یہ ثابت ہے صحیح نہیں کیونکہ ثبوت وہی ہے جسے خدا تعالیٰ نے ثبوت قرار دیا ہے باقی وہم ہے۔ ’’ (الفضل10 اپریل 1941ء)
1 بخاری کتاب الاستئذان باب السلام لِلْمَعْرِفَةِ وَ غَیْرِ الْمَعْرفَةِ
2 آل عمران: 189
3 بخاری کتاب الایمان باب اِذَا لَمْ یَکُنِ الْاِسْلَامُ عَلَی الْحَقِیْقَةِ (الخ)
4 بخاری کتاب المناقب باب عَلَامَاتُ النَّبُوَّةِ فِی الْاِسْلَامِ
5 سنن ابی داؤد کتابُ الْحُدُوْد باب فِیْ حَدِّ الْقَذْفِ
6 النور: 12
7 بخاری کتاب الادب، باب مَا یَجُوْزُ مِنْ اِغْتِیَابِ اَھْلِ الْفَسَادِ وَ الرَّیْبِ

12
حکومتِ برطانیہ کی کامیابی کے لئے دعا کی تحریک
( فرمودہ 4 ، اپریل 1941ء )

تشہّد، تعوّذ اور سورہٴ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘مَیں نے پچھلے سے پچھلے جمعہ کے موقع پر یہ کہا تھا کہ علاوہ اس دعا کی تحریک میں حصہ لینے کے جو حکومت کی طرف سے کی گئی ہے اور جس کے لئے اس نے اتوار کا دن مقرر کیا ہے۔ ہم چونکہ مسلمان ہیں اور اتوار کا دن ہمارے لئے وہ اہمیت نہیں رکھتا جو جمعہ کا دن رکھتا ہے۔ اس لئے ہم اپنے طور پر بھی دعا کے لئے جمعہ کا کوئی دن مقرر کریں گے۔ اتوار کا دن عیسائیوں اور ہندووٴں کا مذہبی تہوار ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ ہم مسلمان جو اپنے مذہب کو ان کے مذاہب سے فائق اور اعلیٰ سمجھتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ ہماری الہامی کتاب میں جمعہ کو برکت کا دن قرار دیا گیا ہے ان کے دامن کے ساتھ بندھے بندھے پھریں اور جس دن کو وہ متبرک قرار دیں اسی دن کو ہم بھی متبرک سمجھنے لگیں۔ خواہ اس قسم کی تحریک حکومت کی طرف سے ہی کیوں نہ ہو کیونکہ حکومت کے احکام بھی مذہب کے تابع ہوتے ہیں۔
پس مَیں نے کہا تھا کہ بے شک اس دن بھی دعائیں مانگی جائیں اور حکومت سے تعاون کرتے ہوئے جلسہ کر لیا جائے مگر ہم اپنے طور پر بھی دعا کے لئے جمعہ کا کوئی خاص دن مقرر کریں گے۔ چنانچہ مَیں نے تجویز کیا تھا کہ جمعہ کے دن خصوصیت سے روزہ رکھنا چونکہ پسندیدہ امر نہیں اس لئے آنے والے جمعہ یعنی آج کے جمعہ سے ایک دن پہلے جمعرات کو تمام دوست روزہ رکھیں اور تہجد میں خاص طور پر ان فِتن کے متعلق دعائیں کریں جو موجودہ جنگ میں پوشیدہ ہیں اور نماز جمعہ کی آخری رکعت میں رکوع سے قیام کے وقت سب دوست اجتماعی طور پر دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان فتنوں سے دنیا کو بچائے۔ اسلام اور احمدیت کو محفوظ رکھے اور ہماری جماعت کو بھی ہر قسم کے شرور اور مفاسد سے محفوظ رکھ کر ترقی اور کامیابی عطا کرے۔
مَیں نے جیسا کہ پہلے بھی کئی دفعہ بیان کیا ہے اور اس دن بھی اختصاراً بیان کیا تھا موجودہ فتنہ میں جہاں تک عقل کام کرتی ہے اور جہاں تک حقائق ہمارا ساتھ دیتے ہیں انگریزی حکومت کی فتح اسلام اور احمدیت کے لئے زیادہ مفید نظر آتی ہے۔ کیا بلحاظ اس کے کہ انگریزی حکومت کے قوانین کے اندر یہ امر مخفی ہے کہ لوگوں کو مذہبی آزادی ملنی چاہئے اور کیا بلحاظ اس کے کہ اس وقت تک وہ ایک حد تک اس پر عمل بھی کرتی رہی ہے۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ اس نے اس کے خلاف کبھی عمل نہیں کیا۔ میرا مطلب صرف یہ ہے کہ اس نے کھلے بندوں مذہب میں کبھی دست اندازی نہیں کی۔ اس کے خلاف گو ہمیں واقعات پورے طور پر معلوم نہیں تاہم میں نے ہٹلر کی کتاب پڑھی ہے اور اس کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مذہب میں دست اندازی کو جائز سمجھتا ہے۔ اگر یہ بات محض روائتوں تک محدود ہوتی تو مَیں سمجھ لیتا کہ ممکن ہے یہ روائتیں غلط ہوں۔ یا ممکن ہے ان کے بیان کرنے میں مبالغہ آمیزی سے کام لیا گیا ہو مگر اس بات کو کس طرح نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ اس نے خود اپنی کتاب مائنے کامف میں لکھا ہے کہ ایسے مذہب کو کبھی برداشت نہیں کیا جا سکتا جس میں تفصیلی شرعی قوانین موجود ہوں اورجو اس طرح عملاً حکومت کے ہاتھوں کو بند کرتا ہو اور کہتا ہو کہ یہ قانون بناوٴ اور وہ قانون نہ بناوٴ۔ جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ اسلام اور یہودی مذہب اور اسی طرح کے وہ تمام مذاہب جن میں ایسے احکام بیان کئے گئے ہیں جو انسانی زندگی کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں وہ ہٹلر کے نزدیک قابل برداشت نہیں ہیں۔ بعض بے وقوف مسلمان بلکہ بعض نادان احمدی تک یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ صرف یہودیوں کا دشمن ہے۔ حالانکہ اس کا یہود پر مظالم ڈھانا کسی اور وجہ سے نہیں بلکہ محض اس وجہ سے ہے کہ ان کی ایک شریعت ہے اور وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ شرعی احکام پر عمل کرنا ضروری ہے۔ پس یہ خیال کر لینا کہ وہ یہودیوں پر تو ظلم کرتا ہے لیکن احمدیوں پر ظلم نہیں کرے گا یا مسلمانوں پر وہ ظلم نہیں کرے گا کمال درجہ کی حماقت ہے۔ اگر یہ صحیح ہے جیسا کہ اس نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ کوئی ایسا مذہب جس میں شریعت کی تفصیلات موجود ہوں اور جو حکومت کے قانون کو مجبور کرتا ہو کہ وہ فلاں حد تک رہے اور اس حد سے آگے نہ بڑھے قطعی طور پر قابل برداشت نہیں۔ تو جب تک ہٹلر کا یہ خیال موجود ہے، جب تک جرمنی اس نظریہ پر قائم ہے اس وقت تک احمدیوں یا مسلمانوں کا یہ خیال کر لینا کہ وہ کسی وقت ناٹسی ازم کے ماتحت امن سے رہ سکتے ہیں یا فاشزم کے ماتحت امن سے رہ سکتے ہیں قطعی طور پر احمقانہ اور جاہلانہ خیال ہے اور ہر شخص جو اس بات کو جانتے ہوئے نازیوں سے ہمدردی رکھتا ہے وہ یا تو منافق ہے یا پرلے درجہ کا جاہل اور احمق ہے۔ مَیں جانتا ہوں کہ قادیان میں بعض ایسے لوگ موجود ہیں جو جرمنی سے ہمدردی رکھتے ہیں بلکہ میں اس امر کے اظہار میں بھی کوئی باک نہیں سمجھتا کہ خود ہمارے خاندان میں بعض ایسے لوگ موجود بتائے جاتے ہیں۔ (میرا ذاتی علم نہیں) مگر ایسے تمام لوگوں کی نسبت میرا یہ یقین ہے کہ یا تو وہ بے وقوفی سے اس خیال میں مبتلا ہیں اوریا پھر وہ منافق ہیں اور احمدیت کی نسبت انہیں اپنا نفس زیادہ اہم معلوم ہوتا ہے اور اپنے گندے جذبات کو وہ احمدیت پر ترجیح دیتے ہیں۔ یہ کوئی چُھپی ہوئی بات نہیں۔ ایک شخص ایک کتاب لکھتا ہے اور وہ آج تک نازیوں کے مذہب کے طور پر شائع کی جاتی ہے۔ مائنے کامف اس کا نام ہے یعنی میری کوشش، میری جد و جہد، میرے مقاصد یا مَیں کیا کرنا چاہتا ہوں۔ اس کتاب میں وہ صاف طور پر لکھتا ہے کہ یہودیوں کے متعلق لوگوں نے مجھے کئی رنگ میں غصہ دلانا چاہا اور ان کے خلاف انہوں نے یہ بات پیش کی، وہ بات پیش کی مگر مَیں ان سب باتوں کو رد کرتا چلا گیا۔ آخر جب میں نے دیکھا کہ ان کا مذہب ایسا ہے جو اپنے اندر تفصیلی تعلیم رکھتا ہے تو مَیں نے سمجھا کہ بس یہ ایک بات ایسی ہے جس کی وجہ سے یہودیت کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ اگر ہم کوئی قانون بنائیں اور وہ یہودی قانون سے ٹکرا جائے تو لازماً یہودی اپنی شریعت کے قانون کو مدنظر رکھیں گے اور حکومت کے قانون کو نظر انداز کر دیں گے اور یہ بات ایسی ہے کہ جس مذہب میں بھی پائی جاتی ہو اسے کسی صورت میں برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
اسی طرح یہ بات بھی اس کی نسبت بیان کی جاتی ہے کہ ایسے مذہب کو بھی کسی صورت میں برداشت نہیں کیا جا سکتا جس کا مرکز کسی اور حکومت کے ماتحت ہو۔ یہ بات بھی ایسی ہے جس کی اسلام اور مسلمانوں پر زد پڑتی ہے۔ کیونکہ اسلام کا مرکز مکہ ہے اور ہم اس بات کو کسی طرح برداشت نہیں کر سکتے کہ مکہ عیسائیوں کے ماتحت آ جائے یا ہٹلر کے ماتحت آ جائے یا مسولینی کے ماتحت آ جائے۔ پس اگر کوئی باغیرت مسلمان مکہ کو آزاد رکھنا چاہے گا تو وہ کسی صورت میں بھی اس حکومت سے تعاون کرنے کے لئے تیار نہیں ہو گا جس کا یہ عقیدہ ہو کہ ایسے مذہب کو برداشت نہیں کیا جا سکتا جس کا مرکز کہیں باہر ہو۔
اسلام کا مرکز تو بہرحال غیر حکومتوں کے دائرہ اثر سے ہمیشہ باہر رہے گا جب تک کہ مسلمان بے غیرت اور بے حیا نہیں بن جاتے۔ ہاں اگر اسلام اور قرآن کی محبت ان کے دلوں میں نہ رہی، رسول کریم ﷺ کے اقوال کی عظمت ان کے دلوں سے اُٹھ گئی اور انہوں نے اپنے مونہوں سے بے شرم اور بے حیا بن کر کہہ دیا کہ ہم ہٹلر کے ماتحت ہی رہنا چاہتے ہیں اور اگر اسے ہمیں اپنے ماتحت رکھنے میں کوئی اعتراض ہے تو بے شک مکہ پر قبضہ کر لے یا ہم مسولینی کے ماتحت ہی رہنا چاہتے ہیں اور اگراسے ہمیں اپنے ماتحت رکھنے میں کوئی اعتراض ہے تو بے شک مکہ پر قبضہ کر لے۔ جس دن ایسے بے حیا اور بے غیرت مسلمان پیدا ہو جائیں گے اس دن وہ بے شک مکہ پر قبضہ کر سکے گا۔ لیکن جب تک مسلمانوں کی غیرت اس امر کو برداشت نہیں کرے گی اس وقت تک اگر ان میں ذرا بھی عقل کا مادہ ہؤا تووہ فیسی ازم یا نازی ازم کو کبھی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔
انسانی خیالات بدلتے رہتے ہیں اگر کوئی شخص یہ ثابت کر دے کہ ہٹلر نے اب ان خیالات سے توبہ کر لی ہے تو ہم بھی اپنی اس رائے کو بدل لیں گے لیکن بغیر اس کے کہ کسی کو ذاتی علم یا دلائل کی بناء پر یہ دعویٰ ہو کہ ہٹلر ان خیالات کا موٴید نہیں۔ اگر کوئی مسلمان یا احمدی ان واقعات کی موجودگی میں ہٹلر سے ہمدردی رکھتا ہے تو مَیں یقینا کہہ سکتا ہوں کہ وہ یا تو پرلے درجہ کا احمق ہے اور یا پھر پرلے درجہ کا منافق انسان ہے۔ باوجود اس کے کہ گزشتہ چھ سات سال سے پنجاب میں بعض انگریز افسروں کے ہمارے ساتھ اچھے تعلقات نہیں، باوجود اس کے کہ انہوں نے ہمارے متعلق شدید بے انصافیاں کی ہیں او رباوجود اس کے کہ انہوں نے ہمیں نقصان پہنچانے کی پوری پوری کوشش کی ہے مَیں اس قسم کی حماقت کا ارتکاب نہیں کر سکتا جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ پرائے شگون میں اپنا ناک کٹوانا۔
ہندووٴں میں یہ رواج ہے کہ بعض قسم کی عورتیں اگر نکاح یا شادی یا زچگی کے موقع پر آ جائیں تو وہ برا مناتے اور اسے اپنے لئے بدشگونی سمجھتے ہیں۔ مثلاً جس عورت کا بچہ تازہ مرا ہوٴا ہو اگر وہ زچگی کے ایام میں کسی دوسرے کے گھر ایسی تقریب میں چلی جائے تو اسے منحوس خیال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر شادی بیاہ کے موقع پر کوئی نکٹی عورت آ جائے تو اسے بھی وہ اپنی نحوست کی علامت سمجھتے ہیں۔ اسی رواج کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ایک احمق عورت تھی اس کی کسی دوسری عورت سے لڑائی ہو گئی۔ اتفاقاً چند دنوں کے بعد دوسری عورت کے ہاں کوئی شادی کی تقریب آ گئی۔ اس نے سوچا کہ بدلہ لینے کا طریق یہ ہے کہ مَیں اپنا ناک کٹوا کر اس کی شادی میں چلی جاوٴں تاکہ اس کی بدشگونی ہو۔ چنانچہ اس نے اپنا ناک کٹوا دیا اور دوسری کے ہاں چلی گئی۔ اب بے شک اس کی دوسری عورت کے ساتھ لڑائی تھی مگر دشمن عورت کے دل میں نحوست کا احساس پیدا کرنے اور اپنا ناک کاٹ دینے میں بھلا کوئی بھی نسبت تھی۔ بے شک اس عورت کو بھی صدمہ ہوٴا ہو گا جس کے ہاں یہ نکٹی عورت گئی ہو گی مگر اس عورت کو اپنا ناک کاٹ کر جو نقصان پہنچا وہ اس سے ہزاروں درجے بڑھ کر تھا۔
پس بے شک ہمارا حکومتِ پنجاب سے جھگڑا ہے مگر ہم ایسے احمق نہیں کہ دوسروں کی بدشگونی میں ہم اپنا ناک کاٹ لیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمیں حکومت سے شکایات ہیں، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ اس نے ہم پر ظلم کیا ، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ اس نے دشمن کے ساتھ مل کر ہمارے خلاف قدم اٹھایا اور یہ سب امور یقینی اور قطعی ہیں اور ہمارے پاس ایسے واضح ثبوت موجود ہیں کہ اگر ہم دنیا کے کسی ایسے جج کے سامنے ان کو رکھیں جس کا نہ ہمارے ساتھ تعلق ہو اور نہ انگریزوں کے ساتھ تعلق ہو تو نوّے فیصدی مجھے یہی یقین ہے کہ وہ ہمارے حق میں فیصلہ دے گا۔ ان کی تحریریں ہمارے پاس موجود ہیں، ان کے بیانات ہمارے پاس موجود ہیں، عدالتوں کے فیصلے ہمارے پاس موجود ہیں، کئی تصاویر ہمارے پاس موجود ہیں جن سے ان کا جرم ثابت ہوتا ہے۔
غرض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے رنگ میں ہم نے حکومت کے کارندوں کا اس وقت مقابلہ کیا کہ ہمارے پاس ایسا قطعی اور یقینی مواد جمع ہو چکا ہے کہ اگر کسی منصف مزاج جج کے سامنے اس تمام ریکارڈ کو رکھا جائے تو وہ یقینا ہمارے حق میں ہی فیصلہ کرے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ انگریزی عدالتوں میں ہمارے خلاف فیصلہ ہو۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کہتے ہیں ”آپے مَیں رجّی پُجّی آپے میرے بچے جیون“۔ لیکن مَیں سمجھتا ہوں اگر مثلاً کسی سمجھدار امریکن کے سامنے وہ تمام واقعات رکھ دئیے جائیں تو وہ ہمارے حق میں ہی فیصلہ دے گا۔ لیکن باوجود اس کے یہ مخالفتیں اس عظیم الشان نتیجہ کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں رکھتیں جو اس جنگ سے وابستہ ہے۔ اس جنگ میں یہ خواہش کرنا کہ انگریزوں کو سزا مل جائے ایسا ہی ہے جیسے پرائے شگون میں اپنا ناک کٹوا لیا جائے اور یا پھر یہ حرکت ویسی ہی ہو گی جیسے بعض لوگ اپنے بچے کو مار کر دشمن کے گھر میں پھینک دیتے ہیں تا یہ ثابت ہو کہ ان کے بچہ کو دشمن نے مارا ہے۔
پس باوجود ان تمام باتوں کے جاننے کے مَیں سمجھتا ہوں کہ اس وقت ہمیں انگریزوں سے ہمدردی ہونی چاہئے اور ان کی کامیابی کے لئے ہمیں ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔ جو شخص ان باتوں میں مجھ سے زیادہ غیرت مند ہونے کا دعویٰ رکھتا ہو وہ غیرت مند نہیں بلکہ پھپھا کٹنی کہلانے کا مستحق ہے۔ کیونکہ مثل مشہور ہے ”ماں سے زیادہ چاہے، پھپھا کٹنی کہلائے“ جو شخص اس خلیفہ سے زیادہ جماعت کے متعلق غیرت کا مدعی ہے جس نے ہر قسم کے خطرے کا مقابلہ کیا، جس نے رات اور دن اس جنگ میں حصہ لیا اور جس نے جماعت کی عزت اور اس کے وقار کو قائم کرنے کے لئے ہر طرح کی تکلیف اٹھائی اسے ہم ایک کُٹنی تو کہہ سکتے ہیں مگر غیرت مند نہیں کہہ سکتے۔ آخر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ کام تو سب مَیں نے کیا ہو اور سلسلہ سے محبت کا دعویٰ اسے ہو۔ اگر ایسا انسان یہ کہتا ہے کہ وہ سلسلہ کی بڑی غیرت رکھتا ہے اس لئے وہ حکومت سے تعاون نہیں کر سکتا تو مَیں اسے کہوں گا کہ تم بڑی کُٹنی ہو ۔ اگر ان واقعات پر غیرت آ سکتی تھی تو مجھے آنی چاہئے تھی نہ کہ تم کو۔ غرض میرے نزدیک اگر کوئی شخص سچا احمدی ہے اور وہ اسلام سے دلی محبت رکھتا ہے، منافق یا احمق نہیں تو اس کے لئے سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ جس حد تک ہو سکے کوشش کرے کہ موجودہ جنگ میں انگریزوں کو فتح اور کامیابی حاصل ہو۔
مَیں نے بتایا ہے کہ عقلاً اور سیاستاً مَیں یہی سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں کا بلکہ ہندوستان میں رہنے والی تمام اقوام کا فائدہ انگریزوں کی فتح میں ہے۔ مجھ سے ایک دفعہ ایک سیاسی آدمی نے سوال کیا۔ وہ سوال ایسا ہے جو اور بھی کئی لوگوں نے مجھ سے پوچھا ہے۔ حتّٰی کہ بعض احمدیوں نے بھی دریافت کیا ہے۔ مگر یہ دوست جن کا میں ذکر کرنے لگا ہوں سکھ تھے، انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا آپ انگریزوں سے ہمدردی رکھتے ہیں؟ مَیں نے کہا ہاں۔ وہ کہنے لگے اس کی کیا وجہ ہے؟ مَیں نے کہا آپ کے لئے تو اتنی وجہ ہی کافی ہو سکتی ہے کہ انگریزی قوم اب بوڑھی ہو چکی ہے یہ لوگ آج نہیں تو کل گئے لیکن اگر ہندوستان پر حکومت کرنے کے لئے کوئی اور جوان قوم آ گئی اور اس نے ہندوستان پر قبضہ کر لیا تو وہ کم از کم پچاس ساٹھ بلکہ مزید سو سال تک ہندوستانیوں کو اپنی غلامی کے اندر رکھے گی اور ہندوستانی اپنے حقوق کے حاصل کرنے کی جدّو جہد میں بہت پیچھے رہ جائیں گے۔ یہ بات سن کر انہوں نے میرے سامنے اس وقت یہی کہا کہ آپ کی یہ بات مجھے معقول معلوم ہوتی ہے۔ اسی طرح اور کئی دوستوں نے وقتاً فوقتاً مجھ سے یہ سوال کیا ہے اور مَیں ہمیشہ انہیں یہی کہا کرتا ہوں کہ کوئی اول درجہ کا احمق ہی یہ خیال کر سکتا ہے کہ اٹلی اور جرمنی والے اگر جیت گئے تو وہ ہندوستانیوں سے کہہ دیں گے کہ تم اپنی جگہ خوش رہو اور ہم اپنی جگہ خوش ہیں۔ آج تک گورنمنٹوں نے کبھی ایسا نمونہ نہیں دکھایا اور ناممکن ہے کہ وہ ایسا نمونہ دکھا سکیں ۔ یقینا اگر جرمنی اوراٹلی والے جیت گئے تو جتنے ممالک پر وہ قبضہ کر سکتے ہیں ان پر وہ قبضہ کر لیں گے اور پھر ان کا قبضہ نئے سرے سے اور نئے اصول کے ماتحت ہو گا جیسے انگریزوں نے جب ہندوستان پر قبضہ کیا تو انہوں نے یہاں کے لوگوں پر بڑی بڑی سختیاں کیں اور جب غصہ نکل گیا تو اعتدال پر لے آئے۔ ورنہ غدر کے بعد انگریزوں نے جو جو کارروائیاں کی ہیں ان کاذکر سن کر انسان کانپ اٹھتا ہے۔ اس وقت کے کئی چشم دید واقعات کا ذکر مَیں نے بھی سنا ہے۔ ہمارے اپنے پڑنانا کا حال ہماری نانی صاحبہ سنایا کرتی تھیں کہ غدر کے دنوں میں وہ سخت بیمار تھے۔ ایک دن اچانک انگریزی فوج کے بعض سپاہی مکان کے اندر گھس آئے اور ان میں سے ایک نے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اس شخص کو بھی مَیں نے لڑتے دیکھا ہے۔ وہ بیچارے گھبرا کر کھڑے ہوئے تو ان سپاہیوں نے وہیں گولیوں سے ان کو مار ڈالا۔ تو ہم کب کہتے ہیں کہ انگریزوں نے ظلم نہیں توڑے۔ انگریزوں نے غدر کے بعد ایسے ایسے ظلم توڑے ہیں کہ ان کا ذکر سن کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ہماری نانی کے والد جو ایک دن بھی لڑائی کے لئے باہر نہیں گئے تھے۔ محض اس بناء پر کہ ایک شخص نے کہہ دیا کہ مَیں نے انہیں بھی لڑتے دیکھا تھا گولیوں سے مار ڈالے گئے۔ اسی طرح کے اَور بیسیوں واقعات ہیں۔کوئی شخص دلّی چلا جائے اور پرانے لوگوں سے ملے تو اسے فوراً معلوم ہو جائے گا کہ کس قسم کے دردناک واقعات لوگوں کی زبانوں پر ہیں۔
تو جب کوئی قوم کسی ملک کو فتح کرتی ہے تو اپنی فتح کے غرور میں وہ بڑی بڑی سختیاں کرتی ہے۔ پھر غرور کے علاوہ اس قوم کو یہ ڈر بھی ہوتا ہے کہ اگر مفتوحین کو جلد کُچلا نہ گیا تو ممکن ہے یہ پھر بغاوت کر دیں گے۔ گویا ان کے قلوب میں اطمینان نہیں ہوتا اور ہر وقت بغاوت کا خطرہ رہتا ہے۔ اس لئے وہ حد سے زیادہ مظالم ڈھاتے او ربڑی بڑی سختیاں لوگوں پر کرتے ہیں لیکن جو حکومت دیر سے قائم ہو وہ لوگوں کی عادات سے آگاہ ہوتی ہے اس لئے وہ زیادہ سختی سے کام نہیں لیتی۔ مثلاً انگریز اب گاندھی جی کو خوب جانتے ہیں۔ اور وہ سمجھتے ہیں کہ فلاں مواقع پر یہ مقابلہ کرتے ہیں اور فلاں مواقع پر نہیں کرتے اس لئے وہ ان کے مقابلہ میں سختی کا طریق اختیار نہیں کرتے۔ لیکن اگر نئی حکومت ہو اور اس کے ماتحت کوئی شخص اس قسم کی حرکات کرے تو وہ فوراً کہے گی کہ اس شخص کو مار ڈالو کیونکہ اس سے ملک میں بغاوت پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح جب کوئی زبان ہلائے گا فوراً حکومت کے ارکان کہیں گے کہ اب اس کے قتل کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں۔ جیسے اٹلی نے جب لیبیا پر قبضہ کیا تو اس نے بڑے بڑے ظلم کئے عرب لوگ ان مظالم کو کثرت سے بیان کیا کرتے ہیں۔ ان کا بیان ہے کہ اٹلی نے لیبیا پر قبضہ کرنے کے بعد ہزاروں آدمی بلا وجہ مروا ڈالے اور بعض دفعہ لوگوں پر اپنی حکومت کا رعب جمانے کے لئے گھروں کے دروازوں پر لوگوں کو پھانسی پر لٹکا دیا جاتا حالانکہ ان کا کوئی قصور نہیں ہوتا تھا۔ تو ہر قوم جس کی بنیاد مذہب پر نہیں ملکوں کے فتح کرنے کے بعد اسی قسم کے مظالم کیا کرتی ہے۔ آخر دنیا میں ہزاروں سال کی تاریخ موجود ہے تم محمد ﷺ اور آپ کے اتباع کو چھوڑ کر یا ایک دو اور بادشاہوں کو مستثنیٰ کر کے بتاوٴ تو سہی کہ کسی قوم نے کسی ملک پر قبضہ حاصل کیا ہو اور اس نے وہاں ظلم و ستم کا بازار گرم نہ کر دیا ہو۔ تورات پڑھ کر دیکھ لو وہاں بھی یہی احکام ہیں کہ:۔
‘‘جبکہ خداوند تیرا خدا انہیں تیرے حوالے کرے تو تو انہی ماریو اور حرم کیجو نہ تو ان سے کوئی عہد کریو اورنہ ان پر رحم کریو’’1
‘‘ تم ان کے مذبحوں کو ڈھا دو، ان کے بتوں کو توڑو، ان کے گھنے باغوں کو کاٹ ڈالو اور ان کی تراشی ہوئی مورتیں آگ میں جلا دو۔ ’’ 2
اسی طرح لکھا ہے: ۔
‘‘ جب خداوند تیرا خدا اسے تیرے قبضے میں کر دیوے تو وہاں کے ہر ایک مرد کو تلوار کی دھار سے قتل کر’’3
‘‘اور جو کچھ اس شہر میں ہو اس کا سارا لوٹ اپنے لئے لے۔’’4
غرض جب کوئی قوم فاتح ہو تو وہ یہی کچھ کیا کرتی ہے اور مَیں تو نہیں سمجھ سکتا کہ کون ایسا احمق ہے جو باوجود اس کے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے وضاحت سے فرما دیا ہے کہ اِنَّ الْمُلُوْكَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْيَةً اَفْسَدُوْهَا وَ جَعَلُوْۤا اَعِزَّةَ اَهْلِهَاۤ اَذِلَّةً 5 یعنی دستور اور قانون یہی ہے کہ جب کسی ملک میں نئے بادشاہ آتے ہیں تو معزز لوگوں کو ذلیل کر دیتے ہیں۔پھر بھی وہ یہی کہے کہ ہمیں حکومت میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ دنیا میں دو قسم کی تبدیلیاں ہوٴا کرتی ہیں۔ ایک اندرونی تبدیلی ہوتی ہے اور ایک بیرونی تبدیلی۔اندرونی تبدیلی کا مطالبہ تو ہمارا حق ہے اور ہم خود کہتے ہیں کہ انگریزوں نے بہت عرصہ حکومت کر لی ہے اب ہندوستانیوں کو بھی حکومت کے اختیارات ملنے چاہئیں لیکن یہ کہنا کہ انگریز چلے جائیں اورجرمن آ جائیں یہ قرآن کریم کی اس تہدید کو نظر انداز کرنا ہے کہ اِنَّ الْمُلُوْكَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْيَةً اَفْسَدُوْهَا وَ جَعَلُوْۤا اَعِزَّةَ اَهْلِهَاۤ اَذِلَّةً یہ خدائی قانون ہے جو کبھی نہیں بدل سکتا۔ سوائے اس کے کہ داخل ہونے والا دنیوی اصطلاح میں ملِک نہ ہو جیسے کہ محمد ﷺ یا آپ کے خلفاء تھے۔ وہ روحانی بادشاہ تھے دنیوی اصطلاح میں ملِک نہیں تھے۔ اسی طرح دو چار اورلوگ جنہیں بطور استثناء پیش کیا جا سکتا ہے۔ وہ گو بادشاہ کہلاتے ہوں مگر وہ ان معنوں میں بادشاہ نہیں تھے جن معنوں میں دنیا دار بادشاہ ہوتے ہیں بلکہ درحقیقت وہ خدا تعالیٰ کے نیک بندے تھے۔ چنانچہ ساری یورپین تاریخ میں صرف ایک مثال ایسی نظر آتی ہے او روہ مثال بھی ایسی ہے جس میں فاتح نے غیر قوموں کے مقابلہ میں اپنے آپ کو ظلم سے نہیں بچایا بلکہ اپنی قوم کے ہی ایک حصہ کے مقابلہ میں اس نے عفو اور درگزر کا سلوک کیا۔ یہ مثال ابراہیم لنکن کی ہے جو امریکہ کا پریذیڈنٹ تھا۔ اس کے عہد حکومت میں ایک دفعہ یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ کے ایک حصہ نے دوسرے حصہ کے خلاف بغاوت کر دی۔ جب شمالی یونائیٹڈ سٹیٹس نے جنوبی یونائیٹڈ سٹیٹس پر فتح پا لی اور وہ ایک فاتح کی حیثیت میں داخل ہونے لگا تو جرنیلوں نے فتح کا مظاہرہ کرنے کی بہت بڑی تیاری کی ہوئی تھی اور ان کی تجویز تھی کہ بینڈ بجاتے ہوئے ہم شہر میں داخل ہوں گے مگر جب ابراہیم لنکن نے ان انتظامات کو دیکھا تو اس نے اپنے جرنیلوں کو ڈانٹ دیا اور کہا کہ کیا یہ خوشی کا مقام ہے کہ امریکنوں نے امریکنوں کو قتل کیا ہے۔ لڑائی تو ہمیں مجبوراً کرنی پڑی تھی ورنہ اپنی قوم کا خون بہانا کوئی پسندیدہ بات نہیں ہو سکتی۔ پھر اس نے اپنے جرنیلوں سے کہا کہ تم پیچھے کھڑے رہو مَیں اکیلا شہر میں داخل ہوں گا۔ چنانچہ وہ اکیلا شہر میں داخل ہؤا او رباغی فوج کے افسر کے دفتر میں جا کر اس کے ڈسک پر سر جھکا کر بیٹھ گیا اور تھوڑی دیر پُرنم آنکھوں کے ساتھ دعا میں مشغول رہ کر اٹھ کھڑا ہؤا۔
یہ تمام یورپین تاریخ میں صرف ایک مثال ہے جہاں فاتح نے مفتوح کو ذلیل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ لیکن محمد مصطفی ﷺ کی زندگی تو اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے آپ نے جب مکہ فتح کیا تو باوجود اس کے کہ کفار مکہ سالہا سال تک آپ کو اور آپ کے صحابہؓ کو سخت سے سخت تکالیف پہنچاتے رہے تھے۔ آپ نے ان سب کو کہہ دیا کہ لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ 6جاوٴ میں تم پر کوئی گرفت نہیں کرتا۔ پھر محمد ﷺ کا عفو و درگذر یہیں تک محدود نہیں بلکہ آپ نے ایک دفعہ صحابہؓ سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ہاتھ پر مصر کو فتح کرے گا۔ جب تم فاتحانہ حیثیت میں اُس میں داخل ہو تو اُس وقت تم اِس بات کو یاد رکھنا کہ تمہاری دادی ہاجرہؓ مصر کی تھی۔7 اب کہاں حضرت ہاجرہؓ کا زمانہ اور کہاں صحابہؓ کا زمانہ۔ مگر اتنی دوری کے باوجود رسول کریم ﷺ نے صحابہؓ کو ہدایت فرمائی کہ تم اس تعلق کی بناء پر مصر کے لوگوں کے ساتھ نرمی سے پیش آنا۔ تم خود ہی سوچو کہ کیا تمہیں کبھی اپنے پردادا کا خیال آیا؟ کبھی نکڑ دادا کے متعلق تمہارے دل میں محبت کا کوئی جذبہ پیدا ہؤا؟ بھلا آدم کا ذکر سن کر کیا تمہارے دل میں ویسا ہی جذبہٴ محبت پیدا ہوتا ہے جیسے اپنے باپ یا دادا کا ذکر سن کر پیدا ہوتا ہے؟ یہ اور بات ہے کہ چونکہ حضرت آدم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے نبی تھے اس لئے اور نبیوں کی طرح تم ان سے بھی محبت رکھو مگر جس طرح اپنے باپ یا دادا سے انسان کو محبت ہوتی ہے ویسی محبت تمہارے دل میں حضرت آدم علیہ السلام کے متعلق پیدا نہیں ہوتی۔ باوجود اس کے کہ انسانی نسل کے لحاظ سے حضرت آدم علیہ السلام تمہارے دادا ہیں تمہیں کبھی ان کا ویسا خیال نہیں آیا جیسے اپنے باپ یا دادا کا خیال آجاتا ہے۔ تمہارے دل میں ان کا نام سن کر صرف ایسے ہی جذبات پیدا ہوتے ہیں جیسے حضرت کرشنؑ یا حضرت رام چندرؑ کا نام سن کر پیدا ہوتے ہیں مگر حضرت رسول کریم ﷺ بائیس سو سال پہلے کی دادی ہاجرہؓ کا ذکر کر کے اپنے صحابہؓ کو نصیحت فرماتے ہیں کہ دیکھنا! اہل مصر سے نرم سلوک کرنا۔ تو اس قسم کا نمونہ دکھانا انبیاء کا ہی کام ہوتا ہے ورنہ عام دستور دنیا کے بادشاہوں کا یہی ہے کہ جب وہ کسی ملک میں فاتح بن کر داخل ہوتے ہیں تو بڑے بڑے ظلم کرتے اورہزاروں لوگوں کو بے دریغ قتل کر دیتے ہیں۔
پس ان واقعات کے ہوتے ہوئے اگر کوئی شخص یہ خیال کرے کہ انگریزوں کی شکست ہمارے لئے فائدہ رکھتی ہے اور ہندوستان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی تو یہ بڑی بیوقوفی کی بات ہو گی۔ سیاسی طور پر نئی حکومتیں اس بات پر مجبور ہوتی ہیں کہ وہ لوگوں سے سختی کریں اور اس وقت حالات میں ایسا تغیر اور قلوب میں ایسی بے اطمینانی ہوتی ہے کہ چھوٹی چھوٹی بات پر وہ بڑی بڑی سخت سزا دے دیتی ہیں۔ اور مذہبی لحاظ سے میں نے بتایا ہے کہ ہٹلر نے جو اعتقاد اپنی کتاب مائنے کامف میں بیان کیا ہے وہ ایسا خطرناک ہے کہ اس کی موجودگی میں اسلام اور احمدیت اور ہٹلر کی آپس میں کبھی صلح نہیں ہو سکتی۔ وہ اپنے خیالات کو بدل لے تو اور بات ہے پھر ہمیں انگریزوں اورہٹلر میں کوئی فرق دکھائی نہیں دے گا۔ بلکہ ہٹلر انگریزوں سے ہمیں زیادہ بہتر نظر آئے گا کیونکہ انگریز عیسائی ہیں اورہٹلر اور اس کے ساتھی لامذہب اور ان کے جلد اسلام قبول کرنے کی امید کی جا سکتی ہے۔ مگر موجودہ صورتِ حالات میں تو اس کا عقیدہ ایسا خطرناک ہے کہ اس کی موجودگی میں ہماری اس سے صلح ہو ہی نہیں سکتی۔ پھر میرے لئے تو اس کا عملی ثبوت موجود ہے۔ مجھے کثرت سے اللہ تعالیٰ نے روٴیا دکھائی ہیں جن سے صاف پتہ لگتا ہے کہ اس وقت تک موجودہ جنگ میں اللہ تعالیٰ انگریزوں کے حق میں ہے۔ ممکن ہے وہ کل انگریزوں کی کسی حرکت پر ناراض ہو جائے مگر اس وقت تک مجھے جو روٴیا ہوئی ہیں ان سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انگریزوں کے ساتھ ہے۔ مثلاً مجھے یہ دکھایا جانا کہ میرے سپرد انگلستان کی حفاظت کا کام کیا گیا ہے اور مَیں روٴیا میں ہی برطانیہ کی کامیابی کے لئے دعا کر رہا ہوں، بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسلام اور احمدیت کے لئے انگریزوں کی فتح کو مفید سمجھتا ہے۔ اب احمدی یا تو یہ سمجھیں کہ یہ خوابیں مَیں نے جھوٹے طور پر بنا لی ہیں اور اگر وہ یہ سمجھنے کے لئے تیار نہیں تو انہیں اپنے خیالات کی اصلاح کرنی چاہئے۔ مجھے متواتر خوابیں آئی ہیں اور متواتر بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس وقت انگریزوں کے حق میں ہے۔ مثلاً وہی خواب جس میں مجھے امریکہ سے اٹھائیس سو جہازبھیجے جانے کی خبر دی گئی تھی بتا رہا ہے کہ الٰہی منشاء کیا ہے۔ اسی طرح خواب میں یہ سن کر کہ انگلستان خطرہ میں ہے میرا گھبرا جانا اور پھر اس آواز کا آنا کہ یہ چھ مہینے پہلے کی بات ہے اورپھر عین چھ ماہ کے بعد انگریزوں کی متواتر تائید اور نصرت ہوتے چلے جانا اس امر کا ثبوت ہے کہ اس وقت تک اللہ تعالیٰ انگریزوں کے ساتھ ہے۔
یہ خوابیں ہیں جو گزشتہ عرصہ میں مجھے متواتر آئیں۔ اب ان کے خلاف مبائع ہوتے ہوئے وہی شخص طریق اختیار کر سکتا ہے جو اوپر سے تو مبائع ہو اور اندرسے منافق ہو۔ ورنہ جو شخص سچی بیعت کرنے والا ہے وہ تو ان خوابوں کی صداقت میں ایک لمحہ بھر کے لئے بھی شک نہیں لا سکتا۔ بلکہ اس میں سچی بیعت کا بھی سوال نہیں، ایک ہندو، ایک عیسائی اور ایک سکھ بھی جو اپنے اندر تعصب کا مادہ نہیں رکھتا ان خوابوں پر غور کر کے سمجھ سکتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ مگر وہ احمدی جو میری بیعت میں شامل ہیں انہیں تو ان خوابوں کی سچائی پر ایسا ہی یقین ہونا چاہئے جیسے سورج اور چاند پر یقین ہوتا ہے۔
پس ان تمام حالات میں کیا مذہبی لحاظ سے اور کیا سیاسی لحاظ سے ہمارا فرض ہے کہ ہم پورے طور پر انگریزوں کی مدد کریں۔ ہمارے مقامی افسروں سے جو جھگڑے ہیں وہ اس عرصہ میں یا تو طے ہو جائیں گے اور اگر طے نہ ہوئے تو لوگ کہتے ہیں
یار زندہ صحبت باقی
لڑائی کے بعد ہم پھر اپنے حقوق کا سوال پیدا کر دیں گے۔ مگر موجودہ صورت حالات ایسی ہے کہ مَیں خیال کرتا ہوں اگر اس جنگ کے دوران انگریز حکام ہماری مذہبی آزادی میں بھی دست اندازی کریں جیسا کہ مجھے بعض حکام کی نیتوں کے بارہ میں خوف ہو رہا ہے کہ وہ ایسا کریں گے تب بھی ہم ان کی اس دست اندازی کو برداشت کریں گے۔ ہاں جنگ کے بعد ہم ان سے قطع تعلق کر لیں گے۔
پس میرے نزدیک اگر اس وقت وہ ہماری مذہبی آزادی میں بھی دخل اندازی کریں (ایسی دخل اندازی نہیں جس سے ہمیں اپنا مذہب چھوڑنا پڑے)تو ہم اس کو برداشت کر لیں گے۔ البتہ جنگ کے بعد اپنے مذہب کی تائید میں شریعت کے قوانین کے اندر رہ کر ہمار اجو بس چلے گا ہم کریں گے۔ لیکن اگر یہ صورت نہ ہو اور وہ ہمارے مذہب میں کسی قسم کی دست اندازی نہ کریں تو مَیں سمجھتا ہوں باوجود ان کی کئی قسم کی مخالفتوں کے ہمارا مذہبی، سیاسی اور اخلاقی فرض یہ ہے کہ ہم اگر مال کے ساتھ انگریزوں کی مدد کر سکتے ہوں تو مال کے ساتھ مدد کریں، زبان کے ساتھ مدد کر سکتے ہوں تو زبان سے مدد کریں، قلم سے مدد کر سکتے ہوں تو قلم سے مدد کریں، وقت کی قربانی کر کے مدد کر سکتے ہوں تو وقت کی قربانی کر کے مدد کریں اور اس طرح ایسا ماحول پیدا کر دیں جو انگریزوں کی فتح کا موجب بن جائے۔
کل میری ہدایت کے ماتحت قادیان میں بھی دوستوں نے روزہ رکھا ہے اور باہر کی جماعتوں نے بھی روزے رکھے ہوں گے۔ قادیان میں مَیں نے گنتی کرائی تھی جس سے مجھے معلوم ہوٴا کہ قادیان کے چار پانچ سو آدمیوں نے روزہ رکھا تھا۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں شاید ہی کسی اور جگہ حکومت برطانیہ کی کامیابی کے لئے اتنے لوگوں نے ایک دن روزہ رکھا ہو اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں کی ہوں۔ مگر مَیں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ قادیان کی آبادی کے لحاظ سے یہ تعداد بہت کم ہے۔ بہت سے دوستوں کو یا تو روزہ رکھنا یاد نہیں رہا یا انہوں نے اس روزہ کی اہمیت کو پورے طور پر سمجھا نہیں۔ قادیان میں آٹھ ہزار احمدی آبادی ہے۔ بے شک ان میں نابالغ بھی ہیں، معذور بھی ہیں، بیمار بھی ہیں، بوڑھے بھی ہیں، عورتیں بھی ہیں اورپھر کچھ لوگ سفر پر گئے ہوئے ہوں گے مگر پھر بھی پانچ سو بہت تھوڑی تعداد ہے۔ میرے پاس جو رپورٹ پہنچی تھی وہ تو چار سو لوگوں کے متعلق تھی مگر چونکہ بعض رپورٹوں میں عورتوں کو گنتی میں شامل نہیں کیا گیا تھا اور بعضوں کی رپورٹ میرے پاس بعد میں بھی آتی رہی ہیں اس لئے میں نے اپنے ذہن میں یہ اندازہ لگایا ہے کہ قادیان میں قریباً 500 لوگوں نے روزہ رکھا ہے۔ مگر میرے نزدیک یہ تعداد اس بات کو ظاہر نہیں کرتی کہ لوگوں نے میری ہدایت پر پوری طرح عمل کیا ہے۔ شاید اس کی یہ وجہ ہو کہ اخبار والوں نے لوگوں کو بار بار جگایا اور ہوشیار نہیں کیا۔ مگر مَیں سمجھتا ہوں مومن کو بار بار جگانے اور ہوشیار کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی آخر رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں کون سے اخبار ہوٴا کرتے تھے مگر لوگ پھر بھی شوق سے عمل کرتے تھے بلکہ اخباروں نے تو موجودہ زمانہ میں میرے نزدیک لوگوں کو سست کر دیا ہے۔ بہرحال قادیان میں سے قریباً پانچ سو آدمیوں نے روزہ رکھا اور گو یہ تعداد قادیان کی آبادی کے لحاظ سے کم ہو مگر دنیا میں شاید ہی کسی اورجگہ بیک وقت اتنے آدمیوں نے حکومتِ برطانیہ کی کامیابی کے لئے کبھی روزہ رکھا ہو۔ مَیں تو خیال کرتا ہوں کہ شاید لنڈن میں بھی ایک دن میں پانچ سو آدمیوں نے اس غرض کے لئے روزہ نہیں رکھا ہو گا اور اگر ساری جماعت کے روزے شمار کئے جائیں تو ہزاروں تک تعداد پہنچ گئی ہو گی۔ پس ہماری یہ قربانی معمولی قربانی نہیں بلکہ دنیا کی تمام قوموں یہاں تک کہ انگریزوں کی قربانی سے بھی بڑھی ہوئی ہے۔ جیسا کہ اعلان کیا جا چکا ہے آج جمعہ کی نماز کی آخری رکعت میں رکوع کے بعد کے قیام میں مَیں دعا کروں گا کہ اللہ تعالیٰ موجودہ جنگ کے شدید نتائج سے دنیا کو محفوظ رکھے اور ایسے نتائج پیدا فرمائے جو اسلام اور احمدیت کے لئے مفید ہوں۔ نیز ہماری جماعت کو ان ابتلاوٴں سے بچائے جو ہماری حد برداشت سے باہر ہوں اور ایسی سہولتیں پیدا فرمائے کہ ہم ان کاموں کے کرنے سے پیچھے نہ رہ جائیں جو اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے خدا تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں۔ ہمارا خیال یہی ہے کہ اسلام اور احمدیت کا فائدہ انگریزوں کی فتح میں ہے اگر ہمارا یہ خیال غلط نہیں تو خدا انگریزوں کو فتح دے اورلڑائی کو ایسی حالت میں ختم کرے جو اسلام اور احمدیت کے لئے مفید ہو۔
پس مَیں اس رنگ میں دعا کروں گا دوستوں کو چاہئے کہ وہ بھی میرے ساتھ اس دعا میں شامل ہوں۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ ہر جمعہ کے روز خطبہ کے شروع ہونے سے لے کر نماز جمعہ کے اختتام تک ایک گھڑی ایسی آتی ہے کہ جس میں مومن بندہ اللہ تعالیٰ سے جو دعا بھی کرتا ہے وہ قبول کرلی جاتی ہے8؂ اسی لئے مَیں نے اس دعا کے لئے نماز جمعہ کی دوسری رکعت رکھی ہے اور مَیں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ جمعہ کے دن قبولیت دعا کی جو گھڑی آتی ہے آج وہ اپنے فضل سے اسی وقت لائے جب ہم سب مل کر اس کے حضور دعا کر رہے ہوں۔ ’’
(الفضل 11، اپریل 1941ء)

1 استثناء باب 7 آیت 2 برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لنڈن 1887ء
2 اسثتناء باب 7 آیت 5 برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لنڈن 1887ء
3 اسثتناء باب 20 آیت 13 برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لنڈن 1887ء
4 اسثتناء باب 20 آیت 14 برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لنڈن 1887ء
5 النمل : 35
6 اَلسِّیْرَةُ الْحَلبِیَّة جلد 3 صفحہ 89 مطبوعہ مصر 1935ء
7 طبقات ابن سعد جلد ۱۔ صفحہ 50 مطبوعہ بیروت 1985ء
8 بخاری کتاب الْجُمُعَةِ باب اَلسَّاعَةُ الَّتِیْ فِیْ یَوْمِ الْجُمُعَةِ

13
یہ دن بہت گھبراہٹ اور خطرہ کے ہیں دعائیں کرو، دعائیں کرو اور دعائیں کرو
( فرمودہ 11 ، اپریل 1941ء )

تشہّد، تعوّذ اور سورہٴ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے اور اس کی تمام مخلوق میں یہ قاعدہ ہمیں نظر آتا ہے کہ اس نے ہر ایک مخلوق کو اس کے حالات کے مطابق ایک بچاوٴ کا سامان دیا ہوٴا ہے۔ جانوروں میں ہم دیکھتے ہیں کہ بعض کو اللہ تعالیٰ نے ایسے پنجے دئیے ہیں جن کے ذریعہ وہ اپنے پر حملہ کرنے والوں سے اپنی حفاظت کر سکتے ہیں، بعض کو اس نے ایسی چونچیں دی ہیں جن سے وہ اپنا بچاوٴ کر لیتے ہیں۔ بعضوں کو اس نے ڈنک دئیے ہیں جن سے وہ اپنی حفاظت کر لیتے ہیں، بعض کی لاتوں میں اس نے اتنی طاقت پیدا کر دی ہے کہ جب کوئی حملہ کرے تو وہ زور سے لات مارتے ہیں بعض کے سر میں ایسی طاقت دی ہے کہ اس سے دشمن کو زیر کر لیتے ہیں یا کم سے کم اپنا دفاع کر لیتے ہیں ، بعض کو اس نے ایسے چکنے جسم دئیے ہیں کہ ہاتھ سے پکڑا جائے تو فوراً چھوٹ جائیں، بعض کو پر دئیے ہیں جن سے وہ ہوا میں اڑ جاتے ہیں بعض کو پانیوں میں رکھا ہے کہ انسانوں کی نظروں سے اوجھل رہیں، بعض کو اتنا چھوٹا بنایا ہے کہ وہ چھوٹی سے چھوٹی چیز کے پیچھے چھپ کر جان بچا لیتے ہیں پھر بعض ایسے ہیں جو زمین پر چلتے ہیں اور ان کے پاوٴں کے نیچے دب جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ ان کو اس نے ایسی طرز پر سمٹنے کی طاقت دی ہے کہ پاوٴں کے نیچے آ کر بھی وہ زندہ رہتے ہیں۔ بیربہوٹی کتنا چھوٹا سا کیڑا ہے۔ بچپن میں ہم اس سے کھیلا کرتے تھے اور برسات کے موسم میں بچے بالعموم اس کو پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسے خدا تعالیٰ نے ایسی سمٹنے کی طاقت دی ہے کہ پکڑنے لگیں تو مُردہ کی طرح گر پڑتا ہے اور پاوٴں کے نیچے آ کر بھی بچ جاتا ہے۔ چیونٹا کیا چھوٹی سی چیز ہے مگر اس کے مُنہ میں اللہ تعالیٰ نے ایسی طاقت دی ہے کہ جب وہ آدمی کو کاٹتا ہے تو قوی سے قوی آدمی بھی بلبلا اٹھتا ہے ۔ اس کے مُنہ میں ایسی طاقت ہے کہ جب وہ کسی کو کاٹے تو انسانی جسم سے اس کا چُھڑانا قریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔
مجھے بچپن کا اپنا ہی ایک واقعہ یاد ہے۔ میری عمر کوئی پانچ چھ سال کی ہو گی میرے ہاتھ میں مٹھائی تھی غالباً پیڑا تھا جو مَیں کھا رہا تھا۔ کوئی شخص ہماری ڈیوڑھی کے آگے جانور ذبح کر رہا تھا اور بچے وہاں بیٹھ کر دیکھ رہے تھے۔ مَیں بھی وہاں بیٹھا دیکھ رہا تھا اورساتھ ساتھ مٹھائی بھی کھاتا جاتا تھا۔ معلوم ہوتا ہے مَیں نے اپنا ہاتھ کہیں نیچا کیا اور کوئی چیونٹا چڑھ گیا۔ جب مَیں نے بغیر دیکھے مٹھائی کو مُنہ میں ڈالنا چاہا تو اس نے میرے ہونٹ پر کاٹ لیا۔ جو شخص جانور ذبح کر رہا تھا اس نے اسے چھڑانے کی بہت کوشش کی مگر اس نے نہ چھوڑا اور آخر اس نے چھری کے ساتھ اسے کاٹ دیا۔ گویا وہ مر کر وہاں سے چھوٹا۔
تو دیکھو کتنا چھوٹا سا کیڑا ہے مگر اس کی بھی حفاظت کا سامان اللہ تعالیٰ نے پیدا کر دیا ہے۔ گھونگا کتنا نازک ہوتا ہے اس کے ننگے جسم پر پاوٴں پڑ جائے تو فوراً مر جائے مگر اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے ایک سخت خول بنا دیا ہے جس کے اندر وہ چھپ جاتا ہے۔ مچھلی کتنا نازک جانور ہے مگر دیکھو اللہ تعالیٰ نے اسے کیسا سخت کانٹا دیا ہے جب وہ کانٹا مارتی ہے تو بڑے سے بڑا آدمی بلبلا اٹھتا ہے۔ بلی گھریلو جانور ہے مگر عورتیں اور بچے بالعموم اس سے ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں آنکھیں نہ نوچ لے۔ اسے اللہ تعالیٰ نے چھلانگ لگانے کی طاقت اور تیز پنجے دئیے ہیں اور جب وہ چھلانگ لگا کر کسی پر حملہ کرے تو وہ اپنا بچاوٴ نہیں کر سکتا۔ بٹیر تلیر وغیرہ کیسے چھوٹے چھوٹے پرندے ہیں لیکن جب کوئی شخص انہیں پنجرے سے نکالنے لگے اور وہ چونچ ماریں تو آدمی گھبرا کر ہاتھ باہر کھینچ لیتا ہے۔
تو کوئی چیز ایسی نہیں جس کی حفاظت کا سامان اللہ تعالیٰ نے نہ کیا ہو۔ انسان ہی ایک ہے جس کی حفاظت کا کوئی ظاہری سامان نہیں یعنی اسے نہ تواللہ تعالیٰ نے ویسے ہاتھ دئیے ہیں جیسے بعض جانوروں کو پنجے، نہ ویسے ہونٹ دئیے ہیں جیسے بعض کو چونچ، نہ ویسی لاتیں دی ہیں جیسی دوڑ کر جان بچانے والے جانوروں کو دی ہیں، نہ اس کا قد اتنا چھوٹا بنایا ہے کہ وہ چھپ کر اپنا بچاوٴ کر سکے، نہ پر دئیے ہیں کہ ہوا میں اڑ جائے اور نہ اسے پانی کے نیچے رہنے والا بنایا ہے کہ اس کی سطح کے نیچے چھپ جائے۔ سب سے ننگا وجود یہی ہے اور سب سے ننگا رہنے کا حکم اسے ہی دیا گیا ہے۔ اسے سطح زمین پر رہنے کا حکم ہے اور قانون قدرت ہی ایسا ہے کہ اس کی صحت کے لئے جو سامان ہیں مثلاً سورج اور ہوا وغیرہ یہ بھی سطح زمین پر رہنے سے ہی وابستہ ہیں۔ سانپ اور گھیسیں وغیرہ کئی ایسے جانور ہیں جو چھ چھ ماہ تک زمین کے نیچے ہوا اور پانی کے بغیر رہتے ہیں مگر انسان تین دن بھی ایسی جگہ نہیں رہ سکتا۔ مچھلی پانی میں بہت لمبا غوطہ لگا سکتی ہے، پرندے ہوا میں کس طرح اڑتے ہیں مگر انسان نہ زمین کے نیچے رہ سکتا ہے، نہ پانی میں دیر تک غوطہ لگا سکتا ہے اور نہ ہوا میں اڑ سکتا ہے۔ اس کی حفاظت کا سامان اللہ تعالیٰ نے اس کے دماغ میں رکھا ہے اور یہ دماغ سے کام لے کر چونچوں اور پنجوں کی جگہ، مچھلی کے کانٹے کی جگہ، ہاتھی کے سونڈ کی جگہ، گھوڑے اور گدھے کے کُھر کی جگہ تلوار نکالتا ہے، نیزے اور خود استعمال کرتا ہے اور گھونگے کے خول کی بجائے زرہ بکتر پہنتا ہے۔ توپیں، بندوقیں، مشین گنیں ، بم اور ہوائی جہاز کام میں لاتا ہے اور ان ذرائع سے اپنی حفاظت کرتا ہے مگر انسانی تمدن ایسا ہے کہ باوجودیکہ ایسی ایجادات کی قابلیت اللہ تعالیٰ نے اس کے دماغ میں رکھی ہے پھر بھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کچھ حصہ مخلوق کا ان چیزوں سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ یہ محکوم قومیں ہوتی ہیں جن کو حاکم اقوام بندوق، توپ،تفنگ اور دیگر آلات حرب رکھنے سے روک دیتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو انسان کو بغیر سامانِ حفاظت کے بنا کر بتایا ہے کہ اسے اپنی حفاظت کے لئے بیرونی سامان درکار ہیں۔ مگر غالب حکومتیں حکم دیتی ہیں کہ محکوم قوم کو ان سامانوں کے اپنے پاس رکھنے کی اجازت نہیں۔ مثلاً بندوقوں کی اجازت نہیں، توپوں کی اجازت نہیں یا مثلاً یہ ہوائی جہازوں کا زمانہ ہے ان کی اجازت نہیں۔ غرض ہر زمانہ کے لحاظ سے جو سامان حفاظت کے ہیں حاکم اقوام محکوم اقوام کو ان سے محروم کر دیتی ہیں اور وہ کوئی بھی سامان اپنی حفاظت کا نہیں رکھ سکتیں۔ اس لئے سوال یہ ہے کہ پھر ایسے لوگوں اور ایسی قوموں کی حفاظت کا کیا ذریعہ ہے؟ وہ خدا جس نے گھونگے کی حفاظت کے لئے خول دیا ہے، طوطے کو کاٹنے والی چونچ دی ہے، مرغی بٹیر اور تلیر تک کو چونچ دی ہے،جس نے بلی کو تیز ناخن اور کودنے کی طاقت دی ہے، جس نے مچھلی کو پانی کی سطح کے نیچے چھپا دیا ہے اور پرندوں کو ہوا میں اڑنے کے لئے پر بخشے ہیں اس نےبے شک انسان کو دماغی قابلیت دی ہے مگر اس کے نتیجہ میں ایسی قومیں بھی ہیں جنہوں نے دماغی طاقتوں سے کام لیتے ہوئے اپنے آپ کو محفوظ کر لیا اوربعض دوسری قوموں کو محروم کر دیا۔ دنیا میں باقی جو جاندار ہیں ان میں سے کسی ایک کو کبھی بحیثیت قوم کوئی حفاظت کے سامان سے محروم نہیں کر سکتا۔ کسی بڑے سے بڑے بادشاہ میں یہ طاقت نہیں کہ حکم دے سکے کہ آئندہ کے لئے کبوتروں یا چڑیوں کے پر نہیں ہوں گے یا یہ کہ آئندہ مچھلیاں پانیوں میں نہیں رہیں گی یا سانپ اورگھیسیں زمین کے نیچے نہ رہ سکیں گے۔ دنیا کی کوئی حکومت یہ فیصلہ نہیں کر سکتی کہ بلیوں کے پنجے نہیں ہوں گے۔ مگر دنیا میں ایسے انسان ضرور ہیں جو دوسرے انسانوں کو ان کی حفاظت کے سامانوں سے محروم کر دیتے ہیں۔ اس لئے سوال یہ ہے کہ جب ایسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں کہ قوموں کی قومیں حفاظت کے ظاہری سامان کے استعمال سے محروم کی جاسکتی ہیں تو ایسے لوگ کیا کریں۔ اس کے تو یہ معنی ہوئے کہ کووٴں ، تلیروں، بٹیروں اور کبوتروں کی حفاظت کے سامان تو ہیں، سانپ اور بچھو کے بچاوٴ کے سامان قدرت نے رکھے ہیں مگر انسان کو ایسا بنایا ہے کہ اس کے ایک طبقہ کو حفاظت کے سامانوں سے محروم کیا جا سکتا ہے مگر کیا اللہ تعالیٰ ایسا کر سکتا ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور پھر اسے حفاطت کے سامانوں سے محروم کر دیا ہو۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ بے انصاف نہیں اس نے ہر قوم کی حفاظت اور ترقی کے سامان مہیا کر دئیے ہیں۔ پھر سوال ہوتا ہے کہ جب یہ ممکن ہے کہ بعض قومیں دوسری قوموں کو ان سامانوں سے محروم کر دیں توپھر ان کی حفاظت کا کیا سامان ہے۔
قرآن کریم نے ایسے لوگوں کی حفاظت کا سامان بھی بتایا۔ چنانچہ فرمایا اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ١ۙ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ وَ لْيُؤْمِنُوْا بِيْ لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُوْنَ ۔1 غالب اقوام کمزوروں کو حفاظت کے سامانوں سے محروم کر دیتی ہیں اوران کو دبا لیتی ہیں، نہتّا کر دیتی ہیں۔ گویا ان کے پر کاٹ دیتی ہیں اور یہ افراد کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور قوموں اور ملکوں کے ساتھ بھی۔ جانوروں کے ساتھ کوئی یہ سلوک نہیں کر سکتا۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ کوئی دس بیس یا سو پچاس کبوتروں کے پر کاٹ دے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جو مچھلی پکڑی جائے اس کے کانٹے اُڑا دئیے جائیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جو سانپ پکڑا جائے اس کی کُچلیاں توڑ دی جائیں۔ مگر یہ ممکن نہیں کہ کسی ملک کے سارے کبوتروں کے پر کاٹے جا سکیں۔ کسی ملک کے پانیوں میں رہنے والی سب مچھلیوں کے کانٹے اڑا دئے جائیں اور کسی ملک کے سارے سانپوں کو زہر کی کُچلیوں سے محروم کر دیا جائے۔ مگر انسانوں کے متعلق یہ ممکن ہے اس لئے اس کے واسطے اللہ تعالیٰ نے علیحدہ طاقت بھی عطا فرمائی ہے۔ چنانچہ فرمایا کہ جب ایسی حالت ہو تو اس وقت ایسے لوگوں کی توپ، بندوق، بم، مشین گن اور ہوائی جہاز دعا ہے۔دعا ہی ایسے وقت میں اس کا ہتھیار بن جاتا ہے۔ وہی اس کی حفاظت کا سامان بن جاتا ہے۔قرآن کریم نے فرمایا ہے اَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ 2 یعنی کون ہے جو مضطر اور بے بس کی دعا کو سنتا ہے جس کی حفاظت کے سارے سامان اس سے چھین لئے جاتے ہیں اس کی آواز کو کون سنتا ہے؟ فرمایا اللہ۔ فرمایا ایک وقت ایسا آتا ہے کہ انبیاء اور ان کی جماعتیں دنیا کے ظلموں سے تنگ آجاتی ہیں اور گھبرا کر پکارتی ہیں کہمَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ 3؂ یعنی ہمارے سامان جاتے رہے ہیں ہمارے ہتھیار چھین لئے گئے ہیں۔ اب خدا تعالیٰ کی مدد ہماری نصرت کب کرے گی؟ اب خدا تعالیٰ کہاں ہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب یہ آواز انسان کے دل سے نکلتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلَاۤ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ4؂ یعنی سن لو کہ اللہ تعالیٰ کی مدد قریب آ پہنچی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ انسانی نسل بعض اوقات ان سامانوں سے محروم ہو جاتی ہے جو بظاہر حفاظت کے لئے ضروری ہیں مگر اس وقت ان کے لئے دعا کا ہتھیار ہوتا ہے۔ انبیاء کی جماعتوں کے قیام میں اللہ تعالیٰ کو چونکہ قدرت نمائی مقصود ہوتی ہے اور وہ چونکہ بتانا چاہتا ہے کہ مَیں نے ہی انہیں قائم کیا ہے مَیں ہی ان کی حفاظت کروں گا اس لئے وہ ان کو ظاہری سامانوں سے محروم کر دیتا ہے تا وہ ایک ہی ہتھیار کو سامنے رکھیں یعنی خدا تعالیٰ کی امداد کا ہتھیار۔
ہماری جماعت بھی اللہ تعالیٰ کے نبی اور مامور کے ذریعہ قائم ہوئی ہے اس لئے سنّت اللہ کے مطابق خاص طور پر کمزور ہے۔ بے شک ہندوستان میں باقی قومیں بھی ظاہری ہتھیاروں سے محروم ہیں۔ ہندو، سکھ، دوسرے مسلمان کسی کو بھی اجازت نہیں لیکن پھر بھی ان کو ایک اور ہتھیار حاصل ہے۔ یعنی جتھہ کا ہتھیار۔ مگر ہم اس سے بھی محروم ہیں۔ ان کے بڑے بڑے جتھے ہیں اور حکومت کو ان کو خوش رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسری حکومتیں بھی ان کو خوش رکھنا چاہتی ہیں مگر ہمارا کوئی جتھہ بھی نہیں اور اس لئے ہمیں خوش رکھنے کی کسی کو بھی ضرورت نہیں۔
کہتے ہیں کسی بیل کے سینگ پر کوئی مچھر بیٹھ گیا تھا تھوڑی دیر کے بعد خود ہی کہنے لگا کہ میاں بیل! میں تمہارے سینگ پر بیٹھا ہوں اگر تمہیں تکلیف محسوس ہوتی ہو تو اُڑ جاوٴں؟ بیل نے کہا مجھے تو یہ بھی پتہ نہیں لگا کہ تم بیٹھے کب ہو۔ یہی حالت ہماری ہے ہمارا کھڑا ہونا اور بیٹھنا کسی کو محسوس بھی نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ ہمارا جتھہ کوئی نہیں۔ دنیا جس چیز کا ادب و احترام کرتی ہے وہ ہمارے پاس نہیں۔ دنیا میں یا تو طاقت اور قوت کا احترام کیا جاتا ہے اور یا پھر جتھوں کا۔ جتھے والی قومیں بھی جب کھڑی ہو جائیں تو حکومت کے لئے مشکلات پیدا کر دیتی ہیں مگر ہمارے پاس تو یہ بھی نہیں اس لئے ہمارا ہتھیار صرف دعاوٴں کا ہی ہتھیار ہے اور ہمیں دعاوٴں پر خاص زور دینا چاہئے۔ ہمارا واحد ہتھیار دعا ہے اور جس شخص کے پاس ایک ہی ہتھیار ہو وہ اگر اسے بھی پھینک دے تو اس سے زیادہ بدنصیب اور کون ہو سکتا ہے؟ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ خُذُوْا حِذْرَكُمْ 5 یعنی اپنے ہتھیار ہمیشہ اپنے پاس رکھا کرو ۔ جن کے پاس تلواریں اور بندوقیں ہیں ان کو تلواریں اور بندوقیں اپنے پاس رکھنے کا حکم ہے لیکن جن کے پاس یہ نہیں ان کے لئے یہی حکم ہے کہ وہ ہمیشہ دعاوٴں میں لگے رہیں۔
یہ بات ظاہر ہے کہ ہتھیار اسی صورت میں مفید ہوتا ہے جب اسے استعمال کیا جائے۔ کسی شخص کے پاس اگر اچھی سے اچھی تلوار ہو لیکن وہ اسے دور پھینک دے اور دشمن حملہ کرے تو وہ تلوار اسے کیا فائدہ دے سکتی ہے؟ کسی کے پاس بہت اعلیٰ بندوق ہو لیکن وہ غلافوں میں بند گھر میں پڑی ہو اور ڈاکو اسے جنگل میں گھیر لیں تو وہ بندوق اس کے کس کام کی؟ اسی طرح کسی کے پاس توپیں اور ہوائی جہاز بھی ہوں لیکن وہ صندوقوں میں بند ہوں اور ان کو استعمال میں نہ لایا جائے تو ان کا کیا فائدہ؟
اسی طرح دعا ،گو ایک زبردست ہتھیار ہے مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ مانگی جائے۔ جس طرح تلوار، بندوق، توپ وغیرہ ہتھیاروں کے لئے ضروری ہے کہ ان کو استعمال کیا جائے۔ جس طرح بم اُس وقت مفید ہو سکتے ہیں جب وہ دشمن پر پھینکے جائیں اسی طرح دعا بھی اسی وقت کام دے سکتی ہے جب وہ مانگی جائے۔ صرف مُنہ سے کہتے رہنا کہ ہمارے پاس دعا کا ہتھیار ہے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے ضروری ہے کہ رات دن دعاوٴں میں لگے رہیں۔ یہ دن بہت نازک ہیں ایسے نازک کہ اس سے زیادہ نازک دن دنیا پر پہلے کبھی نہیں آئے اور پھر ہمارے جیسی نہتّی اور کمزور قوم کے لئے تو یہ بہت ہی نازک ہیں۔ ایک جہاز بھی اگر آ کر بم پھینکے تو ہم تو اس کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتے۔ کیا ہم اس پر تھوکیں گے؟ موجودہ جنگ کی تباہی و بربادی کا ایک نیا پہلو ہمارے سامنے آیا ہے۔ یعنی بلگریڈ 6؂ کی بربادی، کئی لاکھ کی آبادی کا شہر 24 گھنٹوں کے اندر اندر تباہ ہو گیا اوروہاں سوائے لاشوں اور اینٹوں کے ڈھیروں کے کچھ نظر نہیں آتا۔ ایک بچہ کسی سوراخ سے سر نکال کر دیکھتا ہے کہ میرے ماں باپ کہاں ہیں مگر اسے ہر طرف سوائے اینٹوں کے ڈھیر کے کچھ نظر نہیں آتا۔ عورتیں جھانکتی ہیں کہ ہمارے خاوند یا باپ یا بھائی کہاں ہیں مگر سوائے تباہ شدہ مکانوں اور عمارتوں کے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ مِیلوں میں آباد شہر اب سوائے کھنڈرات کے کچھ نہیں۔ اس زمانہ میں انسان کی طاقتِ مقابلہ کی حیثیت ہی کیا رہ گئی ہے؟ اور جب لاکھوں انسانوں کی آبادیوں والے شہر اس طرح اڑ سکتے ہیں تو گاوٴں کا ذکر ہی کیا؟ ایسے ایسے بم ایجاد ہو چکے ہیں جو دو دو سو بلکہ چار چار سو گز تک مار کر جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں اتنے بڑے گاوٴں کتنے ہیں؟ بِالعموم ایسے چھوٹے چھوٹے گاوٴں ہیں کہ ایک ایک بم سے اُڑ جائیں نہ کسی انسان کا پتہ لگے اور نہ کوئی جانور باقی رہے۔
پس یہ ایسے خطرناک حالات ہیں کہ اب بھی جو شخص اس واحد ہتھیار کو جو ہمارے پاس ہے استعمال نہ کرے اس سے زیادہ غافل کون ہو سکتا ہے؟ پس دن رات یہی فکر رہنا چاہئے، دل پر ایسا بوجھ ہو کہ اضطرار کی حالت طاری ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ ہماری دعاوٴں کو سن لے۔ مگر مَیں نے دیکھا ہے کہ غفلت اور سنگدلی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ بعض لوگ ایسے مزے لے لے کر جنگ کی خبریں بیان کرتے ہیں کہ گویا دنیا پر کوئی آفت آئی ہی نہیں۔بڑے مزے سے بیان کرتے ہیں کہ فلاں شہر پر یوں حملہ ہوٴا اور فلاں جگہ اس طرح لوگ مارے گئے۔ ان کو سوچنا چاہئے کہ جو مارے جاتے ہیں وہ بھی کسی کے باپ ہیں، کسی کے بیٹے ہیں اور کسی کے بھائی ہیں۔ کوئی اپنے پیچھے روتی ہوئی بیوہ، کوئی ماں اورکوئی یتیم بچے چھوڑ رہا ہے۔ ان حالات میں ان خبروں کو پڑھتے ہوئے تو یوں محسوس ہونا چاہئے کہ گویا کسی قریبی رشتہ دار کی لاش پر انسان کھڑا ہو۔ یہ گریہ و زاری کرنے کے دن ہیں۔ ایسی گریہ و زاری جو عرشِ الٰہی کو ہلا دے۔ ہمارا خدا زندہ خدا ہے اور اگر زندہ خدا کی موجودگی میں ہم ان بلاوٴں سے بچنے کی کوشش نہ کریں تو ہم سے زیادہ غافل کون ہو سکتا ہے۔ دنیا کو اپنے اسباب اور جنگ کے سامانوں یعنی توپوں، مشین گنوں اور ہوائی جہازوں پر بھروسہ ہے مگر ہمارا بھروسہ صرف اللہ تعالیٰ پر ہے۔ وہ لوگ ان سامانوں کی طرف دوڑ رہے ہیں۔ انگلستان کیا اور جرمنی کیا، جاپان کیا اورامریکہ کیا سب مرد اور عورتیں دن اور رات بم، توپیں، ہوائی جہاز اور دوسرے سامان جنگ بنانے میں لگے ہوئے ہیں مگر ہمارا کام یہ ہے کہ ہم خداتعالیٰ کے فضلوں کے بنانے میں لگ جائیں۔ جس طرح وہ لوگ دن رات چھوٹے بھی اور بڑے بھی یہ سامان بنانے میں لگے ہوئے ہیں اسی طرح ہم بھی سب کے سب رات اور دن خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگنے میں لگ جائیں کیونکہ جب تک مقابلہ کے سامان ویسے ہی زبردست نہ ہوں کامیابی نہیں ہو سکتی۔ ہر دعا توپ و بندوق کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ ضروری ہے کہ دعا بھی اتنی ہی شاندار ہو جتنے سامانِ جنگ ہیں۔ جس طرح ان سامانوں کے بنانے میں ان لوگوں کا زور لگ رہا ہے اسی طرح دعائیں کرنے میں ہمیں زور لگانا چاہئے تا اللہ تعالیٰ اسلام اور احمدیت کی ان چیزوں سے حفاظت کرے۔ یا درکھو کہ ہم پر بہت بڑی ذمہ داری ہے اللہ تعالیٰ کی مقدس امانت اور اس کے تازہ شعائر ہماری حفاظت میں ہیں ہم کس طرح ان کی حفاظت کر سکتے ہیں؟ اگر ہمارے مقابر پر ایک بھی بم گرے تو ہم کیا کر سکتے ہیں اور ان کو کیسے بچا سکتے ہیں؟ ہم اسی وقت حفاظت کر سکتے ہیں جب ہم آسمان پر ان سے بہت زیادہ سخت بم بنانے میں لگ جائیں۔ وہ طیارے، وہ بحری اور ہوائی جہاز اور وہ گولہ بارود تیار کریں جو ان بموں، توپوں، جہازوں اور گولوں کو اڑا کر پھینک دیں اور یہ چیزیں ہم آسمان پر دعاوٴں کے ذریعہ ہی تیار کر سکتے ہیں اور دعائیں بھی وہ جو رات اور دن گھبراہٹ، کرب اور اضطراب سے کی جائیں اور جو اسی کوشش اور التزام سے کی جائیں جس طرح دوسرے لوگ سامان تیار کرتے ہیں۔ جب تک ہماری یہ حالت نہ ہو، مقابلہ میں کامیابی کی امید فضول ہے۔ ان دنوں کو غفلت میں نہ گزارو۔ خبریں پڑھو تو چاہئے کہ تمہارے دل کانپ جائیں اور ان سے عبرت حاصل کرو اور اس طرح نہ ہو جس طرح قرآن کریم میں ہے کہ کافر لوگ جب عبرت کے سامان دیکھتے ہیں تو اندھوں کی طرح ان پر سے گزر جاتے ہیں۔7 چاہئے کہ رات دن گریہ و زاری میں گزریں آج وہ زمانہ نہیں کہ ہنسو زیادہ اور روؤ کم۔ انسان کو چاہئے کہ آج روئے زیادہ اور ہنسے کم۔ بلکہ چاہئے کہ انسان روئے ہی روئے اورہنسی اس کے لبوں پر بہت ہی کم آئے تا آسمان سے وہ سامان پیدا ہوں جو ہماری بھی اور دوسرے لوگوں کی بھی کہ وہ بھی ہمارے بھائی ہیں ان تباہ کن سامانوں سے حفاظت کر سکیں۔ ذرا غور کرو کہ ایک منٹ میں آ کر گولہ لگتا ہے یا مائن پھٹتی ہے اور چشم زدن میں ہزار دو ہزار انسان سمندر کی تہ میں پہنچ کر مچھلیوں کی خوراک بن رہے ہوتے ہیں۔ اگر انسان کو کہیں ایک لاش بھی باہر پڑی ہوئی مل جائے تو دل دہل جاتا ہے۔ مگر یہاں تو ہزاروں لاشیں روزانہ سمندر میں غرق ہو رہی ہیں۔ انگریزی بحری جہازوں کے ڈوبنے کی اوسط ہفتہ وار ساٹھ ہزار ٹن ہے اور بعض دفعہ تو دو لاکھ بیس ہزار ٹن تک بھی جہاز ڈوبے ہیں۔ یہ جہاز جو کراچی اور بمبئی وغیرہ میں چلتے ہیں عام طور پر چودہ پندرہ سو ٹن کے ہوتے ہیں۔ اور یہ عام طور پر سامان لے جانے کے لئے استعمال ہوتے ہیں مگر پھر بھی ان میں چار پانسو سواریاں ہوتی ہیں۔ پس ساٹھ ہزار ٹن جہازوں کے غرق ہونے کے معنی یہ ہوئے کہ چھ ہزار جانیں ہر ہفتہ سمندر کی تہہ میں پہنچ جاتی ہیں۔ اتنے برطانوی لوگ گویا ہر ہفتہ ڈوبتے ہیں۔ گو ان میں سے بہت سے بچا لئے جاتے ہیں مگر وہ امید نہیں چھوڑتے۔ پھر کتنے افسوس کا مقام ہو گا اگر ہم جو زندہ قوم ہیں امید چھوڑ دیں۔ پس بہت گریہ و زاری کرو۔
یہ مت سمجھو کہ ہم آرام سے ہیں۔ ایک زمیندار جو اپنی زمین میں ہل چلاتا ہے یہ مت سمجھے کہ مجھ تک کون پہنچ سکتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ یہ ہل ہی میری دنیا ہے باقی دنیا سے مجھے کیا سروکار۔ بموں نے اب دور و نزدیک کا سوال ہی نہیں رہنے دیا۔ کیا پتہ کہ کل اس کا ہل سلامت رہ سکے یا نہ اورکون کہہ سکتا ہے کہ کل اس کے ماں باپ اوربیوی بچے اس کی آنکھوں کے سامنے زخمی نہ پڑے ہوں گے۔ پس دعائیں کرو، دعائیں کرو اور دعائیں کرو اور جنگ کی خبروں کو ہنسی سے نہ پڑھو۔ بلکہ اگر کوئی اس طرح پڑھے تو اسے کہو کہ تو کیا سنگدل اور غافل ہے۔ خود بھی دعائیں کرو اور اسے بھی تحریک کرو اور اتنی دعائیں کرو کہ عرشِ الٰہی ہل جائے اور خدا تعالیٰ کا فضل دنیا کو بھی اور ہمیں بھی بچا لے۔ بے شک یہ عبرت کے سامان ہیں جن سے لوگوں کو ہدایت ہو سکتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ چاہے تو وہ دنیا کو تباہ کئے بغیر بھی ہدایت دے سکتا ہے۔ پس آج مَیں یہ باتیں واضح طور پر بیان کر کے اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوتا ہوں۔ گو اس کا یہ مطلب نہیں کہ پھر کبھی نہ کہوں گا مگر آج مَیں نے وضاحت سے بتا دیا ہے کہ یہ دن بہت گھبراہٹ اور خطرہ کے د ن ہیں ان کو رو رو کر گزارو اور ایسا اضطراب تمہارے اندر ہونا چاہئے کہ کھانا کھانا مشکل ہو جائے اور پانی حلق میں پھنسے اور نیندیں حرام ہو جائیں اور تم سے ایسا اضطرار ظاہر ہو کہ اللہ تعالیٰ فیصلہ کر دے کہ اس مومن کے اضطرار نے میرے عرش کو ہلا دیا ہے اور وہ اپنے عرش کو تسکین دینے اور ٹھہرانے کے لئے دنیا پر رحم فرمائے۔’’
خطبہ ثانیہ میں فرمایا:
‘‘ یوں تو میرا ارادہ پہلے ہی اس مضمون پر بیان کرنے کا تھا مگر جب مَیں آ رہا تھا تو مجھے معلوم ہوٴا کہ ایک احمدی جو فوج میں ڈاکٹر تھا جہاز میں جا رہا تھا کہ تار پیڈو لگنے سے جہاز ڈوب گیا اور وہ بھی اور دوسرے سب جہازی بھی غرق ہو گئے ٭ اور ہمیں کیا خبر کہ اور کتنے احمدی جو ہمارے لئے بچوں سے بھی زیادہ عزیز ہیں کہاں کہاں ان کی لاشیں سمندر کے نیچے پڑی مچھلیوں کی خوراک بن رہی ہیں۔ اور ان باتوں کو دیکھتے ہوئے بھی اگر ہم چُست نہ ہوں تو پھر اور کونسا وقت آئے گا۔’’
(الفضل 41 جون1941ء )
1 البقرہ: 187 2 : النمل: 63 3،4 : البقرہ: 215
5 النساء : 72
6 بلگریڈ : یوگو سلاویہ کا دار الخلافہ جو دریائے سیو اور دریائے ڈینیوب کے سنگھم پر واقع ہے۔ (اردو انسائیکلو پیڈیا)
7 وَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوْا عَلَيْهَا صُمًّا وَّ عُمْيَانًا (الفرقان : 74)








٭ بعد میں معلوم ہوٴا کہ اس احمدی ڈاکٹر کے متعلق خبر غلط تھی۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہ وہ صحیح سلامت ہیں۔

14
دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ آنے والی ہولناک تباہی سے دنیا کو بچا لے
( فرمودہ 18، اپریل 1941ء )

تشہّد، تعوّذ اور سورہٴ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘سب سے پہلے مَیں دوستوں کو پھر اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ یہ زمانہ نہایت ہی نازک ہے اور ہزاروں آدمیوں کی جانیں روزانہ ضائع جا رہی ہیں۔ عقلمند وہ ہوتا ہے جو دوسروں کی حالتوں کو دیکھ کر عبرت حاصل کرے۔ وہ شخص عقلمند نہیں ہوتا جو اس دن کا انتظار کرے جب مصیبت خود اس کو گھیر لے ۔ کئی لوگ دوسروں کی مصیبتوں پر ہنسی اڑاتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کا عذاب خود انہیں پکڑ لیتا ہے تب وہ رونے اور پیٹنے لگتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری کرنے لگ جاتے ہیں ۔ مگر ان کی اس وقت کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں کیونکہ خدا تعالیٰ کے فرشتے کہتے ہیں کہ جب دوسرے مر رہے تھے اس وقت تو تم خوش تھے اور جب اپنے اوپر موت آنے لگی ہے تو رونے لگ گئے ہو۔ کیا وہ لوگ خدا تعالیٰ کے بندے نہیں تھے؟ پس ہرگز اس شخص کی دعا قبول نہیں ہوتی جو دوسروں کی موت پر خوش ہوتا یا اس کی پرواہ نہیں کرتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام ایسے ہی لوگوں کے متعلق ایک واقعہ سنایا کرتے تھے۔ فرماتے تھے ایک دفعہ کہیں ہیضہ پڑا لوگ مرے اور بے تحاشا مرتے چلے گئے جب کسی شخص کا جنازہ آتا اور لوگ نماز جنازہ کے لئے اکٹھے ہوتے تو ایک شخص صفوں میں کودتا پھرتا اور کہتا کہ لوگ بس کھاتے ہیں اور کھاتے چلے جاتے ہیں ذرا پرہیز نہیں کرتے۔ ہمیں دیکھو ہم تو بس ایک پھلکا کھاتے ہیں مگر لوگ ہیں کہ کھانے بیٹھتے ہیں تو ٹھونستے چلے جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہیضہ سے مر جاتے ہیں۔ اب بجائے اس کے کہ اس کے دل میں جنازہ کو دیکھ کر خشیت پیدا ہوتی یا بجائے اس کے کہ اس کے دل میں مرنے والے کے اعزّاء و اقرباء کے متعلق ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے اور اسے خیال آتا کہ مجھے اس کے بیٹوں بھائیوں یا دوسرے رشتہ داروں کی دلجوئی کرنی چاہئے وہ اور زیادہ ان کے زخموں پر نمک پاشی کرتا اورکہتا کہ یہ بڑا کھاوٴ پیو اوربدپرہیز ہو گا تبھی ہیضہ سے ہلاک ہؤا۔ آخر جس شخص کی لاش پڑی ہوئی ہوتی لازماً جنازہ میں زیادہ تر اسی کے رشتہ دار ہوتے ہوں گے۔ انہیں کیسی تکلیف ہوتی ہو گی کہ ایک تو ہمارے ہاں موت ہو گئی اور دوسرے ہمیں یہ سننا پڑا کہ وہ بڑا لالچی، حریص اور کھاوٴ پیو تھا۔ آخر کچھ دنوں کے بعد ایک لاش آئی اور جنازہ کے لئے لوگ جمع ہوئے کسی نے پوچھا کہ یہ کس کا جنازہ ہے؟ انہی لوگوں میں ایک دل جَلا بھی بیٹھا تھا وہ کہنے لگا یہ اس ایک پُھلکا کھانے والے کا جنازہ ہے ۔تو جس قسم کا فقرہ کوئی شخص دوسروں کی مصیبت کے وقت استعمال کرتا ہے ویسا ہی فقرہ خدا تعالیٰ کے فرشتے اس کے لئے اس وقت استعمال کرتے ہیں جب وہ خود کسی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے۔ پھر وہ لوگ جو دوسروں کی مصیبت پر خوش ہوتے ہیں خود ان کی اپنی حالت یہ ہوتی ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ حد سے زیادہ اس مصیبت پر شور مچانے اور چیخنے چلّانے لگ جاتے ہیں۔ ایک بے درد اور ظالم انسان جب دوسروں کے متعلق یہ سن کر کہ وہ لڑائی میں تباہ اور برباد ہوتے جا رہے ہیں خوش ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ خوب ہؤا۔ اس کا اپنا بیٹا جب پیٹ درد سے بیمار ہوتا ہے تو سارے محلہ کو وہ اپنے سر پر اٹھا لیتا ہے اور کہتا ہے ہائے مَیں مر گیامیرے پیٹ میں درد ہے جو اچھا ہونے میں نہیں آتا۔ اب کیا تم سمجھتے ہو کہ خدا تعالیٰ کے فرشتے ایسے شخص کی فریاد خداتعالیٰ تک پہنچا کر اس کی سفارش کرتے ہوں گے اور کہتے ہوں گے کہ اس کے بچے کا پیٹ درد دور ہو جائے وہ تو اس پر لعنتیں ڈالیں گے کہ بدبخت تُو نے دوسروں کی موت کو تو بے حقیقت سمجھا اور اپنے بیٹے کے پیٹ درد پر شور مچاتا ہے۔ اسی طرح خدا تعالیٰ کی طرف سے بھی اس پر برکت نہیں بلکہ *** نازل ہو گی کیونکہ وہ دوسروں کی تکالیف سے تو متاثر نہ ہؤا اور اپنی معمولی سی تکلیف نے بھی اسے بے چین بنا دیا۔
پس مومن کوہمیشہ اپنے اندر خشیتُ اللہ پیدا کرنی چاہئے او رجب دنیا میں آفات آئیں تو ان سے ڈر جانا چاہئے۔ ہم میں سے کون ہے جو محمد ﷺ سے زیادہ خدا تعالیٰ کے عذابوں سے محفوظ ہو اور ہم میں سے کون ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا رسول کریم ﷺ کی طرح وارث ہو؟ ہم تو عُشر عشیر کیا ہزارویں بلکہ لاکھویں حصہ کے برابر بھی اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں کے وارث نہیں ہو سکتے جن فضلوں کے رسول کریم ﷺ وارث ہیں اور نہ ہم عذابوں سے اس طرح محفوظ ہیں جس طرح رسول کریم ﷺ محفوظ تھے مگر رسول کریم ﷺ کی شان دیکھو جب بادل آتے، بجلی چمکتی اور بادل گرجتے تو آپ گھبرا کر کبھی اپنے کمرہ کے اندر تشریف لے جاتے اور کبھی باہر نکلتے۔ایک دفعہ کسی نے پوچھا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! یہ آپ کیا کرتے ہیں کہ بادل آنے پر آپ گھبرا کر کبھی کمرہ کے اندر تشریف لے جاتے ہیں اور کبھی باہر آتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ایسے ہی بادلوں سے کبھی کبھی خدا تعالیٰ کا غضب نازل ہو جاتا ہے۔1 غور کرو کتنی بڑی خشیت الٰہی ہے جو آپ کے قلب میں تھی حالانکہ آپ خدا تعالیٰ کے نبی تھے اور دوسروں کو اللہ تعالیٰ کے عذابوں سے ڈرانے آئے تھے۔ اگر بِالفرض عذاب نازل بھی ہوتا تو وہ دوسروں کے لئے عذاب ہوتا آپ کے لئے نہیں۔ مگر وہ جن پر عذاب نازل ہو سکتا تھا وہ تو اپنے گھروں میں مطمئن بیٹھے رہتے تھے اور وہ جس کی تائید کے لئے غضبِ الٰہی نازل ہونا تھا وہ گھبرا کر کبھی اندر جاتا اور کبھی باہر آتا اور اس وقت تک گھبراہٹ دور نہ ہوتی جب تک بادل برس نہ جاتا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی محبت آپ میں ایسی بڑھی ہوئی تھی کہ ایک دفعہ بادل کچھ عرصہ تک رکے رہے اور بارش نہ ہوئی۔ کچھ مدت کے بعد ایک دن آسمان پر بادل چھایا، کڑکا ہؤا اور بارش کا ایک چھینٹا پڑا۔ آپ صحن میں تشریف لائے اور اپنی زبان نکال کر اس پر بارش کا چھینٹا لیا اور فرمایا کہ یہ میرے رب کا تازہ فضل ہے۔2 یہ ہے مومن کی علامت جس کے نتیجہ میں خدا کا فضل نازل ہوتا اور انسان اس کے غضب سے بچ جاتا ہے۔ مگر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کے بڑے بڑے فضلوں کی کوئی قدر نہیں کرتا جو امن کے بیسیوں سالوں کی اتنی بھی قیمت نہیں سمجھتا جتنی رسول کریم ﷺ نے بارش کے ایک قطرہ کی قیمت سمجھی اسے اللہ تعالیٰ کے غضب سے ڈرنا چاہئے۔
رسول کریم ﷺ تو بادل کی ایک کڑک سے خوف زدہ ہو جاتے تھے اور خیال کرتے تھے کہ ایسا نہ ہو کہ اس کڑک کے پیچھے اللہ تعالیٰ کا کوئی غضب مخفی ہو مگر تم وہ ہو کہ تمہاری آنکھوں کے سامنے ہزاروں لوگ ہلاک ہو رہے ہیں، ہزاروں شہر برباد ہو رہے ہیں، ہزاروں جانیں ضائع جا رہی ہیں، بڑی خوفناک تباہی اور بربادی ہے جو دنیا پر چھائی ہوئی ہے۔ مگر تمہیں اس کی ذرہ بھی پرواہ نہیں اور تم اس دن کا انتظار کر رہے ہو جب تمہارے شہروں پر بم گریں، تمہارے گھر برباد ہوں، تمہارے بیٹے ہلاک ہوں اور تم خود اپنی آنکھ سے ان نظاروں کو دیکھو۔ پس یہ دن بڑی تباہی اور بربادی کے ہیں اور ان میں بڑی خشیت اور بڑی انابت سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ مومن کویہ ہرگز نہیں دیکھنا چاہئے کہ یہ بلا اس پر نہیں بلکہ دوسروں پر وارد ہے۔ کیا محمد ﷺ نے بادل دیکھ کر گھبراہٹ اس لئے ظاہر کی تھی کہ آپ نَعُوْذُ بِاللہِ ڈرتے تھے کہ کہیں خدا تعالیٰ کا عذاب مجھ پر نازل نہ ہو جائے۔ آپ جانتے تھے کہ عذاب اگر نازل ہو گا تو دوسروں پر ہی ہو گا۔ مگر آپ یہ بھی جانتے تھے کہ مَیں بھی اسی دنیا میں ہوں جس میں میرے دوسرے بھائی ہیں اس لئے آپ گھبراتے تھے اور اضطراب کے عالَم میں کبھی کمرہ کے اندر تشریف لے جاتے تھے اور کبھی باہر آتے تھے۔ پھر ہم جو آپ کے متبعین ہیں کیا اتنے بڑے غضب کے نازل ہونے پر جو فی الواقع نازل ہو چکا ہے اور بڑھتا چلا جا رہا ہے خوش ہو سکتے ہیں؟ اور کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں اس کی کیا پرواہ ہے۔ یہ عذاب دوسروں پر ہے ہم پر تو نہیں۔ کیا جس گھر میں آگ لگی ہوئی ہو اس کا ساکن اس بات پر خوش ہو سکتا ہے کہ آگ ابھی فلاں کمرہ میں ہے فلاں کمرہ میں نہیں۔ پھر ہم کس طرح مطمئن ہو سکتے ہیں جبکہ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا کے ایک حصہ پر ایسا غضب نازل ہو رہا ہے جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ اس عذاب کی بالکل وہی کیفیت ہے جو قرآن کریم نے اس جگہ بیان فرمائی ہے جہاں عیسائیوں کے مائدہ مانگنے کا ذکر ہے۔ وہاں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا تھا کہ اگر ان لوگوں نے میرے مائدہ کی ناقدری کی تو مَیں ان پر ایسا عذاب نازل کروں گا جس کی مثال روئے زمین پر اس سے پہلے کبھی نظر نہ آئی ہو گی۔ 3یہ عذاب آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور دنیا اس بات کا اقرار کر رہی ہے کہ اس سے پہلے دنیا پر اتنی بڑی تباہی کبھی نہیں آئی۔
قرآن کریم کی صداقت کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ وہی الفاظ جو قرآن کریم نے استعمال کئے ہیں آج عیسائی قریباً روزانہ استعمال کرتے اور اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ دنیا پر وہ عذاب نازل ہے جس کی نظیر تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے اور یہ ایک بار نہیں، دو بار نہیں، تین بار نہیں، ہزاروں بار اعتراف کیا جا چکا ہے۔ پھر صرف آسٹریلیا میں نہیں، صرف امریکہ میں نہیں، صرف کینیڈا میں نہیں، بلکہ ہر ملک میں اس بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ آج زمین پر خدا تعالیٰ کا وہ قہر اترا ہوا ہے اور وہ تباہی اور بربادی ہو رہی ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔
پس ایسے موقع پر بہت دعاوٴں کی ضرورت ہے اور اگلے چھ ماہ نہایت خطرناک ہیں۔ اگر دنیا اگلے چھ ماہ کی ہولناک تباہی سے بچ جائے تو سمجھ لو کہ خداتعالیٰ نے اپنے بندوں پر ایسا کرم فرمایاکہ جس کی کوئی نظیر نہیں۔ جس طرح اس عذاب کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ اسی طرح اگر اگلے چھ ماہ خیریت سے گزر جائیں تو اللہ تعالیٰ کے اس کرم کی بھی پہلے کوئی مثال نہیں ملے گی۔ کیونکہ اتنے بڑے غضب کے بعد دنیا کو بچا لینا اسی رحیم کریم خدا کا ہی کام ہو سکتا ہے۔ کسی انسان کی طاقت میں یہ بات نہیں کہ وہ اس عذاب کو دور کر سکے۔ پس دعائیں کرو اور بہت دعائیں کرو تا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے تم وارث بنو اوراس بات کو اچھی طرح یاد رکھو کہ جو شخص دوسروں پر رحم کرتا ہے اس پر بھی رحم کیا جاتا ہے۔ اور جو شخص دوسروں کی طرف سے اپنے دل کو سخت کر لیتا ہے اس کی طرف سے بھی خدا اور اس کے فرشتے اپنے دل کو سخت کر لیتے ہیں۔
اس کے بعد میں اس امر کی طرف احباب جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ جیسا کہ مجلس شوریٰ کے موقع پر مَیں نے بیان کیا تھا اس جنگ میں ہماری جماعت کے بھی بہت سے دوست شامل ہیں۔ مَیں ابھی جمعہ کے لئے آ رہا تھا کہ مجھے ایک احمدی دوست کا جو اسی جنگ میں ایک مقام پر گیا ہؤا ہے تار ملا کہ میرے لئے دعا کی جائے۔ مجھے اس تار کو پڑھ کر خیال آیا کہ ہمارے وہ احمدی بھائی جو ہزاروں ہزار میل دور اس خطرناک جنگ میں شامل ہیں۔ کس طرح یہ امیدیں باندھے ہوئے ہوں گے کہ رات اور دن ان کی کامیابی کے لئے دعائیں کی جاتی ہوں گی مگر تم، ہاں تم اپنے دلوں میں غور کروکہ کیاتم ان کی امید وں کو پورا کر رہے ہو، کیا تم ان کی حُسنِ ظنیوں کو پورا کر رہے ہو اور کیا تم واقعی ان کے لئے دن اور رات ایک اضطراب کے عالم میں دعائیں مانگتے رہتے ہو؟ وہ ان مقامات پر ہیں جہاں چاروں طرف بم برس رہے ہیں، جہاں ہزاروں آدمی ایک ایک دن میں ہلاک ہو رہے ہیں اور جہاں بعض دفعہ ایک ایک بم ایسا گرتا ہے کہ وہ پچھتر پچھتر اور سَو سَو گز زمین کو اڑاکر لے جاتا ہے۔ ایسے خطرہ کے مقام پر گیا ہؤا ہر احمدی تم میں سے ہر شخص کے متعلق یہ امید رکھتا ہے کہ تم قادیان میں بیٹھے ہوئے اس کے متعلق دعائیں کر رہے ہو گے۔ پھر کیسا بدقسمت ہے وہ انسان کہ جس کے اپنے بھائی جنگ میں شامل ہوں اور پھر بھی وہ لوگوں کی موت پر خوش ہو پھر بھی وہ اس بربادی پر ہنسے اور پھر بھی یہ کہتے ہوئے اسے شرم نہ آئے کہ خوب مزا آیا۔ کیا ایسے شخص سے زیادہ سنگدل اور قسیّ القلب کوئی اور انسان ہو سکتا ہے؟ اور کیا اس سے بھی زیادہ خدا تعالیٰ کے غضب کو بھڑکانے والا کوئی اور ہو سکتا ہے؟
پس ان کی اس حُسنِ طنی کو دیکھو، ان کے اس اعتماد کو دیکھو، ان کے اس یقین کو دیکھو اور اپنے میں سے بعض کے اس ظالمانہ فعل کو دیکھو کہ جب ہزاروں ہزار میل دور ایک شخص اپنی حفاظت کا ذریعہ ان کی دعاوٴں کو سمجھ رہا ہے تو وہ ایسے افعال کر رہے ہوں جو ان کی پوری بے دردی اور ظالمانہ رویّہ کو ظاہر کرنے والے ہوں۔ آجکل تو ہمارے دلوں میں ایک لمحہ کے لئے بھی چین نہیں ہونا چاہئے اور ہر وقت دعائیں ہماری زبان پر جاری رہنی چاہئیں۔ کُجا یہ کہ ہم ہلاک ہونے والوں کی ہلاکت کی خبریں مزے لے لے کر پڑھیں اور اپنی مجلسوں میں کہیں کہ خوب ہؤا۔
میری اپنی یہ حالت ہے کہ جب مَیں رات کو لیٹتا ہوں تو میرا دل دھڑکنے لگ جاتا ہے اور گھنٹوں میری نیند اڑ جاتی ہے اور مَیں دعائیں کرنے لگ جاتا ہوں۔ مگر باوجود ان دعاوٴں کے میرا دل تسلی نہیں پاتا کہ مَیں خدا کے حضور سرخرو ہو گیا ہوں اور مجھے کبھی اطمینان نہیں ہؤا کہ اس خطرہ اور مصیبت میں مبتلا بھائیوں کے لئے میں نے ویسی ہی دعائیں کی ہیں جیسی مجھ سے امید کی جا سکتی تھی۔
اس کے بعد میں ایک اَورشکایت کی طرف توجہ کرتا ہوں جو آج ہی میرے سامنے پیش ہوئی ہے اور وہ یہ کہ محلہ مسجد فضل میں بِالعموم لوگ نماز باجماعت کے تارک ہیں۔ (یہ محلہ دار الفضل نہیں بلکہ وہ محلہ ہے جسے مقامی لوگ ارائیوں کا محلہ کہتے ہیں) اور جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ تم نماز میں کیوں شامل نہیں ہوتے تو کوئی کہتا ہے کہ میری فلاں سے لڑائی ہے کوئی کہتا ہے مجھے فلاں نے کھانے کی پرچی نہیں دی تھی۔ غرض کوئی کسی وجہ سے اور کوئی کسی وجہ سے مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے نہیں آتا۔ اگر یہ شکایت صحیح ہے تو مجھے مسجد فضل کے حلقہ کے احمدیوں پر نہایت ہی تعجب ہے۔ نماز اور پھر باجماعت نماز اللہ تعالیٰ کے خاص فضلوں میں سے ایک فضل ہے اور اس نے اپنے بندوں پر یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ انہیں پانچ وقت اپنے حضور حاضر ہونے کا شرف بخشا ہے۔ ان پانچ وقتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے دعاوٴں کی قبولیت کا موقع بہم پہنچایا ہے اور اس حضوری کا مقام اس نے مسجد کو قرار دیا ہے۔ پس سوائے بیمار اور معذور کے ہر وہ شخص جو نماز کے لئے مسجد میں حاضر نہیں ہوتا وہ گویا خدا کے حضور حاضر نہیں ہوتا۔ آخر خدا کوئی مادی یا جسمانی چیز تو ہے نہیں کہ تم یہ خیال کر لو کہ ہم اس جسمانی چیز کے پاس جس وقت چاہیں گے پہنچ جائیں گے۔ وہ ہمیشہ اپنی صفات کے ظہور سے ہی نظر آتا ہے اور وہ یُوں تو اپنی قدرت سے ہر جگہ ہے اور کوئی مقام ایسا نہیں جہاں خد اتعالیٰ کی قدرت کا اظہار نہ ہو مگر اس کا ہر جگہ ہونا ہمارے لئے کارآمد نہیں ہو سکتا جب تک ہم اس جگہ نہ جائیں جہاں اس نے حاضر ہونے کا حکم دیا ہؤا ہے۔
پس جب تک انسان اس جگہ حاضر نہ ہو جس جگہ کے متعلق خدا تعالیٰ نے یہ کہا ہے کہ مَیں وہاں اپنا جلوہ دکھاوٴں گا اس وقت تک وہ خدا تعالیٰ کے جلوے کو دیکھ نہیں سکتا کیونکہ خدا تعالیٰ نے ہی یہ فرمایا ہے کہ وہ اپنا جلوہ فرض نمازوں میں مسجد میں ظاہر کرتا ہے اور گو خدا تعالیٰ ہر جگہ ہے مگر اس کا یہ فرمانا ایسا ہی ہے جیسے کوئی بادشاہ کہہ دے کہ فلاں مقام پر سب لوگ جمع ہوجائیں مَیں وہاں آوٴں گا۔ اب اگر کوئی شخص اس جگہ نہ جائے اور کہیں اور چلا جائے اور یہ خیال کرے کہ مَیں بادشاہ سے ملاقات کر لوں گا تو وہ حماقت کا ارتکاب کرے گا۔ اسی طرح جب خدا تعالیٰ نے یہ فرما دیا ہے کہ میں صبح کی نماز کے وقت مسجد میں ہر ایک کو اپنا جلوہ دکھاوٴں گا۔ سوائے بیمار اور معذور کے اور جب خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا دیا ہے کہ مَیں ظہر کی نماز کے وقت مسجد میں ہر ایک کو اپنا جلوہ دکھاوٴں گا سوائے بیمار اور معذور کے اور جب خدا تعالیٰ نے یہ فرما دیا ہے کہ مَیں عصر کی نماز کے وقت مسجد میں ہر ایک کو اپنا جلوہ دکھاوٴں گا سوائے بیمار اور معذور کے اور جب خدا تعالیٰ نے یہ فرما دیا ہے کہ میں مغرب کی نماز کے وقت مسجد میں ہر ایک کو اپنا جلوہ دکھاوٴں گا سوائے بیمار اور معذور کے اورجب خدا تعالیٰ نے یہ فرما دیا ہے کہ میں عشاء کی نماز کے وقت مسجد میں ہر ایک کو اپنا جلوہ دکھاوٴں گا سوائے بیمار اور معذور کے۔ تو اب جو شخص صبح کی نماز کے وقت چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس کے گھر پر جلوہ دکھائے سوائے اس کے کہ وہ بیمار اور معذور ہو، وہ خدا تعالیٰ کا جلوہ دیکھنے سے محروم رہے گا۔ جو شخص ظہر کی نماز کے وقت چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس کے گھر پر جلوہ دکھائے سوائے اس کے کہ وہ بیمار اور معذور ہو وہ خدا تعالیٰ کا جلوہ دیکھنے سے محروم رہے گا۔جو شخص عصر کی نماز کے وقت چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس کے گھر پر جلوہ دکھائے سوائے اس کے کہ وہ بیمار اور معذور ہو وہ خدا تعالیٰ کا جلوہ دیکھنے سے محروم رہے گا۔ جو شخص مغرب کی نماز کے وقت چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس کے گھر پر جلوہ دکھائے سوائے اس کے کہ وہ بیمار اور معذور ہو وہ خداتعالیٰ کا جلوہ دیکھنے سے محروم رہے گا۔ جو شخص عشاء کی نماز کے وقت چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس کے گھر پر جلوہ دکھائے سوائے اس کے کہ وہ بیمار اور معذور ہو وہ خدا تعالیٰ کا جلوہ دیکھنے سے محروم رہے گا۔ پس ہر وہ صبح کی نماز جو تم نے اپنے گھر پر پڑھی سوائے اس کے کہ تم بیمار تھے یا معذور تھے وہ نماز تم نے ضائع کر دی کیونکہ نماز کے معنے خدا تعالیٰ کی ملاقات کے ہیں اوروہ تم نے نہیں کی۔ اسی طرح ہر وہ ظہر کی نماز جو تم نے گھر پر پڑھی سوائے اس کے کہ تم بیمار تھے یا معذور تھے تو وہ نماز تم نے ضائع کر دی۔ کیونکہ خدا تعالیٰ ا س وقت مسجد میں تھا اور تم گھر پر تھے۔ یہی حال اس عصر کی نماز کا ہے جو بیماری اور معذوری کے بغیر تم نے اپنے گھر پر پڑھی اور یہی حال اس مغرب کی نماز کا ہے جو بیماری اور معذوری کے بغیر تم نے اپنے گھر پر پڑھی اور یہی حال اس عشاء کا ہے جو بیماری اور معذوری کے بغیر تم نے اپنے گھر پر پڑھی اور اگر تم نے پانچوں نمازیں ہی اپنے گھر پر پڑھیں تو گویا پانچوں نمازوں میں خدا تعالیٰ کی ملاقات تمہیں نصیب نہیں ہوئی۔ اور جبکہ نماز خدا کی ملاقات کے لئے ہی پڑھی جاتی ہے اور یہ ملاقات تمہیں نصیب نہیں ہوئی تو تم نے خواہ مخواہ اپنا وقت ضائع کیا۔ اگر تم وہی دس یا پندرہ منٹ دنیا کے کسی کام میں صرف کر لیتے تو تمہیں کوئی فائدہ بھی ہو جاتا۔ مگر ان نمازوں کے پڑھنے سے تمہیں کچھ بھی حاصل نہیں ہو گا۔ پس اگر نمازیں پڑھنی ہوں اور ان سے وہ فوائد حاصل کرنے ہوں جو شریعت نے نمازوں کے بیان کئے ہیں تو تمہیں نمازوں کو ان کی شرائط کے ساتھ ادا کرنا چاہئے۔ اور جبکہ نماز کی غرض محض خدا تعالیٰ کی ملاقات ہے تو مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی شخص یہ کس طرح کہہ سکتا ہے کہ فلاں امام الصلوٰة کے ساتھ چونکہ میری لڑائی ہے اس لئے مَیں نماز میں شامل نہیں ہو سکتا یا چونکہ میری فلاں سے لڑائی ہے اور وہ سیکرٹری ہے اس لئے مَیں نماز میں شامل نہیں ہو سکتا یا چونکہ میری فلاں سے لڑائی ہے اور وہ پریذیڈنٹ ہے اس لئے مَیں نماز میں شامل نہیں ہو سکتا یا چونکہ میری فلاں سے لڑائی ہے اور وہ قاضی یا محتسب ہے اس لئے مَیں نماز میں شامل نہیں ہو سکتا۔آخر میں یہ تو خیال نہیں کر سکتا کہ یہ تمام لڑائیاں امام الصلوٰة کے ساتھ ہی ہیں۔ لازماً کسی کی لڑائی امام الصلوٰة کے ساتھ ہو گی، کسی کی قاضی کے ساتھ، کسی کی سیکرٹری کے ساتھ، کسی کی پریذیڈنٹ کے ساتھ اور کسی کی محتسب کے ساتھ۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ امام ہی قاضی ہو، امام ہی محتسب ہو، امام ہی سیکرٹری ہو، امام ہی پریذیڈنٹ ہو اور امام ہی پرچی خوراک تقسیم کرنے والا ہو۔ اور چونکہ امام سے دشمنی ہو گئی اس لئے نماز میں بھی آنا چھوڑ دیا گیا۔ لازماً لوگوں کے دلوں میں یہی شکوہ ہو گا کہ چونکہ فلاں محتسب یا فلاں قاضی یا فلاں امورِ عامہ کا کارکن یا فلاں پرچی خوراک تقسیم کرنے والا مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے آتا ہے اور اس سے ہماری دشمنی ہے اس لئے ہم مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے نہیں جا سکتے۔ مگر کیا ایسے لوگوں سے خدا تعالیٰ قیامت کے دن یہ نہیں کہے گا کہ اب میری جنت میں قاضی یا محتسب یا سیکرٹری یا پریذیڈنٹ آنے لگا ہے اور چونکہ جہاں وہ ہو وہاں تم نہیں آ سکتے اس لئے تم جنت میں نہ آوٴ بلکہ دوزخ میں چلے جاوٴ۔ پھر کیا خدا ان لوگوں کو یہ نہیں کہے گا کہ فلاں صبح کی نماز کے وقت مَیں مسجد میں گیا مگر تم میری ملاقات کے لئے نہ آئے اور اس لئے نہ آئے کہ فلاں قاضی اس مسجد میں نماز پڑھا کرتا تھا اور مَیں فلاں ظہر کی نماز کے وقت مسجد میں گیا مگر تم میری ملاقات کے لئے نہ آئے کیونکہ فلاں پرچی خوراک بانٹنے ولااس مسجد میں نماز پڑھا کرتا تھا۔ اور مَیں فلاں عصر کی نماز کے وقت مسجد میں گیا مگر تم میری ملاقات کے لئے نہ آئے کیونکہ فلاں محتسب اس مسجد میں نماز پڑھا کرتا تھا اور میں فلاں مغرب کی نماز کے وقت مسجد میں گیا مگر تم میری ملاقات کے لئے نہ آئے کیونکہ فلاں شخص جو تعلیم کا انتظام کرنے والا ہے وہ امام الصلوٰة تھا اور اس سے تمہاری دشمنی تھی۔ اور مَیں فلاں عشاء کی نماز کے وقت مسجد میں گیا مگر تم پھر بھی میری ملاقات کے لئے نہ آئے کیونکہ تم نے کہا کہ فلاں شخص جو امور عامہ سے تعلق رکھتا ہے مسجد میں موجود ہے۔ اور چونکہ میری اس سے دشمنی ہے اس لئے میں مسجد میں نہیں جا سکتا۔ تب خدا تعالیٰ فرمائے گا اب وہی محتسب، وہی قاضی، وہی امور عامہ کا نمائندہ، وہی امام الصلوٰة اور وہی خدام الاحمدیہ کے کارکن میری جنت میں جا رہے ہیں۔ اب بولو مَیں تمہیں کس طرح جنت میں لے جاوٴں اور ان لوگوں کی مجلس میں شریک کر کے تمہارا دل دُکھاوٴں جن کی موجودگی کی وجہ سے تم میری ملاقات کے لئے بھی مسجد میں نہ آئے۔ اب میرے لئے سوائے اس کے کیا چارہ ہے کہ میں تمہیں دوزخ میں بھیج دوں جہاں تم ان لوگوں کی شکل نہ دیکھ سکو۔ مگر کیا تم اس بات کو پسند کرو گے؟
پھر مجھے بتاوٴ تو سہی کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر کتنا عظیم الشان فضل کیا کہ اس نے محمد ﷺ کو جو اس کا آخری شرعی رسول ہے کامل کتاب اور کامل ہدایت اور کامل شریعت دے کر مبعوث کیا اور اسے مبعوث فرما کر دنیا میں مسجد یں قائم کیں اور محمد ﷺ سے یہ اعلان کرا دیا کہ مَسْجِدِیْ اٰخِرُ الْمَسَاجِدِ 4 یعنی میری مسجد آخری مسجد ہے اور کوئی نہیں جو اس کے مقابلہ میں اپنی مسجد بنا سکے۔ اس نے عیسیٰ علیہ السلام کی بتائی ہوئی مسجد کو منسوخ کر دیا اور اس نے موسیٰ علیہ السلام کی بنائی ہوئی مسجد کو منسوخ کر دیا اور اس نے کرشن علیہ السلام کی بنائی ہوئی مسجد کو منسوخ کر دیا اور اس نے رام چندر جی علیہ السلام کی بنائی ہوئی مسجد کو منسوخ کر دیا اور اس نے زرتشت علیہ السلام کی بنائی ہوئی مسجد کو منسوخ کر دیا اور اسی طرح اس نے ان تمام انبیاء کی مسجدوں کو منسوخ کر دیا جو آگے پیچھے آ چکے ہیں اور دنیا میں یہ اعلان کرا دیا کہ اب محمد ﷺ کی بنائی ہوئی مسجد ہی قائم رہے گی۔
پس تم بتاوٴ کہ کیا تم حضرت کرشن علیہ السلام سے زیادہ خدا کو پیارے ہو؟ یا کیا تم حضرت رام چندر علیہ السلام سے زیادہ خدا کو پیارے ہو؟ یا تم آدم علیہ السلام سے زیادہ خدا کو پیارے ہو؟ یا تم نوح علیہ السلام سے زیادہ خدا کے پیارے ہو؟ یا تم موسیٰ علیہ السلام سے زیادہ خدا کے پیارے ہو؟ یا تم عیسیٰ علیہ السلام سے زیادہ خدا کے پیارے ہو کہ خدا نے ان کی مسجدوں کو تومنسوخ کر دیا مگر وہ تمہارے گھر کی بنی ہوئی مسجد کو قبول کرے گا۔ اس نے تو صاف طور پر کہہ دیا تھا کہ مَیں محمد ﷺ کی مسجد کو ہی قبول کروں گا۔ مگر تم کہتے ہو جی ہاں۔ یہ آدم کے متعلق ہے ہمارے متعلق نہیں۔ آدم کی مسجد بے شک خدا تعالیٰ قبول نہیں کر سکتا مگر محمد ﷺ کے مقابلہ میں ہماری مسجد کو وہ ضرور قبول کرے گا۔ اسی طرح نوح علیہ السلام کی مسجد اس نے بے شک منسوخ کر دی مگر ان بے چاروں کی کیا حیثیت تھی ان کی مسجد تو فِی الواقع اس قابل تھی کہ محمد ﷺ کی مسجد کے مقابلہ میں منسوخ کر دی جاتی مگر ہماری مسجد منسوخ نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح اس نے عیسیٰ علیہ السلام کی مسجد کو منسوخ کر دیا مگر ہماری مسجد کو منسوخ نہیں کیا، اس نے موسیٰ علیہ السلام کی مسجد کو منسوخ کر دیا مگر ہماری مسجد کومنسوخ نہیں کیا، اس نے رام چندر کی مسجد کو منسوخ کر دیا مگر ہماری مسجد کو منسوخ نہیں کیا، اس نے کرشن کی مسجد کو منسوخ کر دیا مگر ہماری مسجد کو منسوخ نہیں کیا، اس نے زرتشت کی مسجد کو منسوخ کر دیامگر ہماری مسجد کو منسوخ نہیں کیا۔ گویا دنیا جہان کی ساری مسجدیں محمد ﷺ کی مسجد کے آگے پھیکی پڑ گئیں۔ لیکن اس ایرے غیرے کی مسجد قائم ہے۔ اوریہ خیال کرتا ہے کہ اسی مسجد میں نماز پڑھ کر وہ خد اتعالیٰ کا قُرب حاصل کر سکتا ہے۔ گویا دوسرے الفاظ میں وہ یہ کہتا ہے کہ آدم علیہ السلام اور نوح علیہ السلام اور دوسرے انبیاء کی کیا حیثیت تھی۔ وہ معمولی انسان تھے اور ان کی بنائی ہوئی مسجدیں خدا تعالیٰ نے منسوخ کر دیں۔ موسیٰؑ بھی ایک مسکین بندے تھے جن کی مسجد منسوخ کر دی گئی، داوٴد علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام وغیرہ بھی بے حقیقت تھے جن کی مسجدیں خدا نے منسوخ کر دیں۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ایک معمولی انسان تھے جن کی مسجد منسوخ کر دی گئی۔ مگر میں اتنی شان کا آدمی ہوں کہ میری مسجد کبھی منسوخ ہی نہیں ہو سکتی اور اگر منسوخ ہو جائے تو خدا کی خدائی کس طرح باقی رہے۔ اب بتاوٴ کیا تم سمجھتے ہو کہ تمہارا یہ نقطہٴ نگاہ صحیح ہے اور کیا تم اسے خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کر سکتے ہو۔ پھر سوچو قیامت کے دن جب محمد ﷺ یہ سوال کریں گے کہ مَیں نے مسجدیں اس لئے بنائی تھیں تاکہ مسلمان اکٹھے ہوں ان کے شکوے اور گلے دور ہوں اور گو وہ آپس میں جھگڑ بھی لیں مگر میرے ہاتھ پر اور میرے نام پر وہ دن رات میں پانچ دفعہ ایک مقام پر اکٹھے ہو جایا کریں پھر تم کیوں مسجدوں میں نہیں آیا کرتے تھے تو کیا اس سوال کے جواب میں تم یہ کہہ سکتے ہو کہ اے محمد ﷺ آپ ہمیں پیارے تو ہیں مگر اتنے نہیں کہ فلاں دشمن کے مقابلہ میں ہم آپ کے پیار کو ترجیح دے سکتے۔ اس کا بغض ہمارے دل میں اتنا زیادہ تھا کہ ہم نے آپ کی محبت کو نظر انداز کر دیا اور اس بغض کی وجہ سے مسجد میں جانا پسند نہ کیا۔ اب بتاوٴ کہ کیا اس جواب کے بعد محمد ﷺ تمہیں اپنے حوضِ کوثر پر لے جائیں گے؟ اور کیا وہ تمہاری شفاعت کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے؟ کیا تم کہہ سکو گے کہ یا رسول اللہ فلاں عبد الرحمان یا فلاں فضل الٰہی کا بغض ہمارے نزدیک آپ کے پیار کے مقابلہ میں بہت اہمیت رکھتا تھا اور اسی وجہ سے ہم نے آپ کے پیار کو تو ردّ کر دیا اور اس کے بُغض کو اختیار کر لیا۔ اب یَا رَسُوْلَ اللہ ہماری شفاعت کیجئے اور ہمیں کوثر کے انعامات میں سے حصہ دیجئے۔ محمد ﷺ تو تمہیں یہی کہیں گے کہ جاوٴ اور اپنا حصہ ان لوگوں کے پاس تلاش کرو جن کی محبت یا بُغض کے مقابلہ میں تم نے میری محبت کو قربان کر دیا۔ میری محبت تو تمہارے دلوں میں اتنی ہی تھی کہ تم نے کسی عبد الرحمان یا کسی فضل الٰہی یا کسی رشید احمدکے مقابلہ میں اسے ٹھکرا کر رکھ دیا اور جس مقام کو مَیں نے اجتماع کا ذریعہ قرار دیا تھا اس میں آنا تم نے پسند نہ کیا۔ پس اب تم مجھ سے کیا امید رکھتے ہو؟ آخر بتلاوٴ کہ محمد ﷺ کی اس بات کا تم کیا جواب دو گے اور کس طرح تم اللہ تعالیٰ کے حضور سرخرو ہو سکو گے۔ مَیں نے یہ باتیں تمہیں اتنی کثرت اور اتنے تواتر کے ساتھ بتائی ہیں کہ اگر مَیں یہ باتیں پتھروں سے کہتا تو وہ پگھل جاتے، اگر مَیں دریاوٴں سے یہ باتیں کہتا تو وہ لرز جاتے، اگر مَیں خشک ریگستانوں سے یہ باتیں کہتا تو ان کے کلیجے پھٹ جاتے مگر تم میں سے کچھ انسان ایسے ہیں کہ ان پر میری ان باتوں کا کوئی اثر نہیں۔ مَیں تمہیں اپنی باتیں نہیں سنا رہا بلکہ خدا کی باتیں سنا رہا ہوں۔ مجھے تم پر حکومت کا کوئی شوق نہیں۔ مَیں جو کچھ کہتا ہوں تمہاری بھلائی اور تمہارے فائدہ کے لئے کہتا ہوں۔ آخر دنیا میں مَیں نے مسجدیں نہیں بنائیں اور نہ مَیں نے نمازیں پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ یہ تمام احکام خدا اور اس کے رسول کے ہیں۔ مَیں ان باتوں کے معاوضہ میں تم سے کوئی فیس وصول نہیں کرتا کہ تم یہ کہو کہ ہمیں باتیں بتا کر یہ خود فائدہ اٹھاتا ہے۔ مَیں خالص تمہاری بہبودی اور خیر خواہی کے لئے یہ باتیں کہتا ہوں مگر تم ہو کہ سمجھتے ہو خبر نہیں ان باتوں سے اسے کیا فائدہ ہو رہا ہے؟ آخر تمہارے پاس کوئی پارس نہیں اور نہ میں نے کوئی پیتل کی تختیاں بنوا کر مسجدوں میں رکھی ہوئی ہیں کہ مبادا تمہیں خیال ہو کہ ان تختیوں پر تم پاوٴں رکھتے ہو تو وہ سونے کی بن جاتی ہیں۔ اور مَیں انہیں اپنے مصرف میں لے آتا ہوں۔ اگر تمہیں یقین نہ ہو تو تم مسجدوں کو اچھی طرح دیکھ لو۔ وہاں کوئی پیتل کی تختیاں پڑی ہوئی نہیں کہ تمہیں یہ خیال ہو کہ مَیں تمہیں نماز پڑھنے کی اس لئے تحریک کرتا ہوں کہ ان تختیوں پر تمہارا پاوٴں پڑنے سے وہ پیتل سونا بن جائے گا اور پھر مَیں اسے اٹھا کر اپنے گھر لے آوٴں گا۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ جو شخص مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے نہیں جاتا اس کے پَیرتو اگر سونے پر بھی پڑیں گے تو وہ لوہا بن جائے گا کجا یہ کہ پیتل کو وہ سونا بنا دے۔ بھلا جس شخص کے دل میں خدا اور اس کے رسول کی محبت نہیں اور جو اپنی قیمت تو زیادہ لگاتا ہے مگر خدا اور اس کے رسول کے احکام کی قیمت ادنیٰ قرار دیتا ہے اس کی خدا کے حضور کیا وقعت ہو سکتی ہے۔ وہ تو سونے کو بھی ہاتھ لگائے گا تو پیتل بن جائے گا۔ ایسا انسان بھلا مجھے کیا فائدہ پہنچا سکتا ہے اور خود اسے کیا فائدہ ہو سکتا ہے۔ پس مَیں جو کچھ کہتا ہوں تمہارے فائدہ کے لئے کہتا ہوں تاکہ جب تم مرو تو خدا تعالیٰ تمہیں یہ جواب نہ دے کہ ان کو میرے پاس سے نکال دو۔ ان کا مقام میری جنت نہیں بلکہ دوزخ ہے۔ ورنہ تمہارے جنت میں جانے سے مجھے کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟ یا اگر تم دوزخ میں چلے جاوٴ تو اس سے مجھے کیا نقصان ہو سکتا ہے؟ مَیں تو تمہاری بھلائی اور تمہاری خیر خواہی کے لئے کہہ رہا ہوں کہ اپنے طریقِ عمل پر غور کرو اور خدا کے احکام کو پس پشت نہ ڈالو۔ آخر کب تک تم میں یہ جھگڑے چلے جائیں گے؟ کب تک تم اپنی ذاتی عداوتوں کی وجہ سے اپنی روح کو نقصان پہنچاتے چلے جاوٴ گے اور کب تک تم یہ سمجھو گے کہ واعظ جو کچھ کہتا ہے تمہارے فائدہ کے لئے کہتا ہے اپنے لئے نہیں کہتا۔ اگر انسان کا خدا پر ایمان ہو، محمد ﷺ پر ایمان ہو اور اس ایمان میں کسی قسم کے نِفاق کی آمیزش نہ ہو تو ایک دفعہ کا وعظ بھی اسے مدت العمر کے لئے کافی ہو سکتا ہے مگر تم میں سے بعض ہیں کہ انہیں روزانہ خدا تعالیٰ کے احکام سنائے جاتے ہیں اورپھر بھی وہ ان کی بجا آوری میں غفلت سے کام لیتے ہیں۔
پس توبہ کرو اور اگر غفلت کی وجہ سے تم نے نماز باجماعت چھوڑ رکھی ہے تو اپنی اس غفلت کو دور کرو اور اگر بے دینی کی وجہ سے تم نماز باجماعت نہیں پڑھتے تو استغفار کرو تاکہ خدا تعالیٰ تمہیں اس بے دینی سے بچائے۔ مسجدوں سے تو تمہیں اتنی محبت ہونی چاہئے کہ اگر کوئی شخص تمہیں جوتیاں مار مار کر بھی مسجد سے نکالنا چاہے تو پھر بھی تم نہ نکلو اور اگر کوئی سیکرٹری یا قاضی یا محتسب یا پریذیڈنٹ تمہیں دھکّے دے کر بھی مسجد سے نکالنا چاہے تو تم اس کے آگے ہاتھ جوڑو اور کہو کہ مَیں ہر ذلّت برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں مگر خدا کے لئے تم مجھے مسجد سے نہ نکالو۔ جب تم مسجدوں کے ساتھ اس رنگ میں اپنی محبت کا اظہار کرو گے اور جب ہر دکھ اور ہر درد تم بخوشی برداشت کرنے کے لئے تیار ہو جاوٴ گے مگر مسجد سے علیحدگی ایک لمحہ کے لئے بھی برداشت نہیں کرو گے تب بے شک قیامت کے دن خدا تمہیں جنت میں داخل کرے گا اور اس قاضی یا محتسب یا سیکرٹری کو اپنی جنت سے نکال دے گا جس نے تمہیں مسجد سے دھکے دے کر باہر نکالا ہو گا۔ مگر وہ شخص جو کسی کے ساتھ عداوت رکھنے کی وجہ سے مسجد میں نہیں جاتا وہ اپنے دشمن کے لئے تو جنت کے دروازے کھولتا ہے اور اپنے لئے دوزخ کے۔ گویا اس کا دشمن دونوں طرح فائدہ میں رہا۔ اس جہان میں بھی اس نے اسے دکھ پہنچا لیا اور اگلے جہان میں بھی جنت لے لی۔ لیکن یہ اس جہان میں بھی مسجد سے باہر رہا اور اگلے جہان میں بھی خدا تعالیٰ کی جنت کا مستحق نہیں بن سکے گا۔
پس ہر وہ شخص جو دوسرے شخص کو سوائے اس کے کہ کسی فتنہ یا خونریزی یا لڑائی کااندیشہ ہو مسجد سے نکالتا ہے وہ اپنے لئے خدا تعالیٰ کی رحمت کا دروازہ بند کرتا ہے لیکن وہ شخص جو کسی کی عداوت کی وجہ سے مسجد میں نہیں جاتا وہ اپنے لئے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے بند کرتا ہے اور دوسرے کے لئے اس کی رحمت کے دروازے کو کھولتا ہے۔ پس مَیں مسجد فضل سے تعلق رکھنے والے تمام لوگوں سے کہتا ہوں کہ وہ اپنی اصلاح کریں۔ شکایت کرنے والے دوست نے لکھا ہے کہ ہم ایسے لوگوں کے پاس واعظوں کو بھی لے گئے مگر ان پر کوئی اثر نہ ہؤا۔ مَیں کہتا ہوں کہ اس معاملہ میں واعظوں کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی یہ تو ایسی چیز تھی کہ اگر کوئی واعظ اس سے روکتا تب بھی وہ اس کا مقابلہ کرتے۔ کُجا یہ کہ واعظ کہتا اور وہ اس کی بات کو ماننے سے انکا رکر دیتے۔ بہرحال یہ انہیں کے فائدہ کی بات ہے۔ اگر وہ اس کو سمجھ لیں تو خود فائدہ اٹھائیں گے اور اگر نہیں سمجھیں گے تو یہ اس بات کا ایک ثبوت ہو گاکہ ان کا احمدیت کا دعویٰ محض جھوٹا ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی درگاہ میں ہرگز احمدی نہیں۔ مَیں نے دیکھا ہے جب مَیں کسی شخص کو کسی دینی نقص کی وجہ سے جماعت سے خارج کر دیتا ہوں تو وہ میری منتیں کرنے لگ جاتا ہے اور خط پر خط آنے شروع ہو جاتے ہیں کہ مجھے دوبارہ جماعت میں شامل کرلیا جائے حالانکہ میرا نکالا ہؤا تو ہو سکتا ہے کہ خد اکے حضور جماعت میں شامل ہو اور مَیں نے غلط فہمی سے اسے نکال دیا ہو مگر کیسا بدقسمت ہے وہ انسان جس کا نام خدا کی درگاہ میں تو احمدیت کی لسٹ میں سے کٹا ہؤا ہے مگر وہ اپنے آپ کو احمدی ہی سمجھتا ہے۔ پس توبہ کرو اور اپنی اصلاح کرو اور آج سے یہ قطعی فیصلہ کرلو کہ تم نے مسجد میں آنے سے نہیں رکنا۔ اگر تمہارا کوئی دشمن اس مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے آتا ہے تو خدا کے حضور اپنی نیکیاں اس کی نیکیوں سے زیادہ کرنے کے لئے تمہیں تو چاہئے کہ اگر وہ ایک دفعہ مسجد میں نماز کے لئے آتا ہے تو تم دو دفعہ آوٴ۔ اگر وہ ظہر میں آتا ہے تو تم ظہر میں بھی آوٴ اور عصر میں بھی آوٴ اور اگر وہ ظہر اور عصر میں آتا ہے تو تم ظہر میں بھی آوٴ ، عصر میں بھی آوٴ اور مغرب میں بھی آوٴ۔ اور اگر وہ ظہر، عصر اور مغرب تین نمازیں مسجد میں پڑھتا ہے تو تم ظہر، عصر، مغرب اور عشاء چار نمازیں مسجد میں پڑھو۔ اور اگر وہ چار نمازیں مسجد میں پڑھتا ہے تو تم پانچوں نمازیں مسجد میں پڑھو۔ اور اگر وہ پانچوں نمازیں مسجد میں پڑھتا ہے تو تم تہجد بھی مسجد میں آ کر پڑھا کرو تاکسی طرح تم خدا کے حضور اس سے بڑھ جاوٴ اور خدا کے فضلوں کے اس سے زیادہ وارث بن جاوٴ۔ لیکن اگر وہ تو مسجد میں آتا رہے اور تم مسجد میں نماز پڑھنا چھوڑ دو تو یہ اپنے ہاتھ سے اپنا ناک کاٹ لینے والی بات ہو گی۔ اس طرح تو اس نے دنیا میں بھی تمہیں دکھ دے لیا اور جنت میں بھی اپنا گھر بنا لیا۔ پس وہ جیتا یا تم جیتے؟
تیسری بات مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آج ہی ایک اخبار میں مَیں نے پڑھا ہے کہ احمدیوں کی بھی عجیب حالت ہے وہ کئی سال سے یہ سوچ رہے ہیں کہ انہیں مسلم لیگ میں شامل ہونا چاہئے یا کانگرس میں۔ وہ اخبار نویس لکھتے ہیں جب احمدی ایک واجبُ الاطاعت امام مانتے ہیں تو اس سے کیوں نہیں پوچھ لیتے کہ وہ مسلم لیگ میں شامل ہوں یا کانگرس میں۔ اس پر سوچنے اور غور کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
معلوم ہوتا ہے مضمون نگار صاحب کو اس بارہ میں کچھ غلط فہمی ہوئی ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ شاید میرے منشاء کے بغیر مجلس شوریٰ میں یہ بحث ہو رہی ہے۔ حالانکہ یہ بحث میری پریذیڈنٹی اور میری صدارت میں میرے کہنے اور میری اجازت سے ہوتی ہے۔ پھر انہیں دوسری غلطی یہ لگی ہے کہ انہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ جب کسی جماعت کا کوئی واجب الاطاعت امام ہو تو اسے مشورہ لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ حالانکہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں لَا خِلَافَةَ اِلَّا بِالْمَشْوَرَةِ 5 یعنی کوئی خلافت خلافت نہیں کہلا سکتی جس میں لوگوں سے مشورہ نہ لیا جاتا ہو۔ بے شک خلیفہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مشورہ کو رد کر دے مگر اسے یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ مشورہ لے ہی نہیں۔ مشورہ کے صرف یہی معنے نہیں ہوتے کہ امام ان کی بات کو مان لے بلکہ مشورہ سے قوم کی دماغی حالت ترقی کرتی ہے ۔ آخر رسول کریم ﷺ سے بڑھ کر خدا تعالیٰ سے علم پانے والا اورکون ہو سکتا ہے۔ آپ خدا تعالیٰ سے الہام پاتے تھے اور وحی الٰہی آپ کی راہنمائی فرماتی تھی مگر اِس کے باوجود آپ بھی مشورہ لیا کرتے تھے اب کیا اس بات پر تعجب کا اظہار کیا جا سکتا ہے کہ ایک رسول موجود ہے اور وہ بھی ایسا رسول جو تمام رسولوں کا سردار ہے اور خدا تعالیٰ کا آخری ہدایت نامہ اسی کے ذریعہ دنیا تک پہنچا ہے مگر پھر بھی وہ لوگوں سے مشورہ لیتا ہے۔ تاریخ میں ایسے کئی امور موجود ہیں جن میں رسول کریم ﷺ نے لوگوں سے مشورہ لیا اور بعض دفعہ تو مشورہ کو آپ نے اتنی اہمیت دی کہ اپنے منشاء کے خلاف اس پر عمل کیا۔ مثلاً جنگ احد سے پہلے رسول کریم ﷺ نے ایک خواب دیکھا جس کے معنے آپ نے یہ سمجھے کہ اس موقع پر ہمیں باہر نکل کر دشمن کا مقابلہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ مدینہ میں ٹھہر کر مقابلہ کرنا چاہئے آپ یہ روٴیا دیکھنے کے بعد باہر تشریف لائے اور صحابہؓ سے فرمایاکہ مَیں نے ایک خواب دیکھا ہے جس کا مفہوم مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمیں دشمن کا مقابلہ باہر نکل کر نہیں کرنا چاہئے ورنہ ہمیں نقصان ہو گا۔ اس پر کئی جوشیلے نوجوان کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ یہ نہیں ہونا چاہئے۔ ہم تو کفر میں بھی کسی سے نہیں ڈرے اب اسلام لانے کے بعد کس طرح ڈر سکتے ہیں؟ آپ مدینہ سے ہمیں باہر لے چلیں، ہم دشمن کا مقابلہ کریں گے۔ غرض انہوں نے خوب زور سے تقریریں کیں۔ جب تقریریں ہو چکیں تو رسول کریم ﷺاندر گئے اور جنگ کا لباس پہن کر باہر تشریف لے آئے۔ اتنے میں جو بڈھے اور سمجھدار لوگ تھے انہوں نے نوجوانوں سے کہا کہ ناسمجھو تم نے یہ کیا حرکت کی۔ محمد ﷺ نے جب ایک بات کہی تھی اور اپنے ایک خواب کا ذکر کیا تھا تو تمہیں جوش میں نہیں آنا چاہئے تھا اور مشورہ دیتے وقت سوچ لینا تھا کہ کہیں وہ رسول کریم ﷺ کے منشاء کے خلاف تو نہیں۔ جب رسول کریم ﷺ نے اپنا عندیہ قبل از وقت ظاہر کر دیا تھا تو تمہیں ٹھنڈے دل سے اس پر غور کرنا چاہئے تھا نہ یہ کہ جوش میں آکر ایسی بات کہہ دیتے جو رسول کریم ﷺ کے منشاء کے خلاف ہے۔ یہ بات ان کی سمجھ میں بھی آ گئی۔ مخلص تو وہ تھے ہی صرف جوشِ محبت میں انہوں نے یہ کہہ دیا تھا۔ چنانچہ جب رسول کریم ﷺ باہر تشریف لائے تو سب کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! ہم سے سخت غلطی ہوئی ہے جوکچھ آپ نے فرمایا وہی درست ہے دشمن کا مقابلہ مدینہ سے باہر نکل کر نہیں بلکہ مدینہ میں رہتے ہوئے کرنا چاہئے۔ اس پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب خدا کا رسول ہتھیار لگا لیا کرتا ہے تو پھر وہ واپس نہیں لوٹتا۔چنانچہ آپ باہر گئے اور وہ نقصان جس کی روٴیا میں خبر دی گئی تھی وقوع میں آ گیا۔ 6
اب بتاوٴ کیا مَیں محمد ﷺ سے زیادہ اپنی جماعت سے فرمانبرداری کی امید کرسکتا ہوں کہ وہ تو اپنی جماعت سے مشورہ لے لیا کریں اور میں مشورہ نہ لیا کروں۔ ہماری جماعت کی تو ساری عظمت ہے ہی اسی بات میں کہ وہ محمد ﷺ اور آپ کے صحابہؓ کی نقل کرے۔ پس جب صحابہ سے رسول کریم ﷺ نے یہ معاملہ فرمایا کہ ان سے کئی موقعوں پر مشورہ لیا اور بعض دفعہ ان کا مشورہ اپنے منشاء کے خلاف ہونے کے باوجود قبول کر لیا تو کیا وجہ ہے کہ مَیں اپنی جماعت سے مشورہ نہ لیا کروں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کے بغیر جماعتوں کے دماغ مُردہ ہو جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ خدا نے نبوت کے وقت بھی مشورہ ضروری قرار دیا اور خلافت کے وقت بھی مشورہ ضروری قرار دیا۔ اگر نبوت کے زمانہ میں لوگ اسی طرح کرتے چلے جائیں جس طرح نبی کہے اور اس کی وفات کے بعد جس طرح خلیفہ کہے اسی طرح کرتے چلے جائیں اور ذاتی غور اور فکر سے کام نہ لیں تو ان کے دماغ تھوڑے ہی عرصہ میں بالکل بیکار ہو جائیں اور ان کی ذہنی قوتوں کا نشو و نما بالکل رک جائے ۔اسی لئے نبوت اور خلافت دونوں حالتوں میں مشورہ ضروری قرار دیا گیا ہے۔ ہاں نبی اور خلیفہ کو خدا تعالیٰ نے یہ اختیار بھی دیا ہے کہ جب وہ دیکھیں کہ کوئی بات ایسی پیش کی جا رہی ہے جو صریح طور پر دین کے خلاف ہے تو اسے ردّ کر دیں اور ان مشوروں پر عمل کریں جو مفید ہوں۔ غرض ایک واجب الاطاعت امام اور خلیفہ مان لینے کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہوتا کہ جماعت اہم امور کے متعلق مشورہ نہ کیا کرے یا خلیفہ اہم امور میں ان سے مشورہ نہ لیا کرے۔ مشورہ ایک نہایت ضروری چیز ہے اور اس سے قوم کے اندر تفقہ کا مادہ بڑھتا اور ذہنی قوتوں سے کام لینے اور سوچنے اور غور کرنے کی عادت پیدا ہونے کی وجہ سے اس کا دماغ ترقی کرتا ہے اور یہی فرق ہے ایک ڈکٹیٹر اور نبی میں یا ڈکٹیٹر اور ایک خلیفہ میں۔ ڈکٹیٹر لوگوں کے ذہنوں کو مارنا چاہتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کے نبی اور اس کے خلفاء لوگوں کے ذہنوں کو تیز کرنا چاہتے ہیں اور باوجود اس کے کہ وہ حکم دے سکتے ہیں کہ ایسا کرو اور ایسا نہ کرو وہ اس طرح حکم نہیں دیتے بلکہ ان سے مشورہ لینے کے بعد کام کرتے ہیں تاکہ ان کی دماغی قوتیں مُردہ نہ ہو جائیں اور جماعت میں غور اور فکر کرنے کی عادت پیدا ہو۔ چنانچہ اگر کسی وقت غلط مشورہ ان کے سامنے پیش کر دیا جائے تو خلفاء اپنی جماعت کے افراد کو سمجھاتے ہیں کہ اس معاملہ میں تم نے فلاں غلطی کی ہے۔ گویا یہ ایک مدرسہ ہے جس میں روزانہ لوگوں کی تربیت ہوتی چلی جاتی ہے اور یہ اسلام کی برکات میں سے ایک بہت بڑی برکت ہے جو ہمیں حاصل ہے۔ ہماری جماعت چونکہ ایک غیر اسلامی گورنمنٹ کے ماتحت ہے اور چھٹیاں گورنمنٹ کے اختیار میں ہیں اس لئے ہم اپنی جماعت کے دوستوں کو مشورہ کے لئے سال میں صرف ایک دفعہ بلاتے ہیں لیکن مَیں سمجھتا ہوں سال میں صرف ایک مجلس شوریٰ کا انعقاد ہمارے لئے کافی نہیں ہو سکتا اگر ہر مہینے ہم ایک مجلس مشاورت منعقد کر سکیں بلکہ ہر مہینے کیا ہر پندرھویں دن ایک مجلس مشاورت منعقد کر سکیں تو یقینا ہمارے کام زیادہ اعلیٰ رنگ میں ہونے شروع ہو جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سال میں ایک دفعہ کا مشورہ ہمارے لئے کافی نہیں۔ یہ تو مجبوری کی وجہ سے ہم سال میں ایک دفعہ مجلس مشاورت منعقد کرتے ہیں ورنہ اگر ہم ہر مہینے یا ہر پندرھویں دن مجلس شوریٰ منعقد کر سکیں تو یقینا ہمارے کام زیادہ اعلیٰ رنگ میں ہونے شروع ہو جائیں اور ہماری جماعت کی دماغی تربیت بھی زیادہ اعلیٰ ہو جائے۔ پس دوسروں کو تو یہ شکوہ ہے کہ سال میں ایک دفعہ مشورہ کیوں لیا جاتا ہے اور ہمیں یہ افسوس ہے کہ سال میں بارہ یا چوبیس دفعہ اپنی جماعت سے کیوں مشورہ نہیں لیا جاتا۔
اسی طرح ایک اور غلطی بھی ان اخبار نویس صاحب کو لگی ہے مگر مَیں اس میں انہیں معذور خیال کرتا ہوں اور مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ ہمارے اخبارات کی غلطی ہے کہ انہوں نے اس بات کو واضح نہیں کیا۔ انہوں نے یہ سمجھا ہے کہ ہماری جماعت آجکل یہ فیصلہ کر رہی ہے کہ جماعت احمدیہ مِنْ حَیْثُ الْجَمَاعَةِ کانگرس میں شامل ہو یا مِنْ حَیْثُ الْجَمَاعَةِ مسلم لیگ میں شامل ہو حالانکہ ایسا کوئی سوال ہمارے زیر غور نہیں۔ انہوں نے اس بات پر حیرت اور تعجب کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ جماعت احمدیہ کا خلیفہ گاندھی جی کی اتباع کرے گا؟ انہوں نے یہ بالکل سچ لکھا ہے اور واقعہ یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کا خلیفہ، گاندھی جی کی کبھی اتباع نہیں کر سکتا بلکہ دنیا نے اگر کبھی اتباع کی تو جماعت احمدیہ کے کسی خلیفہ کی اتباع کرے گی۔پس ان کی یہ بات بالکل صحیح ہے گاندھی جی کی اتباع جماعت احمدیہ کا خلیفہ ہرگز نہیں کر سکتا اور اگر کبھی اتباع کریں گے تو دوسرے لوگ ہماری جماعت کے خلیفہ کی کریں گے خلیفہ ان کی اتباع نہیں کرے گا۔ لیکن یہ تو سوال ہی پیش نہیں کہ خیال کیا جا سکے کہ اب جماعت احمدیہ کے خلیفہ کو گاندھی جی کی اطاعت کرنی پڑے گی۔ ہماری جماعت کے سامنے ہرگز یہ سوال نہیں کہ وہ مِنْ حَیْثُ الْجَمَاعَةِ کانگرس میں شامل ہو یا مسلم لیگ میں۔ اس بارہ میں انہیں غلط فہمی ہوئی ہے اور مَیں نے دیکھا ہے کہ ہماری جماعت کے بعض دوست بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں حالانکہ ہمارے سامنے ہرگز یہ سوال نہیں کہ ہم کانگرس میں مِنْ حَیْثُ الْجَمَاعَةِ شامل ہوں یا ہم مسلم لیگ میں مِنْ حَیْثُ الْجَمَاعَةِ شامل ہوں۔ ہم ایک مذہبی جماعت ہیں اور سیاسی نقطہ نگاہ سے ہماری کسی خاص جماعت سے وابستگی نہیں ہو سکتی سوائے اس کے کہ کوئی جماعت ایسی ہو کہ جس کے مفاد اور جس کے اغراض اورمقاصد ہماری جماعت کے اغراض اورمقاصد کے خلاف نہ ہوں۔ ایسی حالت میں ہم بے شک کُلّی طور پر ایسی جماعت سے وابستہ ہو سکتے ہیں مگر پھر بھی مِنْ حَیْثُ الْجَمَاعَةِ نہیں بلکہ ہم اپنی جماعت کے بعض افراد کو یہ اجازت دے سکتے ہیں کہ وہ اگر چاہتے ہیں تو فلاں سیاسی جماعت میں شامل ہو جائیں۔ ورنہ ہماری جماعت ایک مذہبی جماعت ہے اور یہ قطعی طور پر ناممکن ہے کہ بحیثیت جماعت ہم کانگرس یا مسلم لیگ میں شامل ہو جائیں۔ یہ سوال تو چند سالوں سے ہمارے سامنے ہے اس پر غور کرنے کی ہمیں اس لئے ضرورت پیش آئی کہ جماعت کے بعض نوجوانوں میں جو سیاست سے دلچسپی رکھتے ہیں یہ خیال پیدا ہؤا کہ انہیں کسی نہ کسی سیاسی جماعت کے کاموں میں حصہ لینا چاہئے۔ بعض نے اپنے طور پر غور کر کے یہ نتیجہ نکالا کہ مسلم لیگ کی پالیسی اچھی ہے اور بعض نے غور و فکر سے یہ نتیجہ نکالا کہ کانگرس زیادہ بہتر ہے۔ مذہبی جماعت ہونے کے لحاظ سے ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ انفرادی حیثیت میں کانگرس میں شامل ہوں یا مسلم لیگ میں شامل ہوں لیکن ایک سوال تھا جو ہمارے سامنے تھا اور وہ یہ کہ آیا کانگرس اور مسلم لیگ میں کوئی ایسی بات تو نہیں جو مذہبی لحاظ سے ہمارے اصول کے خلاف ہو اور اگر ہو تو ہمارا حق ہے کہ ہم اپنی جماعت کے افراد کو ایسی جماعت میں شامل ہونے سے منع کر دیں اورکہہ دیں کہ وہ کانگرس یا مسلم لیگ میں شامل نہ ہوں کیونکہ اس کے فلاں اصول ہمارے فلاں مذہبی اصول کے خلاف ہیں۔ پس یہ جو ہمارا حق ہے کہ ہم اپنی جماعت کے کسی فرد کو کسی ایسی سیاسی جماعت میں شامل نہ ہونے دیں جس کے اصول ہمارے اصول سے ٹکراتے ہوں۔ اس حق سے صحیح رنگ میں فائدہ اٹھانے کے لئے ہم نے یہ سوال اپنی مجلس شوریٰ میں پیش کر دیا تاکہ اس کے تمام پہلووٴں پر غور ہو جائے۔ اور ہم اپنی جماعت کے افراد کو بتا سکیں کہ فلاں جماعت میں شامل ہونے میں کوئی حرج نہیں اور فلاں جماعت میں شامل ہونے میں حرج ہے۔
مجھے یاد ہے مسٹرمانٹیگو وزیر ہند جب ہندوستان میں آئے تو اس وقت ایک بہت بڑے احمدی زمیندار ہماری جماعت کی طرف سے ایک وفد میں پیش ہوئے۔ اسی طرح زمینداروں نے بھی اپنا ایک وفد بھجوانے کی تجویز کی اور انہوں نے چاہا کہ وہ زمیندار احمدی بھی ان کے وفد میں شامل ہو جائیں۔ انہوں نے چونکہ بعض فوجی خدمات کی ہوئی تھیں اس لئے زمیندار دوست چاہتے تھے کہ انہیں اپنے وفد میں شامل کریں۔ وہ تھے تو اَن پڑھ مگر ان میں اخلاص بہت تھا۔ جب زمینداروں نے ان سے اپنے وفد میں شامل ہونے کے لئے کہا تو انہوں نے جواب دیا کہ جب تک مجھے خلیفة المسیح اجازت نہ دیں مَیں اس وفد میں شامل نہیں ہو سکتا چنانچہ زمینداروں کے وفد کے سیکرٹری جو آجکل پنجاب میں بہت بڑی حیثیت رکھتے ہیں (مَیں ان کا نام نہیں لیتا) میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ راجہ صاحب کو ہمارے وفد میں شامل ہونے کی اجازت دیں۔ مَیں نے کہا مَیں اجازت تو دے دوں مگر مَیں ڈرتا ہوں کہ ہماری جماعت کے میمورنڈم میں تو کچھ اور لکھا ہؤا ہو اور آپ کے میمورنڈم میں کچھ اور لکھا ہؤا ہو اور جب یہ دونوں طرف سے وفد میں پیش ہوں تو وزیر ہند کہیں کہ یہ عجیب آدمی ہیں کہ فلاں وفد میں بھی شامل ہو کر آ گئے ہیں اور اس وفد میں بھی شریک ہو گئے ہیں۔ پس میں نے کہا اگر آپ کی یہ خواہش ہے کہ وہ آپ کے وفد میں شریک ہوں تو آپ اپنا میمورنڈم مجھے دیں تاکہ مَیں دیکھ لوں کہ اس میں کوئی بات ہمارے میمورنڈم کے خلاف تو نہیں۔ چنانچہ انہوں نے میمورنڈم دیا اور مَیں نے پڑھنے کے بعد انہیں کہا کہ اس میں ایک دو باتیں ہمارے خلاف ہیں ان کو کاٹ دیں تو مَیں انہیں شامل ہونے کی اجازت دے سکتا ہوں۔ انہوں نے ان باتوں کو کاٹ دیا اور مَیں نے انہیں شمولیت کی اجازت دے دی۔
تو اگر کسی پارٹی کی پالیسی ہماری جماعت کی پالیسی کے خلاف ہو اور پھر بھی ہمارے آدمی اس میں شامل ہوں تو یہ بات عقل کے بالکل خلاف ہو گی مثلاً ایک طرف تو وہ جماعت احمدیہ میں داخل ہوں جس کا مقصد اور ہے اور دوسری طرف وہ ایک ایسی سیاسی جماعت میں شامل ہوں جس کا مقصد احمدیت سے ٹکراتا ہو تو ہر شخص انہیں احمق اور بیوقوف قرار دے گا پس ان حالات میں ہمارے لئے ضروری تھا کہ ہم ایسا انتظام کرتے کہ ہمیں دونوں جماعتوں کی پالیسی کے متعلق صحیح علم حاصل ہو جاتا ۔ اگر ہمیں یقین ہو جاتا کہ یہ دونوں جماعتیں اسلام اور احمدیت کے اصول کے خلاف نہیں تو ہم اپنی جماعت کے دوستوں سے کہہ سکتے تھے کہ وہ جس میں چاہیں شامل ہو جائیں۔ چاہیں تو مسلم لیگ میں شامل ہو جائیں اور چاہیں تو کانگرس میں شامل ہو جائیں اور اگر ایک جماعت کے مقاصد ہمارے مطابق ہوتے اوردوسری کے نہ ہوتے تو ہم کہہ سکتے تھے کہ فلاں جماعت میں تو تمہیں شامل ہونے کی اجازت ہے مگر فلاں جماعت میں شامل ہونے کی اجازت نہیں کیونکہ اس کے مقاصد ہمارے مقاصد کے خلاف ہیں اور اگر دونوں جماعتوں کے مقاصد ہمارے خلاف ہوتے تو ہم دونوں میں شامل ہونے سے روک دیتے۔ بہرحال تین صورتیں ہمارے سامنے تھیں یا تو ہم دونوں میں شامل ہونے کی اجازت دے دیتے اس صورت میں کہ دونوں کے مقاصد ہمارے مقاصد کے مطابق ہوتے یا ہم دونوں میں شامل ہونے سے روک دیتے اس صورت میں کہ دونوں کے مقاصد ہمارے مقاصد کے خلاف ہوتے اور یا ہم دونوں میں سے کسی ایک میں اپنی جماعت کے افراد کو شامل ہونے کی اجازت دے دیتے اس صورت میں کہ ایک کے مقاصد تو ہمارے خلاف ہوتے اور دوسری کے مقاصد ہمارے خلاف نہ ہوتے۔ اب ہم نے اس کے متعلق جو بہترین تجویز کی وہ یہ ہے کہ ہم نے دو بڑے بڑے امور کے لئے ایک ایسا تھا جو مسلم لیگ سے تعلق رکھتا تھا اور ایک ایسا تھا جو کانگرس سے تعلق رکھتا تھا۔ مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والا امر یہ تھا کہ پنجاب مسلم لیگ کی پارلیمنٹری کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ کوئی احمدی مسلم لیگ کی طرف سے ممبر نہیں بن سکتا۔ اس کے ساتھ ہی ہر ممبر سے یہ اقرار لیا جاتا تھا کہ وہ اسمبلی میں جا کر یہ تحریک کرے گا کہ احمدی لوگ مسلمان نہیں ہیں اور انہیں مسلمانوں سے الگ فرقہ سمجھا جائے۔ اب یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ اس قانون کی موجودگی میں کوئی احمدی مسلم لیگ میں شامل نہیں ہو سکتا۔ جب مسلم لیگ کی طرف سے ہر ممبر سے یہ عہد لیا جاتاتھا کہ وہ اسمبلی میں جا کر اس بات کا فیصلہ کرائیں کہ احمدی مسلمان نہیں ہیں تو کون بے غیرت احمدی ہو گا جو ایسی پارٹی میں شریک ہو اور کیا احمدی اسمبلی میں جا کر یہ کوشش کرے گا کہ اپنے احمدیوں کو ہی مسلمانوں سے الگ قرار دے ۔ دوسری طرف کانگرس سے ہم نے سوال کیا کہ تم ہمیں یہ تسلی دلا دو کہ کانگرسی حکومت میں مذہب کی تبدیلی کی اجازت ہو گی یعنی ایک ہندو کو یہ اجازت ہو گی کہ وہ اگر چاہے تو ہندو مذہب کو ترک کر کے مسلمان ہو جائے ایک عیسائی کو یہ اجازت ہو گی کہ وہ اگر چاہے تو عیسائی مذہب کو ترک کر کے مسلمان ہو جائے اور ایک سکھ کو یہ اجازت ہو گی کہ وہ اگر چاہے تو سکھ مذہب کو ترک کر کے مسلمان ہو جائے۔ غرض تبدیلیٴ مذہب پر کوئی پابندی عائد نہیں ہو گی۔ ہم نے یہ دونوں سوال ان کے سامنے رکھ دئیے مسلم لیگ کے سامنے بھی اور کانگرس کے سامنے بھی۔ ہماری غرض یہ تھی کہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ کانگرس مذہب میں دخل اندازی کرنا نہیں چاہتی اور مسلم لیگ بھی ہمیں مسلم لیگ کے داخلہ کے حق کی حد تک ہمیں مسلمان سمجھتی ہے تو ہم انفرادی رنگ میں اپنی جماعت کے دوستوں کو اجازت دے دیں کہ وہ اس شرط کے ماتحت کہ احمدی اصولوں کے خلاف نہ چلیں جس جماعت میں چاہیں شامل ہو جائیں اور اگر یہ ثابت ہوجائے کہ کانگرس مذہب میں دخل اندازی کرنا چاہتی ہے اورمسلم لیگ ہمیں مسلمان نہیں سمجھتی تو پھر دونوں میں شامل ہونے کی اجازت نہ دیں۔ میرا مطلب یہ تھا کہ اس طرح کانگرس اور مسلم لیگ دونوں کا پول کھل جائے گا۔ ورنہ میں جانتا تھا کہ نہ کانگرس اس طرف آئے گی اور نہ مسلم لیگ اس طرف آئے گی۔ چنانچہ تین سال کانگرس سے خط و کتابت کرتے کرتے گزر گئے مگر آج تک وہ یہ کہنے کے لئے تیار نہیں ہوئی کہ کانگرسی حکومت میں مذہب تبدیل کرنے کی اجازت ہو گی۔ وہ یہی کہے چلے جاتے ہیں کہ ہمارا فلاں ریزو لیوشن دیکھ لو۔ ہم ان سے کہتے ہیں یہ ریزولیوشن تم نے بنایا ہے اور تم ہی اس کے مطلب کو اچھی طرح جانتے ہو۔ پس تم ہمیں یہ بتاوٴ کہ آیا اس ریزولیوشن کے یہی معنے ہیں کہ ہر شخص کو تبدیلیٴ مذہب کی اجازت ہو گی؟ مگر وہ کہتے ہیں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے خود ریزولیوشن پڑھ کر نتیجہ نکال لو۔ اس کا مطلب کانگرس ہی بیان کرسکتی ہے۔ ہم کہتے ہیں کانگرس کے ہم سیکرٹری نہیں بلکہ تم ہو۔ پس تم کانگرس سے پوچھ کر ہی ہم کو بتا دو کہ اس ریزو لیوشن کا کیا مفہوم ہے اور آیا تبدیلیٴ مذہب کی اجازت اس میں آتی ہے یا نہیں مگر وہ نہ تو ریزولیوشن کا مفہوم بتاتے ہیں نہ ہمارے سوال کا صحیح جواب دیتے ہیں اور نہ کانگرس کے سامنے ہی یہ معاملہ پیش کرتے ہیں۔ یہی حال مسلم لیگ کا ہے جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تمہاری ایک کمیٹی نے یہ قانون بنایا ہوٴا ہے اس کا کوئی علاج کرو تو کہتے ہیں یہ قانون صرف پنجاب میں ہے اور کہیں نہیں۔ مگر جب ہم کہتے ہیں کہ اس قانون کی موجودگی میں ہمیں کس طرح اعتبار آ سکتا ہے کہ آئندہ کوئی ایسا قانون دوسری مجالس نہیں بنائیں گی۔ صاف طور پر کیوں یہ اعلان نہیں کر دیتے کہ جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے مسلم لیگ کے داخلہ کے لحاظ سے وہ مسلمان سمجھا جائے گا تو کہتے ہیں مصلحت نہیں کہ اس قسم کا اعلان کیا جائے۔ ہم کہتے ہیں اس مصلحت کے یہی معنے ہیں کہ جب کام کا موقع آئے تو ہم سے کام لیتے چلے جاوٴ اور جب حقوق کا سوال پیدا ہو تو کہہ دو کہ ہم تمہیں مسلمان نہیں سمجھتے۔
غرض ان دونوں جماعتوں نے اپنے رویہ سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ان کی نیت نیک نہیں۔ کانگرس نے ہماری تین سال کی متواتر خط و کتابت کے بعد آج تک یہ تسلیم نہیں کیا کہ تبلیغ کی اجازت کو وہ تسلیم کرتی ہے اور تبدیلیٴ مذہب پر کوئی پابندی عائد نہیں کرتی۔ درحقیقت وہ جانتے ہیں کہ اگر تبلیغ کی اجازت ہوئی تو ہندووٴں نے ہی مسلمان ہونا ہے مسلمانوں نے ہندو نہیں ہونا۔ پس وہ تبدیلیٴ مذہب کی اجازت دیتے ہوئے ڈرتے ہیں لیکن بہرحال جب تک وہ اس کا کھلے بندوں اقرار نہیں کرتے کہ تبدیلیٴ مذہب پر وہ کوئی پابندی عائد نہیں کرتے اس وقت تک کوئی احمدی کانگرس میں شامل نہیں ہو سکتا۔
اسی طرح جب تک مسلم لیگ کے ارکان صاف طور پر یہ اعلان نہیں کر دیتے کہ احمدیوں کو بھی وہ مسلمان سمجھتے ہیں اور اسی طرح ہر اس شخص کو جو مسلمان کہلاتا ہو اغراض مسلم لیگ کے لئے وہ مسلمان قرار دیتے ہیں اس وقت تک کوئی احمدی مسلم لیگ میں شامل نہیں ہو سکتا۔
وہ بہانہ بناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس قسم کا اعلان مصلحت کے خلاف ہے حالانکہ مصلحت کے خلاف ہونے کے معنے یہی ہیں کہ اگر انہوں نے ایسا اعلان کیا تو کثرت سے مسلمان مخالف ہو جائیں گے اور اگر مسلم لیگ کے اکابر کے نزدیک مسلمانوں کی کثرت نے ہماری مخالفت ہی کرنی ہے تو ایسی جماعت میں شامل ہونے کی ہمیں دعوت دینا ان کے لئے جائز ہی کس طرح ہو سکتا ہے؟ اور احمدیوں میں سے کسی کا اس میں داخل ہونا مناسب ہی کس طرح ہو سکتا ہے؟ حق یہ ہے کہ جب مسلمانوں کے متعلق اکابر مسلم لیگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی کثرت نے کل شور مچا دینا ہے کہ احمدی مسلمان نہیں ان کو لیگ سے باہر نکال دیا جائے تو ان کی دیانت داری کا یہ تقاضا ہونا چاہئے کہ وہ مسلمانوں کی کثرت سے فیصلہ کرائے بغیر احمدیوں کو مسلم لیگ میں شامل ہی نہ کریں۔
وہ یہ سب کچھ جاننے کے باوجود ہمیں لیگ میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ جب وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کی اکثریت ہمارے مسلم لیگ میں شامل ہونے کو پسند نہیں کرتی اورجب وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے شامل ہونے سے ان میں فتنہ پڑ جائے گا تو آخر کیوں ہم کو مسلم لیگ میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ ان کو چاہئے کہ وہ یہ اعلان کر دیں کہ مسلم لیگ کے کارکن تو چاہتے ہیں کہ احمدی لیگ میں شامل ہو جائیں اور مسلم لیگ کے کارکن احمدیوں کو سیاسی نقطہ نگاہ سے مسلمان ہی سمجھتے ہیں مگر چونکہ دوسرے مسلمان احمدیوں کو مسلمان نہیں سمجھتے اور وہ ان کی مسلم لیگ میں شمولیت کو پسند نہیں کرتے اس لئے کارکن بھی احمدیوں کو لیگ میں شامل نہیں کرسکتے۔ یہ دیانت داری نہیں کہ دونوں نے ایسا رویہ اختیار کیا ہؤا ہے جو لوگوں کو دھوکا میں ڈالنے والا ہے۔ چنانچہ کانگرس نے تو اپنے ایک ریزو لیوشن کی پناہ لی ہوئی ہے اور جب مذہبی آزادی کا سوال ان کے سامنے رکھا جاتا ہے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ اس ریزو لیوشن میں کانگرس کی پالیسی بیان ہو چکی ہے اور جب ہم کہتے ہیں کہ اس ریزو لیوشن کا مفہوم واضح کرو تو کہہ دیتے ہیں کہ مفہوم خود سمجھتے رہو الفاظ آپ کے سامنے ہیں۔ اور مسلم لیگ کی یہ حالت ہے کہ وہ ہمیں مسلمان سمجھنے کے لئے بھی تیار نہیں۔ بلکہ مسلم لیگ نے ہمیں یہاں تک لکھا کہ آپ مسلمان کی تعریف مبہم ہی رہنے دیں تو زیادہ بہتر ہے کیونکہ اس میں ہی مصلحت ہے۔ اس کے صاف معنے یہ ہیں کہ انہیں مسلمانوں کا خوف ہے اور وہ ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے احمدیوں کو بھی مسلمان قرار دے دیا تو فساد پید اہو جائے گا اور جبکہ ان کے نزدیک احمدیوں کو مسلمان قرار دینے سے فساد پیدا ہونے کا اندیشہ ہے تو آخر وجہ کیا ہے کہ ہم مسلم لیگ میں شامل ہوں اورکیوں ہم آج ہی اس فساد کی فکر نہ کریں جس نے کل پیدا ہونا ہے۔ پس ہماری غرض پوری ہو چکی ہے ۔ ہم کانگرس سے بھی خط و کتابت کر چکے ہیں اورمسلم لیگ سے بھی۔ ہماری جماعت میں سے جو لوگ انفرادی طور پر کانگرس میں شامل ہونے کے خواہشمند تھے انہیں یہ معلوم ہو چکا ہے کہ کانگرس مذہبی آزادی کی حامی نہیں اور وہ تبدیلیٴ مذہب کو جائز نہیں سمجھتی۔ اور اس بات کی موجودگی میں وہ کبھی کانگرس میں شامل نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح مسلم لیگ میں شامل ہونے کے جو لوگ خواہشمند تھے انہیں یہ بات معلوم ہو چکی ہے کہ مسلم لیگ ہمیں سیاسی طور پر بھی مسلمان سمجھنے کے لئے تیار نہیں۔ پس جب تک مسلم لیگ اپنے اس قانون کو نہیں بدلتی اور اغراض لیگ کے لحاظ سے ان تمام لوگوں کو مسلمانوں نہیں سمجھتی جو اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں اس وقت تک احمدی مسلم لیگ میں شامل نہیں ہو سکتے۔ اور مسلم لیگ والوں کا یہ کوئی حق نہیں کہ وہ اس قانون کی موجودگی میں ہمیں اپنے اندر شامل کرنے کی تحریک کریں۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ملک کی رائے عامہ کو وہ قابو میں رکھ سکتے ہیں تو انہیں دلیری کے ساتھ اس امر کا اظہار کرنا چاہئے کہ جو لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہتے، محمد ﷺ کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے اور قرآن کریم کو اپنی شرعی کتاب تسلیم کرتے ہیں ان تمام کو مسلم لیگ اپنے قواعد و ضوابط کے لحاظ سے مسلمان سمجھتی ہے اور ان کو اپنے اندر داخل کرنے کے لئے تیار ہے اور اگر مسلم لیگ کے ارکان یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ عوام الناس کو اپنے پیچھے نہیں چلا سکتے تو دیانت یہ چاہتی ہے کہ وہ ایسا دعویٰ نہ کریں جس کو پورا کرنے کی ان میں طاقت نہ ہو۔
یہ بات مَیں نے کھول کر اس لئے بیان کر دی ہے کہ میں نے دیکھا ہے جماعت کے بعض دوست بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ گویا بحیثیت جماعت کانگرس یا مسلم لیگ میں شامل ہونے کا کوئی سوال ہمارے زیر غور ہے۔ حالانکہ بحیثیت جماعت کانگرس یا مسلم لیگ میں شامل ہونے کا کوئی سوال ہمارے زیر غور نہیں۔ ہم ایک مذہبی جماعت ہیں سیاسی جماعت نہیں۔ پھر ہمارا پروگرام کانگرس یا مسلم لیگ کا پروگرام کس طرح ہو سکتا ہے۔ دنیا میں وہی جماعت کسی اور جماعت میں بحیثیت جماعت شریک ہو سکتی ہے جس کا پروگرام کُلّی طور پر دوسری جماعت کے پروگرام کے مطابق ہو مگر ہمارے پروگرام اور کانگرس اور مسلم لیگ کے پروگرام میں تو زمین وآسمان کا فرق ہے۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم تبلیغ کریں، رسول کریم ﷺ کے احکام لوگوں تک پہنچائیں۔ قرآن کریم کے علوم سے لوگوں کو واقف کریں۔ مسلمانوں کے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت پیدا کریں اور اسلام اور احمدیت کی اشاعت کریں۔ یہ نہ کانگرس کاپروگرام ہے اورنہ مسلم لیگ کا پروگرام ہے۔ پھر بحیثیت جماعت ہم کس طرح کانگرس یا مسلم لیگ میں شامل ہو سکتے ہیں؟ مَیں نے جیسا کہ بتایا ہے صرف افراد کا سوال زیر غور ہے مگر اس کے متعلق بھی تین سال کی خط و کتابت کے بعد یہ ظاہر ہو چکا ہے کہ کانگرس دنیا کو دھوکا دے رہی ہے اور وہ مذہبی آزادی کی ہرگز قائل نہیں۔ اسی طرح مسلم لیگ کے متعلق بھی یہ امرظاہر ہو چکا ہے کہ اس کے کرتاوٴں دھرتاوٴں میں یہ ہرگز ہمت نہیں کہ وہ عوام کی اصلاح کے لئے کوئی قدم اٹھا سکیں اور ان تمام لوگوں کو اغراض سیاست کے لئے مسلمان قرار دیں جو اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں اور شریعت اسلامیہ کو اپنے لئے واجب العمل قرار دیتے ہیں ان کے جوابات ہمارے پاس موجود ہیں ان کو جب ہم نے شائع کیا تو دنیا کو پتہ لگ جائے گاکہ مسلم لیگ کے بعض ارکان صرف وقت کو ٹالنا چاہتے ہیں اور نہ صرف وقت کو ٹالنا چاہتے ہیں بلکہ دنیا کو یہ بھی معلوم ہو جائے گاکہ مسلم لیگ کے دفتر میں ایک ایسا عنصر موجود ہے جو بڑا ہی بد تہذیب ہے۔ ’’
(الفضل 23۔ اپریل 1941ء )
1 ابن ماجہ کتاب الدعاء باب مَا یَدْعُوْ بِہِ الرَّجُل اِذَا رَأَی السَّحَابَ وَ الْمَطَرَ
2 ابو داؤد ابواب النَّوْم بَاب فِی الْمَطَرِ
3 فَمَنْ يَّكْفُرْ بَعْدُ مِنْكُمْ فَاِنِّيْۤ اُعَذِّبُهٗ عَذَابًا لَّاۤ اُعَذِّبُهٗۤ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ۔ المائدہ: 116
4 مسلم کتاب الحج باب فَضْلُ الصَّلٰوةِ بِمَسْجِدِ مَکَّةَ وَ مَدِیْنَةَ
5 کنز العمال جلد 5 صفحہ 648 مطبوعہ حلب 1971ء میں لَا خِلَافَةَ اِلَّا عَنْ مَّشْوِرَةٍ کے الفاظ ہیں۔
6 السیرة الحلبیة جلد 2 صفحہ 230 تا 232 مطبوعہ مصر 1936ء

15
موجودہ نازک حالات میں ایک پرانی تحریر کے ذریعہ فتنہ پیدا کرنے کی کوشش
( فرمودہ 23 مئی 1941ء )

