• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

خطبات محمود ۔ خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رض ۔ جلد 23

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
خطبات محمود ۔ خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رض ۔ جلد 23



1
مومن کا فرض ہے کہ نئے سال میں گزشتہ سال سے زیادہ قربانیاں کرے
(فرمودہ 2، جنوری 1942ء)

تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’مجھے کھانسی اور نزلہ کی تکلیف تو کئی دن سے تھی بلکہ کل سے اس میں کچھ افاقہ بھی شروع ہو گیا تھا کہ کل سے کمر میں شدید درد شروع ہو گیا ہے۔ جسے پنجابی میں ’’چُک‘‘ کہتے ہیں۔ اس کی وجہ سے سیدھا کھڑا بھی نہیں ہؤا جاتا بلکہ زیادہ بیٹھا بھی نہیں جا سکتا۔ اس لئے مَیں دو تین منٹ ہی خطبہ بیان کر سکوں گا۔ چونکہ یہ نئے سال کا پہلا خطبہ تھا اس لئے مَیں تکلیف کے باوجود آ گیا ہوں۔
ہر سال جو مومن کے لئے آتا ہے۔ وہ اس کے لئے نئی برکات لاتا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ لَلْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى 1 جس کے معنے یہ ہیں کہ تیری ہر اگلی گھڑی پہلی گھڑی سے اچھی ہے۔
مومن اسے کہتے ہیں جو محمد رسول اللہ ﷺ کا سچا متبع ہو اور آپؐ کے نقشِ قدم پر چلنے والا ہو اور جو آپؐ کا سچا متبع ہو گا اور آپؐ کے نقشِ قدم پر چلنے والا ہو گا۔ یہ لازمی بات ہے کہ اس کے درجہ کے مطابق اللہ تعالیٰ کا سلوک بھی اس سے ایسا ہی ہو گا جیسا محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ۔ پس ہر مومن کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا سلوک وہی ہونا چاہئے جو قرآن کریم نے آنحضرت ﷺ کے متعلق بیان کیا ہے یعنی وَ لَلْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى۔اس کی بعد میں آنے والی حالت پہلی حالت سے اچھی ہو۔ بعض لوگ دنیا میں ہمیشہ نیا سال آنے پر اس کے بہتر ہونے کی امیدیں دوسروں کو دلاتے ہیں۔ مَیں ہمیشہ اس پر حیران ہؤا کرتا ہوں۔
اخباروں والے جب بھی نیا سال شروع ہوتا ہے۔ اپنے خریداروں کو دھوکا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پچھلے سال میں بعض کوتاہیاں ہوئیں۔ بعض مشکلات درپیش تھیں۔ مگر اب ایسا نہ ہو گا۔ نئے سال میں کوئی کوتاہی نہ کی جائے گی لیکن اس کا مطلب دوسرے الفاظ میں یہ ہوتا ہے کہ گزشتہ سال تو ہم نے خوب غداری کی۔ ہمارے مضمون ردّی تھے۔ کاغذ ناقص لگایا جاتا رہا اور اس طرح ہم نے گاہکوں کے پیسے کھائے لیکن اپنے گاہکوں سے تحریک کرتے ہیں کہ تم ایک سال کے لئے اَور اپنے آپ کو احمق اور کودن بناؤ۔ وہ بڑے بڑے وعدے کرتے ہیں کہ نئے سال کے لئے بہت اچھا انتظام کر دیا گیا ہے لیکن وہ پچھلے سال سے بھی بدتر ثابت ہوتا ہے۔ اور وہ اٰخِرَةٌ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى کے بجائے شَرٌّ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰی ثابت ہوتا ہے۔ اس سال وہ پہلے سے بھی زیادہ ناغے کرتے ہیں۔ پہلے سے بھی زیادہ ردّی مضامین چھاپتے ہیں اورپہلے سے بھی زیادہ ناقص کاغذ لگاتے ہیں لیکن جب وہ سال بھی گزر جاتا ہے تو پھر اپیلیں شروع کر دیتےہیں کہ جو ہو چکا سو ہو چکا۔ گزشتہ را صلوٰة۔ جو غلطیاں گزشتہ سال ہوئیں وہ اب نہ ہوں گی۔ اور آپ لوگ اس سال ضرور خریدار بنے رہیں۔ گویا وہ اپنے گاہکوں سے یہ کہتے ہیں کہ آپ لوگ ایک سال کے لئے اَور بیوقوف بننا پسند کریں۔ یہ اخبار نویس ہمیشہ جھوٹ بولنے کے عادی ہوتے ہیں۔ سوائے دینی اخباروں کے یا بڑے بڑے دنیوی اخباروں کے جو اس الزام سے بری ہیں۔ نیز یہ ہندوستان کے اخبار نویسوں کی حالت ہے۔ ورنہ یورپ کے اخبار نویس ایسے نہیں ہوتے۔ بے شک اب ہندوستان میں بھی بہت سے اخبار ٹھیک ہو رہے ہیں لیکن ایک کافی حصہ ابھی تک ایسا ہی ہے ۔ ان اخبار نویسوں کے علاوہ ایک طبقہ اَور ہے جو یہ سمجھ ہی نہیں سکتا کہ گزشتہ سال ان کے لئے اچھا گزرا یا برا گزرا اور آئندہ سال کیسا ہو گا۔ وہ ہمیشہ دُبدھا اور شک کی حالت میں رہتے ہیں۔ وہ جانتے نہیں کہ پچھلا سال کیسا گزرا اور آئندہ کیسا گزرے گا۔ مگر دیکھو مومن کی حالت کیسے اطمینان کی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے لئے ایک قانون مقرر فرما دیا کہ وَ لَلْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى کہ ہر دن پہلے دن سے اور ہر سال پہلے سال سے بہتر ہو گا۔ پس جو شخص آپؐ کی اتباع کرنے والا اور آپؐ کے نقشِ قدم پر چلنے والا ہو گا۔ یہ قانون اس پر بھی حاوی ہو گا۔ اور اس کے لئے ہر آنے والا دن گزرے ہوئے دن سے اور ہر آنے والا سال گزرے ہوئے سال سے اچھا ہو گا۔ دنیا کے لوگ جب کوئی سال گزرتا ہے تو اس پر لعنتیں کرتے ہیں اور نئے سال کے آنے سے گھبراتے ہیں۔ گزشتہ سال پر لعنتیں ڈالتے ہیں کہ وہ کیسی مشکلات اور مصائب کا سال تھا اورنئے سال سے گھبراتے ہیں کہ معلوم نہیں کیسا ہو۔ لیکن مومن پچھلےسال پر بھی خوش ہوتا ہے کہ یہ اس کے رب کی طرف سے تھا اور آئندہ پر بھی مطمئن ہوتا ہے کہ یہ بھی اس کے رب کی طرف سے ہے اورا س کے رب کا وعدہ ہے کہ وہ پچھلے سے اچھا ہو گا۔ مگر ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ جہاں اللہ تعالیٰ کایہ وعدہ ہے کہ اگلا سال پچھلے سال سے اچھا ہو گا۔ وہاں مومن کا بھی فرض ہے کہ وہ نئے سال میں پچھلے سے زیادہ قربانیاں کرے کیونکہ اگر یہ سچ ہے کہ ہم محمد رسول اللہ ﷺ کے سچے متبع ہیں تو یہ بھی سچ ہے کہ ہمارا اگلا سال ضرور پچھلے سے بہتر ہو گا اور اگر یہ سچ ہے کہ ہمارا اگلا سال پچھلے سے بہتر ہوگا تو اس میں شبہ نہیں کہ ہمیں شکربھی پہلے سے زیادہ کرنا چاہئے۔ کیونکہ شکر ہمیشہ نعمت کے مطابق ہوتا ہے۔ اگر نعمت کم ہے تو ماننا پڑے گا کہ اس سال محمد رسول اللہ ﷺ کے سچے متبع نہیں رہے اور اگر رہے ہیں تو نعمت زیادہ ہونی چاہئے اور نعمت زیادہ ہو تو شکر بھی زیادہ لازم ہے اور قربانیاں بھی گزشتہ سال سے زیادہ کرنی ضروری ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ کسی سال کسی پر ظاہری مشکلات اور تکالیف زیادہ ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی سال اس کا بیماری میں گزرا ہو اور اس سے پہلا نہ گزرا ہو۔ کوئی سال مالی مشکلات میں گزرا ہو لیکن اس سے پہلا مالی لحاظ سے اس کے لئے اچھا ہو۔ مگر قرآن کریم نے جو فرمایا ہے کہ اگلی حالت پچھلی سے اچھی ہو گی ان ظاہری مشکلات کا اس سے تعلق نہیں۔ یہ اس زندگی کے متعلق وعدہ ہے جو خدا تعالیٰ کے حضور ہے۔ اس سے مراد یہ چند سالہ زندگی نہیں بلکہ وہ ہے جو لاکھوں کروڑوں بلکہ اَن گنت سالوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ اگر مومن کے لئے پہلے سال جنت میں ادنیٰ سامان جمع کئے گئے تھے اور اگلے سال اس سے بہتر جمع ہوں تو یہ وَ لَلْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى ہو گا یا نہیں۔دراصل یہ دونوں زندگیاں مل کر ایک زندگی بنتی ہے۔ جو لوگ اسی دنیا کی زندگی کو زندگی سمجھ لیتے ہیں وہ بھی ٹھوکر کھاتے ہیں۔ اور جو آخرت کی زندگی کو ہی اصل زندگی سمجھ لیتے ہیں وہ بھی ٹھوکر کھاتے ہیں۔ جو لوگ اس دنیا کو اصل زندگی سمجھ لیتے ہیں وہ اس دنیا کی مشکلات اور ابتلاؤں کو دیکھ کر خیال کر لیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا معاملہ ان کےساتھ اچھا نہیں۔ اور جو لوگ اگلی زندگی کو ہی زندگی سمجھتے ہیں وہ اس دنیا میں سچائی کو معلوم کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ وہ اس زندگی پر اگلی دنیا کو قیاس نہیں کرتے بلکہ دونوں کو الگ الگ سمجھتے ہیں۔ چاہئے یہ کہ اس زندگی پر اگلی زندگی کا قیاس کیا جائے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مَنْ كَانَ فِيْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى2یعنی جو اس زندگی میں اندھا ہو گا وہ اگلی زندگی میں بھی اندھا ہو گا۔ اور اگر اس زندگی میں بینائی حاصل ہو گی تو اگلی میں بھی ہو گی۔ جو لوگ اس زندگی کو لغو اور کھیل سمجھتے ہیں اور اگلی زندگی کو ہی صرف زندگی سمجھتے ہیں وہ بھی محروم رہ جاتے ہیں کیونکہ وہ اس دنیا میں خدا تعالیٰ کے نشانات کو تلاش نہیں کرتے۔ اور ان کا ایمان پختہ نہیں ہوتا۔ پس جب بھی کوئی ٹھوکر انہیں لگتی ہے وہ اس کی برداشت نہیں کر سکتے اور ارتداد اختیار کر لیتے ہیں۔
دراصل یہ دونوں زندگیاں ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں۔ یہ جہان اگلے جہان کی تصویر ہے۔ ایک شخص کی اگر پہلے سال کی تصویر دیکھیں کہ وہ بالکل ٹھیک ہو لیکن اگلے سال کی تصویر دیکھیں تو ناک کٹی ہوئی ہو۔ تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ جس شخص کی یہ تصویر ہے اس کی ناک کٹ چکی ہے۔ اسی طرح ہر اگلے سال کی تصویر کا حال ہے۔ اگر ان میں کوئی خرابی دیکھیں تو سمجھنا چاہئے کہ اگلے جہان میں بھی حقیقی خرابی پیدا ہو گئی ہے لیکن اگر خرابی صرف تصویری ہو۔ یعنے صرف اس دنیا کی زندگی میں تو وہ یقیناً عارضی روک ہو گی۔ جیسے اگر ناک تو انسان کی درست ہو مگر تصویر کے اندر ناک میں کوئی نقص پیدا ہو جائے۔ تو اس سے صاحبِ تصویر کو کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔ بلکہ فوٹو گرافر معذرت کرے گا اور اس کا بدلہ اگر ممکن ہو تو دوسری طرح دے گا۔ اسی طرح اگر کسی صحیح تصویر کو یہاں فرشتے کسی مصلحت کے ماتحت غلط طور پر پیش کریں تو اگلے جہان میں اس کے بدلہ میں وہ زیادہ نعمتیں جمع کرتے ہیں تاکہ اس غلط تصویر کا ازالہ ہو جائے۔ پس میں اس نئے سال کے آغاز پر احمدی احباب کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس سال میں زیادہ اچھا نمونہ دکھائیں۔ اور اگر وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے کسی حد تک بھی محمد رسول اللہ ﷺ کی اتباع کی ہے۔ قلیل سے قلیل اتباع بھی کی ہے۔ تو یقین رکھیں کہ ان کا اگلا سال اس سے اچھا ہو گا۔ اور اگر ان کا اگلا سال اس سے اچھا ہو گا تو گزشتہ سال کی نسبت اس سال ان کے شکر، گزشتہ سال کی نسبت ان کی قربانیاں گزشتہ سال کی نسبت ان کی حمدیں، ثنائیں اور تسبیحیں بھی زیادہ ہونی چاہئیں۔‘‘ (الفضل 8،جنوری 1942ء)
1 : الضحٰی: 5 2 : بنی اسرائیل: 73



2
جلد سے جلد چندہ تحریک جدید کے وعدوں کی فہرستیں مکمل کر کے بھیج دیں
( فرمودہ 9، جنوری 1942ء )

تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’مَیں نے نومبر کے آخر میں تحریکِ جدید سال ہشتم کے آغاز کا اعلان کرتے ہوئے دوستوں کو اس میں شمولیت کی تحریک کی تھی اور ہندوستان کے لئے اس کے وعدوں کی آخری تاریخ 31، جنوری مقرر کی تھی یعنی وعدوں کے جن آخری خطوط پر ڈاکخانہ کی 31، جنوری کی مہر ہو گی یا یکم فروری کی مہر لگی ہوئی ہو گی۔ ان کو تو درج کر لیا جائے گا مگر اس کے بعد آنے والے وعدوں کو قبول نہیں کیا جائے گا سوائے ہندوستان کے ان علاقوں کے وعدوں کے جہاں اُردو زبان نہیں بولی جاتی مثلًا بنگال یا مدراس وغیرہ۔ اور سوائے ان ہندوستانی افراد اور ہندوستانی جماعتوں کے وعدوں کے جو ہندوستان سے باہر ہیں۔ ان کے وعدے 30، اپریل تک قبول کئے جا سکتے ہیں اور 30 جون مَیں نے ان وعدوں کی تاریخ مقرر کی تھی جو ان غیر ممالک سے آتے ہیں جہاں کی جماعتیں ان ممالک کے باشندوں سے ہی بنی ہوئی ہیں یا ان کی اکثریت ان ممالک کے باشندوں پر مشتمل ہے۔ ہندوستانیوں کی ان میں کثرت نہیں جیسے انگلینڈ ہے۔ سماٹرا ہے، جاوا ہے، ویسٹ افریقہ ہے یا امریکہ وغیرہ ہیں۔ ان ممالک کے احمدیوں کے لئے وعدے بھجوانے کی آخری تاریخ 30، جون ہے۔
20، دسمبر سے چونکہ دوست اور احباب قادیان آنے کی فکر میں لگ جاتے ہیں اورکئی لوگ تو اس سے پہلے ہی قادیان آجاتے ہیں اور چونکہ قریباً تمام جماعتوں کے کارکن جلسہ سالانہ پر آئے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس لئے لازمی طور پر دسمبر کا آخری ہفتہ اورجنوری کا پہلا ہفتہ اس کام کے لحاظ سے بالکل خالی ہوتا ہے۔ کیونکہ واپس جانے والے دوست متفرق اوقات میں واپس جاتے ہیں۔ اور پھر کچھ دن آرام میں گزر جاتے ہیں۔ اس طرح سات آٹھ جنوری تک وہ صحیح رنگ میں کوئی کام کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ بہرحال اب چونکہ وہ آرام کا وقت گزر گیا ہے۔ اور صرف تین ہفتے ہندوستان کے دوستوں کے وعدوں کی میعاد میں باقی رہ گئے ہیں جن میں کارکنوں نے اپنی اپنی جماعتوں کے ہر فرد تک پہنچنا ہے۔ ان سے وعدے لکھوانے ہیں۔ جو لوگ فوری طور پر چندہ ادا کر سکتے ہوں ان سے چندے وصول کرنے ہیں۔ اور اس امر کو بھی مدنظر رکھنا ہے کہ دوستوں نے گزشتہ سالوں کے مقابلہ میں نمایاں اضافے کے ساتھ وعدے کئے ہیں یا نہیں۔ اس لئے مَیں نے مناسب سمجھا کہ آج پھر احباب جماعت کو اس چندہ میں شمولیت اور اس تحریک کی اہمیت کی طرف توجہ دلادوں۔
تحریک جدید کے چندہ کی اہمیت کے متعلق مَیں نے جلسہ سالانہ پر بھی جماعت کے دوستوں کو توجہ دلائی تھی اور اس سے پہلے جب مَیں نے اس سال کی تحریک کا اعلان کیا تھا تو اُس وقت بھی دوستوں کو اس کی طرف توجہ دلائی تھی۔ اور مَیں سمجھتا ہوں کہ اب مجھے اس چندہ کی اہمیت کے متعلق کچھ مزید کہنے کی ضرورت نہیں۔ تاہم مَیں اس قدر کہہ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ میرے متواتر خطبات سے جماعت کے دوست اچھی طرح سمجھ چکے ہوں گے کہ یہ تحریک کس نیت سے کی گئی ہے اور ہمارا ارادہ اس سے کتنا عظیم الشان کام لینے کا ہے۔ نتائج اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں۔ اور وہی بہتر جانتا ہے کہ اس تحریک کے کیا نتائج رونما ہوں گے لیکن بہرحال ہم نے اس تحریک سے اشاعتِ دین کے لئے ایک عظیم الشان بنیاد رکھنے کی نیت کی ہے۔ اور اس میں کیا شبہ ہے کہ مومن صرف نیت تک ہی اپنے کام کی حفاظت کر سکتا ہے۔ نیت کے بعد جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی تائید اور اس کی نصرت سے ہوتا ہے۔ گو اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ نیتِ صالح بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی پیدا ہوتی ہے۔ مگر پھر بھی صرف نیت اور ارادہ ہی ایک ایسی چیز ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزاد بنایا ہے ورنہ اعمال حالات کے لحاظ سے بالکل بدلتے چلے جاتے ہیں۔ اسی لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا اَلْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ 1 یعنی اعمال نیتوں کے تابع سمجھے جاتے ہیں۔ نیت عمل کے تابع نہیں سمجھی جاتی۔ اس حدیث میں جہاں مومنوں کے لئے ایک عظیم الشان بشارت ہے۔ وہاں منافقوں کے لئے ایک عظیم الشان تہدید بھی ہے۔ مومنوں کے لئے اس میں بشارت اس طرح ہے کہ بعض اوقات مومن خدا تعالیٰ کی راہ میں پوری طرح اپنے دل کے حوصلے نہیں نکال سکتا۔ وہ چاہتا ہے کہ مَیں دین کی راہ میں قربان ہو جاؤں۔ مگر قربانی کا کوئی موقع ہی نہیں آتا اور اس کی خواہش دل میں ہی رہتی ہے کیونکہ محض قربانی کی خواہش کرنے سے کوئی شخص قربان نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ کوئی دشمن ہو اور وہ بھی محض دینی مخالفت کی بناء پر اس کو قتل کرے اور یہ چیز ایسی ہے جو کسی انسان کے اپنے اختیار میں نہیں۔ اور اگر کوئی شخص بجائے اس رنگ میں اپنی قربانی پیش کرنے کے کسی دوسرے شخص کے پاس جائے اور کہے کہ میری گردن پر کلہاڑی مار دو تاکہ مَیں خدا تعالیٰ کے رستہ میں قربان ہو جاؤں تو یہ قربانی نہیں کہلائے گی بلکہ خود کشی کہلائے گی۔ ایسا شخص اگر نادان ہے تو اپنی نادانی کے مطابق خدا تعالیٰ سے سزا پائے گا اور اگر عالم ہے اور اس نے دین کا علم رکھتے ہوئے اس فعل کا ارتکاب کیا ہے تو وہ اپنے علم کے مطابق خدا تعالیٰ سے سزا پائے گا۔ بہرحال اس رنگ میں مرنے والا خودکشی کرنے والا ہی سمجھا جائے گا۔ یہ نہیں کہا جائے گا کہ اسے دین کے ساتھ بڑا عشق تھا اور اس نے خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان دے دی۔ ہاں اگر کوئی شخص دین سے بغض رکھتے ہوئے اسے اسلام سے پھرانا چاہتا ہے اور جب وہ اسلام چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ تو اپنے اندرونی خبث کے نتیجہ میں اس پر حملہ کر دیتا ہے اور مومن جان سے مارا جاتا ہے۔ تب اس کے متعلق کہا جائے گا کہ وہ شہید ہؤا ہے اس کے بغیر نہیں تو شہادت کسی انسان کے اپنے اختیار میں نہیں بلکہ دوسرے کے اختیار میں ہوتی ہے اور دوسرا بھی کوئی دوست نہیں ہوتا جس کے اختیار میں یہ بات ہو بلکہ دشمن کے اختیار میں یہ بات ہوتی ہے۔ جو کام دوستوں کے ساتھ تعلق رکھتا ہو اس کے متعلق تو انسان خیال کر سکتا ہے کہ مَیں وہ کام کرانے کے لئے اپنے دوستوں سے درخواست کروں گا۔ ان سے التجا کروں گا اور اصرار کروں گا کہ وہ میری خواہش پوری کر دیں مگر یہ چیز اس کے دوستوں کے اختیار میں بھی نہیں ہوتی مثلًا مہمان نوازی بڑے ثواب کاکام ہے۔ مگر یہ انسان کے اپنے اختیار میں ہے۔ اسی طرح کسی دوست کی دعوت کرنا یہ بھی انسان کے اختیار میں ہوتا ہے۔ وہ اپنے دوست کے پاس جا کر کہہ سکتا ہے کہ میری خواہش ہے آپ آج کا کھانا ہمارے ہاں کھائیں اور وہ اس بات کو مان لیتا ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس کو ہم کھانے کے لئے بلانا چاہتے ہیں وہ بزرگ ہوتا ہے۔ اس صورت میں ہم اس بزرگ کے پاس جا کر اس سے التجا کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں کھانا کھایا جائے اور اصرار کے ساتھ اس کی عنایت کے طلبگار ہوتے ہیں۔ تب اگر اس بزرگ کے پاس وقت ہوتا ہے اور وہ دعوت میں شامل ہونے میں کوئی حرج نہیں دیکھتا تو ہماری بات مان لیتا ہے۔ اسی طرح ہم اپنے خورد کے پاس جا کر پیار اورمحبت سے چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے گھر آئے اور کھانا کھائے اور وہ ہماری بات مان لیتا ہے۔ پس یہ چیز ایسی ہے جو ہمارے دوستوں کے قبضہ میں ہے مگر شہادت دوست کے قبضہ میں نہیں بلکہ دشمن کے قبضہ میں ہوتی ہے اور اس میں درخواست التجا یا اصرار کا کوئی سوال ہی نہیں ہوتا۔ یہ بات اس کی اپنی مرضی پر منحصر ہوتی ہے کہ چاہے تو وہ مارے اور چاہے تو نہ مارے۔
پھر یہ شہادت ان افعال میں سے ہے جن کو خدا نے گو بہت بڑے ثواب کا موجب قرار دیا ہے۔ مگر ساتھ ہی اس قسم کے افعال کو اس نےر وکنے کا حکم دیا ہے۔ اس نے یہ تو بیشک کہا ہے کہ شہادت ایک بہت بلند مقام ہے اور جو شخص شہید ہوتا ہے وہ بہت بڑے ثواب کا مستحق ہوتا ہے۔ مگر اس نے یہ نہیں کہا کہ دشمن اگر تم پر حملہ کرے تو تم اس کا مقابلہ نہ کرو۔ بلکہ اس نے یہی حکم دیا ہے کہ جب دشمن تم پر حملہ کرے تو تم اس کا خوب مقابلہ کرو۔
پس ایک طرف تو اللہ تعالیٰ نے شہادت کو نعمت قرار دیا ہے مگر دوسری طرف اسلام کی حفاظت کے خیال سے اس نعمت کی طرف دوڑ کر جانے سے منع کیا ہے اور مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی جان کی حفاظت کیا کریں تاکہ اسلام کی حفاظت ہوتی رہے۔ پس اول تو شہادت کی نعمت دشمن کے قبضہ میں ہوتی ہے۔ پھر جس کے سامنے شہادت کا موقع آتا ہے۔ اسے بھی یہ اختیار نہیں ہوتا کہ وہ اسے فوراً قبول کر لے بلکہ اسے یہی حکم ہوتا ہے کہ دشمن کے حملہ کو اپنی پوری طاقت کے ساتھ روکو۔ اور اگر پھر بھی دشمن کامیاب ہو جائے تو شہادت کا انعام پاؤ۔ تو شہادت ان نعمتوں میں سے ہے جو انسان کے اپنے اختیار میں نہیں۔ مگر کسی کو دعوت پر مدعو کرنا یہ انسان کے اپنے اختیار میں ہوتا ہے۔
پس بعض نعمتیں دنیا میں ایسی ہوتی ہے جن کو انسان اپنے اختیار سے حاصل کرتا ہے۔ اور بعض نعمتیں دنیا میں ایسی ہوتی ہیں جو انسان کے اختیار سے باہر ہوتی ہیں۔ جو نعمتیں انسان کے اختیار سے باہر ہوتی ہیں ان کا مل جانا انسان کے نصیبے کی بات ہوتی ہے ورنہ کئی لوگ باوجود خواہش اور کوشش کے ایسی نعمتوں سے محروم رہتے ہیں۔
صحابہؓ کو ہم دیکھتے ہیں۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ خدا تعالیٰ کے رستہ میں شہید ہو جائیں اور انہوں نے مرتبہ شہادت حاصل کرنے کے لئے بڑی بڑی کوششیں کیں مگر باوجود شدید خواہش رکھنے کے بعض شہید ہوئے اور بعض نہ ہوئے۔ چنانچہ بعض کو تو فوراً ہی شہادت کا مقام حاصل ہو گیا اور بعض ساری عمر لڑائیوں میں شامل ہونے کے باوجود شہید نہ ہوئے۔
امیر حمزہؓ جب جنگ کے لئے نکلے تو انہوں نے ابھی کوئی کام بھی نہیں کیا تھا کہ شہید ہو گئے حالانکہ وہ اسلام کے بہترین جرنیلوں میں سے تھے اور ابتدائے زمانۂ اسلام میں صرف 2 شخص مسلمانوں میں بہادر سمجھے جاتے تھے ۔ ایک حضرت عمرؓ اور دوسرے امیر حمزہؓ۔جب یہ دونوں اسلام میں داخل ہوئے تو انہوں نے رسول کریم ﷺ سے درخواست کی کہ ہم یہ پسند نہیں کرتے کہ ہم گھروں میں چھپ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کریں ۔ جب کعبہ پر ہمارا بھی حق ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنے اس حق کو حاصل نہ کریں اور کھلے بندوں اللہ تعالیٰ کی عبادت نہ کریں۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ جو کفار کو فساد کے جرم سے بچانے کے لئے گھر میں نماز ادا کر لیا کرتے تھے۔ خانہ کعبہ میں عباد ت کے لئے تشریف لے گئے اور اس وقت آپ کے ایک طرف حضرت عمرؓ تلوار کھینچ کر چلے جا رہے تھے اور دوسری طرف امیر حمزہؓ اور اس طرح رسول کریم ﷺ نے خانۂ کعبہ میں عَلَی الْاِعْلان نمازا اد اکی 2 مگر باوجود اس کے کہ وہ اسلام کے بہترین جرنیلوں میں سے تھے۔ مکہ کے رئیس تھے اور دشمنان اسلام ان سے ڈرتے تھے۔ جب وہ پہلی مرتبہ لڑائی میں شامل ہوئے تو بغیر اس کے کہ وہ اپنی بہادری کے کوئی جوہر دکھاتے بیس تیس منٹ کے اندر اندر مارے گئے۔ وہ ایک دشمن کو زیر کرنے کے بعد واپس آ رہے تھے کہ پیچھے سے ایک شخص نے خنجر مار دیا 3اور وہ بہادر جو اسلام کے ابتدائی ایام کے زبردست جرنیلوں میں سے تھا اور جسے لڑائی میں شامل ہوئے ابھی بمشکل نصف گھنٹہ گزرا تھا۔ شہید ہو گیا۔ اس کے مقابلہ میں کئی لوگ بعد میں آئے اور وہ بارہ بارہ تیرہ تیرہ جنگوں میں رسول کریم ﷺ کے ساتھ شامل رہے اور آپؐ کی وفات کے بعد بیسیوں جنگوں میں شامل ہوئے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت انہیں شہید ہونے کا موقع نہ ملا۔
حضرت خالدؓ بن ولید جنہیں رسول کریم ﷺ نے سَیْفٌ مِّنْ سُیُوْفِ اللہِ4 قرار دیا تھا یعنی اللہ تعالیٰ کی تلواروں میں سے ایک تلوار، ان کے دل میں اسلام کو پھیلانے کا جو جوش تھا وہ تاریخ سے واقفیت رکھنے والے خوب جانتے ہیں۔ وہ سالہا سال اسلامی فوج کے کمانڈر رہے اور اسلامی فوج کا کمانڈر گھر میں نہیں بیٹھ رہتا تھا بلکہ وہ لڑائی میں فوج کے ساتھ شامل ہؤا کرتا تھا۔ حضرت خالدؓ بن ولید بھی لڑائی میں شامل ہوتے اور ہر موقع پر جہاں جنگ کا زور ہوتا تھا اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کردیتے تھے۔ گو جرنیل ہونے کے لحاظ سے ان کے لئے یہ بات نا مناسب تھی اور بڑے بڑے صحابہؓ ان کو کہا بھی کرتے تھے کہ یہ طریق آپ کے منصب کے خلاف ہے آپ کا کام فوج کو صحیح طور پر لڑانا ہے نہ کہ اپنے آپ کو ہر خطرہ کے مقام پر ڈال دینا۔ مگر جوش شہادت میں وہ اس بات کی کوئی پروا ہ نہیں کرتے تھے اورہمیشہ خطرناک مواقع پر اپنی جان قربان کرنے کے لئے میدان جنگ میں کود پڑتے تھے۔ مگر مشیت ایزدی کے ماتحت وہ شہید نہ ہوئے بلکہ ایک لمبی بیماری کے بعد انہوں نے گھر میں وفات پائی۔ حالانکہ بیسیوں لوگ جنہوں نے ان کے بعد اسلام قبول کیا تھا اور جنہیں ان خطرات میں شامل ہونے کا موقع نہیں ملا تھا جن خطرات میں شامل ہونے کا حضرت خالدؓ بن ولید کوموقع ملا۔ وہ آپ سے پہلے شہادت پا گئے۔ تاریخوں میں آتا ہے کہ جب حضرت خالدؓ وفات پانے لگے تو ایک دوست ان کے ملنے کے لئے آیا۔ اور اس نے دیکھا کہ حضرت خالدؓ حسرت کے ساتھ کراہ رہے ہیں۔ وہ کہنے لگا خالدؓ ! کیوں کراہتے ہو؟ اللہ تعالیٰ کی جنت تمہارا انتظار کر رہی ہے۔ حضرت خالدؓ نے یہ سنا تو بے اختیار رو پڑے اورکہنے لگے مَیں نے اپنی ساری عمر اس انتظار اور اس امید میں گزار دی کہ شاید خدا تعالیٰ کی راہ میں شہید ہونے کا مجھے بھی موقع میسر آ جائے مگر افسوس مَیں شہید نہ ہؤا اور آج مَیں اپنے بستر پر جان دے رہا ہوں حالانکہ خدا جانتا ہے مَیں نے اپنی طرف سے اس پیالہ کے پینے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ اور مَیں نے پورا زور لگایا کہ کسی طرح شہادت کا مرتبہ مجھے نصیب ہو جائے مگر افسوس مَیں اس سے محروم رہا۔ پھر اسے کہنے لگے میرے سینہ پر سے کرتہ تو اٹھاؤ اور بتاؤ کہ کیا کوئی ایسی جگہ ہے جہاں تلوار کے زخموں کے نشانات نہ ہوں۔ اس نے کہا کوئی جگہ نہیں۔ سب جگہ تلوار کے زخموں کے نشانات پائے جاتے ہیں۔
پھر کہنے لگے اچھا اب میری پیٹھ پر سے کرتہ اٹھاؤ اور دیکھو کہ کیا میری پیٹھ پر بھی کوئی ایسی جگہ ہے جہاں تلوار کے زخموں کے نشانات نہ ہوں۔ اس نے پیٹھ پر سے کرتہ اٹھایا اور دیکھ کر کہنے لگا کہ پیٹھ پر بھی ہر جگہ تلوار کے زخموں کے نشانات پائے جاتے ہیں۔
پھر انہوں نے کہا اب میرے پائنچے اٹھا کر دیکھو کہ کیا میری لاتوں پر کوئی ایسی جگہ ہے جہاں تلوار کے زخموں کے نشانات نہ ہوں۔ اس نے دیکھا اور کہا کہ کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں تلوار کے زخموں کے نشانات نہ ہوں۔
یہ نشانات دکھانے کے بعد حضرت خالدؓ کہنے لگے۔ تم دیکھ سکتے ہو کہ مَیں نے کس طرح اپنے آپ کو بے پرواہ ہو کر جنگ میں ڈالا کہ آج میرے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں جس پر تلوار کے زخموں کے نشانات نہ ہوں مگر وہ لوگ جو میرے پیچھے آئے تھے وہ تو جامِ شہادت پی کر اپنے رب کے پاس چلے گئے اور مَیں بستر پر تڑپ تڑپ کر جان دے رہا ہوں۔5
تو دیکھو۔ ایک قربانیاں وہ ہوتی ہیں جو انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتیں بلکہ دشمن کے قبضہ میں ہوتی ہیں۔ مگر ایک قربانیاں وہ ہوتی ہیں جو انسان کےا پنے اختیار میں ہوتی ہیں۔ جو قربانیاں انسان کے اپنے اختیار میں ہوتی ہیں درحقیقت انہی کے ذریعہ یہ پتہ چلتا ہے کہ انسان وہ قربانیاں بھی کر سکتا ہے یا نہیں جو اس کے اختیار سے باہر ہیں۔ ورنہ انسان اپنے دل میں خواہشیں تو کیا ہی کرتا ہے تو اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا انسانی عمل نیتوں کے مطابق ہوتا ہے۔ دیکھو خالدؓ کی نیت یہ تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہو جائیں مگر عمل نیت کے مطابق نہ ہو سکا۔ یعنی وہ شہید نہ ہوئے مگر کیا تم سمجھتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے حضور جس وقت ارواح پیش ہوں گی اس وقت وہ لوگ جو خالدؓ سے سالہا سال پیچھے آئے اور جنہوں نے خالدؓ سے سینکڑوں گنا کم قربانیاں کی تھیں وہ تو شہیدوں کی صف میں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوں گے اور حضرت خالدؓ پچھلی صف میں محض صلحاء کے زمرہ میں پیش ہوں گے۔ یہ کبھی نہیں ہو سکتا بلکہ حق یہ ہے کہ اگر ان شہداء کی ارواح صرف ایک ایک شہید کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوں گی تو حضرت خالدؓ کی روح ہزاروں شہیدوں کی صورت میں خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کی جائے گی۔ کیونکہ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ ۔ اعمال نیت کے تابع ہوتے ہیں۔ نہ کہ نیت اعمال کے تابع ہوتی ہے۔ اگر ان لوگوں نے صرف ایک ایک دفعہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہونے کا ارادہ کیا اور وہ شہید ہو گئے تو خالدؓ نے سینکڑوں دفعہ خدا تعالیٰ کی راہ میں شہید ہونے کا ارادہ کیا تھا گو حکمتِ الٰہی نے انہیں ظاہر میں شہید نہ ہونے دیا۔
اگر عمل پر خدا تعالیٰ جزا دیتا تووہ ہزاروں لوگ جن کے دلوں میں بہت زیادہ قربانی کا جذبہ ہوتا ہے مگر حالات کی وجہ سے وہ اپنے دل کے حوصلے نہیں نکال سکتے اور قربانیاں اپنے دل کے ارادہ کے مطابق نہیں کر سکتے وہ تو محروم رہ جاتے۔ اور جن کو کسی قربانی میں شریک ہونے کا موقع مل جاتا گو ان کا دل بہت زیادہ قربانی پر آمادہ نہ ہوتا وہ زیادہ ثواب لے جاتے مگر اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرے گا ۔ پھر اگر انسانی اعمال پر ہی اللہ تعالیٰ کی جزاء کا انحصار ہوتا تو جتنے امراء ہیں وہ دنیا میں بھی آرام سےر ہیں اور اگلے جہان میں بھی زیادہ انعامات لے جائیں۔ مگر ایسا نہیں ہو گا۔ ایک کروڑ پتی آدمی اگر چاہے تو آسانی سے دس لاکھ روپیہ چندہ دے سکتا ہے مگر ایک غریب آدمی جس کے پاس صرف ایک مٹھی بھر آٹا ہے وہ اس سے ایک دانہ زیادہ بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں نہیں دے سکتا۔ اب اگر خدا تعالیٰ کے حضور محض یہی بات دیکھی جاتی کہ ایک شخص نے دس لاکھ روپے دئیے ہیں اور دوسرے نے صرف مٹھی بھر آٹا تو کہا جا سکتا تھا کہ خدا تعالیٰ انسانی عمل کو دیکھتا ہے۔ اس کی نیت کو نہیں دیکھتا اور اس صورت میں صرف وہی لوگ انعامات حاصل کر سکتے جو امراء ہوتے یا جنہیں کسی قربانی میں شامل ہونے کا موقع ملا ہوتا۔ مگر اللہ تعالیٰ ان باتوں کو نہیں دیکھتا اور نہ اس کی نظر ظاہر پر ہوتی ہے بلکہ وہ انسان کی نیت اور اس کے ارادہ کو دیکھتا اور اسی کے مطابق اس سے سلوک کرتا ہے۔ ایک ایسا شخص جس کے پاس ایک کروڑ روپیہ موجود ہے وہ اگر دس لاکھ روپیہ چندہ دے دیتا ہے تو گو یہ بھی ایک نیکی ہے مگر اس کے مقابلہ میں وہ شخص جس کے پاس صرف مٹھی بھر جَو تھے اور اس نے وہ تمام کے تمام جَو خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دئیے اور اپنے لئے یا اپنی بیوی اوربچوں کے لئے اس نے کچھ نہیں رکھا۔ وہ یقیناً ان دس لاکھ روپے دینے والے سے خدا تعالیٰ کے حضور زیادہ عزت کا مستحق ہے۔ کیونکہ دس لاکھ دینے والے کی نیت یہ تھی کہ مَیں اپنی جائداد کا دسواں حصہ خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دوں اور مٹھی بھر جَو دینے والے کی نیت یہ تھی کہ میرے پاس جو کچھ ہے وہ مَیں خدا تعالیٰ کے رستہ میں قربان کر دوں۔ بے شک اس کے پاس صرف مٹھی بھر جَو تھے جو اس نے دے دئیے لیکن اس نیت کے مطابق اگر اس کے پاس ایک کروڑ روپیہ ہوتا تو وہ اس ایک کروڑ روپیہ میں سے دس لاکھ نہ دیتا، بیس لاکھ نہ دیتا، تیس لاکھ نہ دیتا بلکہ جس طرح اس نے سالم مٹھی جَو کی خدا تعالیٰ کی راہ میں پیش کر دی تھی اسی طرح وہ سب کا سب روپیہ خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دیتا اور اپنے پاس ایک پیسہ بھی نہ رکھتا۔
تو رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں اَلْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ۔ یہ مت خیال کرو کہ تمہارے اعمال ظاہری صورت میں خدا تعالیٰ کے پاس جاتے ہیں وہ ظاہری صورت میں نہیں جاتے بلکہ جس قسم کی نیت کے تابع ہوتے ہیں اسی قسم کی نیت کے ساتھ خدا تعالیٰ تک پہنچتے ہیں۔ ایک ایسا شخص جو اچھی طرح بول بھی نہیں سکتا وہ اگر ٹوٹی پھوٹی زبان میں کسی کو تبلیغ کرتا ہے تو کیا تم سمجھتے ہو کہ خدا تعالیٰ کے حضور اس کا مقام ادنیٰ ہو گا اور وہ شخص جو بڑا لسّان ہو، بڑا مشہور لیکچرار ہو اور اپنی تقریر سے لوگوں کو گرویدہ بنا لیتا ہو اس کا مقام زیادہ بلند ہو گا؟ ایسا ہرگز نہیں ہو گا بلکہ خدا تعالیٰ کے حضور دونوں کی نیت دیکھی جائے گی۔ بسا اوقات ایسا ہو گا کہ جو شخص نہایت عمدہ تقریر کرنے والا ہے اس کی نیت خدا تعالیٰ کی رضا کا حصول نہیں ہو گی بلکہ وہ اس لئے تقریریں کرتا ہو گا تاکہ لوگ واہ واہ کریں اور اس کی تعریف کریں۔ پھر یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی نیت تو خدا تعالیٰ کی رضا کا حصول اور اس کی مخلوق کو فائدہ پہنچانا ہی ہو مگر اس کے دل میں وہ سوز اور گداز نہ ہو جس کے بغیر قلوب کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔ پھر بعض دفعہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ایک شخص نہایت عمدہ تقریر کرنے والا ہو، اس کے دل میں سوز اور گداز بھی ہو مگر اس کے اندر یہ آگ نہ ہو کہ جب تک دنیا کے کونہ کونہ میں مَیں خدا تعالیٰ کا پیغام نہ پہنچا لوں گا آرام کا سانس نہیں لوں گا۔ اس کے مقابلہ میں وہ شخص جو بہت تھوڑی باتیں کر سکتا ہے۔ جو لمبی تقریریں نہیں کر سکتا مگر اس کے دل میں ہر وقت یہ آگ سلگتی رہتی ہے کہ مَیں خدا تعالیٰ کا پیغام اس کی بھولی بھٹکی مخلوق تک پہنچاؤں اور وہ رات اور دن کرب اور بے اطمینانی کےساتھ گزارتا ہے اور کہتا ہے کہ جب تک مَیں اپنے بھائیوں کو خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے وصال کی طرف نہ لے آؤں گا مجھے امن اور چین حاصل نہیں ہو گا۔ یقیناً خدا تعالیٰ کے حضور زیادہ بلند مقام رکھے گا اوریقیناً اس کے ٹوٹے پھوٹے الفاظ خدا تعالیٰ کو دوسرے کی اعلیٰ درجہ کی تقریروں سے زیادہ پسند آئیں گے کیونکہ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ۔ پہلے شخص کی تقریر کے پیچھے جو نیت تھی وہ ایسی اعلیٰ نہیں تھی مگر اس کے ٹوٹے پھوٹے الفاظ کے پیچھے جو نیت تھی وہ بہت اعلیٰ تھی۔ اسی طرح قربانی کے متعلق قرآن کریم نے یہ اصول بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ خون اور گوشت کو نہیں دیکھتا بلکہ قربانی کرنے والے کی نیت کو دیکھتا ہے۔ ایک امیر آدمی آسانی کے ساتھ سو اونٹ یا سو دُنبے خدا تعالیٰ کی راہ میں ذبح کر سکتا ہے لیکن ایک غریب آدمی جو سال بھر قربانی کے لئے پیسے جمع کرتا رہتا ہے اور جس کا ایک ایک دن اس حسرت سے گزرتا ہے کہ کاش میرے پاس اتنی رقم جمع ہو جائے کہ مَیں ایک دفعہ عید کے موقع پر قربانی کر کے اس کا کچھ گوشت خدا کی راہ میں تقسیم کر دوں۔ اور کچھ گوشت اپنے دوستوں کو تحفةً پیش کروں وہ اگر سال بھر کی محنت اور تگ و دو کے بعد ایک معمولی سی بکری یا چھوٹی سی دُنبی قربانی کرتا ہےتو کیا تم سمجھتے ہو کہ خدا تعالیٰ اس کی معمولی سی بکری یا چھوٹی سی دُنبی کو ردّ کر دے گا اور اس امیر کے موٹے تازے دُنبوں کو قبول کرے گا۔ اگر خدا تعالیٰ انسانی عمل پر فیصلہ کرتا تو یقیناً اس امیر کے موٹے تازے دُنبے قبول کر لئے جاتے اور اس غریب کی معمولی سی بکری یا چھوٹی سی دُنبی ردّ کر دی جاتی مگر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ انسانی اعمال پر نہیں ہو گا بلکہ وہ فرماتا ہے يَنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ6خداتعالیٰ کے حضور قربانی کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا اگر اس کے پاس گوشت اور خون پہنچا کرتا تو وہ اچھا گوشت پسند کر لیتا اورتب وہ ان قربانیوں کو قبول کر لیتا جن میں بہت زیادہ خون بہایا گیا ہو۔ مگر وہ فرماتا ہے ہمارے پاس ان چیزوں میں سے کوئی چیز نہیں پہنچتی۔ ہمارے پاس تو يَنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ قربانی کے پیچھے جو نیت ہوتی ہے وہ پہنچا کرتی ہے۔اگر ایک چھوٹی سی دُنبی ذبح کرنے والے کی نیت بہت اعلیٰ تھی اور دو سو بڑے بڑے دنبے ذبح کرنے والی کی نیت ایسی اعلیٰ نہیں تھی اور اگر اگلے جہان میں تمام قربانیوں نے متمثل ہونا ہے جیسا کہ قرآنِ کریم سے اس کا پتہ چلتا ہے تو قیامت کے دن جس نے دو سو دُنبے ذبح کئے ہوں گےاگر اس کے ساتھ اعلیٰ اخلاص نہ ہو گا تو اس کے ساتھ دو سَو دُنبے نہیں ہوں گے بلکہ ایک مریل سی دُنبی ہو گی اور جس نے ایک چھوٹی سی دُنبی ذبح کی تھی۔ اگر اس نے اعلیٰ اخلاص اور محبت کے ساتھ یہ قربانی کی تھی تو قیامت کے دن اس کے ساتھ ایک چھوٹی سی دُنبی نہیں ہو گی بلکہ ہزارہا موٹے تازے دُنبے ہوں گے کیونکہ اس جہان میں چیزیں بدل جاتی ہیں اور وہ سب کی سب نیت کے تابع ہو جاتی ہیں۔
تو یاد رکھو اعمال نیتوں کے تابع ہیں۔نیتیں اعمال کے تابع نہیں ہیں۔ پس اپنی نیت کے مطابق ہر انسان خدا تعالیٰ کے راستہ میں جو قربانی کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ اس سے ویسا ہی سلوک کرتا ہے جیسے اس کی نیت ہوتی ہے او رجبکہ نیت ہر انسان کے اختیار میں ہے مگر عمل اس کے اختیار میں نہیں۔ تو کتنے افسوس کی بات ہو گی اگر کوئی شخص اپنی نیت کی درستی کی طرف بھی توجہ نہ کرے۔ مَیں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر ہماری جماعت کے تمام افراد اپنی نیتوں کی درستی کی طرف توجہ کریں تو یہ نہیں کہ قربانی کم ہو جائے گی بلکہ قربانی کا درجہ بہت زیادہ بلند ہو جائے گا کیونکہ نیتوں کی درستی کےساتھ انسان کے کاموں میں برکتیں پیدا ہو جاتی ہیں اور چھوٹی چھوٹی قربانیاں عظیم الشان نتائج پیدا کر دیا کرتی ہیں۔
ہم نے بھی تحریک جدید سے ایک عظیم الشان کام سر انجام دینے کی نیت کی ہے اور ہمارا ارادہ اس روپیہ سے ایک بہت بڑے اور اہم کام کی داغ بیل ڈالنے کا ہے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ہم سے کتنا کام ہو گا اور ہم اپنے مقصد میں کہاں تک کامیاب ہوں گے لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر ہماری جماعت کے تمام افراد اپنی نیتوں کو درست کر لیں اور نیتوں کو درست کرنے کے بعد تحریک جدید کی قربانیوں میں حصہ لیں۔ تو افراد کی نیتوں کی درستی ہماری جماعتی نیت میں بھی عظیم الشان برکت پیدا کر سکتی اور ہماری حقیر کوششوں کے بہت بڑے نتائج پیدا کر سکتی ہے۔ جماعت کیا ہے؟ جماعت افراد کے مجموعہ کا نام ہے اور جماعتی لحاظ سے ہم نے یہ نیت کی ہوئی ہے کہ ہم تحریکِ جدید کے چندہ سے تبلیغ اسلام کا ایک مرکزی فنڈ قائم کریں گے۔ جس کے نتیجہ میں ایک دن ہماری تبلیغ خدا تعالیٰ کے فضل سے ساری دنیا تک پہنچ جائے گی۔ اور احمدیت تمام عالم پر چھا جائے گی۔ یہ نیت ہے جو تحریک جدید کے چندہ کے متعلق جماعتی رنگ میں ہم رکھتے ہیں۔ اگر اس تحریک میں حصہ لینے والے دوست بھی اپنی اپنی نیتوں کو درست کر لیں تو چونکہ جماعت افراد کے مجموعہ کا ہی نام ہوتا ہے اس لئے افراد کی نیت کی درستی ہماری جماعتی نیت کو بھی درست کر دے گی۔ اور اس میں ایسی برکت پیدا ہو جائے گی کہ جلد سے جلد اس کے شیریں ثمرات پیدا ہونے شروع ہو جائیں گے۔
پس مَیں جماعت کے دوستوں کو پھر نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی نیتوں کو درست کرو۔ اپنے ارادوں کو نیک بناؤ اور اپنی کمروں کو کَس لو کیونکہ اب تحریک جدید کا ایک لمبا دور گزر چکا ہے اور بہت تھوڑا باقی ہے۔ جو جماعتیں اپنے چندوں کی لسٹیں بھجوا چکی ہیں ان کو مَیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنی لسٹوں پر نظر ثانی کریں اور جن دوستوں نے اپنی طاقت سے کم قربانی کی ہے ان کے پاس ایک دفعہ پھر جائیں اور ان کے سامنے ان کی آمد اور ان کی قربانی کا نقشہ پیش کر کے کوشش کریں کہ وہ پھر اپنے وعدوں پر غور کریں اور اپنے چندوں میں اضافہ کریں۔ اسی طرح ہماری جماعت کے سینکڑوں افراد ایسے ہیں جو براہِ راست چندہ بھجواتے ہیں۔ ان کو بھی مَیں نصیحت کرتا ہوں کہ جن افراد نے اپنی حیثیت کے مطابق قربانی نہیں کی یا کچھ چندہ تو دے دیا ہے مگر وہ کسی صورت میں ان کی قربانی نہیں کہلا سکتا۔ وہ بھی اپنے وعدوں پر نظر ثانی کریں اور مطالبہ کے مطابق قربانی کریں۔ پھر جن جماعتوں کی طرف سے ابھی تک چندوں کی فہرستیں نہیں آئیں یا وہ افراد جنہوں نے ابھی تک اپنےوعدے نہیں لکھائے اور ایسے لوگ ہماری جماعت میں سینکڑوں کی تعداد میں ہیں ان کو بھی مَیں توجہ دلاتا ہوں کہ 31، جنوری آخری تاریخ ہے اور چونکہ 31، جنوری کی شام تک کا وعدہ ہم قبول کر لیا کرتے ہیں اور کئی مقامات ایسے ہیں جہاں سے شام کو ڈاک روانہ نہیں ہوتی اس لئے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ جس خط پر یکم فروری کی مُہر ہو گی اسے بھی 31، جنوری تک کے وعدوں کے اندر شمار کیا جائے گا۔ پس اس قسم کی تمام جماعتیں جنہوں نے ابھی تک اپنی لسٹیں مکمل کر کے نہیں بھجوائیں انہیں چاہئے کہ وہ جلد سے جلد اپنی فہرستیں مکمل کر کے مرکز میں بھجوا دیں۔ اسی طرح جن افراد نے ابھی تک اس طرف توجہ نہیں کی انہیں چاہئے کہ بہت جلد اپنے وعدوں کی فہرستیں مکمل کر کے مرکز میں بھجوا دیں تاکہ اللہ تعالیٰ کے حضور وہ سَابِقُوْن میں شامل ہوں۔ پیچھے رہنےو الوں میں شامل نہ ہوں۔ یاد رکھو جو لوگ آخری تاریخ کا انتظار کرتے رہتے ہیں وہ بعض دفعہ اپنی غفلت کی وجہ سے آخری تاریخ کو بھی وعدہ نہیں کر سکتے اور ان کا وعدہ ہمارے پاس ایسےو قت میں پہنچتا ہے جبکہ اسے قبول نہیں کیا جا سکتا۔ پس یہ مت خیال کرو کہ 31، جنوری آخری تاریخ ہے۔ اس تاریخ کو تم اپنا وعدہ لکھا دو گے۔ اس لئے کہ اگر تم نے 31، جنوری کو اپنا وعدہ لکھایا تو تم وعدہ کرنے والوں میں آخری آدمی ہو گے اور یہ کوئی خوشی کی بات نہیں ہو سکتی۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ جنت میں جانے والا آخری شخص وہ ہو گا جو دوزخ میں سے سب کے بعد نکلے گا۔7 پس اگر تم بھی وعدہ کرنے والوں میں آخری آدمی بنتے ہو تو یہ تمہارے لئے کوئی خوشی کا مقام نہیں ہو سکتا۔ تمہیں تو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ تم نیکی میں سب سے پہلے حصہ لینے والے بنو اور اگر تم کسی وجہ سے پہلے حصہ لینے والوں میں نہیں آ سکے تو کوشش کرو کہ درمیانی درجہ تمہیں میسر آ جائے اور اگر تم درمیان میں بھی شامل نہیں ہو سکے تو اس کے بعد جس قدر جلد نیکی میں حصہ لے سکتے ہو لے لو اور کم سے کم تم یہ کوشش کرو کہ تم آخری آدمیوں میں سے مت بنو۔
پس مَیں اس خطبہ کے ذریعہ ایک دفعہ پھر جماعتوں اور افراد کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ جلد سے جلد اپنے وعدوں کی فہرستیں مکمل کر کے مرکز میں بھجوا دیں اورجو جماعتیں اپنی لسٹیں بھجوا چکی ہیں۔ اسی طرح جو افراد اپنے وعدے ایک دفعہ لکھا چکے ہیں وہ تمام جماعتیں اور افراد اپنے اپنے وعدوں پر نظر ثانی کریں اور تحریک جدید کے ماتحت زیادہ سے زیادہ قربانیاں کریں۔ اس تحریک کے دس سالوں میں سے سات سال گزر چکے ہیں اور اب صرف تین سال باقی رہ گئے ہیں۔ خدا ہی جانتا ہے کہ ہماری آئندہ نسلوں کو اس تحریک کے ماتحت کام کرنے کا کس حد تک موقع ملے گا لیکن یہ تو ظاہر ہی ہے کہ ہماری نیت اس روپیہ سے ایک ایسا فنڈ قائم کرنے کی ہے جس سے قیامت تک اسلام اور احمدیت کی تبلیغ ہوتی رہے اور قیامت تک مسلمان ہونے والوں اور احمدیت میں داخل ہونے والوں کا ثواب اس تحریک میں شامل ہونے والے دوستوں کو ملتا رہے۔ کیونکہ یہ روپیہ ایک مرکزی تبلیغی فنڈ پر خرچ ہو گا او راس فنڈ کے قیام میں جن لوگوں کا حصہ ہو گا یقیناً ان سب کو اللہ تعالیٰ قیامت تک ثواب عطا فرماتا رہے گا۔ یہ اتنے بڑے فخر کی بات ہے کہ اگر ہماری جماعت کے احباب اس نکتہ کو اچھی طرح سمجھ لیں تو اپنی قربانیاں ان کو حقیر نظر آنے لگیں۔ تم اپنے ایک لڑکے پر خوش ہوتے ہو اور اگر تمہارے دو لڑکے ہوں تو تم اَور بھی زیادہ خوش ہوتے ہو۔ اگر تمہارے تین لڑکے ہو جائیں تو تم اَور زیادہ خوش ہوتے ہو اور اگر تمہارے پانچ یا دس لڑکے ہو جائیں تو تم خوشی سے اپنے جامہ میں پھولے نہیں سماتے اور تم فخر سے اپنے دوستوں کے پاس ان کا ذکر کرتے ہو اور کہتے ہو کہ میرے پانچ یا دس لڑکے ہو گئے ہیں۔ اب میری نسل خوب چلے گی۔ حالانکہ بسا اوقات دیکھا گیا ہے کہ ایک شخص کے دس لڑکے ہوئے مگر وہ دس کے دس بے اولاد رہے اور اس کی نسل کا خاتمہ ہو گیا۔ اسی طرح ہم نے دیکھا ہے کہ ایک شخص کے دس لڑکے ہوئے ان دس لڑکوں میں سے ہر ایک کے آگے پانچ پانچ سات سات ، آٹھ آٹھ لڑکے ہوئے۔ پھر ان لڑکوں کے لڑکے ہوئے اور اسی طرح نسل چلتی چلی گئی مگر سات آٹھ پشتوں کے بعد کوئی ایسی وبا پڑی یا ایسی تباہی آئی کہ اس قوم کا نام و نشان تک مٹ گیا۔ لیکن ہم نے ان لوگوں کے نام کو کبھی مٹتے نہیں دیکھا جنہوں نے خدا تعالیٰ کے نام پر قربانیاں کی ہیں۔ دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں کی نسلیں آج تلاش کرنے کے باوجود نہیں مل سکتیں۔ ممکن ہے وہ بالکل مٹ گئی ہوں اور بالکل ممکن ہے کہ ان فاتح بادشاہوں کی نسلیں آج چوڑھوں اور ساہنسیوں کی شکلوں میں موجود ہوں لیکن ہم انہیں پہچان نہ سکتے ہوں کہ یہ فلاں بادشاہ کی نسل میں سے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے بندے جو اس کی راہ میں قربانیاں کرتے ہیں ان کو ہم نے آج تک کبھی مٹتے نہیں دیکھا۔ بلکہ جب ان کی قربانیاں انتہاء کو پہنچ جاتی ہیں تو بسا اوقات خدا تعالیٰ ان کی جسمانی نسلوں کی بھی حفاظت کرتا ہے۔ چنانچہ دیکھ لو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو قربانیاں کیں۔ ان کا تعلق دین سے ہی ہے۔ ان قربانیوں کے بدلہ میں اگر خدا تعالیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نام کو دنیا میں ہمیشہ قائم رکھتا اور آپ پر قیامت تک درود اور سلام بھیجا جاتا تو یہی انعام کافی تھا۔ مگر خدا تعالیٰ نے انہیں صرف روحانی انعام ہی نہیں دیا بلکہ یہ بھی کیا کہ مَیں تیری نسل کو بھی بڑھاؤں گا اور اسے ہمیشہ سرسبز و شاداب رکھوں گا۔ یہ ایک مادی انعام ہے جو روحانی انعام کے ساتھ آپ کو حاصل ہوا اور جس سے اللہ تعالیٰ کی غرض یہ ہوتی ہے کہ جو لوگ روحانی انعام سے سبق حاصل نہیں کرتے وہ مادی انعام سے ہی سبق حاصل کر لیں کیونکہ دنیا میں ایک طبقہ ایسے لوگوں کا بھی ہے جو اللہ تعالیٰ کے روحانی انعامات کو نہیں دیکھتا بلکہ اس کے مادی انعامات کو دیکھتا ہے۔ اسی طرح بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے روحانی عذاب سے فائدہ نہیں اٹھاتے البتہ کسی پر جسمانی عذاب نازل ہو تو اس سے ان کو بڑی عبرت ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ بعض دفعہ جسمانی عذاب کا نظارہ بھی دکھا دیتا ہے جیسے فرعون اس وقت ایک روحانی عذاب میں بھی مبتلا ہےمگر کئی لوگ ہیں جو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہمیں اگلے جہان کا کیا پتہ۔ معلوم نہیں اسے عذاب ہو رہا ہے یا نہیں ہو رہا۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے جسمانی عذاب کا نظارہ دکھانے کے لئے فرعون کی لاش کی حفاظت کی جو آج تک موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ جو فرعون کی لاش کی حفاظت کے متعلق تھا 8 ایک دنیوی عذاب تھا جو فرعون کو ملا۔چنانچہ آج ہر شخص جو موسیٰ ؑ کو ماننے والا ہے، ہر شخص جو عیسیٰ ؑ کو ماننے والا ہے، ہر شخص جو محمد رسول اللہ ﷺ کو ماننے والا ہے۔ جب بھی فرعون کی لاش کو دیکھتا ہے اس پر *** ڈالتا ہے۔ یہ کتنا بڑا عذاب ہے جو فرعون کو مل رہا ہے۔ پھر اس عذاب کی اہمیت اَور بھی بڑھ جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ فرعون ان بادشاہوں میں سے تھا جو اپنے منہ پر ہمیشہ نقاب اوڑھے رہتے تھے اور انہوں نے لوگوں میں یہ مشہور کر رکھا تھا کہ جو شخص بادشاہ کی شکل دیکھ لے وہ کوڑھی ہو جاتا ہے کیونکہ وہ اس کی ہتک کرتا ہے۔ اسی لئے وہ ہمیشہ اپنے منہ پر نقاب رکھتے تھے یہ بتانے کے لئے کہ ہم ایسے عالیشان انسان ہیں کہ ہماری شکل دیکھنا بھی ہر کس و ناکس کا کام نہیں۔ اور اگر کسی شخص کے لئے بادشاہ اپنا نقاب اٹھا دیتا تھا تو وہ بہت بڑا مقرب سمجھا جاتا تھا اور وہ اپنی قوم کا سردار بن جاتا تھا۔ مگر آج اس کی لاش عجائب گھر میں پڑی ہوئی ہے اور دو دو آنے کا ٹکٹ لے کر ہر چوڑھا اور بھنگی بھی اسے دیکھ سکتا ہے اور جس طرح بندر کا تماشا دیکھا جاتا ہے اسی طرح فرعون کی لاش دیکھی جاتی ہے۔ پھر دیکھنے والا کن جذبات کے ماتحت اسے دیکھتا ہے۔ اچھے جذبات کے ماتحت نہیں بلکہ ہر دیکھنے والا اس پر *** ڈالتا ہے اور کہتا ہے کہ خبیث تُو تھا موسیٰ ؑ کو دکھ دینے والا!
تو اللہ تعالیٰ کبھی کبھی روحانی عذابوں کے ساتھ جسمانی عذاب کا سلسلہ بھی جاری کر دیا کرتا ہے اور کبھی کبھی روحانی انعاموں کے علاوہ جسمانی انعام بھی قربانی کرنے والوں پر نازل کرد یتا ہے۔ پس بالکل ممکن ہے کہ جو لوگ تحریک جدید میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان میں سے اعلیٰ درجہ کی قربانی کرنے والے لوگوں کو اللہ تعالیٰ صرف اپنے روحانی انعامات ہی نہ دے بلکہ اپنے جسمانی انعامات سے بھی انہیں حصہ عطا فرمائے۔ کیونکہ جس طرح ہم نے قربانی کے مختلف درجے مقرر کئے ہوئے ہیں۔ اسی طرح خدا تعالیٰ کے حضور قربانیوں کے مختلف مدارج ہیں۔ پس بالکل ممکن ہے کہ جو لوگ اعلیٰ درجہ کی نیت کے ساتھ قربانی کرنے والے ہیں۔ خدا تعالیٰ ان کے متعلق یہ فیصلہ فرما دے کہ ان کے جسمانی نام کو بھی قائم رکھا جائے گا اور ان کے روحانی نام کو بھی قائم رکھا جائے گا۔ مگر اس کا تعلق روپیہ سے نہیں بلکہ نیت کے ساتھ ہے۔ اگر ایک شخص تحریک جدید میں سو روپیہ چندہ دیتا ہے مگر درحقیقت وہ ایک ہزار روپیہ دینے کی توفیق رکھتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کے سو روپیہ چندہ کو کبھی اعلیٰ قربانی قرار نہیں دے گا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص دس ہزار روپیہ دینے کی توفیق رکھتا ہے مگر وہ صرف ایک ہزار روپیہ چندہ دیتا ہے تو اس کا ایک ہزار روپیہ دینا خدا تعالیٰ کے نزدیک ہرگز اعلیٰ قربانی نہیں کہلا سکتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ انسان کی نیت کو دیکھتا اور اس کے مطابق اس سے سلوک کرتا ہے۔
پس اپنی نیتوں کو درست کرو اور ان نیتوں کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرو تاکہ اس دس سالہ جہاد کا اختتام تمہیں اس دس سالہ جہاد کے آغاز سے بہت زیادہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث کرے اور تاکہ تمہارے بیعت میں داخل ہونے والے دن سے تمہاری موت کا دن تمہارے لئے زیادہ شاندار ہو۔ بالعموم انسان جب کسی صداقت کو قبول کرتا ہے تو ابتدا میں اس کے اندر بڑا ولولہ اور جوش ہوتا ہے مگر آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ لیکن مومن وہ ہے جس کی موت کا دن اس کی بیعت کے دن سے زیادہ بابرکت ہو۔ بیعت کیا ہے؟ بیعت ایک انسان کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دینے کا نام ہے۔ مگر تم جانتے ہو زندگی کی بیعت تو کسی بندے کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے کر کی جاتی ہے مگر موت کی بیعت خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے کر کی جاتی ہے۔ زندگی میں چونکہ انسان خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہیں دے سکتا کیونکہ وہ کوئی جسمانی وجود نہیں۔ اس لئے خدا تعالیٰ کے نمائندوں کے ہاتھ پر بیعت کی جاتی ہے جو جسمانی زندگی کی بیعت کہلاتی ہے۔ مگر ایک بیعت وہ ہے جو خدا تعالیٰ کے ہاتھ پر کی جاتی ہے اور وہ بیعت وہی ہے جو موت کےو قت مومن اپنے خدا کے ہاتھ پر کرتا ہے۔ اور اس میں کیا شبہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ پر بیعت اس بیعت سے بہت زیادہ شاندار ہونی چاہئے جو اس کے کسی نمائندہ کے ہاتھ پر کی جائے۔ پس کامل مومن وہی ہے جس کی زندگی کی بیعت کے دن سے اس کی موت کا دن زیادہ شاندار ہو اوریہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ مومن اپنی نیت اور اپنے اعمال کو اَور بڑھاتا چلا جائے یہاں تک کہ وہ وفات پا کر اپنے رب کے حضور حاضر ہو جائے۔
مَیں امید کرتا ہوں کہ جماعتیں جلد سے جلد اپنے فرائض کی ادائیگی کی طرف توجہ کریں گی اور اسی میعاد کے اندر جو تجویز کی گئی ہے اپنی قربانیوں کا اعلیٰ نمونہ دکھائیں گی۔ یعنی ہندوستان کی جماعتیں اپنے وقت مقررہ کے اندر اس تحریک میں اپنی طاقت کے مطابق حصہ لیں اوربیرونی ممالک کی جماعتیں اس تاریخ کے اندر اندر حصہ لیں جو ان کے لئے مقرر کی گئی ہے اور اس طرح سب جماعتیں اور افراد مل کر اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے اس مستقل بنیاد کو مضبوط کرنے میں مدد دیں جو تحریک جدید کے ذریعہ قائم کی جا رہی ہے تاکہ اللہ تعالیٰ ہماری ناچیز کوششوں کو بار آور کرے اور دنیا میں اسلام کا درخت ایسی مضبوطی کے ساتھ قائم ہو جائے کہ اس کو کوئی دشمن اکھاڑ نہ سکے اور اس کے سایہ سے کوئی شخص بھاگ نہ سکے۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں اللہ تعالیٰ سے دعائیں بھی کرنی چاہئیں کہ وہ اپنے فضل سے ایسا درخت قائم کر دے اوراس کی جڑیں ایسی مضبوط کر دے کہ نہ اسے کوئی شخص اکھاڑ سکے اور نہ اس کے سایہ سے کوئی شخص باہر جا سکے۔ ‘‘ (الفضل 14، جنوری 1942ء)
1: بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی الٰی رسول اللہ ﷺ (الخ)
2 : سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 366 مطبوعہ مصر 1936ء
3: بخاری کتاب المغازی باب قَتْل حَمْزَة بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلَبِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ
4: بخاری کتاب المغازی باب غَزْوَة مُؤتَةَ مِنْ اَرْضِ الشَّامِ
5: الاستیعاب فی مَعْرِفَةِ الْاَصْحَابِ جلد 2 صفحہ 14 مطبوعہ بیروت 1995ء
6: الحج: 38
7: بخاری کتاب الاذان باب فَضْل السُّجُوْد
8: فَالْيَوْمَ نُنَجِّيْكَ بِبَدَنِكَ (یونس: 93)

3
انبیاء کی بعثت کے ساتھ جو تکالیف ہوتی ہیں مومن کو دلیری سے ان کا مقابلہ کرنا چاہئے
( فرمودہ 16، جنوری 1942ء )

تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’مجھ سے ایک سوال کیا گیا ہے۔ ابھی جمعہ کی نماز کے وقت بعض دوستوں میں یہ اختلاف ہؤا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کا فتویٰ ہے کہ اگر نمازیں جمع کی جائیں تو پہلی پچھلی اور درمیان کی سنتیں معاف ہوتی ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ جب نماز ظہر و عصر جمع ہوں تو پہلی اور درمیانی سنتیں معاف ہوتی ہیں یا اگر نماز مغرب اور عشاء جمع ہوں تو درمیانی اور آخری سنتیں معاف ہو جائیں گی لیکن اختلاف یہ کیا گیا ہے کہ ایک دوست نے بیان کیا کہ وہ ایک سفر میں میرے ساتھ تھے۔ مَیں نے جمعہ اور عصر کی نمازیں جمع کر کے پڑھائیں اور جمعہ کی پہلی سنتیں پڑھیں یہ دونوں باتیں صحیح ہیں۔ نمازوں کے جمع ہونے کی صورت میں سنتیں معاف ہو جاتی ہیں۔ یہ بات بھی صحیح ہے اور یہ بھی صحیح ہے کہ رسول کریم ﷺ جمعہ کی نماز سے قبل سنتیں پڑھا کرتے تھے مَیں نے وہ سفر میں پڑھیں اور پڑھتا ہوں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جمعہ کی نماز سے پہلے جو نوافل پڑھے جاتے ہیں وہ نماز ظہرکی پہلی سنتوں سے مختلف ہیں۔ ان کو دراصل رسول کریم ﷺ نے جمعہ کے اعزاز میں قائم فرمایا ہے۔ سفر میں جمعہ کی نماز پڑھنا بھی جائز ہے اور چھوڑنا بھی جائز ہے۔ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سفر میں پڑھتے بھی دیکھا ہے اور چھوڑتے بھی دیکھا ہے۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک مقدمہ کے موقع پر گورداسپور تشریف لے گئے ہوئے تھے اور آپ نے فرمایا کہ آج جمعہ نہیں ہو گا کیونکہ ہم سفر پر ہیں۔ ایک صاحب جن کی طبیعت میں بے تکلفی ہے وہ آپ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ سنا ہے حضور نے فرمایا ہے آج جمعہ نہیں ہو گا۔ حضرت خلیفة المسیح الاول یوں تو اُن دنوں گورداسپور میں ہی تھے مگر اس روز کسی کام کے لئے قادیان آئے تھے۔ ان صاحب نے خیال کیا کہ شاید جمعہ نہ پڑھے جانے کا ارشاد آپ نے اس لئے فرمایا ہے کہ مولوی صاحب یہاں نہیں ہیں۔ اس لئے کہا کہ حضور مجھے بھی جمعہ پڑھانا آتا ہے۔ آپ نے فرمایا ہاں آتا ہو گا مگر ہم تو سفر پر ہیں۔ ان صاحب نے کہا کہ حضور مجھے اچھی طرح جمعہ پڑھانا آتا ہے اور مَیں نے بہت دفعہ پڑھایا بھی ہے۔ آپ نے جب دیکھا کہ ان صاحب کو جمعہ پڑھانےکی بہت خواہش ہے تو فرمایا کہ اچھا آج جمعہ ہو جائے۔
تو مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کو سفر کے موقع پر جمعہ پڑھتے بھی دیکھا ہے اور چھوڑتے بھی۔ اور جب سفر میں جمعہ پڑھا جائے تو مَیں پہلی سنتیں پڑھا کرتا ہوں اور میری رائے یہی ہے کہ وہ پڑھنی چاہئیں کیونکہ وہ عام سنن سے مختلف ہیں اور وہ جمعہ کے احترام کے طور پر ہیں۔
اس کے بعد مَیں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ آج بارش ہو رہی ہے۔ زمیندار بارش کے لئے بہت تڑپ رہے ہیں کیونکہ اس کے نہ ہونے سے غلہ میں کمی ہو جاتی۔ پچھلے سال بھی غلہ کم ہؤا تھا اور آجکل بہت گراں ہے اور ایسے وقت میں بارش بہت مفید ہے۔ گو ایک ہفتہ قبل بھی کچھ بارش ہو گئی تھی مگر وہ پوری نہ تھی آج بہت اچھی ہو گئی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے مگر اس کے ساتھ دیکھ لو کچھ تکلیف بھی ہے۔ نمازیں جمع ہوں گی۔ پھر مَیں نے اعلان کرا دیا ہے کہ جو دوست اپنے اپنے محلوں میں جمعہ پڑھنا چاہیں پڑھ لیں۔ ہاں جو شوق سے یہاں آنا چاہیں اور آ سکتے ہوں وہ آ جائیں۔ بہت سے بوڑھوں، بچوں، کمزوروں اور کام والوں نے اپنے اپنے محلہ میں ہی پڑھا ہے اور جو تندرست تھے، آ سکتے تھے یا جن کے پاس کافی کپڑے تھے وہ یہاں آ گئے ہیں۔ پھر بارش ہو رہی ہے، پانی ہے اور اگرچہ ہماری شریعت نے ہر موقع کے لئے سہولت پیدا کر دی ہے اور اجازت دی ہے کہ جگہ کی تنگی کی صورت میں ایک دوسرے کی پیٹھوں پر بھی سجدہ کر سکتے ہیں پھر بھی جو لوگ بعد میں آئیں گے ان کو باہر کھڑا ہو کر نماز پڑھنی پڑے گی اور ان کے ہاتھ پاؤں اور پیشانی گیلی ہو گی۔ پھر جن کو نماز کے لئے چل کر آنا پڑا ہے۔ ان کو کیچڑ میں تکلیف ہوئی، کپڑے خراب ہوئے یا جن کو سَودا سلف کے لئے جانا پڑے گا ان کو کیچڑ میں سے گزرنا پڑے گا پھر جن لوگوں نے وقت پر مکانوں کی چھتوں پر لپائی نہیں کرائی ان کی چھتیں ٹپکتی ہوں گی۔ جس سے ان کو تکلیف ہو گی۔ بعض لوگوں کے پاس جانور باندھنے کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ عام حالت میں تو وہ صحن میں باندھ لیتے ہیں مگر ایسی بارش اور سردی میں انہیں ان کو اپنے کمروں میں باندھنا پڑتا ہے اور وہ وہیں گوبر وغیرہ کرتے ہیں، ان کو بدبو آتی ہے، تکلیف ہوتی ہے مگر وہ مجبور ہیں۔ تو جہاں بارش اللہ تعالیٰ کا فضل ہے وہاں اس میں کچھ تکلیف کے پہلو بھی ہیں۔ پھر اس میں اندھیرا ہوتا ہے۔ بعض اوقات کڑک ہوتی ہے جس سے بچوں اور کمزور لوگوں کے دل ہل جاتے ہیں۔ بعض اوقات کمزور بچے ڈر سے مر بھی جاتے ہیں۔ پھر بارش میں بعض اوقات بجلی بھی چمکتی ہے اورکبھی گرتی بھی ہے جس سے جان و مال کا نقصان ہو جاتا ہے اور یہ سب اس میں تکلیف کے پہلو ہیں۔ مگر اس فضل کے مقابلہ میں لوگ ان تکالیف کی کوئی پروا ہ نہیں کرتے۔ سب جانتے ہیں کہ بارش ہو گی تو اس کےساتھ کیچڑ بھی ہو گا۔ کیا کوئی ایسا زمینداربھی ہے جو سمجھتا ہو کہ بارش ہو گی تو زمین گیلی نہ ہو گی اورکیچڑ نہ ہو گا یا پھر کوئی ایسا زمیندار ہے جو یہ نہ جانتا ہو کہ بارش ہونے سے سردی بڑھ جائے گی۔ پھر کوئی نہیں جو یہ نہ جانتا ہو کہ بارش کے ساتھ کڑک بھی ہوتی ہے۔ بعض اوقات بجلی بھی گرتی ہے جس سے لوگوں کو نقصان بھی پہنچتا ہے۔ سب ان باتوں کو جانتے ہیں مگر پھر بھی یہی دعائیں کرتے ہیں کہ یا اللہ بارش ہو، یا اللہ بارش ہو۔ وہ کیوں یہ دعائیں کرتے ہیں جب بارش سے تکلیف بھی ہوتی ہے۔ اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ بارش کے ساتھ جو فضل ہوتا ہے اس سے جو فوائد حاصل ہوتے ہیں ان کے مقابلہ میں تکلیف بہت کم ہے۔
یہی حال انبیاء کی بعثت کا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب انبیاء آتے ہیں تو ان کی مثال بھی بارش کی ہوتی ہے۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِيْهِ ظُلُمٰتٌ وَّ رَعْدٌ وَّ بَرْقٌ ۔1 جس طرح بادلوں میں سے بارش ہوتی ہے تو جہاں اس کے بےشمار فائدے اور برکتیں ہوتی ہیں وہاں اس میں ظلمات، کڑک اور بجلی بھی ہوتی ہے۔ اس سے کچھ تکلیف بھی ہوتی ہے اوربعض اوقات نقصان بھی ہوتا ہے۔ اسی طرح انبیاء کی بعثت کا حال ہے۔اس میں برکتیں بھی بہت ہوتی ہیں مگر کچھ تکلیف بھی پہنچتی ہے لیکن جس طرح بارش کی تکلیف کے باوجود اس کی ناقدری نہیں کی جاتی۔ اسی طرح انبیاء کی بعثت کی بھی ناقدری نہیں کرنی چاہئے۔
اس زمانہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایک مامور مبعوث فرمایا اور اس سے تعلق پیدا کرنے والوں کو کچھ تکالیف بھی پہنچتی ہیں، گالیاں سننی پڑتی ہیں، بعض کو گھروں سے نکالا گیا۔ چونکہ انبیاء کی مثال بھی بادل کی سی ہوتی ہے ان کی بعثت کے ساتھ بھی اسی طرح کچھ تکالیف ہوتی ہیں جس طرح بارش کے ساتھ مگر بارش کی تکلیف کے باوجود سب یہی دعا کرتے ہیں کہ بارش ہو اورتھوڑی بہت تکالیف کے باوجود اس کی قدر کرتے ہیں۔ اسی طرح انبیاء کے زمانہ کی بھی قدر کرنی چاہئے او رتکالیف سے نہیں ڈرنا چاہئے کیونکہ یہ جو تکالیف ہیں ان کی قیمت اس وقت معلوم ہو گی جب نتیجہ نکلے گاجب فصل پکے گی تو معلوم ہو گا کہ یہ اندھیرے اور یہ کڑک اور برق کتنی قیمتی تھی۔ اگر یہ نہ ہوتی تو زمیندار جب اپنے کھیت میں فصل پکنے پر جاتا تو سوائے تھوڑے سے سوکھے اور جلے ہوئے دانوں کے اس کے ہاتھ کچھ نہ آ سکتا۔ لیکن بارش ہونے کے بعد جب اس کی فصل پکتی ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اندھیرا اور وہ کڑک اور وہ بجلی کتنی مفید تھی۔ اسی کے نتیجہ میں اس کے ایک سال کے لئے غلہ پیدا ہؤا، کپڑوں اور دوسرے اخراجات مثلاً شادیوں بیاہوں کے لئے سامان میسر آیا۔ ایک ایک دانہ کے ستّر ستّر اسّی اسّی اور سَو سَو ہوئے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے انبیاء کے ساتھ بھی کچھ تکالیف ہوتی ہیں مگر جو انسان ان تکالیف کے باوجود اس نعمت کی قدر کرتا ہے اس کی مثال ویسی ہی ہوتی ہے جیسے وہ زمیندار جس کی فصل پر اچھی بارش برس چکی ہو۔
پس بارش سے سبق سیکھنا چاہئے۔ زمیندار طبقہ بوجہ کم تعلیم یافتہ ہونے کے اور بوجہ اس کے کہ اسے قرآن کریم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب بار بار پڑھنے اور سننے کا موقع نہیں ملتا۔ ان کے ایمان عام طور پر تازہ نہیں ہوتے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے موٹی موٹی مثالیں بیان فرمائی ہیں۔ قرآن کریم میں ہر قسم کی مثالیں موجود ہیں۔ جیسے یہ مثال ہے جس میں یہ بتایا ہے کہ انبیاء کے زمانہ کی مثال ایسے پانی کی طرح ہوتی ہے جو بادلوں سے برستا ہے اس کے ساتھ اندھیرے بھی ہوتے ہیں، کڑک بھی ہوتی ہے، بجلیاں بھی ہوتی ہیں مگر پھر بھی لوگ اس کے لئے دعائیں کرتے ہیں اور اس کے فوائد کے مقابلہ میں اس کی تکالیف کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔ اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہو جاتا کہ اگر ہر زمیندار دس دفعہ پھسلے تو پھر بارش ہو گی تو دیکھو کس طرح زمیندار بیس بیس دفعہ پھسلتے یا اگر خدا تعالیٰ یہ قانون بنا دیتا کہ ہر بارش کے ساتھ بیس دفعہ کڑک پیدا ہو گی تو زمیندار کہتے کہ خدایا تیس دفعہ کڑک پیدا ہو مگر بارش ہو جائے۔ تو ان باتوں کی بارش کے فوائد کے مقابلہ میں انسان کیا پرواہ کرتا ہے۔ آخر ہر انسان نے ایک روز مرنا ہے اور خدا تعالیٰ سے ہر ایک کا واسطہ پڑنا ہے۔ مضبوط سے مضبوط پہلوان بھی مرتے ہیں اورجہاں جا کر انسان نے فصل کاٹنی ہے وہاں اگر غلہ نکلا ہؤا ہو تو یہ تکالیف کیا حقیقت رکھتی ہیں۔ جب موت سامنے نہ ہو تو انسان پروا نہیں کرتا مگر جب وہ قریب ہو تو چاہتا ہے کہ اگر ایک گھنٹے کی بھی مہلت مل جائے تو مَیں ساری تلافیاں کر دوں۔ مگر اس وقت اس ارادہ کا کیا فائدہ۔ یہ تو اسی وقت فائدہ دے سکتا ہے جب قربانی کرنے کا موقع اور وقت ہو۔ اب دیکھو اگر اس وقت بارش نہ ہوتی اور دو تین ماہ بعد مثلاً اپریل میں ہوتی تو اس وقت زمیندار یہی دعا کرتے کہ خدایا اب بارش نہ ہو کیونکہ اس وقت بارش ہو تو باقی غلہ بھی خراب ہو جاتا ہے۔
تو انبیاء کی بعثت کے ساتھ جو تکالیف ہوتی ہیں مومن کو دلیری سے ان کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ جب وہ ایک دفعہ دین کو سچا سمجھ کر قبول کرتا ہے تو پھر خواہ اسے کتنی تکالیف آئیں، خواہ اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں، ہاتھ کاٹ دئیے جائیں ، پاؤں کاٹ دئیے جائیں اسے ہرگز کمزوری نہ دکھانی چاہئے اور دین کے ساتھ اس طرح چمٹے رہنا چاہئے جس طرح چیونٹا جسے پنجابی میں ‘‘کاڈا’’ کہتے ہیں چمٹ جاتا ہے تو پھر چھوڑتا نہیں۔
مجھے اپنا بچپن کا ایک واقعہ یاد ہے میاں جان محمد صاحب کشمیری اسی مسجد کے امام تھے۔ ہمارے دادا صاحب نے انہیں مقرر کیا تھا۔ وہ ہمارے گھر کا کام کاج بھی کرتے تھے۔ ایک دن کوئی دوست مچھلی تحفہ کے طور پر لائے۔ ہماری ڈیوڑھی کے آگے ایک تخت پوش بچھا رہتا تھا۔ وہ اس پر بیٹھ کر مچھلی صاف کرنے لگے اور ہم چار پانچ بچے تماشہ دیکھنے کے لئے پاس بیٹھ گئے۔ میرے ہاتھ میں ایک پیڑا تھا جو مَیں کھا رہا تھا۔ مچھلی کے خیال میں شاید میرا ہاتھ تخت پر لگ گیا اور ایک چیونٹا پیڑے پر چڑھ گیا۔ مَیں جب اسے کھانے لگا تو اس نے ہونٹ پر کاٹ لیا۔ اسے بہتیرا کھینچا اور چھڑانے کی کوشش کی مگر اس نے نہ چھوڑا۔ آخر اسے میاں جان محمد صاحب نے چھری سے کاٹ دیا۔ یہی حال مومن کا ہونا چاہئے۔ یا تو وہ دین کو اختیار ہی نہ کرے اور اگر کرے تو پھر اس کے ساتھ اس طرح چمٹ جائے جس طرح چیونٹا چمٹ جاتا ہے۔ اور پھر چاہے اسے کاٹ ڈالا جائے چھوڑتا نہیں۔ اگر وہ مارا بھی جائے تو کوئی ہرج کی بات نہیں۔ ایمان کی فصل تو مرنے کے بعد ہی کٹتی ہے۔ پس اگر وہ مر بھی جائے گا تو اتنا ہی فرق پڑے گا کہ لوگوں کی فصل اگر مئی میں کٹتی تو اس کی فروری میں کٹ جائے گی اور اس کے دانے پہلے گھر آجائیں گے۔
پس مومن کو چاہئے کہ پہلے تو صداقت کو سوچ سمجھ کر مانے اور جب مان لے تو پھر چھوڑے نہیں اور اس کی راہ میں جو تکالیف آئیں ان کی کوئی پروا ہ نہ کرے۔ ‘‘
(الفضل 24، جنوری 1942ء)
1: البقرة: 20

4
چندہ تحریک جدید سالِ ہشتم کے متعلق آخری اعلان
( فرمودہ 23، جنوری 1942ء )

تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’مَیں کھانسی کی تکلیف کی وجہ سے آج زیادہ نہیں بول سکتا۔ لیکن چونکہ تحریکِ جدید سال ہشتم کے وعدوں کی معیاد میں اب صرف ایک ہفتہ باقی رہ گیا ہے یعنی 31، جنوری کے ختم ہونے تک ہی ہندوستان کے دوستوں کے وعدے قبول کئے جا سکتے ہیں۔ سوائے ان علاقوں سے آنے والے وعدوں کے جن کا استثنیٰ پہلے کیا جا چکا ہے۔ اس لئے مَیں نے مناسب سمجھا کہ ایک دفعہ پھر جماعت کے دوستوں کو اس چندہ کی اہمیت اور اس میں شمولیت کی طرف اختصار کے ساتھ توجہ دِلا دوں۔
مَیں کہہ چکا ہوں کہ اب یہ تحریک موجودہ شکل میں اپنے اختتام کے ایام کے قریب پہنچ رہی ہے اور اس کے ختم ہو جانے کے بعد پھر اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس میں حصہ لینے کی پھر کوئی اَور صورت پیدا ہو گی یا نہیں۔ اور جیسا کہ مَیں بتا چکا ہوں ہماری نیت یہ ہے کہ اس چندہ سے تبلیغِ اسلام کے لئے ایک مستقل فنڈ کھولا جائے جس کے ذریعہ مبلغین کے گزارہ کی صورت پیدا کی جائے تاکہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو آئندہ ہمارے چندے مبلغوں کے گزارہ کا انتظام کرنے کے لئے نہ ہوں بلکہ صرف تبلیغ و اشاعت کے کاموں کے لئے ان کی ضرورت باقی رہ جائے۔ جیسے اشتہارات ہیں یا کتابیں ہیں یا تبلیغ پر جانے والوں کے لئے کرائے ہیں یا مختلف ممالک میں مساجد کی تعمیر وغیرہ ہے۔ غرض جو عارضی یا وقتی کام ہیں ان کے لئے تو چندےکی ضرورت رہ جائے لیکن کارکنوں کے گزارہ کے لئے کسی چندہ کی تحریک نہ ہو بلکہ اسی تحریک جدید کے فنڈ سے ان کے گزارہ کا انتظام ہوتا رہے۔ اسی طرح ہمارا ارادہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے اور ہمارے کام میں برکت ڈالے تو اس فنڈ سے زیادہ سے زیادہ مبلغ پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ دنیا میں سینکڑوں ممالک ہیں اور ان ممالک میں سینکڑوں زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ان تمام ممالک میں رہنے والے لوگوں تک خدا تعالیٰ کا کلام پہنچانے اور اُس پیغام کو پہنچانے کے لئے جو اس آخری زمانہ میں اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے ذریعہ بھیجا اور اسلام کو دنیا کے کونہ کونہ میں پھیلانے کے لئے ہمیں سینکڑوں مبلغوں کی ضرورت ہے اور پھر ان سینکڑوں زبانوں کو سیکھنے کی ضرورت ہے جن کو سیکھنے کے بغیر ہم اپنے تبلیغی فرض کو ادا نہیں کر سکتے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض زبانیں ایسی ہیں جن کے جان لینے کی وجہ سے انسان تعلیم یافتہ گروہ تک اپنے خیالات دنیا بھر میں پہنچا سکتا ہے مثلاً عربی ہے، انگریزی ہے، جرمن ہے، سپینش ہے، پرتگیزی ہے، فرانسیسی ہے۔ یہ چند زبانیں ایسی ہیں جن کو سیکھ کر انسان قریباً قریباً ساری دنیا میں تبلیغ کر سکتا ہے لیکن یہ تبلیغ صرف تعلیم یافتہ طبقہ تک محدود رہے گی۔ عوام کا گروہ جو بہت بڑی اکثریت رکھتا ہے اس کے کانوں تک خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کے لئے صرف ان زبانوں کا جاننا کافی نہیں بلکہ مقامی زبانوں کا جاننا بھی ضروری ہے مثلاً افغانستان میں چلے جاؤ وہاں بھی تمہیں ایک ایسا تعلیم یافتہ گروہ مل جائے گا جو عربی اور فارسی جانتا ہو گا۔ خصوصاً کابل اور اس کے اردگرد جو علاقہ ہے وہاں کےر ہنے والے لوگ فارسی ہی میں کلام کرتے ہیں اور انہیں فارسی زبان میں آسانی کے ساتھ تبلیغ کی جا سکتی ہے لیکن خوست کے علاقہ میں سوائے پشتو زبان جاننے والے کے اَور کوئی تبلیغ نہیں کر سکتا۔ اسی طرح افغانستان کے بعض اَور علاقے ایسے ہیں جہاں صرف پشتو زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ پھر ہندوستان اور کابل کے درمیان بعض ایسے قبائل ہیں جن میں تبلیغ کرنے کے لئے صرف پشتو جاننا کافی نہیں بلکہ مقامی زبانیں جاننا بھی ضروری ہے۔ یہ قبائل چالیس چالیس، پچاس پچاس ہزار کی تعداد میں ہیں اور صرف اپنی زبان میں ہی بات کو سمجھ سکتے ہیں کسی اَور زبان میں اُن سے بات کی جائے تو وہ نہیں سمجھ سکتے۔اسی طرح ہندوستان کے شمالی پہاڑوں پر چلے جاؤ تو تمہیں اُن پہاڑی لوگوں میں نہ کوئی عربی جاننے والا ملے گا، نہ کوئی فارسی جاننے والا ملے گا، نہ کوئی جرمن زبان جاننے والا ملے گا، نہ کوئی فرانسیسی زبان جاننے والا ملے گا، نہ کوئی اُردو جاننے والا ملے گا، نہ کوئی پنجابی جاننے والا ملے گا اور نہ کوئی ہندی جاننے والا ملے گا۔ یہ لوگ کسی جگہ دس ہزار کی تعداد میں رہتے ہیں، کسی جگہ بیس ہزار کی تعداد میں رہتے ہیں، کسی جگہ تیس ہزار کی تعداد میں رہتے ہیں، کسی جگہ چالیس ہزار کی تعداد میں رہتے ہیں اور کسی جگہ پچاس ہزار کی تعداد میں رہتے ہیں اور ان سب کی اپنی اپنی مقامی زبانیں ہیں۔
تو دنیا بھر میں تبلیغِ اسلام پہنچانے کے لئے ہمیں سینکڑوں زبانیں جاننے والوں کی ضرورت ہے۔ آخر جس طرح انگریزی جاننے ولے اس بات کےمستحق ہیں کہ خدا تعالیٰ کا پیغام ان کو پہنچایا جائے، جس طرح جرمن اس بات کےمستحق ہیں کہ خدا تعالیٰ کا پیغام ان کو پہنچایا جائے، جس طرح فرانسیسی اس بات کےمستحق ہیں کہ خدا تعالیٰ کا پیغام ان کوپہنچایا جائے، جس طرح عربی جاننے والے اس بات کےمستحق ہیں کہ خدا تعالیٰ کا پیغام ان کو پہنچایا جائے، جس طرح فارسی جاننے والے اس بات کےمستحق ہیں کہ خدا تعالیٰ کا پیغام ان کو پہنچایا جائے اسی طرح جو لوگ اپنی اپنی لوکل اور مقامی زبانیں بولتے ہیں وہ بھی اس بات کےمستحق ہیں کہ خدا تعالیٰ کا پیغام ان کو پہنچایا جائے اور یہ کوئی معمولی کام نہیں جب تک ہم بیسیوں سے شروع کر کے سینکڑوں اور ہزاروں تک اپنے مبلغین کی تعداد کو نہ پہنچا دیں اور جب تک ہر ملک ہر علاقہ اور ہر حصہ کی زبانیں جاننے والے لوگ ہم میں موجود نہ ہوں۔ اس وقت تک اس کام کو ہم صحیح طور پر سر انجام نہیں دے سکتے۔
پس یہ کوئی معمولی کام نہیں اور نہ ہی یہ کام اس چندہ سے پورے طور پر ہو سکتا ہے جو تحریک جدید کے ذریعہ جمع کیا جا رہا ہے۔ ہاں اس روپیہ کو بیج کے طور پر استعمال کر کے اگر ہم اس کام کو بڑھانا شروع کر دیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسا وقت آ سکتا ہے جب ہر زبان جاننے والے مبلغ ہمارے پاس موجود ہوں اورہر علاقہ میں تبلیغ کرنے کے لئے ہم اپنے افراد کو بھیج سکتے ہوں خواہ وہ علاقہ ایسا ہو جس میں صرف دس ہزار افراد ایک زبان کے جاننے والے ہوں اور خواہ اس سے بھی چھوٹا علاقہ ہو۔ بہرحال یہ معمولی کام نہیں بلکہ اس کے لئے بیسیوں سال کی محنت درکار ہے اور اس کے لئے متواتر بیداری اورمسلسل ہوشیاری اور قربانی کے ساتھ جماعت کو مبلغ تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ تب ایک لمبے عرصہ کے بعد ہماری جماعت یہ دعویٰ کر سکے گی کہ دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں جس میں ہم نے خدا اور اس کے رسول کا پیغام نہ پہنچا دیا ہو۔ اور یہی غرض ہے جس کے لئے تحریک جدید کا یہ فنڈ قائم کیا گیا ہے۔
مَیں نے اس سال خصوصیت کے ساتھ جماعت کے دوستوں کو توجہ دلائی تھی کہ وہ اس سال پہلے سالوں سے نمایاں اضافہ کے ساتھ وعدے کریں اور قربانی کے میدان میں گزشتہ سالوں سے آگے قدم رکھیں چنانچہ اس سال کی تحریک کے ابتدا میں جماعت نے جس جوش کے ساتھ اس میں حصہ لیا تھا اس کو دیکھتے ہوئے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ اس سال کی تحریک کا چندہ خدا تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ سال سے بہت بڑھ جائے گا مگر مَیں دیکھتا ہوں کہ جلسہ سالانہ کے بعد جماعتوں میں سستی پیدا ہو گئی ہے جو نہایت ہی افسوسناک امر ہے۔ ممکن ہے یہ میری ہی غلطی ہو اورجماعتیں چندوں کی فہرستیں تیار کر رہی ہوں اور ان کا یہ خیال ہو کہ آخری تاریخ تک ہم اپنی لسٹیں بھجوا دیں گے لیکن بہرحال اس وقت تک وعدوں کے جو اندازے یہاں پہنچ چکے ہیں وہ نہ صرف زیادہ نہیں بلکہ پچھلے سال کے وعدوں سے کم ہیں۔ دسمبر کے شروع حصہ میں اس سال کے وعدوں کی رقم پچھلے سال سے دس بارہ ہزار روپیہ زیادہ تھی۔ لیکن اب آ کر گزشتہ سال کے مقابلہ میں پانچ چھ ہزار روپیہ کی کمی ہو گئی ہے۔ ممکن ہے اس ماہ کے آخر تک یہ کمی پوری ہو جائے بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو پچھلے سال سے موجودہ سال کے وعدوں کی رقم زیادہ ہو جائے۔ لیکن سرِ دست ہم اپنی جماعت کے دوستوں کے موجودہ وعدوں سے ہی اندازہ لگا سکتے ہیں اور اگر خدانخواستہ یہی حقیقی اندازہ ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ جماعت کے ایک طبقہ میں خطرناک سستی پیدا ہو گئی ہے۔ پس مَیں آج پھر جبکہ وعدوں کی میعاد کا وقت ختم ہو رہا ہے جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ جہاں جہاں تحریک جدید کے کارکن موجود ہیں وہ فوراً اس کام میں مشغول ہو جائیں اور اپنی اپنی جماعتوں کی لسٹیں مکمل کر کے بہت جلد مرکز میں بھجوا دیں۔ اسی طرح وہ افراد جو اب تک تحریک جدید کے چندہ کے متعلق کوئی وعدہ نہیں لکھا سکے ان کو بھی مَیں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ جلد سے جلد اپنے وعدے لکھا دیں۔
قادیان کی جماعت باوجود دشمنوں اور منافقوں کے اعتراضات کے ہمیشہ قربانیوں کے میدان میں دوسروں سے آگے رہی ہے اور مَیں امید کرتا ہوں کہ اس سال بھی قادیان کی جماعت پچھلےسال سے بڑھ کر رہے گی اور اپنی قربانی کے معیار کو بلند کر کے نہ صرف اپنا مقام قائم رکھنے کی کوشش کرے گی بلکہ اسے پہلے سے بھی بڑھا کر دکھا دے گی۔
پھر ہمارے ہزاروں بھائی ایسے ہیں جو میدانِ جنگ میں گئے ہوئے ہیں ان تک اخبار نہیں پہنچ سکتا کہ اس ذریعہ سے انہیں تحریک کا علم ہو اور دفتر کے پاس ان کے پتے نہیں ہیں کہ براہِ راست ان کو تحریک کی جا سکے اور چونکہ ان ہندوستانی افراد اور ہندوستانی جماعتوں کے لئے جو ہندوستان سے باہر ہیں وعدوں کی آخری تاریخ 30، اپریل ہے اور ان جنگ پر جانے والے احمدیوں میں سے کسی کا باپ ہندوستان میں موجود ہے کسی کا بیٹا موجود ہے کسی کا بھائی موجود ہے اور کسی کا کوئی اَور عزیز اور دوست موجود ہے اور انہیں اپنے اپنے عزیزوں اور دوستوں کے پتے معلوم ہیں۔ اس لئے مَیں ایسے تمام دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ چونکہ باہر اخبارات نہیں پہنچ سکتے اس لئے وہ خطوط کے ذریعہ اپنے اپنے عزیزوں رشتہ داروں اور دوستوں کو اطلاع دے دیں کہ تحریکِ جدید کے آٹھویں سال کے آغاز کا اعلان ہو چکا ہے۔ انہیں چاہئے کہ وہ جلد سے جلد اپنے وعدوں کی اطلاع یہاں بھجوا دیں۔
مَیں اس موقع پر اس امر پر خوشی کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ میری تحریک پر بعض لوگوں نے اپنے چندوں میں نمایاں طور پر اضافہ کیا ہے چنانچہ تین چار دن ہوئے ایک دوست کی طرف سے خط آیا کہ پہلے انہوں نے 108 روپے کا وعدہ کیا تھا مگر پھر میری اس تحریک پر کہ وعدوں میں اضافہ کرنا چاہئے انہوں نے 108 کی بجائے 337 روپے کا وعدہ کر دیا جو پہلے وعدہ سے تین گُنے سے بھی زیادہ ہے۔ اسی طرح اور بھی کئی دوست ہیں جنہوں نے نمایاں اضافوں کے ساتھ وعدے کئے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ کی یہ ایک عجیب قدرت ہے کہ غرباء میں قربانی کی مثالیں زیادہ پائی جاتی ہیں حالانکہ قحط کی وجہ سے غرباء سخت تنگی سے گزارہ کر رہے ہیں اور ان کی مالی حالت کمزور ہے۔شاید اس میں حکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ چونکہ جانتا ہے کہ اس کے غریب بندے دنیا میں تکالیف سے دن گزار رہے ہیں اس لئےوہ چاہتا ہے کہ آخرت میں ان کےگھر کو بہتر بنا دے اور اسی لئے وہ ان کے دل میں دین کے لئے ہر قسم کی قربانیاں کرنے کا جوش پیدا کر دیتا ہے تاکہ ان کی دنیوی تکالیف کا آخرت میں ازالہ ہو جائے اور وہ اللہ تعالیٰ کی زیادہ سے زیادہ نعماء کے مستحق ہو جائیں۔
بہرحال اب ہندوستان کی جماعتوں اور افراد کے لئے تحریک جدید کے وعدوں میں صرف سات دن باقی رہ گئے ہیں۔ پس مَیں اس سال کی تحریک کے وعدوں کے لئے آج آخری اعلان کرتا ہوں اس کے بعد مَیں کوئی اَور اعلان نہیں کر سکوں گا کیونکہ اگلا جمعہ 31 تاریخ کو ہے جس کے بعد وعدوں کے بارہ میں کوئی تحریک نہیں کی جا سکے گی۔
پس مَیں مقامی جماعت کے دوستوں اور بیرونی جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ فوراً اس کام میں لگ جائیں اور وقت ختم ہونے سے پہلے پہلے تمام جماعتیں اور افراد اپنے اپنے وعدوں کی اطلاع مرکز میں پہنچا دیں اور ایسا نیک نمونہ دکھائیں کہ جس طرح پہلے ہر سال کی تحریک گزشتہ سالوں سے بڑھ کر رہی ہے اسی طرح اس سال کی تحریک گزشتہ سال کے مقابلہ میں زیادہ کامیاب رہے بلکہ گزشتہ تمام سالوں سے اس سال کی تحریک بڑھ کر رہے تاکہ وعدوں میں زیادتی کی جو تحریک مَیں نے اس دفعہ کی ہے اس کا عملی نمونہ بھی ہماری جماعت پیش کر سکے۔ ‘‘ (الفضل 24، جنوری 1942ء)

5
خدا تعالیٰ کی حقیقی محبت اور عظمت اپنے دلوں میں پیدا کرو اور اُسے قومی جذبہ بناؤ
( فرمودہ 30 جنوری 1942ء )

تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’پہلے تو مَیں گزشتہ جمعہ کے خطبہ کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ مَیں نے گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں اس خوف کا اظہار کیا تھا کہ اس سال کے چندہ تحریکِ جدید کے جو وعدے ہیں وہ بجائے گزشتہ سال سے زیادہ ہونے کے اس وقت کمی پر جا رہے ہیں اور جماعت کے دوستوں کو تحریک کی تھی کہ جلد سے جلد اپنے وعدے بھجوا کر اس کمی کو پورا کر دیں۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے جماعت کو اس بات کی توفیق دی کہ پیشتر اس کے کہ دوسرا جمعہ آئے اس نے گزشتہ کمی بھی پوری کر دی اور گزشتہ سال سے وعدے بھی بڑھ گئے۔ کام کرنے والی قوموں کے لئے یہ اصل مدنظر رکھنا نہایت ضروری ہوتا ہے کہ اس کا ہر قدم پہلے کی نسبت آگے پڑے اور ان کے کام بڑھتے چلے جائیں۔ کام کےلحاظ سے دُنیا میں کوئی ایسی قوم نہیں جو کچھ نہ کچھ نہ کرتی ہو۔ لیکن فرق کام کرنے اورنہ کرنے والی قوموں میں یہی ہوتا ہے کہ نکمی قوم ایک جگہ پر کھڑی رہتی ہے یا اس کا قدم پیچھے پڑنے لگتا ہے اورجن کو خدا تعالیٰ نے بڑھانا ہوتا ہے اور جو کام کرنے والی ہوتی ہیں ان کا ہر قدم پہلے سے آگے پڑتا ہے اور اس لئے سلسلہ کے کاموں کے متعلق مجھے ہمیشہ یہ خیال رہتا ہے کہ ہمارا ہر قدم پہلے سے آگے پڑے۔ اور اس وقت تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت ترقی کی طرف ہی جا رہی ہے۔ کیا بلحاظ تعداد کے اور کیا بلحاظ قربانیوں کے۔
دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ باوجود اس کے کہ بعض باتیں ایسی بھی ہیں جو اس وقت ہماری خاص توجہ چاہتی ہیں۔ میری مراد ان نقائص سے ہے جو جماعتوں کے بڑھنے سے پیدا ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے بعض ہم میں سے بھی بعض میں پیدا ہو رہے ہیں اور وہ لوگ ایمان اور اس کے اثرات کے لحاظ سے اس پایہ کے نہیں جیسے کہ ہونے چاہئیں۔ ایسے نقص اس وقت تک دور نہیں ہو سکتے جب تک کلّی طور پر ساری جماعت میں یہ احساس پیدا نہ ہو جائے کہ ایسا وجود جماعت میں برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ اصلاح کی طرف انسان کا پہلا قدم احساس کی درستی کے ساتھ اٹھتا ہے اور جب کسی قوم میں اصلاح کا زبردست جذبہ پیدا ہو جائے تو یا تو ایسے کمزور افراد اس میں آتے ہی نہیں اور اگر آتے ہیں تو اپنی اصلاح کر لیتے ہیں۔ جتنا جذبہ کسی قوم میں مضبوط پیدا ہو جائے اتنا ہی وہ کمزور افراد کو برداشت نہیں کر سکتی۔ مسلمانوں میں بعض باتیں ایسی ہیں جو بہت بڑی ہیں مگر ان کے متعلق ان میں صحیح جذبہ پیدا نہیں ہوا۔ اس لئے ایسے افراد ان میں ہیں جو ان باتوں میں کمزوری دکھا جاتے ہیں۔
مسلمانوں سے میری مراد اس پاک زمانہ کے مسلمان نہیں جب وہ صحیح طور پر اسلام کی تعلیم پر چلتے تھے بلکہ میری مراد موجودہ زمانہ کے گرے ہوئے مسلمانوں سے ہے۔ انہیں دیکھ کر مجھے ہمیشہ تعجب ہوتا ہے کہ ان میں خدا تعالیٰ کی محبت اتنی نہیں جتنی رسول کریم ﷺ کی ہے۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ آج مسلمانوں میں رسول کریم ﷺ کی اتنی محبت ہے جتنی ہونی چاہئے بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ سے ان کی محبت خدا تعالیٰ کی محبت سے بڑھی ہوئی ہے۔ گو وہ بھی کم ہے۔ نسبتی طور پر اگر کمی ہو تو وہ بھی ایمان کو قائم رکھنے والی چیز ہوتی ہے مگر وہ نسبت بھی آج ٹوٹ چکی ہے۔ رسول کریم ﷺ کی شان کے خلاف کوئی مسلمان کوئی بات نہیں کرتا مگر ایسے ہزاروں مسلمان ہیں جو خدا تعالیٰ کی شان کے خلاف باتیں کر دیتے ہیں۔ ہزاروں، لاکھوں مثالیں اس قسم کی مسلمانوں میں پائی جاتی ہیں۔
مَیں جب حج کے لئے گیا تو اسی جہاز میں بعض مسلمان نوجوان بھی سوار تھے جو بیرسٹری کی تعلیم کے لئے انگلستان جا رہے تھے اور وہ سارا دن مذہب اور خدا تعالیٰ کی ذات کے خلاف حملے کر تے رہتے تھے۔ خدا تعالیٰ کی ہستی اس کی صفات اور مذہب کی ضرورت کی ہنسی اڑاتے تھے۔ کئی دن تک یہی حال رہا۔ ان میں ایک ہندو نوجوان بھی تھا اور وہ بھی ویسا ہی دہریہ مزاج تھا جیسے مسلمان۔ وہ سارے مل کر اعتراض کرتے رہتے تھے اور مَیں ان کو جواب دیتا تھا۔ ان کے اعتراض بھی کوئی علمی اعتراض نہ ہوتے تھے بلکہ ہنسی مذاق کی قسم کے اعتراضات کرتے تھے بیشتر اعتراض اس قسم کے ہوتے تھےکہ مثلاً جہاز کا سٹیوارڈ (Steward) جو کھانا لاتا ہے وہ پانچ چھ پلیٹیں اٹھا لاتا ہے اور مَیں یہ چھوٹا سا تنکا میز پر رکھتا ہوں۔ خدا اسے تو یہاں سے اٹھا دے۔ اسی قسم کی باتوں کے دوران میں مذہب کےساتھ ہنسی کرتے کرتے ایک دن اس ہندو نوجوان نے رسول کریم ﷺ کی شان کے خلاف کوئی بات کہہ دی۔ اس پر وہ سب مسلمان نوجوان طیش میں آ گئے اورکہنے لگے کہ ہم رسول کریم ﷺ کے خلاف کوئی بات نہیں سن سکتے حالانکہ وہ خود سارا سارا دن خدا تعالیٰ کا مذاق اڑاتے رہتے تھے۔ مَیں نے ان سے کہا کہ اگر خدا ہی کوئی نہیں تو محمد مصطفیٰ ﷺ تو رسول رہتے ہی نہیں۔ ان کی تو ساری عمر ہی اس خیال کے پھیلانے میں صرف ہوئی کہ خدا ایک ہے وہ زندہ ہے اور وہی اس دنیا کا سارا کارخانہ چلاتا ہے۔ اگر خدا ہی کوئی نہیں اور نہ وہ اس دنیا کے کارخانے کو چلاتا ہے اور یہ سب باتیں غلط ہیں تو پھر یہ تعلیم پھیلانے والا کتنے اعتراض کے نیچے ہے۔ مگر انہوں نے کہا کہ ہم دلیل وغیرہ نہیں جانتے۔ ہمیں رسول کریم ﷺ کی ذات سے محبت ہے اور ان کے خلاف ہم کوئی بات نہیں سن سکتے۔
یہ بالکل عیسائیوں والی کیفیت ہے وہ بھی خدا تعالیٰ کے خلاف باتیں کر لیتے ہیں مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کر سکتے حتّٰی کہ ان میں سے جو دہریہ ہیں ان میں سے بھی اکثر خدا تعالیٰ کو تو گالیاں دیتے ہیں مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خلاف کوئی بات نہیں سن سکتے۔ مَیں جب ولایت گیا تو وہاں بعض دوست ایک دہریہ ڈاکٹر کو میرے ساتھ ملاقات کے لئے لائے۔ مَیں نے ان سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے دل میں مذہب موجود ہے؟ مگر اس نے کہا کہ نہیں مَیں کلّی طور پر مذہب کو چھوڑ چکا ہوں۔ مَیں نے باتوں باتوں میں بعض وہ اعتراضات جو اناجیل کے رو سے حضرت مسیح علیہ السلام کی زندگی پر پڑتے ہیں بیان کئے تو وہ طیش میں آ گئے اور کہنے لگے کہ آپ یسوع مسیح پر اعتراض کیوں کرتے ہیں۔ مَیں نے کہا کہ جب آپ مذہب کے ہی قائل نہیں تو پھر حضرت عیسیٰ کی عزت آپ کیوں کرتے ہیں۔ مگر انہوں نے کہا کہ نہیں مَیں حضرت عیسیٰ پر اعتراض برداشت نہیں کر سکتا۔ تو مسلمانوں میں بھی ایک طبقہ ایسا ہے جو اس نسبت کو قائم نہیں رکھ رہا جو خدا تعالیٰ اور آنحضرت ﷺ کے مقام میں ہے اور اس وجہ سے وہ عقلی توازن بھی کھو بیٹھا ہے جو انسان بڑی چیز کو چھوٹی اور چھوٹی کو بڑی قرار دیتا ہے وہ اَور بھی بیسیوں قسم کی غلطیاں کرتا ہے اور اپنے عقلی توازن کو قائم نہیں رکھ سکتا۔ یہ فرق اس لئے ہے کہ مسلمانوں میں آنحضرت ﷺ سے محبت کے جذبات بڑھانے کے لئے پورا زور لگایا گیا اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے جذبات پیدا کرنے کے لئے اتنا زور نہیں لگایا گیااور اس لئے اللہ تعالیٰ سے محبت کا احساس قوم میں شدید نہیں ہؤا۔ کسی کے دل میں خدا تعالیٰ کے متعلق کوئی شبہ پیدا ہؤا اور اس نے کسی مجلس میں اظہار کیا تو لوگوں نے وہ غیرت نہیں دکھائی جو آنحضرت ﷺ کے متعلق دکھائی۔ اس لئے قوم میں ایک جذبہ بڑھتا گیا اور دوسرا کم ہوتا گیا۔ یہی حال کھانے پینے کے بارہ میں ہے۔ سؤر کے متعلق مسلمانوں میں شدید جذبہ ہے مگر شراب کے متعلق اتنا نہیں۔ اگر کسی کو شراب پیتا دیکھ لیں تو اس سے اتنی نفرت نہیں کرتے لیکن سؤر کھانے والا مسلمانوں میں نہیں رہ سکتا۔ اگرچہ بعض مغربی تہذیب کے اثر میں آ کر کھا بھی لیتے ہیں مگر ایسے بہت کم ہیں۔ سینکڑوں نوجوان یورپ میں جا کر حلال حرام کی تمیز چھوڑ دیتے ہیں مگر سؤر سے پھر بھی پرہیز کرتے ہیں۔ اگرچہ بعض ایسے بھی ہیں جو وہاں سؤر بھی کھا لیتے ہیں مگر یہاں آ کر اس کا اظہار نہیں کرتے لیکن سینکڑوں ہیں جو وہاں جا کر شراب پیتے ہیں، ناچوں وغیرہ میں شامل ہوتے ہیں اور باقی سب باتیں کرتے ہیں مگر سؤر نہیں کھاتے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ مسلمانوں میں اس کے خلاف شدید جذبہ ہے۔ تو جب قومی جذبات شدت اختیار کر لیں تو قوم کے افراد میں یہ احساس پیدا ہو جاتا ہے کہ یہ کام نہیں کرنا حالانکہ اس سے زیادہ برے کام بھی کر لیتے ہیں۔ مسلمانوں میں کئی حرام خور ہیں، بد دیانت، چور، ڈاکے مارنے والے اور ظالم بھی ہیں مگر وہ سؤر نہیں کھاتے کیونکہ اس کے خلاف شدید جذبات پیدا کر دئیے گئے ۔ اسی طرح ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو رسول کریم ﷺ کی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ سے کوئی محبت نہیں۔ شرک کرتےہیں، قبروں پر جا کر سجدے کرتے ہیں اور غیر اللہ سے مرادیں مانگتے ہیں بلکہ بعض واعظ تو برملا اپنے وعظوں میں کہہ دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے خلاف اگر کوئی بات ہو تو ہمیں اس کی پروا ہ نہیں مگر ہم آنحضرت ﷺ کے خلاف کوئی بات نہیں سن سکتے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ذریعہ نجات کا ہے حالانکہ جو خدا تعالیٰ کو چھوڑتا اور آنحضرت ﷺ کے ساتھ نسبت قائم کرتا ہے۔ آنحضرت ﷺ تو قیامت کے روز اس کی شکل دیکھنا بھی پسند نہ کریں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کا ایک نظارہ اس سلسلہ میں ہمارے لئے سبق ہے۔ آپ ایک دفعہ باہر تشریف لے گئے۔ لاہور کا ریلوے سٹیشن تھا۔ دوست آپ کے گرد حلقہ باندھ کر کھڑے تھے کہ اتنے میں پنڈت لیکھرام بھی وہاں آ گئے اور جیسے آدمی بڑے آدمی کو سلام کرتا ہے پنڈت صاحب نے بھی آپ کو سلام کیا مگر آپ نے مُنہ دوسری طرف پھیر لیا۔ پنڈت صاحب نے پھر سلام کیا مگر آپ نے پھر مُنہ پھیر لیا۔ وہ آریہ سماج میں بہت شہرت رکھتے تھے اور یہ فرقہ پنجاب کے ہندوؤں میں بہت طاقت رکھتا ہے اور معزز ترین عہدے ان لوگوں کے ہاتھ میں ہیں۔ جماعت کے بعض دوستوں نے خیال کیاکہ یہ بڑا آدمی ہے اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کو جو سلام کیا ہے تو گویا ہماری بڑی عزت قائم ہوئی ہے اور آپ نے جو جواب نہیں دیا تو اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ آپ نے سنا نہیں۔ شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بہت محبت رکھتے تھے۔ گو بعد میں پیغامی ہو گئے تھے مگر وفات کے وقت آپ نے اس پر اظہارِ ندامت بھی کیا اور مجھے دعا کے لئے کہلا کے بھی بھیجا۔ انہوں نے یہ سمجھ کر کہ آریوں کے لیڈر کا سلام کرنا بڑی عزت کی بات ہے عرض کیا کہ حضور نے شاید دیکھا نہیں ، پنڈت لیکھرام صاحب سلام کہتے ہیں۔ مَیں تو اس وقت بچہ تھا مگر دوسرے دوستوں کی روایت ہے کہ آپ یہ بات سن کر جوش میں آ گئے اور فرمایا کہ یہ شخص میرے آقا کو تو گالیاں دیتا ہے اور مجھے سلام کہتا ہے۔
جس طرح آنحضرت ﷺہمارے آقا ہیں، اسی طرح ہمارا اور آنحضرت ﷺ کا آقا اللہ تعالیٰ ہے اور وہی اصل ہستی ہے۔ انسان خواہ کتنا بڑا ہو خدا تعالیٰ کی برابری تو نہیں کر سکتا۔ تو چاہئے تو یہ تھا کہ خدا تعالیٰ کے لئے مسلمانوں کے دِلوں میں غیرت زیادہ ہوتی اور محمد رسول اللہ ﷺ کے لئے اس کی نسبت کم۔ مگر ایسا نہیں ہے حالانکہ خود آنحضرت ﷺ کا نمونہ ہمارے سامنے ہے۔ احد کی جنگ میں بعض مسلمانوں کی غلطی کی وجہ سے مسلمانوں کی فتح شکست سے بدل گئی اور کفار نے پیچھے سے حملہ کر کے مسلمانوں کو تتّر بتّر کر دیا تو ایسی خطرناک حالت پیدا ہو گئی کہ بعض مسلمانوں نے یہ خیال کیا کہ ہمیں آج کفار تَہہ ِتیغ اور نیست و نابود کر دیں گے اور لشکر میں سے بعض تو ایسے گھبرائے کہ بھاگ کر مدینہ جا پہنچے اوریہ بھی مشہور ہو گیا کہ آنحضرت ﷺ شہید ہو گئے ہیں اور مسلمانوں کی یہ کیفیت تھی کہ زمین و آسمان ان کے لئے تنگ ہو گئے تھے اور وہ سمجھنے لگے تھے کہ آج ہمارے ٹھکانے کی کوئی جگہ نہیں۔
ایک انصاری کے متعلق لکھا ہے کہ وہ فتح ہونے کے بعد لشکر سے پیچھے چلے گئے۔ انہوں نے کھانا نہ کھایا تھا اور فتح حاصل ہونے کے بعد جب مسلمان کافروں کو قید کرنے لگے تو وہ الگ چلے گئے۔ ان کے پاس کچھ کھجوریں تھیں جو وہ کھانے لگے۔ وہ ٹہلتے ٹہلتے جو آئےتو دیکھا کہ حضرت عمرؓ ایک پتھر پر بیٹھے رو رہے ہیں۔ انہوں نے حیرت سے پوچھا کہ عمرؓ مسلمانوں کو فتح ہوئی ہے اور آپ رو رہے ہیں۔ کیا بات ہے۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ کیا تمہیں پتہ نہیں کیا ہوا؟ انہوں نے کہا نہیں۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ دشمن نے اچانک پیچھے سے حملہ کر دیا اور مسلمان تتّر بتّر ہو گئے اور آنحضرت ﷺبھی شہید ہو گئے۔ ان کے پاس دس پندرہ یا بیس جتنی بھی کھجوریں تھیں وہ کھا چکے تھےاور صرف ایک کھجور باقی تھی۔ حضرت عمرؓ کی یہ بات سنی تو اس کھجور کو زمین پر پھینک دیا اور کہا کہ میرے اور خدا تعالیٰ کی جنت کے درمیان اس کھجور کے سِوا اور کیا ہے۔ پھر حضرت عمرؓ کی طرف تعجب سے دیکھا اورکہا کہ عمر! رو کس لئے رہے ہو۔ ہمارا کام یہ ہے کہ جہاں رسول کریم ﷺ گئے ہیں وہیں ہم بھی جائیں ۔ یہ کہہ کر تلوار کھینچی اور اکیلے ہی دشمن کے لشکر پر جا پڑے اور ایسی بے جگری سے لڑے کہ جنگ کے بعد ان کی لاش بھی ایک جگہ نہ ملی۔ بلکہ ہاتھ کٹا ہوا کہیں سے ملا۔ پاؤں کہیں سے اور دھڑ کہیں سے ۔1 تو یہ گویا ایسا سخت وقت تھا کہ جو اسلام کے تاریک ترین اوقات میں سے ایک تھا مگر جلدی ہی صحابہ ؓ کو معلوم ہو گیا کہ یہ ان کی غلطی تھی اور رسول کریم ﷺ زندہ ہیں۔ آپ کے جو محافظ تھے وہ شہید ہو ہو کر آپ کے اوپر گر پڑے تھے اور آپؐ بے ہوش ہو کر ان کے نیچے پڑے تھے۔ صحابہؓ نے آپؐ کو لاشوں کے نیچے سے نکالا اور جوں جوں مسلمانوں کو علم ہوتا گیا وہ آپ کے گرد جمع ہوتے گئے مگر پھر بھی ان کی تعداد تھوڑی تھی۔ رسول کریم ﷺ ان کو ساتھ لے کر پہاڑ کے دامن میں چلے گئے۔ ابو سفیان نے بڑے تکبر سے آواز دی کہ مسلمانو! کہاں ہے تمہارا محمد؟ (ﷺ) ہم نے اسے مار دیا۔ صحابہؓ جواب دینا چاہتے تھے مگر آپ نے روک دیا۔ کفار کو خیال تھا کہ مسلمانوں کے سب لیڈر مارے گئے ہیں۔ اس لئے ابو سفیان نے پھر آواز دی۔ کہاں ہے ابو بکرؓ ؟ہے تو بولے۔ صحابہؓ پھر جواب دینا چاہتے تھے مگر آپؐ نے روک دیا۔ پھر اس نے کہا کہ کہاں ہے عمرؓ؟ ہے تو جواب دے۔ حضرت عمرؓ تو کہنا چاہتے تھے کہ مَیں تمہارا سر توڑنے کے لئے یہاں موجود ہوں مگر آپؐ نے فرمایا۔ مت بولو۔ دشمن کو کیوں اپنی اطلاع دیں۔ دراصل ابو سفیان کی غرض یہی تھی کہ مسلمانوں کی خبر معلوم کرے اور پتہ لگائے کہ کون کون زندہ ہے اور کون کون نہیں اور وہ اپنے خیال کو یقین سے بدلنا چاہتا تھا۔ آجکل بھی جنگ میں ایسی خبریں مشہور ہوتی رہتی ہیں جن کی غرض صرف اطلاع حاصل کرنا ہوتی ہے مثلاً مشہور کر دیتے ہیں کہ فلاں جرنیل پکڑا گیا ہے یا فلاں جہاز ڈوب گیا ہے اور جرنیل یا جہاز جس حکومت کا ہوتا ہے وہ خاموش رہتی ہے اس وقت تردید نہیں کرتی۔ بعد میں کسی وقت اس کی تردید کر دیتی ہے۔ ایسی غلط خبر مشہور کرنے سے دشمن کا منشاء یہ ہوتا ہے کہ معلومات حاصل کرے۔ کفار کی غرض بھی یہی تھی۔ اس لئے آنحضرت ﷺ نے منع فرما دیا کہ دشمن کو پتہ دے کر کیوں حملہ کرواتے ہو۔ جب مسلمانوں کی خاموشی سے ابو سفیان نے سمجھ لیا کہ آنحضرتﷺ، حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ سب کو ہم نے مار دیا ہے تو اس نے بڑے زور سے اپنا مشرکانہ نعرہ بلند کیا اور کہا اُعْلُ ھُبَل، اُعْلُ ھُبَل یعنی ہمارا ھبل دیوتا بڑی شان والا ہے مسلمان بھلا اس کے مقابل پر کب ٹھہر سکتے تھے۔ یہ بات سن کر آنحضرت ﷺ نے جو اپنی موت کا اعلان سن کر اور اپنے صحابہؓ کی موت کا اعلان سن کر خاموش تھے اور اپنے صحابہؓ کو بھی جواب دینے سے روک رہے تھے۔ صحابہؓ سے فرمایا کہ جواب کیوں نہیں دیتے۔ چونکہ پہلے کئی بار آنحضرت ﷺ صحابہؓ کو روک چکے تھے ۔ اس وجہ سے صحابہؓ خیال کرتے تھے کہ شاید ہمیں بولنے کا حکم نہیں اس لئے خاموش تھے مگر جب ابو سفیان نے کہا اُعْلُ ھُبَل تو آپؐ نے فرمایا کہ جواب کیوں نہیں دیتے۔ صحابہؓ نے عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللہ! ہم تو آپؐ کی وجہ سے خاموش تھے۔ آپؐ نے فرمایا نہیں۔ جواب دو کہ اَللہُ اَعْلٰی وَ اَجَلّ یعنی تمہارے ھبل کی کیا حقیقت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی بلند اور سب سے زیادہ طاقتور ہے۔2
دیکھو کس طرح اپنی اور اپنے صحابہؓ کی موت کا اعلان تو برداشت کر لیا مگر جب خدا تعالیٰ کا نام آیا تو اس وقت آپ نے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کی کہ ہم تھوڑے ہیں۔ اگر دشمن کو پتہ لگ گیا تو وہ حملہ کرکے نقصان پہنچائے گا بلکہ صحابہؓ سے فرمایا کہ جواب دو۔ تو نسبت کو قائم رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے شرک کے خلاف صحابہ میں ایسا جذبہ پیدا کر دیا تھا کہ وہ اسے برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ چنانچہ جب آپؐ کی وفات ہوئی تو بعض صحابہؓ نے خیال کیا کہ آپؐ کی وفات بے وقت ہوئی ہے۔ بعض نے خیال کیا کہ آپؐ ابھی زندہ ہیں، آسمان پر گئے ہیں اور پھر آئیں گے اور یہ خیالات اتنی طاقت پکڑ گئے تھے کہ کسی کو جرأت نہ ہوتی تھی کہ ان کی تردید کرے حتّٰی کہ جن کے حواس قائم تھے وہ بھی اس کی تردید نہ کر سکتے تھے۔ حضرت ابو بکرؓ مدینہ سے کہیں باہر گئے ہوئے تھے۔ وفات سے کچھ عرصہ قبل رسول کریم ﷺ کی طبیعت کچھ سنبھل گئی تھی۔ اس لئے آپ کسی کام کے لئے باہر چلے گئے۔ بعض صحابہؓ نے آپ کی طرف آدمی بھیجا۔ آپ کو اطلاع ہوئی تو فوراً وپس آئے۔ اس وقت ایسی حالت تھی کہ حضرت عمرؓ تلوار لے کر کھڑے تھے کہ جو شخص کہے گا کہ رسول کریم ﷺ فوت ہو گئے ہیں مَیں اس کی گردن اڑا دوں گا۔ آپ بہت جوشیلے آدمی تھے اور مسجد میں یہ کہہ رہے تھے کہ اگر کسی نے کہا کہ آنحضرت ﷺ کی وفات ہو گئی ہے تو مَیں اس کی گردن اڑا دوں گا۔3 حضرت عمرؓ کو آنحضرت ﷺ سے جو عشق تھا اسے مدنظر رکھتے ہوئے ان کی یہ حالت سمجھ میں آ سکتی ہے۔ حضرت ابو بکرؓ جب تشریف لائے تو حضرت عائشہؓ کے گھر میں جو آپ کی بیٹی تھیں چلے گئے۔ آنحضرت ﷺ کی لاش بھی وہیں پڑی تھی۔ آپ نے حضرت عائشہؓ سے پوچھا کہ کیا رسول کریم ﷺ فوت ہو گئے ؟ انہوں نے کہا ہاں فوت ہو گئے ہیں۔ آپ خاموشی سے جسم اطہر کے پاس پہنچے، سر سے کپڑا اٹھایا،پیشانی کو بوسہ دیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ آپ پر دو موتیں وارد نہیں کرے گا یعنی ایک تو آپ جسمانی طور پر فوت ہو گئے ہیں اب یہ نہیں ہو گا کہ مسلمانوں میں مشرکانہ عقائد قائم ہو جائیں اور روحانی طور پر آپ کا مشن مر جائے۔ یہ کہہ کر آپ مسجد میں آئے حضرت عمرؓ نے آپ کو بٹھانا چاہا مگر آپ نے جھٹکا دے کر ان کو پرے ہٹا دیا اور کھڑے ہوگئے اور یہ آیت پڑھی وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ١ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ اَفَاۡىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُمْ۔ 4 یعنی اے مسلمانو! محمد ﷺ ہمیں کتنے ہی محبوب تھے، کتنے ہی پیارے تھے۔ ہم آپ کے لئے جانیں دیتے تھے لیکن بہرحال وہ انسان تھے اور جس طرح آپ سےسے پہلے تمام رسول فوت ہو گئے آپ بھی فوت ہو گئے۔ پھر آپ نے زور سے فرمایا کہ بعض لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ آپ کی وفات ناممکن ہے لیکن مَنْ کَانَ یَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَاِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ وَ مَنْ کَانَ یَعْبُدُ اللہَ فَاِنَّ اللہَ حَیٌّ لَا یَمُوْتُ۔5 جو تم میں سے محمد رسول اللہ ﷺ کو پوجتا تھا۔ میں اسے علی الاعلان سناتا ہوں کہ محمد (ﷺ) فوت ہو گئے لیکن جو خدا تعالیٰ کی پوجا کرتا تھا اسے بتاتا ہوں کہ وہ زندہ ہے اور اس پر موت کبھی نہیں آ سکتی۔ یہ وہ اعلان تھا جسے سن کر کسی کے دل میں بھی وہ وسوسہ باقی نہ رہا اور انہوں نے سمجھ لیا کہ ہمارا خیال قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں نہیں ٹھہر سکتا۔
حضرت عمرؓ جو تلوار لے کر کھڑے تھے کہ جو کہے گا آنحضرت ﷺ وفات پا گئے ہیں مَیں اس کی گردن اڑا دوں گا۔ وہ کہتے ہیں کہ جب حضرت ابو بکرؓ نے یہ آیت پڑھی کہ وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ١ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ۔ یعنی محمد (ﷺ) اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، جس طرح آپ سے پہلے تمام رسول فوت ہو گئے۔ آپ کے لئے بھی موت مقدر ہے۔ اَفَاۡىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُمْ کیا اگر آپ وفات پا جائیں یا قتل ہو جائیں تو تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے تو مجھے یوں معلوم ہؤا کہ گویا یہ آیت قرآن کریم میں پہلے نہ تھی اور اب نئی نازل ہوئی ہے اور مجھے سمجھ آ گئی کہ واقعی آپ فوت ہو گئے ہیں اور یہ خیال آتے ہی میری ٹانگیں کانپنے لگیں اور باوجود تلوار کا سہارا ہونے کے مَیں زمین پر گر گیا۔6 تو یہ صحابہ کاایک نمونہ ہمارے سامنے ہے۔ کس قدر عشق ان کو رسول کریم ﷺ کی ذات سے تھا۔ کیا آج کے مسلمان اس کا کوئی نمونہ پیش کر سکتے ہیں۔ اس عشق کی مثال قومی لحاظ سے قطعاً کہیں نہیں ملتی۔ کیا شاندار وہ قربانیاں ہیں جو محمد مصطفیٰ ﷺ کی خاطر ان لوگوں نے کیں۔ اس عشق کی مثالیں بہت سی ہیں۔ ایک دفعہ ایک صحابی جنگ میں کفار کے ہاتھوں قید ہو گئے۔ کئی مسلمان پکڑے گئے جن میں سے ایک وہ بھی تھے۔ دشمن نے انہیں مکہ والوں کے ہاتھ بیچ دیا۔ خریدنے والوں کے کسی رشتہ دار کو انہوں نے قتل کیا ہؤا تھا۔ اس لئے انتقام لینے کی خاطر انہوں نے انہیں خرید لیاتا قتل کر کے اپنے کلیجہ کو ٹھنڈا کریں۔ وہ انہیں طرح طرح کی تکالیف دیتے تھے۔ ہاتھوں اور پاؤں میں بیڑیاں ڈال رکھی تھیں۔ ایک دن انہیں کہا کہ تم یہ پسند نہ کرو گے کہ تمہاری جگہ یہاں محمد (ﷺ) ہماری قید میں ہوں اور تم گھر میں اپنے بیوی بچوں میں آرام سے بیٹھے ہو۔ یہ کیسا نازک وقت ہوتا ہے جب انسان سمجھتا ہے کہ مَیں دشمن کے قابو میں ہوں اور وہ جو چاہے مجھے تکلیف پہنچا سکتا ہے۔ قیدی کی طاقت ہی کیا ہوتی ہے کہ وہ اپنے پکڑنے والوں کے سامنے جواب دے سکے مگر وہ صحابی کفار کی یہ بات سن کر حقارت کی ہنسی ہنسے اور جواب دیا کہ تمہیں میرے جذبات کا علم ہی نہیں۔ تم کہتے ہو کہ مجھے یہ پسند ہے یا نہیں کہ محمد (ﷺ) یہاں تم لوگوں کی قید میں ہوں اور مَیں آرام سے گھر میں بیٹھا ہوں۔ مَیں تو یہ بھی پسند نہیں کرسکتا کہ محمد رسول اللہ ﷺ مدینہ میں ہی ہوں اور ان کے پاؤں میں کانٹابھی چبھے اور مَیں گھر میں بیوی بچوں کے پاس آرام سے بیٹھا ہوں۔7 غرض یہ شدید عشق تھا جو ان لوگوں کو آنحضرت ﷺ سے تھا۔ اسی اُحد کی جنگ کا ایک اور واقعہ ہے۔ ایک صحابی جنگ میں زخمی ہوئے۔ جب کفار میدان سے ہٹ گئے تو آنحضرت ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ زخمیوں کو دیکھو۔ صحابہ تلاش کرنے لگے۔ ایک انصاری رئیس زخمی پڑے تھے اور ان کی حالت ایسی تھی کہ چند منٹ میں ہی فوت ہونے والے تھے۔ ایک صحابی دیکھتے دیکھتے ان کے پاس پہنچے اور بیٹھ گئے۔ حال دریافت کیا اور کہا کہ کوئی پیغام اپنے بیوی بچوں اور رشتہ داروں کو دینا ہو تو دے دو۔ انہوں نے کہا کہ ہاں مَیں اسی انتظار میں تھا کہ کوئی مسلمان ملے تو اس کے ہاتھ پیغام بھیجوں۔ ہر شخص جانتا ہے کہ موت کا وقت گھر میں بھی کیسا سخت ہوتا ہے، مرنے والے کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ چند منٹ بھی اور مل جائیں تو بیوی بچوں اور بہن بھائیوں سے کوئی اَور بات کر لوں۔ ان کے لئے کوئی وصیت کر جاؤں لیکن وہ صحابی بیوی بچوں کے پاس نہیں تھے، گھر میں نہیں پڑے تھے، کسی ہسپتال میں نرم بستر پر نہیں لیٹے تھے بلکہ پتھریلی زمین پرپڑے تھے مگر ایسی حالت میں بھی انہوں نے یہ پیغام نہیں دیا کہ میری بیوی کو سلام دینا اور اسے کہنا کہ بچوں کی اچھی طرح پرورش کرے یا یہ کہ میری جائداد اس رنگ میں تقسیم ہو یا فلاں فلاں جگہ میرا مال ہے وہ لے لیا جائے بلکہ کہا تو یہ کہا کہ میرے بچوں اور بھائیوں کو میری طرف سے یہ پیغام دینا کہ محمد رسول اللہ ﷺ تمہارے پاس خدا تعالیٰ کی قیمتی امانت ہیں۔ مَیں نے جب تک جان میں جان تھی اسے قربان کر کے بھی اس امانت کی حفاظت کی اور اب اپنے عزیز بھائیوں اور بچوں کو میری آخری وقت کی یہ وصیت ہے کہ وہ بھی اپنی جانوں کے ساتھ اس امانت کی حفاظت کریں اور یہ کہہ کر دم توڑ دیا۔8
ذرا اس حالت کا نقشہ اپنے ذہنوں میں کھینچو۔ تم میں سے ہر ایک نے مرنے والوں کو دیکھا ہو گا۔ کسی نے اپنی ماں کو، کسی نے باپ کو، کسی نے بھائی بہن کو مرتے دیکھا ہو گا۔ ذرا وہ نظارہ تو یاد کرو کہ کس طرح اپنے عزیزوں کے ہاتھوں میں اور گھروں میں اچھے سے اچھے کھانے پکوا کر اور کھا کر علاج کروا کر اور خدمت کرا کر مرنے والوں کی حالت کیا ہوتی ہے اور کس طرح گھر میں قیامت بپا ہوتی ہے اور مرنے والوں کو سوائے اپنی موت کے کسی دوسری چیز کا خیال تک بھی نہیں ہوتا مگر آنحضرت ﷺ نے اپنے صحابہ کے دلوں میں ایسا عشق پیدا کر دیا تھا کہ انہیں آپ کے مقابلہ میں کسی اَور چیز کی پرواہ ہی نہ تھی۔ مگر یہ عشق صرف اس وجہ سے تھا کہ آپ خدا تعالیٰ کے پیارے ہیں۔ آپ کے محمدؐ ہونے کی وجہ سے یہ عشق نہ تھا بلکہ آپ کے رسول اللہ ہونے کی وجہ سے تھا۔ وہ لوگ دراصل خدا تعالیٰ کے عاشق تھے اور چونکہ خدا تعالیٰ محمد رسول اللہ ﷺ سے پیار کرتا تھا اس لئے آپ کے صحابہؓ آپ سے پیار کرے تھے اور یہ تو مردوں کے واقعات ہیں عورتوں کو دیکھ لو۔ ان کے دلوں میں بھی آپ کی ذات کے ساتھ کیا محبت اور کیا عشق تھا۔ اُحد کی جنگ کا ہی ایک اَور واقعہ ہے۔ اس جنگ میں مشہور ہو گیا کہ آنحضرت ﷺ شہید ہو گئے ہیں۔ مدینہ میں یہ خبر پہنچی تو عورتیں اور بچے بھی گھبرا کر روتے ہوئے شہر سے باہر نکل آئے اور اُحد کی طرف بھاگے۔ اُحد مدینہ سے آٹھ نو میل کے فاصلہ پر ہے۔ جب وہ ادھر جا رہے تھے تو اس وقت مسلمانوں کا لشکر بھی واپس آ رہا تھا اور آنحضرت ﷺ بھی اس کے ساتھ تھے۔ ایک سوار آگے آ رہا تھا۔ جب وہ ایک عورت کے پاس سے گزرا تو اس نے دریافت کیا کہ بھائی رسول کریم ﷺ کا کیا حال ہے؟ وہ چونکہ آپؐ کو دیکھ کر آیا تھا اور جانتا تھا کہ آپؐ بخیریت ہیں اور اس وجہ سے اس کا دل مطمئن تھا۔ اس لئے اس عورت کے سوال کی طرف تو دھیان نہ دیا اور کہا کہ بہن بڑا افسوس ہے تمہارا باپ جنگ میں مارا گیا۔ اس عورت نے کہا کہ مَیں نے تو باپ کا نہیں پوچھا۔ مَیں نے تو رسول کریم ﷺ کے متعلق دریافت کیا ہے مگر اس کا دل چونکہ مطمئن تھا اس نے پھر اس عورت کے سوال پر توجہ نہ دی اور کہا کہ افسوس ہے تمہارا بھائی بھی مارا گیا۔ اس نے کہا کہ تم مجھے یہ بتاؤ کہ رسول کریم ﷺ کا کیا حال ہے۔ مگر وہ چونکہ جانتا تھا کہ آپؐ خیریت سے ہیں اس لئے پھر کہا کہ تمہارا خاوند بھی شہید ہو گیا۔ مگر اس عورت نے پھر کہا کہ تم مجھے رسول کریم ﷺ کے متعلق بتاؤ میں کچھ اَور نہیں پوچھتی۔ اس نے کہا کہ وہ تو خیریت سے ہیں۔ یہ سن کر اس عورت نے کہا کہ بس پھر مجھے کسی کے مرنے کی کوئی پرواہ نہیں۔ اگر رسول کریم ﷺ زندہ ہیں تو ہر چیز میرے لئے زندہ ہے۔9
دیکھو کس طرح ایک عورت کے لئے اس کے بھائی، باپ اور خاوند پیارے ہوتے ہیں لیکن وہ سارے کے سارے مارے جاتے ہیں مگر اسے یہ بھی سمجھ نہیں آتی کہ وہ صحابی اس کے سوال کا جواب کیوں نہیں دیتا۔ یہ محبت تھی جو خدا تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے متعلق ان لوگوں کے دلوں میں پیدا کر دی تھی مگر باوجود اس کے وہ خدا تعالیٰ کو ہر چیز پر مقدم رکھتے تھے اور یہی توحید تھی جس نے ان کو دنیا میں ہر جگہ غالب کر دیا تھا۔ خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں وہ نہ ماں باپ کی پرواہ کرتے تھے اورنہ بہن بھائیوں کی اور نہ بیویوں اور خاوندوں کی۔ ان کے سامنے ایک ہی چیز تھی اور وہ یہ کہ ان کا خدا ان سے راضی ہو جائے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے رَضِیَ اللہُ عَنْہُمْ فرما دیا۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو ہر چیز پر مقدم کر لیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو مقدم کیا ۔مگر بعد میں مسلمانوں کی یہ حالت نہ رہی اور اب اگر ان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے تو محض دماغی ہے، دل کا نہیں۔ رسول کریم ﷺ کا ذکر اگر ان کے سامنے کیا جائے تو ان کے دلوں میں محبت کی تاریں ہلنے لگتی ہیں۔ رسول کریم ﷺ کے عزیزوں کے ذکر پر بھی یہ تاریں ہلتی ہیں۔
ابھی محرم گزرا ہے۔ شیعہ تو اس پر امام حسینؓ کا ماتم کرتے ہیں اور سُنِّی بھی ان کے ذکر پر جوش میں آ جاتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کے ذکر پر ان کے دلوں میں محبت کی کوئی تار نہیں ہلتی حالانکہ انہیں سوچنا چاہئے کہ محمد ﷺ اگر قیمتی وجود ہیں تو یہ قیمتی وجود ہمیں کس نے دیا۔ یہ ہمارے رب نے ہی دیا تھا۔ جو شخص موتی کو یاد رکھتا ہے مگر اس کے دینے والے کو بھول جاتا ہے اس سے زیادہ کافر نعمت اَور کون ہو سکتا ہے۔ حقیقی ترقی اللہ تعالیٰ کی محبت سے ہی حاصل ہوتی ہے مگر چونکہ مسلمانوں نے خدا تعالیٰ کی محبت کو قومی جذبہ نہ بنایا اس لئے وہ ان میں سرد ہو گئی۔
پس مَیں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس جذبہ کو اپنے دلوں میں پیدا کریں۔ یہ تمام نیکیوں کی جڑ ہے۔ اگر کسی کو جھوٹ کی عادت ہے تو اس لئے کہ خدا تعالیٰ کی محبت اس کے دل میں پوری نہیں۔ اگر بد دیانتی ہے تو اسی لئے کہ خدا تعالیٰ کی محبت کامل نہیں۔ باقی انبیاء کی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اسی لئے آئے تھے کہ خدا تعالیٰ کی محبت دلوں میں قائم کریں اور جب یہ جذبہ کسی قوم میں پیدا ہو جائے تو سب باتیں خود بخود رو بہ اصلاح ہو جاتی ہیں۔ جس دل میں خدا تعالیٰ کی محبت ہو وہ ایک قیمتی موتی ہوتا ہےاور جس طرح تم میں سے کوئی بھی قیمتی موتی کو پاخانہ میں نہیں پھینکتا۔ اللہ تعالیٰ بھی اس دل کو جس میں اس کی محبت ہو گندگی میں نہیں پھینکتا۔ پس اپنے دلوں میں بھی اس جذبہ کو پیدا کرو اور جماعت میں بھی اسے پیدا کرو۔
ہماری جماعت کے مبلغ اور واعظ جب بھی موقع ملے خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کی عظمت دلوں میں قائم کریں اور یہ آگ اس طرح ہر دل میں لگی ہوئی ہو کہ تمہیں بھی اور تمہارے گرد و پیش رہنے والوں کو بھی جلاتی رہے۔ یہی نقطۂ مرکزی ہے ہر مذہب کا اور یہی نقطہ مرکزی ہے خدا تعالیٰ سے آنے والے سب دینوں کا۔ جس دین میں خدا تعالیٰ کی محبت نہیں وہ دین مردہ ہے۔ جس دل میں خدا تعالیٰ کی محبت نہیں وہ دل مردہ ہے اور جس قوم میں خدا تعالیٰ کی محبت نہیں وہ قوم مردہ ہے۔ نہ وہ مذہب کسی کو نجات دلا سکتا ہے جس میں خدا تعالیٰ کی محبت نہیں اور نہ وہ دل نجات پا سکتا ہےجس میں خدا تعالیٰ کی محبت نہیں اور نہ وہ قوم دنیا میں کوئی کام کر سکتی ہے جس قوم میں خدا تعالیٰ کی محبت نہ ہو۔ پس خدا تعالیٰ کی محبت دلوں میں پیدا کرو، اس جذبہ کو قومی جذبہ بناؤ پھر سب کمزوریاں خود بخود دور ہو جائیں گی۔ وہ انسان بھی کیا انسان ہے جو صبح اٹھتا ا وراپنے دنیوی کام کاج میں لگ جاتا اور جب رات ہوتی ہے سو جاتا ہے اور دن رات میں ایک منٹ کے لئے بھی خدا تعالیٰ کی محبت کی چنگاری اس کے دل میں نہیں سلگتی۔ حالانکہ خدا تعالیٰ کے وجود کا خیال کر کے بھی سر سے پیر تک جسم میں رعشہ طاری ہو جانا چاہئے اور قلب کی تار تار ہل جانی چاہئے۔ آج دنیا میں کسی نے کسی امام کی محبت کو قومی جذبہ بنا لیا ہے، کسی نے ختم نبوت کے غلط معنے کر کے اسے قومی جذبہ بنا لیا ہے، کسی قوم نے سَوراج کو اپنا قومی جذبہ بنا لیا ہے مگر مَیں احمدیوں سے کہتا ہوں کہ تمہارا قومی جذبہ خدا تعالیٰ کی محبت ہونا چاہئے اور تمہارے اندر سے خدا تعالیٰ کی محبت کی ایسی چنگاریاں نکل رہی ہوں کہ تمہارے گرد و پیش رہنے والے بھی اس آگ سے جلنے لگیں۔ یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ آگ جلے اور اس میں سے چنگاریاں نہ نکلیں۔ اس لئے جب تم اس آگ کو روشن کرو گے تو وہ تمہارے گرد و پیش رہنے والوں کو بھی ضرور جلائے گی۔ جب تم خدا تعالیٰ کی محبت کو قومی جذبہ بنا لو گے تو تمہارے اردگرد ایسی دیوار قائم ہو جائے گی کہ جسے توڑ کر شیطان اندر نہ آ سکے گا اور کوئی ہلاک کر سکنے والی بلا اندر نہ آ سکے گی اور یہ ایسا پاک مقام ہو گا کہ خدا تعالیٰ اس سے جدا رہنا کبھی پسند نہیں کرے گا۔ دنیا کو دیکھو اور دنیا داروں کے جذبات کو دیکھواور ان جذبات کے لئے جو وہ قربانیاں کر رہے ہیں ان کو دیکھو اور ان سے سبق حاصل کرو۔ ان کے جذبات بالکل ادنیٰ اور معمولی ہیں لیکن تمہارا خدا جو تمہارا معشوق ہونا چاہئے، حسین ترین وجود ہے۔ پس اس سے تمہاری محبت بہت زیادہ ہونی چاہئے اور اس محبت میں بہت زیادہ جوش اور بہت زیادہ گرمی ہونی چاہئے۔ ایسی گرمی اور ایسا جوش کہ اس کی مثال دنیا کی اَور محبتوں میں نہ پائی جاتی ہو۔ ‘‘
(الفضل 7 فروری 1942ء)
1: سیرت ابن ہشام جلد 3 صفحہ 88 مطبوعہ مصر 1936ء
2: بخاری کتاب المغازی باب غزوة احد
3: اسد الغابة جلد 3 صفحہ 221 ، مطبوعہ ریاض 1286ھ
4: اٰل عمران :145
5: بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ باب قَوْل النَّبِیِّ ﷺ لَوْ کُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِیْلًا
6: تاریخ کامل ابن اثیر جلد 2 صفحہ 324 ۔ مطبوعہ بیروت 1965ء
7: اسد الغابة جلد 2 صفحہ 230 مطبوعہ بیروت 1285ھ
8: سیرت ابن ہشام جلد 3 صفحہ 100-101۔ مطبوعہ مصر 1936ء
9: سیرت ابن ہشام جلد 3 صفحہ 105 مطبوعہ مصر 1936ء

6
موجودہ نازک حالات کے متعلق نہایت اہم ہدایات
( فرمودہ 20 مارچ 1942ء )

تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’مَیں متواتر کئی مہینوں بلکہ سالوں سے جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلا رہا ہوں کہ یہ دن نہایت ہی نازک ہیں۔ ان کو اپنے عمل میں اصلاح کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کی خشیت اپنے دلوں میں پیدا کرنی چاہئے اورایک جماعت ہو کر جیسا کہ جماعت ہونے کے فرائض ہیں اپنی زندگی بسر کرنی چاہئے مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جماعت کے ایک حصہ نے میری اس نصیحت پر عمل نہیں کیا جس کا خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑ رہا ہے اور اگر اب بھی اصلاح نہ ہوئی تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اَور کس حد تک خمیازہ بھگتنا پڑے۔
مَیں نے جماعت کو توجہ دلائی تھی کہ جنگ کے ایام میں بعض لوگ وقتی یا ذاتی مخالفتوں کی وجہ سے جنگ کی بری خبروں پر خوشی کا اظہار کیا کرتے ہیں اوریہ امر کئی لحاظ سے نہ صرف دوسروں کے لئے بلکہ خود ان کے لئے بھی مضر ہوتا ہے۔ مَیں کئی خطبے اس پر پڑھ چکا ہوں اور بہت دفعہ جماعت کو اس طرف توجہ دلا چکا ہوں۔ اگر ہماری جماعت کا یہ فیصلہ ہو کہ ہم کسی رنگ میں بھی جماعتی طور پر حکومت کے کاموں میں دخل نہیں دیں گے اور اس سے کسی قسم کا تعاون نہیں کریں گے تب تو اس قسم کے خیالات ایک حد تک جائز سمجھے جا سکتے ہیں لیکن ایک طرف جماعت اپنی طاقت اور قوت سے بھی بڑھ کر فوجی کاموں میں حصہ لے رہی ہو، فوجی رنگروٹ دے رہی ہو اور اس کے جگر گوشے اور بھائی لڑائی میں شامل ہوں اور دوسری طرف ایک حصہ ان لوگوں کی طرح جن کے دلوں میں خدا تعالیٰ کا خوف نہیں ہوتا اور جو خدا تعالیٰ کے غضب کے وقت میں بھی ڈرنا نہیں جانتے۔ ایسی خبروں پر جن میں گورنمنٹ کی کسی شکست کا ذکر ہو بے پروائی ظاہر کرے یا دل میں خوشی محسوس کرے تو اس کے سوائے اس کے اَور کیا معنے ہو سکتے ہیں کہ اپنے بھائیوں کی تباہی اور بربادی پر خوشی ظاہر کی جاتی ہے۔ ابھی میرے سفر کے دوران میں ملایا اور رنگون اور سماٹرا اور جاوا کی لڑائیوں نے نہایت تکلیف دہ شکل اختیار کر لی ہے۔ مَیں ایسے لوگوں سے خواہ وہ کتنے ہی تھوڑے ہوں پوچھتا ہوں کہ کیا اب وہ ان سینکڑوں احمدیوں اور درجن کے قریب مبلغوں کی قید پر خوش ہیں جو ان علاقوں میں رہتے تھے۔ ملایا کی فوجوں میں بڑے اور چھوٹے افسر اور سپاہی وغیرہ ملا کر سینکڑوں احمدی تھے اور اب وہ سارے ہی قید ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ وہ زندہ ہیں یا مر گئے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ انہیں تکلیفیں دی جا رہی ہیں یا نہیں دی جا رہیں اور اگر نہیں دی جا رہیں تو بھی قید بہرحال قید ہے۔ ہمارا ایک مبلّغ سنگا پور میں تھا اورہمارے آٹھ نو مبلّغ سماٹرا اور جاوا میں تھے ان سب کے متعلق اب جب تک جنگ کا خاتمہ نہ ہو جائے ہمیں کچھ علم نہیں ہو سکتا کہ ان کا کیا حال ہے۔ حالانکہ وہ ان ممالک میں ہمارا فرض ادا کر رہے تھے۔ جب کوئی شخص اپنے وطن اور اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر تبلیغ کے لئے جاتا ہے تو درحقیقت وہ ہمارافرض ادا کرنے کے لئے جاتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تبلیغ ویسی ہی میرے اور تمہارے ذمہ ہے جیسے اس کے ذمے۔ مگر اس نے ہمارے بوجھ کو آپ اٹھا لیا اور ہمارے کام کو پورا کرنے کے لئے اس نے اپنی جان کو خطرہ میں ڈالا اور اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر غیر ملک میں تبلیغ اسلام کے لئے چلا گیا یا اگر اس ملک کا ہی باشندہ تھا تب بھی اس نے مبلغ ہو کر ہزاروں لاکھوں کی دشمنیاں مول لے لیں۔ اگر وہ جماعت کا ایک عام فرد ہوتا تو اس کی زیادہ دشمنی نہ ہوتی مگر چونکہ وہ مبلّغ بن گیا اس لئے مبلّغ ہونے کی وجہ سے سب لوگوں نے اس کو اپنی مخالفت کا مرکز بنا لیا۔
پس جو مبلّغ وہاں کے رہنے والے ہیں وہ بھی ہمارا ہی فرض ادا کرتے ہیں جیسے سماٹرا اور جاوا میں ہمارے کئی مبلّغ ایسے ہیں جو وہاں کے ہی رہنے والے ہیں۔ وہ پہلے یہاں پڑھنے کے لئے آئے اور جب تعلیم حاصل کر کے اپنے ملک کو واپس چلے گئے تو بعض کو ہم نے مبلغ مقرر کر دیااور بعض کو وہاں کی جماعتوں نے مبلغ مقرر کر دیا۔ ان لوگوں نے جماعت کی خاطر اور ہم میں سے ہر ایک کی خاطر اپنے آپ کو آگ کے سامنے کھڑا کر دیاتاکہ خدا کے سامنے ہم بَری ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ کہے کہ اس جماعت نے تبلیغ کے کام کو جاری رکھا تھا۔ اگروہ لوگ اپنے آپ کو تبلیغ کے لئے پیش نہ کرتے، اگر وہ لوگ اپنا وطن چھوڑ کر غیر ممالک میں تبلیغ کے لئے نہ جاتے، اگر وہ لوگ اپنی بیوی اور اپنے بچوں کی قربانی نہ کرتے یا اگر وہ لوگ اپنے آپ کو تبلیغ کے لئے پیش کر کے دنیا کی دشمنی مول نہ لیتے تو خداتعالیٰ کے حضور وہی مجرم نہ ہوتے بلکہ ہم بھی ہوتے اور خدا تعالیٰ کہتا کہ جماعتی طور پر تم نے تبلیغ میں کوتاہی سے کام لیا ہے۔ مگر ان کے تبلیغ پر چلے جانے کی وجہ سے وہی بری الذمہ نہیں ہو گئے بلکہ ہم بھی بری الذمہ ہو گئے ہیں اوراس تبلیغ کا ثواب صرف انہیں ہی نہیں ملتا بلکہ ہمیں بھی ملتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ سمجھتا ہے کہ تمام جماعت تبلیغ کا فرض ادا کر رہی ہے۔ گویا جب خدا کے حضور خوشنودی کا وقت آیا تو تم آگے بڑھے اور تم نے کہا کہ خدایا یہ ہمارا بھائی تھا اور خدا نے تمہارے اس عذر کو قبول کر لیا اور اس نے فیصلہ کیا کہ جس جس جگہ مبلغ گیا ہے ۔ اس جگہ کے متعلق یہ نہیں سمجھا جائے گا کہ وہاں صرف ایک مبلغ گیا ہے بلکہ یہ سمجھا جائے گا کہ وہاں ساری جماعت گئی ہے اور صرف اسے ہی ثواب نہیں ملے گا بلکہ ساری جماعت کو تبلیغ کا ثواب دیا جائے گا لیکن جب وہ مبلغ مصیبتوں میں مبتلا ہوئے ، قید و بند کی تکلیفوں میں ڈالے گئے اور انہیں جانی اور مالی نقصان پہنچا۔ تو اگر ان مصیبتوں میں تمہاری بھی کسی بے پروائی کا دخل ہؤا تو تم کس طرح سمجھ سکتے ہو کہ انعام کے لئے تو ان مبلغوں کے ساتھ تمہارا نام لکھ دیا جائے گا مگر سزا کے لئے تمہارا نام نہیں لکھا جائے گا یا تو تمہیں یہ پوزیشن قبول کرنی چاہئے کہ ہم خدا کے مجرم ہیں۔ ہم نے تبلیغ نہیں کی اور اگر تم اس پوزیشن کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اور تم سمجھتے ہو کہ جب کوئی مبلغ تبلیغ کرتا ہے تو درحقیقت وہ تمہارا کام کرتا ہے اور تم اس کے ثواب میں شریک ہو تو تمہیں سمجھ لینا چاہئے کہ جب وہ مبلغ تمہاری کسی غفلت اور کوتاہی کی وجہ سے قید و بند کی تکالیف میں مبتلا ہوتا ہے اور اس طرح تبلیغ کے راستہ میں روک پیدا ہو جاتی ہے توسزا کے بھی تم ہی مستحق ہو۔ اسی طرح وہ تمام لوگ جو انگریزوں کی شکست پر خوشی کا اظہار کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اچھا ہؤا انگریزوں کو خوب سزا مل رہی ہے۔ مَیں کس طرح مان لوں کہ وہ دعاؤں میں ہمارے ساتھ شریک ہؤا کرتے تھے یقیناً وہ دعاؤں میں شریک نہیں ہؤا کرتے تھے اور یقیناً وہ دعاؤں میں شریک نہیں ہو سکتے تھے اور اگر وہ دعا کرتے بھی تھے تو منافقت سے کام لیتے تھے اور یقیناً خدا ان کی دعا ان کے منہ پر مارتا ہو گا کہ ادھر تو تم انگریزوں کی شکست پر خوش ہوتے ہو اور ادھر کہتے ہو کہ تمہارے مبلّغ اور جماعت کے دوسرے افراد بچ جائیں۔ پس ان تمام احمدیوں کی تکلیف کا موجب درحقیقت وہی لوگ ہیں جنہوں نے دعاؤں میں کوتاہی سے کام لیا۔ فرض کرو خدا نےسو آدمیوں کی متفقہ دعا قبول کرنی تھی۔ جن میں سے نوّے آدمیوں نے تو دعا کی مگر دس نے غفلت کی یا ایسی حالت میں دعا کی جب کہ ان کا دل اس دعا کے خلاف تھا تو ایسی حالت میں سو آدمیوں کی دعا سے جو نتیجہ نکلنا چاہئے تھا وہ نہیں نکلے گا اور محض دس آدمیوں کی غفلت کی وجہ سے سب لوگ تکلیف میں مبتلا ہو جائیں گے۔ آخر تم یہ کس طرح کہہ سکتے ہو کہ آگ تو جلے مگر تم اس آگ میں نہ جلو۔ یہ عقل کے بالکل خلاف ہے اگر آگ لگے گی تو تم کو بھی لگے گی۔ اور اگر دنیا میں تباہی و بربادی آئے گی تو وہ تباہی و بربادی تم پر بھی اثر انداز ہوئے بغیر نہیں رہے گی۔ یہ خدا کا قانون نہیں ہے کہ عام عذاب کے وقت چن چن کر کسی جماعت کے تمام افراد کو بچا لے پس مَیں سمجھتا ہوں کہ وہ تمام لوگ جو ایسے مواقع پر خوشی کا اظہار کیا کرتے تھے یا عدم دلچسپی ظاہر کیا کرتے تھے۔ ان مشکلات اور تباہیوں کی وجہ سے جو ہماری جماعت کے سینکڑوں آدمیوں اور مبلّغوں پر بھی اثر انداز ہوئی ہیں۔ خدا کے سامنے مجرم ہیں اور ان کی قیدوں اور تکلیفوں کے وہی لوگ ذمہ دار ہیں۔
اب مَیں پھر جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ یہ فتنہ ہندوستان کے اَور زیادہ قریب پہنچ گیا ہے۔ پہلے صرف وہی مبلّغ اس کی زد میں تھے جو باہر گئے ہوئے تھے اور پہلے صرف وہی سپاہی اس کی زد میں تھے جو ہندوستان سے باہر تھے مگر اب تم میں سے ہر شخص اس کی زد میں ہے۔ جو حکومت کسی جگہ دیر سے قائم ہوتی ہے وہ بھی بعض دفعہ سختی کرتی ہے جیسے آجکل لوگوں کو شکوہ ہے کہ حکومت فوجیوں کے لئے غلّہ ہندوستان سے باہر لے گئی ہے حالانکہ باہر جانے والے سپاہی ہمارے ہی آدمی ہیں۔ اگر وہ ہمارے ملک میں ہوتے تو کیا وہ غلہ نہ کھاتے۔ اگر وہ یہاں ہوتے تو انہوں نے یہاں بھی غلہ استعمال کرنا تھا۔
پس میں نہیں سمجھتا کہ ان کے لئے غلہ لے جانا ہمارے لئے مضر کس طرح ہو گیا۔ کئی لاکھ سپاہی اس وقت ہندوستان سے باہر ہیں۔ اگر وہ باہر نہ ہوتے تو یہاں بھی انہیں غلہ کی ضرورت پیش آتی اور اس صورت میں بھی گندم ان کے لئے اتنی ہی خرچ ہوتی، جتنی اب ان کے لئے بھجوائی گئی ہے لیکن بہرحال وہ حکومت جو دیر سے قائم ہوتی ہے ایسے معاملات میں عموماً احتیاط سے کام لیتی ہے مگر نئی حکومتیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کرتیں ، ان کے مدنظر صرف ایک ہی بات ہوتی ہےا ور وہ یہ کہ ان کے آدمیوں اور ان کے ملک کو فائدہ پہنچے۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ مفتوح ملک کے لوگوں کا کیا حال ہے بلکہ وہ اپنے آرام اور اپنی آسائش اور اپنے ملک کے لوگوں کی ترقی کا خیال رکھتے ہیں اور جو کچھ انہیں ملتا ہے لوٹ لیتے ہیں۔ ان حالات کے نتیجہ میں جو تکلیف نئی آنے والی حکومت سے پہنچی ہے وہ پرانی قائم شدہ حکومت سے بہت زیادہ ہوتی ہے۔ پھر لڑائی میں گولہ باری ہوتی ہے۔ کیا تم سمجھتے ہو اگر ہمارے ملک میں بھی لڑائی آ جائے تو شہروں اور دیہات کی وجہ سے حکومت توپیں چلانا چھوڑ دے گی۔ ایسے موقع پر یہ قطعاً نہیں دیکھا جاتا کہ گولوں کی زد میں کوئی شہر آ رہا ہے یا گاؤں۔ اصل مقصد سامنے یہ رکھا جاتا ہے کہ لڑائی میں فتح ہو اور اگر فوجی ضرورت کے باوجود گولہ باری نہ کی جائے تو یہ بہت بڑی غداری ہوتی ہے۔
دہلی کی بادشاہت کا تختہ الٹنے میں بہت بڑا دخل اسی غداری کا تھا۔ شاہی قلعہ میں ایک ایسی جگہ توپ لگی ہوئی تھی جس کی زد عین انگریزی فوج پر پڑتی تھی مگر انگریزی جرنیل بڑا ہوشیار تھا۔ اس نے فوراً بادشاہ کی بیگم 1 کو رشوت دی اور اسے کہلا بھیجا کہ تمہارے بیٹے کو بادشاہ بنا دیا جائے گا تم کسی طرح توپ نہ چلنے دو۔ بادشاہ کو وہ بیوی بڑی پیاری تھی ۔ جب سپاہیوں نے زور دیا کہ قلعہ شاہی سے توپ چلائی جائے ورنہ فتح کی کوئی امید نہیں تو اس نے توپ چلانے کی اجازت دے دی مگر ابھی ایک گولہ ہی چلا تھا کہ بیگم نے اپنا دل پکڑ لیا اور شور مچانے لگ گئی کہ ہائے مَیں مر گئی ، ہائے مَیں مر گئی۔ آخر مجبوراً بادشاہ کو حکم دینا پڑا کہ توپ نہ چلائی جائے۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ بادشاہ قید ہو گیا، شہزادے قتل ہو گئے اور جس لڑکے کے متعلق کہا گیا تھا کہ اسے بادشاہ بنا دیا جائے گا وہ بھی مارا گیا یا قید ہو گیا۔ تو جس وقت لڑائی ہوتی ہے اس وقت یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کسی کو کیا تکلیف ہوتی ہے بلکہ اس وقت جرنیلوں کا فرض ہوتا ہے کہ کسی بات کی پرواہ نہ کریں اور اگر گاؤں درمیان میں آ جائیں تو انہیں بھی تباہ ہونے دیں۔ اس وقت اس گاؤں یا شہر کو بچانا کسی حکومت کے ذمہ نہیں ہوتا بلکہ یہ تو انگریزی حکومت ہے اگر اسلامی حکومت ہو تب بھی ہم اس سے یہ امید نہیں کر سکتے کہ وہ گاؤں کو بچانے کا فکر کرے گی اور فوجی ضروریات کو مقدم نہیں رکھے گی۔ ایسی حالت میں بے شک اگر کوئی گاؤں اڑتا ہے تو اُڑ جائے، جلتا ہے تو جل جائے۔ اس کی پرواہ نہیں کی جائے گی۔
پس حالات نہایت ہی نازک صورت اختیار کر رہے ہیں۔ ایسی حالت میں ہمیں بہت زیادہ دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ ان فتنوں کو دور کرے اور دنیا کو اس عذاب سے نجات دے۔ اگر تم اپنے بھائیوں کی قید کی تکلیف کو اب دور نہیں کر سکتے اور اپنی غفلت سے تم نے پہلے وقت کو ضائع کر دیا ہے۔ تو اب مزید لوگوں کو تکلیف سے بچانے کے لئے دعاؤں میں لگ جاؤ تا اللہ تعالیٰ ہمارے پچھلے گناہ معاف کرے اور آئندہ ہمارے بھائیوں اور بہنوں کی حفاظت فرمائے۔ اس وقت ہماری جماعت کے ہزاروں آدمی فوج میں شامل ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو ابھی کام سیکھ رہے ہیں۔ اگر ان ہزاروں احمدیوں کا بھی کسی شخص کے دل میں درد نہیں ہے تو مَیں ہرگز نہیں سمجھ سکتا کہ وہ سچا احمدی ہے۔ سچا احمدی تو وہ ہے جو ایک چھوٹے سے چھوٹے احمدی کی تکلیف کو بھی اس طرح محسوس کرے کہ گویا اس کی ساری اولاد ذبح کر دی گئی ہے۔ جب تک اپنے بھائیوں کے متعلق ہمارے دلوں میں ایسا درد پیدا نہ ہو۔ اس وقت تک ہم ہرگز سچے احمدی نہیں کہلا سکتے۔
دوسری بات جس کی طرف مَیں توجہ دلانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ جلسہ سالانہ کے موقع پر مَیں نے جماعت کے دوستوں سے کہا تھا کہ جنگ کا ایک خطرناک اثر یہ ہوتا ہے کہ ملک میں قحط پڑ جاتا ہے اور مَیں نے کہا تھا کہ جہاں تک ہو سکے ہر زمیندار کو غلہ محفوظ رکھنا چاہئے تاکہ اگر تکلیف کا وقت آئے۔ تو ہم نہ صرف اپنے لئے بلکہ اپنے ہمسائیوں کے لئے بھی روٹی کا انتظام کر سکیں۔ اس وقت میری تقریر میں قادیان کے لوگ بھی بیٹھے تھے اور باہر کی جماعتوں کے دوست بھی موجود تھے مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ لوگوں نے میری اس بات کی طرف توجہ نہ کی۔ چنانچہ اب جو مجھے رپورٹیں پہنچی ہیں اور پہنچ رہی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ سینکڑوں آدمی ایسے ہیں جو روزانہ روٹی کے لئے غلہ کے محتاج ہیں۔ مجھے اطلاعیں ملی ہیں کہ بیسیوں آدمیوں کو گزشتہ دنوں باوجود اس بات کے کہ ان کے پاس پیسے تھے۔ غلہ نہ ملا اور انہیں فاقہ کرنا پڑا۔ مجھے بعض روٹیاں دکھائی گئی ہیں جو میرے نزدیک جانوروں کے کھانے کے بھی قابل نہیں مگر لوگ ان ایام میں وہ کھاتے رہے۔
مَیں نے آج سے دو مہینے پہلے (کیونکہ سفر پر جانے سے پندرہ بیس دن پہلے کی یہ بات ہے) بعض دوستوں کو جو آسودہ حال تھے، کہلا بھیجا تھا کہ غلہ خرید لو کیونکہ ملک میں قحط کے آثار پائے جاتے ہیں اور میری غرض اس سے یہ تھی کہ اگر وہ غلہ خرید لیں گے تو مصیبت کے وقت وہ غرباء کا غلہ چھیننے والے نہیں بنیں گے۔ مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ قریباً ساروں نے جواب دے دیا اور کسی نے بھی غلہ نہ خریدا۔ کسی نے تو یہ جواب دیا کہ ہمیں ضرورت ہی نہیں۔ کسی نے یہ جواب دیا کہ ضرورت ہوئی تو خرید لیا جائے گا اور کسی نے یہ جواب دیا کہ ہمارا تو توکّل پر گزارہ ہے مگر اب وہ توکّل پر گزارہ کرنے والے بھی امور عامہ میں عرضیاں لے لے کر آتے ہیں کہ ہمارے لئے آٹے کا انتظام کیا جائے۔ اگر انہوں نے اس وقت میری بات کو مان لیا ہوتا تو آج ان کی یہ حالت کیوں ہوتی۔ مجھے افسوس ہے کہ جماعت کے دوستوں میں ابھی تک اطاعت کا کامل مادہ پیدا نہیں ہؤا۔ کیا تم سمجھتے ہو اگر رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں صحابہؓ کو ایسا حکم دیا جاتا تو وہ اس میں کوتاہی کرتے۔ مَیں تو سمجھتا ہوں اگر انہیں دس دس من گندم خریدنے کے لئے کہا جاتا تو وہ بیس بیس مَن خرید لیتے۔ اگر میری تحریک پر جماعت کے ان دوستوں نے گندم خرید لی ہوتی تو اب انہیں نیکی کی کتنی توفیق مل جاتی اور کس طرح نہ صرف وہ اپنا گزارہ کرسکتے بلکہ دوسرے غرباء کی بھی مدد کر سکتے مگر اب تو ان کی یہ حالت ہے کہ جو غلہ ہم غریبوں کے لئے لاتے ہیں۔ اس میں بھی وہ شریک ہو جاتے ہیں اور اس طرح بجائے ان کی مدد کرنے کے ان کے حصہ کو بھی چھیننے والے بن رہے ہیں۔ یہ اسی غفلت کا نتیجہ ہے جو دوستوں سے سرزد ہوئی۔ حالانکہ مَیں نے یہ تحریک ایک خواب کی بناء پر کی تھی جو ایک عورت نے مجھے سنایا اور جس کو سنتے ہی مَیں نے یقین کر لیا تھا کہ یہ خدائی خواب ہے۔ اس عورت نے سنایا کہ مَیں نے خواب میں دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة وا لسلام تشریف لائے ہیں اور فرماتے ہیں کہ دو ہزار کا غلہ خرید لو یا یہ کہ دو ہزار مَن غلہ خرید لو کیونکہ قحط پڑنے والا ہے۔ مَیں نے یہ رؤیا سنتے ہی سمجھ لیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے چنانچہ مَیں نے ایک آدمی مقرر کیا اور خاص طور پر ان لوگوں کو تحریک کی جو غلّہ خریدنے کی توفیق رکھتے تھے مگر جہاں تک مَیں سمجھتا ہوں۔ ان میں سے ایک نے بھی غلّہ نہیں خریدا۔ اب ہم اس کے ازالہ کے لئے کوشش کر ہے ہیں چنانچہ آج ہی مَیں نے صدر انجمن احمدیہ کو پانچ ہزار روپیہ کے خرچ کی اجازت دی ہے تاکہ اس سے غلہ خرید کر لوگوں کو مہیا کیا جائےاور گو صدر انجمن احمدیہ مول ہی دے گی مگر وہ غلہ اسی صورت میں جمع کر سکتی ہے جب اس کے خریدنے کے لئے روپیہ پاس ہو اورغلہ بھی میسر آ جائے۔ ابھی نئی فصل کے نکلنے میں قریباً ڈیڑھ ماہ باقی ہے اور قادیان کا خرچ سَو من روزانہ ہے۔ گویا ہمیں قادیان کے لئے پانچ ہزار من غلّہ کی ضرورت ہے لیکن آجکل اس قسم کے حالات پیدا ہو چکے ہیں کہ 20 ، 30 من غلّہ لینا ہو تب بھی بڑی مشکل پیش آتی ہے۔
مَیں اس امر کی بھی تحقیقات کر رہا ہوں کہ اگر بیرونی صوبوں سے غلّہ لانے کی اجازت ہو تو سندھ سے غلّہ لانے کا انتظام کیا جائے کیونکہ سندھ میں غلّہ کچھ پہلے پک جاتا ہے مگر ابھی مجھے یقینی طور پر معلوم نہیں کہ گورنمنٹ کی طرف سے اس کی اجازت ہے یا نہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہاں سے غلّہ لانے میں خرچ زیادہ ہوتا ہے لیکن جب غلّہ ملتا ہی نہ ہو تو اس وقت قیمت کے تھوڑے یا بہت ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وہاں سے اگر ہم غلہ لائیں تو قریباً چھ روپے چار آنے من پڑے گا۔ یعنی روپے کا ساڑھے چھ سیر۔ گورنمنٹ کا بھاؤ آٹھ سیر ہے۔ ہم اس بات کے لئے بھی تیار ہیں کہ اس نقصان کو خود برداشت کر لیں اور اگر اجازت ہو تو وہیں سے غلہ منگوا لیا جائے مگر ابھی مجھے معلوم نہیں کہ گورنمنٹ کی طرف سے اس کی اجازت ہے یا نہیں۔ احتیاطاً مَیں وہاں کی جماعت کے دوستوں کو ہدایت دے آیا ہوں کہ وہ غلّہ کو جمع کرنے کی کوشش کریں تاکہ اگر اجازت ہو تو وہاں سے غلّہ منگوایا جا سکے۔ مجھے یہ بھی افسوس ہے کہ مَیں نے صاحبِ استطاعت لوگوں پر کیوں انحصار کیا۔ اگر مَیں عام اعلان کر دیتا تو شاید غرباء ہی دو دو من گندم خرید لیتے اور اس طرح اس عام تکلیف سے بچ جاتے۔ بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جن پر عمل کرنے میں غرباء کو زیادہ توفیق مل جاتی ہے اور امراء کو نہیں ملتی۔
پس شاید یہ میری ہی غلطی تھی کہ مَیں نے چند آدمیوں پر انحصار کیا اور جماعت میں عام اعلان نہ کر دیا۔ بہرحال یہ دن بہت نازک ہیں۔ ان ایام میں زیادہ سے زیادہ دوسروں کی ہمدردی کرنی چاہئے۔
اب بھی مَیں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ اسے اپنی غذا کو بدلنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ جنگ کے دنوں میں تو بعض دفعہ چھ چھ سات سات وقت کا بھی فاقہ ہو جاتا ہے۔ اس لئے مناسب یہی ہے کہ جماعت کے دوست ابھی سے اپنی غذا کو بدل دیں۔ گندم نہیں ملتی تو جَو پر گزارہ کریں۔ جَو نہیں ملتے تو مکّی پر گزارہ کریں اور جن کو چاول میسر ہوں وہ چاولوں پر گزارہ کریں۔ خصوصاً آسودہ حال لوگ اگر ان دنوں چاول کھانے کی عادت ڈال لیں تو یہ غرباء کی امداد ہو گی۔ چھ مہینہ تک اگر وہ ایک وقت چاول کھانے کی عادت ڈال لیں تو ان کی صحت کو بھی کوئی ایسا نقصان نہیں ہو گا اور گندم کی گاہکی میں بھی کمی آ جائے گی اور غرباء کو کھانے کے لئے غلّہ مل جائے گا۔ اسی طرح جو لوگ مکّی کھا سکتے ہیں ۔ وہ مکّی پر گزارہ کرنے کی کوشش کریں۔ گندم مل جائے تو بڑی اچھی بات ہے مگر مَیں نے جو گندم کا نمونہ دیکھا ہے وہ قطعاً انسانی خوراک بننے کے قابل نہیں۔ زیرہ کے برابر اس کا قد تھا اور رنگ ایسا تھا جیسے سیاہ گُڑ ہوتا ہے۔ ایسے غلّہ سے بھلا طاقت کیا آنی ہے او رلوگوں کی صحتوں پر اس نے کیا مفید اثر ڈالنا ہے۔
چونکہ اس وقت زمیندار دوست بھی بہت سے یہاں بیٹھے ہوئے ہیں اس لئے ان کو بھی مَیں نصیحت کرتا ہوں کہ اگلی فصل پر وہ اپنی ضرورت سے زیادہ غلّہ محفوظ رکھیں اور سوائے اشد ضرورت کے روپیہ کی صورت میں غلّہ بدلنے کی کوشش نہ کریں۔ غالباً یہ سال یعنی 1942ء مشکلات کا آخری سال معلوم ہوتا ہے۔ 1942ء کے آخر یا 1943ء کے شروع میں حالات ایسا پلٹا ضرور کھا جائیں گے کہ دنیا کو پتہ لگ جائے گا کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے۔ اس لئے اس سال خصوصیت کے ساتھ ہر کام جماعتی رنگ میں ادا کرو اور اگر پہلے غلطی سے تم اپنے آپ کو صحیح طور پر جماعت کا فرد ثابت نہیں کر سکے تو اب اس غلطی کا ازالہ کرنے کی کوشش کرو اور مصیبت کے وقت نفسی نفسی والی صورت اختیار نہ کرو کہ اس طرح انسان جماعتی رنگ میں دوسرے کی امداد کا مستحق نہیں رہتا۔ قرآن کریم نے یہ منافقوں کی علامت بیان کی ہے کہ جب مسلمان جنگ کے لئے جاتے تھے تو کہتے تھے ہم اپنے آپ کو مصیبت میں کیوں ڈالیں مگر جب وہ فتح کے بعد غنیمت کے اموال لے کر واپس آتے تھے تو منافق ان کے پاس دوڑے ہوئے جاتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم بھی تمہارے بھائی ہیں ہمیں بھی مال غنیمت میں سے حصہ ملنا چاہئے۔
پس یہ منافق کی علامت ہے کہ وہ سکھ اور آرام کے وقت تو جماعت کے ساتھ شامل رہتا ہے مگر تکلیف کے دنوں میں اپنے آپ کو جماعت کا فرد نہیں سمجھتا۔ تمہیں چاہئے کہ تم تکلیف کے دنوں میں جماعت کے فرد بنو تا راحت کے دنوں میں خدا تمہیں ان نعمتوں سے حصہ دے جو خدا نے جماعت کے لئے مقدر کی ہوئی ہیں۔
مجھے یہ بات بھی بڑے افسوس سے معلوم ہوئی ہے کہ بعض احمدی دکانداروں نے ان دنوں غلّے چھپا لئے تھے۔ مَیں اس بات کی تحقیقات کروں گا اور اگر کسی دکاندار کے متعلق یہ بات ثابت ہوئی کہ اس نے غلّہ چھپا رکھا تھا جو انسانیت اور قانون دونوں لحاظ سے نہایت ہی شرمناک امر ہے تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ اس قسم کا آدمی ہماری جماعت میں نہیں رہ سکتا۔ مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہو گی کہ نام کے لحاظ سے وہ احمدی کہلاتا ہے کیونکہ ہمیں اس قسم کے نام کے احمدیوں کی ضرورت نہیں۔ پس ہر وہ دکاندار جس کے متعلق یہ بات ثابت ہو گئی اس کی سزا یہی ہو گی کہ اسے جماعت سے خارج کر دیا جائے گا۔ اگر تم لوگوں کی مصیبت کے وقت بھی اپنا فائدہ سوچتے ہو تو ہمیں کیا ضرورت ہے کہ لوگوں کو ہدایت دیں کہ وہ دوسروں سے سودا نہ خریدیں۔ صرف تم سے سودا خریدیں۔ میری خلافت کے ایام میں سے 22 سال سے یہاں کے دکاندار فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ہر احمدی کو مجبور کیا جاتا ہے کہ خواہ اسے مہنگا سودا ملے وہ احمدی دکاندار سے ہی لے دوسروں سے نہ لے۔ پس کیا یہ قابل شرم بات نہیں کہ جب لوگوں کی تکلیف کا وقت آیا تو انہوں نے غلّے کے ذخیروں کو چھپا لیا۔ 22 سال تک جماعت کے لوگ ان سے سودا خریدتے رہے اور انہیں آنہ دو آنے زیادہ دیتے رہے۔ محض اس لئے کہ وہ احمدی ہیں۔ انہیں ہندوؤں سے سستا سودا مل سکتا تھا مگر انہوں نے نہ لیا اور یہی کہا کہ ہم احمدی دکاندار سے سودا لیں گے۔ پس 22 سال انہوں نے احمدی لوگوں سے فائدہ اٹھایا مگر جب ایک سال ان پر تنگی کا آیا تو ان میں سے بعض نے غلّے دبا لئے۔ اس قسم کا انسان میرے نزدیک ہرگز احمدی نہیں کہلا سکتا اور اللہ تعالیٰ نے جب تک مجھ کو توفیق دی۔ ایسے آدمی جماعت کے ساتھ ہرگز نہیں رہیں گے۔ میرے نزدیک تو اس قسم کا انسان انسان کہلانے کا بھی مستحق نہیں۔ کُجا یہ کہ اسے احمدی سمجھا جائے۔ یہ دن تو ایسے خطرہ کے ہیں کہ جن کے پاس تھوڑا بہت غلّہ ہے۔ انہیں بھی لے آنا چاہئے تھا اور کہنا چاہئے تھا کہ آؤ ہم سارے مل جائیں۔ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں اس قسم کے واقعات نظر آتے ہیں۔ ایک موقع پر کھانے کی کمی ہو گئی تو آپ نے فرمایا جس کے پاس جو کچھ ہے لے آئے۔ چنانچہ جس کے پاس جو کچھ تھا، لے آیا اور آپ نےسب میں برابر بانٹ دیا۔2 میرے نزدیک ہم جماعت کے فرد کبھی کہلا ہی نہیں سکتے جب تک زندگی اور موت میں ہم سب اکٹھے نہ ہوں۔ آرام کی حالت میں بے شک مختلف اموال مختلف افراد کی ملکیت ہوتے ہیں۔ کچھ مال زید کا ہوتا ہے، کچھ بکر کا ہوتا ہے ، کچھ خالد کا ہوتا ہے مگر مصیبت کے وقت سارا مال قوم کا ہوتا ہے اور لوگوں کا فرض ہوتا ہے کہ سب اکٹھے ہو کر کھائیں۔ پھر چاہے ذخیرہ ختم ہو جانے کے بعد سارے ہی مر جائیں۔ پس اگر کسی دکاندار نے ایسا کیا ہے تو ہم پورا زور لگا کر اس کی تحقیقات کریں گے ا وراسے جماعت میں نہیں رہنے دیں گے۔ اسی طرح ایسے شخص کو قادیان میں بھی رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ہاں اگر وہ مرتد ہو کر احراریوں سے مل جائے تو اَور بات ہے جماعتی فرد ہونے کے لحاظ سے وہ قادیان میں نہیں رہ سکے گا۔
مَیں باہر کی جماعتوں کو اس امر کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کہ جیسا کہ جلسہ سالانہ کے موقع پر مَیں نے کہا تھا خطرات کے وقت دوستوں کو مرکز میں جمع ہونے کی کوشش کرنی چاہئے۔ مَیں نے کہا تھا کہ جو دوست قادیان آ سکیں وہ قادیان آ جائیں اور جو نہ آ سکیں وہ ضلع کے کسی مقام پر جہاں جماعت زیادہ ہو یا جہاں احمدی مالک ہوں جمع ہو جائیں۔ میری اس تحریک پر بعض اضلاع کی جماعتوں نے اپنے اپنے حلقوں میں مرکز تجویز کرنے کا انتظام کر لیا ہے۔ مگر جہاں مرکز نہ بن سکے وہاں کے دوستوں کو قادیان آنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس وقت قادیان میں کئی لوگوں نے اپنی بیویوں اور بچوں کو بھیج دیا ہے اور کئی بھیجنے والے ہیں۔ ان سب کی خبرگیری کرنا اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنا ہماری جماعت کا فرض ہے۔ ہمیں بعض غیر احمدیوں کی طرف سے بھی اطلاع ملی ہے کہ وہ بھی اپنے بیوی بچے قادیان میں بھیجنا چاہتے ہیں۔ ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں اور ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان مصیبت کی گھڑیوں میں اپنے نمونہ سے اس بات کو ثابت کر دیں گے کہ ہماری ہمدردی کسی خاص جماعت سے وابستہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق سے ہمدردی کرنا ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے لئے اپنی جماعت کے افراد کی جان، مال اور ناموس کی حفاظت کرنا زیادہ ضروری ہے کیونکہ ان کا اَور کوئی نگران نہیں لیکن اگر کوئی غیر شخص ہم پر اعتماد کرتا ہے اور وہ اپنی جان، مال اور ناموس کی حفاظت ہمارے سپرد کرتا ہے تو خطرہ کے اوقات میں جس طرح ہم اپنی جان مال اور ناموس کی حفاظت کریں گے اسی طرح ہم دوسروں کی جان مال اورناموس کی بھی حفاظت کریں گے۔ پس مَیں پھر جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے فرض کو سمجھیں اور ان دنوں میں بہت ہی خشیت اللہ سے کام لیں۔ ہر شخص جس قدر زیادہ سے زیادہ قربانیاں کر سکتا ہے اسی قدر قربانیاں کرے اور مصیبت کے وقت اپنے آپ کو دوسروں کا مُمِد اور معاون ثابت کرے ۔ مالداروں کو بھی سمجھ لینا چاہئے کہ خطرہ کے وقت دوسروں کی مدد کی سب سے زیادہ ضرورت انہی کو ہو گی۔ غریب کا کیا ہے وہ تو تہ بند اٹھائے گا اور چل پڑے گا۔ زیادہ دقت مالداروں کو ہی پیش آئے گی۔ پس اگر وہ اس تکلیف کے وقت دوسروں کے کام نہیں آتے تو ان کا کوئی حق نہیں ہو گا کہ وہ مصیبت کے وقت ہم کو اپنی مدد کے لئے بلائیں۔ اس وقت ہم انہیں یہی کہیں گے کہ اپنے خزانے لے جاؤ اور جہاں رکھ سکتے ہو رکھ دو۔ اگر روپے کی کوئی قیمت تھی تو وہ تکلیف کے وقت کام آنا چاہئے تھا۔ یوں اسلام میں مال و دولت جمع کرنے کی اجازت ہے۔ مَیں خود زمیندار ہوں اور اپنے پاس زمینیں رکھتا ہوں مگر مصیبت کے وقت کسی کی کوئی ملکیت نہیں ہوتی۔ اس وقت سب کو مل کر کام کرنا چاہئے اور یہی اسلام کی تعلیم ہے۔ مَیں جماعت کے عہدیداروں کو بھی ان امور کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ مَیں خوش ہوں کہ امور عامہ والوں نے ہمت سے کام لیا اور فراہمی غلّہ کے لئے بہت کوشش کی ہے۔ مگر مَیں امید کرتا ہوں کہ وہ آئندہ اس سے بھی زیادہ قربانی کریں گے اور پوری کوشش کریں گے کہ ہر شخص کو غلّہ میسر آ تا رہے۔اس کے لئے رات دن ، اگلے پہر اور پچھلے پہر کا کوئی سوال نہیں۔ ہر وقت انہیں خدمت کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ اسی طرح وہ فوراً گورنمنٹ سے دریافت کریں کہ آیا دوسرے صوبہ سے غلّہ منگوایا جا سکتا ہے یا نہیں۔ اگر اس بات کی اجازت ہو تو ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے آسانی کے ساتھ اس کا انتظام کر سکتے ہیں۔ لیکن بہرحال آئندہ کے لئے زمینداروں کو احتیاط سے کام لینا چاہئے اور سوائے اس غلّہ کے جو فروخت کر چکے ہیں یا معاملہ کے لئے فروخت کریں باقی سب غلّے کا اپنے پاس ذخیرہ رکھیں اور کپڑے لتّے کے لئے بھی اسے فروخت نہ کریں۔ کیونکہ کپڑے لتّے بھی تبھی کام آتے ہیں جب امن ہو ورنہ آرام کے وقت اگر انسان پانچ جوڑوں میں گزارہ کیا کرتا ہو تو مصیبت کے وقت دو جوڑوں میں ہی گزارہ کر لیتا ہے اور اگر پہلے دو جوڑوں میں گزراہ کرنے کا انسان عادی ہو تو پھر ایک جوڑہ میں ہی گزارہ کر لیا کرتا ہے اور اگر پہلے ایک جوڑے میں انسان گزارہ کیا کرتا ہو تو مصیبت کے وقت پھٹے پرانے کپڑے پہن کر بھی گزارہ کر لیتا ہے۔ پس انہیں کپڑوں کے لئے بھی غلّہ فروخت نہیں کرنا چاہئے۔ صرف ایک دو سال کی بات ہے۔ بظاہر یہ اب ایک سال کی بات ہے جس میں جنگ خاص پلٹا کھا جائے گی لیکن اگر دو سال بھی ہوں تو بھی دو سال انسان پھٹے ہوئے کپڑے پہن کر گزارہ کر سکتا ہےاس لئے گو غلّہ کو غلّہ کی صورت میں ہی رہنے دیں۔ کیونکہ سونے کے بغیر گزارہ ہو سکتا ہے، چاندی کے بغیر گزارہ ہو سکتا ہے لیکن غلّہ کے بغیر گزارہ نہیں ہو سکتا۔ سال بھر اگر کسی انسان کو ننگا رہنا پڑے تو وہ ننگا رہ سکتا ہے مگر بھوکا نہیں رہ سکتا۔ حضرت آدم علیہ السلام کے متعلق بعض روایات میں آتا ہے کہ وہ جسم پر پتے لٹکا کر ستر ڈھانکتے تھے۔ واقعہ کی صداقت کو تو خدا تعالیٰ ہی جانے مگر اس میں یہ سبق ضرور ہے کہ ضرورت کے موقع پر کپڑے کے بغیر بھی گزارہ ہو سکتا ہے لیکن غلّہ نہ ہو تو گزارہ نہیں کر سکتا۔ شیخ سعدی نے ایک نہایت ہی لطیف حکایت لکھی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کوئی بھوکا شخص تھا جسے کئی وقت کا فاقہ تھا۔ وہ ایک دن جنگل میں سے گزر رہا تھا کہ اسے ایک تھیلی زمین پر پڑی ہوئی نظر آئی۔ اس نے سمجھا کہ تھیلی میں مکی کے دانے ہیں۔ چنانچہ وہ نہایت شوق سے اس کی طرف لپکا اور اسے اٹھا کر کھولنے لگا مگر جب اس نے کھول کر دیکھا تو معلوم ہؤا کہ تھیلی میں دانے نہیں بلکہ موتی ہیں۔ اس نے نہایت غصے سے تھیلی کو زمین پر دے مارا اور پھر آگے چل پڑا۔ یہ مثال شیخ سعدی نے یہ بتانے کے لئے لکھی ہے کہ بھوک کےو قت موتی کی بھی کوئی قیمت نہیں ہوتی اس وقت سب سے مقدم چیز انسان کو پیٹ بھرنا نظر آتی ہے اور واقعہ یہی ہے کہ پیٹ بھرا ہؤا ہو تبھی انسان دشمن سے لڑ سکتا ہے۔ اپنی جان و مال اور دوسروں کی جان و مال کی حفاظت کر سکتا ہے ایک جگہ سے دوسری جگہ جا سکتا ہے لیکن اگر فاقہ سے ہو تو نہ وہ اپنی مدد کر سکتا ہے اور نہ دوسروں کی مدد کر سکتا ہے۔ روزوں میں اللہ تعالیٰ مومنوں کو یہی مشق کراتا ہے۔ چنانچہ روزوں کے ذریعہ ہم ہر سال اپنی زندگی میں ایسا وقت لاتے ہیں۔ جب ہم خدا کے لئے فاقہ کرتے ہیں اور ہم میں نہ صرف خود فاقہ برداشت کرنے کی عادت پیدا ہوتی ہے بلکہ ہمیں یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ فاقہ کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ جب بارہ گھنٹے کا فاقہ اتنی تکلیف کا موجب ہوتا ہے تو تم سمجھ سکتے ہو کہ جن لوگوں کو اس سے زیادہ فاقہ برداشت کرنا پڑے انہیں کتنی تکلیف ہوتی ہو گی۔ آجکل بہت سی ریلیں لڑائی کے کاموں کے لئے رکی ہوئی ہیں لیکن فرض کرو جنگ بڑھ جائے اور گورنمنٹ حکم دے دے کہ سوائے جنگ کی ضروریات کے اَور کسی کام کے لئے ریلیں نہیں چلائی جائیں گی۔ تو وہ ایسا کر سکتی ہے۔ موٹریں پہلے ہی رکی ہوئی ہیں۔ اس کے بعد فرض کرو۔ گورنمنٹ چھکڑوں اور گڈّوں کو بھی اپنے مصرف میں لے آئے تو اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہو سکے گا۔ یہ گورنمنٹ کا حق ہے کہ اگر وہ ضروری سمجھے تو ریلوں پر قبضہ کر لے۔ چھکڑوں اور گڈّوں کو بھی لے لے۔ ایسی حالت میں تم سمجھ سکتے ہو کہ دس پندرہ میل سے بھی غلّہ لانا مشکل ہو گا لیکن اگر غلّہ تمہارے گھروں میں ہو گا تو تم ان تکلیفوں کے باوجود اپنا گزارہ کر سکو گے۔ پس وقت کی ضرورت کو سمجھو اور جیسے مومن کو عقلمند اور ہوشیار ہونا چاہئے۔ ویسے ہی تم عقلمند اور ہوشیار بنو۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیا میں حوادث آتے رہتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو ان حوادث کی تکالیف کو کم کرنے کا ذریعہ بھی بتلا دیا ہے۔ جیسا کہ مَیں نے بتلایا ہے۔ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ایک دفعہ جب ایسی ہی تکلیف ہو گئی تو آپ نے فرمایا جس کے پاس جو کچھ کھانے کو ہےلے آئے، جس کے پاس دو سیر جَو تھے وہ دو سیر جَو لے آیا اور جس کے پاس مٹھی بھر جَو تھے وہ مٹھی بھر جَو لے آیا اور پھر سب غلّہ رسول کریم ﷺ نے صحابہؓ میں تقسیم کر دیا۔ اب فرض کرو اس کے بعد کوئی اور غلّہ نہ آتا تو یہ کتنی شاندار بات ہوتی کہ لوگ کہتے مسلمان زندہ رہے ہیں تو اکٹھے اور مرے ہیں تو اکٹھے۔ جو آدمی اس طرح قربانی کرتا ہؤ ا اپنی جان دیتا ہے۔ اس کی نسلیں اس پر فخر کرتی ہیں اور وہ ہمیشہ کے لئے زندہ ہو جاتا ہے۔ یوں مر جاؤ تو کوئی پوچھے گا بھی نہیں۔ لیکن اگر قحط کا زمانہ ہو اور تم سب مل کر یہ فیصلہ کر لو کہ ہم اکٹھے کھائیں گے اور اکٹھے مریں گے اورپھر اس فیصلہ کے مطابق عمل کرو تو قیامت تک لوگ تمہارے نام کو یاد رکھیں گے اور وہ اس واقعہ کا ذکر کر کے فخر محسوس کریں گے کہ انہوں نے کہا۔ ہم اکٹھے کھائیں گے اور اکٹھے مریں گے۔ چنانچہ انہوں نے اکٹھے کھایا اور اکٹھے ہی ذخیرہ ختم ہونے پر مر گئے۔
پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اپنے اعمال ان کے مطابق بناؤ اور اس امر کو اچھی طرح سمجھ لو کہ جب کوئی قوم خدا کی خاطرمرنے کے لئے تیار ہو جائے تو وہ نہیں مرا کرتی۔ جب مَیں تمہیں کہتا ہوں کہ تم مصیبت کے دنوں میں اکٹھے کھاؤ اور اکٹھے مرو تو اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ خدا بھی تمہیں مرنے دے گا اسے اگر ساری دنیا کو مارنا پڑے گا تو وہ مار دے گا مگر تمہیں نہیں مارے گا کیونکہ تم نے اس کے لئے مرنا قبول کر لیا اورجو شخص اس کے لئے مرنا قبول کرے اور اللہ تعالیٰ پر ایسا توکل کرے کہ اپنی موت اور اپنی بیوی اور اپنے بچوں کی موت برداشت کرے مگر اس بات کو پسند نہ کرے کہ دوسرے لوگ ہلاک ہوں وہ کبھی برباد نہیں ہو سکتا ۔ فرض کرو اس کے پاس پانچ سیرغلّہ ہے اور وہ جانتا ہے کہ اس سے مَیں اور میرے بیوی بچے دس دن زندہ رہ سکیں گے مگر وہ اس بات کی کوئی پرواہ نہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مجھ سے پانچ سیر غلّہ لے لو اور دوسرے لوگوں کو دے دو۔ تو یہ لازمی بات ہے کہ خدا ایسے آدمی کو مرنے نہیں دے گا اور اگر بالفرض بعض کمزور لوگ مر بھی جائیں تو ان کی موت ان کی ہمیشہ کی زندگی ہو گی اور وہ دنیا سے جاتے وقت اکیلے نہیں جائیں گے بلکہ خدا تعالیٰ کے فرشتے عرش سے اتر کر ان کو لینے کے لئے آئیں گے اور جنت اس دن خوشیاں منائے گی کہ ایسے پاکیزہ آدمی میری طرف آر ہے ہیں۔ پس اپنے اندر ان تکلیف کے دنوں میں قربانی کی وہ سچی روح پیدا کرو جو مومنوں میں ہونی چاہئے اور جس کے پیدا ہونے کے بعد خدا ہمیشہ کے لئے انسان سے خوش ہو جاتا ہے۔‘‘ (الفضل 30 مارچ 1942ء)
1: زینت محل مراد ہے جو بادشاہ کے جلاوطنی میں بھی ساتھ رہی اور بادشاہ کی وفات کے بعد 24 سال زندہ رہی اور فوت ہو جانے کے بعد بادشاہ کے پہلو میں دفن ہوئی۔ اس نے بادشاہ کو اپنے آپ کو انگریزوں کے حوالہ کرنے پر آمادہ کیا تھا۔ (اردو انسائیکلو پیڈیا)
2 : بخاری کتاب الشرکۃ باب الشرکۃ فی الطعام والنھد والعروضِ حدیث نمبر 2484