تشہد، تعوّذ اور سورہٴ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘انسان کی عقل اور سمجھ کا امتحان ہمیشہ ایسے ہی موقع پر ہوتا ہے جبکہ اس کے جذبات اُبھرے ہوئے ہوں۔ جذبات کے اشتعال کے موقع پر جو شخص نفس کو قابو میں رکھتا ہے اور وہ چیز جسے خدا نے اہم بنایا اسے اہم سمجھتا اور جسے خدا نے ادنیٰ بنایا اسے ادنیٰ قرار دیتا ہے، وہی دراصل عقلمند ہوتا ہے۔ یہ وقت دنیا کی تاریخ پر ایسا تاریک اور خطرناک ہے کہ اس سے پہلے کبھی ایسا وقت نہیں آیا۔ قطع نظر اس سے کہ کوئی شخص جرمنی کا موٴیّد ہے یا برطانیہ کا۔ اور جرمنی کی فتح چاہتا ہے یا برطانیہ کی۔ کوئی سلیم الفطرت اس امر سے انکار نہیں کر سکتا کہ انسانی خون کی ارزانی جو آج ہے پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ جرمن ہوں یا انگریز دونوں انسان ہیں اور تمام بنی نوع انسان ہماری ہمدردی کے مستحق ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ کوئی جرمنی کا ہم خیال ہو اور اس کی فتح چاہے اور کوئی برطانیہ کا ہم خیال ہو اور اس کی فتح کا خواہاں ہو۔ لیکن جو بھی سچا انسان ہے وہ خواہ کسی کی فتح کا خواہاں ہو اس خواہش کے ساتھ وہ یہ بھی چاہے گا کہ انسان کی اتنی قربانی نہ ہو جتنی آج ہو رہی ہے۔ ہمارے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نمونہ راہ نما ہے۔ آپ کے اعلیٰ اخلاق کا ایک نمونہ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم نے بیان فرمایا ہے۔ سب لوگ جانتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کی ترقی میں طاعون کا بڑا حصہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے طاعون کے بڑے زور سے پھیلنے، دیر تک قائم رہنے اور اس سے لاکھوں جانوں کے تلف ہونے کی پیشگوئی فرمائی تھی اور رسول کریم ﷺ اور دیگر انبیاء سابق کے کلام میں بھی یہ بات پائی جاتی ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں ایک ایسا مرض پھوٹے گا۔ پس جب ملک میں طاعون پھوٹا اور سخت زور سے پُھوٹا تو دلوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا ہوٴا اور ہزاروں لوگ جماعت احمدیہ میں داخل ہو گئے۔ گویا طاعون کی شدت، اس کا دیر تک رہنا اور لاکھوں جانوں کی اس سے ہلاکت جماعت کی ترقی کا باعث ہوئی۔ پھر پیشگوئی کا پورا ہونا اپنی ذات میں خوشی کی بات ہے۔ مگر ایسے موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو نمونہ پیش کیا وہ عجیب اور مومنوں کے لئے اسوہ ہے۔ آپ نے مکان میں ایک جگہ بیت الدّعا بنایا ہؤا تھا وہ اب بھی موجود ہے۔ چھوٹی سی جگہ ہے جہاں دو آدمی کھڑے ہو کر نماز پڑھ سکتے ہیں۔ آپ رات یا دن کے وقت جب بھی دعا کرتے بِالعموم یہیں کرتے تھے۔ جب یہ جگہ تعمیر ہونے لگی تو مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم نے عرض کیا کہ اگر ایسا ہی کمرہ اس کی چھت پر اَور بن جائے تو مَیں بھی وہاں حضور کے ساتھ دعا میں شریک ہو جایا کروں۔ چنانچہ آپ نے اس کے اوپر بھی کمرہ بنوا دیا اور مولوی صاحب بھی وہاں جا کر دعا کیا کرتے تھے۔ مولوی صاحب کا بیان ہے کہ ایک دفعہ نیچے کے کمرہ سے رونے اور گریہ و زاری اور کراہنے کی آواز آ رہی تھی اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ جیسے کوئی عورت دردِ زہ سے کراہ رہی ہے۔ مَیں نے کان لگا کر سننا شروع کیا کہ کیا بات ہے تومعلوم ہؤا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام دعا کر رہے ہیں اور گریہ و زاری کرتے ہوئے آہستہ آہستہ عرض کر رہے ہیں کہ الٰہی اگر تیرے بندے اسی طرح طاعون سے مرتے گئے تو پھر ایمان کون لائے گا؟ کتنے احمدی ہیں جو کسی انذاری پیشگوئی کے پورا ہونے پر ایسا نمونہ دکھاتے ہیں۔ عام طور پر ایسے موقع پر ایک ہی پہلو سامنے ہوتا ہے یعنی پیشگوئی پورا ہونے پر خوشی کا پہلو۔ مگر یہ طریق غلط ہے ۔ یہ خوشی کا ہی موقع نہیں ہوتا بلکہ متضاد جذبات کا وقت ہوتا ہے۔ ایک طرف تو خوشی ہوتی ہے کہ پیشگوئی پوری ہو رہی ہے اور دوسری طرف رنج کہ اللہ تعالیٰ کے بندے عذاب میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
پس ایسے وقت میں مومن کے دل میں متضاد جذبات پیدا ہونے چاہئیں۔ خوشی کے جذبات اس لئے کہ پیشگوئی پوری ہو رہی ہے اور رنج و الم کے جذبات اس لئے کہ ہمارے بھائی جو ایک ہی آدم کی اولاد ہیں اور جن کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہماری ہی طرح جنت بنائی تھی اور اپنے فضلوں کے دروازے کھولے تھے، انہوں نے اپنے ہاتھوں سے فضل کے یہ دروازے بند کر کے اس کے غضب کی کھڑکیوں کو اپنے لئے کھول لیا۔ عذاب کے موقع پر وہی لوگ جن کے دل میں خشیت نہیں ہوتی ایک پہلو یعنی خوشی کا پہلو لیتے ہیں۔
پس انسان کو ہمیشہ دونوں پہلو مدنظر رکھنے چاہئیں لیکن بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ نہایت اہم باتوں کو نظر انداز کر کے چھوٹی چھوٹی باتوں میں پڑ جاتے ہیں اور انہیں یہ پتہ بھی نہیں ہوتا کہ دنیا کس مصیبت میں مبتلا ہے۔ وہ ادھر ادھر دیکھتے ہی نہیں اور سیدھے ایک ہی طرف چلے جاتے ہیں۔ جس طرح سوٴر سیدھا ہی چلتا جاتا ہے خواہ آگے سے کوئی نیزہ مار دے یا کوئی اورخطرہ ہو وہ رستہ بدلتا نہیں بلکہ سیدھا ہی چلتا جاتا ہے۔ اسی طرح یہ لوگ بھی رستہ نہیں بدلتے اور پھر بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو چھوٹے چھوٹے فتنوں سے بڑی تباہیوں کے سامان پیدا کر لیتے ہیں۔ شیعہ سنّیوں کو دیکھ لو ان میں کیسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑا ہے کوئی بڑی بات نہیں۔ یہ نہیں کہ شیعہ حضرت علیؓ کو بزرگ سمجھتے ہیں اور سنّی نہیں سمجھتے۔ یہ نہیں کہ شیعہ ان کو امت اسلامیہ میں اعلیٰ مرتبہ کا سمجھتے ہیں اور سنّی نہیں سمجھتے۔ شیعہ بھی ان کو بزرگ سمجھتے ہیں اور سنّی بھی۔ شیعہ ان کو امام کہتے ہیں اور سنّی خلیفہ مانتے ہیں۔ بات ایک ہی ہے خلیفہ بھی تو امام ہی ہوتا ہے۔ سنی بھی اہلِ بیت سے محبت رکھتے ہیں اور شیعہ بھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے :۔
؂ خاکم نثار کوچہٴ آلِ محمد است
یعنی میری جان آلِ محمد کے کوچہ پر نثار ہے اور اس سے بڑھ کر محبت کیا ہو سکتی ہے؟ درحقیقت دونوں میں کوئی بڑا جھگڑا نہیں، کوئی خاص لڑائی نہیں مگر پھر بھی اختلاف کس قدر بڑھا لیا ہے۔ اسی سفر کے دوران کراچی کے ایک شیعہ رئیس سے ایک دوست کسی کام کے سلسلہ میں ملنے گئے ۔ وہ مذہباً شیعہ ہیں مگر متعصب بالکل نہیں ہیں۔ اس وقت ایک شیعہ ایڈیٹر ان سے ملنے کے لئے باہر بیٹھے تھے۔ انہوں نے ہمارے دوست سے کہا کہ میں نے اس شخص کو بہت سمجھایا ہے یہ روز شور مچاتا رہتا ہے کہ فلاں سنّی کو شیعہ نے سلام کیوں کہہ دیا اور ایسی ہی معمولی باتوں کے جھگڑے پیدا کرتا رہتا ہے۔ مَیں نے اسے کئی دفعہ کہا ہے کہ مَیں بھی شیعہ ہوں مگر مجھے ان باتوں پر کوئی غصہ نہیں آتا۔ باغ فدک1 پر تمہارا بڑا جھگڑا ہے مگر جن سنّیوں نے وہ لیا تھا وہ تو اب ہیں نہیں ۔ موجودہ سنّی ان کی اولاد بھی نہیں ہیں۔ اس لئے اس واقعہ کی وجہ سے ان کے ساتھ دشمنی کے کیا معنی ہو سکتے ہیں؟ لیکن اگر بہرحال تم لوگوں نے جھگڑا جاری ہی رکھنا ہے تو باغ فدک کی قیمت ڈلوا لو اور وہ مجھ سے لے لو اور پھر اس جھگڑے کو ختم کر دو۔ تو درحقیقت یہ سب جھگڑا معمولی باتوں پر ہی ہے اوریونہی دست و گریباں ہو رہے ہیں۔ یہی حال احمدیوں اور غیر احمدیوں کا ہے۔ بے شک دونوں میں اختلاف ہے مگر ایسا نہیں جیسا ہندووٴں اور سکھوں سے ہے۔ ہندو اور سکھ تو رسول کریم ﷺ کو نَعُوْذُ بِاللہِ جھوٹا سمجھتے ہیں۔ قرآن کریم کو نہیں مانتے، احکامِ اسلام کو جھوٹا سمجھتے ہیں، اسلامی تمدن اور اس کے اقتصادی نظام کے خلاف ہیں مگر احمدیوں اور غیر احمدیوں میں ایسا اختلاف نہیں لیکن پھر بھی مسلمان مذہبی باتوں میں بھی ہمارے مقابلہ میں غیروں کا ساتھ دیتے ہیں۔ قرآن کریم میں بھی ایسے لوگوں کا ذکر ہے۔ مشرکین یہود کو مسلمانوں پر ترجیح دیتے تھے حالانکہ مسلمان حج بیت اللہ کے قائل اور حضرت اسماعیل اور ان کی اولاد کی بڑی عزت کرتے ہیں۔ یہودی کفار کو مسلمانوں پر ترجیح دیتے تھے حالانکہ مسلمان حضرت موسیٰ کو، حضرت داوٴد کو سچا نبی مانتے ہیں اوربھی یہود کے بیسیوں نبیوں کو مانتے ہیں اور ان کا ادب و احترام کرتے ہیں ان کی کتابوں کو سچا مانتے ہیں۔
مذہبی احکام کی تفاصیل میں بھی بہت حد تک دونوں میں اتفاق ہے مگر پھر بھی یہود مسلمانوں کے خلاف مشرکین مکہ سے مل جاتے تھے۔ یہی حال آج اکثر مسلمانوں کا ہے۔ اول تو ہم دوسری قوموں کے ساتھ جھگڑے سے بچتے ہیں۔ لیکن اگر ہندوٴوں، سکھوں یا عیسائیوں وغیرہ سے کہیں کوئی جھگڑا ہو جائے تو مسلمان ہمارے خلاف فوراً ان سے مل جاتے ہیں۔ ایک پادری نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نالش کی کہ آپ نے مجھے قتل کرانے کی سازش کی ہے۔ یہ دراصل اسلام اور عیسائیت کا جھگڑا تھا کوئی جائداد کا جھگڑا نہ تھا، کوئی تجارتی جھگڑا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام اور پادریوں میں نہ تھا۔ پادری صرف اس وجہ سے آپ کے مخالف تھے کہ آپ عیسائیت کی مخالفت اور اسلام کی تائید کرتے ہیں مگر مسلمان آپ کے خلاف اس پادری کے ساتھ ہو گئے حتّٰی کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی تو آپ کے خلاف یہ گواہی دینے کے لئے آئے کہ یہ شخص ایسا ہی ہے اس نے ضرور ایسی بات کی ہو گی۔ حالانکہ چاہئے تھا کہ مسلمانوں کے دل میں غیرت ہوتی۔ اس کے بالمقابل ایک مخلص مسلمان کا واقعہ ہے جب آتھم کی پیشگوئی اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق ٹل گئی تو مخالف ہنسی ٹھٹھا کرتے تھے۔ ایک دن نواب صاحب بہاول پور کے دربار میں جو موجودہ نواب صاحب کے دادا تھے یہی تذکرہ ہونے لگا اور امراء و درباریوں نے تمسخر و استہزاء شروع کیا۔ اس وقت پیر غلام فرید صاحب چاچڑاں والے بھی جو بڑے بزرگ اور نیک انسان تھے موجود تھے۔ ان پر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی صداقت کھول دی تھی اور وہ آپ پر ایمان لے آئے تھے، لوگ بیٹھے ہنسی مذاق کرتے رہے اور پیر صاحب چپ چاپ بیٹھے ان کی باتیں سن رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد نواب صاحب نے بھی اس استہزاء میں حصہ لینا شروع کیا جب تک تو درباری ایسی باتیں کرتے رہے پیر صاحب چُپ رہے مگر جب نواب صاحب نے حصہ لیا تو آپ جلال میں آ گئے ۔ آپ نواب صاحب کے پیر تھے اس لئے نواب صاحب ان کی بہت عزت کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ مَیں تو حیران ہوں کہ تم لوگ کس بات پر ہنستے ہو؟ کیا اس پر کہ اسلام ہار گیا اور عیسائیت جیت گئی؟ تم لوگوں کو غیرت سے کام لینا چاہئے۔ مرزا صاحب نے آتھم سے مقابلہ محمد رسول اللہ ﷺ کی عزت کو قائم کرنے کے لئے کیا تھا یا اپنی عزت کے لئے؟ پھر آپ نے بڑے جلال میں آ کر فرمایا کہ تم کہتے ہو کہ آتھم زندہ ہے مجھے تو اس کی لاش سامنے پڑی دکھائی دیتی ہے۔2 آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے ماتحت وہ مر بھی گیا۔ پیر صاحب مرحوم نے ان لوگوں کو یہ سبق دیا کہ جب غیرت کا سوال ہو تو انسان کو چھوٹی چھوٹی دشمنیوں کو بُھلا دینا چاہئے اور اس سے بھی بڑھ کر جب کوئی ملکی سوال درپیش ہو تو ہندوستان اور سکھ عیسائی کا سوال بھی پیدا نہیں ہونا چاہئے۔ یہ وقت ہندوستان کے لئے بہت نازک ہے بدقسمتی یا خوش قسمتی سے سب ملک ہندوستان کو سونے کی چڑیا سمجھتے ہیں۔ ہمیں تو یہاں وہ سونا نظر نہیں آتا لیکن دوسرے ملک یہ سمجھتے ہیں کہ جو دولت یہاں ہے وہ کہیں اَور نہیں اس لئے مختلف قومیں چاہتی ہیں کہ اس پر قبضہ کر لیں۔ جاپان، روس، اٹلی اور جرمنی ہر ایک چاہتا ہے کہ یہ ملک اس کے قبضہ میں آ جائے اور اس کے وسیع ذرائع اسے مل جائیں اور قدرتی طور پر جنگ کے موقع پر ان کی نظریں اور بھی زیادہ حرص اور لالچ کی وجہ سے اس ملک پر لگی ہوئی ہیں۔ ایسے وقت میں ہندوستانیوں کے لئے بہت بڑے خطرہ کا مقام ہے اور انہیں سوچنا چاہئے کہ اپنی، اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کی عزت کو بچانے کے لئے انہیں کیا کرنا چاہئے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ ایسے نازک وقت میں سب مل کر ملک کی حفاظت کی تدابیر کرتے۔ مگر مَیں دیکھتا ہوں کہ کئی لوگ ایسے ہیں جو جائز و ناجائز باتوں سے خواہ مخواہ مختلف اقوام میں فتنہ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ مثلاً آجکل ہی ایک فتنہ پیدا کیا جا رہا ہے۔ ایک سکھ اخبار نے بارہ سال کی ایک پرانی تحریر اس رنگ میں شائع کی کہ گویا یہ کوئی مخفی سرکلر ہے جو نظار ت اعلیٰ کی طرف سے جماعتوں کو بھیجا گیا ہے اور اب دوسرے اخبار بھی اسے اس رنگ میں شائع کر رہے ہیں کہ گویا جماعت احمدیہ کو سکھوں کے خلاف مسلّح کیا جا رہا ہے حالانکہ یہ بات ہی حماقت ہے۔ دینی نقطہٴ نگاہ کو جانے دو کیونکہ سکھ تو یہ نہیں مانتے کہ ایک مومن سو پر غالب آ سکتا ہے وہ تو صرف ظاہری حالات کو ہی دیکھتے ہیں اور وہ شور بھی اسی لئے مچا رہے ہیں کہ سمجھتے ہیں ان کے خلاف دنیوی تیاری کی جا رہی ہے لیکن وہ سوچیں تو سہی کہ تیس لاکھ قوم کا چند ہزار آدمی مقابلہ کر کیسے سکتے ہیں؟ اور تیس لاکھ بھی ایسے جو مال و دولت کے لحاظ سے، زمین کی ملکیت کے لحاظ سے اور طاقت کے لحاظ سے ان چند ہزار سے ہزاروں گُنا زیادہ ہیں۔ کیا کوئی عقلمند یہ سمجھ سکتا ہے کہ چند ہزار کی چھوٹی سی جماعت دنیوی سامانوں کے ساتھ ایسی تیس لاکھ قوم سے لڑ سکتی ہے جس کے پاس کئی ریاستیں ہیں اور دولت ہے۔ روحانی نقطہ نگاہ علیحدہ ہے اسے تو جانے دو۔ بے شک روحانی لحاظ سے تو ایک آدمی ساری دنیا سے بھی لڑ سکتا ہے مگر یہاں تو دنیوی سامانوں سے جنگ کا سوال ہے۔ جب روحانیت کے ساتھ مقابلہ کا سوال ہو اس وقت اخبار کیا کر سکتے ہیں؟ ایسے وقت میں تو حکومتیں بھی کچھ نہیں کر سکتیں۔ چہ جائیکہ اخباری پروپیگنڈا سے کچھ ہو سکے۔ مگر یہاں تو دنیوی لحاظ سے لڑائی کا سوال ہے اور کوئی عقلمند یہ تسلیم نہیں کر سکتا کہ دُنیوی لحاظ سے احمدیہ جماعت سکھوں کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ سکھوں کی آبادی تیس لاکھ ہے۔ ان کی پنجاب میں چھ سات ریاستیں بھی ہیں، ہماری نسبت لاکھوں گُنا زیادہ دولت ان کے پاس ہے اور زمینیں بھی بہت زیادہ ہیں۔ اور ان حالات میں سکھوں کا یہ شور مچانا کہ گویا احمدی ان پر حملہ کرنے والے ہیں ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی بڑا پہلوان ایک نوزائیدہ بچہ کے متعلق کہے کہ یہ مجھے قتل کر دے گا۔ ظاہر ہے کہ ایسے پہلوان کو ہر شخص پاگل کہے گا۔ اسی طرح جو شخص یہ کہتا ہے کہ جماعت احمدیہ سکھوں پر حملہ کرنے والی ہے وہ بھی عقلمند نہیں کہلا سکتی۔
یہ تحریر اپنی ذات میں بھی ایسی نہ تھی کہ اس کی بناء پر سکھ اس قدر شور مچاتے۔ ان کو یہ تو سمجھنا چاہئے تھا کہ کیا یہ بات ممکن بھی ہے۔ یہ تو شرارت ہے جو ان کو بے وقوف بنانے کے لئے کی گئی ہے۔ گزشتہ مردم شماری کی رُو سے پنجاب میں ہماری تعداد صرف56 ہزار تھی اور سکھ قریباً تیس لاکھ تھے۔ پھر ہمارے پاس تو دس گاوٴں کی بھی کوئی ریاست نہیں اور ان کی کئی بڑی بڑی ریاستیں ہیں۔ پٹیالہ، نابھ، جیند، کپورتھلہ ، فرید کوٹ اور بعض اَور بھی چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہیں۔ ان ریاستوں کے پاس فوجیں، توپ خانے اور ہوائی جہاز بھی ہیں۔ پھر اس ملک میں انگریزوں کی حکومت ہے اور ان کے پاس بھی بہت کچھ سامانِ جنگ اور طاقت ہے۔ بہت سے سکھ فوج میں ملازم ہیں۔ اندرونی تنظیم ان کی مکمل ہے اور وہ دو کروڑ مسلمانوں کو آئے دن دھمکاتے رہتے ہیں۔ پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ 56ہزار احمدی ان پر حملہ کریں۔ یہ تو ایسی بات ہے کہ اگر کوئی ان سے کہتا تو ان کو اسے یہ کہنا چاہئے تھا کہ ہم ایسے بے وقوف نہیں کہ ایسی باتوں کو درست سمجھ سکیں۔ ان کو تو ایسے شخص سے لڑنا چاہئے تھا کہ تم ہمیں بے وقوف بنا رہے ہو اور ذلیل کرنا چاہتے ہو۔ یہ تو عبد الرحمان مصری کی کارستانی ہے کہ اس نے ایک ایسی تحریر کو لے کر جس کی کوئی حیثیت نہیں خواہ مخواہ لوگوں کو ورغلایا اور شور مچایا لیکن سکھوں کو اس پر اعتبار نہ کرنا چاہئے تھا اور سمجھنا چاہئے تھا کہ یہ شخص ان کا نادان دوست ہے۔ اگر یہ واقعہ ہے کہ 56 ہزار احمدی تیس لاکھ ایسی قوم پر جس کے پاس کئی ریاستیں، مال و دولت اور سامان ہے حملہ کر سکتی ہے تو سکھوں کے لئے تو واقعی بہت خطرہ کا مقام ہے۔ حیرت تو یہ ہے کہ بعض مسلم اخبار سکھوں سے بھی زیادہ شور مچا رہے ہیں۔ ان کو سوچنا چاہئے تھاکہ یہ تو بارہ سال کی پرانی تحریرہے اس بارہ سال کے عرصہ میں احمدیوں نے کتنی چڑھائیاں سکھوں پر کی ہیں۔ اگر ہمارا یہ ارادہ ہوتا تو 1928ء سے لے کر آج تک اس کے کوئی آثار تو ظاہر ہوتے اور اب تک کئی چڑھائیاں سکھوں پر ہو چکی ہوتیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ آج سکھوں کے ساتھ ہمارے تعلقات اس زمانہ سے بہت اچھے ہیں۔ اس میں ایک اور قابلِ غور بات یہ ہے جسے ہمارے اخباروں نے بھی پیش نہیں کیا کہ اگر کوئی ایسا سرکلر بھیجا جاتا تو وہ ناظر امور عامہ کی طرف سے ہونا چاہئے تھا۔ نہ کہ ناظر اعلیٰ کی طرف سے۔ ہمارے نظام کے لحاظ سے اس کا تعلق ناظر امور عامہ سے ہے ناظر اعلیٰ سے نہیں۔ یہ امر بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ ایسا کوئی سرکلر ہے ہی نہیں۔ ناظر اعلیٰ تو آئینی لحاظ سے ایسا سرکلر بھیجنے کا مجاز ہی نہیں۔ ناظر اعلیٰ کی طرف سے ایسے سرکلر کا بھیجا جانا تو ہمارے کانسٹی ٹیوشن کے ہی خلاف ہے۔ اگر ایسا سرکلر بھیجا جاتا تو ناظر امور عامہ کی طرف سے بھیجا جاتا۔ پس یہ بات سرے سے بناوٹی ہے ۔ حقیقت صرف اتنی ہے کہ جس زمانہ میں سکھوں نے ہمارا مذبح گرایا تو مختلف اشخاص نے ایسی تجاویز لکھیں کہ ایسے واقعات کے انسداد کے لئے کیا کرنا چاہئے اور ایک افسر نے اپنی ذاتی حیثیت میں وہ تجاویز نوٹ کیں جو اخبار میں شائع کی گئی ہیں لیکن نہ وہ کبھی انجمن میں پیش ہوئیں اور نہ اس نے انہیں منظور کیا۔ یہ ایک فرد کے خیالات تھے اور ایک فرد کے خیالات کی ذمہ داری ساری قوم پر کس طرح عائد ہو سکتی ہے؟ کیا سکھ اس اصول کو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہیں کہ اگر کوئی سکھ کوئی بات کہے یا کسی کو دھمکی دے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ دھمکی ساری قوم کی طرف سے ہے۔ یہ بھی ایک شخص کے خیالات ہیں جنہیں قوم نے کبھی منظور نہیں کیا۔
قوم کی ذمہ داری اس صورت میں ہو سکتی تھی کہ انجمن ان باتوں کو منظور کرتی یا خلیفہٴ وقت منظور کرتا۔ پس ایسے وقت میں جبکہ ملک کو اس بات کی ضرورت ہے کہ سب قومیں مل کر حفاظت کی تدابیر اختیار کریں۔ ایسی بے بنیاد باتوں کی بناء پر شور مچانا اور فتنہ پیدا کرنا عقلمندی نہیں۔ اور عجیب بات یہ ہے کہ سکھ تو ایک دفعہ بیان کر کے چپ ہو گئے ہیں مگر بعض مسلمان اخبار برابر شور مچاتے جا رہے ہیں اور ان کی مثال ویسی ہی ہو رہی ہے کہ‘‘ ماں سے زیادہ چاہے کٹنی کہلائے’’ وہ سکھوں سے بھی زیادہ ان کے ہمدرد بنے ہوئے ہیں۔ مصری کو مرتد ہوئے بھی چار سال ہو چکے ہیں اور یہ کاغذ اب اخبارات میں شائع کیاجا رہا ہے۔ پہلے تو اس کے ایجنٹ علاقہ کے سکھوں کو یہ کاغذ دکھاتے رہے مگر وہ چونکہ حالات سے واقف تھے اور اپنے ساتھ ہمارے عمل کو دیکھ رہے تھے اس لئے ان پر تو اس کا کوئی اثر ہوٴا نہیں ۔ وہ جانتے تھے کہ یہ محض ایک فرد کی تجاویز ہیں جنہیں جماعت نے قبول نہیں کیا اور جن پر کبھی عمل نہیں ہوا اور یہ تجاویز بھی ایک اشتعال کے وقت کی ہیں ۔ ایسے اشتعال کے وقت کی کہ اگر کبھی سکھوں پر ایسا وقت آئے تو وہ اس سے لاکھوں گُنا زیادہ سخت تجاویز کریں یا سکھوں کے کسی مقدس مقام پر جا کر کوئی عمارت گرا دی جائے تو ہزاروں سکھ ایسے ہی خیالات کا اظہار نہ کریں گے؟ اگر کریں گے اور ضرور کریں گے تو یہ تو احمدیوں کی شرافت ہے کہ ان میں سے صرف ایک شخص کے ذہن میں ایسی تجاویز آئیں، صرف ایک سے اشتعال ظاہر ہوٴا اور باقی ساری قوم نے اس اشتعال کو دبا لیا اور اس شخص کی تحریک کو قوم نے قبول نہ کیا۔ سکھوں کو تو اس پر خوش ہونا چاہئے تھا کہ ایسے جوش کے خیالات کو قوم نے قبول نہیں کیا۔ مگر عجیب بات ہے کہ وہ بجائے ممنون ہونے کے الٹا شور مچا رہے ہیں۔ میرے نزدیک تو حکومت کے لئے بھی یہ شکریہ کا موقع تھا۔ یقینا اس کی کوئی اور مثال نہیں مل سکتی کہ کسی قوم نے ایسے اشتعال کے موقع پر ایسے تحمل اور صبر کا نمونہ دکھایا ہو۔ صرف ایک احمدی جماعت ہی ہے جس نے ایسے شدید اشتعال کے موقع پر ایسے صبرکا نمونہ دکھایا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ اس پر اس کی تعریف کرنے کی بجائے الٹا شور مچایا جا رہا ہے۔
آج ہر عقلمند تسلیم کرتا ہے کہ یہ بہت نازک موقع ہے اور جو لوگ آج ایک بارہ سال کی پرانی بات کو لے کر خواہ مخواہ فتنہ انگیزی کرتے ہیں ان کے عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ موقع کی نزاکت کو نہیں سمجھتے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ اگر کوئی اتنی پرانی بات واقع میں بھی ہوتی تو بھی اسے نظر انداز کر دیتے اور کہہ دیتے کہ یہ ایسی باتوں کا وقت نہیں پھر دیکھا جائے گا۔ مگر یہاں تو کوئی بات بھی نہیں اور خواہ مخواہ کا فتنہ پیدا کیا جا رہا ہے۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ان لوگوں کو ملک سے کوئی ہمدردی نہیں اور اس کی مصیبت کا انہیں کوئی احساس نہیں۔ حضرت سلیمان کا واقعہ ہے کہ ان کے زمانہ میں ایک شخص کی دو بیویاں تھیں اور دونوں کا ایک ایک لڑکا تھا۔ وہ شخص باہر گیا ہوٴا تھا اور کئی سال باہر رہا تھا اس کی بیویاں کہیں سفر سے واپس آ رہی تھیں کہ رستہ میں ایک کے لڑکے کو بھیڑئیے نے کھا لیا۔ اس نے خیال کیا کہ میرا خاوند آئے گا تو دوسری بیوی کی گود میں چونکہ لڑکا ہے اس سے زیادہ محبت کرے گا اور میری قدر نہیں کرے گا۔ پھر اس نے سوچا کہ خاوند تو جب گیا تھا بچے چھوٹے ہی تھے اور وہ تو ان کی شکل سے بھی واقف نہیں۔ کیوں نہ مَیں دوسری کا لڑکا اٹھا لوں کہ یہ میرا ہے اور جسے بھیڑئیے نے کھایا وہ دوسری کا تھا۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور دوسری عورت کے بچہ کو اٹھا کر کہا کہ یہ میرا ہے۔ دونوں میں اس پر جھگڑا ہوٴا اورمقدمہ حضرت داوٴدعلیہ السلام کے پاس گیا۔ انہوں نے اسے حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف منتقل کر دیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے بہت کوشش کی مگر اصل بات معلوم نہ کر سکے اس پر انہوں نے کہا کہ اچھا چھری لاوٴ۔ مَیں لڑکے کو آدھا آدھا کر کے دونوں میں تقسیم کر دیتا ہوں۔ اب اصل ماں کی تو مامتا تھی دوسری کو کیا درد تھا؟ وہ کہنے لگی کہ یہ بہت اچھا انصاف ہے اسی طرح کر دیں۔ اس نے سوچا کہ جب دونوں کا ہی بچہ نہ رہے گا تو دونوں کی حیثیت ایک سی ہو گی مگر حقیقی ماں نے جب یہ فیصلہ سنا تو کہنے لگی کہ یہ بچہ دوسری کا ہے اسے ہی دے دیں اور ٹکڑے ٹکڑے نہ کریں۔ 3 تو جہاں خیر خواہی ہوتی ہے وہاں انسان جائز جذبات کو بھی دبا دیتا ہے۔ ان لوگوں کے دل میں اگر ملک کی خیر خواہی ہوتی تو ان کو چاہئے تھا کہ کہتے ان باتوں کو ابھی رہنے دیں اس وقت ملک پر مصیبت ہے یہ باتیں بعد میں دیکھی جائیں گی۔ مگر افسوس کہ ان لوگوں نے ایک بے بنیاد بات کو لے کر ایسے نازک وقت میں فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور خصوصیت کے ساتھ مسلمانوں پر افسوس ہے کہ جو اس دھوکا میں آ گئے۔ یہ بات نہ سکھوں نے سوچی اور نہ مسلمانوں نے کہ یہ ممکن بھی ہے کہ احمدی سکھوں پر حملہ کر سکیں۔ ہندوستان میں انگریزوں کی اتنی بڑی طاقت کی موجودگی میں ۵۶ ہزار احمدی تیس لاکھ سکھوں پر حملہ کر کیسے سکتے ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ کسی نے بھی اس فریب کو نہ سمجھا۔ مسلمانوں پر زیادہ افسوس اس لئے ہے کہ یہ اسلامی شعار کا سوال تھا۔ سکھوں نے پہلے تو یہ دھمکیاں دیں کہ ہم یہاں مذبح بننے نہ دیں گے اور اگر بنا تو گرا دیں گے اور اس طرح ساری قوم میں یہ احساس پیدا کیا کہ ہم مذبح گرا سکتے ہیں۔ مگر مسلمان محض ہماری مخالفت کی وجہ سے سکھوں کی تائید کر رہے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ ہمارے ساتھ دشمنی کرنے کے جوش میں وہ اپنے ساتھ دشمنی کر رہے ہیں اور ان پر وہی مثال صادق آتی ہے کہ پرائی بدشگونی میں اپنی ناک کٹوانا اور اس طرح یہ مسلمان اخبار پنجاب میں مسلمانوں کے لئے کانٹے بو رہے ہیں اورمشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ایسی باتوں سے ملک کو بھی نقصان پہنچے گا۔ یہ ایسا وقت ہے کہ اپنے جذبات کو دبانا چاہئے اور تمام طاقت ملک کی حفاظت کی تدابیر پر صَرف کرنی چاہئے اور اللہ تعالیٰ سے ایسی دعائیں کرنی چاہئیں کہ زمین و آسمان ہل جائیں۔ اگر دوسرے لوگ اپنے فرض سے غافل ہیں تو کم سے کم ہماری جماعت کو چاہئے کہ ایسی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعاوٴں میں لگی رہے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ یتیم کے دل سے نکلی ہوئی دعا عرشِ الہٰی کو ہلا دیتی ہے اور ہم سے زیادہ یتیم آج کون ہے جن کے پیچھے ساری دنیا پڑی ہوئی ہے۔ ہم بھی اگر دعا کریں تو ضرور عرش الٰہی ہلے گا مگر شرط یہی ہے کہ دعا دل سے نکلی ہوئی ہو اور ہم دعا کرنا جانتے ہوں۔ اناڑی کی طرح نہ ہو کیونکہ اناڑی جب ہتھیار لے کر کھڑا ہو تو دوسرے کو مارنے کے بجائے اپنے آپ کو زخمی کر لیتا ہے۔ پس دعا بھی ایک فن ہے جو ہمیں سیکھنا چاہئے اور اس کے مطابق دعا کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کی مختلف صفات ہیں اور انسان کی ضرورت جس صفت سے متعلق ہو اسی کا نام لے کر دعا کرنی چاہئے۔ جو شخص اس طرح دعا مانگتا ہے اللہ تعالیٰ اسے سنتا ہے مگر بعض لوگ اس فرق کو نہیں سمجھتے۔ وہ بعض دفعہ یوں دعا کرتے ہیں کہ اے اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ میرے دشمن کا بیڑا غرق کر دے یا اے شَدِیْدُ الْعِقَاب! مجھے بیٹا عطا کر۔
یہ دعا کا غلط طریق ہے۔ پس دوستوں کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو صحیح طور پر سمجھیں اور پھر دعائیں کریں اور اخلاص سے دعائیں کریں۔ جنگ بالکل ہندوستان کے قریب پہنچ گئی ہے اور ہمیں یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ ضرور مومن کے لئے بہتری کی صورت پیدا کرے گا بشرطیکہ وہ اس کے آستانہ پر گرے اور اس کی طرف رجوع کرے۔’’ (الفضل یکم جون 1941ء )
1 باغ فدک: باغ فدک یہودیوں سے زر صلح کے طور پر مسلمانوں کو ملا تھا۔ رسول کریم ﷺ اپنی زندگی میں اس کی آمدنی سے اپنے اخراجات پورے کرتے تھے اور جو بچ رہتا اس سے بنو ہاشم کے غرباء کی مدد فرماتے۔ حضرت ابو بکرؓ کے زمانہ میں حضرت فاطمہؓ نے بطور ورثہ انہیں دئیے جانے کا مطالبہ کیا۔ حضرت ابو بکرؓ نے ایسا کرنے سے انکار فرمایا اور اسے وقف قرار دیا۔ (اردو انسائیکلو پیڈیا)
2 الحکم 21/28 جون 1943ء و تاریخ احمدیت جلد 2 صفحہ340
3 ۱۔سلاطین باب 3 آیات 16 تا 28، بخاری کتاب الانبیاء باب قول اللہ تعالیٰ و وھبنا لداوٗد سلیمان۔ نعم العبد انہ اوّاب۔


16
غیر مبائعین کا ایک منصوبہ
( فرمودہ 30 مئی 1941ء )

تشہد، تعوّذ اور سورہٴ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘شاید گرمی کی شدت کی وجہ سے دو چار دن سے مجھے تنفس کی خرابی کی تکلیف ہے۔ رات کے وقت یہ تکلیف زیادہ ہو جاتی ہے اور بعض دفعہ کئی کئی گھنٹے جاری رہتی ہے۔ ابھی مَیں خطبہ کے لئے چل کر آیا تو میرا سانس اتنا پھول گیا تھا کہ پیٹ میں سماتا نہیں تھا۔ منبر پر بیٹھنے سے کچھ آرام آیا تھا مگر کھڑے ہوتے ہی پھر وہی دَورہ شروع ہو گیا ہے اس لئے مَیں مختصراور آہستہ بول سکوں گا۔
دوستوں نے اخبارات میں پڑھا ہو گا اپنوں نے بھی اور غیروں نے بھی کہ پیغامی لوگ قادیان میں اپنا تبلیغی مشن قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ایک مخلص احمدی عورت نے جس کا خاوند غیر مبائع ہے باہر کے ایک مقام سے مجھے سندھ میں بہت ہی گھبراہٹ کا خط لکھا کہ نہ معلوم اب کیا ہو جائے گا۔ یہ لوگ تو ایسے ایسے بد ارادے رکھتے ہیں اور ساتھ ہی اس نے بہت سی دعائیں بھی مانگیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے شر کو دور کرے اور جماعت کی حفاظت فرمائے۔ مجھے اس عورت کے اس اخلاص کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی اور میں نے اپنے دل میں کہا کہ گو یہ ایک عورت ہے جس کے اندر یہ طاقت نہیں کہ ان کا مقابلہ کر سکے۔ اس کا خاوند خود غیر مبائع ہے لیکن اس کے اندر ایک جوش پایا جاتا ہے اور اسی جوش کی وجہ سے وہ فکر مند ہوئی ہے۔
مَیں یہ ذکر کر رہا تھا کہ ایک احمدی عورت نے جس کا خاوند غیر مبائع ہے مجھے باہر سے چِٹھی لکھی کہ غیر مبائعین قادیان میں اپنا مشن کھولنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور ساتھ ہی اس نے بہت کچھ گھبراہٹ کا اظہار کیا۔ میرے پاس اس سے پہلے ہی کسی احمدی دوست نے وہ ایجنڈا بھی بھجوا دیا تھا جس میں غیر مبائعین نے قادیان میں اپنا مشن کھولنے کی تحریک کا ذکر کیا ہے۔ اس ایجنڈا کا مضمون یہ تھا کہ ہمارے دوست مدت سے قادیان میں تبلیغی مشن کھولنے کی خواہش رکھتے تھے اب لائل پور کے ایک خاندان کے تین نوجوانوں نے تین سو روپیہ ماہور دینے کا وعدہ کیا ہے تاکہ قادیان میں مشن قائم کیا جائے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے دوستوں کی اس خواہش کو پورا کرنے کا سامان پیدا فرما دیا ہے۔ خارجی ذرائع سے یہ بھی سنا گیا ہے کہ وہ مولوی صدر دین صاحب کو یہاں بھجوانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے تو اپنے ذہن میں اس تجویز کو خدائی تجویز سمجھا ہے اور انہیں خوشی ہوئی ہے کہ بعض نوجوانوں نے اس غرض کے لئے انہیں تین سو روپیہ ماہوار دینے کا وعدہ کیا ہے اور اس طرح خدا نے ان کی خواہش کو پورا کرنے کا سامان پیدا فرما دیا ہے۔ لیکن ہم نے بھی اس تجویز کو خدائی تجویز ہی سمجھا ہے اس لئے کہ ان کی اس تجویز کے معلوم ہونے سے پہلے ہی مجھے اللہ تعالیٰ نے روٴیا میں یہ دکھایا تھا کہ غیر مبائعین کا ایک مشنری قادیان میں آیا ہے۔ وہ روٴیا میں نے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور بعض اور دوستوں کو بھی سنا دی تھی۔ پس ان کی اس تجویز سے ہمیں بھی خوشی ہوئی۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی بات پوری ہونے لگی ہے۔ انہوں نے تو سمجھا ہو گا کہ چونکہ انہیں اس غرض کے لئے تین سو روپیہ ماہوار ملنے لگا ہے اس لئے یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک سامان ہے حالانکہ محض روپیہ کا مل جانا اس بات کی کوئی علامت نہیں ہوتی جس کام پر اس روپیہ کو خرچ کیا جائے گا وہ بھی اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق ہو گا بلکہ کسی کام کی اللہ تعالیٰ کی طرف قبل از وقت خبر مل جانا اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ وہ کام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔
میں یہ نہیں کہتا کہ ان کے اس مشن کے کھولنے کے معنے یہ ہیں کہ آپ لوگوں میں خدانخواستہ کوئی کمزوری پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے انہیں اس بات کی جرأت ہوئی ہے۔ بے شک ایک نقطہٴ نگاہ یہ بھی ہوتا ہے مگر اس موقع پر یہ صحیح نہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض کمزور لوگ ہماری جماعت میں پائے جاتے ہیں مگر اس قسم کے چند کمزور طبع لوگ ہر جماعت میں پائے جاتے اور ہر جگہ ہوتے ہیں۔ خود رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ایسے لوگ موجود تھے جنہوں نے مدینہ کے قریب اپنا مشن پھیلانے کی جرأت کی۔ چنانچہ قرآن کریم میں جس مسجدِ ضرار کا ذکر آتا ہے اور جس کے متعلق خدا تعالیٰ کی طرف سے حکم دیا گیا تھا کہ اسے گرا دیا جائے وہ اسی قسم کے لوگوں نے بنائی تھی۔ وہاں منافقین جمع ہوتے تھے اور اسلام کے خلاف مشورے کیا کرتے تھے۔ پس اگر رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں اس قسم کے لوگ تھے تو یہاں کیوں نہ ہوں۔
مَیں نے خود ایک دفعہ روٴیا میں دیکھا کہ میں اس مکان میں ہوں جس میں میری بڑی بیوی رہتی ہیں کہ اچانک مجھے نیچے گلی میں کچھ کھڑکا معلوم ہوٴا اور ایسا القاء ہوٴا کہ گویا نیچے منافقین ہیں۔ میں نے نالی کے سوراخ میں سے دیکھا تو معلوم ہوٴا کہ کچھ لوگ دیواروں سے لگے کھڑے ہیں اور اندر جھانک کر کچھ دیکھنا چاہتے ہیں یا کان لگا کر سننا چاہتے ہیں۔ جب انہیں معلوم ہوٴا کہ میں دیکھ رہا ہوں تو وہ بھاگے وہ تعداد میں جہاں تک یاد ہے نَو تھے۔ بھاگتے ہوئے ان میں سے بعض کو میں نے پہچان بھی لیا اور ایک کا علم تو اب تک ہے۔ مگر بعض کے متعلق اللہ تعالیٰ نے عفو سے کام لیا اور میں ان کو دیکھ نہ سکا۔’’ 1
اس روٴیا کے بعد جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ جنات آسمانی باتوں کی ٹوہ لگاتے ہیں اور کوئی خبر مل جائے تو اس میں جھوٹ ملا کر آگے پھیلاتے ہیں اور حدیثوں میں ہے کہ کئی کئی گُنے زیادہ جھوٹ ملا کر وہ باتیں پھیلاتے ہیں۔ مولوی محمد علی صاحب نے بھی جو صحابی ہونے کے مدعی ہیں مبالغہ سے کام لینا شروع کر دیا اور کہہ دیا کہ میاں صاحب خطبہ پر خطبہ دے رہے ہیں کہ قادیان میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ منافق بن چکے ہیں۔’’ 2 اسی طرح‘‘پیغام صلح’’ نے اس تعداد کو پانچ سو تک بڑھا دیا۔ اور لکھا کہ ‘‘خلیفہٴ قادیان نے فرمایا کہ قادیان میں پانچ سَو منافقین ہیں اور خدا نے ان پانچ سَو منافقین کی شکلیں بھی خلیفہ صاحب کو خواب میں دِکھلا دیں۔’’3 حالانکہ میں نے جو روٴیا دیکھا تھا اُس میں مجھے صرف 9 منافقین دکھائے گئے تھے۔ مگر یہ 9 نو منافقین مولوی محمد علی صاحب کو تو ”ہزاروں“ کی تعداد میں اور باقی غیر مبائعین کو ‘‘پانچ سَو ’’کی تعداد میں نظر آئے۔ گو مجھے اس سے بھی خوشی ہوئی اور میں نے سمجھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارا رُعب اس قدر ہے کہ ہمارے منافقوں سے بھی یہ لوگ ڈرتے ہیں اور 9 منافق ان کو پانچ سو یا ہزاروں نظر آتے ہیں۔ جب یہ حال ہے تو 9 مومن انہیں 9 لاکھ کیوں نہ دکھائی دیں گے؟ غرض میں نے تو روٴیا میں صرف نو منافق دیکھے تھے مگر غیر مبائعین نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ گویا مجھے پانچ سَو منافقین کی شکلیں خواب میں دکھائی گئی ہیں اور ان کے سردار کے اس خیال سے کہ اس مبالغہ میں میرے مرید کہیں مجھ سے آگے نہ بڑھ جائیں 9 کے ہزاروں کر دئیے۔ اور پھر اپنی صداقت پسندی کا مزید ثبوت یہ بھی دیا کہ میاں صاحب ان ہزاروں منافقوں کے متعلق جو قادیان میں ہیں خطبے پر خطبہ پڑھ رہے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس سے زیادہ صاف اور خطرناک جھوٹ کی مثال دنیا کی کسی اور قوم میں بھی اس وقت مل سکتی ہو۔ بار بار ان سے پوچھا گیا کہ تم بتاوٴ ہم نے یہ کہاں لکھا ہے کہ خواب میں پانچ سو منافقین دکھائے گئے تھے مگر وہ بالکل خاموش ہیں اور اس جھوٹ کو شیر مادر کی طرح پی گئے ہیں۔ شروع شروع میں تو ہماری جماعت کے دوست بھی کچھ خاموش رہے اور انہوں نے خیال کیا کہ ممکن ہے ایسا کہیں لکھا ہی ہو۔ آخر جماعت کے ایک عالم کو میں نے بلا کر کہا کہ بندہٴ خدا ان سے پوچھو تو سہی کہ میں نے یہ بات کہاں کہی ہے۔ چنانچہ انہوں نے غیر مبائعین کو چیلنج دیا او رکہا کہ ہم نے کہاں لکھا ہے کہ پانچ سَو منافقین کی شکلیں خواب میں دکھائی گئی ہیں۔ اس چیلنج کے بعد غیر مبائعین بالکل خاموش ہو گئے اور اب تک وہ اس کا کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکے۔ اصل بات یہ ہے کہ میں نے تو صرف 9 منافق دیکھے تھے مگر ہمارے رعب کی وجہ سے ہمارے 9 منافق بھی انہیں پانچ سَو نظر آتے ہیں اور یہ بالکل وہی بات ہے جس کا قرآن کریم میں ذکر آتا ہے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے جب کلام اُترتا ہے اور جِنّات اسے سنتے ہیں تو وہ اس میں اَور کئی جھوٹی باتیں ملا لیتے اور لوگوں کو دھوکا و فریب میں مبتلا کرتے ہیں۔ چنانچہ بعض حدیثوں میں تو آتا ہے کہ وہ سَو سَو گنا جھوٹ ملاتے ہیں۔ بہرحال قادیان میں پانچ سَو منافقین کا ہونا تو بالکل غلط ہے۔ لیکن اس میں کیا شبہ ہے کہ کچھ نہ کچھ منافق قادیان میں موجود ہیں اور ہم ان میں سے بعض کو جانتے بھی ہیں۔ بعض منافق توآہستہ آہستہ نکل جاتے ہیں اور بعض دفعہ ان کی جگہ کچھ اور کمزور لوگ آ جاتے ہیں۔ اسی طرح کبھی کسی کو ابتلاء آ جاتا ہے اور کبھی کسی کو۔ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں بھی اس قسم کے لوگ موجود تھے اور وہ شرارتیں کیا کرتے تھے۔ پس ایسے منافقین کا ہم میں پایا جانا ہماری کسی کمزوری کی علامت نہیں بلکہ رسول کریم ﷺ کے صحابہ سے ہماری مشابہت کا ایک اور ثبوت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام رسول کریم ﷺ کے مشابہہ تھے اور آپ کی جماعت رسول کریم ﷺ کی جماعت کے مشابہہ ہے۔ پس ہماری جماعت میں بعض منافقین کا پایا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری جماعت رسول کریم ﷺ کی جماعت سے مشابہت رکھتی ہے۔ یہ خیال کرنا کہ اس قسم کے لوگوں کی وجہ سے غیر مبائعین کو قادیان میں اپنا مشن کھولنے کی جرأت ہوئی ہے صحیح نہیں۔ کیونکہ ایسے لوگ بہت ہی قلیل ہیں اور پھر ہم ان میں سے بعض کو جانتے بھی ہیں۔ یہ منافق اپنے ذہن میں یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ انہیں کوئی نہیں جانتا حالانکہ ہم انہیں خوب جانتے ہیں۔ لیکن ہم ان پر رحم کرتے اور انہیں کچھ نہیں کہتے۔ بلکہ بعض دفعہ تو ہم ان سے مہربانی کا سلوک کرتے اور ان کی مصیبت کے وقت ان کے کام آتے ہیں۔ اس خیال سے کہ شاید اللہ تعالیٰ ان کی آنکھیں کھول دے اور انہیں ہدایت نصیب ہو جائے مگر وہ ہماری مہربانی اور نیک سلوک سے یہ نتیجہ نکال لیتے ہیں کہ ہم انہیں مخلص سمجھتے ہیں اورجب ہم ان سے حسنِ سلوک کرتے ہیں تو وہ اپنی مجالس میں ہنس ہنس کر کہتے ہیں کہ ہم نے ان کو کیسا چکمہ دیا کیسا الّو بنایا۔ گویا وہ خیال کرتے ہیں کہ انہوں نے ہم کو الّو بنایا۔ حالانکہ الّو وہ آپ بن رہے ہوتے ہیں ہم تو اپنے خدا کو خوش کرنے کے لئے ان پر رحم کرتے ہیں مگر وہ اپنی نادانی سے یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ہم کو الّو بنایا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا طریق بھی یہی ہے کہ وہ باوجود لوگوں کی مخالفت کے ان پر رحم کرتا چلا جاتا ہے۔ ابو جہل کو دیکھ لو وہ کتنا شدید دشمن تھا مگر اللہ تعالیٰ آخر اسے کھانا دیتا تھا یا نہیں؟ اسی طرح عتبہ، شیبہ اور ابو لہب وغیرہ اسلام کے شدید مخالف تھے مگر اللہ تعالیٰ انہیں کھانا دیتا تھا۔ اسی طرح ہم بھی منافقین پر رحم کرتے اور ان سے حسن سلوک کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ مگر وہ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ انہوں نے ہم کو خوب چکمہ دیا۔ حالانکہ جیسے خدا نے ابو جہل، عتبہ اور شیبہ کو کھانا دیا۔ جس طرح خدا نے فرعون کو بادشاہ بنا دیا اسی طرح ہم ان منافقوں پر رحم کرتے ہیں مگر وہ اپنی تنگ نظری اور حماقت کی وجہ سے اپنی مجالس میں یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ کیسا الّو بنایا، یہ تو ہمیں مخلص سمجھتے ہیں حالانکہ ہم ان سے رحم کا سلوک کر رہے ہوتے اور کبھی اس لئے پردہ پوشی سے کام لیتے ہیں کہ شاید خدا تعالیٰ انہیں کل جرأت دے دے اور وہ ہمارے بھائی بن جائیں۔ ہم خیال کرتے ہیں کہ اگر انہوں نے کل کو ہمارا بھائی بننا ہے تو آج ہم انہیں کیوں ذلیل کریں۔ جس نے کل ہمارا بھائی بن جانا ہے اس کے متعلق ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کی عزت کو مناسب حد تک قائم رکھیں تاکہ کل اگر وہ ہمارا بھائی بنے تو معزز بھائی بنے۔ اسی طرح اس حسن سلوک میں اور کئی حکمتیں پوشیدہ ہوتی ہیں۔ بہرحال نہ ساری جماعت، نہ جماعت کا بیشتر حصہ اور نہ جماعت کا معتد بہ حصہ کمزور ہے۔ کوئی نوجوان سزا برداشت نہ کر کے پیغام بلڈنگس میں چلا گیا اور اس نے یہ شور مچانا شروع کر دیا کہ قادیان میں ظلم ہو رہا ہے وہاں اپنا مشن کھولیں سب لوگ آپ کی امداد کریں گے۔ تو اس کو دیکھ کر یا بعض اَور کمزور لوگوں کو دیکھ کر انہوں نے سمجھ لیا ہے کہ شاید سارا قادیان ہی ان کی باتیں ماننے کے لئے تیار ہے اور وہ یہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قادیان کے متعلق کئی وعدے ہیں اور ان وعدوں کی موجودگی میں وہ اپنے ارادوں میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ بے شک میں خود بھی قادیان کے لوگوں کو ان کی کمزوریوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ کوئی نماز باجماعت پڑھنے میں سست ہے، کوئی چندے ادا کرنے میں سُستی دکھاتا ہے، کوئی دوسروں سے لڑ جھگڑ پڑتا ہے اور میں ہمیشہ دوستوں کو اپنے اخلاق کی درستی کی نصیحت کرتا رہتا ہوں مگر اللہ تعالیٰ کی ایک خبر ہے جو اس نے اپنے رسول کی زبان سے دی ہے اوروہ یہ ہے کہ قادیان ‘‘خدا کے رسول کا تخت گاہ ہے’’4 یہ خبر ضرور پوری ہو گی اور قادیان ہمیشہ خدا کے رسول کا ہی تخت گاہ رہے گا۔ کسی محدث یا مجدد کا تخت گاہ نہیں بن سکتا۔ پس مولوی محمد علی صاحب اور ان کے ساتھی ایڑی چوٹی کا زور لگا لیں، ان کے ماتھے گھس جائیں، ان کے ناک رگڑے جائیں، ان کے سارے مبلغ قادیان میں جمع ہو جائیں پھر بھی قادیان خدا کے رسول کا ہی تخت گاہ رہے گا۔ وہ اس کو اگر کسی ایسے مجدد یا محدث کا تخت گاہ بنانا چاہیں گے جو نبوت کے مقام پر کھڑا نہیں کیا گیا تو وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ یہ خدا کی تقدیر ہے جو پوری ہو کر رہے گی۔
پس لائل پور کے نوجوان تین سو نہیں تین ہزار روپیہ ماہوار دیں۔ وہ اپنے کارخانے اس غرض کے لئے لگا دیں، وہ اپنے گھروں کے زیورات تک فروخت کر دیں پھر بھی انہیں سوائے ناکامی اور نامرادی کے کچھ نہیں ملے گا اور اصحابِ فیل والے انجام کو وہ دیکھیں گے اور رجعتِ قہقری کی تلخی انہیں چکھنی پڑے گی اور اپنی قائم شدہ عزت کو وہ کھو دیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے الہامات اور آپ کی پیشگوئیوں کے علاوہ ذاتی طور پر بھی خبر دی ہے اور مجھے غیر مبائعین کے اس ارادہ کا خدا تعالیٰ کی طرف سے پہلے ہی علم ہو چکا تھا۔ چنانچہ خداتعالیٰ نے مجھے روٴیا میں دکھایا کہ غیر مبائعین کا ایک شخص جو اُن کا مبلغ بھی ہے (اور جسے میں جانتا ہوں) ہمارے گھر میں بیٹھا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اجازت لے کر ملنے آیا ہے۔ اس وقت میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے گھر میں کوئی بیمار ہے اور میں نے اس کے متعلق یہ تجویز کی ہے کہ اسے کونین دی جائے۔ خواب میں مَیں نے دیکھا کہ جس جگہ وہ شخص بیٹھا ہے وہ حضرت(اماں جان) کا کمرہ ہے۔ وہاں مستورات کوئی نہیں مَیں کونین کی تلاش میں حضرت (اماں جان) کے دالان میں گیا اور میں نے دیکھا کہ وہاں میرا ایک داماد ، دو بیٹے اور ایک وہ پیغامی شخص بیٹھا ہؤا ہے (میں نے دوستوں کو اس پیغامی شخص کا نام بھی بتا دیا تھا مگر اِس وقت نام نہیں لیتا) جب میں دالان میں داخل ہوٴا تو میں نے کونین کی شیشی کو کارنس پر پڑے ہوئے دیکھا۔ اس وقت چونکہ حضرت(اماں جان) وہاں موجود نہیں اور اپنے گھر میں کسی مریض کے لئے کوئی دوا لے لینے میں کسی اجازت کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی دنیا میں قریبی رشتہ دار معروف طور پر بغیر پوچھے ایسا کر لیا کرتے ہیں اس لئے میں اپنے داماد سے مذاق کے طور پر کہتا ہوں کہ میاں اماں جان کی شیشی میں سے ایک گولی تو چُرا دو۔ مطلب یہ تھا کہ اماں جان تو یہاں موجود نہیں تم ان کی شیشی میں سے ایک گولی نکال دو۔ میرے اس فقرہ پر وہ پیغامی مبلّغ بول پڑا اورکہنے لگا ”جی ہاں یہ چُرایا ہی کرتے ہیں۔ “مجھے اس کا یہ فقرہ بہت برا لگا کہ اس نے کیسی ناپسندیدہ بات کی ہے۔ یہ بچہ تو تھا نہیں کہ میرے مطلب کو نہ سمجھ سکتا۔ یہ جانتا تھا کہ میرا کیا مطلب ہے۔ پھر اسے کیا حق تھا کہ ایسا فقرہ استعمال کر سکتا۔ اسے گھر میں آنے کی اجازت اس لئے تو نہیں دی گئی تھی کہ ایسی لغو حرکت کرتا۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا کہ آپ نے یہ بہت ہی ناپسندیدہ بات کہی ہے۔ آپ کو گھر میں آنے کی اجازت اس لئے نہیں دی گئی تھی کہ اس قسم کے ناشائستہ فقرات استعمال کریں۔ اس پر وہ کھڑا ہو گیا اور ایسا معلوم ہوٴا کہ گویا وہ مقابلہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ میرے بچے بھی گھبرا کر کھڑے ہو گئے مگر میرے ادب کی وجہ سے وہ خود آگے نہیں بڑھے۔ وہ صرف یہ دیکھ رہے ہیں کہ میں کیا کرتا ہوں۔اس پیغامی مبلغ کی شکل اس وقت ایسی معلوم ہوتی جیسے وہ حملہ کرنا چاہتا ہے اور اس نے ہاتھ آگے بڑھایا ہے۔ اتنے میں مَیں آگے بڑھا اور اپنی کلائی اس کی کلائی کے سامنے رکھ کر اسے پیچھے ہٹایا ہے۔ میرے ہاتھ کا جھٹکا ایسا ہی تھا جیسے اپنے ہاتھ سے کسی کو پیچھے ہٹایا جاتا ہے اس سے زیادہ ہرگز نہ تھا۔ اس پیغامی مبلّغ کا قد ممکن ہے مجھ سے کچھ چھوٹا ہی ہو۔ تاہم میرے جسم اور اس کے جسم میں بظاہر کوئی زیادہ فرق نہیں مگر جب میں نے اسے جھٹکا دیا تو اس وقت وہ مجھے ایسا معلوم ہوا جیسے موم کی گڑیا ہوتی ہے۔ وہ جھٹکے سے یکدم زمین پر جا پڑا اور اس کا قد بالکل چھوٹا سا ہو گیا اور وہ میری طرف اس طرح پھٹی ہوئی آنکھوں سے دیکھنے لگاگویا وہ سمجھتا ہے کہ میں اسے مار ڈالوں گا۔ میرے بچے بھی یہ نظارہ دیکھ کر گھبرا گئے ہیں کیونکہ یہ بات میری عادت کے خلاف تھی اور وہ حیران ہیں کہ میں اس پر سختی کیوں کرنا چاہتا ہوں۔ حالانکہ میرا ارادہ اس کو کوئی سزا دینے کا نہیں۔ صرف میں حیرت سے اس کی حالت کو دیکھ رہا ہوں کہ کس طرح گڑیا کی طرح بن کر زمین پر چت لیٹ گیا ہے۔ اس وقت میں نے اسے کہا کہ میں تمہیں کچھ نہیں کہتا تم میرے گھر سے ابھی نکل جاوٴ چنانچہ وہ گھر سے نکل گیا۔ اتنے میں خواب میں ہی نماز کا وقت ہو جاتا ہے اور میں نماز پڑھانے کے لئے باہر جانے لگتا ہوں کہ میاں بشیر احمد صاحب گھبرائے ہوئے مکان کے اندر داخل ہوتے ہیں اور کہتے ہیں چوک میں کچھ پیغامی جمع ہیں اور وہ شور مچا رہے ہیں کہ فلاں شخص پر انہوں نے سختی کی ہے۔ اب ہم ان پر نالش کریں گے۔ نہیں تو اس کا ازالہ کیا جائے اور اگر یہ ازالہ کے لئے کچھ اور نہیں کر سکتے تو صرف اتنا کہہ دیں کہ مجھ سے غلطی ہو گئی ہے۔ اس وقت میاں بشیر احمد صاحب کی یہ رائے معلوم ہوتی ہے کہ کیا حرج ہے۔ اگر یہ الفاظ کہہ دئیے جائیں مگر میں کہتا ہوں یہ بالکل غلط ہے۔ جاوٴ اور ان سے کہہ دو کہ مجھے تمہاری کوئی پرواہ نہیں۔ اس شخص نے ہمارے گھر پر آ کر ایک بے ہودہ حرکت کی تھی اور وہ اس بے ہودگی کا خود ذمہ دار ہے۔ وہ حملہ کی نیت سے آگے بڑھا اس پر میں نے اسے معمولی جھٹکا دیا جس پر وہ چِت جا گرا اس میں میری کوئی غلطی نہیں۔ میں نے جو کچھ کیا ہے ٹھیک کیا ہے چنانچہ میاں بشیر احمد صاحب چلے گئے۔ اس وقت مسجد میں بہت بڑا ہجوم معلوم ہوتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے جلسے کے دن ہوتے ہیں۔ نماز کا وقت ہے۔ میں یہ بات کہہ کر مسجد میں نماز پڑھانے کے لئے چلا جاتا ہوں۔ تھوڑی دیر کے بعد میاں بشیر احمد صاحب پھر واپس آئے اور میں نے ان سے کہا کہ کیا ہوٴا؟ وہ کہنے لگے کہ کچھ بھی نہیں ہوٴا وہ تو یونہی فریب تھا۔ میں نے جاتے ہی ان سے کہہ دیا تھا کہ وہ کہتے ہیں میں نے جو کچھ کیا ہے ٹھیک کیا ہے۔ میں معذرت کرنے کے لئے تیار نہیں اس پر وہ کہنے لگے اچھا جب ان کی مرضی نہیں تو نہ سہی اور یہ کہہ کر چلے گئے۔ یہ روٴیا میں نے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو سنا دیا تھا اِسی طرح بعض اَور دوستوں کو بھی سنایا اور غالباً شوریٰ کی ایک تقریر میں بھی اس کا ذکر کیا تھا اور کہا تھا کہ معلوم ہوتا ہے غیر مبائعین اس قسم کی کوئی تجویز کرنا چاہتے ہیں کہ قادیان میں اپنا کوئی مبلغ بھیجیں۔ ایک موقع پر جب میں یہ روٴیا سنا رہا تھا تو ایک دوست جو پاس ہی بیٹھے ہوئے تھے کہنے لگے کہ بات تو ٹھیک معلوم ہوتی ہے کیونکہ مجھے غیر مبائعین کی ایسی ہی تجویز کا علم ہے اور جس شخص کو آپ نے خواب میں دیکھا ہے اسی کے متعلق یہ تجویز ہو رہی ہے کہ اسے قادیان بھیجا جائے۔ میں تو سمجھا تھا کہ اس سے مراد کوئی پیغامی مبلغ ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ وہی شخص مراد ہو جسے میں نے خواب میں دیکھا تھا مگر عجیب بات یہ ہے کہ جس شخص کو میں نے خواب میں دیکھا اسی کے متعلق یہ تجویز بھی سننے میں آ گئی کہ ان کا ارادہ اسے قادیان میں بطور مبلغ بھیجنے کا ہے۔ اس کے بعد ان کا ایجنڈا بھی میرے پاس پہنچ گیا اور اس طرح یہ بات اور بھی پختہ ہو گئی۔ غرض ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے پہلے سے بتا رکھا ہے کہ وہ ہم پر حملہ کرنے کی کوشش کریں گے مگر اللہ تعالیٰ انہیں ناکام کرے گا۔ اسی طرح مجھے متواتر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ مولوی محمد علی صاحب قادیان میں آئے ہیں اور انہوں نے مجھ سے مصافحہ کیا ہے اور بڑے ادب سے میرے سامنے بیٹھے ہیں۔ پس میں تو یقین رکھتا ہوں کہ مولوی صاحب کی پارٹی کے افراد آہستہ آہستہ میری بیعت میں شامل ہوتے چلے جائیں گے اور اگر وہ نہیں تو ان کی اولادیں ہمارا شکار بنیں گی۔ ان سے بظاہر یہ امید کم ہے کہ وہ پھر کسی وقت ہم میں شامل ہو جائیں مگر کیا تعجب ہے کہ اللہ تعالیٰ موت سے پہلے پہلے انہیں بھی ہدایت دے دے اور وہ پھر بیعت میں شامل ہو جائیں۔ بہرحال خدا تعالیٰ نے ان کو ہمارا شکار بنایا ہے ہمیں ان کا شکار نہیں بنایا۔ یہ الگ بات ہے کہ استثنائی رنگ میں بعض لوگ ہم میں سے نکل کر ان میں شامل ہو جائیں۔ ورنہ عام طور پر انہی میں سے نکل نکل کر لوگ ہم میں شامل ہوتے ہیں اور میں ان کو چیلنج دیتا ہوں کہ وہ بالمقابل فہرست شائع کر کے دیکھ لیں کہ ہم میں سے زیادہ آدمی ان کی طرف گئے ہیں یا ان میں سے زیادہ آدمی ہماری طرف آئے ہیں۔ ان آنے والوں میں سے ایک صاحب ان کے داماد بھی تھے وہ بعد تحقیق میری بیعت میں شامل ہوئے اور میں نے ان کو ہمیشہ یہی نصیحت کی کہ مولوی صاحب سے اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آئیں۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ ان کی طبیعت میں بعض وجوہ سے جوش تھا مگر میں نے ہمیشہ انہیں یہی کہا کہ ان سے حُسنِ سلوک کا معاملہ کرو اور کوئی ایسی بات نہ کرو جس کو دیکھ کر وہ یہ خیال کریں کہ مبائع ہو کر تمہارے اخلاق بگڑ گئے ہیں۔ بلکہ ہمیشہ ایسا نمونہ دکھاوٴ کہ وہ یہ سمجھنے پر مجبور ہوں کہ بیعت کے بعد تمہارے اخلاق پہلے سے زیادہ اچھے ہو گئے ہیں۔ غرض ان کا ہم پر حملہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ ممکن ہے وہ ہمارے چند آدمیوں کو لے جائیں اور ان میں سے کسی کو ملازمت کا اور کسی کو رشتہ کا لالچ دے دیں لیکن بالعموم جماعت ان کو مُنہ بھی نہ لگائے گی انشاء اللہ تعالیٰ۔ کیونکہ جس شخص کو خدا کے مامور اور اس کے مرسل کی شناخت نصیب ہو جائے اس کے متعلق یہ خیال کر لینا کہ وہ کبھی دیانتداری کے ساتھ اس راستہ کو ترک کر سکتا ہے بالکل ناممکن ہے۔ کوئی بدبخت انسان ہی ہو گا۔ ازلی بدبخت جو نور کے سرچشمہ پر پہنچ کر پھر گمراہی اور ضلالت کی طرف چلا جائے۔ بے شک لالچ، حرص اور قسم قسم کی تاریکیاں انسان کو گمراہی کی طرف لے جاتی ہیں۔ اسی طرح کبھی غصہ، کبھی کینہ اور کبھی لڑائی جھگڑے ابتلاوٴں کا باعث بن جاتے ہیں لیکن اس قسم کی ٹھوکریں کھانے والے وہی لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے صداقت کو صحیح طور پر قبول نہیں کیا ہوتا۔ ورنہ جو شخص ایک دفعہ سچائی کو مان لیتا ہے اسے اگر قتل بھی کر دیا جائے تو وہ اسے نہیں چھوڑ سکتا۔ بے شک قادیان میں غریب بھی بستے ہیں، ان میں کمزوریاں بھی ہیں، وہ آپس میں لڑ جھگڑ بھی لیتے ہیں مگر پھر بھی یہ خیال کر لینا کہ ان معمولی جھگڑوں کی وجہ سے معتد بہ جماعت ان سے جا ملے گی یہ ایک فریب خیال ہے جس کی حقیقت نہیں۔ عنقریب معلوم ہو جائے گا۔ اِنْشَاءَ اللّٰہُ ۔بلکہ خدا کے فضل سے ان کا یہاں آنا ان کے لئے شکست اور کمی کا موجب اورہمارے لئے عزت اور ترقی کا موجب ہو گا۔ ’’ (الفضل 11۔احسان 1320ہش)
1 الفضل 28 اپریل 1937ء
2 پیغام صلح 26 جولائی 1937ء
3 پیغام صلح 21 ستمبر 1937ء
4 دافع البلاء صفحہ 14 روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 230



17
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کے متعلق
اللہ تعالیٰ، آنحضرت ﷺ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خود مولوی محمد علی صاحب کی شہادت
( فرمودہ 6، جون 1941ء )

تشہد، تعوّذ اور سورہٴ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘ گو آج میری طبیعت حرارت کی وجہ سے خراب ہے مگر اس کے باوجود میں اس اختلاف کے متعلق جو ہمارے اور پیغامیوں میں ہے بعض ایسی باتیں بیان کرنا چاہتا ہوں جن سے ہر عقلمند راہنمائی حاصل کر سکتا ہے۔ دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں جس کے متعلق لوگوں میں اختلاف نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کی ذات سے لے کر انسان کے اپنے وجود تک ہر چیز کے متعلق لوگوں میں اختلاف رہا ہے۔ ہر زمانہ میں سینکڑوں ہزاروں لوگ ایسے ہوتے رہے ہیں جو کہتے ہیں کہ دنیا میں قوتِ واہمہ ہی اصل چیز ہے۔ اس کے سوا دنیا میں کسی اور چیز کا کوئی وجود ہے ہی نہیں۔ ایک قوتِ واہمہ ہے جو آپ ہی آپ خیال دوڑاتی ہے اور اس کے اس خیال دوڑانے کے ماتحت مختلف وجود اپنے آپ کو محسوس کرنے لگتے ہیں۔ ورنہ اس کے سوا دنیا میں نہ کوئی سورج ہے، نہ چاند، نہ ستارے اور نہ ہی انسان موجود ہے۔ جیسے ہم دیکھتے ہیں کہ آندھی چلتی ہے تو آگے چلتی جاتی ہے۔ اسی طرح ایک وہم سے دوسرا پیدا ہوتا جاتا ہے ایسے لوگوں کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک واقعہ سنایا کرتے تھے کہ ایک شخص کسی بادشاہ کے دربار میں گیا اور کہا کہ یہ دنیا سب وہم ہی وہم ہے آپ بھی وہم ہیں، مَیں بھی وہم ہوں، بادشاہت اور حکومت بھی وہم ہیں۔ بادشاہ اسے بہت عرصہ تک سمجھاتا رہا کہ یہ بات درست نہیں اور اس سے خوب بحث مباحثے ہوتے رہے مگر وہ اپنی رائے پر قائم رہا۔ بادشاہ نے خیال کیا کہ اسے کسی ایسی آزمائش میں ڈالنا چاہئے کہ اس کا یہ خیال دور ہو۔ ایک دن اس نے اپنا دربار اوپر کی منزل پر منعقد کیا اور سب درباریوں اور امراء وغیرہ کو اوپر ہی بلوا لیا مگر اسے نیچے ہی رہنے دیا۔ اس کے بعد جانوروں کے افسروں کو حکم دیا کہ ایک مست ہاتھی لا کر وہاں چھوڑ دیں اور ایک سیڑھی اوپر کی منزل پر آنے کے لئے لگی رہنے دی۔ جب ہاتھی آیا اور نظر ماری تو اسے وہاں ایک آدمی کھڑا دکھائی دیا اور معاً اس پر حملہ آور ہوٴا۔ وہ شخص اِدھر اُدھر جان بچانے کے لئے بھاگتا رہا مگر جدھر وہ جاتا ہاتھی پیچھے جاتا۔ آخر وہ گھبرا کر سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ بادشاہ نے اسے دیکھ کر کہا کہ تم گھبرا کر اوپر کیوں چڑھنے لگے؟ یہ تو محض وہم ہے۔ ہاتھی بھی وہم ہے اور تم پر اس کے حملہ کا خیال بھی وہم ہے اور جب سب کچھ وہم ہے تو بھاگتے کیوں ہو؟ وہ بھی کوئی ہوشیار اور چالاک آدمی تھا۔ اس نے فوراً جواب دیا کہ سیڑھیوں پر چڑھ کون رہا ہے؟ یہ بھی وہم ہی ہے۔ تو اس قسم کے لوگوں کا کوئی علاج دنیا میں نہیں۔ یہ درحقیقت مریض ہوتے ہیں اور قوتِ فیصلہ ان میں نہیں ہوتی۔ اس لئے جو بات سنتے ہیں اس کے متعلق آسان طریق یہی نظر آتا ہے کہ کہہ دیں یہ وہم ہے۔ ان کی مثال اس کبوتر کی طرح ہوتی ہے جو آنکھیں بند کر کے سمجھ لیتا ہے کہ اب بلی اس پر حملہ نہ کر سکے گی۔ بیماریاں دنیا میں پڑتی ہیں لوگ احتیاطیں کرتے ہیں۔ مثلاً کسی کو بخار آنے لگا جس کا علاج اس زمانہ میں کونین کو قرار دیا گیا ہے اور وہ فائدہ کرتی ہے یا اگر فائدہ نہ کرے تو کم سے کم سخت حملہ اس کے کھانے کے بعد نہیں ہوتا۔ لیکن ایسے لوگوں سے اگر کہا جائے تو کہہ دیں گے کہ یہ سب باتیں ہیں کونین میں کیا رکھا ہے۔ اصل مطلب اس کا صرف یہ ہوتا ہے کہ کونین کون کھائے ٹائیفائڈ کے ٹیکے نکل آئے ہیں۔ لیکن ایسے آدمی سے اگر کہا جائے کہ ٹیکہ کرا لو تو کہہ دے گا کہ یہ سب باتیں ہیں جو ڈاکٹروں نے اپنی دوائیاں بیچنے کے لئے مشہور کر رکھی ہیں۔ مگر جب ٹائیفائڈ آن پکڑتا ہے تو پھر علاج کے لئے ڈاکٹروں کے پیچھے پھرتے ہیں۔ ہیضہ پھیلتا ہے ان سے کہا جائے کہ حفظِ ما تقدم کے طور پر علاج کراوٴ تو کہیں گے کہ کیا ہیضہ سب کو ہوتا ہے مگر جب ان پر حملہ ہوتا ہے تو پھر گھبراتے ہیں۔ تو اس قسم کے خیالات دراصل نفس کی بیماری سے پیدا ہوتے ہیں۔ کام کرنے کو دل نہیں چاہتا قوتِ فیصلہ ہوتی نہیں اس لئے ایسا انسان اپنے آپ کو طفل تسلی دے لیتا ہے اور ایسے لوگ دنیا میں ہمیشہ ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ میر امطلب یہ ہے کہ اگر انسان کسی مسئلہ پر خواہ مخواہ بحث جاری رکھنا چاہے اور کوئی بڑی سے بڑی دلیل بھی پیش کی جائے تووہ اس پر کوئی نہ کوئی اعتراض کر دے گا اور وہ اعتراض خواہ کتنا نامعقول کیوں نہ ہو اسے پیش کر کے سمجھ لے گا کہ مَیں نے اس دلیل کو رد کر دیا۔ دنیا میں کہا جاتا ہے کہ آفتاب آمد دلیلِ آفتاب مگر جس کا یہ عقیدہ ہو کہ دنیا میں سب کچھ وہم ہے۔ نور بھی وہم اور اندھیرا بھی وہم ہے وہ اس دلیل کو بھی رد کر دیتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے نہ کوئی سورج تھا، نہ روشنی، نہ چاند، نہ ستارے۔ تو اس قسم کی بحثیں کبھی بھی ختم ہونے میں نہیں آتیں۔ سلسلہ چلتا جاتا ہے ایک بات چھوڑی دوسری پکڑی۔ آگے وہ چھوڑی تو کوئی اور لے لی۔ اور ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے جھگڑوں کو دنیا میں جاری رکھا ہوٴا ہے۔ بھلا وہ کونسی چیز تھی جس نے حضرت نوح علیہ السلام کے مخالفوں کو ضد پر قائم رکھا تھا؟ اور وہ کونسی بات تھی جس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مخالفوں کو ان کے مقابل پر کھڑا کر رکھا تھا؟ پھر وہ کونسی دلیل تھی جس سے حضرت داوٴد اور سلیمان علیہما السلام کا مقابلہ ان کے مخالفوں نے کیا؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور پھر آنحضرت ﷺ کا مقابلہ کرایا؟ ان کے پاس کوئی دلیل نہ تھی کوئی ثبوت نہ تھا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ان کے نفسوں کی خواہشات تھیں۔ کوئی نہ کوئی نفسانی غرض، کوئی پوشیدہ مقصد اور یا پھر کوئی دماغی کمزوری اس کا سبب ہوتا ہے۔ قربانی کرنے یا دوسروں کا مقابلہ کرنے کی طاقت اور ہمت ان میں نہیں ہوتی اور اس لئے صداقت پر اعتراض کرتے جاتے ہیں۔ خواہ وہ سورج کی طرح عیاں کیوں نہ ہو چکی ہو اور یہ ان کی عادت ہو جاتی ہے۔ یہی حال ہمارے پیغامی دوستوں کا ہے۔ باریک دلائل کو جانے دو میں ایک موٹی بات پیش کرتا ہوں اسے ہی لے لو۔ رسول کریم ﷺ نے جہاں بہت سے آنے والے وجودوں کی خبر دی ہے وہاں ایک خاص وجود کی بھی خبر دی ہے اور اسے نبی اللہ 1 فرمایا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ میری اُمت میں مجددین آئیں گے2۔ مگر یہ بھی فرمایا ہے کہ میری امت میں منافق بھی ہوں گے مگر کیا اس کے یہ معنے ہیں کہ ہمارے سامنے جو شخص بھی آئے ہم اسے منافق قرار دے دیں۔ اس وجہ سے کہ آپ نے فرمایا ہے میری امت میں منافق بھی ہوں گے۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے روز مَیں حوضِ کوثر پر کھڑا ہوں گا کہ فرشتے میرے بعض صحابہ کو لے کر دوزخ کی طرف جائیں گے تو مَیں پکاروں گا۔ اُصَیْحَابِیْ اُصَیْحَابِیْ3 کہ یہ تو میرے اصحاب ہیں۔ اس پر فرشتے جواب دیں گے کہ آپ کو معلوم نہیں آپ کے بعد ان اصحاب نے کیا کیا کام کئے مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ ہر صحابی کو منافق کہہ دیا جائے۔ دراصل ان لوگوں کو جو آپ نے اپنے اصحاب بیان فرمایا تو یہ محض ان کی ظاہری حالت پر قیاس کر کے۔ حقیقتاً وہ صحابہ نہ تھے مگر کیا آپ کے اس ارشاد کی وجہ سے ہم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ بزرگوں کو بھی منافق کہہ سکتے ہیں؟ اسی طرح بے شک آپ نے فرمایا ہے کہ میری امت میں مجددین آئیں گے مگر یہ بھی تو فرمایا ہے کہ نبی بھی ہو گا۔ اس حدیث کو بعض لوگ ضعیف قرار دے دیتے ہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے استعمال کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کم سے کم اس کایہ حصہ ضعیف نہیں۔ اور وجوہ سے اس کے دوسرے حصے ضعیف ہوں تو بے شک ہوں یہ حصہ جس میں نبی کا لفظ مسیح موعود کے لئے بولا گیا ضعیف نہیں ہو سکتا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود اسے استعمال فرمایا ہے۔
پیغامی کہتے ہیں کہ یہ لفظ جو ہے اس کے کچھ اور معنی ہیں۔ ہم کہتے ہیں بہت اچھا ہم مان لیتے ہیں کہ آپ نے یہ لفظ مجدد یا محدث کے معنوں میں استعمال فرمایا اور فرض کر لیتے ہیں کہ ان معنوں میں یہ لفظ استعمال ہو بھی سکتا ہے مگر سوال تو یہ ہے کہ کیا آنے والے مسیح کے لئے آپ نے کہیں مجدد کا لفظ بھی بولا ہے؟ یہ صحیح ہے کہ دنیا میں بعض اوقات بعض الفاظ استعارہ کے رنگ میں استعمال کر لئے جاتے ہیں مثلاً بہادر کو شیر، سخی کو حاتم کہہ لیا جاتا ہے مگر جن کے متعلق یہ استعارہ استعمال ہو اس کا اصلی نام بھی تو لیا جاتا اور حقیقی مرتبہ بھی تو بیان کیا جاتا ہے۔ سخی کو بے شک حاتم کہہ دیتے ہیں مگر اس کا اصلی نام بھی تو لیتے ہیں۔ اسی طرح مان لیا کہ آنے والے مسیح کے متعلق آپ نے نبی یا رسول کا لفظ استعارہ کے طور پر استعمال فرمایا اور اس کے معنی مجدد کے ہیں مگر کیا آپ نے اپنی ساری نبوت کے زمانہ میں ایک دفعہ بھی آنے والے مسیح کے لئے مجدد کا لفظ بولا؟ آپ نے تمام عرصہ میں ایک ہی لفظ استعمال فرمایا اور وہ نبی کا تھا۔ یہ اگر استعارہ تھا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے ساری عمر آنے والے کے اصل مرتبہ کا ذکر ہی نہیں فرمایا۔ اور اس طرح نَعُوْذُ بِاللہِ خود لوگوں کی گمراہی کے سامان کر دئیے کہ استعارہ ہی استعارہ استعمال کیا۔ حقیقت اور اصلیت کا ذکرتک بھی نہ کیا۔ ایک جگہ بھی آنے والے کے حقیقی مقام کا ذکر نہ کیا۔ ایک ہی جگہ اس کا مرتبہ بیان فرمایا اور وہیں اسے نبی اللہ قرار دیا۔ اگر بحث سے الگ ہو کر اور آنحضرت ﷺ کے بلند مقام کو سامنے رکھ کر غور کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے نبی اللہ فرمانے کے معنی ہی یہ ہیں کہ آنے والا نبی ہو گا۔ اگر اس کا اور کوئی مفہوم ہوتا تو آپ کسی دوسری جگہ اس کے صحیح مرتبہ کا بھی تو ذکر فرماتے۔ آنحضرت ﷺ نے بے شک استعارات بھی استعمال فرمائے ہیں مگر ایسی چیزوں میں جن کا ایمان سے تعلق نہیں۔ مثلاً پیشگوئیاں ہیں کسی پیشگوئی کے کسی حصہ کا پتہ نہ بھی لگے تو کوئی حرج نہیں اور نہ ان پر جب تک سمجھ نہ آئے ایمان لانا ضروری ہے۔ اس لئے آپ نے استعارے استعمال فرمائے حقیقت کا اظہار نہیں فرمایا۔ لیکن ایمان کے ساتھ تعلق رکھنے والی کسی بات میں آپ نے ایسا نہیں کیا۔ اگر کہیں استعارہ استعمال فرمایا ہے تو دوسری جگہ اس کی وضاحت بھی فرما دی۔ مثلاً جہاں حضرت مسیح کے آسمان سے آنے کا ذکر فرمایا وہاں اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ 4 فرما کر اس طرف توجہ دلا دی کہ وہ آنے والا مسیح تم میں سے ہی ہو گا۔ یعنی امت محمدیہ کا فرد ہو گا اور اس طرح مِنْکُمْ فرما کر اس بات کو حل کر دیا مگر مسیح موعود کے لئے آپ نے مجدد یا محدث کا لفظ کبھی استعمال نہیں فرمایا۔
اس کے بعد ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کلام بھی یہی ظاہر کرتا ہے کہ آپ نبی تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ابتدائی زمانہ کا ایک الہام بیان فرماتے ہیں کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔5 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اس الہام کی دو قراء تیں ہیں۔ ایک یہ کہ دنیا میں ایک نذیر آیا اور دوسری کہ دنیا میں ایک نبی آیا۔6 گویا اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ کلام ابتدا ہی میں اس طرح شروع کرتا ہے کہ دنیا میں ایک نذیر اور نبی آیا۔ نذیر کا لفظ بھی قرآن کریم میں جہاں استعمال ہوا ہے نبی کے معنوں میں ہی ہؤا ہے۔ اس لئے نذیر کے لفظ سے کوئی شُبہ پیدا نہیں ہو سکتا۔ پھر تذکرہ نکال کر دیکھو کہ کتنی جگہ آپ کے الہامات میں آپ کے لئے مجدد یا محدث کا لفظ ہے؟ اور کتنی جگہ نبی اور رسول کا؟ یہ صحیح ہے کہ ہر نبی محدث بھی ہوتا ہے۔ جیسے ایم۔ اے، بی۔ اے بھی ہوتا ہے۔ ہم ایم۔ اے کے متعلق کہہ سکتے ہیں کہ جب اس نے بی۔ اے پاس کیا تھا بلکہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جب وہ مدرسہ میں داخل ہوٴا تھا۔ مگر اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ وہ ایم۔ اے نہیں۔ اسی طرح نبی مومن بھی ہوتا ہے، صالح اور شہید بھی اور صدیق بھی۔ یہ سب لفظ اس کے لئے استعمال ہو سکتے ہیں۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ نبی نہیں۔ عجیب بات ہے کہ آنحضرت ﷺ نے تو نَعُوْذُ بِاللہِ غلطی کی کہ آنے والے کا صحیح روحانی مرتبہ ایک بار بھی بیان نہ فرمایا۔ ایک ہی دفعہ اس کے مرتبہ کا ذکر فرمایا۔ مگر وہاں بھی نبی اللہ کے نام سے اسے یاد کیا۔ اب چاہئے تو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اس غلطی کا ازالہ فرما دیتا اور کہہ دیتا کہ اس حدیث سے غلطی نہیں کھانی چاہئے۔ آپ کا اصل مقام محدث ہے آپ نبی نہیں۔ مگر ابتدائی باتیں جو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کیں ان میں ہی یہ فرمایا کہ دنیا میں ایک نبی آیا پھر آپ کے الہامات کا مجموعہ جو شائع شدہ ہے اس میں کئی سو جگہ آپ کے لئے نبی کا لفظ استعمال ہوٴا ہے۔ وضاحت کے ساتھ یا تشبیہ کے ساتھ۔ اور یہ خدا تعالیٰ کا قول ہے۔ اور اگر یہ بھی صحیح نہیں تو کہنا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ نے نَعُوْذُ بِاللہِ پھر لوگوں کو اسی گمراہی میں ڈال دیا۔ عجیب بات ہے کہ اصل مرتبہ کا ذکر یہاں بھی نہیں۔ نبی اللہ نبی اللہ ہی بار بار فرمایا ہے۔ حتّٰی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام فرماتے ہیں کہ بعض اوقات میں رات کو سونے کے لئے لیٹتا ہوں تو تکیہ پر سر رکھتے ہی یہ الہام ہونا شروع ہوتا ہے کہ اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ 7 ۔ مَیں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں۔ یعنی مَیں تمہارے ساتھ ہوں اور تمہاری تائید پر ہوں۔ آپ نے فرمایا ہے کہ تکیہ پر سر رکھنے سے لے کر سر اٹھانے تک برابر یہ الہام ہوتا رہتا ہے اور کس قدر عجیب بات ہے کہ یہاں بھی اللہ تعالیٰ آپ کے اصل مرتبہ کو چھوڑ ہی دیتاہے اور جو مرتبہ محض مشابہت کے لئے ہے اسے بیان کرتا جاتا ہے۔ تذکرہ کو دیکھ لو مجدد یامحدث سے سینکڑوں گنے زیادہ نبی اور رسول کے الفاظ آپ کے لئے استعمال ہوئے ہیں۔ بلکہ اگر ان الہامات کو شامل کر لیا جائے جو سر تکیہ پر رکھنے کے وقت سے سر اٹھانے تک جاری رہتے تو کہنا پڑے گا کہ لاکھوں گُنے زیادہ دفعہ یہ لفظ استعمال ہؤا ہے اور کیا ایک سمجھدار انسان کے سمجھنے کے لئے یہ کافی نہیں کہ اللہ تعالیٰ جسے دنیا کی ہدایت کے لئے بھیجتا ہے۔ رسول کریم ﷺ اس کے اصل مرتبہ کو بیان نہیں فرماتے بلکہ صرف نبی اللہ ہی فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ شروع کے الہامات میں ہی اس کو نبی اللہ فرماتا ہے اور آخری الہامات جو وفات کے قریب ہوتے ہیں ان میں بھی رسول اور نبی کے الفاظ ہی اس کے لئے استعمال فرماتا ہے۔ غرض شروع سے آخر تک یہی الفاظ اس کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ پس سمجھنے والے کے لئے اس بات کو سمجھنا نہایت آسان ہے کہ اگر آپ کا اصل درجہ مجدد یا محدث ہوتا تو اللہ تعالیٰ اسی پر زیادہ زور دیتا اور اگر کہیں استعارہ کے طور پر آپ کے لئے نبی کا لفظ استعمال ہوتا (استعارہ سے مراد وہ تشبیہ ہے جس میں حقیقتِ جنسی نہیں پائی جاتی۔ ورنہ ظلی نبوت جو تشریعی نبوت کے تابع ہوتی ہے۔ بوجہ اس کے کہ اصل سے بہ طریقِ فیض اخذ کی جاتی ہے ، مستعار کہلا سکتی ہے مگر اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ وہ نبوت نہیں ہے) تو دوسری جگہ اس کی وضاحت کر دیتا۔ مثلاً قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ تیرا ہاتھ خدا تعالیٰ کا ہاتھ ہے8 ۔ اس میں آپ کے وجود کو الٰہی وجود سے تشبیہ دی گئی ہے اور اس سے غلط فہمی ہو سکتی ہے۔ اسی طرح ایک دو اور ایسی آیات ہیں۔ مثلاً ایک دوسری جگہ فرمایا ہے قُلْ یٰعِبَادِیْ 9 ۔اور وہاں یہ آنحضرت ﷺ کا کلام نظر آتا ہے اور بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہاں آپ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تُو کہہ۔ اے میرے بندو! مگر یہ آیت تشریح طلب ہے او ربعض مفسرین نے اس کے اور معنے بھی کئے ہیں۔ بہرحال دو تین مقامات قرآن کریم میں ایسے ہیں اور چونکہ اس سے آپ کے درجہ کے متعلق غلط فہمی ہو سکتی تھی اس لئے بشر اور رسول کا لفظ آپ کے متعلق اتنی مرتبہ فرمایا کہ غلط فہمی کاکوئی احتمال باقی نہ رہا اورجب کوئی مخالف اعتراض کرتا ہے کہ دیکھو قرآن کریم میں شرک کی تعلیم ہے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ تو تشبیہی کلام ہے جس میں آنحضرت ﷺ کی خدا تعالیٰ سے یگانگت بیان کی گئی ہے۔ ورنہ آپ کے لئے رسول، نبی، عبد اور بشر کے الفاظ سے قرآن کریم بھرا پڑا ہے۔ قرآن کریم کے شروع میں بِسْمِ اللہِ ہے 10 یعنی مَیں اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتا ہوں۔ اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ مَیں بندہ ہوں اور خدا تعالیٰ کی مدد کا محتاج پھر آخر میں اَعُوْذُبِرَبِّ النَّاسِ 11 ہے اس میں بھی اسی طرف اشارہ ہے کہ مَیں بندہ ہوں خدا نہیں ہوں۔ گویا بِسْمِ اللہِ سے لے کر آخر تک آپ کی طرف الوہیت کی نسبت کو غلط بتایا گیا ہے اور بار بار کہا گیا ہے کہ آنحضرت (ﷺ) صرف بشر رسول ہیں، عبد ہیں۔ تو قرآن کریم میں اگر دو تین ایسی آیا ت ہیں جن میں آنحضرت ﷺ کا خدا تعالیٰ کے ساتھ اتحاد اور تعلق ظاہر کیا گیا ہے اور ایسے الفاظ بیان ہوئے ہیں جن سے عوام کو شبہ ہو سکتا ہے تو دوسری آیات میں کثرت کے ساتھ اصلیت بیان کر دی گئی ہے۔ مگر یہ کیا اندھیر ہے کہ محمد ﷺ کو تو اللہ تعالیٰ نے دو تین جگہ اپنی ذات سے تشبیہ دی اور پھر اس اشتباہ کو دور کرنے کے لئے بار بار آپ کو بشر اور عبد کہہ کر یاد کیا ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے متعلق بار بار وہی الفاظ بیان کئے جو دراصل آپ کا صحیح مقام نہ تھا۔ تیس پینتیس سال تک برابر آپ کو نبی اور رسول کے لفظ سے پکارتا رہا۔ اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا کوئی معقول انسان کہہ سکتا ہے کہ آپ کا اصل مرتبہ محدثیت کا ہے۔ اگر آپ کا یہ درجہ ہوتا تو چاہئے تھا کہ بار بار اسی کا ذکر ہوتا۔ جیسے رسول کریم ﷺ کے متعلق بشر کا لفظ بار بار فرمایا ہے اور الوہیت سے تشبیہ شاذ کے طور پر دی ہے۔ پھر چاہئے تھا کہ اسی کی تائید آنحضرت ﷺ کے ارشاد سے ہوتی اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے کلام میں ہوتا۔ کوئی نادان کہہ سکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا مرتبہ بڑا تھا اور وہ زیادہ محتاط تھے اس لئے قرآن کریم میں بشریت اور رسالت پر خاص زور دیا گیا ہے۔ مگر یاد رہے کہ قرآن کریم رسول کریم ﷺ کا کلام نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی وحی ہے اور وہ اسی ذات پاک کا اتارا ہؤا ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام پر الہام نازل کیا۔ لیکن وہاں تو الوہیت کے ساتھ معمولی سی تشبیہ کے بعد بشر اور عبد بار بار فرمایا اور اس پر اتنا زور دیا کہ آپ کے بشر ہونے میں کوئی شبہ ہی نہ رہا۔ اور یہاں یہ حال ہے کہ الہامات میں بار بار نبی اور رسول ہی کہا گیا ہے۔ پھر رسول کریم ﷺ بھی نبی ہی کہتے ہیں۔
اب اس سے آگے چلو ۔ مان لیا کہ نَعُوذُ بِاللہِ مِنْ ذَ الِکَ اللہ تعالیٰ نے بھی بے احتیاطی کی اور رسول کریم ﷺ نے بھی۔ اور یہ کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام پر چھوڑ دیا کہ وہ خود اس سوال کو حل کریں اب سب بحثوں کو چھوڑ دو اور آپ کی کتابوں میں دیکھ لو کہ کیا آپ نے اپنے مجدد ہونے کی بحثیں کی ہیں؟ اور منہاج مجددیت کو دشمنوں کے سامنے پیش کیا ہے یا منہاجِ نبوت کو؟ آپ نے کثرت سے یہی الفاظ استعمال فرمائے ہیں کہ مَیں نبی ہوں، رسول ہوں۔باقی رہا محدثیت کا سوال، اس پر صرف ابتدائی زمانہ میں اصولی طور پر کچھ بحث کی ہے ورنہ بعد میں مسیحیت اور نبوت پر ہی بحث کی ہے اور یہاں تک فرمایا ہے کہ میرے دعویٰ کی مشکلات میں سے ایک مشکل نبوت کا دعویٰ ہے گویا آپ کی تحریرات سے جو غلط فہمی دور ہو سکتی تھی اس کا بھی امکان باقی نہیں رہا۔ اس کے بعد ایک اور ذریعہ یہ باقی رہ جاتا تھا کہ آپ کے زمانہ کے مصنّف اور علماء اس بات پر زور دیتے اور کہتے کہ آپ نے اپنے لئے لفظ نبی جوش میں استعمال فرمایا ہے ورنہ آپ کا اصل مرتبہ محدث کا ہی ہے مگر یہ بات بھی نہیں۔ اس زمانہ میں مولوی محمد علی صاحب سب سے اہم رسالہ کے ایڈیٹر تھے۔ اسی رسالہ کے جس میں خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام مضمون لکھا کرتے تھے اور جن میں سے بعض مضمونوں کو باوجود حقیقت کا علم رکھنے کے محض خوشامد اور چاپلوسی کے طور پر پیغام کا عملہ متعدد بار مولوی محمد علی صاحب کی طرف منسوب کرتا چلا آیا ہے اور مولوی صاحب اس عظیم الشان افتراء کو شیرِ مادر کی طرح پیتے چلے آئے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے مضامین کو اپنی طرف منسوب ہوتے دیکھ کر خاموش رہے ہیں۔ اس اہم رسالہ میں اس کے ایڈیٹر صاحب جن کے قول کو اس وقت بعض پیغامی خدا اور رسول اور امامِ وقت کے قول پر ترجیح دیتے ہیں متواتر اس رسالہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کو نبی لکھتے رہے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی وفات تک نبوت پر ہی زور دیتے رہے ہیں۔ کہیں چیلنج دیتے ہیں کہ آپ کا مقابلہ حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت حسنؓ یا حسینؓ سے نہیں کیا جا سکتا۔ ان بزرگوں کو آپ کے مقابلہ میں پیش کرنا غلطی ہے کیونکہ یہ نبی نہ تھے اور آپ نبی ہیں۔ کہیں لکھا ہے کہ آپ کی صداقت معیارِ نبوت پر پرکھنی چاہئے۔ غرض وہ اہل قلم جو اس زمانہ میں سلسلہ کا پیغام دنیا کو پہنچاتے رہے آپ کا نبوت کا مقام ہی پیش کرتے رہے مگر آج ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ان سب الفاظ سے مراد محدثیت تھی۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو بار بار نبی اور رسول فرمایا تو اس کی مراد اس سے محدثیت تھی۔جب آنحضرت ﷺ نے نبی اللہ فرمایا تو اس سے بھی محدثیت مراد تھی۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود اپنے آپ کو نبی اللہ لکھتے رہے 12 تو اس سے مراد بھی محدثیت تھی اور جب مَیں لکھتا تھا تو اس سے مراد بھی محدثیت تھی۔ مگر ہم کہتے ہیں کہ بہت اچھا جناب اگر نبوت اور رسالت کے الفاظ جو آپ استعمال کرتے رہے اس سے مراد محدثیت ہی تھی تو پھر آپ نے ان الفاظ کا استعمال اب کیوں ترک کر دیا۔ اگر نبوت کے معنی محدثیت کے ہیں تو اب بھی وہی لفظ استعمال کریں اور اسی زور سے استعمال کریں۔ اس زمانہ میں تو آپ خدا کا رسول، خدا کا آخری رسول، آخری زمانہ کا رسول آپ کو لکھتے تھے مگر اب ‘‘پیغام صلح’’13 کو دیکھ لو کبھی یہ الفاظ نظر نہ آئیں گے۔ اگر ان الفاظ کے معنی وہی تھے جو آج آپ بتاتے ہیں تو پھر آج ان کے استعمال میں کیا حرج ہے۔ کیوں آج انہیں استعمال نہیں کرتے؟ غرض آج آپ کا ان الفاظ کو استعمال نہ کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ جب آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی زندگی میں آپ کو نبی اور رسول لکھتے تھے تو ان سے مراد نبی اور رسول ہی سمجھتے تھے۔ اس طرح جب خد اتعالیٰ آپ کو نبی کہتا تو وہ نبی ہی سمجھتا تھا۔ جب محمد مصطفی ﷺ نے آپ کو نبی کہا تو اس سے مراد نبی ہی تھی اور جب آپ نے اپنے لئے یہ الفاظ استعمال کئے تو ان سے مراد بھی نبوت ہی تھی۔ یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ سب نے غلطی کی۔ یہ تو کوئی کہہ سکتا ہے کہ مَیں نے غلطی کی یا مَیں فلاں بات کرنے یا لکھنے کے وقت کسی اور خیال میں مشغول ہوں گا مگر یہ کہ جو الفاظ خدا تعالیٰ نے فرمائے، آنحضرت ﷺ نے فرمائے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے خود فرمائے، اور آپ کی زندگی میں مولوی محمد علی صاحب بھی استعمال کرتے رہے ان کے متعلق آج یہ کہا جائے کہ ان سب سے مراد وہ نہیں تھی جو لفظوں سے ظاہر ہے بلکہ ان سے مراد کچھ اور ہی تھا۔ تو یہ ایسی بات ہے جسے کوئی معقول انسان کبھی نہیں مان سکتا۔ ہمیں ماننا پڑے گا کہ جو لفظ اس طرح بار بار استعمال ہوٴا دراصل وہی مقام آپ کا ہے۔ اور جو دو ایک بار استعمال ہوٴا وہ دراصل ادنیٰ مقام تھا۔ اللہ تعالیٰ کی گواہی، رسول کریم ﷺ کی گواہی، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی گواہی اور خود مولوی محمد علی صاحب کی اُس زمانہ کی گواہی جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے روٴیا میں یہ کہا گیا ہے کہ آپ بھی صالح تھےاور نیک ارادہ رکھتے تھے14 ایک عقلمند کے لئے بالکل کافی ہے۔ اور وہ گواہی جو اِس وقت دی جا رہی ہے جب آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام سے دور ہو گئے اور آپ کے پاس سے اٹھ کر چلے گئے اور آپ کو افسوس سے کہنا پڑا کہ آپ بھی صالح تھے اور نیک ارادے رکھتے تھے آوٴ ہمارے پاس بیٹھ جاوٴ قابلِ قبول نہیں ہو سکتی۔ ان حالات میں صرف ایک سوفسطائی15 جو وہم میں مبتلا ہو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے نبی ہونے کا انکار کر سکتا ہے۔ اور ایسے شخص کا کوئی علاج کسی کے پاس نہیں۔ حضرت خلیفة المسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ ایسے لوگوں کی مثال وہی ہوتی ہے۔ جیسے ایک نَٹ باریک رسی پر چڑھ کر ناچتا، کودتا، چھلانگیں لگاتا اور اپنی جان کو خطرات میں ڈال کر کوئی کھیل دکھاتا ہے تو نیچے سے ایک بڈھا کہہ دیتا ہے مَیں نہ مانوں۔ ایسے لوگوں کا کوئی علاج ہمارے پاس نہیں۔ ہاں سوچنے والے کے لئے اللہ تعالیٰ، آنحضرت ﷺ اور خود مولوی محمد علی صاحب کی وہ شہادت جو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی زندگی میں دی راہ نمائی کے لئے کافی ہے۔ لیکن اگر کوئی انسان نہ سمجھنا چاہے تو ایسے انسان کا علاج اللہ تعالیٰ ہی کر سکتا ہے۔ کوئی بندہ نہیں کر سکتا۔ ’’ (الفضل18 ۔ جون 1941ء)
1 مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال و صفتہ و ما معہ
2 ابو داوٴ دکتاب الملاحم باب ما یذکر فی قرن المائة
3 بخاری کتاب التفسیر۔ تفسیر سورہ المائدة باب قَوْلِہِ وَ کُنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا۔ مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحہ 453 بیروت 1978ء
4 بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسی ابن مریم
5،6 تذکرہ صفحہ 104 ۔ ایڈیشن چہارم
7 تذکرہ صفحہ395، 459، 462۔ ایڈیشن چہارم
8 اِنَّ الَّذِيْنَ يُبَايِعُوْنَكَ اِنَّمَا يُبَايِعُوْنَ اللّٰهَ١ؕ يَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَيْدِيْهِمْ(الفتح:11)
9 قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا١ؕ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ۔(الزمر: 54)
10 الفاتحة: 1 11: الناس: 2
12 ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 2 روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 206
13 غیر مبائعین کا ترجمان جو 10 جولائی 1913ء کو لاہور سے جاری ہوٴا۔ (تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 485)
14 تذکرہ صفحہ518۔ ایڈیشن چہارم
15 سوفسطائی: یونان کے وہ حکماء جن کے عقائد کی بنیاد وہم پر تھی۔ یہ لوگ حقائق الاشیاء کے منکر تھے۔ اب اس شخص کو بھی سوفسطائی کہتے ہیں جو ہر بات میں خواہ مخواہ اُلجھاوٴ ڈالے۔ (اردو انسائیکلو پیڈیا)

18
چندہ تحریک جدید جلد ادا کرنے کی کوشش کی جائے
( فرمودہ 20 جون 1941ء )

تشہّد، تعوّذ اور سورہٴ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘تحریک جدید کے مالی سال میں سے بہت سے مہینے گزر چکے ہیں اور اب ساتویں سال کے قریباً پانچ مہینے باقی ہیں۔ سوائے ان مستثنیات کے کہ بعض لوگ مجبوریوں کی وجہ سے زیادہ مہلت لے لیتے ہیں یا دوسرے ممالک میں رہنے والے ہیں یا ہندوستان کے دوسرے صوبوں میں رہتے ہیں۔ باقی سب کے نومبر کے آخر تک بارہ مہینے پورے ہو جائیں گے۔
مجھے خوشی ہے کہ اس سال تحریک جدید میں چندہ لکھانے والوں میں سے ایک معتد بہ حصہ نے یہ کوشش کی ہے کہ ان کا وعدہ مئی میں پورا ہو جائے۔ چنانچہ اس سال گزشتہ سال کی نسبت مئی کے مہینہ تک پندرہ ہزار روپیہ کی آمد زیادہ ہوئی ہے مگر سال کو مدنظر رکھتے ہوئے درحقیقت ابھی وعدوں کا نصف حصہ وصول ہؤا ہے۔ حالانکہ سات مہینے گزر چکے ہیں اور پانچ مہینے باقی ہیں۔
پھر اس وصولی میں بیرونی جماعتوں کا بھی ایک حد تک چندہ شامل ہے جن کی مہلت نومبر کے بعد بھی جاری رہتی ہے۔ ان کو اگر نکال دیا جائے تو ہندوستان کے چندہ میں سے ابھی نصف بھی وصول نہیں ہوٴامگر بہرحال بعض گزشتہ سالوں سے اس سال اچھی وصولی ہوئی ہے اور وقت پر ہوئی ہے لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے ابھی کثیر حصہ چندہ دینے والوں کا ایسا ہے جن کی رقوم وصول نہیں ہوئیں اور دن بہت تھوڑے رہ گئے ہیں اس لئے میں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس چندہ کو جلد سے جلد ادا کرنے کی کوشش کریں۔
یہ چندہ جیسا کہ میں نے بار بار توجہ دلائی ہے طوعی ہے۔ اس میں کسی پر جبر نہیں کیا جاتا، کوئی تعیین نہیں ہوتی، کوئی زور نہیں دیا جاتا بلکہ ہر شخص اپنی مرضی، اپنی خواہش، اپنے ظرف اور اپنے ایمان کی وسعت کے مطابق چندہ لکھواتا ہے۔
ہزاروں ہزار ہماری جماعت میں ایسے لوگ موجو د ہیں جو تحریک جدید میں چندہ نہیں لکھواتے اور انہوں نے سات سالوں میں سے ایک سال میں بھی حصہ نہیں لیا مگر ان کو کوئی بُرا نہیں کہتا اس لئے کہ یہ فرضی چندہ نہیں کہ اگر کوئی شخص اس میں اپنا وعدہ نہ لکھائے تو اسے کہا جائے کہ اس نے جماعت کے فرائض کو ادا نہیں کیا بلکہ جو شخص بھی چندہ دیتا یا چندہ ادا کرنے کا وعدہ کرتا ہے وہ اپنی خوشی سے یہ ذمہ داری اپنے اوپر عائد کرتا ہے اور اس لئے کرتا ہے تا نوافل کے ثواب میں وہ شریک ہو جائے۔
رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ انسان نوافل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ ہر حرکت جو وہ خدا تعالیٰ کی طرف کرتا ہے اس کے جواب میں خدا اس سے زیادہ حرکت کرتا ہے اگروہ ایک قدم چلتا ہے تو خدا دو قدم چل کر آتا ہے اور اگر وہ تیز چلتا ہے تو خدا دوڑ کر اس کی طرف آتا ہے۔ پھر آپ نے فرمایا اسی طرح بندہ خدا کے قریب ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ خدا اس کے ہاتھ بن جاتا ہے جن سے وہ پکڑتا ہے اور خدا اس کی آنکھیں بن جاتا ہے جن سے وہ دیکھتا ہے اور خدا اس کے پاوٴں بن جاتا ہے جن سے وہ چلتا ہے۔1 گویا ایسے بندے اور خدا کے درمیان ایسا اتصال اور اتحاد پیدا ہو جاتا ہے کہ اس کی خواہشات خدا تعالیٰ کی خواہشات ہو جاتی ہیںَ
کوئی بندہ خدا نہیں بن سکتا۔ بندہ بندہ ہی ہے اور خدا خدا ہی ۔ مگر الوہیت کی چادر اوڑھنے کا ذریعہ یہ ہے کہ انسان خدا کے ساتھ متصل ہو جائے اور اس کی روح خدا کی صفات میں منضم ہو جائے حتی کہ اس کے ارادے وہی ہو جائیں جو خدا کے ارادے ہیں، اس کی خواہشات وہی ہو جائیں جو خداکی خواہشات ہیں اور اس کے مقاصد وہی ہو جائیں جو خدا کے مقاصد ہیں۔ تب بندہ ایک رنگ میں خدا ہی بن جاتا ہے اور جو کچھ وہ چاہتا ہے وہی کچھ ہو جاتا ہے۔ نادان لوگ اسے دیکھ کر بعض دفعہ یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ وہ بندہ اپنے اندر خدائی صفات رکھتا ہے۔ حالانکہ بات یہ نہیں ہوتی کہ اس کے اندر خدائی صفات آ جاتی ہیں۔ بلکہ بات یہ ہوتی ہے کہ اس نے اپنی مرضی کو قربان کر کے خدا کی مرضی کو اختیار کیا ہوٴا ہوتا ہے اور گو بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ وہ جو چاہتا ہے وہی ہو جاتا ہے مگر دراصل وہ اپنی ذات میں کچھ چاہتا ہی نہیں۔ وہ وہی کچھ چاہتا ہے جو خدا چاہتا ہے اور چونکہ جو کچھ وہ چاہتا ہے وہ درحقیقت خدا کا ارادہ اور اس کا منشاء ہوتا ہے اس لئے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس کی بات پوری ہوئی حالانکہ اس کی بات نہیں بلکہ خدا کی بات پوری ہوتی ہے۔ لوگ تو صرف اتنا دیکھتے ہیں کہ فلاں شخص کی زبان سے بات نکلی اور وہ پوری ہو گئی اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس کی زبان میں بڑی تاثیر ہے حالانکہ اس کی زبان میں کوئی تاثیر نہیں ہوتی بلکہ تاثیر اس لئے ہوتی ہے کہ اس نے اپنی زبان کاٹ دی ہوتی ہے، اس نے اپنے وجود کو مٹا دیا ہوتا ہے، اور اس کی اپنی کوئی خواہش رہتی ہی نہیں۔ اس لئے جب وہ بولتا ہے تو اس کی زبان نہیں بولتی بلکہ خدا کی زبان بولتی ہے اور جب اس کی بات پوری ہوتی ہے تو اس کی بات پوری نہیں ہوتی بلکہ خدا کی بات پوری ہوتی ہے۔
یہی مطلب رسول کریم ﷺ کی اس حدیث کا ہے کہ اس کے ہاتھ خدا کے ہاتھ ہو جاتے ہیں۔ یعنی وہ اپنے ہاتھوں کو معطل کر دیتا اور انہیں ایک آلہ کی طرح خدا کے ہاتھ میں دے دیتا ہے جس طرح قلم نہیں لکھتی بلکہ ہاتھ لکھتا ہے۔ اسی طرح جو کچھ اس کے ہاتھ کرتے ہیں وہ اس کے ہاتھ نہیں کرتے بلکہ خدا کے ہاتھ کرتے ہیں۔ اسی طرح اس کے پاوٴں خدا کے پاوٴں ہو جاتے ہیں، اس کی آنکھیں خدا کی آنکھیں ہو جاتی ہیں اور اس کی زبان خدا کی زبان ہو جاتی ہے۔ ایسا انسان جب کسی ملک میں جاتا ہے تو وہاں خدا تعالیٰ کی برکتیں نازل ہونی شروع ہو جاتی ہیں اور جب بات کرتا ہے توزمین و آسمان میں تغیر پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے اور جب ہاتھ اٹھاتا ہے تو اس کے ساتھ ہی آفاق میں تغیر رونما ہونے لگ جاتا ہے۔ اس لئے کہ اس نے اپنے ہاتھ معطل کئے ہوئے ہوتے ہیں، اس نے اپنے پاوٴں معطل کئے ہوتے ہیں اور اس نے اپنی زبان معطل کی ہوئی ہوتی ہے اور جو کچھ اس سے صادر ہوتا ہے وہی خدا تعالیٰ کا منشاء اور اس کاا رادہ ہوتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جس پر پہنچ کر انسان دنیا کے مصائب اور ابتلاء سے اس رنگ میں محفوظ ہو جاتا ہے کہ وہ اسے کچل نہیں سکتے۔ یہ نہیں کہ ایسے انسان پر مصیبتیں نہیں آتیں یا بیماریاں نہیں آتیں یا دشمن اسے تکلیفیں نہیں پہنچاتے یا حکومتیں اسے گرفتار یا قید نہیں کر سکتیں۔ یہ سب کچھ ہوتا ہے بیماریاں بھی آتی ہیں، مصیبتیں بھی آتی ہیں، دشمن بھی ستاتے ہیں اور حکومتیں بھی گرفتار کرتی اور قید کرتی ہیں۔ چنانچہ دیکھ لو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے نبی تھے مگر گورنمنٹ نے ان کو گرفتار کیا قید میں رکھا اور پھر پھانسی پر لٹکا دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے رسول تھے مگر فرعون کے مقابلہ میں انہیں اپنا ملک چھوڑنا پڑا۔ رسول کریم ﷺ خدا تعالیٰ کے سب سے زیادہ مقرب اور رسول اور تمام نبیوں کے سردار تھے مگر آپ کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا۔ اسی طرح آپ کو مارا گیا، آپ کو پیٹا گیا، آپ کو زخم بھی لگے، آپ کے دانت بھی شہید ہوئے اور آپ پر ایسا وقت بھی آیا کہ آپ ایک گڑھے میں گر گئے اور کئی صحابہ کی لاشیں آپ پر آ پڑیں اور کفار نے یہ خیال کر کے خوشیاں منائیں کہ آپ فوت ہو گئے ہیں۔ پھر آپ بیمار بھی ہوئے اور بعض دفعہ لمبے عرصہ تک بیمار رہے۔ جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے۔ اسی طرح وفات کے وقت آپ کو اتنی شدید تکلیف ہوئی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جب تک رسول کریم ﷺ کی جان کنی کی تکلیف کو میں نے نہیں دیکھا، میں یہی سمجھتی تھی کہ جسے جان کنی کے وقت شدید تکلیف ہو اس کا ایمان کمزور ہوتا ہے۔ مگر جب میں نے رسول کریم ﷺ کی جان کنی کی تکلیف دیکھی تو میں نے اپنے اس خیال سے توبہ کی اور میں نے سمجھا کہ جان کنی کی تکلیف کا ایمان سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ 2
ہمارے ملک میں بھی عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جسے جان کنی کے وقت زیادہ تکلیف ہو وہ برا آدمی ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ تکلیف جسمانی طاقت کے لحاظ سے ہوتی ہے۔ کوئی شخص بہت مضبوط اور قوی ہوتا ہے اور کوئی کمزور اور نحیف ہوتا ہے۔ اب یہ بات ظاہر ہے کہ قوی چیز میں کوئی چیز گڑی ہوئی ہو تو اس کا نکالنا مشکل ہوتا ہے اور کمزور میں سے اس کا نکالنا آسان ہوتا ہے ۔ مثلاً کسی کے مسوڑھے کمزور اورگلے سڑے ہوں اور ان میں پیپ پڑی ہوئی ہو تو ایسے مسوڑھوں میں سے دانت آسانی سے نکل آئیں گے لیکن جس شخص کے مسوڑھے مضبوط اور قوی ہوں اور اس کے دانتوں کی جڑیں مسوڑھوں کی عمدگی کی وجہ سے مضبوط ہوں تو ڈاکٹر بعض دفعہ کئی کئی منٹ زور لگا کر اس کے دانت نکالتے ہیں۔ اب اگر جس شخص کا آسانی سے دانت نکل آئے اس کے متعلق کوئی کہنا شروع کر دے کہ اس کا دانت اس لئے آسانی سے نکلا تھا کہ وہ نیک تھا اورجس کا تکلیف سے دانت نکلے اس کے متعلق کہنا شروع کر دے کہ اس کا دانت اس لئے تکلیف سے نکلا تھا کہ وہ بُرا تھا تو یہ اس کی غلطی ہو گی۔ کیونکہ اس کا تعلق کسی کی نیکی یا بدی کے ساتھ نہیں بلکہ مسوڑھوں کی مضبوطی یا کمزوری کے ساتھ ہے۔ وہ شخص جس کادانت آسانی سے نکل آیا تھا اس کے مسوڑھے گلے سڑے تھے اور وہ جس کا دانت تکلیف سے نکلا اس کا جسم تندرست اور مسوڑھے مضبوط تھے۔ جب مضبوط مسوڑھوں میں سے دانت نکالا جائے گا تو لازماً زیادہ زور لگے گا اور جب کمزور مسوڑھوں میں سے دانت نکالا جائے گا تو زور کم لگے گا۔ جیسے کیچڑ میں اگر کیلا گڑا ہوٴا ہو تو ایک بچہ بھی آسانی سے اسے نکال سکتا ہے لیکن اگر پتھر میں گڑا ہوٴا ہو تو ایک مضبوط جوان بھی اسے نہیں نکال سکتا۔ اسی طرح مضبوط جسم میں سے جب جان نکلتی ہے تو بڑی مشکل سے نکلتی ہے جیسے پتھر میں سے کیلا نکالنا مشکل ہوتا ہے لیکن کمزور جسم میں سے آسانی کے ساتھ نکل جاتی ہے۔ اسی حقیقت کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ وہ انسان جس کے دل میں دنیا کی محبت ہو اس کی جان سخت تکلیف سے نکلتی ہے۔ لیکن دوسری طرف وہ لوگ جو دنیا کی خیر خواہی میں گھل رہے ہوتے ہیں ان کی جان بھی مشکل سے نکلتی ہے۔ جو لوگ دنیا کی محبت میں گھل رہے ہوتے ہیں ان کی جان تو اس لئے مشکل سے نکلتی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں ہمیں جو چیز سب سے زیادہ پیاری تھی اب وہ ہمارے ہاتھ سے چھوٹ رہی ہے اور انبیاء کی جان اس لئے تکلیف سے نکلتی ہے کہ ان کے دل و دماغ پر اس وقت یہ خیال غالب ہوتا ہے کہ لوگ بغیر نگرانی کے رہ جائیں گے معلوم نہیں بعد میں ان کا کیا حال ہو اور وہ چاہتے ہیں کہ بنی نوع انسان میں کچھ اور مدت رہیں۔ اس لئے نہیں کہ وہ مزے اڑائیں بلکہ اس لئے کہ لوگ نیک بن جائیں۔ پس دنیا کو چھوڑنا دونوں کے لئے ہی تکلیف دہ ہوتا ہے مگر ایک روح تو اس لئے تکلیف محسوس کرتی ہے کہ وہ دنیا کے عیش اور آرام سے حظ اٹھانا چاہتی ہے اور دوسرے کی روح اس لئے تکلیف محسوس کرتی ہے کہ لوگ بغیر نگرانی کے رہ جائیں گے۔ پس بظاہر دونوں کو ہی تکلیف ہوتی ہے اورایک نادان اور احمق انسان جو نہیں جانتا کہ یہ تکلیف کیوں ہوتی ہے یا وہ جسے حقائق کا تجربہ نہیں ہوتا، خیال کرتا ہے کہ شاید ایمان کی کمی کی وجہ سے یہ تکلیف ہو رہی ہے مگر جب اس کی عقل تجربہ سے راہنمائی حاصل کر لیتی ہے تو وہ سمجھ لیتا ہے کہ جان کنی کی تکلیف کی کئی وجوہ ہوتی ہیں۔ کبھی ایک نیک شخص جان کنی کی تکلیف اٹھاتا ہے اور بد جان کنی کی تکلیف نہیں اٹھاتا ہے اور کبھی بد جان کنی کی تکلیف اٹھاتا ہے اور نیک جان کنی کی تکلیف نہیں اٹھاتا۔ اور اس کی وجہ وہی ہوتی ہے جو میں بیان کر چکا ہوں کہ ایک کا جسم مضبوط ہوتا ہے اور دوسرے کا کمزوراورکمزور جسم میں سے آسانی کے ساتھ جان نکل جاتی ہے لیکن مضبوط جسم میں سے آسانی کے ساتھ جان نہیں نکلتی۔ مثلاً ایک بوڑھا شخص جس کا جسم گھل چکا ہو بعض دفعہ باتیں کرتے کرتے اس کی جان نکل جاتی ہے اور لوگ کہتے ہیں کہ فلاں شخص کتنا نیک تھا کہ باتیں کرتے کرتے اس کی جان نکل گئی۔ حالانکہ باتیں کرتے کرتے اس کی جان اس لئے نہیں نکلی کہ وہ نیک تھا بلکہ اس لئے نکلی کہ اس کی جان پہلے ہی مری ہوئی تھی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک اندھے سے کسی نے کہا کہ سو جاوٴ تو وہ کہنے لگا ہمارا سونا کیا ہے چُپ ہو جانا۔ یعنی سونا کس کو کہتے ہیں؟اس کو کہ انسان آنکھیں بند کر ے اور خاموش ہو جائے اب آنکھیں تو اس کی پہلے ہی بند تھیں۔ اس نے کہا کہ آپ جو کہتے ہیں کہ سو جاوٴ تو میں نے اَور کیا کرنا ہے خاموش ہو جاتا ہوں۔ تو کسی بوڑھے کی جان اگر آرام سے نکلتی ہے تو اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ وہ بڑا نیک ہوتا ہے بلکہ یہ معنی ہوتے ہیں کہ اس کا جسم گھل چکا ہوتا ہے اور جان آسانی سے نکل جاتی ہے۔ جیسے بوسیدہ دانت گلے سرے مسوڑھوں سے آسانی کے ساتھ الگ ہو جاتا ہے۔ بلکہ بعض دفعہ روٹی کھاتے ہوئے لقمہ میں آجاتا ہے۔ اسی طرح وہ انسان جس کا جسم گھل چکا ہوتا ہے جب عزرائیل اس کی جان نکالنے آتا ہے تو بوسیدہ او ر ہلے ہوئے دانت کی طرح آسانی کے ساتھ اسے الگ کر لیتا ہے لیکن جس کا جسم مضبوط ہوتا ہے اسے جان کنی کی سخت تکلیف ہوتی ہے اور دوسری وجہ تکلیف کی یہ ہے کہ دنیا سے شدید محبت ہو یا دنیا میں اس کے سپرد کوئی ایسا اصلاح کا کام ہو جس کا چھوڑنا اس پر اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ دوسروں کی اصلاح کے خیال سے شاق گزرتا ہو۔
غرض حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں پہلے یہی سمجھتی تھی جیسے آج کل عوام میں خیال پایا جاتا ہے کہ جس کی جان تکلیف سے نکلتی ہے وہ بُرا ہوتا ہے۔ اور جس کی جان آرام سے نکلتی ہے وہ نیک ہوتا ہے۔ مگر جب رسول کریم ﷺ کی جان کنی کی تکلیف کو میں نے دیکھا تو اس خیال سے توبہ کی اور میں نے سمجھا کہ اس کا تعلق ایمان کے ساتھ نہیں ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کے تمام انبیاء کو دنیا میں تکالیف پہنچی ہیں اور کوئی نبی اور ولی ایسا نہیں گزرا جن پر مصیبتیں نہ آئی ہوں۔ مگر جو چیز ان پر نہیں آتی اور جس میں انبیاء دوسروں سے مستثنیٰ ہوتے ہیں وہ یہ ہے کہ ان پر کوئی ایسی تکلیف نہیں آتی جو انہیں مایوس کر دے یا خدا تعالیٰ کی رحمت سے انہیں محروم کر دے ۔ ورنہ تکالیف ان پر بھی آتی ہیں اور بعض دفعہ تو بڑی بڑی تکلیفیں آتی ہیں۔ چنانچہ دیکھ لو ابو جہل بے شک مر گیا اور خدا نے اسے دنیا و آخرت میں ذلیل کر دیا لیکن جسمانی زندگی اور دنیا کے آرام کو اگر دیکھا جائے تو ابو جہل کی زندگی رسول کریم ﷺ کی زندگی سے زیادہ آرام میں گزری ہے۔ بے شک اس کی زندگی کے آخری لمحات میں خدا تعالیٰ نے یہ فیصلہ کر دیا کہ اس کی آرام کی زندگی خدا تعالیٰ کے کسی فضل کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ وہ ایسی ہی تھی جیسے شیطان کو ڈھیل دی گئی ہے۔ لیکن اس سے پہلے لوگ یہی سمجھتے تھے کہ ابو جہل آرام میں ہے اور رسول کریم ﷺ تکلیف میں ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ کا انسان کے ہاتھ بن جانا یا پاوٴں بن جانا یا زبان بن جانا یہ معنے نہیں رکھتا کہ ایسا انسان مصیبتوں سے محفوظ ہو جاتا ہے بلکہ اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ ایسا انسان ان مصائب سے محفوظ ہو جاتا ہے جو تباہ کرنے والی ہوتی ہیں۔ ورنہ ظاہری تکالیف انبیاء کو بھی پہنچتی ہیں ، صدیقوں کو بھی پہنچتی ہیں، شہیدوں کو بھی پہنچتی ہیں اور صالحین کو بھی پہنچتی ہیں بلکہ شہید تو کہتے ہی اسے ہیں جو خداتعالیٰ کی راہ میں مارا جائے۔ پھر ہم شہید کو شہید کیوں کہتے ہیں؟ اور ان دشمنوں کے متعلق جو لڑائی میں مارے جاتے ہیں یہ کیوں کہتے ہیں کہ وہ خد اتعالیٰ کے عذاب سے مارے گئے ہیں؟ اسی لئے کہ شہید کی شہادت خدا تعالیٰ کے فضلوں کے نیچے ہوتی ہے اور اس کے دشمنوں کی موت خداتعالیٰ کی *** کے نیچے ہوتی ہے۔ پس دشمن کی موت کو تو ہم عذاب قرار دیتے ہیں مگر شہید کی موت کو انعام سمجھتے ہیں۔ چنانچہ بدر میں مارے جانے والے صحابہؓ کی ہم کتنی عزت کرتے ہیں لیکن بدر میں مارے جانے والے کفار کے متعلق کہتے ہیں کہ خدا نے محمد ﷺ کی مخالفت کی وجہ سے ان پر عذاب نازل کیا۔ حالانکہ ایک ہی جگہ اور ایک ہی لڑائی میں دونوں مارے گئے تھے۔ کفار بھی اسی لڑائی میں ہلاک ہوئے اور صحابہؓ بھی اسی لڑائی میں شہید ہوئے۔ مگر ایک کے متعلق تو ہم کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ان پر بڑا فضل کیا اور انہیں اپنے انعامات سے نوازا اور دوسروں کے متعلق کہتے ہیں کہ ان پر غضب نازل ہؤا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ایک گروہ تو خدا تعالیٰ کے فضلوں کے نیچے مرا اور دوسرا گروہ اس کی لعنتوں کے نیچے مرا۔ تو اللہ تعالیٰ کا انسان کے ہاتھ ہو جانا یا پاوٴں بن جانا یہ معنے نہیں رکھتا کہ ایسے انسان تکلیفوں سے بچ جاتے ہیں بلکہ یہ معنے ہوتے ہیں کہ ایسے انسان اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نیچے آ جاتے ہیں اور ان کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسا اتصال ہو جاتا ہے کہ ان کی خواہشات خدا کی خواہشات بن جاتی ہیں اور ان کی آرزوئیں خدا کی آرزوئیں بن جاتی ہیں۔ اس لئے وہ کبھی کوئی ایسی خواہش نہیں کر سکتے جس نے رد ہو جانا ہو۔ مگر اس کے یہ معنے بھی نہیں کہ گھروں میں روز مرہ پیش آنے والے امور کے متعلق بھی ان کی ہر خواہش پوری ہو جاتی ہے بلکہ اس سے مراد صرف وہ خواہشات ہیں جو انسانی زندگی کے مقاصد کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں۔ مثلاً یہ تو ہو سکتا ہے کہ خداتعالیٰ کے ایک مقرب انسان کو پیچش کی شکایت ہو اور اس کی طبیعت خشکے3 کو چاہے تو وہ گھر میں تیار نہ ہو مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ اس کی وہ خواہشات پوری نہ ہوں جو اس کی زندگی کے مقاصد کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں۔ ورنہ بشریت کے ماتحت تو ایسا ہوتا ہی رہتا ہے کہ ایک انسان بعض دفعہ ایک چیز کی خواہش کرتا ہے اور وہ گھر میں موجود نہیں ہوتی۔ یا چاہتا ہے کہ فلاں کام ہو جائے مگر وہ حسب منشاء نہیں ہوتا لیکن ایسی خواہشات اپنے اندر کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتیں۔ اور بعض دفعہ تو ایک گھنٹہ گزرنے کے بعد انسان کو یاد بھی نہیں رہتا کہ اس کے دل میں کیا خواہش پیدا ہوئی تھی۔ پس جو خواہشات ایسے انسان کی لازماً پوری ہوتی ہیں وہ وہی ہوتی ہیں جو اس کی زندگی کے مقاصد کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور جن کے پورا نہ ہونے سے اس کا آرام دکھ سے بدل جاتا ہے۔ عام خواہشات اس میں شامل نہیں اور نہ ہی وہ اتنی اہم ہوتی ہیں بلکہ بعض دفعہ تو انسان ایسی خواہش کے پورا ہونے پر اسی وقت ہنس پڑتا اور ملال جاتا رہتا ہے۔ پس اس کے یہ معنی نہیں کہ ایسے انسان کی ہر خواہش پوری ہو جاتی ہے بلکہ صرف وہ خواہشیں پوری ہوتی ہیں جو اس کی زندگی کے مقاصد کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں۔
تحریک جدید کی غرض بھی یہی ہے کہ وہ لوگ جو اس کے چندہ میں حصہ لیں خدا ان کے ہاتھ بن جائے، خدا ان کے پاوٴں بن جائے، خدا ان کی آنکھیں بن جائے، اور خدا ان کی زبان بن جائے اور وہ ان نوافل کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے ایسا اتصال پیدا کر لیں کہ ان کی مرضی خدا کی مرضی اور ان کی خواہشات خدا کی خواہشات ہو جائیں۔ اس عظیم الشان مقصد کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے تم غور کرو کہ جب تمہارا اس تحریک میں حصہ لینے سے مقصد یہ ہے کہ خدا تمہارے ہاتھ بن جائے، خدا تمہارے پاوٴں بن جائے، خدا تمہاری آنکھیں بن جائے اورخدا تمہاری زبان بن جائے تو کیا خدا کبھی سست ہوتا ہے؟ اگر نہیں تو تمہیں سمجھ لینا چاہئے کہ اگر تمہارے اندر سستی پیدا ہو گئی ہے تو تمہارا نفل کوئی اچھا نفل نہیں اور اس میں ضرور کوئی نہ کوئی نقص رہ گیا ہے۔ ورنہ یہ کس طرح ممکن تھا کہ نوافل کے ذریعہ خداتمہارے ہاتھ بن جاتا اور پھر بھی تمہارے ہاتھوں میں کوئی تیزی پیدا نہ ہوتی۔ خدا کا طریق تو یہی ہے کہ وہ اپنے کاموں میں جلدی کرتا ہے اور جس کام کے کرنے کا ارادہ کرتا ہے وہ فوراً ہو جاتا ہے۔ پس جو شخص تحریک جدید کے چندہ میں حصہ تو لیتا ہے مگر اس چندہ کی جلد ادائیگی کا فکر نہیں کرتا اسے سمجھنا چاہئے کہ اس کا فعل ناقص ہے۔ ورنہ یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ خدا اس کے ہاتھ اور پاوٴں بن جاتا اور پھر بھی وہ نیکی میں پیچھے رہ جاتا۔کیا یہ ممکن ہے کہ خدا کسی کے ہاتھ بن جائے اور وہ نیکی میں پیچھے رہ جائے یا خدا کسی کے پاوٴں بن جائے اور پھر بھی وہ ثواب کے کاموں کے لئے حرکت نہ کرے اور خدا اس کی زبان بن جائے اور پھر بھی وہ جھوٹا وعدہ کرے۔ جس شخص کے ہاتھ اور پاوٴں خدا بن جاتا ہے وہ کبھی نیکی میں پیچھے نہیں رہ سکتا اور جس شخص کی زبان خدا بن جاتا ہے وہ کبھی جھوٹا وعدہ نہیں کر سکتا۔ پھر یہ کس طرح تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ ایک شخص کی زبان تو خدا کی زبان ہو گئی مگر وہ سارا سال اپنی زبان سے جھوٹا وعدہ کرتا رہایا اس کے ہاتھ تو خداتعالیٰ کے ہاتھ بن گئے مگر وہ ہمیشہ شل اور مفلوج رہے اور کبھی انہیں توفیق نہ ملی کہ وہ اپنے وعدہ کے پورا کرنے کے لئے آگے بڑھتے۔ یہ ناممکن اور قطی طور پر ناممکن ہے اور اگر کسی شخص کے اندر یہ بات پائی جاتی ہے تو اس کے متعلق سوائے اس کے اور کیا سمجھا جا سکتا ہے کہ اس کا یہ دعویٰ کہ اس کی زبان خدا کی زبان ہے، اس کے ہاتھ خدا کے ہاتھ ہیں اور اس کے پاوٴں خدا کے پاوٴں ہیں محض جھوٹ ہے۔ اگر اس کی زبان خدا کی زبان ہوتی تو وہ کوشش کرتا کہ اپنے وعدہ کو وقت پر پورا کرے۔ کیونکہ خدا کی زبان جھوٹی نہیں ہو سکتی اور اگر اس کے ہاتھ خدا کے ہاتھ ہوتے تو وہ کبھی دین کے کاموں میں حصہ لینے کے موقع پر شل نہ ہو جاتے۔ کیونکہ خدا کے ہاتھ مغلول نہیں ہوتے۔ قرآن کریم میں آتا ہے کہ یہود ہنسی کے طور پر کہا کرتے تھے کہ کیا خدا کے ہاتھ شل ہیں او روہ مغلول ہے کہ ہم سے چندہ طلب کرتا ہے۔ قرآن کریم اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ خدا کے ہاتھ شل نہیں بلکہ تمہارے اپنے ہاتھ شل ہیں کیونکہ اگر تم سمجھتے کہ ہمارا دینا خدا کا دینا ہے تو تم خوشی سے چندے دیتے لیکن جب تم اپنے دل میں انقباض محسوس کرتے ہو تو معلوم ہوٴا کہ تمہارا ہاتھ خدا کا ہاتھ نہیں اور جب تمہارا ہاتھ خدا کا ہاتھ نہیں تو تمہارے اپنے ہاتھ مفلوج ہوئے نہ کہ خدا کے ہاتھ۔4 پس میں ان تمام دوستوں کو جنہوں نے تحریک جدید کا چندہ ادا کرنے کا وعدہ کیا ہوا ہے تو جہ دلاتا ہوں کہ اگر وہ اپنے چندہ کو مئی میں ادا نہیں کر سکے تو اب اس کی ادائیگی کا فکر کریں کیونکہ انسان کی نیکی اور تقویٰ کا معیار یہ ہوتا ہے کہ جب اس سے کوئی غفلت یا سُستی ہو جائے یا بعض مجبوریوں کی وجہ سے کسی نیک تحریک میں جلد حصہ نہ لے سکے تو وہ نیکی کو اور بڑھا کر کرتا ہے تاکہ اس کی غلطی اور سُستی کا کفارہ ہو جائے۔ دنیا میں کئی مجبوریاں بھی گناہ کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں اور بسا اوقات دل پر گناہوں کا زنگ لگ جانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ظاہر میں مجبوریاں پیدا کر دیتا ہے تا وہ ثواب کے اعلیٰ مقام کو حاصل نہ کر سکے۔ پس وہ دوست جو مئی تک اپنے وعدوں کو پورا نہیں کر سکے انہیں کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اپنے وعدوں کو جون یا جولائی میں پورا کر دیں تاکہ ان کی پچھلی غفلت کا کفارہ ہو سکے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ اکتوبر میں اپنا چندہ ادا کر سکتا ہے لیکن اس وجہ سے کہ وہ مئی میں ادا کر کے سَابِقُوْنَ میں شامل نہ ہو سکا۔ اب کفارہ کے طور پر اگست میں ادا کر دیتا ہے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کے حضور ویسا ہی ثواب کا مستحق ہے جیسے مئی میں ادا کرنے والے اور اگر کوئی شخص جولائی میں چندہ ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہے لیکن وہ اپنی غفلت کے کفارہ کے طور پر اور اپنے نفس پر تکلیف برداشت کر کے جون میں چندہ ادا کر دیتا ہے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کے حضور ویسا ہی سمجھا جائے گا جیسے مئی میں ادا کرنے والے کیونکہ جب کسی سے غفلت ہو جائے تو بعد میں خواہ مقدار کے لحاظ سے زیادہ قربانی کرے اور خواہ تکلیف اٹھا کر میعاد سے قبل اپنے وعدے کو پورا کر دے ۔ دونوں صورتوں میں اس کی کوتاہی کا کفارہ ہو جاتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا مستحق بن جاتا ہے۔
مجھے افسوس ہے کہ بعض لوگ یہ خیال کر لیتے ہیں کہ چونکہ اب مقررہ وقت گزر گیا ہے اس لئے جلدی کی کیا ضرورت ہے؟ ایسے لوگ وقت کے گزر جانے کی وجہ سے اور بھی سست ہو جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب انہیں جلدی کی کوئی ضرورت نہیں۔ مگر میرے نزدیک اس سے زیادہ بد قسمتی کی اور کوئی بات نہیں ہو سکتی کہ انسان پہلے تو کسی مجبوری کی وجہ سے نیکی سے محروم رہے اور بعد میں بے ایمانی کی وجہ سے نیک کام میں حصہ نہ لے سکے۔ حالانکہ جو لوگ مجبوری کی وجہ سے کسی نیک کام میں شریک ہونے سے ایک وقت محروم رہتے ہیں۔ وہ بعد میں اگر اپنی کوتاہی کا ازالہ کر دیں تو بہت کچھ ثواب حاصل کر لیتے ہیں لیکن اپنی کوتاہی کا ازالہ نہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے حصہ نہیں لے سکتے۔ مثلاً وہ لوگ جنہوں نے مئی میں چندہ ادا کیا ہے بالکل ممکن ہے کہ ان میں کوئی شخص ایسا ہو جو دس ہزار روپیہ دینے کی توفیق رکھتا ہو مگر اس نے دئیے صرف دس روپے ہوں۔ اب ہمارے نزدیک تو وہ مئی میں چندہ ادا کرنے کی وجہ سے سَابِقُوْنَ میں سمجھا جائے گا مگر خدا تعالیٰ کے نزدیک اس کی کوئی قیمت نہیں ہو گی کیونکہ وہ دس ہزار روپیہ دینے کی طاقت رکھتا تھا مگر اس نے صرف دس روپے دئیے۔ دوسری طرف ممکن ہے کہ ایک شخص اکتوبر میں چندہ دے سکتا ہے مگر وہ اپنے نفس پر تکلیف برداشت کر کے جون یا جولائی میں چندہ ادا کر دیتا ہے۔ اب ہمارے نزدیک تو وہ مئی میں چندہ ادا کرنے والوں سے باہر سمجھا جائے گا لیکن خدا تعالیٰ کے نزدیک ممکن ہے وہ مئی کے مہینہ میں چندہ ادا کرنے والے کئی لوگوں سے بہتر ہو کیونکہ اس نے اپنی طاقت سے زیادہ قربانی کی۔ پس کسی کا اس ابتلاء میں مبتلا ہونا کہ جب مئی میں مَیں وعدہ پورا نہیں کر سکا تو اب جلدی کی کیا ضرورت ہے؟ اس کی بہت بڑی بدقسمتی کی علامت ہے اور اس کے یہ معنی ہیں کہ اس کا پہلا کام جو بندوں کی نظر میں برا لیکن خدا کی نظر میں اچھا تھا اب وہ خدا کی نگاہ میں بھی برا بن گیا ہے۔ پس اس قسم کا خیال اگر کسی کے دل میں پیدا ہو تو اسے جلد سے جلد دور کر دینا چاہئے اور جہاں تک ہو سکے تکلیف اٹھا کر وقت سے پہلے اپنا چندہ ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ میں نے بار بار بتایا ہے کہ یہ روپیہ سلسلہ کے لئے جائداد پیدا کرنے پر لگایا جاتا ہے اور اس روپیہ سے جو زمینیں خریدی گئی ہیں اگروقت پر ہم اس کی قسط ادا نہ کریں تو دس فی صدی حرجانہ پڑ جاتا ہے۔ پس جتنی جتنی کوئی شخص چندہ ادا کرنے میں دیر لگاتا ہے اتنی ہی وہ اپنے ثواب میں کمی کرتا اور سلسلہ پر دس فی صدی حرجانہ ڈالنے کا باعث بنتا ہے۔
مَیں امید کرتا ہوں کہ جو دوست اب تک تحریک جدید کا چندہ ادا نہیں کر سکے وہ اب جلد سے جلد ادا کرنے کی کوشش کریں گے۔ اول تو وہ کوشش کریں کہ جون میں ہی ان کا چندہ ادا ہو جائے اور اگر جون میں ادا نہ کر سکیں تو جولائی میں ادا کرنے کی کوشش کریں اور اگر جولائی میں ادا نہ کر سکیں تو اگست میں ادا کرنے کی کوشش کریں تا خدا تعالیٰ کے حضور وہ ان لوگوں میں شامل ہو جائیں جو سباق کی روح اپنے اندر رکھتے اور نیکیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ ہمارے نزدیک تو وہ اب مئی میں ادا کرنے والوں کی لسٹ میں نہیں آ سکتے مگر خدا کے نزدیک ممکن ہے کہ وہ اپنے اخلاص کی وجہ سے مئی میں ادا کرنے والوں کی فہرست میں آ جائیں بلکہ ممکن ہے ایک شخص جون یا جولائی یا اگست میں چندہ ادا کر کے خدا کے حضور اپریل بلکہ مارچ میں ادا کرنے والوں کی لسٹ میں آ جائے۔
اس کے بعد مَیں زمینداروں کو بھی اس تحریک کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ دفتر کی غلطی کی وجہ سے اس دفعہ زمیندار دوستوں کے لئے بھی مئی کے آخر تک چندہ ادا کرنے کی تاریخ مقرر کر دی گئی تھی حالانکہ زمیندار مئی کے مہینہ میں کوئی چندہ نہیں دے سکتے۔ کیونکہ مئی میں ان کی کوئی فصل نہیں نکلتی۔ وہ خریف کی فصل کی وجہ سے یا تو جنوری اور فروری میں ادا کر سکتے ہیں اور یا پھر ربیع کی فصل کی وجہ سے جون اور جولائی میں چندہ ادا کر سکتے ہیں۔ پس دفتر کو چاہئے تھا کہ زمینداروں کے لئے تیس جون یا 15جولائی تک کی تاریخ مقرر کرتا مگر اس نے غلطی سے زمینداروں کے لئے بھی 31 مئی تک کی تاریخ مقرر کر دی لیکن پھر بھی بعض مخلص زمینداروں نے اپنا چندہ ادا کر دیا ہے خواہ انہیں کہیں سے قرض لے کر ہی ادا کرنا پڑا ہے۔ بہرحال چونکہ زمینداروں کے لئے یہ تاریخ موزوں نہیں تھی جس کی وجہ سے اکثر زمیندار دوست چندہ ادا نہیں کر سکے اس لئے باقی زمیندار دوست کوشش کریں کہ جون کی 30تاریخ تک یا جولائی کی 15 تاریخ تک اپنا چندہ ادا کر دیں۔ اس عرصہ میں ان کی فصل فروخت ہو جائے گی اور انہیں اپنی رقم کے ادا کرنے کا موقع مل جائے گا۔
اس کے ساتھ ہی جو لوگ تحریک جدید کے بقایا دار ہیں انہیں بھی میں بقایوں کی ادائیگی کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ اس وقت تک گزشتہ سالوں کا پچیس تیس ہزار کے قریب روپیہ وصول کے قابل رہتا ہے۔ مگر ان بقایا داروں میں سے بعض دوست کچھ ایسے مستقل مزاج واقع ہوئے ہیں کہ باوجود اس کے کہ اب تحریک جدید کا ساتواں سال گزر رہا ہے۔ انہوں نے وعدہ کے باوجود کسی ایک سال کا چندہ بھی ادا نہیں کیا یا صرف ایک یا دو سال میں چندہ ادا کیا ہے اور باقی سالوں میں کوئی رقم ادا نہیں کی۔ فرض کرو انہوں نے تیسرے سال چندہ لکھوایا تھا تو وہ سال گزر گیا اور انہوں نے چندہ میں ایک پیسہ بھی ادا نہ کیا۔ پھر چوتھا سال شروع ہوٴا تو انہوں نے اصرار کر کے چوتھے سال میں اپنا چندہ لکھوایا اور کہا کہ اب وہ تیسرے سال کا بھی چندہ ادا کریں گے اور چوتھے سال کا بھی۔ مگر چوتھا سال بھی گزر گیا اور انہوں نے نہ تیسرے سال کا چندہ ادا کیا نہ چوتھے سال کا۔ پھر پانچواں سال شروع ہوٴا اور انہوں نے اصرار کر کے کہا کہ پانچویں سال میں ہمارا اتنا وعدہ لکھ لیا جائے۔ ہم پچھلے سالوں کا چندہ بھی ادا کر یں گے اور اس سال کا بھی۔ مگر نہ انہوں نے تیسرے سال کا چندہ دیا، نہ چوتھے سال کا چندہ دیا اور نہ پانچویں سال کا چندہ دیا۔ پھر چھٹا سال شروع ہوٴا تو انہوں نے اپنا چندہ لکھوا دیا، مگر چھٹے سال میں بھی نہ انہوں نے تیسرے سال کا چندہ دیا، نہ چوتھے سال کا چندہ دیا، نہ پانچویں سال کا چندہ دیا اور نہ چھٹے سال کا چندہ دیا۔ اب ساتواں سال شروع ہوٴا توا نہوں نے پھر اصرار کر کے اپنا وعدہ لکھوایا مگر ان کی حالت اب بھی وہی ہے کہ نہ تیسرے سال کا انہوں نے چندہ دیا ہے، نہ چوتھے سال کا چندہ دیا ہے، نہ پانچویں سال کا چندہ دیا ہے، نہ چھٹے سال کا چندہ دیا ہے، نہ ساتویں سال کا چندہ دیا ہے۔ ایسے لوگ چونکہ متواتر اور مسلسل ایک لمبے عرصہ تک جھوٹ کے مرتکب ہوئے ہیں اور چونکہ انہوں نے دین سے تمسخر اور استہزاء کیا ہے۔ اس لئے میں دفتر کو ہدایت کرتا ہوں کہ ایسے لوگوں کی لسٹ بھی وہ شائع کر دے تاکہ اگر ایک طرف ان لوگوں کے نام یادگار رہیں جنہوں نے سچائی اور دیانت کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کیا تو دوسری طرف ان لوگوں کے نام بھی بطور یادگار محفوظ رہیں جنہوں نے جان بوجھ کر سلسلہ سے دھوکا کیا اور ایک جھوٹی عزت حاصل کرنے کے لئے وہ سالہا سال تک جھوٹ بولتے رہے۔ میرے نزدیک اگر ایک طرف مخلصین کا اخلاص ایسا ہے جو یاد رکھنے کے قابل ہے تو دوسری طرف یہ دھوکا بازی بھی ایسی ہے جو عبرت کے طور پر یاد رکھنے کے قابل ہے۔ اگر کسی چیز کے متعلق لوگوں کو مجبور کیا جائے اور کہا جائے کہ وہ اس میں ضرور حصہ لیں تو اگر ان میں سے کوئی سستی کرے تو وہ درگزر کے قابل سمجھی جا سکتی ہے اور خیال کیا جا سکتا ہے کہ اس کی اپنی مرضی شامل ہونے کی نہیں تھی۔ اسے چونکہ مجبور کیا گیا تھا اس لئے اس نے سستی دکھائی۔ مگر جس قربانی کے متعلق بار بار کہا جاتا ہے کہ وہ طوعی اور نفلی ہے اور اس میں شمولیت جبری نہیں بلکہ ہر شخص کی مرضی اور رضا و رغبت پر منحصر ہے اس میں اگر کوئی شخص اپنا نام پیش کر دیتا ہے اور پھر عملی رنگ میں کوئی قربانی نہیں کرتا اور نہ اپنے وعدے کو پورا کرتا ہے تو اس کے متعلق سوائے اس کے اور کیا سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ ایک جھوٹی عزت کا دلدادہ ہے اور چاہتا ہے کہ وہ کام بھی نہ کرے اور اس کا نام بھی ان لوگوں میں آ جائے جو مخلصین ہیں۔ پس چونکہ ایسے لوگوں نے ایک جھوٹی عزت حاصل کرنے کی کوشش کی تھی اس لئے میرے نزدیک یہ لوگ تعزیری طور پر اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کے نام شائع کر دئیے جائیں تاکہ دوسروں کے لئے یہ نام عبرت کا موجب ہوں اور وہ کبھی اپنے آپ کو تطوع کے طور پر اس کام کے لئے پیش نہ کریں جس کے کرنے کے لئے وہ دل سے تیار نہ ہوں۔ اور اگر وہ خوشی سے کسی قربانی کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں تو پھر چاہے جان چلی جائے انہیں اپنے عہد کو مرتے دم تک نبھانا چاہئے اور کسی قسم کی سُستی میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔ ہاں ایسے لوگ جن کے ذمہ صرف ایک یا دو سال کی رقم ہو ان کے نام شائع نہ کئے جائیں۔ ان کو بھی اور مہلت دی جائے تاکہ اگر مجبوری سے ایسا انہوں نے کیا ہے تو معافی لے لیں اور اگر جان بوجھ کر غفلت کی ہے تو اصلاح کر لیں۔
میں امید کرتا ہوں کہ اب جبکہ تحریک جدید کے بہت سے سال گزر چکے ہیں دوست اس چندہ کو جلد ادا کرنے کی کوشش کریں گے۔ اب ساتواں سال گزر رہا ہے اور اگلے سال دو تہائی سے زیادہ سفر طے ہو جائے گا اور ایک تہائی باقی رہ جائے گا۔ اب بھی ساٹھ فیصدی حصہ گزرچکا ہے اور ساتواں دھاکہ شروع ہے۔ ایسے وقت میں بہت زیادہ ہوشیاری اور بیداری کی ضرورت ہوتی ہے اور ایسے وقت کا کام بہت زیادہ ثواب کا موجب ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تہجد کی عبادت بڑی مقبول ہوتی ہے کیونکہ اس وقت انسان تھک کر چور ہو چکا ہوتا ہے اور جب ایسی حالت میں انسان عبادت کے لئے کھڑا ہوتا ہے توخدا کے حضور اس کی عزت بہت بڑھ جاتی ہے۔ تحریک جدید کے یہ دن بھی ایسے ہی ہیں جیسے بارہ بجے رات کے بعد کا وقت شروع ہوتا ہے۔ ایسے اوقات میں جو شخص بشاشت کے ساتھ دین کے کاموں میں حصہ لیتا اور مسلسل قربانی کرتا چلا جاتا ہے اس کی قربانی خدا تعالیٰ کے حضور بہت زیادہ مقبول ہوتی ہے کیونکہ وہ قربانی کر کے چُور ہو چکا ہوتا ہے۔ پہلے سالوں میں ابھی اس کے ذخیرے خرچ نہیں ہوئے تھے مگر آخر میں وہ چندے دے دے کر تھک چکا ہوتا ہے اس لئے آخری سالوں میں وہ پہلے سالوں کے مقابلہ میں بہت زیادہ ثواب حاصل کر لیتا ہے۔ پس اس سال اور اگلے سال ہماری جماعت کے دوستوں کو چاہئے کہ وہ اپنے چندوں کو جلد سے جلد ادا کریں تاکہ اس کے نتیجہ میں وہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کر سکیں۔’’
(الفضل 27۔ جون 1941ء)
1 بخاری کتاب الرِّقَاق باب التَّوَاضُعِ
2 السیرۃ الحلبیۃ جز 3صفحہ389مطبوعہ مصر 1935ء
3 خُشکہ: پھیکے اُبلے ہوئے چاول۔ سُوکھا آٹا
4 وَ قَالَتِ الْيَهُوْدُ يَدُ اللّٰهِ مَغْلُوْلَةٌ١ؕ غُلَّتْ اَيْدِيْهِمْ وَ لُعِنُوْا بِمَا قَالُوْا (المائدہ:65)

19
جھوٹے مدّعیانِ نبوت اور مدّعیانِ الوہیت کی حالت
( فرمودہ 27 ،جون 1941ء )

تشہد،تعوّذ اور سورہٴ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل آیا ت کی تلاوت فرمائی:۔
وَ مَا اخْتَلَفْتُمْ فِيْهِ مِنْ شَيْءٍ فَحُكْمُهٗۤ اِلَى اللّٰهِ١ؕ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبِّيْ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ١ۖۗ وَ اِلَيْهِ اُنِيْبُ۰۰ فَاطِرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا وَّ مِنَ الْاَنْعَامِ اَزْوَاجًا١ۚ يَذْرَؤُكُمْ ِفيْهِ١ؕ لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ١ۚ وَ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ۰۰ لَهٗ مَقَالِيْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ۚ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَآءُ وَ يَقْدِرُ١ؕ اِنَّهٗ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ۰۰ 1
اس کے بعد فرمایا:۔
‘‘ اللہ تعالیٰ کے قوانین بہت سے ہیں جو اس نے جاری فرمائے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب اس کی بارش نازل ہوتی ہے تو جہاں دانے اگتے ہیں، پھل اورسبزیاں پیدا ہوتی ہیں، درخت بڑھتے اورکھیتیاں لہلہاتی ہیں جن سے انسان فائدہ اٹھاتے ہیں، وہاں قسم قسم کی گندی روئیدگیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔ چنانچہ ہمارے ملک میں ایک ایسی ہی روئیدگی بکثرت ہوتی ہے جسے پنجابی میں‘‘ پدبہیڑا’’ کہتے ہیں۔ یہ اتنی جلدی پیدا ہو جاتا ہے کہ رات کو جس جگہ کچھ بھی نظر نہیں آتا بارش کے بعد دن چڑھنے تک وہاں بیسیوں ”پدبہیڑے“ پیدا ہو جاتے ہیں۔ یہ بِالعموم رُوڑیوں یعنی مَیلے کے ڈھیروں پر اُگتے ہیں۔تو جہاں بارش کے بعد اچھی چیزیں پیدا ہوتی ہیں وہاں گندی بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔ یہی قانون خدا تعالیٰ کا روحانی بارش کے متعلق ہے۔ جب انبیاء آتے ہیں تو ان کی بعثت کے ساتھ کئی کمزور طبیعت کے لوگ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ شاید محض دعویٰ کر دینے سے ہی انسان اپنی بات منوا سکتا اور کامیاب ہو جاتا ہے۔ بعض دفعہ دانستہ اور بعض دفعہ نادانستہ طور پر ان مخفی خیالات کے ماتحت اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ وہ بھی خدا تعالیٰ کے مامور اور مرسل ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد قریب کے زمانہ میں ہی چھ سات مدعیان نبوت پیدا ہو گئے۔ جب تک تو آفات و مصائب کا زمانہ تھا اور مشکلات درپیش تھیں اس وقت تک کوئی مدعی نبوت نہ تھا۔ جب تک آپ مکہ میں تھے اور یہ نظارہ دکھائی دیتا تھا کہ مسلمانوں کو ماریں پڑ رہی ہیں، بائیکاٹ ہو رہے ہیں، گھر سے بے گھر کئے جاتے ہیں کوئی مدعی نبوت پیدا نہیں ہوٴا۔ کیونکہ ان حالات میں دماغ میں یہ حسرت ہی پیدا نہیں ہو سکتی تھی کہ ہم بھی ایسے دعوے سے عزت حاصل کریں۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے فتوحات حاصل ہوئیں، اسلام کو غلبہ عطا ہؤا تو لالچی طبائع نے جھوٹ بنا کر یا اپنے گندے خیالات سے متاثر ہو کر یہ خیال کیا کہ ترقیات کی یہ آسان راہ ہے اور یہ بات ہی دراصل ایک بہت بڑا ثبوت ہوتا ہے اس بات کا کہ یہ مدعی یا تو بناوٹ سے کام لیتے اور جھوٹ بولتے ہیں اور یا اپنے لالچ اور حرص کے خیالات سے متاثرہوتے ہیں اور انہی خیالات کے زیر اثر ان کو ایسے الہام بھی ہو جاتے ہیں۔ تکلیف کے زمانہ میں کسی ایسے مدعی کا نہ ہونا ان کے باطل پر ہونے کا زبردست ثبوت ہے۔ مکہ کے زمانہ میں کوئی ایسا مدعی نہ تھا اور کوئی اس زندگی کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہ تھا کہ ماریں کھائے، گھر سے نکالا جائے وغیرہ وغیرہ۔ اس وقت تک تو کسی کو یہ پتہ نہ تھا کہ رسول کریم ﷺ مدینہ میں جائیں گے، اللہ تعالیٰ کی نصرت حاصل ہو گی اور آپ دشمنوں پر غلبہ پائیں گے۔ اس لئے کسی کے دل میں بھی یہ جوش نہ پیدا ہوتا تھا کہ آپ کی مثل بنا جائے۔ لیکن جب کامیابیاں شروع ہوئیں تو بعض پاجیوں نے توخدا تعالیٰ پر جھوٹ بنا کر اور بعض لالچی طبائع نے اپنے دماغی خیالات کے زیرِ اثر الہام وغیرہ کی بناء پر ایسے دعوے کرنے شروع کر دئیے۔ یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہوٴا۔ آپ کے زمانہ میں بھی جس وقت تک تکالیف اور دکھوں کا زمانہ تھا کوئی مدعی نبوت پیدا نہیں ہوٴا۔ لیکن جب کامیابیوں کا دور شروع ہوا تو کئی ایسے مدعی پیدا ہو گئے۔ بعض ایسے لوگوں نے جن کے نزدیک دنیوی عزت ہی اصل چیز ہوتی ہے یہ سمجھ لیا کہ ہم بھی دعویٰ کرتے ہیں اور اس طرح عزت پا جائیں گے۔یا بعض کو ان کے خیالات نے متمثل ہو کر ایسے خواب دکھائے کہ وہ سمجھنے لگے کہ واقعی وہ مامور ہیں۔ یہ خواب وہی حیثیت رکھتے ہیں جیسے کہتے ہیں کہ بلّی کو چھیچھڑوں کے خواب۔ چونکہ ان کے خیالات اس قسم کے ہوتے ہیں اس لئے ان کو خواب بھی ویسے ہی آنے لگتے ہیں۔ چراغ الدین جمونی اور ڈاکٹر عبد الحکیم وغیرہ ایسے ہی لوگوں میں سے تھے اور یہ سب اسی زمانہ کی پیداوار ہیں جب جماعت کامیابی کے رستہ پر چل پڑی تھی۔ 1892ء، 1893ء اور 1894ء میں کوئی ایسا مدعی نظر نہیں آتا۔ چونکہ یہ وہ زمانہ تھا جب ماریں پڑتی تھیں، بائیکاٹ ہوتے تھے، دنیا کی لعن طعن سہنی پڑتی تھی۔ اس لئے کسی کو یہ لالچ اور حرص نہ پیدا ہوتی تھی کہ ہم بھی ایسا دعویٰ کریں لیکن کامیابی شروع ہوئی تو بعض لالچی طبائع نے اپنے خیالات کے نتیجہ میں آنے والے خوابوں کی بناء پر اور بعض نے جھوٹ ہی ایسے دعوے کرنے شروع کر دئیے۔ ایسے ہی ایک شخص کے متعلق ایک دوست نے مجھے ایک واقعہ سنایا جو اس نے خود ان سے بیان کیا تھا۔ یہ شخص بھی ان میں سے تھا جو بناوٹ سے دعویٰ نہیں کرتے بلکہ جن کے خیالات متمثل ہو کر الہام کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی وفات پر اشتہار دے دیا کہ جو لوگ سمجھتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی وفات بے موقع ہوئی ہے وہ صحیح نہیں سمجھتے۔ مجھے الہام ہوٴا ہے کہ جماعت کو اس اس طرح ترقی ہونے والی ہے۔ حضرت خلیفہٴ اول نے حُسنِ ظنی سے کام لیتے ہوئے اور یہ سمجھ کر کہ اس شخص نے جھوٹ تو بنایا نہیں وہ الہام بھی شائع کر دئیے۔ اس سے اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہؤا کہ اب تو میرے الہام خلیفہٴ وقت نے بھی شائع کر دئیے اس لئے ان کو بہت اہمیت حاصل ہو گئی اور اس نے اپنی علیحدہ پٹڑی جمانی شروع کر دی اور اس نے خود اس دوست سے جس نے مجھے یہ بات سنائی کہا کہ ایک دفعہ انہی خیالات کی وجہ سے مجھے نماز میں ہنسی آ گئی۔ مَیں نماز پڑھ رہا تھا کہ مجھے خیال آیا کہ اس طرح مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوتے ہیں۔ اب مجھے بھی تائید و نصرت الٰہی حاصل ہو گی اور ترقیات حاصل ہوں گی۔ میرا گاوٴں بھی قادیان کی طرح ترقی کرے گا یہاں بھی لنگر خانہ ہو گا، انجمن قائم ہو گی، روپیہ آئے گا او رہر طرف مجھے شُہرت حاصل ہو گی۔ انہی خیالات میں اسے یہ یاد ہی نہ رہا کہ مَیں نماز میں کھڑا ہوں اور ہنسی آ گئی۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ اسے جو الہام وغیرہ ہوتے تھے وہ دراصل اس کی حرص اور لالچ کا نتیجہ تھے۔ تو بعض لوگوں کو اپنے دماغی خیالات کے زیر اثر ایسے الہام بھی ہو جاتے ہیں جن کی بناء پر وہ ایسے دعوے کر دیتے ہیں اور بعض جھوٹ بولتے ہیں مگر یہ ہوتا اُسی وقت ہے جب وہ سلسلہ کی کامیابی کو دیکھ کر سمجھ لیتے ہیں کہ یہ ایک کامیابی کا آسان راستہ ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے زمانہ میں ایک ایسا شخص یہاں آیا، مہمان خانہ میں ٹھہرا، اس وقت ترقی شروع ہو چکی تھی۔ اس نے بعض لوگوں سے بیان کیاکہ مجھے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوتا ہے کہ تو محمد ہے، موسیٰ ہے، عیسیٰ ہے۔ بعض لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام سے اس کا ذکر کیا۔ وہ مسجد میں آیا تو آپ نے دریافت فرمایا کہ سنا ہے آپ کو ایسے الہام ہوتے ہیں؟ اس نے کہا ہاں جس طرح آپ کو اللہ تعالیٰ محمد، موسیٰ، عیسیٰ اور نوح وغیرہ ناموں کے ساتھ پکارتا ہے مجھے بھی پکارتا ہے۔ آپ نے فرمایامیاں یہ بھی خیال رکھو کہ شیطان جھوٹ بولا کرتا ہے خدا تعالیٰ نہیں۔ وہ ہمیشہ سچ بولتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کسی کومحمد کہتا ہے تو وہ قرآن کریم کے معارف بھی اس پر کھولتا ہے اور اسے ایک نور عطا کرتا ہے اور رسول کریمﷺ کے معجزات کی طرح اسے بھی معجزات عطا کرتا ہے۔ جب وہ کسی کو موسیٰ کہتا ہے تو اس کے لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے حالات بھی پیدا کر تا ہے۔ جب کسی کو نوح کہتا ہے تو اس کے دشمنوں کی ہلاکت کے سامان بھی پیدا کر دیتا ہے۔ تم کو جب الہام ہوتا ہے کہ تو محمد ہے، موسیٰ ہے، نوح ہے، تو ساتھ کوئی چیز بھی ان انبیاء جیسی ملتی ہے یا نہیں؟ اس نے کہا کہ ملتا ملاتا تو کچھ نہیں صرف نام ہی ملتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ بس یہی ثبوت ہے اس امر کا کہ شیطان تمہارے ساتھ مذاق کرتا ہے، خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام نہیں۔ اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ نام عطا ہوتے تو وہ اس کے ساتھ ان نبیوں والے نشان بھی عطا کرتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ شیطان ہے جو تمہیں دھوکا دیتا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ شیطان دھوکا دیا کرتا ہے لیکن خداتعالیٰ سچے وعدے کرتا ہے۔ 2
غرض ترقیات کے زمانہ میں کئی ایسے لوگ پیدا ہو جاتے ہیں جو دعوے کو ترقیات کا ایک ذریعہ سمجھ کر ایسے دعوے کر دیا کرتے ہیں۔ یہ گویا اس مامور الٰہی کی صداقت پر نفوس کی شہادت ہوتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے زمانے میں بھی ایسے دعوے اس بات کا ثبوت تھے کہ ان لوگوں کے نفس تسلیم کرتے ہیں کہ آپ کو کامیابی حاصل ہو گئی ہے ورنہ انہیں ایسا دعویٰ کرنے کاخیال بھی نہ آتا اور اگر وہ نیک نیتی سے دعوے کرتے ہیں تو انہیں ایسے خواب نہ آتے کیونکہ جب تک عمدہ اور خوش نما نظارہ محرک نہ ہو ایسے خواب نہیں آتے۔
کئی ایسے مدعیان اپنے اشتہار وغیرہ مجھے بھجواتے رہتے ہیں۔ پرسوں کی ڈاک میں بھی ایک ایسا اشتہار آیا۔ اس میں ایک مدعی نبوت دوسرے کا جواب لکھ رہا ہے وہ اسے اپنا مرید ظاہر کرتا ہے اور دوسرا پہلے کو اپنا مرید بتاتا ہے اور لکھتا ہے کہ تُو نے میری بیعت کی تھی۔ ایسے پاگل لوگوں کی باتوں کا اثر گو عام طورپر نہیں ہوتا تاہم ایسے خیالات چونکہ پیدا ہوتے رہتے ہیں اور بعض نام نہاد صوفی بھی ایسی باتیں کرتے رہتے ہیں اس لئے اس اشتہار میں سے ایک بات کے متعلق کچھ بیان کر دینا مَیں نے مناسب سمجھا۔ مَیں اس روز بیمار تھا اور کوئی غور و فکر کا کام تو کر نہ سکتا تھا اس لئے اس رسالہ کو اٹھا کر پڑھنے لگا۔ جس شخص نے یہ اشتہار لکھا ہے وہ دوسرے کو کہتا ہے کہ تم نے خدائی کا دعویٰ کیا ہے اور اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا مثیل قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ اللہ کا نام پانے کے لئے مَیں ہی مخصوص کیا گیا ہوں اور کسی کو اس امت میں سے یہ نام حاصل نہیں ۔ اور جب لوگوں نے یہ اعتراض کیا کہ یہ نہایت ناپاک گندا دعویٰ ہے تو اس نے اس کا جواب دیا کہ یہ دعویٰ تو مَیں نے احمدیوں کو چپ کرانے کے لئے کیا ہے۔ کیونکہ ان کے مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ اس امت میں سے نبی کا نام پانے کے لئے مَیں ہی مخصوص کیا گیا ہوں۔ اگر تو اشتہار لکھنے والے نے یہ بات اپنے پاس سے کہی ہے تو وہ خود اس کا ذمہ دار ہے لیکن اگر یہ صحیح ہے تو اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں کہ کسی گاوٴں کے نمبردار کے ہاں شادی تھی اس نے دوسرے لوگوں کے ہاں سے برتن منگوائے۔ ایک بے وقوف آدمی تھا اس کے ہاں سے بھی ایک کٹورا منگوایا اور شادی کے بعد باقی لوگوں کے برتن تو واپس ہوگئے مگر اتفاق سے اس بے وقوف کا کٹورا رہ گیا۔ کچھ روز انتظار کے بعد وہ بے وقوف اس نمبردار کے گھر اپنا کٹورا لینے آیا۔ اور اتفاق کی بات تھی کہ اس وقت وہ نمبردار اس کے کٹورے میں ساگ ڈال کرکھا رہا تھا۔ یہ دیکھ کر اسے بہت غصہ آیا اور جوش کی حالت میں کہنے لگا کہ چوہدری یہ بات تو ٹھیک نہیں۔ ایک تو تم نے میرا کٹورا اب تک واپس نہیں کیا، دوسرے اس میں ساگ ڈال کر کھا رہے ہو۔ اچھا مَیں بھی کبھی تمہارا کٹورا مانگ کر لے جاوٴں گا اور اس میں پاخانہ ڈال کر کھاوٴں گا۔ تو یہ شخص بھی ایسا ہی جاہل ہے جس نے کہا کہ چونکہ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ نبی کا نام پانے کے لئے مَیں ہی مخصوص کیا گیا ہوں اس لئے مَیں نے یہ کہہ دیا کہ خدا کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا ہوں۔ بلکہ یہ تو اس سے بھی زیادہ بے وقوف ہوا جس نے کہا تھا کہ میں تمہارے کٹورے میں پاخانہ ڈال کر کھاوٴں گا۔ پاخانہ کھانا بھی تو بہت گندی بات ہے مگر اتنی نہیں جتنی کسی کا یہ کہنا کہ مَیں خدا ہوں۔ اس رسالہ کے مصنف نے بعض وہ دلائل بھی دئے ہیں جن سے وہ مدعیٴ الوہیت یا اس کے مرید اس کے اللہ تعالیٰ کے مثیل ہونے پر استدلال کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کے ایک مرید پر کسی نے اعتراض کیا کہ قرآن کریم تو شرک کی تردید کرتا ہے اور تم اپنے پیر کو خدا کا مثیل کہتے ہو۔ اس نے جواب دیا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ یعنی اس کی مثل کی مانند کوئی نہیں ۔
پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا کوئی مثیل ضرور ہونا چاہئے۔ ہاں پھر اس مثیل جیسا کوئی اور نہ ہو سکے گا۔ اس رسالہ کا مصنف کہتا ہے کہ مَیں نے اسے کہا کہ اس آیت میں کَ کے معنے یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ کی ذات میں اس کا کوئی مشابہ نہیں اورمثل کے یہ معنے ہیں کہ اس کی صفات میں اس کا کوئی مثیل نہیں مگر یہ معنے بھی غلط ہیں اور دونوں طرف سے جہالت کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔
چونکہ ہمارے ملک میں بعض جھوٹے صوفیاء بھی ہیں جو ایسے دعوے کرتے ہیں اس لئے مَیں نے مناسب سمجھا کہ اس کے متعلق کچھ بیان کر دوں۔ ایسے صوفیاء زمینداروں کے پاس عام طور پر آتے رہتے ہیں اور ان کو گمراہ کرتے رہتے ہیں اور انہیں ایسی باتیں بتاتے ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ انسان خدا ہے اور خدا کا مثیل ہے۔ اس قسم کے کئی اباحتی لوگ پھرتے رہتے ہیں اور گندے خیالات لوگوں میں پھیلاتے رہتے ہیں۔مَیں کئی دفعہ سنا چکا ہوں کہ اسی طرح کا ایک آدمی میرے پاس بھی ایک دفعہ اسی مسجد میں آیا تھا اور اس نے کہا تھا کہ نماز تو خدا تعالیٰ تک پہنچنے کا ذریعہ ہے پھر عارف کو نماز کی کیا ضرورت؟ جب دریا کا کنارہ آ جائے تو کشتی میں بیٹھے رہنے سے کیا فائدہ؟ مَیں نے اسے جو جواب دیا وہ مَیں کئی بار بیان کر چکاہوں۔ پس ایسے لوگوں کے خیالات کی وجہ سے مَیں نے مناسب سمجھا کہ اس کے متعلق کچھ بیان کر دوں۔
قرآن کریم ایسی زبردست کتاب ہے کہ کوئی شخص اس کے غلط معنے کر ہی نہیں سکتا۔ لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ کے معنے اس شخص نے جہالت کی وجہ سے یہ کئے کہ اس کی مثل کی مانند کوئی نہیں۔ مگر دیکھو کس طرح اسی آیت کے سیاق و سباق میں ہی اس کے بے ہودہ خیال کی تردید کر دی گئی ہے۔ اس آیت سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ مَا اخْتَلَفْتُمْ فِيْهِ مِنْ شَيْءٍ فَحُكْمُهٗۤ اِلَى اللّٰهِ١ؕ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبِّيْ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ١ۖۗ وَ اِلَيْهِ اُنِيْبُ ۔اللہ تعالیٰ کی توحید کے متعلق جب بھی کوئی اختلاف کرتا ہے تو یاد رکھو کہ حکم اس موقع پر اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہوتا ہے یعنی یہ کوئی ایسی چیز نہیں کہ جس کا فیصلہ انسانی عقل سے تعلق رکھتا ہو۔ ایسے امور میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ظاہر ہے۔ اس نے اپنی صفات کو ظاہر کیا ہوٴا ہے۔ ان پر قیاس کر کے دیکھ لو کہ کوئی اس کا شریک ہو سکتا ہے یا نہیں؟ کہتے ہیں کسی نے خدائی کادعویٰ کیا تھا ایسے لوگوں کو بعض پاگل ساتھی بھی مل جاتے ہیں۔ ایک زمیندار روز دیکھتا تھا کہ بعض لوگ اس کے اردگرد جمع رہتے۔ مولوی آتے اور اس سے فلسفے چھانٹتے اور بحث مباحثہ کر کے چلے جاتے مگر اس پر کوئی اثر نہ ہوتا۔ زمیندار کو یہ دیکھ کر کہ یہ شورش روز بروز بڑھتی ہی جاتی ہے، بہت غصہ آتا۔ اس فقیر کا ڈیرا بھی زمیندار کے کھیت کے پاس ہی تھا۔ سالہا سال کے بعد ایک دن اس زمیندار نے اس شخص کو اکیلا پایا اس کا کوئی مرید وغیرہ پاس نہ تھا یہ دیکھ کر وہ اس کے پاس پہنچا اور ادب سے گھٹنے ٹیک کر بیٹھ گیا اور دریافت کیا کہ کیا آپ خدا ہیں؟ اس نے کہا ہاں۔ زمیندار نے اُٹھ کر اسے گردن سے پکڑ لیا اور ایک گھونسہ رسید کر کے کہا تم نے ہی میرے باپ کو مارا تھا پھر ایک اور لگایا اور کہا تم نے ہی میری ماں کو مارا تھا مَیں تو بہت دیر سے تمہاری تلاش میں تھا، تم نے ہی میرے فلاں رشتہ دار کی جان لی تھی۔ پھر ایک اور گھونسہ لگایا اور کہا تم نے ہی میرے بیٹے پر موت وارد کی تھی۔ اس طرح وہ مارتا جاتا اور ایک ایک کر کے مرے ہوئے رشتہ داروں کے متعلق کہتا جاتا کہ کیا تم نے ہی ان کو مارا تھا۔ پھر اسی طرح اپنے مویشیوں کے مرنے اور فصلوں وغیرہ کے خراب ہونے پر اس سے بازپُرس کرتاگیا اور ساتھ ساتھ اسے پیٹتا بھی گیا۔ جب اسے پندرہ بیس گھونسے اچھی طرح پڑے اور اس نے دیکھا کہ کسی طرح یہ سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آتا تو چلّا اٹھا کہ نہیں مَیں خدا نہیں ہوں۔ پس فرمایا حُكْمُهٗ اِلَى اللّٰهِ ۔ خدا تعالیٰ کی ہستی ایسی غالب اور وراء الوراء ہے کہ اس پر کسی کا قابو نہیں چلتا۔ اس کے تمام افعال حکمت کے ماتحت ہوتے ہیں اور اس کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی، اس کی صفات ظاہر ہیں۔ اگر کوئی بندہ اپنے اندر وہ صفات ثابت کر دے تو ہم مان لیں گے۔ اگر کوئی اس کی طرح مُحْیٖ بن جائے، مُمِیْت بن جائے، قَھَّار، جَبَّار، مُہَیْمِن، اَلْعَزِیْز اپنے آپ کو ثابت کر دے تو ہم مان لیں گے۔ لیکن اگر وہ ان صفات کامالک نہیں تو اس کا خدائی کا دعویٰ محض بکواس ہے۔ پہلی آیت میں یہی بتایا ہے کہ یہاں ان لوگوں کا ذکر ہے جو خدا تعالیٰ کا شریک بناتے تھے۔اور پھر فرمایا ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبِّيْ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ١ۖۗ وَ اِلَيْهِ اُنِيْبُ۔ اے محمد (ﷺ) تو کہہ دے کہ یہ میرا رب ہے جس نے اپنی صفات کو ظاہر کیا ہے جو انسان خدائی کامدعی ہے اسے تو دوسرا انسان پکڑ کرمار بھی سکتا ہے۔ مگر میرے خدا کوکوئی کہاں پکڑے گا۔ تم کہتے ہو کہ فلاں خدا تھا، فلاں خدا کا مظہر تھا اور خدا کا بیٹا تھا۔ مگر ان میں وہ صفات تم کہاں سے لاوٴ گے جو میرے خدا نے ظاہر کی ہیں۔ وہ مُحْیٖ ، مُمِیْت ، قُدُّوْس، مُہَیْمِن، جَبَّار، قَہَّار اور خدا تعالیٰ کی اَن گنت صفات کہاں سے پیدا کریں گے؟ کیا وہ یہ صفات ظاہرکر سکتے ہیں ؟ اگر یہ صفات تم کسی کے اندر دکھا دو گے تو مَیں مان لوں گا۔لیکن اگر یہ صفات نہیں تو پھر محض دعویٰ بکواس ہی بکواس ہے۔ فرمایا تُو کہہ د ے میرا رب تو وہ ہے جو زندہ ہے اور ایسے امور میں خود فیصلہ کر کے جھوٹے کو ذلیل کر دیتا ہے۔ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ١ۖۗ وَ اِلَيْهِ اُنِيْبُ ۔ میرا انحصار اسی پر ہے اور اسی کی مدد سے میں جیئوں گا۔ تم جھوٹے خدا بنتے ہو اور مَیں سچے خدا کا پرستار ہوں اور اسی کا سہارا رکھتا ہوں۔ ایک شخص مُنہ سے اپنے آپ کوہاتھی کہے اور دوسرا ہاتھی پر چڑھا ہو تو دونوں میں سے کس کی طاقت زیادہ ہو گی۔ اگر کوئی مُنہ سے کہے مَیں عربی گھوڑا ہوں اور اس کے مقابل کوئی بچہ ایک معمولی سی گھوڑی پر سوار ہو تو وہ بچہ اس سے آگے بڑھ جائے گا۔
اسی طرح فرماتا ہے کہ اے میرے رسول! تم ان سے کہہ دو کہ مَیں خدا نہیں ہوں مگر حقیقی خداپر میرا سہارا ہے اور تم خود خدا بنتے ہو۔ اب دیکھیں دونوں میں سے کون جیتتا ہے؟
پھر فرمایا وَ اِلَيْهِ اُنِيْبُ ۔ تم کیا طاقت رکھتے ہو کمزور بندے ہو مگر میں اس خدا کی طرف جھکتا ہوں جو سب طاقتوں کا مالک ہے۔ جو شخص خدائی کادعویٰ کرتا ہے وہ ہر قسم کی دعاوٴں سے محروم ہو جاتاہے۔ سچے خدا کا پرستار جب کسی تکلیف میں پڑتا ہے اس کا بچہ بیمار ہوتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کے آستانہ پرگر جاتا اور اس سے دعا کرتا ہے کہ میری تکلیف دور کر دے، میرے بچے کو شفا دے دے۔ قرض خواہ تنگ کرتے ہیں تو وہ خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا اور اس سے التجا کرتا ہے کہ میرا قرض خواہ مجھے ذلیل کرنا چاہتا ہے تو میری فریاد سن اور اس ذلت سے نجات کے سامان پیدا کر دے۔ اس سے ایک تو اس کے دل کی بھڑاس نکل جاتی ہے اور دوسرے ایک اطمینان حاصل ہو جاتا ہے کہ میرا ایک رب اور خدا ہے جو میری مدد کرے گا یا وہ گورنمنٹ کے کسی قانون کی زد میں آ جاتا ہے۔ تو خدا کے حضور جھکتا اور اس سے دعا کرتا ہے کہ مَیں کمزور ہوں حکومت طاقت ور ہے اس کے پاس فوجیں ہیں اور ان کے گھمنڈ پر وہ مجھ پر ظلم کرتی ہے۔ مَیں بالکل بے بس اور بے کس ہوں اور حکومت کے ساتھ مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتا۔ اے میرے خدا تو ہی میری مدد کر۔ اس سے اس کے دل کی بھڑاس بھی نکل جاتی ہے اور اگر صحیح طور پر دعا کی گئی ہو تو زندہ خدا اس کی مدد بھی کرتا ہے ۔ لیکن جو خود مدعی ہے کہ میں خدا ہوں۔ جب اس کے بیوی بچے بیمار ہوں اس کے دل میں ایک آگ لگی ہوئی ہوتی ہے وہ چاہتا ہے کہ مَیں چیخوں اور چلّاوٴں۔ مگر شرمندہ ہوتا ہے کہ کس طرح ایسا کروں جبکہ مَیں خدائی کا یا خدا کا مثیل ہونے کا مدعی ہوں جبکہ وہ سَمِیْع، بَصِیْر، مُحْیٖ، مُمِیْت، اَلشَّافِیْ وغیرہ دعوے کرتا ہے تو بیوی یا بچہ کی بیماری کے وقت کسی دوسرے کے آگے کس طرح چلِّا سکتا ہے اور دعا کر سکتا ہے۔ اگر وہ خدا کے سامنے جھکے تو کیا لوگ تمسخر نہ کریں گے کہ تم تو خود خدا بنتے تھے اب کیوں کسی خدا کے سامنے جھکتے ہو۔ اور اگر وہ خدا کا مثیل ہونے کا مدعی ہو تو پھر بھی وہ خدا کے سامنے نہیں جھک سکتا کیونکہ جیسا خدا ویسا ہی وہ۔ پھر اسے خداتعالیٰ سے دعا کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد (ﷺ) تُو کہہ دے کہ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبِّيْ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ١ۖۗ وَ اِلَيْهِ اُنِيْبُ ۔یہ میرا رب ہے اسی پر میرا توکّل ہے اور اسی کی طرف مصیبت کے و قت میں جھکتا ہوں۔ عیسائی حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا کہتے ہیں مگر جب انہیں یہودیوں نے صلیب پر لٹکایا تو انہوں نے کہا ایلی ایلی لما سبقتانی۔ 3اے میرے رب، اے میرے رب، تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟ یہ فقرہ عیسائیوں کوکتنا چبھنے والا ہے کیونکہ حضرت مسیح کے متعلق ان کے عقائد کو باطل قرار دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب بعض اناجیل میں سے اسے نکال دیا گیا ہے۔ حضرت مسیح خود تو الوہیت کے مدعی نہ تھے وہ تو اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا بندہ ہی سمجھتے تھے ان کا دل تو صلیب پر بھی مطمئن تھا کہ ابھی میرے لئے اپیل کی ایک اور جگہ باقی ہے۔ پیلاطوس نے گو مجھے یہود کے رحم پر چھوڑ دیا اور یہود نے میرے خلاف فیصلہ کر دیا مگر ان سب سے بالا ابھی ایک اور حکومت ہے اور مَیں اس کے پاس چِلّاوٴں گا۔ چنانچہ انہوں نے نہایت تضرع سے خد اتعالیٰ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ایلی ایلی لما سبقتانی۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان کو بچا بھی لیا اگر وہ صلیب سے نہ بھی بچتے تب بھی ان کا دل مطمئن تھا کہ میرا ایک نگران ہے جو یا تو مجھے بچا لے گا یا اس کا بدلہ اگلے جہان میں انعامات کی صورت میں دے گا۔ مگر عیسائی اس فقرے کو پڑھ کر بہت گھبراتے ہیں کیونکہ وہ تو ان کو خدا بناتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ اگر ان کے اندر خدائی ہوتی، دنیا پر تصرف حاصل ہوتا تو وہ صلیب پر کسی اور کو کیوں پکارتے؟ وہ تو ایک پھونک مارتے اور سب دشمنوں کو تباہ و برباد کر دیتے۔ تو یہ فقرہ حضرت مسیح کے لئے تو تسلی کا موجب تھا مگر ان کو خدا ماننے والوں کے لئے عذاب کا موجب ہے۔ اور وہ دل میں کہتے ہیں کہ کاش یہ فقرہ نہ ہوتا اور یہ کاش کاش انیس سو سال تک کہتے رہے ہیں گو اب اسے اڑا دیا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد! تُو کہہ دے کہ میرا تو رب موجود ہے اور میں اسی کی طرف مصائب اور مشکلات کے وقت جھکتا ہوں اور اسی پر میرا سہارا ہے۔ اس لئے مجھے کوئی گھبراہٹ نہیں ہو سکتی۔ میں جانتا ہوں کہ میرے خدا نے میرے لئے جو قانون بنایا ہے اسی پر عمل ہو گا تم میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اور جب تم مجھ پر ظلم کرتے ہو تو مَیں اس کی طرف جھکتا ہوں اور کہتا ہوں کہ اے میرے رب! مجھ پر ظلم ہوٴا۔ اس سے میرے دل کی بھڑاس نکل جاتی ہے اور تسلی ہو جاتی ہے کہ میرا خدا ضرور میری مدد کرے گا۔ مگر تم لوگ جسے خدا کا شریک بناتے ہو اور جسے دنیا کی پیدائش میں حصہ دار بناتے ہو جب یہ پڑھتے ہو کہ اس نے خود مصیبت کے وقت خدا تعالیٰ سے دعا کی، اور زاری کی تو تمہارا دل کتنا نادم ہوتا ہو گا اور ان کی یہ حالت دیکھ کر تمہارا کیا حال ہوتا ہو گا؟ میرے لئے تو میری دعائیں مصائب کے دور ہونے کا موجب ہوتی ہیں۔ مگر جنہیں تم خدا سمجھتے ہو ان کی ہر دعا تمہارے مُنہ پر تھپڑ بن کر لگتی ہے۔ ان کو جب بھوک پیاس لگتی ہو گی اور وہ خدا سے غذا اور پانی مانگتے ہوں گے تو وہ تو خدا سے کھانے اور پینے کی چیز پا کر اس کا شکر ادا کرتے ہوں گے کہ اس نے یہ نعمت انہیں عطا کی مگر ان کا کھانا اور پینا تمہارے مُنہ پر چپت بن کر لگتا ہے اور اس طرح تمہارے معبود تمہاری ذلت اور رسوائی کا موجب ہوتے ہیں۔ پھر فرمایا فَاطِرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ۔ میرا خدا تو وہ ہے جو زمین اور آسمانوں کا پیدا کرنے والا ہے جس نے بغیر مادہ کے زمین و آسمان پیدا کر دئیے مگر یہ معبودانِ باطلہ تو خود پیدا ہونے والے ہیں۔ ان سے پوچھو تمہارے باپ کا کیا نام ہے، دادا کا کیا نام ہے، نانا اورنانی کا کیا نام ہے تو وہ نام بتائیں گے۔ مگر میرا خدا تو وہ ہے جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور دنیا کی ہر چیز کو پیدا کیا۔ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا وَّ مِنَ الْاَنْعَامِ اَزْوَاجًا۔ ہر چیز کے جوڑے بنائے ہیں۔ مرد کے لئے عورت جوڑا بنایا ہے اور عورت کے لئے مرد جوڑا بنایا ہے پھر جانوروں کے بھی جوڑے بنائے ہیں۔ يَذْرَؤُكُمْ ِفيْهِ ۔ اس تدبیر سے وہ تم کوکثرت بخشتا ہے نسل میں بھی اور مال میں بھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ خود لَمْ يَلِدْوَ لَمْ يُوْلَدْ 4 ہے۔ نہ کسی نے اس کو جنا اور نہ اس نے کسی کو جنا۔ مگر انسانوں اور جانوروں کے لئے اس نے جوڑے بنائے ہیں اور اس ذریعہ سے ان کو کثرت بخشتا ہے اور ا س طرح نسل ترقی کرتی ہے، مال ترقی کرتا ہے۔ اگر جوڑے پیدا نہ کرتا تو نسل نہ بڑھ سکتی، سواری کے لئے گھوڑے نہ مل سکتے، گوشت کھانے کے لئے بکریاں نہ مل سکتیں، زراعت کے لئے بیل نہ مل سکتے اور اس طرح نہ تو دولت بڑھ سکتی اورنہ نسل چل سکتی۔ اس نے تمہارے لئے یہ کثرت کے سامان پیدا کر دئیے ہیں اور یہ کثرت ہی دلیل ہے اس بات کی کہ تم خدا نہیں ہو سکتے کیونکہ جس چیز کے بڑھنے کے سامان پیدا ہوں وہ محتاج الی الغیر ہوتی ہے۔ بڑھنے کا قانون جاری ہی ان اشیاء پر ہوتا ہے جنہوں نے اپنی ضرورت کے ختم ہونے سے پہلے فنا ہو جانا ہو لیکن جو اشیاء اس وقت تک موجود رہتی ہیں کہ جس وقت تک ان کی ضرورت ہے ان کے متعلق بڑھنے کا کوئی قانون جاری نہیں ہوتا۔ انسان کی جس وقت تک اس دنیا میں ضرورت ہے اس وقت تک وہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس لئے انسان کے اندر بڑھوتی کا قانون جاری کیا گیا ہے اور تناسل کا دروازہ اس کے لئے کھولا گیا ہے لیکن سورج چاند زمین چونکہ اس وقت تک قائم رہنے والے ہیں جب تک کہ ان کی ضرورت ہے۔ ان میں کوئی تناسل کا سلسلہ جاری نہیں۔ غرض جس چیز نے اپنی ضرورت کے مطابق قائم رہنا اور پھر ختم ہو جانا ہے اس کے لئے بیوی اور اولاد کی ضرورت ہے۔ جوڑے، اولاد اور تدثُّر کا سلسلہ انہی کے لئے ہے جنہوں نے فنا ہوجانا ہوتا ہے۔ پہاڑوں کے لئے اس کی ضرورت نہیں۔ چاند، سورج اور ستاروں کے لئے نہیں۔ بیوی بچوں کی ضرورت ان کے لئے ہوتی ہے جنہوں نے فنا ہونا اور مٹ جانا ہوتا ہے۔ اس سال کی گندم پچھلے سال کی گندم کی نسل ہے اور گندم عام طور پر دس پندرہ سال سے زیادہ محفوط نہیں رہ سکتی۔ دو ہزار سال تک ایک گندم کا سلسلہ جاری نہیں رہ سکتا اس لئے اس کے واسطے اولاد کا سلسلہ جاری کیا ہے۔ گو یہ تناسل ایک دوسرے قاعدہ کے ماتحت ہے مگر بہرحال تناسل کا سلسلہ جاری ضرور ہے۔ غرض جن چیزوں نے ہمیشہ کے لئے فائدہ نہیں دینا ہوتا اور ان کے اندر فنا کا سلسلہ جاری ہوتا ہے انہی کے لئے اولاد کا سلسلہ ہے۔ یہ سلسلہ کبھی نر اور مادہ کے ملنے سے اور کبھی بیج اور زمین کے ملنے سے جاری ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ قانون بیان فرما کر فرماتا ہے لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ خدا تعالیٰ کا مثل کوئی نہیں یعنی باقی سب مخلوق جن قوانین کے ماتحت چل رہی ہے خدا تعالیٰ پر وہ قانون اثر انداز نہیں۔ سو اس بات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس جیسی کوئی چیز نہیں۔ باقی چیزیں جوڑوں سے ترقی کرتی ہیں اور اس لئے دوسروں کی محتاج ہوتی ہیں۔ اوریہ ثبوت ہوتا ہے اس بات کا کہ وہ خدا نہیں ہو سکتیں کیونکہ ان پر موت بھی وارد ہوتی ہے اور انہیں احتیاج بھی ہے۔
غرض كَمِثْلِهٖ سے یہ معنے لینا کہ اس کی ایک مثل ہو سکتی ہے جہالت کی بات ہے۔ اگر یہ معنے کرنے والا عربی لغات سے ذرا بھی واقف ہوتا تو ایسے معنے ہرگز نہ کر سکتا۔ قرآن کریم عربی زبان میں ہے اردو میں نہیں کہ اس آیت کے معنے ہو سکیں کہ اس کی مثل کی مثل کوئی نہیں ہو سکتا۔ اس کا یہ ترجمہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے آریہ کہتے ہیں کہ قرآن کا خدا مکّار ہے۔ کیونکہ اس نے فرمایا ہے کہ وَ اللّٰهُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ 5 اردو میں تو مکّار بُرے معنوں میں استعمال ہوتا ہے مگر عربی میں اس کے معنے تدبیر کے ہیں۔پنجابی اور اردو کا مکر اَور ہے اور عربی کا اَور۔ اسی طرح لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ کے یہ معنے نہیں کہ اس کی مثل کی مثل نہیں ہو سکتی۔ عربی میں بعض حروف زائد ہوتے ہیں اور ان کے معنے صرف تاکید کے ہوتے ہیں۔یہ ‘‘ک’’ بھی ایسے حروف میں سے ایک ہے اگر عربی میں کہیں کہ لَيْسَ مِثْلُهٗ شَيْءٌ تو اس کے معنے ہوں گے کہ خدا کی مثل کوئی نہیں لیکن جب کہا جائے گا لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ خدا تعالیٰ کی مثل ہونا تو بڑی بات ہے مثل بننے کے قریب بھی کوئی نہیں پہنچ سکتا غرض ‘‘ک’’ نے مثل کا وجود ثابت نہیں کیا بلکہ اس کی قطعی نفی کر دی ہے اور نفی میں تاکید کے معنے پیدا کر دئیے ہیں۔
عرب شعراء کے کلام میں بھی اس کی مثالیں ملتی ہیں چنانچہ ایک عرب شاعر نے کہا کہ :
اَصْبَحْتَ مِثْلَ عَصْفٍ مَأْکُوْلٍ
کہ تُو کھائے ہوئے چارہ کی مانند ہو گیا یعنی بالکل ویسا ہی ہو گیا۔ پس اگر کسی فقرہ میں توکید کا کوئی لفظ آئے تو اگر مثبت ہو تو اس کے معنے ہوتے ہیں کہ بالکل ہی ویسا ہو گیا اور اگر منفی ہو تو اس کے معنے ہوں گے کہ اس کے قریب بھی نہیں پہنچ سکا۔ پس لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ کے معنے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے مثل ہونا تو الگ رہا اس کی مثل ہونے کے قریب بھی کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ بعض دفعہ ناقص مشابہت دو چیزوں میں ہو سکتی ہے۔ پس مثل پر ‘‘ک’’ کو بڑھا کر یہ مفہوم پیدا کیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ اور دوسرے وجودوں میں ناقص مشابہت بھی نہیں ہو سکتی۔ فرض کرو زید اچھا کاتب بھی ہے، صرفی نحوی بھی اور طبیب بھی ہے۔اب اگر کوئی اور شخص اچھا کاتب ہو تو کہہ سکتے ہیں کہ وہ شخص زید کی طرح ہے۔ یہ ناقص تشبیہہ ہو گی جو صرف ایک خوبی کے اشتراک کی وجہ سے دی جا سکتی ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ ہم ایسے نہیں ہیں کہ کسی کو ناقص مشابہت بھی ہمارے ساتھ ہو سکے۔ گویا صرف یہ نہیں کہ میرے جیسا بَصِیْر، سَمِیْع ، مُحْیٖ، مُمِیْت اور قُدُّوْس کوئی نہیں بلکہ میری کوئی ایک صفت لے لو وہ بھی کسی دوسرے میں نہ پاوٴ گے۔ صرف سَمِیْع کی صفت لے لو۔ سب صفات میں تو کسی کا میرے جیسا ہونا الگ رہا صرف سَمِیْع بھی میرے جیسا کوئی اور نہ ہو گا۔ پس ادھوری مشابہت بھی میرے ساتھ نہیں ہو سکتی۔ جیسا کہ میں نے اوپر مثال دی ہے کہ زید طبیب بھی ہے، کاتب بھی ہے اور صرفی اور نحوی بھی ۔ اب یہ ممکن ہے کہ اس کی طرح یہ تینوں صفات کوئی دوسرا نہ رکھتا ہو۔ مگر ایک صفت اس جیسی کسی میں ہو تو گو وہ سب صفات میں زید سے مشابہ نہیں تاہم ایک مشابہت کی بناء پراسے اس جیسا کہا جا سکتا ہے۔ مگر لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ سے مراد یہ ہے کہ ساری صفات میں شرکت تو الگ رہی ایک صفت میں بھی کوئی اس کا شریک نہیں۔ یہ تو الگ رہا کہ خدا جیسا کوئی بھی مُجِیْب ، قُدُّوْس، جَبَّار، قَہَّار، سَمِیْع ، بَصِیْر ہو۔ اس سے تو ایسی مماثلت ہی ناممکن ہے کہ کسی ایک صفت کے لحاظ سے ہی کوئی اس جیسا ہو۔ ان آیات سے پہلے بھی یہی مضمون بیان کیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کا کوئی مثل نہیں ہو سکتا اور خدا تعالیٰ کی بہت سی صفات بیان کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ جس سے صاف ظاہر ہے کہ اس آیت میں مثل کی نفی کی گئی ہے نہ کہ اس کا اثبات کیا گیا ہے۔ پس جس نے اس کے یہ معنے کئے ہیں کہ اس کی مثل کی مثل کوئی نہیں ہو سکتی وہ جاہل ہے۔ اس نے یہ سمجھ لیا ہے کہ شاید قرآن اردو زبان میں ہے اگر وہ عربی زبان سے واقف ہوتا تو اسے معلوم ہوتا کہ حرف تشبیہہ کی تکرار عربی قاعدہ کے مطابق توکید کے لئے آتی ہے۔ اور وہ آیت کے مضمون پر زور دیتی ہے نہ کہ نفی کرتی ہے اور بعد کا مضمون اس مفہوم کو اور پکّا کرتا ہے کیونکہ اس سے آگے فرمایا وَ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ یعنی یہ کس طرح ممکن ہے کہ کوئی اس کی صفات میں اس سے مشابہ ہو سکے۔ دوسری صفات کو جانے دو صرف سَمِیْع و بَصِیْر کی صفات کو ہی لے لو۔ خدا جیسا سَمِیْع اور بَصِیْر بھی کوئی نہیں ہو سکتا۔ یہ جو خدائی کے مدعی ہیں یہ سو رہے ہوتے ہیں اور بیوی پاس تکلیف سے کراہ رہی ہوتی ہے مگر ان کو کچھ پتہ نہیں ہوتا جب تک کہ اس کی چیخ نہ نکلے ان کے بچہ کی جان نکل رہی ہوتی ہے مگر ان کو کچھ علم نہیں ہوتا لیکن خدا تعالیٰ سَمِیْع اور بَصِیْر ہے اسے ذرہ ذرہ کی خبر ہے۔ اور دنیا میں لاکھوں کروڑوں انسان ایسے گزرے ہیں جنہوں نے اس کے سَمِیْع اور بَصِیْر ہونے کا تجربہ کیا ہے۔ایک انسان اپنے بیوی بچوں سے چھپا کر دوستوں سے بھی پوشیدہ رکھ کر خدا تعالیٰ سے ایک درخواست کرتا اور اسے پکارتا ہے تو وہ آسمان سے اس کے لئے سامان مہیا کر دیتا ہے حالانکہ اس نے کسی کو بھی اپنی خواہش نہیں بتائی ہوتی، وہ صرف ایک ہی ہستی کے سامنے اسے ظاہر کرتا ہے مگر وہ پوری ہو جاتی ہے۔
ایک مشہور بزرگ کے متعلق ایک واقعہ ہے کہ بادشاہ کسی دور دراز کے سفر پر اس بزرگ کے شہر سے کئی منزلوں کے فاصلوں پر تھا وہاں ایک وقت وہ غصہ کی حالت میں بیٹھا تھا کہ کسی مخالف نے موقع پا کر اس بزرگ کی شکایت کر دی کہ وہ ہمیشہ آپ کے خلاف منصوبے کرتا رہتا ہے اور بہت سے لوگ اس کے مرید ہیں۔ بادشاہ نے فوراً حکم دیا کہ انہیں حاضر کیا جائے۔ وہ بیچارے اپنے گھر میں آرام سے بیٹھے تھے کہ یہ حکم نامہ پہنچ گیا۔ وہ بہت حیران ہوئے کہ کیا معاملہ ہے۔ کہتے ہیں حکمِ حاکم مرگِ مفاجات۔ چار و ناچار روانہ ہوئے راستہ میں شام کا وقت ہو گیا اور ہر طرف جنگل ہی جنگل تھا اوپر سے بارش اور تیز آندھی آ گئی اور وہاں کوئی جائے پناہ نہ تھی سوائے ایک جھونپڑی کے جس میں ایک لولا لنگڑا اپاہج رہتا تھا۔ انہوں نے اس سے جھونپڑی میں پناہ لینے کی اجازت مانگی۔ جب اس کی اجازت سے جھونپڑی میں بیٹھ گئے تو آپس میں باتیں ہونے لگیں۔ اس اپاہج نے کہا کہ مَیں تو سالوں سے یہیں پڑا ہوں۔ میل دو میل کے فاصلہ پر گاوٴں ہے وہاں کے لوگ روٹی وغیرہ پہنچا دیتے ہیں اور پھر اس نے اس بزرگ سے پوچھا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ میرا یہ نام ہے اور فلاں شہر کا رہنے والا ہوں۔ بادشاہ کا حکم پہنچا تھا کہ جس حال میں بھی ہو فوراً حاضر ہو جاوٴ۔ چنانچہ مَیں چل پڑا۔ اس اپاہج نے یہ بات سنی تو کہا اچھا السّلام علیکم میں تو کئی سالوں سے آپ سے ملاقات کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کر رہا تھا۔ آپ کی شہرت سنی تھی اور زیارت کی خواہش تھی مگر معذور تھا۔ مَیں تو پاخانہ پیشاب کے لئے بھی نہیں اٹھ سکتا اتنی دور کیسے جا سکتا؟ ہاں دعا کرتا تھا کہ اللہ تعالیٰ زیارت کرادے۔ یہ بادشاہ کے حکم والی بات تو یونہی ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ کوئی غلطی نکلے گی۔ آپ کو خدا تعالیٰ صرف میرے لئے یہاں لایا ہے۔ وہ ابھی یہ باتیں کر رہے تھے کہ کسی نے باہر سے آواز دی کہ بارش ہو رہی ہے اجازت ہو تو اندر آ جاوٴں۔ انہوں نے اجازت دے دی وہ اندر آیا تو اس سے بھی اپاہج نے پوچھا کہ تم کہاں سے آئے ہو اور کہاں جانا ہے۔ اس نے کہا کہ میں تو بادشاہ کا ایک حکم لے کر فلاں شہر میں فلاں بزرگ کے پاس جا رہا ہوں انہیں پہلے بادشاہ نے ایک حکم کے ذریعہ طلب کیا تھا اور اب اس نے کہا ہے کہ وہ حکم غلطی سے دیا گیا تھا آپ تکلیف نہ کریں۔
اس سے بھی بڑھ کر میرا اپنا ایک مشاہدہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کس طرح بچوں کی بات بھی پوری کر لیتا ہے۔ ایک دفعہ بارش ہو رہی تھی مَیں ابھی بچہ ہی تھا اور سخت پیچش لگی ہوئی تھی۔ مَیں کھڑکی میں کھڑا بارش کا نظارہ دیکھ رہا تھا اور اس سے بہت لذت پا رہا تھا کہ پیٹ میں درد اٹھا۔ نہ معلوم میرے دل میں کیا خیال آیا۔ میں نے کہا یا اللہ! ابھی اس نظارہ سے میرا دل نہیں بھرا اس لئے تو ایسا کر کہ اب تو یہ نظارہ بند ہو جائے اور جب میں پاخانہ سے واپس آوٴں تو پھر ہونے لگے۔ چنانچہ بارش فوراً بند ہو گئی اور جب پندرہ بیس منٹ کے بعد واپس آ کر مَیں اس کھڑکی میں کھڑا ہوٴا تو پھر فوراً شروع ہو گئی۔ دیکھو کیا چھوٹی سی خواہش تھی اتنی معمولی کہ اسے کسی اور کے سامنے بیان کرنے سے بھی میں شرماتا۔ مگر میرے خدا نے اسے آسمان پر سُنا اور پورا کر دیا۔ اسی طرح ہم نے ہزاروں لاکھوں بار اس کے سَمِیْع و بَصِیْر ہونے کا مطالعہ کیا ہے۔ یہ تو ہیں ثبوت اس کے سَمِیْع و بَصِیْر ہونے کے۔ بھلا کون انسان ایسا ہو سکتا ہے؟
خدا یا خدا کا مثیل ہونے کا دعویٰ کرنے والے کے سامنے کوئی شخص کسی کے کان میں بات کرے تووہ سن نہیں سکتا بلکہ کہے گا کہ مجھے بھی بتاوٴ تم نے کیا کہا۔ پھر خدا بَصِیْر ہے وہ ہر چیز کو دیکھتا ہے اور جانتا ہے کہ کیا کیا چیز کہاں کہاں چھپی ہے۔ اور پھر کوئی چیز جہاں بھی ہے اسے وہیں خوراک پہنچاتا ہے۔ برسات میں لاکھوں کروڑوں کیڑے مکوڑے پیدا ہو جاتے ہیں مگر وہ سب کو خوراک پہنچاتا ہے۔ کسی درخت کی جڑھ کے نیچے بھڑوں کا چھتہ ہوتا ہے یا کہیں زمین کے نیچے لاکھوں چیونٹیاں ہوتی ہیں مگر خدا تعالیٰ سب کو ان کی جگہ پر ہی خوراک پہنچاتا ہے۔ کیا کوئی انسان خواہ وہ خدا یا خدا کا مثیل ہونے کا مدعی کیوں نہ ہو ایسا بَصِیْر ہو سکتا ہے؟ پھر فرمایا لَهٗ مَقَالِيْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ زمین و آسمان کی کُنجیاں اس کے پاس ہیں۔ خدائی کے مدعی تو الگ رہے جن کو لوگ افتراءً مدعی بنا دیتے ہیں وہ بھی دنیا میں مصائب میں مبتلا ہوتے ہیں۔ حضرت مسیح علیہ السلام کو لوگوں نے خدا بنایا مگر یہود نے انہیں صلیب پر لٹکا دیا۔ حضرت امام حسینؓ کو بعض لوگ خدا بناتے ہیں مگر وہ کربلا میں شہید ہوئے۔ اس زمانہ میں بہاء اللہ نے دعویٰ کیا اور وہ قید خانہ میں ہی مر گیا۔ اور جس شخص کا مَیں ذکر کر رہا ہوں یہ بھی نظر بند ہے۔ تو یہ لوگ ایسی حالتوں میں سے گزرے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ وہ ہے جس کے پاس زمین و آسمان کی کنجیاں ہیں اسے قید کرنا تو درکنار اس کے بندوں کو بھی کوئی قید نہیں کر سکتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مشکلات کے وقت دوسروں کو بھی دعا کے لئے کہا کرتے تھے۔ جب پادری مارٹن کلارک والا مقدمہ تھا تو اس وجہ سے کہ وہ ایک انگریز پادری تھا اور وہ افسر بھی جس کے روبرو مقدمہ پیش تھا انگریز اور پادری منش آدمی تھا۔ آپ نے بہت سے لوگوں کو دعا کے لئے کہا۔ گھر میں والدہ صاحبہ سے بھی کہا۔ میری عمر اس وقت 9، 10 سال کی ہو گی مجھے بھی آپ نے دعا کے لئے کہا۔ مَیں نے اس رات ایک روٴیا دیکھا کہ میں اس گلی سے آ رہا ہوں جو ہمارے گھر کے مشرق کی طرف ہے اور جو آگے مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کے گھر کی طرف چلی جاتی ہے۔ ہمارے مکان کی پرانی گلی وہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ مَیں آ رہا ہوں اور آگے پولیس کے سپاہی کھڑے ہیں وہ مجھے اندر جانے سے روکتے ہیں مگر مَیں چلا گیا ہوں۔ ہمارے مکان میں ایک تہ خانہ ہؤا کرتا تھا جو ہمارے دادا صاحب مرحوم نے گرمیوں میں آرام کے لئے بنوایا ہؤا تھا اس کی کھڑکیاں گلی میں بھی کھلتی تھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس خیال سے کہ بچے اندر جا کر کھیلتے ہیں اور اندھیری جگہ ہونے کی وجہ سے سانپ بچھو وغیرہ کا خطرہ ہو سکتا ہے اس کی سیڑھیاں نصف تک بند کر ادی تھیں اور باقی جگہ میں گھر کی ردّی اشیاء عام طور پر رکھی جاتی تھیں۔ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ اس جگہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کھڑا کیا ہوٴا ہے اور آپ کے سامنے سپاہی اُپلے رکھ رہے ہیں اور وہاں اُپلوں کا ڈھیر لگا دیا ہے۔ پھر دیا سلائی سے آگ لگاتے ہیں یہ نظارہ دیکھ کر میں خواب کی حالت میں ہی گھبراتا ہوں اور اس سپاہی کو وہاں سے ہٹانا چاہتا ہوں مگر دوسرے سپاہی مجھے روکتے ہیں۔ اتنے میں میری نظر اوپر اٹھی تو ایک عبارت موٹے حرفوں سے لکھی ہوئی نظر آئی جو یہ تھی ‘‘خدا کے بندوں کو کون جلا سکتا ہے؟’’ پھر کیا دیکھتا ہوں کہ یا تو اس سپاہی نے خود ہی اپلے ہٹا دئے یا وہ خود بخود ہٹ گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام باہر تشریف لے آئے۔ پس خداتعالیٰ پر کسی تکلیف کا آنا تو درکنار وہ تو اپنے بندوں پر بھی ایسے مصائب نہیں آنے دیتا۔ لیکن جو لوگ جھوٹے دعوے کرتے ہیں ان کے ساتھ ضرور ایسے سامان لگے ہوتے ہیں کہ جو اُن کی خدائی کے دعوے کو باطل کر دیں۔ آگے فرمایا يَبْسُطُ الرِّزْقَ میرا خدا تو دنیا کو رزق دیتا ہے مگر یہ مدعیان تو خود محتاج ہیں۔ روٹی کی ضرورت ہے، پانی کی احتیاج ہے۔ پھر روٹی کھاتے ہیں تو کہتے ہیں نمک زیادہ کیوں ہو گیا یا پھیکا کیوں ہے، روٹی کیوں جل گئی، سالن کو داغ کیوں لگ گیا پھر ان کو پیاس بھی لگتی ہے۔ گویا وہ خود ہر وقت محتاج ہیں دوسروں کو رزق کہاں سے دیں گے اور اس لئے خدا کیونکر ہو سکتے ہیں؟ پھر فرمایا۔ اِنَّهٗ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ ۔ وہ ہر چیز کو جانتا ہے اور اسے سب کا علم ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ رزق کہاں ہے۔ مگر انسان کو کیا علم لاکھوں کروڑوں پونڈ کا سرمایہ پاس دبا ہؤا ہو، زیور، نقدی مدفون ہو مگر اسے کیا علم ہے۔ زمین کے نیچے کانیں پوشیدہ ہیں مگر انسان کو کیا علم۔ مگر خدا کو سب کچھ نظر آتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اگر فلاں جگہ کو پچاس ساٹھ گزگہرا کھودا جائے تو نیچے سے اشرفیوں کے بھرے ہوئے مٹکے نکلیں گے۔ مگر ہم روز اس جگہ پر سے گزر جاتے ہیں مگر کچھ علم نہیں ہوتا۔ اور یہ سب باتیں ثبوت ہیں اس بات کا کہ کوئی انسان خدا نہیں ہو سکتا۔ ایسے لوگوں پر جو خدائی کے مدعی ہوں تنگیاں بھی آتی ہیں۔ اگر وہ عَلِیْم ہوں توکیوں یہ دفن شدہ خزانے نکال کر مالا مال نہ ہو جائیں؟ اور جب وہ عَلِیْم نہیں تو خدا کس طرح ہو سکتے ہیں؟ خدا تعالیٰ کی ہزاروں صفات ہیں: وہ حَمِیْد ہے، مَجِیْد ہے،مُحْیٖ، مُمِیْت، قُدُّوْس، جَبَّار، قَہَّار، غَفَّار ہے لیکن جس کے اندر اِن میں سے ایک بھی صفت نہیں وہ احمق خدائی کا دعویٰ کس طرح کر سکتا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ قرآن کریم نے جو الفاظ اس امر کے بتانے کے لئے استعمال کئے ہیں کہ کوئی غیر اللہ خدا نہیں ہو سکتا۔ وہی جاہل لوگوں نے اپنی خدائی کے لئے دلائل بنا لئے ہیں۔ جیسا کہ سورة النجم تو شرک کے ردّ میں ہے مگر بعض احمقوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اس کی تلاوت کے وقت رسول کریم ﷺنے بعض تعریفی کلمات بتوں کے بارے میں کہے تھے جن پر کفار نے مسلمانوں کے ساتھ مل کر سجدہ کیا۔ نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذَالِکَ۔ پس یہ بالکل غلط ہے کہ کوئی انسان خدا تو درکنار کسی ایک صفت میں بھی اس کا شریک بن سکتا ہے۔ یہ قرآن کریم کا معجزہ ہے کہ کوئی شخص اس کی ایک آیت کا بھی مفہوم بگاڑ کر پیش نہیں کر سکتا کیونکہ اس سے اگلا ہی فقرہ اس کے مُنہ پر چپیڑیں مارے گا اور یہ بھی خدا کے علیم ہونے کی ایک دلیل ہے۔ وہ چونکہ جانتا تھا کہ کہاں معنے بگاڑے جائیں گے اس لئے وہیں تردید بھی کر دی۔ ہمارے رِنگ 6 میں مشہور ہے کہ بڑے بڑے خزانوں کے نگران اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے اژدہا رکھے ہیں۔ یہ تو خیر ایک تمثیلی کلام ہے مگر قرآن کریم ایک ایسا خزانہ ہے کہ اس کی اگلی اور پچھلی آیات ہر آیت کے لئے اژدہا بن جاتی ہیں اور اس لئے اس کی کسی آیت کے غلط معنے کوئی کر ہی نہیں سکتا۔ یہ ایک موتیوں کی لڑی ہے جس میں سے کوئی موتی چُرایا نہیں جا سکتا کیونکہ فوراً نظر آ جائے گا کہ فلاں جگہ موتی کم ہے اورفلاں قد اور شکل کا موتی گم ہے۔ موتیوں کے ہار پروئے ہی اس طرح جاتے ہیں کہ شروع کے موتی سب سے باریک ہوتے ہیں اور درمیانی سب سے بڑا ہوتا ہے اورپہلے موتیوں کے بعد کا ہر موتی پہلے سے بڑا اور اگلے سے چھوٹا ہوتا ہے۔ اس لئے کس طرح ممکن ہو سکتا ہے کہ ہار میں سے کوئی ایک موتی چُرایا جا سکے۔ پس قرآن کریم بھی موتیوں کا ایک ایسا ہار ہے کہ اگر کوئی اس میں سے ایک بھی موتی چُرانا چاہے تو اگلے پچھلے موتی اسے چور ثابت کر دیں گے اور بتا دیں گے کہ موتی کہاں سے نکالا گیا ہے۔’’
(الفضل 3 جولائی 1941ء )
1 الشورٰی: 11تا 17
2 وَ مَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا (بنی اسرائیل: 65) وَعْدَ اللّٰهِ حَقًّا (النساء: 123)
3 متی باب 27 آیت 46
4 الاخلاص: 4
5 آل عمران: 55
6 رِنگ: (Ring)، دائرہ، چکر

20
غیر مبائعین اور مسئلہ کفر و اسلام
( فرمودہ 4 جولائی 1941ء )

تشہّد، تعوّذ اور سورہٴ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘میرے لئے دنیا کے حیرت انگیز انقلابات میں سے ایک انقلاب وہ بھی ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ میرے نزدیک سب سے بڑے انقلابوں میں سے ایک انقلاب وہ ہے جو جماعت احمدیہ کے چند افراد کی وجہ سے اس دنیا میں پیدا ہوٴا ہے۔ ایک جماعت جو آج سے چالیس سال پہلے بلکہ تینتیس سال پہلے تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی زندگی میں آپ کو خدا کا نبی، خدا کا مرسل اور دنیا کا نجات دہندہ قرار دیتی تھی آج اس کی ساری زندگی ہی اس مسئلہ کے خلاف کوششوں میں صَرف ہو رہی ہے۔
میں ہمیشہ انسانی دماغ کے اس تغیر پر غور کرتا ہوں اور حیران رہ جاتا ہوں کہ آیا وہ سب کے سب بد دیانت ہیں اور جانتے بوجھتے ہوئے جھوٹ بول رہے ہیں یا یہ کہ انسانی دماغ بعض غلطیوں کی وجہ سے ایسے چکر میں پڑ جاتا ہے کہ وہ پھر اس بات کو محسوس بھی نہیں کر سکتا کہ چند سال پہلے اس کی کیا حالت تھی۔ یہ تو میری سمجھ میں آسکتا ہے اور دنیا میں ہمیشہ ہوتا رہتا ہے کہ لوگ اپنی رائے کوبدل لیتے ہیں۔ آخر جو لوگ رسول کریم ﷺ پر ایمان لانے والے تھے کسی زمانہ میں اسلام کے شدید ترین مخالف تھے۔ چنانچہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات کے وقت رو کر بیان کیا کہ میں رسول کریم ﷺ کا حلیہ بیان نہیں کر سکتا کیونکہ مجھ پر دو زمانے آئے ہیں اور دونوں زمانے ہی جذبات کے لحاظ سے شدید تھے۔ ایک زمانہ تو وہ تھا کہ مَیں رسول کریم ﷺ کا شدید ترین دشمن تھا اور میں آپ کو نَعُوْذُ بِاللہِ مخلوقات میں سے بدترین مخلوق سمجھتا تھا اور اس قدر میرے دل میں آپ کی نسبت بُغض اور اس قدر غضب تھا کہ مَیں آپ کی شکل تک دیکھنا گوارا نہیں کرتا تھا۔ چنانچہ اس غضب اور غصہ کی وجہ سے میں نے آپ کی شکل نہیں دیکھی اور میں نہیں کہہ سکتا کہ آپ کی صورت کیسی تھی۔ پھر ایک زمانہ مجھ پر ایسا آیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ہدایت دی اور میں آپ پر ایمان لے آیا اور میرے دل میں اتنا تغیر پیدا ہوٴا اور میں رسول کریم ﷺ کے وجود کو اتنا قیمتی، اتنا اعلیٰ اور اتنا ارفع سمجھنے لگا کہ آپ کے رعب کی وجہ سے مَیں آپ کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا تھا ۔ اس لئے میں نہیں بتا سکتا کہ رسول کریم ﷺ کا کیا حلیہ تھا۔ 1
یہ کتنا عظیم الشان تغیر ہے جو حضرت عمرو بن العاص میں پیدا ہوٴا مگر بہرحال یہ ایک طبعی تغیر ہے اور بالکل ممکن ہے کہ انسان کے خیالات ایک وقت کچھ ہوں اور دوسرے وقت کچھ۔ پھر اس قسم کے لوگ جیسے حضرت عمرو بن العاص تھے اَور بھی مسلمانوں میں سینکڑوں پائے جاتے تھے۔ چنانچہ خالد بن ولید کو ہی دیکھ لو جنہیں ” سیف اللہ “ کا خطاب ملا ہے۔ وہ احدکی جنگ میں ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے پیچھے ہٹ کر مسلمانوں پر حملہ کیا اور انہیں بہت سخت نقصان پہنچایا۔ ایک شدید ترین دشمن کی اولاد میں سے تھے اور اسلام کا ایک لمبے عرصہ تک مقابلہ کرتے رہے مگر اس کے بعد جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو وہ ایسے فدائی ہوئے کہ یا تو اپنی تمام کوششیں اسلام کو تباہ کرنے میں صَرف کر رہے تھے یا جب فوت ہونے لگے تو اپنی زندگی کی آخری گھڑیوں میں نہایت کرب و اضطراب کی حالت میں بار بار کروٹیں بدلتے تھے۔ کسی نے کہا خالد! تم ایسا کیوں کرتے ہو؟ تم کو اسلام کی اتنی بڑی خدمت کی توفیق ملی ہے کہ بہت کم لوگ ایسی خدمت کر سکے ہیں۔ تم اگر فوت ہو رہے ہو تو اپنے رب کے پاس انعام لینے کے لئے جا رہے ہو اس میں کرب اور اضطراب کی کیا بات ہے؟ وہ یہ سن کر رو پڑے اورکہنے لگے ذرا میرے جسم پر سے کُرتا تو اٹھاوٴ۔ اس نے کُرتا اٹھایا تو آپ نے پوچھا میرے جسم پر تم کیا دیکھتے ہو؟ وہ کہنے لگا اوپر سے لے کر نیچے تک تمام جگہ تلواروں کے زخم لگے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا اچھا اب ذرا میرے ازار کو لاتوں تک اٹھا کر دیکھو۔ اس نے دیکھا تو وہاں بھی تلوار کے زخموں کے نشانات لگے ہوئے تھے۔ یہ نشانات دکھا کر حضرت خالد بن ولیدؓ کہنے لگے تم دیکھ سکتے ہو کہ میں شہادت کے شوق میں کس طرح جنگوں میں شامل ہوٴا یہاں تک کہ میرے سر سے لے کر پیر تک ایک انچ جگہ بھی ایسی نہیں جہاں تلواروں کے زخم کا نشان موجود نہ ہو مگر افسوس مجھے شہادت نصیب نہ ہوئی اور میں آج بستر پر جان دے رہا ہوں۔2 یہ وہ شخص تھا جس نے احد میں پہاڑ کے پیچھے سے مسلمانوں پر حملہ کیا۔ اسی حملہ کے نتیجہ کے طور پر رسول کریم ﷺ ایک گڑھے میں زخمی ہو کر گر گئے تھے اور کفار کو ظاہری طور پر کسی قدر کامیابی بھی ہو گئی تھی۔
پھر وہ ابو جہل جس کا نام ابو الحکم تھا مگر رسول کریم ﷺ کی مخالفت کی وجہ سے اس کا نام ابو جہل پڑ گیا۔ آج شاید اس کی اولاد میں سے بھی بہت سے لوگ نہیں جانتے ہوں گے کہ ہمارے پردادا کا نام ابو جہل نہیں بلکہ ابو الحکم تھا۔ اس کا ابو جہل نام اسلام اور رسول کریم ﷺ کی مخالفت کی وجہ سے مسلمانوں نے رکھا تھا۔ یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ یہ شخص بڑا جاہل ہے اس نے اسلام کی صداقت پر کچھ بھی غور نہیں کیا لیکن اس کے ماں باپ نے اس کا نام ابو الحکم رکھا تھا اور مکہ والے بھی اسے ابو الحکم ہی کہا کرتے تھے۔ یعنی بڑا دانا، بڑا سمجھدار اور بڑا فہیم انسان ہے۔ اس ابو جہل کا بیٹا عکرمہ ایک لمبے عرصہ تک اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتا رہا اور تمام جنگوں میں پیش پیش رہا۔ احد کی جنگ میں بھی یہ خالد کے ساتھ مل کر مسلمانوں پر حملہ کرنے والوں میں تھا اور بدر کی جنگ میں بھی اپنے باپ کے ساتھ حفاظت کے لئے موجود تھا۔ غرض جتنی جنگیں ہوئیں ان میں یہ شامل ہوٴا اور اس نے مسلمانوں کا مقابلہ کیا۔
پھر اس کے دل میں اس قسم کا بُغض بھرا ہوٴا تھا کہ جب مکہ فتح ہوٴا تو وہ عرب کو چھوڑ کر افریقہ بھاگ گیا اور کہنے لگا کہ میں اب اس ملک میں بھی نہیں رہ سکتا جس میں مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہو گیا ہے مگر اس کی بیوی جس کے دل کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت قبول کرنے کے لئے کھول دیا تھا وہ رسول کریم ﷺ سے عکرمہ کے متعلق معافی مانگ کر اسے بلانے کے لئے چل پڑی۔ اتفاق ایسا ہوٴا کہ وہ جہاز جس پر سوار ہو کر عکرمہ نے افریقہ جانا تھا اس کو نہ ملا۔ اتنے میں اس کی بیوی پہنچ گئی اور وہ اسے اپنے ساتھ لے آئی۔ر سول کریم ﷺ کے اس احسان کا اس کی طبیعت پر اثر ہوٴا اور اس کے دل میں نرمی پیدا ہونی شروع ہوئی اس کے بعد جب اس نے مزید غور کیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے ہدایت دے دی اور وہ مسلمان ہو گیا۔ پھر کوئی موقع ایسا نہیں آیا جب اسلام کی خاطر اس نے اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش نہ کیا ہو اور خطرناک سے خطرناک جنگوں میں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالا ہو۔
ایک جنگ جو عیسائیوں سے ہو رہی تھی جس میں عیسائیوں کی بہت بڑی تعداد شامل تھی اس میں عکرمہ نے اسلامی سرداروں سے کہا ہمیں موقع دیا جائے کہ ہم تھوڑے سے آدمیوں کو اپنے ساتھ لے کر دشمن پر حملہ کر دیں تاکہ ہمارا رعب ان پر قائم ہو۔ عیسائیوں کے لشکر کی کم سے کم تعداد تین لاکھ اور زیادہ سے زیادہ دس لاکھ بتائی جاتی ہے اگر اوسط نکال لی جائے تو بہرحال پانچ لاکھ سے کم اس کی تعداد نہیں تھی اس کے مقابلہ میں مسلمانوں کا لشکر صرف ساٹھ ہزار تھا۔ ایسے خطرناک موقع پر اس نے تجویز پیش کی کہ اسلامی لشکر میں سے صرف چند آدمیوں کو حملہ کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ مسلمانوں کا رعب قائم ہو۔ جب اسلامی سرداروں کے سامنے یہ معاملہ پیش ہوٴا تو انہوں نے کہا ہم کس طرح مسلمان بہادروں کو خطرہ کے مُنہ میں دھکیل دیں یہ تو ان کو اپنے ہاتھوں ہلاکت کے گڑھے میں گرانے والی بات ہے۔ اس پر عکرمہ نے نہایت ہی درد کے ساتھ اپیل کی اور کہا کہ آپ لوگ ہماری قلبی کیفیات کو نہیں سمجھ سکتے۔ آپ نہیں جانتے کہ ہمارے دلوں میں کیا آگ لگ رہی ہے۔ آپ رسول کریم ﷺ پر ایمان لائے اور آپ نے سالہا سال تک ان کا ساتھ دیا مگر ہم ایک لمبے عرصہ تک رسول کریم ﷺ کی مخالفت کرتے رہے۔ پس اب ہمیں اپنے گناہوں کا کفّارہ تو کرنے دو اور ہمیں اجازت دو کہ ہم چند سپاہی لے کر دشمن پر ٹوٹ پریں۔ آخر انہی کی بات غالب آئی دو سو سپاہی چُنے گئے جن میں بعض صحابہ بھی تھے اور انہوں نے قلبِ لشکر پر حملہ کر دیا اور ایسی شدت کے ساتھ حملہ کیا کہ جہاں جرنیل کھڑا تھا وہاں پہنچ گئے اور بہتوں کو تہِ تیغ کر دیا۔ اس کے معاً بعد اسلامی لشکر نے حملہ کر دیا اور باوجود اس کے کہ عیسائی مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ تھے اور باوجود اس کے کہ عیسائیوں کا کمانڈر ایک ایسا شخص تھا جس کے ساتھ قیصر روما نے یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر تم جیت گئے تو میں اپنی بیٹی کا نکاح تم سے کر دوں گا اور اپنی آدھی بادشاہت تمہیں دے دوں گا۔ انہوں نے عیسائیوں کو شکست دی۔ جنگ کے بعد کئی مسلمان میدان میں زخمی پڑے تھے جن میں سے ایک عکرمہؓ بھی تھے۔ اتنے میں کسی شخص نے دیکھا کہ عکرمہؓ کے ہونٹ خشک ہو رہے ہیں اور ان پر جان کنی کی حالت طاری ہے اس کے پاس پانی کی چھاگل تھی۔ عکرمہؓ کی نظر اس چھاگل پر پڑی اور وہ شخص سمجھ گیا کہ انہیں پیاس لگی ہوئی ہے چنانچہ وہ چھاگل ان کے پاس لے گیاا تفاقاً اسی وقت عکرمہؓ کے پاس ایک اور صحابی زخموں سے تڑپ رہے تھے اورانہیں بھی شدید پیاس تھی انہوں نے اس صحابی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھ سے زیادہ حق ان کا ہے یہ رسول کریم ﷺ کے دیرینہ صحابی ہیں تم پہلے انہیں پانی پلاوٴ۔ وہ ان کے پاس پانی لے گیا تو اس صحابی کے قریب فضلؓ جو حضرت عباسؓ کے لڑکے اور عبد اللہ بن عباسؓ کے بھائی تھے وہ زخمی پڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا مجھ سے زیادہ فضل کو پیاس معلوم ہوتی ہے تم پہلے انہیں پانی پلاوٴ۔ وہ ان کے پاس لے گیا تو انہوں نے ایک اور کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ پہلے اسے پانی پلایا جائے۔ غرض اسی طرح وہ ایک کے بعد دوسرے اور دوسرے کے بعد تیسرے کے پاس پانی لے گیا اور ہر ایک نے یہ کہہ کر پانی پینے سے انکار کر دیا کہ پہلے دوسرے کو پلاوٴ۔ جب وہ آخری شخص کے پاس پہنچا تو وہ فوت ہو چکا تھا اور جب واپس پانی لے کر لَوٹا تو سب کے سب فوت ہو چکے تھے۔3
یہ تغیر بھی ہماری سمجھ میں آ سکتا ہے کہ ایک ایسا شدید دشمن جس نے فتح مکہ تک رسول کریم ﷺ کے ساتھ لڑائیاں کیں اور جس نے مسلمانوں کے غلبہ کی وجہ سے مکہ میں رہنا بھی برداشت نہ کیا وہ آخر رسول کریم ﷺ کا فدائی اور غلام بن گیا۔ یہ سب کچھ ممکن ہے اور یہ تغیر انسانی سمجھ میں آ سکتا ہے بلکہ اس تغیر کے وہ خود بھی قائل تھے۔ چنانچہ عمرو ابن العاصؓ جب اسلام کے عاشق ہوئے اس وقت انہیں یاد تھا کہ ایک زمانہ میں وہ سخت مخالف رہ چکے ہیں۔ خالدؓ کو آخری زمانہ تک یاد تھا کہ کسی زمانہ میں انہوں نے اسلام کی بڑی دشمنی کی ہے۔ عکرمہؓ کو آخری عمر تک یاد تھا کہ وہ اسلام کی کیسی کیسی مخالفتیں کرتے رہے ہیں بلکہ ان کی قربانیوں کا باعث ہی یہی تھا کہ وہ سمجھتے تھے اب مجھے پہلے گناہوں کا کفارہ ادا کرنا چاہئے مگر یہ تغیر سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک جماعت کی جماعت پہلے تو حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کو نبی اور رسول کہتی رہی ہو اور پھر وہ یہ کہنے لگ جائے کہ اس نے آپ کو نبی اور رسول نہیں کہا۔ اگر وہ یہ کہہ دیتے کہ پہلے ہم بے شک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کو اللہ تعالیٰ کا نبی اوررسول سمجھتے تھے مگر یہ ہماری غلطی تھی اب ہمیں معلوم ہو گیا ہے کہ آپ نبی اور رسول نہیں تھے تو ہمارے لئے اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں تھی۔ جیسے خالدؓ نے کہا کہ مَیں پہلے اسلام کا دشمن تھا اور مَیں مسلمانوں کے خلاف لڑتا رہا تھا مگر یہ میری غلطی تھی اب مَیں آپ پر ایمان لاتا ہوں یا جیسے عکرمہؓ نے کہا کہ میں رسول کریم ﷺ کی بے شک مخالفت کرتا تھا مگر اب مجھ پر اپنی غلطی واضح ہو گئی ہے۔ لیکن دنیا میں ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ کسی نے اتنی شدت اور اتنی کثرت کے ساتھ نبی اور رسول کہنے کے بعد یہ کہہ دیا ہو کہ ہم نے کبھی ایسا کہا ہی نہیں۔ معمولی معمولی باتوں میں اختلاف ہونا اور بات ہے مگر ایک ایسا شخص یا ایسے اشخاص جنہوں نے تالیف و تصنیف کا کام کیا ہو اور جنہوں نے دس بیس مرتبہ نہیں بیسیوں مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کو خدا تعالیٰ کا نبی اور رسول لکھا ہو اور ان کا یہ کہہ دینا کہ ہم آپ کو نبی نہیں کہتے رہے، یہ ایسا عظیم الشان انقلاب ہے کہ دنیا کی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہی ہے۔
اس مسئلہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی تحریروں کو ہم دیکھتے ہیں تو وہ اتنی واضح ہیں کہ کسی جھگڑے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ چنانچہ تھوڑے ہی دن ہوئے کسی حوالہ کے لئے میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی کتاب ”تجلیات الٰہیہ “ کو نکالا، یہ ایک چھوٹی سی کتاب ہے اور نامکمل رہ گئی ہے، اس کے صفحات صرف بتیس ہیں۔ میں نے اس وقت خیال کیا اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی کسی اور کتاب سے استنباط نہ کیا جائے اور صرف اس کتاب کو لے لیا جائے تو اس چھوٹی سی کتاب سے ہی وہ تمام اختلافی مسائل حل ہو جاتے ہیں جو ہم میں اور غیر مبائعین میں پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام تحریر فرماتے ہیں۔ مجھے خدا نے فرمایا ہے کہ
؂ چو دَورِ خسروی آغاز کردند مسلماں را مسلماں بازکردند 4
یعنی جب دورِ خسروی کا آغاز ہو گا تو مسلمانوں کو پھر مسلمان بنایا جائے گا۔ اس کی تشریح کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:۔
‘‘ دَورِ خسروی سے مراد اس عاجز کا عہدِ دعوت ہے مگر اس جگہ دنیا کی بادشاہت مراد نہیں بلکہ آسمانی بادشاہت مراد ہے جو مجھ کو دی گئی۔ خلاصہ معنی اس الہام کا یہ ہے کہ جب دَورِ خسروی یعنی دَورِ مسیحی جو خدا کے نزدیک آسمانی بادشاہت کہلاتی ہے ششم ہزار کے آخر میں شروع ہوٴا جیسا کہ خدا کے پاک نبیوں نے پیشگوئی کی تھی تو اس کا یہ اثر ہوٴا کہ وہ جو صرف ظاہری مسلمان تھے وہ حقیقی مسلمان بننے لگے.’’ 5
اب یہ کتنی واضح بات ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام فرماتے ہیں کہ حقیقی مسلمان وہ ہیں جو مجھ پر ایمان لاتے ہیں باقی سب ظاہری مسلمان ہیں اور یہی ہم کہتے ہیں۔ یہ تو نہیں کہ ظاہری مسلمانوں کو نام کے لحاظ سے ہم مسلمان نہیں کہتے ہم بھی ان کو مسلمان ہی کہتے ہیں۔ چنانچہ میری تحریروں میں سینکڑوں نہیں ہزاروں مرتبہ یہ آیا ہو گا کہ آجکل مسلمانوں کا یہ حال ہے یا مسلمانوں کی یہ حالت ہے۔ پس ہم ان کو مسلمان ہی کہتے ہیں اورجو شخص بھی اپنے آپ کو مسلمان کہے گا ہم اس کو مسلمان ہی کہیں گے۔ سوال صرف یہ ہے کہ آیا وہ حقیقت میں خدا تعالیٰ کے نزدیک بھی مسلمان ہیں یا نہیں؟ یہی بحث ہے جو ہماری طرف سے ہوتی ہے ورنہ جن کو لوگ مسلمان کہتے ہیں یا جو لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، ہم ان کو مسلمان ہی کہتے ہیں۔ چنانچہ مولوی ثناء اللہ صاحب اور دوسرے مخالف مسلمانوں کو ہم مسلمان کہتے اور مسلمان ہی لکھتے ہیں۔ ہم یہ تو نہیں کہتے کہ وہ ہندو ہیں یا عیسائی ہیں یا سکھ ہیں۔
پس جس وقت ہم مسلمان کا لفظ استعمال کرتے ہیں اس لفظ میں ہم ان تمام لوگوں کو شامل کرتے ہیں جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔ جس بات میں ہمارا اور ان کا اختلاف ہے وہ یہ ہے کہ ہم کہتے ہیں آجکل کے مسلمان حقیقی مسلمان نہیں۔ خدا کے نزدیک مسلمان نہیں اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام فرماتے ہیں یہاں کسی مکفر، مکذب یا متردد کا سوال نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام صاف طور پر فرماتے ہیں کہ اس وقت دو جماعتیں ہیں۔ ایک تو میری جماعت ہے اور وہ ان لوگوں کی ہے جو حقیقی مسلمان ہیں۔ اور ایک جماعت دوسرے مسلمانوں کی ہے جو صرف ظاہری مسلمان ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں:۔
‘‘ وہ جو صرف ظاہری مسلمان تھے وہ حقیقی مسلمان بننے لگے۔ جیسا کہ اب تک چار لاکھ کے قریب بن چکے ہیں۔ ’’ 6
اب سوال یہ ہے کہ غیر مبائعین جن لوگوں کو مسلمان کہتے ہیں، وہ ان چار لاکھ حقیقی مسلمانوں میں شامل ہیں یا نہیں۔ اگر نہیں تو پھر ہمارا اور ان کا کوئی جھگڑا ہی نہیں اور اگر ان کی مراد یہ ہے کہ وہ کروڑوں کروڑ لوگ جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں سب حقیقی مسلمان ہیں تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے اس کلام کی تردید ہوتی ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام تو فرماتے ہیں کہ ایسے لوگ چار لاکھ کے قریب ہیں اور یہ چار لاکھ بھی وہ ہیں جو میرے ہاتھ پر مسلمان ہوئے۔
اب کیا وہ مکفر یا مکذب نہیں یا جنہوں نے یہ فیصلہ نہیں کیا کہ وہ جماعت احمدیہ میں شامل ہوں یا نہ ہوں، کیا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے ہاتھ پر اسلام قبول کرنے والے قرار دئیے جا سکتے ہیں؟ وہ تو ابھی مانتے ہی نہیں۔ زیادہ سے زیادہ تم ان کے متعلق یہ کہہ سکتے ہو کہ وہ کہتے ہیں ابھی ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ مگر کیا ایسے لوگوں کے متعلق وہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے ہیں، وہ تو ابھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے قریب بھی نہیں آئے۔ کُجا یہ کہ ان کے متعلق یہ کہا جائے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے ہیں۔
غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے صاف طور پر فرما دیا ہے کہ اس وقت مسلمانوں کے دو گروہ ہیں۔ ایک گروہ تو وہ ہے جو ظاہری مسلمانوں کا ہے۔ دوسرا گروہ ان مسلمانوں کا ہے جو میرے ہاتھ پر حقیقی مسلمان یعنی احمدی بن گئے۔ پھر آپ حد بندی کر کے اس بات کو اور زیادہ واضح کر دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اس قسم کے حقیقی مسلمان جو میرے ہاتھ پر ایمان لائے صرف چار لاکھ کے قریب ہیں۔ اس طرح یہ بات اور بھی واضح ہو جاتی ہے کہ ان چار لاکھ حقیقی مسلمانوں سے احمدیہ جماعت ہی مراد ہے۔ غرض اس ایک فقرہ سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ :۔
الف: عام مسلمان صرف ظاہری مسلمان ہیں۔
ب: حقیقی مسلمان صرف احمدی ہیں۔
ج: ان حقیقی مسلمانوں کی تعداد چار لاکھ کے قریب ہے۔
اب غیر مبائعین جو کروڑوں مسلمان کہلانے والوں کو مسلمان سمجھتے ہیں وہ انہیں ظاہری مسلمانوں میں شامل کرتے ہیں یا حقیقی مسلمانوں میں؟ اگر وہ انہیں حقیقی مسلمان سمجھتے ہیں تو یہ غلط ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے حقیقی مسلمانوں کو صرف چار لاکھ کے قریب قرار دیا ہے اور اگر وہ انہیں صرف ظاہری مسلمان سمجھتے ہیں تو پھر ہمارا اور ان کا جھگڑا ہی کیا ہے۔ ہم نے بھی عام مسلمانوں کو مسلمان کہنے سے کبھی انکار نہیں کیا۔ چنانچہ میری تحریریں دیکھ لی جائیں ان میں باقی مسلمانوں کے لئے مسلمان کا لفظ یقینا استعمال ہوٴا ہو گابلکہ ہزاروں مرتبہ میرے خطبات، میری تقریروں اور میری تحریروں میں سے ان لوگوں کے متعلق جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام پر ایمان نہیں لائے مسلمان کا لفظ نکل آئے گا تو ان لوگوں کو ظاہری مسلمان سمجھنے سے ہم نے کبھی انکار نہیں کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام بھی ان کے متعلق ظاہری مسلمان کے الفاظ استعمال فرماتے ہیں۔ پھر فرماتے ہیں۔ ان ظاہری مسلمانوں میں سے چار لاکھ کے قریب ‘‘حقیقی مسلمان’’ یعنی احمدی بن چکے ہیں۔ پس اس سے ظاہر ہے کہ ”حقیقی مسلمان“ صرف احمدی ہی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام پر ایمان لائے اور ان کی تعداد چند لاکھ سے زیادہ نہیں۔
لطیفہ یہ ہے کہ اس حوالہ میں ایک طرف تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے اس الہام کو کہ
؂ چو دَورِ خسروی آغاز کردند مسلماں را مسلماں بازکردند
اپنی صداقت کے ثبوت میں پیش کیا ہے اور دوسری طرف ان مسلمانوں کو جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں صرف ظاہری مسلمان قرار دیا ہے۔ پھر یہ نہیں فرمایا کہ ان تمام ظاہری مسلمانوں نے آپ کے دعویٰ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا بلکہ فرماتے ہیں ‘‘ وہ جو صرف ظاہری مسلمان تھے۔ وہ حقیقی مسلمان بننے لگے جیسا کہ اب تک چار لاکھ کے قریب بن چکے ہیں۔ ’’
اسی طرح فرماتے ہیں :‘‘ میرے لئے یہ شکر کی جگہ ہے کہ میرے ہاتھ پر چار لاکھ کے قریب لوگوں نے اپنے معاصی اور گناہوں اور شرک سے توبہ کی۔’’ 7 گویا چار لاکھ حقیقی مسلمان صرف وہ ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کو قبول کیا۔
کتنی واضح بات ہے جو اس حوالہ میں بیان کی گئی ہے اور کس طرح دو گروہوں کا مقابلہ کیا گیا ہے۔ ایک کو صرف ظاہری مسلمان قرار دیا گیا ہے اور دوسرے گروہ کو حقیقی مسلمان قرار دیا گیا ہے اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے تعداد بھی بتا دی ہے کہ یہ حقیقی مسلمان صرف چار لاکھ کے قریب ہیں۔ اب غیر مبائعین جن کے متعلق کہتے ہیں کہ انہیں کافر کہنا جائز نہیں اور وہ حقیقی معنوں میں مسلمان ہیں وہ چار لاکھ ہیں یا چار کروڑ یا چالیس کروڑ ہیں؟ صاف ظاہر ہے کہ روئے زمین کے تمام مسلمانوں کو حقیقی مسلمان قرار دیتے ہیں۔ اس صورت میں انہیں یا تو یہ ثابت کرنا چاہئے کہ چار لاکھ کے الفاظ غلط لکھے گئے ہیں ۔ اصل الفاظ چار کروڑ یا چالیس کروڑ کے تھے یا پھر انہیں ماننا چاہئے کہ ظاہری مسلمان گو کروڑوں ہوں مگر حقیقی مسلمان چند لاکھ ہی ہیں اور وہ بھی وہی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لائے۔
پھر اس سے بھی بڑھ کر لطیفہ اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آجکل پیغامیوں کا سارا زور اس بات پر صَرف ہو رہا ہے کہ جماعت احمدیہ مسلمانوں کو کافر قرار دے کر خود کافر بن چکی ہے گویا وہ چار لاکھ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے ہاتھ پر حقیقی مسلمان بنے تھے وہ تو اس طرح کافر بن چکے ہیں اور جو باقی مسلمان ہیں ان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کا فتویٰ موجود ہے کہ وہ صرف ظاہری مسلمان ہیں۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ ہم پر تو یہ اعتراض کرتے ہیں کہ تم نے کروڑوں مسلمانوں کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا ہے حالانکہ ہم نے اگر کروڑوں کو کافر کہا تھا تو ان کروڑوں میں سے چار لاکھ کی جماعت کو الگ بھی کر لیا تھا اور ان کے متعلق ہمارا یہ دعویٰ تھا کہ وہ حقیقی مسلمان ہیں۔ مگر ان کی یہ حالت ہے کہ انہوں نے سوائے اپنے دو چار ہزار آدمیوں کے باقی سب کو کافر بنا دیا۔ وہ جو عام مسلمان تھے ان کے متعلق تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فیصلہ فرما دیا کہ وہ حقیقی مسلمان نہیں صرف ظاہری مسلمان ہیں۔ اور جو آپ کے ہاتھ پر حقیقی مسلمان بنے تھے انہیں پیغامیوں نے کافر قرار دے دیا۔ گویا اب کوئی بھی مومن نہ رہا سوائے چند ہزار پیغامیوں کے۔ پھر عجیب بات ہے کہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے ؂
چو دَورِ خسروی آغاز کردند مسلماں را مسلماں بازکردند
یعنی جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ آئے گا تو مسلمانوں کو دوبارہ مسلمان کیا جائے گا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام اس کے معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ظاہری مسلمان میرے ہاتھ پر حقیقی مسلمان بننے لگے ہیں جیسا کہ اب تک چار لاکھ کے قریب بن چکے ہیں مگر کیا یہ عجیب بات نہیں کہ جن لوگوں کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے ہاتھ پر مسلمان ہونے کی پیشگوئی تھی وہ تو اس لحاظ سے کافر ہوئے کہ انہوں نے آپ کو قبول نہ کیا اور جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے ہاتھ پر مسلمان بن چکے تھے وہ دوسروں کو کافر قرار دے کر خود پکے کافر بن گئے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب دونوں ہی کافر ہو گئے تو یہ الہام کس طرح پورا ہوٴا اور اسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے ثبوت میں پیش کس طرح کیا جا سکتا ہے؟ مولوی محمد علی صاحب تو ہمیں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر جو لوگ حقیقی مسلمان بنے تھے وہ مسئلہ کفر و اسلام پر ایمان رکھنے کے ذریعہ، وہ خلافت کو تسلیم کرنے کے ذریعہ، وہ نبوت پر ایمان رکھنے کے ذریعہ اپنے ایمان میں رخنہ ڈال کر کافر بن چکے ہیں۔ رہ گئے عام مسلمان، سو ان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کا فتویٰ موجود ہے کہ وہ صرف ظاہری مسلمان ہیں گویا کوئی بھی مسلمان نہ رہا اور پیشتر اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کو ماننے والوں کی ایک نسل بھی فوت ہوتی وہ سب کے سب کافر بن گئے اور راہِ ہدایت سے دور جا پڑے۔
کیا کوئی بھی عقل مند مان سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا یہ عظیم الشان الہام جس پر خدا کا مسیح فخر کرتا اور فرماتا ہے کہ ‘‘میرے لئے یہ شکر کی جگہ ہے کہ میرے ہاتھ پر چار لاکھ کے قریب لوگوں نے اپنے معاصی اور گناہوں اور شرک سے توبہ کی۔’’ اس رنگ میں صحیح سمجھا جا سکتا ہے؟ اس صورت میں تو شکر ادا کرنے کے کوئی معنی ہی نہیں رہتے کیونکہ جب سب کافر بن گئے تو شکر کس بات کا ہؤا؟ پھر ہم دیکھتے ہیں اسی کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
‘‘ خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا۔ اور میرے فرقہ کے لوگ اِس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رُو سے سب کا مُنہ بند کر دیں گے۔ اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا۔ بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلاء آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھادے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا۔ اور خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ مَیں تجھے برکت پربرکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔
سو اے سُننے والو! اِن باتوں کو یاد رکھو۔ اور اِن پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہوگا۔ مَیں اپنے نفس میں کوئی نیکی نہیں دیکھتا۔ اور مَیں نے وہ کام نہیں کیا جو مجھے کرنا چاہئے تھا۔ اور مَیں اپنے تئیں صرف ایک نالائق مزدور سمجھتا ہوں۔ یہ محض خدا کا فضل ہے جو میرے شامل حال ہوٴا۔ پس اُس خدائے قادر اور کریم کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس مُشتِ خاک کو اس نے باوجود ان تمام بے ہنریوں کے قبول کیا ۔’’ 8
یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے جو پیغامیوں کے ردّ کا اپنے اندر سامان رکھتی ہے اور ان مدعیان کی تردید بھی کرتی ہے جو وقتاً فوقتاً مختلف دعوے کرتے رہتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے سلسلہ کی سچائی کا بھی یہ ایک زبردست ثبوت ہے۔
اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام صاف طور پر فرماتے ہیں کہ ‘‘ خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا’’۔ اس سے پتہ لگتا ہے کہ غلبہ کے زمانہ تک جماعت کے لئے تباہی مقدر نہیں بلکہ یہی مقدر ہے کہ جب تک کامل غلبہ حاصل نہ ہو جائے یہ جماعت بڑھتی چلی جائے۔ مگر پیغامی کیا بتاتے ہیں؟ وہ یہ بتاتے ہیں کہ پیشتر اس کے کہ جماعت احمدیہ پر غلبہ کا دن آتا،صرف چند ہزار لوگ حق پر رہ گئے اور باقی سب کے سب مرتد اور کافر ہو گئے۔ حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ‘‘ خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا۔’’ یعنی یہ سلسلہ اس وقت تک ترقی کرتا چلا جائے گاجب تک تمام دنیا پر چھا نہ جائے اور سب فرقوں پر یہ نمایاں طور پر غالب نہ آجائے ۔ مگر پیغامی یہ کہتے ہیں کہ جو جماعت چاریا چھ لاکھ تھی وہ 1914ء میں صرف چار ہزار رہ گئی اور وہ چار ہزار کی جماعت بھی ایسی ہے کہ ستائیس سال گزر گئے مگر اب تک وہ چار ہزار ہی ہے اور اس کی تعداد میں کوئی اضافہ ہونے میں نہیں آتا۔ بلکہ اگر اس کاقدم اٹھتا ہے تو تنزل اور کمی کی طرف۔ چنانچہ میں نے بار ہا چیلنج کیا ہے کہ وہ لوگ جو تم میں سے نکل کر ہم میں شامل ہوئے ہیں ان کی بھی گنتی کر لو اورجو لوگ ہم میں سے نکل کر تم میں شامل ہوئے ہیں ان کی بھی گنتی کر لو۔ پھر تمہیں خود بخود معلوم ہو جائے گا کہ کون بڑھ رہا ہے اور کون گھٹ رہا ہے مگر انہوں نے کبھی اس چیلنج کو قبول نہیں کیا۔ اسی طرح میں نے بار بار چیلنج دیا ہے کہ تم اس بات میں بھی ہمارا مقابلہ کر لو کہ تمہارے ذریعہ سے کتنے لوگ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوتے ہیں اور ہمارے ذریعہ سے کتنے لوگ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوتے ہیں مگر انہیں کبھی اس مقابلہ کی توفیق بھی نہیں ملی۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے مقابلہ کیا تو ان کا پول کھل جائے گا۔ حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ‘‘خدا نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ اس سلسلہ کو ترقی دے گا اور اسے باقی تمام فرقوں پر غالب کرے گا۔’’ بعد میں جو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اور جن میں مبتلا ہو کر لوگ خدا تعالیٰ کو ناراض کر لیتے ہیں وہ کسی سلسلہ کی صداقت پر حرف نہیں لاتیں کیونکہ اس وقت تک سلسلہ پر غلبہ کا زمانہ آ چکا ہوتا ہے مگر اس سے پہلے خدا تعالیٰ کی سنت یہی ہوتی ہے کہ اگر پانچ دس مرتد ہوتے ہیں تو ان کی جگہ سو دو سو آدمیوں کو اللہ تعالیٰ لے آتا ہے لیکن پیغامی ہمیں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ چار لاکھ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر حقیقی مسلمان بنے تھے اور جو ترقی کرتے کرتے دس لاکھ تک پہنچ گئے تھے وہ حضرت خلیفہٴ اول کی وفات پرمعاً چند ہزار رہ گئے اورباقی سب کافر اور مرتد ہو گئے۔ گویا وہ پیشگوئی جو خد اتعالیٰ نے بار بار کی تھی اورجس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس نے بار بار خبر دی تھی وہ بُری طرح ناکام ہوئی اور نَعُوْذُ بِاللہِ بالکل جھوٹی ثابت ہوئی۔ پھر بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ابتلاوٴں کے طوفان کا ایک ریلا آتا ہے جس میں عارضی طور پر بعض لوگ ڈگمگا جاتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو بھی یہ بات کسی حد تک تسلیم کی جا سکتی تھی۔ مگر حالت یہ ہے کہ وہ چار ہزار پیغامی جو اس ابتلاء کے وقت ‘‘ثابت قدم’’ رہے۔ ان ‘‘صادقوں’’، ‘‘راستبازوں’’ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے والوں کو ہمیشہ ذلت کا مُنہ دیکھنا پڑتا ہے۔ اور نہ تو وہ غیر احمدیوں میں سے اتنے لوگ کھینچ سکتے ہیں جتنے ان کے قول کے مطابق مرتد ہوئے اورنہ اپنوں میں سے وہ کسی قابل ذکر تعداد کو اپنے ساتھ شامل کر سکے ہیں۔ حالانکہ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں صاف طور پر فرماتا ہے کہ اگر تم میں سے ایک بھی مرتد ہو جائے گا تو میں اس کی جگہ دسیوں لاوٴں گا اور میں ایک قوم اور جماعت کو اس کی بجائے دین میں داخل کروں گا۔ مگریہ جو ‘‘خالص مسلمان’’ تھے ان کے ساتھ خدا تعالیٰ نے یہ سلوک کیا کہ اگر یہ ہم میں سے ایک آدمی کو لے جاتے ہیں تو خدا تعالیٰ ان کے دو یا چار لوگوں کو توڑ کر ہمارے ساتھ شامل کر دیتا ہے اور غیر احمدیوں میں سے تو ایک مرتد ہونے والے کے مقابلہ میں پچاس ساٹھ بلکہ سو سو آدمی شامل ہو جاتے ہیں۔ کس قدر خوشی ان لوگوں کو مصری ٭کے مرتد ہونے پر ہوئی تھی۔ مگر وہ کتنے آدمی تھے؟ صرف پانچ یا چھ تھے اور اگر ان کے بیوی بچوں کوملا لیا جائے تو بیس پچیس بن جاتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں جتنے لوگ ہماری جماعت میں ایک سال کے اندر اندر شامل ہوئے کیا ان کے مقابلہ میں ان بیس پچیس آدمیوں کی کوئی بھی نسبت ہے؟ اسی سال اس وقت تک تین ہزار آدمی بیعت کر چکے ہیں جن میں سے دو ہزار کے قریب آدمیوں کی لسٹ اخبار میں شائع ہو چکی ہے اور ابھی چھ مہینے باقی ہیں جن میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اور بہت سے لوگ احمدیت میں داخل ہوں گے۔ پس کس طرح ہماری جماعت کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا وہ کلام شاندار طریق پر پورا ہو رہا ہے کہ اگر تم میں سے ایک شخص مرتد ہوگا تو میں اس کے بدلہ میں ایک قوم لاوٴں گا9۔ مگر کیا یہ بات پیغامی بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان میں سے اگر کوئی ایک مرتد ہو تو اس کے بدلے انہیں قوم ملتی ہے۔ پس اگر اس وقت کے ریلے میں
٭ شیخ عبد الرحمان صاحب مصری مراد ہیں۔
سمجھ بھی لیا جائے کہ عارضی طور پر جماعت پر ایک ابتلاء آ گیا تھا تو ستائیس سال گزرنے پر تو ان کی تعداد لاکھوں تک پہنچ جانی چاہئے تھی۔ مگر ہوا یہ کہ وہ تو چار ہزار ہی رہے اور جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر ایمان لا کر حقیقی مسلمان بنے تھے ان میں سے ہزاروں ہزار لوگ انہی عقائد پر فوت ہو گئے جن پر ہماری جماعت قائم ہے۔ گویا ان کے خاتمہ نے ان کی تمام زندگی کے اعمال پر مہر لگا دی اور بتا دیا کہ صحیح راستہ وہی ہے جس پر قائم رہتے ہوئے وہ ہزاروں لوگ فوت ہوئے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر حقیقی اسلام قبول کیا تھا۔ میرے نزدیک گزشتہ ستائیس سال کے عرصہ میں صرف دس ہزار آدمی ان لوگوں میں سے فوت ہو چکے ہوں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر ایمان لائے تھے بلکہ ممکن ہے فوت ہونے والوں کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہو اور یہ دس ہزار وہ ہیں جو موجودہ پیغامیوں کی مجموعی تعداد سے بہت زیادہ ہیں۔ گویا ان لوگوں کی موجودہ تعداد سے بہت زیادہ لوگ انہی عقائد پر فوت ہو چکے ہیں جو ہماری جماعت کے ہیں۔ مگر وہ ستائیس سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک چار ہزار ہی ہیں حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھاکہ:۔
‘‘ خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا۔ ’’
پھر اس حوالہ میں ایک اور بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ بیان فرماتے ہیں کہ ‘‘میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رو سے سب کا مُنہ بند کر دیں گے۔’’ یعنی علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معجزات اور نشانات کے جماعت احمدیہ میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جن کابراہ راست خدا تعالیٰ کے ساتھ معاملہ ہو گا اور جن کے ہاتھ پر اس کے نشانات ظاہر ہوں گے مگر مولوی محمد علی صاحب کو دیکھ لو وہ خشک فلسفی کی طرح الہام کی ہمیشہ مخالفت کریں گے اور کبھی کوئی ایسا نشان بتا نہیں سکیں گے جو ان کے ہاتھ پر خدا تعالیٰ نے ظاہر کیا ہو۔ حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں میرے فرقہ کے لوگوں کی علامت یہ ہو گی کہ‘‘اپنے دلائل اور نشانوں کے رو سے سب کا مُنہ بند کر دیں گے۔’’ یعنی ان کے پاس صرف وہی دلائل نہیں ہوں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی صداقت کے ظاہر ہوئے بلکہ ان کے پاس ایسے نئے دلائل اور نئے نشانات بھی ہوں گے جو ان کی ذات میں ظاہر ہوئے ہوں گے۔ نشانات معجزات کو ہی کہا جاتاہے۔ پس مطلب یہ ہے کہ قبل از وقت ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیب کی خبریں ظاہر کی جائیں گی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام فرماتے ہیں کہ یہ میری جماعت کی علامت ہو گی مگرمولوی محمد علی صاحب الہامات پر ہنسی اڑاتے ہیں اور خود انہیں الہام کا کوئی دعویٰ نہیں۔ ان کی حالت بس ایک خشک پتّا کی سی ہے۔ خود تو انہوں نے کبھی کوئی الہام پیش نہیں کیا اور اگر کوئی دوسرا انہیں اپنا الہام بتائے تو اس پر ہنسی اڑانے لگ جاتے ہیں۔
اس لحاظ سے بھی ہم میں اور غیر مبائعین میں کیسا عظیم الشان فرق ہے۔ دونوں طرف کے لیڈروں کو ہی لے لو میرے صرف ایک سال کے روٴیا و کشوف اور الہامات اگرجمع کئے جائیں تو وہ مولوی محمد علی صاحب کی ساری عمر کے خوابوں سے بڑھ جائیں گے۔ پھر اگر ان رؤیا و کشوف اور الہامات کولے لیا جائے جو پورے ہونے سے پہلے غیر مذاہب والوں کو بتا دئیے گئے تھے تو اس میں بھی مولوی محمد علی صاحب میرا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
موجودہ جنگ کو ہی دیکھ لو۔ ابھی لڑائی شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک روٴیا کے ذریعہ بتا دیا تھا کہ جنگ شروع ہونے والی ہے اور اس جنگ میں ایسے حالات پیدا ہوں گے کہ انگریز فرانسیسی حکومت سے یہ درخواست کریں گے کہ انگریزی حکومت اور فرانسیسی حکومت کا الحاق کر دیا جائے اور دونوں ایک نظام کے ماتحت آ جائیں مگر چھ ماہ کے بعد انگریزوں کی یہ حالت بدل جائے گی۔10
اس روٴیا کے عین مطابق جنگ شروع ہوئی۔ فرانس نے اس جنگ میں خطرناک شکست کھائی اور انگریزوں کو ایسا ڈر پیدا ہو گیا کہ مسٹر چرچل نے اپنی ایک تقریر میں کہا کہ ہم انگلستان کے ہر گاوٴں میں دشمن سے لڑائی کریں گے اور اگر اس کا انگلستان پر قبضہ ہو گیا تو ہم کینیڈا یا آسٹریلیا میں جا کر اس سے لڑیں گے۔ گویا برطانیہ کے وزیر اعظم نے بھی تسلیم کیا کہ اس بات کا امکان ہے کہ جرمنی انگلستان پر قبضہ کرلے اور انہیں کینیڈا یا آسٹریلیا میں جا کر دشمن کامقابلہ کرنا پڑے۔ پھر کس طرح اللہ تعالیٰ نے روٴیا کے اس دوسرے حصہ کو پورا کیا جس میں یہ ذکر آتا تھا کہ انگریز فرانسیسی حکومت سے یہ درخواست کریں گے کہ دونوں حکومتوں کا الحاق کر دیا جائے۔ آج تک دنیا کی تاریخ میں اس بات کی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی حکومت نے دوسری حکومت سے یہ درخواست کی ہو کہ ہم دونوں کی حکومت ایک ہو جائے، پارلیمنٹیں بھی ملا دی جائیں اور خوراک کے ذخائر اور خزانہ بھی ایک ہی سمجھا جائے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی بات پوری ہو کر رہی اور 15 جون 1940ء کو حکومتِ برطانیہ نے فرانسیسی حکومت کو تار دیا کہ دونوں ملکوں کی حکومت ایک کر دی جائے کیونکہ خطرہ بہت زیادہ ہے۔
پھر جیسا کہ خواب میں ہی بتا دیا گیا تھا کہ چھ ماہ کے بعد یہ حالت بدل جائے گی۔ اس واقعہ کے قریباً چھ ماہ بعد 9 دسمبر کو لیبیا کی لڑائی شروع ہوئی اور 15 دسمبر کو عین چھ ماہ کے بعد برطانیہ کے مقابلہ میں اٹلی کو شکست ہو گئی۔
یہ وہ خواب ہے جس کے احمدی بھی گواہ ہیں، غیر احمدی بھی گواہ ہیں، عیسائی بھی گواہ ہیں۔ میں نے یہ روٴیا چوہدری ظفرا للہ خان صاحب کو بھی بتا دیا تھا اور وہ ہمیشہ اپنے ملنے والوں سے کہا کرتے تھے کہ مجھے تو 15 دسمبر کا انتظار ہے۔ کیونکہ 15 جون کو برطانیہ نے فرانس کو دونوں حکومتوں کے الحاق کی پیشکش کی تھی اور چونکہ چھ ماہ کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے حالات کے بدل جانے کی اطلاع ہے اس لئے لازماً 15 دسمبر کو یہ خطرے کی حالت جاتی رہے گی چنانچہ وہ ہر انگریز افسر سے یہی کہتے کہ مجھے تو 15دسمبر کا انتظار ہے جبکہ ایسے حالات پیداہو جائیں گے کہ انگریزوں کے لئے یہ خطرہ جو اس وقت درپیش ہے نہیں رہے گا۔ میں نے اس بات کو معلوم کر کے ایک دفعہ ان سے کہا کہ چھ مہینے سے مراد بعض دفعہ سات ماہ اور بعض دفعہ پانچ ماہ بھی ہو سکتے ہیں۔ اس لئے آپ کو اس قدر تعیین نہ کرنی چاہئے تھی کہ 15 دسمبر کے بعد حالات بدل جائیں گے۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں تو ظاہری لفظوں کی بناء پر ہر ایک سے چھ مہینے کا ہی ذکر کرتا ہوں کہ 15 دسمبر کے بعد یہ حالت بدل جائے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہؤا اور اللہ تعالیٰ نے ان چھ مہینوں کے بعد انگریزوں سے اس وقت کے خطرہ کی حالت کو دور کر دیا۔
پھر اسی مسجد میں مَیں نے بتایا تھا کہ ایک بادشاہ میری آنکھوں کے سامنے سے گزارا گیا اور مجھے الہام ہؤا کہ ایب ڈی کیٹڈ (ABDICATED)11 اس الہام پر ابھی تین دن نہیں گزرے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے بیلجئم کے بادشاہ لیو پولڈ کو ناگہانی طور پر ایب ڈی کیٹ کرا دیا۔ اس الہام کی پہلے تو ہم یہ تشریح کیا کرتے تھے کہ بیلجیئم گورنمنٹ نے خود یہ اعلان کر دیا تھا کہ ہمارا بادشاہ جرمن قوم کے ہاتھ میں ہے اور اب وہ اپنے فرائض کو ادا نہیں کر سکتا اس لئے بیلجیئم کی قانونی گورنمنٹ ہم ہیں نہ کہ لیوپولڈ۔ مگر اب قریب میں ایک اور ثبوت اس بات کا ملا ہے اور وہ یہ کہ معلوم ہوٴا ہے کہ لیو پولڈ خود بھی اپنے آپ کو ایب ڈی کیٹ ہی سمجھتا ہے چنانچہ خبر آئی ہے کہ جرمن افسر اس سے بعض ایسے کاغذات پر دستخط کرانا چاہتے ہیں جن میں بیلجیئم کے لوگوں سے یہ اپیل کی گئی ہے کہ وہ جرمن قوم کے ساتھ تعاون کریں مگر وہ کسی کاغذ پر دستخط کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا اور کہتا ہے کہ مَیں اپنی حکومت کے قانون کے ماتحت اب بادشاہ رہا ہی نہیں اس لئے میں کسی کاغذ پر دستخط نہیں کر سکتا۔ گویا وہ خود بھی یہ سمجھتا ہے کہ اب وہ بادشاہ نہیں رہا اور ایب ڈی کیٹ ہو گیا ہے۔
اسی طرح مجھے بتایا گیا تھا کہ تار آئی ہے امریکہ نے برطانیہ کی امداد کے لئے اٹھائیس سو ہوائی جہاز دیا ہے۔ یہ خبر بھی ایسی تھی جسے کوئی انسانی دماغ وضع نہیں کر سکتا تھا کیونکہ اس میں ایک طرف تار کا لفظ تھا دوسری طرف امریکہ کا لفظ تھا تیسری طرف اٹھائیس سو ہوائی جہازوں کا ذکر تھا۔ میں نے یہ خواب بھی چوہدری ظفرا للہ خان صاحب کو لکھ کر بھیج دی تھی اور انہوں نے کئی وزراء کے آگے اسے بیان کر دیا۔ شاید گزشتہ اکتوبر کی بات ہے کہ مَیں اپنے گھر میں بیٹھا تھا کہ کسی نے مجھے اطلاع دی کہ باہر سے فون آیا ہے۔ مَیں گیا اور امرت سر کے دفتر سے پتہ لگایا کہ کہاں سے فون آیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ شملہ سے آیا ہے۔ میں نے کہا کنکشن ملا دو۔ تھوڑی دیر کے بعد مجھے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی آواز آئی جو جوش اور خوشی سے کانپ رہی تھی۔ انہوں نے کہا مبارک ہو۔ میں نے کہا خیر مبارک مگر یہ تو بتائیں کہ یہ مبارک کیسی ہے۔ انہوں نے کہا آپ کو یاد ہے آپ نے فلاں مہینہ میں مجھے ایک چِٹھی لکھی تھی جس کا مضمون یہ تھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ امریکہ سے تار آئی ہے کہ امریکہ نے اٹھائیس سو ہوائی جہاز انگریزوں کو بھجوایا ہے۔ مَیں نے کہا مجھے یاد ہے۔ وہ کہنے لگے پھر آج یہ خواب پوری ہو گئی ہے اور امریکہ سے انگریزی نمائندہ کی تار آئی ہے کہ امریکہ نے اٹھائیس سو ہوائی جہاز انگریزوں کو دئیے ہیں۔ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے یہ بھی بتایا کہ جب مجھے یہ خبر پہنچی میں نے اسی وقت اپنے پرائیویٹ سیکرٹری کو جو غیر احمدی تھا بلایا اور کہا کہ تم کو یاد ہے میں نے تمہیں امام جماعت احمدیہ کی ایک خواب سنائی تھی۔ وہ کہنے لگا کونسی خواب، کیا وہی جو اٹھائیس سو ہوائی جہازوں والی تھی؟ میں نے کہا ہاں وہی خواب۔ چنانچہ اس کے بعد میں نے تار اس کے سامنے کر دیا کہ لو پڑھ لو، اس میں کیا لکھا ہے۔ پھر وہ کہتے ہیں میں نے اسی وقت سر کلو (جو غالباً ریلوے کے وزیر ہیں) کو فون کیا اور کہا کہ آپ کو یاد ہے میں نے آپ کو امام جماعت احمدیہ کی ایک خواب سنائی تھی جس میں امریکہ سے ہوائی جہاز بھیجے جانے کا ذکر تھا۔ وہ کہنے لگے ہاں مجھے یاد ہے مگر تعداد صحیح ثابت نہیں ہوئی۔ تم نے تو 28 سو ہوائی جہاز بتائے تھے مگر تار میں 25 سو ہوائی جہازوں کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ انہوں نے تار کو جلدی میں صحیح طور پر نہ پڑھا اور اٹھائیس سو کو پچیس سو سمجھ لیا۔ معلوم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ ان پر اس خواب کے متعلق اتمام حجت کرنا چاہتا تھا۔ چنانچہ انہوں نے کہا تم نے تو کہا تھا کہ امریکہ اٹھائیس سَو ہوائی جہاز بھیجے گا مگر تار میں تو پچیس سو ہوائی جہاز بھیجے جانے کا ذکرہے۔ چوہدری صاحب کہتے ہیں کہ میں نے انہیں کہا کہ آپ تار کو دوبارہ نکال کر پڑھیں۔ چنانچہ انہوں نے دوبارہ تار پڑھی تو کہنے لگے حیرت انگیز بات ہے واقع میں اٹھائیس سو ہوائی جہاز دئیے جانے کی خبر ہے۔ تو دیکھو قریب قریب کے اہم واقعات ہیں جن کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت امور غیبیہ کا مجھ پر اظہار فرمایا۔ اسی طرح ابھی گزشتہ دنوں مَیں سندھ میں تھا کہ مجھے انگریزی میں ایک الہام ہوٴا جس کا مفہوم یہ تھا کہ انگریزی فوج کی صف توڑ کر جرمن فوج اندر داخل ہو گئی ہے۔ دوسرے ہی دن میں نے میاں بشیر احمد صاحب کو بھی ایک خط میں اس خواب کی اطلاع دے دی اور غالباً چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو بھی خواب لکھ دی۔ اس کے بعد یہ خبر آ گئی جو ریڈیو پر ہم نے خود بھی سن لی کہ طبرق کے مقام پر انگریزی صفوں کو چِیر کر جرمن فوج آگے بڑھ گئی ہے۔
تو میری ایک سال کی خوابیں ہی اگر جمع کر لی جائیں تو وہ مولوی محمد علی صاحب کی ساری عمر کی خوابوں سے بڑھ جائیں گی۔ پھر یہ وہ خوابیں ہیں جن کے گواہ صرف احمدی ہی نہیں بلکہ غیر احمدی بھی ہیں، ہندو بھی ہیں، سکھ بھی ہیں، عیسائی بھی ہیں۔ غرض قسم قسم کے گواہ ان خوابوں کی تصدیق کرنے والے مل سکتے ہیں اور وہ شہادت دے سکتے ہیں کہ ان کو قبل از وقت یہ باتیں بتائی گئیں اور پھر اسی طرح پوری ہوئیں جس طرح انہیں بتایا گیا تھا۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ۔ ‘‘میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ وہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رو سے سب کا مُنہ بند کر دیں گے۔’’ یعنی میری جماعت کے لوگوں کو خود خدا تعالیٰ کی طرف سے دلائل اور نشانات دئیے جائیں گے اور وہ ان دلائل اور نشانات کے ذریعہ سب کا مُنہ بند کر دیں گے۔ مگر مولوی محمد علی صاحب کا طریق یہ ہے کہ وہ ہمیشہ الہامات پر ہنسی اڑاتے ہیں اور کبھی سنجیدگی سے ان پر غور نہیں کرتے۔ بلکہ بعض پیغامیوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ یہ الہامات بعد میں بنا لئے جاتے ہیں حالانکہ بعض الہامات کے پورا ہونے کے خود بعض پیغامی بھی گواہ ہیں۔ مثلاً یہی روٴیا جو اٹھائیس سو جہازوں والا ہے۔ یہ چوہدری ظفرا للہ خان صاحب نے میاں غلام رسول صاحب ریٹائرڈ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے بیٹے میاں غلام عباس صاحب کو بھی بتا دیا تھا جو غیر مبائع ہیں۔ پس اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ غیر مبائعین جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں سے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں آپ کی اس جماعت میں شامل نہیں جس کا ذکر تجلیات الٰہیہ میں کیا گیا ہے۔ کیونکہ جماعت کے افراد کی یہ علامت بتائی گئی تھی کہ وہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رو سے سب کا مُنہ بند کر دیں گے اور یہ علامت غیر مبائعین میں نہیں پائی جاتی۔ میں نے کہا تھا کہ آجکل جو مختلف مدعی ہیں ان کا بھی اس تحریر سے رد ہوتا ہے۔ وہ اس طرح ہے کہ اس پیشگوئی سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ترقی اور غلبہ کے زمانہ تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی اپنی جماعت ہی چلتی چلی جائے گی۔ کسی اور مدعی یا مامور کی جماعت کھڑی نہیں ہو گی۔ مگر آج ان مدعیان کی یہ حالت ہے کہ ان میں سے کوئی تو یہ کہتا ہے کہ مرزا صاحب مسیح تھے اور مَیں مہدی ہوں اور کوئی یہ کہتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب احمدیت کے جامہ میں آئے تھے اور میں محمدیت کے جامہ میں آیا ہوں اور کوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی جماعت کی تنسیخ کر کے کوئی اور سلسلہ قائم کرنا چاہتا ہے۔ پس اس قسم کے تمام مدعی اس پیشگوئی کے مطابق جھوٹے ہیں کیونکہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی جماعت کو غلطی پر قرار دے کر ایک اور جماعت قائم کرنا چاہتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام فرماتے ہیں کہ دنیا میں خدا میرے سلسلہ کو پھیلائے گا اور میرے فرقہ کو ہی سب فرقوں پر غالب کرے گا۔
ایسے مدعیان الہام تو بے شک ہو سکتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے احکام اور آپ کی تعلیم کو مانتے ہوں، آپ کی غلامی کا دم بھرتے ہوں اور یہ عقیدہ رکھتے ہوں کہ حَکَم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام ہی ہیں اور فتویٰ وہی چلے گا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کا ہو گا اور آپ کی جماعت حق پر ہے وہ صرف اس کی خدمت کے لئے کھڑے ہوئے ہیں۔ مگر باقی تمام مدعی جو اپنی ایک علیحدہ پٹڑی قائم کرنا چاہتے ہیں، جھوٹے ہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام فرماتے ہیں۔ یہ دورِ ترقی اس وقت تک جاری رہے گا جب تک تمام دنیا پر یہ سلسلہ غالب نہ آجائے۔ اس کے بعد اگر پھر خرابیاں پیدا ہو جائیں اور پھر کسی اور مامور کی بعثت کی ضرورت محسوس ہو تو اس وقت وہ بے شک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی متابعت میں آ سکتا ہے مگر اس وقت تک احمدیت کی براہِ راست کمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ میں ہی رہے گی۔ بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ کوئی ایسا شخص خدا تعالیٰ سے الہام پا کر ایک نئی جماعت کی بنیاد رکھنے کے لئے اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتا جب تک تمام دنیا پر یہ سلسلہ غالب نہ آ جائے۔ اس کے بعداگر عالمگیر گمراہی کے پھیل جانے پر کوئی ایسا مامور آئے تو بے شک آجائے مگر اب جو لوگ اپنے آپ کو مدعی اور مامور کہتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ جماعت کو ہدایت دینے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کھڑے کئے گئے ہیں وہ سب جھوٹے ہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی اس تحریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ جماعت اس وقت تک گمراہ نہیں ہو سکتی جب تک وہ تمام دنیاپر غالب نہ آ جائے۔ پس جب تک کہ احمدیہ جماعت کو کامل غلبہ حاصل نہ ہو جائے اس وقت تک کمان براہ راست حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے ہاتھ میں رہے گی۔ پھر بے شک جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے لکھا ہے ایک خرابی کا دور بھی آئے گا 12۔اور پھر ایک نیا سلسلہ شروع ہو گا مگر بہرحال وہ سلسلہ تابع ہو گا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کا۔ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام تابع ہیں رسول کریم ﷺ کے۔ اب دیکھ لو تجلیات الٰہیہ کتنی چھوٹی سی کتاب ہے مگر اس چھوٹی سی کتاب میں ہی تمام اختلافی مسائل کا حل رکھ دیا گیا ہے۔ اور میں تو سمجھتا ہوں کہ شاید تجلیات الٰہیہ حکمت الٰہی کے ماتحت پیغامیوں کے رد میں ہی لکھی گئی ہے ۔ اس کتاب کے بڑے سائز کے صرف سولہ صفحات ہیں اور چھوٹے سائز کے بتیس۔ مگر ان چند صفحات میں ہی اس قدر مواد موجود ہے جو پیغامیوں کے عقائد کی تردید کے لئے کافی ہے۔ اسی طرح اس کتاب میں نبوت کے مسئلہ پر بحث موجود ہے اور کفر و اسلام کے مسئلہ پر بھی۔ غرض ہمارے اور غیر مبائعین کے درمیان جس قدر اختلافی مسائل ہیں ان تمام کا حل اس چھوٹی سی کتاب میں موجود ہے اور اگر کوئی اس سے فائدہ اٹھانا چاہے تو اٹھا سکتا ہے مگر ماننے کے لئے ایسا دل چاہئے جو نشانات کی قدر و قیمت کوسمجھتا ہو اور وہ آنکھیں چاہئیں جو اپنے اندر بصیرت کی روشنی رکھتی ہوں ورنہ وہ لوگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے نشانات کو دیکھ کر ان کی قدر نہیں کی، ان سے یہ امید رکھنا کہ وہ ہمارے پیش کردہ نشانات پر غور کریں گے اور ان سے صحیح رنگ میں فائدہ اٹھائیں گے ایک بہت بڑی امید ہے۔بہرحال ہم مایوس نہیں اور ہم ان کی ہدایت کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔ مگر یہ بڑی عبرت کا مقام ہے۔ بڑی عبرت کا مقام ہے بڑی عبرت کا مقام ہے کہ دنیا میں ایک قوم سالہا سال تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کو خدا تعالیٰ کا نبی اور رسول قرار دیتی رہی ہے مگر اب وہ دیانت داری کا دعویٰ کرنے کے باوجود یہ کہتی ہے کہ اس نے آپ کو کبھی نبی اور رسول نہیں کہا۔ ’’ (الفضل 13 جولائی 1941ء)
1 مسلم کتاب الایمان باب کَوْنُ الْاِسْلَامِ یَھْدِمُ مَا قَبْلَہ
2 الاستیعاب فِیْ مَعْرِفَةِ الْاَصْحَابِ جلد 2 صفحہ 14 مطبوعہ بیروت 1995ء
3 الاستیعاب جلد3 صفحہ 191 مطبوعہ بیروت 1995ء
4 تذکرہ صفحہ 601 ایڈیشن چہارم
5 تجلیات الٰہیہ صفحہ4 روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 396-397
6 تجلیات الٰہیہ صفحہ 5 روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 397
7 تجلیات الٰہیہ صفحہ5 روحانی خزائن جلد 20 صفحہ397
8 تجلیات الٰہیہ صفحہ17-18 روحانی خزائن جلد 20 صفحہ409-411
9 اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَسَوْفَ يَاْتِي اللّٰهُ بِقَوْمٍ ( المائدہ: 55)
10 الفضل 28 جون 1940ء
11 ABDICATED : ذمہ داری سے علیحدہ ہونا
12 تذکرہ صفحہ 213 ایڈیشن چہارم
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
21
اپنے اندر غیرت پیدا کرو مگر بے رحم نہ بنو اور اپنے اندر رحم پیدا کرو مگر بے غیرت نہ بنو
( فرمودہ 11 جولائی 1941ء )

تشہّد، تعوّذ اور سورہٴ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘انسانی جذبات بسا اوقات اس کی عقل کے ساتھ ٹکرا جاتے ہیں اور بسا اوقات اس کی عقل پر اس طرح پردہ پڑ جاتا ہے کہ وہ عقل کے مطالبات کو محسوس ہی نہیں کر سکتا اور اگر عقل کے مطالبات اس کے ذہن میں آتے بھی ہیں تو ان کو ناممکن قرار دے دیتا ہے۔ ہزاروں ہزار واقعات دنیا میں ایسے پائے جاتے ہیں کہ لوگ اشتعال کی حالت میں خود اپنے فائدہ کو بھول جاتے ہیں اور اپنا نفع ان کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ سینکڑوں مائیں ایسی پائی گئی ہیں کہ جنہوں نے اپنے ہمسایہ کو نقصان پہنچانے کے لئے اپنے بچوں کو قتل کر دیا اور سینکڑوں مائیں ایسی پائی جاتی ہیں جنہوں نے دوسروں کے بچوں یا عورتوں کو قتل کرنے کے بعد اپنے بچوں کو قتل کر دیاتا معلوم ہو کہ کسی اشتعال کے ماتحت انہوں نے ایسا کیا ہے۔ پھر ہزاروں ہزار انسان ایسے پائے جاتے ہیں جو ذاتی رنجشوں اور اختلافات کی بنا ء پر مذہب یا قوم کو چھوڑ دیتے ہیں۔ ہزاروں لاکھوں انسان ایسے پائے جاتے ہیں۔ جو اشتعال میں اپنے ماں باپ کو گالیاں دیتے ہیں ایک نہیں دو نہیں، سینکڑوں نہیں، ہزاروں نہیں، لاکھوں نہیں، کروڑوں مثالیں ایسی ملتی ہیں کہ اشتعال کے وقت لوگ عقل کے تقاضوں اور مذہب کے تقاضوں کو بھول جاتے ہیں۔
رسول کریم ﷺ نے جو ہمارے لئے ہر امر میں ہدایت مہیا کرنے والے ہیں اور جنہوں نے ہماری ہر ضرورت کو مدنظر رکھا ہے۔ ایسے مواقع کے لئے نہایت اچھا نسخہ بتایا ہے۔ چنانچہ فرمایا کہ جب اشتعال آئے تو اگر کھڑے ہو تو بیٹھ جاوٴ اور بیٹھے ہو تو لیٹ جاوٴ اور اگر پھر بھی اشتعال باقی رہے تو ٹھنڈا پانی پی لو۔ اس میں دو باتیں بتائی ہیں اور دو حکمتیں بیان فرمائی ہیں۔ ایک تو یہ کہ جگہ کے بدلنے سے اشتعال میں کمی آ جاتی ہے اور وقت کے تبدیل ہو جانے کی وجہ سے بھی اشتعال میں کمی آ جاتی ہے۔ دوسرے یہ کہ بعض اوقات اشتعال کا موجب ظاہری اور مادی اسباب بھی ہوتے ہیں۔ ٹھنڈا پانی پینے کی ہدایت جو آپ نے فرمائی اس کے معنے یہ ہیں کہ جوش اور غصہ کی وجہ سے خون کھول رہا ہوتا ہے اور خون کے کھولنے سے دماغ کی وہ حس جس سے انسان سوچتا اور سمجھتا ہے باطل ہو جاتی ہے۔ جوش کی وجہ سے بعض اوقات دماغ کی رگ پھٹ جاتی ہے اور فالج گر جاتا ہے جس کے نتیجہ میں نہ عقل باقی رہتی ہے، نہ ذہن کام کے قابل رہتا ہے اور نہ قوت حافظہ باقی رہتی ہے۔ اورانسان ایک لٹھ کی طرح پڑا رہتا ہے۔ بعض دفعہ آدمی بول بھی نہیں سکتا یا اگر بول سکتا ہے تو اس کی عقل ٹھکانے نہیں ہوتی یا اگر عقل ٹھکانے ہو تو وہ ہاتھ پاوٴں نہیں ہلا سکتا۔ تو خون میں جوش کی وجہ سے ظاہری حواس مارے جاتے ہیں اور اسی کی وجہ سے بعض اوقات فالج گر جاتا ہے اور وہی خون جس سے انسان کی عقل قائم ہوتی ہے اور جس کی وجہ سے وہ سوچتا سمجھتا اور سب کام کرتا ہے جوش کی وجہ سے رگ پھٹ کر اگر اس کی تھوڑی سی مقدار بھی دماغ کی طرف نکل جائے تو حواس مارے جاتے ہیں اور ہلاکت تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ اس قسم کی حالت کو روکنے کے لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر انسان کھڑا ہو تو بیٹھ جائے۔ بیٹھا ہو تو لیٹ جائے اور غصہ کی وجہ سے خون زیادہ جوش مار رہا ہو اور لیٹنے سے بھی دور نہ ہو تو ٹھنڈا پانی پی لے۔1؂ اس سے اس کی حالت اچھی ہو جائے گی اور عقل عود کر آئے گی۔ کھڑا ہؤا انسان اگر بیٹھ جائے تو اشتعال میں کمی آ جائے گی اور اگر بیٹھنے سے کمی نہ ہو تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ جوش اتنا زیادہ ہے کہ بیٹھنے سے بھی ٹھنڈا نہیں ہؤا۔ اس صورت میں آپ نے لیٹ جانے کی ہدایت فرمائی ہے۔ لیکن اگر اس سے بھی آرام نہ ہو تو ٹھنڈا پانی پی لینے سے حالت درست ہو جائے گی کیونکہ اس سے معدہ سرد ہو جائے گا اور چاروں طرف سے خون اسے گرم کرنے کے لئے جمع ہو جائے گا اور اس طرح اشتعال میں کمی ہو جائے گی۔ طبی طور پر بھی یہ نہایت لطیف بات ہے جس سے خون کی حدت دور ہو جاتی ہے اور علم النفس کی رو سے بھی یہ بہت عجیب بات ہے کیونکہ وقت اور حالت کی تبدیلی سے ان جذبات کا قبضہ کمزور ہو جاتا ہے جو پہلی حالت کے لئے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ بعض لوگ جب کسی خاص مقام پر پہنچتے ہیں تو کوئی دوست یاد آ جاتا ہے مگر وہاں سے چلے جائیں تو وہ یاد بھی بھول جاتی ہے۔ اسی طرح اگر کسی کو کسی مقام پر کوئی گالی دے اور وہ حالت کو تبدیل کرے یعنی اگر کھڑا ہو تو بیٹھ جائے، بیٹھا ہو تو لیٹ جائے تو حالت کی اس تبدیلی کے ساتھ ہی اس کی دماغی کیفیات میں بھی تغیر پیدا ہو جائے گا اور اشتعال میں کمی آ جائے گی۔ قرآن کریم نے اس بات کو اور بھی لطیف رنگ میں بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ فرمایا کہ اس جگہ سے ہٹ جاوٴ جہاں گالیاں دی جاتی ہیں۔ یہ اشتعال کو دور کرنے کا انتہائی نسخہ ہے جو قرآن کریم نے بتایا ہے یعنی اگر کھڑے ہونے کی حالت میں بیٹھنے سے اور بیٹھنے کی حالت میں لیٹنے سے آرام نہیں ہوتا تو اس مجلس سے ہی چلے جاوٴ۔ جگہ کی تبدیلی سے دماغی کیفیت میں بہت بڑا تغیر ہو جاتا ہے اس سے ایک تو وہ شخص سامنے نہیں رہتا جس پر غصہ آ رہا ہو۔ دوسرے وہ نظارہ بھی سامنے نہیں رہتا۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ یوں تو انسان کی طبیعت میں غصہ پیدا نہیں ہوتا۔ ایک شخص اسے گالی دے رہا ہے مگر یہ اسے بیوقوف سمجھ کر ہنس دیتا ہے لیکن معاً اس کی نظر اپنے پہلو پر پڑتی ہے تو اسے ایک ایسا دوست وہاں کھڑ انظر آتا ہے جو پہلے ہی اسے بزدل کہا کرتا تھا اسے دیکھ کر معاً اسے خیال ہوتا ہے کہ اگر میں چپ رہا اور اس گالی کا انتقام نہ لیا تو میری بزدلی کے متعلق میرے اس دوست کی رائے پکی ہو جائے گی اور وہ اس شخص کی گالی سے نہیں بلکہ اس دوست کو دیکھ کر غضب میں آ جائے گا کیونکہ وہ سمجھے گا کہ اس وقت میرا چپ رہنا آئندہ کے لئے میرے واسطے مشکلات پیدا کر دے گا۔ بعض دفعہ اس کا کوئی عزیز یا بیوی بچے سامنے ہوتے ہیں۔ جن کے سامنے وہ ہمیشہ اپنی بہادری بتایا کرتا ہے اور ان کو ہر روز ڈانٹتا رہتا ہے اور کہتا رہتا ہے کہ مَیں تمہاری خبر لوں گا۔ اس لئے ان کی موجودگی میں اگر کوئی اسے گالی دے تو وہ سمجھتا ہے کہ اگر مَیں چپ رہا تو یہ لوگ خیال کریں گے کہ یہ تو بالکل زنخا ہے۔ ہم پر تو ہر وقت رعب ڈالتا رہتا ہے مگر دوسروں کے سامنے چپ ہو جاتا ہے۔ پس وہ گالی سننے کی وجہ سے نہیں بلکہ بیوی بچوں پر رعب قائم رکھنے کے خیال سے جوش میں آ جاتا ہے۔ پس کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ دوسرے موجبات اصل بات سے بھی زیادہ جوش دلانے والے ثابت ہوتے ہیں اور اس مقام یا نظارہ کی وجہ سے جوش آ جاتا ہے۔ ایسی حالت میں اگر آدمی اس جگہ سے ہٹ جائے تو چونکہ وہ بیوی بچے جن کی موجودگی اس کے لئے وجہ اشتعال ہو سکتی تھی۔ سامنے نہ ہوں گے اور نظارہ بدل جائے گا اس لئے اس کا جوش بھی ٹھنڈا پڑ جائے گا۔ نہ اس کے بیوی بچے سامنے ہوں گے اورنہ اس کو ان پر اپنا رعب قائم رکھنے کے لئے غصہ آئے گا یا اس کا دوست سامنے نہ ہو گا۔ تو بزدلی کے الزام سے بچنے کے لئے اس کے اندر کوئی جوش بھی پیدا نہ ہو گا۔ اسی طرح اسے گالی دینے والا بھی اس کے سامنے نہ رہے گا تو جوش کم ہو جائے گا۔ اور صرف وہاں سے ہٹ جانے کی وجہ سے خود بخود ایسے سامان پیدا ہو جائیں گے کہ اس کا جوش ٹھنڈا ہو جائے گا۔
پس اشتعال کے دور کرنے کے لئے قرآن کریم نے یہ نسخہ بتایا ہے کہ انسان اس جگہ سے ہٹ جائے 2 اور رسول کریم ﷺ نے اس کی تشریح میں جو کچھ فرمایا ہے وہ بھی دراصل وہاں سے ہٹ جانے کے ہی مترادف ہے آپ نے جو یہ فرمایا کہ آدمی کھڑا ہو تو بیٹھ جائے۔ بیٹھا ہو تو لیٹ جائے اور پھر بھی غصہ دور نہ ہو تو ٹھنڈا پانی پی لے۔ یہ بھی دراصل وہاں سے چلے جانے کے ہی مترادف ہے اور یہ بھی دراصل قرآن کریم کے وہاں سے چلے جانے کے حکم کی تشریح ہے اور اس کے چھوٹے درجے بیان کئے گئے ہیں۔ اور یہ بھی ایک قسم کا غصہ کے مقام سے ہٹ جانا ہی ہے کہ کھڑا ہوٴا آدمی بیٹھ جائے یا بیٹھا ہوٴا لیٹ جائے یا ٹھنڈا پانی پی لے۔ تھوڑے اشتعال کے وقت بیٹھ جانا یا لیٹ جانا یا ٹھنڈ اپانی پی لینا ہی کافی ہے۔ یہ تھوڑے جوش کے وقت فائدہ دیتا ہے لیکن اگر اشتعال زیادہ ہو تو قرآن کریم کا بتایا ہؤا نسخہ فائدہ دے جاتا ہے اور حقیقی طور پر وہاں سے چلے جانے سے اشتعال دور ہو سکتا ہے۔ قرآن کریم کے اس حکم کی حکمت یہی ہے کہ اشتعال کے نتائج ہمیشہ بُرے ہوتے ہیں۔ اشتعال کی وجہ سے اگر کوئی ایسی بات کی جائے جو نیکی ہو تو وہ بھی انسان کو فائدہ نہیں پہنچا سکتی اور نہ اسے خدا تعالیٰ کے قریب کر سکتی ہے۔
حدیث میں آتا ہے کہ ایک لڑائی کے موقع پر ایک شخص بڑے جوش کے ساتھ لڑ رہا تھا۔ صحابہ نے دیکھا تو کہا اللہ تعالیٰ اسے جنت نصیب کرے اس نے آج مسلمانوں کی اتنی خدمت کی ہے کہ کسی نے نہ کی ہو گی۔ رسول کریم ﷺ نے اسے لڑتے دیکھا تو فرمایا۔ اگر کسی نے دنیا میں چلتا پھرتا دوزخی دیکھنا ہو تو اسے دیکھ لے۔ صحابہ نے جو اس کی اتنی تعریف کرتے تھے یہ بات سنی تو بہت حیران ہوئے اور بعض کمزور طبائع نے کہا کہ عجیب بات ہے کہ ایسی خدمت کرنے والے کو رسول کریم ﷺ نے دوزخی فرمایا ہے۔ ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے دل میں خیال کیا کہ اگر اس شخص کے حالات ظاہر نہ ہوئے تو بعض لوگوں کے لئے یہ بات ابتلاء کا موجب ہو گی اس لئے میں نے کہا خدا کی قسم میں اس شخص سے جدا نہ ہوں گا جب تک کہ اس کا انجام نہ دیکھ لوں تا رسول کریم ﷺ کی صداقت ظاہر ہو چنانچہ مَیں اس کے ساتھ ہو لیا۔ وہ بڑی بہادری سے لڑتا رہا حتّٰی کہ سر سے پاوٴں تک زخمی ہو کر گر پڑا اور شدتِ درد کی وجہ سے کراہنے لگا۔ لوگ اس کے پاس جنت کی مبارک دینے آتے اور کہتے کہ تمہارا انجام کیسا اچھا ہو رہا ہے کہ تم دین کے لئے ایسی بہادری سے لڑتے ہوئے جان دے رہے ہو۔ مگر اس نے کہا مجھے جنت کی نہیں بلکہ دوزخ کی مبارک دو کیونکہ مَیں نے دین کی خاطر لڑائی نہیں کی بلکہ ان لوگوں سے مجھے ذاتی دشمنی تھی۔ بعض لوگوں کے اطمینان دلانے کے لئے تو یہی بات کافی تھی مگر اس بات کا بھی امکان تھا کہ وہ توبہ کر لے۔ اس لئے وہ صحابی کہتے ہیں۔ مَیں پھر بھی اس کے ساتھ ہی رہا حتّٰی کہ جب درد کی شدت نے اسے اور بھی بے قرار کر دیا تو اس نے نیزہ مار کر خودکشی کر لی۔ رسول کریم ﷺ مجلس میں تشریف فرما تھے کہ یہ صحابی وہاں پہنچے اور کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔آپ نے فرمایا کیا بات ہے؟ اس نے عرض کیا کہ آپ نے فلاں شخص کے متعلق فرمایا تھا کہ جس نے دوزخی کو دیکھنا ہو اسے دیکھ لے۔ وہ شخص چونکہ بڑی بہادری سے لڑ رہا تھا اس لئے بعض لوگوں کو شُبہ ہؤا کیونکہ وہ سمجھتے تھے یہ بڑا مخلص ہے اور بڑی قربانی کر رہا ہے۔ ایسے کمزور لوگوں کی حالت کو دیکھ کر مَیں نے فیصلہ کیا کہ مَیں اس کے ساتھ رہوں گا جب تک کہ اس کا انجام نہ دیکھ لوں چنانچہ مَیں نے دیکھا کہ درد کی برداشت نہ کرتے ہوئے آخر اس نے نیزہ مار کر خود کشی کر لی۔ یہ سن کر آپ نے بھی کلمہ شہادت پڑھا اور گواہی دی کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ آپ اللہ تعالیٰ کے بندے اور رسول ہیں۔3 تو اشتعال کی وجہ سے اس کی یہ لڑائی جو اس کے لئے بہت بڑی نیکی بن سکتی تھی اس کے لئے عذاب کا موجب بن گئی۔ اگر وہ اپنے دل سے بُغض کو دور کر کے لڑتا اور یہ فیصلہ کر لیتا کہ مجھے غصہ تو ان لوگوں کے خلاف ہے ہی۔ مگر لڑائی کی نیت میں خدا تعالیٰ کے لئے کرتا ہوں تو کیا اس کی تلوار اس کے دشمنوں کو زخمی نہ کرتی۔ کیا وہ اس کے ہاتھ سے قتل نہ ہوتے۔ پھر بھی وہی ہوتا جواَب ہوٴا مگر یہ لڑائی اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ بن جاتی اور وہ بہت بڑے ثواب کا حقدار ہو جاتا مگر اشتعال کی صورت میں یہ اس کے لئے عذاب کا موجب ہو گئی اور اشتعال کے اثر کے ماتحت دیکھ لو۔ اس نے کس طرح اپنے اوپر رحمتِ الٰہی کا دروازہ بند کر لیا۔ اگر وہ دانائی اور عقل سے کام لیتا اور نیت کو بدل لیتا اور سمجھتا کہ میری طرف سے خدا تعالیٰ میرے دشمنوں سے بدلہ لے رہا ہے اور اپنی لڑائی اسلام کے لئے لڑتا ہے تو پھربھی اس کی تلوار اس کے دشمنوں کو زخم لگاتی اور پھر بھی وہ اس کے ہاتھ سے ہلاک ہوتے پھر بھی وہ اپنے دل کا جوش نکال سکتا مگر اس کے ساتھ اس کی لڑائی عبادت میں داخل ہوتی۔ وہ جہاد کے ثواب کا مستحق ٹھہرتا۔ دوزخ کی بجائے جنت میں جاتا اور فرشتوں کی *** کی بجائے رحمت کا مستحق ہوتا۔ رسول کریم ﷺ بھی بجائے یہ فرمانے کے کہ جس نے دوزخی زمین پر چلتا پھرتا دیکھنا ہو اسے دیکھ لے۔ فرماتے کہ جس نے جنتی زمین پر چلتا پھرتا دیکھنا ہو دیکھ لے۔ دیکھو کتنا چھوٹا سا فرق ہے۔ عقل کے ذرا سے پھیر سے کچھ کا کچھ ہو سکتا تھا مگر اشتعال کی وجہ سے وہ کہاں سے کہاں چلا گیا۔ تو ایک ذرا سے تغیر کے ساتھ انسان کچھ کا کچھ بدل جاتا ہے۔ وہی کام اس کے لئے نیکی بن جاتا ہے اور وہی بدی ہو جاتا ہے۔ وہی کام خدا تعالیٰ تک پہنچا دیتا ہے۔ اور وہی دوزخ میں گرا دیتا ہے۔ دیکھو ایک طرف تو یہ شخص ہے جسے خدا تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی کمان میں لڑنے کی توفیق دی۔ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کے دوش بدوش لڑائی کرنے کا موقع دیا اور جہاد میں شریک ہونے کی توفیق دی مگر اس نے اشتعال کی وجہ سے اتنی عظیم الشان نعمت کو ردی کر کے پھینک دیا۔ اس کے بالمقابل ایک ایسا ہی موقع حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پیش آیا۔ جنگِ احزاب (یا جنگِِ خیبر) کے موقع پر ان کی ایک کافر کے ساتھ لڑائی ہوئی اور حضرت علیؓ نے اسے زمین پر گرا لیا۔ اسے گرانے سے پہلے آپ کو بہت دیر تک اس سے کُشتی کرنی پڑی لیکن جب گرانے کے بعد اسے قتل کرنے کے لئے آپ اس کے سینہ پر بیٹھ گئے تو اس نے آپ کے مُنہ پر تھوک دیا۔ جب اس نے تھوکا تو حضرت علیؓ فوراً اسے چھوڑ کر الگ ہو گئے۔ اس پر وہ بہت حیران ہوا اور حیرت سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے۔ تم میری تلوار سے تو نہ ڈرے حالانکہ مَیں ایک مشہور شمشیر زن ہوں۔ پہروں لڑائی ہوتی رہی اور تم نے بڑی مصیبت اور مشکل سے مجھے گرایا ۔ اس لڑائی کے دوران میری تلوار اور نیزہ سے ڈر کر پیچھے نہ ہٹے مگر میرے تھوک دینے سے مجھے چھوڑ کر الگ ہو گئے۔ یہ بات کیا ہے؟ حضرت علیؓ نے جواب دیا کہ اصل بات یہ ہے کہ جب تم نے میرے مُنہ پر تھوکا تو مجھے غصہ آگیا اورمَیں نے سمجھا کہ اس غصہ کی حالت میں اگر میں نے تم کو مار دیا تو مَیں خدا تعالیٰ کا گنہگار ہوں گا کیونکہ اس کے معنے یہ ہوں گے کہ مَیں نے غصہ کی وجہ سے اپنے دشمن کو قتل کر دیا۔ حالانکہ مَیں یہاں اس لئے لڑنے نہیں آیا کہ تم سے میری کوئی ذاتی دشمنی ہے بلکہ اس لئے آیا ہوں کہ تم خدا تعالیٰ کے دشمن ہو اور اس کے دین کو مٹانا چاہتے ہو اور اگر ذاتی غصہ کی حالت میں مَیں تمہیں قتل کر دیتا تو بجائے مجاہد بننے کے قاتل ٹھہرتا۔ اس لئے مَیں نے مناسب سمجھا کہ اس وقت تک تم سے الگ رہوں جب تک کہ میرا غصہ دور ہو کر عقل کا توازن درست ہو جائے اور میری ساری خواہشات خدا تعالیٰ کے تابع ہو جائیں۔ دیکھو دونوں کو ایک سے حالات پیش آئے۔ دونوں کو غصہ آیا۔ ایک نے تو لڑائی ہی اس غصہ کی وجہ سے کی اور دوسرے نے غصہ کی حالت میں لڑائی بند کر دی اور نیچے گرائے ہوئے دشمن کو چھوڑ کر الگ ہو گیا حتّٰی کہ غصہ دور ہو کر خدا تعالیٰ کے لئے لڑائی کرنے کی حالت پیدا ہو جائے۔
غرض ایک ہی کام اگر اشتعال کے ماتحت کیا جائے تو انسان نیکی سے محروم ہو جاتا ہے اور وہی اگر اشتعال سے الگ ہو کر کیا جائے تونیکی بن جاتا ہے پھر اس سے بھی اعلیٰ مدارج ہوتے ہیں وہاں نفس کو اور بھی دبانا پڑتا ہے حتّٰی کہ ان کاموں میں نفس کا کوئی دخل ہی نہیں رہتا اور وہ خالص دین ہی دین ہو جاتے ہیں۔
ہم میں سے بعض لوگ ہیں کہ جب ان کو غصہ آتا ہے تو اشتعال کی وجہ سے ان کا دل چاہتا ہے کہ دشمن کو پیس ہی ڈالیں وہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں بھی یہی کرتے ہیں کہ ہمارے مخالفوں کو مار ڈال، پیس دے، ان کا بیڑہ غرق کر دے اور ان کا کچھ بھی باقی نہ رہنے دے اور وہ اپنے دل میں سمجھتے ہیں کہ ہم دین کے لئے بڑی غیرت دکھاتے ہیں۔ ہم میں بڑا تقویٰ ہے کہ دوسروں کو مٹا دینا چاہتے ہیں۔ مگر ہم ایک طرف اس ہستی کو دیکھتے ہیں جس نے ہمیں دین سکھایا جس کے بغیر ہم دین کو ہرگز نہ جان سکتے تھے کہ لوگ اسے مارتے ہیں۔ کُتے پیچھے ڈالتے ہیں۔ ایک طرف سے کُتے کاٹنے کو دوڑتے ہیں اور دوسری طرف سے لڑکے پتھر مارتے جاتے ہیں اور آپ زخمی ہونے کی حالت میں بھاگے جاتے ہیں کہ رستہ میں ایک فرشتہ ملتا اور کہتا ہے کہ آپ کے ساتھ ان لوگوں نے جو سلوک کیا وہ خدا تعالیٰ کو بہت ناپسند ہوٴا اور اس نے مجھے حکم دیا ہے کہ اگر آپ کہیں تو ان لوگوں کے ساتھ لوط کی بستی والا سلوک کیا جائے۔ یعنی اس بستی کو اُلٹا کر پھینک دیا جائے۔ مگر آپ جواب دیتے ہیں کہ اگر یہ شہر اس طرح تباہ ہو گیا تو مجھ پر ایمان کون لائے گا۔ 4 مَیں یہ نہیں چاہتا۔ میں تو ان لوگوں کی ہدایت چاہتا ہوں۔ مکہ والوں نے بھی آنحضرت ﷺ کے ساتھ بڑی سختیاں کی تھیں۔ مگر اس قسم کا وحشیانہ سلوک صرف طائف والوں کا ہی حصہ تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ طائف کو سب سے آخر میں ایمان نصیب ہوٴا۔ مکہ بھی آخر میں مسلمان ہوٴا اور طائف اس کے بھی بعد۔ مگر رسول کریم ﷺ نے ان کے لئے بھی بد دعا نہیں کی بلکہ جب خدا تعالیٰ کی طرف سے عذاب نازل ہونے لگا تو پھر بھی سفارش ہی کی اور یہی کہا کہ اے میرے خدا یہ لوگ جانتے نہیں کہ یہ کیا کرتے ہیں۔
ہم لوگوں کو سوچنا چاہئے کہ ہم میں رسول کریم ﷺ سے بڑھ کر تو غیرت نہیں ہو سکتی۔ دین کے لئے جو غیرت آپ کے دل میں ہو سکتی تھی وہ ہم میں سے کس کے دل میں ہو سکتی ہے۔ کئی نادان بعض کمزور حدیثوں کی بناء پر کہا کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کا مشورہ یہ تھا کہ بدر کے قیدیوں کو قتل کر دیا جائے مگر رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ نہیں۔ فدیہ لے کر ان کو چھوڑ دیا جائے۔ 5 اور وہ کہتے ہیں کہ نَعُوْذُ بِاللہِ اللہ تعالیٰ کو اس بات پر اتنا غصہ آیا کہ قریب تھا کہ مسلمانوں کو تہ و بالا کر دیا جائے مگر پھر اللہ تعالیٰ نے معاف کر دیا۔ حضرت عمرؓ کے لئے اَور بہت سی بڑائیاں ہیں۔ وہ مسلمانوں کے اندر ایک ایسے گوہر تھے کہ ان کی قدر نہ کرنا بہت بڑی ناشکری ہے مگر مَیں بچپن سے لے کر اب تک کبھی یہ بات نہیں سمجھ سکا کہ یہ لوگ کس طرح حضرت عمرؓ کو بڑھانے کے لئے رسول کریم ﷺ کے مقام کو گھٹانے کی جرأت کرتے ہیں۔ اگر آج حضرت عمرؓ زندہ ہوں اور یہ احادیث ان کے سامنے پیش کی جائیں۔ تو وہ کہیں کہ کاش! زمین پھٹ جائے اور مَیں یہ سننے کی بجائے اس میں سما جاوٴں یہ نادان دیکھتے نہیں کہ قرآن کریم نے صاف فرمایا ہے کہ فَاِمَّا مَنًّۢا بَعْدُ وَ اِمَّا فِدَآءً 6 یعنی اول تو احسان کر کے قیدی چھوڑ دئیے جائیں نہیں تو فدیہ لے کر چھوڑ دئیے جائیں۔ یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ جس بات پر خدا تعالیٰ کو پہلے اس قدر غصہ آیا کہ وہ مسلمانوں کو تباہ کرنے پر تیار ہو گیا۔ بعد میں وہی حکم خود دے دیا اس کے تو یہ معنے ہیں کہ گویا بعد میں خدا تعالیٰ پچھتایا اور کہا کہ پہلے میں غلطی پر تھا۔ دراصل بات وہی صحیح تھی جو محمد (ﷺ) نے کہی۔ یہ بات خدا تعالیٰ کی ہتک ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ بعض احکام بدل بھی جایا کرتے ہیں مگر وہ عارضی حالات کے ماتحت ہوتے ہیں اور اگر ان میں کسی سے غلطی ہو جائے تو اس پر خدا تعالیٰ کو اتنا غضب نہیں آتا کہ قوم کی قوم کو تباہ کرنے کے لئے تیار ہو جائے۔ ایسا غضب صرف ان باتوں پر آتا ہے جو ازلی طور پر گناہ ہوں۔ مصلحتی احکام کے سلسلہ میں اس کا غضب اس طرح نہیں بھڑکا کرتا اور یہاں تو یہ حالت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو حکم دیا وہ آنحضرت ﷺ سے بھی زیادہ نرم ہے۔ چنانچہ فرمایا کہ اول تو احسان کر کے یونہی چھوڑ دو اور اگراس طرح نہیں چھوڑ سکتے تو فدیہ لے لو۔ پھر عجیب بات یہ ہے کہ جس آیت کو اس بات کی تائید میں پیش کیا جاتا ہے کہ جنگ کے قیدیوں کو مار ڈالنا چاہئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک خونریزی نہ ہو نبی کے لئے جائز نہیں کہ قیدی بنائے اور بدر کی جنگ میں خونریزی تو ہو چکی تھی۔ اس لئے اعتراض کیسا؟ اللہ تعالیٰ یہی فرماتا ہے کہ پہلے خونریزی ہو تب قیدی بنانے جائز ہیں 7۔ اور اس پر آنحضرت ﷺ نے عمل کیا تھا۔ پھر آپ پر ناراضگی کے کیا معنے؟
بہرحال حق یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ سے زیادہ دین کے لئے کوئی غیرت مند نہیں ہو سکتا۔ حضرت عمرؓ ہوں یا اَور کوئی۔ اور آپ کا عمل ہر جگہ بخشش، مہربانی اور نرمی کا رہا ہے اور آپ کے صحابہ کے اعمال بھی بخشش، مہربانی اور رحم کے تھے۔ انہوں نے کبھی شدید سے شدید دشمنوں سے بھی انتقام لینے کا خیال نہیں کیا۔ اور اگر کبھی صحابہ کو ایسا خیال آیا تو رسول کریم ﷺ نے اس کی اصلاح فرما دی۔ احادیث میں آتا ہے کہ اگر کبھی صحابہ جوش میں آ کر کسی دشمن پر *** کرتے تو آنحضرت ﷺ ان کو منع فرما دیتے۔ 8
پس مومن کو ہمیشہ نرمی کا پہلو اختیار کرنا چاہئے۔ دشمن کی یہ شرارت ہوتی ہے کہ وہ انگیخت کرتا ہے۔ کبھی کوئی گالی دے دیتا ہے کبھی کوئی طنز کر دیتا ہے۔ کبھی اعتراض ایسے رنگ میں کرتا ہے کہ جس سے اشتعال پیدا ہو۔ مگر مومن کا یہ کام ہے کہ اسے غصہ آئے تو پی جائے اور ایسی مجلس میں کبھی نہ جائے جو شخص مخالفوں کی ایسی باتیں سنتا ہے اور پھر بھی ان سے ملتا، ان سے باتیں کرتا اور ان سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ مومن نہیں۔ وہ بے غیرت اور بے ایمان ہے۔ اور جو جوش میں آ کر قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتا ہے اسے بھی مومن نہیں کہا جا سکتا، وہ وحشی اور نافرمان ہے۔ مومن وہی ہے کہ جب کوئی ایسی بات سنتا ہے تو غیرت کی وجہ سے اسے جوش تو آتا ہے مگر وہ کہتا ہے کہ مَیں اپنے خدا کے حکم کے ماتحت اپنے جوش کو ٹھنڈا کرتا ہوں۔ جو شخص ایسی باتیں کرنے والوں سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ بے حیا اور بے غیرت ہے۔ مومن ہرگز نہیں اور جو ایسی بات سن کر جوش میں آتا اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتا ہے۔ وہ وحشی اور نافرمان ہے۔ مومن کا رستہ درمیانہ ہوتا ہے اور وہ جب ایسی بات سنتا اور غیرت کی وجہ سے اسے جوش آتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اسے دباتا اور ایسے لوگوں سے قطع تعلق کر لیتا ہے کئی لوگ ایسے بے غیرت اور بے حیا ہوتے ہیں کہ وہ ایسی باتیں سننے کے باوجود دشمنانِ سلسلہ سے تعلق رکھتے ہیں اور قرآن کریم کی بعض آیات بے موقع سنا سنا کر اپنے رحیم کریم ہونے کا استدلال کرتے ہیں اور اپنی اس بے غیرتی اور بے حیائی کو چھپانا چاہتے ہیں۔ مگر ایسے لوگ ہرگز مومن نہیں ہوتے بلکہ یہ بے شرمی اور بے غیرتی ہے۔ گو ایسے لوگ ایمان کے کتنے دعوے کریں مگر وہ ہرگز مومن نہیں ہوتے۔ اسی طرح جو لوگ جوش میں آ کر قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں وہ بھی مومن نہیں بلکہ وحشی اور نافرمان ہیں۔ کامل مومن وہی ہے جس کا دل ہر ایسی بات کو سن کر غیرت میں بھر جاتا ہے۔ مگر خدا تعالیٰ کے حکم کو سامنے رکھ کر وہ چپ ہو جاتا ہے۔ اور خدا تعالیٰ سے اپیل کرتا ہے کہ مجھے جوش تو بہت آتا ہے مگر چونکہ تیرا حکم ہے کہ اپنے جوش کو بند رکھو۔ اس لئے مَیں اسے بند رکھتا ہوں۔ تُو خود ان دشمنوں سے انتقام لے۔ ایسے ہی مومن کے لئے خدا تعالیٰ غیرت دکھاتا ہے اور کیا تم سمجھتے ہو کہ خدا تعالیٰ سے زیادہ غیرت کوئی انسان دکھا سکتا ہے۔ اگر خدا تعالیٰ غیرت نہیں دکھاتا تو اس کی دو وجوہ ہو سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہمارے اندر غیرت نہیں ہوتی۔ اس لئے خدا تعالیٰ بھی غیرت نہیں دکھاتا یا پھر ہمارے اندر جھوٹی غیرت ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے ہم قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ رسول کریم ﷺ کی مجلس میں ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت ابو بکرؓ کو بُرا بھلا کہنا شروع کیا۔ آپ خاموش رہے۔ وہ شخص دیر تک آپ کو بُرا کہتا رہا۔ آخر آپ نے جواب دیا۔ اس پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔اب تک تو فرشتے آپ کی طرف سے جواب دے رہے تھے لیکن اب جو آپ نے خود جواب دینا شروع کر دیا۔ تو میں نے دیکھا کہ فرشتے یہ کہتے ہوئے آسمان کو واپس جا رہے تھے کہ اب یہ خود جواب دینے لگ گیا ہے اب ہماری یہاں ضرورت نہیں۔ 9 تو اللہ تعالیٰ کی غیرت یا تو ایسے بے غیرتوں کے لئے نہیں بھڑکتی جو اصل میں شعائر اللہ اور دین کے ساتھ ہنسی کرنے والوں کے خلاف سچی غیرت نہیں رکھتے اور یا ان لوگوں کے لئے نہیں بھڑکتی جو ایسے جوشیلے ہوں کہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ سے بھی بڑا غیرت مند ظاہر کرنا چاہیں۔ کہتے ہیں ماں سے زیادہ چاہے کٹنی کہلائے۔ جو لوگ خدا تعالیٰ سے بھی زیادہ غیرت دکھانا چاہتے ہیں اور اس سے پہلے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں۔ ان کے لئے بھی خدا تعالیٰ غیرت نہیں دکھاتا۔ وہ کہتا ہے یہ اپنا کام خود کرتا ہے ہمیں اس کے لئے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔
خد اتعالیٰ اسی کے لئے غیرت دکھاتا ہے جس کے دل میں دین کے لئے سچی غیرت ہو۔ جو ہر بدگو، ہر طنز کرنے والے، ہر طعن کرنے والے اور سلسلہ کے خلاف ہر منصوبہ کرنے والے سے اجتناب کرتا ہے اور ایسے لوگوں سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ اگر کسی مجلس میں دین سے استہزاء ہو رہا ہو تو فوراً اٹھ کر چلا جاتا ہے۔ اس کے دل میں جوش آتا ہے مگر وہ خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اسے دبا لیتا ہے۔ اور کہتا ہے کہ چونکہ خدا تعالی نے جوش کی وجہ سے قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی اس لئے مَیں اپنے جوش کو دباوٴں گا۔ ایسے شخص کے لئے خدا تعالیٰ خود آسمان سے اترتا ہے اورکہتا ہے کہ میرے بندے کو تکلیف پہنچی مگر اس نے میرے لئے صبر کیا لیکن مَیں صبر نہیں کروں گا بلکہ بدلہ لوں گا اور اسے تکلیف پہنچانے والے کو مَیں خود سزا دوں گا اور خدا تعالیٰ سے بڑھ کر بدلہ لینے والا اور کون ہو سکتا ہے؟ جسے خدا تعالیٰ سزا دے اس کے لئے کوئی چارہ گر بھی نہیں ہو سکتا ۔ لوگ لاٹھی مار کر ایک دوسرے کا سر پھوڑ دیتے ہیں مگر ڈاکٹر اس کا علاج کر کے اچھا کر دیتے ہیں۔ پیٹ میں خنجر گھونپ دیتے ہیں مگر ڈاکٹر علاج کر کے بچا لیتے ہیں اور اگر وہ مر بھی جائے تو گورنمنٹ انتقام لیتی ہے اورمجرم کو سزا دیتی ہے بعض اوقات ایک شخص کے قتل پر دس بیس لوگوں کو پھانسی دے دیا جاتا ہے مگر دیکھو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے لئے غیرت دکھائی اور طاعون سے ایک کروڑ انسان ہلاک کر دئیے۔ کیا اتنی اموات کے نتیجہ میں گورنمنٹ کسی ایک شخص کو بھی پھانسی دے سکی۔ کتنا عظیم الشان فرق ہے خدا تعالیٰ اور بندے کی سزا میں۔ بندے کی سزا اس کے مقابلہ میں حقیقت ہی کیا رکھتی ہے۔ فرض کرو کسی مومن نے ایک کافر کو مار دیا اور اس وجہ سے ایک مومن کو بھی موت کی سزا ہو گئی۔ فائدہ کیا ہؤا۔ قرآن کریم نے ایک مومن کو دس کافروں کے برابر قرار دیا ہے۔10 اس لئے گویا ایک کافر کو مارنے سے دس مومن ضائع ہوئے۔ یہ دس گُنا نقصان ہے۔ مگر خدا تعالیٰ نے گزشتہ جنگ عظیم میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق ہوئی، کروڑوں جانیں تلف کر دیں۔ یہ جنگ بھی خدا تعالیٰ کا نشان تھا۔ پھر انفلوئنزا پھوٹا۔ یہ بھی خدا تعالیٰ کا نشان تھا۔ اس میں کروڑوں جانیں ضائع ہوئیں۔ کابل میں ہیضہ پھوٹا جس سے85 ہزار جانیں ضائع ہو گئیں اور اللہ تعالیٰ نے ایک سید عبد اللطیف صاحب شہید کے بدلہ میں وہاں 85ہزار آدمی مار دئیے۔ افغانستان کی کُل آبادی 70، 80 لاکھ ہے ان میں سے 85 ہزار کے مر جانے کے یہ معنی ہیں کہ گویا ہر سو میں سے ایک مر گیا اور اس قدر تباہی کے عوض کسی کو پھانسی پر لٹکانا تو درکنار کسی کے پاوٴں میں کانٹا بھی نہ چبھا۔ ہندوستان میں دس پندرہ سال کے اندر طاعون سے ایک کروڑ آدمی مرے۔ انفلوئنزا سے سال بھر میں دو کروڑ آدمی خدا تعالیٰ نے مار دیا۔ اور یہ سب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی پیشگوئیوں کے مطابق ہوٴا۔ پھر زلزلہ آیا اور ایک منٹ کے اندر اندر کانگڑہ اور اس کے نواحی علاقہ میں بیس ہزار آدمی مر گئے۔ 11 پھر اور بھی کئی زلازل آپ کی پیشگوئیوں کے مطابق آئے اور لاکھوں جانیں ضائع ہوئیں۔ لیکن ان سب کے بدلہ میں کسی ایک شخص کو بھی سزا نہ دی جا سکی۔ کیونکہ یہ انتقام لینے والا خدا تھا اس لئے کسی کو کوئی گرفت نہ کر سکا۔
پس مَیں جماعت کے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ یہ ایام بہت نازک ہیں۔ ہماری کامیابی اور ترقی کو دیکھ کر دشمن ذلیل باتوں پر اتر آیا ہے اور ہمیں اشتعال دلاتا ہے۔ قادیان میں بھی اور باہر بھی ایسی کوشش کی جا رہی ہے اس لئے دوست اپنے جذبات پر قابو رکھیں اورجن مجالس میں ایسی باتیں ہوں وہاں سے اٹھ کر چلے جائیں۔ بکثرت استغفار کریں اور ایسی مجالس سے جہاں اشتعال دلانے کی کوشش کی جائے دور رہیں۔ بجائے اس کے کہ قانون کو ہاتھ میں لے کر خدا تعالیٰ سے زیادہ باغیرت بننے کی کوشش کریں۔ جب خدا تعالیٰ کا حکم ہو کہ خاموش رہو تو بولنے کے یہ معنے ہیں کہ گویا یہ شخص بہت غیرت والا ہے اور خدا تعالیٰ غیرت والا نہیں۔ اور کیا کوئی عقلمند ایک منٹ کے لئے بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ نَعُوْذُ بِاللہِ خدا تعالیٰ بے غیرت ہے اور یہ باغیرت ہیں؟ پس اپنے نفسوں کو قابو میں رکھو اور دعائیں کرتے رہو کہ خدا تعالیٰ خود ان باتوں کا بدلہ لے۔ ہماری دعاوٴں میں بھی کبھی سزا کا پہلو مدنظر نہیں ہونا چاہئے۔ مجھے تو یاد نہیں کہ مَیں نے بچپن سے لے کر اب تک کبھی کسی شدید سے شدید دشمن کے لئے بھی بغیر شرط کے بد دعا کی ہو اور شرطی طور پر بھی بد دعا ساری عمر میں دو تین بار ہی کی ہو گی اور وہ بھی کسی خاص موقع پر جب سلسلہ کا بہت نقصان ہوتا نظر آرہا ہو۔ ایسے وقت میں بھی مَیں نے یہ نہیں کہا کہ اے خد ادشمن کو تباہ کر دے بلکہ یہی کہا کہ اگر اس کی اصلاح ممکن نہیں اور سلسلہ کو اس کی زندگی سے نقصان ہے تو اسے ہمارے رستہ سے ہٹا دے۔ ایسی بد دعا بھی دو تین مواقع کے سوا مَیں نے کبھی نہیں کی اور بد دعا تو کبھی بھی نہیں کی حتّٰی کہ مَیں نے تو مولوی ثناء اللہ صاحب کے لئے بھی کبھی بد دعا نہیں کی اور اگر کبھی ان کے متعلق جذبہ بھڑکا ہے تو یہی دعا کی ہے کہ الٰہی اگر یہ احمدی ہو جائے تو یہ تیرا بہت بڑا نشان ہو گا لیکن اگر ایسا مقدر نہیں تو پھر تو اس کے شر سے اپنے سلسلہ کو بچا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ایک دفعہ ایک شخص نے آپ کو لکھا کہ میری بہن پر جنّ آتے ہیں وہ یہ یہ طاقتیں رکھتے ہیں۔ ایسی کرامات دکھاتے ہیں۔ آپ نے جواب میں اسے لکھا جو گھر میں ہمیں بھی سنایا کہ ان جنّوں سے کہو کہ اس غریب عورت پر کیوں آتے ہیں۔ کیوں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کے سر پرچڑھ کر انہیں قادیان لا کر احمدی نہیں کرا دیتے۔ اس جواب سے ایک رنگ میں یہ بتانا مقصود تھا کہ یہ خیال محض ایک وہم ہے ورنہ جنّ وغیرہ کچھ نہیں مگر پھر بھی یہ نہیں کہا کہ وہ جن مولوی محمد حسین صاحب اور مولوی ثناء اللہ صاحب کو مار دیں بلکہ یہی فرمایا کہ ان سے کہو ان کو قادیان لے آئیں اور بیعت کرا دیں۔ اس عورت بیچاری کو کیوں ستاتے ہیں۔
پس مومن کے دل میں رحم کا پہلو غالب رہنا چاہئے۔ مگر ساتھ ہی غیرت کا بھی ضروری ہے۔ یہ مقام گو بہت نازک ہے مگر مومن کو یہی مقام پیدا کرنا چاہئے۔ بعض لوگ رحم پیدا کرتے ہیں تو بے غیرت بن جاتے ہیں اور کئی غیرت پیدا کرتے ہیں تو بے رحم بن جاتے ہیں۔ کامل مومن وہی ہو سکتا ہے جس نے ان دونوں کو ایک جگہ جمع کر لیا اور ایسے ہی شخص کی طرف سے خد اتعالیٰ خود اس کے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے کھڑا ہوتا ہے۔ ’’ (الفضل 19 جولائی 1941ء)
1 ابو داوٴد کتاب الادب باب مَا یُقَالُ عِنْدَ الْغَضَبِ
2 وَ قَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتٰبِ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰيٰتِ اللّٰهِ يُكْفَرُ بِهَا وَ يُسْتَهْزَاُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَهُمْ حَتّٰى يَخُوْضُوْا فِيْ حَدِيْثٍ غَيْرِهٖۤ١ۖٞ اِنَّكُمْ اِذًا مِّثْلُهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ جَامِعُ الْمُنٰفِقِيْنَ وَ الْكٰفِرِيْنَ فِيْ جَهَنَّمَ جَمِيْعَاۙ۰۰۱۴۰ (النساء:141)
3 بخاری کتاب المغازی باب غزوة خیبر
4 مسلم کتاب الجھاد باب مَا لَقِیَ النَّبِیُّ ﷺ مِنْ اَذَی الْمُشْرِکِیْنَ وَ الْمُنَافِقِیْنَ
5 زرقانی جلد 2 صفحہ 324 مطبوعہ بیروت 1994ء
6 محمد: 5
7 مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗۤ اَسْرٰى حَتّٰى يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ (الانفال:68 )
8 ترمذی ابواب البر و الصلة باب ما جاء فی اللعنة ، ابو داوٴد کتاب الادب باب فی اللعن
9 مسند احمد بن حنبل جلد 2 صفحہ 436 مطبوعہ بیروت 1978ء
10 يٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلَى الْقِتَالِ١ؕ اِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ يَغْلِبُوْا مِائَتَيْنِ (الانفال:66)
11 تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ 393









22
مولوی محمد علی صاحب کی تعلّی کا جواب
( فرمودہ 18 جولائی 1941ء )

تشہد، تعوّذ اور سورہٴ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘رات چونکہ مجھے انتڑیوں میں درد کی شکایت رہی ہے اس لئے آج مَیں زیادہ تو بیان نہیں کر سکتا لیکن مولوی محمد علی صاحب کا جو جواب میرے ایک خطبہ کا شائع ہوٴا ہے اس کے ایک حصہ کے متعلق مختصراً کچھ بیان کرتا ہوں۔ باقی کا جواب میرا خیال ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو ایک مضمون کے ذریعہ دوں۔
آج مَیں صرف اس امر کو لیتا ہوں کہ انہوں نے اپنے جواب میں لکھا ہے کہ:۔
‘‘ میاں صاحب نے جو دلائل حضرت مسیح موعود کی نبوت کے متعلق دئیے ہیں میں ان تمام کو قارئین پیغام کے سامنے لانے کو تیار ہوں بشرطیکہ جناب میاں صاحب میرے اس جواب کو جو اصل مضمون کے متعلق مَیں اب لکھتا ہوں۔ اپنے اخبار ‘‘الفضل’’ میں شائع کرا دیں۔۔۔ لیکن اس کے ساتھ میں یہ بھی کہہ دیتاہوں کہ جناب میاں صاحب اس تجویز کو کبھی منظور نہ کریں گے۔ اس کی وجہ؟ اپنے مخالف کے دلائل کو اپنی جماعت کے سامنے لانے سے وہی شخص ڈرتا ہے جسے یہ خوف ہو کہ اس کی جماعت مخالف کے دلائل سے متاثرہو کرپھسل جائے گی۔ سو یہی خوف جناب میاں صاحب کے دل میں ہے۔ مُنہ سے جناب میاں صاحب جس قدر بلند دعاوی چاہیں کریں مگر ان کا طرزِ عمل یہ بتا رہا ہے کہ ان کا دل ہمارے دلائل کی مضبوطی کے خوف سے کانپ رہا ہے۔ اور ان کے نزدیک اس کے سوائے اپنی جماعت کی حفاظت کا اور کوئی طریق نہیں کہ وہ ہمارے دلائل کو ان کے سامنے نہ آنے دیں۔’’1
پیشتر اس کے کہ میں ان کی اس تجویز کا جواب دوں۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مولوی محمد علی صاحب کو جو عادت صدر انجمن احمدیہ قادیان میں حکومت کرنے کی پڑ گئی تھی وہ اب تک قائم ہے۔ وہ صرف یہی سمجھتے ہیں کہ جو بات وہ کہہ دیں وہ ضرور پوری ہونی چاہئے اور اگر وہ پوری نہیں ہوتی تو دنیا میں جو دوسرے لوگ ہیں ان سب پر حجت تمام ہو گئی۔ دوسروں کی بات پر کان دھرنا یا اس کا جواب دینا ان کو بالکل بھول جاتا ہے۔ وہ آج یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ مَیں اگر ان کے اس جواب کو اپنے اخبار ‘‘الفضل’’ میں شائع کرا دوں تو وہ ان تمام دلائل کو جو مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کے متعلق دئیے ہیں۔ ‘‘لفظ بلفظ قارئین پیغام’’ کے سامنے لانے کو تیار ہیں اور اپنی طرف سے یہ تجویز پیش کرنے کے بعد وہ بڑے دھڑلے کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ ‘‘جناب میاں صاحب اس تجویز کو کبھی منظور نہ کریں گے’’۔ اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ مَیں نہیں چاہتا کہ جماعت ان کے دلائل اور خیالات سے آگاہ ہو۔ کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ ہماری جماعت ان کے دلائل سے متاثر ہو کر پھسل جائے گی لیکن اپنی طرف سے یہ تجویز پیش کرتے وقت وہ اس بات کو بھول گئے ہیں کہ آج سے ایک سال قبل یعنی 19 جولائی 1940ء کو مَیں نے ایک خطبہ پڑھا تھا جو 24 جولائی 1940ء کے ”الفضل“ میں شائع ہو چکا ہے۔ اس میں مَیں نے یہ کہا تھا کہ:۔
‘‘ صحیح عقائد وہی ہو سکتے ہیں جن کا ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے زمانہ میں علی الاعلان اظہار کیا کرتے تھے اس زمانہ میں وہ جن عقائد کا اظہار کیا کرتے تھے مَیں ان کی تحریروں سے نکال کر ان کے سامنے رکھ دیتا ہوں اور وہ ان کے نیچے لکھ دیں کہ آج بھی میرا یہی عقیدہ ہے اور وہ میری اس زمانہ کی تحریروں سے میرے عقائد نکال دیں اور مَیں لکھ دوں گا کہ آج بھی میرے عقائد یہی ہیں۔ ہم دونوں مُنہ سے یہی کہتے ہیں کہ ہمارے عقائد آج بھی وہی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں تھے۔ پس اس طرح اس زمانہ کی تحریرات سے ہم ایک دوسرے کے عقائد نکال کر پیش کر دیں اور دونوں اپنے اپنے عقائد کے نیچے لکھ دیں کہ آج بھی ہمارے عقائد یہی ہیں اور پھر دونوں کے عقائد کتاب کی صورت میں شائع کر دئیے جائیں اور ساتھ ہی دونوں کی یہ تحریریں بھی چھپ جائیں کہ ہمارے عقائد آج بھی یہی ہیں ۔۔۔ چونکہ ممکن ہے کہ کسی کی تحریر کا کوئی اقتباس ناقص ہو اس لئے ہر فریق کو حق ہو گا کہ وہ مطالبہ کرے کہ میری تحریر کا اقتباس ناقص ہے۔ فلاں حصہ اس کے ساتھ شامل کیا جائے یا فلاں دوسری جگہ پر میرے اس کلام کی شرح موجود ہے اسے شامل کیا جائے۔ اس کا یہ مطالبہ پورا کیا جائے گا (ان تشریحی عبارتوں کے لئے بھی یہ شرط ہو گی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کی شائع شدہ ہوں۔ اس طرح کسی پر ظلم نہ ہو گا۔ ان کو حق ہو گا کہ ان کی کسی تحریر کا حل اگر کسی دوسری جگہ موجود ہو تو اس کے ساتھ شامل کرنے کا وہ مطالبہ کریں اور اسی طرح میری کسی تحریر کا حل اگر دوسری جگہ ہو تو میرا حق ہو گا کہ اس کے ساتھ شامل کرنے کا مَیں مطالبہ کروں اور یہ حل بھی ساتھ شامل کر لئے جائیں)۔’’
جہاں انہوں نے آج یہ تجویز پیش کی ہے وہاں میری یہ تجویزایک سال پہلے کی تھی۔ مگر مولوی صاحب نے اس کو اب تک منظور نہیں کیا اور اپنی طرف سے ایک نئی تجویز پیش کر دی ہے۔ اگر وہ میری تجویز کو منظور کر لیتے تو چونکہ یہ دونوں کی تحریرات کے مجموعہ کی اشاعت کا خرچ دونوں کو آدھا آدھا دینا تھا اس لئے فائدہ انہی کو رہتا۔ ان کی ایسی تحریرات میری نسبت بہت زیادہ ہوتیں۔ مَیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں صرف سال ڈیڑھ سال تک ایک سہ ماہی رسالہ کا ایڈیٹر رہا ہوں۔ اور وہ سالہا سال تک ایک ماہوار رسالہ کے ایڈیٹر رہے ہیں اور اس لئے میری ایک صفحہ کی تحریرات کے مقابلہ میں ان کی تحریرات بیسیوں صفحات کی ہوں گی جنہیں گویا ہم اپنے خرچ پر شائع کرتے۔ کیونکہ میری ایک صفحہ کی تحریرات کے ساتھ ان کی بیس صفحات کی تحریرات شائع ہو جاتیں مگر انہوں نے اس تجویز کو نہ مانا۔ آج وہ کہتے ہیں کہ مَیں ان کا مضمون ‘‘الفضل’’ میں شائع نہیں کراوٴں گا۔ کیونکہ مَیں ڈرتا ہوں کہ جماعت کے لوگ ان کی تحریرات سے متاثر نہ ہو جائیں۔ حالانکہ اس میں ڈرنے کی کوئی بات ہی نہیں ۔ اگر مَیں ڈرتا ہوتا تو خود اپنی طرف سے ان کی تحریرات کو شائع کرنے کی تجویز کیوں پیش کرتا اور اگر وہ ایسے ہی نڈر ہیں تو انہوں نے میری تجویز کو منظور کیوں نہ کیا۔ اس میں ان کو صرف اتنی تکلیف کرنی پڑتی کہ میرے اُس زمانہ کے عقائد نکال دیتے اور مَیں ان کے عقائد کے متعلق اس زمانہ کے حوالے نکال دیتا۔ ان کی تحریرات چونکہ زیادہ تھیں اس لئے مجھے ان سے زیادہ تکلیف کرنی پڑتی۔ بلکہ ہم دونوں کو اتنی بھی تکلیف کی ضرورت نہ تھی۔ وہ میرے حوالے نکالنے کے لئے اپنے کسی مبلّغ کو مقرر کر دیتے اور اسی طرح ان کے حوالے نکالنے کے لئے مَیں بھی اپنا کوئی مبلّغ مقرر کر دیتا اور اس کے بعد ان کو صرف اتنا کرنا تھا کہ وہ ان تحریرات کے نیچے لکھ دیتے کہ آج بھی میرے عقائد یہی ہیں اور مَیں بھی ان کے تلاش کردہ حوالوں کے نیچے لکھ دیتا کہ آج بھی میرے یہی عقائدہیں۔ پھر یہ تحریریں شائع کرنے پر جو خرچ آتا تھا وہ دونوں کو نصف نصف ادا کرنا تھا اور اس میں بھی ان کا ہی فائدہ تھا۔ جیسا کہ مَیں کہہ چکا ہوں ان کی تحریرات میری نسبت بہت زیادہ ہیں فرض کرو کل 25 صفحات ہوں تو میری تحریرات تو صرف ایک دو صفحات کی ہوں گی اور باقی سب ان کی۔ گویا میری تحریرات کی نسبت ان کی دس گنا زیادہ ہیں اور حوالوں کی نسبت سے اگر خرچ تقسیم کیا جائے تو ان کی تحریرات پر ہمارا خرچ بہت زیادہ ہوتا۔ کل خرچ اگر ایک ہزار روپیہ فرض کر لیا جائے تو پانچ پانچ سو دونوں کے حصہ میں آتا۔ لیکن 25 صفحات میں سے میری تحریرات صرف دو صفحہ کی اور ان کی 23 صفحات کی ہوتیں۔ اور اس طرح انہیں تو اپنی 23 صفحات کی تحریروں کی اشاعت کے لئے پانچ سو روپیہ دینا پڑتا اور ہمیں دو صفحات کی تحریرات کے لئے۔ گویا ہمارے پانچ سو روپیہ میں سے زیادہ سے زیادہ پچاس روپے تو میری تحریرات کی اشاعت پر خرچ آتے اور باقی ساڑھے چار سو ان کی تحریروں کی اشاعت پر۔ اور ان کا روپیہ کا بہت زیادہ حصہ ان کی اپنی تحریروں کی اشاعت پر خرچ ہوتا۔ غرض مَیں جو پانچ سو روپیہ دیتا اس میں سے بھی ساڑھے چار سو ان کی تحریروں کی اشاعت کا خرچ ہوتا اور ان کا اپنا روپیہ بھی انہی کی تحریروں پر خرچ ہوتا۔ اس سے زیادہ انصاف کی بات کیا ہو سکتی تھی کہ ہم ان کی تحریروں کی اشاعت کے لئے روپیہ اپنے پاس سے دیں اور اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ وہ جو پانچ سو روپیہ دیتے اس میں سے بھی پچاس روپے میری تحریروں کی اشاعت پر خرچ ہوتے تو بھی یہ ماننا پڑے گا کہ ان کا اپنا بھی ساڑھے چار سو روپیہ ان کی تحریروں کی اشاعت کا خرچ ہوتا اور مَیں جو پانچ سو روپیہ دیتا اس میں سے بھی ساڑھے چار سو انہی کی تحریرات کی اشاعت میں خرچ ہوتا اور اس طرح یہ تجویز سراسر ان کے فائدہ کی تھی۔
پھر اس لحاظ سے بھی یہ تجویز ان کے لئے مفید تھی کہ ان کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ مبارک کی تحریریں شائع ہو جاتیں۔ وہ تحریریں جنہیں خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام پڑھتے تھے یہ ایسے مبارک ایام کی تحریریں ہیں جنہیں وہ خود بھی مبارک مانتے ہیں اور ان کا خیال یہی ہے کہ وہ زمانہ بہت اچھا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود ان تحریروں کو پڑھتے اور ان کی نگرانی کرتے تھے۔ حضرت خلیفة المسیح الاول گو اس زمانہ میں خلیفہ نہ تھے مگر ان تحریروں کو آپ بھی پڑھتے تھے او رنگرانی کرتے تھے۔ مولوی عبد الکریم صاحب بھی زندہ تھے۔ آپ کی وفات 1905ء میں ہوئی ہے۔ اور رسالہ ریویو 1902ء میں جاری ہوٴا ہے اس لئے ایک عرصہ تک آپ کی نظر سے بھی وہ تحریریں گزرتی رہیں۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور وہ بزرگ جن کی تعریف حضور علیہ السلام نے کی ہے سب اس زمانہ میں زندہ تھے۔ ان کی نگرانی میں وہ ایام گزرے ہیں۔ اس زمانہ میں مولوی محمد علی صاحب جو کچھ لکھتے رہے ہیں ان کے متعلق ہمارا بھی یہی عقیدہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے منشاء کے مطابق تھا۔ خود خدا تعالیٰ نے اس کے متعلق گواہی دی ہے۔ چنانچہ مولوی محمد علی صاحب کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ہے کہ ‘‘آپ بھی صالح تھے اور نیک ارادہ رکھتے تھے آوٴ ہمارے ساتھ بیٹھ جاوٴ’’۔2 اور اس الہام کے خواہ کچھ بھی معنی کئے جائیں۔ بہرحال اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ وہ زمانہ مولوی محمد علی صاحب کے لئے بھی اچھا او رمبارک زمانہ تھا اور بعد کا دونوں فریق میں مختلف فیہ ہے اور پھر میرا بھی وہ زمانہ اچھا تھا اور خود مولوی محمد علی صاحب کی شہادت اس کے متعلق موجود ہے۔ چنانچہ میرے ایک مضمون پر انہوں نے لکھا تھا کہ :۔
‘‘اس رسالہ کے ایڈیٹر مرزا بشیر الدین محمود احمد حضرت اقدس کے صاحبزادے ہیں اور پہلے نمبر میں چودہ صفحوں کا ایک انٹروڈکشن ان کی قلم سے لکھا ہوٴا ہے۔ جماعت تو اس مضمون کو پڑھے گی مگر مَیں اس مضمون کو مخالفین سلسلہ کے سامنے بطورایک بیّن دلیل کے پیش کرتاہوں جو اس سلسلہ کی صداقت پر گواہ ہے۔ وہ سیاہ دل لوگ جو حضرت مرزا صاحب کو مفتری کہتے ہیں اس بات کا جواب دیں کہ اگر یہ افتراء ہے تو یہ سچا جوش اس بچہ کے دل میں کہاں سے آیا۔ غور کرو جس کی تعلیم و تربیت کا یہ پھل ہے وہ کاذب ہو سکتا ہے۔ اگر وہ کاذب ہے تو پھر صادق کا دنیا میں کیا نشان ہے۔’’ 3
گویا وہ میرے اس زمانہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا معیار قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میرا ایسے پاکیزہ مطالب بیان کرنا ثبوت ہے اس بات کا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سچے ہیں اوراس کے یہ معنی ہیں کہ وہ مانتے ہیں کہ میرا وہ زمانہ اچھا تھا اور خیالات پاکیزہ تھے۔ پس ایسے مبارک زمانہ کی تحریروں کا شائع ہوناایسا عمدہ کام تھا کہ جو کئی لوگوں کی ہدایت کاموجب بن جاتا مگر افسوس کہ مولوی صاحب نے میری تجویز کو نہ مانا اور اسے رد کر دیا۔ لیکن دوسری طرف وہ اپنی ایک تجویز پیش کر کے بڑی تعلّی سے کہتے ہیں کہ مَیں اسے کبھی نہیں مانوں گا کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ ان کے خیالات ہماری جماعت کے دوستوں تک پہنچیں۔ حالانکہ جیسا کہ مَیں بتاچکا ہوں مَیں نے خود یہ تجویز پیش کی تھی اور ان کے خیالات کی اشاعت پر قریباً پانچ سو روپیہ اپنے پاس سے خرچ کرنے کو تیار تھا۔ اور ظاہر ہے کہ یہ روپیہ خرچ کر کے جو کتاب چھپتی اسے ہم کہاں لے جاتے۔ آخر جماعت کے دوستوں کے پاس ہی وہ فروخت ہوتی یا بانٹ دی جاتی بلکہ ہم تو پہلے بھی اپنے پاس سے روپیہ خرچ کرکے ان کے خیالات کی اشاعت کرتے رہے ہیں۔
مولوی محمد اسماعیل صاحب مرحوم نے جو رسالہ تبدیلیٴ عقیدہ مولوی محمد علی صاحب شائع کیا ہے اس میں ساری کی ساری عبارتیں انہی کی ہیں۔ تو ان کے خیالات پھیلنے میں مَیں کبھی روک نہیں ہوٴا بلکہ مَیں نے ہمیشہ ان کے خیالات جماعت تک پہنچائے ہیں مگر وہ کہتے ہیں کہ ان کے مضمون کو ”الفضل“ میں شائع کرا دینے کی تجویز کومَیں نہیں مانوں گا کیونکہ مَیں نہیں چاہتا کہ ان کے خیالات جماعت تک پہنچیں۔
ان کے اس خیال کے غلط ہونے کی ایک دوسری مثال قریب کے زمانہ کی ہے۔ مولوی ابو العطاء صاحب نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ:۔
‘‘سورہ کہف کی تفسیر جناب مولوی محمد علی صاحب نے بیان القرآن میں اور حضرت (خلیفة المسیح) نے تفسیر کبیر میں شائع فرمائی ہے۔ اگر غیر مبائعین تیار ہوں تو دونوں تفسیروں کو مشترکہ خرچ پر اکٹھا شائع کر دیا جائے تا پڑھنے والے اندازہ لگا سکیں کہ کسے تائید الٰہی حاصل ہے اور کون اس سے محروم ہے’’۔4
اس سے بھی ان کے خیالات کی اشاعت ہوتی مگر انہوں نے اسے بھی نہ مانا۔ گو یہ میری تجویز نہ تھی مگر ایک احمدی کی تھی جسے باوجود علم ہو جانے کے مَیں نے رد نہیں کیا۔ اور اسے رد نہ کرنے کے معنے یہ ہیں کہ مَیں نے اسے برا نہیں سمجھا۔ میرے نزدیک یہ پسندیدہ نہ سہی مگر میرے سامنے آئی اور میں نے اسے رد نہ کیا جس کے معنے یہ ہیں کہ مَیں نے اسے ایسا برا نہیں سمجھا مگر اسے بھی مولوی صاحب نے نہ مانا اور اس کا جواب یہ دیا کہ :۔
‘‘مامور اگر کسی کو مقابلہ کے لئے بلاتا ہے تو وہ خدا کے حکم سے ایسا کرتا ہے لیکن ایک غیر مامور کا وہی طریق اختیار کرنا دین کو بچوں کا کھیل بنانا ہے’’۔5
حالانکہ اگر اس تجویز کومان لیا جاتا اور دونوں تفسیروں کو اکٹھا شائع کیا جاتا تو اشاعت پر آدھا خرچ ہمارا بھی ہوتا اور اس طرح اپنے پاس سے روپیہ خرچ کر کے ہم ان کے خیالات کی اشاعت کرنے والے بنتے۔ تو ہماری طرف سے دو تجاویز پیش کی گئیں جن میں ان کے خیالات کی اشاعت کا موقع تھا اور ہم اس کے لئے نصف خرچ بھی دینے کو تیار تھے۔ پہلی تجویز کو مان لینے کی صورت میں نبوت کے متعلق ان کے خیالات پھیلتے اور دوسری کو ماننے کی صورت میں قرآن کریم کے جو علوم انہوں نے بیان کئے ہیں ان کی اشاعت ہوتی۔ مگر مولوی صاحب نے دونوں کو ردّ کر دیا اور اپنی طرف سے ایک تجویز پیش کر کے اس پر اتنا زور دیا کہ لکھ دیا مَیں اسے نہیں مانوں گا کیونکہ مَیں نہیں چاہتا کہ ان کے خیالات کی اشاعت ہماری جماعت میں ہو۔ حالانکہ مَیں نے کبھی مخالف کے خیالات کی اشاعت میں روک پیدا نہیں کی۔ جو لوگ میرے خطبات سنتے ہیں وہ اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہیں اور دوسرے لوگ بھی جو میرے خطبات کو پڑھتے ہیں یہ جانتے ہیں کہ میں نے کبھی مخالف کے خیالات کی جماعت میں اشاعت میں روک پیدا نہیں کی۔
ابھی ڈیڑھ دو سال کی ہی بات ہے کہ جماعت کے بعض دوستوں نے مجھ سے کہا کہ بعض احمدی مصری صاحب کی کتابیں پڑھتے ہیں۔ ان کو روکا جائے مگر مَیں نے جواب دیا کہ روکنے کی کوئی بات نہیں۔ جو پڑھنا چاہے بے شک پڑھے بلکہ اگر انہیں نہ پڑھا جائے تو ہمارے عقائد کی فضیلت ان پر کس طرح ظاہر ہو۔ یہ بات مَیں نے اسی مسجد میں اور اسی منبر پر کہی تھی۔ مَیں نے تو ان لوگوں کو ملامت کی جو چاہتے تھے کہ مصری صاحب کی کتابیں پڑھنے سے جماعت کے دوستوں کو روک دیا جائے مگر ان سب باتوں کی موجودگی میں مولوی محمد علی صاحب کا یہ کہنا کہ مَیں ان کے خیالات کی اشاعت جماعت میں نہیں چاہتا بالکل خلاف واقعہ بات ہے۔ مَیں نے اپنی خلافت کے زمانہ سے لے کر آج تک کبھی بھی جماعت کو مخالفوں کے خیالات پڑھنے سے نہیں روکا۔ ہاں فتنہ کی مجالس میں جانے سے ضرور روکا ہے اور اس سے قرآن کریم نے بھی روکا ہے اور کہا ہے کہ جہاں فتنہ کا احتمال ہو اور دین سے استہزاء ہو رہا ہو وہاں نہ جاوٴ۔6 پس جس بات سے قرآن کریم نے روکا ہے اس سے مَیں بھی روکتا ہوں اور جس سے قرآن کریم نے نہیں روکا اس سے میں نے کبھی نہیں روکا اور اگر مخالف کے خیالات معلوم نہ ہوں تو تبلیغ کیسے کی جا سکتی ہے۔ گزشتہ پچیس سال کے عرصہ میں ‘‘الفضل’’ اور ‘‘فاروق’’ میں سینکڑوں دوستوں نے غیر مبائعین کے متعلق مضامین لکھے ہیں۔ میرا خیال ہے ایسے لوگوں کی تعداد تین چار سَو ہو گی۔ اگر وہ ان کے خیالات نہیں پڑھتے تو کیا مولوی محمد علی صاحب یا ان کے رفقاء کے خیالات کی تردید بغیر پڑھنے کے ہی کرتے ہیں اور اپنے پاس سے حوالے بنا کر ان کے متعلق مضامین لکھ دیتے ہیں؟
پس اس بات کے ہوتے ہوئے یہ کہنا کہ ہم ان کے خیالات پڑھنے سے جماعت کو روکتے ہیں کس طرح صحیح ہو سکتا ہے؟ یہ مضمون لکھنے والے متفرق مقامات کے رہنے والے ہیں۔ لاہور اور ملک کے دوسرے شہروں کے ہیں۔ صرف قادیان کے ہی نہیں کہ کہا جا سکے علماء کو خاص طور پر پڑھائے جاتے ہیں۔ یہ لوگ مختلف جگہوں کے رہنے والے ہیں۔ اس لئے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ سب علماء کے طبقہ سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ ابھی ایک بچہ ان کے رد میں مضامین لکھ رہا ہے جس کا نام خورشید احمد٭ ہے اور اس وقت لاہور میں رہتا ہے۔ اس کے مضمون ایسے اعلیٰ درجہ کے ہوتے ہیں کہ پہلے میں سمجھتا تھا کہ یہ کوئی بڑی عمر کا آدمی ہے مگر بعد میں معلوم ہوٴا ہے کہ خان صاحب مولوی فرزند علی خان صاحب کا نواسہ ہے۔ اور 17،18 سال عمر ہے۔ وہ ان لوگوں کی کتابیں اور اخبار پڑھتا ہی ہے تو ان کا ردّ لکھتا ہے ورنہ کیسے لکھ سکتا؟ اور ہم نے اسے ان کے پڑھنے سے کبھی نہیں روکا اور کبھی نہیں کہا کہ تم ابھی بچے ہو ان کی کتابیں نہ پڑھا کرو ایسا نہ ہو ابتلاء آ جائے۔ اور نہ ہی کسی اور کو روکتے ہیں۔ مولوی صاحب کو یونہی یہ وہم ہے۔
مولوی محمد علی صاحب کی عادت ہے کہ خود تو کسی کی بات کو نہیں مانتے اور جو بات وہ خود پیش کریں اسے اگر کوئی نہ مانے تو اسے مجرم قرار دیتے ہیں۔
پس ان کی تجویز کے جواب میں سب سے پہلی بات تو مَیں یہ کہتا ہوں کہ پہلے وہ ان دونوں تجاویز کو تو مانیں جو ہماری طرف سے پہلے پیش ہو چکی ہیں۔ ان کی تجویز کا منشاء یہی ہے اور یہی سوال انہوں نے اٹھایا ہے کہ ان کے اور ہمارے عقائد اور دلائل اکٹھے لوگوں تک پہنچیں اور سب سے پہلے مَیں نے جو تجویز پیش کی تھی اس میں بھی یہی سوال تھا کہ ان کے مضامین ان کے الفاظ میں اور میرے مضامین میرے الفاظ میں لوگوں تک پہنچیں اور جب دونوں تجاویز کا مقصد وہی ہے تو اس کا کیا مطلب کہ وہ تو ہماری تجویز کو ردّ کر دیں اور ہم ان کی مانیں۔ اس بات کا مطلب سوائے اس کے کیا ہو سکتا ہے کہ ان کا خیال ہے کہ جو کچھ وہ کہیں وہی
٭ شیخ خورشید احمد صاحب نائب ایڈیٹر الفضل مراد ہیں۔
مانا جائے۔ پہلی دو تجویزیں ہماری طرف سے ہیں اور تیسری ان کی طرف سے ہے اور مَیں ان کو یقین دلاتا ہوں کہ جس دن وہ میری پہلی تجویز کو مان لیں گے یعنی یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے زمانہ میں ان کے عقائد کے متعلق ان کی تحریرات ہم جمع کر کے دے دیں۔ تو وہ نیچے لکھ دیں کہ آج بھی میرے عقائد یہی ہیں۔ ان کو اجازت ہو گی کہ اگر اُسی زمانہ کی تحریروں میں سے کوئی تشریح بھی ساتھ پیش کرنا چاہیں تو نیچے نوٹ دے دیں کہ مَیں نے عبارت کی تشریح فلاں جگہ کر دی ہے۔ اسی طرح اُس زمانہ میں میرے عقائد کے متعلق وہ میری تحریرات جمع کر دیں اور مَیں ان کے نیچے لکھ دوں گا کہ آج بھی میرے عقائد یہی ہیں اور مجھے بھی اجازت ہو گی کہ اگر میں اُس زمانہ کی شائع شدہ کوئی تشریحی عبارت ساتھ پیش کرنا چاہوں تو اس کے متعلق نوٹ دے دوں۔ اورپھر یہ دونوں تحریریں نصف نصف خرچ ادا کر کے اکٹھی شائع کر دی جائیں اس سے دنیا کو معلوم ہو جائے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے زمانہ میں ہمارے خیالات کیا تھے اور ان کے کیا ۔ اور کہ کس نے اپنے خیالات اور عقائد میں اب تبدیلی کر لی ہے۔ وہ اگر میری اس تجویز کو مان لیں تو مجھے بھی ان کی تجویز کو ماننے میں عذر نہ ہو گا۔ لیکن اگروہ میری تجویز کو نہیں مانتے تو ان کو کیا حق ہے کہ مجھ پر یہ الزام لگائیں کہ مَیں نہیں چاہتا ان کے خیالات جماعت کے دوستوں تک پہنچیں۔ کیا عجیب بات ہے کہ مَیں تو اگرپہلے ایک تجویز پیش کروں اور وہ اسے نہ مانیں تو اس میں کوئی الزام کی بات نہیں لیکن اگر وہ کوئی تجویز پیش کریں اور مَیں اسے نہ مانوں تو وہ کہیں کہ مَیں ان کے خیالات کی اشاعت کو روکنا چاہتا ہوں اور لوگوں کو گمراہ کرنا چاہتا ہوں۔ مگر ان سب باتوں کے باوجود مَیں ان کی پیش کردہ تجویز کو بھی ماننے کے لئے تیار ہوں لیکن عام قاعدہ یہ ہے کہ جو پہلی تقریرکرے اسے آخری تقریر کا موقع دیا جاتا ہے یعنی اسے جواب الجواب کا حق ہوتا ہے کیونکہ جو پہلے تقریر کرتا ہے وہ تو عام دلائل دے دیتا ہے مگر اس کا جواب دینے والا کئی نئی باتیں بیان کر دیتاہے اور ان کا جواب ضروری ہوتاہے۔ اس لئے قاعدہ یہ ہے کہ جو پہلی تقریر کرے اسے آخری تقریر کا بھی حق ہوتا ہے۔ پس مَیں ان کے مضمون کو ‘‘الفضل’’ میں شائع کرانے کو تیار ہوں بشرطیکہ وہ میرا جواب الجواب بھی ‘‘پیغامِ صلح’’ میں شائع کرائیں۔ یا اگر وہ پسند کریں تو یہ سب یعنی میرا خطبہ، ان کا جواب اور میرا جوابُ الْجواب کتابی صورت میں شائع کر دیا جائے۔ جس پر خرچ دونوں کا آدھا آدھا ہو اور کتابیں بھی آدھی آدھی لے لیں۔ اس سے بھی بڑھ کر مَیں ان کے لئے ایک اور آسانی کر دیتا ہوں۔ پہلے تو مَیں نے کہا تھا کہ وہ اگر میری اس تجویز کو مانیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے زمانہ کی دونوں کی تحریریں اکٹھی شائع کر دی جائیں تو مَیں ان کی اس تجویز کو مان لوں گا مگر ان پر اتمامِ حجت کے لئے مَیں یہ بھی مان لیتا ہوں کہ چلو مَیں اس کو بھی چھوڑ دیتاہوں بشرطیکہ وہ میری اس تجویز کو مان لیں یعنی میرا جوابُ الْجواب بھی ساتھ شائع ہو تو گو ہمارا ان سے یہ مطالبہ تو رہے گا کہ ان کو کیا حق ہے کہ ہم جو کہیں اسے تو وہ نہ مانیں اور خود جو بات کہیں اس کا ماننا ہمارے لئے ضروری ہو۔ مگر ان کی اس تجویز کو ماننے کے لئے مَیں پہلے اپنی پہلی تجویز منوانے پر اصرار نہ کروں گا بلکہ ایک اور بھی آسانی ان کے لئے پیدا کر دیتاہوں اور وہ یہ کہ اگر وہ میرا جوابُ الْجواب شائع کرنے پر تیار ہوں تو خرچ کے دو حصے ہم دے دیں گے اور صرف ایک حصہ وہ دیں اور دو حصے کتب ہم لے لیں اور ایک حصہ وہ۔ اور میری طرف سے اتنی رعایتوں کے باوجود اگر وہ میری بات کو ماننے کے لئے تیار نہ ہوں تو ہم سوائے اس کے کیا کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں سچ کو سچ سمجھنے کی توفیق دے۔ اوران کاوہ غصہ دور ہو جو ان کے لئے صداقت کے سمجھنے میں روک ہو رہا ہے۔ مَیں امید کرتا ہوں کہ مولوی صاحب تحمل کے ساتھ غور کریں گے اور ان تجاویز پر عمل کر کے لوگوں کے لئے صداقت کے معلوم کرنے میں آسانی پیدا کریں گے۔
مَیں اپنی تجاویز کا خلاصہ پھر ایک دفعہ پیش کر دیتا ہوں۔ پہلی تجویز تو وہی ہے جو مَیں 18 جولائی 1940ء کے خطبہ جمعہ میں پیش کر چکا ہوں۔ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے زمانہ کی تحریرات سے مَیں ان کے عقائد نکال دوں اور اسی زمانہ کی میری تحریرات سے وہ میرے عقائد نکال دیں اور ان کو اکٹھا شائع کر دیا جائے۔ اگر وہ اسے منظور کر لیں تو ان کو حق ہو گا کہ اپنی پیش کردہ تجویز کے ماننے کا مجھ سے مطالبہ کریں۔ اورمَیں اسے مان لوں گا۔ دوسری بات مَیں نے یہ کہی ہے کہ اگر وہ میری اس تجویز کو نہ بھی مانیں تب بھی مَیں ان کی تجویز کو مان لیتا ہوں مگر ضروری شرط یہ ہو گی کہ وہ میرا جوابُ الْجواب بھی ساتھ شائع کرنا منظور کر لیں۔ اگر بصورت کتاب شائع کرنا ان کو پسند ہو تو خرچ کے دو حصے ہم دیں گے اور ایک وہ دے دیں اسی طرح دو حصے کتابیں ہم لے لیں گے اور ایک حصہ وہ لیں گے۔ ان کتابوں کو خواہ فروخت کر دیا جائے یا بانٹ دیاجائے جس طرح کسی کی مرضی ہو کرے۔ ان کے مضمون کے باقی حصہ کا جواب مَیں اِنْشَاءَ اللہُ پھر دوں گالیکن جیسا کہ مَیں بتا چکا ہوں ۔ ان کو یہ غلط فہمی ہے کہ مَیں ان کے خیالات اپنی جماعت تک پہنچنے میں روک بنتا ہوں۔ شاید وہ میرے خطبات پڑھتے ہی نہیں یا اگر پڑھتے ہیں تو بھول جاتے ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ مَیں نے اس سے کسی کو کبھی نہیں روکا۔ جماعت کے سینکڑوں لوگ ان کی کتابوں کو پڑھتے ہیں۔ خود میری لائبریری میں یہ کتابیں ہیں اور لوگ پڑھنے کے لئے لے جاتے ہیں اور مَیں نے کبھی کسی کو منع نہیں کیا کہ یہ کتابیں نہ پڑھو۔ ہماری دوسری لائبریریوں میں بھی ان کی کتابیں ہیں اور انہیں بھی لوگ پڑھتے ہیں۔ لیکن اگر ان کا یہ وہم کسی طرح بھی دور نہیں ہوتا تو مَیں اس کے لئے بھی تیار ہوں کہ وہ قادیان میں آ جائیں۔ مَیں یہاں ان کے تین لیکچر اپنی جماعت میں کرا دوں گا اور ان لیکچروں میں وہ دل کھول کر اپنے عقائد اور دلائل بیان کر لیں اور اس بات کی تسلی کر لیں کہ ان کے خیالات اچھی طرح ہماری جماعت تک پہنچ گئے ہیں اور اگر وہ کسی طرح بھی ماننے کو تیار نہ ہوں اور اپنی ہی بات دُہراتے چلے جائیں تو اس کا علاج میرے پاس کوئی نہیں۔ اس کا علاج خدا تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔’’ (الفضل 26 جولائی 1941ء)
1 پیغام صلح 12 جولائی 1941ء
2 تذکرہ صفحہ 518۔ ایڈیشن چہارم
3 ریویو اردو بابت مارچ 1906ء
4 الفضل 18 جون 1941ء
5 پیغامِ صلح 30 جون 1941ء
6 وَ اِذَا رَاَيْتَ الَّذِيْنَ يَخُوْضُوْنَ فِيْۤ اٰيٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتّٰى يَخُوْضُوْا فِيْ حَدِيْثٍ غَيْرِهٖ١ؕ وَ اِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ۰۰ (الانعام: 69)

23
احمدی طالب علموں سے خطاب
( فرمودہ 25 جولائی 1941ء )

تشہد، تعوّذ اور سورہٴ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘ایک ہفتہ تک قادیان کے سکولوں اور کالجوں میں چھٹیاں ہونے والی ہیں۔ کل اسی تقریب پر مَیں تحریک جدید کے بورڈنگ ہاوٴس میں گیا تھا مگر تحریک جدید کے طالب علم اس تعداد کے مقابلہ میں جو قادیان کے مدارس میں تعلیم پاتے ہیں بہت کم ہیں اس لئے وہاں میں طالب علموں اور استادوں کے ایک حصہ کو ہی مخاطب کر سکا تھا۔
اس وقت قادیان کی مختلف درسگاہوں میں قریباً ڈیڑھ ہزار لڑکے یا اس سے کچھ زیادہ تعلیم پاتے ہیں۔ اسی طرح پانچ چھ سو یا اس سے کچھ زیادہ لڑکیاں پڑھتی ہیں۔ گویا قریباً دو ہزار طالب علم پڑھتے ہیں۔ چھٹیاں طالب علموں کے لئے کچھ ایسی خوشکن ہوتی ہیں کہ آپ ہی آپ دل میں مسرت کے جذبات کھیلنے لگتے ہیں۔ یہاں کثیر حصہ ایسے طالب علموں کا ہے جن کے ماں باپ دوسرے علاقوں کے رہنے والے ہیں۔ ماں باپ کی محبت اور ان سے ملنے کی خواہش کی وجہ سے ان کو چُھٹیوں کا انتظار رہتا ہے اور جب چھٹیاں آتی ہیں تو ان کے دل خوشی سے بھر جاتے ہیں۔ ایک اور حصہ طالب علموں کا وہ ہے جن کے ماں باپ قادیان میں ہی رہتے ہیں مگر ان کے دل بھی چھٹیوں کی وجہ سے خوشی سے کچھ کم نہیں بھرتے۔ وہ بھی اپنے دلوں میں ایسی ہی خوشی محسوس کرتے ہیں جتنی وہ جنہوں نے ماں باپ کی ملاقات کے لئے واپس جانا ہوتا ہے۔ ایسے طالب علموں میں سے کچھ تو اس لئے خوش ہوتے ہیں کہ پڑھائی سے فراغت ہو جائے گی اور خوب کھیلیں گے اور کچھ اس لئے خوش ہوتے ہیں کہ جب دوسرے بچے باہر جائیں گے تو ہمارے ماں باپ بھی ہمیں کہیں باہر بھیج دیں گے چونکہ چھٹیوں کے موقع پر طالب علموں کے لئے ریلوے کنسیشن وغیرہ ملتے ہیں اس لئے ایسے بچوں کو بھی ان کے ماں باپ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے پاس کہیں باہر بھیج دیتے ہیں تا چھٹیوں میں سیر کر آئیں۔ پھر کچھ طالب علم ایسے ہوتے ہیں جنہوں نے نہ تو پڑھائی سے غافل ہونا ہوتا ہے اور نہ انہیں باہر جانے کی کوئی امید ہوتی ہے۔ مگر وہ چُھٹی کے لفظ سے ہی خوش ہوتے ہیں جیسے عید کے دن سینکڑوں وہ لوگ بھی خوش ہوتے ہیں جن کے لئے بظاہر خوشی کی کوئی وجہ نہیں ہوتی۔ وہ غریب ہوتے ہیں اس لئے نہ تو ان کے ہاں کوئی اچھا کھانا پک سکتا ہے اورنہ انہیں نئے کپڑے مل سکتے ہیں۔ وہ اسی لئے خوش ہوتے ہیں کہ ان کے ہمسائے خوش نظر آتے ہیں۔ اسی طرح کئی طالب علم اس لئے خوش ہوتے ہیں کہ ان کے ساتھی خوش ہیں۔ بہرحال یہ طالب علموں کے لئے خوشی کے ایام ہوتے ہیں۔
اگر وہ غور کریں تو انہیں معلوم ہو کہ خوشی کیا چیز ہے۔ حقیقی خوشی ہی کامیابی کا موجب ہو سکتی ہے۔ مصنوعی خوشیاں بسا اوقات دوسرے کے دل میں رقت پیدا کر دیتی ہیں۔ کہتے ہیں کسی بیوہ عورت کا ایک ہی بچہ تھا جو دودھ پیتا تھا۔ مگر ایسی عمر کو پہنچ چکا تھا جب بچہ کچھ کچھ بولنے لگتا اور حرکت کرنے اور چلنے پھرنے لگتا ہے اور اس کا دودھ چھڑانے لگتے ہیں۔ اس کی ماں بیمار تھی اور رات کو مر گئی ۔ جب صبح دروازہ نہ کھلا تو ہمسائے آئے اور جب دروازہ کھلا تو دیکھا کہ ماں مری پڑی ہے اور بچہ کبھی اس کے پستان مُنہ میں ڈالتا ہے ۔ کبھی اس کے ماتھے پر پیار سے تھپڑ مارتا ہے اور جب وہ اس پر بھی نہیں بولتی تو کھلکھلا کر ہنسنے لگتا ہے۔ وہ سمجھتا تھا کہ میری ماں میرے ساتھ مذاق کرتی ہے۔ اس لئے نہیں بولتی اور میرے ہنسنے سے وہ بھی ہنس پڑے گی۔ لوگ اگر صرف اس کی ماں کو مُردہ دیکھتے تو شاید ان کو اتنا رونا نہ آتا جتنا کہ اس حالت میں اس کے بچہ کو ہنستا دیکھ کر انہیں آیا ہو گا۔
تو کئی خوشیاں ایسی ہوتی ہیں جو دراصل رونے کا موجب ہوتی ہیں۔ وہ جہالت، نادانی اور ناواقفی کی خوشیاں ہوتی ہیں۔ ان میں حصہ لینے والا جانتا نہیں کہ دنیا مجھ پر رو رہی ہے اور مَیں مصیبتوں میں مبتلا ہوں۔ آج مسلمانوں کی خوشیاں دیکھ لو۔ کیا آج مسلمان خوش نہیں ہوتے، کیا آج مسلمان قہقہے نہیں لگاتے۔ وہ خوش بھی ہوتے ہیں، قہقہے بھی لگاتے ہیں اور ہر وہ کام جو کامیاب قوموں کو زیب دیتا ہے کرتے ہیں۔ وہ میلوں اور تماشوں میں بھی جاتے ہیں۔ ان سب جلسوں وغیرہ میں جو خوشیوں کے اظہار کے لئے ہوتے ہیں شامل ہوتے ہیں۔ وہ شعر و شاعری کا مذاق بھی رکھتے ہیں۔ شعر کہتے اور ایک دوسرے کے شعر سن کر سر دھنتے اور داد دیتے ہیں۔ خوب قہقہے لگاتے ہیں بلکہ ہندووٴں ، سکھوں اور عیسائیوں سے زیادہ ہنستے ہیں اورہنستے ہوئے ان کی باچھیں، ان قوموں کے لوگوں کی نسبت زیادہ کھلتی ہیں جو حکمران ہیں۔ مگر کیا مسلمانوں کی یہ ہنسی، یہ قہقہے اور یہ مسکراہٹیں حقیقی خوشی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ کہاں وہ زمانہ تھا کہ مسلمانوں کا سر دین اور دنیا دونوں لحاظ سے سب سے اونچا تھا۔ ایک مسلمان کے قول کو سب سے زیادہ معتبر سمجھا جاتا تھا۔ دوسرے بادشاہوں کی بات پر اتنا اعتبار نہ کیا جاتا تھا جتنا ایک عامی مسلمان کی بات پر۔ مسلمان اگر کوئی بات کہہ دیتا تو لوگ سمجھتے تھے یہ ضرور ہو کر رہے گی۔ ایک مرتبہ اسلامی لشکر شام میں آرمینیا کے کنارے پر عیسائیوں سے سخت جنگ لڑ رہا تھا۔ بڑی لمبی جنگ کے بعد مسلمانوں کو یہ معلوم ہؤا کہ کل ہم فتح حاصل کر لیں گے عیسائیوں کو بھی جو محصور تھے یہ سمجھ آ گئی کہ اب وہ مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ان کی مقابلہ ومقاومت کی آخری کوشش بھی ناکام ہو چکی ہے اور اب مسلمانوں کی فتح کے راستہ میں کوئی روک نہیں اور وہ کل تک ضرور فتح پا لیں گے۔ ایک مسلمان حبشی غلام چشمہ سے پانی بھر رہا تھا۔ عیسائیوں کا ایک افسر اس کے پاس آیا اور کہا کہ لو میاں اگر ہم قلعہ چھوڑ دیں تو بتاوٴ کن شرطوں پر صلح کر لو گے۔ اگر تم یہ یہ باتیں مان لو تو ہم ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ بتاوٴ کیا یہ شرائط منظور ہیں۔ وہ بے چارہ اَن پڑھ آدمی تھا۔ اس نے سمجھا یہ باتیں منظور ہی ہوں گی۔ جب لڑائی ختم ہو رہی ہے تو ان کے ماننے میں کیا حرج ہے اور اس لئے اس نے کہہ دیا کہ ہاں منظور ہیں۔ اس پر عیسائیوں نے اعلان کر دیا کہ مسلمانوں کے ساتھ صلح ہو گئی ہے اور دروازے کھول دئیے۔ جب اسلامی جرنیل پہنچے تو انہوں نے کہا کہ ہم نے تو کوئی صلح کی نہیں۔ تم لوگوں نے کس کے ساتھ صلح کی ہے۔ عیسائیوں نے کہا کہ فلاں حبشی نے ہم سے یہ معاہدہ کیا ہے۔ مسلمانوں افسروں نے کہا کہ وہ کوئی افسر نہ تھا اور اسے صلح کی شرائط طے کرنے کا کوئی اختیار نہ تھا۔ عیسائیوں نے جواب دیا کہ ہمیں کیا علم تمہارا کون افسر ہے اور کون نہیں۔ ہم سے معاہدہ ہو چکا ہے۔ اور اب تم لوگوں کو اس کی پابندی کرنی چاہئے۔ اسلامی سپہ سالار نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سارے واقعہ کی اطلاع دے دی اور لکھا کہ یہ عجیب واقعہ ہوٴا ہے۔ عیسائیوں نے ہمارے ساتھ چالاکی کی ہے اور ایک حبشی سے بات چیت کر کے دروازے کھول دئیے ہیں۔ اب ہم حیران ہیں نہ ان کی شرطوں کو مان سکتے ہیں اور نہ لڑائی کر سکتے ہیں۔ شرطیں ایسی ہیں جو ہمارے لئے قابل تسلیم نہیں۔ سارا معاملہ آپ کے پیش کیا جاتا ہے۔ آپ اجازت دیں کہ ہم اس ملک پر اسی طرح قبضہ کریں جس طرح ایک فاتح قبضہ کرتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ آپ نے جو کچھ لکھا درست ہے بے شک مسلمانوں نے سخت جنگ کی اور اس ملک کو فتح کیا اور بے شک عیسائیوں نے دھوکا کیا ہے۔ مگر مَیں تمہاری رائے کو تسلیم کر کے اسی طرح ملک پر قبضہ کرنے کی اجازت دے دوں جس طرح فاتح قبضہ کرتا ہے تو لوگ کہیں گے کہ مسلمانوں کے قول کا کوئی اعتبار نہیں۔ وہ حبشی بہرحال مسلمان ہے اور مَیں اس کی بات کو جھوٹا نہیں کر سکتا۔ اس کے منظور کردہ شرائط کے مطابق ہی عیسائیوں سے صلح کی جائے۔ 1 اگر حضرت عمر چاہتے تو اس معاہدہ کو رد کر سکتے تھے اور اس صورت میں دنیا کی کوئی قوم آپ پر اعتراض نہ کر سکتی تھی کیونکہ عیسائیوں نے جو کچھ کیا وہ سراسر دھوکا تھا۔ مگر پھر بھی آپ نے اسے قبول کر لیا اور فرمایا مَیں نہیں چاہتا کہ لوگ کہیں کہ مسلمان کی بات جھوٹی ہو گئی اور یہ کہ مسلمانوں میں ایک حبشی کی بات قابل اعتبار نہیں اور عرب کی ہے۔ کوئی فلسفی کہہ سکتا ہے کہ پھر ایسی مثالیں تو روز پیش آ سکتی ہیں اور حکومت کی تباہی کا موجب ہو سکتی ہیں مگر یہ درست نہیں۔ اس قسم کی بات ایک ہی دفعہ ہو سکتی ہے۔ اسے اصول کے طور پر تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
رسول کریم ﷺ ایک مرتبہ مجلس میں تشریف فرما تھے اور جنت کی نعماء کا ذکر فرما رہے تھے اور بتا رہے تھے کہ وہاں اس طرح روحانی ترقیات عطا ہوں گی یوں علوم کی ترقی ہو گی یوں فرشتے نازل ہوں گے اور یہ کہ فلاں فلاں انعامات اللہ تعالیٰ نے میرے لئے مقدر فرمائے ہیں۔ معاًایک صحابی کھڑے ہوئے اور یَا رَسُوْل َاللہ کہا!دعا کریں کہ جنت میں اللہ تعالیٰ مجھے بھی آپ کے ساتھ رکھے۔ آپ نے دعا کی اور فرمایا اللہ تعالیٰ تمہیں بھی ساتھ رکھے گا۔ 2 اب خدا جانے اس صحابی کا درجہ کیا تھا۔ اس کے اعمال رسول کریم ﷺ کے اعمال کا لاکھواں کروڑواں حصہ بھی نہ ہوں گے۔وہ نہ کبھی ایسے اعمال بجا لایا جو رسول کریم ﷺ بجا لاتے اور نہ وہ عبادتیں کیں جو آپ کرتے تھے۔صرف ایک فقرہ کہا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی خواہش کو قبول فرما لیا۔ اب کوئی معترض کہہ سکتا ہے کہ یہ تو بڑا آسان کام ہے جو اٹھا اس نے یہ فقرہ کہہ دیا۔ مگر یہ بات نہیں۔ جب رسول کریم ﷺ نے اس صحابی کی بات کو سن کر دعا کی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی خواہش کو قبول فرما لیا ہے تو ایک اورصحابی اٹھے اور کہا یَا رَسُوْلَ اللہ! مَیں بھی چاہتا ہوں کہ جنت میں آپ کا ساتھ حاصل ہو۔ مگر آپ نے فرمایا کہ نہیں وہ پہلی بات تھی جو پوری ہو گئی۔ اب اس کی نقل میں بات کرنے والوں کو یہ مقام حاصل نہیں ہو سکتا۔ غرض ایسے امور میں جو فیصلہ ہو وہ بطور سبق کے ہوتا ہے نہ کہ بطور دوامی دستور کے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس حبشی مسلمان کی بات صرف اس لئے مان لی کہ اس سے پہلے کوئی اصل قائم نہ ہوٴا تھا اور آپ ڈرے کہ ایک مسلمان کا قول بے وقعت نہ ہو۔ مگر اس کے یہ معنی نہ تھے کہ آئندہ بھی ایسا فیصلہ تسلیم کیا جایا کرے۔ بہرحال حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مسلمان کی بات کی اتنی قیمت قرار دے دی جس کی مثال نہیں مل سکتی ۔ کجاتو وہ زمانہ تھا اور کجا آج یہ زمانہ ہے کہ مسلمان کی بات ماننے کو کوئی تیار نہیں ہوتا۔ مسلمان کوئی بات کہے تو لوگ کہتے ہیں یہ مسلمان نے کہی ہے معلوم نہیں پوری ہو یا نہ ہو۔ مَیں ایک دفعہ کشمیر گیا۔ حضرت خلیفہ اول کا زمانہ تھا۔ کشمیر میں لوئیوں کے ٹکڑے رنگ رنگ کر فرش پر بچھانے کے لئے ایک کپڑا بناتے ہیں۔ جسے گبّا کہتے ہیں۔ اسلام آباد میں ایک مشہور گبّا ساز تھا۔ ہم نے بھی اسے ایک گبّا بنانے کا آرڈر دیا اور سائز وغیرہ اچھی طرح بتا دیا۔ جب ہم سیر کرتے کراتے واپس اس شہر میں آئے تو پتہ کیا کہ گبّا تیار ہوٴا ہے یا نہیں۔ اس نے کہا تیار ہے مگر جب اسے دیکھا تو سائز میں 25 فیصدی کا فرق تھا۔ مگر وہ کہے کہ سائز وہی ہے جو آپ نے بتایا تھا۔ غالباً اس کے ساتھ تحریر بھی ہو چکی تھی جس میں سائز درج تھا مگر وہ پھر بھی یہی کہتا جاتا تھا کہ یہ آپ کے بتائے ہوئے سائز کے مطابق تیار ہوٴا ہے۔ محلہ کے لوگ بھی وہاں جمع ہو گئے اور سب نے کہا کہ سائز وہ نہیں جو انہوں نے بتایا تھا۔ مگر ان سب باتوں کے جواب میں اس کا ایک ہی جواب تھا کہ مَیں مسلمان ہُندی۔ کشمیری مرد کو موٴنث کے طور پر بولتے ہیں۔ وہ مذکر کو موٴنث اور موٴنث کو مذکر بولتے ہیں۔ مثلاً کہیں گے چور آئی۔ مَیں آئی، میری بیوی آیا۔ تو وہ صرف یہی جواب دیتا تھا کہ مَیں مسلمان ہُندی یعنی مَیں مسلمان ہوں مجھے اس کی یہ بات سن کر بہت غصہ آیا اور میں نے کہا کہ تم یہ کیوں کہتے ہو مَیں مسلمان ہوں اس لئے یہ بد دیانتی میرے لئے جائز ہے۔ تم صاف کہو مجھ سے غلطی ہوئی ہے یا میں نے دھوکا کیا ہے۔ تم اپنے فعل کو مسلمان ہونے کی طرف کیوں منسوب کرتے ہو۔ تو آج یہ حالت ہے کہ نہ مسلمانوں کے کسی معاہدہ کا اعتبار ہے اور نہ ان کے کسی معاملہ کا۔ لین دین ان کا خراب ہو چکا ہے۔ کسی سے قرض لیں گے تو واپس نہ کریں گے، مصیبت زدہ لوگوں کے ساتھ ان کا سلوک ہمدردانہ نہیں، ہمسائیوں سے سلوک اچھا نہیں، جوش میں آ جائیں تو بے شک قربانی کریں گے مگر یہ صرف ایک دو دن یا ایک دو گھنٹہ تک ہی ہو گی اس سے زیادہ نہیں۔ آج سے تھوڑا ہی عرصہ ہؤا شہید گنج کے گوردوارہ کے متعلق ان میں کتنا جوش پایا جاتا تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اب یہ اس کی اینٹ سے اینٹ بجا کر ہی دم لیں گے اور جب تک اس جگہ پر قبضہ نہ کر لیں گے چین سے نہ بیٹھیں گے مگر آج وہی شہید گنج موجود ہے وہی سکھوں کا اس پر قبضہ ہے اور حرام ہے کہ مسلمانوں میں اتنی بھی حرکت ہوتی ہو جتنی چیونٹی کے چلنے سے ہوتی ہے۔ بس بات ختم ہو گئی۔
تو آج دیکھو مسلمانوں کی حالت کہاں سے کہاں جا پہنچی ہے۔ وہ زمانہ جو اسلامی تاریخ کا گرا ہوٴا زمانہ سمجھا جاتا ہے۔ آج مسلمانوں میں اُس زمانہ کے مسلمانوں جیسے اخلاق بھی نہیں ہیں۔
خلافتِ عباسیہ کا آخری زمانہ بڑا دردناک اور بہت تنزل کا زمانہ سمجھا جاتا ہے۔ اس وقت خلفائے عباسیہ کی حیثیت قیدیوں کی سی تھی۔ کبھی ترک، کبھی سلجوقی اور کبھی کُرد اصل حاکم ہوتے تھے۔ جس طرح ایک زمانہ میں دہلی کے بادشاہ انگریزوں کے ماتحت ہوتے تھے۔ یہ ترک، سلجوقی، یا کُرد حاکم جو چاہتے حکم دے دیتے اورکہہ دیتے کہ خلیفہ نے یوں فرمایا ہے جس طرح دہلی کے بادشاہوں کو وظائف ملتے تھے اسی طرح خلفائے عباسیہ کو بغداد میں وظائف ملتے تھے مگر اس زمانہ میں بھی اسلامی غیرت باقی تھی کیونکہ محمد مصطفی ﷺ کا جو تمام خوبیوں اور محاسن کے منبع ہیں زمانہ قریب تھا۔ اس زمانہ میں عیسائیوں نے شام پر حملہ کر کے کچھ علاقہ فتح کر لیا۔ عکہ اور اس کے گرد ونواح پر قابض ہو گئے۔ اس علاقہ میں مسلمان بھی آباد تھے۔ بلکہ سارا علاقہ مسلمان ہو چکا تھا سوائے ان برطانوی، اطالوی، جرمن اور آسٹرین فوجوں کے جو وہاں تھیں۔ انہوں نے پاس کے اسلامی علاقہ پر حملہ کیا۔ وہاں کوئی مسلمان عورت تھی۔ کسی عیسائی سے اس کا جھگڑا ہوٴا اور عیسائی نے اس کی بے حرمتی کی اور اس کا برقعہ، یا نقاب اتارا گیااور مارا گیا۔ جب اس کی ہتک کی گئی تو اس عورت نے جو بالکل ناواقف تھی اور جسے کچھ پتہ نہ تھا کہ خلیفہ عباسی کونسا ہے اور کس حالت میں ہے۔ اس نے اپنے کسی رشتہ دار سے اتنا سنا ہوٴا ہو گا کہ مسلمانوں کا کوئی خلیفہ ہے جو بغداد میں رہتا ہے۔ یہ کہ اس کی حالت کیا ہے، وہ محض ایک قیدی ہے اور اس کی کوئی طاقت نہیں۔ یہ اسے علم نہ تھا ۔، مارپیٹ کے وقت وہ چلّائی۔ مسلمانوں میں رواج تھا کہ جب نعرہ لگاتے تو یَا لَلْمُسْلِمِیْنَ کہتے۔ یعنی اے مسلمانو! ہم تمہیں پکارتے ہیں۔ اسی طرح اس عورت نے کہا کہ اے مسلمانو! اے بغداد کے خلیفہ! مَیں تم کو پکارتی ہوں۔ جب اس نے یہ نعرہ لگایا۔ مسلمان تاجروں کا کوئی قافلہ اپنے رستہ پر گزر رہا تھا۔ اسے یہ آواز عجیب معلوم ہوئی کہ کہاں بغداد کا خلیفہ جو بالکل کمزور ایک قیدی کی طرح ہے او رکہاں شام کا یہ علاقہ۔ خلیفہ یہاں اس عورت کی کیا مدد کر سکتا ہے۔ مگر اہلِ قافلہ کے دل پر ایک چوٹ لگی۔ قافلہ جب بغداد میں پہنچا تو بازار میں اپنا اسباب وغیرہ اتارنے لگا۔ اس زمانہ میں تجارت چونکہ قافلوں کے ذریعہ ہی ہوتی تھی ۔ جب کوئی قافلہ سامانِ تجارت لے کر آتا توسب امیر و غریب تجارتی چیزوں کو دیکھنے کے لئے بازار میں جمع ہو جاتے تھے۔ وہیں چیزیں دیکھتے اور قافلہ والوں سے سفر کے حالات سنتے تھے۔ قافلہ والوں میں سے کسی نے یہ بات بھی بیان کی کہ اس طرح شام میں ہم نے ایک مسلمان عورت کی آواز سنی جسے کسی عیسائی نے مارا اور اس کی بے حرمتی کی تھی۔ اس نے خلیفہ کو پکارا اور کہا مَیں تجھے مدد کے لئے پکارتی ہوں۔ جس طرح دہلی کے بادشاہوں کے دربار لگتے تھے باوجودیکہ وہ برائے نام بادشاہ ہوتے تھے اسی طرح عباسی خلفاء بھی دربار میں بیٹھتے تھے۔ اس زمانہ میں جو خلیفہ تھا وہ اپنے دربار میں بیٹھا تھا کہ کسی درباری نے بازار سے یہ بات سن کر اس کے سامنے بھی بیان کر دی۔ اور کہا کہ حضور! یہ عجیب بات اہلِ قافلہ سے معلوم ہوئی ہے۔ عیسائیوں نے آگے بڑھ کر چھاپہ مارا، کسی عیسائی نے ایک مسلمان عورت کی بے حرمتی کی اور اس عورت نے اس طرح دُہائی دی باوجودیکہ اس وقت اس خلیفہ کی حالت شطرنج کے بادشاہ کی تھی۔ اس نے یہ بات سنی تو یہ اسے کھا گئی۔ وہ فوراً تخت سے نیچے اتر کر ننگے پاوٴں چل پڑا اور کہا کہ مَیں اب واپس نہیں لوٹوں گا جب تک کہ اس مسلمان عورت کا بدلہ نہ لے لوں۔ اس نے شہر سے باہر آ کر خیمے لگا دئیے۔ شہر میں اور علاقہ میں آگ کی طرح یہ بات پھیل گئی اور مسلمان نوجوان اس کے جھنڈے تلے جمع ہونے لگے۔ آخر یہ لشکر شام کی طرف چلا۔ عیسائیوں پر حملہ کیا اور عیسائیوں نے مسلمانوں سے جو علاقے نئے نئے لئے تھے وہ ان سے واپس لئے اور اس طرح اس عورت کی داد رسی کر کے خلیفہ عباسی واپس آیا۔
یہی دردِ اسلامی تھا جس نے سینکڑوں سال اسلام کے نام کو اونچا کئے رکھا۔ یہ گرے ہوئے زمانہ کا حال ہے جب عیسائیت پھر سر نکال رہی تھی جب اسلامی نظام ٹوٹ چکا تھا بلکہ پارہ پارہ ہو چکا تھا۔ مگر آج کیا ہے؟نہ بادشاہوں کے دل میں یہ اسلامی درد پایا جاتا ہے اور نہ رعایا کے دل میں۔ ایک اسلامی حکومت بھی تو ایسی نہیں جس نے کبھی اسلامی جذبہ کے ماتحت کسی دوسری اسلامی حکومت کا ساتھ دیا ہو۔ یہ کبھی نہیں ہوٴا کہ ترکوں پر کسی دشمن نے چڑھائی کی تو ایران اور افغانستان نے اس کا ساتھ دیا ہو یا ایران پر حملہ ہوٴا اور افغانستان اور ترکوں نے اس کی مدد کی ہو۔ یورپ کی عیسائی حکومتوں میں یہ بات نظر آتی ہے مگر اسلامی حکومتوں میں نہیں۔ پولینڈ پر حملہ ہؤا تو برطانیہ اور فرانس اس کی طرف سے لڑے۔ چیکو سلواکیہ پر حملہ ہونے لگا تھا تو برطانیہ، فرانس اور روس اس کی طرف سے لڑنے کو تیار ہو گئے تھے۔ جرمنی پر حملہ ہوٴا تو اٹلی اس کی طرف سے لڑنے کو تیار ہو گیا۔ تو دوسری قوموں میں تو یہ بات ہے مگر مسلمانوں میں نظر نہیں آتی۔ انہوں نے کبھی بھی وہ ہمدردی نہیں دکھائی جو مسلمانوں کے لئے ایک دوسرے سے رکھنی ضروری ہے حالانکہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ مسلمان آپس میں ایک جسم کی طرح ہیں۔ جب ایک عضو میں تکلیف ہو تو سارا جسم درد محسوس کرنے لگتا ہے۔ 3 ہاتھ کی انگلی میں درد ہو ، مُنہ کے کسی حصہ میں تکلیف ہو یا پنڈلی پر بِھڑ کاٹ جائے تو کیا باقی جسم درد محسوس نہیں کرتا۔ دیکھو آدمی کو نزلہ تو ہوتا ہے ناک میں مگر کس طرح سارا جسم بے چین ہو جاتا ہے۔ کھانسی سینہ میں ہوتی ہے مگر کیا لاتوں اور پیروں کو اس سے کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ جسم کے کسی حصہ پر پھوڑا ہو تو کیا باقی جسم آرام میں ہوتا ہے۔ اگر مسلمان اس چیز کو پیش نظر رکھتے اور رسول کریم ﷺ نے جو مثال دی تھی اسے صحیح تسلیم کرتے اور جس طرح جسم کے کسی حصہ پر پھوڑا نکلنے سے تمام جسم بے چین ہوتا ہے یا نزلہ ہونے کی حالت میں سار اجسم تکلیف محسوس کرتا ہے۔ مسلمان سارے عالم اسلامی کی تکلیف کو اپنی تکلیف محسوس کرتے تو مسلمانوں کو آج یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا مگر مَیں کہتا ہوں۔ چھوڑ دو پرانے قصوں کو، چھوڑ دو ان لوگوں کو جنہوں نے مرکز اسلام سے مُنہ موڑ لیا اور رسول کریم ﷺ کی محبت دل سے نکال دی۔ تم جو آنحضرت ﷺ سے نیا تعلق پیدا کر رہے ہو جو خدا تعالیٰ سے نیا رشتہ جوڑ رہے ہو تم سوچو کہ کیا تمہارے دلوں کی یہی کیفیت ہے جو رسول کریم ﷺ نے فرمائی تھی۔ تم میں سے کتنے ہیں جن کے دل اپنے بھائی کی تکلیف پر اسی طرح دکھ محسوس کرتے ہیں جس طرح جسم کے ایک حصہ پر پھوڑا ہونے سے تمام جسم محسوس کرتا ہے۔
آج میں ساری جماعت کو مخاطب نہیں کرتا بلکہ صرف طالب علموں کو مخاطب کرتا ہوں جو چُھٹیاں منانے والے ہیں اور ان سے کہتا ہوں کہ تم قوم کی آئندہ اساس بننے والے ہو۔ تم وہ بنیادی پتھر ہو جس پر قوم کی نئی عمارت بننے والی ہے۔ ہمارے مکانات کتنے وسیع ہیں مگر باوجود اس کے کہ کئی بچوں کی شادیاں ہو چکی ہیں اوروہ علیحدہ مکانوں میں چلے گئے ہیں اور اپنے گھر بنا لئے ہیں پھر بھی بعض اوقات صحن میں سب کے سونے کے لئے جگہ نہیں ہوتی۔ اور یہ بچے جو اَب چھوٹے ہیں جب ان کی شادیاں ہو جائیں گی تو پھر تو شاید بیٹھنے کی بھی جگہ نہ ہو گی۔ یہی حالت قوموں کی ہوتی ہے۔ آنے والی نسلیں اپنے لئے اور گھر بناتی ہیں۔ وہ پہلوں کے ایمان پر ہی اکتفا نہیں کرتیں بلکہ ایمان کی نئی عمارت تعمیر کرتی ہیں۔ اگر تو ان کے ایمان کی عمارت پہلوں سے اچھی ہو تو قوم کی عزت بڑھتی ہے، نہیں تو کم ہو جاتی ہے۔ کل بورڈنگ تحریک جدید میں مَیں نے جو تقریر کی اس میں بتایا تھا کہ ہم سات طالب علم تھے جنہوں نے مل کر رسالہ تشحیذ الاذہان جاری کیا۔ کسی سے کوئی مدد ہم نے نہیں لی۔ ایک پیسہ بھی چندہ کسی سے نہیں مانگا۔ اپنے پاس ہی سے سب رقوم دیں۔ ہاں بعد میں اگر بعض دوستوں نے اپنے طور پر کوئی مدد دی تو وہ لے لی۔ ورنہ سب بوجھ خود ہی اٹھایا۔ کسی سے مضمون بھی نہیں مانگا۔ خود ہی رسالہ کو ایڈٹ کرتے خود ہی چھاپتے اور خود ہی بھیجتے تھے۔ سب کام خود کرتے تھے اور اگر اس زمانہ میں وہ سات طالب مل کر یہ کام کر سکتے تھے تو اب ہمارے سکولوں کے 1500 لڑکے مل کر ان سے دو اڑھائی سو گنا زیادہ کیوں نہیں کر سکتے۔ یقینا کر سکتے ہیں بشرطیکہ ان کے دلوں میں وہی جوش ہو بلکہ ان میں پہلوں سے زیادہ جوش ہونا چاہئے کیونکہ جسے بنا بنایا کام مل جائے اسے اس کو آگے چلانے میں بہت سی سہولتیں اور آسانیاں ہوتی ہیں۔
پس مَیں آج طالب علموں اور استادوں سے بھی کہ ان کی ذمہ داریاں بھی بہت زیادہ ہیں کہتا ہوں کہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے، سلسلہ کی طرف سے، صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے اور خلیفہٴ وقت کی طرف سے ان پر عائد ہوتی ہیں۔ اب جو تم چھٹیوں پر جاوٴ تو وہ ایمان اورجوش لے کر جاوٴ کہ جہاں بھی تم جاوٴ، جب وہاں سے واپس آوٴ تو وہاں کی جماعت میں ایک بیداری پیدا ہو چکی ہو۔ تمہارے اس جانے اور آنے کی مثال چھوٹی سی پیدائش اور انتقال کی ہو۔ انتقال کے معنی مرنا ہی نہیں ہوتے بلکہ جگہ بدلنے کے بھی ہوتے ہیں اور جب کوئی کسی نئی جگہ جاتا ہے تو گویا اس کی نئی ولادت ہوتی ہے۔ مثلاً جب کوئی طالب علم چھٹیوں پر یہاں سے لاہور پہنچے گا تو ان چند ہفتوں کے لئے لاہور میں وہ گویا نیا جنم لے گا اور جب وہاں سے واپس آئے گا تو گویا وہاں سے انتقال کرے گا۔ دنیا کی ولادت بھی ایسی ہی ہوتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ ایک روح کو دنیا میں منتقل کر دیتا ہے تو یہ اس کی پیدائش ہوتی ہے اور پھر جب وہ روح اگلے جہان کو جاتی ہے تو اس جہان سے اس کا انتقال ہوتا ہے اور ایک بڑی پیدائش بھی ہوتی ہے۔ ایک عرب شاعر نے کہا ہے کہ ؂
یَاذَا الَّذِیْ وَلَدَتْکَ اُمُّکَ بَاکِیًا
وَ النَّاسُ حَوْلَکَ یَضْحَکُوْنَ سُرُوْرًا
فَاحْرِصْ عَلٰی عَمَلٍ تَکُوْنَ اِذَا بَکَوْا
فِیْ وَقْتِ مَوْتِکَ ضَاحِکًا مَسْرُوْرًا4
یعنی اے انسان تُو وہی تو ہے کہ جب تو پیدا ہوٴا تو تُو روتا تھا۔ پیدائش کے وقت چونکہ بچہ کے سینہ پر دباوٴ پڑتا ہے اور وہ روتا ہے اور یہ امر اس کے سانس کے چلنے کا موجب ہو جاتا ہے اورجو بچہ پیدائش کے وقت نہ روئے۔ اس پر پانی کے چھینٹے دینے پڑتے ہیں تاکہ وہ ہچکی لے اور سانس چلنے لگے۔ شاعر کہتا ہے کہ جب تُو پیدا ہوٴا تو رو رہا تھا اورلوگ تیرے اردگرد خوشی سے ہنس رہے تھے۔ بچہ کی پیدائش کے وقت لوگ خوشی کرتے ہی ہیں۔ مبارک بادیں دیتے ہیں کہ لڑکا ہو گیا۔ اسی کی طرف اشارہ کر کے شاعر انسان کی غیرت کو اکساتا ہے کہ جب تُو روتا تھا تو یہ لوگ تیرے اردگرد ہنس رہے تھے۔ پس تجھے چاہئے کہ ان سے اس کا بدلہ لے۔ وہ کس طرح؟ اس کا جواب وہ یوں دیتا ہے کہ ؂
فَاحْرِصْ عَلٰی عَمَلٍ تَکُوْنَ اِذَا بَکَوْا
فِیْ وَقْتِ مَوْتِکَ ضَاحِکًا مَسْرُوْرًا
اب تُو ایسے عمل کر اور اس کا بدلہ اس طرح لے کہ جب تیری موت کا وقت آئے تو تیرے اردگرد سب لوگ رو رہے ہوں کہ ہمارا محسن اور ہمدرد دنیا سے چلا جا رہا ہے۔ اب ہمارے کام کون کرے گا اور تُو ہنس رہا ہو کہ مَیں اپنے رب کے پاس چلاہوں۔ جہاں مجھے بڑے بڑے انعام ملیں گے۔
تو میں طالب علموں اور استادوں سے کہتا ہوں کہ یہی نمونہ دکھاوٴ۔ یعنی جب تم کسی جگہ جاوٴ تو لوگ تمہارے آنے پر ہنسیں مگر جب واپس آوٴ تو تمہارے ہمجولی اور ملنے والے روئیں۔ اس لئے نہیں کہ انہیں تمہارے ساتھ جسمانی محبت ہے بلکہ اس لئے کہ یہ ہمارے لئے نیک نمونہ تھا اور اس کی وجہ سے ہمیں نیکیوں کی توفیق ملتی تھی اور اب یہ ہمارے پاس سے جا رہا ہے۔ پس جہاں جاوٴ اپنا نیک نمونہ دکھا کروہاں کی جماعت میں ایسی بیداری پیدا کرو کہ جب تم وہاں سے آنے لگو تو اس شہر یا قصبہ کے لوگ سمجھیں کہ ہمارے اندر سے روحانیت کھنچی چلی جا رہی ہے۔ اگر تم ان چھٹیوں میں یہ نمونہ دکھا کر واپس آوٴ تو اللہ تعالیٰ تمہیں توفیق دے گا کہ آئندہ بھی قادیان کی رہائش سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکو۔ بورڈنگ تحریک جدید میں بچوں کو نماز کی باقاعدگی سکھائی جاتی ہے اورنماز ایک ایسی نیکی ہے کہ جو ایک بھی چھوڑے وہ مسلمان نہیں رہ سکتا اور اگر ان بچوں میں سے باہر جا کر کوئی ایک بھی نماز چھوڑے تو گویا وہ تحریک جدید کی ہتک کرنے والا ہو گا۔ جس کا وقار قائم رکھنا تم میں سے ہر ایک کا فرض ہے۔ پس یہاں جو بھی نیک عادات تم کو ڈالی جاتی ہیں ان پر باہر جا کر اچھی طرح قائم رہو۔ جو بورڈر ہیں وہ بھی اور جو نہیں وہ بھی ہر بات میں باہر جا کر نیک نمونہ دکھائیں۔ نمازیں باقاعدگی سے ادا کرو اور ہو سکے تو تہجد بھی پڑھو اور اپنے اردگرد نیک اثرات چھوڑو۔
پھر یاد رکھو کہ اس وقت کی مسلمانوں کی تباہی میں چار باتوں کا بڑا دخل ہے۔
(1) معاملات کی خرابی
(2) سچ نہ بولنا
(3) ہمدردی کا نہ پایا جانا اور ایک دوسرے سے تعاون نہ ہونا۔
(4) قوت عملیہ کی کمزوری۔
یہ چار امور مسلمانوں کی تباہی کا بڑا موجب ہیں اور تحریک جدید کی غرض انہی نقائص کو دور کرنا ہے۔ آج صبح ہی جو مٹی ڈالی گئی ہے وہ بھی اسی لئے ہے کہ کام کی عادت ڈالی جائے۔ مسلمانوں میں کام کرنے کی عادت بھی نہیں رہی اور ان کے امراء ایسی جھوٹی عزت کے خیال میں پڑ گئے ہیں کہ اٹھ کر پانی پینا بھی دوبھر معلوم ہوتا ہے۔ اسی لئے تحریک جدید میں یہ بات مَیں نے رکھی ہے کہ کوشش کی جائے دوستوں میں ہاتھ سے کام کرنے کی عادت پیدا ہو۔
معاملات کی صفائی بھی بہت ضروری ہے اور اس کی آزمائش کا بھی یہ ایک موقع آیا ہے۔ بعض لوگ بغیر کرایہ ادا کئے اور ٹکٹ لئے ریل میں سفر کر لیتے ہیں۔ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ بات ایمان کے سراسر خلاف ہے۔ مومن کبھی بد معاملہ نہیں ہوتا۔ یہ خیال کرنا کہ انگریزوں کی چوری کرنے میں کوئی حرج نہیں بالکل غلط خیال ہے۔ انگریز چھوڑ کالے چور کا مال کھانا بھی جائز نہیں۔ مومن کو معاملات کا بہت کھرا ہونا چاہئے۔ ہم لوگ اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ و السلام کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ آپ کا عملی نمونہ ہمارے سامنے ہے جس سے انسان کو زیادہ محبت ہو اس کی طرف سے زیادہ نصیحت کا وہ محتاج نہیں ہوتا بلکہ اس کے نمونہ کو دیکھتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جماعت کے بعض دوست داڑھی منڈواتے تھے کسی نے حضور علیہ السلام سے شکایت کی کہ فلاں شخص داڑھی منڈواتا ہے آپ نے فرمایا کہ اگر تو ان میں اخلاص نہیں تو ہماری نصیحت کا ان پر کیا اثر ہو سکتا ہے اور اگر اخلاص ہے تو ہماری داڑھی کو دیکھ کر خود ہی داڑھی رکھ لیں گے۔ تو اصل بات یہی ہے کہ جس سے محبت ہو اُس کا نمونہ ہی کافی ہوتا ہے۔ حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کے پاس کوئی احمدی آیا کسی نے آپ کو بتایا کہ یہ بغیر ٹکٹ کے آ گئے ہیں۔ یہ ہمارے ملک میں ایک عام رواج ہے۔ بغیر ٹکٹ کے سفر کرنا ایک کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔ جیسے چیتے کا شکار کر لیا اسی طرح بغیرٹکٹ کے سفر کر لیا۔ حضرت مسیحِ موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے جب یہ بات سنی تو جیب سے ایک روپیہ نکال کر اسے دیا اور فرمایا کہ کسی کا مال استعمال کرنا گناہ ہے۔ آپ اب واپس جائیں تو اس روپیہ سے ٹکٹ خرید لیں۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کا یہ طریق ہے جس سے ہمیں سبق حاصل کرنا چاہئے۔
مجھے ایک احمدی دوست کی بات بہت پیاری معلوم ہوئی۔ اگرچہ انہوں نے کی تو غلطی ہی تھی اور مجھ پر بدظنی کی۔ جب عزیزم ناصر احمد یورپ سے آخری بار واپس آنے سے پہلے ایک بار چھٹیوں میں یہاں آئے۔ تو اتفاقاً یا شاید ارادتاً چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب بھی ملاقات کے خیال سے قادیان آ رہے تھے۔ یہاں سے مَیں موٹر پر استقبال کے لئے امرتسر گیا تھا۔ وہاں مَیں نے کسی دوست سے کہا کہ ٹکٹ لے آوٴ۔ چوہدری صاحب نے کہا کہ میرے سیلون میں بیٹھ جائیں۔ مَیں نے کہا کہ ہمارے لئے اس میں بیٹھنا کس طرح جائز ہو سکتا ہے۔ انہوں نے غالباً یہ جواب دیا کہ قانون یہ ہے کہ اگر کوئی ہمارا مہمان ہو تو اس کے لئے فرسٹ کلاس کا ٹکٹ خرید کر اسے سیلون میں بٹھایا جا سکتا ہے۔ خیر ہم سیلون میں بیٹھ گئے۔ جب میں قادیان پہنچا اور گھر جانے لگا تو امرت سر کے ایک دوست نے کہا کہ مَیں ایک بات کرنا چاہتا ہوں اور الگ ہو کر کہنے لگے کہ مَیں نے یہ دو ٹکٹ خرید لئے تھے (ایک میرے لئے ایک پرائیویٹ سیکرٹری کے لئے) اس خیال سے کہ شاید آپ کو ٹکٹ خریدنے کا خیال نہیں رہا۔ آپ سیلون میں بیٹھ گئے تھے اورمیں نے سمجھا کہ اس میں بغیر ٹکٹ کے بیٹھنا آپ کے لئے جائز نہیں اور ٹکٹ خریدنے کا آپ کو خیال نہیں رہا۔ اس لئے مَیں نے یہ دو ٹکٹ خرید لئے تھے۔ ان کے خریدے ہوئے ٹکٹ ضائع ہی گئے کیونکہ چوہدری صاحب نے ہمارا کرایہ ادا کر دیا تھا مگر اس دوست کی یہ بات مجھے بہت پسند آئی کہ انہوں نے یہ بھی گوارا نہ کیا کہ مجھ سے بھولے سے بھی بغیر ٹکٹ کے سفر کرنے کی غلطی ہو۔ یہ احمدیت کا سچا نمونہ ہے اور یہی نمونہ ہمارے نوجوانوں کو پیش کرنا چاہئے۔ پس اچھی طرح یاد رکھو کہ کبھی بغیر ٹکٹ کے سفر نہ کرو اور کبھی کسی کو بغیر ٹکٹ کے سفر کرتا دیکھ کر خاموش نہ رہو بلکہ اسے نصیحت کرو اور اگر وہ نصیحت پر بھی عمل نہ کرے تو سمجھ لو کہ وہ بیمار ہے اور متعدی بیمار ہے۔ ایسے لڑکے کی صحبت سے الگ رہو۔ اگر تم اسے دوست کہتے ہو تو گویا اپنی بھی ہتک کرتے ہو۔ اور اس کے معنے یہ ہیں کہ تم اس کے فعل کو پسند کرتے ہو۔
پھر آپس میں ہمدردی کرو اور دوسروں سے بھی ہمدردی کرو۔ اگر گاڑی میں کوئی بوڑھا آ جائے تو اس کے لئے قربانی کا نمونہ دکھاوٴ۔ خود کھڑے ہو جاوٴ اور اسے بیٹھنے دو ۔ اگر اسے پانی کی ضرورت ہو تو لا دو۔ بیمار ہو تو اسے دبا دو۔ ممکن ہو تو دوائی بھی لا دو۔ غرضیکہ ایسا نمونہ دکھاتے جاوٴ اور دکھاتے آوٴ کہ سب دیکھنے والے کہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے ہاتھوں میں اگر طاقت آ جائے تو دنیا میں امن قائم ہو سکتا ہے۔ خوب یاد رکھو کہ دنیا میں امن قربانی سے قائم ہوتا ہے۔ زور اورطاقت سے نہیں۔ پس جتنی زیادہ قربانی تم کرو گے۔ اتنی ہی جلدی خدا تعالیٰ تمہارے ہاتھوں میں دنیا کی باگ دے گا۔ اور اتنی ہی جلدی تم دنیا میں امن قائم کر سکو گے۔ سستی کی عادت نہ ڈالو اور کبھی یہ نہ سمجھو کہ اب چُھٹیاں ہوئی ہیں خوب سوئیں گے۔ چھٹیاں سونے کے لئے نہیں ہوتیں بلکہ اس لئے ہوتی ہیں کہ استاد نیا سبق نہ پڑھائے اور طالب علم پچھلا پڑھا ہوٴا یاد کر لیں۔ پس یہ نہ کہو کہ چھٹیوں میں سوئیں گے بلکہ یہ کہو کہ پہلے جو غفلت ہوتی رہی ہے اب چُھٹیوں میں اس کا ازالہ کریں گے او رسبق اچھی طرح یاد کر لیں گے۔ سکول میں تو مدرّس روز نیا سبق دے دیتا ہے اور اسے یاد کرنا ہوتا ہے۔ اس لئے اگر کوئی سبق یاد کرنے سے رہ جائے تو کمزوری رہ جاتی ہے اور چھٹیاں ان کمزوریوں کو دورکرنے کا بہترین موقع ہوتی ہیں۔
سچائی کا بھی اعلیٰ نمونہ دکھاوٴ۔ جو کہو سچ کہو۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر بات ضرور کہو۔ مثلاً کوئی کہے کہ مَیں نے فلاں شخص کو کانا کہا تھاکیونکہ یہ سچی بات ہے اور سچ بولنے کا حکم ہے۔ تو یہ درست نہ ہو گا۔ ہرسچی بات کا کہنا ضروری نہیں ہوتا۔ حکم یہ ہے کہ جو کہو سچ کہو۔ شریعت تمہیں یہ نہیں کہتی کہ ہر سچی بات ضرور کہو۔ شریعت کا حکم یہی ہے کہ جب ضرورت نہ ہو، چپ رہو۔ مگر جب بولو تو سچ بولو۔ سینکڑوں باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ انسان ان کو بیان نہیں کر سکتا اور شریعت ان کے بیان پر مجبور نہیں کرتی۔ اگر کوئی ایسا عیب کسی میں دیکھو کہ جس کے متعلق شریعت کہتی ہے کہ اسے بیان نہ کرو تو اسے مت بیان کرو۔ مگر کوئی بات کرو اور جھوٹ بولو یہ جائز نہیں۔ سچ بولنے کے یہ معنے نہیں کہ ہر بات جو تم کو معلوم ہے ضرور بیان کر دو۔ تمہیں یہ حق ہے کہ بعض باتوں کے متعلق کہہ دو کہ مَیں بیان نہیں کرنا چاہتا۔ بعض باتیں خواہ وہ سچ ہوں بیان کرنے سے قانون نے بھی روکا ہے مثلاً قانون یہی ہے کہ جو بات دوسرے کو بُری لگے اس کی بناء پر ہتک عزت کا مقدمہ ہو سکتا ہے۔ پس یہ ضروری نہیں کہ ہر سچی بات ضرور بیان کرو۔ ہاں جوبیان کرو وہ سچ سچ بیان کر دو۔ پس یہ باتیں ضرور اپنے اندر پیدا کرو۔ خدمت خلق، چستی، سچائی اورمعاملات کی درستی۔ اگر ایک پیسہ بھی کسی سے لیا ہے تو جب تک اسے واپس نہ کرو تمہیں چین نہ آئے۔ محنت کی عادت ڈالو۔ اپنا سبق اچھی طرح یاد کرو۔ رستہ میں مسافروں سے اچھا سلوک کرو۔ ماں باپ کی خدمت کرو اور ایسا نمونہ دکھاوٴ کہ جس طرح پھول لے کر کوئی شخص ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتا ہے تو تمام رستہ میں ان کی خوشبو پھیل جاتی ہے اسی طرح اب جو تم اپنے اپنے گھروں کو جو ہندوستان کے ہر گوشہ میں ہیں جاوٴ تو تمام ہندوستان تمہاری خوشبو سے مہک اٹھے اور جس طرح پھولوں کی خوشبو پھیلتی ہے تمہاری خوشبو بھی سارے ملک میں پھیل جائے اور تمام ملک تمہاری خوشبو سے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک مہک اٹھے۔ اگر تم ان باتوں پر عمل کرو گے تو واقعی تمام ملک تمہاری خوشبو سے مہک اٹھے گا اور لوگ کہیں گے کہ کیسا خوش قسمت ہے ہمارا ملک کہ جس میں ایسے بچے پیدا ہوئے ہیں۔ اور ملک کی کتنی خوش قسمتی ہے کہ اس کی باگیں اب ان کے ہاتھوں میں آنے والی ہیں۔ ’’
(الفضل 30 جولائی 1941ء)
1 تاریخ طبری جلد 5 صفحہ 72 مطبوعہ بیروت 1987ء
2 مسلم کتاب الایمان باب الدلیل علی دخول طوائف المسلمین الجنة بغیر حساب و لا عذاب
3 مسلم کتاب البر و الصلة باب تراحم المومنین و تعاطفھم و تعاضدھم
4 مجانی الادب جز ثانی صفحہ 43 مطبوعہ بیروت