7
زبردست غنیم1 طوفان کی طرح ہندوستان کی طرف چلا آ رہا ہے
(فرمودہ 3،اپریل 1942ء)

تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’پچھلے دس دنوں میں کل سے مجھے دوسرا حملہ انفلوئنزا کا ہو رہا ہے اور علاوہ کھانسی و نزلہ کے شدید تکلیف سر درد کی ہے جس کی وجہ سے حرکت کرنا، اٹھنا، بیٹھنا، وضو کرنا اور سجدہ میں جانا بھی درد کی شدت پیدا کر دیتا ہے۔ اس لئے آج میرے لئے بولنا قریباً تکلیف مَا لَا یُطَاق ہو رہا ہے مگر چونکہ مجلسِ شوریٰ کے لئے مَیں نے بہرحال آنا ہی تھا اس لئے مَیں نے مناسب سمجھا کہ جمعہ بھی مَیں ہی پڑھاؤں۔
ہماری شریعت نے ہمارے لئے ہر قسم کی سہولت بہم پہنچا دی ہوئی ہے اور جس قدر ہمارے اندر طاقت ہو اسی قدر کا حکم دیا ہے۔ آج میری تکلیف کو دیکھ کر میری ایک بیوی نے پوچھا کہ آپ خطبہ کس طرح پڑھائیں گے۔ مَیں نے کہا کہ ہماری شریعت نے ہمارے لئے سہولتیں بہم پہنچا دی ہیں اس لئے اگر مَیں ایک فقرہ کہہ کر بھی بیٹھ جاؤں تو اسلامی احکام کے مطابق وہ بھی خطبہ کی غرض کو پورا کرنے والا ہو گا اور ایسے جامع مذہب کے ہوتے ہوئے مجھے خطبہ کے متعلق کوئی فکر نہیں ہو سکتا۔
مَیں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ یہ سال نہایت نازک سال ہے۔ آپ لوگ مجلسِ شوریٰ کے لئے اس موقع پر جمع ہوئے ہیں اور دسیوں، بیسیوں بلکہ سینکڑوں سال کے آئندہ پروگرام آپ لوگوں کی نظروں کےسامنے ہوں گے مگر ملک کی حالت ایسی خطرناک ہے کہ ظاہری عقل کے لحاظ سے آئندہ چھ ماہ کا پروگرام بھی نہیں بنایا جا سکتا۔ زبردست غنیم طوفان کی طرح ہندوستان کی طرف چلا آ رہا ہے اور ہر روز اس کا قدم آگے ہی آگے پڑ رہا ہے۔ پھر دوسری طرف سے بھی ہندوستان کی طرف خطرہ اس سال کم نظر نہیں آتا۔
ان حالات میں اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے اور وہی بتا سکتا ہے کہ آئندہ پروگرام اسلام اور احمدیت کے لئے کیا ہو گا۔ ہم ایماناً اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام اور احمدیت کے لئے کوئی نیک صورت ہی پیدا ہو گی لیکن ہمارے دوستوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہر نیکی پھولوں کی سیج پر چل کر نہیں ملا کرتی۔ کئی اچھے انجام کانٹوں پر گھسٹنے کے بعد حاصل ہوتے ہیں اور کئی زندگیاں بار بار موت کی چاشنی چکھنے کے بعد ملتی ہیں۔ اس لئے ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ سال ہمارے لئے کس قسم کی مشکلات، تکالیف، ٹھوکریں اور ابتلاء اپنے اندر مخفی رکھتا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ ہماری طاقتوں سے زیادہ مصائب نہ ڈالے۔ ہمارے دشمنوں کو ہم پر غلبہ نہ دے، ہمارے شیرازہ کو بکھرنے سے بچائے، ہمارے قدم پیچھے پڑنے سے روکے اوراپنے رحم اور فضل سے ہمارے کاموں میں سہولتیں بہم پہنچائے اور ہمارے نفسوں کی اصلاح کر دے تا ہم وہی کام کریں جو اس کی مرضی کے مطابق ہوں۔ یہ دن بہت ہی نازک ہیں۔ اس بارہ میں مَیں جتنا بھی کہوں تھوڑا ہے اور جتنا بھی میرے الفاظ کے معنے آپ بڑھا کر کریں کم ہے۔ پس ان ایام کی نزاکت کو محسوس کرو اور اپنے آپ کو ایک بے جان چیز کی طرح خدا تعالیٰ کے آگے ڈال دو کہ وہی حفاظت کر سکتا ہے۔ نہ حملہ آور ہمارے ہاتھ میں ہے اورنہ دفاع ہمارے اختیار میں ہے۔ سودا ہماری جانوں کا ہو رہا ہے مگر ہماری رائے کا کوئی دخل نہیں۔ ہماری مثال اس غلام کی سی ہے جو منڈی میں بکنے کے لئے لایا گیا ہو۔ فروخت کرنے والا اس کی خوبیاں بیان کرتا اور اس کے عیوب کو چھپاتا ہے اور لینے والا اس کی قیمت کو کم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ دونوں طرف سے قیمتوں کے اندازے ہوتے ہیں مگر اس غلام سے کوئی پوچھتا تک بھی نہیں کہ اس کا منشا ء وہاں جانے کا ہے بھی یا نہیں جہاں اسے بھیجنے کی گفتگو ہو رہی ہے۔
اسی طرح نہ حملہ آور کو ہمارے ارادوں کی کچھ پرواہ ہے اور نہ دفاع میں ہمارا کچھ دخل ہے۔ دنیا ہمارے ملک کے لئے سر دھڑ کی بازی لگائے بیٹھی ہے کہ کون اسے چھین کر لے جائے مگر ہماری رائے کی کسی کو بھی کوئی قدر نہیں۔ ایسے حالات میں ہر وہ شخص جس کے دماغ میں عقل اور دل میں حِس موجود ہے، محسوس کرے گا کہ ہمارے لئے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ ہم اسی درگاہ میں جا گریں جہاں غلام و آزاد اور چھوٹے بڑے کو مساوات حاصل ہے۔ جو مظلوم کی داد رسی کرتا اور سب کی آواز کو سنتا ہے۔ جس کا کوئی سہارا نہ ہو وہ اس کا سہارا ہوتا ہے اور جب کوئی بھی پکار کو سننے والا نہ ہو وہ سنتا ہے۔ سوائے اس دروازہ کے ہندوستان بالخصوص احمدیت کے لئے کوئی چارۂ کار نہیں۔ کوئی آلہ ہمارے پاس حفاظت کا نہیں۔ سوائے اس کے کہ اسی دروازہ کو کھٹکھٹائیں اور اسی سے مدد مانگیں۔
مگر کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ لوگ آج اس دَر کو چھوڑ رہے ہیں۔ جھوٹے آقاؤں نے ہمیں بیچ ڈالا اور جھوٹے مدعی ہماری ملکیت کے لئے بڑھ رہے ہیں لیکن وہ سچا آقا جو ہمیشہ ہماری آبرو اور عزت کا خیال رکھتا ہے اسے لوگوں نے بھلا دیا ۔ کاش لوگ اب بھی اس طرف متوجہ ہوں اور اس کی محبت کی چنگاریاں ان کے دلوں میں سُلگنے لگیں۔ وہ ہمیں خود ہی اپنی طرف کھینچ لے اور ہم بھولے ہوئے سبق کو یاد کر لیں۔ ہماری کھوئی ہوئی متاع دوبارہ حاصل ہو جائے ورنہ ہمارا ٹھکانہ نہ اس دنیا میں کوئی ہے اور نہ اگلے جہان میں۔ دنیوی لحاظ سے ہماری بربادی اور تباہی میں کوئی شک نہیں۔ وہی ایک راستہ امید کا باقی ہے اور وہ ایک ایسی ذات ہے جو مایوسیوں کو امید سے، تکلیفوں کو راحتوں سے اور ناکامیوں کو کامیابیوں سے بدل ڈالتی ہے۔ کاش ہمارے لئے یہ برکتوں کا رستہ کھل جائے اور اس کی رحمتیں ہمارے لئے نازل ہوں اور ان کے لئے جن کے دماغوں کو ابھی اس ایمان سے حصہ نہیں ملا جو خدا تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرتا ہے۔ کاش وہ بھی اس ایمان کو حاصل کر سکیں اور اس درگاہ پر آ جائیں جو بخشش اور غُفران کی درگاہ ہے اور جو درحقیقت ایک ہی مقام ہے مخلوق کے آرام پانے کا۔ ‘‘ (الفضل 11 اپریل 1942ء )
1: غنیم: دشمن

8
اس یقین کے ساتھ دعائیں کرو کہ تمہاری ہر ضرورت صرف خدا تعالیٰ ہی پوری کر سکتا ہے
( فرمودہ 10 اپریل 1942ء )

تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’ مَیں نے احباب کو متواتر دعاؤں کی طرف توجہ دلائی ہے اور اب جو بعض دوستوں کی طرف سے رقعے اور خطوط ملتے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ جماعت کے ایک حصہ میں موجودہ زمانہ کے فتن کے لئے دعا کی تحریک پائی جاتی ہے مگر ایک حصہ کی دعا کافی نہیں۔ ضرورت ہے کہ مردوں اور عورتوں اور بچوں سب کی ذہنیت کو دعا کے لئے بدلا جائے اور یہ ذہنیت اس رنگ میں بدلی جاتی ہے کہ سب سے پہلے دعا پر یقین اور ایمان پیدا ہو۔ جو شخص بغیر یقین کے دعا مانگتا ہے اس کی دعا خدا تعالیٰ کے حضورمیں مقبول نہیں ہؤا کرتی۔ ہو سکتا ہے کہ کبھی ایسے شخص کی دعا قبول ہو جائے صرف نمونہ کے طور پر اور اس کے دل میں یقین پیدا کرنے کے لئے لیکن قانون کے طور پر اُسی شخص کی دعا قبول ہوتی ہے جس کے دل میں یقین ہوتا ہے کہ خدا میری سنے گا۔ چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔اَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ 1 کہ مُضْطَر کی دعا کون سنتا ہے؟ اور پھر فرماتا ہے ۔ اللہ ہی سنتا ہے اور مُضْطَر کے معنے عربی زبان میں یہ ہوتے ہیں کہ کسی کو چاروں طرف سے دھکّے دے کر کسی طرف لے جائیں جو چاروں طرف سے رستہ بند پا کر کسی ایک طرف کو جاتا ہے۔ اس کو مُضْطَر کہتے ہیں یعنی وہ ہر طرف آگ دیکھتا ہے۔ اپنے دائیں دیکھتا ہے تو اسے آگ نظر آتی ہے، اپنے بائیں دیکھتا ہے تو اسے آگ نظر آتی ہے، اپنے پیچھے دیکھتا ہے تو اسے آگ نظر آتی ہے، اپنے نیچے دیکھتا ہے تو اسے آگ نظر آتی ہے، اپنے اوپر دیکھتا ہے تو اسے آگ نظر آتی ہے۔ صرف ایک جہت اس کے سامنے خدا تعالیٰ والی باقی رہ جاتی ہے اور اسی پر اس کی نظر پڑتی ہے اَور سب جگہ اسے آگ ہی آگ دکھائی دیتی ہے مگر صرف ایک طرف اُسے امن نظر آتا ہے ۔ اس سے تم سمجھ سکتے ہو کہ مُضْطَر کے معنوں میں یقین پایا جانا ضروری ہے۔ مُضْطَر کے صرف یہی معنے نہیں ہیں کہ اس کے دل میں گھبراہٹ ہو کیونکہ گھبراہٹ میں بعض دفعہ ایک شخص بے تحاشا کسی طرف چل پڑتا ہے بغیر اس یقین کے کہ جس طرف وہ جا رہا ہے وہاں اسے امن بھی حاصل ہو گا یا نہیں بلکہ بعض لوگ گھبراہٹ میں ایسی طرف چلے جاتے ہیں جہاں خود خطرہ موجود ہوتا ہے اور وہ اس سے نہیں بچ سکتے۔ پس محض اِضطراب کا دل میں پیدا ہونا اِضطرار پر دلالت نہیں کرتا۔ اِضطرار پر وہ حالت دلالت کیا کرتی ہے جب چاروں طرف کوئی پناہ کی جگہ انسان کو نظر نہ آتی ہو اور ایک طرف نظر آتی ہو۔ گویا اِضطرار کی نہ صرف یہ علامت ہے کہ چاروں طرف آگ نظر آتی ہو بلکہ یہ علامت بھی ہے کہ ایک طرف امن نظر آتا ہو اور انسان کہہ سکتا ہو کہ وہاں آگ نہیں ہے۔ تو وہی دعا خدا تعالیٰ کے حضور قبول کی جاتی ہے جس کے کرتے وقت بندہ اس رنگ میں اس کے سامنے حاضر ہوتا ہے۔ اُسے یقین ہوتا ہے کہ سوائے خدا کے میرے لئے اَور کوئی پناہ کی جگہ نہیں۔ یہی وہ مُضْطَر کی حالت ہے جسے رسول کریم ﷺ نے ان الفاظ میں ادا فرمایا ہے کہ لَا مَلْجَأَ وَ لَا مَنْجَأَ مِنْکَ اِلَّا اِلَیْکَ 2 اے خدا لَا مَلْجَأَ وَ لَا مَنْجَأَ مِنْکَ تیرے عذاب اور تیری طرف سے آنے والےابتلاؤں سے کوئی پناہ کی جگہ نہیں، کوئی خوف کی جگہ نہیں سوائے اس کے کہ مَیں سب طرف سے مایوس ہو کر اور آنکھیں بند کر کے تیری طرف آ جاؤں۔ تو لَا مَلْجَأَ وَ لَا مَنْجَأَ والی جو حالت ہے یہی اِضطرار کی کیفیت ہے اور جب خدا نے قرآن میں کہا کہ اَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ بتاؤ مُضْطَر کی کون سنتا ہے۔ تو مُضْطَر کے معنے یہی ہوئے کہ ایسے شخص کی دعا جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو مَلْجَا وَ مَاْوٰی نہیں سمجھتا اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو اپنا مَلْجَا وَ مَنْجَاقرار نہیں دیتا۔ اور اس آیت میں کہ اَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ درحقیقت اسی کیفیت اِضطرار کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
اِضطرار دنیا میں کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ اسی لئے یہاں اَلْمُضْطَرّکا لفظ رکھا گیا ہے۔ جس کے معنے تمام قسم کے مضطر کے ہیں۔ بعض بندے دنیا میں ایسے ہوتے ہیں جو مضطر ہوتے ہیں اور گو حقیقتاً اللہ تعالیٰ ہی ہر مضطر کا علاج ہے مگر اس کے دئیے ہوئے انعام کے ماتحت کوئی بندہ بھی ان کے اضطرار کو بدلنے کی طاقت رکھتا ہے۔ چنانچہ بعض دفعہ ایک آدمی سخت غریب ہوتا ہے اس کے کپڑے پھٹ جاتے ہیں اور اسے نظر نہیں آتا کہ وہ نئے کپڑے کہاں سے بنوائے۔ ایک امیر آدمی جو بعض دفعہ ہندو ہوتا ہے،بعض دفعہ سکھ ہوتا ہے، بعض دفعہ پارسی ہوتا ہے بعض دفعہ جینی یا بت پرست ہوتا ہے اسے دیکھتا ہے اور کہتا ہے تمہارے کپڑے پھٹ گئے ہیں آؤ مَیں تمہیں نیا جوڑا بنوا دوں اب گو ہمارے یقین کے مطابق خدا نے ہی اس امیر آدمی کے دل میں یہ تحریک پیدا کی ہو گی کہ وہ اسے کپڑے بنوا دے مگر جو کامل الایمان نہیں ہوتا وہ سمجھتا ہے کہ میرے اضطرار کی حالت میں فلاں آدمی کام آیا ہے مگر وہی آدمی جس نے اسے کپڑوں کا جوڑا بنا کر دیا تھا جب یہ ایسی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے کہ اس کے لئے کھانا اور پینا حرام ہو جاتا ہے۔ پانی تک اسے ہضم نہیں ہوتا۔ تمام جسم کی صحت کی حالت خراب ہو جاتی ہے اور چل پھر بھی نہیں سکتا تو ایسی حالت میں وہ امیر آدمی اس کی مدد نہیں کر سکتا بلکہ اگر کوئی طبیب اچھا لائق اور رحمدل ہوتا ہے اور وہ اسے اس حالت میں دیکھتا ہے تو کہتا ہے تمہیں علاج پر روپیہ خرچ کرنے کی توفیق نہیں مَیں تمہیں مفت دوائی دینے کے لئے تیار ہوں۔ تم میرے پاس رہو اور اپنے مرض کا علاج کراؤ۔ اب اس اضطرار کی حالت میں امیر اس کے کام نہیں آیا بلکہ طبیب اس کے کام آیا۔ جب وہ کپڑوں کے لئے مضطر تھا تو امیر آدمی اس کے کام آ گیا مگر جب وہ علاج کے لئے مضطر ہؤا تو ایک طبیب اس کے کام آ گیا۔ پھر کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اس پر کوئی مقدمہ بن جاتا ہے۔ وہ بے گناہ ہوتا ہے اس کا دشمن زبردست ہوتا ہے اور وہ کسی وجہ سے ناراض ہو کر اسے کسی مقدمہ میں ماخوذ کرا کے عدالت تک پہنچاتا ہے۔ اب اسے نہ وکیل کرنے کی توفیق ہے، نہ خود اسے مقدمہ لڑنے کی قابلیت ہے اور وہ حیران ہوتا ہے کہ کیا کرے۔ آخر کوئی رحمدل وکیل اسے مل جاتا ہے اور وہ کہتا ہے مَیں بغیر فیس کے تمہاری وکالت کرنے کے لئے تیار ہوں۔ اب ایسے موقع پر نہ امیر اس کے کام آ سکا، نہ طبیب اس کی مشکل کو دور کر سکا۔ صرف وکیل اس کے کام آیا۔ اسی طرح ایک اَور وقت میں یہ مضطر ہوتا ہے بوجھ اٹھائے جا رہا ہوتا ہے کہ تھک کر چُور ہو جاتاہے اور بوجھ اس سے گر جاتا ہے اس میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ اس بوجھ کو پھر اٹھا سکے۔ اب ایسے وقت میں نہ امیر اس کے کام آ سکتا ہے، نہ طبیب اس کے کام آ سکتا ہے ، نہ وکیل اس کے کام آ سکتا ہے البتہ کوئی مضبوط زمیندار چلتے ہوئے اسے دیکھتا ہے اور پوچھتا ہےتُو یہاں کیوں بیٹھا ہے۔ وہ جواب دیتا ہے بوجھ مجھ سے اٹھایا نہیں جاتا چنانچہ وہ زمیندار اس کا بوجھ اٹھا لیتا ہے۔ اب یہ مضطر تو تھا مگر اس حالت میں نہ امیر اس کے کام آسکا، نہ طبیب اس کے کام آسکا، نہ وکیل اس کے کام آ سکا بلکہ اس کا ایک زمیندار بھائی اس کے کام آ گیا۔ تو ایک ہی انسان کے مختلف اضطراروں میں مختلف لوگ اس کے کام آ سکتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ مطلق مضطر جس کے لئے کوئی شرط نہیں کہ وہ کس قسم کا مضطر ہو۔ خواہ وہ بھوکا ہو، ننگا ہو ، پیاسا ہو، بیمار ہو، بوجھ اٹھائے جا رہا ہو، کسی قسم کا اضطرار ہو اس کی ساری ضرورتوں کو پورا کرنے والی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ ہو سکتا ہے ایک شخص کے پھٹے پرانے کپڑے ہوں تو کوئی امیر اس کے کام آ جائے مگر طبیب اس کے کام نہیں آ سکتا۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی بیمار ہو تو طبیب اس کے کام آ جائے مگر وکیل اس کے کام نہیں آ سکتا۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی بے گناہ کسی مقدمہ میں مبتلا ہو تو وکیل اس کے کام آ جائے مگر بوجھ اٹھانے کے وقت وکیل اس کے کام نہیں آ سکتا۔ ہو سکتا ہے کہ بوجھ اٹھانے کے وقت ایک زمیندار اس کے کام آ جائے لیکن امیر، طبیب اور وکیل اس کے کام نہیں آ سکتا۔ مگر اللہ تعالیٰ یہ سارے کام کر سکتا ہے باقی انسان جس قدر ہیں وہ تو کسی کسی ضرورت میں کام آ سکتے ہیں۔ کوئی ایک قسم کے مضطر کے کام آ سکتا ہے اور کوئی دوسری قسم کے مضطر کے کام آ سکتا ہے مگر ہر قسم کے مضطرین کی ضرورتیں پورا کرنے والی خدا کی ہی ذات ہوتی ہے۔ انسان کے اضطرار کی ہزاروں حالتیں ہوتی ہیں۔ بھلا ان حالتوں میں تو کوئی بادشاہ بھی کسی کے کام نہیں آ سکتا۔ فرض کرو ایک شخص سخت بیمار ہے۔ اب بادشاہ کا خزانہ اس کے کام نہیں آ سکتا، بادشاہ کی فوجیں اس کے کام نہیں آ سکتیں، بادشاہ کا قرب اس کے کام نہیں آ سکتا۔ اس کے کام تو اللہ تعالیٰ ہی آ سکتا ہے جو ہر قسم کی بیماریوں کو دور کرنے کی طاقت رکھتا ہے یا ایک جنگل میں گزرنے والا شخص جس پر بھیڑیا یا شیر اچانک جھپٹ کر حملہ کر دیتا ہے وہ چاہے بادشاہ کا کتنا ہی مُنہ چڑھا ہو یا بادشاہ کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو بادشاہ اس کے کیا کام آ سکتا ہے۔ یا طبیب جو اس کا علاج کرتا تھا وہ اس کے کیا کام آ سکتا ہے۔ یا امیر جو نئے کپڑے سِلا دیتا تھا وہ اس کے کیا کام آ سکتا ہے ۔یا وکیل جس نے رحم کر کے اس کا مقدمہ لے لیا تھا اس کے کس کام آ سکتا ہے۔ جنگل میں وہ تن تنہا جا رہا ہوتا ہے کہ شیر چیتا یا بھیڑیا اس کے سامنے آ جاتا ہے۔ ایسی حالت میں وہاں اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو کام آتی ہے کوئی انسان کام نہیں آ سکتا۔ تو جب تک انسان کے اندر یہ یقین پیدا نہ ہو کہ ہر قسم کے اضطرار کی حالت میں اللہ تعالیٰ ہی کام آتا ہے اس وقت تک وہ مضطر نہیں کہلا سکتا ۔مثلاًَ آجکل لڑائی ہو رہی ہے۔ اب یہ بھی ایک اضطرار کی حالت ہے۔ ہمارا ملک سینکڑوں سال سے بندوق اور تلوار چلانے کے فن سے نا آشنا ہے اوریہاں کے رہنے والے اس بات سے بالکل ناواقف ہیں کہ دشمن کا مقابلہ کس طرح کیا جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کانگرس والے تعلّی کرتے ہیں کہ ہم سب کچھ کر سکتے ہیں۔ مگر یہ محض ایک لاف ہے جس کے اندر کوئی حقیقت نہیں۔ جو قومیں بہت کچھ کر سکتی تھیں ان میں سے بھی کئی اس جنگ میں مقابلہ کر کے دب گئی ہیں مثلاً فرانس کی بہت بڑی طاقت تھی مگر جرمنی کے مقابلہ میں بالکل دب گئی۔ تو دعویٰ کرنا اَور بات ہے اور عملی رنگ میں کچھ کر کے دکھانا اَور بات ہے ۔ یوں مُنہ سے کانگرسی کہتے رہتے ہیں کہ ہندوستان کو آزاد کر دیا جائے ہم خود دفاع کا انتظام کر لیں گے مگر یہ بالکل ناممکن بات ہے کہ وہ آزاد ہو کر اپنی حفاظت کا خود سامان کرسکیں ۔ وہ جونہی آزاد ہوئے فوراً انگریزوں سے مطالبہ کریں گے کہ تم ہم کو توپ خانہ بھیجو۔ تم ہم کو ہوائی جہاز بھیجو، تم ہم کو ٹینک بھیجو۔ گویا پھر بھی انگریزوں کے ہی محتاج رہیں گے۔ زیادہ سے زیادہ کانگرسی یہ کر سکتے ہیں کہ چندے دے دیں یا زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ چند کانگرسی دھواں دھار تقریریں کر دیں کہ اٹھو اور دشمن کا مقابلہ کرو۔ مگر ان میں ہمت کہاں سے آئے گی اور بہادری کی روح ان میں کس طرح پیدا ہو گی پھر اس خطرہ کی حالت میں انگریز بھی صرف ٹینک دے سکتے ہیں، ہوائی جہاز دے سکتے ہیں، توپ خانہ دے سکتے ہیں، فوجیں دے سکتے ہیں مگر خالی ٹینکوں ، ہوائی جہازوں اور فوجوں سے فتح حاصل کرنا ناممکن ہوتا ہے۔ فتح دلوں کی جرأت سے حاصل ہوتی ہے اور یہ جرأت نہ انگریز پیدا کر سکتے ہیں اورنہ کانگرسی پیدا کر سکتے ہیں۔ انگریزوں کے ماتحت ہی ہندوستان میں کئی بزدل قومیں ہیں مگر انگریز ان کو بہادر نہیں بنا سکے۔ صرف اتنا کہہ دیا کہ انہیں فوج میں بھرتی نہ کیا جائے۔ گویا بجائے اس کے کہ وہ ان کی ترقی کا باعث بنتے۔ انہوں نے ان کو اسی بزدلی کے گڑھے میں گرائے رکھا جس میں وہ پہلے گرے ہوئے تھے لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات کو دیکھو۔ اس کے ساتھ تعلق رکھنے سے بڑے بڑے بزدل بہادر بن جاتے ہیں اور بڑی بڑی غیر منظم قومیں منظّم ہو جاتی ہیں۔ آجکل لوگ جرمنی کی مثال دیتے ہیں کہ اس کی تنظیم حیرت انگیز ہے حالانکہ جرمنی پہلے ہی منظّم تھا۔ وہ آزاد قوم تھی اس کی حکومت اپنی تھی۔ سامان اس کے پاس موجود تھا اور دنیا کی حاکم قوموں میں سے سمجھی جاتی تھی۔ اگر اس نے ان سامانوں سے کام لے کر اپنی تنظیم کو زیادہ بہتر بنا لیا۔ تو یہ معمولی بات ہے۔ یہی حال اٹلی اورجاپان کا ہے۔ لیکن خدا جن قوموں کو ترقی دیتا ہے ان کی کایا پلٹ کر رکھ دیتا ہے اور ان کے دل بالکل بدل جاتے ہیں۔ ان کی کمزوری اور بزدلی جاتی رہتی ہے اور ان کے اندر ایسی طاقت اور قوت آ جاتی ہے کہ دنیا حیران رہ جاتی ہے۔
مسلمانوں کو ہی دیکھ لو عرب ایک اَیسا ملک تھا جس کے باشندے کسی ایک بادشاہ کے ماتحت رہنا اور باقاعدہ کسی نظام کے ماتحت آنا گوارا نہیں کیا کرتے تھے بلکہ قبائل کے سردار عوام سے مشورہ لے کر کام کرتے تھے اور ہر قبیلہ اپنی اپنی جگہ آزاد سمجھا جاتا تھا مگر ان کی اتنی حیثیت بھی نہ تھی۔ جتنی آجکل چھوٹی چھوٹی ریاستوں کی ہوتی ہے۔ کوئی قبیلہ ہزار افراد پر مشتمل تھا ، کوئی قبیلہ دو ہزار افراد پر مشتمل تھا، کوئی قبیلہ تین ہزار افراد پر مشتمل تھا۔ گویا آجکل جو چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہیں ان سے بھی وہ قبائل بہت چھوٹے تھے۔ مکہ کی آبادی بھی اُس وقت صرف دس پندرہ ہزار تھی پھر ان میں کوئی نظام نہ تھا، ان کے پاس کوئی خزانہ نہ تھا، کوئی سپاہی نہ تھا، کوئی ایسا محکمہ نہ تھا جس کے ماتحت باقاعدہ فوجیں رکھی جاتی ہوں اور سپاہی بھرتی کئے جاتے ہوں۔ صرف کام کے متفرق شعبے ایک دوسرے میں تقسیم کر دیا کرتے تھے۔
غرض وہ ایک ایسی قوم تھی جو بالکل بے راہ رو تھی، کوئی طریقہ اور کوئی صحیح نظام ان میں نہیں پایا جاتا تھا۔ ایسی حالت میں رسول کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا مگر بہت ہی تھوڑے لوگ آپ پر ایمان لائے۔ محققین کے نزدیک ساری مکی زندگی میں جو لوگ مکہ میں اسلام لائے۔ ان کی تعداد سَو کے قریب بنتی ہے۔ غرض یہ تھوڑے سے آدمی رسول کریم ﷺ پر ایمان لائے۔ مکہ کے لوگ اول تو خود ہی دنیوی لحاظ سے نہایت حقیر تھے اور ان میں کوئی طاقت و قوت نہ تھی۔ پھر ان کمزور لوگوں میں سے بھی ایسے لوگ اسلام میں داخل ہوئے جو مکہ والوں کی نگاہ میں بھی کمزور سمجھے جاتے تھے مگر پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں کتنی بہادری پیدا کر دی اور بے نظامی کی جگہ کیسی اعلیٰ درجہ کی تنظیم کا نظارہ نظر آنے لگا۔ یہی مکّہ کے لوگ یا عرب کے باشندے کسی کی بات ماننا گوارا نہیں کیا کرتے تھے۔ یعنی اطاعت جو دنیا میں مہذّب قوموں کا شعار سمجھا جاتا ہے۔ وہ ان کے نزدیک سخت ذلت کی بات تھی۔ چنانچہ عربی ادب کی کتب میں لکھا ہے کہ عرب میں ایک بادشاہ عمرو بن ہند 3 تھا۔ اس نے ایک علاقہ پر جو شام اور عراق کی طرف تھا حکومت قائم کی اور عرب کے لحاظ سے اس قدر شوکت حاصل کر لی کہ اسے یہ خیال پیدا ہؤا کہ سارا عرب میری بات مانتا ہے۔ ایک دن درباریوں سے اُس نے باتیں کرتے ہوئے کہا۔ کیا عرب میں کوئی ایسا شخص بھی ہے جو میری بات ماننے سے انکار کر سکے۔ وہ اس بات کو خوب سمجھتا تھا کہ عرب کے لوگ اطاعت کرنا نہیں جانتے مگر اس نے خیال کیا کہ مجھے ایسا رعب حاصل ہو گیا ہے کہ اب عرب کا کوئی شخص کم از کم میری بات ماننے سے انکار نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا ایک شخص عمرو بن کلثوم ہے جو اپنے قبیلہ کا سردار ہے۔ ہمارے خیال میں وہ ایسا شخص ہے جو آپ کی اطاعت نہیں کرے گا۔ اس نے کہا بہت اچھا۔ مَیں اس کی تصدیق کرنے کے لئے اسے بلواتا ہوں۔ چنانچہ بادشاہ نے عمرو بن کلثوم کو دعوت دی اور اسے خط لکھا کہ آپ یہاں تشریف لائیں۔ آپ سے ملنے کوجِی چاہتا ہے۔ چنانچہ وہ اپنے قبیلہ کے کچھ لوگوں کو لے کر آ گیا جیسے عرب کا دستور تھا۔ بادشاہ اس وقت کسی جگہ خیموں میں ٹھہرا ہؤا تھا۔ وہیں اس نے آ کر اپنے خیمے لگا دئیے۔ اس نے عمرو بن کلثوم کو یہ بھی لکھا تھا کہ اپنی والدہ اور دوسرے عزیزوں کو بھی لیتے آنا۔ چنانچہ وہ اس کے مطابق اپنی والدہ کو بھی لے آیا۔ عمرو ابن ہند نے اپنی والدہ سے کہا۔ کام کرتے کرتے عمرو بن کلثوم کی ماں سے کوئی چھوٹا سا کام لے کر دیکھنا تا پتہ لگ سکے کہ ان لوگوں کی کیا حالت ہے۔ چنانچہ جب وہ کھانا کھانے بیٹھے تو عرب کے دستور کے مطابق گو وہ بادشاہ کہلاتا تھا مگر اس کی ماں خود کھانا برتانے بیٹھ گئی۔ اپنے بیٹے کے لئے بھی اور عمرو بن کلثوم کے لئے بھی۔ گویا عمرو بن ہند کی والدہ اس وقت عملاً عمرو بن کلثوم اور اس کے دوسرے عزیزوں کا کام کر رہی تھی۔
پس ایسے وقت میں عمرو بن کلثوم کی ماں کا کسی کام میں ہاتھ بٹانا ہرگز اس کی ہتک کا موجب نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ جب بادشاہ کی ماں خود ایک کام کر رہی تھی تو اسی کام میں عمرو بن کلثوم کی ماں کا ہاتھ بٹانا ہرگز کوئی ایسی بات نہیں تھی جو اس کی شان اور عزت کے منافی ہوتی مگر واقعہ کیا ہوتا ہے۔ کھانا برتاتے وقت ایک تھال کچھ فاصلے پر پڑا تھا۔ عمرو بن ہند کی والدہ کھانا برتاتے برتاتے اسے کہنے لگی۔ بی بی ذرا وہ تھال تو سِرکا کر ادھر کر دینا اسے بھی یہ جرأت نہیں ہوئی کہ اس سے زیادہ اسے کوئی کام کرنے کے لئے کہے مگر تاریخوں میں لکھا ہے۔ جونہی اس نے عمرو بن کلثوم کی والدہ سے یہ بات کہی ۔ وہ کھڑی ہو گئی اور اس نے زور سے پکارنا شروع کر دیا کہ او ابن کلثوم! تمہاری ماں کی ہتک ہو گئی ہے۔ عمرو بن کلثوم اس وقت بادشاہ کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا اور شاہی اعزاز کی وجہ سے وہ اپنے ہتھیار خیمہ میں ہی چھوڑ آیا تھا۔ گویا وہ اس وقت بالکل بے ہتھیا رتھا مگر جونہی اس نے اپنی ماں کی اس آواز کو سنا اس نے اپنی ماں سے جا کر یہ نہیں پوچھا کہ تمہاری کیا ہتک ہوئی ہے؟ وہ گھبرا کر کھڑا ہو گیا اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگ گیا۔ خیمہ میں بادشاہ کی تلوار لٹک رہی تھی اس نے اُچک کر تلوار کو میان سے نکالا اور بادشاہ کو قتل کر دیا پھر باہر نکل کر اس نے اپنے قبیلہ والوں سے کہا۔ بادشاہ کا سب مال و متاع لوٹ لو۔ چنانچہ اس کا سب مال و متاع لوٹ کر وہ اپنے وطن کی طرف واپس چلا آیا۔ تو عرب لوگ کسی کی اطاعت کو برداشت ہی نہیں کر سکتے تھے۔ جو بات ان کی مرضی کے مطابق ہوتی تھی اسے تو مان لیتے تھے مگر جو بات ان کی مرضی کے خلاف ہوتی تھی۔ اس کو سننا بھی وہ گوارا نہیں کرتے تھے لیکن پھر انہیں عربوں کو ہم دیکھتے ہیں۔ محمد رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں کس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے دل بدل ڈالے۔ انہی عربوں میں سے ایک سمجھدار اور پڑھے لکھے اور اپنی قوم کے معزز فرد حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ گلی میں سے گزر رہے تھے اور رسول کریم ﷺ مسجد میں وعظ فرما رہے تھے۔ وہ اسی وعظ کو سننے کے لئے مسجد کی طرف جا رہے تھے۔ مسجد اس وقت لوگوں سے بھری ہوئی تھی اور جیسے ہماری مجلسوں میں بعض لوگ کناروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح اس وقت بعض لوگ مسجد کے کناروں پر کھڑے تھے۔ جب وعظ فرماتے فرماتے رسول کریم ﷺ نے کنارے کے لوگوں کو دیکھا تو آپ نے خیال فرمایا کہ ان کے پیچھے بھی بعض لوگ ہیں جن تک ان کے کھڑے ہونے کی وجہ سے آواز نہیں جاتی ہو گی۔ چنانچہ آپ نے ان سے فرمایا بیٹھ جاؤ۔ جب آپ نے فرمایا بیٹھ جاؤ تو عبد اللہ بن مسعود جو گلی میں چل رہے تھے اور اس وقت مسجد کے قریب پہنچ چکے تھے وہیں بیٹھ گئے اور بچوں کی طرح گھسٹ گھسٹ کر انہوں نے مسجد کی طرف جانا شروع کر دیا۔ کوئی دوست جو پاس سے گزر رہا تھا اس نے کہا عبد اللہ بن مسعودؓ یہ تم نے کیا مضحکہ خیز حرکت شروع کر دی ہے کہ زمین پر بیٹھے بیٹھے چل رہے ہو سیدھی طرح کیوں نہیں چلتے۔ انہوں نے کہا اصل بات یہ ہے کہ مجھے محمد رسول اللہ ﷺ کی آواز آئی تھی کہ بیٹھ جاؤ۔ مَیں نے اپنے دل میں سوچا کہ مجھے کیا پتہ مَیں وہاں تک زندہ پہنچوں یا نہ پہنچوں۔ ایسا نہ ہو میرا خاتمہ محمد رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی میں ہو۔ اس لئے مَیں یہیں بیٹھ گیا اورمَیں نے بیٹھے بیٹھے مسجد کی طرف جانا شروع کر دیا۔ 4
اب ذرا مقابلہ کرو اس واقعہ کا عمرو بن کلثوم کے واقعہ سے کہ ایک بادشاہ کی دعوت پر وہ جاتا ہے اور اس کی ماں کو بادشاہ کی ماں کوئی بڑا کام نہیں بتاتی بلکہ وہ کام بتاتی ہے جو وہ خود کر رہی ہے اور اپنے بیٹے سے کم درجہ رکھنے والے شخص کے لئے کر رہی ہے۔ پھر وہ کام کوئی بہت بڑا نہیں بتاتی بلکہ جو کچھ وہ کر رہی تھی اس میں سے بھی ایک نہایت معمولی اور چھوٹا سا کام کرنے کے لئے اسے کہتی ہے مگر اس کی طبیعت اس بات کو برداشت نہیں کر سکتی اور اِدھر وہ بات کہتی ہے اُدھر وہ شور مچانے لگ جاتی ہے کہ میری ہتک ہو گئی مگر اسی گروہ کا ایک اَورفرد گلی میں رسول کریم ﷺ کی آواز سنتا ہے اور گلی میں سن کر ہی بیٹھ جاتا اور ایسی حرکت کرتا ہے جو دنیا میں عام طور پر ذلیل سمجھی جاتی ہے۔ تم اپنے طور پر ہی اندازہ کر لو کہ اگر کوئی بڑا آدمی جو فرض کرو گاؤں کا نمبردار یا مکھیا یا چودھری وغیرہ ہو زمین پر بیٹھا ہؤا اپنے پیروں پر گھسٹ گھسٹ کر جا رہا ہو تو تم پر کیسا بُرا اثر پڑے گا۔ تم یقیناً اسے پاگل سمجھو گے مگر صحابہؓ کی یہ حالت تھی کہ وہ اپنے آپ کو پاگل ہی بنا بیٹھے تھے محمد ﷺ کی اطاعت میں کیونکہ وہ سمجھتے تھے محمد ﷺ کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے۔
پھر مدینہ کے لوگ لڑائی کے کام میں نہایت ادنیٰ اور ذلیل سمجھے جاتے تھے جیسے ہمارے ملک میں بعض قومیں لڑائی کے فن کی اہل نہیں سمجھی جاتیں۔ اسی طرح مدینہ کے لوگوں کو لڑائی کے قابل نہیں سمجھا جاتا تھا۔ مدینہ کے لوگ بے شک مالدار تھے اور وہ اچھے زمیندار تھے مگر جیسے ہمارے ملک میں بعض قومیں بعض پیشوں کی وجہ سے ذلیل سمجھی جاتی ہیں۔ اسی طرح وہ ذلیل سمجھے جاتے تھے کیونکہ وہ کھیتی باڑی کیا کرتے تھے اور کھیتی باڑی کو عرب لوگ پسند نہیں کرتے تھے۔ عرب لوگ اس بات پر ناز کرتے تھے کہ ان کے پاس اتنے گھوڑے ہیں، اتنے اونٹ ہیں، وہ اس طرح ڈاکہ مارتے ہیں اور اس اس طرح لوگوں پر حملے کرتے ہیں مگر مدینہ کے لوگ ایک گاؤں میں بستے اور کھیتی باڑی کیا کرتے تھے۔ وہ نہ ڈاکہ مارتے تھے، نہ اونٹ اور گھوڑے کثرت سے رکھ سکتے تھے کیونکہ اگر وہ اونٹ اور گھوڑے رکھتے تو انہیں کھلاتے کہاں سے۔ اس لئے وہ دوسرے عربوں کی نگاہ میں نسبتاً ادنیٰ سمجھے جاتے تھے اور عرب کے لوگ تو ان کے متعلق کہا کرتے تھے کہ وہ تو سبزی ترکاری بونے والے ہیں اور درحقیقت وہ تھے بھی ایسی ہی حالت میں۔ اس میں کیا شبہ ہے کہ جو لوگ ترفُّہ میں پڑ جائیں، باغات بنا لیں، کھیتی باڑی میں مشغول ہو جائیں اور مال و دولت جمع کرنے میں لگ جائیں انہوں نے کیا لڑنا ہے اور وہ تو کئی پشتوں سے نسلاً بعد نسلٍ یہی کام کرتے چلے آ رہے تھے۔ اس لئے وہ لڑائی کے قابل نہیں سمجھے جاتے تھے۔ آپس میں بے شک بعض دفعہ لڑ پڑتے تھے مگر آپس میں لڑنا اَور بات ہے اور لڑائی کے میدان میں جا کر لڑنا اور بات ہے۔ ہمارے ملک میں کشمیری لڑائی کے قابل نہیں سمجھے جاتے مگر آپس میں وہ بھی لڑتے ہیں چنانچہ مَیں نے کشمیر میں ہانجیوں5کو دیکھا ہے کہ جب وہ آپس میں لڑتے ہیں تو کسی نے چاول کُوٹنے کا موصل اٹھایا ہؤا ہوتا ہے، کوئی لوٹا اٹھا کر دوسرے کو مارنے کے لئے دوڑتا ہے اور کوئی تھالی کسی کے سر پر دے مارتا ہے۔ نہ سہی تلوار، نہ سہی بندوق مگر لوٹے، ڈنڈے اور تھالیاں تو ان کے پاس ہوتی ہیں۔ وہ انہی کو اٹھا کر ایک دوسرے سے لڑنے لگ جاتے ہیں۔ تو بے شک مدینہ کے لوگوں میں بھی لڑائی ہوتی تھی مگر وہ ایسی نہیں تھی جیسی جنگی قوموں میں لڑائی ہوتی ہے بلکہ وہ اسی رنگ کی ہؤا کرتی تھی جیسے کشمیری آپس میں لڑتے ہیں۔ لیکن بہادر جنگجو تجربہ کار سپاہیوں سے جا کر لڑنا اَور بات ہوتی ہے اور آپس میں لڑنا اَور بات ہوتی ہے۔ تو عرب کی نگاہ میں مدینہ کے لوگ کمزور سمجھے جاتے تھے اور حقارت سے وہ ان کے متعلق کہا کرتے تھے کہ یہ تو کھیتی باڑی کرنے والے لوگ ہیں۔ مگر انہی لوگوں کو دیکھو رسول کریم ﷺ کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کے بعد ان میں کتنا عظیم الشان فرق پیدا ہو گیا کہ وہی سبزی ترکاری بونے اور کھیتی باڑی کرنے والے لوگ دنیا کے بہترین سپاہی بن گئے۔
بدر کے موقع پر مکہ کے بڑے بڑے سردار جمع تھے اور وہ خیال کرتے تھے کہ آج ہم مسلمانوں کا خاتمہ کر دیں گے۔ اس دن ایک ہزار تجربہ کار سپاہی جو بیسیوں لڑائیاں دیکھ چکا تھا اور جن کا دن رات کا شغل لڑائیوں میں شامل ہونا اور دشمنوں پر تلوار چلانا تھا مسلمانوں کے مقابلہ میں صف آراء تھا اور مسلمان صرف تین سو تیرہ تھے۔ بعض تاریخوں میں لکھا ہے کہ ان تین سو تیرہ مسلمانوں میں سے بعض کے پاس تلواریں تک نہ تھیں اور وہ لاٹھیاں لے کر آئے ہوئے تھے۔ ایسی بے سر وسامانی کی حالت میں جب رسول کریم ﷺ جنگ کے لئے چلے تو دو انصاری لڑکے بھی بضد ہو گئے کہ ہم نے بھی ساتھ چلنا ہے۔ آخر رسول کریم ﷺ نے ان کو ساتھ چلنے کی اجازت دے دی۔ جب دونوں صفیں ایک دوسرے کے مقابلہ میں کھڑی ہوئیں تو حضرت عبد الرحمان بن عوفؓ جو نہایت ہی بہادر اور تجربہ کار سپاہی تھے کہتے ہیں اُس دن ہمارے دلوں کے ولولے کوئی شخص نہیں جان سکتا تھا۔ ہم سمجھتے تھے کہ آج جبکہ خدا نے ہمیں لڑنے کی اجازت دے دی ہے ہم مکّے والوں سے ان مظالم کا بدلہ لیں گے جو انہوں نے ہم پر کئے۔ مگر وہ کہتے ہیں اچھا سپاہی تبھی اچھا لڑ سکتا ہے جب اس کا دایاں اور بایاں پہلو مضبوط ہو تاکہ جب وہ حملہ کرے اور دشمن کی صفوں میں گھس جائے تو وہ دونوں اس کی پشت کو دشمن کے حملہ سے محفوظ رکھیں۔ آخر ایک شخص کی چار آنکھیں تو ہوتی نہیں کہ وہ آگے بھی دیکھے اور پیچھےسے بھی اپنی پیٹھ کو دشمن کے وار سے محفوظ رکھ سکے۔ اس لئے بہادر سپاہی ہمیشہ درمیان میں کھڑے کئے جاتے ہیں تا اُن کے دائیں بائیں حفاظت کا خاص سامان رہے اور جب وہ دشمن کی صف کو چیر کر آگے بڑھیں تو ان کی پیٹھ کی حفاظت ہوتی رہے۔ حضرت عبد الرحمان بن عوفؓ کہتے ہیں مَیں نے اسی خیال کے ماتحت اپنے دائیں بائیں دیکھا کہ دیکھوں میرے دائیں بائیں کون کھڑے ہیں۔ وہ کہتے ہیں میری جو نظر پڑی تو مَیں نے دیکھا وہی دو انصاری لڑکے پندرہ پندرہ سال کی عمر کے میرے دائیں بائیں کھڑے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ان لڑکوں کو دیکھ کر میرا دل بیٹھ گیا اور مَیں نے اپنے دل میں کہا۔ اول تو یہ مدینہ کے رہنے والے ہیں جہاں کے لوگ لڑائی کے فن سے نا آشنا ہیں۔ پھر یہ پندرہ پندرہ سال کے لڑکے ہیں انہوں نے میری کیا حفاظت کرنی ہے۔ بس آج تو میرے دل کے جوش دل میں ہی رہیں گے اور مَیں اپنی حسرت نکال نہیں سکوں گا۔ مگر وہ کہتے ہیں یہ خیال ابھی میرے دل میں آیا ہی تھا کہ مجھے اپنے دائیں طرف سے پہلو میں کُہنی لگی مَیں نے مڑ کر اس لڑکے کی طرف دیکھا کہ وہ مجھے کیا کہنا چاہتا ہے وہ اپنا مُنہ میرے کان کے قریب لایا اور اس نے آہستگی سے مجھے کہا۔ چچا وہ ابو جہل کونسا ہے جو رسول کریم ﷺ کو دکھ دیا کرتا ہے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ آج اس سے بدلہ لوں۔ وہ کہتے ہیں اس سوال پر میری حیرت کی کوئی حد نہ رہی کیونکہ مَیں جو تجربہ کار سپاہی تھا میرے دل میں بھی یہ خیال نہیں آ سکتا تھا کہ ابو جہل پر جو سالار لشکر تھا اور جس کے اردگرد ایک ہزار تجربہ کاراور مسلّح سپاہی کھڑا تھا حملہ کروں۔ مگر وہ کہتے ہیں مَیں ابھی اس کو کوئی جواب دینے نہیں پایا تھا کہ مجھے اپنی بائیں طرف سے پہلو میں کُہنی لگی۔ مَیں نے اس کی طرف رخ کیا تو وہ بھی میرے کان کے قریب اپنا مُنہ لایا اور کہنے لگا چچا! وہ ابو جہل کونسا ہے جو رسول کریم ﷺ کو دکھ دیا کرتا ہے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ آج اس سے بدلہ لوں۔ گویا دونوں لڑکوں نے ایک ہی سوال کیا اور دونوں نے آہستگی کے ساتھ حضرت عبد الرحمان بن عوفؓ سے اس لئے دریافت کیا کہ ان میں سے ہر ایک چاہتا تھا کہ میرا دوسرا ساتھی یہ بات نہ سن لے اور یہ نعمت اس کی بجائے اس کے دوسرے ساتھی کو حاصل نہ ہو جائے۔ مگر ان کو یہ پتہ نہیں تھا کہ ان دونوں کے دلوں میں ایمان نے ایک ہی جذبہ پیدا کر رکھا تھا۔ حضرت عبد الرحمانؓ بن عوف کہتے ہیں ان دونوں کے اس سوال سے میرے دل پر حیرت طاری ہو گئی اور مجھے ان کے ایمان کو دیکھ کر بہت ہی تعجب ہؤا چنانچہ مَیں نے انگلی اٹھا کریہ بتانے کے لئے کہ تمہارا خیال کیسا ناممکن ہے۔ کہا کہ وہ قلبِ لشکر میں جو شخص گھوڑے پر سوار ہے اور سر سے پیر تک مسلّح ہے اور جس کے آگے دو جرنیل ننگی تلواریں لے کر پہرہ دے رہیں وہ ابو جہل ہے۔ اس وقت ابو جہل کے سامنے ایک تو عکرمہ ننگی تلوار لے کر پہرہ دے رہا تھا اور ایک اَور مشہور جرنیل تھا جس کا نام اس وقت یاد نہیں۔ عکرمہ جیسے بہادر سپاہی نے بعد میں اسلام لا کر جو قربانیاں کی ہیں اور جس طرح دشمنوں کی صفوں کو چیرا ہے وہ بتاتا ہے کہ عکرمہ کوئی معمولی انسان نہیں تھا بلکہ اس وقت دنیا کے بہترین سپاہیوں میں سے تھا اور وہ دونوں اُس وقت ننگی تلواریں لے کر ابو جہل کے سامنے کھڑے تھے۔ غرض عبدالرحمان بن عوف کہتے ہیں مَیں نے انگلی اٹھا کر انہیں بتایا کہ ابو جہل کونسا ہے اور میری غرض یہ تھی کہ انہیں معلوم ہو جائے ان کا خیال کیسا ناممکن ہے۔ مگر وہ کہتے ہیں ابھی میری انگلی نیچے نہیں آئی تھی کہ جس طرح باز چڑیا پر حملہ کرتا ہے اسی طرح انہوں نے یکدم حملہ کر دیا اورپیشتر اس کے کہ کفار کے لشکر کو ہوش آئے کہ یہ ہو کیا گیا ہے انہوں نے ابو جہل کو زخمی کر کے نیچے گرا دیا۔ اس دوران میں ایک کا ہاتھ کٹ گیا تو وہ کٹے ہوئے ہاتھ کو الگ پھینک کر پھر آگے بڑھا اور دونوں نے ابو جہل کو زخمی کر کے نیچے گرا دیا اور اس طرح کفار کی طرف سے اس دن بد رکی لڑائی بے جرنیل کے لڑی گئی۔6
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں جب لڑائی ختم ہو گئی تو مَیں یہ دیکھنے کے لئے میدان جنگ میں گیا کہ ابو جہل کا کیا بنا ہے؟ مَیں نے دیکھا کہ وہ زخموں کی تکلیف کی وجہ سے کراہ رہا ہے۔ مَیں نے اس سے کہا سناؤ کیا حال ہے؟ وہ کہنے لگا مَیں اب مرنے والا ہوں مگر مجھے اپنی موت کا کوئی افسوس نہیں کیونکہ سپاہی موت سے نہیں ڈرا کرتا ۔ مجھے حسرت ہے تو یہ ہے کہ مدینہ کے دو لڑکوں نے مجھے مارا ہے۔ اب تُو مجھے دیکھنے کے لئے آیا ہے تُو مکّے کا آدمی ہے اور تُو جانتا ہے کہ مَیں اپنی قوم میں کیسا معزز ہوں۔ مَیں اب زخموں کی تکلیف کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کر سکتا تُو تلوار لے کر میری گردن کاٹ دے مگر دیکھنا میری گردن ذرا لمبی کاٹنا کیونکہ تجھے معلوم ہے کہ مَیں اپنی قوم کا سردار ہوں۔ سر کے پاس سے میری گردن کاٹی گئی تو اس میں میری ذلت ہو گی۔ دھڑ کے پاس سے میری گردن لمبی رکھ کر کاٹنا تاکہ میری سرداری کا نشان قائم رہے۔ عبد اللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں مَیں نے اسے کہا یہ تیری آخری خوشی بھی مَیں تجھے نصیب نہیں ہونے دوں گا اور سر کے پاس سے تیری گردن کاٹوں گا چنانچہ انہوں نے سر کے پاس سے اس کی گردن کاٹی۔7
تو دیکھو وہ قوم جو اتنی ذلیل سمجھی جاتی تھی کہ اس کے افراد کو لڑائی کے قابل ہی خیال نہیں کیا جاتا تھا محمد ﷺ پر ایمان لانے کے طفیل اس میں کتنا تغیر پیدا ہؤا کہ ابو جہل مرتا ہے تو اس حسرت کے ساتھ کہ مجھے مدینہ کے دو لڑکوں نے مارا۔ وہ کہتا ہے مرنے کی پرواہ نہیں۔ سپاہی لڑائی میں مرا ہی کرتے ہیں مجھے حسرت اور افسوس ہے تو یہ کہ مدینہ کے دو لڑکوں نے مجھے مارا۔ گویا وہ لوگ جنہیں عرب سپاہی تک نہیں سمجھتے تھے جب محمد ﷺ پر ایمان لائے تو وہ خدا جس کے قبضہ میں دل ہیں اور جو کمزورکو قوی بنانے کی طاقت رکھتا ہے اس نے ان کو ایسا بہادر اور جری بنا دیا کہ ایک تجربہ کار جرنیل جس بات کو ناممکن سمجھتا تھا خدا نے وہ کام اس قوم کے دو بچوں کے ہاتھ سے کرا دیا۔
پھر عرب لوگوں کے اندر اس قدر غیرت ہؤا کرتی تھی کہ وہ غیرت میں اپنی ہر چیز کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتے تھے۔ مگر دیکھو پھر کس طرح خدا نے ان کے دل بدل ڈالے اور ان کے دلوں سے جھوٹی غیرت کا احساس تک جاتا رہا۔
ایک نوجوان ایک دفعہ شادی کے لئے ایک شخص کے پاس پہنچا اور کہنے لگا مَیں تیری لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ اس نے کہا کہ میں بھی تجھے ہر طرح پسند کرتا ہوں اور مجھے اپنی لڑکی کا تجھ سے نکاح کر دینے میں کوئی عذر نہیں۔ نوجوان نے کہا مگر مَیں لڑکی کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ اس شخص نے کہا یہ نہیں ہو سکتا کہ مَیں تجھے اپنی لڑکی دکھا دوں۔ وہ رسول کریم ﷺ کے پاس گیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! مَیں ایک لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں مگر اس کا باپ لڑکی کی شکل مجھے نہیں دکھاتا۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا وہ غلطی کرتا ہے۔ اسے لڑکی دکھا دینی چاہئے۔ وہ پھر اس کے پاس پہنچا اور کہنے لگا تم نے انکار کیا تھا اور کہا تھا کہ مَیں لڑکی نہیں دکھاتا۔ مَیں نے اس بارہ میں رسول کریم ﷺ سے پوچھا ہے اور آپؐ نے فرمایا ہے کہ نکاح کے موقع پر لڑکی کو دیکھ لینا جائز ہے۔ باپ کہنے لگا جائز ہو گا مگر مَیں تمہیں نہیں دکھاتا۔ جائز ہونا اَور بات ہے اور میرا تمہیں اپنی لڑکی دکھانا اَور بات ہے۔ تم کسی اَور جگہ رشتہ کر لو۔ اس کی لڑکی اندر بیٹھی ہوئی یہ تمام باتیں سن رہی تھی۔ جونہی اس نے یہ بات سنی وہ فوراً ننگے مُنہ باہر نکل آئی اور کہنے لگی۔ باپ! آپ کیا کہتے ہیں؟ جب محمد رسول اللہ ﷺ کہتے ہیں کہ لڑکی کو نکاح سے قبل دیکھ لینا جائز ہے تو آپ کو اس سے کیا انکار ہو سکتا ہے۔ پھر وہ اس نوجوان سے کہنے لگی لو مَیں تمہارے سامنے کھڑی ہوں مجھے دیکھ لو۔ اس نوجوان نے کہا مجھے دیکھنے کی ضرورت نہیں مجھے ایسی ہی لڑکی پسند ہے جو خدا اور اس کے رسول کی ایسی فرمانبردار ہے۔ 8
تو دیکھو کس طرح اہل عرب کے قلوب کو بظاہر دنیوی عزتیں قربان کرنے کے لئے رسول کریم ﷺ نے تیار کر دیا کہ ان کے مدنظر سوائے اس کے اَور کوئی بات نہ رہی کہ خدا اور اس کے رسول کا کیا حکم ہے؟
تو قلوب کو دنیا کی کوئی حکومت نہیں بدل سکتی۔ قلوب کو اللہ تعالیٰ ہی بدلتا ہے۔ بزدل بہادر بن جاتے ہیں خدا کے حکم کے ماتحت اور بہادر بزدل بن جاتے ہیں خدا کے حکم کے ماتحت، کنجوس سخی بن جاتے ہیں خدا کے حکم کے ماتحت اور سخی کنجوس بن جاتے ہیں خدا کے حکم کے ماتحت ، جاہل عالم بن جاتے ہیں خدا کے حکم کے ماتحت اورعالم جاہل بن جاتے ہیں خدا کے حکم کے ماتحت ۔ جب خدا کسی قوم کے متعلق حکم دیتا ہے کہ اس کو مٹا ڈالو تو اس کے عالم جاہل ہو جاتے ہیں، اس کے بہادر بزدل ہو جاتے ہیں، اس کے سخی کنجوس ہو جاتے ہیں اور اس کے طاقتور کمزور ہو جاتے ہیں۔ مگر جب خدا کسی قوم کے متعلق فیصلہ کرتا ہے کہ اسے بڑھایا جائے تو اس کے کمزور بہادر بن جاتے ہیں، اس کے جاہل عالم بن جاتے ہیں، اس کے بخیل سخی بن جاتے ہیں اور اس کے بیوقوف عقلمند بن جاتے ہیں۔ ہم نے اپنی زندگیوں میں اس قسم کی کئی مثالیں دیکھی ہیں۔ صحابہؓ کی مثالیں تو ظاہر ہی ہیں۔
احمدیوں میں بھی ہم نے دیکھا ہے کہ ایک شخص اخلاص کے ساتھ احمدی ہوتا ہے وہ اَن پڑھ اور جاہل ہوتا ہے مگر احمدی ہوتے ہی اس کی زبان اس طرح کھل جاتی ہے کہ بڑے بڑے مولوی اس کے ساتھ بات کرنے سے گھبرانے اور کترانے لگ جاتے ہیں۔ مگر ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ بعض علم والے آدمی ہماری جماعت میں داخل ہوتے ہیں مگر چونکہ اُن کے دلوں میں احمدیت کے متعلق اخلاص نہیں ہوتا اس لئے وہ اسی طرح جاہل رہتے ہیں جس طرح غیر احمدی ہونے کی حالت میں علمِ دین سے جاہل ہؤا کرتے تھے جس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ ہمارا علم ذاتی نہیں بلکہ خدا کا دیا ہؤا علم ہے ہماری بہادری اپنی نہیں بلکہ خدا کی دی ہوئی بہادری ہے اور ہماری قربانیاں اپنی نہیں بلکہ خدا کی دی ہوئی توفیق کا نتیجہ ہیں اگر وہ خدا کی دی ہوئی بہادری نہ ہوتی، اگر وہ خدا کا دیا ہؤا علم نہ ہوتا۔ اگر وہ خدا کی دی ہوئی جرأت نہ ہوتی تو اس کا اخلاص سے کیا تعلق ہوتا؟ پھر تو عادات سے اور محنت سے اور ذاتی جد و جہد اور کوشش سے اس کا تعلق ہوتا حالانکہ ہم دیکھتے ہیں ، وہ لوگ جو دنیوی لحاظ سے ان باتوں سے بالکل نابلد ہوتے ہیں مگر ان کے دلوں میں اخلاص ہوتا ہے۔ ان کو بھی خدا تعالیٰ وقت پر ایسی ایسی باتیں سمجھا دیتا ہے کہ حیرت آتی ہے۔ یہاں ایک شخص ‘‘پِیرا’’ ہؤا کرتا تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کا خادم تھا۔ وہ اتنی موٹی عقل کا آدمی تھا کہ یہ سمجھ ہی نہیں سکتا تھا کہ احمدیت کیا ہے لیکن اسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے ساتھ ایک ذاتی لگاؤ تھا کہیں اس کو گنٹھیا کی بیماری ہو گئی۔ وہ پہاڑی آدمی تھا اس کے رشتہ داروں کو بعض لوگوں نے کہا کہ یہاں اس کا علاج نہیں ہو سکے گا۔ اسے کہیں میدانوں میں لے جاؤ چنانچہ وہ اسے گورداسپور لے آئے مگر چونکہ وہ سب غریب آدمی تھے اور ایسے لوگوں کو روٹی بھی کھلانی پڑتی ہے اور دوائی بھی دینی پڑتی ہے۔ اس لئے کوئی شخص علاج کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا تھا آخر کسی نے ان کو بتایا کہ قادیان میں ایک مرزا صاحب ہیں جو بڑے خدا پرست ہیں۔ وہ معالج اور حکیم بھی ہیں۔ ان کے پاس لے جاؤ وہ اس کی خبرگیری بھی کریں گے اور دوائی بھی دیں گے۔ چنانچہ اس کے رشتہ دار اسے حضرت صاحبؑ کے پاس لے آئے اور اُسے یہاں چھوڑ کر کِھسک گئے۔ حضرت صاحب نے اس کا علاج کیا اور آہستہ آہستہ اُسے آرام آنا شروع ہو گیا۔ جب اس کے رشتہ داروں کو معلوم ہؤا کہ اب وہ اچھا ہو گیا ہے اور کام کاج کر سکتا ہے تو دوسری سردیوں میں پھر اس کے رشتہ دار یہاں آئے اور کوشش کی کہ وہ ان کے ساتھ چل پڑے۔مگر معلوم ہوتا ہے کہ اس کے قلب میں نیکی تھی جب انہوں نے اسے کہا کہ ہم تجھے لینے کے لئے آئے ہیں تو وہ کہنے لگا تم بے شک میرے رشتہ دار ہو مگر تم مجھے چھوڑ کر چلے گئےتھے اس لئے اب تو جس نے میرا علاج کیا اور جس کی وجہ سے مَیں اچھا ہؤا، میرا رشتہ دار وہی ہے۔ مَیں اسے چھوڑ کر نہیں جا سکتا۔ وہ ڈیوڑھی پر پڑا رہتا تھا اور جو مہمان آتا تھا اس کی خدمت کرتا تھا اسی طرح گھر کا معمولی کام کاج بھی کر دیا کرتا تھا۔ اس کی عقل کا یہ حال تھا کہ حضرت خلیفہ اول اسے بڑا مجبور کیا کرتے تھے کہ وہ نماز پڑھے مگر وہ یہی جواب دیتا تھا کہ مجھے نماز نہیں آتی۔ حضرت خلیفہ اول کو بھی بڑا جوش تھا کہ یہ حضرت مسیح موعودؑ کے دروازے پر بیٹھا رہتا ہے اور نمازیں نہیں پڑھتا۔ لوگ اسے دیکھیں گے تو اعتراض کریں گے۔ اس لئے آپ اُسے بار بار نماز پڑھنے کی نصیحت کیا کرتے تھے مگر وہ جواب دیتا کہ مجھے نماز یاد ہی نہیں ہوتی۔ آخر حضرت خلیفہ اول نے تنگ آ کر اسے فرمایا کہ نماز نہیں آتی تو سُبْحَانَ اللہ سُبْحَانَ اللہ ہی کہہ لیا کرو۔ چنانچہ اس کے بعد وہ کبھی ساتویں آٹھویں دن نماز میں شامل ہو جاتا تھا اور سُبْحَانَ اللہ سُبْحَانَ اللہ کہتا رہتا تھا۔ حضرت خلیفہ اول نے ایک دن اس خیال سے کہ شاید انعام کے لالچ سے اُسے نماز پڑھنے کی عادت ہو جائے۔ اُسے فرمایا ۔ پِیرے اگر تم ایک دن پانچوں نمازیں وقت پر پڑھو اور ایک نماز کا بھی ناغہ نہ کرو تو مَیں تمہیں دو روپے انعام دوں گا۔ دو روپے اس کے لئے بڑا بھاری انعام تھا۔ وہ کہنے لگا آج ضرور پانچوں نمازیں پڑھوں گا۔ شاید عشاء کا وقت تھا جب اس نے نماز شروع کی صبح ہوئی تو پھر بھی اس نے ہمت کر کے نماز پڑھ لی۔ ظہر اور عصر میں بھی کسی نہ کسی طرح شامل ہو گیا۔ صرف مغرب کی نماز رہتی تھی ان دنوں چونکہ مہمان بہت تھوڑے ہؤا کرتے تھے اس لئے ان کا کھانا ہمارے گھر میں تیار ہؤا کرتا تھا اورمغرب کے وقت ان کا کھانا گھر سے جایا کرتا تھا۔ اتفاق ایسا ہؤا کہ اس دن مغرب کی نماز نسبتاً دیر سے ہوئی اور کھانا لے جانے کا وقت ہو گیا۔ جو عورت اندر سے کھانا لایا کرتی تھی اس نے پِیرے کو آواز دی کہ پِیرے کھانا تیار ہے مہمانوں کے لئے لے جاؤ مگر پِیرا مسجد میں تھا اور اُس وقت نماز ہو رہی تھی۔ لیکن بلانے والی عورت کو اس کا علم نہ تھا۔ اس نے دو چار آوازیں دیں مگر پِیرا وہاں ہوتا توجواب دیتا۔ آخر اس نے زور سے آواز دی کہ پِیریا کھانا لے جا نہیں تو مَیں تیری شکایت کروں گی۔ یہ آواز چونکہ اس نے زور سے دی تھی اس لئے پیرے نے بھی سن لی جس پر اس نے نماز میں ہی جواب دیا کہ ٹھہر جا اَلتَّحِیَّات پڑھ لواں تے آنداں آں۔ یعنی تشہد پڑھ کر آتا ہوں۔ گویا عین آخری تشہد میں وہ بول پڑا اوراس طرح اس نے اپنے دو روپے کھو دئیے۔ تو وہ بہت ہی موٹی عقل کا آدمی تھا اور اسے اتنی سمجھ بھی نہیں تھی کہ نماز میں بولنا منع ہے۔ اُس وقت قادیان میں نہ تارگھر تھا اور نہ ریل آیا کرتی تھی۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کو کبھی تار دینے کی ضرورت پیش آتی یا کوئی ریلوے پارسل منگوانا ہوتا تو آپؑ بٹالے کسی آدمی کو بھجوا دیا کرتے تھے اور کبھی کبھی پِیرے کو بھی اس غرض کے لئے بھیج دیتے تھے۔ ان دنوں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو ہمارے سلسلہ کے اشدّ ترین مخالفوں میں سے تھے۔ سٹیشن پر جایا کرتے تھے اور جب کسی نووارد مہمان کو اترتے دیکھتے تو اس سے پوچھتے کہ وہ کہاں جانا چاہتا ہے اور جب کسی کے متعلق معلوم ہوتا کہ وہ قادیان جانا چاہتا ہے تو اسے ورغلانے کی کوشش کرتے اور کہتے کہ یہیں سے واپس چلے جاؤ۔ قادیان میں جا کر تو تمہارا ایمان خراب ہو جائے گا۔ ایک دن انہیں اَور کوئی شکار نہ ملا تو انہوں نے پِیرے کو ہی پکڑ لیاوہ اُس دن کوئی تار دینے یا کوئی بلٹی لینے کے لئےبٹالے گیا ہؤا تھا۔ مولوی محمد حسین صاحب اسے کہنے لگے۔ پِیرے تیرا تو ایمان خراب ہو گیا ہے۔ مرزا صاحبؑ کافر اور دجّال ہیں تو اپنی عاقبت ان کے پیچھے لگ کر کیوں خراب کرتا ہے۔ پِیرا ان کی باتیں سنتا رہا سنتا رہا۔ جب وہ اپنا جوش نکال چکے تو انہوں نے اپنی باتوں کی پِیرے سے بھی تصدیق کرانی چاہی اور انہوں نے اس سے پوچھا بتاؤ میری باتیں کیسی ہیں۔ پِیرا کہنے لگا مولوی صاحب مَیں تو اَن پڑھ اور جاہل ہوں، مجھے نہ کوئی علم ہے اور نہ مَیں مسئلے سمجھ سکتا ہوں لیکن ایک بات ہے جو مَیں بھی سمجھتا ہوں اور وہ یہ کہ مَیں سالہا سال سے بلٹیاں لینے اور تاریں دینے کے لئے یہاں آتا ہوں اور مَیں دیکھتا ہوں کہ آپ ہمیشہ سٹیشن پر آ کر لوگوں کو قادیان جانے سے منع کرتےہیں۔ آپ کی اب تک شاید اس کوشش میں کتنی ہی جوتیاں گِھس گئی ہوں گی مگر مولوی صاحب پھر بھی آپ کی کوئی نہیں سنتا اور مرزا صاحب قادیان میں بیٹھے ہیں اور پھر بھی لوگ اُن کی طرف کھچے چلے جاتے ہیں۔ آخر کوئی بات تو ہے جس کی وجہ سے یہ فرق ہے۔
اب دیکھو یہ کیسا لطیف اور صحیح جواب ہے۔ وہ فی الحقیقت دینی مسائل کو نہیں سمجھ سکتا تھا اور وہ نہیں جانتا تھا کہ دلائل کیا ہوتے ہیں مگر فطرت کے لگاؤ اور محبت کی وجہ سے اس نے فوراً سمجھ لیا کہ یہ شیطان ہے اور یہ شخص بہرحال جھوٹ بول رہا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں اور اپنے ساتھ تعلق رکھنے والوں کو بعض دفعہ ایسی باتیں سمجھا دیتا ہے کہ انسان کی عقل دنگ ہو جاتی ہے کیونکہ اس کے پاس سارے سامان ہیں اورجس چیز کی کمی ہو وہ اس کے پاس موجود ہوتی ہے۔ عقل کی کمی ہو تو وہ اس کے پاس موجود ہے، جرأت کی کمی ہو تو وہ اس کے پاس موجود ہے، سخاوت کی کمی ہو تو وہ اس کے پاس موجود ہے،صحت کی کمی ہو تو وہ اس کے پاس موجود ہے، عزت کی کمی ہو تو وہ اس کے پاس موجود ہے، مال کی کمی ہو تو وہ اس کے پاس موجود ہے۔غرض ہر چیز کے خزانے اس کے پاس موجود ہیں اور وہ اپنے بندوں کو ان خزانوں میں سے ایسے رنگ میں حصہ دیتا ہے کہ انسان حیران ہو جاتے ہیں۔
حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے (مَیں اس وقت بچہ تھا) کہ آتھم کے مباحثے میں مَیں نے جو نظارہ دیکھا اس سے پہلے تو ہماری عقلیں دنگ رہ گئیں اور پھر ہمارے ایمان آسمان پر پہنچ گئے۔ فرماتے تھے جب عیسائی مباحثہ سے تنگ آ گئے اور انہوں نے دیکھا کہ ہمارا کوئی داؤ نہیں چلا تو چند مسلمانوں کو اپنے ساتھ ملا کر انہوں نے ہنسی اڑانے کے لئے یہ شرارت کی کہ کچھ اندھے،کچھ بہرے، کچھ لولے اور کچھ لنگڑے بلا لئے اور انہیں مباحثہ سے پہلے ایک طرف چھپا کر بٹھا دیا۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة وا لسلام تشریف لائے تو جھٹ انہوں نے ان اندھوں، بہروں اور لولوں لنگڑوں کو نکال کر آپ کے سامنے پیش کر دیا اور کہا زبانی باتوں سے جھگڑے طے نہیں ہوتے۔ آپ کہتے ہیں مَیں مسیح ناصری کا مثیل ہوں اور مسیح ناصری اندھوں کو آنکھیں دیا کرتے تھے، بہروں کو کان بخشا کرتے تھے اورلُولوں لنگڑوں کے ہاتھ پاؤں درست کر دیا کرتے تھے۔ ہم نے آپ کو تکلیف سے بچانے کے لئے اس وقت چند اندھے بہرے اور لولے لنگڑے اکٹھے کر دئیے ہیں۔ اگر آپ فی الواقع مثیل مسیح ہیں تو ان کو اچھا کر دیجئے۔ حضرت خلیفہ اولؓ فرماتے تھے کہ ہم لوگوں کے دل ان کی اس بات کو سن کر بیٹھ گئے اور گو ہم سمجھتے تھے کہ یہ بات یونہی ہے مگر اس خیال سے گھبرا گئے کہ آج لوگوں کو ہنسی اورٹھٹھے کا موقع مل جائے گا۔ مگر جب ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چہرہ کو دیکھا تو آپ کے چہرہ پر ناپسندیدگی یا گھبراہٹ کے کوئی آثار نہ تھے۔ جب وہ بات ختم کر چکے تو آپ نےفرمایا دیکھئے پادری صاحب مَیں جس مسیح کے مثیل ہونے کا دعویٰ کرتا ہوں، اسلامی تعلیم کے مطابق وہ اس قسم کے اندھوں، بہروں اور لُولوں لنگڑوں کو اچھا نہیں کیا کرتا تھا۔ مگر آپ کا عقیدہ یہ ہے کہ مسیح جسمانی اندھوں ، جسمانی بہروں، جسمانی لولوں اور جسمانی لنگڑوں کو اچھا کیا کرتا تھا اور آپ کی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر تم میں ایک ذرہ بھر بھی ایمان ہو اور تم پہاڑوں سے کہو کہ وہ چل پڑیں تو وہ چل پڑیں گے او رجو معجزے مَیں دکھاتا ہوں وہ سب تم دکھا سکو گے۔ پس یہ سوال مجھ سے نہیں ہو سکتا۔ مَیں تو وہ معجزے دکھا سکتا ہوں جو میرے آقا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے دکھائے ۔ آپ ان معجزوں کا مطالبہ کریں تو مَیں دکھانے کے لئے تیار ہوں۔ باقی رہے اس قسم کے معجزے سو آپ کی کتاب نے بتا دیا ہے کہ ہر وہ عیسائی جس کے اندر ایک رائی کے برابر بھی ایمان ہو ویسے ہی معجزے دکھا سکتا ہے جیسے حضرت مسیح ناصری نے دکھائے۔ سو آپ نے بڑی اچھی بات کی جو ہمیں تکلیف سے بچالیا اور ان اندھوں، بہروں ، لُولوں لنگڑوں کو اکٹھا کر دیا۔ اب یہ اندھے ، بہرے اور لولے لنگڑے موجود ہیں۔ اگر آپ میں ایک رائی کے برابر بھی ایمان موجود ہے تو ان کو اچھا کر کے دکھا دیجئے۔ آپ فرماتے تھےاس جواب سے پادریوں کو ایسی حیرت ہوئی کہ بڑے بڑے پادری ان لولوں لنگڑوں کو کھینچ کھینچ کر الگ کرنے لگ گئے۔ تو اللہ تعالیٰ اپنے مقربین کو ہر موقع پر عزت بخشتا ہے اور ان کو ایسے ایسے جواب سمجھاتا ہے جن کے بعد دشمن بالکل ہکّا بکّا رہ جاتا ہے۔
یہیں قادیان میں ایک دفعہ پادری زویمر آیا جو دنیا کا مشہور ترین پادری اور امریکہ کا رہنے والا تھا۔ وہ وہاں کے ایک بہت بڑے تبلیغی رسالہ کا ایڈیٹر بھی تھا اور یوں ساری دنیا کی عیسائی تبلیغی سوسائٹیوں میں ایک نمایاں مقام رکھتا تھا۔ اس نے قادیان کا بھی ذکر سنا ہؤا تھا۔ جب وہ ہندوستان میں آیا تو اَور مقامات کو دیکھنے کے بعد وہ قادیان آیا۔ اس کے ساتھ ایک اَور پادری گارڈن نامی بھی تھا۔ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم اُس وقت زندہ تھے انہوں نے اسے قادیان کے تمام مقامات دکھائے مگر پادری آخر پادری ہوتا ہے نیش زنی سے باز نہیں آ سکتا۔ اُن دنوں قادیان میں ابھی ٹاؤن کمیٹی نہیں بنی تھی اور گلیوں میں بہت گند پڑا رہتا تھا۔ پادری زویمر باتوں باتوں میں ہنس کر کہنے لگا ہم نے قادیان بھی دیکھ لیا اور نئے مسیح ؑ کے گاؤں کی صفائی بھی دیکھ لی۔ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اسے ہنس کر کہنے لگے پادری صاحب ابھی پہلے مسیح کی حکومت ہندوستان پر ہے اور یہ اُس کی صفائی کا نمونہ ہے نئے مسیح کی حکومت ابھی قائم نہیں ہوئی اس پر وہ بہت ہی شرمندہ اور ذلیل ہو گیا۔
پھر اس نے مجھے کہلا بھیجا کہ مَیں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔ میری طبیعت کچھ خراب تھی مَیں نے جواب دیا کہ پادری صاحب بتائیں وہ مجھ سے کیوں ملنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا چند باتیں پوچھنا چاہتا ہوں مگر پہلے نہیں بتا سکتا۔ خیر مَیں نے اُن کو بلا لیا۔ وہ بھی آ گئے اور پادری گارڈن صاحب بھی آ گئے۔ ایک دو دوست اور بھی موجود تھے۔ پادری زویمر کہنے لگے مَیں ایک دو سوال کرنا چاہتا ہوں۔ مَیں نے کہا فرمائیے۔ کہنے لگے اسلام کا عقیدہ تناسخ کے متعلق کیا ہے؟ آیا وہ اس مسئلہ کو مانتا ہے یا اس کا انکار کرتا ہے۔ جونہی اس نے یہ سوال کیا معاً اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈال دیا کہ اس کا سوال سے منشا یہ ہے کہ تم جو مسیح موعودؑ کو مسیح ناصری کا بروز اور ان کا مثیل کہتے ہو تو آیا اس سے یہ مطلب ہے کہ مسیح ناصری کی روح ان میں آ گئی ہے۔ اگر یہی مطلب ہے تو یہ تناسخ ہؤا اور تناسخ کا عقیدہ قرآن کریم کے خلاف ہے۔ چنانچہ مَیں نے اسے ہنس کر کہا پادری صاحب آپ کو غلطی لگی ہے۔ ہم یہ نہیں سمجھتے کہ مرزا صاحب میں مسیح ناصری کی روح آ گئی ہے بلکہ ہم ان معنوں میں آپ کو مسیح ناصریؑ کا مثیل کہتے ہیں کہ آپ مسیح ناصریؑ کے اخلاق اور روحانیت کے رنگ میں رنگین ہو کر آئے ہیں۔ مَیں نے جب یہ جواب دیا تو اس پادری کا رنگ فَق ہو گیا اور کہنے لگا آپ کو کس نے بتایا ہے کہ میرا یہ سوال ہے۔ مَیں نے کہا آپ یہ بتائیں کہ آیا آپ کا اس سوال سے یہی منشاء تھا یا نہیں۔ کہنے لگا ہاں میرا منشاء تو یہی دریافت کرنا تھا اور مَیں حیران تھا کہ جب قرآن تناسخ کے خلاف ہے تو احمدی مرزا صاحب کو مسیح موعود کس طرح کہہ سکتے ہیں۔ پھر مَیں نے کہا اچھا اب آپ دوسرا سوال پیش کریں۔ کہنے لگا میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ نبی کی بعثت کیسے مقام پر ہونی چاہئے یعنی اس کو اپنا کام سر انجام دینے کے لئے کس قسم کا مقام چاہئے۔ جونہی اس نے یہ دوسرا سوال کیا معاً دوبارہ خدا نے میرے دل میں یہ بات ڈال دی کہ اس سوال سے اس کا منشاء یہ ہے کہ قادیان ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ یہ دنیا کا مرکز کیسے بن سکتا ہے اور اس چھوٹے سے مقام سے ساری دنیا میں تبلیغ کس طرح کی جا سکتی ہے۔ اگر حضرت مرزا صاحب کی بعثت کا مقصد ساری دنیا میں اسلام کی تبلیغ پہنچانا ہے تو آپ کو ایسی جگہ بھیجنا چاہئے تھا جہاں سے ساری دنیا میں آواز پہنچ سکتی نہ یہ کہ قادیان جو ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ اس میں آپ کو بھیج دیا جاتا۔ غرض اللہ تعالیٰ نے اس کے سوال کے معاً بعد یہ بات میرے دل میں ڈال دی اور مَیں نے پھر اسے مسکرا کر کہا۔ پادری صاحب ناصرہ یا ناصرہ سے بڑا کوئی شہر ہو وہاں نبی آ سکتا ہے۔ حضرت مسیح ناصری جس گاؤں میں ظاہر ہوئے تھے اس کا نام ناصرہ تھا اور ناصرہ کی آبادی بمشکل دس بارہ گھروں پر مشتمل تھی۔ میرے اس جواب پر پھر اس کا رنگ فَق ہو گیا اور وہ حیران ہؤا کہ مَیں نے اس کی اسی بات کا جواب دے دیا جو درحقیقت اس کے سوال کے پس پردہ تھی۔ اس کے بعد اس نے تیسرا سوال کیا جو اس وقت مجے یاد نہیں رہا مگر پہلے بعض دفعہ بیان کر چکا ہوں۔ بہرحال اس نے تین سوال کئے اور تینوں سوالات کے متعلق قبل از وقت اللہ تعالیٰ نے القاء کر کے مجھے بتا دیا کہ اس کا ان سوالات سے اصل منشاء کیا ہے او رباوجود اس کے کہ وہ چکر دے کر پہلے اَور سوال کرتا تھا پھر بھی اللہ تعالیٰ نے اس کا اصل منشاء مجھ پر ظاہر کر دیا اور وہ بالکل لا جواب ہو گیا۔ تو اللہ تعالیٰ قلوب پر عجیب رنگ میں تصرف کرتا اور اس تصرف کے ماتحت اپنے بندوں کی مدد کیا کرتا ہے اور یہ تصرف صرف خدا کے اختیار میں ہوتا ہے۔ بندوں کے اختیار میں نہیں ہوتا۔
ایک دفعہ ایک کَج بحث ملّا مسجد میں مجھے ملا اور کہنے لگا۔ مجھے مرزا صاحب کی صداقت کا ثبوت دیجئے۔ مَیں نے کہا قرآن موجود ہے۔ سارا قرآن حضرت مرزا صاحب کی صداقت کا ثبوت ہے۔ کہنے لگا کونسی آیت؟ مَیں نے کہا قرآن کی ہر آیت مرزا صاحب کی صداقت کا ثبوت ہے۔ اب یہ تو صحیح ہے کہ قرآن کی ہر آیت ہی کسی نہ کسی رنگ میں نبی پر چسپاں ہو سکتی ہے مگر بعض آیتیں ایسی ہیں کہ ان کا سمجھانا اور یہ بتانا کہ کس رنگ میں اس سے نبی کی صداقت کا ثبوت نکلتا ہے بہت مشکل ہوتا ہے۔ فرض کرو کسی آیت میں لڑائی کا واقعہ بیان ہو تو اب گو اس سے بھی نبی کی صداقت ثابت کی جا سکتی ہے مگر وہ ایسا رنگ ہوتا ہے جو عام طبائع کی سمجھ سے بالا ہوتا ہے مگر مجھے اس وقت یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ تصرف فرما کر اس کی زبان سے وہی آیت نکلوائے گا جس سے نہایت وضاحت کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت ثابت ہو جائے گی۔ خیر وہ اِصرار کرتا رہا کہ آپ کوئی آیت بتائیں۔ مگر مَیں اسے یہ کہوں کہ آپ کوئی آیت پڑھ دیں اسی سے مَیں حضرت مرزا صاحب کی صداقت ثابت کر دوں گا۔ آخر اس نے یہ آیت پڑھی کہ وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا هُمْ بِمُؤْمِنِيْنَ۔9 مَیں نے سمجھ لیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا ہی تصرّف ہے کہ اس نے اس کی زبان سے یہ آیت نکلوائی۔ چنانچہ مَیں نے اس سے کہا یہ آیت کن لوگوں کے متعلق ہے۔ مسلمانوں کے متعلق ہے یا غیر مسلموں کے متعلق۔ اس کا اصل سوال یہ تھا کہ جب مسلمان نمازیں پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں، حج کرتے ہیں اور خدا اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں تو ان کے لئے کسی نبی کی کیا ضرورت ہے؟ جب اس نے یہ آیت پڑھی تو مَیں نے اس سے پوچھا کہ یہ آیت کن لوگوں کے متعلق ہے۔ اس نے کہا مسلمانوں کے متعلق۔ مَیں نے کہا تو پھر یہ آیت بتاتی ہے کہ مسلمانوں میں بھی بعض لوگ خراب ہو جاتے ہیں۔ وہ مُنہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم مومن ہیں مگر درحقیقت وہ مومن نہیں ہوتے اَور قرآن یہ بتاتا ہے کہ خالی اپنے آپ کو مومن کہہ لینا کافی نہیں جب تک انسان اپنے عمل سے بھی ایمان کا ثبوت نہ دے۔ اب آپ ہی بتائیں کہ جب مسلمان بھی بگڑ سکتے ہیں تو کیا خدا ان کی اصلاح کے لئے کسی نبی کو بھیجے گا یا نہیں بھیجے گا۔ دلوں کو تسلّی دینا تو خدا کا کام ہے مگر اس کی زبان بند ہو گئی اور وہ اس کا کوئی جواب نہ دے سکا اور اس بات کا میرے دل میں پہلے ہی یقین تھا کہ جو آیت اس کے مُنہ سے نکلے گی وہ وہی ہو گی جس سے اس کی زبان بند ہو جائے گی۔ تو علم بھی خدا کے اختیار میں ہے ، جرأت بھی خدا کے اختیار میں ہے، عزت بھی خدا کے اختیار میں ہے اور سخاوت بھی خدا کے اختیار میں ہے۔ بڑے بڑے بہادر ہوتے ہیں مگر جب خدا ان کے دلوں سے بہادری نکال لیتا ہے تو وہ بزدل ہو جاتے ہیں۔
فتح مکہ کے بعد جب ہوازن کی طرف سے حملہ کی تیاریاں ہونے لگیں تو رسول کریم ﷺ نے مسلمانوں کو ان کا مقابلہ کرنے کا حکم دیا اورمکہ کے نَو مسلموں کو بھی اس جنگ میں شریک ہونے کی اجازت دے دی۔ چنانچہ مکہ کے دو ہزار نو مسلم بڑی بڑی لافیں مارتے اوراپنی بہادری کے دعوے کرتے ہوئے نکلے مگر جب ہوازن نے زور سے حملہ کیا اور تیروں کی بوچھاڑ ڈالی توسب سے پہلے وہ میدان جنگ سے بھاگ نکلے۔ اُن کے بھاگنے کی وجہ سے مسلمانوں میں بھی بھگدڑ مچ گئی اور ان کے اونٹ اور گھوڑے میدان جنگ سے دوڑ پڑے۔ وہ کوشش کرتے تھے کہ اپنی سواریوں کو روکیں مگر سواریاں تھیں کہ کسی طرح مڑنے میں نہیں آتی تھیں۔ صرف رسول کریم ﷺ اور آپ کےساتھ بارہ آدمی میدانِ جنگ میں رہ گئے۔ باقی سب میدان جنگ سے بھاگ گئے۔ تو دیکھو وہ لوگ جو فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے تھے یا کفر کی حالت میں ہی جنگ میں شامل ہوئے تھے اور سارے عرب میں بہترین سپاہی سمجھے جاتے تھے جب انہوں نے تکبر سے کام لیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی جرأتیں نکال لیں اور وہ بے تحاشا بھاگ کھڑے ہوئے۔ مگر پھر جو مومن تھے ان کو ان کے ایمان نے بچا لیا ورنہ نو مسلم جب بھاگے تو انہوں نے مکہ میں آ کر دم لیا اور کئی منزلوں تک بھاگتے چلے آئے مگر مومن جو بھاگ رہے تھے وہ رک گئے اور بعض بھاگنا نہیں بھی چاہتے تھے مگر ان کی سواریاں بے قابو ہو رہی تھیں اور وہ بے تحاشا تیزی کے ساتھ بھاگتی چلی جا رہی تھیں۔ رسول کریم ﷺ نے حضرت عباسؓ کو بلایا اور فرمایا۔ اے عباس زور سے آواز دو کہ اے انصار! اے خدا کے رسول کے صحابیو! تم کو خدا کا رسول بلاتا ہے۔ جس وقت حضرت عباسؓ نے یہ آواز دی۔ ایک صحابی کہتے ہیں یا تو ہماری یہ حالت تھی کہ ہمارے اونٹ اور گھوڑے بھاگتے چلے جاتے تھے، ہم انہیں موڑنے کے لئے اپنا پورا زور صَرف کرتے تھے مگر وہ نہیں مڑتے تھے اور یا یہ حالت ہو گئی کہ جس وقت حضرت عباسؓ کی آواز ہمارے کانوں میں پہنچی یوں معلوم ہؤا جیسے قیامت کا دن ہے اور خدا تعالیٰ کھڑا ہؤا روحوں کو بلا رہا ہے اور وہ قبروں سے اٹھ اٹھ کر اس کی طرف بھاگ رہی ہیں۔ غرض حضرت عباسؓ کی آواز کا ہمارے کانوں میں پہنچنا تھا کہ ہم اس طرح جوش سے بھر گئے کہ اُڑ کر محمد ﷺ کے قدموں میں پہنچ جائیں۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں۔ ہم میں سے بعض نے اپنے اونٹوں اور گھوڑوں کو موڑ لیا اور جن کی سواریاں نہ مڑیں انہوں نے اپنی تلواریں نکال کر سواریوں کی گردنیں کاٹ دیں اور دوڑتے ہوئے رسول کریم ﷺ کے گرد جمع ہو گئے۔10
تو دیکھو ایک وقت خدا نے کہا۔ نکال لو ان کے دلوں سے بہادری اور وہ نکال لی گئی مگر دوسرےہی منٹ اس نے حکم دیا کہ بنا دو اِن کو دنیا کا سب سے بڑا بہادر اور وہ اسی وقت دنیا کے سب سے بڑے بہادر بنائے گئے۔ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی سب کچھ آتا ہے انسانی طاقت کچھ نہیں کر سکتی۔ اس لئے یاد رکھو دعائیں جب تک مضطر ہو کر نہ کی جائیں یعنی اس یقین کے ساتھ کہ دنیا کی ہر ضرورت کو پورا کرنے والی ہستی صرف اور صرف خدا کی ذات ہے۔ اس وقت تک قبول نہیں ہوتیں۔ بے شک دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو گو خدا کے دئیے ہوئے میں سے دیتے ہیں مگر بہرحال وہ انسان کو کپڑا ہی دے سکتے ہیں۔ بے شک دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو گو خدا کے دئے ہوئے میں سے دیتے ہیں مگر بہرحال وہ دوسرے کو مکان ہی دے سکتے ہیں۔ بے شک دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو گو خدا کے دئے ہوئے علم سے دوسروں کو فائدہ پہنچاتے ہیں مگر بہرحال وہ بیماروں کا علاج ہی کر سکتے ہیں۔ بے شک دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو گو خدا کے دئے ہوئے علم سے دوسروں کی حفاظت کے لئے مقدمہ مفت لڑ سکتے ہیں مگر بہرحال وہ مقدمہ ہی بغیر فیس کے لینے کے لڑ سکتے ہیں مگر کوئی انسان دنیا کا ایسا نظر نہیں آ سکتا جس کے ہاتھ میں یہ ساری چیزیں ہوں۔ کوئی انسان ایسا نہیں جس کے ہاتھ میں دلوں کی تبدیلی ہو، کوئی انسان ایسا نہیں جس کے ہاتھ میں جذبات کی تبدیلی ہو۔ یہ صرف خدا کی ہی ذات ہے جس کے قبضہ و تصرف میں تمام چیزیں ہیں اور جو دلوں اور اس کے نہاں در نہاں جذبات کو بھی بدلنے کی طاقت رکھتا ہے۔ پس جب تک مضطر ہو کر دعا نہ کی جائے اور جب تک چاروں طرف سے مایوس ہو کر اور خداپر کامل ایمان رکھ کر دعا نہ کی جائے اس وقت تک دعا قبول نہیں ہوتی لیکن جب اس رنگ میں دعا کی جائے تو وہ خدا کے عرش پر ضرور پہنچتی اورقبول ہو کررہتی ہیں۔
پس دعائیں کرو اور اس شرط کو جو دعاؤں کی قبولیت کے لئے خدا تعالیٰ نے ضروری قرار دی ہے مدنظر رکھو۔ وقت نازک ہے اور ایک ایک دن قیمتی ہے۔ چونکہ وقت زیادہ ہو گیا ہے اس لئے آج مَیں صرف ایک شرط کے بیان کرنے پر ہی اکتفا کرتا ہوں۔ ‘‘
(الفضل 18 اپریل 1942ء)
1: النمل: 63
2 : بخاری کتاب الدعوات باب النوم علی الشق الایمن
3: المنذر الثالث معروف بابن السماء کا لڑکا اور حیرہ کا بادشاہ ۔ (الشعر و الشعراء لابن قتیبہ۔ رجال المعلقات العشر از شیخ مصطفیٰ علابینی)
4 : اسد الغابة جلد 3 صفحہ 157 مطبوعہ ریاض 1286ھ
5: ہانجیوں: ہانجی : ملاح ، کشتی چلانے والا
6: بخاری کتاب المغازی باب فَضْلُ مَنْ شَھِدَ بَدْرًا
7: الاستیعاب جلد اول صفحہ 247 تا 249
8: ابن ماجہ ابواب النکاح باب النظر الی المرأة اذا اراد ان یتزوّجھا
9: البقرة: 9
10: سیرت ابن ہشام جلد 4 صفحہ 87 مطبوعہ مصر 1936ء


9
صرف ایمان ہی مومنوں کو خطرات سے بچاتا اور انبیاء کی جماعتوں کو زندہ رکھتا ہے
( فرمودہ 17 اپریل 1942ء )

تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’ مَیں نے پچھلے جمعہ دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ یہ دن بہت نازک ہیں اور ہماری جماعت کے لئے جو نہایت ہی کمزور اور تعداد میں کم ہے خود حفاظتی کا صرف ایک ہی ذریعہ باقی ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کریں۔
پچھلے ہفتہ میں مختلف دوستوں نے خصوصیت سے مجھے کہا ہے کہ ہمیں اپنی حفاظت کے کوئی سامان کرنے چاہئیں۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ وہ سامان آئیں کہاں سے؟ حفاظت کے لئے آدمیوں کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ ہمارے پاس ہیں نہیں، حفاظت کے لئے روپیہ کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ ہمارے پاس نہیں ہے، حفاظت کے لئے ہتھیاروں کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ ہمارے پاس نہیں ہیں، حفاظت کے لئے دوسرے سامان جنگ کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ ہمارے پاس نہیں ہے، حفاظت کے لئے حکومت کی اور طاقت کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ اس حالت میں وہ کون سے ذرائع ہیں جن کو ہم اختیار کر سکتے ہیں۔ مَیں مانتا ہوں کہ نہایت ہی محدود حد تک ہم مادی سامان بھی اپنی حفاظت کے اکٹھے کر سکتے ہیں مگر جن قوتوں اور جن دشمنوں سے ہمیں خوف ہے وہ مادی قوت کے لحاظ سے ہم سے سینکڑوں گُنا زیادہ ہیں۔ اگر کوئی بیرونی دشمن آ جائے تو ہمارے پاس وہ کونسی طاقت ہے جس سے ہم اس کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور اگر کوئی اندرونی فتنہ پیدا ہو تو ہمارے پاس کون سی طاقت اس کے مقابلہ کے لئے ہے۔ ہم تو ہندوستان بلکہ پنجاب میں بھی اتنے نہیں جتنا کہ آٹے میں نمک ہو۔ پس جہاں تک ظاہری اورمادی سامانوں کا تعلق ہے۔ ہمارا خانہ خالی ہے لیکن جہاں تک روحانی سامانوں کا تعلق ہے وہ مَیں یا کوئی اَور شخص پیدا نہیں کر سکتا۔ ان کا ایمان کے ساتھ تعلق ہے اور ایمان ہر ایک کے دل کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ ایمان ایک ایسی چیز ہے کہ جب وہ دل میں پیدا ہو جائے تو دنیوی سامان اس کے مقابل پر ہیچ نظر آنے لگتے ہیں۔ دنیا میں انسان اپنی حفاظت کے سامانوں کی اسی واسطے جستجو کرتا ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ مَیں بچ جاؤں مگر مومن کا مقام بالکل جدا ہوتا ہے۔ جہاں دنیا کے لوگ جان بچانے کی فکر میں ہوتے ہیں وہاں مومن جان دینے کی فکر میں ہوتا ہے اور جو تیار ہو جائے کہ خدا تعالیٰ اور اس کے دین کے لئے جان دے دے اسے اَور کون سی طاقت ہے جو ڈرا سکتی ہے اور خائف کر سکتی ہے۔ بہرحال اگر خطرہ پیدا ہو تو دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ مومن یا جیتے گا یا مرے گا اور اس کے لئے نہ جیتنے سے اور نہ مرنے سے ڈرنے کی کوئی وجہ ہے۔ مومنوں کو دنیا ہمیشہ سے مجنون کہتی چلی آئی ہے اور ہر شخص جانتا ہے کہ ایک ایک پاگل دس دس عقلمندوں پر بھاری ہوتا ہے۔ انسان خطرہ کے وقت اپنی بہت سی طاقت اس لئے خرچ نہیں کرتا کہ وہ ڈرتا ہے کہ لڑتے ہوئے میرا ہاتھ ٹوٹ جائے گا یا پیر ٹوٹ جائے گا یا سر ٹوٹ جائے گا مگر پاگل کو یہ احساس نہیں ہوتا۔ عقلمند اپنی حفاظت کے خیال سے اپنا سارا زور صرف نہیں کرتا لیکن پاگل کے سامنے اپنی حفاظت کا خیال نہیں ہوتا۔ حضرت خلیفة المسیح الاول عورتوں میں قرآن کریم کا درس دیا کرتے تھے۔ اس زمانہ میں یہاں ایک استانی تھیں جو اب فوت ہو چکی ہیں۔ ان کو جنون کا دَورہ ہؤا کرتا تھا۔ ایک دن حضرت خلیفہ اول اس کمرہ میں جو ہمارے مکان کے مشرق سے گزرنے والی گلی کے اوپر ہے۔ درس دے رہے تھے۔ آجکل اس کمرہ میں میری چھوٹی بیوی مریم صدیقہ رہتی ہیں۔ اس کمرہ کی وہی کھڑکی اب تک قائم ہے۔ حضرت خلیفہ اول وہاں درس دے رہے تھے کہ استانی کو جنون کا دَورہ ہؤا اور انہوں نے اس کھڑکی میں سے نیچے کود کر گرنا چاہا۔ ہمارے گھر کی مستورات نے سنایا کہ حضرت خلیفہ اول نے اٹھ کر جلدی سے اسے پکڑا۔
اس زمانہ میں حضرت خلیفہ اول ایسے کمزور نہ تھے۔ ابھی بیماری نہ آئی تھی۔ آپ بڑے مضبوط جسم کے آدمی تھے۔ بعض اوقات آپ اپنا ہاتھ لمبا کر دیتے اور فرماتے کہ کوئی جوان اسے ٹیڑھا کر کے دکھائے۔ تو آپ اچھے مضبوط آدمی تھے اور مضبوط ہونے کا آپ کو دعویٰ تھا مگر وہ استانی دبلی پتلی منحنی اور چھوٹے قد کی عورت تھی مگر آپ اسے روکنے میں کامیاب نہ ہو سکے اور آپ نے بلند آواز سے عورتوں کو کہا کہ آ کر میری مدد کرو۔ یہ میرے ہاتھ سے چھوٹی جاتی ہے اور آپ کے ساتھ آٹھ دس عورتوں نے مل کر بمشکل اسے پکڑا۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ یہ پکڑنے والے سب عقلمند تھے اور ان میں سے کوئی بھی اپنی پوری طاقت کا استعمال نہ کرتا تھا مگر وہ عورت پاگل تھی اور پاگل کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ میرا ہاتھ پاؤں ٹوٹ جائے گا، پسلیاں ٹوٹ جائیں گی یا کمر ٹوٹ جائے گی اسے صرف ایک ہی خیال ہوتا ہے اور پورا زور لگا کر اسے کرنا چاہتا ہے۔
انبیاء کی جماعتوں کو لوگ اسی وجہ سے پاگل کہا کرتے ہیں کہ انہیں سارا زور لگا دینے کی عادت ہوتی ہے اور جب کوئی انسان پورا زور لگا دے تو بڈھا نوجوانوں پر بھاری ہوتا ہے اور جو ان دسیوں جوانوں پر بھاری ہوتا ہے۔ رسول کریم ﷺ بدر کی جنگ کے لئے مدینہ سے نکلے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی اطلاع دی گئی تھی کہ دونوں قافلوں میں سے کوئی نہ کوئی مل جائے گا اوراس سے مقابلہ ہو گا۔ آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بھی حکم تھا کہ شروع میں آپ اس امر کو ظاہر نہ کریں۔ آپ نے چونکہ جنگ کے پہلو پر زور نہ دیا تھا۔ اس لئے صحابہ بھی سارے آپ کے ساتھ نہ گئے بلکہ کم گئے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ تجارتی قافلہ سے مقابلہ ہے۔ مدینہ میں اَور سپاہی تھے مگر وہ ساتھ نہ گئے تھے۔ جب آپ چند منزل آ گئے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر پوری حقیقت کھول دی گئی اور ساتھ اجازت بھی دی گئی کہ بیان فرمائیں کہ اصل غرض کیا ہے۔ آپ نے صحابہؓ کو جمع کیا اور بتایا کہ قافلہ نکل چکا ہے مگر کفار کا لشکر آ رہا ہے۔ اب مشورہ دو کہ کیا کیا جائے۔ آپ کے ساتھ کُل 313 صحابہ تھے۔ اور ان میں سے بھی ایک حصہ ناتجربہ کاروں کا تھا۔ کچھ انصارؓ تھے جو جنگی فنون سے ایسے واقف نہ تھے اور ان حالات کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا تھا کہ آپ ان لوگوں کے لئے موت خریدنا چاہتے تھے۔ آپ نے جب مشورہ پوچھا تو مہاجرین میں سے ایک کے بعد دوسرا کھڑا ہوتا ہو گیا اور کہتا گیا کہ یا رسول اللہ (ﷺ) اگر جنگ مقدر ہے تو ہم تیار ہیں لیکن انصار خاموش تھے اور اس کی وجہ یہ تھی ۔ مکہ والے مہاجرین کے رشتہ دار تھے اور اس لئے انصار نے خیال کیا کہ اگر ہم نے جنگ کا مشورہ دیا تو مہاجرین سمجھیں گے کہ چونکہ مکہ والے ہمارے رشتہ دار ہیں اس لئے یہ لوگ ان سے لڑنے پر آمادہ ہو گئے ہیں اور ان کا مرنا ان لوگوں پر گراں نہیں گزرتا۔ اس لئے وہ اپنے مہاجر بھائیوں کے احساسات کا احترام کرتے ہوئے خاموش رہے۔ مہاجرین یکے بعد دیگرے اٹھتے اور مشورہ دیتے اور اپنے جوش اور اخلاص کا اظہار کرتے مگر ان میں سے جب کوئی بات ختم کر لیتا تو رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ لوگو مشورہ دو پھر دوسرا مہاجر اٹھتا اور اسی طرح جوش اور اخلاص کے ساتھ لڑنے کا مشورہ دیتا مگر آپ پھر فرماتے کہ لوگو مشورہ دو۔ اس پر انصار نے سمجھا کہ شاید آپ ہمیں مخاطب فرما رہے ہیں۔ چنانچہ ان میں سے ایک کھڑا ہؤا اور عرض کیا یا رسول اللہ مشورہ تو مل رہا ہے مگر آپ پھر بھی یہی فرماتے ہیں کہ لوگو مشورہ دو اور شاید آپ کی مراد انصار سے ہے (انصار جب رسول کریم ﷺ کو مدینہ میں لائے۔ تو یہ اقرار کیا تھا کہ اگر کوئی دشمن مدینہ پر حملہ کرے گا تو ہم اپنی جانوں سے آپ کی حفاظت کریں گے۔ لیکن مدینہ سے باہر کے ہم ذمہ دار نہیں ہیں) اس انصاری نے عرض کیا یا رسول اللہ! اب چونکہ ہم لوگ مدینہ سے باہر ہیں اس لئے شاید آپ کو خیال ہے کہ اس اقرار کے مطابق ہم آپ کا ساتھ نہ دیں گے۔ لیکن یا رسول اللہ! جس وقت ہم نے یہ اقرار کیا تھا اس وقت ہمیں اسلام کی پوری خبر نہ تھی اور آپ کی ذات کی بھی ہمیں کما حقہٗ قدر نہ تھی مگر اب کہ اسلام ہم پر کھل چکا اور آپ کی قدر کو ہم نے پہچان لیا۔ اب اس اقرار کا کوئی سوال نہیں۔ یا رسول اللہ! سامنے سمندر ہے۔ آپ حکم دیں تو ہم اس میں گھوڑے ڈال دیں گے اور اگر مقابلہ ہؤا تو ہم آپ کے دائیں لڑیں گے اور بائیں لڑیں گے، آگے لڑیں گے اور پیچھے لڑیں گے اور کوئی دشمن آپ کی ذات تک ہرگز نہ پہنچ سکے گا۔ جب تک کہ وہ ہماری لاشوں پر سے نہ گزرے۔1
ایک صحابی کہتے ہیں کہ مَیں بارہ جنگوں میں رسول کریم ﷺ کے ساتھ شامل ہؤا ہوں مگر باوجود اس کے مجھے ہمیشہ یہ حسرت رہی ہے کہ گو مَیں اس سعادت سے محروم رہتا مگر کاش یہ الفاظ میرے مُنہ سے نکلے ہوتے۔
گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں مَیں نے بتایا تھا کہ انصار کے ہی دو نو عمر لڑکوں نے کس طرح ثابت کر دیا کہ یہ لوگ کن جذبات کے ساتھ جنگ میں شامل ہوئے تھے۔ آج مَیں مضمون کے لحاظ سے بتاتا ہوں کہ کس طرح یہ لوگ اپنی تمام قوتوں کو اسلام کے لئے صرف کرنے کے لئے تیار رہتے تھے۔ جب دونوں لشکروں نے ایک دوسرے کے بالمقابل ڈیرے ڈل دئیے تو مکہ والوں میں ہی چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ مسلمانوں میں اکثر حصہ مہاجرین کا ہے جو ہمارے رشتہ دار ہیں۔ اگر لڑائی میں ہم لوگ مارے گئے جب بھی اور اگر وہ مارے گئے جب بھی مرنے والے ہماری ہی قوم کے مریں گے۔ اس لئے بعض سمجھدار لوگوں نے یہ تحریک کی کہ صلح کر لی جائے اورلڑائی نہ کی جائے۔ یہ بات ایسی پختہ ہوتی چلی گئی کہ لشکر میں ایک ہیجان پیدا ہو گیا اوربہتوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ لڑائی نہیں ہونی چاہئے۔ حالت یہ تھی کہ کسی کا ایک بھائی مسلمانوں میں تھا اور دوسرا کفار میں، کسی کا بیٹا مسلمانوں میں تھا اورباپ کافروں کے لشکر میں، کسی کا باپ اِدھر تھا اور بیٹا اُدھر (حتّٰی کہ حضرت ابو بکرؓ کا ایک بیٹا بھی کفار کے لشکر میں شریک تھا۔) اور یہ چرچا ہونے لگا کہ کیا باپ بیٹے سے اور بیٹا باپ سے اور بھائی بھائی سے لڑے گا۔ ان باتوں کا طبعاً لوگوں پر اثر ہؤا اور جب ہیجان بہت بڑھا تو ابو جہل جو رسول کریم ﷺ اور مسلمانوں کا سخت دشمن تھا۔ ایک شخص کے پاس گیا جس کا بھائی ابتدائی زمانہ میں کسی مسلمان کے ہاتھ سے مارا گیا تھا اور اس سے کہا کہ کیا تم چاہتے ہو کہ تمہارے بھائی کا بدلہ نہ لیا جائے۔ اس نے کہا ضرور لیا جانا چاہئے۔ ابو جہل نے کہا کہ بس آج ہی تو اس کا موقع ہے۔ تم شور مچاؤ کہ میرے بھائی کا بدلہ ضرور لیا جائے۔ عرب قوم مہذب نہ تھی اور ان میں بعض بے ہودہ رسوم تھیں۔ اپنی ایک رسم کے مطابق وہ شخص مادر زاد ننگا ہو کر باہر آیا اور رونے پیٹنے لگا اور بَین کرنے لگا کہ او میرے بھائی! آج تیری قوم نے تجھے چھوڑ دیا اور وہ تیرا بدلہ لینا نہیں چاہتی۔ عربوں میں یہ ایک رسم تھی کہ جب کوئی شخص اپنی قوم کے دلوں میں جوش پیدا کرنا چاہتا تھا تو اس طرح مادر زاد ننگا ہو کر رونے پیٹنے اور بَین کرنے لگتا۔ اس شخص نے بھی جب اس طرح کیا تو دلوں میں ایک جوش پیدا ہو گیا اور پہلے خیالات جاتے رہے اور لوگ لڑائی کے لئےتیار ہو گئے۔ اسی دوران میں کفار نے اپنے ایک تجربہ کار افسر ٭کو تیار کیا کہ جا کر اندازہ کرے۔ مسلمانوں کی تعداد کتنی ہے۔ وہ شخص معلوم ہوتا ہے جنگی کاموں سے بخوبی ماہر تھا۔ وہ پہلے اس طرف گیا جس طرف باورچی خانہ کا انتظام تھا اور ذبح شدہ اونٹوں کی تعداد دیکھ کر اندازہ کیا کہ مسلمانوں کی تعداد تین ساڑھے تین سَو کے درمیان ہو گی اور جا کر کفار سے کہا کہ باقی سب اندازے غلط ہیں۔ مسلمانوں کی تعداد تین اور ساڑھے تین سَو کے درمیان ہے۔ کفار نے کہا کہ بس پھر تو کوئی بات نہیں۔ ہم تو انہیں فوراً مار لیں گے لیکن اس شخص نے کہا کہ بھائیو! گو مسلمانوں کی تعداد تو تھوڑی ہے مگر مَیں تمہیں یہی مشورہ دوں گا کہ ان سے لڑائی کا خیال چھوڑ دو۔ انہوں نے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ مَیں نے بعض مسلمانوں کو بھی دیکھا ہے مگر مَیں سچ کہتا ہوں کہ مَیں نے اونٹوں اور گھوڑوں پر آدمی نہیں موتیں سوار دیکھی ہیں۔ 2 ان میں سے ہر ایک کے چہرے سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مرنے کے لئے آیا ہے اور کسی کام کے لئے نہیں اور اگر تم نے ان سے لڑائی کی تو یا تو وہ سب کے سب خود مر جائیں گے یا تم کو مار دیں گے اور جو قوم مرنے کے لئے آمادہ ہو چکی ہو۔ اس سے لڑنا اچھا نہیں ہوتا مگر کفار میں چونکہ جوش پیدا ہو چکا تھا۔ اس کامشورہ نہ مانا گیا اور انہوں نے لڑنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ لڑائی ہوئی اور مسلمان اسی نیت اور ارادہ سے لڑے کہ ان میں سے کوئی بھی واپس نہ جائے گا۔ ان کا یہ ارادہ اس سے ظاہر ہے کہ انہوں نے ایک عرشہ بنایا جس پر رسول کریم ﷺ کو بٹھا دیا۔ دو تیز رفتار اونٹنیاں پاس باندھ دیں اور باہم مشورہ کر کے حضرت ابو بکرؓ کو آپ پر پہرہ دار مقرر کیا کہ اگر جنگ کی حالت خراب ہوئی تو وہ رسول کریم ﷺ کو ساتھ لے کر مدینہ پہنچ جائیں۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اسلام کی زندگی آپ کے دم سے ہے اگر لڑائی کی حالت خراب ہوئی تو ہم میں سے تو کوئی واپس جائے گا نہیں مگر اسلام کی خاطر آپ کا زندہ رہنا ضروری ہے۔ ہمارے مارے جانے سے اسلام کی شکست نہیں ہو سکتی کیونکہ مدینہ میں اسلام کے اَور سپاہی بھی موجود ہیں اس لئے ہم نے ابو بکرؓ کو آپ کا پہرہ دار مقرر کیا ہے جن پر ہمیں سب سے زیادہ اعتماد ہے کہ وہ اپنی جان پر کھیل کر بھی آپ کی حفاظت کریں گے۔ آپ ان کے
٭ عمیر بن وھب (سیرة لابن ھشام)
ساتھ مدینہ تشریف لے جائیں۔3 اس کے معنے یہ ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی زندہ واپس جانے کو تیار نہ تھا۔
دنیا میں کتنی کتنی بڑی جنگیں ہوئی ہیں جن میں لڑنے والوں کی بڑی تعریفیں ہوتی ہیں مگر وہ سب ایسی ہیں کہ کسی میں ہزار میں سے دو سَو سپاہی مارے گئے ، کسی میں تین سو سپاہی مارے گئے اور باقی بچ کر آ گئے مگر پھر بھی وہ سارا لشکر ہی بہادر سمجھا جاتا ہے۔ تاریخ میں ایسے مجنونانہ مقابلہ کی ایک مثال صرف یونان کی تاریخ میں ملتی ہے۔ سپارٹا کے درہ پر جتنے کے جتنے سپاہی متعین تھے۔ وہ سب کے سب مارے گئے مگر وہ ایک درّہ میں تھے اور ان کے لئے دشمن کو بالکل روک لینے کا امکان موجود تھا مگر مسلمانوں کا لشکر باوجود تعداد میں دشمن سے بہت کم ہونے کے کھلے میدان میں تھا اور دشمن پر فتح پانے کا امکان بظاہر اس کے لئے کوئی نہ تھا۔ باوجود اس کے ان میں سے ہر ایک اس نیت اور اس ارادہ سے میدان جنگ میں گیا تھا کہ واپس گھر جانے کا موقع اسے نہ مل سکے گا۔ یہی وجہ تھی کہ ان لوگوں نے دنیا کا تختہ الٹ دیا۔ یہ لوگ مجنونوں کی طرح لڑتے تھے۔ تو ایمان انسان کے اندر ایسی قوت پیدا کر دیتا ہے کہ لوگ اسے پاگل سمجھنے لگتےہیں کیونکہ جس طرح پاگل مقابلہ کے وقت یہ نہیں دیکھتا کہ میرا سر ٹوٹ جائے گا یا ہاتھ پَیر ٹوٹیں گے یا کوئی اَور حصہ جسم کا ٹوٹ جائے گا۔ مومن بھی دین کے مقابلہ میں اپنی جان کی پرواہ نہیں کرتا۔ گو اس کے اس جوش کا باعث جسمانی جنون نہیں ہوتا بلکہ عشق کا جنون ہوتا ہے۔
جنگِ موتہ کا واقعہ ہے۔ رسول کریم ﷺ نے حضرت زیدؓ کو اس کا کمانڈر بنا کر بھجوایا اور فرمایا کہ اگر زید مارے جائیں تو جعفرسردار لشکر ہوں۔ اگر وہ مارے جائیں تو عبداللہ بن رواحہ اس کے سردار ہوں اور اگر وہ شہید ہوں تو جسے مسلمان چاہیں سردار منتخب کر لیں۔ جب اول الذکر شہید ہوئے۔ حضرت جعفر نے جھٹ اپنے گھوڑے سے چھلانگ لگا دی۔ گھوڑے کو زخمی کر دیا اور جھنڈا ہاتھ میں لے لیا۔ گھوڑے کو زخمی کرنے کے یہ معنے تھے کہ مَیں واپس نہیں لوٹوں گا جھنڈا لے کر زور سے نعرہ لگایا اَوْفَیْتُ اَوْفَیْتُ اور لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔ اس پر عبد اللہ بن رواحہ نے جھنڈا ہاتھ میں لے لیا۔ لڑائی سخت ہوئی دشمن کی تعداد مسلمانوں سے بیس تیس گُنا زیادہ تھی۔ رومیوں سے مقابلہ تھا جن کی فوج بہت تربیت یافتہ اور ٹرینڈ تھی۔ جس طرح آجکل انگریزوں اور جرمنوں وغیرہ کی فوجیں ہیں۔ آخر حضرت عبداللہ بن رواحہ کا ہاتھ کٹ گیا۔ اس پر انہوں نے دوسرے ہاتھ میں جھنڈا لے لیا۔ وہ بھی کٹ گیا تو ٹانگوں میں دبا کر کھڑے ہو گئے۔ آخر ایک ٹانگ بھی کٹ گئی تو گردن کا سہارا دے کر جھنڈے کو کھڑا کر لیا اور مرتے مرتے یہ آواز دی کہ مسلمانو! اسلام کا جھنڈا نیچا نہ ہونے پائے۔ ایک مسلمان آگے بڑھا اور اس نے جھنڈا زمین میں گاڑ دیا۔ یہ جنون ہی کی حالت ہے، ورنہ کس طرح ایک ہٹے کٹے آدمی کو جب معمولی سا بھی زخم آ جائے تو مرہم پٹی کرانے کے لئے بھاگتا ہے مگر حضرت عبد اللہ کے دونوں بازو اور ٹانگ بھی کٹ گئی لیکن کوئی پرواہ نہیں کی۔ ان کو صرف ایک خیال تھا کہ اسلام کا جھنڈا نیچا نہ ہو اور ظاہر ہے کہ ایسے شخص کا مقابلہ کون کر سکتا ہے۔ ایسے لوگ جب بھی میدان میں آتے ہیں کوئی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ یہ اگر زندہ رہتے ہیں تو فاتح کی حیثیت سے اور اگر مرتے ہیں تو ہمیشہ زندہ رہنے والوں کی حیثیت سے ۔ ایسے لوگوں کا نام دنیا سے کبھی نہیں مٹایا جا سکتا۔ یہ لوگ ہر لمحہ زندگی کو موت سے بدلنے کے لئے تیار رہتے ہیں اورموت ہمیشہ ان کو زندگی بخشتی ہے۔ پس ایمان ہی ہے جو دنیا میں ہمیشہ مومنوں کو بچایا کرتا ہے اور انبیاء کی جماعتوں کو زندہ رکھا کرتا ہے اور یہ نہ میرے اختیار میں ہے اور نہ کسی اَور کے کہ ہر ایک کے ایمان کو زندہ اور تازہ کرے۔ یہ ایمان اسی صورت میں پیدا ہوتا ہے کہ انسان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق ہو اور جب ایمان کا یہ ولولہ پیدا ہو جائےتو پھر دنیا کی کوئی طاقت ایسے مومن کو دبا نہیں سکتی اور کوئی قوت اسے مٹا نہیں سکتی۔ بھلا موت سے انسان کیوں ڈرے جو کبھی بھی کسی کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ ہزاروں انسان دنیا میں بڑے بڑے بن کر مرتے ہیں مگر ایک کتّے کی طرح ان کا نام مٹ جاتا ہے اورہزاروں غریب جانیں دیتے ہیں اور ہمیشہ کے لئے ان کا نام یاد رکھا جاتا ہے۔ چاہے فرد کے لحاظ سے اور چاہے قوم کے لحاظ سے ہو۔ مَیں نے یونان کے بعض سپاہیوں کی مثال دی ہے جو سپارٹا کے بہادر کہلاتے ہیں۔ یونان میں کتنے بادشاہ ہوئے ہیں مگر سوائے سکندرکے یا اس کے طفیل اس کے باپ کے نام کے سوا کسی ایک کا بھی نام تم میں سے کسی کو معلوم ہے؟ مجھے تو معلوم نہیں حالانکہ مَیں نے یونان کی تاریخ کا بھی ایک حصہ پڑھا ہے مگر سپارٹا کے بہادروں کا ذکر یاد ہے۔گو وہ کافر تھے مگر خدمت وطن کے جذبہ کے ماتحت بہادری دکھائی اور ان کا نام روشن ہو گیا۔ تو جو ایمان کی خاطر مرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں ان کی یاد کو اللہ تعالیٰ خود تازہ کر دیتا ہے۔ دیکھو موسیٰ عمران جن کے نام کے ساتھ علیہ السلام کہے بغیر ہماری زبانیں آگے نہیں گزر سکتیں۔ کیسے غریب والدین کا بیٹا تھا۔ حتّٰی کہ وہ روٹی کے لئے فرعون کے گھر میں پرورش پانے پر مجبور تھا۔ ناصرہ کے بڑھئی کے بیٹے کو آج بھی ہم عیسیٰ علیہ السلام کہے بغیر نہیں رہ سکتے۔ عراق کے ایک معمولی بُت بیچنے والے تاجر کا بیٹا ابراہیم؟ کون سا دن ہے جب مسلمان دن میں پانچ وقت نماز پڑھتے ہوئے اس کا نام نہیں لیتے اور کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَ عَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ نہیں کہتے۔ دیکھو دنیوی حیثیت سے ان لوگوں کی کیا شان تھی۔ انہیں دنیوی لحاظ سے کوئی بھی حیثیت حاصل نہ تھی مگر خد اتعالیٰ کی طرف سے انہیں عزتیں دی گئیں۔ ان کے بعد بڑے بڑے بادشاہ آئے جنہوں نے دنیا کو تہِ تیغ اور زیرِ نگیں کیا مگر آج ان کا نام بھی کوئی نہیں جانتا یا ان کے نام سے کسی کے دل میں کوئی جوش پیدا نہیں ہوتا مگر وہ چھوٹے سے تاجر کا بیٹا یا ایک معمولی پیشہ ور کا بیٹا جس کا باپ غالباً رعمسیس کے حکم کے مطابق اینٹیں پاتھا کرتا تھا۔ اس وقت بھی ہمارے سردار ہیں اور آج بھی ہماری زبانیں ان کو دعائیں دئیے بغیر آگے نہیں گزر سکتیں۔ یہ کون سی چیز ہے جس نے ایک معمولی سوداگر کے لڑکے یا ایک اینٹیں پاتھنے والے کے بیٹے کو ہمارا سردار بنا دیا۔ یہ خدا تعالیٰ کی محبت ہی تھی اور اس کی نازل کردہ برکات۔ جن سے ان لوگوں کو ایسی عزت ملی جو دنیا کے بادشاہوں کو بھی نصیب نہیں ہوئی۔ آج انگریز اور جرمن لڑتے ہیں۔ یہ کتنی بڑی بڑی سلطنتیں ہیں مگر یہ دونوں ہی آج بھی اس بڑھئی کے بیٹے کو سرداری کا تاج پہناتے ہیں۔ جرمن کہتے ہیں کہ سچے عیسائی ہم ہیں اور انگریز کہتے ہیں ہم ہیں۔ جرمن عیسائیت سے باغی ہیں آج بھی دیکھ لو اتنی بڑی بڑی حکومتیں جس سے بغاوت کا طعنہ دے کر اپنی اپنی قوموں کو ایک دوسرے کے خلاف اکساتی ہیں وہ وہی بڑھئی کا بیٹا ہے اور اس سے بغاوت کا طعنہ دے کر اکسانے والے وہ ہیں جن کے پاس ہزاروں طیارے اور بے شمار سامان جنگ ہے مگر اتنے ساز و سامان کے باوجود اس بڑھئی کے بیٹے کی مدد کے وہ آج بھی محتاج ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے اسے اپنا لیا اور کہا کہ آج سے یہ ہمارا اور ہم اس کے کہلائیں گے۔ آج ایک بڑھئی کا لڑکا ہونا اس کے لئے عزتوں کا موجب ہے۔ اگر وہ کسی بادشاہ کا بیٹا ہوتا تو آج اس کی یہ شان ظاہر نہ ہوتی۔ اسی طرح ہمارے آقا سید الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ کس غربت کی حالت رہے۔ یتیم کی حالت میں آپ پیدا ہوئے اور ابھی چھوٹے ہی تھے کہ آپ کی والدہ بھی گزر گئیں۔ مکہ کے لوگ اپنے بچوں کو باہر دیہات میں دائیوں کے پاس پرورش کے لئے بھیج دیا کرتے تھے تا شہر کی ہوا سے بچہ محفوظ رہے اور دیہات کی کھلی ہوا میں پرورش پا کر تندرست اور مضبوط ہو۔ ان دودھ پلانے والی عورتوں کو بڑے بڑے تحفے ملتے تھے اور جب وہ بچہ کو واپس لاتیں تو بڑے بڑے انعام ملتے تھے مگر آمنہ کا خاوند فوت ہو چکا تھا اور کوئی جائداد تھی نہیں۔ ایسی عورت کے بچہ کو پرورش کرنے کے نتیجہ میں کسی کو انعام یا تحائف ملنے کی کیا امید ہو سکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں دوسرے گھروں میں عورتیں خود جا جا کر بچے حاصل کرنے کی کوشش کرتی تھیں۔ وہاں آمنہ خود ہر ایک سے درخواست کرتی تھیں کہ اس کے بچے کو لے جائے مگر ہر ایک ناک بھوں چڑھا کر چلی جاتی تھی۔
حلیمہ جسے آنحضرت ﷺ کی پرورش کی سعادت نصیب ہوئی خود بھی ایک غریب عورت تھی۔ وہ اگرچہ پہلے تو آپ کو ساتھ لے جانے سے انکار کر کے چلی گئی لیکن بوجہ غریب ہونے کے اسے بھی کوئی اپنا بچہ دینا پسند نہ کرتا تھا کیونکہ دینے والے بھی تو یہ دیکھتے تھے کہ ان کے بچوں کو کھانے پینے کے لئے اچھا مل سکے گا یا نہیں۔ تو جہاں آمنہ کے بچہ کو لینے سے ہر دایہ نے انکار کیا وہاں حلیمہ کو ہر ایک نے اپنا بچہ دینے سے انکار کر دیا اور آخر وہ مجبور ہو کر اس شرم کے مارے کہ اس کی قوم کے لوگ کہیں گے کہ یہ بچہ لینے گئی تھی مگر کسی نے اسے پوچھا تک نہیں پھر لوٹ کر آمنہ کے پاس آئی کہ اچھا مجھے اپنا بچہ دے دو گویا ساری دائیوں کا ردّ کردہ بچہ اس دایہ نے لیا جسے سب مکہ والوں نے ردّ کر دیا تھا اور اس طرح وہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ ’’جس پتھر کو معماروں نے ردّ کیا، وہی کونے کے سرے کا پتھر ہو گیا۔‘‘ 4
دایہ بھی معمار ہوتی ہے کیونکہ وہ بھی بچہ کی پرورش کرتی اور بناتی ہے۔ تو وہ تمام دائیوں کا ردّ کیا ہؤا بچہ حلیمہ کے گھر گیا اوروہ بھی اپنی شرم مٹانے کے لئے اسے لے گئی۔ لیکن ایک دن ایسا آیا کہ اسلامی لشکر نے حلیمہ کی قوم کو تہِ تیغ کیا اور اس کے تمام نوجوان قید کر لئے گئے جس وقت وہ ساری قوم آہ و بکا میں مصروف تھی۔ اس کی شان و شوکت مٹ چکی تھی۔ وہی حلیمہ جو ایک وقت اتنی غریب تھی کہ مکہ کا کوئی شخص اپنا بچہ اسے دینے کے لئے تیار نہ ہوتا تھا۔ اس کی قوم کے بزرگوں نے جن میں ایک آپ کا رضاعی چچا بھی تھا ۔ اس کے نام پر رسول کریم ﷺ سے اپیل کی اور عرض کیا کہ ہم نے آپ کا بچپن دیکھا ہے۔ جب آپ دودھ پیتے تھے اور آپ کو اپنی گودیوں میں کھلایا ہے اور اب آپ اس شان کو پہنچ گئے ہیں۔ اب آپ ہم پر رحم کریں۔ خدا تعالیٰ آپ پر رحم کرے گا۔ آپ نے محبت سے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ دو چیزوں میں سے ایک چن لو۔ اپنے آدمی یا اپنے مال۔ انہوں نے کہا ہمارے آدمی واپس کر دئیے جائیں۔ آپ نے فرمایا کہ بہت اچھا، میرے اور میرے خاندان کے حصہ میں جس قدر قیدی آئے ہیں سب آزاد ہیں۔ باقیوں کے متعلق مَیں سفارش کروں گا۔ مکہ اور مدینہ کے لوگوں نے خوشی سے قیدی آزاد کر دئیے مگر بعض نو مسلم قبائل نے انکار کیا اس پر آپ نے فرمایا کہ آئندہ غنیمت میں سے فی قیدی چھ اونٹ آپ ادا کریں گے۔ اس پر ان لوگوں نے بھی قیدی چھوڑ دئیے۔ اب دیکھو کجا تو وہ دن تھا کہ حلیمہ رسول کریم ﷺ کو اپنے گھر لے جانا پسند نہ کرتی تھی اور کجا یہ دن کہ اس کی قوم کے معززین نے اس کی خدمت کا واسطہ دے کر رسول کریم ﷺ سے رحم کی اپیل کی اور وہ منظور کی گئی اور اس قوم کے سب قیدی آزاد کر دئیے گئے۔5
آج ان واقعات پر تیرہ سو سال گزر چکے ہیں اَور عرب پھر تنزل کی طرف چلے گئے ہیں۔ وہ پھر وحشی ہو گئے ہیں اور بدوی بن رہے ہیں مگر آج بھی ان کے دلوں پر محمد مصطفیٰ ﷺ کی حکومت ہے۔ دس بارہ روز ہوئے ہیں میں ریڈیو پر خبریں سن رہا تھا۔ آواز کی خرابی کی وجہ سے ایک جگہ سے دوسری جگہ کی طرف سوئی کر رہا تھا کہ جرمنی ریڈیو کی آواز سنائی دی (یا اٹیلین تھا پختہ نہیں کہہ سکتا) اس کی ایک بات سن کر مجھے حیرت بھی ہوئی، ہنسی بھی آئی، لطف بھی آیا اَور تعجب بھی ہؤا۔ اردو میں تقریر ہو رہی تھی۔ مقرر کہہ رہا تھا کہ اے مسلمانو! انگریز تمہارے سخت دشمن ہیں۔ تم لوگوں کو پتہ نہیں کہ انہوں نے تم پر کتنے مظالم کئے ہیں۔ انہوں نے فلاں اسلامی ملک پر حملہ کیا، فلاں پر کیا، سوڈان پر بھی حملہ کیا اور اسے فتح کر لیا اور وہاں تمہارے نبی کی قبر پر گولہ باری کی اور اس ظلم میں چرچل بھی شامل تھا۔ سمالی لینڈ کے مخالف لیڈر کا نام محمد تھا۔ اس سے مقرر نے سمجھا کہ شاید بانی اسلام علیہ الصلوٰة و السلام کی قبر وہاں ہے۔ مَیں نے خیال کیا کہ دیکھو یہ لوگ اسلام اور اس کی تاریخ سے اتنے جاہل ہیں اور دنیا کو دھوکا یہ دے رہے ہیں کہ یہ اسلام اور مسلمانوں کے بڑے خیر خواہ ہیں۔ مگر دیکھو کس طرح یہ لوگ رسول کریم ﷺ کی محبت کو اکسانے کے لئے جھوٹے واقعات بیان کرتے ہیں کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ اس طرح مسلمان طیش میں آ جائیں گے۔ پس جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ہو جاتے ہیں ان کی عزت کو کوئی نہیں مٹا سکتا۔ ان کا نام لیتے ہی وہ ولولہ اور جوش پیدا ہوجاتا ہے کہ کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا قرآن کریم نے بتایا ہے کہ کمزور ایمان والا شخص دو کا مقابلہ کرسکتا ہے اورپورے ایمان والا دس کا بلکہ دس سے زیادہ کا بھی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز میں زیادتی رکھی ہے۔ گویا ایک ہزار مومن دس ہزار دشمن کے لئے کافی ہے اور صحابہؓ پر تو ایسے وقت بھی آئے ہیں کہ ایک ایک نے ہزار ہزار کا مقابلہ کیا ہے۔ رومیوں کے ساتھ ایک جنگ میں ساٹھ مسلمانوں نے جن میں سے کچھ صحابہ اور کچھ دوسرے تھے۔ ساٹھ ہزار پر حملہ کیا تھا۔
پس دنیا کے سامانوں پر نگاہ نہ کرو۔ مومن کبھی ظاہری سامانوں پر انحصار نہیں رکھتا۔ یہ صحیح ہے کہ اگر کسی کے پاس ایک لٹھ ہے تو وہ بھی کام آ سکتا ہے اور اس نے اس پر جو چار یا پانچ آنے خرچ کئے ہیں وہ بھی قوم کی خدمت کی ہے لیکن اگر وہ دعاؤں میں لگا رہے تو وہ ہزار لٹھ اور جمع کر سکتا ہے۔ جو شخص ظاہری لٹھ رکھتا ہے اس نے غلطی نہیں کی کیونکہ ایک ہزار ایک، ایک ہزار سے زیادہ ہی ہے۔ اس لئے وہ بھی ثواب کا مستحق ہے مگر اصل اور حقیقی لٹھ جس سے ہم مقابلہ کر سکتے ہیں دعا ہی ہے۔ گذشتہ خطبہ میں مَیں نے بیان کیا تھا کہ دعا کا ایک پہلو یہ ہے کہ اضطرار کے ساتھ دعا کی جائے۔ آج مَیں اس کا دوسرا پہلو بیان کرنا چاہتا تھا مگر اب تین بج گئے ہیں۔ اس لئے کسی اگلے جمعہ میں اسے بیان کروں گا اور اس وقت صرف اس نصیحت پر اکتفا کرتا ہوں کہ بے شک جو دنیوی سامان کر سکتے ہو اپنی حفاظت کے لئے کرو۔ مگر اس بات کو یاد رکھو کہ اصل چیز ایمان ہے۔ اپنے اندر ایک تغیر پیدا کرو۔ قرآن کریم کی تلاوت باقاعدہ کرو اور صحابہ کرامؓ کی قربانیوں کے واقعات بار بار سامنے لاتے رہو۔ قرآن کریم کے درس کا باقاعدہ انتظام کرو اور صحابہ کرامؓ کی ابتدائی تاریخ کے واقعات کا بھی درس جاری کرو تا ان کی قربانیاں ہر وقت سامنے آتی رہیں۔ ذکر حبیبؑ سے بھی حبیب کے ساتھ محبت میں تازگی پیدا ہوتی ہے۔ انفرادی دعائیں بھی کرو اور اجتماعی بھی۔ ہر مسجد میں روزانہ مغرب یا کسی اور نماز کی آخری رکعت میں سب مل کر دعائیں کریں تا اللہ تعالیٰ بیرونی اور اندرونی فتنوں سے محفوظ رکھے۔ اور ہمیں فتنوں کے مقابلہ کے لئے ایمان اور طاقت عطا کرے تا کسی نازک وقت میں ہم اپنے ایمان کا ویسا ہی ثبوت پیش کر سکیں جیسا پہلے انبیاء کی جماعتوں نے کیا اور دنیا یہ نہ کہے کہ وقت آنے پر یہ قوم کچا دھاگا ثابت ہوئی۔ اَلْعَیَاذُ بِاللہِ اَسْتَغْفِرُ اللہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّ اَتُوْبُ اِلَیْہِ۔‘‘ (الفضل 29 اپریل 1942ء)
1: السیرۃ الحلبیة جلد 2 صفحہ 160 ۔ مطبوعہ مصر 1935ء
2: سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 274۔ مطبوعہ مصر 1936ء
3: سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 272،273۔ مطبوعہ مصر 1936ء
4: متی باب 21 آیت 42
5: زاد المعاد حصہ دوم حالات غزوہ حنین

10
موجودہ نازک ایام میں خصوصاً الہامی دعائیں کرنی چاہئیں
(فرمودہ 24 اپریل 1942ء )