24
جماعت احمدیہ کے لئے مشکلات کے ایام
( فرمودہ یکم اگست 1941ء )

تشہد، تعوّذ اور سورہٴ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘مجھے کھانسی اورگلے کی خرابی کی شکایت ہے اس لئے زیادہ بول نہیں سکتا لیکن جماعت کو اس امر کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی سنت کے مطابق کبھی دن آتا ہے اور کبھی رات آتی ہے اسی طرح الٰہی جماعتیں جو ہوتی ہیں ان پر بھی کبھی دن کی کیفیت آتی ہے اور کبھی رات کی کیفیت آتی ہے۔ کبھی اللہ تعالیٰ ان کے لئے سہولت بہم پہنچا دیتا ہے اور کبھی ان کے لئے مشکلات پیدا کر دیتا ہے۔ مومن کافر اور منافق میں یہی فرق ہوتا ہے کہ ایسی تکالیف کے دنوں میں اور ایسی مشکلات کے وقتوں میں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کافر مایوس ہو جاتا ہے اور کافروں کے لئے زیادہ تر ایسے ہی وقت آتے ہیں۔ کامیابیوں کے وقت کفار کے لئے محدود اور تھوڑے ہوتے ہیں۔ میری مراد ان کفار سے ہے جو انبیاء یا ان کی جماعتوں کے مقابلہ پر کھڑے ہوتے ہیں۔ ان کے سوا جو کفار ہوتے ہیں ان سے اللہ تعالیٰ کا معاملہ اور ہوتا ہے اور وہ اپنی دنیوی جدو جہد اور محنت کے مطابق نتائج دیکھ لیتے ہیں لیکن جو کفار انبیاء اور ان کی جماعتوں کا مقابلہ کرتے ہیں ان کی محنتیں بہت کم نتیجہ خیز ہوتی ہیں۔ وہ اگر سَوروپیہ خرچ کریں تو ایک روپیہ کا نتیجہ نکلتا ہے اور اگر سَو آدمی ایک کام پر لگائیں تو ایک آدمی کے برابر کام ہوتا ہے۔ مگر الٰہی جماعتوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ بِالعموم ان کاموں میں اللہ تعالیٰ برکت دیتا ہے۔ ترقیات عطا کرتا ہے اور سہولتیں بہم پہنچاتا ہے۔ یہ سہولتیں نتائج کے لحاظ سے ہوتی ہیں۔ ورنہ قربانیاں تو ان کو دوسروں سے زیادہ کرنی پڑتی ہیں اور قربانیاں زیادہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ تھوڑے ہوتے ہیں اور ان کے مخالفین زیادہ ہوتے ہیں۔ انہیں اس لئے زیادہ قربانیاں نہیں کرنی پڑتیں کہ ان کی قربانیوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا بلکہ اس لئے کہ وہ تھوڑے ہوتے ہیں اور ان کے مقابل پر زیادہ طاقت خرچ ہو رہی ہوتی ہے۔
پس اللہ تعالیٰ نتائج کے لحاظ سے ان کے لئے سہولت بہم پہنچاتا ہے اور ان کے کاموں میں برکت دیتا ہے اور اس حد تک ان کو ترقیات عطا کرتا ہے کہ ان کو دیکھ کر بھی دشمن کے دل میں حسد اور جلن پیدا ہونے لگتی ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ہی جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے مومنوں کے لئے بھی مشکلات کے وقت آتے ہیں۔ ایسے وقت کبھی تو اللہ تعالیٰ مومنوں کے امتحان کے لئے لاتا ہے اور کبھی دشمنوں کو ایک جھوٹی خوشی دکھانے کے لئے مومنوں کو تکلیف میں ڈالتا ہے اور ایسے ہی وقت میں مومن اور منافق میں امتیاز ہو جاتا ہے۔ مومن صرف کامیابیوں کی امید کے وقت میں ہی قربانیاں نہیں کرتے بلکہ اس وقت بھی کرتے ہیں جب بظاہر حالات کامیابی کی کوئی امید نہیں ہوتی۔ مگر منافق کی یہ حالت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب تو راحت اور آسائش کا سامان ہو تو وہ آگے ہوتا ہے مگر جب رنج یا تکلیف کا موقع آئے تو اس کی یہ کیفیت ہو جاتی ہے کہ ڈر کے مارے اس طرح پیچھے ہٹ جاتا ہے جیسے سامنے موت کھڑی ہے۔ چونکہ وہ مومنوں کے ساتھ ملا ہوٴا ہوتا ہے اس لئے مومنوں کی خوشیاں اسے بھی میسر آتی ہیں۔ مگر مصیبت کے وقت میں اس کے اور مومن کے درمیان امتیاز ہو جاتا ہے۔ مومن کی تو یہ حالت ہوتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کامیابیاں آئیں تو وہ خوش ہوتا ہے۔ اس لئے نہیں کہ اس کی کسی کوشش کا نتیجہ نکلا بلکہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فضل کیا ہے۔ مگر جب مشکلات کا وقت آئے تو بھی وہ مایوس نہیں ہوتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میرا خدا مجھے چھوڑے گا نہیں اور جو خدا تعالیٰ کا اس طرح ہو جاتا ہے کہ سمجھتا ہے کہ میرا خدا مجھے کبھی ضائع نہیں کرے گا اسے اپنی کسی طاقت یا قابلیت پر گھمنڈ نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کا بھروسہ اللہ تعالیٰ پر ہوتا ہے اور عسر و یسر، ترقی و کمزوری اور عزت و ذلت ہر حالت میں اسے یقین ہوتا ہے کہ میرا خدا مجھے ضائع نہیں کرے گا۔ وہی مومن کہلانے کا مستحق ہوتا ہے اور اسی کا نام ایمان ہے جو سمجھتا ہے کہ میرا خدا مجھ پر مہربان ہے اورکہ مَیں نے اس کی بھیجی ہوئی صداقت کو قبول کر لیا ہے اور یہ کبھی ہو نہیں سکتا کہ میرا خدا مجھے ضائع کر دے۔ اگر خدا تعالیٰ نے میرے لئے کوئی مشکلات پیدا کی ہیں تو یہ میری کسی غلطی کی چھوٹی سی سزا دینے یا میرے ایمان کے امتحان کے لئے ہے اور یا پھر دشمن کو جھوٹی خوشی دکھانے کے لئے تا اس کی ناکامی اور بھی بھیانک نظر آئے کیونکہ جب انسان کو کامیابی کی امید ہو اور پھر اسے ناکامی ہو تو یہ ناکامی بہت زیادہ بھیانک ہوٴا کرتی ہے۔ اسی واسطے اللہ تعالیٰ کبھی کبھی کسی کام کے دوران کافروں کو جھوٹی خوشی بھی دکھا دیتا ہے تا وہ اپنی کامیابی کی امید باندھ لیں اور بعد میں انہیں ناکام کر دیتا ہے اور اس طرح ان کی ناکامی ان کے لئے بہت رنج دہ ہو جاتی ہے۔ جس طرح کسی شخص کا کوئی عزیز سخت بیمار ہو اور بیچ میں اس کی صحت کی امید پیدا ہو جائے مگر بعد میں مر جائے تو زیادہ صدمہ ہوتا ہے۔ بعض سخت بیمار موت سے تھوڑا عرصہ قبل کچھ تندرست نظر آنے لگتے ہیں۔ جسے ہمارے ملک میں سنبھالا کہتے ہیں ۔ بعض ناواقف اس سنبھالے کو دیکھ کر خوش ہو جاتے ہیں کہ ہمارا عزیز تندرست ہو رہا ہے مگر جب یکدم موت واقع ہو جاتی ہے تو صدمہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ یہی سلوک اللہ تعالیٰ کا کفار سے ہوتا ہے۔ کبھی وہ ان کو جھوٹی خوشی دکھاتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں ہم کامیاب ہو جائیں گے اور وہ کامیابی کے سرے پرپہنچ بھی جاتے ہیں مگر وہاں پہنچ کر اللہ تعالیٰ ان کی ذلت، ان کی زک اور ان کی شکست کے سامان پیدا کر دیتا ہے اور ایسی حالت میں ان کو اپنی شکست اس سے بہت زیادہ بھیانک نظر آتی ہے جتنی کہ وہ دراصل ہوتی ہے کیونکہ پہلے ان کے دل میں کامیابی کی امید بندھ گئی تھی۔
پس یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ مومنوں کے لئے کبھی ابتلاء کے سامان پیدا کر دیتا ہے اور کبھی آرام و آسائش کے، کبھی قبض کی حالت پید اکر دیتا ہے اورکبھی بسط کی۔ اور ہمارے لئے بھی یہ حالتیں پیدا ہوتی رہتی ہیں اور ان ایام میں بھی مختلف رنگوں میں اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دئیے ہیں جو بظاہر تکلیف دہ نتائج پیدا کرنے والے ہیں تا وہ ہماری کمزوریوں کو دور کرے۔ یا شاید مخالفوں کو جھوٹی خوشی دکھانے کے لئے، تا وہ سمجھیں کہ اب ہمارا ہاتھ اچھی طرح پڑ گیا ہے ۔ اس قسم کی کئی باتیں ہیں جن کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ کئی مشکلات پیدا ہو رہی ہیں ہمارے عام دشمنوں کی طرف سے ہی نہیں بلکہ بعض گورنمنٹ کی طرف سے بھی ہیں۔ بعض اور حوادث بھی ہیں جن کے بیان کی ضرورت نہیں۔ مَیں اس وقت صرف دوستوں کو خاص طور پر دعاوٴں کی تاکید کرتا ہوں تا اللہ تعالیٰ جماعت کو دشمنوں کی شرارتوں اور مخالف کوششوں سے محفوظ رکھے۔ اور وہ جس طرح ہمیشہ ان کو ناکامی اور ذلّت کا مُنہ دکھاتا رہا ہے اب بھی ناکامی اورذ لت کا مُنہ دکھائے اور کہیں سے ہمیں کسی قسم کی مدد کی امید نہیں وہی ہمارا رب ہے اور ہم اس کے بندے ہیں اور اسی سے ہم نے مانگنا اور طلب کرنا ہے۔ دنیا میں کسی کو اپنے جتھے پر گھمنڈ ہوتا ہے، کسی کو مال و دولت پر، کسی کو اپنی طاقت و قوت پر گھمنڈ ہوتا ہے اور کسی کو اپنے سامانوں پر مگر ہمارے لئے گھمنڈ کی کوئی چیز نہیں سوائے خدا تعالیٰ کی ذات کے ہمارے لئے اور کوئی جگہ نہیں۔ وہی ہے جس نے ابتدا میں تھوڑے سے احمدیوں کو اٹھایا اور اس حد تک ترقی دی اور وہی ہے جو اب ہمیں دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھتے ہوئے اور ترقیات عطا کرے گا اور اور بڑھائے گا۔ اِنْشَاءَ اللّٰہُ تَعَالٰی۔
پس مَیں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ خصوصیت سے دعائیں کریں ۔جو دوست نمازوں میں دعائیں کرنے میں سست ہیں وہ اب نمازوں میں بہت دعائیں کریں اور جو نمازوں میں پہلے ہی خوب دعائیں کرتے ہیں وہ دوسرے اوقات میں بھی کریں تا اللہ تعالیٰ ہمارے دشمنوں کو ناکام و نامراد کرے ، ہماری مشکلات کو دور فرمائے اور اپنی رحمت کے دروازے ہمارے لئے کھول دے۔ ایسے وقت میں مسنون دعائیں بھی کرنی چاہئیں ۔ قرآن کریم کی دعائیں بھی بہت فائدہ دینے والی ہیں اس لئے انہیں خصوصیت کے ساتھ استعمال کیا جائے۔ پھر وہ دعا بھی جو مَیں نے پہلے بتائی ہوئی ہے یعنی اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَ نَعُوْذُ بِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ 1 خاص طور پر مانگنی چاہئے ۔ یہ رسول کریم ﷺ کی دعا ہے جسے آپ دشمنوں کے مقابلہ کے خاص مواقع پر مانگا کرتے تھے اور ہم پہلے بھی اس کا تجربہ کر چکے ہیں اور اس سے فوائد بھی حاصل کئے ہیں اس لئے پھر اسے خصوصیت کے ساتھ مانگنا چاہئے۔ پھر یہ بھی دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان مشکلات کے وقت میں اپنے فضل سے ہمارے لئے ترقی کے سامان پیدا کر دے اور آرام و راحت کے سامان پیدا کر دے اور ان مشکلات کو بھی دور فرمائے جو زمانہ کے حالات کے لحاظ سے جماعت یا افراد جماعت کی ترقی اور ان کی راحت و آسائش میں حائل ہیں۔
اس کے بعد میں مسجد کے منتظمین سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ عورتیں تین جمعوں سے محروم ہیں کہا جاتا ہے کہ لاوٴڈ سپیکر خراب ہے مگر اس خرابی کی وجہ مَیں نہیں سمجھ سکتا۔ جہاں تک مجھے علم ہے عورتوں نے بہت سا چندہ جمع کر کے دیا تھا کہ آواز بڑھانے والے آلے ان کے لئے لگا دئیے جائیں مگر بے سود۔ انہوں نے رقم بھی جمع کی مگر پھر بھی ان کا حصہ خرابی کی حالت میں انہیں ملتا ہے۔ اگر لاوٴڈ سپیکر خراب ہو چکا ہے تو اسے ٹھیک کرانا چاہئے تھا یا اگر وہ درست ہونے کے قابل نہیں رہا تو پھر بھی ان کو بتانا چاہئے تھا تا وہ ہمت کر کے اور چندہ جمع کر کے نیا خریدنے کا انتظام کر لیتیں اور اس طرح تین جمعوں سے محروم نہ رہتیں۔ ’’
(الفضل 3 اگست1941ء )
1 ابو داوٴد کتاب الوتر باب مَا یَقُوْلُ الرَّجُلُ اِذَا خَافَ قَوْمًا



25
دل کا اطمینان کر کے سچائی کو قبول کرو اور قبول کرنے کے بعد استقلال سے کام لو
( فرمودہ8 اگست 1941ء )
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘انسانی فطرت میں یہ امر داخل ہے کہ جب کبھی اس کے دل میں کوئی جوش پیدا ہوتا ہے تو وہ اپنے ماحول کے باہر سب چیزوں کو بالکل بھول جاتا ہے اور اس وقت اسے صرف یہی نظر آتا ہے کہ جو چیز میرے سامنے ہے۔ بس دنیا کی ساری خوبیاں اور ساری ترقیاں یا سارے تنزل اور ساری تباہیاں اسی سے وابستہ ہیں۔ گویا بچپن کی یہ خصلت بڑے ہو کر بھی انسان میں موجود رہتی ہے کہ جب کسی کھلونے پر بچے کا دل آتا ہے تو اس وقت وہ یہ سمجھتا ہے کہ بس اس کھلونے کے ملے بغیر میری زندگی ناممکن ہے۔ وہ روتا ہے، وہ چڑتا ہے وہ ماں کے ساتھ لڑتا ہے۔ وہ باپ سے اصرار کرتا ہے کہ بس مجھے یہ کھلونا مل جائے اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اگر وہ کھلونا اس کونہ ملے تو اسے بخار چڑھ جاتا ہے بلکہ بعض دفعہ تو بچے بیمار ہو کرمر جاتے ہیں جب ان کی کوئی خواہش پوری نہ ہو۔ اور بچے کی یہ کھلونے کی خواہش اتنی زبردست ہوتی ہے کہ ہم تو دیکھتے ہیں بچہ جب ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے تو ماں بھی بچہ بن جاتی ہے۔ ایامِ حمل میں ماوٴں کو ایک شدید خواہش پیدا ہوتی ہے جسے پنجابی زبان میں ‘‘اروئے’’ کہتے ہیں۔ یوں تو ان کو اس طرح کی شدید خواہش نہیں ہوٴا کرتی مگر جب حاملہ ہوتی ہیں کسی ایک چیز کی خواہش جو بعض دفعہ غیر معمولی طور پر مشکلُ الْحصول ہوتی ہے ان کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے اور بعض دفعہ تو وہ خواہش اتنی مضحکہ خیز ہوتی ہے کہ انسان سن کر حیران ہو جاتا ہے۔ اگر اس وقت عورت کی وہ خواہش پوری نہ کی جائے تو سو میں سے پانچ سات یا دس کیس ایسے ہوتے ہیں کہ حمل گر جاتا ہے۔ بِالعموم عورتوں کو کسی نہ کسی کھانے کی خواہش ہوتی ہے مثلاً کبھی ایسا ہو گا کہ وہ کہے گی میرا سیب کھانے کو دل چاہتا ہے اور پھر اس کا دل اتنا چاہے گا اتنا چاہے گا کہ اسے خوشبو بھی سیب کی آئے گی اور کہے گی کہ مجھے سیب کی خوشبو آ رہی ہے اور جب تک اس کی یہ خواہش پوری نہ ہو اس وقت تک وہ بے قرار اور مضطرب رہے گی۔ دوسرے ملکوں میں یہ بات ہے یا نہیں مگر ہمارے ملک میں بِالعموم عورتوں کو ایامِ حمل میں مٹی کھانے کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے۔ پھر اس کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ کسی کو اس جگہ کی مٹی اچھی لگتی ہے جہاں کیچڑ نیا نیا لیپا گیا ہو، کسی کے دل میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ چولھے کی مٹی کھائے، کسی کا یہ جی چاہتا ہے کہ اگر کوئی کچا آبخورہ ہو تو اس کی ٹوٹی ہوئی مٹی کھاوٴں۔ حتیٰ کہ چند دن ہوئے ایک شخص سے مَیں نے سنا جس سے مجھے سخت حیرت ہوئی کہ ایک عورت نے ایامِ حمل میں کُتّے کو پاخانہ چاٹتے دیکھا او راس کا جی چاہا کہ وہ بھی اسی طرح کوئی چیز کھائے۔ چنانچہ اس کے دل میں اس کی اتنی شدید خواہش پیدا ہوئی کہ اس نے چولہا بنا کر اور اس میں کڑھی ڈال کر کُتّے کی طرح چاٹی۔ مَیں سمجھتا ہوں بچے کے دل میں چونکہ شدید خواہش ہوتی ہے اورجب وہ کسی چیز کے پیچھے پڑتا ہے تو اسے چھوڑتا نہیں۔ اس لئے ماں کے دل میں بھی بچے جیسی خواہش پیدا ہو جاتی ہے اور ایام حمل میں بچہ کے اثرات کی وجہ سے ماں بھی بچہ بن جاتی ہے۔ غرض بچوں کے دل میں جب وہ چھوٹے ہوتے ہیں کھلونے کی اتنی شدید خواہش ہوتی ہے کہ بعض دفعہ اس خواہش کے پورا نہ ہونے کی وجہ سے وہ بیمار ہو کر مر جاتے ہیں۔ مگر دوسری طرف ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ان کے ماں باپ جب انہیں کھلونا لے دیتے ہیں تو یہ نہیں ہوتا کہ وہ انہیں سنبھال کر رکھیں، ان کی قدر دانی کریں اور سمجھیں کہ ان کی وہ خواہش جس کے لئے انہوں نے گھر بھر کو سر پر اٹھایا ہوٴا تھا۔ جب کھلونے کے ذریعہ پوری ہوئی ہے تو وہ اسے احتیاط سے رکھیں بلکہ اسی وقت اسے توڑنے لگ جاتے ہیں اور بعض دفعہ تو آدھ گھنٹہ بھی نہیں گزرتا کہ وہ اس کھلونے کو اٹھا کر پرے پھینک دیتے ہیں اور ماں سے کہتے ہیں ہمیں یہ مطلوب نہیں۔
یہی فطرت بعض انسانوں میں بھی جب ان کی صحیح تربیت نہیں ہوتی جوانی کے ایام میں بھی پائی جاتی ہے۔ وہ بڑے ہو جاتے ہیں مگر فطرتاً بچے ہی ہوتے ہیں اور جب دنیا میں مختلف کام ان کے سامنے آتے ہیں تو کوئی نہ کوئی خواہش ان کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے۔ اس وقت وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ان کی خواہش جائز ہے یا ناجائز، پسندیدہ ہے یا ناپسندیدہ بلکہ وہ دیوانہ وار اس کے حصول میں لگ جاتے ہیں اور بسا اوقات جب وہ چیز ان کو حاصل ہو جاتی ہے تو اس کے بعد انہیں اس کی ذرہ بھر بھی پرواہ نہیں رہتی بلکہ بعض دفعہ تو اس کے ساتھ ایک قسم کی نفرت پیدا ہو جاتی ہے۔
ہمارے قادیان میں ایک دوست ہیں۔ ہم چھوٹے ہوتے تھے تو وہ نیم مجنون ہونے کی حالت میں قادیان آئے اور انہیں مدرسہ میں لڑکوں کو پڑھانے پر لگا دیا گیا۔ میرے ایک ساتھی نے مجھے ایک دفعہ خاص طور پر ان کے متعلق بتایا کہ انہیں یہ جنون ہے کہ وہ ایک خاص لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اگر اس جگہ میری شادی نہ ہوئی تو بس تباہی آ جائے گی۔ پھر اس کے بعد مَیں نے دیکھا کہ وہ روزانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کو رقعے لکھتے کہ دعا کریں میری اس جگہ شادی ہو جائے۔ حضرت خلیفہٴ اول ان کا علاج بھی کرتے رہے اور دوست ان سے تمسخر بھی کرتے اور انہیں منع بھی کرتے۔ مگر ان کا جنون نہ جانا تھا نہ گیا۔ آخر ان کی شادی ہوئی اور وہیں ہوئی جہاں وہ چاہتے تھے۔ پھر اس عورت سے ان کی اولاد بھی پیدا ہوئی مگر مجھے ہمیشہ یہ دیکھ کر گزشتہ تمام نظارہ یاد آ جاتا ہے کہ باپ اب اپنی اولاد کی شکل تک دیکھنے کا روادا ر نہیں۔ ان کا ایک ہی بیٹا ہے اور وہ اچھا نیک اور مخلص احمدی ہے۔ ایک دفعہ یہاں آیا اور اس نے مجھے لکھا کہ مَیں بیمار ہوں اور مسلول ہوں۔ اس بیماری اورمسلول ہونے کی حالت میں مجھے خیال آیا کہ قادیان کی زیارت کر آوٴں۔ معلوم نہیں کتنی زندگی باقی ہے۔ وہ اپنے باپ کے گھر گیا تو باپ نے اسے گھر میں ٹھہرنے نہ دیا۔ پھر وہ مہمان خانہ میں گیا تو اس کے باپ نے مہمان خانہ والوں کو لکھا کہ میرے اس لڑکے کو فوراً مہمان خانہ سے نکال دیا جائے۔ یہ نہیں کہ اس لڑکے میں کوئی عیب پایا جاتا تھا جس کی وجہ سے اس نے ایسا سلوک کیا۔ وہ لڑکا نہایت اچھا اور نیک ہے مگر اس کے باپ کے دماغ کی کوئی کل ایسی بگڑی ہے کہ وہ اسے اپنے ہاں نہیں ٹھہرا سکتے حالانکہ ہمیں معلوم ہے یا تو وہ نیم پاگل حالت میں قادیان میں ہجرت کر کے آئے تھے اور ہجرت بھی انہوں نے ایک عورت کی خاطر کی تھی۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے مَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہٗ اِلٰی دُنْیَا یُصِیْبُھَا اَوْ اِلَی امْرَأَةٍ یَنْکِحُھَا فَھِجْرَتُہٗ اِلٰی مَا ھَاجَرَ اِلَیْہِ۔1 کہ جو دنیا کی خاطر یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لئے ہجرت کرے اس کی ہجرت خدا اور رسول کے لئے نہیں بلکہ دنیا اور عورت کے لئے سمجھی جائے گی۔ انہوں نے بھی اس لئے ہجرت کی کہ کسی طرح اس عورت سے شادی ہو جائے۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام سے دعائیں کرائیں اور بار بار لکھا کہ حضور دعا کریں میری فلاں جگہ شادی ہوجائے۔ پھر شادی ہوگئی اور اس شادی کے نتیجہ میں اولاد بھی پیدا ہوئی مگر اسی محبوبہ کی اولاد سے پھر ان کی اتنی دشمنی ہوئی کہ وہ اس کا سامنے آنا تک پسند نہیں کرتے۔ اب یہ وہی مرض ہے جو بچپن کی حالت میں انسان کے اندر ہوتا ہے۔ پہلے بچہ شور مچاتا ہے کہ مَیں نے کھلونا لینا ہے اورجس طرح بھی ہو اُسے حاصل کرنا ہے پھر جب وہ کھلونا اسے مل جاتا ہے تو نہایت بے پروائی کے ساتھ اسے توڑ پھوڑ ڈالتا ہے۔ اسی قسم کی اور ہزاروں ہزار مثالیں دنیا میں ملتی ہیں اور ایسے ایسے عجیب واقعات نظر آتے ہیں کہ دیکھ کر حیرت آتی ہے۔ خود مجھے جماعت کے کئی لوگ دعاوٴں کے لئے لکھتے رہتے ہیں اور ایسے شدید اضطراب کے ساتھ لکھتے ہیں کہ یوں معلوم ہوتا ہے اگر ان کی خواہش پوری ہو گئی تو ہمیشہ کے لئے ان کو سکونِ قلب اور اطمینان حاصل ہو جائے گا مگر جب ان کی خواہش پوری ہو جاتی ہے اور جس چیز کے حصول کے لئے وہ پے در پے دعاوٴں کے لئے لکھتے ہیں انہیں مل جاتی ہے تو انہیں اس کی کچھ بھی پرواہ نہیں رہتی۔ تمام ولولے ختم ہو جاتے ہیں، تمام جوش سرد پڑ جاتے ہیں اور ان کی تمام خواہشیں مٹ جاتی ہیں۔ یہی وہ مرض ہے جس سے بے استقلالی پیدا ہوتی ہے۔بے استقلالی درحقیقت اسی قسم کی حالت کا جو جنون کی حد تک پہنچی ہوئی ہوتی ہے ایک چھوٹا درجہ ہے اور بے استقلالی اسی کا نام ہے کہ ایک شخص کسی دوسرے کو دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ بڑا اچھا آدمی ہے۔ پھر اس سے دوستی پیدا کر لیتا ہے مگر چند دنوں کے بعد ہی اس دوستی کو توڑ دیتا ہے۔ ایک عقیدہ کو دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ بڑا اچھا عقیدہ ہے چنانچہ اس عقیدہ کو اختیار بھی کر لیتا ہے مگر چند دنوں کے بعد ہی اس عقیدہ کو ترک کر دیتا ہے۔ ایک مذہب کو دیکھتا ہے تو اس کی خوبیوں کا فریفتہ ہو جاتا ہے مگر چند دنوں کے بعد ہی اس کا تمام جوش وخروش جاتا رہتا ہے اوراسی مذہب میں اسے سینکڑوں نقائص اور عیوب نظر آنے لگ جاتے ہیں۔ سینکڑوں مثالیں اس قسم کی ملتی ہیں کہ لوگ آئیں گے اور بڑے جوش سے اپنی عقیدت کا اظہار کریں گے۔ کہیں گے ہمیں تو ایک موتی مل گیا، ایک لاثانی جوہر ہم کو حاصل ہو گیا، اطمینانِ قلب جو برسوں سے ہمیں میسر نہیں تھا آج خدا نے ہمیں عطا کر دیا۔ دل کو تسکین حاصل ہو گئی۔ خدا نے ایک نور ہمارے اندر بھر دیا اورہمیں احمدیت کیا ملی ہمیں تو خدا مل گیا، ہمیں خدا کا رسول مل گیا۔
غرض ان کی حالت کو اس وقت دیکھنے سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک نیا ابو بکرؓ ہمارے سلسلہ میں داخل ہو رہا ہے، ایک نیا عمرؓ ہمیں خدا دے رہا ہے۔ ایک نیا عثمانؓ ظاہر ہو رہا ہے یا ایک نیا علیؓ ہمیں دکھائی دے رہا ہے۔ مگر تین چار ماہ کے بعد ہی اسے اس جوہر میں شگاف دکھائی دینے لگ جاتا ہے۔ موتی اسے گدلا نظر آنے لگ جاتا ہے۔ اطمینانِ قلب اس کے ہاتھوں سے کھویا جاتا ہے۔ نہ اس کی نمازوں میں جوش رہتا ہے نہ اسے عبادت میں رغبت رہتی ہے نہ اسے جماعت کے افراد میں کوئی خوبیاں دکھائی دیتی ہیں۔ اگر اسے دکھائی دیتا ہے تو بس یہ کہ فلاں میں یہ نقص ہے، فلاں میں وہ عیب ہے، فلاں ایسا بُرا ہے اور فلاں ایسا بُرا ہے۔ گویا جہاں سے چلا تھا وہیں آ جاتا ہے۔ پھر اس کی طبیعت چاہتی ہے کہ اب مجھے کوئی اور کھلونا مل جائے ۔ یہ نہیں کہ ایسے لوگ مرتد ہو جاتے ہیں۔ کئی مرتد بھی ہو جاتے ہیں مگر جو مرتد تو نہیں ہوتے ان کے دل کا اخلاص جاتا رہتا ہے۔ انہوں نے اپنے ذہن میں پہلے کسی چیز کا نقشہ بنایا ہوٴا ہوتا ہے۔ پھر ان کے اس جنون کا دو طرح اظہار ہوتا ہے۔ ایک تو اس طرح کہ مجنونانہ طور پر انہوں نے کوئی غلط معیار قائم کیا ہوٴا ہوتا ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ اگر ان کے معیار پر کوئی چیز اتری تو اسے وہ مان لیں گے اور اگر ان کے معیارکے مطابق نہ ہوئی تو اسے رد کر دیں گے۔ حالانکہ وہ معیار ان کے خود تراشیدہ ہوتے ہیں۔ مثلاً دنیا میں جب خدا تعالیٰ کسی دینی سلسلہ کو قائم کرے گا تو لازماً اسے اپنی سنت کے مطابق چلائے گا۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ اسے لوگوں کی خواہشات کے مطابق چلائے۔ جو طریق خدا تعالیٰ کا نوحؑ کے وقت رہا، جو طریق خدا تعالیٰ کا ابراہیمؑ کے وقت رہا، جو طریق خدا تعالیٰ کا موسیٰ ؑ کے وقت رہا، جو طریق خدا تعالیٰ کا عیسیٰ ؑ کے وقت رہا اور جو طریق خدا تعالیٰ کا رسول کریم ﷺ کے وقت رہا وہی طریق اس کا اب بھی ہو گا اور جس منہاج پر پہلے سلسلوں کو خدا تعالیٰ نے قائم کیااسی منہاج اور طریق پر اب الٰہی سلسلے قائم ہوں گے اور الٰہی جماعتوں پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی ہوتے ہیں۔ نیک بھی ہوتے ہیں اوربد بھی ہوتے ہیں۔ پھر ان کمزور لوگوں میں سے کچھ تو پھسل جاتے ہیں ۔ کچھ پھسلتے پھسلتے سنبھل جاتے ہیں۔ کچھ مصائب کے تھپیڑے کھا کر اصل راستہ پر چل پڑتے ہیں اور کچھ مرتد ہو جاتے ہیں۔ یہی طریق خدا تعالیٰ کا ہمیشہ سے چلا آیا ہے۔ اور ہمیشہ چلتا چلا جائے گا مگر وہ جو اپنے آپ کو ہٹلرِ زماں سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ تمام افراد نیکی کے ایک معیار پر ہوں ان کا ایک لیول ہو، ان سب میں ایک قسم کی قربانی کی خواہش پائی جاتی ہو۔ سب میں نیکیوں کا ایک جیسا جوش ہو۔ اور کوئی نقص اور کمزوری ان میں سے کسی میں دکھائی نہ دیتی ہو۔
غرض ان کا پہلا جنون تو یہ ہوتا ہے کہ وہ خدا پر حاکم بننا چاہتے ہیں اور ان کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ الٰہی سلسلے ان کے معیار کے مطابق ہوں۔ خدائی طریق کے مطابق نہ ہوں۔ پھر دوسرا جنون ان کا یہ ہوتا ہے کہ جب وہ ایک سلسلہ کو دیکھتے ہیں تو اندھے ہو جاتے ہیں اور باوجود اس کے کہ جو باتیں ان کے ذہن میں ہوتی ہیں وہ اس سلسلہ کے تمام افراد میں موجود نہیں ہوتیں۔ پھر بھی وہ کہتے ہیں کہ ہم نے دیکھ لیا ۔ یہ سلسلہ بالکل سچا اور خدا تعالیٰ کا قائم کردہ ہے پھر مہینہ ڈیڑھ مہینے کے بعد جب ان کا جنون دور ہوتا ہے تو انہیں لوگوں میں وہ کمزوریاں بھی نظر آنے لگ جاتی ہیں جو مومنوں کی جماعتوں میں بھی ہوتی ہیں، انہیں وہ منافق بھی نظر آنے لگ جاتے ہیں جو ہر جماعت میں پائے جاتے ہیں، انہیں وہ مرتد بھی نظر آنے لگ جاتے ہیں جو ہمیشہ الٰہی جماعتوں سے کٹ کر علیحدہ ہوتے رہے ہیں اور کہتے ہیں ہم سے بڑا دھوکا ہوٴا ہم سمجھے کچھ اور تھے اور نکلا کچھ اور۔ حالانکہ قرآن موجود ہے۔ تم اسے پڑھ کر دیکھ لو کیا دنیا میں کبھی کوئی جماعت ایسی ہوئی ہے جس میں کمزور لوگ نہ پائے گئے ہوں جس میں منافق نہ ہوں اور جس میں مرتدین کا وجود نہ پایا جاتا ہو۔ رسول کریم ﷺ کی جماعت سے بڑھ کر اور کونسی جماعت ہو سکتی ہے۔ مگر ہمیں تو رسول کریم ﷺ کی جماعت میں بھی منافق نظر آتے ہیں۔ آپ کی جماعت میں بھی سست لوگ دکھائی دیتے ہیں۔ آپ کی جماعت میں بھی گالیاں دینے والے نظر آتے ہیں مگر اس کے ساتھ ہی چست اور مخلص لوگ بھی آپ کی جماعت میں نظر آتے ہیں۔ پھر اگر یہی باتیں کسی اورجماعت میں پائی جائیں تو یہ امر اس کے جھوٹا ہونے کی کس طرح دلیل ہو سکتا ہے۔
آخر دین منتر جنتر تو ہوتا نہیں کہ پھونک ماری اور انسان کو ولی بنا دیا۔ دین تو متواتر اور پے در پے قربانی کرنے کا نام ہے۔ جس طرح ہیرے کو ایک ماہرِ فن چھیل چھیل کر درست کرتا ہے اور بعض دفعہ ایک ایک ہیرا سال سال میں ٹھیک ہوتا ہے اسی طرح انسانوں کی اصلاح پر وقت لگتا ہے بلکہ ہیرا تو پتھر کا ہوتا ہے اسے اگر درست کرنے میں ایک سال لگ سکتا ہے تو انسان استقلال سے اگر اپنے نفس کی درستی اور اصلاح میں لگ جائے اور اس پر دس بیس سال بھی صرف ہو جائیں تو اس میں حرج کیا ہے۔ مگر وہ لوگ قلوب کی اصلاح کے لئے اتنا وقت بھی نہیں دینا چاہتے جتنا ایک ہیرے کی درستی پر صَرف ہوتا ہے حالانکہ ہیرا ایک پتھر ہوتا ہے جس کے نقائص نظر آ رہے ہوتے ہیں۔ کہیں پوشیدہ نہیں ہوتے پھر بھی باریک ریتی سے اس کی درستی پر سال سال لگ جگ جاتا ہے بلکہ بعض ہیروں کو درست کرنے پر تو کئی سال صرف ہو جاتے ہیں۔ لیکن انسان اپنے متعلق یہ چاہتا ہے کہ جب وہ کسی سلسلہ میں داخل ہو تو اسے ایسی پھونک ماری جائے کہ اسی وقت اس کی اصلاح ہو جائے پھر ہیرا تو مقابلہ نہیں کرتا۔ وہ یہ نہیں کہتا کہ مجھے مت چھیلو مَیں اس کے لئے تیار نہیں مگر انسان بسا اوقات مقابلہ پر تیار ہو جاتے ہیں۔ ایک شخص غلطی کرتا ہے اور اس کی اصلاح کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اسے سزا دی جائے مگر وہ کہتا ہے مَیں سزا برداشت نہیں کروں گا۔ ایک اور شخص غلطی کرتا ہے اور اس کی اصلاح کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اس سے سلسلہ کا زیادہ کام لیا جائے مگر وہ انکار کر دیتا ہے اور کہتا ہے مَیں زیادہ کام کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ایک اور شخص غلطی کرتا ہے اور اس کی اصلاح کی صورت یہ ہوتی ہے کہ وہ خاص رنگ میں مالی قربانی کرے مگر وہ مالی قربانی کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ اسی طرح ایک اور شخص غلطی کرتا ہے اور نظام سلسلہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے اخلاق کو بعض خاص قیود کے ماتحت لائے مگر وہ کسی قسم کی قید برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ اب بتایا جائے کہ ایسے انسان سے کوئی کس طرح کام لے سکتا اور کس طرح اس کی اصلاح کر سکتا ہے ۔ ایسے لوگوں کی درستی کی جب خدا بھی ذمہ داری نہیں لیتا تو بندہ کس طرح ان کی اصلاح کی ذمہ داری لے سکتا ہے؟ یوں تو بندہ کسی کا بھی ذمہ دار نہیں لیکن اگر بندہ کسی کی ذمہ داری لے سکتا ہے تو اسی شخص کی جو اپنے آپ کو بے جان کی طرح ڈال دے اور جماعتی فیصلہ کو صحیح تسلیم کرے۔ اگر کوئی شخص اپنے آپ کو اس رنگ میں اصلاح کے لئے سپرد نہ کرے اور بیس سال تک بھی صحبت میں رہے تو اس کی وہ صحبت اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ آخر مدینہ کے منافقین آٹھ آٹھ نو نو سال رسول کریم ﷺ کی صحبت میں رہے تھے مگر ان کی اصلاح نہ ہوئی اس لئے کہ انہوں نے اپنے آپ کو رسول کریم ﷺ کے سپرد نہیں کیا تھا۔ یہ نہیں کہا تھا کہ آپ جس طرح چاہیں اصلاح کریں بلکہ ہمیشہ ان کا یہی طریق رہا کہ جو بات ان کے منشاء کے مطابق ہوتی اسے مان لیتے اورجو منشاء کے مطابق نہ ہوتی اسے رد کر دیتے۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام بھی ایسے لوگوں کی اصلاح کا ذمہ نہیں لے سکتے تھے۔ چنانچہ باوجود اس بات کے کہ جماعت کے بعض لوگ پندرہ پندرہ بیس بیس سال آپ کی صحبت میں رہے وفات کے قریب آپ نے فرمایا کہ ہماری جماعت میں تین قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ ایک تو وہ ہیں جنہوں نے ہم کو دیکھا ہمارے دعویٰ کو سمجھا اور ہمیں سچے دل سے مان لیا مگر ایک دوسرا گروہ وہ ہے جس نے ہمیں نہیں دیکھا بلکہ مولوی نور الدین صاحب کو دیکھا اور ان کے علم، ان کی خدمات اور ان کی بنی نوع انسان سے ہمدردی کو دیکھ کر سینکڑوں آدمی جو اُن کے دوست تھے احمدیت میں شامل ہو گئے اور انہوں نے سمجھا کہ جب مولوی نور الدین صاحب احمدی ہو گئے ہیں تو ضرور یہ سلسلہ سچا ہو گا۔ پس ان کا ہمارے ساتھ تعلق مولوی صاحب کے طفیل ہے۔ اگر خدانخواستہ مولوی صاحب کسی ابتلاء میں آ جائیں تو ان کو بھی ابتلاء آجائے گا۔ پھر فرمایا تیسرا گروہ اُن نوجوانوں کا ہے جو اِدھر اُدھر پھر رہے تھے۔ ان کے دلوں میں جوش تھا اور وہ چاہتے تھے کہ کوئی کام کر کے دکھائیں مگر انہیں کوئی جماعت نظر نہیں آتی تھی جس میں شامل ہو کر وہ اپنی اس خواہش کو پورا کر سکیں۔ جب انہوں نے دیکھا کہ جماعت احمدیہ کی صورت میں ایک بنا بنایا جتھہ موجود ہے اور اس میں قربانی اور ایثار کا مادہ پایا جاتا ہے تو وہ اس جماعت میں شامل ہو گئے تاکہ اس سامان سے فائدہ اٹھا کر جو اس جماعت کے پاس ہیں وہ ایک مضبوط انجمن بنائیں اور دُنیوی انجمنوں کی طرح سلسلہ کے کاروبار کو چلائیں۔ غرض آپ نے فرمایا۔ یہ تین قسم کے گروہ ہماری جماعت میں پائے جاتے ہیں اور واقعات نے بھی ثابت کر دیا کہ یہی تین قسم کے گروہ ہماری جماعت میں تھے۔
پس یہ بات کہ انسان اپنے آپ کو اصلاح کے لئے سپرد نہ کرے۔ ترقی میں بہت بڑی روک ہوتی ہے اور اگر کوئی شخص ایسا ہو تو اس کی اصلاح بہت مشکل ہوتی ہے مثلاً وہی گروہ جس کا جماعت سے تعلق حضرت خلیفہ اول کی وجہ سے تھا۔ اس کے لئے ٹھوکر کا امکان تھا۔ یہ تو اتفاق کی بات ہے کہ ان کا تعلق ایک ایسے آدمی کے ساتھ تھا جو خدا کا پیارا تھا اور چونکہ حضرت خلیفہٴ اول خود خدا تعالیٰ کے پیارے تھے اس لئے ان کے ساتھ تعلق رکھنے والے لوگ بھی ٹھوکر سے بچ گئے لیکن فرض کرو ان کا تعلق کسی اور شخص مثلاً عبد الحکیم مرتد سے ہوتا تو جب عبد الحکیم کو ٹھوکر لگی تھی اسی وقت ان کو بھی لگ جاتی۔ یہ توحسنِ اتفاق ہے کہ ان کا تعلق ایک ایسے شخص کے ساتھ ہوٴا جو خدا تعالیٰ کا محبوب بندہ تھا اور جس نے اس قسم کی ٹھوکروں اور ابتلاوٴں سے محفوظ رہنا تھا۔ لیکن دوسری جماعت پھسلی اور بُری طرح پھسلی ۔ جب اس جماعت کے افراد نے دیکھا کہ اب ان کا وہ جوش و خروش کہ جماعت ایک انجمن کے ماتحت ہو اور اس کا نظام ویسا ہی ہو جیسے یورپین اقوام کا نظام ہوتا ہے پورا نہیں ہوٴا تو انہوں نے ایک نیا مشغلہ اختیار کر لیا چنانچہ اب رات اور دن وہ قادیان اور قادیان والوں کو گالیاں دیتے رہتے ہیں اور کُجا تو یہ حالت تھی کہ وہ قادیان سے ایک دن کی جدائی بھی برداشت نہیں کر سکے تھے اور کُجا ان کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ وہ کہتے ہیں (نعوذ باللہ)قادیان دمشق ہے۔ قادیان میں یزیدی رہتے ہیں۔ قادیان میں ہر قسم کی خرابیاں پیدا ہو چکی ہیں۔ قادیان والے ختمِ نبوت کے منکر ہیں۔ قادیان والے قرآن کریم کی کوئی خدمت نہیں کر رہے۔ اور ‘‘قادیانی خلیفہ (نعوذ باللہ) محمد رسول اللہﷺکا بد ترین دشمن ہے ’’2 گویا وہی مثال ہے جس طرح بچہ ایک کھلونے کو بڑے اشتیاق سے لیتا ہے اور جب دیکھتا ہے کہ اس کا مقصد اس کھلونے سے حاصل نہیں ہوٴا تو اسے توڑ کر الگ ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح ان لوگوں کے مقاصد بھی جب پورے نہ ہوئے تو ہٹ گئے ۔ مَیں نہیں کہہ سکتا کہ باقی بچوں کو بھی اپنے بچپن کے اس قسم کے واقعات یاد ہیں یا نہیں مگر مجھے خوب یاد ہے کہ مَیں نے بچپن میں ریل کی شدید خواہش کی۔ مَیں اپنے اندازہ کے مطابق سمجھتا ہوں کہ بچہ کو دور سے جو کھلونا نظر آتا ہے اس کے متعلق وہ یہ خیال کرتا ہے کہ وہ کوئی حقیقی چیز ہے مگر جب اسے حاصل کر کے معلوم کرتا ہے کہ وہ حقیقی چیز نہیں تو اسے پھینک دیتا ہے۔ مَیں نے بھی چونکہ ریل دیکھی ہوئی تھی اس لئے میرا اندازہ تھا کہ جس ریل کی مَیں خواہش کر رہا ہوں وہ بھی ریل کا کچھ نہ کچھ کام ضرور کرے گی اور مَیں اپنے بچپن کی سادگی سے یہ خیال کرتا تھا کہ اگر زیادہ نہیں تو وہ ایک آدمی کو تو ضرور اٹھا لے گی چنانچہ مجھے یاد ہے مَیں نے اسے کنجی دے کر اس پر پیر رکھنے کی کوشش کی مگر اس پر آ نہ سکا۔ وہ ریل بھی کچھ بڑی تھی اس لئے مَیں نے اس پر ایڑی رکھ دی مگر میرے ایڑی رکھتے ہی وہ گاڑی کچل کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی۔ اس پر مَیں نے سمجھ لیا کہ یہ چیز میرے کام کی نہیں۔ چنانچہ مَیں نے اس کو پرے پھینک دیا۔ اپنے ذہن میں مَیں یہ خیال کرتا تھا کہ ہم مٹی کے گھر بنانے کے لئے اس پر مٹی ڈھو کر لایا کریں گے۔ مَیں سمجھتا ہوں یہی خیال عام طور پر بچوں کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے۔ جب وہ دور سے کسی کھلونے کو دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ ہم اس سے کام لیں گے۔ ریل کو دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ یہ کچھ نہ کچھ ریل کا کام ضرور دے گی اور اگر زیادہ آدمی نہیں تو ایک آدمی تو اس میں ضرور بیٹھ سکے گا۔ گھوڑے کو دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ وہ کچھ نہ کچھ بوجھ ضرور اٹھائے گا مگر جب دیکھتے ہیں کہ یہ کھلونے نہ سواری کے کام آتے ہیں نہ بوجھ اٹھانے کے تو دل برداشتہ ہو جاتے ہیں۔
مجھے یاد ہے بچپن میں مَیں نے ایک دفعہ مٹی کی چھوٹی سی چکّی خریدی اور پیسنے کے لئے اس میں چند دانے ڈال دئیے پھر مَیں نے اسے چلایا تو دانے اندر ہی پھنس گئے اس پر جب مجھے معلوم ہو گیا کہ یہ چکی دانے نہیں پیس سکتی تو اسے اٹھا کر پھینک دیا۔
مَیں سمجھتا ہوں کہ باقی بچوں کے دلوں میں بھی یہی خیال آتا ہو گا اور چونکہ جو مقصد انہوں نے اپنے ذہن میں رکھا ہوتا ہے وہ پورا نہیں ہوتا اس لئے کھلونوں کو توڑ پھوڑ دیتے ہیں حالانکہ یہ بچوں کی اپنی غلطی ہوتی ہے۔ کیا کوئی کھلونے بیچنے والا یہ کہا کرتا ہے کہ یہ چکیاں دانے پیسیں گی یا گھوڑے چلیں گے یا ریل بوجھ اٹھائے گی۔ وہ ان کو کھلونے ہی کہتا ہے مگر نادان بچہ یہ سمجھ کر کہ ان کھلونوں سے سواری کا یا بوجھ اٹھانے کا یا دانے پیسنے کا کام لیں گے ان کے حصول پر اصرار کرتا ہے اور جب دیکھتا ہے کہ وہ اس کے خیال کے مطابق نہیں نکلے تو انہیں پھینک دیتا ہے۔
اسی طرح مذہبی جماعتوں میں داخل ہوتے وقت بھی بعض لوگ عجیب و غریب خیالات لے کر آتے ہیں۔ کئی لوگ ہماری جماعت میں داخل ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ادھر وہ جماعت میں داخل ہوئے اور جماعت کے تمام لوگ ایک ایک یا دو دو روپیہ چندہ جمع کر کے انہیں آٹھ دس ہزار روپیہ دے دیں گے۔ چنانچہ مَیں نے دیکھا ہے بعض لوگ جب بیعت کر کے جاتے ہیں تو آٹھویں دن ہی ان کی طرف سے خط آ جاتا ہے کہ ہمیں روپیہ کی سخت ضرورت ہے اگر آپ آٹھ آٹھ آنے یا ایک ایک روپیہ بھی تمام جماعت کے لوگوں سے ہمارے لئے چندہ جمع کروا دیں تو دس ہزار روپیہ اکٹھا ہو سکتا ہے اور ہماری تمام ضروریات پوری ہو سکتی ہیں۔ گویا وہ پہلے ہی اپنے خیال میں جماعت کا ایک نقشہ کھینچ لیتے ہیں اور اسی خیال کے زیر اثر جماعت میں شامل ہوتے ہیں لیکن جب ان کی امید پوری نہیں ہوتی تو کہتے ہیں ہم نے جماعت کو خوب دیکھ لیا ہم تو اس کے اندر رہ کر اس کی حقیقت معلوم کر چکے ہیں۔ یہ سارے ابتلاء درحقیقت بے استقلالی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ اگر انسان اپنے نفس کو روکے اور اسی وقت کسی عقیدہ اور مذہب کو تسلیم کرے۔ جب وہ سمجھے کہ واقع میں فلاں عقیدہ یا فلاں مذہب صحیح ہے۔ جذبات کے ماتحت کام نہ کرے تو اس قسم کی ٹھوکریں اسے ہرگز نہ لگیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب میرے پاس کوئی شخص بیعت کرنے کے لئے آتا ہے تو مَیں ہمیشہ اسے کہا کرتا ہوں کہ ابھی سوچو اور غورو فکر سے کام لو اور اللہ تعالیٰ سے استخارہ بھی کرو۔ لیکن جماعت کے عام لوگوں کا یہ دستور ہے کہ ادھر وہ تبلیغ کرتے ہیں اور اُدھر کہتے ہیں بیعت کر لو۔ اس لغویت کا سب سے بڑھ کر نمونہ ایک دفعہ سفرِ سندھ میں مَیں نے دیکھا۔ گجرات کے ایک دوست تھے جن کو دفتر والوں نے خدمت کے لئے اپنے ساتھ لے لیا جہاں گاڑی کھڑی ہوتی وہ حفاظت اور پہرہ کے لئے میرے قریب آ جاتے۔ اتفاقاً کسی سٹیشن پر انہیں ایک گجراتی مل گیا۔ اس نے کسی دوسرے سے کوئی بات کی جس پر انہوں نے اس کی آواز اور لب و لہجہ سے پہچان لیا کہ یہ گجراتی ہے۔ چنانچہ انہوں نے اسے بلایا اور جس طرح ہمارے ملک میں طریق ہے کہ پوچھا جاتا ہے تم کدھر جا رہے ہو دوسرا کہتا ہے تم کدھر جا رہے ہو۔ اسی طرح انہوں نے ایک دوسرے سے پوچھا۔ اس شخص نے بتایا کہ مَیں نوکری کی تلاش میں ادھر آیا ہوں۔ اور انہوں نے میرا نام لیا اور کہا کہ مَیں ان کے ساتھ آیا ہوں۔ پھر انہوں نے اس شخص کا ہاتھ پکڑا اور کہنے لگے چلو حضرت صاحب کو اپنے لئے دعا کرنے کے لئے کہو۔ اب اس بے چارے کو نہ یہ پتہ کہ دعا کیا ہوتی ہے اور نہ یہ علم کہ مَیں کون ہوں۔ مگر یہ خیال کر کے کہ اس کا ایک ہم وطن اس کو یہ تحریک کر رہا ہے اس کے ساتھ چل پڑا اور میرے قریب آ کر وہ دوسرے کی طرف مخاطب ہو کر کہنے لگے۔ یہ دعا کے لئے عرض کرتے ہیں۔ اس نے بھی شرم سے ایک دو فقرے کہہ دئیے۔ اس کے بعد وہ بڑے اطمینان سے اسے کہنے لگے بیعت کر لینی اچھی ہوتی ہے بیعت کر لو۔ مَیں نے بعد میں انہیں سمجھایا کہ یہ کتنے افسوس کی بات ہے اسے تو کچھ بھی پتہ نہیں کہ احمدیت کیا ہوتی ہے۔ اس کی بیعت تو سلسلہ کے لئے ایک وبال بن جائے گی۔ مگر وہ جوش میں یہی کہتے چلے جائیں کہ” نہیں جی بیعت چنگی ہی ہوندی ہے۔“یعنی جناب بیعت بہرحال اچھی ہوتی ہے۔
یہ وہی بچپن والی خاصیت ہے جو عدمِ تربیت کی وجہ سے بڑے ہو کر بھی ظاہر ہو جاتی ہے اور انسان کے دل میں جب کوئی خواہش پیدا ہو تو قطع نظر اس کے کہ اس خواہش کے پورا ہونے کا کوئی موقع او رمحل ہو یا نہ ہو وہ چاہتا ہے کہ جس طرح بھی ہو اس کی خواہش پوری ہو جائے۔ حالانکہ ایسی خواہش کوئی نیک نتیجہ پیدا نہیں کیا کرتی۔ مثلاً اگر کسی کا پیٹ بھرا ہوٴا ہو او رپھر بھی وہ اور کھانے کی خواہش کرے تو وہ کھانا اس کے جسم کو لگے گا نہیں بلکہ بسا اوقات اسے قے ہو جائے گی۔ اسی طرح ایک شخص نے کپڑے پہنے ہوئے ہوں اوراس کے دل میں خواہش پیدا ہو کہ وہ اَور کپڑے پہن لے تو اگر گرمی کا موسم ہو گا تو وہ گرمی سے مرے گا اور اگر سردی کاموسم ہو گا تو بوجھ سے مرے گا۔
غرض ہر خواہش کا پورا ہونا ضروری نہیں ہوتا اورنہ ہر خواہش اچھی ہوتی ہے۔ انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر خواہش کے پیدا ہونے پر سوچے اور غور کرے کہ وہ اچھی خواہش ہے یا بری۔ اگر بری ہے تو اس کو ترک کر دے اور اگر اچھی ہے تو اس وقت کا انتظار کرے جب اس کی خواہش پوری ہو سکتی ہو اور جب اس کی خواہش پوری ہونے لگے تو وہ یہ سوچے کہ جو چیز اسے حاصل ہوئی ہے کیا یہ وہی ہے جس کی اس کے دل میں خواہش تھی یااس کے علاوہ کوئی اور چیز ہے کیونکہ جو خواہش مادیات کے ساتھ تعلق نہ رکھتی ہو اس کے متعلق یہ پہچاننا بہت مشکل ہوتا ہے کہ وہ خواہش صحیح رنگ میں پوری ہوئی ہے یا نہیں۔ مثلاً ایک آدمی کے دل میں اگر کپڑے کی خواہش پیدا ہو تو وہ آسانی کے ساتھ دکان پر جا کر لٹھا یا ململ خرید سکتا ہے مگر جو چیزیں قلوب کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں وہ آسانی کے ساتھ پہچانی نہیں جا سکتیں۔ تم آسانی کے ساتھ لٹھا پہچان سکتے ہو، تم آسانی کے ساتھ ململ پہچان سکتے ہو مگر تم آسانی کے ساتھ عقائد اور روحانیت کو نہیں پہچان سکتے بلکہ بعض دفعہ تو دو دو چار چار سال کی تحقیق کے بعد انسان پر اصل حقیقت منکشف ہوتی ہے اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام لوگوں کو استخارہ کا حکم دیا کرتے تھے اور جب کوئی شخص بیعت کرنا چاہتا تو فرماتے اَور سوچو۔ میرا بھی یہی طریق ہے کہ مَیں بیعت میں شامل ہونے والوں کو مزید غور و فکر اور استخارہ کی تاکید کیا کرتا ہوں۔
کچھ عرصہ ہوٴا ایک دوست جو فوج میں ڈاکٹر تھے میرے پاس آئے اور کہنے لگے میں آپ کی بیعت کرنا چاہتا ہوں مَیں نے ان سے کہا آپ کو ہمارے سلسلہ کا کس طرح پتہ لگا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے بعض احمدی دوست ہیں جن کی وجہ سے انہیں سلسلہ کا پتہ لگا۔ مَیں نے کہا اس طرح تو مکمل علم حاصل نہیں ہو سکتا یہاں آنے کی آپ کو اور کس طرح تحریک پیدا ہوئی۔ اس پر انہوں نے کہا کہ مَیں نے سلسلہ کی بعض کتابیں بھی پڑھی ہیں۔ چنانچہ چند کتابوں کا انہوں نے نام لیا۔ مَیں نے کہا ابھی آپ اور کتابیں پڑھیں اور استخارہ بھی کریں۔ اس کے بعد بیعت کریں۔ وہ کہنے لگے میری یہ شدید خواہش ہے کہ مَیں آپ کی بیعت کر لوں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ مَیں جنگ پر جانے والا ہوں اور موت کا کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ کب آ جائے اس لئے مَیں چاہتا ہوں کہ آپ کی بیعت کر لوں ممکن ہے مَیں جنگ میں ہی مر جاوٴں اور پھر اس سعادت سے محروم رہوں۔ مَیں نے کہا آپ کی یہ خواہش تو بڑی نیک ہے مگر اس کے لئے اس وقت بیعت کرنے کی ضرورت نہیں۔ آپ سرِ دست سلسلہ کی کتابوں کا مطالعہ جاری رکھیں اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہیں جس وقت بھی آپ کو یقین پیدا ہو گیا کہ احمدیت سچی ہے اور جس وقت بھی آپ کو یقین پیدا ہو گیا کہ بیعتِ خلافت ضروری ہے اسی وقت آپ خدا تعالیٰ کے نزدیک مومنوں کی جماعت میں شامل ہو جائیں گے۔ پس جلدی کی ضرورت نہیں۔ آپ بے شک میدان جنگ میں چلے جائیں اور تحقیق کرتے رہیں۔ جہاں بھی آپ کو احمدیت کی صداقت پر دلی یقین آجائے گا۔ آپ خدا تعالیٰ کے حضور اسی وقت احمدی شمار ہونے لگیں گے۔ بیعت درحقیقت دل کی ہوتی ہے۔ یہ ظاہری بیعت تو محض نظام کے قیام کے لئے ہے۔ اگر ظاہری بیعت نہ ہو تو ممکن ہے کوئی شخص دھوکا سے دوسرے کو کہہ دے کہ وہ احمدی ہے حالانکہ وہ احمدی نہ ہو۔ یا ممکن ہے وہ رشتے لینے کے لئے احمدیت کا اظہار کر دے حالانکہ وہ سچے دل سے احمدی نہ ہو۔ پس یہ ظاہری بیعت نظام کو قائم رکھنے کے لئے ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ ظاہری بیعت کے بغیر کوئی شخص احمدی نہیں ہو سکتا۔ جس دن کوئی شخص یہ سمجھ لیتا ہے کہ حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰة و السلام سچے ہیں اسی دن وہ احمدی ہو جاتا ہے اور جس دن کوئی شخص یہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ خلیفہٴ وقت کی بیعت ضروری ہے اسی دن وہ مبائعین میں شامل ہو جاتا ہے خواہ اسے بیعت کا خط لکھنے کا موقع ملے یا نہ ملے اور خواہ اس کی احمدیت کا کوئی گواہ ہو یا نہ ہو۔ کیونکہ خدائی فیصلے قلوب کی حالت پر ہوتے ہیں۔ اس ڈاک پر نہیں ہوتے جو انگریز پہنچاتے ہیں۔ فرض کرو آج انگریزی حکومت ڈاک کی آمد و رفت بند کر دے اور لوگ بیعت وغیرہ کے لئے خطوط نہ لکھ سکیں تو کیا اس وقت جماعت کی ترقی رک جائے گی اور لوگ احمدی نہیں ہوں گے؟ لوگ پھر بھی احمدی ہوں گے اور جماعت کی ترقی پھر بھی ہوتی رہے گی کیونکہ خدا دل کی حالت کے مطابق فیصلہ کرتا ہے۔ اگر کسی شخص کو یقین کامل کے بعد ظاہری بیعت کا موقع ملے اور وہ پھر بھی نہ کرے تو بے شک یہ اس کی ضد سمجھی جائے گی لیکن اگر کسی شخص کو خط لکھنے کا موقع نہ ملے اور احمدیت کی صداقت اس کے دل میں گھر کر جائے تو وہ اسی وقت سے احمدی سمجھا جائے گا۔ خواہ ہمیں اس کا علم ہو یا نہ ہو اور خواہ دنیا میں اس کی احمدیت کا کوئی گواہ ہو یا نہ ہو۔ دنیا میں کئی ایسے علاقے ہیں جہاں ڈاک کا کوئی انتظام نہیں، چین کے بعض حصے ایسے ہیں جہاں ڈاک کا انتظام نہیں، صوبہ سرحد کے بعض علاقوں میں بھی ڈاک کا کوئی انتظام نہیں۔ اب کیا اس کے یہ معنی ہیں کہ ان علاقوں میں کوئی احمدی نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی شخص ایسا سمجھتا ہے تو وہ غلطی کرتا ہے کیونکہ جس دن کوئی شخص اپنے دل میں یہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ مَیں نے احمدیت کو قبول کر لیا اسی دن سے وہ خدا کے نزدیک احمدی سمجھا جاتا ہے اورجس دن کوئی شخص یہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ خلیفہٴ وقت کی بیعت ضروری ہے اسی دن سے خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ مبائع سمجھا جاتا ہے۔ غرض عقائد اور ایمان کا معاملہ بہت نازک ہوتا ہے اور انسان ان کے بارہ میں جلدی فیصلہ نہیں کر سکتا اس لئے ہر انسان کو سوچ کر اور غور و فکر کرنے کے بعد کوئی راستہ اختیار کرنا چاہئے اس کے بعد اگر وہ اس عقیدہ اور مذہب پر مضبوطی سے قائم نہیں رہ سکتا تو درحقیقت اس کے یہ معنی ہیں کہ اس نے پہلے بھی صداقت پر غور نہیں کیا تھا۔ اگر وہ سوچتا اور غور کرتا تو کس طرح ممکن تھا کہ وہ ایک قیمتی چیز کو یونہی رائیگاں کھو دیتا۔ مَیں نے جیسا کہ بتایا ہے میرا خیال یہ ہے کہ بچپن میں جب انسان کی صحیح رنگ میں تربیت نہیں ہوتی تو اس کے اندر بے استقلالی کا مادہ پیدا ہو جاتا ہے۔ جس طرح بچوں کے دل میں کھلونوں کے متعلق شدید خواہش پیدا ہوتی ہے اور پھر وہ ان کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ اسی طرح بڑے ہو کر جب زندگی کے اہم مسائل اس کے سامنے آتے ہیں تو وہ ان سے بھی کھلونوں جیسا سلوک کرنا چاہتا ہے لیکن چھوٹی عمر میں تو اس کے سامنے کھلونے ہوتے ہیں جن کے ٹوٹنے سے کوئی زیادہ نقصان نہیں ہوتا اور بڑی عمر میں ایسی اہم اور ضروری چیزوں سے جن کے ساتھ ان کی ابدی یا سفلی زندگی وابستہ ہوتی ہے وہ کھلونوں کا سا سلوک کرتا اور ان کو توڑ کر اپنے آپ کو نقصان پہنچا لیتا ہے۔ جس طرح بچپن میں وہ کبھی گھوڑے کے لئے روتا اور چلّاتا ہے اور جب وہ اسے مل جاتا ہے تو اسے توڑ دیتا ہے کبھی ریل کے لئے روتا اور چلّاتا ہے اور جب وہ اسے مل جاتی ہے تواسے توڑ دیتا ہے۔ کبھی چکی کے لئے روتا اور چلّاتا ہے اور جب وہ اسے مل جاتی ہے تو اسے توڑ دیتا ہے۔ اسی طرح بڑے ہو کر وہ خدا اور اس کے رسول اور اس کے دین اور اس کے قرآن اوردوسری اہم چیزوں سے جو نہایت ہی پاکیزہ ہوتی ہیں اور جن کے ساتھ اس کی روحانی زندگی وابستہ ہوتی ہے یہی سلوک کرتا ہے۔ کبھی کہتا ہے خدا مل جائے اورجب وہ مل جاتا ہے تو اسے پھینک دیتا ہے۔ کبھی کہتا ہے رسول مل جائے اور جب وہ مل جاتا ہے تو اسے پھینک دیتا ہے۔ کبھی کہتا ہے امامِ وقت مل جائے اور جب وہ مل جاتا ہے تو اسے پھینک دیتا ہے۔ گویا اسے یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ ایک جگہ نہیں ٹھہرتا۔ پس مومن کو اپنی عادات میں پختگی پیدا کرنی چاہئے اور جب وہ دیانتداری کے ساتھ کسی سچائی کو قبول کر لے تو اس کے بعد فاسد خیالات اور غفلتوں کا اسے مقابلہ کرنا چاہئے۔ سچائیاں سورج کی طرح چمکتی ہیں۔
پس مومن کو چاہئے کہ وہ سچائی کو اسی وقت مانے جب سورج کی طرح اسے کسی سچائی پر یقین پیدا ہو جائے پھر جس طرح سورج پر کسی کو یقین پیدا ہو جاتا ہے تو شکوک و شبہات سے وہ اس یقین کوباطل نہیں کیا کرتا اور نہ لوگوں سے دلیلیں پوچھنے جاتا ہے کہ سورج چڑھنے کی کیا دلیل ہے اسی طرح مومن کو معمولی معمولی عذرات کی بناء پر سچائی کو ترک نہیں کرنا چاہئے۔ اس کا فرض ہے کہ جب وہ کسی سچائی کو قبول کرنے لگے تو خوب غور کرے، استخارہ کرے، نمونہ دیکھے، دعاوٴں سے کام لے، دلائل کا موازنہ کرے۔ غرض اپنے دل کا کامل اطمینان کر کے سچائی قبول کرے۔ جب وہ ان چاروں دلائل سے کام لے لے گا، وہ نمونہ بھی دیکھ لے گا، وہ مشاہدہ سے بھی کام لے لے گا، وہ دلائل عقلیہ کا بھی جائزہ لے لے گا اور پھرخدا سے بھی پوچھ لے گا تو ان چار شواہد کے بعد جو چیز اسے ملے گی وہ ایسی یقینی اور قطعی ہو گی جیسے سورج۔ اس کے بعد اگر پھر کسی وقت اس کے دل میں شبہ پیدا ہو تو وہ خدا سے استغفار کرے اور اپنے گناہوں کی معافی طلب کرے کیونکہ یہ ہو نہیں سکتا کہ یہ چاروں شواہد غلط ہوں۔ اب یہ سچائیوں کا کام نہیں کہ وہ اس کے پاس جائیں اور اپنی سچائی ثابت کریں بلکہ اس کا فرض ہے کہ وہ اپنی اصلاح کرے اگر گناہ کی وجہ سے اس کے دل میں یہ نقص پیدا ہوٴا ہے تو توبہ کرے اور اگر کسی اور بیماری کی وجہ سے اس کے اندر یہ خرابی پیدا ہوئی ہے تو اس بیماری کا علا ج کرے۔ بہرحال اب یہ آفتاب کا کام نہیں کہ اسے اپنے وجود کا ثبوت دے بلکہ آفتاب کو تسلیم کرنے کے بعد جب یہ منکر ہو گیا تو اب اس کا اپنا فرض ہے کہ آنکھوں کی بیماری کو دور کرے۔ اسی لئے کہتے ہیں ع
آفتاب آمد دلیلِ آفتاب
خدا تعالیٰ کی طرف سے جو سچائیاں آتی ہیں وہ بھی اپنی ذات میں اپنی صداقت کا آپ ثبوت ہوتی ہیں۔ لوگوں کو کوئی مجبور نہیں کرتا کہ ان کو مانیں۔ ہاں جب کوئی شخص ان کو ماننے کے بعد انکار کرتا ہے تو وہ مجرم ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر اس نے جانتے بوجھتے ہوئے ان کو ردّ کر دیا ہے تو یہ بھی جرم ہے اور اگر اس نے پہلے ان کے متعلق غور سے کام نہیں لیا تھا تو یہ بھی اس کا اپنا قصور ہے۔ بہرحال اب یہ ان چیزوں کا کام نہیں ہوتا کہ وہ اس کے سامنے آئیں اور اپنی سچائی کا ثبوت پیش کریں بلکہ اس کا اپنا کام ہوتا ہے کہ دیکھے کس نقص کی وجہ سے اس میں یہ تغیّر پیدا ہؤا ہے۔ اگر اس کی وجہ اس کے گناہ ہوں تو وہ ان کا علاج کرے اور اگر کوئی اور نقص ہو تو اس کی اصلاح کرے۔
پس استقلال پیدا کرو او ریاد رکھو کہ استقلال کے بغیر قطعی ایمان حاصل نہیں ہو سکتا۔ وہ ایمان بھی کیا ہے کہ صبح کو انسان اِدھر ہو اور شام کو اُدھر۔ یہ بچوں والی بات ہے۔ جس طرح ایک چھوٹا بچہ مٹی کا گھوڑا لے کر اسے توڑ دیتا ہے۔ اسی طرح تم خدا لے کر اسے توڑنے کی کوشش کرتے ہو، تم خدا کا رسول لے کر اسے توڑنے کی کوشش کرتے ہو، تم مسیح موعود لے کر اسے توڑنے کی کوشش کرتے ہو، تم دین اور مذہب کے احکام اور نظام کی نعمت حاصل کرنے کے بعد اسے توڑنے کی کوشش کرتے ہو۔ مگر بچہ تو پھر بھی کھلونوں کو توڑ سکتا ہے لیکن تم ان چیزوں کو نہیں توڑ سکتے اور اگر تم ان چیزوں کو توڑنے کی کوشش کرو گے تو خود اپنے آپ کو توڑ لو گے۔ تم دیکھ سکتے ہو کہ کتنے آدمی ہماری جماعت کے اندر سے نکل کر ہمارے مقابلہ میں کھڑے ہوئے پھر ان کا کیا حشر ہوٴا اور کس طرح وہ جماعت کو توڑنے کی بجائے خود ہی ٹوٹ کر رہ گئے۔ مصری صاحب کو ہی دیکھ لیا جائے جب وہ ہمارے مقابلہ میں کھڑے ہوئے تو جماعت کے کئی دوست گھبرا گئے تھے اور وہ خیال کرتے تھے کہ اتنے بڑے عالم کا جو مدرسہ احمدیہ کا ہیڈ ماسٹر ہے اور اکثر نوجوان علماء اس کے شاگرد ہیں، جماعت کے مقابلہ میں کھڑا ہونا جماعت کے لئے مشکلات پیدا کر دے گا مگر پھر کیا ہوا ؟ جماعت تواسی طرح قائم ہے جس طرح پہلے قائم تھی مگر خود ان کی یہ حالت ہے کہ وہ اپنے پہلے عقائد کو ترک کر چکے ہیں۔ گویا جماعت کو توڑنے کی بجائے وہ ٹوٹ گئے ہیں۔چنانچہ ایک وقت وہ تھا کہ مصری صاحب نے لکھا ”دنیا میں کوئی ایسی جماعت نہیں جو حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کے لائے ہوئے صحیح عقائد و تعلیم پر قائم ہو بجز اس جماعت کے جس نے آپ کو خلیفہ تسلیم کیا ہوٴا ہے۔ ’’ 3
گویا مصری صاحب کے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لائی ہوئی تعلیم اور عقائد کی صحیح حامل ہماری جماعت ہی تھی۔ مگر اب ان کی یہ حالت ہے کہ وہ یہ تقریریں کرتے پھرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی صحیح جانشین جماعت لاہور ہے۔ چنانچہ 13 جولائی کو انہوں نے دہلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا :۔
‘‘حضرت مسیح موعود کی صحیح جانشین جماعت احمدیہ لاہور ہے۔ اسی جماعت کے ذریعہ حضرت مسیح موعود کا مشن پورا ہو رہا ہے۔ ’’ 4
پھر گزشتہ سال 25 دسمبر کو انہوں نے غیر مبائعین کے سالانہ جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی نبوت سے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ :۔
‘‘ حضرت مسیح موعود کی کتب کے مطالعہ سے مَیں اس نتیجہ پر پہنچا کہ آپ نے ہرگز نبوت کا دعویٰ نہیں کیا … آپ کا دعویٰ محدثیت کا ہے گو آپ کو محدثین میں خاص اور امتیازی درجہ حاصل ہے۔ ’’ 5
اب کوئی بتائے کہ مصری صاحب کے دعوے کہاں چلے گئے۔ وہ تو کہا کرتے تھے کہ ‘‘مَیں جماعت کا باقاعدہ فرد ہوں۔ جماعت سے مَیں الگ نہیں ہو سکتا’’ ‘‘مَیں خلافت کا قائل ہوں’’ ‘‘حق کی قوت میرے ساتھ ہے۔’’ 6
پھر اگر واقع میں حق کی قوت ان کے ساتھ تھی اور اگر واقع میں وہ ہماری جماعت کے عقائد کو درست تسلیم کرتے اور خلافت پر ایمان رکھتے تھے تو وجہ کیا ہے کہ پہلے وہ کچھ کہا کرتے تھے اور اب وہ کچھ کہنے لگ گئے ہیں۔ آج سے چند سال پہلے تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت پر ایمان رکھتے تھے، خلافت کو درست تسلیم کرتے تھے، ہماری جماعت کے عقائد کو عقائد صحیحہ مانتے تھے مگر چند سال کے بعد ہی انہیں نظر آنے لگ گیا کہ یہ سب کچھ جھوٹ اور باطل تھا اور انہوں نے کوشش کی کہ جماعت کو توڑ دیں مگر جماعت کو انہوں نے کیا توڑنا تھا خود ہی عقائد کے لحاظ سے وہ ٹوٹ گئے۔ تو اللہ اور رسول اور اس کی جماعتیں کبھی ٹوٹ نہیں سکتیں۔ ہاں جو لوگ ان سے کھیل کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں وہ بے شک ٹوٹ جاتے ہیں۔ پہلوں کے واقعات ہم نے قرآن میں پڑھے تھے اور اس زمانہ کے واقعات ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لئے ہیں۔ آج تک مَیں نے کسی شخص کو نہیں دیکھا جو سلسلہ اور اس کے نظام پر حملہ کرنے کے لئے کھڑا ہوٴا ہو اورپھر خدا نے اس کی طاقت کو توڑ نہ دیا ہو۔ تھوڑے ہی دن ہوئے ایک شخص نے مجھے لکھا کہ پنجاب کے ایک بہت بڑے آدمی کے ایک قریب ترین رشتے دار نے اس سے ذکر کیا کہ جب احرار اپنے فتنہ میں ناکامی کا مُنہ دیکھ چکے تو پیغامیوں کا ایک بہت بڑا آدمی ان کو ملا (سب نام مجھے معلوم ہیں مگر مصلحتاً شائع نہیں کرتا) اور کہا کہ آپ نے ہزاروں روپیہ احرار کی تحریک پر صرف کیا ہے۔ اگر اس سے نصف بھی آپ ہمیں دیتے تو ہم احمدیوں کو کُچل کر رکھ دیتے۔ وہ کہتے ہیں ۔ میرے خسر نے یہ سن کر دلچسپی کے ساتھ باتیں کرنی شروع کر دیں اور دریافت کیا کہ وہ احمدیوں کا کس طرح مقابلہ کرنا چاہتے ہیں اور اس بارہ میں کیا انتظام کرنا چاہئے۔
ان لوگوں نے ہمیں مٹانے کے لئے بڑی بڑی کوششیں کیں اور احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور نے ہزاروں روپیہ مسلمانوں سے اس غرض کے لئے وصول کیا مگر اس کا نتیجہ کیا نکلا ؟نتیجہ یہ نکلا کہ وہ کبھی تو اپنے متعلق یہ فخر کے طور پر کہا کرتے تھے کہ ہم پچانوے فی صدی ہیں اور یہ پانچ فی صدی چنانچہ غیر مبائعین کے چھ سرکردہ احباب نے ‘‘ضروری اعلان’’ کے ماتحت لکھا ‘‘ابھی بمشکل قوم کے بیسویں حصہ نے خلیفہ تسلیم کیا ہے ۔ ’’ 7 گویا پانچ فی صدی لوگ ہمارے ساتھ تھے اور پچانوے فی صدی لوگ ان کے ساتھ۔ مگر اب پچانوے فی صدی لوگ ہمارے ساتھ ہیں اور پانچ فی صدی ان کے ساتھ۔ پھر بھی ان کے نزدیک ہم جھوٹے بھی ہیں جب وہ اپنے آپ کو زیادہ اور ہمیں تھوڑے بتاتے تھے تو کہا کرتے تھے کہ چونکہ ہم زیادہ ہیں اس لئے ہم سچے ہیں اور چونکہ تم تھوڑے ہو اس لئے تم جھوٹے ہو مگر اب چونکہ ہمارے مقابلہ میں وہ تھوڑے ہو گئے ہیں اس لئے کہا کرتے ہیں کہ مومن تھوڑے ہی ہوٴا کرتے ہیں۔ اکثریت گمراہ لوگوں کی ہوا کرتی ہے۔ یہ ایک عجیب منطق ہے جس کو وہی سمجھ سکتے ہیں کہ کسی دن ہم اس لئے غلطی پر تھے کہ ہم تھوڑے تھے اور آج ہم اس لئے غلطی پر ہیں کہ ہم زیادہ ہیں۔ مگر یہ سب خیالی باتیں ہیں۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے تجربہ کر کے دیکھ لیا ہے کہ خدائی سلسلہ کو کوئی شخص توڑ نہیں سکتا۔ یہ انسان کی اپنی غلطی ہوتی ہے کہ وہ ایک سچائی کو قبول کرتا اور پھر معمولی معمولی شبہات میں مبتلا ہو کر اس کو رد کر دیتا ہے۔ اگر وہ سچائی پر سورج کی طرح یقین رکھتا تو ناممکن تھا کہ وہ اسے ماننے کے بعد اس سچائی کو رد کر دیتا۔ مگر جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے یہ وہی بچپن کی عادت ہے جو بڑے ہو کر بھی بعض انسانوں میں قائم رہتی ہے۔ مگر اُس وقت تو وہ جن چیزوں کو توڑتا ہے وہ معمولی کھلونے ہوتے ہیں لیکن بڑے ہو کر جن چیزوں کو کھلونا سمجھتے ہوئے توڑنے کی کوشش کرتا ہے وہ بڑی بڑی اہم اور مہتم بالشان ہوتی ہیں اور ان کو توڑنے کی کوشش کرتے ہوئے خود ٹوٹ جاتا ہے گویا اس کی مثال اس چیتے کی سی ہوتی ہے جس نے ایک سل کو دیکھا اور اسے چاٹنے لگ گیا چاٹتے چاٹتے اس کی زبان سے خون بہنے لگ گیا اوروہ اس خون کو غذا سمجھ کر چاٹتا گیا یہاں تک کہ اس کی تمام زبان کھائی گئی۔ ایسے لوگ بھی سمجھتے ہیں کہ ہم سلسلہ کو تباہ کر دیں گے مگر جب وہ اپنا کام ختم کر کے بیٹھتے ہیں تو انہیں پتہ لگتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ختم کر چکے ہیں لیکن مومن اگر اس قسم کی لغزشوں کے بعد وقت پر توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ ایسے مومن کی مدد کرتا اوراس کا ساتھ دیتا ہے۔ ’’
( الفضل 20 اگست 1941ء )
1 بخاری کتاب الوحی باب کیف کان بدء الوحی الٰی رسول اللہ ﷺ
2 پیغامِ صلح 3 اگست 1937ء صفحہ 3
3 اشتہار 13 جولائی 1937ء بعنوان جماعت کو خطاب
4 پیغامِ صلح 30 جولائی 1941ء
5 پیغامِ صلح 8 جنوری 1941ء
6 اشتہار 13 جولائی 1937ء
7 پیغام صلح 5 مئی 1914ء

26
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سچے عاشقوں کی والہانہ محبت اور اس کے ایمان افزا ءنظارے
( فرمودہ 22 اگست 1941 ء )

تشہد، تعوّذ اور سورہٴ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘اس ہفتہ جماعت کو ایک نہایت ہی درد پہنچانے والا اور تکلیف میں مبتلا کرنے والا واقعہ پیش آیا ہے یعنی منشی ظفر احمد صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے ابتدائی صحابہ میں سے ایک تھے وہ اس ہفتہ میں فوت ہو گئے ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ مَیں اس وقت ڈلہوزی میں تھا۔ جب ان کی نعش یہاں لائی گئی اور مَیں اس جنازہ میں جو اُن کی لاش پر پڑھا گیا شامل نہیں ہو سکا۔ مجھے ایسے وقت میں اطلاع ہوئی جبکہ مَیں کل صبح ہی آ سکتا تھا۔ پہلے تو میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ تار دوں کہ جنازہ کو اس وقت تک روک لیا جائے جب تک مَیں نہ پہنچ جاوٴں لیکن گرمی کی وجہ سے اور اس خیال سے کہ کہیں اس عرصہ تک روکنے سے نعش کو نقصان نہ پہنچے مَیں نے تار دینا مناسب نہ سمجھا اور اس بات کو مقامی لوگوں پر چھوڑ دیا کہ اگر نعش رہ سکتی ہے تو وہ میرا انتظار کر یں گے کیونکہ انہیں علم ہے کہ مَیں آنے والا ہوں اور اگر مناسب نہ ہوٴا تو وہ انتظار نہیں کریں گے۔ چنانچہ جب مَیں یہاں پہنچا تو مجھے معلوم ہوٴا کہ پرسوں رات ہی انہیں دفن کیا جا چکا ہے۔ سو مَیں جمعہ کے بعد اِنْشَاءَ اللہُ تَعَالٰی ان کا جنازہ پڑھوں گا۔ مجھے نہیں معلوم کہ کس حد تک یہاں کے لوگوں کو اس جنازہ کا علم ہوٴا اوروہ کس حد تک اس میں شامل ہوئے لیکن بہرحال جو لوگ ان کے جنازہ میں شامل نہیں ہو سکے تھے۔ اب ان کو بھی موقع مل جائے گا اور جو لوگ شامل ہو چکے ہیں انہیں دوبارہ دعا کا موقع مل جائے گا۔ مومن کے لئے دعا اسی کے لئے دعا نہیں ہوتی بلکہ خود اپنے لئے بھی دعا ہوتی ہے۔ بعض لوگ جنازہ کے متعلق یہ خیال کر لیتے ہیں کہ یہ صرف مرنے والے کے لئے دعا ہے اور وہ اس پر احسان کرنے چلے ہیں حالانکہ خدا تعالیٰ کو مومن کے لئے اتنی غیرت ہوتی ہے کہ وہ کسی کے احسان کو برداشت نہیں کر سکتا۔ خدا تعالیٰ کے فرشتوں کی دعا زیادہ سنی جائے گی۔ حدیثوں میں آتا ہے کہ جب کوئی مومن نماز میں اپنے بھائی کے لئے دعا کرتا ہے تو اس وقت وہ اپنے لئے دعا سے محروم نہیں ہوتا بلکہ اس وقت فرشتے اس کی طرف سے کھڑے ہو جاتے ہیں اورجو کچھ خدا تعالیٰ سے وہ اپنے بھائی کے لئے مانگتا ہے اور کہتا ہے کہ خدایا! اسے فلاں چیز دے وہی دعا فرشتے اس کے لئے مانگتے ہیں اور کہتے ہیں یا اللہ ہم تجھ سے دعا کرتے ہیں کہ تو اس دعا کو مانگنے والے کو بھی وہ چیز دے جو یہ اپنے بھائی کے لئے مانگ رہا ہے۔ مثلاً اگر کوئی اپنے ہمسایہ کے لئے دعا کرتا ہے کہ یا اللہ! اس کے بچے نیک ہو جائیں تو خدا تعالیٰ کے فرشتے کہتے ہیں کہ یا اللہ! اس شخص کے اپنے بچوں کو بھی تو نیک بنا دے۔ جب وہ کہتا ہے کہ یا اللہ! فلاں شخص کی مالی مشکلات کو دور فرما تو خدا تعالیٰ کے فرشتے کہتے ہیں کہ یا اللہ!اس کی مالی مشکلات کو بھی تُو دور فرما دے۔ اسی طرح جب وہ کہتا ہے کہ یا اللہ! فلاں کی عزت پر جو حملہ ہو رہا ہے اس سے اس کو محفوظ رکھ۔ تو خدا تعالیٰ کے فرشتے کہتے ہیں یا اللہ! اس کی عزت کو بھی ہر حملہ سے محفوظ رکھ۔ 1
غرض جو دعا وہ دوسرے کے لئے کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ کے فرشتے وہی دعا ساتھ ساتھ اس کے لئے بھی کرتے جاتے ہیں۔ یہی حال جنازہ کی دعا کا ہے جو مرنے والے کے لئے آخری دعا ہوتی ہے اس میں بھی خدا تعالیٰ کے فرشتے بہت زیادہ جوش کے ساتھ نماز جنازہ پڑھنے والوں کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔ پس جب کوئی شخص جنازہ پر دعا مانگتا ہے تو وہ صرف اس کے لئے دعا نہیں کر رہا ہوتا بلکہ وہ ایک سودا کر رہا ہوتا ہے جس میں یہ خود بہت زیادہ فائدہ میں رہتا ہے۔ وہ میّت کے لئے دعا کرتا ہے اور فرشتے اس کے لئے دعا کرتے ہیں۔ جب حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے وفات پائی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جنازہ پڑھایا تو آپ بہت دیر تک ان کے لئے دعا کرتے رہے اور جب نماز جنازہ سے فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ آج ہم نے اپنی ساری جماعت کے لوگوں کا جنازہ پڑھا دیا ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں اس کا بھی یہی مفہوم تھا کہ آپ نے فرشتوں والا کام کیا یعنی جس طرح فرشتے جب کسی کو اپنے بھائی کے لئے دعا کرتا دیکھتے ہیں تو خود اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرنے لگ جاتے ہیں۔ اسی طرح جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیکھا کہ جماعت کے لوگ خدا تعالیٰ کے ایک نیک بندے کی وفات پر اس کے لئے یہ دعا کر رہے ہیں کہ خدا اس کے مدارج کو بلند کرے، اسے اپنے قُرب میں جگہ دے اور اسے اپنی رضا کا مقام عطا کرے تو آپ نے بھی ان سب کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا مانگنی شروع کر دی کہ اے خدا! تُو ان دعا کرنے والوں کے مدارج کو بھی بلند فرما، انہیں اپنے قرب میں جگہ دے اور انہیں اپنی رضا کی نعمت سے متمتع فرما۔ گویا فرشتوں والا معاملہ آپ نے اپنی جماعت کے تمام افراد سے کیا اور اس طرح سب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی دعا سے حصہ مل گیا۔ غرض یہ دعا معمولی نہیں ہوتی۔ اس لئے مَیں امید کرتا ہوں کہ دوست اس جنازہ میں میرے ساتھ شریک ہوں گے۔ مجھے کسی شخص نے بتایا نہیں کہ جماعت کو کس حد تک ان کے جنازہ کی خبر سے واقف کیا گیا تھا اور کس قدر لوگ جنازہ میں شامل ہوئے۔ مگر میرے نزدیک ہر مخلص اس بات کو بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ اگر ایسے جنازہ میں شامل ہونے کی انسان کو مقدرت ہو تو اس کے لئے میلوں میل سفر کرنا بھی دوبھر نہیں ہو سکتا۔ یہ محض ایک نفع مند سَودا ہے اور اپنے فرض کی ادائیگی ہے۔
بہرحال جن دوستوں کو ان کے جنازہ میں شریک ہونے کا موقع نہیں ملا۔ ان کو اب جمعہ کے بعد اِنْشَاءَ اللہ مل جائے گا اور چونکہ یہ ایک اہم واقعہ ہے اس لئے مَیں آج کا خطبہ بھی اسی مضمون کے متعلق پڑھنا چاہتا ہوں اورجماعت کے دوستوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ وہ لوگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ابتدائی زمانہ میں خدمات کی ہیں ایسی ہستیاں ہیں جو دنیا کے لئے ایک تعویذ اور حفاظت کا ذریعہ ہیں۔ چونکہ یہ مغربیت کے زور کا زمانہ ہے اس لئے لوگ اس کی قدر نہیں جانتے اور وہ یہ نہیں سمجھتے کہ خدا تعالیٰ کا کس طرح یہ قانون ہے کہ پاس کی چیز بھی کچھ حصہ ان برکات کا لے لیتی ہے جو حصہ برکات کا اصل چیز کو حاصل ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے اس مسئلہ کو نہایت ہی لطیف پیرایہ میں بیان فرمایا اور لوگوں کو سمجھایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نبی کی بیویاں تمہاری مائیں ہیں۔2 یہ بات تو ظاہر ہی ہے کہ نبی کی بیویاں نبی نہیں ہوتیں پھر ان کو مومنوں کی مائیں کیوں قرار دیا گیا ہے۔ اسی لئے کہ اللہ تعالیٰ یہ بتانا چاہتا ہے کہ ایسے آدمی جو خدا تعالیٰ کی طرف سے خاص طور پر برکات لے کر آتے ہیں ان کے ساتھ گہرا تعلق رکھنے والا انسان بھی کچھ حصہ ان برکات سے پاتا ہے جو اسے حاصل ہوتی ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب کبھی بارش نہیں ہوتی تھی اور نمازِ استسقاء ادا کرنی پڑتی تھی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس طرح دعا کیا کرتے تھے کہ اے خدا پہلے جب کبھی بارش نہیں ہوتی تھی اور ہماری تکلیف بڑھ جاتی تھی تو ہم تیرے نبی کی برکت سے دعا مانگا کرتے تھے اورتو اپنے فضل سے بارش برسا دیا کرتا تھا مگر اب تیرا نبی ہم میں موجود نہیں۔ اب ہم اس کے چچا حضرت عباسؓ کی برکت سے تجھ سے دعا مانگتے ہیں۔ چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ دعا کی تو ابھی آپؓ نے اپنے ہاتھ نیچے نہیں کئے تھے کہ بارش برسنی شروع ہو گئی۔ 3
اب حضرت عباسؓ خدا تعالیٰ کی طرف سے کسی عہدے پر قائم نہیں کئے گئے تھے۔ ان کا تعلق صرف یہ تھا کہ وہ رسول کریم ﷺ کے چچا تھے اور جس طرح بارش جب برستی ہے تو اس کے چھینٹے اِردگرد بھی پڑ جاتے ہیں ۔ بارش صحن میں ہو رہی ہوتی ہے تو برآمدہ وغیرہ بھی گیلا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح خدا کا نبی ہی اس کا نبی تھا مگر اس سے تعلق رکھنے والے، اس کی بیویاں، اس کے بچے، اس کی لڑکیاں، اس کے دوست اور اس کے رشتہ دار سب ان برکات سے کچھ نہ کچھ حصہ لے گئے جو اس پر نازل ہوئی تھیں۔ کیونکہ یہ خدا کی سنت اور اس کا طریق ہے کہ جس طرح بیویاں، بچے اور رشتہ دار برکات سے حصہ لیتے ہیں اسی طرح وہ گہرے دوست بھی برکات سے حصہ لیتے ہیں جو نبی کے ساتھ اپنے آپ کو پیوست کر دیتے ہیں۔ یہ لوگ خدا کی طرف سے ایک حصن حصین ہوتے ہیں اور دنیا ان کی وجہ سے بہت سی بلاوٴں اور آفات سے محفوظ رہتی ہے۔ مجھے جو شعر انتہائی پسند ہیں ان میں سے چند شعر وہ بھی ہیں جو حضرت جنید بغدادی رحمة اللہ علیہ کی وفات کے وقت ایک مجذوب نے کہے۔ تاریخوں میں آتا ہے کہ حضرت جنید بغدادی جب وفات پا گئے تو ان کے جنازہ کے ساتھ بہت بڑا ہجوم تھا اور لاکھوں لوگ اس میں شریک ہوئے۔ اس وقت بغداد کے قریب ہی ایک مجذوب رہتا تھا۔ بعض لوگ اسے پاگل کہتے اوربعض ولی اللہ سمجھتے۔ وہ بغداد کے پاس ہی ایک کھنڈر میں رہتا تھا۔ کسی سے کوئی تعلق نہیں رکھتا تھا اور نہ لوگوں سے بات چیت کرتا مگر لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے جب جنازہ اٹھایا گیا تو وہ بھی ساتھ ساتھ تھا۔ راوی کہتا ہے کہ مَیں نے دیکھا وہ نماز جنازہ میں شریک ہوٴا، قبر تک ساتھ گیا اورجب حضرت جنید بغدادی کو لوگ دفن کرنے لگے تو اُس وقت بھی وہ اسی جگہ تھا۔ جب لوگ حضرت جنید بغدادی کو دفن کر چکے تو اُس نے آپ کی قبر پر کھڑے ہو کر یہ چار شعر کہے ؂
وَا اَسَفَا عَلٰی فِرَاقِ قَوْمٍ
ھُمُ الْمَصَابِیْحُ وَ الْحُصُوْنٗ
وَ الْمُدْنُ وَ الْمُزْنُ وَ الرَّوَاسِیْ
وَ الْخَیْرُ وَ الْاَمْنُ وَ السُّکُوْنٗ
لَمْ تَتَغَیَّرْ لَنَا اللَّیَالِیْ
فَکُلُّ جَمْرٍ لَنَا قُلُوْبٌ
حَتّٰی تَوَفّٰـھُمُ الْمَنُوْنٗ
وَ کُلُّ مَاءٍ لَنَا عُیُوْنٗ 4
اس کے معنی یہ ہیں کہ :۔
وَا اَسَفَا عَلٰی فِرَاقِ قَوْمٍ
ھُمُ الْمَصَابِیْحُ وَ الْحُصُوْنٗ
ہائے افسوس ان لوگوں کی جدائی پر جو دنیا کے لئے سورج کاکام دے رہے تھے اورجو دنیا کے لئے قلعوں کا رنگ رکھتے تھے۔ لوگ ان سے نور حاصل کرتے تھے اور انہی کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے عذابوں اور مصیبتوں سے دنیا کو نجات ملتی تھی۔
وَ الْمُدْنُ وَ الْمُزْنُ وَ الرَّوَاسِیْ
وَ الْخَیْرُ وَ الْاَمْنُ وَ السُّکُوْنٗ
وہ شہر تھے جن سے تمام دنیا آباد تھی۔ وہ بادل تھے جو سوکھی ہوئی کھیتیوں کو ہرا کر دیتے تھے، وہ پہاڑ تھے جن سے دنیا کا استحکام تھا۔ اسی طرح وہ تمام بھلائیوں کے جامع تھے اور دنیا ان سے امن اور سکون حاصل کر رہی تھی
لَمْ تَتَغَیَّرْ لَنَا اللَّیَالِیْ حَتّٰی تَوَفَّاھُمُ الْمَنُوْنُ
ہمارے لئے زمانہ تبدیل نہیں ہوٴا۔ مشکلات کے باوجود ہمیں چین ملا، آرام حاصل ہوٴا اور دنیا کے دکھوں اور تکلیفوں نے ہمیں گھبراہٹ میں نہ ڈالا مگر جب وہ فوت ہو گئے تو ہمارے سکھ بھی تکلیفیں بن گئے اور ہمارے آرام بھی دکھ بن گئے
فَکُلُّ جَمْرٍ لَنَا قُلُوْبٌ وَ کُلُّ مَاءٍ لَنَا عُیُوْنٗ
پس اب ہمیں کسی آگ کی ضرورت نہیں کیونکہ ہمارے دل خود انگارا بنے ہوئے ہیں اور ہمیں کسی اور پانی کی ضرورت نہیں کیونکہ ہماری آنکھیں خود بارش برسا رہی ہیں۔
یہ ایک نہایت ہی عجیب نقشہ ایک صالح بزرگ کی وفات کا ہے۔ اور کہنے والا کہتا ہے یہ اشعار اس مجذوب نے کہے اورپھر وہ وہاں سے چلا گیا جب دوسرے دن اس کھنڈر کو دیکھا گیا تو وہ خالی تھا اور مجذوب اس ملک کو ہی چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ تو یہ لوگ جنہیں خدا تعالیٰ کے انبیاء کی صحبت حاصل ہوتی ہے۔ یہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے انبیاء کا قرب رکھتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کے نبیوں اور اس کے قائم کردہ خلفاء کے بعد دوسرے درجہ پر دنیا کے امن اور سکون کا باعث ہوتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ ایسے لوگ بڑے لیکچرار ہوں، یہ ضروری نہیں کہ ایسے لوگ خطیب ہوں۔ یہ ضروری نہیں کہ ایسے لوگ پِھر پِھر کر لوگوں کو تبلیغ کرنے والے ہوں۔ ان کا وجود ہی لوگوں کے لئے برکتوں اور رحمتوں کا موجب ہوتا ہے اور جب کبھی خدا تعالیٰ کی طرف سے بندوں کی نافرمانی کی وجہ سے کوئی عذاب نازل ہونے لگتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس عذاب کو روک دیتا ہے اور کہتا ہے ابھی اس قوم پر مت نازل ہو کیونکہ اس میں ہمارا ایسا بندہ موجود ہے جسے اس عذاب کی وجہ سے تکلیف ہو گی۔ پس اس کی خاطر دنیا میں امن اورسکون ہوتا ہے۔ مگر یہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام پر ایمان لائے یہ تو اس عام درجہ سے بھی بالا تھے ان کو خدا نے آخری زمانہ کے مامور اورمرسل کا صحابی اورپھر ابتدائی صحابی بننے کی توفیق عطا فرمائی اوران کی والہانہ محبت کے نظارے ایسے ہیں کہ دنیا ایسے نظارے صدیوں میں بھی دکھانے سے قاصر رہے گی۔
تم میں سے بہت ہیں جو اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کا عاشق سمجھتے ہیں مگر عشق کی آگ اپنے دھوئیں سے پہچانی جاتی ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم نے ان کے دلوں میں سے عشق کی آگ کا جو دھواں اٹھتا دیکھا وہ اَور لوگوں کے دلوں میں سے اٹھتا نہیں دیکھا۔ اس لئے صرف مُنہ کے دعویٰ پر ہم یقین نہیں کر سکتے۔ بے شک ہم اتنی بات مان سکتے ہیں کہ کہنے والا اپنے نقطہٴ نگاہ سے اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کا عاشق ہی سمجھتا ہے اور اس میں وہ جھوٹ سے کام نہیں لے رہا مگر موازنہ کرنا تو ہمارا کام ہے اور ہم جنہوں نے پہلوں کی محبت کے نظارے دیکھے اور بعد کے لوگوں کے دعوے بھی سُنے بآسانی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ان میں سے سچا عاشق کون ہے ورنہ یوں تو ہر شخص اپنی محبت کو دوسروں سے فائق سمجھا ہی کرتا ہے۔
مجھے وہ نظارہ نہیں بھولتا اور نہ بھول سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی وفات پر ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے کہ ایک دن باہر سے مجھے کسی نے آواز دے کر بلوایا اور خادمہ یا کسی بچے نے بتایا کہ دروازہ پر ایک آدمی کھڑا ہے اور وہ آپ کو بلا رہا ہے۔ میں باہر نکلا تو منشی اروڑے خان صاحب مرحوم کھڑے تھے۔ وہ بڑے تپاک سے آگے بڑھے، مجھ سے مصافحہ کیا اور ا سکے بعد انہوں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا جہاں تک مجھے یاد ہے انہوں نے اپنی جیب سے دو یا تین پونڈ نکالے اور مجھے کہا کہ یہ اماں جان کو دے دیں اور یہ کہتے ہی ان پر ایسی رقت طاری ہوئی اور وہ چیخیں مار کر رونے لگ گئے اور ان کے رونے کی حالت اس قسم کی تھی کہ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے بکرے کو ذبح کیا جا رہا ہے۔ میں کچھ حیران سا رہ گیا کہ یہ رو کیوں رہے ہیں۔ مگر میں خاموش کھڑا رہا اور انتظار کرتا رہا کہ وہ خاموش ہوں تو ان سے رونے کی وجہ دریافت کروں۔ اسی طرح وہ کئی منٹ تک روتے رہے۔ منشی اروڑے خاں صاحب مرحوم نے بہت ہی معمولی ملازمت سے ترقی کی تھی۔ پہلے کچہری میں وہ چپڑاسی کا کام کرتے تھے۔ پھر اَہْلْمَد کا عہدہ آپ کو مل گیا، اس کے بعد نقشہ نویس ہو گئے۔ پھر اَور ترقی کی تو سررشتہ دار ہو گئے اس کے بعد ترقی پا کر نائب تحصیلدار ہو گئے اور پھر تحصیلدار بن کر ریٹائر ہوئے۔ ابتداء میں ان کی تنخواہ دس پندرہ روپے سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔ جب ان کو ذرا صبر آیا تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ روئے کیوں ہیں؟ وہ کہنے لگے میں غریب آدمی تھا۔ مگر جب بھی مجھے چھٹی ملتی مَیں قادیان آنے کے لئے چل پڑتا تھا۔ سفر کا بہت سا حصہ میں پیدل ہی طے کرتا تھا تاکہ سلسلہ کی خدمت کے لئے کچھ پیسے بچ جائیں۔ مگر پھر بھی روپیہ ڈیڑھ روپیہ خرچ ہو جاتا۔ یہاں آکر جب میں امراء کو دیکھتا کہ وہ سلسلہ کی خدمت کے لئے بڑا روپیہ خرچ کر رہے ہیں تو میرے دل میں خیال آتا کہ کاش! میرے پاس بھی روپیہ ہو اور میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں بجائے چاندی کا تحفہ لانے کے سونے کا تحفہ پیش کروں۔ آخر میری تنخواہ کچھ زیادہ ہو گئی(اس وقت ان کی تنخواہ شاید بیس پچیس روپیہ تک پہنچ گئی تھی) اور میں نے ہر مہینے کچھ رقم جمع کرنی شروع کر دی اور میں نے اپنے دل میں یہ نیت کی کہ جب یہ رقم اس مقدار تک پہنچ جائے گی جو میں چاہتا ہوں تو میں اسے پونڈوں کی صورت میں تبدیل کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش کروں گا۔ پھر کہنے لگے جب میرے پاس ایک پونڈ کے برابر رقم جمع ہو گئی تو وہ رقم دے کر میں نے ایک پونڈلے لیا پھر دوسرے پونڈ کے لئے رقم جمع کرنی شروع کر دی اور جب کچھ عرصہ کے بعد اس کے لئے رقم جمع ہو گئی تو دوسرا پاوٴنڈ لے لیا۔ اسی طرح میں آہستہ آہستہ کچھ رقم جمع کر کے انہیں پونڈوں کی صورت میں تبدیل کرتا رہا اور میرا منشاء یہ تھا کہ میں یہ پونڈ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی خدمت میں پیش کروں گا۔ مگر جب میرے دل کی آرزو پوری ہو گئی اور پونڈ میرے پاس جمع ہو گئے تو یہاں تک وہ پہنچے تھے کہ پھر ان پر رقّت کی حالت طاری ہو گئی اور وہ رونے لگ گئے۔ آخر روتے روتے انہوں نے اس فقرہ کو اس طرح پورا کیا کہ جب پونڈ میرے پاس جمع ہو گئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی وفات ہو گئی۔
یہ اخلاص کا کیسا شاندار نمونہ ہے کہ ایک شخص چندے بھی دیتا ہے، قربانیاں بھی کرتا ہے، مہینہ میں ایک دفعہ نہیں دو دفعہ نہیں بلکہ تین تین دفعہ جمعہ پڑھنے کے لئے قادیان پہنچ جاتا ہے۔ سلسلہ کے اخبار کتابیں بھی خریدتا ہے۔ ایک معمولی سی تنخواہ ہوتے ہوئے، جب کہ آج اس تنخواہ سے بہت زیادہ تنخواہیں وصول کرنے والے اس قربانی کا دسواں بلکہ بیسواں حصہ بھی قربانی نہیں کرتے۔ اس کے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ امیر لوگ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں سونا پیش کرتے ہیں تو میں ان سے پیچھے کیوں رہوں۔ چنانچہ وہ ایک نہایت ہی قلیل تنخواہ میں سے ماہوار کچھ رقم جمع کرتا اورایک عرصہ دراز تک جمع کرتا رہتا ہے۔ نہ معلوم اس دوران اس نے اپنے گھر میں کیا کیا تنگیاں برداشت کی ہوں گی، کیا کیا تکلیفیں تھیں جو اس نے خوشی سے جھیلی ہوں گی۔ محض اس لئے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی خدمت میں اشرفیاں پیش کر سکے۔ مگر جب اس کی خواہش کے پورا ہونے کا وقت آتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی حکمت اس کو اس رنگ میں خوشی حاصل کرنے سے محروم کر دیتی ہے جس رنگ میں وہ اسے دیکھنا چاہتا تھا۔ مَیں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ منشی اروڑے خان صاحب مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ مجھے بعض غیر احمدی دوستوں نے کہا۔ تم ہمیشہ ہمیں تبلیغ کرتے رہتے ہو فلاں جگہ مولوی ثناء اللہ صاحب آئے ہوئے ہیں۔ تم بھی چلو اور ان کی باتوں کا جواب دو۔ منشی اروڑے خان صاحب مرحوم کچھ زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے دوران ملازمت ہی انہیں پڑھنے لکھنے کی جو مشق ہوئی وہی انہیں حاصل تھی۔ وہ کہنے لگے جب ان دوستوں نے اصرار کیا تو مَیں نے کہا اچھا چلو۔ چنانچہ وہ انہیں جلسہ میں لے گئے مولوی ثناء اللہ صاحب نے احمدیت کے خلاف تقریر کی اور اپنی طرف سے خوب دلائل دئیے۔ جب تقریر ختم کر کے وہ بیٹھ گئے تو منشی اروڑے خان صاحب سے ان کے دوست کہنے لگے کہ بتائیں ان دلائل کا کیا جواب ہے۔ منشی اروڑے خان صاحب فرماتے تھے۔ مَیں نے ان سے کہا یہ مولوی ہیں اور مَیں اَن پڑھ آدمی ہوں۔ ان کی دلیلوں کا جواب تو کوئی مولوی ہی دے گا۔ مَیں صرف اتنا جانتا ہوں کہ مَیں نے حضرت مرزا صاحب کی شکل دیکھی ہوئی ہے وہ جھوٹے نہیں ہو سکتے۔
اسی طرح ایک دفعہ کسی دوست نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی خدمت میں ایک واقعہ سنایا جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی ہنسے اور مجلس میں بیٹھے ہوئے دوسرے لوگ بھی بہت محظوظ ہوئے۔ منشی اروڑے خان صاحب شروع میں قادیان بہت زیادہ آیا کرتے تھے۔ بعد میں چونکہ بعض اہم کام ان کے سپرد ہو گئے اس لئے جلدی چھٹی ملنا ان کے لئے مشکل ہو گیا تھا۔ مگر پھر بھی وہ قادیان اکثر آتے رہتے تھے۔ ہمیں یاد ہے جب ہم چھوٹے بچے ہوٴا کرتے تھے تو ان کا آنا ایسا ہی ہوا کرتا تھا جیسے کوئی مدتوں کا بچھڑا ہوا بھائی سالہا سال کے بعد اپنے کسی عزیز سے آ کر ملے۔ کپور تھلہ کی جماعت میں سے منشی اروڑے خان صاحب، منشی ظفر احمد صاحب اور منشی محمد خان صاحب جب بھی آتے تھے تو ان کے آنے سے ہمیں بڑی خوشی ہوٴا کرتی تھی۔ غرض اس دوست نے بتایا کہ منشی اروڑے خان صاحب تو ایسے آدمی ہیں کہ یہ مجسٹریٹ کو بھی ڈرا دیتے ہیں پھر اس نے سنایا کہ ایک دفعہ انہوں نے مجسٹریٹ سے کہا مَیں قادیان جانا چاہتا ہوں۔ مجھے چھٹی دے دیں اس نے انکار کر دیا۔ اس وقت وہ سیشن جج کے دفتر میں لگے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا قادیان میں مَیں نے ضرور جانا ہے مجھے آپ چُھٹی دے دیں۔ وہ کہنے لگا کام بہت ہے اس وقت آپ کو چُھٹی نہیں دی جا سکتی۔ وہ کہنے لگے بہت اچھا آپ کا کام ہوتا رہے مَیں تو آج سے ہی بد دعا میں لگ جاتا ہوں۔ آپ اگر نہیں جانے دیتے تو نہ جانے دیں۔ آخر اس مجسٹریٹ کو کوئی ایسا نقصان پہنچا کہ وہ سخت ڈر گیا اور جب بھی ہفتہ کا دن آتا وہ عدالت والوں سے کہتا کہ آج کام ذرا جلدی بند کر دینا کیونکہ منشی اروڑے خان صاحب کی گاڑی کا وقت نکل جائے گا۔ اس طرح وہ آپ ہی جب بھی منشی صاحب کا ارادہ قادیان آنے کا ہوتا انہیں چُھٹی دے دیتا اور وہ قادیان پہنچ جاتے۔
پھر ان کی محبت کا یہ نقشہ بھی مجھے کبھی نہیں بھولتا جو گو انہوں نے مجھے خود ہی سنایا تھا مگر میری آنکھوں کے سامنے وہ یوں پھرتا رہتا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے اس واقعہ کے وقت مَیں بھی وہیں موجود تھا۔ انہوں نے سنایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام سے ایک دفعہ ہم نے عرض کیا کہ حضور کبھی کپور تھلہ تشریف لائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے وعدہ فرمالیا کہ جب فرصت ملی تو آجاؤں گا۔ وہ کہتے تھے کہ ایک دن کپورتھلہ میں میں ایک دکان پر بیٹھا ہوٴا تھا کہ ایک شدید ترین دشمن اڈے کی طرف سے آیا اور مجھے کہنے لگا۔ لو تمہارا مرزا کپورتھلے آگیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب فرصت ملی تو وہ اطلاع دینے کا وقت نہ تھااس لئے آپ بغیر اطلاع دیئے ہی چل پڑے۔ منشی اروڑے خان صاحب نے یہ خبر سنی تو وہ خوشی میں ننگے سر اور ننگے پاؤں اڈے کی طرف بھاگے مگر چونکہ خبر دینے والا شدید ترین مخالف تھا اور ہمیشہ احمدیت سے تمسخر کرتا رہتا تھا اس لئے ان کا بیان تھا کہ تھوڑی دور جاکر مجھے خیال آیا کہ یہ بڑا خبیث دشمن ہے اس نے ضرور مجھ سے ہنسی کی ہوگی۔ چنانچہ مجھ پر جنون سا طاری ہوگیا اور یہ خیال کرکے کہ نامعلوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام آئے بھی ہیں یا نہیں۔ میں کھڑا ہوگیا اور میں نے اسے بے تحاشہ برا بھلا کہنا شروع کردیا کہ تُو بڑا خبیث اور بدمعاش ہے تُو کبھی میرا پیچھا نہیں چھوڑتا اور ہمیشہ ہنسی کرتا رہتا ہے بھلا ہماری قسمت کہاں کہ حضرت صاحب کپورتھلہ تشریف لائیں۔ وہ کہنے لگا کہ آپ ناراض نہ ہوں اور جاکر دیکھ لیں مرزا صاحب واقع میں آئے ہوئے ہیں۔ اس نے یہ کہا تو میں پھر دوڑ پڑا مگر پھر خیال آیا کہ اس نے ضرور مجھ سے دھوکا کیا ہے چنانچہ پھر میں اسے کوسنے لگا کہ تو بڑا جھوٹا ہے ہمیشہ مجھ سے مذاق کرتا رہتا ہے ہماری ایسی قسمت کہاں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ہمارے ہاں تشریف لائیں۔ مگر اس نے پھر کہا منشی صاحب وقت ضائع نہ کریں مرزا صاحب واقع میں آئے ہوئے ہیں۔ چنانچہ پھر اس خیال سے کہ شاید آہی گئے ہوں میں دوڑ پڑا مگر پھر یہ خیال آجاتا کہ کہیں اس نے دھوکا ہی نہ دیا ہو۔ چنانچہ پھر اسے ڈانٹا۔ آخر وہ کہنے لگا۔ مجھے برا بھلا نہ کہو اور جاکر اپنی آنکھوں سے دیکھ لو واقع میں مرزا صاحب آئے ہوئے ہیں۔ غرض میں کبھی دوڑتا اور کبھی یہ خیال کرکے کہ مجھ سے مذاق ہی نہ کیا گیا ہو ٹھہر جاتا۔ میری یہی حالت تھی کہ میں نے سامنے کی طرف جو دیکھا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام تشریف لارہے تھے۔ اب یہ والہانہ محبت اور عشق کا رنگ کتنے لوگوں کے دلوں میں پایا جاتا ہے۔ یقیناً بہت ہی کم لوگوں کے دلوں میں۔
میاں عبداللہ صاحب سنوری بھی اپنے اندر ایسا ہی عشق رکھتے تھے۔ ایک دفعہ وہ قادیان میں آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام ان سے کوئی کام لے رہے تھے اس لئے جب میاں عبداللہ صاحب سنوری کی چُھٹی ختم ہوگئی اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے جانے کے لئے اجازت طلب گی تو حضور نے فرمایا۔ ابھی ٹھہر جاؤ۔ چنانچہ انہوں نے مزید رخصت کے لئے درخواست بھجوا دی مگر محکمہ کی طرف سے جواب آیا کہ اور چھٹی نہیں مل سکتی تو انہوں نے اس امر کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ذکر کیا تو آپ نے پھر فرمایا کہ ابھی ٹھہرو۔ چنانچہ انہوں نے لکھ دیا کہ میں ابھی نہیں آسکتا۔ اس پر محکمہ والوں نے انہیں ڈِس مِس(DISMISS) کر دیا۔ چار یا چھ مہینے جتنا عرصہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں رہنے کے لئے کہا تھا وہ یہاں ٹھہرے رہے۔ پھر جب واپس گئے تو محکمہ نے یہ سوال اٹھا دیا کہ جس افسر نے انہیں ڈِس مِس کیا تھا اس افسر کا یہ حق ہی نہیں تھا کہ وہ انہیں ڈِس مِس کرتا۔ چنانچہ وہ پھر اپنی جگہ پر بحال کئے گئے اور پچھلے مہینوں کی جو وہ قادیان میں گزار گئے تھے تنخواہ بھی مل گئی۔
اسی طرح منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی کے ساتھ واقعہ پیش آیا جو کل ہی ڈلہوزی کے راستہ میں میاں عطاء اللہ صاحب وکیل سلّمہ اللہ تعالیٰ نے سنایا۔ یہ واقعہ الحکم 14، اپریل 1934ء میں بھی چَھپ چکا ہے اس لئے منشی صاحب کے اپنے الفاظ میں اسے بیان کر دیتا ہوں۔
‘‘میں جب سررشتہ دار ہوگیا اور پیشی میں کام کرتا تھا تو ایک دن مسلیں وغیرہ بند کرکے قادیان چلا آیا۔ تیسرے دن میں نے اجازت چاہی تو فرمایا ابھی ٹھہریں۔ پھر عرض کرنا مناسب نہ سمجھا کہ آپ ہی فرمائیں گے۔ اس پر ایک مہینہ گزر گیا۔ ادھر مسلیں میرے گھر میں تھیں کام بند ہوگیا اور سخت خطوط آنے لگے مگر یہاں یہ حالت تھی کہ ان خطوط کے متعلق وہم بھی نہ آتا تھا۔ حضور کی صحبت میں ایک ایسا لطف اور محویت تھی کہ نہ نوکری کے جانے کا خیال تھا اور نہ کسی باز پُرسی کا اندیشہ آخر ایک نہایت ہی سخت خط وہاں سے آیا۔ میں نے وہ خط حضرت کے سامنے رکھ دیا۔ پڑھا اور فرمایا لکھ دو ہمارا آنا نہیں ہوتا۔ میں نے وہی فقرہ لکھ دیا۔ اس پر ایک مہینہ اَور گزر گیا۔ تو ایک دن فرمایا کتنے دن ہوگئے؟ پھر آپ ہی گننے لگے اور فرمایا اچھا آپ چلے جائیں۔ میں چلا گیا اور کپورتھلہ پہنچ کر لالہ ہرچرن داس مجسٹریٹ کے مکان پر گیا تاکہ معلوم کروں کیا فیصلہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا منشی جی! آپ کو مرزا صاحب نے نہیں آنے دیا ہوگا۔ میں نے کہاکہ ہاں۔ تو فرمایا ان کا حکم مقدم ہے۔’’
میاں عطاء اللہ صاحب کی روایت میں اس قدر زیادہ ہے کہ منشی صاحب مرحوم نے فرمایا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ لکھ دو ہم نہیں آسکتے تو میں نے وہی الفاظ لکھ کر مجسٹریٹ کو بھجوا دیئے۔ یہ ایک گروہ تھا جس نے عشق کا ایک ایسا اعلیٰ درجہ کا نمونہ دکھایا کہ ہماری آنکھیں اب پچھلی جماعتوں کے آگے نیچی نہیں ہوسکتیں۔ ہماری جماعت کے دوستوں میں کتنی ہی کمزوریاں ہوں کتنی ہی غفلتیں ہوں لیکن اگر موسیٰؑ کے صحابی ہمارے سامنے اپنا نمونہ پیش کریں تو ہم ان کے سامنے اس گروہ کا نمونہ پیش کر سکتے ہیں۔ اسی طرح عیسیٰؑ کے صحابی اگر قیامت کے دن اپنے اعلیٰ کارنامے پیش کریں تو ہم فخر کے ساتھ ان کے سامنے اپنے ان صحابہ کو پیش کر سکتے ہیں اوریہ جو رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ مَیں نہیں کہہ سکتا میری امت اور مہدی کی امت میں کیا فرق ہے۔ میری اُمت زیادہ بہتر ہے یا مہدی کی امت زیادہ بہتر 5 تو درحقیقت ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے فرمایا ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جو ابو بکرؓ اور عمرؓ اور عثمانؓ اور علیؓ اور دوسرے صحابہؓ کی طرح ہر قسم کی قربانیاں کرنے والے تھے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں ہر قسم کے مصائب برداشت کرنے کے لئے تیار رہتے تھے۔
حضرت خلیفہ اول کو ہی دیکھ لو۔ ان کو خدا نے چونکہ خود جماعت میں ایک ممتاز مقام بخش دیا ہے اس لئے مَیں نے ان کا نام نہیں لیا۔ ورنہ ان کی قربانیوں کے واقعات بھی حیرت انگیز ہیں۔ آپ جب قادیان میں آئے تو اس وقت بھیرہ میں آپ کی پریکٹس جاری تھی۔ مطب کھلا تھا اورکام بڑے وسیع پیمانہ پر جاری تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جب آپ نے واپس جانے کی اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا۔ کیا جانا ہے، آپ اسی جگہ رہیں۔ پھر حضرت خلیفہٴ اول خود اسباب لینے کے لئے بھی نہیں گئے بلکہ کسی دوسرے آدمی کو بھیج کر بھیرہ سے اسباب منگوایا۔ یہی وہ قربانیاں ہیں جو جماعتوں کو خدا تعالیٰ کے حضور ممتاز کیا کرتی ہیں اور یہی وہ مقام ہے جس کے حاصل کرنے کی ہر شخص کو جد و جہد کرنی چاہئے۔ خالی فلسفیانہ ایمان انسان کے کسی کام نہیں آسکتا۔ انسان کے کام آنے والا وہی ایمان ہے جس میں عشق اور محبت کی چاشنی ہو۔ فلسفی اپنی محبت کے کتنے ہی دعویٰ کرے۔ ایک دلیل بازی سے زیادہ ان کی وقعت نہیں ہوتی کیونکہ اس نے صداقت کو دل کی آنکھ سے نہیں بلکہ محض عقل کی آنکھ سے دیکھا ہوتا ہے مگر وہ جو عقل کی آنکھ سے نہیں بلکہ دل کی نگاہ سے خدا تعالیٰ کی طرف سے آئی ہوئی صداقت اور شعائر اللہ کو پہچان لیتا ہے اسے کوئی شخص دھوکا نہیں دے سکتا۔ اس لئے کہ دماغ کی طرف سے فلسفہ کا ہاتھ اٹھتا ہے اور دل کی طرف سے عشق کا ہاتھ اٹھتا ہے اور عشق کا بندھن ہی وہ چیز ہے جسے کوئی توڑ نہیں سکتا۔ فلسفہ سے تم صرف قیاس کرتے ہو اور کہتے ہو کہ فلاں چیز ہے مگر عشق سے تم اس چیز کو اپنی آنکھ سے دیکھ لیتے ہو اور مشاہدہ اور رویت کے مقام کو حاصل کر لیتے ہو جیسے مَیں نے مثال بھی بتائی ہے کہ مولوی ثناء اللہ صاحب نے اپنی تقریر میں احمدیت کے خلاف کئی دلائل پیش کئے مگر منشی اروڑے خان صاحب مرحوم نے ان کو ایک فقرہ میں ہی ردّ کر دیا۔ انہوں نے کہا مولوی صاحب کے دلائل کا جواب تو کسی مولوی سے پوچھیں۔ مَیں صرف اتنا جانتا ہوں کہ جو چہرہ مَیں نے دیکھا ہے وہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہو سکتا۔ یہ دل کی آنکھ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کو مشاہدہ کرنے کا نتیجہ تھا اور دل کی آنکھ سے مشاہدہ ہی ایک ایسی چیز ہے جس کے بعد فلسفیانہ دلائل انسان کو دھوکا نہیں دے سکتے۔ تم سورج کو اگر اپنی آنکھوں سے دیکھ لو تو پھر کوئی لاکھ دلائل دے کہ سورج اس وقت چڑھا ہوٴا نہیں۔ تم اس کے دلائل سے متاثر نہیں ہو گے حالانکہ کئی امور ایسے ہیں جن میں انسان دوسروں کے کہنے پر دھوکا کھا جاتا اور شبہ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ مگر سورج دیکھنے کے بعد کوئی شخص اس کے وجود سے انکار نہیں کر سکتا۔ خواہ اس کے خلاف اسے ہزاروں دلائل ہی کیوں نہ دئیے جائیں۔ اسی طرح تمہیں اَور باتوں میں بے شک دھوکا لگ سکتا ہے مگر کیا کوئی شخص تمہیں یہ بھی دھوکا دے سکتا ہے کہ تمہاری بیوی اور بچے نہیں۔ تم ایسا کبھی نہیں سمجھو گے اور اگر کوئی تمہیں اس فریب میں مبتلا کرنا چاہے تو تم اسے دھوکا باز اور بد نیت سمجھو گے۔ اسی طرح جو لوگ عشق کی آنکھ سے دیکھتے ہیں وہ صداقت کا مشاہدہ کر لیتے اور حقیقت تک پہنچ جاتے ہیں مگر جو لوگ محض عقل سے کام لیتے ہیں وہ ہمیشہ قیاس آرائیاں کرتے ہیں اور قیاس کرنے والے ٹھوکر کھا جایا کرتے ہیں۔
پس یہ وہ لوگ ہیں جن کے نقش قدم پر جماعت کے دوستوں کو چلنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ کہنے والے کہیں گے کہ یہ شرک کی تعلیم دی جاتی ہے، یہ جنون کی تعلیم دی جاتی ہے، یہ پاگل پن کی تعلیم دی جاتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ پاگل وہی ہیں جنہوں نے اس رستہ کو نہیں پایا اور اس شخص سے زیادہ عقلمند کوئی نہیں جس نے عشق کے ذریعہ خدا اور اس کے رسول کو پالیا اور جس نے محبت میں محو ہوکر اپنے آپ کو ان کے ساتھ وابستہ کر دیا۔ اب اسے خدا سے اور خدا کو اس سے کوئی چیز جدا نہیں کرسکتی کیونکہ عشق کی گرمی ان دونوں کو آپس میں اس طرح ملا دیتی ہے جس طرح ویلڈنگ کیا جاتا اور دو چیزوں کو جوڑ کر آپس میں بالکل پیوست کر دیا جاتا ہے مگر وہ جسے محض فلسفیانہ ایمان حاصل ہوتا ہے اس کا خدا سے ایسا ہی جوڑ ہوتا ہے جیسے قلعی کا ٹانکہ ہوتا ہے ذرا گرمی لگے تو ٹوٹ جاتا ہے۔ مگر جب ویلڈنگ ہو جاتا ہے تو ایسا ہی ہو جاتا ہے جیسے کسی چیز کا جزو ہو۔ پس اپنے اندر عشق پیدا کرو اور وہ راہ اختیار کرو جو ان لوگوں نے اختیار کی پیشتر اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جو صحابی باقی ہیں وہ بھی ختم ہو جائیں۔ بے شک ابتدائی گہرا تعلق رکھنے والے لوگوں میں سے منشی ظفر احمد صاحب آخری صحابی تھے مگر ابھی بعض اور پرانے لوگ موجود ہیں گو اتنے پرانے نہیں جتنے منشی ظفر احمد صاحب تھے۔ چنانچہ کوٹلہ میں میرعنایت علی صاحب ابھی زندہ ہیں جنہوں نے ساتویں نمبر پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تھی مگر پھر بھی یہ جماعت کم ہوتی چلی جارہی ہے اور وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں آپ سے گہرا تعلق اور بے تکلفی رکھتے تھے ان میں سے تو غالباً منشی ظفر احمد صاحب آخری آدمی تھے۔ کپورتھلہ کی جماعت کو ایک یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس جماعت کو یہ لکھ کر بھیجا تھا کہ مجھے یقین ہے جس طرح خدا نے اس دنیا میں ہمیں اکٹھا رکھا ہے اسی طرح اگلے جہان میں بھی کپورتھلہ کی جماعت کو میرے ساتھ رکھے گا 6 مگر اس سے کپورتھلہ کی جماعت کا ہر فرد مراد نہیں بلکہ صرف وہی لوگ مراد ہیں جنہوں نے اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ساتھ دیا جیسے منشی اروڑے خان صاحب تھے یا منشی محمد خان صاحب تھے یا منشی ظفر احمد صاحب تھے۔ یہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ہزاروں نشانوں کا چلتا پھرتا ریکارڈ تھے۔ نامعلوم لوگوں نے کس حد تک ان ریکارڈوں کو محفوظ کیا مگر بہرحال خداتعالیٰ کے ہزاروں نشانات کے وہ چشم دید گواہ تھے۔ ان ہزاروں نشانات کے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ اور آپ کی زبان اور آپ کے کان اور آپ کے پاؤں وغیرہ کے ذریعے ظاہر ہوئے۔ تم صرف وہ نشانات پڑھتے ہو جو الہامات پورے ہوکر نشان قرار پائے مگر اُن نشانوں سے ہزاروں گُنے زیادہ وہ نشانات ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی زبان، ناک، کان، ہاتھ اور پاؤں پر جاری کرتا ہے اور ساتھ رہنے والے سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ خدا کے نشانات ظاہر ہورہے ہیں۔ وہ انہیں اتفاق قرار نہیں دیتے کیونکہ وہ نشانات ایسے حالات میں ظاہر ہوتے ہیں جو بالکل مخالف ہوتے ہیں اور جن میں ان باتوں کا پورا ہونا بہت بڑا نشان ہوتا ہے۔ پس ایک ایک صحابی جو فوت ہوتا ہے وہ ہمارے ریکارڈ کا ایک رجسٹر ہوتا ہے جسے ہم زمین میں دفن کر دیتے ہیں۔ اگر ہم نے ان رجسٹروں کی نقلیں کرلی ہیں تو یہ ہمارے لئے خوشی کا مقام ہے اور اگر ہم نے ان کی نقلیں نہیں کیں تو یہ ہماری بدقسمتی کی علامت ہے۔ بہرحال ان لوگوں کی قدر کرو۔ ان کے نقش قدم پر چلو اور اس بات کو اچھی طرح یاد رکھو کہ فلسفیانہ ایمان انسان کے کسی کام نہیں آتا۔ وہی ایمان کام آسکتا ہے جو مشاہدہ پر مبنی ہو اور مشاہدہ کے بغیر عشق نہیں ہوسکتا۔ جو شخص کہتا ہے کہ بغیر مشاہدہ کے اسے محبت کامل حاصل ہوگئی ہے وہ جھوٹا ہے۔ مشاہدہ ہی ہے جو انسان کو عشق کے رنگ میں رنگین کرتا ہے اور اگر کسی کو یہ بات حاصل نہیں تو وہ سمجھ لے کہ فلسفہ انسان کو محبت کے رنگ میں رنگین نہیں کرسکتا فلسفہ صرف دوئی پیدا کرتا ہے ۔’’
(الفضل 28 اگست 1941ء )
1 مسلم کتاب الذکر و الدعا ء و التوبہ باب فضل الدعا بظھر الغیب
2 اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَ اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْ (الاحزاب: 7)
3 بخاری کتاب الاستسقاء باب سوال الناس الامام الاستسقاء اذا قحطوا
4 تاریخ بغداد۔ خطیب بغدادی جلد 7 صفحہ 256 مطبوعہ بیروت 1997ء
5 ترمذی ابواب الادب باب مثل امتی مثل المطر
6 مکتوب حضرت مسیح موعود علیہ السلام بنام منشی محمد خان صاحب مطبوعہ بدر یکم اکتوبر 1908ء

27
ڈلہوزی میں حضرت خلیفة المسیح کی کوٹھی پر پولیس کی خلافِ قانون حرکات
( فرمودہ 12 ستمبر 1941ء )

تشہّد، تعوّذ اور سورہٴ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘مجھے آج خطبہ کے لئے آنے میں اس لئے دیر ہو گئی ہے کہ مَیں جس امر کے متعلق خطبہ دینا چاہتا تھا مَیں نے مناسب سمجھا کہ اس کے لئے نوٹ لکھ لوں تاکہ کوئی ایسی بات جو مَیں کہنا چاہتا ہوں نظر انداز نہ ہو جائے یا کم سے کم بیشتر حصہ ان امور کا جنہیں میں کہنا چاہتا ہوں آ جائے۔
دوستوں کو یہ معلوم ہو گا کہ میرا ڈلہوزی سے کل صبح آنے کا ارادہ تھا لیکن مَیں کل صبح نہیں آ سکا جس کی وجہ سے بعض دوستوں کو جو نہر پر استقبال یا انتظام کے لئے گئے ہوئے تھے تکلیف ہوئی مگر اس کی ایک وجہ تھی جو آج کے خطبہ سے معلوم ہو جائے گی۔ اور وہ وجہ پرسوں پیدا ہوئی جبکہ ہم آنے کے لئے تیار تھے اور چند گھنٹوں میں ہی روانگی کے لئے اسباب باندھنے والے تھے ۔ وہ وجہ جو پیدا ہوئی سلسلہ کی تاریخ میں ایک نرالا واقعہ ہے۔ ایسا نرالا کہ مَیں اسے 1934ء کے اُس واقعہ سے بھی بڑھ کر سمجھتا ہوں جبکہ گورنر پنجاب نے مجھ کو رات کے وقت نوٹس بھجوایا تھا کہ تم احمدیہ جماعت کے افراد کو روک دو کہ وہ قادیان میں نہ آئیں اور بعد میں گورنر ان کونسل نے اس کے متعلق دو دفعہ معذرت کی اور اپنی غلطی کا اقرار کیا ۔مگر پیشتر اس کے کہ مَیں اس واقعہ کو بیان کروں مَیں جماعت کے دوستوں کو نصیحت کر دینا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں کیونکہ یہ جنگ کا وقت ہے اور ایک ایسی عظیم الشان لڑائی دنیا کے پردہ پر لڑی جا رہی ہے جس کا اثر اسلام اوراحمدیت پر پڑنا بھی ضروری ہے اور دنیا کے تمام ممالک اور افراد پر بھی اس کا اثر پڑنا ضروری ہے۔ گویا دنیا کی قسمت کا فیصلہ موجودہ زمانہ یا موجودہ صدی میں اس جنگ سے وابستہ ہے۔ پس چونکہ آجکل ایک ایسا نازک دَور ہے جس میں وہ جنگ لڑی جا رہی ہے جس کا اثر اسلام اور احمدیت پر بھی پڑتا ہے اس لئے ہمیں دوسرے تمام واقعات کے متعلق اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا چاہئے تاکہ اس جد و جہد میں جو ہماری جماعت کر رہی ہے ،کر سکتی ہے یا آئندہ کرے گی کسی قسم کی کوتاہی واقع نہ ہو۔
مَیں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو کسی جوش کے ماتحت چھوٹی چیزوں کے لئے اہم چیزوں کو قربان کر دیا کرتے ہیں ان لوگوں کی ایسی مثال ہے کہ جیسے کوئی کشتی میں سوار ہو اور کوئی آدمی اسے گالی دے اور وہ اس سے گُتھم گُتھا ہو جائے اورلڑھک کر سمندر میں گر کر دونوں ڈوب جائیں۔
میرے نزدیک ایسے انسان یقینی طور پر بے وقوف ہوتے ہیں۔ گو مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہندوستان میں اس قسم کی بے وقوفی کا ارتکاب کرنے والے بہت سے لوگ پائے جاتے ہیں بلکہ بعض دفعہ میری جماعت کے لوگ بھی ایسے موقعوں پر مجھے یہ مشورہ دیا کرتے ہیں کہ اب صبر کا وقت نہیں اب دشمن کامقابلہ کرنا چاہئے ۔ مگر جہاں میں ان دوستوں کے اخلاص اور ان کی محبت اور ان کی قربانی کا قائل ہوں اور ان کے ان جذبات پر فخر کرتا ہوں جو سلسلہ کے لئے غیرت کے طور پر ان میں پیدا ہوتے ہیں وہاں مجھے یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ ان کی رائے صائب اور درست نہیں۔ اور مَیں اسے تسلیم نہیں کر سکتا کیونکہ میرے نزدیک خواہ کوئی کتنی ہی بڑی بات ہو اور خواہ ایسی اہم بات ہو جسے دوسرے وقتوں میں انسان قربان نہیں کر سکتا اگر اس وقت اس کے مقابل پر اس سے بڑھ کر کوئی اور بات آجائے تو آخر اس اہم بات کی قربانی دینی ہی پڑتی ہے۔
جان کتنی پیاری چیز ہے لوگ اپنی یا اپنے کسی عزیز کی جان بچانے کے لئے روپے بھی خرچ کرتے ہیں، تکلیفیں بھی اٹھاتے ہیں، منتیں اور خوشامدیں بھی کرتے ہیں۔ چنانچہ جب کسی کا کوئی عزیز بیمار ہو جاتا ہے تو سارے رشتہ دار اُس کے علاج اور تیمار داری کے لئے جمع ہو جاتے ہیں، ڈاکٹروں کی فیسیں دیتے ہیں، دوائیں بیچنے والوں کو قیمت ادا کرتے ہیں، نرسیں رکھتے ہیں۔ بیوی بیمار ہو تو خاوند اوربچے اور اگر خاوند بیمار ہو تو بیوی اور بچے راتوں کو جاگتے اور ہر قسم کی تکالیف اپنے نفس پر برداشت کرتے ہیں۔ اسی طرح باپ یا ماں بیمار ہو تو تمام بچے ایسی خدما ت میں لگ جاتے ہیں جو دوسرے اوقات میں نہیں کر سکتے مگر جب ملکی حفاظت کا فرض قوم پر عائد ہوتا ہے تو وہی جان جسے اتنا قیمتی خیال کیا جاتا ہے کوئی شخص کوڑیوں کے برابر بھی اس کی قیمت تجویز نہیں کرتا اورہر محبِّ وطن اپنی قوم اور اپنے ملک کی حفاظت کے لئے نکل کھڑا ہوتا ہے۔
ماں باپ کی عزت کتنی پیاری ہوتی ہے مگر جب دنیا میں خدا تعالیٰ کے انبیاء آتے ہیں تو وہ ماں باپ جن کے لئے انسان اپنی قوم سے، اپنے دوستوں اور اپنے ہمسائیوں سے لڑنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں ان کو بالکل قربان کر دیا جاتا ہے۔ تو یہی سوال نہیں ہوتا کہ کوئی امر بڑا ہے بلکہ یہ سوال بھی ہوتا ہے کہ آیا اس کے مقابلہ میں کوئی اس سے بھی بڑا معاملہ ہے یا نہیں۔ اور اگر ہو اور اس کے مقابلہ میں نسبتی طور پر وہ چھوٹا سمجھا جا سکتا ہو تو خواہ وہ اپنی ذات میں کتنا ہی بڑا اور اہم معاملہ کیوں نہ ہو اسے قربان کر دینا پڑے گا۔ پس مَیں خود بھی اپنے جذبات کو قابو میں رکھتے ہوئے ان باتوں کو بیان کرنا چاہتا ہوں اور جماعت کے دوستوں کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے جذبات پر قابو رکھیں۔ جب وہ باتیں جن کو مَیں ابھی بیان کروں گا ہو رہی تھیں اس وقت بعض جوشیلے دوستوں نے مجھے کہا کہ اب وقت نہیں رہا کہ ہم حکومت کی ہر بات مانتے چلے جائیں مگر مَیں نے اس وقت بھی انہیں یہی کہا کہ آجکل جنگ کا زمانہ ہے اور یہ سوال بہت زیادہ اہم ہے بہ نسبت اس کے کہ پنجاب گورنمنٹ یا اس کے کسی صیغہ سے ہمارا کوئی جھگڑا ہو بے شک اس واقعہ کے ذریعہ احمدیت کی تذلیل کی گئی ہے مگر چونکہ اس سوال سے بہت زیادہ اہم سوال وہ ہے جو جنگ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے اور جس کے اثرات اسلام اور احمدیت پر پڑنے بھی یقینی ہیں اس لئے مَیں کوئی ایسا قدم اٹھانے کے لئے تیار نہیں جس کا اثر ہماری ان کوششوں پر پڑے جو جنگ کے متعلق ہماری طرف سے کی جا رہی ہیں۔
دوسرے اس لئے بھی ہمیں اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا چاہئے کہ ہمیں ابھی تک اصل مجرموں کا پتہ نہیں لگ سکا اور ہم یقینی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ حکومت پنجاب کا اس میں دخل ہے یا نہیں۔ اور اگر دخل ہے تو کس حد تک۔ اِسی طرح ابھی تک ہم یقینی طور پر یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ کسی لوکل افسر کا اس میں دخل ہے یا نہیں۔ جہاں تک میر اعلم ہے اور پرسوں تک جو کچھ واقعات میرے علم میں آئے ہیں ان سے نتیجہ نکال کر مَیں یہی کہہ سکتا ہوں کہ لوکل افسروں کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ مگر بہرحال ابھی ہمیں اس بات کاکوئی علم نہیں کہ اس کی اصل ذمہ داری کس پر ہے۔ اس لئے جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ اصل ذمہ دار کون ہے اس وقت تک عقلاً ہمیں اپنے جوشوں کو دبائے رکھنا چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ اس واقعہ کا کون ذمہ دار ہے۔
اب مَیں اصل واقعات کو بیان کرتا ہوں۔ ڈلہوزی میں ڈاک عموماً دس بجے تک تقسیم ہونے لگتی ہے تو ساڑھے نو بجے وہاں موٹر پہنچتی ہے۔ جو لوگ ڈاک لانے کے لئے اپنا آدمی بھیج دیتے ہیں انہیں ڈاک ذرا جلدی مل جاتی ہے اور جو لوگ اپنا آدمی نہیں بھیجتے انہیں ڈاک ذرا دیر میں تقسیم ہوتی ہے۔ ہماری ڈاک بِالعموم وہاں دس بجے آ جاتی ہے جہاں ڈاکیا تقسیم کرنے جاتا ہے وہاں گیارہ ساڑھے گیارہ بارہ بلکہ ایک بجے بھی پہنچتی ہو گی۔رجسٹریاں اور بیرنگ خطوط چونکہ ڈاکیا ہی لے کر جاتا ہے دوسرا نہیں لا سکتا اس لئے یہ ڈاک ہماری کوٹھی پر بارہ بجے کے قریب پہنچتی ہے۔ بدھ کے دن ہمارا آدمی ڈاک لے کر آیا اور مَیں ڈاک پڑھنے بیٹھ گیا۔ آجکل طبیعت کی خرابی کی وجہ سے اور اس سے پہلے تفسیر القرآن کے کام میں مشغول ہونے کی وجہ سے ساری ڈاک مَیں خود نہیں پڑھتا بلکہ لفافے دیکھ کر ایسے خطوط جن کے متعلق مَیں سمجھتا ہوں کہ وہ ضروری مضامین پر مشتمل ہوں گے یا ایسے خطوط جو غیر احمدیوں کی طرف سے آئیں یا ایسے خطوط جو میرے عزیزوں کی طرف سے آئیں یا ایسے خطوط جو جماعتوں کی طرف سے آئیں اور جن کے متعلق مَیں سمجھتا ہوں کہ وہ سلسلہ کے نظام کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں چھانٹ کر رکھ لیتا ہوں اور باقی تمام ڈاک دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں بھجوا دیتا ہوں۔ پھر دفتر والے ان خطوط کا خلاصہ لکھ کرمیرے سامنے پیش کرتے ہیں یا اگر اہم خطوط ہوں تو انہیں میرے سامنے علیحدہ طور پرپیش کر کے مجھ سے جواب حاصل کرتے ہیں۔
اُس دن بھی مَیں نے ڈاک چھانٹی اور اس قسم کے خطوط علیحدہ کر لئے ۔ مَیں ان خطوط کو پڑھ رہا تھا۔ بارہ بجے کا وقت تھا کہ میرا لڑکا خلیل احمد جس کی عمر اس وقت پونے سترہ سال ہے۔ میرے پاس آیا اس کے ہاتھ میں ایک پیکٹ تھا جو بند تھا۔ وہ پیکٹ گول تھا اس کے باہر ایک کاغذ لپٹا ہوٴا تھا اور اس کاغذ پر اس کا پتہ لکھا ہوٴا تھا۔ خلیل احمد نے وہ پیکٹ مجھے دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ پیکٹ کسی نے میرے نام بھجوایا ہے اور گورنمنٹ کے خلاف معلوم ہوتا ہے۔ مَیں نے وہ پیکٹ اس کے ہاتھ سے لے لیا اور چونکہ وہ بند تھا اس لئے طبعاً مجھے خیال پیدا ہوٴا کہ اسے کیونکر معلوم ہوٴا کہ یہ پیکٹ گورنمنٹ کے خلاف ہے چنانچہ مَیں نے اس سے کہا کہ یہ پیکٹ تو بند ہے۔ تمہیں کیونکر معلوم ہوٴا کہ اس میں کوئی ایسے کاغذات ہیں جو گورنمنٹ کے خلاف ہیں۔ اس نے کہا کہ اس پیکٹ کا خول کچھ ڈھیلا سا ہے۔ مَیں نے بغیر اوپر کا کَوَر پھاڑنے کے اندر سے کاغذات نکال کر دیکھے تو معلوم ہوٴا کہ اس میں گورنمنٹ کے خلاف باتیں لکھی ہوئی ہیں اس پر مَیں نے بھی دیکھا تو واقع میں کَوَر (Cover) کچھ ڈھیلا سا تھا۔ پھر تجربہ کے طور پر مَیں نے بھی بغیر کَوَر پھاڑنے کے اس میں سے کاغذات نکالے اور مجھے فوراً معلوم ہو گیا کہ خلیل احمد جو کچھ کہتا ہے ٹھیک ہے۔ مَیں نے وہ اشتہار سب کا سب نہیں پڑھا بلکہ صرف ایک سطر دیکھی۔ اس کا مضمون کچھ اس قسم کا تھا کہ گورنمنٹ نے بعض ہندوستانی سپاہیوں کو کسی جگہ مروا دیا ہے۔
غرض بغیر اس کے کہ مَیں اس اشتہار کو پڑھتا صرف ایک سطر دیکھ کر اور خلیل احمد کی بات کو درست پا کر مَیں نے وہ پلندہ کَوَر میں ڈال دیا۔ اور درد صاحب کی طرف آدمی بھجوایا کہ وہ فوراً مجھ سے آکرملیں۔ درد صاحب ایک دو منٹ کے بعد ہی سیڑھیوں پر آ گئے۔ مَیں سیڑھیوں میں ان کے پاس گیا اور مَیں نے ان کے ہاتھ میں وہ پیکٹ دیتے ہوئے کہا کہ یہ پیکٹ خلیل احمد کے نام آیا ہے اور اس نے مجھے ابھی آ کر دیا ہے۔ اس نے مجھے بتایا تھا کہ یہ پیکٹ گورنمنٹ کے خلاف معلوم ہوتا ہے اور جب مَیں نے اس سے پوچھا کہ تمہیں کس طرح پتہ لگا کہ یہ گورنمنٹ کے خلاف ہے تو اس نے بتایا کہ مَیں نے بغیر کَوَر پھاڑنے کے اندر کے کاغذات نکال کر دیکھے تھے اور مجھے اس کا مضمون گورنمنٹ کے خلاف معلوم ہوٴا۔ اس پر مَیں نے بھی بغیر پھاڑنے کے اس میں سے کاغذات نکال کر دیکھے تو وہ آسانی سے باہر آ گئے اور اس پر نظر ڈالتے ہی مجھے معلوم ہو گیا کہ وہ گورنمنٹ کے خلاف ہیں۔ نہ صرف اس لئے کہ ایک سطر جو مَیں نے پڑھی اس کامضمون گورنمنٹ کے خلاف تھا بلکہ اس لئے بھی کہ گورنمنٹ کے خلاف جو اشتہارات وغیرہ شائع کئے جاتے ہیں وہ دستی پریس پر چھاپے جاتے ہیں اور وہ کاغذات بھی دستی پریس پر ہی چَھپے ہوئے تھے اس پیکٹ کے اوپر جو پتہ لکھا ہوٴا تھا وہ خوش خط لکھا ہوٴا تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی مسلمان نے لکھا ہے۔ یہ تو مَیں نہیں کہہ سکتا کہ اس میں مرزا کا بھی لفظ تھا یا نہیں مگر ”صاحبزادہ خلیل احمد“ ضرور لکھا ہوٴا تھا۔ ص کا دائرہ بھی بڑا اچھا تھا اور ح کے گوشے بھی خوب نکالے ہوئے تھے اور یوں معلوم ہوتا تھاجیسے پتہ کسی مسلمان کے ہاتھ کا لکھا ہوٴا ہے۔
خیر مَیں نے وہ پیکٹ درد صاحب کو دیا اور کہا کہ یہ کسی کی شرارت معلوم ہوتی ہے اور چونکہ ممکن ہے کہ اس قسم کے ٹریکٹ تمام پنجاب کے نوجوانوں میں عام طور پر تقسیم کئے جا رہے ہوں اس لئے آپ فوراً یہ پیکٹ ہِز ایکسی لینسی گورنر صاحب پنجاب کو بھجوا دیں اور انہیں لکھ دیں کہ میرے لڑکے خلیل احمد کے نام ایسا پیکٹ آیا ہے اور چونکہ ممکن ہے کہ اور پنجاب کے نوجوانوں کے نام بھی اسی طرح ٹریکٹ اور اشتہارات وغیرہ بھیجے گئے ہوں اس لئے یہ پیکٹ آپ کو بھجوایا جاتا ہے۔ آپ اس کے متعلق جو محکمانہ کارروائی کرنا مناسب سمجھیں کریں۔ مَیں یہ بات کر کے واپس ہی لَوٹا تھا کہ ایک آدمی نیچے سے آیا اور درد صاحب سے کہنے لگا کہ پولیس والے آئے ہیں اور وہ آپ کوبلاتے ہیں۔ مَیں نے اس آدمی کو نہیں دیکھا کیونکہ وہ سیڑھیوں کے موڑ کے پیچھے تھا۔ یہ بات سن کر مَیں نے درد صاحب سے کہا کہ آپ جائیں اور جا کر معلوم کریں کہ پولیس والے کیا کہتے ہیں۔ درد صاحب گئے اور تین چار منٹ کے بعد ہی واپس آگئے ۔ انہوں نے مجھے کہا کہ پولیس کے کچھ سپاہی آئے ہوئے ہیں اوروہ کہتے ہیں کہ ہم نے مرزا خلیل احمد صاحب سے ملنا ہے۔ درد صاحب کہنے لگے کہ مَیں نے انہیں کہا کہ خلیل تو بچہ ہے اس سے آپ نے کیا بات کہنی ہے۔ جو کچھ آپ کہنا چاہتے ہیں وہ مجھے لکھ کر دے دیں۔ مگر انہوں نے اصرار کیا اور کہا کہ ہم اسی سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ اور اس بارہ میں ہم کچھ لکھ کر نہیں دے سکتے۔ درد صاحب کچھ اور باتیں بھی کرنا چاہتے تھے مگر مَیں نے اس خیال سے کہ معمولی بات ہے ان سے کہا کہ کوئی حرج کی بات نہیں مَیں خلیل کو بھجوا دیتا ہوں۔ چنانچہ مَیں نے اُسی وقت خلیل احمد کو بھجوا دیا۔ چند منٹ کے بعد ہی خلیل احمد واپس آیا اور اس نے مجھے کہا کہ سپاہیوں نے مجھ سے یہ پوچھا تھا کہ کیا اس قسم کا پیکٹ تمہارے نام آیا ہے اور مَیں نے کہا کہ ہاں آیا ہے مگر مَیں نے اپنے ابا کو دے دیا ہے۔ پھر پولیس والوں نے اس پیکٹ کی طرف اشارہ کر کے (جو درد صاحب نیچے لے گئے تھے ) مجھے کہا کہ یہ پیکٹ اپنے ہاتھ میں لے کر کھول دو۔ مگر مَیں نے کہا کہ مَیں اسے نہیں کھول سکتا۔ خلیل احمد سے جب یہ بات مَیں نے سُنی تو مَیں نے کہا تم نے بہت اچھا کیا جو پیکٹ اپنے ہاتھ سے نہیں کھولا۔ مَیں سمجھتا ہوں اس کے ہاتھ سے پیکٹ کھلوانے کا منشاء یہ تھا کہ وہ شرارتاً اس طرح اپنے کانشنس(CONSCIENCE) کو یہ تسلی دینا چاہتے تھے کہ انہوں نے خلیل کے ہاتھ سے یہ پیکٹ لیا ہے۔ خیر وہ بات کر کے ہٹا تو اسی وقت درد صاحب نے سیڑھیوں پر سے آواز دی اور میرے جانے پر انہوں نے کہا کہ ان لوگوں نے مجھ سے وہ پیکٹ مانگا تھا مگر مَیں نے دینے سے انکار کر دیا اور ان سے کہا کہ تم مجھے وہ قانون بتاوٴ جس کے ماتحت تم مجھ سے یہ پیکٹ لینا چاہتے ہو۔ پھر مَیں نے ان سے آپ کا نام لے کر کہا کہ مجھے خلیفة المسیح کی طرف سے یہ پیکٹ ایک بڑے افسر کو بھجوانے کے لئے ملا ہے اس لئے مَیں یہ پیکٹ تمہیں نہیں دے سکتا۔ اس پر انہوں نے وہ پیکٹ مجھ سے چھین کر باہر پھینک دیا اور ایک سپاہی اسے لے کر بھاگ گیا مَیں نے پھر جلدی میں ان کی پوری بات نہ سنی اور مَیں سمجھ گیا کہ یہ ہم سے شرارت کی گئی ہے چنانچہ مَیں نے اوپر آ کر گورنر صاحب کو ایک تار لکھا جس میں وہ اہم واقعات جو اس وقت تک ہوئے تھے لکھ دئیے۔ یہ تار لے کر مَیں پھر سیڑھیوں میں آیا تو اس وقت درد صاحب واپس جا چکے تھے مَیں نیچے اتر کر بیٹھک میں آیا تو مَیں نے دیکھا کہ ہماری کوچ اور کرسیوں پر پولیس والے اپنی لاتیں دراز کر کے یوں بیٹھے ہیں کہ گویا ان کا گھر ہے۔ مَیں جھٹ دروازہ بند کر کے برآمدہ کی طرف سے دفتر کے کمرہ میں آیا تو مَیں نے دیکھا کہ برآمدہ میں بھی پولیس والے کھڑے ہیں۔ خیر مَیں نے درد صاحب کو تار دیا اورکہا کہ یہ ابھی گورنر صاحب کو بھجوا دیا جائے پھر مَیں گورنر صاحب کو ایک مفصّل چِٹھی لکھنے بیٹھ گیا۔ اس عرصہ میں دو دفعہ مجھے پھر نیچے جانا پڑا۔ ایک دفعہ تو مَیں درد صاحب کو یہ کہنے کے لئے گیا کہ آپ اس تار کا مضمون پولیس کے سپاہیوں کو بھی سنا دیں اور ان سے پوچھ لیں کہ اس میں کوئی غلط بات تو بیان نہیں کی گئی اور اگر کسی واقعہ کا وہ انکار کریں تو مجھے بتایا جائے تا کہ اگر کسی قسم کی اس میں غلطی ہو تو اس کو دور کر دیا جائے۔ میرے اس کہنے کی وجہ یہ تھی کہ نیچے جو واقعات درد صاحب کو پیش آئے تھے وہ مَیں نے نہیں دیکھے تھے اور میرا فرض تھا کہ ان واقعات کے بیان کرنے میں دوسروں کو صفائی کا موقع دوں اور اگر کوئی خلاف واقعہ بات درج ہو گئی ہو تو اس کی تصحیح کر دوں۔
پھر بعد میں مجھے ایک اَور بات کی نسبت خیال آیا کہ اس کا لکھنا بھی تار میں ضروری تھا اس لئے مَیں دوسری دفعہ پھر نیچے اترا اور مَیں نے درد صاحب کو اس واقعہ کو لکھنے کی بھی ہدایت کی اور ساتھ ہی پھر انہیں کہہ دیا کہ یہ واقعہ بھی ان کو سنا دینا۔ اس وقت تک بھی پولیس برابر ہمارے مکان کے نچلے حصہ پر قبضہ جمائے بیٹھی رہی۔
اتفاق کی بات ہے کہ اس دن ہمارے اکثر آدمی باہر کام پر گئے ہوئے تھے۔ عزیزم مرزا مظفر احمد صاحب جو ڈلہوزی میں ہمارے ہاں مہمان آئے ہوئے تھے وہ بھی مرزا ناصر احمد کو ملنے کے لئے ان کی کوٹھی پر گئے ہوئے تھے۔ خیر کچھ دیر کے بعد مجھے خیال آیا کہ ہمیں تو قانون کی واقفیت نہیں۔ مرزا مظفر احمد اور مرزا ناصر احمد کو بلوا لیا جائے چنانچہ مَیں پھر نیچے اُترا اور ایک شخص سے کہا کہ درد صاحب سے جا کر کہیں کہ فوری طور پر مرزا مظفر احمد اور مرزا ناصر احمد کو بلوا لیا جائے۔ اس وقت مجھے پھر معلوم ہوٴا کہ ابھی تک بھی پولیس مکان پر قابض تھی۔ خیر اس شخص نے مجھے بتایا کہ درد صاحب پہلے ہی ایک آدمی ان کی طرف بھجوا چکے ہیں۔ چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد مرزا مظفر احمد اور مرزا ناصر احمد دونوں پہنچ گئے اور انہوں نے بتایا کہ پیچھے آرمڈ پولیس رائفلیں لے کر چلی آ رہی ہے۔ درد صاحب نے مرزا عبد الحق صاحب پلیڈر کی طرف بھی آدمی بھجوا دیا اور وہ بھی تھوڑی دیر کے بعد آ گئے اس وقت تک بھی پولیس کمرہ پر اور برآمدہ پر قابض تھی مجھے اس وقت خیال گزرا کہ پولیس والوں نے ضرور تھانہ میں کوئی رقعہ بھیجا ہے اور اس کا یہ نتیجہ ہے کہ آرمڈ پولیس رائفلیں لے کر ہمارے مکان پر پہنچ گئی ہے۔ اس کے بعد مَیں پھر خط لکھنے میں مشغول ہو گیا اور تھوڑی دیر کے بعد مَیں نے مرزا مظفر احمد سے کہا کہ مجھے تو قانون کا علم نہیں تم قانون پڑھے ہوئے ہو۔ کیا پولیس کا کسی کے مکان کے اندر داخل ہونا جائز ہے؟ انہوں نے کہا کہ قانون کے رو سے یہ بالکل ناجائز ہے۔ مَیں نے کہا تو پھر تم جاوٴ اور پولیس والوں سے بات کرو۔ اتنے میں مرزا ناصر احمد بھی آ گئے اورکہنے لگے کہ پولیس والے ہمارے مکان کے اندر کیوں بیٹھے ہیں اور درد صاحب نے انہیں بیٹھنے کیوں دیا۔ یہ بالکل خلافِ قانون حرکت ہے جو پولیس والوں نے کی ہے۔ پولیس والے بغیر اجازت کے کسی گھر میں داخل نہیں ہو سکتے اور اگر وہ داخل ہوں تو اس صورت میں انہیں اپنی تلاشی دینی ضروری ہوتی ہے۔ کیونکہ کیا پتہ کہ وہ کوئی ناجائز چیز اندر پھینک جائیں۔ اس لئے قانون یہی کہتا ہے کہ پولیس کی پہلے تلاشی ہونی ضروری ہے تا ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی طرف سے کوئی ناجائز چیز پھینک دے اور گھر والوں کو مجرم بنا دے پھر انہوں نے پوچھا کہ کیا پولیس والوں کی تلاشی لے لی گئی تھی؟ مَیں نے کہا کہ میرے علم میں تو یہ بات نہیں آئی کہ پولیس والوں کی تلاشی لی گئی ہو۔ اس پر وہ کہنے لگے کہ یہ درد صاحب کا فرض تھا کہ پولیس والوں کو اندر نہ آنے دیتے۔ مرزا ناصر احمد نے چونکہ بیرسٹری کی بھی کچھ تعلیم پائی تھی وہ کچھ قانون سے واقف ہیں۔ مَیں نے کہا کہ جب پولیس والوں کو قانوناً یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی دوسرے کے مکان میں داخل ہوں تو پھر جاوٴ اور ان کو قائل کرو اس پر وہ نیچے آئے اور پولیس والوں سے اونچی باتیں کرنے لگے۔ مرزا ناصر احمد کی آواز ذرا زیادہ بلند تھی مَیں نے اس وقت خیال کیا کہ یہ بچہ ہے اور اسے ابھی پورا تجربہ نہیں ہم اس وقت چاروں طرف سے دشمنوں میں گِھرے ہوئے ہیں۔ اگر اس نے کوئی بات کی تو ممکن ہے پولیس والے اس پر کوئی الزام لگا دیں کہ اس نے ہم پر دست درازی کی ہے اس لئے مَیں جلدی سے نیچے اترا۔ اس وقت پولیس والے اندر کے کمرہ سے نکل کر برآمدہ میں آ چکے تھے اورمرزا ناصر احمد انہیں یہ کہہ رہے تھے کہ تم جہاں اندر بیٹھے تھے وہیں جا بیٹھو مَیں اسی حالت میں تمہاری تصویر لینا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ہم وہاں نہیں جاتے۔ مَیں نے جب ان کی یہ باتیں سنیں تو مَیں نے سپاہیوں سے کہا کہ تم سب پہلے اندر بیٹھے ہوئے تھے اور کئی بھلے مانس اس کے گواہ ہیں۔ مَیں نے خود تمہیں اند ربیٹھے دیکھا،درد صاحب نے تمہیں اندر بیٹھے دیکھا، مرزا مظفر احمد اور مرزا ناصر احمد نے تمہیں اندر بیٹھے دیکھا ہمارے عملہ کے اور کئی آدمیوں نے تم کو اندر بیٹھے دیکھا ہے۔ اب اس میں تمہارا کیا حرج ہے کہ پھر تم وہیں جا بیٹھو اور تمہاری اس وقت کی تصویر لے لی جائے اگر تمہارا اندر آنا قانون کے مطابق تھا تو تم اب بھی وہاں بیٹھ سکتے ہو اور اگر تمہارا اندربیٹھنا قانون کے خلاف تھا تو تم اپنی غلطی کا اقرار کرو۔ اس پر وہ کہنے لگے کہ ہم تو اندر بیٹھے ہی نہیں۔ مَیں نے ان سے کہا کہ تین دفعہ تو مَیں نے تمہیں اندر بیٹھے دیکھا ہے۔ اسی طرح درد صاحب نے تمہیں اندر بیٹھے دیکھا ہے، خلیل احمدسے تم نے جو باتیں کیں وہ اندر ہی کیں اسی طرح تمہیں مظفر احمد نے دیکھا، ناصر احمد نے اندر دیکھا۔ اب تم کس طرح کہہ رہے ہو کہ تم اندر بیٹھے ہی نہیں اور اتنا بڑا جھوٹ بولتے ہو۔ مگر اس پر بھی انہوں نے یہی کہا کہ ہم اندر بالکل نہیں بیٹھے۔ اتنے میں مرزا مظفر احمد نے کہا کہ مَیں جب آیا تھا تو اس وقت بھی یہ سب سپاہی اندر بیٹھے تھے اورنہ صرف اندر بیٹھے ہوئے تھے بلکہ ایک سپاہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ خلافِ قانون اپنی پیٹی کھول کر بیٹھا تھا مگر وہ یہی کہتے چلے گئے کہ ہم اندر نہیں گئے۔ اس پر مَیں نے انہیں کہا کہ مجھے افسوس ہے۔ آج مجھے ذاتی طور پر اس بات کا تجربہ ہوٴا ہے کہ عدالتیں کن جھوٹے آدمیوں کی گواہیوں پر لوگوں کو سزائیں دیتی ہیں۔ مَیں نے ان سے کہا تم وہ ہو کہ تمہیں اس بات کا علم ہے کہ مَیں تمہارے پاس آیا اور مَیں نے تمہیں اندر بیٹھے دیکھا، ایک دفعہ نہیں بلکہ تین دفعہ ۔ پھر تم نے درد صاحب سے یہاں باتیں کیں، تم نے خلیل احمد سے یہاں باتیں کیں، تم نے مظفر احمد سے یہاں باتیں کیں، تم نے ناصر احمد سے یہاں باتیں کیں اور تم میں سے ہر شخص جانتا ہے کہ جو کچھ مَیں کہہ رہا ہوں وہ درست ہے مگر اتنے گواہوں کے باوجود تم کہہ رہے ہو کہ تم اندر نہیں بیٹھے۔ جس قسم کا جھوٹ تم لوگ بول رہے ہو اس قسم کی گواہیوں پر عدالتوں کی طرف سے لوگوں کو سزاوٴں کا ملنا یقینا نہایت ہی افسوسناک اور ظالمانہ فعل ہے اس پر وہ کچھ کھسیانے سے ہو گئے مگر اقرار انہوں نے پھر بھی نہ کیا کہ وہ کمرہ کے اند ربیٹھے تھے۔
جب مَیں نے دیکھا کہ وہ اس طرح کھلے طور پر جھوٹ بول رہے ہیں تو مَیں نے خیال کیا کہ نہ معلوم ہمارے متعلق وہ اور کیا باتیں بنا لیں۔ شاید وہ یہی کہہ دیں کہ ہم پر انہوں نے حملہ کر دیا تھا اور ہمیں مارنے پیٹنے لگ گئے تھے۔ اس لئے مَیں نے مرزا مظفر احمد سے کہا کہ مظفر اس ملک میں احمدیوں کے قول پر کوئی اعتبار نہیں کرتا۔ تم تعلیم یافتہ ہو، عہدہ دار ہو لیکن پھر بھی اگر کوئی واقعہ ہوٴا تو تمہاری کسی بات پر اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ اعتبار انہی لوگوں کی بات پر کیا جائے گا۔ اس لئے بہتر ہے کہ ان واقعات کی شہادت کے لئے کسی اور کو بھی بلا لیا جائے۔ ہمارے ہمسایہ میں ایک غیر احمدی ڈپٹی کمشنر صاحب چُھٹی پر آئے ہوئے تھے۔ مَیں نے مرزا مظفر احمد سے کہا کہ فوراً ان کی طرف ایک آدمی دوڑا دیا جائے اور کہا جائے ایک ضروری کام ہے۔ آپ مہربانی کر کے تھوڑی دیر کے لئے تشریف لے آئیں۔ میرا منشاء یہ تھا کہ وہ آئیں تو اس واقعہ کے گواہ بن جائیں گے۔ چنانچہ مرزا مظفر احمد نے ان کی طرف ایک آدمی دوڑا دیا کہ ضروری کام ہے آپ جلدی تشریف لائیں۔ اس کے بعد میں پھر اوپر چلا گیا اتنے میں نیچے سے مجھے آوازیں آئیں اور مَیں نے آواز سے پہچان لیا کہ ڈپٹی کمشنر صاحب آ گئے ہیں۔ وہ ان سپاہیوں سے باتیں کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ تم نے صریحاً خلافِ قانون حرکت کی ہے۔ یہ باتیں سن کر مَیں بھی نیچے اتر آیا اور مَیں نے ان کے سامنے تمام پہلی باتوں کو دہرانا شروع کر دیا۔ مَیں نے کہا کہ اس طرح خلیل احمد کے نام ایک پیکٹ آیا تھا جو مَیں نے درد صاحب کو اس لئے دیا کہ وہ گورنر صاحب پنجاب کو بھجوا دیں۔ انہوں نے درد صاحب سے وہ پیکٹ چھین لیا اور پھر انہوں نے تھانہ میں کوئی جھوٹی رپورٹ بھیج دی جس پر مسلح پولیس آ گئی۔ پھر مَیں نے ان سپاہیوں سے کہا کہ یہ جو مسلح پولیس آئی ہے یہ ضرور کسی تمہاری رپورٹ کے نتیجہ میں آئی ہے۔ تم نے لکھا ہو گا کہ یہ لوگ ہمیں مارنے اورقتل کرنے کے درپے ہیں۔ یقینا تم نے ایسا ہی لکھا ہے ورنہ تھانے والوں کو کیا پڑی تھی کہ وہ مسلح پولیس یہاں بھیج دیتے۔ پھر مَیں نے ان سے کہا کہ جب درد صاحب سے تم نے پیکٹ چھینا تھا تو کیا اس سے تمہاری غرض یہ نہیں تھی کہ تم یہ بات بنا سکو کہ تم نے وہ پیکٹ خلیل سے لیا ہے۔ اس پر وہ کہنے لگے جس طرح آپ نے کوئی بات بنانی تھی اسی طرح ہم نے بھی کوئی بات بنانی ہی تھی۔ یہ باتیں انہوں نے ان ڈپٹی کمشنر صاحب کے سامنے کیں اور مَیں نے بھی ان سے اس لئے کہلوائیں تاکہ وہ ڈپٹی کمشنر ان باتوں کے گواہ بن جائیں (گو مَیں نہیں کہہ سکتا کہ ان باتوں میں سے انہوں نے کتنی سنیں کیونکہ اس وقت مختلف باتیں ہو رہی تھیں) اسی طرح ابھی ڈپٹی کمشنر صاحب نہیں آئے تھے کہ مجھے نیچے سے ایک سپاہی کی آواز آئی جو کسی دوسرے سپاہی سے بات کر رہا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کوئی سپاہی بد نیتی سے اندر آنا چاہتا تھا کہ ہمارے آدمیوں نے اسے اندر داخل ہونے سے روک دیا۔ اس پر دوسرا سپاہی اسے کہنے لگا ‘‘ایدھر آ جا اوئے انہاں دا کی اعتبار ہے جو چاہن گل بنا لین’’ یعنی ان کا کیا اعتبار ہے ان کا جو جی چاہے گا ہمارے خلاف بات بنا لیں گے۔ گویا ہمارے سب لوگ جھوٹے تھے اور وہ لوگ جو روزانہ قسمیں کھاتے اور ہمارے سامنے جھوٹ بول رہے تھے وہ سچے تھے۔ خیر ان ڈپٹی کمشنر صاحب نے کچھ دیر ان سے باتیں کرنے کے بعد مجھ سے کہا کہ ان سپاہیوں سے باتیں کرنی فضول ہیں۔ ان میں کوئی افسر نہیں ہے اور نہ ہی ان کو کوئی اختیار ہے۔ آپ کو چاہئے کہ ضلع گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر صاحب کی طرف آدمی بھجوا دیں اور انہیں ان تمام حالات سے اطلاع دیں۔ مَیں نے کہا کہ اس کا مَیں پتہ کروا چکا ہوں۔ ڈپٹی کمشنر صاحب اور سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس دونوں اس وقت باہر ہیں۔ اسی وجہ سے ہم حیران ہیں کہ کیا کریں۔ انہوں نے کہا تو پھر یہ جو کانسٹیبل یا ہیڈ کانسٹیبل ہیں ان سے بات کرنی فضول ہے۔ انہیں دیکھ کر تو یہ بھی پتہ نہیں لگتا کہ ان کا افسر کون ہے۔ پھر انہوں نے کہا یہاں مسٹر سلیٹر ایس۔ ڈی ۔ او ہیں۔ مرزا مظفر احمد صاحب ان کے پاس چلے جائیں۔ مَیں نے کہا مظفر احمد کا جانا ٹھیک نہیں وہ یہاں گواہ کے طور پر ہیں۔ میں درد صاحب اور مرزاناصر احمد کو بھجوا دیتا ہوں۔ چنانچہ مَیں نے ان دونوں کو مسٹر سلیٹر کی طرف بھجوا دیا اور خود ان سپاہیوں سے پوچھا کہ تم میں افسر کون ہے۔ اس پر وہ پہلے تو کہنے لگے کہ ہمیں پتہ نہیں ہماراکون افسر ہے پھر جب مزید اصرار کیا تو ان میں سے کوئی کہے کہ یہ افسر ہے اور کوئی کہے وہ افسر ہے۔ آخر ایک کی طرف اشارہ کر کے وہ کہنے لگے کہ ہم میں سے یہ سب سے بڑا ہے اور وہ بغیر وردی کے تھا۔ اس سے پوچھا تو وہ کہنے لگا مَیں وردی میں ہی نہیں۔ فلاں شخص ہے۔ اس سے پوچھا تو اس نے کہا کہ وہ بے وردی شخص سینئر ہے مَیں افسر نہیں۔ جب اسے کہا گیاکہ وہ تو منکر ہے تو اس نے جواب دیا کہ‘‘ جنھوں سمجھ لو’’ یعنی جسے چاہیں افسر سمجھ لیں۔ آخر ان ڈپٹی کمشنر صاحب نے ان سے پوچھا کہ تم کو یہ تو بتانا چاہئے تم میں سے بڑا کون ہے۔ اس پر بھی انہوں نے کچھ ایسا ہی جواب دیا۔ غرض اسی قسم کی آئیں بائیں شائیں کرتے رہے خیر انہوں نے کہا مسٹر سلیٹر ایس۔ ڈی۔ او ابھی آ جائیں گے۔ ان لوگوں سے بات کرنی فضول ہے آپ اندر چل بیٹھیں۔ چنانچہ وہ اور مَیں اور عزیزم مظفر احمد کمرہ میں بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر میں مسٹر سلیٹر ناصر احمد کے ساتھ آ گئے۔ مسٹر سلیٹر نے کوٹ اتارا اور بیٹھتے ہی کہا کہ مَیں پولیس افسر نہیں۔ میرے پاس تو جب کیس آتا ہے اس وقت اسے سنتا ہوں۔ وہ مجھے ذاتی طور پر نہیں جانتے تھے۔ یونہی یہ سن کر کہ کوئی شخص باہر سے یہاں چند دنوں کے لئے آیا ہوٴا ہے اور اسے پولیس والوں کے متعلق کوئی شکایت پیدا ہوئی ہے چلے آئے۔ مَیں نے بھی ان کا شکریہ ادا کیا کہ آپ بغیر اس علم کے کہ کیا واقعہ ہوٴا ہے اور ہم پر کیا گزری ہے تشریف لے آئے ہیں۔ خیر انہیں تمام واقعات بتائے گئے۔ انہوں نے کہا۔ ڈیفنس آف انڈیا رولز کے ماتحت پولیس بغیر وارنٹ دکھائے گرفتار کر سکتی ہے۔ ڈپٹی کمشنر صاحب کہنے لگے کہ یہ اختیارات انسپکٹر پولیس یا سب انسپکٹر پولیس کو حاصل ہیں ہر ایک کو حاصل نہیں۔ اس پر مسٹر سلیٹر نے بتایا کہ انسپکٹر پولیس بیمار تھا اور تھانیدار دورہ پر تھا۔ اس وقت انچارج ایک ہیڈ کانسٹیبل ہی ہے۔ اس لئے اسے اختیار حاصل ہے۔ پھر وہ واقعات سنتے رہے اور انہوں نے اس پر افسوس کا بھی اظہار کیا اور کہا کہ کیا آپ کے نزدیک یہ کافی نہیں ہو گا کہ مَیں انسپکٹر کو کہوں اور وہ ان لوگوں کے متعلق مناسب کارروائی کرے۔ مَیں نے انہیں کہا کہ مَیں تو اس کے متعلق گورنر صاحب کو بھی تار دے چکا ہوں۔ اس لئے ان کے فیصلہ کا مجھے انتظار کرنا پڑے گا۔ اسی دوران میں پولیس کے بعض نقائص کو بھی انہوں نے تسلیم کیا اورجب انہیں بتایا گیا کہ وہ بغیر تلاشی دئیے اندر آ گئے تھے تو انہوں نے کہا کہ یہ واقع میں خلاف ِقانون حرکت ہے۔ اور انہیں اندر نہیں آنا چاہئے تھا۔ مگر انہوں نے کہا کہ مَیں مجسٹریٹ ہوں اور صرف اتنا کر سکتا ہوں کہ جب کیس میرے سامنے آئے تو اس کا فیصلہ کر دوں۔ پولیس کی کارروائی میں دخل نہیں دے سکتا۔ البتہ لڑکے کی ضمانت ابھی لے لیتا ہوں۔ ڈی۔ سی صاحب نے کہا۔ مَیں اس بارہ میں تجربہ کار ہوں۔ آپ یہ بات نہ کریں کیونکہ اس طرح آپ خود الزام کے نیچے آ جائیں گے۔ پولیس نے ابھی تک آپ کے پاس اس کے متعلق کوئی رپورٹ نہیں کی اور قاعدہ یہ ہے کہ پہلے پولیس رپورٹ کرے اور پھر اس پر کسی قسم کا ایکشن لیا جائے۔ انہوں نے کہا بہت اچھا۔ مَیں انچارج کو بلا لیتا ہوں ان کے ساتھ نائب تحصیلدار تھا۔ انہوں نے اسے بھیجا کہ جا کر تھانیدار انچارج کو بلا لاوٴ۔ اس پر وہی شخص آیا جو بے وردی تھا۔ مسٹر سلیٹر نے اس سے پوچھا کہ کیا تم انچارج ہو؟ اس نے کہا کہ مَیں تو وردی میں نہیں۔ مَیں کس طرح انچارج ہو سکتا ہوں؟ انہوں نے کہا۔ اچھا تو پھر کسی وردی والے کو بلاوٴ۔ اس پر وہ کسی دوسرے کو بلا لایا جو وردی پہنے ہوئے تھا۔ اس سے جب پوچھا گیا کہ کیا تم انچارج ہو؟ تو وہ کہنے لگا مَیں کس طرح انچارج ہو سکتا ہوں؟ مَیں تو جونیئر ہوں انچارج تو یہ ہے جو بغیر وردی کے ہے۔ اس پر مسٹر سلیٹر بھی حیران ہوئے اور انہوں نے اسی شخص سے جو بغیر وردی کے تھا کہا کہ تم اس کیس کے متعلق میرے پاس رپورٹ کرو پھر مَیں اس کا فیصلہ کروں گا۔ مَیں نے اس دوران انہیں توجہ دلائی کہ آپ دیکھیں یہ لوگ کس قسم کی حرکات کر رہے ہیں کہ اصل انچارچ بغیر وردی کے ہے اورجو وردی میں ہے وہ انچارج ہونے سے منکر ہے۔ اس سے وہ بہت متاثر ہوئے اور کہنے لگے کہ انسپکٹر بیمار تھا اگر وہ اچھا ہوتا تو شاید اس طرح واقعات نہ ہوتے۔ خیر وہ بے وردی شخص تو رپورٹ لکھنے کے لئے چلا گیا اور مسٹر سلیٹر انتظار کرتے رہے مگر جب دیر ہو گئی ۔ ہم نے ان سے کہا کہ آپ تشریف لے جائیے جب رپورٹ آئے گی اگر آپ چاہیں گے تو لڑکے کو آپ کے پاس ضمانت کے لئے پیش کر دیا جائے گا۔ چنانچہ اس پر رضامند ہو کر چلے گئے اورکہہ گئے کہ ڈی۔ سی بھی شام کو آ جائیں گے مَیں نو بجے اطلاع دوں گا۔ اگر ضرورت ہوئی تو مرزا مظفر احمد، خلیل احمد کو لے کر آ جائیں مَیں ضمانت لے لوں گا۔ وہ تو چلے گئے مگر پولیس والے برابر بارہ بجے سے لے کر سات بجے شام تک رائفلیں لے کر ہمارے مکان کے صحن میں کھڑے رہے۔ پھر مَیں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ اب تم ان سے پوچھو یہ کس قانون کے ماتحت یہاں کھڑے ہیں اور ان سے لکھوا لو تاکہ بعد میں یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو اس وقت تک وہاں نہیں ٹھہرے۔ انہوں نے کہا ہم کچھ لکھ کر دینے کے لئے تیار نہیں اس پر مرزا عبد الحق صاحب نے کہا کہ اس کا تو یہ مطلب ہے کہ جس طرح تم نے آج جھوٹ بولا ہے اسی طرح کل جھوٹ بول دو اور کہہ دو کہ ہم تو وہاں گئے ہی نہیں تھے پھر مرزا عبد الحق صاحب پلیڈر نے ان سے کہہ دیا کہ اگر لکھ کر نہیں دیتے کہ ہم اس وقت تک بالاافسروں کے حکم سے مکان پر قبضہ کئے ہوئے ہیں تو پھر تمہارا کوئی حق یہاں ٹھہرنے کا نہیں پھر تم نکل جاوٴ۔ مَیں نے مرزا صاحب سے کہا کہ آپ انہیں یہ نہ کہیں کہ یہاں سے نکل جاوٴ کیونکہ ممکن ہے یہ لوگ جاکر یہ رپورٹ کریں کہ ہمیں مارا گیا ہے اور بات آخر وہی مانی جائے گی جو یہ کہیں گے۔ آجکل چونکہ جنگ ہو رہی ہے اس لئے مجسٹریٹوں کا ذہن اسی طرف جاتا ہے کہ پولیس والوں کو کیا ضرورت تھی کہ وہ جھوٹ بولتے۔ پس مَیں نے ان سے کہا آپ یہ نہ کہیں کہ نکل جاوٴ بلکہ کہیں کہ نہیں لکھ کر دیتے تو تمہاری مرضی۔ ہم یہ لکھ لیں گے کہ تم فلاں وقت تک یہاں ٹھہرے ہو اور دوبارہ ان کی تصویر لے لو۔ اور اس تصویر پر وقت بھی لکھ دو کہ اتنے بجے یہ تصویر لی گئی ہے۔ آخر شام کو اطلاع ملی کہ ایس۔ ڈی۔ او صاحب کے حکم کے مطابق جب پولیس نے رپورٹ کی تو معلوم ہوٴا کہ جس دفعہ کے ماتحت پولیس والوں نے کارروائی کرنی چاہی تھی اس کے ماتحت کارروائی کرنے کا پولیس کو اختیار ہی حاصل نہیں تھا۔ غرض ان کی او ر بے ضابطگیوں میں ایک بڑی بے ضابطگی یہ بھی پائی گئی کہ جس دفعہ کے ماتحت انہوں نے کارروائی کرنی چاہی اس دفعہ کے ماتحت مجسٹریٹ کے حکم کے بغیر کارروائی کرنے کا انہیں حق حاصل ہی نہیں تھا۔ گویا ان کا سارا فعل ہی خلافِ قانون تھا اور کسی گرفتاری کا انہیں حق ہی حاصل نہیں تھا۔ سنا گیا ہے کہ اس رپورٹ پر ایس۔ ڈی۔ او صاحب نے انچارج ہیڈ کانسٹیبل کو بلا کر کہا کہ تم نے اس دفعہ کے ماتحت کس طرح کارروائی کی ہے جبکہ کارروائی کرنے کا تمہیں کوئی حق ہی حاصل نہیں تھا۔ انہوں نے کہا ہم یہی سمجھتے ہیں کہ ہمیں حق حاصل ہے۔ مجسٹریٹ نے کہا قانون تمہیں اس بات کا اختیار نہیں دیتا۔ البتہ مجسٹریٹ کے حکم سے تم ایسا کر سکتے ہو۔ اس کے بعد انہوں نے اسی وقت آدمی بھجوا دیا کہ وہاں جوپولیس کھڑی ہے اسے کہہ دیا جائے کہ وہ کوٹھی سے واپس چلے جائیں۔ چنانچہ سات بجے شام کو پولیس وہاں سے ہٹی۔ رات کو ایس۔ ڈی۔ او صاحب کا پھر رقعہ آیا کہ صبح مَیں مرزاخلیل احمد کے بارہ میں اطلاع دوں گا۔ دوسرے دن حسب ِوعدہ گیارہ بجے کے قریب ان کا رقعہ آیا کہ آپ خلیل احمد کو بے شک لے جائیں۔ ہماری طرف سے اس میں کسی قسم کی روک نہیں۔ چنانچہ اس پر ہم قادیان آ گئے۔
صبح کے شور و شر کے بعد جب مختلف لوگوں کی گواہیاں لینے کے لئے مَیں نے مرزا عبد الحق صاحب کو مقرر کیا تاکہ تازہ بتازہ شہادت قلم بند ہو جائے تو مجھے معلوم ہوٴا کہ پولیس ڈاک آنے سے پہلے ہی ڈاک خانہ کے پاس بیٹھی تھی حالانکہ ابھی پیکٹ نہیں آیا تھا۔ اسی طرح وہ سڑکوں پر بھی مختلف جگہوں پر کھڑی تھی۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ پولیس پیکٹ کے منصوبہ میں شامل تھی۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوٴا کہ ڈاکیا نے اصرار کر کے خلیل احمد کو پیکٹ دیا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ جب ڈاکیا پیکٹ لایا تو خلیل احمد وہ پیکٹ درد صاحب کے پاس لایا اورکہنے لگا کہ یہ میرے نام بیرنگ پیکٹ آیا ہے کیا مَیں لے لوں۔ درد صاحب کہتے ہیں کہ مَیں نے اس سے کہا ایسا پیکٹ نہیں لینا چاہئے مگر وہ باہر جا کر پھر آیا اور اس نے دو آنے ڈاکیا کو دینے کے لئے طلب کئے۔ جب اس سے پوچھا گیاکہ تم نے ایسا کیوں کیا تو اس نے کہا کہ ڈاکیا اصرار کرنے لگا تھا کہ ضرور پیکٹ لے لیا جائے اور کہنے لگا کہ دو آنے خرچ کرنا کونسی بڑی بات ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ ڈاکیا کو بھی پولیس نے یہ کہہ کر بھجوایا تھا کہ تم اصرار کرنا تاکہ خلیل احمد اس پیکٹ کو وصول کر لے۔
یہ واقعات ہیں جو مَیں نے بغیر کسی قسم کی جرح کے اور بغیر اپنے جذبات کو ظاہر کرنے کے بیان کر دئیے ہیں۔ مَیں نے یہ نہیں بتایا کہ کس کس طرح ان واقعات سے سلسلہ پر اور ہم پر حرف آیا ہے یا ان واقعات سے اور ان سے جن کو مَیں نے ظاہر نہیں کیا کس طرح پولیس والوں کی بد نیتی اور ان کی جماعت کو ذلیل کرنے کی کوشش ظاہر ہوتی ہے۔ مَیں ان امور کو اس وقت تک ملتوی رکھتا ہوں جب تک گورنمنٹ سے اس بارہ میں مَیں گفتگو نہ کر لوں اوریہ نہ معلوم کر لوں کہ اس کی ذمہ داری کس پر ہے۔ مگر جو چیز مجھے عجیب لگی ہے جو میرے دل میں کھٹکتی ہے اور جس کے بیان کرنے سے مَیں نہیں رک سکتا وہ یہ ہے کہ اگر اس ایکٹ کا وہی مفہوم ہے جو اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے تو پھر اس ایکٹ کے ماتحت کسی کو بھی کوئی پیکٹ بھجوا کر گرفتار کرا دینا بالکل آسان امر ہے اور اس طرح ہماری جماعت کا کوئی فرد اس سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ کل ممکن ہے میرے پاس اس طرح کا کوئی پیکٹ آ جائے اور پولیس مجھے گرفتار کر لے۔ آخر سوشلسٹوں کے لئے یا پولیس کے لئے اس قسم کا پیکٹ بھجوانا کیا مشکل ہے۔ سوشلسٹوں کے اشتہارات وغیرہ اس کے قبضہ میں آتے ہی رہتے ہیں۔ وہ آسانی سے کسی دوسرے کے نام وہی اشتہارات بصورت پیکٹ بھیج کر اسے گرفتار کرا سکتی ہے۔ گویا تمام معززین کی عزتیں خطرہ میں ہیں اور امن محض سی آئی۔ ڈی کے چند افسروں کے ہاتھ میں رہ گیا ہے۔ مَیں نے اس خط میں جو ہِز ایکسی لینسی گورنر پنجاب کو بھجوایا ہے یہی لکھا ہے اور ان سے پوچھا ہے کہ کیا قانون کا یہی منشا ء ہے۔ مَیں کسی بڑے افسر کا نام ادب کی وجہ سے نہیں لیتا لیکن کیا ان کو اس قسم کا پیکٹ اگر کوئی بھیج دے تو پولیس تین چار منٹ کے بعد ہی ان کو گرفتار کر ے گی حالانکہ تین چار منٹ میں کوئی انسان خواہ کتنا ہی سمجھدار ہو، کتنا ہی طاقتور ہو، کتنے ہی وسیع ذرائع رکھنے والا ہو یہ نہیں کر سکتا کہ اس پیکٹ کو ڈپٹی کمشنر یا سپرنٹنڈنٹ پولیس کے پاس بھجوا سکے۔ آخر وہ کونسا ذریعہ ہے جس کے ماتحت اس قسم کا پیکٹ پہنچنے کے تین چار منٹ بعد ہی انسان اسے کسی ذمہ دار افسر تک پہنچا سکے اور اس طرح اپنی بریت ثابت کر سکے۔ مَیں سمجھتا ہوں انگریزوں کے جرنیل اور کرنیل بھی یہ طاقت نہیں رکھتے کہ وہ باوجود بڑی طاقت رکھنے کے، باوجود ہوائی جہاز رکھنے کے اس قسم کا پیکٹ پہنچنے کے بعد تین چار منٹ کے اندر اندر اس کے متعلق کوئی کارروائی کر سکیں۔ پس اگر اس قانون کا یہی مفہوم ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ہندوستان کے ہر شخص کی عزت خطرہ میں ہے۔ فرض کرومَیں اس وقت وہاں موجود نہ ہوتا تو کیا اس قانون کے ماتحت خلیل احمد مجرم نہیں تھا۔ یا فرض کرو وہ اس کی اہمیت کو نہ سمجھتا اور اس پیکٹ کو کمرہ میں پھینک دیتا تو کیا وہ مجرم نہ بن جاتا۔ مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ اس قانون کا یہ منشاء ہو جو پولیس نے سمجھا لیکن چونکہ مَیں نے اس کے متعلق گورنمنٹ کو توجہ دلائی ہے اس لئے مَیں دیکھنا چاہتا ہوں کہ گورنمنٹ اس کا کیا جواب دیتی ہے۔ اگر گورنمنٹ کا یہی منشاء ہے تو بغیر مزید تحقیق کئے ابھی سے یہ کہے دیتا ہوں کہ اس کے ماتحت ہندوستان میں کسی شخص کی عزت محفوظ نہیں اور اگر اس قانون کا یہ منشاء نہیں اور گورنمنٹ نے ایسے اصول تجویز کئے ہیں جن سے اس قسم کے خطرات کا ازالہ ہو سکتا ہے تو یقینا گورنمنٹ کا فرض ہے کہ ان لوگوں کو جو اس واقعہ کے ذمہ دار اور اصل مجرم ہیں سزا دے۔ مقامی پولیس بھی بے شک قصور وار ہے لیکن وہ اس قدر جرأت نہیں کر سکتی جب تک سی آئی ڈی کے کسی افسر کا اس میں ہاتھ نہ ہو۔ چنانچہ جب ہم نے ان سے پوچھا کہ تمہیں اس پیکٹ کا کیونکر علم ہوٴا تو انہوں نے کہا کہ ہمیں سی آئی ڈی کے افسر نے بتایا تھا۔
میرے پاس اس شبہ کی کافی وجوہ موجود ہیں کہ یہ پیکٹ پولیس نے ہی خلیل احمد کے نام بھجوایا تھا لیکن مَیں ان وجوہ کو ابھی ظاہر نہیں کرتا۔ مَیں نے سرِ دست حکومت پنجاب کو اس طرف توجہ دلائی ہے اگر اس نے توجہ نہ کی تو وہ وقت ہو گا جب ہم سمجھیں گے کہ حکومت اس قسم کے افعال کو پسندیدہ سمجھتی ہے یا اس واقعہ کے بعد اسے پسند کرنے لگی ہے ابھی اس بارہ میں مَیں کوئی فیصلہ نہیں کرتا۔ مَیں نے بتایا ہے کہ ابھی ہمیں اس بات کا کوئی پختہ علم نہیں کہ حکومت پنجاب کا اس واقعہ کے ساتھ تعلق ہے یا نہیں۔ لیکن مَیں سمجھتا ہوں مقامی حکام پر اس کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کیونکہ جس ذمہ دار مقامی حاکم کو اس کا علم ہوٴا اس نے ہمارے ساتھ شریفانہ طور پر سلوک کیا۔ سرِ دست مَیں نے جماعت کے نمائندوں کو بلوایا ہے کہ وہ اتوار کے دن یہاں آئیں ان سے اس کے متعلق مشورہ لیا جائے گا اور تمام واقعات کو ان کے سامنے رکھا جائے گابہت سے واقعات ایسے ایسے ہیں جن کو مَیں نے ابھی بیان نہیں کیا کیونکہ اگر مقدمہ ہوٴا تو اس وقت وہ کام آئیں گے۔ پھر ان کابیان کرنا اس لحاظ سے بھی میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ ممکن ہے جماعت میں اشتعال پیدا ہو۔ مَیں ابھی حکومت کا رویہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہ کیسا ہے۔ اِنْشَاءَ اللہُ اتوار کے دن دوستوں کو تمام حالات بتا دئیے جائیں گے۔ اور اس وقت تک تین چار دن بھی گزر چکے ہوں گے۔ مَیں نے حکومت کو توجہ دلائی ہے کہ مجھے تار کے ذریعہ جواب دیا جائے مگر ابھی تک مجھے کوئی جواب نہیں ملا۔ ہِز ایکسی لینسی گورنر پنجاب کو جو خط مَیں نے لکھا ہے اس میں مَیں نے تحریر کیا ہے کہ ہماری جماعت لاکھوں روپیہ گورنمنٹ کی بہبودی کے لئے خرچ کر چکی ہے اور جو جماعت لاکھوں روپیہ گورنمنٹ کے لئے خرچ کر چکی ہو اس کے امام کا یہ مطالبہ کہ اس کی چِٹھی کا جواب دو روپے کی تار کے ذریعہ دیا جائے کوئی ناواجب مطالبہ نہیں عقلاً اور انصافاً یہ مطالبہ بالکل جائز اور درست ہے۔ لیکن بہرحال چونکہ طاقت اور اقتدار حکومت کے ہاتھ میں ہے اس لئے تار کے ذریعہ جواب دینا یا نہ دینا اس کی مرضی پر منحصر ہے لیکن بہرحال اتوار تک خط کے ذریعہ بھی جواب آ سکتا ہے۔ اگر اس وقت تک جواب آ گیا تو جماعت کے نمائندگان کے سامنے اسے رکھا جائے گا اور اگر نہ آیا تو اس کی ذمہ داری گورنمنٹ پر ہو گی۔ مَیں نے بدھ کو تار دیا تھا اس کا جواب جمعرات کو آ جانا چاہئے تھا جمعرات کو نہ آتا تو جمعہ کو آ جانا تھا جمعہ کو نہیں آیا تو ہفتہ کو آ سکتا ہے اور اگر ہفتہ کو نہ آئے تو اتوار کو آ سکتا ہے۔ اگر اتوار کو بھی حکومت کی طرف سے تار اور خط کا کوئی جواب نہ آیا تو اس کی ذمہ داری ہم پر نہیں بلکہ گورنمنٹ پر ہو گی۔
چونکہ ہماری جماعت کے بعض نمائندے قانونی مجالس میں بھی ہیں اور جب گورنمنٹ نے یہ قانون بنایا تھا تو اس وقت گورنمنٹ کی کونسل میں ہماری جماعت کا بھی ایک فرد موجود تھا۔ گو وہ جماعت کا نمائندہ نہیں تھا۔ اس لئے مَیں اس امر پر اظہار افسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اگر قانون کا وہی منشاء ہے جو ظاہر ہوٴا ہے اور اس قانون کے پاس کرنے میں ہمارے ان دوستوں کا بھی ہاتھ ہے جو قانون ساز مجلس میں ہیں تو یقینا انہوں نے یہ بہت بڑا ظلم کیا ہے۔ کانگریس والوں پر بھی بے شک اعتراض عائد ہوتا ہے جنہوں نے اپنا بد دیانت ہونا کھلے طور پر ثابت کر دیا ہے کیونکہ جب تک وہ برسرِاقتدار نہیں آئے تھے اسی قسم کے قوانین کو ظالمانہ کہا کرتے تھے مگر جب ان کی پارٹی بر سر اقتدار آئی تو انہی ظالمانہ قوانین کے ماتحت انہوں نے حکومت کی۔ اورجب لوگوں نے اعتراض کیا اور کہا کہ انہیں منسوخ کیا جائے تو انہوں نے کہا کہ ان کے بغیر کام نہیں چل سکتا۔ تو کانگریس کی بر سر اقتدار پارٹی اول درجہ کی خائن ثابت ہو چکی ہے پہلے تو وہ بعض انگریزی قوانین کے خلاف ایجی ٹیشن کرتی رہی مگر جب خود بر سر اقتدار ہوئی تو وہی قانون جاری کر دئیے اور لوگوں کے شور مچانے پر کہہ دیا کہ ان قوانین کے بغیر کام نہیں چلتا۔ ایسے خائن اور بد دیانت لوگوں کی ہم پر ذمہ داری نہیں۔ لیکن اگر ہماری جماعت کے کسی فرد نے خواہ بحیثیت ممبر اس قانون کی تائید کی ہے اور خواہ قانون کی تشکیل میں حصہ لیا ہے یقینا اس نے اپنی عاقبت خراب کر لی ہے۔ اور یقینا وہ خدا تعالیٰ کے سامنے بہت بڑے مجرم کی صورت میں پیش ہو گا۔ کیونکہ اس نے تینتیس کروڑ باشندوں کو قانون کے ذریعہ ذلیل کرنے کا سامان تیار کیا اور ان کی عزتوں کو ایک عرصہ کے لئے خطرہ میں ڈال دیا۔
مجھے افسوس ہے کہ یہ قانون ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں سے گزرا ہے جن میں سے بعض میرے نہایت ہی عزیز ہیں مگر خدا مجھے سب سے زیادہ عزیز ہے اور مجھے اس کے مقابلہ میں کسی کی پرواہ نہیں ہو سکتی۔ اگر اس قانون کا یہی منشاء ہے تو یقینا انہوں نے اپنی احمدیت پر ایک دھبہ لگا لیا ہے۔ انہیں چاہئے تھا کہ فوراً استعفیٰ دے دیتے اور کہتے کہ ہم اس قانون کی تائید کرنے یا اس پر دستخط کرنے کے لئے تیار نہیں۔ لیکن اگر اس قانون کا یہ منشاء نہیں تو ان کا فرض ہے کہ وہ گورنمنٹ پر اس امر کو ثابت کریں اور اسے کہیں کہ اس قانون کو خلافِ منشاء کیوں استعمال کیا گیا ہے۔ پس جس حد تک واقعہ کا سوال ہے میں ابھی اس کو نظر انداز کرتا ہوں لیکن جس حد تک قانون کا سوال ہے مَیں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اگر قانون کا یہی منشاء ہے تو ہر وہ شخص جس نے اس قانون پر دستخط کئے، ہر وہ شخص جو اس کے مشورہ میں شریک رہا وہ خدا تعالیٰ کے حضور مجرم ہے اور وہ 33 کروڑ باشندوں کو ذلیل کرنے کا مرتکب ہے۔ اس کی نمازیں، اس کے روزے اور اس کی قربانیاں، اس کے کسی کام نہیں آئیں گی کیونکہ اس نے دین کو دنیا پر مقدم نہیں کیا۔ مَیں قانون دان نہیں لیکن مَیں سمجھتا ہوں کہ اگر ہندوستانیوں میں کچھ بھی غیرت ہوتی اور اگر اپنے ملک کی ان کے دلوں میں کچھ بھی محبت ہوتی تو ایسے قانون کے پیش ہونے پر اس کے مُضِر حصہ کو وہ کبھی پاس نہ ہونے دیتے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ جنگ کے ایام میں امن کے قیام کے لئے نسبتاً سخت قانون کی ضرورت ہے مگر اس قسم کے جاہل انسانوں کے ہاتھ میں جو صحیح طور پر بات بھی نہیں سمجھ سکتے کجا یہ کہ قانون کو سمجھ سکیں یہ ایسی چیز ہے جس سے نہایت ہی خطرناک حربہ ہو جاتا ہے۔ لیکن فرض کرو ایسا اختیار ڈپٹی کمشنر کو دے دیا جائے تو میرے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں۔ گو اس طرح بھی غلط فہمیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ مگر موجودہ طریق کے مقابلہ میں بہت کم پیدا ہوں گی۔ اور پھر اور نہیں تو یہ فائدہ تو ضرور ہو گا کہ پبلک کا واسطہ کسی ایسے انسان سے پڑے گا جو معقول ہو گا اور بات کو سمجھنے کی اہلیت رکھے گا۔ مگر اب جس قسم کے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اس کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب ہیڈ کانسٹیبل کو درد صاحب تار سنانے لگے تو وہ کہنے لگا مجھے انگریزی نہیں آتی اور ترجمان کے ذریعہ سے اسے تار کا مطلب سمجھایا گیا۔ جسے اس نے اس وقت صحیح بتایا گو بعد میں سنا ہے کہ رپورٹ میں یہ لکھ دیا کہ مرزا خلیل احمد کے ہاتھ سے پیکٹ لیا تھا۔ پھر جب انہوں نے کہا کہ جو کچھ کہنا چاہتے ہو لکھ کر دو۔ تو پہلے تو وہ لکھنے کے لئے بیٹھ گیا لیکن پھر اس نے کہہ دیا کہ مَیں لکھ نہیں سکتا۔ یہ تو اس کا جھوٹ تھا لیکن بہرحال وہ انگریزی نہیں جانتا تھا۔ اب جو لوگ انگریزی نہیں جانتے تو انہوں نے بھلا قانون کا کیا سمجھنا ہے۔ پس قانونی لحاظ سے یہ اتنی خطرناک غلطی ہے کہ میرے نزدیک ہر ممبرکونسل جس نے اس کی تائید میں اپناووٹ دیا ہے اس نے قطعی طور پر اپنے فرض کو ادا نہیں کیااور اگر کسی نے اس بارہ میں غفلت سے کام لیا ہے تب وہ خدا تعالیٰ کے حضور مجرم ہے اور اگر اس نے جانتے ہوئے اس میں تھوڑے سے تھوڑا حصہ بھی لیا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کے حضور بہت بڑا مجرم ہے اور جن احمدیوں نے اس میں حصہ لیا ہے وہ تو بہت بڑے مجرم ہیں۔
ہم اخباروں میں ہمیشہ یہ خبریں پڑھا کرتے تھے کہ ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ کے ماتحت آج فلاں کو سزا ملی ہے اور آج فلاں کو۔ اورمَیں خیال کیا کرتا تھا کہ انہیں سز اجائز طور پر ملی ہو گی مگر اب تو مجھے ساروں کے متعلق یہی شک پیدا ہو گیا ہے ۔ اور مَیں خیال کرتا ہوں کہ شاید انہیں بے جا طور پر ہی جیل خانوں میں ڈال دیا گیا ہے۔
بہرحال میں نے اس کے متعلق ہِز ایکسی لنسی گورنر پنجاب کو لکھا ہوٴا ہے اور آج یا کل اس چِٹھی کی زائد کاپیاں ان منسٹروں کے پاس بھیجی جائیں گی جو پبلک تقریروں میں ہمیشہ یہ کہا کرتے ہیں کہ ملک میں امن کے قیام کے ہم ذمہ دار ہیں۔ اور ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا اس واقعہ کے بعد بھی ان پر کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے یا نہیں اور کیا قانون کا یہ جائز استعمال کیا گیا ہے یا ناجائز۔ اس کے بعد اگر ضرورت ہوئی تو ہم اپنے حق کے حصول کے لئے جد و جہد شروع کریں گے مگر کوئی ایسی کارروائی نہیں کریں گے جو جنگ کے کاموں میں روک پیدا کرنے کا باعث ہو۔ جنگ نہ ہمارے وزیر اعظم صاحب نے چھیڑی ہے اورنہ گورنر صاحب نے۔ یہ جنگ تو ہمارے بادشاہ اور ان کے وزراء کے حکم کے ماتحت لڑی جا رہی ہے اور ہندوستان کے گورنر یا یہاں کے وزراء اس جنگ کی عمارت کے نیچے کی چھوٹی سی اینٹیں ہیں۔ اگر اس میں حکومت پنجاب یا اس کے بعض افسروں کا دخل ثابت بھی ہو جائے تو اس عمارت کے خلاف ہمارا کھڑا ہو جانا نادانی ہو گی۔ کیونکہ جنگ کا آغاز ہٹلر نے کیا اور ہمارے بادشاہ اور وزراء نے اس کے مقابلہ کا اعلان کر دیا۔ ہم نے جہاں تک غور کیا ہے ہم اسی نتیجہ پرپہنچے ہیں کہ ہمارے بادشاہ اور وزراء حق پر ہیں اور ہٹلر ظالم ہے۔ پس جس فعل کو ہم ظالمانہ سمجھتے ہیں اگر اس کے مقابلہ میں ہم کوئی کوتاہی والی صورت پیدا کریں تو ہم مجرم ہوں گے اس لئے ہم کوئی ایسی کارروائی نہیں کر سکتے جس سے جنگ کے کاموں میں روک پیدا ہو۔ مَیں نے دیکھا ہے جب کبھی کوئی ایسی بات ہو بعض پُرجوش نوجوان کہہ دیتے ہیں کہ جب گورنمنٹ کا ہم سے یہ سلوک ہے تو ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ہم فوج میں بھرتی ہوں یا گورنمنٹ کی مالی مدد کریں اور وہ یہ نہیں سمجھتے کہ جو لوگ ہماری جماعت میں سے بھرتی ہو رہے ہیں۔ وہ نہ ہیڈ کانسٹیبلوں کی خاطر جان دے رہے ہیں اور نہ پنجاب کے وزراء وغیرہ کی خاطر جان دے رہے ہیں بلکہ وہ جو جان دے رہے ہیں تو اپنے بادشاہ کے لئے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ وہ جماعت احمدیہ کی تعلیم کے ماتحت جان دے رہے ہیں۔ پس اس قسم کی کوششوں میں کوئی کمی نہیں آنی چاہئے۔ مومن جو کام بھی کرتا ہے عقل کے مطابق کرتا ہے۔ یہ نہیں کہ لڑائی ایک طرف ہو تو وہ حملہ دوسری طرف کر دے۔ فرض کرو ہمیں اپنی تحقیق کے بعد یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ اس فتنہ میں بعض بالا حکام کا دخل تھا یا سی آئی۔ ڈی کے کسی افسر کا دخل تھا تو پھر بھی ہماری ان کوششوں میں کوئی فرق نہیں آنا چاہئے بلکہ ہر دفعہ ہماری کوششوں کی رفتار پہلے سے زیادہ تیز ہونی چاہئے۔ مَیں نے ذاتی طور پر جتنا چندہ گورنمنٹ کی امداد کے لئے پچھلے سال دیا تھا اس سے زیادہ چندہ اس سال دیا ہے اور جتنا چندہ پچھلے سال انجمن سے دلوایا تھا اس سے زیادہ اس سال دلوایا ہے اور اگر خدا تعالیٰ نے توفیق دی اور افلاس نے مجھے مجبور نہ کر دیا تو میرا یہی ارادہ ہے کہ ہر سال پہلے سال سے زیادہ چندہ دیتا چلا جاوٴں۔ اسی طرح جتنے رنگروٹ ہماری جماعت سے ایک مہینہ میں بھرتی ہوں۔ اس سے زیادہ رنگروٹ دوسرے مہینہ میں بھرتی ہونے چاہئیں۔ اور اس سے زیادہ رنگروٹ تیسرے مہینہ میں بھرتی ہونے چاہئیں کیونکہ پنجاب کی حکومت یااس کے افسران میں سے کسی افسر کا کوئی قصور ایمپائر یا دنیا کے حقوق کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا اور وہ ہماری ان کوششوں میں جو ہم جنگ میں فتح حاصل کرنے کے لئے کر رہے ہیں روک نہیں بن سکتا بلکہ اسلام اور احمدیت کے حقوق پر بھی اگر کوئی عارضی اثر پڑے تب بھی ہماری ان کوششوں میں کوئی کمی نہیں آ سکتی کیونکہ جیسا کہ نظر آ رہا ہے اس جنگ کا ایک دائمی اثر اسلام اور احمدیت کی تائید میں یا خلاف پڑنے والا ہے لیکن اگر ایسا وقت آیا کہ اسلام اور احمدیت کے حقوق کا نقصان اس فائدہ سے زیادہ ہوٴا جو جنگ کے نتیجہ کے طور پر دنیا کو حاصل ہو سکتا ہے تو تم جانتے ہو کہ مَیں خدا تعالیٰ کے فضل سے بزدل نہیں اس وقت مَیں تمہیں خودکہوں گا کہ تم اپنے رویہ کو بدل لو۔ لیکن اب تک مَیں اسی یقین پر قائم ہوں کہ ہمیں اس جنگ میں حکومت کی مدد کرنی چاہئے اور نہ صرف اس یقین پر قائم ہوں بلکہ اتنے زور سے قائم ہوں کہ مَیں سمجھتا ہوں اگر ان کوششوں میں ذرہ بھی کوتاہی ہوئی تو مَیں بھی اور جماعت بھی خدا تعالیٰ کے حضورمجرم ٹھہریں گے۔ اس لئے ان کاموں کو کرتے چلے جاوٴ اور اس وقت کا انتظار کرو جب معلوم ہو جائے کہ حکومت اس بارہ میں کیا رویہ اختیار کرتی ہے۔ اس کے بعد پھر جو مناسب قدم ہو گا وہ اٹھایا جائے گا۔ لیکن بہرحال ہم ایسا قدم ہی اٹھائیں گے جس سے ہماری جنگی کوششوں پر کوئی اثر نہ پڑے اور ایسی تدابیر اختیار کریں گے جن سے ان کوششوں پر اثر پڑے بغیر ہماری ناراضگی گورنمنٹ پر ظاہر ہو جائے۔ مثلاً الیکشنوں کا ہی سوال ہے۔ گو اب جنگ کی وجہ سے اسمبلیوں کی مدت بڑھا دی گئی ہے اور اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ انتخابات کی وجہ سے فسادات ہوتے ہیں لیکن بہرحال اگر آج نہیں تو آج سے پانچ سال کے بعد پھر انتخاب ہوں گے ممکن ہے اس عرصہ میں مَیں مر جاوٴں مگر جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے اس وقت زندہ ہو گی اور اس وقت وہ کوشش کر کے ان ظالموں کو سزا دلا سکے گی جن کی نسبت ثابت ہو کہ وہ خلاف انصاف حرکات کے مرتکب ہوئے ہیں اور ان کے مقابلہ میں کھڑے ہونے والوں کی مدد کر سکتی ہے اور یاد رکھو کہ اس بارہ میں جماعت احمدیہ کو بڑی طاقت حاصل ہے۔ اگر سب جماعت ایسے موقع پر ان لوگوں کا ساتھ دے جن سے انصاف کی امید ہو تو یقینا وہ حیرت انگیز نتیجہ پیدا کر سکتی ہے۔ اسی طرح اور بھی کئی قسم کے ذرائع ہیں جن سے کام لے کر جنگ کے دوران بھی اور جنگ کے بعد بھی ہم ان لوگوں کو سزا دے سکتے ہیں جو انصاف کے قیام میں روک ہوں۔ پس تم ان باتوں کو مجھ پر چھوڑ دو بلکہ مجھ پر بھی نہیں خدا پر چھوڑ دو کیونکہ وہی ہمیں ہدایت دیتا ہے۔ اور وہی ایسی تدابیر بتاتا ہے جن سے بغیر اس کے کہ ہم قانون شکنی کریں اپنی شکایات کا ازالہ کرا سکتے ہیں اس دن بعض اور واقعات بھی ہوئے ہیں۔ مثلاً ایک سپاہی نے زنانہ میں گھسنے کی کوشش کی۔ اگر اسی جگہ کسی اور کے ساتھ اس قسم کا واقعہ ہوتا اور اس کے ساتھ اس قسم کی عقیدت رکھنے والے لوگ نہ بھی ہوتے جس قسم کی عقیدت رکھنے والے لوگ ہماری جماعت میں شامل ہیں بلکہ اگر کسی معمولی جاٹ کے ساتھ ہی یہ واقعہ ہوتا تو سپاہیوں کے سر پھوڑ دئیے جاتے مگر پولیس والے سات گھنٹہ تک اس دن میرے مکان پر رائفلیں لے کر کھڑے رہے۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ انہوں نے مجھے باغی سمجھا اور خیال کیا کہ خلیل کی گرفتاری پر ہم سب لڑ پڑیں گے حالانکہ ہم اصول کے ایسے پابند ہیں کہ خلیل احمد کی گرفتاری تو کیا میری گرفتاری کے لئے اگر وہ آئیں تو اس وقت بھی ہماری جماعت میں سے کوئی شخص ان سے نہیں لڑے گا۔ ہم تو جانتے ہیں ہمیں خدا نے تلوار دی ہی نہیں۔ پس ہمارا کسی سے لڑنا حماقت ہے اگر خدا نے ہمیں تلوار دی ہوتی تو تلوار سے لڑنا ہمارے لئے جائز بھی ہوتا مگر ہمیں تو خدا نے نہ تلوار دی ہے اور نہ رائفل۔ پس ہم ان ہتھیاروں سے کس طرح لڑ سکتے ہیں اور اگر ہم میں سے کوئی لڑے تو یقینا وہ احمق ہو گا کیونکہ اس نے دنیا کو بھی اپنا دشمن بنا لیا اور خدا کو بھی۔ ہمارے پاس جو ہتھیار ہے وہ ہماری دعائیں ہیں جو ہماری زبان سے نکلتی اور خدا تعالیٰ کے عرش تک پہنچ جاتی ہیں۔ فرض کرو وہ سپاہی اس وقت رائفل چلا بھی دیتے اور گولی میرے دل پر آ لگتی تو گو مَیں اس گولی کو نہیں روک سکتا تھا مگر اس گولی کے لگتے وقت جو دعا میری زبان سے نکلتی اسے دنیا کے تمام بادشاہ مل کر بھی پورا ہونے سے نہیں روک سکتے تھے۔ چنانچہ دیکھ لو محمد ﷺ اسلام کے بادشاہ تھے اور آپ وفات پا گئے مگر کیا آپ کی وفات کے بعد اسلام کے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائید جاتی رہی؟ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے رسول تھے مگر کیا آپ کی وفات کے بعد احمدیت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائید نہیں رہی؟ اسی طرح بے شک ہم فوت ہو جائیں مگر وہ دعائیں جو ہمارے دل سے نکلتی ہیں، وہ آہیں جو ہمارے سینہ سے بلند ہوتی ہیں اور وہ خیالات جو ہمارے دماغ میں اٹھتے ہیں وہ اتنی بڑی تلواریں، اتنی بڑی رائفلیں اور اتنی بڑی توپیں ہیں کہ دنیا کی کوئی تلواریں، دنیا کی کوئی رائفلیں اور دنیا کی کوئی توپیں ان کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ انہیں سوچنا چاہئے تھا کہ کیا ہم نے ان تلواروں اوربندوقوں سے مقابلہ کرنا تھا کہ وہ رائفلوں سے مسلح ہو کر سات گھنٹہ تک ہمارے مکان پر کھڑے رہے۔ گویا ہم مجرم اور ڈاکو تھے جن کے لئے وہ اکٹھے ہوئے تھے اور گویا خلیل احمد کے لئے ہم سب نے ان سے لڑائی شروع کر دینی تھی۔ خلیل احمد تو ایک بچہ ہے اگر میرے سارے بچوں کو بھی وہ پکڑ کر لے جائیں تو ہم میں سے کوئی شخص ان پر ہاتھ نہیں اٹھائے گا کیونکہ ہمیں خدا نے ہاتھ اٹھانے کا حکم نہیں دیا۔ اسی طرح اگر یہ واقعات جاری رہے تو ممکن ہے کل کو وہ مجھے بھی پکڑ لیں مگر اس صورت میں بھی وہ ہم میں سے کسی کو اپنے مقابلہ میں اٹھتے ہوئے نہیں دیکھیں گے کیونکہ اس معاملہ میں خدا نے ہمارے ہاتھ باندھ رکھے ہیں اور جس معاملہ میں خدا مومن کے ہاتھ کو باندھ لے اس میں وہ ہیجڑا بن جاتا ہے۔ ہمیں خدا نے کہا ہے کہ تم اپنے ہاتھ بند رکھو ہمیں خدا نے یہ کہا ہے کہ تم حکومت کی اطاعت کرو۔1 پس اس معاملہ میں ہم ہمیشہ اپنے خدا کے حکم کے ماتحت چلیں گے اور کسی قسم کی قانون شکنی کا ارتکاب نہیں کریں گے۔
بھلا وہ لوگ جنہوں نے افغانستان میں پتھروں کی بوچھاڑ کے آگے اپنے سینے تان دئیے تھے اور اُف نہ کی وہ کانگریس کے ان لوگوں کی طرح ہو سکتے ہیں جن پر قانون کی جب ضرب پڑی تو انہوں نے قانون کو ہی چھوڑ دیا۔ ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے ان کانگرسیوں کی طرح نہیں ہیں اور ہم قانون کے احترام کوکسی صورت میں ترک نہیں کر سکتے۔ ہم ہمیشہ اطاعت اور فرمانبرداری کے مقام پر کھڑے رہیں گے اور اگر وہ ہم پر رائفلیں بھی چلائیں گے تو ہم ان کا مقابلہ نہیں کریں گے۔ کیونکہ ہماری رائفل ہمارا خدا ہے، ہماری تلوار ہمارا خدا ہے اورہماری توپ ہمارا خدا ہے۔ اس رائفل، اس تلوار اور اس توپ کے مقابلہ میں اگر دنیا کی تمام رائفلیں، دنیا کی تمام تلواریں اور دنیا کی تمام توپیں بھی رکھ دی جائیں تو وہ تباہ اوربرباد ہو جائیں گی۔ ٭
٭خطبہ کو صاف کرتے ہوئے مجھے ضروری معلوم ہوٴا کہ مَیں یہ بھی ظاہر کر دوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے رنج کے وقت ان کی خوشی کا بھی سامان کر دیتا ہے۔ چنانچہ جب مَیں سارا دن کی کوفت کے بعد زنانہ میں آیا تو میری بیوی نے مجھ سے ذکر کیا کہ امة القیوم سلّمہا اللہ تعالیٰ میری لڑکی نے سنایا کہ اس بارہ میں ابا جان کی ایک روٴیا اس واقعہ کے بارہ میں تھی جو انہوں نے مجھے سنائی تھی اور بعض دفعہ بہن سے مراد بھائی ہوتا ہے۔ تب مجھے وہ روٴیا یاد آ گئی جو ایک دو سال پہلے کی ہے۔ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ مَیں مدرسہ احمدیہ کے ایک کمرہ میں ہوں اور وہاں عزیزہ امة القیوم سلّمہا اللہ تعالیٰ اور میری چھوٹی بیوی مریم صدیقہ بیگم سلمہا اللہ تعالیٰ بھی میرے ساتھ ہیں۔ دروازہ بند ہے مگر دروازہ میں بڑی بڑی دراڑیں ہیں۔ میری نظر جو پڑی تو مَیں نے دیکھا کہ ان دراڑوں میں سے پولیس کے کچھ سپاہی جھانک رہے ہیں۔ مَیں نے ان دونوں کو چھپا دیا اور باہر نکل کر ان پولیس والوں سے کہا کہ تم کیوں جھانک رہے تھے؟ اس پر وہ کمرہ کے اندر آ گھسے۔ اس وقت میں دل میں کہتا ہوں کہ اندر میری بیوی اور لڑکی ہیں۔ ان کی بے پردگی ہو گی مگر پھر کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سب باتوں پر قادر ہے۔ وہ خود ان کی حفاظت کرے گا چنانچہ جب وہ کمرہ میں گھس آئے اور ادھر ادھر تلاش کرنے لگے تو مَیں نے دیکھا کہ دونوں بقیہ حاشیہ : وہاں سے غائب ہو گئی ہیں اور مَیں کہتا ہوں کہ دیکھو میرے رب کا احسان کہ اس نے اس ذلّت سے ہمیں بچا لیا اور خود ان کو غائب کر دیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ نے بغیر اس کے کہ کوئی اور دروازہ اس کمرہ میں ہو۔ ان کو غائب کر دیا۔ عجیب بات ہے کہ جس کمرہ میں مَیں نے اپنے آپ کو دیکھا وہ شمال کی طرف تھا اور صحن جس میں سے پولیس آئی وہ جنوب کی طرف تھا۔ اسی طرح یہ کوٹھی جس میں ہم تھے اس کا صحن جنوب کی طرف تھا اور اسی طرف سے پولیس داخل ہوئی۔ میں وہاں سے گھر آیا اورحیرت سے امة القیوم سے کہتا ہوں کہ مَیں تو بڑا ڈرا تھا مگر اللہ تعالیٰ تم کو وہاں سے نکال لایا اور بے پردگی سے ہم بچ گئے چونکہ امة القیوم بیگم سلّمہا اور خلیل احمد ایک ہی والدہ سے ہیں اور بہن بھائی ہیں۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے کسی مصلحت سے خلیل کی جگہ امة القیوم سلمہا اللہ تعالیٰ کو دکھا دیا جیسا کہ عالم روٴیا میں کثرت سے ہوتا ہے۔ پھر یہ بھی عجیب بات ہے کہ اس وقت امة القیوم بیگم اور مریم صدیقہ دونوں کوٹھی میں موجود تھیں حالانکہ مریم صدیقہ واپس آ رہی تھیں اورپھر کسی وجہ سے وہاں ٹھہر گئیں اور امة القیوم سلمہا اللہ تعالیٰ کی شادی ہو چکی ہے اور وہ سرگودھا میں تھیں۔ مگر خاوند کی چند دن کی رخصت کی وجہ سے میرے پاس مہمان ہو کر آئی ہوئی تھیں۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَخْبَرَنِیْ بِھٰذِہِ الْبَلِیَّةِ قَبْلَ وُقُوْعِھَا وَ سَلَّانِیْ قَبْلَ نُزُوْلِ الْاَلَمِ ھُوَ مَوْلَایَ وَ عَلَیْہِ تِکْلَانِیْ اِلَیْہِ اُفَوِّضُ اَمْرِیْ وَ اَرْجُوْا مِنْہُ کُلَّ الْخَیْرِ۔’’ (الفضل 14 ستمبر 1941ء)
1 اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ( النساء: 60)

28
رمضان کے بابرکت مہینہ کے فیوض سے فائدہ حاصل کریں
( فرمودہ 19 ستمبر 1941 ء )

تشہد، تعوّذ اور سورہٴ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘چونکہ عنقریب رمضان شریف کا مہینہ شروع ہونے والا ہے اس لئے سب سے پہلے میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ جہاں تک ہو سکے اس بابرکت مہینہ کے فیوض سے فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ میرے نزدیک قرآن کریم کی یہ آیت کہ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْۤ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ 1 اس مہینہ کی برکات اور اس کے فیوض کو ایسا واضح کرتی ہے کہ انسان کے دل میں اس کی اہمیت خود بخود پیدا ہو جاتی ہے جس مہینہ کا اللہ تعالیٰ نے اس بات کے لئے انتخاب فرمایا ہو کہ ابتدائے قرآن اس میں نازل ہو اور جس میں جبریل اس وقت تک کے نازل شدہ قرآن کو ہمیشہ دہراتے رہتے ہوں۔2 اس مہینہ کے بارہ میں مومنوں کے دلوں میں جتنا جوش پیدا ہو اور جتنی قرآن کریم کی تلاوت اس مہینہ میں کی جائے کم ہے خدا تعالیٰ کا یہ فعل اورجبریل کا نزول اور رسول کریم ﷺ کا اس کے ساتھ تلاوت فرمانا بتلاتا ہے کہ رمضان کا تعلق صرف روزوں سے ہی نہیں بلکہ قرآن کریم کی تلاوت، اُس پر غور و خوض اور اُس کے معانی پر تدبرکرنا بھی روزوں کے ساتھ تعلق رکھنے والے ضروری امور میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قادیان میں رمضان کے موقع پر درس القرآن کا انتظام کیا جاتا ہے۔ جب میری طبیعت اچھی ہوٴا کرتی تھی تو مَیں درس دیا کرتا تھا مگر اب جبکہ میری صحت اس بات کی اجازت نہیں دیتی۔ بعض اور علماء سے درس دلایا جاتا ہے اور قادیان کے مخلصین اس میں شامل ہوتے ہیں اور جو لوگ شامل نہیں ہوتے وہ کم سے کم درس قرآن کی جو قضاء عمری ہوتی ہے اس میں شامل ہو جاتے ہیں۔ مسلمانوں میں عام رواج ہے کہ وہ سارا سال نمازیں نہیں پڑھتے یا کم سے کم باقاعدگی اور التزام کے ساتھ نہیں پڑھتے مگر رمضان کے آخری جمعہ میں شامل ہو جاتے ہیں اورکہتے ہیں کہ قضاء عمری ہو گئی۔ اس دن وہ کچھ زائد نفل پڑھ لیتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ ان نمازوں کے بدلہ میں جو اُن سے چھوٹ گئی تھیں وہ نفل کافی ہوگئے ہیں۔ اسی طرح جو غافل اور سست لوگ سارا مہینہ درس میں شامل نہیں ہوتے وہ قرآن کریم کی آخری ایک دو سورتوں کے اس درس میں جو مجھ سے دلوایا جاتا ہے اور آخری دعا میں شامل ہو جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ درس کی قضائے عمری ہو گئی۔ گو نہ نمازوں کی قضا ئے عمری ہوتی ہے اور نہ درس کی۔ بہرحال ایک ایسا شخص جسے اس بات کی اہلیت نہیں کہ وہ ذاتی طور پر قرآن کریم کے مطالب کو سمجھ سکے اسے اگر سارے سال میں چند دن ایسے میسر آ جائیں جن میں اسے تمام قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیر سننے کا موقع مل جائے اور پھر بھی وہ اس میں حصہ نہ لے تو اس سے زیادہ بدبخت اور کون ہو سکتا ہے۔
یوں انسان محبت کے بڑے بڑے دعوے کیا کرتا ہے لیکن سوال صرف دعووں کا نہیں بلکہ عمل کا ہوتا ہے ۔ اگر کوئی شخص قرآن کریم سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے تو اسے اپنے عمل سے اس محبت کا ثبوت بھی دینا چاہئے۔ مگر عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ محبت کے صرف زبانی دعووں پر اکتفا کی جاتی ہے اور عملی رنگ میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جاتا۔ حضرت خلیفہٴ اول کی مثال مجھے ہمیشہ یاد رہتی ہے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ جب لوگوں سے پوچھا جاتا ہے کہ تم نے قرآن پڑھا ہے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم اَن پڑھ ہیں ہمیں قرآن پڑھنا نہیں آتا۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ یہ دلیل میری سمجھ میں کبھی نہیں آتی کہ اَن پڑھ ہونے کی وجہ سے ایک شخص قرآن کریم کے سمجھنے سے کس طرح بری الذمہ ہو سکتا ہے۔ آپ فرماتے تھے دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب کسی کے پاس اپنے کسی عزیز کا خط آتا ہے تو جو شخص پڑھا ہوٴا ہوتا ہے وہ تو ایک دفعہ خط کو پڑھ کر رکھ دیتا ہے مگر اَن پڑھ جب تک پانچ سات دفعہ وہ خط لوگوں سے پڑھا نہ لے اسے تسلی نہیں ہوتی۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ اگر بیٹی یا بھائی یا بیوی یا خاوند یا باپ یا ماں کی خیریت کا خط آنے پر پڑھوں اور اَن پڑھوں میں یہ فرق نظر آتا ہے کہ پڑھا ہوٴا شخص تو خط کو ایک دفعہ پڑھ کر مطمئن ہو جاتا ہے مگر اَن پڑھ جب تک چار پانچ متفرق لوگوں سے خط نہ پڑھا لے اسے تسلی نہیں ہوتی کیونکہ وہ خیال کرتا ہے کہ شاید ایک شخص سے کوئی بات رہ گئی ہو۔ اس لئے جب وہ ایک سے خط کا مضمون سن لیتا ہے تو دوسرے کے پاس جاتاہے اور دوسرے کے بعد تیسرے اور پھر چوتھے اور پانچویں کے پاس۔ تو اسی طرح اگر لوگوں کو خدا تعالیٰ سے بھی سچی محبت ہوتی تو قرآن کریم کے مطالب کو سمجھنے کے لئے اَن پڑھ پڑھے ہوئے لوگوں سے زیادہ بیقرار ہوتے اور وہ کئی کئی بار لوگوں سے اس کو سن چکے ہوتے۔
یہ ایک نہایت ہی معرفت کانکتہ ہے جس میں انسانی فطرت کا گہرا مطالعہ نظر آتا ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارا اپنا تجربہ بھی یہی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اَن پڑھ اپنی جیب میں ایسے خط رکھ لیتے ہیں اور جہاں انہیں اپنا کوئی ایسا دوست نظر آتا ہے جو پڑھا لکھا ہویا کسی اور شخص کودیکھتے ہیں جو گو ان کا دوست نہ ہو مگر نرم طبیعت کا ہو اور وہ سمجھتے ہوں کہ یہ خط پڑھنے سے انکار نہیں کرے گا تو اس کے سامنے وہ خط پیش کر کے کہتے ہیں کہ ذرا اسے پڑھ کر سنا دیں۔ پھر اس پر بھی ان کی تسلی نہیں ہوتی اور وہ اوروں سے پڑھواتے ہیں۔ یہاں تک کہ آٹھ دس متفرق آدمیوں سے خطوط سن سن کر ان کا مضمون انہیں حفظ ہو جاتا ہے۔ تو اَن پڑھ ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ایسا شخص قرآن پڑھنے یا سننے سے آزاد ہے۔ بلکہ اَن پڑھوں کو زیادہ فکر سے قرآن کریم کو بار بار سننا چاہئے کیونکہ ممکن ہے وہ ایک سے قرآن کریم سنیں اور وہ بعض آیات کا انہیں غلط مطلب بتا دے۔ جس طرح اَن پڑھ پہلے ایک شخص سے خط پڑھواتا ہے تو اس سے اس کی تسلی نہیں ہوتی بلکہ وہ خیال کرتا ہے کہ مبادا اس سے کوئی بات رہ گئی ہو۔ اس لئے وہ دوسرے کے پاس جاتا ہے اور جب دوسرا بھی اسے وہی مضمون سناتا ہے جو پہلے نے سنایا تو اس کو کسی قدر تسلی ہوتی ہے مگر پورا اطمینان اسے پھر بھی میسر نہیں آتا۔ اور وہ تیسرے کے پاس جاتا ہے۔ پھر چوتھے اور پھر پانچویں کے پاس جاتا ہے اور اس طرح پانچ سات متفرق آدمیوں سے مختلف موقعوں پر وہ خط پڑھواتا ہے اور چونکہ ان میں سے کسی کو بھی پتہ نہیں ہوتا کہ پہلے یہ کسی اَور سے خط کا مضمون سن چکا ہے اس لئے جب سب اسے خط کا ایک ہی مضمون بتاتے ہیں تو اسے اطمینان ہو جاتا ہے اور وہ خیال کرتا ہے کہ اب اس نے خط کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے اسی طرح اگر کسی شخص کو عربی نہیں آتی تو محض اس عذر کی بناء پر وہ قرآن کریم کے پڑھنے اور اس کے مطلب کو سمجھنے سے آزاد نہیں ہو سکتا۔ اس کا فرض ہے کہ وہ کسی پڑھے لکھے انسان سے قرآن سنے اور جب ایک دفعہ سن چکے تو مطمئن نہ ہو بلکہ خیال کرے کہ شاید اس نے کوئی بات غلط بتائی ہو۔ اس لئے وہ دوسرے کے پاس جائے تو اس سے قرآن سنے۔ پھر تیسرے کے پاس جائے اور اس سے قرآن سنے۔ پھر چوتھے کے پاس جائے اور اس سے قرآن سنے۔ یہاں تک کہ بار بارقرآن کو سننے کے بعد اسے یہ یقین حاصل ہو جائے کہ اس نے خدا کے کلام کو سمجھ لیا ہے مگر اس کے علاوہ قرآن کریم میں ایک اوربات بھی ہے اوروہ یہ کہ کارڈ کا مضمون تو صرف اس وقت کے لئے ہوتا ہے اور بعد میں اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ مگر قرآن کریم خدا تعالیٰ کا وہ کارڈ ہے جو ایک دفعہ ہی آیا ہے اور اب دوبارہ نہیں آئے گا۔ ایسے کارڈ کو سننا اور اس کے مضامین کو یاد رکھنا تو بہت ہی ضروری ہے۔ پڑھے لکھے لوگوں کے لئے جو قرآن کریم کے مطالب سمجھنے کی بھی توفیق رکھتے ہیں۔ ان کے لئے تو یہ آسانی ہوتی ہے کہ وہ گھر میں بیٹھ کر قرآن کریم کو پڑھ سکتے ہیں جیسے مَیں درس میں شامل نہیں ہوتا۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مَیں گھر پر قرآن کریم کو پڑھ لیتا ہوں۔ اور مجھے خدا تعالیٰ نے یہ توفیق دی ہے کہ مَیں اس کو سمجھ سکوں۔ پس مجھے ضرورت نہیں کہ مَیں ایسے درسوں میں شامل ہوں۔ لیکن وہ شخص جو پڑھا ہوٴا نہیں اور وہ گھر میں بیٹھ کر قرآن کریم پر غور کر کے اس کے مطالب کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ اس کے لئے تو بہت ہی ضروری ہے کہ وہ درس میں شامل ہو۔ گو تمام پڑھے لکھے لوگ بھی اس قابل نہیں ہوتے کہ وہ قرآن کریم کو سمجھ سکیں بعض لوگ اچھے تعلیم یافتہ ہوتے ہیں اور علوم ظاہری انہیں خوب آتے ہیں مگر ان کے اندر ایسا ملکہ نہیں ہوتا کہ وہ قرآن کریم پر غور کر سکیں۔ ایسے لوگوں کے لئے بھی باوجود عالم اور پڑھے لکھے ہونے کے ضروری ہے کہ درس میں شامل ہوں۔ پھر بعض دفعہ ایک شخص عالم قرآن تو ہوتا ہے مگر دوسرا شخص جو قرآن سنا رہا ہوتا ہے۔ وہ اس سے بھی زیادہ قرآن کریم کو جاننے والا ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں عالمِ قرآن کے لئے بھی درس میں شامل ہونا ضروری ہو گا۔ اور اگر دوسرا شخص قرآن کریم کو زیادہ جاننے والا نہ ہو اور سننے والا زیادہ عالم ہو تو اس حالت میں بھی درس میں شامل ہونا فائدہ سے خالی نہیں ہوتا کیونکہ اسے بھی باوجود زیادہ علم رکھنے کے دوسرے کے درس میں بعض دفعہ ایسی باتیں معلوم ہو جاتی ہیں جو اس کے ذہن میں نہیں ہوتیں۔
ہمارے ایک استاد تھے مَیں نے ان کو دیکھا ہے کہ جب مَیں درس دیتا تو وہ باقاعدہ میرے درس میں شامل ہوتے لیکن اس کے مقابلہ میں میرے ایک اور استاد تھے جب کبھی وہ درس دے رہے ہوتے تو پہلے صاحب مسجد میں آ کر انہیں درس دیتے ہوئے دیکھتے تو چلے جاتے۔ اور کہتے کہ اس کی باتیں کیا سُننی ہیں یہ تو سنی ہوئی ہیں مگر میرے درس میں باوجود اس کے کہ مَیں ان کا شاگرد تھا بوجہ اس کے کہ مجھ پر حُسنِ ظنی رکھتے تھے ضرور شامل ہوتے اور فرمایا کرتے تھے کہ مَیں اس کے درس میں اس لئے شامل ہوتا ہوں کہ اس کے ذریعہ قرآن کریم کے بعض نئے مطالب مجھے معلوم ہوتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے کہ بعض لوگوں پر چھوٹی عمر میں ہی ایسے علوم کھول دئیے جاتے ہیں جو دوسروں کے وہم اور گمان میں بھی نہیں ہوتے۔ اسی مسجد میں1907ء میں سب سے پہلی دفعہ مَیں نے پبلک تقریر کی۔ جلسہ کا موقع تھا بہت سے لوگ جمع تھے۔ حضرت خلیفہٴ اول بھی موجود تھے۔ میں نے سورہٴ لقمان کا دوسرا رکوع پڑھا اور پھر اس کی تفسیر بیان کی۔ میری اپنی حالت اس وقت یہ تھی کہ جب میں کھڑا ہوٴا تو چونکہ اس سے پہلے میں نے پبلک میں کبھی لیکچر نہیں دیا تھا اورمیری عمر بھی اس وقت صرف ۱۸ سال کی تھی۔ پھر اس وقت حضرت خلیفہٴ اول بھی موجود تھے انجمن کے ممبران بھی تھے اور بہت سے اَور دوست بھی آئے ہوئے تھے اس لئے میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ اس وقت مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ میرے سامنے کون بیٹھا ہے اور کون نہیں۔ تقریر آدھ گھنٹہ یا پون گھنٹہ جاری رہی۔ جب مَیں تقریر ختم کر کے بیٹھا تو مجھے یاد ہے حضرت خلیفہ اول نے کھڑے ہو کر فرمایا۔ میاں! مَیں تم کو مبارک باد دیتا ہوں کہ تم نے ایسی اعلیٰ تقریر کی ۔ مَیں تمہیں خوش کرنے کے لئے یہ نہیں کہہ رہا مَیں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ مَیں بہت پڑھنے والا ہوں اور مَیں نے بڑی بڑی تفسیریں پڑھی ہیں مگر مَیں نے بھی آج تمہاری تقریر میں قرآن کریم کے وہ مطالب سنے ہیں جو پہلی تفسیروں میں ہی نہیں بلکہ مجھے بھی پہلے معلوم نہیں تھے۔ اب یہ اللہ تعالیٰ کا محض فضل تھا ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت تک نہ میرا مطالعہ وسیع تھا اور نہ قرآن کریم پر لمبے غور کا کوئی زمانہ گزرا تھا۔ پھر بھی اللہ تعالیٰ نے میری زبان پر اس وقت ایسے معارف جاری کر دئیے جو پہلے بیان نہیں ہوئے تھے۔ تو دوسروں سے سن کر انسان کے علم میں بہت کچھ زیادتی ہوتی ہے۔ صحابہٴ کرامؓ ہمیشہ آپس میں ملا کرتے اور حدیثوں میں آتا ہے کہ جب وہ اکٹھے ہوتے تو ایک دوسرے سے کہتے کہ آوٴ ہم تھوڑی دیر کے لئے رسول کریم ﷺ کے زمانہ کی باتیں کریں تاکہ ہمارا ایمان تازہ ہو جائے۔3 چنانچہ جب بیٹھتے تو ایک کہتا مَیں نے رسول کریم ﷺ سے یہ بات سنی ہے اس پر دوسرے کو بھی کوئی بات یاد آ جاتی اور وہ کہتا ۔ ہاں میں بھی اُس وقت موجود تھا اور رسول کریم ﷺ نے اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا تھا۔ پھر کوئی اور بات سناتا۔ اور دوسرے صحابہ اسے سن کر اپنے ایمان کو تازہ کرتے۔تو مومنوں کا ایک دوسروں سے ملنا اور دینی باتوں میں حصہ لینا ایمان کی تازگی کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ حضرت خلیفہٴ اول فرمایا کرتے تھے کہ میرے ایک استاد تھے (انہوں نے آپ کو درسی کتب نہیں پڑھائی تھیں بلکہ روحانی طور پر بزرگ سمجھ کر حضرت خلیفہ اول ان سے ملا کرتے تھے۔ اور ان کے روحانی علوم سے مستفیض ہوتے تھے) ان سے ایک دفعہ ملاقات میں کچھ وقفہ ہو گیااور تعلیم میں مشغول رہنے کی وجہ سے مَیں جلدی ان سے مل نہ سکا۔ چند دنوں کے بعد ان سے جا کر ملا تو وہ کہنے لگے۔ نور الدین۔ تم ہمیں اتنے دن ملے نہیں۔ حضرت خلیفہٴ اول فرماتے کہ مَیں نے کہا۔ حضور سبق کچھ زیادہ تھے ان میں مشغول رہنے کی وجہ سے دیر ہو گئی ہے۔ وہ کہنے لگے کیا تم نے کبھی قصاب کی دکان دیکھی ہے؟ مَیں نے کہا کیوں نہیں۔ بہت دفعہ دیکھی ہے۔ انہوں نے کہا کبھی تم نے دیکھا کہ قصاب گوشت کاٹتے کاٹتے تھوڑی دیر کے بعد چُھریاں آپس میں رگڑ لیتا ہے۔ آپ فرمانے لگے ہاں مَیں نے دیکھا ہے قصاب ایسا ہی کیا کرتا ہے۔ انہوں نے کہا تمہیں کچھ پتہ ہے۔ قصاب ایسا کیوں کرتا ہے۔ قصاب دو چُھریوں کو آپس میں اس لئے رگڑتا ہے کہ گوشت کاٹتے کاٹتے چُھری کی دھار پر چربی لگ جاتی ہے جس سے وہ کند ہو جاتی ہے اس پر قصاب اس چُھری کو دوسری چُھری سے رگڑ لیتا ہے اور وہ پھر تیز ہو جاتی ہے۔ یہ مثال دے کر وہ کہنے لگے دیکھو نور الدین ہم کو تمہاری ملاقات کا بھی اسی لئے شوق ہے۔ ہم سارا دن کئی قسم کے کام کرتے رہتے ہیں۔ ان کاموں میں مشغول رہنے کی وجہ سے چُھریوں کی طرح ہماری دھار بھی کند ہو جاتی ہے۔ تم آتے ہو تو ہماری اور تمہاری چُھریاں آپس میں رگڑی جاتی ہیں اور تمہاری چُھری بھی تیز ہو جاتی ہے اور ہماری چُھری بھی تیز ہو جاتی ہے۔
پس مَیں جماعت کے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ جہاں رمضان کے روزے رکھیں وہاں گھروں میں بھی کثرت سے قرآن کریم کی تلاوت کریں اور درس میں بھی مرد اور عورتیں زیادہ سے زیادہ تعداد میں شامل ہوں۔ اَن پڑھ اس سے مستثنیٰ نہیں بلکہ ان پر پڑھے ہوئے لوگوں کی نسبت زیادہ ذمہ داری ہے کیونکہ اس کے علاوہ انہیں سارا سال قرآن کریم کو سننے کا اور کوئی موقع نہیں ملتا پھر مَیں کارکنوں کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ عورتوں کے لئے درس سننے کا خاص طور پر انتظام کریں کیونکہ قرآن پڑھی ہوئی عورتیں کم ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری جماعت میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسی عورتیں موجود ہیں جو قرآن کریم پڑھی ہوئی ہیں مگر پھر بھی مردوں کے مقابلہ میں کم ہیں اور اس بات کی ضرورت ہے کہ ان کے لئے خاص طور پر انتظام کیا جائے۔
پھر میں بیرونی جماعتوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ بھی اپنی اپنی جگہ درس کا انتظام کریں۔ اب تو درس دینے میں اس لحاظ سے بہت کچھ سہولت پیدا ہو چکی ہے کہ قرآن کریم کے ایک حصہ کی تفسیر ہماری طرف سے شائع ہو گئی ہے۔ پس اگر جماعتیں سارے قرآن کے درس کا انتظام نہ کر سکتی ہوں تو انہیں اس مہینہ میں تفسیر کبیر کے درس کا انتظام کرنا چاہئے۔ جنہو ں نے یہ تفسیر ابھی تک نہیں پڑھی اس ذریعہ سے وہ اس تفسیر کو سن سکیں گے اور جنہوں نے ایک دفعہ اس کو پڑھا ہوٴا ہے انہیں اس ذریعہ سے اس کے مضامین دوبارہ تازہ ہو جائیں گے۔ کیونکہ خالی ایک دفعہ پڑھ لینے سے کوئی چیز یاد نہیں رہتی بلکہ بار بار پڑھنے سے یاد رہتی ہے۔ مدرسوں میں ہی دیکھ لو۔ کس طرح بار بار سبق یاد کرائے جاتے ہیں اسی طرح کسی کتاب سے صحیح رنگ میں اسی وقت فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے جب اس کے مضامین یاد ہوں۔ ایک کتاب کو پڑھ کر رکھ دینا اور پھر اس سے کبھی بطور ریفرنس کام لے لینا کتاب کا صحیح استعمال نہیں کہلاتا۔ کتاب کا صحیح استعمال یہی ہوتا ہے کہ اسے بار بار پڑھا جائے اور اس کے مطالب کو یاد رکھا جائے اور یہ صرف دوسروں کی لکھی ہوئی کتابوں کے متعلق ہی ضروری نہیں ہوتا بلکہ اپنی تصنیف بھی اسی نقطہٴ نگاہ کے ماتحت انسان کو پڑھنی پڑتی ہے۔ چنانچہ مَیں نے خود اس رنگ میں کئی دفعہ اس تفسیر کے بعض حصوں کو پڑھا ہے تاکہ بعض وہ مطالب جو تفسیر لکھتے وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر کھولے گئے تھے۔ وہ میرے ذہن سے اتر نہ جائیں۔ پس جہاں پورے درس کا انتظام نہ ہو سکے وہاں تفسیر کبیر کا درس دے کر اسے اس مہینہ میں ختم کر دینا چاہئے۔
اسی طرح ان دنوں میں دوستوں کو تہجد کے لئے جگانا اور تراویح کی طرف توجہ دلانا بھی ضروری ہے مگر تراویح سے مراد وہی تراویح ہیں جو رسول کریم ﷺ سے مسنون ہیں اور جو درحقیقت تہجد کی نماز ہی ہے۔ یہ جو عشاء کے وقت تراویح پڑھی جاتی ہیں۔ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سست لوگوں کے لئے جاری کی تھیں۔ آپ نے دیکھا کہ بہت سے لوگ نیند کے انتظار میں بیٹھ کر گپیں مارتے رہتے ہیں اور اس طرح اپنے وقت کو لغو اور فضول باتوں میں ضائع کرتے ہیں چنانچہ آپ نے مناسب سمجھا کہ ان کو گپوں کی بجائے نماز میں مشغول کر دیا جائے۔ پس یہ تراویح سست لوگوں کے لئے جاری کی گئی تھیں۔ مگر آجکل ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ سست ہونا ہی بڑے ثواب کی بات ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ تہجد پڑھنے کی عادت لوگوں کو کم ہو گئی ہے اور شروع وقت کی تراویح زیادہ پڑھی جاتی ہیں حالانکہ یہ درست نہیں۔ وہ تراویح جو رمضان میں عشاء کے بعد پڑھی جاتی ہیں مسنون نہیں ہیں بلکہ وہ قائم مقام مقرر کی گئی ہیں مسنون تراویح کی۔ اصل چیز تہجد کی نماز ہے جس کی خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں تعریف کی ہے4 اور جس پر رسول کریم ﷺ کا بھی عمل تھا۔ آپ ہمیشہ تہجد پڑھا کرتے تھے اور بعض ایام میں آپ نے تہجد کی نماز باجماعت بھی ادا کی ہے۔ 5 اسی طریق پر ان لوگوں کے لئے جو یوں تہجد سے زیادہ فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ بعض نے یہ طریق رائج کر دیا کہ تہجد کے وقت ایک امام لوگوں کو نماز پڑھا دے اور اس طرح وہ قرآن کریم سن لیا کریں مگر جو سست لوگ تھے اور اس وقت وہ شامل نہیں ہوٴا کرتے تھے ان کے لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ انتظام کر دیا کہ عشاء کے وقت وہ ایک امام کی متابعت میں تراویح پڑھ لیا کریں۔6 مگر بہرحال یہ انتظام سب کے لئے نہیں بلکہ سُستوں کے لئے ہے اور یا پھر ان معذوروں کے لئے ہے جو پچھلی رات اٹھ نہیں سکتے مثلاً کوئی بیمار ہے یا بوڑھا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ تہجد کے وقت اس کے لئے اٹھنا مشکل ہے وہ تراویح میں شامل ہو سکتا ہے مگر ان معذروں اور بیماروں کے علاوہ جو تراویح میں شامل ہوتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے رجسٹر میں اپنی سُستی کا انگوٹھا لگا کر آتا ہے۔ ہاں جو بیمار یا معذور ہیں۔ انہیں تراویح میں شامل ہونے سے نہیں ڈرنا چاہئے یا مثلاً بچے ہیں ان کے متعلق یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ تہجد کے لئے اٹھیں گے۔ سحری سے پندرہ بیس منٹ پہلے کھانا کھانے کے لئے تو وہ اٹھ سکتے ہیں مگرتہجد کے لئے اٹھنا ان پر گراں گزرتا ہے۔ ایسوں کے سوا باقی سب کو تہجد کی نماز میں شامل ہونا چاہئے یا تو وہ اپنے گھرپر تہجد ادا کریں اور یا پھر اس نماز میں شامل ہوں۔ جو تہجد کے وقت باجماعت ادا کی جائے اور خصوصیت سے اپنے لئے اور تمام جماعت کے لئے دعائیں کریں۔ ہماری جماعت ایسے فتنوں میں گھری ہوئی ہے کہ اسے دعاوٴں کی بہت ہی ضرورت ہے اور یوں تو مومن ہر وقت ہی دعا کرتا ہے خواہ کوئی فتنہ ہو یا نہ ہو۔ لوگوں میں مثل مشہور ہے کہ چور چوری سے جائے گا ہیرا پھیری سے نہیں جائے گا یعنی چوری کی عادت بے شک اس سے چھوٹ جائے گی مگر اِدھراُدھر تاکتا جھانکتا ضرور رہے گا کیونکہ اس کی اسے عادت پڑ چکی ہوتی ہے۔ محبت بھی ایک قسم کی عادت ہی ہے اور جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہے تو خواہ وہ کیسی ہی کیفیات میں سے گزرے ہیرا پھیری سے وہ نہیں جاتا۔ چنانچہ دیکھ لو رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے اگر تم کسی دن تہجد نہ پڑھ سکو تو اشراق ہی پڑھ لو۔ یہ وہی ہیرا پھیری والی بات ہے یعنی محبت کے اظہار کا ایک دوسرا ذریعہ نکال لیا گیا ہے۔ اگرکسی وقت کسی وجہ سے مومن محبت کا پورا اظہار نہیں کر سکتا تو وہ اس کے لئے اظہار کا کوئی اَور موقع کسی اور صورت سے نکال لیتا ہے۔ اسی طرح مومن کو دعاوٴں کی عادت پڑ جاتی ہے۔ تو اس کے دل میں یہ تڑپ رہتی ہے کہ کسی نہ کسی بہانے سے خدا تعالیٰ سے بات کرے اور اس کے لئے وہ دعاوٴں کے بہانے تلاش کرتا رہتا ہے ۔ بعض دفعہ تو اسے کوئی حقیقی احتیاج ہوتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہو کر دعا کرنے لگتا ہے کہ یا اللہ میری فلاں ضرورت کو پورا کر دے۔ اب اس کا یَا اَللّٰہ کہنا اپنے محبوب سے باتیں کرنا ہی ہے اور یہ ایسی ہی بات ہے جیسے چور چوری کرنے جاتا ہے مگر کبھی ایک مومن کو حقیقی ضرورت کوئی نہیں ہوتی تو اس وقت وہ اپنے لئے احتیاج تلاش کرتا ہے اور معمولی معمولی باتوں کے لئے دعاوٴں میں مشغول ہو جاتا ہے اور اپنے رب سے باتیں کرنے کا بہانہ نکال لیتا ہے۔ یہ عاشق کی ہیرا پھیری ہوتی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ کوئی غرض ہو یا نہ ہو، ضرورت ہو یا نہ ہو کسی طرح اپنے محبوب سے باتیں کر لوں۔ یہی محبت کا اصل مقام ہوتا ہے اور اسی محبت کے نتیجہ میں انسان کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔
رسول کریم ﷺ کے زمانہ کا ایک نہایت ہی دردناک واقعہ ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ سچی محبت رکھنے والا انسان کس طرح بہانے تلاش کر کر کے اپنے جذباتِ محبت کی تسکین کا سامان مہیا کرتا ہے۔
رسول کریم ﷺ کو اپنی عمر کے آخری ایام میں بار بار الہام ہونے شروع ہوئے کہ اب آپ کا زمانہٴ وفات نزدیک ہے۔ آپ نے مسجد میں تمام صحابہؓ کو جمع کیا اور ان کے سامنے ایک تقریر کی۔ آپ نے فرمایا اے لوگو! خدا تعالیٰ کا ایک نیک بندہ تھا اسے خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ اختیار دیا گیا کہ اگر وہ چاہے تو دنیا میں رہنا پسند کرے اور اگر چاہے تو خدا تعالیٰ کے پاس جانا پسند کر لے۔ اس نے دنیا میں رہنا پسند نہ کیا بلکہ یہی چاہا کہ وہ اپنے خدا کے پاس چلا جائے۔ لوگوں نے جب یہ بات سنی توانہوں نے خیال کیا کہ رسول کریم ﷺ اپنے وعظ میں کسی خدا کے بندے کی ایک مثال بیان فرما رہے ہیں مگر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جب اس بات کو سنا تو وہ رو پڑے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پاس ہی بیٹھے ہوئے تھے وہ کہتے ہیں مَیں نے حضرت ابو بکرؓ کو جب روتے ہوئے دیکھا تو مَیں نے کہا اس بڈھے کی مت ماری گئی ہے۔ رسول کریم ﷺ تو ایک مثال بیان فرما رہے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ایک بندہ تھا جس سے خدا نے یہ پوچھا کہ تو دنیا میں رہنا پسند کرتا ہے یا ہمارے پاس آنا پسند کرتا ہے اور اس نے خدا کے پاس جانا پسند کر لیا۔ یہ ایک مثال ہے جو آپ نے مومن کی بیان فرمائی ہے۔ ابو بکرؓ کو کیا ہوٴا ہے کہ وہ خوامخواہ رونے لگ گئے ہیں مگر حضرت ابو بکرؓ کے آنسو بند نہ ہوئے۔ وہ اتنا روئے اتنا روئے کہ اور لوگوں نے انہیں تسلی دینی شروع کر دی مگر وہ برابر روتے چلے گئے۔ آخر رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ اے لوگو سنو ہر ایک شخص کا ایک بڑا گہرا اور انتہاء درجہ کا دوست ہوتا ہے اور ابو بکر میرا ویسا ہی دوست ہے ۔ پھر آپ نے فرمایا خدا میرا خلیل ہے۔ اگر خدا کے سوا کسی اور کو خلیل بنانا جائز ہوتا تو مَیں ابو بکر کو بناتا۔ مَیں حکم دیتا ہوں کہ مسجد کی ساری کھڑکیاں بند کر دی جائیں سوائے ابو بکرؓ کی کھڑکی کے۔7
یہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کی ایک پیشگوئی تھی۔ کیونکہ خلیفہ کو نماز پڑھانے کے لئے مسجد میں آنا پڑتا ہے۔ بعد میں رسول کریم ﷺ نے اور کئی باتیں بیان کیں یہاں تک کہ صحابہ پر بھی یہ بات منکشف ہو گئی کہ رسول کرم ﷺ کی اب جلد وفات ہونے والی ہے اسی دوران میں چند دنوں کے بعد آپ بیمار ہو گئے۔ ایک دن آپ باہر تشریف لائے مجلس میں بیٹھے اور صحابہ سے فرمایا کہ اب میری موت قریب ہے، مَیں نہیں چاہتا کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے مَیں مجرم کی حیثیت میں پیش ہوں۔ مجھے ہمیشہ تم سے معاملات پیش آتے رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ کسی معاملہ میں مجھ سے غلطی ہو گئی ہو اور میرے ہاتھ سے تم میں سے کسی کو اذیت پہنچی ہو۔ اگر تم میں کوئی شخص ایسا ہے جو سمجھتا ہے کہ میں نے اس کا حق مارا ہے تو وہ آج مجھ سے اس کا بدلہ لے لے۔ صحابہؓ کو رسول کریم ﷺ سے جو عشق تھا۔ اسے دیکھتے ہوئے تمہاری سمجھ میں آ سکتا ہے کہ یہ فقرہ سن کر ان کی کیا حالت ہوئی ہو گی۔ جس طرح ذبح کیا ہوا مرغ تڑپتا ہے اسی طرح وہ بے تاب ہو کر رونے لگ گئے۔ مگر ایک شخص کھڑا ہوٴا اورکہنے لگا یَا رَسُولَ اللہ! مجھے آپ سے ایک تکلیف پہنچ چکی ہے اور چونکہ آپ نے اس وقت فرمایا ہے کہ اگر کسی کو مجھ سے کوئی تکلیف پہنچی ہو تو وہ اس کا بدلہ لے لے اس لئے مَیں اپنی تکلیف کا بدلہ لینا چاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا تمہیں مجھ سے کیا تکلیف پہنچی ہے۔ اس نے کہا یا رسول اللہ فلاں جنگ کے موقع پر آپ صف بندی کرا رہے تھے کہ آپ کو ایک صف میں سے گزر کر آگے جانے کی ضرورت پیش آئی۔ اُس وقت جب آپ صف کو چیر کر آگے گئے تو آپ کی کُہنی مجھے لگی تھی۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا بہت اچھا تم بھی مجھے اس جگہ کُہنی مار لو۔ اس نے کہا یا رسول اللہ جس وقت مجھے آپ کی کہنی لگی تھی۔ اس وقت میرا جسم ننگا تھا اور آپ نے اس وقت کرتہ پہنا ہوٴا ہے۔ اس وقت صحابہؓ کی یہ کیفیت تھی کہ ان کی آنکھوں میں سے خون ٹپکنے لگا اور اگر انہیں رسول کریم ﷺ کا خوف نہ ہوتا تو ہر شخص اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا۔ مگر رسول کریم ﷺ نے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ اپنی پیٹھ سے کرتہ اونچا کر دیا اور فرمایا لو اب کُہنی مار لو۔ وہ شخص آگے بڑھا اس کی آنکھوں میں آنسو تھے اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے اور اس کا دل دھڑک رہا تھا۔ پھر وہ نیچے جھکا اور اس نے محبت سے رسول کریم ﷺ کی پیٹھ پر ایک بوسہ دیااور کہنے لگا یَا رَسُوْلَ اللہ! اس کُہنی لگنے کے واقعہ کو تو مَیں نے محض ایک بہانہ بنایا ہے ور نہ بدلہ کیسا۔ مَیں نے سوچا کہ اب جبکہ آپ کی وفات کا وقت قریب ہے۔ مَیں آخری دفعہ آپ کا بوسہ تو لے لوں۔ پھر وہی صحابہؓ جو اسے غصہ کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے رشک کی نظروں سے دیکھنے لگ گئے اور انہوں نے چاہا کہ کاش! ہمیں بھی کہنی لگی ہوتی اورہم بھی رسول کریم ﷺ کے بابرکت جسم کا بوسہ لے سکتے۔8
اب دیکھو یہ ایک بہانہ تھا جو اس نے بنایا اور اسی کو عاشق کی ہیرا پھیری کہتے ہیں۔ یہ تو نہیں کہ اس کے دل میں رسول کریم ﷺ سے بدلہ لینے کا خیال تھا یا رسول کریم ﷺ نے اسے نَعُوْذُ بِاللہِ عمداً مارا تھا۔ بدلہ تو اس فعل کا لیا جاتا ہے جو عمداً دوسرے کو نقصان پہنچانے کے لئے سرزد ہو۔ پس نہ رسول کریم ﷺ نے اس کو کوئی نقصان پہنچایا تھا اور نہ اس صحابی کا مقصد یہ تھا کہ وہ رسول کریم ﷺ سے بدلہ لے۔ یہ محض اس نے ایک بہانہ بنایا کہ جب رسول کریم ﷺ کہتے ہیں بدلہ لے لو۔ تو کیوں نہ مَیں بھی اسی ذریعہ سے اپنی محبت کے جذبات کا اظہار کر دوں۔ تو جس جگہ محبت ہوتی ہے وہاں بیسیوں تجاویز ذہن میں آ جاتی ہیں اور انسان اپنے محبوب کے پاس جانے اور اس سے باتیں کرنے کے لئے کئی قسم کے مواقع پیدا کر لیتاہے۔ پس مومن دعاوٴں میں کبھی کوتاہی نہیں کرتا بلکہ اس محبت کی وجہ سے جو اسے خدا تعالیٰ سے ہوتی ہے وہ خدا تعالیٰ کے پاس جانے اور اس سے باتیں کرنے کے لئے ہر وقت بہانے تلاش کرتا رہتا ہے۔ مومن خود بیمار ہو یا اس کا کوئی اَور عزیز بیمار ہو تو وہ دعا کرتا ہے۔ مالی مشکلات ہوں تو دعا کرتا ہے اسی طرح کوئی اور تکلیف پیش آئے تو وہ دعا کرتا ہے لیکن اس کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح خدا تعالیٰ سے باتیں ہوتی رہیں۔ بچوں کو ہی دیکھ لو ۔ ماں تھوڑی دیر ان کی طرف توجہ نہ کرے تو وہ منہ بسورنے لگ جاتے ہیں اور کہتے ہیں ہمیں بھوک لگ گئی ہے۔ہمیں یہ چاہئے ہمیں وہ چاہئے اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ ماں اپنی گود میں اٹھا لے۔ پس جسے سچا عشق ہوتا ہے وہ ایسا ہی کرتا ہے اور وہ اپنے محبوب کی ملاقات کے لئے بہانے تلاش کرتا ہے۔ محبت بھی ایک بیماری ہے جو علاج چاہتی ہے اور وہ بھی ایک زخم ہے جو مرہم چاہتا ہے۔ اسی لئے انسان کبھی بیمار بن کر خدا کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے یا اللہ فضل کر اور کبھی اگر جسمانی طور پر وہ بیمار نہ ہو تو اپنی روحانی تکالیف اس کے سامنے پیش کرتا ہے اور اس طرح ہر وقت اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر گرا رہتا ہے۔
غرض مومن بجائے اس کے کہ دعاوٴں کی طرف سے مُنہ پھیرے، بہانے بنا بنا کر اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتا اورہمیشہ اس کے دروازہ کو کھٹکھٹاتا رہتا ہے۔ پس دوستوں کو ان ایام سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہئے۔
ڈلہوزی کے واقعہ کے متعلق حکومت کا جواب: اس کے بعد مَیں اُس واقعہ کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جسے پچھلے خطبہٴ جمعہ میں مَیں نے بیان کیا تھا۔ دوستوں کی طرف سے اس بارہ میں کثرت کے ساتھ خطوط اور تاریں آئی ہیں اور بعض نے اپنی خدمات بھی پیش کی ہیں۔ مَیں دوستوں کو بتا چکا ہوں کہ اس معاملہ میں اول او رمقدم بات مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ ہماری طرف سے کوئی ایسی بات نہ ہو جو جنگ کی مساعی میں حرج پیدا کرنے والی ہو۔ پھر مَیں اس بات کی بھی کوئی وجہ نہیں دیکھتا کہ کسی رنگ میں جلد بازی سے کام لیا جائے۔ جیسا کہ مَیں اخبار میں شائع کرا چکا ہوں۔ گورنمنٹ کی طرف سے جواب یہ آیا ہے کہ اس معاملہ کی ڈپٹی کمشنر صاحب تحقیقات کر رہے ہیں۔ گو مَیں یہ نہیں سمجھ سکا کہ بغیر اس کے کہ ہم سے گواہ طلب کئے جائیں اور بغیر اس کے کہ ہمارے دلائل معلوم کئے جائیں ان کی تحقیقات کے معنے ہی کیا ہیں۔ اگر تو تحقیقات کے صرف اتنے معنے ہیں کہ انہوں نے پولیس والوں سے پوچھ لینا ہے کہ کیا معاملہ ہوٴا تو یہ تحقیقات نہیں کہلا سکتی کیونکہ پولیس کی طرف سے اس بارہ میں جھوٹی رپورٹ پہلے ہی موجود ہے۔ تحقیقات کا طریق یہ تھا کہ وہ ہم سے گواہ طلب کرتے، ہمارے دلائل معلوم کرتے اور پھر فیصلہ کرتے کہ شرارت کس کی ہے۔ ہمارے پاس خدا تعالیٰ کے فضل سے گواہ موجود ہیں بلکہ خود گورنمنٹ کے بعض افسر اس بارہ میں گواہ ہیں۔ مگر ڈپٹی کمشنر صاحب کو ان کا کیا پتہ لگ سکتا ہے جب تک ہم نہ بتائیں۔ پس مَیں نہیں سمجھ سکا کہ وہ کیا تحقیق کر رہے ہیں اگر ان کی تحقیق اسی رنگ کی ہوئی تو پھر ان کی تحقیقات کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ مگر پھر بھی کوئی وجہ نہیں کہ ہم جلدی کریں۔ مَیں سمجھتا ہوں جو شخص جلدی جوش میں آ جاتا ہے وہ مستقل مزاج اور قابل اعتبار نہیں ہوتا۔ کام کے قابل وہی شخص ہوتا ہے جسے ایک دفعہ جب علم ہو جائے کہ فلاں بات کرنی ضروری ہے تو اگر بیس سال کے بعد بھی اسے وہ بات کرنے کے لئے کہا جائے تو اس کے دل میں ویسا ہی جوش موجود ہو جیسا بیس سال پہلے موجود تھا۔ چنانچہ دیکھ لو۔ صحابہؓ نے کس طرح مکی زندگی میں مسلسل تیرہ سال تکالیف برداشت کیں۔ مگر اس تیرہ سال کے لمبے عرصہ میں ان کے سینے ٹھنڈے نہیں ہو گئے اور نہ ان کے دلوں کے جوش سرد ہوئے۔ چنانچہ مدینہ میں جانے کے بعد جب ان کو لڑائی کی اجازت ملی تو اس وقت بھی وہ ویسے ہی جوش سے بھرے ہوئے تھے۔ جیسے مکی زندگی میں۔ تو ایمان کی علامت یہ ہوتی ہے کہ مومن کے سینہ کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوتی۔ پس مَیں اس معاملہ میں جماعت کے دوستوں کو یہی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ صبر کریں اور استقلال کے دامن کو کبھی اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ میں نے اپنے دل میں یہ فیصلہ کیا ہؤا ہے کہ سات اکتوبر تک ہم گورنمنٹ کی تحقیق کا انتظار کریں گے اور اس وقت تک ہم کوئی مزید یاد دہانی کسی قسم کی نہیں کرائیں گے۔ سات اکتوبر تک اس واقعہ پر قریباً 25 دن گزر چکے ہوں گے۔ اس کے بعد اگر ضرورت محسوس ہوئی تو یاد دہانی کرائی جائے گی۔ باقی خبریں ہم کو ملتی ہی رہتی ہیں۔ اس لحاظ سے جس حد تک کام گورنمنٹ کی طرف سے ہؤا ہے اور جو کچھ وہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اس کا ایک حد تک ہمیں علم ہے۔ مگر یہ چیزیں اس قسم کی نہیں ہوتیں کہ ان کو بنیاد قرار دے کر مومن کسی امر کا فیصلہ کر دے۔ خدا کہتا ہے کہ ایک شخص اگر گناہ کرنے اور خدا اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے کے باوجود غرغرہٴ موت سے پہلے توبہ کر لے تو میں اس کے گناہ معاف کر دیتا ہوں۔ 9 تو جبکہ خدا کسی بندے کے متعلق اس وقت تک کوئی آخری فیصلہ نہیں کرتا جب تک اس کی جسمانی زندگی ختم نہ ہو جائے تو بندے کس طرح ایسا کر سکتے اور کسی کا فعل مکمل ہونے سے پہلے اسے اچھا یا بُرا کہنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ بلکہ اچھا کہنے میں تو پھر بھی کوئی حرج نہیں لیکن کسی فعل کوبُرا اس وقت تک نہیں کہا جا سکتا جب تک اس فعل کا مرتکب اپنے فعل کو مکمل نہ کر دے۔ مثلاً فرض کرو کوئی شخص کسی دوسرے کو قتل کرنے کی نیت سے جا رہا ہے۔ اب جہاں تک نیت کا سوال ہے۔ ہم کہیں گے کہ وہ بری ہے مگر جہاں تک فعل کا سوال ہے ہم اس بارہ میں اس وقت تک کچھ نہیں کہہ سکتے جب تک وہ اپنے فعل کو مکمل نہیں کر لیتا یا اس فعل سے باز نہیں آ جاتا۔ فرض کرو وہ شخص جاتا تو قتل کی نیت سے ہی ہے مگر دوسرا شخص اسے ملتا نہیں اور وہ واپس گھر آ جاتا ہے تو ہم اسے قاتل نہیں کہیں گے یا اگر وہ تلوار لے کر دوسرے کے سر پر بھی پہنچ جاتا ہے اور پھر قتل کرنے سے پیشتر اپنے ہاتھ کو نیچے گرا دیتا ہے تو اس وقت بھی اسے ہم قاتل نہیں کہیں گے بلکہ اگر وہ تلوار سے دوسرے پر حملہ کر بھی دیتا ہے لیکن حملہ کرتے وقت اس کے دل میں خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو جاتا ہے اور وہ اپنی ضرب کو کمزور کر دیتا ہے تو اس وقت بھی ہم اسے قاتل نہیں کہیں گے کیونکہ ہمارا کوئی حق نہیں کہ کسی کا فعل مکمل ہونے سے پہلے اس کے متعلق کسی آخری فیصلہ کا اظہار کریں۔ ایسا وہی کرتا ہے جو جلد باز ہو اور جو سمجھتا ہو کہ اس وقت تو جوش کی حالت ہے پھر نہ معلوم جوش رہے یا نہ رہے۔ بہتر ہے کہ اسی وقت کام کر لیا جائے۔ مگر ایسے انسان کی مدد یا ہمدردی کوئی فائدہ پہنچانے والی نہیں ہوتی۔
ایک خط اور اس کا جواب: پس اس معاملہ کے متعلق تو مَیں اتنی ہی بات کہتا ہوں۔ ہاں ایک اور معاملہ ہے جو اس کی شاخ کے طور پر پیدا ہوٴا ہے اور مَیں اس کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ وہ معاملہ یہ ہے کہ مجھے کل ایک خط موصول ہوٴا ہے وہ خط ایک ایسے شخص کی طرف سے ہے جو اپنے آپ کو احمدی ظاہر کرتا ہے۔اس خط پر ٹکٹ نہیں بلکہ مقامی ڈاک کے ذریعہ سے ملا ہے جس سے مَیں سمجھتا ہوں کہ کوئی مقامی آدمی اس خط کا لکھنے والا ہے۔ اس خط میں اس نے بجائے اپنا نام لکھنے کے اپنے آپ کو ‘‘مخلص احمدی’’ قرار دیا ہے۔ اس کے احمدی اور پھر مخلص احمدی ہونے کا تو اسی سے پتہ چلتا ہے کہ اس نے اپنا نام ہی نہیں لکھا حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں۔ میں اسی کو مومن قرار دیتا ہوں جو خدا تعالیٰ کے تازہ نشانات پر ایمان رکھتا ہو اور نِفاق کا کوئی شائبہ تک اس کے اندر نہ پایا جاتا ہو 10 مگر اس ‘‘مخلص احمدی’’ کی یہ حالت ہے کہ ڈر کے مارے اس نے اپنا نام تک ظاہر نہیں کیا۔ ایسے شخص کو ہم احمدی بھی کیونکر سمجھ سکتے ہیں کُجا یہ کہ اسے ‘‘مخلص احمدی’’سمجھا جائے۔ پھر یہ تمام خط عجیب و غریب اضداد سے بھرا ہوٴا ہے۔ مجھے لکھتا ہے تم اپنے آپ کو بڑا بہادر کہتے ہو تم بہادر نہیں بلکہ بزدل ہو ۔ مگر لطیفہ یہ ہے کہ مَیں جس نے منبر پر کھڑے ہو کر گورنمنٹ کی غلطی بیان کر دی تھی۔ وہ تو اس کی نگاہ میں بزدل ہوٴ امگر خود اس اعتراض کرنے والے کی یہ حالت ہے کہ ڈر کے مارے اس نے اپنا نام تک نہیں لکھا۔ کہتے ہیں
برعکس نہند نام زنگی کافور
یہی اس شخص کی حالت ہے اگر وہ اپنے متعلق لکھ دیتا کہ مَیں چونکہ منافق ہوں اس لئے اپنا نام ظاہر نہیں کرتا۔ اور پھر میرے متعلق یہ لکھتا ہے کہ تم بزدل ہو تب بھی یہ بات آپس میں کسی قدر جُڑ جاتی۔ گو میرے متعلق بزدلی کا الزام پھر بھی غلط ہوتا کیونکہ مَیں نے گورنمنٹ کی غلطی کو چھپایا نہیں بلکہ علی الاعلان بیان کیا ہے مگر لطیفہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو تو وہ بہادر کہتا ہے پھر احمدی اور مخلص احمدی بننے کا دعویدار ہے اور حالت یہ ہے کہ ایسا بہادر اور مخلص احمدی خط کے نیچے اپنا نام تک لکھنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ مگر میں جس نے منبر پر کھڑے ہو کر تمام باتیں بیان کر دی تھیں اس کے نزدیک بزدل ہوں۔ گویا وہ شخص جو يُوَسْوِسُ فِيْ صُدُوْرِ النَّاسِ11کے مطابق مخفی طور پر وسوسہ اندازی کرے اور گمنام خط لکھے وہ تو مومن اور ”مخلص احمدی“ ہے مگر جو منبر پر کھڑے ہو کر اپنے خیالات کا اظہار کر دے وہ بزدل ہے۔ غرض پہلا لطیفہ تو اس نے یہی کیا مگر اسی ایک لطیفہ پر ہی بس نہیں۔ اس کا تمام خط اضداد سے بھرا ہوٴا ہے۔ پھر بڑے غصہ سے گویا وہ گورنر صاحب کا بڑا جانثار ہے۔ مجھے لکھتا ہے تم گورنر کے متعلق کیا کہتے ہو۔ کیا گورنر تم سے زیادہ شریف نہیں۔ مگر ساتھ ہی اس نے اسی خط پر مجھے لکھا ہے‘‘بخدمت اشرف’’ یعنی مَیں اس خط کے ذریعہ سب سے شریف آدمی کومخاطب کرتا ہوں۔ گویا خط کے اوپر تو مجھے سب سے زیادہ شریف قرار دے دیا اورخط میں یہ لکھا کہ کیا گورنر صاحب تم سے زیادہ شریف نہیں ہیں۔ پھر اس نے اپنے خط میں ناظر امور عامہ کو کوسا ہے اور لکھا ہے کہ سب سے بڑا ظالم جس سے زیادہ ظلم دنیا میں کبھی کسی پولیس نے نہیں کیا۔ زین العابدین ہے جو اپنے آپ کو ولی اللہ بھی کہتا ہے۔ پھر لکھتا ہے پولیس والوں کو کوئی سز املے یا نہ ملے تم نے خطبہ میں یہ بات بیان کر کے اپنے آپ کو ہمیشہ کے لئے ذلیل کر لیا ہے۔ اگر تمہارے اندر عقل ہوتی تو تم اس بات کو چھپاتے مگر تم نے اس بات کو چھپایا نہیں بلکہ خطبہ میں بیان کر دیا ہے اور اس طرح ہمیشہ کے لئے اپنے آپ کو ذلیل کر لیا ہے۔
مَیں ان باتوں میں سے جو بات اس نے ولی اللہ شاہ صاحب کے متعلق لکھی ہے اسے چھوڑتا ہوں کیونکہ اس کا جواب وہی دے سکتے ہیں۔ اس نے کوئی واقعات نہیں لکھے جن سے ان کا ظلم ثابت ہوتا۔ پس میرے لئے بھی ضروری نہیں کہ مَیں اس کا جواب دوں۔ البتہ اس نے ایک بات لکھی ہے کہ دفتر والے خطوں کا جواب نہیں دیتے۔ ممکن ہے غلطی سے کسی خط کا انہوں نے جواب نہ دیا ہو مگر اس قسم کی جب بھی میرے پاس کوئی شکایت آتی ہے۔ مَیں دفتر والوں سے باز پُرس کیا کرتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ خط کا جواب جلد دیا جائے اور جب مَیں دیکھتا ہوں کہ دفتر کی غلطی کی وجہ سے کسی کی بہت دل شِکنی ہوئی ہے۔ تو مَیں اپنے ہاتھ سے اسے خط لکھ کربھیج دیتا ہوں اور ساتھ ہی معذرت کرتا ہوں کہ دفتر کی وجہ سے آپ کو تکلیف ہوئی ہے۔ ممکن ہے ولی اللہ شاہ صاحب کے متعلق بھی اسے کوئی ایسی ہی شکایت ہو مگر بہرحال اس نے چونکہ کوئی واقعہ نہیں لکھا جس سے ان کا ظلم ثابت ہوتا اس لئے اس بارہ میں مَیں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اگر ان کے متعلق کوئی الزام قائم کیا جائے تو پھر میں اس کی تحقیق کرا سکتا ہوں اور جاننے والے جانتے ہیں کہ نظارتوں کو میں ہمیشہ ڈانٹتا رہتا ہوں لیکن پھر بھی اگر معیّن رنگ میں ان پر کوئی الزام قائم کیا جائے تو جیسا الزام ہو گا اس کے متعلق ویسی ہی تحقیق کرنے کے لئے تیار ہوں۔ مگر چونکہ اس نے کوئی واقعہ نہیں لکھا اس لئے اس بارہ میں مَیں کچھ نہیں کہتا۔ اگر وہ کوئی واقعات لکھے تو ان کے متعلق ولی اللہ شاہ صاحب ہی جواب دے سکتے ہیں۔ میں صرف دو باتیں لے لیتا ہوں اور انہی کا اس خطبہ کے ذریعہ جواب دیتا ہوں۔ اس نے لکھا ہے کہ :
اول: تم نے خطبہ میں یہ باتیں بیان کر کے اپنے آپ کو ذلیل کر لیا۔
دوم: کیا گورنر تم سے زیادہ شریف نہیں۔
پہلی بات جو ہے کہ خطبہ میں اس واقعہ کو بیان کر کے مَیں نے اپنے آپ کو ذلیل کر لیا۔ یہ درحقیقت اس نے اپنے اوپر قیاس کر لیا ہے۔ دنیا میں دو قسم کے گروہ ہوتے ہیں۔ ایک گروہ تو وہ ہوتا ہے جس کی انسان بے عزتی کر سکتے ہیں۔ مگر دوسری قسم کا گروہ وہ ہوتا ہے جس کی انسان بے عزتی نہیں کر سکتے بلکہ اپنے خیال میں لوگ اس کی جتنی زیادہ بے عزتی کرتے ہیں اُتنی ہی زیادہ اِس کی عزت بڑھتی ہے۔
اس ‘‘مخلص احمدی’’ کو (ہمیں ایک شخص کے متعلق شبہ ہے کہ اس نے یہ خط لکھا ہے اور جمعہ سے پہلے مَیں نے ایک شخص کو وہ خط دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ اس بارہ میں تحقیق کر کے خطبہ سے پہلے مجھے اطلاع دے۔ مگر وہ خط لے کر ہی غائب ہو گیا ۔ اب وہ بے چارا اپنی تحقیق مکمل کر کے اس وقت آئے گا جب خطبہ ختم ہو جائے گا۔ حالانکہ مَیں نے اسے کہہ دیا تھا کہ اگر پتہ نہ لگے تب بھی جمعہ سے پہلے مجھے خط واپس کر دیا جائے۔ مگر خیر اس خط کو چونکہ مَیں نے دو دفعہ پڑھا ہے اس لئے اس کا مضمون مجھے اچھی طرح یاد ہے٭) مَیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہر ایک نقطہٴ نگاہ سے عزت کا معیار الگ ہوتا ہے جس گروہ میں وہ شامل ہوتا ہے اس گروہ میں اگر اس کی عزت ہو تو دوسرے کے نزدیک یہ ذلّت ہوتی ہے اور اگر وہاں اس کی بے عزتی ہو تو دوسرے کے نزدیک یہ عزت ہوتی ہے۔ مثلاً یہی جنگ جو اِس وقت جاری ہے۔ اس میں جو انگریز جرنیل فاتح ہوتا ہے اس کی عزت انگریزوں کے دلوں میں بہت بڑھ جاتی ہے مگر جرمن اور اٹلی والوں کے نزدیک وہ بڑا مغضوب
٭ خطبہ کے بعد تحقیق ہو گئی ہے کہ جس شخص کے متعلق مجھے شبہ تھا وہی خط لکھنے والا تھا اور اب اس نے اقرار بھی کر لیا ہے مگر اس بارہ میں مَیں الگ اعلان کروں گا۔
ہوتا ہے اور اس کو وہ گالیاں دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں جرنیل بڑا خبیث ہے اس نے یہ ظلم کئے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں جرمنوں میں سے جو جرنیل بہادری دکھلاتا اور انگریزوں اور ان کے ساتھیوں کو کسی مقام پر شکست دیتا ہے وہ جرمنوں میں عزت پا جاتا ہے مگر انگریزوں کی نگاہ میں ذلیل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح روس میں جہاں جہاں جرمن فوجیں پہنچی ہیں وہاں جرمنوں کے نزدیک وہ جرنیل جو شہروں کو تباہ کر رہے ، عمارتوں کو گرا رہے، آبادیوں کو ویران کر رہے اور بڑی بڑی توپوں اور گولوں اور بموں سے ہر جگہ آگ لگاتے جا رہے ہیں وہ بہت بڑی عزت کے مالک ہیں مگر روسیوں کے نزدیک وہ لوگ جو تباہ ہو رہے ہیں جو جرمنوں کی گولیاں کھا رہے ہیں جن کی لاشوں کے میدانوں اور شہروں میں ڈھیر پڑے ہوئے ہیں وہ عزت کے مستحق ہیں۔ تو عزت اور بے عزتی کسی گروہ سے تعلق رکھنے یا نہ رکھنے کے لحاظ سے ہوتی ہے اورہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک گروہ کے نزدیک ایک چیز ذلت کا موجب ہوتی ہے مگر دوسرے کے نزدیک وہی چیز عزت کا موجب ہوتی ہے ۔ یہی شروع سے دنیا کا حال چلا آیاہے۔ حضرت آدم علیہ السلام آئے تو شیطان نے انہیں اپنے گھر سے نکلوا دیا اور بڑی بڑی تکلیفیں دیں اور شیطان نے سمجھا کہ اس طرح میری بڑی عزت ہو گی اور آدم ذلیل ہو گا مگر آدم جس گروہ میں سے تھا اس میں اس کی عزت ان تکلیفوں سے اَور بھی بڑھ گئی۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ چونکہ آدم نے عزم سے بدی نہیں کی تھی اور چونکہ اسے شیطان کی طرف سے تکلیف پہنچی اس لئے ہم نے اسے بڑی عزت دی۔12 پھر نوح علیہ السلام آئے تو انہیں بھی لوگوں نے بڑے بڑے دکھ دئیے انہیں جھوٹا بھی کہا، انہیں گالیاں بھی دیں، انہیں بُرا بھلا بھی کہا اور لوگوں کے نزدیک ان کی بڑی ذلت ہوئی۔وہ جب دیکھتے کہ نوح کو گالیاں پڑ رہی ہیں، انہیں کافر اور کذّاب کہا جا رہا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ خدا ایسا دن کسی کو نہ دکھائے یہ توبہت ذلیل ہؤا ہے مگر نوح علیہ السلام کی یہ حالت تھی کہ ہر پتھر جو اُن پر پڑتا، ہر گالی جو انہیں دی جاتی اسے وہ بڑی خوشی سے قبول کرتے اور کہتے اللہ اللہ خدا یہ دن ہمیں اَوربھی دکھائے۔ پھر ابراہیم علیہ السلام آئے۔ انہیں دشمنوں نے گالیاں بھی دیں، انہیں جھوٹا بھی کہا، انہیں مارا پیٹا بھی گیا بلکہ دشمنوں نے انہیں گھسیٹ کر آگ میں ڈال دیا۔ 13 اب اس وقت کے دیکھنے والے یہی کہتے ہوں گے کہ کیا ہی وہ بری ماں تھی جس نے ایسا بچہ جنا اور کیسا ہی وہ بدقسمت باپ تھا جس کے ہاں ایسا لڑکا پیدا ہوٴا۔ ہمارے گھر کے دروازہ پر تو صرف آرمڈ پولیس چند گھنٹے کھڑی رہی تھی مگر وہاں تو دشمنوں نے گھسیٹ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈال دیا تھا۔ اب بتاوٴ کیا وہاں زیادہ ذلّت ہوئی تھی یا میری زیادہ ذلت ہوئی ہے۔ یہ نصیحت کرنے والا مجھے لکھتا ہے کہ تم نے کتنی بڑی بیوقوفی کی کہ منبر پر کھڑے ہو کر اس واقعہ کو بیان کر دیا اور وہ نادان یہ نہیں دیکھتا کہ میں نے تو صرف منبر پر کھڑے ہو کر اسے بیان کیا تھا مگر ابراہیمؑ کے واقعہ کو خدا تعالیٰ نے عرش پربیان کیا ہے۔ پس وہی فعل جو نمرود14 اور اس کے ساتھیوں کے نزدیک ذلت کا موجب تھا خدا کے نزدیک ابراہیمؑ کی عزت کا باعث تھا۔ اسی لئے خدا نے عرش پر اس کا ذکر کیا اور کہا کہ دنیا کی نگاہ میں بے شک ابراہیمؑ ذلیل ہوٴا مگر ہماری نگاہ میں وہ ذلیل نہیں ہوٴا بلکہ پہلے سے کئی گنا زیادہ اس کی عزت ہمارے ہاں بڑھ گئی ہے اور اصل عزت وہی ہوتی ہے جو خدا اور رسول اور مومنوں کی نگاہ میں کسی کو حاصل ہو۔ پس جب ابراہیمؑ کو دنیا میں گالیاں دی گئیں تو خدا تعالیٰ کے نزدیک ابراہیم کی عزت اور بھی بڑھ گئی اور یہاں عرش پر ابراہیمؑ کا پہلے نام لکھا تھا۔ خدا نے اس نام کو مٹا کر فرشتوں سے کہا کہ ابراہیم کا نام اور اوپر لکھو۔ پھر جب انہیں گھسیٹ کر آگ میں ڈالا گیا تو خدا تعالیٰ نے اپنے فرشتوں سے پھر کہا کہ یہاں سے بھی ابراہیمؑ کا نام مٹاوٴ اور اوپر لکھو۔ پس منبر پر اس واقعہ کو بیان کرنے سے میری کہاں ذلت ہوئی۔ جب خدا نے ابراہیمؑ کے واقعات کو عرش پر بیان کیا بلکہ قرآن میں ان کا ذکر کیا ہے اوربتایا ہے کہ انہیں یہ یہ ماریں پڑی تھیں اوریہ یہ گالیاں دی گئی تھیں۔
پھر موسیٰ علیہ السلام آئے اُس وقت کیا کیا طعنے تھے جو فرعون15 نے انہیں دئیے۔ اور کس طرح اس نے آپ کو اپنی طرف سے ذلیل کیا۔ قرآن میں لکھا ہے فرعون نے انہیں طعنے دئیے اور کہا کہ تُو ہماری روٹی کھاتا رہا، ہمارے دئیے ہوئے کپڑے پہنتا رہا، ہم نے تجھے پالا پوسا اور بڑا کیا اب تُو ہمارا ہی نمک خوار ہو کر ہمارے سامنے باتیں کرتا ہے۔کتنی تذلیل ہے جو دنیا کی نگاہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ہوئی کہ جس کے گھر وہ پلے تھے، جس کے مکان میں وہ رہے تھے، جس کے دئیے ہوئے کپڑوں کو وہ پہنتے رہے تھے اور جس کی دی ہوئی روٹی وہ کھاتے رہے تھے وہی انہیں کہتا ہے کہ کیا تجھے شرم نہیں آتی۔ اب تُو ہمارے سامنے ہی باتیں کرتا ہے مگر پھر خدا نے ان باتوں کو چھپایا تو نہیں بلکہ اس نے مزے لے لے کر عرش پر ان کو بیان کیا اور اپنے فرشتوں میں ان کا ذکر کیا۔ کیا اس لئے کہ موسیٰ کی بے عزتی ہو یا اس لئے کہ فرعون کی گالیاں موسیٰؑ کی عزت کا موجب تھیں۔ یقیناً خدا نے اسے عرش پر ان باتوں کو اسی لئے بیان کیا کہ فرعون کی گالیوں میں خدا تعالیٰ کے نزدیک موسیٰؑ کی ذلت نہیں بلکہ عزت تھی کیونکہ موسیٰؑ فرعون کی بادشاہت میں نہیں رہتے تھے بلکہ خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں رہتے تھے۔ فرعون جس قدر موسیٰؑ کی تذلیل کی کوشش کرتا اسی قدر موسیٰؑ کی عزت بڑھتی اور خدا تعالیٰ خوش ہوتا۔ اسی لئے مومنوں کو حکم دیا گیا کہ وہ ان باتوں کو بار بار بیان کریں چنانچہ اب رمضان میں جب تم قرآن کریم کی تلاوت کرو گے تو اس میں بار بار یہی باتیں آئیں گی کہ فرعون نے موسیٰؑ کو یوں گالیاں دیں اور یوں بُرا بھلا کہا۔ اسی طرح تم نمازوں میں ان آیات کو بار بار پڑھو گے مگر اس لئے نہیں کہ موسیٰؑ کی بے عزتی ہو بلکہ اس لئے کہ موسیٰؑ کی عزت بڑھے کیونکہ دشمنوں کی گالیاں گو دنیا کی نگاہ میں ذلت کا موجب ہوں مگر خدا تعالیٰ کے نزدیک عزت کا موجب ہوتی ہیں۔
پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئے۔ ان کی کتاب انجیل کو پڑھنے والے جانتے ہیں کہ یہودیوں نے ان کے مُنہ پر تھوکا۔16 اُن کے سر پر کانٹوں کا تاج بنا کر رکھا۔17 انہیں گالیاں دیں۔ انہیں مارا پیٹا گیا 18 اور پھر صلیب پر اُنہیں لٹکا دیا۔ میرا خطبہ تو کہاں تک شائع ہو گا۔ انجیل وہ کتاب ہے جو ہر سال دس کروڑ کی تعداد میں شائع ہوتی ہے۔ اب اللہ ہی جانتا ہے کہ ِاس وقت تک کتنے ارب دفعہ یہ واقعات دنیا کے سامنے بیان ہو چکے ہیں کہ لوگوں نے حضرت عیسیٰؑ کے منہ پر تُھوکا، ان کے سر پر کانٹوں کا تاج بنا کر رکھا، ان کے جسم میں برچھیاں ماریں یہاں تک کہ خدا تعالیٰ نے یہودیوں کے اس جھوٹے الزام کو بھی نہیں چھپایا کہ عیسیٰؑ کی ماں (نعوذ باللہ) فاسقہ، فاجرہ اور بدکار تھی اور حضرت عیسیٰؑ کی ولادت ناجائز تھی۔
پھر رسول کریم ﷺ آئے تو آپ کو بھی دشمنوں نے بڑی بڑی تکلیفیں دیں۔ ایک دفعہ ایک کافر نے آپ کے گلے میں پٹکا ڈال کر اس زور کے ساتھ کھینچا کہ آپ کی آنکھیں سرخ ہو گئیں اور آپ کا دم رکنے لگا۔19 ایک دفعہ آپ سجدہ میں تھے کہ کفار نے آپ پر غلاظت ڈال دی20مگر ان واقعات کو نہ رسول کریم ﷺ نے چھپایا اورنہ مسلمانوں نے بلکہ انہوں نے ان واقعات کو بیان کیا اور بار بار بیان کیا یہاں تک کہ بخاری اور مسلم اور حدیث کی دوسری کتابوں میں مسلمانوں نے ان باتوں کو نقل کیا اور لوگ ہمیشہ انہیں پڑھتے رہتے ہیں۔ پھر قرآن نے بھی ان باتوں کو چھپایا نہیں بلکہ وہ بھی بار بار کہتا ہے کہ یہ کافر تجھے ساحر کہتے ہیں، تجھے کذّاب کہتے ہیں، تجھے متفنّی کہتے ہیں، تجھے مفتری کہتے ہیں۔ کیا دشمنوں کی یہ ذلیل حرکات زیادہ ہیں یا وہ واقعات زیادہ سخت ہیں جو میرے ساتھ پیش آئے۔ مَیں نے تو صرف یہ بیان کیا تھا کہ ایک موقع پر ان سپاہیوں نے مجھے کہا کہ ‘‘انہاں دا کی اعتبار ہے جو چاہن گل بنا لین’’ یعنی ان کا کیا اعتبا ر ہے جو جی چاہے گا ہمارے خلاف بات بنا لیں گے مگر قرآن تو اس سے بہت زیادہ سخت کفار کے الفاظ نقل کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ ان کفار نے کہا کہ رسول کریم ﷺ (نعوذ باللہ) کذّاب ہیں، مفتری ہیں، فریبی ہیں، ساحر ہیں۔ اب کیا یہ عجیب بات نہیں کہ اس ایک فقرہ سے تو ہماری ہتک ہو گئی مگر محمد ﷺ کو مفتری اور کذاب کہے جانے سے ان کی ہتک نہ ہوئی۔ بلکہ خدا نے ان کو اپنی آخری کتاب میں جو قیامت تک بار بار پڑھی جانے والی ہے نقل کر دیا اور اس طرح ان گالیوں کو چھپایا نہیں بلکہ سب کے سامنے ان کو رکھ دیا۔ پس اس ‘‘مخلص احمدی’’ کو یاد رہے کہ ہمارا قبیلہ بڑا سخت جان ہے۔ ہمیں گالیاں تریاق ہو کر لگا کرتی ہیں۔ البتہ جس خاندان کا وہ آدمی ہے اسے گالیاں بہت بُری معلوم ہوتی ہیں۔ چنانچہ یہ گالیاں ابو جہل اور یزید وغیرہ کو تو بُرا لگا کرتی تھیں مگر محمد ﷺ اور آپ کے صحابہ کو بُری نہیں لگتی تھیں۔ بس ہمار اخاندان ان گالیوں کو چھپاتا نہیں اورنہ ہی اسے بُری لگتی ہیں بلکہ ہمیں جتنی زیادہ گالیاں دی جائیں اتنی ہی زیادہ خدا تعالیٰ کے حضور ہماری عزت بڑھتی اور اس کے رجسٹر میں ہمارا نام زیادہ اعزاز کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔ ہتک اس کی ہے جو ہمارے ساتھ ٹکراتا ہے اورذلت اس کی ہے جو ہمارے مقابلہ میں بدگوئی اختیار کرتا ہے۔ پس اس میں ہماری ہتک کا کوئی سوال نہیں البتہ وہ شخص جو ہمارے ساتھ ٹکرائے گا وہ اپنی ہتک آپ کرے گا ورنہ ہماری تو دنیا کے سارے بادشاہ مل کر بھی ہتک نہیں کر سکتے۔ جس طرح ربڑ کا گیند جب زمین پر پھینکا جاتا ہے تو وہ اور زیادہ اچھلتا ہے اسی طرح خدا تعالیٰ کے بندوں کو جب برا بھلا کہا جاتا ہے تو ان کی عزت پہلے سے بڑھ جاتی ہے اور اگر ان کی کوئی ہتک کرنا چاہے تو نہیں کر سکتا۔ چنانچہ دیکھ لو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی لوگوں نے اپنے خیال میں جو ہتک کی اسے خدا نے ہتک قرار نہیں دیا ۔ اگر ہتک قرار دیتا تو قرآن کریم میں ان واقعات کا ذکر کیوں کرتا۔ اسی طرح حضرت ابراہیمؑ، حضرت عیسیٰؑ اور رسول کریم ﷺ کی جنہوں نے اپنے خیال میں ہتک کی اسے خدا نے ہتک نہیں سمجھا حالانکہ اس واقعہ سے بیسیوں گُنا زیادہ ذلّت پہنچانے کی وہاں کوشش کی گئی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہی دیکھ لو آپ پر پتھر بھی پڑے ، آپ کو گالیاں بھی دی گئیں، آپ کے خلاف بد زبانی بھی کی گئی، آپ کے خلاف مقدمات بھی کئے گئے اور آپ کے خلاف بڑے بڑے اشتہار ، رسائل اور کتابیں بھی لکھی گئیں۔ مگر آپ نے ان باتوں کو چھپایا نہیں بلکہ سب باتیں اپنی کتابوں میں بیان کر دیں یہانتک کہ آپ نے ”کتاب البریہ“ میں وہ تمام گالیاں بھی جمع کر دیں جو رسول کریم ﷺ کو ہندووٴں، عیسائیوں اور سکھوں کی طرف سے دی گئی تھیں۔ اسی طرح آپ نے ان گالیوں کو بھی جمع کر دیا جو ہندووٴں عیسائیوں اور عام مسلمانوں کی طرف سے آپ کو دی گئی تھیں۔ اس وقت اسی قسم کے بعض ‘‘مخلص’’ غیر احمدیوں نے آپ پر کفر کا فتویٰ لگا دیا محض اس بناء پر کہ حضرت مرزا صاحب نے عیسائیوں ہندووٴں اور سکھوں کی ان گالیوں کو نقل کیوں کیا جو رسول کریم ﷺ کو دی گئی تھیں۔ انہیں تو چاہئے تھا کہ ان گالیوں کو چھپاتے ۔ ان نادانوں نے یہ نہ سمجھا کہ رسول کریم ﷺ کے متعلق مخالفین کی گالیاں جمع کرنے سے آپ کی عزت بڑھتی ہے گھٹتی نہیں کیونکہ عزت وہی ہے جو خدا کی طرف سے ملے۔ مجھ سے کئی دفعہ انگریز افسروں نے خواہش کی ہے کہ اگر آپ پسند کریں تو حکومت سے آپ کو کوئی خطاب دلوا دیا جائے۔ مگر مَیں نے ہمیشہ انہیں یہی کہا ہے کہ مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے خطاب ملا ہوٴا ہے۔ وہی میرے لئے کافی ہے۔اس کے سوا مجھے کسی خطاب کی ضرورت نہیں۔ اگر مَیں گورنمنٹ کے خطابات کو اپنے لئے عزت کا موجب سمجھتا تو اس قسم کی پیشکش کو کیوں ٹھکرا دیتا۔ میرا ایسا کرنا بتلاتا ہے کہ مَیں گورنمنٹ کی دی ہوئی کسی عزت کو اپنے لئے عزت نہیں سمجھتا بلکہ مَیں تو سمجھتا ہوں جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے۔ تُرک حرمین کے محافظ نہیں بلکہ حرمین ترکوں کے محافظ ہیں۔ اسی طرح خدا تعالیٰ نے گو ظاہر میں جماعت احمدیہ کی حفاظت کا کام انگریزوں کے سپرد کیا ہؤا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم اس کے محافظ ہیں اور ہماری خاطر ہی خدا تعالیٰ ان سے نرمی کا معاملہ کر رہا ہے۔ مگر کہتے ہیں ع
فکر ہر کس بقدر ہمت اوست
ہر شخص کی ہمت اور استعداد کے مطابق اس کے فکر کی بلندی ہوتی ہے۔ یہ نادان بھی سمجھتا ہے کہ انگریزوں کی پولیس چونکہ اس دن ہماری کوٹھی میں گُھس آئی تھی اور کئی گھنٹے تک ہمارے دروازہ پر کھڑی رہی۔ اس لئے اس واقعہ سے ہماری ہتک ہو گئی حالانکہ ہماری ہتک صرف خدا تعالیٰ کی ناراضگی سے ہوتی ہے اَورکسی چیز سے نہیں ہوتی بلکہ اس قسم کے واقعات سے ہماری عزت خدا تعالیٰ کے حضور بڑھتی ہے۔ پھر اگر یہ ہتک ہے تو ہم سے بڑھ کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہتک ہوئی ہے کیونکہ ان کے ہاتھوں اور پاوٴں میں کیل گاڑے گئے تھے اور انہیں بھی دشمنوں نے صلیب پر لٹکا دیا تھا۔ مگر پھر خدا نے اس بات کو چھپایا تو نہیں بلکہ اس نے اپنی کتاب میں اس کو بیان کیا۔ پس ہماری ہتک کا کوئی سوال نہیں۔ ہمارا قبیلہ بہت سخت جان ہے البتہ جس قبیلہ سے وہ تعلق رکھتا ہے وہ یہ سمجھا کرتا ہے کہ اگر نمبردار بول پڑا تو ہتک ہو جائے گی، تھانیدار بول پڑا تو ہتک ہو جائے گی۔ ڈپٹی کمشنر بول پڑا تو ہتک ہو جائے گی مگر ہمارے لئے یہ باتیں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں اورنہ ہم ان کی عزت کی کوئی پرواہ کرتے ہیں ۔ ہماری عزت وہی ہے جو ہمیں خدا تعالیٰ کے دربار میں حاصل ہے اور ہماری بے عزتی بھی اگر ہو سکتی ہے تو خدا تعالیٰ کی ناراضگی سے ہی۔ اس کے علاوہ اور کوئی بات ہماری ہتک کا موجب نہیں ہو سکتی۔
باقی رہا اس کا ایک طرف مجھے اشرف کہنا اور دوسری طرف یہ لکھنا کہ کیا گورنر تم سے زیادہ شریف نہیں اس کا جواب یہ ہے کہ شرافت بھی ایک نسبتی چیز ہے اور ہر قوم کے نزدیک شرافت کا الگ الگ معیار ہوٴا کرتا ہے۔ انگریزوں کے نزدیک بڑا اشرف وہ ہے جو نہایت معزز انگریز ہو۔ مگر وہ معزز انگریز فرانسیسیوں کے نزدیک اشرف نہیں ہو سکتا۔ بلکہ فرانسیسیوں کے نزدیک اشرف وہ ہوگا جو نہایت معزز فرانسیسی ہو۔ پھر وہ معزز فرانسیسی بےشک فرانسیسیوں کی نگاہ میں اشرف ہو گا مگر جرمنوں کے نزدیک اشرف نہیں ہو گا۔ بلکہ جرمنوں کے نزدیک اشرف وہ ہو گا جو نہایت معزز جرمن ہو۔ دور کیوں جاتے ہو اپنی اپنی قوموں کو ہی دیکھ لو کہ ایک قوم کے نزدیک ایک اشرف ہوتا ہے تو دوسری قوم کے نزدیک دوسرا۔ ایک کشمیری عورت تھی اور اس کی ایک جوان لڑکی تھی۔ اس لڑکی کی شادی کا سوال پیدا ہوٴا تو اس نے مجھے کہا کہ آپ اس کے لئے کوئی رشتہ تلاش کر دیں۔ ہماری جماعت کے ایک احمدی دوست جو غالباً سید تھے یا کسی اور معروف قوم سے تعلق رکھتے تھے مجھے اب صحیح طور پر یاد نہیں رہا۔ مَیں نے ان کے متعلق وہاں تحریک کی تو اس لڑکی کی والدہ اپنے دانتوں تلے انگلی دبا کر کہنے لگی۔ ‘‘ساڈے لئی ایسی کمینی ذاتاں ہی رہ گیاں ہن’’ یعنی ہمارے لئے کیا اب ایسی ہی کمینہ ذاتیں رہ گئی ہیں۔ گویا اس کے نزدیک یہ اس کی شدید ترین ہتک تھی کہ وہ اپنی لڑکی کسی سید سے بیاہ دے۔
اسی طرح ایک اور نوجوان دوست ایک دفعہ میرے پاس آئے وہ اب فوت ہو چکے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ کہنے لگے کہ میری ایک ہمشیرہ ہیں اس کے رشتہ کا آپ کہیں انتظام کر دیں اور یہ معاملہ کلیةً اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ میرے والد صاحب کی بھی یہی خواہش ہے کہ اس کا رشتہ آپ کے ذریعہ ہو۔ مَیں نے کہا۔ رشتہ کے متعلق آپ کی کوئی شرط ہو تو مجھے بتا دیں ۔ ایسا نہ ہو کہ بعد میں آپ کو کوئی اعتراض پیدا ہو۔ کہنے لگے قومیت کی کوئی شرط نہیں کسی شریف قوم کا نوجوان ہو۔ مَیں نے کہا شریف کا جو مطلب مَیں سمجھتا ہوں ممکن ہے وہ مطلب آپ نہ سمجھتے ہوں۔ اس لئے بہتر ہے کہ اس کی بھی تشریح کر دی جائے۔ کہنے لگے۔ شریف سے مراد وہی لوگ ہیں جنہیں عرف عام میں شریف سمجھا جاتا ہے۔ یہ کوئی شرط نہیں کہ فلاں قوم میں سے ہو اور فلاں قوم میں سے نہ ہو۔ مَیں نے کہا ہمارے ملک میں دو قسم کے لوگ شرفاء کہلاتے ہیں۔ ایک تو وہ ہیں جو باہر سے آئے ہوئے ہیں جیسے سیّد ہیں، مغل ہیں، پٹھان ہیں، قریشی ہیں اور ایک وہ ہیں جو پہلے ہی یہاں رہتے تھے جیسے براہمن یا راجپوت وغیرہ ہیں۔ آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں ہو گا اگر ان قوموں میں سے کسی قوم کا رشتہ آپ کو مل جائے۔ وہ کہنے لگے بالکل نہیں۔ کوئی ہو مغل ہو، پٹھان ہو، قریشی ہو، برہمن ہو، راجپوت ہو۔ مَیں نے اس پر پھر اپنی بات کو دہرایا اور کہا کہ آپ اچھی طرح سوچ لیں۔ عُرفِ عام میں شریف قومیں باہر سے آنے والوں میں سے تو سید ہیں، مغل ہیں، پٹھان ہیں، قریشی ہیں اور اس ملک کے باشندوں میں سے براہمن یا راجپوت ہیں۔ جن میں جاٹ بھی شامل ہیں وہ کہنے لگے بالکل درست ہے۔ کوئی ہو مغل ہو، پٹھان ہو، قریشی ہو، براہمن ہو، راجپوت ہو۔ مجھے اس پر خیال آیا کہ مَیں نے دو دفعہ ان کے سامنے اپنی بات کو دہرایا ہے اور دونوں دفعہ ہی جواب میں یہ سیّدوں کو چھوڑ گئے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے۔ چنانچہ مَیں نے ان سے کہا کہ مَیں نے آپ کے سامنے دو دفعہ اپنی بات دہرائی ہے اور دونوں دفعہ جواب دیتے ہوئے آپ سیّدوں کو چھوڑ گئے ہیں۔ آیا یہ اتفاق کی بات ہے یا جان بوجھ کر آپ نے ان کا نام نہیں لیا؟ اس پر وہ ہنس کر کہنے لگے مَیں نے جان بوجھ کر ان کا نام نہیں لیا۔ کیونکہ ہمارے علاقہ میں سیّدوں کو ذلیل سمجھا جاتا ہے اور عام طور پر لوگ انہیں فقیر سمجھتے ہیں۔ اب بتاوٴ شریف ہونے کا کوئی ایک معیار کس طرح مقرر کیا جا سکتا ہے۔ پس اگر شرافت قومی مراد ہے اور یہ اعتراض کرنے والا اگر انگریز زادہ ہے تو اس کے نزدیک انگریز ہی اشرف ہوں گے ۔ اگر ہندوستانی ہے تو ہندوستانی اور اگر جرمن یا فرانسیسی ہے تو جرمن یا فرانسیسی۔ مگر ہمارے قرآن نے قومیت کو شرافت کا معیار نہیں مقرر کیا بلکہ تقویٰ کو شرافت کا معیار مقرر کیا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ 21 یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک جو بڑا مومن ہو گا وہی سب سے زیادہ شریف ہو گا۔ اس نکتہٴ نگاہ سے دیکھا جائے تو پھر اس خط کے لکھنے والے کو اس امر کا فیصلہ کرنا پڑے گا کہ کیا عیسائی زیادہ عقائد صحیحہ اور اسلامی اصول پر قائم ہیں یا احمدی۔ اگر اس کے نزدیک عیسائی اسلام کے بتائے ہوئے اصول تقویٰ پر قائم ہیں تو اس کے عقیدہ کے مطابق وہی زیادہ شریف ہوں گے لیکن اگر ہم عقائد صحیحہ پر نسبتاً زیادہ قائم ہیں تو ہم عیسائیوں کی نسبت زیادہ شریف ہوں گے۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ وہ ہمیں دینی لحاظ سے عقائد صحیحہ پر کامل طور پر قائم سمجھے۔ مَیں صرف یہ کہتا ہوں کہ اگر احمدیت کی سچائی پر اس کا ایمان ہے اور وہ نسبتی طور پر عیسائیوں کی نسبت مجھے عقائد صحیحہ پر زیادہ قائم سمجھتا ہو۔ چاہے یوں وہ مجھے کتنا ہی بُرا اور گندا خیال کرتا ہو تو بہرحال عیسائیوں کی نسبت اسے مجھے اتقیٰ قرار دینا پڑے گا اور قرآنی فیصلہ کے مطابق اکرم بھی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے نزدیک مجھ میں بعض غلطیاں ہیں۔پس میں اس بات کا فیصلہ اسی پر چھوڑتا ہوں۔ اگر اس کے نزدیک قرآن کریم کی بات صحیح ہے تو جس میں وہ بات زیادہ پائی جائے گی جسے قرآن کریم نے بیان کیا ہے مسلمانوں کے نزدیک وہی زیادہ شریف ہو گا۔ اگر عیسائیوں میں پائی جاتی ہو گی تو وہ زیادہ شریف ہوں گے اور اگر مجھ میں پائی جاتی ہو گی تو میں زیادہ شریف ہوں گا۔ ہاں عیسائیوں کے عقیدہ کی رُو سے ایک عیسائی زیادہ شریف ہو گا اور اس کے مقابل پر ایک مسلمان خواہ کیسا ہی اسلام کا پابند ہو کم شریف ہو گا۔ پس اس کی ان دو باتوں کا جواب مَیں نے دے دیا ہے۔ باقی باتوں کا مَیں جواب نہیں دے سکتا۔ اگر وہ واقعات لکھتا اور بتاتا کہ فلاں فلاں پر ناظر امور عامہ کی طرف سے یہ ظلم ہوٴا ہے تو مَیں ان کے متعلق تحقیق کرتا مگر چونکہ اس نے کوئی واقعات بیان نہیں کئے اس لئے اس کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ باقی جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے اس کاخط اضداد سے بھرا ہوٴا ہے۔ ایک طرف وہ مجھے ‘‘بخدمت اشرف’’ لکھتا ہے اور دوسری طرف مجھے ذلیل قرار دیتا ہے۔ اسی طرح ایک طرف وہ اپنے آپ کو ‘‘مخلص احمدی’’ اور بڑا بہادر قرار دیتا ہے اور دوسری طرف وہ اپنا نام تک ڈر کے مارے ظاہر نہیں کر سکتا۔ مَیں نے بتایا ہے کہ اس خط کے متعلق ہمیں بعض شبہات ہیں اور ایک شخص کے متعلق ہمارا خیال ہے کہ اس نے یہ خط لکھا ہے ۔ مگر ابھی یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا۔ ٭
٭اس خطبہ کے بعد یقینی طور پر ثابت ہو گیا ہے کہ وہی شخص ہے جس کے بارہ میں مجھے شبہ تھا اور اس نے اقرار کر لیا ہے۔
البتہ اس قدر بات بالکل واضح ہے کہ یہ کسی منافق کا لکھا ہوٴا خط ہے اور قادیان میں اس قسم کے بعض منافق پائے جاتے ہیں ۔ ہمیں ان کا اچھی طرح علم ہے۔ ہم ان کی پارٹیوں کو جانتے ہیں۔ ہمیں ان مجلسوں کا علم ہے جہاں وہ بیٹھتے ہیں
مگر ہم رحم کی وجہ سے گرفت نہیں کرتے اور خیال کرتے ہیں کہ شاید ان کی اصلاح ہو جائے لیکن وہ ہمارے رحم سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ رحم بھی ایک حد تک ہی ہوتا ہے اور کوئی وقت ایسا بھی آجاتا ہے جب اس قسم کے آدمی پکڑے جاتے ہیں اور انہیں اپنے کئے کی سزا بُھگتنی پڑتی ہے۔’’
(الفضل 26 ستمبر 1941ء )
1 البقرہ : 186
2 بخاری کتاب الصوم باب اجود ما کان النبی ﷺ یکون فی رمضان
3 بخاری کتاب الایمان باب قول النبی ﷺ بنی الاسلام علٰی خمس (الخ)
4 بنی اسرائیل :80، الذاریات: 18، اِنَّ لَكَ فِي النَّهَارِ سَبْحًا طَوِيْلًا (المزمل: 7)
5،6 بخاری کتاب الصوم باب فضل من قام رمضان
7 بخاری کتاب المناقب باب قول النبی ﷺ سدّوا الابواب الا باب ابی بکر
8 سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 17 مطبوعہ مصر 1295ھ
9 ابن ماجہ کتاب الزھد باب ذکر التوبة
10 الحکم 24 جنوری 1906ء صفحہ5 ، البدر 27 فروری 1903ء صفحہ 46
11 الناس: 6
12 وَ لَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًا (طٰہٰ: 116)۔ ثُمَّ اجْتَبٰهُ رَبُّهٗ (طٰہٰ: 123)
13 الانبیاء : 69، العنکبوت: 25 ، الصافات: 98
14 نمرود: بابل کا ایک بادشاہ۔ 4000 سال قبل مسیح۔ (اردو انسائیکلو پیڈیا۔ اخبار الطوال)
15 حضرت موسیٰ کے پرورش کرنے والے فرعون کا نام رعمسیس اور مقابلہ میں آنے والے فرعون کا نام منفتاح تھا۔
16 متی باب 27 آیت 30
17 متی باب 27 آیت 29
18 یوحنا باب 19 آیت 1 و 3
19 بخاری کتاب المناقب باب لَوْ کُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِیْلًا (الخ)
20 بخاری کتاب الصَّلٰوة باب الْمَرْأَة تَطْرَحُ عَنِ الْمُصَلّٰی شَیْئًا مِّنَ الْاَذٰی
21 الحجرات: 14

29
خدا تعالیٰ کے ہر قانون کو رحمت سمجھو اور اس سے بچنے کی کوشش نہ کرو
( فرمودہ 26 ستمبر 1941ء )

تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد سورة الرحمٰن کی حسب ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:۔
يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ فَانْفُذُوْا١ؕ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍۚ۰۰َ فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ ۰۰ يُرْسَلُ عَلَيْكُمَا شُوَاظٌ مِّنْ نَّارٍ١ۙ۬ وَّ نُحَاسٌ فَلَا تَنْتَصِرٰنِۚ۰۰۳۵ فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۰۰ 1
‘‘ یوں تو مسلمان کے سارے ہی خطبے قرآن کریم کے مطالب پر ہی مبنی ہوتے ہیں کیونکہ اسلام میں جو کچھ ہے اور احمدیت میں جو کچھ ہے وہ یا تو نصِ صریح سے قران کریم سے ملتا ہے یا استدلالات سے قرآن کریم سے نکلتا ہے اور بہرحال قرآن کریم کی تعلیم کا نچوڑ اور خلاصہ ہوتا ہے۔ مگر رمضان شریف کی نسبت کے لحاظ سے مَیں نے مناسب سمجھا کہ رمضان کے خطبات مَیں قرآن کریم کی کسی نہ کسی آیت پر پڑھا کروں تاکہ وہ بھی ایک قسم کا درس بن جائے۔ گو اس طرح خطبہ پڑھا جائے تو سارے رمضان میں چار ہی آیات آتی ہیں مگر قرآن کریم کی چار آیتیں بھی چاروں کوٹ کی برکتیں اپنے اندر رکھتی ہیں اور بعض اکیلی اکیلی آیات یا مختصر سورتوں کے متعلق رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ وہ نصف قرآن کے برابر یا قرآن کا خلاصہ ہیں تو ہو سکتا ہے کہ کوئی ایک ہی آیت بعض لوگوں کے لئے ہدایت کا موجب ہو جائے اور ان کی طبیعت کی اصلاح میں مُمِد ہو جائے۔
یہ آیات جو مَیں نے ابھی پڑھی ہیں سورہ رحمٰن کی ہیں اور شاید ان چند آیتوں میں سے ہیں جن کے متعلق قریباً سب مفسرین ایک ہی رائے رکھتے ہیں۔ مَیں نے اس بارہ میں چند مشہور تفاسیر کو دیکھا ہے جو احادیث سے لکھی گئی ہیں جیسے دُرِ منثور۔ یا عقل سے لکھی گئی ہیں جیسے کشّاف یا جو عقلی استدلال کے ساتھ بزرگوں کے اقوال کو بھی لیتی ہیں جیسے امام شوکانی کی تفسیر ہے۔ یہ سب کی سب اس آیت کے بارہ میں متفق ہیں اور وہ اس کے معنے یہ کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کوئی بھاگ نہیں سکتا۔ وہ کہیں بھی بھاگ کر جانا چاہے خدا تعالیٰ کا عذاب اسے مل جاتا ہے۔ اس سے بچنے کا ایک ہی علاج ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ کی فوجوں پر انسان غلبہ حاصل کر لے اور پھر وہ اس میں محذوف نکالتے ہیں کہ یہ غلبہ انسان کہاں حاصل کر سکتے ہیں۔ پس اس کے معنے یہ ہوئے کہ خدا تعالیٰ کے عذاب سے کوئی شخص بچ نہیں سکتا۔
آج سے نہیں گزشتہ سالہا سال سے شاید 20،25 سال سے مَیں اس آیت کے متعلق ان مفسرین کی رائے سے اختلاف رکھتا ہوں۔ اول تومیرے نزدیک یہاں عذاب کا ذکر نہیں۔ بے شک بعد میں عذاب کا ذکر آتا ہے مگر اس عذاب سے بھاگنے کا جس کو بعد میں بیان کیا گیا ہے پہلے ذکر کرنا قرآن کریم کی شان کے خلاف ہے۔ یہ صحیح ہے کہ تحسینِ کلام میں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ نتائج کو پہلے بیان کر دیا جاتا ہے۔ مگر اس صورت میں جملہ میں جوڑ اور نسبت قائم کی جاتی ہے لیکن یہاں تو دو متفرق آیات ہیں اور ان دونوں کے بیچ میں فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ رکھا ہے۔ پھر مَیں یہ بھی نہیں سمجھ سکتا کہ قرآن کریم جیسی کتابِ حکیم خالی عذاب کو جس کے ساتھ کوئی پہلو آرام و آسائش اور راحت کا نہ ہو بیان کرنے کے بعد فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ فرمائے جس کے معنی یہ ہیں کہ تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ کوئی کہے مَیں مار مار کر تمہارا بھرکس نکال دوں گا تم میرے کون کون سے انعام کا انکار کرو گے۔ مَیں تمہیں قید کر دوں گا پس تم میرے کون کون سے انعام کا انکار کرو گے۔ یہ طرزِ بیان قرآن کریم کی شان کے خلاف ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بعض عذاب بھی رحمت کا موجب ہوتے ہیں۔ جیسے سورہٴ فاتحہ کو اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ 2 سے شروع کیا مگر بعد میں مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ 3 فرمایا اوراس میں سزا بھی داخل ہے۔ یعنی کلام اَلْحَمْد کے ساتھ شروع کیا گیا اور سزا کو شامل کر لیا گیا ہے۔ مگر اس میں رحمت کا پہلو موجود ہے۔ ابتدائی عمر میں مَیں نے ایک دفعہ ستیارتھ پرکاش کے بعض اعتراضات کا جواب لکھنا شروع کیا تھا اور سورہٴ فاتحہ پر اعتراضات کا جواب لکھا تھا۔ اس زمانہ میں سوامی دیانند صاحب کے ایک بڑے مقرب دوست زندہ تھے جن کا نام اس وقت مجھے یاد نہیں البتہ تشحیذ کے پرچوں میں محفوظ ہو گا۔ انہوں نے یہ اعتراض لکھ کر بھیجا تھا کہ مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ میں تو موت اور سزا دونوں شامل ہیں۔ پھر شروع میں اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ اور رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ کہنے کا کیا مطلب ہوا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ کے معنی ہیں کہ سب تعریفیں خدا کے لئے ہیں اور رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ کے معنی ہیں وہ سب کی ربوبیت کرتا ہے پھر اس کے ساتھ سزا کے ذکر کے کیا معنی ہوئے۔ مَیں نے اس کاجواب یہ دیا تھا کہ یہاں رحمت کا پہلو موجود ہے۔ مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے حقِ مغفرت کو قائم رکھتا ہے اور جب خدا تعالیٰ کا یہ حق ہے تو اَلْحَمْد کہنے کا موقع موجود ہے۔ دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ بیسیوں مجسٹریٹ ایسے ہوتے ہیں جو منصف اور نرم دل ہوتے ہیں اور ان کے متعلق کئی مجرم آپس میں بات چیت کرتے ہیں تو کہتے ہیں شکر ہے ہمارا مقدمہ فلاں مجسٹریٹ کے پاس ہے اور فلاں کے پاس نہیں گیا تو پھر اللہ تعالیٰ کے متعلق جو مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ کہہ کر رحم کی امید دلاتا ہے۔ باوجود سزا اور موت کا ذکر ہونے کے انسان کیوں نہ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ کہے۔ اگر ہمارا مقدمہ کسی ایسے مجسٹریٹ کے سپرد ہو جاتا جو رحم کرنا جانتا ہی نہ ہوتا تو پھر سزا میں کیا شبہ رہ جاتا۔ اس صورت میں سزا سے بچنا محال تھا۔ اگر کسی کا انجام توبہ پر بھی ہوتا تو بھی و ہ سزا سے نہ بچ سکتا کیونکہ وہ جانتا کہ خدا تعالیٰ تو رحم کر ہی نہیں سکتا۔ اس نے سزا بہرحال دینی ہے۔ مگر یہاں مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ کہہ کر یہ امید دلا دی کہ اگر انجام بھی خراب ہو تو بھی نا امیدی کی کوئی بات نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ پھر بھی معاف کر سکتا ہے۔ پس یہاں اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ کہنے کے یہ معنی ہیں کہ شکر ہے ہمارا مقدمہ کسی ایسے مجسٹریٹ کے پیش نہیں ہو رہا جو رحم کرنا نہیں جانتا۔ یہاں مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ کہہ کر بتایا کہ اللہ تعالیٰ رحم کر سکتا ہے اور رحم کی امید دلاتا ہے۔ ایسی صورت میں روزانہ ہم مجرموں کو اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ کہتے دیکھتے ہیں۔ مگر جہاں اللہ تعالیٰ یہ فرمائے کہ تم نے جتنا دوڑنا ہو دوڑ لو۔ اپنی تمام تدابیر اختیار کر لو پھر بھی تم ہماری سزا سے نہیں بچ سکتے۔ ہم تم کو ضرور سزا دیں گے اورایسا عذاب دیں گے کہ بھون کے رکھ دیں گے۔ اس کے بعد کہنا کہ فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ ایک بے جوڑ سی بات ہے۔ مگر نئے اور پرانے مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس آیت کے معنی یہی ہیں۔ ممکن ہے کسی کو اختلاف بھی ہو۔ مَیں نے ساری تفاسیر نہیں دیکھیں مگر جو دیکھی ہیں ان سب کا ان معنوں پر اتفاق ہے اور جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے مجھے ان معنوں سے اختلاف ہے اور ان وجوہ سے جو اوپر بیان کی گئی ہیں۔ میرے نزدیک اس کے معنی سیدھے سادے ہیں اور ان الفاظ کے اندر بھاری حکمت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ فَانْفُذُوْا یعنی اے بڑے لوگوں کے گروہ اور اے چھوٹے لوگوں کے گروہ اور اے حکام کے گروہ اور اے عوام کے گروہ۔ دنیا میں دو ہی قسم کی حکومتیں ہوتی ہیں ایک آسمانی یعنی مذہبی اور اخلاقی اور دوسری زمینی یعنی قانون فطرت اور قانون سائنس کی۔ یہ دو حکومتیں جاری ہیں جن کو بسا اوقات انسان اپنی نادانی سے اپنے لئے بوجھ سمجھتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے موت بنائی ہے اور قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی رحمت ہے اور اس میں کیا شبہ ہے کہ یہ رحمت ہے۔ لوگ عام طور پر اس سے گھبراتے ہیں۔ مگر موت کو اڑا کر دیکھ لیں۔ پھر کس طرح اپنے آپ پر ساری دنیا اور زمین و آسمان پر لعنتیں ڈالنے لگتے ہیں۔ دنیا میں انسان والد، والدہ، دادا،دادی، نانا، نانی، وغیرہ قریبی رشتہ داروں کی موت کے صدمہ کو کتنا محسوس کرتے ہیں اور یہ احساس ایک طبعی تقاضا ہے لیکن اگر یہ احساس اتنا بڑھ جائے کہ انسان سمجھے خدا نے بڑا ظلم کیا ہے جو موت پیدا کی۔ مَیں اسے اڑا دوں گا اور وہ اسے اڑانے میں کامیاب ہو جائے۔ تو ذرا تصور کرو کیا حالت ہو۔ کوئی چھوٹے سے چھوٹا گاوٴں لے لو۔ قادیان کے اردگرد چھوٹے چھوٹے گاوٴں ننگل، بھینی اور کھارا ہیں۔ آج بھی ان گاوٴں کے زمینداروں کی حالت بہت غربت کی ہے کسی کے پاس چار گھماوٴں زمین ہے۔ کسی کے پاس پانچ، کسی کے پاس آٹھ اور کسی کے پاس دس گھماوٴں ہے۔ جس سے موجودہ افراد بھی بڑی تنگی سے گزارہ کرتے ہیں اور بعض نے تو تنگ آ کر جو تھوڑی بہت زمین تھی فروخت کر دی اور اب محنت و مزدوری کر کے گزارہ کر رہے ہیں۔ اب ذرا غور کرو اگر ان کے باپ دادا، پردادا او رپھر آدم تک سات ہزار سال میں جتنے لوگ تھے سب زندہ ہوتے پھر ان کی مائیں دادیاں، پردادیاں بھی آخر تک زندہ ہوتیں پھر ان کے چچے چچیاں آخر تک زندہ ہوتے تو کیا ان کے پاس ایک گھماوٴں چھوڑ ایک ایک مرلہ زمین بھی ہوتی؟ ایک مرلہ تو کجا ناخن کے کاٹے ہوئے حصہ کے برابر زمین بھی کسی کے حصہ میں نہ آسکتی۔ اور جب یہ حالت ہوتی تو یہ لوگ کھاتے کہاں سے پھر راتوں کے سونے کے لئے بھی جگہ نہ ملتی۔ راتوں کو ایک کے اوپر دوسرا، دوسرے کے اوپر تیسرا اور تیسرے کے اوپر چوتھا حتّٰی کہ ایک ایک پر پچاس پچاس آدمی سوتے۔ تب بھی شاید سب کے لئے لئے جگہ نہ مل سکتی۔ سائنس والے دنیا کی عمر دو کروڑ سال بتاتے ہیں اور ہندووٴں کی تو ہر چیز بے حساب ہوتی ہے۔ اس لئے ان کے نزدیک دنیا کی عمر اربوں ارب سال ہے اور مسلمانوں کے نزدیک چھ ہزار سال ہے۔ اربوں ارب سال کو جانے دو۔ دو کروڑ سال کو بھی جانے دو صرف چھ ہزار سال ہی لے لو۔ اگر چھ ہزار سال کے لوگ سب کے سب زندہ ہوتے تو کیا حال ہوتا۔ سب کے سب زمین پر لیٹ کر سو بھی نہ سکتے۔ جس طرح جنگ میں لاشیں ایک دوسری کے اوپر ڈالی جاتی ہیں۔ اس طرح ایک دوسرے کے اوپر اگر سب کو ڈالا جاتا تو شاید سونے کی جگہ مل سکتی۔ بے شک دم تو گھٹتا مگر موت تو آنی نہ تھی۔ اگر یہ حالت ہوتی تو غور کرو کس طرح لوگ اپنے آپ پر اپنے ماں باپ اور دادا پردادا پر بلکہ زمین و آسمان پر لعنتیں بھیجتے اور کس طرح موت کو ایک رحمت سمجھا جاتا۔ اگر موت نہ ہوتی تو ساری دنیا کے عقلمند ایسی ایجادوں میں لگے ہوتے کہ کس طرح موت ایجاد کی جا سکے جس چھوٹے سے گھر میں ہزاروں سال کے تمام لوگ زندہ ہوتے اور اس کا صحن 10x20 فٹ ہوتا۔ اس میں کیا حال ہوتا۔ نہ کھانے کو برتن مل سکتے نہ پینے کو پانی۔ جوان بوڑھوں کے اور بوڑھے بچوں کے گلے گھونٹتے کہ کسی طرح مر جائیں مگر موت پھر بھی نہ آتی۔ اس وقت تو اگر کسی کا باپ یا دادا فوت ہو جائے تو روتے ہیں مگر موت نہ ہونے کی صورت میں لوگ راتوں کو اٹھ اٹھ کر ایک دوسرے کا گلا گھونٹتے اورکہتے کہ کم بخت مرتا بھی نہیں اور قانون قدرت اور مذہب کو گالیاں دیتے۔ تو موت بھی اللہ تعالیٰ کی رحمتوں میں سے ایک رحمت ہے اور قرآن کریم ہی ایک کتاب ہے جو صفائی سے اس امر کو پیش کرتی ہے۔ بے شک انسان کوشش کرے کہ تندرست رہے، بیماریوں سے بچا رہے مگر چاہئے کہ موت کے لئے بھی تیار رہے اورامید رکھے کہ میں نے ایک نہ ایک دن مرنا ہے ۔ یہ موت اگر نہ ہوتی تو انسان کو اس کے لئے دعا کرنی پڑتی۔ یہ خدا تعالیٰ کی رحمت ہے جب انسان پر ایسا وقت آتا ہے کہ اگلی نسل اس سے تنگ آ جائے تو ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ اسے موت دے دیتا ہے مگر انسان جوں جوں سائنس میں ترقی کرتا ہے موت کو اڑانے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرتا ہے۔ کبھی اس امر کی تحقیق ہوتی ہے کہ انسان کے دل کو دوبارہ کس طرح حرکت میں لایا جا سکتا ہے اور کبھی اس کی کہ بجلی کے ذریعہ انسان کو کس طرح زندہ رکھا جا سکتا ہے اور یہ خیال نہیں کرتا کہ اگر موت پر قابو پا لیا جائے تو اس کے بعد دنیا کے لئے جو ایجاد سب سے اہم سمجھی جائے گی وہ یہی ہو گی کہ کس طرح موت کو واپس لایا جا سکتا ہے۔ پس موت دراصل اللہ تعالیٰ کی رحمتوں میں سے ایک رحمت ہے۔ لیکن انسان ان تمام قوانین سے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کے فائدہ کے لئے بنائے ہیں ان سب سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔
آجکل رمضان ہے۔ روزہ سے ہوں تو پتہ لگتا ہے کہ بھوک کتنی تکلیف دہ چیز ہے۔ میرے جیسے کمزور آدمی کے لئے تو خاص طور پر تکلیف دہ ہے۔ اس وقت میں جوش میں اتنا بول گیا ہوں ورنہ جب میں کھڑا ہوٴا تو میرا خیال تھا کہ پانچ سات منٹ سے زیادہ نہ بول سکوں گا۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ایک قانون ہے کہ جب طبیعت میں جوش پیدا ہو تو انسان پہلی تکلیف کو بھول جاتا ہے۔ غرض روزہ میں بھوک لگتی ہے، پیاس لگتی ہے۔ آجکل مجھے بھوک تو نہیں لگتی، پیاس لگتی ہے اور عصر کے بعد تو اتنی پیاس لگتی ہے کہ مَیں نڈھال ہو جاتا ہوں ایسی حالت میں دو ہی صورتیں ہوتی ہیں یا تو میں سونے کی کوشش کروں اور یا پھر ٹہلنے لگوں۔ ٹہلنا ہمارے خاندان کی ایک عادت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی ٹہلنے کی عادت تھی۔ عصر کے بعد مجھے پیاس کا اور کوئی علاج نظر نہیں آتا ۔سوائے اس کے کہ مَیں ٹہلوں۔ تو بھوک اور پیاس بہت تکلیف دِہ چیزیں ہیں مگر دنیا کی لذتوں کا بہترین حصہ بھوک اور پیاس سے ہی تعلق رکھتا ہے۔ قرآن کریم میں مَیں نے پڑھا کہ شہد میں بڑی برکت ہے۔ ایک دوست شہد لے آئے پہلے ہی روزہ میں میں نے خیال کیا کہ اس میں اتنی برکتیں ہیں، اسی سے کیوں نہ روزہ کھولیں۔ چنانچہ شہد میں پانی ڈال کر رکھ دیا اور جب اس سے روزہ کھولا تو یوں معلوم ہوا کہ یہ شہد نہیں بلکہ جنت سے کوئی چیز آئی ہے۔ اگر پیاس نہ ہو تو یہ مزا کیسے آئے۔ میرا معدہ خراب ہے ا س لئے پانی پینے کے بعد مجھے بھوک تو لگتی نہیں مگر رمضان نہ ہو تو مَیں نے دیکھا ہے سیر کر کے واپس آئیں اوربھوک لگی ہوئی ہو تو کھانے کا بہت ہی مزا آتا ہے۔ مجھے بہت سے کھانے کھانے کا اتفاق ہوٴا ہے۔ یورپ کے سفر کے دوران مجھے مصری کھانے کھانے کا بھی موقع ملا، اطالوی کھانے کھانے کا بھی، فرانسیسی کھانے کھانے کا بھی اور انگلستان کے کھانے کھانے کا بھی۔ ہماری والدہ دہلی کی رہنے والی ہیں۔ اس لئے اس علاقہ کے کھانے بھی کھائے ہیں۔ پھر ہم مغل ہیں اوربعض کھانے مغلوں کے خاص ہیں وہ بھی کھائے ہیں اور اس طرح بہت سے کھانے کھائے ہیں مگر بچپن سے جس کھانے کے مزیدار ہونے کا مجھ پر اثر ہے اور جو بھوک کے نتیجہ میں تھا وہ مجھے کبھی نہیں بھولتا۔ مَیں چھوٹا تھا۔ تین چار سال کی عمر تھی اور آنکھیں دُکھتی تھیں کھانے کا پرہیز کرایا جاتا تھا اور صرف دودھ دیا جاتا تھا۔ میری ایک کھلائی تھی۔ میری آنکھوں میں تکلیف تھی رڑک ہو رہی تھی اور وہ کھلائی مجھے اٹھا کر دالان میں ٹہلاتی اور بہلاتی تھی۔ وہ غریب عورت تھی اور اسے بھوک لگی ہوئی تھی اس لئے رات کا باسی ٹکڑا ہاتھ میں لئے کھاتی جاتی تھی اور مجھے بہلاتی بھی جاتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ مجھے اس باسی ٹکڑے سے زیادہ خوشبو دار اور لذیذ چیز کوئی اور نہیں لگی۔ اس کے ساتھ کوئی سالن یا دال بھی نہ تھی۔ خالی روٹی کا ٹکڑا تھا اور وہ بھی باسی مگر اس کی سوندھی سوندھی خوشبو ہزاروں مرغوں سے زیادہ دل پسند تھی بلکہ اب بھی یاد کر کے وہ خوشبو مجھے آنے لگتی ہے۔ تو یہ بھوک کا ہی کمال ہے جس سے کھانے کا مزا آتا ہے۔
ایک قصہ مشہور ہے کہتے ہیں کوئی پٹھان محنت و مزدوری کے لئے اپنے وطن سے ہندوستان آیا۔ وہ کسی جگہ مزدوری پر لگا ہوٴا تھا گھر تو یہاں تھا نہیں کہ روٹی کا کوئی انتظام ہوتا۔ اس نے خیال کیا کہ کھانے کا وقت آئے گا تو کوئی چیز لے کر کھا لوں گا۔ جب کھانے کا وقت آیا تو کوئی عورت خربوزے بیچتی ہوئی ادھر سے گزری۔ اس نے اس سے دو چار آنے کے خربوزے لے لئے جوبہت سے آ گئے۔ اوروہ انہیں کھانے لگا۔ کھاتے کھاتے جب پیٹ بھر گیا تو کہنے لگا کہ یہ بھی کوئی کھانے کی چیز ہے جو مَیں کھا رہا ہوں۔ ان کا سردہ بہت زیادہ میٹھا اور لذیذ ہوتاہے اور ہمارے ہاں کا خربوزہ اس کی نسبت بہت پھیکا۔ تو اس نے خیال کیا کہ یہ بھی کوئی کھانے کی چیز ہے۔ ہندی خربوزہ ہرگز کھانے کے قابل نہیں چنانچہ وہ اٹھا اورکھڑے ہو کر ان پر پیشاب کر دیا اور چلا گیا۔ کام پر جا کر جب ایک دو گھنٹہ کہی چلائی تو پھر بھوک لگ گئی۔ اس پر اسے پھر خربوزوں کا خیال آیا چنانچہ آیا اور ان کو دیکھا مگر ان پر پیشاب کر چکا تھا اس لئے خربوزوں کو حسرت سے دیکھنے لگا۔ آخر ان میں سے ایک کو اٹھایا اور کہا کہ اس پر تو پیشاب نہیں پڑا اور اسے کھا گیا۔ مضبوط اور جوان آدمی کو ایک خربوزے سے کیا ہوتا ہے۔ دس پندرہ منٹ میں ہی پھر بھوک لگ گئی۔ پھر آیا اور دوسرا خربوزہ اٹھا کر کہنے لگا کہ اس پر بھی نہیں پڑا تھا اور اسے بھی کھا گیا۔ اسی طرح کرتے کرتے سوائے ایک کے سب کھا گیا اوروہ ایک بھی اس لئے چھوڑ دیا کہ کسی ایک پر تو پیشاب پڑنا ماننا ہی پڑتا تھا۔ شام کو جب بہت بھوک لگی اوروہ زیادہ تنگ ہوٴا تو کہنے لگا کہ مَیں بھی کیسا عجیب آدمی ہوں جن خربوزوں پر پیشاب پڑا تھا وہ تو کھا گیا اورجس پر بالکل نہیں پڑا تھا اسے چھوڑ دیا اور یہ کہہ کر اسے بھی اٹھا کر کھا لیا۔ تو بھوک اور پیاس سے ہی کھانے اورپینے میں مزا آتا ہے۔
جب بھوک ہو تو ادنیٰ سے ادنیٰ چیز بھی مل جائے تو اس کا بھی مزا آتا ہے۔ ایسی حالت میں اگر آدمی کو کہیں سے گنا مل جائے تو اسے بھی وہ لطف لے لے کر چوستا ہے۔ بھنے ہوئے دانے مل جائیں یا مکئی کا بھٹا مل جائے تو ایسی لذت آتی ہے کہ وہ کہتا ہے کہ لوگ مرغ بھون کر کیوں کھاتے ہیں اس سے زیادہ لذیذ تو وہ نہیں ہوتا حالانکہ یہ سب بھوک کی وجہ سے ہے مگر کبھی انسان بھوک کی شکایت کرنے لگتا ہے اور کہتا ہے خدا تعالیٰ نے بھوک کیا بنا دی ہے،پیاس کیا بنا دی ہے، بیماریاں کیا بنا ئی ہیں، موت کیا بنائی ہے حالانکہ یہ سب دراصل اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ہیں۔ غریبوں کے لئے بیماریاں بھی رحمت ہو جاتی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنا بچپن کا ایک واقعہ سنایا کرتے تھے فرماتے ایک چوہڑا ہمارے ہاں ملازم تھا آپ ایک دفعہ کھیلتے کھیلتے اس کے گھر چلے گئے اور لڑکے بھی تھے۔ ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ تمہیں کیا چیز سب سے زیادہ پسند ہے اس چوہڑے سے پوچھا تو اس نے کہا کہ ‘‘مٹھا مٹھا تاپ ہووے۔مینہ پیندا ہووے تے بھجے ہوئے دو سیر چھولے ہون اُتّے رضائی ہووے۔’’ یعنی ہلکا ہلکا بخار ہو، بارش ہو رہی ہو، بھنے ہوئے دو سیر چنے پاس پڑے ہوں اور اوپر اوڑھنے کے لئے رضائی ہو۔ آپ فرماتے تھے۔ ہم نے پوچھا کہ چنے تو کھانے کی چیز ہے، رضائی اوڑھنے کی، ان سے تو آرام ملتا ہے مگر یہ ہلکا ہلکا بخار جو تم چاہتے ہو اس کا کیا مطلب ہے۔ اس نے کہا کہ اگر بخار زیادہ ہو تو اس سے تکلیف ہو گی اور اگر بالکل نہ ہو تو کام سے چھٹکارا نہیں ہو سکتا۔ ابھی آدمی آ جائے گا کہ چلو مرزا جی بلاتے ہیں۔ تو غریبوں کے لئے بیماری بھی بعض اوقات رحمت ہو جاتی ہے۔ ان میں اَور بھی فوائد ہیں۔ بیماری ان زہروں کا ازالہ کر دیتی ہے جو انسان کے اندر جمع ہو رہے ہوتے ہیں ورنہ ایسی حالت پیدا ہو جائے کہ انسان کھڑے کھڑے مر جائے۔ اندر صَفرا پیدا ہوتا ہے تو قے آ جاتی ہے، دست آنے لگتے ہیں اور اس طرح صَفرا نکل جاتا ہے جو اگر اندر رہتا تو کئی بیماریاں پیدا کرتا، استسقاء ہو جاتا اور انسان مر جاتا۔
ہر بیماری جو انسان کو آتی ہے وہ کیا ہے۔ اگلی بیماری کا نوٹس ہے۔ نزلہ نوٹس ہے سل کا۔ ہلکا ہلکا بخار نوٹس ہے سل اور دق کا۔ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے گویا ایک چٹھی ہے۔ خدا تعالیٰ ڈاک میں چٹھی نہیں بھیجتا بلکہ جسم کے اند رہی ایسی تبدیلی کر دیتا ہے کہ جس سے پتہ لگ جائے۔ نزلہ ہونا گویا خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک کارڈ ہے۔ ایک مہینہ دو مہینہ کے بعد سل ہونے والی ہے۔ کھانسی نوٹس ہے اس بات کا کہ سل ہونے والی ہے۔ ہلکا ہلکا بخار نوٹس ہے اس امر کا کہ تپ دق ہونے والا ہے۔ تو یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمتیں ہیں۔ مگر انسان ان سب سے گھبرا کر ان سے باہر نکلنا چاہتا ہے۔ وہ کوشش کرتا ہے کہ حکومتوں سے بھی آزاد ہو جاوٴں۔ حکومتیں تلواروں اورنیزوں سے کام لیتی ہیں۔ اس لئے ان کا مقابلہ کرنے کے لئے انسان نے بندوق ایجاد کی، پستول نکالا مگر جب حکومت کو علم ہوٴا تو اس نے کہا اس ایجاد کے لئے تمہارا شکریہ۔ تم نے ایسا اچھا ہتھیار دریافت کیا جو پہلے نہ تھا اور اس نے اپنی فوج اور پولیس کو بندوق اور پستولوں سے مسلح کر دیا۔ پھر انسان نے کہا حکومتیں ظالم ہیں اور ان کے مقابلہ کے لئے اس نے توپ ایجاد کی اور کہا کہ یہ ہتھیار بندوق کو اڑا دے گا مگر اسے بھی حکومت نے سنبھال لیا اور اپنی فوجوں کو توپوں سے مسلّح کر دیا۔ عوام پھر بھی بغیر ہتھیار کے رہ گئے اور حکومتیں پہلے سے بھی زیادہ طاقت ور ہو گئیں۔ پھر انسان نے ہوائی جہاز نکالے، بم نکالے اس پر حکومت اور بھی خوش ہوئی اور اس نے سمجھ لیا کہ اب رعایا ہمارا مقابلہ بالکل ہی نہ کر سکے گی۔ غرض بعض لوگ حکومتوں کو ایک مصیبت خیال کرتے ہیں اور ان سے بچنا چاہتے ہیں مگر اور زیادہ مصیبتوں میں پھنس جاتے ہیں۔ زار کی حکومت جو روس میں تھی اور اس زمانہ کے ڈکٹیٹروں کی حکومتیں بھی اس سے کم نہیں۔ یہ سب اس بات کانتیجہ ہیں کہ انسان نے خد اتعالیٰ کی حکومت سے آزاد ہونے کی کوشش کی۔ اگر لوگ خدا تعالیٰ کے قانون کے ماتحت چلتے تو یہ مصائب کبھی نہ آتیں۔ آج سے 25،30 سال قبل سائنسدان اس بات پر کتنے مغرور تھے کہ انہوں نے دنیا کی پیدائش کا سوال حل کر لیا۔ مگر آج ہم دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پیدائش کا سوال تو حل نہیں ہوٴا البتہ موت کا سوال بڑا اچھا حل کیا گیا ہے۔ وارسا جیسا شہر جس کی آبادی دس لاکھ تھی۔ تین دن کی بمباری سے بالکل تباہ ہو گیا۔ تو زندگی کا سوال تو ویسا کا ویسا ہی رہا البتہ موت کا سوال خوب حل ہوٴا۔
یہ کتنی واضح بات ہے جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی کہ اے میرے بندو! تم وہ رستے تلاش نہ کرو کہ جن سے میرے قانون سے باہر جا سکو۔ اگر تم ایسی کوشش کرو گے تو لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ۔یعنی سلطان تمہارے ساتھ ساتھ ہو گا اور تم خدا تعالیٰ کے قانون سے کسی صورت میں باہر نہ جا سکو گے۔ دیکھ لو کیسے سیدھے سادے معنے ہیں جن میں کوئی محذوف بھی نکالنا نہیں پڑتا۔
اسی طرح مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ میں آسمانی قانون کا ذکر کیا ہے۔ اس سے بھی بھاگنے کی لوگوں نے کتنی کوشش کی ہے۔ بڑی کوشش کی گئی ہے کہ کسی طرح مذہب کا قائمقام عقل سے نکالیں اور بعض قائم مقام نکالے بھی گئے مگر دیکھ لو ان سے کیا سُکھ ملا ہے۔ روسیوں نے بولشو ازم4 نکالا۔ جرمنوں نے ناٹسی ازم۔ مگر کیا ان سے لوگوں کے دکھ کم ہوئے۔ ہرگز نہیں بلکہ اَور بڑھ گئے۔ ان سے شکایات اور تکالیف اور بھی بڑھ گئیں۔ انسان نے خد اتعالیٰ کی غلامی سے نکلنا چاہا مگر اس سے بھی بدتر غلامی میں مبتلا ہو گیا پھر انسان نے کیا کیا قوانین نکالے۔ حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ کے صحابہ تک تو یہ قانون مانتے آئے ہیں کہ بعض ضرورتوں کے ماتحت ایک سے زیادہ بیویاں کرنا نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہے مگر یورپ نے یہ قانون بنایا کہ ایک ہی بیوی ہونی چاہئے۔ ایک سے زیادہ حرام کاری ہے اور اس کے نتیجہ میں یورپ ہزارہا سال تک ایسی بدکاری میں مبتلا ہوٴا کہ جسے دور کرنا اس کے اختیار میں نہ تھا اور آج پھر یہ آوازیں آنے لگی ہیں کہ ایک سے زیادہ بیویوں کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ خدا تعالیٰ نے کیسا فطرت کے مطابق قانون بنایا تھا کہ ساری اولاد جائداد اور ترکہ کی وارث ہو مگر یورپ نے اسے چھوڑا تو دیکھو کیسی خطرناک کیپیٹلزم کی *** کا شکار ہوٴا اور کس طرح اس قانون نے جہاں ایک گروہ سرمایہ داروں کا پیدا کر دیا وہاں دوسری اولاد کو سوسائٹی کے لئے *** بنا دیا۔ سرمایہ چند ہاتھوں میں جمع ہو گیا۔ اگر خدا تعالیٰ کے قانون پر عمل کیا جاتا تو ایسا کبھی نہ ہو سکتا۔ فرض کرو کسی کے پاس پچاس ہزار ایکڑ زمین ہوتی اور اب تک اگر دس نسلیں بھی مان لی جائیں اس کے دو لڑکے ہوتے تو ان کو 25،25ہزار ایکڑ زمین مل جاتی پھر اگلی نسل میں بھی دو دو ہی لڑکے ہوتے تو 12 ½ ۔12 ½ ہزار ایکڑ ہوجاتی اور اسی طرح اگر ہر نسل میں دو دو ہی لڑکے فرض کئے جائیں تو تیسری نسل میں6 ¼۔6 ¼ ہزار۔ چوتھی میں قریباً 31،31 سو۔ پانچویں میں پندرہ پندرہ سو۔ چھٹی میں7 ½۔7 ½۔ ساتویں میں قریباً 3 ½۔ 3 ½ سَو۔ آٹھویں میں ڈیڑھ ڈیڑھ سو۔ نویں میں75،75 اور دسویں میں37،37ایکڑ۔ اور اس طرح وہ ایک معمولی حیثیت کے زمیندا رہوتے۔ مگر یورپ نے قانون سے تمام پچاس ہزار ایکڑ بڑے لڑکے کے لئے ہی مخصوص کر کے باقی تمام اولاد کو غریب کر دیا اور اس طرح چند لوگ تو بڑے بڑے لارڈ بن گئے مگر باقی غریب رہ گئے۔ اگر اسلامی قانون پر عمل کیا جاتا تو آج کوئی لارڈ نہ ہوتا۔ پچاس ہزار ایکڑ اراضی بھی دس نسلوں کے بعد35،35 ایکڑ رہ جاتی اور وہ بھی اس صورت میں کہ دو دو ہی لڑکے فرض کئے جائیں حالانکہ بعض لوگوں کے لڑکے تین، چار، پانچ، چھ، سات، آٹھ، نو، دس تک بھی ہو سکتے ہیں اور اگر اتنے اتنے لڑکے ہوتے تو آج ایک ایک کنال زمین بھی ان کے حصہ میں نہ آتی۔ تو یورپ نے خدائی قانون کو تو اس لئے چھوڑا تھا کہ اس سے ان کی عظمت اور وقار میں اضافہ ہو گا۔ مگر ایسا غلامی کا طوق ان کے گلے پڑا کہ آج پچھتاتے پھرتے ہیں۔
سچے مذہبی یعنی اسلام میں بھی مولویوں نے کئی باتیں داخل کر دیں اور کئی بہانے نکالے کہ خداتعالیٰ کے احکام سے کس طرح بچا جا سکتا ہے انہوں نے کہا کہ فلاں حکم سے بچنے کا فلاں حیلہ ہے اور فلاں سے بچنے کا فلاں۔ اور پورا زور لگایا کہ کسی طرح ایسے حیلے تراش لئے جا سکیں جن سے خدا تعالیٰ کے احکام کو نہ ماننا پڑے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کومخاطب کر کے فرماتا ہے کہ خوب یاد رکھو تم اس سے باہر نہیں نکل سکتے اور جب بھی نکلو گے خدائی سلطان کے ساتھ نکلو گے ورنہ اپنے حیلے بہانوں سے اور بھی تکالیف میں مبتلا ہو جاوٴ گے۔ چنانچہ دیکھ لو۔ مولویوں نے جو حیلے بہانے نکالے ان کا نتیجہ یہ ہوٴا کہ اسلام چُھوٹا اور ساتھ ہی وہ عزت بھی جاتی رہی جو مسلمانوں کو حاصل تھی۔ وہ دُنیوی لحاظ سے بھی ایسے ذلیل ہو گئے کہ آج جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں۔ کُجا یہ حالت تھی کہ ایک مسلمان بادشاہ ذرا بھی خفگی کا اظہار کرتا تو سارا یورپ تھرّا اٹھتا تھا اور کُجا یہ کہ آج اگر ساری اسلامی حکومتیں مل کر بھی کسی ایک بڑی یوروپین حکومت کا مقابلہ کرنا چاہیں تو نہیں کرسکتیں۔ افغانستان، عراق، عرب، ایران، مصر اور ترکی سارے مل کر بھی اگر انگریزوں کا مقابلہ کرنا چاہیں تو چھ ماہ نہیں کر سکتے۔ اگر سارے مل کر روس کا مقابلہ کرنا چاہیں تو چھ ماہ نہیں کر سکتے۔ سارے مل کر جرمنی کا مقابلہ کرنا چاہیں تو چھ ماہ نہیں کر سکتے، امریکہ کا مقابلہ کرنا چاہیں تو چھ ماہ نہیں کر سکتے۔ ایشیائی طاقت جاپان کا مقابلہ بھی چھ ماہ نہیں کر سکتے۔ یہ کتنا بڑا تغیر ہے۔ کُجا یہ حالت تھی کہ مسلمانوں کا خلیفہ مدینہ میں بیٹھا ہوٴا کوئی بات کہتا تو قیصر روم قسطنطنیہ میں تھر تھر کانپ اٹھتا تھا اور کُجا آج یہ حالت ہے کہ باوجود اس کے کہ بادشاہت نے خلافت کی جگہ لے لی مگر سارے مسلمان ممالک مل کر یورپ کی کسی ایک بڑی طاقت کا مقابلہ بھی نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کوشش کی کہ قرآن کا جوٴا پھینک کر آزاد ہو جائیں مگر اور بھی زیادہ غلام ہو گئے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ کہ تم اس قانون سے نکل نہیں سکتے۔ حتّٰی کہ اسلام جو سچا مذہب ہے اس میں اگر کوئی خرابی تم خود بھی داخل کر لو تو اس سے بھی خود بخود نہ نکل سکو گے۔ اس سے بھی کوئی مامور ہی آ کر تمہیں نکالے گا ۔ دیکھ لو وہابیوں نے کتنا زور مارا کہ حنفیوں نے جو رطب و یابس اسلام میں داخل کر دیا ہے اسے نکال دیں مگر کامیاب نہ ہو سکے بلکہ اسے صاف کرتے ہوئے ساتھ ہی قرآن کریم پر بھی ہاتھ صاف کر دیا۔ اور صرف بخاری ہی بخاری رہ گئی۔ فرمایا لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ۔ اگر خدا تعالیٰ کے دین میں تم خود کوئی بات داخل کر لو تو اس سے بھی تمہیں خداتعالیٰ کی طرف سے کوئی سلطان یعنی مامور ہی آکر نکالے گا۔ تم خود اس سے بھی نہ نکل سکو گے۔اگر تم نے سچے مذہب میں کوئی گمراہی بھی داخل کر لی ہے تو چونکہ وہ دین کا جزو بن چکی ہے اس لئے اپنے دین کی عظمت کے پیش نظر خدا تعالیٰ تمہیں وہ گمراہی بھی نہیں نکالنے دے گا۔ ورنہ تم میں یہ غرور پیدا ہو سکتا ہے کہ شاید ہم بھی دین بنانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اس لئے ہم نے یہ قانون بنا دیا ہے کہ سچے دین سے خرابیوں کو دور کرنے کے لئے بھی مامور کی ضرورت ہے۔ گو وہ خرابی جسے اس نے نکالنا ہے بندوں نے ہی پیدا کی ہو۔ مگر احتیاط کا پہلو یہی ہے کہ اسے خود نہ نکال سکو بلکہ وہ خرابی بھی اِلَّا بِسُلْطٰنٍ ہی نکل سکتی ہے یعنی ہم اس کی اصلاح کے لئے مامور بھیجتے ہیں۔ اس گمراہی سے نجات بھی سلطان کے ذریعہ ہی ہو سکتی ہے۔ تم خود اس سے نجات نہیں پا سکتے اور یہ احتیاط اس لئے کی جاتی ہے کہ تا تم دودھ میں سے مکھی نکالتے نکالتے دودھ بھی ضائع نہ کر دو۔ خدا تعالیٰ کے دین کو تم نے منسوخ کر دیا اور اس میں گند ملا لیا اور اس طرح خدا تعالیٰ کے قانون سے بچنے کی کوشش کی مگر اب اس کا نتیجہ یہ ہو گاکہ تمہیں اسی کی غلامی کرنی پڑے گی جب تک کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی مامور آ کر اس کی اصلاح نہ کر دے۔ پس اس آیت کے یہ معنی ہوئے کہ اگر تم مذہب کے قانون سے آزاد ہونے کی کوشش کرو گے تو بھی آزاد نہیں ہو سکتے بلکہ اس سے اور مصائب میں مبتلا ہو جاوٴ گے۔
اب دیکھ لو یہ معنی کرنے کے بعد فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ کیسا مطابق بیٹھتا ہے یعنی تم خداتعالیٰ کی کون کون سی نعمت کا انکار کرو گے۔ اگر ہم نے یہ قانون نہ بنایا ہوتا تو تم کیسے گڑھوں میں گر جاتے۔ یہ حد بندی اگر نہ ہوتی، اگر مذہب کی اصلاح کا اختیار انسان کو ہوتا تو پتہ نہیں کہ وہ سچے دین کو کیا سے کیا بنا دیتا یا اگر اس کے اختیار میں ہوتا تو قانون قدرت کو بدل دیتا اور سائنس کی مدد سے موت کو اڑا دیتا اور اس طرح خطرناک مصائب کا شکار ہو جاتا۔ اگر قانون فطرت یا قانون شریعت کو بدلنے کا اختیار انسان کو ہوتا تو وہ اپنے لئے ایسی ایسی مصیبتیں پیدا کر لیتا کہ جن سے پھر نکل نہ سکتا۔ مثلاً فرض کرو موت کو اڑانے کا اختیار اسے ہوتا تو کس طرح مشکلات پیش آتیں۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ موت کو اپنے اختیار میں رکھ کر ہم نے تم پر رحم کیا ہے۔ اگر مارنا یا جلانا انسان کے اختیار میں ہوتا تو یہ دونوں چیزیں اس کے لئے مصیبت بن جاتیں۔
پھر فرمایا يُرْسَلُ عَلَيْكُمَا شُوَاظٌ مِّنْ نَّارٍ١ۙ۬ وَّ نُحَاسٌ فَلَا تَنْتَصِرٰنِیعنی دنیا جب کبھی ان قانونوں سے بچنے کی کوشش کرے گی۔ دنیا میں لڑائی اور جھگڑے زیادہ ہوں گے۔ جب انسان قانون قدرت سے بچنے کی کوشش کرے گا تب بھی اور جب قانون مذہب سے بچنے کی کوشش کرے گا تب بھی وہ سخت مصیبت میں مبتلا ہو گا۔
موجودہ جنگ بھی اسی قانون کے ماتحت ہو رہی ہے۔ سائنسدانوں نے کوشش شروع کی کہ وہ انسان کو خدا تعالیٰ سے آزاد کر دیں مگر اس کوشش کا نتیجہ کیا نکلا؟ بم اور ہوائی جہاز اور اس طرح موت پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئی۔ خدائی مذہب نے انسان کی نجات کا جو راستہ تجویز کیا تھا اسے نظر انداز کر کے لوگوں نے بالشو ازم اور ناٹسی ازم نکالے مگر ان سے غلامی اَور بھی بڑھ گئی۔ یہی شُوَاظٌ مِّنْ نَّارٍ ہے۔ فرمایا جب بھی تم کہو گے کہ سائنس کی ترقی سے ہم خدا تعالیٰ کو بے دخل کر دیں یا خدا تعالیٰ کے قانون کی جگہ خود کوئی قانون بنا لیں تو تم پر اَور زیادہ مصائب آئیں گے بم گریں گے اور آزادی حاصل کرنے کی بجائے اَور بھی غلامی میں پڑ جاوٴ گے۔ اگر واقعی مذہب میں خرابی پیدا ہو جائے تو بھی تم اس سے آزاد نہیں ہو سکتے جب تک کہ خدا تعالیٰ کا نبی آ کر تمہیں اس سے نہ نکالے۔ اگر بگاڑ تم نے خود پیدا کیا ہے تو دور اسے خود نہیں کر سکتے بلکہ خدا تعالیٰ کا مامور آ کر ہی اسے دور کر سکتا ہے۔ اسی طرح سائنس جب مذہب سے جدا ہو کر چاہے گی کہ خدا کو پنشن دے دے تو اس کی تحقیقات کے نتیجہ میں بم اور طیارے ایجاد ہوں گے۔ آرام اور سکھ کے سامان نہیں۔ آرام اور سکھ کے سامان اسی صورت میں ایجاد ہوں گے جب خدا تعالیٰ پر یقین ہو اور اس کے قانون کو اپنے لئے راحت کا موجب سمجھتے ہوئے تم کہو کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز میں مخفی طاقتیں بھی رکھی ہیں۔ آوٴ ان کی تحقیقات کریں۔ ان حالات میں جو ایجادیں ہوں گی وہ آرام و راحت اور آسائش کا موجب ہوں گی لیکن جب خدا تعالیٰ پر ایمان نہ ہو گا اور اس کے قانون سے بچنے کی کوشش کی جائے گی تو اس صورت میں ذہن ہمیشہ تکلیف دہ چیزوں کی طرف جائے گا۔ دیکھو مسلمانوں کی ایجادیں دنیا کے سکھ اور راحت کا موجب ہوٴا کرتی تھیں کیونکہ ان کا خدا پر ایمان تھا۔
غرض خدا تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہوئے اس کی دی ہوئی مخفی طاقتوں کی تحقیقات کرنے والے کا ذہن ایسی چیزوں کی طرف جائے گا جو انسان کے لئے سکھ اور راحت کا موجب ہوں لیکن جب خداتعالیٰ پر ایمان نہ ہو بلکہ اس کے قانون سے بچنے کی کوشش کی جا رہی ہو تو ایسا انسان خواہ دوائیاں ہی کیوں نہ بنانے کی کوشش کرے اس کی کوششوں کا نتیجہ بم اور ہلاکت آفرین ایجادیں ہی ہوں گی۔ وہ خواہ کوئی آرام دہ چیز ہی ایجاد کرنا چاہے مگر نتیجہ بمبار طیارہ کی دریافت ہی ہو گا۔ کیونکہ جب دل میں خد ا تعالیٰ کی رحمت کا یقین نہ ہو تو یہ ہو نہیں سکتا کہ ذہن کسی ایسی چیز کی طرف جا سکے جو انسان کے لئے رحمت کا موجب ہو سکے۔ ایسی حالت میں جو تحقیقات ہو گی اس کانتیجہ فساد کے سوا کچھ نہ ہو گا اور اس سے بچنے کا صرف ایک ہی طریق ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ کے قانون کو رحمت سمجھو اور اس سے بچنے کی کوشش نہ کرو۔ پھر تمہارا ذہن ایسی ایجادوں کی طرف جائے گا جو دنیا کے لئے رحمت کا موجب ہوں گی۔ اسی طرح اگر مذہب میں تمہیں کوئی دقّت پیش آتی ہے تو اس کا یہ طریق نہیں کہ خود اس سے نکلنے کی کوشش کرو بلکہ اس کا ایک ہی علاج ہے کہ دعائیں کرو تا خدا تعالیٰ اپنا مامور بھیجے جو آ کر اصلاح کرے اور ان اَغْلَال کو کاٹ دے اگر خود ان کو کاٹنے کی کوشش کرو گے تو وہ اَور پڑ جائیں گے۔
یہ ہے اس آیت کا مضمون میرے نزدیک۔ جسے عذابِ الٰہی تک محدود کر کے مفسرین نے اس سے اگلی آیت فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ کا مضمون بھی بگاڑ دیا ہے۔’’
(الفضل 29 اکتوبر 1941ء)
1 الرّحمٰن : 34 تا 37
2 الفاتحہ: 2
3 الفاتحہ: 3
4 بالشوازم: کمیونزم کا روسی نام۔ اس اصطلاح کا استعمال پہلی بار 1903ء میں لنڈن میں ہؤا جبکہ روسی سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی کے اجلاس میں کارل مارکس کے پیرووٴں کو اکثریت حاصل تھی۔ اس کے مقابلہ میں اقلیت کو بولشویک کہا گیا۔ 1917ء کے انقلاب کے بعد بولشویک پارٹی کا نام کمیونسٹ پارٹی ہو گیا۔ (ایوری مین انسائیکلو پیڈیا، اردو انسائیکلو پیڈیا)