تشہد ، تعوّذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے حسب ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت کی:
اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ١ؕ كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ مَلٰٓىِٕكَتِهٖ وَ كُتُبِهٖ وَ رُسُلِهٖ١۫ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ١۫ وَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا١ٞۗ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَ اِلَيْكَ الْمَصِيْرُ۰۰۲۸۵لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا١ؕ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَ عَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ١ؕ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَاۤ اِنْ نَّسِيْنَاۤ اَوْ اَخْطَاْنَا١ۚ رَبَّنَا وَ لَا تَحْمِلْ عَلَيْنَاۤ اِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهٗ عَلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِنَا١ۚ رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖ١ۚ وَ اعْفُ عَنَّا١ٙ وَ اغْفِرْ لَنَا١ٙ وَ ارْحَمْنَا١ٙ اَنْتَ مَوْلٰىنَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ۔ 1
اس کے بعد فرمایا:۔
’’سب سے پہلے تو مَیں قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ و تفسیر کے متعلق جو قرضہ کی تحریک کی گئی تھی۔ اس کے بارے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جس رقم کا اندازہ اس وقت شائع کیا گیا تھا اور جو زیادہ اندازہ بعد میں لگایا گیا۔ ان دونوں اندازوں کے مطابق خدا تعالیٰ کے فضل سے دو ہفتہ کے اندر اندر بلکہ اعلان کے لحاظ سے دس بارہ دن کے اندر اندر مطلوبہ رقم پوری ہو گئی ہے۔ چنانچہ آج کے وعدوں کو ملا کر کیونکہ بعض دوستوں کی طرف سے آج بھی بذریعہ تار وعدوں کی اطلاع ملی ہے اور بعض خطوط بھی پہنچے ہیں۔ تئیس چوبیس ہزار روپیہ کے وعدوں کی اطلاع آ چکی ہے۔
مَیں چاہتا ہوں کہ سب دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ عمدگی کے ساتھ قرآن کریم کی چھپوائی کا انتظام فرما دے۔ مجھے افسوس ہے کہ جب اُس کی چھپوائی کا فیصلہ ہو چکا تو بعد میں مجھے معلوم ہؤا کہ وہ نوٹ ابھی صحیح ترتیب سے لکھے ہی نہیں گئے۔ متفرق طور پر تو لکھے ہوئے ہیں مگر چھپوائی کے لئے جس ترتیب کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ ترتیب ابھی نہیں دی گئی۔ اس لئے اب اُن نوٹوں کو ترتیب دینا بہت بڑی محنت کا کام ہو گا اور مجھے کئی آدمی اس غرض کے لئے لگانے پڑیں گے۔ بہرحال دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کام کو عمدگی کے ساتھ سر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔
اس کے بعد مَیں ان خطبات کے تتمّہ کو بیان کرنا چاہتا ہوں جو گزشتہ دو جمعوں میں مَیں نے پڑھے ہیں۔ مَیں نے ان خطبات میں جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ دعا ہی ہمارا ہتھیار ہے اور دعا ہی ہماری مشکلات کا واحد علاج ہے ورنہ اور سب حیلے جاتے رہے ہیں جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام فرماتے ہیں۔
حیلے سب جاتے رہے اک حضرت توّاب ہے2
پس اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی حیلہ ہمارے پاس باقی نہیں۔ اس وقت ایک ایسے زبردست دشمن سے ہمارے ملک کی لڑائی ہے جو اپنے ساز و سامان کے لحاظ سے اس بات کا مدعی ہے کہ اس کے پاس انگریزوں اور امریکنوں سے زیادہ طاقت موجود ہے اس کے مقابلہ میں ہندوستان کے پاس کوئی بھی طاقت نہیں اور عوام تو بالکل خالی ہاتھ ہیں حالانکہ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ جنگ کے دَوران میں جب تباہی آتی ہے تو وہ صرف حکومت پر ہی نہیں آتی بلکہ اس کا رعایا پر بہت زیادہ اثر پڑتا ہے چنانچہ وہ ہزاروں ہزار آدمی جو برما اور ملایا سے نکل کر آئے ہیں۔ ان کی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ جو تکلیفیں اور دکھ ان کو اٹھانے پڑے ہیں۔ ان کا قیاس بھی ہم لوگ اس جگہ پر نہیں کر سکتے۔ کئی کئی دن بم باری کی وجہ سے لوگوں کو اپنے گھروں سے باہر رہنا پڑا، وہ نہ کھانا پکا سکتے تھے، نہ دفتروں کو جا سکتے تھے، نہ دکانوں میں بیٹھ سکتے تھے اور نہ ہی اپنے مکانوں میں واپس جا سکتے تھے اس خوف سے کہ کہیں وہ مکانوں کے نیچے دب کر ہلاک نہ ہو جائیں۔ بعض دوستوں نے بتایا کہ جس وقت بعض علاقے انگریزی فوج خالی کر رہی تھی اور دشمن کی آمد کا انتظار تھا۔ اس وقت بد طینت اور بد اخلاق لوگ ڈاکوؤں کی صورت میں شہروں کو اس طرح ظالمانہ طور پر لوٹ رہے تھے کہ کوئی والی وارث نظر نہیں آتا تھا۔ بڑے بڑے شہروں کی گلیاں اس طرح خالی پڑی تھیں جیسے قبرستان سنسان ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں بعض دفعہ ہم میلوں میل نکل گئے مگر ہمیں کوئی آدمی نظر نہیں آتا تھا اور اگر آتا تھا تو وہ ڈاکو ہوتا تھا۔ چونکہ زیادہ تر ان علاقوں میں سے آنے والے مدراس اور بنگال کے لوگ ہیں۔ اس لئے ان علاقوں میں رہنے والوں پر جنگ کی اہمیت اور اس کی ہولناکی بالکل واضح ہو گئی ہے۔ چنانچہ اب مدراس کی کانگرس پارٹی نے بھی زور دینا شروع کر دیا ہے کہ موجودہ جنگ میں انگریزوں کی مدد کرنی چاہئے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ان علاقوں کے رہنے والے ہزاروں ہزار لوگ جب واپس آئے تو انہوں نے اپنی آنکھوں دیکھے حالات سنائے جو نہایت ہی ہولناک تھے اور جن سے لوگوں کو متاثر ہونا اور ان کے دلوں میں اس خیال کا پیدا ہونا لازمی تھا کہ اس جنگ میں حکومت کی پوری پوری مدد کرنی چاہئے تاکہ دشمن اَور زیادہ آگے نہ بڑھنے پائے۔ گورنمنٹ کی پالیسی یہ ہے کہ وہ اخباروں میں زیادہ بھیانک حالات چھپنے نہیں دیتی تاکہ لوگ ڈر نہ جائیں مگر جو لوگ وہاں سے آئے ہیں اور جو ہندوستان میں رہنے والے ہزاروں لاکھوں لوگوں کے بھائی بند اور رشتہ دار ہیں۔ ان کی زبان کو کون روک سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں میں رہنے والے لوگ جنگ کے حالات سے زیادہ واقف ہو چکے ہیں۔ بہ نسبت ان لوگوں کےجو دور رہتے ہیں اور اب تو یہ جنگ روز بروز قریب ہوتی جا رہی ہے۔ اب تک برما میں انگریزی فوج بہت کم جا سکی ہےاور اس کی وجہ یہ ہے کہ برما کو ہندوستان سے جو پہاڑی راستہ جاتا ہے اس راستہ سے زیادہ سامان اور آدمی نہیں پہنچائے جا سکتے اور سمندر پر بہت حد تک دشمن کا قبضہ ہے۔ اس وجہ سے ہمارے ایک ایک سپاہی کو دشمن کے چار چار پانچ پانچ سپاہیوں سے لڑنا پڑتا ہے۔ جس زمانہ میں لڑائیاں ایسی ہوتی تھیں دو چار گھنٹے لڑائی ہوئی اور پھر اس کا خاتمہ ہو گیا۔ دشمن بھاگ گیا یا کچھ حصہ مارا گیا اور کچھ قید کر لیا گیا۔ اس زمانہ میں ایک ایک سپاہی دس دس بیس بیس سپاہیوں کا بھی مقابلہ کر سکتا تھا۔ مگر اب وہ زمانہ ہے کہ لڑائی میں کوئی وقفہ نہیں ہوتا اور رات دن لڑائی جاری رہتی ہے۔ اُس زمانہ میں تو آدمی لڑتے تھے مگر اب توپخانہ کام کرتا ہے۔ اس لئے لازماً جب سپاہی تھوڑے ہوں اور دشمن زیادہ ہوں تو چار چار پانچ پانچ دن تک ان سپاہیوں کو سونے کا موقع بھی نہیں ملتا اور یہ تجربہ ہر شخص کو ہو گا کہ اگر ایک دن بھی کسی کو نیند نہ آئے تو وہ کیسا مضمحل ہو جاتا ہے۔ پس تم سمجھ سکتے ہو کہ جب چار چار پانچ پانچ دن کسی کو سونے کا موقع نہیں ملے گا تو وہ کس طرح لڑ سکے گا۔ وہ تو خواہ کیسا بہادر ہو تلوار اور بندوق خود بخود اس کے ہاتھ سے چھوٹ جائے گی اور وہ کھڑا ہو گا تب بھی سویا ہؤا ہو گا اور بیٹھے گا تب بھی سویا ہؤا ہو گا۔ تو اس زمانہ کی لڑائی متواتر جاری رہنے والی لڑائی ہے۔ اگر سپاہی زیادہ تعداد میں ہوں تو ایک حصہ لڑتا ہے اور دوسرا حصہ آرام کر لیتا ہے۔ لیکن اگر سپاہیوں کی تعداد کم ہو تو انہیں آرام کا موقع نہیں ملتا اور اس طرح باوجود دلیری سے لڑنے کے ان میں دشمن کے مقابلہ کی طاقت نہیں رہتی چنانچہ برما کی لڑائی میں باوجود اس کے کہ جو واقعات اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے سپاہیوں نے بہت بڑی بہادری سے کام لیا پھر بھی چونکہ ان کی تعداد کم ہے اور دشمن کی تعداد زیادہ اور اسے کمک آسانی سے پہنچ سکتی ہے۔ ہمارے سپاہی تھکتے چلے جاتے ہیں اور بعض جگہ گورنمنٹ کو خود اقرار کرنا پڑا ہے کہ صرف تھکان کی وجہ سے ہمارے سپاہی مقابلہ نہیں کر سکے۔ تو کئی کئی دن نہ سونے کی وجہ سے انسانی جسم میں طاقت ہی نہیں رہتی کہ وہ دشمن کا مقابلہ کر سکے۔ ایسی صورت میں جبکہ دشمن روزانہ بڑھ رہا ہے اور ادھر سمندر میں بھی اسے طاقت اور غلبہ حاصل ہے۔ ہمیں بہت زیادہ دعاؤں سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ ابھی ہندوستان کے ملک کی وسعت اور اس کے آدمیوں کی کثرت کی وجہ سے جاپان کو جرأت نہیں ہوئی کہ وہ ہندوستان میں اپنی فوجیں اتارے۔ اگر کوئی چھوٹا ملک ہوتا تو وہ اب تک اپنی فوجیں اتار چکا ہوتا۔ اب وہ سمجھتا ہے کہ اگر مَیں نے لاکھ دو لاکھ فوج اتار بھی دی تو ہندوستان جس میں کروڑوں لوگ رہتے ہیں۔ اس میں جوش پیدا ہو جائے گا اور وہ حکومت سے تعاون کرنا شروع کر دے گا جس کے مقابلہ میں میرا ٹھہرنا مشکل ہو جائے گا۔
غرض خطرہ قریب سے قریب تر آ گیا ہے اور جیسا کہ مَیں نے بتایا ہےصرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو ہندوستان کی محافظ ہو سکتی ہے۔ مَیں نے بتایا تھا کہ دعا کے سوا ہمارے لئے اَور کوئی چارہ نہیں اور مَیں نے بتایا تھا کہ دعا میں پہلی چیز اس یقین کامل کا پیدا ہونا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری دعا سن سکتا ہے۔ جب تک کسی انسان کو یہ یقین حاصل نہ ہو اس وقت تک اسے کوئی کامیابی نہیں ہو سکتی کیونکہ یقین کامل جہاں ایک طرف انسان میں عظیم الشان تبدیلی پیدا کر دیتا اور اسے ایسا دلیر اور جری بنا دیتا ہے کہ اس کے مقابلہ میں کوئی شخص نہیں ٹھہر سکتا۔ وہاں دوسری طرف یہ یقین خدا تعالیٰ کے فضل کو بھی جذب کرتا ہے۔ دنیا میں بھی جب کسی انسان کو یہ یقین ہوتا ہے کہ دوسرا صرف مجھ پر ہی انحصار رکھتا ہے تو وہ اس کی طرف زیادہ توجہ کیا کرتا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ سے ایک دفعہ کسی نے پوچھا کہ آپ دعا سب سے زیادہ جوش سے کس کے لئے کرتے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ مَیں سب سے زیادہ جوش سے اس شخص کے لئے دعا کیا کرتا ہوں جو میرے پاس آئے اور کہے کہ میرے لئے آپ کے سوا اَور کوئی دعا کرنے والا نہیں۔ اس وقت مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ مَیں اس کا نگران اور محافظ مقرر کر دیا گیا ہوں اور مَیں پنی ذات پر بھی اس کے لئے دعا کرنا مقدم کر لیتا ہوں جب ایک نیک بندے کا یہ حال ہوتا ہے تو تم سمجھ سکتے ہو کہ خدا تعالیٰ کی محبت میں اس وقت کس قدر جوش پیدا ہوتا ہو گا جب کوئی بندہ اس کے پاس جائے اور کہے کہ میرا تیرے سِوا اَور کوئی نہیں۔ ایسے انسان کی نگرانی خود خدا تعالیٰ شروع کر دیتا ہے اور وہ اپنے فرشتوں کو کہتا ہے کہ دیکھو میرا بندہ۔ اس کو اب میرے سوا اور کوئی نظر نہیں آتا گو یہ اپنی مدد کے لئے پکارے اور یہ میرے پاس بہت بڑی امید لے کر آیا ہے۔ اگر یہ ناقص العقل اور کمزور انسان مجھ پر ایسا یقین رکھتا ہے کہ مَیں اس کی مدد کروں گا تو مَیں جو طاقتور اور تمام صفات اور خوبیوں کا مالک ہوں کیوں اس کی مدد نہیں کروں گا۔
اب مَیں یہ بتاتا ہوں کہ ان نازک ایام میں گو ہر شخص اپنی زبان میں بھی دعا کر سکتا ہے مگر خصوصیت سے الہامی دعاؤں کو مدنظر رکھنا چاہئے اور زیادہ تر وہی دعائیں مانگنی چاہئیں جو اللہ تعالیٰ نے بتائی ہیں۔ سب سے پہلے چونکہ یہ دجالی زمانہ ہے اس لئے مَیں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ رسول کریم ﷺنے فرمایا ہے سورۂ کہف کی پہلی اور پچھلی دس آیتیں اگر کوئی شخص پڑھ لیا کرے۔ تو وہ دجالی فتنہ سے محفوظ رہے گا۔ 3 اس لئے سب سے پہلے مَیں جماعت کو اسی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ جن دوستوں کو توفیق ملے وہ سورۂ کہف کی ابتدائی اور آخری دس آیات کو حفظ کر لیں اور جو ان آیتوں کو حفظ نہ کر سکیں۔ وہ روزانہ قرآن شریف کو کھول کر پہلی اور آخری دس آیتیں پڑھ لیا کریں تاکہ اللہ تعالیٰ اس دجالی فتنہ سے ان کو اور ہماری سب جماعت کو محفوظ رکھے۔
اس کے بعد جیسا کہ مَیں کہہ چکا ہوں روزانہ کوئی ایک نماز مقرر کر لی جائے۔ جس میں بِالْجَہْر یا بِالسِّر دل میں یا بلند آواز سے۔ امام اور مقتدی اکٹھے یا الگ الگ التزام کے ساتھ دعائیں کریں اور ہماری جماعت کا ہر فرد ان دعاؤں میں حصہ لے تاکہ ہماری متحدہ دعائیں اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کریں۔ ان دعاؤں میں خصوصیت کے ساتھ وہ دعائیں مدنظر رکھنی چاہئیں جو اس زمانہ کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور جو مشکلات کو دور کرنے میں کام آسکتی ہیں۔
بے شک اپنی زبان میں بھی دعائیں کرنی چاہئیں کیونکہ اس طرح زیادہ جوش پیدا ہوتا ہے مگر اپنی دعا اور خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی دعا میں یہ فرق ہوتا ہے کہ انسان بعض دفعہ غلط دعا کرنے لگ جاتا ہے اور اُسے مانگنا تو کچھ چاہئے مگر مانگنے کچھ لگ جاتا ہے۔ اس قسم کی غلطی ان دعاوں کے مانگنے میں نہیں ہو سکتی جو خدا تعالیٰ نے بتائی ہیں۔ اس لئے بے شک تم اپنی زبان میں بھی دعائیں کرو مگر زیادہ تر ان دعاؤں پر زور دو جو الہامی ہیں اور جو خدا تعالیٰ نے مشکلات کو دور کرنے کے لئے بتائی ہیں کیونکہ انسان اپنے الفاظ میں خدا تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے بعض دفعہ کئی قسم کی غلطیاں کر جاتا ہے مثلاً کئی لوگ دعا کرتے ہیں کہ یا اللہ ہم کو بچہ دے۔ اب بظاہر یہ ایک اچھی دعا ہے لیکن اگر وہ قرآن کریم کی بتائی ہوئی ہدایت کی روشنی میں دعا مانگیں گے تو وہ زیادہ بہتر ہو گی کیونکہ خدا تعالیٰ صرف یہ نہیں کہتا کہ تم یہ دعا کرو کہ الٰہی ہم کو بچہ دے بلکہ خدا یہ دعا سکھاتا ہے کہ تم کہو خدایا ہم کو نیک بچہ دے مگر انسان کو بچے کے خیال میں یہ ہوش ہی نہیں رہتا کہ وہ صحیح دعا مانگے بلکہ وہ صرف اسی قدر دعا کرنا کافی سمجھتا ہے کہ خدایا مجھ کو بچہ دے حالانکہ وہ بچہ اس کی بدنامی، اس کی تباہی اور اس کی بربادی کا بھی موجب ہو سکتا ہے۔ اس کے خاندان کی بدنامی اور تباہی و بربادی کا بھی موجب ہو سکتا ہے بلکہ ایک بچہ ساری دنیا کی تباہی اور بربادی کا بھی باعث ہو سکتا ہے۔ آخر ابو جہل ایک بچہ ہی تھا جو پیدا ہؤا ۔ اس کے ماں باپ نے اس کے لئے کتنی ہی منتیں مانی ہوں گی اور اس کے پیدا ہونے پر وہ کس قدر خوش ہوئے ہوں گے مگر پھر وہ بچہ کیسا ظالم اوربرا ثابت ہؤا۔ تو انسان بسا اوقات دعا کرتے ہوئے جوش میں آ کر کہہ دیتا ہے کہ خدایا مجھے بچہ مل جائے اور اس کی یہ دعا ناقص ہوتی ہے لیکن اگر وہ قرآن اور رسول کریم ﷺ کی بتائی ہوئی دعاؤں کو مدنظر رکھے گا تو وہ کہے گا کہ الٰہی مجھے نیک اور صالح اولاد عطا ہو۔
اسی طرح بعض دفعہ انسان غریب ہوتا ہے وہ جوش میں آتا ہے اور دعا کرتے ہوئے کہتا ہے یا اللہ مجھے مال دے لیکن مال تو چوری کا بھی ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے اس کا ایمان خراب ہو جائے او ر وہ چور اور ڈاکو بن جائے۔ اس طرح بھی وہ مالدار تو ہوجائے گا مگر ایمان جاتا رہے گا لیکن اگر وہ قرآن اور رسول کریم ﷺ کی بتائی ہوئی دعاؤں کی روشنی میں اللہ تعالیٰ سے مال مانگے گا تو وہ کہے گا۔ الٰہی مجھے حلال اور طیب مال دے۔ پھر وہ خالی یہی نہیں کہے گا کہ مجھے ایسا مال دے جو حلال اور طیب ہو بلکہ قرآن کریم اور رسول کریمﷺ کی بتائی ہوئی دعاؤں کی روشنی میں وہ یہ کہے گا کہ الٰہی مجھے ایسا حلال اور طیب مال دے جس سے مَیں فائدہ بھی اٹھا سکوں۔ اگر اسے حلال اور طیب مال تو ملے مگر اسی دن مر جائے تو اس مال کا اسے کیا فائدہ ہؤا۔ تو انسان جب اپنی عقل سے دعا مانگے تو اس سے کئی قسم کی غلطیاں سرزد ہو جاتی ہیں لیکن اگر وہ خدا اور اس کے رسول کی بتائی ہوئی دعائیں مانگے تو چونکہ وہ کامل ہوتی ہیں اس لئے بہت سے ایسے خطرات جو اس دعا کے پورا ہونے کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں ان کا بھی ساتھ ہی علاج ہو جاتا ہے۔
مَیں سمجھتا ہوں اس زمانہ کے حالات کے لحاظ سے ایک جامع دعا جو رسول کریم ﷺ کثرت سے مانگا کرتے تھے اور دوسروں کو بھی بتایا کرتے تھے اور مسلمانوں میں بھی عام طور پر رائج ہے اور جو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کی وحی کے ذریعہ نازل ہوئی ہے۔ یہ ہے رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِي الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ 4 خدا تعالیٰ کے کلام اور ا س کی وحی میں بہت سی دعائیں ہیں مگر یہ ایسی دعا ہے جسے رسول کریم ﷺ نے خصوصیت سے چُن کر صحابہؓ کو بتایا اور خود بھی اسے کثرت سے پڑھا کرتے تھے۔ یہ بظاہر بہت چھوٹی سی دعا ہے لیکن ہر قسم کی انسانی ضرورتوں پر حاوی ہے۔ انسان کہتا ہے رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً اَے ہمارے رب! ہم کو اس ورلی زندگی میں حسنہ دے۔ یہ نہیں فرمایا کہ حسنات دے۔ یہاں ایک فرق ہے جس کو مدنظر رکھنا چاہئے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے حسنہ کا جو لفظ استعمال فرمایا ہے۔ یہ درست نہیں حسنات کا لفظ استعمال کرنا چاہئے تھا جس کے معنے بہت سی نیکیوں کے ہیں مگر یہ اعتراض عربی زبان سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اگر یہاں حسنات کا لفظ ہوتا تو اس کے معنے یہ ہوتے کہ ہمیں کچھ نیکیاں ملیں لیکن حسنہ کے یہ معنے ہیں کہ ہمیں جو کچھ ملے، نیکی ملے۔ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً ۔ اے ہمارے رب دنیا میں ہم کو جو کچھ دے حسنہ دے، روٹی دے تو حلال ہو ، طیب ہو، پچنے والی ہو، جسم میں خون صالح پیدا کرنے والی ہو، بیماریوں سے بچانے والی ہو۔کپڑا دے تو حلال دے، طیب دے، ضرورت کے مطابق دے، ننگ ڈھانکنے والا دے، پسندیدہ دے۔ بیوی دے تو ایسی دے جو ہمدرد ہو۔ ہم خیال ہو، دیندار ہو، محبت کرنے والی ہو، نیکی میں تعاون کرنے والی ہو، بچے پیدا کرنے والی ہو۔ ان بچوں کی نیک تربیت کرنے والی ہو۔ مکان دے تو مبارک دے وہ بیماریوں والا گھر نہ ہو، سِل، دِق اور ٹائیفائڈ کے جراثیم اس میں نہ ہوں کوئی چیز ایسی نہ ہو جو صحت پر بُرا اثر ڈالنے والی ہو۔ کوئی ہمسایہ ایسا نہ ہو جو دکھ دینے والا ہو۔ وہ ایسے محلہ میں نہ ہو جہاں کے رہنے والے بُرے ہوں، وہ ایسے شہر میں نہ ہو جسے تُو اچھا نہ سمجھتا ہو۔ ہمیں حاکم دے تو ایسے دے جو رحمدل ہوں، تقویٰ سے کام لینے والے ہوں، انصاف کرنے ولے ہوں، ماتحتوں سے محبت کرنے والے ہوں۔ ہمیں استاد دے تو ایسے دے جو علم رکھنے والے اور اچھا پڑھانے والے ہوں۔ وہ شوق سے پڑھائیں، وہ ظالم نہ ہوں، خرابیاں پیدا کرنے والے اور دوسروں کو ورغلانے والے نہ ہوں۔ دوست دے تو ایسے دے جو خیر خواہ ہوں، محبت کرنے والے ہوں، مصیبت میں کام آنے والے ہوں، خوشی میں شریک ہونے والے ہوں اور دکھوں میں ہاتھ بٹانے والے ہوں۔ غرض رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً اے ہمارے رب! دنیا میں ہم کووہ چیز دے جو حسنہ ہو۔ تو یہاں حسنات کی بجائے حسنہ کا لفظ رکھ کر اس کے مفہوم کو خدا تعالیٰ نے وسیع کر دیا ہے اورجب مومن یہ دعا کرتا ہے تو دوسرے الفاظ میں وہ یہ کہتا ہے کہ خدایا مجھے ہر وہ چیز دے جو میری ضرورت کے مطابق ہو اور پھر وہ چیز ایسی ہو جو نہایت اچھی ہو مگر اچھی چیز کے لئے اَور الفاظ بھی استعمال ہو سکتے تھے ۔ خدا تعالیٰ نے وہ الفاظ استعمال نہیں کئے بلکہ حسنہ کا لفظ استعمال کیا ہے اس لئے کہ یہ لفظ ظاہری اور باطنی دونوں خوبیوں پر دلالت کرتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک چیز اپنے فوائد اورخوبیوں کے لحاظ سے اچھی ہو مگر ظاہری صورت کے لحاظ سے اچھی نہ ہو مثلاً کسی شخص کی بیوی بڑی با اخلاق ہو مگر فرض کرو وہ نکٹی ہے یا اندھی ہے یا بہری ہے تو وہ حسنہ نہیں کہلائے گی۔ حسنہ وہی بیوی کہلائے گی جس کے اخلاق بھی اچھے ہوں اور شکل بھی اچھی ہو، ظاہر بھی اچھا ہو اور باطن بھی اچھا ہو۔ تو حسنہ کا لفظ ظاہری اور باطنی دونوں خوبیوں پر دلالت کرتا ہے اور مومن اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتا ہے کہ خدایا مجھے جو چیز بھی دے وہ ایسی ہو جو ظاہری اور باطنی دونوں خوبیاں رکھتی ہو۔
پھر فرمایا وَ فِي الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً آخرت میں بھی ہمیں وہ چیز دے جو حسنہ ہو۔ یعنی وہ بھی ظاہر و باطن میں ہمارے لئے اچھی ہو۔ ممکن ہے کوئی کہے کہ آخرت میں تو ہر چیز اچھی ہوتی ہے وہاں کی چیزوں کے لئے حسنہ کا لفظ کیوں استعمال کیا گیا ہے۔ سو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ بات بالکل غلط ہے۔ آخرت میں بھی بعض چیزیں ایسی ہیں جو باطن میں اچھی ہیں مگر ظاہر میں بُری ہیں مثلاً دوزخ ہے۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ دوزخ انسان کی اصلاح کا ذریعہ ہے۔ پس ایک لحاظ سے وہ بُری بھی ہے۔ پس جب آخرت کے لئے بھی خدا تعالیٰ نے حسنہ کا لفظ رکھا تو اسی لئے کہ تم یہ دعا کرو کہ الٰہی ہماری اصلاح دوزخ سے نہ ہو بلکہ تیرے فضل سے ہو اور آخرت میں ہمیں وہ چیز نہ دیجیو جو صرف باطن میں ہی اچھی ہو جیسے دوزخ باطن میں اچھا ہے کہ اس سے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے مگر ظاہر میں بُرا ہے کیونکہ وہ عذاب ہے۔ آخرت میں حسنہ صرف جنت ہے جس کا ظاہر بھی اچھا ہے اور جس کا باطن بھی اچھا ہے۔
پھر فرمایا وَ قِنَا عَذَابَ النَّارِ ہم کو عذابِ نار سے بچا۔اس سے مراد وہی عذابِ نار نہیں جو مرنے کے بعد ملےگا۔ یہ عذابِ نار دنیا کے ساتھ بھی تعلق رکھتا ہے کیونکہ دنیا اور آخرت دونوں کے ساتھ تعلق رکھنے والی دعاؤں کے بعد وَ قِنَا عَذَابَ النَّارِکہا گیا ہے۔ پس وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ کے معنی یہ ہیں کہ ہمیں دنیا کے عذابِ نار سے بھی بچا اور آخرت کے عذابِ نار سے بھی محفوظ رکھ۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں دنیا میں کئی لوگ عذابِ نار میں گرفتار ہوتے ہیں۔ انہیں کئی قسم کے دکھ ہوتے ہیں۔ تکلیفیں ہوتی ہیں، حسرتیں ہوتی ہیں، قسم قسم کے مصائب ہوتے ہیں مگر جب انسان اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ خدایا مجھے عَذَابَ النَّار سے بچا۔ تو خدا اسے اس عذاب سے بچا لیتا ہے۔ تب وہی چیزیں جو پہلے اس کے لئے نار تھیں جنت بن جاتی ہیں۔ اسی طرح اس سے مراد آخرت کا عذاب بھی ہے جس سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ دعا سکھلائی ہے۔ اب بظاہر یہ ایک مختصر سی دعا ہے مگر بڑی جامع اور وسیع دعا ہے۔ عَذَابُ النَّار کے لحاظ سے دنیا کی لڑائی بھی مراد لی جا سکتی ہے کیونکہ لڑائی بھی آگ کا ہی عذاب ہے۔ پس جو شخص یہ دعا کرے گا کہ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِي الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ ۔ وہ گویا خدا تعالیٰ کے بیان فرمودہ الفاظ میں یہ دعا کرے گا کہ الٰہی دنیا میں مجھ پر کوئی ساعت ایسی نہ آئے جو بُری ہو۔ لڑائی مجھ سے دور رہے اور یہ آگ کا عذاب میرے قریب نہ پہنچے۔ اگر کوئی سپاہی لڑائی میں شامل ہو اور وہ یہ دعا کرے تو اس کی دعا کے یہ معنی ہوں گے کہ الٰہی لڑائی کے بد اثرات سے مجھے بچا۔ بندوق کی گولی آئے تو وہ مس کر جائے میرے دائیں نکل جائے یا بائیں نکل جائے ، اوپر نکل جائے یا نیچے نکل جائے۔ بہرحال وہ مجھے نہ لگے اور مَیں محفوظ رہوں۔
پس ایک تو یہ دعا ہے جس پر زور دینا چاہئے۔ دوسری دعا جس پر ان ایام میں خصوصیت سے زور دینا چاہئے۔ وہ ہے جو سورۂ بقرہ کے آخر میں بیان ہوئی ہے کہرَبَّنَا لَاتُؤَاخِذْنَاۤ اِنْ نَّسِيْنَاۤ اَوْ اَخْطَاْنَا اے ہمارے رب ہمیں مت پکڑ۔ اگر ہم بھول جائیں یا ہم سے کوئی خطا سرزد ہو جائے۔ بھول جانے کے معنی یہ ہیں کہ کوئی کام کرنا ضروری ہو مگر وہ نہ کیا جائے اور خطا کے معنی یہ ہیں کہ کام تو کیا جائے مگر غلط کیا جائے۔ بعض لوگ اس بحث میں پڑ گئے ہیں کہ نسیان اور خطا دو ہم معنی لفظ یہاں کیوں لائے گئے ہیں وہ یہ نہیں سمجھتے کہ دنیا میں کام دو قسم کے ہوتے ہیں۔ کوئی کام تو ایسے ہوتے ہیں جو کرنے ضروری ہوتے ہیں مگر انسان نہیں کرتا اور کوئی کام ایسے ہوتے ہیں جو انسان کرتا تو ہے مگر غلط طور پر کرتا ہے اور یہ دونوں ہی غلطیاں ہوتی ہیں۔ نسیان کے معنی بھول جانے کے ہیں اوربھولناِ کرنے کے متعلق ہوتا ہے نہ کرنے کے متعلق نہیں ہوتا۔ پس ١ؕ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَاۤ اِنْ نَّسِيْنَاۤ کے معنی یہ ہوئے کہ خدایا ایسا نہ ہو کہ جو کام کرنے ضروری ہیں وہ ہم نہ کریں اور اس طرح ہم ترقی سے محروم ہو جائیں۔ پس تُو ہماری حفاظت فرما اور ہمیں اس غلطی سے محفوظ رکھ اَوْ اَخْطَاْنَااور یا الٰہی یہ بھی نہ ہو کہ جو کام ہمیں نہیں کرنا چاہئیں وہ ہم کر لیں یا ہم کریں تو وہی جو ہمیں کرنا چاہئے مگر غلط طریق پر کریں۔ پس نسیان اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جو کام کرنے تھے وہ کسی انسان سے رہ جائیں اور خطا کا لفظ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جو کام نہیں کرنے چاہئے تھے وہ کر لئے جائیں یا جن کاموں کا کرنا ضروری تھا وہ غلط طور پر کئے جائیں۔ تو نسیان عدم عمل کا نام ہے اور خطا عمل کی خرابی کو کہتے ہیں۔ اسی لئے یہاں دو لفظ استعمال کئے گئے ہیں۔ پس ان میں سے کوئی لفظ زائد نہیں بلکہ ہر لفظ اپنی اپنی جگہ ضروری ہے۔
پھر فرماتا ہے رَبَّنَا وَ لَا تَحْمِلْ عَلَيْنَاۤ اِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهٗ عَلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِنَا اور اے ہمارے رب ہم پر کوئی ایسا بوجھ نہ ڈال جس کے ساتھ سزا لگی ہوئی ہو۔ جس طرح تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر بوجھ ڈالا۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ ہمیں اتنی نمازیں پڑھنے کو نہ بتا جو ہم پڑھ نہ سکیں کیونکہ خدا تعالیٰ شریعت کے متعلق قرآن کریم میں ہی ایک دوسرے مقام پر فرماتا ہے کہ ہم نے اسے آسان بنایا ہے۔ اسی طرح فرماتا ہے لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا خدا تعالیٰ کی طرف سے جو حکم آتے ہیں وہ انسان کی طاقت اور اس کی توفیق کے مطابق ہوتے ہیں۔ پس اس کے یہ معنی نہیں بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ بعض جرائم کی بناء پر پہلے لوگوں کے لئے جو سزائیں نازل کی گئی تھیں وہ سزائیں ہم پر نازل نہ ہوں اورہم سے وہ غلطیاں سرزد نہ ہوں جو پہلے لوگوں سے سرزد ہوئیں اور جن کی وجہ سے وہ تباہ کر دئیے گئے۔ انہوں نے تیری نافرمانیاں کیں اور تیرے احکام کے خلاف انہوں نے قدم اٹھایا جس کی وجہ سے ان پر ایسی حکومتیں مسلّط ہوئیں اور ایسے قانون ان کے لئے مقرر کر دئیے گئے جو ان کے لئے ناقابلِ برداشت تھے۔ تو ہمیں اپنے فضل سے ایسے مقام پر کھڑا نہ کیجئو کہ ہم سے ایسی خطائیں سرزد ہوں اور ہمیں بھی ایسی سزائیں ملیں جو ہمارے نفس کی طاقت برداشت سے باہر ہوں۔ اس کے یہ معنے نہیں کہ نفس کی طاقت برداشت کے مطابق اگر خدا تعالیٰ سے سزا ملے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ بات یہ ہے کہ ہر روحانی سزا برداشت سے باہر ہوتی ہے اس کی رذالت ہی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ ایسی سزا کو برداشت کر لیتا ہے ورنہ اگر شرافت نفس ہو تو چھوٹی سے چھوٹی سزا بھی انسان کے لئے ناقابل برداشت ہے۔ چنانچہ دیکھ لو جب کسی کو دوسرے سے محبت ہوتی ہے تو اس کی معمولی سی ناراضگی سے ہی اس کا دل بے چین ہو جاتا ہے۔ بعض دفعہ کہتا ہے اس نے آنکھیں میری طرف نہیں پھیریں۔ بعض دفعہ کہتا ہے اس نے مجھ سے اچھی طرح باتیں نہیں کیں، بعض دفعہ کہتا ہے اس نے مجھ سے باتیں تو کیں مگر ان میں بشاشت نہیں ہوتی تھی اور اسی بات کا اس کی طبیعت پر اتنا بوجھ پڑتا ہے کہ وہ غمگین ہو جاتا ہے تو اس سے یہ مراد نہیں کہ ہمیں بڑی سزا نہ دیجئو ، چھوٹی سزا دیجئو بلکہ مطلب یہ ہے کہ ہمیں سزا دیجئوہی نہیں چھوٹی نہ بڑی۔ رَبَّنَا وَ لَا تَحْمِلْ عَلَيْنَاۤ اِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهٗ عَلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِنَا درحقیت نتیجہ ہے اِنْ نَّسِيْنَاۤ اَوْ اَخْطَاْنَا کا۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ ہم سے کوئی خطا سرزد ہو جائے اورہم اسی طرح سزا کے مستحق ہو جائیں جیسے پہلی قومیں سزا کی مستحق ہوئیں مگر دنیا میں بعض مصائب ایسے بھی ہوتے ہیں جو بغیر قصور کے آ جاتے ہیں۔ قصور ہمسایہ کا ہوتا ہے اور دکھ اسے پہنچ جاتا ہے۔ قصور اس کے دوست کا ہوتا ہے اور سزا کا اثر اس پر پڑتا ہے۔ اس لئے جہاں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو یہ دعا سکھائی کہ تم یہ کہا کرو کہ مجھ سے کوئی ایسا خطا یا نسیان نہ ہو جائے جس کی وجہ سے مَیں تیری سزا کا مستحق ہو جاؤں۔ وہاں دوسری دعا یہ سکھائیرَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖ اے خدا ایسا نہ ہو کہ قصور تو میرے ہمسایہ کا ہو اور سزا مجھے مل جائے یا قصور دنیا کا ہو اور اس کی مصیبت کا اثر مجھ پر آ پڑے۔ جیسے اس وقت جو لڑائی ہو رہی ہے یہ نتیجہ ہے اس شکوے کا جو جاپانیوں کو انگریزوں سے ہے۔ مگر گولہ باری ہندوستانیوں پر ہو رہی ہے۔ انہیں شکوہ ہے انگلستان سے، انہیں شکوہ ہے امریکہ سے مگر اس کی لپیٹ میں ہندوستان آ گیا ہے حالانکہ وہ ریڈیو پر برابر یہ اعلان کرتے رہتے ہیں کہ ہمیں ہندوستان والوں سے کوئی دشمنی نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر انہیں ہندوستان والوں سے کوئی دشمنی نہیں تو پھر ہندوستانیوں پر گولہ باری کیوں کر رہے ہیں۔ اس کا جواب وہ یہی دیں گے کہ ہمیں تم سے کوئی دشمنی نہیں مگر چونکہ انگریزوں نے یہاں قبضہ کیا ہؤا ہے اس لئے ہمارے لئے یہاں حملہ کرنا ضروری ہے۔ تو معلوم ہؤا کہ بعض دفعہ کسی ساتھی کی وجہ سے بھی انسان کو سزا مل جاتی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کا بھی ازالہ کیا اور فرمایا تم یہ دعا کیا کرو کہ رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖ خدایا ایسا بھی نہ ہو کہ ہمیں اپنے ساتھیوں کے قصور کی وجہ سے سزا مل جائے۔ مگر یہاں ایک شرط بڑھا دی اور وہ یہ کہ مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖ اور اس شرط کو اس لئے بڑھایا کہ یہاں ناراضگی کا سوال نہیں بلکہ دنیوی مصائب اور ابتلاؤں کا ذکر ہے۔ ناراضگی بے شک چھوٹی بھی برداشت نہیں ہو سکتی مگر چھوٹی تکلیف برداشت کر لی جاتی ہے۔ پس جہاں روحانی سزا اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا ذکر تھا وہاں تو یہ دعا سکھائی کہ ہم میں تیری کسی ناراضگی کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں ۔ وہ ناراضگی چھوٹی ہو یا بڑی مگر جب دنیوی تکالیف کا ذکر آیا تو وہاں یہ دعا سکھلائی کہ چھوٹے موٹے ابتلاؤں پر مجھے اعتراض نہیں اور مَیں یہ نہیں کہتا کہ میرا قدم ہمیشہ پھولوں کی سیج پر رہے البتہ وہ ابتلاء جو تیری ناراضگی کا موجب نہیں اور جو دنیا میں عام طور پر آیا ہی کرتے ہیں ان کے متعلق میری صرف اتنی درخواست ہے کہ کوئی ابتلاء ایسا نہ ہوجو میری طاقت سے بالا ہو۔ یہ مطلب نہیں کہ مومن ایسے ابتلاء خود چاہتا ہے بلکہ خدا تعالیٰ نے چونکہ بتایا ہؤا ہے کہ مَیں مومن کا امتحان لیا کرتا ہوں اس لئے مومن یہ نہیں کہتا کہ خدایا میرا امتحان نہ لے بلکہ وہ کہتاہے خدایا امتحان تو لیجئو مگر ایسا نہ لیجئو جو میری طاقت سے بڑھ کر ہو۔ تو جو حصہ ناراضگی کا تھا وہاں تو کہہ دیا کہ مَیں ذرا سی ناراضگی بھی برداشت نہیں کر سکتا مگر جہاں دنیوی تکالیف اور ابتلاؤں کا ذکر تھا وہاں کہہ دیا کہ خدایا تکالیف تو آئیں مگر ایسی نہ ہوں جو طاقت سے بڑھ کر ہوں۔ مثلاً لڑائی ایک ایسا ابتلاء ہے جو انسانی طاقت سے بالا ہوتا ہے۔ پس جب مومن یہ دعا کرے گا کہ رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖ تو دوسرے الفاظ میں وہ یہ دعا کرے گا کہ خدایا اس لڑائی کے عذاب کو مجھ سے ہٹا دے۔ وَ اعْفُ عَنَّا اور مجھ سے عفو کر۔ مَیں سمجھتا ہوں یہ نَسِیْنَا کے مقابلہ میں ہے۔ یعنی جو کلام مجھے کرنا چاہئے تھا چونکہ مَیں نے نہیں کیا اس لئے تو مجھے معاف کر ۔ وَ اغْفِرْ لَنَااور جو غلط کام مَیں کر چکا ہوں اس کے خمیازہ سے تُو مجھے بچا لے۔ میرے فعل پر پردہ ڈال دے اور اس کام کو نہ کئے کی طرح کر دے۔
عفو کے معنے رحم کے بھی ہوتے ہیں اور جو چیز کسی انسان سے رہ جائے اس کا ازالہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ وہ مہیا کر دی جائے۔ اس لئے فرمایا وَ اعْفُ عَنَّا جو چیز رہ گئی ہے اس کو تُو اپنے فضل اور رحم سے مہیا فرما دے۔ اس کے مقابلہ میں جو کام غلط ہو جائے اس کی درستی اس طرح ہو سکتی ہے کہ اس کام کو مٹایا جائے چنانچہ اَخْطَاْنَا کے مقابلہ میں اغْفِرْ لَنَارکھ دیا اور غَفَرَ کے معنے عربی زبان میں مٹا دینے کے ہوتے ہیں یعنی اے خدا جو کام ہم غلط طور پر کر چکے ہیں اس کو تُو مٹا دے اور اسے نہ کئے کی طرح کر دے۔ گویا ایک طرف تو یہ کہہ دیا کہ جو کام مَیں نے نہیں کیا اور اس طرح رخنہ واقع ہو گیا ہے اس رخنہ کو تُو اپنے فضل سے پُر کر دے اور دوسری طرف یہ کہہ دیا کہ جو کام مَیں غلط طور پر کر چکا ہوں اس کو تُو مٹا ڈال۔ وَ ارْحَمْنَا ۔ پھر اس کام کے نتیجہ میں مجھ سے جو اَور غلطیاں ہوئی ہیں اور جن ترقیات کے حصول میں روک واقع ہو گئی ہے اُن غلطیوں کے متعلق بھی مجھ پر رحم کر اور ترقیات کے راستہ میں جو روکیں حائل ہو گئی ہیں ان کو اپنے فضل سے دُور کر دے۔ اَنْتَ مَوْلٰىنَا تُو ہمارا مولیٰ، ہمارا آقا اور ہمارا مالک ہے۔ آخر ہماری کمزوریاں کسی نہ کسی رنگ میں لوگوں نے تیری طرف ہی منسوب کرنی ہیں۔ لوگوں نے یہی کہنا ہے کہ یہ خدائی جماعت کہلاتی تھی مگر اسے بھی دکھ پہنچا اور اسے بھی دوسروں کی طرح تکلیف ہوئی۔ پس اَے مولا تُو ہمارا آقا ہے اور ہم تیرے خادم ، تُو آقا ہونے کے لحاظ سے ہم پر رحم کر کیونکہ ہماری کمزوریاں آخر تیری طرف منسوب ہوں گی اور لوگ ہدایت سے محروم ہو جائیں گے۔ فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ پس اے ہمارے رب! ہم کو کافروں کی قوم پر غلبہ عطا فرما اور جو لوگ ایسے کام کر رہے ہیں جن سے اسلام کی ترقی میں روک واقع ہوتی ہے ان پر تُو ہمیں غالب کر اور ایسے سامان پیدا فرما جو تیری تبلیغ اور تیرے نام کو دنیا میں پھیلانے کا باعث ہوں۔
پس مَیں سمجھتا ہوں اس زمانہ کے حالات کے لحاظ سے یہ نہایت ہی اعلیٰ درجہ کی دعا ہے اور ہماری جماعت کو التزام کے ساتھ یہ دعا مانگتے رہنا چاہئے۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کو بھی بعض دعائیں الہام کے ذریعہ بتائی گئی ہیں جن کو یاد رکھنا ہمارے لئے ضروری ہے۔ ان میں سے دو دعائیں ایسی ہیں جو خاص طور پر اس زمانہ کے لئے ہیں اور وہ یہ ہیں:۔
(1) رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَ انْصُرْنِیْ وَ ارْحَمْنِیْ۔ 5
(2) یَا حَفِیْظُ یَا عَزِیْزُ یَا رَفِیْقُ ۔6
اگر ہم غور سے دیکھیں تو درحقیقت یہ دونوں دعائیں ایک دوسرے کی ترجمان ہیں کیونکہ اس دعا میں تین صفات کا ذکر ہے حفیظ، عزیز اور رفیق کا اور پہلی دعا میں بھی خدا تعالیٰ کے مالک ہونے کا ذکر ہے جو عزیز کا ہم معنی ہے۔ فرماتا ہے رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ اے رب ہر چیز تیری خادم ہے اور جس کی ہر چیز خادم ہو گی وہی عزیز ہو گا۔ تو رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ کی جگہ اس دعا میں صرف اتنا کہا گیا ہے کہ یَا عَزِیْزُ ۔ پھر اُس دعا میں تھا رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ اے میرے رب تیری ہر چیز خادم ہے پس تُو میری حفاظت فرما کیونکہ جب ہر چیز تیری خادم ہوئی تو تیرے کہنے کے بغیر وہ نہیں ہلے گی۔ تُو ہی حکم دے گا تو ان میں نفع یا نقصان کے لئے کوئی حرکت پیدا ہو گی پس وہاں فَاحْفَظْنِیْ کہا گیا ہے۔ اس کے مقابلہ میں دوسری دعا میں یَا حَفِیْظُ کہا گیا۔ پس وہاں بھی حفاظت کا ذکر ہے اور یہاں بھی خدا تعالیٰ کی صفت حفیظ کا ذکر کر کے اس سے حفاظت طلب کی گئی ہے۔ پھر تیسری صفت جو اس دعا میں استعمال کی گئی ہے وہ رفیق ہے چنانچہ کہا گیا ہے یَا رَفِیْقُ ۔ اے رفیق اور دنیا میں رفیق دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک رفیق وہ ہوتے ہیں جو نگرانِ بالا کی حیثیت رکھتے ہیں جیسے ماں باپ رفیق ہوتے ہیں مگر ان کی رفاقت بالا رنگ رکھتی ہے اور وہ اپنے بچوں کے نگران ہوتے ہیں۔ مگر ایک رفیق وہ ہوتے ہیں جنہیں ساتھی، دوست اور بھائی کہا جاتا ہے، وہ مصیبت کے وقت کام آتے اور دکھ میں اپنے ساتھی کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے بھی اپنے بندوں سے دو قسم کے تعلق ہوتے ہیں۔ کسی وقت تو اس کا تعلق دوستی اور محبت کا رنگ لئے ہوئے ہوتا ہے اَور وہ کہتا ہے۔ اے میرے بندے مجھ سے اپنی تکالیف بیان کر کہ مَیں تیری تکلیفوں کو دور کروں۔ مگر کبھی وہ کہتا ہے اے میرے بندے مَیں تجھے حکم دیتا ہوں کہ تو ایسا کر۔ پس چونکہ اس کا اپنے بندوں سے دو قسم کا تعلق ہوتا ہے اس لئے رفیق کے مقابلہ میں بھی دو الفاظ رکھے کہ وَ انْصُرْنِیْ وَ ارْحَمْنِیْ یعنی جہانتک تیری رفاقت کا تعلق اس بات سے ہے کہ تو تنزل فرما کر مجھے اپنی مرضی پر چھوڑ دیتا ہے اور کہتا ہے بتا تیری مرضی کیا ہے کہ مَیں اس کے مطابق تیرا کام کر دوں۔ اس حد تک میری تجھ سے یہ دعا ہے کہ تُو مجھے اپنی سعی پر نہ رہنے دے کیونکہ کیا معلوم میری کوشش غلط نتائج پیدا کرنے والی ہو۔ اس لئے تو آپ میری مدد کر اور میرے لئے وہی اسباب مہیا فرما جو میرے لئے مفید اور بابرکت ہوں اورجن کے ساتھ تیری مرضی بھی شامل ہو۔ لیکن اے اللہ! کبھی تیری رفاقت اس رنگ میں ہوتی ہے کہ تُو کہتا ہے یہ میرا حکم ہے اس پر عمل کر جیسے ماں باپ انسان کے رفیق ہوتے ہیں مگر ان کی رفاقت حکومت کے رنگ میں ہوتی ہے۔ پس جب اس مقام پر مَیں کھڑا ہوں اور تُو مجھے کوئی حکم دے تو چونکہ مَیں کمزور ہوں اس لئے مجھ پر رحم کر کے ایسا حکم نہ دیجئو جس پر مَیں اپنی کمزوری کی وجہ سے عمل ہی نہ کر سکوں۔ غرض جب تیری رفاقت دوستانہ رنگ میں آئے تو اس وقت تُو میرا ساتھی بن کرمیری مدد کیجئو اور اگر تیری رفاقت حاکم بالا کی صورت میں ہو تو اس وقت رحم کا پہلو مدنظر رکھیو اَور کوئی ایسا حکم نہ دیجئو جسے مَیں پورا نہ کر سکوں۔ پس یہ دونوں دعائیں ہم معنی ہیں اور چونکہ دعا سے پہلے مناسب حال صفات الٰہیہ کا ذکر قبولیت دعا کا موجب ہوتا ہے اس لئے میرے نزدیک یَاحَفِیْظُ یَا عَزِیْزُ یَا رَفِیْقُ کی دعا پہلے پڑھنی چاہئے اور پھر یہ دعا مانگنی چاہئے رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَ انْصُرْنِیْ وَ ارْحَمْنِیْ ۔ اس دوسری دعا میں حفیظ پہلے ہے اور عزیز بعد میں۔ مگر رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ والی دعا میں عزیز کے ہم معنے الفاظ پہلے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یَا حَفِیْظُ والی دعا ایک ایسی دعا کا حصہ ہے جو خطرناک بیماری میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سکھائی گئی اور اس وقت حفاظت کا پہلو مقدم تھا۔ پس اسے پہلے رکھا گیا لیکن ان دعاؤں کی ایک اَور ترتیب بھی ہو سکتی ہے اور وہ یہ کہ رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ کو الگ جملہ سمجھا جائے اور رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَ انْصُرْنِیْ وَ ارْحَمْنِیْ کو یَا حَفِیْظُ یَا عَزِیْزُ یَا رَفِیْقُ کے بالمقابل سمجھا جائے۔ اس صورت میں فَاحْفَظْنِیْ یَا حَفِیْظُ کے مقابل پر ہو گا اور اُنْصُرْنِیْ یَا عَزِیْزُ کے مقابل پر اور اِرْحَمْنِیْ یَا رَفِیْقُ کے مقابل پر اور یہ ترتیب بھی طبعی ہے۔ اس کے علاوہ ایک دفعہ مجھے بھی رؤیا میں ایک دعا بتلائی گئی تھی۔ یہ 1914ء کی بات ہے جب چوہدری فتح محمد صاحب ولایت میں تھے اور مَیں اس سے یہ نتیجہ نکالا کرتا تھا کہ اس رؤیا میں جس عذاب کا ذکر ہے وہ اسی وقت آئے گا جب چودہری فتح محمد صاحب ہندوستان میں ہوں گے۔ مَیں نے دیکھا کہ دنیا میں ایک بہت بڑا طوفان آیا ہے جس سے چاروں طرف تباہی اور بربادی واقع ہو رہی ہے یہانتک کہ پانی بڑھتے بڑھتے اس مکان کے قریب آ گیا ہے جس میں مَیں ہوں اور ہم سب اس کی چھت پر چڑھ گئے ہیں۔ اس وقت مجھے ایسا معلوم ہؤا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام مشرق کی طرف سے تیزی کے ساتھ دوڑتے چلے آ رہے ہیں اور فرماتے ہیں تم سب یہ دعا کرو اَللّٰھُمَّ اھْدَیْتُ بِھَدْیِکَ وَ اٰمَنْتُ بِمَسِیْحِکَ کبھی فرماتے ہیں بِنَبِیِّکَ۔ تب تم اس سے بچو گے۔ 7 کہ اے میرے رب مَیں تیری ہدایت کے اس راستے پر چل رہا ہوں جو تیرے مسیح ؑ نے ہمیں دکھایا ہے۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ مَیں اس جماعت میں شامل ہوں جو تیرے مسیح کی جماعت ہے اس لئے اگر مجھ پر کوئی دکھ یا عذاب آیا تو لوگوں کے لئے ٹھوکر کا موجب ہوگا۔ پس تُو مجھے اس واسطہ اور طفیل اس عذاب سے بچا اور ہمیں لوگوں کے لئے ٹھوکر کا موجب نہ بنا۔ اس دن کے متعلق بھی مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ تو موقع کے مناسب حال ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی دعا ہر لحاظ سے کامل، نقائص سے پاک اور بہت بڑی برکات کا موجب ہو گی۔ بندے اپنی زبان میں جو دعائیں کرتے ہیں بے شک وہ زیادہ جوش پیدا کرنے والی ہوتی ہیں اور بے شک اپنی زبان میں دعائیں مانگنا جائز ہے مگر ان پر زیادہ زور نہیں دینا چاہئے۔ زیادہ زور انہی دعاؤں پر دینا چاہئے جو خدا اور اس کے رسول نے بتائی ہیں۔
پس مَیں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ روزانہ کوئی ایک نماز مخصوص کر کے اس میں ان دعاؤں کو کثرت کے ساتھ پڑھا کریں۔ چاہیں تو خاموشی کے ساتھ اور چاہیں تو بلند آواز سے۔ اسی طرح نماز کے علاوہ جب بھی دعا کا موقع ملے یہ دعائیں بار بار مانگی جائیں تاکہ اللہ تعالیٰ ان فتنوں سے دنیا کو بچائے اور ہماری جماعت کی خصوصیت سے حفاظت فرمائے اور تا ایسانہ ہو کہ تبلیغ کے سامان جو ہمیں میسر ہیں وہ ضائع ہو جائیں۔ ہماری خطائیں اور کوتاہیاں ہمیں ترقی سے روک دیں اور اس طرح کچھ عرصہ یا ایک لمبے عرصہ کے لئے اس کے سلسلہ پر حرف آئے اور لوگ یہ کہیں کہ یہ سلسلہ بھی آخر ناکام ہو گیا۔ وَ نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذَالِکَ ۔’’
(الفضل یکم مئی 1942ء)
1: البقرة : 286 ، 287
2 : درثمین اردو صفحہ 78۔ مطبوعہ لجنہ اماء اللہ کراچی
3: مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحہ 446، 449 ۔ مطبوعہ بیروت 1313ھ
4: البقرة: 202
5: تذکرہ صفحہ 654۔ ایڈیشن چہارم
6: تذکرہ صفحہ 485۔ ایڈیشن چہارم
7: الفضل 13 دسمبر 1914ء



11
قادیان میں مکانوں کے کرایہ کے متعلق انتظام اور قادیان کی حفاظت کے متعلق بیرونی جماعتوں کا فرض
(فرمودہ یکم مئی 1942ء )

تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’آج مَیں ایک ایسے معاملہ کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جو قادیان کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ چونکہ ان ایام میں خطرہ بھی ہندوستان کے لئے بہت بڑھتا چلا جاتا ہے اورخطرہ سے زیادہ افواہیں بڑھتی جاتی ہیں اس لئے جماعت کے بہت سے احباب باہر سے اپنے خاندانوں کو قادیان بھجوا رہے ہیں اوریا تو یہ حالت تھی کہ قادیان میں بڑھتے ہوئے مکانوں کی وجہ سے کئی مکان خالی پڑے رہتے تھے اوریا آج یہ حالت ہے کہ عمارت بنانے کی دِقّتوں کی وجہ سے مکان تو نئے بن نہیں رہے مگر مکین بہت زیادہ ہو رہے ہیں اور اس وجہ سے قادیان میں مکانوں کی خاص طور پر دِقّت محسوس ہو رہی ہے حتّٰی کہ بعض لوگوں کو مہینہ مہینہ مکان کی تلاش میں انتظار کرنا پڑا مگر پھر بھی مکان میسر نہ آیا۔ اس سلسلہ میں میرے پاس متعدد شکایات آئی ہیں۔ خصوصیت سے اس بارہ میں کہ وہ لوگ جن کے مکان یہاں ہیں بلا وجہ کرائے دُگنے تِگنے کرتے جا رہے ہیں۔ اگر عام نگاہ سے دیکھا جائے تو بے شک مکان کے مالک کو اختیار ہے کہ کرایہ بڑھا سکے اور رہنے والے کو اختیار ہے کہ چاہے تو اس مکان میں نہ رہے مگر جو جماعتیں نظام کی پابند ہوتی ہیں ان کے لئے ایسے عام قاعدوں پر عمل درست نہیں ہوتا۔ مَیں نے کئی دفعہ وضاحت کے ساتھ یہ بات بیان کی ہے کہ قادیان کی جماعت کا بڑا حصہ اس نظام سے فائدہ اٹھا رہا ہے جو یہاں خدا تعالیٰ کےفضل سے منظم جماعت ہونے کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ یہ کوئی بہت دیر کی بات نہیں میری خلافت کے ایام کی ہی بات ہے کہ یہاں صرف ایک احمدی دکاندار سید احمد نور صاحب کابلی تھے اور وہ بھی شاکی رہتے تھے کہ ان کی دکان اچھی طرح چلتی نہیں پھر بعض وجوہ سے جو اللہ تعالیٰ نے جماعت کی ترقی کے لئے پیدا کیں اسی مسجد میں اور اسی مقام پر مَیں نے جماعت کا ایک جلسہ کیا اور ان مشکلات کو جو اپنے ہمسائیوں کی وجہ سے پیش آ رہی تھیں دوستوں کے سامنے رکھیں اور ان کو اجازت دی کہ وہ جو فیصلہ چاہیں کر لیں۔ خواہ یہ فیصلہ کر لیں کہ صرف اپنی ہی دکانوں سے سَودا لینا ہے دوسروں سے نہیں اور چاہے یہ کہ دوسروں سے سودا لینے میں کسی قسم کی روک نہیں ہو نی چاہئے۔ وہ جو بھی رائے دیں گے اسی کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔ ہاں یہ پابندی مَیں نے لگا دی کہ دوست جو فیصلہ بھی کئے جانے کا مشورہ دیں گے اس پر قائم رہنے کے وہ پابند ہوں گے۔ انہیں اپنے ہی کئے ہوئے فیصلہ کے خلاف چلنے کا اختیار نہ ہو گا چنانچہ تمام جماعت نے بحیثیت مجموعی اس امر کا فیصلہ کیا کہ ان حالات میں وہ یہی پسند کرتے ہیں کہ احمدی دکانداروں سے سَودا لیا جائے۔ سوائے چھ سات دوستوں کے جنہوں نے کہا کہ وہ ایسی پابندی کو پسند نہیں کرتے اور باوجود اس بارہ میں کثرت رائے ہونے کے کہ دوسروں سے سَودا نہ لیا جائے۔ مَیں نے ان چھ سات کو یہ اجازت دے دی کہ جس سے چاہیں سودا لے لیں اور باقی سے کہہ د یا کہ چونکہ انہوں نے خود یہ فیصلہ کیا ہے۔ اس لئے وہ پابند ہیں کہ آئندہ احمدی دکانداروں سے سَودا لیں اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ساٹھ ستّر بلکہ قریباً ایک سَو دکانیں یہاں احمدیوں کی ہیں اور ان میں سے بعض اچھی حیثیت کے ہیں۔ ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ یہاں کی ساری تجارت احمدیوں کے ہاتھ میں ہے اورنہ ہی ہمارا یہ منشاء تھا بلکہ اس وقت بھی بعض ایسی صورتیں پیدا کی گئی تھیں کہ جن کے ماتحت بعض دوسرے دکاندار بھی ہمارے ساتھ مل سکتے تھے اور ان کو اس پابندی سے مستثنیٰ کیا جا سکتا تھا اور ان کے مطابق ہمیشہ بعض ہندو، سکھ اور غیر احمدی دکاندار مستثنیٰ کئے گئے اور دوستوں کو اجازت دی گئی کہ ان سے سودا لے سکتے ہیں مگر پھر بھی اس پابندی کا یہ نتیجہ ہؤا کہ یہاں احمدیوں کی تجارت ایسی معقول ہے کہ سارے پنجاب میں کسی اَور جگہ مسلمانوں کے ہاتھ میں اس طرح نہیں ہے۔ اور اس فیصلہ کی وجہ سے کم سے کم دو ہزار مرد، عورتیں اور بچے مستفید ہو رہے ہیں اور یہ نظام کا ہی فائدہ ہے جو وہ اٹھا رہے ہیں بلکہ میرا خیال ہے کہ دو ہزار سے بھی زیادہ لوگ فائدہ اٹھا رہے ہوں گے۔ یہ کم سے کم اندازہ ہے جو مَیں نے لگایا ہے کیونکہ مزدور پیشہ اور کاریگر بھی اس معاہدہ سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ شروع میں دِقتیں اور مشکلات بھی پیدا ہوئیں جماعت کے دوستوں کو قربانیاں بھی کرنی پڑیں تجارت سے ناواقف دکاندار مہنگے سودے لاتے اور مہنگے ہی فروخت کرتے۔ لیکن کوئی تو اپنے شوق سے کوئی اپنے عہد کی پابندی کی وجہ سے اور کئی جو کمزور تھے۔ نظام کے ڈر سے انہی سے سودا لیتے۔ سالہا سال تک یہاں کے احمدیوں نے دوسروں کی نسبت گراں سَودے خریدے اور اس طرح اگر جمع کیا جائے تو لاکھوں روپیہ کا نقصان انہوں نے اٹھایا اور تاجروں اور کاریگروں نے فائدہ اٹھایا۔ یہ سب نظام کی وجہ سے ہی ہؤا۔ جماعت نے قربانی کی جنہوں نے خلاف ورزی کی ان کو نظام کے ماتحت سزائیں دی گئیں اور ان سزاؤں کا فائدہ بھی دکاندروں کو ہؤا۔ اگر یہاں ہمارا نظام قائم نہ ہوتا تو یہاں کے دکاندار یہ فائدہ نہ اٹھا سکتے ۔ اس معاہدہ کے باوجود بعض سے کمزوریاں سرزد ہوئیں اور نظام کے ماتحت ان کو پکڑا گیا اور سزائیں دی گئیں۔ بعض بعد میں آنے والوں نے کہا کہ ہمیں پتہ نہ تھا تو ان کو بلایا اور سمجھایا گیا اور پھر بھی انہوں نے اصرار کیا تو ان کو سزائیں دی گئیں اور مجبور کیا گیا کہ احمدی دکانداروں سے ہی سودا خریدیں۔ یہ نظام ہی کا فائدہ تھا جو دکانداروں نے اٹھایا۔ اسی طرح نظام کے اَور بھی فائدے ہیں۔ کسی کی چوری ہو جائے کسی کو مارا جائے تو وہ نظام سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ لوگ اس کی مدد کے لئے آگے پیچھے دوڑتے اور ظلم کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ باہر بھی تو مسلمان رہتے ہیں مگر ان کا کوئی نگران نہیں اور کوئی ان کی تائید کرنے والا نہیں اور کوئی ان کو ظلموں سے بچانے والا نہیں۔ یہ قادیان میں جماعت کی تنظیم کا ہی نتیجہ ہے کہ یہاں کے لوگ ہر قسم کے فائدے اٹھاتے ہیں مثلاً یہاں کمیٹی قائم ہے اور اس میں احمدیوں کو پورا پورا حق مل رہا ہے، باہر بھی ایسے علاقے ہیں جہاں مسلمان بڑی تعداد میں بستے ہیں۔ مگر وہ اپنا پورا حق حاصل نہیں کر سکتے۔ دوسرے ان کو باہم لڑا دیتے ہیں ان کا آپس میں جھگڑا کرا دیتے ہیں ایک دوسرے کا مدمقابل بنا دیتے ہیں اور پھر خود ان کے حق پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ اس لئے یہاں کا کوئی مکان والا یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرا مکان ہے جس کرایہ پر چاہوں دوں، بلکہ ہمیں معقولیت کے ساتھ دیکھنا ہو گا کہ کس حد تک اور کس صورت میں کرایہ بڑھانے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ ایک اَور ناجائز پہلو بھی میرے علم میں آیا ہے کہ بعض بہانے سے چابیاں منگواتے ہیں مثلًا یہ کہہ کر کہ صفائی کرانی ہے یا سفیدی کرانی ہے اور اس طرح مکان پر قبضہ کر کے دوسرے کو زیادہ کرایہ پر دے دیتے ہیں۔ یہ نہایت ہی ناجائز بات ہے اور بد دیانتی ہے۔ جہاں ہم اس بات پر غور کر سکتے ہیں کہ کہاں تک جائز طور پر مکان والوں کو اپنے لگائے ہوئے روپیہ سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے۔ وہاں اس جھوٹ اور بد دیانتی کو کبھی گوارا نہیں کر سکتے جو کسی مذہبی جماعت میں جائز نہیں۔ پس جہاں تک اس پہلو کا تعلق ہے۔ مَیں یہ اعلان کرتا ہوں کہ یہ بددیانتی ہے۔ جس کے ساتھ ایسا دھوکا کیا جائے وہ فوراً امور عامہ میں رپورٹ کرے اور ایسے شخص کے ساتھ نظام کے ماتحت ہم وہی معاملہ کریں گے جو بد دیانت اور خائن سے کرتے ہیں۔ پس جن لوگوں کو یہ شکایت ہو کہ ان کے ساتھ اس طرح کی بد دیانتی کی گئی ہے مَیں ان کو اطلاع دیتا ہوں کہ ان کو حق ہے کہ فوراً امور عامہ میں رپورٹ کریں اور مَیں امور عامہ کو ہدایت کرتا ہوں کہ ایک الگ افسر مقرر کرے جس کا کام ان دنوں میں ایسے جھگڑوں کی تحقیقات ہو مگر جیسا کہ مَیں نے بارہا کہا ہے امور عامہ کو کسی کو سز ادینے کا کوئی حق نہیں سوائے اس کے کہ انتظامی پہلو کی سزا ہو۔ اس لئے ایسے معاملات قضاء میں پیش ہوں اور اگر قاضیوں کی موجودہ تعداد کافی نہ ہو تو ان معاملات کے لئے مزید قاضی مقرر کئے جا سکتے ہیں جنہیں یہ حکم ہو کہ وہ تین دن کے اندر اندر ایسے معاملہ کا فیصلہ کر دیں۔ پس مَیں یہ اعلان کرتا ہوں کہ اگر کسی نے کسی سے وعدہ کیا اور پھر بغیر کسی شرعی اور قانونی حق کے اسے مکان نہیں دیا یا دھوکا دے کر چابیاں لے لیں تو وہ فوراً امور عامہ میں رپورٹ کرے جہاں اس کی حق رسی کی جائے گی۔ مگر اس سوال کا ایک اَور پہلو بھی ہے جسے باہر سے آنے والوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے اور وہ یہ ہے کہ جو لوگ یہاں مکان بناتے ہیں وہ برکت کے لئے اور اخلاص کے ماتحت بناتے ہیں۔ کسی پر پانچ ہزار، کسی پر دس ہزار روپیہ خرچ آتا ہے بلکہ بعض مکانوں پر تو بیس بیس ہزار روپیہ بھی خرچ آیا ہے۔ ہندوستان میں عام دستور کے ماتحت چھ روپیہ فیصدی مکان کی آمدنی جائز سمجھی جاتی ہے اور سمجھایا جاتا ہے کہ ایک دو روپیہ فی صدی مرمت وغیرہ پر خرچ آتا ہے۔ ایک دو فیصدی اس کی بوسیدگی کا اور باقی تین چار روپیہ مالک کے روپیہ کا حق ہے اور عام تجارتوں کے لحاظ سے یہ زیادہ نہیں۔ تاجر لوگ اس سے بہت زیادہ نفع کماتے ہیں۔ دو سو روپیہ سے جو تجارت شروع کی جائے۔ وہ سال میں ڈیڑھ دو سو روپیہ منافع لاتی ہے۔ گویا سو فی صدی منافع ہوتا ہے اور اگر اس میں سے کام کرنے والے کی مزدوری بھی وضع کی جائے تو خالص تجارتی منافع 50 فی صدی تک چلا جاتا ہے مکان پر جو روپیہ لگایا جائے۔ اس میں چونکہ خطرہ کم ہوتا ہے اور وہ دوسری تجارتوں کی نسبت زیادہ محفوظ ہوتا ہے۔ اس واسطے چھ فیصدی کرایہ کم نہیں۔ لیکن یہ زیادہ بھی نہیں اور عام طور پر یہ شرح جائز سمجھی گئی ہے اور اگر کسی کو اتنا کرایہ مل جائے تو مرمت وغیرہ کا خرچ اور مکان بوسیدگی کا معاوضہ اگر مدنظر رکھا جائے تو یہ منافع کم یا زیادہ نہیں ہے لیکن یہاں کرائے اس نسبت سے بہت کم ہیں۔ جس مکان پر پانچ ہزار روپیہ لگا ہو۔ چھ فیصدی کے لحاظ سے اس کا کرایہ 25 یا 30 روپیہ ماہوار چاہئے۔ مگر یہاں ایک بھی مکان ایسا نہیں جو اتنے کرایہ پر چڑھا ہؤا ہو بلکہ پندرہ روپیہ بھی شاید ہی کسی ایسے مکان کا کرایہ ہو بالعموم آٹھ آٹھ دس دس روپیہ کرایہ ایسے مکان کا ہوتا ہے۔
مجھے یاد ہے ہمارے ایک عزیز نے یہاں مکان بنوایا وہ میری ہی معرفت بنا اور میرے ہی ذریعہ اس پر روپیہ خرچ کیا گیا اس پر قریباً 27 سَو روپیہ خرچ آیا تھا مگر ایک دفعہ انہیں اسے کرایہ پر دینے کی ضرورت محسوس ہوئی تو کوئی چھ روپیہ کرایہ بھی دینے کو تیار نہ تھا۔ حالانکہ عام مروّجہ شرح کے لحاظ سے اس کا کرایہ 12، 13 روپیہ ماہوار ہونا چاہئے تھا مگر چھ روپیہ بھی نہ مل سکا۔ اگرچہ اب اگر وہ اسے خالی کر دیں تو ممکن ہے 15، 16 بھی کوئی دے دے۔ مگر جنگ سے قبل چھ روپیہ بھی بمشکل مل سکتا تھا، مَیں اس لئے کہتا ہوں کہ ایک شخص چھ روپیہ دینے کو تیار ہؤا تھا مگر بعد میں انکار کر دیا۔ اگر چھ روپیہ مل جاتا تو اس کے معنے ہوئے 72 روپیہ سال۔ اس میں سے اگر 12 روپیہ بھی معمولی مرمت وغیرہ کے نکال دیئے جائیں تو باقی ساٹھ بچے اور اگر ساٹھ کو 2700 پر پھیلایا جائے تو اس کے معنے یہ ہوئے کہ ½2 فیصدی سے بھی کچھ کم۔ اور یہ کوئی منافع نہیں بعض حالتوں میں بنک کا سُود بھی اس سے زیادہ ہوتا ہے حالانکہ مکان پر خرچ بھی آتا رہتا ہے اور جو مکان بنایا جائے وہ بیس تیس یا چالیس سال تک یوں بھی بوسیدہ ہو جاتا ہے اور کرایہ پر دینے والے کو یہ بھی خیال ہوتا ہے کہ کرایہ میں سے اتنی بچت بھی کرے کہ جس سے اسے دوبارہ بنا سکے۔ ورنہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ کرایہ میں ہی مکان ختم ہو گیا۔
پس اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے شہروں میں جس نسبت سے کرائے ہوتے ہیں۔ قادیان میں اس سے نصف سے بھی کم ہیں۔ اس لئے اگر مناسب طور پر کرایوں میں اضافہ ہو جائے تو کوئی حرج کی بات نہیں۔ جن لوگوں نے یہاں مکانوں پر روپیہ لگایا ہؤا ہے۔ وہ اگر دس سال یا پندرہ سال نقصان اٹھاتے رہے ہیں تو یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ اب بھی نقصان اٹھائیں اور ہمیشہ وہی قربانیاں کرتے جائیں۔ باہر والوں کو بھی کچھ قربانی کرنی چاہئے۔ آخر جنگ کی وجہ سے وہ فائدے بھی اٹھا رہے ہیں۔ جن لوگوں کی آمدنی دس دس بارہ بارہ روپیہ ماہوار تھی۔ وہ اب ستّر، اسّی بلکہ سَو سَو روپیہ ماہوار کما رہے ہیں اور جب وہ خود فائدہ اٹھا رہے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ ان مکان والوں کو فائدہ پہنچائیں۔ جنہوں نے دس بیس سال تک اپنا روپیہ بند کئے رکھا اور اس سے کوئی خاص فائدہ نہیں اٹھایا۔ مَیں نے سنا ہے کہ نظارت امور عامہ نے حکم دیا ہے کہ کرائے نہ بڑھائے جائیں مگر یہ ٹھیک نہیں۔ دیکھنا یہ چاہئے کہ مکان پر کتنا روپیہ خرچ آیا ہے اور اس روپیہ پر کتنا نفع تجارتی طور پر ملنا چاہئے۔ گو قادیان اتنا بڑا شہر نہیں کہ لاہور، امرتسر کی طرح یہاں کے کرائے ہوں۔ لیکن ان شہروں میں تو کرائے بہت زیادہ ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ لاہور میں بعض اوقات کسی نے دو ہزار میں کوئی دکان لی ہے تو اس کا کرایہ بھی تیس چالیس مل جاتا ہے۔
پس جہاں میں ایسے بد دیانت لوگوں کو ہوشیار کرتا ہوں جو چند روپوں کے لالچ میں آ کر دھوکا کرتے اور احمدیت کو داغ لگاتے ہیں وہاں باہر سے آنے والوں کو بھی یہ کہتا ہوں کہ وہ بھی اس بات پر اصرار نہ کریں کہ پہلے جو کم کرائے تھے وہی رہیں اور مکان والوں سے ہی قربانی کا مطالبہ کرتے جائیں۔ وہ یہاں اپنے فائدہ کے لئے آتے ہیں اور اس رنگ میں ان کا آنا دین کے لئے کوئی ایسی قربانی نہیں کہ وہ مکان والوں سے بھی قربانی کا مطالبہ کریں ۔ ایسا مطالبہ اس صورت میں کیا جا سکتا تھا جب وہ دین کی خاطر یہاں آتے۔ قرآن کریم نے انصار کی تعریف کی ہے کہ انہوں نے مہاجرین کو اپنے مکان تک تقسیم کر دیئے۔ 1 مگر مہاجرین تو مدینہ میں دین کے لئے اپنی جانیں لڑانے کے لئے آئے تھے اور یہاں تو یہ حالت ہے کہ مرد تو باہر ہیں اور عورتوں بچوں کو یہاں بھیج رہے ہیں کہ قادیان والے ان کی حفاظت کریں۔ وہ گویا قادیان والوں سے اس رنگ میں فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ اس صورت میں اگر یہ کہا جائے کہ قادیان والے اپنے مکانوں کے جائز کرائے بھی نہ لیں۔ تو یہ ظالمانہ فیصلہ ہو گا اور اندھیر نگری چوپٹ راجہ والی مثال صادق آئے گی۔ ہاں اگر یہاں لوگ دین کی خاطر جمع ہوں تو یہاں کے لوگوں سے قربانی کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ جلسہ سالانہ کے موقع پر یہاں کے لوگوں سے ان کے مکان خالی کرائے جاتے ہیں تا مہمان ٹھہر سکیں اور کسی کو ایک پیسہ بھی نہیں دیا جاتا۔ اسی طرح اگر کسی وقت قادیان کی حفاظت کا سوال پیدا ہو اور باہر سے لوگوں کو اس کے لئے بلایا جائے تو کیا ان کے لئے کرایہ پر مکان حاصل کئے جائیں گے۔ اس وقت تو ہر مخلص سے امید کی جائے گی کہ وہ بغیر کرایہ کے اپنا مکان باہر سے آنے والوں کے لئے چھوڑ دے۔ مگر جب یہاں رہائش کی غرض دنیوی ہو بلکہ یہ کہ یہاں ان کے بیوی بچوں کی حفاظت کی جائے تو یہ امید رکھنا کہ یہاں کے لوگ جائز طور پر مکانوں کا کرایہ بھی نہ لیں درست نہیں اور جو فائدہ لاہور، امرتسر اور دوسرے شہروں کے لوگ سالہا سال سے اٹھا رہے ہیں۔ یہاں کے لوگ اب بھی نہ اٹھائیں کسی طرح مناسب نہیں۔ پس مَیں امور عامہ کو یہ ہدایت کرتا ہوں کہ ایک کمیٹی مقرر کی جائے جس کے نصف ممبر کرایہ داروں میں سے ہوں اور نصف مالکان مکانات میں سے۔ کرایہ وغیرہ کے متعلق باہر سے بھی معلومات حاصل کی جائیں اور پتہ کیا جائے کہ عام رواج کیا ہے اورپھر یہاں کے مکانوں کے متعلق یہ معلوم کر کے کہ کتنا روپیہ کسی مکان پر لگا ہے اور اس کے مطابق اس کے کرایہ میں مناسب اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ مکان کا کرایہ اس روپیہ کے مطابق ہونا چاہئےجو اس کی تعمیر پر خرچ آیا ہے۔ اگرچہ اسے قاعدہ کلّیہ نہیں بنایا جا سکتا۔ کیونکہ بعض دکانیں وغیرہ ایسے موقع پر ہوتی ہیں کہ گو ان پر روپیہ کم خرچ آیا ہو مگر موقع کے لحاظ سے ان کا کرایہ زیادہ ہوتا ہے۔ ایسی استثنائی صورتوں کو چھوڑ کر باقی مکانوں کے کرائے ان کی لاگت کے لحاظ سے ہونے چاہئیں۔ ہاں موقع کا لحاظ ضروری ہے۔ ایک مکان آبادی سے تین چار میل دور ہو تو خواہ اس پر دس ہزار روپیہ کیوں نہ خرچ آیا ہو۔ اس کا کرایہ خرچ کے لحاظ سے نہیں ہو سکتا۔ پس نظارت امور عامہ کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ یہاں مکانوں کے کرائے نہ تو حد سے بڑھ جائیں اور نہ گر جائیں۔ کرایوں کا اندازہ کیا جائے ۔گورداسپور اور بٹالہ سے معلومات حاصل کی جائیں اور پھر ایک حد مقرر کر دی جائے اور جو لوگ پہلے سے مکانوں میں رہتے ہیں۔ مقررہ اضافہ کا ان سے بھی مطالبہ کیا جا سکتا ہے اور اگر وہ زیادہ نہ دینا چاہیں تو مکان خالی کر دیں لیکن اگر وہ اضافہ منظور کر لیں تو پھر ان کو نکالا نہیں جا سکتا۔ سوائے اس کے کہ مالک مکان کو خود ضرورت ہو یا اس کے ایسے رشتہ دار کو جس کا گزارہ اسی پر ہے مثلًا کسی کی بیوی یا بچے اور جو شخص اپنا مکان خالی کرانا چاہے اس کا زبانی کہنا کافی نہیں بلکہ اسے چاہئے کہ تحریری نوٹس دے جس میں وجہ لکھے کہ وہ کیوں خالی کرانا چاہتا ہے اور وہ نوٹس امور عامہ کو دیا جائے جو اس بات کی تحقیق کرے گا اور اگر یہ ثابت ہؤا کہ مکان صرف بہانہ سے خالی کرایا گیا ہے تا دوسرے سے زیادہ کرایہ وصول کیا جا سکے تو ایسے شخص کا مکان کسی احمدی کو لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی کیونکہ اس نے دھوکا کیا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایسا شخص اپنا مکان کسی غیر احمدی کو دے دے۔ اس صورت میں بھی اسے سلسلہ کی طرف سے کوئی دوسری سزا دی جائے گی اور اگر اس نے اس سے بھی بچنے کا کوئی اَور ذریعہ تجویز کر لیا تو سلسلہ بھی اسے سزا دینے کا کوئی اَور جائز ذریعہ اختیار کرے گا۔
پس مَیں اعلان کرتا ہوں کہ کسی کو اجازت نہیں کہ اپنے مکان سے کرایہ دار کو بلا وجہ نکالے، اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس کے مکان کا کرایہ زیادہ ہونا چاہئے تو چاہئے کہ وہ امور عامہ میں دعویٰ کرے اور وہ دیکھے کہ مکان کتنے میں بنا تھا۔ آج کا حساب نہ لگایا جائے کیونکہ آج تو بیس اکیس روپیہ ہزار اینٹ ملتی ہے بلکہ یہ دیکھا جائے کہ جب یہ مکان بنا اس وقت لاگت کیا تھی۔ اس وقت کی قیمت دیکھی جائے اور اس کے لحاظ سے مکان کا جائز کرایہ دلایا جائے اور اگر کوئی کرایہ دار وہ کرایہ نہ دے تو بے شک مالک کو حق ہو گا کہ اسے خالی کرا لے اور نظام اس کے خالی کرانے میں اس کی مدد کرے گا لیکن اگر کوئی شخص دھوکا اور بہانہ سے اور اپنے حق سے زیادہ کرایہ حاصل کرنے کے لئے کسی کو نکالے گا تو اس وقت کرایہ دار کی حمایت کی جائے گی۔ پس نظارت امور عامہ اس بات کا خیال رکھے کہ نہ مالک مکان کو نقصان ہو اور نہ کرایہ دار کو۔ اگر کسی مکان کا کرایہ مناسب اور صحیح ہے تو کرایہ دار کو نکالا نہیں جا سکتا اور اگرصحیح نہیں تو اسے بڑھایا جا سکتا ہے جو کرایہ دار کو دینا ہو گا ورنہ مکان خالی کر دینا ہو گا۔ جو لوگ باہر سے آتے ہیں اور کرایہ پر مکان تلاش کرتے ہیں۔ مَیں ان کو بھی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ایسے تکلیف کے ایام میں ضروری نہیں کہ عمدہ اور پختہ مکانوں میں ہی رہا جائے۔ لوگ تکلیف کے وقت شہروں کو چھوڑ کر خیموں اور چھپروں میں بھی گزارہ کر لیتے ہیں۔ اس لئے جن لوگوں کو مکان نہیں مل رہے وہ کوئی عارضی انتظام کر لیں۔ سلسلہ کے مشورہ سے کوئی زمین لے لی جائے اور وہاں چھپر وغیرہ ڈال لئے جائیں یا ایسے سامان کر لئے جائیں جنہیں بعد میں آسانی سے اتارا جا سکے مثلاً بانس کی چھتیں ڈال لی جائیں۔ سندھ میں ہم نے جو مکان اپنی رہائش وغیرہ کے لئے بنائے ہیں سالہا سال ان کی چھتیں بانسوں کی ہی رہیں اور اب تک ان میں سے اکثر کی چھتیں بانسوں کی ہیں اور وہاں ہمارے جو افسر رہتے ہیں وہ سب ایسے ہی مکانوں میں رہتے ہیں اورپنجابی تو چند سالوں سے وہاں گئے ہیں۔ سندھی لوگ کئی سو سالوں سے اسی طرح کے مکانوں میں رہتے ہیں۔ پس ایسے مکان یہاں بھی تیار کرائے جا سکتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ اس طرح کے مکان بنانے میں تھوڑا سا نقصان ہو گا لیکن یہ امید نہیں رکھنی چاہئے کہ خطرہ کی حالت ہو اور اس سے بچنے کے انتظام کرنے میں کوئی نقصان بھی نہ ہو۔ پس اگر دوست چاہیں تو ایسے ساٹھ ستر بلکہ سَو مکان بنائے جا سکتے ہیں ۔ دیواریں اینٹوں کی اور چھتیں بانس کی ہوں۔ بعد میں ان اینٹوں کو فروخت بھی کیا جا سکتا ہے یا پھر کچی اینٹوں کے مکان بنا دئیے جائیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ پختہ مکان اس وقت بنانا تو سراسر نقصان ہے کیونکہ اینٹ جو پہلے آٹھ روپیہ میں ہزار ملتی تھی بلکہ ادنیٰ درجہ کی چھ روپیہ میں بھی ہزار مل جاتی تھی اب بیس اکیس روپیہ ہزار ملتی ہے۔ گویا پہلے جو مکان پانچ ہزار میں تیار ہو سکتا تھا اب پندرہ ہزار میں ہو گا اور اتنی لاگت سے اس وقت مکان بنایا جائے۔ کیا امید کی جا سکتی ہے کہ جنگ کے بعد کوئی شخص اس کا کرایہ تین ہزار روپیہ کی مالیت کے مکان کے کرایہ کے برابر بھی دے گا۔ پس ان حالات میں روپیہ کو خطرہ میں ڈالنا نادانی ہے۔ اس وقت تو معمولی کچے مکان بنا لینے چاہئیں اور جو لوگ اتنی معمولی تکلیف بھی نہیں اٹھا سکتے وہ اپنے اپنے شہروں میں رہیں۔
پس جو شخص اس وقت کرایہ پر کسی مکان میں رہتے ہیں وہ اگر نظارت امور عامہ کا فیصلہ کردہ کرایہ ادا کریں تو انہیں مکان سے نکالنے کی ہرگز اجازت نہیں خواہ دس گنا زیادہ کرایہ کیوں نہ ملے اور خواہ پانچ کے بجائے پچاس روپیہ کوئی دوسرا دینے والا کیوں نہ ہو اور جو لوگ دھوکا یا بہانہ سے کسی کو اپنے مکان سے نکالیں ان کا علاج بھی مَیں نے بتا دیا ہے۔ ایک پہلو رہ گیا ہے اور وہ یہ کہ بعض لوگ معاہدات کر لیتے ہیں کہ مثلاً دو یا تین سال تک مکان خالی نہ کرایا جا سکے گا۔ ایسے معاہدات کی بھی پابندی کی جانی چاہئے۔ یہ مومن کی شان نہیں کہ چند پیسوں کے لئے معاہدہ کی خلاف ورزی کرے۔
اس کے بعد مَیں ایک اَور بات کہنا چاہتا ہوں اور جو قادیان سے ہی تعلق رکھنے والی ہے اور اسی کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہے۔ جلسہ سالانہ کے موقع پر مَیں نے اس بات کی طرف توجہ دلائی تھی کہ خطرہ کے وقت جو احمدی مرد اور عورتیں اپنے کو خطرہ میں محسوس کریں وہ قادیان آ جائیں مگر ہو یہ رہا ہے کہ لوگ عورتوں اَور بچوں کو یہاں بھیجتے جاتے ہیں اَور خود باہر ہیں جیسا کہ مَیں نے بتایا تھا قادیان دنیوی نقطۂ نگاہ سے غیر محفوظ مقام ہے۔ اس لئے مَیں باہر کی جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی اپنی جگہ فیصلہ کر کے اطلاع دیں کہ اگر کسی وقت خطرہ محسوس ہو تو وہ قادیان کی حفاظت کے لئے کتنے کتنے مرد بھیج سکیں گے۔
پنجاب کی سب جماعتیں جلد سے جلد اس کا فیصلہ کر کے اطلاع دیں۔ یہاں ہماری مقدس عمارتیں اور شعائر اللہ ہیں اَور ان کی حفاظت صرف قادیان والوں کا ہی فرض نہیں بلکہ سب جماعت احمدیہ کا ہے۔ دور دور کی جماعتوں سے تو مَیں فی الحال نہیں کہتا لیکن پنجاب کی سب جماعتیں اس کے متعلق فیصلہ کر کے جلدی اطلاع دیں۔ ضلع گورداسپور میں ہی احمدیوں کی تعداد پچیس تیس ہزار کے قریب ہے۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ کم سے کم پانچ ہزار مرد ضرور ہیں اور اس وجہ سے اس ضلع سے ڈیڑھ ہزار آدمی بآسانی مل سکتے ہیں۔ سیالکوٹ کا ضلع بھی ایک ہزار کے قریب دے سکتا ہے۔ ہوشیار پور اور جالندھر کے اضلاع مل کر ایک ہزار آدمی دے سکتے ہیں اسی طرح لاہور، گوجرانوالہ، شیخوپورہ اور امرتسر مل کر ایک ہزار دے سکتے ہیں۔ پس بجائے اس کے کہ باہر کی جماعتیں عورتوں اوربچوں کو یہاں بھیج کر خطرہ کو بڑھائیں یہ فیصلہ کریں کہ اگر خطرہ کا وقت آیا تو وہ کتنے مرد قادیان کی حفاظت کے لئے یہاں بھجوائیں گے۔ مَیں یہ تو نہیں کہتا کہ اس وقت میرے سامنے جو لوگ بیٹھے ہیں وہ سب کے سب مومن ہیں لیکن مَیں یہ یقین رکھتا ہوں کہ شعائر اللہ کی حفاظت کا اگر موقع آیا تو ایک بھی مومن پیچھے نہ ہٹے گا اور اس انصاری 2کی طرح جس کا ذکر مَیں نے 17 اپریل کے خطبہ میں کیا تھا، ہم میں سے ہر ایک یہی کہے گا کہ جب تک دشمن ہماری لاشوں پر سے نہ گزرے وہ شعائر اللہ تک نہ پہنچ سکے گا۔ اس میں بوڑھے اور بچے کا بھی کوئی فرق نہیں ۔ بوڑھے اور بچے بھی ایمان کے ماتحت شاندار قربانیاں کر سکتے ہیں بلکہ بوڑھا تو موت کے زیادہ قریب ہوتا ہے اور ہمارا فرض یہی ہے کہ ہم شعائر اللہ کی حفاظت کے لئے اپنی جانیں لڑا دیں۔ اس کے بعد ہماری ذمہ واری ختم ہو جائے گی اور مجھے یقین ہے کہ جماعت کے مومن خواہ وہ یہاں ہوں یا باہر۔ وہ اس فرض کو ادا کرنے سے کبھی پیچھے نہ ہٹیں گے۔ ہاں جو منافق یا کمزور ہیں ان کی بات علیحدہ ہے۔ ایسے لوگ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں بھی شور مچاتے رہتے تھے اور آج بھی مچاتے ہیں مگر ان کی کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہئے۔ پس دوستوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ قادیان کی حفاظت ان کا بھی ویسا ہی فرض ہے جیسا یہاں رہنے والوں کا اور اگر اس کا موقع آیا تو وہ غفلت نہ کریں گے۔ اور اگر وہ اپنی طرف سے غفلت نہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی کمزوریوں پر پردہ ڈال دے گا اَور جو جو کام ان کی طاقت سے باہر ہو گا اسے خود کر دے گا۔
غرض میری جلسہ سالانہ کی تقریر کا مطلب غلط سمجھا گیا ہے۔ میرا یہ مطلب نہ تھا کہ صرف عورتوں اور بچوں کو یہاں بھجوا دیاجائے بلکہ یہ تھا کہ ساتھ مرد بھی ہوں۔ کثرت کے ساتھ عورتوں اور بچوں کو یہاں بھیج دینے کا ایک نتیجہ تو یہ ہؤا ہے کہ مکانوں کی سخت دِقّت محسوس ہو رہی ہے بلکہ پہلے سے رہنے والوں کو بھی تکلیف ہوئی ہے اور دوسری طرف قادیان کی حفاظت کا سوال بھی خطرناک ہو گیا ہے۔ مَیں نے جو کہا ہے اس سے یہ مطلب نہیں کہ ضرور کوئی خطرہ ہے۔ البتہ افواہیں بہت پھیل رہی ہیں اور افواہوں میں لوگ بہت مبالغہ سے کام لیتے ہیں اَور ان افواہوں کی وجہ سے بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انگریزوں کو ضرور شکست ہو گی حالانکہ یہ صحیح نہیں۔ انگریزوں کو بے شک بعض شکستیں ہوئی ہیں لیکن ان کا یہ لازمی نتیجہ نہیں کہ انجام کار بھی ان کو ضرور شکست ہو گی۔ جب فرانس کو شکست ہوئی ہے اس وقت انگریز آج کی نسبت بہت زیادہ کمزور تھے اورآج تو دو سال بعد وہ بہت زیادہ طاقتور ہو چکے ہیں۔
فرانس کی شکست کے وقت ان کے لئے خطرہ بہت زیادہ تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اس رؤیا کے مطابق جو مَیں نے دیکھا تھا اور جو مَیں نے اسی زمانہ میں دوستوں کو سنا بھی دیا تھا۔ اس خطرہ سے ان کو بچا لیا اَور ان کی حفاظت کے سامان کر دئے ، اللہ تعالیٰ کی ترکش میں ابھی اَور بھی بے شمار تیر ہیں اور وہ چاہے تو آئندہ بھی ان کی حفاظت کر سکتا ہے اَور خطرناک حالات کو بھی بدل سکتا ہے۔ پس جن لوگوں کا خیال ہے کہ انگریز کمزور ہیں اورلازماً شکست کھائیں گے وہ غلطی پر ہیں۔ اگر انصاف کے قیام کے لئے ان کا وجود اللہ تعالیٰ کے نزدیک ضروری ہؤا تو وہ اب بھی انگریزوں کی حفاظت کے سامان کر دے گا۔ جب ان کا ہاتھ شل ہو جائے گا تو اللہ تعالیٰ کا ہاتھ بلند ہو گا اور جب ان کے سامان ختم ہو جائیں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے سامانوں کے خزانے کھول دے گا اور جب ان کے سپاہی پیچھے ہٹیں گے تو خدا تعالیٰ کے فرشتے آگے بڑھیں گے اور ان کے دشمنوں کو شکست دے دیں گے۔ اس لئے سوال ان کی کمزوری یا طاقت کا نہیں بلکہ یہ ہے کہ انصاف کے قیام سے ان کا تعلق کیسا ہے۔ اگر دوسرے دنیا داروں کی نسبت ان کا وجود قیام انصاف کے لئے اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ مفید ہؤا۔ تو ان کی ظاہری کمزوریاں ان کو ہرگز تباہ نہ کر سکیں گی۔ ہاں اگر انصاف کو انہوں نے قائم نہ رکھا اور ظلم پر کمر باندھ لی تو پھر ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ظالموں کے ساتھ نہیں ہؤا کرتا۔ اگر ہمارے لئے خطرہ ان کے جانے کی صورت میں زیادہ ہؤا تو پھر بھی اللہ تعالیٰ ان کے لئے نہیں بلکہ ہمارے لئے ان کی حفاظت کرے گا۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ بعض نادان سمجھتے ہیں کہ تُرک حرمین کی حفاظت کرتے ہیں حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ حرمین ترکوں کی حفاظت کرتے ہیں۔
اسی طرح اگر انگریزوں کی شکست سے احمدیوں کے لئے خطرہ ہو تو اللہ تعالیٰ ان کے لئے نہیں بلکہ ہمارے لئے ان کی حفاظت کرے گا اور اس کے فرشتے ان کے ہاتھ مضبوط کریں گے مگر اللہ تعالیٰ کے اس فضل کو جذب کرنے کے لئے احمدیوں کو بھی زیادہ قربانیاں کرنے کی ضرورت ہے اور جو لوگ چند پیسوں کے لئے دوسروں سے دھوکا کریں وہ ان فضلوں کے مورد نہیں ہو سکتے ۔ پس اپنے اندر بھی نیک تبدیلی پیدا کرو، اپنے ایمانوں میں اَور اخلاص میں ترقی کرو اور اپنی طرف سے اس بات کے لئے تیار ہو جاؤ کہ اگر خدانخواستہ کسی وقت احمدیت یا اس کے مقدس مقامات کے لئے خطرہ پیدا ہؤا تو ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہ ہو گا جو اپنی جان دینے سے دریغ کرے اور قدم پیچھے ہٹائے۔ یہ تبدیلی اپنے اندر پیدا کرو اور پھر دیکھو کس طرح اللہ تعالیٰ کے فرشتے نازل ہوتے اور حالات کو ہمارے حق میں بدل دیتے ہیں۔‘‘ (الفضل 10 مئی 1942ء )
1: وَ الَّذِيْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَ الْاِيْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ اِلَيْهِمْ وَ لَا يَجِدُوْنَ فِيْ صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً مِّمَّاۤ اُوْتُوْا وَ يُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ١۫ؕ وَ مَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۔ (الحشر: 10)
2: بخاری کتاب المغازی باب قول اللہ تعالیٰ و اذ تستغیثون ربّکم۔الخ

12
حالات زیادہ سے زیادہ خطرناک ہوتے جا رہے ہیں اس لئے خدا تعالیٰ کے کلام اور اس کے الہام سے ماخوذ دعائیں خصوصیت سے کی جائیں
( فرمودہ 8 مئی 1942ء )

تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’مَیں گزشتہ خطبات میں جماعت کے دوستوں کو جنگ کے متعلق خاص طور پر دعاؤں سے کام لینے کی نصیحت کرتا آ رہا ہوں اور آج پھر اس نصیحت کا اعادہ کرنا چاہتا ہوں کیونکہ آجکل جو خبریں آ رہی ہیں۔ وہ پہلے سے بھی زیادہ خطرناک ہیں اور ایسے حالات پیدا ہو رہے ہیں جنہوں نے جنگ کو ہندوستان کے بہت زیادہ قریب کر دیا ہے۔
پس آج مَیں پھر ایک دفعہ جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ جو دعائیں مَیں نے دوستوں کو قرآن کریم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے الہامات سے بتائی ہیں اورجن میں یہ بھی شامل ہے کہ سورۂ کہف کی پہلی اور آخری دس آیتیں روزانہ پڑھی جائیں۔ یہ سب دعائیں خدا تعالیٰ کے کلام اور اس کے الہام سے ماخوذ ہیں اور ایک خزانہ ہے جو اس کے بندوں کوملا ہے۔ لوگ اپنے طور پر تلاش کرتے پھرتے ہیں کہ کوئی ان کو خزانہ مل جائے۔ کوئی کیمیا کی جستجو کرتا ہے، کوئی جنّوں کو اپنے قابو میں لانے کی کوشش کرتا ہے اور کوئی دیوی دیوتاؤں کی نیازیں چڑھاتا ہے۔
غرض مختلف قسم کے ذرائع جن کا کچھ بھی نتیجہ نہیں نکلتا۔ لوگ اختیار کرتے ہیں مگر جو سچا اورحقیقی ذریعہ ہےاللہ تعالیٰ کی امداد اور اس کی نصرت حاصل کرنے کا، اس کو لوگ بھول جاتے ہیں حالانکہ یہ خدا تعالیٰ کا بتایا ہؤا رستہ ہے۔ اوریہ وہ رستہ ہے جس پر چلنے والے کی مدد کرنے کا خود اس نے وعدہ کیا ہؤا ہے۔ پس قرآن کریم کی ان دعاؤں کو یارسول کریم ﷺ کی بتائی ہوئی دعاؤں کو یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی الہامی دعاؤں کو خاص طور پر پڑھنا اور جماعتی طور پر پڑھنا یقیناً بہت نیک نتائج پیدا کرنے والی چیز ہے۔
پس ان پُرخطر ایام میں ان دعاؤں پر خاص طور پر زور دینا چاہئے اور جماعتی طور پر زور دینا چاہئے۔ جماعتی طور پر دعاؤں پر زور دینے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جو لوگ کمزور ہوتے ہیں وہ بھی اس طرح دعاؤں میں شریک ہو جاتے ہیں۔ جب جماعتی رنگ میں دعا نہیں ہوتی تو صرف چند لوگ دعا کرتے ہیں اور باقی غفلت اور سستی کی وجہ سے یا اپنی بے علمی کی وجہ سے ان دعاؤں میں حصہ نہیں لے سکتے۔ کئی لوگ دعا کا ارادہ تو رکھتے ہیں مگر بھول جاتے ہیں اور کئی ایسے ہوتے ہیں جو بھولتے تو نہیں مگر ان کو دعائیں آتی ہی نہیں اوران میں اتنی چستی یا اتنا علم نہیں ہوتا کہ وہ ان دعاؤں کو یاد کر سکیں۔ پھر کئی ایسے بھی ہوتے ہیں جو غفلت کی وجہ سے ان دعاؤں میں اتنے جوش کا اظہار نہیں کرتے جتنے جوش کا اظہار انہیں کرنا چاہئے مگر جب اس قسم کے لوگ دوسروں کے ساتھ دعا میں شامل ہوتے ہیں تو انہیں بھی دعاؤں میں جوش پیدا ہو جاتا ہے اور اجتماعی دعاؤں میں ہمیں ہمیشہ یہ نظارہ نظر آتا رہتا ہے۔ چنانچہ جلسہ سالانہ کے اختتام پر یا مجلس شوریٰ کے آخر میں یا رمضان کے دنوں میں درس قرآن کریم کے خاتمہ پر جب اجتماعی رنگ میں دعا کی جاتی ہے توکس طرح لوگ چیخ چیخ کر رونے لگ جاتے ہیں حالانکہ وہی لوگ اپنے گھروں میں شاید دو دو مہینے میں بھی دعاؤں میں ایک آنسو نہیں بہاتےمگر ایسی مجالس میں شامل ہو کر ان کے دو دو سَو آنسو بہہ جاتے ہیں اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ اپنے ساتھیوں کو دیکھ کر اور ان کے پاس بیٹھنے کی وجہ سے ایسا روحانی اثر ان پر پڑتا ہے کہ ان میں ایک تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے گو وہ تبدیلی عارضی اور وقتی ہوتی ہے مگر بہرحال اس وقت ان میں ایسا جوش اور اخلاص رونما ہو جاتا ہے اور ان کی دعاؤں میں ایسی رقّت اور ایسا سوز و گداز پیدا ہو جاتا ہے جو ان کی دعاؤں کو قبولیت کے قابل بنا دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ دوسروں کی پُر اخلاص دعاؤں کی وجہ سے ان کی دعاؤں کو بھی قبول کر لیتا ہے۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے تاجر بعض دفعہ اچھی چیز کے ساتھ بعض بُری چیزیں ملا کر رکھ دیتے ہیں اور جب اچھی چیز فروخت ہوتی ہے تو اس کے ساتھ بُری چیز بھی فروخت ہو جاتی ہے۔ ولایت میں چونکہ قیمتیں زیادہ مل جاتی ہیں اس لئے وہاں تو یہ قاعدہ ہے کہ تاجر اچھی چیزوں کو الگ رکھ دیتے ہیں اورناقص چیزوں کو الگ۔ مگر ہمارے ملک میں یہ رواج ہے کہ تاجر اچھی اور بری دونوں چیزیں ملا دیتے ہیں مثلًا دس سنگترے اچھے ہوئے تو دو ناقص سنگترے ان میں ملا دیتے ہیں۔ اس طرح گاہک جب سنگترے خریدتا ہے تو اسے تاجر اچھے اور بُرے دونوں سنگترے ملا کر دے دیتا ہے اور گاہک بھی کہتا ہے کہ کیا ہؤا بارہ میں سے دو ہی خراب ہیں یا سولہ میں سے دو سنگترے جو ناقص ہیں باقی تو اچھے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے حضور جب اکٹھی دعائیں پہنچتی ہیں تو ان میں سے کچھ مخلصانہ ہوتی ہیں کچھ کمزور ہوتی ہیں اور کچھ بالکل خراب اور ردّی ہوتی ہیں مگر اللہ تعالیٰ ان سب کو قبول کر لیتا ہے اور کہتا ہے یہ مشترک سودا ہے۔ اس میں اگر کچھ ناقص دعائیں آ گئی ہیں تو کوئی حرج کی بات نہیں۔ پس جو دعائیں متحدہ طور پر مانگی جائیں۔ ان کا بہت بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اگر ان میں کوئی خراب اور ناقص دعائیں ہوں تو وہ بھی قبول کر لی جاتی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے یہ ناقص دعائیں اچھی دعاؤں کے ساتھ مل کر آئی ہیں اور چونکہ سودا مشترک طور پر پیش ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ رحیم و کریم ہے۔ اس لئے وہ صرف مخلص لوگوں کی دعائیں ہی قبول نہیں کرتا بلکہ کمزور لوگوں کی دعائیں بھی قبول کر لیتا ہے۔ اس طرح جہاں دعا کرنے والے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ثواب مل جاتا ہے وہاں اس کی دعا سے قوم کو بھی فائدہ پہنچ جاتا ہے۔ گویا متحدہ دعائیں ایک طرف تو کمزور لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ثواب بہم پہنچاتی چلی جاتی ہیں اور دوسری طرف ان کی دعاؤں سے قوم ترقی کرتی ہے کیونکہ جہاں تک دعا کا انسان کی ذات سے تعلق ہے۔ وہ ایک عبادت ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ویسا ہی ثواب ملتا ہے جیسے کسی اَور عبادت پر اس کی طرف سے ثواب حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح جب قوم اور ملک کے فائدہ کے لئے دعا کی جاتی ہے تو لازماً قوم اور ملک کو فائدہ پہنچتا ہے۔
پس اجتماعی دعاؤں کے نتیجہ میں جہاں تک عبادت کاتعلق ہے۔ کمزور انسان کو بھی دعا کا ثواب مل جاتا ہے حالانکہ اس کی دعا ثواب والی نہیں ہوتی بلکہ لولی لنگڑی اور ٹوٹی ہوئی ہوتی ہے مگر چونکہ وہ دعا سب دعاؤں کے ساتھ پیش ہوتی ہے۔ اس لئے اس پر بھی ثواب حاصل ہو جاتا ہے۔ غرض دعا کا یہ ثوابی پہلو نہایت اہمیت رکھنے والی چیز ہے اور یہ قدرتی بات ہے کہ جس شخص کی ایک دعا قبول ہو کر اسے ثواب مل جائے گا لازماً وہ اور دعا کرے گا اور پھر اَور ثواب حاصل کرے گا۔ اس طرح وہ اپنے اخلاص اور ایمان میں ترقی کرتا چلا جائے گا کیونکہ جب خدا کسی کو ثواب دیتا ہے تو اس کا ایک حصہ ایمان کی صورت میں دیتا ہے اور جسے بار بار ثواب ملتا رہے اس کا ایمان آہستہ آہستہ مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے۔ پس دوسروں کے ساتھ مل کر دعا کرنے کا قوم کو بھی فائدہ پہنچتا ہے اورخود انسان کی اپنی ذات کو بھی فائدہ پہنچتا ہے اور جو شخص ایسا کرے گا، اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو بدلہ ملے گا اس کا کچھ حصہ ایمان کی زیادتی کی شکل میں ملے گا اور اس طرح اس کے ایمان میں بھی تازگی اور قوت پیدا ہو جائے گی۔ پس نہ صرف قوم اس کی دعا سے فائدہ اٹھائے گی بلکہ وہ بھی ایمان کی زیادتی کی شکل میں اس سے فائدہ اٹھائے گا۔
غرض اجتماعی دعائیں اپنے اندر خاص رنگ اور خاص حیثیت رکھتی ہیں جسے کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
انفرادی دعا اعلیٰ ترین مخلصوں کے لئے نہایت ہی اعلیٰ درجہ کی چیز ہے جب وہ دنیا سے الگ ہو کر اکیلے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو ان کا جو ناز اور پیار اپنے رب سے ہوتا ہے۔ اس کی مثال مجلس کی دعاؤں میں نہیں مل سکتی مگر مجلسی دعاؤں میں کمزور او ر ناتوان اور تھوڑے ایمان والوں کے دلوں میں مضبوط ایمان رکھنے والے بھائیوں کو دیکھ کر جو جوش پیدا ہوتا ہے وہ جوش اور وہ درد انہیں انفرادی دعاؤں میں میسر نہیں آ سکتا۔ پس مجلسی دعائیں اپنی عام حیثیت اور وسعت کےلحاظ سے مفید ہیں اور انفرادی دعائیں ایمان اور اخلاص کی شدت کے لحاظ سے مفید ہیں اور دونوں ہی اپنی جگہ نہایت کارآمد اور مفید چیزیں ہیں۔
پس مَیں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس نازک موقع پر مَیں نے جو تحریک کی ہوئی ہے کہ نمازوں میں امام اورمقتدی مل کر اور الگ الگ کثرت کے ساتھ دعائیں کریں اسے کسی صورت میں بھی نظر انداز نہ کیا جائے بلکہ اس پر زیادہ سے زیادہ پختگی اور مضبوطی کے ساتھ عمل کیا جائے۔ بعض جگہ چونکہ احمدیوں کی مسجدیں نہیں ہیں۔ اس لئے ممکن ہے بعض جماعتیں غفلت سے کام لے رہی ہوں اور انہوں نے التزام کے ساتھ ان دعاؤں کی طرف توجہ نہ کی ہو۔ اگر ایسا ہی ہو اور کسی جماعت میں یہ غفلت اور سستی پائی جاتی ہو تو وہاں کی جماعت کے کسی اور مخلص دوست کو چاہئے کہ یہ کام اپنے ذمہ لے لے اور امام اور مقتدیوں دونوں کو توجہ دلاتارہے کہ وہ کسی نہ کسی نماز میں ان دعاؤں کو جو مَیں بتا چکا ہوں پابندی کے ساتھ مانگتے رہیں۔ ‘‘ (الفضل10،مئی 1942ء)

13
احباب 31 مئی تک چندہ تحریک جدید کے وعدے پورے کر دیں
(فرمودہ 15 مئی 1942ء )

تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’مَیں آج جماعت کو پھر ایک دفعہ تحریک جدید کے چندوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ نئے سال کی تحریک پر چھ ماہ کے قریب گزر گئے ہیں اور گویا وعدوں کی تاریخ کے لحاظ سے میعاد میں سے صرف چھ ماہ باقی ہیں۔ مجھے اس بات سے مسرت ہے کہ اس دفعہ دوستوں نے پہلے بعض سالوں کی نسبت زیادہ مستعدی سے اپنے چندے ادا کرنے کی کوشش کی ہے اور پچھلے سال کی نسبت اس سال انہوں نے پچاس فیصدی زیادہ جلدی سے چندے ادا کئے ہیں۔ گویا گزشتہ سال اگر آج کی تاریخ تک جماعت نے سو روپیہ ادا کیا تھا تو اس سال ڈیڑھ سو ادا کیا ہے۔ مگر پھر بھی پہلے چھ ماہ میں کہ یہی درحقیقت زیادہ زور کے ساتھ کام کرنے کے مہینے ہوتے ہیں۔ ابھی تک نصف وعدے ادا نہیں ہوئے۔ گویا باوجود پچاس فیصدی ادائیگی میں زیادتی کے وعدوں کا نصف ابھی تک ادا نہیں ہؤا بلکہ قریب چالیس فیصدی کے ادا ہؤا ہے۔
پس جہاں یہ بات موجبِ مسرت ہے کہ گزشتہ سالوں کی نسبت کہ جن میں گزشتہ سال بھی مستعدی کا سال تھا کیونکہ اس سال اس سے گزشتہ سالوں کی نسبت دوستوں نے زیادہ مستعدی اور چُستی سے کام لیا تھا۔ اس سال اس مستعدی اور چستی کے سال سے بھی پچاس فیصدی زیادہ دوستوں نے ہمت دکھائی ہے مگر وعدوں کے لحاظ سے ابھی کمی ہے چونکہ وعدہ کی غرض اسے جلد سے جلد پورا کرنا ہوتی ہے۔ اس لئےپہلے چھ ماہ میں کم سے کم وعدوں کا ساٹھ پینسٹھ فیصدی ادا ہو جانا چاہئے مگر ادائیگی اب تک ہوئی ہے 42 فیصدی کے قریب۔
جیسا کہ مَیں نے کئی بار دوستوں کو توجہ دلائی ہے اس روپیہ سے ہماری جماعت کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت بڑی جائداد خریدی جا رہی ہے جس کی قسطیں ادا کی جا رہی ہیں اور ایک لاکھ روپیہ سالانہ کے قریب اس پر خرچ آتا ہے اگر ہم یہ قسطیں ادا کر کے اس جائداد کو چھڑانے کے قابل ہو جائیں تو عام قیمتوں کے لحاظ سے بھی یہ پندرہ سولہ لاکھ روپیہ کی جائداد ہو جاتی ہے اور اگر صحیح طور پر آبادی کی جا سکے تو یہ بیس بائیس لاکھ روپیہ کی جائداد ہو گی اور یہ جائداد گویا ایک ایسا ریزرو فنڈ ہو جائے گا کہ جس سے تحریک جدید کے مستقل اخراجات پورے کئے جا سکیں گے اور مبلغوں کو دنیا میں پھیلایا جا سکے گا لیکن اگر دوست اس وقت چستی اور ہمت سے کام نہ لیں تو یہ بوجھ بالکل بے کار اور بے سود ثابت ہو گا کیونکہ وقت پر اگر قسطیں ادا نہ ہوں تو گورنمنٹ زمین کو ضبط کر سکتی ہے اور بعض دفعہ بڑے بڑے تاوان ڈال دیتی ہے۔
پس چونکہ یہ اقساط مئی میں ادا کی جاتی ہیں۔ مَیں پچھلے سالوں میں بھی دوستوں کو یہ تحریک کرتا رہا ہوں کہ وہ 31، مئی تک اپنے وعدے ادا کرنے کی کوشش کریں اور اب تو مئی کے ختم ہونے میں بہت ہی تھوڑے دن رہ گئے ہیں۔ پھر بھی جن کو خدا تعالیٰ نے عزم اور ہمت دی ہے وہ ان تھوڑے دنوں میں بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں۔
زمیندار احباب کے لئے جون کے آخر تک مدت مقرر ہے اور اگر وہ بھی ہمت کریں تو اپنے وعدوں کا بہت سا حصہ ادا کر سکتے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس زمانہ میں قحط کی وجہ سے بوجھ بہت ہیں مگر اس میں بھی شک نہیں کہ جس وقت انسان کو تباہی کے آثار نظر آتے ہیں تو قربانی کی روح بھی بہت بڑھ جاتی ہے۔ ذلیل ترین وجود بھی ایسے وقت میں بڑی بڑی قربانیاں کر دیتے ہیں ہمارے ملک میں ہر سال یہ سوال علماء و فقہاء کے سامنے پیش ہوتا ہے کہ کوئی کنچنی مسجد کی تعمیر کے لئے روپیہ دینا چاہتی ہے اسے قبول کیا جائے یا نہ کیا جائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے سامنے بھی یہ سوال بار بار پیش ہوتا رہتا تھا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہر سال ہی کچھ کنچنیاں مرتے وقت دین کے لئے اپنی جائداد یا روپیہ وقف کرنا چاہتی ہیں۔ دیکھو انہوں نے یہ روپیہ کتنی بے حیائی سے کمایا ہوتا ہے، وہ عصمت فروشی روپیہ کے لئے ہی کرتی ہیں مگر جب موت سامنے آتی ہے تو وہی روپیہ جس کی خاطر انہوں نے خاندان کی ناک کٹوائی، جس کی وجہ سے وہ اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کے سامنے آتے ہوئے شرماتی ہیں اور جس کی وجہ سے وہ شرفاء میں مُنہ دکھانے کے قابل نہیں ہوتیں ان میں سے بعض جب مرنے لگتی ہیں تو منتیں کرتی ہیں کہ یہ روپیہ لے لو اور کسی دینی کام پر خرچ کر دو۔تو اگر کنچنی بھی مرتے وقت خَشْیتُ اللہِ سے اتنی متاثر ہو جاتی ہے تو مومنوں پر کتنا اثر ہونا چاہئے۔ جتنا جتنا قرب کسی کو اللہ تعالیٰ کا حاصل ہوتا ہے اتنا ہی ایسے موقع پر اس کے دل میں خشیت زیادہ پیدا ہوتی ہے۔ رسول کریم ﷺ کے متعلق آتا ہے کہ جب بادل آتا تو آپ گھبرا کر کبھی کمرہ کے اندر جاتے کبھی باہر آتے۔ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ کیا بات ہے۔ آخر یہ بادل ہی ہیں ان سے گھبرانے کی کیا وجہ ہے۔ آپ نے فرمایا بے شک یہ بادل ہیں مگر تم سے پہلی قوموں پر بھی ایسے بادل آتے تھے اور وہ ان کو دیکھ کر خوش ہوتی تھیں مگر بعض بادل ہی ان کے لئے عذاب ثابت ہوئے اور ان کو تباہ کر گئے۔1 ہمارے ملک میں دیکھو جب گرمیوں میں بادل آئیں تو لوگ کس طرح خوش ہوتے ہیں اور بعض لوگ خوشی سے گاتے ہیں۔ بچے خوش ہو ہو کر اچھلتے اور کودتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کا رسول (ﷺ) جس نے خدا کے کلام میں یہ پڑھا تھا کہ کبھی ان بادلوں سے پتھر بھی برسنے لگتے ہیں اور یہی بادل کبھی عذاب کا موجب بھی بن جایا کرتے ہیں، بادلوں کو دیکھ کر گھبراہٹ میں کبھی باہر آتا ، کبھی کمرہ کے اندر جاتا اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتا کہ اس کے غضب کا بادل نہ آئے اور رحمت کی بارش ہو۔ پس اگر ہمارے آقا و سردار کو بادل دیکھ کر اس قدر گھبراہٹ ہوتی تھی تو ہمیں ان عظیم الشان فوجوں کے بادلوں کو دیکھ کرجو ہماری جانب بڑھتے چلے آ رہے ہیں کتنی گھبراہٹ ہونی چاہئے جن کا مقصد ِ وحید ہی یہ ہے کہ اپنے گولوں اور بموں سے جس قدر زیادہ سے زیادہ لوگوں کو فنا کے گھاٹ اتار سکیں، اتار دیں۔ بادل دنیا میں اکثر رحمت کا اور کبھی کبھی عذاب کا موجب ہؤا کرتے ہیں۔ ایک لاکھ میں سے شاید کوئی ایک بادل تکلیف کا موجب ہوتا ہو مگر فوج اور لشکر کوئی بھی رحمت کا موجب نہیں ہوتا۔ وہ جب بھی آتے ہیں تباہیاں ساتھ لاتے ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ الْمُلُوْكَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْيَةً اَفْسَدُوْهَا وَ جَعَلُوْۤا اَعِزَّةَ اَهْلِهَاۤ اَذِلَّةً۔ 2 یعنی جب بھی کوئی نئے بادشاہ کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں وہ ان کو خراب کر دیتے ہیں اور اس ملک کے معزز لوگوں کو ذلیل کر کے چھوڑتے ہیں۔ دنیا کی تمام تاریخ میں کوئی ایک مثال بھی تو کسی بادشاہ کی نہیں ملتی کہ جو کسی ملک میں داخل ہؤا ہو اور اس نے وہاں کے نظام کا تختہ نہ الٹ دیا ہو۔ اس سلسلہ میں بعض نادان آنحضرت ﷺ کا نام لیا کرتے ہیں مگر وہ جانتے نہیں کہ آنحضرت ﷺ بادشاہ نہ تھے بلکہ آپ اس لفظ کو نفرت و حقارت سے دیکھتے اور خدا سے دور اور لوگوں پر ظلم کرنے والے کے معنوں میں اسے استعمال فرماتے تھے۔ یہ صحیح ہے کہ ہم بھی کبھی کبھی آپ کے متعلق بادشاہ کا لفظ استعمال کر لیتے ہیں مگر یہ تو صرف اپنے اوپر آپ کی حکومت جتانے کے لئے ہے اور یہ اس لفظ کا مجازی استعمال ہے جیسے کبھی کوئی اپنے محسن کو باپ کہہ دیتا ہے مگر اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ وہ اسے اپنی ماں کا خاوند بناتا ہے۔ تو آنحضرت ﷺ کو ہم جو کبھی بادشاہ کہہ لیتے ہیں تو صرف مجازی رنگ میں ورنہ دنیوی مفہوم کے لحاظ سے آپ کو بادشاہ کہنا ویسا ہی ہے جیسے آپ کو گالی دے دی جائے۔ ہاں حاکم ہونے کے لحاظ سے اور یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ ہمارے دلوں پر آپ کی حکومت ہے اگر آپ کو کبھی بادشاہ کہہ لیا جائے تو یہ اَور بات ہے ورنہ بادشاہوں میں اور آپ میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اسی طرح آپ کے خلفاء بھی بادشاہ نہ تھے۔ ابو بکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ، علیؓ ، ان میں سے کوئی بھی بادشاہ نہ تھا۔ ہم ان کو بھی جو کبھی بادشاہ کہہ لیتے ہیں تو یہ بھی مجازی رنگ میں ہے جیسے گو موجودہ زمانہ کی پیری مریدی کے لحاظ سے ہم اسے بہت برا سمجھتے ہیں مگر اس لحاظ سے کہ جماعت کے دوستوں نے میری بیعت کی ہوئی ہے۔ یہ لفظ ہمارے لٹریچر میں بھی استعمال شدہ مل جائے گا۔ مگر یہ صرف نسبت بتانے اور سمجھانے کے لئے ہوتا ہے ورنہ ہم اسے بہت بُرا سمجھتے ہیں۔ اسی طرح رسول کریم ﷺ کی اپنے اوپر حکومت جتانے کے لئے آپ کے متعلق بادشاہ کا لفظ استعمال کر لیتے ہیں ورنہ دنیا کے نزدیک اس کا جو مفہوم ہے اس کے لحاظ سے آپ کے متعلق اس کا استعمال ہرگز جائز نہیں۔ پس جو لوگ آپ کی مثال پیش کرتے اور کہتے ہیں کہ آپ جب مکہ میں داخل ہوئے تو وہاں امن و امان رہا نادان ہیں۔ کیونکہ یہ فعل ایک اولو العزم رسول کا تھا بلکہ نبیوں کے سردار کا، کسی بادشاہ کا فعل نہ تھا ورنہ کوئی امن پسند اور عادل بادشاہ بھی جب کسی ملک میں داخل ہو تو وہ نیا نظام قائم کرتا ہے۔ یوں تو نظام کے لحاظ سے انبیاء بھی تغیر کرتے ہیں مگر ان کا تغیر خیر کا ہوتا ہے۔ مکہ کی حکومت آنحضرت ﷺ کے داخل ہونے کے بعد ویسی نہ تھی جیسے آپ سے پہلے تھی بلکہ اس سے بہت زیادہ بہتر اور اچھی تھی۔ مگر آنحضرت ﷺ سے قبل جن لوگوں کا مکہ میں اثر و رسوخ تھا وہ آپ کے بعد قائم نہ رہا گو آپ نے ان لوگوں کو اس سے محروم نہیں کیا بلکہ فرمایا کہ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیکُمُ الْیَوْمَ 3 لیکن اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا اثر و رسوخ چھین لیا۔ آپ نے ابو جہل، عتبہ اور شیبہ کی جائدادیں نہیں چھینیں اور ان پر کوئی تعدی نہ کی مگر وہ لوگ چونکہ اللہ تعالیٰ کے مجرم تھے اس نے ان کا رسوخ چھین لیا۔ رسول کریم ﷺ نے اپنے رحم کی وجہ سے ایسا نہیں کیا مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ لوگ ہمارے مجرم ہیں ہم ان کی شوکت چھین لیں گے۔ باوجودیکہ رسول کریم ﷺ نے ان پر کوئی عتاب نازل نہ کیا بلکہ کرم اور بخشش کا سلوک کیا اور ان لوگوں پر بہت احسان کئے چنانچہ بعد کی جنگوں میں آپ نے ان لوگوں اور ان کی اولادوں کو سینکڑوں اونٹ دئیے مگر پھر بھی ان میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا جسے وہی عزت حاصل رہی ہو جو پہلے تھی۔ پہلے تو وہ لوگ آنحضرت ﷺ کو بھی اپنا تابع اور ماتحت سمجھتے اور دنیوی لحاظ سے آپ کو اپنے سے ادنیٰ خیال کرتے اور سمجھتے تھے کہ انہوں نے نبوت کا دعویٰ اس لئے کیا ہے کہ ہماری سرداری چھین لیں اور ہم پر حاکم ہو جائیں مگر آخر ایک دن ایسا آیا کہ آپ کے ایک ادنیٰ غلام اور خادم حضرت عمر ؓ مکہ میں حج کرنے کے لئے داخل ہوئے تو وہی لوگ جو اپنے آپ کو مکہ کے حاکم سمجھتے تھے اور آنحضرت ﷺ کو حقیر خیال کرتے تھے ان کے ایک ادنیٰ غلام عمرؓ کہ جو اُس وقت مسلمانوں کا بادشاہ تھا مگر انہی دینی معنوں میں جو مَیں اوپر بیان کر چکا ہوں مکہ میں آیا تو مکہ کے انہی سرداروں کے بیٹے آپ سے ملنے کے لئے آئے تا ان کی اطاعت کا اقرار کریں۔ آپ زمین پر بیٹھے تھے جب یہ لوگ آئے تو آپ نے ان کا اعزاز کیا اور ان سے ہمکلام ہوئے۔ اسی دوران میں ان غلاموں میں سے جن کو ان نوجوانوں کے باپ دادا نہایت حقارت کی نظر سے دیکھتے تھےاور جن کو طرح طرح کی اذیتیں دیتے تھے پاؤں میں رسیاں باندھ کر گلیوں میں گھسیٹتے تھے، ان پر کتّے چھوڑ دیتے تھے، گرم ریت پر لٹا کر سینہ پر وزنی پتھر رکھ دیتے تھےاور اس قدر مارتے تھے کہ ان میں سے بعض کی کھال ایسی سخت ہو گئی تھی جیسے بھینسے کی کھال ہوتی ہے اور جن کو ٹھوکریں مار کر بھی یہ خیال کرتے تھے کہ ہم نے ان کی عزت اَفزائی کی ہے۔ ان میں سے ایک حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملنے آیا، حضرت عمرؓ نے ان سرداروں کے بیٹوں سے کہا کہ ان کے لئے جگہ چھوڑ دو اور ان سے توجہ ہٹا کر ان سے باتیں کرنے لگے۔ پھر انہی غلاموں میں سے کوئی اَور آیا تو آپ نے پھر ان نوجوانوں سے فرمایا کہ ان کے لئے جگہ چھوڑ دو اسی طرح مہاجرین اور انصار میں سے بھی بعض وہ لوگ جن کو مکہ کے رؤساء نہایت حقیر اور ذلیل خیال کرتے تھے، ایک ایک کر کے آتے گئے اور ہر ایک کے آنے پر حضرت عمرؓ ان لوگوں سے کہتے کہ ان کے لئے جگہ چھوڑ دو حتّٰی کہ ہٹتے ہٹتے یہ لوگ جوتیوں میں پہنچ گئے۔ آخر جب یہ نوجوان مجلس سے باہر آئے تو ایک دوسرے سے کہا کہ آج ہماری جو ذلّت ہوئی ہے وہ تم نے دیکھ لی۔ اس پر ان میں سے ایک نے جو زیادہ سعید تھا کہا کہ یہ تو ٹھیک ہے کہ بہت ذلّت ہوئی، مگر یہ قصور کس کا ہے؟ جس وقت ہمارے باپ دادا آنحضرت ﷺ کو طرح طرح کے دکھ دیا کرتے تھے یہ لوگ آپ کے لئے سینہ سپر ہوتے تھے۔ اس لئے اس نظام میں جو خدا تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے ذریعہ قائم کیا ہے پہلی جگہ انہی لوگوں کو مل سکتی ہے ہم کو نہیں۔ اس پر انہوں نے آپس میں پوچھا کہ اس ذلّت کو دھونے کا کوئی ذریعہ بھی ہے۔ آخر انہوں نے آپس میں مشورہ کرنے کے بعد فیصلہ کیا کہ ہماری سمجھ میں تو کچھ نہیں آتا چلو حضرت عمرؓ سے ہی اس کا علاج بھی دریافت کرتے ہیں۔ وہ پھر حضرت عمرؓ کے پاس گئے اور عرض کیا کہ آج کا نظارہ آپ نے دیکھ لیا۔ آپ نےفرمایا ہاں۔ مَیں سمجھتا ہوں، آپ لوگوں کو ضرور تکلیف ہوئی ہو گی مگر وہ لوگ آنحضرتﷺ کے صحابی تھے اور آپ ان کی عزت کیا کرتے تھے اس لئے مَیں مجبور تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہاں ہم اس بات کو تو سمجھتے ہیں کہ ان لوگوں کا وہی مقام تھا جو آپ نے ان کو دیا اور ہمارا وہی تھا جو ہمیں حاصل ہؤا مگر ہم تو یہ پوچھتے ہیں کہ اب ہمارے گناہوں کا بھی کوئی کفارہ ہو سکتا ہے۔ حضرت عمرؓ یہ سن کر تھوڑی دیر خاموش رہے اور پھر سر اٹھا کر فرمایا کہ اسلامی ممالک کی سرحد پر جنگ ہو رہی ہے اگر تم لوگ جاؤ اور اپنی جانیں اسلام کے لئے دے دو تو خدا تعالیٰ کے دربار میں اسی طرح تمہارے گناہوں کا ازالہ ہو سکے گا۔ معلوم ہوتا ہے وہ سب کے سب سچے مسلمان تھے ایمان کی قدر و قیمت کو سمجھتے تھے اور دل سے چاہتے تھے کہ ان کا خدا ان سے راضی ہو۔ چنانچہ وہ فوراً اپنی اپنی اونٹنیوں پر سوار ہوئے اورجنگ کے میدان میں جا پہنچے اور تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ان میں سے کوئی بھی زندہ واپس نہ آیا اور سب کے سب شہید ہو گئے۔4 اور گو ان کے باپ دادا نے تو ان کے لئے ذلّت مول لے لی تھی مگر انہوں نے خدا تعالیٰ کے دربار میں عزت حاصل کر لی۔ یہ وہ لوگ تھے جن کو آنحضرت ﷺ کے ذریعہ عزت ملی تھی۔
پس یہ بادشاہت اَور قسم کی ہے اور روحانی ہے مگر اس میں بھی جیسا کہ اوپر کے واقعہ سے ظاہر ہے خدا تعالیٰ کے فیصلہ کے ماتحت ضرور تغیرات ہوئے اورپہلی عزتیں ضرور برباد ہوئیں۔ پس جب کسی نظام میں تبدیلی ہو خواہ روحانی ہو یا جسمانی، تغیرات ضرور ہوتے ہیں، خواہ اچھے ہوں یا بُرے۔ نئے قوانین بنتے اور نئے اصول وضع ہوتے ہیں اس لئے آجکل جو تغیرات دنیا میں ہو رہے ہیں ان کے متعلق یہ خیال کرنا کہ معمولی ہیں نادانی ہے۔ سینکڑوں سالوں سے دنیا پر کبھی اتنی تباہی نہیں آئی جتنی اب آ رہی ہے۔
پس مَیں ان دوستوں کو جو متبع رسول کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں توجہ دلاتا ہوں کہ تمہارا آقا بادل کو دیکھ کر خشیت اللہ سے بھر جاتا تھا تو تمہارے قلوب اتنے بڑے طوفانوں کودیکھ کر کیوں خشیت اللہ سے بھر نہ جانے چاہئیں اور کیوں تمہاری قربانیاں پہلے سے بہت بڑھ نہ جانی چاہئیں۔ جن لوگوں سے اب تک کوتاہی ہوئی ہے مَیں ان کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ زیادہ ہمت اور زیادہ مستعدی سے کام لیں اور جو کوئی رکاوٹ ان کے رستہ میں ہو اسے دور کریں تا اللہ تعالیٰ ان طوفانوں میں سے ان کے لئے اور ان کی اولادوں کے لئے بہتری کے سامان پیدا کرے اور تا ایسا نہ ہو کہ یہ طوفان ان کے لئے عذاب کا موجب بن جائیں۔ ‘‘
(الفضل 19 مئی 1942ء)
1: ابو داؤد کتاب الادب باب مَا یَقُوْلُ اِذَا ھَاجَتِ الرِّیْحُ
2: النمل: 35
3: السیرة الحلبیة جلد 3 صفحہ 89 مطبوعہ مصر 1935ء
4: اسد الغابة جلد 2 صفحہ 372 مطبوعہ ریاض 1285ھ

14
(1) واقعۂ ڈلہوزی کے متعلق حکومت کا اظہارِ افسوس قبول کر لیا گیا ہے
(2) غرباء کے لئے پانچ سَو مَن غلّہ کی تحریک اور بیرونی غرباء کی امداد کے لئے تاکید
( فرمودہ 22 مئی 1942ء )

تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’قریباً نَو مہینے کا عرصہ گزرا کہ مَیں نے ایک خطبہ میں جو اسی مسجد میں مَیں نے پڑھا تھا۔ اس واقعہ کا ذکر کیا تھا جو ڈلہوزی کے سفر میں مجھے پیش آیا۔ مَیں نے جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ یہ واقعہ اس قسم کا ہے کہ اگر اس کی طرف گورنمنٹ مناسب توجہ نہ کرے تو جائز اور قانونی صورتوں کے ساتھ ہمیں گورنمنٹ پر دباؤ ڈالنا پڑے گا تاکہ وہ انصاف کو قائم کرے اور ظلم کا انسداد کرے۔ پھر مَیں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر جماعت کو دوبارہ اس طرف توجہ دلائی تھی اور کہا تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو انفرادی طور پر مَیں جماعت کے احباب کو ان قربانیوں کے لئے بلاؤں گا جو میرے نزدیک انصاف کے قیام کے لئے ضروری ہیں باوجود اس کے کہ مَیں نے کہہ دیا تھا کہ ابھی وہ وقت نہیں آیا جبکہ دوستوں کو اپنے نام پیش کرنے کی ضرورت ہو اور یہ کہ ابھی ہمیں گورنمنٹ کو وقت دینا چاہئے تاکہ اگر وہ اس واقعہ پر اظہارِ افسوس کرنا چاہے تو کر دے۔ پھر بھی ہماری جماعت کے بعض مخلصوں نے اسی وقت اپنے نام پیش کرنے شروع کر دئے تھے اور بعض نے اعلان کا انتظار کیا۔ گو دلوں میں ہر قربانی پر آمادہ ہو گئے فَجَزَاھُمُ اللہُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ۔ یہ سوال نَو مہینے تک برابر گورنمنٹ اور ہمارے درمیان چلتا رہا۔ اس کے متعلق گورنمنٹ نے لوکل تحقیقات بھی کرائی ہے اور پھر پولیس کے ڈی۔آئی۔ جی بھی یہاں تحقیقات کے لئے آئے تھے۔ غالباً دسمبر یا نومبر کا مہینہ تھا جبکہ وہ آئے۔
ایک حاسد نے گزشتہ ایام میں لکھا تھا کہ احمدی جماعت اپنا نظام لئے پھرتی ہے تم کو نظام نے کیا فائدہ دیا۔ ڈلہوزی کے واقعہ پر ہی گورنمنٹ تمہاری کوئی تسلی نہ کر سکی۔ مَیں نے اس وقت جواب میں کچھ لکھنا مناسب نہیں سمجھا تھا کیونکہ ابھی معاملہ چل رہا تھا حالانکہ اس کا جواب مَیں اسی وقت دے سکتا تھا کہ جہاں تک امام جماعت احمدیہ کا سوال ہے۔ گورنمنٹ شروع میں ہی اظہارِ افسوس کر چکی تھی لیکن ہماری بحث گورنمنٹ سے یہ نہیں تھی کہ امام جماعت احمدیہ سے یہ واقعہ پیش نہیں آنا چاہئے تھا بلکہ ہماری بحث یہ تھی کہ کسی ہندوستانی سے بھی ایسا واقعہ نہیں ہونا چاہئے چنانچہ گورنمنٹ نے جو مجھے اس وقت چِٹھی لکھی تھی اس میں اس نے لکھا تھا کہ افسوس ہے کہ ہمیں غلطی لگی اور ہمیں اس وقت یہ معلوم نہیں ہؤا کہ امام جماعت احمدیہ کا اس سے کوئی تعلق ہے۔ مَیں نے اسی وقت اس چِٹھی کے جواب میں گورنمنٹ کو لکھ دیا تھا کہ میری اس جواب سے تسلی نہیں ہو سکتی کیونکہ میرا سوال انصاف کے قیام کے متعلق ہے۔ میرا سوال یہ نہیں کہ امام جماعت احمدیہ سے اس قسم کا واقعہ پیش نہیں آنا چاہئے تھا بلکہ میرا سوال یہ ہے کہ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ کسی ہندوستانی کو بھی ایسا واقعہ پیش نہ آئے۔ پس اس کا یہ اعتراض کہ جماعت کے نظام کا کوئی فائدہ نہ ہؤا۔ بے محل اعتراض تھا کیونکہ جہاں تک امام جماعت احمدیہ کا تعلق تھا۔ گورنمنٹ چند دنوں کے اندر اندر معذرت کا اظہار کر چکی تھی اور مَیں نے اس معذرت کو قبول نہیں کیا تھا اس لئے کہ میرے نزدیک امام جماعت احمدیہ ہونے کی حیثیت سے حکومت کی معذرت کافی نہ تھی۔
درحقیقت کوئی مومن صرف اس بات پر خوش نہیں ہو سکتا کہ اس کے ساتھ بد سلوکی نہیں ہوتی بلکہ مومن کا کام یہ ہے کہ وہ کسی کے ساتھ بھی بدسلوکی نہ ہونے دے۔ بہرحال گورنمنٹ کی وہ چِٹھی ہمارے پاس موجود ہے او راس سے اس معترض کے اعتراض کا جواب ہو سکتا ہے کہ اس رنگ میں ازالہ پہلے ہی گورنمنٹ کر چکی ہے مگر ہمارا مطالبہ گورنمنٹ سے یہ نہیں تھا اورنہ ہمیں اس معاملہ میں درحقیقت کوئی ایسا خیال ہو سکتا ہے کیونکہ جہاں تک امام جماعت احمدیہ کا سوال ہے۔ امام جماعت احمدیہ ہونے کے لحاظ سے اور سلسلۂ احمدیہ کے لحاظ سے ہمارا یقین ہے کہ جو خدائی سلسلے ہوتے ہیں ان کے کارکنوں کی کوئی شخص ہتک نہیں کر سکتا اور جو بظاہر ہتکیں نظر آتی ہیں وہ ان ہتک کرنے والوں کا اپنی گردنوں پر اپنا وار ہوتا ہے۔
رسول کریم ﷺ کے متعلق حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ آپ نماز پڑھ رہے تھے جب آپ سجدہ میں گئے تو ابو جہل نے اونٹ کی اوجھڑی اور انتڑیاں لا کر آپؐ کے سر پر رکھ دیں۔ اونٹ کی اوجھڑی اور انتڑیاں بڑی بھاری چیز ہیں پھر وہ گندی اور غلیظ چیز ہیں مگر بہرحال اس نے ایسا کیا۔ اب اس نے تو اپنے دل میں سمجھا ہو گا کہ اس نے اس فعل سے رسول کریم ﷺ کی ہتک کر دی مگر جاننے والے جانتے رہیں گے کہ ابو جہل نے اونٹ کی اوجھڑی اور اونٹ کی انتڑیاں رسول کریم ﷺ کی گردن پر نہیں رکھیں بلکہ اس نے اپنی اوجھڑی اور اپنی انتڑیاں اپنی گردن میں لٹکائی تھیں۔ اب واقعہ تو یہ ضرور ہؤا کہ اونٹ کی اوجھڑی اور انتڑیاں رسول کریم ﷺ کی گردن پر رکھی گئیں چنانچہ ساری تاریخیں بتاتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے ساتھ یہ واقعہ ہؤا اور تاریخوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس سے رسول کریم ﷺ کو تکلیف ہوئی اور آپ سجدہ سے اپنا سر نہ اٹھا سکے یہاں تک کہ بعض صحابہ آئے اور انہوں نے اس بوجھ کو رسول کریم ﷺ پر سے دور کیا 1 مگر اس سے رسول کریم ﷺ کی کیا ہتک ہو گئی۔ آج تک ہم فخر سے اس واقعہ کو بیان کرتے ہیں اورہم جب کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کی گردن پر ابو جہل نے اونٹ کی اوجھڑی اور انتڑیاں لا کر رکھ دیں تو ہمارے دل شرمندگی محسوس نہیں کرتے بلکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس نے رسول کریم ﷺ کی نبوت اور آپ کی صداقت کا ثبوت لوگوں کے سامنے پیش کر دیا کیونکہ ہمیشہ دنیادار لوگ انبیاء کی مخالفت کرتے، ان کو دکھ دیتے، انہیں قسم قسم کی اذیتیں پہنچاتے اورہر رنگ میں ان کی ہتک کی کوشش کرتے ہیں مگر یہ ہتک ان نبیوں کی نہیں ہوتی بلکہ خود دشمنوں کی ہوتی ہے۔ یہیں قادیان میں ایک دفعہ غیر احمدیوں کا جلسہ ہؤا۔ مولوی ثناء اللہ صاحب کو بھی انہوں نے تقریر کے لئے بلایا۔ انہوں نے بڑے فخر سے بیان کیا کہ قادیانی میرے مقابلہ میں اپنی کامیابی کے دعوے کرتے رہتے ہیں۔ ان کا امام میرے ساتھ کلکتے تک چلے اور پھر دیکھے قادیان سے کلکتے تک کس کو پھول پڑتے ہیں اورکس پر پتھر برستے ہیں۔ مَیں نے اس کے جواب میں کہا کہ مولوی ثناء اللہ صاحب نے اپنے جھوٹے ہونے کی خود شہادت دے دی ہے کیونکہ دنیا جانتی ہے کہ پتھر ابو جہل کو پڑے تھے یا محمد ﷺ کو پڑے تھے۔ پتھرفرعون کو پڑے تھے یا موسیٰ کو پڑےتھے۔ بے شک اگر مَیں ان کے ساتھ جاؤں تو قادیان سے کلکتے تک ان پر پھول پڑیں گے اور مجھ پر پتھر۔ مگر اس طرح قادیان سے کلکتے تک کی زمین کا ہر چپہ یہ شہادت بھی دے گا کہ مَیں محمد ﷺ کا خلیفہ ہوں اور مولوی ثناء اللہ صاحب ابو جہل کے مثیل ہیں۔ ہر پھول جو ان پر پڑے گا وہ انہیں ابو جہل ثابت کرے گا اور ہر پتھر جو مجھ پر پڑے گا وہ مجھے محمد ﷺ کا نائب اور آپ کا خلیفہ ثابت کرے گا۔ غرض ان باتوں سے کیا بنتا ہے؟ ان سے خدائی سلسلوں کی ہتک نہیں ہؤا کرتی، صرف اس سے اس کینے اور بغض کا پتہ چل جاتا ہے جو مخالفوں کے دلوں میں ہوتا ہے اور یہی کینہ اور بُغض بعض دفعہ گورنمنٹ کے بعض افسروں میں بھی پایا جاتا ہے۔ وہ مذہب کے اختلاف کی وجہ سے پہلے ہی دوسرے مذاہب کے لوگوں سے تعصب رکھتے ہیں پھر جب افسر بنتے ہیں تو اس وقت بھی اس غضب کا شکار ہوتے ہیں چنانچہ دیکھ لو ایک تھانیدار جب اپنی کرسی پر بیٹھتا ہے تو اس وقت اسلام کا تعصب یا ہندو مذہب کا تعصب یا سکھ مذہب کا تعصب اس کے دل سے نکل تو نہیں جاتا۔ ہزارہا واقعات دنیا میں ایسے ہوتے رہتے ہیں جن کے متعلق لوگ کہتے ہیں کہ فلاں مسلمان تھانیدار تھا۔ اس لئے اس نے مسلمانوں کی رعایت کی یا فلاں ہندو تھانیدار تھا اس نے ہندوؤں کی رعایت کی یا فلاں سکھ تھانیدار تھا اس نے سکھوں کی رعایت کی۔ ابھی گزشتہ دنوں ڈھاکہ میں فسادات ہوئے تھے۔ گورنمنٹ نے بڑے بڑے معزز افسر اس کی تحقیق کے لئے بطور کمیشن مقرر کئے۔ کل پرسوں ہی ان کی رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ ہم تحقیقات کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ فسادات کے دوران میں پولیس کے افسروں نے تعصب سے کام لیا اورجس جس مذہب کے ساتھ کوئی پولیس افسر تعلق رکھتا تھا۔ اس مذہب کے افراد کو اس نے بچانے کی کوشش کی۔ تو یہ تعصب دلوں سے نکل تو نہیں جاتا سوائے اس کے کہ جہاں کوئی حقیقی نقصان پہنچنے والا ہوتا ہے، وہاں اللہ تعالیٰ دلوں پر تصرف کر کے حالات کو بدل دے تو اَور بات ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کا یہ ایک مشہور واقعہ ہے کہ ایک پادری نے آپ پر نالش کی اور یہ نالش امرتسر میں ہوئی۔ ہو سکتا تھا کہ وہ مقدمہ امرتسر میں ہی چلتا مگر وہاں سے ڈپٹی کمشنر کو خیال پیدا ہؤا یا اسے گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر نے جب تعمیل کے لئے سمن گورداسپور پہنچے تو لکھا کہ امرتسر میں یہ مقدمہ نہیں ہو سکتا اور اس نے اس بات کو تسلیم کر لیا گو ہمارے وکلاء کہتے ہیں کہ یہ اس کی غلطی تھی ۔ یہ مقدمہ امرتسر میں بھی چل سکتا تھا مگر بہرحال یہ مقدمہ گورداسپور میں دائر ہؤا۔ اس وقت گورداسپور میں ایک ایسے ڈپٹی کمشنر صاحب تشریف لائے ہوئے تھے جو سخت متعصب عیسائی تھے۔ اب تو وہ ہماری جماعت کے گہرے دوست ہیں اور اس نشان کا وہ ہمیشہ ذکر کیا کرتے ہیں مگر اس وقت ان کی یہ حالت تھی کہ جب وہ گورداسپور میں آئے تو انہوں نے اپنے بعض اہلکاروں سے کہا کہ مَیں نے سنا ہے کہ اس ضلع میں ایک شخص مسیح ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور اس طرح ہمارے خداوند یسوع مسیح کی ہتک کرتا ہے۔ کیا اب تک اسے کسی افسر نے گرفتار کرنے کی کوشش نہیں کی۔ غرض اس وقت وہ سخت تعصب رکھتے تھے اور مقدمہ امرتسر سے بدل کر انہی کے پاس پہنچا۔ انہوں نے مقدمہ کی اہمیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اسے اپنی عدالت میں ہی رکھ دیا۔ اب ایک ایسا انسان جس کے دل میں اس قسم کا تعصب ہو اس کے متعلق یہ بالکل ممکن تھا کہ ایک طرف کی باتیں اس پر اثر کر جاتیں اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف فیصلہ کر دیتا بالخصوص ایسی حالت میں جبکہ یہ مقدمہ ایک پادری کی طرف سے تھا مگر اللہ تعالیٰ کے تصرفات کو دیکھو کہ اس مقدمہ کی پیشی بٹالہ میں ہوئی اور پہلا تغیر خدا تعالیٰ نے اس رنگ میں کیا کہ باوجود اس بات کے کہ انسپکٹر پولیس غیر احمدی مسلمان تھا اور سررشتہ دار بھی غیر احمدی مسلمان تھا اور اس وجہ سے ان سے مخالفت کا زیادہ ڈر تھا مگر وہ دونوں شریف الطبع تھے۔ جو دوست اُس وقت سررشتہ دار تھے اور جو بعد میں احمدی بھی ہو گئے تھے ان سے جب ڈپٹی کمشنر نے اس مقدمہ کا ذکر کیا اور ان سے مشورہ لیا تو انہوں نے کہا مرزا صاحب بڑے شریف آدمی ہیں اور گورنمنٹ برطانیہ کے بہت وفادار ہیں۔ مقدمہ کے بعد جو صورت ہو وہ ہو مگر مقدمہ سے پیشتر کوئی ایسی کارروائی نہیں کرنی چاہئے جس سے ان کی کسی رنگ میں ہتک ہو۔ پھر انہوں نے پولیس سے مشورہ لیا تو انسپکٹر پولیس جن کا نام غالباً جلال الدین تھا انہوں نے بھی یہی مشورہ دیا۔ آخر انہوں نے ایسے رنگ میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بلایا جس میں آپ کا اعزاز قائم رہتا تھا۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام عدالت میں پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے ڈپٹی کمشنر پر ایسا اثرکیا کہ بجائے اس کے کہ وہ آپ کو ملزموں کے کٹہرے میں کھڑا کرتا اس نے کمرۂ عدالت میں اپنے پاس کرسی بچھا کر آپ کو اس پر بٹھا دیا۔ وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام پر مقدمہ دائر ہونے کی خوشی میں دوڑتے پھرتے تھے اور باوجود مسلمان ہونے کے اور باوجود اس بات کے کہ یہ مقدمہ ایک عیسائی کی طرف سے تھا اس بات پر خوش تھے کہ اب مرزا صاحب کو سزا ہو جائے گی۔ انہوں نے جب عدالت میں آپؑ کو ڈپٹی کمشنر کے پاس کرسی پر بیٹھے دیکھا تو وہ غصہ سے جَل بُھن گئے۔ اسی دن عیسائیوں کی طرف سے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بھی بطور گواہ پیش ہونے والے تھے اور وہ اس امید میں تھے کہ جب میں کمرۂ عدالت میں داخل ہوں گا تو مرزا صاحب کو ہتھکڑی لگی ہوئی ہو گی اور وہ ملزموں کے کٹہرے میں نہایت ذلت کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور جب مجھے دیکھیں گے تو بہت شرمندہ ہوں گے مگر جب وہ اندر داخل ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ ڈپٹی کمشنر کے پہلو میں کرسی بچھی ہوئی ہے اور بجائے ملزموں کے کٹہرے میں کھڑے ہونے کے وہ ملزم نہایت اعزاز کے ساتھ عدالت کے پاس اس کرسی پر بیٹھا ہؤا ہے۔ یہ دیکھ کر اُن کو آگ لگ گئی۔ وہ اپنی گواہی تو بھول گئے اور ڈپٹی کمشنر سے کہنے لگے۔ صاحب سے مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے بھی عدالت میں کرسی ملنی چاہئے۔ ڈپٹی کمشنر نے کہا تم کو کس وجہ سے کرسی دی جائے۔ تم گواہ کی حیثیت سے آئے ہو اور گواہوں کو کرسی نہیں ملا کرتی۔ انہوں نے کہا مَیں تو گواہ ہوں جب آپ نے ملزم کو کرسی دے رکھی ہے تو مجھے کیوں کرسی نہیں مل سکتی۔ مجھے بھی کرسی ملنی چاہئے۔ اس پرڈپٹی کمشنر نے کہا ہم جانتے ہیں کہ کس کا ادب اور احترام کرنا چاہئے۔ مرزا صاحب کے خاندان سے ہم واقف ہیں اور جانتے ہیں کہ گورنمنٹ ان کے خاندان کو کس عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتی چلی آ رہی ہے اس لئے انہیں جائز طور پر کرسی دی گئی ہے مگر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی بد قسمتی کہ وہ پھر بھی خاموش نہ رہے اور درحقیقت جب خدا تعالیٰ کی طرف سے کسی کے خلاف کوئی فیصلہ ہو جائے تو وہ ذلت سے کہاں بچ سکتا ہے۔ بجائے اس کے کہ مولوی محمد حسین بٹالوی خاموش رہتے، وہ کہنے لگے۔ لاٹ صاحب کے پاس مَیں ملنےکے لئے جاتا ہوں تو وہ مجھے کرسی دیتے ہیں۔ آپ عدالت میں مجھے کیوں کرسی نہیں دیتے؟ ڈپٹی کمشنر کہنے لگا اگر ایک چوہڑا بھی ہمیں اپنے مکان پر ملنے آئے تو ہم اسے کرسی دے دیتے ہیں مگر یہ عدالت کا کمرہ ہے یہاں اسی کو کرسی ملے گی جس کی خدمات کو گورنمنٹ جانتی ہو۔ اس پر انہوں نے پھر اصرار کیا اور کہا کہ مجھے ضرور کرسی ملنی چاہئے۔ آخر ڈپٹی کمشنر نہایت غصے سے انہیں کہنے لگا۔ بَک بَک مت کر پیچھے ہٹ اورجوتیوں میں کھڑا ہو جا۔
غرض وہ تو یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام عدالت میں نَعُوْذُ بِاللہ نہایت ذلت سے کھڑے ہوں اور انہیں ہتھکڑی لگی ہوئی ہو اور وہ سمجھتے تھے کہ یا تو انہیں گرفتار کر کے عدالت میں لایا جائے گا یا کم از کم ملزموں کے کٹہرے میں آپ کو ضرور کھڑا کیا جائے گا مگر انہوں نے دیکھا تو یہ کہ کمرۂ عدالت میں ڈپٹی کمشنر کے پاس ملزم ایک کرسی پر بیٹھا ہؤا ہے۔ اب یہ ایک غیر معمولی تغیر ہے جو خدا تعالیٰ نے کیا اور جس نے ڈپٹی کمشنر کے دل پر تصرف کر کے اسے ایسا سلوک کرنے پر مجبور کر دیا۔ آجکل ہماری جماعت کتنی منظم اورکتنی پھیلی ہوئی ہے مگر اب بھی ہمارے ساتھ یہ سلوک نہیں ہوتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے ساتھ یہ سلوک محض الٰہی تصرف کا نتیجہ تھا ورنہ بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام بعض اَور عدالتوں میں پیش ہوئے ہیں اور آپؑ کو کھڑا رہنا پڑا ہے مگر اس وقت چونکہ مقابلہ میں ایک عیسائی دشمن تھا اور مسلمان بھی آپ کو گرانے کے لئے عیسائیوں کے ساتھ مل گئے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ معجزہ دکھا دیا کہ بجائے اس کے کہ وہ آپؑ کو ذلت کی حالت میں دیکھتے۔ انہوں نے آپ کو نہایت اعزاز کے ساتھ کمرۂ عدالت میں ڈپٹی کمشنر کے پاس بیٹھے دیکھا۔ پھر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی ذلت کا یہیں پر خاتمہ نہیں ہؤا بلکہ جب وہ بیان دے کر کمرہ سے باہر نکلے تو برآمدہ میں ایک کرسی پڑی ہوئی تھی اس کرسی پر وہ بیٹھ گئے تاکہ کم از کم باہر کے لوگ جب انہیں برآمدہ میں کرسی پر بیٹھے ہوئے دیکھیں تو یہ خیال کر لیں کہ اندر بھی انہیں کرسی ملی ہو گی مگر خدا تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ حاکم کے اثر کے نیچے اس کے ماتحت بھی ہوتے ہیں۔ عدالت کا چپڑاسی جو کمرہ میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا حال دیکھ چکا تھا اور جسے معلوم تھا کہ صاحب ان پر سخت ناراض ہوئےہیں اس نے جب دیکھا کہ وہ باہر برآمدہ میں کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں تو وہ ڈرا کہ کہیں صاحب مجھ پر ناراض نہ ہو جائیں چنانچہ وہ دوڑا دَوڑا آیا اور کہنے لگا مولوی صاحب کرسی چھوڑئیے۔ آپ کو یہاں بیٹھنے کا حق نہیں ہے۔ چنانچہ مولوی صاحب با دلِ ناخواستہ وہاں سے اٹھے اور باہر آئے جہاں لوگوں کا بہت سا ہجوم تھا اور خیا ل کیا کہ ان کو تو میری ذلت کا علم نہیں یہیں کوئی بیٹھنے کے لئے اچھی سی جگہ مل جائے تو بیٹھ جاؤں۔ چنانچہ وہاں زمین پر کسی نے اپنی چادر بچھائی ہوئی تھی۔ مولوی صاحب اسی چادر پر بیٹھ گئے تا کہ لوگ یہ سمجھیں کہ پبلک میں انہیں اعزاز حاصل ہے مگرچادر کا مالک دوڑا دوڑا آیا اور کہنے لگا میری چادر چھوڑ دو۔ تم عیسائیوں کی طرف سے ایک مسلمان کے خلاف گواہی دینے کے لئے آئے ہو تم نے تو میری چادر پلید کر دی ہے۔ آخر مولوی صاحب کو وہاں سے بھی نہایت ذلت کے ساتھ اٹھنا پڑا۔
اب دیکھو یہ کیسا ایک سلسلہ ہے اس ذلت کا جو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو پہنچی اور کیسی غیر معمولی عزت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کو حاصل ہوئی مگر یہ ایک الٰہی تصرف تھا۔ مجھے ان کے جو سر رشتہ دار تھے۔ انہوں نے بعد میں خود سنایا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے مقدمہ کی پیشی سے فارغ ہو کر ڈپٹی کمشنر سٹیشن پر پہنچا تو بٹالہ سٹیشن پر نہایت اضطراب کے ساتھ ٹہلنے لگ گیا۔ وہ کہتے ہیں تھوڑی دیر تو مَیں دیکھتا رہا آخر مَیں نے آگے بڑھ کر کہا کہ صاحب ویٹنگ روم میں کرسی پر تشریف رکھئے۔ٹہلنے کی کیا ضرورت ہے۔ وہ کہنے لگا نہیں۔ مَیں اس وقت کرسی پر نہیں بیٹھ سکتا اور پھر ٹہلنے لگ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد مَیں نے پھر کہا کہ صاحب آپ کو تکلیف ہو گی، دھوپ کا وقت ہے آپ ویٹنگ روم میں تشریف لے چلیں۔ مگر وہ پھر کہنے لگا کہ ٹھہرو مجھے ابھی کچھ نہ کہو۔ خیر کچھ دیر مَیں اَور انتظار کرتا رہا آخر مَیں نے پھر کہا کہ صاحب آپ ٹہل کیوں رہے ہیں۔ ویٹنگ روم میں کیوں تشریف نہیں رکھتے۔ منشی غلام حیدر صاحب ان کا نام تھا اوروہ راولپنڈی کے رہنے والے تھے۔ انہوں نے سنایا کہ جب مَیں نے بار بار ڈپٹی کمشنر سے یہ بات کہی تو اس نے مجھے قریب بلایا اور کہا مجھے اس وقت بڑی سخت تکلیف ہے اور اگر میری اس تکلیف کا ازالہ نہ ہؤا تو مَیں سمجھتا ہوں مَیں پاگل ہو جاؤں گا۔ مَیں نے کہا کیا تکلیف ہے۔ کہنے لگا مَیں نے جس وقت سے مرزا صاحب کی شکل دیکھی ہے میرے دل میں یہ کامل یقین پیدا ہو گیا ہے کہ مرزا صاحب مجرم نہیں ہیں۔ ادھر مَیں دیکھتا ہوں کہ شہادت ان کے خلاف ہے۔ اور جس نے مقدمہ کیا ہے وہ ایک معزز پادری ہے جسے جھوٹا سمجھنے کی بظاہر کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ اب میری یہ حالت ہے کہ مرزا صاحب کی شکل دیکھنے کے بعد مَیں جس طرف دیکھتا ہوں مرزا صاحب کی تصویر میرے سامنے آ جاتی ہے اوروہ کہتی ہے مَیں مجرم نہیں۔ مَیں اس سے بری ہوں۔ پس میری حالت اس وقت بالکل پاگلوں کی سی ہے۔ عدالت اور قانون کہتا ہے کہ مَیں ان کو سزا دوں مگر ادھر میرے سامنے ہر وقت ان کی تصویر رہتی ہے اور وہ میری آنکھوں کے سامنے سے ہٹتی ہی نہیں اور وہ تصویر مجھے یہ کہتی ہے کہ مَیں مجرم نہیں ہوں۔ مَیں سمجھتا ہوں اگر مجھ پر یہی حالت طاری رہی تو مَیں پاگل ہو جاؤں گا۔ وہ کہتے ہیں مَیں نے ڈپٹی کمشنر سے کہا کہ آپ اندر تشریف رکھئے مَیں ابھی سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس کو بلاتا ہوں۔ آپ ان سے اس بارہ میں مشورہ لیں۔ چنانچہ سپرنٹنڈنٹ پولیس کو بلایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ بات یہ ہے کہ میرے دل پر بھی یہی اثر ہے کہ یہ مقدمہ جھوٹا ہے مگر اس میں خود عدالت کی غلطی ہے جس شخص کو مرزا صاحب کے خلاف گواہ پیش کیا جاتا ہے اسے پادریوں کے حوالے کیا ہؤا ہے اور وہ اس سے جو جِی چاہتا ہے کہلوا لیتے ہیں حالانکہ اسے پولیس کے حوالے کرنا چاہئے تھا۔ آپ اس گواہ کو میرے حوالے کر دیں مَیں اس کا بیان لے کر اصل حقیقت معلوم کرنے کے لئے تیار ہوں۔ ڈپٹی کمشنرنے آرڈر دے دیا کہ عبد الحمید کو پادریوں سے لے کر سپرنٹنڈنٹ پولیس کے حوالے کیا جائے۔ سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس کا بیان ہے کہ جب مَیں نے اس سے بیان لیا تو پہلے تو اس نے وہی بیان دیا جو پادریوں کے سکھلانے پر دے چکا تھا مگر مَیں نے اسے کہا کہ جو بات ہے سچ سچ بیان کر دو اور بہت دیر میں اسے نصیحت کرتا رہا کہ جھوٹ نہیں بولنا چاہئے اور جو اصل واقعہ ہے وہ سچ سچ بیان کر دینا چاہئے۔ وہ کہتے ہیں مَیں نے دیکھا کہ اس دوران میں وہ کبھی کچھ کہنے کی کوشش کرتا مگر پھر رک جاتا۔ آخر مَیں نے اسے کہا اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ تمہیں صحیح واقعات بیان کر دینے کے بعد پھر پادریوں کے حوالے کر دیا جائے گا اور وہ تمہیں دکھ دیں گے تو مَیں تمہیں اطمینان دلاتا ہوں کہ تمہیں مشن والوں کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔ تم جو کچھ واقعہ ہے سچ سچ بیان کر دو۔ اس پر وہ روتا ہؤا سپرنٹنڈنٹ پولیس کے قدموں میں گر گیا اور کہنے لگا کہ پادریوں نے مجھے سکھلا کر مجھ سے جھوٹا بیان دلوایا ہے ورنہ حضرت مرزا صاحب بالکل بری ہیں۔
اب یہ ایک ایسا الٰہی تصرف تھا جو ڈپٹی کمشنر کے دل پر ہؤا اور جس نے حالات کو بالکل بدل دیا۔ پس اگر کسی جگہ خاص طور پر سلسلہ پر زد پڑتی ہو یا دشمن کو کوئی خاص جھوٹی خوشی نصیب ہوتی ہو جس کا دکھانا اللہ تعالیٰ کو منظور نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اپنے خاص تصرف کے ماتحت اس قسم کے سامان بھی پیدا کر دیا کرتا ہے۔ جن سے دشمنوں کو جھوٹی خوشی بھی نصیب نہیں ہوتی اور سلسلہ دشمن کی زد سے محفوظ رہتا ہے ورنہ عام طور پر انبیاء کی ہتک کرنے والے ان کی ہتک کرنے کی کوشش کیا ہی کرتے ہیں اور جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے اس سے انبیاء کی نہیں بلکہ خود ان کی ہتک کرنےو الوں کی ہتک ہوتی ہے اور وہی لوگ جو نبیوں کی ہتک کرنے والے ہوتے ہیں جب بعد میں ایمان لے آتے ہیں یا اگر وہ ایمان نہیں لاتے اور ان کی نسلیں ایمان لاتی ہیں تو اس وقت وہ سخت شرمندہ ہوتے ہیں اور ان کا نفس ایسی ذلت محسوس کرتا ہے جسے وہ کبھی بھول نہیں سکتے۔ درحقیقت یہ ان کے دل پر ایک بڑا بھاری زخم ہوتا ہے کہ کچھ تو ان میں سے انبیاء کے مقابلہ میں مارے جاتے ہیں اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو بعد میں صداقت کو قبول کر لیتے ہیں مگر ساری عمر ان کے دلوں پر یہ گھاؤ رہتا ہے کہ انہوں نے انبیاء اور ان کی جماعتوں کو تکلیف دی اور ان پر کئی قسم کے ظلم کئے۔ تو اللہ تعالیٰ کے انبیاء اوران کی جماعتوں کی کبھی ہتک نہیں ہوتی، نہیں ہو سکتی۔ پس اس میں ہماری ہتک کا کوئی سوال ہی نہیں۔ وہ ہتک نہ ہماری ہوئی ہے اور نہ انبیاء اوران کی جماعتوں کی ہو سکتی ہے۔ حضرت مسیح ؑ کو اگر لوگوں نے صلیب پر چڑھا دیا تو اس سے ان کی کیا ہتک ہو گئی۔ اسی طرح ان کی جماعت کو اگر تکلیف دی گئی تو اس سے وہ کیسے ذلیل ہوئی۔ پس سوال ہتک کا نہیں تھا بلکہ سوال یہ تھا کہ ایک گورنمنٹ جس سے ہم تعاون کرتے ہیں قدرتی طور پر ہم اس سے حق اورانصاف چاہتے ہیں تاکہ ہمارا تعاون ناجائز نہ ہو۔ اگر ایک گورنمنٹ کے متعلق ہمیں یقینی طور پر یہ پتہ لگ جائے کہ وہ ظالم ہے اور انصاف سے کام نہیں لیتی تو اس سے تعاون کرنا ہمارے لئے ناجائز ہو جائے گا۔
غرض ہمارے اور گورنمنٹ کے درمیان اس معاملہ کے متعلق عرصہ تک خط و کتابت ہوتی رہی۔ ڈیڑھ مہینہ کی بات ہے کہ گورنمنٹ نے کمشنر صاحب لاہور کو اس غرض کے لئے مقرر کیا کہ وہ اس معاملہ کے متعلق میرے پاس اظہارِ افسوس کریں چنانچہ وہ گورداسپور آئے اور ان کی چٹھی مجھے آئی کہ مَیں آپ سے ملنا چاہتا ہوں کیا آپ مجھے یہاں آ کر مل سکتے ہیں؟ اور اگر آپ نہ مل سکتے ہوں تو اپنے کسی رشتہ دار کو ہی بھجوا دیں کیونکہ گورنمنٹ کی طر ف سے مَیں ایک پیغام لایا ہوں۔ جو آپ کو پہنچانا چاہتا ہوں مجھے قبل از وقت معلوم ہو چکا تھا کہ کمشنر صاحب لاہور اس غرض کے لئے آنے والے ہیں چنانچہ مَیں نے انہیں کہلا بھیجا کہ مجھے اگر آپ سے ملاقات کی ضرورت ہوتی تو مَیں خود آپ کے پاس آتا مگر چونکہ کام آپ کو ہے اس لئے میرے آنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اگر کسی افسر کو مجھ سے کوئی کام ہے تو یہ اس کا فرض ہے کہ وہ میرے پاس آئے۔ نہ یہ کہ مَیں اس کے پاس جاؤں۔باقی مجھے معلوم ہے کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ گورنمنٹ کی طرف سے آپ کو واقعۂ ڈلہوزی پر اظہار افسوس کرنے کے لئے بھیجا گیا ہے۔ مگر آپ مجھے یہ بتائیں کہ وہ واقعہ گورنمنٹ کی نادانی سے پریس میں آ چکا اور سارے ہندوستان میں مشہور ہو چکا ہے۔ اب اگر مَیں یہ اعلان کر دوں کہ گورنمنٹ نے اپنی غلطی کا ازالہ کر دیا ہے اور اس نے اپنے فعل پر اظہار افسوس کیا ہے تو دشمن ہنسے گا اورکہے گا کہ خود ہی ایک بات بنا لی گئی ہے ور نہ گورنمنٹ نے اظہار افسوس نہیں کیا۔ جیسے ہمارے پنجابی زبان میں ضرب المثل ہے کہ ‘‘آپے میں رجّی پجّی! آپے میرے بچے جیون۔’’ اگر گورنمنٹ اس فعل پر اظہارِ ندامت کرنا چاہتی ہے۔ تو اسے چاہئے کہ تحریراً کرے تاکہ دنیا کے سامنے اس تحریر کو رکھا جا سکے۔ چنانچہ انہوں نے میری اس بات کو درست سمجھا اور جو آدمی میری طرف سے گیا تھا اسے کہلا بھیجا کہ مَیں تو ایسی تحریر نہیں دے سکتا کیونکہ مجھے اجازت نہیں البتہ مَیں گورنمنٹ کو آپ کی یہ بات پہنچا دوں گا۔ اس کے بعد اپریل کی 27 تاریخ کو گورنمنٹ کی طرف سے چِٹھی آئی جس کا پیغام پہلے صرف زبانی بھیجا گیا تھا۔یہ چِٹھی 27 اپریل کو چلی ہے اور 28 اپریل کو یہاں پہنچی ہے۔ یہ چِٹھی ہوم سیکرٹری مسٹر ویس کی طرف سے ہے۔ چِٹھی کے الفاظ یہ ہیں:۔
“No 2952-H (G) 42/26395
From:
F.B.Wace Esquire, C.I.E,I.C.S. Home Secretary to Government Punjab.
To,
Khalifatul Masih Hazrat Mirza Bashirud- din Mahmud Ahmad Head of the Ahmadiyya Community Qadian Distt. Gurdaspur.
Your Holiness,
The Punjab Government have had under examination the incident in Dalhousie last September at your residence there, when ceratin action was taken by the police in connection with unauthorized news sheets.
Owing to a chain of unfortunate circumstances, no superior police officer was available in Dalhousie, to take charge of this action and enquiry seems to show that the junior officer who was in charge displayed a lack of tact and consideration in carrying out his duties. Suitable action has been taken against this officer and the subordinate officials concerened and I am to express the great regret of the Punjab Government for any unnecessary inconvenience which may have been caused to you and your household in consequence. It need hardly be said that no kind of insult or indignity was intended to you personally or to the religious body of which you are the respected head.
I have the honour to be your holiness
Your most obedient servant
F.B. Wace
Home Secretary to Government Punjab.”
اس چِٹھی کا ترجمہ یہ ہے کہ پنجاب گورنمنٹ اس واقعہ کے متعلق جو گزشتہ ستمبر میں ڈلہوزی میں آپ کے گھر پر ہؤا تھا اورجس میں پولیس نے ایک ضبط شدہ ٹریکٹ کے متعلق کارروائی کی تھی۔ اس وقت تک تحقیقات کرتی رہی ہے اور اب اس کے متعلق مندرجہ ذیل تحریر بھی بھجواتی ہے۔
بعض اتفاقی واقعات کی وجہ سے جو قابل افسوس ہیں پولیس کا کوئی اعلیٰ افسر اس وقت ڈلہوزی میں موجود نہیں تھا جو اس معاملہ کو اپنے ہاتھ میں لیتا مگر یہ بات تحقیقات سے ثابت ہے کہ جونیئر افسر انچارج نے اپنے فرائض کے ادا کرنے میں عقل اور پوری توجہ سے کام نہیں لیا۔ گورنمنٹ نے اس افسر اور ماتحت افسروں کے خلاف جن کا اس واقعہ سے تعلق تھا مناسب کارروائی کی ہے اور مجھے گورنمنٹ پنجاب کی طرف سے ہدایت ہوئی ہے کہ مَیں اس بارہ میں تحریر کروں کہ گورنمنٹ پنجاب کو اس تکلیف پر جو آپ کو یا آپ کے خاندان کے لوگوں کو پہنچی ہو گی شدید افسوس ہے۔
آخر میں مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس امر کے اظہار کی ضرورت نہیں۔ اس واقعہ سے کسی قسم کی ہتک یا تحقیر مدنظر نہیں تھی آپ کی ذات کی یا اس مذہبی جماعت کی جس کے آپ معزز سردار ہیں۔
گو اس چِٹھی میں ان بعض سوالات کا جو ہم نے اٹھائے ہوئے تھے جواب نہیں دیا گیا مگر بہرحال اس میں گورنمنٹ نے اس طریق کو اختیار نہیں کیا جو پہلے کیا تھا کہ اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ اس میں آپ کا تعلق ہے تو ایسا واقعہ نہ ہوتا بلکہ محض واقعہ کے متعلق لکھا ہے کہ وہ قابلِ افسوس ہے اور ان افسروں کو سزا دی گئی ہے جو اس کے ذمہ دار ہیں۔ مَیں نے جنگ کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے گورنمنٹ کے اس اظہار افسوس کو قبول کر لیا ہے اور اسے لکھ دیا ہے کہ ہم اس واقعہ کو اب ختم شدہ سمجھتے ہیں۔
مَیں جہاں تک سمجھتا ہوں گو گورنمنٹ کے لئے یہ ماننا مشکل ہے کہ اس واقعہ کی بنیاد بعض اعلیٰ حکام کی سلسلہ احمدیہ سے مخالفت ہے کیونکہ واقعات بتاتے ہیں کہ جن امور کی وجہ سے یہ کارروائی کی گئی ہے وہ ڈیڑھ سال پہلے کے تھے اور اس کی ڈپٹی کمشنر اور سپرنٹنڈنٹ پولیس کو بھی اطلاعیں دی جا چکی تھیں۔ ان مخالف افسروں میں سے مثال کے طور پر میں سی۔ آئی۔ ڈی کے ایک اعلیٰ افسر کا ذکر کرتا ہوں۔ سال سوا سال ہؤا انہوں نے ہمارے مبلغ صوفی عبد القدیر صاحبکو بلایا اور ان سے کہا کہ جاپان کے متعلق مجھے وہ معلومات دو جو تم نے وہاں رہ کر حاصل کی ہیں اور جو کارروائیاں وہاں ہو رہی ہیں وہ مجھے بتاؤ۔ صوفی عبد القدیر صاحب نے درست طور پر جواب دیا کہ مَیں جماعت کا ایک فرد ہوں اور اس کی طرف سے مَیں جاپان میں تبلیغی خدمت پر مقرر رہا ہوں۔ مَیں اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا اگر جماعت کی معرفت مجھ سے جواب مانگا جائے تو مَیں جواب دے سکتا ہوں۔ ایک مبلغ کی حیثیت سے ان کا یہ جواب بالکل صحیح اور درست تھا۔ دنیا کی تمام مہذب گورنمنٹیں پادریوں کو اس قسم کے معاملات میں لپیٹا نہیں کرتیں اور اگر وہ مبلغوں کو بھی اس لپیٹ میں لے لیں تو تبلیغ کرنی مشکل ہو جائے۔ آخر مبلغ دوسرے ملکوں میں تبلیغ کرنے کے لئے جاتا ہے جاسوسی کرنے کے لئے تو نہیں جاتا، اگر جاپان اور امریکہ اور روس اور اٹلی اور سپین اورجرمنی وغیرہ حکومتوں کو یہ خیال پیدا ہو جائے کہ احمدی مبلغ انگریزوں کے جاسوس ہوتے ہیں تو وہ انہیں تبلیغ کی کہاں اجازت دیں گی۔ ایسی صورت میں تو جب کوئی مبلّغ ان کے ملک میں جائے گا وہ اسے پکڑ کر باہر نکال دیں گے۔ پس یہ نہایت ہی نامناسب بات ہے کہ کسی جماعت کے مبلّغوں کو اس کام پر مامور کیا جائے۔ اس افسر نے صوفی صاحب سے یہ بھی کہا کہ اگر آپ جاپان کے حالات نہیں بتائیں گے تو ڈیفنس آف انڈیا رولز کے ماتحت آپ کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ صوفی صاحب نے کہا اگر آپ نے مجھے گرفتار ہی کرنا ہے تو بے شک کر لیں۔ اس واقعہ کے بعد ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ انہیں نمبر دس کے بستے میں رکھ لیا گیا۔ چنانچہ اب تک ان کی مخفی نگرانی کی جاتی ہے۔ یوں مخفی تو نہیں کہ کسی کو اس کا پتہ نہیں۔ جس شخص کی نگرانی کی جاتی ہے، اسے تو پتہ لگ ہی جاتا ہے۔ اسی طرح اس کے دوستوں کو بھی پتہ لگ جاتا ہے۔ البتہ ظاہر میں پولیس ان کے دروازے پر نہیں بیٹھتی۔ اس کے بعد یکدم وہ پرانا واقعہ جو سال ڈیڑھ سال کا تھا اٹھانا شروع کر دیا گیا۔ پس ہمارے لئے اس بات کے یقین کرنے کی وجوہ موجود ہیں کہ اس میں بعض اعلیٰ حکّام اور بعض سی۔ آئی۔ ڈی کے افسروں کا ہاتھ تھا چنانچہ ہمارے دوسرے مبلّغ مولوی عبد الغفور صاحب کو جو مولوی ابوالعطاء صاحب کے بھائی ہیں انہیں بھی دھوکا دے کر امرتسر بلایا گیا اور ان سے کہا گیا کہ کیا تم جاپان کے متعلق ہمیں معلومات دے سکتے ہو یا اگر تمہیں جاسوس بنا کر بھیجا جائے تو تم یہ کام کر سکتے ہو حالانکہ جس افسر نے یہ بات کہی اس کا ضلع گورداسپور کے کسی فرد کو گورداسپور کی پولیس کی وساطت کے بغیر بلانے کا کوئی اختیار ہی نہیں تھا اس کے ساتھ ہی اس نے یہ دھمکی بھی دی کہ جاپان سے جو لوگ آئے ہیں انہیں گورنمنٹ پکڑ رہی ہے اگر تم نے حالات نہ بتائے تو تمہیں بھی پکڑ لیا جائے گا حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔ ہزاروں لوگ ایسے ہیں جو جاپان سے آئے مگر انہیں کسی نے گرفتار نہیں کیا صرف سی آئی ڈی کے بعض افسر معلومات حاصل کرنے کے لئے اس قسم کی دھمکی دے دیتے ہیں۔ پس اگر گورنمنٹ کے معنے وزراء کی باقاعدہ مجلس کے ہیں تو مَیں مان سکتا ہوں کہ اس واقعہ میں گورنمنٹ کا ہاتھ نہیں تھا لیکن دوسرے بعض حکّام اور سی۔آئی۔ڈی کے بعض افسروں کا اس میں ہاتھ ضرور تھا انہوں نے ناجائز طور پر ہمارے مبلغوں سے معلومات حاصل کرنا چاہیں تاکہ گورنمنٹ کو بتا کر وہ خود عزت حاصل کر لیں جیسا کہ صوفی عبد القدیر صاحب کے واقعہ سے ظاہر ہے مگر جب وہ عزت انہیں حاصل نہ ہوئی تو انہوں نے ایک گزشتہ واقعہ جو ہو چکا تھا اسے نئے سرے سے ایسی شکل دے دی کہ دنیا یہ سمجھے کہ یہ کوئی نیا واقعہ ہؤا ہے۔ جب یہاں ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس آئے تو مَیں نے ان کے سامنے ایسے واقعات رکھے جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ یہ ڈیڑھ سال کا ایک پرانا واقعہ ہے اور مَیں نے ان سے پوچھا کہ یہ ڈیڑھ سال کا واقعہ نئی صورت کس طرح اختیار کر گیا۔ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ ایک عجیب اتفاق ہے مگر دنیا میں عجیب اتفاقات ہو ہی جایا کرتے ہیں۔ پھر مَیں نے دوسری مثال دی۔ کہنے لگے یہ بھی عجیب اتفاق ہے۔ مَیں نے کہا یہ سارے عجوبے یہاں کس طرح اکٹھے ہو گئے اور ان پرانے واقعات نے نئی صورت کس طرح اختیار کر لی۔
غرض ہمارے پاس اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ درحقیقت اس واقعہ میں بعض بالا افسروں کا ہاتھ تھا لیکن جو فعل ہؤا وہ مقامی آدمیوں سے ہؤا۔ گویا وہی لفظ جو اس چِٹھی میں استعمال کیا گیا ہے یعنی ‘‘اَن فارچون’’ وہ اس واقعہ پر پوری طرح منطبق ہوتا ہے کہ بدقسمتی سے بعض اَور لوگ مارے گئے حالانکہ اصل مجرم اَور تھے۔ مَیں اس وقت ساری باتیں اپنے خطبہ میں بیان نہیں کر سکتا اور بعض باتیں تو ایسی ہیں جن کا بیان کرنا مناسب بھی نہیں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے پاس ایسے یقینی ثبوت ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض بالا افسر اس کارروائی میں شامل تھے۔ مَیں یہ ماننے کے لئے تیار ہوں کہ قانوناً جس شکل کو گورنمنٹ کہتے ہیں وہ اس واقعہ کی ذمہ دار نہ تھی مگر بعض اَور بھی بالا افسر ایسے ہوتے ہیں جو گورنمنٹ کےقائمقام سمجھے جاتے ہیں اور جب ان کی رائے کسی کے خلاف ہوتی ہے تو ماتحت افسر اسے خود بخود نقصان پہنچانا شروع کر دیتے ہیں۔ پس بے شک اصطلاحی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ گورنمنٹ کا ہاتھ اس واقعہ میں نہیں تھا مگر حقیقی طور پر گورنمنٹ کے بعض افسروں کا اس میں ہاتھ تھا۔ بہرحال چونکہ گورنمنٹ نے قطع نظر اس سے کہ اس واقعہ کا تعلق امام جماعت احمدیہ سے تھا یا نہیں کھلے طور پر اقرار کیا ہے کہ اس کے افسروں نے عقل اور تدبیر سے کام نہیں لیا بلکہ ہتک آمیز طریق اختیار کیا جس پر اس نے اظہارِ افسوس کرتے ہوئے ان افسروں کے خلاف ایکشن لیا ہے جو اس فعل کے مرتکب ہوئے تھے۔ اس لئے جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے مَیں اس معاملہ کو موجودہ جنگ کے حالات کے پیشِ نظر ختم کرتے ہوئے دوستوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میرا پہلا اعلان جس میں مَیں نے انفرادی طور پر جماعت کے احباب کو قربانیوں کے لئے تیار رہنے کے لئے کہا تھا اب ختم ہو گیا ہے۔ اب اس کے لئے کسی تیاری یا بلاوے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔
(2)
اس کے بعد ایک اور امر ہے جس کی طرف مَیں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ مَیں نے گزشتہ خطبات میں جماعت کے دوستوں سے کہا تھا کہ اس سال انہیں غلہ جمع کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ ابھی قحط کے آثار پائے جاتے ہیں اور جنگ کے خطرات بھی بڑھتے جاتے ہیں۔ ہم نے صدر انجمن احمدیہ کے کارکنوں کے متعلق ایسا انتظام کر دیا ہے کہ کٹوتی کی رقموں کا ایک حصہ انہیں واپس کر دیا جائے اورجن کی کٹوتی کی کوئی رقم نہیں مثلاً وہ بعد میں ملازم ہوئے ہیں انہیں قرض دے دیا جائے اور وہ قرض دس مہینے کے اندر اندر واپس لے لیا جائے لیکن انجمن کے کارکنوں اور تاجروں کے علاوہ ایک اَور طبقہ بھی ایسا ہے جسے غلہ کی ضرورت ہے۔ تاجر تو قحط کے آثار کے ساتھ ہی اپنی اشیاء کی قیمتیں بڑھا دیتے ہیں۔ آٹھ آنے کی چیز ہو تو دس آنے کی کر دیتے ہیں۔ دس آنے کی چیز ہو تو بارہ آنے کی کر دیتے ہیں۔ اس وجہ سے تاجروں کو ان دنوں میں کوئی نقصان نہیں ہو سکتا بلکہ بعض تاجر ان اندنوں میں پہلے سے بہت زیادہ نفع کما لیتے ہیں۔ پھر جو لوگ گورنمنٹ کے ملازم ہیں اور انہوں نے بیوی بچوں کو قادیان بھیجا ہؤا ہے۔ وہ اپنی بیوی بچوں کو ہر مہینے خود خرچ بھیج دیتے ہیں اور ان کا گزارہ ہوتا رہتا ہے۔ مگر ان کے علاوہ ایک غرباء کا طبقہ ہے جسے کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہ انجمن کے ملازم نہیں کہ انہیں انجمن سے روپیہ مل جائے، وہ تاجر نہیں کہ دکانداری سے نفع کمائیں، ان کے کوئی رشتہ دار باہر ملازم نہیں کہ ان کی طرف سے انہیں ماہوار روپے آتے رہیں۔ اگر خدانخواستہ قحط پڑےتو ایسے لوگوں کو اپنے لئے روزانہ روٹی مہیا کرنی بالکل مشکل ہو جائے گی کُجا یہ کہ وہ سال بھر کے لئے غلہ جمع کر سکیں۔ اس قسم کے کئی لوگ ہیں جو مجھے درخواستیں بھجوا رہے ہیں کہ ہمارے لئے کوئی انتظام کیا جائے اور بعض نے تو یہ لکھا ہے کہ اگر ہمیں قرض دیا جا سکے تو قرض ہی دے دیا جائے۔ ہم بعد میں روپیہ واپس کر دیں گے حالانکہ اُن میں سے بعض بے شک ایسے ہیں جو بعد میں قرض ادا کر سکتے ہیں مگر بعض ایسے ہیں جن کی نیت ہی نیت ہے انہیں توفیق نہیں کہ وہ قرض اتار سکیں۔ وہ منہ سے تو کہتے ہیں کہ اگر ہمیں قرض مل جائے تو ہم بعد میں ادا کر دیں گے مگر یا تو وہ اپنے نفس پر بہت زیادہ یقین رکھتے ہیں جو نہیں رکھنا چاہئے اور یا ان کا تقویٰ اتنا کامل نہیں کہ وہ وعدے کی اہمیت کو سمجھیں۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ اس وقت تو قرض مل جائے بعد میں ادا نہ ہو سکا تو معاف کرا لیں گے ورنہ وہ قرض لے کر ادا کر ہی نہیں سکتے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انہیں ضرورت ہے مگر ضرورت کے پورا کرنے کا کوئی اَور طریق ہونا چاہئے۔ وہ طریق جسے وہ اختیار ہی نہیں کر سکتے ان کے لئے کس طرح جاری کیا جا سکتا ہے۔ بے شک اس بات کا امکان ہے جیسا کہ گورنمنٹ کوشش کر رہی ہے کہ آئندہ ساونی میں بہت سی زمین کاشت کرا دے اور اس کے نتیجہ مین ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مکئی اور چاول وغیرہ بکثرت ہو جائے اور ستمبر اکتوبر میں گندم کا بھاؤ گر جائے مگر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ اس دفعہ گندم کی پیداوار زیادہ نہیں ہوئی رقبہ زیر کاشت کم تھا اور پھر گندم کی جو پیداوار ہوئی۔ اس کے زیادہ حصہ کو بارش کی وجہ سےنقصان پہنچ گیا۔ اس وجہ سے اس سال گندم کی ہندوستان میں جو پیداوار ہوئی ہے وہ گزشتہ سال سے کئی لاکھ ٹن کم ہے اور پچھلے سال سے غلہ کے کھِتّے بھی بہت تھوڑے ہیں۔ گورنمنٹ کا اعلان ہے کہ گزشتہ سال یو۔پی میں دو ہزار گندم کا کھِتّہ2 تھا جو سار اخرچ ہو گیا اور اب صرف تیس کھِتّے باقی رہ گئے ہیں۔ اگر خدانخواستہ قحط پڑ جائے تو دسمبر سے اپریل تک کے ایام گزارنے کتنے مشکل ہو جائیں گے۔ تو یہ غرباء جو ہیں ان کی اس صورت میں کیا امداد ہو سکتی ہے؟ آخر یہ تو لوگوں نے کرنا نہیں کہ غلہ اتنا زیادہ جمع کر لیں کہ جب ضرورت ہو اس وقت اپنا غلہ غرباء کو دے دیں۔ اگر اس وقت غلہ مہنگا ہو جائے تو یہ تو ہو سکتا ہے کہ بعض لوگ غرباء کے لئے روپیہ دے دیں لیکن اگر غلہ ملے ہی نہ تو روپیہ کیا کام دے سکے گا۔ پس اس صورت حالات کا ایک ہی علاج ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ جن لوگوں کے دلوں میں خدا تعالیٰ کا خوف ہے کھڑے ہو جائیں اور غرباء کے لئے غلہ بطور چندہ دیں۔ میرا خیال ہے کہ قادیان کے جو غرباء ہیں اور جنہیں لازمی طور پر مدد دینی پڑے گی انہیں اس مدد کی آخری مہینوں میں زیادہ ضرورت پیش آئے گی۔ ابتدائی مہینوں میں چونکہ غلہ عام ہے اس لئے ہمیں ان مہینوں کا فکر نہیں۔ زیادہ فکر دسمبر سے اپریل تک کے مہینوں کا ہے کہ ان پانچ مہینوں کے لئے ان کے لئے اتنا غلہ جمع ہو جائے جس سے ان کا گزارہ ہو سکے اورمیرا خیال ہے کہ قادیان کے غرباء کے لئے ہمیں ان پانچ مہینوں کے لئے کم سے کم پانچ سو مَن غلہ کی ضرورت ہو گی۔ مَیں امید کرتا ہوں کہ جن دوستوں کو خدا تعالیٰ توفیق دے وہ اس امر کو مدنظر رکھیں گے کہ غرباء کی ذمہ داری جماعت پر ہے اور ان کا فرض ہے کہ جہاں وہ اپنے لئے غلہ جمع کریں وہاں غرباء کی ضروریات کا بھی خیال رکھیں مثلًا قادیان کے لوگوں میں سے کسی نے دس مَن غلہ خریدا ہے کسی نے بیس مَن اور کسی نے تیس یا چالیس مَن۔ مَیں نے اپنے ذہن میں سوچا کہ ہماری شریعت نے زکوٰة کا طریق ایسے رنگ میں رکھا ہے جو نہایت ہی معقول ہے اور جس سے انسان پر کوئی زیادہ بار نہیں پڑتا۔ پس دوستوں کو چاہئے کہ وہ زکوٰة کے رنگ میں اپنے غلہ میں سے غرباء کے لئے غلہ نکالیں۔ زکوٰة چالیس حصہ کی ہوتی ہے۔ پس اگر کسی نے دس من غلہ لیا ہو تو وہ اس میں سے دس سیر غلہ غرباء کے لئے نکالے اور دس سیر غلے کا بوجھ قطعاً ایسا نہیں جو کسی کے لئے ناقابل برداشت ہو بلکہ مَیں تو سمجھتا ہوں اگر عورتیں خشکے میں ہی احتیاط سے کام لیں تو دس سیر غلہ کی کمی کو وہ پورا کر سکتی ہیں۔ ہمارے ملک میں عورتیں خشکے پر بہت سا آٹا ضائع کر دیتی ہیں۔ پہلے آٹے کے پیڑے پر کافی خشکہ لگاتی ہیں پھر اس خشکہ کو جھاڑتی ہیں اور جب روٹی پک جاتی ہے تو ایک دفعہ پھر اس پر سے خشکہ جھاڑتی ہیں۔ اگر عورتیں خشکے میں احتیاط سے کام لیں تو دس سیر غلہ کی کمی وہ آسانی سے پوری کر سکتی ہیں لیکن فرض کرو اگر کوئی عورت خشکے میں یہ کمی نہیں نکال سکتی تو پھر بھی اس کے نتیجہ میں اگر کسی دن تکلیف پہنچ جائے تو اس میں کیا حرج ہے۔ چالیسویں حصہ کے حساب سے چالیس دنوں کے بعد ایک دن کا فاقہ بنتا ہے اور یہ کوئی بڑی قربانی نہیں۔ اگر کوئی شخص 39 دن آپ روٹی کھاتا ہے اور ایک دن اپنے غریب بھائی کو کِھلا دیتا ہے تو یہ ایک ادنیٰ سے ادنیٰ قربانی ہے جو وہ کر سکتا ہے۔ اول تو عورتیں اگر احتیاط سے کام لیں تو فاقہ کی نوبت ہی نہیں آ سکتی۔ وہ روٹی کا بہت سا حصہ ضائع کر دیتی ہیں ، کچھ حصہ جل کر ضائع ہو جاتا ہے، کچھ کچا رہ جاتا ہے، کچھ زائد پک جاتا ہے اور اس طرح وہ گائیوں اور بھینسوں یا کُتّوں کے آگے ڈالنا پڑتا ہے یا بعض دفعہ بے وقت روٹی پکا لی جاتی ہے اور اس طرح روٹی کا ایک حصہ ضائع ہو جاتا ہے پھر قریباً روزانہ ایسی بے احتیاطی سے روٹی پکائی جاتی ہے کہ ہر گھر میں روٹی آدھ روٹی روزانہ بچ جاتی ہے۔ اگر عورتیں اس بارہ میں احتیاط کریں تو یقیناً وہ اپنے چالیسویں حصہ کی کمی کو پورا کر سکتی ہیں لیکن اگر بفرض محال یہ کمی ان سے پوری نہ ہو سکے تو بھی اس کے معنے یہ بنتے ہیں کہ چالیس دن میں ایک دن کا فاقہ۔ حالانکہ ہمیں اسلام نے روزوں کے ذریعہ بارہ دن میں ایک دن کا فاقہ کرنا سکھایا ہے۔ گویا عام دنوں میں جب کوئی خاص مصیبت نہیں ہوتی۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ تم گیارہ دن کھاؤ اور بارھویں دن اپنے غریب بھائیوں کے لئے فاقہ کرو۔ پھر ایسی عظیم الشان مصیبت کے وقت جبکہ غلہ ملتا ہی نہ ہو چالیس دن میں ایک دن فاقہ کرنا کونسی بڑی بات ہے۔
آجکل لوگ میری ہدایت کے ماتحت غلہ خرید رہے ہیں۔ کسی کے گڈے آ رہے ہیں، کسی کے ہاں مزدور غلہ لا رہے ہیں، کوئی اِدھر اُدھر پھر کر گندم اکٹھی کر رہا ہے مگر پاس ہی ان کے ہمسایہ میں ایک غریب ہوتا ہے جو کہتا ہے کہ آج تو روٹی کا انتظام ہے کل نہ معلوم کیا ہو گا۔ ایسی حالت میں طبعی طور پر غرباء کے دلوں میں یہ خیال آتا ہے کہ ان کا گزارہ کیسے ہو سکے گا بالخصوص دوسروں کے گھروں میں غلہ آتے دیکھ کر غریب لوگوں اور ان کے بیوی بچوں کے دلوں کی جو کیفیت ہوتی ہے وہ ایسی نہیں جسے آسانی کے ساتھ برداشت کیا جا سکے۔
پس اول تو میں قادیان والوں سے کہتا ہوں کہ جنہوں نے غلے خریدے ہیں۔ ان میں سے جن کو خدا تعالیٰ ہمت اور توفیق دے۔ وہ غلہ خرید کر اس کا چالیسواں حصہ غرباء کے لئے الگ کر لیں اور اپنی بیویوں کو سنا دیں کہ تم نے پکانے میں ایسی احتیاط سے کام لینا ہے کہ یہ کمی پوری ہو جائے اور اگر یہ کمی پوری نہ ہوئی تو ہمیں چالیس دنوں میں سے ایک دن فاقہ کرنا پڑے گا۔ پھر باہر کی جماعتوں کو بھی مَیں توجہ دلاتا ہوں کہ ان میں سے جن کو خدا تعالیٰ توفیق دے وہ بھی اس میں حصہ لیں۔ اس میں روپیہ کی صورت میں وعدہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ غلہ کی صورت میں وعدہ ہونا چاہئے۔ یعنی چاہے تو کوئی ایک مَن غلہ دے دے، کوئی دو من غلہ دے دے، کوئی تین مَن غلہ دے دے اور کوئی چار مَن غلہ دے دے۔ اگر وہ غلہ نہ دے سکیں تو انہیں رقم بھیج کر لکھ دینا چاہئے کہ ہمارے اس روپیہ سے اتنا غلہ خرید کر غرباء کو دے دیا جائے۔ قادیان سے باہر میری اپنی کچھ زمین ہے جو مَیں نے بٹائی پر دی ہوئی ہے اور کچھ گِرو ہے جو پھر واپس مقاطعہ 3پر لی ہوئی ہے چونکہ اس دفعہ بارش کی وجہ سے فصل کو نقصان ہؤا ہے اس لئے اس کا مقاطعہ، اوپر کے اخراجات اور گورنمنٹ کا معاملہ وغیرہ ادا کر کے کوئی پچاس مَن کے قریب غلہ بچتا ہے۔ مَیں نے رات یہ حساب کر کے فیصلہ کیا کہ یہ پچاس مَن غلہ مَیں اس چندے میں دے دیتا ہوں۔ پانچ سَو من غلے کا مطالبہ ہے جس میں سے پچاس مَن غلہ دینے کا مَیں نے وعدہ کیا ہے۔ اب باقی صرف ساڑھے چار سَو من غلہ رہتا ہے جو ساری جماعت کے لئے جمع کرنا کوئی مشکل نہیں۔ ہو سکتا تھا کہ ہماری جماعت کے بڑے بڑے آٹھ دس زمیندار ہی اس غلہ کو جمع کر دیتے مگر آٹھ دس آدمیوں کے حصہ لینے سے چونکہ ساری جماعت کو ثواب نہیں پہنچ سکتا تھا اس لئے مَیں نے مناسب سمجھا کہ اس کا عام اعلان کر دوں تاکہ جو دوست اس ثواب میں حصہ لینا چاہیں وہ لے لیں۔
پس مَیں تحریک کرتا ہوں کہ قادیان کے وہ دوست جنہوں نے غلہ خرید لیا ہے یا غلہ کے لئے انہوں نے روپیہ کا انتظام کر لیا ہے۔ وہ اپنے غریب بھائیوں کے لئے اپنے غلے کا چالیسواں حصہ بطور چندہ ادا کریں تاکہ مصیبت اور تنگی کے وقت غرباء کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ دیکھو مومنوں کے متعلق قرآن کریم میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ وہ بھوک اور تنگی کے وقت غرباء کو اپنے نفس پر ترجیح دیتے ہیں۔ 4 اور درحقیقت ایمان کے لحاظ سے یہی مقام ہے جس کے حاصل کرنے کی ہر مومن کو کوشش کرنی چاہئے مگر موجودہ زمانہ میں ہمیں وہ نمونہ دکھانے کا موقع نہیں ملتا جو صحابہؓ نے مدینہ میں دکھایا اس لئے ہمیں کم سے کم اس موقع پر غرباء کی مدد کر کے اپنے اس فرض کو ادا کرنا چاہئے جو اسلام کی طرف سے ہم پر عائد کیا گیا ہے اور اگر ہم کوشش کریں تو اس مطالبہ کو پور اکرنا کوئی بڑی بات نہیں۔ پانچ سَو من غلے کا اندازہ بھی درحقیقت کم ہے اور یہ بھی سارے سال کا اندازہ نہیں بلکہ آخری پانچ مہینوں کا اندازہ ہے جبکہ قحط کا خطرہ ہے۔ ممکن ہے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سےآئندہ فصل اچھی کر دے اور جوار وغیرہ نکل آنے کی وجہ سے گندم سستی ہو جائے۔ بہرحال ہم میں سے ہر ایک کو سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے غریب بندے خدا تعالیٰ کے رزق کے ہم سے کم حصہ دار نہیں۔ خدا کی نامعلوم کس حکمت نے ہم کو رزق دے دیا اور ان کو نہیں دیا۔ شاید خدا تعالیٰ کو ہمارا امتحان منظور ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ ہم اس رزق کو کس طرح استعمال کرتے ہیں یا شاید بعض کے لئے اس میں سزا کا کوئی پہلو مخفی ہو یا شاید اللہ تعالیٰ اس ذریعہ سے ہمیں ثواب دینا چاہتا ہو کہ چونکہ ان کو رزق نہیں ملا اس لئے تم ان کو رزق دے کر اللہ تعالیٰ سے ثواب حاصل کرو۔ نہ معلوم ان تینوں باتوں میں سے کونسی بات اللہ تعالیٰ کے مدنظر ہے لیکن بہرحال یہ یقینی بات ہے کہ غریب بندے خدا تعالیٰ کے رزق میں ہم سے کم حصہ دار نہیں اور ہم میں سے کوئی فرد ایسا نہیں جو بشر ہونے کے لحاظ سے ایک غریب پر فوقیت رکھتا ہو بلکہ بشر ہونے کے لحاظ سے نبی اور کافر بھی برابر ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں بار بار اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ سے فرماتا ہے کہ قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ 5 یعنی اے رسول! کہہ دے۔ ابو جہل سے کہہ دے، عتبہ سے کہہ دے، شیبہ سے کہہ دے کہ بشر ہونے کے لحاظ سے مَیں تمہاری طرح ہی ہوں اور مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں۔ اگر فرق ہے تو یہ کہ مَیں نے خدا تعالیٰ کے قرب کو پا لیا اور تم نے اس کا انکار کر کے اسے نارض کر دیا۔ اگر تم بھی نیکی اور تقویٰ اختیار کرو اور تم بھی قربانیوں میں حصہ لو تو اللہ تعالیٰ تم کو بھی ویسا ہی محبوب بنا سکتا ہے جیسے اس نے اَور لوگوں کو بنایا۔ آخر خدا نے ابو جہل کو ابو جہل اور ابو بکرؓ کو ابو بکرؓ اسی لئے بنایا کہ ابو بکرؓ نے اپنی بشریت کا صحیح استعمال کیا اور ابو جہل نے صحیح استعمال نہ کیا۔ اگر ابو جہل بھی اپنی بشریت کا صحیح استعمال کرتا تو وہ بھی ابو بکرؓ بن جاتا۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کی حکمتیں ہیں جن کے ماتحت وہ کسی کو رزق دے دیتا ہے اور کسی کو نہیں دیتا۔ یہ بات غلط ہے کہ اگر کوئی عالم ہو تو اسے رزق مل جاتا ہے اور اگر عالم نہ ہو تو رزق نہیں ملتا۔ ہزاروں انٹرنس پاس ہیں جو چار چار پانچ پانچ سو روپیہ تنخواہ لے رہے ہیں اور ہزاروں بی۔ اے اور ایم۔ اے ہیں جنہیں بیس بیس تیس تیس روپے کی بھی نوکری نہیں ملتی اور اگر ملتی ہے تو عارضی طور پر ۔ پس یہ کوئی خدا کی مشیّت ہے جس کے ماتحت وہ اپنے بندوں کا امتحان لیتا رہتا ہے۔ ہر شخص کو کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اس امتحان میں کامیاب ہو۔ پس مَیں قادیان والوں کو بھی اور باہر کی جماعتوں کو بھی اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ یہ ثواب حاصل کرنے کا موقع ہے۔ انہیں چاہئے کہ وہ غرباء کے لئے غلہ دیں اور جو لوگ غلہ نہ دے سکیں وہ رقم بھیج کر ہمیں اجازت دیں کہ ہم یہاں سے غلہ خرید کر ان کی طرف سے غرباء میں تقسیم کر دیں تاکہ وہ اس گندم کو ان ایام کے لئے سنبھال کر رکھ لیں جن میں گندم کی کمی اور قحط کا خطرہ ہے۔ پھر مَیں باہر کی جماعتوں کو یہ بھی نصیحت کرتا ہوں کہ اگر مقامی طور پر ان کی جماعتوں میں غریب احمدی ہوں تو وہ ان کا بھی خیال رکھیں۔ صرف یہی نہیں کہ قادیان کے غرباء کا خیال رکھا جائے بلکہ ہر جگہ کے غرباء کا مقامی جماعتیں خیال رکھیں اور جو لوگ اپنے لئے غلہ جمع نہیں کر سکتے ان کے لئے کچھ حصہ اپنے غلے میں سے الگ کر دیں تاکہ وہ ان ایام میں اطمینان کے ساتھ روٹی کھا سکیں اور آج سے ہی ان کے دلوں میں یہ پریشانی پیدا نہ ہو کہ ہم مصیبت کے وقت کیا کریں گے۔ یہاں کی جماعت کے دوستوں کو مَیں اس امر کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ جو لوگ غلہ خرید رہے ہیں وہ سخت غلط طریق اختیار کر رہے ہیں۔ بجائے اس کے کہ وہ نظام سے فائدہ اٹھاتے بے تحاشا اِدھر اُدھر دوڑے پھرتے ہیں۔ آپ لوگوں نے اجتماع اور نظام کا فائدہ دیکھا ہؤا ہے۔ ہماری جماعت کتنی چھوٹی سی ہے مگر نظام کی وجہ سے لوگوں پر اس کا بہت بڑا رعب ہے۔ اسی طرح آپ کو نظام سے اپنے ہر کام میں فائدہ اٹھانا چاہئے اور بجائے انفرادی رنگ میں کوشش کرنے کے اجتماعی رنگ میں کام کرنا چاہئے۔ اگر اکٹھے مل کر غلہ خریدا جاتا تو پونے چار روپے مَن تک مل جاتا مگر جونہی لوگوں کو روپیہ ملا انہوں نے اِدھر اُدھر دوڑنا شروع کر دیا۔ باہر کے زمیندار اور سکھ ان کا عجیب نقشہ کھینچتے ہیں۔ کہتے ہیں مولویوں نے بائیسکلوں پر بوریاں باندھی ہوئی ہوتی ہیں اور چاروں طرف دوڑتے پھرتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ پانچ چھ دن کے اندر اندر ایک روپیہ قیمت بڑھ گئی کیونکہ بعض لوگوں نے تو گھبرا کر اپنا غلہ روک لیا کہ نہ معلوم کیا مصیبت آنے والی ہے کہ یہ لوگ گندم خریدنے کے لئے دوڑے پھرتے ہیں اورجنہیں روپیہ کی ضرورت تھی انہوں نے گراں قیمت پر غلہ فروخت کرنا شروع کر دیا۔ اگر ایک کمیٹی بنا لی جاتی اوروہ لوگوں کے لئے اکٹھا غلّہ خریدتی تو پونے چار روپے مَن تک بسہولت غلہ مل سکتا تھا۔
پس مَیں نصیحت کرتا ہوں کہ یہ طریق درست نہیں۔ آپ لوگوں نے نظام کی خوبیاں دیکھی ہوئی ہیں۔ اس نظام کو اپنے تمام کاموں میں وسیع کرو اور بجائے اس کے کہ گھبرائے گھبرائے اِدھر اُدھر پھرو، کمیٹیاں بنا لو اور باہمی مشورہ اور انتظام سے غلہ خریدو۔ اگر تم ذرا صبر سے کام لو گے تو گندم کی قیمت گِر جائے گی۔ اس وقت جو اس کی قیمت چڑھی ہوئی ہے یہ بالکل عارضی ہے۔ اتنی قیمت ہرگز نہیں ہونی چاہئے۔ مَیں سمجھتا ہوں اگر اللہ تعالیٰ اپنا فضل کرے اور جیسا کہ گورنمنٹ کوشش کر رہی ہے ستمبر اکتوبر میں مکی، باجرہ اور چاولوں کی کثرت ہو جائے تو گندم کی قیمت یکدم گرنے کا احتمال ہے۔ اس وقت زمیندار گندم کو ہاتھ بھی نہیں لگائیں گے اور چاول یا باجرہ یا مکی پر گذارہ کر کے گندم کو سستے بھاؤ فروخت کر دیں گے۔ جو لوگ غلہ خرید رہے ہیں انہیں یہ امر بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ تکلیف کے وقت ایک ہی قسم کی غذا پر اصرار نہیں کیا جا سکتا۔ پس وہ صرف گندم پر ہی اکتفاء نہ کریں بلکہ چاول وغیرہ بھی خرید لیں۔ اس طرح گندم کا خرچ بھی کم ہو گا اور ان کی صحتوں کو بھی کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ اگر دوست میری اس نصیحت پر عمل کریں گے تو مجھے امید ہے کہ گندم کے جو بھاؤ اس وقت بڑھے ہوئے ہیں وہ گِر جائیں گے کیونکہ گندم کی اتنی کمی نہیں جتنا ڈر کی وجہ سے خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ تکلیف کا سال کے آخری مہینوں میں خطرہ ہے اور اس کے لئے بھی ابھی سے غلّے کا ذخیرہ کر لینا چاہئے۔ ‘‘ (الفضل 30 مئی 1942ء)
1: بخاری کتاب الصَّلٰوة باب الْمَرْأة تَطْرَحُ عَنِ الْمُصَلّٰی (الخ)
2:کھتّہ: کھیت کی تخفیف
3:مقاطعہ: ٹھیکہ ،اجارہ
4: وَ الَّذِيْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَ الْاِيْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ اِلَيْهِمْ وَ لَا يَجِدُوْنَ فِيْ صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً مِّمَّاۤ اُوْتُوْا وَ يُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ١۫ؕ وَ مَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۔ (الحشر: 10)
5: الکہف : 111