30
خوب دعائیں کرو کہ ہم بحیثیت جماعت خدا تعالیٰ سے اور ہمارا رب ہم سے راضی ہو جائے
( فرمودہ 24 اکتوبر 1941ء )

تشہد، تعوّذ اور سورہٴ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘مسنون طریق خطبہ کھڑے ہو کر پڑھنے کا ہے مگر بوجہ اس کے کہ ابھی بیماری کی کمزوری کافی ہے مَیں کھڑے ہو کر خطبہ نہیں پڑھ سکتا۔ ہماری شریعت کا یہ ایک احسان ہے اور اس کے کامل ہونے کی دلیل کہ اس نے ہر حالت کے انسان کے لئے ایک جواز کی صورت پیدا کر دی ہے۔ نماز کھڑے ہو کر پڑھنے کا حکم ہے مگر کوئی شخص بوجہ بیماری کھڑا نہ ہو سکے تو اسے بیٹھ کر پڑھنے کی بھی اجازت ہے اور اگر کوئی بیٹھ کر نہ پڑھ سکے تو لیٹ کر ہی پڑھ لینے کی اجازت ہے۔ اگر کوئی لیٹ کر بھی کروٹ نہ بدل سکے تو اسے اجازت ہے کہ دل میں ہی نماز کی عبارتیں دہرا لے اور اگر کوئی بے ہوشی کی حالت میں ہو اور بیماری نے اسے بالکل مضمحل کر رکھا ہو اور حالتِ صحت میں باقاعدہ نماز پڑھنے والا ہو تو شریعت کا فیصلہ یہ ہے کہ جب بھی نماز کا وقت آئے گا اس کے نام نماز لکھ دی جائے گی۔ یہ اسلام کے فضائل میں سے ایک فضیلت ہے کہ وہ ہر قسم کے حالات میں انسان کے لئے سہولتیں بہم پہنچاتا ہے۔
آج مَیں اس امر کو بیان کرنا چاہتا ہوں کہ بوجہ بیماری اس سال کے روزوں کے متعلق میں کوئی اعلان نہیں کر سکا۔ ہماری جماعت چونکہ دور دور پھیلی ہوئی ہے اس لئے پہلے سے ایسا اعلان ضروری ہوتا ہے مگر مَیں چونکہ بیمار تھا اس لئے پہلے اعلان نہ کر سکا۔ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ میں اس کے متعلق مضمون لکھوا کر ‘‘الفضل’’ میں شائع کرا دیتا مگر بیمار کا ذہن بھی چونکہ صاف نہیں ہوتا اس لئے وہ ہر قسم کی تجاویز بھی نہیں سوچ سکتا۔
بہرحال جو ہو چکا ۔ سو ہو چکا۔ اب اس جمعہ میں مَیں یہ اعلان کرتا ہوں کہ حسبِ سابق ہماری جماعت کے دوست اس شوال میں بھی سات روزے رکھیں۔ پہلا روزہ اس ہفتہ کی جمعرات سے شروع ہو۔ پھر ہر پیر اور جمعرات کو رکھتے ہوئے سات روزے پورے کئے جائیں چونکہ یہ روزے بھی نفلی ہیں اور دعاوٴں کے لئے ہیں۔ اس لئے شوال کے مہینہ میں آنحضرت ﷺ جو چھ روزے رکھتے تھے ۔1 وہ بھی چونکہ نفلی ہیں اس لئے وہ چھ روزے بھی ان کے اندر شامل کئے جا سکتے ہیں اگر یہ روزے رکھ لئے جائیں تو سمجھ لیا جائے گا کہ آنحضرت ﷺ کی جو سنت شوال میں روزے رکھنے کے متعلق ہے اس پر بھی عمل ہو گیا۔ وہ روزے چھ ہیں اور اس طرح ایک روزہ زیادہ ہو گا۔
جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کئی بار بیان کیا ہے ۔ یہ زمانہ جو گزر رہا ہے سخت مشکلات کا زمانہ ہے اور بہت نازک ہے۔ دنیا پر بھی مصائب پر مصائب آ رہی ہیں اور ہماری جماعت بھی بوجہ اقلیت ہونے کے سخت مشکلات میں سے گزر رہی ہے اور اس واسطے ہمارے لئے دعاوٴں کا موقع مل جانا خواہ وہ خداتعالیٰ کی طرف سے پیدا کیا گیا ہو یا نظام کی طرف سے مقرر شدہ ہو۔ ایک برکت کی چیز ہے۔ جس سے فائدہ اٹھا کر ہم بہت سی مشکلات سے بچ سکتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے بہت سے فضلوں کے وارث ہو سکتے ہیں۔ جو مصائب بندوں کی طرف سے لائی جانی ہیں ان سے بچنے کے لئے اور جو فضل خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لئے مقدر ہیں ان کو حاصل کرنے کے لئے یہ روزے بہت مفید ہیں۔ کیونکہ ان کی غرض یہی ہے کہ جماعت کے دوستوں کو زیادہ دعائیں کرنے کا موقع ملے اور اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے دوست خصوصیت کے ساتھ تہجد کے لئے اٹھا کریں اورخصوصیت سے یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ سلسلہ کی مشکلات کو خواہ وہ رعایا کی طرف سے ہوں خواہ حکومت کی طرف سے اور خواہ دوسری حکومتوں کی طرف سے ہوں دور فرمائے اور سلسلہ کی عظمت کو قائم کرے اور اسے ترقی عطا فرمائے۔
کچھ عرصہ سے مَیں دیکھتا ہوں کہ بِلا وجہ اور بِلا سبب ہماری جماعت کے خلاف کارروائیاں کی جاتی ہیں اور اس کی بنیاد جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس بات پر ہے کہ حکومت کا خیال ہےکہ کوئی منظم جماعت ملک میں نہیں ہونی چاہئے۔ اخلاقی طور پر یہ ایسا گرا ہوٴا خیال ہے کہ کسی مہذب کہلانے والی گورنمنٹ کو اس کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ مگر چونکہ دنیوی حکومتیں ہر بات کو دنیوی نقطہٴ نگاہ سے دیکھتی ہیں اور الٰہی اخلاق ان کے سامنے نہیں ہوتے اس لئے وہ ایسی حرکات کر جاتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ متواتر سات آٹھ سال سے ایسی کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ قسم قسم کے الزام تراش کر اور بہتان باندھ کر جماعت یا اس کے معزز افراد مثلاً مبلغین وغیرہ کو متہم کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی اور حیرت ہوتی ہے کہ حکومت کوہو کیا گیا ہے۔ جو لوگ آج ہمارے خلاف جھوٹی باتیں کرتے ہیں وہ پہلے بھی کرتے تھے۔ جب گزشتہ سالوں میں ہمارے خلاف شورش اٹھائی گئی تو لارڈ ہیلی نے چِٹھی لکھ کر دی کہ جب مَیں پنجاب کا گورنر تھا اس وقت بھی اس جماعت کے خلاف ایسی باتیں ہوتی رہتی تھیں۔ حتّٰی کہ انہی باتوں کی تحقیقات کے لئے مجھے دو تین بار گورداسپور جانا پڑا تا معلوم کر سکوں کہ یہ باتیں کہاں تک صحیح ہیں اور مَیں نے ہمیشہ ان باتوں کو جھوٹا پایا اور یہی ثابت ہوا کہ وہ صرف دشمنی کی وجہ سے کی جاتی تھیں اور انہوں نے اپنے آپ کو شہادت کے لئے پیش کیا اور کہا کہ اگر یہ معاملہ وزیر ہند کے پاس تحقیقات کے لئے آیا تو مَیں گواہی دوں گا۔ تو یہ چیزیں جو آج دشمنوں کی طرف سے پیش کی جاتی ہیں پہلے بھی تھیں۔ یہ کہ لوگ ہمارے خلاف باتیں بناتے ہیں کوئی نئی بات نہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے زمانہ میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے وائسرائے اور گورنر تک یہ باتیں پہنچائی تھیں کہ یہ لوگ باغی ہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ طاقت حاصل ہو تو حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ مرزا صاحب مہدی ہونے کے مدعی ہیں اور مہدی کے لئے جنگ لازمی چیز ہے مگر فرق صرف یہ ہے کہ اس زمانہ میں حکام کی ذہنیت اور تھی اور اس وقت کے حکام کی ذہنیت اَور ہے۔ ایک قصہ مشہور ہے ۔ کہتے ہیں کوئی تاجر شہر کے قاضی کے پاس اپنا روپیہ امانت رکھ کر کہیں دور دراز کے سفر پر گیا۔ جب واپس آ کر مانگا توقاضی نے انکار کر دیا اور کہا کہ میرے پاس تم نے کوئی امانت نہیں رکھی تھی۔ تاجر بادشاہ کے پاس گیا اور قاضی کی شکایت کی۔ بادشاہ نے کہا کہ چونکہ قاضی ایک دفعہ انکار کر چکا ہے تو اسے تسلیم نہ کرے گا۔ اب یہی علاج ہے کہ اس پر اثر ڈالا جائے کہ مَیں تمہارا دوست ہوں۔ اور شاید تمہاری بات پر زیادہ اعتبار کروں گا۔ میرا جلوس فلاں وقت نکلنے والا ہے اور مَیں قاضی کے مکان کی طرف سے گزروں گا۔ تم بھی اس مکان کے قریب ہی کھڑے رہنا۔ مَیں تمہارے ساتھ اس طرح گفتگو کروں گا جیسے بے تکلف دوست سے کی جاتی ہے ۔ تم گھبرانا نہیں اور دلیری سے باتیں کرنا۔ چنانچہ جلوس کے وقت وہ تاجر قاضی کے مکان کے قریب ہی آ کر کھڑا ہو گیا۔ بادشاہ وہاں پہنچا تو پہچان کر کہنے لگا کہ فلاں تاجر صاحب سنائیے کیا حال ہے۔ مدت سے آپ ملے ہی نہیں ۔ تاجر نے جواب دیا حضور اچھا ہوں۔ مَیں باہر گیا ہوا تھا واپس آیا تو بعض پریشانیاں لاحق ہو گئیں۔ لین دین کے معاملات میں کچھ خرابی تھی۔ اسی میں لگا رہا۔ بادشاہ نے کہا کہ یہ کیا بات ہے۔ آپ ہمارے دوست ہیں۔ چاہئے تھا فوراً ہمارے پاس پہنچتے۔ وہ کونسی پریشانی تھی جسے ہم دور نہ کر سکتے۔ تاجر نے کہا۔ نہیں حضور وہ خود ہی دور ہو جائیں گی۔ حضور کو تکلیف دینے کی ضرورت نہیں۔ تاہم اگر کوئی موقع ہؤا تو حاضر ہو کر عرض کروں گا۔ بادشاہ تو یہ باتیں کر کے آگے چلا گیا اور قاضی فوراً اس کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میاں سناوٴ تم ایک دفعہ آئے تھے اور کہتے تھے کہ تم نے کچھ روپیہ میرے پاس امانت رکھا تھا۔ اس کے بعد تم آئے ہی نہیں۔ آ کر اس کا کچھ اتہ پتہ بتاتے تو یاد آ سکتا تھا۔ تاجر نے پھر وہی باتیں جو کئی بار پہلے بھی کہہ چکا تھا دوہرا دیں کہ آپ یوں بیٹھے تھے اس طرح کی تھیلی تھی ایسا رنگ تھا اور اس میں روپے رکھے تھے۔ یہ سن کر قاضی نے کہا کہ اوہو! تم نے یہ سب باتیں پہلے کیوں نہ یاد کرائیں۔ ایسی تھیلی تو میرے پاس پڑی ہے۔ آ کر لے جاوٴ۔ چنانچہ اپنی امانت واپس لے آیا۔
تو یہ ذہنیت کا سوال ہے۔ ایک وقت اس نے سمجھا کہ مجھے کوئی پوچھنے والا نہیں اس تاجر کا کوئی مددگار نہیں ۔ مَیں اس کی امانت ہضم کر لوں گا تو اس نے انکار کر دیا۔ مگر جب دیکھا کہ بادشاہ اس کا دوست ہے اور یہ روپیہ ہضم نہ ہو سکے گا تو فوراً واپس کر دیا۔
اسی طرح جب ماتحت حکام کو خیال ہو کہ حکومت کی ذہنیت کسی جماعت کے موافق ہے تو وہ شرارت سے رکے رہتے ہیں لیکن جب ان کا خیال ہو جائے کہ اعلیٰ حکام کی رائے اس جماعت کے خلاف ہے تو وہ اس کی مخالفت کرنے لگ جاتے ہیں۔ باتیں تو وہی ہوتی ہیں مگر جب حکام کی ذہنیت خراب نہ ہو تو وہ ان باتوں کی پرواہ نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ مخالف ایسی باتیں بنایا ہی کرتے ہیں۔ مگر جب حکام کی ذہنیت خراب ہو جائے تو وہ انہی باتوں کو بہت اہمیت دے دیتے ہیں۔
یہ باتیں جہاں تک ہم سمجھتے ہیں پنجاب گورنمنٹ سے ہی تعلق رکھتی ہیں۔ انگریز قوم سے نہیں۔ انگریز قوم میں بعض لوگ ہمارے دوست ہیں۔ اور گزشتہ شورش کے ایام میں انہوں نے ہماری مدد بھی کی تھی اور برطانوی حکومت نے ان باتوں میں دخل ہی نہ دیا تھا۔ لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ پنجاب گورنمنٹ یا اس کے بعض عہدہ داروں کی طرف سے ہمارے خلاف کارروائیاں ضرور کی جاتی ہیں اور ہمارے لئے ایک اور مشکل بھی ہے اور وہ یہ کہ ہماری شریعت ہمیں حکومت کا وفادار رہنے کا حکم دیتی ہے۔ دوسرے لوگوں کو اگر ایسے حالات پیش آئیں تو وہ خلافِ قانون حرکات سے اپنا غصہ نکال لیتے ہیں مگر ہمیں اس کی بھی اجازت اسلام نہیں دیتا۔ اور یہ بات ظاہر ہے کہ ناجائز دکھ پہنچانے والے دلائل سے نہیں مانا کرتے۔ کہتے ہیں لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانا کرتے اور یہ ذریعہ خدا تعالیٰ نے ہم سے چھین لیا ہے۔ ہمیں یہی حکم ہے کہ یا تو جس ملک میں رہو اس کی حکومت کی فرمانبرداری کرو یا پھر اس ملک کو چھوڑ دو۔
ہمارے مقدس مذہبی مقامات قادیان اور پنجاب میں ہیں۔ اس لئے ہم ملک کو بھی نہیں چھوڑ سکتے اور حکومت کی مخالفت بھی نہیں کر سکتے۔ پس اس صورت میں ہمارے لئے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حضور گر جائیں اور اس سے عاجزانہ دعائیں کریں اور کہیں کہ اے خدا دشمن ہم پر حملے کر رہا ہے اور ہمارے ہاتھ تُو نے باندھے ہوئے ہیں اور ہم مقابلہ نہیں کر سکتے ۔ اس لئے ہمارے دشمن کے ہاتھ بھی تو ہی باندھ دے ہمارے لئے جو مشکلات ہیں وہ بھی تیری کسی حکمت اورمصلحت کے ماتحت ہی ہیں اور تیرا فضل ہو تو انہی مشکلات سے بہت اعلیٰ نتائج ہمارے لئے نکل سکتے ہیں یہ مشکلات گو سخت ہیں مگر ہم تجھ سے درخواست کرتے ہیں کہ اپنے فضل سے ان کو دور فرما دے۔
ہماری جماعت نے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے تازہ نشانات دیکھے ہیں اور حال ہی میں ایک نشان حیرت انگیز طور پر پورا ہوٴا ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ بعض لوگ خود غور نہیں کرتے اور پوچھتے ہیں کہ فلاں روٴیا کس طرح پورا ہوٴا۔
مَیں نے اکتوبر 1940ء میں روٴیا دیکھا تھا کہ میرے سامنے کچھ کاغذات پیش کئے گئے ہیں جو پٹیان گورنمنٹ کے متعلق ہیں اور ان کو دیکھ کر مجھے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کچھ حرکات انگریزوں کے خلاف کر رہی ہے۔ اور انگریز پہلی دوستی کے لحاظ کی وجہ سے کچھ کر نہیں کر سکتے اور مَیں خواب میں ہی گھبراتا ہوں کہ اب کیا بنے گا۔ تو میرے دل میں ڈالا جاتا ہے کہ یہ صرف ایک سال کی بات ہے۔ سال کے اندر اندر یہ حالت بدل جائے گی۔ بعض دوستوں کو یہ روٴیا سنایا اور یہ بھی کہا کہ اس کی چار تعبیریں ہو سکتی ہیں۔ یا تو مارشل پٹیان مر جائیں گے یا ان کی حکومت بدل جائے گی یا پٹیان گورنمنٹ پورے طور پر جرمنی سے مل جائے گی اور اس طرح برطانیہ کو جو کچھ اس کا لحاظ ہے وہ جاتا رہے گا اور وہ پوری طاقت کے ساتھ اس کا مقابلہ کر سکے گی یا پھر وہ انگریزوں کے ساتھ مل جائے گی اور یہ روٴیا حیرت انگیز طور پر پورا ہوٴا ہے۔ فرانس کی شکست سے ٹھیک ایک سال کے بعد عراق میں جرمنوں نے بغاوت کرائی اور ایسے نازک حالات پیدا ہو گئے کہ خطرہ تھا ہفتہ عشرہ میں ہی جنگ ہندوستان تک آپہنچے گی اور اس بغاوت کے سلسلہ میں شام کی فرانسیسی حکومت نے جرمنوں کو مدد دی اور اس طرح انگریزوں کے لئے جو پہلے فرانس کے ساتھ اس وجہ سے جنگ نہ کرنا چاہتے تھے کہ دنیا میں ان کی بدنامی ہو گی اور لوگ کہیں گے کہ اپنے سابق حلیف کے ساتھ جنگ کر رہے ہیں اس کا مقابلہ کرنے کا موقع خود بخود پیدا ہو گیا اور انہیں فرانس کو نوٹس دینا پڑا اور جب پھر بھی فرانس کے رویہ میں تبدیلی نہ ہوئی تو انہوں نے اس کا مقابلہ کیا اور اسے شکست دی۔ دیکھو کس طرح یہ روٴیا ایک سال کے اندر اندر پورا ہو گیا ورنہ اس وقت دونوں کی طرف سے اعلان ہوتے تھے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ لڑنا نہیں چاہتے۔ فرانس والے کہتے تھے کہ ہم انگریزوں سے لڑائی نہیں چاہتے اور انگریز کہتے تھے کہ ہم فرانس کے کسی علاقہ پر قبضہ کے خواہاں نہیں اور دونوں میں جنگ ناممکن نظر آتی تھی۔ مگر7،8 ماہ کے بعد ایسے سامان پیدا ہو گئے کہ عراق میں شرارت پھیلی اور انگریزوں نے وہ علاقہ اپنے اقتدار میں لے لیا جسے اڈا بنا کر جرمن حکومت سب سے زیادہ انگریزوں کو نقصان پہنچا سکتی تھی۔ پھر قریباً دو ماہ سے فرانس میں کبھی جرمن افسر قتل کئے جاتے ہیں اور کبھی پٹیان گورنمنٹ کے افسروں پر حملے ہوتے ہیں۔ گویا فرانس میں انگریزوں کے حامیوں کا اتنا زور بڑھ رہا ہے کہ اب پٹیان گورنمنٹ ان کو دق نہیں کر سکتی۔ ایک سال کے اندر اندر اللہ تعالیٰ نے اس روٴیا کو ایسے رنگ میں پورا کر دیا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ مَیں نے یہ روٴیا بعض دوستوں کو سنایا تھا۔ چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب کو بھی سنایا تھا۔ انہوں نے سن کر کہا کہ معلوم ہوتا ہے کہ مارشل پٹیان مر جائے گا۔ مگر مَیں نے کہا کہ نہیں اس کی چار تعبیریں ہو سکتی ہیں۔ جلسہ سالانہ پر بھی سنایا تھا۔ یہ اللہ تعالیٰ کے نشانات ہیں جو ہم دیکھتے ہیں ورنہ سیاسیات سے ہمارا کیا تعلق ۔ ہمیں تو ہندوستان بلکہ پنجاب کی سیاسیات کی بھی سمجھ نہیں چہ جائیکہ انگلستان اور فرانس کے سیاسی معاملات کو سمجھ سکیں اور پتہ لگا سکیں کہ ایک سال بعد کیا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے یہ خبریں پہلے سے بتا دیتا ہے تا ایک نشان ہو۔ عام خیال تھا کہ کریٹ پہنچ کر جرمن اپنی فوجیں شام میں اتار دیں گے اور یہ ایک بہت بڑا خطرہ تھا مگر اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دئیے کہ خطرہ کا یہ مقام بھی دور ہو گیا جیسا کہ اس خواب میں بتایا گیا تھا۔ یہ نشانات بتاتے ہیں کہ ہمارا خدا بہت طاقتور ہے اور انسانی حکومتیں اس کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ جب ہرہیس انگلستان میں اترا، میں سندھ میں تھا۔ رات کو مَیں نے ریڈیو پر خبریں سنیں۔ ان میں اس کے اترنے کا کوئی ذکر نہ تھا۔ یوں وہ اتر چکا تھا۔ رات کو مَیں نے خواب دیکھا کہ ایک بڑا جرمن لیڈر ہوائی جہاز سے انگلستان میں اترا ہے۔ صبح مَیں نے بعض دوستوں کو خطوط لکھے تو ان میں اس کا ذکر دیا کیونکہ صبح کی خبروں میں ریڈیو پر یہ خبر بھی آ گئی تھی۔ مَیں نے خواب میں جو جرمن لیڈر دیکھا اس کا اَور نام تھا مگر خواب میں بعض اوقات ایک سے مراد دوسرا ہوتا ہے۔ بعض اوقات باپ سے مراد بیٹا ہوتا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے خواب میں دیکھا کہ ابو جہل کے ہاتھ میں جنت کے انگوروں کا خوشہ ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ مَیں بہت گھبرایا اور دل میں کہا کہ کیا خدا تعالیٰ کا رسول اور اس کا دشمن دونوں ایک جگہ ہوں گے مگر بعد میں عکرمہ مسلمان ہو گئے تو معلوم ہوٴا کہ اس روٴیا میں ابو جہل سے مراد اس کا بیٹاتھا۔2 بعض دفعہ خواب میں بیٹا دکھایا جاتا ہے تو مراد اس سے باپ ہوتا ہے۔ یہ بہت وسیع مضمون ہے جس کے بیان کا یہ موقع نہیں۔ خواب میں مَیں نے اور جرمن لیڈر دیکھا تھا مگر اس کی ایک تعبیر یہ تھی کہ ہیس ہوائی جہاز سے اترا ہے اور ابھی ایک اور تعبیر ہے جو ابھی پوری ہونے والی ہے۔ اس خواب میں اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بعض اور باتیں بھی ظاہر فرمائیں جو بہت مخفی ہیں اور کسی پر مَیں نے ان کو ظاہر نہیں کیا۔ غرض اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر وقت ہماری مدد ہوتی ہے۔ اس لئے ہم وہ ہتھیار کیوں نہ استعمال کریں جو اس نے ہمیں دیا ہے اور جو دعا کا ہتھیار ہے۔ دنیوی لحاظ سے ہم بے بس اور بے کس ہیں مگر دراصل نہیں ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ ہم سے زیادہ طاقت ور اور کوئی نہیں ہے۔ کیونکہ ہمارے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت ہے۔ اور جس کے ساتھ خدا تعالیٰ کی مدد ہو وہ بے بس اور بے کس نہیں ہوتا۔
رسول کریم ﷺ ظاہری لحاظ سے بالکل بے بس تھے اور ایسی بے بسی تھی کہ مکہ کے لوگ جن کے پاس کوئی بڑی طاقت یا حکومت نہ تھی مدینہ پر چڑھ آتے تھے۔ ایسی بے بسی کی حالت میں ایران کے بادشاہ نے آپ کی گرفتاری کا حکم یمن کے گورنر کو بھیجا اور اس نے اپنے آدمی آپ کے پاس بھیجے۔ انہوں نے آپ کو سمجھانا شروع کیا۔ وہ خیال کرتے تھے کہ یہ عرب کے لوگ ایران کے بادشاہ کی طاقت سے واقف نہیں ہیں۔ اس لئے آپ سے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ چلے چلیں۔ گورنر نے وعدہ کیا ہے کہ وہ آپ کی سفارش بادشاہ کے پاس کر دے گا اور کہے گا کہ آپ قصور وار نہیں ہیں۔ اور اس طرح آپ کو بچانے کی کوشش کرے گا۔ لیکن اگر آپ نے انکار کیا اور ساتھ نہ گئے تو بادشاہ تمام عرب کو تباہ کر دے گا۔ آپ نے ان قاصدوں سے کہا کہ تین دن تک جواب دیں گے۔ آپ کی کوئی ذاتی طاقت تو نہ تھی۔ آپ نے دعا کی اور آپ کو الہام ہوٴا کہ ہم نے ایران کے بادشاہ کو اس کے بیٹے کے ہاتھ سے قتل کرا دیا ہے۔ ایرانی لوگ اپنے بادشاہ کو خدا اور خداوند کہہ کر خطاب کرتے تھے۔ اس لئے مقررہ دن جب اس کے قاصد جواب کے لئے آپ کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا کہ آج رات میرے خدا نے تمہارے خدا کو مار دیا ہے۔ انہوں نے پھرآپ کو سمجھانا شروع کیا اور کہا کہ آپ ایسا جواب نہ دیں۔ ہمارے ساتھ چلے چلیں۔ گورنر سفارش کر دے گا۔ ورنہ تمام ملک پر آفت آ جائے گی اور عرب برباد ہو جائے گا۔ آپ نے فرمایا کہ تم جاوٴ اور گورنر کو میرا یہی جواب دے دو۔ وہ چلے گئے اور گورنر یمن کو یہ جواب پہنچا دیا۔ اس نے کہا مَیں کچھ دن انتظار کروں گا حتّٰی کہ ایران سے ڈاک آ جائے۔ اگر یہ بات درست ہوئی تو مَیں بھی اس شخص پر ایمان لے آوٴں گا اور اگر غلط ہوئی تو اللہ ہی عرب پر رحم کرے۔ کیونکہ کسریٰ تمام عرب کو تباہ کر دے گا۔ چند روز کے بعد اسے اطلاع ملی کہ ایران سے ایک پیغامبر خاص جہاز میں آیا ہے اور اس کے نام بادشاہ کا خط لایا ہے۔ اتنے میں پیغامبر خط لے کرآیا۔ جب دستور کے مطابق گورنر اسے بوسہ دینے لگا تو اس نے دیکھا کہ اس پر مُہر نئی تھی۔ جب اسے کھولا تو معلوم ہوٴا کہ وہ نئے بادشاہ کی طرف سے تھا جو پہلے بادشاہ کا بیٹا تھا۔ اس نے لکھا تھا کہ ہمارے باپ نے لوگوں پر بہت ظلم کئے تھے اور ملک کو تباہ کر رہا تھا اس لئے اپنے وطن کی محبت سے مجبور ہو کر ہم نے فلاں رات اسے قتل کر دیا۔ (یہ وہی رات تھی جب آنحضرت ﷺ کو الہام ہوٴا تھا۔) اب ہم بادشاہ ہیں۔ اس لئے اب ہماری اطاعت کا سب سے اقرار لو۔ نیز ہمارے باپ نے بے وقوفی سے عرب کے ایک شخص کی گرفتاری کا حکم دیا تھا حالانکہ اس کا کوئی قصور نہ تھا اس لئے ہم اس حکم کو بھی منسوخ کرتے ہیں۔ 3
تو جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد ہو اسے کوئی بڑی سے بڑی حکومت بھی کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ اس لئے ہمیں ہر وقت اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرنی چاہئیں۔
انگریزوں کی کامیابی کے لئے بھی ہمیں دعائیں کرنی چاہئیں گو پنجاب گورنمنٹ کے بعض افسروں کا سلوک ہم سے اچھا نہیں مگر برطانوی قوم میں ہمارے دوست موجود ہیں اور جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی ممانعت نہ ہو ہمیں اس قوم کے لئے دعائیں کرنی چاہئیں۔ دنیا کا کوئی قانون کسی کو اس بات پر مجبور نہیں کر سکتا کہ وہ حکومت کے لئے دعا بھی کرے۔ حضرت مسیح ناصری سے پوچھا گیا کہ ‘‘قیصر کو جزیہ دینا روا ہے یا نہیں۔ ہم دیں یا نہ دیں۔ مسیح نے جواب میں کہا کہ جو قیصر کا ہے قیصر کو اور جو خدا کا ہے خدا کو ادا کرو۔’’4 مگر انسانی دماغ کو اللہ تعالیٰ نے آزاد رکھا ہے اور وہ قید میں بھی آزاد ہوتا ہے۔ دنیا کے بادشاہ ہتھکڑیاں لگا دیتے ہیں۔ پاوٴں میں بیڑیاں ڈال دیتے ہیں۔ گلے میں طوق پہنا دیتے ہیں اور تنگ و تاریک کوٹھڑیوں میں بند کر دیتے ہیں۔ مگر اس حالت میں بھی انسانی دماغ آزاد ہوتا ہے۔ چاہے وہ 24 گھنٹہ بادشاہ کو گالیاں دے اسے کوئی نہیں روک سکتا۔
پس اگر ہم چاہیں تو انگریزوں کے لئے بد دعا بھی کر سکتے ہیں اور کوئی قانون ہم کو ایسا کرنے سے روک نہیں سکتا بلکہ یہ جان بھی نہیں سکتا مگر باوجود اس کے کہ ہم ایسا کرنے میں آزاد ہیں اور کوئی قانون ہم سے ایسا نہ کرنے کا مطالبہ بھی نہیں کرتا پھر بھی ہم انگریزوں کے لئے دعائیں ہی کرتے ہیں اور انہیں اس کی پرواہ بے شک نہ ہو مگر ہم چاہیں تو بد دعا کر کے اپنے عقیدہ کی رُو سے ان کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ مگر ہم ایسا کرتے نہیں اور مَیں اب بھی جماعت کو یہی نصیحت کرتا ہوں کہ ان ایام میں بھی وہ برطانیہ کی فتح کے لئے ہی دعائیں کریں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم سے ہمیں یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں ان کے لئے دعائیں کرنی چاہئیں اور جب تک ہمیں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ معلوم نہ ہو جائے کہ اب ان کے اس حق کا جس کی وجہ سے وہ دعاوٴں کے مستحق تھے خاتمہ ہو چکا ہے دعائیں کرتے رہنا چاہئے۔ پھر یہ بھی دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ جہاں ان کو طاقت دے وہاں ان کے دماغ بھی ٹھیک رکھے اور ظالم افسروں کو انصاف کی طرف مائل کر دے۔ جب ہم کسی کے لئے یہ دعا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اسے طاقت اور تلوار دے تو ساتھ ہی یہ دعا بھی ضرور کرنی چاہئے کہ اس کے صحیح استعمال کی توفیق بھی اسے دے۔ ورنہ طاقت دلوا کر ہم لوگوں پر ظلم کرانے والے ہوں گے۔ اسی لئے شریعت کا یہ حکم ہے کہ جب مسلمانوں کے ذریعہ کسی کو طاقت ملے تو اس کے لئے دعا بھی کرتے رہیں تا وہ اس طاقت کو غلط طور پر استعمال نہ کرے۔ درود میں بھی یہی حکمت ہے۔ یہ بھی ایک دعا ہی ہے جو نبی کے لئے کی جاتی ہے۔ انبیاء کے بھی فوائد ہوتے ہیں۔ گو اپنے اپنے مدارج کے لحاظ سے کسی کے کم اور کسی کے زیادہ اور وہ اگرچہ معصوم ہوتے ہیں مگر پھر بھی ان پر درود بھیجنے کا حکم ہے۔ خلفاء اگرچہ انبیاء کی طرح معصوم تو نہیں ہوتے مگر ان کو بھی ایک عصمتِ صغریٰ حاصل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو ایسی غلطی میں پڑنے سے بچاتا ہے جس کے نتیجہ میں دین کو نقصان پہنچ سکتا ہو۔ نبی کا ہر فعل اپنی ذات میں معصوم ہوتا ہے مگر خلفاء کے افعال بحیثیت مجموعی خد اتعالیٰ کی حفاظت کے نیچے ہوتے ہیں۔ مگر پھر بھی انبیاء کے لئے بھی اور خلفاء کے لئے بھی دعائیں کرنے کا حکم ہے جس کی ایک واضح مثال درود ہے۔ جس میں نبی اور اس کی آل کے لئے جس میں خلفاء سب سے زیادہ حق کے ساتھ شامل ہیں دعا کی جاتی ہے۔ اسی طرح جو دنیوی حاکم ظالم ہو اس کے لئے بھی خدا تعالیٰ سے دعائیں کرنی چاہئیں کہ وہ اسے ہدایت دے اور جب کسی کو طاقت ملنے کی دعا کی جائے تو ساتھ ہی یہ دعا بھی ضروری ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے انصاف کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ پھر یہ بھی دعا کرنی چاہئے کہ سلسلہ ہر لحاظ سے ترقی کرے اور احباب جماعت کو بھی ہر طرح کی ترقی حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں پر ملائکہ نازل کرے۔ تا ہماری ایمانی قوت میں اضافہ ہو اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہمارے تعلقات ایسے بڑھیں کہ ہم اس سے خوش ہو جائیں اور وہ ہم سے خوش ہو جائے اور ہماری زندگیاں آلائشوں سے پاک ہو جائیں اور ہمیں وہ مقام حاصل ہو جائے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں آ جائیں۔ اور اگر یہ حالت پیدا ہو جائے تو گو ہمیں دنیوی برتری حاصل نہ ہو مگر دل کی خوشی انتہائی طور پر حاصل ہو جائے گی۔ دنیا میں مائیں کتنے دکھ اور تکالیف اٹھاتی ہیں مگر جب بچے یا خاوند کی طرف سے محبت کا ایک لفظ بھی بولا جائے تو ان کے سب دکھ دور ہو جاتے ہیں اور جسے اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل ہو جائے اس کی خوشی کا کون اندازہ کر سکتا ہے۔ پس دوستوں کو چاہئے کہ کوشش کریں۔ انہیں اللہ تعالیٰ کی محبت کا مقام حاصل ہو جائے اور ان کا خدا ان سے راضی ہو۔ صحابہ کے بہترین قوم ہونے کی دلیل یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ 5 فرما دیا۔ یہ کتنی اعلیٰ درجہ کی خوشی ہے کہ ان کا خدا ان سے راضی ہو گیا اور وہ اس سے راضی ہو گئے۔ یہ ایک ایسی فضیلت ہے کہ جسے بحیثیت قوم یہ حاصل ہو جائے اس کے اندر ایسی خوبی اور ایسا کمال پیدا ہو جاتا ہے کہ اس کے سامنے دنیا کی کوئی اور قوم ٹھہر نہیں سکتی۔ ہمیں دعائیں کرنی چاہئیں کہ خدا تعالیٰ کی یہ رضا ہمیں بھی حاصل ہو جائے۔ خدا تعالیٰ کے خزانے تنگ نہیں ہیں وہ بڑے سے بڑے انعام بھی کر سکتا ہے اس لئے اس سے مانگتے رہنا چاہئے اور کوئی بھی چیز مانگنے میں تأمل نہ کرنا چاہئے۔ وہ چاہے تو سب کچھ دے سکتا ہے۔ احادیث میں آتا ہے کہ سب سے آخری انسان جو دوزخ میں رہ جائے گا۔ خدا تعالیٰ اسے فرمائے گا کہ ہم تمہیں دوزخ سے نکال کر باہر کھڑا کر دیتے ہیں۔ بتاوٴ تم اور کچھ تو نہ مانگو گے وہ کہے گا حضور اس سے بڑھ کر مجھے اور کیا چاہئے۔ چنانچہ اسے نکال کر باہر کھڑا کر دیا جائے گا۔ کچھ عرصہ بعد دُور اسے ایک سبز سایہ دار درخت دکھائی دے گا اور وہ چاہے گا کہ اگر اس کے نیچے رہنے کا موقع مل جائے تو اس دھوپ اور گرمی سے نجات ہو جائے۔ کچھ دن تو وہ اپنے وعدہ کی وجہ سے چپ رہے گا مگر آخر بے تاب ہو کر کہے گا کہ خدایاگو مَیں نے وعدہ کیا تھا مگر یہاں دھوپ ستاتی ہے اگر اس درخت کے نیچے رکھ دیا جائے تو پھر ٹھیک ہے۔ خدا تعالیٰ فرمائے گا کہ پھر تو کچھ اَور نہ مانگو گے وہ کہے گا۔ نہیں حضور پھر کیا مانگنا ہے۔ خدا تعالیٰ فرشتوں کو حکم دے گا اور اسے اس درخت کے نیچے جگہ مل جائے گی۔ وہاں کچھ عرصہ رہے گا اور خوش ہو گا کہ میری جنت یہی ہے پھر خدا تعالیٰ اورکچھ فاصلہ پر ایک اور درخت پیدا کرے گا۔ جو پہلے سے بہت زیادہ سر سبز ہو گا اور جس کے نیچے پانی کے چشمے بہہ رہے ہوں گے اور وہ چاہے گا کہ اس کے نیچے اسے جگہ مل جائے۔ مگر اپنے وعدہ کی وجہ سے کچھ دیر تو وہ صبر کرے گا لیکن آخر برداشت نہ کر سکے گا اور کہے گا کہ خدایا! میرا کوئی حق تو نہیں اور مَیں وعدہ بھی کر چکا ہؤا ہوں لیکن اب رہا نہیں جاتا۔ مجھے اگر اس درخت تلے رکھ دیا جائے تو بہت مہربانی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ پھر تو اَور کچھ نہ مانگو گے؟ وہ کہے گا نہیں اور اسے وہاں رکھا جائے گا۔ وہاں سے اسے جنت نظر آئے گی اور اس کی نعمتیں دکھائی دیں گی اور کچھ عرصہ صبر کرنے کے بعد وہ کہے گا کہ مجھے جنت کی ذلیل ترین جگہ میں رہنے کی اجازت دے دی جائے اور پھر مَیں کبھی کچھ نہ مانگوں گا۔ حدیث میں آتا ہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ ہنسے گا اور فرمائے گا کہ دیکھو میرے بندے کو جتنی زیادہ نعمت ملتی ہے اتنی ہی اس کی حرص بڑھتی ہے اور فرشتوں کو حکم دے گا کہ اسے جنت میں جو جگہ پسند ہو اُسے رہنے دیا جائے۔ 6
تو دیکھو دوزخ میں سب سے آخر رہنے والا انسان اور خدا تعالیٰ کی رحمت اس کے دل میں کس طرح خود ہی لالچ پیدا کرتی اور پھر اسے انعامات دیتی ہے۔ درخت اُگانے کے معنی دراصل یہی ہیں کہ انسان مانگے اور مانگتا جائے۔ یہاں تک کہ اس مقام کو پا لے جس کے لئے پیدا کیا گیا ہے جیسا کہ فرمایا وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ 7 یہ تمام واقعہ دراصل ایک تمثیل ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے بڑی سے بڑی نعمت سے بھی محروم رہنے کی کوئی وجہ نہیں۔ خدا تعالیٰ کی رحمت بہت وسیع ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ایک شخص کو بلائے گا اور اسے کہے گا کہ تو نے یہ بدی کی یہ کی اور اس کی چھوٹی چھوٹی بدیاں گنوائے گاحالانکہ وہ اس سے بہت بڑے بڑے گناہ کر چکا ہوا ہو گا اورجب خدا تعالیٰ معمولی معمولی بدیاں گنوائے گا تو وہ دل میں ڈر رہا ہو گا کہ اب میرے بڑے بڑے گناہوں کی باری بھی آئے گی اور وہ اس تصور سے شرمندگی محسوس کر رہا ہو گا مگر اللہ تعالیٰ وہ چھوٹی چھوٹی بدیاں ہی گنوا کر فرمائے گا کہ جاوٴ میں نے یہ سب معاف کیں اورہر ایک کے بدلہ تمہیں دس گنا زیادہ ثواب بھی دیا۔ اس پر وہ عرض کرے گا کہ حضور آپ تو میری بہت سی بدیاں بھول گئے۔ مَیں نے تو فلاں قتل بھی کیا، فلاں ڈاکہ ڈالا، فلاں گناہ کیا، فلاں کیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ دیکھو میرا بندہ جب میں نے اس پر احسان کیا تو اتنا دلیر ہو گیا کہ خود بخود اپنے گناہ گنوا رہا ہے اور فرمائے گا کہ جاوٴ ان کے بدلے بھی دس دس نیکیاں تمہیں دیں۔8 تو اللہ تعالیٰ کی رحمت بہت وسیع ہے۔ صرف مانگنے کی ضرورت ہے اور اس سے بہت زیادہ انعامات مانگنے چاہئیں۔ جب انسان مانگنے جائے تو ڈرے نہیں۔ پس خوب دعائیں کرو کہ ہمیں قومی طور پر یہ مقام حاصل ہو جائے۔ اس کے لئے خوب دعائیں کرو۔ خواہ ماتھے رگڑے جائیں کبھی کوتاہی نہ کرو اور اس مقام کے لئے خصوصیت سے دعائیں مانگو کہ ہم بحیثیت جماعت اپنے رب سے راضی ہو جائیں اور ہمارا رب ہم سے بحیثیت جماعت راضی ہو جائے۔
مَیں اخبار والوں کو بھی ہدایت کرتا ہوں کہ جلد سے جلد یہ اعلان کر دیں اور پھر بھی چوکٹھے میں نمایاں طور پر اس کا بار بار اعلان کرتے رہیں۔ اس ہفتہ کی جمعرات کو پہلا روزہ رکھا جائے پھر پیر کو پھر جمعرات کو اسی طرح سات روزے پورے کئے جائیں۔’’ (الفضل 9 نومبر 1941ء )
1 مسلم کتاب الصیام باب اِسْتِحْبَاب صَوْم سِتَّةِ اَیَّامٍ
2 السیرة الحلبیة جلد 3 صفحہ 106-107 مطبوعہ مصر 1935ء
3 تاریخ طبری الجزء الثالث صفحہ 247 تا 249 دار الفکر بیروت 1987ء
4 مرقس باب 12 آیت 17۔پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 1994ء
5 التوبة : 100
6 بخاری کتاب الرِّقَاق باب الصراط جسر جہنم
7 الذّاریٰت: 57
8 صحیح مسلم کتاب الایمان باب آخر اھل النار خروجًا


31
ہر کام خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ قانون کے ماتحت اچھا یا بُرا بنتا ہے
( فرمودہ31 اکتوبر 1941ء )
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ۔
‘‘اللہ تعالیٰ کی دو صفات مُحْیٖ اور مُمِیْت ہیں۔ وہ زندہ بھی کرتا ہے اور مارتا بھی ہے۔ اس کے زندہ کرنے کا ثبوت تو وہ ہزاروں لاکھوں بچے ہیں جو روزانہ دنیا میں پیدا ہوتے ہیں اور ایسے حالات میں پیدا ہوتے ہیں جو انسان کے اختیارات سے باہر ہوتے ہیں۔ اور ایسے حالات میں سے گزر کر بڑھتے ہیں کہ اگر کسی بالا ہستی کا اثر نہ ہو تو ان کے بڑھنے کی کوئی صورت نہیں ہو سکتی۔
ایک جانور کا بچہ صرف چند دن میں ہی اپنی ضرورتوں کو خود پورا کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ چڑیوں کے بچے ایک یا ڈیڑھ ہفتہ میں اُڑنے لگ جاتے ہیں، مرغیوں کے بچے تین چار ہفتہ میں اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے لگ جاتے ہیں۔ چوپایوں کے بچے پیدا ہوتے ہی تھوڑی دیر میں دوڑنے کودنے لگ جاتے ہیں۔ مگر انسان کا بچہ چھ چھ سات سات مہینے بلکہ بعض دفعہ نو نو ماہ تک گودی میں اٹھائے رکھنے کے قابل ہوتا ہے۔ اور بعض اوقات تو چھ سات آٹھ بلکہ نو مہینہ تک وہ گُھٹنوں کے بل چلنے کے بھی قابل نہیں ہوتا۔ پھر اس کی غذا جس سے وہ پرورش پا سکتا ہے اس کی ماں کی چھاتیوں میں ہوتی ہے۔ کہیں دو تین سال میں جا کر وہ دانت نکالتا ہے۔ ایسے بچے بھی ہوتے ہیں جو چھ یا سات مہینہ میں اپنے دانت نکال لیتے یا نکالنے شروع کر دیتے ہیں مگر بِالعموم ایسے دانت جن سے بچہ کسی قدر غذا حاصل کر سکتا ہے وہ ڈیڑھ دو بلکہ اڑھائی سال کے بعد مکمل ہوتے ہیں۔ اتنے لمبے عرصہ تک اپنی جان کو دکھوں میں ڈال کر ایک عورت جو اپنے بچہ کی خدمت کرتی ہے یہ بغیر اس کے کبھی ممکن ہی نہیں تھا جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے دل میں پرورش کا خیال اور بچہ کی محبت پیدا نہ کر دی جاتی۔ یہ مت خیال کرو کہ صرف ماں ہونا ہی اس محبت کا موجب ہو سکتا ہے کیونکہ ماں کے جذبات اس کے اپنے اختیار کی چیز نہیں ہوتے۔ اور اختیاری چیز ہی کسی انسان کی طرف منسوب کی جا سکتی ہے۔ جو چیز کسی انسان کے اختیار کی نہیں وہ اس کی طرف منسوب کس طرح کی جا سکتی ہے۔ وہ تو لازماً کسی اور ہستی کی طرف منسوب کرنی پڑے گی اور وہ ہستی اللہ تعالیٰ کی ہی ہے جس نے ماں کے دل میں اپنے بچوں کی محبت پیدا کی اور اسے پیدائش اور پرورش کی تکالیف برداشت کرنے کی طاقت دی۔ چنانچہ سالہا سال تک وہ اپنے بچوں کو پالتی رہتی ہے۔ پہلے نو ماہ تو وہ اپنے بچہ کو پیٹ میں اٹھاتی ہے پھر دوسال اسے گود میں اٹھاتی ہے۔ گویا اوسطاً اڑھائی سال تک ماں اپنے بچہ کے لئے ہی ہو رہتی ہے۔ تب کہیں وہ پرورش پاتا ہے۔ مگر اس کے بعد وہ فارغ نہیں ہو جاتی۔ بلکہ بالعموم اس وقت ایک دوسرے بچہ کی آمد شروع ہو جاتی ہے۔ اور اس طرح اپنی زندگی کا بہترین حصہ عورت اپنے بچوں کی پرورش میں لگا دیتی ہے۔
پس یہ جذبہٴ محبت جو ہر عورت کے دل میں اپنے بچوں کے متعلق پایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی پیدا کیا گیا ہے۔ ورنہ اتنی محنت کی برداشت انسانی عقل کے ماتحت نہیں ہو سکتی تھی۔ اگر خداتعالیٰ یہ جذبات ماں کے دل میں پیدا نہ کرتا تو آہستہ آہستہ فلسفہ اور عقل کے ماتحت یا تو انسان اولاد پیدا کرنا ہی بند کر دیتے اوریا پھر ان کی پرورش کی طرف سے اپنی توجہ کلیةً ہٹا لیتے۔
پھر خدا تعالیٰ کے مُمِیْت ہونے کا نظارہ بھی روزانہ نظر آتا ہے۔ بڑے بڑے شہروں میں سینکڑوں آدمی روزانہ مرتے ہیں۔ چنانچہ کسی سڑک پر چلے جاوٴ تمہیں جنازے گزرتے دکھائی دیں گے۔ چھوٹے قصبات میں بھی پانچویں دسویں کوئی نہ کوئی موت ہوتی رہتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے گاوٴں میں بھی سال میں دو تین موتیں ہو جاتی ہیں۔ پس موت کا یہ نظارہ بھی ہمیں کثرت سے دنیا میں نظر آتا ہے۔
غرض خدا کی یہ دونوں صفات کہ وہ مُحْیٖ بھی ہے اور مُمِیْت بھی ہے۔ اس رنگ میں لوگوں کے سامنے آتی رہتی ہیں کہ کوئی ان کا انکار نہیں کر سکتا۔ حیات انسان کے لئے خوشی کا موجب ہوتی ہے اور موت لوگوں کے لئے رنج کا موجب ہوتی ہے۔ دشمن کی بھی لاش پڑی ہوئی ہو تو سوائے ایک شقی القلب انسان کے دوسرے انسانوں کے دلوں میں رحم کا مادہ پیدا ہو جاتا ہے۔ بیس بیس تیس تیس سال کی دشمنیاں اس وقت دلوں سے نکل جاتی ہیں اور دشمن کی لاش دیکھ کر انسان کے دل میں سے اس وقت دعا ہی نکلتی ہے یا اس کے رشتہ داروں اور عزیزوں کے لئے دل میں رحم اور ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں کیونکہ ہر انسان جانتا ہے کہ جو دن اس پر آیا ہے وہ مجھ پر بھی آنے والا ہے۔ جس طرح یہ اپنے عزیزوں، رشتہ داروں اور دوستوں سے جدا ہوٴا ہے۔ اسی طرح میں ایک دن اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں اور دوستوں سے جدا ہو جاوٴں گا۔ جس طرح اس کے رشتہ داروں، عزیزوں اور دوستوں کو اس کی موت سے تکلیف پہنچی ہے اسی طرح میرے رشتہ داروں، عزیزوں اور دوستوں کو میری موت سے تکلیف پہنچے گی اور جس طرح وہ بہت سے کام جو اس کے ساتھ وابستہ تھے اب ان کے پورا نہ ہو سکنے کی وجہ سے اس کے پسماندگان کو تکلیف پہنچی ہے۔ اسی طرح جو کام مجھ سے وابستہ ہیں وہ بھی میری وفات کے بعد پورے نہ ہو سکنے کی وجہ سے میرے پسماندگان کو تکلیف ہو گی۔
غرض ان جذبات اور خیالات کے ماتحت دشمنوں کی دشمنیاں بھی اس وقت بھول جاتی ہیں۔ خواہ اس وقت کے گزر جانے کے بعد دشمنی اَور بھی بڑھ جائے مگر اس وقت طبیعت میں ضرور نرمی پیدا ہو جاتی ہے۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کی دو صفات ہیں جن میں سے ایک خوشی پیدا کرتی ہے اور ایک رنج پیدا کرتی ہے۔ مگر یہ نقطہٴ نگاہ انسانوں کے لحاظ سے ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک جو عالم الغیب ہے یہ دونوں مواقع نہ کلی طورپر خوشی کا موجب ہوتے ہیں اور نہ کلی طور پر غم کا موجب ہوتے ہیں۔ جب کوئی بچہ کسی کے گھر میں پیدا ہوتا ہے تو اس کے ماں باپ اور عزیز سمجھتے ہیں کہ ایک نیا چاند دنیا میں نکلا ہے۔ ایک رحمت کا نیا دروازہ ہمارے لئے کھلا ہے۔ حالانکہ بسا اوقات پیدا ہونے والی روح دنیا کے لئے کسی قسم کے مصائب اور دکھوں کا موجب ہوتی ہے۔ اس کے رشتہ دار تو اس کی پیدائش پر خوش ہو رہے ہوتے ہیں لیکن آسمان پر خدا کے فرشتے اس کی پیدائش سے غمگین ہو رہے ہوتے ہیں۔
ابو جہل کی پیدائش پر مکہ خوشی سے اچھل رہا تھا لیکن آسمان کے فرشتے اگر ان کے لئے رونا ممکن ہے تو وہ آسمان پر رو رہے تھے۔ اس کے مقابلہ میں محمد ﷺ کی پیدائش پر مکہ والوں کو کوئی احساس بھی نہ تھا کیونکہ ایک یتیم بچہ تھا جو پیدا ہوٴا۔ قریبی رشتہ داروں کے دلوں پر ضرور خوشی ہوئی ہو گی ورنہ باقیوں کو احساس بھی نہ تھا کہ آج کون پیدا ہوٴا ہے۔ مگر جب دنیا کے لوگ اس کی پیدائش پر خاموشی سے وقت گزار رہے تھے اور سوائے قریبی رشتہ داروں کے کسی کے دل میں خوشی کے جذبات پیدا نہیں تھے اس وقت آسمان کے فرشتے خوشی سے اچھل رہے تھے کیونکہ ان کو خدا کی طرف سے یہ علم دیا گیا تھا کہ دنیا کا نجات دہندہ پیدا ہو گیا ہے اور جس مقصد کے لئے خدا نے دنیا کو پیدا کیا تھا اس مقصد کو تکمیل تک پہنچانے والا انسان ظاہر ہو گیا ہے۔
تو پیدائش دنیا کے نزدیک ایک ہی نکتہ رکھتی ہے یعنی خوشی ۔کسی کی پیدائش پر تھوڑے لوگ خوش ہوتے ہیں ۔ کسی کی پیدائش پر ایک ہی آدمی یعنی ماں خوش ہوتی ہے، کسی کی پیدائش پر ہزاروں آدمی خوش ہوتے ہیں، کسی کی پیدائش پر لاکھوں آدمی خوش ہوتے ہیں اور کسی کی پیدائش پر کروڑوں آدمی خوش ہوتے ہیں لیکن آسمان کے فرشتے کسی کی پیدائش پر اگر ان کے لئے رونا ممکن ہو تو آنسو بہاتے یا دوسرے الفاظ میں اپنے رنج کا اظہار کرتے ہیں اور کسی کی پیدائش پر خواہ دنیا کے لوگ خوشی نہ منائیں، فرشتے بڑی خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ یہی حال موت کا ہے۔ موت کے وقت بھی دنیا کے ہر انسان کے رشتہ دار اور دوست تھوڑے ہوں یا بہت، رنج محسوس کرتے ہیں۔ ایک ڈاکو مرتا ہے تو اس کے بیوی بچے خوش نہیں ہوتے کہ ہمارا باپ ڈاکو تھا، قاتل تھا، فتنہ و فساد پھیلاتا تھا، اچھا ہوٴا کہ وہ مر گیا بلکہ ان کی اسی طرح چیخیں نکل جاتی ہیں جس طرح بڑے سے بڑے محسن اور نیک باپ کے بچوں کی اس کی وفات پر نکل جاتی ہیں اور وہ دنیا کے لئے اس کی موت کو ایسا ہی خطرناک سمجھتے ہیں جیسے کسی بڑے سے بڑے مصلح کی وفات کو۔ بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام بارہا ایک لطیفہ سنایا کرتے تھے کہ جب مہاراجہ رنجیت سنگھ کی وفات ہوئی تو چونکہ ان کے دورِ حکومت میں امن قائم ہوٴا تھا اور وہ طوائف الملوکی جو پہلے پھیلی ہوئی تھی جاتی رہی تھی اس لئے سکھوں کے علاوہ جو اُن کے ہم مذہب اور ہم قوم تھے ہندو اور مسلمان بھی عام طور پر سمجھتے تھے کہ اب ان کی وفات کے بعد پھر فتنے پیدا ہونے شروع ہو جائیں گے۔ اس لئے لوگوں میں ایک کہرام مچا ہوا تھا اور ہر شخص کے آنسو رواں تھے جن کے زیادہ گہرے تعلقات تھے وہ چیخیں مار رہے تھے۔ فرماتے تھے کہ کوئی چوہڑا لاہور کے قریب سے گزرا اورا س نے جب دیکھا کہ ہر شخص ماتم کر رہا ہے تو اس نے کسی سے پوچھا کہ آج لاہور والوں کو کیا ہو گیا ہے کہ جس کو دیکھو رو رہا ہے جس کو دیکھو رو رہا ہے۔ اس نے کہا تمہیں پتہ نہیں مہاراجہ رنجیت سنگھ فوت ہو گئے ہیں۔ وہ بڑی حیرت کا اظہار کر کے کہنے لگا۔ اچھا رنجیت سنگھ مر گیا ہے اور اس پر لوگ رو رہے ہیں۔ پھر کہنے لگا۔ ‘‘باپو ہوراں جیہے مر گئے تے رنجیت سنگھ بچارا کس شمار وچ’’ یعنی جب میرے باپ جیسا آدمی مر گیا تو رنجیت سنگھ بھلا کس شمار میں تھا۔ اب مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ذریعہ بے شک امن قائم ہؤا تھا۔ مگر چونکہ اس چوہڑے کا تعلق جو اپنے باپ سے تھا وہ مہاراجہ رنجیت سنگھ سے نہیں تھا اور سیاسی فوائد کو وہ سمجھنے کے قابل نہیں تھا۔ اس لئے اس کے نزدیک سب سے بڑی رنج کی بات اپنے باپ کی وفات تھی۔ اسی طرح کئی بادشاہ بڑے ظالم ہوتے ہیں مثلاً ہلاکو خان بڑا ظالم مشہور ہے مگر جب ہلاکو خان مرا ہو گا تو کیا تم سمجھتے ہو کہ اس کے بیوی اور بچّوں کو دوسروں کی بیویوں اور بچوں سے کم صدمہ ہوا ہو گا۔ یقینا انہیں ہلاکو خان کی وفات پر ویسا ہی صدمہ ہؤا ہو گا جیسا نوشیرواں عادل کی وفات پر اس کے بیوی اور بچوں کو ہؤا تھا۔ حالانکہ نوشیرواں عدل کی وجہ سے مشہور ہے اور ہلاکو خان ظلم کی وجہ سے۔ مگر دونوں کے بیوی بچوں کو یکساں صدمہ ہوٴا ہو گا۔ بلکہ ممکن ہے ہلاکو خان کے بیوی بچوں کو احساسات کے زیادہ تیز ہونے کی وجہ سے نوشیرواں کے بیوی بچوں سے بھی زیادہ صدمہ ہوٴا ہو۔ مگر آسمان پر دنیا میں سارے بندے خوش ہوتے ہیں۔گو کسی کی پیدائش پر زیادہ لوگ خوش ہوتے ہیں مگر آسمان پر یہ بات نہیں۔ وہاں کسی کی پیدائش پر خوشی کا اظہار کیا جاتا ہےاور کسی کی پیدائش پر رنج کا اظہار کیا جاتا ہے۔
اسی طرح موت کا حال ہے۔ موت پر سب لوگ رنج کا اظہار کرتے ہیں۔ گو کسی کی موت پر تھوڑے لوگ رنج کرتے ہیں اور کسی کی موت پر زیادہ رنج کرتے ہیں مگر آسمان پر یہ بات نہیں۔ وہاں کسی کی موت پر رنج کا اظہار کیا جاتا ہے اور کسی کی موت پر خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ پھر یہ جذبہ بھی اموات کے لحاظ سے نسبتی طور پر تقسیم ہو جاتا ہے اور فرشتوں کا رنج اور ان کی خوشی بعض دفعہ مرکب ہو جاتی ہے۔ یعنی فرشتے صرف رنج یا صرف خوشی کا اظہار نہیں کرتے بلکہ ان کی خوشی اور ان کا رنج ملاجلُا ہوتا ہے۔ مثلاً جب کوئی بدقسمت اور گنہگار انسان مرتا ہے یا ایسا ظالم انسان مرتا ہے جس نے دنیا کے امن کو برباد کیا ہوا ہوتا ہے تو خدا تعالیٰ کے ملائکہ خوش بھی ہوتے ہیں کہ بندوں کو اس ظالم انسان سے نجات ملی اور وہ رنج بھی کرتے ہیں کہ اپنے مولیٰ کو راضی کرنے سے پہلے وہ شخص مر گیا۔
اسی طرح جب اللہ تعالیٰ کے بزرگ اور نیک لوگ فوت ہوتے ہیں اور دنیا میں ان کی وفات کی وجہ سے کہرام مچا ہوٴا ہوتا ہے تو خدا تعالیٰ کے فرشتے ان کی صحبت کے خیال سے خوشی منا رہے ہوتے ہیں۔ موت کیا ہے؟ موت اس دنیا سے اگلے جہان جانے کا ایک دروازہ ہے۔ جس طرح جب کوئی مصلح یا محسن انسان لاہور میں داخل ہوتا ہے تو وہاں کے رہنے والے خوشی مناتے ہیں لیکن جب لاہور سے نکلتا ہے تو لاہور والے رنج کااظہار کرتے ہیں مگر آگے جب امرت سر میں داخل ہوتا ہے تو امرتسر والے خوشی محسوس کرتے ہیں۔ اسی طرح جب خدا تعالیٰ کے برگزیدہ اور چنندہ لوگ جو اپنی نیکی اور تقویٰ اور مقام قرب میں ملائکہ سے بڑھ کر بلکہ ملائکہ کو سبق دینے والے ہوتے ہیں ۔ جیسے حضرت آدم علیہ السلام کے واقعہ سے ظاہر ہے وفات پا جاتے ہیں تو دنیا کے لوگ تو ان کی وفات پر رنج کا اظہار کرتے ہیں اور اس بات پر غمگین ہوتے ہیں کہ وہ اپنا دَور ختم کر کے اگلے جہان چلے گئے مگر فرشتے اس بات سے خوش ہوتے ہیں کہ اب وہ ہمارے ملک میں آ گئے ہیں۔
رسول کریم ﷺ کی وفات پر جب مدینہ میں کہرام پڑا ہوٴا تھا جنت کے لوگوں میں کتنی خوشی منائی جا رہی ہو گی ۔ لوگ خدا تعالیٰ کے کلام اورفرشتوں سے سنتے ہوں گے کہ خدا تعالیٰ کا ایک برگزیدہ دنیا میں پیدا ہو چکا ہے اور وہ بہت بلند روحانی مقامات رکھتا ہے۔ ان باتوں کو سن سن کر جنتیوں کے دلوں میں کتنی خواہش پیدا ہوتی ہو گی اور وہ کس طرح اس بات کے تصور سے خوش ہوتے ہوں گے کہ کبھی یہ مبارک انسان ہم میں بھی آئے گا۔ پس جب فرشتوں نے آپ کی روح قبض کی ہو گی اور جب جنتیوں کو پتہ لگا ہو گا کہ اب ان کی سالہا سال کی امیدیں بر آنے لگی ہیں تو انہوں نے کیسی خوشی ظاہر کی ہو گی۔ مگر بہرحال یہ آسمان کی بات ہے۔ زمین پر یہی ہوتا ہے کہ موت پر رنج کا اظہار کیا جاتا ہے اور ولادت پر خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔
جس طرح خدا تعالیٰ کی یہ دو صفات ہمیں دنیا میں کام کرتی نظر آتی ہیں اسی طرح کئی انسان ایسے ہوتے ہیں جو دنیا کے لئے ولادت کا موجب بنتے یا اس کی حیات کا موجب ہوتے رہتے ہیں۔ مثلاً ماں باپ ہی ہیں۔ وہ نئی نسلیں دنیا میں لاتے ہیں۔ ڈاکٹر اور اطباء ہیں۔ وہ مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔ اسی طرح قومی خدمات کرنے والے لوگ ہیں۔ جو ڈوبتے ہوئے لوگوں کو بچاتے ہیں۔ کہیں آگ لگ جائے تو بجھاتے ہیں۔ اسی طرح اور کئی واقعات اور حادثات جو رونما ہوتے رہتے ہیں ان میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ یہ لوگ خدا تعالیٰ کی مُحْیٖصفت کے مورد ہوتے اور اس کی ایک مثال اور نمونہ ہوتے ہیں لیکن کئی لوگ دنیا میں ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا کام ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ تباہیاں اور بربادیاں اور ہلاکتیں لاتے رہیں۔ کہیں ان کی وجہ سے قتل ہو رہے ہوتے ہیں، کہیں فساد ہو رہے ہوتے ہیں،کہیں غارت گری کے واقعات رونما ہو رہے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ خدا تعالیٰ کی مُمِیْت صفت کو ظاہر کرنے والے ہوتے ہیں مگر خدا کی ہر صفت کی نقل کرنے والا انسان ضروری نہیں کہ خدا کا مقبول ہو۔ خدا بے شک مُمِیْت ہے مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک قاتل کسی کو بلا وجہ قتل کر دے تو وہ یہ کہے کہ مَیں نے چونکہ فلاں شخص کو قتل کر کے خدا تعالیٰ کی صفت مُمِیْت کا اپنے آپ کو مظہر ثابت کیا ہے۔ اس لئے مَیں بڑا مقرب ہوں۔ اگر وہ ایسا کہے گا تو اس کا دعویٰ بالکل غلط ہو گا کیونکہ بندے کو جن حالات میں مُمیت بننے کا حق حاصل ہے۔ ان حالات میں اگر وہ مُمِیْت بنتا ہے۔ تب تو بے شک وہ خدا تعالیٰ کا مقرب بن سکتا ہے لیکن اگر ان حالات میں وہ مُمِیْت نہیں بنتا تو وہ مقرب نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح ولادت خدا تعالیٰ کی احیاء کی صفت ہے مگر ناجائز ولادت کا موجب خد اتعالیٰ کی صفتِ مُحْیٖ سے نسبت دے کر اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا مقرب نہیں کہہ سکتا۔
غرض وہی شخص خدا تعالیٰ کی صفت کو پورا کرنے والا قرار پا سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین کے ماتحت اس صفت کا مظہر بنتا ہے اگر وہ خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے قانون کے ماتحت مُحْی بنتا ہے۔ تو بے شک وہ خدا تعالیٰ کا اس صفت میں مظہر بن سکتا ہے۔ اسی طرح اگر وہ خدا تعالیٰ کی صفت مُمِیْت کا مظہر اس رنگ میں بنتا ہے۔ جو خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے قواعد کے مطابق ہو تو خدا تعالیٰ کا مقرب ہو سکتا ہے ورنہ نہیں۔ چنانچہ دیکھ لو۔ جس وقت جہاد ہوتا ہے۔ دونوں فریق ایک سا کام کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ بھی تلوار چلا رہا ہوتا ہے اور یہ بھی تلوار چلا رہا ہوتا ہے۔ کافر، مومن کو مارتا ہے اور مومن کافر کو مارتا ہے۔ پس بظاہر ان دونوں کا فعل یکساں ہوتا ہے مگر جب کافر کی تلوار سے ایک مومن گرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا عرش کانپ جاتا ہے اور فرشتے اس کافر پر لعنتیں ڈالتے ہیں لیکن جب کسی مومن کی تلوار سے ایک کافر گرتا ہے تو فرشتے خوش ہوتے اور مومن پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل کرتے ہیں حالانکہ فعل ایک ہوتا ہے، مقام ایک ہوتا ہے اور ذریعہٴ قتل ایک ہوتا ہے مگر ایک کے فعل پر تو برکتیں اور رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور دوسرے کے فعل پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے لعنتیں اور ملامتیں نازل ہوتی ہیں۔ پس اپنی ذات میں مُمِیْت ہونا یا مُحْیٖ ہونا کوئی اچھی یا بری بات نہیں اگر مُحْیٖ ہونا خداتعالیٰ کے قانون کے ماتحت ہو تو اچھا ہوتا ہے ۔اور اگر مُمِیْت ہونا خدا تعالیٰ کے قانون کے ماتحت ہو تو اچھا ہوتا ہے لیکن اگرمُمِیْت یا مُحْیٖ ہونا خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ قانون کے خلاف ہو تو یہی بات بُری بن جاتی ہے۔ آجکل جو لڑائی لڑی جا رہی ہے اس کو اگر ہم لڑائی کے لحاظ سے دیکھیں تو یقینا اسے بُرا نہیں کہہ سکتے۔ کیونکہ لڑائی رسول کریم ﷺ نے بھی کی ہے،حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی کی ہے،حضرت داوٴدؑ اور حضرت سلیمان علیہ السلام نے بھی کی ہے، حضرت کرشن علیہ السلام اور حضرت رام چندر نے بھی کی ہے۔ اسی طرح اور کئی انبیاء ہیں جنہوں نے لڑائیاں کیں۔ پس ہم لڑائی کو برا نہیں کہہ سکتے۔ جو چیز بری ہے وہ یہ ہے کہ ایسی لڑائی لڑی جائے جو خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ قواعد کے خلاف ہو۔ ورنہ دنیا میں کئی لڑائیاں ایسی ہوتی ہیں جو رحمت کا موجب ہوتی ہیں۔ قرآن کریم میں ہی آتا ہے کہ اگر ہم لڑائی کی اجازت نہ دیتے تو بعض ظالم ایسے تھے جو مسلمانوں کی مساجد، عیسائیوں کے گرجے اور ہندووٴں کے مندر وغیرہ گرا دیتے۔1 اس وقت بھی کئی ایسے ظالم مسلمان موجود ہیں جن کو اگر اختیار مل جائے تو عیسائیوں کے گرجوں اور ہندووٴں کے مندروں کو گرا دیں۔ کئی ایسے ظالم عیسائی موجود ہیں جن کو اگر اختیار مل جائے تو وہ مسلمانوں کی مسجدوں اور ہندووٴں کے مندروں کو گرا دیں۔ کئی ایسے ظالم ہندو راجے موجود ہیں جن کو اگر اختیار مل جائے تو وہ مسلمانوں کی مسجدیں اور عیسائیوں کے گرجے گرا دیں۔ پس بے شک یہ درست ہے کہ دنیا میں امن قائم رہنا چاہئے۔ مگر یہ بھی درست ہے کہ امن کے قیام کے لئے بعض دفعہ تلوار بھی چلانی پڑتی ہے۔ اگر اس قسم کے ظالم لوگ دنیا میں نہ رہیں تو بے شک کسی کو تلوار چلانے کی ضرورت نہ رہے۔ مگر چونکہ دنیا میں ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں جو فتنہ و فساد پھیلاتے ہیں۔ اس لئے خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ مومن بھی ان کے مقابلہ میں وہی ہتھیار استعمال کریں جو وہ استعمال کرتے ہیں۔ جیسے ڈاکٹر بیماریوں کے دفعیہ کے لئے مریضوں کو بعض دفعہ کڑوی دوائیں پلاتے ہیں۔ اگر یونہی کسی کو کہا جائے کہ تم کڑوی دوائی استعمال کرو تو وہ کبھی استعمال نہیں کرے گا مگر جب ڈاکٹر کسی بیماری کی وجہ سے اسے کڑوی دوائی استعمال کرنے کی ہدایت کرتا ہے تو وہ خوشی سے کڑوی دوائی پی لیتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ میرے جسم میں بیماری کا جو زہر ہے اس کے لئے کڑوی دوائی کی ہی ضرورت ہے۔ اسی طرح کئی جنگیں ضروری ہوتی ہیں۔ گو کئی جنگیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو بری ہوتی ہیں۔
پس مومن کو اپنے کاموں میں ہمیشہ یہ امر مدنظر رکھنا چاہئے کہ کوئی کام اپنی ذات میں اچھا یا برا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ قانون کے ماتحت وہ اچھا یا بُرا بنتا ہے۔ دیکھ لو نماز کتنی اچھی چیز ہے لیکن اللہ تعالیٰ بعض نماز پڑھنے والوں کے متعلق ہی فرماتا ہے کہ وَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَ 2 یعنی ایک نماز پڑھنے والا انسان ہوتا ہے جس پر *** پڑتی ہے۔ الَّذِيْنَ هُمْ يُرَآءُوْنَ 3 یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو ریاء کے طور پر نمازیں پڑھتے ہیں۔ اسی طرح صدقہ اللہ تعالیٰ کیسا پسند کرتا ہے مگر قرآن کریم میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ دکھاوے کے لئے صدقہ و خیرات کرتے ہیں یا صدقہ کرنے کے بعد احسان جتاتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے مورد بنتے ہیں۔ یہی حال روزوں کا ہے۔ یہی حال زکوٰة کا ہے۔ یہی حال حج کا ہے۔
جب میں حج کرنے کے لئے گیا تو سُوْرَت کے علاقہ کے ایک نوجوان تاجر کو مَیں نے دیکھا۔ جب وہ منٰی کی طرف جا رہا تھا تو بجائے ذکر الٰہی کرنے کے اردو کے نہایت ہی گندے عشقیہ اشعار پڑھتا جا رہا تھا۔ اتفاق کی بات ہے کہ جب میں واپس آیا تو جس جہاز میں مَیں سفر کر رہا تھا اسی جہاز میں وہ بھی واپس آ رہا تھا۔ مگر وہی نوجوان جس کے دل میں حج کا کچھ بھی احترام نہیں تھا اورجو عبادت اور ذکر الٰہی میں مشغول رہنے کی بجائے منٰی کو جاتے ہوئے عشقیہ اشعار پڑھتا جا رہا تھا۔ اسے یہ معلوم کر کے کہ مَیں احمدی ہوں اس قدر غصہ پیدا ہوٴا کہ ایک دن جبکہ میں جہاز میں ٹہل رہا تھا وہ عجیب حسرت کے ساتھ میری طرف دیکھ کر کہنے لگا۔ اُف! یہ جہاز بھی ڈوب نہیں جاتا جس پر یہ شخص سفر کر رہا ہے۔ گویا احمدیت اس کے نزدیک اتنی بُری چیز تھی کہ اگر جہاز کے سارے مسافر ڈوب جاتے اور وہ خود بھی ڈوب جاتا تو یہ قربانی کوئی بڑی نہ تھی۔ اگر اس قربانی کے نتیجہ میں ایک احمدی بھی غرق ہو جاتا۔ اُس وقت تک اسےیہ معلوم ہو چکا تھا کہ مَیں کون ہوں۔ کچھ دنوں کے بعد موقع پا کر مَیں نے اس سے پوچھا کہ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ حج کے لئے کیوں آئے تھے۔ مَیں نے تو دیکھا ہے کہ آپ منٰی کو جاتے ہوئے بھی ذکر الٰہی نہیں کر رہے تھے۔ اس نے کہا اصل بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں حاجی کی دکان سے لوگ سودا زیادہ خریدا کرتے ہیں۔ جہاں ہماری دکان ہے۔ اس کے بالمقابل ایک اَور شخص کی دکان بھی ہے۔ وہ حج کر کے گیا اور اس نے اپنی دکان پر حاجی کا بورڈ لگا لیا۔ نتیجہ یہ ہوٴا کہ ہمارے گاہک بھی ادھر جانے لگ گئے۔ یہ دیکھ کر میرے باپ نے مجھے کہا کہ تُو بھی حج کر آ۔ تاکہ واپس آ کر تو بھی حاجی کا بورڈ اپنی دکان پر لگا سکے۔ اب کیا تم سمجھتے ہو کہ اس کا حج اس کے لئے ثواب کا موجب ہوٴا ہو گا۔ ثواب کا تو کیا سوال ہے۔ اس کا حج یقینا اسے گناہ کے طور پر لگا ہو گا اور فرشتے اس پر لعنتیں ڈالتے ہوں گے۔ تو انسان کو اپنے کاموں میں ہمیشہ یہ امر ملحوظ رکھنا چاہئے کہ اچھے سے اچھا کام کرنے یا بُرے سے بُرا کام کو ترک کرنے میں خدا تعالیٰ کی مرضی اور رضا کو مدنظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ کیونکہ بُرے کام کو ترک کرنا بھی انسان کے لئے ہر حالت میں نیکی نہیں ہوتا بلکہ نیکی کی تحریک بھی بعض اوقات بدی ہوتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام فرمایا کرتے تھے کہ حضرت معاویہ ایک دن صبح کو دیر سے اُٹھے اور فجر کی نماز باجماعت نہ پڑھ سکے۔ اس کا انہیں اس قدر غم ہوٴا کہ وہ سارا دن روتے رہے۔ دوسرے دن انہوں نے نماز فجر سے قبل کشفی طور پر دیکھا کہ ایک شخص انہیں جگا رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ نماز کا وقت قریب ہے۔ اٹھ کر نماز پڑھ لو۔ انہوں نے اس سے پوچھا کہ توکون ہے۔ وہ کہنے لگا مَیں شیطان ہوں۔ انہوں نے کہا یہ عجیب بات ہے کہ شیطان دوسروں کو نماز پڑھنے کے لئے جگائے۔ تیرا کام تو لوگوں کو نماز سے روکنا ہے نہ کہ نماز کے لئے جگانا۔ وہ کہنے لگا اصل بات یہ ہے کہ کل مَیں نے تم کو سلائے رکھا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوٴا کہ تمہاری ایک نماز باجماعت ضائع ہو گئی۔ اس پر تم اتنا روئے اتنا روئے کہ خدا تعالیٰ نے کہا میرے اس بندے کو ایک نماز باجماعت کے ضائع ہونے کابہت ہی صدمہ ہوٴا ہے۔ اس لئے اس ایک نماز کی بجائے مَیں اسے دس باجماعت نمازیں پڑھنے کا ثواب دیتا ہوں۔ میری غرض تو تمہیں ثواب سے محروم کرنا تھی مگر تم پہلے سے بھی زیادہ ثواب لے گئے۔ اس لئے آج مَیں تمہیں خود جگانے آیا ہوں تا ایسا نہ ہو کہ آج بھی تم سوئے رہو اور رو رو کر خدا تعالیٰ سے زیادہ ثواب لے جاوٴ۔
تو کبھی انسان کو ایک چیز نیکی نظر آتی ہے مگر وہ درحقیقت بدی ہوتی ہے اور کبھی بدی نظر آتی ہے مگر درحقیقت وہ نیکی ہوتی ہے جیسے رسول کریم ﷺ اور صحابہؓ کی لڑائیاں ہیں۔ اصل چیز خدا تعالیٰ کی رضا ہے۔ اگر انسان خدا تعالیٰ کی رضا کے ماتحت کام کرے تو گو بظاہر وہ مُمِیْت نظر آتا ہے مگر اس کا قتل کا فعل بھی بُرا نہیں سمجھا جا سکتا۔ چنانچہ دیکھ لو رسول کریم ﷺ اور آپ کے صحابہؓ پر کتنے اعتراض کئے گئے کہ انہوں نے قتل کئے، لڑائیاں کیں اور دنیا میں نَعُوْذُ بِاللّٰہِ فتنہ و فساد پھیلایا۔ مگر ہم تو ان لڑائیوں پر جتنا غورکرتے ہیں اتنی ہی آپ کی عظمت اور بڑائی ظاہر ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں ہی اللہ تعالیٰ صحابہ کے متعلق فرماتا ہے۔ وَ هُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ جب لڑائی کا انہیں حکم دیا گیا تو وہ انہیں بہت ہی گراں گزرا۔ اس لئے نہیں کہ وہ اپنی جان دینے سے گھبراتے تھے بلکہ اس لئے کہ وہ دوسروں کی جان لینے سے گھبراتے تھے۔ حالانکہ وہ کفار جن سے انہیں لڑنے کا حکم ملا۔ اتنے شدید دشمن تھے کہ انہوں نے متواتر تیرہ سال تک رسول کریم ﷺ اور آپ کے صحابہؓ پر بڑے بڑے ظلم کئے تھے۔ انہوں نے ان پر ہنسی مذاق اڑایا۔ ان کے خلاف گالی گلوچ سے کام لیا۔ انہیں خدا کی عبادت سے روکا، ان کو بے دردانہ طور پر مارا اور بعض کو تو ظالمانہ طور پر قتل کر دیا گیا پھر جب رسول کریم ﷺ اور آپ کے صحابہؓ مدینہ میں ہجرت کر کے آئے تو یہاں بھی دشمنوں نے انہیں چَین سے بیٹھنے نہ دیا اورحملہ کر دیا۔ دنیا میں عام طور پر ایسے مخالف حالات کے رونما ہونے پر لوگ چاہتے ہیں کہ اگر ان کا بس چلے تو اپنے دشمنوں کو آروں سے چیر دیں۔ انہیں آگ میں جلا دیں۔ انہیں پہاڑوں سے گرا دیں، انہیں پانی میں غرق کر دیں مگر صحابہؓ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَ هُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ 4 ہم نے تمہیں جنگ کا حکم تو دیا ہے مگر وہ تم پر سخت گراں گزر رہا ہے۔ جن لوگوں کے قلوب کی یہ کیفیت ہو تم سمجھ سکتے ہو کہ ان کی جنگ کتنی بڑی نیکی تھی۔ وہ اپنے دلوں میں لڑائی کو پسند نہیں کرتے تھے لیکن سمجھتے تھے کہ جب خدا نے لڑائی کا حکم دیا ہے تو ہمارا فرض ہے کہ دشمن سے لڑیں۔ پس ایک طرف وہ لڑتے تھے، جوش سے لڑتے تھے اور بڑی بڑی قربانی کرتے تھے مگر دوسری طرف ان کی یہ حالت تھی کہ ان کے دل اندر سے بیٹھے جاتے تھے۔
جب صحابہؓ کا یہ حال تھا تو تم سمجھ سکتے ہو کہ رسول کریم ﷺ کا کیا حال ہو گا۔ قرآن کریم اس کیفیت کا ان الفاظ میں ذکر فرماتا ہے کہ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ 5 یعنی ان لوگوں کے ایمان نہ لانے اور کافر رہنے کا ہمارے رسول کو اس قدر صدمہ ہے کہ گویا اس کی گردن پر تلوار رکھ کر کسی نے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک اسے کاٹ دیا ہے۔ جب لوگوں کے ایمان نہ لانے کا رسول کریم ﷺ کو اس قدر افسوس تھا تو ان کا کفر کی حالت میں مر جانا آپ پر کس قدر گراں گزرتا ہو گا۔ جو شخص صرف اس بات سے ہی صدمہ محسوس کرتا ہے کہ ایک شخص خدا تعالیٰ پر ایمان نہیں لایا۔ اس کے دل پر اس وقت کیا گزرتی ہو گی جب اسے یہ معلوم ہوتا ہو گا کہ اب کفر پر اس کا خاتمہ بھی ہو گیا ہے۔
تو جو چیز دنیاکو مکروہ نظر آتی ہے وہی چیز رسول کریم ﷺ اور آپ کے صحابہؓ کے چہرہ کو ایسا حسین ثابت کرتی ہے کہ ان کے صدقہ و خیرات سے ان کا اتنا حسن ظاہر نہیں ہوتا جتنا لڑائیوں سے ان کا حسن ظاہر ہوتا ہے۔ صدقہ و خیرات کرتے وقت ہر انسان کے دل میں رحم کا جذبہ پیدا ہوتا ہے مگر انتقام کے جذبہ کی موجودگی میں اور پھر اس انتقامی جذبہ کو پورا کرنے والے تمام سامانوں کی موجودگی میں دل میں اتنی رأفت، رحمت اور نرمی کا پیدا ہونا سوائے خدا رسیدہ اور ولی اللہ انسان کے اور کسی سے ممکن نہیں۔ ہم نے تو دیکھا ہے دنیا میں ایک شخص دوسرے کو تھپڑ مار دے تو دوسرا جواب میں اسے دس تھپڑ مار کر بھی خوش نہیں ہوتا اور سال سال تک دل میں اس کے متعلق کینہ رکھتا چلا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص دوسرے کے متعلق سخت لفظ استعمال کر دے تو مَیں نے دیکھا ہے کہ دوسرا شخص جھٹ میرے پاس اس کی شکایت پہنچا دیتا ہے اور شکایت کرتے کرتے پندرہ بیس گالیاں اسے دے دیتا ہے کہ وہ ایسا خبیث، ایسا بے دین اور ایسا مرتد ہے مگر ساتھ ہی لکھتا ہے کہ مَیں تو اسے کچھ نہیں کہتا۔ اللہ ہی ہے جو اس سے بدلہ لے۔ گویا دس بیس گالیاں دینے کے باوجود پھر بھی اس کی تسلی نہیں ہوتی اور وہ مجھے لکھتا ہے کہ آپ چونکہ خلیفہ ہیں۔ اس لئے آپ کا فرض ہے کہ اسے سزا دیں اور پھر لکھ دیتا ہے کہ مَیں نے تو اسے کچھ بھی نہیں کہا۔ خدا ہی ہے جو اس سے بدلہ لے۔
تو دنیا میں بسا اوقات ہم دیکھتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے قصوروں پر لوگ اتنا غصہ ظاہر کرتے ہیں کہ اس کی کوئی حد ہی نہیں ہوتی۔ مگر صحابہؓ کو جو تکلیفیں پہنچی تھیں ان کا تو قیاس کر کے بھی انسان کا دل کانپ جاتا ہے۔ ہٹلر کے متعلق لوگ کہتے ہیں کہ وہ بڑا ظالم ہے مگر اس کے ظلم بھی قریش مکہ کے مظالم کے آگے کیا حقیقت رکھتے ہیں۔ ایک غریب صحابیہؓ عورت تھی۔ کفار نے اس کی شرمگاہ میں نیزہ مار کر اسے مار دیا۔6 ایک اَور صحابیؓ تھے ان کی ایک ٹانگ ایک اونٹ سے باندھ دی اور دوسری ٹانگ دوسرے اونٹ سے اورپھران دونوں اونٹوں کو مخالف سمتوں میں دوڑا دیا گیا اور اس طرح ان کو چِیر کر مار ڈالا گیا۔
ایک اَورصحابیؓ جو پہلے غلام تھے انہوں نے ایک دفعہ نہانے کے لئے کُرتہ اُتارا تو کوئی شخص پاس کھڑا تھا اس نے دیکھا کہ ان کی پیٹھ کا چمڑا اوپر سے ایسا سخت اور کُھردرا ہے جیسے بھینس کی کھال ہوتی ہے۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا اور انہیں کہنے لگا تمہیں یہ کب سے بیماری ہے۔ تمہاری تو پیٹھ کا چمڑا ایسا سخت ہے جیسے جانور کی کھال ہوتی ہے۔ یہ سن کر وہ ہنس پڑے اور کہنے لگے ۔ بیماری کوئی نہیں جب ہم اسلام لائے تھے تو ہمارے مالک نے فیصلہ کیا کہ ہمیں سزا دے۔ چنانچہ تپتی دھوپ میں ہمیں لٹا کر ہمیں مارنا شروع کر دیتا اور کہتا کہ کہو ہم محمد (ﷺ) کو نہیں مانتے۔ ہم اس کے جواب میں کلمہٴ شہادت پڑھ دیتے۔ اس پر وہ پھر مارنے لگ جاتا اورجب اس طرح بھی اس کا غصہ نہ تھمتا تو ہمیں پتھروں پر گھسیٹا جاتا۔ عرب میں کچے مکانوں کو پانی سے بچانے کے لئے مکان کے پاس ایک قسم کا پتھر ڈال دیتے ہیں جسے پنجابی میں کِھنگر کہتے ہیں۔ یہ نہایت سخت، کُھردرا اور نوکدار پتھر ہوتا ہے اور لوگ اسے دیواروں کے ساتھ اس لئے لگا دیتے ہیں کہ پانی کے بہاوٴ سے انہیں کوئی نقصان نہ پہنچے تو وہ صحابی کہنے لگے کہ جب ہم اسلام سے انکار نہ کرتے اورلوگ ہمیں مار مار کر تھک جاتے تو پھر ہماری ٹانگوں میں رسی باندھ کر ان کُھردرے پتھروں پر ہمیں گھسیٹا جاتا تھا اورجو کچھ تم دیکھتے ہو اسی مار پیٹ اور گھسٹنے کا نتیجہ ہے۔غرض سالہا سال تک ان پر ظلم ہؤا۔ آخر حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ بات برداشت نہ ہو سکی اور انہوں نے اپنی جائداد کا بہت سا حصہ فروخت کر کے انہیں آزاد کرا دیا مگر اتنے مظالم کے بعد جس وقت ان کو حکم ہؤا کہ جاوٴ اور دشمنوں سے لڑائی کرو تو ان کو اس خیال سے تکلیف محسوس ہوئی کہ اب ہمیں لوگوں کو اپنے ہاتھ سے قتل کرنا پڑے گا۔
بعض صحابہؓ کی بے شک ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے دلوں میں غصہ تھا مگر ان کا یہ غصہ بھی کسی ذاتی تکلیف کی وجہ سے نہیں بلکہ رسول کریم ﷺ پر کفار کے مظالم کی وجہ سے تھا۔ پھر یہ مثالیں بھی زیادہ تر انصار میں نظر آتی ہیں اور انصار کی طرف سے اس غصہ کا اظہار ان کی نیکی کا ثبوت ہے۔ کیونکہ انصار مدینہ میں رہتے تھے اور وہ قریش مکہ کے مظالم کا تختہ نہیں بنے تھے۔اگر مہاجرین کی طرف سے غصہ کا اظہار ہوتا تو خیال کیا جا سکتا تھا کہ انہیں چونکہ ذاتی طور پر کفار سے تکالیف پہنچی تھیں اس لئے ان کے دلوں میں غصہ پایا جاتا تھا مگر انصار کے متعلق یہ خیال ہی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ انہیں ذاتی طور پر کوئی تکلیف نہیں پہنچی تھی۔ پس ان کا غصہ محض خدا اور اس کے رسول کے لئے تھا اور یہ بذاتِ خود ایک بہت بڑی نیکی ہے۔ چنانچہ انصار کے اس جوش کا ثبوت اس واقعہ سے بھی ملتا ہے جو مَیں بارہا سنا چکا ہوں کہ جنگ بدر میں دو انصاری نوجوانوں نے حضرت عبد الرحمان بن عوفؓ سے کہا کہ اے چچا وہ ابو جہل کونسا ہے جو رسول کریم ﷺ پر ظلم کیا کرتاہے۔ ہمار اجی چاہتا ہے کہ اسے قتل کریں۔7 پس اس غصہ کا اظہار کرنے والے انصاری لوگ تھے۔ مگر ان کا غصہ بھی خدا کے لئے ہی تھا۔ مکہ والے جن کو ذاتی طور پر کفار سے تکالیف پہنچی تھیں ان کی یہ حالت تھی کہ انہیں لڑائی کرنا سخت ناپسند تھا۔ (بعض فقرات حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق بھی ایسے پائے جاتے ہیں جن سے ان کے غصہ کا اظہار ہوتا ہے مگر وہ غصہ بھی عارضی تھا۔ دوسرے کئی مواقع پر ان کے متعلق بھی یہ امر ثابت ہے کہ وہ لڑائی کو پسند نہیں کرتے تھے) مگر باوجود اس کے انہیں لڑائیاں کرنی پڑیں کیونکہ خدا نے کہا کہ اس کے بغیر اصلاح نہیں ہو سکتی۔ پس بے شک انہوں نے تلوار اٹھائی اور بے شک انہوں نے لڑائی کی مگر محض خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے۔
پس مومن کو اپنے کاموں کا ہمیشہ جائزہ لیتے رہنا چاہئے اور یہ دیکھنا چاہئے کہ جو کام وہ کر رہا ہے وہ خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق ہے یا نہیں۔ بعض باتیں بظاہر خوبی اور نیکی دکھائی دیتی ہیں مگر شریعت انہیں خوبی نہیں سمجھتی۔ جیسے سزائیں دینا ہے قرآن کریم نے بعض سزاوٴں کے متعلق یہ فیصلہ کیا ہے کہ انہیں مومنوں کی جماعت دیکھے اور ان کے دلوں میں رحم پیدا نہ ہو۔ ایسے موقع پر بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ سزا کو نہ دیکھنا اچھا ہے مگر اللہ تعالیٰ یہ بتاتا ہے کہ اس وقت سزا کو دیکھنا ہی رحمت کا موجب ہوتا ہے۔
پس اپنے کاموں کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے ماتحت رکھنے کی کوشش کرو اور اس بات سے عبرت حاصل کرو کہ دنیا میں لوگ مُحیٖ ہو کر بھی ظالم ہوتے ہیں اور مُمِیْت ہو کر بھی ظالم ہوتے ہیں کئی ایسے ہیں جو احیاء کے سامان کر رہے ہیں مگر پھر بھی وہ ظالم ہیں اور کئی ایسے ہیں جو اِماتت کے سامان کر رہے ہیں مگر پھر بھی وہ ظالم ہیں۔ لیکن مومن کی یہ حالت نہیں ہوتی۔ وہ مُحیٖ بنتا ہے تب بھی اس پر رحم کیا جاتا ہے اور مُمِیْت بنتا ہے تب بھی اس پر رحم کیا جاتا ہے۔ وہ قتل کرتا ہے تب بھی اسے ثواب ملتا ہے اور پیدائش کا موجب بنتا ہے تب بھی اسے ثواب حاصل ہوتا ہے۔ پس ایسے انسان بننے کی کوشش کرو تاکہ تم سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہو جس کے نتیجہ میں تمہیں خد اتعالیٰ کی رضا حاصل نہ ہو۔’’
(الفضل 12 نومبر 1941ء)
1 وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَ بِيَعٌ وَّ صَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ (الحج: 41)
2 الماعون: 5 3 الماعون: 7
4 البقرۃ: 217 5 الشعراء : 4
6 اسد الغابة جلد 5 صفحہ 481 مطبوعہ ریاض 1280 ھ
7 بخاری کتاب الْمَغَازِیْ باب فَضْلُ مَنْ شَھِدَ بَدْرًا

32
اڑھائی ہزار سال کی پیشگوئیاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں پوری ہو رہی ہیں
( فرمودہ 7 نومبر 1941ء )

تشہد، تعوّذ اور سورہٴ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘قرآنِ کریم اور رسول کریم ﷺ کے کلماتِ طیبات سے اور پچھلی کتب کی پیشگوئیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آخری زمانہ میں بعض خطرناک جنگیں ہونے والی ہیں۔ ایسی جنگیں جو دنیا کو بالکل تہہ و بالا کر دیں گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے الہامات نے بھی اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ وہ پیشگوئیاں جو قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں اور وہ پیشگوئیاں جو حدیثوں میں بیان ہوئی ہیں اور وہ پیشگوئیاں جو پچھلی کتب میں بیان ہوئی ہیں ان کے پورا ہونے کا وقت یہی ہے۔ تیرہ سو سال سے وہ پیشگوئیاں قرآن اور احادیث میں بیان ہو چکی تھیں اور پھر دو ہزار سال سے زائد عرصہ سے بعض دوسری کتب میں بھی درج تھیں مگر اس وقت تک کوئی شخص ایسا نہیں ہوٴا تھا جس نے یہ دعویٰ کیا ہو کہ خداتعالیٰ کے الہام کے ذریعہ مجھے یہ خبر دی گئی ہے کہ میرا زمانہ ہی ان پیشگوئیوں کے پورا ہونے کا ہے اورجبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ تمام پیشگوئیاں بعثتِ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں تو مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی شخص خواہ کتنا ہی متعصب کیوں نہ ہو اگر وہ تھوڑی دیر کے لئے دلیل کی طرف توجہ کرے تو اسے اس بات کے تسلیم کرنے میں کوئی شبہ ہو سکے کہ ان پیش گوئیوں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی صداقت یقینی طور پر ثابت ہوتی ہے۔ گزشتہ دو اڑھائی ہزار سال میں سینکڑوں مدعی آئے ہیں مگر کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ یہ پیش گوئیاں میرے زمانہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ غور کر کے دیکھ لو۔ کتنی پرانی خبریں ہیں جو اس بارہ میں دی گئی ہیں۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں نوحؑ کے زمانہ سے لے کر اب تک جتنے بھی انبیاء آئے ہیں وہ سارے ہی آخری زمانہ کے فتنوں کو بیان کرتے چلے آئے ہیں۔ ان انبیاء کی تمام پیش گوئیاں محفوظ نہیں۔ مگر کم سے کم دانیالؑ اور یسعیاہؑ کی پیشگوئیاں اب تک موجود ہیں۔ اور ان پر بھی اڑھائی ہزار سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ گویا اڑھائی ہزار سال سے یہ پیشگوئیاں بیان ہوتی آ رہی تھیں۔ مگر کسی کو یہ جرأت نہ ہوئی کہ وہ یہ کہے کہ یہ میرے زمانہ میں پوری ہونے والی پیشگوئیاں ہیں۔ آخر وجہ کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے ہی اس امر کا دعویٰ کیا۔ اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے زمانہ میں ہی ان پیش گوئیوں کے پورا ہونے کے آثار ظاہر ہونے شروع ہو گئے۔ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ پچیس چھبیس سو سال سے جن پیش گوئیوں کو اپنی طرف منسوب کرنے کی کسی کو جرأت نہ ہوئی ہو۔ نہ سچے کو نہ جھوٹے کو۔ ان تما م پیشگوئیوں کو اس زمانہ میں اس شخص نے جو مخالفوں کے نزدیک اپنے دعویٰ میں بالکل جھوٹا تھا اپنی طرف منسوب کیا اور پھر خدا تعالیٰ نے ان پیشگوئیوں کے پورا ہونے کے سامان بھی پیدا فرما دئیے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ ایک نبی نہیں ، دو نبی نہیں، تین نبی نہیں، چار نبی نہیں متواتر اور مسلسل اللہ تعالیٰ کے انبیاء ایک فتنہ کی خبر دیتے ہیں۔ اتنے تواتر اور تسلسل کے بعد ہو سکتا تھا بلکہ ہونا چاہئے تھا کہ کوئی شخص یہ کہہ دیتا کہ یہ پیش گوئیاں میرے زمانہ سے تعلق رکھتی ہیں جیسے بعض اور پیشگوئیاں تاویل کے طور پر لوگ اپنی طرف منسوب کرتے رہے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے فتنہٴ یاجوج و ماجوج کو اتنا اہم بنایا تھا کہ کسی شخص کو جھوٹے طور پر بھی یہ جرأت نہ ہوئی کہ وہ ان پیشگوئیوں کو اپنی طرف منسوب کرے۔ بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جن میں تاویل سے کام لے لیا جاتا ہے۔ مثلاً کسی بڑے قحط کی پیشگوئی ہو اور دنیا میں فِی الْواقع قحط پڑنا شروع ہو جائے تو گو وہ معمولی قحط ہو اور پیشگوئی کے مطابق بہت بڑا قحط نہ ہو۔ مگر انسان تاویل کے طور پر اُسے کسی مدعی کی طرف منسوب کر سکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ بڑا قحط نہیں پڑا تو چھوٹا قحط تو پڑا ہے۔ اسی طرح کسی پیشگوئی کے مطابق اگر بڑی موت نہ آئے تو چھوٹی موت کسی کے دعویٰ کی سچائی کی طرف منسوب کی جا سکتی ہے۔ مگر یاجوج و ماجوج کا فتنہ جس کی قرآن نے خبر دی تھی، جس کی حدیثوں میں خبر موجود تھی اور جس کے متعلق پہلی کتب میں بھی پیشگوئیاں پائی جاتی تھیں اور بعض جگہ نام لے کر اور بعض جگہ بے نام اس کی خبر دی گئی تھی۔ اتنا بڑا فتنہ تھا کہ لوگوں کو یہ جرأت ہی نہیں ہوئی کہ وہ جھوٹے طور پر اسے کسی کی طرف منسوب کریں یا تاویل کے طور پر کسی اور فتنہ پر اس فتنہ کی پیشگوئیوں کو چسپاں کر دیں۔ پرانے زمانے میں بھی بعض بڑے بڑے فتنے ہوئے ہیں۔ مثلاً ہلاکو خاں کا فتنہ بہت بڑا فتنہ تھا۔ اس نے بغداد اور اسلامی سلطنت کو تباہ کر دیا تھا۔ اسی طرح امیر تیمور کے حملوں کو لوگ نہایت ظالمانہ قرار دیتے ہیں اور وہ بڑی دور تک حملہ کرتے نکل آیا تھا مگر باوجود ان فتنوں کی اہمیت کے یاجوج و ماجوج سے تعلق رکھنے والی پیشگوئیوں کو لوگوں نے ان واقعات پر چسپاں نہیں کیا۔ اس لئے کہ یاجوج و ماجوج دو قومیں بیان کی گئی تھیں اور بتایا یہ گیا تھا کہ وہ دونوں بڑی طاقتور اور جتھے والی ہوں گی اور وہ دونوں طاقتور جتھے باقی ساری دنیا کو مغلوب کرنے کی کوشش کریں گےتاکہ دنیا یا تو ایک گروہ کے ماتحت آ جائے یا دوسرے گروہ کے ماتحت آ جائے۔ اس پیشگوئی کو لوگ بھلا اور کہاں چسپاں کر سکتے تھے۔ اگر وہ ہلاکو خاں کو یاجوج بناتے تو ماجوج کہاں سے لاتے اور اگر ماجوج بناتے تو یاجوج کہاں سے لاتے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس فتنہ کو ایسا رنگ اور ایسی شکل دے دی تھی کہ کوئی شخص گزشتہ زمانہ میں ایسا نہیں گزرا جس نے ان پیشگوئیوں کو اپنے زمانہ کی طرف منسوب کیا ہو نہ سچے طور پر نہ جھوٹے طور پر اور اس طرح یہ پیشگوئی ہر زمانہ میں بچتی چلی آئی یہاں تک کہ جو اس کا صحیح معنوں میں مصداق تھا اس نے ان پیشگوئیوں کو اپنے زمانہ پر چسپاں کیا۔
ممکن ہے کوئی شخص کہہ دے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام تھے تو نعُوْذُ بِاللّٰہِ جھوٹے ہیں مگر چونکہ آپ زیادہ ہوشیار تھے اس لئے آپ نے ان پیشگوئیوں کو اپنے زمانہ پر چسپاں کر لیا مگر سوال یہ ہے کہ اگر آپ نے ان پیشگوئیوں کو جھوٹے طور پر اپنے زمانہ پر چسپاں کر لیا تھا تو خدا نے ان پیشگوئیوں کے پورا ہونے کے سامان کیوں کر دئیے؟
غرض یاجوج و ماجوج کے فتنہ سے تعلق رکھنے والی جو پیشگوئیاں قرآن و احادیث اور پہلی کتب میں پائی جاتی تھیں۔ وہ آج پوری ہو رہی ہیں۔ چنانچہ گزشتہ جنگوں کا اس جنگ سے مقابلہ کر کے دیکھ لو۔ تمام دنیا یہ اقرار کر رہی ہے کہ یہ جنگ دو گروہوں کی جنگ ہے اور اخبارات میں ہمیشہ یہ لکھا ہوتا ہے کہ یہ جنگ درحقیقت ڈیما کریسی کا ڈکٹیٹر شپ سے مقابلہ ہے۔ یعنی آزادیٴ رائے سے جو حکومت کی جاتی ہے اس کا جبری حکومت سے مقابلہ ہے۔ ڈکٹیٹر شپ کے ماتحت حکومت کرنے کے جرمنی اور اٹلی والے حامی ہیں اور ڈیما کریسی یعنی جمہوریت اور آزاد رائے سے حکومت کرنے کے حامی برطانیہ اور امریکہ وغیرہ ہیں۔ یہی دو اصول ہیں جن کی اس وقت جنگ ہو رہی ہے۔ ایک فریق ایک اصل کو دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے اور دوسرا فریق دوسرے اصل کو دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ انبیاء کے کاموں کو ان کے خلفاء کے ذریعہ تکمیل تک پہنچایا کرتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے ہی یہ توفیق عطا فرمائی کہ مَیں نے دنیا کے سامنے یہ حقیقت بیان کی کہ یاجوج اور ماجوج دوقوموں کے نام نہیں بلکہ دو اصول کے نام ہیں چنانچہ تین چار سال ہوئے اسی منبر پر کھڑے ہو کر میں نے ایک خطبہ پڑھا تھا جس میں کہا تھا کہ:۔
‘‘یاجوج اور ماجوج دو اصول ہیں جو اس زمانہ میں دنیا پر غالب آنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک اصل تو وہ ہے جو جمہوریت کو اس کے تمام عیوب سمیت دنیا میں ترقی دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ اور دوسرا اصل وہ ہے جو قابلیت اور لیاقت کو ترقی دینا چاہتا ہے اور جمہوریت کی روح کو دبانا چاہتا ہے ۔ یہ دو اصول اس وقت دنیا میں ایک دوسرے کے مقابلہ میں غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک اصل تو اس بات کی جدو جہد میں مشغول ہے کہ افراد کی طاقت کو بڑھا کر دنیا میں غلبہ حاصل کیا جائے اور ایک اصول اس غرض کے لئے کوشاں ہے کہ اعلیٰ قابلیت کو راہ نمائی کی باگ ڈور دے کر دنیا پر غلبہ حاصل کیا جائے۔ ان دونوں گروہوں نے دنیا پر کامل طور پر غلبہ حاصل کیا ہوٴا ہے اور ساری دنیا ان دو گروہوں میں تقسیم ہو کر رہ گئی ہے۔’’1
یہ خطبہ جمعہ جنگ سے قریباً سوا سال پہلے کا چھپا ہوٴاموجود ہے۔ اور آج اس جنگ میں سب دنیا اقرار کر رہی ہے کہ یہ جنگ دو اصول کی ہے۔ ایک طرف ڈیما کریسی ہے اور دوسری طرف ڈکٹیٹر شپ ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اتنا عظیم الشان نشان ظاہر ہوٴا ہے کہ اگر دنیا کے سامنے اسے صحیح طور پر پیش کیا جائے تو مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ متعصب سے متعصب انسان بھی اس پر کوئی اعتراض کر سکے۔ آخر وہ اِس امر کا کیا جواب دے گا کہ کیوں اڑھائی ہزار سال تک ان پیشگوئیوں کو کسی نے اپنے زمانہ پر چسپاں نہ کیا اور پھر وہ اس بات کا کیا جواب دے گا کہ کیوں گزشتہ اڑھائی ہزار سال میں یہ باتیں پوری نہ ہوئیں اور اِس وقت پوری ہوئیں جب ایک شخص نے یہ دعویٰ کیا کہ یہ پیشگوئیاں میرے زمانہ سے تعلق رکھتی ہیں۔
اب تو زمانہ بہت کچھ بدل چکا ہے ورنہ پہلے یہ حالت تھی کہ عیسائیوں کو دجال کہنے پر ہی سارے مسلمان ہمارے مخالف ہو گئے تھے اور کہتے تھے کہ احمدی پیشگوئیوں کی تاویلیں کرنے کے عادی ہیں۔ مگر اب مسلمانوں کے اخبارات اور رسالوں میں بھی بسا اوقات یہ لکھا ہوتا ہے کہ عیسائی دجال ہیں۔ آج آہستہ آہستہ دنیا میں خدا تعالیٰ کے فضل سے وہی خیالات اور وہی اعتقادات قائم ہو رہے ہیں۔ جن کو احمدیت دنیا میں قائم کرنا چاہتی ہے۔
غرض ہمارے لئے یہ ایک بہت بڑاخوشی کا مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اتنی بڑی پیشگوئی کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں پورا کیا اور اس طرح آپ کی صداقت کا ایک عظیم الشان ثبوت بہم پہنچا دیا۔ اگر یہ سب کچھ انسانی منصوبہ ہوتا تو بھلا سوچو کیا کسی انسان کی یہ طاقت تھی کہ وہ آج سے اڑھائی ہزار سال پہلے کے انبیاء سے یہ پیشگوئیاں کرا دیتا۔ قرآن کریم میں جہاں رسول کریم ﷺ کے متعلق حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیشگوئیوں کا ذکر ہے وہاں اللہ تعالیٰ مخالفین سے فرماتا ہے کہ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہمارے اس بندہ نے دو ہزار سال پہلے موسیٰ سے مشورہ کر لیا تھاکہ وہ اس کے متعلق پیشگوئیاں کر دے تاکہ جب یہ دعویٰ کرے تو ان پیشگوئیوں کو اپنی صداقت کے ثبوت میں پیش کر سکے۔ جب اس کے پاس کوئی ایسی طاقت نہیں تھی جس سے کام لے کر یہ دو ہزار سال پہلے کے ایک نبی کے مُنہ سے اپنے متعلق پیشگوئی نکلوا سکتا تو تم کیوں نہیں سمجھتے کہ یہ خدا کا کام ہے کسی انسان کا کام نہیں۔ اسی طرح ہم کہتے ہیں کہ یہ کیا بات ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے اپنے زمانہ کے متعلق دانیال سے بھی پیشگوئیاں کرا لیں، یسعیاہ سے بھی پیشگوئیاں کر الیں، رسول کریم ﷺ سے بھی پیشگوئیاں کر الیں اور پھر ان تمام پیشگوئیوں کے پورے ہونے کے سامان بھی پیدا کرا لئے۔ کیا کسی انسان کی طاقت ہے کہ وہ ایسا کر سکے؟ اور کیا یہ اس امر کا ثبوت نہیں کہ آپ اپنے دعوے میں صادق اور راستباز ہیں؟
غرض اس طرح ان قوموں کا ابھار کسی انسان کے خیال میں بھی نہیں آ سکتا تھا۔ سوائے اس کے کہ قرآن کریم نے اس امر کی وضاحت کر دی تھی کہ عیسائیوں کی طاقت ایک دفعہ اسلام کے مقابلہ میں بالکل تباہ ہو جائے گی۔ مگر پھر دوبارہ ترقی کر کے وہ تمام دنیا پر چھا جائیں گے۔ جیسا کہ سورہ کہف کی تفسیر میں میں نے اس مضمون کو بیان بھی کیا ہے۔ اور واقعہ یہی ہے کہ عیسائیوں کے تنزّل کو دیکھ کر کسی انسان کے وہم میں بھی یہ بات نہیں آ سکتی تھی کہ وہ دوبارہ ترقی کر جائیں گے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام سے پہلے عیسائیت کا مغربی کرّہ پر غلبہ تھا۔ چنانچہ روما کی حکومت عیسائیوں کے قبضہ میں تھی، عرب کے کچھ حصہ پر بھی قابض تھے۔ شام اور فلسطین میں بھی ان کا غلبہ تھا یہاں تک کہ انگلستان اور ہسپانیہ بھی ان کے ماتحت تھا مگر جس وقت اسلام نے ترقی شروع کی تو عیسائیوں کی حکومت اتنی زوال پذیر ہو گئی کہ روما کا قیصر ایک عرصہ تک مسلمان بادشاہوں کو خراج دیتارہا۔ گویا وہ ایسا ہی کمزور تھاجیسے آجکل ہندوستان کی ریاستیں انگریزوں کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ مثلاً ریاست جے پور ہے، جودھپور ہے، گوالیار ہے، میسور ہے۔ ان ریاستوں کے راجوں مہاراجوں کو گو ان کی رعایا حضور اور آقا اور اَن داتا وغیرہ کہے مگر دنیا جانتی ہے کہ ایک معمولی انگریز افسر کے سامنے بھی ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ اسی طرح روما کا قیصر مسلمانوں کو خراج دیا کرتا تھا اور اس کی اسلامی سلطنت کے مقابلہ میں کوئی حیثیت ہی نہیں تھی۔ پھر مسلمانوں نے اس سلطنت کو بھی تباہ کر دیا اور آخر ہسپانیہ وغیرہ کو بھی فتح کر لیا۔ عیسائیت کی اس کمزوری کے زمانہ میں کوئی شخص یہ وہم بھی نہیں کر سکتا تھا کہ یورپ پھر ترقی کر جائے گا۔ قیدیوں کی سی ان کی حالت تھی اور صرف ایک برِّ اعظم میں وہ گھرے ہوئے تھے اور اس کے بھی دائیں اور بائیں اسلامی سلطنتیں موجود تھیں۔ پھر یورپ کی کمزوری کی یہ حالت تھی کہ سپین والوں نے جب انگلستان پر حملہ کیا تو انگلستان کی ملکہٴ الزبتھ نے ترکوں کے بادشاہ سے مدد کی درخواست کی اور لکھا کہ ترک بڑے بہادر ہوتے ہیں اور وہ عورتوں کی حفاظت کیا کرتے ہیں۔ مَیں عورت ذات ہوں اور ایک ظالم بادشاہ میرے ملک پر حملہ آور ہو گیا ہے میری مدد کی جائے۔
اب کُجا تو وہ حالت تھی اور کُجا یہ حالت ہے کہ آج سب جگہ یورپ ہی یورپ نظر آتا ہے۔ امریکہ ایک نیا برّ اعظم نکلا تھا مگر وہاں بھی عیسائیوں کا غلبہ ہے۔ مشرقی یورپ میں بھی مسلمانوں کو کوئی طاقت حاصل نہیں اور سپین کی حالت تو ایسی خطرناک ہے کہ آجکل وہاں ایک مسلمان بھی نظر نہیں آتا۔ حالانکہ وہ بغداد کے مد مقابل کی حکومت تھی اور اسلام کے متعلق بعض اعلیٰ درجہ کی تصانیف سپین میں لکھی گئی تھیں مگر اب کتابوں کے لکھنے والوں کی قبروں تک کا نشان نہیں ملتا۔ شاید اس لئے کہ حکومت کے اثر سے وہاں کے علماء آزاد تھے۔ انہوں نے تصنیف کا کام نہایت اعلیٰ درجہ کا کیا ہے۔ چنانچہ صوفیاء میں سے حضرت محی الدین صاحب ابن عربی جنہوں نے فتوحات مکیہ لکھی ہے وہ وہیں پیدا ہوئے تھے۔ اسی طرح فلسفہ طب اور تفسیر کی نہایت اعلیٰ درجہ کی کتابیں وہاں لکھی گئیں۔ روائتی طور پر قرطبی کی تفسیر بہت اعلیٰ درجہ کی ہے اور یہ ہسپانیہ کے ہی ایک شخص نے لکھی ہے۔ درائتی طور پر اور ادبی لحاظ سے بحرِ محیط کی تفسیر نہایت اعلیٰ درجہ کی ہے۔ اور یہ بھی ایک ہسپانیہ کے رہنے والے نے ہی لکھی ہے۔ مشہور فلسفیوں میں سے جو دو بڑے فلسفی گزرے ہیں۔ ان میں سے ابن رشد ہسپانیہ کا ہی رہنے والا تھا۔ غرض سپین میں مسلمانوں نے اتنی عظیم الشان ترقی کی تھی کہ اگرچہ ہندوستان کے رہنے والے اس ترقی سے زیادہ آگاہ نہیں مگر مصری اور اردگرد کے علاقوں والے جانتے ہیں کہ مسلمانوں کی ترقی بے نظیر تھی۔ جب مسلمانوں پر انحطاط کا دور آیا تو وہ تمام کتابیں جو انہوں نے لکھی تھیں یورپ کے کتب خانوں میں چلی گئیں اور انہوں نے ان کتابوں سے فائدہ اٹھا کر ترقی کرنی شروع کر دی حتّٰی کہ اب مسلمانوں کو یہ علم تک نہیں رہا کہ ان کے آباء نے کیا کیا تصانیف کی تھیں۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ یورپ کی ساری ترقی ہسپانیہ والوں سے میل جول کا نتیجہ ہے۔
مَیں نے کچھ عرصہ ہوٴا بعض کتابیں منگوائیں جو مسلمانوں کی گزشتہ ترقی کی تاریخ پر مشتمل تھیں۔ انہیں پڑھ کر مجھے بہت ہی خوشی ہوئی ، مذہبی لحاظ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ علمی لحاظ سے ان میں بہت دلچسپ باتیں درج تھیں۔ ان کتابوں میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ یورپ کے بہت سے علوم سپین والوں سے نقل کئے گئے ہیں۔ چنانچہ موسیقی کے متعلق لکھا تھا کہ جو چیزآج یورپ کا آرٹ سمجھا جاتا ہے اور جس کے متعلق لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ موسیقی کے اصول یورپین لوگوں نے وضع کئے ہیں وہ درحقیقت یورپ کے وضع کردہ نہیں بلکہ مسلمانوں کی نقل ہیں۔ اسی طرح بہت سے باجے اور موسیقی کے طریق سپین والوں سے لئے گئے ہیں یہاں تک کہ ان میں سے ایک کتاب میں ایک خط و کتابت بھی درج کی گئی ہے جو موسیقی کے متعلق ایک بہت بڑے پادری اور عیسائی میں ہوئی۔ اور مصنف نے لکھا ہے کہ یہ خطوط اب تک برٹش میوزیم میں محفوظ ہیں۔ اس کتاب کا مصنف لکھتا ہے کہ ایک انگریز سپین میں گیا اور اس نے مسلمانوں سے موسیقی کا علم سیکھا۔ جب وہ علم سیکھ چکا تو اس نے اپنے بڑے پادری کو خط لکھا۔جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ اب تک محفوظ ہے کہ ہمارے ہاں جو موسیقی کا طریق ہے وہ نہایت ردّی ہے۔ لیکن مسلمانوں کا طریق نہایت اعلیٰ اورمکمل ہے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ اگر آپ اجازت دیں تو کافروں کایہ علم اپنے ملک میں رائج کیا جائے تاکہ ہمارے گرجوں میں بھی جاری ہو اورلوگ فائدہ اٹھائیں۔ اس خط کا پادری نے جو جواب دیا۔ اس سے اس کی دیانتداری بھی ظاہر ہو جاتی ہے۔ اس نے لکھا کہ بڑی اچھی بات ہے تم ضرور ایسا کرو مگر لوگوں سے یہ نہ کہنا کہ میں نے یہ علم مسلمانوں سے سیکھا ہے بلکہ کہنا کہ مَیں نے خود ایجاد کیا ہے۔
باجے واجے سے ہمیں کوئی دلچسپی تو نہیں مگر اس سے یہ پتہ ضرور چلتا ہے کہ ظاہری اور باطنی اور دینی اور دنیوی حتّٰی کہ تعیّش کے معاملات میں بھی مسلمانوں نے اتنی ترقی کی تھی کہ آج یورپ میں موسیقی کا جو علم رائج ہے وہ بھی مسلمانوں کی نقل ہے۔ اسی طرح طب میں انہوں نے مسلمانوں کے علوم کی نقل کی۔ چنانچہ یہ بات ثابت ہے کہ آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے تک فرانس اور دوسرے یورپین ممالک میں ہسپانیہ کی لکھی ہوئی طب کی کتابیں ہی کالجوں میں پڑھائی جاتی تھیں اور ابھی کئی نئی چیزیں نکلتی آ رہی ہیں اورمعلوم ہو رہا ہے کہ اس زمانہ کی بعض ایجادات ایسی ہیں کہ یا تو وہ مسلمانوں نے ایجاد کی تھیں مگر یوروپینز نے اپنی طرف منسوب کر لیں اور یا پھر یوروپینز نے گو اپنے طور پر ہی بعض چیزوں کو ایجاد کیا۔ مگر اب معلوم ہوٴا کہ یہ ایجادات مسلمان بھی کر چکے تھے لیکن اتنی عظیم الشان کامیابی اور یورپ پر قبضہ و تصرف کے بعد آج مسلمانوں کی کیا حالت ہے۔
آج کے‘‘الفضل’’ میں ہی ہمارے ایک مبلّغ نے یوگو سلاویہ کے مسلمانوں کے حالات شائع کرائے ہیں۔ گو اس مضمون میں ایک غلطی بھی ہے اور وہ یہ کہ اس مضمون کو پڑھ کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ یوگو سلاویہ کی حکومت ابھی تک قائم ہے حالانکہ کئی مہینے ہوئے جرمن والے اسے فتح کر چکے ہیں۔ بہرحال یہ یوگو سلاویہ کا علاقہ کسی زمانہ میں ترکوں کے ماتحت ہؤا کرتا تھا۔ پھر یورپین لوگوں نے مل کر مسلمانوں کو یہاں سے نکال دیا۔ اب مولوی محمد الدین صاحب نے اس علاقہ کے جو حالات شائع کرائے ہیں وہ کتنے دردناک ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ وہاں مسلمان بالعموم مزدوروں یا چوہڑوں کا کام کرتے ہیں اور سڑکوں پر مزدوری کرنا یا جھاڑو دینا ان کا کام ہے۔ اب کُجا تو یہ حالت تھی کہ وہ یوگو سلاویہ کے بادشاہ تھے اور اب کُجا یہ حالت ہے کہ چودہ ملین آبادی میں سے صرف تین ملین مسلمان ہیں اور ان میں سے بھی سوائے چند لوگوں کے باقی سب ذلیل اور ادنیٰ حالت میں ہیں۔ حکومت نے مسلمانوں سے یہ سلوک کیا کہ اس نے جبراً ان کی زمینیں چھین کر عیسائیوں کو دے دیں اور پھر ان سے کہا کہ اگر تم اپنا حق سمجھتے ہو تو عدالت میں دعویٰ دائر کرکے زمینیں واپس لے لو۔ وہ غریب آدمی بھلا مقدمے کیسے کرتے۔ نتیجہ یہ ہوٴا کہ وہ پہلی حالت سے بھی بدتر حالت میں جا گرے۔ یہ کیسے دردناک حالات ہیں کہ ایک زمانہ میں تو مسلمان حاکم تھے مگر آج ان کو کوئی پوچھتا بھی نہیں۔
غرض اُس زمانہ میں کوئی شخص یہ قیاس بھی نہیں کر سکتا تھا کہ یورپ کبھی ترقی کر کے اتنا بڑھ جائے گا کہ تمام دنیا پر چھا جائے گا۔ آج مسلمانوں کی جو کچھ حالت ہے اس سے بھی زیادہ کمزور حالت اُس زمانہ میں عیسائیوں کی تھی۔ پھر جس طرح گاڑی کے سفر میں سوتے سوتے انسان کی آنکھ کھلے تو وہ کہیں کا کہیں پہنچا ہوٴا ہوتا ہے ۔ اسی طرح مسلمان رات کو ایسی حالت میں سوئے کہ تمام یورپ ان کے ماتحت تھا مگر جب ان کی آنکھ کھلی تو انہوں نے دیکھا کہ یورپ ان کی گردن پر سوار ہے اور وہ اس کے غلام بنے ہوئے ہیں۔ مگر ہمارے لئے ان حالات میں بھی مایوسی اور گھبراہٹ کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ جس خدا نے عیسائیت کی ترقی کی وہ خبر دی تھی جو کسی انسانی واہمہ اور قیاس میں بھی نہیں آ سکتی تھی۔ اُسی خدا نے یہ خبر بھی دی ہے کہ یہ تبدیلی اور تغیر اسلام کے لئے مفید ہو گا۔ پس ہمارے لئے ڈرنے اور گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں۔ لیکن یہ خدا کے خوف کا مقام ضرور ہے۔ کیونکہ حدیثوں سے یہ ایسی گمراہی کا زمانہ ثابت ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں۔ رات کو انسان مومن ہونے کی حالت میں سوئے گا اور صبح کافر اٹھے گا۔2 گویاکفر کا اتنا غلبہ ہو گا کہ ایمان کا دعویٰ کرنے والے گھنٹوں میں اپنے ایمان کو ضائع کر دیں گے۔ اور لالچ یا خوف کی وجہ سے اپنے مذہب کو ترک کر دیں گے۔ چنانچہ صبح کو وہ مومن ہوں گے اور شام کو کافر ہوں گے۔ شام کو مومن ہوں گے اور صبح کو کافر ہوں گے۔ یہ عیسائیت کا غلبہ اور اس کے رعب کی ایک علامت ہے بلکہ عیسائیت کو جانے دو اِس وقت عیسائیت کا سوال نہیں حکومتوں کا سوال ہے اور رسول کریم ﷺ نے بتایا ہے کہ ان حکومتوں کا اتنا رعب ہو گا کہ وہ لالچ دے کر یا ڈرا دھمکا کر لوگوں کو اپنے مذہب سے منحرف کر دیں گی۔
غرض اس فتنہ کی رسول کریم ﷺ نے اس قدر اہمیت بیان فرمائی ہے کہ اگر مسلمان کچھ بھی سوچتے تو آج ان کی وہ حالت نہ ہوتی جو نظر آ رہی ہے۔ آج وہی زمانہ ہے جس کے متعلق رسول کریم ﷺ نے اس خطرہ کا اظہار فرمایا ہے کہ شام کو انسان مومن ہو گا اور صبح کو کافر۔ صبح کو مومن ہو گا اور شام کو کافر۔ ایسے خطرناک فتنہ سے بچنے کے لئے انسان جس قدر بھی دعائیں کرے کم ہے۔ اور اب تو یہ خطرہ بڑھتے بڑھتے ہندوستان کے قریب پہنچ گیا ہے۔ چنانچہ تازہ خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ کریمیا3 کے علاقہ میں جرمن داخل ہو گئے ہیں۔ کریمیا سے پندرہ بیس میل کے فاصلہ پر ایشیا ہے اور گو یہ پندرہ بیس میل سمندر کا علاقہ ہے مگر ایک قوم کے لئے جو اتنی بڑی قربانیاں کر چکی ہے پندرہ بیس میل کے علاقہ کو عبور کرنا کونسا مشکل کام ہے۔ جب اس علاقہ کو جرمنوں نے طے کر لیا تو آگے کوہ قاف آئے گا اور پھر چند سو میل کے فاصلہ پر ایران اور ایران کے بعد افغانستان اور بلوچستان آ جاتے ہیں۔ پس وہ جرمن جو لوگوں کو ہزاروں میل پر دکھائی دیتے تھے اب وہ اپنا آدھا سفر طے کر چکے ہیں بلکہ بعض لحاظ سے وہ آدھے سے بھی زیادہ سفر طے کر چکے ہیں۔ اور وہ لحاظ یہ ہے کہ اب ان کے رستہ میں کوئی ایسی طاقت نہیں جو ان کا مقابلہ کر سکے۔ روس والوں نے جو مقابلہ کیا ہے۔ بے شک وہ حیرت انگیز ہے۔ مگر ایران اور افغانستان کی بھلا کیا طاقت ہے کہ وہ جرمن والوں کا مقابلہ کر سکیں۔ وہ تو ان ہتھیاروں کے ساتھ جو آجکل یوروپین طاقتوں کے پاس ہیں۔ دو چار ہزار سپاہی بھجوا کر ہی ان ملکوں پر اپنا تسلّط قائم کر سکتے ہیں۔ انگریزوں کی طاقت بے شک بڑی ہے مگر ہندوستان میں ان کی طاقت نہیں۔ ہندوستان سے متعلق اس وقت انگریزوں کی دس لاکھ فوج ہے۔ جن میں سے باقاعدہ سیکھے ہوئے اور مسلح سپاہی صرف تین چار لاکھ ہیں لیکن جرمنی اور اس کے ساتھی ممالک کی فوج ایک کروڑ ہے۔ اس ایک کروڑ میں سے دس پندرہ بیس لاکھ سپاہی بھجوا دینا ان کے لئے کوئی مشکل کام نہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہندوستان کی آبادی تینتیس کروڑ ہے اور اگر یوروپین ممالک کے طریق پر بھرتی کی جائے تو تین کروڑ سپاہی تیار ہو سکتے ہیں۔مگر مشکل یہ ہے کہ ہندوستان صنعتی ملک نہیں اور آجکل لڑائی آدمیوں سے نہیں ہوتی بلکہ آجکل بارود کی لڑائی ہوتی ہے، توپوں کی لڑائی ہوتی ہے، ٹینکوں کی لڑائی ہوتی ہے، ہوائی جہازوں کی لڑائی ہوتی ہے اور ہندوستان میں نہ اتنے ٹینک ہیں، نہ اتنے ہوائی جہاز ہیں جو ان سپاہیوں کے کام آ سکیں بلکہ ہندوستان ضرورت کے مقابلہ میں ٹینکوں اور ہوائی جہازوں کا سواں حصہ بھی تیار نہیں کر سکتا۔ باہر سے جو سامان آتا ہے وہ بھی اتنا محدود ہے کہ اس سے کوئی بڑی فوج تیار نہیں کی جا سکتی۔ ایسے خطرناک حالات میں ہندوستان کو بہت زیادہ خطرہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ واقف لوگ ہندوستانیوں کو بار بار جگا رہے ہیں کہ اٹھ کر اپنی حفاظت کا سامان کر لو ایسا نہ ہو کہ بعد میں پچھتانا پڑے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ زیادہ تر یہ تحریک حکومت کے نمائندگان کی طرف سے ہوتی ہے اور قدرتی طور پر ان کی تحریک سن کر خیال پیدا ہوتا ہے کہ شاید وہ اپنے فائدہ کے لئے کہہ رہے ہیں مثلاً جب کوئی ڈپٹی کمشنر یا وزیر، جنگ کے لئے تقریر کرتا ہے تو بے شک لوگ اس وقت دس دس بیس بیس ہزار روپیہ چندہ دے دیتے ہیں مگر اس لئے نہیں کہ وہ سمجھتے ہیں خطرہ قریب آ رہا ہے۔ بلکہ اس لئے کہ وہ سمجھتے ہیں یہ دس بیس ہزار روپیہ ایسا ہی ہے جیسے بیج ڈالا جاتا ہے۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ اس کے نتیجہ میں یا تو انہیں کوئی خطاب مل جائے گا یا انہیں آنریری مجسٹریٹ بنا دیا جائے یا ان کے بیٹے کو ہی کہیں ملازم کرادیا جائے گا۔
پس وہ خطرہ کی اہمیت کو سمجھ کر قربانی نہیں کرتے بلکہ گورنمنٹ میں عزت اور رسوخ حاصل کرنے کے لئے اپنا روپیہ خرچ کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ جو پبلک کے نمائندے ہیں ان میں سے بہت کم ہیں جو سچے طور پر خطرہ کی اہمیت کو سمجھتے ہوں اور جو لوگ سمجھتے ہیں وہ بھی بعض مصالح کی وجہ سے خاموش ہیں۔ مثلاً گاندھی جی نے کچھ عرصہ ہوٴا جنگ کی تائید میں اعلان کیا تھا مگر معلوم ہوتا ہے کہ بعد میں وہ ڈر گئے اور کسی نے ان سے کہہ دیا کہ گاندھی جی آپ نے یہ کیا مصیبت سہیڑ لی ہے؟ اگر انگریز جیتے تب تو کوئی بات ہی نہیں لیکن اگر جرمنی جیت گیا تو وہ کھال ادھیڑ کر رکھ دے گا۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ اس موقع پر چپ رہیں۔ چنانچہ اب ان کی پالیسی یہی ہے کہ وہ نہ انگریزوں کی تائید کرتے ہیں، نہ جرمنوں کی اور سمجھتے ہیں کہ اگر انگریز جیت گئے تو ہم ان سے کہہ دیں گے کہ ہم آپ کے دشمن نہیں تھے اور اگر جرمن جیت گئے تو ان سے کہہ دیں گے کہ ہم آپ کے دشمن نہیں تھے۔ بہرحال ان کا پہلا اعلان صاف بتاتا تھا کہ وہ خطرہ کی اہمیت کو سمجھتے ہیں مگر اب اُن کے دل میں شبہ ڈال دیا گیا ہے کہ انگریزوں کی کامیابی یقینی نہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ جرمن ہی جیت جائیں ۔ اس لئے آپ اپنی جان بچانے کی کوشش کریں اور کسی ایک طرف نہ جھکیں۔ اَور لوگ بھی ہیں جو خطرہ کی اہمیت کو سمجھتے ہیں مگر ان کی آواز کا اثر بہت کم ہے۔ حالانکہ حالات نہایت نازک ہیں اور خطرہ روز بروز بڑھتا چلا جا رہا ہے مگر افسوس کہ وہ لوگ جو ملک کو بیدار کر سکتے ہیں انہیں اس کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں۔ صرف ہماری جماعت کے لوگ ہی ہیں جنہیں اس خطرہ کی طرف توجہ ہے اور یہ بات تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ ہمارے لئے کونسی بات زیادہ مفید ہے مگر جہاں تک ہمارے علم کا تعلق ہے ہمیں انگریزوں کی نسبت زیادہ حسن ظنی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ جرمنوں سے زیادہ بہتر ہیں۔ پس ہمارا اپنے علم کی بنیاد پر یہی فرض ہے کہ ہم انگریزوں کی مدد کریں گویہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس قدر جنگ اور خون ریزی کے بعد بھی انگریزوں کے دلوں میں خدا کا خوف پیدا نہیں ہوٴا اب بھی حکومت کی طرف سے ہم پر ظلم کئے جاتے ہیں اور بجائے اس کے کہ گورنمنٹ ان ظلموں کا ازالہ کرے وہ اپنی جھوٹی عزت کو بچانے کے لئے بہانے بناتی رہتی ہے۔ اور غرض یہ ہوتی ہے کہ ہم اس وقت جواب دیں گے جب کوئی بہانہ مکمل ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری جماعت کے بعض نوجوان گو میرے کہنے پر فوج میں بھرتی ہو رہے ہیں مگر جب وہ مجھ سے ملنے کے لئے آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم آپ کے کہنے پر فوج میں جا رہے ہیں ورنہ سچی بات یہی ہے کہ ہمارے دل انگریزوں کے ساتھ نہیں ہمارا تجربہ بھی یہی ہے کہ ابھی تک ان میں خدا کا خوف پیدا نہیں ہوٴا۔ وہ یہی چاہتے ہیں کہ کسی طرح لوگ ان کی اطاعت کرتے جائیں اور انہی جی حضور کہتے رہیں۔ ورنہ اگر کوئی سچائی لے کر کھڑا ہو جائے اور ان کی غلطی پکڑ لے تو وہ اپنی غلطی ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ انگریزی حکومت کے ماتحت کم سے کم پنجاب میں ہم سے یہی سلوک ہو رہا ہے۔ اورجب اس قسم کے حالات پیدا ہو جائیں تو دلوں میں سے دعائیں نکلنی مشکل ہو جاتی ہیں۔ لیکن بہرحال عقلمند وہی ہوتا ہے جو دوسرے کے فعل کو دیکھنے کی بجائے اصل واقعات کو دیکھے اور وہ راہ اختیار کرے جو صحیح اور درست ہو۔ ہم اگر صرف حکومت کے بعض افسروں کے رویّہ کو دیکھیں تو بے شک کوئی کہہ سکتا ہے کہ ان حالات میں ہم حکومت کی کیوں مدد کریں لیکن اگر ہم حالات کو اس نقطہٴ نگاہ سے دیکھیں کہ اس وقت دنیا پر جو مصیبت چھائی ہوئی ہے اس کا اثر صرف انگریزوں پر ہی نہیں بلکہ ہم پر بھی پڑنے والا ہے تو ہماری عقل یہی فیصلہ کرے گی کہ ہمیں انگریزوں کی زیادہ سے زیادہ مدد کرنی چاہئے اور دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ اس فتنہ کو جلد دور کرے۔
اللہ تعالیٰ کے اختیار میں سب کچھ ہے۔ بیسیوں مواقع اس جنگ میں ایسے پیدا ہوئے جب یہ خیال کیا جاتا تھا کہ اب انگریز جرمنوں کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے بلکہ ایک وقت تو ایسا آیا کہ خود انگریز یہ سمجھتے تھے کہ اب ہمارے لئے جرمنی کا مقابلہ کرنا مشکل ہے مگر اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت مجھے یہ خبر دے دی تھی کہ انگریزی حکومت ختم نہیں ہو گی بلکہ اس کے بعد پہلے سے زیادہ مضبوط ہو جائے گی۔ انگریز اگر سوچتے تو ان کے لئے یہی نشان کافی تھا۔ چنانچہ کتنی دردناک تقریر تھی مسٹر چرچل وزیر اعظم کی، جب انہوں نے کہا کہ اب وہ دن آ گیا ہے کہ ہماری قوم پر جرمن حملہ آور ہوں۔ ہم سمندر کے کناروں پر جرمنوں کا مقابلہ کریں گے اور اگر سمندر کے کناروں پرمقابلہ نہ ہو سکا اور وہ اندر داخل ہو گئے تو ہم اپنے شہروں میں ان کا مقابلہ کریں گے، پھر لنڈن کی گلیوں میں ان کا مقابلہ کریں گے، اور اگر پھر بھی ہم دشمن کا مقابلہ نہ کر سکے اور وہ ہمارے ملک پر قابض ہو گیا تو ہم کینیڈا چلے جائیں گے اور وہاں سے اس کا مقابلہ کریں گے۔ گویا وزیر اعظم بھی اس بات کا امکان سمجھتے تھے کہ جرمنی ساحل انگلستان پر حملہ کرے گا اور پھر اس میں وہ کامیاب ہو کر آگے بڑھے گا۔ اور لنڈن میں اس کا مقابلہ کرنا پڑے گا اور پھر وہ اس بات کا بھی امکان سمجھتے تھے کہ حکومت لنڈن سے بھاگ جائے اور کینیڈا میں جا کر دشمن کا مقابلہ کرنا پڑے۔4 اس وقت خدا تعالیٰ نے مجھے یہ خبر دی تھی کہ یہ چھ مہینے پہلے کی بات ہے۔ یعنی چھ مہینے کے بعد انگریزوں کی حالت بدل جائے گی اور پھر وہ اپنے پاوٴں پر کھڑے ہو جائیں گے۔ چنانچہ ٹھیک چھ ماہ کے بعد ان کی حالت تبدیل ہوئی اور وزیر جنگ نے ایک تقریر کرتے ہوئے کہا کہ آج سے چھ ماہ پہلے سوائے بیوقوف کے اَور کوئی شخص یہ خیال بھی نہیں کر سکتا تھا کہ ہم اس جنگ میں فتح حاصل کر لیں گے اب کُجا تو انگریزوں کی یہ حالت تھی کہ وزیر اعظم تک کہہ رہا تھا کہ اگر حالات بگڑے تو ہم لنڈن چھوڑ کر کینیڈا چلے جائیں گے اور کُجا یہ حالت ہوئی کہ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا تھا ۔ چھ ماہ کے بعد ان کی حالت پہلے سے بہت مضبوط ہو گئی۔
غرض انگریز اگر سوچتے تو ان کے لئے یہی نشان کافی تھا۔ مگر افسوس ہے کہ ان کی سمجھ میں اب تک یہ بات نہیں آئی کہ ہمارے ساتھ ان کا مقابلہ کرنا خدا سے مقابلہ کرنا ہے۔ اور وہ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ اگر انہوں نے اپنے رویّہ کو نہ بدلا تو وہ خدا تعالیٰ کے غضب کے مورد ہو جائیں گے۔ بہرحال وہ جو کچھ چاہتے ہیں کریں۔ ہم نے ان کا معاملہ خدا پر چھوڑا ہوٴا ہے۔ انہوں نے سلسلہ کی جو تازہ ہتک کی ہے۔ اس کے متعلق ہم اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ حکومت کی طرف سے جواب آجائے ۔ ان کی کارروائیوں کا ہمیں درمیان میں علم بھی ہوتا رہتا ہے۔ مگر بہرحال جو ہمارا فرض ہے وہ ہمیں ادا کرنا چاہئے اور اس جنگ میں انگریزوں کی کامیابی کے لئے دعائیں کرتے رہنا چاہئے۔ اگر کوئی دن ایسا آیا جب خدا نے یہ فیصلہ کر دیا کہ انگریز بھی ویسے ہی بُرے ہو گئے ہیں جیسے جرمنی والے بُرے ہیں تو خدا خود ہمیں کہے گا کہ اب انگریزوں کی کامیابی کے لئے دعائیں کرنا چھوڑ دو اور غیر جانبدار ہو کر بیٹھ جاوٴ اور جب اس نے فیصلہ کیاکہ انگریز، جرمن سے بھی بدتر ہو گئے ہیں تو خدا ہمیں خود حکم دے گا کہ اب جرمنوں کی کامیابی کے لئے دعائیں مانگنا شروع کر دو مگر جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمیں کوئی ایسا حکم نہیں ملتا اس وقت تک ہمارا یہی فرض ہے کہ انگریزوں کی کامیابی کے لئے دعائیں کرتے رہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انگریزوں کے لئے دعا کی ہے۔ پس جب تک وہ دعا قائم ہے اور جب تک خدا تعالیٰ ہمیں یہ نہیں بتاتا کہ اب حالات بدل گئے ہیں اور اس دعا کا زمانہ ختم ہو چکا ہے، اُس وقت تک ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی دعاوٴں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کے ساتھ ملائیں۔ ہمیشہ کے لئے تو کوئی چیز قائم نہیں رہتی۔ وہی مدینہ کی گلیاں جن کے متعلق رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ وہ امن کی جگہ ہیں ایک وقت ایسا آیا کہ ان میں فساد ہوٴا۔ پس پیشگوئیاں وقتی ہوتی ہیں اور ایک وقت ایسا آ سکتا ہے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کا زمانہ ختم ہو جائے مگر یہ خداتعالیٰ ہی بتا سکتا ہے کہ وہ وقت آیا ہے یا نہیں۔ ہمارا کوئی حق نہیں کہ ہم آپ ہی آپ یہ فرض کر لیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کا زمانہ ختم ہو چکا ہے۔ یہ انتہا درجہ کی گستاخی اور بے ادبی ہو گی کہ ہم حضر ت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات پر حکومت کریں۔ جو چیز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کو الہام سے معلوم ہوئی ہے۔ یا تو اسی الہام میں کوئی ایسی مخفی بات ہو سکتی ہے جو اپنے وقت پر ظاہر ہو کر بتا دے کہ اب اس دعا کا زمانہ ختم ہو چکا ہے اور یا پھر تازہ الہام ہی کسی پہلے الہام کو بدل سکتا ہے۔ بہرحال جب تک اللہ تعالیٰ ہمیں کوئی ایسی بات نہیں بتاتا ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاوٴں سے اپنی دعاوٴں کو ملائے تاکہ اللہ تعالیٰ اس فتنہ سے ہمارے ملک کو بھی بچائے اور انگریزوں کو بھی محفوظ رکھے اِس وقت بعض اس قسم کے خطرناک حالات پیدا ہو چکے ہیں کہ اند رہی اندر سخت تشویش پیدا ہو رہی ہے اور ایسے نازک حالات سمجھے جاتے ہیں کہ ڈر پیدا ہو گیا ہے کہ جس طرح یکدم بند ٹوٹ جاتا ہے اسی طرح اچانک کوئی ایسی صورت پیدا نہ ہو جائے جس کا مقابلہ کرنا مشکل ہو۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ملک میں اندرونی طور پر کوئی امن نہیں۔ اگر حکومت کمزور ہو گئی تو قومیں ایک دوسرے کا گلا گھونٹنے کے لئے اٹھ کھڑی ہوں گی۔ سچا تقویٰ لوگوں کے قلوب میں نہیں پایا جاتا۔ ہندو مسلمان کے خون کا پیاسا ہے اور مسلمان ہندو کے خون کا پیاسا۔ سکھ عیسائیوں کے دشمن ہیں۔ اور عیسائی سکھوں کے دشمن ہیں یہی حال دوسری قوموں کا ہے۔ ایک دوسرے کی ہمدردی اور محبت کے جذبات مٹ چکے ہیں اور دشمنی اور عناد دلوں میں کُوٹ کُوٹ کر بھرا ہوٴا ہے۔ ایسے حالات میں اگر حکومت کمزور ہوجائے تو باہمی عناد بہت بڑھ جائے گا اور ہماری جماعت کے لئے تو غیر معمولی خطرات پیدا ہو جائیں گے۔ ہمارے اردگرد مختلف قومیں چوری چوری ہتھیار جمع کر رہی ہیں۔ چوری چوری گولہ بارود جمع کر رہی ہیں۔ اور ان کی دلیری یہاں تک بڑھی ہوئی ہے کہ بعض لوگ احمدیوں کے پاس بھی پہنچے اور ان سے کہنے لگے کہ اپنی بندوقیں زیادہ قیمت پر ہمارے پاس بیچ ڈالو۔ ایسے خطرہ کے موقع پر بِالخصوص چھوٹی جماعتوں کے لئے خدا کے سوا اور کوئی سہارا نہیں ہوتا۔ مگر افسوس ہے ابھی تک ہماری جماعت کے دوستوں کو بھی اس فتنہ کی اہمیت کا پوری طرح احساس نہیں ہوٴا۔ بیسیوں لوگ ہیں جو باوجود میرے خطبات سننے کے آنے والے خطرہ سے بالکل غافل ہیں اور دل میں سمجھتے ہیں کہ انگریزوں سے ہمارا کیا تعلق ہے۔ انگریز بھی ہمارے دشمن ہیں اور جرمن بھی ہمارے دشمن ہیں اوروہ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ انگریزوں سے ہماری کوئی قومی دشمنی نہیں بلکہ اِس وقت تک پنجاب کی حکومت کے صرف چند افراد ہیں جن سے ہمیں شکایت ہے اور ان چند افراد کی دشمنی کو تمام قوم کی دشمنی قرار دینا بہت بڑی حماقت ہے۔ اگر ہم ایسا کریں تو یہ وہی ہجوم والی روح ہو گی جو شہروں میں بالعموم نظر آتی ہے۔ کوئی مسلمان کسی ہندو سے لڑ پڑتا ہے اور اس لڑائی میں مثلاً مسلمان مارا جاتا ہے۔ اب مسلمان نہ یہ دیکھتے ہیں کہ جو مسلمان مارا گیا ہے وہ کیسے اخلاق رکھتا تھا، نہ یہ دیکھتے ہیں کہ وہ کس جگہ کا رہنے والا تھا، نہ یہ دیکھتے ہیں کہ وہ ظالم تھا یا مظلوم تھا، نہ یہ دیکھتے ہیں کہ لڑائی کس بات پر ہوئی۔ بس یہ دیکھ کر کہ ایک ہندو کے ہاتھ سے مسلمان مارا گیا ہے جوش میں کھڑے ہو جائیں گے اور ہندووٴں کو مارنے لگ جائیں گے ۔ فرض کرو راستہ میں کوئی ہندو چلا آ رہا ہے۔ اس کی بیوی سخت بیمار ہے اور وہ اس کے علاج کے لئے کسی ڈاکٹر کی طرف جا رہا ہے اسے دیکھ کر مسلمان جھٹ کھڑا ہو جائے گا اور بغیر اس کے کہ یہ جانتا ہو وہ ہندو کون ہے، کہاں کا رہنے والا ہے اور اس کی مسلمانوں سے کوئی دشمنی بھی ہے یا نہیں۔ جھٹ اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہہ کر خنجر اس کے پیٹ میں اتار دے گا۔ حالانکہ اس فعل سے اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہاں ہؤا۔ اس سے تو اَلشَّیْطَانُ اَکْبَرُ ہوٴا۔ خدا کی بڑائی تو تب تھی کہ کسی مظلوم اور بے گناہ پر ہاتھ نہ اٹھایا جاتا بلکہ اس کی مدد کی جاتی۔ مگر جب ایک بے گناہ اور مظلوم کو قتل کر دیا جاتا ہے تو یہ خدا کی بڑائی کہاں ہوئی۔ یہ تو شیطان کی بڑائی ہوئی۔ یہی حال ہندووٴں کا ہے اس قسم کے فسادات کے موقع پر ہندووٴں کو اگر کوئی مسلمان نظر آتا ہے تو خواہ وہ بے چارہ امرتسر سے اپنا کوئی سودا لینے کے لئے ہی لاہور گیا ہو۔ اسے ہرے رام کہہ کر موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ یہ ہجوم کی سپرٹ کہلاتی ہے۔ اور اس میں بغیر یہ جاننے کے کہ مقابل میں کون ہے انسان دوسرے پر حملہ کر دیتا ہے۔ جب ایک آدمی دوسرے آدمی کے سامنے آتا ہے تو وہ جانتا ہے کہ میرے مقابلہ میں کون ہے۔ مگر جب ہجوم ہجوم کے مقابلہ میں ہو تو کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ کون کس پر حملہ کر رہا ہے۔ اسی وجہ سے اس قسم کے اندھا دھند حملوں کو ہجومی روح کے ماتحت قرار دیا جاتا ہے کیونکہ اس میں بھی گو ایک آدمی دوسرے آدمی کو مارتا ہے مگر چونکہ بلا وجہ اور بلا سبب کے مارتا ہے اس لئے اس کی سپرٹ ہجوم والی سپرٹ کہلاتی ہے۔ پس اگر ہم بھی بعض افسروں کی وجہ سے تمام انگریز قوم کو دشمن سمجھنے لگیں تو ہجومی روح کا ہی مظاہرہ کریں گے۔ جو کوئی پسندیدہ بات نہیں ہو سکتی۔
ہمارا طریق یہی ہے کہ جب تک ساری قوم پر اتمامِ حجت نہ کر لیں اُس وقت تک تمام قوم کو اپنا دشمن نہیں سمجھ سکتے۔ بلکہ جو فرد ہماری دشمنی کرے گا ہم صرف اس کا مقابلہ کریں گے یا اگر مناسب سمجھیں گے تو اسے معاف کر دیں گے۔ اگر سلسلہ کا مفاد یہ چاہتا ہو کہ اسے معاف کر دیا جائے تو ہم معاف کر دیں گے اور اگر سلسلہ کا مفاد یہ چاہتا ہو کہ اسے معاف نہ کیا جائے تو ہم اسے معاف نہیں کریں گے۔ بہرحال ہم فرد کو ہی اپنے سامنے رکھیں گے۔ قوم کو نہیں۔ اور اگر ان افراد کے معاملہ میں ہماری بات نہ سنی جائے تو ہم بالا حُکام کے سامنے اپنا معاملہ رکھیں گے اور اگر انہوں نے بھی نظر انداز کر دیا تو ہم ساری قوم کے سامنے اسے رکھیں گے اور اگر قوم نے بھی اس کی طرف کوئی توجہ نہ کی تو پھر ہم کہہ سکیں گے کہ وہ قوم کی قوم ہمارے ساتھ انصاف کرنے کے لئے تیار نہیں اور اس وقت ہمارا حق ہو گا کہ ہم ان کی مدد کرنے سے انکا رکر دیں لیکن اس سے پہلے ہمارے لئے مدد سے انکار کرنا جائز نہیں۔ اور گزشتہ واقعات میں ہمارا تجربہ یہی ہے کہ جب ہم نے بالا حُکام کے پاس اپیل کی تو وہ رائیگاں نہیں گئی البتہ کچھ عرصہ سے انہوں نے الزام سے بچنے کا ایک نیا طریق نکالا ہے کہ انگریز وزراء پر ذمہ داری ڈال دیتے ہیں اور وزراء انگریزوں پر ڈال دیتے ہیں۔ یہ شتر مرغ والا ایک نیا ڈھنگ انہوں نے نکالا ہے اور ہر شخص اپنی جان بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر حالات یہی رہے تو کم سے کم ہمیں سمجھنا پڑے گا کہ کانگرس اپنے اس مطالبہ میں بالکل حق بجانب ہے کہ ہندوستان کی حکومت کلیةً ہندوستانیوں کے ہاتھ میں ہونی چاہئے۔ یہ دوغلی حکومت اچھی نہیں کہ انگریز حکام سے کوئی بات پوچھی جائے تو وہ اس کی ذمہ داری وزراء پر ڈال دیں اور وزراء سے دریافت کیا جائے تو وہ انگریز حکام پر اس کی ذمہ داری ڈال دیں۔ یہ شتر مرغ والی چال ملک کے لئے سخت نقصان رساں ہے اور اگر واقعات اسی طرح ہوتے رہے تو کم سے کم ہم اس نتیجہ پر ضرور پہنچ جائیں گے کہ دوغلی حکومت نہیں ہونی چاہئے اور انگریزوں کا حکومت میں بالکل کوئی دخل نہیں ہونا چاہئے۔ گورنرصرف ‘‘صاحب سلامت’’ کہنے کے لئے ہو جیسے کینیڈا یا آسٹریلیا میں اس کی مثال ملتی ہے۔
بہرحال جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے جب تک قومی طور پر انگریزوں پر کوئی ذمہ داری عائد نہ ہوتی ہو۔ اس وقت تک اس واقعہ کو انگریز قوم کی طرف منسوب کرنا درست نہیں۔ اِس وقت ہمارے اور ان کے فوائد مشترکہ ہیں۔ اگر خدانخواستہ ہندوستان پر حملہ ہو جائے تو جرمن فوجیں صرف انگریزوں کو ہی نہیں ماریں گی بلکہ وہ ہر غریب سے غریب اور امیر سے امیر شخص کو لوٹیں گی۔ اگر کسی غریب کے گھر صرف دس سیر دانے پڑے ہوں گے تو وہ ان دس سیر دانوں کو بھی اٹھا کر لے جائیں گی کیونکہ انہیں کھانے کے لئے چیزوں کی ضرورت ہو گی۔ یہ تو نہیں کہ وہ اپنے کھانے کے لئے جرمنی سے چیزیں منگوائیں گی۔ لازماً فوجیں اپنے کھانے کے لئے ہندوستان کے لوگوں کو ہی لوٹیں گی۔ پھر جس طرح بھیڑیں اور بکریاں دوڑتی پھرتی ہیں اسی طرح وہ آگے آگے ہوں گے اور پیچھے پیچھے جرمن فوجیں ہوں گی۔ نہ کسی کو یہ پتہ ہو گا کہ اس کی بیوی کہاں ہے، نہ کسی کو یہ پتہ ہو گا کہ اس کے بچے کہاں ہیں، نہ کسی کویہ پتہ ہو گا کہ اس کے دوست کہاں ہیں۔ پس ان خطرات کو محسوس کرو اور ان کی اہمیت کے مطابق ان کے لئے دعائیں کرو۔ اور یاد رکھو کہ خالی دعا قبول نہیں ہوتی بلکہ وہ دعا قبول ہوٴا کرتی ہے جو حالات کے مطابق ہو اس وقت ہمارے پاس دنیوی لحاظ سے کوئی ایسے سامان نہیں جن سے ہم انگریزوں کی مدد کر سکتے ہوں۔ ہم زیادہ سے زیادہ یا تو چندہ دے سکتے ہیں یا اپنے نوجوانوں کو فوج میں بھرتی کرا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ دنیوی سامانوں میں سے ہمارے پاس کوئی سامان نہیں۔ لیکن ہمارا بھروسہ ان سامانوں پر نہیں بلکہ دعا پر ہے اور وہ ایک بہت بڑا ہتھیار ہے جو خدا تعالیٰ نے ہمیں عطاکیا ہؤا ہے۔ اگر ہم سچے دل کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہیں تو یقینا اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہمارے لئے جو بات بہتر ہے وہ ہو کر رہے گی۔ اگر خدا تعالیٰ کے نزدیک بہتر بات یہ ہوئی کہ دونوں قومیں تباہ ہو جائیں تو وہ دونوں قوموں کو تباہ کر دے گا اور اگر خدا تعالیٰ کے نزدیک یہ بات بہتر ہوئی کہ کسی ایک کو فتح دے تو جس کی فتح اس کے نزدیک زیادہ بہتر ہو گی اس کو فتح حاصل ہو گی مگر تم کو صرف وہی دعا کرنی چاہئے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے مانگی ہے۔ آگے خدا اِسے جس خانہ میں چاہے گا ڈال دے گا کیونکہ خدا دعا کے الفاظ کو نہیں دیکھتا بلکہ مومن کی نیت کو دیکھتا ہے۔ جب تم خدا تعالیٰ سے یہ دعا مانگو گے کہ وہ انگریزوں کو فتح دے اور جب تمہاری یہ دعا محض اس لئے ہو گی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے بھی یہ دعا مانگی ہے لیکن خدا کے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کا زمانہ ختم ہو چکا ہو گا تو وہ دعا کے الفاظ کے مطابق نہیں بلکہ اس کی روح کے مطابق تم سے سلوک کرے گا اور اس بات کو دیکھ کرکہ تمہارا اصل منشاء اس دعا سے یہ ہے کہ دنیا میں امن قائم ہو وہ دنیا میں امن قائم کر دے گا۔ چاہے وہ کسی صورت میں ہو۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے مثنوی میں مولانا روم نے لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک دفعہ جنگل میں سے گزر رہے تھے کہ انہوں نے دیکھا ایک گڈریا بیٹھا ہے وہ اپنی گُدڑی میں سے جوئیں نکالتا جاتاتھا اور کہتا جاتا تھا کہ یا اللہ اگر تُو مجھے مل جائے تو مَیں اپنی بکریوں کا تازہ تازہ دودھ تجھے پلاوٴں۔ اے اللہ اگر تو مجھے مل جائے تو مَیں تیرے پیر دباوٴں تجھے کانٹے چبھ جائیں تو تیرے پاوٴں میں سے کانٹے نکالوں۔ تجھے جوئیں پڑ جائیں تو تیرے کپڑوں میں سے جوئیں نکالوں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب یہ سنا تو اسے سونٹا مارا اور کہا احمق خدا کی ہتک کرتا ہے۔ کیا اللہ بھی بھوکا اور پیاسا ہو سکتا ہے۔ وہ تو رازق ہے سارے جہان کو روزی دیتا ہے لیکن اگر اسے بھوک بھی لگے تو کیا وہ تیری بکریوں کا دودھ ہی پئے گا اور وہ تو طاقتورخدا ہے مگر تیرے نزدیک وہ ننگے پاوٴں پھر رہا ہے اور اسے جوتی تک نصیب نہیں اور کانٹے اس کے پاوٴں میں چُبھ چُبھ جاتے ہیں۔ پھر تُو یہ سمجھتا ہے کہ تیری طرح اس نے سڑی ہوئی گُدڑی پہنی ہوئی ہے اور اس میں جوئیں پڑی ہوئی ہیں۔ وہ بے چارہ تو جوش محبت میں خدا تعالیٰ سے اس طرح پیار کی باتیں کر رہا تھا کہ گویا خدا ایک معصوم بچہ ہے جو اس نے اپنی گود میں اٹھایا ہوٴا ہے مگر جب اسے سونٹا پڑا تو دل پکڑ کر اورمایوس ہو کر بیٹھ رہا۔ اُسی وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر الہام نازل کیا کہ اے موسیٰؑ ! تُو نے آج ہمارے بندے کا دل بہت دُکھایا۔ اے موسیٰ! تُو اپنے علم کے مطابق ہم سے محبت کرتا ہے اور وہ اپنے علم کے مطابق ہم سے محبت کا اظہار کر رہا تھا۔ تیرا کیا حق تھا کہ تو اس کی باتوں میں دخل دیتا ہمیں تو اس کی یہی باتیں پیاری لگ رہی تھیں۔ 5
اسی طرح حدیثوں میں آتا ہے۔ ایک بندہ اللہ تعالیٰ سے دعا کر رہا تھا کہ تو میرا اللہ ہے اور مَیں تیرا بندہ ہوں مگر اسے دعا کرتے کرتے کچھ ایسا جوش آیا کہ وہ حالت بے اختیاری میں کہنے لگا اے اللہ مَیں تیرا رب ہوں اور تو میرا بندہ ہے۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ جب اس نے یہ کہا کہ تو اللہ تعالیٰ کو اس کی یہ بات بڑی ہی پیاری معلوم ہوئی کیونکہ جوشِ محبت میں اسے یہ ہوش ہی نہ رہا کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے اور کیا کہہ رہا ہے6؂ تو اللہ تعالیٰ مومن کی نیت اور اس کے ارادہ کو دیکھتا ہے۔ یہ نہیں دیکھتا کہ اس کے مُنہ سے الفاظ کیا نکل رہے ہیں۔ مثلاً وہی الفاظ جن کا مَیں نے ابھی ذکر کیا ہے اگر کوئی دانستہ کہے گا تو وہ گنہگار ہو گا لیکن اگر کسی کی زبان سے جوشِ محبت میں مدہوشی کی حالت میں نکل جائیں تو وہ گنہگار نہیں ہو سکتا۔ تو اللہ تعالیٰ صرف لفظوں کو نہیں دیکھتا بلکہ اُس روح کو دیکھتا ہے جو الفاظ کے پسِ پردہ کام کر رہی ہوتی ہے۔ جب ایک شخص اللہ تعالیٰ کے سامنے دعا کرنے کے لئے جاتا ہے اور وہ پوری طرح اپنے نفع اور نقصان کو سمجھ کر جاتا ہے تو ایسی حالت میں اگر وہ کوئی غلطی بھی کر بیٹھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اس طرح قبول نہیں کرتا جس طرح وہ دعا مانگ رہا ہوتا ہے بلکہ اس رنگ میں قبول کرتا ہے جس رنگ میں اس دعا کا قبول ہونا اس کے لئے بہتر ہوتا ہے۔ اس طرح گو بعض دفعہ اسے یہ خیال گزرتا ہے کہ میری دعا قبول نہیں ہوئی مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کی دعا قبول ہو چکی ہوتی ہے کیونکہ اِس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ اُس کے لئے وہ امر ظاہر کرتا ہے جو اس کے لئے مفید ہوتا ہے۔ گو بظاہر وہ اس کی مراد کے خلاف ہی کیوں نہ نظر آئے مثلاً ایک شخص کا بیٹا سخت بیمار ہے اور وہ دعا کرتا ہے کہ یا اللہ میرے بیٹے کو صحت دے دے۔ اب بظاہر دعا اسی رنگ میں پوری ہونی چاہئے کہ اس کا بیٹا تندرست ہو جائے مگر اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ بات ہوتی ہے کہ اگر اس کا بیٹا زندہ رہا تو وہ بڑا ہو کر چور یا ڈاکو یا فسادی بنے گا اور اس طرح اپنے باپ اور خاندان کی بدنامی کا موجب ہو گا۔ اُس وقت جب وہ یہ دعا کر رہا ہو گا کہ یا اللہ میرے بیٹے کو صحت دے اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کو حکم دے گا کہ یہ میرا بندہ مجھے بڑا پیارا ہے ہم نے اس کی دعا قبول کر لی ہے۔ جلدی جاوٴ اور اس کے بیٹے کی روح قبض کر لو۔ تا ایسا نہ ہو کہ بڑا ہو کر وہ خود بھی گنہگار بنے اور اپنے خاندان کی بدنامی کا بھی موجب بنے۔ پس وہ دعا تو یہ کر رہا ہوتا ہے کہ میرا بیٹا بچ جائے مگر چونکہ خدا یہ جانتا ہے کہ اگر یہ زندہ رہا تو بدنامی کا موجب ہو گا اس لئے وہ دعا کو اس رنگ میں قبول کر لیتا ہے کہ اسے وفات دے دیتا ہے اور اس طرح اسے بدنامی سے بچا لیتا ہے۔ دنیا سمجھتی ہے کہ اس کی دعا قبول نہیں ہوئی مگر واقعہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی دعا قبول ہو چکی ہوتی ہے پس تم اس بات سے مت ڈرو کہ تمہارا مستقبل کیا ہے۔ مستقبل کا کام خدا سے تعلق رکھتا ہے تمہارا کام ظاہر پر فیصلہ کرنا ہے اور ظاہر میں ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے انگریزوں کی کامیابی کے لئے دعا کی ہوئی ہے۔ پس تم یہی دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ انگریزوں کو فتح دے۔ اگر انگریزوں کی فتح میں تمہارے لئے بہتری ہے تو اللہ تعالیٰ انگریزوں کی فتح کے سامان پیدا کر دے گا اور اگر ان کی فتح میں بہتری نہیں تو پھر جس بات میں بھی تمہارے لئے بہتری ہے اللہ تعالیٰ اسے پیدا کر دے گا۔ مگر تم بہرحال اُسی صف میں کھڑے ہو جاوٴ گے جس صف میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کھڑے ہیں۔
پس دعائیں کرو اور اس شان سے کرو جس شان کا یہ فتنہ ہے۔ یہ نہیں کہ کسی وقت خیال آیا تو دعا کر لی بلکہ اتنی توجہ اور اتنے درد سے دعائیں کرو کہ تمہاری نیندیں تم پر حرام ہو جائیں۔ تم بیٹھو تو اس وقت بھی، لیٹو تو اس وقت بھی، اٹھو تو اس وقت بھی۔ غرض ہر حرکت اور ہر سکون کے وقت یہ دعائیں تمہاری زبان پر جاری رہیں۔ میرا تجربہ ہے کہ جب کسی دعا کی طرف میری اتنی توجہ ہو کہ جب مَیں سو کر اٹھوں تو اس وقت بھی وہ دعا میری زبان پر جاری ہو تو مجھے یقین ہو جاتا ہے کہ اب وہ دعا قبول ہو کر رہے گی۔ کیونکہ خدائی تصرف کے ماتحت وہ میری زبان پر جاری ہوتی ہے۔ جب میں سو جاتا ہوں تو وہ دعا برابر میرے قلب میں سے نکلتی رہتی ہے اورجب مَیں اٹھتا ہوں تو وہ میری زبان پر جاری ہوتی ہے۔ اس وقت میں سمجھ لیتا ہوں کہ یہ خدا تعالیٰ کی اٹل تقدیر ہے۔ پس ایسی ہی دعائیں کرو سوتے جاگتے چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے غرض ہر حالت میں گڑ گڑا گڑگڑا کر دعائیں کرو تا اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان فتنوں کو جلد سے جلد دور کر دے۔ ’’(الفضل 15 نومبر 1941ء )
1: الفضل 17 جون 1938ء
2: ترمذی ابواب الفتن باب ما جاء ستکون فتنة کقطع اللیل المظلم
3: کریمیا: سوویت یونین کے جنوب میں ایک جزیرہ۔ 1475ء سے 1783 ء تک ترکی کے زیر نگیں رہا۔ 1918ء میں آزاد ہو کر کریمیا کا قیام عمل میں آیا۔ 1921ء میں آزاد جمہوریہ کریمیا کی حیثیت سے سوویٹ یونین میں شامل ہو گیا۔ اردو انسائیکلو پیڈیا
4: Into the Battle مرتبہ M.P Rahdolfh S.Churchill صفحہ 223
5: مثنوی رومی دفتر دوم بحوالہ الہام منظوم دفتر دوم صفحہ 188
6: مسلم کتاب التَّوْبَةِ باب فِی الْحَضِّ عَلَی التَّوْبَةِ

33
جہادِ اکبر کو کسی وقت بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے
( فرمودہ 14 نومبر 1941ء )

تشہد، تعوّذ اور سورہٴ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘لڑائیاں اس وجہ سے کہ ان میں ہزاروں، لاکھوں انسان بعض دفعہ مارے جاتے ہیں ہزاروں، لاکھوں خاندان برباد ہو جاتے ہیں،ہزاروں، لاکھوں عورتیں بیوہ ہو جاتی ہیں اور ہزاروں، لاکھوں بچے یتیم ہو جاتے ہیں۔ نہایت ہی مکروہ، ناپسندیدہ اور خطرناک سمجھی جاتی ہیں لیکن جب لڑائی کی غرض لڑائی کو دور کرنا ہو اور جنگ دفاعی ہو تو وہی اچھی سمجھی جاتی ہے۔ جیسے اسلام میں جہاد کا حکم ہے مگر باوجود اس کے کہ دفاع نہایت ضروری چیز ہے۔ اس کے بغیر دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا اور دنیا سے ظلم کو روکا نہیں جا سکتا۔ جب تک دنیا میں ایسے انسان موجود ہیں جو طاقت پر گھمنڈ کرتے ہیں جو اس امر کا فرق محسوس نہیں کرتے کہ دنیا میں اصل طاقت اخلاق کی ہے۔ جنگ ضروری ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں ایک مضبوط اور تندرست آدمی کسی کمزور آدمی سے لڑ پڑتا ہے یا کسی بچے سے اس کا جھگڑا ہو جاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ مَیں ایک تھپڑ مار کر تمہارے سارے دانت نکال دوں گا۔ مجھے اس فقرہ پر ہمیشہ حیرت ہوتی ہے کہ یہ کہنے والا شخص یہ نہیں سمجھتا کہ اس کا زور آور یا طاقتور ہونا اس کی اخلاقی فضیلت کی دلیل نہیں چونکہ وہ طاقتور ہے اس لئے لازمی طور پر اس کی ضرب زیادہ زور سے پڑے گی اور جو کمزور ہے اس کی ضرب کم زور سے پڑے گی۔ طاقتور کی ضرب کا زور سے پڑنا اس کی کوئی فضلیت نہیں۔ لوہا اگر پیتل پر یا تانبے پر، یا ٹِین پر ڈالا جائے تو اسے کُچل دے گا اور یہ لوہے کی کوئی فضیلت نہیں جو تعریف کے قابل ہو۔ پس طاقتور انسان کا کمزور کو کہنا کہ میں تمہیں ایسا ماروں گا اس بات کا ثبوت ہے کہ گویا اس کا طاقتور ہونا اس کے نزدیک کوئی ایسی فضیلت ہے جو اسے اخلاقی فضیلت بخش دیتا ہے اور ایسا خیال بڑی حماقت ہے۔ ہاں اگر وہ یہ ثابت کر دے کہ مَیں مظلوم ہوں اورمیرا مدّ مقابل ظالم ہے تو یہ ایسی فضیلت ہے جس کے مقابلہ میں دشمن نہیں بول سکتا کیونکہ اِس کا مظلوم بننا بھی اس کے اختیار میں تھا اور اس کے مد مقابل کا ظالم بننا بھی اس کے اختیار میں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر مظلوم بنتا ہے وہ زیادہ قیمت پاتا ہے بہ نسبت اس کے جو جان بوجھ کر ظالم بنتا ہے ایک شخص میں اتنی طاقت ہے کہ وہ تھپڑ کے مقابلہ میں تھپڑ مار سکے لیکن ایسا شخص اگر تھپڑ کھا کر آگے سے مارتا نہیں تو وہ مظلوم ہے۔ قانون بھی اگر وہ مُنصف لوگوں کے ہاتھ میں ہے اس کی تائید میں ہو گا۔ مگر اس کے علاوہ یہ بات بھی اسے حاصل ہو گی کہ خدا تعالیٰ کی کتاب میں اس کے نام ثواب لکھا جائے گا اور ہر شخص کہے گا کہ تھپڑ کا حق اسے دلایا جائے۔ پس علاوہ اس کے کہ قانون بھی تھپڑ مارنے والے کو سزا دے گا۔ خدا تعالیٰ کے ہاں بھی اس مظلوم کے نام ثواب لکھا جائے گا۔ لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کمزور ہو اور بوجہ مد مقابل کے طاقتور ہونے کے اسے مار ہی نہ سکتا ہو اور اس کا آگے سے نہ مارنا اس کی کمزوری کی وجہ سے ہو۔ ایسی صورت میں اگر وہ لوگوں کے سامنے شکوہ و شکایت کرتا پھرتا ہے تو گو اللہ تعالیٰ اس کا بدلہ لے گا اور دنیا بھی اس کے ساتھ انصاف کرے گی۔ مگر اسے ثواب حاصل نہیں ہو گا کیونکہ اس نے کوئی قربانی نہیں کی۔ گو اس نے مد مقابل کو مارا نہیں مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں مارنے کی طاقت ہی نہ تھی۔ لیکن فرض کرو وہ تھپڑ تو نہیں مار سکتا تھا مگر شکوہ شکایت کر سکتا تھا لیکن اس نے خیال کیا کہ مجھے چاہئے کہ اچھا نمونہ پیش کروں اور دنیا سے فساد کا خاتمہ کروں اس لئے خاموش رہا اور فیصلہ کیا کہ وہ مارنے والے کو گالی بھی نہ دے گا اور لوگوں میں اس کی بدنامی بھی نہ کرے گا۔ تو باوجود اس کے کہ اس نے مد مقابل کو نہیں مارا اور باوجود اس کے کہ وہ مار نہیں سکتا تھا۔ پھر بھی اسے ثواب حاصل ہو گا۔ کیونکہ گو وہ مار تو نہ سکتا تھا مگر اسے بدنام کر کے کچھ نہ کچھ بدلہ تو لے ہی سکتا تھا۔ مگر وہ بھی اس نے نہیں لیا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں اسے ثواب حاصل ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کہے گا کہ یہ جتنا بدلہ لے سکتا تھا اتنا بھی اس نے نہیں لیا۔ نہ صرف یہ کہ قانون اس کا حق اسے دلوائے گا، نہ صرف یہ کہ خدا تعالیٰ اس پر ظلم کرنے والے کو سزا دے گا بلکہ اس کے علاوہ اسے ثواب بھی ملے گا۔ لیکن فرض کرو وہ گونگا بھی تھا اوربول بھی نہ سکتا تھا اور اس وجہ سے اس نے نہ تو تھپڑ کا جواب تھپڑ سے دیا اور نہ زبان سے کسی کے پاس شکایت کی۔ لیکن دل میں کہتا رہا کہ تم مجھ سے طاقتور تھے اس لئے مار لیا۔ اگر مجھ میں بھی طاقت ہوتی یا میرے بھائی بند اور عزیز رشتہ دار یہاں ہوتے تو میں بھی ضرور بدلہ لیتا۔ یا اگر میری زبان ہوتی تو تمہیں سارے جہان میں بدنام کر دیتا۔ تو گو اس نے بدلہ لیا نہیں مگر پھر بھی اسے کوئی ثواب نہ ہو گا کیونکہ گو وہ بدلہ لیتا نہیں مگر بدلہ لینے کی خواہش ضرور دل میں کرتا ہے اور انتقام کے جذبات کی پرورش کرتا رہتا ہے۔ تو گو اس کا بدلہ خدا تعالیٰ لے گا۔ قانون بھی اسے مارنے والے کو سزا دلوائے گا مگر خداتعالیٰ کی بارگاہ میں اسے کوئی ثواب حاصل نہ ہو گا لیکن فرض کرو اس نے مقابلہ پر ہاتھ نہیں اٹھایا اور نہ وہ اٹھا سکتا تھا اوربدنام بھی نہیں کیا اور نہ کر سکتا تھا کیونکہ اس کی زبان نہ تھی مگر وہ دل میں کہہ سکتا تھا کہ گو مجھے طاقت نہیں تھی کہ میں مقابلہ کر سکتا ، گو میرے رشتہ دار نہ تھے کہ جن کی مدد سے میں بدلہ لے سکتا، گو میری زبان نہ تھی کہ مَیں بدنام کر سکتا لیکن اگر مجھ میں طاقت ہوتی تو بھی مَیں مقابلہ نہ کرتا، اگر میری زبان ہوتی تو بھی مَیں اسے بدنام نہ کرتا۔ تو اس صورت میں وہ خدا تعالیٰ کے ہاں ثواب پانے والا ہو گا۔ کیونکہ وہ دل میں تو اپنا غصہ نکال سکتا تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔ غرض مظلوم بننا ظالم بننے سے بدرجہا بہتر ہے اور نہ صرف دنیا میں نیک بناتا بلکہ آخرت میں بھی عزت بخشتا ہے۔ لیکن باوجود اس کے یہ فیصلہ نہیں کیا جا سکتا کہ ہمیشہ عفو اسی صورت میں ظاہر ہونا چاہئے کہ ظالم کا مقابلہ نہ کیا جائے کیونکہ تجربہ بتاتا ہے کہ دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جوعفو سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں اور بعض دفعہ ان کے اعمال دنیا کے امن کو برباد کرنے والے اور نیکیوں کو مٹانے والے ہو جاتے ہیں، پس جب تک دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ظلم کرنے میں خوش ہوتے ہیں اور متواتر عفو کے نتیجہ میں شرارتوں میں بڑھتے جاتے ہیں۔ اس وقت تک جنگ کی ضرورت بھی باقی رہے گی اور دین یہی ہے کہ ایسے موقع پر صبر نہ کرو۔ موجودہ جنگ کو دیکھ لو۔ جرمنی نے دوسری طاقتوں کو جنگ کے لئے مجبور کر دیا ہے اور اس وقت رحم اسی میں ہے کہ تلوار اٹھائی جائے، بخشش اسی میں ہے کہ دفاع کیا جائے مگر ایسے وقت میں بھی جنگ بہترین چیز نہیں گو اچھی ہے۔ حتّٰی کہ جہاد بھی بہترین نیکی نہیں گو وہ اعمال میں سے اعلیٰ درجہ کا عمل ہے مگر اعلیٰ سے اعلیٰ نہیں۔ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ ایک جنگ سے واپس ہوئے تو فرمایا۔ جہادِ اصغر ہو چکا۔ اب آوٴ جہاد اکبر میں مصروف ہوں۔ صحابہ نے عرض کیا کہ جہاد اکبر کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا جہاد اکبر اپنے نفسوں کا جہاد ہے۔1 پس گو لڑائی کا جہاد بڑی اعلیٰ چیز ہے۔ حتّٰی کہ جو اس میں شامل نہ ہو وہ ایمان سے خارج ہو جاتا ہے مگر یہ سب نیکیوں سے اعلیٰ نہیں۔ اعلیٰ درجہ کا جہاد وہ ہے جو انسان شیطان سے کرے۔ شیطان سے لڑائی اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ قابلِ قدر ہوتی ہے اور جب رسول کریم ﷺ نے خود فیصلہ فرما دیا کہ جہاد اکبر کیا ہے اور آپ نے اپنا نمونہ اس بارہ میں دکھا دیا تو ہماری جماعت کے دوستوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ان کے لئے اصل جہاد نفس کے ساتھ جہاد ہی ہے۔ اِس وقت لڑائی ہو رہی ہے۔ بڑے خطرات کا وقت ہے۔ مَیں بھی یہی کہتا رہتا ہوں کہ جو لوگ جنگ میں جا سکیں وہ جائیں اور جنگ میں شریک ہوں۔ رشتہ دار اور دوست بھی کہتے ہیں کہ جاوٴ گورنمنٹ بھرتی کر رہی ہے اس میں شریک ہو جاوٴ۔ یہ لڑائی گو دینی نہیں مگر برطانیہ جو لڑائی لڑ رہا ہے وہ چونکہ جہاں تک برطانیہ کا تعلق ہے مظلومیت کی لڑائی ہے۔ اس لئے اس میں حصہ لینا بھی ثواب کا موجب ہے۔ پھر بھی جہادِ اکبر کے مقابلہ میں اس کی کچھ حقیقت نہیں۔ اگر دینی جہادہوتا تو اس میں حصہ لینے والے تو بہت ہی زیادہ ثواب کے مستحق ہوتے مگر پھر بھی جہاد اکبر جیسا درجہ اس کا نہ ہو سکتا بے شک اس وقت لڑائی کی وجہ سے بہت مصروفیت ہے۔ جو لوگ اس میں حصہ لے رہے ہیں وہ ہر وقت مصروف رہتے ہیں اور ہر طرف اس لڑائی کی وجہ سے شورش اور ہنگامہ بپا ہے۔ مگر پھر بھی ہمارے دوستوں کو اس کی وجہ سے جہادِ اکبر کو کسی وقت بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ اس شخص سے زیادہ احمق کون ہو سکتا ہے جو چھوٹی چیز کے لئے بڑی کو قربان کر دے۔
اللہ تعالیٰ نے جہاں آنحضرت ﷺ اور پہلے انبیاء کے ذریعہ بھی یہ اطلاع دی تھی کہ آخری زمانہ میں شدید جنگیں انسانوں کی انسانوں کے ساتھ ہوں گی۔ وہاں رسول کریم ﷺ بلکہ پہلے انبیاء نے یہ خبر بھی دی تھی کہ اس زمانہ میں مسیح موعود کی فوجوں کی شیطانی طاقتوں کے ساتھ جنگ ہو گی۔ بنی اسرائیل کے انبیاء کے علاوہ حضرت زرتشت کی بھی ایسی پیشگوئی موجود ہے ان کے ایک شاگرد جاماسک نام گزرے ہیں جو اُن کے داماد بھی تھے۔ انہوں نے پیشگوئیوں کی ایک کتاب لکھی ہے۔ جس میں ان کی اپنی پیشگوئیاں بھی ہیں اور حضرت زرتشت کی بھی۔ اس میں لکھا ہے کہ آخری زمانہ میں ایک موعود آئے گا۔ آسمان سے فرشتے اس کی مدد کو اُتریں گے اورتمام شیطان بھی اکٹھے ہوں گے اور پھر ان میں آخری لڑائی ہو گی جس میں شیطان مارا جائے گا ۔ پس ہمیں اس ظاہری لڑائی کے شور و شغب میں باطنی لڑائی کو جو ہماری اصل لڑائی ہے کسی وقت بھی نہیں بھولنا چاہئے ۔ ہماری جماعت کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم ہر وقت جنگ کے میدان میں ہیں۔ یہ لڑائیاں تو ہمیشہ نہیں رہتیں۔ گزشتہ جنگ سے قبل امن تھا۔ پھر اس کے بعد قریباً چوبیس سال امن رہا مگر مومن کی لڑائی شیطان کے ساتھ ہر وقت جاری رہنی چاہئے اور مومن کے لئے وہ لڑائی بہت زیادہ اہم ہونی چاہئے جو اخلاق یا اصول کے لئے اپنے نفس یا شیطان کے ساتھ لڑنی پڑے۔
یہ لڑائی جو اس وقت روس میں ہو رہی ہے۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ وہاں لڑنے والے لوگ رات کو آرام سے سو جاتے ہوں گے یا وہاں اپنا کاروبار کرتے رہتے ہوں گے۔ کوئی وہاں چھابڑی اٹھائے پھرتا ہو گا، کوئی گنڈیریاں بیچتا ہو گا، کوئی کپڑا فروخت کرتا ہو گا۔ وہاں تو ایک منٹ کی فرصت نہیں ملتی۔ بعض خبروں سے پایا جاتا ہے کہ سپاہیوں کو چھ چھ سات سات دن سونے کا موقع نہیں ملتا۔ ذرا غور کرو جہاں اتنے ٹینک ہوں او رجہاں سینکڑوں ہزاروں موٹریں اور لاریاں حملہ کرنے کے لئے اِدھر سے اُدھر پھر رہی ہوں۔ وہاں اگر کوئی فوج سونا چاہے بھی تو کیسے سو سکتی ہے اور کتنا پیچھے ہٹ کر سو سکتی ہے۔ ٹینکوں کی رفتار بہت تھوڑی ہوتی ہے پھر بھی وہ آٹھ نو مِیل فی گھنٹہ چلتے ہیں۔ گویا چار گھنٹے میں وہ 36 میل تک بڑھ جاتے ہیں۔ اب اگر کسی فوج کو چار گھنٹے آرام کا وقت مل بھی جائے تو وہ کہاں اتنا پیچھے ہٹ کر سو سکتی ہے کہ جہاں کم سے کم اس عرصہ میں ٹینکوں کے پہنچنے کا اندیشہ نہ ہو۔ فرض کرو کسی محاذ پر ایک ہزار سپاہی لڑتے ہیں۔ ان میں سے اگر پانسو کو فارغ بھی کر دیا جائے کہ کچھ وقت آرام کر لیں تو وہ کتنا پیچھے ہٹ کر سو سکتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ سو دو سو گز پیچھے ہٹ کر سو سکتے ہیں۔ اب اگر وہ اتنے فاصلہ پر سونے کی کوشش بھی کریں تو نیند نہ آئے گی کیونکہ یہی دھڑکا رہے گا کہ ابھی ٹینک آئیں گے اور ہمارے اوپر سے گزر جائیں گے اور اگر چار گھنٹے آرام کا وقت ہو تو ایک دو گھنٹے تو اسی ادھیڑ بُن میں گزر جائیں گے پھر جہاں اتنے زور سے توپیں چل رہی ہوں وہاں نیند کیسے آسکتی ہے۔
پہلے زمانہ کی لڑائیاں ایسی نہ ہوتی تھیں بلکہ لڑائی صبح شروع ہو کر شام کو ختم ہو جاتی تھی۔ صحابہٴ کرام کی لڑائیوں میں سے غزوہ خندق سب سے لمبی تھی اور یہ پندرہ روز تک رہی تھی اور صحابہؓ شکایت کرتے تھے کہ اس لڑائی میں ہماری نیندیں حرام ہو گئیں۔ مگر اِس وقت جو جہنم کھل گئی ہے اس کا ذرا اندازہ کرو۔ روس میں لڑائی شروع ہوئے قریباً چار ماہ کا عرصہ ہو گیا ہے اور اس عرصہ میں ایک دن بھی تو کسی کو آرام سے سونا نصیب نہیں ہو سکا۔ آرام کی نیند تو کوئی اسی صورت میں سو سکتا ہے کہ میدان سے ڈیڑھ دو سو میل پیچھے ہٹ کر سوئے کیونکہ اگر بارہ گھنٹے کی بھی رات ہو تو ٹینکوں کے راتوں رات چھیانوے بلکہ ایک سو آٹھ میل تک تو پہنچ جانے کا احتمال رہتا ہے اور اتنے فاصلہ تک تو اطمینان کی نیند نہیں آ سکتی کیونکہ ہر وقت خطرہ رہتا ہے کہ معلوم نہیں کب ہمارا مورچہ ٹوٹ جائے اور دشمن کے ٹینک آگے بڑھ آئیں۔ پھر ٹینکوں کے علاوہ ہوائی جہاز ہیں۔ گو ان کے حملوں سے ایسی تباہی نہیں ہوتی کیونکہ وہ کسی کسی جگہ بم پھینکتے ہیں اور بیچ میں بڑے بڑے شگاف رہ جاتے ہیں مگر پھر بھی ان کے حملوں کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔ لنڈن پر جن دنوں ہوائی حملے ہوتے تھے لوگ ہر شب خندقوں میں جا کر بسر کرتے تھے اور جو گھروں میں بھی سوتے وہ معمولی بستر لے کر سوتے تھے اور جونہی حملہ کا الارم ہوتا بستر بغل میں دبا کر پناہ گاہ میں چلے جاتے اور ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں آرام سے اپنا کام کاج کرنا تو الگ رہا، سونے کا موقع نہیں مل سکتا۔ بلکہ کھانے پینے کا بھی نہیں۔ وہاں لڑنے والے کتنی تکلیف کے ساتھ کھاتے پیتے ہوں گے۔ اول تو ہر جگہ اشیائے خورد و نوش کا پہنچنا مشکل ہے۔ بعض جرمن سپاہی جب پکڑے گئے تو معلوم ہوٴا کہ وہ چھ سات روز کے بھوکے تھے۔ جو فوجیں اپنے مرکز سے ہزار دو ہزار میل کے فاصلہ پرلڑ رہی ہوں ان تک ہر روز کھانے پینے کا سامان پہنچانا کتنا مشکل ہے۔ ذرا سوچو تو سہی کہ قادیان والوں کو پشاور میں لے جا کر کھانا کھلانا پڑے تو کیا حال ہو۔ بے شک لاریاں اور موٹریں ہیں مگر پھر بھی سپلائی کے انتظام میں خلل پڑ سکتا ہے۔ اپنے جلسہ سالانہ پر ہی قیاس کر لو۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ اگر چند سو یا ہزار لوگوں کو کھانا ملنے میں دیر ہو جائے تو ہمیں سخت پریشانی ہوتی ہے۔ میری طرف سے دفتر کو اور دفتر کو میری طرف رُقعہ پر رُقعہ بھجوانا پڑتا ہے۔ انسپکٹر ادھر سے ادھر دوڑتے ہیں، نگران عملہ پریشان ہوتا ہے اور بعض دفعہ گھنٹوں میں جا کر اس کمی کو پورا کیا جا سکتا ہے۔
روس اور جرمنی کی اس جنگ میں بعض اوقات پچاس پچاس لاکھ سپاہیوں نے حصہ لیا ہے۔ ایک کروڑ سپاہیوں کو مرکز سے ہزار میل کے فاصلہ پر کھانا پہنچانا کس قدر مشکل ہے اس کا اندازہ کرو۔ پھر کئی لوگ لشکر سے الگ بھی ہو جاتے ہیں۔ بیچ میں دشمن گُھس آتا ہے اور اس طرح ان تک تو کھانے پینے کی کسی چیز کا پہنچانا ناممکن ہو جاتا ہے۔ گویا جو لوگ اس لڑائی میں شریک ہیں۔ ان کے لئے اپنا کوئی کام کرنا تو الگ رہا کھانا پینا بھی مشکل ہوتا ہے مگر پھر بھی لڑائی جاری ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ کتنا بڑا احسان ہے کہ ہمیں اس نے اجازت دی ہے کہ اپنے کام کاج بھی کرو، تجارت اور زمینداری بھی کرو، کھاوٴ پیئو بھی اور پھر کچھ وقت نکال کر شیطان کے ساتھ جنگ بھی کرو۔ گو رسول کریم ﷺ بلکہ تمام پہلے انبیاء نے خبر دی ہے کہ یہ لڑائی پچھلی تمام جنگوں سے زیادہ خطرناک ہے لیکن اس کے لئے بہت تھوڑا وقت لگانا پڑتا ہے۔ مگر کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم سے بہت ہیں جو پھر بھی پرواہ نہیں کرتے۔
مَیں نے نہایت افسوس کے ساتھ دیکھا ہے کہ بعض احمدی ابھی ایسے ہیں کہ یوں تو سچ بولتے ہیں مگر جب ان پر یا ان کی اولاد یا رشتہ داروں پر کوئی الزام آئے یا کوئی اعتراض ہو تو جھوٹ بولنے لگ جاتے ہیں اور لوگوں پر رعب ڈالتے ہیں کہ ہمارے حق میں گواہی دو۔ حالانکہ قرآن کریم کی تعلیم یہ ہے کہ گواہی ہمیشہ سچی دو۔ خواہ وہ تمہارے نفسوں پر ہو یا تمہارے ماں باپ یا اولاد پر ہو۔2 ایسے لوگ خدا تعالیٰ کے سپاہی ہونے کا دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں۔ وہ تو اس وقت شیطان کے سپاہی ہوتے ہیں۔ خداکا سپاہی تو وہ ہے جو کسی حالت میں بھی صداقت کو نہ چھوڑے بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان میں کوئی اتنی بڑی سزا بھی نہیں ہو سکتی مگر پھر بھی میں نے دیکھا ہے کہ بعض احمدی ایسے ہیں کہ جب ان کے بیٹے پر یا بھائی پر یا باپ پر یا بیوی پر یا کسی اور رشتہ دار پر کوئی الزام آئے تو وہ یہی کوشش کرتے ہیں کہ اسے بے قصور ثابت کریں۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ بظاہر ان کی عقل اور ان کا نفس یہی کہتا ہے کہ ان کا عزیز قصور وار نہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ مجرم کی امداد نہیں کر رہے مگر دراصل ان کے نفس کا یہ فیصلہ ان کے تعصب کی وجہ سے ہوتا ہے اور اس لئے وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک گنہگار ہوتے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے دل میں ایسے تعصب کو جگہ دی جس سے وہ حقیقت کو سمجھنے سے محروم ہو گئے اور جس کی وجہ سے وہ اپنے عزیز کے جُرم کو دیکھنے کی توفیق نہ پا سکے۔ بعض اوقات بعض دوسرے لوگ بھی سمجھتے ہیں کہ وہ بَری ہے مگر درحقیقت وہ بَری نہیں ہوتا اور اگر صرف اپنے یا کسی کے یہ خیال کر لینے سے کہ فلاں شخص بَری ہے۔ اس کے واقعی بَری ہونے کا اصول صحیح تسلیم کر لیا جائے تو اس کا کیسا خطرناک نتیجہ نکل سکتا ہے۔ کیا وہ لاکھوں کروڑوں ہندو اور عیسائی جو سمجھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام سچے نہیں ہیں اور ان کا مذہب ہی سچا ہے۔ ان کو خدا تعالیٰ سزا نہیں دے گا۔ اسلام یہی بتاتا ہے کہ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ سزا دے گا خدا تعالیٰ ان سے کہے گا کہ بے شک تم سچا نہ سمجھتے تھے مگر جب مَیں نے ایسے ذرائع تمہارے لئے مہیا کر دئیے تھے کہ تم سچائی کو سمجھ سکتے تھے تو پھر کیوں نہ سمجھا اور ان ذرائع سے فائدہ کیوں نہ اٹھایا۔ وہی شخص سزا سے بچے گا جو واقع میں معذور تھا اور جس تک صداقت نہ پہنچ سکی۔ اسی طرح جو شخص اپنے کسی عزیز رشتہ دار کے بارہ میں صداقت کو معلوم کرنے والے ذرائع کو استعمال میں لا کر حقیقت کو معلوم نہیں کرتا وہ خواہ خود یہی سمجھتا ہو کہ اس کا عزیز اس الزام سے بَری ہے اور اس لئے اس کی مدد کرنے میں گناہ نہیں مگر اللہ تعالیٰ کے حضور وہ گنہگار ہے۔ آپ لوگوں میں سے کتنے ہیں جو غیر احمدیوں میں سے نکل کر آئے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ غیر احمدیوں میں اکثر ایسے لوگ ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کو واقعی (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) جھوٹا سمجھتے ہیں۔ پھر کیا اس وجہ سے وہ مجرم نہیں؟ کیا اللہ تعالیٰ انہیں سزا نہیں دے گا؟ دے گااور ضرور دے گا اور وہ ان سے کہے گا کہ گو تم جھوٹا سمجھتے تھے مگر لیکھرام کی پیشگوئی کے پورا ہونے کے بعد تم نے کس طرح جھوٹا سمجھا؟ آتھم کی پیشگوئی کے بعد کس طرح سمجھاآپ کی پیشگوئیوں کے ماتحت زلزلے آنے کے بعد کس طرح جھوٹا سمجھا؟ اور اس طرح آپ کی صداقت کا ایک ایک نشان بیان کرنے کے بعد دریافت کرے گا کہ اس کے ہوتے ہوئے تم کس طرح آپ کو جھوٹا سمجھتے رہے؟ اسی طرح خداتعالیٰ یہ بھی کہے گا کہ بے شک تم اپنے بیٹے یا بھائی یا باپ یا کسی اور رشتہ دار کو مجرم نہیں سمجھتے تھے مگر فلاں فلاں مومن گواہ تھے۔ فلاں واقعات تھے جن سے صداقت معلوم ہو سکتی تھی۔ تم نے کیوں معلوم نہ کی۔ صداقت معلوم ہو سکنے کے ذرائع ہونے کے باوجود جو اِن سے فائدہ نہیں اٹھاتا وہ یقینا مجرم ہے۔ سورج طلوع ہونے کے بعد بھی جو شخص خود اپنے دروازے اور کھڑکیاں بند کرلے اور کہے ابھی رات ہے کیا تم اسے مجرم نہ کہو گے۔ پس یہ کوئی دلیل نہیں کہ چونکہ تمہارا نفس کہتا ہے کہ تمہارا بھائی یا بیٹا یا کوئی اَور رشتہ دار سچا ہے اس لئے وہ ضرور سچا ہے مگر میں نے دیکھا ہے کہ ہم میں ایسے احمدی ہیں جو محض اس وجہ سے کہ کسی سے ان کی رشتہ داری ہوتی ہے۔ جب اس پر کوئی الزام آتا ہے تو خواہ مخواہ اس کی تائید کرنے لگ جاتے ہیں اور اپنے نفس کو اس طرح تسلی دے لیتے ہیں کہ یہ مجرم نہیں۔ مگر خدا تعالیٰ ان سے کہے گا کہ سچ اور جھوٹ میں امتیاز کے لئے مَیں نے تم کو جو آنکھیں دی تھیں اور جوذرائع مہیا کئے تھے۔ ان سے تم نے کیوں کام نہیں لیا۔ مَیں نے ہمیشہ سچائی پر بڑا زور دیا ہے اور اگر ہماری جماعت صرف سچائی پر ہی قائم ہو جائے تو شیطان کا لشکر پوری طرح شکست کھا سکتا ہے۔ بشرطیکہ یہ حالت پیدا ہو جائے کہ دنیا میں ہر شخص یہ کہے کہ احمدی ہمیشہ سچ بولتے ہیں۔ بے شک ہماری جماعت میں اکثر لوگ سچ بولتے ہیں بلکہ بعض ایسے احمدیوں نے جو قانون کی نگاہ میں مجرم تھے ان سے غلطی ہو گئی اور عدالت نے تسلیم کیا کہ انہوں نے سچ بولا۔ گو اَور گواہ نہ تھے مگر انہوں نے خود سچ کہہ دیا۔ مثلاً قاضی محمد علی صاحب کی جو لڑائی ہوئی وہ اندھیرے میں ہوئی اور جو آدمی مارا گیا تھا اس کے ساتھی بھی قاضی صاحب پر حملہ کر رہے تھے۔ اور اس حالت میں یہ ضروری نہیں تھا کہ وہ شخص انہی کے ہاتھ سے مارا گیا ہو۔ وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ ممکن ہے کسی اَور کے ہاتھ سے وہ قتل ہو گیا ہو۔ مگر انہوں نے مومنانہ سادگی سے کام کیا اور یہی کہا کہ مَیں نے مارا ہے۔
اسی طرح عزیز احمد صاحب 3 کا واقعہ ہے۔ انہوں نے جب فخر الدین ملتانی پر حملہ کیا تو ہم نے ان کو یہی کہلوایا کہ جھوٹ نہ بولنا اور انہوں نے نہ بولا اور اس طرح ان لوگوں نے جان دے کر اپنے گناہ کا کفارہ کر دیا۔ بعض اور احمدیوں سے بھی جب قانونی اور اخلاقی غلطیاں ہوئیں تو انہوں نے سچائی سے کام لیا۔ تو جماعت میں مخلص بھی ہیں جو ہر حال میں سچائی سے کام لیتے ہیں مگر ابھی کچھ احمدی ایسے بھی ہیں جن کے دلوں میں سچائی کی قدر نہیں۔ جب بھی کوئی موقع آئے وہ بہانے بنانے اور آئیں بائیں شائیں کرنے لگ جاتے ہیں۔ معمولی سی بات ہوتی ہے مگر وہ پہلو بچانے لگتے ہیں اور ایسا جواب دیتے ہیں کہ جس سے بچ جائیں۔ اگر ہماری جماعت پوری طرح سچائی پر کاربند ہو جائے تو ایسا رعب قائم ہو سکتا ہے کہ ہزاروں ہزار لوگ اسی کی وجہ سے احمدی ہو جائیں۔ ایک دفعہ تم یہ نمونہ قائم کر کے دیکھ لو کہ ہر شخص یہ کہے کہ احمدی جھوٹ نہیں بولتے۔ پھر دیکھو کس طرح کامیابی ہوتی ہے۔ ایک زمانہ میں یہ نمونہ زیادہ تھا اور اُس زمانہ میں ترقی بھی زیادہ تھی۔ اب کچھ ایسے لوگ بھی جماعت میں داخل ہو گئے ہیں جو سیاسی احمدی ہیں اور ایسے لوگ جماعت کی بدنامی کا موجب ہو رہے ہیں۔ جیسے کہتے ہیں ایک مچھلی تالاب کو گندا کر دیتی ہے۔ مَیں نے تبلیغ والوں کو بھی بار بار کہا ہے کہ سیاسی احمدی کسی کو نہ بنایا جائے۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ گو وہ سمجھ بھی چکے ہوں کہ عقائد درست ہیں مگر وہ جماعت میں داخل اُس وقت ہوتے ہیں جب سمجھتے ہیں کہ اب احمدی ہو کر گاوٴں میں ہماری طاقت زیادہ ہو جائے گی۔ ایسے لوگوں کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ یہ جماعت کے لئے نقصان کا موجب ہوتے ہیں۔ یہ ایسے ہوتے ہیں جیسے کوئی کوڑھی ہو۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ جو شخص کہے مَیں نے سوچ سمجھ لیا ہے اور مَیں بیعت کرنا چاہتا ہوں ہم اسے داخل نہ کریں۔ سوائے اس کے کہ کسی شخص کے متعلق ہمیں علم ہو چکا ہو کہ وہ شرارت کے لئے احمدی ہونا چاہتا ہے۔ باقی ہم کسی پر بدظنی نہیں کر سکتے۔ ہمیں یہ اختیار نہیں کہ کسی کو جماعت میں داخل کرنے سے انکار کر دیں۔ اس لئے ایسے لوگ بھی داخل ہو جاتے ہیں جن کی مثال کوڑھی یا مدقوق و مسلول کی ہوتی ہے۔ مگر کیا تم میں سے کوئی شخص یہ پسند کر سکتا ہے کہ کسی کوڑھی یا مدقوق و مسلول کو اسی حالت میں اپنے گھر میں رہنے دے۔ ہرگز نہیں کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر یہ اسی طرح رہا اور اسے صحت نہ ہوئی تو میری بیوی میرے بچوں اور دیگر متعلقین کی صحت بھی خطرہ میں پڑ جائے گی۔ پس اگر وہ کسی ایسے بیمار کو گھر میں رکھنے پر مجبور ہو تو پوری کوشش کرے گا کہ وہ اچھا ہو جائے تا گھر کے دوسرے لوگوں پر اثر نہ پڑے۔ اسی طرح جو لوگ نئے جماعت میں داخل ہوں ان کی تربیت و اصلاح کی پوری پوری کوشش کرتے رہنا چاہئے۔ قادیان میں بعض لوگ ایسے بھی آ جاتے ہیں کہ ان کے رشتہ دار احمدی ہو گئے تو انہوں نے کہا کہ تم بھی آ جاوٴ بیعت کر لو۔ اکٹھے رہیں گے اور وہ بھی آ گئے پھر بعض ڈر کر بھی آ جاتے ہیں۔ اور ایسے لوگ ہمیشہ گندہ نمونہ دکھاتے ہیں۔ ہم مجبور ہیں۔ ان کو کسی جُرم کے ثابت ہونے تک ردّ بھی نہیں کر سکتے کیونکہ ایسا کرنے کی خدا تعالیٰ نے ہمیں اجازت نہیں دی۔ اس لئے ان کے ضرر سے بچنے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ ان کی تربیت پر پورا پورا زور دیں اور کوشش کر کے ان کو بھی صحیح معنوں میں احمدی بنا لیں اور ان کی تربیت پر زیادہ توجہ کریں۔ مگر اب تو مَیں نے دیکھا ہے کہ بہت لوگوں میں نفسا نفسی ہے۔ اول تو مبلّغین کو بھی اس طرف پوری توجہ نہیں اور دوسرے لوگوں میں سے ایک حصہ میں کمزوریاں ہیں۔ یاد رکھنا چاہئے کہ ہر مبلّغ جس محلہ میں رہتا ہے اسے چاہئے کہ محلہ کے ہر شخص سے واقف ہو اور اس کے اخلاق کا نگران ہو۔ وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک اس بات کے ذمہ دار ہیں۔ جب انہوں نے علم دین پڑھنا شروع کیا تو گویا خدا تعالیٰ سے عہد کیا تھا کہ وہ دین کے سپاہی بنیں گے اور کسی کو دین کا علم خدا تعالیٰ کی طرف سے دیا جانا گویا خدا تعالیٰ سے اس کا معاہدہ ہے کہ وہ دوسروں کی اصلاح میں لگا رہے گا اور اس کو توڑ کر وہ اس کے عذاب کا مستحق ہو گا۔ سارے محلہ کی اخلاقی نگرانی اس کے ذمہ ہے۔ خصوصاً نئے آنے والوں کی۔ بیرونی جماعتوں کو بھی ان باتوں کا خیال رکھنا چاہئے۔ اب بیرونی جماعتوں میں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے لوگ بکثرت بڑھ رہے ہیں اور جب زیادہ لوگ دین میں شامل ہونے لگیں تو تربیت کی طرف بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کو دین میں لوگوں کے بکثرت داخل ہونے کی خبر دی وہاں زیادہ استغفار کا بھی حکم دیا۔ جیسا کہ فرمایا اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُ۰۰۱ وَ رَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا۰۰۲ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ اسْتَغْفِرْهُ اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا 4۰۰۳ یعنی اے محمد (ﷺ) وہ زمانہ اب قریب آ گیا ہے کہ دین میں فوج در فوج لوگ داخل ہوں۔ مگر اس کثرت کو دیکھ کر یہ غلطی نہ کرنا کہ خوش ہو جاوٴ کہ اب تو کام ہو گیا۔ بلکہ اس بات کا خیال رکھنا کہ یہی دن خطرہ کے ہیں۔ پہلے مسلمان تھوڑے تھے مگر ان میں سے ہر ایک ہمارا سپاہی تھا۔ اب بظاہر مسلمان زیادہ ہو گئے مگر ایک تعداد ایسے لوگوں کی ہو گی جو پوری طرح مسلمان نہیں ہوں گے۔ باطنی طور پر ان میں کمزوری ہو گی۔ پس جب کثرت حاصل ہو تو اس پر خدا تعالیٰ کی حمد بھی کرو اور کہو کہ خدایا تیرے انعام کی مَیں ناقدری نہیں کرتا۔ لوگوں نے اسلام کو قبول کیا اس پر میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں۔ مگر ساتھ ہی استغفار بھی کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ خدایا اب ان کی اصلاح میرے بس سے بڑھ گئی ہے۔ تو خود ہی اس کام کو کر۔ فرمایا۔ اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًااللہ تعالیٰ رجوع بہ رحمت کرنے والا ہے۔ وہ رحمت کے ساتھ تیری مدد کو پہنچے گا اور خود تیرے ساتھ ہو کر ان کی تربیت کرے گا اورجب خدا تعالیٰ بھی استاد ہو جائے تو یہ کام کس قدر آسان ہو سکتا ہے۔
ہماری جماعت کے دوستوں کو ان باتوں کی طرف ہمیشہ توجہ رکھنی چاہئے ۔ یاد رکھو کہ مُنہ سے اپنے آپ کو احمدی اور صحابی کہنے سے کچھ نہیں بنتا۔ بعض لوگ فخریہ کہتے ہیں کہ ہم فلاں وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے لیکن حالت یہ ہے کہ اگر ان کے ہمسایہ پر شیطان حملہ کر رہا ہو اور روحانی قتل ہو رہا ہو تو کبھی وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ خدا تعالیٰ کے بندو ں پر شیطان حملہ کر رہا ہوتا ہے اور یہ مسیح کا حواری اور خدا کا سپاہی آرام سے گھر میں بیٹھا رہتا ہے۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ اگر جرمن فوج حملہ کرے تو برطانوی فوج خاموش بیٹھی رہے گی۔
اسی طرح جب شیطان حملہ آور ہو رہا ہو تو خدا کا سپاہی کس طرح چپ چاپ بیٹھ سکتا ہے اور اگر وہ چپ بیٹھے رہیں تو اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ خدا کے سپاہی نہیں ہیں۔ کوئی شخص خدا تعالیٰ کا سپاہی نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ دیوانہ وار شیطان کا مقابلہ نہ کرے اورجب تک اس طرح مقابلہ نہ کیا جائے شیطان نہیں مارا جا سکتا۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی بعثت کا مقصد پورا نہیں ہو سکتا۔ اورتم خدا تعالیٰ کے سپاہی نہیں ہو سکتے جب تک شیطان کے قاتل نہ بنو۔ اس کے بغیر خواہ کوئی سر سے پیر تک احمدیت کے تمغے پہن کر آ جائے اسے کوئی فائدہ نہ ہو سکے گا۔ اس کی مثال ایسی ہو گی جیسے کسی نے تمغے چُرائے ہوئے ہوں۔ گورنمنٹ کسی کو خان بہادر بناتی ہے تو اس کی عزت بھی ہوتی ہے لیکن اگر کوئی اس کے تمغے چُرا کر پہن لے تو اس کی کوئی عزت نہیں ہو سکتی۔ صرف مُنہ سے اپنے آپ کو صحابی اور احمدی اور مومن کہنے سے کچھ نہیں ہوتا اور مُنہ کے دعووں سے انعام نہیں مل سکتا۔ ایسے شخص کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی چُرا کے تمغے پہن لے۔ جب تک کوئی شخص اپنے فعل سے قربانی نہیں کرتا۔ اس کی مثال ایک بھگوڑے کی ہے۔ وہ میدان میں ٹھہرنے والے اور انعام پانے والے سپاہی کی طرح ہرگز نہیں ہو سکتا۔ ’’
(الفضل 20 نومبر 1941ء)
1: موضوعات کبیر اردو حدیث نمبر480 صفحہ 184 مطبوعہ لاہور 2008ء
2: يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ بِالْقِسْطِ شُهَدَآءَ لِلّٰهِ وَ لَوْ عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ (النساء: 136)
3: جماعت احمدیہ کا ایک مخلص نوجوان جس نے اشتعال میں آ کر فخر الدین ملتانی کو چاقو مار کر زخمی کر دیا وہ بعد میں مر گیا۔ عزیز احمد نے امام جماعت سے اپنی غلطی کی معافی مانگی اور اپنے جُرم کا اعتراف کیا۔8 جون 1938ء کو پھانسی دیا گیا۔ (الفضل 10 جون 1938ء صفحہ 10)
4: النّصر: 2 تا آخر

34
مستقل اور دائمی ترقی حاصل کرنے کا گُر
( فرمودہ 21 نومبر 1941ء )

تشہد،تعوّذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے حسب ذیل آیتِ قرآنیہ کی تلاوت کی :۔
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَ صَابِرُوْا وَ رَابِطُوْا١۫ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ۰۰ 1
اس کے بعد فرمایا:۔
‘‘اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے اس آیت میں تین نصیحتیں بیان کی ہیں۔ فرماتا ہے ۔يٰۤاَیُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا ۔دنیا میں جب کوئی شخص مومن بنتا ہے تو پہلا مقابلہ اس کو اپنے نفس سے پیش آتا ہے اور نفس کے ساتھ جو مقابلہ ہوتا ہے اس میں ہر انسان اپنے بوجھ کو آپ ہی اٹھا سکتا ہے۔ نماز انسانی نفس کے ساتھ تعلق رکھنے والی ایک عبادت ہے۔ اس کے پڑھنے میں کوئی دوسرا شخص کسی نمازی کی کیا مدد کر سکتا ہے۔ روزے کے وقت جو تکلیف انسان کو ہوتی ہے اس کو کوئی اس کا ساتھی کس طرح ہٹا سکتا ہے۔ انسان کے دل میں جو شبہات اور وساوس پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ ان میں اس کی بیوی، اس کے بچے اور اس کے قریب ترین رشتہ دار اس کی کیا مدد کر سکتے ہیں۔ غرض نفس کے اندر پیدا ہونے والے وساوس اور لالچ اور حرص اور اسی قسم کے اور بیسیوں امراض جن کو دور کئے بغیر انسان خدا کو نہیں پا سکتا اورنہ دین کی حقیقت اور مغز سے وہ آگاہ ہو سکتا ہے۔ سب ایسی چیزیں ہیں کہ ان میں دوسرے لوگ اس کے مُمد نہیں ہو سکتے۔ پس شیطان کے ساتھ جنگ جو درحقیقت نفسانی جنگ ہوتی ہے صرف اکیلے ہی لڑی جا سکتی ہے۔ اسی وجہ سے حضرت مسیح ناصریؑ نے ایک موقع پر فرمایا کہ ہر شخص اپنی صلیب آپ اٹھا کر چلے۔2 صلیب اٹھانے کے معنے دراصل یہی ہیں کہ اپنے نفس کو خدا کے لئے قربان کر دیا جائے اور شیطان کا پوری طرح مقابلہ کیا جائے اور حضرت مسیحؑ فرماتے ہیں کہ یہ مقابلہ ایسا ہے جس میں کوئی شخص کسی دوسرے کی صلیب نہیں اٹھا سکتا۔ بلکہ انسان جب تک اپنے نفس کو آپ نہ مارے اس وقت تک نجات حاصل نہیں کر سکتا۔ یہی وہ امر ہے جس کی وجہ سے ہم عیسائیوں پر اعتراض کرتے اور کہا کرتے ہیں کہ انہوں نے کفارہ کا غلط مسئلہ ایجاد کر لیا کیونکہ جو گناہ انسان کے نفس کے اندر پیدا ہوتے ہیں۔ ان کو کوئی دوسرا شخص اٹھا نہیں سکتا۔ دوسرے انسان صرف ان امور میں مدد دے سکتے ہیں جو باہر سے پیدا ہوں۔ کسی انسان کی ذات سے تعلق رکھنے والے اور قلب کے اندر پیدا ہونے والے گناہوں میں دوسرے ساتھی کام نہیں آ سکتے۔
پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يٰۤاَیُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا جب کبھی تم ایمان لاوٴ تو تمہیں یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ پہلا مقابلہ تمہارا اپنے آپ سے ہو گا اور اس مقابلہ میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ تمہارے پاس تمہاری بیوی سوئی ہوئی ہوتی ہے مگر وہ نہیں جانتی کہ تمہارے دل میں کیا شبہات اور وساوس پیدا ہو رہے ہیں۔ تمہارے بچے تمہارے پاس لیٹے ہوئے ہوتے ہیں مگر وہ نہیں جانتے کہ تمہارے دل میں کیا خیالات پیدا ہو رہے ہیں اور تم نہیں جانتے کہ ان کے دلوں میں کیا خیالات پیدا ہو رہے ہیں۔ کثرت کے ساتھ اس قسم کے واقعات ہوئے ہیں کہ میاں بیوی اکٹھے سو رہے تھے اور بظاہر ان میں سے ایک جو دوسرے کی قلبی کیفیات سے ناواقف تھا سمجھتا تھا کہ ہمارے آپس کے تعلقات بڑے اچھے ہیں۔ مگر رات کو اٹھ کر میاں نے بیوی کو یا بیوی نے میاں کو قتل کر دیا۔ جب تک اس میاں نے اپنی بیوی کو قتل نہیں کیا تھا یا جب تک اس بیوی نے اپنے میاں کو قتل نہیں کیا تھا اس وقت تک دوسرا فریق یہی سمجھتا تھا کہ اس کے دل میں میرے متعلق محبت کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ کیونکہ کئی لوگ ہوشیاری کی وجہ سے اپنے خیالات کو اس طرح چُھپاتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی خیالات کو ظاہر کرنے کے لئے چہرے میں بہت کچھ سامان رکھ دیا ہے پھر بھی وہ ان آثار کو دبا دیتے ہیں اور اپنے خیالات کو ایسا مخفی رکھتے ہیں کہ دوسرا شخص قرائن سے بھی نہیں سمجھ سکتا کہ ان کے اندر کینہ ہے یا بُغض ہے یا وہ کوئی بد ارادہ رکھتے ہیں۔ تو پاس لیٹے ہوئے میاں بیوی کو ایک دوسرے کےخیالات کا پتہ نہیں ہوتا ، پاس لیٹے ہوئے ماں اور بیٹی کو ایک دوسرے کے خیالات کا پتہ نہیں ہوتا، پاس لیٹے ہوئے باپ اور بیٹے کو ایک دوسرے کے خیالات کا پتہ نہیں ہوتا اور جب ایک دوسرے کے خیالات کو انسان سمجھ ہی نہیں سکتا تو وہ اِن امور میں ایک دوسرے کی مدد کیا کر سکتا ہے اوروہ خیالات جو انسانی قلب کی گہرائیوں میں پیدا ہوتے ہیں ان کو کس طرح درست کر سکتا ہے۔ انسان دوسرے کو سمجھا کر اُس کی عقل تو درست کر سکتا ہے مگر انسان دوسرے کو سمجھا کر اس کے ایمان اور جذبات کو درست نہیں کر سکتا کیونکہ ایمان اور جذبات کی درستی اپنے ارادہ سے ہوتی ہے اور یہ ارادہ لوگوں کے دلوں میں اُس وقت تک پیدا نہیں ہوتا جب تک انہیں خود تجربہ نہ ہو۔ جب ایک انسان جنگ میں کُود پڑتا ہے اسے زخموں پر زخم لگتے ہیں۔ اس کی عادات اسے کسی طرف لے جانا چاہتی ہیں اور حالات اسے کسی طرف لے جاتے ہیں۔ تب اس کے دل میں اپنی عادات کے متعلق افسوس پیدا ہوتا ہے اور گو بظاہر وہ یہ سمجھتا ہے کہ میری خواہشات پوری نہیں ہوئیں مگر جب وہ ان زخموں کو برداشت کر لیتا ہے تب اس کے اندر اپنے نفس کا مقابلہ کرنے کی قوت پیدا ہوتی ہے۔ اگر انسانی ترقی کے راستہ میں اس قسم کی قربانیاں نہ ہوتیں تو محض عقلی لحاظ سے انبیاء کا ماننا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ ایک ادنیٰ تدبر سے قرآن کریم کی بتائی ہوئی علامات کے مطابق محمد ﷺ کو سچا اور راستباز مانا جا سکتا تھا لیکن محمد ﷺ کے ماننے کے نتیجہ میں چونکہ بیویاں چھوڑنی پڑتی تھیں، بچے چھوڑنے پڑتے تھے، عزیز اور اقارب چھوڑنے پڑتے تھے، وطن چھوڑنا پڑتا تھا، مال چھوڑنا پڑتا تھا، جائدادیں چھوڑنی پڑتی تھیں اس لئے ان چیزوں کی محبت قبول حق کے رستہ میں روک بن جایا کرتی تھی۔ اس روک کو وہ دلیلیں بَھلا کیا مٹا سکتی تھیں جو انسان کو صرف عقل کے دروازہ تک لے جاتی ہیں۔ ہاں جو شخص عقلی دلائل سے فائدہ اٹھا کر اپنے نفس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جاتا تھا اور اپنے دل سے ہر قسم کے خدشات کو دور کرکے قربانی پر آمادہ ہو جاتا تھا۔ اس کے لئے محمد ﷺ کا ماننا بالکل آسان ہو جاتا تھا۔تو دماغ سے کوئی بات منوانا مشکل نہیں ہوتا۔ جس چیز کو منوانا سخت مشکل ہے وہ انسان کا دل ہے اور دل ہی مختلف قسم کی روکیں محسوس کرتا ہے۔ کبھی کہتا ہے فلاں ضرورت پوری ہو جائے،کبھی کہتا ہے فلاں روک دور ہو جائے تو حق کو قبول کروں گا۔ تو انسانی نفس کی یہ حالتیں صداقت کے قبول کرنے کے رستہ میں ہمیشہ روک رہی ہیں، روک ہیں اور روک رہیں گی۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا ۔ اے مومنو جب تم صداقت تسلیم کر لو گے تو فوراً شیطان تم پر حملہ کر دے گا اس لئے ہم تمہیں نصیحت کرتے ہیں کہ جس بات کو، تمہارے دماغ نے صحیح تسلیم کر لیا ہے جس بات کو تم نے دلائل اور مشاہدات سے صحیح مان لیا ہے اسے خوب مضبوطی سے پکڑ کر بیٹھ جاوٴ اور پھر اسے چھوڑنا نہیں۔ چاہے شیطان تم پر کس قدر حملے کرے۔ پھر اِصْبِرُوْا میں ایک اور عظیم الشان حکمت کی بات اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ شیطان کا حملہ کبھی حقیقی نقصان نہیں پہنچاتا شیطان کا حملہ صرف دھوکا ہوتا ہے اور گو بظاہر وہ سب حملوں سے زیادہ سخت نظر آتا ہے مگر دراصل وہ سب حملوں سے زیادہ نرم ہوتا ہے۔ بلکہ ایک چھوٹا بچہ جو کسی دوسرے کے مُنہ پر تھپڑ مار دیتا ہے اس تھپڑ سے بھی شیطان کا حملہ نرم ہوتا ہے گو بظاہر وہ بڑا خطرناک نظر آتا ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں شیطان کو خدا تعالیٰ نے کوئی ایسا ہتھیار نہیں دیا جس سے وہ کسی انسان کو جانی یا مالی نقصان پہنچا سکے۔ دنیا میں شیطان کے جو انسان چیلے ہیں ان کو یہ بے شک اختیار حاصل ہے وہ دوسروں کا مال کھا لیتے ہیں، ان کی جائدادوں کا نقصان کر دیتے ہیں مگر خود شیطان اور اس کے حقیقی نمائندہ نفس کو یہ اختیار حاصل نہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ اِصْبِرُوْا۔یہ نہیں فرمایا کہ دشمن کا مقابلہ کرو بلکہ فرمایا ہے صبر کرو اس لئے کہ وہاں مقابلہ کی ضرورت ہی نہیں مقابلہ کی وہاں ضرورت ہوتی ہے جہاں حملہ حقیقی ہو۔ مثلاً کوئی شخص کسی دوسرے کو پکڑ کر پہاڑ کی چوٹی سے نیچے گرانا چاہتا ہو تو وہاں حقیقی مقابلہ کی صورت ہو گی۔ اور اگر وہ مقابلہ نہیں کرے گا تو دوسرا شخص اسے کھڈ میں پھینک دے گا یا مثلاً تنور جل رہا ہو اور کوئی شخص کسی دوسرے کو پکڑ کر اس میں گرانا چاہتا ہو اور وہ اپنی مدد کے لئے لوگوں کو آوازیں دے رہا ہو تو اس وقت اگر ہم دور ہوں گے تو اسے فوراً آواز دیں گے کہ اس شخص کا خوب مقابلہ کرو ہم بھی تمہاری مدد کے لئے آ رہے ہیں لیکن اگر کسی جگہ باہر کا دشمن کوئی نہ ہو صرف انسان کا دل خوف زدہ ہو اور وہ ڈر رہا ہو تو اس وقت ہم اسے یہ نہیں کہیں گے کہ دشمن کا مقابلہ کرو بلکہ کہیں گے کہ اپنے دل کو مضبوط کرو کیونکہ دل کا خوف بھی ایسی چیز ہے کہ اس کے نتیجہ میں کئی لوگ اپنے آپ کو ہلاک کر لیتے ہیں۔ حالانکہ ان کے سامنے کوئی حقیقی خطرہ نہیں ہوتا۔ صرف ان کے دل میں خوف پیدا ہو چکا ہوتا ہے۔
جن دنوں مَیں حج کے لئے گیا تھا ایک شخص نے ایک ریل ایجاد کی ہوئی تھی جس سے اس کا مقصد لوگوں کو یہ بتانا تھا کہ اگر ہمالیہ پہاڑ پر ریل لے جانی ہو تو کس طرح پہنچائی جا سکتی ہے۔ پہاڑ کے چکروں میں اگر ریلوے لائن بنائی جائے توچونکہ بہت زیادہ خرچ ہوتاہے اس لئے اس نے ایسی ایجاد کی تھی کہ ریل سیدھی پہاڑ پر چڑھ جائے اور چکر کھا کھا کر اوپر نہ جانا پڑے۔ اس غرض کے لئے اس نے ریل اور پہاڑ کا نمونہ تیار کیا تھا۔ جب گورنمنٹ نے اس کی طرف کوئی توجہ نہ کی تو بعد میں اس نے اپنی رقم نکالنے کے لئے بڑے بڑے شہروں میں اس کی نمائش شروع کر دی۔ مَیں ان دنوں بمبئی میں تھا جب اس کی نمائش کی جا رہی تھی ۔ ایک دن مَیں بھی گیا اور میں نے دیکھا کہ اس ریل کے دروازوں اور کھڑکیوں کے آگے روکیں بنی ہوئی ہیں۔ میں نے لوگوں سے دریافت کیا کہ یہ روکیں کیوں بنائی ہوئی ہیں تو انہوں نے بتایا کہ ایک دن کچھ فوجی اس ریل کا نظارہ دیکھنے کے لئے آئے تھے۔ جب وہ ریل کے اندر سوار ہوئے اور اس نے پہاڑ پر چڑھنا شروع کر دیا تو ایک فوجی کو جو گورا سپاہی تھا اتنا ڈر پیدا ہوٴا کہ اس نے اوپر سے چھلانگ لگا دی اور نیچے گرتے ہی ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ اس لئے اب ریل کے دروازوں اور کھڑکیوں کے آگے روک بنا دی گئی ہے۔ اسی طرح انہوں نے بتایا کہ پہلے ریل کے اردگرد بہت سی غاریں بنائی گئی تھیں اور ہمالیہ پہاڑ کا نظارہ دکھانے کے لئے کسی جگہ مصنوعی شیر بنائے گئے تھے جو مُنہ کھولے کھڑے تھے، کئی جگہ چیتے بنائے گئے تھے، کئی جگہ ہاتھی بنائے گئے تھی۔ اس کی وجہ سے لوگوں پر اتنی دہشت طاری ہوتی تھی کہ وہ اس کی برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ مگر اب کئی غاریں ہٹا دی گئی ہیں۔ پھر جب وہ ٹرین نیچے کی طرف آتی تھی تو ایسی شدت کے ساتھ گرتی تھی کہ یوں معلوم ہوتا تھا انسان موت کے مُنہ میں جا رہے ہیں۔ اب اس فوجی نے جو چھلانگ لگائی وہ اس لئے نہیں لگائی تھی کہ اس کے لئے کوئی بیرونی خطرہ پیدا ہو گیا تھا بلکہ اس نے اس لئے چھلانگ لگائی تھی کہ اس کا دل خوفزدہ ہو گیا تھا اور وہ سمجھتا تھا کہ شاید چھلانگ لگا کر مَیں اس خطرہ سے بچ جاوٴں گا۔ اسی طرح بیسیوں لوگ ہر سال ہلاک ہوتے ہیں۔ کوئی پہاڑ سے اپنے آپ کو گرا دیتا ہے ، کوئی مینار کی چوٹی سے گرکر ہلاک ہو جاتا ہے۔ مگر اس لئے نہیں کہ ان کا ارادہ خود کشی کا ہوتا ہے بلکہ صرف اس لئے کہ بلندی پر پہنچ کر انہیں ایسا خوف معلوم ہوتا ہے کہ انہیں یوں محسوس ہوتا ہے کوئی شخص انہیں نیچے کھینچ رہا ہے اور وہ گر کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔ جن لوگوں کے معدے خراب ہوں ان کے ساتھ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بلندی پر پہنچ کر ان کا سر چکرانے لگتا ہے اور اگر معدہ زیادہ کمزور ہو تو بعض دفعہ اس حالت کے نتیجہ میں ہلاکت تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ میری اپنی یہ حالت ہے کہ میرا معدہ چونکہ شروع سے کمزور ہے اس لئے میں کبھی زیادہ اونچی جگہ نہیں جا سکتا۔ قطب صاحب کی لاٹ پر مَیں کئی دفعہ گیا ہوں مگر کبھی اس کی چوٹی پر نہیں چڑھ سکا۔ صرف بچپن میں ایک دفعہ بیٹھے بیٹھے اس کی چوٹی کے جنگلے تک پہنچا تھا۔
اسی طرح پہاڑوں پر جہاں پاس کھڈ ہو اور منڈیر نہ ہو میرا سر چکرانے لگ جاتا ہے۔ تو جن لوگوں کے معدے کمزور ہوں ان کی کیفیت اکثر اسی قسم کی ہوتی ہے اور بعض جن کے اعصاب زیادہ کمزور ہوں ان پر ایسی حالت میں جنون کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور عواقب کو سوچے سمجھے بغیر وہ نیچے کود پڑتے ہیں حالانکہ جس خطرہ سے وہ ڈر رہے ہوتے ہیں وہ کوئی حقیقی خطرہ نہیں ہوتا۔ صرف ان کے دل کا خوف ہوتا ہے۔ ایسی خوف کی حالت میں ہم دوسرے کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ دشمن کا خوب مقابلہ کرو کیونکہ وہاں کوئی بیرونی خوف تو ہوتا نہیں صرف نفس کے اندر کمزوری پیدا ہو جانے کی وجہ سے خوف کی ایک صورت رونما ہوتی ہے۔ اس لئے ایسی صورت میں ہم دوسرے کو یہی نصیحت کریں گے کہ صبر کرو اور اپنے نفس کو قابو میں رکھو۔ پس اِصْبِرُوْا کہہ کر اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ شیطان کا حملہ حقیقی نہیں ہوتا۔ صرف ڈراوا ہوتا ہے۔ انسان خیال کرتا ہے کہ اگر فلاں خواہش کا مَیں نے مقابلہ کیا تو تباہ ہو جاوٴں گا۔ مگر جب وہ مقابلہ کر لیتا ہے تو سمجھتا ہے کہ اوہو! بات تو کچھ بھی نہیں تھی ۔ تو شیطان کا حملہ چونکہ حقیقی نہیں ہوتا اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ شیطان کا مقابلہ کرو بلکہ صرف یہ کہا ہے کہ اِصْبِرُوْا صبر کرو اور اپنے نفس کو اپنے قابو میں رکھو۔
پھر فرماتا ہے۔ وَ صَابِرُوْا ۔ جب انسانی نفس شیطانی حملہ کا مقابلہ کر لے تو پھر شیطان باہر سے حملہ کر دیتا ہے اور باہر سے جو حملہ ہو اس میں شیطان کے مقابلہ کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ وہ حملہ دوسروں کے ذریعہ سے کروایا جاتا ہے۔ اسی لئے یہاں صَابِرُوْا کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ صَابِرُوْا کے معنے ایک دوسرے کو مقابلہ کی تلقین کرنے کے ہیں۔ یعنی زید بکر کو کہے ۔ بکر، عمرو کو کہے۔ عمرو خالد کو کہے اور اس طرح وہ شیطان کے مقابلہ کے لئے ایک جتھہ بندی کر لیں۔ گویا صَابِرُوْا کا حکم دے کر اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ جب تم نفس کا مقابلہ کر لو گے تو اس وقت شیطان پھر جوش میں آئے گا اور کہے گا۔ اوہو! ان پر تو کوئی اثر ہی نہیں ہوٴا۔ یہ تو بڑھتے چلے جا رہے ہیں ۔ چنانچہ وہ اپنے چیلوں کو حکم دے گا کہ ان پر اکٹھے ہو کر حملہ کر دو۔ اس وقت یاد رکھو کہ وہ اکیلے اکیلے لڑنے کا وقت نہیں ہو گا بلکہ جماعتی صورت میں دشمن کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہو گی۔ اس لئے تم اکٹھے ہو جاوٴ اور سب مل کر دشمن کا مقابلہ کرو۔ اسی لئے فرمایا۔ صَابِرُوْا۔ یعنی جب صبر کا نتیجہ نکلے گا اور تم اندرونی دشمن کو زیر کر لو گے تو شیطان اپنے چیلوں کو اُکسائے گا اور تمہیں قوم کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ پھر تمہیں اپنے آپ کو بھی ایک قوم کی صورت میں منظم کرنا پڑے گا۔ اگر قوم کی صورت میں دشمن کا مقابلہ نہیں کرو گے تو شکست کھا جاوٴ گے۔ گویا پہلی حالت تو ایسی تھی کہ اس میں انفرادی طور پر اکیلا اکیلا شخص شیطان کا مقابلہ کر سکتا تھا۔ دو نہیں کر سکتے تھے۔ مگر یہ حالت ایسی ہے جس میں ایک شخص شیطان کا مقابلہ نہیں کر سکتا بلکہ ساری قوم کو شیطان کے مقابلہ کے لئے تیار ہونا پڑتا ہے۔
پھر صَابِرُوْا کہہ کر اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ تمہیں شیطان کے مقابلہ کے لئے اپنے اندر ایک نظائم قائم کرنا چاہئے کیونکہ کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی۔ جب تک اس کے اندر ایک نظام نہ ہو۔ یہی حکمت ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں میں نظام قائم رکھا ہے۔ پہلے نبوت ہوتی ہے اور پھر نبوت کے بعد خلافت آ جاتی ہے تا مسلمان اکٹھے رہیں اور وہ مل کر دشمن کا مقابلہ کر سکیں۔
آخر یہ صَابِرُوْا کے حکم پر عمل کرنے کی برکت ہی ہے جو تبلیغ کی صورت میں ہمیں اس وقت دکھائی دیتی ہے۔ ہماری جماعت کتنی چھوٹی سی ہے مگر باوجود اس کے کہ ہماری جماعت کی تعداد نہایت قلیل ہے اور باوجود اس کے کہ ہماری جماعت نے ابھی وہ اعلیٰ نمونہ پیش نہیں کیا جو خدا تعالیٰ چاہتا ہے پھر بھی ساری دنیا میں ہماری جماعت تبلیغ کر رہی ہے اور دنیا کے لوگ اس بات کے معترف ہیں کہ اگر آج دنیا کے پردہ پر کوئی جماعت اسلام کی تبلیغ کر رہی ہے تو وہ احمدیہ جماعت ہی ہے حالانکہ ہماری جماعت کی تعداد کتنی ہے۔ کہتے ہیں ” کیا پِدی اور کیا پدی کا شوربا“ سارے ہندوستان میں اتنے احمدی بھی تو نہیں جتنی ضلع گورداسپور کی آبادی ہے مگر باوجود اس کے ہماری جماعت کی تعداد ہندوستان میں اتنی بھی نہیں جتنی ضلع گورداسپور کی آبادی ہے پھر بھی ہماری جماعت وہ کام کر رہی ہے جو سارے ہندوستان کے مسلمان مل کر بھی نہیں کر رہے۔ امریکہ میں ہمارا مشن قائم ہے، انگلستان میں ہمارا مشن قائم ہے، گولڈ کوسٹ میں ہمارا مشن قائم ہے، نائیجیریا میں ہمارا مشن قائم ہے، سیر الیون میں ہمارا مشن قائم ہے۔ اسی طرح ملایا، سنگا پور ، چین، سماٹرا، جاوا اور دوسرے ممالک میں ہمارے مشن قائم ہیں۔ اس کے مقابلہ میں مسلمان کروڑوں کی تعداد میں ہیں بلکہ اب بھی کئی مسلمان بادشاہ موجود ہیں ۔ چنانچہ ایران کا بادشاہ مسلمان ہے، افغانستان کا بادشاہ مسلمان ہے۔ عرب کا بادشاہ مسلمان ہے۔ اسی طرح مصر اور عراق کے بادشاہ مسلمان ہیں ۔ پھر ترکوں کی حکومت ہے اور یہ تمام حکومتیں اربوں ارب روپیہ سالانہ آمد رکھتی ہیں مگر بتاوٴ کیا اِن میں سے کوئی سلطنت بھی اسلام کی تبلیغ کر رہی ہے اور کیا ان کی جد و جہد سے کبھی ایک شخص بھی مسلمان ہوٴا۔ مسلمان کرنا تو درکنار ان کی طرف سے ہمیشہ یہ اعلان ہوتا رہتا ہے کہ ہماری حکومتوں کو مذہب سے کوئی واسطہ نہیں۔ حالانکہ حکومت عیسائیوں کو بھی حاصل ہے مگر انہوں نے اپنے مذہب کی تبلیغ کو کبھی نظر انداز نہیں کیا۔ انگریزی حکومت یوں آزادیٴ مذاہب کی بڑی حامی ہے مگر ہمیشہ اپنے مشنریوں کی مدد کرتی رہتی ہے۔ ظاہربھی اور مخفی بھی۔ کُھلے طور پر بھی اور پوشیدہ بھی۔ ہندوستان میں بھی پادریوں کی تنخواہوں کے لئے بجٹ میں گنجائش رکھی گئی ہے اور اس کا یہ حصہ وائسرائے کے قبضہ میں ہے اور اس میں کوئی دوسرا دخل نہیں دے سکتا۔ تو انگریزی حکومت اپنے مذہب کی تبلیغ کے لئے ہمیشہ روپیہ خرچ کرتی رہتی ہے مگر مسلمان بادشاہ یہی کہتے رہے کہ ہم بادشاہ ہیں، ہمارا مذہب کی تبلیغ سے کیا تعلق۔ اس کے مقابلہ میں خد اتعالیٰ نے ہماری چھوٹی سی جماعت کو تبلیغ کی ایسی توفیق بخشی ہے کہ سوائے پیغامی گروہ کے، اَور سب اس بات کے معترف ہیں کہ ہماری جماعت سے بڑھ کر اور کوئی تبلیغ نہیں کر رہا۔ ایک پیغامی گروہ ہی ہے جو کہتا ہے کہ جماعت احمدیہ کا قادیانی حصہ تبلیغ اسلام نہیں کرتا۔ مگر ان کے اس اعتراض کی اگر تشریح کی جائے تو یہ ہو گی کہ انگلستان میں قادیانیوں کا مشن ہے، ہمارا کوئی مشن نہیں ۔ مگر انگلستان میں تبلیغ قادیانی نہیں کرتے بلکہ ہم کرتے ہیں۔ امریکہ میں ہمارا کوئی مشن نہیں صرف قادیانیوں کا مشن ہے۔ اور بیس پچیس ان کے مقامی مبلغ بھی ہیں مگر امریکہ میں تبلیغ ہم کرتے ہیں قادیانی نہیں کرتے۔ پھر ان کے اس اعتراض کی تشریح یہ ہو گی کہ گولڈ کوسٹ میں قادیانیوں نے مبلغ رکھا ہوٴا ہے ہمارا کوئی مبلّغ نہیں مگر وہاں بھی تبلیغ ہم کرتے ہیں قادیانی نہیں کرتے۔ نائیجیریا میں قادیانی کوئی تبلیغ نہیں کرتے کیونکہ انہوں نے وہاں اپنا مبلغ بھجوایا ہوٴا ہے ۔ صرف ہم کرتے ہیں۔ گو ہمارا وہاں کوئی مبلغ نہیں۔ اسی طرح سیر الیون میں قادیانی مبلغ موجود ہے اور ہمارا کوئی مبلغ نہیں مگر سیر الیون میں تبلیغ ہم ہی کر رہے ہیں قادیانی نہیں کر رہے ۔ غرض اسی طرح پھیلاتے چلے جاوٴ اور دیکھو کہ مصر میں ،فلسطین میں، شام میں، سماٹرا میں، جاوا میں، ملایا میں۔غرض جہاں جہاں ہمارے مشن قائم ہیں۔ وہاں ان کے اس اعتراض کی یہی تشریح ہو گی کہ قادیانی بالکل تبلیغ نہیں کرتے۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے مشنری ان ملکوں میں بھیجے ہوئے ہیں۔ مگر پیغامی تبلیغ کرتے ہیں کیونکہ ان کا ان ملکوں میں کوئی مبلغ نہیں اور سچی بات تو یہ ہے کہ پیغامیوں کا بیرونی ممالک میں کہیں مشن ہے ہی نہیں ایک مشن جرمنی میں تھا مگر وہ بند ہو چکا ہے۔ پھر انہوں نے سیر الیون میں اپنا مشنری بھیجا مگر وہ ہمارے مشنری کے مقابلہ کی تاب نہ لا کر وہاں سے بھاگ آیا۔ یہاں تک کہ اسے کرایہ بھی ہمارے مشنری نے ہی لوگوں سے چندہ کر کے دیا۔ اگر ہمارا مشنری اس کی مدد نہ کرتا تو وہ واپس بھی نہ آ سکتا۔ مگر باوجود اس کے پیغامی ہمیشہ یہی کہتے رہتے ہیں کہ تبلیغ وہی کر رہے ہیں قادیانی جماعت کوئی تبلیغ نہیں کر رہی۔ غرض پیغامیوں کے سوا باقی ساری دنیا تسلیم کر رہی ہے کہ اس وقت احمدیہ جماعت ہی تبلیغ اسلام کا کام کر رہی ہے۔ بلکہ بعض مسلمان اخبارات نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ جس کام کی بڑے بڑے بادشاہوں کو توفیق نہیں ملی۔ وہ آج یہ چھوٹی سی جماعت بڑی عمدگی سے کر رہی ہے۔ تو یہ صَابِرُوْا پر عمل کرنے کا ہی نتیجہ ہے۔ اگر احمدی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہ کرتے۔ اگر ان میں اتحاد نہ ہوتا، اگر ان میں نظام نہ ہوتا اور اگر دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے وہ ایک جتھہ کی شکل میں نہ ہوتے۔ تو وہ صورت کبھی پیدا نہ ہو سکتی جو آج نظر آ رہی ہے۔ اس کے بعد فرماتا ہے وَ رَابِطُوْا۔ جو قومیں یہ سمجھتی ہیں کہ ان کے لئے اتنا ہی کافی تھا کہ شیطان کا مقابلہ کر لیا اور اسے شکست دے دی۔ وہ بھی بسا اوقات کچھ مدت کے بعد شیطان کے مقابلہ میں ہار جاتی ہیں۔ اس لئے کہ وہ تیسرے قدم میں سست ہو جاتی ہیں اور اس امر کا خیال نہیں رکھتیں کہ گو دشمن ایک دفعہ شکست کھا چکا ہے مگر امکان ہے کہ وہ دوبارہ حملہ کر دے اور فتح کو شکست سے بدل دے۔ اللہ تعالیٰ اس نقص کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتا ہے کہ ایسا ممکن ہے تم دشمن کو کلیةً شکست دے دو یا ایک علاقہ سے اسے بالکل نکال دو اور اس پر خود قبضہ کر لو لیکن یاد رکھو۔ہو سکتا ہے کہ دشمن کچھ عرصہ کے بعد پھر اس پر قابض ہو جائے اس لئے فرمایا جب تم دشمن کو شکست دے دو اور تم سمجھ لو کہ اب صَابِرُوْا کا وقت جاتا رہا تم مطمئن ہو کر نہ بیٹھ رہو۔ کیونکہ ابھی ایک اَور مقام رہتا ہے اور اگر تم نے اس مقام کا خیال نہ رکھا تو دشمن تمہیں جب بھی غافل پائے گا حملہ کر دے گا۔ چنانچہ فرماتا ہے وَ رَابِطُوْا جب تم کوئی علاقہ فتح کر لو یا روحانی طور پر شیطان کو کسی علاقہ سے نکال دو جیسے بعض جگہ گاوٴں کا گاوٴں احمدی ہو جاتا ہے تو ایسے موقع پر اللہ تعالیٰ یہ نصیحت کرتا ہے کہ مومنوں کو غافل نہیں ہونا چاہئے بلکہ ہمیشہ اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لئے چوکس اور ہوشیار رہنا چاہئے۔
رباط کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ جہاں سرحدیں ملتی ہوں وہاں چوکیاں قائم کی جائیں تاکہ دشمن اچانک ملک میں داخل نہ ہو جائے ۔ تو اللہ تعالیٰ اس آیت میں لوگوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ قوموں کی بڑی بھاری غلطی یہ ہوتی ہے کہ جب وہ کامیابی حاصل کر لیتی ہیں تو سمجھ لیتی ہیں کہ اب وہ کُلّی طور پر جیت گئی ہیں حالانکہ کلی طور پر جیت دنیا میں ہو نہیں سکتی اور اگر کوئی قوم دنیا کو کلی طور پر جیت لے اور پھر ہمیشہ اپنی سرحدوں کی نگرانی رکھے تو اسے کبھی شکست ہی نہ ہو مگر دنیا میں سینکڑوں قومیں ہیں جو فاتح ہوئیں اور پھر انہوں نے یہ خیال کیا کہ اب وہ کلی طور پر فاتح ہو گئی ہیں لیکن کچھ عرصہ کے بعد ان میں غفلت پیدا ہو گئی اور وہی فاتح قومیں مفتوح اور ذلیل ہو گئیں۔ کسی زمانہ میں ایران کی مملکت ایسی وسیع اور عظیم الشان تھی کہ ہندوستان اس کے قبضہ میں تھا، چین اس کے قبضہ میں تھا،عرب کا ایک حصہ اس کے قبضہ میں تھا، عراق شام اور فلسطین اس کے قبضہ میں تھا۔ اناطولیہ اور آرمینیا اس کے قبضہ میں تھا بلکہ روس کے کچھ حصے بھی اس کے قبضہ میں تھے مگر اب ایران کی اس حکومت کا نام و نشان تک مٹ چکا ہے۔ بلکہ اب تو ایرانیوں کو دیکھ کر حیرت آتی ہے کہ کُجا تو وہ حالت تھی کہ دنیا کے ایک بہت بڑے حصہ کے وہ فاتح تھے اور کُجا یہ حالت ہے کہ ایرانیوں کے اندر ایسی ہی نزاکت نظر آتی ہے جیسے دِلّی اورلکھنوٴ والوں کے اندر ہے۔ چلیں گے تو کمر لچکے گی اور بات کریں گے تو اس طرح مٹک مٹک کر کہ یوں معلوم ہو گا تمام زنانہ صفات ان میں جمع ہو گئی ہیں۔ کوئی شخص ان کو دیکھ کر یہ خیال بھی نہیں کر سکتا کہ کسی زمانہ میں یہ ساری دنیا کے فاتح تھے اور سینکڑوں سال تک حکومت کرتے رہے تھے۔ یہی لکھنوٴ والے جن کا مَیں نے ابھی نام لیا ہے ایک زمانہ میں دِلّی تک ان کا رعب تھا اورگو انہیں بیس تیس سال ہی حکومت ملی مگر ان کا چاروں طرف رعب تھا۔ ایک طرف بنگال تک ان کی حکومت کی سرحد جاتی تھی اور دوسری طرف دہلی کا بادشاہ بھی ان سے مرعوب تھا مگر بیس تیس سال کے بعد ہی ان کی حکومت ایسی غائب ہوئی کہ اب لکھنوٴ کے معنی محض نزاکت کے سمجھے جاتے ہیں۔ بے شک ادب میں لکھنوٴ والوں نے کمال حاصل کیا ہے۔ بے شک زبان کو انہوں نے خوب مانجھا ہے۔ بیشک انہوں نے علم میں اچھی ترقی کی ہے اور ان میں بڑے بڑے عالم گزرے ہیں جیسے لکھنوٴ میں فرنگی محل کا مدرسہ مشہور ہے۔ مگر وہ فوجی اور سپاہیانہ ہنر جن کے ماتحت کسی زمانہ میں ہندوستان میں ان کا رعب تھا وہ اب ان میں نہیں رہے۔ فوجی بھرتی کو دیکھا جائے تو غالباً سارے ہندوستان کی فوج میں پانچ چھ لکھنوی بھی نہیں ملیں گے۔ اس کے مقابلہ میں قادیان ایک قصبہ ہے مگر فوج میں قادیان کے ہی ڈیڑھ سو کے قریب نوجوان مل جائیں گے۔ تو لکھنوٴ والوں میں سے فوجی کام کی قابلیت بالکل مٹ گئی ہے حالانکہ کسی زمانہ میں ان کا بڑا رعب تھا۔ اسی طرح ہندوستانیوں کو عام طور پر دیکھ لو اب ان میں فوجی کام کی پہلے کی سی روح نظر نہیں آتی۔ حالانکہ کہا یہ جاتا ہے کہ ہندوستان کی کسی زمانہ میں اپنی حکومت تھی۔ گو واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان انگریزوں کے ہاتھ پر ہی جمع ہوٴا ہے کسی اَور حکومت کے ماتحت تمام ہندوستان کبھی نہیں آیا۔ اگرچہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انگریزوں کے ماتحت بھی سارا ہندوستان نہیں۔ شاید اللہ تعالیٰ ہندوستان کو ایک چھوٹا عالم بنانے کا ارادہ رکھتا ہے یا شاید خدا نے اس کے لئے یہ مقدر رکھا ہوٴا ہے کہ وہ روحانی طور پر احمدیت کے ذریعہ اکٹھا ہو۔ بہرحال انگریزوں کے قبضہ میں بھی تمام ہندوستان نہیں۔ کچھ پُرتگیزی علاقہ ہے اور کچھ فرانسیسی حصہ ہے۔ عام لوگ سمجھتے ہیں کہ سارے ہندوستان پر انگریزوں کا ہی قبضہ ہے مگر حقیقتاً یہ درست نہیں۔ گووا کا علاقہ کہاں انگریزوں کے قبضہ میں ہے پانڈی چری کا علاقہ کہاں انگریزوں کے قبضہ میں ہے۔ چندرنگر کا علاقہ کہاں انگریزوں کے قبضہ میں ہے۔ غرض سارا ہندوستان انگریزوں کے ماتحت بھی نہیں۔
اسی طرح پہلی حکومتوں میں سے مغلوں کی حکومت بہت بڑی تھی مگر مغلوں کے قبضہ میں بھی ہندوستان پورے طور پر نہیں آیا اور برابر اُن کے زمانہ میں بغاوتیں ہوتی رہتی تھیں ۔ اِدھر مسلمان بادشاہوں نے دکن فتح کیا تو اُدھر بنگال باغی ہو گیا۔ اس طرح پھر ایک حصہ ان کے قبضہ سے نکل گیا۔ شاید دو تین سال تک ایسا ہوٴا ہے کہ ظاہر میں یہ دکھائی دیتا تھا کہ سارا ہندوستان مغلوں کے ماتحت ہے اور وہ بھی اورنگ زیب کی آخری عمر میں لیکن اس تھوڑے سے عرصہ کے سوا کبھی بھی تمام ہندوستان ایک حکومت کے ماتحت نہیں آیا۔ حالانکہ بڑی بڑی حکومتیں گزری ہیں۔ مغلوں کی حکومت بہت بڑی تھی۔ ان سے پہلے پٹھانوں کی حکومت بہت بڑی تھی۔ پھر ان سے پہلے ہندووٴں میں سے اشوکا خاندان کی حکومت بہت بڑی تھی اور اس کے ماتحت اتنا بڑا علاقہ تھا کہ اگر ایسی حکومت ہندوستان سے باہر ہوتی تو اس کی بہت بڑی عظمت ہوتی۔
اشوکا کی حکومت اتنی بڑی تھی کہ اگر جرمنی، فرانس اور اٹلی کو اکٹھا کر دیا جائے تو اس سے بھی اس کی حکومت زیادہ وسیع تھی مگر اب اس حکومت کا نشان تک موجود نہیں۔ اسی طرح ہندوستان سے باہر جو حکومتیں ہیں۔ ان میں سے مصر کی حکومت کسی زمانہ میں بہت بڑی تھی۔ لوبیا کی حکومت کسی زمانہ میں بہت بڑی تھی۔ روما نے بھی ایک وقت بڑی بھاری حکومت کی ہے۔ سپین کی حکومت بھی بہت بڑی حکومت تھی۔ آسٹریا کو بھی ایک زمانہ میں بڑی بھاری طاقت حاصل تھی۔ مگر اب ان حکومتوں کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔ آخر یہ کیوں ہوٴا اورکیوں اتنی بڑی حکومتیں بے نام و نشان ہو گئیں۔ محض اس لئے کہ انہوں نے مرابطہ نہیں کیا۔ جب انہیں حکومت ملی تو انہوں نے یہ خیال کر لیا کہ اب ہم بالکل محفوظ ہو گئے ہیں۔ حالانکہ یہی وقت قوموں کی زندگی میں خطرناک ہوتا ہے۔ اور ان کا فرض ہوتا ہے کہ جب انہیں غلبہ میسر آ جائے تو وہ اس کی حفاظت میں لگی رہیں۔ انگریزوں کو دیکھ لو ان کو خدا نے ایک لمبے عرصہ تک حکومت بخشی ہے مگر اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ ہمیشہ اپنی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں اس جنگ میں ہی وہ ہندوستان کی سرحدیں پکڑ کر بیٹھے ہیں اورلاکھوں فوجیں انہوں نے وہاں جمع کر رکھی ہیں۔ یہی مرابطہ ہےجس سے قوموں کے غلبہ کو پائداری حاصل ہوتی ہے۔ خواہ یہ غلبہ جسمانی ہو یا روحانی۔ روحانی دنیا میں بھی کئی لوگ جب انہیں فتح ہوتی ہے۔ یہ خیال کر لیتے ہیں کہ اب شیطان بالکل مر گیا ہے۔ حالانکہ وہ مرا نہیں ہوتا بلکہ قریب ہی چھپا بیٹھا ہوتا ہے تاکہ جب بھی مومن غافل ہوں وہ ان پر حملہ کر دے۔
پس مومنوں کو چاہئے کہ وہ ہمیشہ مرابطہ سے کام لیں اور ہر وقت چوکس اور ہوشیار رہیں۔ ایسے ہی علاقوں میں سے جن پر روحانی طور پر ہمیں غلبہ حاصل ہے ایک قادیان بھی ہے۔ اور ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ اس جگہ خصوصیت سے ہوشیار رہے کیونکہ جن علاقوں میں کوئی قوم غالب آ جائے ان میں وہ سست ہو جاتی ہے اور سُستی اور غفلت ہی ایسی چیز ہے جو شیطان کے لئے حملہ کا موقع پیدا کر دیتی ہے۔ قادیان میں ہی لوگوں کی سرکشی نئے سے نئے رنگ میں ظاہر ہوتی رہتی ہے۔ پہلے حملے تو دشمن کی طرف سے ہوٴا کرتے تھے مگر اب شیطان اس رنگ میں حملہ کرتا ہے کہ لوگوں کی اولاد کو خراب کرتا ہے اور ہمیں یہ شکائتیں پہنچتی رہتی ہیں کہ فلاں کے بیٹے کو نشہ کی عادت ہو گئی ہے، فلاں کے بیٹے کو جھوٹ کی عادت ہوگئی ہے فلاں میں یہ خرابی ہے اور فلاں میں وہ دھوکا بازی ہے اور بعض احمدی جو دوسروں کے چھوٹے چھوٹے نقائص پر ان سے لڑا کرتے تھے اب اپنے رشتہ داروں کی تائید کرنے لگ جاتے ہیں۔ یہ وہی جنگ ہے جس کا خدا تعالیٰ نے اس آیت میں ذکر فرمایا ہے کہ جب کسی قوم کو فتح حاصل ہوتی ہے تو شیطان ایک نئے رنگ میں حملہ کر دیتا ہے۔ ایسی حالت میں اگر مومن مرابطہ نہ کریں اور اپنی سرحدوں کو محفوظ نہ کریں تو جو فتح نظر آ رہی ہوتی ہے وہی شکست میں تبدیل ہو جاتی ہے اور ان کی کامیابی تباہی کاپیش خیمہ بن جاتی ہے کیونکہ غلبہ کے نتیجہ میں قوموں میں غفلت اورسستی پیدا ہو جاتی ہے اور غفلت اور سُستی تباہ کر دیتی ہے۔ وہی قومیں کامیاب ہوتی ہیں جو ہر وقت ہوشیار رہیں اور ایک لمحہ کے لئے بھی دشمن سے غافل نہ ہوں۔ وہ غلبہ کے وقت یہ سمجھ لیتی ہیں کہ گو اب اصْبِرُوْا کا وقت نہیں گو اب صَابِرُوْا کا وقت نہیں مگر رَابِطُوْا کا وقت ہے اور جب وہ اس طرح چوکس اور ہوشیار رہتی ہیں تو شیطان جس راہ سے بھی ان پر حملہ کرتا ہے اس راہ سے وہ ناکام و نامراد واپس لوٹتا ہے۔ اس پر شیطان مایوس ہو کر ایک لمبے عرصہ کے لئے خاموش ہو جاتا ہے اور اس قوم پر کوئی حملہ نہیں کرتا مگر اس عرصہ میں وہ اپنے کام کو بھولا نہیں ہوتا بلکہ اس بات کا منتظر ہوتا ہے کہ کب قوم غافل ہو اور میں اس پر حملہ کروں۔ چنانچہ پندرہ بیس سال انتظار کرنے کے بعد جب وہ خیال کرتا ہے کہ اب یہ قوم غافل ہو گئی ہو گی تو پھر اس پر حملہ کر دیتا ہے۔ اس وقت بھی اگرقوم ہوشیار ہو اور وہ رَابِطُوْا پر عمل کر رہی ہو تو پھر وہ شیطان کو ایسی ضرب لگائے گی کہ وہ خاموش ہو کر بیٹھ جائے گا مگر چالیس پچاس سال کے بعد وہ پھر سر اٹھائے گا اور اگر اب کی دفعہ بھی قوم ہوشیار ہو گی تو پھر وہ ساٹھ ستر سال کے لئے خاموش ہو جائے گا اور ہر وقفہ اس کا پہلے وقفہ سے زیادہ لمبا ہو گا۔ جیسے تم دیکھتے ہو کہ چور جب چوری کے لئے آئے اور وہ مالک مکان کو ہوشیار پائے تو پھر دوسرے ہی دن وہ چوری کرنے کے لئے نہیں آ جاتا بلکہ دو چار راتیں چھوڑ کر آتا ہے اور اگر اس دن بھی مالک مکان ہوشیار ہو تو وہ دو چار دن کا وقفہ نہیں ڈالتا بلکہ دو چار ہفتوں کا وقفہ ڈال دیتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ شاید اس وقفہ میں یہ غافل ہو جائے۔ اس وقفہ کے بعد وہ پھر آتا ہے اور اگر اب بھی مالک مکان ہوشیار ہو تو وہ چار مہینے تک نہیں آتا لیکن دو چار ماہ گزرنے کے بعد وہ پھر آ جائے گا اور اگر پھر بھی وہ اسے ہوشیار پائے گا تو کئی سال کا وقفہ ڈال دے گا اور سمجھے گا کہ اب مجھے زیادہ عرصہ انتظار کرنا چاہئے تاکہ لمبے عرصہ کی وجہ سے یہ غافل ہو جائے اور مجھے اپنا کام کرنے کا موقع مل جائے۔
یہی حال شیطان کا ہے۔ وہ ہمیشہ وقفہ ڈال ڈال کر حملہ کرتا ہے اور ہر وقفہ اس کا پہلے وقفہ سے زیادہ لمبا ہوتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ قوم ہوشیار ہے مجھے لمبا وقفہ دینا چاہئے تاکہ یہ سو جائے اور میرے حملہ سے غافل ہو جائے۔
پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اے مومنو! ہماری تیسری نصیحت یہ ہے کہ غلبہ کے بعد تم مرابطہ کیا کرو۔ اگر تم مرابطہ کرو تو پھر حد بندی کوئی نہیں۔ قیامت تک مرابطہ کر سکو تو قیامت تک تمہارا غلبہ رہے گا اور اگر دنیا کے پردہ پر کوئی ایسی قوم مل سکے جو غلبہ کے بعد ہمیشہ مرابطہ کرے تو اسے کبھی شکست نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ ہر وقت مرابطہ کر رہی ہو گی۔ اگر شیطان نظام کی بغاوت کی صورت میں اپنا سر نکالے گا تو اسے کچل دے گی، اگر سُستی اور غفلت کی صورت میں اپنا سر نکالے گا تو اسے کچل دے گی، اگر نشوں کی عادت کی صورت میں اپنا سر نکالے گا تو اسے کچل دے گی، اگر لہو و لعب کی صورت میں اپنا سر نکالے گا تو اسے کچل دے گی۔ ایسی قوم کو شیطان بھلا برباد کس طرح کر سکتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر تم اصْبِرُوْا پر بھی عمل کر لو۔ اگر تم صَابِرُوْا پر بھی عمل کر لو۔تو پھر تمہارے سامنے تیسرا مقام رَابِطُوْا کا آئے گا۔ اس وقت تمہارا فرض ہو گا کہ تم چوکس اور ہوشیار رہو کیونکہ شیطان تمہیں غافل پا کر کناروں سے آنا چاہے گا اور تمہارا فرض ہو گا کہ اس کی مدافعت کرو۔ نادان اس آیت کو پڑھتے اور یہ خیال کرتے ہیں کہ اس میں جسمانی مُلکوں کا ذکر ہے حالانکہ جسمانی ملکوں کی حفاظت کی اتنی ضرورت نہیں ہوتی جتنی روحانی ملکوں کی حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیا دنیا میں کوئی بھی عقلمند ایسا ہے جو روح کو تو تباہ ہونے دے مگر جسم کو بچا لے۔ ہر عقلمند یہ چاہے گا کہ اس کی روح بچ جائے جسم اگر ہلاک ہوتا ہے تو ہلاک ہو جائے۔ اسی طرح ہر عقلمند اس بات پر بھی متفق ہو گا کہ جسمانی ملک اگر ہاتھ سے جاتا ہو تو بےشک چلا جائے مگر روحانی ملک ہاتھ سے نہیں جانا چاہئے۔ پس اس آیت میں قرآن کریم نے دائمی ترقی حاصل کرنے کا ایک بے نظیر گُر بتایا ہے۔ فرمایا ہے جو شخص اصْبِرُوْا پر عمل کرے گا۔ شیطان اس کے نفس کے لئے مر جائے گا مگر اس کے ہمسایہ کے لئے رہ جائے گا۔ پھر جو شخص صَابِرُوْا پر عمل کرے گا وہ اپنے ہمسایہ کو بھی شیطان کے حملہ سے بچا لے گا۔ اس کے بعد دشمن نکل تو جائے گا مگر وہ کہیں دور نہیں جائے گا بلکہ باہر چھپ کر بیٹھ رہے گا اور اس کی اولاد پر حملہ کرنے کی تاک میں رہے گا اور اس بات کا انتظار کرتا رہے گا کہ کب یہ قوم غافل ہو اور میں اس پر حملہ کروں۔ اس لئے فرمایااس کے بعد تمہارے لئے ضروری ہے کہ رَابِطُوْا کے حکم کو مدنظر رکھو۔ اگر تم ہمیشہ مرابطہ کرتے رہو اور ہمیشہ اپنی سرحدات کی حفاظت کرتے رہو تو دشمن کبھی تم پر حملہ آور نہیں ہو سکتا اور تم ہمیشہ کے لئے اس کے فتنہ سے محفوظ ہو جاوٴ گے۔ پس اس آیت میں خدا تعالیٰ نے مستقل اور دائمی ترقی کا راز بتایا ہے۔ مگر افسوس کہ قومیں اور حکومتیں اصْبِرُوْا پر عمل کر لیتی ہیں ۔ وہ صَابِرُوْا پر عمل کر لیتی ہیں مگر رَابِطُوْا پر عمل نہیں کرتیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پھر روحانیت دنیا سے مٹ جاتی ہے پھر کفر کا غلبہ ہو جاتا ہے۔ پھر گناہ دنیا میں پھیل جاتا ہے۔ پھر صداقت ناپید ہو جاتی ہے اور پھر خدا دنیا کی اصلاح کے لئے ایک نیا نبی مبعوث کرتا ہے۔ اس پر پھر اصْبِرُوْا کی جنگ لڑی جاتی ہے پھر صَابِرُوْا کی جنگ لڑی جاتی ہے پھررَابِطُوْا کی جنگ لڑی جاتی ہے۔ مگر پھر کچھ عرصہ کے بعد لوگ یہ خیال کرنے لگ جاتے ہیں کہ اب تو دشمن مر گیا۔ آوٴ ہم اپنی سرحد کے سپاہیوں کو واپس بُلا لیں۔ وہ ان سپاہیوں کو واپس بلاتے ہیں اور ان کے ساتھ ہی چوروں کی طرح دشمن فاتح قوم کے اندر داخل ہو جاتا ہے۔ جس کے نتیجہ میں پھر اس قوم کا تختہ الٹ جاتا ہے پھر اس کی ترقی مٹ جاتی ہے پھر اس کی عزت ذلت سے اور اس کی نیک شہرت بدنامی سے بدل جاتی ہے ۔ پس رَابِطُوْا کا معاملہ سخت نازک ہوتا ہے اور قومیں اس حکم پر عمل کرنے میں سب سے زیادہ کمزوری دکھایا کرتی ہیں۔ بیسیوں احمدی اس وقت قادیان میں ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ نظام کی طرف سے فلاں سختی کی جاتی ہے۔ نظام کی طرف سے فلاں سختی کی جاتی ہے جس سے ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ ہم رَابِطُوْا پر عمل کرنا چھوڑ دیں اور ہمیں قادیان میں اور بعض دوسرے گاوٴں میں جو روحانی غلبہ حاصل ہے وہ بھی جاتا رہے۔ پس شیطان ہمیشہ ایسی آوازیں نکالتا رہتا ہے اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ رَابِطُوْا پر عمل کرنا چھوڑ دیا جائے مگر جب تک ہماری جماعت کے لوگ مرابطہ کو قائم رکھیں گے، جب تک وہ یہ سمجھتے رہیں گے کہ اگر مرابطہ کے خلاف کوئی آواز اٹھتی ہے تو یا تو وہ شیطان کی آواز ہے یا ہمارے کسی ایسے بھائی کی ہے جس پر شیطان نے قبضہ کیا ہوٴا ہے۔ یعنی یا تو ایسی شکایت کرنے والا منافق ہے اور جھوٹے طور پر احمدی بنا ہوٴا ہے یا ہے تو سچا احمدی مگر بے وقوف ہے اور جب تک ہماری جماعت اس قسم کے اعتراضات کے باوجود دلیر اور نڈر ہو کر مرابطہ کا کام جاری رکھے گی اس وقت تک ہماری جماعت کو برابر فتوحات حاصل ہوتی رہیں گی۔ مگر جس دن ہماری جماعت کے دوستوں میں یہ کمزوری پیدا ہو گئی کہ لوگوں کے اعتراضات سے ڈر کر انہوں نے مرابطہ کا کام کرنا ترک کر دیا تو یہ ان کے اس بات پر دستخط ہوں گے کہ ہم اب دنیا میں غلبہ حاصل کرنے کے قابل نہیں رہے۔ ہمارا تختہ الٹ دیا جائے اور کسی اور قوم کو ہماری جگہ لایا جائے لیکن اگر تم رَابِطُوْا پر عمل کرتے رہو گے تو یقینا تم ہمیشہ کامیاب رہو گے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ تم اس پر عمل کر سکو گے یا نہیں کیونکہ آج تک دنیا کی کسی قوم نے اس پر ہمیشہ کے لئے عمل نہیں کیا۔ ایک لمبے عرصہ کے بعد تمام قومیں سست ہو جاتی رہی ہیں مگر ہم تو ابھی ابھر رہے ہیں ہمارے لئے سست ہونے کا ابھی کونسا وقت ہے اگر تمام دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کے سینکڑوں سال بعد ہم میں سُستی پیدا ہو تب بھی ہم صرف پہلی قوموں کے ساتھ مشابہہ ہوں گے۔ ہاں دنیا پر کامل غلبہ کے بعد، اگر ہزاروں ہزار سال تک ہم مرابطہ کی ذمہ داری کو ادا کرتے رہیں اور دشمن کے حملوں سے ہر وقت چوکس اور ہوشیار رہیں تو پھر ہم ایسی قوم بنیں گے جس کی مثال روئے زمین پر نہیں مل سکے گی۔ کوئی قوم تاریخ میں سے ایسی نظر نہیں آتی جس نے ہزاروں سال مرابطہ کیا ہو۔ بعض جماعتیں تو ابتدائی چند سالوں میں ہی مرابطہ کے فرض کو بھول کر تباہ ہو گئیں اور بعض نے تین چار سو سال تک اس فرض کو ادا کیا اور پھر بھول گئیں۔ مگر بہرحال پچھلوں کو پہلوں سے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے اور ان کے زمانہ سے زیادہ لمبے عرصہ تک اس فرض کو ادا کرتے رہنا چاہئے لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ابھی ہمارا مرابطہ کا اصل کام شروع نہیں ہوٴا۔ ہمارا مرابطہ کا اصل کام اس دن شروع ہو گا جس دن دنیا پر روحانی طور پر ہمیں کامل غلبہ حاصل ہو جائے گا۔ ہاں چھوٹے پیمانہ پر اب بھی بعض جگہ ہم نے یہ کام شروع کیا ہوٴا ہے۔ جیسے قادیان میں یہ کام جاری ہے۔ مگر اصل دن ہمارے کام کی ابتداء کا وہی ہو گا جب ساری دنیا پر ہمیں روحانی غلبہ حاصل ہو جائے گا۔ اس دن سے شروع کر کے اگر ہم مرابطہ کو صرف تین چار سو سال تک قائم رکھیں گے تو زیاہ سے زیادہ ہم عیسائیوں کے مشابہہ ہو سکیں گے کیونکہ انہوں نے بھی تین چار سو سال تک اپنے غلبہ کو قائم رکھا تھا۔ ہاں اگر ہم سات آٹھ سو یا ہزار سال تک اس عرصہ کو بڑھا دیں تب بے شک ہم ایک ایسی قوم ہوں گے جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملے گی۔ پس یہ ہماری موجودہ اور آئندہ نسلوں کا کام ہے کہ وہ اپنے عمل سے دنیا کو بتائیں کہ وہ کن لوگوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ ان لوگوں میں جو پھسڈی ثابت ہوئے یا ان لوگوں میں جو اچھے ثابت ہوئے یا ان لوگوں میں جو سب سے بڑھ جائیں اور جن کی نظیر تاریخ عالم میں ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے۔ ’’
(الفضل 28 نومبر 1941ء )
1: آل عمران: 201
2: مرقس باب 8 آیت 34

35
خدا تعالیٰ نے فیصلہ کیا ہے کہ احمدیت کے ذریعہ رسول کریم ﷺ کی حکومت دنیا میں پھر قائم کرے
( فرمودہ 28 نومبر 1941ء )

تشہد، تعوذ اور سورہٴ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘بنی نوع انسان نے اپنے تجربہ سے یہ بات معلوم کی ہے کہ دنیا کی ترقی کا راز یہ ہے کہ جو بہترین چیزیں ہیں انہیں قائم رکھا جائے اور ان کو پہلے سے زیادہ بڑھانے اور ترقی دینے کی جد و جہد کی جائے۔ دنیا کی ہر چیز کے متعلق انسان نے اس رنگ میں کوشش کی ہے اور اس کے نتیجہ میں دنیا کو پہلے سے زیادہ بہتر بنا دیا گیا ہے۔ غلہ انسان کے کھانے کی چیز ہے مگر غلہ کے بیجوں کو ہی ترقی دے کر انسان نے کہیں کا کہیں پہنچا دیا ہے۔ گندم کو ہی لے لو آج سے چالیس پچاس سال پہلے گندم کی جو پیداوار فی ایکڑ ہمارے ملک میں ہوتی تھی اب اس سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ کیونکہ فن زراعت کے ماہرین نے گندم کے بیجوں کو ترقی دے کر انہیں ایسا اعلیٰ بنا دیا ہے کہ اب دانہ پہلے سے زیادہ اچھا ہوتا ہے۔ دانوں سے آٹا زیادہ اچھا نکلتا ہے اور پیداوار فی ایکڑ پہلے سے بہت زیادہ ہوتی ہے حالانکہ ہمارے ملک بالخصوص پنجاب کے لوگ عام طور پر نئی ایجادوں سے بہت گھبراتے ہیں مگر آہستہ آہستہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس معاملہ میں زمیندار گورنمنٹ کی ہدایات اور اس کی راہ نمائی کو قبول کرنے پر تیار ہو گئے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے گاوٴں میں چلے جاوٴ۔ تمہیں زمیندار آپس میں یہ باتیں کرتے نظر آئیں گے کہ آٹھ الف گندم بونی ہے، 591 بونی ہے، 518 بونی ہے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر اچھا بیج زمین میں ڈالیں گے تو پیداوار زیادہ ہو گی، دانہ اچھا ہو گا اور آٹا زیادہ نکل سکے گا۔ اسی طرح گنّا ہے۔ ہمارا یہ ضلع گنّے کے لئے خاص طور پر مشہور ہے حالانکہ یہ میرے اپنے ہوش کی بات ہے کہ بِالعموم یہاں ایسا گنّا ہوتا تھا کہ اس میں اور سرکنڈے میں کوئی زیادہ فرق محسوس نہیں ہوتا تھا۔ نہایت باریک اور سخت گنّا ہوتا تھا اور جب بچپن میں ہم اسے چوستے تھے تو چوستے وقت ہمارے ہونٹوں اور زبان پر زخم ہو جاتے تھے مگر دیکھ لو اب اس گنّے میں ہی کتنی ترقی ہوئی ہے۔ جب گنّے کے بیج کی حفاظت کی گئی اور اسے بڑھایا گیا تو نہایت اعلیٰ قسم کے گنّے پیدا ہونے شروع ہو گئے اور پیداوار بھی آگے سے بہت بڑھ گئی۔ اسی طرح کپاس ہے۔ اس میں بھی زراعت والوں نے بہت ترقی کی ہے۔ پھلوں اورپھولوں کو دیکھا جائے تو انہیں بھی ترقی دے کر کہاں سے کہاں پہنچا دیا گیا ہے۔ یہی چھوٹے چھوٹے گُٹھلیوں والے آم جنہیں لوگ چوستے پھرتے ہیں اور جو پیسے پیسے دو دو پیسے سیر مل جاتے ہیں انہی کو ترقی دے کر کوئی لنگڑا نکل آیا ہے، کوئی فجری نکل آیا ہے کوئی دوسیری نکل آیا ہے، کوئی بمبئی نکل آیا ہے۔ غرض قسم قسم کے آم ایجاد کر لئے گئے ہیں اور ابھی ان کو اَور زیادہ بڑھایا جا رہا ہے اور ترقی یافتہ آموں میں سے اَور آم پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پھولوں کو ہی دیکھ لو۔ ہمارے ملک میں پہلے ایک ہی گلاب کا سرخ پھول ہوا کرتا تھا مگر اب بیسیوں قسم کے پھول نکل آئے ہیں۔ کوئی گلاب کا سیاہ رنگ کا پھول ہے، کوئی گلاب کا زرد رنگ کا پھول ہے۔ اسی طرح کوئی سفید رنگ کا گلاب ہے اور کوئی کاسنی رنگ کا گلاب ہے۔ پھر کوئی چھوٹے حجم کا ہے اور کوئی اتنے بڑے حجم کا ہے کہ پرانے زمانہ کے کئی کئی پھول اس میں آ جاتے ہیں۔ اسی طرح گائیوں، بیلوں، بکریوں اور مرغیوں کی نسلوں کودیکھ لو۔ وہ کیسی ترقی کر رہی ہیں اور کس طرح انسان نے کوشش کر کے ان کو پہلے سے زیادہ اعلیٰ بنا دیا ہے اور اس ساری ترقی کا گُر یہی ہے کہ پہلے ایک عمدہ نسل کو چُن لیا جاتا ہے پھر اس میں سے عمدہ حصہ کو چُن لیا جاتا ہے اورپھر اس میں سے اَور عمدہ حصہ کو چن لیا جاتا ہے اور اس طرح دنیا ترقی کرتی چلی جا رہی ہے۔
غرض دنیا کے ہر شعبہ میں انتخاب اور انتخاب کے بعد مزید تگ و دَو اور محنت کے ساتھ اسے بڑھانا ہمیں دکھائی دیتا ہے اور یہی وجہ اس کی ترقی کی ہے۔ اور جبکہ دنیا میں باقی تمام چیزوں کے متعلق ہمیں یہ نظارہ نظر آتا ہے تو کس طرح ممکن ہے کہ انسان جو اشرف المخلوقات بنایا گیا ہے اس کی ترقی کے راستے اللہ تعالیٰ نے نہ کھولے ہوں۔ اُس نے کھولے ہیں اور یقینا کھولے ہیں مگر انسان اپنے گرد و پیش کی اشیاء کی ترقی کی طرف تو توجہ کرتا ہے لیکن وہ اپنی نسل کی ترقی کی طرف کبھی توجہ نہیں کرتا۔ ہر زمیندار چاہتا ہے کہ وہ اچھا مرغا لا کر زیادہ انڈے دینے والی اور زیادہ خوبصورت اور کارآمد مرغیاں پیدا کرے۔ ہر زمیندار چاہتا ہے کہ وہ اچھا بیل لائے تاکہ اس سے بیلوں کی عمدہ نسل چلے۔ ہر زمیندار چاہتا ہے کہ وہ گورنمنٹ فارم سے اچھے سے اچھا بیج خرید کر لائے تاکہ اس کی پیداوار زیادہ ہو۔ہر زمیندار چاہتا ہے کہ وہ اچھی کپاس بوئے تاکہ اس سے اعلیٰ فصل پیدا ہو۔ ہر زمیندار چاہتا ہے کہ وہ باغ لگانے سے پہلے عمدہ سے عمدہ پودے لائے تاکہ اس کا باغ نہایت اعلیٰ ہو۔ لیکن اس تمام کوشش کے بعد جب وہ اپنی ذات کی طرف آتا ہے تو وہ اس امر کی کوئی کوشش نہیں کرتا کہ اچھی نسل تیار کرے۔ وہ اس امر کی کوئی پرواہ نہیں کرتا کہ ایسی نسل پیدا کرے جو خاندان کے لئے عزت کا موجب ہو۔ گویا اس کو اس بات کی تو ضرورت ہے کہ اس کی مرغیاں اچھی ہوں، اسے اس بات کی تو ضرورت ہے کہ اس کی بکریاں اچھی ہوں، اسے اس بات کی تو ضرورت ہے کہ اس کے بیل اچھے ہوں، اسے اس بات کی تو ضرورت ہے کہ اس کی گندم اچھی ہو لیکن اسے اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ دنیا میں جو انسان پیدا ہونے والے ہیں وہ بھی اچھے ہوں اور خاندان کی نیک نامی اور عزت کا موجب ہوں۔ حالانکہ جسمانی اور روحانی دونوں لحاظ سے انسان کے لئے ترقی کی بہت بڑی گنجائش ہے۔ مجھے ہمیشہ انگریزی قوم کی پرانی تصویریں اور آجکل کے انگریزوں کی شکلیں دیکھ کر حیرت آتی ہے کہ ان میں کس قدر فرق پیدا ہو گیا ہے۔ پرانی تصویروں سے معلوم ہوتا ہے کہ انگریز کسی زمانہ میں بالکل چھوٹے قد کے تھے مگر اب انگریزوں کو دیکھ لو ان کے اتنے لمبے قد ہوتے ہیں کہ ہمارے ملک کے اچھے قد آور لوگ بھی ان کی طرف نظریں اٹھا کر دیکھتے ہیں۔ ہمارے موجودہ وائسرائے اور ان کے بیوی بچے سارے اتنے لمبے قد کے ہیں کہ ہمارے ملک کے قد آور مرد بھی ان سے نیچے رہ جاتے ہیں۔ حالانکہ اسی قوم کی پرانی تصویریں دیکھی جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلے انگریز معمولی چھوٹے قد کے تھے لیکن اس قوم نے اپنی نسل کی ترقی کی طرف توجہ کی اور ایسے سامان پیدا کئے کہ جن سے آئندہ نسل زیادہ بہتر ہو سکتی تھی۔ چنانچہ اب انگریز پہلے سے بہت زیادہ قد آور اور مضبوط ہوتے ہیں۔ یہی حال اور متمدن ممالک کا ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں گورنمنٹ بھی گھوڑوں کی بہتری کے لئے تو کوشش کرتی ہے، گدھوں کی بہتری کے لئے تو کوشش کرتی ہے، مرغوں کی بہتری کے لئے تو کوشش کرتی ہے، بیلوں کی بہتری کے لئے تو کوشش کرتی ہے، بکریوں کی بہتری کے لئے تو کوشش کرتی ہے مگر انسانی نسل کی بہتری کے لئے کوئی کوشش نہیں کرتی اور ہمارے ملک کے لوگ تو بالکل آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں اور انہیں اپنی نسلوں کی ترقی کی طرف کوئی توجہ نہیں۔ انہیں صرف یہ خیال رہتا ہے کہ روٹی پیٹ بھر کر مل جائے۔ چاہے وہ روٹی کھانے والا کتنا ہی ذلیل وجود کیوں نہ ہو۔ حالانکہ اچھی روٹی کے لئے اچھے کھانے والوں کی بھی تو ضرورت ہوتی ہے۔ جس طرح اچھے گھوڑے کے لئے اچھے سوار کی ضرورت ہوتی ہے اگر ایک انسان کو ناگوری بیل کی خواہش ہے تو اس ناگوری بیل کے لئے ایک چوڑے چکلے سینہ والے مضبوط آدمی کی بھی تو ضرورت ہو گی۔ آخر خود ہی سوچو وہ آدمی کیسا بد نما معلوم ہو گا جو خود تو ٹِھنگنا سا اور دبلا پتلا ہو اور کھانستا چلا جا رہا ہو مگر اس کے آگے آگے ناگوری بیل جارہا ہو۔ اسی طرح روٹی پیٹ بھر کر مل جانا بے شک ایک اچھی بات ہے مگر اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ روٹی کھانے والا اچھا ہو۔ لیکن ہمارے ملک میں بیلوں کی طرف تو توجہ کی جاتی ہے، گھوڑوں کی طرف تو توجہ کی جاتی ہے، بکریوں کی طرف تو توجہ کی جاتی ہے، گندم کے بیج اور اس کے دانوں کی طرف تو توجہ کی جاتی ہے لیکن اگر نہیں توجہ کی جاتی تو انسان کی طرف، حالانکہ بیل اور انسان میں کوئی نسبت ہی نہیں ہوتی۔ ایک انسان کی صحت کی عمدگی اور گندم کے دانوں کی عمدگی میں کوئی نسبت ہی نہیں ہوتی۔ کپاس کے اچھا ہونے اور انسان کے اچھا ہونے میں کوئی نسبت ہی نہیں ہوتی مگر لوگ ان چیزوں کو تو اچھا بنانے کی کوشش کرتے ہیں مگر جس کی خاطر خدا تعالیٰ نے ان تمام چیزوں کو بنایا ہے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے۔ گھوڑے خدا نے کیوں بنائے ہیں اسی لئے کہ انسان کے کام آئیں۔بیل خدا نے کیوں بنائے ہیں اس لئے کہ انسان کے کام آئیں، گندم خدا نے کیوں بنائی ہے اسی لئے کہ انسان کے کام آئے، کپاس خدا نے کیوں بنائی ہے اسی لئے کہ انسان کے کام آئے۔ مگر جس کی خاطر خدا تعالیٰ نے ان تمام چیزوں کو بنایا ہے اس کی طرف تو کوئی توجہ نہیں کی جاتی اور جو چیزیں انسان کی خادم ہیں ان کی طرف توجہ کی جاتی ہے۔ حالانکہ جسمانی اور روحانی ترقی کے لئے خدا تعالیٰ نے غیر محدود راستے رکھے ہوئے ہیں۔ جس طرح ایک انسان یہ خواہش کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے ٹِھنگنے اور چھوٹے سے قد کے بیل کی بجائے ناگوری بیل دے جو میرے بیل سے کئی گنا زیادہ ہل چلا دے۔ جس طرح وہ چاہتا ہے کہ ایک ٹھنگنی اور چھوٹی سی گائے کی بجائے اللہ تعالیٰ مجھے ایسی گائے دے جو دس دس بیس بیس سیر دودھ دینے والی ہو۔ اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں۔ ہمارے ملک میں ہی ایسی گائیں ہیں جو مَن مَن دودھ دیتی ہیں۔ پھر جس طرح انسان یہ خواہش کرتا ہے کہ ایک چھوٹی سی بھینس کی بجائے جو نہایت ردّی اور دبلی پتلی ہو اور دودھ تو صرف دو تین سیر دیتی ہو مگر کھاتی بہت ہو۔ خد اتعالیٰ اسے ایسی بھینس دے جو دس پندرہ سیر دودھ دینے والی ہو اور جس سے دو سیر مکھن نکل آئے۔ اسی طرح ہر انسان کو یہ خواہش کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور میری آئندہ نسلوں کو بھی اعلیٰ درجہ کی روحانی ترقیات عطا کرے۔ اور ہمیشہ ہمارا قدم روحانی ترقیات کے میدان میں بڑھتا چلا جائے۔ چنانچہ دیکھ لو ہمارے دلوں میں خدا تعالیٰ نے کس طرح بار بار اس خواہش کو پیدا کرنے کی تدبیر کی ہے ۔ جب ہم سورہ فاتحہ پڑھتے ہیں اور اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ 1 کہتے ہیں تو اس کے کیا معنی ہوتے ہیں؟ یہی معنے ہوتے ہیں کہ جس طرح دنیا میں بعض جسمانی دیو ہیں۔ یعنی بڑے بڑے مضبوط ناگوری بیل ہیں، بڑے بڑے خوبصورت اور عمدہ گھوڑے ہیں، بڑے بڑے قد آور مرغے ہیں۔ بڑی بڑی اعلیٰ نسل کی بکریاں ہیں۔ اسی طرح انسانوں میں بعض بڑے بڑے روحانی وجود ہیں۔ جیسے نوحؑ ہوئے، ابراہیمؑ ہوئے، موسیٰؑ ہوئے، داوٴدؑ ہوئے، سلیمانؑ ہوئے ، عیسیٰؑ ہوئے، آنحضرت ﷺ ہوئے اور صرف انہی پر بس نہیں۔ اور ہزاروں انبیاء ہوئے۔ بلکہ بعض حدیثوں سے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک لاکھ بیس ہزار نبی ہوئے ہیں۔ 2 یہ انسانوں میں سے بڑے بڑے قد آور روحانی وجود تھے جن کے سامنے دوسرے لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے گِٹھ مٹھیے یا بالِشتیے ہوتے ہیں ۔ پس جب خدا تعالیٰ یہ کہتا ہے کہ تم یہ کہا کرو کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ تو دوسرے الفاظ میں وہ انسان سے یہ کہتا ہے کہ مجھ سے یہ دعا کرو کہ اے خدا! میری گِٹھ مٹھیا اور بالشتیا روح کو بڑھا کر تو نوحؑ جتنا لمبا قد دے دے، ابراہیمؑ جتنا لمبا قد دے دے، موسیٰؑ جتنا لمبا قد دے دے، داوٴدؑ جتنا لمبا قد دے دے، سلیمانؑ جتنا لمبا قد دے دے، عیسیٰؑ جتنا لمبا قد دے دے ۔ اب دیکھ لو کس طرح خدا تعالیٰ نے ہمارے دل میں بنی نوع انسان کی ترقی کے متعلق خواہش پیدا کر دی ہے اور کس طرح اس دعا میں یہ سبق سکھلایا گیا ہے کہ ہر انسان کو یہ جدو جہد کرنی چاہئے کہ اس کا روحانی قد اس کی روحانی عظمت اور اس کی روحانی بڑائی ویسی ہی ہو جائے جیسے نوحؑ کی تھی، جیسے ابراہیمؑ کی تھی، جیسے موسیٰؑ اورداوٴدؑ اور سلیمانؑ اور یعقوبؑ اور یوسفؑ اور عیسیٰؑ کی تھی۔ اور جیسے ان سب سے بڑھ کر ہمارے آنحضرت ﷺ کی تھی۔ لیکن باوجود اس کے کہ مسلمانوں کے سامنے یہ مقصدِ عالی رکھا گیا تھا اور انہیں مجبور کیا گیا تھا کہ وہ پانچ وقت یہ دعا کریں پھر بھی ان کے دلوں میں اپنی اور بنی نوع انسان کی روحانی ترقی کے لئے کوئی تڑپ نہیں پائی جاتی۔ اور یہی وجہ ان کے روحانی تنزّل کی ہے۔ بھلا سوچو اگر تم کوئی ردّی قسم کا نہایت پرانا اور گلا سڑا گندم کا بیج زمین میں بو دو اور دعا یہ کرنے لگ جاوٴ کہ یا اللہ! آٹھ الف گندم پیدا ہو جائے ۔ یا اللہ! 591 پیدا ہو جائے۔ یا اللہ 518 پیدا ہو جائے تو کیا اس دعا کے نتیجہ میں تمہیں اعلیٰ قسم کی گندم مل سکے گی یا تمہارے پاس تو پرانی قسم کے ٹینی مرغے ہوں اور تم دعا یہ کرو کہ یا اللہ! ان سے لیگ ہارن (Leg horn) پیدا ہو جائیں۔ یااللہ! ان سے وائیٹ سسّیکس (White Sussex) پیدا ہو جائیں۔ یا اللہ! ان سے منارک (Monarch) پیدا ہو جائیں۔ یا اللہ ان سے (Rhodes Island) رھوڈز آئی لینڈ پیدا ہو جائیں۔ تو کیا تمہاری یہ دعا قبول ہو جائے گی؟
اسی طرح اگر تم دیسی کپاس بو کر بیٹھ جاوٴ اور دعا کرنے لگ جاوٴ کہ یا اللہ اس سے امریکن کپاس نکل آئے تو کبھی امریکن کپاس پیدا نہیں ہو گی۔ یا اگر تم چھوٹے چھوٹے تخمی آموں کو بو کر یہ دعا کرنے لگ جاوٴ کہ یا اللہ لنگڑے نکل آئیں۔ یا اللہ فجری اور دوسیری نکل آئیں۔ تو کیا تم سمجھتے ہو کہ اس دعا کے نتیجہ میں تخمی آموں سے لنگڑے اور فجری اور دوسیری نکل آئیں گے؟ یہ دعا تو اسی وقت کام آئے گی جب تم لنگڑے کا پیوند لگاوٴ گے یا امریکن کپاس بووٴ گے یا اعلیٰ قسم کے مرغے رکھو گے یا عمدہ قسم کی گندم کا بیج بووٴ گے۔ کیونکہ دعا عمل کے ساتھ شروع ہوتی ہے۔ عمل کے بغیر دعا قبول نہیں ہوتی۔
پس جب خدا تعالیٰ نے تمہیں یہ دعا سکھا کر کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ یہ کہا تھا کہ تم نوحؑ بننے کی کوشش کرو، تم ابراہیمؑ بننے کی کوشش کرو، تم موسیٰؑ اور عیسیٰ ؑبننے کی کوشش کرو۔تو اس کے صاف معنے یہ تھے کہ تم اپنے دل میں وہ بیج لگاوٴ جس کے نتیجہ میں نوحؑ کے ثمر پیدا ہوں، تم اپنے دل میں وہ بیج لگاوٴ جس کے نتیجہ میں ابراہیمؑ کے ثمر پیدا ہوں، تم اپنے دل میں وہ بیج لگاوٴ جس کے نتیجہ میں موسیٰؑ کے ثمر پیدا ہوں، تم اپنے دل میں وہ بیج لگاوٴ جس کے نتیجہ میں عیسٰیؑ کے ثمر پیدا ہوں پھر تمہاری دعا کامیاب ہو گی، اور تب تم ان انعامات کو حاصل کر سکو گے جو پہلے لوگوں نے حاصل کئے۔ مگر باقی جگہوں پر تو تم ہمیشہ عقل اور ہوش سے کام لیتے ہو اور اچھا بیج بونے کی کوشش کرتے ہو مگر یہاں یہ کرتے ہو کہ بد دِلی کے ساتھ مُنہ سے صرف یہ الفاظ نکال دیتے ہو کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ اور اس انعام یافتہ گروہ کے نقش قدم پر چلنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ گویا بیج تو تم وہ بوتے ہو جو نہایت ردّی قسم کا ہے اور امید یہ کرتے ہو کہ اس سے اچھا پھل پیدا ہو۔ حالانکہ اچھے پھل کے حصول کے لئے یہ نہایت ضروری ہوتا ہے کہ عمدہ بیج ہو اور پھر اس بیج کے نشو و نما کے لئے جو سامان اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے ہوں ان سے کام لے کر اس بیج کو بڑھایا جائے کیونکہ خدا نے ایک ہی قانون بنایا ہے کہ جو حسین چیز پیدا ہو اسے اگر ترقی دی جائے تو وہ بڑھتی چلی جاتی ہے اور اگر اس کی ترقی کے لئے کوئی کوشش نہ کی جائے تو وہ چیز اپنے معیار پر قائم نہیں رہتی بلکہ گر جاتی ہے۔ مثلاً مَیں یہ نہیں سمجھتا کہ اس زمانہ میں جو اچھی گندم یا اچھی کپاس ہے وہ گزشتہ ترقی یافتہ گندم اور کپاس سے ضرور بہتر ہے بلکہ میرا یہ عقیدہ ہے کہ جس طرح کسی زمانہ میں انسان اچھے ہوتے ہیں مگر پھر بُرے ہو جاتے ہیں اسی طرح جانوروں اور کھیتوں وغیرہ کا حال ہے۔ کسی وقت قوم میں بیداری ہوتی ہے تو وہ مثلاً گھوڑے کی نسل کو ترقی دینے کی طرف متوجہ ہو جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ گھوڑے کی نسل بہت اعلیٰ ہو جاتی ہے مگر پھر جب اس قوم پر جمود طاری ہو جاتا ہے اور وہ اپنی بیداری کو ترک کر دیتی ہے تو ترقی یافتہ نسل تنزّل کی طرف پھر جاتی ہے۔ ہندوستان کے ہی کئی علاقے ایسے ہیں جہاں کے گھوڑے بہت مشہور تھے۔ مگر اب اِن علاقوں کو یہ شہرت حاصل نہیں۔ اسی طرح اور کئی چیزیں ہیں جو پہلے بہت اعلیٰ تھیں۔ پس میرا یہ مطلب نہیں کہ جو کچھ ترقی کی ہے انگریزوں نے ہی کی ہے بلکہ مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہر ملک نے جب بھی ترقی کی ہے۔ اس نے اچھے بیج بھی پیدا کئے ہیں، اچھے گھوڑے بھی پیدا کئے ہیں، اچھے بیل اور اچھے مرغے بھی پیدا کئے ہیں مگر جب ملک کی توجہ ان چیزوں کو ترقی دینے کی طرف نہ رہی تو ان کی عمدگی کا معیار قائم نہ رہا اورپھر پہلی سی خرابیاں پیدا ہو گئیں۔ بہرحال ترقی پذیر زمانہ کی علامت یہ ہے کہ وہ اپنے سے سابق معیار کو بڑھا دیتا ہے اور بڑھاتا چلا جاتا ہے اور جب وہ اس کام سے غافل ہو جاتا ہے تو پھر تنزّل شروع ہو جاتا ہے اور تاریکی کا دَور دنیا پر غالب آ جاتاہے۔
یہی حال انسانوں کا ہے انسان ایک زمانہ میں ترقی کرتے اور ترقی کرتے کرتے بڑے بلند مقام پر پہنچ جاتے ہیں مگر جب آئندہ نسل کی حفاظت نہیں کی جاتی تو وہ بھی گر جاتے ہیں اور وہ اپنے ساتھ اپنی نسل اور اپنے زمانہ کو بھی لے گرتے ہیں۔ وہ انسان جو ایسی ترقی سے گرنے والے ہوتے ہیں وہ بڑے ہی بدبخت ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ وہ اپنے آپ کو بھی تباہ کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی تباہ کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جو ترقی کرنے والے وجود ہوتے ہیں وہ دنیا کے لئے عمود اور ستون کے طور پر ہوتے ہیں اور یہ صاف بات ہے کہ جب ستون گرے گا تو چھت بھی گر پڑے گی پس ایسے لوگوں کا گرنا صرف انہی کی ذات سے تعلق رکھنے والا ایک فعل نہیں ہوتا بلکہ دوسروں پر اثر انداز ہونے والا فعل ہوتا ہے اس لئے وہ خدا کے حضور جواب دہ ہوتے ہیں کیونکہ خدا ان سے کہے گا کہ تم ایسی حالت میں تھے کہ تم پر اور لوگوں کا بھی انحصار تھا۔ پس تم نے اپنے آپ کو گر اکر باقی دنیا کو بھی تباہ کر دیا۔ جیسے عربی میں ضرب المثل مشہور ہے کہ مَوْتُ الْعَالِمِ مَوْتُ الْعَالَمِ یعنی جب کوئی عالِم مر جاتا ہے تو سار اجہان ہی مر جاتا ہے۔ اس لئے کہ اس کے مرنے سے علم مٹ جاتا ہے، روحانیت مٹ جاتی ہے اور ان فوائد کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے جو لوگوں کوپہنچ رہے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے یہودیوں کے ان مظالم کو بیان کرتے ہوئے جو وہ رسول کریم ﷺ پر کیا کرتے تھے فرمایا ہے کہ دیکھو! ہم نے پہلے سے تمہیں خبر دے دی تھی کہ ایک ایسا انسان دنیا میں پیدا ہونے والا ہے کہ اگر تم اسے مارو گے تو تم سارے جہان کو مارنے والے قرار پاوٴ گے۔ کیونکہ تمام دنیا کی نجات اور بھلائی اس سے وابستہ ہو گی۔ پس فرماتا ہے محمد ﷺ کے خلاف جو تمہاری کوششیں ہیں وہ ایسی نہیں کہ صرف ایک فرد کے خلاف ہوں بلکہ تم ان کوششوں کے ذریعہ سارے عرب کو مار رہے ہو، سارے ایران کو مار رہے ہو، سارے عراق کو مار رہے ہو، سارے ایشیا کو مار رہے ہو، سارے افریقہ کو مار رہے ہو، سارے یورپ کو مار رہے ہو کیونکہ دنیا کی روحانی زندگی محمد ﷺ سے وابستہ ہے۔ پس تمہاری دشمنی اس سے نہیں بلکہ سارے جہان سے ہے۔
غرض ہر ایک جو ترقی کرتا ہے اس کے ظرف اور اس کی کوشش کے مطابق اس کے متعلقین بھی ترقی کرتے ہیں اور ہر ایک جو گرتا ہے اور اس کے گرنے سے اس کے متعلقین بھی گرتے ہیں مگر یہ صرف جسمانی طور پر ہے۔ اُخروی زندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس طرح نہیں ہوتا کہ ایک شخص کے گرنے سے اس کے آباء اور رشتہ داروں کو بھی نقصان پہنچ جائے۔ مثلاً یہ نہیں ہو گا کہ کوئی شخص بڑا کافر ہو تو اس کی اولاد بھی اگر وہ کافر ہو اسی کے برابر عذاب پائے لیکن ایک کی ترقی سے دوسروں کو فائدہ ضرور پہنچے گا اور یہ قرآن کریم سے ثابت ہے کہ اگر ایک انسان خود اچھا ہو تو اس کے ماں باپ اور دوسرے رشتہ داروں کو بھی اس کا فائدہ ہوتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ جو لوگ اعلیٰ درجہ کے روحانی مقامات رکھنے والے ہوں گے۔ خدا تعالیٰ ان کے ماں باپ اور بیوی بچوں کو بھی اگر وہ مومن ہوں ان کے پاس ہی رکھے گا۔ 3 حالانکہ ان کے عمل تھوڑے ہوں گے۔
اب دیکھو جو شخص اپنی زندگی میں اچھے اعمال بجا لاتا ہے وہ ان اعمال سے صرف اپنے آپ کو ہی روحانی لحاظ سے بلند نہیں کرتا بلکہ اپنے ماں باپ کو بھی بلند کرتا ہے۔ دنیا میں لوگ کتنی خواہش کرتے ہیں کہ کاش کوئی ایسا ذریعہ ہوتا جس سے ہم اپنے ماں باپ کی روحانی ترقی میں حصہ لے سکتے۔ اور کئی ہیں جو پوچھتے رہتے ہیں کہ ہمارے ماں باپ فوت ہو گئے ہیں یا بیوی فوت ہو گئی ہے یا بچے فوت ہو گئے ہیں ان کو ثواب پہنچانے کے لئے ہم کیا طریق اختیار کریں۔ ان کا جی چاہتا ہے کہ وہ دس روپے غریبوں کو دے دیں اور اس کے بدلہ میں ان کے ماں باپ کو جنت کے بلند ترین مقام پر پہنچا دیا جائے۔ ان کا جی چاہتا ہے کہ وہ کپڑوں کا ایک جوڑا صدقہ دے دیں اور اس کے نتیجہ میں ان کی بیوی یا ان کے بچوں کو جنت کے اعلیٰ ترین مقامات میسر آ جائیں۔ حالانکہ یہ عارضی راحت پہنچانے والی چیزیں ہیں اور ان کے بدلہ میں اگر اتنا بھی ثواب مل جائے کہ جنت کی خوشبو کسی کو سونگھا دی جائے تو یہی ثواب بہت بڑا ہے مگر جو گُر خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں بتا دیا ہے اس کی طرف لوگ کوئی توجہ نہیں کرتے۔ کتنے ہیں جو کہتے رہتے ہیں کہ ہمارے ماں باپ مر گئے ہیں۔ ان کو کس طرح ثواب پہنچایا جائے۔ کتنے ہیں جو کہتے رہتے ہیں کہ ہمارے بچے فوت ہو گئے ہیں ہم ان کو کس طرح ثواب پہنچائیں۔ کتنے ہیں جو کہتے رہتے ہیں کہ ہماری بیویاں فوت ہو گئی ہیں۔ ہم کیا کریں جس کے نتیجہ میں انہیں جنت کے اعلیٰ مقامات حاصل ہوں۔ مَیں ان سب سے کہتا ہوں کہ آوٴ مَیں تمہیں بتاوٴں قرآن کریم میں لکھا ہے تم جنت کے جس درجہ میں ہو گے اسی درجہ میں تمہارے ماں باپ اور بیوی بچوں کو رکھا جائے گا۔ پس اگر تم ماں باپ کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہو تو اپنے ماں باپ سے زیادہ نیک بنو، متقی بنو اور اللہ تعالیٰ کے قرب کی راہوں میں غیر معمولی طور پر بڑھنے کی کوشش کرو۔ پھر جنت کے جس اعلیٰ مقام کو تم پا لو گے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے ماں باپ اور تمہارے بیوی بچوں کو اسی جگہ لا کر رکھ دے گا۔ مگر جو گُر خدا نے بتایا ہے اس کی طرف تو لوگ توجہ نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ معمولی سی قربانی کے نتیجہ میں ان کے متعلقین کو جنت میں بہت بلند مقام حاصل ہو جائیں۔ حالانکہ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی مکھی مار کر دنیا کی فتح کا دعویٰ کرے۔ بے شک یہ بھی ایک اچھی چیز ہے اور مکھی جسم پر جب بیٹھتی ہے اور اس سے جو ناگواری پیدا ہوتی ہے وہ اس کے نتیجہ میں دور ہو سکتی ہے۔ مگر چند مکھیاں مارنے سے دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا اورنہ چند مکھیاں مار کر دنیا کو فتح کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح صدقہ و خیرات سے مردہ ماں باپ کو فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے، صدقہ و خیرات سے مردہ بیوی کو فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے، صدقہ و خیرات سے مردہ خاوند کو فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے، صدقہ و خیرات سے مردہ اولاد کو فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے مگر جو چیز مرنے والے کو جنت کے بلند مقامات تک پہنچا سکتی ہے وہ یہی ہے کہ اولاد اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا زیادہ مقرب بنائے تاکہ جس مقام پر اسے رکھا جائے اسی مقام پر اس کے ماں باپ کو بھی لا کر رکھ دیا جائے۔ اسی طرح بیوی اپنے آپ کو زیادہ نیک بنائے تاکہ جس مقام پر اسے رکھا جائے اسی مقام پر اس کے خاوند کو بھی لا کر رکھ دیا جائے۔ خاوند اپنے آپ کو زیادہ نیک بنائے تاکہ جس اعلیٰ مقام پر وہ پہنچے اسی مقام پر اس کی بیوی کو بھی خدا تعالیٰ لا کر رکھ دے۔ اگر اس رنگ میں ترقی کی جائے اور اللہ تعالیٰ کے قرب کو حاصل کیا جائے تو جو اعلیٰ مقام کسی انسان کو حاصل ہو گا اسی مقام پر اس کے والدین اور بیوی بچوں اور دوسرے رشتہ داروں کو بھی خدا تعالیٰ پہنچا دے گا۔ بشرطیکہ ان میں ایمان ہو اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کیا ہوٴا ہو۔
یہ گُر ہے جو خدا تعالیٰ نے مردہ ماں باپ اور دوسرے رشتہ داروں کو فائدہ پہنچانے کے لئے قرآن کریم میں بیان کیا ہوٴا ہے۔ جب تک کوئی اس کی طرف توجہ نہیں کرتا اُس وقت تک اُس کا دوسرے طریقوں سے کام لینا ایسا ہی ہوتا ہے جیسے قید خانہ میں کسی قیدی کو ان دنوں میں جبکہ گورنمنٹ کی طرف سے اجازت ہوتی ہے تھوڑی سی مٹھائی پہنچا دی جائے۔ اس مٹھائی کے کھانے سے اسے وقتی طور پر تو راحت حاصل ہو جائے گی مگر پوری راحت حاصل نہیں ہو گی۔ پوری راحت اسے اُسی وقت میسر آئے گی جب وہ قید سے آزاد ہو جائے گا۔ اسی طرح صدقہ و خیرات سے مرنے والے کو جو فائدہ پہنچتا ہے وہ عارضی ہوتا ہے۔ مستقل فائدہ اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب وہ قریبی رشتہ دار جن سے وہ وابستہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے قرب میں اس سے زیادہ ترقی کر جائیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب کوئی شخص اس طرح میرے قرب کو حاصل کر لے تو بشرطیکہ اس کے ماں باپ اور دوسرے رشتہ دار مومن ہوں ان کو بھی جنت میں ترقی دے دی جائے گی اور ان کو اسی مقام پر رکھا جائے گا جس مقام پر وہ ہے۔ روحانی ترقیات کے حصول کے متعلق ہمیں قرآن کریم سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کے دو دَور ہوتے ہیں۔ ایک انفرادی ترقی کا دور ہوتا ہے اور ایک دَور وہ ہوتا ہے جب بندے کے ارادہ سے خدا تعالیٰ کا ارادہ مل جاتا ہے۔ جب انسان کی جد و جہد منفرد حیثیت رکھتی ہے اورانفرادی ترقی کا دَور ہوتا ہے اس وقت اگر کوئی شخص کوشش کرتا ہے تو وہ اپنی کوشش کے مطابق ترقی تو کر لیتا ہے اور اس کی کوششوں کا پھل بھی اسے مل جاتا ہے مگر اُس وقت اس کی کوششیں ایسی ہوتی ہیں جیسے دریا کے بہاوٴ کے خلاف کوئی تیرنے کی کوشش کرے۔ تم سمجھ سکتے ہو کہ جب کوئی شخص دریا کے بہاوٴ کے خلاف تیرنے کی کوشش کرے گا اور اُدھر جانا چاہے گا جدھر سے پانی آ رہا ہو گا تو اسے کتنی مشکل درپیش آئے گی۔ اسی طرح انفرادی ترقی سخت محنت چاہتی ہے اور اس کے نتیجہ میں جو فائدہ حاصل ہوتا ہے وہ بہت معمولی ہوتا ہے۔ لیکن ایک دَور وہ ہوتا ہے جب خدا یہ فیصلہ کر دیتا ہے کہ وہ دنیا کو بڑھائے اور اسے ترقی دے۔ اُس وقت جو شخص روحانی دریا میں تیرتا ہے اس کے تیرنے اور اس شخص کے تیرنے میں جو بہاوٴ کے خلاف تیرتا ہے کوئی نسبت ہی نہیں ہوتی۔ جب کوئی شخص دریا کے بہاوٴ کے خلاف تَیرے گا تو خواہ وہ کتنا بڑا تیراک ہو گھنٹہ بھر میں سو دو سو گز سے زیادہ تیر نہیں سکے گا۔ لیکن اگر کوئی شخض بہاوٴ کے رُخ پر تیرے تو وہ گھنٹہ بھر میں دو تین میل نکل جائے گا۔ اسی طرح جب بندے کے ارادے سے خدا تعالیٰ کا ارادہ مل جاتا ہے اُس وقت اس کی ترقی کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں اور انسان کی معمولی کوشش کے نتائج بھی بہت شاندار نکلتے ہیں۔ گویا اس دَور سے فائدہ اٹھانے والوں کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کوئی ریل میں سفر کر رہا ہو۔ اور دوسرے دَور والوں کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کسی نے بوجھ اٹھایا ہوٴا ہو اور پیدل سفر کر رہا ہو۔ پھر جس شخص کے لئے خد اتعالیٰ نے ریل میں سفر کرنے کے سامان مہیا کر دئیے ہوں وہ اگر اس میں سفر کرنے سے کوتاہی کرے تو اس سے زیادہ بد بخت اور کون ہو سکتا ہے۔
یہ دَور جس میں بندوں کا ارادہ خدا تعالیٰ کے ارادہ کے ساتھ مل جاتا ہے اور خدا تعالیٰ خود چاہتا ہے کہ دنیا کو ترقی عطا کرے۔ انبیاء علیہم السلام کا دَور ہوتا ہے جب خدا تعالیٰ کے انبیاء آتے ہیں اس وقت خدا تعالیٰ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ دنیا کو بڑھائے گا اور اسے روحانیت میں ترقی عطا کرے گا۔ پس ایسے وقت میں تھوڑی سی جد وجہد اور تھوڑی سی کوشش بھی انسان کو کہیں کا کہیں پہنچا دیتی ہے اور ذرا سی محنت کے نتیجہ میں بڑے بڑے شاندار نتائج پیدا ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ دیکھ لو۔ آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے بعض صوفیاء کہلانے والے بڑے بڑے مجاہدات کیا کرتے تھے۔ راتوں کو جاگتے، دنوں کو عبادتیں کرتے اور بڑی بڑی چِلّہ کشیاں کرتے مگر ان تمام ریاضتوں، تمام عبادتوں اور تمام کوششوں کے باوجود وہ خالی ہاتھ رہتے اور خدا تعالیٰ کے الہام سے مشرف نہیں ہوتے تھے۔ مگر اب یہ حالت ہے کہ اگر کوئی احمدی دو نفل بھی زیادہ پڑھ لے تو اس پر الہام نازل ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ کتنا بڑا فرق ہے جو دکھائی دیتا ہے۔ ایک طرف تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی عمریں عبادت اور مجاہدات میں صرف کر دیں مگر وہ الہام سے محروم رہے اور دوسری طرف احمدی ہیں کہ وہ چند نفل پڑھ کر ہی الہام سے مشرف ہو جاتے ہیں۔ یہ امتیاز اور تفاوت اِسی وجہ سے ہے کہ اس وقت خدا بھی دنیا کو اپنی طرف لانا چاہتا ہے اور اُس کا منشاء ہے کہ دنیا میں روحانی حکومت قائم کی جائے۔ پس پہلے زمانہ کے لوگوں کی مثال ایسی تھی جیسے کوئی بوجھ اٹھا کر آسمان کی طرف چڑھنا چاہے اور یہ وہ زمانہ ہے جس میں خدا نے خود آسمان سے رسّی پھینکی ہے اور اس نے لوگوں سے کہہ دیا ہے کہ بس رسّی پکڑ لو میں فوراً تمہیں آسمان پر کھینچ لوں گا۔ پس اب بندے کا کام صرف اُس رسّی کو ہاتھ ڈالنا ہے باقی تمام کام خدا تعالیٰ نے خود اپنے ذمہ لیا ہوٴا ہے۔
انبیاء علیہم السلام کا زمانہ خاص برکات کا زمانہ ہوتا ہے اور جو قومیں اس زمانہ میں کوتاہی سے کام لیتی ہیں وہ خطرناک الزام کی مورد بن جاتی ہیں۔
ہمارا یہ زمانہ بھی وہی ہے جبکہ روحانی ترقی کی طرف قدم اٹھانے والا بہاوٴ کی طرف تیرنے والے کا حکم رکھتا ہے کیونکہ اِس وقت خدا تعالیٰ کا منشاء ہے کہ خاص طور پر روحانی حکومت قائم کی جائے اسی روحانی حکومت کے قیام کے لئے خدا تعالیٰ نے اپنا مامور بھیجا ہے۔ اتنے لمبے انتظار کے بعد کہ دنیا اس کا انتظار کرتے کرتے تھک گئی تھی۔ رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد لوگوں نے انتظار کرنا شروع کیا کہ اب مسیح آتا ہے، اب مسیح آتا ہے۔ جب بھی ان پر کوئی بَلا آئی انہوں نے سمجھا کہ اس کو دور کرنے کے لئے مہدی اورمسیح آئے گا۔ جب بھی وہ کسی مصیبت میں پھنسے ان کی نظریں اس امید کے ساتھ آسمان کی طرف اٹھیں کہ شاید ہمیں اس مصیبت سے نکالنے کے لئے مسیح آ جائے لیکن خدا نے اس نعمت کو تمہارے زمانہ کے لئے مقدر کیا ہوٴا تھا۔ پس یہ کتنا عظیم الشان فضل ہے کہ بغیر اس کے کہ ہماری طرف سے کوئی کوشش ہو بغیر اس کے کہ ہمارا کوئی استحقاق ہو اللہ تعالیٰ نے اس نعمت کو ہم میں نازل کیا جس طرح تمام دنیا محمد ﷺ کی آمد کی منتظر تھی مگر اس شدید انتظار کے بعد عرب کے لوگوں کو یہ نعمت عطا کی گئی اور یہودی اس حسد کی وجہ سے جل اٹھے کہ یہ نعمت انہیں کیوں ملی ہمیں کیوں نہیں ملی۔ حالانکہ یہ خدا کی دَین تھی اور وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔ اسی طرح خدا تعالیٰ کے فضل نے ہم میں وہ شخص بھیجا جس کے زمانہ کا انبیاء تک شوق سے انتظار کرتے چلے آئے تھے۔ دوسروں کا کیا کہنا ہے خود رسول کریم ﷺ کے شوق کو دیکھو۔ آپ فرماتے ہیں۔ اگر تمہیں مہدی کے مبعوث ہونے کی خبر ملے تو اس کے پاس اگر تمہیں گھٹنوں کے بَل چل کربھی جانا پڑے تو جاوٴ اور اس کی بیعت کرو۔4 پھر آپ نے فرمایا۔ اگر تمہیں مسیح مل جائے تو میرا بھی اس سے سلام کہنا۔ 5 اس خادم کی کیا شان ہے جس کو سلام کہنے کا آقا اتنا مشتاق ہے کہ وہ لوگوں سے کہتا ہے میرا سلام یاد رکھنا اور اسے بھول نہ جانا۔ پھر سوچو ۔ جس شخص کو سلام کہنے کا محمد ﷺ کو اس قدر اشتیاق تھا اُس کی امت کے دلوں میں اس کے متعلق کتنا بڑا اشتیاق پیدا ہونا چاہئے تھا اور اس نعمت کے ملنے پر انہیں کتنا خوش ہونا چاہئے تھا۔
مجھے یاد ہے ایک دفعہ کوئی شخص باہر سے آیا۔ غالباً وہ گجرات کے ضلع کا رہنے والا تھا یا کسی اَور ضلع کا مجھے اچھی طرح یاد نہیں۔ بہرحال وہ آیا اور اس نے بڑے شوق سے آگے بڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوکہا اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ اورآپ سے مصافحہ کیا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس نے پھر اپنے ہاتھ آگے بڑھائے اور کہا اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ ۔ لوگوں کو حیرت ہوئی کہ یہ کیسا عجیب انسان ہے اس نے جب پہلی دفعہ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہہ دیا تھا تو اب دوبارہ اسے سلام کہنے کی کیا ضرورت تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام بھی اس پر حیران سے ہوئے اور آپ نے اس سے پوچھا کہ جب آپ ایک دفعہ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہہ چکے تھے تو اب دوبارہ آپ نے کیوں سلام کیا ہے؟ وہ کہنے لگا۔ حضور پہلا سلام محمد ﷺ کی طرف سے تھا کیونکہ آپ نے فرمایا تھا کہ جب تم مسیح سے ملو تو اسے میر اسلام کہہ دینا۔ پس مَیں نے پہلی دفعہ رسول کریم ﷺ کا سلام آپ کو پہنچایا اور دوسری مرتبہ مَیں نے اپنی طرف سے آپ کو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہا ہے۔ مَیں نہیں جانتا کہ اس شخص کا کیا نام تھا۔ مَیں اس وقت بچہ تھا جب یہ واقعہ ہؤا۔ مگر مَیں جانتا ہوں کہ اس سادہ سے فعل سے اس نے اپنے لئے بہت بڑی برکتیں جمع کر لیں کیونکہ بعض دفعہ چھوٹی سی بات بڑے بڑے ثواب کا موجب بن جاتی ہے اور بعض دفعہ چھوٹی سی بات بڑے بڑے عذاب کا موجب بن جاتی ہے۔ کیا چھوٹی سی بات تھی جو ایک مدینہ کے نوجوان کے مُنہ سے نکلی کہ خون تو ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے مگر محمد ﷺ نے غنیمت کے اموال مکہ والوں میں تقسیم کر دئیے۔ قوم میں جاہل بھی ہوتے ہیں، دینی تعلیم سے ناواقف بھی ہوتے ہیں، جلد باز بھی ہوتے ہیں۔ مگر بعض مواقع اس قسم کے فضلوں کے نزول کے ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے قوم کا ہر فرد اچھی بات کرے۔ فتح مکہ کا وقت بھی ایسا ہی تھا۔ جب قوم کا ہر فرد خدا تعالیٰ کے حضور گرا ہوٴا ہونا چاہئے تھا اور دنیا کے مال کا خیال اس وقت کسی ایک فرد کے دماغ میں بھی نہیں آنا چاہئے تھا۔ رسول کریم ﷺ کو جب یہ بات پہنچی تو آپ نے انصار کو بلایا اور فرمایا اے انصار مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ تم میں سے بعض نے یہ کہا ہے کہ خون تو ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے مگر محمد ﷺ نے اموال اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کر دئیے۔ انصار کو جو عشق رسول کریم ﷺ سے تھا اس کا اندازہ دوسرے لوگ نہیں لگا سکتے۔ رسول کریم ﷺ کے مُنہ سے یہ فقرہ سننا تھا کہ بعض روایتوں میں آتا ہے کہ وہ ہچکیاں مار مار کر رونے لگ گئے اور انہوں نے کہا۔ یا رسول اللہ ہم میں سے ایک نادان نوجوان کے مُنہ سے یہ فقرہ نکلا ہے۔ آپ نے فرمایا اے انصار! گو ایک نوجوان کے مُنہ سے نکلا مگر نکل تو گیا۔ پھر آپ نے فرمایا۔ اے انصار! تم کہہ سکتے ہو کہ محمد ﷺ کو اس کی قوم نے اپنے گھر سے نکال دیا تب ہم نے اسے پناہ دی اور جب اس کی قوم کے لوگ اسے قتل کرنے کے لئے آئے تو ہم نے اپنی جانیں دے کر اس کی حفاظت کی اور اپنی ہر چیز اس کے راستہ میں قربان کر دی۔ پھر ہماری مدد سے ہی اس نے ایک لشکر تیار کیا جس نے مکہ کو فتح کیا۔ مگر جب مکہ فتح ہو گیا تو محمد ﷺ نے اموال غنیمت تو اپنے رشتہ داروں کو بانٹ دیئے اور ہمیں کچھ نہ دیا۔ انصار نے پھر روتے ہوئے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہم یہ نہیں کہتے۔ ہم میں سے ایک نادان نوجوان نے یہ الفاظ کہے ہیں۔ آپ نے فرمایا اے انصار! اس بات کا ایک دوسرا پہلو بھی تھا اور تم اگر چاہو تو یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا ایک رسول آیا جسے قبول کرنے کی خدا نے ہمیں توفیق عطا فرمائی پھر اس نے ہمیں اس بات کی بھی توفیق بخشی کہ ہم نے اس کی مدد اور نصرت کی۔ یہاں تک کہ خدا نے اپنے دین کو غالب کیا اور وہ مکہ جو مخالفت کا گڑھ تھا فتح ہو گیا۔ جب مکہ فتح ہوٴا تو مکہ کے لوگوں کے دلوں میں خیال آیا کہ شاید ان کی کھوئی ہوئی نعمت پھر انہیں واپس مل جائے گی اور وہ رسول جس کو انہوں نے ردّ کر دیا تھا پھر ان کے شہر میں واپس آ جائے گا۔ مگر ہوٴا یہ کہ مکہ کے لوگ تو اونٹ ہانک کر اپنے گھروں میں لے گئے اور مدینہ کے لوگ خدا کے رسول کو اپنے ساتھ لے گئے۔ پھر آپ نے فرمایا اے انصار !بے شک تم میں سے ایک نوجوان نے یہ بات کہی ہے مگراس کے نتیجہ میں اب یہی مقدر ہے کہ دنیا میں تم کو کوئی نعمت نہیں ملے گی۔ تم اپنا حصہ اب مجھ سے حوض کوثر پر ہی آ کر لینا۔ 6 چنانچہ آج تک انصار میں سے کسی کو حکومت نہیں ملی۔ تو وقت وقت کی بات ہوتی ہے بعض دفعہ ایک چھوٹی سی خدمت انسان کو بہت بلند مدارج تک پہنچا دیتی ہے اور بعض دفعہ ایک چھوٹی سی بات انسان کو تحت الثّریٰ میں گرا دیتی ہے۔ پس ایسے وقت میں جب خدا دنیا کی اصلاح کے لئے کسی نبی کو بھیجتا ہے۔ ترقی کے دروازے بہت کُھلے ہوتے ہیں اور جو لوگ تھوڑی سی خدمت بھی کرتے ہیں ان کی خدمت کو وہ خوب بڑھاتا اور انہیں مدارج پر مدارج عطا کرتا ہے۔ مگر ساتھ ہی سزا کے دروازے بھی بہت کھلے ہوتے ہیں کیونکہ اس وقت جو شخص سُستی کرتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے ارادہ کے رستہ میں روک بنتا ہے اوروہ اس کچی دیوار کے مشابہہ ہوتا ہے جو دریا کے بہاوٴ کے مُنہ پر بنائی جائے۔ تم جانتے ہو کہ دریا کے مقابلہ میں اس کا کیا حال ہو گا۔ اس کا تو کیچڑ بھی نظر نہیں آئے گا اور کوئی چیز اسے برباد ہونے سے بچا نہیں سکے گی۔ پس ایسے زمانہ میں جہاں اللہ تعالیٰ کے انعامات کے دروازے کھلے ہوتے ہیں۔ وہاں اگر کوئی ایسے کام کرتا ہے جن سے ترقی میں روک واقع ہوتی ہے تووہ خدا تعالیٰ کی گرفت میں آ جاتا ہے۔
اِس وقت بھی خدا تعالیٰ کا ایک خاص ارادہ ظاہر ہوٴا ہے اور اُس نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ احمدیت کے ذریعہ رسول کریم ﷺ کی حکومت کو پھر دنیا میں قائم کرے۔ پس آج اسلام کے مٹے ہوئے نقشوں کو پھر تازہ کرنے کا خدا تعالیٰ نے تہیّہ کر لیا ہے۔ پھر اس کی گری ہوئی دیواروں کو فرشتے نئے سرے سے کھڑا کر رہے ہیں۔ چنانچہ یا تو یہ حالت تھی کہ دشمن کا ہر حملہ جو اسلام کی دیواروں پر ہوتا تھا کامیاب ہوتا نظر آتا تھا اور خیال کیا جاتا تھا کہ اگر وہ ایک طرف سے دھکا دے گا تو دیوار کی دوسری طرف کو بھی نقصان پہنچ جائے گا اور یا یہ حالت ہے کہ اب اسلام کی دیواریں پھر مضبوط ہو رہی ہیں اور پھر اس میں ایسی طاقت پیدا ہو گئی ہے کہ دنیا کے سر اِس سے ٹکرا ٹکرا کر ٹوٹ جائیں گے۔ مگر اس کو نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔
بے شک اس وقت اس کی نشو و نما ایک کونپل کی طرح ہے مگر وہ چٹان بھی جس کو توڑنے کے لئے انجن لگا دئیے جائیں خطرہ میں ہوتی ہے اور وہ کونپل جس کی حفاظت کے لئے خدا تعالیٰ کے فرشتے پہرہ دے رہے ہوں خطرہ میں نہیں ہوتی۔ پس بے شک اسلام اس وقت ایک کونپل کی شکل میں ہے اور دشمن کی طاقت چٹانوں کی طرح مضبوط ہے۔ مگر ان چٹانوں کو فرشتے توڑ رہے ہیں اور اس کونپل کی وہ ننگی تلواروں سے حفاظت کر رہے ہیں۔ پس اب اسلام روز بروز بڑھتا چلا جائے گا۔ اور کیا عیسائیت اور کیا یہودیت اور کیا ہندو مت اور کیا بدھ مت سب اس سے ٹکرا ٹکرا کر پاش پاش ہوجائیں گے۔ اور روحانی طور پر پھر اِس کے نفوذ کو دنیا کے کناروں تک پہنچایا جائے گا اور پھر تمام ادیان پر یہ دین غالب آئے گا اور پہلے سے زیادہ شان اور زیادہ عظمت کے ساتھ غالب آئے گا۔ کیونکہ یہی وہ زمانہ ہے جس کی نسبت قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ هُوَ الَّذِيْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّهٖ 7 یعنی خدا نے محمد ﷺ کو اس لئے مبعوث کیا ہے تا اس کے لائے ہوئے دین کو تمام دنیا کے مذاہب پر غالب کرے اور دلائل و براہین کی رو سے اسلام کی برتری اور فوقیت تمام مذاہب پر ثابت کر دے۔
اب دیکھو اس آیت میں بھی کیا ہی لطیف طور پر اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا تھا کہ یہ غلبہ اُس زمانہ میں ہو گا جب مسلمانوں کے ہاتھ میں صرف تبلیغ کا ہتھیار ہو گا، تلوار نہیں ہو گی۔ محمد ﷺ کے زمانہ میں مسلمانوں کی ظاہری فتوحات مذہبی فتوحات سے پہلے ہوٴا کرتی تھیں۔ مکہ کو مسلمانوں نے پہلے فتح کیا اور بعد میں مکہ کے لوگوں نے اسلام قبول کیا، نجد کو پہلے رسول کریم ﷺ نے فتح کیا مگر نجد کے رہنے والے بعد میں مسلمان ہوئے۔ اسی طرح شام کو مسلمانوں نے پہلے فتح کیا اور شام کے رہنے والے بعد میں مسلمان ہوئے، عراق کو مسلمانوں نے پہلے فتح کیا اور عراق کے رہنے والے بعد میں مسلمان ہوئے مگر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ وعدہ کیا تھا کہ اسلام کی یہ فتح دینوں پر ہو گی اور دینوں پر فتح تبلیغ سے ہی ہوتی ہے تلوار سے نہیں ہوتی۔ پس اس آیت میں ایسے ہی زمانہ کا ذکر تھا جس میں تبلیغ سے کام لیا جانے والا تھا۔ اور وہ زمانہ یہی ہے جس میں سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں۔ مَیں نے محمد رسول اللہ ﷺ کے حق میں اس پیشگوئی کے پورا کرنے میں مدد دینے کے لئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ جو خدائی وعدہ ہے کہ ‘‘میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاوٴں گا۔’’ 8 اس کو پورا کرنے کے لئے تحریک جدید کا اجراء آج سے سات سال پہلے کیا۔ اور مَیں نے اپنی طرف سے بغیر کسی نفس کی ملونی کے وہ تمام باتیں جن کو مَیں قرآن کریم، احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کی روشنی میں اسلام کے لئے مفید اور ممد سمجھتا تھا چُن کر جماعت کے سامنے پیش کر دیں۔ اب یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے کہ وہ اس تحریک کو پہلے تمہارے اندر اور پھر باقی تمام دنیا میں کامیاب کرے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ راستہ کٹھن ہے اور اس پر چلنا ہمت طلب کام ہے اور اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ بعض دوستوں نے پہلے جوش کا اظہار کیا مگر بعد میں اپنے جوش اور قربانی کی روح کو انہوں نے قائم نہیں رکھا۔ گویا ایسے بھی ہیں جو صداقت اور راستی سے اس راستہ پر چلتے چلے جاتے ہیں جس کو انہوں نے اختیار کیا۔ مگر بعض ایسے بھی ہیں جن سے اس راستہ میں کوتاہیاں سرزد ہوئیں۔ مگر بہرحال ہمارا فرض یہی ہے کہ جس کام کی ذمہ داری خدا نے ہم پر ڈالی ہے ہم اسے کئے جائیں اور راستہ کی مشکلات اور صعوبتوں سے نہ گھبرائیں۔ سپاہی کا کام یہ نہیں ہوتا کہ وہ فتح پا کر لوٹے۔ فتح خدا کے اختیار میں ہوتی ہے سپاہی کا کام لڑنا ہوتا ہے۔ چاہے لڑائی میں اسے فتح حاصل ہو یا لڑتا لڑتا مارا جائے۔ پس فتح میرے اختیار میں نہیں۔ جس چیز کی میرے خدا نے مجھے مقدرت دی ہے وہ یہ ہے کہ میں اس کے فضل سے اس لڑائی کو جاری رکھوں۔ یہاں تک کہ موت آ جائے یا اس لڑائی کے نتیجہ میں فتح حاصل ہو جائے۔ عواقب کا مجھے خیال نہیں، نتیجہ کی مجھے پرواہ نہیں۔ یہ خدا کی چیز ہے اور اس کا ذمہ دار وہ آپ ہے۔ مجھے صرف اس امر کا خیال ہے کہ مَیں اور دوسرے وہ لوگ جنہوں نے اس لڑائی میں حصہ لیا ہے ایسی دیانتداری کے ساتھ اپنے فرض کوادا کریں کہ ہم خدا سے یہ کہہ سکیں کہ اے خدا! ہم تیرے جلال کے اظہار اور تیرے دین کے غلبہ کے لئے اپنی ہر ممکن کوشش صرف کرتے رہے ہیں۔ اب ہماری کوششوں کا انجام تیرے ہاتھ میں ہے۔ تُو اپنے فضل سے ہمارے غلبہ کے سامان پیدا فرما دے۔
میرا یہ مطلب نہیں کہ ممکن ہے ہمیں کبھی شکست ہو جائے۔ یہ قطعی طور پر ناممکن ہے مگر پھر بھی مَیں یہ کہتا ہوں کہ ہمارے دل کے کسی گوشہ میں بھی یہ خیال نہیں آنا چاہئے کہ ہم فتح حاصل کرنے کے لئے لڑرہے ہیں۔ ہم صرف اس لئے لڑ رہے ہیں کہ اپنا حق ادا کر دیں اور اس عہد کو پورا کر دیں جو ہم نے اپنے خدا سے کیا ہے۔ باقی اس کے نتائج اگر ہماری زندگی میں نکل آئے تو ہم اپنی آنکھوں سے انہیں دیکھ لیں گے اور اگر زندگی میں نہ نکلے تو ہماری موت کے بعد خدا کا منشاء پورا ہو جائے گا اور مجاہد ہونے کا جو ثواب ہمیں خدا نے عطا کرنا ہے وہ اس کی بارگاہ سے ہمیں آخرت میں مل جائے گا۔ بہرحال آج اس تحریک کے مالی مطالبات کا آٹھواں سال شروع ہوتا ہے اور مَیں اس خطبہ کے ذریعہ اس کے آغاز کا اعلان کرتا ہوں۔ سات سال تحریک جدید پر گزر چکے ہیں اور اب آٹھواں سال شروع ہوتا ہے۔ مَیں نے اس تحریک کا دس سال کے لئے اعلان کیا تھا۔ جس میں سے سات سال گزر چکے ہیں۔ گویا دو تہائی سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے اور اب ایک تہائی سے بھی کم وقت باقی رہ گیا ہے۔ پس اب اس حصہٴ عمل کی منزل خدا تعالیٰ کے فضل سے قریب آ گئی ہے۔ گو مومن کا عمل دنیا میں کبھی ختم نہیں ہوتا۔
وہ لوگ جو اپنے آگے نکل جانے والے بھائیوں سے سات سال پیچھے رہ گئے ہیں۔ اگر ان کے دلوں میں ایمان پایا جاتا ہے تو آج وہ کس حسرت سے یہ دیکھ رہے ہوں گے کہ قافلہ سات سال آگے نکل گیا اور ہم پیچھے رہ گئے۔ آج انہیں خیال آتا ہو گا کہ ان سات سالہ قربانیوں کے نتیجہ میں یہ لوگ مرے تو نہیں، یہ لوگ تباہ اور برباد تو نہیں ہوئے۔ دنیوی لحاظ سے بھی ان کے گزارہ میں کوئی خاص مشکلات پیدا نہیں ہوئیں۔ پس آج ان کے دلوں میں کس قدر حسرت پیدا ہو رہی ہو گی کہ ہم قافلہ میں شامل نہ ہوئے اور وہ سات سال آگے نکل گیا۔ مگر وہ لوگ جو اس تحریک میں شامل ہوئے آج خوش ہیں کیونکہ اِن کی منزل ان کے قریب تر ہو گئی ہے۔ لیکن ان لوگوں کی اس حسرت کا علاج میرے پاس کوئی نہیں۔ ہاں ان لوگوں پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے جو ابتدا سے اس تحریک میں شامل رہے ہیں کیونکہ اگر وہ اپنی غفلت اور کوتاہی سے سرے پر پہنچ کر گر جائیں گے تو یہ بہت بڑے افسوس کا مقام ہو گا۔ کسی شاعر نے کہا ہے ؂
قسمت میری دیکھئے ٹوٹی کہاں کمند
دو چار ہاتھ جبکہ لبِ بام رہ گیا
پس بے شک ان لوگوں کو بھی بڑی حسرت ہو گی جو اس سفر میں شریک نہیں ہوئے اور پیچھے رہ گئے ہیں۔ وہ آج اپنے اردگرد نظر ڈالتے ہوں گے تو خیال کرتے ہوں گے کہ اس تحریک میں شامل ہونا کونسی بڑی بات تھی مگر اس سے بھی زیادہ حسرت اُس شخص کو ہوتی ہے جو لبِ بام پہنچ کر گر جائے۔ وہ تو یہ خیال کر رہا ہو کہ اب مَیں صرف ہاتھ اوپر کروں گا تو چھت پر پہنچ جاوٴں گا مگر عین اُس وقت رسّی ٹوٹے اور وہ نیچے گر جائے اور پھر ناکامی کا مُنہ دیکھنے لگ جائے۔ اس پیاسے کو بھی بڑی تکلیف ہوتی ہے جسے پانی نہ ملے۔ مگر اُس شخص کو تو بہت ہی تکلیف ہوتی ہے جو پانی پینے کے لئے آبخورا اپنے مُنہ سے لگا لے اور اچانک کوئی دوسرا اس سے آبخورا چھین کر لے جائے۔ پس وہ لوگ جنہوں نے اس میدان میں اپنا قدم بڑھایا ہوٴا ہے اور جو گزشتہ سات سال سے قربانی کرتے چلے آ رہے ہیں مَیں ان کو بتاتا ہوں کہ ان کے لئے یہ بہت نازک ایام ہیں۔ اب ایک لمبے عرصہ کا بھیانک خیال کہ ہمیں دس سال مسلسل قربانی کرنی پڑے گی ان کے دلوں سے جاتا رہا ہے اور اب وہ زمانہ آ گیا ہے جس کے متعلق ان کے ذہن میں یہی آسکتا ہے کہ اب اکثر حصہ گزر چکا ہے اور منزل قریب آ گئی ہے۔ آج اس منزل میں تین سال کا عرصہ باقی رہتا ہے۔ پھر جن کو خدا تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی اور زندگی دی انہیں ایک سال گزرنے کے بعد دو سال باقی نظر آئیں گے اور جنہوں نے دو سال گزار لئے انہیں صرف ایک سال جو آخری سال ہو گا دکھائی دے گا اور پھر اس ایک سال کے بعد وہ دن آئے گا جب تمام سال گزر چکے ہوں گے۔ تب ان کا دل خوشیوں سے معمور ہو گا اور وہ اس بات پر خدا تعالیٰ کا شکر بجا لائیں گے کہ اس نے اپنے فضل سے انہیں اس لمبی قربانی میں شمولیت کی توفیق عطا فرمائی۔ مگر وہ لوگ جنہوں نے دس سال پہلے اس تحریک میں شمولیت کے لئے قدم نہیں اٹھایا ہو گا ان کے دل حسرت و اندوہ سے بھر جائیں گے ۔ اس تحریک کے پہلے تین سالوں میں جماعت نے بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اس کے بعد جب اسے دس سال میں پھیلا دیا گیا تو مَیں نے اس قدر زور نہ دیا اور نہ جماعت نے اس تیز گامی کو قائم رکھا جو پہلے سالوں میں تھی۔ مَیں نے یہ سمجھا کہ ہر تحریک میں قبض و بسط کا زمانہ ہوتا ہے۔ ان درمیانی چار سالوں کو قبض کا زمانہ ہی سمجھ لو۔ چنانچہ مَیں نے ایسے قانون بنا دئیے جن کے نتیجہ میں ہر سال چندہ میں معمولی زیادتی کر کے بھی انسان سَابِقُوْنَ میں شامل ہو سکتا ہے۔ مثلاً مَیں نے کہا کہ اگر کسی نے پہلے سال پانچ روپے دئیے ہوں تو دوسرے سال وہ پانچ روپے ایک پیسہ، تیسرے سال پانچ روپے دو پیسے۔ اور چوتھے سال پانچ روپے تین پیسے دے سکتا ہے۔ اور مَیں نے چندہ میں خاص طور پر زیادتی کرنے کے متعلق زور نہ دیا۔ لیکن اب جبکہ 3/2 حصہ سے زیادہ گزر چکا ہے۔ مَیں آٹھویں سال کی تحریک کا اعلان کرنے کے ساتھ پھر جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ اب ان تین سالوں میں وہ پھر سَابِقُوْنَ کی سی تیز گامی اختیار کریں۔ اب منزل قریب آ رہی ہے اور قربانی کے ان بابرکت ایام کا دوبارہ میسر آنا ان کے لئے بہت مشکل ہو گا کیونکہ اس قسم کی تحریک بہت کم ہوتی ہے اور بہت ہی نازک دَوروں میں ہو سکتی ہے۔ شاید اللہ تعالیٰ اس عرصہ میں جنگ کا خاتمہ کر دے اور اسی عرصہ میں ایسے حالات پیدا کر دے جو اسلام اور احمدیت کے لئے مفید ہوں۔ اور پھر ہمیں اس قسم کے چندوں کی ضرورت نہ رہے۔ اُس وقت خواہ کوئی شخص کتنی بڑی مالی قربانی کرے گا اور خواہ دس لاکھ روپیہ سلسلہ کے سامنے لا کر رکھ دے گا اس روپیہ کا اسے وہ ثواب نہیں ملے گا جو آج چند روپے دینے والوں کو ثواب مل سکتا ہے۔ پس مَیں ان آخری تین سالوں کی تحریک میں سے پہلے سال کی تحریک کرتے ہوئے پھر دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ بیدار ہو جائیں اور سمجھ لیں کہ ان کی منزل ان کے قریب آ گئی ہے۔ اب کسی لمبی قربانی کا سوال نہیں بلکہ صرف تین سال قربانی کرنے کا مطالبہ ہے۔ اس لئے وہ صرف اتنی کوشش نہ کریں جو انہیں قربانی کے کم سے کم معیار پر رکھے بلکہ تین سال کا عرصہ چونکہ نہایت محدود عرصہ ہے اور جلدی ختم ہو جانے والا ہے اس لئے ان کو چاہئے کہ وہ زیادہ زور اور زیادہ ہمت سے کام لیں اور اس سال پھر وہ اپنی قربانی کی رفتار کو بڑھا دیں جیسے دن ڈوبتے وقت گھر کا کام کرنے والا مزدور زیادہ محنت سے کام کرتا ہے۔ اجرت پر کام کرنے والا مزدور تو سارا دن ہی سُستی سے کام کرتا ہے مگر جن کے اپنے گھر کا کام ہو وہ جب دیکھتے ہیں کہ سورج غروب ہونے والا ہے تو زیادہ تن دہی اور زیادہ محنت سے کام کرنے لگ جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب تو دن ڈوبنے والا ہے۔ اب ہمیں زیادہ محنت سے کام کر کے اسے جلدی ختم کر دینا چاہئے۔ اسی طرح اس تحریک کا دن بھی اب ڈوبنے والا ہے۔ یعنی وہ کام ختم ہونے والا ہے جس میں شمولیت کی جماعت کے دوستوں کو تحریک کی جا رہی تھی ورنہ یوں قربانیاں کبھی ختم نہیں ہو سکتیں۔ وہ جاری رہیں گی اور کسی نہ کسی صورت میں جماعت سے ان قربانیوں کا مطالبہ ہمیشہ ہوتا رہے گا۔ اِس وقت سوال ایک معیّن قربانی کا ہے اور یہ قربانی تین سال کے بعد ختم ہو جائے گی۔ پس جس طرح دن ڈوبتے وقت مزدور زیادہ محنت سے کام کرنے لگ جاتا ہے اسی طرح چونکہ تحریک کے مالی قربانی کے حصہ کا دن اب ڈوبنے والا ہے اس لئے پہلے سے بھی زیادہ زور سے کام کرو تاکہ شام سے پہلے کام ختم ہو جائے۔ دنیا میں انسان جب یہ سمجھتا ہے کہ اب وہ اپنی زندگی کے آخری لمحات میں سے گزر رہا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کو خوش کرنے کی زیادہ کوشش کیا کرتا ہے۔ اسی طرح ان تین سالوں میں خدا تعالیٰ کو جس قدر خوش کرنا چاہتے ہو خوش کر لو کہ نہ معلوم پھر ایسا موقع میسر آئے یا نہ آئے۔
مَیں نے جماعت کے دوستوں کو بارہا بتایا ہے کہ اس سرمایہ سے ایک بہت بڑی جائداد پیدا کی جا رہی ہے جس کی آمد تحریک جدید کے اغراض اور اشاعت دین پر صرف کی جائے گی۔ پس ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ تحریک جدید کی میعاد کے ختم ہوتے ہی یہ جائداد کلی طور پر آزاد ہو جائے۔ اس جائداد کو ہم نے اقساط پر خریدا ہوٴا ہے اور تمام اقساط کی ادائیگی اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب پھر ہماری جماعت کے تمام دوست کمر ہمت کَس کر کھڑے ہو جائیں اور ان آخری تین سالوں میں زیادہ سے زیادہ مالی قربانی کا نمونہ پیش کریں۔ وعدوں کے لحاظ سے بھی اور پھر ان وعدوں کو بروقت پورا کرنے کے لحاظ سے بھی۔ مَیں نے اس تحریک میں جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے بعض قواعد مقرر کئے تھے اورمَیں نے کہا تھا کہ جو چندہ کوئی شخص پہلے سال دے اس پر ہر سال اگر معمولی زیادتی بھی کرتا چلا جائے تو وہ سَابِقُوْنَ میں شامل ہو جائے گا۔ مَیں سمجھتا ہوں میری اس تحریک پر قریباً ہر احمدی نے اپنے چندے کو اس رنگ میں بدل دیا ہے کہ وہ اپنے چندہ میں ہر سال کچھ نہ کچھ اضافہ کرتا ہے۔ گو وہ اضافہ کیسا ہی معمولی کیوں نہ ہو اور اگر بعض نے ابھی تک اس رنگ میں اپنے چندوں کو نہیں بدلا تو مَیں خیال کرتا ہوں کہ وہ اب بدل دیں گے اور انہی لوگوں کی لسٹ میں آنے کی کوشش کریں گے جو ہر سال پہلے سال سے اضافہ کے ساتھ چندہ پیش کرتے ہیں۔ مگر بعض لوگوں نے اس کے مفہوم کے سمجھنے میں سخت غلطی کی ہے اور انہوں نے اس قانون سے ایسے رنگ میں فائدہ اٹھانا چاہا ہے جو صحیح نہیں۔ یعنی انہوں نے اتنے الفاظ کو تو لے لیا کہ ہر دفعہ چندہ بڑھا دیا جائے مگر انہوں نے اس امر کو مدنظر نہیں رکھا کہ ان کا چندہ قربانی والا چندہ ہے یا نہیں۔ مثلاً ہماری جماعت میں بعض ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جن کی آمد سو یا ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار ہے مگر انہوں نے پہلے سال کا چندہ پانچ روپیہ دے دیا ہے۔ دوسرے سال انہوں نے پانچ روپے ایک آنہ دے دیا۔ تیسرے سال انہوں نے پانچ روپے دو آنے دے دئیے اور چوتھے سال پانچ روپے تین آنے دے دئیے۔ اب بظاہر تو وہ بھی سَابِقُوْنَ میں ہی شامل ہیں اور دسویں سال پانچ روپے نو آنے چندہ دے کر وہ سَابِقُوْنَ کی اس ظاہری لسٹ میں شامل ہو جائیں گے جو ہم تیار کریں گے۔ مگر اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ ان کی قربانی کی کیا حقیقت ہے۔ یہ لوگ بظاہر بڑھا کر چندہ دینے والے ہیں مگر خدا تعالیٰ کی نگاہ میں بڑھا کر دینے والے نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ اپنی سالانہ آمد کا ایک فیصدی حصہ چندہ میں دیتے ہیں جو ایک نہایت ہی ادنیٰ قربانی ہے۔ اب تو ہم نے سینما دیکھنے کی ممانعت کی ہوئی ہے لیکن اس سے پہلے یہی سَو اور ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار آمد رکھنے والے سال بھر میں پانچ دس روپے سینما دیکھنے پر ہی خرچ کر دیا کرتے تھے۔ پھر کئی چھوٹی چھوٹی چیزیں ہوتی ہیں جن پر وہ اس سے بہت زیادہ روپے خرچ کر دیا کرتے ہیں مگر جب اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی کا سوال آتا ہے تو وہ پانچ یا دس روپے سے زیادہ قربانی نہیں کر سکتے۔ ایسے لوگوں کو بیشک مَیں قاعدہ کی رو سے کچھ نہیں کہہ سکتا مگر ان کے تقویٰ کی طرف ان کو توجہ دلاتا ہوں۔ بے شک وہ ظاہری طور پر اپنا چندہ زیادہ کرنے والے تو ہیں لیکن وہ سوچیں کہ کیا خدا تعالیٰ کی نگاہ میں بھی وہ اعلیٰ درجہ میں شامل ہیں؟ جب وہ سینما پر اس سے زیادہ خرچ کر دیا کرتے تھے، جب وہ گھر کی اور بیسیوں چھوٹی چھوٹی ضروریات پر اس سے بہت زیادہ روپیہ خرچ کر دیا کرتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ کے حضور ان کی یہ قربانی کس طرح قبول کی جا سکتی ہے جو ادنیٰ سے ادنیٰ قربانی ہے۔ درحقیقت وہی لوگ قربانی کرنے والے ہیں جو قربانی کے بوجھ کو محسوس کریں لیکن اگر کوئی شخص سو یا ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار آمد رکھتا ہو اور وہ پانچ روپے خدا تعالیٰ کے رستہ میں دے دے تو کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اس نے ایسی مالی قربانی کی ہے جس کے بوجھ کو اس نے محسوس کیا ہے۔ اس کے معنے تو یہ ہیں کہ وہ سَو یا ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار لے کر سات آنے ماہوار کی قربانی کرتا ہے حالانکہ اس سے زیادہ وہ اپنی چُوڑھی کو دے دیتا ہے۔ مگر باوجود اس کے کہ وہ خدا تعالیٰ کے سامنے وہ چیز پیش کرتا ہے جو اس کا چُوڑھا بھی قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا۔ وہ خدا تعالیٰ کے سامنے وہ چیز پیش کرتا ہے جو اس کا دھوبی بھی قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا۔ پھر بھی وہ سمجھتا ہے کہ اس کا نام خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں ان لوگوں میں لکھا ہونا چاہئے جنہوں نے اس کا قرب حاصل کیا اور جن پر اس کے غیر معمولی فضل نازل ہوں گے۔
تو یہ ایک بڑی بھاری غلطی ہے جو بعض دوستوں کو لگی ہوئی ہے کہ انہوں نے پہلے سال کا چندہ اپنی استطاعت سے بہت کم دے کر اسے بڑھانا شروع کر دیا۔ حالانکہ یہ رعایت صرف ان لوگوں کے لئے تھی جنہوں نے پہلے تین سالوں میں بہت زیادہ چندہ دے دیا تھا۔ اور اب ان کے لئے اسی نسبت سے مسلسل دس سال قربانی کرتے چلے جانا مشکل تھا۔ پس ایسے لوگ جنہوں نے اپنی تمام کی تمام پونجی پہلے سال یا ابتدائی تین سالوں میں دے دی تھی یا وہ لوگ جنہوں نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر چندہ دے دیا تھا ان کو آئندہ اس تحریک میں شامل رکھنے کے لئے ضروری تھا کہ ان سے رعایتیں کی جاتیں تاکہ وہ لوگ جنہوں نے قربانی کا نہایت اعلیٰ نمونہ دکھایا تھا وہ اپنی مجبوری کی وجہ سے دوسروں سے پیچھے نہ رہ جائیں مگر اس سے ان لوگوں کا فائدہ اٹھا لینا جو اپنی حیثیت اور اپنی مالی وسعت کے مقابلہ میں بہت کم قربانی کر رہے ہیں۔ یہ انسانوں کی نگاہ میں تو بے شک اچھا بن جانے والی بات ہے مگر خداتعالیٰ کی نگاہ میں انہیں اچھا نہیں بنا سکتی۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے اس چندہ میں حصہ لینے والے وہ لوگ بھی تھے جنہوں نے ایک سال میں دو دو ماہ کی آمد دے دی تھی۔ اسی طرح اس میں ایسے لوگ بھی شامل تھے جنہوں نے اپنا تمام اندوختہ دے دیا تھا۔ ان لوگوں کے ساتھ مَیں نے یہ رعایت کر دی تھی کہ چونکہ وہ اپنا سارا اندوختہ دے چکے ہیں یا اپنی حیثیت سے بہت بڑھ کر مالی قربانی کر چکے ہیں اس لئے ان کے چندوں کو یا تو باقی سالوں میں پھیلا لیا جائے اور یا پھر پہلے سال انہوں نے جس قدر چندہ دیا تھا اسی قدر چوتھے سال دے دیں اور پھر ہر سال اس پر زیادتی کرتے چلے جائیں۔ مگر ان کے علاوہ ہماری جماعت میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی ایک ماہ کی آمد سے زیادہ چندہ دیتے ہیں بلکہ ایسے بھی ہیں جو قریباً دو ماہ کی آمد کے برابر اس میں چندہ دیتے ہیں۔ اسی طرح بعض اپنی ماہوار آمد کا نوّے فیصدی چندہ دیتے ہیں بعض اپنی ماہوار آمد کا اسّی فیصدی چندہ دیتے ہیں۔ بعض اپنی ماہوار آمد کا ستّر فیصدی چندہ دیتے ہیں۔ بعض اپنی ماہوار آمد کا ساٹھ فیصدی چندہ دیتے ہیں اور بعض اپنی ماہوار آمد کا پچاس فیصدی چندہ دیتے ہیں۔ مگر جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے بعض ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے صرف پانچ روپے چندہ دے کر اسے بڑھانا شروع کر دیا اور سمجھ لیا کہ وہ سَابِقُوْنَ میں شامل ہو گئے ہیں۔ ایسے لوگوں کی اگر سو روپیہ ماہوار آمد ہے اور وہ پانچ روپیہ چندہ دیتے ہیں تو اس کے معنے یہ ہوئے کہ وہ بارہ سو روپیہ سالانہ آمد پر صرف پانچ روپے چندہ دیتے ہیں۔ اگر وہ فی سینکڑہ صرف آٹھ آنے چندہ دیتے تب بھی چھ روپے بنتے مگر وہ پانچ روپے دیتے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک سَو روپیہ آمد کے مقابلہ میں آٹھ آنے کی بھی قربانی نہیں کرتے اور اگر کسی کی ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار آمد ہے اور وہ صرف پانچ روپے چندہ دیتا ہے تو اس کے معنے یہ بنتے ہیں کہ وہ ڈیڑھ سو روپیہ لے کر صرف تین چار آنے خدا تعالیٰ کو دیتا ا ور پھر اس کا نام قربانی رکھتا ہے۔ حالانکہ ادنیٰ سے ادنیٰ کاموں پر بھی اگر کوئی شخص تین چار آنے خرچ کر دے تو وہ اسے قربانی نہیں کہتا۔ عام انسانی ضروریات پر ہی ہر شخص اس سے بہت زیادہ خرچ کر دیا کرتا ہے۔ اسی طرح صدقہ و خیرات کے طور پر انسان ماہوار اس سے زیادہ خرچ کر دیتا ہے۔ مگر کبھی اس کا نام قربانی نہیں رکھتا۔ کُجا یہ کہ وہ عظیم الشان قربانی جس سے اشاعت دین کے لئے ایک مستقل بنیاد رکھی جانے والی ہے۔ اس میں ایک شخص سَو یا ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار آمد رکھتے ہوئے اتنا قلیل حصہ لے اور پھر یہ خیال کرے کہ وہ خدا تعالیٰ کے حضور سَابِقُوْنَ میں شمار کیا جائے گا ایسے لوگوں میں بالعموم وہ ہیں جو بعد میں شامل ہوئے۔ اگر وہ اس طرح نام کی قربانی کرنے کی بجائے یہ خیال کرتے کہ ہم بعد میں شامل ہوئے ہیں ہمیں زیادہ زور دینا چاہئے تاکہ پہلوں کے برابر ہو سکیں۔ تو یہ ان کے لئے اچھا ہوتا۔ بے شک اکٹھا چندہ دینا ان کے لئے مشکل امر تھا۔ مگر وہ یہ کر سکتے تھے کہ اپنے گزشتہ چندہ کو اگلے سالوں میں پھیلا کر ادا کرتے اور اگر پھر بھی بوجھ ان کی طاقت سے بالا ہوتا تو تحریک کے سالوں کے بعد ایک دو سال میں اسے ادا کر دیتے کیونکہ آخر وہ بعد میں شامل ہوئے تھے اور یہ حق ان کو مل سکتا تھا کہ گزشتہ چندہ کو بعد کے سالوں میں پھیلا دیتے۔ بہرحال قربانی وہی کہلا سکتی ہے جو واقع میں قربانی ہو۔ اب جبکہ صرف تین سال تحریک جدید کے رہ گئے ہیں۔ مَیں ایسے لوگوں کو بھی ان کی غلطی کی اصلاح کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اب بھی اپنے چندوں کو درست کر لیں جس کی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ وہ گزشتہ چندے آئندہ سالوں میں پھیلا کر ادا کر دیں۔ تحریک جدید کی میعاد کے اختتام پر ان کے ذمہ جو بقایا رہ جائے گا اسے وہ بعد کے دو تین سالوں میں ادا کر سکتے ہیں۔ بہرحال انہیں اپنی اصلاح کرنی چاہئے اور اس غلطی کی تلافی کی کوشش کرنی چاہئے۔
مَیں ان کو بھی توجہ دلاتا ہوں جو اب تک اس تحریک میں شامل نہیں ہوئے اور ان سے کہتا ہوں ۔ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ اَلَمْ يَاْنِ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ 9 یعنی کیا مومنوں کے لئے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ خدا کے ذکر کے لئے ان کے دل جھک جائیں۔ صوفیاء نے لکھا ہے کہ ایک بزرگ تھے جن کے ہمسایہ میں ایک سخت اوباش اور آوارہ مزاج امیر رہتا تھا۔ اس کی مجلس میں ہر وقت ناچ اور گانا بجانا ہوتا رہتا تھا۔ شراب نوشی کا دَور بھی چلتارہتا۔ چونکہ لوگوں کے اخلاق پر اس کا بہت بُرا اثر پڑ رہا تھا اس لئے انہوں نے اس امیر آدمی کو بارہا روکا مگر وہ اپنے فعل سے باز نہ آیا۔ ایک دن وہ کہتے ہیں مَیں مکہ کا حج کر رہا تھا کہ مَیں نے سامنے اسی امیر شخص کو دیکھا اور اس کے چہرے سے اس قدر انکسار اور فروتنی ظاہر ہو رہی تھی کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ روحانیت سے گداز ہو چکا ہے۔ چونکہ انہیں اس شخص سے جدا ہوئے مدت ہو چکی تھی اس لئے وہ اُس سے ملے اور کہنے لگے مَیں تم میں یہ کیا تبدیلی دیکھتا ہوں تم کو تو گانے والی لڑکیوں شراب نوشی کے دور اور رقص و سرود کی محفلوں میں بیٹھا ہونا چاہئے تھا اور مَیں تو سمجھتا تھا کہ تمہاری ہدایت بالکل ناممکن ہے کیونکہ مَیں نے تم کو بڑے بڑے وعظ کئے تھے۔ تمہیں خدا نے کس طرح ہدایت دے دی؟ وہ کہنے لگا۔ آپ بالکل سچ کہتے ہیں مجھے آپ نے بھی وعظ کئے اور دوسرے واعظوں نے بھی مجھے بہت سمجھایا۔ مگر کسی وعظ کا مجھ پر اثر نہ ہوٴا۔ یہانتک کہ وہ سمجھا سمجھا کر تھک گئے۔ ایک دن میں اپنے کوٹھے پر بیٹھا تھا بزم طرب لگی ہوئی تھی۔ خوبصورت اور حسین عورتیں گانا گا رہی تھیں اور شراب کا دَور چل رہا تھا کہ نہ معلوم خدا کا کونسا بندہ میرے لئے فرشتہٴ رحمت بن گیا۔ وہ میرے مکان کے قریب کی گلی میں سے گزر رہا تھا اور یہ آیت پڑھتا جا تا تھا اَلَمْ يَاْنِ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ ارے مومنو! کیا وہ وقت نہیں آیا کہ تمہارے دل خدا تعالیٰ کے ذکر کے لئے جھک جائیں۔ جس وقت اس نے یہ آیت پڑھی مجھے یوں محسوس ہوٴا کہ یہ آیت ابھی نئے سرے سے نازل ہوئی ہے۔ یکدم میری چیخ نکل گئی۔ شراب کا گلاس میرے ہاتھ سے گِر گیا اور مَیں توبہ کرکے نیک اعمال بجا لانے کی طرف متوجہ ہو گیا۔ اس آیت میں جو ذِکْرُ اللّٰہِ کا لفظ آتا ہے اس کے معنے صرف مُنہ سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کے نہیں بلکہ وہ خدا کا ذکر جس کے ساتھ عمل نہ ہو انسان کے لئے عذاب کا موجب ہو جاتا ہے۔ اصل ذِکْرُ اللّٰہِ یہی ہے کہ انسان مُنہ کے ساتھ عملاً بھی ذکر الٰہی کرے اور دین کی ترقی کے لئے وہ قربانیاں کرے جن کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کا ذکر بلند ہو۔ ایک شخص جو مُنہ سے ذکر الٰہی کرتا ہے مگر اپنے عمل سے خدا تعالیٰ کے ذکر کو بلند کرنے کے لئے کوئی قربانی نہیں کرتا وہ ہرگز ذکر الٰہی کرنے والا قرار نہیں پا سکتا۔ پس جو لوگ اس تحریک میں اب تک شامل نہیں ہوئے مَیں ان سے بھی کہتا ہوں کہ اَلَمْ يَاْنِ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل خدا تعالیٰ کے ذکر کو بلند کرنے کی اہمیت کو محسوس کریں اور اس ذِکْرُ اللّٰہِ کی طرف جلدی سے اپنے قدم بڑھائیں۔ قافلہ اب منزل کے قریب پہنچ رہا ہے۔ کیا اب بھی ان کے دلوں میں حسرت پیدا نہیں ہوتی۔ کیا اب بھی ان کے دلوں میں جوش پیدا نہیں ہوتا اور کیا اب بھی ان کے دلوں میں یہ خواہش پیدا نہیں ہوتی کہ وہ اپنی گزشتہ کوتاہیوں کا ازالہ کر کے اپنے آگے بڑھنے والے بھائیوں کے ساتھ شامل ہو جائیں۔ مَیں ان کو بھی توجہ دلاتا ہوں جو گو پہلے چندے دیتے رہے ہیں لیکن انہوں نے اس قدر قربانی نہیں کی جس قدر کہ ان کے دوسرے بھائی کرتے رہے ہیں کہ وہ ان تین سالوں سے فائدہ اٹھا کر معمولی زیادتی کی جگہ خاص زیادتی کے ساتھ ان تین سالوں میں حصہ لیں تاکہ ان کا انجام اعلیٰ درجہ کے لوگوں والا ہو اور خواتیمِ اعمال کے مطابق ہی انسان کا درجہ ہوتا ہے۔ پس اب بھی وقت ہے کہ جو دوست پہلے کم چندہ دیتے رہے ہیں یا قربانی کے مقام کو انہوں نے پہلے صحیح طور پر نہیں سمجھا تھا یا ان دوستوں کی قربانی اور عمل کو دیکھ کر جن کے حالات ان سے زیادہ اچھے نہیں مگر انہوں نے قربانی ان سے زیادہ کی ہے۔ اب ان کے اندر بھی یہ احساس پیدا ہو چکا ہے کہ انہیں زیادہ قربانی کرنی چاہئے تھی۔ وہ اپنی اصلاح کی طرف توجہ کریں اور آئندہ تین سالوں میں زیادہ قربانیاں کر کے اس آخری دور میں اپنے آپ کو آگے نکالنے کی کوشش کریں۔
مَیں ان کو بھی توجہ دلاتا ہوں جو اخلاص کے ساتھ اس میں حصہ لیتے رہے ہیں کہ اب یہ دور ختم ہونے والا ہے۔ وہ تھکیں نہیں اور جو مقام ان کو اللہ تعالیٰ نے سات سال تک دیا ہے اسے قائم رکھنے کی کوشش کریں اور اسے مضبوطی سے پکڑ لیں۔ تم اپنے باپ کی جائداد کسی کو چھیننے نہیں دیتے ،تم اپنا مال کسی کو چھیننے نہیں دیتے، تم اپنا عہدہ کسی کو چھیننے نہیں دیتے۔ پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایمان کے ہوتے ہوئے تم اپنا اعلیٰ روحانی مقام دوسرے کو چھیننے دو گے۔
مَیں ان کو بھی توجہ دلاتا ہوں جو اَب احمدیت میں داخل ہوئے ہیں کہ وہ بھی اس تحریک میں شامل ہو کر اپنے بھائیوں سے آ ملیں۔ جیسا کہ مَیں کہہ چکا ہوں وہ اپنے سابق سالوں کا چندہ نئے سالوں کے ساتھ ادا کر دیں بلکہ اگر ان پر زیادہ بوجھ ہو تو تحریک کے ایک دو سال بعد تک بھی ادا کر سکتے ہیں اور اس غرض کے لئے وہ مہلت حاصل کر سکتے ہیں۔
مَیں ان کو بھی توجہ دلاتا ہوں جن کو خدا تعالیٰ نے نئی نوکریاں دی ہیں سینکڑوں اور ہزاروں ایسے لوگ ہیں جن کو فوجی کاموں کی وجہ سے ملازمتیں ملی ہیں اور اس طرح خدا تعالیٰ نے ان کے لئے دنیوی فضل کا دروازہ کھولا ہے۔ وہ اسے روحانی دنیا کے لئے بھی کھولنے کی کوشش کریں اور اس کے شکرئیے میں ایسی قربانیاں کریں جو انہیں روحانی فضلوں کا وارث کر دیں۔
مَیں یہ بھی توجہ دلاتا ہوں کہ جو لوگ وعدے کریں وہ جلد سے جلد ان کو پورا کرنے کی کوشش کریں تاکہ ان کی قربانی سے سلسلہ کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے۔ چاہئے کہ جو دوست سَابِقُوْنَ میں شامل ہونا چاہیں وہ مارچ تک اپنے چندے ادا کر دیں۔ جن سے یہ نہ ہو سکے ان کے لئے دوسرا دَور جولائی کے آخر تک ہے۔ وہ جولائی کے آخر تک اپنے چندے ادا کر دیں اورجن سے یہ بھی نہ ہو سکے وہ اگلے سال کے نومبر کے آخر تک اپنے چندے ادا کر دیں۔ مَیں ان کو بھی جو اَب تک سابق سال کا چندہ ادا نہیں کر سکے توجہ دلاتا ہوں کہ ان سے جو کوتاہی ہو چکی ہے اس کا دسمبر اور جنوری کے مہینہ میں ازالہ کرنے کی کوشش کریں۔ اور دسمبر اور جنوری میں اپنا چندہ ادا کر دیں تاکہ نیا سال انہیں وعدہ کے ایفاء میں اَور بھی پیچھے نہ ڈال دے۔
مَیں ان کارکنوں کو بھی جنہوں نے تحریک جدید کے کام کو اپنے ذمہ لیا ہوٴا ہے توجہ دلاتا ہوں کہ ان کو خدا تعالیٰ نے بہت بڑے ثواب کا موقع دیا ہے۔ وہ بھی بیدار ہوں اور اپنے مقام کی عظمت کو سمجھیں۔ انہیں خدا تعالیٰ نے دوہرے بلکہ تہرے ثواب کا موقع عطا کیا ہوٴا ہے کیونکہ وہ اس چندہ میں خود بھی شامل ہوتے ہیں اور دوسروں سے بھی چندہ وصول کرتے ہیں۔ پس انہیں صرف اپنے چندہ کا ہی ثواب نہیں ملتا بلکہ دوسروں سے چندہ وصول کرنے کا بھی ثواب ملتا ہے اور یہ وہ امر ہے جس کا رسول کریم ﷺ فیصلہ فرما چکے ہیں۔ چنانچہ آپ نے فرمایا جو شخص نیکی کرتا ہے اسے بھی ثواب ملتا ہے اور جو دوسرے کو نیکی کی تحریک کرے اُسے دُہرا ثواب ملتا ہے۔ ایک خود نیکی کرنے کا اور دوسرا نیکی کی تحریک کرنے کا۔10 اسی طرح تحریک جدید کا جو کارکن اپنا چندہ ادا کرنے کے علاوہ دس آدمیوں سے چندہ وصول کر کے بھجواتا ہے اسے ان دس آدمیوں کا ثواب ملتا ہے اور جو بیس آدمیوں سے چندہ وصول کر کے بھجواتا ہے اُسے اِن بیس آدمیوں کا ثواب ملتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے دروازوں کو اس طرح کھول رکھا ہے تو جو شخص اب بھی سُستی سے کام لیتا ہے اس کی حالت کس قدر افسوس ناک ہے۔ پس مَیں تحریک جدید کے کارکنوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ دسمبر کی بیس تاریخ تک اپنی جماعتوں سے چندے کی فہرستیں مرتب کر کے بھجوا دیں اورجو کام باقی رہ جائے اس کی تاریخ 31 جنوری تک ہو گی۔ کیونکہ جلسہ سالانہ کے بعد اپنے اپنے گھروں کو جا کر لوگ 10۔ 15 جنوری سے کام شروع کرتے ہیں۔ پس پنجاب اور ان دوسرے علاقوں کے لئے جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے وعدے بھیجنے کی آخری تاریخ 31 جنوری ہے۔ مگر وہ لوگ یقینا ہمارے کام میں سہولت پیدا کرنے والے ہوں گے جن کے وعدے بیس دسمبر تک آ جائیں گے۔
جن علاقوں میں اردو زبان بولی نہیں جاتی مثلاً بنگال ہے یا مدراس ہے یا اسی طرح غیر زبان بولنے والے اور صوبجات ہیں۔ ان کے وعدوں کی آخری میعاد 30، اپریل ہے اسی طرح ہندوستان کے باہر دوسرے ممالک میں رہنے والے ہندوستانیوں کے لئے بھی 30 اپریل آخری تاریخ ہے۔ البتہ غیر ملکی لوگوں کے لئے جیسے امریکہ وغیرہ کے رہنے والے ہیں 30 جون تک وعدوں کی میعاد ہے۔
مَیں امید کرتا ہوں کہ جماعت کے دوست اس تحریک کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس میں حصہ لیں گے۔ یاد رکھو دنیا میں وہی قومیں ترقی کیا کرتی ہیں جو اپنا قدم ہمیشہ آگے بڑھاتی ہیں۔ اگر گندم کو ترقی دے کر اسے بڑھایا جا سکتا ہے، اگر سبزیوں اور ترکاریوں کو ترقی دے کر انہیں بڑھایا جا سکتا ہے ، اگر آموں کو ترقی دے کر انہیں بڑھایا جا سکتا ہے، اگر گھوڑوں، گدھوں، بیلوں اور بکریوں کو ترقی دے کر انہیں بڑھایا جا سکتا ہے تو سوچو کہ خدا تعالیٰ کی اشرف المخلوقات کو ترقی دے کر کیوں بڑھایا نہیں جاسکتا۔ یقینا جس طرح اور چیزیں ترقی کر رہی ہیں اسی طرح بنی نوع انسان بھی ترقی کر سکتے ہیں اور وہ اپنے روحانی کمالات سے دنیا کو محوِ حیرت کر سکتے ہیں بالخصوص ہماری جماعت تو وہ ہے جسے خدا نے ترقی کے لئے ہی پیدا کیا ہے اوروہ چاہتا ہے کہ تمام دنیا پر ہماری جماعت کو غالب کرے۔ پس ہماری جماعت کو اپنے اندر ایسا تغیّر پیدا کرنا چاہئے کہ جس طرح اچھے بیج قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اس طرح ہماری جماعت کو دیکھ کر لوگ اس کی قدر کرنے لگ جائیں اور وہ کہہ اٹھیں کہ دنیا ایسی قیمتی جماعت کو دیکھنے سے آج تک محروم رہی ہے۔ ’’
(الفضل 7دسمبر 1941ء)
1 الفاتحہ: 6،7
2 مسند احمد بن حنبل جلد 5صفحہ 265-266 مطبوعہ بیروت
3 وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ اتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِاِيْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَ مَاۤ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَيْءٍ١ؕ كُلُّ امْرِئٍۭ بِمَا كَسَبَ رَهِيْنٌ ۔( الطور:22)
4 ابن ماجہ ابواب الفتن باب خروج المہدی
5 مسند احمد بن حنبل جلد 2 صفحہ298،299
6 بخاری کتاب المغازی باب غزوة الطائف
7 التوبة : 33 ، الصف: 10
8 تذکرہ صفحہ 312۔ ایڈیشن چہارم
9 الحدید: 17
10 مسلم کتاب الزکوٰة باب اَلْحَثُّ عَلَی الصَّدَقَةِ (الخ)

36
1۔ تحریک جدید اور جلسہ سالانہ کی بابت ہدایات
2۔ مولوی محمد علی صاحب کی کُھلی چِٹھی کا جواب
( فرمودہ 5 دسمبر 1941ء )