15
جماعت کے غرباء کی اِمداد کے لئے غلّہ کی تحریک
( فرمودہ 29 مئی 1942ء )

تشہد، تعوّذ اور سورہ ٔفاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:۔
مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِيْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ١ؕ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ١ؕ اُكُلُهَا دَآىِٕمٌ وَّ ظِلُّهَا١ؕ تِلْكَ عُقْبَى الَّذِيْنَ اتَّقَوْا١ۖۗ وَّ عُقْبَى الْكٰفِرِيْنَ النَّارُ۔ 1
اور فرمایا:۔
’’پہلے تو مَیں ایک دفعہ جماعت کے دوستوں کو قادیان کے غرباء کے لئے خصوصاً اور بیرونی جماعتوں میں بسنے والےغرباء کے لئے عموماً پھر غلہ کی تحریک کرتا ہوں اور یہ امر بھی مَیں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ یہ جو تحریک مَیں نے کی ہے اس کے جواب میں جو دوست حصہ لیں وہ اس امداد کے متعلق صدقہ کی نیت نہ رکھیں بلکہ اپنے بھائیوں اور عزیزوں کی امداد کی نیت رکھیں۔ اس اعلان کے کرنے میں میری دو غرضیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ قرآن کریم نے خرچ کرنے کی مختلف اقسام بیان فرمائی ہیں۔ ان اقسام میں سے ایک قسم خرچ کی اپنے دوستوں، اپنے رشتہ داروں اور اپنے بھائیوں کی امداد ہے مثلاً والدین کی امداد ہے، بیوی کی امداد ہے یا بیوی کی طرف سے خاوند کی امداد ہے یا بھائی کی امداد ہے یا بچوں کی امداد ہے اوریہ اخراجات بھی اسلامی اخراجات کی اقسام میں سے نہایت ضروری اور نہایت اہم ہیں۔ مگر یہ اخراجات ان معنوں میں صدقہ نہیں کہلاتے جن معنوں میں غرباء کو روپیہ دینا صدقہ کہلاتا ہے۔ عربی زبان میں صدقہ کا مفہوم بہت وسیع ہے اور اس میں صرف اتنی بات داخل ہے کہ اپنے اس خرچ کے ذریعہ سے اس تعلق کا ثبوت دیا جائے جو انسان کو اپنے پیدا کرنے والے سے ہے۔ صدقہ کے معنے خدا تعالیٰ سے اپنے سچے تعلق کا اظہار ہے اور چونکہ ماں باپ کی خدمت بھی خدا تعالیٰ کا حکم ہے اس لئے وہ بھی صدقہ کہلا سکتا ہے مگر عربی میں جو صدقہ کا مفہوم ہے اس کے لحاظ سے ان معنوں کے لحاظ سے نہیں کہ یہ ایسا خرچ ہے جو ردّ بلا کے لئے انسان کرتا ہے۔ اسی طرح بیوی کے ساتھ سلوک بھی عربی کے مفہوم کے لحاظ سے صدقہ ہے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے مُنہ میں لقمہ ڈالتا ہے تو وہ بھی صدقہ ہے۔2 مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ انسان یہ سلوک ردِّ بلا کے خیال سے اور آئندہ کی امید کے لئے کرتا ہے بلکہ ان معنوں کے لحاظ سے کہ وہ بیوی کے ساتھ نیک سلوک کرتا ہے، اس سے اس کی بیوی کا دل خوش ہوتا ہے اور وہ خیال کرتی ہے کہ میرے خاوند کو میرے کھانے کا فکر ہے اور یہ فعل تعلقات کو بڑھانے والا اور خدا تعالیٰ کے منشاء کو پورا کرنے والا ہے۔ یہ صدقہ ہے۔ مگر ہماری زبان میں صدقہ کے معنے یہ ہیں کہ جو خرچ ردّ بلا کے لئے اور آئندہ کی امید میں غرباء پر کیا جائے۔ مثلاً اس امید میں کہ ہمارا فلاں رشتہ دار بیمار ہے وہ اچھا ہو جائے یا کوئی مقدمہ ہے وہ ہمارے حق میں ہو جائے یا قرض اتر جائے یا عزت پر کوئی حرف آتا ہے اس سے محفوظ رہیں۔ صدقہ کا عربی میں یہ مفہوم بھی ہے اور اسی مفہوم کے لحاظ سے رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے اَلْیَدُ الْعُلْیَا خَیْرٌ مِّنَ الْیَدِ السُّفْلٰی3 کہ صدقہ دینے والا اسے قبول کرنے والے سے اچھا ہے اور مال کی اس تقسیم کو رسول کریم ﷺ نے عذابوں سے بچنے کا ذریعہ قرار دیا ہے اور یہ گویا خدا تعالیٰ کے ساتھ سَودے کا رنگ اپنے اندر رکھتا ہے اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یا اللہ مَیں یہ خرچ کرتا ہوں اور تُو اس کے عوض فلاں چیز مجھے دے دے۔ دوسرے اخراجات اپنے اندر یہ رنگ نہیں رکھتے۔ کسی شخص کا کوئی رشتہ دار یا دوست باہر سے آتا ہے تو وہ اس کی دعوت کرتا ہے۔ وہ ردّ بلا کے خیال سے اور آئندہ کی امید کے لئے صدقہ نہیں کہلا سکتا بلکہ خدا تعالیٰ کا شکریہ سابق احسان پر ہے۔ اسی طرح ماں باپ سے نیک سلوک، بیوی سے نیک سلوک، بچوں سے نیک سلوک، ہمسایوں سے نیک سلوک، مسافروں سے نیک سلوک، یہ سب ان معنوں میں صدقہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے اور اس کی غرض یہ ہے کہ دنیا میں محبت بڑھے، امن و چین کا دَور دورہ ہو اور دنیا کا تمدن اچھا ہو اور لوگ آپس میں مل ملا کر رہیں اور اپنے پیدا کرنے والے کی عبادت کریں۔ اس کی یہ غرض نہیں ہوتی کہ ہمارا فلاں پیارا اچھا ہو جائے، قرض اتر جائے، مقدمہ میں کامیابی ہو جائے یا عزت پرجو حرف آنے والا ہے، اس کا ازالہ ہو جائے۔ تو صدقہ کی کئی اقسام ہیں اور لوگ عام طور پر قرآنی صدقہ کی بہت سی قسموں سے غافل ہوتے ہیں۔ پس اس تحریک سے میرا ایک مطلب تو یہ ہے کہ عربی زبان میں صدقہ کا جو مفہوم ہے وہ بھی پورا کرنے کا دوستوں کو موقع مل جائے اور یہ مفہوم نہیں کہ ردِّ بلا کے لئے خرچ کیا جائے بلکہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے خرچ کیا جائے۔ پس میرا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جن دوستوں کو پہلے ایسا خرچ کرنے کا موقع نہیں ملا انہیں اس کا موقع مل جائے اور نیکی کا یہ خانہ خالی نہ رہے۔
دوسری غرض میری یہ ہے کہ ہماری جماعت میں یہاں بھی اور باہر بھی بعض سادات قابلِ امداد ہیں اور سادات کو معروف صدقہ دینا منع ہے۔ پس اگر یہ انہی معنوں میں صدقہ کی نیت سے دیا جائے جو ہمارے ملک میں اس کا مفہوم ہے تو اس سے ہم سادات کی مدد نہیں کر سکتے۔ ہاں ہدیہ اور تحفہ سے ان کی مدد بھی کر سکتے ہیں۔ تحفہ انسان ماں، باپ، بھائی، بہن، بیوی، بچوں، دوستوں، رشتہ داروں غرضیکہ سب کو دے سکتا ہے۔
پس میری یہ دو اغراض ہیں جن کی وجہ سے مَیں نے کہا ہے کہ جو دوست میری اس تحریک میں حصہ لیں وہ صدقہ کی نیت نہ کریں جس طرح کہ وہ اپنے بھائیوں، بہنوں، بیوی بچوں یا ماں باپ کو تحفہ دیتے ہیں تا جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے ایک طرف تو ان کی نیکی کا یہ خانہ خالی نہ رہے یا جن کا پہلے ہی خانہ نہیں ان میں زیادتی ہو سکے اور دوسرے یہ کہ اس تحریک سے وہ لوگ بھی فائدہ اٹھا سکیں جو صدقہ کی صورت میں نہیں اٹھا سکتے۔
اس سلسلہ میں دوسری بات جو مَیں کہنی چاہتا ہوں، یہ ہے کہ گو اس وقت تک کافی وعدے آ چکے ہیں، باوجودیکہ اس تحریک پر ابھی تھوڑا وقت گزرا ہے اور میرا خطبہ آج ہی شائع ہؤا ہے اِس وقت تک غلہ اور نقد کے جو وعدے آئے ہیں وہ غلہ کی صورت میں سوا دو سَو من کے قریب کے ہیں اور گو ابھی تک مکمل فہرست تو میرے سامنے نہیں آئی مگر مَیں سمجھتا ہوں ابھی قادیان کے بھی بہت سے دوست ہیں جنہوں نے اس میں حصہ نہیں لیا اور باہر کی جماعتیں تو قریباً ساری ہی ایسی ہیں جنہوں نے ابھی اس میں حصہ نہیں لیا۔ باہر کی جماعتوں میں سے سب سے بڑھ کر حصہ لینے والی اور اول نمبر حاصل کرنے والی لائل پور کی جماعت ہے۔ اس جماعت نے سب سے پہلے اور فوری طور پر اور جماعتی رنگ میں اپنا وعدہ بھجوایا۔ اس کے سوا باہر کی کوئی ایسی جماعت نہیں جس نے اس وقت تک جماعتی طور پر حصہ لیا ہو۔ گو یہ جماعت چھوٹی ہے اور اس لحاظ سے اس نے حصہ بھی تھوڑا ہی لیا ہے مگر سب سے پہلے حصہ لیا ہے اور خطبہ شائع ہونے سے بھی پہلے لیا ہے اور اجتماعی رنگ میں لیا ہے اور اس وجہ سے وہ بیرونی جماعتوں میں سے اول نمبر لے گئی ہے۔ سوائے ان جماعتوں کے جن تک ابھی یہ اطلاع نہیں پہنچی اور نہ پہنچ سکتی تھی۔ ان میں سے بعض کو تو اب اطلاع ملی ہو گی مثلاً کلکتہ، بمبئی، حیدر آباد و سکندر آباد وغیرہ کی جماعتیں ہیں۔ ان کو جب خبر پہنچے تو اگر وہ جلدی کریں تو ممکن ہے اول نمبر میں شامل ہو جائیں۔ پس مَیں پھر ایک دفعہ بیرونی جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس تحریک میں حصہ لیں اور صدقہ کی نیت نہ رکھیں اور اس طرح نیکی کے اس خانہ کو پُر کریں جس میں اب تک بہت کم عمل درج ہیں۔
اس کے بعد ایک اَور بات ہے جس کے متعلق مَیں کچھ کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ مَیں دوستوں کو ہمیشہ دعاؤں کے متعلق کہتا رہتا ہوں اور خود بھی دعائیں کرتا ہوں۔ اس وقت حالات ایسے خراب ہو چکے ہیں کہ ملک کے امن میں بہت خلل پڑنے کا ڈر ہے۔ ایک طرف تو بیرونی حکومتیں اور طاقتیں کوشش کر رہی ہیں کہ ہندوستان پر قبضہ کر لیں اور دوسری طرف بدقسمتی سے ہندوستان کی مختلف قوموں میں اختلاف بڑھ رہے ہیں۔ ہر قوم منصوبے کر رہی ہے کہ موقع ملے تو مَیں دوسری قوموں کے اموال اور جائدادوں پر قبضہ کر لوں اور ان کی جانوں کو ضائع کروں حالانکہ یہ کتنی خراب بات ہے جو صرف اخلاق کی کمی سے پیدا ہوتی ہے۔ دوسرے ملکوں میں اگر مصیبت آئے تو لوگ ایک دوسرے کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور مدد کریں گے مگر ہمارے ملک میں یہ حالت ہے کہ ہر شخص اپنے گاؤں میں بیٹھا خوش ہو رہا ہوتا ہے کہ موقع ملے تو لوٹ مار کریں گے۔ ایک طرف ہندوستان کے لئے آزادی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف شیطان کی غلامی سے آزادی حاصل کرنے کی طر ف کوئی توجہ نہیں۔ حالانکہ حقیقی آزادی وہی ہے جو شیطان کی غلامی سے حاصل کی جائے۔ دنیا میں کوئی قوم حکومت نہیں کر سکتی جب تک وہ ایک حد تک شیطان کی غلامی سےآزاد نہ ہو۔ بے شک غیر قومیں بھی دوسروں پر ظلم کرتی ہیں مگروہ غیروں پر ظلم کرتی ہیں اپنوں پر نہیں۔ جرمنوں نے بہت سے ملکوں پر قبضہ کر لیا ہے اور بعض پر حملے کر رہے ہیں مگر ان کی غرض یہ نہیں کہ ہٹلر کو بہت سا مال مل جائے یا گوئرنگ کی جائداد میں اضافہ ہو جائے۔ وہ دوسروں کو ضرور لوٹتے ہیں مگر قوم اور ملک کے فائدہ کے لئے لوٹتے ہیں اور اس طرح اس لوٹنے میں ایک رنگ نیکی کا بھی ہے۔ روس پر جرمن حملہ کی غرض یہ نہیں کہ ہٹلر کی جائداد بڑھ جائے یا اگر جرمنوں نے پولینڈ کو لوٹا تو کسی خاص فرد نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ اس سے ہزاروں لاکھوں جرمن پل رہے ہیں۔ وہ دوسروں پر ظلم تو کرتے ہیں مگر بنی نوع انسان کا ایک حصہ ایسا بھی ہے جس کی خیر خواہی کی جاتی ہے مگر ہمارے ملک میں یہ حالت نہیں۔ یہاں کے لوگوں کی ذہنیت ڈاکوؤں کی سی ہے اور اس ذہنیت کے لوگ کسی کے بھی خیر خواہ نہیں ہوتے اورہمارے ملک کی یہی ذہنیت ہے۔ جاپان اس وقت بڑھ رہا ہے مگر اس پیش قدمی سے اس کا مقصد یہ نہیں کہ اس کے وزیر اعظم جنرل ٹوچو کو بہت سا مال مل جائے یا اس کے بادشاہ میکاڈو کی جائداد وسیع ہو جائے بلکہ یہ غرض ہے کہ بحیثیت مجموعی سب جاپانی فائدہ اٹھا سکیں۔ انگریزوں کو برا کہا جاتا ہے اور ان میں بھی نقائص ہیں مگر ہندوستان پر قبضہ کر کے ان میں سے خاص اشخاص نے فائدہ نہیں اٹھایا، ہر فرد نے اٹھایا ہے بلکہ ان کی سیاست کے پیش نظر یورپ کے ہر فرد نے فائدہ اٹھایا ہے۔ فرانسیسی بھی یہاں ملازم ہیں اور جرمن بھی تجارتیں کرتے ہیں۔ صرف ہندوستانیوں یا ایشیائیوں کے لئے دقتیں ہیں، یورپینوں کو نہیں۔ مَیں نے ملاقات کے وقت بعض انگریزوں کے سامنے یہ بات رکھی ہے کہ جب کوئی ہندوستانی ان سے ملنے آئے تو وہ اسے ملیں گے بھی تو اس طرح جس طرح کتے کے آگے روٹی ڈالی جاتی ہے مگر جب کوئی جرمن ان کی کوٹھی پر آ جائے تو برادرانہ طور پر ملتے ہیں۔ اس وقت وہ انقباض جاتا رہتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا ہم جنس ملنے آیا ہے۔ ہندوستان پر انگریزوں کا قبضہ سیاسی قبضہ ہے ڈاکوؤں والا نہیں مگر ہمارے ملک کی ذہنیت ڈاکوؤں والی ہے۔ فاتح قومیں بے شک بالواسطہ فائدہ اٹھاتی ہیں ، ٹیکس بڑھا دیتی ہیں، تجارتوں کو نقصان پہنچاتی ہیں اور اس طرح ظلم تو کرتی ہیں مگر یہ سیاسی ظلم ہیں جو ایک حد تک برداشت کئے جا سکتے ہیں اور اس طرح دوسری قوم کو کمزور کرنے میں سینکڑوں سال لگ جاتے ہیں مگر ڈاکو اس طرح نہیں کرتے۔ وہ تو ایک ہی دن میں مال لوٹ لیتے ، جانیں ضائع کر دیتے اور گھر بار جلا دیتے ہیں لیکن جو قومیں سیاسی قبضہ کرتی ہیں وہ سینکڑوں سالوں میں جا کر دوسری قوم کو کمزور کرتی ہیں۔ انگریز ہندوستان میں قریباً تین سو سال سے ہیں لیکن آج بھی یہاں لوگ اپنے گھروں میں رہتے ہیں۔ اپنی زمینوں اورجائدادوں کے مالک ہیں۔ مگر ہمارے ملک کی ذہنیت ڈاکوؤں والی ہے اور یہ ذہنیت خطرات کو بہت بڑھا دیتی ہے۔ ایک طرف تو انگریزوں کے خلاف جذبۂ نفرت پیدا کیا جا رہا ہے، پیدا ہو گیا ہے اور پیدا ہوتا جائے گا۔ حکومت کو یا تو پتہ نہیں اوریا پھر وہ مصلحتاً خاموش ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ایک دوسری قوم کے خلاف بھی لوگوں کو اُکسایا جا رہا ہے۔ کہیں کہا جاتا ہے کہ یہ سکھوں کا ملک ہے، کہیں کہا جاتا ہے ہندوؤں کا ہے۔ چوری چوری ہتھیار جمع کئے جا رہے ہیں، ایمونیشن اکٹھا کیا جا رہا ہے، تیزاب فراہم کیا جاتا ہے اور یہ ذہنیت مقامی طور پر بہت بڑی بربادی کا موجب ہو سکتی ہے اور سچی بات تو یہ ہے کہ ایک گاندھی نہیں اگر دس کروڑ گاندھی ہوں بلکہ ہندوستان کی آبادی چالیس کروڑ بتائی جاتی ہے اگر 40 کروڑ گاندھی بن جائیں لیکن ذہنیت یہی ہو جو اس وقت ہے تو چالیس کروڑ گاندھی مل کر بھی انگریزوں کو یا کسی دوسری قوم کو ہندوستان سے نہیں نکال سکتے۔ جس قوم کی ذہنیت غلام ہو وہ کبھی آزاد نہیں ہو سکتی۔ جو قوم اندرونی نظم و نسق کو درست نہیں کر سکتی وہ دوسرے کے مقابل پر کبھی کھڑی نہیں ہو سکتی اور بھلا کون معقول آدمی تسلیم کرے گا کہ جو قومیں پیپل کی ٹہنیوں پر لڑتی ہیں، جو تعزیوں پر اور گائے کی قربانی کے لئے لڑتی ہیں وہ ایک دوسری سے حکومت لینے یا ملک حاصل کرنے کے لئے نہ لڑیں گی۔ یہ تو محض بہانہ ہے کہ انگریز لڑاتے ہیں اور یہ لڑائیاں اس وجہ سے ہیں کہ انگریز یہاں ہیں۔ یہ عقائد انگریزوں نے تو نہیں بنائے۔ گائے کی قربانی یا حرمت کے عقائد ان کے بنائے ہوئے نہیں۔ اسلام میں سینکڑوں سالوں سے اس کی اجازت چلی آتی ہے اور ہندوؤں کے اندر بھی سینکڑوں سالوں سے اس کی حرمت کا عقیدہ چلا آتا ہے۔ انگریزوں سے پہلے بھی یہاں تعزیے نکلتے تھے، گھوڑا نکلتا تھا، ہولی انگریزوں سے پہلے بھی ہوتی تھی اور ان سے پہلے بھی ایک دوسرے پر رنگ پھینکا جاتا تھا۔ یہ باتیں انگریزوں نے پیدا نہیں کیں اور گو یہ باتیں نامناسب ہیں لیکن اگر ہر شخص اور ہر قوم یہ سمجھے کہ دوسرے کے معاملات میں دخل نہیں دینا تو کوئی جھگڑا پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ اگر ہندو ایک دوسرے پر رنگ پھینکنا چاہیں تو کسی کا حق نہیں کہ انہیں روکے بلکہ اگر کوئی اپنے اوپر نیل کا مٹکا بھی گرانا چاہے تو کسی کو روکنے کا حق نہیں۔ لیکن اگر کوئی مسلمان اسے ناپسند کرتا ہے اور اس میں اپنی ذلت سمجھتا ہے تو اس پر کیوں پھینکا جائے۔ اب ان باتوں میں انگریزوں کا کیا دخل ہے۔ انہوں نے تو یہ تعلیم نہیں دی اور نہ یہ عقائد پھیلائے ہیں یا کوئی مسلمان اپنے گھر میں گائے کی قربانی کرتا ہے، بازاروں میں اس کا گوشت لئے نہیں پھرتا اور ہندوؤں کو نہیں دھمکاتا تو اس میں ہندوؤں کا کیا نقصان ہے یا ہندو دسہرہ مناتے ہیں تو اس میں مسلمانوں کا کیا نقصان ہے۔ ہندو باجا بجاتے ہیں گو اس سے نماز کا وقت ہو تو ایک حد تک نماز میں حرج ہوتا ہے لیکن اگر ہندو مسلمانوں کے کاموں میں دخل نہ دیں تو باجا پر ان کو اعتراض کی ضرورت نہیں ۔ جتنا زیادہ مسلمان اس سے چِڑتے ہیں اتنا ہی وہ اور بجاتے ہیں۔ یہاں بھی بعض اوقات ہندو باجا بجاتے ہیں مگر ہم نہیں روکتے اور مسجد میں بھی کبھی اتنا شور ہم نے نہیں سنا۔ اگر دوسرے مسلمان بھی اس پر بُرا نہ منائیں تو ہندو خود بخود چھوڑ دیں۔ وہ سمجھیں گے کہ مسلمان تو اس سے چِڑتے نہیں یہ خوامخواہ اپنے ڈھول پھاڑنے والی بات ہے۔ تو اگر آپس میں محبت اور پیار کا طریق جاری ہو تو ان چیزوں کا خود بخود علاج ہو سکتا ہے۔ یہ جھگڑے صرف اس وجہ سے ہیں کہ اس بات پر اصرار کیا جاتا ہے کہ دوسرے سے بھی وہی کرائیں جو خود کرتے ہیں اور یہ باتیں انگریزوں نے پیدا نہیں کیں۔ دوسرے کے ذمہ اتنا ہی قصور لگانا چاہئے جتنا اس سے سرزد ہو اور ہمیشہ سچائی کو دیکھنا چاہئے اور سچائی کے پیچھے چلنا چاہئے۔ ان باتوں نے ملک کے امن و چین کو بگاڑ دیا ہے اور اسی وجہ سے مَیں دوستوں کو دعا کی تحریک کرتا رہتا ہوں اور خود بھی دعائیں کرتا رہتا ہوں۔
پرسوں کی بات ہے کہ مَیں اسی طرح دعا کررہا تھا۔ میرے دل میں خیال آیا کہ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے معلوم ہو جائے تو اطمینان ہو۔ ہماری تو 32 دانتوں میں زبان کی سی حالت ہے ۔ ہم مسلمانوں کے خیر خواہ ہیں مگر وہ ہمارے دشمن ہیں، ہم ہندوؤں کے خیر خواہ ہیں مگر ہندو ہمارے دشمن ہیں، ہم سکھوں کے خیر خواہ ہیں مگر سِکھ ہمارے دشمن ہیں، ہم عیسائیوں کے خیر خواہ ہیں مگر عیسائی ہمارے دشمن ہیں، ہم انگریزوں کےو فادار ہیں مگر وہ بھی ہمارے دشمن ہیں۔ ان کی مشین جب چلتی ہے ہمارے خلاف ہی چلتی ہے۔ گویا ہم 32 دانتوں میں زبان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہم ہر ایک کے خیر خواہ ہیں مگر ہمارا ہر ایک دشمن ہے اس وقت لڑائی ہو رہی ہے، ہماری جماعت کے ہزاروں نوجوان بھرتی ہو کر جنگ میں جا رہے ہیں اور ماں باپ اور خویش و اقارب کو چھوڑ کر جاتے ہیں۔ کئی ایسے ہیں جو کہتے ہیں ہمیں نوکری کی ضرورت نہیں مگر ان کے ماں باپ کہتے ہیں کہ نہیں حضرت خلیفة المسیح کا حکم ہے اس لئے ضرور جاؤ۔ مگر پنجاب کے انگریز افسر ہمیں باغی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگرچہ ہمارا اس سے کچھ نہیں بگڑتا جتنا وہ ہم کو باغی ثابت کرنا چاہتے ہیں اتنا ہی خدا تعالیٰ کی نظر میں ہمارا درجہ زیادہ بلند ہوتا ہے۔ مسلمان ہم کو کافر قرار دیتے ہیں، ان کی سیاسی انجمنیں قانون بناتی ہیں کہ ہمارے ممبروں کا پہلا فرض یہ ہو گا کہ احمدیوں کو دائرہ اسلام سے نکلوائیں مگر ان پر جو بھی مصیبت آتی ہے اس میں ہم ان کے ساتھ ہوتے ہیں اور مشکلات میں قربانیاں کرتے ہیں اور اپنے مال اور اپنی جانیں خرچ کرتے ہیں۔ اسی طرح ہم ہندوؤں کی بھی مدد کرتے ہیں۔ جہاں کہیں فساد ہو، احمدی ان کی مدد کرتے ہیں۔ جب مولچوں کے علاقہ میں فساد ہوئے تو ہائیکورٹ کے ایک جج نے یہ بیان کیا کہ جب مسلمان ہندوؤں کو مارتے تھے تو احمدی اپنی جانوں کو خطرہ میں ڈال کر ان کو بچاتے تھے مگر ہندوؤں کا جہاں بھی بس چلے احمدیوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ سِکھ گوروؤں کی ہم اتنی ہی عزت کرتے ہیں جتنی کی جا سکتی ہے مگر سِکھ ہمارے خلاف ہیں اور ان کی آنکھوں سے ہمارے خلاف شعلے نکلتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ جس طرح بھی ہو ان کو ختم کر دیا جائے۔ دوسرے مسلمانوں کی ہم ہر موقع پر مددد کرتے ہیں مگر وہ ہمیشہ ہمارے خلاف رہتے ہیں اور اَیسا ہونا بھی چاہئے کیونکہ اسماعیلی سلسلہ ہے اور حضرت ابراہیم کی پیشگوئی ہے کہ:۔
‘‘سب کے ہاتھ اس کے برخلاف ہوں گے اور وہ اپنے سب بھائیوں کے سامنے بود و باش کرے گا۔’’4
سو اگر ہمارے خلاف ہمارے بھائیوں کی تلوار اٹھی رہتی ہے تو یہ ثبوت ہے ہمارے سلسلہ کے اسماعیلی سلسلہ ہونے کا۔ آنحضرت ﷺ نے دنیا میں تمام بانیانِ مذاہب کی عزت قائم کی۔ آپ نے اعلان فرمایا کہ اے عرب کے لوگو! سن لو کہ وَ اِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ۔ 5 ہندوستان میں بھی اللہ تعالیٰ کے نبی آئے ہیں۔ شام میں بھی اللہ تعالیٰ کے نبی آئے ہیں، عراق میں بھی آئے ہیں اور ایران میں بھی آئے ہیں اور دنیا کی ہر قوم میں اللہ تعالیٰ نے ہادی بھیجے ہیں۔ مگر ہندو کوئی کتاب لکھتا ہے تو رسول کریم ﷺ کو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ جھوٹا ، فریبی اور دغا باز لکھتا ہے۔ عیسائی کوئی کتاب لکھتا ہے تو اس میں آپ کو نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذَالِکَ جھوٹا، فریبی اور دغا باز لکھتا ہے۔ وہ محمد (ﷺ) جس نے اپنے ماننے والوں کے دلوں سے دوسری قوموں کے سرداروں اور لیڈروں کی نفرت کو دور کر کے ان کی محبت کو قائم کیا۔ اسے اس کا بدلہ یوں دیا جاتا ہے کہ جب بھی کسی کو موقع ملتا ہے آپ کو جھوٹا، فریبی اور دغاباز کے نام سے یاد کرتا ہے۔ یہ کیوں ہے؟ حالانکہ لوگ دنیا میں بالعموم قدر کرنے والے ہوتے ہیں۔ حسن و احسان کو محبت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ اسی لئے ہے کہ تا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیشگوئی پوری ہو۔ ‘‘ سب کے ہاتھ اس کے برخلاف ہوں گے۔’’اور تا وہ نشان ظاہر ہو جو خدا تعالیٰ نے اسماعیلی سلسلہ کے لئے مقرر کیا ہے۔ محمد (ﷺ) سے زیادہ محسن اَور کوئی نہیں مگر آپ سے زیادہ دشمنی بھی کسی کےساتھ نہیں کی گئی اور یہی ہمارا حال ہے۔ ہم سب کی خیر خواہی کرتے ہیں مگر سب ہمیں مٹانا چاہتے ہیں۔ تو مَیں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یہ سلسلہ سب سے زیادہ خطرات میں گھرا ہؤا ہے۔ یا الٰہی تُو اپنا فضل کر اور یہی دعا کرتا کرتا مَیں سو گیا۔ صبح کےقریب کا وقت تھا کہ میرے سامنے ایک کاغذ لایا گیا جس پر کچھ لکھا تھا۔ مَیں نے اسے پڑھنا شروع کیا مگر کشف میں ہی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رات کا وقت ہے اور وہ ٹھیک طرح پڑھا نہیں جاتا۔ کئی بار مَیں نے کوشش کی مگر ٹھیک طور پر پڑھا نہیں گیا لیکن آخر پڑھا گیا۔ اس پر یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے اُكُلُهَا دَآىِٕمٌ وَّ ظِلُّهَا اس کے بعد یہ الفاظ میرے دل پر بھی اور زبان پر بھی نازل ہونے شروع ہوئے اور بہت دیر تک آدھ گھنٹہ یا معلوم نہیں کتنے عرصہ تک میری زبان پر یہ الفاظ جاری رہے۔ زبان بھی یہی الفاظ کہتی تھی اور دل میں بھی بار بار دہرائے جاتے تھے۔ جب مَیں اٹھا تو میرے ذہن میں یہ آیت نہ تھی جو مَیں نے شروع خطبہ میں پڑھی ہے اور مجھے یہ یاد نہ تھا کہ یہ قرآن کریم کے الفاظ ہیں۔ مَیں سمجھتا تھا کہ قرآن کریم میں شجرہ طیبہ کی جو مثال دی گئی ہے انہی الفاظ کا ترجمہ کر کے میرے سامنے لایا گیا ہے۔ کل مجھے خیال آیا کہ دیکھوں تو سہی یہ کسی آیت قرآنی کا ٹکڑا تو نہیں اور میرے مدنظر تُؤْتِيْۤ اُكُلَهَا كُلَّ حِيْنٍ والی آیت تھی۔ اور مَیں نکالنے بھی وہی لگا تھا کہ اُکُل کے لفظ کے نیچے یہی آیت مل گئی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس جنت کا مومنوں کو وعدہ دیا گیا ہے اس کی خصوصیت یہ ہے کہ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُاس کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ اُكُلُهَا دَآىِٕمٌاس کے پھل دائمی ہیں اور کبھی ختم نہیں ہوتے۔ وَظِلُّهَااور اس کا سایہ بھی دائمی ہے وہ بھی کبھی ختم نہیں ہوتا تِلْكَ عُقْبَى الَّذِيْنَ اتَّقَوْا مگر یہ انجام ان کا ہے جو خدا تعالیٰ کے حضور متقیوں کی زندگی بسر کرتے ہیں وَ عُقْبَى الْكٰفِرِيْنَ النَّارُ اور جو اس سچائی کا انکار کریں ان کا انجام دوزخ ہے۔ پہلے میرا یہ خیال نہ تھا کہ یہ الفاظ کسی آیت کا ٹکڑا ہیں۔ قرآن ہمیشہ پڑھا جاتا ہے مگر بعض اوقات کوئی آیت ذہن میں نہیں ہوتی۔ پہلے مَیں اسے آیت نہیں سمجھتا تھا مگر بعد میں معلوم ہؤا کہ آیت ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اُكُلُهَا دَآىِٕمٌ وَّ ظِلُّهَا۔ اللہ تعالیٰ نے احمدیت کے پھلوں کو اور اس کے سایہ کو دائمی بنانے کا فیصلہ کر دیا ہے۔ اس لئے کوئی دشمن اسے کچل نہیں سکتا۔ اتنی تکرار کے ساتھ یہ الفاظ الہام ہوتے رہے کہ شاید نصف یا پون گھنٹہ مسلسل جس طرح تار سارنگی پر پڑتی ہے یہ الفاظ میرے قلب پر پڑتے رہے یہاں تک کہ میری آنکھ کھل گئی۔ مَیں نے آنکھ کھل گئی کے الفاظ بولے ہیں کیونکہ کشف یا الہام کی جو کیفیت ہوتی ہے وہ نرالی ہوتی ہے وہ ایک غنودگی کی حالت ہوتی ہے مگر انسان سمجھتا نہیں کہ غنودگی کی حالت ہے۔ وہ اپنے بستر کو بھی محسوس کرتا ہے اور گردو پیش کی دوسری چیزوں کو بھی۔ مگر پھر بھی ایک غنودگی اور ربودگی کی حالت ہوتی ہے۔ وہ اپنے آپ سے کھویا ہؤا ہوتا ہے اور حواس باطنی کے ماتحت دیکھتا ہے۔ مَیں نے جب یہ حالت دیکھی تو اس وقت مَیں جانتا تھا کہ میری کروٹ کس طرف ہے، کس جگہ ہوں اور حِس ایسی تھی جیسے جاگتے ہوئے ہوتی ہے مگر حواس ظاہری کھوئے ہوئے تھے اور باطنی حواس پیدا تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں ایک طرف تو بشارت دی ہے مگر دوسری طرف یہ بتایا ہے کہ یہ انجام متقیوں کا ہوتا ہے جیسا کہ فرمایا تِلْكَ عُقْبَى الَّذِيْنَ اتَّقَوْا گو یہ حصہ الہام میں شامل نہیں مگر جب کسی آیت کا کوئی ٹکڑا الہام ہو تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ ساری آیت اس میں شامل ہے۔ اس لئے ہماری جماعت کو چاہئے کہ متقی بنے۔ بعض لوگ معمولی معمولی باتوں میں جھوٹ بول دیتے ہیں، بعض لوگ آجکل غلہ کے معاملہ میں بھی بد عہدی کر دیتے ہیں، بعض ایسے لوگوں سے خریدتے ہیں جن سے خریدنے کی ممانعت ہے۔ اگر تو ہماری حالت افراد کی ہوتی تو ہم کہہ سکتے تھے کہ ہمارے ہزار میں سے صرف بیس ایسے ہیں اور اس بات پر ہم فخر کر سکتے تھے مگر ہمیں تو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ساری دنیا کو شامل کرو اور پھر سارے نیک بنو۔ پس مَیں دوستوں کو پھر یہ نصیحت کرتا ہوں کہ متقی بنو، سچائی کو شعار بناؤ جو کام کرو اس میں سچ بولو، ڈرو نہیں۔ ڈرنے کی آخر بات ہی کیا ہے۔ انسان ڈرتا اس وجہ سے ہے کہ سمجھتا ہے میرا روپیہ ضائع ہو جائے گا، جان چلی جائے گی یا عزت پر حرف آئے گا لیکن سوچنا تو چاہئے کہ وہ روپیہ آیا کہاں سے تھا، جان کس نے دی تھی اور عزت خدا تعالیٰ کے سوا کس کے ہاتھ میں ہے۔ پس مومن کو چاہئے کہ نڈر ہو اور سوائے خدا تعالیٰ کے کسی سے نہ ڈرے۔ جان مال اور عزت، کسی چیز کے ضائع ہونے سے خوف نہ کھائے کہ یہ سب عارضی چیزیں ہیں۔ حضرت مسیح ناصری کو جب دشمنوں نے صلیب پر لٹکایا تو دنیا یہ خیال کرتی تھی کہ آپ کی ذلت انتہا کو پہنچ گئی۔ آپ کو جس مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا وہ آپ کا ہمدرد تھا اور اس نے کوشش کی کہ آپ اپنے دعویٰ کو ذرا نرم کر دیں مگر آپ نے ایسا نہ کیا۔ محمد (ﷺ) سے کفار نے یہ کہا کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ شرک کرو یا اسلام چھوڑ دو بلکہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے دیوتاؤں اور معبودوں کو بُرا نہ کہو۔ یہ تجویز بظاہر اتنی معقول تھی کہ ابو طالب جو آپ کےچچا تھے انہوں نے بھی ابتداءً معقول سمجھا، کفار نے ابو طالب کو دھمکی بھی دی کہ اگر تم اتنی سی بات بھی نہ منوا سکے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ تم بھی محمد (ﷺ) کے ساتھ ہو اور ہمیں ذلیل کرنا چاہتے ہو۔ ابو طالب نے آنحضرت ﷺ کو بلایا اور کہا اے میرے بھتیجے آج تیری قوم میرے پاس آئی تھی۔ وہ لوگ بڑے دکھی ہیں اور وہ کہتے تھے کہ آخر محمد (ﷺ) ہم میں سے ہی ہے۔ اسے ہمارے معبودوں کو بُرا کہنے میں کیا مزہ آتا ہے۔ ہم اس بات کے لئے تیار ہیں کہ اس سے صلح کر لیں۔ اپنے آپ کو اس کے ماتحت کر دیں اور اس کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیں اور اس سے یہ نہیں چاہتے کہ وہ اپنا کوئی عقیدہ چھوڑ دے بلکہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے معبودوں کو بُرا نہ کہے۔ ابو طالب نے آپ سے یہ بھی کہا کہ میرے بھتیجے مَیں نے کس طرح ہر مصیبت کے وقت تیری مدد کی ہے مگر قوم آخر قوم ہی ہے آج تو وہ مجھے بھی نوٹس دے گئے ہیں کہ اگر تم اپنے بھتیجے سے اتنی سی بات بھی نہ منوا سکو تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ تم بھی اس کے ساتھ ہو اور ہم تم سے بھی قطع تعلق کر لیں گے۔ چونکہ ابو طالب کے آنحضرت ﷺ پر احسان تھے اور وہ ہمیشہ آپ کا ساتھ دیتے آئے تھے اس لئے اس بات کا خیال کر کے کہ ابو طالب کو اپنی قوم کے چھوٹ جانے کا ڈر ہے۔ آپ نے فرمایا چچا آپ کے مجھ پر بڑے احسان ہیں، آپ سے مَیں کچھ نہیں کہتا، آپ بے شک اپنی قوم سے صلح کر لیں اور لوگوں کو خوش کر لیں اور بے شک میرا ساتھ چھوڑ دیں لیکن اگر وہ دائیں طرف سورج اور بائیں طرف چاند لا کر کھڑا کر دیں تو بھی خدا تعالیٰ کی توحید میں کسی قسم کی کمی کرنے کو مَیں تیار نہ ہوں گا۔ ابو طالب مسلمان نہ تھے مگر صداقت بہرحال دل پر اثر کرتی ہے۔ یہ بات سن کر آپ نے کہا کہ میرے بھتیجے جا، جس چیز کو تُو سچائی سمجھتا ہے اسے بےشک پھیلا۔ مَیں تیرے ساتھ ہوں۔ 6 تو سچائی کے لئے انسان اگر ایک رنگ میں ذلت بھی اٹھائے تو خدا تعالیٰ اسے دوبارہ قائم کر دیتا ہے۔ لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ذلیل کرنے کی کتنی کوششیں کیں مگر کیا وہ کامیاب ہوئے۔ پھر وہ تو پرانی باتیں ہیں۔ احرار کے فتنہ کو تو تم لوگوں نے خود دیکھا ہے۔ 1934ء سے شروع کر کے دو تین سال پیچھے تک انہوں نے کتنا زور لگایا، وہ کس جوش سے آتے تھے اور دھڑلے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر گندے اعتراضات کرتے اور گندے الفاظ سے آپ کو یاد کرتے تھے اور کس دعوے سے کہتے تھے کہ ہم مرزائیت کا جنازہ نکال دیں گے (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کا نام انہوں نے مرزائیت رکھا ہؤا ہے) مگر جنازہ بھی جب نکلتا ہے تو لوگوں کو نظر آتا ہے۔ لیکن ان احرار کا تو اب جنازہ بھی کہیں نظر نہیں آتا۔ تم میں سے کتنے تھے جو اس شورش سے ڈرا کرتے تھے، کئی گھبرا گھبرا کر مجھے رقعے لکھتے تھے کہ اب کیا ہو گا، کئی تھے جن کو گورنمنٹ پر غصہ آتا تھا کہ وہ کیوں کچھ کرتی نہیں مگر میرا دل یقین سے پُر تھا اور مَیں یقین رکھتا تھا کہ خدا تعالیٰ کی بات کو کوئی انسان ردّ نہیں کر سکتا۔ پس مَیں نہ احرار کی شرارتوں سے خائف تھا، نہ ان رقعوں سے گھبراتا تھا اَور نہ منافقین کی کمزوری سے۔ اور جانتا تھا کہ یہ سب باتیں ہوا کے جھونکوں سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتیں۔ جو آتا ہے اَور اُڑ جاتا ہے اور اس کا کوئی نشان بھی باقی نہیں رہتا۔ اتنے بڑے نشان دیکھ کر بھی تم لوگ کیوں اپنے عقائد اور اعمال میں مضبوط نہیں ہوتے۔ کسی چیز سے نہ ڈرو۔ خوب یاد رکھو کہ کسی انسان کا رزق اور عزت کسی انسان کے ہاتھ میں نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ عزت اور ذلت بھی اس کے ہاتھ میں ہے اور آخری فیصلہ اسی نے کرنا ہے۔ چھوٹی عدالتوں کے فیصلے کچھ حقیقت نہیں رکھتے اور اصل فیصلہ ہائی کورٹ کا ہوتا ہے اور ہمارا ہائی کورٹ خدا تعالیٰ ہے۔ اگر تم سچائی پر قائم رہو، متقی بن جاؤ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُكُلُهَا دَآىِٕمٌ وَّ ظِلُّهَا کہ اس کے پھل بھی دائمی ہوں گے اور سایہ رحمت بھی دائمی ہو گا۔ پس تم متقی بن جاؤ، اپنے، اپنی اولاد کے ، اَور اپنے ہمسایوں کے اخلاق درست کرو، ان کو سچائی پر قائم کرو اور غیر اللہ کا ڈر دلوں سے نکال دو تا تمہارے پھل اور تمہارے اچھے کاموں کے نتائج اچھی صورت میں ہمیشہ کے لئے جاری رہیں اور تمہاری نسلیں بھی ہمیشہ کے لئے جاری رہیں۔ ظل کا لفظ اگر انسان کے لئے بولا جائے تو اس کے معنے اولاد کے بھی ہو سکتے ہیں۔ پس خدا تعالیٰ کے سوا کسی سے نہ ڈرو اور عارضی تکالیف کے خیال سے سچائی کو کبھی نہ چھوڑو، کسی سے دھوکا نہ کرو، کسی سے جھوٹ نہ بولو اور متقی بن جاؤ اور پھر یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ نہ صرف تم نقصان سے بچائے جاؤ گے بلکہ تمہاری اولادیں بھی بچائی جائیں گی۔ ‘‘
(الفضل 5 جون 1942ء)
1: الرعد : 36
2: بخاری کتاب النفقات باب فضل نفقة الرجل علی الاھل
3: بخاری کتاب الزکوٰة باب الاستعفاف عن المسألة
4: پیدائش باب 16 آیت 12
5: الفاطر: 25
6: سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 285۔ مطبوعہ مصر 1936ء


16
نماز باجماعت پڑھنے کی سخت تاکید
( فرمودہ 5 جون 1942ء)

تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’مَیں پھوڑے کی تکلیف کی وجہ سے نماز کے لئے تو نہیں آ سکتا کیونکہ پیٹ پر پھوڑا ہے اور اس وجہ سے مجھے بیٹھ کر نماز پڑھنی پڑتی ہے لیکن جمعہ کی وجہ سے مَیں آج آ گیا ہوں اور مختصر طور پر جماعتِ قادیان کو خصوصاً اور بیرونی جماعتوں کو عموماً اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ احمدیت ایک مذہب ہے، کوئی سوسائٹی یا انجمن نہیں ہے جو اپنے لئے چند قانون بنا کر باقی امور میں لوگوں کو آزاد چھوڑ دیتی ہے بلکہ مذہب ہونے کے لحاظ سے اس کی بنیاد انسان اور خدا کے تعلق پر ہے۔ اگر احمدیت اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے تعلق کو قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے تو وہ کامیاب ہے خواہ اس کے ماننے والوں کی تعداد کتنی ہی قلیل کیوں نہ ہو۔ اور اگر خدا اور اس کے بندوں کا تعلق قائم کرنے میں احمدیت کامیاب نہ ہو تو خواہ ساری دنیا احمدی کیوں نہ ہو جائے احمدیت کامیاب نہیں کہلا سکتی اور اللہ اور اس کے بندے کے تعلق کی پہلی نشانی بندے کے دل میں عبادت کی تڑپ کا پیدا ہونا ہے اگر اللہ تعالیٰ کی عبادت کی تڑپ لوگوں کے دلوں میں نہ ہو تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ ان کےد لوں میں خدا تعالیٰ کی محبت نہیں اور دوسرے معنے اس کے یہ ہوں گے کہ خدا تعالیٰ کے دل میں بھی ان کی محبت نہیں ہے۔ مَیں نے متواتر جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ نماز ایک ایسی چیز ہے جس کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انسان نماز نہ پڑھے یا اس کو التزام کے ساتھ ادا کرنے میں غفلت سے کام لے تو پھر بھی وہ مسلمان اور احمدی رہ سکتا ہے۔ بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کو چھوڑ دینے کی وجہ سے انسان کمزور کہلاتا ہے مگر نماز ایسی چیز ہے کہ اس کو چھوڑ دینے کی وجہ سے وہ کچھ بھی نہیں کہلا سکتا۔ ایک شخص جو اپنے آپ کو احمدی کہتا ہے اورپھر نماز نہیں پڑھتا اور نماز نہ پڑھنے کے یہی معنے نہیں کہ وہ کبھی نماز نہیں پڑھتا بلکہ سال بھر میں اگر وہ ایک نماز بھی چھوڑ دیتا ہے یا دس سال میں وہ ایک نماز کو بھی ترک کر دیتا ہے تو وہ کسی صورت میں احمدی نہیں کہلا سکتا۔ اگر اس کو یہ خیال ہو کہ مَیں نے بیس سال میں صرف ایک نماز چھوڑی ہے پھر کیا ہو گیا ۔تو وہ ایک وہم میں مبتلا ہے۔ اگر وہ بیس سال میں ایک نماز بھی چھوڑ دیتا ہے تو پھر بھی وہ احمدی نہیں کہلا سکتا۔ بلکہ جس وقت کوئی شخص کسی نماز کو چھوڑتا ہے اُسی وقت وہ احمدیت سے خارج ہو جاتا ہے اور جب تک دوبارہ اس کے دل میں ندامت اور اپنے فعل پر افسوس پیدا نہ ہو اور جب تک دوبارہ اس کے دل میں دین کی رغبت پیدا نہ ہو اُس وقت تک وہ خدا تعالیٰ کے حضور احمدی نہیں سمجھا جاتا۔ مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ابھی تک جماعت نے نماز کی اس اہمیت کو نہیں سمجھا۔ چنانچہ میرے پاس شکایتیں پہنچتی رہی ہیں کہ بعض لوگ نمازوں میں سست ہیں اور بعض بالکل ہی نہیں پڑھتے۔ مَیں اس نقص کو دیکھتے ہوئے خصوصیت سے قادیان کے خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ سے کہتا ہوں کہ نماز کے متعلق ان میں سے ہر شخص اپنے ہمسایہ کی اسی طرح جاسوسی کرے جس طرح پولیس مجرموں کی جاسوسی کا کام کیا کرتی ہے جب تک رات اور دن ہم میں سے ہر شخص اس طرف متوجہ نہ ہو کہ ہمارا ہر فرد خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، بچہ ہو یا جوان، نماز باقاعدگی کے ساتھ ادا کرے اور کوئی ایک نماز بھی نہ چھوڑے اس وقت تک ہم کبھی بھی اپنے اندر جماعتی روحانیت قائم نہیں کر سکتے اور نہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہو سکتے ہیں مثلاً مَیں نے بار بار توجہ دلائی ہے کہ نماز کے وقت دکانیں کھلی نہیں ہونی چاہئیں ۔ آخر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کی دکان کھلی بھی رہے اور پھر اس کے متعلق یہ سمجھا جائے کہ وہ نماز باجماعت بھی ادا کرتا ہے۔
پس مَیں انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ نمازوں کے وقت دکانداروں کی نگرانی رکھیں اور جس شخص کی دکان کھلی ہو اس کی دکان پر نشان لگا دیں اور اسی دن اس کی میرے پاس رپورٹ کریں۔ اگر نمازوں کے وقت کوئی شخص اپنی دکان کو کھلا رکھتا ہے تو اس کے سوائے اس کے اَور کوئی معنی نہیں ہو سکتے کہ اس کے دل میں نماز کا احترام نہیں۔ اس وقت بہرحال ایک احمدی کہلانے والے کو اپنی دکان بند کرنی چاہئے اور نماز باجماعت کے لئے مسجد میں جانا چاہئے۔ اگر خطرہ ہو کہ دکانیں بند ہوئیں تو کوئی دشمن نقصان نہ پہنچا دے تو ایسی صورت میں باری باری پہرے مقرر ہو سکتے ہیں مگر یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ دکاندار اپنی دکانوں پر ہی بیٹھے رہیں اور نماز کے لئے مسجد میں نہ جائیں۔ پہرہ ایک قومی فرض ہے اور جب کوئی شخص پہرے پر ہو تو وہ اپنے فرض کو ادا کرنے والا سمجھا جاتا ہے، نماز کا تارک نہیں سمجھا جاتا۔ لیکن بغیر اس کے اگر کوئی شخص مسجد میں نہیں جاتا تو وہ نماز کا تارک ہے اَور محلوں اور جگہوں کا تو میں کیا شکوہ کروںمَیں تو دیکھتا ہوں کہ مسجد مبارک جو اپنی برکات کے لحاظ سے مکہ اور مدینہ کی مساجد کے بعد تیسرے درجہ پر ہے اس کے زیر سایہ جو دکانیں ہیں ان میں سے بھی بعض نماز کے اوقات میں کھلی رہتی ہیں۔ پس آج سے مَیں انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کا فرض مقرر کرتا ہوں کہ وہ قادیان میں اس امر کی نگرانی رکھیں کہ نمازوں کے اوقات میں کوئی دکان کھلی نہ رہے۔ مَیں اس کے بعد ان لوگوں کو مذہبی مجرم سمجھوں گا جو نماز باجماعت ادا نہیں کریں گے اور انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کو قومی مجرم سمجھوں گا کہ انہوں نے نگرانی کا فرض ادا نہیں کیا۔ ہم پر اس شخص کی کوئی ذمہ داری نہیں ہو سکتی جو بے نماز ہے اور ایسے شخص کا یہی علاج ہے کہ ہم اس کے احمدیت سے خارج ہونے کا اعلان کر دیں گے مگر جو منتظم ہیں وہ بھی مجرم سمجھے جائیں گے اگر انہوں نے لوگوں کو نماز باجماعت کے لئے آمادہ نہ کیا۔ وہ صرف یہ کہہ کر بری الذمہ نہیں ہو سکتے کہ ہم نے لوگوں سے کہہ دیا تھا ۔ اگر لوگ نماز نہ پڑھیں تو ہم کیا کریں۔ خدا نے ان کو طاقت دی ہے اور انہیں ایسے سامان عطا کئے ہیں جن سے کام لے کر وہ اپنی بات لوگوں سے منوا سکتے ہیں۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ لوگ ان کی بات نہ مانیں۔ وہ انہیں نماز باجماعت کے لئے مجبور کر سکتے ہیں اور اگر وہ مجبور نہیں کر سکتے تو کم از کم ان کے اخراج از جماعت کی رپورٹ کر سکتے اور مجھے ان کے حالات سے اطلاع دے سکتے ہیں۔ بہرحال کوئی نہ کوئی طریق ہونا چاہئے جس سے ان لوگوں کا پتہ لگ سکے جو بظاہر ہمارے ساتھ ہیں مگر درحقیقت ہمارے ساتھ نہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایسے لوگ ہمارے ساتھ لٹکتے چلے جائیں اور اپنی اصلاح بھی نہ کریں۔ اس کے نتیجہ میں اَور لوگوں پر بھی بُرا اثر پڑتا ہے اور وہ بھی نمازوں میں سست ہو جاتے ہیں۔
مَیں آج سے خود اپنے طور پر بھی انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کے اس کام کی نگرانی کروں گا۔ اس کے ساتھ ہی مَیں بیرونی جماعتوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ انہیں بھی اپنے بچوں اور نوجوانوں اور عورتوں اور مردوں کو نماز باجماعت کی پابندی کی عادت ڈالنی چاہئے۔ اگر اس بات میں وہ کامیاب نہیں ہو سکتے تو وہ ہرگز خدا تعالیٰ کے حضور سرخرو نہیں ہو سکتے ، چاہے وہ کتنے ہی چندے دیں اور چاہے کتنے ہی ریزولیوشن پاس کر کے بھجوا دیں۔‘‘
(الفضل 7 جون 1942ء)

17
ہر بات کے لئے اسلام نے جو قانون مقرر کیا ہے اس کی پابندی کرنی چاہئے
) فرمودہ 12 جون 1942ء )

تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’دنیا میں جب سے انسان اکٹھے رہنے لگے ہیں۔ انہوں نے اپنے لئے کچھ قوانین بنانے کی کوشش کی ہے۔ کوئی ملک ہو، کوئی قوم ہو خواہ وہ تمدن کے اعلیٰ مقام پر ہو اور خواہ تمدن کے ادنیٰ مقام پر ہو اس میں کوئی نہ کوئی قانون جاری ہوتا ہے حتٰی کہ جن قوموں میں حکومت نہیں پائی جاتی بلکہ طوائف الملوکی پائی جاتی ہے۔ ان میں بھی رسم و رواج کے طور پر کوئی نہ کوئی قانون ضرور ہوتا ہے مثلاً اس زمانہ میں ہندوستان کی سرحد پر بعض قبائل ہیں جن کا کوئی بادشاہ نہیں۔ ہر شخص آزاد ہے اور اپنی مرضی سے جو چاہے کرتا ہے مگر ان میں بھی بعض قانون، رسم و رواج کے طور پر مقرر ہیں۔ مثلاً اگر کوئی قتل ہو جائے تو دستور مقرر ہے کہ کس طرح بدلہ لیا جائے، خاص خاص رشتہ داروں کو بدلہ لینے کا حق ہے، جھگڑے چکانے کے لئے پنچایتیں ہوتی ہیں، کچھ دستور اور رواج ہیں۔ جن کے مطابق وہ باہمی فیصلہ کرا دیتے ہیں۔ ایک زمانہ میں عرب میں بھی طوائف الملوکی تھی۔ باہمی جھگڑے چکانے کے لئے کچھ انتظامات تھے۔ مکہ کا کوئی بادشاہ تو نہ تھا مگر وہاں بھی لوگوں کے لئے کچھ قوانین مقرر تھے مثلاً یہ کہ جب کوئی شخص کسی ایسے شخص کو جسے قوم قومی مجرم قرار دیتی تھی۔ پناہ دے دیتا تو جب تک اس شخص کے ساتھ تصفیہ نہ کیا جائے جس نے اسے پناہ دی ہے اس وقت تک لوگ اسے دکھ نہ دیتے تھے اور اس کی آزادی میں روک نہ ڈالی جاتی تھی۔ عام طور پر تو کوئی قانون وہاں نہ تھا مگر رسمًا بعض ایسے قوانین رائج تھے۔ جب اسلام ظاہر ہؤا تو مکہ کے لوگوں نے مسلمانوں کو قومی مجرم قرار دے دیا تھا اور اس وجہ سے ان کو مارنا ، دکھ دینا حتّٰی کہ قتل کر دینا ان کے نزدیک کوئی بُری بات نہ تھی۔ اسی سلسلہ میں جب کفار نے مسلمانوں کو زیادہ تکالیف دینا شروع کیں تو حضرت ابو بکرؓ نے خیال کیا کہ مکہ سے باہر کسی دوسرے قصبہ یا گاؤں میں چلا جاؤں۔ چنانچہ وہ تیار ہو کر باہر جا رہے تھے کہ مکہ کا ایک رئیس انہیں رستہ میں ملا اور کہا کہ ابو بکر کہاں جاتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ اب اس شہر میں میرے لئے رہنا مشکل ہو گیا ہے۔ لوگ اس قسم کے دکھ اور تکالیف دیتے ہیں کہ آزادی کے ساتھ زندگی بسر کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ اس لئے مَیں نے فیصلہ کیا ہے کہ کسی اَور جگہ جا رہوں۔ اس نے کہا کہ تمہارے جیسے نیک آدمی کا مکہ کو چھوڑ کر جانا مکہ کے لئے عذاب ہے۔ مَیں تمہاری ذمہ داری لیتا ہوں تم باہر نہ جاؤ۔ اس کے کہنے سے حضرت ابو بکرؓ واپس آ گئے اور اس رئیس نے خانہ کعبہ میں آ کر اعلان کر دیا کہ لوگو آج سے ابو بکرؓ میری ذمہ داری میں ہے۔ اس کا اعلان کرنا تھا کہ ان کے رسمی قانون کے مطابق باوجود اس کے کہ دوسرے مروجہ قانون کے مطابق مسلمان واجب القتل سمجھے جاتے تھے کسی کا حق نہ تھا کہ حضرت ابو بکرؓ کو کچھ کہہ سکے۔ اس کے بعد حضرت ابو بکرؓ مکہ میں رہنے لگے مگر وہ ہر روز اپنے گھر میں اونچی اونچی آواز سے قرآن پڑھتے اور اس سوز و گداز سے پڑھتے کہ نوجوان اور عورتیں سنتے تو یہ اثر محسوس کرتے کہ باتیں تو بہت اچھی ہیں۔ جب لوگوں نے یہ دیکھا کہ حضرت ابو بکرؓ کے قرآن پڑھنے سے ان کے نوجوان اور عورتیں متاثر ہوتے ہیں تو وہ اس رئیس کے پاس پہنچے اور کہا کہ تم نے ابو بکرؓ کو پناہ دی تھی مگر وہ اونچی آواز سے قرآن پڑھتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں اور عورتوں کے ایمان خراب ہونے لگے ہیں۔ یہ بات سن کر وہ رئیس حضرت ابو بکرؓ کے پاس آیا اورکہا کہ آپ اونچی آواز سے اپنی کتاب پڑھتے ہیں اور اس میں ایسا جادو ہے کہ دوسروں کے ایمان خراب ہونے کا ڈر ہے اور لوگ شکایت کرتے ہیں اس لئے آپ اونچی آواز سے نہ پڑھا کریں۔ حضرت ابو بکرؓ نے کہا کہ مَیں ایسی پناہ لینے کو تیار نہیں جس میں کہ مجھے اپنے ایمان اور عقائد کو چھپانا پڑے۔ مَیں آپ کی یہ شرط نہیں مان سکتا۔ آپ اپنی ضمانت واپس لے لیں۔ چنانچہ اس نے پھر خانہ کعبہ میں جا کر اعلان کر دیا۔ مَیں نےابو بکرؓ کو جو ضمانت دی تھی اسے واپس لیتا ہوں۔1 تو اس وقت مکہ میں یہ رسمی قانون تھا حالانکہ وہاں کوئی بادشاہ نہ تھا اور کوئی حکومت نہ تھی، کوئی تعزیرات نہ تھیں اور کوئی ہدایت نامہ نہ تھا، پھر بھی کچھ رواج تھے جن کے ماتحت کام کئے جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اہلِ مکہ نے رسول کریم ﷺ کو قتل کر دینے کا ارادہ کیا تو اس وقت ان کے ذہنوں میں یہ بات آئی کہ مکہ کے رسمی قانون کے ماتحت آپ کےر شتہ داروں کو حق ہو گا کہ خون کے انتقام کا مطالبہ کریں۔ یہ کوئی حکومت کا قانون نہ تھا مگر رسمی قانون تھا جس کے مطابق وہ جانتے تھے کہ انہیں قاتل کی جان دینی پڑے گی اور آخر غور کر کے انہوں نے یہ تجویز کی کہ سب قبائل کے نمائندے اس کام میں شامل ہوں تا جب آپ کے رشتہ دار خون کا انتقام لینے کا مطالبہ کریں تو ان کی تائید میں آواز اٹھانے والا کوئی نہ ہو اور اگر آپ کے رشتہ دار انتقام لینے پر مُصر ہوں تو ان کوسب قبائل سے لڑنا پڑے۔ گو اللہ تعالیٰ نے ان کی اس تجویز کو بھی ناکام کر دیا اور اپنے فضل سے اپنے رسول کی جان کو بچایا مگر ان کی اس تجویز سے ظاہر ہے کہ وہ اس قانون کی قیمت کو سمجھتے تھے۔
ان کے علاوہ منظم حکومتیں ہوتی ہیں جن کے باقاعدہ قوانین ہوتے ہیں۔ بعض قوموں میں مذہبی قوانین ہیں۔ ہندوؤں میں منو کا دھرم شاستر ہے اور یہی قانون سمجھا جاتا تھا اور اپنے زمانہ میں ہندو اس کی پابندی ضروری سمجھتے تھے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو اپنے آپ سےباہر سمجھتے تھے۔ پھر رومیوں کا اپنا قانون تھا، بابلیوں کے جو پرانے کتبے ملتے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے بھی قوانین تھے۔ غرض منظم حکومتوں میں زیادہ تفصیلی قوانین ہوتے ہیں اور جہاں طوائف الملوکی ہو وہاں رسمی طور پر بعض قواعد ہوتے ہیں جن کی پابندی اور احترام تمام افراد کا فرض سمجھا جاتا ہے۔ اسی سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے اسلام بھیجا جس نے ہر معاملہ کے متعلق قوانین مقرر کئے۔ ایسے تفصیلی قوانین اسلام میں موجود ہیں کہ اَور کسی مذہب میں اس کی مثال نہیں مل سکتی۔ جب ہم کھانا کھانے لگتے ہیں تو اسلامی قانون پاس آ کر کھڑا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے پہلے ہاتھ دھو لو۔ پھر جب کھانا شروع کرنے لگتے ہیں تو وہ سامنے آ جاتا ہے اورکہتا ہے کہ توجہ سے بیٹھو، استغناء اور بے پروائی سے کھانا نہ کھاؤ، دایاں ہاتھ آگے بڑھاؤ۔ پھر جب ہم کھانے میں ہاتھ ڈالنے لگتے ہیں تو وہ کہتا ہے دیکھنا حلال کھاؤ اور جب حلال کھانے لگیں تو وہ کہتا ہے کہ طیب کھاؤ اور جب حلال و طیب کھانے لگیں تو اسلامی قانون ہمیں کہتا ہے کہ اسراف نہ کرو۔ ایک حد کے اندر کھاؤ، زبان کی لذت کے ماتحت نہ کھاؤ بلکہ بھوک کے مطابق کھاؤ۔ جانوروں کی طرح پیٹ نہ بھرو بلکہ صحت اور عقل کا خیال رکھو۔ پھر جب کھا چکتے ہیں تو اسلامی قانون پھر سامنے آ جاتا اور کہتا ہے کہ جس نے کھانے کو دیا اس کا شکریہ ادا کرو اور کہواَلْحَمْدُ لِلہ۔ پھر ہم پانی پیتے لگتے ہیں تو اسلامی قانون سامنے آ جاتا اور کہتا ہے کہ سانس لے لے کر پیو ، یکدم نہ پیو، سانس برتن کے اندر نہ لو۔ پھر جب کھانے سے فارغ ہو چکتے ہیں تو کہتا ہے کہ ہاتھ دھو لو۔ ہم کپڑا پہننے لگیں تو اسلامی قانون پھر ہمیں روک لیتا ہے اور کہتا ہے کہ دائیں طرف سے پہننا شروع کرو اور خدا تعالیٰ کا شکر ادا کر لو جس نے یہ کپڑا عطا کیا۔ جوتا پہننے لگیں تو کہتا ہے اس طرح پہنو، اتارنے لگیں تو کہتا ہے کہ اس طرح اتارو۔ پھر جب ہم کام کاج سے فارغ ہو کر گھر میں اپنے بیوی بچوں میں جاتے ہیں تو وہاں بھی اسلامی قانون ہمارے سامنے آ جاتا اور کہتا ہے کہ فلاں فلاں عورت سامنے نہ آئے، فلاں فلاں وقت اپنے بچے بھی سامنے نہ آئیں۔ ہم سونے لگتے ہیں تو کہتا ہے اس طرح سؤو۔ اٹھتے ہیں تو ہمیں بتاتا ہے کہ اس طرح اٹھو۔ کاروبار کے متعلق بھی وہ ہدایات دیتا ہے کہ کس طرح دیانت، ہمت، چستی اور عقل کے ساتھ کرو۔ وہ ہمیں بتاتاہے کہ قدم قدم پر اپنے مالک اور آقا سے استخارہ کرتے رہو۔ جب وہ تمہارے کاروبار میں برکت دے تو اس کا شکریہ ادا کرو اور جب اس کی طرف بلانے کے لئے مؤذن کی آواز بلند ہو تو کام کاج بند کر کے مساجد کی طرف چلے جاؤ۔ جب مسجد کی طرف چلو تو سنجیدگی اور وقار کے ساتھ چلو۔ پھر جب ہم مسجد کے دروازہ پرپہنچتے ہیں تو وہ روک کر کہتا ہے کہ دیکھنا کوئی بدبودار چیز تم نے نہ کھائی ہوئی ہو، تمہارے کپڑوں سے بُو نہ آتی ہو جس سے دوسروں کو تکلیف ہو۔ جب مسجد میں پہنچو تو آرام اور ادب سے بیٹھو دنیوی کاروبار کی باتیں وہاں نہ کرو، جھگڑے تنازعہ کی باتیں نہ کرو بلکہ نماز کا انتظار کرو اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہو۔ پھر جب نماز شروع ہوتی ہے تو اس کے لئے بھی شروع سے آخر تک ہدایات ہیں۔ ہمارے روز مرہ کے معاملات، ہمسایوں سے معاملات، غریبوں اور امیروں سے معاملات، آقا و ماتحت کے تعلقات ہر ایک امر کے متعلق وہ تفصیلی ہدایات دیتا ہے۔
یہ اتنی ہدایات ہیں کہ بظاہر انسان سمجھتا ہے کہ یہ اتنا بڑا طومار ہے کہ اطاعت ناممکن ہے لیکن حق یہ ہے کہ کوئی بھی بات ایسی نہیں جو ہمارے لئے بوجھل اور گراں ہو مثلاً یہی کھانے پینے کے متعلق ہدایات ہیں۔ ان میں سے کونسی ایسی ہے جو ہمارے لئے ناممکن ہے ۔ کیا ہاتھ دھونا ناممکن ہے اس میں سراسر ہمارا ہی فائدہ ہے گندگی دور ہوتی ہے اور صفائی سے ہمیں ہی فائدہ پہنچتا ہے ۔ اس سے خدا و رسول کو کیا فائدہ۔ پھر اگر ہم دائیں ہاتھ سے کھانا کھاتے ہیں تو اس میں کیا مشکل ہے اور اس سے خدا کو یا رسول کو کیا فائدہ ہے۔ ہمار اہی فائدہ ہے کہ ایک ہاتھ پاخانہ وغیرہ کی صفائی کے لئے رکھتے ہیں اورایک کھانا کھانے کے لئے۔ کیا پاخانہ سے آلودہ ہونے والے ہاتھ سے روٹی کھائی جائے تو اچھا ہے۔ پھر اگر کھانے سے پہلے بِسْمِ اللہ پڑھتے ہیں تو اس میں کونسا زائد وقت لگتا ہے۔ پھر حلال کھانے میں ہمارا کیا نقصان ہے۔ حرام سؤر، خون، مردار اور مشرک کا کھانا ہی ہیں اور سؤر یا مُردار یا خون یا مشرک کا کھانا کھائے بغیر کیا ہمارا گزارہ نہیں ہو سکتا۔ پھر طیب کھانے کا حکم ہے اس میں ہمارا کیا نقصان ہے۔
طیب کے معنی ہیں جو ہر طرح فائدہ رساں ہو مثلاً اس کے معنی یہ ہیں کہ کچی روٹی نہ کھاؤ اور اگر ہم روٹی اچھی طرح پکا کر کھائیں تو اس میں اللہ تعالیٰ کا کیا فائدہ ہے یا رسول کریم ﷺ کا کیا فائدہ ہے یا اگر مٹی ملا ہؤا آٹا ہم نے نہیں گوندھا تو اس سے اللہ تعالیٰ کو کتنے روپے مل گئے یا رسول کریم ﷺ کو کیا مل گیا؟ اس میں سراسر ہمارا ہی فائدہ ہے یا اگر ہم نے تین چار دن کا سڑا ہؤا کھانا جو گو حلال تھا مگر طیب نہ تھا نہیں کھایا تو اس سے کسی کو کیا فائدہ پہنچا۔ ہمارا ہی فائدہ ہے کہ دستوں یا ہیضہ سے بچ گئے۔ اللہ تعالیٰ یا رسول کریم ﷺ کو تو اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ یا اگرہم نے سڑی گلی ہوئی ترکاری نہیں کھائی تو اس سے خدا تعالیٰ کو کیا فائدہ پہنچا۔ ہمارا ہی فائدہ ہؤا ۔ غرضیکہ کوئی بھی حکم ایسا نہیں جس کا فائدہ ہمیں نہ پہنچتا ہو اور کوئی بھی حکم ایسا نہیں جس سے خدا یا رسول کو کچھ ملتا ہو اور اگر ایسے احکام جن کا فائدہ سراسر ہمیں ہی پہنچتا ہے طومار بلکہ اس سے بھی بڑا ہو تو کیا۔ اس میں ہمارا ہی نفع ہے کسی اَور کا تو نہیں ۔ جتنا عمل کریں گے اتنا فائدہ ہم ہی اٹھائیں گے۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ بعض باریک احکام کی حکمت ہماری سمجھ میں نہ آئے مگر جہاں اور دس بیس یا سَو کی حکمت سمجھ میں آتی ہے وہاں اگر ایک آدھ کی نہ آئے تو اسے بھی ان پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص ہمیں سو علمی باتیں سکھاتا ہے تو اگر اس کی بتائی ہوئی کسی ایک بات کی ہمیں سمجھ نہ آئے تو ہم اسے بھی مان لیں گے۔ اگر کوئی کسی پر دو احسان کرے تو وہ اس کی تیسری بُری بات کو بھی برداشت کرنا ضروری سمجھتا ہے بلکہ کسی شریف آدمی پر تو اگر کوئی ایک احسان بھی کرے تو وہ اس کی تین بُری باتیں سننا بھی اپنا فرض سمجھتا ہے۔ تو ایسا محسن جس کی سینکڑوں باتوں کی حکمت اور فائدے کو ہم سمجھتے ہیں۔ اس کی کوئی ایک دو باتیں اگر نہ بھی سمجھ میں آئیں تو کوئی حرج نہیں اتنے احسانات کے بعد ہمیں یہ جرأت کیسے ہو سکتی ہے کہ سوال کریں اس کی حکمت کیا ہے؟
صلح حدیبیہ کے موقع پر جب مکہ والوں کی طرف سے یہ تجویز پیش ہوئی کہ آپس میں سمجھوتہ ہو جائے تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اچھا ہے اگر سمجھوتہ ہو جائے۔ مکہ والوں نے ایک شخص کو اپنی طرف سے شرائط طے کرنے کے لئے آپ کے پاس بھیجا جس کے لوگوں پر بہت احسانات تھے حتّٰی کہ وہ اپنے آپ کو عرب کا باپ کہتا تھا۔ وہ آیا او رباتیں کرنے لگا۔ وہ بہت ہوشیار اور تجربہ کار آدمی تھا اور چاہتا تھا کہ مَیں ایسے رنگ میں صلح کراؤں کہ میری قوم کی عز ت رہ جائے اور لوگ میری ہوشیاری کی تعریف کریں۔ چنانچہ وہ کہنے لگا کہ دیکھو بچہ! مَیں بڑا آدمی ہوں، بوڑھا ہوں، میرے عقل اور تجربہ کی قدر کریں۔ یہ لوگ جو آپ کے گرد جمع ہیں یہ قابلِ اعتبار نہیں ہیں بلکہ کوئی کہیں کا اور کوئی کہیں کا ہے۔ ان پر اعتماد کر کے اپنی قوم سے نہ بگاڑو۔ اگر آج ایسی شرائط طَے ہوئیں جن میں اہل مکہ کی ہتک ہو تو یہ گویا تمہاری ہتک ہو گی۔ کل کو اگر تم نے اپنی قومی عزت سے فائدہ اٹھانا چاہا تو نہ اٹھا سکو گے۔ وہ دنیا دار آدمی تھا اور سمجھتا تھا کہ آنحضرت ﷺ کے کام کی بنیاد بھی دنیا داری پر ہی ہے۔ خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کو جو برکات حاصل تھیں ان کا اسے کوئی علم نہ تھا۔ باتیں کرتے کرتے اس نے آپ کی ریش مبارک کو ہاتھ لگایا اور کہا کہ قوم کی عزت رکھ لو۔ ہمارے ملک میں یہ بھی رواج ہے کہ کہتے ہیں مَیں تمہاری داڑھی کو ہاتھ لگاتا ہوں۔ یہ بات مان لو۔ اسی طرح اس نے بھی آنحضرت ﷺ کی ریشِ مبارک کو ہاتھ لگایا لیکن ایک صحابی نے اپنے تلوار کے دستے سے اس کے ہاتھ کو پرے ہٹاتے ہوئے کہا کہ اپنے ناپاک ہاتھ کو رسول اللہ (ﷺ) کی پاک داڑھی سے پرے ہٹاؤ۔ صحابہ اس وقت زرہیں اور خَود پہنے ہوئے تھے اور خَود مُنہ کو ڈھانک دیتا ہے۔ جب اس صحابی نے تلوار کے دستے سے اس کے ہاتھ کو پرے ہٹایا تواس رئیس نے اس کی طرف غور سے دیکھا اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پہچان لیا کہ فلاں شخص ہے اور کہا کون؟ کیا فلاں ہے؟ تم کو کس طرح جرأت ہوئی کہ میر اہاتھ پرے ہٹاؤ۔ یاد ہے مَیں نے تم پر فلاں احسان کیا ہے۔ یہ بات سن کر باوجودیکہ صحابہ رسول کریم ﷺ کے عاشق و شیدا تھے مگر احسان کا شریف آدمی پر اتنا اثر ہوتا ہے کہ وہ صحابی پیچھے ہٹ گئے اور دوسرے کسی کو بھی جرأت نہ ہوئی کہ اس کا جواب دے۔ آخر باتیں کرتے کرتے اس نے پھر جوش میں آنحضرت ﷺ کی ریش مبارک کو ہاتھ لگایا اور کہا کہ میری بات مان لو۔ اس وقت سب صحابہ کھڑے تھے مگر کوئی بول نہ سکتا تھا کیونکہ سب کو یاد تھا کہ اس شخص نے مجھ پر یا میرے خاندان پر فلاں فلاں وقت احسان کیا ہؤا ہے۔ ان کے دل کو یہ حرکت بُری تو لگتی تھی مگر وہ شرم کے مارے آگے نہیں بڑھتے تھے۔ اتنے میں ان میں سے ایک شخص آگے بڑھا اور اس نے اس رئیس کے ہاتھ کو سختی سے ہٹاتے ہوئے کہا کہ ہٹاؤ اپنا ناپاک ہاتھ رسول اللہ (ﷺ) کی پاک داڑھی سے۔ اس رئیس نے پھر اس شخص کو دیکھا اور پہچان کر آنکھیں نیچی کر لیں اور کہا ابو بکر بے شک تم یا تمہارے خاندان پر میرا کوئی احسان نہیں۔ تمہیں بے شک حق حاصل ہے کہ میرے ہاتھ کو پَرے ہٹا سکو۔ 2تو دیکھو ایسے نازک وقت میں بھی شریف آدمی کی آنکھیں احسان کو یاد کر کے نیچی ہو جاتی ہیں جیسے صحابہ کی اس وقت ہو گئیں۔ تو اگر کوئی کسی پر ایک بھی احسان کرے تو سالہا سال تک آنکھیں نیچے رہتی ہیں مگر جس محسن کے احسانات بے شمار ہوں۔ صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک اٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے، سوتے جاگتے جس کے احسانات ہوں اس کے اتنے احسانات کے بعد اگر کوئی ایک آدھ بات سمجھ میں نہ آئے تو یہ کتنی حماقت ہے کہ انسان اَکڑ کر بیٹھ جائے اور کہے کہ جب تک میری سمجھ میں یہ بات نہ آئے۔ مَیں کس طرح مان لوں۔ اسلام نے ایسی کامل تعلیم دی ہے جو انسان کے ہر شعبہ زندگی میں جاری ہے۔ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں اس کے احکام ہمارے سامنے نہیں آ جاتے۔ یہ بات دشمنانِ اسلام کے لئے بھی حسرت کا موجب رہی ہے۔ چنانچہ ایک یہودی نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ جب مَیں آپ کی شریعت کے احکام سنتا ہوں تو میرا دل حسرت سے بھر جاتا ہے کیونکہ اس میں ہر بات کے لئے ہدایت موجود ہے۔ پیشاب پاخانہ کرنے، روٹی کھانے، پانی پینے، کپڑا پہننے، سونے جاگنے، اٹھنے بیٹھنے غرضیکہ کوئی شعبہ زندگی کا اَیسا نہیں جس میں تمہارے مذہب نے ہدایت نہ دی ہو۔3 اور جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے یہ ہدایت نامہ ہمارے لئے احسان ہی احسان ہے۔ اس کا بڑا ہونا بوجھ نہیں بلکہ بڑے ہونے سے احسان اَور بھی بڑھ جاتا ہے۔ بھلا اس شخص کا احسان ہم پر زیادہ ہوتا ہے جو ایک میل تک ہمیں رستہ دکھائے یا اس کا جو دس میل تک دکھائے۔ کیا دس میل تک راہ نمائی کرنے والا ہم پر کوئی بوجھ ڈالتا ہے یا اس کا احسان اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ پس اسلامی شریعت ایک وسیع قانون ہے جو ہمیں ہر قسم کی غلطیوں سے بچاتا ہے اور ساری عمر ہمارے ساتھ چلتا ہے۔ جس وقت بیوی اور میاں آپس میں ملتے ہیں اوربچہ کی پیدائش کا بیج بویا جاتا ہے اس وقت سے یہ ہدایت نامہ شروع ہوتا ہے پھر بچہ کے پیدا ہوتے ہی اسلام کی ہدایت اس کے کان میں ڈالی جاتی ہے اور اسلامی قانون ساری عمر اس کے ساتھ چلتا ہے اور پھر جب انسان مرنے لگتا ہے تو اس وقت بھی اسلامی ہدایت اس کے کان میں ڈالی جاتی ہے تاکہ آئندہ زندگی میں بھی اس کے کام آئے۔
لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام کا یہ احسان اسی وقت مکمل ہو سکتا ہے جب ہم اس کی اطاعت و فرمانبرداری کریں۔ دین کے معاملات میں بھی شریعت نے قانون مقرر کئے ہیں اور دنیا کے معاملات میں بھی۔ لڑائی جھگڑے کے متعلق بھی قوانین ہیں مثلاً اگر کسی کو کسی سے کوئی نقصان پہنچے تو اسلام کی ہدایت یہ ہے کہ اس نقصان کا ازالہ قاضیوں سے کرایا جائے۔ آج ہمارے ملک میں چونکہ غیر ملکی گورنمنٹ ہے۔ اس لئے اسلامی قضاء سارے قانون پر حاوی نہیں ہے۔ بعض امور ایسے ہیں کہ گورنمنٹ کا حکم ہے کہ ان کا فیصلہ بہرحال اس سے کرایا جائے اور چونکہ گورنمنٹ کے قانون کی پیروی کرنا بھی ہمارا فرض اسلام نے قرار دیا ہے۔ اس لئے ایسے امور کا فیصلہ اسی کے مقررکردہ ججوں سے کرانا چاہئے مگر جن میں اس نے آزادی دی ہے کہ چاہیں تو آپس میں ہی فیصلہ کر لیں اور جو امور قابلِ دست اندازی پولیس نہیں ہیں ان میں اسلامی قانون جاری کرنا ہمارا فرض ہے اور چونکہ ہماری جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے منظم ہے اور ایک ہاتھ پر جمع ہے۔ اس لئے ایسے امور میں جن میں گورنمنٹ نے آزادی دی ہے کہ اگر چاہیں تو انہیں اس کے پاس لے جائیں اور چاہیں تو نہ لے جائیں۔ ان میں اسلامی شریعت کا دوبارہ زندہ کرنا ہمارا فرض ہے اگرچہ ہمارے لئے دوسرا حصہ بھی زندہ ہی ہے کیونکہ ہماری جماعت ہی واحد جماعت ہے جس کا عقیدہ یہ ہے کہ حکومت وقت کی اطاعت بھی خدا تعالیٰ ہی کی اطاعت ہے۔ اس لئے جن امور کو ہم اس کے پاس لے جاتے ہیں۔ ان میں بھی گویا شریعت کی اطاعت ہی کرتے ہیں۔ جو لوگ حکومت وقت کے قانون کی پیروی کو جائز نہیں سمجھتے وہ اگر اپنے معاملات اس کے پاس لے جاتے ہیں تو گناہ کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے لئے یہ بھی ثواب ہی ہے کیونکہ اس طرح بھی ہم شریعت کی اطاعت ہی کرتے ہیں اور اسے زندہ کرتے ہیں۔ جس طرح نماز کھڑے ہو کر پڑھنے کا حکم ہے لیکن بیمار بیٹھ کر پڑھ سکتا ہے اور جو بیٹھ کر پڑھنے کو جائز سمجھتا ہے اس کا بیٹھ کر پڑھنا بھی ثواب ہی ہے لیکن جو بیٹھ کر پڑھنے کو جائز نہیں سمجھتا اور پھر پڑھتا بھی ہے وہ گویا گناہ کرتا ہے اس کا بیٹھ کر پڑھنا اسلام کے حکم کی خلاف ورزی ہے۔ پس جو لوگ حکومت کے پاس اپنے معاملات لے جانا جائز نہیں سمجھتے خواہ انہیں جبراً ہی جانا پڑے وہ خدا تعالیٰ کے قانون کو توڑنے والے ہیں۔ صرف ہماری جماعت ہی ایک ایسی جماعت ہے جو حکومت وقت کی اطاعت کو بھی خدا تعالیٰ کی اطاعت ہی سمجھتی ہے ۔ اس لئے جن امور میں ہمیں حکومت کے پاس جانا پڑتا ہے ان میں بھی شریعت کا دوسرا حصہ ہمارے لئے زندہ ہی ہے۔
پس ہر احمدی جسے کوئی جھگڑا درپیش ہو اس کے لئے دو راستے ہیں۔ اگر تو حکومت کا قانون یہ ہے کہ اسے اس کی قائم کردہ عدالتوں میں لے جائیں اور حکومت کا دروازہ ہی کھٹکھٹائیں تو جو شخص کوئی اَور راستہ اس کے سوا اختیار کرتا ہے وہ حکومت اور سلسلہ دونوں کا باغی ہے لیکن جن امور کا فیصلہ سرکاری عدالتوں سے کرانا ضروری نہیں بلکہ ہمیں آزادی ہے کہ چاہیں تو خود کر لیں اور چاہیں تو رحم سے کام لیتے ہوئے معاف کر دیں۔ ان معاملات کو جو شخص قضاء میں نہیں لے جاتا بلکہ خود فیصلہ کرنا چاہتا ہے یا زور و جبر سے کام لیتا ہے وہ مجرم ہے خدا تعالیٰ کا بھی اور جماعت کا بھی۔ یہ قاضی کا ہی کام ہے کہ وہ کسی شخص کوسزا دے یا نہ دے اور اگر دے تو کتنی دے۔ کسی چور کو قاضی کے پاس لے جایا جاتا ہے اور وہ اسے ایک سال کی سزا دیتا ہے، کسی کو دو سال کی دیتا ہے، کسی کو چھ سال کی دیتا ہے اور کسی کو صرف ایک ماہ کی اور کسی کو صرف ضمانت لے کر ہی چھوڑ دیتا ہے۔ اس سے معلوم ہؤا کہ ایک ہی جرم میں فیصلے مختلف ہوتے ہیں۔ اب اگر کوئی شخص اپنے چور کو خود ہی سزا دینا چاہے تو گو وہ واقعی چور ہو تو بھی اسے کیا معلوم کہ اسے اتنی سزا ملنی چاہئے۔ اگر خود ہی سزا دے دے تو اسے کس قانون کے مطابق پتہ لگے گا کہ کتنی سزا دینی چاہئے۔ اس لئے اگر وہ خود سزا دے گا تو وہ نفس کا تابع ہو گا شریعت کا نہیں کیونکہ جو فیصلہ خدا تعالیٰ نے ایک اَور کے ذمہ رکھا تھا اسے اس نے خود کر دیا حتّٰی کہ جن امور میں شریعت نے سزا معیّن اور مقرر کی ہے یعنی نہ بدلنےو الی وہ بھی خود بخود دینے کی اجازت شریعت نے نہیں دی۔ مثلاً مسلمانوں کے ایک طبقہ کا یہ عقیدہ ہے۔ مَیں اس بحث میں اس وقت نہیں پڑتا کہ غلط ہے یا صحیح مگر بہرحال ایک طبقہ کا یہ عقیدہ ہے کہ ایسی عورت یا مرد جو شادی شدہ ہوں وہ اگر زنا کریں تو ان کی سزا رجم ہے یعنی پتھر مار مار کر انہیں مار دیا جائے۔ ایک شخص رسول کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ یا رسول اللہ! اگر کوئی شادی شدہ مسلمان مرد یا عورت زنا کرے تو اس کی سزا رجم ہے یا نہیں۔ آپ نے فرمایا ہاں ہے۔ اس نے کہا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس کسی مرد کو اس حالت میں دیکھے تو کیا جائز ہے کہ وہ اس مرد کو مار دے۔ آپ نے فرمایا نہیں۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو وہ قاتل ہو گا۔4یہ قاضی کا حق ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ کوئی زانی رجم کے قابل ہے یا نہیں۔ اگر کوئی شخص خود ہی فیصلہ کر کے کسی کو قتل کرے گا تو خواہ مقتول واقعی مجرم ہو پھر بھی ہم قتل کرنے والے کو قاتل سمجھ کر اسے قتل کریں گے۔ تو جہاں سزا معیّن ہے ایسی معیّن کہ اس میں تبدیلی کا امکان ہی نہیں۔ اس میں بھی شریعت نے خود بخود فیصلہ کرنے کی اجازت نہیں دی بلکہ رسول کریم ﷺ نے یہاں تک فرمایا کہ اگر کوئی ایسی سزا بھی خود دے گا اور ایسے جرم کے نتیجہ میں بھی جس کی سزا واقعی قتل ہے خود کسی کو قتل کر دے گا تو اسے قاتل قرار دیا جائے گا کیونکہ سزا دینا اس کا حق نہ تھا۔ تو ہر بات کے لئے اسلام نے قانون مقرر کئے ہیں مگر افسوس کہ ہم میں سے بعض لوگ ابھی ایسے ہیں جو جوشِ نفس یا غصہ کے ماتحت قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے جو کیا ہے انصاف کیا ہے۔ لیکن دراصل وہ خود جرم کرتے ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے مثال دی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے شادی شدہ زنا کرنے والے مرد یا عورت کو خود قتل کر دینے کو ناجائز قرار دیا اور ایسا کرنے والے کو قاتل ٹھہرایا۔ فرض کرو ایک شخص کسی مجرم کو سزا دیتا ہے اور واقعی انصاف بھی وہی ہے جو اس نے کیا پھر بھی اس کا ایسا کرنا اسے مجرم بناتا ہے مثلاً اس نے کسی شخص کو دو تھپڑ مارے اور واقعی اس شخص کی سزا دو تھپڑ ہی تھی۔ مگر پھر بھی اس کا خود بخود اسے دو تھپڑمارنا اسے مجرم بنا دیتا ہے کیونکہ یہ قاضی کا حق تھا کہ اس کے لئے تھپڑ تجویز کرے یا چاہے تو اسے چھوڑ دے۔ پس جو شخص خود بخود دو تھپڑ مار دیتا ہے وہ جرم کرتا ہے۔
مَیں نے دوستوں کو متواتر اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا کسی طرح بھی جائز نہیں مگر پھر بھی لوگ جوش میں اس بات کو بھول جاتے ہیں اور ذرا سی بات پر غصہ میں آ کر قانون کو ہاتھ میں لینے پر اتر آتے ہیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے۔ ‘‘نقصان جو ایک پیسہ کا دیکھیں تو مرتے ہیں’’5
کسی کا ذرا سا بھی نقصان ہو جائے تو وہ اندھا ہو کر اپنے فرائض اور مناصب کو بھول جاتا ہے اور قانون کو ہاتھ میں لے لیتا ہے جب تک یہ روح نہ مٹے ہمارا یہ دعویٰ کرنا کہ ہمارے دلوں پر احمدیت کی حکومت ہے بالکل غلط ہے۔ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بارہا سنا ہے کہ مومن ہونا خصّی ہونے کے برابر ہے۔ جس طرح گھوڑے یا اونٹ یا بیل کو خصّی کر دیا جاتا ہے اور اس میں کوئی جوش ، شوخی اور نفسانی خواہشات باقی نہیں رہتیں۔ اسی طرح انسان جب تک غصہ اور جوش کی حالت میں اپنے نفس کو قابو میں نہیں رکھ سکتا وہ کس بات میں اسلام پر عمل کرنے کا دعویٰ کر سکتا ہے۔
حقیقی اطاعت کا وقت یہی ہوتا ہے ۔ اگر اپنے نفس کی مرضی بھی وہی ہو جو شریعت کا منشاء ہے تو وہ کوئی اطاعت نہیں۔ مولانا روم نے اس بات کو نہایت لطیف پیرایہ میں بیان کیا ہے۔ آپ نے ایک حکایت لکھی ہے کہ ایک چوہے نے کسی اونٹ کی نکیل پکڑ لی اور چل پڑا اور اونٹ بھی پیچھے پیچھے چلتا گیا آگے سمندر آ گیا۔ اونٹ پانی سے ڈرتا ہے۔ چوہے نے نکیل کو کھینچا کہ وہ پانی میں داخل ہو مگر اونٹ اَڑ گیا۔ چوہے نے کہا کہ اس وقت تک تم میری اطاعت کرتے آئے ہو اورمیرے پیچھے پیچھے چلتے آئے ہو اب کیا ہو گیا جو تم آگے نہیں چلتے۔ اونٹ نے کہا کہ مَیں تمہاری اطاعت نہیں کر رہا تھا بلکہ دراصل مَیں نے خود بھی اِدھر ہی آنا تھا۔ جب تک تم میری مرضی کے مطابق چلتے آئے مَیں بھی تمہارے پیچھے پیچھے چلتا آیا مگر اب کہ تم میری مرضی کے خلاف چلنا چاہتے ہو مَیں نے انکار کر دیا۔ یہی حال اس شخص کا ہے جو خوشی میں تو اطاعت کرتا ہے مگر جہاں غصہ اور رنج کی حالت پیدا ہوئی وہ جھٹ اطاعت سے باہر ہو جاتا ہے۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ اس کی پہلی اطاعت بھی حقیقی اطاعت نہ تھی بلکہ اپنی مرضی کی اطاعت تھی۔ حقیقی اطاعت وہی ہے جب حکم مرضی کے خلاف ہو اور جو خوشی میں بھی اور رنج میں بھی ہو ، جو تنگی میں بھی ہو اور فراغت میں بھی، جو اس وقت بھی ہو جب انسان کو اس کا حق مل رہا ہو اور اس وقت بھی جب اس کا حق چھینا جا رہا ہو اورجب تک کوئی شخص اس طرح اطاعت نہیں کرتا اور اس طرح اپنے آپ کو اسلامی احکام کے ماتحت نہیں کر دیتا وہ فرمانبردار نہیں کہلا سکتا۔ اول تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ تم سچے ہو کر جھوٹوں کی طرح تذلل اختیار کرو لیکن کسی کو اگر نقصان پہنچا بھی ہو اَور وہ اس کا ازالہ بھی ضرور کرانا چاہتا ہے تو چاہئے کہ قاضی کے پاس جائے بشرطیکہ حکومت وقت کا قانون اجازت دیتا ہو اور اگر وہ اجازت نہیں دیتا تو پھر سرکاری عدالت میں جائے لیکن جو شخص ان دونوں صورتوں کے خلاف چلتا ہے اور قانون کو خود ہاتھ میں لیتا ہے تو وہ اطاعت کی روح کے خلاف فعل کرتا ہے اور فتنہ پیدا کرتا ہے اور جب تک یہ حالت دور نہ ہو یہ دعویٰ کرنا کہ احمدیت کی حکومت ہمارے دلوں پر ہے اور کہ ہم احمدیت پر عمل کرتے ہیں ایک ناقص دعویٰ ہے۔‘‘
(الفضل 17 جون 1942ء)
1 :بخاری کتاب الکفالة باب جوار ابی بکر فی عَہْدِ رَسُوْلِ اللہِ ﷺ وَ عَقْدِہٖ
2 : سیرت ابن ھشام جلد نمبر 3 صفحہ 327مطبوعہ مصر 1936ء
3: مسلم کتاب الطہارة باب الاستطابة
4: مسلم کتاب اللِّعَان حدیث نمبر 3743
5:درثمین اردو صفحہ 11 زیر عنوان’’ سرائے خام‘‘



18
ڈاڑھی منڈانے والے احمدی شکست خوردہ ذہنیت رکھتے ہیں انہیں جماعت کے کسی عہدہ کے لئے منتخب نہ کیا جائے
( فرمودہ 19 جون 1942ء )

تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’مَیں نے پہلے بھی جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ہماری جماعت کوئی انجمن یا اسی قسم کا اَور کوئی نظام نہیں ہے بلکہ ایک مذہبی نظام ہے جو اپنے ساتھ ایک شریعت رکھتا ہے۔ قرآن کریم کی شریعت جو قیامت تک جاری رہنےو الی ہے۔ پس ہماری جماعت کے افراد کو اپنے کاموں میں اور اپنی گفتگوؤں میں اس امر کو ہمیشہ ملحوظ رکھنا چاہئے کہ دنیا میں اسلامی شریعت کا قیام اور اس کا احیاء ہو۔ مُنہ سے احمدی احمدی کہہ دینے سے کچھ نہیں بنتا جب تک کہ ہم اپنے معاملات اور اپنے تعلقات اور اپنی ہیئت اور اپنی شکل کو احمدیت اور اسلام کے مطابق نہ بنائیں۔
اس وقت اسلام پر چاروں طرف سے حملے ہو رہے ہیں اور مغربیت اسلام کے رہے سہے نشانوں کو بھی مٹا دینا چاہتی ہے۔ کہیں مغربی فلسفی اسلام کے اُس والہانہ تعلق کو جو وہ بندے اور خدا کے درمیان پیدا کرتا ہے تباہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، کہیں مذہبی تمدن اور اسلامی شریعت کو ایک ناقابلِ برداشت بوجھ بتا رہا ہے اور کہیں مغربی دستور العمل اور طریقہ اور فیشن اسلام کے بتائے ہوئے طریقوں کی محبت دلوں سے مٹا رہا ہے۔ پس ہر وہ شخص جو اس فلسفے سے متاثر ہوتا ہے وہ اتنا ہی اسلام کو چھوڑ دیتا ہے، ہر وہ شخص جو اس مغربی تمدن سے متاثر ہوتا ہے وہ اسی قدر اسلام سے دور ہو جاتا ہے اور ہر وہ شخص جو اس فیشن کو اختیار کرتا ہے جسے مغرب نے پیش کیا وہ اتنا ہی اپنے آپ کو اسلام سے نکال دیتا ہے اور اپنے عمل سے اسلام اور احمدیت کو کمزور کرنے کا موجب بنتا ہے۔ کئی لوگ قسم قسم کے حیلے اور بہانے تراش کر یورپ کے فلسفے، یورپ کے تمدن یا یورپ کے فیشن کے آگے ہتھیار ڈال دیتے ہیں اور اپنے ان اعمال کے لئے دنیا کے سامنے بہانے پیش کرتے ہیں مگر ان بہانوں سے اسلام کی تقویت کسی صورت نہیں ہو سکتی اور نہ ان بہانوں سے ان کی بریت ثابت ہو سکتی ہے۔ بہرحال ان کے اعمال کے نتیجہ میں اسلام اتنی ہی شکست کھا کر پیچھے ہٹتا ہے اور اتنا ہی دشمن اسلام پر حملہ کرنے کے لئے دلیر ہوتا ہے جتنا وہ اس کے اثر سے متاثر ہوتے ہیں۔ جب ایک یورپین ایک مسلمان کو اپنے فیشن کے لحاظ سے یا اپنے تمدن کے لحاظ سے یا اپنے فلسفہ کے لحاظ سے یا اپنی سائنس کے لحاظ سے اس کے مقام سے ہٹا دیتا ہے تو اس کے دل میں یہ یقین پیدا ہو جاتا ہے کہ اسلام شکست کھا رہا ہے اور وہ زیادہ جرأت اور زیادہ دلیری سے اسلام پر حملہ کرتا ہے اور اس کی اس جرأت اور دلیری کا ذمہ دار وہ مسلمان ہوتا ہے جس نے اس کی نقل کی۔ پس اس کے نتیجہ میں اسلام کو جتنی شکست ہوتی ہے اس کا ذمہ دار وہی مسلمان ہوتا ہے اور وہ مسلمان کہلانے والا، اپنے اسلام پر اَلْحَمْدُ لِلہ کہنے والا اور اپنے آپ کو غلط طور پر رسول کریم ﷺ کی غلامی کی طرف منسوب کرنے والا درحقیقت موذی، مجرم اور مفسد ہوتا ہے۔
مَیں جب ولایت گیا تو ہمارے ایک مبلّغ نے اپنے دل کی کمزوری کی وجہ سے جاتے ہی مجھے اس بات کی رغبت دلانی شروع کر دی کہ ہیٹ تو نہیں مگر کوٹ پتلون یہاں ضرور پہننا چاہئے ورنہ لوگوں پر بُرا اثر پڑے گا اور احمدیت کی تبلیغ کو نقصان پہنچے گا۔ مَیں یہاں سے جاتی دفعہ اپنے لئے گرم پاجامے بنوا کر لے گیا تھا اورگرم پاجامے ہمارے ملک میں عام طور پر پتلون کے مشابہ ہوتے ہیں کیونکہ اگر زیادہ کپڑا لگایا جائے تو پاجامہ بوجھل ہو جاتا ہے۔ عام طور پر ہمارے ملک میں لوگ لٹھے کی شلوار پہنتے ہیں گو بعض علاقوں میں تنگ پاجامے کا بھی رواج ہے مگر بہرحال شلوار پہننے والے اور تنگ پاجامہ پہننے والے دونوں ہی جب گرم پاجامے بنواتے ہیں تو وہ تنگ ہوتے ہیں اور اپنی شکل میں پتلون کے مشابہ ہوتے ہیں۔ وہاں چونکہ سردی شدید ہوتی ہے اور وہاں کی سردی کی شدت کی وجہ سے مَیں یہاں سے گرم پاجامے بنوا کر لے گیا تھا مگر جب ہمارے اس مبلّغ نے مجھے یہ مشورہ دیا تو مَیں نے اپنے دل میں کہا کہ وہی ابلیس جس نے پہلے حوّا کو بہکا کر آدم کو پھسلانے کی کوشش کی تھی اسی ابلیس نے ہمارے اس مبلّغ کو بہکایا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اب مجھے بھی بہکانے کی کوشش کرے چنانچہ مَیں نے اسی وقت نیت کر لی کہ اب مَیں گرم پاجامہ بھی یہاں نہیں پہنوں گا گو گرم پاجامے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی پہن لیا کرتے تھے اور اس ملک میں گرم پاجامہ پہننے کے یہ معنی ہرگز نہیں تھے کہ انگریزی تمدن سے ڈر کر یا انگریزوں کو خوش کرنے کے لئے مَیں نے ایسا پاجامہ پہنا ہے اور گو میرا یہ فعل سردی کی وجہ سے ہوتا نہ کہ مغربیت کا اثر قبول کرنے کی وجہ سے مگر چونکہ لوگوں کے دلوں میں اس سے یہ خیال پیدا ہو سکتا تھا کہ مغربی تمدن سے تھوڑی سی صلح کر لی گئی ہے اس لئے جتنا جتنا وہ مبلّغ اس بات پر زور دیتے کہ خدا کے لئے شلوار چھوڑ دیں لوگ ہنستے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ گویا آپ ننگے پھر رہے ہیں اتنا ہی میرا دل اس بات پر اَور زیادہ مضبوط ہو جاتا کہ مَیں اس ملک میں اب شلوار پہننا نہیں چھوڑوں گا خواہ یہاں کے رہنے والے یہی سمجھیں کہ ہم ننگے پھر رہے ہیں۔ انگریزوں میں دستور ہے کہ کُرتا پاجامہ ان کے نزدیک رات کا لباس ہوتا ہے اور یہ ان کے دلوں پر اتنا حاوی ہے کہ ہمارے ایک مبلّغ نے جو امریکہ میں بھی رہ چکے ہیں مجھے سنایا کہ ایک دن آٹھ نو بجے کے قریب وہ اپنے کمرہ میں بیٹھے تھے کہ دو عورتیں آئیں اور انہوں نے دروازہ پر دستک دی، دریافت کرنے پر معلوم ہؤا کہ وہ اسلام کے متعلق بعض مسائل معلوم کرنا چاہتی ہیں۔ ہمارے وہ مبلّغ اس وقت ہندوستانی لباس میں تھے مگر ان عورتوں کے جوش اور اخلاص کو دیکھ کر وہ نہایت شوق سے نیچے اترے اور انہوں نے سمجھا کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لئے شکار بھیجا ہے مگر جونہی عورتوں نے ان کو دیکھا وہ چیخیں مارتی ہوئی گلی میں بھاگ گئیں اور شور مچانے لگ گئیں کہ ایک پاگل ننگا نکل آیا ہے۔ اس شور پر بہت سے لوگ جمع ہو گئے ۔ ہمارے اس مبلّغ نے بتایا کہ مَیں تو انہیں تبلیغ کرنے کے لئے آیا تھا مگر یہ دیکھتے ہی بھاگ گئیں۔ آخر ایک لمبی گفتگو کے بعد یہ راز کھلا کہ دراصل ہندوستانی لباس پہننے کی وجہ سے انہیں ننگا قرار دیا گیا ہے۔ مگر مَیں ولایت میں اسی لباس میں رہا۔ ایک دن کچھ معززین مجھ سے ملنے کے لئے آئے جن میں سے ایک سر ڈینی سن راس تھے جو اورنٹیل کالج لنڈن کے پرنسپل تھے۔ اب وہ فوت ہو چکے ہیں۔ ہمارے سلسلہ سے ان کے نہایت اچھے تعلقات تھے اور وہ ایشیائی مضامین ے متعلق انگلستان میں اہم اتھارٹی سمجھے جاتے تھے۔ ان کے ساتھ کچھ اَور پروفیسر ،علم دوست اصحاب اور ریلیجئس کانفرنس کے سیکرٹری وغیرہ بھی تھے۔ باتوں باتوں میں مَیں نے ان سے لباس کا ذکر شروع کر دیا اور کہا کہ ہمارے ایک مبلغ مجھے مجبور کر رہے ہیں کہ مَیں اپنے لباس کو ترک کر دوں کیونکہ انگریز اسے بُرا سمجھتے ہیں اور مَیں اس بات پر اصرار کرتا ہوں کہ مَیں یہی لباس رکھوں گا۔ آپ ہمارے دوست ہیں، آپ بے تکلفی سے بتائیں کہ آپ کے ملک پر ہمارے لباس کا کیا اثر پڑتا ہے اورلوگ اسے کیسا سمجھتے ہیں۔ کچھ ہچکچاہٹ کے بعد انہوں نے کہا کہ ہاں بُرا تو سمجھتے ہیں۔ مَیں نے کہا کیوں؟ کہنے لگے اس لئے کہ یہ لباس ہمارے ملک کا نہیں ہم لوگ جو ہندوستان کو دیکھ آئے ہیں۔ اس لباس پر کسی قسم کا تعجب نہیں کرتے مگر باقی لوگ جنہوں نے ہندوستان کو نہیں دیکھا وہ اس لباس کو ایک عجیب سی چیز سمجھتے ہیں اور ایسے ہی دیکھتے ہیں جیسے کوئی تماشہ ہوتا ہے۔ مَیں نے ان سے کہا کہ آپ لوگ جب ہمارے ملک میں جاتے ہیں تو ہمیں بھی آپ کا لباس تماشہ معلوم ہوتا ہے۔ کیا آپ اپنا لباس چھوڑ کر ہمارا لباس پہننے کے لئے تیار ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا ہم تو نہیں کر سکتے۔ مَیں نے کہا جب آپ ایسا نہیں کر سکتے تو آپ یہ امید کس طرح کر سکتے ہیں کہ ہندوستانی اپنے لباس کو چھوڑ دیں اوروہ یہاں آ کر آپ کا لباس اختیار کر لیں۔ کیا اس کی وجہ یہی نہیں کہ آپ چونکہ حاکم ہیں اس لئے آپ سمجھتے ہیں کہ ہمارا کام یہ نہیں کہ ہم دوسرے ملک میں جا کر لوگوں کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھیں مگر ان کا فرض ہے کہ وہ ہمارے ملک میں آ کر ہمارے جذبات اور احساسات کا خیال رکھیں۔ پھر مَیں نے ان سے کہا جب کوئی شخص ہندوستانی لباس کو ترک کر کے انگریزی لباس اختیار کر لیتا ہے تو کیا آپ کے دل کے اندرونی گوشوں میں یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ ایک شکست خوردہ اور ذلیل شکار ہے۔ ہنس کر کہنے لگے ہم سمجھتے تو یہی ہیں کہ وہ ڈر کر ہمارے ماتحت ہو گیا ہے۔ پھر مَیں نے ان سے کہا اس لباس کی تبدیلی میں جو نفسیاتی نکتہ ہے وہ درحقیقت یہی احساس ہے جو آپ لوگوں کے دلوں میں ہوتا ہے کہ یہ ایک شکار ہے جسے ہم نے اپنے خیال کے مطابق بنا لیا ہے اور اب اس میں مقابلہ کی طاقت نہیں رہی۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ جو لوگ دوسروں کے تمدن کو اختیار کر لیتے اور ان کی نقل کرنا شروع کر دیتے ہیں وہ انہی کے غلام بن کر رہ جاتے ہیں اور خود ذمہ داری کا احساس ان کے دلوں سے جاتا رہتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہندوستانی لباس میں اگر انگلستان کے لوگوں کے سامنے کوئی شخص جاتا ہے تو وہ انہیں اچھا معلوم نہیں ہوتا مگر یہ صرف انگریزوں پر ہی منحصر نہیں ہمارے ملک میں بھی جب کوئی غیر ملکی کسی اَور لباس میں آتا ہے تو لوگوں کو وہ اچھا معلوم نہیں ہوتا۔ انگریز چونکہ ہندوستان میں ایک عرصہ سے ہزاروں کی تعداد میں رہتے ہیں اس لئے ان کا لباس ہندوستانیوں کو بُرا معلوم نہیں ہوتا۔ مگر چینی چونکہ ہمارے ملک میں کم آتے ہیں اس لئے اگر کوئی چینی آ جائے تو عورتیں اور بچے اپنے گھروں سے نکل نکل کر اسے تماشہ کےطور پر دیکھنا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ چینیوں کی اسی طرح چوٹی ہوتی ہے جس طرح عورتوں کی ہوتی ہے اور پھر ان کے پاجامےگھگھروں کی طرح ہوتے ہیں۔ لوگ ان کو دیکھتے اور حیران ہوتے ہیں کہ ایک مرد نے عورت کا لباس کیوں پہن رکھا ہے۔ تو صرف عادت کے نہ ہونے کی وجہ سے بعض دفعہ کوئی چیز عجیب لگتی ہے حالانکہ وہ عجیب نہیں ہوتی اور قدرتی طور پر انسان چاہتا ہے کہ دوسرا شخص میری نقل کرے حالانکہ اس قسم کی نقل عقل کے بغیر ہوتی ہے اور وہ اس بات کی کوئی دلیل نہیں دے سکتا کہ دوسرا شخص کیوں پاجامہ نہ پہنے اور پتلون پہنے یا پگڑی چھوڑ دےاور ہیٹ پہننا شروع کر دے۔ اگر کوئی نقل عقل کے مطابق ہو تب تو اسے درست تسلیم کیا جا سکتا ہے لیکن جو نقل عقل کےبغیر ہوتی ہے وہ ضرور انسان کو حقیر بنا دیتی ہے اور گو ظاہری طور پر انسان کتنا ہی معزز ہو کر دوسروں کی سوسائٹی میں رہے مگر وہ اپنے دل میں یہ ضرور محسوس کرتے ہیں کہ یہ ایک کمزور دل کا آدمی ہے جس نے ہمارے اثر کو قبول کر لیا ہے اور لوگ دراصل انہیں کا اثر قبول کرتے ہیں جن کے تمدن کو وہ اپنے تمدن سے بہتر سمجھتے ہیں ورنہ کیا وجہ ہے کہ راشے1 جو سرحد سے ہمارے ملک میں آتے ہیں لوگ ان کا لباس اختیار نہیں کرتے یا چینیوں کا لباس کیوں نہیں پہنتے یا جاویوں کے لباس کو اپنا لباس نہیں بنا لیتے یا افریقہ کے لوگوں کے لباس کو اپنے لباس پر کیوں ترجیح نہیں دیتے۔ اسی وجہ سے کہ ان پر ان کے تمدن کا اثر نہیں ہوتا ۔ یہ نہیں کہ ان کا لباس یورپین لوگوں سے کسی دلیل کی رو سے ادنیٰ ہوتا ہے بلکہ اس کی وجہ صرف یہی ہوتی ہے کہ تمدنی لحاظ سے چینیوں یا جاویوں یا افریقی لوگوں کے لباس کو اختیار کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہوتی۔ پس جو لوگ انگریزی لباس کی نقل کرتے ہیں وہ انگریزی لباس کی کسی خوبی کی وجہ سے اس کی نقل نہیں کرتے بلکہ اس لئے کرتے ہیں کہ انگریز حاکم ہیں اور وہ ہندوستانی بندر کی طرح ان کے نقّال بننا چاہتے ہیں۔ انگریز تو اس بات پر مجبور ہیں کہ وہ خواہ ہندوستان میں رہیں اپنے قومی لباس کو ترک نہ کریں مگر جو ہندوستانی ان کے لباس کی نقل کرتا ہے وہ ضرور نقّال ہوتا ہے۔ پھر بھی جہاں تک ایسے احکام کا تعلق ہے جن میں ہماری شریعت روک نہیں بنتی ہم کہہ سکتے ہیں کہ چلو اگر کسی نے ایسی بات نقل کر لی ہے تو کیا ہؤا۔ مثلاً اگر کسی ہندوستانی کو انگریزوں سے مل کر رہنا پڑتا ہے اور وہ اکثر انہی کی سوسائٹی میں رہتا ہے تووہ اگر انگریزوں کا لباس پہن لیتا ہے تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ وہ مجبور ہے اس کا زیادہ تر تعلق چونکہ ہندوستانیوں کی بجائے انگریزوں سے ہے اور انگریزوں کے ہاں اس کا آنا جانا اکثر رہتا ہے ۔ اس لئے اگر اس نے انگریزوں کا لباس اختیار کر لیا ہے تو یہ کوئی اعتراض کی بات نہیں۔ ہماری شریعت نے اس سے منع نہیں کیا گو بعض لوگ اس قسم کے بھی ہوتے ہیں جن کا انگریزوں سے اس قسم کا کوئی تعلق نہیں ہوتا او رپھر بھی وہ انگریزی لباس پہنے پھرتے ہیں۔ یہیں قریب کے ایک گاؤں کا ایک نیم پاگل لڑکا ہے جو ہمیشہ کوٹ پتلون پہنتا ہے۔ اس کے سارے رشتہ دار دھوتی اور لنگوٹی باندھے پھرتے ہیں مگر اُسے کوٹ پتلون کے بغیر کوئی لباس پسند ہی نہیں آتا۔ مجھے ہمیشہ اسے دیکھ کر ہنسی آتی ہے اور مَیں سمجھتا ہوں کہ یہی بندروں والی نقل ہے۔ اگر کسی کو ہمیشہ انگریزوں سے مل کر رہنا پڑتا ہے تو اُن کے احساسات اور جذبات کا خیال رکھنے کے لئے اگر وہ انگریزی لباس پہن لیتا ہے تو یہ اَور بات ہے مگر دوسرے لوگ جو انگریزی لباس پہننے کے عادی نہیں ان کا انگریزی لباس پہننا محض ایک نقل ہوتی ہے اور وہ دوسرے لباسوں کو اس لئے اختیار نہیں کرتے کہ ان کے دل پر انگریزی لباس کا ہی رعب ہوتا ہے اور لباسوں کا رعب نہیں ہوتا۔ بلکہ اگر کسی اَور لباس کی وہ کسی اَور کو نقل کرتے دیکھیں تو شاید وہ خود بھی اس پر ہنسنے لگ جائیں۔
مجھے ہمیشہ ایک لطیفہ یاد رہتا ہے جو مَیں پہلے بھی بعض دوستوں کو سنا چکا ہوں کہ 1918ء میں جب انفلوئنزا کا شدید حملہ ہؤا تو مجھ پر بھی اس کا شدت سے حملہ ہؤا اور کئی سال تک میری طبیعت کمزور رہی۔ مَیں ایک دفعہ آب و ہوا کی تبدیلی کے لئے دریا پر گیا ہؤا تھا کہ ایک دوست نے اپنے متعلق ذکر کیا کہ مَیں ریوڑیاں بڑی اچھی بنا لیتا ہوں اور مذاق مذاق میں بعض لوگ کہہ رہے تھے کہ ریوڑیاں ان کے گھر کے لوگ اچھی بناتے ہیں یہ تو صرف دیکھنے والے ہیں۔ اس پر کچھ اُن کو غیرت آئی اور کچھ لوگوں نے زور دیا آخر گُڑ اور تِل منگوائے گئے اور انہیں ریوڑیاں بنانے کے لئے کہا گیا پھیروچیچی میں ان دنوں احمدیہ سکول ہؤا کرتا تھا اس کے کمروں میں ہم ٹھہرے ہوئے تھے۔ ایک کمرہ میں مَیں لیٹا ہؤا تھا اور ہمارے دوست عبدالاحد خان صاحب افغان کابلی مجھے دبا رہے تھے کہ ریوڑیاں تیار ہونے میں دیر ہو گئی اور جتنے عرصہ میں ہم سمجھتے تھے کہ ریوڑیاں تیار ہو جائیں گی اس سے کچھ زیادہ وقت ہو گیا اور آخر ہوتے ہوتے ساڑھے نو دس بجے رات کا وقت آ گیا۔مَیں نے کہا۔ میاں عبد الاحد خان جاؤ اور دیکھو کہ کیا ہؤا۔ اتنی دیر کیوں ہو گئی ہے۔ انہوں نے آکر کہا۔ کئی دوست بیٹھے ہوئے ہیں۔ گاؤں کے لوگ بھی موجود ہیں مگر جو گُڑ ہے وہ راب کی طرح پتلا ہو گیا ہے اور کبھی ایک کو چکھایا جاتا ہے اور کبھی دوسرے کو۔ کوئی کہتا ہے یہ آدمیوں کے کھانے کے قابل نہیں رہا یہ تو گدھوں کے آگے ڈالنے کے قابل ہے اور کوئی کہتا ہے گھوڑوں کے آگے ڈال دو۔ غرض اسی طرح باتیں ہو رہی ہیں یہاں تک تو انہوں نے بڑی سنجیدگی سے باتیں کیں۔ اس کے بعد کہنے لگے اور درد صاحب اور یہ کہہ کر وہ بے اختیار ہو کر ہنس پڑے ان کی عادت نہیں کہ میرے سامنے اس طرح ہنسیں مگر وہ اس وقت بے اختیار ہو کر ہنس پڑے اور جیسے کہتے ہیں ہنستے ہنستے پسلیاں ٹوٹ گئیں یہی کیفیت ان کی تھی وہ ہنستے چلے جاتے تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہنستے ہنستے گر جائیں گے۔ آخر مَیں نے کہا درد صاحب کو کیا ہؤا۔ وہ کہنے لگے۔ درد صاحب اور پھر ہنسنے لگ گئے۔ مَیں حیران ہؤا کہ آخر ہؤا کیا جو ان کی ہنسی نہیں رکتی۔ مَیں نے کہا میاں عبد الاحد خان درد صاحب کی کیا بات ہے۔ اس پر وہ کچھ ہنسی کو ضبط کر کے کہنے لگے۔ درد صاحب ۔ اور پھر ہنسنے لگ گئے۔ آخر مَیں نے کہا یہ کیا لغو طور پر ہنس رہے ہو سیدھی طرح کیوں نہیں بتاتے کہ ہؤا کیا۔ اس پر انہوں نے بڑی مشکل سے رُک رُک کر اور سینے کو ہاتھ سے دبا دبا کر کہا کہ درد صاحب عورتوں والی پر بیٹھے ہیں۔ مَیں اس پر اَور حیران ہؤا کہ یہ ’’عورتوں والی‘‘ کیا چیز ہے۔ مگر مَیں نے سوچا کہ اب ان سے کچھ پوچھنا فضول ہے خود ہی دیکھنا چاہئے۔ چنانچہ کمرہ کی کھڑکی کھولی تو مَیں نے دیکھا کہ درد صاحب بڑے آرام سے ایک پیڑھی پر بیٹھے ہیں۔ پٹھانوں میں چونکہ مرد پیڑھی پر نہیں بیٹھتے بلکہ عورتیں بیٹھتی ہیں اس لئے میاں عبد الاحد خان صاحب کے نزدیک درد صاحب کا پیڑھی پر بیٹھنا ایسی ہی حرکت تھی جیسے ہمارے ملک میں کہتے ہیں کہ فلاں کا مُنہ کالا کر کے اور گدھے پر سوار کر کے شہر میں پھرایا گیا۔ ان کے نزدیک درد صاحب جیسا عالم آدمی چونکہ عورتوں والا کام کر رہا تھا اس لئے یہ بات ان کے نزدیک سخت ہنسی کا موجب تھی۔ مگر ہمارے ملک میں عام طور پر مَرد پیڑھی پر بیٹھ جایا کرتے تھے۔
اب دیکھو یہ ایک رواج ہے جو ہمارے ملک میں پایا جاتا ہے مگر میاں عبد الاحد خان صاحب کو یہ خیال نہیں آیا کہ وہ خود بھی پیڑھی لے کر بیٹھ جائیں بلکہ اپنے رواج کے مطابق انہوں نے درد صاحب کا پیڑھی پر بیٹھنا ہنسی کا موجب سمجھا۔ تو مختلف ملکوں میں مختلف رواج ہوتے ہیں اور انسان ان سب رواجوں کی نقل نہیں کرتا۔ نقل اسی کی کرتا ہے جس کو اپنے دل میں عظمت دے دیتا ہے اور نقل کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اب اس شخص نے اس قوم کو عظمت دے دی ہے جس کے رواج اور جس کے طریق کو اس نے اختیار کیا ہے مگر جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے جس حد تک سوال ملکی رواج کا ہے اس حد تک ان باتوں کو برداشت کیا جا سکتا ہے۔ مگر جہاں شریعت کے احکام کا سوال آ جائے وہاں اگر ہم دوسروں کی نقل کریں گے تو یقیناً ہم اسلام کی ذلت کے سامان پیدا کر کے دشمنوں کی مدد کرنے والے قرار پائیں گے۔ انہی نقلوں میں سے ایک نقل ڈاڑھی منڈوانا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ نہیں متواتر ڈاڑھی منڈوانے سے منع فرمایا ہے۔2 اور ڈاڑھی منڈوا کر کوئی خاص فائدہ بھی انسان کو نہیں پہنچتا لیکن باوجود اس کے مَیں دیکھتا ہوں کہ مسلمان کہلانے والے دوسرے لوگوں میں سے تو اکثر شہری ڈاڑھی منڈواتے ہی ہیں۔ احمدیوں میں سے بھی ایک حصہ ڈاڑھی منڈواتا ہے اور باوجود بار بار سمجھانے کے وہ اپنے اس فعل سے باز نہیں آتا۔ یوں وہ کہیں گے ہم اسلام کے لئے قربان، ہم احمدیت کے لئے قربان مگر اس شخص کی قربانی کے دعویٰ پر کوئی احمق ہی یقین کر سکتا ہے جو رسول کریم ﷺ کے صریح احکام کی عَلَی الْاِعْلَان نافرمانی کرتا اور پھر قربانی اور محبت کا بھی دعویٰ کرتا چلا جاتا ہے۔ میرے نزدیک تو وہ شخص بڑا احمق ہے جو اسلام کی عزت اور شریعت کی عزت اور رسول کریم ﷺ کی عزت کے قیام کے لئے ایسے شخصوں پر اعتبار کر لیتا ہے جو شخص رسول کریم ﷺکی اتنی چھوٹی سی بات نہیں مان سکتا۔ اس سے یہ کب توقع کی جا سکتی ہے کہ اگر اس کے سامنے کوئی بڑی بات پیش کی جائے گی تو وہ اسے مان لے گا وہ تو فوراً اکڑ کر کھڑا ہو جائے گا اور کہے گا کہ مَیں اس کے مطابق عمل کرنے کے لئے تیار نہیں۔ جیسے گزشتہ خطبہ میں ہی مَیں نے بیان کیا تھا کہ کسی شخص کا ایک حد تک فرمانبرداری کرنا اس بات کی دلیل نہیں ہو سکتا کہ وہ فرمانبردار ہے۔ ممکن ہے اس کی طبیعت کا رخ ہی اسی طرف ہو اور جب اس کی طبیعت کے خلاف کوئی بات پیش ہو تو اس کا انکار کر دے۔ اس صورت میں وہ فرمانبردار نہیں بلکہ اپنی طبیعت کے مطابق کام کرنے والا سمجھا جائے گا۔ پس جو شخص بلا کسی ایسی وجہ کے جو شرعی طور پر اسے بری قرار دے ڈاڑھی منڈواتا ہے وہ صاف طور پر اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ محمد ﷺ کے اس حکم کو ماننے کے لئے مَیں تیار نہیں ہوں۔ یہ حکم میری مرضی کے خلاف ہے اور جو شخص محمد ﷺ کو بزبانِ حال کہہ دیتا ہے کہ آپ کا فلاں حکم چونکہ میری مرضی کے خلاف ہے۔ اس لئے اس پر مَیں عمل نہیں کر سکتا۔ اس پر میرے جیسا انسان کیا اعتبار کر سکتا ہے جو رسول کریم ﷺ کے خادموں کا ایک خادم ہے۔ جو شخص میرے آقا کی بات نہیں مانتا اور پھر یہ توقع رکھتا ہے کہ مَیں اسے احمدیت کا پہلوان، اسلام کا خادم اور محمد ﷺ کا جاں نثار سپاہی سمجھوں۔ وہ میری عقل کی بڑی توہین کرتا ہے اور دوسرے لفظوں میں اس کے یہ معنی ہیں کہ یا تو وہ مجھے پاگل سمجھتا ہے یا ایسا مغرور اور متکبر خیال کرتا ہے کہ گویا میرا خیال ہے کہ جو شخص محمد ﷺ کی بات نہیں مانتے وہ میری ضرور مان لیں گے اور ان دونوں صورتوں میں وہ میری ہتک کرتا ہے۔ پس یا تو وہ مجھے متکبر اور اپنے فہم کے مطابق نَعُوْذُ بِاللہ محمد ﷺ سے بھی افضل خیال کرتا ہے اور یا مجھے بے وقوف خیال کرتا ہے کہ میں اس کی ظاہری باتوں سے دھوکا میں آ جاؤں گا۔ بو علی سینا ایک مشہور طبیب گزرے ہیں۔ اخلاقی طور پر تو وہ اچھے آدمی نہیں تھے۔ کثرت سے شراب پیتے اور کئی مَنْہیات کے مرتکب ہؤا کرتے تھے لیکن جیسے بعض لوگ عقیدے میں راسخ ہوتے ہیں انہیں بھی عقیدہ میں رسوخ حاصل تھا۔ فلسفی بڑے تھے اوربال کی کھال نکالنے کے عادی تھے۔ کسی موقع پر انہوں نے فلسفہ کے متعلق ایک اچھی سی تقریر کی۔ ایک شاگرد ان کی اس تقریر سے ایسا متاثر ہؤا کہ کہنے لگا خدا کی قسم تم نبی ہو اورپھر اسی جوش کی حالت میں یہاں تک کہہ بیٹھا کہ اگر محمد ﷺ کے زمانہ میں تم ہوتے تو تم کو اس مقام پر خدا تعالیٰ کی طرف سے کھڑا کیا جاتا جس مقام پر محمد ﷺ کھڑے ہوئے تھے۔ بو علی سینا حکیم تھے اور وہ طبائع کو اور طبائع کےسمجھانے کے اوقات کو سمجھتے تھے۔ اس وقت وہ خاموش ہو گئے اور مہینوں انہوں نے اپنے دل میں یہ بات رکھی۔ وہ سرد ملک کے رہنے والے تھے ایک دفعہ سردی کا موسم تھا صبح کا وقت تھا وہ تالاب کے کنارے کھڑے تھے اور پانی یخ بستہ تھا کہ انہوں نے اپنے اسی شاگرد کو بلایا اور کہا کہ اس تالاب میں چھلانگ لگاؤ۔ وہ شاگرد انہیں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگا اور کہنے لگا جناب پاگل ہو گئے ہیں۔ اس قدر حکمت کا آپ کو دعویٰ ہے اور اس یقینی موت میں آپ مجھے دھکیل رہے ہیں اور اگر آپ پاگل ہی ہو چکے ہیں تو کم از کم میں تو پاگل نہیں کہ آپ کی بات مان لوں۔ بو علی سینا نے کہا تمہیں یاد ہے کچھ مہینے گزرے تم نے مجھے کہا تھا کہ اگر محمد ﷺ کے زمانہ میں مَیں ہوتا تو جس مقام پر محمد ﷺ کھڑے کئے گئے ہیں اس مقام پر مَیں کھڑا کیا جاتا۔ احمق! محمد ﷺ نے ایک نہیں ہزاروں کو یقینی موت کے مُنہ میں دھکیلا اور وہ بغیر چون و چرا کئے موت کے مُنہ میں چلے گئے اور انہوں نے اُف تک نہ کی مگر مَیں نے تو صرف تجھ کو جس نے مجھے وہ مقام دینا چاہا تھا جو محمد ﷺ کو خدا نے دیا اس تالاب میں کُودنے کو کہا اور تُو مجھے پاگل سمجھنے لگا۔ کیا تُو اس فرق کو نہیں سمجھتا کہ بات کرنی اَور چیز ہے اور دنیا کے حالات میں تغیر پیدا کرنے کی قابلیت اور چیز ہے۔
مَیں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ یوں تو جہاد کے موقع پر ہمیشہ ہی مسلمانوں نے اپنے آپ کو آگ میں جھونکا مگر ایک موقع پر ایک صحابی نے بعینہٖ یہی فقرہ کہا تھا۔ چنانچہ بدر کے موقع پر جب بار بار رسول کریم ﷺ مشورہ دینے کو فرماتے تو ایک صحابی کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا یَا رَسُوْلَ اللہ! کیا آپ ہم انصار سے مشورہ لینا چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ہاں۔ اس مقام سے سمندر کچھ منزل پر تھا۔ اس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللہ ہمیں آپ کی صداقت پر ایسا یقین ہے کہ اگر آپ کہیں کہ یہ جو سامنے سمندر ہے اس میں تم سب کُود جاؤ تو ہم بغیر کسی عذر کے اس میں کودنے کے لئے تیار ہیں حالانکہ سمندر میں سے کوئی شخص تیر کر نہیں گزر سکتا ۔وہ سینکڑوں میل کا سمندر تھا اور چار پانچ سو میل چوڑا تھا۔ اس میں سے ان کو کوئی چیز بچا نہیں سکتی تھی مگر انہوں نے کہا یَا رَسُوْلَ اللہ!آپ اگر کہیں کہ ہم سمندر میں کُود جائیں تو ہم اس میں بھی کُود جائیں گے اور اس کے مقابلہ میں کسی قسم کا عذر نہیں کریں گے۔3 تو رسول کریم ﷺ کو عملی طور پر ایسے لوگ ملے تھے جنہوں نے اپنے آپ کو موت کے مُنہ میں ڈال دیا اوریہ آپ کا ہی کمال تھا ورنہ یہ وہی عرب تھے جو دو دو پیسوں کے لئے لڑا کرتے تھے جو خربوزوں اور تربوزوں کے لئے ایک دوسرے کو قتل کرنے کے درپے ہو جاتے تھے مگر پھر یہی عرب تھے جنہوں نے محمد ﷺ کی آواز پر ایسی قربانی کی کہ جس کی مثال دنیا کے پردہ پر نہیں مل سکتی۔
قربانی کی مثالیں اورجگہ بھی مل جائیں گی مگر اتنی کثرت سے ساری قوم کا چند منافقوں کو چھوڑ کر قربانی کے لئے تیار ہو جانا ایسا اعلیٰ درجہ کا نمونہ ہے کہ انسان کی عمر اس پر حیرت اور استعجاب کا اظہار کرتے ہوئے گزر جاتی ہے۔ اس قسم کے لوگوں کا مِل جانا فتح کو بالکل یقینی بنا دیتا ہے مگر یہ تغیر محمد ﷺ کی صحبت میں ہی رہ کر صحابہ میں پیدا ہؤاتھا اور صحابہ کو بھی رسول کریم ﷺ سے ایسی محبت تھی کہ تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ ان کا نقطۂ مرکزی صرف محمد ﷺ کی ذات تھی چنانچہ جب کسی شخص نے حضرت عائشہ سے سوال کیا کہ رسول کریم ﷺ کی کچھ صفات تو بیان کیجئے تو آپ نے جواب دیا کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْاٰنُ 4 آپ کے اخلاق وہی ہیں جو قرآن میں لکھا ہے اور جو کچھ قرآن میں لکھا ہے وہ آپ کے اخلاق ہیں پھر کس قسم کی محبت تھی ان لوگوں کے دلوں میں؟ مجھے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا واقعہ ہمیشہ ہی یاد رہتا ہے کہ مدینہ میں کم سے کم اس وقت تک جبکہ یہ واقعہ ہؤا اچھی چکیوں کا رواج نہیں تھا۔ لوگ پتھروں پر دانے کچل لیتے اور پتھروں پر ہی پیس کر پھونکوں سے اس کے چھلکے اڑا کر روٹی پکا لیا کرتے تھے۔ جب ایران فتح ہؤا تو پَن چکیاں اور ہوا کی چکیاں آئیں اور ان سے میدے جیسا باریک آٹا پسنے لگا۔ صحابہؓ نے کہا سب سے پہلا آٹا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھیجنا چاہئے چونکہ یہ چکی کا پہلا اعلیٰ درجے کا باریک آٹا تھا اس لئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں صحابہ کی طرف سے نذر کے طور پر بھیجا گیا۔ اس وقت کئی عورتیں آپ کے اردگرد بیٹھی تھیں، روٹی پکانے والی نے روٹی پکائی اور ساری عورتیں اسے دیکھ دیکھ کر حیرت کا اظہار کرنے لگیں کہ کیا ہی نرم روٹی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بھی اس کا ایک لقمہ توڑ کر مُنہ میں ڈالا مگر لقمہ مُنہ میں ڈالنا ہی تھا کہ ٹپ ٹپ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ وہ عورتیں جو پاس بیٹھی تھیں پھر پھلکے پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگیں۔ اُمّ المومنین روٹی تو بڑی نرم ہے ایسی روٹی تو ہم نے کبھی دیکھی نہین تھی۔ آپ اسے کھا کر روتی کیوں ہیں؟ حضرت عائشہؓ نے فرمایا یہ لقمہ میرے گلے میں پھنستا ہے ۔ پھر انہوں نے کہا تم کو کیا معلوم کہ ان پن چکیوں اور ہوا کی چکیوں سے پہلے ہم کیا کیا کرتی تھیں۔ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں چکیاں نہیں ہوتی تھیں۔ ہم غلہ کو پتھر سے کُوٹ کر اور اس کا آٹا بنا کر روٹی پکایا کرتے تھے۔ جب یہ لقمہ میرے منہ میں گیا تو مجھے معاً وہ زمانہ یاد آ کر رونا آ گیا۔ اگر اس وقت بھی ایسی ہی چکیاں ہوتیں۔ تو مَیں اس آٹے کی روٹی پکا کر محمد ﷺ کو کھلاتی۔تو دیکھو جو آٹا مدینہ کے دوسرے لوگوں کے لئے حیرت پیدا کرنے کا موجب تھا جو آٹا لوگوں کو ملائم ملائم دکھائی دیتا تھا۔ جو آٹا لوگوں کو روٹی کھانے کا اشتیاق دلا رہا تھا۔ اسی آٹے کا لقمہ عائشہؓ کے گلے میں پھنسنے لگ گیا۔
یہ رسول کریم ﷺ کے اعلیٰ درجہ کے اخلاق ہی تھے جنہوں نے ایسا عظیم الشان تغیر پیدا کیا ورنہ اگر دنیوی نگاہ سے دیکھو تو حضرت عائشہؓ کو رسول کریم ﷺ سے شادی کر کے کیا فائدہ پہنچا۔ گیارہ بارہ سال کی عمر میں ایک لڑکی بیاہی گئی جو بیس سال کی عمر میں بیوہ ہو گئی اور پھر اس کی ساری عمر ہی بیوگی میں کٹ گئی۔ دنیاداروں کی بیویاں ایسے موقع پر شاید روز اپنے خاوندوں کو بدعائیں دیتی ہوں گی مگر وہ تعلق دنیا کا نہیں تھا بلکہ دین کا تھا عائشہؓ یہ نہیں سمجھتی تھیں کہ میری شادی ایک انسان سے ہوئی ہے بلکہ عائشہؓ یہ سمجھتیں کہ میری شادی ایک ایسے انسان سے ہوئی ہے جو دوسرے کے ہاتھ کو پکڑ کر اس کا ہاتھ خدا کے ہاتھ میں دے دیتا ہے۔ اسی طرح اَور بھی بیسیوں واقعات صحابہؓ کی زندگیوں میں پائے جاتے ہیں۔ جن سے اس محبت کا پتہ چلتا ہے جو انہیں رسول کریم ﷺ کی ذات سے تھی اور درحقیقت یہی وہ نمونہ تھا جس نے لوگوں کے اندر ایک تغیر پیدا کر دیا۔ پس بو علی سینا کا یہ مثال دینا واقع میں ایک بہت بڑی علمی دلیل تھی۔
تو رسول کریم ﷺ نے ایک ایسا تغیر دنیا میں پیدا کر دیا ہے جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ ایسے انسان کی فرمانبرداری اور اطاعت سے اگر کوئی شخص مُنہ موڑ لیتا ہے تو پھر میرا اس پر کس طرح یقین ہو سکتا ہے بلکہ جس شخص کےد ماغ میں ایک ذرّہ بھر بھی عقل ہو وہ کس طرح کہہ سکتا ہے کہ اس نے رسول کریم ﷺ کی بات تو نہیں مانی مگر میری مان لے گا۔ مَیں نے بتایا ہے کہ یا تو وہ پاگل ہو گا یا انتہاء درجے کا متکبر اور مغرور ہو گا جو اس دھوکا میں آ جائے گا۔
مَیں نے متواتر جماعتوں کو توجہ دلائی ہے اور ہمارے ہاں قانون بھی ہے کہ کم سے کم جماعت کے عہدیدار ایسے نہیں ہونے چاہئیں جو ڈاڑھی منڈواتے ہوں اور اس طرح اسلامی احکام کی ہتک کرتے ہوں مگر مَیں دیکھتا ہوں اب بھی دنیاداری کے لحاظ سے جس کی ذرا تنخواہ زیادہ ہوئی یا چلتا پرزہ ہؤا یا دنیوی لحاظ سے اسے کوئی اَور اعزاز حاصل ہؤا اسے جماعت کا عہدیدار بنا دیا جاتا ہے۔ خواہ وہ ڈاڑھی منڈواتا ہی ہو حالانکہ دنیوی لحاظ سے ہماری جماعت کے بڑے سے بڑے آدمی بھی ان لوگوں کے پاسنگ بھی نہیں۔ جو اس وقت دنیا میں پائے جاتے ہیں اور اگر دنیوی لحاظ سے ایسے لوگوں کو عہدیدار بنایا جا سکتا ہے تو عیسائیوں اور ہندوؤں کو کیوں نہیں بنایا جا سکتا وہ بہت زیادہ دولت مند اور دنیوی لحاظ سے بہت زیادہ معزز ہوتے ہیں مگر درحقیقت یہ کام وہی کر سکتا ہے جسے اسلام اور احمدیت کے جیتنے کی امید نہیں اور جو اسلام اور احمدیت کو ایک شکست خوردہ مذہب سمجھتا ہے ورنہ جو شخص اسلام اور احمدیت کو جیتنے والا مذہب سمجھتا ہے اس کے سامنے تو اگر کروڑ پتی بھی آ جائیں تو وہ ان کو حقارت سے ٹھکرا دیتا ہے اور دنیا کے تمام بادشاہوں کو بھی ایک سچے مومن کے مقابلہ میں ذلیل سمجھتا ہے۔
دنیا آخر ہے کیا چیز؟ کب یہ خدا کے نبیوں کے مقابلہ میں کھڑی ہوئی اور کامیاب ہوئی۔ آخر ہزاروں نبی دنیا میں آئے ہیں۔ ان ہزاروں نبیوں میں سے کب کوئی ایسا نبی آیا کہ اسے دنیوی لحاظ سے کوئی عزت حاصل تھی لیکن کب اس کا سلسلہ ختم ہؤا اوروہ فاتح اور حکمران نہیں تھا۔ یہی حال احمدیت کا ہے۔ پس ایسی شکست خوردہ ذہنیت کے لوگ جنہوں نے مغربیت کے آگے اپنے ہتھیار ڈال رکھے ہیں وہ ہرگز کسی عہدہ کے قابل نہیں ہیں۔ وہ بھگوڑے ہیں اور بھگوڑوں کو حکومت دے دینا اول درجہ کی حماقت اور نادانی ہے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو دیکھو۔ یہ وہ بہادر لوگ تھے جو سمجھتے تھے کہ اسلام کی باگ کن لوگوں کے ہاتھ میں دی جانی چاہئے۔
عکرمہ بن ابو جہل اسلام کے ایک بہت بڑے بہادر جرنیل گزرے ہیں۔ ایک جنگ کے موقع پر اتفاقیہ طور پر ان کی فوج کے پاؤں اکھڑ گئے اور اس لشکر کے ساتھ وہ بھی بھاگ کھڑے ہوئے۔ دنیا میں اگر کسی گندی اور سڑاند والی چیز سے اعلیٰ درجے کا ہیرا پیدا ہؤا ہے تو وہ عکرمہؓ ہے۔ ابو جہل جیسے خبیث اور ناپاک آدمی کے نطفہ سے عکرمہؓ ایسا اعلیٰ درجہ کا مومن پیدا ہؤا ہے جس کی مثال دنیا میں بہت کم ملتی ہے۔ مگر وقت ہوتا ہے۔ کسی وقت انسان کا قدم اکھڑ جاتا ہے۔ اس وقت لشکر جو بھاگا تو حضرت عکرمہؓ بھی بھاگ کھڑے ہوئے اس میں کچھ غلطی ان کی بھی تھی۔ حضرت ابو بکرؓ نے حکم دیا تھا کہ جب تک فلاں لشکر نہ پہنچ جائے حملہ نہ کرنا مگر انہوں نے اس لشکر کے آنے سے پہلے ہی جہاد کے شوق میں حملہ کر دیا اور جب لشکر پسپا ہؤاتو وہ بھی میدان سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ یہ اسلام کے لئے ایک بہت بڑی ہتک کا موقع تھا کیونکہ اسلام نے کبھی ایسی شکست نہیں کھائی تھی۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس جب یہ معاملہ پہنچا تو آپ نے فیصلہ کیا کہ عکرمہ کو آئندہ کسی لشکر کی کمان سپرد نہ کی جائے اور نہ آئندہ وہ میرے سامنے کبھی مدینہ میں آئیں۔ گویا وہ مقدس مقام جس کے ایک ایک انچ پر محمد ﷺ کے پاؤں پڑے تھے اور جس کو دیکھنے کے لئے مسلمان تڑپتے رہتے تھے اس کے متعلق عکرمہؓ کو حکم دے دیا گیا کہ وہ اس مقام میں آئندہ نہ آئیں چنانچہ عکرمہ حضرت ابو بکرؓ کے زمانہ میں پھر مدینہ میں نہیں آئے۔ یہ مجھے معلوم نہیں کہ بعد میں انہیں آنے کی اجازت دی گئی تھی یا نہیں۔ عکرمہؓ نے جس جس رنگ میں اپنی اس غلطی کا کفارہ کیا ہے اور سالہا سال اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالا یہانتک کہ آخر شہادت کی موت قبول کر لی وہ ایمان کا ایسا اعلیٰ درجے کا مظاہرہ ہے کہ ہر سچا مومن اس کی نقل کرنے کی آرزو اپنے دل میں رکھتا ہے مگر بہرحال ان کی اس وقت شکست کو جو بعد میں بدل گئی اور مسلمانوں کو فتح حاصل ہو گئی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اتنا محسوس کیا کہ انہوں نے فیصلہ فرما دیا کہ ایسی بھگوڑی ذہنیت رکھنے والے شخص کو اسلامی لشکر کی کمان سنبھالنے کے قابل نہیں سمجھا جا سکتا۔
پس غور کرو کہ تائب عکرمہؓ کو بھی ابو بکرؓ اسلامی لشکر کی کمان نہیں دیتے، بھاگنے والے عکرمہؓ کو نہیں ۔ وہ عکرمہ جو میدان سے بھاگا اس کے متعلق یہ فیصلہ نہیں بلکہ یہ فیصلہ اس کے متعلق ہے جو واپس لَوٹا اور جس نے مختلف میدانوں میں دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مل کر دشمن پر فتح حاصل کی مگر توبہ کرنے والے عکرمہؓ کے متعلق بھی حضرت ابو بکرؓ کا فیصلہ یہی تھا کہ ایسی بھگوڑی ذہنیت کے انسان کے ہاتھ میں اسلامی لشکر کی کمان نہیں دی جا سکتی۔ پھر کیسے افسوس کی بات ہے ان احمدیوں کے لئے جو محض اس وجہ سے کہ فلاں شخص کی تنخواہ زیادہ ہے، فلاں دو سو روپے لیتا ہے اور فلاں پانچ سو اور فلاں ہزار۔ ان دنیا دار لوگوں کو اپنی جماعت اور پریذیڈنٹ اور سیکرٹری بنا دیتے ہیں اوریہ نہیں دیکھتے کہ وہ اپنے عمل سے اسلام اور احمدیت کی ہتک کرنے والے ہیں۔ جس فوج کے بھگوڑے کمانڈر ہوں اس فوج کی شکست میں کسی کو شبہ نہیں ہو سکتا اور جو لوگ اتنا بھی خدا اور رسول کے وعدوں پر یقین نہیں رکھتے اور خیال کرتے ہیں کہ اگر فلاں شخص گو وہ کیسا ہی دنیادار ہے عہدیدار نہ ہؤا تو جماعت کی عزت نہیں رہے گی وہ اپنے عمل سے اسلام اور احمدیت کی شکست کا اظہار کرتے ہیں۔پس ایسے لوگ بھی مجرم ہیں جو ان لوگوں کو عہدیدار بناتے ہیں اور وہ لوگ بھی مجرم ہیں جو ایسی باتوں میں یورپین لوگوں کی نقل کرتے ہیں۔ وہ محمد ﷺ کی طرف پیٹھ کر کے دجال کی طرف مُنہ کر کے کھڑے ہیں۔ گویا دجال ان کے نزدیک بڑی عزت والی چیز ہے جس کی نقل کرنے میں ان کی نجات ہے۔ لیکن محمد ﷺ ان کے نزدیک نَعُوْذُ بِاللہ ایک بے عزت وجود ہے کہ ان کی طرف انہوں نے پیٹھ کر لی ہے۔ پس مَیں ایک دفعہ پھر جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ یہاں سوال چند بالوں کا نہیں بلکہ یہاں سوال اس ذہنیت کا ہے جو مغربیت کے مقابلہ میں اسلام اور احمدیت نے پیدا کرنی ہے اور جس ذہنیت کو ترک کر کے انسان مغربیت کا غلام بن جاتا ہے۔ آخر کونسی بات ہے جس کے لئے لوگ انگریزوں کی نقل کرتے ہیں۔ بس اتنی سی بات کے لئے کہ وہ کہہ سکیں ہم فلاں انگریز سے ملنے کے لئے گئے تھے تو اس نے مسکرا کر ہم سے بات کی۔ اتنی سی بات پر وہ لٹو ہو جاتے ہیں اور بندر کی طرح ان کی نقل کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
تُف ہے ایسے ایمان پر اور تُف ہے ایسی عزت پر۔ تمہارا ایمان تو ایسا ہونا چاہئے کہ اگر دس کروڑ بادشاہ بھی تمہیں آ کر کہیں کہ ہم تمہارے لئے اپنی بادشاہتیں چھوڑنے کے لئے تیار ہیں تم ہماری صرف ایک بات مان لو جو اسلام کے خلاف ہے تو تم ان دس کروڑ بادشاہوں سے کہہ دو کہ تُف ہے تمہاری اس حرکت پر۔ مَیں تو محمد مصطفیٰ ﷺ کی ایک بات کے مقابلہ میں تمہاری اور تمہارے باپ دادا کی بادشاہتوں کو جوتی بھی نہیں مارتا۔ یہ ہے ایمان کی کیفیت ۔ جو شخص یہ کیفیت اپنے دل میں محسوس نہیں کرتا اس کا یہ دعویٰ کہ اس کا ایمان پکا ہے ہم ہرگز ماننے کے لئے تیار نہیں ہو سکتے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ایسے لوگ مومن نہیں، گنہگار بھی مومن ہوتے ہیں۔ مگر ایسی بھگوڑی ذہنیت رکھنے والے کمان اور سرداری کے مستحق نہیں سمجھے جا سکتے۔ سرداری اور کمان ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہی ہونی چاہئے جو بہادر ہوں، دلیر ہوں اور سمجھتے ہوں کہ احمدیت کی خاطر اور اس کے وقار کو قائم رکھنے کے لئے ہم ہر ممکن قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں۔ مَیں نے ایسی مثالیں اپنی جماعت میں بھی دیکھی ہیں۔ مَیں ایک دفعہ ایک جماعت میں گیا۔ اس جماعت کے امیر ایک ایسے دوست تھے جو صرف ستّر اَسّی روپے ماہوار تنخواہ لیا کرتے تھے مگر ان کے ماتحت اس وقت ایک احمدی افسر مال تھے، ایک احمدی سب جج تھے، ایک فوج کے کپتان تھے اور ایک جیل خانہ کے افسر تھے۔ یہ چار بڑے بڑے عہدیدار ان کے ماتحت تھے جن میں سے دو امپیریل سروس کے سمجھے جاتے تھے اور گورنمنٹ کی اعلیٰ درجہ کی نوکریاں امپیریل سروس والوں کو ہی ملا کرتی ہیں۔ مَیں نے ان امیر صاحب کو ایک ضرورت کے ماتحت لکھا تھا کہ سٹیشن پر کوئی شخص استقبال کے لئے نہ آئے سوائے اس کے کہ وہ اپنے امیر سے اس کی اجازت لے چکا ہو۔ جب میں سٹیشن پر پہنچا تو ایک نوجوان انہی افسروں میں سے سٹیشن پر موجود تھا۔ مَیں نے ان کی طرف دیکھا تو وہ اپنے امیر صاحب کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگے کہ مَیں ان سے اجازت لے کر آیا ہوں اور امیر صاحب نے بھی کہا کہ مَیں نے انہیں آنے کی اجازت دے دی تھی۔ پھر وہاں مَیں نے دو دن قیام کیا اور مَیں نے دیکھا کہ وہ نوجوان جو صرف ساٹھ ستّر یا اسّی روپے ماہوار تنخواہ لیتا تھا احمدیت کا اخلاص رکھنے اور اس کی تعلیم کو سمجھنے کی وجہ سے ذرا بھی ان افسروں سے مرعوب نہیں تھا اور ایسی عمدگی سے ان پر حکومت کر رہا تھا کہ مجھے دیکھ کر بہت ہی خوشی ہوئی کہ یہ سچا احمدی نمونہ ہے اور وہ دوسرے افسر بھی اس کی اطاعت کر رہے تھے اور اپنی ذات میں ان کی اطاعت بھی ایک نمونہ تھی مگر ایک معمولی تنخواہ پانے والے کا اپنی تنخواہ سے دس دس پندرہ پندرہ گنا زیادہ تنخواہ لینےو الوں اور اپنے افسروں سے بھی بڑے افسروں پر حکومت چلا لینا ان کی قربانی سے زیادہ بہتر نمونہ تھا جس کے ساتھ حکمت عملی بھی شامل تھی۔ تو مومن جب کوئی کام کرتا ہے وہ اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کرتا کہ بڑا کون ہے اور چھوٹا کون ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ بڑا وہی ہے جو سب سے بڑے کی اطاعت کرے اور انسانوں میں سے سب سے بڑے محمد ﷺ ہیں۔ پس جو شخص ان کی اطاعت نہیں کرتا وہ بڑا کس طرح ہو سکتا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہی واقعہ ہے۔ کوفہ کے لوگ بڑے باغی تھے اور وہ ہمیشہ اپنے افسروں کے خلاف شکایتیں کرتے رہتے تھے کہ فلاں قاضی ایسا ہےفلاں میں یہ نقص ہے اور فلاں میں وہ نقص ہے۔ حضرت عمرؓ ان کی شکایت پر حکام کو بدل دیتے اور اَور افسر مقرر کر کے بھیج دیتے بعض لوگوں نے کہا بھی کہ یہ طریق درست نہیں۔ آپ بار بار افسروں کو نہ بدلیں مگر حضرت عمرؓ نے کہا مَیں افسروں کو بدلتا ہی چلا جاؤں گا۔ یہانتک کہ کوفہ والے خود ہی تھک جائیں۔ جب اسی طرح ایک عرصہ تک ان کی طرف سے شکایتیں آتی رہیں تو حضرت عمرؓ نے کہا اب مَیں کوفہ والوں کو ایک ایسا گورنر بھجواؤں گا جو انہیں سیدھا کر دے گا ۔یہ گورنر انیس سال کا ایک نوجوان تھا۔ عبد الرحمان اس کا نام تھا۔ جب کوفے والوں کو پتہ لگا کہ انیس سال کا ایک لڑکا ان کا گورنر مقرر ہو کر آیا ہے تو انہوں نے کہا آؤ ہم سب مل کر اس سے مذاق کریں۔ وہ شریر اور شوخ تو تھے ہی۔ انہوں نے بڑے بڑے جُبّہ پوش لوگوں کو جو ستّرستّر ، اَسّی اسّی، نوّے نوّے سال کے تھے اکٹھا کیا اور فیصلہ کیا کہ ان سب بوڑھوں کے ساتھ شہر کے تمام لوگ مل کر عبد الرحمان کا استقبال کرنے کے لئے جائیں اور مذاق کے طور پر اس سے سوال کریں کہ جناب کی عمر کیا ہے۔ جب وہ جواب دے گا تو خوب ہنسی اڑائیں گے چنانچہ اس سکیم کے مطابق وہ شہر سے دو تین میل باہر اس کا استقبال کرنے کے لئے آئے۔ اُدھر سے گدھے پر سوار عبد الرحمان ابن ابی لیلیٰ بھی آ نکلے۔ کوفہ کے تمام لوگ صفیں باندھ کر کھڑے تھے اور سب سے اگلی قطار بوڑھے سرداروں کی تھی۔ جب عبد الرحمان ابن ابی لیلیٰ قریب پہنچے تو انہوں نے پوچھا۔ کیا آپ ہی ہمارے گورنر مقرر ہو کر آئے ہیں اور عبد الرحمان آپ کا ہی نام ہے؟ انہوں نے کہا ہاں۔ اس پر ان میں سے ایک بہت بوڑھا آدمی آگے بڑھا اور اس نے کہا جناب کی عمر! عبد الرحمان نے کہا میری عمر! تم میری عمر کا اندازہ اس سے لگا لو کہ جب رسول کریم ﷺ نے اسامہ بن زیدؓ کو دس ہزار صحابہؓ کا سردار بنا کر بھیجا تھا جس میں ابو بکرؓ اور عمرؓ بھی شامل تھے تو جو عمر اُس وقت اسامہ بن زیدؓ کی تھی اُس سے ایک سال میری عمر زیادہ ہے۔ یہ سنتے ہی جیسے اوس پڑ جاتی ہے وہ پیچھے ہٹ گئے اور انہوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ جب تک یہ لڑکا یہاں رہے خبردار! تم نے بولنا نہیں ورنہ یہ کھال ادھیڑ دے گا چنانچہ انہوں نے بڑے عرصہ تک گورنری کی اور کوفہ والے ان کےسامنے بول نہیں سکتے تھے۔ یہ اتنا زبردست لائق نوجوان تھا کہ بچپن میں انگریزی کی جو ریڈریں ہمیں پڑھائی جاتی تھیں ان میں بھی ان کے قصے درج ہوتے تھے نام تو نہیں لکھا ہوتا تھا صرف سگیشس قاضی (Sagacious Qazi) یعنی عقلمند قاضی لکھ کر ان کے کئی فیصلے قصوں کہانیوں کے رنگ میں لکھے ہوتے تھے۔ انگریزوں نے نظموں کی شکل میں بھی ان کے کئی فیصلے نقل کئے ہیں۔ تو جو شخص اللہ تعالیٰ کا ہو جاتا ہے اسے کسی دنیوی عہدے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ نہ بڑی عمر کی اسے ضرورت ہوتی ہے، نہ دولت کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ ظاہری علم کی بھی اسے ضرورت نہیں ہوتی ۔ محمد ﷺ آخر کون سے کالج میں پڑھے ہوئے تھے ؟یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے کس کالج میں تعلیم حاصل کی تھی ؟مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو وہ علم دیا کہ دنیا ہزاروں سال تک ان کی خوشہ چینی کرتی چلی جائے گی اَور پھر بھی ان کا خزانہ ختم نہیں ہو گا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو جو کتاب دی وہ ہے تو خدا کا کلام مگر اس میں کیا شبہ ہے کہ خدا کا کلام ظرف کے مطابق اترتا ہے پس بے شک وہ خدا کا کلام ہے مگر جہاں وہ خدا کا کلام اور اس کا الہام ہے وہاں وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ محمد ﷺ کا ظرف کتنا بڑا ہے۔ میری تو یہ حالت ہے کہ اس کتاب کو دیکھ کر بعض دفعہ میری مجنونانہ حالت ہو جاتی ہے اور جب مَیں اس کے علوم کو دیکھتا ہوں تو حیران ہو جاتا ہوں۔ ہے تو وہ پاگلوں کی سی بات مگر چونکہ خدا کے کلام کی شان اس سے ظاہر ہوتی ہے اس لئے مَیں اسے بیان کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے۔ مَیں ایک دن قرآن کو دیکھ رہاتھا کہ اس کے مطالب در مطالب مجھ پر کھلنے لگے اور ایک کے بعد دوسرااور دوسرے کے بعدتیسرا نکتہ مجھ پر کھلنے لگ گیا اور ایسا علوم کا تانتا بندھا کہ میری عقل حیران ہو گئی اور مَیں نے یہ کہتے ہوئے قرآن کو اپنےسامنے فرش پر رکھ دیا کہ واہ اللہ میاں! تیری کتاب بھی عجیب ہے۔ تو یہ ایک ایسا علم خدا نے ہمیں دیا ہے کہ اگر ہزاروں سال تک دنیا کے عالم اس کی خوشہ چینی کرتے رہیں تب بھی یہ علم ختم نہیں ہو سکتا۔ پس اگر خدا سے سچا تعلق ہو تو ظاہری علم کی بھی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ایسے شخص کو علم لدنی عطا کیا جاتا ہے اور وہ کسی موقع پر بھی شرمندہ نہیں ہوتا خواہ دنیا کے کتنے بڑے بڑے عالموں سے اس کا مقابلہ کیوں نہ ہو۔
پس اپنی جماعت کے عہدیدار منتخب کرتے وقت ہمیشہ اس امر کو مدنظر رکھو کہ ان میں دین ہو تقویٰ ہو، پاکیزگی ہو۔ اللہ تعالیٰ کی سچی محبت ہو اور ہر قسم کی قربانی کے لئے وہ تیار رہنے والے ہوں۔ اگر ان میں دین اور تقویٰ نہیں اور محض اس لئے عہدہ دے دیا جاتا ہے کہ کوئی شخص بڑا چلتا پرزہ ہے یا حکام کے نزدیک عزت رکھتا ہے یا بڑی تنخواہ لیتا ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ ایسے لوگوں کو اپنا عہدیدار بنانے والے اسلام اور احمدیت کی طاقت کے منکر ہیں ۔ ایسے لوگ یاد رکھیں کہ ان کی نہ انجمنیں کامیاب ہو سکتی ہیں نہ عہدیدار کامیاب ہو سکتے ہیں۔ یہ شکست خوردہ ذہنیت کے بھگوڑے ہیں اور جب بھی اسلام کی طرف سے جنگ ہو گی یہ لوگ پیچھے رہ جائیں گے اور شیطان کا مقابلہ کرنے کے لئے وہی لوگ آگے آئیں گے جو گو بظاہر کمزور اور ناطاقت ہیں۔ مگر ان کے ایمان کی طاقت ہمالیہ پہاڑ سے بھی زیادہ مضبوط ہے۔ ‘‘
(الفضل 30 جون 1942ء)
1: راشے: پر ، بال و پر
2: مسلم کِتَابُ الْاِیْمَان باب تحریم ضرب الْخُدُوْد (الخ)
3: السّیرة الحلبیة جلد 2 صفحہ 160 مطبوعہ مصر 1935ء
4: مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحہ 91۔ مطبوعہ مصر 1313ھ



19
گورنمنٹ برطانیہ اگر دعا کی طرف توجہ کرے تو موجودہ جنگ میں اس کی کامیابی یقینی ہے
( فرمودہ 26 جون 1942ء )

تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’ستمبر 1940ء کی بات ہے کہ مَیں چند دنوں کے لئے شملہ گیا تھا اور وہاں چودھری ظفر اللہ خان صاحب کے مکان پر ٹھہرا تھا۔ غالباً 20 ستمبر کے دو چار دن بعد کی کوئی تاریخ تھی کہ مَیں نے رات کو رؤیا میں دیکھا کہ گویا مَیں مصر میں ہوں اور لیبیا کے محاذ پر دشمن کی فوجوں اور انگریزی فوجوں کے درمیان جنگ ہو رہی ہے۔ اس وقت لڑائی کا میدان مجھے اس شکل میں دکھایا گیا کہ گویا انگریزی علاقہ ایک ہال کی طرح ہے۔ اس ہال میں ایک طرف سے سیڑھیاں اترتی ہیں۔ چوڑی چوڑی سیڑھیاں کچھ دور تک سیدھی جا کر پھر ایک طرف کو مڑ جاتی ہیں۔ گویا وہ اس ہال میں آنے کا رستہ ہے۔ مَیں نے دیکھا کہ انگریزی فوج دشمن کے دباؤ کو برداشت نہ کرتے ہوئے پیچھے ہٹتی ہے۔ وہ بڑی بہادری سے لڑتی ہے مگر دشمن کا زور اتنا زیادہ ہے کہ وہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی، رائفلیں دونوں فریق کے ہاتھوں میں ہیں اور دونوں ایک دوسرے پر Bayonet Charge کرتی ہیں۔ مَیں نے دیکھا کہ پہلے تو انگریزی فوجیں سیڑھیوں کے دوسرے سرے پر دشمن سے لڑ رہی ہیں مگر آہستہ آہستہ سیڑھیوں پر سے اترنا شروع ہو گئیں۔ دشمن اس کے پیچھے پیچھے بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ سیڑھیاں ختم ہو گئیں اور انگریزی فوجیں ہال میں اُتر آئیں اور دشمن کی فوج بھی ان کے پیچھے اترنا شروع ہو گئی۔ اس نظارہ کو دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ انگریزی فوج کمزور حالت میں ہے اور مَیں اپنے دل میں جوش محسوس کرتا ہوں کہ ان کی مدد کروں اس خیال کے آنے پر مَیں تیزی سے گھر کی طرف آتا ہوں اور گھر پہنچ کر میاں بشیر احمد صاحب کی تلاش کی ہے۔ وہ مجھے ملے ہیں تو مَیں نے ان سے کہا کہ ہم فوج میں تو داخل نہیں ہو سکتے مگر ہمارے پاس رائفلیں اور بندوقیں ہیں۔ وہ لے کر اپنے طور پر دشمن پر حملہ کریں۔ یہ کہہ کر مَیں ان کو ساتھ لے کر گیا ہوں۔ خواب کا نظارہ بھی عجیب ہوتا ہے اس وقت گو لڑائی ہال میں ہو رہی ہے مگر ہال کی دیواریں حائل نہیں ہیں اور مَیں گویا اس کے اندر کا سب کچھ دیکھتا ہوں۔ ہم دور کھڑے ہو گئے ہیں اور خواب میں مَیں سمجھتا ہوں کہ ہم بندوقیں چلا رہے ہیں گو ظاہری بندوق چلانا مجھے یاد نہیں۔ مگر مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ ہم نے فائر کئے ہیں ہمارے فائروں کے بعد انگریزی فوج کا قدم آگے بڑھنا شروع ہؤا۔ دشمن بھی سختی سے مقابلہ کرتا ہے اور ایک ایک انچ پر لڑائی ہو رہی ہے مگر مَیں نے دیکھا کہ انگریزی فوج دشمن کو دباتے ہوئے سیڑھیوں تک لے گئی اور اسے ہٹاتے ہوئے دوسرے سرے تک چڑھ گئی گویا اسے اپنے علاقہ سے باہر کر دیا اس وقت آواز آئی کہ ایسا دو تین بار ہو چکا ہے یعنی کبھی تو دشمن انگریزی فوج کو دبا کر لے گیا اورکبھی انگریزی فوج اسے دباتی ہوئی اپنے علاقہ سے باہر لے گئی۔ اور دو تین بار ایسا ہؤا۔ یہ وہ وقت تھا جب لیبیا میں انگریزی فوج نے کوئی پیش قدمی نہ کی تھی۔ اٹلی کی فوجیں مصر میں تھوڑا سا آگے بڑھ آئی تھیں اور دونوں میں لڑائی ہو رہی تھی۔ دوسرے دن مَیں نے یہ رؤیا چودھری ظفر اللہ خان صاحب کو سنایااور کہا کہ مَیں سمجھتا ہوں اس جگہ پر اس قسم کی جنگ ہو گی کہ کبھی تو انگریزی فوج دشمن کو دھکیلتی ہوئی دور تک لے جائے گی اور کبھی دشمن اسے دھکیل کر اس کے ملک میں گھس آئے گا اور یہ جو مَیں نے دیکھا ہے کہ ہم نے فائر کئے ہیں۔ اس کا مطلب مَیں دعا سمجھتا ہوں اور بشیر احمد کا نام بشارت ظاہر کرتا ہے اور اس کی تعبیر مَیں نے یہ کی کہ ہو سکتا ہے ہماری دعاؤں سے اللہ تعالیٰ انگریزی فوجوں کو آخری دفعہ دشمن کو دھکیلنے کی توفیق دے دے کیونکہ گو ضروری نہیں کہ خواب میں جو آخری نظارہ دکھایا جائے فی الواقع بھی وہ آخری نظارہ ہو۔ مگر کثیر الوقوع یہی امر ہے کہ جو آخری نظارہ نظر آئے وہی واقع میں بھی آخری ہوتا ہے۔ بہرحال جتنا واقعہ مَیں نے رؤیا میں دیکھا بتا دیا۔ چودھری صاحب نے اگلے دن اس رؤیا کا ذکر اپنے کئی دوستوں سے اور ہِزْ ایکسیلنسی وائسرائے کے پرائیویٹ سیکرٹری سر لیتھویٹ سے بھی کیا۔ ان پر اس کا ایسا اثر تھا کہ دوسرے یا تیسرے دن جب وہ چودھری صاحب کے ہاں چائے پر آئے تو انہوں نے خود مجھ سے اس کے متعلق دریافت کیا اور پوچھا کہ آپ نے کیا رؤیا دیکھا ہے اور مَیں نے ان سے مکمل رؤیا بیان کیا۔ اس کے دو ماہ بعد انگریزی فوج دشمن کو دھکیلتی ہوئی کئی سو میل تک لے گئی۔ 1941ء میں دشمن پھر آگے بڑھا اور انگریزی فوج کو دھکیلتا ہؤا مصری سرحد پر لے آیا۔ نومبر 1941ء میں پھر انگریزی فوج نے حملہ کیا اور دشمن کی فوجوں کو دھکیلتی ہوئی کئی سو میل تک لے گئی اور اب تازہ خبر یہ ہے کہ دشمن کی فوجیں انگریزی فوجوں کو دھکیل کر مصر کی سرحد پر لے آئی ہیں۔ مَیں نے یہ رؤیا 1940ء کے جلسہ پر بھی بیس پچیس ہزار کے مجمع میں سنایا تھا اور غالباً جلسہ کی روئیداد میں شائع بھی ہو چکا ہے اور اللہ تعالیٰ جو عالم الغیب ہے اس کے غیب کے ثبوتوں میں سے یہ ایک عظیم الشان ثبوت ہے اور یہ ایک ایسی لڑائی ہے کہ تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی کہ پہلے ایک فوج دشمن کو دھکیلتی ہوئی کئی سَو میل تک لے جائے اور پھر وہ اسے دھکیل کر واپس لے آئے اور متواتر دو تین بار ایسا ہؤا ہو اور ہر بار فاتح فریق یہ سمجھے کہ اس نے دوسرے کی طاقت کو بالکل تباہ کر دیا ہے۔ مَیں نے ایک انگریز فوجی مبصر کی ایک تحریر پڑھی ہے جو اس نے ایک مضمون کے دوران میں شائع کی ہے۔ اس نے روس کی لڑائی کو غیر معمولی قرار دیا اور لکھا ہے کہ تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی کہ اس طرح کوئی دشمن کسی ملک میں اتنی دور تک گھس آیا ہو اور پھر دوسری فوج اس کے پیچھے ہٹانے میں کامیاب ہو جائے۔ یہ دعویٰ اس کا صحیح ہو یا نہ ہو مگر اس میں شک نہیں کہ لیبیا کی لڑائی کی کوئی مثال یقیناً تاریخ میں نہیں ملتی کہ ایک فریق دوسرے فریق کو کئی سَو میل تک دھکیلتا ہؤا لے جائے۔ پھر دوسرا فریق اسے دھکیل کر باہر نکال دے۔ پھر پہلا فریق اسے دوبارہ دھکیل کرباہر نکال دے۔ پھر دوسرا فریق اسے دھکیل کر سینکڑوں میل تک لے جائے مگر جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے رؤیا میں بتایا تھا لیبیا کی جنگ میں تین بار ایسا ہو چکا ہے اور تینوں دفعہ ایک فریق نے یہی سمجھا کہ اس نے دوسرے کو بالکل کچل دیا ہے۔ پہلے اطالوی فوجیں آگے بڑھیں اور انہوں نے سمجھا کہ انہوں نے انگریزی فوجوں کو بالکل کچل دیا ہے۔ پھر انگریزی فوجیں آگے بڑھیں اور دشمن کے ایک لاکھ سے زیادہ سپاہی قید کر لئے اور یہ خبریں آنے لگیں کہ وہ شاید ٹریپولی میں داخل ہو جائیں گی جو لیبیا کے آخر پر اس علاقہ کا صدر مقام ہے مگر یکدم انگریزی فوجوں کو پھر شکست ہوئی۔ ان کے پندرہ بیس ہزار سپاہی قید کر لئے گئے۔ جن میں دو بڑے جرنیل بھی تھے اور ایک جرنیل تو وہ قید کر لیا گیا جو جنگی سکیمیں بنایا کرتا تھا۔ ان کے بڑے بڑے ٹینک تباہ ہو گئے اور انگریزی فوجیں اس طرح پیچھے ہٹیں کہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ بالکل تباہ ہو جائیں گی مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں پھر توفیق دی اور وہ دشمن کو دھکیلنے لگیں۔ اس کے 35 ہزار سپاہی قید کر لئے اور یہ خبریں مشہور ہونے لگیں کہ اب دشمن نہیں ٹھہر سکے گا مگر دشمن نے پھر انگریزی فوجوں کو دھکیلا اور مصری سرحد پر لے آیا اور تیس ہزار سپاہی قید کر لئے ہیں۔
یہ سب واقعات سوچنے والے کے لئے اسلام اور احمدیت کی صداقت کا ایک واضح ثبوت ہیں۔لوگ مبصروں سے رائے لیتے ہیں، منجموں سے پوچھتے ہیں مگر ان کی سب باتیں قیاسی اور وہمی ہوتی ہیں۔ کوئی کسی لڑکی کے متعلق پوچھتا ہے کہ بتاؤ اس کے کیا اولاد ہو گی تو وہ ایک پرزہ لکھ کر دے دیتے ہیں کہ اتنے عرصہ کے بعد اسے کھول کر دیکھنا ۔ جب لوگ دیکھتے ہیں تو اس میں لکھا ہوتا ہے لڑکا نہ لڑکی ۔ اگر تو لڑکی ہو جاتی ہے اور منجم سے پوچھا جاتا ہے کہ تم نے تو لکھا تھا لڑکا ہو گا تو وہ جواب دیتا ہے کہ مَیں نے تو لکھا تھا کہ لڑکا نہ ہو گا لڑکی ہو گی۔ اگر لڑکا ہوتا ہے اور اس سے پوچھا جاتا ہے کہ تم نے لکھا تھا کہ لڑکا نہ ہوگا لڑکی ہوگی تو وہ کہہ دیتا ہے مَیں نے لکھا تھا کہ لڑکا، نہ لڑکی ۔اور اگر کچھ بھی نہ ہو تو وہ کہہ دیتا ہے کہ مَیں نے لکھا تھا کہ لڑکا نہ لڑکی کچھ بھی نہ ہو گا۔ گویا وہ تینوں امکانی پہلو مدنظر رکھ کر جواب دے دیتے ہیں۔ یہی حال ان لوگوں کا ہمیشہ سے چلا آتا ہے۔ مگر یہ کتنی واضح پیشگوئی تھی جو خدا تعالیٰ نے مجھے بتائی اور یہ ایک ایسے وقوعہ کی خبر تھی کہ جس کی مثال کم کیا کوئی ملتی ہی نہیں۔ پھر ایک اَور بات جو اس میں بتائی گئی یہ ہے کہ اگر مَیں اور احمدی جماعت دعا کرے تو انگریزوں کو کامیابی ہو سکتی ہے کیونکہ امام جماعت کا بھی قائمقام ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ہے کہ اگر ہماری جماعت دعا کرے تو وہ اس فتنہ کو دور کر سکتا ہے۔
مَیں نے متواتر انگریزوں کو توجہ دلائی ہے کہ اگر وہ سچے دل سے ہماری طرف دعا کے لئے متوجہ ہوں تو اللہ تعالیٰ ان کی مشکلات کو دور کر دے گا مگر افسوس کہ اپنی مادی ترقیات کی وجہ سے ان کو یہ تحریک نہیں ہوتی کہ ہمیں دعا کے لئے کہیں۔ ایک بہت بڑے انگریز افسر نے ہمارے ایک معزز دوست سے کہا کہ میرے نزدیک تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ دعا کے لئے کہا جائے مگر بعض مشیروں نے یہ رائے دی ہے کہ اس سے مختلف قوموں میں انگریزوں کے متعلق بدظنی پیدا ہو جائے گی حالانکہ انگریزی قوم اس وقت مصائب میں سے گزر رہی ہے کہ ایسی بدظنیوں کی اس کو کوئی پرواہ نہ کرنی چاہئے۔ اب کیا مختلف قوموں میں اس کے متعلق بدظنی نہیں پائی جاتی۔ ہر قوم اس پر یہ الزام لگاتی ہے کہ وہ ہر موقع پر دوسری سے مل جاتی ہے اور فساد پیدا کر دیتی ہے۔ کانگرس کو یہ شکایت ہے کہ وہ مسلم لیگ سے مل کر ہندو مسلم اتحاد نہیں ہونے دیتی۔ مسلم لیگ کہتی ہے کہ وہ کانگرس سے ڈر کر مسلمانوں کو ان کے جائز حقوق سے محروم رکھ رہی ہے۔ سوشلسٹ کہتے ہیں کہ وہ مالداروں کے ہاتھ میں ہے اور کیپٹلسٹ شور مچاتے ہیں کہ وہ برطانوی کیپٹلسٹوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے ہمیں نقصان پہنچاتی ہے۔ غرضیکہ کوئی ایک قوم بھی نہیں جو موجودہ حکومت پر خوش ہو ۔ پھر کوئی وجہ نہیں کہ وہ ان قوموں میں بدظنی پیدا ہو جانے کے ڈر سے دعا کرانے کی طرف متوجہ نہ ہو اور اللہ تعالیٰ سے مدد نہ چاہتی ہوئی اپنی مشکلات کو لمبا کرتی جائے۔ توپیں دونوں کے پاس ہیں، کبھی اُن کی توپیں زیادہ ہو جاتی ہیں اور کبھی اِن کی۔ ہوائی جہاز دونوں کے پاس ہیں، کبھی ان کے ہوائی جہاز بڑھ جاتے ہیں اور کبھی ان کے۔ ٹینک دونوں کے پاس ہیں کبھی ایک کے ٹینک بڑھ جاتے ہیں اور کبھی دوسرے کے۔ فوجیں بھی دونوں کے پاس ہیں اور کبھی ایک فریق کی فوج زیادہ میدان میں آ جاتی ہے اور کبھی دوسرے کی۔ مگر ایک چیز ہے جو دونوں میں سے کسی کے پاس نہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع اور دعا ہے۔ یہ چیز نہ انگریز کے پاس ہے اور نہ اس کے دشمن کے پاس۔ ہاں ظاہرطور پر دعا اور خدا تعالیٰ سے مدد مانگنے کا شور انگریز اور ان کے ساتھی بھی مچاتے ہیں اور ان کے دشمن بھی۔ مگر دعا کے یہ معنی نہیں کہ انسان اپنے غلط خیال پر اصرار کرتے ہوئے کہے کہ مَیں خدا سے دعا مانگتا ہوں اور اس کے لئے کوئی قربانی نہ کرے۔ بغیر قربانی کرنے کے مُنہ سے کچھ مانگ لینا کسی کے لئے بھی کوئی مشکل نہیں۔ پس یہ دعائیں جو کی جاتی ہیں محض خیالی ہیں اور کسی کام نہیں آ سکتیں۔ جس طرح لکڑی کی توپیں کسی کام نہیں آ سکتیں۔ جس طرح ربڑ کی کشتیاں جو کھلونے کے طور پر بنائی جائیں کسی کام نہیں آ سکتیں، جس طرح ٹین کے ہوائی جہاز جنگ میں کام نہیں دے سکتے ، جس طرح سیسہ کے بنے ہوئے مصنوعی سپاہی کسی کام نہیں آ سکتے۔ اسی طرح اس قسم کی دعائیں بھی کام نہیں آ سکتیں اور جس طرح اصلی توپیں اصلی ہوائی جہاز، اصلی ٹینک اور حقیقی آدمی ہی جنگ میں کام آ سکتے ہیں۔ اسی طرح دعائیں بھی وہ فائدہ پہنچا سکتی ہیں جو حقیقی ہوں نقلی نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ انسانی فطرت کو خوب جانتا ہے۔ اس لئے ایسے موقع پر وہ یہ تو امید نہیں رکھتا کہ ساری قوم مذہب تبدیل کر لے کیونکہ یہ بات تو لمبی بحثوں اور لمبے تجربہ سے تعلق رکھتی ہے مگر یہ ضرور چاہتا ہے کہ وہ اصلاح نفس کی طرف متوجہ ہو کر دل میں فیصلہ کرے کہ خدا تعالیٰ کی بات جو بھی ہو گی، وہ اسے قبول کر لے گی۔ آج اللہ تعالیٰ انگریزوں سے یہ امید نہیں رکھتا کہ وہ عیسائیت کو چھوڑ کر اسلام میں داخل ہو جائیں۔ البتہ ذہنیت کی تبدیلی ضرور چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ نادیدہ خدا کو جسے انہوں نے نہیں دیکھا، مخاطب کر کے کہیں کہ اے ہمارے رب ہم یہ نہیں جانتے کہ تیری سچائی کہاں ہے۔ مگر اپنے گرد و پیش کے حالات سے یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ تو ایک زبردست ہستی موجود ہے اور تجھ سے امید رکھتے ہیں کہ اس بَلا کو ہم سے ٹال دے اور ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں کہ تیری صداقت جہاں بھی ملے گی ہم اسے ضرور قبول کر لیں گے اور اگر متحارب قوموں میں سے کوئی اتنی تبدیلی کے ساتھ ہی خدا تعالیٰ سے مدد مانگے تو مجھے یقین ہے کہ وہ اس سے مصیبت کو ٹال دے گا اور کامیابی کے رستوں پر چلا دے گا۔
بہرحال اب جنگ ایسے خطرناک مرحلہ پر پہنچ گئی ہے کہ اسلام کے مقدس مقامات اس کی زد میں آ گئے ہیں۔ مصری لوگوں کے مذہب سے ہمیں کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو۔ وہ اسلام کی جو توجیہہ اور تفسیر کرتے ہیں ہم اس کے کتنے ہی خلاف کیوں نہ ہوں۔ اس سے انکار نہیں کر سکتے کہ ظاہری طور پر وہ ہمارے خدا ہمارے رسول اور ہماری کتاب کو ماننے والے ہیں۔ ان کی اکثریت اسلام کے خدا کے لئے غیرت رکھتی ہے۔ ان کی اکثریت اسلام کی کتاب کے لئے غیرت رکھتی ہے اور ان کی اکثریت محمد (ﷺ) کے لئے غیرت رکھتی ہے۔ اسلامی لٹریچر شائع کرنے اور اسے محفوظ رکھنے میں یہ قوم صفِ اول میں رہی ہے۔ آج ہم اپنے مدارس میں بخاری اور مسلم وغیرہ احادیث کی جو کتابیں پڑھاتے ہیں وہ مصر کی چھپی ہوئی ہی ہیں۔ اسلام کی نادر کتابیں مصرمیں ہی چھپتی ہیں اور مِصری قوم اسلام کے لئے مفید کام کرتی چلی آئی ہے۔ اس قوم نے اپنی زبان کو بُھلا کر عربی زبان کو اپنا لیا۔ اپنی نسل کو فراموش کر کے یہ عربوں کا حصہ بن گئی اور آج دونوں قوموں میں کوئی فرق نہیں۔ مصر میں عربی زبان، عربی تمدن اور عربی طریق رائج ہیں اور محمد عربی ﷺ کا مذہب رائج ہے۔ پس مصر کی تکلیف اور تباہی ہر مسلمان کے لئے دکھ کا موجب ہونی چاہئے۔ خواہ وہ کسی فرقہ سے تعلق رکھنے والا ہو اور خواہ مذہبی طور پر اسے مصریوں سے کتنے ہی اختلافات کیوں نہ ہوں۔ پھر مصر کے ساتھ ہی وہ مقدس سرزمین شروع ہو جاتی ہے جس کا ذرہ ذرہ ہمیں اپنی جانوں سے زیادہ عزیز ہے۔ نہر سویز کے ادھر آتے ہی آجکل کے سفر کے سامانوں کو مدنظر رکھتے ہوئے چند روز کی مسافت کے فاصلہ پر ہی وہ مقدس مقام ہے جہاں ہمارے آقا کا مبارک وجود لیٹا ہے جس کی گلیوں میں محمد مصطفیٰ ﷺ کے پائے مبارک پڑا کرتے تھے۔ جس کے مقبروں میں آپ کے والا و شیدا خدا تعالیٰ کے فضل کے نیچے میٹھی نیند سو رہے ہیں۔ اس دن کے انتظار میں کہ جب صور پھونکا جائے گا۔ وہ لبیک کہتے ہوئے اپنے رب کے حضور حاضر ہو جائیں گے دو اڑھائی سَو میل کے فاصلہ پر ہی وہ وادی ہے جس میں وہ گھر ہے۔ جسے ہم خدا کا گھر کہتے ہیں اور جس کی طرف دن میں کم سے کم پانچ بار منہ کر کے ہم نماز پڑھتے ہیں اور جس کی زیارت اور حج کے لئے جاتے ہیں جو دین کے ستونوں میں سے ایک بڑا ستون ہے یہ مقدس مقام صرف چند سو میل کے فاصلہ پر ہے اور آجکل موٹروں اور ٹینکوں کی رفتار کے لحاظ سے چار پانچ دن کی مسافت سے زیادہ فاصلہ پر نہیں اوران کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں۔ وہاں جو حکومت ہے اس کے پاس نہ ٹینک ہیں نہ ہوائی جہاز اور نہ ہی حفاظت کا کوئی اور سامان۔ کھلے دروازوں اسلام کا خزانہ پڑا ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ دیواریں بھی نہیں ہیں اور جوں جوں دشمن ان مقامات کے قریب پہنچتا ہے۔ ایک مسلمان کا دل لرز جاتا ہے، کانپ اٹھتا ہے کہ نہ معلوم کل کو کیا ہو گا۔ ہمیں یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ خود ہی ان کی حفاظت فرمائے گا لیکن یہ ہمارا یقین ہمیں اپنی ذمہ داریوں سے نہیں چھڑا سکتا۔ جس طرح مکہ کے متعلق خدا تعالیٰ کاو عدہ تھا کہ وہ اس کی حفاظت کرے گا جس طرح اسلام کی حفاظت کے متعلق خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا۔ اسی طرح رسول کریم ﷺ کی حفاظت کا بھی وعدہ اس نے کیا ہؤا تھا چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ اللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ 1 مگر باوجود اس وعدہ کے ایسے ہی مقدس اور یقینی وعدہ کے جیسا کہ مکہ مکرمہ اور خانہ کعبہ کی حفاظت کے متعلق ہے۔ پھر بھی صحابۂ کرام اس وعدہ پر کفایت کر کے بے فکر نہیں ہو گئے تھے اور انہوں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ خدا تعالیٰ خود آپ کو دشمنوں سے بچائے گا۔ ہمیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ مدینہ میں آپ کےد اخلہ سے لے کر آپ کی وفات تک برابر وہ آپ کے گھر کا پہرہ دیتے رہے۔ مدینہ کے لوگوں یعنی انصار پر اللہ تعالیٰ بڑی بڑی برکتیں نازل کرے۔ وہ بڑی ہی سمجھدار اور قربانی کرنے والی قوم تھی ۔ رسول کریم ﷺ مدینہ میں آئے تو انہوں نے فوراً اس بات کا فیصلہ کیا کہ اب آپ کی ذات کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے اور ہر رات الگ الگ گروہ آپ کے مکان پر پہرہ کے لئے آتا تھا ۔ پہلے تو انصار بغیر ہتھیاروں کے پہرہ کے لئے آتے تھے انہوں نے یہ خیال کیا کہ مدینہ اسلامی شہر ہے یہاں خطرہ کی کوئی بات نہیں ہر قبیلہ باری باری پہرہ کے لئے اپنے آدمی بھیجتا تھا مگر وہ بغیر ہتھیاروں کے ہوتے تھے۔ ایک رات رسول کریم ﷺ اپنےگھر میں تھے کہ باہر آپؐ نے تلواروں اور نیزوں کی جھنکار سنی۔ آپ باہر تشریف لائے تو دیکھا کہ انصار کا ایک گروہ سر سے پاؤں تک مسلح آپ کے مکان کے گرد پہرہ کے لئے کھڑا ہے۔ آپؐ نے دریافت فرمایا کہ یہ کیا بات ہے تو انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! لوگ تو بغیر ہتھیاروں کے پہرہ کے لئے آیا کرتے تھے مگر ہمارے قبیلہ نے فیصلہ کیا ہے کہ پہرہ کے انتظام کے معنے یہ ہیں کہ خطرہ کا احتمال ہے اور جب خطرہ ہو سکتا ہے تو اسے روکنے کے لئے ہتھیار بھی ضرور ہونے چاہئیں اس لئے ہم مسلح ہو کر پہرہ کے لئے آئے ہیں۔ آپؐ نے ان لوگوں کے لئے دعا فرمائی اور اندر تشریف لے گئے اس کے بعد باقی قبائل نے بھی مسلح ہو کر پہرہ دینا شروع کر دیا۔ ایک دفعہ مدینہ میں کچھ شور ہؤا اور خیال تھا کہ شاید رومی حملہ کریں گے اس لئے مسلمان ہتھیار لے کر باہر کی طرف بھاگے مگر چند صحابی دوڑ کر مسجد نبوی میں جمع ہو گئے۔ لوگوں نے ان سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے حملہ کا خوف تو باہر سے تھا۔ آپ لوگ مسجد میں کیوں آ بیٹھے۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں تو یہی جگہ حفاظت کئے جانے کے قابل نظر آتی ہے۔ اس لئے یہیں آ گئے۔
مَیں نے بارہا جنگ بدر کا واقعہ سنایا ہے کہ جب رسول کریم ﷺ نے صحابہ سے مشورہ طلب فرمایا کہ لڑائی کی جائے یا نہ کی جائے تو مہاجرین یکے بعد دیگرے اٹھتے اور لڑائی کا مشورہ دیتے مگر آپؐ ہر ایک مہاجر کا مشورہ سن کر فرماتے کہ لوگو مشورہ دو۔ انصار خاموش تھے اور ان کی خاموشی کی وجہ یہ تھی کہ وہ سمجھتے تھے کہ مکہ والے مہاجرین کے رشتہ دار ہیں۔ ہم نے ان سے لڑائی کا اگر مشورہ دیا تو مہاجرین یہ نہ کہیں کہ یہ ہمارے بھائیوں سے لڑائی کا مشورہ دیتے ہیں۔ اس لئے وہ خاموش تھے اور مہاجرین لڑائی کا مشورہ باری باری دیتے تھے مگر رسول کریم ﷺ بار بار یہی فرماتے کہ لوگو مشورہ دو۔ اس پر ایک انصاری سردار کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مشورہ تو دیا جا رہا ہے مگر آپؐ پھر مشورہ دریافت فرماتے ہیں۔ شاید آپؐ کی مراد یہ ہے کہ انصار بولیں۔ آپؐ نے فرمایا۔ ہاں۔اس سردار نے کہا کہ یا رسول اللہ! بے شک مکہ میں بیعت کرتے وقت ہم نے آپؐ سے یہ اقرار کیا تھا کہ اگر دشمن مدینہ پر حملہ آور ہو گا تو ہم آپؐ کی حفاظت کے ذمہ دار ہوں گے۔ مدینہ سے باہر نہیں مگر یہ اقرار تو اس وقت کیا تھا جب ہم پر آپؐ کی شان کھلی نہ تھی۔ اب توآپؐ کی شان ہم پر کھل چکی ہے۔ اب تو ہم سے پوچھنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر آپؐ کا ارادہ لڑنے کا ہے تو بسم اللہ چلئے۔ ہمارا تو ایک ہی کام ہے کہ آپؐ کے چاروں طرف لڑیں۔ ہم آپؐ کےد ائیں لڑیں گے ، بائیں لڑیں گے، آگے لڑیں گے اورپیچھے لڑیں گے اور کوئی دشمن آپؐ تک ہرگز نہ پہنچ سکے گا جب تک وہ ہماری لاشوں پر سے نہ گزرے۔ 2پھر انہوں نے اسی پر کفایت نہیں کی بلکہ ایک اونچی جگہ آپؐ کے لئے بنا دی اور باصرار آپؐ سے عرض کیا کہ اس جگہ تشریف رکھیں اور دعا کریں۔ حضرت ابو بکرؓ کو آپؐ کے پاس بٹھا دیا اور سب سے زیادہ تیز رفتار دو اونٹنیاں آپؐ کے پاس باندھ دیں اور عرض کیا کہ یارسول اللہ! مدینہ والوں کو علم نہ تھا کہ جنگ ہونے والی ہے اس لئے تھوڑے لوگ ساتھ آئے ہیں ا ور جو پیچھے رہے ہیں۔ وہ اخلاص اور ایمان کےلحاظ سے ہم سے کم نہیں ہیں۔ ہم نے بہترین اونٹنیاں آپؐ کے پاس باندھ دی ہیں اور اپنے میں سے بہترین امین جس پر ہم کو سب سے زیادہ اعتبار ہے آپؐ کے پاس بٹھا دیا ہے۔ یا رسول اللہ اگر ہم مارے گئے تو آپؐ خدا تعالیٰ کی رحمت کے نیچے ان اونٹنیوں پر سوار ہو کر ابو بکرؓ کے ساتھ مدینہ چلے جائیں وہاں ہمارے بھائی ہیں جو آپؐ کے لئے اسی طرح قربانیاں کرنے کو تیار ہیں جس طرح ہم کر رہے ہیں۔3 یہ قربانیاں کرنے والے جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے عرش سے آپؐ کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہؤا ہے اور فرمایا ہے کہ وَ اللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ یعنی اے محمد (ﷺ) اللہ تعالیٰ تجھے لوگوں کے حملوں سے بچائے گا مگر باوجود اس وعدہ کے جو قربانیاں انہوں نے آپؐ کی حفاظت کے لئے کیں۔ کیا اس کے یہ معنے ہیں کہ ان کا ایمان کمزور تھا اور وہ خدا تعالیٰ کو اس وعدہ کو پورا کرنے پر قادر نہ سمجھتے تھے یا کیا وہ سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا کوئی وعدہ نہیں فرمایا بلکہ نَعُوْذُ بِاللہِ محمد (ﷺ) نے اپنے پاس سے بنا لیا ہے۔
ان کی قربانیاں اور ان کا اخلاص دونوں بتاتے ہیں کہ ان میں سے کوئی بات بھی ان کے وہم یا خیال میں نہ تھی۔ ان کو یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ نے عرش سے آپ کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے اور انہیں یہ بھی یقین تھا کہ وہ آپ کو بچانے کی طاقت رکھتا ہے اور اپنے وعدہ کو پورا کرنے کے لئے سامان مہیا کر سکتا ہے مگر ان کی تمنا ان کی آرزو اور ان کی خواہش یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ محمد (ﷺ)کو بچانے کے لئے جو ہتھیار اپنے ہاتھ میں لے وہ ہم ہوں۔ انہیں خدا تعالیٰ کے وعدے پر شک نہ تھا۔ آنحضرت ﷺ کی زبان پر شک نہ تھا بلکہ حرص تھی کہ اس وعدہ کو پورا کرنے کا جو ذریعہ اللہ تعالیٰ اختیار کرے وہ ہم ہوں۔ وہ چاہتے تھے کہ کاش وہ ذریعہ جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بچانے کا اختیار کرنا ہے وہ ہم بن جائیں اوروہ بن گئے اور انہوں نے متواتر دس سال تک اپنی جانوں اور عزیز ترین رشتہ داروں کی جانوں کو قربان کر کے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا ہتھیار ثابت کر دیا۔ وہ مہاجر اور وہ انصار اس وعدہ کو پورا کرنے کا ذریعہ بن گئے جنہوں نے محمد مصطفیٰ ﷺ کے آگے اور پیچھے ہو کر ہر موقع پر جنگ کی۔ ان کی اول خواہش اور تمنا بھی اور ان کی آخری خواہش اور تمنا بھی یہی تھی کہ کاش وہ فنا ہو جائیں، وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں مگر آنحضرت ﷺ پر کوئی آنچ نہ آئے۔ ایک صحابی کو کچھ لوگ قید کر کے لے گئے اور مکہ والوں کے پاس بیچ دیا۔ مکہ والوں کا کوئی آدمی کسی مسلمان کے ہاتھ سے مارا گیا تھا اوروہ اس کے بدلہ میں کسی مسلمان کو مارنا چاہتے تھے۔ اس لئے اسے خرید لیا۔ انہوں نے اس کے گلے میں طوق اور پاؤں میں بیڑیاں ڈالی ہوئی تھیں اور قتل کرنے کی تیاریاں کر رہے تھے کہ ان میں سے کسی نے اس صحابی کو مخاطب کر کے کہا کہ کیا تم یہ پسند نہ کرو گے کہ تم اس وقت آرام سے اپنے بیوی بچوں میں بیٹھے ہو اور تمہاری جگہ یہاں محمد (ﷺ) ہمارے قبضہ میں ہو۔ اس صحابی نے جواب دیا کہ تم لوگ بڑے بے وقوف ہو جو یہ سوال کرتے ہو۔ تم تو یہ کہتے ہو کہ مَیں یہ پسند کرتا ہوں یا نہیں کہ مَیں مدینہ میں اپنے بیوی بچوں میں بیٹھا ہوں اور میری جگہ رسول کریم ﷺ یہاں تمہاری قید میں ہوں۔ مَیں تو یہ بھی نہیں چاہتا کہ مَیں اپنے گھر میں ہوں اور آنحضرت ﷺ کے تلوے میں مدینہ کی گلیوں میں کوئی کانٹا بھی چبھ جائے۔ 4
پھر ایک صحابی کے متعلق لکھا ہے کہ رسول کریم ﷺایک جنگ کے لئے تشریف لے گئے اور وہ صحابی کسی اتفاقی حادثہ کی وجہ سے پیچھے رہ گئے۔ وہ اپنے گھر میں داخل ہوئے ان کی بیوی بیٹھی تھیں۔ دونوں کی باہم بہت محبت تھی۔ وہ صحابی جوش سے پیار کے لئے اپنی بیوی کی طرف بڑھے مگر وہ حقارت سے پیچھے ہٹ گئیں اور کہا کہ تمہیں شرم تو نہیں آتی کہ محمد رسول اللہ ﷺ تو لڑائی کے لئے تشریف لے گئے ہیں اور تم بیوی کو پیار کرنے لگے ہو۔ یہ بات سن کر وہ فوراً باہر نکلے اور جنگ کے لئے چل پڑے۔ 5یہ وہ قربانیاں تھیں جو باوجود اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنحضرت ﷺ کی حفاظت کے وعدہ کے صحابہ نے آپ کی حفاظت کے لئے کیں۔ پس اس میں شبہ نہیں کہ مکہ اورمدینہ کی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ کے وعدے ہیں مگر اللہ تعالیٰ حفاظت کے لئے آسمان سے فرشتے نہیں اتارا کرتا بلکہ بعض بندوں کو ہی فرشتے بنا دیتا ہے اور ان کے دلوں میں اخلاص پیدا کر دیتا ہے کہ اس کے وعدوں کو پورا کرنے کے لئے ہتھیار بن جائیں۔ وہ گو انسان نظر آتے ہیں مگر ان کی روحوں کو فرشتہ کر دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کی راہ میں شہید ہو جاتے ہیں۔ ان کو مردہ مت کہو، وہ زندہ ہیں۔ 6 اس کا مطلب یہی ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو کام فرشتوں سے لینا تھا اسے کرنے کے لئے وہ آگے بڑھتے ہیں۔ اس لئے وہ فرشتے بن جاتے ہیں اور جب وہ فرشتے ہو گئے تو مر کیسے سکتے ہیں۔ فرشتے نہیں مرا کرتے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ شہداء کے متعلق فرماتا ہے کہ وہ مُردہ نہیں بلکہ زندہ ہیں اور اپنے خدا کے حضور رزق دئیے جاتے ہیں۔
پس گو ان مقامات کی حفاظت کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہے مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ مسلمان ان کی حفاظت کے فرض سے آزاد ہو گئے ہیں بلکہ ضروری ہے کہ ہر سچا مسلمان ان کی حفاظت کے لئے اپنی پوری کوشش کرے جو اس کے بس میں ہے۔ یہ مقامات روز بروز جنگ کے قریب آ رہے ہیں اور خدا تعالیٰ کی کسی مشیت اور اپنے گناہوں کی شامت کی وجہ سے ہم بالکل بے بس ہیں اور کوئی ذریعہ ان کی حفاظت کا اختیار نہیں کر سکتے ۔ ادنیٰ ترین بات جو انسان کے اختیار میں ہوتی ہے۔ یہ ہے کہ اس کے آگے پیچھے کھڑے ہو کر جان دے دے مگر ہم تو یہ بھی نہیں کر سکتے اور اس خطرناک وقت میں صرف ایک ہی ذریعہ باقی ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کریں کہ وہ جنگ کو ان مقامات مقدسہ سے زیادہ سے زیادہ دور لے جائے اور اپنے فضل سے ان کی حفاظت فرمائے۔ وہ خدا جس نے ابرہہ کی تباہی کے لئے آسمان سے وبا بھیج دی تھی اب بھی طاقت رکھتا ہے کہ ہر ایسے دشمن کو جس کے ہاتھوں سے اس کے مقدس مقامات اور شعائر کو کوئی گزند پہنچ سکے کچل دے۔ جنگ کے ہولناک اثرات کا اندازہ کچھ وہی لوگ کر سکتے ہیں جنہوں نے اس کا کچھ مزہ چکھا ہو، برما سے ہندوستانی واپس آ رہے ہیں۔ ان کے حالات سنو تو دل لرز جاتا ہے ، کانپ اٹھتا ہے اور زندگی حقیر نظر آنے لگتی ہے۔ وہاں گیارہ لاکھ ہندوستانی بستے تھے۔ ان کو وطن پہنچانے کا کوئی ذریعہ انگریزوں کے پاس نہ تھا۔ اس لئے وہ لوگ پہاڑی راستوں سے پیدل چلے پانچ سو میل لمبا راستہ ہے۔ مجھے ایسے لوگ ملے ہیں جنہوں نے راستہ میں خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ماں نے بچہ کو گود میں اٹھایا ہؤا ہے اور چلی آ رہی ہے کھانے کو کچھ نہیں ملتا۔ پچاس ساٹھ یا ستّر اَسّی میل چلنے کے بعد پَیر زخمی ہو گئے قدم لڑکھڑانے لگے حتّٰی کہ خالی قدم اٹھانا بھی مشکل ہو گیا۔ چہ جائیکہ بچہ کو اٹھا کر چل سکے آخر اس نے مجبور ہو کر درخت کے نیچے بچہ کو لٹا دیا اسے پیار کیا اور آگے چل پڑی ۔ایک مرد اپنی بیوی کے ساتھ چلا آ رہا ہے، بیوی تھک کر چُور ہو چکی ہے اسے سہارا دئیے لئے آ رہا ہے۔ عورت گرتی پڑتی چلی آتی ہے کبھی کبھی مرد اسے اٹھا بھی لیتا ہے دوسرے لوگ پیچھے سے بھاگے چلے آتے ہیں اور شور مچاتے ہیں کہ جاپانی قریب پہنچ گئے۔ وہ بیوی کو سہارا دئیے ہوئے چلا آتاہے لیکن آخر اس کے پاؤں بھی لڑکھڑانے لگتے ہیں اور وہ مجبور ہو کر اسے ایک طرف بٹھا دیتا ہے اس کے سر پر بوسہ دیتا ہے اور خدا حافظ کہہ کر آگے چل پڑتا ہے۔ ایسے سینکڑوں واقعات لوگوں نے دیکھے ہیں کہ ماؤں نے بچوں کو گودیوں سے اتار دیا، خاوندوں نے بیویوں کو پہلو سے جدا کرکے مرنے کے لئے چھوڑ دیا۔ گو معلوم نہیں وہ خود بھی پہنچ سکے یا نہیں۔ یہاں تو چار لاکھ ہی پہنچے ہیں، باقی اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ سات لاکھ میں سے کتنے مر گئے اور کتنے ابھی وہیں ہیں تین چار روز ہوئے مجھے ایک لڑکا ملا جو یہاں تحریک جدید کے بورڈنگ میں ہے۔ اس نے اپنے باپ کا خط مجھے دیا جو فوج میں ملازم تھا اور مَیں جانتا ہوں مخلص احمدی ہے۔ اس نے لکھا تھا کہ برما میں لڑائی قریب آ جانے کی وجہ سے ہماری فوج کو واپس جانے کا حکم ملا مجھے تو فوج کے ساتھ جہاز میں واپس پہنچا دیا گیا اور تمہاری والدہ اور دوسرے بھائی بہنیں پیدل قافلوں کےساتھ روانہ ہوئے۔ وہ قافلے تو بنگال پہنچ چکے ہیں۔ مگر ان کا کوئی پتہ نہیں۔ میں نے سرکار سے تنخواہ لے لی ہے اور رخصت حاصل کی ہے اور اب میں اسی راستہ پر پیدل ان کی تلاش کے لئےجا رہا ہوں اور نہیں کہہ سکتاکہ خود بھی زندہ واپس آ سکوں گا یا نہیں۔ اس لئے تم کو (یہاں ان کے دو بچے ہیں) خدا تعالیٰ کے سپرد کرتا ہوں۔ ایسا واقعہ ایک ہی نہیں سینکڑوں ہیں مگر قلوب کو زخمی کرنے کے لئے ایک ہی کافی ہے ہم تو کسی کے متعلق بھی یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ اسے ایسے واقعات پیش آئیں۔ چہ جائیکہ اس قوم کو پیش آئیں جو گو آج کتنی جاہل ہے مگر جس کے باپ دادوں نے رسول کریم ﷺ کے آگے اور پیچھے کھڑے ہو کر جانیں دے دیں۔ اس قوم کی نسبت تو اس نظارہ کا قیاس کر کے بھی ایک مسلمان کا دل پھٹ جاتا ہے۔ پس مَیں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور خدا تعالیٰ سے دعائیں کریں کہ وہ خود ہی ان مقامات کی حفاظت کے سامان پیدا کر دے اور اس طرح دعائیں کریں جس طرح بچہ بھوک سے تڑپتا ہؤا چلّاتا ہے جس طرح ماں سے جدا ہونے والا بچہ یا بچہ سے محروم ہو جانے والی ماں آہ و زاری کرتی ہے۔ اسی طرح اپنے رب کے حضور رو رو کر دعائیں کریں کہ اے اللہ! تُو خود ان مقدس مقامات کی حفاظت فرما اور ان لوگوں کی اولادوں کو جو آنحضرت ﷺ کے لئے جانیں فدا کر گئے اور ان کے ملک کو ان خطرناک نتائج جنگ سے جو دوسرے مقامات پر پیش آ رہے ہیں بچا لے اور اسلام کے نام لیواؤں کو خواہ وہ کیسی ہی گندی حالت میں ہیں اور خواہ ہم سے ان کے کتنے اختلافات ہیں۔ ان کی حفاظت فرما اور اندرونی و بیرونی خطرات سے محفوظ رکھ۔ جو کام آج ہم اپنے ہاتھوں سے نہیں کر سکتے۔ وہ خدا تعالیٰ کا ہاتھ کر دے اور ہمارے دل کا دکھ ہمارے ہاتھوں کی قربانیوں کا قائم مقام ہو جائے۔
پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ عرب سے قریباً دو سو میل کے فاصلہ پر ہندوستان کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔ عربوں کے پاس گو اور سامان تو نہیں مگر تلوار تو ہے لیکن ہم ہندوستانیوں کے پاس تو تلوار بھی نہیں۔ پھر 11 لاکھ کا نکلنا تو معمولی بات ہے مگر جب وہ بھی نہ نکل سکے تو ہم 33 کروڑ باشندے کہاں جائیں گے۔ ان کو تو چلنے کے لئے راستے بھی نہیں مل سکتے اور اگر خطرہ پیش آ جائے تو سونے کے لئے بھی جگہ نہیں مل سکے گی۔ دنیا میں جہاں کثرتِ آبادی رحمت سمجھی جاتی ہے وہاں ایسے مواقع پر وہ زحمت بھی ہو جاتی ہے پھر چند سو یا ہزار نکلنے والے ہوں تو ان کے لئے کھانے کا بھی کوئی انتظام ہو سکتا ہے مگر کروڑوں کے لئے کون انتظام کر سکتا ہے۔ پس اپنے ملک کی حفاظت اور اس کی حالت کو بھی مدنظر رکھو اور اس کے لئے بھی دعائیں کرو۔ گو یہ ادنیٰ چیز ہے۔ سب سے مقدم ہمارے لئے مقدس مقامات ہیں اور ملکی حفاظت کا سوال ان کی حفاظت کے سوال کے بعد ہے اور ان کی حفاظت کے لئے ہمارے دل میں درد اور تڑپ ملک کی حفاظت کے لئے درد اور تڑپ سے بہت زیادہ ہے۔ ہندو ہمیشہ اعتراض کرتے ہیں کہ مسلمانوں کا دل تو عرب میں اٹکا ہؤا ہے مگر ایسا اعتراض کرنے والے نادان ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ اصل انسان وہ ہے جس کا دل خدا تعالیٰ سے اٹکا ہؤا ہو۔ اگر ہمارے دل عرب سے اٹکے ہوئے ہیں، اگر خانہ کعبہ سے اٹکے ہیں تو اس میں کسی کے لئے کوئی اعتراض کی بات نہیں۔ جہانتک ملک کے لئے قربانی کا سوال ہے۔ ہر سمجھدار مسلمان ویسا ہی اس کے لئے درد رکھتا ہے جیسا کہ کوئی بڑے سے بڑا ہندو۔ مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ ہم اپنے مقدس مقامات کو ملک پر مقدم رکھیں۔ تو یہ اعتراض کی بات ہے اس طرح تو کل کو کوئی نادان ہندو یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ مسلمان خدا تعالیٰ کو گاندھی سے بڑا سمجھتے ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ملک کی محبت اپنی جگہ پر ہے اور دین کی اپنی جگہ۔ دونوں آپس میں مقابلہ کی چیزیں نہیں ہیں بلکہ دونوں کا مقام الگ الگ ہے۔ ہم یہ ہرگز نہیں مان سکتے کہ کوئی ہندو ملک کی محبت میں ہم سے بڑھ کر ہے اگر صرف ملک کی حفاظت کا سوال ہو تو ہم اس کے لئے ان سے زیادہ قربانی کرنے کو تیار ہیں لیکن دین کے مقابلہ میں اسے مقدم نہیں کر سکتے۔ اگر کسی جگہ بھائی اور ماں کی حفاظت کا سوال ہو تو کوئی احمق ہی اعتراض کر سکتا ہے کہ فلاں شخص نے ماں کے لئے بھائی کو قربان کر دیا۔ اور اگر والدین اور رسولؐ کی حفاظت کے لئے قربانی کا سوال ہو تو کوئی احمق ہی کہہ سکتا ہے کہ رسول کے مقابلہ میں ماں باپ کو پیچھے ڈال دیا۔
احد کی جنگ کا واقعہ ہے کہ جب مدینہ میں یہ غلط خبر پہنچی کہ رسول کریم ﷺ نے شہادت پائی تو عورتیں اور بچے روتے ہوئے شہر سے باہر نکل آئے ۔ ایک صحابی جو میدان جنگ سے واپس لوٹ رہا تھا اور رسول کریم ﷺ کو بخیر و عافیت دیکھ کر آیا تھا۔ وہ ایک عورت کے پاس سے گزرا اور اس نے اس سے رسول کریم ﷺ کا حال دریافت کیا۔ اس کا دل چونکہ مطمئن تھا کہ آپ خیریت سے ہیں اس لئے اس نے اس عورت کے سوال کا تو خیال نہ کیا اور کہا بہن افسوس ہے۔ تمہارا بھائی جنگ میں شہید ہو گیا ۔ اس نے کہا کہ تم مجھے رسول کریم ﷺ کا حال بتاؤ اس نے پھر بھی اس کے سوال کا جواب نہ دیا اور کہا۔ افسوس تمہارا خاوند بھی شہید ہو گیا مگر اس عورت نے پھر بھی کوئی پرواہ نہ کی اور کہا۔ مجھے یہ بتاؤ کہ رسول کریم ﷺ کیسے ہیں۔ اس نےکہا افسوس تمہارا بیٹا بھی شہید ہو گیا۔ اس نے کہا کہ مَیں اور کسی کا نہیں پوچھتی۔ مجھے بتاؤ رسول کریم ﷺ تو خیریت سے ہیں۔ اس نے کہا ہاں وہ تو خیریت سے ہیں۔ یہ سن کر اس عورت نے کہا کہ وہ خیریت سے ہیں تو مجھے کسی اَور کی شہادت کا غم نہیں۔7کیا اس عورت کو اپنے خاوند سے محبت نہ تھی، بھائی سے محبت نہ تھی، بیٹے سے محبت نہ تھی؟ سب سے تھی مگر محبتوں کے بھی درجے ہوتے ہیں۔ اسے رسول کریم ﷺ سے محبت سب سے بڑھ کر تھی۔ پس احمق اور نادان ہے وہ انسان جو سمجھتا ہے کہ ہر محبت وطن کی محبت میں مرکوز ہو جانی چاہئے۔ اگر کوئی ہندو اعتراض کرتا ہے کہ ہمارے دلوں میں خانہ کعبہ کی یا مکہ کی محبت وطن سے زیادہ ہے تو وہ صرف اپنی جہالت کا مظاہرہ کرتا ہے اور ایسے جاہل کی خاطر ہم ان مقامات کی محبت کو پیچھے نہیں ڈال سکتے۔ مگر اس کے یہ معنے بھی نہیں کہ ہم وطن کی محبت میں اس معترض سے پیچھے ہیں۔ بیشک دین کی محبت ہمارے دلوں میں زیادہ ہے مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ وطن کی محبت نہیں ہے۔ اگر ہمارا ملک خطرہ میں ہو تو ہم اس کے لئے قربانی کرنے میں کسی ہندو سے پیچھے نہیں رہیں گے لیکن اگر دونوں خطرہ میں ہوں۔ یعنی ملک اور مقامات مقدسہ، تو مؤخر الذکر کی حفاظت چونکہ دین ہے اور زندہ خدا کی شعائر کی حفاظت کا سوال ہے۔ اس لئے ہم اسے مقدم کریں گے۔ بیشک ہم عرب کے پتھروں کو ہندوستان کے پتھروں پر فضیلت نہ دیں گے لیکن ان پتھروں کو ضرور فضیلت دیں گے جن کو خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے فضیلت کا مقام بنایا ہے۔ کہتے ہیں ایک دفعہ قیس کُتّے سے پیار کر رہا تھا۔ اس کے دوستوں نے دیکھا اور کہا۔ قیس کیا تم پاگل ہو گئے ہو جو کُتّے سے پیار کر رہے ہو۔ اس نے کہا۔ نہیں مَیں کُتّے سے پیار نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا یہ تو ہم دیکھ رہے ہیں کہ تم کُتّے سے پیار کر رہے ہو۔ اس نے کہا کہ یہ تو لیلیٰ کا کُتّا ہے۔ مَیں کُتّے سے نہیں بلکہ لیلیٰ کے کُتّے سے پیار کرتا ہوں۔ کُتّے اور لیلیٰ کے کُتّے میں فرق کو عاشق ہی سمجھ سکتا ہے۔ ایک مادہ پرست ہندو کیا جانتا ہے کہ وطن اور خدا تعالیٰ کے پیدا کردہ شعائر میں کیا فرق ہے۔ وہ عرفان اور نیکی نہ ہونے کی وجہ سے اس فرق کو نہیں سمجھ سکتا۔ پس ہمیں ہندوستان بیشک عزیز ہے، اس کا ذرہ ذرہ عزیز ہے۔ اگر کوئی غنیم باہر سے ہندوستان پر جارحانہ طور پر حملہ آور ہو تو باوجود بعض متعصب ہندوؤں کے جھوٹے اعتراضوں کے ہم اس کی حفاظت میں دوسروں سے پیچھے نہیں آگے ہوں گے خواہ غنیم کوئی مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔ حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْاِیْمَانِ 8 ہمارے ایمان کا جزو ہے مگر وہ گلیاں جن میں ہمارے پیارے آقا محمد مصطفیٰ ﷺ چلتے رہے اور وہ پتھر جنہیں خد اتعالیٰ نے ہمارے لئے عبادت کا مقام بنایا۔ ہمیں وطن سے زیادہ عزیز ہیں اور اس پر کوئی ہندو یا عیسائی حاسد جلتا ہے تو جل مرے۔ ہمیں اس کی کوئی پروا نہیں۔ ‘‘
(الفضل 3 جولائی 1942ء)
1: المائدة : 68
2: السّیرة الحلبیة جلد 2 صفحہ 160 مطبوعہ مصر 1935ء
3: سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 278-279 مطبوعہ مصر 1936ء
4: اسد الغابة جلد 2 صفحہ 230 مطبوعہ بیروت1936ء
5: سیرت ابن ہشام جلد 4 صفحہ 163-164 مطبوعہ مصر 1936ء
6: وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ يُّقْتَلُ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ١ؕ بَلْ اَحْيَآءٌ (البقرة: 155)
7: سیرت ابن ہشام جلد 3۔ مطبوعہ مصر 1936ء
8: موضوعات ملّا علی قاری صفحہ 35۔ مطبوعہ دہلی 1315ھ

20
(1) غرباء کے لئے غلّہ کا انتظام
(2) دودھ اور گھی کا انتظام
(3)احمدی نوجوانوں کو فوج میں بھرتی ہونے کی تحریک
( فرمودہ 3 جولائی 1942ء )

تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
(1)
’’آج مَیں خطبہ میں تین متفرق امور کے متعلق باتیں بیان کرنا چاہتا ہوں۔ سب سے پہلے تو مَیں اس غلّے کے انتظام کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جو قادیان کے غرباء میں تقسیم کرنے کے لئے جمع کیا گیا ہے۔ مَیں نے پہلے اس تحریک کو بغیر اندازہ کے کہ کس قدر لوگ یہاں امداد کے مستحق ہیں اور ان کے لئے کس قدر غلّہ کی ضرورت ہو گی، شروع کیا تھا اور اپنے ذہن میں پانچ سَو من غلّہ کا اندازہ لگایا تھا۔ اگر میرے ہی اندازہ کے مطابق غلّہ جمع ہوتا یا اس غلّہ کے لئے رقم آتی تو ہم نصف کے قریب آدمیوں کو بھی غلّہ نہ دے سکتے لیکن جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا طریق ہمیشہ ہمارے ساتھ چلا آتا ہے اس نے جماعت کے دوستوں کو توفیق عطا فرمائی کہ وہ کثرت سے اس میں حصہ لیں۔ چنانچہ قریباً بارہ سَو من غلّے کا اندازہ ہے جس کی وصولی کی امید کی جاتی ہے اور ہمارا موجودہ اندازہ جو قادیان میں تقسیم کے متعلق ہے وہ بھی گیارہ بارہ سَو من کے قریب ہے۔ دو تین سَو من اتفاقی ضرورتوں کے لئے بھی جمع رکھنا ضروری ہوتا ہے اور چونکہ ابھی باہر سے آہستہ آہستہ وعدے آ رہے ہیں اور لوگوں کی طرف سےرقوم بھی پہنچ رہی ہیں اس لئے یہ کوئی بعید بات نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری یہ ضرورت بھی پوری ہو جائے مگر اس بارے میں مَیں ان کو جنہیں غلّہ دیا گیا ہے نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ ہم نے ان کے لئے پانچ پانچ مہینے کے غلّے کا انتظام کر دیا ہے۔ گویا جو غلّہ انہیں اس وقت دیا گیا ہے یہ آئندہ دسمبر، جنوری، فروری، مارچ اور اپریل کے لئے ہے۔ مئی میں چونکہ نئی فصل شروع ہو جاتی ہے اس لئے مئی کے لئے کسی انتظام کی ضرورت نہیں۔ ہم غلّہ کی اتنی مقدار اپنے پاس جمع نہیں رکھ سکتے تھے کیونکہ اس صورت میں بہت سے غلّہ کے ضائع ہونے کا خطرہ تھا اس لئے وہ غلّہ ہم نے آج ہی تقسیم کر دیا ہے۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ سب کو تقسیم کر دیا گیا ہے بلکہ تقسیم کرنا شروع کر دیا گیا ہے کیونکہ ابھی تک پورا غلّہ نہ ملنے کی وجہ سے سب کو غلّہ نہیں پہنچا یا جا سکا ۔ اس وقت تک ہم ساڑھے چھ سَو من گندم خرید سکے ہیں اور اس میں سے پونے پانچ سَو یا پانچ سَو من کے قریب تقسیم بھی کر چکے ہیں اور ہمارا ارادہ یہ ہے کہ جوں جوں غلّہ آتا جائے گا اسے فوراً تقسیم کرتے چلے جائیں گے۔ پس ایک تو وہ دوست جنہیں ابھی غلّہ نہیں پہنچا گھبرائیں نہیں۔بعض لوگ مجھے رقعے لکھتے رہتے ہیں کہ باقیوں کو تو غلّہ مل گیا ہے مگر ہمیں نہیں ملا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمیں غلّہ ابھی تک ملا نہیں۔ ہمارے پاس اس وقت سات آٹھ سَو من غلّہ خریدنے کے لئے روپیہ موجود ہے مگر غلّہ ملتا ہی نہیں۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ اردگرد کے دیہات سے غلّہ جمع کریں اور اگر اِردگرد کے دیہات سے غلّہ نہ ملا تو خواہ ہمیں گراں ہی خریدنا پڑا بٹالہ یا امرت سر سے خرید کر لایا جائے گا۔ پس جن لوگوں کے لئے غلّہ کی منظوری ہو چکی ہے وہ تسلی رکھیں۔ جوں جوں غلّہ آتا جائے گا اِنْشَاءَ اللہُ تَعَالٰی ان کے گھروں میں پہنچتا جائے گا۔ ہماری کوشش یہی ہے کہ جہاں تک ہو سکے اچھا غلّہ ملے۔ مَیں خود نمونہ دیکھ کر اسے پاس کرتا ہوں اور حتّی الوسع کوشش کرتا ہوں کہ کَنگنی1 نہ ہو اور نہ گندم میں کوئی اَور نقص ہو چنانچہ خدا تعالیٰ کے فضل سے جن لوگوں نے خود دیکھ کر اور روپیہ دے کر اپنے گھروں کے لئے گندم خریدی ہے ہماری خریدی ہوئی گندم ان کے برابر بلکہ بعض صورتوں میں ان سے بھی اچھی ہے۔
دوسری بات مَیں نصیحت کے طور پر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جن لوگوں کو ہم نے غلّہ دیا ہے۔ وہ اسے امانت کے طور پر اپنے پاس سال کے آخری مہینوں کے لئے محفوظ رکھیں۔ میرے پاس رپورٹیں پہنچی ہیں کہ بعض لوگوں نے ابھی سے اس غلّے کو استعمال کرنا شروع کر دیا ہے حالانکہ ابھی مارکیٹ میں غلّہ ملتا ہے اگر ابھی سے اس غلّہ کو استعمال کر کےخرچ کر لیا گیا تو نتیجہ یہ ہو گا کہ جب غلّہ کی کمی کا خطرہ ہو گا اس وقت وہ غلّہ کھا چکے ہوں گے اور چونکہ ان ایام کے لئے سلسلہ اپنی ذمہ داری کو پورا کر چکا ہو گا۔ اس لئے ان کو دوبارہ مدد نہیں مل سکے گی۔ پس جہاں جماعت کے آسودہ حال لوگوں نے اپنی ذمہ داری کو سمجھا اور اسے پورا کرنے کی کوشش کی ہے وہاں انہیں بھی اپنی ذمہ داری کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے اور جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہئے۔ انہیں خیال کرنا چاہئے کہ اگر انہیں غلّہ نہ ملتا تو لازماً وہ مارکیٹ سے خریدتے۔ پھر جبکہ ان کی ضرورتوں کے لئے غلّہ محفوظ ہو گیا ہے تو وہ کیوں انہی ایام میں اسے استعمال کر رہے ہیں جبکہ غلّہ منڈی میں مل سکتا ہے۔ اگر وہ اسی طرح کرتے رہے تو آنے والے خطرناک ایام میں وہ تکلیف اٹھائیں گے اور سلسلہ ان کی مدد کرنے سے قاصر ہو گا اور وہ تکلیف خود ان کے ہاتھوں کی پیدا کی ہوئی ہو گی۔
مَیں اردگرد کے دیہات کے لوگوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک ثواب کا موقع پیدا کر دیا ہے۔ وہ اچھی گندم تلاش کر کے ہمیں اطلاع دیں تاکہ ہم خرید سکیں۔ ہمیں اس وقت ایک ہزار مَن گندم کی ضرورت ہے۔ ہمارے اردگرد جو دیہات ہیں ان میں سے سری گوبند پور میں ہماری جماعت ہے۔ ماڑی بچیاں میں ہماری جماعت ہے۔ جاگو وال میں ہماری جماعت ہے، پھیرو چیچی میں ہماری جماعت ہے۔ اسی طرح عالمہ اور بھینی میں ہماری جماعت ہے، یہ سب جماعتیں مل کر اگر کوشش کریں تو آسانی کے ساتھ ہمیں گندم میسر آ سکتی ہے۔ اسی طرح گورداسپور کی طرف کا جو علاقہ ہے۔ اس میں بھی کافی غلّہ مل سکتا ہے اور زمینداروں کے پاس ابھی تک کافی غلّہ موجود ہے۔ وہ صرف اس امید پر اس کو روکے ہوئے ہیں کہ شاید گندم کی قیمت اَور بھی بڑھ جائے۔ مگر اب گندم کی قیمت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ گورنمنٹ نے جو انتہائی قیمت مقرر کر رکھی تھی اس حد کو پہنچ گئی ہے اور اس سے زیادہ قیمت بڑھنے کا سرِدست امکان نہیں۔ اس لئے اب زمیندار آہستہ آہستہ غلّہ نکال رہے ہیں کیونکہ قیمت اَور زیادہ بڑھ سکنے کی امید نہیں کر سکتے۔ پس غلّہ ملنے میں دقّت نہیں۔ دقّت صرف یہ ہے کہ غلّہ پھیلا ہؤا ہے اور ہمیں علم نہیں کہ کہاں کہاں ہے۔ ہمارے دوست اگر اردگرد کے دیہات میں پھر کر ہمیں اطلاع دیں کہ فلاں فلاں جگہ گندم مل سکتی ہے تو اس طرح وہ بہت کچھ ثواب حاصل کر سکتے ہیں۔ ان کی اطلاع پر ہمارے کارکن وہاں جا کر نمونہ لے آئیں گے اور پسند آنے پر گندم خرید لی جائے گی اگر ایک مہینے تک غلّہ جمع نہ ہؤا تو مجبوراً ہمیں باہر کی منڈیوں سے غلہ لانا پڑے گا اور وہ گراں بھی ہو گا اور کچھ جو لوگ زیادہ صبر نہیں کر سکتے۔ ان میں بے چینی بھی پیدا ہو گی اور وہ سمجھیں گے کہ شاید ہمارے حقوق کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
مَیں بیرونی جماعتوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ جن جن جماعتوں نے ابھی تک اس تحریک میں حصہ نہیں لیا۔ وہ اس طرف جلد توجہ کریں تاکہ وہ ثواب سے محروم نہ رہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہماری جماعت کو ایک ایسا نمونہ پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ جس کی مثال سارے ہندوستان میں نہیں مل سکتی اور کہیں نظر نہیں آتا کہ ضرورت کے موقع پر کسی قوم نے اپنے غریب بھائیوں کے لئے ایسے ایثار اور قربانی سے کام لیا ہو۔ میرے نزدیک اگر وہ دوست جنہوں نے ابھی تک اس تحریک میں حصہ نہیں لیا۔ اس طرف توجہ کریں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے پندرہ سو من غلّہ کے قریب اکٹھا ہو سکتا ہے اور اس کی قیمت موجودہ نرخ کے مطابق آٹھ ہزار روپیہ ہے۔ اس وقت تک جو اندازہ وعدوں اور غلّے وغیرہ کا ہے وہ ساڑھے چھ بلکہ سات ہزار روپیہ کے قریب ہے۔ اگر ہزار ڈیڑھ ہزار روپیہ کے قریب اور وعدے آ جائیں تو پندرہ سَو مَن غلّہ یا آٹھ ہزار روپیہ اکٹھا ہو جائے گا۔
دشمن احمدیہ جماعت پر ہمیشہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب نے آ کر کیا کام کیا اگر وہ اسی قسم کے کاموں کو دیکھیں تو انہیں اپنے اعتراض کی حقیقت معلوم ہو سکتی ہے۔ ہندوستان میں اس وقت ایسے ایسے لوگ موجود ہیں جو کروڑوں روپیہ کے مالک ہیں مگر کہیں بھی یہ مثال نہیں ملتی کہ اس طرح انہوں نے غریب لوگوں کے لئے غلہ جمع کیا ہو بلکہ سارے ہندوستان میں ہی نہیں، انجمنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ساری دنیا میں بھی کوئی ایسی مثال نہیں مل سکتی۔ گورنمنٹیں بے شک ایسا انتظام کرتی ہیں مگر وہ ٹیکس لگا دیتی ہیں اور جتنا چاہتی ہیں زبردستی ٹیکس وصول کر لیتی ہیں مگر یہاں کسی پر جبر نہیں کیا جاتا بلکہ لوگ اپنی خوشی سے چندہ دیتے ہیں۔ اس لحاظ سے ہماری جماعت نے جو نمونہ پیش کیا ہے۔ وہ ایک نہایت ہی قابلِ تعریف فعل ہے۔
(2)
دوسرا امر جس کی طرف میں قادیان کے دوستوں کو خصوصاً توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ غلّہ کے سوا بعض اَور چیزیں بھی ایسی ہیں جن کے حصول میں مشکلات پیدا ہو رہی ہیں اور ان کی طرف بھی ہماری جماعت کو توجہ کرنی چاہئے مثلاً چند ایام سے گھی اور دودھ کی سخت تکلیف محسوس کی جا رہی ہے اور مدارس کے طالب علموں نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ انہیں دودھ ٹھیک نہیں ملتا۔ ان کی شکایت تو اپنے افسروں کے متعلق ہے مگر بات یہ ہے کہ دوسروں کو بھی دودھ نہیں مل رہا اور جو لوگ اپنے پاس روپیہ رکھتے ہیں ان کو بھی مشکل پیش آ رہی ہے۔ اسی طرح گھی کی قیمت بہت بڑھ گئی ہے۔ ممکن ہے آگے چل کر اَو ربھی بڑھ جائے۔ اس لئے مَیں قادیان کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ جن کے لئے ممکن ہو اگر وہ گائیں یا بھینسیں رکھ لیں تو آئندہ آنے والے سخت ایام میں نہ صرف ان کو بلکہ ان کے بچوں اور دودھ پلانے والی ماؤں کو خالص دودھ اور گھی میسر آ سکے گا۔ دودھ پلانے والی ماؤں کا تو انحصار ہی دودھ پر ہوتا ہے کیونکہ دوسرے لوگ تو پھر بھی دودھ پینا چھوڑ سکتے ہیں لیکن اگر دودھ پلانےو الی مائیں دودھ پینا چھوڑ دیں تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ آئندہ نسل کو کمزور کر دیا جائے۔ اسی طرح بچوں کو دودھ دینا ضروری ہوتا ہے اور ان کو دودھ نہ دینے کے معنی بھی یہی ہیں کہ ان کو کمزور کر دیا جائے۔ پس اگر صاحب توفیق لوگ گائیں یا بھینسیں رکھنے لگ جائیں تو اس کے نتیجہ میں نہ صرف خالص دودھ اور گھی انہیں میسر آ سکے گا بلکہ جو لوگ بھینسیں نہیں رکھ سکتے۔ انہیں نسبتاً آسانی سے بازار سے دودھ مل جائے گا کیونکہ چیزوں کے ریٹ ہمیشہ اس طرح بڑھتے ہیں کہ جو لوگ زیادہ مالدار ہوتے ہیں جب انہیں تکلیف محسوس ہوتی ہے تو وہ بھاؤ بڑھا دیتے ہیں۔ مثلاً دودھ کا بھاؤ آٹھ سیر ہو اور کسی امیر کو اس بھاؤ دودھ ملنے میں ذرا بھی دقّت ہو تو وہ کہہ دے گا اچھا مجھے سات سیر ہی دے دو۔ دوسرا کہے گاسات سیر نہیں دیتے تو چھ سیر ہی دے دو تو باوجود اس بات کے کہ اگر وہ صبر کریں اور اپنے نفس کو تکلیف برداشت کرنے کی عادت ڈالیں تو انہیں بھی سستی چیز مل سکتی ہے۔ محض اس وجہ سے کہ ان کے پاس روپیہ ہوتا ہے وہ صبر نہیں کر سکتے اور اس طرح بازار کا بھاؤ بگاڑ دیتے ہیں ہماری لاہور کی جماعت کے ایک نہایت ہی مخلص دوست تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے بڑے شیدائی تھے۔شروع شروع میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام ہمیشہ ان کے ذریعہ اپنے سودے منگوایا کرتے تھے۔ گو آخر میں حکیم محمد حسین صاحب قریشیجو مفرح عنبری کے موجد تھےان کے سپرد یہ خدمت ہو گئی تھی۔ وہ دوست نہایت مخلص اور اچھے عہدہ پر تھے۔ جب بھی قادیان آتے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے ضرور کوئی تحفہ لاتے مگر لاہور کے دوست ہنسا کرتے تھے کہ اُن کی عادت ہے کہ دکاندار کے پاس جاتے ہیں اور کہتے ہیں سیب کس طرح دیتے ہو؟ وہ اگر کہتا ہے عام سیب تو روپیہ کے بیس ہیں مگر اچھے سیب روپیہ کے سولہ ہیں تو یہ جھٹ کہہ دیتے ہیں کہ مَیں نے سیب حضرت صاحب کے لئے لے جانے ہیں تم روپے کے مجھے بارہ سیب دو مگر اچھے دو۔ اس پر وہ وہی سیب جو روپے کے بیس یا سولہ بکتے ہیں دے دیتا ہے۔
غرض صرف ریٹ کے بڑھانے سے چیز اچھی نہیں ملتی بلکہ غور اور فکر اور تلاش سے اچھی چیز ملا کرتی ہے مگرجیسا کہ مَیں نے بتایا ہے جن کے پاس روپیہ ہوتا ہے وہ ایسے موقع پر جلد بازی سے کام لے کر ریٹ بڑھا دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دس پندرہ یا بیس آدمی جو مالدار ہوتے ہیں اور جو درحقیقت ریٹ کو بڑھانے کا موجب بنتے ہیں۔ وہ تو خریدتے رہتے ہیں مگر غریبوں پر مصیبت آ جاتی ہے کیونکہ ان کے لئے بھی ریٹ بڑھ جاتے ہیں اور ان میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ اس ریٹ پر چیز خرید سکیں۔
پھر اس کا اثر دکانداروں پر بھی پڑتا ہے جب گاہک زیادہ ہوں تو دکاندار زیادہ مال خریدتا ہے جو اسے سستا پڑتا ہے مگر جب گاہک کم ہو جائیں تو مال زیادہ خرید نہیں سکتا اورجو خریدتا ہے وہ گراں خریدتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چیزوں میں ملونی شروع ہو جاتی ہے۔ دودھ ہو تو اس میں پانی مِلا دیتے ہیں اور ایسی ایسی تدبیریں کرتے ہیں کہ ان کا پکڑنا مشکل ہو جاتا ہے مثلاً دودھ کی شناخت کا ایک آلہ نکلا ہؤا ہے۔ جو سیّال چیز کا وزن بتا دیتا ہے۔ اس کے ذریعہ سے معلوم کر لیا گیا ہے کہ خالص دودھ کا اتنا وزن ہے اور پانی کا اتنا۔ پس اس کے ذریعہ سے اگر دودھ میں پانی ملا ہو تو معلوم کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً فرض کرو۔ خالص دودھ کا وزن دس ڈگری ہے اور پانی کا وزن پندرہ ڈگری اور دودھ میں آلہ ڈال کر دیکھا جاتا ہے اور اس کا وزن ساڑھے بارہ ڈگری معلوم ہوتا ہے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ آدھا دودھ ہے اور آدھا پانی۔
ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے زمانہ میں بعض دوستوں نے بڑے جوش سے یہ انتظام کیا کہ قادیان میں جو دودھ فروخت ہونے کے لئے آئے۔ اس کا پہلے آلہ سے ٹیسٹ کیا جائے کہ وہ خالص ہے یا نہیں۔ کیونکہ ہمارے ملک میں ایک تو عام لوگوں نے یہ قانون بنایا ہؤا ہے کہ دودھ میں برکت نہیں ہوتی۔ جب تک دودھ دیتے وقت برتن میں کچھ پانی نہ ڈال لیا جائے پھر اس برکت کو بڑھانے کا خیال پیدا ہوتا ہے اور اَور زیادہ پانی ملا لیا جاتا ہے۔ ہمارے نانا جان صاحب مرحوم بھی ان لوگوں میں سے تھے جنہیں اس انتظام کا شوق تھا چنانچہ دودھ ٹیسٹ کرنے کا آلہ خریدا گیا اور اس کے مطابق دودھ کو دیکھا جانے لگا۔ باہر سے جو شخص دودھ لے کر آتا، اسے بٹھا لیا جاتا کہ پہلے دودھ کا امتحان کرا لو پھر بیچنے دیا جائے گا۔ چند دن تو اس کا فائدہ ہؤا مگر آخر جہاں پکڑنے والے موجود ہوتے ہیں وہاں تدبیریں نکالنے والے بھی موجود ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نےہر انسان کے اندر عقل کا مادہ رکھ دیا ہے جس کے ذریعہ وہ اگر ایک طرف نیکی میں ترقی کر جاتا ہے تو دوسری طرف چوری اور ڈاکہ وغیرہ کے بھی نئے سے نئے طریق نکال لیتا ہے۔ ننگل گاؤں کا ایک شخص بھی دودھ لاتا تھا ، وہ کہا کرتا تھا کہ میرا دودھ بڑا خالص ہے۔ آلے سے دیکھا جاتا تو وہ بھی اس کے خالص ہونے کی تصدیق کرتا۔ پانچ سات دن تو اس کی خوب شہرت ہوئی مگر ایک دن کسی کو دودھ جو دینے لگا تو گڈوی میں سے مچھلی نکل آئی۔ اس وقت یہ راز کھلا کہ وہ دودھ میں چھپڑ کا پانی ملا کر لایا کرتا تھا۔ اس نے سوچا کہ عام پانی تو ہلکا ہوتا ہے۔ چھپڑ کا گندا پانی اگر میں ڈالوں تو اس کا پتہ نہیں لگے گا۔ چنانچہ وہ رستہ میں سے چھپڑ کا پانی ملا کر لے آتا مگر ایک دن پانی کے ساتھ مچھلی بھی آگئی اور دودھ ڈالنے لگا تو وہ نکل آئی جس سے اس کا راز کھل گیا۔
غرض یہ نقائص درحقیقت اسی طرح دور ہو سکتے ہیں کہ خود گھر میں گائیں بھینسیں رکھی جائیں۔ اگر قادیان میں سو یا د و سَو گھر ایسے نکل آئیں جو بھینس رکھ لیں تو انہیں بھی دودھ کی سہولت ہو جائے گی اور ان کی وجہ سے باقیوں کو بھی آسانی سے دودھ میسر آنے لگ جائے گا۔ صدر انجمن احمدیہ کے جو کارکن ہیں۔ انہیں پراویڈنٹ فنڈ سے قرضہ دلا دیا جائے گا اور اگر ان کا پراویڈنٹ فنڈ نہ ہؤا تو ضمانت پر انجمن سے قرضہ دلا دیا جائے گا اور دس بارہ مہینوں کے اندر اندر واپس لے لیا جائے گا۔ اس طرح دودھ کی دِقّت اِنْشَاءَ اللہُ تَعَالٰی دور ہو جائے گی۔
اسی طرح چارے وغیرہ کے متعلق انتظام کرنا چاہئے تاکہ چارے کی دِقّت بھی محسوس نہ ہو مثلاً میرے نزدیک اگر بورڈنگ والے ہوشیاری سے کام لیں تو سکول کی گراؤنڈز میں ہی کافی چارہ بویا جا سکتا ہے مگر بالعموم دیکھا گیا ہے کہ انتظام ٹھیک ہو تبھی چیز سستی ملتی ہے ورنہ انتظام کی خرابی کی وجہ سے گراں ہو جاتی ہے۔ پس ضرورت ہے کہ اس طرح محنت سے کام کیا جائے جیسے زمیندار کرتے ہیں جس طرح وہ اپنی بھینسوں کی حفاظت کرتے اور چارہ اور دودھ کو ضائع نہیں کرتے اسی طرح ہمارے دوستوں کو کام کرنا چاہئے۔ اگر اس طرح کام کیا جائے تو بورڈنگ کے لڑکوں کو اچھا دودھ مل سکتا ہے اور ان کی صحتیں بھی درست رہ سکتی ہیں۔
مَیں سمجھتا ہوں آٹھ دس گھماؤں زمین ایسی نکل سکتی ہے جس میں چارہ بویا جا سکتا ہے اور چھ سات بھینسیں ایسی رکھی جا سکتی ہیں جن سے طلباء کی ضرورتیں پوری ہوتی رہیں۔ اس کے لئے مَیں ایک کمیٹی تجویز کر دوں گا جو دودھ کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے غور کرے گی اور کوشش کرے گی کہ لوگوں کو سستا دودھ میسر آ سکے۔ اسی طرح اس کمیٹی کا یہ بھی کام ہو گاکہ لوگوں کو یہ تحریک کرے کہ وہ گھروں میں بھینسیں رکھیں تا قادیان کی یہ دِقّت دور ہو جائے۔
(3)
تیسری چیز جس کی طرف مَیں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہماری جماعت کی طرف سے فوج میں ایک احمدیہ ڈبل کمپنی پہلے سے موجود ہے۔ مگر اب گورنمنٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ ایک اَور احمدیہ ڈبل کمپنی قائم کی جائے اور اس کے لئے اس نے رنگروٹ مانگے ہیں۔ ناظر صاحب امور عامہ اس غرض کے لئے مختلف اضلاع کا دورہ کر رہے ہیں چنانچہ سیالکوٹ ، گوجرانوالہ، شیخوپورہ اور گورداسپور کا دَورہ کرنا ان کے مدنظر ہے۔ بعض مقامات کا وہ دورہ کر چکے ہیں اور بعض جگہ وہ عنقریب دَورہ کے لئے پہنچنے والے ہیں۔ مَیں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ انہیں اس بھرتی کے کام میں دلچسپی لینی چاہئے اور زیادہ سے زیادہ نوجوان اس غرض کے لئے پیش کرنے چاہئیں۔ میرے نزدیک اگر صرف گورداسپور کے ضلع کے لوگ ہی اپنی ذمہ داری کو سمجھیں تو تین ساڑھے تین سَو آدمی صرف یہیں سے بھرتی ہو سکتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پہلے بہت سے رنگروٹ ہماری جماعت کی طرف سے جا چکے ہیں مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ جو امن اور آرام اور نماز کی پابندی کی نعمت اور نیکی کی تحریک احمدیہ کمپنی میں میسر آ سکتی ہے وہ کسی دوسری کمپنی میں میسر نہیں آ سکتی۔ پھر سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ کوئی جماعت زندہ نہیں رہ سکتی جب تک اس کے افراد فوجی فنون کے ماہر نہ ہوں۔ قوموں کے مرنے کی علامت یہی ہؤا کرتی ہے کہ موت کا خوف ان کے دلوں میں بڑھ جاتا ہے اور قوموں کی زندگی کی علامت یہ ہوتی ہے کہ موت کا خوف ان کے دلوں سے جاتا رہے جو قومیں موت کا خوف اپنے دلوں میں بڑھا لیتی ہیں وہ کبھی فاتح نہیں ہو سکتیں اور جن قوموں کے دلوں میں سے موت کا خوف مٹ جاتا ہے۔ انہیں کوئی مفتوح نہیں کر سکتا۔ یہودیوں کو ہی دیکھ لو اب ان کی کہیں حکومت نہیں اور جیسا کہ قرآن کریم نے بیان کیا ہے۔ ان میں سب سے بڑا نقص یہی ہے کہ وہ موت سے بے حد ڈرتے ہیں اور ان میں سے ہر شخص کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ہزار سال تک زندہ رہے مگر فرماتا ہے اگر کوئی ہزار سال بھی زندہ رہا تو کیا ہے آخر ایک دن اس نے مرنا ہے اور جب سے کہ انسان پیدا کیا گیا ہے وہ موت کا شکار ہوتا چلا آیا ہے بلکہ جیسا کہ مَیں نے بارہا کہا ہے۔ موت بھی خدا تعالیٰ کی رحمتوں میں سے ایک بہت بڑی رحمت ہے۔ اگر موت نہ ہو تو دنیا پر ایسا عذاب آ جائے جو انسانی طاقتِ برداشت سے بالکل باہر ہو جائے۔ وہی ماں باپ جو اپنے بچوں سے پیار کرتے اوربعض دفعہ ان پر جانیں دے دیتے ہیں اور وہی بچے جو اپنے ماں باپ سے محبت رکھتے بلکہ بعض دفعہ ان کے لئے جانیں دے دیتے ہیں۔ اگر موت نہ ہو تو ایک دوسرے کو کاٹ کاٹ کر کھانے کی کوشش کریں۔ تم اندازہ کر لو کہ آدم سے لے کر آج تک کے آدمی نہیں بلکہ صرف دو صدیوں کے آدمی ہی جمع ہو جائیں تو دنیا میں رہنے کے لئے کوئی جگہ نہ رہے۔ دنیا میں انسان کی اوسط عمر 30 سال ہے اور اگر دو صدیوں کے لوگ جمع ہو جائیں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ موجودہ آبادی سے سات گنا آبادی دنیا کی بڑھ جائے گی۔ اب سمجھ لو کہ اگر ایسا ہی ہو جائے تو وہ زمیندار جن کے پاس چار چار پانچ پانچ ایکڑ زمین ہے ان کے پاس صرف پانچ پانچ سات سات کنال رہ جائے اور جن کے پاس صرف پانچ پانچ چھ چھ کنال زمین ہے۔ ان کے پاس تو بارہ بارہ تیرہ تیرہ مرلہ زمین رہ جائے بلکہ یہ بھی مَیں نے غلط اندازہ لگایا ہے کیونکہ یہ صرف پیدا ہونے والے بچوں کا انداازہ لگایا گیا ہے ۔ مُردہ پیدا ہونے والے بچوں یا اسقاط والے بچوں کو اس میں شامل نہیں کیا گیا۔ اگر ان سب کو شامل کر لیا جائے تو جن کے پاس آج پانچ پانچ گھماؤں زمین ہے۔ ان کے پاس پونا پونا مرلہ رہ جائے اس سے اندازہ کر لو کہ اگر موت نہ ہو تو دنیا کی کیا حالت ہو جائے۔ مَیں تو سمجھتا ہوں وہ ماں باپ جو آج اپنے بچوں پر جانیں دیتے ہیں شاید موت نہ ہونے کی صورت میں ان کے گلے کاٹنے کو دوڑتے کہ یہ کمبخت مرتے بھی نہیں۔ او روہی بچے جو اپنے ماں باپ پر جانیں فدا کرتے ہیں ماں باپ کو گالیاں دیتے کہ ہمارے لئے جگہ ہی خالی نہیں کرتے۔ ساری محبتیں اور سارے پیار موت کے نتیجہ میں ہیں۔ ماں باپ اپنے بچوں سے پیار کرتے ہیں تو ان کے پیار کے پیچھے موت کا خیال ہوتا ہے کہ ایک دن ہم مر جائیں گے اوریہ ہمارا نام قائم رکھیں گے ۔ بچے اپنے ماں باپ سے محبت کرتے ہیں تو ان کی محبت کے پیچھے بھی موت کا خیال ہوتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایک دن آئے گا جب ہمارے ماں باپ مر جائیں گے اور ہم ان کو یاد کیا کریں گے۔ آؤ ہم اپنی زندگی میں ان کی کچھ خدمت کر لیں۔ لیکن اگر موت نہ ہوتی تو نہ بچوں کے دلوں میں اپنے ماں باپ کی محبت ہوتی نہ ماں باپ کے دلوں میں اپنی اولاد کی محبت ہوتی۔ سب ایک دوسرے کے دشمن ہوتے۔ تو موت اللہ تعالیٰ کی رحمتوں میں سے ایک بہت بڑی رحمت اور اس کے فضلوں میں سے ایک بہت بڑا فضل ہے۔ موت اسی وقت بُری معلوم ہوتی ہے جب اس کی ضرورت اور حاجت مٹ جائے اسی لئے خدا تعالیٰ نے جنت میں موت نہیں رکھی۔ کیونکہ جنت میں رزق دینا خدا تعالیٰ نے اپنے ذمہ رکھا ہؤا ہے کسی انسان کے ذمہ نہیں کہ وہ دوسروں کو رزق دے ۔ وہاں یہ سوال نہیں ہو گا کہ فلاں مر جائے تاکہ اس کا لقمہ میرے مُنہ میں پڑے بلکہ وہاں ہر ایک کے لئے خدا نے خود انتظام کیا ہؤا ہو گا۔ اس لئے وہاں باوجود موت نہ ہونے کے عداوت نہیں ہو گی بلکہ سب محبت اورپیار سے رہیں گے۔ تو جنت میں سے موت کومٹا دینا اور دنیا میں موت کو رکھنا اللہ تعالیٰ کی بڑی حکمتوں میں سے ہے۔ دنیا میں چونکہ احتیاج ہے اس لئے ضروری تھا کہ یہاں موت ہو مگر جنت میں چونکہ احتیاج نہیں۔ اس لئے ضروری تھا کہ وہاں موت نہ ہو بلکہ جو لوگ دوزخ میں جائیں گے انہیں بھی کچھ عرصہ کے بعد اللہ تعالیٰ نکال کر جنت میں لے آئے گا اور کسی کو بھی گھبراہٹ نہیں ہو گی کہ ان کے آنے سے ہمارے رزق میں کمی ہو جائےگی۔
تو موت ایسی چیز نہیں جس سے ہمارے دلوں میں کوئی گھبراہٹ پیدا ہو سکے ۔ ہم سے پہلے لوگ مرتے چلے آئے، ہم مر جائیں گے اور ہمارے بعد آنے والے بھی مر جائیں گے۔ صرف فرق یہ ہے کہ ایک شخص عزت کی موت مرتا ہے اور ایک شخص ذلت کی موت مرتا ہے جو شخص عزت کی موت مرتا ہے۔اس کا نام دنیا میں بھی رہ جاتا ہے اور اگلے جہان میں بھی قائم رہتا ہے اور جو شخص ذلت کی موت مرتا ہے اس کا نام دنیا میں بھی مٹ جاتا ہے اور اگلے جہان میں بھی اس پر عذاب نازل ہوتا ہے۔ لڑائیوں میں ہی دیکھ لو۔ قید وہی ہوتے ہیں جو عزت کی موت مرنا نہیں جانتے۔
جرمنوں کو دیکھو ہم ان کے افعال کو شدید نفرت سے دیکھتے ہیں مگر اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ بہادر ہیں۔ اسی وجہ سے ان کے قیدی بہت کم پکڑے جاتے ہیں اس لئے کہ ہر لڑائی میں وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم قید ہو گئے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ ہمارے دشمن کی فوج بڑھ گئی مثلاً اگر دس ہزار آدمی قید ہو جاتے ہیں تو یہ دس ہزار قیدی دوسروں کے کام آتے ہیں اور دشمن کے بالمقابل دس ہزار آدمی دوسری جگہوں پر حملہ کرنے کے لئے آزاد ہوجاتے ہیں۔ پس وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم قید ہو گئے تو اس کا دشمن کو فائدہ ہو گا اس کی دس ہزار فوج بڑھ جائے گی لیکن اگر ہم دس ہزار مر گئے تو گو ہماری فوج سے دس ہزار کم ہو گا مگر ان کی فوج کے لئے بھی دس ہزار آدمیوں کو ہم مار ڈالیں گے۔ چنانچہ لیبیا کی پہلی لڑائی میں انگریزوں نے چالیس ہزار قیدی بنائے تھے جن میں سے صرف دس ہزار جرمن تھے اور تیس ہزار اٹالین۔ یہی حال روس کی جنگ کا ہے۔ وہاں بھی جرمن بہت کم قید ہوتے ہیں اور اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں۔ اگر ہم مر گئےتو ملک کو زیادہ فائدہ ہو گا بہ نسبت اس کے کہ ہم قیدی بن جائیں کیونکہ موت تو قید ہونے کی حالت میں بھی آ سکتی ہے اور آزاد ہونے کی حالت میں بھی۔ ہزاروں ہزار واقعات دنیا میں ایسے ہوتے رہتے ہیں کہ بعض دفعہ انسان بڑے غرور اور تکبر سے سمجھتا ہے کہ وہ دوسرے کو مار ڈالے گا مگر اچانک کوئی ایسا حادثہ ہو جاتا ہے کہ وہ خود ہلاک ہو جاتا ہے۔
حضرت نظام الدین صاحب اولیاء کے متعلق لکھا ہے کہ دلّی کے ایک بادشاہ کی ان سے رقابت ہو گئی۔ جس کی وجہ یہ ہوئی کہ بعض لوگوں نے اس کے پاس شکایت کرنا شروع کر دی کہ بڑے بڑے لوگ آپ کےد ربار میں کم آتے ہیں مگر نظام الدین صاحب اولیاء کے پاس بہت جاتے ہیں۔ رفتہ رفتہ بادشاہ کے دل میں رنج پیدا ہونا شروع ہو گیا اور آخر منصوبہ بازوں کی تحریک پر اس نے فیصلہ کیا کہ حضرت نظام الدین صاحب اولیاء کو قتل کر دیا جائے۔ درباریوں میں سے ان کے جومعتقد تھے وہ دوڑے دوڑے حضرت نظام الدین صاحب اولیاء کے پاس پہنچے اور کہنے لگے کہ بادشاہ نے آپ کے قتل کا فیصلہ کیا ہے مگر کہا ہے کہ مَیں اب فلاں مہم پر جا رہا ہوں وہاں سے واپس آ کر انہیں قتل کروں گا۔ انہوں نے کہا موت اور حیات اللہ تعالیٰ کے اختیارمیں ہے کسی بادشاہ کے اختیار میں نہیں۔ خیر وہ مہم پر گیا اور جب واپس آنے لگا تو آپ کے مریدوں میں بے چینی پیدا ہونی شروع ہوئی اور انہوں نے کہا کہ ہمیں اجازت دیجئے۔ ہم بادشاہ کے امراء اور وزراء سے مل کر اس کی ناراضگی کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ انہوں نے فرمایا ہنوز دلّی دور است۔ دو چار دن کے بعد پھر رپورٹیں پہنچیں کہ اب تو بادشاہ اَور زیادہ قریب آ گیا ہے چنانچہ انہوں نے پھر حضرت نظام الدین صاحب اولیاء کی خدمت میں عرض کیا کہ بادشاہ تو اَور بھی قریب آ گیا ہے۔ انہوں نے پھر یہی جواب دیا کہ ہنوز دلّی دور است۔ غرض ہر ہر منزل پر مریدوں کی بے چینی بڑھتی جاتی اوروہ بار بار عرض کرتے کہ حضور بادشاہ تو اب اَور بھی دلّی کے قریب پہنچ گیا ہے۔ مگر وہ ہر بار یہی جواب دیتے کہ ہنوز دلّی دور است۔ آخر اطلاع ملی کہ بادشاہ دلّی کے باہر خیموں میں ٹھہرا ہؤا ہے اور کل شہر میں داخل ہو گا۔ مریدوں نے پھر جرأت سے کام لیتے ہوئے کہا کہ حضور اب تو اجازت دیں کہ مصالحت کی کوئی کوشش کی جائے مگر انہوں نے کہا ابھی فکر کی کیا بات ہے۔ ہنوز دلّی دور است۔ اس دن بادشاہ کے کامیاب آنے کی خوشی میں ایک بہت بڑاجشن منایا گیا اور جیسا کہ پرانے زمانہ میں دستور تھا۔ امراء شہر کے باہر بھی محل بنوایا کرتے تھے۔ ولی عہد کا بھی شہر کے باہر ایک محل تھا۔ اس نے بادشاہ سے اپنی دعوت قبول کرنے کی درخواست کی۔ بادشاہ نے اس کو منظور کر لیا اور چھت پر جشن کا انتظام کیا گیا۔ غالباً گرمی کا موسم ہو گا۔ بڑی کثرت سے امراء و رؤساء اس جشن میں شامل ہوئے اَور خوب ناچ گانا اور مجرا ہؤا۔ ابھی یہ ناچ گانا ہو ہی رہا تھا کہ یکدم چھت گری اور بادشاہ اس کے نیچے دب کرہلاک ہو گیا۔ حضرت نظام الدین اولیاء کا مقام ایک سچے مومن کا مقام تھا۔ انہوں نے خدا تعالیٰ پر توکل کیا اور وہ سمجھتے تھے کہ موت اور حیات خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے ۔ اگر اس کی طرف سے مجھے موت آنی ہے تو مصالحت سے کیا بن جائے گا اور اگر موت نہیں آنی تو بادشاہ کیا اختیار رکھتا ہے کہ وہ مجھے موت کی سزا دے۔ اسی طرح اَور ہزاروں لوگ ہیں جو دوسروں کو مارنے کی کوشش کرتے ہیں مگر وہ بچ جاتے ہیں اور مارنے کا ارادہ کرنے والے مر جاتے ہیں۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ تدابیر کوئی چیز نہیں۔ تدبیریں بھی ضروری ہوتی ہیں مگر وہ عام حالات میں ہوتی ہیں جب عام عذاب آتا ہے تو خدا تعالیٰ موت اور حیات اپنے ہاتھ میں لےلیتا ہے اور اس وقت موت سے ڈرنا اول درجہ کی حماقت ہوتی ہے۔ صحابہؓ کو دیکھ لو ۔ انہیں مارنے کے لئے دشمن نے کتنی کوششیں کیں قریباً تیس چالیس جنگیں ہوئیں مگر سوائے ایک دو جنگوں کے کہ جن میں چند مسلمان قید ہو گئے۔ کبھی مسلمان قید نہ ہوئے ورنہ کافر تو بیسیوں کی تعداد میں قید ہوتے تھے مگر مسلمان ایک بھی قید نہیں ہوتا تھا اور ان کے قید نہ ہونے کے معنے یہی تھے کہ وہ اتنا لڑتے تھے کہ یا تو مارے جاتے تھے یا فتح حاصل کر لیتے تھے گویا موت سے نڈر رہنے کی وجہ سے وہ قیدی نہیں بنتے تھے اوریہی چیز ان کے غلبہ کا موجب بن گئی مگر کافر ہمیشہ قیدی بننے کو ترجیح دیتے اور جب بھی دیکھتے کہ ان کا پہلو لڑائی میں کمزور ہو رہا ہے۔ وہ ہمت چھوڑ دیتے اور قیدی بن جاتے۔ رفتہ رفتہ یہی چیز ان کی تباہی کا موجب ہو گئی کیونکہ کچھ تو قید ہونے کی حالت میں ہی مسلمان ہو جاتے اور کچھ مسلمانوں سے ایسے مرعوب ہو جاتے کہ ان کا مقابلہ کرنے کی روح کھو بیٹھتے۔ پس کافر قیدی یا تو مسلمان ہوتے جاتے تھے یا آجکل کی اصطلاح کے مطابق وہ مسلمانوں کا ففتھ کالم بن جایا کرتے تھےاَور اپنی قوم کو ڈرایا کرتے تھے کہ دیکھ مسلمانوں کا مقابلہ نہ کرنا وہ بڑے سخت لوگ ہیں۔ بالآخر اس کا وہی نتیجہ نکلا جو نکلنا چاہئے تھا کہ مسلمان کامیاب ہو گئے اورکفار ناکام ہو گئے۔
ہماری جماعت کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی پیشگوئیوں کے مطابق ایک زمانہ آنے والا ہے۔ جب ہماری جماعت جو اس وقت سب سے زیادہ کمزور اور دنیا کے ظلم کا نشانہ بنی ہوئی ہے دنیا کی فاتح اور حکمران ہو گی اور دنیا کی سب قومیں۔ دنیا کی سب حکومتیں اور دنیا کی سب سلطنتیں اس کی تابع اور فرمانبردار ہوں گی۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ایک دن ایسا آنے والا ہے جب ہماری جماعت ساری دنیا میں پھیل جائے گی اور دوسری قومیں اس کے مقابلہ میں ایسی ہی جائیں گی جیسے چوہڑے اور چمار ہوتے ہیں۔ پس جب تک ہماری جماعت کے افراد کے اندر جرأت اور بہادری پیدا نہ ہو اور جب تک وہ فنونِ جنگ سے آشنا نہ ہوں وہ ایسے زمانہ میں کس طرح کام آ سکتے ہیں۔ حکومت ہمارے پاس نہیں کہ اس کے زور سے ہم اپنی جماعت کے افراد کو ابھی سے یہ ٹریننگ دے سکیں۔ صرف یہی طریق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فوجی ٹریننگ حاصل کرنے کا جو ذریعہ ہماری جماعت کے لئے نکالا ہے۔ اس سے ہماری جماعت کے دوست زیادہ سےفائدہ اٹھائیں۔ فوج میں داخل ہونے سے صرف ایک چیز کا خوف ہو سکتا ہے اور وہ موت ہے مگر جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے۔ موت ایک ایسی چیز ہے جو گھر پر بھی آ جاتی ہے اور ایسے ایسے طریق پر آتی ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ ایک شخص رات کو اچھا بھلا سوتا ہے مگر اچانک پچھلی رات اسے ہیضہ ہوتا ہے اور وہ صبح ہونے سے پہلے پہلے فوت ہو جاتا ہے یا چھت گرتا ہے اور وہ اس کے نیچے دَب کر ہلاک ہو جاتا ہے یا پاؤں پھسل جاتا ہے اَور اس کی ہڈی پسلی ٹوٹ جاتی ہے اور ایسے بیسیوں واقعات روزانہ ہوتے رہتے ہیں۔ پس موت سے ڈرنا جہالت کی بات ہے۔ مَیں تو سمجھتا ہوں ہماری جماعت چونکہ فوجی فنون سےنا آشنا ہے۔ اس لئے اسے سب سے زیادہ فوجی کاموں میں حصہ لینا چاہئے تاکہ زیادہ سے زیادہ اس کے اندر جرأت اور دلیری پیدا ہو۔ ہمارے ملک میں سکھ بہت تھوڑے ہیں مگر عام طور پر لوگ ان سے ڈرتے ہیں اور اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ زیادہ تر فوج میں ملازم ہیں اور فوجی کاموں کی وجہ سے وہ نڈر ہو جاتے ہیں تو فوجی خدمت قوم کو بہادر بناتی اور اس کے افراد کے اندر جرأت اور بہادری پیدا کرتی ہے۔ اسی طرح انتظام کی پابندی کی عادت بھی فوج میں داخل ہونے سے پیدا ہوتی ہے۔ مشہور ہے کہ کوئی فوجی کسی جگہ چوری کے لئے گیا جس گھر میں وہ چوری کرنے کے لئے داخل ہؤا وہ آدمی ہوشیار تھا۔ اس نے سمجھ لیا کہ کوئی فوجی چوری کرنے کے لئے آیا ہے۔ وہ خاموشی سے اسےدیکھتا رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد یکدم اسے کہنے لگا۔ اٹن شن۔ اسے چونکہ پریڈ میں اٹنشن کے لفظ پر ساکت کھڑا ہونے کی عادت تھی اس لئے یہ سنتے ہی وہ فوراً سیدھا کھڑا ہو گیا اَور گھر والے نے اسے پکڑ لیا۔ یہ تو خیر لطیفہ ہے اصل سبق اس میں یہ دیا گیا ہے کہ فوجی زندگی نظام کی پابندی کا سخت عادی کر دیتی ہے۔ نوجوانوں میں عام طور پر آوارگی ہوتی ہے اگر وہ فوج میں چلے جائیں تو ان کی آوارگی بالکل دور ہو سکتی ہے۔ اسی طرح افسر کی بات نہ ماننے کی عادت بھی بعض نوجوانوں میں ہوتی ہے اَور اس نقص کا ازالہ بھی فوج میں ہو جاتا ہے۔
ابھی پچھلے دنوں خدام الاحمدیہ کا ایک جلسہ ہؤا جس میں ایک شخص باتیں کرنے لگ گیا یا افسر نے خیال کیا کہ وہ بول رہا ہے۔ بہرحال خدام الاحمدیہ کے افسر نے اسے کہا کہ وہ کھڑ ا ہو جائے مگر اس نے کھڑا ہونے سے انکار کر دیا پھر وہ اسے میرے پاس لائے اور مَیں نے بھی اسے کہا کہ وہ سزا کو قبول کر لے مگر یہی کہتا رہا کہ میرا قصور کیا ہے؟ حالانکہ قصور ہو یا نہ ہو جب ایک افسر نے سزا دی ہے تو چاہے وہ غلط ہی ہو اطاعت کا تقاضا یہی ہے کہ اس سزا کو قبول کیا جائے۔ انگریزی فوج کے متعلق کسی نے یہ لطیفہ لکھا ہے کہ کوئی افسر پریڈ کرارہا تھا۔ اور اس کی اپنے کسی ماتحت سپاہی سے عداوت تھی۔ پریڈ کراتے کراتے اس نے کہا کہ سپاہی نمبر فلاں تمہارا قدم ٹھیک نہیں پڑتا مَیں تمہیں کواٹر گارڈ میں بھیجتا ہوں۔ سپاہی نے کہا میرا قدم بالکل ٹھیک ہے۔ اس پر افسر کہنے لگا دیکھو سپاہی نمبر فلاں تمہاری بات بالکل ٹھیک ہے مگر چونکہ تم نے اپنے افسر کی بات کا جواب دیا ہے اس لئے پہلے جرم کی سزا میں نہیں بلکہ اس جرم کی سزا میں مَیں تمہیں قید خانے میں بھیجتا ہوں۔ اب بظاہریہ ایک ہنسی کی بات ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کا نظام بھی ایک دائرہ میں ضروری ہوتا ہے۔ اگر بحث کا دروازہ کھول دیا جائے اور ہر شخص کہے کہ جب تک فلاں بات مجھے سمجھا نہ دی جائے مَیں کوئی کام نہیں کر سکتا تو کیا ایسی صورت میں کوئی بھی کام ہو سکتا ہے۔ بےشک سمجھ کا بھی ایک وقت ہوتا ہے مگر اس کے بعد سمجھ کا نہیں بلکہ اطاعت کا سوال ہوتا ہے اور انسان کا فرض ہوتا ہے کہ وہ بِلا چون و چرا ہر حکم کی تعمیل کرے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم دیکھیں خدا ہے یا نہیں۔ پھر اگر ثابت ہو جائے کہ خدا ہے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم غور کریں آیا کوئی رسول ہو سکتا ہے یا نہیں۔ پھر اگر یہ بات بھی ہماری سمجھ میں آ جائے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی رسول ہو سکتا ہے تو ہمارا حق ہے کہ ہم مطالبہ کریں کہ جو شخص اس وقت رسالت کادعویٰ کرتا ہے وہ اپنے دعویٰ میں سچا ہے یا نہیں مگر جب ہم اس کو خدا تعالیٰ کا رسول تسلیم کر لیں اور مان لیں کہ اسے خدا نے ہی دنیا کی اصلاح کے لئے بھیجا ہے۔ تو پھر ہمارا یہ حق نہیں رہتا کہ ہم یہ کہیں کہ ہم نماز میں سینہ پر ہاتھ کیوں باندھیں اور رکوع میں کیوں جائیں اور سجدہ کیوں کریں۔ اگر ہم ایسا کہیں تو یہ حماقت ہو گی کیونکہ جہاں تک ہم عقل سے کام لے سکتے تھے ہم نے عقل سے کام لے لیا۔ اب ہمارا کام یہی ہے کہ ہم مانیں اور عمل کریں۔ اسی طرح احمدیت میں داخل ہونے سے پہلے ہر شخص کو اجازت ہے کہ وہ کہے مَیں نہیں مانتا خدا کو، مَیں نہیں مانتا رسالت کو، مَیں نہیں مانتا محمد ﷺ کو، مَیں نہیں مانتا مرزا غلام احمد صاحب کی صداقت کو۔ لیکن اگر کوئی شخص مان لیتا ہے خدا کو، مان لیتا ہے رسول کریم ﷺ کو، مان لیتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو، تو پھر اُسے حق نہیں رہتا کہ ان کے حکموں پر عمل کرنے سے پہلے ان کے سمجھ لینے پر اصرار کرے۔ بےشک ساتھ کے ساتھ سمجھنے کی بھی کوشش کرے مگر عمل حکم کے ساتھ ہی شروع کرنا ہو گا۔ البتہ وہ شخص کہہ سکتا ہے کہ مَیں مرزا غلام احمد صاحب کو تو مانتا ہوں مگر خلافت کو نہیں مانتا۔ جیسے پیغامی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تو مانتے ہیں مگر خلافت کو نہیں مانتے ۔ لیکن اگر وہ کسی وقت خلافت کو بھی تسلیم کر لیتاہے تو پھر اس کا یہ حق بھی منسوخ ہو جائے گا اور اب اس کا یہی کام رہ جائے گا کہ وہ خلافت کے احکام کو مانے، نہ یہ کہ اس کے حکموں پر اعتراض کرے اور کہے کہ جب تک میری سمجھ میں کوئی بات نہیں آئے گی، مَیں عمل نہیں کروں گا۔ پس عقل ہمیشہ ایک حد تک چلتی ہے اگر ہمیشہ کے لئے عقل کو کھلا چھوڑ دیا جائے تو کام بالکل بند ہو جائیں۔ مَیں ایک دفعہ دھرمسالہ سے آ رہا تھا۔ ان دنوں انفلوئنزا کے حملہ کی وجہ سے میرا دل بار بار کمزور ہو جاتا تھا۔ ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب میرے ساتھ تھے۔ اتفاقاً راہ میں بھی تکلیف ہو گئی۔ وہیں قریب ہی بڑا ہسپتال تھا۔ ضلع کے سول سرجن اس وقت ایک مسلمان تھے۔ ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب ہسپتال میں کوئی دوائی لینے کے لئے گئے تھوڑی دیر کے بعد وہ واپس آئے اور کہنے لگے۔ سول سرجن صاحب کہتے ہیں آپ کی بڑی مہربانی ہو گی اگر آپ تھوڑی دیر کے لئے یہاں تشریف لے آئیں چنانچہ مَیں ان کے پاس گیا۔ وہ بڑی محبت سے پیش آئے اور کہنے لگے مجھے آپ کی ملاقات کا عرصہ سے اشتیاق تھا۔ اب جو پتہ لگا کہ آپ آئے ہوئے ہیں تو مَیں نے مناسب سمجھا کہ آپ کی ملاقات کر لوں۔ پھر کہنے لگے مَیں نے ڈاکٹر صاحب کو آپ کے لئے نسخہ بتا دیا ہے اور اس میں صرف تین چیزیں پڑتی ہیں۔ نکس وامیکا، سوڈا بائیکارب اور ایک اَور دوا بتائی جو اس وقت مجھے یاد نہیں رہی۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگے یہ نسخہ جو ہے اس کے متعلق میرا بیس سالہ تجربہ یہ ہے کہ نکس وامیکا اگر اتنے ہی قطرے ڈالیں جتنے مَیں نے لکھے ہیں ، اسی طرح سوڈا بائیکارب اتنے گرین ہی ڈالیں جتنے مَیں نے لکھے ہیں، اسی طرح تیسری دوائی بھی جس مقدار میں مَیں نے لکھی ہے اسی مقدار میں ملائی جائے تب تو یقینی فائدہ ہوتا ہے۔ لیکن اگر ذرا بھی ان میں کمی بیشی کر دی جائے تو فائدہ نہیں ہوتا۔ اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ کیوں! تو مَیں اس کا کوئی جواب نہیں دے سکتا مگر میرا بیس سالہ تجربہ یہی ہے کہ اس نسخہ میں تبدیلی کرنے سے فائدہ نہیں ہوتا۔ فائدہ اسی صورت میں ہوتا ہے جب دوائیں مقررہ اوزان میں ڈالی جائیں۔
تو بیسیوں چیزیں دنیا میں ایسی ہوتی ہیں جن کی بنیاد تجربہ پر ہوتی ہے اور بیسیوں چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کی بنیاد عقل پر ہوتی ہے۔مگر عقل میں بھی اختلاف ہوتا ہے۔ اگر ہر شخص کی بات مانی جائے تو دنیا میں کبھی کوئی کام ہو ہی نہ سکے۔ فرض کرو لڑائی ہو رہی ہو اور دشمن شمال سے بھی حملہ کر رہا ہو، جنوب سے بھی حملہ کر رہا ہو، مشرق سے بھی حملہ کر رہا ہو اور مغرب سے بھی حملہ کر رہا ہو۔ ایسی حالت میں افسر سمجھتا ہے کہ اگر جنوب کے حملے کو روک دیا جائے تو سب حملے رک جائیں گے مگر ایک ماتحت یہ کہتا ہے کہ اگر شمال کے حملے کو روکا جائے تب فائدہ ہو گا اَور ایک سپاہی بولتا ہے اور کہتا ہے پہلے مشرق کے حملے کا دفاع کرنا چاہئے اور کچھ کہہ اٹھتے ہیں کہ مغرب کی طرف پہلے بڑھنا چاہئے۔ اب اگر یہی قانون ہو کہ جو بات کسی کے ذہن میں آئے اس پر عمل کر لے تو کچھ سپاہی مشرق کو چلے جائیں گے، کچھ مغرب کو ،کچھ شمال کو اور کچھ جنوب کو اور سب کو دشمن ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔ پس وہاں یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ زید یا بکر کی عقل میں کیا آتا ہے بلکہ یہ دیکھا جائے گا کہ جو افسر کہتا ہے اس پر عمل کیا جائے۔ پھر اس بات کی کون ذمہ داری لے سکتا ہے کہ جو بات وہ کہتا ہے وہ تو درست ہے مگر جو رائے اس کے افسر کی ہے وہ غلط ہے۔ تو نظام لوگوں سے خیالات کی قربانی کا سب سے زیادہ مطالبہ کیا کرتا ہے۔ پیغامی اس کا نام پیر پرستی رکھتے ہیں حالانکہ یہ پیر پرستی نہیں۔ ہم تو کہتے ہیں جن باتوں کے کرنے کا تمہیں خدا نے حکم دیا ہے ان پر عمل کرو۔ پھر ہم کہتے ہیں جن باتوں کے کرنے کا تمہیں رسول کریم ﷺ نے حکم دیا ہے ان پر عمل کرو۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے تمہیں جو احکام دئے ہیں ان کو مانو اور پھر جو باتیں رہ جائیں ان میں خلیفہ اور جماعت کے دوسرے افسروں کی اطاعت کرو۔ پس یہ پیر پرستی کیسے ہو گئی۔ پیر پرستی تو تب ہوتی جب ہم کہتے کہ تم خدا کی نہ مانو، رسول کی نہ مانو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نہ مانو، صرف ہماری مانو۔ اگر ایسی بات ہوتی تو بے شک یہ پیر پرستی ہوتی۔ مگر ہم تو کہتے ہیں تم خدا کی مانو، خدا کے رسول کی مانو، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مانو اور پھر جو باتیں رہ جائیں۔ ان میں ہمارے احکام مانو اور جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے اس کے بغیر دنیا میں کبھی کوئی نظام چل ہی نہیں سکتا۔ گھر میں میاں بیوی میں بھی بعض دفعہ اختلاف ہو جاتا ہے اور میاں کی کچھ مرضی ہوتی ہے اور بیوی کی کچھ۔ مگر پھر بھی ایک اصول کے ماتحت ان تمام اختلافات کو طے کیا جاتا ہے یعنی گھر کے اندرونی معاملات میں ماں کی بات مانی جاتی ہے اور بیرونی معاملات میں باپ کی بات مانی جاتی ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو ہر گھر میں روزانہ سر پٹھول ہوتی رہے۔ باپ کہے کدو پکانا ہے، ماں کہے شلغم پکانا ہے، بہن کہے دال پکانی ہے اور بھائی کہے کہ بینگن پکانا ہے۔ اب سارے بیٹھے آپس میں لڑ رہے ہیں۔ ایک کہتا ہے کہ مَیں کدو کھاؤں گا، دوسرا کہتا ہے کہ مَیں شلغم کھاؤں گا، تیسرا کہتا ہے کہ مَیں دال کھاؤں گا اور چوتھا کہتا ہے کہ مَیں بینگن کھاؤں گا۔ یا یہ صورت ہو گی کہ ہر ایک نے الگ الگ ہنڈیا چڑھائی ہوئی ہو گی۔ ایک نے کدو چڑھایا ہؤا ہو گا۔ ایک نے شلغم چڑھائے ہوئے ہوں گے۔ ایک نے دال چڑھائی ہوئی ہو گی۔ ایک نے بینگن چڑھائے ہو ئے ہوں گے ۔ اس طرح گھی الگ ضائع ہو رہا ہو گا۔ ایندھن الگ جل رہا ہو گا اور محنت الگ خرچ ہو رہی ہو گی ۔ تو یہ بھلا عقل کی بات ہے کہ جس کے جی میں جو بات آئے وہ اُسے منوانا شروع کر دے۔ اگر اس بات کی اجازت دی جائے تو لڑکے اور لڑکیاں روزانہ ماؤں کو دق کرنا شروع کر دیں۔ لڑکے کہیں کدو کیوں نہیں پکایا اور لڑکیاں کہیں بینگن کیوں نہیں پکایا۔ ماں صرف ایک ہی بات جانتی ہے کہ جو میرے جی میں آئے گا، پکاؤں گی۔ جب مَیں مَر جاؤں گی تو بے شک اپنی مرضی کے مطابق پکا لینا۔ اگر روزانہ بحثیں ہوتی رہیں تو وہ کبھی ختم ہی نہ ہوں۔
تو ایسے معاملات میں نظام کی پابندی کی عادت ہی قوم کو زندہ رکھتی ہے اور نظام کی پابندی کی عادت بہت حد تک فوج میں پیدا ہو جاتی ہے۔ پھر جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے یہ جنگ اس قسم کی ہے کہ اسلام اور احمدیت پر اس کا بڑا بھاری اثر پڑنے والا ہے۔ اس لئے اسلام اور احمدیت پر اس جنگ کا جو بھی اثر ہو۔ اس کو مٹانے کا ذریعہ یہ ہے کہ ہماری جماعت کے لوگ زیادہ سے زیادہ فوج میں داخل ہوں تاکہ ان بد اثرات کو مٹا سکیں اور اگر اُن بد اثرات کو نہ مٹا سکیں۔ تو کم سے کم وقت پر اپنی جماعت کی حفاظت تو کر سکیں۔ اگر آج وہ فوجی فنون نہیں سیکھیں گے تو کل وہ ان برکات کو بھی حاصل نہیں کر سکیں گے جو فاتح قوموں کے لئے مقدر ہوتی ہیں۔ مَیں اس امر کی طرف خصوصیت سے زمیندار دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں۔ شروع شروع میں زمینداروں نے جماعتی کاموں میں اچھا حصہ لیا تھا مگر اب سالہا سال سے شہریوں نے جماعت کا کثیر بوجھ اٹھایا ہؤا ہے۔ پس اب جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کے لئے ایک ترقی کا راستہ کھولا ہے۔ زمیندار دوستوں کو خصوصاً اس ذریعہ سے اپنے ثواب کی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ایسے موقع پر جی چرانا خدا تعالیٰ کے غضب کو بھڑکانے کاموجب بن جاتا ہے اَور جس جان کو بچانے کی انسان کوشش کرتا ہے وہ کسی اَور طرح ضائع ہو جاتی ہے۔ اب اس وقت دو ہی ذریعے ہیں کہ یا تو ہمارے آدمی جائیں اور دشمن کو سرحد پر ہی روک لیں یا دشمن ہمارے گھروں پر آ جائے اور وہ یہاں سب کو مار ڈالے۔ ان دونوں میں سے کونسا طریق بہتر ہے ۔یہ بہتر ہے کہ ہمارے آدمی سرحد پر جائیں اور ان میں سے کچھ مارے جائیں اور باقی دشمن کے حملہ کو روک دیں یا یہ بہتر ہے کہ وہ ہندوستان میں آ جائے اور یہاں کے لوگوں کو آ کر ہلاک کرنا شروع کر دے۔
حضرت خلیفۂ اول کا یہ واقعہ نہایت ہی دردناک اور عبرت آموز ہے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ جب روس اور ترکی کی لڑائی ہوئی تو میرے دل میں مسلمانوں کی خدمت کا جوش پیدا ہؤا۔ ہم اس وقت پانچ بھائی تھے اور پانچوں نوجوان تھے۔ مَیں نے اپنی والدہ سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو پانچ بیٹے دئیے ہیں۔ آپ اپنا ایک بیٹا اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دیں اور مجھے اجازت دیں کہ مَیں ترکوں کے علاقہ میں جا کر فوج میں بھرتی ہو جاؤں اور روسیوں سے لڑوں۔ فرمایا کرتے تھے کہ میری والدہ نے اس بات کے جواب میں ایک بڑی آہ بھری اور کہا پانچ بیٹے ہوں یا سات کیا کوئی ماں اپنے ہاتھ سے بھی اپنا بچہ قربان کرنے کے لئے تیار ہو سکتی ہے؟ مَیں نے کہا۔ امّاں! اللہ میاں کا حکم ہے کہ ماں باپ کی اطاعت کرو۔ اس لئے مَیں جاتا تو نہیں مگر مجھے ڈر ہے کہ آپ کے اس فعل کے نتیجہ میں آپ کے بیٹے آپ کی آنکھوں کے سامنے وفات پا جائیں گے۔ چنانچہ آپ فرمایا کرتے تھے ابھی ہماری ماں زندہ ہی تھیں کہ میرے چاروں نوجوان بھائی وفات پا گئے۔ جب میرا چوتھا بھائی فوت ہؤا تو مَیں اپنی ماں کے پاس گیا۔ مَیں نے دیکھا کہ وہ رو رہی ہیں۔ مجھے دیکھ کر وہ بے قراری کے ساتھ مجھ سے چمٹ گئیں اور کہنے لگیں وہ ماں کیوں نہ روئے جس کے چار نوجوان بیٹے اس کی آنکھوں کے سامنے وفات پا گئے۔ مَیں نے کہا ماں !آپ نے اب بھی بے صبری سے کام لیا ہے۔ اس لئے مَیں ڈرتا ہوں کہ جب آپ مریں گی تو اُس وقت مَیں بھی موجود نہیں ہوں گا۔ چنانچہ ہم جموں میں تھے کہ ہماری والدہ بعد میں بیمار ہو کر فوت ہو گئیں۔ تو موت اور حیات اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے جو قومیں زندگی اور بیداری رکھتی ہیں وہ موت کو خوشی سے قبول کرتی ہیں اور جو قومیں موت سے ڈرتی ہیں اور اپنے بچوں کی جانوں کی حفاظت کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے بچے دوسرے ذرائع سے ان کے سامنے مار ڈالتا ہے ۔ پس مَیں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں خصوصاً ان اضلاع کی جماعتوں کو جن کا ناظر صاحب امور عامہ دورہ کر رہے ہیں کہ وہ ہمت اور کوشش کر کے نوجوانوں کو بھرتی کرائیں اور انہیں اس دن کے لئے تیار کریں جس دن احمدیت ان سے قربانی کا مطالبہ کرے گی۔ اگر آج وہ تیار نہیں ہوں گے تو وہ وقت پر کچّے دھاگے ثابت ہوں گے اور اسلام اور احمدیت کے لئے قربانی نہیں کر سکیں گے۔
بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ اگر فوج میں بھرتی ہوئے تو جرمنوں کے ہاتھوں مارے جائیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر وہ فوج میں بھرتی نہ ہوئے تو کیا جرمن اسی جگہ نہیں آ جائیں گے۔ اس صورت میں تو وہ اسی جگہ جرمنوں کے ہاتھوں مارے جائیں گے اور یہ ایک ذلت کی موت ہو گی جس سے انہیں بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ پھر مَیں کہتا ہوں مومن تو وہ ہوتا ہے جو سوائے خدا کے کسی سے ڈرتا ہی نہیں۔ آج وہ جرمن سے ڈر گئے ہیں، کل جاپان سے ڈر جائیں گے، پرسوں کسی اَور قوم سے خوف کھاتے پھریں گے۔ پھر وہ فتح کس پر حاصل کریں گے حالانکہ مومن تو وہ ہوتا ہے جو کسی کی پرواہ ہی نہیں کرتا اور وہ سمجھتا ہے کہ میرے مقابلہ میں کوئی دشمن نہیں ٹھہر سکتا۔ جس مومن کے دل میں یہ یقین پیدا ہو جاتا ہے وہ مقابلہ کے وقت سب پر بھاری ہوتا ہے۔
ہم نے ایک دفعہ بچپن میں دیکھا کہ ایک جگہ کچھ احمدی مزدور کام کر رہے تھے کہ دس پندرہ سکھ ہاتھوں میں ڈنڈے اَور لاٹھیاں لئے ہوئے ان پر حملہ کرنے کے لئے آ گئے ۔ ایک مخلص احمدی اکیلا ہی ان سکھوں کے پیچھے دوڑ پڑا۔ بعض نے کہا بھی کہ آپ اکیلے ہیں نہ جائیں مگر اس نے کہا کہ کوئی پرواہ نہیں اور اس ایک احمدی کے مقابلہ میں وہ دس پندرہ سکھ اس طرح بھاگ کھڑے ہوئے کہ ہم چھوٹے چھوٹے بچے بے اختیار ہنسنے لگ گئے۔ اسی طرح یہاں ایک دفعہ ایک زمین کا معاملہ تھا وہ قانوناً ہماری تھی مگر بعض سکھ کہہ رہے تھے کہ ہماری ہے۔ میرا مختار میرے پاس آیا اور اس نے مجھے حالات سے اطلاع دی۔ مَیں نے اسے کہا کہ بعض آدمی اپنے ساتھ لے جاؤ اور زمین میں ہل چلا دو۔ اگر وہ مقدمہ کرنا چاہتے ہیں تو بے شک مقدمہ کر دیں۔ جو آدمی مَیں نے بھجوائے تھے ان سے اقرار لے لیا گیا تھا کہ وہ وہاں لڑائی نہیں کریں گے مگر خدا تعالیٰ کی قدرت سے جب وہ چلے گئے تو بعد میں کسی نے مشہور کر دیا کہ وہاں احمدی گئے ہیں ان کی جان کو خطرہ ہے۔ اس کے نتیجہ میں بغیر میری اطلاع کے سو دو سو احمدی وہاں پہنچ گئے۔ ادھر سے سکھ وغیرہ بھی اکٹھے ہو گئے۔ جو لوگ میری طرف سے مقرر تھے۔ انہوں نے ہماری جماعت کے دوستوں کو روک دیا کہ تم اس میں کچھ دخل نہ دو مگر جب ان میں سے ایک ہل چلانے لگا تو سکھوں میں سے کسی نے چاقو کے ساتھ اس پر حملہ کر دیا بچانے کے لئے نو آمدہ لوگوں میں سے ایک دو شخص آگے بڑھے ان میں سے ایک نے اس سکھ سے چاقو چھیننے کی کوشش کی۔ سکھوں نے اسے مارا ۔ یہ دیکھ کر ایک دو لڑکوں نے جو اپنے آپ کو قابو میں نہ رکھ سکے ان کا سامنا کیا۔ مگر باوجود اس کے کہ سکھ تیس چالیس کے قریب تھے اور حملہ کرنے والے صرف دو تین سکول کے لڑکے تھے۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد وہ بھاگ نکلے۔ مولوی سید سرور شاہ صاحب سناتے ہیں کہ جب مَیں نے یہ سنا کہ سکول کے لڑکے بھی اس طرف چلے گئے ہیں تو مَیں ڈرا کہ کہیں لڑکے کسی لڑائی میں ملوث نہ ہو جائیں۔ چنانچہ مَیں اس طرف جا رہا تھا کہ آگے سے ایک سکھ جو چھ ساڑھے چھ فٹ لمبا تھا۔ بے تحاشا دوڑتا ہؤا آیا اور میرے سامنے ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا مَیں لڑائی میں شامل نہیں تھا۔ خدا کے لئے مجھے بچائیے۔ وہ کہتے ہیں مَیں حیران ہؤا کہ اسے کس سے بچاؤں آخر پیچھے جو دیکھا تو بارہ تیرہ برس کا ایک لڑکا درخت کی ایک شاخ ہاتھ میں پکڑے اس کے پیچھے پیچھے دوڑا آ رہا تھا اور وہ سکھ یہ شور مچاتا جا رہا تھا کہ مولوی صاحب مجھے بچا لیں۔
تو مومن کے جوش کے مقابلہ میں دنیا کی کوئی طاقت نہیں ٹھہر سکتی اور میرے نزدیک تو وہ مومن ہی نہیں ہو سکتا جو یہ سمجھے کہ جاپانی یا جرمن زیادہ بہادر ہیں۔ مَیں تو ایک منٹ کے لئے بھی ایسے شخص کو احمدی نہیں سمجھ سکتا جو کسی جرمن یا جاپانی کو اپنے سے زیادہ بہادر سمجھتا ہو۔ مومن کے تو معنے ہی یہی ہیں کہ وہ ہر غیر مومن سے اپنے آپ کو زیادہ بہادر سمجھے۔ قرآن کریم نے سچے مومن کی شناخت کا معیار یہی بیان فرمایا ہے کہ ایک ایک مومن دس دس دشمنوں پر بھاری ہوتا ہے۔2 قرآن کریم نے یہ نہیں کہا کہ ایک ایک مومن دس دس پر بھاری ہوتا ہے۔بشرطیکہ وہ جرمن یا جاپانی نہ ہوں بلکہ جب اللہ تعالیٰ نے کہا کہ ہر سچا مومن دس پر بھاری ہوتا ہے تو اس میں جرمن بھی شامل تھے اور جاپانی بھی شامل تھے۔ پس جب تک ہر احمدی اپنے آپ کو دس دس غیر احمدی جاپانیوں اور دس دس غیر احمدی جرمنوں سے زیادہ بہادر، زیادہ دلیر اور زیادہ جری نہ سمجھے اس وقت تک وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک سچا مومن نہیں قرار پا سکتا بلکہ تورات میں تو یہاں تک لکھا ہے کہ اگر تم سچے دل سے ایمان لاؤ تو تمہارے بیس آدمی دشمن کے دو ہزار آدمیوں پر غالب آجائیں گے اور صحابہؓ نے اپنے عمل سے ایسا ہی کر کے دکھایا ہے۔ ایک دفعہ ساٹھ صحابہؓ نے کفار کے ساٹھ ہزار لشکر پر حملہ کیا۔ اور اس کے بڑے بڑے افسروں کو مار دیا۔ تو ایمان کے معنے یہی ہیں کہ تمہارے دلوں میں ایسی قوت اور بہادری ہو کہ تم کسی سے بھی نہ ڈرو۔ مَیں تو جب اپنی جماعت کے بعض دوستوں سے سنتا ہوں کہ جرمن بڑے بہادر ہیں یا جاپانی بڑے دلیر ہیں۔ تو مَیں سمجھتا ہوں اب ضرور جرمنوں اور جاپانیوں کا مقابلہ کرنا چاہئے کیونکہ اب ان کا مقابلہ کرنا ایک لحاظ سے دین کا حصہ ہے۔ میرے نزدیک ایسے احمدی ایمان میں بڑے کمزور اور کچے ہیں۔ ان کی تو یہ ہمت ہونی چاہئے کہ اگر ساری دنیا سے بھی جنگ ہو جائے تو وہی غالب آئیں گے کُجا یہ کہ جرمنوں اور جاپانیوں سے ڈرتے پھریں۔ ہمیں خدا نے اس حکومت سے جنگ کرنے سے منع کیا ہؤا ہے جس کے ماتحت ہم رہتے ہوں لیکن اگر خدا کا حکم ہوتا تو کیا تم سمجھتے ہو ہم انگریزوں سے جنگ نہ کرتے؟ مَیں یقین رکھتا ہوں کہ اگر خدا کا حکم ہوتا تو ہم میں سے ہر شخص اسی طرح حملہ کرتا جس طرح چیل چڑیا پر حملہ کرتی ہے اور اس یقین کے ساتھ حملہ کرتا کہ ہم غالب آئیں گے اور یہ مغلوب ہوں گے۔ تو ہمارا امن سے رہنا خدائی حکم کے ماتحت ہے ورنہ موت سے مومن نہیں ڈرا کرتا۔
پس مَیں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ ان میں سے جو لوگ بھرتی کے قابل ہیں۔ وہ اپنے آپ کو بھرتی کے لئے پیش کریں۔ ہر شخص بھرتی کے قابل نہیں ہوتا۔ گورنمنٹ نے اس کے لئے صحت کا ایک معیار مقرر کیا ہؤا ہے جو دوست اس معیار پر پورے اترتے ہوں انہیں زیادہ سے زیادہ تعداد میں بھرتی ہونا چاہئے تاکہ زیادہ سے زیادہ نوجوان فنون جنگ سے آشنا ہو سکیں۔ کسی کو کیا معلوم کہ کب خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ آواز آنے والی ہے کہ اپنا سب کچھ قربان کر کے خد اتعالیٰ کے دین کے لئے نکل کھڑے ہوں اور یہ کام آسان نہیں بلکہ لڑائی سے بہت زیادہ مشکل ہے۔ لڑائی میں توپیں اور تلواریں ساتھ جاتی ہیں مگر اس لڑائی میں نہ توپ ساتھ ہوتی ہے، نہ تلوار ساتھ ہوتی ہے۔ پس کون کہہ سکتا ہے کہ ہمارے ایمان کی آزمائش کا موقع کب آنے والا ہے۔ یہ آزمائشیں جو اس وقت ہو رہی ہیں یہ تو بالکل ابتدائی ہیں اور ایسی ہی ہیں جیسے معمار اپنی ہتھوڑی سے اینٹ کے کنارے صاف کرتا ہے۔ اینٹ کے کنارے صاف کرنا اس کا اصل کام نہیں ہوتا بلکہ اصل کام وہ ہوتا ہے جب اینٹ دیوار میں لگ جاتی ہے۔ اسی طرح ابھی تو ہمارے کنارے صاف کئے جا رہے ہیں۔ پھر وہ وقت آ ئے گا جب ان اینٹوں کو دیوار میں لگا دیا جائے گا اور سار ابوجھ ان اینٹوں پر آ پڑے گا۔ اسی طرح جماعت کے جو کارکن ہیں ان کو بھی مَیں توجہ دلاتا ہوں کہ ان میں ایسے دوست اپنے نام مجھے یا دفتر امور عامہ میں لکھ کر بھجوا دیں۔ جو اپنے اپنے علاقوں میں اس غرض کے لئے دورہ کرنے اور نوجوانوں کو بھرتی پر آمادہ کرنے کے لئے تیار ہوں۔ ہمارے خاندان میں سے ایک بچہ، فوج میں گیا ہؤا ہے۔ باقی بچے اس قابل نہیں۔ کسی کی آنکھیں کمزور ہیں اور کسی کی عمر نہیں۔ ہمارے ایک اَور بچے نے تین دفعہ بھرتی ہونے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ اس نے اس غرض کے لئے اپنی پڑھائی بھی چھوڑ دی تھی مگر کامیابی نہ ہوئی تو ہمارے خاندان نے اپنا نمونہ پیش کر دیا ہے۔ یہ نہیں کہ ہم نے اپنے بچے چھپا کر رکھے ہوئے ہوں۔ ایک بچہ فوج میں گیا ہؤا ہے اور دوسرے نے پوری کوشش کی مگر اسے کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ غرض اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر یقین رکھتے ہوئے آئندہ سلسلہ کی خدمات کے لئے تیار کرنے اور اس وقت جنگی خدمات میں حصہ لینے کے لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ ہماری جماعت کے نوجوان زیادہ سے زیادہ تعداد میں اپنے آپ کو بھرتی کے لئے پیش کریں۔ اسی طرح مجھے یا ناظر صاحب امور عامہ کو وہ دوست اپنے اپنے نام بھجوا دیں جو اپنے علاقوں میں اس غرض کے لئے دورہ کرنے کو تیار ہوں۔ ایسے دوستوں کو چاہئے کہ وہ گاؤں گاؤں میں پھر کر نوجوانوں کو تلقین کریں اور ان میں سے جو قابل ہوں انہیں فوج میں بھرتی کرائیں۔
مَیں نے جیسا کہ کہا ہے ایک دفعہ پھر اس امر کو واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ موت کا ڈر کسی زندہ قوم کے افراد کے دل میں نہیں ہو سکتا اگر خدانخواستہ تمہارے دلوں میں موت کا ڈر ہے یا جاپانیوں کا ڈر ہے یا جرمنوں کا ڈر ہے ۔ تو اس کے معنے یہ ہیں کہ تمہارے دل کا اتنا حصہ ایمان سے خالی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں صاف طور پر فرماتا ہے اِيَّايَ فَارْهَبُوْنِ 3 کہ مجھ سے ہی ڈرو۔ ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے تین دفعہ اس بات پر زور دیا ہے کہ صرف خدا سے ہی ڈرنا چاہئے کسی اَور سے نہیں ڈرنا چاہئے۔ چنانچہ اِيَّايَ سے پہلے فعل محذوف ہے۔ جو اِرْھَبُوْا ہے یعنی اِرْھَبُوْا اِیَّایَ۔ اس کے بعد ایک اَور امر محذوف ہے جس پر نا کا حرف دلالت کرتا ہے اور وہ فعل بھی اِرْھَبُوْا یا تَرْھَبُوْا ہے۔ تیسری بار فَارْهَبُوْنِ کہہ کر پھر تاکید کی گئی ہے۔ گویا اس فقرہ کو اگر پھیلایا جائے تو یوں بنے گا کہ اِرْھَبُوْا اِیَّایَ۔اِرْھَبُوْا فَارْهَبُوْنِ۔ یعنی مجھ سے ڈرو۔ ڈرو مجھ سے ہی ڈرو۔ یعنی سوائے خدا کے کسی سے نہیں ڈرنا چاہئے۔ یہی مومن کی علامت ہے۔ جو شخص خدا تعالیٰ کے سوا کسی اَور سے نہیں ڈرتا اُس کو کوئی طاقت مغلوب نہیں کر سکتی۔ اسی طرح جب کسی قوم کے دل سے ڈر نکل جائے تو وہ قوم یا تو مر جائے گی یا فاتح ہو کر زندگی بسر کرے گی غلام کی زندگی نہیں بسر کر سکے گی۔ پس اپنے دلوں سے موت کا ڈر نکال دو اور سوائے خدا کے کسی سے نہ ڈرو۔ پھر دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی تم کو مغلوب نہیں کر سکے گی ہاں اگر تم سچے احمدی نہیں تو تم کتّوں سے بھی ڈر سکتے ہو، بلیوں سے بھی ڈر سکتے ہو، چوہوں سے بھی ڈر سکتے ہو اور پھر اگر تمہارا ناقص ایمان ہے تو تمہیں سب سے زیادہ اپنے نفس سے ڈرنا چاہئے کیونکہ تمہارا نفس تمہیں جہنم میں لے جا سکتا ہے لیکن اگر تم اللہ تعالیٰ سے ڈرنے لگ جاؤ تو پھر تمہیں نہ نفس سے ڈرنے کی ضرورت ہے اور نہ کسی اَور چیز سے۔ خدا تعالیٰ کا ڈر تمہاری حفاظت کے لئے کافی ہے ۔ اور یاد رکھو کہ جہاں دنیا سے ڈرنا بزدلی کی علامت ہے وہاں خدا تعالیٰ سے ڈرنا بزدلی نہیں بلکہ جو لوگ خدا تعالیٰ سے ڈرتے ہیں وہ سب سے زیادہ بہادر اور دلیر ہوتے ہیں۔ ‘‘ (الفضل 9 جولائی 1942ء)
1: کنگنی: ادنیٰ درجے کی جنس جس کے دانے نہایت باریک ہوتے ہیں
2: اِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ يَغْلِبُوْا مِائَتَيْنِ (الانفال: 66)
3: البقرة: 41

21
جماعت احمدیہ موجودہ جنگ کو خدا تعالیٰ کی تقدیر کا ایک مظاہرہ سمجھے اور اس موقع کو غنیمت سمجھ کر
فنونِ جنگ سیکھے
( فرمودہ 10 جولائی 1942ء )

تشہد، تعوّذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’دنیا میں دو قسم کے خیالات کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ لوگ ہیں جو اس دنیا میں بسنے والے انسانوں کو مجبور اور اپنے ماحول کے اثر سے معذور قرار دیتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کو ماننے والے جو لوگ ہیں۔ ان میں بھی یہ گروہ پایا جاتا ہے اورجو فلسفی ہیں اور خدا تعالیٰ کو نہیں مانتے۔ ان میں بھی یہ گروہ پایا جاتا ہے۔ ان میں سے جو لوگ خدا تعالیٰ کو ماننے والے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے ہر کام کو اپنے قبضہ میں رکھا ہے اور جو تقدیر اس نے مقرر کر دی ہے ۔ اس سے انسان سرِ مو اِدھر اُدھر نہیں ہو سکتا۔ اس نے اگر کسی انسان کو نیک بنا دیا ہے تو وہ نیک ہے اور اگر اس نے کسی کو بد بنا دیا ہے تو وہ بد ہے۔ اگر اس نے کسی کو عالم بنا دیا ہے تو اس کے عالم بنانے کی وجہ سے وہ عالم ہے اور اگر اس نے کسی کو جاہل بنا دیا ہے تو اس وجہ سے وہ جاہل ہے ۔جس کے لئے اس نے عالم ہونا مقدر کر دیا ہے وہ کسی صورت میں جاہل نہیں رہ سکتا اور جس کے لئے اس نے جاہل ہونا مقدر کر دیا ہے وہ کسی صورت میں عالم نہیں ہو سکتا۔ جو لوگ خدا تعالیٰ کے وجود کے قائل نہیں وہ تقدیر کو اَور رنگ میں بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان آزاد نہیں۔ آزادی اس کا نام ہے کہ اس پر اردگرد کے حالات کا اثر نہ پڑے۔ وہ کہتے ہیں کہ تم کہتے ہو ایک شخص عالم بن گیا اور دوسرا جاہل رہا مگر سوال تو یہ ہے کہ عالم کس طرح عالم بن گیا۔ اس کی وجہ یا تو یہ ہے کہ اس کے ماں باپ امیر تھے۔ وہ اس کی تعلیم کا خرچ برداشت کر سکتے تھے۔ ا س لئے وہ پڑھ لکھ کر عالم ہو گیا مگر جاہل کے والدین غریب تھے اور اس کی تعلیم پر خرچ نہ کر سکتے تھے اس لئے وہ جاہل رہا ۔جو عالم ہو گیا علم کے حصول میں اس کے فعل کا دخل نہیں اور جو جاہل رہا اس کا جاہل رہنا اس کے اپنے فعل کے نتیجہ میں نہیں۔ عالم اس وجہ سے عالم ہو گیا کہ اس کے ماں باپ اس کی تعلیم پر خرچ کر سکتے تھے اور جاہل اس وجہ سے جاہل رہا کہ اس کے ماں باپ اس کی تعلیم پر خرچ نہ کر سکتے تھے۔
دوسری مثال یہ ہو سکتی ہے کہ ایک امیر کا لڑکا جاہل رہا اور غریب کا عالم ہو گیا اس کا سبب وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ بھی حالات کا نتیجہ ہے۔ امیر والدین نے اپنے بیٹے کو لاڈ اور پیار میں رکھا اور اس لاڈ کے نتیجہ میں وہ تعلیم نہ حاصل کر سکا۔ اس میں اس بچہ کا کوئی دخل نہیں۔ یہ بھی اس کے ماں باپ کے فعل کا اثر ہے اور جو غریب کا لڑکا عالم ہو گیا اس کی وجہ یہ ہوئی کہ وہ اپنے کسی استاد یا کسی اَور امیر کی نظر پڑھ گیا یا گورنمنٹ سے اسے وظیفہ حاصل ہو گیا اور اس وجہ سے وہ پڑھ لکھ کر عالم ہو گیا۔ ان حالات نے اسے عالم بنا دیا۔ اس کا اپنا اس میں کوئی دخل نہیں یا مثلاً ایک لڑکے کا ذہن اچھا ہوتا ہے اور وہ پڑھ جاتا اور عالم بن جاتا ہے۔ دوسرا کُند ذہن ہوتا ہے اس لئے جاہل رہ جاتا ہے ۔ یہ بھی حالات کا ہی اثر ہے۔ اچھا ذہن بھی ماں باپ کی خوراک پرہیز وغیرہ کا نتیجہ ہوتا ہے ۔ اس لئے اچھا ذہن رکھنے والا لڑکا اگر پڑھ گیا تو اپنے برتے پر نہیں بلکہ حالات کے نتیجہ میں۔ اسی طرح کُند ذہن کا جاہل رہنا بھی اردگرد کے حالات کے نتیجہ میں ہے۔ پس ایک کا علم اور دوسرے کی جہالت دونوں مجبوریوں کے نتیجہ میں ہیں۔
پھر وہ کہتے ہیں نیکی، بدی کو لے لو۔ ایک شخص نیک ہے اور چوری نہیں کرتا تو اس کی وجہ یہ ہو گی کہ وہ کھاتا پیتا تھا، آسودہ حال تھا، اس کی ضروریات پوری ہوتی جاتی تھیں۔ اس لئے اسے چوری کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔ اس کے حالات ہی ایسے تھے کہ اسے دوسرے کا مال کھانے کی ضرورت ہی نہ تھی لیکن دوسرا بھوکا ننگا اور محتاج تھااس نے کھانے کی کوئی چیز دیکھی اور اٹھا لی۔ اس کی یہ چوری مجبوری کی وجہ سے ہے اور اگر اسے چوری کی عادت ہو گئی ہے تو یہ بھی مجبوری کی وجہ سے ہے۔ اسے اپنے حالات نے بار بار چوری پر مجبور کیا اور اس طرح اسے عادت ہو گئی اور دوسرے کو اگر چوری کرنے کی عادت نہیں تو یہ بھی اس کے حالات کا نتیجہ ہے۔ حالات نے اسے کبھی چوری کرنے پر مجبور نہ کیا اور اس وجہ سے اسے چوری کی عادت نہ پڑ سکی اور یہ بھی مجبوری ہی ہے۔ اس کو مسلسل 25،30 سال تک کھانے پینے کو ملتا رہا۔ اس کی ضروریات پوری ہوتی رہیں اس لئے وہ چور نہ بنا اور اسے چوری کی عادت نہ پڑی اور اس نیکی میں اس کا کوئی دخل نہیں جن حالات میں وہ چور نہیں بنا۔ اگر چور بھی ان حالات میں سے گزرتا تو چور نہ بنتا۔ چور کو اپنے حالات کی وجہ سے بار بار چوری کرنی پڑی۔ اس لئے اسے چوری کی عادت ہو گئی جو پھر جاری رہی اور یہ مجبوری ہے اور ایسی مجبوریوں کا طریق اور طرز ایک ہی ہے۔ گو آگے چل کر پھر کچھ اختلاف پیدا ہو جاتا ہے۔ مثلاً چور نے زید کے ہاں چوری کی اور بکر کے ہاں نہ کی۔ وہ کہتے ہیں کہ اس میں بھی مجبوری کا دخل ہے۔ زید کی دیوار چھوٹی تھی اور آسانی سے پھاندی جا سکتی تھی اور بکر کی زیادہ اونچی تھی اور اس کا پھاندنا مشکل تھا یا اس رات زید کے گھر میں کوئی نہ تھا۔ سب کے سب کسی شادی یا اور تقریب میں شامل ہونے کے لئے کسی جگہ گئے ہوئے تھے اور بکر گھر پر تھا۔ اس لئے زید کے ہاں چوری ہونا اور بکر کے ہاں نہ ہونا یہ بھی حالات اور مجبوری کے ماتحت ہے۔ غرضیکہ خدا تعالیٰ کو ماننے والا ایک گروہ انسانی افعال کو تقدیر کے ماتحت مانتا ہے اور خدا تعالیٰ کو نہ ماننے والا انسانی مجبوریوں اور ماحول کی مجبوریوں کے ماتحت مانتا ہے۔ اسی طرح ایک اَور گروہ ہے جو کہتا ہے کہ انسان کو خدا تعالیٰ نے آزاد اور مختار بنایا ہے۔ فلسفیوں میں بھی ایک ایسا گروہ ہے جو کہتا ہے کہ انسان مختار ہےاور خدا تعالیٰ کے ماننے والوں میں بھی ایسا گروہ ہے جو کہتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ انسان کو سزا دیتا ہے، گرفت کرتا ہے تو معلوم ہؤااسے آزاد بنایا گیا ہے۔ فلسفی اس کی یہ دلیل دیتے ہیں کہ ہر انسان میں دو خاصیتیں پائی جاتی ہیں بلکہ دنیا کی تمام چیزوں میں ان دونوں میں سے ایک خاصیت پائی جاتی ہے۔ ایک اثر ڈالنے کی دوسری اثر قبول کرنے کی۔ وہ کہتے ہیں کہ تم کہو گے لوہے پر اگر تلوار پڑے تو مڑ جاتی ہے مگر لکڑی یا ہڈی پر پڑے تو اسے کاٹ دیتی ہے۔ لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ لوہا مقابلہ کرتا ہے اور لکڑی و ہڈی مقابلہ نہیں کرتی۔ باوجود اس کے کہ انسان پر اس کے ماحول اور اردگرد کے حالات کا اثر پڑتا ہے اس کے اندر ایسا مادہ موجود ہے کہ اگر وہ ارادہ کر لے تو بیرونی اثرات کا مقابلہ کر سکتا ہے اور عادتوں کو چھوڑ سکتا ہے یا اختیار کر سکتا ہے۔ بہرحال جس حد تک انسان آزاد ہے اس حد تک وہ ویسا ہی نیکی میں بھی بڑھ سکتا ہے جیسا بدی میں اور یہ اس کے اختیار میں ہے کہ اس حد تک وہ نیکی یا بدی میں بڑھ جائے یا نہ بڑھے۔ دونوں قسم کے لوگ فلسفیوں میں بھی ہیں اور خدا پرستوں میں بھی۔ دنیا کے مذاہب بھی ان دونوں قسم کے خیالات کو بیان کرتے ہیں۔ مسلمانوں میں بھی جبری اور قدری دونوں قسم کے لوگ ہیں۔ جبریوں کا عقیدہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے مجبور بنایا ہے اور قدری کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو مقدرت عطا کی ہے۔ چاہے تو نیکی کی طرف چلا جائے اور چاہے بدی کی طرف۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے موت و حیات بنائی ہے مگر موت سے بچنے اور حیات کو حاصل کرنے کے قواعد بھی بنا دئیے ہیں اگر وہ یہ قواعد نہ بناتا تو پھر علاج بھی پیدا نہ کرتا، غذا بھی نہ بناتا۔ اگر ایک انسان نے بہرحال سو پچاس یا بیس سال زندہ رہنا تھا تو خدا تعالیٰ نے غذا کیوں پیدا کی۔ غذا اور علاج پیدا کرنے کے یہ معنی ہیں کہ صحت اور بیماری اور موت و حیات میں انسان کا دخل ہے۔ اگر موت ضروری تھی اور مقررہ وقت پر اس کا آنا لازمی تھا تو غذا کی کیا ضرورت تھی۔ غذا پیدا کرنا اور علاج وغیرہ بنانے کے یہ معنی ہیں کہ انسان اپنی صحت کو اچھا بھی بنا سکتا ہے اور خراب بھی کر سکتا ہے۔ موت کو قریب بھی لا سکتا ہے اور دور بھی کر سکتا ہے۔ تمام مذاہب میں کچھ لوگ جبری ہیں کچھ قدری۔ تناسخ کو ماننے والے سب جبری ہیں جو کہتے ہیں کہ گزشتہ جون میں جو کچھ ہو چکا وہ بدل نہیں سکتا۔
اسلام کی تعلیم کو اگر غور سے دیکھا جائے تو وہ نہ جبر کا قائل ہے اور نہ قدر کا۔ اسلام یہ نہیں کہتا کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو مجبور بنایا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر انسان کو مجبوربنایا جاتا تو ہم اسے نیک بناتے۔ہم منبع ہیں تمام نیکیوں کے۔ پس اگر ہم نے جبر کرنا ہوتا تو یہ جبر اپنی صفت کے مطابق کرتے اور انسان کو نیک بناتے اور جو مخلوق جبر کے ماتحت بنائی ہے وہ نیکی پر ہی بنائی گئی ہے۔ فرشتے جبر کے ماتحت ہیں اور اس لئے ان میں بدی کرنے کی طاقت ہی نہیں اور وہ بدی کر ہی نہیں سکتے۔ فرشتوں کی زندگی جبر کی ہے اور وہ نیک ہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے جو مخلوق جبر کے قانون کے ماتحت بنائی ہے وہ نیک ہی ہے۔ پس اسلام اس طرح جبر کو تسلیم نہیں کرتا مگر مقدرت کو بھی اس رنگ میں نہیں مانتا کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے مقدرت دے دی ہے۔ اب خدا تعالیٰ کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ جیسا نیچریوں کا عقیدہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو بنا دیا ہے اور اب وہ خالی ہو کر تماشہ دیکھ رہا ہے۔ اسلام یہ بتاتا ہے کہ ایک حد تک جبر بھی چلتا ہے اور ایک حد تک تقدیر بھی چلتی ہے۔ خدا تعالیٰ نے ایک حد تک انسان کو آزاد بھی بنایا ہے، کھانا پینا، روشنی، نظارے، ہوا کے استعمال میں آزاد ہے۔ اس کے اختیار میں ہے کہ صاف پانی پئے اور اچھی ہوا میں رہے، روشنی میں رہے، عمدہ غذا کھائے اور اپنی صحت کو اچھا رکھے۔ مگر اس کے باوجود پھر تقدیر کا بھی دخل ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ انسان اچھی غذا کھا لے تو اس کی صحت درست رہے گی مگر یہ نہیں کہ اگر وہ اچھی غذا کھائے تو بہرحال اس کی صحت درست ہی رہے گی یا اگر انسان کی صحت اس کی کسی غلطی کی وجہ سے خراب ہوئی ہے تو بہرحال خراب ہی رہے گی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ دخل دے اور جب اس کی صحت اچھی رہنی چاہئے وہ خراب ہو جائے یا جب انسان سے کوئی ایسی غلطی ہوگئی ہو کہ جس کے نتیجہ میں اس کی صحت خراب ہو جانی چاہئے خدا تعالیٰ دخل دے اور وہ خراب نہ ہو ۔اور جب اس کی صحت اچھی رہنی چاہئے وہ اچھی نہ ہو ۔یہی وجہ ہے کہ اسلام نے دعا پر زور دیا ہے ۔اگر انسان کُلِّیّةً آزاد تھا تو پھر دعا کے کیا معنی ہیں۔ اگر کلّی طور پر اس کی صحت کا انحصار اچھی غذا پر ہے۔ اور اگر لازماً بد پرہیزی کے نتیجہ میں بیماری ہے تو دعا بے فائدہ ہے۔ پھر تو صرف علاج کا کام باقی رہ جاتا ہے، دعا کا نہیں۔ دعا کے معنی تو یہ ہیں کہ باوجود پورے طور پر بیماری کے سامانوں کے اللہ تعالیٰ چاہے تو صحت بھی دے سکتا ہے۔ اس کی ایک موٹی مثال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیش گوئی میں ملتی ہے۔ آپؑ کی پیشگوئی کے ماتحت طاعون پھیلی۔ اب عام قاعدہ تو یہی ہے کہ طاعون کے کیڑے جس کے پاس جائیں وہ بیمار ہو جائے۔ طاعون قادیان میں بھی آئی مگر خدا تعالیٰ نے فرمایا۔ آپ کے گھر میں طاعون نہ آ سکے گی ۔و ہ کیڑے آپؑ کے مکان کے دائیں بھی آئےبائیں بھی آئے اور موتیں پیدا کیں، سامنے بھی گئے اور موتیں پیدا کیں اور پچھواڑے بھی گئے اور وہاں بھی موتیں پیدا کیں۔ طاعون کے کیڑوں نے آپ کے مکان کے چاروں طرف چکر لگائے مگر کوئی کیڑا آپؑ کے مکان میں داخل نہ ہو سکا۔ اگر سب کچھ سامانوں کا ہی نتیجہ ہوتا تویہ کیا چیز تھی جس نے طاعون کے کسی کیڑے کو آپ کے گھر میں داخل نہ ہونے دیا۔ یہ نظارہ بتاتا ہے کہ گو اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزادی دی ہے مگر کبھی کبھی وہ دخل بھی دیتا ہے اور جب وہ دخل دے تو سارے سامان بے کار ہو جاتے ہیں چنانچہ اس نے فرمایا کہ ہم نے طاعون کے کیڑے کو بے کار کر دیا ہے اور وہ اب آپ کے گھر میں نہ جا سکے گا۔ یا لیکھرام کا واقعہ بھی اس امر کی مثال میں پیش کیا جا سکتا ہے کہ جب خدا تعالیٰ چاہے تو صحت کے تمام سامانوں کے ہوتے ہوئے بھی بیماری پیدا ہو جاتی ہے۔ خدا تعالیٰ نے یہ فرما دیا تھا کہ عید کے دوسرے دن اس کی موت ہو گی اور چھ سال کے اندر اندر۔ اب چھ سال تک سال میں دو تین روز کے لئے حفاظت کے خاص طور پر سامان کر لینا کونسا مشکل امر ہے اور یہ اس کے اختیار میں تھا کہ ان دنوں میں حفاظت کے خاص سامان مہیا کر لیتا مگر باوجود اس کے خد اتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کو پورا کر دیا حالانکہ ظاہری سامان اس کے خلاف تھے۔ 6 مارچ اس کی موت مقدر تھی اور‘‘ یکم مارچ کو لیکھرام کو سبھا کی طرف سے ملتان پہنچنے کا حکم ہؤا۔ وہاں چار مارچ تک اس نے چار لیکچر دئیے پھر سبھا نے اسے سکھر جانے کے لئے تار دیا مگر وہاں پلیگ ہونے کی وجہ سے ملتان کے آریہ سماجیوں نے وہاں جانے سے روک دیا۔ پھر پنڈت لیکھرام مظفر گڑھ جانے کےلئے تیار ہوئے مگر یہ نہیں معلوم کہ وہ پھر سیدھے کیوں لاہور کو لَوٹ پڑے اور چھ مارچ دوپہر کو یہاں پہنچ گئے۔’’ اگر وہ اس روز واپس نہ آتا تو یہ پیشگوئی پوری نہ ہوتی مگر باوجود اس کے کہ بظاہر اس کے باہر رہنے کا موقع پیدا ہو گیا پھر بھی وہ لاہور پہنچ گیا اور وقت مقررہ پر قتل ہو گیا۔ یہ مثال اس امر کی ہے کہ صحت اور حفاظت کے سارے سامانوں کے ہوتے ہوئے بھی انسان ہلاک ہو سکتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ انسان کے کاموں میں دخل دیتا ہے لیکن اس نے اسے آزاد بھی چھوڑا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی وفات سے دو تین سال قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو شدید کھانسی ہوئی۔ میری عمر اس وقت 17 سال کے قریب تھی اور میرے سپرد آپ کی دوائی وغیرہ پلانے کی خدمت تھی اور قدرتی طور پر جس کے سپرد کوئی کام کیا جائے وہ اس میں دخل دینا بھی اپنا حق سمجھنے لگتا ہے۔ مَیں بھی اپنی کمپاؤنڈری کا یہ حق سمجھتا تھا کہ کچھ نہ کچھ دخل آپ کے کھانے پینے میں دوں۔ چنانچہ مشورہ کے طور پر عرض کر بھی دیا کرتا تھا کہ یہ نہ کھائیں، وہ نہ کھائیں۔ حضرت خلیفة المسیح الاول کے نسخے بھی تیار ہو کر استعمال ہوتے تھے اور انگریزی دوائیاں بھی۔ مگر کھانسی بڑھتی ہی جاتی تھی۔ یہ1907ٰء کا واقعہ ہے اور عبدالحکیم مرتد نے آپ کی کھانسی کی تکلیف کا پڑھ کر لکھا تھا کہ مرزا صاحب سِل کی بیماری میں مبتلا ہو کر فوت ہوں گے۔اس لئےہمیں کچھ یہ بھی خیال تھا کہ غلط طور پر بھی اسے خوشی کا کوئی بہانہ نہ مل سکے مگر آپ کو کھانسی کی تکلیف بہت زیادہ تھی اور بعض اوقات ایسا لمبا اوچھو آتا تھا کہ معلوم ہوتا تھا کہ سانس رک جائے گا ایسی حالت میں باہر سے کوئی دوست آئے اور تحفہ کے طور پر پھل لائے۔ مَیں نے وہ حضور کے سامنے پیش کر دئیے۔ آپ نے انہیں دیکھا اور فرمایا کہہ دو جَزَاکَ اللہُ اور پھر ان میں سے کوئی چیز جو غالباً کیلا تھا اٹھایا۔ اور مَیں چونکہ دوائی وغیرہ پلایا کرتا تھا اس لئے شاید مجھے سبق دینے کے لئے فرمایا کہ یہ کھانسی میں کیسا ہوتا ہے؟ مَیں نے کہا اچھا تو نہیں ہوتا مگر آپ مسکراپڑے اور چھیل کر کھانے لگے۔ مَیں نے پھر عرض کیا کہ کھانسی بہت سخت ہے اور یہ چیز کھانسی میں اچھی نہیں۔ آپ پھر مسکرائے اور کھاتے رہے۔ مَیں نے اپنی نادانی سے پھر اصرار کیا کہ نہیں کھانا چاہئے۔ اس پر آپ پھر مسکرائے اور فرمایا مجھے ابھی الہام ہؤا ہے کہ کھانسی دور ہو گئی۔ چنانچہ کھانسی اُسی وقت سے جاتی رہی حالانکہ اُس وقت نہ کوئی دوا استعمال کی اور نہ پرہیز کیا بلکہ بد پرہیزی کی اور کھانسی بھی دور ہو گئی۔ اگرچہ اس سے پہلے ایک مہینہ علاج ہوتا رہا تھا اور کھانسی دور نہ ہوتی تھی۔ تو یہ الٰہی تصرف ہے۔ یوں تو بد پرہیزی سے بیماریاں بھی ہوتی ہیں اور علاج سے صحت بھی ہوتی ہے مگر جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے دخل بھی دے دیتا ہے اور دعا کا ہتھیار اسی لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو سکھایا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے حضور جا کر کہے کہ مَیں آزادی نہیں چاہتا مَیں اپنے حالات سے تنگ آ گیا ہوں ، آپ مہربانی کر کے میرے معاملات میں دخل دیں اور اللہ تعالیٰ بھی دیکھتا ہے کہ بندہ متوکّل ہو گیا ہے اور چاہتا ہے کہ مَیں اس کے معاملات میں دخل دوں تو وہ دیتا ہے۔ پس گو اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزادی دی ہے مگر وہ دخل بھی دیتا ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے انگلیاں دی ہیں ، مُنہ دیا ہے اس کے سامنے کھانا آتا ہے وہ اس کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے لقمہ اٹھاتا ہے اور مُنہ میں ڈالتا ہے۔ فرشتے کہیں بھی اس کا ہاتھ نہیں روکتے۔ دنیا کی آبادی اس وقت دو ارب کے قریب ہے اور ہر جگہ لوگ عام طور پر دو بار کھانا کھاتے ہیں اور بعض ملکوں میں تو پانچ پانچ بار بھی کھاتے ہیں اور پھر مقررہ اوقات پر کھانوں کے علاوہ شغل کے طور پر بھی کئی چیزیں کھاتے پیتے ہیں۔ ہر شخص کھانے کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے لقمہ اٹھاتا اور منہ میں ڈالتا ہے اور وہ گلے سے نیچے اتر جاتا ہے ، کبھی کسی ایک جگہ بھی تو ایسا نہیں ہؤا کہ خدا تعالیٰ یا فرشتوں نے کسی کے ہاتھ کو روکا ہو۔ یہ ایک عام قانون ہے جس میں کافر و مومن کی بھی کوئی تمیز نہیں کہ کسی انسان کا ہاتھ کھانے سے نہیں روکا جاتا مگر جب خدا تعالیٰ کی تقدیر چلتی ہے تو ہاتھ رک بھی جاتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کے سامنے ایک دفعہ کھانا لایا گیا آپ نے اس میں ہاتھ ڈالا، لقمہ بنایا، اسے مُنہ کے پاس لے گئے مگر پھر اسے پھینک دیا اور فرمایا کہ یہ کھانا خدا تعالیٰ کے حکم سے بولا ہے اور اس نے کہا ہے کہ مجھ میں زہر ہے اور آخر میزبان نے مان لیا کہ مَیں نے آپؐ کو ہلاک کرنے کی غرض سے اس میں زہر ڈالا تھا۔ 1 تو دیکھو جب خدا تعالیٰ کی مشیت ہوئی وہی سامان جو روزانہ چلتے تھے یکدم بدل گئے ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے خاص تقدیر جاری کر دی اور آپ کو اطلاع دے دی کہ اس کھانے میں زہر ہے اسے نہ کھایا جائے۔ اسی طرح سید عبد اللطیف صاحب شہید کا ایک واقعہ ہے جب آپ افغانستان کو واپس جا رہے تھے تو لاہور میں کچھ تحائف وغیرہ خریدنے کے لئے ٹھہرے۔ انہی دنوں وہاں کسی احمدی کے لڑکے کے ولیمہ کی دعوت تھی جس میں اس نے آپ کو بھی مدعو کیا۔ آپ تشریف لے گئے۔ بہت سے اَور دوست بھی موجود تھے۔ آپ کو احترام کےساتھ بٹھایا گیا۔ جب کھانا شروع ہؤا تو آپ نے بھی لقمہ اٹھایا مگر پھر اسے پھینک دیا اور استغفار کرتے ہوئے وہاں سے چل دئیے۔ بعض دوست آپ کے پیچھے گئے اور کہا کہ میزبان کی بہت دل شکنی ہو گی آپ اٹھ کر نہ جائیں اور کھانے میں شریک ہوں مگر آپ نے کہا کہ مجھے الہام ہؤا ہے کہ :۔
‘‘یہ کھانا سؤر ہے’’
انہوں نے عرض کیا صاحب خانہ مسلمان اور احمدی ہے۔ حلال کھانا پکایا گیا ہے۔ سؤر کا کیا مطلب ہے۔ مگر آپ نے کہا کہ مجھے یہی الہام ہؤا ہے اور مَیں یہ کھانا نہیں کھا سکتا۔ آخر جب تحقیقات کی گئی تو معلوم ہؤا کہ درحقیقت ولیمہ کا سوال ہی پیدا نہ ہؤا تھا ۔ ہماری شریعت کا حکم یہ ہے کہ جب میاں بیوی آپس میں ملیں اور حقیقی صورت میں میاں بیوی کے تعلقات قائم ہو جائیں تو ولیمہ ہو تا معلوم ہو جائے کہ بیوی پورے مہر کی حقدار ہو گئی ہے ۔ چونکہ ایسی بات کا اعلان اور الفاظ میں نہیں کیا جا سکتا اس لئے شریعت نے اس کے لئے ولیمہ کا طریق مقرر کر دیا ہے تا آئندہ جھگڑا وغیرہ اگر کوئی پیدا ہو تو فیصلہ میں آسانی رہے۔ غرض اس وقت تحقیقات سے معلوم ہؤا کہ گو ولیمہ کی دعوت کی گئی مگر درحقیقت ایسا فعل ہؤا ہی نہ تھا اور لڑکے والوں نے شرم کے مارے ولیمہ کر دیا اور چونکہ ایسی دعوتِ ولیمہ شریعت کے منشاء کے خلاف تھی اللہ تعالیٰ نے الہاماً آپ کو اس سے روک دیا کیونکہ ایک اعلیٰ درجہ کے متقی انسان کے لئے تھوڑی سی بُری بات بھی بڑی ہوتی ہے اس لئے الہام میں آپ کے لئے اس کھانے کو سؤر کہا گیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے جہاں دخل دینا ہوتا ہے وہاں دے دیتا ہے۔ اسی لئے قرآن کریم نے بتایا ہے کہ دونوں طرح اللہ تعالیٰ کی حکومت چلتی ہے اس نے انسان کو مختار بھی بنایا ہے۔ ہر انسان کھانا کھاتا ہے تو اس کا پیٹ بھرتا ہے ، پانی پیتا ہے تو پیاس سے سیری ہوتی ہے، سونے سے طبیعت کو آرام ملتا ہے،آگ جلتی ہے تو گرمی محسوس ہوتی ہے، گرم کپڑے پہننے سے بدن گرم ہوتا ہے، سرد کپڑے پہننے سے گرمی نہیں لگتی۔ انسان شلغم کھاتا ہے تو اس کی تاثیر ظاہر ہوتی ہے، مولی کھاتا ہے تو اس کی تاثیر، کھاتا تو انسان اپنی مرضی سے ہے مگر تاثیر وہی ظاہر ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ نے اس چیز میں پیدا کی ہے۔ انسان اگرچہ مختار ہے مگرتاثیر کو وہ نہیں بدل سکتا۔ اگر وہ چاہے کہ آگ اس کی پیاس بجھا دے تو یہ نہیں ہو سکتا۔ یا وہ چاہے کہ پانی کھانا پکا دے تو یہ ممکن نہیں۔ وہ آزاد تو ہے مگر اسی حد تک جس حد تک کہ مختلف چیزوں میں اللہ تعالیٰ نے مختلف تاثیریں رکھی ہیں۔ ہر چیز میں اللہ تعالیٰ نے جو خواص رکھے ہیں اسی حد تک وہ ان سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ جہاں خدا تعالیٰ کی حد بندی ختم ہو جاتی ہے وہاں انسان خواہ کتنا زور لگائے کچھ نہیں کر سکتا۔ حضرت خلیفۂ اول اس کی ایک لطیف مثال بیان کیا کرتے تھے۔ آپ فرماتے کہ اگر کوئی انسان زبان پر مصری کی ڈلی رکھ کر اسے کہے کہ وہ نمک چکھے تو وہ کبھی نہ چکھے گی۔ وہ میٹھے کو نمک کبھی نہیں بتا سکتی۔ مگر کوئی انسان اگر اسے کہے کہ کہہ خدا نہیں ہے تو وہ کہہ دیتی ہے کہ خدا نہیں ہے۔ اتنی چھوٹی سی بات وہ نہیں مانتی اور اتنی بڑی مان لیتی ہے اور یہ اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے اسی طرح قانون مقرر کر دیا ہے۔ جب کوئی زبان یہ کہہ رہی ہوتی ہے کہ خدا کوئی نہیں تو وہ اس وقت بھی خدا کی خدائی کا اقرار کر رہی ہوتی ہے کیونکہ اس کی دی ہوئی طاقت سے وہ چل رہی ہوتی ہے۔ انسان کی زندگی مختلف دائروں میں چلتی ہے جس حد تک اللہ تعالیٰ نے اسے آزادی دی ہے اس حد تک وہ آزاد ہے مگر جب وہ دخل دیتا ہے تو وہ آزادی ختم ہو جاتی ہے۔ دنیا میں طاعون اور ہیضہ کے جراثیم ہر انسان پر اثر کرتے ہیں مگر جب خدا تعالیٰ کہہ دیتا ہے کہ اثر نہیں کرنا تو وہ بیکار ہو جاتے ہیں اور آزادی چھن جاتی ہے اور جب وہ حکم دیتا ہے تو اسی چیز سے دوسرے خواص ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ زہر میں ہلاک کرنے کی تاثیر اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے مگر کبھی وہ تریاق کا کام بھی دیتا ہے، پانی تریاق بھی ہے مگر کبھی وہ زہر بن جاتا ہے۔ بعض اوقات انسان زہر کھاتا ہے تو بجائے ہلاک ہونے کے اس کی طاقتیں بڑھ جاتی ہیں مگر بعض اوقات وہ پانی کا ایک گھونٹ پیتا ہے تو ہیضہ کا شکار ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بے شک حد بندیاں مقرر کی ہیں مگر جب وہ دخل دیتا ہے تووہ سب حد بندیاں ختم ہو جاتی ہیں۔ پس مومن وہی ہے جو اس حکمت کو سمجھ کر خدا تعالیٰ کے تصرف کو تسلیم کرے اور جب تک وہ ایسا نہ کرے کبھی بھی کامل مومن نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے مختلف دائرے مقرر کر کےحکم دیا ہے کہ ان میں اس طرح عمل کرو۔ جہاں اس نے آزادی دی ہے وہاں اس نے یہ بھی مقدر کر دیا ہے کہ اسباب سے کام لو۔ مگر تقدیر کو نہ بھولنا مگر جہاں تقدیر کا حکم ہے وہاں فرمایا ہے کہ توکّل کرو مگر اسباب کو بھی نہ بھولنا۔ دونوں بیک وقت چلتے ہیں اور اللہ تعالیٰ دونوں کے مطابق چلنے والوں کو بارور کرتا ہے۔ جہاں اس نے انسان کو اختیار دیا ہے وہاں تقدیر بھی ساتھ لگائی ہے۔ کھانے پینے، پہننے میں آزادی دی ہے مگر ساتھ دعائیں بھی سکھائی ہیں۔ اس کا یہ قانون ہے کہ کھانا کھانے سے پیٹ بھرتا ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی حکم دیا ہے کہ کھانا کھانے یا پانی پینے سے پہلے بِسْمِ اللہ کہہ لو۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ مَیں اللہ تعالیٰ کی مدد چاہتا ہؤا کھانا کھاتایا پانی پیتا ہوں۔ یہ انسان کی آزادی کا حلقہ ہے مگر تقدیر کو بھی ساتھ لگا دیا ہے اور ایسی صورت میں انسان کو یہ اجازت نہیں کہ اسباب اور تدبیر کو چھوڑ دے۔ اگر کوئی کھانا کھانا چھوڑ دے اور کہے کہ مَیں توکّل کرتا ہوں تو وہ گنہگار ہو گا۔ اگر بیمار اپنا علاج نہ کرے تو وہ گنہگار ہو گا سوائے اس کے کہ تقدیر خاص جاری ہو۔ جب خدا تعالیٰ یہ کہے کہ کھانا نہیں کھانا تو کھانے والا گنہگار ہو گا۔ مگر عام قانون کے ماتحت نہ کھانے والا گنہگار ہے کیونکہ حکم یہی ہے کہ کھانا کھایا جائے مگر کھانے سے پہلے بِسْمِ اللہِ کہنے کی ہدایت فرمائی ہے کیونکہ گو کھانا پیٹ بھرنے کا موجب ہوتا ہے مگر بعض اوقات ہیضہ کا موجب بھی بن جاتا ہے۔ پھر سیری تکبّر کا موجب بھی ہو سکتی ہے۔ اس لئے فرمایا کہ جب کھا چکو تو اَلْحَمْدُ لِلہِ کہو ۔ گو یہ دائرہ تدبیر کا ہے مگر تقدیر بھی ساتھ شامل ہے۔ کوئی تدبیر مکمل نہیں ہو سکتی جب تک تقدیر اس کے ساتھ شامل نہ ہو اور کوئی تقدیر مکمل نہیں ہو سکتی جب تک کہ تدبیر شامل نہ ہو اِلَّا مَا شَاءَ اللہُ۔ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کا حکم ہوتا ہے کہ تدبیر نہ کرنا ۔ایسے وقت میں تدبیر کرنا گناہ ہو جاتا ہے مگر عام قاعدہ یہی ہے کہ تدبیر کے دائروں میں تدبیر مقدم ہوتی ہے اور تقدیر دوسرے درجہ پر مگر جو تقدیر کا دائرہ ہے وہاں توکّل مقدم ہے اور اسباب کی حیثیت ثانوی ہوتی ہے۔ جب کوئی انسان بیمار ہو تو علاج اصل کام ہے اور دعا ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ اصل ذریعہ اسباب ہیں مگر اسباب کی حفاظت اور ان کے بے راہ نہ ہونے کے لئے دعا سکھائی ہے مگر جب تقدیر آتی ہے تو وہاں اسباب کی حیثیت ثانوی ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں اگر اسباب میسر نہ آئیں تو نہ آئیں ۔ اسی طرح اسباب کے دائرہ میں دعا کی طرف کسی وقت رغبت نہ بھی ہو تو اس کے یہ معنی نہیں کہ اسباب چھوڑ دئیے جائیں۔ اس کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ مثلاً کسی علاقہ میں طاعون یا ہیضہ یا کوئی اَور وبا پھیلتی ہے اس صورت میں شریعت کا حکم ہے کہ اس علاقہ میں نہ جاؤ اور یہ مقدم ہے۔ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ مَیں دعا کر کے اس علاقہ میں چلا گیا تھا کیونکہ یہاں دعا کا مقام دوسرے نمبر پر ہے مگر استثنائی طور پر یہ دائرہ ٹوٹ بھی جاتا ہے مثلاً طبیب وہاں جاتا ہے یا ایسے علاقہ میں فساد ہو جاتا ہے تو کوئی حاکم اپنے فرض کو ادا کرنے کے لئے جاتا ہے۔ ان کا وہاں جانا ہی ضروری ہے وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہاں طاعون یا ہیضہ ہے ہم وہاں کس طرح جائیں۔ یہ تو تدبیر کی مثال ہے۔
تقدیر کی مثال جہاد ہے۔ وہاں اصل حکم مرنے کا ہے جیسے وباء کے موقع پر جان کو بچانا اصل حکم ہے۔ جہاد کے موقع پر اصل حکم جان دینا ہے۔ جہاں جان بچانے کا حکم ہے وہاں جان دینے کے خطرہ میں پڑنا استثنائی حیثیت رکھتا ہے مثلاً کسی طبیب یا حاکم کا اس علاقہ میں جانا، ان کے لئے یہی حکم ہے کہ وہاں جاؤ اور جان کی پرواہ نہ کرو مگر جہاں جان دینے کا حکم ہے وہاں جان بچانے کی تدبیر کرنا ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی وجہ سے جہاد کے موقع پر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میرے پاس گھوڑا نہیں یا تلوار نہیں۔ مَیں جہاد کے لئے کس طرح جاؤں۔ جہاد کا جب بھی حکم ہو سامان ہو یا نہ ہو جانا ضروری ہے۔ سوائے اس کے کہ کوئی انسان جسمانی لحاظ سے معذور ہو۔ بعض احادیث میں آتا ہے کہ بدر کی جنگ میں بعض صحابہؓ کے پاس صرف لاٹھیاں تھیں تلواریں نہ تھیں۔ تو جب تقدیر جاری ہو تو وہاں تدابیر ثانوی درجہ اختیار کر لیتی ہیں اور ان کا فقدان انسان کو معذور قرار نہیں دیتا۔ غرض دنیا میں دو قسم کے حالات خدا تعالیٰ کی طرف سے جاری ہیں۔ ایک وہ جب تدبیر کا پہلو بھاری ہوتا ہے اور ایک وہ جن میں تقدیر کا پہلو بھاری ہوتا ہے۔ عذاب یا انقلاب کے مواقع دوسری قسم کے ہیں۔ ان میں تقدیر اپنا کام کر رہی ہوتی ہے۔ اس وقت انسان کا تدابیر کی طرف زیادہ دھیان دینا اپنی قسمت سے کھیلنا ہوتا ہے۔ اس وقت انسان کو توکّل سے کام لے کر خدا تعالیٰ کی تقدیر کو قبول کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کی نیک تقدیر دعاؤں کے ذریعہ حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
مَیں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت کے بعض افراد میں بوجہ اس کے کہ انہیں ہمیشہ امن کے ساتھ رہنے کی تعلیم دی جاتی ہے کچھ بزدلی پیدا ہو گئی ہے حالانکہ یہ نیکی نہیں کہ بزدل ہو کر انسان امن کو قائم رکھے۔ بزدل ہو کر کون امن سے نہیں رہتا۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ کیسا بیوقوف ہے وہ انسان جو کسی خصّی کی نسبت یہ کہے کہ وہ بڑا پاکباز ہے یا اندھے کے متعلق کہے کہ وہ بڑا پاک نظر ہے۔ اس کی تو نظر ہی نہیں وہ پاک نظر کس طرح ہو گیا۔ اسی طرح بزدل پُر امن کیونکر ہو سکتا ہے وہ تو بزدلی کی وجہ سے فساد کر ہی نہیں سکتا۔ پُر امن وہی ہے جو مارنے کی طاقت رکھتا اور پھر امن سے رہتا ہے مگر مَیں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت کا ایک طبقہ امن کی تعلیم سن سن کر بزدل ہو گیا ہے اور توکّل و تقدیر کے مقام کو بھول گیا ہے۔ مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ بعض جگہ جب ہماری جماعت میں سے نوجوانوں کو بھرتی کرنے کے لئے افسر پہنچے تو بعض نوجوان تو تیار ہو گئے مگر ان کی مائیں روتی ہوئی آ گئیں کہ ہائے ہائے میرا بچہ مارا جائے گا اور ظاہر ہے کہ ایسے بزدل کیا قربانی کر سکتے ہیں۔ قربانی کے لئے تیاریاں ضروری ہوتی ہیں۔ دیکھو خدا تعالیٰ کے لئے فاقہ کرنے کا موقع تو شاید ہی کسی آدمی کو کبھی ملتا ہو مگر اللہ تعالیٰ ہر سال ایک ماہ بھوکا رہنے کی مشق کراتا ہے۔ اصل دن توشاید کبھی آتا ہی نہیں مگر مشق ہر سال میں ایک ماہ کرائی جاتی ہے اس لئے کہ کوئی کام بغیر مشق کے نہیں ہو سکتا۔ خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنا مال لٹا دینے کا موقع تو شاذ ہی کسی کو ملتا ہے مگر زکوٰة ہمیشہ کے لئے مقرر کر دی گئی ہے۔ پس قربانی کے لئے مشق بہت ضروری چیز ہے۔ جو شخص سمجھتا ہے کہ مجھے تیاری کی کوئی ضرورت نہیں جب وقت آئے گا مَیں قربانی کر لوں گا وہ نادان ہے۔ اور مَیں اس کی آنکھیں کھول دینا چاہتا ہوں کہ وہ وقت آنے پر ضرور ٹھوکر کھائے گا۔ جہاں تک مَیں سمجھتا ہوں ہماری جماعت کو چاہئے تھا کہ اس جنگ کو خدا تعالیٰ کی تقدیر کا ایک مظاہرہ سمجھتے ہوئے اسے نعمت غیر مترقّبہ سمجھتی کہ اللہ تعالیٰ نے اسے جاری کر کے ہمارے لئے یہ موقع پیدا کر دیا کہ اگر چاہیں تو فنون جنگ سیکھ سکتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے یہ ایک ایسا موقع بہم پہنچایا تھا کہ جماعت کے دوستوں کو اس پر خوشی سے اچھلنا چاہئے تھا مگر بجائے اس کے کہ خوش ہوتے اور نعمت سمجھ کر اس سے فائدہ اٹھاتے وہ فوج میں داخل ہونے سے ڈرتے ہیں۔ جنگ کو بحیثیت ایک بَلا کے تو برا ہی سمجھنا چاہئے اور فوج میں داخل ہونے کے معنے یہی ہیں کہ اسے بَلا سمجھتے ہیں اور دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر فنون جنگ سیکھنے کے لحاظ سے اس موقع کو غنیمت سمجھنا چاہئے تھا کہ جرأت اور بہادری پیدا کرنے کا سامان میسر آ گیا۔
مَیں ان عورتوں پر جنہوں نے یہ بُرا نمونہ دکھایا اظہارِ افسوس کرتا ہوں اور ان سے پوچھتا ہوں کہ کیا ان میں سے کوئی ہے جو اپنے بچوں کے لئے ایک سال کی عمر کی بھی ضمانت دے سکے اورکیا جب جنگ ختم ہو جائے گی تو انہیں شرم نہ آئے گی کہ ان کی عزت کی حفاطت کے لئے ہندو، سکھ، غیر احمدی اور بعض احمدی تو میدان جنگ میں گئے مگر ان کے بچوں میں سے کوئی نہ گیا۔ اگر خدا تعالیٰ نے ہمارے ملک کو خطرہ سے بچا لیا تو کیا ان کو غیرت نہ آئے گی کہ ان کی عزت کی حفاظت ہندوؤں، سکھوں اور غیر احمدیوں اور دوسرے احمدیوں کے ذریعہ ہوئی اور انہوں نے خود اس میں کوئی حصہ نہ لیا اور کیا ان کے اندر شرافت کا جو جذبہ ہے وہ اس احساس سے ان کی زندگی کو تلخ نہ بنا دے گا۔ مومن تو کسی کا احسان نہیں اٹھایا کرتا پھر وہ نوجوان جو فوج میں جانے سے ہچکچاتے ہیں کس طرح اس بے غیرتی کو برداشت کریں گے کہ ان کی، ان کی بیویوں، ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی حفاظت ہندوؤں، سکھوں اور غیر احمدیوں نے کی مگر وہ خود چارپائی پر گھر میں بیٹھے رہے۔ پھر ایسی عورتوں سے مَیں پوچھتا ہوں کہ وہ لوگ جو اس وقت لڑائی میں گئے ہوئے ہیں اگر وہ اس بلا کو نہ روک سکے تو ان کے بیٹوں کی زندگیاں ان کے کس کام آ سکیں گی۔ کیا وہ گھروں میں نہ مارے جائیں گے اور کیا وہ یہ پسند کرتی ہیں کہ ان کے لڑکے لڑائی میں جا کر عزت کی موت تو نہ مریں مگر گھروں میں بزدلوں کی طرح مارے جائیں اور دیکھنے والے ان کو دیکھ کر کہیں کہ کیسے بے حیا تھے یہ لوگ جو اپنی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں اور بیویوں کی عزت کو نہ بچا سکے۔ پھر ایسی ماؤں کو سوچنا چاہئے کہ جو نوجوان پہلے جا چکے ہیں وہ بھی تو ماؤں کے ہی بیٹے ہیں۔ وہ کہہ سکتی ہیں کہ وہ چند روپوں کے لئے چلے گئے مگر مَیں کہوں گا کہ اس کے یہ معنے ہوئے کہ چند روپوں میں تمہارے ایمان سے زیادہ کشش ہے۔ وہ تو بہت بہادر نکلے جو سترہ روپے کے لئے چلے گئے مگر تمہارا ایمان تو سترہ روپے سے بھی کم قیمت کا ہؤا۔ وہ سترہ روپے زیادہ قیمتی ہوئے جن کے لئے انہوں نےجانیں دے دیں مگر تمہارا ایمان تمہیں اپنے بیٹوں کو گھروں سے نکالنے پر بھی آمادہ نہ کر سکا۔
خوب یاد رکھو کہ وقت آنے پر ایسے لوگ کوئی کام نہیں دے سکتے۔ دیکھو! ایک کے بعد ایک سلطنت مسلمانوں کے ہاتھ سے نکلتی چلی گئی مگر وہ ہمیشہ یہی کہتے رہے کہ مسیح آ ئے گا تو ہم لڑیں گے اور یہ سب واپس لے لیں گے جس طرح آج یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ دنیوی لڑائی ہے۔ جب احمدیت کے لئے لڑنے کا موقع آئے گا تو ہم لڑیں گے اور اپنے کرتب دکھائیں گے مگر جانتے ہو جب مسیح آیا تو مسلمانوں نے کیا کرتب دکھائے؟ جان و مال قربان کرنے کے بجائے وہ پتھر لے کر نکلے کہ مسیح کو مار ڈالیں۔ یہ اس لمبی بے حیائی کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کے لئے کوئی قربانی نہ کی تھی۔ وہ ہمیشہ جھوٹ بولتے رہے کہ مسیح آئے گا تو قربانیاں کریں گے اور اس وجہ سے خدا تعالیٰ نے ان سے قربانی کی طاقت چھین لی۔ پس اسی طرح جو لوگ آج کہتے ہیں کہ دین کے لئے لڑائی کا موقع آیا تو وہ لڑیں گے۔ وہ صرف نفس اور شیطان کےد ھوکے میں مبتلا ہیں۔ بغیر تیاری کے کوئی قربانی ہر گز نہیں کی جا سکتی اور اگر کبھی موقع آیا تو یہ لوگ بھاگنے والوں میں سب سے آگے ہوں گے۔ خدا تعالیٰ کا قانون یہی ہے کہ ایمان کے ساتھ عادت ضروری ہے۔ آنحضرت ﷺ صحابہؓ کے فوجی کرتب مسجد کے صحن میں دیکھا کرتے تھے۔ صحابہؓ مسجد کے صحن میں تلواروں اور نیزوں سے لڑ کر آپ کو دکھاتے تھے۔2 پس جب تک آپ لوگ بھی مشق نہ کریں وقت آنے پر کوئی قربانی نہیں کر سکتے اور کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ پس مَیں ایسی تمام ماؤں، باپوں اور علاقہ کے با رسوخ لوگوں کے اس طریق پر کامل افسوس کا اظہار کرتا ہوں اور ان پر یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اگر ان کا یہ خیال ہے کہ دین کے لئے قربانی کا وقت آنے پر وہ قربانیاں کر سکیں گے تو وہ غلطی پر ہیں۔ جو مائیں آج روتی ہیں وہ کل زیادہ روئیں گی اور جو باپ آج ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں وہ کل زیادہ کریں گے اور جس شکست سے یہ لوگ آج ڈرتے ہیں وہ کل زیادہ بھیانک صورت میں ان کے سامنے آئے گی کیونکہ انہوں نے خدا کی تقدیر کو تدبیروں سے ٹالنے کی کوشش کی اور اس کے فیصلے پر راضی نہ ہوئے۔‘‘ ( الفضل 17 جولائی 1942ء )
1: سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 189 مطبوعہ مصر 1295ھ
2: بخاری کِتَاب الصَّلٰوة باب اَصْحَاب الحِرَابِ فِی الْمَسْجِدِ

22
ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب احمدیت کو تمام مذاہب کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا پڑے گا
( 17 جولائی 1942ء )

تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’آج بھی مَیں خطبہ اسی تسلسل میں کہنا چاہتا ہوں جس تسلسل میں پچھلے دو خطبے میں نے پڑھے ہیں۔ مَیں نے پچھلی دفعہ بیان کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے بعض افعال کا ظہور تقدیر کے ذریعہ ہوتا ہے اورجس وقت خدا تعالیٰ کی کوئی تقدیر ظاہر ہوتی ہے کسی عظیم الشان انقلاب یا کسی زبردست پیشگوئی کے ذریعہ سے۔ تو انسانوں کی جانیں خدا تعالیٰ کے قبضہ میں یوں تو ہمیشہ ہی ہوتی ہیں مگر اس وقت خدا تعالیٰ خاص طور پر دخل دے دیتا اور اسباب کو ایک حد تک معطل فرما دیتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ صحابہ کرامؓ اور مکہ والوں کے درمیان جو جنگیں ہوئیں ان جنگوں میں باوجود اس کے کہ صحابہ ؓ کم ہوتے تھے ، وہ بہت تھوڑی تعداد میں مارے جاتے تھے اور باوجود اس کے کہ دشمن بہت زیادہ تعداد میں ہوتا تھا وہ زیادہ مارا جاتا تھا یا اس کا خاصہ حصہ قیدی بن جاتا تھا۔ اس کا باعث درحقیقت یہی امر تھا کہ اس زمانہ میں صحابہؓ کے متعلق اللہ تعالیٰ کے خاص احکام جاری ہوئے تھے اور وہ دنیا کو یہ دکھانا چاہتا تھا کہ یہ ہماری تقدیر کا میدان ہے، عام تدبیر کا میدان نہیں۔ اگر تدبیر کا میدان ہوتا تو مسلمانوں میں موت زیادہ ہوتی اور کفار میں کم ہوتی لیکن تقدیر کا میدان ہونے کی وجہ سے سوائے ان لوگوں کے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کی حکمت کاملہ نے شہادت کی موت مقدر کی ہوئی تھی باقیوں کے متعلق اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کو یہی حکم دیتا تھا کہ وہ ان کی جانوں کو بچائیں۔ اسی لئے قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ بعض جنگوں میں پانچ پانچ ہزار ملائکہ کو اتار اجاتا تھا۔ 1 اب ملائکہ کو اتارنے کے یہ معنے تو نہیں کہ وہ تلواریں لے کر آسمان سے اتر آتے اور کفار سے لڑنے لگ جاتے تھے بلکہ اس کا مفہوم یہی ہے کہ وہ کفار کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ڈال کر اور بعض دوسرے ذرائع سے کام لے کر مومنوں کی حفاظت کرتے تھے اور دشمنوں کو ہلاکت کی طرف لے جاتے تھے۔
جب تک مسلمانوں کے متعلق خدا تعالیٰ کی یہ تقدیر جاری رہی اس وقت تک ہر قسم کے خطروں میں اپنے آپ کو ڈالنے کے باوجود مسلمان بہت کم مارے جاتے تھے۔ رسول کریم ﷺ کے بعد جو جنگیں ہوئی ہیں ان میں بھی مسلمان بہت حد تک مَیدان جنگ سے سلامتی کے ساتھ واپس آتے اور بہت کم مارے جاتے تھے حالانکہ ان کا مقابلہ بڑی بڑی منظم اور طاقتور حکومتوں کے ساتھ ہؤا کرتا تھا۔ آجکل انگریزوں کی لڑائیاں جو بعض دفعہ سرحد پر ہو جاتی ہیں ان میں انگریزی فوج کے تو ایک دو آدمی مارے جاتے تھے مگر قبائلی لشکر جو ان کے مقابلہ میں آتے ہیں ان کے بیس بیس، تیس تیس، چالیس چالیس آدمی مارے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ انگریزی لشکر کے پاس سامان بہت زیادہ ہوتا ہے، وہی زیادہ منظم اور قواعد دان ہوتے ہیں اورلڑائی کے فن سے زیادہ واقف ہوتے ہیں۔ پس زیادہ قواعد دان ہونے کی وجہ سے، زیادہ منظم ہونے کی وجہ سے، زیادہ ہتھیار رکھنے کی وجہ سے اور تعداد میں بھی زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ دشمن کو زیادہ مار لیتے ہیں اور قبائلی لشکر چونکہ چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں اور ان کے پاس سامان بھی بہت کم ہوتا ہے اس لئے وہ ان کا پوری طرح مقابلہ نہیں کر سکتے۔
مسلمانوں کی لڑائیاں جو ایرانی اور رومی حکومتوں سے ہوئیں درحقیقت ایسی ہی تھیں جیسے آجکل قبائلی لشکروں کی انگریزوں سے لڑائیاں ہو جاتی ہیں۔ ایک طرف وہ عظیم الشان اور منظم حکومتیں تھیں جن کے قبضہ میں دنیا کا تمام سر سبز و شاداب علاقہ تھا ، جن کا دنیا کی تمام پیداوار پر قبضہ تھا، جن کے ماتحت ممالک کے صنعت و حرفت کے مرکز تھے، جو جنگی قومیں کہلاتی تھیں اور جن کے نوجوان پندرہ پندرہ سولہ سولہ سال کی عمر سے ہی فوج میں ملازم ہو جاتےاور دن رات چھاؤنیوں میں فنونِ جنگ سیکھتے رہتے تھے اور باقاعدہ تنخواہ دار ملازم تھے۔ ان قوموں اور حکومتوں کے مقابلہ میں مسلمان آئے مگر باوجود اس کے کہ وہ تعداد میں بہت کم تھے، فنون جنگ سے پوری طرح آشنا نہ ہوتے تھے، سامان اور اسلحہ ان کے پاس بہت تھوڑا ہوتا تھا پھر بھی مسلمان بہت کم مارے جاتے تھے اور ان کے دشمن بہت زیادہ مارے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ تاریخوں سے معلوم ہوتا ہے۔ بعض دفعہ ایک ایک مسلمان کے مقابلہ میں دس دس، بیس بیس، پچاس پچاس، سَو سَو سیکھے ہوئے سپاہی آئے مگر نتیجہ ہمیشہ یہی نکلتا رہا کہ وہ ماہر اورفنون جنگ سیکھے ہوئے سپاہی مارے جاتے تھے اور مسلمان نہیں مرتے تھے حالانکہ ان کے پاس اپنی حفاظت کے کوئی سامان نہیں ہوتے تھے بلکہ بعض دفعہ وہ سامانوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہوئے ان کو پھینک دیتے تھے۔ حضرت ضرارؓ کا ایک مشہور واقعہ تاریخوں میں آتا ہے کہ ایک جنگ میں ایک عیسائی دشمن مسلمانوں کے مقابلہ میں نکلا اور اس نے یکے بعد دیگرے دو چار مسلمانوں کو مار ڈالا۔ وہ شخص فنون جنگ کا ماہر اور دشمنوں میں بہت بہادر سمجھا جاتا تھا۔ جب دو چار مسلمان اس کے مقابلہ میں آ کر شہید ہو گئے تو حضرت ضرارؓ اس کے مقابلہ کے لئے نکلے مگر جب وہ اس کے سامنے گئے تو کھڑے ہوتے ہی گھبرا کر اپنے خیمہ کی طرف دوڑ پڑے۔ صحابہؓ کہتے ہیں اس وقت ہمیں یوں محسوس ہؤا کہ جیسے ہماری ناک کٹ گئی ہے اور ہم نے اپنے دلوں میں سخت ذلت محسوس کی کہ ضرارؓ جسے ہم اتنا بہادر اور دلیر سمجھتے تھے وہ کیسا بزدل نکلا کہ دشمن کے مقابلہ میں کھڑے ہوتے ہی وہاں سے بھاگ آیا اور تیزی سے اپنے خیمہ کی طرف چلا گیا۔ ان کے ایک دوست تھے انہوں نے جب ضرار کو اس طرح دوڑتے ہوئے دیکھا تو وہ بھی ان کے پیچھے پیچھے خیمہ کی طرف گئے۔ جب وہ قریب پہنچے تو حضرت ضرارؓ پھر خیمہ سے باہر نکل رہے تھے۔ اس نے ضرارؓ سے مخاطب ہو کر کہا ضرارؓ آج تم نے یہ کیا کیا۔ تمہارے جیسے آدمی سے ہم یہ امید نہیں کر سکتے تھے کہ تم میدان جنگ سے اس طرح بھاگ آؤ گے۔ تمہارے اس فعل کے نتیجہ میں مسلمان اپنے دلوں میں سخت ذلت محسوس کر رہے ہیں اور وہ حیران ہیں کہ تم نے یہ کیا حرکت کی۔ ضرارؓ نے کہا میرے دوست تم نہیں جانتے کہ واقعہ کیا ہؤا۔ واقعہ یہ ہے کہ جب مَیں اس عیسائی جرنیل کے مقابلہ میں نکلا اور اس کے سامنے کھڑا ہؤا تو مجھے یاد آیا کہ مَیں نے زرہ پہنی ہوئی ہے اس وقت مجھے خیال آیا کہ اے ضرارؓ! کیا تُو خدا تعالیٰ کے پاس جانے اور اس سے ملنے سے اتنا گھبراتا ہے کہ تُو نے زرہ پہن رکھی ہے اور تُو ڈرتا ہے کہ کہیں مَیں مارانہ جاؤں۔پس مَیں نے خیال کیا کہ اگر مَیں اسی حالت میں مر گیا تو مَیں خدا تعالیٰ کی جنت میں داخل ہونے کے قابل نہیں رہوں گا اور مَیں خدا تعالیٰ کو کیا مُنہ دکھاؤں گا کہ مَیں نے اس ڈر سے کہ کہیں مجھے موت نہ آ جائے لڑتے وقت زرہ پہن لی تھی چنانچہ مَیں دوڑ کر اپنے خیمہ کی طرف گیا تاکہ مَیں زرہ کو اتار دوں اور ننگے بدن لڑتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان دے دوں۔ اب دیکھو یہ ایک حفاظت کا سامان تھا جو اس صحابی کو میسر تھا اور خدا تعالیٰ نے بھی اجازت دی ہوئی ہے کہ حفاظت کے سامانوں سے مومن کو کام لینا چاہئے مگر اس صحابی نے اس وقت اس سامان سے فائدہ نہ اٹھایا اور سمجھا کہ ہم اس وقت ایک ایسے میدان میں ہیں جو تقدیر کا میدان ہے۔ اگر ہم اس تقدیر کے میدان میں ظاہری سامانوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھیں تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔ چنانچہ وہ بغیر زرہ کے لڑے اور انہوں نے اپنے دشمن کو مار لیا۔
تو مسلمانوں کا طریق یہ بتاتا ہے کہ وہ بعض دفعہ ظاہری سامانوں کو استعمال نہیں کرتے تھے اور نہ صرف سامانوں کو استعمال نہیں کرتے تھے بلکہ اس وجہ سے ان کو پھینک دیتے تھے کہ یہ تقدیری میدان ہے تدبیری میدان نہیں۔ پس جب تقدیری میدان آئے تو اس وقت سامانوں کو نظر انداز کر دینا جائز ہوتا ہے اور نہ صرف جائز ہوتا ہے بلکہ بعض دفعہ الٰہی حکم کے ماتحت ان سامانوں کو نظر انداز کر دینا ضروری ہوتا ہے اور اگر انسان ان سامانوں کو استعمال کرے تو وہ بے ایمان ہو جاتا ہے اور بعض دفعہ سامانوں کو استعمال کرنا ناجائز تو نہیں ہوتا۔ مگر ان سامانوں کو زیادہ اہمیت دینا ناجائز ہوتا ہے اور جو لوگ ان سامانوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی تقدیر کو ٹھکرانے والے قرار پاتے ہیں کیونکہ وہ تقدیر کے میدان میں تدبیر سے کام لینا چاہتے ہیں اور تقدیر کے مقابلہ میں بھلا تدبیر انسان کو کیا فائدہ دے سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اگر تم مضبوط قلعوں اور بڑے بڑے پختہ محلّات کے اندر بھی بیٹھے ہوئے ہو تب بھی اس زمانہ میں جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے موت کا فیصلہ کر دیا ہے اسے بہرحال موت کا شکار ہونا پڑے گا اور مضبوط قلعے پختہ محلات اسے موت سے محفوظ نہیں رکھ سکتے۔2 بعض لوگوں نے غلطی سے اس آیت سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ موت اور حیات تقدیری چیزیں ہیں جنہیں بدلا نہیں جا سکتا حالانکہ اس آیت سے یہ مراد نہیں بلکہ یہ اسی زمانہ کے متعلق ہے جب خدا تعالیٰ کی طرف سے خاص تقدیر جاری کی گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ محمد ﷺ سے کہتا ہے تو بے شک بے سامان ہے، تیرے پاس ہتھیار نہیں، تیرے پاس فوجیں نہیں، تیرے پاس دشمنوں پر غلبہ پانے کے لئے کوئی ظاہری طاقت اور جتّھا نہیں مگر ہم تجھے کہتے ہیں کہ تُو بے سامان ہونے کی حالت میں ہی دشمن کے مقابلہ کے لئے نکل تاکہ ہم اپنی قدرت کا نشان دکھائیں کہ کس طرح ہم بے سامانوں کو سازو سامان اور بڑے بڑے جتھے رکھنے والوں پر غالب کر دیا کرتے ہیں اور کس طرح کم تعداد والوں کے مقابلہ میں بڑے بڑے لشکروں کو تباہ کر دیتے ہیں۔ اسی لئے صحابہؓ نے بے شک سامان استعمال کئے اور بے شک انہیں اجازت تھی کہ جن لوگوں کو گھوڑے میسر آ سکتے ہیں وہ گھوڑے لے لیں ۔ جو تلواریں اور نیزے خرید سکتے ہیں وہ تلواریں اور نیزے خرید لیں مگر ان سامانوں پر انحصار رکھنے کی انہیں اجازت نہیں تھی۔ اگر کسی کو کوئی سامان مل جاتا تو وہ لے لیتا اور اگر نہ ملتا تو بغیر سامانوں کے ہی میدان جنگ کی طرف روانہ ہو جاتا۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کسی کے ہمسایہ کے مکان کو آگ لگ جائے تو ایسی صورت میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ وہی لوگ آ کرآگ بجھائیں جو باقاعدہ اس فن کو سیکھ چکے ہوں بلکہ ہر شخص آگ بجھانے کے لئے دوڑ پڑے گا خواہ اسے آگ بجھانے کا طریق آتا ہو یا نہ آتا ہو حالانکہ آگ بجھانا بھی ایک فن ہے جو سیکھے بغیر صحیح طور پر نہیں آتا۔ جو لوگ یہ فن سیکھتے ہیں انہیں بتایا جاتا ہے کہ کسی جگہ آگ لگ جائے تو اسے کس طرح بجھانا چاہئے، کس قسم کی آگ پر پانی ڈالنا چاہئے اور کس قسم کی آگ پر مٹی ڈالنی چاہئے۔ پھر جو لوگ یہ ٹریننگ حاصل کرتے ہیں۔ ان کے سروں پر ایسے وقت میں خود ہوتے ہیں تاکہ سر کے بال جلنے کی وجہ سے وہ گھبرا کر وہاں سے بھاگ نہ جائیں۔ اسی طرح انہیں پمپ مہیا کئے جاتے ہیں اور وہ سارے سامان انہیں دئیے جاتے ہیں جن کا آگ بجھانے کے لئے پاس ہونا ضروری ہوتا ہے مگر جب تمہارے کسی ہمسایہ کے مکان کو آگ لگ جائے اور خدا تعالیٰ کی تقدیر کے ظہور کا وقت آ جائے تو کیا تم اس وقت یہ کہہ کر بری ہو جاؤ گے کہ ہم اس آگ کو کس طرح بجھائیں ، ہم کوئی فائر بریگیڈ کے سپاہی ہیں۔ ہمارے پاس نہ خَود ہیں ، نہ ویسا لباس ہے، نہ پمپ ہیں، نہ ہمیں آگ بجھانے کا فن آتا ہے۔ پھر ہم اس آگ کو بجھانے کے لئے آگے بڑھیں تو کس طرح بڑھیں؟ تم ہزار دلائل دو اس وقت تمہاری کسی بات کو معقول نہیں سمجھا جائے گا اور تمہیں یہی کہا جائے گا کہ اب خدا کی ایک تقدیر ظاہر ہو چکی ہے تمہیں یہ فن آتا ہے یا نہیں آتا۔ تمہارا فرض ہے کہ آگے بڑھو اور اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر اس آگ پر قابو پاؤ۔ بے شک اگر اس وقت فائر بریگیڈ میسر آ سکتا ہے تو تم فائر بریگیڈ منگوا لو۔ بے شک اگر آگ بجھانے کا فن سیکھنے کا تمہیں اس سے پہلے کوئی موقع ملے تو تمہیں چاہئے کہ تم اس فن کو سیکھ لو لیکن اگر آگ لگ جائے تو اس وقت ہر شخص کا خواہ اس کے پاس آگ کو برداشت کرنے والا لباس ہے یا نہیں خواہ اسے آگ بجھانے کا فن آتا ہے یا نہیں، فرض ہو گا کہ وہ جائے اور اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر آگ کو بجھائے۔
اسی طرح زمیندار اپنی زمینوں کے لئے لڑتے ہیں اور بسا اوقات ان لڑائیوں میں ان کے کئی کئی آدمی مارے جاتے ہیں۔ معمولی سی بَٹ کا سوال ہوتا ہے۔ صرف اتنا اختلاف ہوتا ہے کہ منڈیر اِدھر رکھنی ہے یا اُدھر مگر زمیندار کلہاڑیاں اور چھوّیاں اور دوسرے سامان جو انہیں میسر ہوتے ہیں لے کر آ جاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے اپنے دشمن کو مار لیا تب بھی ہم پھانسی پر لٹکا دئیے جائیں گے۔کیونکہ ایک منظم گورنمنٹ موجود ہےاور اگر دشمن نے ہمیں مار لیا تب بھی ہم زندہ واپس نہیں جا سکتے۔ گویا دونوں صورتوں میں انہیں اپنے سامنے موت دکھائی دیتی ہے مگر باوجود اس بات کے جاننے کے کہ یا تو ہم دشمن کے ہاتھ سے مارے جائیں گے یا گورنمنٹ ہمیں پھانسی دے دے گی پھر بھی وہ پرواہ نہیں کرتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ایک قیمتی چیز (جو ان کے نزدیک قیمتی ہے) خطرہ میں ہے۔ اب ہمیں اپنی جانوں کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے۔ یہ وہ منڈیر کی قیمت ہے جو ایک زمیندار کی نظر میں ہوتی ہے۔ پھر کیا ہمارے ملک کی قیمت ایک منڈیر کے برابر بھی نہیں کہ اس کے لئے اپنی جانوں کو قربان کرنے سے ہمارے دلوں میں ہچکچاہٹ پیدا ہو۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ کتنے ہی زمیندار ہیں جو ایک منڈیر پر لڑ مرتے ہیں اور اگر کوئی زمیندار منڈیر پر نہیں لڑے گا۔ تو جب وہ دیکھے گا کہ اس کی ایک مرلہ زمین پر کوئی اَور شخص قبضہ کرنا چاہتا ہے تو اس وقت وہ چپ نہیں رہے گا اور لڑنے مرنے کے لئے تیار ہو جائے گا اور اگر کوئی شخص ایک مرلہ زمین کے چلے جانے پر خاموش رہے گا۔ تو اگر اس کی ایک کنال زمین کوئی شخص چھیننے کی کوشش کرے گا تو اس وقت وہ خاموش نہیں رہے گا اور اپنی جان دینے کے لئے تیار ہو جائے گا۔ پھر کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ایک کنال زمین کا نقصان تو برداشت کر لیتے ہیں لیکن اگر کوئی شخص ان کے کھیت پر قبضہ کرنا چاہے تو پھر وہ خاموش نہیں رہتے اور مقابلہ پر اتر آتے ہیں۔ بہرحال تمہیں کوئی شخص ایسا نہیں ملے گا سوائے اس کے جو فاتر العقل ہو کہ اس کی ساری زمین لوگ چھین کر لے جائیں اور وہ چپ کر کے بیٹھا رہے پھر کیسی حیرت کا مقام ہے کہ لوگ اپنی زمین کی حفاظت کے لئے تو اپنی جانیں دینے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں لیکن اپنے ملک کی حفاظت کے لئے جانیں دینے کے لئے تیار نہیں ہوتے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ اگر لوگ مارے جاتے ہیں تو مارے جائیں۔ دشمن ہمارے ملک کو چھیننا چاہتا ہے تو بےشک چھین لے۔
مَیں نے جیسا کہ پچھلے خطبات میں بھی توجہ دلائی ہے۔ کئی لوگ بہانے بناتے ہیں اور کہتے ہیں یہ تو دنیوی لڑائی ہے اس میں ہم کیوں حصہ لیں۔ اسی لئے مَیں نے دنیوی مثالیں پیش کی ہیں۔ کیا منڈیر کی لڑائی دنیوی لڑائی نہیں ہوتی۔ کیا ایک مرلہ زمین کے لئے لڑائی دنیوی لڑائی نہیں ہوتی، کیا ایک کنال زمین کے لئے لڑائی دنیوی لڑائی نہیں ہوتی۔ پھر یہ مثالیں تو الگ رہیں ۔ ہم جانتے ہیں زمینداروں میں بعض دفعہ ڈولوں پر لڑائی ہو جاتی ہے۔ ایک کہتا ہے مَیں نے پہلے ڈول نکالنا ہے اور دوسر اکہتا ہے مَیں نے نکالنا ہے اور اسی پر ان میں لڑائی شروع ہو جاتی ہے۔ پھر یہ بات بھی الگ رہی بعض دفعہ صرف اس لئے لڑائی ہو جاتی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم فلاں مجلس میں گئے تھے۔ انہوں نے ہمیں اپنی مجلس میں بیٹھنے نہیں دیا۔ اسی طرح بعض دفعہ معمولی معمولی طعنوں پر لڑائی اور خونریزی ہو جاتی ہے۔ بعض دفعہ ہنسی اور مذاق ناگوار صورت اختیار کر لیتا ہے اور لوگ آپس میں لڑ پڑتے ہیں۔ جب وجہ دریافت کی جاتی ہے تو بتایا جاتا ہے کہ فلاں نے یہ مذاق کیا تھا حالانکہ وہ مذاق معمولی سا ہوتا ہے۔ کوئی بری بات اس میں نہیں ہوتی جب دنیوی معاملات میں لوگ اس طرح اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ تو اپنے ملک کی حفاظت کے لئے جان دینے سے وہی شخص انکار کر سکتا ہے جو جاہل ہو اور وہ جانتا ہی نہ ہو کہ اس غفلت کے کیا نتائج ہؤا کرتے ہیں۔ یہی چیز تھی جس نے ہندوستان کو انگریزوں کا غلام بنا دیا۔ جس وقت انگریز ہندوستان میں آئے ہیں ان کی تعداد دو چار سَو سے زیادہ نہیں تھی۔ ایک ہندوستانی تو شرم کے مارے زمین میں گڑ جاتا ہے۔ جب وہ دیکھتا ہے کہ دو چار سَو آدمی چھ ہزار میل سے آئے اور انہوں نے 33 کروڑ آبادی رکھنے والے ملک کو فتح کر لیا۔ یہ اسی بے حیائی کا نتیجہ تھا جو اس وقت ہندوستانیوں میں عام طور پر پائی جاتی تھی کہ یہاں لڑائیاں ہوئیں تو انہوں نے سمجھا یہ تو بمبئی میں لڑائی ہو رہی ہے۔ ہمیں اس سے کیا یا وہ تو بنگال میں لڑائی ہو رہی ہے۔ ہمیں اس سے کیا۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ آہستہ آہستہ تمام ہندوستان ان کے قبضہ سے نکل گیا۔ آج وہ شور مچاتے ہیں کہ انگریزوں نے ان پر بڑا ظلم کیا لیکن اپنی بے حیائی اور بےغیرتی کا ان کو ذرا بھی احساس نہیں ہوتا۔
جب وہ اس قدر بے غیرت بن چکے تھے تو اگر انگریز اس ملک پر قبضہ نہ کرتے تو فرانسیسی کر لیتے، فرانسیسی نہ کرتے تو پرتگیز کر لیتے۔ جو لوگ ایسے بے غیرت ہو جائیں کہ ان کے دلوں میں اپنے ملک کے جانے کا ذرا بھی احساس نہ رہے۔ انہوں نے تو بہرحال دوسروں کا غلام بننا تھا۔ ایک نہ آتا دوسرا آ جاتا، وہ نہ آتا تو تیسرا آ جاتا۔ دنیا کی تاریخ میں شاید ہی کسی ملک میں ایسی مثال ملتی ہو کہ چند سو آدمی اس ملک میں گئے ہوں اور انہوں نے 33 کروڑ باشندوں پر غلبہ پا لیا ہو۔ مَیں تو جب بھی ہندوستان کی پرانی تاریخ پڑھتا ہوں پسینہ پسینہ ہو جاتا ہوں کہ اس زمانہ کے لوگ کیسے بزدل اور کم ہمت تھے کہ انہوں نے 33 کروڑ ہوتے ہوئے چند سَو لوگوں کو اپنے اوپر غالب آنے کا موقع دے دیا۔ پھر ان میں بے غیرتی یہاں تک بڑھ چکی تھی کہ ہمارے خاندان کی مسلمان بادشاہوں سے جو خط و کتابت ہوتی رہی ہے اس کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے ہمارے پردادا بادشاہِ وقت کو دہلی میں برابر توجہ دلاتے رہے کہ پنجاب میں سکّھوں کا زور بڑھ رہا ہے ہم ان کا مقابلہ تو کر رہے ہیں مگر ہماری چھوٹی سی ریاست ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ آپ مرکز سے فوج بھیجیں تاکہ سکھوں کا مقابلہ کیا جائے اور پنجاب کو جو خطرہ لاحق ہو گیا ہے وہ دور ہو جائے۔ مجھے حیرت آتی ہے اس زمانہ کے بادشاہوں کی بے غیرتی پر، مجھے حیرت آتی ہے اس زمانہ کے بادشاہوں کی بے حسی پر، اور مجھے حیرت آتی ہے ان کی بے توجہی اور لاپروائی پر کہ ایک نہیں دو نہیں متواتر چار بادشاہوں کو خطوط لکھے جاتے رہے اور ہمارے آباء انہیں توجہ دلاتے رہے کہ سکھوں کے مقابلہ کے لئے فوج بھیجی جائے مگر جیسا کہ ان خطوں سے ظاہر ہے وہ ہر خط کا یہی جواب دے دیتے کہ آپ کا خط پہنچا ہم بڑے خوش ہیں کہ آپ اپنے ملک میں سکھوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ہمارا بھی ارادہ ہے کہ ہم کسی وقت پنجاب کی طرف آئیں اور اس فتنہ کا مقابلہ کریں مگر وہ چاروں بادشاہ یہ ارادہ کرتے کرتے ہی مر گئے۔ ان چار بادشاہوں میں سے محمد شاہ ، احمد شاہ اور شاہ عالم کے نام مجھے اس وقت یاد ہیں۔ چوتھے بادشاہ کا نام یاد نہیں رہا۔ یہ چاروں بادشاہ یہی کہتے رہے کہ ہمارا ارادہ ہے ہم پنجاب میں آئیں اور ایک نے تو لکھا کہ مَیں وزیر آباد میں آنے والا ہوں۔ جب وزیر آباد میں آیا تو اس علاقہ کی طرف بھی آؤں گا مگر وہ بھی نہ آیا۔ آخر نتیجہ یہ ہؤا کہ ملک ان کے ہاتھ سے نکل گیا، عزت برباد ہو گئی اور مسلمانوں کی حکومت کا نام و نشان تک مٹ گیا۔ یہ بے غیرتی اوربے حسی کی انتہا نہیں تو اَور کیا ہے کہ چار بادشاہ ارادہ ہی کرتے رہے کہ وہ کسی وقت پنجاب کی طرف آئیں گے مگر ایک بادشاہ نے بھی اس ارادہ کو عملی جامہ نہ پہنایا۔ یہ بے حسی اور ملکی امور سے بے توجہی ہی تھی جس نے مسلمانوں کو برباد کیا اگر اس گری ہوئی حالت میں بھی مسلمان قربانی سے کام لیتے اور بے غیرتی کا بد ترین نمونہ نہ دکھاتے تو کسی کی مجال نہیں تھی کہ وہ پنجاب یا بنگال میں اپنا قدم بھی رکھ سکتا کیونکہ جو لوگ مرنے مارنے کے لئے تیار ہو جائیں۔ ان کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہوتا۔ یہ بے حِسیاں ہی ہیں جو ملکوں کو غلام بناتی ہیں اور یہ بے حسیاں ہی ہیں جو ملکوں کو تباہ و برباد کر دیا کرتی ہیں۔ پس میرے نزدیک ہندوستان پر قبضہ کرنے کا الزام انگریزوں پر لگانا کسی صورت میں درست نہیں ہو سکتا۔ یہ الزام خود ہندوستانیوں پر عائد ہوتا ہے کہ انہوں نے بے غیرتی سے کام لیا اور بجائے قربانی سے کام لینے کے غلام بننا منظور کر لیا۔ ہندوستان اس وقت ایک گرا ہؤا شکار تھا اور ایسے شکار پر قبضہ کر لینا اسلام نے جائز رکھا ہے چنانچہ رسول کریم ﷺ سے کسی شخص نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! اگر کوئی اونٹ جنگل میں آوارہ پھر رہا ہو تو آیا مَیں اس پر قبضہ کر لوں۔ آپ نے فرمایا تیرا اونٹ سے کیا کام؟ اس کی خوراک درختوں پر ہے، اس کا پانی اس کے پاس ہے۔(اونٹ کے اندر ایک تھیلی ہوتی ہے جس میں پانی جمع رہتا ہے) تیرا اس اونٹ سے کیا واسطہ اور تُو کون ہے کہ اس پر قبضہ کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔ دوسرے شخص نے کہا یا رسول اللہ اگر جنگل میں مجھے کوئی آوارہ بکری مل جائے تو کیا مَیں اسے لے لوں۔ آپؐ نے فرمایا تُو اسے لے جا کیونکہ اگر تُو نے اسے نہ لیا تو کوئی بھیڑیا اسے کھا جائے گا۔ 3 تو دیکھو رسول کریم ﷺ نے آوارہ اونٹ پر قبضہ کرنے سے منع کیا ہے کیونکہ اونٹ جنگل میں زندہ رہ سکتا ہے اور مالک کا حق ہے کہ اس کا انتظار کیا جائے لیکن آوارہ بکری کے متعلق آپ نے فرمایا کہ اس پر بے شک قبضہ کر لیا جائے کیونکہ اگر قبضہ نہیں کیا جائے تو بھیڑیا اسے کھا جائے گا۔ اگر ہندوستان میں بھی اونٹ جتنی طاقت ہوتی تو کسی کی مجال نہیں تھی کہ اس پر قبضہ کرتا مگر جب وہ بکری بن گیا تو محمد ﷺ کا یہ فیصلہ ہے کہ جو چاہے اسے لے لے۔ پس اگر ہندوستان کو انگریز نہ لیتے تو پرتگیز لے لیتے، پرتگیز نہ لیتے تو فرانسیسی لے لیتے، وہ نہ لیتے تو افغانستان اس پر قبضہ کر لیتا۔ افغانستان قبضہ نہ کرتا تو روس ہندوستان کو لے لیتا۔ بہرحال جس ملک میں اتنا شقاق ہو ،اتنا فساد ہو، اتنی لڑائیاں ہوں، اتنی بے غیرتی ہو، اتنی بے حسی ہو، اتنی جہالت ہو، اتنی بزدلی ہو، اتنی دون ہمتی ہو اور اس قدر علم سے دوری ہو وہ ملک کبھی آزاد نہیں رہ سکتا تھا اور کوئی نہ کوئی اسے ضرور غلام بنا لیتا جیسے مَیں نے بتایا ہے کہ عوام کا تو کیا ذکر ہے اس ملک کے بادشاہوں کی یہ حالت تھی کہ چار بادشاہوں کو برابر ہمارے آباء توجہ دلاتے رہے کہ پنجاب کی حالت خراب ہو رہی ہے ہم لڑ رہے ہیں مگر ہمارے پاس اتنی طاقت نہیں کہ اس فتنے کا کامیاب مقابلہ کر سکیں، ہماری امداد کے لئے مرکز سے فوج بھیجی جائے اور وہ چاروں بادشاہ یہ جواب دیتے ہیں کہ شاباش تم خوب مقابلہ کر رہے ہو۔ ہم بھی آنے کا ارادہ رکھتے ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی پنجاب میں نہیں آتا۔ یہاں تک کہ چاروں بادشاہ فوت ہو جاتے ہیں۔ یہ بےحسی کا ہی نتیجہ تھا ورنہ جن لوگوں میں حِس اور غیرت ہوتی ہے وہ اَور نہیں تو کم سے کم عزت سے جان دے دیتے ہیں اور ذلت کی زندگی برداشت نہیں کر سکتے مگر مسلمانوں نے اپنی بے حِسی کی وجہ سے سکھوں کے حملہ کو معمولی سمجھا اور اس کے ازالہ کے لئے کوئی کوشش نہ کی۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ وہ تمام شان و شوکت جو انہیں حاصل تھی جاتی رہی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پردادا کا ہی واقعہ ہے کہ ایک سکھ رئیس ان سے ملنے کے لئے آیا اور اس نے آ کر کہا کہ مرزا صاحب کو اطلاع دی جائے کہ مَیں ان سے ملنا چاہتا ہوں ۔ مَیں نے خود یہ واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا ہے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ وہ اس وقت کوٹھے پر تھے جب انہیں اطلاع ہوئی تو وہ ملاقات کے لئے نیچے اترے، پیچھے پیچھے وہ تھے اور آگے آگے ان کے بیٹے تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کےد ادا تھے۔ گویا بیٹا پہلے اتر رہا تھا اور ان کے پیچھے ان کے والد چلے آ رہے تھے جو بہت بڑے بزرگ ہوئے ہیں حتّٰی کہ مَیں نے خود سکھوں سے سنا ہے کہ لڑائی میں انہیں گولی ماری جاتی تھی تو گولی ان پر اثر نہیں کرتی تھی۔ جب وہ نصف سیڑھیوں پر پہنچے تو نیچے سے انہیں آواز آئی سکھ رئیس ان کے بیٹے سے مخاطب ہو کر کہہ رہا تھا واہ گورو جی کا خالصہ اس پر ان کے بیٹے نے بھی اسی رنگ میں جواب دے دیا کہ واہ گورو جی کا خالصہ۔ انہوں نے جب اپنے بیٹے کی زبان سے یہ الفاظ سنے تو اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھتے ہوئے وہیں سیڑھیوں سے واپس لوٹ گئے اور فرمانے لگے سردار صاحب سے کہہ دو کہ میری طبیعت خراب ہو گئی ہے مَیں ان سے مل نہیں سکتا۔ پھر اپنے بیٹے کا ذکر کر کے فرمانے لگے کہ اس کے زمانہ میں ہماری ریاست جاتی رہے گی کیونکہ جس شخص کے اندر اتنی بے غیرتی پیدا ہو گئی ہے کہ اس نے اسلامی شعار کو اختیار نہیں کیا اور جب ایک سکھ نے واہ گورو جی کا خالصہ کہا تو اس نے بھی واہ گورو جی کا خالصہ کہہ دیا وہ ریاست کو کبھی سنبھال نہیں سکے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہؤا۔
اب دیکھو ان کے اندر غیرت تھی جس کی وجہ سے انہوں نے اتنے فقرہ کو بھی برداشت نہ کیا مگر دلّی کے بادشاہ متواتر چٹھیوں کے جواب میں یہی لکھتے چلے گئے کہ شاباش تم خوب کام کر رہے ہو، ہم بھی آنے کا ارادہ رکھتے ہیں مگر کسی کو اتنی توفیق نہ ملی کہ اپنے اس ارادہ کو پورا کر کے دکھاتا۔
تو یہ حالت جب بھی کسی قوم میں پیدا ہو جاتی ہے وہ ذلیل ہو جاتی ہے، اس کی عزت مٹ جاتی ہے ، اس کا غلبہ جاتا رہتا ہے اور وہ تمام دنیا کی نگاہ میں حقیر ہو جاتی ہے لیکن جب کسی قوم میں غیرت پائی جاتی ہو تو وہ اس قسم کی ذلت کو بھی کبھی برداشت نہیں کیا کرتی۔ صحابہؓ کو دیکھو ان میں کس قسم کا جوش پایا جاتا تھااور یہ جوش صرف مردوں میں ہی نہیں تھا بلکہ عورتوں میں بھی پایا جاتا تھا۔ مجھے ہمیشہ ہی ان کے اخلاص اور جوش کی مثال میں خنساء کا واقعہ یاد آیا کرتا ہے۔ ایران کی ایک جنگ میں مسلمانوں پر ایرانیوں نے ہاتھیوں سے حملہ کر دیا جس کے نتیجہ میں بہت سے مسلمان مارے گئے۔ مسلمانوں کی جس قدر کفار سے لڑائیاں ہوئی ہیں ان میں سے یہ پہلی لڑائی تھی جس میں مسلمان زیادہ مارے گئے۔ مَیں نے ابھی کہا تھا کہ لڑائیوں میں مسلمان اکثر محفوظ رہتے تھےاور اب مَیں نے کہا ہے کہ اس لڑائی میں مسلمان زیادہ مارے گئے۔ بظاہر یہ اختلاف نظر آتا ہے لیکن درحقیقت کوئی اختلاف نہیں کیونکہ واقعہ یہی ہے کہ کفار کے مقابلہ میں کثرت سے مسلمان محفوظ رہتے تھے اور ان میں سے بہت کم شہید ہوتے تھے لیکن شاذ و نادر کے طور پر کسی جنگ میں مسلمانوں کو بھی زیادہ نقصان ہؤا ہے۔ گو یہ نقصان مجموعی طور پر دیکھیں تو کفار کے مقابلہ میں پھر بھی کم ہؤا کرتا تھا۔ بہرحال اس جنگ میں مسلمانوں کو بڑا بھاری نقصان پہنچا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب اس جنگ کی خبروں کو سنا تو آپ گھبرا کر اس بات پر تیار ہو گئے کہ خود لڑائی کے میدان میں پہنچ کر لشکر کی کمان کریں مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ کو روکا اور کہا کہ خلیفہ کے لئے لڑائی کے میدان میں جانا درست نہیں ہو سکتا۔ اگر آپ لڑائی پر چلے گئے تو لوگوں کو ہدایات کون دے گا۔ چنانچہ اس مشورہ پر حضرت عمرؓ نے لڑائی میں شامل ہونے کا ارادہ ترک کر دیا ورنہ گھبراہٹ میں آپ خود اس جنگ میں شامل ہونے کے لئے تیار ہو گئے تھے۔
اس جنگ کے بعد صحابہ نے دوبارہ اپنی طاقت کو جمع کیا اور ایرانیوں کے مقابلہ کے لئے تیار ہوئے مگر اس وقت بھی یہ حالت تھی کہ مسلمانوں کے لشکر کی تعداد صرف 15 ہزار تھی اور ایرانیوں کے لشکر کی تعداد جن کا سپہ سالار رستم تھا ایک لاکھ تھی۔ اس جنگ میں ایرانیوں نے چونکہ حملہ کے وقت ہاتھیوں کو استعمال کیا تھا اس لئے مسلمان ہاتھیوں کا مقابلہ نہ کر سکے اور ان میں سے اکثر مارے گئے۔ جیسے موجودہ جنگ میں بھی جاپانیوں نے برما میں ہاتھیوں کےذ ریعے حملے کئے تھے جس کا نتیجہ یہ ہؤا کہ آدمیوں اور گھوڑوں کے لئے ان کا مقابلہ کرنا مشکل ہو گیا۔ پھر ایرانیوں کو یہ بھی فضیلت تھی کہ وہ تنخواہ دار سپاہی تھے اور ساری عمر چھاؤنیوں میں وہ ٹریننگ حاصل کرتے رہے تھے۔ اسی طرح ان کے پاس سامان نہایت اعلیٰ درجہ کے تھے۔ غرض اس رنگ کی انہیں کئی فضیلتیں حاصل تھیں ۔ ادھر مسلمانوں کا لشکر صرف 15 ہزار تھا اور دشمن کا لشکر ایک لاکھ تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس جنگ کی خبریں سن کر جلدی سے ایک آدمی شام کی طرف بھجوا دیا کہ وہاں جس لشکر کو روانہ کیا گیا ہے اس کا ایک حصہ ایران بھیج دیا جائے مگر وہاں سے بھی صرف 3 ہزار کے قریب سپاہی مل سکے۔ غرض مسلمانوں اور ایرانیوں میں شدید جنگ ہوئی اور متواتر دو دن تک ہوتی رہی تیسرے دن جنگ کا پہلو ایسا رنگ اختیار کر گیا کہ مسلمانوں نے سمجھ لیا اگر آج ہمیں فتح حاصل نہ ہوئی تو دشمن اپنی پوری طاقت سے مدینہ کی طرف بڑھنا شروع کر دے گا چنانچہ رات کو بڑے بڑے مسلمان بہادر اکٹھے ہوئے اور انہوں نے قسمیں کھائیں کہ ہم مر جائیں گے مگر دشمن کو مدینہ کی طرف بڑھنے نہیں دیں گے۔ اسی طرح بعضوں نے قسمیں کھائیں کہ ہم صرف ہاتھیوں کا مقابلہ کریں گے اوریا انہیں مار دیں گے یا خود مر جائیں گے۔ چنانچہ ایک پارٹی نے اقرار کیا کہ ہم صرف ہاتھیوں کا مقابلہ کریں گے ، ایک مر جائے گا تو دوسرا اس کی جگہ لے لے گا ، دوسرا مر جائے گا تو تیسرا اس کی جگہ لے لے گا۔ غرض اس رات کئی بہادروں کی پارٹیاں بنیں اور وہ آپس میں جنگ کے متعلق مشورے کرتے رہےاور قسمیں کھا کھا کر اقرار کرتے رہے کہ ہم مر جائیں گے مگر دشمن کو آگے بڑھنے نہیں دیں گے۔ عین اسی وقت جہاں اورمسلمان بہادروں کی پارٹیاں اپنی اپنی مجالس میں اسلام کی برتری اور اس کی فوقیت کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے کا اقرار کر رہی تھیں وہاں ایک مجلس خنساء کے گھر میں بھی ہو رہی تھی۔ خنساء ایک بیوہ عورت تھی جس کی زندگی نہایت ہی تلخی میں گزری تھی۔ اس کا خاوند بہت بڑا شرابی اور جوئے باز تھا اورگو اس کے پاس بہت بڑی جائداد تھی مگر رفتہ رفتہ اس نے تمام جائداد جوئے اور شراب میں لٹا دی۔ جب اس کے حالات بہت خراب ہو گئے اور کھانے پینے کے لئے اس کے پاس کوئی پیسہ نہ رہا تو اس کی بیوی خنساء نے اس سے کہا چلو مَیں تمہیں اپنے بھائی کے پاس لے چلتی ہوں اور اس سے کچھ روپیہ مانگ کر لاتی ہوں مگر شرط یہ ہے کہ تم ان برے کاموں سے توبہ کرو اور اقرار کرو کہ آئندہ شراب اور جوئے کے قریب نہیں جاؤ گے۔ اس نے اقرار کیا اَور وہ اسے اپنے بھائی کے پاس لے گئی۔ بھائی نے اپنی بہن کو دیکھ کر اس کا بڑا احترام کیا اور اس کے آنے کی خوشی میں چالیس دن تک لوگوں کو دعوتیں دیتا رہا۔ اس کے بعد اس نے اپنی قوم کےر ؤساء کو جمع کیا اور ان سے کہا کہ تم انصاف کے ساتھ میرے تمام مال میں سے آدھا مجھے دے دو اور آدھا میری بہن کو دے دو حالانکہ اس کی بہن اپنا حصہ لے چکی تھی انہوں نے ایسا ہی کیا اوراس کی بہن آدھا مال لے کر واپس آ گئی۔ سال ڈیڑھ سال تو خاوند نے جوئے اور شراب کی طرف توجہ نہ کی مگر اس کے بعد پھر وہ ہر وقت شراب میں مست رہنے لگا اورجؤا بھی اس نے شروع کر دیا۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ پھر تمام مال تباہ و برباد ہو گیا۔ جب پھر اسے فاقے آنے شروع ہوئے تو چاٹ تو اسے پڑ ہی چکی تھی اپنی بیوی سے کہنے لگا کہ چلو تمہارے بھائی کے پاس چلیں تم اس سے پھر مدد طلب کرو۔ وہ کہنے لگی مجھے تو شرم آتی ہے مگر خیر تم جو کہتے ہو تو مَیں چلتی ہوں اور مَیں امید کرتی ہوں کہ میرا بھائی مجھ سے حسن سلوک ہی کرے گا۔ چنانچہ وہ پھر اپنے بھائی کے پاس گئی۔ اس کے بھائی نے پہلے سے بھی زیادہ اعزاز کےساتھ اس کا استقبال کیا اور پہلے سے زیادہ اس خوشی میں لوگوں کو چالیس دن تک دعوتیں دیں اَور ذرا بھی نہ جتایا کہ ایک دفعہ جو مَیں تمہیں مدد دے چکا ہوں اب اَور مدد کس طرح دوں۔ چالیس دن کے بعد اس نے پھر رؤساء سے کہا کہ میرا جتنا مال ہے وہ انصاف کے ساتھ آدھا آدھا مجھ میں اور میری بہن میں تقسیم کر دیا جائے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور خنساء پھر یہ مال لے کر واپس آ گئی ۔ کچھ عرصہ کے بعد پھر اس کے خاوند نے شراب اور جوئے میں مال کو ضائع کر دیا اور وہ پھر اپنے خاوند کے کہنے پر اسے ساتھ لے کر تیسری دفعہ مدد کے لئے اپنے بھائی کے پاس آئی۔ اس کے بھائی نے اَور بھی زیادہ عزت کے ساتھ اس کا استقبال کیا اور چالیس دن تک لوگوں کو دعوتیں دیتا رہا اور پھر رؤساء سے کہا کہ میرا جتنا مال ہے وہ مجھ میں اور میری بہن میں نصف نصف تقسیم کر دیا جائے۔ اس کی بیوی کو یہ دیکھ کر سخت غصہ آیا اور اس نے کہا تجھے اپنی اولاد کا ذرا خیال نہیں تُو ایک شرابی اور جواری کے لئے اپنی تمام جائداد کو لٹا رہا ہے تجھے اپنا اور اپنی اولاد کا بھی تو خیال رکھنا چاہئے۔ جب بیوی نے اس سے لڑنا شروع کیا تو وہ کہنے لگا تیرا کیا ہے مَیں اگر مر گیا تو تُو اَور خاوند کر لے گی مجھ پر روئے گی تو میری بہن ہی روئے گی اس لئے مَیں اس کی امداد سے رُک نہیں سکتا چنانچہ اس نے پھر اپنی تمام جائداد کا نصف اپنی بہن کو دے دیا اور اسے نہایت عزت کے ساتھ رخصت کیا۔ اس کے تھوڑے عرصہ کے بعد اس کا خاوند مر گیا اس وقت وہ نوجوان تھی اور اس کے تین بچے تھے مگر اس نے خاوند کے مرنے کے بعد بڑی محنت کے ساتھ ان کو پالا اَور چونکہ اسے اپنے بھائی کا یہ فقرہ بھی پہنچ گیا تھا کہ مجھ پر اگر روئے گی تو میری بہن ہی روئے گی۔ اس لئے جب اس کا بھائی مرا تو اس نے ا س دن سے اپنے بھائی کے مرثیے کہنے شروع کر دئیے ۔ یہ مرثیے اتنے دردناک ہیں کہ آج تک عربی زبان میں تمام مرثیوں کے سرتاج سمجھے جاتے ہیں اوران کی زبان ایسی اعلیٰ درجہ کی ہے کہ آج بھی عربی علم ادب کے شائقین ان مرثیوں کو پڑھتے اور ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
خنساء کے ان مرثیوں کا اتنا اثر تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسا انسان جو قسم قسم کے کاموں میں مشغول رہتا تھا ان مرثیوں کو سن کر بعض دفعہ محوِ حیرت ہو جاتا تھا۔ حضرت عمرؓ کے ایک بھائی جن کا نام غالباً زید تھا وہ ایک جنگ میں شہید ہو گئے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان سے بڑی محبت تھی اور ہمیشہ اپنے بھائی کا ذکر کیا کرتے تھے۔ ایک دن خنساء ان کے پاس کسی کام کے لئے آئی تو فرمانے لگے خنساء مجھے اپنا کلام سناؤ۔ چنانچہ خنساء نے بعض مرثیے انہیں پڑھ کر سنائے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مرثیے سن کر فرمایا۔ میرے دل میں کئی دفعہ حسرت پیدا ہوتی ہے کہ کاش مجھے بھی شعر کہنا آتا اور مَیں بھی اپنے بھائی کے ایسے ہی مرثیے کہتا۔ خنساء اس وقت مسلمان ہو چکی تھی اور ایمان اس کے دل میں مضبوطی سے گڑ چکا تھا اس نے جب یہ بات سنی تو کہنے لگی، عمرؓ آپ نے یہ کیا کہا اگر میرا بھائی اس طرح مارا جاتا جس طرح آپ کا بھائی مارا گیا ہے تو خدا کی قسم مَیں تو کبھی اس کا مرثیہ نہ کہتی۔ مَیں تو اس لئے مرثیے کہتی ہوں کہ میرا بھائی کفر کی حالت میں مرا اور اس نے میرے ساتھ بڑے بڑے احسان کئے تھے۔ مجھے افسوس آتا ہے کہ اس نے اپنی دنیا میری خاطر برباد کی اور دین اسے نصیب نہ ہؤا ورنہ میرا بھائی اگر آپ کے بھائی کی طرح کسی اسلامی جنگ میں شہید ہو کر مرتا تو مَیں تو کبھی اس کا مرثیہ نہ کہتی۔ تو اس عورت کے گھر میں بھی اس رات مجلس لگی ہوئی تھی اس نے اپنے تینوں بیٹوں کو بلایا اور کہا اے میرے بیٹو! تمہیں پتہ ہے کہ تمہارے باپ کا کیا حال تھا۔ انہوں نے کہا اماں ہمیں سب کچھ معلوم ہے۔ اس نے کہا تم کو پتہ ہے کہ تمہارے باپ کے مرنے کے بعد مَیں نے تمہارے خاندان کی عزت کو قائم رکھا اور ہر قسم کی تکلیفیں اپنے نفس پر برداشت کیں مگر میری عزت پر یا تمہارے خاندان کی عزت پر کوئی حرف نہیں آیا۔ انہوں نے کہا ہم یہ سب باتیں جانتے ہیں۔ اس نے کہا تم جانتے ہو کہ مَیں نے تمہاری تربیت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ تمہیں ہر قسم کا آرام پہنچانے کی مَیں نے کوشش کی اور تمہاری خاطر مَیں نے کئی قسم کی تکالیف میں اپنے آپ کو ڈالا۔ کیا یہ باتیں صحیح ہیں یا نہیں۔ انہوں نے کہا اماں آپ جو کچھ کہتی ہو بالکل درست ہے۔ پھر خنساء نے کہا ۔ اے میرے بچو! آج صبح اسلامی لشکر ایک ایسی لڑائی کے لئے جانے والا ہے جس کے نتیجہ میں ایک بہت بڑا نقصان یا بہت بڑا فائدہ اسلام کو پہنچنے والا ہے۔ مَیں تمہیں اپنے ان اعمال کا واسطہ دے کر جو مَیں نے تمہاری تربیت کے لئے کئے اور ان تکالیف کو یاد دلا کر جو مَیں نے تمہاری خاطر برداشت کیں تم سے یہ اقرار لینا چاہتی ہوں کہ تم اس جنگ میں یا مارے جاؤ گے یا فتح پا کر واپس لوٹو گے ورنہ (عرب کے محاورہ کے مطابق اس نے کہا) مَیں نے جو تم پر احسان کیا ہے تمہیں دودھ پلایا اور تمہاری نیک تربیت کی ہے قیامت کے دن نہیں بخشوں گی۔ ان بچوں نے ماں سے وعدہ کیا کہ ماں ایسا ہی ہو گا یا ہم سب مارے جائیں گے یا فتح پا کر واپس لوٹیں گے۔4 تو دیکھو وہ بھی ایک عورت تھی اور بیوہ عورت تھی جس نے یہ نمونہ دکھایا اس کے تین بچے تھے مگر اس نے تینوں بچوں سے یہ اقرار لے کر میدان جنگ میں بھجوا دیا کہ یا وہ مر جائیں گے یا فتح پا کر لوٹیں گے۔ اس نے اپنی ساری عمر دکھ میں کاٹی تھی اور طبعی طور پر وہ سمجھتی تھی کہ اب اس کے بیٹے کمائیں گے اور وہ آرام سے اپنی زندگی کے آخری دن گزار سکے گی مگر ایسے موقع پر جبکہ وہ اپنی عمر کے آخری حصہ میں سے گزر رہی تھی اس نے اپنے تینوں بچوں کو قربان کرنے کے لئے جس جرأت اور دلیری کے ساتھ پیش کر دیا۔ کیا وہ عورت نہیں تھی یا کیا اس کے سینہ میں ماؤں والا دل نہیں تھا۔ اگر ماؤں والا دل اس کے سینے میں نہ ہوتا تو وہ اپنے بچوں کی پرورش اتنی تکالیف میں کس طرح کرتی۔ یہ سب کچھ تھا مگر پھر بھی اس نے بچوں کو قربان کرنے کے لئے پیش کر دیا، اس کے دل کی اس وقت جو کچھ کیفیت تھی اس کا پتہ اس سے لگ سکتا ہے کہ ادھر اس نے اپنے بچوں کو لڑائی کے میدان میں بھیجاادھر اکیلی جنگل میں نکل گئی اور بے اختیار سجدے میں گر کر اس نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی کہ اے میرے اللہ! مَیں نے اپنے تینوں بچے جو میری ساری عمر کی پونجی تھے۔ تیرے دین کے لئے قربان ہونے کو بھیج دئیے ہیں۔ اب ان کا کوئی رکھوالا نہیں اور وہ تینوں اس اقرار کے ساتھ گئے ہیں کہ ہم مر جائیں گے یا فتح پا کر واپس لوٹیں گے۔ اے خدا تجھ سے مَیں التجا کرتی ہوں کہ تُو ان کا رکھوالا ہو اور ان کو اپنی حفاظت اور پناہ میں رکھ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہؤا کہ شام تک لشکر اسلام کو فتح بھی نصیب ہو گئی اور اس کے بچے بھی زندہ میدان جنگ سے واپس آ گئے ۔ تو دیکھو وہ ایک عورت تھی مگر اس کے دل میں یقین اور ایمان تھا اوروہ جانتی تھی کہ اگر میرے بچے ذلت سے زندہ رہے تو یہ میرے لئے بھی ذلت کا موجب ہو گا اور ان کے لئے بھی ذلت کا موجب ہو گا لیکن اگر یہ عزت کےساتھ مر گئے تو یہ مریں گے نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئے زندہ ہو جائیں گے اور اگر عزت اور کامیابی اور فتح کے ساتھ واپس آ گئے تب بھی وہ تعریف کے قابل سمجھے جائیں گے۔
غرض یہ قربانی کی روح ہی تھی جس نے مسلمانو ں کو دلیر اور بہادر بنا دیا اور جس کی وجہ سے وہ خدا تعالیٰ کی تقدیر پر خوش تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اگر خدا تعالیٰ نے جنگ میں ہمارے لئے موت مقدر کی ہوئی ہے تو ہم عزت کی موت مریں گے اور اگر فتح مقدر کی ہوئی ہے تو ہم عزت کےساتھ فتح پا کر واپس لوٹیں گے۔ یہی وجہ تھی کہ اِلَّا مَا شَاءَ اللہُ ہر میدان میں ان کا نقصان بہت کم ہوتا تھا اور دشمن کا نقصان بہت زیادہ ہوتا تھا۔ وہ چونکہ خدا تعالیٰ کی تقدیر پر خوش ہو گئے تھے اس لئے آسمان سے فرشتے ان کی مدد کے لئے نازل کئے جاتے تھے سوائے ان لوگوں کے جن کے لئے شہادت کی موت مقدر ہو چکی تھی اور وہ اس بات میں اتنے بے پرواہ ہو چکے تھے کہ انہیں اپنے عزیز سے عزیز رشتہ دار پر بھی خدا تعالیٰ کی خاطر تلوار چلانےسے کوئی چیز روک نہیں سکتی تھی۔ مجھے ہمیشہ ہی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی اس بات کا لطف آتا ہے کہ ایک دفعہ آپ رسول کریم ﷺ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ باتوں باتوں میں بدر کی جنگ کا ذکر آ گیا۔ ان کے بڑے لڑکے پہلے کفار کے دین پر تھے اور بدر کی جنگ میں وہ مسلمانوں کے خلاف لڑے تھے۔ بعد میں وہ رسول کریم ﷺ پر ایمان لے آئے تھے۔ وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے کہ ابا جان فلاں موقع پر آپ فلاں پتھر کے پاس سے گزرے تھے۔ مَیں اس وقت پتھر کے پیچھے چھپ کر بیٹھا ہؤا تھا۔ مَیں تلوار لے کر حملہ کرنے کے لئے نکلا تو مَیں نے دیکھا کہ آپ جا رہے ہیں۔ مَیں نے اس وقت اپنی تلوار کو میان میں کر لیا اور مَیں نے اپنے دل میں کہا مَیں اپنے باپ پر کس طرح حملہ کروں۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ بیٹا تمہاری قسمت میں ایمان مقدر تھا اس لئے مَیں نے تجھے اس وقت نہیں دیکھا ورنہ مَیں تجھے وہیں مار ڈالتا۔5 تو وہ لوگ اپنی موت یا اپنے رشتہ داروں کی موت کی کوئی حقیقت ہی نہیں سمجھتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ یہاں تقدیر کا سوال ہے اور خدا تعالیٰ کا فیصلہ ایک انقلاب عظیم کے ذریعہ ظاہر ہو چکا ہے اور اس کا منشاء ہے کہ اپنے آپ کو خطرہ میں ڈالو۔ پھر خدا جسے چاہے گا بچا لے گا چنانچہ انہوں نے خدائی تقدیر کوسمجھتے ہوئے اپنے آپ کو خطرہ میں ڈال دیا اور انہوں نے اس بات کی کوئی پرواہ نہ کی کہ ان کی جان جاتی ہے یا ان کے عزیزوں اور رشتہ داروں کی جانیں جاتی ہیں۔
یہ موقع بھی ایک عظیم الشان انقلاب کا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی پیشگوئیاں بتاتی ہیں کہ زمین اس کی قہری تجلیات سے ہلا دی جائے گی، عذاب پر عذاب آئے گا اور انقلاب پر انقلاب واقع ہو گا یہاں تک کہ انسانی قلوب میں دنیا کی محبت سرد ہو جائے گی اور اس کی جگہ خدا کی محبت لے لے گی۔ آج تم اپنے چاروں طرف نظر دوڑا کر دیکھو۔ کتنے لوگ ہیں جن کےد لوں میں خدا تعالیٰ کی محبت ہے۔ کتنے ہیں جو اس پر سچا ایمان رکھتے ہیں، کتنے ہیں جو ہر وقت اس کی طرف متوجہ رہتے ہیں، نمازیں پڑھنا، چلّہ کشیاں کرنا (اور چلّہ کشیوں سے میری مراد پیروں والی چلّہ کشیاں نہیں بلکہ اعتکاف میں بیٹھنا اور مساجد میں ذکر الٰہی کرنا ہے) اسی طرح روزے رکھنا اور صدقہ و خیرات کرنا تو بہت دور کی بات ہے آج جب لوگوں سے یہ کہا جاتا ہے کہ وہ سینما میں نہ جایا کریں تو انہیں یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا ان کی ماں کی موت کی خبر ان کو دی گئی ہے۔ قسم قسم کی عیاشیاں اور قسم قسم کے تعیّش کے سامان ہیں جو پیدا ہو چکے ہیں اور لوگ ان کو چھوڑنا ایسا ہی سمجھتے ہیں جیسے جان دے دینا بلکہ مَیں نے خود کئی لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ ہمیں مر جانا منظور ہے مگر ہم سینما نہیں چھوڑ سکتے۔ یہ بات ہمارے لئے بالکل ناقابل برداشت ہے اور ہم اس کے بغیر زندہ ہی نہیں رہ سکتے۔ اتنے تعیّش کے سامانوں کو چھوڑ کر خدا تعالیٰ کا خوف اپنے دلوں میں پیدا کرنا اور اسی کی طرف ہمہ تن متوجہ ہو جانا ، کیا یہ کوئی معمولی بات ہے۔ جب تک دنیا خدا تعالیٰ کے عذابوں سے ہلا نہیں دی جائے گی اس وقت تک قلوب میں یہ تغیر پیدا نہیں ہو سکتااور خدا آج کل اسی غرض کے لئے زمین کو ہلا رہا اور باربار لوگوں کو جھنجوڑ رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ ہمیں بھی بیدار کر رہا ہے تاکہ ہم بھی قربانی کی روح اپنے اندر پیدا کریں اور بزدلی کو ترک کر کے جرأت اور بہادری سے کام لیں۔ پس ہم پر یہ خدا تعالیٰ کا احسان ہے کہ وہ اس انقلاب کے ذریعہ ہماری جماعت کے اندر قربانی کی روح پیدا کر رہا ہے۔ ہر احمدی جو اس انقلاب سے فائدہ اٹھاتا ہے وہ درحقیقت اپنے آپ کو اس جنگ کے لئےتیار کرتا ہے جو روحانی طور پر دوسرے مذاہب سے احمدیت کو پیش آنے والی ہے۔
تم مت سمجھو کہ احمدیت کی فتح اسی طرح ہو گی کہ ایک احمدی یہاں سے ہؤا اور ایک وہاں سے۔ یہ تو ویسی ہی جنگ ہے جیسے بڑی جنگ سے پہلے ہراول دستوں سے چھوٹی چھوٹی جھڑپیں ہو جایا کرتی ہیں، ان معمولی ہراول دستوں کی جنگوں کو بڑی جنگ سمجھنا غلطی ہے۔ ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب احمدیت کو دوسرے تمام مذاہب کے مقابلہ میں ڈٹ کر مقابلہ کرنا پڑے گا۔ تب دنیا کے مستقبل کا فیصلہ ہو گا اور تب دنیا کو معلوم ہو گا کہ کونسا مذہب اس کی نجات کے لئے ضروری ہے۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ یہ تلوار کی جنگ ہو گی مگر مَیں یہ ضرور کہوں گا کہ یہ مضبوط دلوں کی جنگ ہو گی اور دلوں کی مضبوطی اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتی جب تک انسان خطرات میں اپنے آپ کو ڈالنے کے لئے تیار نہ ہو جائیں۔ پس ہر جگہ جہاں کوئی شخص ڈوب رہا ہو وہاں ایک احمدی کو سب سے پہلے کُودنا چاہئے اس لئے بھی کہ وہ مسلمان یا سکھ یا عیسائی یا ہندو اس کا ایک بھائی ہے جس کو بچانا اس کا فرض ہے اور اس لئے بھی کہ اس کے اندر جرأت اور بہادری پیدا ہو۔ ہر جگہ جہاں آگ لگ گئی ہو وہاں ایک احمدی کو اس آگ کے بجھانے کے لئے سب سے پہلے پہنچنا چاہئے۔ اس لئے بھی کہ جس کے گھر کو آگ لگی ہے وہ خواہ مسلمان ہے یا ہندو ہے یا سکھ ہے یا عیسائی ہے، بہرحال اس کا ایک بھائی ہے اور اس لئے بھی کہ اس کے نفس کو آگ میں کودنے کی مشق ہو اور جرأت اور دلیری اس کے اندر پیدا ہو۔ اسی طرح ہر جنگ جو وطن کی حفاظت کے لئے لڑی جائے اس میں ایک احمدی کو سب سے پہلے شامل ہونا چاہئے اس لئے بھی کہ وطن کا حق ہے کہ اس کی حفاظت کے لئے جان دی جائے اور اس لئے بھی کہ اس کے اندر جرأت اوربہادری پیدا ہو اورجب شیطان کی جنگ خدا تعالیٰ کی فوج کے ساتھ ہو تو اس وقت وہ اس جنگ میں خدا تعالیٰ کے لئے اپنی جان کو قربان کرنے والا ہو۔ جو شخص آج اپنے آپ کو اس رنگ میں تیار نہیں کرتا، جو شخص آج اپنے نفس کی اس طرح تربیت نہیں کرتا، جو شخص آج اپنے اندر یہ جرأت اوردلیری پیدا کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا کل اس پر کوئی امید نہیں کی جا سکتی۔ وہ کچے دھاگے کی طرح ٹوٹ جائے گا اور اس کی زبان کےد عوے اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکیں گے۔
مَیں امید کرتا ہوں کہ جماعت کا اکثر حصہ ایسا ہی ہو گا۔ چنانچہ پچھلے خطبہ کے بعد ہی جب مَیں اپنے گھر گیا تو مجھے نہایت ہی تعجب ہؤا ویسا ہی تعجب جیسے عبد الرحمان بن عوفؓ کو اس وقت ہؤا تھا جب ان کے پہلو میں ایک انصاری لڑکے نے کہنی مار کر کہا تھا کہ چچا وہ ابو جہل کونسا ہے جو رسول کریم ﷺ کو دکھ دیا کرتا تھا میرا جی چاہتا ہے کہ آج اس کو مار ڈالوں۔ 6مجھے بھی اس روز ویسا ہی تعجب ہؤا۔ مَیں خطبہ کے بعد گھر میں گیا تو ایک لڑکی جو نئی بیاہی ہوئی ہے اور جس کا ابھی رخصتانہ بھی نہیں ہؤا اور جو شہر کی رہنے والی ہے۔ زمینداروں میں سے نہیں جنہیں لڑائی کی عادت ہوتی ہے بلکہ ایک ایسے خاندان میں سے ہے جس میں شاید صدیوں میں بھی کوئی سپاہی نہ ہؤا ہو ۔ پھر وہ ایک ایسے شہر کی رہنے والی ہے جو تعیّش اور آرام کے سامانوں کے لحاظ سے ہندوستان میں مشہور ہے، ایسے شہر کی، اس قسم کے خاندان سے تعلق رکھنے والی ایک ایسی لڑکی جس کی ابھی ابھی شادی ہوئی ہے اور جس کا رخصتانہ بھی نہیں ہؤا۔ میرے پاس آئی اور کہنے گی مَیں نے اپنے ابا کو خط لکھ دیا ہے کہ وہ فوج میں بھرتی ہو جائیں۔ مَیں حیران ہؤا کہ اس کے ابا تو بوڑھے ہیں اس نے اپنے باپ کو یہ کیا لکھا کہ وہ فوج میں بھرتی ہو جائیں چنانچہ مَیں نے اس سے کہا ۔ بی بی مَیں تمہاری بات کو نہیں سمجھا ، تمہارے باپ تو بوڑھے ہیں وہ فوج میں کس طرح بھرتی ہو سکتے ہیں؟ پھر اس نے شرمائی ہوئی آواز سے کہا مَیں نے اپنے ابا کو خط لکھ دیا ہے کہ وہ فوج میں بھرتی ہونے کی اجازت دے دیں۔ مَیں نے سمجھا کہ شاید اس نے یہ لکھا ہے کہ مجھے فوج میں بھرتی ہونے کی اجازت دی جائے۔ چنانچہ مَیں نے پھر کہا کہ لڑکیاں تو فوج میں بھرتی نہیں ہوتیں۔ اس نے کہا آپ تو میری بات سمجھے ہی نہیں۔ مَیں نے اپنے ابّا کو لکھا ہے کہ انہیں اجازت دے دیں کہ وہ فوج میں بھرتی ہو جائیں۔ تب مجھے سمجھ آئی کہ وہ کیا کہنا چاہتی ہے۔ درحقیقت ہماری ہندوستانی عورت شرم کی وجہ سے اپنے خاوند کا نام نہیں لیا کرتی۔ اس نے بھی اپنے خاوند کا نام تو نہ لیا صرف یہ کہا کہ مَیں نے اپنے ابا کو لکھا ہے کہ وہ انہیں فوج میں بھرتی کرا دیں۔ مطلب یہ تھا کہ مَیں نے اپنے خاوند کے متعلق انہیں لکھا ہے کہ وہ انہیں بھرتی کرا دیں مگر چونکہ ہماری عورتیں شرم کے مارے اپنے خاوند کا نام نہیں لیتیں اس لئے اس کی بات سن کر پہلے تو مَیں سمجھا کہ شاید اس نے اپنے ابّا کو لکھا ہے کہ وہ فوج میں بھرتی ہو جائیں پھر جب مَیں نے کہا کہ وہ تو بوڑھے ہیں تو اس نے ایسا جواب دیا جس سے مَیں یہ سمجھا کہ شاید اس نے اپنے متعلق یہ لکھا ہے کہ مجھے فوج میں بھرتی ہونے کی اجازت دے دیں اورجب اس کے متعلق بھی مَیں نے کہا کہ عورتیں تو فوج میں بھرتی نہیں ہوتیں تب اس نے جو جواب دیا اس سے مَیں یہ سمجھا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مَیں جس کی ابھی ابھی شادی ہوئی ہے، جس کا ابھی رخصتانہ بھی نہیں ہؤا، چاہتی ہوں کہ سلسلہ کی روایات کو قائم رکھنے کے لئے اپنے خاوند کو فوج میں بھجوا دوں اور اس کے متعلق مَیں نے اپنے ابا کو خط لکھ دیا ہے کہ وہ انہیں فوج میں بھرتی کرا دیں۔ تب مَیں نے سمجھا کہ اگر ایک کمزور دل عورت اس قسم کی بہادری دکھا سکتی ہے اور وہ اپنے سہاگ کے آنے سے پہلے ہی اس کو لٹانے کے خطرہ میں ڈال سکتی ہے تو مجھے امید رکھنی چاہئے کہ ہماری جماعت کے دوسرے افراد بھی ایسی ہی جرأت اور بہادری دکھائیں گے۔ پھر مجھے ان دوستوں نے جو بھرتی کے لئے باہر دورہ پر گئے ہوئے تھے سنایا کہ ایک عورت جس کا ایک ہی بچہ تھا وہ اسے لائی اورکہنے لگی۔ میرے اس بچہ کو احمدیہ کمپنی میں بھرتی کیا جائے۔ وہ کہتے ہیں ہم نے اسے کہا مائی تیرا ایک ہی بچہ ہے تُو اس کو بھرتی نہ کرا۔ جن کے دو دو ، تین تین بچے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ وہ اپنا ایک ایک بچہ بھرتی کرا دیں مگر اس نے اصرار کیا اور کہا کہ مَیں اسے ضرور بھجوانا چاہتی ہوں اورکہا کہ جب احمدیت کے فائدہ اور اس کی ترقی کے لئے خلیفة المسیح یہ تحریک کر رہے ہیں تو مَیں اس ثواب میں شامل ہونے سے پیچھے نہیں رہنا چاہتی۔ اسی طرح انہوں نے سنایا کہ ایک شخص کے دو لڑکے تھے۔ وہ ان دونوں لڑکوں کو بھرتی کرانے کے لئے لے آیا۔ ہم نے اسے کہا کہ ایک کو بھرتی کرا دو اور ایک کو رہنے دو مگر اس نے اصرار کیا کہ مَیں اس ثواب میں دونوں کو شریک کرنا چاہتا ہوں۔
تو دیکھو ایک تو یہ لوگ ہیں جنہوں نے قربانی کے یہ نمونے پیش کئے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت میں یہ گروہ ایک خاصی تعداد میں ہے۔ ضلع گورداسپور سے ہی ایک ہزار کے قریب احمدی فوج میں جا چکے ہیں اور یہ بہت بڑی تعداد ہے۔ جنگی ملکوں میں سے بھی گورداسپور کی جماعت کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے اتنے لوگ فوج میں بھرتی نہیں ہوتے مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت نے ضلع گورداسپور سے ہی ایک ہزار احمدی فوج میں بھجوا دئے ہیں جو بہت بڑی خوشی کا موجب ہے لیکن اس کے مقابلہ میں مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ضلع سیالکوٹ کے دو گاؤں ایسے ہیں جہاں کے نوجوان تو فوج میں بھرتی ہونے کے لئے تیار ہو گئے مگر وہاں کے بوڑھوں، عہدیداروں اور عورتوں نے رو پیٹ کر انہیں بھرتی ہونے سے روک دیا اور کہا کہ ہم تمہیں نہیں جانے دیں گے۔ سیالکوٹ کو خدا تعالیٰ نے یہ شرف عطا کیا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة وا لسلام کی ابتدائی قیامگاہوں میں سے ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام فرمایا کرتے تھے کہ سیالکوٹ ہمیں دوسرے وطن کی طرح پیارا ہے۔ 7 پس سیالکوٹ کو یہ ایک اعزاز حاصل ہے مگر اس اعزاز کی وجہ سے وہاں کے لوگوں کو وہی جرأت اور بہادری اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے جس جرأت اور بہادری کو پیدا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام تشریف لائے تھے۔ آپ نے پہلے ہی فرما دیا تھا کہ میرا راستہ خدا تعالیٰ نے پھولوں کی سیج پر نہیں بنایا بلکہ کانٹوں اور تلواروں پر بنایا ہے۔
’’اگر کوئی میرے قدم پر چلنا نہیں چاہتا تو مجھ سے الگ ہو جائے۔ مجھے کیا معلوم ہے کہ ابھی کون کون سے ہولناک جنگل اور پُرخار بادیہ درپیش ہیں جن کو مَیں نے طے کرنا ہے۔ پس جن لوگوں کے نازک پیر ہیں وہ کیوں میرے ساتھ مصیبت اٹھاتے ہیں۔‘‘8
اس اعلان کے بعد جب کوئی شخص اس سلسلہ میں داخل ہوتا ہے تو وہ اس اقرار کے ساتھ داخل ہوتا ہے کہ مَیں نے کانٹوں پر چلنا ہے پھولوں کی سیج پر نہیں چلنا اور یا پھر نَعُوْذُ بِاللہ اسے یہ سمجھنا پڑتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے ان الفاظ کے ذریعہ لوگوں کو دھوکا دیا ہے جیسے بعض دفعہ جب کوئی شخص خاص طور پر اچھا کھانا کھانا چاہتا ہو تو دوسروں سے کہہ دیتا ہے کہ میرے گھر میں تو دال دلیا پکا ہے اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ یہ سن کر چلے جائیں تو بعد میں وہ اکیلا اس کھانے کو کھا جائے۔ ہمارے ملک میں مشہور ہے کہ ایک عورت سخت بخیل تھی وہ اپنے لئے تو خوب گھی ڈال کرکھچڑی پکا لیتی مگر بچوں کے آگے روکھی سوکھی روٹی رکھ دیتی۔ بچے کہتے کہ ماں تُو بھی ہمارے ساتھ کھانے میں شریک ہو جا تو وہ کہہ دیتی ماں پئے چُلّھے وِچ تُسیں تے کھاؤ۔ یعنی ماں چولہے میں پڑے ، روٹی تو صرف تمہارے لئے ہے تم کھاؤ اور مجھے بھوکا ہی رہنے دو۔ وہ سمجھتے کہ ماں ہماری خاطر روکھی سوکھی روٹی بھی نہیں کھاتی اورجو کچھ ملتا ہے ہمیں کھلا دیتی ہے۔ اس طرح وہ ماں کے بہت ممنون رہتے مگر ایک دن ایک چالاک لڑکا کہنے لگا مَیں یہ بات مان نہیں سکتا کہ ہماری ماں روزانہ فاقے کیا کرتی ہے۔ ایک دن فاقہ ہو سکتا ہے، دو دن فاقہ ہو سکتا ہے، تین دن فاقہ ہو سکتا ہے یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ہماری ماں کبھی کھانا ہی نہ کھائے۔ آخر اسے خیال آیا کہ ہماری اماں جو روز کہتی ہے کہ ماں پئے چُلّہے وِچ۔ تو ہمیں دیکھنا چاہئے کہ چولہے میں کیا ہوتا ہے۔ چنانچہ اس نے چولہے کی راکھ جو ہٹائی تو نیچے سے ایک قلفی9 نکلی۔ اس کا ڈھکنا اس نے کھول کر دیکھا تو اس میں کھچڑی رکھی ہوئی تھی اور اس میں خوب گھی پڑا ہؤا تھا۔ چنانچہ سب بچوں نے مل کر وہ کھچڑی کھا لی جب کھانے کا وقت آیا اور ان کی والدہ نے ان کے سامنے اپنی عادت کے مطابق روکھی سوکھی روٹی رکھ دی تو بچے کہنے لگے ماں آپ بھی ہمارے ساتھ کھانا کھائیں۔ وہ کہنے لگی پُت ماں پئے چُلّہِے وِچ ۔ وہ کہنے لگے ماںچُلّہِے ولہے دے بھروسے تے نہ رہیں۔ آج چُلّہِے وچ پُت پئے گئے ہن۔ یعنی چولہے کے بھروسے پر نہ بیٹھی رہنا وہ چولہے والی چیز آج ہم کھا گئے ہیں۔ اگر اسی کے بھروسہ پر بیٹھی رہو گی تو یہ روکھی سوکھی روٹی بھی نہیں ملے گی۔
پس یا تو نَعُوْذُ بِاللہِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فرمایا تھا کہ میرے راستہ میں بڑے بڑے ہولناک جنگل اور پُرخار بادیہ درپیش ہیں جن لوگوں کے نازک پَیر ہیں اور ان کانٹوں کو وہ برداشت نہیں کرسکتے وہ مجھ سے الگ ہو جائیں۔ اس وقت آپ کا یہ مطلب تھا کہ میرے ان الفاظ کو سن کر دوسرے لوگ الگ ہو جائیں گے اورمَیں اکیلا تمام نعمتوں کو لے لوں گا اور یا پھر ماننا پڑے گا کہ لوگوں نے خود دھوکا کھایا۔ انہیں بتا دیا گیا تھا کہ اس سلسلہ میں داخل ہو کر انہیں پھولوں کی سیج پر نہیں بلکہ کانٹوں پر چلنا پڑے گا مگر انہوں نے اس سلسلہ میں داخل ہو کر اپنا راستہ پھولوں کی سیج پر تلاش کرنا چاہا۔
پس دو باتوں میں سے ایک بات ضرور ہےیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نَعُوْذُ بِاللہِ دھوکا دینے والا سمجھا جائے گا یا خود تمہیں اپنے آپ کو دھوکا خوردہ تسلیم کرنا پڑے گا۔ ان دو قصبات میں سے جو سیالکوٹ کے ضلع کے ہیں ایک قصبہ تو ایسا ہے کہ باوجود اس کے کہ وہاں دیر سے احمدیت داخل ہے چند عہدیداروں کی وجہ سے وہ قصبہ لڑائی اور فساد کا گڑھ بنا ہؤا ہے۔ مجھے ہمیشہ خیال آیا کرتا ہے کہ اگر پیغامیت کبھی سیالکوٹ میں داخل ہوئی تو وہ اس گاؤں کے ذریعہ داخل ہو گی اور وہاں کے لوگ ہی اپنے ایمان کی کمزوری کی وجہ سے اس فتنہ کی آگ کو ہوا دینے والے ہوں گے۔ مَیں اس گاؤں کے احمدی نوجوانوں کو کہتا ہوں کہ وہ فوراً وہاں کے عہدیداروں کو ہٹا دیں اور خود ان کی جگہ کام کرنے لگ جائیں ورنہ ان کے ساتھ ہی کفر کی دیواروں کے نیچے وہ بھی دب کر ہلاک ہو جائیں گے۔ انہیں دین کے معاملہ میں اپنے باپ، اپنی ماں، اپنے چچا ، اپنے بھائی اور اپنے کسی عزیز سے عزیز رشتہ دار کی بھی پرواہ نہیں کرنی چاہئے بلکہ خدا تعالیٰ کی آواز کو ان تمام رشتے داروں پر مقدم سمجھنا چاہئے۔ ہر وہ باپ جو تم میں اور تمہارے خدا میں حائل ہوتا ہے اسے ہٹا دو،ہر وہ ماں جو تم میں اور تمہارے خدا میں حائل ہوتی ہے اسے ہٹا دو، ہر وہ چچا جو تم میں اَور تمہارے خدا میں حائل ہوتا ہے اسے ہٹا دو، ہر وہ بھائی جو تم میں اور تمہارے خدا میں حائل ہوتا ہے اسے ہٹا دو، ہر وہ رشتہ دار جو تم میں اور تمہارے خدا میں حائل ہوتا ہے اسے ہٹا دو کیونکہ وہ باپ کی شکل میں ایک شیطان ہے جو تمہارے سامنے کھڑا ہے ، ماں کی شکل میں ایک شیطان ہے جو تمہارے سامنے کھڑی ہے، چچا کی شکل میں ایک شیطان ہے جو تمہارے سامنے کھڑا ہے، بھائی کی شکل میں ایک شیطان ہے جو تمہارے سامنے کھڑا ہے،تمہارے رشتہ دار کی شکل میں ایک شیطان ہے جو تمہارے سامنے کھڑا ہے۔ جو لوگ اس جرأت سے کام نہیں لے سکتے ان کا یہ دعویٰ کہ وہ مومن ہیں بالکل جھوٹا ہے۔ پس ہٹا دو ان عہدیداروں کو اور خود آگے بڑھ کر ان کی جگہ کام کرنا شروع کر دو اور یاد رکھو کہ اگر آج تمہارے دل میں کچھ ایمان موجود ہے او رتم نے اس سے کام نہ لیا تو یہ بوڑھے تمہیں ایک دن بے ایمان کر کے رہیں گے۔پس وہاں کے نوجوان ان کو عہدوں سے ہٹا دیں اور احمدیت کے اس جھنڈے کو اپنے ہاتھ میں لے کر بلند کرنا شروع کر دیں جس جھنڈے کو ان کے باپ دادا اور دوسرے رشتے دار اپنی بزدلی اور ایمان کی کمزوری کی وجہ سے گرانا چاہتے ہیں۔ خصوصاً میں خدام الاحمدیہ کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس قسم کی باتوں کی پرواہ نہ کریں اور خواہ انہیں کتنی ہی بے دردی کرنی پڑے اور کتنے ہی عزیز ترین وجودوں کو ہٹادینا پڑے ، انہیں ہٹا کر ان کی جگہ لے لیں اور احمدیت کے نام، اور اس کے کام کو قائم کرنا شرع کر دیں اور وہ فساد اور لڑائیاں جو ان کے باپ دادوں نے شروع کی ہوئی ہیں ان کو مٹا دیں۔ اگر شاگرد کو اپنے استاد کے خلاف قدم اٹھانا پڑتا ہے تو وہ استاد کے خلاف قدم اٹھائے ، اگر بیٹے کو اپنے باپ کے خلاف قدم اٹھانا پڑتا ہے تو وہ اپنے باپ کے خلاف قدم اٹھائے اور دین کے معاملہ میں کسی رشتہ داری ، کسی عزت اور کسی وجاہت کی پرواہ نہ کرے۔ یہ چیز خدام الاحمدیہ کے فرائض میں شامل ہے اور انہیں اس فرض کی ادائیگی میں کسی قسم کی کوتاہی اور غفلت سے کام نہیں لینا چاہئے۔ مَیں نے نوجوانوں کو اسی لئے منظم کیا ہے کہ اگر بوڑھے کسی وقت صداقت اور ہدایت کے خلاف قدم اٹھائیں تو نوجوان آگے بڑھیں اور ان بوڑھوں کو ہٹا کر ان کی جگہ کام کرنا شروع کر دیں اور مَیں نے انصار اللہ کے ذریعہ سے بوڑھوں کو اس لئے منظم کیا ہے کہ اگر کسی وقت نوجوان مغربی اثر سے متأثر ہونے لگ جائیں تو مائیں اپنے کلیجوں سے اور باپ اپنی گودیوں سے ایسے بچوں کو اتار کر پھینک دیں اور خود دین کا جھنڈا بلند کرنے لگ جائیں۔
یہ دو منکر نکیر ہیں جو مَیں نے خدا تعالیٰ کے فضل پر امید رکھتے ہوئے جماعت کی حفاظت کے لئے بنائے ہیں اورمیری غرض ان سے یہ ہے کہ اگر کبھی بڑے آدمی فتنہ اور فساد میں ملوث ہو جائیں تو نوجوان آگے بڑھیں اور دین کا کام کرنا شروع کر دیں اوراگر کبھی نوجوان مغربیت کی رَو میں بہنے لگ جائیں تو بڑے لوگ آگے آئیں اور اپنے بیٹوں کو الگ کر دیں کیونکہ کوئی مومن باپ دین کے معاملہ میں اپنے بیٹوں کی پرواہ نہیں کر سکتا جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے کہ انہوں نے یہ دونوں نظارے دکھائے۔ انہوں نے ایک طرف اپنے چچا کو جو ان کے باپ کی جگہ پر تھے خدا تعالیٰ کے لئے قربان کر دیا اور دوسری طرف اپنے بیٹے کو خدا تعالیٰ کے حکم پر قربان کرنے کے لئے پیش کر دیا۔ یہی حقیقی مومن کی شناخت کا طریق ہوتا ہے کہ اگر دین کے رستہ میں اس کا باپ کھڑا ہو تو وہ اسے ہٹا دیتا ہے اور اگر بیٹا کھڑا ہو تو وہ اسے ہٹا دیتا ہے۔ مَیں نے بغیر ان قصبات کا نام لئے اصولی رنگ میں ایک نصیحت کر دی ہے اور مَیں امید کرتا ہوں کہ سیالکوٹ کے لوگ سمجھ گئے ہوں گے کہ میرا اشارہ کس کس گاؤں کی طرف ہے۔ یہ دو گاؤں ایسے ہیں جن میں کثرت سے احمدی ہیں اور سینکڑوں نوجوان ان میں پائے جاتے ہیں مگر باوجود احمدیوں کی اس کثرت کے ان میں شدید قسم کی بزدلی پیدا ہو گئی ہے جو ان کی احمدیت سے بے تعلقی کا ثبوت ہے۔ پس مَیں وہاں کے نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ وہ اپنے کارکنوں کو نوٹس دے دیں کہ وہ اپنی حرکات سے باز آ جائیں اور اگر وہ اس نوٹس کے بعد بھی باز نہ آئیں تو ان کی جگہ خود سنبھال لیں اور یاد رکھیں کہ ان لوگوں کے ہٹنے سے انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ ان کا ایمان مضبوط ہو گا اور ان کا دین بھی سُدھر جائے گا اور ان کی دنیا بھی سُدھر جائے گی۔‘‘ (الفضل 24 جولائی 1942ء)
1: يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ مُسَوِّمِيْنَ (آل عمران: 126)
2: اَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا يُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَ لَوْ كُنْتُمْ فِيْ بُرُوْجٍ مُّشَيَّدَةٍ (النساء: 79)
3: بخاری کتاب اللقطة باب ضالة الابل و باب ضالة الغنم
4: اسد الغابة جزء خامس صفحہ 443 مطبوعہ لندن 1377ھ
5: مستدرک حاکم جلد 3 صفحہ 475۔ مطبوعہ بیروت 1978ء
6: بخاری کتاب المغازی باب فَضْل مَنْ شَھِدَ بَدْرًا
7: لیکچر سیالکوٹ۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 243
8:انوار الاسلام روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 23-24
9:قلفی: قفلی سے بگڑا ہوا لفظ یعنی سالن بند کرنے کا برتن


23
جماعت احمدیہ کا ہر فرد استقلال کے ساتھ زیادہ سے زیادہ قربانی کرتا جائے
(فرمودہ 24 جولائی 1942ء )

تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’یہ زمانہ جیسا کہ مَیں نے کئی دفعہ بیان کیا ہے اوربہت سے لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں نہایت ہی ابتلا ء اور ٹھوکر کا زمانہ ہے۔ لاکھوں آدمی بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ کروڑوں آدمی ہر روز مصائب اور مشکلات کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ انسانی زندگی جتنی ارزاں ان ایام میں ہوئی ہے شاید کبھی بھی اتنی ارزاں نہیں ہوئی اور ابھی تک خونریزی کا جوش لوگوں کے دماغ سے نہیں اترا بلکہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ جہاں ہمیں ان باتوں کو دیکھ کر خدا تعالیٰ کی طرف رجوع اور دعا کی خواہش ہونی چاہئے وہاں اس بات کو بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ یہ لڑائی ہمارے لئے ایک اَور رنگ میں بھی بہت بڑا سبق ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم میں سے بعض لوگ ابتلاؤں اور لڑائیوں میں شہادت وغیرہ کی وجہ سے گھبرا جاتے ہیں اور کمزوری دکھانے لگتے ہیں مگر انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ جو مصائب اور مشکلات ان کو برداشت کرنے پڑتے ہیں ویسے ہی مصائب اور مشکلات کفار کو بھی برداشت کرنے پڑتے ہیں اور جو قربانیاں ان کو دینی پڑتی ہیں ویسی قربانیاں کفار کو بھی دینی پڑتی ہیں۔ پھر فرمایا کہ ایک فرق ہے تم میں اور ان میں۔ اور وہ یہ کہ ان کی قربانیوں کے بدلہ میں کوئی ایسے انعام مقدر نہیں، موعود نہیں کہ جن کی خاطر ان کو قربانیاں کرنی پڑیں۔ لیکن تمہارے لئے تمہارے رب کی طرف سے ایسے انعامات کا وعدہ ہے کہ جن کا اندازہ بھی عقل انسانی نہیں لگا سکتی اور جن کی مثال کسی دوسری جگہ نہیں مل سکتی۔ انسان ان کو جان ہی نہیں سکتا۔ فرمایا اگر کفّار بغیر کسی امید اور مقصد کے اور بغیر کسی انعام کے وعدہ کے یہ مصائب اور مشکلات برداشت کرتے اور قربانیاں کرتے ہیں تو تم کو جن کے ساتھ خدا تعالیٰ کے بڑے بڑے انعامات کے وعدے ہیں ان قربانیوں کے کرنے میں کیا ہچکچاہٹ ہو سکتی ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کی جنگوں میں ایک طرف ابو جہل اپنے گھر سے نکلا اور یہ جانتے ہوئے نکلا کہ لڑائی میں انسان مارا بھی جاتا ہے ، یہ جانتے ہوئے نکلا کہ لڑائی میں انسان ایسا زخمی بھی ہو سکتا ہے کہ ساری عمر اس کی چارپائی پر پڑے پڑے ہی کٹ جائے، یہ جانتے ہوئے نکلا کہ لڑائی میں انسان شدید زخمی ہو کر ناقابلِ برداشت درد میں مبتلا ہو سکتا ہے اوریہ جانتے ہوئے نکلا کہ لڑائی میں انسان قیدی بھی بن سکتا ہے اور باوجودیکہ وہ اپنی قوم کا سردار ہو اسے معمولی لوگوں کی غلامی بھی کرنی پڑتی ہے۔ پھر یہ جانتے ہوئے گھر سے نکلا کہ لڑائی میں انسان شکست بھی کھا جاتا ہے اور اسے اپنی قوم میں جو عزت اور سرداری حاصل ہے اسے کھو بیٹھتا ہے۔ یہ سب کچھ جانتے ہوئے ابو جہل گھر سے لڑائی کے لئے نکلا۔ ان صورتوں کے ساتھ ایک فتح کی صورت میں اسے کیا امید ہو سکتی تھی؟ سوائے اس کے کہ سرداری ذرا اور پکی ہو جائے اور کچھ عرصہ کے لئے دل خوش ہو جائے کہ مَیں نے اپنے دشمنوں کو مار دیا یا ان کو شکست دے دی ۔ مگر ان باقی صورتوں میں جو مَیں نے بیان کی ہیں اس کے لئے کیا امید ہو سکتی تھی۔ اگر وہ مر جاتا تو اسے کس بدلہ کی امید ہو سکتی تھی، ساری عمر کے لئے نکما ہو جانے کی صورت میں اسے کس انعام کی امید ہو سکتی تھی، غلام ہو جانے کی صورت میں اسے کس خوشی کی توقع ہو سکتی تھی۔ اس کے مقابلہ میں حضرت ابو بکرؓ بھی مدینہ سے لڑائی کے لئے نکلے کہ انسان لڑائی میں مارا بھی جاتا ہے، یہ جانتے ہوئے نکلے کہ انسان لڑائی میں ایسا زخمی بھی ہو سکتا ہے کہ ہمیشہ کے لئے ناکارہ ہو جائے، یہ جانتے ہوئے نکلے کہ لڑائی میں انسان شدید زخمی بھی ہو سکتا ہے اور اس طرح مدتوں کے لئے وہ تکلیف کا شکار ہو سکتا ہے، یہ جانتے ہوئے نکلے کہ لڑائی میں انسان غلام بھی بن جاتا ہےاور اس طرح اسے دوسروں کی خدمت کرنی پڑتی ہے۔ یہ جانتے ہوئے نکلے کہ لڑائی میں شکست بھی ہو سکتی ہے اور انسان اپنی قوم میں زیادہ عزت حاصل کرنے کی بجائے رسوا ہو جاتا ہے اور ذلیل ہو جاتا ہے لیکن ان سب باتوں کے باوجود ابوجہل اور حضرت ابو بکرؓ کے لڑائی میں جانے میں فرق تھا۔ جہاں ابو جہل یہ سمجھتا تھا کہ اگر مَیں لڑائی میں مارا گیا تو حیات کا خاتمہ ہو جائے گا اور میرے جسم کے ساتھ ہی میری روح بھی فنا ہو جائے گی۔ وہاں حضرت ابو بکرؓ جانتے تھے کہ اگر مَیں لڑائی میں مارا گیا تو خدا تعالیٰ کی رحمت فرشتوں کے ساتھ استقبال کے لئے آئے گی اور میری روح اس فانی جسم اور کمزور زندگی کو چھوڑ کر ایسی زندگی حاصل کرے گی جس کی وسعتوں کا کوئی اندازہ نہیں اور انعامات کی کوئی حدبندی نہیں۔ جہاں ابو جہل جانتا تھا کہ اگر لڑائی میں مارا گیا تو بیوی، بچوں، بہنوں، بھائیوں اور رشتہ داروں سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو جاؤں گا۔ وہاں حضرت ابو بکرؓ جانتے تھے کہ اگر مَیں مارا گیا تو اپنے باپ دادا حضرت ابراہیم ؑ، حضرت اسحاق اور حضرت اسماعیل علیہم السلام کے پاس جاؤں گا۔ جہاں ابو جہل کو جدائی نظر آتی تھی وہاں حضرت ابو بکرؓ کو وصال سامنے دکھائی دیتا تھا۔ جہاں ابو جہل کے سامنے اگر یہ بات تھی کہ مَیں ایسا زخمی ہو سکتا ہوں کہ چارپائی پر ہی پڑے پڑے جان دینی پڑے، زندگی کا سکھ باقی نہ رہے اور ہمیشہ کے لئے بے کار ہو جاؤں۔ وہاں حضرت ابو بکرؓ بھی گو یہ سمجھتے تھے کہ ہو سکتا ہے لڑائی میں ایسا زخمی ہو جاؤں کہ چارپائی پر ہی پڑے پرے جان دینی پڑے مگر وہ یہ بھی جانتے تھے کہ مَیں جسم کے بیکار ہونے سے بےکار نہیں ہو سکتا بلکہ میرا ایسے خدا سے واسطہ ہےجس کا جسم کے اعمال سے تعلق نہیں بلکہ قلب سے ہے۔ اس خدا کے ساتھ جس کے حکم کے ماتحت رسول کریم ﷺ نے ایک جنگ کے موقع پر اپنے صحابہ سے فرمایا کہ اس جنگ میں جو تکالیف تمہیں اٹھانی پڑ رہی ہیں ان پر فخر نہ کرو اور یہ نہ سمجھو کہ تم نے کوئی بڑا کام کیا ہے۔ مدینہ میں بھی ایسے لوگ ہیں کہ جنہیں وہی ثواب پہنچتا ہے جو تمہیں پہنچتا ہے۔ تم تکلیف کی کوئی وادی ایسی نہیں گزرتے کہ جوثواب تمہیں ملتا ہے انہیں نہ ملتا ہو اور کوئی مشکل ایسی نہیں کہ جس کا ثواب تمہیں پہنچتا ہو اور انہیں نہ پہنچتا ہو۔ صحابہ نے عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللہ! اس کا کیا مطلب ہے؟ تکالیف تو ہم اٹھاتے ہیں اور ثواب ان کو بھی مل جاتا ہے حالانکہ وہ گھروں میں بیٹھے ہیں؟ آپ نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو ہر تکلیف دین کی راہ میں اٹھانے کی خواہش رکھتے ہیں مگر معذوری کی وجہ سے مجبور ہیں۔ ان کی بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑتے ہوئے مر جانے کی خواہش ایسی ہی زبردست ہے جیسی تمہاری مگر وہ اندھے، لُولے یا لنگڑے ہیں اس وجہ سے جنگ میں شریک نہیں ہو سکتے۔ وہ امنگ جو تمہارے دلوں میں پیدا ہوتی ہے ان کے دلوں میں بھی پیدا ہوتی ہے مگر وہ معذوری کی وجہ سے تمہارے ساتھ شامل نہیں ہو سکتے۔ اس لئے جو ثواب تمہیں جسمانی تکالیف اٹھانے کی وجہ سے ملتا ہے وہ ان کو روحانی تکلیف کی وجہ سے مل جاتا ہے۔ 1 مگر ابو جہل کو ناکارہ ہو جانے کی صورت میں ایسی کوئی امید کہاں ہو سکتی تھی۔ حضرت ابو بکرؓ جانتے تھے کہ اگر لڑائی میں ایسے زخمی ہو گئے کہ تمام عمر چارپائی پر ہی پڑے رہیں تو بھی ان کے لئے روحانی اور قلبی کیفیات کا ذریعہ ایک ایسا ذریعہ ہے کہ جس سے وہ زندگی کو زیادہ سے زیادہ کارآمد اور مفید بنا لیں گے۔ اگر ابو جہل یہ سمجھتا تھا کہ لڑائی میں شکست بھی ہو سکتی ہے تو ابو بکرؓ بھی یہ خیال کر سکتےتھے مگر فرق دونوں میں یہ ہے کہ ابو جہل سمجھتا تھا کہ مجھے بھی شکست ہو سکتی ہے لیکن ابو بکرؓ کامل مومن تھے اور اس لئے وہ کبھی یہ مان ہی نہ سکتے تھے کہ مجھے بھی شکست ہو سکتی ہے۔ مومن جانتا ہے کہ میرے لے دو ہی صورتیں ہیں یعنی یا یہ کہ مر کر خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کروں اور یا پھر فتح حاصل کروں۔ حضرت ابو بکرؓ لڑائی میں شکست کے تو قائل تھے مگر مومن کی شکست کے نہیں ہاں وہ مومن کی شہادت کے قائل تھے۔ وہ جانتے تھے کہ مومن کبھی میدان سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔ وہ یا تو فتح کے قائل تھے اور یا شہادت کے اور ایسے لوگ اگر مارے بھی جائیں تو جس طرح ان کی زندگیاں دوسرے لوگوں کے قلوب میں امنگوں کو تیز کرنے کا موجب ہوتی ہیں اور دوسروں کے لئے شمع راہ ہوتی ہیں اسی طرح وہ مر کر بھی انہی باتوں کا سامان کر دیتے ہیں۔ صحابہؓ کو اتفاقی حوادث کے سوا کبھی شکست نہیں ہوئی۔ بے شک احد میں انہیں پیچھے ہٹنا پڑا مگر شکست نہیں ہوئی بلکہ پیچھے ہٹ کر بھی وہ میدان جنگ کے اردگرد ہی منڈلاتے رہے۔ دنیا میں ان کے سوا اَور کون سی قوم پیش کی جا سکتی ہے جسے بظاہر شکست ہو جائے اور پھر بھی وہ میدان سے نہ ہٹے۔ حنین میں بھی انہیں ایک اتفاقی حادثہ پیش آیا بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ تقدیر کے طور پر کچھ عرصہ کے لئے ان کے قدم اکھڑ گئے مگر چند منٹ کے بعد ہی وہ پھر سنبھل گئے اورواپس میدان میں آ پہنچے اس کے سوا کوئی اَور مثال نہیں کہ مسلمان میدان سے ہٹے ہوں۔ قرآن کریم میں ہے کہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں مومن وہی ہے جو میدانِ جنگ سے نہیں ہٹتا سوائے حملہ کرنے کی غرض سے یا بڑے لشکر سے ملنے کے لئے، شکست کھا کر وہ پیچھے نہیں ہٹتا۔2 اور شکست کھانے والا مومن ہوتا ہی نہیں۔ حملہ کرنے کے لئے ہٹنا تو جنگ ہی کا حصہ ہے۔ ایک شخص دیکھتا ہے کہ اس جگہ کھڑے ہو کر میرا لڑنا اتنا مفید نہیں ہو سکتا جتنا فلاں جگہ پہنچ کر لڑنا مفید ہو سکتا ہے وہاں جا کر مَیں دشمن کو کمزور کر سکتا ہوں پس اس غرض سے وہ اگر پیچھے ہٹتا ہے تو یہ جائز ہے۔ اسی طرح بڑے لشکر سے ملنے کے لئے ہٹنا بھی جائز ہے اور وہ اس طرح کہ اصل لشکر سے آگے ہراول دستے ہوتے ہیں پہلے زمانوں میں بھی ہوتے تھے اور آجکل بھی۔ ان کے لئے یہ حکم نہیں ہوتا کہ وہ دشمن سے لڑیں بلکہ ان کی ڈیوٹی صرف یہ ہوتی ہے کہ دشمن کی کمزوریاں معلوم کریں اور اصل فوج کو بتائیں وہ بیس تیس پچاس یا سَو دو سَو آدمی ہوتے ہیں جو اس بات کا اندازہ کرتے ہیں کہ کس جگہ سے دشمن پر حملہ کرنا زیادہ مفید ہو سکتا ہے۔ وہ یہ پتہ لے کر آتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ فلاں جگہ دشمن کی پیدل فوج زیادہ ہے، فلاں جگہ سوار زیادہ ہیں، فلاں جگہ ٹینک اور فلاں جگہ توپیں زیادہ ہیں اورکمانڈر انچیف ان سب اطلاعات کو ملا کر یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کیا وہاں حملہ کرنا زیادہ مفید ہو سکتا ہے جہاں پیدل فوج زیادہ ہے یا وہاں مفید ہو سکتا ہے جہاں سوار ہیں۔ وہاں مفید ہو سکتا ہے جہاں توپیں ہیں یا وہاں مفید ہو سکتا ہے جہاں ٹینک ہیں۔ ہراول دستہ کی فراہم کردہ اطلاعات سے وہ پہلے ایک نقشۂ جنگ تیار کرے گا اور پھر اس کے ماتحت حملہ کرے گا اس لئے ہراول دستوں کا پیچھے ہٹنا شکست نہیں کہلا سکتا بلکہ ضروری ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ سوائے ان دو صورتوں کے اور کوئی صورت مومن کے لئے میدان سے پیچھے ہٹنے کی نہیں اورجو ہٹتا ہے وہ مومن نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نقشہ کھینچا ہے ہر زمانے کے کافروں اور مومنوں کے لئے ۔ وہ مومنوں کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ جنگ میں کافر بھی مرتے ہیں اور تم بھی مرتے ہو، وہ بھی بھوکے رہتے ہیں اورتم بھی رہتے ہو، وہ بھی قیدی بنتے ہیں اور تم بھی ہو سکتے ہو، جو مصائب اور مشکلات تم اٹھاتے ہووہی وہ بھی اٹھاتے ہیں۔ اس لحاظ سے تو دونوں میں کوئی فرق نہیں مگر فرق ہے بھی اور وہ یہ کہ تمہارے لئے تمہارے خدا نے ایسے وعدے کر رکھے ہیں کہ جن کی موجودگی میں تم خدا تعالیٰ کے رستہ میں موت کو انعام سمجھتے ہو اور سزا یا تکلیف نہیں سمجھتے مگر کافروں کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی ایسا وعدہ نہیں۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ایک صحابی لڑائی میں شہید ہو گئے۔ آپ نے ان کے لڑکے کو دیکھا کہ چہرہ پر غم کے آثار تھے۔ آپؐ نے ان کو بلایا اور فرمایا تمہیں اپنے باپ کی شہادت کا غم ہے۔ تم کو اگر یہ معلوم ہو جائے کہ شہادت کے بعد تمہارے باپ سے اللہ تعالیٰ نے کیا سلوک کیا تو یہ سب غم فوراً ہلکا ہو جائے۔ تمہارے باپ کی روح کو اللہ تعالیٰ نے سامنے بلایا اور فرمایا کہ مَیں تم سے اتنا خوش ہوں کہ تم مجھ سے جو کچھ مانگو مَیں دوں گا۔ تمہارے باپ نے اس سوال کے جواب میں اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ مَیں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ تُو مجھے پھر زندہ کرے اورمَیں پھر اسلام کے لئے لڑ کر مارا جاؤں اور تُو پھر مجھے زندہ کرے اور مَیں پھر مارا جاؤں اور اسی طرح یہ سلسلہ جاری رہے تُو مجھے بار بار زندہ کرتا جائے اور مَیں ہر بار اسلام کے لئے لڑتا ہؤا مارا جاؤں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اگر مَیں اپنی جان کی قسم کھا کر یہ سنت نہ قائم کر چکا ہوتا کہ مُردوں کو اس دنیا میں واپس نہیں کروں گا تو مَیں تمہیں ضرور زندہ کر دیتا مگر میرا وعدہ ہے کہ مُردے اس دنیا میں واپس نہ جا سکیں گے۔ 3 اس حدیث کو ہماری جماعت اس بات کی دلیل کے طور پر ہمیشہ استعمال کرتی ہے کہ حقیقی مُردےاس دنیا میں واپس نہیں آ سکتے مگر اس سے ایک اَور سبق یہ ملتا ہے کہ مومن خدا تعالیٰ کے لئے جو تکالیف اٹھاتے ہیں وہ ان پر گراں نہیں گزرتیں بلکہ وہ ان کو بار بار اٹھانا چاہتے ہیں۔ پس ہمیں اس لڑائی سے یہ سبق بھی حاصل کرنا چاہئے کہ لڑنے والی قوموں کے افراد چھوٹی چھوٹی خواہشات کے لئے یہ تکالیف برداشت کرتے ہیں۔ ستمبر 1939ء کے شروع میں یہ لڑائی شروع ہوئی تھی۔ اس کے بعد ستمبر 1940ء آیا۔ پھر ستمبر 1941ء اور اب ستمبر 1942ء سر پر کھڑا ہے۔ تین سال ہونے کو آئے ہیں اور جو لوگ اس میں حصہ لے رہے ہیں وہ متواتر تین سال سے دن رات تکالیف برداشت کر رہے ہیں۔ توپوں کے گولوں اور بموں سے ان کے کانوں کے پَردے پھٹ رہے ہوں گے، ان کو زمین پر سونا پڑتا ہے، بوجھ اٹھانے پڑتے ہیں، راتوں کوجاگنا پڑتا ہے، بھوکا رہنا پڑتا ہے، اپنی جانوں کو ہر قسم کے خطرات میں ڈالنا پڑتا ہے مگر وہ برابر ان تکالیف میں چلے جاتے ہیں۔ اس سے ہمیں یہ سبق حاصل کرنا چاہئے کہ مومنوں کی قربانیاں ان لوگوں کے مقابل پر کتنی وسیع ہونی چاہئیں۔ اگر کافر دنیوی اغراض کے لئے چار پانچ یا سات سال تک مسلسل اپنے آپ کو خطرات میں ڈال سکتے ہیں تو مومن مسلسل ستّر سال تک بھی اپنے آپ کو خطرات میں ڈالتے جائیں تو کم ہے۔
ہماری جماعت کے لئے یہ سوال اَور بھی اہم ہے۔ ہندوستانی استقلال کے ساتھ مسلسل کام نہیں کر سکتے۔ بعض ڈاکٹر اسے ملیریا کا نتیجہ بتاتے ہیں کہ اس کے اثر کی وجہ سے انسان جلدی تھک جاتا ہے۔ یہاں ایک ہی میدانِ جنگ میں لڑائی کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ مگر یورپ کی لڑائیاں کتنی لمبی چلتی جاتی ہیں۔ سالہا سال تک ایک لڑائی جاری رہتی ہے اور کسی کو یہ خیال تک نہیں آتا اور کوئی یہ نہیں کہتا کہ اب چھ ماہ گزر گئے ہیں، اب سال گزر گیا ہے کہ ہمارے رشتہ دار میدان جنگ میں ہیں۔ وہاں کھانے کی تکلیف ان کو برداشت کرنی پڑ رہی ہے، کپڑے کافی نہیں مل سکتے، سفر میں متواتر رہنا پڑتا ہے اب لڑائی ختم ہونی چاہئے۔ مگر ہمارے ملک کا طریق یہ ہے کہ چھ ماہ یا سال کے بعد لوگ گھبرا کر سست ہو جاتے ہیں۔ مَیں نے خود اپنی جماعت میں دیکھا ہے۔ بڑی قربانی کرنے والی جماعت ہے مگر بہت کم عہدہ دار ہیں جو چھ سات یا آٹھ دس سال تک متواتر محنت سےکام کرتے چلے جائیں۔ ایک سیکرٹری بڑا اچھا کام کرتا ہے مگر چار پانچ سال کے بعد ہی وہ تھکا ہؤا معلوم ہونے لگتا ہے یہی امارت اور صدارت کا حال ہے۔ ایک شخص امیر یا پریذیڈنٹ مقرر ہو کر بڑا ا چھا کام کرتا ہے مگر 5،7 سال کے بعد غفلت اور سُستی شروع ہو جاتی ہے۔ نہ معلوم یہ عادت کا نتیجہ ہے یا جیسا کہ بعض ڈاکٹروں کی رائے ہے ملیریا کا اثر ہے۔
بہرحال ہمارے ملک میں استقلال کےساتھ لمبے عرصہ تک قربانی کی عادت نہیں مگر ہماری جماعت کو سوچنا چاہئے کہ جن قوموں سے اس کا مقابلہ ہے ان میں یہ خوبی موجود ہے اور جب تک ہماری جماعت اس کمزوری کو دور نہ کرے کسی صورت میں وہ فتح اور غلبہ حاصل نہیں کر سکتی۔ وہ دنیا پر کبھی غالب نہیں آ سکتی جب تک کہ اس عادت کو درست نہ کرے اور جب تک ہر فرد ایسا نہ ہو کہ استقلال کے ساتھ قربانی کرتا چلا جائے اور ہر روز وہ پہلے روز سے زیادہ قربانی کے لئے اپنے آپ کو تیار پائے۔
خوب یاد رکھو کہ ہم نے ایسے دشمن کو زیر کرنا ہے جو استقلال کے ساتھ کام کرنے کا عادی ہے اور ہم اسے اسی صورت میں مغلوب کر سکتے ہیں کہ جب دلوں میں ایسا ایمان پیدا ہو جائے کہ یہ قربانیاں جو وہ کر رہا ہے ہمیں بہت ہی کم اور حقیر نظر آئیں ۔ اگر ایک جرمن کو موت ایک پر کے برابر ہلکی نظر آتی ہو تو ہمیں اس پر کے ریشہ سے بھی ہلکی نظر آئے۔ اگر یہ تکالیف ایک جرمن کو ایک پر کے برابر ہلکی نظر آ رہی ہوں تو ہمارے دل کا احساس ان کو پر کے ریشہ سے بھی ہلکا بتا رہا ہو۔ یہ ضروری چیز یں ہیں۔ جب تک یہ ہم میں پیدا نہ ہوں ہم دنیا پر غالب نہیں آ سکتے۔ کچھ روز کام کر کے تھکان محسوس کرنے کے معنے یہ ہیں کہ کچھ عرصہ شیطان کا مقابلہ کر کے اس کے لئے دروازے کھول دیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ گویا پچھلا کِیا کرایا بھی رائیگاں چلا جائے۔ اس کی مثال تو ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص دو گھنٹہ تک تو چوروں کا مقابلہ کرے مگر پھر مکان کا دروازہ کھول دے۔ اس کے لئے تو یہی بہتر تھا کہ پہلے ہی کھول دیتا تا خوامخواہ مار نہ کھاتا اور زخمی نہ ہوتا۔ جو قوم کچھ عرصہ کے بعد تھک کر ہتھیار ڈال دیتی ہے وہ بے وقوف ہے۔ اس کے لئے توپہلے ہی مرحلہ پر ہتھیار ڈال دینا مناسب تھا۔ ہتھیار اٹھانے کا حق اسے ہی ہے جو آخر دم تک مقابلہ کرے اور ان کے لئے تیار ہو ۔
مسلمانوں میں آج تک جتنی بھی تحریکات شروع ہوئیں وہ اسی طرح ختم ہو گئیں۔ جب خلافت کی تحریک شروع ہوئی تو اتنا جوش تھا کہ ایسا معلوم ہوتا تھا سارا ہندوستان ملک سے باہر چلا جائے گا اور اس میں شبہ نہیں کہ بعض لوگوں نے بڑی بڑی قربانیاں بھی کیں۔ اچھے اچھے عہدوں والوں نے نوکریاں چھوڑ دیں اور ہجرت کر کے چلے گئے۔ انہوں نے اپنی بڑی بڑی قیمتی جائدادیں اونے پونے کر کے بیچ ڈالیں اور یہاں سے چلے گئے مگر پانچ چھ ماہ کے بعد ہی یہ سار اجوش مٹ گیا اور آج ان مہاجرین کو کوئی جانتا بھی نہیں۔ جو لوگ باہر گئے ان میں سے کچھ تو دھکّے کھا کر واپس آ گئے ،کچھ مر گئے اور کچھ ایسے ہیں جو ابھی تک اردگرد کے ملکوں میں پھر رہے ہیں اور اب کہیں بھی وہ جوشِ ہجرت نظر نہیں آتا۔ اس کے بعد حال میں مسجد شہید گنج کی تحریک شروع ہوئی اور مسلمانوں میں ایسا جوش تھا کہ معلوم ہوتا تھا مسلمان پنجاب کے چپہ چپہ پر شہید گنج بنا دیں گے اور یہ نظر آتا تھا کہ پہلے تو شہید گنج نام اس وجہ سے تھا کہ بقول سکھوں کے یہاں بعض سکھوں نے جانیں دے دی تھیں مگر اب مسلمان اسے شہید گنج بنائیں گے اور لاکھوں مسلمانوں کا خون اس کی دیواروں پر چھینٹے دے گا مگر آج دیکھ لو نہ وہ تحریک ہے اور نہ کسی کو وہ یاد ہے۔ سکھ آج بھی اسی طرح اس پر قابض ہیں اور وہ لوگ جو سارے پنجاب میں شور مچا رہے تھے ان کا نام و نشان بھی کہیں نظر نہیں آتا ۔ اگر مسلمان کسی ایک تحریک کے متعلق بھی استقلال سے کام لیتے تو آج ہندوستان میں ان کی حالت بہت بہتر ہوتی ۔ اگر خلافت کی تحریک کچھ عرصہ کے بعد دب نہ جاتی مگر بڑھتی ہی چلی جاتی تو مسلمانوں کے حق میں نتیجہ مفید نکلتا اور جو لوگ باہر گئے تھے و ہ واپس آ کر یہاں عزت کی زندگی بسر کرتے۔ اسی طرح شہید گنج کی تحریک خواہ غلط تھی یا ٹھیک۔ اگر مسلمان قربانیاں کرتے جاتے تو آج کسی کو ان کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھنے کی جرأت نہ ہوتی۔
یاد رکھو کہ قربانی دل دہلا دینے والاشور نہیں بلکہ استقلال کے ساتھ قربانیاں پیش کرتے جانا اصل چیز ہے۔ یورپ کے لوگ اس بات کو جانتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں اس لئے انہیں عزت اور عروج حاصل ہے۔ صدیاں گزر جاتی ہیں مگر ان کے استقلال میں فرق نہیں آتا۔ افراد کے ساتھ ان کے مقاصد کا تعلق نہیں بلکہ قوم کے ساتھ مقاصد کا تعلق ہوتا ہے۔ صلیبی جنگوں کو دیکھو یورپ کی قومیں پاگلوں کی طرح شام پر حملے کرتی رہیں اور ستّر سال تک لڑتی رہیں مگر کامیاب نہ ہو سکیں۔ اس کے بعد مسلمانوں نے تو یہ سمجھ لیا کہ انہوں نے دشمن کو شکست دے دی اور گھروں میں غافل ہو کر سو گئے لیکن اہل یورپ کے دلوں میں سات سَو سال تک بھی وہ چنگاری سلگتی رہی اور آخر اس صدی میں انگریزوں نے وہاں قبضہ کر ہی لیا۔ وہی میدان جس میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے فرانس کے بادشاہ فلپ اور انگلستان کے بادشاہ رچرڈ کو شکستیں دی تھیں اس پر آج ان کا قبضہ ہے بلکہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی قبر پر بھی انہی لوگوں کا قبضہ ہے۔ اگر وہی چنگاری مسلمانوں کے دل میں بھی سلگتی رہتی اوروہ ہمیشہ اس بات کو مدنظر رکھتے کہ ان کے ملک پر قبضہ کرنا اہل یورپ کا منشا ء ہے اورہر مسلمان کے دل میں یہ عزم ہوتا کہ یہ قبضہ نہیں ہونے دینا تو یہ کبھی نہ ہو سکتا اور مسلمانوں کو یہ ذلت پر ذلت نہ اٹھانی پڑتی۔ مگر افسوس کہ مسلمان ایک لڑائی کے بعد غافل ہو گئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ ہم نے دشمن کو شکست دے دی ہے حالانکہ دشمن نے دوسرے طریق پر حملہ شروع کر دیا تھا۔ دشمن نے سوچا کہ مسلمان کیوں فتح پاتے ہیں اور ہمیں کیوں شکست پر شکست ہوتی ہے؟ اوروہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ مسلمانوں کے پاس تجارت ہے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہم بھی تجارت کی طرف متوجہ ہوں گے۔ انہوں نے سوچا کہ مسلمانوں کی کامیابی کی وجہ یہ ہے کہ ان کے ہاں یونیورسٹیاں ہیں اوروہ علم پڑھتے ہیں چنانچہ انہوں نے خود بھی یونیورسٹیاں قائم کیں اور نئی نئی ایجادوں کی طرف متوجہ ہوئے۔ انہوں نے سوچا کہ مسلمان اس واسطے ہم پر غالب آ جاتے ہیں کہ ان کے پاس سمندری بیڑا ہے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہم بھی اب اپنا بیڑا بنائیں گے نتیجہ یہ ہؤا کہ مسلمانوں کے بیڑے چھوٹے ہوتے گئے اور ان کے بڑھتے گئے۔ مسلمانوں کی تجارت گرتی گئی اوران کی بڑھتی گئی۔ مسلمانوں کی یونیورسٹیاں بند ہوتی گئیں اور ان کی ترقی کرتی گئیں۔ وہ لوگ مسلمانوں کے ملک میں آئے اور جس طرح مَیں نے بتایا ہے کہ ہراول دستے دشمن کی فوج کی کمزوریوں سے اپنی فوج کو اطلاع دیتے ہیں۔ یہی کام انہوں نے کیا، یہاں سے وہ خبریں لے کر جاتے اور اپنے لوگوں کو مسلمانوں کی طاقت کے مرکزوں سے آگاہ کرتے۔ اس طرح انہوں نے اپنے لئے طاقت کے سامان پیدا کر لئے اور مسلمانوں نے وہ سامان کھو دئیے۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ مسلمان غلام ہو گئے اور وہ غلام قومیں بادشاہ بن گئیں۔ اگر مسلمان بھی سات سَو سال تک جنگ کو جاری رکھ سکتے تو آج دشمن شام پر قابض نہ ہوتا بلکہ آج فرانس اور جرمنی میں بھی اسلامی پرچم لہرا رہے ہوتے۔ اس وقت مسلمانوں کے پاس طاقت اور قوت تھی اور اگر وہ دھاوا بولتے تو بآسانی ان ملکوں کو فتح کر سکتے تھے مگر افسوس کہ مسلمانوں ں نے ایک ہی لڑائی پر جنگ کا خاتمہ سمجھ لیا۔
یورپ کی لڑائیاں جو بہت چھوٹے چھوٹے اصولوں کے لئے ہوتی ہیں، لمبے عرصہ تک چلی جاتی ہیں۔ انگلینڈ اور جرمنی کی لڑائی چھوٹے چھوٹے اصولوں کے لئے ہی ہے۔ مگر ایک کے بعد دوسری جنگ اب ہو رہی ہے۔ آج انگلستان کے لوگ گالیاں دیتے ہیں ان لوگوں کو جنہوں نے پہلی جنگ کو آخری سمجھ لیا۔ وہ کہتے ہیں کہ آج ہمیں جس قدر مشکلات پیش آ رہی ہیں وہ سب انہی ناواقف اور جاہل لوگوں کی وجہ سے ہیں جنہو ں نے پہلی جنگ کو ہی آخری سمجھ لیا۔ یہی حال مسلمانوں کا تھا۔ انہوں نے بھی پہلی لڑائی کو آخری سمجھ لیا اور اس بات پر فخر کرنے لگے کہ ہم نے ستّر سال تک دشمن کا مقابلہ کیا ہے حالانکہ وہ ستّر سال تو ابتدا تھی اور اس سات سَو سال کی جنگ کا دسواں حصہ تھا۔
پس مَیں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس جنگ سے سبق حاصل کرے اور فائدہ اٹھائے۔ اس کا ہر پہلو بُرا ہے مگر بُرا بھی ہمارے لئے مفید ہو سکتا ہے۔ پہلی لڑائی کے 25 سال بعد ہی جرمنی نے پھر لڑائی شروع کر دی اور یہ بہت بری بات ہے مگر اس سے ہمیں یہ سبق حاصل ہو سکتا ہے کہ دشمن کی شکست پر تسلی نہیں پانی چاہئے کیونکہ کچھ عرصہ کے بعد وہ پھر بھی سر اٹھا سکتا ہے۔ پھر لڑنے والی قوموں کے افراد قربانیاں کر رہے اور تکالیف اٹھا رہے ہیں۔ ہمیں بھی اس سے یہ سبق حاصل کرنا چاہئے کہ ہم بھی دین کے لئے قربانیاں کریں جرمن مائیں اپنے بچوں کو قربان کر رہی ہیں، جرمن تاجر اپنی تجارتوں کو تباہ کر رہے ہیں اور عوام طرح طرح کی تکالیف اٹھا رہے ہیں اور ہم اگر ان سے زیادہ قربانیاں کریں تبھی خدا تعالیٰ کی فوج میں شامل ہو سکتے ہیں۔ اگر ان کے برابر ہی کریں تو ہم میں اور ان میں کیا فرق ہؤا؟اور اگر ان سے کم کریں تو نہایت ہی شرمناک بات ہو گی۔ پس ہمیں ان سے بہت زیادہ قربانیوں کے لئے اپنے آپ کو تیار کرنا چاہئے۔
مَیں نے دیکھا ہے کہ کئی لوگ جماعت میں ایسے ہیں جو کسی تحریک پر کہہ دیتے ہیں کہ ہمیشہ چندے ہی مانگے جاتے ہیں۔ کیا ان کا مطلب یہ ہے کہ دس یا پندرہ سال تک چندہ دینے کے بعد پھر ان سے نہ مانگا جائے؟ وہ اس کو بڑی قربانی سمجھتے ہیں کہ چند سال تک چندہ دے دیا مگر ہم کہتے ہیں کہ دس یا پندرہ سال تو کیا اگر تم اس اصول پرقائم رہو تو پندرہ سَو سال تک بھی چندے دینے پڑیں گے۔ پندرہ سال کےبعد چندوں کا سلسلہ ختم سمجھنے کے یہ معنے ہیں کہ ایسا شخص زندگی کے پندرہ سال ہی سمجھتا ہے حالانکہ اگر احمدیت دس ہزار سال تک رہنی ہے تو ہر ایک دن قربانی کا مطالبہ ہوتا رہے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة وا لسلام کسی صوفی کا یہ مقولہ سنایا کرتے تھے کہ جو دم غافل سو دم کافر۔ غفلت تو انسان کو کفر کے گڑھے میں گرا دیتی ہے۔ پس یہ خیال کرنا کہ فلاں قربانی کے بعد اَور قربانی نہ کرنی پڑے گی بالکل غلط ہے ۔ کیا معلوم کہ اگلا مطالبہ اس سے بھی سخت ہو۔ اگر آج روپیہ کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو کل ممکن ہے جائداد کا کرنا پڑے اور پرسوں ممکن ہے اپنی اور اپنے عزیزوں کی جان کی قربانی دینی پڑے۔ جو شخص مومن کہلاتا ہے وہ یہ خیال بھی کیسے کر سکتا ہے کہ کوئی دن ایسا آئے گا کہ قربانی کا دروازہ بند ہو جائے گا۔ جو شخص ایسا خیال کرتا ہے وہ احمق ہے۔ کیا نماز، زکوٰة، صدقہ اور دوسرے احکام کا دروازہ کبھی بند ہوتا ہے جو قربانی کا بند ہوجائے۔ خدا تعالیٰ کے احکام میں سے کسی حکم کا دروازہ بند نہیں ہوتا۔ کیا کبھی اللہ تعالیٰ نے کسی کو حکم دیا ہے کہ تم نے دس سال تک سچ بولا ، اب دو چار سال جھوٹ بول سکتے ہو؟ پندرہ سال تک تم نے لوگوں کے اموال کی حفاظت کی اب تمہیں اجازت ہے کہ کچھ عرصہ ڈاکے مار لو اورلوگوں کے اموال لوٹ لو؟ پس کوئی شخص یہ خیال بھی کیسے کر سکتا ہے کہ قربانیاں دس پندرہ سال تک ہیں اس کے بعد یہ بند ہو جائیں گی۔ یاد رکھو کہ قربانیاں ہمیشہ رہیں گی۔ ہاں ان کی شکلیں بدلتی رہیں گی۔ جس دن قوم کے افراد کی کثرت قربانی کی روح سے محروم ہو جائے گی وہ دن اس قوم کی موت کا دن ہو گا۔ اور جو شخص اس دن کا منتظر ہے جس دن قربانیوں کا سلسلہ بند ہو جائے وہ گویا اس دن کا منتطر ہے جس دن احمدیت مر جائے۔ پہلی قومیں اسی طرح مری ہیں اور ہماری موت بھی اگر ہوئی تو اسی وجہ سے ہو گی۔ قربانیاں قوموں کا سانس ہوتی ہیں جس طرح سانس جب تک چلتا ہے تب تک انسان زندہ رہتا ہے اسی طرح جب تک کسی قوم میں قربانیوں کی روح زندہ رہتی ہے تب تک وہ قوم بھی زندہ رہتی ہے۔
پس لڑائی سے سبق حاصل کرو اور ایسے خیالات کو ہرگز پاس نہ آنے دو کہ کسی وقت قربانیوں کا مطالبہ ختم ہو جائے گا بلکہ ہمیشہ یہ خیال رکھو کہ کل آج سے زیادہ قربانی کرنی پڑے گی۔ اسی لئےمَیں نے تحریک جدید میں یہ بات رکھی تھی کہ چاہے کوئی شخص ایک پیسہ ہی بڑھائے گزشتہ سال سے زیادہ ضرور دے تا اس کے ہر سال کی قربانی گزشتہ سال کی نسبت زیادہ ہو۔ پس یہ کبھی خیال نہ کرو کہ یہ قربانیاں بوجھ ہیں جو تم کو کچل دیں گی بلکہ یاد رکھو کہ یہ قوم کی زندگی کا سانس ہیں اس لئے ان کو جاری رہنے دو تا قوم کی زندگی باقی رہے۔ جو شخص قربانیوں کا سلسلہ بند کرنا چاہتا ہے وہ گویا احمدیت کا گلا گھونٹنا چاہتا ہے۔ جس دن قربانیوں کا سلسلہ بند ہؤا اُسی دن احمدیت کا خاتمہ سمجھو۔ اللہ تعالیٰ ہم کو او رہماری نسلوں کو اس دن سے بچائے۔‘‘ (الفضل 31 جولائی 1942ء)
1: ابن ماجہ کتاب الجِھَاد باب مَنْ حَبَسَہُ الْعُذْرُ مِنَ الْجِھَادِ
2:وَ مَنْ يُّوَلِّهِمْ يَوْمَىِٕذٍ دُبُرَهٗۤ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَيِّزًا اِلٰى فِئَةٍ (الانفال:17)
3: اسد الغابة جلد 3 صفحہ 233 مطبوعہ ریاض 1286ھ



24
احمدی نوجوانوں کو نصیحت
(فرمودہ31 جولائی 1942ء)

تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’مَیں بیماری اور کمزوری کی وجہ سے آج زیادہ بول نہیں سکتا۔ صرف اختصاراً جماعت کے دوستوں کو عام طور پر اور نوجوانوں کو خصوصیت کے ساتھ اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم میں رسول کریم ﷺ پر ایمان لانے والوں کے دو نام رکھے گئے ہیں، ایک مومن اور ایک مسلم۔ مسلم نام قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ سے اس امت کا رکھا گیا ہے اورمومن بھی ایک تاریخی نام ہے جو ہر اس جماعت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی لائی ہوئی صداقتوں پر ایمان لاتی ہو۔ اگر ہمارے نوجوان صرف ان ناموں کو ہی اپنےسامنے رکھیں تو ان کی زندگیوں کی کایا پلٹ سکتی ہے۔ مسلم کے معنے ہیں فرمانبردار اور مسلم کے معنے ہیں تکالیف سے نجات دینے والا یعنی جنگ و فساد کو دور کرنے والا۔ جو شخص دنیا میں سلامتی پیدا کرتا ہے اور سلامتی کی باتوں پر عمل کرتا اور سلامتی کا ہی لوگوں کو وعظ کرتا ہے وہ مسلم ہے۔ اسی طرح جو شخص فرمانبرداری اور اطاعت کی روح اپنے اندر پیدا کرتا ہے وہ مسلم ہے۔ پہلا تعلق انسان کا اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہوتا ہے۔ پس وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار بن جاتا ہے وہ مسلم ہوتا ہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے احکام کے آگے اپنے آپ کو کلّیةً ڈال دیتا ہے او ریہی اسلام کی توجیح اور اس کی صحیح تشریح ہے۔ دوسرا تعلق انسان کا اپنی ذات سے ہوتا ہے۔ پس جو شخص اپنی ذات کو فتنوں میں پڑنے سے بچا لیتا ہے۔ شرارتوں میں پڑنے سے بچا لیتا ہے۔ بد دیانتیوں، خیانتوں اور ظلموں میں پڑنے سے بچا لیتا ہے۔ جھوٹ، فریب، دغا، کپٹ، بغض اور کینہ سے اپنے آپ کو بچا لیتا ہے وہ بھی مسلم ہے کیونکہ اس نے اپنی جان کو سلامتی عطا کی اور وہ مسلم ہے کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور اطاعت میں یہ کام کیا۔ پھر جو شخص اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے انبیاء کی اطاعت اور فرمانبرداری کرتا ہے وہ مسلم ہے۔ جو شخص ان کی باتوں پر عمل کرتا ہے وہ مسلم ہے جو شخص اپنی قوم کے لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے وہ مسلم ہے۔ جو شخص اپنے ہمسایوں اور رشتہ داروں کو امن دیتا اور فساد اور خونریزی ان کے لئے پیدا نہیں کرتا وہ مسلم ہے مگر جو شخص اس کے خلاف عمل کرتا ہے وہ غیر مسلم ہے۔ چاہے وہ دن رات اپنے آپ کو مسلم کہتا رہے کیونکہ نام کے ساتھ کوئی چیز بدل نہیں جاتی۔ ہم دیکھتے ہیں بچے بعض دفعہ ایسی حالت میں جبکہ ان کے ہاتھ میں کوئی چیز نہیں ہوتی کھیلتے ہوئے دوسرے بچے کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیتے ہیں اور کہتے ہیں لو مَیں تمہیں آم دیتا ہوں تم کھا لو یا پیسہ دیتا ہوں تم لے لو۔ حالانکہ ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہوتا۔ اب بچوں کا اَیسا فعل ایک مذاق کے طور پر تو کام آ سکتا ہے۔ یہ فائدہ تو ہو سکتا ہے کہ ماں باپ یا بھائی وغیرہ ہنس پڑیں یا جس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر ایسا کہا جاتا ہے وہ ہنس پڑے اور سمجھے کہ مجھ سے مذاق کیا گیا ہے لیکن اس سے کوئی حقیقی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ خیالی طور پر تم کسی کو دنیا کی بادشاہت بھی بخش دو تو اس کے حالات میں کوئی تغیر نہیں آئے گا لیکن حقیقی طور پر اگر تم کسی کو ایک پیسہ بھی دے دو تو وہ اس سے فائدہ اٹھا لے گا۔ پس تم بھی اگر صرف اسلام کے نام سے کام لو تو تم دنیا کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے لیکن اگر تم اسلام کے مفہوم کے مطابق تھوڑا سا بھی عمل کرو تو بہت کچھ فائدہ حاصل کر سکتے اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچا سکتے ہو۔
کوئی شخص سارا دن اپنے آ پ کو مسلم مسلم کہتا رہے تو اللہ تعالیٰ کا قرب اسے حاصل نہیں ہو سکتا لیکن اگر وہ خدا تعالیٰ کی خاطر ایک منٹ بھی ذکرِ الٰہی کے لئے بیٹھ جاتا یا خدا تعالیٰ کی صفات پر غور کرتا ہے تو ایسا انسان خدا تعالیٰ کا مقرب ہو جائے گا۔ گو وہ روزانہ صرف ایک منٹ ہی ذکر الٰہی کرے مگر سارا دن اپنے آپ کو مسلم مسلم کہنے سے کچھ نہیں بن سکتا۔ ایک شخص اگر رات دن اپنے آپ کو مسلم مسلم کہتارہتا اور اپنی مسلمانی کے نعرے لگاتا رہتا ہے تو اس کے ان نعروں اور اپنے آپ کو مسلم قرار دینے سے اسے محمد ﷺ کا قرب حاصل نہیں ہو سکتا۔ لیکن اگر وہ محمد ﷺ کی کسی ایک حدیث پر ہی کسی دن عمل کر لیتا ہے تو وہ اتنا ہی محمد ﷺ کے قریب ہو جاتا ہے۔ ایک شخص اپنے ہمسایوں کو دکھ دیتا ہے۔ انہیں تکلیف میں مبتلا رکھتا ہے۔ ان کے حقوق کا کوئی خیال نہیں رکھتا لیکن اپنے آپ کو مسلم مسلم کہتا رہتا ہے تو اس کے اس قول سے لوگ خوش نہیں ہوں گے۔ وہ کتنا ہی کہتا رہے کہ مَیں اپنے ہمسایوں کا خیر خواہ ہوں۔ ان سے محبت رکھتا ہوں ان کی تکلیفوں پر بے چین ہو جاتا ہوں اور ان کے حقوق کی ادائیگی کا خیال رکھتا ہوں۔ لوگ اس کی ان باتوں سے کبھی خوش نہیں ہو سکتے لیکن اگر وہ ایک وقت چاہے اس کے گھر میں دال ہی پکی ہوئی ہو۔ تھوڑی سی دال اپنے ہمسایہ کے گھر تحفہ کے طور پر بھیج دیتا ہے۔ تو سب اس سے خوش ہو جائیں گے اور سمجھیں گے کہ اس نے قول سے نہیں بلکہ عمل سے اپنی محبت اور خلوص کا ثبوت دیا ہے۔ یہی حال ایمان کا ہوتا ہے۔ انسان اپنے ایمان کا دن رات ڈھنڈورا پیٹتا رہے تو اسے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا لیکن اگر وہ اپنے ایمان کا ڈھنڈورا پیٹنے کی بجائے تھوڑا سا خدا تعالیٰ کی توحید پر یقین لے آتا ہے۔ تھوڑا سا محمد ﷺ کی نبوت پر یقین لے آتا ہے۔ تھوڑا سا قرآن کریم کی صداقت پر یقین لے آتا ہے تو بہت ممکن ہے یہ یقین اور ایمان اسے بہت دور تک لے جائے۔ ممکن ہے وہ تھوڑا سا یقین جو اس کے دل میں خدا تعالیٰ کی وحدانیت پر پیدا ہؤا ہے۔ اسے ایک دن بہت بڑا موحّد بنا دے ۔ ممکن ہے کہ وہ تھوڑا سا یقین جو اس کے دل میں محمد ﷺ کی نبوت پر پیدا ہؤا ہے۔ بیج کی طرح پھیلنا شروع کر دے اور کسی وقت کھیت بن کر اسے محمد ﷺ کے صحابہ کے مرتبہ تک پہنچا دے۔ ممکن ہے کہ وہ تھوڑا سا یقین جو اس کے دل میں قرآن کریم کی صداقت پر پیدا ہؤا ہے۔ کسی وقت کھیت بن کرپھیل جائے اور ایک دن ایسا آئے جبکہ وہ قرآن کریم کا عارف بن جائے لیکن اگر اس کے دل میں کوئی ایمان نہیں اور وہ مُنہ سے سارا دن کہتا رہتا ہے کہ مَیں خدا پر ایمان رکھتا ہوں، محمد ﷺ پر ایمان رکھتا ہوں، قرآن کریم پر ایمان رکھتا ہوں تو اس کے نتیجہ میں کوئی کھیتی پیدا نہیں ہو گی کیونکہ کھیتی نفی سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ کسی بیج سے پیدا ہوتی ہے۔
پس ہماری جماعت کے نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے اعمال میں اس امر کو مدنظر رکھا کریں کہ ان کا نام کیا رکھا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا نام مسلم رکھا ہے پس انہیں سوچنا چاہئے کہ کیا واقع میں وہ اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار ہیں اور کیا واقع میں وہ دنیا کے لئے امن کا موجب ہیں؟ ہمیں تو نظر آتا ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بعض دفعہ نوجوان دوسروں پر خونی حملہ کر دیتے ہیں اور پھر دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ وہ احمدی ہیں حالانکہ اپنے عمل سے وہ اپنے آپ کو نہ احمدی ثابت کر رہے ہوتے ہیں نہ مسلمان۔ احمدیت تو اسلام کا ہی دوسرا نام ہے۔ کوئی الگ مذہب نہیں۔ موجودہ زمانہ میں چونکہ مسلمان حقیقتِ اسلام سے بیگانہ ہو چکے تھے۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کا نام احمدیہ جماعت رکھ دیاتاکہ دنیا کو معلوم ہو کہ آج حقیقی اسلام کو ماننے والے دنیا میں احمدیوں کے سوا اَور کوئی نہیں ورنہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ احمدیت اسلام کے سوا کوئی اَور چیز ہے۔ جب ہم احمدیت کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو ہمارا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ اسلام کی جو تشریح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائی ہے۔ اس کو ماننے والے ہم ہیں۔ یہ معنی نہیں ہوتے کہ اسلام کے سوا ہم نَعُوْذُ بِاللہِ کسی اَور مذہب کے پیرو ہیں۔
پس اگر کوئی شخص اپنے عمل میں تبدیلی نہیں کرتا اور وہ اس بات کو ثابت نہیں کر دیتا کہ وہ واقع میں لوگوں کا خیرخواہ ہے اور وہ خود بھی امن سے رہتا ا وردوسروں کے امن میں بھی خرابی پیدا نہیں کرتا۔ اس وقت تک وہ احمدی کہلا کس طرح سکتا ہے؟ درحقیقت ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جو جماعت اور قوم کو بدنام کرنے والے ہوتے ہیں ورنہ ایک مومن کو تو لوگوں کا اتنا خیر خواہ ہونا چاہئے کہ اسے ہر قسم کی تکالیف اٹھا کر دوسروں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرنی چاہئے اور اگر کوئی شخص اپنے نفس پر ہر قسم کی تکالیف برداشت کر کے دوسروں کو فائدہ پہنچائے تو اسے بھی کوئی نقصان نہیں ہو سکتا کیونکہ ہر شخص جو دوسرے کو فائدہ پہنچاتا ہے وہ درحقیقت اپنے لئے بھی فائدے کا ایک راستہ کھولتا ہے اور جب اسے کوئی تکلیف ہوتی ہے۔ دوسرے لوگ اس کو مدد دینے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں گویا جب سارے لوگ اخلاق سے کام لینے والے ہوں تو کسی کو کوئی گھاٹا نہیں رہ سکتا۔
مشہور واقعہ ہے کہ نپولین ایک دفعہ اپنی فوج کے ساتھ کسی دلدل میں سے گزر رہا تھا کہ اس کی فوج کے سپاہی سخت تھک گئے اور انہوں نے شکایت کی کہ اب ہم سے چلا نہیں جاتا وہ چونکہ دلدل کی جگہ تھی اس لئے اگر وہ اسی جگہ بیٹھ جاتے تو اندر دھنس کر سب کے آلات خراب ہو جاتے۔ اوزار اور ہتھیار خراب ہو جاتے ، کپڑے خراب ہو جاتے اور ان کے لئے کام کرنا مشکل ہو جاتا ۔ افسروں نے کہا کہ یہاں تو آرام کرنے کی کوئی صورت نہیں ، دلدل سے باہر نکل کر آرام کیا جا سکتا ہے مگر سپاہیوں نے کہا کہ ہم چلنے سے بالکل معذور ہیں۔ ہم اس قدر تھک چکے ہیں کہ اب ہم سے ایک قدم بھی اٹھایا نہیں جا سکتا۔ آخر یہ بات نپولین تک پہنچی اس نے کہا یہ کوئی مشکل امر نہیں مَیں تم سب کو آرام دے دیتا ہوں۔ تم کہیں سے صرف ایک کرسی لا دو ، وہ ایک کرسی جو غالباً بادشاہ کے لئے رکھی ہوئی تھی، لے آئے اور نپولین اس پر بیٹھ گیا ۔ پھر اس نے ایک افسر کو کہا کہ آؤ اور میری گودی میں بیٹھ جاؤ وہ نپولین کی گودی میں بیٹھ گیا تو اس نے حکم دیا کہ اسی طرح یکے بعد دیگرے ایک ایک آدمی دوسرے کی گودی میں بیٹھتا چلا جائے اور ایک حلقہ بنا لیا جائے چنانچہ سب لوگ اسی طرح بیٹھتے چلےگئے۔ جب آخری آدمی نپولین کی پشت کی طرف پہنچا تو نپولین نے اسے کہا کہ میرے نیچے سے کرسی نکال دو اور اپنی ٹانگوں پر مجھےبٹھا لو۔ چنانچہ کرسی نکال کر دوسروں کو دے دی گئی اور پھر جو لوگ باقی رہ گئے تھے وہ اس کرسی کے ذریعہ اسی طرح بیٹھتے چلے گئے اور اس طرح ساری فوج کو آرام مل گیا۔
ہم جب بچے تھے تو ہم نے خود اس کا تجربہ کر کے دیکھا ہے ذرا بھی بوجھ محسوس نہیں ہوتا اور سب کو آرام حاصل ہو جاتا ہے۔ اب بظاہر اس میں ایک آدمی نے دوسروں کو اٹھایا ہؤا ہوتا ہے لیکن حقیقت یہ ہوتی ہے کہ ہر شخص دوسرے کو آرام پہنچا رہا ہوتا ہے یہی حال اخلاق کا ہے۔ اگر ایک شخص جوش کےو قت اپنے غصہ کو دبا لیتا ہے تو درحقیقت وہ دوسرے کو اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ جب اس سے کوئی غلطی ہو جائے تو وہ بھی اسی طرح اپنے غصہ کو دبا لے۔ پھر اس دوسرے سے تیسرے کو تحریک ہوتی ہے اور تیسرے سے چوتھے کو تحریک ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر شخص فتنہ سے محفوظ رہتا ہے اور انہیں اس بات کی عادت ہو جاتی ہے کہ وہ اشتعال کے وقت اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں۔ بظاہر یہ ایک شخص کی قربانی نظر آتی ہے مگر درحقیقت یہ قربانی نہیں بلکہ نیکی کا ایک بیج ہوتا ہے جس سے دوسرے بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اور خود بھی اسے فائدہ ہوتا ہے۔ تو اخلاقی قربانیاں اور مذہب کی تعلیمیں نہایت ہی مفید چیزیں ہیں اور ان پر عمل کرنا دنیا میں امن کے قیام کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ یہ ایک غلط خیال ہے جو بعض لوگوں کے دلوں میں پایا جاتا ہے کہ اگر ہم ان تعلیموں پر عمل کریں تو ہمارا یہ حرج ہو گا ہمارا وہ حرج ہو گا۔ یہ سب آنکھ کا دھوکا ہوتا ہے اگر خدا تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق عمل کیا جائے تو اس قسم کی تکلیف جو دوسروں کو آرام پہنچانے کے لئے برداشت کی جائے۔ انسان کے لئے راحت کا موجب بن جاتی ہے اور ایسا شخص جو اپنی زندگی کا مقصد دوسروں کو آرام پہنچانا سمجھتا ہو۔ اسے جب خود کوئی ضرورت پیش آتی ہے تو تمام لوگ اس کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے بے چین ہو جاتے ہیں اور انہیں اس وقت تک اطمینان نہیں آتا۔ جب تک اس کی تکلیف کو دور نہ کر لیں۔ ہم نے دیکھا ہے جن قوموں میں قربانی کی روح ہوتی ہے وہ ایسا ہی کرتی ہے اور اپنے بھائیوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ہر قسم کے ایثار سے کام لینے کے لئے تیار رہتی ہیں۔
ہمارے بعض دوست ایک دفعہ بمبئی گئے اور وہ تبلیغ کے لئے بعض بوہرہ قوم کے تاجروں سے ملے تو دورانِ گفتگو میں ہمارے دوستوں نے ان سے دریافت کیا کہ اس کی وجہ کیا ہے کہ آپ کی قوم کے سب لوگوں کی مالی حالت اچھی ہے اور کسی کی تجارت گری ہوئی نظر نہیں آتی۔ انہوں نے بتایا کہ ہم میں سے جب کسی شخص کی تجارت گر جاتی اور اس کی مالی حالت سخت کمزور ہو جاتی ہے تو ہمارے ہاں دستور یہ ہے کہ وہ ہماری پنچایت میں درخواست دیتا ہے کہ میری تجارت گر گئی ہے اور پنچایت والے کوئی ایک چیز فروخت کرنے کے لئے اسے دے دینے کا فیصلہ کر دیتے ہیں۔ مثلاً دیا سلائی بظاہر ایک چھوٹی سی چیز ہے مگر پنچایت فیصلہ کر دے گی کہ تمام دیا سلائیاں اسے دے دی جائیں چنانچہ ہم میں سے جن جن تاجروں کے پاس دِیا سلائیاں ہوں گی، وہ اسے دے دیں گے اور کہیں گے کہ اتنی قیمت میں ہم نے دیا سلائی فروخت کرنی تھی تم اس سے زیادہ قیمت پر دیا سلائیاں فروخت کر کے اصل قیمت ہمیں دے دینا اور نفع خود رکھ لینا۔ اس فیصلہ کے مطابق تمام قوم اسے دیا سلائیاں دے دیتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے بعد دکان پر جب گاہک آتا ہے اور کہتا ہے کہ دیا سلائی چاہئے تو دکاندار جواب دے دیتا ہے کہ دِیا سلائی تو ختم ہو چکی ہے آپ کو اگر ملے گی تو فلاں سیٹھ کی دکان سے ملے گی پھر وہ دوسری دکان پر جاتا ہے اور کہتا ہے کہ دِیا سلائی چاہئے۔ وہ دکاندار بھی جواب دیتا ہے کہ دِیا سلائی تو ختم ہو چکی ہے۔ ہاں اگر آپ لینا چاہیں تو آپ کو فلاں سیٹھ کی دکان سے ملے گی۔ آخر اسی طرح دس بیس دکانوں پر وہ جاتا ہےاور جب کسی دکان سے بھی اسے دِیا سلائی نہیں ملتی تو اس پر اس بات کا اتنا اثر ہوتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے اب مجھے دِیا سلائی جس قیمت پر بھی مل جائے لے لینی چاہئے۔ چنانچہ وہ اسی دکان پر جاتا ہے جس کا سب نے پتہ بتایا ہوتا ہے اور وہی دِیا سلائی جو چار آنے گُرس ہوتی ہےوہ دکاندار چھ آنے گُرس پر دیتا ہے اور خریدار اس قیمت پر بھی دیا سلائی کا میسّر آنا غنیمت سمجھ کر خرید لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اگر مَیں نے یہاں سے بھی دِیا سلائی نہ لی تو پھر مجھے کہیں سے نہیں ملے گی۔
یہ فائدہ جو بوہروں کو حاصل ہے۔ درحقیقت انہیں اپنے جتھے کی وجہ سے حاصل ہے۔ علاوہ ازیں اس میں اس بات کا بھی ایک حد تک دخل ہوتا ہے کہ بالعموم بڑے شہروں میں باہر سے جو تاجر سودا خریدنے کے لئے آتے ہیں۔وہ شہر کے خاص خاص حلقوں سے ہی سودا خریدنے کے عادی ہوتے ہیں اور اگر ان حلقوں میں انہیں کسی چیز کے متعلق یہ معلوم ہو جائے کہ وہ کسی اَور دکان سے نہیں بلکہ فلاں دکان سے ہی مل سکتی ہے تو وہ اس اثر کے ماتحت جو اس حلقہ سے انہوں نے قبول کیا ہؤا ہوتا ہے۔ اسی دکان پر چلے جاتے ہیں اور وہ دکاندار زیادہ گراں قیمت پر چیز فروخت کر کے نفع خود رکھ لیتا اور اصل قیمت مالکوں کو واپس کر دیتا ہے اور اس طرح تھوڑے دنوں کے اندر اندر پھر ہزاروں لاکھوں روپیہ کا مالک ہو جاتا ہے۔ اسی طرح وہ بعض دفعہ کسی کو مٹی کے تیل کا ٹھیکہ دے دیتے ہیں۔ بعض دفعہ کوئی اَور چیز فروخت کرنے کے لئے دے دیتے ہیں اورباقی تمام قوم کے افراد سختی سے اس بات کی پابندی کرتے ہیں کہ خود اس چیز کو فروخت نہ کریں۔ اب بظاہر یہ ایک قربانی معلوم ہوتی ہے مگر درحقیقت یہ ہر ایک کے فائدہ اور ترقی کا ایک ذریعہ ہے۔ کسی کو کیا پتہ کہ کل اس کی کیا حالت ہو جائے اور اگر آج اس کا لاکھوں روپیہ کا کاروبار ہے۔ توکل اس کی تجارت گر جائے اور اس کی مالی حالت کمزور ہو جائے۔ ایسی حالت میں یہی قانون اس کی ترقی کا بھی موجب بن سکتا ہے۔ پس گو یہ ایک قربانی معلوم ہوتی ہے مگر درحقیقت سب کی ترقی کا ذریعہ ہے اور اس کا فائدہ کسی ایک فرد کو نہیں بلکہ تمام قوم کو پہنچتا ہے۔
ہمارے قادیان میں صرف چند احمدی تاجر ہیں لیکن اگر یہاں اس طریق کو جاری کیا جائے تو میرا خیال ہے ان میں سے کئی بُرا منائیں گے اور کہیں گے کہ ہمارا نقصان کر دیا گیا ہے حالانکہ اگر کل ان کی اپنی حالت خراب ہو تو اسی قانون سے وہ خود بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ بہرحال انہوں نے بتایا کہ اس دستور کی وجہ سے ہماری قوم گرتی نہیں بلکہ جب بھی کسی کو تجارت میں خسارہ ہوتا ہے۔ باقی قوم کے افراد کسی ایک چیز کے متعلق فیصلہ کر لیتے ہیں کہ یہ فروخت کر کے نفع نہیں اٹھائیں گے بلکہ اصل قیمت پر اپنے بھائی کے پاس فروخت کر دیں گے تاکہ نفع سے وہ اپنی حالت کو بہتر بنا سکے۔ اس طرح نہ صرف ان کا بھائی ترقی کر جاتا ہے بلکہ ان کو بھی کوئی نقصان نہیں ہوتا کیونکہ اَور بیسیوں چیزیں ان کی دکان پر فروخت کرنے کے لئے موجود ہوتی ہیں۔ تو اخلاق اور اسلامی تعلیم پر عمل شروع میں کڑوا معلوم ہوتا ہے مگر ان چیزوں کا نتیجہ بڑا میٹھا ہوتا ہے۔ پس مَیں اپنی جماعت کے نوجوانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے اخلاق میں تغیر پیدا کریں اور اپنی جوانی کو اسلام کے رنگ میں رنگین کرنے کی کوشش کریں۔ اگر آج وہ اپنے جذبات پر قابو رکھیں گے، اپنے اخلاق کو درست کریں گے اور اپنی جوانی کے ایام کو اسلامی تعلیم کے ماتحت بسر کرنے کی کوشش کریں گے تو ان کا بڑھاپا نہایت خوبصورت ہو گا اور وہ اپنی عمر کے آخری ایام اللہ تعالیٰ کی عبات میں پورے اطمینان اور سکون کے ساتھ گزار سکیں گے لیکن اگر آج انہوں نے اپنے جذبات پر قابو نہ رکھا اور اپنی جوانی کے ایام اسلام کے خلاف عمل کرتے ہوئے بسر کر دئیے تو اُن کا بڑھاپا ان کے لئے عبادت کا وقت نہیں ہو گا بلکہ وہ شیطان کی جنگ میں ہی اپنی عمر کے آخری ایام ضائع کر دیں گے۔ انسان جوانی میں کئی قسم کی حرکات کر بیٹھتا ہے جن پر بڑھاپے میں اسے افسوس آتا ہے اور کہتا ہے۔ کاش میں ایسا نہ کرتا مگر اس وقت عادتیں پڑ چکی ہوتی ہیں اور انسان باوجود کوشش اور خواہش کے ان عادتوں کو نہیں چھوڑ سکتا۔ وہ دیکھتا ہے کہ موت قریب آتی جا رہی ہے، عمر گھٹتی جا رہی ہے۔ زندگی کے دن بہت تھوڑے رہ گئے ہیں مگر ادھر اسے نظر آتا ہے کہ فلاں بدی میرے اندر پائی جاتی ہے، فلاں برائی میرے اندر موجود ہے۔ پس وہ دل ہی دل میں کڑھتا ہے اور بجائے اس کے کہ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرے۔ شیطان کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے ہی اپنی زندگی کے آخری ایام گزار دیتا ہے ۔ پس اپنی جوانی کے ایام کو اسلام کے احکام کے ماتحت گزارنے کی کوشش کرو، اپنے جوشوں سے ناجائز فائدہ نہ اٹھاؤ بلکہ اپنے تمام قویٰ اور اپنی تمام طاقتوں کو برمحل استعمال کر کے ان سے صحیح رنگ میں کام لو۔ اگر تم اپنی طاقتوں سے صحیح طور پر فائدہ اٹھاؤ گے تو یاد رکھو جس طرح دریاؤں سے نہریں نکلتی اور بڑے بڑے علاقوں کو سرسبز و شاداب کر دیتی ہیں۔ اسی طرح تم دنیا کو فائدہ پہنچاؤ گے لیکن اگر تم اپنی طاقتوں سے ناجائز فائدہ اٹھاؤ گے تو جس طرح سندھ کے دریا نے طغیانی سے ضلعوں کے ضلعے تباہ کر دئیے ہیں اسی طرح تم دنیا کے امن کو تباہ و برباد کرنے والے ثابت ہو گے۔ انسان کو خدا تعالیٰ نے جو طاقتیں اور قوتیں دی ہیں۔ وہ درحقیقت ایک دریا کی طرح ہیں۔ اگر ان طاقتوں سے صحیح فائدہ اٹھایا جائے تو وہ نہروں کی طرح دنیا کو فائدہ پہنچاتی ہیں لیکن اگر ان کو کھلا چھوڑ دیا جائے تو طغیانی والے دریاؤں کی طرح اردگرد کی تمام چیزوں کو ویران کر دیتی ہیں۔‘‘
(الفضل 6 اگست 1942ء)

25
نہایت ہی کرب و بَلا کے ایام ــــ خوب دعائیں کروکہ خدا تعالیٰ مجھے صحیح فیصلہ پر پہنچنے کی توفیق دے
( فرمودہ 7 اگست 1942ء )

تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’باوجود اس کے کہ پچھلے جمعہ میں میرا آنا بعد میں میرے لئے تکلیف دِہ ثابت ہؤا اور جاتے ہی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی لیکن آجکل کے حالات ایسے ہیں کہ باوجود اس کے کہ آج بھی میری صحت ٹھیک نہ تھی پھر بھی مَیں نے خود آ کر خطبہ پڑھنا مناسب سمجھا۔
اس وقت ان لوگوں کے لئے نہیں جن کو دنیا کے حالات کا مطالعہ کرنے کا موقع نہیں ملتا، ان کے لئے بھی نہیں جن کے سامنے دنیا کے حالات آتے ہیں مگر ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور وہ تمام رستے جن سے علم اور عبرت حاصل ہو سکتی ہے اس طرح بند ہوتے ہیں کہ وہ کسی اثر کو اپنے اوپر نازل نہیں ہونے دیتے۔ ان کے لئے بھی نہیں جن کے دل سخت ہو جاتے ہیں اور بُری یا بھلی ہر ایک بات کے لئے ان کے دلوں میں مساوات کا رنگ پیدا ہو جاتا ہے۔ مگر ان کے لئےجن کے دل تندرست ہیں اور اثر پذیر ہونے کی قابلیت رکھتے ہیں، جن کی آنکھیں کھلی ہیں، جن کے کان کھلے ہیں۔ یہ ایام نہایت ہی کرب و بَلا کے ایام ہیں۔ آج ہندوستان کے لئے نئے حالات کے ماتحت دو طرف سے خطرہ پیدا ہو رہا ہے۔ جاپان اس کے ایک کنارے پر اپنی فوجیں جمع کر رہا ہے تاکہ جب اس کی فوجیں کیل کانٹے سے پوری طرح لیس ہو جائیں تو مشرق کی طرف سے ہندوستان پر حملہ کر دے اور دوسری طرف جرمنی کی فوجیں بڑے زور سے ایشیا میں داخل ہو رہی ہیں اور بحیرہ اخضر (Caspian Sea) کی طرف جو ایران کی سرحد پر ہے ، بڑھتی چلی آتی ہیں۔ جس کے بعد ہندوستان اور جرمن فوجوں کے درمیان ایران اور افغانستان کی نا تربیت یافتہ فوجوں کے تھوڑے تھوڑے رسالوں وغیرہ کے سوا کچھ نہیں۔ خود اس ملک کی یہ حالت ہے کہ اس کی اکثریت یہ مشورے کر رہی ہے کہ حکومت کو بالکل معطل کر دیا جائے۔ وہ اس امر پر غور کر رہی ہے کہ ملک میں عام تعطل کی حالت پیدا ہو جائے۔ مزدور اپنا کام چھوڑ دیں، ریلیں چلانے والے کام بند کر دیں، ڈاک کے محکمہ میں کام کرنے والے ہڑتال کر دیں او رتار کے محکمہ میں کام کرنے والے تاریں لینا اور پہنچانا چھوڑ دیں۔ دکاندار سَودے بیچنا چھوڑ دیں اور ملک میں ایسا تعطل پیدا ہو جائے کہ جو شخص جہاں ہے وہیں رہ جائے اور کسی کو دوسرے کی کوئی خبر نہ مل سکے اور گورنمنٹ ایک عضوِ معطل کی طرح ہو کر رہ جائے۔
1919ء میں جس وقت گاندھی جی نے گورنمنٹ کے خلاف پہلی کارروائی شروع کی تھی اس وقت وہ نئے نئے ہندوستان میں آئے تھے مگر جن لوگوں کے دلوں میں ان ایام کی یاد ابھی تازہ ہے وہ جانتے ہیں کہ اس وقت باوجودیکہ کانگرس کا نظام مکمل نہیں ہؤا تھا ایسے دور افتادہ علاقوں میں بھی جن کا تعلیم یافتہ طبقہ سے تعلق نہ تھا یہ تعطل بغاوت کی صورت اختیار کر گیا تھا۔ اب تو قادیان میں ریل آ گئی ہے، گو پھر بھی یہ جگہ دنیا سے بہت دور ہے اور اس وقت تو یہاں ریل بھی نہ آئی تھی اور یہ مقام سیاسی دنیا سے بالکل منقطع تھا مگر اس وقت بھی باوجود اس کے کہ اس کے اردگرد کے علاقہ کے لوگ سیاسیات کا نام بھی نہ جانتے تھے۔ چاروں طرف کے دیہات سے یہی آواز آ رہی تھی کہ اب انگریز گئے، اب ہماری حکومت قائم ہو جائے گی۔ لوگوں نے گھروں میں ہتھیار جمع کرنے شروع کر دئیے تھے اور پستول چلانے کی مشقیں کرنے لگے تھے۔ چنانچہ ایک گاؤں سے جو قادیان سے صرف ایک دو میل کے فاصلہ پر ہے بعد میں پستول پکڑے بھی گئے تھے اور ایسے درخت پائے گئے تھے جن پر سکھ لوگ پستول چلانے کی مشق کیا کرتے تھے اور تمام پنجاب میں لوٹ مار شروع ہو گئی تھی اور لوگوں کو جہاں کہیں کوئی اِکّا دُکّا انگریز یا سرکاری افسر ملتا اسے مار دیتے تھے یا مارنے کی کوشش کرتے تھے۔ لوگوں نے بینک لوٹ لئے۔ امرتسر میں جو اتنا بڑا پُررونق شہر ہے لوگ بینک لوٹ کر گھروں میں لے گئے اور حکومت بالکل بے دست و پا ہو کر رہ گئی تھی اور جب مَیں نے ملک میں عام شورش کودیکھ کر علاقہ کے سکھ رؤساء کو بُلا بھیجا تا باہم مشورہ کر کے اس علاقہ میں امن قائم رکھنے کی تجاویز کریں تو جو آدمی ان کو بلانے کے لئے بھیجے گئے انہوں نے آ کر مجھے خبر دی کہ ایک ایک کا دل بغاوت کے خیالات سے پُر ہے۔ مَیں نے انہیں منع کیا تھا کہ وہ انہیں میرے بلانے کی غرض نہ بتائیں اور انہوں نے آ کر مجھے بتایا کہ انہوں نے جسے بھی میرا پیغام دیا اس کا ذہن اس طرف نہیں گیا کہ قیام امن کے مشورہ کے لئے انہیں بلایا جا رہا ہے بلکہ جو بھی سنتا یہی جواب دیتا کہ اب انگریزوں کی حکومت تو جا رہی ہے اب واقعی مرزا صاحب کو دوبارہ اس علاقہ میں اپنی حکومت قائم کرنی چاہئے اوراس میں ہم ان کے ساتھ ہیں۔ وہ اس اجتماع کی غرض یہی سمجھے کہ ہم بھی لوٹ مار میں حصہ لینا چاہتے ہیں اور اس غرض سے ان کو بلا رہے ہیں کہ ہمارے ساتھ مل جائیں۔ اس سے پتہ لگ سکتا ہے کہ کس طرح باغیانہ خیالات آگ کی طرح تمام ملک میں پھیل گئے تھے۔ بے شک اتنا عرصہ گزرنے کے بعد آج بعض باتیں کانگرس کے خلاف بھی پیدا ہو چکی ہیں، کانگرس کی کئی تحریکات ناکام رہیں اور ناکامی کمزور دلوں کو مایوس کر دیا کرتی ہے۔ اس وقت تو ہر ایک یہی سمجھتا تھا کہ کانگرس کی تحریک ضرور کامیاب ہو جائے گی اور اس لئے کمزور دل لوگ بھی اس کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے تھے مگر آج کئی ناکامیوں کے بعد ایک ایسا طبقہ ملک میں پیدا ہو چکا ہے جو کانگرس کے دعوؤں پر یقین کرنے کے لئے تیار نہیں۔ پھر ہندوؤں اور سکھوں میں بھی ایک ایسا طبقہ پیدا ہو چکا ہے جو اس جنگ کو انگریزوں کے لئے ہی نہیں بلکہ اپنے لئے بھی خطرناک سمجھتا ہے اور وہ کانگرس کی اس آواز کا جواب دینے کے لئے تیار نہیں ہو گا ۔ پھر اس جنگ میں لڑنے والی ایک حکومت مزدوروں کی حکومت ہے اور چونکہ انگریز اس کے ساتھ ہیں اس لئے ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو خیال کرتا ہے کہ یہ جنگ مزدوروں کی ہے اور مزدور ہی ہڑتالیں وغیرہ کیا کرتے ہیں ۔ جو سمجھتے ہیں کہ اس وقت انگریزوں کو پریشان کرنے والا کوئی کام نہیں کرنا چاہئے۔ ان کے علاوہ اَور بھی بعض باتیں کانگرس کے خلاف ہیں مگر بعض باتیں ایسی بھی ہیں جو آج اس کے ہاتھوں کو پہلے سے زیادہ مضبوط کرنے والی ہیں۔ ان میں سے ایک تو اس کا نظام ہے جو بیس سال کے تجربہ سے پہلے کی نسبت آج بہت زیادہ مکمل ہے۔ یہ نظام اس وقت نہ تھا جب گاندھی جی نے پہلی تحریک جاری کی تھی۔ آج کانگرس کا ہاتھ اتنا مضبوط ہے کہ بظاہر تو وہ ایک سوسائٹی ہے مگر درحقیقت وہ حکومت کا رنگ رکھتی ہے اور حکومت کا کوئی محکمہ ایسا نہیں جس میں اس کے جاسوس موجود نہ ہوں۔ آج انگریز نہیں کہہ سکتے کہ وائسرائے کےگھر کے افسروں میں کانگرس کے آدمی نہیں ہیں۔ انگریز نہیں کہہ سکتے کہ گورنمنٹ میں کانگرسی نہیں، انگریز نہیں کہہ سکتے کہ پولیس میں کانگرس کے آدمی نہیں حتّٰی کہ آج فوج میں بھی کانگرسیوں کے آدمی موجود ہیں۔ کونسلوں میں بھی کانگرسی ہیں اورہر جگہ ایسے آدمی موجود ہیں جو گو مُنہ سے حکومت کی وفاداری کا اقرار کرتے ہیں مگر دل سے کانگرس کے ساتھ ہیں۔ ہر وزیر کےد فتر میں کانگرسی ہیں، حکومت کے تمام بڑے بڑے عہدوں میں سے کچھ کانگرسیوں کے ہاتھ میں ہیں۔ بظاہر وہ کانگرس سے بے تعلق ہیں مگر بہ باطن ان کی ساری ہمدردیاں کانگرس کے ساتھ ہیں اور وہ اسی لئے حکومت کے اداروں میں گھسے ہوئے ہیں کہ وقت آنے پر کانگرس کا ساتھ دیں۔
غالباً 1930ء میں کانگرس کی شورش شروع ہوئی۔ اس وقت مجھے معلوم ہؤا کہ حکومت کے بہت سے راز کانگرسیوں کو معلوم ہو جاتے ہیں بلکہ قریباً سارے ہی راز ان کو معلوم ہو جاتے ہیں اور بعض معیّن مثالیں مجھے بعض کانگرسیوں نے بتائیں کہ کس طرح ہمیں معیّن اطلاعات حاصل ہوتی ہیں۔ جب حکّام کسی کانگرسی کو قید کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ہمارے ساتھ تعلق رکھنے والے لوگ ہمیں پہلے سے ہی بتا دیتے ہیں اور ہم اس جگہ سے جہاں پولیس نے چھاپہ مارنا ہو پہلے ہی تمام ریکارڈ وغیرہ نکال لیتے ہیں اور گرفتار ہونے والا اطمینان کے ساتھ پولیس کے آنے کا منتظر ہوتا ہے۔ پولیس چھاپہ مارتی اور سمجھتی ہے کہ خفیہ کاغذات وہاں سے ہاتھ آئیں گے لیکن وہ پہلی اطلاع کے مطابق وہاں سے کِھسکا دئیے جا چکے ہوتے ہیں بلکہ اس زمانہ میں انہوں نے پولیس سے اس طرح تمسخر کرنا شروع کر دیا کہ پولیس نے کسی جگہ چھاپہ مار کر کسی کو پکڑنا چاہا مگر جب وہ وہاں پہنچی تو یہ دیکھ کر حیران ہو گئی کہ جسے وہ پکڑنے آئے ہیں اس کے اردگرد پانچ سات دوست بیٹھے ہیں اوراس کے گلے میں پھولوں کے ہار وغیرہ ڈالے ہوئے ہیں۔ یہ گویا پولیس کی کارروائی کا ایک طرح کا جواب تھا کہ تم تو اچانک پکڑنے آئے ہو مگر ہمیں گرفتاری کا پہلے سے علم ہے اورہم نے بطور مبارک باد اپنے بھائی کے گلے میں ہار ڈالے ہوئے ہیں۔ انہی ایام میں مجھے شملہ میں سر ہربرٹ ایمرسن کو جو بعد میں پنجاب کے گورنر بن گئے تھے اور اس وقت ہوم ممبر تھے، ملنے کا اتفاق ہؤا۔ مَیں نے ان سے ذکر کیا اور کہا کہ یہ حالات ہیں اور حکومت کی کوئی بات نہیں جس کا کانگرس کو علم نہ ہو جاتا ہو۔ مَیں نے بعض واقعات کی طرف اشارہ بھی کیا جو مجھے کانگرسیوں سے معلوم ہوئے تھے اور مَیں نے سر ہربرٹ ایمرسن سے کہا کہ اس صورت میں مخفی رکھنے اور چھپانے کا کیا فائدہ ہے جبکہ ہر محکمہ میں کانگرس کے جاسوس موجود ہیں۔ گورنمنٹ کا کونسا ارادہ ہے جسے وہ کانگرسیوں سے چھپا سکتی ہے۔ سَر موصوف نے اس کے جواب میں ہنس کر کہا کہ یہ ٹھیک ہے کہ ہمارے راز کانگرس کو معلوم ہو جاتے ہیں اور ان کے جاسوس سرکاری محکموں میں ہیں لیکن یہ بات یک طرفہ نہیں۔ ہمیں بھی ان کے راز معلوم ہو جاتے ہیں اور ہمارے جاسوس بھی کانگرس میں ہیں۔ مَیں نے کہا کہ کانگرس کے راز آپ کو معلوم ہو جانے سے آپ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا کیونکہ آپ تو گورنمنٹ ہیں لیکن وہ باغی ہیں اوران کو حکومت کے راز معلوم ہونے سے فائدہ ہو سکتا ہے۔ حکومت کو باغیوں کے حالات معلوم ہو جانے سے اتنا فائدہ نہیں ہو سکتا جتنا باغیوں کو حکومت کے راز معلوم ہو جانے سے ہو سکتا ہے۔
بہرحال آج کانگرس کی طاقت پہلے سے بہت زیادہ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس وقت اس کی مدد پر بعض غیر حکومتیں بھی ہیں۔ پہلے جب کبھی کانگرس شورش کرتی تو بعض بیرونی ممالک زبانی ہمدردی تو کرتے مگر ایسا فائدہ کسی کا وابستہ نہ تھا کہ زیادہ مقدار میں کانگرس کی مدد کرتے لیکن آج ایسی حکومتیں ہیں جو ہر رنگ میں ان کی مدد پر آمادہ ہو سکتی ہیں اور ایسے ذرائع موجود ہیں جن سے وہ روپیہ اور مختلف سامان ان کو پہنچا سکتے ہیں۔ آج سے نہیں بلکہ بہت پہلے سے جب جنگوں کا سوال ہی نہ تھا۔ ہندوستان میں ان ملکوں نے ایسی ایجنسیاں قائم کر رکھی تھیں کہ جن کے ذریعہ وہ انگریزوں کے مخالفوں میں روپیہ وغیرہ تقسیم کرتے تھے۔ انگریز حیران تھے کہ انارکسٹوں کو روپیہ کہاں سے مل رہا ہے حالانکہ وہ مغربی کمپنیوں کے ذریعہ ہی پہنچتا تھا۔ آج گو جنگ کا زمانہ ہے مگر ایسے ذرائع آج بھی ہیں اور ایسے ممالک بھی ہیں جو جنگ میں شامل نہیں، ان تک روپیہ پہنچانا اور پھر ان کے ذریعہ مختلف رنگوں میں مثلاً تجارتی رنگ میں یہاں لانا مشکل نہیں اور جاپان، جرمنی، اٹلی سب اس طرح شورش کرنے والوں کی مدد کریں گی اور کوئی تعجب نہیں کہ ان ملکوں نے پہلے سے ہی ہندوستان کا روپیہ خرید کر رکھا ہؤا ہو کہ ضرورت کے وقت باغیوں تک پہنچا سکیں اور غیر جانبدار ممالک کے ذریعہ روپیہ پہنچایا جا سکتا ہے۔ یہ طاقت جو اَب کانگرس کو حاصل ہے پہلے نہ تھی۔
تیسری بات جو اس وقت کانگرس کے حق میں ہے یہ ہے کہ اس وقت انگریز دلجمعی کے ساتھ مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ہندوستان کے دونوں طرف دشمن ہیں ۔ اگر اس وقت وہ اندرونی لڑائی میں مصروف ہو جائیں تو بیرونی دشمنوں کا مقابلہ مشکل ہو جائے گا۔ اس لئے وہ بے دلی سے لڑیں گے سوائے اس کے کہ اس دفعہ وہ اس جنگ کو بھی واقعی جنگ سمجھ لیں۔ پہلے تو یہی ہوتا رہا ہے کہ وہ درمیان میں آ کر ہتھیار ڈال دیتے رہے ہیں۔ گاندھی جی نے روزہ رکھا اور انگریزوں کی قوتِ مقابلہ فوراً سلب ہو گئی۔ وہی گاندھی آج بھی موجود ہے اور آج بھی روزہ رکھا جا سکتا ہے تو اس وقت انگریزوں کے لئے پوری طرح لڑنا مشکل ہے سوائے اس کے کہ وہ ہمت مردانہ سے کام لیں اور عواقب کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مقابلہ کریں کیونکہ اگر اندرونی گڑ بڑ شروع ہو جائے تو تمام نظام درہم برہم ہو جاتا ہے اور اس وقت سے زیادہ خطرناک وقت اَور کونسا ہو سکتا ہے جب دائیں بھی دشمن ہیں اور بائیں بھی دشمن ہیں اور ملک کے اندر اکثریت فساد پر آمادہ ہے۔ پہلے تو لوگ آپس میں ہی ایک دوسرے سے لڑنے کی تیاریاں یا بچاؤ کی صورتیں سوچتے تھے مگر وہ مقامی صورتیں تھیں لیکن یہ ایک ایسا فتنہ اٹھنے والا ہے جو سارے ہندوستان کو لپیٹ کر لے جائے گا۔ کانگرسی اور گاندھی جی کے معتقد صرف بنگال میں نہیں ہیں، صرف مدراس میں نہیں ہیں، صرف بہار یا یو۔پی میں نہیں، صرف پنجاب یا سندھ یا سرحد میں نہیں ہیں بلکہ ہر جگہ موجود ہیں۔ وہ شہروں میں بھی ہیں اور دیہات میں بھی، پہاڑوں پر بھی ہیں اورمیدانوں میں بھی ہیں۔ اس لئے اس آگ کو قبول کرنے کے لئے ہر جگہ ایندھن موجود ہے۔ تِنکوں کے ڈھیر ہر جگہ پڑے ہیں اور ان کے ہمسایہ میں رہنے والے ہر جگہ خطرہ محسوس کر رہے ہیں اور ایسے وقت میں ہماری جماعت محفوظ نہیں رہ سکتی کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ سارے ملک میں آگ لگی ہو اور ہم محفوظ گھروں میں بیٹھے رہیں۔ اول تو یہ بات اخلاق سے بعید ہے کہ آگ لگے اور اسے بجھانے کے لئے ہاتھ نہ بڑھایا جائے۔ پھر یہ حماقت بھی ہے کہ جب ہمسایہ میں آگ لگ رہی ہو تو خیال کر لیا جائے کہ یہ ہم تک نہ پہنچے گی بلکہ پرے ہی رہے گی۔ اگر یہ آگ بھڑکی تو اس کا اثر ہماری جماعت پر بھی ضرور پڑے گا اور اگر ہم اس آگ تک نہ گئے تو وہ ہم تک ضرور آئے گی لیکن اس کے ساتھ ایک دوسرا نظارہ بھی ہے اور وہ یہ کہ ہم نے سالہا سال تک انگریزوں کا ساتھ دیا مگر گزشتہ چند سالوں سے جب بھی موقع آیا پنجاب اور بعض دوسرے صوبوں میں ان میں سے بعض نے ہماری پیٹھ میں خنجر گھونپنے سے دریغ نہیں کیا۔ جس قوم کے تعاون اور تائید سے انگریزوں نے پچاس سال تک فائدہ اٹھایا اسے بعض انگریز افسروں نے باغی ثابت کرنے کی کوشش کی اور اس جنگ کا نتیجہ خواہ کچھ نکلے اس میں تو کوئی شک نہیں کہ انگریز اب ہندوستان میں نہیں رہ سکتے۔ فتح کی صورت میں تو وہ خود اعلان کر چکے ہیں کہ ہندوستان کو آزاد کر دیں گے اور شکست کی صورت میں وہ خواہ کہیں یا نہ کہیں انہیں جانا ہی پڑے گا۔ اوراگر ہم سابقہ تجربہ پر نگاہ رکھیں تو کہنا پڑے گا کہ وہ دوست کو دشمن بنا کر جانے کے عادی ہیں۔ گویا ان کا ساتھ دینے کے معنی اپنے لئے موت کو بلانا ہیں اور اس طرح ہمارے لئے دوہرا خطرہ ہے۔ گزشتہ سالوں کے تجربہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کم سے کم جو سویلین انگریز افسر اس وقت ہندوستان میں ہیں۔ ان میں سے بہتوں کی دوستی پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا اور وہ اعتبار کے قابل نہیں ہیں۔ جن لوگوں نےذاتی اغراض کے لئے ان سے تعاون کیا ان سے تو وہ کہہ سکتے ہیں کہ تمہیں ہم نے اس کا معاوضہ ادا کر دیا ، کسی کو خان صاحب بنا دیا، کسی کو خان بہادر بنا دیا، کسی کو مربعے دے دئیے مگر دنیا کا کوئی انگریز ایسا ہے جس کے اندر شرافت ہو اور وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ کہہ سکے کہ تمہیں یا تمہاری جماعت کو ہم نےفلاں فائدہ پہنچایا ہے اور کوئی دنیا میں ایسا انگریز ہے جس کے اندر شرافت ہو اور وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہہ سکے کہ تمہاری جماعت سے ہمیں فائدہ نہیں پہنچا۔ مَیں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ پچاس سال تک ہم نے بغیر کسی بدلہ کے ہر موقع پر انگریزوں سے تعاون کیا اور ان کو فائدہ پہنچایا اور پھر مَیں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ اس عرصہ میں ہم نے حکومت سے کبھی ایک پیسہ کا بھی فائدہ نہیں اٹھایا، نہ اٹھانے کے لئے تیار تھے اورنہ اٹھانے کے لئے تیار ہوں گے۔ پس ان حالات میں ہمارے لئے یہ بہت مشکل سوال پیدا ہو گیا ہے کہ آیا ہم اس فتنہ کو جو سارے ملک کو بھسم کرنے کے لئے چلا آ رہا ہے دبانے کے لئے اٹھیں اور اس قوم کی مدد کریں جو پچھلے تجربہ کی بناء پر اپنے دوستوں سے بیوفائی کرنے کی عادی ہے یا اس کی پچھلی بے وفائی کا خیال کر کے ملک کو اس آگ میں جلنے دیں۔ دونوں طرف خطرات ہیں اور ہمیں فیصلہ یہ کرنا ہے کہ ان دونوں میں سے کونسا فتنہ بڑا ہے۔ یہ فیصلہ ہمیں بہت جلد کرنا پڑے گا اور چند دنوں میں کسی نتیجہ پر پہنچنا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ آیا کانگرس کےاراکین کے دلوں میں ایسی اصلاح ہو چکی ہے یا نہیں کہ وہ مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے تیار ہوں۔ گزشتہ تجربہ یہی ہے کہ مسلمانوں کے حقوق کانگرس کے ہاتھ میں محفوظ نہیں ہیں اور اب پتہ نہیں کہ اس میں اصلاح ہو چکی ہے یا وہ اب بھی مسلمانوں کی ویسی ہی دشمن ہے جیسی پہلے تھی۔ مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن اس وقت تک کے تجربہ کے لحاظ سے گاندھی جی ہیں، انہیں تو مسلمانوں سے کچھ ایسا بغض ہے کہ جہاں انہیں مسلمانوں کا کوئی فائدہ نظر آئے انہیں سر سے لے کر پاؤں تک آگ لگ جاتی ہے۔ سر سٹیفورڈ کرپس کی تجاویز کے بھی یہ صاحب اسی وجہ سے مخالف ہیں کہ ان کے مطابق وہ سمجھتے ہیں مسلمانوں کے حقوق محفوظ ہو جائیں گے اور ان کو بھی آزادی مل سکے گی۔ کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ وہی شخص جو کہتا تھا کہ انگریز صرف اتنا بتا دیں کہ وہ ہندوستان کو کب آزاد کریں گے اور اگر وہ اتنا بتا دیں تو مَیں صدیوں تک بھی انتظار کر سکتا ہوں، آج دو سال بھی انتظار نہیں کر سکتا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ یہی ہے کہ اسے خیال ہے کہ اس آزادی سے کچھ حصہ مسلمانوں کو بھی مل سکے گا۔ وہ گاندھی آج کہاں ہے جو کہا کرتا تھا کہ اگر انگریز آزادی کے لئے معیّن وقت بتا دیں تو مَیں اَن گنت سالوں تک انتظار کر سکتا ہوں۔ آج وہ کیوں کہتا ہے کہ آج ہی آزادی دے دی جائے۔ اسی لئے کہ وہ سمجھتا ہے دو تین سال کے بعد جو آزادی ملے گی اس میں ممکن ہے مسلمانوں کا بھی کچھ حصہ ہو۔ وہ کتّے کے طور پر اپنی ڈیوڑھی پر بٹھا کرمسلمان کو کیک کھلانے کے لئے تو تیار ہے مگر ساتھ بٹھا کر سوکھا ٹکڑا کھلانے کو تیار نہیں۔ لیکن اگر مسلمانوں میں غیرت ہے تو وہ کتّے کی طرح کیک کھانا ہرگز برداشت نہ کریں گے اور اسے ٹھکرا دیں گے اور اپنا حصہ لے کر رہیں گے۔
پس گاندھی جی اَور کانگرس سے ہمیں خطرہ ہے لیکن دوسری طرف انگریزوں سے بھی خطرہ ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ آج اگر مسلمان قربانیاں کریں اور اس فتنہ کو ملک سے دور کریں تو کل کو انگریز یہ نہ کہہ دے گا کہ اب ہندو کمزور ہو چکے ہیں اب ان سے سمجھوتہ کر لیا جائے اور یہ سمجھوتہ کرنے میں اگر مسلمانوں کے حقوق تلف ہوتے ہیں تو بے شک ہوں کیونکہ آج تک انگریزوں نے کوئی ایسا اعلان نہیں کیا جس میں مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کا حتمی وعدہ ہو۔ انگریز اس وقت یہ کہہ رہے ہیں کہ جنگ کے فوراً بعد وہ ہندوستان کو فوراً آزادی دے دیں گے۔ یہ وعدہ ان کا مشتبہ ہے کیونکہ اگر مسلمانوں کی رضامندی آزادی کے لئے شرط ہے تو جنگ کے فوراً بعد آزادی دینے کا وعدہ درست نہیں ہو سکتا۔ اس صورت میں وعدہ یوں ہونا چاہئے کہ جنگ کے بعد ہم ہندوستان کو آزادی دے دیں گے بشرطیکہ مسلمانوں اورہندوؤں میں سمجھوتہ ہو جائے یا اگر سمجھوتہ نہ ہو تو مسلمان اکثریت کے صوبوں کو الگ حکومت دے دیں گے مگر ایسا کوئی اعلان ان کی طرف سے نہیں۔ خالی یہ اعلان کہ جنگ کے بعد فوراً آزادی دے دیں گے تو یہ معنے رکھتا ہے کہ اس کے بعد اگر مسلمان کو خوش نہ کیا جائے تب بھی آزادی دے دی جائے گی۔ یہ ایک خطرناک بات ہے۔ غرض اس امر کی ذمہ داری کون لے سکتا ہے کہ انگریز بعد میں مسلمانوں سے وفاداری کریں گے۔ آج کے حالات کل نہیں ہو سکتے۔ آج کا دشمن کل ہمارا دوست ہو سکتا ہے۔ اس لئے حالات ایسے ہیں کہ ہم کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے ۔ اگر ایک طرف انگریز سے خطرہ ہے تو دوسری طرف کانگرس سے بظاہر اس سے بھی زیادہ خطرہ ہے اور ان حالات میں اگر کوئی صحیح رہنمائی ہو سکتی ہے تو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہو سکتی ہے۔ وہی بتا سکتا ہے کہ آج ہم کونسا ایسا طریقہ اختیار کریں کہ کل جماعت کے لئے مشکلات نہ پیدا ہوں یا دوسری صورت کی نسبت کم ہوں۔ بعض دفعہ دونوں طرف سے مشکلات ہوتی ہیں مگر ایک دوسری کی نسبت کم ہوتی ہے۔ سب باتیں اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں اور ان حالات میں ہمارے لئے سوائے اس کے کوئی رستہ نہیں کہ اسی سے دعائیں کریں کہ وہ مجھے اس بات کی توفیق دے کہ چند دنوں میں جب مَیں کوئی فیصلہ کروں کہ ہمیں کانگرس کا مقابلہ کر کے اس فتنہ کو مٹانا چاہئے یا الگ رہ کر اس خدائی فیصلہ کا انتظار کرنا چاہئے تو میرا فیصلہ ایسا ہو جس پر چل کر ہم کامیاب ہو سکیں اور مشکلات سے بچ سکیں یا کم سے کم مشکلات کا سامنا ہو اور جو اس کی رضا اور خوشنودی کا رستہ ہو اور جسے اختیار کر کے ہم کُلّی طور پر یا نسبتی طور پر امن میں رہ سکیں۔
پس خوب دعائیں کرو ہر نماز میں کرو، جوان بھی، بچے بھی اور بوڑھے بھی، عورتیں بھی اور مرد بھی، سب دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ مجھے صحیح فیصلہ پر پہنچنے کی توفیق دے۔ یہ فیصلہ ہمیں چند دنوں میں ہی کرنا ہو گا۔ آج آل انڈیا کانگرس کمیٹی کا اجلاس ہو رہا ہے اور وہ فیصلہ کر رہی ہے ۔ اس کے بعد سنا ہے کہ وہ پندرہ دن کا نوٹس دے گی اور اسی عرصہ کے اندر اندر ہی ہمیں بھی کوئی فیصلہ کرنا پڑے گا۔ ممکن ہے اگر ملک میں فساد یا بغاوت پھیلے تو ہم میں سے سینکڑوں اور ہزاروں کو اپنی جانیں دینی پڑیں۔ پس مَیں جماعت کی ماؤں سے کہتا ہوں کہ وہ دن قریب ہیں جب ممکن ہے اسلام اور احمدیت کے لئے ان کے بچے ان سے جدا کئے جائیں اور اگر وہ اس سے بچنا چاہتی ہیں تو ان چند دنوں میں خوب دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے وہ رستہ اختیار کرنے کی توفیق دے دے جو ان کے بچوں کی جانیں بچانے والا ہو یا جس پر چلتے ہوئے کم سے کم جانیں ضائع ہوں اَور مَیں جماعت کے باپوں سے بھی کہتا ہوں کہ گو باپوں کو اولاد سے ماں کی نسبت کم پیار ہوتا ہے مگر ہوتا ان کو بھی بہت ہے۔ اس لئے مَیں ان سے بھی کہتا ہوں کہ وہ دن قریب ہیں کہ جب اس فتنہ کو روکنے کے لئے انہیں اپنی اور اپنی اولادوں کی جانیں قربان کرنی پڑیں۔ اس لئےمَیں سب کو نصیحت کرتا ہوں کہ خوب دعائیں کریں۔ اکٹھے ہو ہو کر بھی دعائیں کریں اور اکیلے اکیلے بھی ، کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس رستہ کی طرف رہنمائی کر دے جو اس کی رضا اور احمدیت و اسلام کی ترقی میں ممد ہونے والا ہو۔ خواہ قریب میں یا بعید میں۔ اور مَیں پھر آپ لوگوں سے کہتا ہوں کہ آپ نے میری بیعت کی ہوئی ہے اوریہ اقرار کیا ہؤا ہے کہ نیک احکام میں یعنی جو احکام اسلام اور احمدیت کی تعلیم کے مطابق ہوں، میری اطاعت کریں گے اور اگر مَیں کوئی ایسا حکم دوں تو نہ اپنی جانوں کی پرواہ کریں گے ، نہ اپنی اولادوں کی جانوں کی، نہ وطنوں کی، نہ مکانوں اورجائدادوں کی اورممکن ہے کہ قربانی کا دن اب قریب آ گیا ہو اس لئے وہ تیار رہیں تا جس دن مَیں آواز بلند کروں تو وہ ان میں شامل ہوں جو سچے طور پر بیعت کرنے والے تھے اور ان میں شامل نہ ہوں جن کی بیعت صرف مُنہ کی تھی اور ایمان ان کے حلقوں سے نیچے نہ اترا تھا۔‘‘ (الفضل 11 اگست 1942ء )

26
مذہب ہر ایک سے قربانی چاہتا ہے خواہ کوئی بڑا ہو یا چھوٹا ، غریب ہو یا امیر
( فرمودہ 21 اگست 1942ء بمقام پالم پور )

تشہد، تعوّذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’پہاڑ بھی انسانی زندگی کے لئے ایک سبق رکھتے ہیں چنانچہ دیکھ لو ہمارا ارادہ گزشتہ جمعرات کو قادیان واپس جانے کا تھا لیکن راستہ پر پہاڑوں کے گِر جانے کی وجہ سے ہم نہیں جا سکے اور زیادہ ٹھہرنا پڑا ہے۔ یہ چیز ہمارے لئے یہ سبق رکھتی ہے کہ پہاڑ بے شک آرام کی جگہ ہیں اور ٹھنڈ کی جگہ ہیں۔ انسان کو ان کے نظاروں سے فرحت حاصل ہوتی ہے اور سیر سے صحت حاصل کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ ایک خطرہ بھی لگا ہؤا ہے کہ انسان جب پہاڑوں پر جاتا ہے اور وہاں آرام پاتا ہے، ٹھنڈ حاصل کرتا ہے اور صحت وغیرہ حاصل کر کےو اپس جانے لگتا ہے تو کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس آرام کے پانے کے بعد وہ اپنے وطن جانے سے روک دیا جاتا ہے اور وہی پہاڑ جو اس کے لئے نعمت تھے اور آرام کا موجب تھے اس کے پیارے وطن کی طرف واپس جانے میں روک بن جاتے ہیں اور وہ اپنی مرضی سے واپس نہیں جا سکتا۔
یہی حال انسان کا ہے کہ کبھی اسے اس کی خواہش کے مطابق دولت مل جاتی ہے یا ترقیات مل جاتی ہیں یا حکومت مل جاتی ہے یا علم مل جاتا ہے یا رعب حاصل ہو جاتا ہےیا اَور کسی رنگ میں خدا کا فضل نازل ہوتا ہے تو وہی چیز ایک جانب فضل کا موجب ہوتی ہے دوسری طرف وہ اس نعمت کے حصول سے جو خدا تعالیٰ کا قرب ہے روک بن جاتی ہے کیونکہ انسان کا اصل وطن تو خدا تعالیٰ ہے۔ جب وہ اس کی طرف جانا چاہتا ہے تو یہ چیزیں اس کے رستے میں روک بن جاتی ہیں اور یہ چیز بسا اوقات اس کے لئے نہایت رنج و عذاب کا موجب ہو جاتی ہے بلکہ اس پر ایسی حالت آتی ہے کہ اگر اسے پہلے علم ہو جاتا کہ یہ میرے لئے عذاب کا موجب ہو گی تو وہ اس کے حصول کی خواہش ہی نہ کرتا۔ رسول کریم ﷺ کے زمانے میں ایک شخص آیا اور عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللہ! مَیں غریب ہوں ، میرے پاس کچھ نہیں۔ ادھر مَیں اپنے بھائیوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ خدا کی راہ میں مال خرچ کرتے ہیں، چندے دیتے ہیں تو مجھے تکلیف ہوتی ہے کہ مَیں اپنی غربت کی وجہ سے کچھ نہیں کر سکتا۔ آپؐ دعا کریں کہ ہماری تکلیف دور ہو جائے اور ہم بھی اپنے بیوی بچوں کو کھلا سکیں اوردین کی خدمت کر سکیں۔ رسول کریم ﷺ نے اسی وقت ہاتھ اٹھائے اور دعا کی کہ اللہ تعالیٰ کشائش دے ۔ کچھ دنوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان کئے کہ اسے مال ملا، اس میں برکت پڑنی شروع ہوئی یہانتک کہ اس کے پاس اس قدر دولت ہو گئی، اس قدر مویشی ہو گئے کہ ان پر زکوٰة واجب ہو گئی۔ رسول کریم ﷺ کی طرف سے زکوٰة وصول کرنے والا افسر اس کے پاس گیا اور زکوٰة مانگی لیکن وہی شخص جس نے رسول کریم ﷺ سے اس لئے دعا کرائی تھی کہ اگر اس کی حالت اچھی ہوجائے تو خدا کے راستہ میں قربانیاں کرے گا، چندے دے گا ۔ جب خدا تعالیٰ نے اس کی حالت درست کر دی تو اس نے اس افسر کو جواب دیا کہ زکوٰة لینے آ جاتے ہیں ، یہ نہیں دیکھتے کہ انسان پر اَور ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں۔ اس نے اپنے بیوی بچوں پر بھی خرچ کرنا ہوتا ہے اَور اخراجات بھی ہوتے ہیں۔ بس اسی سے کام ہے کہ زکوٰتیں دو۔ اس افسر نے یہ جواب سنا اور رسول کریم ﷺ سے آ کر اس کا جواب عرض کر دیا۔ کوئی اَور شخص ہوتا جس کے پاس پہلے ہی سے مال وغیرہ ہوتا اور وہ اس قسم کا جواب دیتا تو شاید رسول کریم صلعم اسے کچھ اور سزا دیتے مثلاً مقاطعہ کرتے یا اسلام سے خارج قرار دیتے جیسا کہ حضرت ابو بکرؓ نے کیا لیکن چونکہ اس شخص نے دعا کے ذریعہ یہ دولت حاصل کی تھی۔ رسول کریم ﷺ نے اسے مقاطعہ وغیرہ کی سزا نہ دی بلکہ یہ سزا دی کہ آئندہ اس سے زکوٰة وصول نہ کی جائے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس آدمی کے دل میں دعا کراتے وقت ایمان تھا اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ تھا جن کے دل میں دعا کراتے وقت بھی نیک خواہش نہیں ہوتی بلکہ وہ اس وقت بھی خدا سے ٹھگی کر رہے ہوتے ہیں۔ اس ایمان کا نتیجہ یہ ہؤا کہ آخر اس کے دل میں ندامت پیدا ہوئی اور وہ زکوٰة لایا۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم نے جو کہنا تھا وہ کہہ دیا۔ اب تمہاری زکوٰة قبول نہ کی جائے گی۔ وہ شخص اپنا مال لے کر واپس چلا گیا پھر دوسرے سال لایا اس وقت بھی رسول کریم ﷺ نے یہی جواب دیا۔ چنانچہ ہر سال وہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں زکوٰة لاتا مگر اسے واپس کر دیا جاتا۔ ادھر اس کے مال کے اندر اس قدر برکت ہوتی چلی گئی کہ روایت ہے کہ وہ یہاں تک مال لاتا کہ صرف زکوٰة کے جانوروں سے میدان بھر جاتا حتّٰی کہ رسول کریم ﷺ کا زمانہ گزر گیا اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا۔ پھر وہ شخص زکوٰة لایا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا جس کی زکوٰة محمد رسول اللہ ﷺ نے قبول نہیں کی، مَیں اس کی زکوٰة کیونکر قبول کر سکتا ہوں۔ وہ شخص روتا ہؤا چلا گیا پھر اگلے سال آیا چنانچہ ہر سال وہ آتا اور روتا ہؤا چلا جاتا۔ 1 اس سے پتہ لگتا ہے کہ اس کی نیت ٹھیک تھی مگر ایمان اس قدر مضبوط نہ تھا کہ اس افسر کے مطالبہ کے وقت وہ ذاتی کمزوری کا مقابلہ کر سکتا۔
یہی حال بعض انسانوں کا ہے کہ پہلے وہ خواہش کرتے ہیں کہ انہیں خدا تعالیٰ کے فضلوں کے پہاڑ پر جانا میسر ہو اور وہ ان میں جائے او ر ٹھنڈ حاصل کرے اور آرام پائے، وہاں کے ٹھنڈے پانی پئے اور سبزہ زاروں سے آنکھوں کو طراوت پہنچائے لیکن جب وہ اس کی خواہش کر رہا ہوتا ہے تو اس کے اندر کوئی کمزوری بھی ہوتی ہے جس کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی ناراضگی کی چٹانیں وطن کی واپسی کے راستہ پر گر جاتی ہیں اور اسے بند کر دیتی ہیں یعنی خدا تعالیٰ کی ملاقات کا راستہ اور خدا تعالیٰ کے قرب کا مقام ہی مومن کا اصل وطن ہے ، بند ہو جاتا ہے اور انسان دنیوی آرام کا عارضی مقام تو پا لیتا ہے لیکن اصل وطن یعنی قرب الٰہی کی طرف لوٹنے کا کوئی سامان اس کے پاس نہیں رہتا۔ اس خرابی کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کو جو نعمتیں ملتی ہیں خواہ بڑی ہوں یا چھوٹی انسان اکثر ان کے بارہ میں غور کرتے ہوئے اپنے سے اوپر کے درجہ والوں کی طرف دیکھتا ہے نیچے والوں کو نہیں دیکھتا مثلاً اگر ایک شخص کے پاس ایک وقت کی روٹی موجود ہے تو وہ بجائے اس کے کہ نیچے کی طرف دیکھے یعنی اس شخص کو جس کے ہاں فاقہ ہے اور اس کے دل میں شکر پید اہو، وہ اوپر والے کی طرف نگاہ کرتا ہے جس کے پاس دو وقت کی روٹی ہوتی ہے اور کہتا ہے کہ دو وقت کی روٹی والا مجھ سے اچھا ہے۔ اس پر فرض ہے کہ خدا کے احکام کی فرمانبرداری کرے اور قربانی کرے۔ اسی طرح دو وقت کی روٹی والا بجائے ایک وقت کی روٹی والے کو دیکھنے کے اور شکر کرنے کے اوپر والے کی طرف دیکھتا ہے جس کے پاس ایک ہفتہ کی روٹی ہوتی ہے اور کہتا ہے کہ اس ہفتہ بھر کی روٹی کا سامان رکھنے والے پر قربانی فرض ہے۔ مجھ پر کہ بالکل غریب ہوں کیونکر قربانی فرض ہو سکتی ہے۔ پھر وہ ایک ہفتہ کی روٹی والا بجائے نچلے کو دیکھنے کے اوپر والے کودیکھتا ہے جس کے پاس تین ماہ کی روٹی ہوتی ہے اور کہتا ہے کہ میرا کیا ہے ایک ہفتہ کے بعد مجھے پھرروٹی کی فکر ہو گی۔ اس شخص کو قربانی کرنی چاہئے جو تین ماہ کی روٹی کا سامان رکھتا ہے اور وہ تین ماہ کی روٹی کا سامان رکھنے والا اپنے سے نیچے والے کو دیکھنے کی بجائے اوپر والے کو دیکھتا ہے جس کے پاس ایک سال کی خوراک ہے اور کہے گا کہ اس شخص پر قربانی واجب ہے جس کے پاس سال بھر کی خوراک ہے میرا سامان تو تین ماہ کے بعد ختم ہو جائے گا اور پھر مجھے فکر کرنا پڑے گا۔ وہ اوپر کا شخص آگے اپنے سے اوپر والے کو دیکھتا ہے جس کے پاس ساری عمر کے لئے جائداد ہے اور کہتا ہے کہ اس شخص کو قربانی کرنی چاہئے جس کے پاس عمر بھر کا کھانا کپڑا موجود ہے۔ مَیں تو کنگال ہوں او روہ اپنے سے اوپر والے کو دیکھتا ہے جس کے پاس گزارہ کے لئے اَور کچھ پس انداز کرنے کے مطابق جائداد ہے اور کہتا ہے کہ مَیں خدا کے دین کی خدمت کس طرح کر سکتا ہوں۔ اس پر خدمت دین واجب ہے جس کے پاس کچھ زائد بچ جاتا ہے اور جو بیوی بچے کے خرچ اور مال کے انتظام کے بعد پس انداز کر سکتا ہے۔ مجھ پر بھلا کیونکر واجب مَیں تو اس سے کم ہوں۔ پھر وہ شخص اس کو دیکھتا ہے جس کے پاس ہزار دو ہزار جمع ہے اور کہتا ہے کہ مجھ پر کس طرح قربانی واجب ہے۔ اس شخص کو قربانی کرنی چاہئے جس کے پاس رقم جمع ہے لیکن یہ شخص پھر آگے بہانہ بناتا ہے کہ ہزار دو ہزار بھی کوئی چیز ہے اس کو قربانی کرنی چاہئے جس کے پاس 50،60 ہزار جمع ہے۔ ہزار دو ہزار تو ذرا بیماری آ جائے تو خرچ ہو جاتا ہے ۔ اوپر کا شخص اپنے سے اوپر والے کو جس کے پاس لاکھ دو لاکھ ہے دیکھتا ہے اور وہ اس سے اوپر والے کو جس کے پاس کروڑ دو کروڑ ہے۔ اس نقطہ نگاہ کے مطابق ہوتے ہواتے ساری خدمت دین صرف دنیا میں ایک شخص پر واجب ہو جاتی ہے جو دنیا کا سب سے زیادہ مالدار ہو باقی سب آزاد ہو جاتے ہیں۔ چونکہ نیچے سے بنیاد کج رکھی گئی تھی اس لئے سارے کے سارے معذور ہوتے چلے گئے۔ ایک وقت کی روٹی والے نے دو وقت کی روٹی والے کو دیکھا۔ اس نے ہفتہ بھر کی روٹی والے کو ،اس نے اس سے اوپر دیکھا حتّٰی کہ آخر میں ایک شخص رہ گیا جو دنیا میں سب سے زیادہ مالدار تھا مگر انسانی نفس جب بہانے بنانے پر آ جائے تو پھر وہ آخری شخص کیوں نہیں بنا سکتا۔ وہ بھی کہہ سکتا ہے کہ ہم سے پوچھو کہ ہم کو کس قدر اخراجات کرنے پڑتے ہیں، حد سے زیادہ ٹیکس دینے پڑتے ہیں، پبلک کاموں میں حصہ الگ لینا پڑتا ہے، انتظامات کے اخراجات اوربے شمار ضرورتیں ہوتی ہیں جن پر خرچ کرنا پڑتا ہے اور اس قدر فکر ہے کہ رات دن سونا حرام ہے۔ مجھ سے اچھا تو وہ شخص ہے جس کو کوئی فکر نہیں بلکہ مَیں نے اس قسم کے لوگوں کی کتب پڑھی ہیں جو مالداروں کو غریبوں سے زیادہ رحم کا مستحق قرار دیتے ہیں۔ اگر اس طریق کو اختیار کرنے کی بجائے ہر ایک شخص اپنے سے نیچے کو دیکھنا شروع کرتا تو حالت بالکل الٹ جاتی۔ اگر وہ نیچے کو دیکھتا تو کہتاکہ دوسرے لوگ تو محروم ہیں ہمارے پاس تو بہت کچھ ہے ہمیں بہت زیادہ قربانی کرنی چاہئے اور قربانیاں کرتا۔ کروڑ پتی لکھ پتیوں کو دیکھ کر، لکھ پتی ہزاروں والوں کو، ہزار وں والے سینکڑوں والے کو اور یہ ان کو جن کے پاس سال کے روٹی کپڑے کا سامان ہے، وہ ان سے نیچے والوں کو، وہ اپنے سے نیچے والوں کو حتّٰی کہ اُن کو جن کے پاس کچھ بھی نہیں۔ اور جن کے پاس کچھ نہیں وہ بھی اسی طرح شکر کر سکتے ہیں کہ ہمیں بھوک تو لگتی ہے۔ بعض مسلول ہوتے ہیں کہ ان کے پاس کچھ نہیں ہوتا، لوگ دے بھی دیں تو انہیں بھوک نہیں لگتی، وہ کھا نہیں سکتے، اسی طرح غریب مسلول وغیرہ کی نیکی بھی اپنے لئے راستہ نکال لیتی ہے۔ وہ یہ سوچ سکتے ہیں نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ بعض عمل سے نیکی کرنے والے کے برابر ان کو بھی کہ عمل کی توفیق نہیں رکھتے مگر دل سے نیکی کی تڑپ رکھتے ہیں ثواب ملتا ہے2 اور وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ شکر ہے کم سے کم دل سے تو دعا کر سکتے ہیں اور اس مجنون کی طرح نہیں ہیں جو نیکی کی نیت بھی نہیں کر سکتے۔
غرض ایک نقطۂ نگاہ سے یعنی اوپر سے نیچے کی طرف دیکھنے سے دنیا میں امن اور نیکی قائم ہو جاتے ہیں اور دوسرے نقطۂ نگاہ سے فساد اور بدی کا بیج بویا جاتا ہے۔ اس نظارہ کی مثال رسول کریم ﷺ نے یوں بیان فرمائی ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ایک شخص کو سب سے آخر میں دوزخ سے نکالے گا مگر اس کا مُنہ دوزخ کی طرف ہی رہنے دے گا۔ تو وہ عرض کرے گا کہ اے میرے خدا تُو نے مجھے دوزخ سے نکالا اب تُو اتنا کرم فرما کہ میرا منہ دوزخ سے ہٹا کر جنت کی طرف کر دے۔ چنانچہ اس کا مُنہ دوزخ سے ہٹا کر جنت کی طرف کر دیا جائے گا اور وہ بھیانک نظارے جنہیں دیکھ کر اسے دکھ ہوتاتھا جاتے رہیں گے اور وہ جنت کو دیکھ کر آرام حاصل کرے گا۔ 3
یہی حال نقطۂ نگاہ کے بدلنے سے ہوتا ہے۔ ایک شخص انہی حالات میں اسی زمانہ میں انہی طاقتوں کے ساتھ اگر اس کا نقطہ نگاہ یہ ہو کہ ہم کمزور ہیں، ہم کیا کر سکتے ہیں دوزخ میں پڑ جاتا ہے اور وہی شخص انہی حالات میں انہی سامانوں سے اگر اس کا نقطۂ نگاہ یہ ہو کہ مجھ سے کم سامانوں والے یا کم صحت والے اور لوگ بھی ہیں، مجھے ان سے بڑھ کر نیکی سے کام لینا چاہئے اور ان کا بوجھ بھی اٹھانا چاہئے جنت میں چلا جاتا ہے۔ مذہب ہر ایک سے قربانی چاہتا ہے۔ بڑا اپنی جگہ اور اپنے رنگ میں قربانی کرتا ہے، چھوٹا اپنی جگہ اپنے رنگ میں قربانی کرتا ہے۔ چنانچہ صحابہ کرامؓ کو دیکھ لو بعض کے پاس مال تھا انہوں نے مال سے قربانی کی۔ بعض کے پاس تھوڑا تھا وہ تھوڑا لے آئے۔ جن کے پاس کچھ بھی نہ تھا وہ ہاتھ سے خدمت کرتے تھے۔ حضرت نبی کریم ﷺ نے چندے کی تحریک کی ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس بہت سا مال تھا وہ سارا لے آئے اور حضرت عمرؓ اپنا آدھا مال لے آئے اور سمجھتے تھے کہ آج قربانی میں مَیں حضرت ابو بکرؓ سے سبقت لے جاؤں گا مگر جب حضرت نبی کریم ﷺ نے حضرت ابو بکرؓ سے پوچھا کہ ابوبکرؓ گھرمیں کیا چھوڑ آئے تو انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول کا نام چھوڑ آیا ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جو نصف مال لائے تھے اپنے دل میں شرمندہ ہوئے کہ مَیں تو نصف مال لایا ہوں مَیں کس طرح سبقت لے جا سکتا ہوں۔4 ایک شخص کے پاس کچھ بھی نہ تھا اس نے بازار میں جا کر مزدوری کی۔ اسے مُٹھی بھر جَو ملے وہ وہی جَو لے کر آیا اور حضرت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کر دئیے۔ اس پر منافقوں نے کہنا شروع کر دیا کہ دیکھو یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم مٹھی بھر جَو دے کر دنیا کو فتح کر سکتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس کا ایک رنگ میں جواب دے دیا۔ فرماتا ہے کہ مومن کی قربانی تو بیج کی طرح ہوتی ہے۔ 5 ایک بیج سَو دانے پیدا کرتا ہے اور وہی دانہ تیسرے مقام پر جا کر ایک لاکھ بن جاتا ہے۔ پھر وہی لاکھ چھ سات تبدیلیوں میں جا کر اس قدر ہو جاتا ہے کہ ساری دنیا اسی سے کھاتی ہے۔ اسی لئے گورنمنٹ پہلے بیج بہت تھوڑے تیار کرتی ہے۔ اس سے بعد میں بے شمار فصلیں تیار ہوتی ہیں۔ چنانچہ دیکھو کہ ابھی سات آٹھ سال ہوئے کہ نمبر 591 گندم کا بیج نکلا تھا اوراب چند سالوں میں اس قدر گندم ہوئی ہے کہ کروڑوں مَن یہ گندم منڈیوں میں فروخت ہوتی ہے۔
یہی حال قربانیوں کا ہے کہ قربانیاں خدا کے راستہ میں بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ پس منافقوں کا اعتراض بالکل فضول تھا۔
بہرحال صحابہؓ نے اپنے اپنے رنگ میں قربانیاں کیں، لڑائیوں میں حفاظت کے کام کئے۔ جن کے پاس اَور کچھ نہیں انہوں نے جانیں ہی پیش کر دیں۔ مومن کو قربانی کے لئے ہمیشہ ایسا نقطہ نگاہ رکھنا چاہئے کہ نیچے کے حالات والے کو دیکھے اور اس کے لحاظ سے اپنے دل میں شکر کرے کہ اَلْحَمْدُ لِلہِ ، میرے لئے تو بڑا موقع ہے کہ مجھے خدا نے اس سے زیادہ دیا ہے۔ اس نقطۂ نگاہ سے لالچ، حرص، حسد مٹ جاتا ہے۔ امریکہ کے کروڑ پتی باوجود اس قدر مالدار ہونے کے اپنے دل میں خوش نہیں بلکہ وہ کمیٹیاں بناتے ہیں اور ٹرسٹ قائم کرتے ہیں کہ مثلاً سارا مٹی کا تیل ہمارے قبضہ میں آ جائے پھر جس طرح چاہیں بیچیں۔ یہ سب اسی لئے ہوتا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ہمارے روپے اَور بھی زیادہ ہوں اور یہ حسد اور لالچ کی آگ روپے کے بڑھنے سے اَور بھی بڑھتی ہے۔ انسان چاہتا ہے کہ ایک لاکھ ہے تو دو لاکھ ہو جائے اور کہیں ٹھہرنے کا نام نہیں لیتا۔ اس سے بچنے کی ایک ہی راہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا پر راضی ہو جائے اور اپنی حالت پر رہتے ہوئے قربانی کرے اور ناشکری کے تباہ کُن گڑھے سے اپنے آپ کو بچائے رکھے تاکہ جب کبھی خدا تعالیٰ کا فضل اسے دنیوی آرام کی پہاڑیوں پر بھیجے تو اس کی واپسی کا راستہ کھلا رہے اور خدا تعالیٰ کے غضب کے پہاڑ اس پر گر کر اسے خدا تعالیٰ کی طرف لَوٹنےسے محروم نہ کر دیں او روہ بے وطنی کی موت کا شکار نہ ہو۔ ‘‘
(الفضل 28 اگست 1942ء)
1: اسد الغابة جلد اول صفحہ 237-238 مطبوعہ ریاض 1384ھ
2: بخاری کتاب الجھاد باب من حبسہ العذر
3: بخاری کتاب الاذان باب فضل السجود
4: ترمذی ابواب المناقب باب مناقب ابی بکر الصدیق
5: بخاری کتاب التفسیر باب قَوْلِہٖ اَلَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِیْنَ (الخ)

27
تیاری کا وقت ختم ہو رہا ہے اور کام کا وقت نزدیک آگیا ہے
( فرمودہ 28 اگست 1942ء )

تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’ مَیں کمر درد کی وجہ سے زیادہ دیر کھڑا نہیں ہو سکتا لیکن چونکہ مَیں کئی دن قادیان سے باہر رہا اور دو جمعوں کے خطبے یہاں نہیں بیان کر سکا اس لئے مَیں نے مناسب سمجھا کہ اس تکلیف کے باوجود جمعہ خود ہی پڑھاؤں۔
مَیں نے پالم پور جانے سے پہلے ایک خطبہ پڑھا تھا جس میں مَیں نے جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ آئندہ بہت بڑے فتن کا دروازہ ہندوستان میں کھلنے والا ہے اور بوجہ ہندوستانی ہونے کے ہمیں اس کے متعلق کچھ نہ کچھ فیصلہ کرنا ہو گا اور چونکہ یہ معاملہ ایسا اہم ہے کہ اس کا اثر ہماری جانوں، ہمارے مالوں، ہماری عزتوں بلکہ ہمارے وطن پر بھی پڑسکتا ہے اور پڑنے والا ہے اس لئے مَیں نے جماعت کے دوستوں سے خواہش کی تھی کہ وہ دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے ایسے فیصلہ پر پہنچنے کی توفیق دے جس پر چل کر ہم کامیاب ہو سکیں اور مشکلات سے محفوظ رہیں یا ہمیں کم سے کم مشکلات کا سامنا ہو۔ چنانچہ دعاؤں اور غور کرنے کے بعد مَیں نے اپنے فیصلہ کا اعلان پالم پور سے ہی لکھ کر بھجوا دیا تھا جو ‘‘الفضل’’ 18 اگست 1942ء میں شائع ہو چکا ہے۔ اس عرصہ میں جماعتوں کی طرف سے میں یہ تو نہیں کہتا کہ ساری جماعتوں کی طرف سے بلکہ کچھ جماعتوں کی طرف سے میرے پاس ریزولیوشن آئے ہیں جن میں انہوں نے اپنی طرف سے قربانیاں پیش کرنے کا اقرار کیا ہے اور وعدہ کیا ہے کہ وہ ہرآواز پر لبیک کہتی ہوئی اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہیں اورانہیں جو بھی حکم دیا جائے گا اس کی وہ پوری طرح تعمیل کریں گی۔ مَیں سمجھتا ہوں جن جماعتوں نے ریزولیوشنوں کی صورت میں ایسے اقرار نہیں کئے وہ بھی جس حد تک دوسروں نے اقرار کئے ہیں ان اقراروں میں شامل ہیں۔ ان کا ایسے جلسے کر کے ریزولیوشن پاس نہ کرنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ انہوں نے سمجھا اس قسم کے ریزولیوشنوں کی ضرورت ہی نہیں جبکہ وہ بیعت کر چکے اور احمدیت میں شامل ہو چکے ہیں مگر میرے نزدیک ان اقرار کرنے والوں کے سامنے بھی پورے طور پر اُن قربانیوں کا نقشہ نہیں آیا جن کو مَیں نے اپنے اعلان میں مدنظر رکھا ہے۔ اس لئے مَیں ابھی تک نہیں کہہ سکتا کہ ان اقراروں کی قیمت کیا ہے۔ بسا اوقات انسان ایک چیز کو چھوٹی سمجھتا ہے اور اسے کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ بسا اوقات انسان ایک وقتی قربانی کے لئے تیار ہو جاتا اور اسے دینے پر آمادہ ہو جاتا ہے لیکن ایک لمبی اور بظاہر نسبتاً چھوٹی قربانی کرنی اس کے لئے بہت مشکل ہوتی ہے مثلاً تحریک جدید ہی ہے۔ مَیں ہمیشہ خیال کیا کرتا ہوں کہ اگر جان دینے کا سوال ہوتا تو صرف پانچ ہزار مرد و عورت اپنے آپ کو پیش نہ کرتے جیسے تحریکِ جدید میں قریباًَ اتنے ہی لوگوں نے حصہ لیا ہے بلکہ پندرہ، بیس، تیس بلکہ چالیس ہزار آدمی اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتے مگر یہ قربانی چونکہ لمبی اور متواتر دس سال کے لئے تھی اس لئے بہت سے ایسے لوگ جو ہمیشہ اپنی جان اور مال قربان کرنے کے دعوے کرتے رہتے تھے، پیچھے رہ گئے اور جو شامل ہوئے ان میں سے بھی ایک معتد بہ حصہ ایسا ہے جس نے قانون سے فائدہ اٹھا کر اپنے آپ کو تحریکِ جدید میں شامل کر لیا ہے ورنہ درحقیقت وہ شامل نہیں کیونکہ ان کی آمدنیوں کے مقابلہ میں ان کی قربانیاں بہت ہی حقیر اور معمولی ہیں۔ بے شک انسانی قانون کو انہوں نے پورا کر دیا ہے لیکن خدائی قانون کے ماتحت انہوں نے آنے کی کوشش نہیں کی۔
پس یہ ایک بہت بڑا فرق ہے جو ہمیں قربانی کے میدان میں دکھائی دیتا ہے کہ بہت سے لوگ وقتی قربانی کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں کیونکہ انسان سمجھتا ہے مَیں نے ایک دفعہ قربانی کی تو معاملہ ختم ہو جائے گا چنانچہ لاکھوں نہیں کروڑوں لوگ اس غرض کے لئے تیار ہو جائیں گے کہ ان کی گردنوں پر خنجر پھیر دیا جائے لیکن اگر انہی کو قید خانوں میں ڈال کر ان سے لمبی قربانیاں لی جائیں، لوہے کی چٹکیوں سے ان کے گوشت نوچے جائیں ، ان کی آنکھیں نکال لی جائیں اور ان کے ناک اور کان کاٹ لئے جائیں تو گو وہ مریں گے نہیں مگر ان میں سے بہت سے لوگ جو جان دینے کے لئے تیار تھے ، واویلا کرنے لگ جائیں گے اور معافی کے خواستگار ہو جائیں گے کیونکہ چھوٹی اور لمبی قربانی وقتی قربانی سے زیادہ ہیبت ناک اور خطرناک ہوتی ہے۔ پس مَیں نہیں کہہ سکتا کہ جن لوگوں نے قربانی کے وعدے کئے ہیں ان میں سے کتنے اس وعدے پر قائم رہ سکتے ہیں۔ مَیں ان سب کو دیانتدار سمجھتا ہوں اور مَیں یقین رکھتا ہوں کہ انہوں نے یہ وعدےسچائی کے ساتھ کئے ہیں مگر پھر بھی مَیں نہیں کہہ سکتا کہ وقت پر کتنے لوگ ہوں گے جو واقع میں قربانی کرنے کے لئے تیار ہوں گے۔ شاید تم میں سے بہت سے ایسے لوگ ہوں گے جنہوں نے موجودہ واقعات کو دیکھتے ہوئے یہ خیال کر لیا ہو گا کہ جو فتنہ اٹھا تھا وہ اب دب چکا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ فتنہ دبا نہیں اور دب نہیں سکتا۔ ہندوستان کی آزادی کا سوال اتنے لمبے عرصہ سے دنیا کےسامنے آ رہا ہے۔ اتنی مشکلوں اور اتنی صورتوں میں لوگوں کےسامنے آ رہا ہے اور اس طرح متواتر لوگوں کے دماغوں میں اس سوال نے چکر لگایا ہے اور پھر اس قدر لمبے عرصہ سے ہندوستان اور انگلستان کے لوگوں میں اس مسئلہ پر بحث ہو رہی ہے کہ اب ان خیالات کو دلوں سے نکال دینا بالکل ناممکن ہے۔ اسی طرح ہندو مسلم سوال پر سالہا سال سے بحث ہو رہی ہے اور یہ سوال بھی مختلف شکلوں میں لوگوں کے سامنے آتا رہا ہے۔ مختلف صورتوں میں لوگوں کے سامنے آتا رہا ہے اور مختلف پیرایوں میں لوگوں کے سامنے آتا رہا ہے۔ اس لئے اب لوگوں کےد لوں سے ان خیالات کا نکال دینا بالکل ناممکن امر ہے۔ پس یہ خیال کر لینا کہ کسی سختی سے یا گرفتاری سے یا سزاؤں کے خوف سے سیاسی ہندوستانیوں کے دلوں سے یہ احساس مٹ جائے گا کہ ہندوستان کو آزاد ہونا چاہئے یہ ایک طفلانہ حرکت اور بچوں کا سا خیال ہے۔ جو آگ لگ چکی ہے یہ اب بجھ نہیں سکتی، جو فتنہ اٹھ چکا ہے یہ اب دب نہیں سکتا۔ اس آگ کو بجھایا جا سکتا تھا، اس فتنہ کو مٹایا جا سکتا تھا مگر آج سے کئی سال پہلے۔ اس وقت انگریزوں نے یہ سمجھ لیا کہ وہ ہندوستانیوں کو معمولی معمولی حقوق دے کر مطمئن کر دیں گے حالانکہ اس وقت اگر وہ صحیح طریق اختیار کرتے اور اس راستہ پر چلتے جو مَیں نے بتایا تھا تو آج انہیں یہ مشکلات پیش نہ آتیں۔
آج سے پچیس سال پہلے 1917ء میں جب ہندوستان میں سیاسی حقوق کے متعلق پکار پیدا ہوئی اور مسٹر مانٹیگو وزیر ہند ہندوستان میں آئے تو اس وقت مَیں نے ان کے سامنے یہ تجویز رکھی تھی کہ سیاسی اصول کے پیچھے پڑنے کی بجائے آپ عام لوگوں کے اضطراب اور بے چینی کی اصل وجوہ معلوم کریں اور مَیں نے انہیں بتایا کہ منجملہ اَور وجوہ کے اصل سوال ہندوستانیوں کی روٹی کا ہے۔ عام لوگوں کو اس امر سے کوئی تعلق نہیں کہ کونسلوں کی کیا شکل ہو اور ہندوستانیوں کو اس وقت کیا اختیارات ملنے چاہئیں بلکہ ان کے سامنے سب سے اہم سوال اپنی روٹی کا ہے۔ اس لئے بجائے کونسلیں بنانے کے بعض بڑے بڑے عہدے ہندوستانیوں کے سپرد کر دئیے جائیں اور جلد سے جلد سول سروس کو خالص ہندوستانی بنا دیا جائے۔ اس طرح جوں جوں یہ عہدے ان کے سپرد ہوتے جائیں گے، وہ آئندہ حکومت کے لئے تیار ہوتے چلے جائیں گےاور حکومت سنبھالنے کے وہ اہل ہو جائیں گے۔ اس کے برخلاف کونسلوں میں بے اختیار اور صرف بحث مباحثہ کے عادی ہندوستانی حکومت کی قابلیت کبھی پیدا نہ کریں گے اور صرف حکومت کے پہلو میں ایک کانٹا ثابت ہوں گے اور ایسے مشکل وقت میں جبکہ ہندوستانیوں کی روٹی کا سوال ہی حل نہیں ہؤا ، وہ نہ تو صحیح مشورہ دے سکیں گے اور نہ صحیح مشوروں کے مطابق عمل کر سکیں گے۔ مگر وہ اس وقت اسی شوق میں رہے کہ کچھ حقوق ہندوستانیوں کو کونسلوں میں دے دئیے جائیں اور بنیاد کی بجائے اوپر کے چوبارے تیار ہو جانے چاہئیں۔ اس تجویز کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندوستانیوں کی زبان تو کھول دی گئی مگر ان کےد ماغ کی تربیت کے لئے کوئی سامان نہ پیدا کیا گیا حالانکہ اگر اس وقت زیادہ تر عہدے ہندوستانیوں کے سپرد کر دئیے جاتے تو آہستہ آہستہ تمام عہدوں پر ہندوستانی قابض ہو جاتے اور ان کےد لوں میں انگریزوں کے متعلق کینہ اور بغض پیدا نہ ہوتا ۔ مگر آج یہ حالت ہے کہ ہر نئے تغیر پر ہندوستانی یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم لڑے ، ہم نے مارا اورہم نے انگریزوں سے اپنا فلاں فلاں حق چھین لیا۔ وہ یہ نہیں کہتے کہ ہم بالغ ہوئے اور ہمارے سیاسی والدین نے ہمارا حصہ ہم کو دے دیا بلکہ ان کا ذہن صرف اس طرف جاتا ہے کہ ہم انگریزوں سے لڑے، ہم نے انہیں مارا اور ان سے اپنے فلاں فلاں حقوق چھین لئے اور آئندہ بھی ہم لڑیں گے، ماریں گے اور اپنے حقوق چھینیں گے۔ اس ذہنیت کو بھلا کون مٹا سکتا ہے۔ پھر ایک اَور خطرناک غلطی گورنمنٹ سے یہ ہوئی کہ مانٹیگو چیمسفورڈ اصلاحات کے بعد جب نئی قسم کی گورنمنٹ کی بنیاد رکھی گئی تو اس وقت بھی اس نے بخل سے کام لیا اور اگلا قدم اٹھانے میں دیر کی گئی اور اس طرح جو تجربہ اس نے شروع کیا تھا اسے بھی تکمیل تک پہنچنے نہ دیا۔ میرے لئے ہمیشہ ہی یہ بات حیرت کا موجب رہی ہے کہ غالباً 1921ء میں اسمبلیوں کے لئے الیکشن ہوئے تھے مگر اس کے بعد نئی کونسلوں کے کھڑا ہونے تک اکثر کونسلوں کے دوبارہ الیکشن نہیں ہوئے۔ اب تو کہا جاتا ہے کہ جنگ کی وجہ سے نئے انتخابات نہیں کئے جا سکتے مگر مانٹیگو چیمسفورڈ سکیم کے بعد بھی بعض کونسلیں دس دس سال تک قائم رہی تھیں۔ اس سے قدرتی طور پر لوگوں کےد لوں میں یہ خیال پیدا ہؤا کہ حکومت ہمیں حقوق دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ ہم چونکہ مذہبی آدمی ہیں اس لئے ہم لوگوں کے خیالات کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکتے یا اگر اندازہ لگا سکتے ہیں تو کسی مذہبی مثال سے ہی۔ لیکن جو لوگ سیاسی ہیں اور جن کی زندگی کا مقصد ہی حکومت کا حصول ہے۔ تم خود ہی سمجھ سکتے ہو کہ ان کے لئے یہ بات کتنی تکلیف دِہ تھی کہ جب وہ سمجھتے تھے کہ انہیں جلد سے جلد حقوق ملنے والے ہیں، حکومت نے اپنے وعدوں کو پورا نہ کیااور ہندوستانیوں کو حقوق دینے میں تاخیر سے کام لیا۔ چنانچہ 1917ء ، 1918ء میں مانٹیگو چیمسفورڈ سکیم بنی۔ اور دوسرا قدم 1929ء تک نہیں اٹھایا گیا اورجب راؤنڈ ٹیبل کانفرنس بلائی گئی تو اس کے کام کی تکمیل جا کر 1937ء میں ہوئی۔ یہ ساری باتیں ایسی ہیں جو سیاسی لوگوں کے دلوں میں انگریزوں کا بغض پیدا کرنے کا موجب ہوئیں۔ اگر انگریز وقت پر کام کرتے اور اپنی تجویز کے مطابق ہندوستانیوں کو ان کے حقوق دیتے چلے جاتے تو آج سیاسی لوگوں کے دلوں میں انگریزوں کا بغض پیدا نہ ہوتا۔ مگر اب ان کےد لوں میں یہ بغض اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اسے کسی طرح مٹایا نہیں جا سکتا۔ چنانچہ ایسے وقت میں جبکہ جنگ کا خطرہ ہندوستان کے دروازوں تک پہنچ چکا ہے۔ ملک کی اکثریت کی نمائندہ کانگرس کا یہ فیصلہ کرنا کہ انگریز ہندوستان سے چلے جائیں ، بتاتا ہے کہ ان کے دلوں میں انگریزوں کا بغض اس حد تک ترقی کر چکا ہے کہ اب وہ اس بات کے لئے بھی تیار ہو گئے ہیں کہ چاہے انہیں حکومت ملے یا نہ ملے، انگریز ضرور تباہ ہو جائیں۔ جب انسان مایوس ہو جاتا ہے تو اس کا دل غصے سے بھر جاتا ہے اور وہ کہتا ہے مَیں اگر مرتا ہوں تو بے شک مر جاؤں مگر میرے ساتھ میرا دشمن بھی مر جائے۔ ہمارے ملک میں مشہور ہے کہ ایک کُبڑی عورت سے کسی نے پوچھا کہ کیا تیرا دل چاہتا ہے تیری کمر سیدھی ہو جائے۔ اس کے جواب میں بجائے اس کے کہ وہ یہ کہتی کہ میرا دل چاہتا ہے میری کمر سیدھی ہو جائے، وہ کہنے لگی میرا دل تو یہ چاہتا ہے کہ باقی لوگ بھی میری طرح کُبڑے ہو جائیں۔ لوگوں نے اس سے پوچھا کہ تُو یہ کیوں کہتی ہے۔ یہ کیوں نہیں کہتی کہ میرا کبڑا پن دور ہو جائے۔ اس نے جواب دیا کہ میرے کُبڑے پن کا کیا ہے۔ مَیں نے اپنی زندگی کے بہت دن گزار لئے اور جنہوں نے مجھ پر ہنسنا تھا، ہنس لیا۔ اب تو مَیں چاہتی ہوں کہ اَور لوگ بھی کُبڑے ہوں اور مَیں بھی ان کو دیکھ دیکھ کر ہنسوں۔
یہی حالت اس وقت ہندوستان کے سیاسی لیڈروں کی ہو گئی ہے۔ وہ مُنہ سے کہیں یا نہ کہیں اور درحقیقت سیاسی آدمیوں کا اعتبار بھی کوئی نہیں ہوتا۔ وہ مُنہ سے کچھ کہتے ہیں اور ان کے دل میں کچھ اَور ہوتا ہے۔ لیکن واقعات نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ ایسی حالت میں جبکہ دشمن ہندوستان کے دروازوں تک پہنچ چکا ہے ان کا یہ فیصلہ کرنا کہ جنگ میں انگریزوں کو کوئی مدد نہ دی جائے بلکہ انہیں ہندوستان سے نکال دیا جائے، بتاتا ہے کہ مایوس ہو جانے کے بعد وہ سمجھتے ہیں کہ ہم تو دوسروں کے غلام تھے ہی، ہمارے لئے اب خوشی کا ایک ہی مقام ہے کہ انگریز بھی مریں اور دوسروں کے غلام بنیں۔ یہ ذہنیت کتنی خطرناک ہے بلکہ مذہبی نقطہ نگاہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ بہت ہی گندی ذہنیت ہے۔ مذہب انسان کو یہی سکھاتا ہے اور اخلاق انسان سے اسی بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ جب کوئی مصیبت کا وقت آئے تو وہ پرانے گِلے بھول جائے مگر کتنے ہیں جو ایسے موقعوں پرپرانے شکوے بھول جاتے ہیں۔ بہت کم اخلاقی اورمذہبی لحاظ سے اس مقام پر ہوتے ہیں کہ ایک لمبی شکایت کو صلح کے حصول کے لئے بھول جائیں۔ بیشتر حصہ لوگوں کا اَیسا ہی ہوتا ہے جو مُنہ سے صلح صلح پکارتا ہے مگر ان کا دل یہی چاہتا ہے کہ جیسے دوسروں نے ہم کو ستایا ہے اسی طرح ان کو ستایا جائے، جیسے انہوں نے ہم کو غلام بنایا ہےاسی طرح ان کو غلام بنایا جائے اور جیسے انہوں نے ہم کو مارا ہے اسی طرح ان کو مارا جائے۔ چاہے اس کے نتیجہ میں وہ خود بھی ہلاک اور برباد ہو جائیں۔ آخر جو لوگ اپنے دشمنوں کو قتل کرتے ہیں وہ یہ جانتے ہوئے ہی قتل کرتے ہیں کہ گورنمنٹ انہیں پھانسی دے دے گی مگر اس کے باوجود وہ اپنے فعل سے باز نہیں آتے کیونکہ وہ جانتے ہیں، گو ہم مر جائیں گے مگر مرنے سے پہلے ہم اپنا بدلہ لے لیں گے۔ یہ ذہنیت ممکن ہے کہ گاندھی جی کی نہ ہو، گو مَیں یہ خیال نہیں کر سکتا کہ نہ ہو۔ ممکن ہے یہ ذہنیت گاندھی جی کے قریبیوں کی نہ ہو گو مَیں خیال نہیں کر سکتا کہ نہ ہو کیونکہ انہوں نے فیصلہ ایسا کیا ہےجو اس نتیجہ پر ہر شخص کو پہنچنے پر مجبور کرتا ہے۔ لیکن اگرگاندھی جی اور ان کے چند قریبیوں کی یہ ذہنیت نہ ہو تب بھی کانگرس کی اکثریت کی ذہنیت اس وقت یہی ہے کہ تیس سے چالیس کروڑ کی آبادی رکھنے والے ملک پر ایک چھوٹے سے ملک کے لوگوں نے جس کی آبادی چار کروڑ کے قریب ہے قبضہ کیا اور اس کی دولت، تجارت اور زراعت سے اس نے فائدہ اٹھایا۔ لوگوں نے تمام تکالیف کو برداشت کیا اور حکومت سے منتیں کیں کہ وہ انہیں حقوق دے۔ اس نے حقوق دینے کے متعلق کئی وعدے کئے مگر پھر ان کو پورا نہ کیا۔ وہ ایک لمبے عرصہ تک جو سو سال کے قریب ہے حکومت پر آس لگائے بیٹھے رہے اور انہوں نے سمجھا کہ ان کی امیدیں کسی دن بَر آئیں گی اور وہ بھی اپنی آنکھوں سے ہندوستان کو آزاد ممالک کی صف میں کھڑا ہوتا ہؤا دیکھیں گے۔ مگر وقت گزرتا چلا گیا اور حکومت نے اپنے وعدوں کو پورا کرنے کی طرف پوری توجہ نہ کی۔ آخر جب ان کی امید نا امیدی میں بدل گئی، ان کی خوشی رنج میں تبدیل ہو گئی، ان کے ولولے ان کے دلوں میں ہی رہے اور ان کی آرزوئیں پوری ہونے میں نہ آئیں اور انہوں نے دیکھا کہ انگریز اس وقت ایک سخت مصیبت میں مبتلا ہیں تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب ہماری خوشی اپنی حکومت میں نہیں بلکہ ہماری خوشی اپنے حاکم انگریزوں کو محکوم دیکھنے میں ہے۔ اس ذہنیت کے ماتحت کس طرح کوئی خیال کر سکتا ہے کہ آئندہ ہندوستان کی اکثریت والی قوم یعنی ہندوؤں اور انگریزوں میں کبھی صلح ہو سکتی ہے۔ مان لیا کہ انگریز سختی سے اس تحریک کو وقتی طور پر دبا سکتے ہیں مگر اس طرح قلوب کی آگ تو بجھ نہیں سکتی۔ آئر لینڈ میں بھی ایسا ہی ہؤا تھا۔ آئر لینڈ کتنا چھوٹا سا ملک ہے مگر وہاں کے لوگوں نے اپنے حقوق کے متعلق جد و جہد کی۔ جب ان کے مطالبات کو نہ مانا گیا تو انہوں نے فساد کئے، بغاوتیں کیں اور چاہا کہ انہیں کسی طرح آزادی مل جائے مگر جب اس طرح بھی انہیں آزادی نہ ملی تو ان کےد ل سخت ہو گئے۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ جب انہیں آزادی ملی تو انہوں نے ساتھ ہی انگلستان سے علیحدہ ہونے کا اعلان کر دیا۔ باوجود اس کے کہ آئر لینڈ کے دوست امریکہ نے زور دیا کہ وہ ایسا نہ کرے مگر پھر بھی انہوں نے انگلستان سے اپنے آپ کو علیحدہ کر لیا۔ جو کچھ آئر لینڈ کے ڈی ولیرا نے وہاں کیا۔ تم یقیناً سمجھ لو کہ ہندوستان کا گاندھی بھی اس ملک میں وہی کچھ کرے گا۔ اس سے یہ امید کرنا کہ اتنی لمبی بحث اور لڑائی کے بعد وہ انگریزوں سے صلح کر لے گا، بہت بڑی نادانی ہے۔ گاندھی جی کے ساتھ سیاسی لحاظ سے ہمیں خواہ کتنا ہی اختلاف ہو، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انہوں نے ہندوستان کی آزادی کے لئے بہت بڑی قربانیاں کی ہیں اور ہندوستانیوں کو اٹھانے اور بیدار کرنے کے لئے انہوں نے جد و جہد سے کام لیا ہے۔ گو ان کا نقطۂ مرکزی ہندو قوم ہی ہے اور ہندو قوم کی اکثریت کو ہندوستان سمجھ لینا، گو ایک سیاسی غلطی ہے مگر ان کی قربانیوں کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا آدمی جس نے سوئے ہوئےتیس کروڑ آدمیوں کو جگایا، جس نے ان کے دلوں میں آزادی کی آگ لگا دی اور جس نے انہیں اپنے ملک کی آزادی کے لئے تیار کر دیا، جو ایسے وقت میں ملک کی خدمت کے لئے اٹھا جبکہ اس کی عمر باون سال کے قریب تھی اور جس نے اس غرض کے لئے بڑی بڑی قربانیاں کیں۔ ان تمام قربانیوں اورکوششوں کے بعد طبعی طور پر اس کےد ل میں یہ خیال پیدا ہوتا تھا کہ مَیں ہندوستان کو اپنی زندگی میں ہی آزاد دیکھوں گا اورمَیں اس خوشی سے مروں گا کہ مَیں نے اپنے ملک کو غلامی سے نکال کر حکومت کے بلند مقام تک پہنچا دیا مگر رفتہ رفتہ اس کی یہ امید مایوسی سے بدلنے لگی۔ اس نے دیکھا کہ میری عمر ختم ہوتی جا رہی ہے، میرا بڑھاپا بڑھتا جا رہا ہے، میری سیدھی کمر خم ہونے لگی ہے، میرا صاف دماغ پراگندگی کے آثار محسوس کرنے لگا ہے لیکن ہندوستان نے ابھی آزادی کی ہوا تک نہیں کھائی۔ تم خود ہی سمجھ سکتے ہو کہ ایسے آدمی کی غصہ سے کیا کیفیت ہو گی۔ وہ اس آگ کو کتنا ہی دبائے، اس کے دماغ میں ہر وقت یہ شعلہ اٹھ رہا ہو گا کہ میری ساری امیدوں پر پانی پھر گیا، میری محنت اکارت چلی گئی اور میری جد و جہد نے کوئی پھل پیدا نہ کیا۔ مَیں مر جاؤں گا تو شاید میری ان ساری قربانیوں کے بعد ہندوستان کی آزادی کا سہرا کسی ایسے لیڈر کےسَر بندھے گا جس نے میرے برابر تو کیا مجھ سے ہزاروں حصے کم بھی قربانیاں نہیں کی ہوں گی اور مَیں اپنے ملک کو غلام دیکھنے کی حالت میں ہی مٹی کے نیچے دفن ہو جاؤں گا یا آگ میں جل کر فنا ہو جاؤں گا۔ تم اگر ذرا بھی قوتِ فکریہ سے کام لو تو تم اس کی دماغی حالت کے سمجھنے میں کچھ نہ کچھ کامیاب ہو سکتے ہو۔ پس ایک انسان کمزور انسان جسے خدا کی مدد حاصل نہیں۔ گو وہ مُنہ سے کہتا ہے کہ مجھے اندرونی آواز سنائی دیتی ہے مگر درحقیقت وہ اس کے نفس کا دھوکا ہے۔ اسے کوئی آواز سنائی نہیں دیتی۔ تم سمجھ سکتے ہو کہ اس مایوسی کی حالت میں اس کے اندر کتنا غصہ پیدا ہوتا ہو گا اور اسے انگریزوں کے خلاف کتنا جوش آتا ہو گا۔ اب اس کے متعلق یہ خیال کر لینا کہ جنگ کے بعد جب جرمنی اپنی جگہ چلا جائے گا اور جاپان اپنی جگہ۔ وہ انگریزوں سے صلح کر لے گا اور کہے گا آؤ ہم مل کر ایک حکومت قائم کر لیں۔ یہ ناممکن بات ہے۔ اب انگریزوں کے خلاف سیاسی ہندوستانیوں کے دلوں میں ایسا کینہ اور بغض پیدا ہو چکا ہے کہ جب بھی حکومت ہندوستانیوں کے ہاتھ آئی، یہاں کی اکثریت انگریزوں کو ہندوستان سے الگ کرنے کی کوشش کرے گی۔
اِدھر مسلمانوں کی جو کیفیت ہے وہ بھی ویسی ہی دردناک ہے۔ مسلمانوں نے پہلے ہندوؤں کا ساتھ دیا اور گو خلافت موومنٹ کی گاندھی جی نے تائید کی لیکن درحقیقت انہوں نے خلافت موومنٹ کے پردہ میں ہندوستان کی آزادی کی بنیاد رکھ دی اور خلافت کی تحریک ان کے مقصد کو تقویت دینے والی بن گئی۔ اگر اس وقت ہندوستان میں خلافت کی تحریک جاری نہ ہوتی تو کانگرس کبھی اتنی مضبوط نہ ہوتی جتنی اس وقت مضبوط ہے۔ ممکن ہے وہ کسی قدر طاقت حاصل کر لیتی مگر موجودہ طاقت کا وہ سینکڑواں حصہ بھی نہ ہوتی۔ مسلمان بیشک نظام میں کمزور ہے مگر وہ سپاہی اچھا ہے۔ وہ اپنی ذات میں خود نظام قائم کرنے میں ڈھیلا ہے اس لئے کہ وہ خدا سے دور جا پڑا، اس کی تمام تر ترقی خدا تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنے اور اس کے راستہ پر چلنے میں مرکوز ہے مگر چونکہ وہ خدا سے دور جا پڑا، اس لئے وہ ترقی سے بھی محروم ہو گیا۔ لیکن سپاہی آج بھی وہ اچھا ہے اور آج بھی مسلمان جان دینے میں دوسروں سے زیادہ دلیر ہے۔ بہرحال اس میں کوئی شبہ نہیں کہ گاندھی جی کو مسلمانوں نے بڑا بنایا۔ اسی طرح اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ مولوی محمد علی اور مولوی شوکت علی کو بھی گاندھی جی نے بنایا۔ گاندھی کا نظام کو قائم رکھنے والا ہاتھ اگران کے ساتھ نہ ہوتا تو وہ اتنا کام نہ کر سکتے جتنا انہوں نے کیا۔ بہرحال ایسے شخص کی ہدایت کے ماتحت جو تنظیم کی قوت اپنے اندر رکھتا تھا ، انہوں نے ہندوستان کو ابھارا اور مسلمانوں اورہندوؤں میں وقتی طور پر ایسا اتحاد قائم ہو گیا کہ مسلمانوں نے سمجھا اب ہمیشہ کے لئے ان کا آپس میں بھائی چارا قائم ہو گیا ہے مگر ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ مسلمانوں نے دیکھا جس طرح پہلے رام چند دفاتر میں مسلمانوں کی ملازمت میں روک بنتا تھا ، اسی طرح رام چند یہ پسند نہیں کرتا کہ عبد الرحمان کو کوئی ملازمت ملے۔ جس طرح پہلے دیوی دیال مسلمانوں کا ہاتھ کھانے پینے کی چیزوں کے ساتھ چھو جانے کی وجہ سے انہیں نجس اور ناپاک سمجھتا تھا اسی طرح آج بھی دیوی دیال یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ کوئی مسلمان اس کے کھانے پینے کی چیزوں کو ہاتھ لگائے بلکہ پہلے سے زیادہ اس کے دل میں مسلمانوں کی نفرت پیدا ہو چکی ہے۔ تین چار سال تو انہوں نے تجربہ میں گزارے مگر پھر مسلمانوں کی آنکھیں کھلیں اور ان میں بغاوت کے آثار پیدا ہونے شروع ہوئے۔ لیڈروں نے ان کو روکنا چاہا مگر مسلمانوں کی بغاوت بڑھتی چلی گئی یہاں تک کہ ان کی اکثریت گاندھی جی سے الگ ہو گئی اورلیڈروں نے بھی محسوس کیا کہ اب ان کی صرف لیڈری ہی لیڈری رہ گئی ہے۔ مسلمان ان کےساتھ نہیں رہے۔ تب انہوں نے بھی گاندھی جی کو چھوڑ دیا اور مسلمان پبلک سے آ ملے۔ اس کے بعد بار بار مسلمانوں نے ہندوؤں کےساتھ سمجھوتہ کرنے کی کوشش کی مگر ہندوؤں نے ہر بار یہی کہا کہ پہلے ہندوستان کی آزادی کا مسئلہ طے ہو جانا چاہئے۔ اس کے بعد تمہارے حقوق کا خیال رکھ لیا جائے گا۔ آخر جو کیفیت ہندوؤں کے دل کی انگریزوں سے سمجھوتہ نہ ہوتے دیکھ کر ہو گئی تھی وہی کیفیت مسلمانوں کے دل کی ہندوؤں سے سمجھوتہ نہ ہوتے دیکھ کر ہو گئی۔ چنانچہ ایک طرف اگر گاندھی جی نے ایک لمبے تجربہ کے بعد اعلان کر دیا کہ اب ہم انگریزی حکومت کے ماتحت نہیں رہ سکتے۔ ہم پہلے آزادی حاصل کریں گے اور پھر سوچیں گے کہ انگریزوں سے کیسے تعلقات رکھیں۔ تو دوسری طرف مسلم دنیا نے بھی یہ اعلان کر دیا کہ ہم ایک لمبے تجربہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ہم ہندو اکثریت کے ماتحت نہیں رہ سکتے ، ہم پہلے آزادی حاصل کریں گے اور پھر سوچیں گے کہ ہندوؤں کے ساتھ ہمارے کیسے تعلقات ہوں گے۔ گویا جو آواز گاندھی جی نے انگریزوں کے مقابلہ میں بلند کی وہی آواز مسلمانوں نے ہندوؤں کے مقابلہ میں بلند کر دی اور جو کیفیت تعلیم یافتہ ہندوؤں کے دلوں میں انگریزوں کے متعلق پیدا ہوئی تھی وہی کیفیت تعلیم یافتہ مسلمانوں کے دلوں میں ہندوؤں کے متعلق پیدا ہو گئی۔
ان حالات میں جس وقت بھی جنگ ختم ہو گئی اندرونی فسادات پہلے سے بہت زیادہ ہوں گے کیونکہ چالیس کروڑ آبادی اور بیدار آبادی کو انگریز زیادہ دیر تک اپنے ماتحت نہیں رکھ سکتے۔ ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ انہیں ہندوستانیوں کو آزادی ضرور دینی پڑے گی۔ مگر اس کے بعد دو خطرناک لہریں اٹھیں گی جو ملک میں پھیل جائیں گی۔ ایک طرف ہندو اکثریت ہو گی جو برٹش ایمپائر سے اپنے آپ کو الگ کرنے کےد رپے ہو گی اور دوسری طرف مسلمانوں کی چیخ ہو گی جو ہندو اکثریت کے مقابلہ میں بلند ہو گی۔ ان دو زبردست تحریکوں کے نتیجہ میں کوئی شخص یہ خیال بھی نہیں کر سکتا کہ ہندوستان میں امن قائم رہ سکتا ہے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے اس وقت دو فوجیں تیار ہو رہی ہیں۔ ایک فوج اپنے آپ کو برٹش ایمپائر سے نکالنے کے لئے کوشش کرے گی اور ایک فوج ہندو اکثریت کو اپنے اوپر غالب آنے سے روکے گی۔ پھر یہ دو فوجیں کسی دو علاقوں میں نہیں کہ انسان سمجھے مَیں کسی کونے میں جا بیٹھوں گا اور اس طرح امن میں رہوں گا بلکہ یہ فوجیں سارے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ہر گاؤں میں یہ دونوں فوجیں موجود ہیں، ہر قصبہ میں یہ دونوں فوجیں موجود ہیں ،ہر شہر میں یہ دونوں فوجیں موجود ہیں، ہر ضلع میں یہ دونوں فوجیں موجود ہیں، ہر صوبہ میں یہ دونوں فوجیں موجود ہیں۔ اس لئے جس وقت یہ لڑائی چھڑے گی، یہ ایک صوبہ کی لڑائی نہیں ہو گی، یہ ایک ضلع کی لڑائی نہیں ہو گی، یہ ایک علاقہ کی لڑائی نہیں ہو گی بلکہ شہر شہر اور گاؤں گاؤں اور گھر گھر کی لڑائی ہو گی۔ پس یہ مت خیال کرو کہ بد امنی کی موجودہ رَو کو دور کرنے کے لئے میری طرف سے جو اعلان کیا گیا تھا وہ ختم ہو چکا ہے۔ وہ اعلان قائم ہے اور قائم رہے گا جب تک اس قسم کی تمام بد امنیوں اور فسادات کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔
علاوہ ازیں اس بات کو بھی یاد رکھو کہ موجودہ جنگ کے بعد ایک عظیم الشان خلا پیدا ہو جائے گا۔ ایسا خلا کہ اس سے پہلے ایسا خلا بہت کم پیدا ہؤا ہے اور خدا تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ خلا کبھی قائم نہیں رہ سکتا بلکہ وہ ضرور پُر کیا جاتا ہے۔ پس وہ عظیم الشان خَلا جو ایشیا اور یورپ میں پیدا ہونے والا ہے اس کو کوئی نہ کوئی قوم ضرور پُر کرے گی اور درحقیقت وہی قوم دنیا کے مستقبل کی ذمہ دار قرار دی جا سکتی ہے جس قوم کو یہ توفیق مل جائے گی کہ وہ اس خَلا کو بھر دے۔ اسی قوم کو یہ توفیق بھی ملے گی کہ وہ آئندہ دنیا کی راہنما بنے۔ ہم نہیں جانتے کہ ہمارے لئے خدا تعالیٰ نے کیا مستقبل مقدر کیا ہؤا ہے لیکن ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ اس خَلا کا مذہبی حصہ پُر کرنا خدا تعالیٰ نے ہمارے ذمہ رکھا ہؤا ہے۔ مگر کیا تم سمجھتے ہو کہ خَلا دنیا میں آسانی سے پُر ہو جایا کرتے ہیں۔ کوئی خلا آسانی سے پُر نہیں ہوتا بلکہ وہی قوم خلا کو پُر کر سکتی ہے جوخون کی ندیوں میں سے چلتی ہوئی آئے۔ آج تک دنیا میں کبھی کسی قوم نے خلا پُر نہیں کیا جب تک پہلے وہ اپنی گردنوں کو کٹوانے کے لئے تیار نہیں ہوئی، جب تک وہ پہلے وطن سے بے وطن ہونے کے لئے تیار نہیں ہوئی، جب تک وہ پہلے اپنی جانوں کو قربان کرنے کے لئے تیار نہیں ہوئی، جب تک وہ پہلے اپنی عزتوں کو قربان کرنے کے لئے تیار نہیں ہوئی۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ دنیا کے اس خلا کو پورا کرنے کا وقت کب آئے گا مگر ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ اس خلا کا مذہبی حصہ پُر کرنا خدا تعالیٰ نے ہمارے ذمہ رکھا ہؤا ہے۔ مَیں نے تمہیں بارہا سمجھایا ہے کہ تم یہ مت سمجھو کہ ہم چونکہ تبلیغی جماعت ہیں اس لئے کوئی دشمن ہماری گردنوں کو نہیں کاٹے گا۔ ایسا خیال کرنا اول درجہ کی نادانی اور حماقت ہے۔ مَیں نے بار بار تمہارے ذہنوں سے اس بات کو نکالا ہے مگر مَیں دیکھتا ہوں کہ جب بھی کوئی ایسا ذکر آئے۔ ہماری جماعت کے بعض لوگ فوراً کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ کیسی بے وقوفی کی بات ہے۔ ہم تبلیغ کرنے والے ہیں، لڑنے والے کہاں ہیں کہ ہماری گردنیں کاٹنے کے لئے قومیں آگے بڑھیں گی۔ مگر یہ خیال بالکل غلط اورباطل ہے۔ دنیا میں ہمیشہ مبلّغوں کی گردنیں کاٹی جاتی ہیں۔ مسیحیوں کی تین سو سال تک گردنیں کاٹی گئیں حالانکہ مسیحی جنگ سے جتنے متنفر تھے اتنے ہم نہیں۔ ہمیں تو اسلام وقت پر لڑائی کی اجازت دیتا ہے مگر مسیحیوں کو لڑائی کی کسی صورت میں اجازت نہیں تھی لیکن باوجود اس کے ان کی گردنیں کاٹی گئیں اورسینکڑوں سال تک کاٹی گئیں۔ اسی طرح جب ہم بھی صحیح معنوں میں تبلیغ کریں گے تو دنیا اس بات پر مجبور ہو گی کہ ہماری گردنوں کو کاٹے۔ ابھی تک تو ہم نے تبلیغ کو اس رنگ میں جاری ہی نہیں کیا کہ ہماری جماعت کے آدمیوں کی گردنیں کاٹی جائیں۔ تمہارا مبلغ امریکہ میں گیا اور اسے وہاں کی حکومت نے نکال دیا۔مگر تم نے کیا کیا ؟تم اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھ کر بیٹھ گئے۔ مگر جب حقیقی تبلیغ کا وقت آئے گا اُس وقت یہ طریق اختیار نہیں کیا جائے گا۔ فرض کرو تمہارا مبلغ امریکہ میں جاتا ہے اور اسے وہاں کی حکومت نکال دیتی ہے تو اس وقت یہ نہیں ہو گا کہ تم خاموشی سے گھروں میں بیٹھ رہو بلکہ تمہارا دوسرا مبلغ اس جگہ جائے گا۔ اس کو نکال دیا جائے گا تو تیسرا مبلغ جائے گا، اس کو نکال دیا جائے گا تو چوتھا مبلغ جائے گا۔ اسی طرح ایک کے بعد دوسرے اور دوسرے کے بعد تیسرے اور تیسرے کے بعد چوتھے شخص کو وہاں جانا پڑے گا اور جب اس طرح بھی کوئی اثر نہیں ہو گا تو ہزاروں شخصوں سے کہا جائے گا کہ وہ اپنے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوں اور خواہ انہیں بھوکا رہنا پڑے، خواہ پیاس کی تکلیف برداشت کرنی پڑے، خواہ پیدل سفر کرنا پڑے وہ جائیں اور اس ملک میں داخل ہو کر تبلیغ کریں۔ جس ملک میں داخل ہونے سے حکومت نے روک رکھا ہے ۔ ایسی صورت میں کیا تم سمجھتے ہو امریکہ والے تمہیں قتل نہیں کریں گے۔ وہ ہر اس شخص کو جو اُن کے ہاتھ آئے گا قتل کریں گے اور کوشش کریں گے کہ ان کے ملک میں ہمارا کوئی مبلغ داخل نہ ہو لیکن اس کے باوجود جو مبلغ داخل ہونے میں کامیاب ہو جائے گا وہ ایسی شان کا مبلغ ہو گا کہ امریکہ کے لوگ خود بخود اس کی باتیں سننے پر مجبور ہوں گے۔ مگر اب تو یہ ہوتا ہے کہ سیکنڈ یا تھرڈ کلاس میں ایک شخص سفر کرتا ہؤا جاتا ہے اسے ہر قسم کی سہولتیں میسر ہوتی ہیں اور وہ کسی غیر ملک میں جا کر تبلیغ کرنے لگ جاتا ہے۔ ایسا شخص مبلّغ نہیں سیّاح ہے۔ مبلغ قومیں وہی ہیں کہ جب حکومتیں انہیں اپنے ملک میں داخل ہونے سے روکتی ہیں تو وہ خاموش نہیں بیٹھ جاتیں بلکہ اپنی تجارت، اپنی زراعت، اپنی ملازمت اور اپنے گھر بار کو چھوڑ کر نکل کھڑی ہوتی ہیں اور ان میں سے ہر شخص یہ تہیہ کئے ہوئے ہوتا ہے کہ اب مَیں اس ملک میں داخل ہو کر رہوں گا اور تبلیغ کروں گا۔ ایسی صورت میں دو ہی باتیں ہو سکتی ہیں یا تو حکومت رستہ دے اور مبلّغوں کو اپنے ملک میں داخل ہونے دے یا انہیں داخل نہ ہونے دے اور ان سب کو اپنے حکم سے مروا ڈالے۔ اور یہ دونوں باتیں ایسی ہیں جو قربانیوں کا مطالبہ کرتی ہیں۔ اگر حکومت رستہ دے گی تو تم تبلیغ میں کامیاب ہو جاؤ گے اور اگر حکومت تمہیں مارے گی تو تم خون کی ندی میں بہہ کر اپنی منزل مقصود کو پہنچو گے۔
پس یہ مت خیال کرو کہ مبلّغوں کے لئے قربانیاں نہیں ہوتیں۔ وہ تبلیغ جو ملکوں کو ہلا دیتی ہے ابھی تک ہم نے شروع ہی نہیں کی۔ لیکن اب اس جنگ کے بعد غالباً زیادہ انتظار نہیں کیا جائے گا اَور تمہیں ان قربانیوں کے لئے اپنے گھروں سے باہر نکلنا پڑے گا مگر تم میں سے کتنے ہیں جو یہ قربانیاں کر سکتے ہیں۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ سلسلہ کا خزانہ ان سب کے اخراجات برداشت کرے گا اور اگر دو چار لاکھ آدمی ہماری جماعت میں سے نکل کھڑے ہوں تو سلسلہ کے خزانہ سے ان کو مدد دی جائے گی۔ سلسلہ کا خزانہ تو ان کے دسویں، سویں، ہزارویں بلکہ دس ہزارویں حصہ کو خالی روٹی بھی مہیا نہیں کر سکتا کُجا یہ کہ ان کے دوسرے اخراجات برداشت کرے۔ تب کیا ہو گا۔ یہی ہو گا کہ تمہیں کہا جائے گا تم کچکول1 ہاتھ میں لے کر نکل کھڑے ہو اور فیصلہ کر لو کہ جب تک اس ملک کی تبلیغ کا راستہ نہیں کھلتا تم واپس نہیں آؤ گے۔
جو لوگ آج قربانیوں کے دعوے کرتے ہیں کیا وہ سمجھتے ہیں کہ کل اگر اُن سے اسی رنگ میں قربانیوں کا مطالبہ کیا گیا تو وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے نکل کھڑے ہوں گے۔ مَیں سمجھتا ہوں قربانیوں کا دعویٰ کرنا آسان ہوتا ہے اور شاید اگر موت کا سوال ہوتا تو ہم میں سے ہر شخص اپنی جان دینے کے لئے آگے آ جاتا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ اس بات کے لئے تیار ہیں کہ اگر انہیں سلسلہ کی طرف سے تبلیغ کے لئے غیر ممالک میں نکل جانے کا حکم ملے تو وہ گھر میں آئیں، سوٹی ہاتھ میں پکڑیں اور اپنی بیوی سے کہیں، یہ سب گھر کی چیزیں تمہارے پاس ہیں، تم چکّی پیسو اور اپنا اور اپنے بچوں کا گزارہ کرو، مَیں امریکہ یا جرمنی یا روس جا رہا ہوں کیونکہ وہاں کی حکومت نے ہمارے مبلغ کو نکال دیا ہے۔ اسی طرح ہر احمدی اپنے اپنے گھر کے دروازے بند کر کے اور سوٹی ہاتھ میں لے کر نکل کھڑا ہو اور اس کے دل میں ذرا بھی یہ احساس نہ ہو کہ اس کی بیوی اور بچوں کا کیا بنے گا اور وہ کس طرح گزارہ کریں گے۔ اگر یہ زمانہ آ جائے تو تم خود ہی غور کر لو کہ تم میں سے کتنے ہیں جو اپنے نفس کو اس قسم کی قربانی پر تیار پاتے ہیں۔
تم مت سمجھو کہ یہ وقت دور ہے۔ اب وہ دن جن میں جماعت کو اس رنگ میں قربانیاں کرنی پڑیں گی، دور نہیں معلوم ہوتے بلکہ بہت ہی قریب آ پہنچے ہیں اورجنگ کے بعد کے قریب ترین عرصہ میں ہمیں ان قربانیوں کو پیش کرنا ہو گا۔ تیاری کا وقت ختم ہو رہا ہے۔ کام کا وقت نزدیک آ گیا ہے۔ اس لئے یہ خیال اپنے ذہنوں میں سے نکال دو کہ ہم لڑنے والی قوم نہیں ہیں۔ تم خون کی ندیوں میں چلنے کے لئے تیار رہو۔ اپنی گردنیں دشمنوں کے ہاتھوں کٹوانے کے لئے آمادہ رہو اور اس بات کو سمجھ لو کہ اس قسم کی قربانیوں کے بغیر جماعتی ترقی ناممکن ہے۔ یہ خیال اپنےد لوں میں کبھی مت آنے دو کہ چونکہ تم امن سے رہتے ہو، فتنہ و فساد میں حصہ نہیں لیتے اس لئے دنیا تمہارا خون نہیں بہائے گی۔ با امن قوموں کو بھی دنیا میں مارا جاتا ہے اور ان پر بھی ایسا وقت آتا ہےجب انہیں کہا جاتا ہے کہ مرتے جاؤ اور بڑھتے جاؤ مگر میرے لئے ابھی جماعت کی موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ اس میں سے ہر شخص اس رنگ میں قربانی کرنے کے لئے تیار ہو گا۔ ابھی چند دن کی بات ہے ہماری جماعت کے ایک دس سالہ بچے نے مجھے ایک خط لکھا جسے پڑھ کر مجھے حیرت بھی آئی اور خوشی بھی۔ اس نے اپنے خط میں لکھا کہ آپ ہمیشہ اپنے خطبات اور تقریروں میں جماعت کو قربانیوں کی طرف توجہ دلاتے ہیں مگر ساتھ ہی کہتے ہیں کہ ابھی جماعت اس کے لئے پورے طور پر آمادہ نہیں ہوئی۔ آپ کا یہ خیال نوجوانوں کی نسبت صحیح نہیں۔ وقت آنے پر آپ کو معلوم ہو گاکہ جماعت کا ہر نوجوان اپنے آپ کو موت کے مُنہ میں ڈالنے کے لئے تیار ہے۔ مجھے اس بچے کا یہ خط پڑھ کر مزہ تو بہت آیا مگر مزہ ضرورت کو پورا نہیں کر دیا کرتا۔ جس قسم کی قربانیوں کی ہماری جماعت کو ضرورت ہے اور جس قسم کی قربانیوں سے کام لے کر ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ان کا تو خیال کر کے بھی دل کانپ جاتا ہے۔ لرز اٹھتا ہے کہ نہ معلوم جماعت اس بوجھ کو اٹھا سکے گی یا نہیں۔ وہ لوگ جو ابھی نمازوں میں ہی سست ہیں، وہ لوگ جو ابھی اپنی زبان کو ہی گالیوں سے نہیں روک سکتے، وہ لوگ جو اپنے بھائیوں سے لڑنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں ان سے مَیں یہ کب امید کر سکتا ہوں کہ وقت آنے پر وہ دین کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہوں گے۔ وہ اس بات کے لئے تو تیار ہوں گے کہ جب دس بیس آدمی ہماری جماعت میں سے اپنی جانیں قربان کرنے کا عہد کر کے گھروں سے نکل کھڑے ہوں تو وہ واہ وا اور شاباش کہنے لگ جائیں مگر یہ کہ وہ سارے ہی اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوں اور اس روک کو ہٹانے کے لئے تیار ہو جائیں جو تبلیغ کے راستہ میں واقع ہو اور جس کو ہٹائے بغیر صحیح طور پر تبلیغ نہ ہو سکتی ہو۔ اس کو ماننا ابھی میرے لئے مشکل ہے۔ ہاں مَیں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ جب وہ وقت آئے تو ہم میں سے ہر ایک کو خواہ مرد ہو یا عورت اللہ تعالیٰ توفیق دے کہ وہ اپنی جان کو قربان کرنے کے لئے آگے نکل آئے تاکہ ہم اس کے انعام کو حاصل کرنے والے ہوں۔ اسے ناراض کر کے اپنی عاقبت تباہ کرنے والے نہ ہوں۔ اگر ہماری جماعت کا ہر فرد اس رنگ میں قربانی کرنے کے لئے تیار ہو جائے تو فتح اورکامیابی کا دن ہمارے لئے جلد سے جلد آ سکتا ہے۔ ورنہ اس دن کا خوشنما منظر ہمارے سامنے نہیں آ سکتا۔
خدا بہتر جانتا ہے کہ وہ وقت کب آئے گا اور اللہ ہی جانتا ہے کہ یہ آواز میری زبان سے بلند ہو گی یا کسی اَور شخص کی زبان سے مگر مَیں یہ تمہیں صاف صاف اور واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ جس دن تک یہ آواز بلند نہیں ہو گی اور جس دن تک ہماری جماعت اس آواز پر لبیک نہیں کہے گی صرف زبان سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے، اُس وقت تک احمدیت کی ترقی کا دن نہیں چڑھ سکتا اور کبھی نہیں چڑھ سکتا۔‘‘ (الفضل 5 ستمبر 1942ء)
1: کچلول: کشکول (فیروز اللغات)

28
جماعت احمدیہ کے لئے امتحان میں کامیاب ہونے کا سبق
( فرمودہ 4 ستمبر 1942ء )

تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’میری طبیعت چونکہ علیل ہے کل صبح تو کمر درد میں افاقہ تھا مگر کل ایک جنازہ کے ساتھ جانا پڑا اس وجہ سے یا شاید کسی اَور سبب سے آج صبح سے درد زیادہ ہے اور مَیں کھڑا نہیں ہو سکتا۔ اس لئے خطبہ اختصار سے بیان کروں گا۔
مَیں نے بعض گزشتہ خطبات میں جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ یہ دن بہت نازک ہیں اور ایک ایسا سلسلہ مصائب اور مشکلات کا سامنے نظر آ رہا ہے کہ جو اپنی شکلیں بدلتا ہؤا ایک لمبے عرصہ تک چلتا چلا جائے گا۔ جہاں تک تو جنگ کا تعلق ہے مَیں سمجھتا ہوں کہ وہ 1944ء تک یا ہو سکتا ہے کہ 1945ء تک یا اس سے بھی پہلے اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ختم ہو جائے گی۔ لیکن موجودہ جنگ ہی ایک ایسی چیز نہیں جو اپنے ساتھ فتنے لائی ہے بلکہ مختلف ممالک کے لئے جنگ کے بعد بھی فتنوں کا سلسلہ جاری رہنا مقدر معلوم ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا منشاء ہے کہ وہ دنیا میں خلا پیدا کرے۔ سیاسی بھی، اقتصادی بھی اور مذہبی بھی۔ اورموجودہ زمانہ کو مدنظر رکھتے ہوئے اور حالات پر نظر ڈالتے ہوئے کہنا پڑتا ہے کہ سیاسی اور اقتصادی خلا سے تو سرِ دست ہمارا چنداں واسطہ نہ ہو گا کیونکہ ہماری جماعت کی تعداد اور اس کی طاقت ابھی اس خلا کو پورا کرنے کے لئے کافی نہیں لیکن مذہبی خلا صرف اور صرف ہماری جماعت ہی پورا کر سکتی ہے۔ مگر اس خلا کا پورا کرنا صرف اس وجہ سے کہ یہ مذہبی ہے اورہم مذہبی جماعت ہیں پُر امن نہیں کہلا سکتا۔ دنیا میں پُر امن سے پُر امن لوگوں کی بھی دوسرے مخالفت کرتے ہیں۔ رسول کریم ﷺ نے تیرہ سال تک مکہ میں بھلا کونسی تلوار چلائی تھی مگر اس کے باوجود بھائی بھائی سے، خاوند بیوی سے اور بیوی خاوند سے لڑے۔ دوست نے دوست کو، ماؤں نے بیٹوں کو اوربیٹوں نے ماؤں کو جواب دے دیا۔ بھلا وہ کونسا سیاسی ظلم تھا اور کونسا اقتصادی نقصان تھا جو مسلمانوں سے مشرکوں کو پہنچ رہا تھا۔ مسلمانوں کا اس سے زیادہ کیا قصور تھا کہ وہ اپنے گھروں میں خدا تعالیٰ کا نام لیتے تھے۔ اس کے سوا وہ نہ مکہ کی سیاست کو کوئی نقصان پہنچا رہے تھے اور نہ اقتصادیات کو اور نہ ہی وہ اہلِ مکہ کے ساتھ کسی قسم کی بد سلوکی روا رکھتے تھے ۔ اگر کوئی فرق تھا تو صرف یہ کہ پہلے جو ظلم وہ کر لیا کرتے تھے ۔ اب اسلام کی وجہ سے اسے چھوڑ دیا تھا۔ اس کے سوا کوئی فرق نہ تھا۔ احادیث میں رسول کریم ﷺ کے متعلق آتا ہے کہ آپ ایک دن خانہ کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے کہ دشمنوں نے آ کر حملہ کر دیا۔ بھلا ابو جہل اور اس کےساتھیوں کا نماز سے کیا نقصان ہوتا تھا۔ مسلمان اپنے خدا کو یاد کرتے تھے اور دل میں کرتے تھے۔ چند کلمات آہستہ آہستہ ان کی زبان پر جاری ہوتے تھے اور اس سے دوسروں کا کیا نقصان ہو سکتا تھا۔ مگر انہوں نے رسول کریم ﷺ پر جبکہ آپ نماز پڑھ رہے تھے ، حملہ کر دیا۔ آپ کے گلے میں پٹکا ڈال کر گلا گھونٹنا چاہا۔ اتنے میں کسی نے دوڑ کر حضرت ابو بکرؓ کو خبر دی۔ آپ آئے اور جو فقرہ آپ نے اس وقت کہا۔ وہ اس وقت کی کیفیت کا پورا پورا آئینہ ہے اور پوی طرح اسے آشکار کرتا ہے۔ انہوں نے ان کو ہٹاتے ہوئے کہا کہ تم کو اس آدمی سے کیا واسطہ جس کا جرم سوائے اس کے کچھ نہیں کہ وہ ایک خدا کا پرستار ہے اور اس کی پرستش کرتا ہے۔ 1 یعنی وہ نہ تمہاری سیاست میں تمہارا مقابلہ کرتا ہے ، نہ اقتصادی نظام میں کوئی دخل دیتا ہے اور نہ تمہاری پنچایتوں میں بولتا ہے اورنہ تمہاری پارٹی بازیوں میں حصہ لیتا ہے۔ اس کا جرم سوائے اس کے کیا ہے کہ وہ ایک خدا کی عبادت کرتا ہے اور ایک ایسا کام کرتا ہے جس کے کرنے میں انسان اپنے قریب ترین تعلق دار کی مداخلت سے بھی آزاد ہوتا ہے۔ باپ بیٹے کی عبادت میں دخل نہیں دے سکتا اور بیٹا باپ کی عبادت میں دخل نہیں دے سکتا۔ وہ کونسا ایسا کام کرتا ہے جس کا تمہارے ساتھ واسطہ ہے مگر باوجود اس کے مسلمانوں کی مخالفت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ مائیں اپنے اکلوتے بیٹوں کو جدا کر دیتی تھیں۔
ایک صحابیؓ کا واقعہ ہے۔ ان کی عمر 18-20 سال کی تھی کہ وہ مسلمان ہو گئے۔ وہ والدین کے اکلوتے بیٹے تھے مگر جب ماں باپ کو علم ہؤا کہ وہ مسلمان ہو گئے ہیں تو ان کے ساتھ چھوت چھات شروع کر دی اور ان کے برتن الگ کر کے کہہ دیا کہ تم ان میں کھایا پیا کرو اور پھر اتنی سختی شروع کر دی کہ ان سے کہا کہ محمد (ﷺ) کے پاس نہ جایا کرو اور آخر کچھ عرصہ تک یہ سختیاں سہنے کے بعد تنگ آ کر وہ نوجوان صحابی ہجرت کر کے حبشہ کی طرف چلے گئے اور وہاں کئی سال رہنے کے بعد واپس آئے اورماں باپ کے ہاں گئے۔ ان کا خیال تھا کہ شایداب ماں باپ کا دل پسیج گیا ہو گا اور اب وہ سختی نہ کریں گے۔ جب وہ گھر پہنچے تو ماں اٹھی بیٹے کو گلے لگایا اور پیار کیا۔ اس نے خیال کیا کہ اب میرے بیٹے نے توبہ کر لی ہو گی اوربیٹے نے سمجھا کہ اب ماں کے دل میں رحم آ گیا ہو گا او روہ سمجھ گئی ہو گی کہ میرے مذہب کے معاملہ میں اسے دخل نہ دینا چاہئے۔ دونوں فریق ایک دوسرے کے متعلق اس غلط فہمی میں تھے کہ اس نے اپنا مقام چھوڑ دیا ہے حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ ماں اسی طرح تعصب پر قائم تھی اور بیٹا بھی اپنے ایمان میں اسی طرح پختہ تھا مگر دونوں غلط فہمی میں تھے۔ بیٹا سمجھتا تھا کہ ماں آئندہ میرے مذہب میں دخل نہ دے گی او رماں سمجھتی تھی کہ میرے بیٹے نے توبہ کر لی ہو گی۔ مگر تھوڑی دیر کی گفتگو کے بعد دونوں کو اپنی اپنی غلطی کا علم ہو گیا۔ ماں نے کہا بیٹا تمہیں ایک اجنبی سے کیا واسطہ جس سے تمہاری نہ کوئی رشتہ داری ہے اورنہ تعلق۔ تم ہمارے اکلوتے بیٹے ہو ۔ کیا تم اس محبت کو بھول جاؤ گے جس سے مَیں نے تمہیں پالا پوسا ہے اور اس قربانی کو نظر انداز کر دو گے جو تمہارا باپ تمہارے لئے کرتا رہا ہے اور ہمارے دلوں کو زخمی کر کے اس شخص کے پاس چلے جاؤ گے جس کے پاس تمہارا جانا ہمیں پسند نہیں۔ یہ بات سن کر بیٹے نے کہا کہ ماں یہ بات نہیں کہ مَیں تمہاری محبت کو بھول گیا ہوں۔ مَیں اپنے باپ کی قربانیوں کو بھی جانتا ہوں لیکن اگر میرا تمہارے پاس رہنا اس شرط سے مشروط ہے کہ مَیں محمد ﷺ کے پاس نہ جاؤں اور ان کو چھوڑ دوں تو یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ اگر محمد ﷺ کے ساتھ تعلق رکھتے ہوئے میراگھر میں آنا تمہیں ناگوار ہے تو مَیں گھر میں نہ آؤں گا لیکن مَیں اس تعلق کو ہرگز نہیں چھوڑ سکتا۔ ماں بھی تعصب بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ بغض و کینہ میں پکی تھی۔ اس نے کہا کہ بیٹا اگر تُو محمد (ﷺ) کو نہیں چھوڑے گا تو باوجودیکہ تُو ہمارا اکلوتا ہے اور ہمیں تمہارے ساتھ اس قدر محبت ہے ہم تمہارے گھر میں آنے کے روادار نہیں۔ یہ سن کر بیٹے نے کہا کہ اچھا پھر میرا آخری سلام ہے، مَیں آئندہ نہیں آؤں گا۔2
تو اس ظلم اور اس سختی کی وجہ کیا تھی۔ مسلمان اہل مکہ پر کوئی سیاسی، اقتصادی اور اخلاقی ظلم نہ کرتے تھے۔ ان کا قصور تھا تو صرف اتنا کہ وہ علیحدگی میں اپنے رب کی عبادت کرتے تھے۔ حضرت مسیح ناصری کس سیاسی اور اقتصادی برتری کے مدعی تھے۔ وہ چند ایک مچھلیاں پکڑنے والوں کو علیحدہ لے جا کر خدا کی تعلیم دیتے تھے مگر انہیں کس قدر مصائب میں مبتلا کیا گیا۔ ان پر مقدمات بنائے گئے، عدالتوں میں گھسیٹا گیا، ان کو صلیب پر لٹکایا گیا اور اپنی طرف سے دشمنوں نے انہیں قتل ہی کر کے دم لیا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں صلیب پر نہ مرنے دیا۔ پس ہماری جماعت کا یہ خیال کر لینا کہ وہ امن پسند ہیں اورمذہبی جماعت ہیں اس لئے ان پر یہ فتنے نہ آئیں گے۔ بالکل غلط خیال ہے۔ تمہارے امن پسند ہونے کی وجہ سے دشمن تم پر حملہ کرنے سے رک نہیں سکتا۔ صرف ایک چیز ہے جو اسے حملہ سے روک سکتی ہے لیکن مَیں نہیں سمجھتا کوئی مومن ایسا بے غیرت ہو سکتا ہے کہ اسے اختیار کرے اور وہ منافقت ہے۔ صرف منافقت تمہیں دشمن کے حملہ سے بچا سکتی ہے، امن پسندی نہیں۔ اور کیا کوئی مومن ہے جو یہ گوارا کر سکے کہ وہ دشمن کے حملہ سے امن میں رہے گو ایمان ہاتھ سے جاتا رہے۔ خوب یاد رکھو کہ امن تمہیں اس صورت میں مل سکتا ہے کہ جب تم منافقت قبول کر لو اور اگر اسے اختیار نہ کیا جائے تو امن میں رہنے کی کوئی صورت نہیں۔ ہم خواہ ساری دنیا کو امن دینے پر کیوں نہ تُلے ہوئے ہوں اور دنیا کی ذلیل سے ذلیل خدمت کرنے پر کیوں نہ آمادہ ہوں اور زیادہ سے زیادہ قربانی دنیا کے لئے کیوں نہ کریں۔ ہماری قربانیاں حضرت مسیح ناصری علیہ السلام اور آنحضرت ﷺ سے نہیں بڑھ سکتیں اور ان سے زیادہ خدمت خلق نہیں کر سکتے اور جب ان کو بھی تکالیف دی گئیں، مارا گیا اور قتل کرنے کی کوششیں کی گئیں تو ہم کس طرح امن میں رہ سکتے ہیں۔ اگر دنیا ہمیں امن سے رہنے دے تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ ہمارے اندر منافقت ہے۔ پس ہمیں اپنے نفسوں کو ٹٹولتے رہنا چاہئے کہ کہاں تک خدمتِ خلق کی وجہ سے ہماری مخالفت ہوتی ہے اور کہاں تک اس میں ہمارے نفس کا دخل ہے۔ اگر مزاج میں درشتی ہے، اخلاق میں کمی ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ یہ مخالفت خدا کے لئے نہیں، ہمارے نفسوں کی وجہ سے ہے اور اس لئے اصلاحِ نفس کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔ لیکن اگر اخلاق میں نقص اور مزاج میں سختی نہیں تو سمجھ لینا چاہئے کہ مخالفت خدا تعالیٰ کے لئے ہو رہی ہے اور جو تکالیف آئیں انہیں انعام اور ثواب سمجھنا چاہئے۔
پس اس پُر فتن زمانہ میں قریب ترین انجام کی طرف امید کی نگاہ مت ڈالو۔ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے زیادہ سے زیادہ مشکلات پیدا کرے گا، گو اگر ہم نے اسے راضی رکھا تو ساتھ ہی ان کا تریاق بھی مہیا کرتا رہے گا لیکن آگ ضرور جلے گی اور بھٹیاں ضرور بھڑکائی جائیں گی۔ خوب یاد رکھو کہ کبھی کسی مذہبی جماعت نے ترقی نہیں کی جب تک کہ وہ خدا تعالیٰ کے لئے آگ میں نہ چلی ہو اور خون کی ندیوں میں سے نہ گزری ہو۔ پس یہ دعائیں نہ کرو کہ فتنے پیدا نہ ہوں کیونکہ وہ اسلام کی ترقی کے لئے پید اہو رہے ہیں اور کسی کی دعائیں انہیں پیدا ہونے سے روک نہ سکیں گی۔ افراد سے متعلق فتن دعاؤں سے رک جاتے ہیں۔ کسی کے گھر میں بیماری ہو تو وہ دعا سے رک سکتی ہے، کسی کے رشتہ دار پر مقدمہ ہو تو وہ اس سے بچ سکتا ہے، کوئی مقروض ہو جائے تو دعا سے اس کا قرضہ اترنے کے سامان پیدا ہو سکتے ہیں، کسی کو ذلت پہنچی ہو تو اس کی عزت قائم ہو سکتی ہے، کسی کے گھر میں جہالت ہو تو علم آ سکتا ہے لیکن وہ عذاب جو دنیا پر مذہب کی ترقی اور حقیقی انقلاب پیدا کرنے کے لئے آتے ہیں وہ ٹلا نہیں کرتے۔ ہاں دعاؤں سے تمہارے حق میں ان کی تلخی میں کمی ہو سکتی ہے۔ پس یہ امید نہ رکھو کہ یہ فتنے ٹل جائیں گے اور یہ دعائیں بھی نہ کرو کہ وہ ٹل جائیں۔ ہاں یہ دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کی تلخی کو اسلام اور احمدیت کے لئے کم کر دے۔ یہ فتن آئیں گے ضرور۔ ایک فتنہ شکل تبدیل کر کے دوسری شکل میں آئے گا، وہ شکل بدل لے گا اور تیسری صورت میں آئے گا اور اس کے بعد چوتھی میں اور اسی طرح فتنے آتے جائیں گے جب تک کہ ایک طرف تو جماعت احمدیہ اس خلا کو پُر کرنے کے قابل نہ ہو جائے اور دوسری طرف دنیااسے پُر کرنے کی اجازت نہ دے دے۔ جب تک یہ نہ ہو گا فتنے رک نہیں سکتے اور انقلاب کے سامان دور نہ ہوں گے۔ پس انہیں روکنے کے لئے دعائیں نہ کرو۔ ہاں اپنی ذات کے لئے دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ان سے بچائے۔ ذاتی طور پر فتن سے بچنے کی دعائیں قبول ہو سکتی ہیں۔ ہزاروں صحابہ رسول کریم ﷺ کے ساتھ جنگوں میں جاتے تھے مگر کیا سارے مارے جاتے تھے۔ مائیں اپنے بچوں کو بھیجتی تھیں ، توکیا وہ یہ دعائیں کرتی تھیں کہ وہ مارے جائیں، نہیں۔ اگر ایک طرف وہ ان کو میدانِ جہاد میں بھیجتیں اور تاکید کرتیں کہ پیچھے نہ ہٹنا۔ وہاں وہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعائیں بھی کرتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں مظفر و منصور زندہ واپس لائے۔ مَیں نے خنساء کا واقعہ کئی بار بیان کیا ہے۔ انہوں نے اپنے بیٹوں کو یہی نصیحت کی تھی کہ یا فتح حاصل کر کے واپس آنا اور یا پھر لڑتے لڑتے مر جانا۔ اگر شکست کھا کر تم زندہ لوٹے تو مَیں قیامت کے دن تمہیں اپنا دودھ نہ بخشوں گی۔ 3لیکن کیا وہ چاہتی تھیں کہ ان کے بیٹے مارے جائیں۔ ان کے بیٹے جب میدان جنگ میں چلے گئے تو وہ خود خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ میں گر گئیں اور رو رو کر دعائیں کرنے لگیں کہ اے اللہ مَیں نے تو اپنے بیٹوں کو مرنے کے لئے بھیج دیا ہے مگر تیرے اختیار میں ہے کہ ان کو زندہ بھی رکھ لے اور مسلمانوں کو فتح بھی دے دے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاؤں کو سنا ، مسلمانوں کو فتح بھی نصیب ہوئی اور ان کے بیٹے بھی واپس آ گئے۔
پس یہ دعائیں کرو کہ وہ قربانیاں جو تمہیں کرنی پڑیں گی تم کو بھسم نہ کر دیں۔ فتنوں کے آنےکے لئے تیار رہو مگر ان کے زہر سے بچنے کے لئے دعائیں کرتے رہو۔ دیکھو جب حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے صلیب پر لٹکائے جانے کا وقت آیا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے اللہ اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مجھ سے ٹلا دے لیکن اگر یہ تیری مرضی کے خلاف ہے تو نہ سہی۔ مومن یہ دعا کبھی نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب آئے اور مجھے مار دے۔ یہ دعا مومن کی نہیں بلکہ ایک جاہل اور متہوّر کی ہو سکتی ہے۔ مومن ابتلاؤں سے بچنے کی دعائیں ضرور کرتا ہے لیکن ابتلاکے پیش آ جانے پر پیچھے ہٹنے کی کوشش نہیں کرتا۔ اس کا دل چاہتا ہے کہ عذاب ٹل جائے، وہ ابتلامیں نہ ڈالا جائے اور اسے مزید خدمتِ دین و خدمتِ خلق کا موقع مل سکے مگر جب مشکلات آتی ہیں تو پیچھے نہیں ہٹتا۔ جنگ کے موقع پر وہ اس مقام پر کودتا ہے جو زیادہ سے زیادہ خطرناک ہو۔ یہ دونوں چیزیں مل کر ایک مومن کو کامل بناتی ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر جب مصیبت آئی تو وہ بھاگ نہیں گئے۔ انہوں نے یہودیوں سے صلح کی کوشش نہیں کی ہاں ساری رات یہ دعا ضرو ر کرتے رہے کہ اگر یہ پیالہ مجھ سے ٹل سکتا ہے تو ٹلا دے اور اگر نہیں تو مَیں تیری مرضی پر راضی ہوں۔ 4
یہی طریق رسول کریم ﷺ کا تھا، کیا آپ دعائیں نہ کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو خطروں سے بچائے اور فتن سے محفوظ رکھے مگر یہ نہیں کہ آپ میدانِ جنگ سے پیچھے ہٹیں بلکہ سب سے آگے ہوتے تھے اور صحابہؓ کہتے تھے کہ ہم سب سے بہادر اس شخص کو سمجھتے تھے جو جنگ میں آنحضرت ﷺ کےساتھ ہوتا کیونکہ سب سے زیادہ خطرناک مقام وہی ہوتا تھا جہاں آپ ہوتے۔ 5
پس ہماری جماعت کو بھی اپنایہی طریق بنانا چاہئے تبھی اللہ تعالیٰ کی برکتیں اس پر نازل ہو سکتی ہیں ۔ جو بزدل ہے اور میدان سے بھاگتا ہے وہ بھی مومن نہیں اور جو یہ دعا کرتا ہے کہ عذاب آئے وہ بھی مومن نہیں۔ وہ خدا تعالیٰ کا امتحان لینا چاہتا ہے سوائے اس کے کہ کوئی غلطی سے ایسی بات مُنہ سے نکال دے۔ احادیث میں حضرت انس کے چچا کا ایک واقعہ آتا ہے وہ بدر کی لڑائی میں شریک نہ تھے۔ جب دوسرے صحابہ اس لڑائی کے واقعات ان کے سامنے بیان کرتے اور کہتے کہ ہم یوں لڑے اور اس طرح لڑائی کی تو وہ کہتے کہ تم نے کیا لڑنا تھا۔ اگر کبھی موقع آیا تو ہم بتائیں گے کہ لڑائی کیا ہوتی ہے۔ عام طور پر ایسا فقرہ مومنانہ اخلاق کے منافی ہے مگر وہ یہ بناوٹ سے نہ کہتے تھے بلکہ رشک کی وجہ سے کہتے تھے۔ جب وہ دوسروں سے سنتے کہ انہوں نے اس طرح رسول کریم ﷺ کی حفاظت کی اور اس طرح دشمنوں کو مارا تو ان کا دل خون ہو جاتا اور ان کےد ل میں یہ حسرت پیدا ہو تی کہ کاش مَیں بھی آنحضرت ﷺ کی جان کی حفاظت کرنے والوں میں ہوتا۔ یہ فقرہ دل کے خون ہونے سے ان کے مُنہ سے نکلتا تھا، تکبر اور فخر کی وجہ سے نہیں۔ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ وہ یہ فقرہ کسی تصنّع یا بناوٹ سے نہ کہتے تھے بلکہ وہ اپنے دل کے خون کو اس طرح بہاتے اور اس پھوڑے کو جو ان کےدل میں تھا اس طرح شگاف دیتے تھے۔ یہ ایک عاشق کا فقرہ تھا جو اسے نیکی سے محروم نہ کرتا۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دئیے کہ انہیں اپنی اس بات کو درست ثابت کرنے کا موقع مل گیا اور جو کچھ وہ مُنہ سے کہتے تھے اسے سچ ثابت کر دکھایا۔ چنانچہ اُحد کی جنگ میں جب آنحضرت ﷺ کی شہادت کی خبر مشہور ہوئی تو انہوں نے حضرت عمرؓ کو ایک ٹیلے پر بیٹھے اور روتے ہوئے دیکھا تو دریافت کیا کہ عمر رونے کی کیا بات ہے جبکہ مسلمانوں کو فتح ہو گئی ہے۔ حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ تمہیں پتہ نہیں رسول کریم ﷺ شہید ہو گئے ہیں۔حضرت انس کے چچا نے جب یہ بات سنی تو اس وقت وہ کھجوریں کھا رہے تھے اور صرف ایک کھجور ہاتھ میں تھی اسے اٹھا کر پھینک دیا اور کہا کہ میرے اور خدا کے درمیان اس کے سوا اَور کونسی روک ہے اوراپنے عشق کے لحاظ سے حضرت عمر کی طرف حقارت سے دیکھا اور کہا عمر! جب آنحضرت ﷺ اگلے جہان چلے گئے تو تم یہاں بیٹھے کیوں روتے ہو۔ جہاں آپ گئے وہیں ہم چلتے ہیں اور اکیلے ہی دشمن کے تین ہزار کے لشکر پر حملہ کر دیا۔ کفار بھی آپ کو شاید پاگل سمجھتے ہوں گے۔ آپ نے لڑتے لڑتے شہادت پائی اورجب جنگ کے بعد آپ کی لاش تلاش کروائی گئی تو ستّر ٹکڑے ملے۔ جوڑ جوڑ الگ ہو چکا تھا۔6یہی لوگ تھے جن کے حالات کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے فرمایا مِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ۔7 یعنی یہ میری پیاری جماعت کے لوگ ہیں جن میں سے بعض نے اس وعدہ کو جو انہوں نے اپنے خدا سے کیا تھا پورا کر دیا اور بعض ایسے ہیں کہ انہوں نے گو ابھی پورا تو نہیں کیا مگر اس موقع کے انتظار میں ہیں کہ کب اسے پور ا کر سکیں۔
پس یہ لوگ تھے صحابہؓ جو ایک طرف دعائیں کرتے تھے کہ خدایا ہمیں ہر ابتلاء سے بچا، کیا وہ یہ دعائیں نہ کرتے تھے کہ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِي الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ ۔ 8ضرور کرتے تھے اور اس میں دنیا کے تمام حسنات کے حاصل ہونے کی دعا موجود ہے اور اس طرح اس میں سارے ابتلاؤں سے بچنے کی دعا ہے مگر جب ان کو عمل کا موقع پیش آتا تو وہ ہر خطرناک مقام پر کود جاتے تھے۔ ایک طرف وہ ابتلاؤں سے بچنے کی دعائیں کرتے تھے اور دوسری طرف ابتلا آنے پر اپنے آپ کو شدید خطرات میں ڈال دیتے تھے۔ یہی مومن کی علامت ہے۔ مومن ادھر تو خدا تعالیٰ کے غضب سے ڈرتا ہے مگر دوسری طرف جب دنیا خدا تعالیٰ کو پھولوں اور عطروں میں ڈھونڈتی ہے، نرم گدوں پر بیٹھ کر خدا تعالیٰ کو دیکھنا چاہتی ہے۔ مومن اسے تلوار میں دیکھتا ہے، دہکتی ہوئی آگ میں دیکھتا ہے، جس میں اسے ڈالا جاتا ہے، غاروں اور کھڈوں میں دیکھتا ہے جہاں اسے پھینکا جاتا ہے اور دریاؤں کی تہہ میں دیکھتا ہے جہاں اسے ڈبویا جاتا ہے اور مومن وہی ہے جس میں یہ دونوں باتیں پائی جائیں اور اس کے لئے جماعت کو تیارکرنا گویا امتحان میں کامیاب ہونے کا سبق یاد کرانا ہے۔‘‘
(الفضل 12 ستمبر 1942ء )
1: بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورة المومن
2: طبقات ابن سعد قسم اول۔ جزء ثالث صفحہ 83
3: اسد الغابة جزء خامس صفحہ 443 مطبوعہ طہران 1377ھ
4: متی باب 26 آیت 39
5: مسلم کتاب الجھاد باب غزوة حنین
6: سیرت ابن ہشام جلد 3 صفحہ 88۔ مطبوعہ مصر 1936ء
7: الاحزاب: 24
8: البقرة : 202

29
خدام الاحمدیہ کے متعلق ضروری ارشادات
( فرمودہ 11 ستمبر 1942ء )

تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’آج کا خطبہ مَیں خدام الاحمدیہ کے متعلق بیان کرنا چاہتا ہوں۔ خدام الاحمدیہ کے قیام کی غرض یہ تھی کہ نوجوانوں میں دینی روح پیدا کی جائے اور ان کے قلوب میں دین کے لئے اور بنی نوع انسان کی بہتری کے لئے خدمت کرنے کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ چونکہ ہر باطن کا ایک ظاہر ہوتا ہے اور ہر مغز کے لئے ایک چھلکا اس کی حفاظت کے لئے ضروری ہوتا ہے اس لئے بعض قوانین ایسے مقرر کئے گئے جن کا منشاء یہ تھا کہ وہ مغز جو اس تحریک کے چلانے کا اصل مقصد ہے، محفوظ رہے۔ مگر ہو سکتا ہےبعض لوگ اپنی کم فہمی کی وجہ سے اس کے چھلکے کو ہی اصل مغز سمجھ لیں اور اس کے ظاہر کو ہی باطن خیال کر کے اس وہم میں مبتلا ہو جائیں کہ جو کام ان کے سپرد کیا گیا تھا اس کو انہوں نے پورا کر لیا ہے اوراس قسم کے دھوکے طبعی طور پر انسان کو لگتے ہی رہتے ہیں۔ نماز کو ہی لے لو۔ نماز ایک چھلکا ہے۔ ایک ظاہر ہے اس باطن اور اس مغز کا جو خدا اپنے بندوں میں پیدا کرنا چاہتا ہے۔ نماز کیا ہے؟ اس میں الفاظ کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی تصویر کھینچ کر بندے کے سامنے رکھ دی گئی ہے اور اس تصویر کو سامنے لا کر خیالی طور پر بندہ اپنے خدا سے باتیں کرتا ہے۔ جب وہ کہتا ہے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ۔ 1 تو اس وقت خدا تو اس کے سامنے نہیں ہوتا۔ وہ ہزاروں پردوں بلکہ اَن گنت پردوں میں چھپا ہؤا اس کی نظروں سے پوشیدہ ہوتا ہے مگر چونکہ اس نے لفظی تصویر خدا تعالیٰ کی کھینچ لی ہوتی ہے اس لئے اس کے لئے جائز ہو جاتا ہے کہ وہ نماز میں اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کہے۔ یہ تصویر اس کے سامنے اس لئے رکھی جاتی ہے تاکہ جب اسے خدا تعالیٰ کی زیارت نصیب ہو وہ اسے پہچان جائے۔ گویا نماز کیا ہے ایک تصویر ہے، ویسی ہی جیسے کسی کا چھوٹا بچہ ہو اور وہ اسے بچپن میں ہی چھوڑ کر کہیں چلا جائے تو ماں اسے ہمیشہ اس کے باپ کی تصویر دکھاتی رہے کہ یہ تیرا ابا ہے، یہ تیرا ابا ہے تاکہ جب اس کا باپ گھر میں آئے تو وہ اس سے مُنہ نہ موڑ لے اوریہ نہ کہے کہ مَیں نہیں جانتا۔ یہ کون ہے۔ چونکہ اس نے بار بار اپنے باپ کی تصویر دیکھی ہو گی اس لئے جب وہ باپ کو اصل صورت میں دیکھے گا تو فوراً اسے پہچان لے گا اور سمجھ جائے گا کہ یہ میرا باپ ہے۔ اسی طرح نماز میں خدا تعالیٰ کی ہستی کی لفظوں میں تصویر کھینچی جاتی ہے کہ وہ رب ہے وہ رحمان ہے وہ رحیم ہے وہ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ2 ہے وہ انسان کو صراط مستقیم پر چلانے والا ہے۔ وہ ضلالت اور غضب کے راستوں سے بچانے اور محفوظ رکھنے ولا ہے۔ وہ آپ اعلیٰ ہے، وہ عظیم ہے، وہ سبحان ہے، وہ اکبر ہے۔ وہ تمام حمدوں کا مالک ہے ہر قسم کی تعریفیں اسی کے لئے ہیں ہر قسم کی قربانیاں اسی کے لئے ہیں اورہر قسم کی عبادتوں کا وہی مستحق ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کی ایک تصویر ہے، مثبت تصویر نہ کہ منفی۔ جب کسی ہستی میں انسان کو یہ صفات نظر آ جائیں گی وہ فوراً سمجھ جائے گا کہ یہ خدا ہے۔ چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے۔ قیامت کےد ن خدا تعالیٰ ایک غیرشکل میں بندوں کےسامنے ظاہر ہو گا او رانہیں کہے گا مَیں تمہارا خدا ہوں، تم مجھے سجدہ کرو، بندے استغفار کرتے ہوئے کہیں گے کہ تُو ہمارا خدا نہیں ہو سکتا، ہم تجھے سجدہ کرنے کے لئے تیار نہیں کیونکہ ہم تجھے نہیں پہچانتے۔ تب وہ اس شکل میں جو انہیں بتائی گئی تھی ظاہر ہو گا اور تمام بندے سجدے میں گر جائیں گے۔ اس میں درحقیقت اسی امر کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک قسم کی تصویر لوگوں کے سامنے رکھی ہوئی ہے تاکہ وہ اسے دیکھتے رہیں، دیکھتے رہیں اور دیکھتے رہیں اور اس کے اوصاف کو اچھی طرح یاد کر لیں تاکہ جب خدا تعالیٰ ان کے سامنے آئے، اس جہان میں یا اگلے جہان میں وہ اسے فوراً پہچان لیں۔
اب دیکھو۔ دنیا میں کس کس طرح لوگ خدا تعالیٰ سے دوسرے کو پھیرنا چاہتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے حضرت کرشن خدا تھے، کوئی حضرت رام چندر کو خدا کہتا ہے اور کوئی حضرت علیؓ کی خدائی کا قائل ہے۔ مگر وہ جس نے نماز میں لفظی تصویر خدا تعالیٰ کی دیکھی ہوتی ہے وہ ان کے فریب میں نہیں آ سکتا او راگر آ جائے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ اس نے خدا تعالیٰ کی تصویر نہیں دیکھی۔ یہی وجہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے تحریر فرمایا کہ جس نے مجھے نہیں پہچانا اس نے محمد ﷺ کو بھی نہیں پہچانا 3 کیونکہ آنے والے مسیح کے متعلق کہا گیا تھا کہ وہ حلیہ میں محمد ﷺ کے مشابہہ ہو گا مگر حلیہ میں مشابہت سے مراد ناک، کان اور آنکھ میں مشابہت نہیں بلکہ اس حلیہ سے مراد روحانی حلیہ ہے جو اصل چیز ہے۔ ورنہ ایسے ناک، کان اور آنکھ تو ہر ایک کے ہوتے ہیں صرف روحانی آنکھیں اور روحانی کان اور روحانی ناک اور روحانی خوبصورتی ہی ہے جس میں دوسرے لوگ محمدﷺ کے کامل مشابہ نہیں ہو سکتے تھے۔ صرف مسیح موعود کے متعلق ہی لکھا تھا کہ وہ آپ کے کامل مشابہ ہو گا۔ پس جس نے قرآن میں محمد ﷺ کی تصویر دیکھ لی تھی، جس نے حدیث میں محمد ﷺکی تصویر دیکھ لی تھی ، کس طرح ہو سکتا تھا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کو آپ کی شکل میں دیکھے اور نہ پہچانے۔ مگر جس نے آپ کو دیکھ کر بھی نہیں پہچانا اس کے متعلق سوائے اس کے اَور کیا کہا جا سکتا ہے کہ اس نے محمد رسول اللہ ﷺ کی تصویر بھی نہیں دیکھی تھی۔ جب وہ دعویٰ کرتا تھا کہ اس نے قرآن میں محمد ﷺ کی تصویر دیکھی ہوئی ہے، جب وہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے حدیث میں محمد ﷺ کی تصویر دیکھی ہوئی ہے تو وہ اپنے اس دعویٰ میں جھوٹا تھا۔ حقیقت یہ تھی کہ اس نے آپ کی تصویر نہ قرآن میں دیکھی تھی، نہ حدیث میں ، ورنہ ممکن ہی نہیں تھا کہ مسیح موعود جو اپنے روحانی حلیہ میں محمد ﷺ کے بالکل مشابہہ تھے اس کے سامنے آتے اور وہ آپ کے وجود میں محمد ﷺ کی تصویر کو نہ دیکھ لیتا۔ اگر ایک شخص ہمارے سامنے کہے کہ مَیں نے آم کھایا ہؤا ہے مگر جب اس کے سامنے ہم آم لا کر رکھیں تو اس کی طرف وہ توجہ ہی نہ کرے اور جب اس سے پوچھا جائے کہ یہ کیا پھل ہے تو وہ کہے مجھے علم نہیں۔ تو ہم سمجھ جائیں گے کہ جب ا س نے یہ کہا تھا کہ مَیں نے آم کھایا ہؤا ہے تو اس نے جھوٹ سے کام لیا تھا۔ اسی طرح جب غیر اللہ کی شکل میں کوئی شکل آئے اور کہے کہ مَیں اللہ ہوں اورکوئی دوسرا شخص اس کے دھوکا میں آ جائے تو اس کے معنے یہی ہوں گے کہ اس نے قرآن میں، احادیث میں اور نماز میں اللہ تعالیٰ کی شکل نہیں دیکھی تھی۔ اگر اس نے اللہ تعالیٰ کی شکل دیکھی ہوتی تو وہ اس کے فریب میں نہ آتا۔ دنیا میں تم نے جس شخص کو اچھی طرح دیکھا ہؤا ہوتا ہے تم اس کے متعلق کسی فریب میں نہیں آ سکتے اور اگر دھوکا کے طور پر کسی اَور شخص کے متعلق تمہیں کوئی کہے کہ وہ فلاں شخص ہے تو تم فوراً کہہ دیتے ہو کہ مَیں اسے خوب جانتا ہوں یہ شخص وہ نہیں کوئی اَور ہے۔ اسی طرح نماز ایک تصویر ہے جسے ہر مسلمان کے سامنے دن رات میں پانچ دفعہ پیش کیا جاتا ہے تاکہ وہ اس تصویر کو اچھی طرح ذہن نشین کر لے۔ پس درحقیقت نماز ایک تصویر یا ایک چھلکے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی اور تصویر اور اصل میں گو ظاہری لحاظ سے مشابہت ہوتی ہے مگر حقیقی خواص میں مشابہت نہیں ہوتی۔ رستم کی تصویر ہو تو اسے ایک بچہ بھی پھاڑ سکتا ہے مگر رستم کو پہلوان بھی گرا نہیں سکتا۔ اسی طرح شیر کی تصویر ہو تو اسے ایک چوہا بھی کھا سکتا ہے مگر کیا تم سمجھتے ہو کہ اصل شیر کو چوہا کھا سکتا ہے۔ پس تصویر اور اصل میں صرف ظاہری طور پر مشابہت پائی جاتی ہے حقیقی طور پر نہیں۔ اس لئے نماز بوجہ تصویر ہونے کے صرف ایک ظاہر ہے باطن اس کا اَور ہے اور وہ باطن اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کا قرب ہے یعنی انسان اللہ تعالیٰ کی محبت میں اس قدر ترقی کرے کہ اسے اپنی روحانی آنکھوں سے خدا تعالیٰ نظر آنے لگ جائے یا کم سے کم اس کے دل میں یہ یقین پیدا ہو جائے کہ میرا خدا مجھے دیکھ رہا ہے۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا کہ عبادت کیا ہے ؟ عبادت یہ ہے کہ تو ایسا سمجھے کہ گویا خدا تجھ کو نظر آ رہا ہے اور اگر تجھے یہ مقام میسر نہیں تو تیرے اندر کم سے کم یہ یقین ہونا چاہئے کہ میرا خدا مجھے دیکھ رہا ہے۔4 یہ کیفیت جو رسول کریم ﷺ نے بتائی کہ نماز پڑھتے وقت کم سے کم تمہیں یہ یقین ہونا چاہئے کہ تمہارا خدا تمہیں دیکھ رہا ہے یہ تصویری زبان میں پہلا روحانی قدم ہے جو اٹھنا چاہئے کہ ہر شخص کم سے کم ایسے مقام پر ہو کہ جب وہ نماز پڑھ رہا ہو تو اسے یقین ہو کہ کوئی خدا ہے جو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر واقع میں کوئی رب ہے، رحمان ہے، رحیم ہے، مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن ہے، تمام عبادات کا مستحق ہے، اعلیٰ ہے، سبحان ہے، اکبر ہے، تو کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ ہم اس کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ پس جب وہ تصویری زبان میں نماز پڑھ رہا ہو تو کم سے کم اس کے دل میں اس بات پر پختہ یقین ہونا چاہئے کہ اس کا خدا اسے دیکھ رہا ہے۔ اس کے بعد جب محبت الٰہی میں بڑھتے بڑھتے وہ اللہ تعالیٰ کی یاد میں منہمک ہو جاتا ہے۔ اس کا ذکر اس کی غذا بن جاتا اور اس کا دل اللہ تعالیٰ کے عشق سے بھر جاتا ہے تو اس وقت خدا اس کے سامنے آ جاتا ہے اور اس وقت وہ صرف اس یقین پر نہیں ہوتا کہ خدا اسے دیکھ رہا ہے بلکہ وہ خود خدا کو دیکھنے لگ جاتا ہے۔ بہرحال نماز کی صورت ایک قِشر کی سی ہے اگر کوئی شخص اسی پر بس کر لے اور سمجھ لے کہ میرے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ مَیں رکوع میں چلا گیا ہوں یا مَیں نے خدا تعالیٰ کو سجدہ کر لیا ہے یا اس کے حضور کھڑے ہو کر ہاتھ باندھ لئے ہیں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ اصل حقیقت کی تلاش نہیں کر رہا۔ قِشر پر ہی خوش ہو گیا ہے۔
خدام الاحمدیہ کے لئے جو قوانین مقرر کئے گئے ہیں وہ بھی درحقیقت قشر سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے چنانچہ یہ جو کہا گیا ہے کہ خدام الاحمدیہ روزانہ کچھ وقت ہاتھ سے کام کیا کریں۔ سڑکوں کو درست کیا کریں، گڑھوں کو پُر کیاکریں اور اسی طرح خدمت خلق کے اور کام سر انجام دیا کریں ان کا مقصد یہ ہے کہ ان کے اندر بنی نوع انسان کی ہمدردی کا سچا جذبہ پیدا ہو اور جب لوگوں پر کوئی عام مصیبت کا وقت آئے تو وہ اس مصیبت کو دور کرنے کے لئے آگے بڑھیں او رکسی قسم کا کام کرنے میں عار محسوس نہ کریں۔ لیکن اگر ان کاموں کے نتیجہ میں ان کےد لوں میں بنی نوع انسان کی ہمدردی کا کوئی جذبہ پیدا نہیں ہوتا۔ اگر وہ اپنے سیکرٹری یا کسی اَور افسر کے بلانے پر ہاتھ سے کام کرنے کے لئے تو تیار ہو جاتے ہیں لیکن جب ان کا ہمسایہ کسی تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ اس کو دور کرنے کی کوئی کوشش نہیں کرتے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ چھلکے کو پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔ حقیقت کو اخذ کرنے کی انہوں نے کوشش نہیں کی۔ ان کی مثال بالکل ان لوگوں کی سی ہے جو کہتے تھے ہم نے محمد ﷺ کی تصویر کو قرآن میں دیکھ لیا ہے۔ ہم نے محمد ﷺ کی تصویر کو حدیثوں میں دیکھ لیا ہے اورہم آپ کو خوب پہچانتے ہیں مگر جب انہوں نے محمد ﷺ کو مسیح موعود کی شکل میں دیکھا تو آپ کا انکار کر دیا اور نہ صرف انکار کیا بلکہ آپ پر کفر کا فتویٰ لگا دیا گیا۔ اگر ایسے لوگ محمد ﷺ کے زمانہ میں ہوتے تو یقیناً آپ کا بھی انکار کرتے اور آپ پر بھی کفر کا فتویٰ لگا دیتے۔
مَیں دیکھتا ہوں خدا تعالیٰ کی طرف سے اس زمانہ میں خدام الاحمدیہ کے امتحان کا ایک موقع پیدا ہؤا تھا جس میں اگر وہ چاہتے تو کوشش کر کے کامیابی حاصل کر سکتے تھے۔ مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہےکہ اس امتحان میں خدام الاحمدیہ بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ تھوڑا ہی عرصہ ہؤا بڑے بڑے سیلاب آئےہیں اور ان سیلابوں سے بڑی تباہی ہوئی ہے مگر مجھے افسوس ہے کہ جہاں تک مجھے علم ہے خدام الاحمدیہ نے اس موقع پر کوئی کام نہیں کیا اور اگر کیا ہے تو مجھے اس کا علم نہیں ہؤا۔ یاد رکھو وہ سپاہی ملک کے لئے کبھی مفید نہیں ہو سکتا جو پریڈ تو کرتا ہے مگر لڑائی کے وقت گھر میں بیٹھ رہے۔ پریڈ تو لڑائی کے لئے ہی کی جاتی ہے۔ اگر کسی نے لڑائی میں شامل نہیں ہونا تو وہ پریڈ پر اپنا وقت کیوں ضائع کرتا ہے۔ اس دفعہ ضلع لاہور میں، ضلع شیخو پورہ میں اور ضلع فیروز پور میں سیلابوں سے بڑی بڑی تباہیاں آئی ہیں اور ہر جگہ مجالس خدام الاحمدیہ موجود تھیں مگر میرے پاس جو رپورٹیں آئی ہیں ان میں اس امر کا کوئی ذکر نہیں کہ اس موقع پر خدام الاحمدیہ نے لوگوں کی کیا خدمت کی ہے اورا س مصیبت کے وقت انہوں نے کس کس رنگ میں ہمدردی ظاہر کی۔ حالانکہ اس موقع پر بعض ہندوؤں نے ، بعض سکھوں نے اور بعض اَور اقوام کے لوگوں نے بڑی بڑی خدمت کی ہے یہاں تک کہ گورنمنٹ نے بھی تسلیم کیا ہے کہ انہوں نے لوگوں کی بہت مدد کی ہے مگر مجھے یہ معلوم کر کے نہایت ہی افسوس ہؤا کہ ان میں خدام الاحمدیہ کا نام نہیں تھا۔ اگر ایسی مصیبت کے وقت بھی خدام الاحمدیہ لوگوں کی مدد کرنے کے لئے تیار نہیں تو پھر ہم نے ان کی پریڈوں کو کیا کرنا ہے۔ یہ جو کسی کسی دن وقتِ مقررہ پر ہاتھ سے کام کرنا ہوتا ہے یہ سچی قربانی نہیں ہوتی۔ سچی قربانی وہی ہوتی ہے جب اچانک کوئی مصیبت آ جائے اور اس وقت لوگوں کی امداد کے لئے اپنی جان و مال اور آرام و آسائش کو قربان کر دیا جائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دو قسم کے ابتلاء آیا کرتے ہیں۔ ایک ابتلاء تو ایسا ہوتا ہے جس میں بندے کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اپنے اوپر کوئی سزا لے لے جیسے اگر کسی کو کہا جائے کہ وہ اپنے آپ کو کوڑا مارے تو لازماً وہ احتیاط سے کام لے گا۔اول تو زور سے نہیں مارے گا اور پھر کسی ایسی جگہ نہیں مارے گا جو نازک ہو اورجہاں زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہو مگر جب دوسرا شخص کوڑا مارے تو اس وقت وہ یہ نہیں دیکھے گا کہ زور سے پڑتا ہے یا ہلکا پڑتا ہے اور کہاں لگتا ہے اور کہاں نہیں لگتا۔ اسی طرح فرماتے تھے وضو بھی ایک ابتلاء ہے۔ سخت سردی میں جب انسان وضو کرتا ہے تو لازماً اسے تکلیف ہوتی ہے مگر اسے اختیار ہوتا ہے کہ اگر چاہے تو پانی گرم کر لے اور اس طرح اس تکلیف کی شدت کو اپنے لئے کم کر لے لیکن ایک اَور ابتلا ایسا ہوتا ہے جس میں بندے کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔5 بیماری آتی ہے اور اس کے کسی بچے کو چمٹ جاتی ہے یا اسے اپنی بیوی سے بڑی محبت ہوتی ہے مگر وہ سخت بیمار ہو جاتی ہے یا بیوی کو خاوند سے بڑی محبت ہوتی ہے اور وہ کسی مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یہ ابتلا ایسا ہے جو اس کے اختیار سے باہر ہوتا ہے اور اس کی چوٹ ایسی سخت ہوتی ہے کہ مدتوں تک اسے تڑپاتی رہتی ہے۔ پھر آپ فرمایا کرتے کہ درحقیقت یہی ابتلا انسان کے ایمان کی آزمائش کا ذریعہ ہوتے ہیں اور اسی وقت معلوم ہوتا ہے کہ کون اللہ تعالیٰ پر سچا ایمان رکھتے اورکون سچا ایمان نہیں رکھتے۔ جس وقت اس قسم کے مصائب اور ابتلا آتے ہیں اللہ تعالیٰ یہ نہیں دیکھتا کہ اب دن ہے یا رات یا لوگوں کے آرام کرنے کا وقت ہے یا کام کرنے کا ، مثلاً گزشتہ دنوں سیلاب آئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں دیکھا کہ ہَڑ 6 رات کو آیا ہے یا دن کو۔ کام کے وقت تو تم کہہ دیتے ہو کہ ایسا وقت مقرر کرو جب سورج اونچا نہ آیا ہو اور خدام آپس میں مشورہ کر کے اعلان کر دیتے ہیں کہ چونکہ سخت گرمی پڑ رہی ہے اس لئے علی الصبح کام شروع کر دیا جائے گا اور آٹھ یا نو بجے بند کر دیا جائے گا۔ پھر کچھ لوگ کُوزے لے کر اِدھر اُدھر دوڑتے پھرتے ہیں کہ کسی کو پیاس لگی ہو تو وہ پانی پی لے۔ ایک ڈاکٹر پٹیاں اور ضروری سامان لے کر بیٹھا ہوتا ہے کہ اگر کسی کو کوئی چوٹ لگ جائے تو اس کی مرہم پٹی کر دی جائے۔ غرض جس قدر سہولت کے سامان تمہیں میسر آ سکتے ہیں تم ان سے کام لیتے ہو لیکن جس وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے سیلاب آ جائے تو اس وقت خدام الاحمدیہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ دریائےر اوی کو تھوڑی دیر کے لئے روک لیا جائے، ابھی ہمارے خدام بیدار نہیں ہوئے یا نو بجے کے بعد سیلاب آنا بند ہو جائے کیونکہ اس کے بعد لڑکوں نے سکول جانا ہے۔ جس وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی عذاب آتا ہے اس وقت وہ نہ دن دیکھتا ہے ، نہ رات اور لوگوں کا بھی فرض ہوتا ہے کہ قطع نظر اس سے کہ اس وقت رات ہو یا دن ایک دوسرے کی مدد کے لئے اٹھ کھڑے ہوں اور درحقیقت خدام الاحمدیہ کا قیام اسی لئے کیا گیا تھا مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جب سیلاب آیا تو تمام مقامات کے خدام الاحمدیہ اپنے اپنے گھروں میں سوئے رہے یہاں تک کہ شاہدرہ کی جماعت کے متعلق مجھے یہ شکایت پہنچی کہ وہاں جب سیلاب آیا تو شاہدرہ کے خدام میں سے ایک شخص بھی لوگوں کی مدد کے لئے نہ آیا بلکہ لاہور سے بعض خدام مدد کے لئے پہنچے۔ اس کے یہ معنے نہیں کہ مَیں لاہور والوں کی تعریف کر رہا ہوں۔ انہوں نے بھی قابل تعریف نمونہ نہیں دکھایا۔ لاہور ایک بہت بڑا شہر ہے اور شاہدرہ وغیرہ اس کے قریب ہیں ایسے موقع پر انہیں چاہئے تھا کہ وہ اپنے سب کام کاج چھوڑ کر لوگوں کی خدمت کرتے مگر جہاں تک میری اطلاعات ہیں مجھے افسوس ہے کہ یہ کام خدام الاحمدیہ نے نہیں کیا۔ پس ایک طرف مَیں خدام الاحمدیہ کے افسروں کو توجہ دلاتا ہوں کہ کیا وہ قَشر پر خوش ہیں اور کیا اتنی سی بات پر ہی ان کے دل تسلی پا چکے ہیں کہ وہ چھلکے اور ظاہر کی درستی میں لگے رہتے ہیں اورمہینہ دو مہینہ کے بعد ایک دن لوگوں کو پانی پلا پلا کر اور سانس دلا دلا کر اور ڈاکٹری مدد پہنچا پہنچا کر کچھ کام کر الیتے ہیں۔ اگر وہ صرف اسی بات پر خوش ہیں تو مَیں انہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ اس قسم کے کاموں کا دنیا کو کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ یہ شو تو ہے، نمائش تو ہے، پریڈ تو ہے لیکن اگر اصل موقع پر کام نہ کیا جائے تو پھر یہ کام پریڈ کی حیثیت بھی نہیں رکھتا۔ صرف شو اورنمائش کی حیثیت رکھتا ہے۔
پس مَیں خدام الاحمدیہ کے افسروں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ان تمام علاقوں کی مجالس کے پاس جہاں جہاں سیلاب آئے ہیں اپنے آدمی بھجوا کر پتہ لگائیں کہ وہاں کی مجالس نے سیلاب کے موقع پر لوگوں کی کیا خدمت کی ہے اور آیاوہ خدمت ایسی تھی جو ان کی شان کے شایان تھی۔ پھر اگر ثابت ہو کہ خدام الاحمدیہ کی مجالس نے اپنے فرض کی بجا آوری میں غفلت سے کام لیا ہے تو ان کو سرزنش اور تنبیہہ کی جائے۔ یہی وہ اصل غرض تھی جس کے لئے وہ اتنے سالوں سے تیاری کر رہے تھے مگر جب وہ وقت آیا اور وہ دن آیا جس کے لئے انہیں تیار کیا جا رہا تھا تو انہوں نے اپنے فرض کو فراموش کر دیا اور اس نہایت ہی قیمتی موقع کو ضائع کر دیا۔ حضرت مسیح ناصری نے انجیل میں کیا ہی لطیف تمثیل بیان فرمائی ہے کہ کچھ عورتیں تھیں جو دولہا کے انتظار میں کھڑی رہیں، کھڑی رہیں، کھڑی رہیں اور کھڑی رہیں۔ جب دولہا کے آنے میں بہت دیر ہو گئی تو ان میں سے بعض کے پاس تیل ختم ہو گیا اور انہوں نے دوسری عورتوں سے کہا کہ اس وقت دکانوں سے تیل مل نہیں سکتا، کچھ تیل ہم کو بھی دو تاکہ ہم اپنی مشعلوں کو روشن رکھیں تب جن کے پاس تیل تھا انہوں نے کہا ہم تم کو کس طرح تیل دے سکتی ہیں، ہمارے پاس جو تیل ہے وہ صرف اپنی ضرورت کے لئے ہے۔ تم اپنے گھروں کو جاؤ اور جس طرح ہو سکے تیل لاؤ چنانچہ وہ تیل لینے کے لئے اپنے گھروں کو لوٹ گئیں مگر ادھر وہ تیل لینے گئیں اور اُدھر دولہا آ گیا۔ وہ جن کے پاس تیل تھا انہیں دولہا اپنے ساتھ لے گیا اور اس نے قلعہ کے اندر جا کر اس کا دروازہ بند کر لیا۔ اتنے میں دوسری عورتیں بھی آ پہنچیں اور انہوں نے دروازہ پر دستک دی کہ ہم آ گئی ہیں ہمارے لئے دروازہ کھولا جائے۔ دولہا نے کہا تم میری دلہنیں نہیں ہو میری دلہنیں وہ ہیں جو میرے انتظار میں کھڑی رہیں اور میرے ساتھ قلعہ کے اندر آئیں۔ 7 اسی طرح خدا تعالیٰ جب اپنے بندوں سے ملنے کے لئے آتا ہے تو وہ کبھی سیلابوں کی صورت میں آتا ہے، کبھی زلزلوں کی صورت میں آتا ہے اور کبھی بیماریوں کی صورت میں آتا ہے۔ جو لوگ خدمتِ خلق کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کا وصال حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ ایسے مواقع پر اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت کر کے اس کے قرب کو پا لیتے اور اس کی رضا کو حاصل کر لیتے ہیں۔ گویا ان کی مثال ان دلہنوں کی سی ہوتی ہے جن کے پاس تیل تھا اور جب دولہا آیا تو وہ اس کےساتھ چل پڑیں مگر جو لوگ ایسے موقع پر دوسروں کی خدمت کرنے سے گریز کرتے ہیں ان کی مثال ان دلہنوں کی سی ہوتی ہے جن کا تیل ختم ہو گیا اور وہ دولہا کے ساتھ نہ جا سکیں۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ دولہا نے انہیں اپنی دلہنیں بنانے سے انکار کر دیا۔ پس خدام الاحمدیہ کے وہ افسر جنہوں نے اس موقع پر غفلت اور کوتاہی سے کام لیا ہے ان کے متعلق تحقیق کر کے انہیں سرزنش اور تنبیہہ کرنی چاہئے۔ ان کا فرض تھا کہ وہ رات دن کام کرتے اور اس خطرناک مصیبت کے وقت لوگوں کی ہر رنگ میں اعانت کر کے اپنے فرض کو ادا کرتے مگر انہوں نے بہت بڑی کوتاہی سے کام لیا ہے اور اب خدام الاحمدیہ کے افسروں کا یہ کام ہے کہ وہ ان کو سرزنش کریں۔ دو تین سال تک انہیں محنت کرانے کا کیا فائدہ ہؤا۔ جب عین اس موقع پر جبکہ خدا نے ان کا امتحان لیا وہ فیل ہو گئے۔ اگر وہ اس امتحان میں شامل ہو جاتے اور خراب پرچے کرتے تب بھی وہ اتنا کہہ سکتے تھے کہ ہم امتحان میں تو شامل ہو گئے یہ دوسری بات ہے کہ ہمارے پرچے اچھے نہیں ہوئے۔ مگر ان کی تو یہ کیفیت ہے کہ وہ اس امتحان میں شامل ہی نہیں ہوئے۔ امتحان کے کمرہ میں انہوں نے قدم بھی نہ رکھا اور پرچے کو انہوں نے ہاتھ بھی نہیں لگایا۔ کیا تم سمجھتے ہو ایسے لوگوں کو خدائی یونیورسٹی کی طرف سے کوئی سند ملے گی۔ سند کیا وہ تو ایسے لوگوں کا نام اپنے رجسٹروں سے نکال باہر کرے گی۔ پھر صرف باہر کے خدام الاحمدیہ پر ہی نہیں بلکہ مرکز پر بھی مجھے افسوس ہے کہ اس نے اب تک کیوں اس بارہ میں کوئی قدم نہیں اٹھایا اور کیوں مجھے کہنے کی ضرورت پیش آئی۔انہیں تو چاہئے تھا کہ جب بھی وہ سنیں کہ لوگوں پر کوئی عام مصیبت آ گئی ہے وہ اس کو دور کرنے کے لئے ایسے رنگ میں کام کریں جو دوسروں سے بہت زیادہ شاندار اور ممتاز ہو ۔ ہم صرف اتنی بات پر خوش نہیں ہو سکتے کہ ہمارے خدام نے دوسرے لوگوں جتنا کام کیا ہے بلکہ ہماری خوشی اور ہماری مسرت اس بات میں ہے کہ ہماری جماعت کے خدام دوسری تمام اقوام کے نوجوانوں سے زیادہ نمایاں حصہ خدمت خلق میں لیں۔ پس خدام الاحمدیہ کے افسر اس امر کی تحقیق کریں اور جنہوں نے اس موقع پر سستی دکھائی ہے ان کو سرزنش کریں۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ اب اللہ تعالیٰ دوبارہ تمہارا امتحان لینے کے لئے پھر دنیا کے ایک بہت بڑے حصہ کو غرق کر دے۔ خدا نے ایک بار تمہارا امتحان لیا اوراس میں تم فیل ہو گئے اور بری طرح فیل ہوئے۔ اب یہ نہیں ہو سکتا کہ تمہارا دوبارہ امتحان لینے کے لئے اللہ تعالیٰ دوبارہ لوگوں کو غرق کرے اور پھر سیلابوں سے تباہی آئے۔ یہ سیلاب اور قحط وغیرہ اللہ تعالیٰ کے بعض اور قوانین کے ماتحت آتے ہیں اور اس کی سنت ہے کہ وہ ایسے عذاب مسلسل نہیں بلکہ کچھ عرصہ کے بعد بھیجا کرتا ہے۔ ایسے موقع پر خدمت خلق کرنے والی جماعتیں اپنے آپ کو پاس کرا لیتی ہیں مگر جو لوگ خدمت سے محروم رہتے ہیں وہ نیکی کے ایک بہت بڑے موقع کو اپنے ہاتھ سے ضائع کر دیتے ہیں۔
دوسری بات جس کی طرف میں خدام الاحمدیہ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ بارشوں کی کثرت کی وجہ سے اس دفعہ قادیان میں بہت سے غرباء کے مکان گِر گئے ہیں۔ ان مکانوں کی مرمت اور تعمیر میں خدمت خلق کرنے والوں کو حصہ لینا چاہئے۔ مَیں اس موقع پر ان کو بھی توجہ دلاتا ہوں جن کو معماری کا فن آتا ہے کہ وہ اپنی خدمات اس غرض کے لئے پیش کریں۔ آجکل عام طور پر عمارتوں کے کام بند ہیں اور وہ اگر چاہیں تو آسانی سے اپنے اوقات اس خدمت کے لئے وقف کر کے ثواب حاصل کر سکتے ہیں۔ پس جن معماروں کو خدا تعالیٰ توفیق دے وہ ایک ایک، دو دو ،تین تین ، چار چار دن جس قدر خوشی کے ساتھ دے سکتے ہوں دیں تاکہ غرباء کے مکانوں کی مرمت ہو جائے۔ مزدور مہیا کرنا خدام الاحمدیہ کا کام ہو گا اس صورت میں بعض اَور چیزوں کے لئے بہت تھوڑی سی رقم کی ضرورت ہو گی جس کے متعلق ہم کوشش کریں گے کہ چندہ جمع ہو جائے مگر جہاں تک خدمت کا کام ہے خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ وہ اس کو خود مہیا کرے۔ اس طرح خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی کم خرچ پر غرباء کے مکانات کی مرمت ہو جائے گی۔
تیسری چیز جس کی طرف مَیں خدام الاحمدیہ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے نماز ایک قَشرہے اور اس کی اصل غرض یہ ہے کہ دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور ذکرِ الٰہی کا انس پیدا ہو۔ ذکر الٰہی کا انس آج کل مغربی اثر کے ماتحت بہت کچھ کم ہوتا جاتا ہے۔ اس لئے مَیں انہیں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ نوجوانوں میں اس قسم کے وعظ کثرت سے کرائیں جن میں ذکر الٰہی کی اہمیت بیان کی گئی ہو اور انہیں بتایا جائے کہ جب تک وہ مسجد میں بیٹھنے اور ذکر الٰہی کرنے کی عادت اختیار نہیں کریں گے۔ اس وقت تک خدا تعالیٰ کے فضلوں کے نشانات کا وہ مشاہدہ نہیں کر سکیں گے۔ اسی طرح محمد ﷺ کا دیدار سچے رؤیا و کشوف اور الہامات وغیرہ انہیں نہیں ہو سکیں گے۔ جب تک وہ ذکر الٰہی کی طرف توجہ نہیں کریں گے خالی خولی نماز پڑھ کر چلے جانا اور باقی وقت گپوں میں ضائع کر دینا بہت بری بات ہے۔ اس سے دل سخت ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے انوار قلب پر نازل نہیں ہوتے اِلَّا مَا شَاءَ اللہُ کسی پر احسان کر کے خدا تعالیٰ کوئی نور نازل کر دے تو اَور بات ہے۔ پس خدام الاحمدیہ کے افسروں کو چاہئے کہ وہ خصوصیت سے مختلف مساجد اور مختلف حلقوں میں اس قسم کے وعظ کرائیں تاکہ نوجوانوں کے دلوں میں عبادت اور ذکر الٰہی کا شوق پیدا ہو ۔ اب تک خدام الاحمدیہ کی طرف سے اس قسم کی بہت کم کوشش کی گئی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اول تو نوجوان مسجد میں کم آتے ہیں اور جو آتے ہیں وہ اس تاڑ میں رہتے ہیں کہ امام کب آتا ہے تاکہ وہ اسی وقت مسجد میں آئیں، جب امام آئے ۔ اس سے پہلے انہیں مسجد میں آ کر بیٹھنا نہ پڑے۔ گویا مسجد ان کے نزدیک ایسی ہی چیز ہوتی ہے جیسے انگاروں پر چلنا۔ جس طرح انگاروں پر چلنے والا جلدی جلدی چلتا ہے کہ کہیں میرے پیر نہ جل جائیں اسی طرح وہ بھی چاہتے ہیں کہ مسجد میں تھوڑے سے تھوڑا عرصہ ٹھہریں اور جلد سے جلد چلے جائیں۔ پھر بجائے اس کے کہ وہ مسجد میں خاموشی سے بیٹھیں اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں، دو دو مل کر باتیں کرنے لگ جاتے ہیں حالانکہ مسجدیں اس لئے نہیں ہوتیں کہ ان میں بیٹھ کر دنیا کی باتیں کی جائیں۔ مسجد میں یا تو دینی باتیں ہونی چاہئیں اور یا پھر ہر انسان کو ذکر الٰہی میں مشغول رہنا چاہئے۔ جب تک نوجوانوں میں یہ روح پیدا نہیں ہوتی۔ میں نہیں سمجھ سکتا ان میں خشیت اللہ کس طرح پیدا ہو سکتی ہےاور جب تک کسی کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت اوراس کی خشیت پیدا نہیں ہوتی۔ ہم کس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ وہ ایک سچا احمدی ہے۔ ہاں اگر خدا کی محبت پیدا ہو جائے تو رفتہ رفتہ باقی تمام خوبیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ اگر کسی کے دل میں خدا کی محبت نہ ہو تو اس کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے ریت میں کِیلا گاڑا ہؤا ہو۔ بظاہر وہ گڑا ہؤا نظر آتا ہے لیکن اگر ذرا بھی اسے ٹھوکر لگائی جائے تو وہ فوراًاکھڑ جاتا ہے لیکن جس دل میں خدا تعالیٰ کی محبت ہو اس کی مثال ایسی ہوتی ہے جیسے کسی مضبوط چٹان میں کوئی کِیلا گاڑ دیا جائے۔ ایسے کِیلے کو اگر ہتھوڑے بھی مارو تو وہ ہلنے کا نام نہیں لے گا۔ پس اصل چیز ذکرِ الٰہی، خدا تعالیٰ کی محبت اور مساجد کے ساتھ تعلق ہے۔ خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ وہ نوجوانوں میں یہ باتیں پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ان پر ذکرِ الٰہی کی اہمیت واضح کریں، ان کےدلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کریں اور انہیں مساجد میں زیادہ وقت صرف کرنے کی عادت ڈالیں۔ مَیں نے دیکھا ہےخدام الاحمدیہ نے نماز باجماعت میں نوجوانوں کی سستی کو دور کرنے کی کوشش کی اور قادیان میں اپنی اس کوشش میں وہ بہت حد تک کامیاب ہو گئے۔ اب اس سبق کو وہ نوجوانوں کے ذہن نشین کرنے کی کوشش کریں کہ وہ مساجد کے ساتھ تعلق رکھیں، ذکر الٰہی کی عادت ڈالیں اور اللہ تعالیٰ کی محبت اپنے دلوں میں پیدا کریں۔ اس کے بعد انہیں خود بخود نظر آ جائے گا کہ نوجوانوں کے اخلاق کی بہت کچھ اصلاح ہو گئی ہے۔ اب تو بعض دفعہ انہیں نوجوانوں میں بلا وجہ جوش نظر آ جاتا ہے۔ بعض دفعہ ان میں پاگل پن کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ بعض دفعہ وہ گالی گلوچ پر اتر آتے ہیں۔ اسی طرح بعض دفعہ وہ اور ابتلاؤں میں پڑ جاتے ہیں لیکن اگر وہ ان امور کی طرف توجہ کریں گے اور نوجوانوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کریں گے تو یہ نقائص اور عیوب خود بخود کم ہوتے چلے جائیں گے کیونکہ جہاں خدا تعالیٰ کی محبت آ جاتی ہے شیطان وہاں سے پرے بھاگا کرتا ہےوہاں آیا نہیں کرتا۔‘‘
(الفضل 17 ستمبر 1942ء )
1: الفاتحہ: 5 2: الفاتحہ: 4
3: خطبہ الہامیہ روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 259 مطبوعہ 2008ء
4: بخاری کتاب الایمان باب سؤال جبریل النبی ﷺ عن الایمان (الخ)
5: ملفوظات جلد 5 صفحہ 661 تا 663 (مفہوماًٌ
6: ہڑ: سیلاب
7: متی باب 25 آیت 1 تا 13(مفہوماً)

30
رمضان المبارک سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاؤ
( فرمودہ 18 ستمبر 1942ء )

تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’آج پھر ہم اس مہینہ میں سے گزر رہے ہیں جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْۤ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ ۔1یعنی وہ مبارک مہینہ ہے جس میں قرآن کریم کا نزول شروع ہؤا یا جس کے برکات کے متعلق اور جس کی فضیلتوں کے متعلق قرآن کریم نے شہادت دی ہے۔ دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو احکامِ الٰہی کی قدر نہ کرتے ہوئے شریعت کے احکام کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں اور چھوٹے چھوتے بہانوں اور عذروں کی بناء پر اللہ تعالیٰ کی حکومت کے جوئے سے نکل بھاگنا چاہتے ہیں۔ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو حیلے تراش کر اپنے لئے کوئی نہ کوئی عذر کی بات کو تاڑ لیتے ہیں۔ مسلمانوں نے اپنی بد قسمتی سے شریعت کے احکام سے بچنے کے لئے بڑے بڑے حیلے تراشے ہیں اور ان حیلوں پر کتابیں لکھی ہیں جن کے ذریعہ انسان احکام شریعت سے بچ سکتا ہے۔ انسانی صحت کی بعض حالتیں ایسی ہوتی ہیں جو بیماری کے مشابہ ہوتی ہیں مگر بیماری نہیں ہوتیں۔ ان سے انسان کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ وہ اچھی طرح کھا پی سکتا ہے، چل پھر سکتا ہے، اس کی ساری طاقتیں کام کرتی ہیں مگر اس حالت نے ایسی مزمّن صورت اختیار کر لی ہوتی ہے کہ بظاہر وہ بیماری نظر آتی ہے لیکن دراصل بیماری نہیں ہوتی۔ ایسی خرابی بیماری کہلانے کی مستحق نہیں ہوتی جب تک کہ وہ ایسی صورت اختیار نہ کر لے کہ اس کے نتیجہ میں کوئی نئی بیماری پیدا ہو اور اس کی وجہ سے روزہ کا اثر انسان کی صحت پر پڑے۔ لیکن بہت سے لوگ ہیں جو صرف ایسی کیفیت اور حالت کی وجہ سے روزوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ شریعت کے منشاء کو پورا کر رہے ہیں حالانکہ دنیا میں ایسا تندرست انسان تو ملنا قریباً ناممکن ہے جسے کوئی بیماری نہ ہو۔ بعض اطباء نے لکھا ہے کہ ایسا انسان جسے کوئی بیماری نہ ہو وہ آخری عمرمیں جذام یا جنون وغیرہ کا شکار ہونے کے خطرہ میں ہوتا ہے۔ پس اس قسم کی مزمّن حالتیں جو دراصل انسانی صحت کا جزو بن گئی ہوتی ہیں اور جو اکثریت کے ساتھ لگی ہوتی ہیں وہ روزوں کو چھوڑنے کا بہانہ نہیں بن سکتیں۔ ہمارے ملک میں شاید غذاؤں کی صحیح طور پر نگرانی نہ ہونے کی وجہ سے عام لوگوں کی انتڑیوں میں ہلکی سی سوزش ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے ملک کی آبادی کا اکثر حصہ قبض کی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے۔ تو کیا اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ سب روزوں سے بچ جائیں مگر یہ حالتیں بیماریاں نہیں ہیں بلکہ صحت کے مختلف مدارج ہیں۔ بیماری وہی ہے جو حاد ہو اور جو نیا حملہ کرتی ہے اور اسی کی بناء پر روزہ چھوڑا جا سکتا ہے یا پھر وہ مزمّن بیماری جس کی بناء پر ڈاکٹر اور طبیب روزہ نہ رکھنے کا مشورہ دے اور روزہ رکھنے سے معذور قرار دے دے ورنہ مزمّن حالتیں جو عام طور پر لاحق رہتی ہیں ان کی بناء پر روزہ چھوڑنا جائز نہیں۔ میری اپنی مثال ہی ہے میرےا ندر ایک بیماری ہے جو خفیف سی قبض سے پیدا ہوتی ہے اور اسی سے پھر کئی قسم کی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ 1918ء میں جب مَیں انفلوئنزا سے بیمار ہؤا تھا اس وقت سے یہ شکایت چلی آتی ہے مگر عام صحت پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا لیکن یہ ایسی مزمن صورت اختیار کر گئی ہے کہ اگر اسے بیماری قرار دیا جائے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ 1918ء کےبعد سے مجھ پر کوئی روزہ فرض نہیں مگر مَیں اپنے نفس کو دیکھتے ہوئے یہ جانتا ہوں کہ یہ بیماری نہیں ہے کیونکہ یہ حاد صورت نہیں بلکہ جسم کا ایک حصہ بن گئی ہے اور بیماری کے بعد جسم نے صحت کی صورت کو بدل دیا ہے۔
کئی لوگ ہیں جن کو آٹھ آٹھ دن پاخانہ نہیں آتا مگر یہ کوئی بیماری نہیں ہوتی۔ ان کی انتڑیوںکا عمل ہی ایسا ہو جاتا ہے، کسی دوسرے کو اتنے دنوں اگر پاخانہ نہ آئے تو کوئی ایسی بیماری ہو جائے جو شاید بے ہوش کر دے، بخار ہو جائے یا کوئی اَور تکلیف ہو جائے۔ مگر ان کو کوئی خاص تکلیف آٹھ آٹھ دن تک پاخانہ نہ آنے سے نہیں ہوتی کیونکہ ان کی انتڑیوں کا عمل ہی ایسا ہو جاتا ہے۔ ان کا جسم حرکت ہی ایسے رنگ میں کرتا ہے اور ان کی انتڑیوں کا یہ عمل صحت کا حصہ ہو گیا ہوتا ہے۔ تو ایسی مزمن صورتیں جو بعض اوقات صحت کا جزو ہو چکی ہوتی ہیں اور ان کی وجہ سے روزہ چھوڑنا جائز نہیں۔ بعض لوگوں کی آنکھوں میں سرخی ہوتی ہے۔ جب سے وہ پیدا ہوئے ہوتے ہیں ان کی آنکھیں سرخ ہی ہوتی ہیں یا کسی بیماری کے بعد یہ حالت ہو جاتی ہے۔ اب آنکھوں کی سرخی عام طور پر تو بیماری ہے اور آنکھیں دکھنے کی علامت ہے مگر ایسے لوگوں کو نہ تو کوئی درد ہوتا ہے، نہ گھبراہٹ ہوتی ہے، نہ آنکھوں میں رمد آتی ہے۔ اس لئے آنکھوں کی یہ سرخی بیماری نہیں اور اس کی بناء پر روزہ نہیں چھوڑا جا سکتا کیونکہ یہ صحت کا حصہ ہے۔ دوسرے کے لئے بیماری ہے مگر ایسے انسان کے لئے بیماری نہیں۔ اس کی صحت نے عام صحت سے مختلف شکل بدل لی ہوتی ہے جیسے کیلا عام طور پر اکیلا ہوتا ہے مگر بعض دفعہ دو جڑے ہوئے بھی ہوتے ہیں لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ وہ کیلا نہیں رہا بلکہ آم ہو گیا ہے۔ بعض دفعہ آم کے دو پھل اکٹھے ہوتے ہیں مگر وہ ہوتے آم ہی ہیں یہ نہیں کہ وہ خربوزہ بن جاتے ہیں ۔ تو انسانی صحت کی عام کیفیت اور ہوتی ہے اور خاص اثرات کی اَور۔ بعض لوگوں کو نزلہ نہیں ہوتا لیکن پھر بھی ناک سے رطوبت ہر وقت بہتی رہتی ہے، وہ جہاں بیٹھیں گے سرڑ سرڑ کرتے رہیں گے وہ کسی کام میں ان کے لئے روک نہیں ہوتا، وہ ہر کام کرتے ہیں۔ اگر زمیندار ہیں تو ہل بھی چلائیں گے یا جو کام کرتے ہیں کرتے رہیں گے۔ کھائیں گے پیئں گے لیکن ہر وقت سرڑ سرڑ کرتے رہیں گے۔ یہ کوئی بیماری نہیں ہوتی بلکہ میوکس ممبرین (mucous membrane)کو عادت ہو جاتی ہے کہ ہر وقت کچھ نہ کچھ رطوبت چھوڑتی رہتی ہے۔ ان کو نہ نزلہ کی کیفیت پیدا ہوتی ہے، نہ بخار ہوتا ہے اور نہ اس سے کسی قسم کا ضعف ہوتا ہے۔ مگر ان کا سرڑ سرڑ کرنا ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ اب ایسا انسان اگر کہے کہ مَیں روزہ نہیں رکھتا کیونکہ مَیں بیمار ہوں تو وہ گناہ کرے گا کیونکہ دراصل وہ بیمار نہیں ہے۔ صرف اس کی صحت نے بیماری کے مشابہ شکل اختیار کر لی ہے۔
پھر مَیں نے دیکھا ہے بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم اس لئے روزہ نہیں رکھتے کہ اس سے ضعف ہو جاتا ہےگویا وہ سمجھتے ہیں کہ روزہ ان کو موٹا تازہ کرنے کے لئے ہے۔ یہ ضعف ہو جانا کوئی بیماری نہیں جس کی بناء پر روزہ چھوڑا جا سکے۔ ہاں وہ ضعف جو بغیر روزہ کے پیدا ہو وہ بیماری ہے۔ مثلاً 60-70 سال کا کوئی بوڑھا ہو ، اس کا گوشت گھلنے لگا ہو، ٹانگیں لڑکھڑاتی ہوں، کھڑے ہونے سے کانپتی ہوں اور گِرنے کا اندیشہ پیدا ہوتا ہو، نظر میں فرق آ گیا ہو، تو اس کا ضعف البتہ بیماری ہے۔ اگر ایسے شخص کو روزہ رکھوایا جائے تو اس کا ضعف بڑھے گا۔ ایسے ضعف کو بیماری کہا جاتا ہے اور ایسے شخص کے لئے بےشک جائز ہے کہ روزہ نہ رکھے۔ لیکن یوں تو دنیا میں کوئی ایسا انسان نہیں جسے روزہ رکھنے سے ضعف نہ ہوتا ہو، کوئی انسان کتنا طاقتور کیوں نہ ہو جب سحری کھائے گا تو اس کی صحت کی حالت اَور ہو گی اور شام کو افطاری کے قریب اَور ہو گی۔ اگر صبح کو وہ 15میل دوڑ سکتا ہے تو شام کو اس کی دوڑنے کی طاقت اول تو 6-7 میل کی نہیں تو بارہ تیرہ میل کی تو ضرور ہی رہ جائے گی اور روزہ سے اتنا ضعف تو ہر شخص کو ہوتا ہے۔ اس لئے اس کی بناء پر روزہ چھوڑنا درست نہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ بعض اطباء اور ڈاکٹر بھی اس بات میں مدد کرتے ہیں ۔ کسی نے کہا کہ مجھے روزہ رکھنے سے ضعف ہوتا ہے تو جھٹ کہہ دیں گے کہ پھر روزہ نہ رکھو حالانکہ ان سے زیادہ کون اس سے واقف ہو سکتا ہے کہ روزہ کے نتیجہ میں ضرور کچھ نہ کچھ ضعف ہوتا ہے۔ وہ خود رکھتے ہیں اور کیا وہ نہیں جانتے کہ اس سے ضعف ہوتا ہے۔ کیا وہ صبح جب روزہ رکھتے ہیں تو کمزور ہوتے ہیں اور شام کو پہلوان بن جاتے ہیں۔ پس ان کو بھی احتیاط سے کام لینا چاہئے اور چاہئے کہ ایسے شخص کا سینہ دیکھیں، دل دیکھیں اور اگر ان اعضاء میں کمزوری پائیں تو پھر بے شک کہیں کہ یہ بیماری ہے لیکن اگر ایسا نہ ہو تو صرف یہ کہنے سے کہ روزہ سے ضعف ہو جاتا ہے روزہ چھوڑ دینے کا مشورہ نہیں دینا چاہئے۔ اگر کوئی شخص ان سے پوچھے تو چاہئے کہ اس کے جسم کا اچھی طرح معائنہ کریں اور پھر رائے دیں اور اگر وہ جسم کا معائنہ نہ کرانا چاہے تو ایسے شخص سے کہہ دیں کہ روزہ تو اللہ تعالیٰ نے رکھا ہی اس لئے ہے کہ انسان کو کچھ ضعف ہو اور انسان ضعف کا بھی کچھ مزہ چکھے۔ اس کے سوا جو ڈاکٹر یا طبیب یونہی کسی کے کہنے پر کہ مجھے روزہ سے ضعف ہو جاتا ہے اسے روزہ چھوڑ دینے کا مشورہ دے دیتا ہے وہ گناہ میں شریک ہے۔ ایک شخص اپنا ہی بوجھ نہیں اٹھا سکتا تو جس کے مشورہ سے 20آدمی روزہ چھوڑیں وہ ان کا بوجھ کس طرح اٹھا سکے گا۔ پس چاہئے کہ جو شخص ایسی شکایت کرے، اسے کہیں کہ اپنے جسم کا اچھی طرح معائنہ کراؤ تا مَیں فیصلہ کر سکوں ورنہ صرف یہ کہہ دینے سے کہ روزہ سے ضعف ہو جاتا ہے روزہ چھوڑ دینے کا مشورہ دینا گناہ ہے۔ ایسے شخص کو تو یہی کہنا چاہئے کہ روزہ اللہ تعالیٰ نے رکھا ہی اس لئے ہے تاکہ کچھ ضعف ہو۔ غرض بعض لوگ خدا تعالیٰ کے احکام میں بناوٹ اور تصنع کےساتھ بچاؤ کی صورت پیدا کرنا چاہتے ہیں اور حیلے تراش کر ان سے آزاد ہونا چاہتے ہیں۔ یاد رکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے احکام انسان کے فائدہ کے لئے ہیں ، وہ سزا یا چَٹی نہیں ہوتے۔ ہر حکم ایسا ہے جیسے کوئی کسی کو انعام دیتا ہے۔ کیا دنیا میں کبھی ایسا ہؤا ہے کہ کوئی شخص کسی کو تحفہ دینا چاہے اور وہ اس سے بچنے کی کوشش کرے، ایسا نہیں ہوتا بلکہ وہ تو اس کا ممنون ہوتا ہے۔ پس جب اللہ تعالیٰ انسان کو حکم دیتا ہے کہ نماز پڑھو تو وہ اسے تحفہ دیتا ہے، جب حکم دیتا ہے کہ روزہ رکھو تو اس پر انعام کرتا ہے، جب کہتا ہے زکوٰة دو یا حج کرو تو انسان کو تحفہ دیتا ہے اس پر کوئی بوجھ نہیں لادتا اور انسانوں کے تحفوں کو جب ہم خوشی سے قبول کرتے ہیں اور وہ محبت بڑھانے اور تعلقات کو مضبوط کرنے کا موجب ہوتے ہیں تو خدا تعالیٰ کے تحفہ کی کتنی قیمت ہونی چاہئے اور ہمیں اس کی کتنی قدر کرنی چاہئے۔ پس یہ رمضان کےر وزے اللہ تعالیٰ کا تحفہ ہیں۔ صبح کے وقت جب ہم روزہ رکھتے ہیں تو خدا تعالیٰ کے فرشتے خلعتوں کےبھرے ہوئے تھال لا کر دیتے ہیں اور شام کو بھی جب ہم روزہ افطار کرتے ہیں تو خدا تعالیٰ کے فرشتے خلعتوں کے تھال لے کر آتے ہیں اور بندے کو دیتے ہیں اور جو انسان روزہ سے بچنا چاہتا ہے وہ گویا خدا تعالیٰ کے انعاموں سے بچتا ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والی خلعتوں سے بچتا ہے۔ پس چاہئے کہ جہاں تک ہو سکے زیادہ سے زیادہ روزے رکھے جائیں اور رمضان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے۔ اس کےساتھ ہی یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جو انسان واقعی بیمار ہے اور پھر بھی روزہ رکھتا ہے اس کا روزہ روزہ نہیں بلکہ وہ خدا تعالیٰ کے انعامات کی ہتک کرنے والا ہے۔ جب بھی بیماری بیماری کی صورت میں آتی ہے خواہ اس دن وہ برا اثر نہ ڈالے پھر بھی وہ بیماری ہے اور روزہ نہیں رکھنا چاہئے کیونکہ اگر وہ آج کوئی بُرا اثر نہیں ڈالتی تو کل ضرور ڈالے گی اور ایسے بیمار کے لئے روزہ جائز نہیں۔ جس طرح بعض شکلیں صحت کی ایسی ہوتی ہیں جو بیماری سے مشابہہ ہوتی ہیں اسی طرح بعض شکلیں بیماری کی ایسی ہوتی ہیں جو صحت کے مشابہ ہوتی ہیں مثلاً نزلہ ہوتا ہے۔ انسان کہتا ہے کہ مجھے کوئی پتہ نہیں کہ مجھے کوئی تکلیف ہے لیکن درحقیقت نزلہ اگر واقعی نزلہ ہے، یہ نہیں کہ یونہی ذرا سی رطوبت خارج ہوتی ہے تو وہ بیماری ہے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ نزلہ کی ابتدائی صورت میں فاقہ سے بھی فائدہ ہوتا ہے لیکن فاقہ بھی ایک حد تک مفید ہوتا ہے ۔ اگر فاقہ کو لمبا کر دیا جائے تو یہی نزلہ سل اور دِق کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ پس بیمار انسان اگر کہتا ہے کہ مَیں کافی طاقتور ہوں ، روزہ رکھ سکتا ہوں اور رکھتا ہے تو بُرا کرتا ہے اسی طرح جو شخص سفر کرتا اور روزہ رکھتا ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کے انعام کو رد کرتا ہے۔
سفر کے متعلق میرا عقیدہ اور خیال یہی ہے۔ ممکن ہے بعض فقہاء کو اس سے اختلاف ہو کہ جو سفر سحری کے بعد سے شروع ہو کر شام کو ختم ہو جائے وہ روزہ کے لحاظ سے سفر نہیں۔ سفر میں روزہ رکھنے سے شریعت روکتی ہے مگر روزہ میں سفر کرنے سے نہیں روکتی۔ پس جو سفر روزہ رکھنے کے بعد سے شروع ہو کر افطاری سے پہلے ختم ہو جائے وہ روزہ کے لحاظ سے سفر نہیں۔ وہ روزہ میں سفر ہے۔ سفر میں روزہ نہیں۔ جیسے مثلاً ظہر کی نماز کا وقت 12 ½ سے 3 ½ تک ہوتا ہے۔ اب اگر کوئی شخص ایک بجے سفر شروع کرے اور تین بجے ختم کر دے۔ آجکل موٹروں وغیرہ کی سہولت کے باعث اتنے وقت میں کافی سفر ہو سکتا ہے۔ انسان بٹالے جا کر واپس آ سکتا ہے بلکہ اگر پختہ سڑک ہو تو امرت سر جا کر بھی واپس آ سکتا ہے اور تیس چالیس میل کا سفر کر سکتا ہے۔ اس لئے اگر کوئی شخص ایسے سفر میں نماز قصر کر کے پڑھے تو ہم کہیں گے کہ اس نے شریعت کے منشاء کو پورا نہیں کیا ۔ کیوں اس نے نماز سفر شروع کرنے سے پہلے یا ختم کرنے کے بعد نہیں پڑھی۔ یہ نماز کے وقت میں سفر ہے۔ سفر میں نماز نہیں۔ ہاں اگر کوئی بارہ بجے سفر شروع کرتا اور مثلاً چار بجے ختم کرتا ہے تو اس کا سفر نماز کے وقت سے آگے نکل گیا اس لئے اسے آدھی نماز پڑھنے کا حکم ہے۔ وہ اگر پوری پڑھتا ہے تو غلطی کرتا ہے۔ پس جو سفر صبح سے شروع ہو کر شام تک ختم ہو جائے وہ روزہ کے لئے سفر نہیں، نماز کے لئے ہے۔ وہ ظہر اور عصر کی نمازیں پڑھے گا قصر کر کے مگر روزہ رکھے گا۔ میرا اپنا عمل یہی ہے۔ مَیں ایک دفعہ رمضان میں روزہ رکھ کر دریا پر گیا۔ ہم لوگ صبح گئے اور شام کو آ گئے۔ راستہ میں بعض ایسے واقعات ہوئے کہ مجھے ڈر ہؤ اکہ شاید شام تک واپس نہ پہنچ سکیں لیکن مَیں نے بہت جلدی کی اور گھوڑا دوڑاتا آیا اور اسے دوڑاتے دوڑاتے شام سے قبل قادیان کی زمین میں لے آیا۔ میرے ساتھی حیران تھے کہ کیا بات ہے۔ اتنی جلدی کیوں کر رہے ہیں مگر مَیں چاہتا تھا کہ سفر روزہ کے اندر ہی ختم ہو جائے۔ تو شریعت نے جو سہولتیں دی ہیں ان سے فائدہ نہ اٹھانا بھی ناجائز ہے۔ جو بیمار روزہ رکھتا ہے وہ گنہگار ہے۔ کم سے کم اللہ تعالیٰ کی نعمت کی ناقدری کرنے والا ہے۔ اسی طرح جو سفر میں روزہ رکھتا ہے وہ بھی غلطی کرتا ہے اور روزہ تو اس کا بالکل نہیں ہوتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام سے پوچھا گیا کہ اگر کوئی سفر میں روزہ رکھ لے تو کیا اس کا روزہ ہو جائے گا۔ آپ نے فرمایا نہیں۔ مسافر کا روزہ بہرحال روزہ نہیں شمار ہو گا۔ نفلی روزہ تو بے شک بن جائے گا مگر فرضی نہیں۔ فرضی پھر رکھنے ہوں گے۔ مَیں نے دیکھا ہے بعض لوگ سفر میں روزہ رکھ لیتے ہیں اور پوچھا جائے تو کہتے ہیں پھر رکھنا مشکل ہوتا ہے اس لئے ابھی رکھ لیتے ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ مشکل کام ہی اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہی اس لئے تھا کہ وہ چاہتا تھا کہ مشکل کام کرائے اس لئے اگر وہ مشکل ہے تو وہی کرو۔
اس کے علاوہ بعض اَور باتیں بھی ہیں جو اِن دنوں میں مدنظر رکھنی چاہئیں مثلاً دکاندار ان ایام میں ایسے طریق پر کام کریں کہ دوسروں کے لئے ٹھوکر کا موجب نہ ہو۔ ایک دکان میں کوئی بیمار یا مسافر بیٹھ کر کھا رہا ہوتا ہے اور دشمن پاس سے گزرتا ہے تو سمجھتا ہے کہ احمدی روزے نہیں رکھتے۔ ہر دکاندار بھی واعظ ہے اس کا صرف یہی فرض نہیں کہ کوئی ایک آنہ کا دودھ لینے آئے تو دے دے بلکہ یہ بھی ہے کہ اسے نصیحت کرے اور کہے کہ آپ احمدی ہیں، مسلمان ہیں آپ کو روزہ رکھنا چاہئے۔ روزہ ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اگر وہ ایسا کرے تو اس کی روزی حلال کی روزی ہو گی ورنہ اگر وہ تبلیغ نہیں کرتا اور تبلیغ کے فرض کو بھول جاتا ہے تو وہ خود بھی حرام کھاتا ہے اور بیوی بچوں کو بھی حرام کھلاتا ہے اور ایسے بچے جو حرام کے مال سے پلے ہوئے ہوں اور جن کے خون کا ہر قطرہ حرام کا بنا ہؤا ہو، نیک اور دیندار نہیں ہو سکتے۔ پس اگر ایک شخص جو تندرست ہے اور مسافر بھی نہیں اس کے پاس سَودا لینے آتا ہے تو دکاندار کا فرض ہے کہ اسے نصیحت کرے لیکن اگر کوئی بیمار یا مسافر آئے تو اسے بھی کہے کہ آپ اندر کونے میں آ جائیں اور وہاں بیٹھ کر کھائیں تا دوسروں کو ٹھوکر نہ لگے۔ ہاں ایسی بات کو حد تک پہنچانا بھی گناہ ہے کیونکہ وہ منافقت بن جاتی ہے۔ جس طرح پاخانہ میں کھڑے ہو کر کھانا بھی غلطی ہے اسی طرح اگر انسان بیمار ہو اور ا س وجہ سے روزہ نہ رکھے لیکن دوسروں پر ظاہر اس طرح کرے کہ گویا اس نے روزہ رکھا ہؤا ہے تو یہ بھی گناہ ہے۔ مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام دہلی سے تشریف لا رہے تھے۔ مَیں بھی ساتھ تھا۔ امرت سر میں آپ کا لیکچر مقرر ہو چکا تھا۔ آپ لیکچر دینے کے لئے کھڑے ہوئے تو مفتی فضل الرحمان صاحب مرحوم نے اس خیال سے کہ گلے کو تکلیف نہ ہو آپ کے لئے چائے کی پیالی تیار کر کے پیش کی۔ مَیں بھی اس وقت پاس ہی بیٹھا تھا۔ مَیں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہاتھ کے اشارہ سے پیچھے ہٹایا اور چائے پیش کرنے سے روکا۔ تھوڑی دیر بعد مفتی صاحب نے پھر چائے پیش کرنی چاہی مگر آپ نے پھر روکا۔ گویا دو بار آپ نے یہ اشارہ فرمایا کہ خواہ مخواہ دوسروں کے لئے ٹھوکر کا باعث نہ بننا چاہئے مگر مفتی صاحب نے نہ سمجھا اور پھر چائے پیش کر دی۔ اب گویا مشکل یہ بن گئی تھی کہ نہ پینا مسئلہ کو چھپانا ہو جاتا اس لئے آپ نے پیالی ہاتھ میں لے کرمنہ سے لگائی اور ادھر لوگوں نے اینٹیں ، پتھر مارنے شروع کر دئیے اور گالیاں دینے لگے اور ایسی شورش ہوئی کہ پولیس آپ کو گاڑی میں سوار کر کے قیام گاہ پر پہنچانے پر مجبور ہو گئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انکار پر زیادہ اصرار کرنا بھی نا مناسب تھا۔ بہتر یہی ہے کہ جہاں تک دوسرے کو ٹھوکر سے بچایا جا سکے بچایا جائے۔ مگر یہ بھی درست نہیں کہ روزہ نہ ہو اور ظاہر اس طرح کیا جائے کہ لوگ سمجھیں روزہ ہے۔ جہاں یہ منع ہے کہ رمضان کے دنوں میں بازار میں کھایا جائے وہاں روزہ نہ ہونے کی صورت میں ظاہر یہ کرنا کہ روزہ ہے منافقت بن جاتی ہے۔ پس ہمارے دکانداروں کو مُمد ہونا چاہئے مظلوم جماعت کے قیام اور اسلام کی تعلیم کو پھیلانے میں۔ اگر ایک شخص ہٹا کٹا اور تندرست ہے تو جب وہ سَودا لینے آئے تو اسے روکیں اور کہیں کہ تمہیں روزہ رکھنا چاہئے۔ وہ یہ خیال ہرگز نہ کریں کہ اس طرح ہماری بِکری پر اثر پڑے گا اور ہم کنگال ہو جائیں گے۔ جو انسان خدا تعالیٰ پر توکل کرتا ہے وہ کنگال نہیں ہوتا۔ یہ اپنی بے ایمانی ہوتی ہے جو انسان کو کنگال بناتی ہے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ پر یقین اور توکل رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے غیب سے سامان مہیا کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے والا انسان دنیا میں ذلیل کبھی نہیں ہوتا۔ فاقے اسے بے شک آئیں مگر وہ ذلیل نہیں ہو سکتا۔ یاد رکھنا چاہئے کہ فاقہ موجب ذلت نہیں بلکہ ذلت ذلت والی روٹی کھانے میں ہے۔ آنحضرت ﷺ کو بھی فاقے آتے تھے مگر آپ کے مقابلہ میں ان لوگوں کی کیا عزت ہے جن کے دستر خوانوں پر چالیس چالیس کھانے ہوتے ہیں۔ آپ کے سامنے رکھی ہوئی کھجوریں کہیں زیادہ قیمتی ہیں بہ نسبت ان بھنے ہوئےدنبوں کے جو دوسروں کے دستر خوان پر ہوتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ مومن کے لئے غیب سے سامان کرتا ہے اور ایسے سامان کرتا ہے کہ کسی کے وہم میں بھی نہیں آسکتے۔ دشمن بسا اوقات حیران رہ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ خبر نہیں اسے کہیں سے خزانہ مل گیا یا اس نے کہیں چوری کی ہے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے غیب سے دیتا ہے اور اس طرح دیتا ہے کہ اس کے اپنے وہم میں بھی نہیں ہوتا۔ خود میری اپنی زندگی میں پانچ سات مواقع ایسے آ چکے ہیں کہ جب مجھ پر اتنا قرض ہو گیا کہ مَیں نے سمجھا اب تو مَیں اپنی زندگی میں اسے نہ اتار سکوں گا مگر جس وقت یہ خیال کیا اللہ تعالیٰ نے سامان پیدا کر دئیے کہ وہ اتر گیا۔ کچھ مدت بعد پھر قرض ہو گیا اور مَیں نے اپنے نفس سے کہا کہ پہلے تو قرضہ اتر گیا تھا مگر اب ایسے پھنسے ہو کہ اب نہ اتار سکو گے۔ لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان کر دئیے کہ وہ اتر گیا۔ تو اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کر دیتا ہے کہ بسا اوقات اس میں انسان کی عقل و سمجھ کا کوئی دخل نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات تو ایسا ہوتا ہے کہ انسان ایک غلطی کرتا ہے اس سے کوئی بے وقوفی سر زد ہو جاتی ہے مگر اس کا نتیجہ اعلیٰ درجہ کا پیدا ہو جاتا ہے۔ پس یہ خیال مت کرو کہ اگر کسی کو روزہ رکھنے کی نصیحت کرو گے تو گاہک ہاتھ سے جاتا رہے گا۔ اگر دس بیس یا پچاس روپیہ کا گاہک ہاتھ سے جاتا رہے گا تو غیر محدود خزانوں والا خدا تمہارا گاہک بن جائے گا۔ یہ صرف ایمان کی بات ہے۔ ایک بزرگ کے متعلق آتا ہے کہ وہ کسی کے مقروض تھے۔ قرض خواہ تقاضا کرنے آیا اور کہا کہ آپ نے مجھ سے فلاں رقم قرض لی ہوئی ہے وہ اب ادا کر دو۔ اس نے مطالبہ میں سختی کی اور گالی گلوچ پر اتر آیا۔ وہ خاموش بیٹھے رہے اور کہتے رہے اچھا اللہ تعالیٰ ابھی کوئی انتظام کر دےگا۔ اتنے میں ایک لڑکا حلوا بیچتا ہؤا ادھر آ نکلا۔ انہوں نے اس سے حلوا لے لیا، اس قرض خواہ کو بھی کھلایا کہ تا وہ ذرا ٹھنڈا ہو۔ اپنے ساتھیوں کو بھی کھلایا اور اس حلوا فروخت کرنے والے لڑکے کو بھی کھلایا مگر جب لڑکے نے قیمت مانگی جو آٹھ آنہ کے قریب تھی تو اسے کہا کہ ابھی تو نہیں ۔ یہیں ٹھہرو، اللہ تعالیٰ بھیج دے گا۔ وہ لڑکا رونے لگا اور قرض خواہ نے اور بھی بُرا بھلا کہنا شروع کیا اور کہا کہ میرے پیسے تو دبائے ہی تھے اس غریب کے بھی دبائے۔ وہ لڑکا روئے اور بزرگ کہیں کہ میاں ٹھہرو اللہ تعالیٰ سامان کر دے گا۔ یہ سن کر اسے اَور بھی یقین ہوتا جائے کہ اب پیسے نہیں ملیں گے اور وہ اور رونے لگے۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے اس بزرگ کو ایک پڑیا دی کہ فلاں شخص نے آپ کی خدمت میں یہ ہدیہ بھیجا ہے۔ آپ نے اسے کھولا تو اس میں اتنے روپے تھے جتنے کا وہ قرض خواہ تقاضا کر رہا تھا، حلوے کی قیمت نہ تھی۔ اس بزرگ نے اس شخص سے کہا کہ میاں تمہیں غلطی لگی ہے یہ ہمارے لئے نہیں۔ اس نے کہا ہاں واقعی غلطی ہوئی۔ ایک پڑیا کسی دوسرے کے لئے اس نے دی تھی۔ مَیں نے غلطی سے آپ کی پڑیا اس کے لئے رکھ لی اوراس کی آپ کو دے دی۔ چنانچہ اس نے دوسری پڑیا دی اور اسے کھولا تو اس میں حلوے کی قیمت بھی موجود پائی۔ تو جب انسان توکّل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ خود اس کے لئے غیب سے سامان کر دیتا ہے۔ اپنی ایمانی کمی کے نتیجہ میں تکلیف ہوتی ہے۔ جو لوگ گھبرا کر بندوں کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں وہ خود اپنے لئے مصائب پیدا کرتے ہیں۔ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک بزرگ کا واقعہ کئی دفعہ سنا ہے جو دنیا سے علیحدہ ہو کر جنگل میں چلے گئے اور فیصلہ کیا کہ اب وہاں خدا تعالیٰ کی عبادت کریں گے اور بندوں سے کوئی سروکار نہیں رکھیں گے۔ وہ جنگل میں رہنے لگے اور اللہ تعالیٰ ہر روز کسی نہ کسی کے دل میں تحریک کر دیتا اور وہ انہیں کھانا پہنچا دیتا۔ کچھ عرصہ کے بعد انہیں خیال آیا کہ میرا توکل کامل ہو گیا ہے حالانکہ ابھی نہ ہؤا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کی کمزوری کو واضح کرنا چاہا اور ایک دن کسی کے دل میں بھی انہیں کھانا پہنچانے کی تحریک نہ کی۔ انہوں نے صبر سےکام لیا۔ دوسرے دن پھر اللہ تعالیٰ نے کسی کو تحریک نہ کی اور انہوں نے پھر صبر سے کام لیا مگر تیسرے دن پھر اللہ تعالیٰ نے کسی کو تحریک نہ کی۔ یہ دیکھ کر انہوں نے دل میں کہا یہ تو ناقابل برداشت ہے اور اتنے دن فاقہ سے نہیں رہا جا سکتا۔ چنانچہ وہ گاؤں کی طرف چل پڑے وہاں پہنچ کر اپنے کسی واقف یا دوست سے کہا کہ اس طرح میں تین روز سے بھوکا ہوں تمہارے پاس اگر زائد کھانا ہو تو مجھے کچھ دے دو۔ اس نے تین روٹیاں اور کچھ سالن دیا جسے وہ لے کر جنگل کی طرف چل پڑے۔ جس شخص نے ان کو روٹیاں دیں اس کا ایک کتّا تھا۔ جب یہ روٹی لے کر چلے تو وہ بھی پیچھے پیچھے ہو لیا۔ جب وہ کچھ دور تک ساتھ گیا تو اس بزرگ کو خیال آیا کہ واقعی اس کا بھی حصہ ہے اور ایک روٹی اور تیسرا حصہ سالن کا اس کے آگے ڈال دیا اور خود آگے چل پڑے۔ کتّے نے وہ جلدی جلدی کھا لیا اور پھر پیچھے پیچھے ہو لیا اس بزرگ نے کہا کہ اس کا حق زیادہ ہے یہ ہر وقت اپنے مالک کے دروازہ پر پڑا رہتا ہے اور مَیں تو صرف دوستانہ حق کی وجہ سے مانگنے کے لئے آ گیا تھا اور ایک اَور روٹی اور آدھا سالن اسے ڈال دیا جو اس نے کھا لیا۔ اور پھر پیچھے پیچھے چل پڑا اور ساتھ ساتھ بھونکتا بھی جائے۔ اس پر اس بزرگ نے کتّے کو مخاطب کر کے کہا کہ تُو بڑا بے حیا ہے مَیں نے دو روٹیاں اور دو حصہ سالن تجھے دے دیا مگر تُو پھر پیچھا نہیں چھوڑتا۔ اس پر ان پر فوراً کشف کی حالت طاری ہو گئی اور کُتّے نے ان سے باتیں شروع کر دیں(کشف کی حالت میں کُتّے بھی انسان سے باتیں کر لیتے ہیں بلکہ ہر چیز کر لیتی ہے) اس کُتّے نے کشفی حالت میں اس بزرگ سے کہا کہ بے حیامیں ہوں یا آپ۔ مجھے اپنے مالک کے دروازہ پر سات سات دن کے فاقے آئے ہیں مگر مَیں نے کبھی اس کے دروازہ کو نہیں چھوڑا حالانکہ مجھے وہاں سے روٹی ملتی بھی ہے تو بہت کم اور بچی کھچی۔ مگر تمہیں تمہارا خدا روزانہ اچھے اچھے کھانے بھجواتا رہا ہے اور صرف تین روز فاقے آئے اور تم بھاگے بندوں کی طرف۔ یہ سن کر انہیں بہت ندامت ہوئی اور تیسری روٹی اور سالن بھی کتّے کے آگے ڈال کر استغفار کرتے ہوئے اپنی جگہ پر واپس گئے۔ جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ کئی لوگ وہاں کھانا لئے بیٹھے ہیں۔ انہیں دیکھتے ہی وہ لوگ تین روز تک کھانا نہ لا سکنے کے لئے معذرتیں کرنے لگے۔ کوئی کہتا کہ میرا بچہ بیمار ہو گیا تھا اس لئے نہ آ سکا، کسی نے کوئی عذر پیش کیا اورکسی نے کوئی۔ تو جن کو اللہ تعالیٰ پر صحیح توکل ہو، ان کے لئے اللہ تعالیٰ خود بخود بندوں کے دلوں میں تحریک کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس بارہ میں دو قانون ہیں۔ ایک عام اور ایک خاص۔ قانون عام کے طور پر تو اس نے قرآن کریم میں تحریک کر ہی دی ہوئی ہے۔ چنانچہ اس نے فرمایا ہے کہ میرے بعض مومن بندے ایسے ہیں جو سوال کرنا پسند نہیں کرتے ۔2لیکن دوسرے مومنوں کو چاہئے کہ ان کی ضروریات کا خیال رکھیں، ان کی زبان پر اگر توکّل کا قفل لگا ہوتا ہے تو کیا تمہاری آنکھیں بھی نہیں ہیں کہ تم دیکھ سکو۔ یہ تحریک عام ہے۔ ادھر توکل کی وجہ سے ایک مومن کی زبان بند ہوتی ہےتو دوسروں کو حکم دیا ہے کہ آنکھیں کھولو اور ان کا خیال رکھو۔ ایسا نہ ہو کہ میرے بندے بھوکے رہیں۔ حضرت ابو ہریرہؓ بھی متوکلین میں سے تھے ۔ وہ مسجد نبوی میں بیٹھےرہتے تھے اس خیال سے کہ رسول کریم ﷺ جو بات کریں وہ سُن سکیں اور کوئی بات رہ نہ جائے۔ وہ چونکہ بعد میں ایمان لائے تھے اس لئے چاہتے تھے کہ آنحضرت ﷺ سے زیادہ سے زیادہ باتیں سن سکیں اور اس وجہ سے کئی کئی وقت کا فاقہ ان پر آ جاتا تھا۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ کئی روز کا فاقہ تھا اور کھانے کو کچھ نہ مل سکا۔ مَیں مسجد کے دروازہ پر کھڑا ہو گیا کہ شاید کسی کو میری حالت دیکھ کر کھانے کو کچھ دینے کا خیال آ جائے اور جب دیکھوں کہ رسول کریم ﷺ باہر تشریف لائے ہیں تو فوراً حاضر بھی ہو سکوں۔ وہ کہتے ہیں مَیں وہاں کھڑا رہا۔ اتنے میں حضرت ابو بکرؓ گزرے اور مَیں نے ان سے ایک آیت کی تفسیر پوچھی جس کا مفہوم یہ ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں بیٹھے رہتے ہیں ان کی خدمت کرنی چاہئے۔ حضرت ابو بکرؓ نے اس کی تفسیر بیان کی اور آگے چل دئیے۔ حضرت ابو ہریرہؓ بڑے ناز سے کہتے ہیں کہ اونہہ ۔گویا ابو بکر مجھ سے زیادہ تفسیر جانتے تھے۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ گزرے۔ ان سے بھی مَیں نے وہی سوال کیا او روہ بھی اس آیت کی تفسیر بیان کر کے آگے چلے گئے۔ حضرت ابو ہریرہؓ پھر بڑے ناز سے کہتے ہیں کہ اونہہ۔ گویا عمرؓ نے سمجھا کہ اسے مجھ سے زیادہ معنے آتے ہیں۔ مَیں بھوک کی شدت سے بے چین ہو رہا تھا مگر کسی سے مانگنا نہ چاہتا تھا کہ اتنے میں ایک نہایت شیریں اور پیار سے بھری ہوئی آواز آئی جو کہہ رہی تھی کہ ابو ہریرہ تم بھوکے ہو۔ مَیں نے مڑ کر دیکھا تو آنحضرت ﷺ اپنے دروازہ کے آگے کھڑے تھے اورمسکرا رہے تھے۔ ابو بکرؓ اور عمرؓ سے آپ نے آیت کی تفسیر پوچھی اور وہ اصل بات نہ سمجھ سکے مگر آنحضرت ﷺ کے کان میں گھر کے اندر آواز پڑی اور آپ نے پہچان لیا کہ ابو ہریرہ بھوکا ہے۔ وہ متوکل ہونے کی وجہ سے کسی سے مانگنا نہیں چاہتا۔ آپؐ نے ابو ہریرہ سے کہا ابوہریرہ ادھر آؤ! ہم بھی بھوکے ہیں۔ مگر ایک دوست نے دودھ کا ایک پیالہ بطور تحفہ بھیجا ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ یہ سن کر میری جان میں جان آئی کہ یہ دودھ مجھے مل جائے گا مگر آپؐ نے فرمایا کہ ابو ہریرہ جاؤ مسجد میں کوئی اَور بھی بھوکا ہو تو اسے بلا لاؤ۔ حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ مَیں گیا تو اصحاب الصفّہ میں سے سات اَور تھے۔ یہ دیکھ کر میرا دل تو گھٹنے لگا۔ مَیں نے سوچا کہ مَیں اتنے دنوں سے بھوکا ہوں ایک پیالہ دودھ کا ہے اور سات اَور پینے والے موجود ہیں۔ میرے حصہ میں کیا آئے گا۔ وہ جب ان کو لے کر آنحضرت کی خدمت میں پہنچے تو آپ نے ان سات میں سے ایک کو پہلے وہ پیالہ دیا۔ حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ یہ دیکھ کر مجھے اَور بھی فکر ہؤا۔ اس شخص نے وہ پیالہ لیا اورخوب سیر ہو کر پیا اور پھر پیالہ رکھ دیا مگر آپؐ نے فرمایا اور پیو اس نے اَور پیا اور جب ختم کر چکا تو آپؐ نے فرمایا اَور پیو۔ آپؐ جوں جوں اَور پینے پر اصرار کرتے میرا دل گھٹتا جاتا کہ میرے لئے کچھ نہ بچے گا۔ اس کے بعد آپؐ نے دوسرے کو وہ پیالہ دیا اور پھر تیسرے کو۔ حتّٰی کہ ان ساتوں نے وہ دودھ پیا اور ان میں ہر ایک کو آنحضرت ﷺ نے اصرار کے ساتھ کہہ کہہ کر خوب پلایا اور آخر میں وہ پیالہ مجھے دیا اور مَیں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ پیالہ اسی طرح بھرا ہؤا تھا۔ جب مَیں نے پی کر چھوڑا تو آپؐ نے فرمایا ۔ ابو ہریرہ اَور پیو۔ چنانچہ مَیں نے اَور پیا۔ اور آپؐ نے فرمایا اَور پیو۔ مَیں نے پھر اَور پیا۔ پھر آپؐ نے فرمایا اَور پیو۔ اس پر مَیں نے کہا یَا رَسُوْلَ اللہِ آپ کی جان کی قسم اب تو میری انگلیوں میں سے دودھ باہر نکلنے لگا ہے۔ اس پر آپؐ نے وہ پیالہ مجھ سے لیا اور خود پینے لگے۔ 3یہ متوکل لوگ تھے۔ ان کی روزی کا کوئی سامان نہ تھا مگر خدا تعالیٰ خود سامان کرتا تھا۔ لیکن اگر وہ بھوک کی حالت میں مر بھی جاتے تو بھی بڑے بڑے بادشاہوں کی نسبت ان کا مرتبہ بلند ہوتا۔ تو لوگ توکل کی قدر کو نہیں جانتے اور مانگنے چلے جاتے ہیں اور وہ حالت پیدا نہیں ہونے دیتے کہ اللہ تعالیٰ خود ان کے لئے تحریک کرے۔ خدا تعالیٰ کے نبی غریب ہوتے ہیں مگر وہ مانگتے کسی سے نہیں۔ خدا تعالیٰ خود ان کے لئے لوگوں کے دلوں میں تحریک کرتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُوْحِیْ اِلَیْھِمْ4 ایسے لوگ آپ کی مدد کریں گے جن کو ہم وحی کریں گے۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں وحی کرتا تھا اور وہ آپ کے پاس آتے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے اس وقت میری عمر پندرہ سال کے قریب تھی ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام باغ میں رہتے تھے۔ ایک دن آپ نےحضرت اماں جان کو بلایا اور فرمایا زلزلہ اور طاعون وغیرہ کی وجہ سے آجکل مہمان یہاں بہت آتے ہیں اور خرچ بہت ہو رہا ہے اور اب پیسے نہیں رہے۔ اس لئے میری تجویز ہے کہ اب کچھ قرض لے لیا جائے۔ اس کے بعد آپ نماز کے لئے تشریف لائے۔ باغ میں جو چھوٹا سا چبوترہ بنا ہے اس کے پاس نماز ہوتی تھی۔ وہاں آپ نماز میں شامل ہوئے اورجب واپس گھر گئے تو تھوڑی دیر کے بعد اپنے کمرہ کے اندر سے مسکراتے ہوئے تشریف لائے اور فرمایا کہ نماز سے پہلے مَیں قرض لینے کی تجویز کر رہا تھا مگر نماز کے وقت ایک ایسے شخص نے جس کے کپڑے بہت میلے کچیلے سے تھے اور جس کے کپڑے پورے بھی نہ تھے اس نے مجھے ایک پوٹلی دی جس کے وزن سے مَیں نے اندازہ کیا کہ پیسے ہیں مگر مَیں نے آ کر دیکھا تو دو سو سے اوپر رقم اس پوٹلی میں سے نکلی ہے۔ تو معلوم نہیں وہ دینے والا کون تھا۔ مگر وہ وہی تھا جس کے دل میں اللہ تعالیٰ نے وحی کی۔ معلوم نہیں اس نے کن مصیبتوں سے یہ روپیہ جمع کیا ہو گا۔ شاید اس نے مکان بنانے کے لئے جمع کیا ہو یا کسی بچے کی شادی کے لئے یا کسی اَور غرض کے لئے مگر خدا تعالیٰ کے فرشتے اس کے پاس آئے اور کہا کہ ہم تمہیں ایک بہت ہی نفع مند سودا بتاتے ہیں۔ جاؤ اور خدا تعالیٰ کے مسیح کو یہ روپیہ دے آؤ چنانچہ وہ دے گیا۔ یہ وحی الٰہی ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مدد کے لئے خود دوسروں کو تحریکیں کرتا ہے۔ پس یہ مت سمجھو کہ ہمارا رزق ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہے۔ اگر توکل سے کام لو تو اللہ تعالیٰ ضرور کشائش کر دے گا۔ اگر رزق اپنے ہاتھ میں رکھو گے تو اتنا ہی پیدا کر سکو گےجتنا انسانی ہاتھ کر سکتے ہیں اور پھر اپنی زندگی تک ہی کر سکو گے مگر جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ہو جاتے ہیں خدا تعالیٰ ان کے لئے بہت زیادہ سامان کر دیتا ہے۔ حضرت داؤد ؑ نے فرمایا ہے کہ خدا کی قسم مَیں نے خدا تعالیٰ کے کسی نیک بندے کی سات پشتوں تک کسی کو فاقہ سے مرتے نہیں دیکھا۔
پس ہمارے تاجر یہ مت خیال کریں کہ وعظ و نصیحت کرنے سے ان کی تجارتوں کو نقصان پہنچے گا۔ تجارت بہت اعلیٰ چیز ہے مگر یہ ایمان کے نقصان کا موجب ہو جایا کرتی ہے۔ صحابہؓ میں سے بڑے بڑے تاجر تھے مگر وہ دینی خدمات میں بھی بہت بڑھے ہوئے تھے لیکن مجھے افسوس ہے کہ ہماری جماعت کے تاجر زیادہ اچھے نہیں۔ زمینداروں اور ملازموں کی نسبت ان کی قربانیاں بہت کم ہوتی ہیں۔ لیکن سب ہی ایسے نہیں، بعض تاجروں میں ایسے بھی ہیں کہ جو قربانی میں بہت ہی بڑھے ہوئے ہیں۔ مثلاً سیٹھ عبد اللہ الٰہ دین صاحب ہیں۔وہ دین کی راہ میں اپنے مال کی کوئی قیمت ہی نہیں سمجھتے اور دین کی راہ میں ایسا بے دریغ خرچ کرتے ہیں کہ کئی دفعہ مجھے ڈر پیدا ہؤا ہے کہ کہیں وہ اپنا کاروبار تباہ نہ کر لیں مگر اللہ تعالیٰ بھی خود ان کے لئے سامان پیدا کر دیتا ہے۔ اسی طرح سیٹھ عبد الرحمان حاجی اللہ رکھا تھے۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس قدر مالی خدمت کی کہ اپنی تجارت کو بھی تباہ کر لیا اور آخر میں ان کی مالی حالت بہت کمزور ہو گئی۔ اس وقت ان کے بعض دوست ان کی مدد کرتے تھے۔ ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام ایک غیر احمدی کا منی آرڈر آیا۔ جس نے لکھا تھا کہ سیٹھ عبد الرحمان میرے بڑے دوست ہیں۔ مجھے ان پر بہت حسن ظنی ہے اور ان کو بزرگ سمجھتا ہوں اور ان کا عقیدت مند ہوں۔ ایک روز مَیں نے ان کو بہت افسردہ دیکھا اور اس کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے کہا کہ جب میرے پاس روپیہ تھا تو مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدمتِ دین کے لئے بھیجا کرتا تھا مگر اب نہیں بھیج سکتا۔ ان کی اس بات کا میری طبیعت پر بڑا اثر ہؤا اور مَیں نے نذر مانی ہے کہ مَیں آپ کو دو یا تین سو روپیہ ماہوار بھیجا کروں گا۔ چنانچہ اس غیر احمدی نے آپ کو روپیہ بھیجنا شروع کر دیا۔ ایک دفعہ سیٹھ صاحب کی طرف سے ایک منی آرڈر آیا جو شاید تین یا چار سو کا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیکھا تو فرمایا یہ منی آرڈر سیٹھ صاحب کا ہے۔ ان کی مالی حالت تو بڑی خطرناک ہے۔ بعد میں ان کا خط آیا جس میں لکھا تھا کہ مجھ پر کچھ قرض ہو گیا تھا جسے اتارنے کے لئے مَیں نے کسی دوست سے کچھ روپیہ لیا۔ پھر مجھے خیال آیا کہ کچھ آپ کو بھی بھیج دوں چنانچہ کچھ تو قرض اتار دیا اور کچھ آپ کو بھیج رہا ہوں۔ (مجھے یاد نہیں کہ یہ رقم تین سو تھی یا چار سو) پس مَیں اپنی جماعت کے تاجروں سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے ایمان کے نام پر بٹہ نہ لگائیں۔ عام طور پر ہمارے تاجر اتنی قربانیاں نہیں کرتے جتنی زمیندار اور ملازم وغیرہ کرتے ہیں بلکہ بعض صورتوں میں تو وہ دس دس ، پندرہ پندرہ روپیہ ماہوار کے ملازموں کے برابر بھی نہیں کرتے۔ بہرحال ان کے حقوق ہی نہیں، ان پر کچھ ذمہ داریاں بھی ہیں۔ انہیں چاہئے کہ انہیں ادا کریں اور ان کا فرض ہے کہ اَوروں کی طرح وہ بھی اس مہینہ کا خاص طور پر احترام کریں تاکہ یہ ان کے لئے بھی اور دوسروں کے لئے بھی اچھا گزرے۔‘‘ (الفضل 25 ستمبر 1942ء)
1: البقرة: 186
2: لَا يَسْـَٔلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا (البقرة: 274)
3: بخاری کتاب الرقاق باب کَیْفَ کَانَ عَیْش النَّبِیِّ ﷺ و اصحابہ (الخ)
4: تذکرہ صفحہ 50 ایڈیشن چہارم