تشہد، تعوّذ اور سورہٴ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘ میرا ارادہ تو آج جلسہ سالانہ کے متعلق اور تحریک جدید کے متعلق کچھ کہنے کا تھا مگر خطبہ سے کچھ منٹ پہلے قریباً 20، 25 منٹ پہلے مجھے ایک رجسٹری خط ملا ہے جس میں مولوی محمد علی صاحب کی طرف سے ایک کھلی چٹھی میرے نام ہے۔ اس لئے اس کے ایک سوال کو بھی مَیں نے خطبہ میں شامل کرنا مناسب سمجھا۔ پس آج کا خطبہ متفرق باتوں پر مشتمل ہو گا۔
سب سے پہلے تو مَیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے ہماری جماعت کو اس بات کی توفیق عطا فرمائی کہ دوست تحریک جدید کے سلسلہ میں چندے ادا کرنے والے یا اس کے لئے وعدے کرنے والے بنے۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے اب تک 25 ہزار روپیہ تک کے وعدے آ چکے ہیں۔ ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے خطبہ کو سن کر اپنے چندوں میں زیادتیاں کی ہیں اور ایسے بھی سعید ہیں جن کو خطبہ ابھی نہیں پہنچا مگر باوجود اس کے انہوں نے اپنے پہلے چندہ سے کافی زیادتی کی ہے اور بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے خطبہ پڑھنے سے پہلے ہی اپنے چندے لکھوا دئیے ہیں اور خطبہ کے مضمون سے ناواقف ہونے کی وجہ سے اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکے اور حسبِ دستورِ سابق تھوڑی سی زیادتی کے ساتھ وعدے لکھوا دئیے ہیں حالانکہ اگر وہ قربانی کی کوشش کرتے تو اَور بھی کر سکتے تھے۔ پھر ایسے بھی ہیں جو پہلے کوتاہی کر رہے تھے اور اپنی حیثیت سے کم چندے لکھوا رہے تھے اور انہوں نے میر اخطبہ پڑھنے کا انتظار نہ کیا اور اس سال بھی حسبِ سابق ہی چندہ لکھوا دیا جو اِن کے لئے قربانی نہیں کہلا سکتی۔ مجھے امید ہے کہ خطبہ کی اشاعت کے بعد دوست اس کے مضمون کو اچھی طرح ذہن میں رکھ لیں گے۔
قادیان کے دوستوں کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ وہ ہر تحریک کو پہلے سن لیتے ہیں اور باہر والے جب خطبہ اخبار میں چھپ کر جاتا ہے تو اسے پڑھتے ہیں۔ خطبہ کل شائع ہو جائے گا کیونکہ مَیں نے گزشتہ خطبہ کل ہی دیکھ کر دیا ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ پہلے شائع ہو جاتا مگر مجھے بعض ضروری کام تھے ۔ ‘‘الفضل’’ والوں نے یاد دہانی نہ کرائی اور پرسوں مَیں نے اتفاقاً ایک جگہ پڑا دیکھا تو خیال آیا کہ اسے دیکھ دوں۔ ایسے خطبات کے متعلق جلدی جلدی یاد دہانی کرائی جانی چاہئے تا وہ جلد از جلد چھپ سکیں۔
بہرحال تحریک شائع ہو چکی ہے اور جماعت کا ایک حصہ وعدے لکھوا بھی چکا ہے ان میں سے کثیر حصہ تو ایسا ہے جو قربانی کرنے والا ہے اور ایک قلیل حصہ ایسا ہے جس کے چندے یا وعدے قربانی نہیں کہلاسکتے۔ مَیں ان کوبھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ صحیح معنوں میں قربانی کرنے کی کوشش کریں۔ یہ دینی کام ہے اور ہمارے تمام کام دراصل دعاوٴں سے ہی تعلق رکھتے ہیں مگر دوست واقف نہ ہونے کی وجہ سے بہت بڑے ثواب سے محروم رہ جاتے ہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ جب بھی کوئی دینی تحریک ہو انہیں فوراً دعائیں کرنے میں لگ جانا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اسے زیادہ سے زیادہ کامیاب بنائے، انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی۔ اس کے دو فائدے ہوتے ہیں ایک تو یہ کہ دعائیں اللہ تعالیٰ کے فضل کو کھینچتی ہیں اور جماعت کے کمزور اور طاقتور دونوں کو قربانی کا موقع مل جاتا ہے اور انفرادی طور پر یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ایسے دوستوں پر بھی اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہوتا ہے جو دینی تحریکات کی کامیابی کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے ہیں۔ جب تم خدا تعالیٰ کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہو اس لئے کہ وہ کسی دینی کام کو پورا کرے (دینی کام دراصل خدا تعالیٰ کا اپنا کام ہے) تو تم گویا اس سے دعا کرتے ہو کہ وہ اپنا کام کرے اور جب تم خدا تعالیٰ کے کام کے لئے اس سے دعا کرتے ہو تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میرا بندہ میرا کام کر رہا ہے۔ لاوٴ مَیں بھی اس کا کام کروں۔ اللہ تعالیٰ کے بہترین فضلوں کو جذب کرنے والی دعاوٴں میں سے ایک یہ بات بھی ہے کہ جب بھی کوئی دینی تحریک ہو مومن دعاوٴں میں لگ جائے کہ اللہ تعالیٰ اسے کامیاب کرے اور اگر کوئی مومن کسی دینی تحریک کی کامیابی کے لئے دعا کرتا ہے اور رقت و زاری کے ساتھ کرتا ہے اور اس کے نتیجہ میں کسی کو اس میں حصہ لینے کی توفیق مل جاتی ہے تو خواہ وہ دنیا کے کسی کنارے پر رہنے والا ہو اس کاثواب اسے بھی ملے گا۔ جب کوئی مومن کسی دینی تحریک کی کامیابی کے لئے بڑی دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس بندے نے بڑی دعا کی ہے اس کے نتیجہ میں اسے کچھ ضرور دینا ہے اور وہ کسی دور مقام پر رہنے والے کسی شخص کے دل میں یہ جوش پیدا کر دیتا ہے کہ وہ اس میں زیادہ حصہ لے اور اس کا ثواب اس کے نام بھی لکھا جاتا ہے کیونکہ اس کی روحانی تحریک سے اسے خدمت دین کا موقع ملا۔ مگر اس کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ کہے گا کہ ہمارے بندے نے ہمارے کام کی خاطر دعا کی ہے اور ہمارے پاس آیا ہے کہ ہم اپنا کام کریں۔ اس نے ہمارے کام کی فکر کی ہے ہم اس کے کاموں کی فکر کیوں نہ کریں۔ تو اس دعا کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ خود اس کے کاموں کا بھی متکفّل ہو جائے گا اور اس کے کام خود کرنے لگے گا۔ اگر کوئی سچے دل سے یہ گُر آزمائے تو اسے ولایت کا مقام حاصل ہو جائے گا۔ ولایت اسی کا نام ہے۔ اولیاء اور صلحاء کے کاموں کے خدا تعالیٰ کے متکفّل ہو جانے کی کیا وجہ ہے ؟ یہی کہ وہ خدا تعالیٰ کے کاموں میں لگ جاتے ہیں اس لئے خدا تعالیٰ ان کے کاموں کا متکفل ہو جاتا ہے اور اسی کا نام ولایت ہے۔ وہ خداتعالیٰ کے کام کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ ان کے کرتا ہے اورجو انسان خدا تعالیٰ کا کام تو نہ کر سکے مگر اس کے مکمل ہو جانے کی دعا کرتا رہے تو اس کامطلب بھی کام کرنے کا ہی ہے اور اس کے نتیجہ میں بھی خدا تعالیٰ اس انسان کے کام کرنے لگ جاتا ہے۔
غرض جو بندہ خدا تعالیٰ کے کاموں کو اپنا لیتا ہے وہ گویا خدا تعالیٰ کا ولی بن جاتا ہے اور اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ اس کے کاموں کو اپنا لیتا اور اس کا ولی بن جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی ولایت کے یہ معنی نہیں کہ جس طرح دو شخص باہم فیصلہ کرتے ہیں کہ آوٴ ایک دوسرے کے دوست بن جائیں اور پھر دعوت کرتے ہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی ولایت اسی طرح ہوتی ہے کہ بعض بندے خدا تعالیٰ کے کاموں میں لگ جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ ان کے کاموں کا کفیل ہو جاتا ہے اسی کا نام ولایت ہے۔ پس دوستوں کو اس موقع پر بھی دعائیں کرنی چاہئیں اورہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ جب کوئی نئی تحریک ہو تو خواہ کوئی کہے یا نہ کہے وہ خدا تعالیٰ سے دعائیں کرنے میں لگ جائیں کہ اللہ تعالیٰ اسے زیادہ سے زیادہ کامیاب کرے۔ پھر وہ دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح ان کے مصائب اور مشکلات کو دور کرتا ہے۔ یہ نہیں کہ پھر ان پر کوئی مشکل یا مصیبت آئے گی نہیں۔ مصائب اور مشکلات دنیا میں آتی تو ضرور ہیں، اللہ تعالیٰ کے انبیاء پر بھی مشکلات آتی ہیں حتّٰی کہ آنحضرت ﷺ پر بھی مصائب اور مشکلات آئیں۔ تو پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ تم پر نہ آئیں۔ مگر یہ مصائب اور مشکلات کوئی چیز نہیں ہیں۔ اصل مصیبت وہ ہوتی ہے جو انسان کو تباہ کر دے اور ایسی مشکلات تم پر کبھی نہ آئیں گی۔
ایک دفعہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک نوٹ ملا جو شاید مَیں تشحیذ الاذہان میں شائع بھی کروا چکا ہوں۔ اس میں آپ نے لکھا ہے کہ خواہ ساری دنیا میری مخالف ہو مجھے اس کی کیا پرواہ ہو سکتی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کا مجھ پر اتنا فضل ہے کہ جب دنیا سو جاتی ہے وہ آسمان سے اتر کر مجھے تسلی دیتا ہے کہ مَیں تیرے ساتھ ہوں اور جس شخص کو خدا تعالیٰ یہ تسلی دے کہ مَیں تیرے ساتھ ہوں اس کے دل میں غم کہاں آ سکتا ہے۔ دنیا کا سب سے زیادہ مظلوم وجود محمد رسول اللہ ﷺ کا تھا مگر سب سے زیادہ خوش وجود بھی آپ کا ہی تھا۔ سب سے زیادہ مشکلات میں گھرا ہوٴا وجود آپ کا تھا مگر قیامت تک آپ سے زیادہ خوش وجود بھی اور کوئی نہ ہو سکتا۔ پس مَیں یہ نہیں کہتا کہ آپ لوگوں پر مشکلات نہ آئیں گی۔ بعض نادان ایسے ہوتے ہیں کہ دو تین روز نمازیں پڑھیں یا چند روز دعائیں کیں تو کہنے لگ جاتے ہیں کہ جی بڑی نمازیں پڑھیں، بڑی دعائیں کیں مگر کچھ نہیں بنتا، پھر بھی مشکلات دور نہیں ہوتیں حالانکہ مشکلات تو انبیاء پر بھی آتی ہیں اور مومنوں پر بھی ضرور آتی ہیں۔ پس مَیں یہ نہیں کہتا کہ آپ پر مشکلات یا مصائب نہ آئیں گی بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو تباہ نہیں کرے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کا ایک واقعہ ہے جو گورداسپور میں ہوٴا۔ مَیں تو اس مجلس میں نہ تھا گو اس وقت گورداسپور میں موجود تھا۔ مجھ سے ایک اُس مجلس میں موجود راوی نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے اور دوست پاس دری پر بیٹھے تھے۔ خواجہ کمال الدین صاحب اور دوسرے دوست جو مقدمہ کی پیروی کر رہے تھے، بہت گھبرائے ہوئے آئے اور کہا کہ حضور بہت خطرناک خبر سنی ہے۔ ہم لاہور گئے ہوئے تھے وہاں سے معلوم ہوٴا ہے کہ وہاں آریوں کی خاص مجلس منعقد ہوئی اور یہ مجسٹریٹ جس کے پاس مقدمہ ہے یہ بھی اس میں شامل تھا۔ آریوں نے اس پر بہت زور دیا ہے کہ مرزا صاحب ہمارے مذہب کے سخت مخالف ہیں انہیں ضرور سزا دے دو خواہ ایک دن کے لئے ہی کیوں نہ ہو، انہیں جیل میں ضرور بھیج دو یہ تمہاری ایک قومی خدمت ہو گی اور وہ وہاں یہ وعدہ بھی کر آیا ہے کہ مَیں ضرور ایسا کروں گا۔ مجھ سے راوی نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام پہلے لیٹے ہوئے تھے پھر کہنی پر ٹیک لگا کر پہلو کے بل ہو گئے۔ آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آپ نے فرمایا۔ خواجہ صاحب آپ کیا کہتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کے شیر پر بھی کوئی ہاتھ ڈال سکتا ہے؟
تو مومن کو مشکلات تو آتی ہیں مگر یہ مشکلات ایسی نہیں ہوتیں کہ اسے تباہ کر دیں۔ بڑی مشکل وہ ہوتی ہے جو انسان کو تباہ کر دے ورنہ دنیا میں مشکلات آتی ہی ہیں۔ زمیندار کو دیکھو سخت سردی میں ہل چلاتا ہے، کھیتوں کو پانی لگاتا ہے مگر وہ اسے مشکل نہیں سمجھتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے بدلہ میں اسے فائدہ ہو گا۔ مشکل انسان اسے سمجھتا ہے جس کے بدلہ میں وہ سمجھے کہ اس پر تباہی آ جائے گی۔ عورت کو دیکھو اپنے بچہ کو وہ کس طرح پالتی ہے، کتنی مصیبتیں اس کے لئے جھیلتی ہے مگر ایک بچہ ابھی اس کی گود سے اترتا نہیں کہ دعائیں کرنے لگ جاتی ہے کہ خدا پھر میری گود ہری کرے اور اس کی اس دعا کے یہی معنے ہوتے ہیں کہ خدایا میں پھر پیشاب سے بھیگوں، پھر میرا خون چُوسنے والا کوئی پیدا ہو۔ اسی طرح اگر باپ ایسی دعا کرے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ ایک اَور روٹی کھانے والا پیدا ہو جائے، ایک اَور کمرہ سنبھالنے والا ہو، ایک اور تعلیم پر خرچ کرانے ولا ہو، ایک اَور رو رو کر اس کے آرام میں خلل ڈالنے والا ہو۔ تو ماں باپ کے لئے اولاد کا ہونا بظاہر تکلیف کا موجب ہوتا ہے مگر کیا ان مشکلات کو کوئی مشکل کہتا ہے۔ اگر کوئی اسے مشکل کہے تو ہر شخص کہے گا کہ اس بیچارے کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔
تو ان باتوں کا نام مشکل نہیں۔ مشکل اسے کہتے ہیں جس کے نتیجہ میں انسان کو تباہی کا ڈر ہو۔ جس کے بدلہ میں انعام ملنے والا ہو اُسے کوئی مشکل نہیں کہتا اور اسے مشکل کہنے والے کو کوئی باہوش انسان نہیں سمجھتا۔
غرض میری بات سے یہ دھوکا نہ کھاوٴ کہ کوئی مشکل آئے گی ہی نہیں۔ ایسا نہ ہو کہ چند روز دعائیں کرو اور پھر کہو کہ جی دیکھ لیا بڑے خطبے پڑھتے تھے کہ مشکلات دُور ہو جائیں گی مگر وہ بدستور ہیں۔ بعض لوگ چند دن نمازیں پڑھ لیں تو کہنے لگ جاتے ہیں بہت نمازیں پڑھیں، بڑے روزے رکھے مگر مِلا مِلایا کچھ بھی نہیں دراصل ‘‘ کچھ’’ کے معنے ان کے نزدیک اَور ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک کچھ اَور۔ ان کی مثال اس میراثی کی سی ہوتی ہے جس کی نسبت کہتے ہیں کہ اس نے کسی مولوی کا وعظ سنا کہ نمازیں پڑھنے میں بڑے فائدے ہیں۔ دیہاتیوں کے نزدیک تو ‘‘فائدہ’’ اسی کو کہتے ہیں جو فوراً مل جائے۔ اس نے مولوی صاحب سے پوچھا کہ نماز سے کیا فائدہ ہوتا ہے۔ وہ کچھ اَور تو نہ بتا سکا صرف یہ کہا کہ مُنہ پر نور برسنے لگتا ہے۔ اس نے سوچا کہ چلو نور ہی سہی اور نماز شروع کر دی۔ صبح کی نماز کا وقت آیا تو سردی بہت تھی۔ اس نے مولوی سے سنا کہ تیمم سے بھی نماز ہو جاتی ہے۔ اس نے اندھیرے میں ہی تیمم کر کے نماز پڑھ لی اور جب ذرا روشنی ہوئی تو بیوی سے کہا کہ دیکھو تو سہی میرے چہرہ پر کوئی نور ہے۔ اس نے کہا کہ مجھے تو پتہ نہیں نور کیا ہوتا ہے لیکن تمہارے مُنہ پر سیاہی آ گے سے زیادہ ہے۔ اصل بات یہ تھی کہ اس نے اندھیرے میں تیمم کرنے کے لئے جو ہاتھ مارے تو وہ توے پر پڑے اور ہاتھوں پر بھی اور مُنہ پر بھی سیاہی لگ گئی۔ جب بیوی نے کہا کہ مُنہ پر سیاہی زیادہ ہے تو اس نے اپنے ہاتھوں کو دیکھا اور کہا کہ اگر نور کالا ہوتا ہے تو پھر تو گھٹا باندھ کر آیا ہے۔ دیکھو لو میرے ہاتھ بھی کالے ہیں۔ تو دنیا میں ایک طبقہ ایسا بھی ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ کی باتوں کو بھی جسمانیات کی طرف لے جاتا ہے اور ایسے لوگوں کو مَیں متنبّہ کرتا ہوں کہ میری اس بات سے وہ دھوکا میں نہ پڑیں۔
مصائب اور مشکلات انبیاء کا خاصہ ہے ۔ حدیث میں آتا ہے کہ جتنا کوئی شخص خدا تعالیٰ کا پیارا ہوتا ہے اُتنا ہی وہ زیادہ مشکلات میں گِھرا ہوٴا ہوتا ہے1 خدا تعالیٰ کی طرف سے برکات کے وعدہ سے میرا مطلب وہ ہے جو خدا تعالیٰ کے لئے برکت دینے کا رنگ ہے۔
میرے خطبہ کی دوسری بات یہ ہے کہ ہمارا جلسہ سالانہ سر پر آ گیا ہے اور اس موقع پر بہت سے آدمیوں اور بہت سے مکانوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ پچھلے سال مکانات کی بہت تکلیف ہو گئی تھی مگر پھر اللہ تعالیٰ نے فضل کر دیا اور احباب جماعت کے دلوں میں جوش پیدا کر دیا اور انہوں نے مکانات خالی کر دئیے۔ اب کے مَیں پھر دوستوں کو خصوصیت کے ساتھ نصیحت کرتا ہوں کہ اول تو کام کے لئے جتنے زیادہ سے زیادہ دوست اپنے آپ کو پیش کر سکیں، کریں۔ اس موقع پرہزاروں لوگ باہر سے آتے ہیں اور ان کی مہمان نوازی کے لئے بہت سے آدمیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی کے گھر میں چار پانچ مہمان آ جائیں تو کس طرح وہ خود، اس کی بیوی اور بچے کام میں لگے ہوتے ہیں تب جا کر انتظام درست ہوتا ہے۔ تو جہاں 25،30ہزار بلکہ بعض مواقع پر اس سے بھی زیادہ مہمان آئیں ان کے لئے کس قدر آدمیوں کی ضرورت ہو سکتی ہے ۔ اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ ہماری جماعت کے لئے تو اللہ تعالیٰ نے مشق کا سامان کر دیا ہے اور انہیں ہر سال مشق ہوتی رہتی ہے۔ ہر سال مہمان آتے ہیں اور وہ ہر سال مہمان نوازی کرتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں انہیں ہر سال مشق ہو جاتی ہے اور اس وجہ سے کام میں سہولت ہو جاتی ہے۔ اس مشق کا موقع باہر کسی جگہ حاصل نہیں ہوتا۔ جس طرح فوج کو باقاعدہ مشق کرائی جاتی ہے اسی طرح ہمارے ہاں بھی ہر سال مشق ہو جاتی ہے۔ فوج میں لاکھوں انسانوں کو کھانا مہیا کرنا ہوتا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ ہر وقت کی روٹی ان کو مل سکے۔ اس کے لئے کُم مسّریٹ (COMMISSARIAT) 2 کا علیحدہ محکمہ قائم ہوتا ہے جسے کھانا تیار کرنے اور وقت پر پہنچانے کی مشق کرائی جاتی ہے، کھانا پہنچانے کے طریق بتائے جاتے ہیں اور ان کو لاریاں، موٹریں اور دیگر ضروری سامان مہیا کیا جاتا ہے۔ حتّٰی کہ اتفاقی حوادث کا مقابلہ کرنے کا بھی انتظام کیا جاتا ہے اور اس وجہ سے ان لاکھوں لوگوں کو خوراک پہنچ جاتی ہے۔ اسی طرح یہاں کے لوگوں کو بھی چونکہ ہرسال مشق کا موقع ملتا ہے اس لئے کام میں سہولت ہو جاتی ہے۔
اتنی مہمان داری جتنی یہاں ہوتی ہے اور کسی جگہ نہیں ہوتی۔ بڑے بڑے عُرسوں پر بھی زیادہ سے زیادہ ایک وقت کی روٹی دی جاتی ہے اور وہ بھی بعض جگہ تو صرف دو دو روٹیاں دے دی جاتی ہیں اور بعض جگہ دو دو روٹیاں اور ساتھ دال دے دی جاتی ہے۔ عُرسوں کے علاوہ بڑے اجتماع کانگرس وغیرہ کے جلسوں پر ہوتے ہیں مگر وہاں دکانیں کھلوا دی جاتی ہیں کہ لوگ مول لیں اورکھائیں۔ یہ صرف ہمارا ہی جلسہ ہوتا ہے جہاں قریباً پندرہ بیس دنوں تک اتنے مہمانوں کو باقاعدہ کھانا کھلایا جاتا ہے اور اس طرح اگر حساب کیا جائے تو لاکھوں کی حاضری ہو جاتی ہے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ ایسے مواقع پر بعض دفعہ رنجشیں بھی ہو جاتی ہیں۔ کسی کو کھانا بروقت نہ مل سکا یا فوراً کوئی جگہ نہ مل سکی تو رنجش پیدا ہو جاتی ہے۔ہر کام کے لئے الگ الگ منتظم مقرر ہوتے ہیں۔ ان کو چاہئے کہ پیش آمدہ مشکلات اور ان کے جو حل سوچے جائیں ان کا ریکارڈ رکھتے جائیں جو آئندہ کے لئے رہنمائی کا کام دے۔ سرکاری محکموں کی ترقی اسی طرح ہوتی ہے وہ رپورٹیں مرتب کرتے رہتے ہیں جن میں آئندہ کے لئے فیصلے بھی درج ہوتے ہیں۔ اگر ہم بھی ایسا انتظام کریں تو بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔
اِس وقت مَیں کارکنوں سے خاص طور پر یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے نفسوں کو مار کر کام کریں اور خدا تعالیٰ کے لئے قربانی کرنے والے بنیں۔ مہمان کی سختی برداشت کرنا بھی ثواب کی بات ہے ۔ وہ ناواقف ہوتے ہیں اور باہر سے آتے ہیں۔ پھر بعض نئے ہوتے ہیں جو بعض دفعہ سختی بھی کرتے ہیں۔ جب لاوٴڈ سپیکر کا نیا نیا انتظام ہوٴا تو چونکہ عورتوں میں بھی میری آواز آسانی سے پہنچ جانے کا انتظام ہو گیا تھامنتظمات نے عورتوں سے کہا کہ کُھل کر بیٹھیں آواز ہر جگہ پہنچے گی۔ زنانہ جلسہ گاہ میں لڑکیاں انتظام کا کام کرتی ہیں اور آنے والی عورتوں کو بٹھاتی ہیں ان میں میری لڑکیاں بھی ہوتی ہیں۔ باہر سے جو بہت سی دیہاتی عورتوں کا ایک گروہ آیا تو میری ایک لڑکی نے ان سے کہا کہ آپ یہیں بیٹھ جائیں آواز پہنچتی رہے گی وہ اس پر اتنی ناراض ہوئیں کہ انہوں نے میری لڑکی کو نیچے گرا لیا اور اس کے اوپر سے روندتی ہوئی گزر گئیں اور کہا کہ تم ہم کو دھوکا دیتی ہو کہ ان لکڑیوں میں سے آواز آجائے گی۔ تو ناواقفی میں مہمانوں سے ایسی حرکتیں ہو جاتی ہیں مگر چاہئے کہ ایسے مواقع پر ناراض ہونے کی بجائے صبروتحمل سے کام لیا جائے اور مہمانوں کی سختی کو برداشت کیا جائے۔ بعض احمدیوں کے ساتھ غیر احمدی بھی ہوتے ہیں اور ان احمدیوں کو احساس ہوتا ہے کہ یہ ہمیں میزبان سمجھتے ہیں اور ان کے آرام کی خاطر مہمان نوازوں سے سختی بھی کر لیتے ہیں اس لئے وہ اگر کسی منتظم کے ساتھ سختی سے بھی پیش آئیں تو چاہئے کہ وہ آگے سے محبت اور پیار سے ہی جواب دیں، چہرہ پر بشاشت ہو، یہ بھی بہت برکت کا موجب ہوتا ہے کہ آدمی کا چہرہ بشاش ہو۔ ایسا بشاش چہرہ انسان کے اپنے لئے بھی اور دوسروں کے لئے بھی خوشی کا موجب ہوتا ہے۔ خشک چہرہ والا اپنے آپ کو بھی جلاتا ہے اور دوسروں کو بھی جلاتا ہے۔ پس چاہئے کہ کوئی سختی بھی کرے تو آگے سے یہی کہا جائے کہ آپ جو فرمائیں ٹھیک ہے۔ آپ جس طرح کہیں ہم اسی طرح کریں گے اور چہرہ پر کوئی گھبراہٹ نہ ہو بلکہ بشاشت ہو۔ جلسہ سالانہ کے موقع پر دوسری ضرورت مکانوں کی ہوتی ہے۔ دوستوں کو چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ مکان منتظمین کے حوالے کر دیں اور جہاں تک ہو سکے اپنے مکان فارغ کر دئیے جائیں۔
تیسری بڑی ضرورت کھانے کے انتظام کی ہے۔ اِس وقت ہر چیز گراں ہو رہی ہے اس وقت پانچ روپیہ من آ ٹا ہے اور اگر بارش نہ ہوئی تو ساڑھے پانچ چھ روپیہ تک ہو جانے کا خطرہ ہے۔ اس لئے حالات بہت نازک ہیں، ہر چیز مہنگی ہو رہی ہے۔ لکڑی جو پہلے دس بارہ آنہ من تھی اب چودہ آنہ اور ایک روپیہ من ہو گئی ہے بلکہ بعض جگہوں سے تو مجھ کو اطلاع ملی ہے کہ ڈیڑھ روپیہ من تک لکڑی کی قیمت ہو گئی ہے۔ اس لئے اس بات کا خاص طور پر انتظام ہونا چاہئے کہ کھانا کہیں زائد نہ جائے۔ اس کے لئے انسپکٹر مقرر ہونے چاہئیں۔ وہ یہ دیکھیں کہ کسی جگہ کھانا زیادہ نہ جائے اور یہ بھی کہ کم نہ دیا جائے۔ اس وجہ سے کہ فی پرچی کھانے کی ایک مقدار معیّن ہوتی ہے۔ بعض لوگ دس مہمان ہوتے ہیں تو بیس لکھ دیتے ہیں۔ پس کھانا برتانے والے بھی کھانا پورا دیں۔ اگر ایک مہمان پانچ یا دس روٹیاں کھانے والا ہے تو وہ قانون کو کیا کرے۔ پس تعداد صحیح بتائی جائے اور کھانا بھی پورا دیا جائے۔ اس سے ایک فائدہ تو یہ ہو گا کہ صحیح مردم شماری ہو سکے گی اور دوسرا یہ کہ فریب بھی نہ ہو سکے گا۔ دس مہمان ہوں تو بیس بتا دینا یوں بھی جھوٹ ہے۔ اس لئے جو ایسا کرتا ہے وہ گناہ کرتا ہے اور جو دس کی بجائے آٹھ کا کھانا دیتا ہے وہ بھی غلطی کرتا ہے۔ پس ایسے انسپکٹر مقرر کئے جائیں جو اس بات کی نگرانی کریں کہ مہمانوں کی تعداد غلط نہ بتائی جائے اور یہ بھی دیکھیں کہ کھانا پورا ملے۔ پرچی لکھوانے والوں کو کہہ دیا جائے کہ مہمانوں کی تعداد صحیح بتاوٴ۔ ہاں اگر کھانا زیادہ درکار ہو تو اتنا ہی دے دیا جائے گا۔ اس سے یہ فائدہ بھی ہو گا کہ بعض مقامی غیر احمدی جو شرارت کرتے ہیں وہ نہ کر سکیں گے اور دھوکا دے کر کھانا لے جانے والوں کی تعداد بہت کم ہو جائے گی۔ جو شخص جتنی روٹی کھاتا ہے اسے اتنی ہی دی جائے۔ اگر کوئی بیس کھانے والا ہے تو اسے بیس ہی دی جائیں۔ ان باتوں کا بہت خیال رکھا جائے۔ مَیں نے گزشتہ سال اس کی بعض حکمتیں بتائی تھیں اَوربھی بتا سکتا ہوں مگر یہ موقع نہیں۔ پس انسپکٹر ضرور مقرر کئے جائیں اور جس کی پرچی جھوٹی ثابت ہو اُسے سزا دی جائے۔ مگر اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ کھانا پورا ملے۔ اگر کھانا پورا ملنے کا انتظام کر دیا جائے تو پھر جو جھوٹ بولے اسے وہی سزا دی جائے جو جھوٹ بولنے والوں کو ایک سچی قوم کو دینی چاہئے۔ جھوٹ بولنے والا تو مذہب سے بھی خارج ہوتا ہے اور ایسے شخص کو اگر ہم جماعت سے بھی خارج کر دیں تو یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ پس جھوٹی پرچیوں کو روکا جائے۔ ہر ایک مہمانوں کی تعداد صحیح بتائے۔ اگر کسی کے گھر میں دس مہمان ہیں اور وہ دس دس روٹیاں کھانے والے ہیں تو وہ بے شک سو روٹیاں لے جائے مگر تعداد اتنی ہی بتائے جتنے درحقیقت مہمان ہیں۔
اس سلسلہ میں چوتھی بات وہی ہے جو مَیں پہلے کہہ چکا ہوں کہ دوست دعائیں کریں۔ جیسا کہ مَیں کہہ چکا ہوں یہ بہت نازک زمانہ ہے ہر چیز گراں ہو رہی ہے۔ پھر جماعت پر تحریک جدید کا بھی بوجھ ہے۔ اس لئے دعائیں کریں اور یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ بارش برسائے۔ اس سے جلسہ سالانہ پر بھی آرام ملے گا اور گو جلسہ کے لئے تو گندم خریدی جا چکی ہے لیکن اگر بارش نہ ہوئی تو ایسا قحط پڑنے کا اندیشہ ہے کہ ممکن ہے لوگ پچھلے سالوں کی طرح جلسہ پر نہ آ سکیں۔ پس دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ قحط کے سامان دور کرے۔ گورنمنٹ دھمکیاں تو بہت دیتی رہتی ہے کہ گندم مہنگی نہ کی جائے اور اس پر کنٹرول کے اعلان بھی کرتی رہتی ہے مگر عملاً کرتی کچھ نہیں۔ اس کی مثال بالکل اس بنئے کی سی ہے جو لڑتے وقت کہتا ہے کہ اب تم گالی دے کر دیکھو مَیں پنسیری ماروں گا مگر مارتا کبھی نہیں۔ اسی طرح گورنمنٹ بھی دھمکی تو دے دیتی ہے مگر پھر خاموش ہو جاتی ہے۔ وہ قریباً ڈیڑھ ماہ سے بَنیوں والی لڑائی لڑ رہی ہے۔ وہ دھمکی دیتی ہے کہ اب اگر بھاوٴ بڑھا تو کنٹرول قائم کر دیا جائے گا مگر بیوپاری اَور بڑھا دیتے ہیں اور وہ پھر خاموش ہو جاتی ہے۔ جب اس نے یہ دھمکیاں شروع کیں اُس وقت بھاوٴ قریباً چار روپے نو آنے من تھا۔ مگر اب پانچ روپے پانچ آنے بلکہ اس سے بھی زیادہ چڑھ گیا ہے۔ بعض نادان زمیندار ممبروں نے اسمبلی میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ گندم مہنگی کی جائے اور وہ اس میں زمینداروں کا فائدہ سمجھتے ہیں مگر انہیں یہ شاید معلوم نہیں کہ آجکل کی مہنگائی کا فائدہ زمینداروں کو نہیں ہو سکتا بلکہ تاجروں کو ہوتا ہے۔ آجکل کس زمیندار کے گھر میں گندم ہوتی ہے؟ اس موسم میں تو بعض زمینداروں کے گھروں میں بیج کے لئے بھی گندم نہیں ہوتی اور زمیندار بے چاروں کی تو یہ حالت ہوتی ہے کہ ان کا غلہ نکلتا بعد میں ہے اور بِک پہلے جاتا ہے۔ تاہم جیٹھ ہاڑ کی گرانی سے زمینداروں کو کچھ فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
آجکل کی گرانی کا فائدہ ان کو نہیں بلکہ تاجروں کو پہنچتا ہے۔ تاجروں کا یہ قاعدہ ہے کہ جب زمینداروں کے ہاں گندم ہوتی ہے اس وقت سَستی خرید لیتے ہیں اور جب ان کے پاس نہ رہے تو مہنگی کر دیتے ہیں اور اس طرح لوگوں کو تنگ کرتے اورملک کو خوب لوٹتے ہیں۔
پس دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ قحط کے آثار دور کر دے اور مالی مشکلات کو رفع فرمائے۔ ہمارے جلسہ کو بھی کامیاب بنائے اورہمیں توفیق دے کہ اس کی راہ میں زیادہ سے زیادہ قربانیاں کر سکیں۔
اس کے بعد مَیں اب اُس چِٹھی کو لیتا ہوں جو مولوی محمد علی صاحب کی طرف سے شائع ہوئی ہے اور جسے میرے نام کھلی چٹھی قرار دیا گیا ہے۔ اس میں مولوی صاحب لکھتے ہیں کہ:۔
‘‘چند ماہ ہوئے آپ نے مجھے دعوت دی تھی کہ مَیں قادیان میں آ کر آپ کی جماعت کے سامنے وہ دلائل پیش کروں جن کی بناء پر جماعت لاہور کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے دعوے کے نہ ماننے والے مسلمانوں کو کافر نہیں ٹھہرایا اور نہ خود نبوت کا دعویٰ کیا۔ اسے مَیں نے خوشی سے منظور کیا اور صرف اس قدر درخواست کی تھی کہ جماعت تو جلسہ سالانہ کے موقع پر ہی جمع ہوتی ہے اس لئے اُس وقت مجھے یہ موقع دیا جائے۔ اس کے جواب میں آپ نے یہ لکھا کہ جلسہ سالانہ پر آپ یہ موقع نہیں دے سکتے۔ البتہ جلسہ سالانہ کے بعد دو دن دے سکتے ہیں بشرطیکہ آپ کے مہمانوں کا خرچ بحساب تین ہزار روپیہ یومیہ مَیں ادا کروں۔ یعنی چھ ہزار روپیہ آپ کی خدمت میں پیش کروں۔ جواباً مَیں نے لکھا تھا کہ قادیان میں جا کر ہم آپ کے مہمان ہوں گے اور آپ اور آپ کی جماعت کی حیثیت میزبان کی ہو گی اور میزبان کا یہ مطالبہ کہ مہمان اپنا ہی نہیں میزبان کا خرچ بھی ادا کرے مہمان نوازی کے اسلامی خُلق کی بالکل ضد ہے آپ نے اب تک اس کا کوئی جواب نہیں دیا اور اب چونکہ جلسہ سالانہ قریب آرہا ہے اس لئے یاد دہانی کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ خود دعوت دے کر اب آپ کا اس طرح خاموشی اختیار کرنا مناسب نہیں۔ ’’
مَیں نے مولوی صاحب کو یہاں آ کر دوسرے دنوں میں تقریریں کرنے کی دعوت دی تھی اور یہ صحیح ہے کہ ان کی طرف سے یہ مطالبہ ہوٴا تھا کہ جلسہ کے دنوں میں انہیں موقع دیا جائے۔ جلسہ سالانہ کے موقع پر لوگ ہزاروں میلوں سے آتے ہیں اور ہزاروں جماعتوں اور قوموں کے لوگ آتے ہیں اور ہماری جماعت کا جلسہ پر 25، 30 ہزار روپیہ خرچ ہو جاتا ہے اور جو لوگ آتے ہیں وہ بھی لاکھوں روپیہ خرچ کر کے آتے ہیں۔ کلکتہ اور بنگال کے دوسرے شہروں یا بہار وغیرہ سے یہاں تک ایک آدمی کا ایک طرف کا کرایہ 20، 25 روپیہ لگتا ہے اور اگر یو۔پی کے پَرے سے آنے والوں کی تعداد دو سو بھی سمجھ لی جائے اور وہ سب تھرڈ کلاس میں ہی سفر کریں تو دس پندرہ ہزار روپیہ تو صرف ان کا ہی خرچ ہو جاتاہے۔ حالانکہ آنے والوں کی تعداد اس سے بہت زیادہ ہوتی ہے۔ پھر اگر سندھ ، مدراس، بمبئی، کنانور وغیرہ علاقوں سے آنے والوں کا کرایہ اور سفر کے دوسرے اخرجات دیکھے جائیں تو یہ رقم بہت بڑی بن جاتی ہے اور دو سو میل سے زیادہ دور سے آنے والوں مثلاً صوبہ سرحد، راولپنڈی اور دہلی وغیرہ سے جو دوست آتے ہیں ان کا خرچ بھی 20، 25 روپیہ فی کس سے کم نہیں ہوتا اور ان کی تعداد ہزار پندرہ سَو بھی سمجھ لی جائے تو بیس پچیس ہزار روپیہ تو ان کا خرچ ہی بن جاتا ہے۔ قریب کے علاقوں سے آنے والے لوگ اس کے علاوہ ہیں۔ اور اس طرح آنے والوں کا خرچ ایک لاکھ بلکہ اس سے بہت زیادہ ہو جاتا ہے۔ پس یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ مَیں اپنی جماعت کے دوستوں کا اتنا روپیہ جو میری اور میرے معاونین کی باتیں سننے کے لئے خرچ کرتے ہیں ضائع کرا دوں۔ کیا مولوی صاحب بتا سکتے ہیں کہ ایسی مثال پہلے بھی کہیں ملتی ہے؟ مَیں نے جو دعوت دی تھی وہ ایسے موقع کے لئے تھی جب میرے لئے سہولت ہو۔ مولوی صاحب کا مطالبہ جلسہ سالانہ کے موقع پر تقریر کا ہے لیکن جلسہ کے موقع پر ہماری جماعت کے لوگ لاکھوں روپیہ خرچ کر کے یہاں پر میری اورمیرے ساتھ کام کرنے والوں کی باتیں سننے کے لئے آتے ہیں مولوی صاحب کی نہیں۔ اگر انہیں ان کی باتوں کا شوق ہوتا تو یہاں نہ آتے بلکہ لاہور جاتے۔ پس جو لوگ لاکھ ڈیڑھ لاکھ روپیہ خرچ کر کے میری اور میرے ساتھ کام کرنے والوں کی باتیں سننے آتے ہیں انہیں میں مولوی صاحب کی خاطر کیوں مایوس کروں اور کیوں تکلیف میں ڈالوں؟ البتہ مَیں نے یہ کہا تھا کہ اگر وہ اس موقع پر ہی باتیں سنانا چاہیں تو ہم جلسہ کی تاریخوں سے آگے یا پیچھے دو دن بڑھا دیں گے اور مَیں اعلان کر دوں گا کہ دوست کوشش کر کے ان دنوں کے لئے ٹھہر جائیں مگر ان مہمانوں کو چونکہ مولوی صاحب کی باتیں سننے کے لئے ہی ٹھہرایا جائے گا اس لئے ان دنوں کا خرچ بھی انہی کو دینا چاہئے۔ مولوی صاحب کہتے ہیں کہ میرا یہ مطالبہ کہ ‘‘مہمان اپنا ہی نہیں میزبان کا خرچ بھی ادا کرے۔ مہمان نوازی کے اسلامی خُلق کی بالکل ضد ہے۔’’ لیکن مَیں کہتا ہوں کہ میزبان تو مَیں ہوں اور مَیں نے تو اپنا خرچ نہیں مانگا باہر سے آنے والے تو مہمان ہیں اور جن مہمانوں کو ان کی دعوت پر اور ان کی باتیں سننے کے لئے ٹھہرایا جائے گا ان کا خرچ تو بہرحال انہی پر پڑنا چاہئے اور یہ اسلامی خلق کے بالکل خلاف بات نہیں۔ مہمان کا خود کہنا کہ میرے لئے پلاوٴ پکایا جائے، قورمہ پکایا جائے یہ تو مہمانی نہیں بلکہ بے حیائی سمجھی جاتی ہے۔ اگر تو مولوی صاحب کہیں کہ مَیں خود آتا ہوں تو ہم ان کی مہمان نوازی کریں گے لیکن یہ کہ مہمان کہے میرے ساتھ اتنے ہزار آدمیوں کی بھی دعوت کرو اور ان کے لئے بھی کھانے کا انتظام کرو یہ کوئی اسلامی خلق نہیں ہے اور ایسی بات نہ کر سکنے کا نام اسلامی خُلق کی ضد مَیں نے تو کسی جگہ نہیں پڑھا۔ اگر جیسا کہ وہ کہتے ہیں یہی اسلامی خُلق ہے تو وہ ہمیں اجازت دیں کہ ہم بھی اس طرح مہمان نوازی کی دعوت دے دیا کریں اور لکھ دیا کریں کہ آپ اس قدر آدمیوں کی مہمان نوازی کا انتظام کریں۔ ہمارے آدمی آپ کو کچھ باتیں سنانے کے لئے آتے ہیں۔ ہم دیکھیں گے کہ وہ کس طرح اس اسلامی خلق پر عمل کرتے ہیں۔ ہماری تو لاہور کی جماعت ہی خدا تعالیٰ کے فضل سے کافی ہے باہر سے بھی لے جانے کی ضرورت نہیں۔ اگر وہی ان کے اس اسلامی خلق کا امتحان کرنے لگے تو ان کو دو چار دفعہ میں ہی پتہ لگ جائے۔ غرض مہمان کا یہ حق نہیں کہ وہ کہے میری تقریر سننے کے لئے بیس، پچیس ہزار آدمی جمع کئے جائیں اور ان کو کھانا بھی کھلایا جائے اور ایسا مطالبہ پورا نہ کر سکنے کا نام اسلامی خُلق کی ضد رکھنا زبردستی اور دھینگا مشتی ہے۔ اگر مولوی صاحب ثابت کر دیں کہ یہ بھی مہمان نوازی میں شامل ہے کہ کوئی شخص کہے مَیں اپنی تقریر سنانے آ رہا ہوں اور اسے سننے کے لئے بیس پچیس ہزار آدمی جمع کئے جائیں اور ان کے لئے کھانے وغیرہ کا انتظام کیا جائے تو وہ ایسی آیت اور حدیث جس میں اسے مہمان نوازی کا حصہ قرار دیا گیا ہو لکھ کر بھیج دیں تو مَیں مان لوں گا۔ چاہے مجھے کتنا نقصان ہو مَیں فوراً تسلیم کر لوں گا لیکن اگر واقعی ان کا یہ عقیدہ ہے کہ اس قسم کی مہمان نوازی اسلامی خلق میں داخل ہے تو اس خلق کا تجربہ ہمیں ایک سال کے لئے کر لینے دیں اس کے بعد ہم سے مطالبہ کریں۔ ہاں مولوی صاحب اگر میری دعوت کے مطابق آنا چاہتے ہیں تو اپنی سہولت کے لحاظ سے جس موقع پر انہیں مَیں دعوت دوں آ جائیں لیکن ان کا ہمارے جلسہ کے وقت کو اپنے لئے حاصل کرنے کا مطالبہ کرنا اور یہ کہنا کہ زائد وقت دے کر اپنے بھی اور ان کے بھی ہزاروں آدمیوں کے کھانے کا انتظام کروں یہ کوئی اسلامی خلق میں شامل بات نہیں۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ کوئی شخص کسی کے ہاں مہمان جائے اور پھر خود ہی کئی ہزار لوگوں کو بھی اس کے ہاں مدعو کرنے کا آرڈر بھیج دے ۔ ایسے آدمی کو تو ہر شخص ڈھیٹ کہے گا اسلامی مہمان نہیں کہے گا۔ پس یہ بات اسلامی خلق میں داخل نہیں کہ ہم مولوی صاحب کی تقریریں سننے کے لئے بیس پچیس ہزار آدمیوں کو روک کر ان کا زائد خرچ برداشت کریں۔ جو جائز صورت تھی وہ تو مَیں نے خود پیش کر دی تھی اور اس کے لئے مَیں اب بھی تیار ہوں۔ اس صورت میں میرے لئے صرف اتنا کام ہوتا کہ مَیں قادیان کے لوگوں کو جمع کر دیتا مگر ان کا یہ مطالبہ کہ جلسہ کے دنوں میں ہم ہزاروں لوگوں کو روکیں اور ان پر خرچ کریں یہ مہمان نوازی کا طریق اسلام کی کسی تعلیم میں مَیں نے نہیں پڑھا۔ ہاں میری دعوت موجود ہے جلسہ کے موقع کے سوا جب وہ آسکیں اور مجھے سہولت ہو وہ تشریف لے آئیں۔ مَیں قادیان کے لوگوں کو جمع کر دوں گا بلکہ باہر بھی اعلان کر دوں گا کہ جو دوست آنا چاہیں آ جائیں ۔ وہ اپنی باتیں سنا دیں اور مَیں یا میرا نمائندہ اپنی سنا دے گا مگر جو دعوت وہ چاہتے ہیں وہ تو زبردستی کی دعوت ہے اور بالکل ایسی ہی بات ہے کہ مہمان نہ صرف خود آ جائے بلکہ کارڈ چھپوا کر دوسروں کو بھی بھیج دے۔ لوگ ایٹ ہوم دیا کرتے ہیں جو کسی کے اعزاز میں دعوت ہوتی ہے۔ ایسی دعوت پر جسے جتنے آدمیوں کو بلانے کی توفیق ہو بلا لیتا ہے کوئی دس کو بلا سکا تو دس بلا لئے اور کوئی سَو کو بلا سکا تو سو کو بلا لیا مگر یہ تو نہیں ہوتا کہ کوئی شخص خود ہی کارڈ چھپوا کر دو ہزار لوگوں کو بھیج دے کہ فلاں شخص کے ہاں میرا ایٹ ہوم ہے تم بھی اس میں شریک ہو یا کسی کے ہاں شادی ہو لوگ جمع ہوں اور مولوی صاحب بہت سے لوگوں کو ساتھ لے کر وہاں پہنچ جائیں اور کہیں کہ مَیں نے اسلام کے متعلق تقریر سنانی ہے تم اپنی تقریب کو چھوڑ دو اورمیری تقریر سنو اور پھر مہمانوں کے لئے جو کھانا تیار ہوٴا ہو اس پر اپنے ساتھیوں سمیت ہاتھ صاف کرنے لگ جائیں۔ یہ کوئی اسلامی تعلیم اور اسلامی خلق نہیں بلکہ اسلامی تعلیم کے سراسر خلاف بات ہے۔ اور ایک سوال کا رنگ ہے جسے اسلام بے شرمی قرار دیتا ہے۔ ہم نے تو اتنی شرم کی کہ انہوں نے سوال کیا اور وَ اَمَّا السَّآىِٕلَ فَلَا تَنْهَرْ 3 کے حکم کے ماتحت ہم نے ان کو دعوت دے دی کہ آپ آئیے ہم آپ کی میزبانی کریں گے اور آپ کے ساتھ جو چند لوگ ہوں گے ان کی بھی کیونکہ وہ دیر سے کہہ رہے تھے کہ آپ اپنی جماعت کو میری باتیں سننے نہیں دیتے۔ مَیں نے کہا کہ اچھا آپ آ جائیے مَیں قادیان کے لوگوں میں آپ کی تقریر کرا دوں گا۔ مگر انہوں نے اس کا یہ جواب دیا کہ اچھا تمہاری میزبانی منظور ہے مگر میری تقریر سننے کے لئے اپنا بیس ہزار آدمی بھی جمع کرو۔ اب اگر ہم اتنے لوگوں کو ان کے لئے جمع کریں پھر دو تین ہزار وہ ساتھ لے آئیں تو یہ تو کوئی مہمانی اور میزبانی کی صورت نہیں بلکہ یہ تو لُوٹ ہے۔ اگر اس کا نام مہمانی ہے تو وہ پہلے ہمیں اس کا تجربہ کرا دیں لیکن ہم اگر ایسا تجربہ کرائیں تو وہ شور مچانے لگ جائیں۔ مجھے مولوی صاحب کا جواب دینے کی تو کوئی ضرورت نہ تھی کیونکہ مَیں پہلے جواب دے چکا ہوٴا ہوں۔ مگر پھر بھی مَیں نے دے دیا ہے تا ان کو حسرت نہ رہے کہ جواب نہیں دیا۔ اگر وہ جلسہ کے موقع پر آ کر تقریریں کرنا چاہتے ہیں تو اس کی صورت یہی ہے جو مَیں پہلے بیان کر چکا ہوں۔ گو اب ریٹ بہت بڑھ گئے ہیں اور ہر چیز مہنگی ہو چکی ہے۔ بعض قیمتیں تو ڈیوڑھی سے بھی زیادہ ہو گئی ہیں اور اس طرح پہلے تین ہزار کا مطالبہ تھا اب 4 ½ ہزار کا ہونا چاہئے مگر مَیں پہلے ہی مطالبہ پر قائم ہوں۔ وہ تین ہزار روپیہ یومیہ کے حساب سے ہی چھ ہزار روپیہ بیت المال میں بھیج دیں اورہم جلسہ کے دو دن بڑھا دیں گے اور یہ بھی کہہ دیں گے کہ جو دوست بھی ٹھہر سکیں ضرور ٹھہر جائیں اور اگر وہ دوسرے دنوں میں آنا چاہیں تو پھر کوئی خرچ ان سے نہ لیا جائے گا۔ ہم قادیان کے دوستوں کو جمع کر دیں گے اور باہر بھی اعلان کر دیں گے کہ جو دوست آنا چاہیں یا آسکیں وہ آجائیں۔ مولوی صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان کے جلسہ پر بھی اتنے آدمی نہیں ہوتے جتنے یہاں عام جمعہ کے دن جمع ہوتے ہیں۔ چنانچہ اس وقت بھی جمعہ کے لئے جتنے لوگ بیٹھے ہیں اتنے کبھی بھی انہیں اپنے جلسہ میں نصیب نہیں ہوتے۔ اگر مَیں ان کے جلسہ پر جاوٴں یا میرا نمائندہ جائے۔ فرض کرو مولوی ابو العطاء صاحب جائیں تو انہیں وہاں اتنے سامعین تو نہیں مل سکتے جتنے یہاں جمعہ میں بیٹھے ہیں۔ پس انہیں اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہئے اور حق تو یہ ہے کہ باتیں ایک دوسرے کی سننے والے سنتے اور پہنچانے والے پہنچاتے ہی رہتے ہیں اس انتظام کی بھی کوئی خاص ضرورت نہ تھی یہ تو ہم نے ان کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے بطور احسان دعوت دی تھی مگر انہوں نے اس احسان کی قدر نہ کی اور غیر معقول مطالبات شروع کر دئیے۔ پھر ایک اور بات بھی میری تجویز میں اِن کے فائدہ کی ہے۔ وہ کہا کرتے ہیں کہ قادیان میں میرے قول کے مطابق (میرے اس قول کے مطابق جو مولوی محمد علی صاحب کے مُنہ سے نکلا) قادیان میں پانسو منافقین ہیں اور ان کے بعض ساتھیوں کی زبانی ہزاروں منافق یہاں موجود ہونے کا مَیں نے اظہار کیا ہے۔ پس جب وہ عام دنوں میں یہاں آ کر تقریر کریں گے تو قادیان کے لوگوں کی کثرت ہو گی اور یہ سب منافق بھی چھاتی پر ہاتھ رکھ کر کہہ اٹھیں گے کہ مولوی صاحب نے جو کچھ کہا ہے ٹھیک کہا ہے۔ منافق تو قادیان میں ہی ہیں باہر نہیں ہیں۔ اس لئے اگر سامعین میں باہر کے لوگ بھی ہوئے تو منافقین کی نسبت کم ہو جائے گی لیکن اگر صرف قادیان کے ہی لوگ ہوئے تو ان میں سے اگر پانسو بھی کھڑے ہو کر کہہ دیں گے کہ مولوی صاحب کے دلائل بہت وزنی ہیں اور ہم جماعت سے نکل کر ان کے ساتھ شامل ہوتے ہیں تو اس میں ان کو کتنا فائدہ پہنچے گا۔ بشرطیکہ ان کا یہ قول صحیح ہو کہ قادیان میں پانسو منافق ہیں۔ لیکن اگر یہ جھوٹ ہے اور فی الواقع جھوٹ ہے تو جھوٹ کا وبال جھوٹ بولنے والے کی گردن پر ہے۔ ہم اس کے کسی طرح ذمہ دار نہیں ہو سکتے۔’’ (الفضل 12 دسمبر 1941ء )
1: ابن ماجہ ابواب الفتن باب اَلصَّبْرُ عَلَی الْبَلَاءِ
2:کم مسریٹ (COMMISSARIAT) سپاہیوں کی رسد رسانی کا محکمہ۔ )فرہنگ آصفیہ(
3: الضحیٰ :11

37
(1)موجودہ نازک ایام میں خصوصیت سے دعائیں کرو!
(2) جماعت احمدیہ قادیان پر مولوی محمد علی صاحب کا بہت بڑا اتّہام اور بُہتان
( فرمودہ 12 دسمبر 1941ء )

تشہد، تعوّذ اور سورہٴ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘یہ ہفتہ اپنے ساتھ پھر بہت سی ہولناک خبریں لایا ہے اور گزشتہ جمعہ اور اِس جمعہ کے دوران میں انگلستان اور جاپان کی لڑائی شروع ہو چکی ہے۔ ساتھ ہی ممالکِ متحدہ امریکہ بھی لڑائی میں شامل ہو گئے ہیں۔ گویا اب یہ جنگ پچھلی جنگ کی طرح عالمگیر ہو گئی ہے۔ چنانچہ اٹلی اور جرمنی نے بھی امریکہ کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا ہے اور امریکہ نے بھی اٹلی اور جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے۔ گویا اب ایشیا، امریکہ، یورپ، افریقہ اور آسٹریلیا سارے براعظم ہی اس جنگ میں شریک ہو چکے ہیں۔ یہ جنگ اپنی تباہی اور ہولناکی کے لحاظ سے شروع سے ہی پہلی جنگ سے بہت زیادہ تھی کیونکہ جو سامانِ جنگ گزشتہ پچیس سالوں میں ایجاد ہوئے ہیں وہ پہلے نہیں تھے۔ کئی نئی قسم کے بارود ایجاد ہوئے ہیں، کئی نئے طریق جہازوں اور شہروں کو تباہ کرنے کے نکالے گئے ہیں۔ اسی طرح ٹینکوں اور ہوائی جہازوں میں اس قدر ترقی ہوئی ہے کہ پہلے ٹینکوں اور ہوائی جہازوں کی ان کے مقابلہ میں کوئی نسبت ہی نہیں۔
غرض تباہی کے سامانوں کے لحاظ سے یہ جنگ پہلے ہی بہت خطرناک تھی لیکن بہت سے نادان اس وقت یہ سمجھا کرتے تھے کہ یہ جنگ یورپ میں لڑی جا رہی ہے اور ان ہوائی جہازوں، ٹینکوں، توپوں اور گولہ بارود سے انگریزوں کو نقصان پہنچ رہا ہے، فرانسیسیوں کو نقصان پہنچ رہا ہے، جرمنی اور اٹلی والوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ہمیں اس جنگ سے کیا واسطہ ہے؟ لیکن اب یہ ساری دنیا میں ہی پھیل رہی ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ تباہی کے سامان جو پچھلے دو سالوں میں یورپ میں استعمال ہوئے اب یورپ، امریکہ اور ایشیا سب جگہ استعمال ہوں گے اور یہ جنگ ہندوستان کے تو ا س قدر قریب پہنچ چکی ہے کہ اب کلکتہ وغیرہ کو آسانی کے ساتھ بمبارڈ کیا جا سکتا ہے۔ فاصلہ کے لحاظ سے بے شک کلکتہ پنجاب سے دور نظر آتا ہے لیکن اگر ہم اس بات کو دیکھیں کہ ہمارے ملک میں دفاع کے سامان بہت کم ہیں تو یہ فاصلہ کی زیادتی کوئی زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ باقی ساری قومیں ہندوستان سے تعداد میں بہت کم ہیں مگر ان کے پاس دفاع کے سامان ہندوستان سے بہت زیادہ ہیں۔ اٹلی ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کی آبادی ہندوستان کی آبادی کا ساتواں حصہ ہے مگر اٹلی کی فوج ہندوستان کی فوج سے دس گنے زیادہ ہے۔ گویا ہندوستان سے دس گنے زیادہ فوج کو ہندوستان سے بیس گنے کم علاقہ کی حفاظت کرنی پڑتی ہے۔ اگر اتنی ہی فوج ہندوستان کے پاس ہو۔ مثلاً ان کی فوج کا اندازہ ستر لاکھ کیا جاتا ہے اب اگر ستر لاکھ فوج ہندوستان کے پاس ہو تب بھی وہ اس خوش اسلوبی سے ہندوستان کا دفاع نہیں کر سکتی جس خوش اسلوبی سے اٹلی کی فوج اپنے ملک کا دفاع کر سکتی ہے کیونکہ اٹلی کے ایک ایک میل پر اگر دس دس سپاہی کھڑے ہو سکتے ہیں تو ہندوستان کے ایک ایک میل پر بمشکل آدھا سپاہی کھڑا ہو گا۔ تو کئی لوگ پہلے اس غلط فہمی میں مبتلا تھے بلکہ اب تک بعض لوگ اس غلطی فہمی میں مبتلا ہیں کہ یہ جنگ ہندوستان سے بہت دور ہے۔ حالانکہ وہ یہ نہیں جانتے کہ اب تو یہ جنگ یوں بھی قریب آ چکی ہے اور پھر حالات کے لحاظ سے تو ہندوستان کو بہت زیادہ خطرہ ہے کیونکہ اس کے پاس دفاع کا کوئی سامان نہیں۔ ہندوستان کی حالت بالکل ایسی ہی ہے جیسے بعض لوگ کُتّے کی دُم میں پِیپہ باندھ دیتے ہیں۔ کُتّا دوڑتا جاتا ہے اور پِیپہ ہر جگہ ٹکراتا پھرتا ہے۔ خود ہندوستان میں یہ طاقت نہیں کہ وہ اپنی حفاظت کر سکے ورنہ اسے اس بات کی آزادی ہے کہ وہ دفاع کے متعلق خود کوئی تجویز سوچ سکے، وہ مُردہ بدست زندہ کے طور پر انگریزوں کے ہاتھ میں ہے، وہ ہندوستان سے جتنی فوج بھرتی کرنا چاہیں اتنی ہی فوج بھرتی ہو سکتی ہے پھر جتنا سامانِ جنگ تیار کرنا چاہیں اتنا ہی تیار ہو سکتا ہے اور جس جگہ مقابلہ کرنا چاہیں اسی جگہ مقابلہ ہو سکتا ہے۔ اگر وہ ہندوستان کی فوجوں کو باہر بھیجنا چاہیں تو باہر بھیج سکتے ہیں اور اگر ہندوستان کے اندر رکھنا چاہیں تو اند ررکھ سکتے ہیں۔ خود ہندوستانیوں کی آواز کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ ایسی صورت میں تھوڑے بہت سامان جو ہندوستانیوں کو حاصل ہیں ان کو بھی استعمال نہ کرنا درحقیقت بہت بڑی حماقت ہے۔ یہ خیال کر لینا کہ یہ صرف انگریزوں کی جنگ ہے اور اس میں اگر نقصان ہوٴا تو انگریزوں کا ہی ہو گا درست نہیں۔ اس لئے کہ اگر ہندوستان پر حملہ ہوٴا تو انگریزوں سے بہت زیادہ ہندوستانیوں کو نقصان پہنچے گا۔ اگر ہندوستان پر بمباری ہو تو انگریزوں کی بڑی سے بڑی آبادی کلکتہ میں ہے مگر وہاں بھی ہندوستانیوں کے مقابلہ میں ان کی کوئی نسبت ہی نہیں انگریز وہاں زیادہ سے زیادہ ایک فی صدی ہوں گے۔ کلکتہ کی آبادی اس وقت پندرہ لاکھ سے اوپر ہے اور انگریز زیادہ سے زیادہ پندرہ ہزار ہوں گے۔ پس یہ یقینی بات ہے کہ اگر وہاں بمباری کے نتیجہ میں سو آدمی مریں گے تو ان میں سے ایک انگریز ہو گا اور ننانوے ہندوستانی ہوں گے مگر پھر بھی ہم میں سے کئی ہیں جو حماقت سے یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس جنگ سے کیا ہے؟ اور مَیں خیال کرتا ہوں کہ ابھی تک ہماری جماعت میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جن کے دلوں میں اس جنگ کی اہمیت کا احساس پورے طور پرپیدا نہیں ہوٴا۔ ان میں تبدیلی ضرور ہوئی ہے اور میرے متواتر خطبات کی وجہ سے ان کے خیالات ضرور بدل رہے ہیں مگر ابھی تک جماعت کے تمام افراد کے دلوں میں یہ احساس پیدا نہیں ہوٴا کہ وہ اس خطرہ کو محسوس کریں۔
یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس جنگ کے شروع سے ہی اُس نے مجھے ایسی خبریں بتائیں جن میں سے اکثر بالکل واضح تھیں اور اپنے وقت پر نہایت شاندار رنگ میں پوری ہوئیں اور بعض دفعہ وہ ایسے اشاروں میں بھی تھیں کہ مَیں نے اُس وقت ان کے مفہوم کو نہیں سمجھا۔ مگر بعد میں جب واقعات ظاہر ہوئے تو ان خبروں کی صداقت روشن ہو گئی۔ مثلاً یہی جاپان کی جنگ ابھی شروع نہیں ہوئی تھی کہ مَیں نے گزشتہ ہفتہ میں جمعرات یا جمعہ کی رات کو ایک روٴیا دیکھا جس کی تعبیرمَیں توکچھ اور کرتا رہا مگر بعد میں جب اس جنگ کا آغاز ہوٴا تو معلوم ہوٴا کہ اس کی تعبیر اَور تھی۔ مَیں نے روٴیا میں دیکھا کہ ایک کوٹھڑی میں ایک شخص بیٹھا ہے اور وہ کچھ کاغذات جلا رہا ہے اور مَیں روٴیا میں ہی ایک اَور شخص سے کہتا ہوں کہ یہ شخص نہایت ضروری کاغذات جلا رہا ہے۔ خواب سے بیدار ہو کر مَیں نے اس کی کئی قسم کی تعبیریں کیں مگر جو اصل تعبیر تھی وہ میرے ذہن میں نہ آئی۔ حقیقت یہ ہے کہ جب بھی حکومتوں کی آپس میں جنگ چھڑتی ہے تو چونکہ ہر ملک میں دوسرے ملک کے سفیر ہوتے ہیں اس لئے وہ سفیر اس وقت ضروری کاغذات جلادیتے ہیں تاکہ وہ کاغذات دوسری حکومت کے قبضہ میں نہ آئیں۔ ان کاغذات میں ان لوگوں کے نام ہوتے ہیں جنہیں انہوں نے پیسے دے دے کر خریدا ہوٴا ہوتا ہے یا دوسرے ملک کی ان تجاویز کا ذکر ہوتا ہے جو جنگ کے متعلق عمل میں لائی جانے والی ہوتی ہیں۔ مثلاً انگلستان میں جو جاپانی سفیر تھا اس کا صرف یہی کام نہیں تھا کہ وہ اپنی حکومت کی چِٹھیاں دوسری حکومت تک پہنچا دے بلکہ اس کا یہ بھی کام تھا کہ وہ کمزوروں کو پیسے دے دے کر خریدے۔ اسی طرح انگریزوں کی جنگ کی تجاویز معلوم کرے۔ اس وجہ سے ان لوگوں کے پاس کئی قسم کی لسٹیں ہوتی ہیں کیونکہ کئی لوگ انہوں نے ایسے تیار کئے ہوئے ہوتے ہیں جن کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ کارخانوں میں آگ لگا دیں اور اس طرح حکومت کو نقصان پہنچائیں۔ کئی لوگ انہوں نے ایسے تیار کئے ہوئے ہوتے ہیں جن کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ جہازوں وغیرہ کے کارخانوں میں کام کرتے ہوئے کسی ضروری پُرزے میں نقص پیدا کر دیں تاکہ جب جہاز تیار ہو کر جنگ کے لئے آئیں تو انہیں آسانی سے تباہ کیا جا سکے۔ غرض سفیر مختلف کام کرتے رہتے ہیں اور جب جنگ کا اعلان ہوتا ہے تو وہ ان کاغذات کو جلا دیتے ہیں تاکہ کسی کے قبضہ میں نہ آ جائیں۔ چنانچہ پہلے دن جب جنگ کی خبر شائع ہوئی تو ساتھ ہی یہ خبر آئی کہ جاپانی سفارت خانہ میں جاپانیوں کو کاغذ جلاتے دیکھا گیا ہے۔ اس خبر کا یہ مطلب نہیں کہ یہ کام صرف جاپانیوں نے ہی کیا ہے بلکہ اس قسم کے کاغذات انگریزوں نے بھی جلائے ہوں گے، امریکنوں نے بھی جلائے ہوں گے۔ خبروں میں صرف ایک ملک کے سفارت خانہ کا حال بیان ہو گیا ہے کیونکہ کاغذات جلاتے وقت کسی اخباری رپورٹر کی نگاہ اس پر پڑ گئی ہو گی۔ بہرحال اس جنگ کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے یہ نظارہ دکھا کر مجھے بتایا کہ اب کوئی نئی حکومت جنگ میں شامل ہونے والی ہے اور اس کے سفارت خانوں میں ضروری کاغذات جلائے جائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوٴا۔ اسی طرح جس دن جنگ کا آغاز ہوٴا ور ہم کو اس کی اطلاع آئی اس سے پہلی رات مجھے ایک جنگ کا نظارہ خواب میں دکھایا گیا مگر جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے اس نے خواب کا نظارہ مجھے مقامی ماحول میں دکھایا۔ اسی رنگ کے نظارے مجھے پہلے بھی دکھائے جا چکے ہیں۔ مجھے دکھایا گیا کہ ہمارے باغ اور قادیان کے درمیان جو تالاب ہے اس میں قوموں کی لڑائی ہو رہی ہے مگر بظاہر چند آدمی رسہ کشی کرتے نظر آتے ہیں کوئی شخص کہتا ہے کہ اگر یہ جنگ یونان تک پہنچ گئی تو اس کے بعد یکدم حالات متغیّر ہوں گے اور جنگ بہت اہم ہو جائے گی۔ اس کے بعد مَیں نے دیکھا کہ یکدم اعلان ہوٴا ہے کہ امریکہ کی فوج ملک میں داخل ہو گئی ہے اور مَیں دیکھتا ہوں کہ امریکہ کی فوج بعض علاقوں میں پھیل گئی ہے مگر وہ انگریزی حلقہٴ اثر میں آنے جانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتی۔ اب یہ نظارہ دکھایا تو قادیان کے ماحول میں گیا مگر اس میں جنگ کی قریباً تفصیلات بتا دی گئی ہیں حتّٰی کہ امریکہ کے انگریزوں کی تائید میں جنگ میں شامل ہونے کا بھی ذکر ہے۔ غرض یہ اللہ تعالیٰ کا طریق ہے کہ وہ کبھی ایک قریب کی چیز دکھاتا ہے اور مراد اُس سے دُور کی چیز ہوتی ہے اور کبھی دُور کی چیز دکھاتا ہے اور مراد اُس سے قریب کی چیز ہوتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے اس نہایت ہی لطیف مضمون کو ‘‘آئینہ کمالات اسلام’’ میں بیان فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ ایک چھوٹی چیز کو بڑی شکل میں یا قریب کی چیز کو دور کی چیز کی صورت میں دکھائے جانے کی مثال یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بتانا صرف یہ تھا کہ آپ کے گیارہ بھائی اور ماں باپ آپ کے تابع فرمان ہو جائیں گے مگر دکھایا یہ گیا کہ گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند نے آپ کو سجدہ کیا ہے۔ اب کتنا بڑا نظامِ عالم حضرت یوسف علیہ السلام کو دکھایا گیا مگر مراد یہ تھی کہ ان کے بھائی اور ماں باپ ان کے تابع ہوں گے۔ اسی طرح کبھی ایک بڑی چیز کو چھوٹا کر کے دکھا دیا جاتا ہے۔ اس کی مثال میں بھی آپ نے حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ کے ایک واقعہ کو ہی پیش کیا ہے کہ بادشاہ نے خواب میں دیکھا کہ سات موٹی گائیں ہیں جنہیں سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں۔ اسی طرح سات سبز اور چند خشک بالیں اسے خواب میں دکھائی گئیں۔ 1 یہ نظارہ بظاہر بالکل معمولی ہے مگر اس سے مراد یہ تھی کہ ایک اتنا عظیم الشان قحط پڑے گا جس کا اثر سات سال تک رہے گا۔ یہ کتنا ہولناک نتیجہ ہے جو خواب سے ظاہر ہوتا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے خواب میں گائیں دکھا دیں حالانکہ گائیوں کا کیا ہے تیس چالیس روپے تک میں آ جاتی ہیں مگر ان گائیوں وغیرہ سے اللہ تعالیٰ کی مراد یہ تھی کہ ملک کے رفاہ اور اس کی ترقی کو سخت نقصان پہنچے گا۔ سات سال تک قحط پڑے گا اور ہزاروں لوگ بھوک کی وجہ سے مر جائیں گے تو بعض دفعہ ایک چھوٹی چیز دکھائی جاتی ہے اور مراد اس سے بڑی ہوتی ہے اور بعض دفعہ ایک بڑی چیز دکھائی جاتی ہے اور مراد اس سے چھوٹی ہوتی ہے۔
مجھے بھی اسی قسم کا ایک روٴیا ہوٴا۔ مَیں نے دیکھا کہ مَیں ایک مکان میں ہوں جو ہمارے مکانوں سے جنوب کی طرف ہے اور اس میں ایک بڑی بھاری عمارت ہے جو کئی منزلوں میں ہے۔ اس کئی منزلہ عمارت میں مَیں بھی ہوں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ یکدم غنیم حملہ کر کے آ گیا ہے اور اس غنیم کے حملہ کے مقابلہ کے لئے ہم سب لوگ تیاری کر رہے ہیں۔ مَیں اس وقت اپنے آپ کو کوئی کام کرتے نہیں دیکھتا مگر مَیں یہ محسوس کرتا ہوں کہ مَیں بھی لڑائی میں شامل ہوں۔ یوں اس وقت مَیں نے نہ توپیں دیکھی ہیں، نہ کوئی اور سامانِ جنگ۔ مگر مَیں سمجھتا یہی ہوں کہ تمام قسم کے آلاتِ حرب استعمال کئے جارہے ہیں۔ اسی دوران میں مَیں نے محسوس کیا کہ وہاں پٹرول کا ذخیرہ ختم ہو گیا ہے۔ مَیں تیزی سے اتر کر نچلی منزل میں آتا ہوں اور کہتا ہوں پٹرول ختم ہو گیا ہے۔ اس وقت مَیں خیال کرتا ہوں کہ ہمیں پٹرول موٹروں کے لئے نہیں چاہئے بلکہ دشمن پر پھینکنے کے لئے پٹرول کی ضرورت ہے۔ چنانچہ مجھے کسی شخص نے بتایا کہ نیچے ایک تہہ خانہ ہے جس میں پٹرول موجود ہے اس پر ایک شخص اس تہہ خانہ میں گیا اور چھ گیلن پٹرول کی بیرل لے کر آ گیا۔ ساتھ ہی اس کے دوسرے ہاتھ میں ایک سیڑھی ہے تاکہ سیڑھی کی مدد سے وہ اوپر چڑھ کر دشمن پر پٹرول پھینک سکے۔ یہ دونوں چیزیں اٹھا کر اس نے اوپر چڑھنا شروع کر دیا اور اتنی تیزی سے وہ چڑھنے لگا کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ گر جائے گا۔ چنانچہ مَیں اسے کہتا ہوں سنبھل کر چڑھو، ایسا نہ ہو کہ گر جاوٴ اور خواب میں مَیں حیران بھی ہوتا ہوں کہ یہ کیسا بہادر آدمی ہے کہ اس کے ایک ہاتھ میں چھ گیلن یعنی تیس سیر پٹرول ہے، دوسرے ہاتھ میں سیڑھی ہے اور یہ اس بہادری سے چڑھتا چلا جاتا ہے۔ پھر یہ نظارہ بدل گیا اور مجھے یوں معلوم ہوٴا کہ جیسے ہم اس مکان سے نکل آئے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دشمن غالب آ گیا ہے اور ہمیں وہ جگہ چھوڑنی پڑی ہے۔ باہر نکل کر ہم حیران ہیں کہ کس جگہ جائیں اور کہاں جا کر اپنی حفاظت کا سامان کریں۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ مَیں آپ کو ایک جگہ بتاتا ہوں آپ پہاڑوں پر چلیں وہاں ایک اٹلی کے پادری نے گرجا بنایا ہوٴا ہے اور ساتھ ہی اس نے بعض عمارتیں بھی بنائی ہوئی ہیں جنہیں وہ کرایہ پر مسافروں کو دے دیتا ہے۔ وہاں چلیں، وہ مقام سب سے بہتر رہے گا۔ مَیں کہتا ہوں بہت اچھا۔ چنانچہ مَیں گائیڈ کو ساتھ لے کر پیدل چل پڑتا ہوں۔ ایک دو دوست اَور بھی میرے ساتھ ہیں۔ چلتے چلتے ہم پہاڑوں کی چوٹیوں پر پہنچ گئے مگر وہ ایسی چوٹیاں ہیں جو ہموار ہیں۔ اس طرح نہیں کہ کوئی چوٹی اونچی ہو اور کوئی نیچی۔ جیسے عام طور پر پہاڑوں کی چوٹیاں ہوتی ہیں بلکہ وہ سب ہموار ہیں جس کے نتیجہ میں پہاڑ پر ایک میدان سا پیدا ہو گیا ہے۔ وہاں مَیں نے دیکھا کہ ایک پادری کالا سا کوٹ پہنے کھڑا ہے اور پاس ہی ایک چھوٹا سا گرجا ہے۔ اس آدمی نے پادری سے کہا کہ باہر سے کچھ مسافر آئے ہیں انہیں ٹھہرنے کے لئے مکان چاہئے۔ وہاں ایک مکان بنا ہوٴا نظر آتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ پادری لوگوں کو کرایہ پر جگہ دیتا ہے۔ اس نے ایک آدمی سے کہا کہ انہیں مکان دکھا دیا جائے۔ وہ مجھے مکان دکھانے کے لئے لے گیا۔ ایک دو دوست اَور بھی ہیں۔ مَیں نے دیکھا کہ وہ کچا مکان ہے اور جیسے فوجی بارکیں سیدھی چلی جاتی ہیں اسی طرح وہ مکان ایک لائن میں سیدھا بنا ہوٴا ہے مگر کمرے صاف ہیں۔ مَیں ابھی غور ہی کر رہا ہوں کہ جو شخص مجھے کمرے دکھا رہا تھا اس نے خیال کیا کہ کہیں مَیں یہ نہ کہہ دوں کہ یہ ایک پادری کی جگہ ہے ہم اس میں نہیں رہتے۔ ایسا نہ ہو کہ ہماری عبادت میں کوئی روک پیدا ہو۔ چنانچہ وہ خود ہی کہنے لگا آپ کو یہاں کوئی تکلیف نہیں ہو گی کیونکہ یہاں مسجد بھی ہے۔ مَیں نے اسے کہا کہ اچھا مجھے مسجد دکھاوٴ۔ اس نے مجھے مسجد دکھائی جو نہایت خوبصورت بنی ہوئی تھی مگر چھوٹی سی تھی۔ ہماری مسجد مبارک سے نصف ہو گی لیکن اس میں چٹائیاں اور دریاں وغیرہ بچھی ہوئی تھیں ۔ اسی طرح ایک امام کی جگہ ایک صاف قالینی مصلّٰی بھی بچھا ہوٴا تھا۔ مجھے اس مسجد کو دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی اور مَیں نے کہا کہ ہمیں یہ جگہ منظور ہے۔ خواب میں مَیں نے یہ خیال نہیں کیا کہ مسجد وہاں کس طرح بنائی گئی ہے مگر بہرحال مسجد دیکھ کر مجھے مزید تسلی ہوئی اور مَیں نے کہا کہ اچھا ہوٴا مکان بھی مل گیا اورساتھ ہی مسجد بھی مل گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد میں باہر نکلا اور مَیں نے دیکھا کہ اِکّا دُکّا احمدی وہاں آ رہے ہیں۔ خواب میں مَیں حیران ہوتا ہوں کہ مَیں نے تو ان سے یہاں آنے کا ذکر نہیں کیا تھا۔ ان کو جو میرے یہاں آنے کا پتہ لگ گیا ہے تو معلوم ہوٴا کہ یہ کوئی محفوظ جگہ نہیں۔ چاہے یہ دوست ہی ہیں لیکن بہرحال اگر دوست کو ایک مقام کا علم ہو سکتا ہے تو دشمن کو بھی ہو سکتا ہے۔ محفوظ مقام تو نہ رہا۔ چنانچہ خواب میں مَیں پریشان ہوتا ہوں اورمَیں کہتا ہوں کہ ہمیں پہاڑوں میں اَور زیادہ دور کوئی جگہ تلاش کرنی چاہئے۔ اتنے میں مَیں نے دیکھا کہ شیخ محمد نصیب صاحب آ گئے ہیں۔ مَیں اس وقت مکان کے دروازے کے سامنے کھڑا ہوں ۔ انہوں نے مجھے سلام کیا مَیں نے ان سے کہا کہ لڑائی کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا دشمن غالب آ گیا ہے۔ مَیں کہتا ہوں کہ مسجد مبارک کا کیا حال ہے۔ انہوں نے اس کا یہ جواب دیا کہ مسجد مبارک کا حلقہ اب تک لڑ رہا ہے۔ مَیں نے کہا اگر مسجد مبارک کا حلقہ اب تک لڑ رہا ہے تب تو کامیابی کی امید ہے۔ مَیں اس وقت سمجھتا ہوں کہ ہم تنظیم کے لئے وہاں آئے ہیں اور تنظیم کرنے کے بعد دشمن کو پھر شکست دے دیں گے۔
اس کے بعد مَیں نے دیکھا کہ کچھ اَور دوست بھی وہاں پہنچ گئے ہیں ان کو دیکھ کر مجھے اَور پریشانی ہوئی اور مَیں نے کہا کہ یہ تو بالکل عام جگہ معلوم ہوتی ہے۔ حفاظت کے لئے یہ کوئی خاص مقام نہیں۔ ان دوستوں میں ایک حافظ محمد ابراہیم صاحب بھی ہیں اَور لوگوں کو مَیں پہچانتا نہیں۔ صرف اتنا جانتا ہوں کہ وہ احمدی ہیں۔ حافظ صاحب نے مجھ سے مصافحہ کیا اور کہا کہ بڑی تباہی ہے، بڑی تباہی ہے۔ پھر ایک شخص نے کہا کہ نیلے گنبد میں ہم داخل ہونے لگے تھے مگر وہاں بھی ہمیں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔ مَیں نے تو نیلا گنبد لاہور کا ہی سنا ہوٴا ہے۔ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ۔ کوئی اور بھی ہو بہرحال اس وقت مَیں نہیں کہہ سکتا کہ نیلے گنبد کے لحاظ سے اس کی کیا تعبیر ہو سکتی ہے۔ البتہ اِس وقت بات کرتے کرتے میرے دل میں خیال پیدا ہوٴا کہ نیلا سمندر کا رنگ ہوتا ہے۔ ممکن ہے کوئی خلیج ایسی ہو جسے انگریز محفوظ سمجھتے ہوں مگر وہاں بھی تباہی ہو۔
اس کے بعد حافظ صاحب نے کوئی واقعہ بیان کرنا شروع کیا اور اسے بڑی لمبی طرز سے بیان کرنے لگے جس طرح بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ بات کو جلدی ختم نہیں کرتے بلکہ اسے بِلا وجہ طول دیتے چلے جاتے ہیں۔ اسی طرح حافظ صاحب نے پہلے ایک لمبی تمہید بیان کی اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ جالندھر کا کوئی واقعہ بیان کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہاں بھی بڑی تباہی ہوئی ہے اور ایک ‘‘منشی’’ کا جو غیر احمدی ہے اور پٹواری یا گرداور ہے، بار بار ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ منشی جی ملے اور انہوں نے بھی اس طرح کہا مَیں خواب میں بڑا گھبراتا ہوں کہ یہ موقع تو حفاظت کے لئے انتظام کرنے کا ہے اور اس بات کی ضرورت ہے کہ کوئی مرکز تلاش کیا جائے۔ انہوں نے منشی جی کی باتیں شروع کر دی ہیں۔ چنانچہ میں ان سے کہتا ہوں کہ آخر ہوٴا کیا؟ وہ کہنے لگے منشی جی کہتے تھے کہ ہماری تو آپ کی جماعت پر ہی نظر ہے۔ میں نے کہا بس اتنی ہی بات تھی نا! کہ منشی جی کہتے تھے کہ اب ان کی جماعت احمدیہ پر نظر ہے۔ یہ کہہ کر مَیں انتظام کرنے کے لئے اٹھا اور چاہا کہ کوئی مرکز تلاش کروں کہ میری آنکھ کھل گئی۔
خواب سے بیدار ہونے کے بعد اس کی تعبیر میرے ذہن میں یہ آئی کہ اس سے مراد کوئی مقامی فتنہ ہے جس میں دشمن سے ہماری جماعت کو کوئی نقصان پہنچے گا کیونکہ سارے نام اپنی جماعت سے تعلق رکھنے والے دوستوں کے ہی تھے مگر نو بجے کے قریب جب ریڈیو کی خبروں کی رپورٹ مجھے ملی اس وقت معلوم ہوٴا کہ جاپان نے یکدم حملہ کر دیا ہے اور وہ بہت سا آگے بڑھ آیا ہے۔ مَیں نے جیسا کہ بتایا ہے بعض دفعہ مقامی نظارے دکھائے جاتے ہیں مگر اُن سے مراد دُور کے نظارے ہوتے ہیں۔ مسجد مبارک کے حلقہ کی طرف سے لڑائی جاری رہنے کا غالباً یہ مفہوم ہے کہ بعض انگریزی علاقے جاپانی گھیر لیں گے مگر انگریز برابر لڑتے رہیں گے چنانچہ اب بھی بعض علاقے ایسے ہیں جن کے چاروں طرف جاپانی فوجیں پہنچ گئی ہیں۔ اگر ایسی حالت میں انگریزوں نے مقابلہ کو جاری رکھا تو امید ہے کہ ان کی شکست فتح سے بدل جائے گی۔
تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں کثرت سے غیب کی خبریں دی جاتی ہیں جن میں خطرات کی بھی خبریں ہوتی ہیں اور فتوحات کی بھی۔ مگر ان خوابوں سے یہ امر ضرور واضح ہوتا ہے کہ موجودہ جنگ کا احمدیت سے تعلق ہے۔ آخر وجہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بار بار مجھے خبریں دی جاتی ہیں۔ آخر کوئی نہ کوئی ہماری جماعت سے بھی ان خبروں کا تعلق ہونا چاہئے۔ ورنہ بظاہر ہمارا اِس جنگ سے جو یورپ یا افریقہ یا امریکہ یا فرانس یا جرمنی وغیرہ میں ہو رہی ہے کیا تعلق تھا۔ اس قسم کی خبروں کا متواتر بتایا جانا اورہر مرحلہ پر بتایا جانا ایک یقینی اور قطعی ثبوت ہے اس بات کا کہ اس جنگ کے خاتمہ کا احمدیت سے خاص تعلق ہے۔ آخر جب کوئی شخص کسی دوسرے کو کوئی خبر دیتا ہے تو اسی وجہ سے کہ اس خبر کا اس شخص سے کوئی تعلق ہوتا ہے۔ بغیر تعلق کے کبھی کوئی دوسرے کو خبر نہیں دیتا۔ کیا تم نے کبھی سنا کہ کوئی شخص دوسرے کو کہے کہ فلاں گاوٴں میں جس کو تم نہیں جانتے، فلاں شخص جس کو تم نہیں جانتے، اس کا فلاں پوتا جس سے تم واقف نہیں فوت ہو گیا ہے۔ جب ایک عقلمند انسان بھی دوسرے کو وہی خبر دیتا ہے جس کا اس کے ساتھ تعلق ہو تو کس طرح خیال کیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو حکیم ہے وہ ہمیں ایسی خبریں دے رہا ہے جن کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ پس لازماً ان خوابوں کا ہماری جماعت کے ساتھ تعلق ہے اور ہماری جماعت کا ان سے گہرا واسطہ ہے۔ اس لئے ہمارے لئے بہت ہی ہوشیاری اور بیداری کی ضرورت ہے کیونکہ ضرور ہے کہ وہ خطرات جن کی طرف خوابوں میں اشارہ کیا گیا ہے ہماری جماعت پر بھی کسی نہ کسی رنگ میں اثر انداز ہوں۔ پھر جب ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح ہماری باتوں کو پورا کرتا اور ہماری دعاوٴں کو سنتا ہے تو ہمیں اَور بھی توجہ پید اہو جاتی ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے ہمیں دعا کا عظیم الشان ہتھیار دیا ہوٴا ہے تو کیوں نہ اس موقع پر بھی ہم اس کو استعمال کریں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا مشاہدہ کریں۔
کیا چھوٹی سی بات تھی جو گزشتہ خطبہ جمعہ میں میرے مُنہ سے نکلی اور خدا تعالیٰ نے اسے چند دنوں کے اندر اندر پورا کر دیا۔ پچھلے جمعہ میں اسی منبر پر کھڑے ہو کر مَیں نے کہا تھا کہ ملک میں قحط کے آثار پائے جاتے ہیں جس کی ذمہ داری بہت حد تک گورنمنٹ پر ہے کیونکہ وہ دھمکیاں تو دیتی رہتی ہے کہ گندم مہنگی نہ کی جائے مگر عملاً کچھ نہیں کرتی۔ پس ایک طرف مَیں نے گورنمنٹ کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی اور دوسری طرف جماعت کو یہ کہا تھا کہ دوستوں کو دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ بارش برسا دے۔ آج جبکہ مَیں جمعہ کا دوسرا خطبہ پڑھنے کے لئے کھڑا ہوں دوست دیکھ رہے ہیں کہ یہ دونوں باتیں پوری ہو گئی ہیں۔ گورنمنٹ نے بھی گندم کے نرخ پر کنٹرول کر لیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے بارش بھی بھیج دی ہے۔ اب کتنی چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی اللہ تعالیٰ ہماری دعائیں سنتا اور اس طرح سنتا ہے کہ لطف آ جاتا ہے۔ ایک لمبے عرصہ سے بارش رُکی ہوئی تھی مگر ادھر میں نے خطبہ پڑھا اور ادھر اس خطبہ کے چوتھے دن بارش ہو گئی۔ اسی طرح مَیں نے اِدھر خطبہ پڑھا اور اُدھر جمعہ کی شام کو گورنمنٹ کی طرف سے اعلان ہو گیا۔ غرض اللہ تعالیٰ نے دوسرے جمعہ کے آنے سے پہلے پہلے ہماری دونوں خواہشوں کو پورا فرما دیا۔ ایک طرف گورنمنٹ سے اُس نے وہ بات منوا لی جو ہم چاہتے تھے اور دوسری طرف بارش نازل فرما دی۔ بہرحال ہمارا تجربہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری دعاوٴں کو سنتا اور انہیں غیر معمولی طور پر قبول فرماتا ہے اور اس طرح ہمارے ایمانوں کی تازگی کے سامان بہم پہنچاتا رہتا ہے۔ پھر خدا تعالیٰ کی طرف سے جس حد تک انبیاء کے درجہ سے نیچے اتر کر صلحاء و اولیاء کو کثرت سے غیب کی خبریں ملتی ہیں۔ اس کثرت کے ساتھ وہ ہمیں بھی اپنے غیب کی خبروں سے اطلاع دیتا رہتا ہے۔ دنیا میں بعض ایسے ایسے اولیاء بھی کہلاتے ہیں جنہیں تمام عمر میں صرف دو چار الہام ہوئے ہیں مگر ہمیں تو خدا تعالیٰ ایک سال میں ہی بعض دفعہ سَو سَو خوابیں دکھا دیتا ہے یا الہام کر دیتا ہے یا کشوف ظاہر کر تا ہے۔ خدا تعالیٰ کا ہم سے یہ سلوک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی صداقت کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے۔ مَیں فطرتاً اور طبعاً دوسروں کو اپنی خوابیں سنانے کا عادی نہیں مگر اب جنگ کے حالات کی وجہ سے مجبوراً مجھے ان خوابوں کو بیان کرنا پڑتا ہے ورنہ ساری عمرہی مَیں نے اپنی خوابیں دوسروں کو بہت کم سنائی ہیں۔ بعض دفعہ اپنی کسی بیوی یا دوست کو مَیں خواب بتا دیتا ہوں اور بیسیوں دفعہ میں اپنی بیویوں اور اپنے دوستوں کو بھی خوابیں نہیں بتاتا۔ مَیں سمجھتا ہوں یہ ماموروں کا کام ہوٴا کرتا ہے کہ وہ اپنی خوابیں دوسروں کو سنائیں۔ پس مجھے جو خوابیں آتی ہیں مَیں انہیں خدا تعالیٰ کا ایک راز سمجھتا ہوں جو میری ذات تک محدود ہوتا ہے اور میں اِسے بالعموم اپنی ذات تک ہی محدود رکھتا ہوں۔ مگر اس زمانہ میں یہ مجبوری پیدا ہو گئی ہے کہ جماعت کے دوستوں کو بیدار کرنے کے لئے مجھے اپنی خوابیں بیان کرنی پڑتی ہیں ورنہ طبعاً مَیں اپنی خوابیں بیان کرنے کا عادی نہیں۔
غرض مَیں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ ان نازک ایام میں وہ خصوصیت سے دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان فتنوں اور مصائب کی تلخی کو ساری دنیا کے لئے ہی کم کرے اور ہماری جماعت کو خصوصیت سے ان تلخیوں سے محفوظ رکھے۔ پھر یہ بھی دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ اس جنگ کو اسلام اور احمدیت کے لئے مفید ثابت کرے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مومن بغیر تلخیوں کے اپنے کمال کو نہیں پہنچتا مگر خدا تعالیٰ نے جہاں یہ کہا ہے کہ مومن تلخیوں کے بغیر روحانیت میں ترقی نہیں کر سکتا وہاں اس نے ہمیں یہ دعا مانگنے کے لئے بھی کہا ہے کہ ایسی تلخیاں ہم پر وارد نہ ہوں جو ہماری حدِّ برداشت سے باہر ہوں۔ چنانچہ وہ فرماتا ہے تم یہ دعا کیا کرورَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖ 2 پس بے شک یہ صحیح ہے کہ تلخیوں کے بغیر مومن اپنے ایمان میں کامل نہیں ہو سکتا مگر جس خدا نے یہ کہا ہے اسی خدا نے یہ بھی کہا ہے کہ تم یہ دعائیں کیا کرو کہ الٰہی ہم پر ایسی تلخیاں نہ آئیں جو ہماری طاقتِ برداشت سے باہر ہوں۔ پس ان ایام میں بہت ہی عجز اور انکسار کے ساتھ دعائیں کرو اور اپنے اندر خاص تبدیلی پیدا کرو۔ نمازوں میں باقاعدگی کے ساتھ جاوٴ اور ہمیشہ نماز باجماعت پڑھنے کی کوشش کرو۔ اگر کوئی شخص ان ایام میں بھی نماز باجماعت پڑھنے میں سُستی کرتا ہے تو یہ کتنے افسوس کا مقام ہے۔ آجکل تو وہ دن ہیں کہ ہر شخص کے لئے موقع ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کر کے ولی اللہ بن جائے۔ یوں تو ولایت کا دروازہ ہمیشہ ہی کھلا ہوتا ہے مگر تلخیوں کے اوقات میں ولایت کا دروازہ اَور زیادہ کھل جاتا ہے۔ چنانچہ دیکھ لو آرام کے وقت ماں بغیر کسی قسم کے خدشہ کے دُور چلی جاتی ہے۔ کئی ماں باپ یورپ میں اپنے بچوں کو تعلیم وغیرہ کے لئے بھیج دیتے ہیں۔ ہمارے ملک کے لوگ آرام کے دنوں میں حج کے لئے چلے جاتے ہیں مگر جس وقت بچہ تکلیف میں مبتلا ہو تو ماں اس کے سرہانہ سے نہیں اٹھتی۔ یہی حال اللہ تعالیٰ کا ہے جب اس کا کوئی بندہ مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ اس کے پاس آ بیٹھتا ہے۔ پس درحقیقت وہی موقع اللہ تعالیٰ کے وصال کا ہوتا ہے۔ جو لوگ ہوشیار اور ذہین ہوتے ہیں وہ اس موقع سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں اور جب خدا اُن کے قریب آ جاتا ہے تو جس طرح پنجابی میں‘‘ جپّھا مارنا’’ کہتے ہیں وہ خد تعالیٰ کو جپّھا مار لیتے ہیں اور اس کے دامن کو ایسا مضبوطی سے پکڑتے ہیں کہ پھر اسے مرتے دم تک نہیں چھوڑتے۔ آجکل کے ایام بھی ایسے ہی ہیں آج بھی مشکلات کا زمانہ ہے اور خدا تعالیٰ تمہارے قریب آ رہا ہے۔ پس وقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کو مضبوطی سے بھینچ لو اور اسے کہو کہ اب تو تُو مل گیا ہے اب ہم تجھے کبھی جانے نہیں دیں گے۔
اس کے بعد مَیں ایک اور امر کی طرف دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ مَیں نے خود تو نہیں دیکھا مگر ‘‘الفضل’’ میں مَیں نے ایک نہایت ہی ناپسندیدہ بات دیکھی ہے جو مولوی محمد علی صاحب کی طرف منسوب کر کے لکھی گئی ہے۔ مَیں جہاں تک ہو سکے دوسروں کی سخت کلامی برداشت کیا کرتا ہوں۔ اپنی نسبت دعویٰ کرنا تو فضول ہوتا ہے مگر آئندہ تاریخ یقینا اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ مَیں نے اپنے مدمقابل سے سختی کی ہے یا اس نے مجھ پر سختی کی ہے۔ بلکہ اگر لوگ چاہیں تو اس وقت بھی حالات کا مطالعہ کر کے فیصلہ کر سکتے ہیں۔ بہرحال مَیں اپنی طرف سے یہی کوشش کیا کرتا ہوں کہ جہاں تک ہو سکے مخالفوں کے متعلق کبھی سخت الفاظ استعمال نہ کئے جائیں۔ مگر دو چیزیں ہیں جن کو میرا نفس اس قدر برداشت نہیں کر سکتا جس قدر اپنی ذات کے متعلق اگر کوئی بات ہو تو مَیں برداشت کر لیا کرتا ہوں۔ ان میں سے ایک بات یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے درجہ میں اگر کمی کی جائے تو قدرتاً اور مذہبی طور پر بھی میرے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اس کا مقابلہ کیا جائے۔ دوسری بات جو میرے لئے ناقابلِ برداشت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر جماعت احمدیہ پر بحیثیت جماعت کوئی شخص حملہ کرے تو اس کی برداشت میرے لئے مشکل ہو جاتی ہے۔ مجھے اپنی زندگی میں چند مواقع ہی ایسے پیش آئے ہیں جہاں ایسے معاملات میں مجھے جوش آیا ہے۔ ایک واقعہ تو اِسی وقت یاد آ گیا جو بہت پرانا ہے۔
جب ہمارا دفتر بن رہا تھا تو اس وقت اس کے لئے بہت سی چِقیں منگوائی گئیں جو بانس کی کھپچیوں کی بنی ہوئی ہوتی ہیں۔ وہ چِقیں بہت بھاری ہوتی ہیں اور اب بھی جس برآمدہ میں مَیں بیٹھا کرتا ہوں اس کے آگے پڑی ہوئی ہیں۔ وہ چقیں ایک گڈّے میں بھر کر منگوائی گئی تھیں۔ جو شخص چِقیں لانے کے لئے بھیجا گیا اس نے قادیان پہنچ کر رپورٹ کی کہ کسی نے راستہ میں چقیں چُرا لی ہیں۔ اب یہ ایک عجیب بات تھی اور ہمیں حیرت ہوئی کہ وہ چقیں چُرائی کس طرح گئی ہیں۔ چھ فٹ کے قریب وہ چوڑی تھیں، لمبائی بھی ان کی بہت کافی تھی اور اونچائی تو اس قدر تھی کہ گڈّا اُن سے بھرا ہوٴا تھا۔ ایسی حالت میں اگر دو بلکہ تین آدمی بھی ہاتھوں کو پھیلا کر انہیں اٹھانا چاہتے تو نہیں اٹھا سکتے تھے۔ پس یہ خیال کر لینا کہ ان چِقوں کو کوئی شخص چُرا کر لے گیا ہے کسی طرح صحیح معلوم نہیں ہوتا تھا۔ چنانچہ مَیں نے امور عامہ والوں سے کہا کہ اس معاملہ کی تحقیق کی جائے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک شخص بٹالہ سے اپنے گڈّے میں چِقیں بھر کر روانہ ہو اور انہیں کوئی شخص چُرا کر لے جائے اور اسے پتہ نہ لگے۔ انہوں نے تحقیق کے بعد اس پر ہرجانہ ڈال دیا۔ مجھے یاد نہیں کہ اس پر کتنا ہرجانہ ڈالا گیا۔ شاید وہ چقیں اَسّی روپیہ کی تھیں اور اس پر نصف رقم ہرجانہ کے طور پر ڈالی گئی یا ا س سے کم قیمت کی تھیں اور ان کی نصف رقم اس پر بطور ہرجانہ ڈالی گئی۔ وہ ایک گاوٴں کا رہنے والا تھا جب اس پر یہ ڈنڈ پڑا تو اس کی بیوی میرے پاس شکایت لے کر آئی اور کہنے لگی کہ ہم پر بڑا ظلم ہوٴ ا ہے اتنی رقم ڈال دی گئی ہے۔ مَیں نے کہا کہ تم خود ہی سوچو کہ یہ کتنے اندھیر کی بات ہے کہ اتنی بڑی چیز جس سے گڈّا بھرا ہوٴا تھا وہ رستہ میں ہی گم ہو جائے۔ لازمی بات یہ ہے کہ یا تو اس نے خود وہ چقیں فروخت کر دی ہیں اور یا پھر وہ گڈّا چھوڑ کر کہیں چلا گیا ہو گا اور کئی گھنٹے غائب رہا ہو گا بعد میں ان چقوں کو کئی افراد اٹھا کر لے گئے۔ اس صورت میں بھی تم پر ہی غفلت کا الزام آتا ہے ۔ وہ کہنے لگی یہ بالکل غلط ہے۔ نہ اس نے چقیں فروخت کی ہیں اور نہ وہ گڈے کو چھوڑ کر کئی گھنٹے غائب رہا۔ وہ صرف پانی پینے کے لئے ایک کنوئیں پر گیا تھا دو منٹ کے بعد واپس آیا تو چقیں غائب تھیں۔ مَیں نے کہا یہ بات میری سمجھ میں نہیں آ سکتی اور مَیں تمہاری سفارش کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں۔ اس پر اُس عورت نے جوش میں کہہ دیا ‘‘ تُہاڈے احمدی ہی چور ہوندے ہین، اُنہاں نے ہی چُرائیاں ہین’’ یعنی احمدی ہی چور ہوتے ہیں اور انہوں نے ہی چقوں کو چُرایا ہو گا۔ اب باوجود اس کے کہ مَیں ایک عورت سے گفتگو کر رہا تھا اس وجہ سے کہ اس نے جماعت پر حملہ کیا تھا مجھے طیش آ گیا اور مَیں نے کہا مائی تم عورت ہو وَرنہ مَیں اسی وقت تمہیں اپنے گھر سے نکلوا دیتا۔ خیر وہ چلی گئی مگر اس کے بعد مجھے اس فقرہ کا سخت صدمہ ہوٴا اور مَیں نے خیال کیا کہ گو اس عورت نے نادانی سے ایک بات کہی تھی مگر مجھے یہ فقرہ نہیں کہنا چاہئے تھا۔ چنانچہ بعد میں مَیں نے اس کی طرف اپنا ایک آدمی بھجوایا اس سے معافی مانگی اور اسے کچھ روپیہ بھی دیا۔ اب اس غصہ کی وجہ یہی تھی کہ جماعت پر اس نے ناواجب حملہ کیا تھا ورنہ میرے متعلق اگروہ کوئی بات کہتی تو مَیں اس کی پرواہ بھی نہ کرتا۔
مولوی محمد علی صاحب نے بھی حال ہی میں جماعت احمدیہ پر ایسا ہی حملہ کیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے قادیان کی جماعت کے متعلق جو دس ہزار کے قریب ہے کہا ہے کہ قادیان کے رہنے والے تو منافق ہیں۔ جماعت کے اصل لوگ وہ ہیں جو باہر رہتے ہیں قادیان کے رہنے والے تو تمہارے لَڑ لگے ہوئے اور ممنونِ احسان ہیں، وہ تمہیں چھوڑ نہیں سکتے۔ مولوی صاحب کے الفاظ جو ‘‘الفضل’’ نے نقل کئے ہیں یہ ہیں: ‘‘ان کی جماعت وہ تو نہیں جو قادیان میں ہے۔ وہ تو ان کے ملازمین اور ایسے لوگ ہیں جن کی ضروریات ان سے وابستہ ہیں۔ جماعت تو وہ چیز ہے جو اس سلسلہ کو قائم رکھنے والی ہے۔ بیرونی لوگ جو جلسہ پر آئے ہیں اصلی جماعت وہ ہیں۔’’
‘‘الفضل’’ نے اس کا نہایت ہی معقول جواب دیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو قادیان میں رہنے کی تعلیم دی ہے اور آپ نے فرمایا ہے کہ جو شخص سب کچھ چھوڑ کر اِس جگہ آ کر آباد نہیں ہوتا یا کم سے کم یہ تمنّا دل میں نہیں رکھتا وہ منافق ہے۔ اور مولوی محمد علی صاحب کے نزدیک جو لوگ قادیان میں آ بسے ہیں وہ منافق ہیں۔ گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے جتنی باتیں بیان فرمائی تھیں۔ غیر مبائعین کے نزدیک وہ سب بدلتی جاتی ہیں۔ نبوت کے مسئلہ میں انہوں نے تبدیلی کی، کفر و اسلام کے مسئلہ میں انہوں نے تبدیلی کی، خلافت کے مسئلہ میں انہوں نے تبدیلی کی اور اب قادیان کی رہائش کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جو ارشادات ہیں ان کی انہوں نے بے قدری کرنی شروع کر دی ہے۔ حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قادیان کی محبت اتنی ضروری قرار دی ہے کہ آپ فرماتے ہیں جو شخص قادیان میں آ نہیں سکتا اُسے کم سے کم یہاں آنے کی خواہش اور تمنا اپنے دل میں ضرور رکھنی چاہئے۔ مگر مولوی محمد علی صاحب کے نزدیک قادیان میں آنا منافقت میں مبتلا ہونا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے نعوذ باللہ اپنی جماعت کے لوگوں کو منافق بننے کا یہ گُر بتایا تھا اور بجائے اِس کے کہ آپ لوگوں کے دلوں میں ایمان قائم کرتے آپ نے قادیان آنے کی تعلیم دے کر ان کے لئے منافقت کا رستہ کھول دیا تھا۔ آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریک کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ آج قادیان میں دس ہزار کے قریب جماعت احمدیہ کے افراد پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے کس کی یہاں جائدادیں تھیں یا کس کے ماں باپ یہاں کے رہنے والے تھے؟ وہ اسی لئے آئے کہ خدا تعالیٰ کے مامور اور مرسل نے کہا تھا کہ قادیان آوٴ اور یہاں آ کر رہو۔3 مگر یہاں آ کر بقول مولوی محمد علی صاحب انہیں منافقت کا تمغہ مل گیا اور یہ انہیں اس بات کی سزا ملی کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بات کیوں مانی تھی۔ غرض قادیان میں رہنے والوں کے متعلق یہ اتنا بڑا اتّہام اور بہتان ہے کہ خود مولوی محمد علی صاحب بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہے۔
اول تو یہی دیکھ لو کہ قادیان میں انجمن کے ملازم کتنے ہیں۔ قادیان میں دس ہزار احمدی بستے ہیں ان میں سے ملازم زیادہ سے زیادہ سَو دو سَو ہوں گے۔ اگر ان کے ساتھ ان کے بیوی بچوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو پانچ چھ سو بن جائیں گے۔ ان کے علاوہ چھ سات ہزار وہ لوگ ہیں جو زمیندار ہیں یا پیشہ ور ہیں اور ایک اچھی خاصی تعداد اُن لوگوں کی ہے جن کے باپ بھائی یا خاوند وغیرہ گورنمنٹ کی ملازمت میں ہیں اور انہوں نے اپنے بچوں یا دوسرے عزیزوں کو قادیان میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھیج دیا ہے۔ ان پر بھلا انجمن کا کیا دباوٴ ہو سکتا ہے یا میرا اِن پر کیا دباوٴ ہو سکتا ہے؟ وہ تو خود چندے دیتے اور سلسلہ کے لئے قربانیاں کرتے ہیں۔ بہرحال کثرت ان لوگوں کی ہے جو پنشن یافتہ ہیں یا پیشہ ور ہیں یا زمیندار وغیرہ ہیں یا پھر قادیان میں وہ لوگ رہتے ہیں جن کے باپ اور بھائی وغیرہ گورنمنٹ کی ملازمت میں ہیں اور وہ انہیں تعلیم کے لئے اخراجات بھیج دیتے ہیں یا اگر وہ پڑھتے نہیں تو ان کا گزارہ بہرحال اپنے باپ یا بھائی کی آمد پر ہے۔ اس قسم کے تمام لوگ کون سے جماعت کے دباوٴ کے ماتحت ہیں اور کس طرح یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ قادیان کی جماعت نعوذ باللہ اتنی گندی ہو گئی ہے کہ محض چند پیسوں کی خاطر اس نے اپنے دین اور ایمان کو بیچ دیا ہے۔ گویا ساری قوموں میں یہ طاقت ہے کہ وہ کسی کی نوکری کریں تو اپنے عقائد کو بھی قائم رکھ سکیں مگر احمدیوں میں یہ طاقت نہیں ہے۔ باقی لوگ تو غیر احمدیوں کی بھی نوکریاں کرتے ہیں، آریوں کی بھی نوکریاں کرتے ہیں، سکھوں کی بھی نوکریاں کرتے ہیں، انگریزوں کی بھی نوکریاں کرتے ہیں اور پھر اپنے عقائد پر مضبوطی سے قائم رہتے ہیں مگر مولوی محمد علی صاحب کے نزدیک احمدی اتنی طاقت بھی نہیں رکھتے ۔ وہ کسی کی نوکری کرنے کے ساتھ ہی اپنے دین اور ایمان کو بھی فروخت کر دیتے ہیں۔ خود پیغامیوں میں ایک خاص طبقہ ایسے لوگوں کا ہے جو گورنمنٹ کی ملازمت میں ہے۔ مگر ان کے نزدیک گورنمنٹ کی ملازمت ان کے اعتقادات پر کوئی اثر نہیں ڈال سکتی۔ میاں غلام رسول صاحب تمیم، میاں محمد صادق صاحب، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب، ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب، ڈاکٹر بشارت احمد صاحب یہ سب عیسائی حکومت کے ملازم تھے۔ کیا یہ سب ان ایام میں عیسائی ہو گئے تھے یا عیسائیوں کی ہاں میں ہاں ملانے لگ گئے تھے؟ کیا اِس وقت جو لوگ انجمن اشاعت اسلام کے ملازم ہیں وہ سب کے سب مولوی صاحب کے تجربہ کے مطابق منافق ہیں کیونکہ وہ مولوی صاحب اور ان کی انجمن کے لڑ لگے ہوئے ہیں۔ اگر مولوی صاحب کے نزدیک یہ لوگ منافق نہیں تو کیا وجہ ہے کہ وہ لوگ تو انگریزوں یا انجمن اشاعت اسلام کی ملازمت کر کے منافق نہ ہوئے مگر قادیان کے احمدی صدر انجمن احمدیہ کی ملازمت کر کے اپنے ایمان کو سلامت نہیں رکھ سکتے۔ اگر صدر انجمن احمدیہ کی نوکری کرنے سے عقیدہ بھی بدل جاتا ہے تو پیغامیوں میں سے جتنے لوگ گورنمنٹ کے ملازم ہیں ان سب کے متعلق یہ سمجھا جانا چاہئے کہ وہ عیسائی ہیں۔ کیونکہ مولوی محمد علی صاحب کے اس اصل کے مطابق یہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ گورنمنٹ کے ملازم ہو کر انہوں نے اپنے ایمان کو محفوظ رکھا ہو۔ پھر میں کہتا ہوں مولوی محمد علی صاحب کو اپنا تجربہ بھی یاد ہونا چاہئے۔ اب تو قادیان کی آبادی کا ایک کثیر حصہ ایسا ہے جو صدر انجمن احمدیہ کا ملازم نہیں مگر جب مولوی محمد علی صاحب قادیان میں رہتے تھے تو یہاں کے اَسّی فیصدی انجمن کے نوکر یا ان نوکروں سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے اور مولوی محمد علی صاحب کو یاد ہو گا کہ باوجود اس کے کہ وہی سیکرٹری تھے اور باوجود اس کے کہ خزانہ ان کے پاس تھا قادیان کے لوگوں نے مولوی صاحب کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا۔ جب ایمان کا معاملہ آیا تو اِنہی قادیان والوں نے جس طرح مکھی کو دودھ سے نکال کر باہر پھینک دیا جاتا ہے اسی طرح انہوں نے مولوی محمد علی صاحب کو نکال کر باہر کر دیا۔ حالانکہ یہ وہ لوگ تھے جن کے مال اور جن کی جانیں اسی طرح مولوی محمد علی صاحب کے قبضہ میں تھیں جس طرح اب وہ ہمارے متعلق کہتے ہیں کہ ہمارے قبضہ میں لوگوں کے مال اور ان کی جانیں ہیں۔ اگر اس وقت قادیان والوں نے ایمان کے معاملہ میں کسی قسم کی کمزوری نہیں دکھائی تو اب وہ کس طرح خیال کر سکتے ہیں کہ قادیان کے رہنے والے ایمان کے معاملہ میں کمزوری دکھاتے اور منافقت سے کام لیتے ہیں۔ ان کو تجربہ ہے کہ قادیان والوں نے اپنے ایمان کو فروخت نہیں کیا تھا بلکہ جب انہیں معلوم ہوٴا کہ اب دین اور ایمان کا سوال پیدا ہو گیا ہے تو انہوں نے مقابلہ کیا اور اس بات کی انہوں نے کوئی پرواہ نہ کی کہ وہ صدر انجمن احمدیہ کے ملازم ہیں۔ پھر مَیں مولوی محمد علی صاحب سے کہتا ہوں مولوی صاحب! آپ بھی قادیان کی نوکری کرتے رہے ہیں۔ کیا اس وقت آپ کا ایمان بگڑا ہوٴا تھا یا سلامت تھا؟ آپ تو اس وقت اڑھائی سو روپیہ ماہوار تنخواہ لیا کرتے تھے۔ جن پر آپ اعتراض کر رہے ہیں ان میں سے اکثر تو بیس تیس چالیس لینے والے ہیں مگر آپ اڑھائی سو روپیہ ماہوار وصول کیا کرتے تھے۔ پس آپ بتائیں کہ آپ کے اعتقاد کا اس وقت کیا حال تھا۔ پھر ہمارے اعتقادات کے بدلنے کا تو ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں مگر مولوی محمد علی صاحب کے متعلق ہمارے پاس اس بات کا قطعی اور یقینی ثبوت موجود ہے کہ جب تک وہ قادیان سے اڑھائی سو روپیہ ماہوار تنخواہ لیتے رہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کو نبی کہتے کہتے ان کی زبان خشک ہوتی تھی مگر جب وہ اڑھائی سو روپیہ ماہوار ملنے بند ہو گئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کو مجدد کہنے لگ گئے۔ گویا خدا تعالیٰ نے دونوں نمونے ان کے سامنے پیش کر دئیے۔ یعنی جن لوگوں پر وہ اعتراض کرتے ہیں کہ وہ صدر انجمن احمدیہ کے ملازم ہیں اور اس وجہ سے وہ اصل جماعت احمدیہ نہیں ہیں ان کے سامنے تو جب ایمان کا سوال آیا وہ سینہ تان کر سامنے آ گئے اور انہوں نے کہا کہ ہم ایمان کے معاملہ میں کسی کی پرواہ کرنے کے لئے تیار نہیں ۔ خواہ وہ صدر انجمن احمدیہ کی اکثریت یا اس کا سیکرٹری ہی کیوں نہ ہو مگر دوسری طرف مولوی صاحب کا اپنا نمونہ یہ ہے کہ جب تک وہ اڑھائی سو روپیہ ماہوار تنخواہ لیتے رہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کو نبی کہتے رہے مگر جب لاہور چلے گئے تو مجدد کہنے لگ گئے۔ جس شخص کے ایمان کا یہ حال ہو کہ وہ اڑھائی سو روپیہ کے بدلے کسی کو نبی کہنے کے لئے تیار ہو جائے اور عدالتوں میں قسمیں کھا کھا کر کہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نبی تھے اسے یہ کس طرح زیب دیتا ہے کہ وہ دوسروں پر طعنہ زنی کرے۔ پھر جس شخص کو اُس دن کی روٹی بھی اسی ترجمہ کے طفیل ملی ہو جو اس نے قادیان میں بیٹھ کر اور جماعت احمدیہ سے تنخواہ پا کر کیا تھا اس کو کب یہ زیب دیتا ہے کہ وہ قادیان والوں کی عیب چینی کرے۔ حالانکہ اس نے اس روز صبح کو جو ناشتہ کیا تھا وہ بھی اسی ترجمہ کے طفیل تھا جو اس نے قادیان میں باقاعدہ تنخواہ لے کر کیا اور اس نے اس روز جو روٹی کھائی تھی وہ بھی اسی ترجمہ کے طفیل تھی جو اس نے قادیان میں تنخواہ پا کر کیا اور اس نے اس روز جو کپڑے پہنے تھے وہ بھی اسی ترجمہ کے طفیل تھے جو اس نے قادیان میں تنخواہ پا کر کیا۔ کیونکہ اس کا کون انکار کر سکتا ہے کہ جس ترجمہ کے کمیشن پر مولوی صاحب کا گزارہ ہے وہ ترجمہ مولوی صاحب نے اپنے گھر سے کھا کر نہیں کیا بلکہ صدر انجمن احمدیہ سے تنخواہ لے کر اور اس کی خریدی ہوئی لائبریری کی مدد سے کیا تھا۔ (جس لائبریری کو وہ بعد میں دھوکا دے کر کہ مَیں چند روز کے لئے لے جاتا ہوں غصب کر بیٹھے ہیں۔) ایسا انسان بھلا کس مُنہ سے یہ کہہ سکتا ہے کہ قادیان والے منافق ہیں۔ مولوی صاحب نے شاید سمجھا ہو گا کہ باہر والے اتنے کمزور ہیں کہ جب وہ یہ سنیں گے کہ قادیان والوں کو انہوں نے اصل جماعت احمدیہ قرار نہیں دیا بلکہ اصل جماعت احمدیہ باہر کے رہنے والوں کو قرار دیا ہے تو وہ خوش ہو جائیں گے مگر یہ ان کی غلطی ہے۔ ان سے پہلے اَور بھی بعض لوگ اس قسم کی باتوں سے تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش کر چکے ہیں۔ چنانچہ مدینہ میں ایک شخص نے ایک دفعہ انصار اور مہاجرین میں تفرقہ پیدا کرنے کے لئے کہہ دیا تھا کہ لَا تُنْفِقُوْا عَلٰى مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ حَتّٰى يَنْفَضُّوْا 4 ارے یہ لوگ روٹیاں کھانے کے لئے یہاں بیٹھے ہیں تم ذرا اِن کی روٹیاں تو بند کرو پھر دیکھو گے کہ کس طرح یہ لوگ یہاں سے بھاگ نکلتے ہیں۔ مگر جانتے ہو یہ بات کہنے والے کا کیا حشر ہوٴا۔ اسی کا بیٹا رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوٴا اور اپنے باپ کے فعل پر *** ڈالی۔ پس مولوی محمد علی صاحب کو بھی یاد رہے کہ ان کا یہ حملہ جو انہوں نے قادیان کی جماعت احمدیہ پر کیا ہے۔ اس سے باہر کے لوگ خوش نہیں ہوں گے بلکہ باہر کی جماعتیں خود اس حملہ کا جواب دیں گی اور وہ ان کی تائید نہیں کریں گی بلکہ ان کے اس دعویٰ کی پُر زور تردید کریں گی۔ کیونکہ ان کا اخلاص اس بات کا تقاضا کرتا ہے اور ان کے دل اس حسرت سے پُر ہیں کہ کاش انہیں بھی قادیان میں رہنے کی توفیق ملتی۔ وہ قادیان میں آنے کو نفاق نہیں سمجھتے بلکہ ایمان اور اخلاص کی علامت سمجھتے ہیں۔ پس ان کی یہ چال بھی اسی طرح رائیگاں جائے گی اور اسی طرح ان کے لئے حسرت کا سامان پیدا کرے گی جس طرح ان کی پہلی چالیں رائیگاں جاتی رہی ہیں اور ہمیشہ ان کے لئے حسرت کا سامان پیدا کرتی رہی ہیں۔’’
(الفضل 21 دسمبر 1941ء )
1 آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 453 (ترجمہ ازعربی)
2 البقرۃ: 287
3 بدر یکم دسمبر 1903ء و الحکم 30 نومبر 1903ء
4 المنافقون: 8

38
جلسہ سالانہ پر باہر سے آنے والے اور قادیان میں رہنے والے بہت دعائیں کریں
( فرمودہ 19 دسمبر 1941ء )

تشہد،تعوّذ اور سورہٴ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
" آج 19 تاریخ ہے اور سات دن کے بعد یعنی اگلے جمعہ کے دن انشاء اللہ ہمارا سالانہ جلسہ شروع ہونے والا ہے۔ سالانہ جلسہ کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے اشاعتِ اسلام کی غرض سے رکھی تھی اور آپ کا منشاء یہ تھا کہ کم سے کم جماعت کے دوست سال میں ایک دفعہ قادیان آکر خدا تعالیٰ کی باتیں سنیں۔ دین کی مشکلات معلوم کریں۔ ان مشکلات کے ازالہ کی تدابیر سوچیں اور دوسروں سے سنیں۔ کیسی چھوٹی سی بناء سے یہ جلسہ شروع ہوٴا تھا جبکہ چھوٹے چھوٹے گاوٴں کے میلوں کے برابر بھی اس کی حیثیت نہ تھی۔ آج گو افراد کی تعداد کے لحاظ سے نہیں مگر تنظیم اور کام کی نوعیت کے لحاظ سے اور اس میں شامل ہونے والے افراد کے لحاظ سے جو دنیا کے مختلف گوشوں سے اس میں شامل ہوتے ہیں۔ یہ جلسہ دنیا میں اپنی نوعیت کا ایک ہی جلسہ ہے۔ اول تو کوئی جگہ دنیا میں ایسی نہیں جس میں دین کی اشاعت کی خاطر اس قدر لوگ جمع ہوتے ہوں اور وہ بھی دینِ اسلام کی اشاعت کی خاطر۔ جو اِس وقت دنیا میں سب سے زیادہ مطعون اور مظلوم ہو رہا ہے۔ پھر کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں اتنے لوگ جمع ہوں اور اس نظام کے ساتھ ان کے کھانے اور رہائش کا انتظام کیا جاتا ہو جیسا کہ یہاں ہوتا ہے۔
پھر دنیا میں اَور کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں دینِ اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور تعلیم کے لئے اس رنگ میں انتظام کیا جاتا ہو۔ اس میں شامل ہونے والے افراد کے لحاظ سے بھی یہ جلسہ معمولی نہیں۔ پچیس، تیس ہزار لوگ اس میں شامل ہوتے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ ایسے جلسے بھی ہوتے ہیں جن میں بہت زیادہ لوگ جمع ہوتے ہیں۔ کانگرس کے جلسوں میں پچاس ساٹھ ہزار لوگ شامل ہو جاتے ہیں مگر وہ شمولیت اَور قسم کی ہے۔ کانگرس کے جلسوں میں شامل ہونے والے اپنے فائدہ کے لئے شامل ہوتے ہیں۔ مگر اس میں شامل ہونے والے ساری دنیا کے فائدہ کی خاطر شامل ہوتے ہیں۔ یہ فرق ایسا ہی ہے کہ مثلاً کوئی شخص اپنے گھر میں پلاوٴ پکاتا ہے اس لئے کہ خود کھائے اور ایک شخص اس لئے پکاتا ہے کہ غرباء کو کھلائے۔ کانگرس کے جلسوں میں شامل ہونے والوں کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اپنے آپ کو آزاد کرائیں، حکومت پر ان کا قبضہ ہو اور بڑے بڑے عُہدے ان کو مل جائیں۔ مگر جو لوگ قادیان میں جلسہ پر آتے ہیں ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ تھوڑی سی پونجی جو خدا تعالیٰ نے اُن کو دی ہے اسے خدا تعالیٰ کے لئے قربان کریں تاکہ دنیا کو نور اور ہدایت ملے۔
ایسے اجتماع میں آنے والوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ان کی ذمہ داریاں بھی زیادہ ہوتی ہیں۔ جو انسان کسی نیکی کے کام کے لئے کوئی قدم اٹھاتا ہے اس کی تکمیل بھی اس پر واجب ہو جاتی ہے۔ نوافل کے متعلق انسان کو اختیار ہے کہ پڑھے یا نہ پڑھے مگر ساتھ ہی یہ بھی حکم ہے کہ جب ایک دفعہ نفل کا ارادہ کر لو تو اسے چھوڑ نہیں سکتے۔ قرآن کریم میں يُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ ِ1 کا حکم آیا ہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ نوافل کا بجا لانا یا نہ لانا انسان کے اختیار کی بات ہے مگر جب ارادہ کر لیا جائے تو پھر چھوڑ دینا اپنے اختیار میں نہیں۔ جب ایک قوم ارادہ کر لیتی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی خدمت کے لئے ایک جگہ جمع ہو گی تو پھر وہ ذمہ داری اپنے سر لے لیتی ہے اور پھر وہ نفل بھی فرض بن جاتا ہے۔
پس ہماری جماعت کا یہاں جمع ہونا جس غرض اور جس مقصد کے لئے ہے اسے مدنظر رکھتے ہوئے ہر فرد جو گھر سے نکلتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے نیت کو نیک کرے۔ قادیان میں ہزاروں لوگ باہر سے آ کر آباد ہیں ان کے گاوٴں اور شہروں سے جلسہ کے لئے قادیان آنے والے یہ بھی نیت کر سکتے ہیں کہ جلسہ بھی دیکھیں گے اور اپنے رشتہ داروں سے بھی ملیں گے۔ بعض لوگ یہ نیت بھی کر سکتے ہیں کہ جلسہ پر بھی ہو آئیں گے اور اس موقع پر اپنے یا اپنے کسی عزیز کے نکاح کا اعلان بھی کرا لیں گے۔ کئی تاجر پیشہ دوست بھی آتے ہیں ۔ وہ یہ نیت کر سکتے ہیں کہ جلسہ بھی ہو جائے گا اور اس موقع پر بہت سے لوگ جمع ہوں گے اس لئے اپنی چیزیں بھی فروخت کریں گے مگر یہ خیال ایسا ہی ہے جیسے کوئی دکاندار دودھ میں پانی ملا کر فروخت کرے یا گھی میں بعض لوگ کئی قسم کی چربیاں وغیرہ ملا لیتے ہیں یا کھانڈ میں آٹا ملا دیتے ہیں۔ جب انسان خدا تعالیٰ کے لئے ایک کام کرتا ہے تو اس میں دوسری نیت شامل کیوں کرے۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ اجازت دی ہے کہ دوسرے کام بھی کئے جا سکتے ہیں تو اس کی نیت کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ خدا تعالیٰ نے اجازت دی ہے کہ حج کے لئے جو لوگ جاتے ہیں۔ ان میں سے اگر کوئی تجارت بھی کر لے تو جائز ہے لیکن اگر کوئی حج کی نیت اس لئے کرے کہ حج بھی کروں گا اور تجارت بھی کروں گا تویہ نیک عمل کو ضائع کرنے والی بات ہے۔ اگر وہ خالص حج کی نیت کرے تو کیا تجارت نہ ہو سکے گی۔ انسان یہ کیوں کہے کہ چلو جی جلسہ پر چلتے ہیں ۔ وہاں فلاں نکاح بھی پڑھوائیں گے یہ نیت کیوں نہ کرے کہ جلسہ پر تو ضرور جانا ہے اور دین کے لئے جانا ہے۔ پھر اگر اس موقع پر شادی کا انتظام ہو سکے تو اس میں کوئی رکاوٹ تو پیدا نہ ہو جائے گی۔ یا اگر یہ نیت ہو کہ اس مقدس اجتماع میں ضرور شامل ہونا ہے ۔ تو کیا اس کے رشتہ دار اسے ملنے سے انکار کر دیں گے یا وہ اسے نظر نہ آئیں گے؟ رشتہ داروں سے ملنے یا تجارت کرنے یا شادی کا انتظام کرنے کو نیت میں شامل کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اگر کوئی جلسہ کی نیت کے ساتھ آتا ہے۔ مگر ساتھ اپنا سامان بھی فروخت کرتا ہے تو اس کے کام میں اسے کوئی فرق تو نہیں پڑ سکتا۔ لیکن اگر جلسہ میں آنے کی نیت کے ساتھ وہ تجارت یا رشتہ داروں کی ملاقات کی نیت کو شامل کرتا ہے تو یہ دودھ میں پانی ملانے والی بات ہے۔ یہ بھی معاملہ بہت پیچیدہ معاملہ ہے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے اَلْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ 2 یعنی اعمال کی بناء نیتوں پر ہے۔ اور اگر نیت کے معنی کوئی اچھی طرح سمجھ لے توبہت بڑے فوائد حاصل کر سکتا ہے۔ فقہاء نے اس بات پر زور دیا ہے کہ نماز کے لئے نیت ضروری ہے اورجن لوگوں نے اس بات کی حقیقت کو سمجھا انہوں نے فائدہ بھی اٹھایا۔
شریعت کا اصل منشاء یہ ہے کہ جب انسان نیت کرے گا تو کام سے پہلے کرے گا اور فعل اور نیت کے درمیان جو وقفہ ہو گا اس میں بھی اسی طرف متوجہ ہو گا اور اس طرح وہ وقت بھی اس کا نماز میں ہی گویا گزرے گا۔ لیکن آگے بنانے والوں نے اس کا کیا نتیجہ بنا لیا۔ کہتے ہیں کہ کسی شخص کو وہم کی بیماری تھی۔ اِدھر اُسے یہ شبہ ڈال دیا گیا تھا کہ اگر نماز کی نیت اس رنگ میں نہ کی جائے جو مولوی بتاتے ہیں تو نماز نہیں ہوتی۔ اسے وہم کی بیماری تھی اس لئے جب نماز کے لئے کھڑا ہوتا تو کہتا چار رکعت فرض نماز ظہر پیچھے اِس امام کے اور یہ کہتے ہوئے انگلی کے ساتھ امام کی طرف اشارہ کرتا۔ لیکن پھر اس کے دل میں شبہ پیدا ہوتا کہ شاید میری انگلی کا اشارہ سیدھا امام کی طرف ہوٴا ہے یا نہیں۔ اس لئے وہ صفیں چیر کر پہلی صف میں پہنچتا اور پھر امام کی طرف انگلی کر کے کہتا پیچھے اس امام کے ۔ پھر بھی اسے شبہ رہتا کہ شاید انگلی کا اشارہ بالکل صحیح طور پر سیدھا نہ کیا جا سکا اور اِس لئے امام کو انگلیاں مار مار کر کہتا پیچھے اِس امام کے۔ تو یہ غلط مفہوم ہے نیت کا ۔فقہاء نے جو لکھا اس کا مطلب یہی ہے کہ انسان نماز کو خدا تعالیٰ کے لئے خاص کر دے اور جب پڑھنے لگے تو اسے یہی خیال ہو کہ مَیں یہ نماز خدا تعالیٰ کی خاطر اور اس کے قرب اور وصال اور دیدار کی خاطر پڑھتا ہوں۔ اور یہ ہے اصل نیت ورنہ یہ نیت نہیں کہ چار رکعت فرض نماز ظہر۔ ایسا بھی کوئی ہو سکتا ہے کہ جو نماز ظہر پڑھنے کے لئے کھڑا ہو اور اسے پتہ نہ ہو کہ ظہر کے فرض چار ہیں یا دو۔ یہ تو اس مسئلہ کو ایک کھلونا بنا لیا گیا ہے ورنہ مفہوم اس کا صرف اتنا ہی ہے کہ انسان اپنے ارادہ اور نیت کو درست کر کے نماز پڑھے۔ ریاء اور لوگوں کو دکھانے کے لئے نہ پڑھے۔ یا محض عادتاً نہ پڑھے۔ بعض لوگوں کو نماز پڑھنے کی عادت ہو جاتی ہے۔ جیسے بعض لوگوں کو افیون کھانے کی عادت ہوتی ہے یابعض لوگوں کو عادت ہوتی ہے کہ صبح صبح اپنے کسی دوست کے پاس جا کر بیٹھتے اور باتیں کرتے ہیں۔ اگر وہ دوست کسی دوسری جگہ چلا جائے تو ان کو تکلیف ہوتی ہے۔ اسی طرح بعض لوگوں کو نماز پڑھنے یا روزہ رکھنے کی عادت ہو جاتی ہے۔ پھر کئی لوگ اس لئے نمازیں پڑھتے ہیں کہ دوسرے لوگ کہیں یہ کیسا اچھا آدمی ہے۔ بڑا نمازی ہے۔ ایسا شخص خواہ ہزار دفعہ کہے پیچھے اِس امام کے۔ چاہے امام کو انگلیاں مار مار کر اشارہ کرے اس کی نماز نہ ہو گی کیونکہ گو وہ مُنہ سے کہتا ہے چار رکعت نماز فرض۔ مگر وہ فرض ادا نہیں کرتا وہ تو بندوں کے لئے نماز پڑھتا ہے۔ خدا تعالیٰ کے لئے نہیں اور جو بندوں کے لئے پڑھے وہ یہ کیونکر کہہ سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا فرض ادا کرتا ہے یا جو عادتاًادا کرتا ہے وہ فرض ادا نہیں کرتا۔ جس طرح جس شخص کو افیون کھانے کی عادت ہو وہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ خدا تعالیٰ کا کوئی فرض ادا کر رہا ہے۔ بلکہ وہ تو اپنی عادت پوری کرتا ہے یا جو اپنے دوست کی بیٹھک میں بیٹھ کر باتیں کرتا ہے وہ کوئی فرض ادا نہیں کرتا بلکہ اپنی عادت پوری کرتا ہے۔ محض مُنہ سے فرض کہہ دینے سے فرض ادا نہیں ہو جاتا۔ نیت کا یہی مفہوم تھا جسے لوگوں نے بگاڑ لیا۔ یہی بات اسلام کے ہر عمل میں ہے۔ جیسا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اَلْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ۔ جب تک کسی عمل کے ساتھ نیت درست نہ ہو وہ کوئی فائدہ نہیں دے سکتا۔ رمضان کے دنوں میں بعض بچے بھی روزے رکھتے ہیں۔ وہ ماوٴں سے لڑتے ہیں کہ انہیں کیوں روزہ کے لئے نہیں اٹھایا گیا۔ انہیں روزہ رکھنے کا شوق ہوتا ہے مگر ان کی نیت کیا ہوتی ہے؟ صرف مقابلہ کرنے کے لئے وہ روزے رکھتے ہیں۔ جب ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ تم نے کتنے روزے رکھے اور تم نے کتنے۔ غرض وہ محض مقابلہ کے لئے روزے رکھتے ہیں۔ کوئی ادائیگی فرض کی نیت نہیں ہوتی۔ وہ صرف اس فقرہ کے لئے روزے رکھتے ہیں کہ ایک دوسرے کو کہہ سکیں کہ تم نے کتنے روزے رکھے اور تم نے کتنے۔ ان کی غرض صرف دکھاوا اور مقابلہ ہوتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام ایسے لوگوں کی مثال میں جو دکھاوے کے لئے کام کرتے ہیں ایک لطیفہ سنایا کرتے تھے کہ کوئی عورت تھی اس نے کوئی انگوٹھی بنوائی۔ اسے شوق تھا کہ ہمجولیاں اس انگوٹھی کی تعریف کریں مگر کسی نے اس کی طرف کوئی توجہ نہ کی۔ آخر اس نے اسی جَلن میں اپنے مکان کو آگ لگا دی اورایسے رنگ میں لگائی کہ کوئی چیز صحیح سالم نہ بچ سکے۔ لوگ جمع ہو گئے اور آگ بجھانے میں لگ گئے۔ عورتیں بھی جمع ہو گئیں۔ جو عورت آتی اس عورت سے پوچھتی۔ ہے ہے بہن کچھ بچا بھی اور وہ کہتی کہ بس یہی انگوٹھی بچی ہے۔ کسی عورت نے کہا۔ بہن یہ انگوٹھی تم نے کب بنوائی ہے۔ اس کا یہ کہنا تھا کہ وہ چیخ مار کر کہنے لگی کہ اگر پہلے تم یہ پوچھ لیتیں تو میرا گھر کیوں جلتا۔
تو کئی لوگ نیک اعمال بھی اس لئے کرتے ہیں کہ لوگ تعریف کریں۔ نمازیں اس لئے پڑھتے ہیں کہ لوگ کہیں بڑا نمازی ہے۔ لیکچر دیتے ہیں تو یہ غرض نہیں ہوتی کہ دین کی اشاعت ہو یا تقویٰ مدنظر نہیں ہوتا بلکہ صرف یہ مقصد ہوتا ہے کہ لوگ کہیں بڑا بولنے والا ہے، بڑا لیکچرار ہے۔ خواہ کوئی کچھ سمجھے یا نہ سمجھے اس کی انہیں پرواہ نہیں ہوتی۔ حضرت خلیفة المسیح الاول سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ میرا ایک پرانا ملنے والا میرے پاس آیا اور درس میں شریک ہوٴا۔ میری جو شامت آئی تو میں نے درس کے بعد اس سے پوچھا کہ سناوٴ کچھ لطف بھی آیا۔ اس نے کہا ہاں اچھا تھا۔ آپ قرآن کریم کے معنے بیان کرتے تھے مگر ہمارے پیر صاحب جو لیکچر دیتے یا خطبہ پڑھتے ہیں وہ کمال ہوتا ہے۔ مَیں نے پوچھا اس میں کیا ہوتا ہے تو اس نے کہا کہ ہمارے پیر صاحب کے لیکچر تین قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک تو چار آنے والا ہوتا ہے وہ تو آپ جیسا ہی ہوتا ہے۔ خدا رسول کی باتیں کرتے ہیں۔ دوسرا آٹھ آنے والا ہوتا ہے اس کی کوئی بات سمجھ میں آتی ہے اور کوئی نہیں۔ تیسرا ایک روپیہ والا ہوتا ہے اور وہ تو حرام ہے اگر بڑے بڑے مولوی بھی کچھ سمجھ سکیں۔ اور ظاہر ہے کہ ایسا لیکچر دے کر اگر کوئی شخص یہ خیال کرتا ہے کہ اس کا کوئی ثواب اسے ملے گا تو یہ خام خیالی ہے۔ اس لیکچر کی غرض دین کی اشاعت یا تقویٰ نہیں ہوتی بلکہ لوگوں پر رُعب ڈالنا ہوتی ہے۔ وعظ کے معنے تو یہ ہوتے ہیں کہ وعظ کرنے والا وہی بات کہے جو سننے والوں کے دل میں ہو۔ واعظ سننے والوں کے دل کی باتیں نکالتا ہے اور اسی لیکچر کا ثواب ہوتا ہے لیکن جس کی غرض یہ ہو کہ دوسروں پر رعب پڑے اور ان کو بتایا جائے کہ میرے پاس کچھ ایسی باتیں ہیں جو مَیں نے چھپائی ہوئی ہیں اس کا کوئی ثواب نہیں ہو سکتا۔
مَیں نے ایک جلسہ سالانہ پر عرفانِ الٰہی کے موضوع پر تقریر کی۔ ایک شخص نے مجھے رقعہ لکھا ۔ معلوم نہیں وہ احمدی تھا یا غیر احمدی۔ اس نے لکھا کہ آپ نے تو غضب کیا جو اتنی زیادہ باتیں بیان کر دیں۔ پیر لوگ تو ان میں سے ایک ایک دس دس سال خدمتیں کرانے کے بعد بتاتے تھے۔ حالانکہ جو شخص اس خیال کا ہو وہ پیر کیسا؟ جب وہ اس علم کو جو خدا تعالیٰ نے اسے دیا ہے چھپاتا ہے۔ ہر واعظ جو باتیں اس لئے کرتا ہے کہ لوگوں پر اس کا رعب پڑے اور وہ سمجھیں کہ کچھ باتیں اَور بھی اس کے پاس ہیں جو یہ خدمت لے کر بتائے گا۔ اس کا وعظ وعظ نہیں بکواس ہے۔ خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والے تو سب کچھ بتا دیتے ہیں۔ سوائے اس کے کہ کوئی بات بتانے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے روک ہو۔
حضرت مسیح علیہ السلام نے جو یہ فرمایا کہ کچھ باتیں ایسی ہیں جو مَیں بیان نہیں کر سکتا۔ وہ میرے بعد آنے والا یعنی آنحضرت ﷺ ہی سمجھائے گا۔3 تو اس سے آپ کی مراد ایسے علوم سے تھی جو اس زمانہ کے لوگ نہیں سمجھ سکتے تھے۔ ایسی باتوں کو انبیاء اس لئے نہیں چُھپاتے کہ وہ بتانا نہیں چاہتے بلکہ اس لئے کہ وہ خدا تعالیٰ نے اُس زمانہ کے لئے مقدر نہیں کی ہوتیں۔ ایسی باتوں کو اللہ تعالیٰ بھی چھپا لیتا ہے۔ روٴیا و الہام ایسے کلام میں کرتا ہے کہ جس کے اس زمانہ کے لوگ سیدھے سادے معنے کر لیتے ہیں اور صحیح مفہوم نہیں سمجھ سکتے۔ جب وہ باتیں اپنے زمانہ میں آ کر پوری ہوتی ہیں تو پھر اصل معنے ان کے کھلتے ہیں۔ تو ہر نیکی نیت کے ساتھ بنتی ہے۔ نیت اچھی نہ ہو تو کچھ نہیں۔ شعراء اپنے کلام میں کس قدر تکلفات کرتے ہیں۔ دُور دُور کی تشبیہات لاتے ہیں۔ کسی چیز کی تشبیہ کے لئے ان کی نظر ستاروں کی طرف جاتی ہے اور کسی کے لئے تحت الثریٰ کی طرف ۔ لیکن اس سب کوشش کا کوئی اثر نہ ان کی ذات پر ہوتا ہے، نہ دنیا پر سوائے گندے اثر کے۔ مگر انبیاء سیدھی سادی باتیں دنیا کے سامنے کرتے ہیں۔ مگر چونکہ ان کی نیت یہ ہوتی ہے کہ دنیا کی ہدایت ہو جائے۔ اس لئے ان کی باتیں لوگوں پر اثر کرتی ہیں۔ تو نیت اور ارادہ کے ساتھ خدا تعالیٰ کے کلام میں تاثیر پیدا ہوتی ہے لیکن تکلّفات اور مصنوعی باتیں جن کا مقصد صرف اپنے لئے عزت و جاہ کی تلاش ہو۔ ان میں برکت نہیں ہوتی۔
پس باہر سے جو دوست آنے والے ہیں مَیں ان کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ روانہ ہونے سے پہلے اپنی نیتوں کو نیک کریں اور جو دوست آ چکے ہیں اگر انہوں نے کوئی بھی نیت نہ کی ہو تو اب کر لیں اور اگر کی تھی، اس میں خرابی تھی تو اسے اب درست کر لیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں غلطی کی اصلاح کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا ہے۔ وہ یہ نیت کر لیں کہ یہاں آنے کی غرض اعلائے کلمةاللہ ہو گی۔ اگر وہ یہ نیت کر کے آئیں گے تو انہیں اپنے اوقات یہاں صحیح طور پر خرچ کرنے کی توفیق بھی ملے گی۔ لیکن اگر نیت بُری ہو گی یا وہ بے نیت ہوں گے تو اس کی توفیق بھی انہیں نہ مل سکے گی۔ یہ جو ہر سال جلسہ کے موقع پر شکایت ہوتی ہے کہ جلسہ گاہ سے باہر اور دکانوں پر لوگ شور کرتے ہیں اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ ان کی کوئی نیت نہیں ہوتی۔ اگرچلنے سے پیشتر یہ نیت کر لیتے کہ خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کے لئے جا رہے ہیں تو وہ یہاں آ کر اس طرح وقت کو ضائع نہ کرتے۔ نیت نہ ہونے کی وجہ سے ان کا ذہن اس طرف نہیں جاتا کہ وہ وقت ضائع کر رہے ہیں اور خود اپنے کام کو خراب کر رہے ہیں۔ اگر چلنے سے پیشتر وہ نیت کو درست کر لیتے تو یہاں آکر اپنے کام کی طرف ان کی توجہ بھی ضرور ہوتی۔
پس اول تو مَیں باہر کے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جو دوست جلسہ پر آنے والے ہیں وہ اپنی نیت کو درست کریں اور دوسرے قادیان کے جن لوگوں کو خدمت کے مواقع ملتے ہیں۔ اُن کو بھی چاہئے کہ اپنی نیتوں کو درست کریں۔ ان کی خدمت میں ریاء اور دکھاوے کا کوئی پہلو نہ ہونا چاہئے۔ کئی لوگ اس وجہ سے مکان دے دیتے ہیں کہ دوسرے لوگ کہیں گے فلاں شخص نے اپنا مکان خالی کر دیا لیکن اگر کوئی شخص اپنے دل میں کہتا ہے کہ میرا مکان خدا تعالیٰ کا ہی دیا ہوٴا ہے۔ سال کے تین سَو ساٹھ دن میں نے خود اس سے فائدہ اٹھایا ہے اب پانچ دن اللہ تعالیٰ کے لئے دیتا ہوں تو اس نیت کے ساتھ وہ مکان کتنی برکت کا موجب ہو جائے گا۔ لوگ دور دور سے حج کے لئے جاتے ہیں۔ حج بیتُ اللہ کا کیا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کا گھر ہے۔ پھر لوگ نمازیں مساجد میں پڑھتے ہیں وہ بھی اللہ کا گھر کہلاتی ہیں۔ لیکن اگر اپنے گھر کو کوئی اللہ تعالیٰ کا گھر بنا سکے تو اسے کس طرح برکتیں ملتی رہیں گی۔ خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت گو اسے مسجد میں بھی جانا پڑے گا کیونکہ مساجد اِسی لئے بنائی گئی ہیں کہ مسلمان ان میں جمع ہوں اور اس کے گھر میں مسلمان جمع نہیں ہو سکتے۔ لیکن اس کے باوجود اگر وہ اپنے گھر کو خد ا تعالیٰ کاگھر بنا دے تو وہ بھی اس کے لئے بہت سی برکتوں کا موجب ہو جائے گا۔ خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایک نبی کی مثال بیان فرمائی ہے کہ اس نے ایک اونٹنی کو چھوڑ دیا اور کہا کہ یہ نَاقَةُ اللہِ ہے اسے کوئی کچھ نہ کہے۔4 کیا اِس کا یہ مطلب ہے کہ باقی اونٹنیاں خدا تعالیٰ کی نہ تھیں؟ باقی بھی اُسی کی نَاقَة ہیں۔ لیکن ان کے لئے وہ خود فرماتا ہے کہ ان کو ذبح کرو۔ اس اونٹنی کے متعلق جو نَاقَةُ اللہِ کا لفظ فرمایا تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ یہ نَاقَة خدا کے رسول کی ہے اور اسے تبلیغ کے سفر میں وہی اُٹھاتی ہے اور رسول، خدا تعالیٰ کی نَاقَة ہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کی ہدایت کو اُٹھائے پِھرتا ہے۔ پس یہ ناقہ گویا خدا ہی کو اُٹھائے پھرتی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اپنی زندگی کو خدا تعالیٰ کے لئے وقف کر دیتا ہے اور جو کام بھی کرتا ہے خدا کے لئے کرتا ہے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کی نَاقَة بن جاتا ہے۔ جس طرح وہ اونٹنی دوسری اونٹنیوں سے ممتاز ہو گئی تھی۔ اسی طرح وہ دوسرے لوگوں سے ممتاز ہو جاتا ہے۔ اور جس طرح اس اونٹنی پر حملہ خدا تعالیٰ کی تلوار کے سامنے کھڑا ہونے کے مترادف تھا۔ اِسی طرح اس انسان پر حملہ کرنے والا بھی خدا تعالیٰ کی تلوار کے سامنے ہوتا ہے۔ جو اس پر حملہ کرتا ہے وہ گویا خدا تعالیٰ پر حملہ کرتا ہے۔ تو دیکھو چھوٹی سی نیت کے ساتھ کتنا بڑا فرق پڑ جاتا ہے۔
پس یہاں کے دوست بھی جو خدمت کریں نیت کے ساتھ کریں۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ وقت میرا اپنا ہے۔ اِس میں سے پانچ دن میں خدا تعالیٰ کو تحفہ دیتا ہوں تو اِس نیت کے ساتھ وہ کون سا تیر مارے گا۔ لیکن اگر وہ یہ نیت کرے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے 365 دن دئیے تھے۔ مَیں نے غلطی کی کہ 360 اپنے لئے صَرف کر لئے۔ اب پانچ باقی ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرتا ہوں تو اس سے کتنا بڑا فرق پڑ جاتاہے۔ اس صورت میں انسان خدا تعالیٰ کو احسان نہیں جتا سکتا بلکہ اس کا دل شرمندگی سے بھرا ہوٴا ہو گا اور وہ اس خدمت کی توفیق ملنے پر اللہ تعالیٰ کا شکر کرے گا۔ لیکن جو یہ سمجھے گا کہ مَیں اپنے وقت میں سے پانچ دن خدا تعالیٰ کو دیتا ہوں اس کا دل فخر اورتکبر سے بھرا ہو گا۔
پس جن دوستوں کو جلسہ کے موقع پر خدمت کا موقع ملنے والا ہے وہ بھی اپنی نیتوں کو درست کریں۔ جس خدمت کے لئے بھی وہ اپنے آپ کو پیش کریں یہ سمجھ کر کریں کہ یہ وقت ان کی چیز نہیں بلکہ خد اتعالیٰ کی ہے۔ مَیں نے غلطی کی کہ خدا تعالیٰ کے وقت کو اپنے لئے خرچ کر لیا اب مَیں باقی پانچ دن اس کے حضور معذرت کے ساتھ پیش کرتا ہوں۔ پس باہر کے دوست بھی اپنی نیتوں کو درست کر کے آئیں تا یہاں ان کو صحیح طور پر کام کرنے کی توفیق ملے اور یہاں کے دوست بھی نیتوں کو درست کر لیں کہ جن کاموں پر ان کو مقرر کیا جائے وہ ان کے لئے خدا تعالیٰ کے قُرب کا موجب ہو، نہ ان کے اندر تکبر اور فخر پیدا کرنے کا ۔ پھر مَیں باہر سے آنے والوں اور قادیان والوں کو بھی یہ نصیحت کرتا ہوں کہ یہ ایام سردیوں کے ہیں اور بیماریوں کے بھی دن ہیں۔ بعض جگہ ابھی تک ملیریا موجود ہے۔ حالانکہ ان دنوں میں عام طور پر ختم ہو جایا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ انفلوئنزا بھی شروع ہو رہا ہے۔ پھر جنگیں ہو رہی ہیں۔ اس لئے جب گھروں سے نکلیں تو دعائیں کرتے ہوئے آئیں۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ سفر کی دعا بہت قبول ہوتی ہے 5 اور پھر وہ سفر جو خدا تعالیٰ کے لئے کیا جائے اس کی دعا تو بہت زیادہ قبول ہو گی۔ پس جو دوست جلسہ کے لئے آئیں وہ اپنے لئے بھی اور اُن کے لئے بھی جن کو وہ پیچھے چھوڑ کر آئے ہیں اورجو اُن کی طرح یہاں نہیں آ سکے۔ ان کے لئے بھی جو خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کر رہے ہیں۔ خواہ وہ کسی جگہ ہوں اور باقی سب دنیا کے لئے بھی جو خدا تعالیٰ نے بنائی ہے۔ مگر ابھی اس میں ایمان پیدا نہیں ہوٴا۔ دعائیں کرتے رہیں۔ اسی طرح قادیان کے دوست ان کے لئے بھی دعائیں کریں جو باہر سے آئیں اور ان کے لئے بھی جو شامل نہیں ہو سکے اور جن کے دلوں میں شامل ہونے کی تحریک ہی نہیں ہو سکی۔ پھر ان کے لئے بھی جن کو ایمان نصیب نہیں ہو سکا دعائیں کریں۔ ساتھ ہی شوکتِ اسلام کے لئے بھی دعائیں کریں کیونکہ یہ ایام تو اسی غرض کے لئے مخصوص ہیں اور وہ دن جن کی غرض ہی شوکتِ اسلام ہے اسلام کا سب سے زیادہ حق ہے کہ ان میں اس کے لئے دعائیں کی جائیں۔ اپنی ضرورتوں کے لئے بھی دعائیں کی جا سکتی ہیں مگر وہ اس قدر حاوی نہیں ہونی چاہئیں کہ دینی ضرورتیں نظر انداز ہو جائیں۔ مَیں نے دیکھا ہے جلسہ کے موقع پر جب دعا ہوتی ہے تو آخر تک آوازیں آتی رہتی ہیں۔ کوئی کہتا ہے میرے بیٹے کے لئے دعا کی جائے، کوئی کہتا ہے میری بیوی کے لئے اور کوئی اپنے باپ کے لئے دعا کرنے کو کہتا ہے۔ حالانکہ یہ دعائیں تو ہو ہی جاتی ہیں۔ ہر مومن اپنے نفس اور اپنے عزیزوں کے لئے بھی دعائیں کرتا ہے اور رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب بھی کوئی دعا کرو اس میں اپنے لئے بھی ضرور کرو6 لیکن یہ ایام چونکہ شوکت اسلام کے لئے مخصوص ہیں اس لئے اسلام کے قیام کی دعائیں مقدم ہونی چاہئیں۔ اپنے لئے بھی بے شک کرو مگر ان پر زیادہ زور نہ دو۔ پھر یہ بھی دعائیں کرو کہ جسے تقریر کا موقع ملے خدا تعالیٰ اسے فخر و کبر سے بچائے۔ مَیں نے پہلے بھی کئی بار کہا ہے کہ جب کسی کے سپرد کوئی کام کیا جائے اس کی اصلاح بھی فرض ہو جاتی ہے۔ پس جن لوگوں کو جلسے پر تقریروں کا موقع دیاگیا ہے ان کے لئے دعائیں کرنا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں حق بات بیان کرنے کی توفیق دے۔ ان کے مُنہ سے کوئی ایسا کلمہ نہ نکلے جو دنیا کی تباہی یا گمراہی کا موجب ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ان کو کبر اور فخر سے بچائے وہ لوگوں پر رُعب جمانے کے لئے تقریریں نہ کریں اور یہ نہ ہو کہ ان کی نیت میں خدا تعالیٰ کی رضا، نیکی اور تقویٰ نہ ہو بلکہ خود نمائی ہو۔ اگر ایسا ہو تو ان کے لیکچر لیکچر نہیں بلکہ سڑے ہوئے نجس گند کا ڈھیر ہیں جس سے کسی کو اچھی چیز نہیں مل سکتی۔ غرضیکہ یہ دن بہت دعاوٴں کے ہیں۔ پس خود بھی دعائیں کرو اور دوسروں کو بھی دعاوٴں کی تحریک کرو۔ باہر کے دوست بھی اور قادیان کے بھی۔ اول تو اپنی نیتوں کو درست کر لیں اور پھر دعائیں بھی کریں۔ نیت کی درستی کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ ایسا انسان اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیتا ہے۔ گویا وہ اپنے کو اللہ تعالیٰ کا خادم بنا دیتا ہے۔ یہی توکّل کا پہلا مقام ہوتا ہے۔ توکّل دراصل نیت سے ہی شروع ہوتا ہے جو نیت کو درست کر لیتا ہے وہ گویا توکّل کے پہلے مقام پر قدم رکھتا ہے اور جو توکّل کے مقام پر آجاتا ہے خدا تعالیٰ اس کے کام کا ذمہ دار ہو جاتا ہے۔ اور جس کام کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ ہو اس کی درستی اور تکمیل میں کیا شُبہ ہو سکتا ہے۔ دنیا میں لوگ بڑے بڑے کام کرتے ہیں مگر وہ مٹ جاتے ہیں لیکن توکّل رکھنے والے چھوٹا سا کوئی کام بھی کرتے ہیں تو وہ ہمیشہ کے لئے یادگار رہتا ہے۔ پس وہ چیز جو ثبات اور دوام دینے والی ہے۔ وہ توکّل ہے اور توکّل کا پہلا مقام نیت کی درستی اور صفائی ہے۔ پس باہر سے آنے والے بھی اور قادیان والے بھی اپنی نیتوں کو درست کر لیں تا خدا تعالیٰ کے فضلوں کے دروازے ان پر کھلیں۔’’ (الفضل 24 دسمبر 1941ء)
1 الدھر: 8
2 بخاری کتاب بَدْءُ الْوَحِیْ باب کَیْفَ کَانَ بَدْءُ الْوَحِی اِلٰی رَسُوْلِ اللہِ ﷺ
3 یوحنا باب 16 آیات 12 و 13
4 وَ يٰقَوْمِ هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَكُمْ اٰيَةً فَذَرُوْهَا تَاْكُلْ فِيْۤ اَرْضِ اللّٰهِ وَ لَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ فَيَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ قَرِيْبٌ (ھود: 65)
5 ترمذی اَبْوَابُ الدَّعوَاتِ باب مَا ذُکِرَ فِیْ دَعْوَةِ الْمُسَافِرِ
6 ترمذی کِتَابُ الدَّعوَاتِ باب مَا جَاءَ اَنَّ الدَّاعِیَ یَبْدَءُ بِنَفْسِہٖ

39
جلسہ سالانہ پر آنے والے احباب کو ضروری ہدایات
( فرمودہ 26 دسمبر 1941ء )

تشہد، تعوّذ اور سورہٴ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
" آجکل کے ایام سخت ابتلاوٴں اور تکلیفوں کے دن ہیں۔ ایک خطرناک جنگ دنیا کے پردہ پر لڑی جا رہی ہے اور ہزارہا آدمی جن کی ماوٴں نے نو مہینے تکلیف اٹھا کر ان کو بڑی بڑی امیدوں کے ساتھ جنا تھا روزانہ سیکنڈوں اور منٹوں میں ہلاک کئے جا رہے ہیں۔ وہ زمین جسے خدا تعالیٰ نے انسان کے بسنے اور بڑھنے کے لئے بنایا تھا وہ اب بھاگنے اور قتل ہونے کی جگہ بن گئی ہے اور وہ سمندر جس کو خدا تعالیٰ نے اس لئے بنایا تھا کہ اس کی مچھلیوں کو انسان کھائے اور انہیں اپنی خوراک بنائے آج انسان اس کی مچھلیوں کی خوراک بن رہے ہیں۔ غرض انسانی گناہوں نے خدا تعالیٰ کی غیرت کو بھڑکا کر آج دنیا کا نقشہ بالکل بدل ڈالا ہے۔ ان حالات میں جتنی بھی انسان خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرے کم ہے۔ مگر یہ توجہ بھی خدا تعالیٰ کی توفیق سے ہی میسّر آتی ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں سورہٴ فاتحہ میں اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے ۔اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ 1یعنی تم یہ کہو کہ اے ہمارے خدا ہم تیری عبادت کرتے ہیں۔ مگر ہماری یہ عبادت کامل نہیں ہو سکتی، نہ ہماری محبت تجھ سے کامل ہو سکتی ہے، نہ شرائطِ عبادت ہمیں کامل طور پر میسّر آ سکتے ہیں اور نہ عبادت کے لئے ہم اپنا وقت صَرف کر سکتے ہیں جب تک تیری مدد اور تیری نصرت ہمارے شاملِ حال نہ ہو۔ تُو ہمیں عبادت کی شرائط پورا کرنے کی توفیق دے تو ہم عبادت کر سکتے ہیں، تُو ہمیں عبادت کے لئے اپنا وقت صَرف کرنے کی توفیق دے تو ہم عبادت کر سکتے ہیں، تُو ہمارے دل میں اپنی عبادت کا جوش پیدا کرے تو ہم عبادت کر سکتے ہیں۔ ہم سے یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم اپنی ذاتی جد و جہد سے تیری کامل عبادت کر سکیں۔ پس ہم ایک ٹوٹی پھوٹی چیز تیرے سامنے پیش کرتے ہیں، اپنی کمزوریوں کے لحاظ سے اور اپنی مجبوریوں کے لحاظ سے اور اپنی کم فہمی کے لحاظ سے۔ اگر تُو اس کو اچھا دیکھنا چاہتا ہے، اگر تُو اس کو خوبصورت دیکھنا چاہتا ہے اگر تُو ہماری عبادت کو کامل دیکھنا چاہتا ہے تو ہم سے تو ایسی ہی بن سکتی تھی باقی کام تُو خود اپنے فضل سے سر انجام د ے دے۔
پس اس آیت میں بنی نوع انسان کو اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ گو خدا نے تم کو نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے، گو خدا نے تم کو روزے رکھنے کا حکم دیا ہے، گو خدا نے تم کو حج کرنے کا حکم دیا ہے، گو خدا نے تم کو صدقہ و خیرات کرنے کا حکم دیا ہے مگر یہ حکم اکیلے تم سے نبھنے کے نہیں۔ یہ حکم تو ایسے ہی ہیں جیسے بعض دفعہ ماں باپ اپنے چھوٹے بچے سے کہہ دیتے ہیں کہ یہ کرسی یہاں سے اٹھاوٴ یا اس میز کو اٹھا کر فلاں جگہ رکھ دو۔ وہ اپنے بچے کو یہ حکم اس لئے نہیں دیتے کہ وہ جانتے ہیں ان کا بچہ میز اٹھا سکتا ہے یا کرسی اٹھا سکتا ہے بلکہ وہ اپنے بچے کو میز یا کرسی اٹھانے کا حکم اس لئے دیتے ہیں کہ وہ اس سے ناز کرتے یا ناز کروانا چاہتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جب بچہ میز یا کرسی کو ہاتھ لگائے گا اور وہ اس سے اٹھائی نہیں جا سکے گی تو وہ کہے گا کہ اماں میز مجھ سے اٹھایا نہیں جاتا تم اٹھا دو یا کرسی مجھ سے اٹھائی نہیں جاتی تم اٹھا دو۔ یہی حال عبادت کا ہے۔ بندہ عبادت کر ہی نہیں سکتا مگر اللہ تعالیٰ یہ کام اس کے سپرد کرتا ہے کیونکہ وہ اپنے بندہ سے پیار کرنا چاہتا ہے مگر جہاں بچے اپنی فطرت کے مطابق کام کرتے ہیں وہاں بڑے انسان بسا اوقات اپنی فطرتیں مار بیٹھتے ہیں اور عجیب عجیب قسم کے خیالات میں مبتلا ہو کر جو سیدھی سادی بات ہوتی ہے اسے بھول جاتے ہیں۔
انگلستان کا ایک مشہور تماشہ دکھانے والا شخص ہے اس کی ایک کتاب مَیں نے پڑھی اور مَیں نے اس میں ایک عجیب بات دیکھی ۔ وہ لکھتا ہے کہ بڑے بڑے آدمیوں کے سامنے خواہ وہ پروفیسر ہوں یا ڈاکٹر، انجینئر ہوں یا مصنف، ایڈیٹر ہوں یا سیاست دان کبھی تماشہ دکھاتے وقت مجھے گھبراہٹ نہیں ہوتی۔ مگر جب بچوں کے سامنے مَیں تماشا دکھانے لگتا ہوں تو گھبرا جاتا ہوں اس لئے کہ وہ وہی بات دیکھتے ہیں جو واقع میں ہوتی ہے۔ مگر انجینئر اور سیاستدان اور ایڈیٹر اور پروفیسر میری سیدھی سادی بات کی عجیب و غریب توجیہات کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ وہ بات معمولی ہتھکنڈے کی ہوتی ہے لیکن بچے کا خیال ادھر اُدھر جاتا ہی نہیں وہ فوراً اصل حقیقت کو پہچان لیتا ہے اور اس طرح بھانڈا پھوٹ جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ بچے اپنی فطرت کوبھولے نہیں ہوتے۔ بچے کو جب اس کی ماں کہتی ہے کہ میز اٹھاوٴ تو اس بچے کی فطرت فوراً سمجھ جاتی ہے کہ ماں چاہتی ہے مَیں یہ کہوں کہ میز مجھ سے اٹھایا نہیں جاتا۔ چنانچہ وہ میز پر ہاتھ رکھتے ہی کہہ دیتا ہے کہ اماں مجھ سے میز نہیں اٹھایا جاتا اورماں دوڑ کر آتی اورمیز کو اٹھا لیتی ہے۔ مگر چونکہ بڑے آدمی اپنی فطرت کو بھول جاتے ہیں اس لئے خدا تعالیٰ کو اِيَّاكَ نَعْبُدُ کے بعد اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ بھی کہنا پڑا۔ اگر انسانی فطرت گرد و پیش کے حالات کی وجہ سے مسخ نہ ہو چکی ہوتی اور وہ بالکل پاک ہوتی تو اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کہنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ لوگ آپ ہی سمجھ جاتے کہ اللہ میاں نے عبادت کا حکم ہمیں کیوں دیا ہے مگر چونکہ انسان عادات کی خرابی کی وجہ سے، نفسانی خواہشات کی ملونی کی وجہ سے اور غلط علم پڑھنے کی وجہ سے اپنی فطرت کا اصل حُسن کھو بیٹھتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ کو اِيَّاكَ نَعْبُدُ کے ساتھ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کہنے کی ضرورت پڑی۔ جس طرح بچہ جب میز اٹھانے لگتا ہے تو کہتا ہے اماں مجھ سے میز نہیں اٹھایا جاتا اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کہہ کر یہ ہدایت دی ہے کہ جب تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے لگو تو ساتھ ہی کہا کرو کہ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ۔ اللہ میاں یہ عبادت ہم سے اٹھائی نہیں جاتی آپ ہماری مدد کریں تب خدا تمہاری مدد کرے گا اور تب تمہاری عبادت حقیقی عبادت کہلا سکے گی۔
غرض اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر عبادت بھی صحیح طور پر سر انجام نہیں دی جا سکتی کُجا یہ کہ اَور امور میں انسان کو اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ توفیق کے بغیر ہی کامیابی حاصل ہو جائے۔ پس ان ایام میں اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور اس توجہ کے پیدا ہونے کے لئے بھی اللہ تعالیٰ سے ہی دعا کرنی چاہئے کہ یا اللہ ہمارے دلوں کو اس توجہ کے لئے کھول دے ورنہ بسا اوقات انسان ارادہ کرتا ہے مگر اسے پورا نہیں کر سکتا۔
پھر یہ دن اس لحاظ سے بھی خاص طور پر دعائیں کرنے کے ہیں کہ اس سال ہمارے ہزاروں بھائی جلسہ سالانہ میں شریک نہیں ہو سکے بوجہ اس کے کہ وہ جنگ پر چلے گئے ہیں یابوجہ اس کے کہ جنگ کی وجہ سے انہیں چُھٹیاں نہیں ملیں۔ چنانچہ کئی دوستوں کی طرف سے تاریں آ رہی ہیں جن میں اس امر پر افسوس کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ جلسہ میں شریک نہیں ہو سکے اور جو دوست یہاں آئے ہیں ان میں سے بھی ایک خاصی تعداد مجھے ایسے لوگوں کی معلوم ہوئی ہے جن کی چھٹی نہایت قلیل ہے۔ چنانچہ کسی کو صرف ایک دن کی چھٹی ملی ہے ، کسی کو دو دن کی چھٹی ملی ہے، کسی کی 27 کو حاضری ہے اورکسی کی 28 کو اور بعض لوگوں کی طرف سے یہ اطلاع بھی پہنچی ہے کہ وہ 26 کو نہیں آ سکیں گے، شاید 27 کو آ سکیں۔ تو جنگ کی وجہ سے ہمارے اس تبلیغی اجتماع پر بھی اثر پڑا ہے اور یہ بھی ایک ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے ہمیں خاص طور پر خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ اس جنگ کو جلد ختم کرے تاکہ ہماری جماعت حسبِ معمول زیادہ جوش اور زیادہ شوق کے ساتھ دین کی خدمت کر سکے۔
پھر یہ دن جلسہ سالانہ کے مبارک ایام ہیں اورحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے فرمایا ہے کہ اس جلسہ کی بنیاد خود خدا نے رکھی ہے اور جس چیز کی بنیاد خدا نے رکھی ہو تم سمجھ سکتے ہو کہ وہ کتنی مبارک ہو گی۔ پھر ایک اَور مقام پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے لکھا ہے کہ تکلیف اٹھا کر اور اپنے کاموں کا حرج کر کے بھی دوستوں کو اس جلسہ میں پہنچنا چاہئے۔ پس جلسہ سالانہ کے یہ ایام اپنے اندر بہت بڑی برکات رکھتے ہیں۔ پھر اس دفعہ کے جلسہ کو تو اللہ تعالیٰ نے ایک عجیب خصوصیت دے دی ہے جیسے مسلمانوں میں حج کے متعلق یہ خیال پایا جاتا ہے کہ جب جمعہ کو حج آئے تو وہ بڑی برکت والا ہوتا ہے۔ چنانچہ جب کسی سال لوگوں کو معلوم ہو کہ جمعہ کو حج ہو گا تو بڑی کثرت سے لوگ حج کرنے کے لئے جاتے ہیں اور اسے اپنے لئے بہت بڑی برکات کا موجب سمجھتے ہیں۔ اسی طرح ہمارا یہ جلسہ اپنے اندر یہ خصوصیت رکھتا ہے کہ یہ سارے کا سارا ہمارے لئے عید بن گیا ہے۔ چنانچہ اس جلسہ کے پہلے دن جمعہ کی عید ہے، دوسرا دن حج کے تسلسل میں آ جاتا ہے۔ چنانچہ کل سے حاجی حج کی تیاریاں شروع کر دیں گے اور پرسوں حج ہو جائے گا۔ اس کے بعد اترسوں پھر عید آ جائے گی۔ گویا یہ سارے ایام جمعہ اور حج میں ہی گزریں گے۔ پھر اس کے ایک طرف جمعہ کی عید ہے، دوسری طرف عید الاضحیہ ہے اور درمیان میں جلسہ سالانہ کی عید ہے جو اس لحاظ سے بھی ہمارے لئے عید ہے کہ وہ دن حج کے ہیں۔ پس یہ جلسہ اپنی برکات کے لحاظ سے بہت بڑی خصوصیت رکھتا ہے اور مَیں سمجھتا ہوں جو لوگ اس جلسہ سے پوری طرح فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے وہ بہت سی روحانی برکات حاصل کر کے لوٹیں گے۔ اسی طرح جسمانی برکات بھی انہیں حاصل ہوں گی کیونکہ جسمانی برکات روحانی برکات کے تابع ہوتی ہیں۔
غرض جو لوگ اس جلسہ پر آئے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ نے یہ ایک بہت بڑی نعمت بخشی ہے اور اس جلسہ کا ہر دن قبولیت دعا کے ساتھ نہایت گہرا تعلق رکھنے والا ہے۔ پھر جلسہ کے معاً بعد عید آ جائے گی اور یہ عید قربانیوں کی عید ہو گی جس کے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی قربانیوں کو قبول کر لیا اور چونکہ یہ عید ہمارے جلسہ سالانہ کے ساتھ آئے گی اس لئے اس عید کے ایک معنی یہ بھی ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے جلسہ کو قبول کر لیا۔ پس ان دنوں میں جماعت کو خاص طور پر دعائیں کرنی چاہئیں۔ مجھے افسوس ہے کہ آج صبح جب مَیں یہاں سے دعا کر کے واپس گیا تو کثرت سے گلیاں جماعت کے دوستوں سے بھری ہوئی تھیں جس کے معنی یہ ہیں کہ دعا میں بھی بعض دوست شامل نہیں ہوئے۔ پھر مجھے یہ بات معلوم کر کے اور بھی افسوس ہوٴا کہ باوجود اس بات کے کہ مَیں نے خاص طور پر توجہ دلائی تھی کہ دوستوں کو تمام تقریریں سننی چاہئیں دعا کے بعد بعض اَور لوگ بھی جلسہ گاہ میں سے اٹھ کر چلے گئے۔ حالانکہ جو لوگ یہاں آتے ہیں ان کے آنے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ دین کی باتیں سنیں۔ بے شک بعض لوگوں کو قادیان آنے کے سال میں اور بھی کئی مواقع مل جاتے ہیں مگر بعض کو یہ موقع سال میں پھر کبھی میسر نہیں آتا۔ پھر کس قدر افسوس کی بات ہے کہ بعض لوگ ایسے قیمتی موقع کو بھی اپنی غفلت کی وجہ سے ضائع کر دیتے ہیں۔ دیکھو جس شخص کے دل میں اخلاص ہوتا ہے وہ کیسی قربانی کرتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رسول کریم ﷺ کی وفات سے صرف تین سال پہلے ایمان لائے تھے۔ آپ نے دیکھا کہ اور لوگ بہت دیر سے اسلام قبول کر چکے ہیں، کوئی بیس سال سے اسلام میں داخل ہے، کوئی اٹھارہ سال سے اسلام میں داخل ہے، کوئی چودہ سال سے اسلام میں داخل ہے، کوئی دس سال سے اسلام میں داخل ہے۔ خدا نے ان کے دل میں چونکہ نیکی اور تقویٰ رکھا ہوٴا تھا اس لئے اسلام لانے کے بعد انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ اب مَیں رسول کریم ﷺ کے دروازہ سے نہیں ہِلوں گا اور لوگ بہت باتیں سن چکے ہیں اور مَیں ان کے سننے سے محروم رہا ہوں۔ اب اس کی تلافی اسی طرح ہو سکتی ہے کہ مَیں یہاں سے ہلوں نہیں اور رسول کریم ﷺ کی تمام باتیں اپنے کانوں سے سنتا رہوں۔ چنانچہ وہ دھرنا مار کر مسجد میں رسول کریم ﷺ کے دروازہ پر بیٹھ گئے۔ جب بھی رسول کریم ﷺ باہر تشریف لاتے حضرت ابو ہریرہؓ موجود ہوتے۔ بے شک کبھی اس وقت زید بھی ہوتا، کبھی بکر بھی ہوتا، کبھی خالد بھی ہوتا مگر اس زید بکر اور خالد کے ساتھ ابو ہریرہؓ ضرور ہوتے اور چونکہ وہ ہر وقت مسجد میں بیٹھے رہتے تھے اور کماتے کچھ نہیں تھے اس لئے ان کے بھائی نے رسول کریم ﷺ کے پاس شکایت کی کہ ابو ہریرہ تمام کام چھوڑ چھاڑ کر مسجد میں بیٹھ گیا ہے کماتا کچھ نہیں۔ وہ کچھ دن تک تو ابو ہریرہؓ کو روٹی پہنچاتا رہا مگر آخر کب تک پہنچاتا۔ ایک طرف اس کا خرچ زیادہ ہو گیا اور دوسری طرف یوں بھی اس کی تکلیف بڑھ گئی کہ اسے خود ابو ہریرہؓ کو کھانا پہنچانا پڑتا تھا۔ چنانچہ اس نے رسول کریم ﷺ کے پاس شکایت کر دی۔ رسول کریم ﷺ نے اسے فرمایا دیکھو کبھی خدا کسی اَور کی وجہ سے انسان کو رزق دے دیتا ہے۔ تم یہ سمجھ لو کہ تمہیں خدا تعالیٰ جو کچھ رزق دے رہا ہے وہ ابو ہریرہ کی وجہ سے ہی دے رہا ہے۔2 مگر ہر شخص کو مقدرت نہیں ہوتی کہ وہ مسلسل کسی بوجھ کو برداشت کر سکے۔ آخر کچھ مدت کے بعد ان کے بھائی نے مدد سے ہاتھ کھینچ لیا اور ابو ہریرہؓ کو فاقے آنا شرو ع ہو گئے یہاں تک کہ بعض دفعہ سات سات وقت تک انہیں فاقہ برداشت کرنا پڑا۔ رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد جب مسلمانوں کو فتوحات حاصل ہوئیں تو چونکہ مسجد میں بیٹھے رہنے کی اب کوئی ضرورت نہیں تھی اس لئے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی مدینہ سے باہر گئے اور انہیں ایک جگہ کا گورنر مقرر کیا گیا۔ انہی ایام میں ایران کی فوجوں کو شکست ہوئی اور جو اموال کسریٰ شاہِ ایران کے مسلمانوں کے ہاتھ آئے ان میں ایک وہ رومال بھی تھا جو کسریٰ اپنے تخت پر بیٹھتے وقت استعمال کیا کرتا تھا۔ اموال کی جب تقسیم ہوئی تو وہ رومال حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آیا۔ اب بھلا ایک سیدھے سادے مسلمان کی نگاہ میں یہ چیز کیا حقیقت رکھ سکتی تھی۔ بے شک بادشاہ کے نزدیک وہ رومال بہت قیمتی تھا اور تبھی وہ تخت پر بیٹھتے وقت اسے استعمال کیا کرتا تھا مگر جب حضرت ابو ہریرہؓ کے پاس وہ رومال آیا تو اتفاقاً انہیں کھانسی ہوئی اور انہوں نے بلغم اس رومال میں پھینک دی پھر کہنے لگے بَخِ بَخِ ابو ہریرة یعنی واہ بھئی ابو ہریرہؓ ، واہ بھئی ابو ہریرہؓ ۔ لوگوں نے کہا ہم سمجھے نہیں کہ اس بات کے کہنے کا مطلب کیا ہے۔ انہوں نے کہا ایک زمانہ وہ ہوٴا کرتا تھا کہ رسول کریم ﷺ کی باتیں سننے کے شوق میں مَیں ہر وقت مسجد میں بیٹھا رہتا تھا، کھانے کو کچھ ملتا تو کھا لیتا ورنہ بھوکا رہتا۔ اس طرح بعض دفعہ ایک وقت کا فاقہ گزرتا، بعض دفعہ دو وقت کا فاقہ گزرتا، بعض دفعہ تین وقت کا فاقہ گزرتا، بعض دفعہ چار وقت کا فاقہ گزرتا اور انتہاء یہ کہ بعض دفعہ سات سات وقت کا مجھے فاقہ ہو جاتا اورمَیں شدتِ ضعف کی وجہ سے بے ہوش ہو کر گر جاتا 3 مومن کی غیرت چونکہ سوال کو برداشت نہیں کرتی اس لئے حضرت ابو ہریرہؓ سوال نہیں کرتے تھے مگر جب بے ہوش ہو جاتے تو لوگ یہ سمجھتے کہ انہیں مرگی کا دَورہ ہو گیا ہے اور عربوں میں رواج تھا کہ جب کسی کو مرگی کا دورہ ہو جاتا تو اس کے سر پر جوتیاں مارا کرتے تھے۔ بعد میں غلطی سے اِسے مرگی کا علاج ہی سمجھ لیا گیا۔ مرگی والے کو جوتیاں مارنے کی اصل وجہ یہ تھی کہ اہلِ عرب یہ سمجھتے تھے کہ مرگی والے کے سر پر شیطان چڑھ جاتا ہے اور اس کا علاج یہ ہوتا ہے کہ اس کے سر پر جوتیاں ماری جائیں تاکہ شیطان بھاگ جائے۔ جیسے پرانے زمانہ میں جب کسی کو ہسٹیریا کے دَورے پڑتے تھے تو ملّاں اسے ڈنڈے مارا کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ اس طرح جنّ بھاگ جائے گا۔ مگر جنّ تو نہیں بھاگتا تھا اس کی روح بھاگ جایا کرتی تھی۔ اسی طرح عربوں کا خیال تھا کہ جسے مرگی کا دَورہ ہوتا ہے اس کے سر پر شیطان سوار ہوتا ہے اور علاج یہ ہوتا ہے کہ جوتیاں ماری جائیں تاکہ شیطان بھاگ جائے۔ تو حضرت ابو ہریرہؓ نے بتایا جب مَیں بے ہوش ہو جاتا تو لوگ میرے سر پر جوتیاں مارنے لگ جاتے تھے اور مجھ میں اتنی ہمت اورسکت نہیں ہوتی تھی کہ مَیں کچھ بولوں اور ان سے کہہ سکوں کہ مجھے مرگی نہیں ہے مجھے تو بھوک کی شدت کی وجہ سے ضعف ہے۔ اب کُجا تو وہ دن تھا کہ بھوک کے مارے مجھے غشیوں پر غشیاں آتی تھیں اور لوگ میرے سر پر جوتیاں مارا کرتے تھے اور کُجا یہ حالت ہے کہ وہ کسریٰ جو آدھی دنیا کا مالک تھا اس کا وہ رومال جو تخت پر بیٹھتے وقت وہ استعمال کیا کرتا تھا آج ابو ہریرہؓ کے قبضہ میں ہے اور وہ اس میں اپنی بلغم پھینک رہا ہے۔
تو دیکھو ابو ہریرہؓ نے کس طرح اللہ تعالیٰ کے رسول کی باتیں سننے کے لئے تین سال تک اپنے اوپر فاقے برداشت کئے۔ سات فاقوں کے معنے یہ ہیں کہ قریباً جلسہ کے تمام ایام وہ فاقہ سے رہتے تھے۔ مثلاً 26 کی صبح کا فاقہ ایک، 26 کی شام کا فاقہ دو، 27 کی صبح کا فاقہ تیسرا اور 27 کی شام کا فاقہ چوتھا، 28 کی صبح کا فاقہ پانچواں اور 28 کی شام کا فاقہ چھٹا اور ابھی ایک فاقہ باقی رہتا ہے۔ گویا اگر جلسہ سالانہ کے ان ایام میں آپ لوگوں کے لئے کھانے کا کوئی انتظام نہ ہوتا، پانی کا کوئی انتظام نہ ہوتا اور آپ دین کی باتیں سننے کے لئے بیٹھے رہتے تو کہا جا سکتا تھا کہ ابو ہریرہؓ کی روح آپ میں سرایت کر گئی ہے مگر پھر بھی آپ ابو ہریرہؓ سے دوسرے نمبر پر ہی رہتے کیونکہ آپ لوگوں کو ایک فاقہ کم کرنا پڑتا۔ پس ان ایام کو ضائع مت کرو یہ دعاوٴں کی قبولیت کے خاص ایام ہیں اوریہ جلسہ اپنے ساتھ نمایاں طور پر کئی قسم کی برکات رکھتا ہے۔ پھر ہم پر ان لوگوں کی بھی ذمہ داری ہے جو جنگ میں شامل ہیں کہ ہم خاص طور پر ان کے لئے دعائیں کریں۔ اسی طرح یہ بیماریوں کے بھی ایام ہیں اور کثرت سے دوستوں کی طرف سے بیماریوں کے خطوط آ رہے ہیں۔ پس ان ایام کو اپنے نفس پر بوجھ ڈال کر زیادہ سے زیادہ دینی باتیں سننے میں لگاوٴ۔ یہ طریق درست نہیں کہ کسی ایک کی تقریر سننے کے لئے تو آپ بیٹھے رہیں اور دوسروں کی تقریریں نہ سنیں۔ مثلاً مَیں آیا تو آپ میری تقریر سننے کے لئے آ گئے یا اَور کوئی دوست ہوٴا جس کا لیکچر عام طور پر پسند کیا جاتا ہو تو اس کا لیکچر سننے کے لئے بیٹھ گئے۔ اس کے تو یہ معنے ہیں کہ آپ تقریریں خدا کے لئے نہیں سنتے بلکہ کسی کی وجاہت یا کسی سے تعلق کی بناء پر تقریریں سنتے ہیں۔ حالانکہ کیا پوپلے مُنہ سے خدا کی باتیں نہیں نکل سکتیں؟ ہم نے تو بعض دفعہ بچوں کے مُنہ سے ایسی باتیں سنی ہیں جو ہمارے لئے زندگی بھر کا سبق بن گئی ہیں۔
حضرت امام ابو حنیفہؒ کے متعلق ہی ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ جو لوگ متقی ہوتے ہیں وہ کس طرح چھوٹی چھوٹی باتوں سے نصیحت حاصل کر لیتے ہیں۔ کہتے ہیں ایک دفعہ حضرت امام ابو حنیفہؒ سے کسی نے کہا آپ تو ایسے اچھے واعظ ہیں کیا آپ کو بھی کبھی کسی نے نصیحت کی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں ایک نصیحت کا میرے دل پر بڑا اثر ہے اور وہ نصیحت بھی ایسی ہے جو ایک چھوٹے سے بچے نے مجھے کی۔ اس نے حیران ہو کرکہا کہ کیا ایک چھوٹے بچے نے آپ کو نصیحت کی تھی؟ انہوں نے کہا ہاں اس نے مجھے نصیحت کی اور ایسی کی کہ وہ مجھے آج تک نہیں بھولتی۔ اس نے پوچھا کہ کیا نصیحت کی تھی؟ اس پر امام ابو حنیفہؒ نے کہا۔ ایک روز سخت بارش ہو رہی تھی، مَیں باہر نکلا اور مَیں نے دیکھا کہ آٹھ دس برس کا ایک لڑکا گلی میں سے دوڑتا چلا جا رہا ہے۔ اُس زمانہ میں چونکہ پکی سڑکیں نہیں ہوٴا کرتی تھیں اور کیچڑ ہو رہا تھا اس لئے امام ابو حنیفہ کہتے ہیں مجھے ڈر پیدا ہوٴا کہ کہیں وہ لڑکا گر نہ جائے۔ چنانچہ مَیں نے اسے کہا میاں بچے ذرا سنبھل کر چلو ایسا نہ ہو کہ پھسل جاوٴ اور تمہیں چوٹ لگے۔ اس بچے نے میری طرف دیکھا اورکہا امام صاحب میری فکر نہ کیجئے آپ سنبھل کر چلیں۔ مَیں اگر پھسلا تو صرف اپنی جان کو نقصان پہنچاوٴں گا مگر آپ پھسلے تو سارے جہان کو نقصان پہنچائیں گے۔
اب اس بچے کا ہمیں نام بھی معلوم نہیں مگر اس میں کیا شبہ ہے کہ امام ابو حنیفہؒ جہاں پھسلے اسی جگہ سارے حنفی پھسل گئے۔ تو بچوں کے مُنہ سے بھی نصیحت کی باتیں سننے میں آ جاتی ہیں۔ اس لئے جو شخص اس طرز پر بیٹھتا ہے وہ خدا کے لئے نہیں بیٹھتا بلکہ صرف اچھی تقریر سننے کے لئے بیٹھتا ہے۔ خدا کے لئے وہی شخص بیٹھتا ہے جو اس خیال میں رہتا ہے کہ مجھے جہاں سے بھی اچھی چیز ملے گی مَیں اسے لے لوں گا۔ رسول کریم ﷺ بھی فرماتے ہیں کَلِمَةُ الْحِکْمَةِ ضَالَّةُ الْمُوٴْمِنِ اَخَذَھَا حَیْثُ وَجَدَھَا 4 یعنی حکمت کی بات مومن کی گمشدہ اونٹنی ہوتی ہے وہ جہاں بھی اسے نظر آتی ہے اس کو پکڑ لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ میری اپنی چیز ہے کسی اَور کی نہیں۔ تو مومن کو ہمیشہ دین کی باتیں سننے کی طرف توجہ رکھنی چاہئے۔ یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ کون سنا رہا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسانوں سے تعلقات بھی ہوتے ہیں مگر بہرحال وہ دوسرے نمبر پر ہوتے ہیں ۔ پہلا نمبر خدا کا ہی ہے اور اسی کی باتیں سننے کے لئے آپ سب دوست یہاں اکٹھے ہوئے ہیں۔ آخر سوچنا چاہئے کہ ہمارا یہ جلسہ تین دن کیوں ہوتا ہے۔ اگر صرف میری تقریریں سننا ہی کافی تھا تو تین دن جلسہ رکھنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ اتناہی کافی تھا کہ ایک دن جلسہ کر لیا جاتا اور اس میں مَیں یا آئندہ جو خلیفہ ہو وہ تقریر کر دیتا مگر ایسا نہیں بلکہ تین دن جلسہ رکھا گیا ہے اور اس میں حکمت یہی ہے کہ مختلف دماغوں سے مختلف باتیں نکلتی ہیں اور سب سے مشترکہ طور پر دوستوں کو فائدہ پہنچانا مدنظر ہوتا ہے۔ پس وہ دوست جو خطبہ سن رہے ہیں اس امر کو اچھی طرح یاد رکھیں کہ یہ دن سال میں صرف تین ہوتے ہیں ان کو اس طرح مضبوطی سے پکڑنا چاہئے جس طرح ایک پھسلنے والی مچھلی کو پکڑا جاتا ہے، جس طرح مچھلی اگر پھسلے تو فوراً دریا میں چلی جاتی ہے اسی طرح اگر یہ تین دن ضائع ہو گئے تو سمجھ لو کہ تمہارا سارا سال ضائع ہو گیا۔ کیونکہ بہت لوگ ایسے ہیں جنہیں سال میں صرف ایک دفعہ قادیان آنے کا موقع ملتا ہے اور ان دنوں کے ضائع ہونے کا ان کے سارے سال پر اثر پڑتا ہے۔ پس دوست اس بات کو خود بھی یاد رکھیں اور جو دوست یہاں نہیں ان سے بھی جب ملیں تو انہیں سمجھائیں یہاں تک کہ ہماری جماعت کا ہر فرد اس سے آگاہ ہو جائے اور ان تین دنوں میں ہر شخص اپنے اوپر موت وار د کر کے خدا کے دین کی باتیں سننے کے لئے بیٹھا رہے۔ مَیں نے پہلے بھی کئی دفعہ سنایا ہے کہ مولوی اسماعیل صاحب چِٹھی مسیح والے جو پنجابی زبان کے بہت بڑے شاعر تھے، وہ ایک دفعہ مجھ سے ملنے کے لئے آئے اور کہنے لگے آپ تقریر چھوٹی کیا کریں۔ مَیں نے کہا لوگ تو کہتے ہیں کہ مَیں تقریر اَور بھی لمبی کیا کروں اور آپ کہتے ہیں مَیں تقریر چھوٹی کیا کروں۔ یہ کیا بات ہے۔ وہ کہنے لگے کہ میرے جیسے تو آپ کی تقریر میں بیٹھے بیٹھے مر جاتے ہیں۔ ان کو سلسل البول کی بیماری تھی اور پانچ پانچ سات سات منٹ کے بعد ان کو پیشاب کی حاجت محسوس ہوتی تھی۔ وہ کہنے لگے جب مَیں آپ کی تقریر سننے کے لئے بیٹھتا ہوں تو خیال کرتا ہوں کہ یہ بات جو آپ کہہ رہے ہیں بڑی اچھی ہے اسے آپ ختم کر لیں تو اٹھوں گا مگر جب آپ اس بات کو ختم کرتے ہیں تو دوسری بات شروع کر دیتے ہیں اور وہ بھی بڑی اچھی ہوتی ہے۔ پھر مَیں کہتا ہوں یہ بات بڑی اچھی ہے اسے بھی سن لوں جب یہ ختم ہو گئی تو اُٹھ کر چلا جاوٴں گا مگر اس بات کے ختم ہونے کے ساتھ ہی آپ اَور بات شروع کر دیتے ہیں اور وہ بھی بڑی اچھی ہوتی ہے۔ مَیں پھر اپنے دل میں کہتا ہوں کہ یہ بات بھی سن لوں مگر اس کے بعد آپ اَور بات شروع کر دیتے ہیں اور وہ بھی اتنی اچھی ہوتی ہے کہ اٹھنے کو جی نہیں چاہتا۔ اسی طرح بیٹھے بیٹھے پانچ گھنٹے گزر جاتے ہیں۔ پھر پنجابی میں کہنے لگے ‘‘میرا تے پوٹہ پاٹن لگدا ہے’’ یعنی میرا تو بیٹھے بیٹھے مثانہ پھٹنے لگتا ہے۔
پس اگر اس قسم کی بیماری والا انسان پانچ پانچ گھنٹے بیٹھ سکتا ہے تو تندرست اور مضبوط نوجوان جن کو کوئی بھی بیماری نہیں ہوتی وہ کیوں نہیں بیٹھ سکتے۔ بے شک یہ ایک ہلکی سی قربانی ہے مگر اس قربانی کے مقابلہ میں تم اُن لوگوں کو بھی تو دیکھو جو آجکل جنگ کے میدان میں سخت سردی کے موسم میں کھائیوں میں بیٹھے رہتے ہیں اور بعض دفعہ ان کے گھٹنوں گھٹنوں تک پانی ہوتا ہے مگر انہیں پلٹ کر کسی اَور طرف دیکھنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔ یہی حکم ہوتا ہے کہ دشمن کو دیکھو اور مارو اور بعض دفعہ تو پانچ پانچ سات سات دن تک وہ اسی طرح بیٹھے رہتے ہیں۔ پس اگر دنیا کے لئے لوگ اس قدر تکلیفیں اٹھا سکتے ہیں تو دین کے لئے صرف تین دن چند گھنٹوں کے لئے بیٹھ جانا کونسی بڑی قربانی ہے۔ ایسے موقعوں پر تو جیسے مولوی اسماعیل صاحب نے کہا تھا خواہ کس قدر تکلیف پہنچے اور خواہ جسم شدتِ تکلیف کی وجہ سے پھٹنے لگے پھر بھی کوشش یہی کرنی چاہئے کہ انسان اپنی جگہ پر بیٹھا رہے اور تقریروں کو توجہ سے سنتا رہے۔ مگر مَیں نے دیکھا ہے جو لوگ ادھر ادھر پھر رہے تھے وہ بالعموم بوڑھے نہیں تھے بلکہ نوجوان تھے اور ان کی کوئی ایسی اغراض نہیں ہو سکتیں جو مجبوریاں کہلا سکیں۔ پس ان دنوں سے فائدہ اٹھاوٴ اورکوشش کرو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہیں زیادہ سے زیادہ برکات حاصل ہوں۔ ’’ (الفضل 3 جنوری 1942ء )
1 الفاتحہ: 5
2 ترمذی کتاب الزھد باب فی التوکل علی اللہ
3 بخاری کتاب الاعتصام باب مَا ذکر النَّبِیّ ﷺ حَضّ عَلٰی اِنْفَاقِ اَھْلِ الْعِلْمِ (الخ)
4 ترمذی ابواب العلم باب مَا جَاءَ فِیْ فَضْلِ الْفِقْہِ عَلَی الْعِبَادَ ةِ میں یہ الفاظ ہیں۔ اَلْکَلِمَةُ الْحِکْمَةُ ضَالَّةُ الْمُؤْمِنِ حَیْثُ وَجَدَھَا فَھُوَ اَحَقُّ بِھَا۔
 
Top