31
ہماری جماعت کے ہر شخص کا فرض ہے کہ ان ایام میں راتوں کو اٹھے اور دعائیں کرے
( فرمودہ 25 ستمبر 1942ء )

تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’رمضان اور دعا کا ایک خاص تعلق ہے اور مَیں آج اس سلسلہ میں بعض باتیں بیان کرنا چاہتا تھا لیکن میری طبیعت آج خراب ہے اور صبح سے سوزشِ امعاء کی تکلیف معلوم ہو رہی ہے۔ اس وجہ سے مَیں زیادہ نہیں بول سکتا۔ صرف جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ جیسا کہ بار بار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے بھی توجہ دلائی ہے اور پھر آپ کے بعد جماعت کے خلفاء کی طرف سے بھی اور جماعت کے علماء کی طرف سے بھی یہ بات واضح کی جاتی رہی ہے۔
رمضان کے ایام دعاؤں کی قبولیت کے لئے خصوصیت رکھتے ہیں اور ان ایام میں مومنوں کی دعائیں بہت زیادہ قبول ہوتی ہیں۔ بڑی بات تو یہ ہے کہ اسلام نے یہ اصل تسلیم کیا ہے کہ جس امر پر جماعت کی کثرت متفق ہو اور اس کی اکثریت کی آواز اس کے ساتھ شامل ہو۔ اللہ تعالیٰ بھی اسے وقعت دیتا ہے اور جماعت کی کثرت کی آواز کو اپنی ہی آواز قرار دیتا ہے۔ خلافت کوہی دیکھ لو۔ جس شخص کو مومنوں کی جماعت کی اکثریت خلافت کے لئے منتخب کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنا منتخب کردہ خلیفہ قرار دیتا اور اس طرح جماعت کی کثرت کی آواز کو اپنی ہی آواز سمجھتا ہے۔ رسول کریم ﷺ بھی فرماتے ہیں مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبْرًا فَلَیْسَ مِنَّا 1 جو شخص ایک بالشت بھر بھی جماعت سے الگ ہو گیا۔ اس کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں گویا محمد رسول اللہ ﷺ بھی جماعت کو اتنا ضروری قرار دیتے ہیں کہ اس سے کسی کی ذرا بھی علیحدگی برداشت نہیں کر سکتے اور فرماتے ہیں۔ اگر کوئی شخص ایک بالشت بھر بھی جماعت سے الگ ہؤا تو اس کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہ رہا۔ اس حدیث کا بھی یہی مفہوم ہے کہ جس بات پر حقیقی مسلمانوں کا سَوادِ اعظم جمع ہو جائے وہ خدا کی اپنی آواز ہوتی ہے۔ اسی طرح جس دعا میں جماعت کی اکثریت مشغول ہو جائے اور چھوٹے اور بڑے متفقہ طور پر اللہ تعالیٰ سے مانگنے لگیں۔ اس پر بھی قبولیت کی مہر لگ جاتی ہے اور ایسی دعا عام طور پر رد نہیں کی جاتی۔ چونکہ ان ایام میں بڑے اور چھوٹے، طاقتور اور کمزور سارے ہی رات کو اٹھنے کی کوشش کرتے اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے ہیں اِلَّا مَا شَاءَ اللہُ۔ اس لئے ان دنوں کی دعائیں ایسی ہی ہوتی ہیں جیسے الہامی دعائیں ہوتی ہیں۔ جس طرح مسلمانوں کے سوادِ اعظم کی آواز کو اللہ تعالیٰ اپنی آواز قرار دیتا ہے۔ اسی طرح جب وہ اکٹھے ہو کر اللہ تعالیٰ سےدعائیں مانگتے ہیں تو ان کی دعا ئیں الہامی رنگ اختیار کر لیتی ہیں اور وہ اور دعاؤں کی نسبت بہت زیادہ قبول ہوتی ہیں۔ اس لئے ان ایام میں ایسی دعاؤں پر خصوصیت سے زور دینا چاہئے۔ جن کا قومی اور مذہبی لحاظ سے ہماری جماعت کو فائدہ ہو سکتا ہو۔ لوگ اگرچہ عام طور پر ان ایام میں رات کو اٹھنے کی کوشش کیا کرتے ہیں لیکن جیسا کہ پچھلے جمعہ میں بھی مَیں نے بیان کیا تھا۔ دوستوں کو اس بارے میں زیادہ تعہّد سے کام لینا چاہئے اور کسی قسم کی غفلت کا ارتکاب نہیں کرنا چاہئے۔ ہر جماعت کے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ ان ایام میں راتوں کو اٹھے اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرے تاکہ ہماری آواز اسلامی سوادِ عظم کی آواز بن سکے۔ اگر ہماری جماعت کی اکثریت دعاوں سے کام نہیں لے گی تو ہماری آواز خدائی آواز قرار نہیں پائے گی مثلاً اگر سو احمدی ہوں اور ان میں سے صرف بیس احمدی رات کو اٹھ کر دعائیں کرتے ہوں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ ہم نے ان ایام میں اپنی آواز کو خدائی آواز نہیں بنایا کیونکہ جماعت کی کثرت دعاؤں کے لئے نہیں اٹھی صرف اسی صورت میں جماعت کی آواز اللہ تعالیٰ اپنی آواز سمجھتا ہے۔ جب اس کی اکثریت اس آواز میں شامل ہو۔ اگر پچاس فی صدی سے زیادہ احمدی آجکل رات کو تہجد کے لئے اٹھیں اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں کریں تو چونکہ یہ تعداد نہ اٹھنے والوں سے زیادہ ہو گی۔ اس لئے ان کی آواز اسلامی سواد اعظم کی آواز قرار پائے گی اور اللہ تعالیٰ ان کی آواز کو اپنی آواز قرار دے کر انہیں جلد قبول فرما لے گا لیکن اگر تھوڑی تعداد میں لوگ اٹھیں گے تو ان کی دعاؤں سے یہ نتیجہ حاصل نہیں ہو سکے گا جب تک جماعت میں یہ روح قائم رہے گی کہ اس کے مرد اور اس کی عورتیں اور اس کے بچے 50 فیصدی سے زیادہ راتوں کو اٹھیں گے اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں کریں گے اس وقت تک یقیناً ان کی دعائیں انفرادی دعاؤں سے بہت زیادہ برکات کا موجب ہوں گی اور ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیر معمولی قبولیت کا شرف حاصل ہو گا۔
پس ان ایام میں دن رات دعاؤں سے کام لو اور چونکہ یہ اجتماعی دعاؤں کے دن ہیں۔ اس لئے گو اپنے لئے بھی دعائیں کرو۔ اپنے عزیز و اقارب کے لئے بھی دعائیں کرو اور تمہیں جو جو ضرورتیں پیش آئیں وہ سب اللہ تعالیٰ سے مانگو لیکن بعض دعائیں ایسی ہیں جو ہر شخص مانگ سکتا ہے۔ ہر فرد دوسرے تمام افراد کے لئے دعا نہیں کر سکتا۔ کوئی کسی غرض کے لئے دعا کرتا ہے اور کوئی کسی غرض کے لئے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے بعض دعائیں ایسی رکھی ہیں جو ہر شخص مانگ سکتا ہے اور نہ صرف مانگ سکتا ہے بلکہ اسے مانگنی چاہییں مثلاً اسلام اور احمدیت کی ترقی کی دعا، تقویٰ اللہ کے حصول کی دعا، سلسلہ کی اشاعت اور اس کے نظام کے استحکام کی دعا، یہ دعا کہ ہم سب کو اللہ تعالیٰ کے منشاء اور اس کی مرضی کے مطابق کام کرنے کی توفیق ملے اورہمارا کوئی قدم اس کے احکام کے خلاف نہ اٹھے۔ اسی طرح جو لوگ سلسلہ کی خدمت کر رہے ہیں ان کے لئے دعا۔ یہ دعائیں ہیں جو ہم میں سے ہر شخص کو ہر روز کرنی چاہییں اور کبھی بھی ان سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔ اسی طرح آجکل سینکڑوں نہیں، ہزاروں احمدی لڑائی میں گئے ہوئے ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسی جگہ ہو جہاں بڑی تعداد میں احمدی رہتے ہوں او روہاں سے کوئی احمدی لڑائی میں نہ گیا ہو۔ پھر بہت سے احمدی ہیں جو لڑائی کی وجہ سے آجکل قید ہیں اسی طرح ہمارے کئی مبلّغ قید میں یا قید نما حالت میں ہیں۔ ان میں سے دس بارہ تو مشرقی ایشیا میں ہی ہیں مثلاً مولوی رحمت علی صاحب ،مولوی شاہ محمد صاحب، ملک عزیز احمد صاحب، مولوی محمد صادق صاحب ، مولوی غلام حسین صاحب،ان کے علاوہ کچھ لوکل مبلّغ ہیں جو پانچ سات ہیں جن میں سے بعض کو یہاں سے مقرر کیا گیا تھا اور بعض کو وہاں کی جماعتوں نے اپنا مبلّغ بنا لیا تھا۔ ان تمام مبلغین کے متعلق نہ ہمیں کوئی خبر ہے نہ اطلاع۔ اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم ان سب کو اپنی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں کیونکہ وہ ہماری طرف سے ان ممالک میں تبلیغ اسلام کے لئے گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے بعض باتوں کو فرض کفایہ قرار دیا ہے اور تبلیغ بھی انہی میں سے ایک ہے یعنی اگر قوم میں سے کوئی شخص بھی تبلیغ نہ کرے تو ساری قوم گنہگار اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کی مورد ہو گی لیکن اگر کچھ لوگ تبلیغ کے لئے کھڑے ہو جائیں تو باقی قوم گنہگار نہیں ہو گی۔ پس اگر یہ لوگ تبلیغ کے لئے غیر ممالک میں نہ جاتے تو احمدیہ جماعت اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں گنہگار ٹھہرتی اور وہ اس کے عذاب کی مورد بن جاتی۔ کیونکہ وہ کہتا کہ اس قوم نے تبلیغ کو بالکل ترک کر دیا ہے جیسے مسلمانوں کی حالت ہے کہ جب انہوں نے فریضہ تبلیغ کی ادائیگی میں کوتاہی سے کام لیا اور ان میں ایسے لوگ نہ رہے جو اپنے وطنوں کو چھوڑ کر اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر اور اپنے آرام و آسائش کے سامانوں کو چھوڑ کر غیر ممالک میں جائیں اور لوگوں کو داخلِ اسلام کریں تو وہ موردِ عذاب بن گئے۔ پس جن لوگوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کو اپنی خاص رحمتوں کا مورد بنا یا ہؤا ہے یقیناً ان کا حق ہے کہ ہم انہیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ ان کے لئے دعا کرنا اپنی ذاتی دعاؤں پر مقدم سمجھیں اور متواتر الحاح اور عاجزی سے ان کی صحت اور سلامتی اور ان کے رشتہ داروں کی صحت اور سلامتی کے لئے دعائیں کریں۔ اسی طرح اور بہت سے مبلّغ ہیں جن کی قربانیوں کا صحیح اندازہ ہماری جماعت کے دوست نہیں لگا سکتے۔ بالخصوص دو مبلّغ تو ایسے ہیں جو شادی کے بہت تھوڑا عرصہ بعد ہی تبلیغ کے لئے چلے گئے اور اب تک باہر ہیں۔ ان میں سے ایک دوست تو نو سال سے تبلیغ کے لئے گئے ہوئے ہیں۔ حکیم فضل الرحمان صاحب ان کا نام ہے۔ انہوں نے شادی کی اور شادی کے تھوڑے عرصہ کے بعد ہی انہیں تبلیغ کے لئے بھجوا دیا گیا۔ وہ ایک نوجوان اور چھوٹی عمر کی بیوی کو چھوڑ کر گئے تھے مگر اب وہ آئیں گے تو انہیں ادھیڑ عمر کی بیوی ملے گی۔ یہ قربانی کوئی معمولی قربانی نہیں۔ میرے نزدیک تو کوئی نہایت ہی بے شرم اور بے حیا ہی ہو سکتا ہے جو اس قسم کی قربانیوں کی قیمت کو نہ سمجھے اور انہیں نظر انداز کر دے۔ اسی طرح مولوی جلال الدین صاحب شمس ہیں۔ انہوں نے بڑی عمر میں شادی کی اور دو تین سال بعد ہی انہیں تبلیغ کے لئے بھیج دیا گیا ۔ ان کے ایک بچے نے اپنے باپ کو نہیں دیکھا اورباپ نہیں جانتا کہ میرا بچہ کیسا ہے سوائے اس کے کہ تصویروں سے انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھ لیا ہو۔ وہ بھی کئی سال سے باہر ہیں اور اب تو لڑائی کی وجہ سے ان کا آنا اور بھی مشکل ہے۔ قائمقام ہم بھیج نہیں سکتے اور خود وہ آ نہیں سکتے کیونکہ راستے مخدوش ہیں۔ اس لئے ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ کب واپس آئیں گے لڑائی ختم ہو اور حالات اعتدال پر آئیں تو اس کےبعد ان کا آنا ممکن ہے اور نہ معلوم اس میں ابھی اور کتنے سال لگ جائیں۔ ان لوگوں کی ان قربانیوں کا کم سے کم بدلہ یہ ہے کہ ہماری جماعت کا ہر فرد دعائیں کرے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی حفاظت اور پناہ میں رکھے۔ اور ان کے اعزّہ اور اقربا ء پر بھی رحم فرمائے۔ مَیں تو سمجھتا ہوں جو احمدی ان مبلغین کو اپنی دعاؤں میں یاد نہیں رکھتا اس کے ایمان میں ضرور کوئی نقص ہے اور مجھے شبہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے ایمان میں خلل واقع ہو چکا ہے۔ اسی طرح اور بھی کئی مبلغین ہیں جن کی قربانی گو اس حد تک نہیں مگر پھر بھی وہ سالہا سال سے اپنے اعزّہ اور رشتہ داروں سے دور ہیں اور قسم قسم کی تکالیف برداشت کر رہے ہیں۔ ان مبلّغین میں سے مغربی افریقہ کے دو مبلّغ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ ایک مولوی نذیر احمد صاحب (ابن بابو فقیر علی صاحب)اور دوسرے مولوی محمد صدیق صاحب۔یہ لوگ ایسے علاقوں میں ہیں جہاں سواریاں مشکل سے ملتی ہیں۔ کھانے پینے کی چیزیں بھی آسانی سے میسر نہیں آتیں، رستہ میں کبھی ستّو پھانک کر گزارہ کر لیتے ہیں اور کبھی کوئی پھل کھا لیتے ہیں پھر انہیں سینکڑوں میل کے دورے کرنے پڑتے ہیں اور ان دوروں کا اکثر حصہ وہ پیدل طے کرتے ہیں۔ یہ قربانیاں ہیں جو سالہا سال سے یہ لوگ کر رہے ہیں۔ چیف اور رؤساء ان کا مقابلہ کرتے ہیں۔ بعض دفعہ (گو ہمیشہ نہیں) گورنمنٹ بھی ان کے راستہ میں روڑے اٹکاتی ہے۔ عام پبلک اور مولوی بھی مقابلہ کرتے رہتے ہیں لیکن ان تمام روکوں کے باوجود وہ مختلف علاقوں میں جماعتیں قائم کرتے اور خانہ بدوشوں کی طرح دین کی اشاعت کے لئے پھرتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ ایسے نہیں کہ جماعت ان کی قربانیوں کے واقعات کو تسلیم کرنے سے انکار کر سکے۔ مَیں ‘‘قربانیوں کے واقعات کو تسلیم’’ کی بجائے ‘‘ان کے احسانات کو تسلیم کرنے’’ کے الفاظ استعمال کرنے لگا تھا مگر پھر مَیں نے لفظِ احسان اپنی زبان سے نہیں نکالا کیونکہ دین کے لئے قربانی کرنا ہر مومن کا فرض ہے۔ اسی لئے مَیں نے کہا ہے کہ جماعت ان لوگوں کی قربانیوں کو تسلیم کرنے سے انکار نہیں کر سکتی لیکن بہرحال اس میں کیا شبہ ہے کہ جو کام یہ لوگ کر رہے ہیں ۔ وہ ساری جماعت کا ہے اور اس لحاظ سے جماعت کے ہر فرد کو اپنی دعاؤں میں ان مبلّغین کو یاد رکھنا چاہئے۔
اسی طرح اور مبلّغ دوسرے مختلف ممالک میں اخلاص اور قربانی سے کام کر رہے ہیں۔ صوفی مطیع الرحمان صاحب امریکہ میں کام کر رہے ہیں اور بعض مشکلات میں ہیں۔ مولوی مبارک احمد صاحب مشرقی افریقہ میں کام کر رہے ہیں ۔ مولوی رمضان علی صاحب ساؤتھ امریکہ میں کام کر رہے ہیں۔ چوہدری محمد شریف صاحب فلسطین اور مصر میں کام کر رہے ہیں۔ حکیم فضل الرحمان صاحب کا ذکر مَیں پہلے کر چکا ہوں۔ ان کے علاوہ مولوی نذیر احمد صاحب مبشر سیالکوٹی آجکل گولڈ کوسٹ میں کام کر رہے ہیں۔یہاں گو جماعتیں پہلے سے قائم ہیں مگر وہ اکیلے کئی ہزار کی جماعت کو سنبھالے ہوئے ہیں پھر ان کی قربانی اس لحاظ سے بھی خصوصیت رکھتی ہے کہ وہ آنریری طور پر کام کر رہے ہیں۔ جماعت ان کی کوئی مدد نہیں کرتی وہ بھی سات آٹھ سال سے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں سے جدا ہیں بلکہ تبلیغ پر جانے کی وجہ سے وہ اپنی بیوی کا رخصتانہ بھی نہیں کرا سکے۔
ہمارے دوست بعض دفعہ مختلف لوگوں کے اعتراضات سے ڈر کر اور بعض دفعہ پیغامیوں کے اس اعتراض سے گھبرا کر کہ جماعت احمدیہ قادیان تبلیغ نہیں کرتی، خیال کرنے لگ جاتے ہیں کہ شاید یہ اعتراض درست ہے حالانکہ ہماری جماعت کے مبلغین کی قربانیوں کو اگر دیکھا جائے تو ان کی مثال سوائے قرونِ اولیٰ کے اور کہیں دکھائی نہیں دے سکتی۔ پیغامیوں کی تبلیغ تو اس کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسے سورج کے مقابلہ میں ذرّہ ۔ مَیں نے جو مثالیں پیش کی ہیں۔ ان کے مقابلہ میں پیغامی کوئی ایک ہی مثال پیش کر کے دکھائیں؟ ان میں کہاں جرأت ہے کہ وہ ہندوستان سے بغیر خرچ کے غیر ممالک میں تبلیغ کے لئے جائیں اور اپنا گزارہ تجارت وغیرہ کے ذریعہ کریں۔ اسی طرح ان میں کوئی ایسی مثال نہیں مل سکتی کہ کسی شخص کی نئی نئی شادی ہوئی ہو اور وہ اپنی بیوی کو چھوڑ کر اعلاءِ کلمۂ اسلام کے لئے نکل گیا ہو اور پھر اسے واپس آنے کا اس وقت موقع ملا ہو جب اس کی بیوی ادھیڑ عمر کے قریب پہنچ چکی ہو۔ اس قسم کی قربانیوں کا موقع اللہ تعالیٰ نے صرف ہماری جماعت کو ہی دیا ہے۔
پس نہایت ہی بے شرم وہ لوگ ہیں جو ہماری جماعت پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ہم تبلیغ نہیں کرتے اور نہایت ہی بے وقوف وہ لوگ ہیں جو اس اعتراض سے ڈر کر اپنے مبلغوں کی قربانیوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن سے سلسلہ کی عزت ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو حقیقی ایمان کا مظاہرہ کرنے والے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جن کے متعلق جماعت کا فرض ہے کہ ان کی قدر کرے۔ مَیں یہ نہیں کہتا، آپ لوگوں میں اَور ایسے نہیں ہیں۔ ممکن ہے آپ لوگوں میں سے بھی سینکڑوں ایسے ہوں جو اسی رنگ میں اپنے ایمان کا مظاہرہ کرنے کے لئے تیار ہوں اور وقت آنے پر وہ ثابت کر دیں کہ وہ بھی اپنے ان بھائیوں سے اخلاص اور قربانی میں کم نہیں مگر اپنے ایمان اور اخلاص کا نمونہ دکھانے کا ان کو موقع ملا ہے، آپ کو نہیں۔ اس لئے دنیا کے سامنے آپ کی مثال پیش نہیں کی جا سکتی، انہی لوگوں کی پیش کی جا سکتی ہے۔
پس ان ایام میں ان لوگوں کے لئے خصوصیت سے دعائیں کرنی چاہئیں۔ اسی طرح احمدیت کی عظمت اور ترقی اور جماعت کے اندر سے ہر قسم کی منافقت کے دور ہونے کے متعلق دعائیں کرنی چاہئیں۔ منافق کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے طاعون یا ہیضہ کا کوئی مریض ہوتا ہے بظاہر وہ ایک مریض ہوتا ہے مگر سارے گاؤں کی صفائی کر دیتا ہے۔ اس طرح منافق ایک جگہ پیدا ہوتا ہے لیکن اس کا رنگ آہستہ آہستہ دوسروں پر چڑھنا شروع ہو جاتا ہے یہاں تک کہ سینکڑوں منافق بن جاتے ہیں۔ ہماری جماعت کے دوستوں کو چاہئے کہ اس قسم کی وباء سے بچنے کے لئے بھی کثرت سے دعائیں کریں۔ مسلمانوں کی تباہی کا بہت بڑا سبب یہی ہؤا کہ ان میں منافق پیدا ہوئے جنہوں نے ان کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا۔ ہم میں بھی منافق ہوئے ہیں، منافق ہیں ، اور منافق ہوں گے۔ جس طرح صحابہؓ میں منافق تھے۔ اس لئے ہمیں اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرنی چاہئیں کہ وہ اپنے فضل سے ان کے بد اثرات کو دور کرے۔ ان کے زہر کو پھیلنے نہ دے اور جماعت کے دلوں کو ایسا قوی اور مضبوط بنا دے کہ کسی منافق کی بات کا ان پر اثر نہ ہو۔ اگر ہماری جماعت کے دوست اس رنگ میں دعائیں نہیں کریں گے، تو ہو سکتا ہے کہ کسی وقت ہم پر یا ہماری اولاد پر یا ہماری بیویوں اور بچوں پر یا ہمارے بھائیوں اور بہنوں پر وہی رنگ چڑھ جائے اور منافقت کا بیج بڑھتے بڑھتے جماعت کے ایک معتد بہ حصہ کو کھا جائے۔
پس اپنے لئے بھی دعائیں کرو اور سلسلہ کی ضروریات اور اسلام کی ترقی کے لئے بھی دعائیں کرو۔ بے شک دعا کا مفہوم اتنا وسیع ہے کہ اگر انسان دل لگا کر دعا کرے تو بعض دفعہ ایک ایک دعا پر ہی کئی گھنٹے صرف ہو جاتے ہیں لیکن کسی دن کسی امر پر زور دے دیا جائے اور کسی دن کسی امر پر۔ تو یہ مشکل حل ہو سکتی ہے۔ خدا تعالیٰ نے دعاؤں کے لئے ایک مہینہ رکھا ہے اور اگر انسان ایک ایک امر کے متعلق ہی روزانہ دعا میں زور دے تو کوئی دعا باقی نہیں رہ جاتی۔ ‘‘ (الفضل یکم اکتوبر 1942ء )
1: مسلم کتاب الامارة باب وجوب ملازمة جماعة المسلمین (الخ) میں یہ الفاظ ہیں ’’ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبْرًا فَمَاتَ فَمِیْتَةٌ جَاھِلِیَّةٌ ‘‘

32
اللہ تعالیٰ کے ساتھ عاشقانہ تعلق پیدا کرنے کے لئے رمضان کے آخری عشرہ سے فائدہ اٹھاؤ
( فرمودہ 2 اکتوبر 1942ء )

تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’رمضان کا آخری عشرہ کل سے شروع ہو رہا ہے۔ یہ عشرہ اس لحاظ سے ایک خصوصیت رکھتا ہے کہ لَیْلَةُ الْقَدْراکثر صوفیاء اور رحمانی علماء کے نزیک اسی عشرہ میں آتی ہے۔ رسول کریم ﷺ ایک دفعہ گھر سے باہر تشریف لائے تو دیکھا کہ دو آدمی مسجد میں جھگڑ رہے ہیں اور آپس کے جھگڑے میں ان کی آوازیں اتنی اونچی ہو گئی تھیں اور ایسا شور تھا کہ آپ کی توجہ ان کی باتوں کی طرف پھر گئی۔ آپؐ نے ان دونوں کو ٹھنڈا کیا، ان کی صلح کرائی اور پھر فرمایا کہ مَیں گھر سے باہر اس لئے نکلا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا تھا کہ لَیْلَةُ الْقَدْرفلاں رات کو ہے اور مَیں یہ بتانے کے لئے گھر سے نکلا تھا لیکن باہر نکل کر ان دونوں کو جھگڑتےدیکھا اور ان کے جھگڑنے کی آواز سن کر اور ان کی شورش کو دیکھ کر میری توجہ اس طرف سے ہٹ گئی اور نتیجہ یہ ہؤا کہ وہ رات مجھے بھول گئی اور آپ ؐ نے فرمایا کہ اب مَیں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ تم اسے رمضان کے آخری عشرہ کی راتوں میں تلاش کرو۔ 1 اس روایت سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ لَیْلَةُ الْقَدْرضرور رمضان کے آخری عشرہ میں اوران میں سے بھی طاق راتوں میں آتی ہے۔ لیکن جہاں تک اس حدیث کا سوال ہے اس سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ہمیشہ کے لئے لَیْلَةُ الْقَدْر آخری دس راتوں میں ہی ہؤا کرے گی۔ اس سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ اس سال لَیْلَةُ الْقَدْرآخری دس راتوں میں تھی۔ یہ کہ وہ ہمیشہ آخری دس راتوں میں ہی ہؤا کرے گی یہ اس حدیث سے ثابت نہیں ۔ ہاں بعض اور ایسی باتیں ہیں جو کم سے کم اس بات کے سمجھنے میں مدد دیتی ہیں کہ لَیْلَةُ الْقَدْراکثر اوقات آخری عشرہ میں ہی ہؤا کرتی ہو گی یا ہونی چاہئے۔ اور ایک بات ان میں سے یہ ہے کہ ہر عقلمند انسان سمجھ سکتا ہے کہ انسانی عمل کا آخری حصہ زیادہ جاذب فضل ہوتا ہے مثلاً ایک شخص کسی سے تعلق اور محبت پیدا کرنے کے لئے اس کی خدمت کرتا ہے اور پانچ یا دس مواقع اس کی خدمت کے حاصل کر لیتا ہے تو ہر موقع اس کےساتھ مخدوم کی محبت کو بڑھانے کا موجب ہو گا۔ پہلی خدمت بھی اس کے دل پر اثر کرے گی لیکن دوسری خدمت اَور بھی زیادہ کرے گی کیونکہ دوسری خدمت اپنی ذات میں بھی اثر کرے گی اور ساتھ پہلی خدمت کو بھی یاد دلائے گی۔ وہ خیال کرے گا کہ اس شخص نے میری خدمت کی ہے اور پھر یہ پہلی خدمت نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی ایک بار اس نے میری خدمت کی ہے اوراس میں کیا شک ہے کہ تیسری خدمت کے نتیجہ میں مخدوم کے دل میں اس کی محبت اَور بھی بڑھ جائے گی اس لئے کہ وہ سوچے گا کہ اس شخص نے میری خدمت کی ہے اور پھر یہ پہلی خدمت نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی دو بار یہ میری خدمت کر چکا ہے۔ فلاں موقع پر بھی اس نے میری خدمت کی تھی اور اس کے بعد پھر فلاں موقع پر بھی کی تھی اور اس طرح اس کے دل میں اَور بھی زیادہ محبت کا جذبہ پیدا ہو گا۔ اسی طرح چوتھی خدمت پہلی تین خدمات کو بھی یاد دلائے گی اور اس طرح متواتر خدمات سے مخدوم کو اس سے محبت بڑھتی جائے گی۔ اسی نقطۂ نگاہ سے اگر رمضان کو دیکھیں کہ گو پہلا روزہ انسان کو خدا تعالیٰ کے قریب کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ میرا یہ بندہ آج میرے لئے بھوکا اور پیاسا ہے لیکن دوسرا روزہ اَور بھی زیادہ قرب کا موجب ہو جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ یہ آج ہی میرے لئے بھوکا اور پیاسا نہیں بلکہ کل بھی تھا ، یہ آج ہی رات کو نہیں اٹھا کل بھی اٹھا تھا اور جب تیسرا روزہ آئے گا تو یہ تعلق اَور بھی بڑھے گا اور جب چوتھا روزہ آئے گا تو اللہ تعالیٰ کہے گا کہ میرا یہ بندہ آج بھی بھوکا ہے، آج بھی یہ رات کو اٹھا ہے، آج بھی اس نے دعائیں کی ہیں مگر آج ہی نہیں، کل بھی، پرسوں بھی اور ترسوں بھی یہ میرے لئے بھوکا رہا تھا، راتوں کو اٹھا تھا اور دعائیں کی تھیں۔ اور اس طرح ہر روزہ اللہ تعالیٰ کے حضور اس کی عزت اور رتبہ کو بڑھاتا جائے گا۔ ادھر تو یہ کیفیت ہو گی جو لازمی طور پر ثابت کرتی ہے کہ آخری روزوں میں اللہ تعالیٰ کا فضل زیادہ ہونا چاہئے اور دوسری طرف بندے کی حالت بھی ایسی ہو جاتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو زیادہ جذب کر سکتا ہے۔ انسان پہلا روزہ رکھتا ہے تو کہتا ہے ابھی بڑی منزل ہے، پھر دوسرا رکھتا ہے تو گو دعائیں بھی کرتا ہے مگر دل میں سمجھتا ہے کہ مجھے دو روزے رکھنے کی توفیق مل گئی ہے اورمَیں نے فرض کا پندرھواں حصہ پورا کر دیا لیکن ابھی بہت سے روزے باقی ہیں جن میں مَیں عبادت کر سکتا ہوں اور دعاؤں کی توفیق پا سکتا ہوں۔ پھر وہ تیسرا روزہ رکھتا اور دعائیں کرتا ہے اور کہتا ہے کہ آج مَیں نے اپنے اس فرض کا دسواں حصہ ادا کر دیا مگر پھر بھی بڑا موقع باقی ہے۔ پھر پانچ روزے رکھ لیتا تو کہتا ہے کہ مَیں نے چھٹا حصہ ادا کر دیا مگر ابھی بڑے دن پڑے ہیں۔ پھر دس پورے ہوتے ہیں تو وہ سمجھتا ہے، مَیں نے تیسرا حصہ پورا کر دیا مگر ابھی دعاؤں کے لئے بہت دن باقی ہیں پھر جب بیس روزے پورے ہوتے ہیں تو انسان کہتا ہے تین میں سے دو حصے گزر گئے اور وہ سوچتا ہے کہ دو حصوں میں مَیں نے خدا تعالیٰ کا کتنا فضل حاصل کیا۔ بسا اوقات انسان اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھتا بھی ہے اور بسا اوقات اپنے کو بالکل تہی دست پاتا ہے۔ تب وہ سوچتا ہے کہ اب صرف دس دن رہ گئے ہیں۔ اگر یہ بھی یونہی گزر گئے تو معلوم نہیں دعاؤں کی قبولیت کے یہ دن پھر کبھی میسر آ سکیں یا نہ آ سکیں۔ خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے لئے ان دنوں میں جتنا ہو سکے زور لگا لینا چاہئے۔ تب وہ گھبرا کر اور کمر ہمت کَس کر عبادت کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے۔ غرض جس طرح مَیں نے بتایا ہے کہ خدا تعالیٰ کے حضور اس کی عزت اور رتبہ بڑھتا جاتا ہے۔ جب وہ اکیسواں روزہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میرا یہ بندہ اس سے پہلے بھی بیس روزے رکھ چکا ہے۔ اسی طرح جوں جوں رمضان خاتمہ کے قریب پہنچتا ہے، بندے کی گھبراہٹ بھی بڑھتی جاتی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اگر اب ان دنوں سے بھی فائدہ نہ اٹھا سکا تو مجھ سے زیادہ بدبخت کون ہو گا کہ روزے آئے، گزر گئے اور مَیں یونہی محروم رہا اور یہ دونوں چیزیں مل کر لازمی طور پر رمضان کے آخری دنوں کو خدا تعالیٰ کے افضال کا زیادہ جاذب بنا دیتی ہیں اور قیاس کہتا ہے کہ لَیْلَةُ الْقَدْرانہی راتوں میں ہونی چاہئے مگر خدا تعالیٰ کی قدرتیں غیر محدود ہیں اور اس کی باریک مصلحتوں کو انسان کہاں سمجھ سکتا ہے۔ وہ چاہے تو استثنائی صورتیں بھی ہو سکتی ہیں اورلَیْلَةُ الْقَدْر پہلی راتوں میں بھی ہو سکتی ہے۔ فرض کرو۔ اللہ تعالیٰ کا کوئی نیک بندہ لَیْلَةُ الْقَدْرسے فائدہ اٹھانا چاہتا اور دعائیں کرنا چاہتا ہے تا اس کے عزیزوں، دوستوں، رشتہ داروں اس کے مذہب و قوم اور ملک و ملت کو فائدہ پہنچے مگر رمضان میں اسے سفر پیش آ جاتا ہے۔ فرض کرو اس نے سات یا آٹھ روزے رکھے اور پھر اسے سفر پیش آ گیا اور سفر میں روزہ وہ رکھ نہیں سکے گا۔ اس لئےوہ ساتویں یا آٹھویں رات کو ہی کہتا ہے کہ آج کی رات کا اٹھنا آخری اٹھنا ہے۔ آخری عشرہ میں روزوں کی دعاؤں کا تو مجھے موقع مل نہیں سکے گا۔ میرے لئے آج کی رات ہی روزوں کی آخری رات ہے۔ آج خوب دعائیں کر لیں اوروہ خوب گڑ گڑا کر اور رو رو کر دعائیں کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کو حکم دے دیتا ہے کہ میرا یہ بندہ مجھے اتنا پیارا ہے کہ اس کی دعا مجھے دنیا کی دعاؤں سے زیادہ محبوب ہے۔ اس لئے آٹھویں یا ساتویں رات کو ہی لَیْلَةُ الْقَدْربنا دو۔ اللہ تعالیٰ اس کی دعاؤں کو خاص طور پر قبول کرنے اور اسے دعاؤں کا خاص موقع دینے کے لئے ساتویں یا آٹھویں رات کو ہی لَیْلَةُ الْقَدْر بنا سکتا ہے۔
اسی رمضان کی ساتویں یا آٹھویں رات کا واقعہ ہے۔ اسی کی وجہ سے میرے مُنہ سے مِثالًا بھی ساتویں یا آٹھویں رات ہی نکلا کہ مَیں نماز فجر کے لئے مسجد میں آیا تو عبد الاحد خان صاحب افغان نے کہا کہ معلوم ہوتا ہے آج لَیْلَةُ الْقَدْرتھی۔ مَیں نے کہا کیوں تو انہوں نے کہا کہ رات بارش بھی تھی اور بجلی بھی چمکتی رہی ہے۔ مَیں نے ان کی اس بات کو یوں ہی ہنسی میں ٹال دیا اور کہا کہ اگر لَیْلَةُ الْقَدْرکی یہی علامت ہوتی ہےتو آئندہ دو چار سال کے بعد رمضان برسات کے موسم میں آئے گا تو پھر تو ہر شب ہی لَیْلَةُ الْقَدْر ہؤا کرے گی۔ لیکن جب مَیں گھر واپس آیا تو میری توجہ اس امر کی طرف پھری کہ اس رات جو دعائیں مَیں نے مانگیں یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ الہامی دعائیں ہیں، غیر معمولی باتیں اور امور میرے ذہن میں آتے گئے اور مَیں گھنٹوں دعائیں مانگتا رہا اور پھر بھی وہ ختم ہونے میں نہ آتی تھیں اور ایسی ایسی ضرورتوں کے متعلق بھی دعائیں تھیں کہ جو پہلے ذہن میں نہ تھیں اور یہ یاد کر کے مَیں نے کہا کہ خدا تعالیٰ کی قدرت سے یہ کوئی بعید نہیں کہ آج کی رات ہی لَیْلَةُ الْقَدْر ہو۔ بہرحال خدا تعالیٰ نے اسے مخفی رکھا ہے تا اس کے بندے ڈھونڈنے میں لگے رہیں اور صحیح بات تو یہ ہے کہ جو چیز ڈھونڈھنے اور کوشش کرنے سے ملتی ہے۔ وہ زیادہ پیاری معلوم ہوتی ہے اور جس کے لئے انسان زیادہ کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے فضلوں کو بھی اس کے لئے زیادہ کر دیتا ہے۔ ایک شخص اپنے ہمسایہ سے ملنے کے لئے آتا ہے، دوسرا ایک میل سے آتا ہے، تیسرا پندرہ بیس میل سے آتا اور چوتھا دو چار سو میل سے آتا ہے۔ اب ہیں تو وہ سارے ہی مہمان مگر جو دو چار سو میل سے چل کر آیا ہے۔ انسان اس کی خاطر زیادہ ملحوظ رکھتا ہے کیونکہ وہ خیال کرتا ہے کہ اس نے کونسا روز روز آنا ہے۔ اسی طرح جو شخص لَیْلَةُ الْقَدْر کی تلاش رمضان کی پہلی رات سے ہی شروع کرتا ہے ۔ وہ گویا آخری عشرہ تک پہنچتے پہنچتے بیس منزلیں طے کر کے آتا ہے، اس لئے اس کی قربانی کی قدر زیادہ ہو گی لیکن اگر کوئی ایک رات معیّن ہوتی مثلًا 27 ویں کو ہی ہوتی تو لوگ سب کے سب اس ایک رات کو اٹھ کر بیٹھے رہتے بلکہ شاید سوتے ہی نہ۔ دیکھو لَیْلَةُ الْقَدْر کی بزرگی کو خدا تعالیٰ نے بیان فرمایا۔ رسول کریم ﷺ نے اس کی عظمت بیان فرمائی۔ ائمہ سلف اس کی قدر و قیمت بیان کرتے آئے اور پھر اس زمانہ کے مامور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس کی عظمت بیان فرمائی۔ پھر بھی لوگ اس کے لئے اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنا 15 ویں رجب کو حلوے کے لئے ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ معیّن رات ہے۔ اس لئے لوگ جاگ لیتے ہیں مگر لَیْلَةُ الْقَدْر چونکہ معیّن نہیں بلکہ اسے ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ اس لئے اسے حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے مگر یہ نیکی کی نہیں کمزوری کی علامت ہے۔ پندرھویں رجب کے متعلق وہ خیال کرتے ہیں کہ ایک رات ہے جاگ کر کاٹنی کیا مشکل ہے، اس لئے کاٹ لیتے ہیں مگر رمضان میں مسلسل تیس راتیں جاگنا پڑتا ہے۔ اس لئے نہیں جاگتے۔ وہ جھوٹے موتی کے خریدار بنتے ہیں اس لئے کہ اس کی قیمت تھوڑی ہے مگر سُچے موتی کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ اس لئے کہ اس کی قیمت زیادہ ہے۔ اس سُچے موتی کی قیمت ایک مہینہ تک راتوں کو اٹھنا ہے اس لئے لوگ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے لیکن جھوٹے موتی کی قیمت چونکہ ایک رات ہی ہے۔ اس لئے اسے لینے کی کوشش ضرور کرتے ہیں کیونکہ وہ کوشش ایک رات کی ہے اور یہ ایک مہینہ کی یا جیسے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اسے رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو۔ یہ دس راتیں بھی مشکل ہیں، ایک رات تو جاگ لیتے ہیں مگر مسلسل تیس یادس بھی جاگنا دوبھر ہوتا ہے۔
لیکن حقیقت یہی ہے کہ اسی قوم کے دن زندہ ہوتے ہیں جس کی راتیں زندہ ہوں۔ جو لوگ ذکر الٰہی کی قدر و قیمت کو نہیں سمجھتے، ان کا مذہب کے ساتھ وابستگی کا دعویٰ محض ایک رسمی چیز ہے۔ کئی نوجوان ایسے ہوتے ہیں جو تبلیغ بڑے جوش سے کرتے ہیں، چندوں میں بھی شوق سے حصہ لیتے ہیں مگر ذکرِ الٰہی کے لئے مساجد میں بیٹھنا اور اخلاق کی درستی کے لئے خاموش بیٹھنا ان پر گراں ہوتا ہےاور جو وقت اس طرح گزرے اسے وہ سمجھتے ہیں کہ ضائع گیا۔ اسے تبلیغ پر صرف کرنا چاہئے تھا۔ ایسے لوگ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ تلوار اور سامان جنگ کے بغیر لڑائی نہیں جیتی جا سکتی۔ جس طرح لڑائی کے لئے اسلحہ اور سامان جنگ کی ضرورت ہے اسی طرح تبلیغ بھی بغیر سامانوں کے نہیں ہو سکتی۔ تبلیغ کے میدان جنگ کے لئے ذکر الٰہی آرسنل(Arsenal)2 اور فیکٹری ہے اور جو مبلّغ ذکر الٰہی نہیں کرتا وہ گویا ایک ایسا سپاہی ہے جس کے پاس تلوار، نیزہ یا کوئی اَور اسلحہ نہیں۔ ایسا مبلّغ جس چیز کو تلوار یا اپنا ہتھیار سمجھتا ہے۔ وہ کِرم خوردہ لکڑی کی کوئی چیز ہے جو اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ آخر یہ کیا با ت ہے کہ وہی دلیل محمد مصطفیٰ ﷺ دیتے تھے اور وہ دل پر اثر کرتی تھی لیکن وہی دلیل دوسرا پیش کرتا ہے لیکن سننے والا ہنس کر گزرجاتا اور کہتا ہے کہ کیا بے ہودہ باتیں کر رہا ہے۔ یہ فرق کیوں ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اس شخص کے پاس جو ہتھیار ہے وہ لکڑی کا کِرم خوردہ ہتھیار ہے مگر محمد ﷺ کے پاس لوہے کی ایسی تیز تلوار تھی جو ذکر الٰہی کے کارخانے سے تازہ ہی بن کر نکلی تھی۔ کیا وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی باتوں میں جو اثر تھا۔ وہ دوسروں کی باتوں میں نہیں۔ ہمارے مبلغوں کی تقریروں میں وہ اثر نہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ مبلّغ کی تقریر کو ذکر الٰہی نے تلوار نہیں بنایا ہوتا۔ اس کےہاتھ میں لکڑی کا کِرم خوردہ ہتھیار ہے جسے گھن لگا ہؤا ہے ۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے ہاتھ میں جو تلوار تھی وہ ذکر الٰہی کے کارخانہ سے نئی نئی بن کر آئی تھی جسے نہ کوئی زنگ لگا تھا، نہ چربی وغیرہ کوئی چیز لگی تھی۔ مبلّغ جو تلوار استعمال کرتا ہے وہ کسی پرائی فیکٹری میں بنی ہوئی ہے۔ جسے دندانے اور نشان وغیرہ پڑ چکے ہیں اورجو پہلے استعمال ہو چکنے کی وجہ سے خراب ہو چکی ہے اور پرانی ہونے کی وجہ سے اس کے ہینڈل کو کیڑا لگا ہؤا ہے۔ یہ اسے مارتا ہے تو بجائے دوسرے کو نقصان پہنچانے کے خود ہی ٹوٹ کر گر جاتی ہے۔ دوسرے پر اثر تبلیغ اور دلیل سے ہی نہیں پڑتا بلکہ اس کے پیچھے جو جذبہ ہوتا ہے اس کا اثر ہوتا ہے۔
ایک بزرگ کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ جہاں وہ رہتے تھے اسی محلہ میں ایک بہت فسادی اور شریر آدمی تھا۔ جو ہر وقت عیاشی میں مصروف رہتا اور دین سے ہمیشہ مذاق کرتا تھا۔ وہ اسے بہت سمجھاتے تھے مگر اس پر کوئی اثر نہ ہوتا تھا۔ وہ بزرگ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں حج کے لئے گیا تو اسے دیکھا کہ نہایت عجز و انکسار کی حالت میں طواف کر رہا ہے۔ جب فارغ ہوئے تو اس بزرگ نے اس سے دریافت کیا کہ یہ کیا بات ہے جو تم حج کے لئےآ گئے۔ تم تو دین سے مذاق کیا کرتے تھے اور کسی نصیحت کا تم پر اثر ہی نہ ہوتا تھا۔ اس نے کہا کہ میری ہدایت کا واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ مَیں بازار میں جا رہا تھا عیاشی کے خیالات میں محو تھا اور عیش و طرب کے مرکز کی طرف ہی جا رہا تھا کہ ایک مکان میں کوئی شخص قرآن شریف بلند آواز سے پڑھ رہا تھا کہ آیتاَلَمْ يَاْنِ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِاللّٰهِ3میرے کان میں پڑی یعنی کیا مومنوں کے لئے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ جب ان کے دل خدا تعالیٰ کے ذکر کے لئے نرم ہو جائیں اور وہ ذکر الٰہی شروع کر دیں۔ اس آواز میں ایسا سوز و گداز اور ایسی محبت تھی کہ مجھے یوں معلوم ہؤا کہ وہ دنیا میں سے کسی انسان کی آواز نہ تھی۔ اس آواز کو سنتے ہی مَیں گویا اڑ کر کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ اسی وقت گھر آیا اور عیش و طرب کے سب سامان توڑ ڈالے اور حج کے لئے روانہ ہو گیا۔ یہ قرآن کی وہی آیت ہے جو کئی لوگ پڑھتے اور سنتے ہیں مگر ان پر کوئی خاص اثر نہیں ہوتا لیکن یہی آیت جب ایک ایسے دل سے نکلی جو ذکر الٰہی سے سرسبز و شاداب تھا تو سننے والے پر ایسا اثر کیا کہ اس کی زندگی میں گویا ایک انقلاب پیدا کر دیا۔
اسی طرح ایک اَور بزرگ کا واقعہ ہے کہ کسی شہر میں بادشاہ کا کوئی درباری رہتا تھا جس کے ہاں شب و روز گانا بجانا ہوتا اور محلہ والے سخت تنگ آ چکے تھے۔ محلہ کے لوگ اس بزرگ کے پاس گئے اور کہا کہ اس طرح رات بھر شور و شر کی وجہ سے عبادت میں خلل پڑتا ہے۔ اگر عبات کرنا چاہیں تو شور کی وجہ سے نہیں کر سکتے اور اگر سونا چاہیں کہ تہجد کے وقت اٹھیں گے تو شور کی وجہ سے نیند نہیں آتی۔ ان حالات میں ہم لوگ کیا کریں، کئی لوگ اس درباری کو سمجھاتے رہے۔ وہ بزرگ بھی پیغام بھیجتے رہے مگر اس پر کوئی اثر نہ ہونا تھا اور نہ ہؤا۔ آخر جب لوگوں نے بار بار آ کر ان سے کہا تو انہوں نے اس درباری سے کہا کہ اب سختی سے تمہارا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ اس نے جواب دیا کہ تم میرا کیا مقابلہ کر سکتے ہو تم جانتے نہیں مَیں بادشاہ کا درباری ہوں۔ مَیں بادشاہ سے کہہ کر کل یہاں پولیس مقرر کر ادوں گا پھر تم لوگوں کو اچھی طرح پتہ لگ جائے گا۔ اس بزرگ نے کہا کہ تم پولیس مقرر کرا لو گے تو ہم بھی مقابلہ کریں گے۔ اس نے جواب دیا کہ بڑے آئے مقابلہ کرنے والے۔ تمہارے پاس کیا رکھا ہے جس سے بادشاہ کی فوجوں کا مقابلہ کرو گے۔ اس بزرگ نے کہا کہ ہم راتوں کے تیروں سے مقابلہ کریں گے۔ اس بزرگ کو دعاؤں کی طاقت اور اپنی دعاؤں کی قبولیت کا جو یقین تھا اس کا یہ اثر ہؤا کہ ان کے مُنہ سے یہ بات نکلنے کے ساتھ ہی اس درباری کی چیخیں نکل گئیں۔ اس نے فوراً حکم دیا کہ سارنگیاں وغیرہ توڑ دی جائیں اور اس بزرگ سے کہا کہ راتوں کے تیروں کا مقابلہ ہم واقعی نہیں کر سکتے۔ تو ذکر الٰہی کی طاقت سے بات میں بہت زیادہ اثر پیدا ہو جاتا ہے۔ دیکھو! قرآن کریم وہی تھا مگر مسلمان اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے تھے۔ اس لئے کہ ان کے دلوں میں حقیقی ایمان نہ تھا مگر وہی قرآن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے ہاتھ میں آ کر کس طرح اسلام کے دشمنوں کو تہس نہس کر رہا ہے اور چاروں طرف مُردے ہی مُردے نظر آتے ہیں۔ یہ اس لئے ہؤا کہ حضرت مسیح علیہ الصلوٰة و السلام کے ساتھ ذکر الٰہی کی طاقت تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے وفاتِ مسیح کے جو دلائل پیش فرمائے ہیں۔ ان میں بیس تیس بلکہ اَور سَو کا اضافہ بھی بے شک کر لو۔ لیکن اگر ذکرِ الٰہی نہیں تو ان تمام دلائل اور انہیں بیان کرنے والے مبلغوں کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا۔ اثر زبان نہیں بلکہ دل کا جذبہ کرتا ہے۔ خالی زبانی باتوں سے کچھ نہیں بنتا۔ اس میں شبہ نہیں کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے عقل دی ہے اور وہ معقول بات کو ہی قبول کرتا ہے لیکن صرف بات کا معقول ہونا ہی اثر نہیں کر سکتا۔ جب تک کہ اس کے ساتھ محبت اورسنجیدگی نہ ہو، بات معقول بھی ہو اور پھر اس کے ساتھ محبت اور سنجیدگی بھی ہو تب اثر ہوتا ہے۔ اخلاص اور محبت کے بغیر کوئی اثر نہیں ہو سکتا۔ اسی لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اَلدِّیْنُ اَلنُّصْحُ 4 یعنی دین اور اخلاص ایک چیز ہے جب تک اخلاص نہیں۔ دین بھی نہیں اور جب اخلاص مٹے گا، دین بھی مٹ جائے گا۔
پس یہ خیال مت کرو کہ پانچ وقت نماز پڑھنا، روزے رکھنا، زکوٰة دینا اور حج کرنا دین ہے بلکہ ان عبادات کو بجا لاتے وقت پیچھے دل میں جو اخلاص ہو ، وہ دین ہے۔ ایسا انسان جس کے دل میں اخلاص ہے ۔ اگر دو رکعت بھی نماز پڑھ لے تو اس کے اثرات نظر آئیں گے۔ لیکن بغیر اخلاص کے محض ریا سے اگر آدمی سارا دن مصلّیٰ پر بیٹھا رہے تو اس کا کوئی نتیجہ نہ نکلے گا۔ عبادت کا اثر اتنا نہیں ہوتا جتنا اس سوز و گداز کا ہوتا ہے جو اس کے پیچھے ہو۔ تعلق باللہ کی خواہش سے جو اثر ہوتا ہے۔ وہ خالی روزہ سے نہیں ہو سکتا۔ جب تک عشق اور للہیت پیدا نہیں ہوتی اور خدا تعالیٰ کی طرف انسان اس طرح متوجہ نہیں ہوتا جس طرح بچہ ماں کی طرف ہوتا ہے اس وقت تک روزہ سے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ لوگ دنیا میں ایک دوسرے کے پاس آتے جاتے اور ملتے جلتے بھی ہیں مگر جہاں عشق کا قدم ہو وہاں رنگ ہی اَورہوتا ہے۔
منشی اروڑے خان صاحب مرحوم کا واقعہ مَیں نے پہلے بھی کئی بار سنایا ہے جو انہوں نے خود مجھے سنایا تھا۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ لیا کہ کبھی کپور تھلہ تشریف لائیں۔ اس زمانہ میں کپور تھلہ تک ریل نہ جاتی تھی ۔ ایک حد تک ریل میں جا کر پھر آگے ٹانگوں اور یکوں وغیرہ پر جاتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کچھ عرصہ تک تو وعدے کرتے رہے اور ایک دن یکدم ارادہ کر لیا کہ اس وعدہ کو پورا کر دیں اور کپور تھلہ جانے کے لئے چل پڑے۔ تنگ وقت ہونے کی وجہ سے وہاں کے احباب کو اطلاع بھی نہ دے سکے۔ منشی صاحب مرحوم سنایا کرتے تھے کہ مَیں وہاں ایک دکان پر بیٹھا باتیں کر رہا تھا کہ ایک شدید مخالف آیا اور کہنے لگا منشی جی تم یہاں بیٹھے باتیں کر رہے ہو، جلدی اڈے پر جاؤ۔ وہاں تمہارے مرزا صاحب آئے ہوئے ہیں۔ وہ شخص شدید مخالف تھا اور ہمیشہ مذاق کرتا رہتا تھا۔ مَیں نے سمجھا کہ اب بھی یہ مذاق ہی کر رہا ہے لیکن اس واہمہ کے ساتھ ہی یہ خیال بھی آیا کہ شاید واقعی تشریف لے ہی آئے ہوں اور یہ خیال آتے ہی مَیں بے تحاشا ننگے پاؤں ہی بھاگ اٹھا۔ پندرہ بیس گز دوڑتا گیا اور پھر خیال آیا کہ ہماری قسمت ایسی کہاں اس شخص نے ضرورمذاق ہی کیا ہو گا اور پھر مڑ کر اسے بے تحاشا گالیاں دینی شروع کر دیں کہ تم بہت بدمعاش ہو۔ ایسے ہو ویسے ہو ہمیشہ مذاق کرتے رہتے ہو، تمہیں دین کے معاملہ میں مذاق کرتے ہوئے شرم نہیں آتی مگر یکدم خیال آیا کہ مَیں اس سے یہاں ناراض ہو رہا ہوں اور شاید سچ مچ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لے آئے ہوں اور یہ خیال کر کے پھر دوڑ پڑا مگر تھوڑی دور جا کر پھر خیال آیا کہ اس شخص نے ضرور جھوٹ بولا ہو گا۔ ہماری ایسی قسمت کہاں کہ آپ تشریف لائے ہوں اور پھر اس شخص کو مڑ کر گالیاں دینے لگا چنانچہ دو تین بار ایسا ہی ہؤا اور اس شخص نے پھر کہا کہ منشی جی کیا کرتے ہو۔ خواہ مخواہ وقت ضائع کرتے ہو۔ واقعی مرزا صاحب اڈے پر آئے ہوئے ہیں۔ایک عاشق کا اپنے معشوق کی طرف جانا تھا اور دیکھ لو اس کا کیا رنگ تھا۔ جب تک نماز روزہ اور دوسری عبادات میں یہ رنگ پیدا نہیں ہوتا اس وقت تک ان کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایک شخص چندہ دیتا ہے مگر دل میں کہتا ہے کہ یہ ایک فرض قوم کی طرف سے لگایا گیا ہے اس لئے اسے ادا کرتا ہوں۔ اس کا چندہ ادا کرنے کا رنگ اَور ہو گا لیکن ایک دوسرا شخص جو خدا تعالیٰ کی طرف بڑھنے اور اس سے تعلق پیدا کرنے کا جوش اپنے دل میں رکھتا ہے وہ اسے خدا کے قرب کا ایک ذریعہ سمجھ کر ادا کرے گا۔ اس لئے اسے ادا کرتے وقت اس کے دل میں امنگ اور جوش اور اس کی آنکھوں میں روشنی پیدا ہو گی۔ وہ یہ محسوس کرے گا کہ اس کے ذریعہ مَیں خدا تعالیٰ کے اور قریب ہوں گا۔ اسی طرح جو شخص روزہ اسی کا نام سمجھتا ہے کہ سحری کھا لی اور پھر شام کو کھانا کھا لیا اس کی حیثیت صرف ایک مزدور کی سی ہے جس کے سر پر ٹوکری رکھ دی گئی کہ فلاں جگہ پہنچا دے اور ظاہر ہے کہ مزدور کا سر پر ٹوکری اٹھانا اور رنگ رکھتا ہے لیکن ایک شخص جس کا اکلوتا لڑکا سخت بیمار ہے۔ وہ گھر سے باہر اس کے لئےدوائی لانے کی غرض سے نکلتا ہے تو اسے ایک طبیب مل جاتا ہے جو اسے کہتا ہے کہ یہ دوائی لے جا کر اپنے بیٹے کو کھلا دو۔ وہ ایک منٹ میں تندرست ہو جائے گا، فکر کیوں کرتے ہو۔ وہ بھی ایک بوجھ اٹھا کر گھر کو لوٹتا ہے مگر اس کے بوجھ اٹھانے اور مزدور کے بوجھ اٹھانے میں فرق ہے۔ مزدور تو سمجھتا ہے کہ مَیں نے یہ بوجھ فلاں جگہ پہنچانا ہے اوراس کے عوض دو آنے لینے ہیں اور بوجھ اس کی کمر کو توڑ رہا ہوتا ہے مگر دوسرا سمجھتا ہے مَیں بوجھ نہیں بلکہ اپنے لڑکے کی زندگی اٹھائے لئے جا رہا ہوں۔ یہی حالت مومن کی ہوتی ہے جب وہ روزہ رکھتا ہے تو یہ نہیں سمجھتا کہ مَیں بھوکا رہ رہا ہوں بلکہ اس کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوتی ہے۔ دل میں جوش اور امنگ پیدا ہوتی ہے اور امیدیں وسیع ہوتی ہیں اور وہ سمجھتا ہے کہ شاید آج کا روزہ ہی اس پردہ کو اٹھا دے جو میرے اور میرے خدا کے درمیان ہے اور جس کے اٹھنے کے بعد میرا خدا مجھے مل جائے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ شام کو مایوس ہی ہو جائے مگر دوسرے دن پھر وہ اسی شوق سے اٹھتا ہے اور پھر اسی جوش اور شوق کے ساتھ روزہ رکھتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ مومن کی مثال کیمیا گر کی ہوتی ہے۔ کیمیا گر بھی بار بار سونا بنانے کی کوشش کرتا ہے اور جب نہیں بنتا تو سمجھتا ہے کہ میری غلطی سے نہیں بن سکا۔ آنچ کی کسر رہ گئی اور مجھ سے غلطی ہو گئی اور وہ پھر کوشش کرتا ہے اور پھر ناکام رہنے کے باوجود پھر کرتا ہے ۔ اسی طرح مومن نماز پڑھتا ہے کہ اس کا خدا اسے مل جائے مگر جب نہیں ملتا تو وہ مایوس ہو کر چھوڑ نہیں دیتا بلکہ پھر پڑھتا ہے۔
یہاں ایک احمدی دوست رہا کرتے تھے، اب فوت ہو چکے ہیں۔ متقی، مخلص اور خدمت گزار آدمی تھے اور غریب تھے۔ ان کے بھائی ان کی مدد کیا کرتے تھے۔ ان کے متعلق بعض دوستوں نے مجھے سنایا کہ وہ کیمیا بناتے ہیں اورجب کوئی ان کی مدد کرتا ہے اور کچھ دیتا ہے تو وہ جھٹ سونا بنانے کے لئے چیزیں خریدنے کو دوڑتے ہیں۔ مَیں نے شاید خود ان سے پوچھا یا کسی دوست کی معرفت دریافت کرایا۔ یہ مجھے اچھی طرح یاد نہیں، ان کا جواب یہ تھا کہ سینکڑوں دفعہ کوشش کی اور سینکڑوں ہی دفعہ ناکامی ہوئی ہے مگر ہر بار یہی خیال آتا ہے کہ سو دفعہ ناکامی ہوئی شاید ایک سو ایک ویں بار کامیابی ہونی ہو اور پھر بھی جب ناکامی ہوتی ہے تو خیال آتا ہے کہ شاید ایک سو دوسری بار کامیابی ہونی ہو۔ اس لئے ایک بار پھر کوشش کر لوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام فرمایا کرتے تھے کہ مومن کی بھی یہی حالت ہوتی ہے۔ جھوٹا کیمیا تو کبھی بھی سونا نہیں بنا سکتا مگر مومن کامیاب ہو جاتا ہے۔ وہ ایک دن اٹھتا ہے تو سونا بنا ہوتاہے اور اپنے رب کے ساتھ اس کی ملاقات ہو جاتی ہے مگر یہ بات عاشقانہ رنگ سے حاصل ہوتی ہے۔ فلسفیانہ سے نہیں، فلسفیانہ نظر سے جو شخص قرآن کریم کو پڑھتا ہے وہ یہ تو کہہ سکے گا کہ بڑی اچھی کتاب ہے، دلائل خوب دیتی ہے مگر اس کے دل میں کوئی نور پیدا نہیں ہو گا لیکن جو شخص عاشقانہ رنگ میں ایک آیت بھی پڑھے گا وہ آیت اس کے دل کے زنگوں کو کاٹ دے گی اور اس کے دل میں ایسا جذبہ پیدا ہو گا کہ اسے کہیں سے کہیں پہنچا دے گا۔ خدا تعالیٰ اپنے بندے سے وہ معاملہ نہیں چاہتا جو دو بادشاہ آپس میں کرتے ہیں بلکہ وہ عاشقانہ رنگ بندے کی طرف سے چاہتا ہے۔ خدا تعالیٰ کسی کی مدد کا محتاج نہیں کہ کسی سے کہے آؤ ہم عقلی بناء پر کوئی معاہدہ کر لیں اور خیال کرے کہ اس کے ساتھ معاہدہ میری حکومت کی مضبوطی کا موجب ہو گا بلکہ وہ پیار اور محبت چاہتا ہے اور محبت والے دل کی ہی قدر کرتا ہے۔ پس ان دنوں سے فائدہ اسی رنگ میں اٹھانے کی کوشش کرو۔ اپنے اندر عاشقانہ کیفیت پیدا کرو اور کور ذوقی کو چھوڑ دو کہ یہ محبت کے مقام سے ہٹاتی ہے اور محبت کے بغیر عبادت میں لذت محسوس نہیں ہوتی اور یہ لذت ہی ہے جو ہر قسم کے مصائب برداشت کرنے کے لئے مومن کو تیار کرتی ہے۔ کتنے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نے اتنی قربانیاں کیں مگر آخر کیا ملا۔ اگر ان کے دل میں عشق ہوتا ۔ تو یہ الفاظ ان کے منہ سے کبھی نہ نکل سکتے۔
کہتے ہیں ایک بزرگ کے پاس ان کا کوئی مرید گیا اور تین دن ان کے پاس رہا، انہوں نے اسے اپنے پاس ٹھہرایا اور اسی کمرہ میں سلایا جہاں خود سوتے تھے، رات کو وہ بزرگ اٹھے اور نماز پڑھنے لگے اور خوب رو رو کر اور گڑ گڑا کر دعائیں کرنے لگے۔ وہ مرید بھی جاگ رہا تھا ان کی اس قدر گریہ و زاری کو دیکھ کر اس نے دل میں کہا کہ انہوں نے اس قدر دعائیں کی ہیں کہ آج تو خدا تعالیٰ کا تخت ہل گیا ہو گا۔ عرش کانپ گیا ہو گا اور خدا تعالیٰ کے فرشتے ان دعاؤں کی قبولیت کا پیغام لا رہے ہوں گے مگر خدا تعالیٰ کی قدرت کہ جب وہ دعائیں کر چکے تو اونچی آواز میں جو اس مرید کو بھی سنائی دی۔ الہام ہؤا کہ بے شک روتا رہ تیری دعا تو قبول نہ ہو گی۔ یہ سن کر اس مرید نے دل میں کہا کہ ہم تو یہاں اپنی سنوانے آئے تھے لیکن یہاں تو ان کی اپنی بھی نہیں سنی جاتی۔ بہرحال وہ چونکہ مرید تھا اور دل میں اخلاص رکھتا تھا چپ ہو رہا۔ دوسری رات پھر ایسا ہی ہؤا اس بزرگ نے پھر اٹھ کر دعا کرنی شروع کی اور بڑی گریہ وزاری سے دعا کی۔ وہ بڑے جوش سے دعا میں مشغول رہے۔ دعا میں وسعت پیدا ہوتی گئی اور مضامین پھیلتے گئے۔ یہ دیکھ کر اس مرید نے خیال کیا کہ آج تو یہ ضرور اللہ تعالیٰ سے اپنی بات منوا ہی لیں گے لیکن جب ختم کرچکے تو پھر وہی آواز زور سے آئی جسے اس مرید نے بھی سنا کہ جتنا چاہو زور لگا لو مَیں تمہاری دعا نہیں سنوں گا۔ مرید نے دل میں کہا کہ آج تو حد ہی ہو گئی ہے۔ خیر وہ آج بھی خاموش رہا، تیسری رات جب وہ بزرگ اٹھے اور تہجد پڑھنے کے لئے وضو کرنے لگے تو اس نے اٹھ کر ہاتھ پکڑ لیا کہ بس حضور جانے بھی دیجئے۔ اب بہت ہو چکی ہے مَیں کل بھی اور پرسوں بھی جاگتا تھا اور دونوں رات مَیں نے وہ آواز سنی ہے۔ آپ نے جتنا زور لگانا تھا لگا لیا اب بس کریں خواہ مخواہ وقت ضائع کرنے کا کیا فائدہ۔ اس بزرگ نے اس کے ہاتھ کو جھٹک کر الگ کر دیا اور کہا تم دو راتوں میں ہی گھبرا گئے۔ مَیں تو بیس سال سے یہی الہام سن رہا ہوں مگر گھبرایا نہیں اور خدا تعالیٰ سے کہتا ہوں کہ میرا کام مانگنا ہے۔ تیرا کام قبول کرنا یا نہ کرنا ہے۔ مَیں اپنا کام کرتا ہوں اور تُو جو چاہے کر۔ میرا ایک ہی فرض ہے کہ تجھ سے مانگتا جاؤں اور تیرے دو اختیار ہیں۔ چاہے تو قبول کرے اور چاہے تو رد کر دے۔ پس ان دونوں کاموں میں سے جو بھی تُو کرے تُو اپنا حق ادا کر رہا ہوتا ہے۔ اس مرید نے کہا کہ پھر تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ بڑے ڈھیٹھ ہیں۔ انہوں نے کہا جو چاہو سمجھو۔ بہرحال مَیں اپنا کام کر رہا ہوں مجھے اس سے کیا غرض کہ دعا قبول ہوتی ہے یا نہیں۔ خدا تعالیٰ میرا معشوق ہے اور مجھے اس سے مانگنے میں لذت محسوس ہوتی ہے اس لئے مانگتا جاتا ہوں۔ وہ میری موجودہ دعا کو پورا کر دے گا تو پھر بس تو نہیں کروں گا پھر کچھ مانگنے لگ جاؤں گا۔ یہ کہہ کر وہ پھر نماز کے لئے کھڑے ہو گئے اور اسی جوش سے دعائیں کرنے لگے مگر آج جب وہ فارغ ہوئے تو پھر الہام ہؤا اور یہ الہام بھی مرید کو سنائی دیا۔ وہ الہام یہ تھا کہ ہم نے تمہاری آج کی دعائیں بھی قبول کر لیں اور گزشتہ بیس سال میں جس قدر دعائیں کرتے رہے ہو، وہ بھی قبول کر لیں۔ تو جس کے دل میں عشق ہوتا ہے اسے کیا کہ کچھ ملتا ہے یا نہیں ملتا۔ وہ تو بس مانگتا ہی جاتا ہے۔ اس کی غرض تو یہ ہوتی ہے کہ اپنے معشوق سے باتیں ہو جائیں،جھوٹے شاعر اپنے شعروں میں معشوق کو مخاطب کر کے کہا کرتے ہیں کہ اور نہیں تو جھڑک ہی چھوڑ لیکن بولا تو کر۔ شاعر کی تو محض لفاظی ہوتی ہے لیکن حقیقی عاشق کے دل کی کیفیت بالکل یہی ہوتی ہے اور یہی چیز تعلق باللہ کے لئے بہت ضروری ہے۔ بندے کے لئے ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ سے مانگتا جائے اور مانگتا جائے، کسی دن بھی مانگنا چھوڑ دینا نقص کی بات ہے اور گھبرا کر یہ خیال کر لینا کہ خدا تعالیٰ سنتا نہیں بے وقوفی کی بات ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعا کے اس پہلو کے متعلق بعض باتیں لکھی ہیں۔ جن سے بعض نادان دھوکا کھا جاتے ہیں مگر لوگ ان کو سمجھتے نہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ گھبرانا بیوقوفی کی بات ہے۔ کیا تم نے کبھی بچہ کو نہیں دیکھا؟ اسے ماں سے سچی محبت ہوتی ہے۔ اگر تم غور کرو تو دس میں سے پانچ بار یہی دیکھو گے کہ بچہ ماں سے مانگتا اور ضد کرتا ہے کہ مَیں نے مٹھائی لینی ہے یا فلاں چیز لینی ہے اورجب وہ اسے دے دیتی ہے تو اس کھلونے کو پھینک دیتا ہے یا اس مٹھائی کو چکھ کر چھوڑ دیتا ہے۔ اسے کھلونے یا مٹھائی کا اتنا شوق نہیں ہوتا بلکہ اصل خواہش یہ ہوتی ہے کہ ماں سے مانگوں اور اس کی محبت آزماؤں۔ یہ عشق کی کیفیت جب تک نماز، روزہ اور دوسری عبادات میں پیدا نہ ہو جو شخص اس للہیت سے زکوٰة نہیں دیتا، چندہ یا صدقہ ادا نہیں کرتا وہ حقیقی فائدہ نہیں اٹھا سکتا اورجب یہ کیفیت پیدا ہو جائے تو ظاہری علامات اس کی نظر سے غائب ہو کر باطنی کیفیت شروع ہو جاتی ہے۔ جب وہ باطنی آنکھوں سے سجدہ کرتا ہے تو وہ بھول جاتا ہے کہ ظاہر میں وہ سجدہ کر رہا ہے۔ اس کی ساری نماز ایک مسلسل پکار اور چیخنا و چلّانا ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ کے دروازے کے سامنے کھڑے ہو کر وہ بے شک کھڑا بھی ہوتا ہے، رکوع اور سجدہ میں بھی جاتا ہے اور اٹھتا بھی ہے مگر ان کی طرف رہنمائی اس کی بچپن کی عادت کر رہی ہوتی ہے ورنہ دراصل وہ یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ اس کا معشوق اس کے سامنے ہے اور وہ اس کےساتھ محبت کا اظہار کر رہا ہے۔ یہ چیز جب پیدا ہو جائے تو انسان کو تقویٰ کا مقام حاصل ہو جاتا ہے اور اس کے اندر نیکی پیدا ہو جاتی ہے اور وہ بدی سے بچ جاتا ہے۔ جب کبھی اس کے دل میں کوئی حرص یا لالچ پیدا ہوتا ہے تو یہی عشق اورللہیت آڑے آتی اور اس کے ہاتھ کو روک کر کہتی ہے کہ خدا تعالیٰ کے عرش کو پکڑنے والے ہاتھ اس لالچ میں ملوث نہ ہونے چاہئیں۔
پس یہ دن دعائیں کرنے اور برکات حاصل کرنے کے ہیں اس لئے خوب دعائیں کرو مگر اسی ذریعہ سے جو مَیں نے بتایا ہے۔ یہ ذریعہ ہے جو انسان کو ظاہری باتوں سے آزاد کر دیتا ہے۔ میری اپنی مثال ہے آج صبح سحری کے وقت جب مَیں اٹھا تو شدید انفلوئنزا کا دورہ تھا۔ سر میں شدید درد تھا اور گلے میں سخت خراش تھی۔ مَیں نے دوائیاں وغیرہ منگوا کر استعمال کیں اور کہا کہ روزہ میں رکھ لیتا ہوں۔ اگر صبح تک صحت نہ ہوئی تو چھوڑ دوں گا چنانچہ مَیں نے روزہ رکھ لیا مگر جو دوائیاں صبح استعمال کی تھیں وہ چونکہ ضعف پیدا کرتی ہیں اس لئے دو بجے کے قریب مجھے ایسا ضعف ہؤا کہ مَیں نے سمجھا مَیں جمعہ کی نماز کے لئے نہیں جا سکتا۔ جمعہ کے روز غسل کرنا سنت ہے اور جب مَیں غسل کی نیت سے اٹھا تو غسل خانہ کے پاس پہنچنے کے بعد میرے نفس نے مجھے واپس لوٹا دیا اور کہا کہ آج غسل نہیں کرنا چاہئے۔ چنانچہ مَیں نے بغیر غسل کے ہی کپڑے پہن لئے اور مَیں اسی فکر میں تھا کہ کہہ دوں کہ مَیں جمعہ کے لئے نہیں آ سکتا مگر پھر خیال کیا کہ چلا جاتا ہوں۔ دو چار باتیں کہہ کر خطبہ ختم کر دوں گا مگر یہاں آ کر اللہ تعالیٰ کی محبت کا ذکر جو آ گیا تو مجھے پتہ بھی نہیں لگا کہ کتنا بول گیا ہوں اور شاید اتنا ہی بیان کر گیا ہوں جتنا عام طور پر کیا کرتا ہوں۔ ایک دوست ہیں جو اَب تو احمدی ہیں مگر پہلے جماعت میں شامل نہ تھےلیکن جلسہ پر آیا کرتے تھے۔ انہوں نے ایک دفعہ کہا کہ دو باتوں میں سے ایک بات ضرور ہے یا تو آپ بڑے جھوٹے ہیں اور یا پھر کوئی غیر معمولی ہستی ہیں۔ مَیں نے کہا یہ کیا بات ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ مَیں کئی سال سے جلسہ پر آتا ہوں، ہمیشہ دیکھتا ہوں کہ آپ بیمار ہیں، فلاں تکلیف ہے، فلاں تکلیف ہے مگر جب تقریر کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو چھ چھ گھنٹے مسلسل بولتے چلے جاتے ہیں۔ دو ہی صورتیں ہیں یا تو آپ جھوٹ بولتے ہیں کہ بیمار ہیں اور یا پھر آدمی نہیں۔ مَیں نے کہا دونوں باتیں نہیں۔ نہ تو مَیں جھوٹ بولتا ہوں اور نہ ہی یہ کہ مَیں آدمی نہیں ہوں۔ بات یہ ہے کہ مَیں جب بولنے لگتا ہوں تو اللہ تعالیٰ کا ایک ایسا تصرف ہوتا ہے کہ بیماری کا خیال بھی نہیں رہتا۔ تو اللہ تعالیٰ کا تعلق انسان کےد ل سے احساس کو مٹا دیتا ہے اور تمام محسوسات سے آزاد کر دیتا ہے۔ اِلَّا اَنْ یَّشَاءَ اللہُ۔ مَیں نے اس رمضان کی آٹھویں تاریخ کو دعائیں کرنے کا ذکر کیا ہے۔ صبح مجھے خیال آیا کہ ان دعاؤں کو لکھ لوں مگر جب لکھنے لگا تو وہ اس طرح ذہن سے پھسلتی جاتی تھیں کہ معلوم ہوتا تھا آخر تک صرف چند سطریں ہی لکھی جا سکیں گی مگر مانگتے وقت خیالات اس طرح آتے جاتےتھے جس طرح سویّاں بنانے والی مشین میں جب پیچھے سے میدہ ڈالا جاتا ہے تو اس میں سے سویّاں نکلتی چلی آتی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دل کے پیچھے خیالات ڈالے جا رہے ہیں اور وہ آگے الفاظ میں منہ سے نکلتے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دن بہت قیمتی ہیں اس لئے ان سے فائدہ اٹھاؤ۔ یہ مشق کاموقع ہے اور جسے عادت ہو جائے اس کے لئے ہمیشہ ہی رمضان ہو جاتاہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہی سارے ایام بنائے ہیں۔ قرآن کریم میں آتا ہے کہ لوگ پوچھتے ہیں یہ ایام کیسے ہیں۔ تُو کہہ دے کہ ان میں حج کے بھی دن ہیں اورلوگوں کے لئے فوائد بھی ہیں۔5 پس جو انسان چاہے، سارے سال کو ہی اپنے لئے رمضان بنا سکتا ہے۔ روزہ رکھا اور رات کو اٹھا، دعائیں کیں، ذکر کیا، یہی رمضان ہے۔ کسی اندھے سے کسی نے کہا تھا سو جاؤ۔ اس نے کہا سونا کیا ہے، چپ ہی ہو جانا ہے۔ تو جو شخص رات کو اٹھ کر نماز پڑھے اور روزہ رکھے اس کے لئے رمضان ہی رمضان ہے۔ مسلسل روزے رکھنا تو منع ہیں۔ ایک دن چھوڑ کر رکھنے جائز ہیں اور اس طرح گویا رمضان کے علاوہ 5 ½ مہینے بنتے ہیں اور جو شخص رمضان کے سوا باقی دنوں سے 5 ½ ماہ روزے رکھے۔ اس کا سارا سال ہی رمضان بن جاتا ہے۔ تو رمضان بنانا انسان کے اپنے اختیار کی بات ہے۔ رمضان باقی دنوں میں بھی دعاؤں کی تحریک کا ایک ذریعہ ہے اور جسے اللہ تعالیٰ توفیق دے اس کے لئے ہر مہینہ میں رمضان اور ہر رات ہی لَیْلَةُ الْقَدْر ہے۔ اور پھر رات ہی کی کیا خصوصیت ہے، انبیاء کے لئے دن بھی لَیْلَةُ الْقَدْر ہو جاتے ہیں۔ کیا جب کسی نبی نے دعا کرنی ہو تو وہ اس کا انتظار کرتا ہے کہ رمضان آئے تو کروں اور پھر رمضان کا بھی آخری عشرہ اور اس میں سے بھی طاق راتیں اور ان طاق راتوں میں سے بھی لَیْلَةُ الْقَدْر کی خاص رات آئے تو کروں۔ رسول کریم ﷺ طائف میں تبلیغ کے لئے گئے تو لوگوں نے آپ کو گالیاں دیں۔ آپ کے پیچھے کتّے چھوڑ دیے اور لڑکے پتھر مارنے لگے۔ آپ وہاں سے باہر نکلے، دن کا وقت تھا کوئی رات نہ تھی، پھر رمضان بھی نہ تھا اور اس کا آخری عشرہ بھی نہ تھا اورنہ لَیْلَةُ الْقَدْرتھی۔ دوپہر کا وقت تھا اور لوگ اپنے کام کاج میں مصروف تھے کہ خدا تعالیٰ کا فرشتہ اترا اور اس نے کہا کہ اے محمد (ﷺ) مجھے خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اگر تُو اجازت دے تو مَیں اس شہر کو الٹا کر پھینک دوں۔ یہ کونسا رمضان تھا اور کونسی لَیْلَةُ الْقَدْرتھی۔ دن کا وقت تھا اور آنحضرت ﷺ نے دعا بھی نہ کی تھی جیسا کہ آپ کے جواب سے پتہ لگتا ہے۔ صرف آپ کی مادی تکلیف ہے کہ زخموں سے خون بہہ رہا تھا، لوگ پتھر مار رہے تھے اور کتّے کاٹنے کو دوڑ رہے تھے، لَیْلَةُ الْقَدْر سے بڑھ گئی اور خدا تعالیٰ نے فرشتہ کو حکم دیا کہ اس شہر کو اسی طرح الٹا دو جس طرح لوط کی بستی الٹا دی گئی تھی۔ مگر شرط یہ ہے کہ ہمارے رسول سے پوچھ لینا۔ جب فرشتہ نے آپ سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ نہیں جانے دو۔ ان لوگوں نے جو کچھ کیا نادانی سے کیا، ان کو پتہ نہ تھا کہ مَیں اللہ کا رسول ہوں۔ 6اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے دعا بھی نہ کی تھی۔ اگر کی ہوتی تو آپ یہ جواب نہ دیتےبلکہ یہ کہتے کہ اچھا اللہ تعالیٰ نے میری دعا سن لی ہے۔ فوراً اس بستی کو الٹا دو مگر آپ نے فرمایا نہیں جانے دو، ان کو پتہ نہیں تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا کے بغیر ہی مادی تکلیف کو دعا کا قائم مقام بنا لیا۔ اس مہینہ کو رمضان، ان دنوں کو اس کا آخری عشرہ اور اس کی طاق راتیں اور ان میں سے بھی لَیْلَةُ الْقَدْر اور لَیْلَةُ الْقَدْر کی وہ خاص قبولیتِ دعا کی گھڑی بنا لیا اورپھر جب فیصلہ فرمایا تو فرشتہ کو حکم دیا کہ پہلے ہمارے رسول سے پوچھ لو، وہ کہے تو اس بستی کو الٹا دو۔ تو مومن کا تعلق جب اپنے اللہ سے اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ وہ اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہے تو اس کے لئے سارے مہینے ہی رمضان بن جاتے ہیں اور ساری راتیں ہی رمضان کا آخری عشرہ اور اس میں سے بھی طاق راتیں اور طاق راتوں میں سے بھی لَیْلَةُ الْقَدْر بن جاتی ہیں۔ مگر یہ بات پیدا کرنا بندے کے ہاتھ میں ہے۔ اگر وہ خدا تعالیٰ سے سچے طور پر عاشقانہ تعلق پیدا کر لے اور عاشقانہ رنگ اختیار کر لے۔ تو یہ مقام یا اس کا کچھ حصہ حاصل ہو سکتا ہے لیکن اگر وہ اللہ تعالیٰ سے سودا کرنا چاہے تو وہ بہکا ہؤا ہے اور ایک ایسے گڑھے کی طرف جا رہا ہےجس کا نتیجہ ہلاکت ہے ۔ اس کی نمازیں اور اس کے روزے اور اس کی دوسری عبادتیں اسے اس ہلاکت سے روک نہ سکیں گی اور ہم اس کے متعلق یہی کہیں گے کہ وہ بہکا ہؤا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرے وہ اس کے رحم کا محتاج ہے۔ ‘‘
خطبہ ثانی میں فرمایا:۔
’’مَیں عورتوں کے متعلق بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ عورتیں کمزور مخلوق ہیں اور انہیں اسی طرح رائے دینے کا حق حاصل نہیں جس طرح مردوں کو ہے۔ اس لئے ان کے حقوق کی حفاظت کرنا بھی مردوں کا فرض ہے۔ یہ نہیں چاہئے کہ انہیں جو حقوق حاصل ہیں ان کے راستہ میں بھی رکاوٹیں پیدا کی جائیں اس لئے کہ وہ بول نہیں سکتیں اور ہماری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی ضروریات بیان نہیں کر سکتیں۔ ان کی اس پوزیشن سے ان کا حق بڑھ جاتا ہے، کم نہیں ہوتا۔ عربی میں کہتے ہیں اَلْقَاسِمُ مَحْرُوْمٌ تقسیم کرنے والا خود محروم رہتا ہے۔ وہ خیال کرتا ہے کہ دوسروں کو دوں، مَیں تو خود بانٹنے والا ہوں۔ تو مرد جو قانون بناتے ہیں اس وجہ سے کہ خدا تعالیٰ نے ان کو قانون سازی کا حق دیا ہے۔ انہیں چاہئے کہ عورتوں کو زیادہ حقوق دیں۔ مجھے معلوم ہؤا ہے کہ اس سال عورتوں کے اعتکاف میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں کیونکہ گزشتہ سال بعض نے اچھا نمونہ نہیں دکھایا۔ جہاں تک میری تحقیقات ہے اس معاملہ میں عورتوں کا قصور کم ہے، مردوں کا زیادہ ہے۔ جو مرد ذمہ دار تھے۔ انہوں نے سختیاں کیں۔ تحقیقات کے کاغذات میں نے درد صاحب کو دئیے تھے۔وہ پتہ نہیں کیوں گم ہو گئے ورنہ میرا ارادہ تھا کہ ان لوگوں کے خلاف کارروائی کی جائے مگر شاید درد صاحب کو رحم آ گیا یا کیا بات ہوئی وہ کاغذات ہی پتہ نہیں کہاں گئے۔ میری بیویاں تو اعتکاف بیٹھنے نہیں آتیں۔ اگر وہ آئیں اور ان سے ایسا سلوک ہو تو یقیناً مجھے بہت بُرا محسوس ہو گا اورجب وہی سلوک دوسروں کی بیویوں یا لڑکیوں یا بہنوں سے ہو تو مَیں کیوں اسے بُرا محسوس نہ کروں۔ ہر ایک کو یہی خیال کرنا چاہئے کہ اگر یہی سلوک اس کی ماں، بہن، بیوی یا بیٹی سے کیا جائے تو اسے کتنا برا محسوس ہو گا اور اس لئے جب دوسروں سے یہی سلوک ہو تو بھی اسے اسی طرح برا منانا چاہئے۔ اپنے لئے اور قانون اور دوسروں کے لئے اَور۔ دوسروں کے لئے ٹھوکر کا موجب ہوتا ہے اور انسان کو خود بھی ایمان سے دور لے جاتا ہے۔’’ (الفضل 6 اکتوبر 1942ء)
1: بخاری کتاب الصیام باب تحری لیلة القدر فی الوتر فی العشر الاواخر
2: آرسنل (Arsenal): ہتھیاروں کا سٹور
3: الحدید : 13
4: جامع الاحادیث۔ حدیث نمبر 44920
5: يَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الْاَهِلَّةِ١ؕ قُلْ هِيَ مَوَاقِيْتُ لِلنَّاسِ وَ الْحَجِّ١ؕ وَ لَيْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُيُوْتَ مِنْ ظُهُوْرِهَا وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰى١ۚ وَ اْتُوا الْبُيُوْتَ مِنْ اَبْوَابِهَا١۪ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ (البقرة: 190)
6: مسلم کتاب الجہاد باب ما لقی النبی ﷺ من اذی المشرکین والمنافقین

33
مسلمانوں میں جمعة الود اع کا غلط اور سخت نقصان رساں خیال
( فرمودہ 9 اکتوبر 1942ء )

تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
‘‘رمضان آیا اور اب اس سال کے لئے جا رہا ہے۔ دنیا میں محبت کا تقاضا یہ ہؤا کرتا ہے کہ جب کسی کی محبوب ہستی کچھ دیر تک جدا رہنے کے بعد اس کے ملنے کے لئے آتی ہے تو دونوں طرف سے آپس کی ملاقات کے لئے بے تابی پائی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے مثلاً اگر کوئی ریل پر آئے تو جن کو توفیق ہوتی ہے وہ سٹیشن پر جا کر ملنے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر اس قسم کا موقع بہم نہیں پہنچتا تو وہ گھر میں ہی بے تابی اور اضطراب کے ساتھ اس کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں اور جن کےد لوں میں اتنی محبت نہیں ہوتی وہ اس آنے والے شخص کو کچھ عرصہ بعد جا کر مل لیتے ہیں۔ اسی طرح جب وہ شخص جس سے محبت ہوتی ہے جدا ہوتا ہے تولوگ آخری گھڑی تک اس کے ساتھ بسر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر جب وہ گھر سے جاتا ہے تب بھی اس کو جدا کرنا وہ آسان کام نہیں سمجھتے بلکہ ہو سکتا ہے تو سٹیشن تک اور اگر تانگہ یا موٹر کے ذریعہ جائے تو تانگوں اور موٹروں کے اڈے تک اس کے ساتھ جاتے ہیں۔ پھر بعض لوگ اپنی محبت کے اظہار کے لئے یا محبت سے مجبور ہو کر سفر کا کچھ حصہ ساتھ طے کرتے اور اس طرح اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔
رمضان بھی خدا تعالیٰ کی عبادتوں میں سے ایک عبادت ہے اور رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ ہر چیز کا ایک بدلہ ہوتا ہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے روزے کا بدلہ مَیں آپ ہوں1یعنی نیکی کے مختلف کاموں کے بدلہ میں کسی کو کچھ چیز ملتی ہے اور کسی کو کچھ، کوئی کام کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے۔ اس کی دنیا کی مصیبتیں دور کر دو ، کوئی کام کرتا ہے تواللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے کہتا ہے۔ اسے صاحبِ اولاد صالح بنا دو، کوئی اَور کام کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ مثلاً یہ فتویٰ دے دیتا ہے کہ اس نے برا کام کیا ہے، اسے فلاں سزا دے دو پھر کوئی اچھا کام کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اس کی روزی میں کشائش کر دو پھر کوئی اَور اچھا کام کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس کی آئندہ نسل میں کچھ عرصہ تک نیکی قائم کر دو۔ اسی طرح کوئی اَور نیکی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ دنیا میں کچھ عرصہ تک اس کا ذکرِ خیر پھیلا دو، کوئی اَور کام کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے متعلق حکم دیتا ہے کہ اسے جنت میں داخل کر دو۔ کوئی اَور نیکی کا کام کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اسے جنت کے اعلیٰ مقام میں لے جاؤ مگر روزوں کے متعلق اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ جو شخص صحیح طور پر اخلاص اور محبت اور نیک نیتی سے روزے رکھتا ہے ، اس کے بدلہ میں ہم یہ نہیں کہتے کہ جاؤ، ہم نے تمہاری اولاد کو صالح بنا دیا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ جاؤ اس کے بدلے میں ہم نے تمہارے غم اور فکر کو دور کر دیا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ جاؤ اس کے بدلہ میں ہم نے تمہاری روزی میں کشائش پیدا کر دی۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ جاؤ اس کے بدلہ میں ہم نے دنیا میں کچھ عرصہ تک تمہارا ذکر خیر قائم کر دیا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ جاؤ ، اس کے بدلہ میں ہم نے تمہیں جنت کے فلاں ادنیٰ درجہ میں رکھ دیا ہے۔ نہ ہم جواب میں یہ کہتے ہیں کہ ہم نے تمہیں جنت کا درمیانہ درجہ دے دیا ہے اور نہ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم نے تمہیں اس کے بدلہ میں جنت کے اعلیٰ سے اعلیٰ مقام تک پہنچا دیا ہے بلکہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم روزے شرائط کی پابندی کے ساتھ رکھتے ہو رمضان کا احترام قائم کرتے ہوئے رکھتے ہو اور اخلاص اور تقویٰ اور محبت سے رکھتے ہو۔ تو ہم کہتے ہیں لو ہم نے تمہیں اپنا آپ دے دیا ۔ یہ کتنا چھوٹا سا فقرہ ہے مگر کتنے وسیع مطالب اس کے اندر پائے جاتے ہیں۔ بظاہر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سب سے بڑی چیز ہے۔ پس یہ چیز جنت کے اعلیٰ سے اعلیٰ مقامات ملنے کے بعد حاصل ہونی چاہئے نہ کہ پہلے مگر یہ درست نہیں، جہاں بدلے کا سوال ہوتا ہے وہاں تو اعلیٰ اورادنیٰ میں فرق کیا جاتا ہے مگر جہاں عشق کا سوال ہوتا ہے۔ وہاں ادنیٰ اور اعلیٰ میں اس رنگ میں فرق نہیں کیا جاتا۔ اگر اللہ تعالیٰ اعلیٰ سے اعلیٰ انعام کے طور پر ملتا تو اس کے معنی یہ ہوتے کہ سوائے محمد ﷺ کے اَو رکسی کو اللہ تعالیٰ کی زیارت نصیب نہ ہوتی اور اگر اللہ تعالیٰ جنت کے نہایت اعلیٰ مقامات کے حصول کے بعد ہی ملتا تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ نبیوں کےسوا اَور سب لوگ اللہ تعالیٰ کے وصال سے محروم رہ جاتے مگر محبت الٰہی کسی کا ٹھیکہ نہیں ۔ عشق تو وہ بھی کر سکتا ہے جسے قرآن کریم کی پوری سمجھ نہیں۔ عشق وہ بھی کر سکتا ہے جس کا ظرف شریعت کے پورے مفہوم کو سمجھنے سے ابھی قاصر ہے۔ عشق وہ بھی کر سکتا ہے جو شریعت کو سمجھتا تو ہے مگر اس کا ماحول اس قسم کا نہیں کہ وہ شریعت پر پوری طرح عمل کر سکے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة وا لسلام اس شعر کو جومَیں آگے بیان کروں گا بہت ہی ناپسند کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اس کے کہنے والے سے مجھے بڑی ہی محبت ہے مگر اس کا یہ قول مجھ پر بڑا گراں گزرتا ہے کیونکہ گو اس کا مضمون ایک رنگ میں درست ہے مگر لہجہ گستاخانہ ہے۔ حضرت مجدد سرہندی اپنی کسی محبت کے جوش میں کہہ گئے ہیں۔ ؂
پنجہ در پنجۂ خدا دارم من چہ پروائے مصطفیٰ دارم
ارے مَیں نے تو خدا کا ہاتھ پکڑا ہؤا ہے مجھے محمد ﷺ کی کیا ضرورت ہے۔ درحقیقت اس کا مفہوم بالکل محدود تھا مگر شاعری نے اسے خراب کر دیا اگر وہ اسی مضمون کو نثر میں بیان کرتے تو نہایت عمدگی سے بیان کر سکتے تھے اوروہ مضمون یہی ہے کہ جہاں محبت کا تعلق ہوتا ہے، وہاں اللہ تعالیٰ ہر شخص کے لئے اپنی محبت پیش کر دیتا ہے۔ چاہے وہ کتنا ہی چھوٹا وجود کیوں نہ ہو۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں آدھی رات کے بعد اللہ تعالیٰ آسمان سے اترتا اور اپنے بندوں کی دعائیں قبول فرماتا ہے2 اور رمضان کے ایام میں تو وہ اَور بھی قریب آ جاتا ہے جیسے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے رمضان کے دنوں میں تم خوب دعائیں کیا کرو فَاِنِّيْ قَرِيْبٌ 3 کیونکہ مَیں تمہارے قریب آ جایا کرتا ہوں مگر ہمارا خدا ایسا خدا نہیں جو ایک جگہ کے لئے محدود ہو۔ آج سے تیرہ سو سال پہلے بلکہ اب تو کہنا چاہئے آج سے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے جب رمضان کے مہینے میں راتوں کے اوقات میں نصف رات کے بعد محمد ﷺ اٹھتے تھے اور خدا تعالیٰ کے سامنے جا کر گریہ و زاری اور محبت کا اظہار کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ عرش سے اتر کر ان کے پاس آ جاتا تھا مگر اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ جس وقت خدا محمد ﷺ کے پاس آ جاتا تھا اور آپ کو تسلی دیتا تھا کہ اے محمد (ﷺ) تُو گھبراتا کیوں ہے مَیں تیرے پاس ہوں۔ اس وقت ابو بکرؓ کی آہ و زاری رائگاں جا رہی ہوتی تھی اور اللہ تعالیٰ کہتا تھا کہ محمد میرا معشوق ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے مَیں تیرے پاس کس طرح آ جاؤں نہیں بلکہ وہی خدا ایک ہی خدا ہے۔ اس کا ایک اَور ظہور اسی وقت ابو بکرؓ کے پاس بھی بیٹھا ہؤا ہوتا تھا اور ابو بکرؓ سے کہہ رہا ہوتا تھا کہ ابو بکرؓ گھبراتا کیوں ہے، مَیں تیرے پاس ہوں اور جب ابو بکرؓ گریہ و زاری کر کے اس کو اپنی طرف کھینچ لیتا تھا تو عمرؓ بھی اپنے گھر میں اپنے ظرف کے مطابق چِلّا رہا ہوتا تھا اورکہتا تھا اے خدا مَیں تیرا قرب چاہتا ہوں۔ تم یہ مت خیال کرو اور درحقیقت ایسا خیال کرنا کفر ہے کہ خدا تعالیٰ اس وقت کہتا ہو گا عمرؓ یہ کیسی نادانی ہے۔ محمد ﷺ کے ہوتے ہوئے مَیں تیرے پاس کس طرح آ جاؤں ، پھر اس کے بعد ابو بکرؓ کا مقام ہے ۔ ان دو کے ہوتے ہوئے مَیں تیرے پاس نہیں آ سکتا۔ یہ جواب اللہ تعالیٰ عمرؓ کو نہیں دیا کرتاتھا بلکہ اس وقت عمرؓ بھی اپنے ظرف کے مطابق ایک خدا کو اپنے پاس پاتا تھا جو اس سے یہ کہہ رہا ہوتا تھا کہ عمرؓ مَیں تجھ سے محبت کرتا ہوں تو گھبراتا کیوں ہے۔ مَیں تو تیرے پاس ہی ہوں۔ پھر یہ سلسلہ اسی طرح درجہ بدرجہ چلتا چلا جاتا تھا یہاں تک کہ وہ جاروب کش عورت جو مسجد میں جھاڑو دیا کرتی تھی اورجس کے مرنے پر صحابہؓ نے اتنی ضرورت بھی نہ سمجھی کہ رسول کریم ﷺ کو اطلاع دے دیں۔4 جب وہ رات کو کھڑی ہوتی تھی اور اپنے محدود ایمان اور کمزور عقیدے اور تھوڑے سے علم کے باوجود خدا تعالیٰ کے حضور فریاد کرتی تھی کہ اے خدا اپنی محبت کی ایک چنگاری میرے قلب میں بھی سلگا دے اور مجھے بھی اپنے قرب میں جگہ عطا فرما اس وقت ایک خدا اس کی جھونپڑی میں بھی اترا ہؤ ا ہوتا تھا اور اس بڑھیا کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہہ رہا ہوتا تھا کہ اے بڑھیا روتی کیوں ہے مَیں تو تیرے پاس ہوں۔ پس درحقیقت حضرت مجدد صاحب سرہندی کے اس شعر کا یہی مفہوم ہے کہ ہمارے خدا کا ایک ہاتھ نہیں بلکہ اس خدا کے اتنے ہی ہاتھ ہیں جتنے ہاتھ اس کی طرف محبت اور پیار کے ساتھ بڑھتے ہیں۔ اگر کسی وقت دس ہاتھ نہایت اشتیاق کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف بڑھتے ہیں تو اس کے بھی دس ہاتھ بن جاتے ہیں اور اگر کسی وقت ایک لاکھ ہاتھ اس کی طرف بڑھتے ہیں تو خدا تعالیٰ کے بھی ایک لاکھ ہاتھ بندوں کے مصافحہ کے لئے آگے بڑھتے ہیں اور اگر کسی وقت ایک کروڑ ہاتھ اس کی طرف بڑھتے ہیں تو خدا تعالیٰ کے بھی ایک کروڑ ہاتھ بندوں کے مصافحہ کے لئے بڑھتے ہیں۔ہر شخص سمجھتا ہے کہ میرے خدا نے مجھ سے مصافحہ کیا حالانکہ اس نے سب سے مصافحہ کیا ہوتا ہے۔ ہم ایک ہاتھ والے اپنے اوپر قیاس کر کے سمجھتے ہیں کہ جب ہم ایک وقت میں ایک شخص سے ہی مصافحہ کر سکتے ہیں تو خدا تعالیٰ بھی ایسا ہی کرتا ہو گا مگر یہ درست نہیں۔ خدا تعالیٰ کی طرف جتنے ہاتھ بڑھیں اتنے ہی ہاتھ خدا تعالیٰ کی طرف سے بندوں کی طرف بڑھنے شروع ہو جاتے ہیں۔ یہی مضمون تھا جسے پرانے ہندو رشیوں نے اس رنگ میں بیان کیا کہ وہ اپنے دیوتاؤں کی تصویروں میں کئی ہاتھ اور کئی سر بنا دیتے تھے۔ لوگوں نے ان کا اصل مفہوم نہ سمجھا اور یہ خیال کر لیا کہ دیووں کی طرح خدا تعالیٰ کے بھی سچ مچ کئی ہاتھ اور کئی سر ہوتے ہیں حالانکہ ان رشیوں اور بزرگوں نے صرف یہ بتایا تھا کہ تم یہ مت خیال کرو کہ اللہ تعالیٰ جب کسی بزرگ سے محبت کرتا ہے تو اس کی محبت میں ایسا محو ہو جاتا ہے کہ دوسروں کی محبت کا اسے کوئی خیال بھی نہیں رہتا۔ اسی طرح یہ مت خیال کرو کہ جب وہ کسی کو بڑا بناتا ہے تو دوسرے محبت کرنے والوں کو نظر انداز کر دیتا ہے بلکہ جتنے ہاتھ اس کی طرف اشتیاق اور محبت سے بڑھتے ہیں اتنے ہی خدا تعالیٰ کے ہاتھ نکل آتے ہیں او رجتنے لوگ اس کی طرف مُنہ کرتے ہیں اتنے ہی اس کے مُنہ بن جاتے ہیں۔ ہر شخص سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا ہاتھ میرے ہاتھ میں ہے اور اس کا مُنہ میرے مُنہ کی طرف ہے حالانکہ اس کا ہاتھ ہر اس شخص کے ہاتھ میں ہوتا ہے جو اس کی طرف محبت کے ساتھ بڑھا ہؤا ہوتا ہے اور اس کا مُنہ ہر اس شخص کے مُنہ کی طرف ہوتا ہے جو محبت اورپیار سے اس کی طرف دیکھ رہا ہوتا ہے۔ یہی وہ بات ہے جو حضرت مجدد صاحب نے بیان کی کہ ؂
پنجہ در پنجۂ خدا دارم من چہ پروائے مصطفیٰ دارم
ارے نالائقو! تم سمجھتے ہو محمد ﷺ کا ہاتھ خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے نکلے تب وہ میرے ہاتھ میں آئے گا؟ نہیں! بلکہ اس کا ایک ہاتھ میرے ہاتھ میں بھی ہے اور مَیں اس انتظار میں نہیں کہ کب محمد مصطفیٰ ﷺ فارغ ہوں کہ خدا تعالیٰ کا ہاتھ مَیں اپنے ہاتھ میں پکڑوں۔
یہی وہ مفہوم تھا جو حضرت مجدد صاحب سرہندی نے بیان کیا اوریہی وہ مفہوم تھا جسے ہندو بزرگوں نے خدا تعالیٰ کی تصویریں بنا کر اور اس کے کئی سر اور کئی ہاتھ بنا کر پیش کیا اور لوگوں کو تسلی دی کہ خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرتے وقت تم یہ مت خیال کرو کہ ہم چھوٹے ہیں ہم سے خدا کب محبت کرے گا۔ اس کے جتنے عاشق ہوتے ہیں اتنے ہی اس کے ہاتھ بن جاتے ہیں اور جتنے عاشق ہوتے ہیں اتنے ہی اس کے مُنہ بن جاتے ہیں۔ بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ جتنے عاشق ہوتے ہیں اتنے ہی خدا تعالیٰ کے سینے بھی بن جاتے ہیں جن سے وہ اپنے عشاق کے سینے لگاتا ہے مگر چونکہ تصویر میں اس کا اظہار نہیں کیا جا سکتا تھا اس لئے انہوں نے صرف ہاتھوں اور مونہوں کی کثرت پر ہی اکتفا کیا، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے عاشقوں سے صرف مصافحہ ہی نہیں کرتا ، صرف ان کی طرف مُنہ ہی نہیں کرتا بلکہ وہ ان سے معانقہ بھی کرتا ہے مگر خدا تعالیٰ کا دیکھنا اور خدا تعالیٰ کا مصافحہ کرنا اَور خدا تعالیٰ کا اپنے بندوں سے معانقہ کرنا اَور رنگ کا ہوتا ہے۔ نادان انسان ہر چیز کو مادی شکل دے دیتا ہے حالانکہ ان چیزوں کو ظاہری دیکھنے، ظاہری مصافحہ کرنے اور ظاہری معانقہ کرنے سے کوئی نسبت نہیں، یہ محض روحانی کیفیات ہیں جن کا مومنوں کےساتھ تعلق ہوتا ہے۔ غرض رمضان کے دنوں میں اللہ تعالیٰ مومنوں پر ظاہر ہوتا اور ان کے بہت ہی قریب آ جاتا ہے۔ پس ان ایام میں ہر شخص کے لئے موقع ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں بڑھے اور اس کے قرب کو حاصل کرے۔ بےشک دوسرے دنوں میں بھی اس کے قرب کے دروازے کھلے رہتے ہیں مگر ان دنوں میں وہ اَور دنوں کی نسبت زیادہ کھل جاتے ہیں اور ہر شخص کے گھر میں رمضان آ جاتا ہے۔ جب رمضان کا مہینہ قریب آتا ہے تو جس طرح کسی کا بیٹا دیر سے جدا ہو اور وہ ملنے کے لئے آئے تو وہ دوڑ کر اپنے بیٹے سے ملنے جاتا ہے۔ اسی طرح ہر شخص کو رمضان کا اشتیاق ہوتا ہے ، وہ اس سے ملتا ہے اور جانتا ہے کہ رمضان کے پردے کے پیچھے میر اخدا بیٹھا ہؤا ہے کیونکہ وہ فرماتا ہے رمضان کا بدلہ مَیں ہوں۔ پس جب تم رمضان کو ملے تو درحقیقت رمضان کے پردے میں تم مجھےملے کیونکہ مَیں ہی رمضان کے پردے کے پیچھے بیٹھا ہؤا ہوتا ہوں۔ پھر جب وہ جاتا ہے تو ویسا ہی کرب اور اضطراب اس کے دل میں پیدا ہوتا ہے جیسے محبت کرنے والے کے دل میں اپنے کسی عزیز اور پیارے کی جدائی پر کرب اور اضطراب پیدا ہوتا ہے۔ چنانچہ دیکھ لو جب کسی کا محبوب اور پیارا جدا ہوتا ہے تو وہ کچھ دور تک اس کے ساتھ جانے کی کوشش کرتا ہے، کوئی سٹیشن تک چلا جاتا ہے، کوئی اڈے تک چلا جاتا ہے اور کوئی سفر کا بھی کوئی حصہ اس کے ساتھ طے کرتا ہے۔ یہی حال رمضان کی جدائی پر ایک مومن کا ہوتا ہے۔ اسی لئے جب رمضان کا مہینہ ختم ہوتا تھا تو رسول کریم ﷺ اگلے مہینے میں بھی چھ روزے رکھا کرتے تھے۔ 5 یہ چھ روزے رکھنا کیا تھا ویسا ہی فعل تھا جیسے کوئی شخص کسی کو وداع کرنے کے لئے جاتا ہے ۔ جب تمہارا کوئی دوست یا تمہار ابیٹا یا تمہارا بھائی یا تمہارا باپ تم سے جدا ہونے لگتا ہے اور خدا تعالیٰ تمہیں فرصت اور توفیق دیتا ہے تو تم میں سے کوئی انہیں کمرے کے دروازہ تک چھوڑنے چلے جاتے ہیں، کوئی سٹیشن تک چلے جاتے ہیں اور کوئی دو سٹیشن تک چلے جاتے ہیں۔ اسی طرح محمد ﷺ رمضان کو چھ منزلیں چھوڑنے جایا کرتے تھے مگر آجکل بدقسمتی سے مسلمانوں کی حالت یہ ہو گئی ہے کہ وہ رمضان کو کچھ دن پہلے ہی وداع کر دیتے ہیں۔ چنانچہ رمضان کے ایام میں جو آخری جمعہ آتا ہے اس کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ جمعةُ الْوداع ہے یعنی لو جی رخصت۔ ہماری طرف سے رمضان صاحب خواہ دو دن باقی ہوں یا چار دن آپ ابھی سے رخصت ہیں حالانکہ آخری جمعہ کو جمعةُ الْوداع کہنے والے اگر اس بات میں سچے ہوتےاور انہوں نے رمضان کے پہلے دنوں سے خوب فائدہ اٹھایا ہوتا تب بھی رمضان کو قبل از وقت الوداع کہنے کے باوجود انہیں بہت کچھ مل جاتا مگر حقیقت یہ ہے کہ جو جمعةُ الْوداع کا دن ہوتا ہے ۔ وہی ان کا رمضان کے استقبال کا بھی دن ہوتا ہے۔ بے شک روزے مسلمان رکھ لیتے ہیں مگر اول تو روزوں کی جو شرائط ہیں ان کو وہ پورا نہیں کرتے پھر رمضان کے دنوں میں بھی نماز وقت پر پابندی سے نہیں پڑھتے اور دعاؤں کے تو قریب بھی نہیں جاتے۔ ایسی صورت میںجمعةُ الْوداع کا پورا نام درحقیقت جمعةُ الْاِسْتِقْبَال وَ الْوداع ہوتا ہے۔ یعنی آج ہی ہم رمضان کو ملنے جاتے ہیں اور آج ہی اسے رخصت کرنے جاتے ہیں۔ اس سے پہلے جو بعض دفعہ چوبیس پچیس دن گزرے ہوتے ہیں ان میں انہوں نے کوئی فائدہ اٹھایا نہیں ہوتا۔ اگر جمعہ کو عید ہو جائے اور تیس دن کا رمضان کا مہینہ ہو تو رمضان کی 23 تاریخ کو جمعةُ الْوداع ہوتا ہے اور اگر جمعہ کو عید نہ ہو تب بھی تئیس کے بعد کسی دن جمعةُ الْوداع ہوتا ہے۔ مگر اس تمام عرصہ میں انہوں نے کوئی کام نہیں کیا ہوتا۔اگر جمعةُ الْوداع کے بعد کے ایام میں وہ کام چھوڑ دیتے اور پہلے تئیس دن خدا تعالیٰ کے لئے اپنے نفس پر مشقت برداشت کر لیتے اور اس کے احکام کی پوری اطاعت اور فرماں برداری کرتے تب بھی مَیں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان پر ضرور رحم کرتا اور وہ کہتا میرے ان بندوں نے رمضان میں سے صرف سات دن ضائع کئے ہیں یا چھ دن ضائع کئے ہیں یا پانچ دن ضائع کئے ہیں یا چار یا تین دن ضائع کئے ہیں باقی دنوں سے انہوں نے فائدہ اٹھا لیا ہے مگر وہ تو استقبال اور وداع دونوں اکٹھے کرتے ہیں اور ان کی مثال بالکل ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کوئی شخص سٹیشن پر کسی کا استقبال کرنے کے لئے جائے تو کہے خوش آمدید، خدا حافظ یعنی اچھے آؤ اور اچھے جاؤ۔ گویا ایک ہی سانس میں وہ یہ کہتا ہے کہ آپ کے آنے کی بڑی خوشی ہے اور اسی سانس میں وہ یہ کہتا ہے کہ آپ کے جانے کا بڑا رنج ہے۔ ایسے لوگوں کو رمضان سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ رمضان ان کے لئے مردہ گزر جاتا ہے۔
پھر کسی شخص نے ان کے دل میں یہ غلط خیال پیدا کر دیا ہے کہ اس دن آ کر اگر وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کر لیں اور چند نفل پڑھ لیں تو اللہ تعالیٰ اپنےسارے گِلے اور شکوے بھول جاتا ہے۔ بے شک ہمارا خدا بڑا رحم کرنے والا ہے مگر آخر وہ بادشاہ ہے اور بادشاہ تمسخر اور استہزاء کو پسند نہیں کیا کرتے۔ وہ کب اس ہنسی کو پسند کر سکتا ہے کہ باقی سارے دن تو غفلت میں گزار دئیے جائیں نہ روزے رکھے جائیں، نہ نمازیں پڑھی جائیں، نہ دعاؤں سے کام لیا جائے، نہ اللہ تعالیٰ کی خشیت اور محبت دل میں پیدا کی جائے اوراس دن مسجد میں آ کر دس بیس نفل پڑھ لئے جائیں اور یہ سمجھ لیا جائے کہ مَیں خدا کے سارے قرضے اتار آیا ہوں۔ ہم بچپن میں ایک قصہ سنا کرتے تھے جسے سن کر ہنسا کرتے تھے حالانکہ درحقیقت وہ ہنسنے کے لئے نہیں بلکہ رونے کے لئے بنایا گیا تھا اور اس میں موجودہ مسلمانوں کا ہی نقشہ کھینچا گیا تھا مگر اس قصہ کے بنانے والے نے اشارے کی زبان میں مسلمانوں کی حالت کو بیان کیا تاکہ مولوی اس کے پیچھے نہ پڑ جائیں۔ وہ قصہ یہ ہے کہ کوئی لونڈی تھی جو سحری کے وقت باقاعدہ اٹھا کرتی مگر روزہ نہیں رکھتی تھی۔ مالکہ نے سمجھا کہ شاید یہ کام میں مدد دینے کے لئے اٹھتی ہے مگر چونکہ وہ روزہ نہیں رکھتی تھی۔ اس لئے مالکہ نے خیال کیا کہ اسے خواہ مخواہ سحری کے وقت تکلیف دینے کی کیا ضرورت ہے، اس وقت کا کام مَیں کر لیا کروں گی چنانچہ دو چار دن کے بعد مالکہ اس سے کہنے لگی۔ لڑکی تُو سحری کے وقت نہ اٹھا کر ہم خود اس وقت کام کر لیا کریں گے تمہیں اس وقت تکلیف کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بات سن کر اس لڑکی نے نہایت حیرت کے ساتھ اپنی مالکہ کے چہرہ کی طرف دیکھا کہ یہ مجھ سے کیا کہہ رہی ہے اور کہنے لگی بی بی نماز مَیں نہیں پڑھتی، روزہ مَیں نہیں رکھتی۔ اگر سحری بھی نہ کھاؤں تو کافر ہی ہو جاؤں۔ درحقیقت یہ تصویری زبان میں مسلمانوں کی حالت ہی بیان کی گئی ہے۔ دوسرے لفظوں میں تم یہ کہہ سکتے ہو کہ اگر کسی مسلمان کو کہا جائے کہ میاں جمعةُ الوداع سے کیا بنتا ہے ۔ تم کیوں خواہ مخواہ اس کے لئے اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالتے ہو تو وہ حیرت سے تمہارے مُنہ کو دیکھنے لگ جائے گا اور کہے گا بھائی جان یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ روزانہ نمازوں کے لئے مَیں مسجد میں نہیں جاتا، روزے مَیں نہیں رکھتا۔ اگر جمعةُ الوداع بھی نہ پڑھوں تو کافر ہی ہو جاؤں۔ پس یہ بھی ایک ہنسی ہی ہے کہ ایک وقت آ کر نماز پڑھ لی اور سمجھ لیا کہ ہمارے سب فرائض ادا ہو گئے ہیں اورپھر اس کے ساتھ ہی رمضان کو بھی رخصت کر دیا ۔کُجا محمد ﷺ کا وداع تھا اور کُجا ان لوگوں کا وداع ہے۔ یہ لوگ ایک ہفتہ پہلے ہی رمضان کو وداع کر دیتے ہیں اور محمد ﷺ عید کے بعد شوال میں چھ روزے رکھ کر رمضان کو وداع کرنے جاتے تھے۔ محمد ﷺ کا وداع رمضان کے ختم ہونے کے بعد ہوتا تھا اور آجکل کے مسلمانوں کا وداع رمضان کے ختم ہونے سے پہلے ہوتا ہے حالانکہ اگر مسلمان سوچتے تو انہیں معلوم ہو تاکہ روزہ ضائع ہونا کوئی معمولی بات نہیں ہوتی بلکہ روزہ خواہ بیماری کی وجہ سے ضائع ہو یا سفر کی وجہ سے مومن کی روح سخت بوجھ محسوس کرتی ہے اور اسے غم ہوتا ہے کہ وہ اپنے آقا کا حکم اپنی کسی معذوری کی وجہ سے بجا نہیں لا سکا۔ فرض کرو تمہارا کوئی پیارا دوست تم کو بلاتا ہے اور تم اس وقت بیمار ہو تو بےشک تم اس وقت معذور قرار دئیے جاؤ گے مگر کیا تم اس وقت ویسے ہی خوش ہو سکتے ہو جیسے وہ شخص خوش ہوتاہے جسے اس کے دوست نے بلایا اور اس کے ملنے کے لئے چل پڑا یا کیا تم محض اتنے پر خوش ہو جاؤ گے کہ مَیں اس وقت بیمار پڑا تھا تم اس وقت خوش نہیں ہو گے بلکہ اپنے دوست سے معذرت کرو گے اور عذر انسان کو خوش نہیں کرتا بلکہ افسردہ کیا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عذر انسانی عمل کے قائم مقام سمجھا جاتا ہے کیونکہ سچا غم ظاہری مصائب سے بہت زیادہ سخت ہوتا ہے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے۔ جن کے بالوں کا اکثر حصہ ایک دو دن کے اندر اندر غم کی وجہ سے سفید ہو گیا۔ چھ سات دن پہلے ان کے بال سیاہ تھے مگر یکدم کوئی ایسا غم پہنچا کہ ان کے بالوں کا اچھا خاصہ حصہ ایک دو دن کے اندر اندر سفید ہو گیا۔ ہم نے کتابوں میں پڑھا ہے کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہوئے ہیں۔ جن کے سارے بال ایک دن کے اندر اندر سفید ہو گئے یعنی سفید کھونٹیاں نکل آئیں۔ یہ نہیں کہ اوپر کے بال بھی سفید ہو گئے۔ اب دیکھو ظاہری بیماریوں کی وجہ سے انسان بعض دفعہ دو دو، چار چار ماہ بیمار پڑا رہتا ہے اور اس کے بال سفید نہیں ہوتے مگر غم کی وجہ سے تھوڑے عرصہ میں ہی بالوں کا اکثر حصہ سفید ہو جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دل کا غم ظاہری تکلیف سے بہت زیادہ سخت ہوتا ہے۔ پس جو شخص اپنی کسی معذوری کی وجہ سے اپنے رب تک نہیں جا سکتا۔ رمضان آتا ہے مگر بیماری یا کسی اَور عذر کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتا۔ اس کا دل اگر روزوں کے رہ جانے پر ایسا ہی غم اور صدمہ محسوس کرتا ہے تو یقیناً وہ خدا تعالیٰ کے حضور روزہ دار سمجھا جاتا ہے مگر یہ اس غم کی وجہ سے ہو گا جو اس کے دل کو روزے نہ رکھنے کی وجہ سے پہنچا ہو گا ورنہ جو لوگ رمضان کے ختم ہونے سے پہلے ہی اس کو وداع کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ ان کو یہ ثواب نہیں مل سکتا۔
رسول کریم ﷺ ایک دفعہ صحابہؓ کے ساتھ جہاد پر جاتے ہوئے ایک وادی میں سے گزر رہے تھے۔ منزل سخت کٹھن تھی راستہ پُر خطر تھا۔ قدم قدم پر کانٹے تھے ان کے ہاتھ زخمی ہو رہے تھے۔ ان کے پَیروں میں کانٹے چُبھ رہے تھے اور ہاتھ پاؤں پر پیٹیاں بندھی ہوئی تھیں کہ بعض صحابہ کو یہ خیال پیدا ہؤا کہ آج ہم نے بہت بڑا ثواب کمایا ہے۔ رسول کریم ﷺ کو بھی محسوس ہؤا کہ صحابہ کے دلوں میں فخر کے خیالات پیدا ہو رہے ہیں۔ جب شام کو قافلہ منزل مقصود پر پہنچا تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ مدینہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں جنہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے ویسا ہی ثواب مل رہا ہے جیسے تم کو مل رہا ہے تم کسی وادی میں سے نہیں گزرے مگر اس ثواب میں وہ بھی تمہارے ساتھ شریک رہے ہیں۔ اسی طرح تمہارے پاؤں میں کوئی کانٹا نہیں چبھا۔ جس کا ثواب تمہاری طرح ان لوگوں کو بھی نہ ملا ہو جو اس وقت مدینہ میں اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔6صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ تکلیفیں ہم اٹھائیں اور ثواب میں وہ بھی ہمارے شریک ہو جائیں۔ آخر وہ کون لوگ ہیں جو بغیر جہاد پر آئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ثواب حاصل کر رہے ہیں۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس لئے جہاد سے پیچھے نہیں رہے کہ انہیں کوئی بیماری تھی یا کمزوری تھی یا غفلت ان کے دلوں میں پائی جاتی تھی بلکہ وہ اس لئے پیچھے رہے ہیں کہ خدا نے ان کو جہاد میں شامل ہونے کی توفیق ہی نہیں دی وہ اندھے تھے یا لولے تھے یا لنگڑے تھے اور اس وجہ سے جہاد میں شامل نہیں ہو سکتے تھے مگر ان کے دل اس غم سے خون ہو رہے ہیں کہ ہمارے بھائی تو ثواب کا یہ عظیم الشان موقع لے گئے اور ہم اس سے محروم رہے اور ان کے دلوں کے یہ غم اتنی شدت پکڑ گئے ہیں کہ خدا نے کہا دیکھو میرے بندوں کو دین کی ایک خدمت سے محروم رہنے کا کتنا غم ہؤا ہے۔ اے فرشتو! ان کا نام بھی انہی لوگوں میں لکھ لو جو اس وقت جہاد کے لئے گئے ہوئے ہیں ۔ غرض دل کا غم معمولی چیز نہیں ہوتا بلکہ بعض دفعہ یہ اتنا شدید ہوتا ہے کہ انسان کو پاگل بنا دیتا ہے۔
رسول کریم ﷺ کے ایک صحابی کا مَیں نے کئی دفعہ ذکر کیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام بھی کئی دفعہ ذکر فرمایا کرتے تھے۔ قرآن کریم میں مِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ 7 والی آیت جو آتی ہے۔ اسی آیت کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ واقعہ بیان کیا کرتے تھے بلکہ اس آیت کا شان نزول بھی بعض لوگ اس واقعہ کو بیان کرتے ہیں۔ بدر کی جب لڑائی ہوئی تو صحابہ نے اس جنگ میں بڑی بڑی قربانیاں کیں۔ ایسی قربانیاں کہ ان واقعات کو پڑھ کر دل ان کی محبت سے لبریز ہو جاتا ہے مگر بدر کی جنگ کا رسول کریم ﷺ نے کوئی اعلان نہیں کیا تھا۔ اس لئے بہت سے صحابہؓ اس میں شامل نہیں ہوئے تھے مگر وہ اپنے اخلاص میں دوسرے بھائیوں سے کم نہیں تھے جب بدر سے یہ لوگ واپس آئے اور صحابہ کو معلوم ہؤا کہ رسول کریم ﷺ کی زندگی پچھلے دنوں کتنے خطروں میں سے گزری ہے تو ان کے دلوں میں بہت ہی افسوس پیدا ہؤا کہ ہم اس خدمت کے لئے کیوں نہ جا سکے چنانچہ جب انہیں اپنے بھائیوں کے واقعات معلوم ہوتے کہ کس کس طرح انہوں نے خدمت کی تو وہ بے تاب ہو جاتے تھے مضطرب ہو جاتے تھے اور گھبراہٹ سے ان کا اپنے بھائیوں کے متعلق رشک انتہا تک پہنچ جاتا تھا۔ حضرت انسؓ کے چچا کے متعلق احادیث میں ذکر آتا ہے کہ جب وہ جنگ بدر کا ذکر سنتے تو گھبرا کر کھڑے ہو جاتے اور سنانے والے کو جو یہ سنا رہا ہوتا تھا کہ ہم نے یوں کیا اور ہم نے یوں کیا۔ بڑے جوش کے ساتھ کہتے تم نے تو کچھ بھی نہیں کیا مَیں اگر ہوتا تو تمہیں دکھاتا۔ اب وہ ہوتے کس طرح، وہاں تو تھے ہی نہیں۔ بظاہر یہ کتنی ہنسی کی بات ہے۔ بظاہر یہ ایک منافقت کی علامت ہے کیونکہ منافق ہی ہوتا ہے جو کام تو نہیں کرتا مگر دعوے یہ کرتا ہے کہ اگر مَیں ہوتا تو اس طرح کرتا کیونکہ وہ اپنا نفاق چھپانے کے لئے اس طرح کے دعوے کیا کرتا ہے لیکن کبھی مومن بھی اپنا اضطراب چھپانے کے لئے اس قسم کے الفاظ استعمال کر لیا کرتا ہے۔ جب وہ دیکھتا ہے کہ خدمت دین کا کوئی موقع میرے ہاتھ سے نکل گیا ہے تو وہ دل ہی دل میں اپنی اس محرومی پر کڑھتا ہے اور دوسرے بھائیوں کے واقعات سن کر کہتا ہے۔ اگر مَیں ہوتا تو تمہیں بتاتا کہ قربانی کس طرح کی جاتی ہے۔ حضرت انسؓ کے چچا کی بھی یہی حالت تھی۔ وہ جب دیکھتے تھے کہ مَیں بدر کی جنگ میں محمد ﷺ کی جان بچانے والوں میں نہیں تھا تو ان کا دل کانپنے لگ جاتا تھا، بیٹھنے لگ جاتا تھا اور اس کا انہیں ایک ہی علاج نظر آتا تھا جیسے ڈاکٹر کسی کا دل کمزور دیکھتے ہیں تو اسے سپرٹ ایمونیا ایرو میٹک دے دیتے ہیں۔ اسی طرح ان کے لئے بھی سپرٹ ایمونیا ایرو میٹک یہی ہے کہ وہ کہتے مَیں اگر ہوتا تو بتاتا کہ کس طرح قربانی کیا کرتے ہیں۔ اگر اس طرح وہ اپنے دل کو تسلی نہ دیا کرتے تو شاید اس غم کی شدت کی وجہ سے وہ اسی وقت مر جاتے مگر ان کا یہ کلام منافقوں کی طرح نہیں تھا۔ آخر خدا نے ان کا امتحان لیا اور دنیا پر ان کے اخلاص اور ایمان کو ظاہر کر دیا چنانچہ وہ دن آیا جب جنگ احد ہوئی۔ وہ بھی اس لڑائی میں شامل ہوئے اور انہوں نے خوب دادِ شجاعت دی۔ خوب لڑے اور خوب محمد ﷺ کو کفار کے حملوں سے بچایا۔ آخر فتح ہوئی اور فتح کے بعد مسلمان دشمن کو قیدی بنانے اور اس کا مال و اسباب جمع کرنے میں مشغول ہو گئے۔ نادان دشمن اس کا نام لوٹ مار رکھتا ہے حالانکہ یہ لوٹ مار نہیں ہوتی بلکہ دشمن کو کمزور کرنے کا ایک ذریعہ ہوتا ہے۔ بہرحال انہوں نے سمجھا کہ اب میرا فرض پورا ہو گیا ہے۔ انہیں بھوک لگی ہوئی تھی اور چند کھجوریں ان کے پاس تھیں، وہ میدان جنگ سے کچھ پیچھے ہٹ کر فتح کی خوشی میں ٹہلنے لگ گئے اورکھجوریں کھانے لگے، کھجوریں کھاتے اور ٹہلتے ٹہلتے وہ ایک طرف آئے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک پتھر ہے جس پر حضرت عمرؓ بیٹھے ہوئے رو رہے ہیں وہ ان کو دیکھ کر حیران ہو گئے کہ آج تو ہنسنے کا دن ہے، خوش ہو نے کا دن ہے ، مبارکبادیوں کا دن ہے۔ ایسے موقع پر یہ رو کیوں رہے ہیں چنانچہ وہ حضرت عمرؓ سے مخاطب ہوئے اور انہیں کہا ارے میاں! آج تو خوشی کا دن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح دی اور تم اس وقت رو رہے ہو۔ حضرت عمرؓ نے کہا شاید تمہیں پتہ نہیں کہ فتح کے بعد کیا ہؤا انہوں نے کہا کیا ہؤا۔ حضرت عمرؓ نے کہا۔ دشمن کا لشکر پیچھے سے آیا اور اس نے دوبارہ حملہ کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہؤا کہ اسلامی لشکر تتر بتر ہو گیا اور رسول کریم ﷺ شہید ہو گئے ۔ اس انصاری نے کہا عمرؓ تو پھر بھی یہ رونے کا کونسا مقام ہے۔ ایک کھجور ان کے ہاتھ میں رہ گئی تھی۔ وہ انہوں نے اسی وقت پھینک دی اور اسے کہا ۔ تیرے اورمیرے خدا کے درمیان سوائے ایک کھجور کے اَور ہے کیا۔ پھر انہوں نے حضرت عمرؓ کی طرف دیکھا اور کہا عمرؓ! اگر رسول کریم ﷺ شہید ہو گئے ہیں تو پھر اس دنیا میں ہمارا کیا کام ہے ۔ پھر جہاں وہ گئے ہیں وہیں ہم بھی جائیں گے یہ کہہ کر تلوار لی اور اکیلے ہی دشمن کے لشکر پر جو ہزاروں کی تعداد میں تھا، حملہ آور ہو گئے۔ ایک آدمی کی ہزاروں کے مقابلہ میں کیا حیثیت ہوتی ہے۔ چاروں طرف سے ان پر حملے شروع ہو گئے اور وہ وہیں شہید ہو گئے۔ جنگ کے بعد جب رسول کریم ﷺ نے ان کی لاش تلاش کرائی تو ان کے جسم کے ستّر ٹکڑے ملے بلکہ بعض روایات میں آتا ہے کہ ان کی لاش پہچانی نہیں جاتی تھی۔ آخر انگلی کے ایک نشان کے ذریعہ ان کی ایک بہن نے یا کسی اَور رشتہ دار نے ان کو شناخت کیا۔ 8 تو دیکھو تو خدا تعالیٰ نے احد میں اس قسم کا نظارہ کیوں دکھایا۔ ہو سکتا تھا کہ وہ خاموشی سے شہید ہو جاتے مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں خاموشی سے شہید نہیں ہونے دیا بلکہ ان کی شہادت کو خوب نمایاں کیا تاکہ ان کے اخلاص اور ایمان کا اظہار ہو اور دنیا کو معلوم ہو کہ جب وہ کہا کرتے تھے کہ مَیں اگر بدر میں ہوتا تو تمہیں بتاتا کہ کس طرح قربانیاں کیا کرتے ہیں۔ اس وقت وہ محض تعلّی سے کام نہیں لے رہے ہوتے تھے بلکہ اپنی بے تابی اور اضطراب کا اظہار کر رہے ہوتے تھے بے شک جنگ بدر کو اس صحابیؓ نے کھو دیا مگر جنگ بدر کے کھوئے جانے کا اسے اتنا شدید صدمہ ہؤا کہ خدا کے نزدیک وہ بدری ہی سمجھا گیا۔ ان کی یہ مضحکہ خیز حرکت کہ لڑائی میں تو شامل نہ ہو سکے مگر جب واقعات سنتے تو گھبرا کر کہہ اٹھتے کہ مَیں اگر ہوتا تو ا س سے بڑھ کر قربانیاں کرتا۔ یہ دکھاوا نہیں تھا بلکہ ایک کرب تھا، ایک درد تھا، ایک عاشق کی پکار تھی، ایک فریاد تھی خدا تعالیٰ کے حضور کہ اے خدا تُو نے یہ موقع مجھے کیوں نہ دیا۔
یہی حالت جب عبادت کرنے والوں پر آتی ہے تو پھر خدا تعالیٰ ان کے لئے بھی ویسا ہی ہو جاتا ہے اور انہیں بھی عمل سے بہت بڑھ کر ثواب دے دیتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مَیں نے بارہا یہ واقعہ سنا ہے کہ حضرت معاویہ ایک دفعہ صبح کی نماز کے لئے نہ اٹھ سکے اور سوئے رہے شاید اس رات کو وہ زیادہ دیر تک کام کرتے رہے تھے بہرحال صبح وقت پران کی آنکھ نہ کھلی اور نماز کا وقت ضائع ہو گیا۔ اس کا انہیں اتنا غم ہؤا کہ سارا دن انہوں نے رو رو کر گزار دیا ۔ بار ہا انہیں خیال آتا کہ مجھ سے کس قدر کوتاہی ہوئی کہ مَیں نماز کے لئے وقت پر نہ اٹھ سکا اور بار بار اللہ تعالیٰ کے حضور استغفار کرتے۔ دوسرے دن انہوں نے کشفی حالت میں دیکھا کہ کوئی شخص انہیں نماز کے لئے جگا رہا ہے اور کہہ ر ہا ہے اٹھ اور نماز پڑھ۔ وہ کشفی حالت میں ہی گھبرا کر اٹھے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک اجنبی ان کے کمرے میں کھڑا ہے۔ انہوں نے اس سے پوچھا تُو کون ہے۔ وہ کہنے لگا مَیں ابلیس ہوں۔ کہنے لگے ابلیس! قرآن تو کہتا ہے کہ وہ نیکیوں سے روکتا ہے اور تُو نماز باجماعت کے لئے مجھے جگانے آ گیا۔ یہ کیا بات ہے؟ اس نے کہا بات یہ ہے کہ کل مَیں نے تمہیں سلائے رکھا جس کا نتیجہ یہ ہؤا کہ تم ایک نماز وقت پر نہ پڑھ سکے مگر اس پر تم نے سارا دن اتنی ندامت کا اظہار کیا اور اس قدر روئے اور گڑگڑائے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں سے کہا کہ میرے اس بندے کو نماز ضائع ہونے کا بہت ہی صدمہ ہؤا ہے اس کی نیکیوں کے خانہ میں ایک نماز کے ثواب کی بجائے سو نمازوں کا ثواب لکھ دو۔ مَیں نے سمجھا کہ اگر آج بھی تمہاری نماز رہ گئی تو تم رو رو کر اَور سو نمازوں کا ثواب لے جاؤ گے۔ میری غرض تو تمہیں ثواب سے محروم رکھنا ہے نہ کہ اَور زیادہ ثواب دلانا۔ اس لئے مَیں نے یہی مناسب سمجھا کہ تم کو نماز کے لئے جگا دوں تا تم کو ایک نماز کا ہی ثواب ملےسَو نمازوں کا ثواب نہ ملے۔ تو دیکھو سچی ندامت اور سچی خواہش جن لوگوں کےد لوں میں پیدا ہوتی ہے۔ ہمارے خدا نے ان کے لئے بھی اپنے رحم کے سامان پیدا کئے ہوئے ہیں۔ پس جہاں یہ مضمون ان لوگوں کے لئے ملامت ہے جن کو خدا تعالیٰ ثواب کا موقع عطا فرماتا ہے مگر وہ اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتے اور اگر اٹھاتے ہیں تو خدا تعالیٰ پر احسان جتلاتے ہیں اور کہتے ہیں ہم بڑے نمازی ہیں، ہم بڑے روزہ دار ہیں ، ہم بڑے حاجی ہیں بلکہ حج تو ایسی چیز ہے کہ اگر کوئی حج کر آئے تو اپنے نام کے ساتھ خود حاجی لکھنا شروع کر دیتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے یہ کبھی نہیں سنا کہ کوئی شخص نمازیں پڑھے تو اپنے آپ کو نمازی کہنا شروع کر دے مگر جب کوئی حج کر کے آتا ہے تو اپنے آپ کو حاجی کہنا شروع کر دیتا ہے گویا وہ نیکی تو کرتے ہیں مگر اس پر فخر کرتے اور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے خدا تعالیٰ پر بہت بڑا احسان کر دیا اور اس کی خدائی انہوں نے بنا دی۔ ورنہ خدا تو نَعُوْذُ بِاللہ بالکل کنگال تھا۔ پھر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو روزے باوجود استطاعت کے نہیں رکھتے، نمازیں نہیں پڑھتے، اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کے لئے بھی ملامت ہی ہے۔ مگر وہ لوگ جن کو خدا تعالیٰ نے روزے رکھنے کی توفیق نہیں دی بیماری کی وجہ سے یا سفر کی وجہ سے اور وہ روزوں کو پیچھے ڈالنے پر مجبور ہوئے ہیں ایسے لوگوں کو بھی خدا تعالیٰ نے یونہی نہیں چھوڑا بلکہ اگر واقع میں ان کے دلوں میں اخلاص پایا جاتا ہے اور وہ سچے اور مخلص مومن ہیں تو وہ بے روز ہو کر بھی روزہ دار ہیں کیونکہ ایسے شخص نے عشق کی وجہ سے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے تابع کر دیا ہوتا ہے۔ جب خدا کہتا ہے اے میرے بندے! تُو روزے نہ رکھ کیونکہ تُو بیمار ہے۔ تو وہ کہتا ہےاے میرے رب! مَیں نہیں رکھتا اور جب خدا کہتا ہے اے میرے بندے آج تُو اچھا ہے، آج روزہ رکھ لے تو وہ خدا کے حکم کے ماتحت روزہ رکھ لیتا ہے۔ پس جب وہ روزہ رکھ رہا ہوتا ہے تب بھی روزہ دار ہوتا ہے اور جب روزہ کسی معذوری کی وجہ سے چھوڑتا ہے۔ تب بھی روزہ دار ہوتا ہے، نادان دنیا اسے دیکھتی ہے اور کہتی ہے اس نے روزہ نہیں رکھا حالانکہ خدا کے نزدیک وہ ویسے ہی روزے دار ہوتا ہے جیسے وہ لوگ جنہوں نے روزے رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جب امرتسر میں لوگ پتھر برسا رہے تھے اس وجہ سے کہ آپ نے کیوں روزہ نہیں رکھا۔ اس وقت خدا تعالیٰ کے فرشتے آپ پر پھول برسا رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ اے احمد! تیرا یہ بے روزہ ہونا ہمارے نزدیک اتنا بڑا روزہ ہے کہ دنیا کے سارے روزے اس کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں رکھتے کیونکہ یہ تیرا بے روز ہونا ہمارے حکم کے ماتحت ہے اوروہ لوگ جنہوں نے اس وقت روزے رکھے ہوئے تھے مگر ان کے دلوں میں اخلاص نہیں تھا، ایمان نہیں تھا، محبت نہیں تھی اور نہ روزہ کی شرائط کو انہوں نے پورا کیا تھا۔ خدا تعالیٰ کے فرشتے ان کو مخاطب کر کے کہہ رہے تھے کہ اے بے روزو! تم اسی کو پتھر مار رہے ہو جو ایک ہی روزہ دار ہے مگر نادان دنیا ان باتوں کو نہیں سمجھتی۔ وہ خد اتعالیٰ کے ان باریک روحانی قوانین سے ناواقف ہوتی ہے جنہوں نے ہر طرف سے اللہ تعالیٰ کے پیاروں کے لئے فضل کا دروازہ کھولا ہؤا ہے۔ وہ سامانوں والا جس کے پاس ہر قسم کے سامان ہوتے ہیں اور ان سامانوں سے کام لے کر نیکیوں میں حصہ لیتا ہے۔ روپے ہوں تو زکوٰة دے دیتا ہے، علم ہو تو دوسروں کو علم سیکھا دیتا ہے، طاقت ہو تو روزے رکھ لیتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ میرا کیا ہے۔ میرے پاس کثرت سے سامان ہیں مَیں ان سے کام لے کر جب بھی چاہوں نیکی میں حصہ لے سکتا ہوں۔ وہ اپنے دل میں غرور سے یہ سمجھتا ہے کہ شاید نیکی کی سب سے زیادہ مجھے ہی توفیق ملی ہے حالانکہ خدا تعالیٰ کے نزدیک اس شخص کے لئے بھی ثواب حاصل کرنے کا ویسا ہی موقع ہوتا ہے جس کے پاس کوئی سامان نہیں ہوتے۔ جس کے پاس کوئی روپیہ نہیں ہوتا جس کے پاس کوئی طاقت نہیں ہوتی مگر اس کے لئے سب سے پہلی شرط ایمان ہے۔ وہ لوگ جن کے دل ایمان سے خالی ہوں، جن کے دل اخلاص سے خالی ہوں، جن کے دل اللہ تعالیٰ کی محبت سے خالی ہوں، وہ اس گروہ میں شامل نہیں ہو سکتے ۔ دنیا میں بعض نادان جھوٹے دھوکے باز اور فریبی تصوف کے رنگ میں دوسروں سے کہا کرتے ہیں کہ اجی ہمارے روزہ نہ رکھنے کا تم کیا ذکر کرتے ہو۔ ہمارے بے نماز ہونے سے تم کو کیا کام۔ ہم تو اللہ تعالیٰ کی محبت میں ہر وقت مدہوش رہتے ہیں ۔حالانکہ اگر وہ پہلے اپنی نماز ناگزاری اور بے روزہ داری کی وجہ سے دوزخ کے تیسرے درجہ میں ہوتے ہیں۔ تو اس فخر کی وجہ سے وہ دوزخ کے چوتھے درجہ میں چلے جاتے ہیں۔ ثواب اسی کو ملتا ہے جو اخلاص سے کام لیتا ہے جو سامانوں سے تہی دست ہونے کی وجہ سے کڑھتا اور اس غم کی وجہ سے پریشان رہتا ہے کہ مَیں فلاں نیکی سے محروم رہا۔ ایسا شخص عملی رنگ میں نیکی میں حصہ نہ لینے کے باوجود خد ا تعالیٰ کے نزدیک اسی ثواب کا مستحق سمجھا جاتا ہے جس ثواب کے مستحق دوسرے لوگ ہوتے ہیں کیونکہ اس کے دل کا غم عمل کے قائم مقام ہو جاتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ دنیا میں ایسے لوگ کتنے ہوتے ہیں جو اپنے دل کے غم کی وجہ سے خد ا تعالیٰ کا قرب حاصل کر لیتے ہیں۔ میرے نزدیک نماز پڑھ کر خدا تعالیٰ سے ثواب حاصل کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ بہ نسبت ان لوگوں کے جن کی نماز جاتی رہی ہو اور انہوں نے نماز کے ضائع ہونے پر اس قدر غم کیا ہو کہ خدا نے یہ فیصلہ کر دیا ہو کہ انہیں بھی نماز پڑھنے والوں جیسا ثواب دےد یا جائے۔ نماز کسی کی اسی حالت میں ضائع ہو سکتی ہے جب وہ بے ہوشی کی حالت میں ہو مگر بے ہوش ہونے والوں میں سے کتنے ہوتے ہیں جنہیں بعد میں نماز کے ضائع ہونے کا ایسا دکھ پہنچتا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی حالت غم کی وجہ سے موت سے بدتر ہو گئی ہے۔ یقیناً ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔ پس میرے نزدیک نماز سے خداتعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والے زیادہ ہوتے ہیں مگر نماز ضائع ہونے پر اپنے دل کے غم کی وجہ سے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کر لینے والے بہت تھوڑے ہوتے ہیں۔ اسی طرح روزوں سے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والے بہت زیادہ ہوتے ہیں مگر روزہ سے معذوری پر سچے غم کی وجہ سے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والے بہت کم ہوتے ہیں حالانکہ کام انہیں تھوڑا کرنا پڑتا ہے مگر چونکہ اس میں دل کے غم کا تعلق ہے اور یہ غم ہر شخص کے دل میں پیدا نہیں ہو سکتا اس لئے اپنے دل کے غم کی وجہ سے بہت کم لوگ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرتے ہیں اور دل کا غم ہمیشہ عشق سے پیدا ہوتا ہے۔ جس شخص کے دل میں عشق نہ ہو وہ کبھی کسی نیکی کے ضائع ہونے پر اس قدر غم نہیں کر سکتا کہ اللہ تعالیٰ اس کے غم کو ہی نیکی کا قائم مقام بنا دے۔ قصہ مشہور ہے کہ ہارون الرشید کے پاس ایک دفعہ کوئی شخص آیا جس کا رنگ بہت زرد تھا۔ بادشاہ نے اس سے پوچھا کہ تیرا رنگ اس قدر زرد کیوں ہے۔ اس نےکہا بات یہ ہے کہ میرے پاس ایک دفعہ کچھ تجارت کا مال تھا جس کی قیمت ایک شخص نے دو ہزار اشرفی دی اور مَیں اس خیال سے بہت ہی خوش ہؤا کہ آج خوب نفع کمایا ہے مگر اس مال پر کسی بادشاہ کی نظر تھی۔ جب سودا ہو چکا اور اس نے مال سنبھال لیا تو وہ کہنے لگا مجھے بادشاہ کی طرف سےیہ حکم دیا گیا تھا کہ اگر یہ مال تمہیں ایک لاکھ اشرفی تک مل سکے تب بھی ایک لاکھ اشرفی دے کر مال خرید لینا۔ اس کا یہ فقرہ کہنا تھا کہ ایک دم میرا رنگ زرد ہو گیا۔ اس خیال سے کہ 98 ہزار اشرفیاں مجھ سے کھوئی گئیں۔ یہ ہے تو قصہ مگر دل کے صدمہ کی وجہ سے دنیا میں اس قسم کے واقعات کا ہونا بعید از قیاس نہیں۔ ہارون الرشید نے کہا اچھا تمہارا رنگ زرد ہونے کی یہ وجہ ہے پھر اس نے اپنے خزانچی سے کہا جاؤ اور خزانہ سے ایک لاکھ اشرفیاں لے آؤ ۔ وہ گیا اور اس نے ایک لاکھ اشرفیاں لا کر بادشاہ کے سامنے رکھ دیں۔ ہارون الرشید نے اس شخص سے کہا مَیں یہ تمام اشرفیاں تم کو دیتا ہوں۔ اس نے کہا بادشاہ سلامت کیا واقع میں یہ اشرفیاں آپ نے مجھ کو دے دی ہیں۔ بادشاہ نے کہا ہاں۔ اس پر یکدم خوشی سے اس کا خون جوش میں آیا اور اس کے رنگ کی زردی سرخی میں تبدیل ہو گئی۔ تو غم انسان کی حالت کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتا ہے۔ اسی وجہ سے خدا نے اس کو عمل کا قائم مقام بنایا ہے۔ تم ہزار نماز منافقت سے پڑھ سکتے ہو مگر غم کا معمولی اثر بھی تم پر منافقت سے نہیں ہو سکتا۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ ایمان تم کو پیچھے ملے اور نماز تم پہلے پڑھو مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ غم تمہارے دل میں پہلے پیدا ہو اور ایمان اور اخلاص بعد میں پیدا ہو۔ بہرحال جن لوگوں نے کسی معذوری کی وجہ سے روزے نہیں رکھے ، ان کے ثواب کے لئے بھی خدا تعالیٰ نے راستہ کھلا رکھا ہؤا ہے۔ اسی طرح جن کے دلوں میں ایمان اور اخلاص ہے۔ ان کے لئے بھی خدا تعالیٰ کے قرب کے دروازے کھلے ہیں۔ باقی جو بہانے ساز ہیں ان کے لئے رمضان کا آنا یا نہ آنا برابر ہے۔ ان کا کسی ایک دن نماز پڑھنے کے لئے آ جانا۔ درحقیقت اپنے ایمان کے دعویٰ پر *** کی مہر لگا دینا ہے البتہ جو لوگ مخلص اور ایماندار ہیں ان کے اندر رمضان میں ہر روز ایک نئی تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔ ہر روز انہیں زیادہ دعاؤں کی توفیق ملتی ہے۔ ہر روز انہیں اللہ تعالیٰ کا زیادہ قرب حاصل ہوتا ہے اور ہرروز انہیں زیادہ پاکیزگی اور طہارت حاصل ہوتی ہے اور اگر اسباب کی تہی دستی کی وجہ سے کسی دن ان کو روزہ رکھنے کی توفیق نہیں ملتی۔ تو ان کا دل اپنی اس محرومی پر اس قدر دردمند ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ویسا ہی ثواب دے دیتا ہے جیسے اور روزہ داروں کو ثواب دیتا ہے کیونکہ اس عملی تہی دستی کے ساتھ ان کے دل کا غم ملا ہؤا ہوتا ہے اور اس وجہ سے یہ تہی دستی بھی خدا تعالیٰ کو بہت پیاری لگتی ہے۔‘‘
(الفضل 17 اکتوبر 1942ء )
1: بخاری کتاب الصوم باب فضل الصوم
2: بخاری کتاب التھجد باب الدعاء و الصلٰوة من اٰخر اللیل۔
3: البقرة: 187
4: بخاری کتاب الجنائز باب اَلصَّلٰوةُ عَلَی الْقَبْر (الخ)
5: مسلم کتاب االصِّیَام باب استحباب صوم سِتَّة ایام (الخ)
6: بخاری کتاب المغازی حدیث نمبر 4423 ایڈیشن 1999ء مطبوعہ ریاض
7: الاحزاب: 34
8: سیرت ابن ہشام جلد 3 صفحہ 88 مطبوعہ مصر 1936ء


43
اصرار اورتکرار کے ساتھ اجتماعی طور پر تبلیغ احمدیت کی جائے
(فرمودہ 16 اکتوبر 1942ء)

تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’ہماری جماعت کو اللہ تعالیٰ نے اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے جو ہتھیار بخشا ہے وہ تبلیغ ہے۔ تلوار کا جہاد ہمارے لئے کم سے کم اس زمانے میں مقرر نہیں ہے۔کم سے کم اِس زمانہ میں ہمارے لئے مقرر نہیں ہے مَیں نے اس لئے کہا ہے کہ جہاد کے متعلق جو پیشگوئیاں اور احکام ہیں وہ وقتی ہیں۔ جہادِ سیف بھی خدا تعالیٰ کے دائمی احکام میں سے ایک حکم ہے اور خدا تعالیٰ کے دائمی احکام منسوخ نہیں ہؤا کرتے، ملتوی ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح جہاد کا حکم حالات کے مطابق ملتوی ہو سکتا ہے، منسوخ نہیں ہو سکتا۔ جس قسم کے حالات میں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام گزرے یا آپ کے قریب کے زمانہ کے لوگ گزر رہے ہیں ضروری نہیں کہ یہ حالات ہمیشہ اسی طرح رہیں۔ آج اگر تلوار کے ساتھ احمدیوں کو مجبور نہیں کیا جاتا کہ وہ اپنے دین کو چھوڑ دیں تو کون کہہ سکتا ہے کہ کل ایسے حالات پیدا نہ ہوں گے کہ کسی ملک میں اسے مٹانے کے لئے تلوار نہ اٹھائی جائے گی اورپھر وہاں احمدیت ہو گی بھی ایسے زور کی کہ وہ مخالفت علمی نہ کہلا سکے گی بلکہ حقیقی مخالفت کہلائے گی اور اس وقت مقابلہ تلوار کے ساتھ ہی ضروری ہو گا۔ پس آج ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کل احمدیت کے لئے کیا حالات ظاہر ہوں گے اور کیسی مشکلات اسے پیش آئیں گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی یہی فرمایا ہے کہ ع
عیسیٰ مسیح جنگوں کا کر دے گا التوا 1
آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ قیامت تک کے لئے جنگوں کو منسوخ کر دے گا۔ التوا ایک عرصہ تک ہوتا ہے اور احمدیت کو بھی ایسے حالات میں سے گزرنا پڑ سکتا ہے کہ دشمن اسے تلوار سے مٹانے کی کوشش کریں اور اس لئے احمدیوں کو بھی تلوار کا جواب تلوار سے دینا پڑے۔ آج دشمن دلائل سے حملہ کرتا ہے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی دلائل سے مقابلہ کیا اور آپ کی جماعت بھی دلائل سے مقابلہ کر رہی ہے۔ پس ہمارے لئے اشاعت اسلام کا ذریعہ تبلیغ کےسوا کوئی نہیں۔ پہلے انبیاء کے زمانہ میں بھی ترقی کا ذریعہ تبلیغ ہی رہی ہے مگر ایسا بھی ہوتا رہا ہے کہ ان کے دشمن خود ہی دوسرے ذرائع بھی مہیا کر دیتےرہے۔ اس کی کوئی ایک مثال بھی پیش نہیں کی جا سکتی کہ کبھی کسی نبی نے جبر سے کام لیا ہو اور تلوار اٹھائی ہو اور کسی کے سر پر تلوار رکھ کر کہا ہو کہ مانو ورنہ قتل کر دئیے جاؤ گے۔ یہ بات خدا تعالیٰ کی صفات کے خلاف ہے اور انبیاء خدا تعالیٰ کی صفات کے خلاف کبھی کوئی کام نہیں کرتے۔ جب بھی کسی نبی نے تلوار اٹھائی اور لڑائی کی ہے دفاع کے طور پر ہی کی ہے۔ گویا جس حد تک تبلیغ میں جنگ کے مواقع پیدا ہوئے ہیں وہ دشمن نے ہی بہم پہنچائے ہیں۔ انبیاء نے خود پیدا نہیں کئے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اسلام کی حکومت عرب پر قائم ہو گئی تھی اس لئے لوگوں نے مان لیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ حکومت قائم ہونے کے سامان کس نے پیدا کئے۔ پہلے آنحضرت ﷺ نے تلوار اٹھائی یا کافروں نے اور جب اسلام کی حکومت قائم ہونے کے سامان خود کافروں نے مہیا کئے تو الزام آنحضرت ﷺ پر کس طرح آ سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص خود آ کر کہے کہ مجھے کلمہ پڑھاؤ تو اسے کلمہ پڑھا دینا جبر نہیں کہلا سکتا اور اگر عرب پر اسلام کی حکومت قائم ہونا اعتراض کی بات ہے تو کسی کے کہنے پر اسے کلمہ پڑھانے کو بھی جبر ہی کہنا پڑے گا۔ عرب پر اسلام کی حکومت قائم ہونے کا دروازہ خود کافروں نے کھولا اور جو دروازہ دوسرا کھولے وہ جبر نہیں کہلا سکتا۔ ہاں اگر انسان خود جا کر لالچ یا حرص دلا کر کسی کو منالے تو یہ مالی جبر کہلائے گا یا اگر تلوار دکھا کر منا لے تو یہ تلوار کا جبر ہو گا۔ لیکن عرب پر اسلام کی حکومت کا رستہ خود کافروں نے کھولا۔ اس لئے یہ جبر نہیں۔ جس طرح اگر کوئی خود آ کر اطاعت قبول کرے تو یہ جبر نہیں کہلا سکتا۔ ایک شخص اگر خود تحقیق کرے اور پھر تصدیق کر کے خواہش کرے کہ مجھے کلمہ پڑھاؤ تو کوئی علقمند اسے جبر نہیں کہہ سکتا۔ پس جب لڑائی کا سامان خود دشمن کرے اور اس کے نتیجہ میں صداقت پھیلے تو یہ جبر نہیں کہلا سکتا کیونکہ اس کے پھیلنے کے سامان خود دوسرے نے کئے ہیں۔ ہاں اگر ماننے والا جھوٹے طور پر مانتا ہے تو یہ بھی اس کی منافقت ہو گی کیونکہ اسی نے پہلے سامان پیدا کیا اور پھر خود ہی منافقت کے طور پر مان لیا۔ پس منافقت بھی اسی کے ذمہ ہو گی اور اخلاص بھی اسی کے ذمہ ہو گا۔
بہرحال کبھی کسی نبی نے جبر سے کام نہیں لیا اور دوسروں پر جبر کر کے اسلام نہیں پھیلایا۔ ہاں یہ ہوتا رہا ہے کہ دشمنوں کی طرف سے ایسے سامان پیدا کر دیئے جاتے تھے کہ صداقت کو ظاہری شان و شوکت حاصل ہو جاتی تھی اور اس سے بھی بعض لوگ متاثر ہو جاتے تھے مگر ہماری جماعت کو اللہ تعالیٰ نے اس ظاہری شان و شوکت سے بھی محروم رکھا ہے اور فرمایا ہے کہ اس کی ترقی تبلیغ سے ہی ہو گی۔ گو جیسا کہ مَیں نے بیان کیا ضروری نہیں کہ ہمیشہ ہی ایسا ہو ۔ ہو سکتا ہے کہ کسی زمانہ میں دشمن احمدیت کے خلاف تلوار اٹھا ئے اور خدا تعالیٰ احمدیوں کو بھی حکم دے دے کہ تم بھی تلوار کا مقابلہ تلوار سے کرو کیونکہ اب تم پر مظالم حد سے زیادہ ہو گئے ہیں لیکن بہرحال ہمارے سلسلہ کی ابتدائی ترقی تبلیغ سے ہی ہونی ہے، ہوتی رہی ہے ، ہو رہی ہے اور آئندہ بھی ہو گی۔ اس وقت تک ہم جس رنگ میں تبلیغ کرتے رہے ہیں وہ انفرادی تبلیغ کا رنگ ہے۔ یہ تبلیغ انفرادی تبلیغ کہلا سکتی ہے، اجتماعی تبلیغ نہیں کہلا سکتی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے زمانہ میں اجتماعی تبلیغ کا رنگ تھا۔ دشمن پر ایسے حملے ہوتے تھے کہ وہ مجبور ہو جاتا تھا کہ یا لڑے اور یا مان لے۔ اشتہار پر اشتہار شائع ہوتے رہتے تھے اور دنیا کو مخالفت کی دعوت دی جاتی تھی اور مجبور کیا جاتا تھا کہ لوگ مقابلہ کریں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام فرمایا کرتے تھے کہ انبیاء کو لوگوں نے جو مجنون کہا ہے تو اس کی بھی وجہ ہے ۔ وہ جس رنگ میں تبلیغ کرتے ہیں اسے دیکھتے ہوئے لوگ ان کو مجنون کہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ہم اشتہار پہ اشتہار دیتے ہیں ، لوگ مخالفت کرتے ہیں۔ جماعت کے لوگ مخالفت پر برا بھی مناتے ہیں، چِڑتے بھی ہیں مگر ہم خود کب مخالفوں کو چپ رہنے دیتے ہیں اور اگر وہ چپ ہو جائیں تو ہم اَور اشتہار دے دیتے ہیں۔ انبیاء کی مثال تو اس بڑھیا کی سی ہے جسے بچے گالیاں دیتے اور دِق کیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ وہ تنگ آ کر ان کو بددعائیں دیتی کہ مجھے خواہ مخواہ دِق کرتے ہیں۔ ان بد دعاؤں کی وجہ سے بعض دفعہ ماں باپ اپنے بچوں کو گھروں میں روک لیتے اور دروازوں کو قفل لگا دیتے کہ تم باہر جا کر صبح صبح بد دعائیں لیتے ہو لیکن جب وہ بڑھیا دیکھتی کہ آج اسے کوئی بچہ دِق نہیں کرتا تو وہ ہر دروازہ پر جاتی اور کہتی کہ کیا آج تمہارا مکان گِر گیا، کیا سب بچے آج مر گئے اور یہ دیکھ کر ماں باپ دروازے کھول دیتے اور بچوں سے کہتے کہ جاؤ جو مرضی ہے کرو۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ انبیاء کی بھی یہی مثال ہوتی ہے، دشمن انہیں دِق کرتا اور مخالفت کرتا ہے لیکن اگر وہ کسی وقت مخالفت نہ کرے پھر بھی انہوں نے تو اپنی بات اسے ضرور سنانی ہے اور جب وہ سنائیں گے۔ وہ پھر مخالفت کرے گا ۔ ان کے دشمن صداقت پر صبر سے کام نہیں لے سکتے اور انبیاء تبلیغ سے باز نہیں رہ سکتے اور دونوں کی یہ حالت مل کر لڑائی کو جاری رکھتی ہے، دشمن مخالفت کرتے ہیں۔ انبیاء ان کو اس پر ڈراتے بھی ہیں کہ تم پر ہماری مخالفت کی وجہ سے عذاب آئے گا لیکن اگر وہ کسی وقت چپ ہو جائیں تو یہ پھر اپنی تبلیغ شروع کر دیتے ہیں اور اس پر دوسرا فریق پھر گالی گلوچ شروع کر دیتا ہے کیونکہ گالی کے سوا اس کے پاس کچھ ہوتا نہیں۔ یہ ضرور تبلیغ کرتے ہیں اور اس کے پاس ان کا ایک ہی جواب ہوتا ہے یعنی گالیاں۔ چنانچہ وہ ضرور گالیاں دیتا ہے۔ تو یہ اجتماعی تبلیغ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں تھی مگر بعد میں اس میں سستی پیدا ہو گئی۔ بےشک جماعت بڑھ بھی رہی ہے، ترقی بھی کر رہی ہے، رسائل بھی زیادہ ہیں، اخبار بھی اب زیادہ ہیں مگر وہ جو رنگ تھا کہ دشمن کو چھیڑنا اور مجبور کرنا کہ وہ سچائی کی طرف توجہ کرے ، اب آگے سے کم ہے۔ اب کچھ لوگ جماعت میں ایسے پیدا ہو گئے ہیں جو پیغامیوں کی طرح کہتے ہیں کہ ہمیں ایسی تقریریں کرنی چاہئیں کہ لوگ سنیں اور کہیں کہ واہ وا احمدی خوب تقریریں کرتے ہیں، مخالفوں کو دِ ق کر کے تبلیغ کی طرف متوجہ کرنا اب نہیں بلکہ اس طرف مائل ہیں کہ لوگ کہیں احمدی اچھا کام کر رہے ہیں لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ ایسے لوگ صداقت کو قبول نہیں کرتے۔ صداقت وہی قبول کرتے ہیں جو لڑتے ہیں مقابلہ کرتے ہیں اور یہ لڑائی اور مقابلہ دو طریق سے ہی ہوتا ہے یا تو کوئی فطرتاً مخالف ہو اور یا پھر دلائل کا اصرار اور تکرار کر کے اسے توجہ کرنے پر مجبور کر دیا جائے اور چونکہ وہ ماننا نہیں چاہتا، اس کی ظاہری شرافت جاتی رہے اوریا پھر اس کے اندر اتنی شرافت ہو کہ وہ تحقیق کی طرف مائل ہو جائے۔ اصرار اور تکرار کے دو ہی نتائج ہو سکتے ہیں یا برے اخلاق ظاہر ہو جائیں اور وہ لڑ پڑے اور یا پھر سستی کو چھوڑ کر صداقت کی طرف مائل ہو لیکن اب ہماری تبلیغ کا عام طور پر یہ رنگ نہیں ہے اور درحقیقت آج اس کی پہلے کی نسبت بہت زیادہ ضرورت ہے۔ ہمیں اس کی ضرورت نہیں کہ لوگ ہماری تعریف کریں ۔ اگر لوگ ہماری تعریف کریں گے تو ہمیں کیا دے دیں گے۔ ہمیں تو خدا تعالیٰ نے دنیا کے نظام کو توڑنے کے لئے کھڑا کیا ہے اور ہم نے ان لوگوں کے جھوٹے خیالات کے گھر کو بھی توڑنا ہے جو ہماری تعریف کریں کیونکہ جب تک پرانی عمارت گِرا نہ دی جائے ہماری نئی عمارت تعمیر نہیں ہو سکتی اور اس وقت تک ہماری اور ان کی خیالات میں صلح نہیں ہو سکتی جب تک کہ ان کے خیالات کی عمارت کو توڑ کر اس کی جگہ ہم اپنے خیالات کی عمارت کھڑی نہ کر دیں۔ اس وقت تک ہم ان میں مل کر بیٹھیں گے بھی، ان کی مجالس میں بھی جائیں گے، اکٹھے بھی ہوں گے مگر وحدت خیال جو مذہب کا خاصہ ہے اس وقت تک پیدا نہ ہو سکے گی۔ مذہب مل بیٹھنے پر خوش نہیں ہوتا بلکہ مل جانے پر خوش ہوتا ہے۔ مل بیٹھنے کو تو ہندو ، عیسائی، مسلمان سب مل بیٹھتے ہیں مگر مذہب اس پر خوش نہیں ہوتا۔ مذہب اس پر خوش ہوتا ہے کہ باہم مل جائیں جس طرح پانی پانی میں مل جاتا ہے۔ مل بیٹھنا کوئی چیز نہیں، مل بیٹھنے کو تو سب لوگ جو یہاں بیٹھے ہیں ملے بیٹھے ہیں۔ مگر کوئی منافق ہے، کوئی بڑا مومن ہے، کوئی چھوٹا مومن ہے اس طرح بیٹھنے کی مثال تو ایسی ہی ہے جیسے سطح آب پر پانی کے بھرے ہوئے مشکیزے تیر رہے ہوں لیکن جو مخلص ہوتے ہیں، نظر تو وہ بھی الگ الگ ہی آتے ہیں مگر درحقیقت ان کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے دریا یا سمندر میں پانی ہو، کوئی دریا سیدھا نہیں بہتا، اس کے گوشے اور کنارے ادھر ادھر نکلے ہوتے ہیں مگر وہ الگ الگ پانی نہیں ہوتے بلکہ اسی ایک دریا کا پانی ہوتا ہے۔ اسی طرح مخلص مومن شکلوں میں تو الگ الگ ہوتے ہیں مگر ان کے دماغوں میں ایسی رَو پیدا ہوتی ہے کہ جس سے وہ سارا پانی ایک ہی ہوتا ہے۔ مَیں نے بتایا ہے کہ اسی مجلس میں بعض لوگ ایسے ہیں کہ جس طرح پانی کے مشکیزے سمندر کی سطح پر تیر رہے ہوں لیکن باقی لوگ جو مخلص ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے سمندر کے پانی کے قطرے ہوں۔ ہر قطرہ کا ایک الگ وجود ہوتا ہے مگر وہ سمندر میں ملا ہؤا ہوتا ہے اسے ہم الگ کر سکتے ہیں مگر وہ صرف ظاہر میں الگ ہو گا۔ اس کی حقیقت سمندر سے الگ نہیں ہو سکتی۔ جب بھی اسے سمندر میں ڈالو گے وہ اپنا وجود کھو دے گا۔ اسلام اور احمدیت اسی قسم کے اتحاد ہو چاہتی ہے اور یہ اتحاد ایمان کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتا اور دنیا میں امن بھی اسی اتحاد سے ہی پیدا ہو سکتا ہے ۔ جب یہ اتحاد پیدا ہو جائے تو لڑائی کی اصل وجوہ دور ہو جاتی ہیں، دلوں میں ایسی محبت و اخلاص پیدا ہو جاتا ہے کہ باوجود لڑائی جھگڑوں کے انسان کا دل محبت سے خالی نہیں ہوتا۔ یوں تو لڑائیاں بھائیوں بھائیوں میں بھی ہو جاتی ہیں ۔ ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ امام حسنؓ و امام حسینؓ میں ایک دفعہ جھگڑا ہو گیا اور امام حسینؓ نے زیادتی کی۔ دوسرے دن ایک شخص نے دیکھا کہ امام حسنؓ ، امام حسینؓ کے گھر کی طرف جا رہے ہیں۔ اس نے کہا حسن کہاں جاتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا حسین کے ہاں معافی مانگنے جا رہا ہوں۔ وہ شخص اس مجلس میں موجود تھا جس میں جھگڑا ہؤا تھا۔ اس نے کہا میرا تو خیال ہے کہ آپ حق پر ہیں اور حسین کی زیادتی تھی۔ امام حسنؓ نے کہا ٹھیک ہے مگر مَیں نےسنا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب دو بھائی لڑ پڑیں تو صلح میں پیش قدمی کرنے والا پانچ سو سال پہلے جنت میں جائے گا ۔ اس پر مَیں نے دل میں کہا کہ مَیں ہوں بھی حق پر اور حسین نے مجھ پر زیادتی بھی کی ۔ اب اگر وہ پہلے صلح کے لئے آ گئے تو وہ جنت میں بھی مجھ سے پہلے چلے جائیں گے اور میرے لئے یہ کتنے شرم کی بات ہے کہ اس دنیا میں بھی حسین نے مجھ پر ظلم کیا اورجنت میں بھی وہی پہلے چلے جائیں۔ اس لئے مَیں صلح کرنے خود ہی جا رہا ہوں تا کم سے کم جنت میں تو مَیں پہلے جا سکوں۔ اب دیکھو ، یہ خیالات کا اتحاد تھا جس نے دلوں میں ایسا نور پیدا کر دیا تھا کہ اگر کبھی اختلاف بھی ہو جاتا تھا تو ایک دوسرے کے مخالف نہ ہو جاتے تھے ۔ حضرت علیؓ، حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ میں لڑائی ہوئی۔ حضرت طلحہؓ اور زبیرؓ ایک طرف تھے اور حضرت علیؓ ایک طرف۔ لڑائی ہو رہی تھی کہ ایک شخص دوڑا دوڑا آیا اور حضرت علیؓ سے کہا کہ مَیں آپ کو بشارت دیتا ہوں۔ آپ نے پوچھا کس بات کی۔ اس نے کہا آپ کےد شمن طلحہؓ کو مَیں مار کر آیا ہوں۔ اب دیکھو لڑائی ہو رہی ہے اس بات کے لئے ایک دوسرے کے بالمقابل کھڑے ہیں کہ ایک دوسرے کو مار دیں گے، اصولی اختلاف پیدا ہو گیا تھا۔ اس لئے جنگ ناگزیر ہو گئی تھی مگر ان سب باتوں کے باوجود حضرت علیؓ نے اس شخص کی بات سن کر اسے یہ جواب نہیں دیا کہ اَلْحَمْدُ لِلہ اور یہ حکم نہیں دیا کہ اسے خلعت دی جائے بلکہ فرمایا اور مَیں تم کو جہنم کی بشارت دیتا ہوں۔ مَیں نے خود آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک سے اپنے کانوں سے سنا ہے کہ اے طلحہ ایک دن ایک شخص تجھے مارے گا اور وہ جہنمی ہو گا۔2 تو دیکھو ، حضرت علیؓ باوجود اس کے کہ لڑنے آئے تھے مگر پھر بھی اس ارادہ سے آئے کہ جس طرح بھی ہو گا طلحہ کی جان بچائیں گے۔ ان دونوں کو اگر حالات نے جنگ پر مجبور بھی کر دیا تب بھی دلوں کی رَو ایک طرف ہی چل رہی تھی۔ آجکل جنگیں ہوتی ہیں ایک Trench(خندق) والے تاک لگاکر بیٹھے رہتے ہیں کہ دوسری Trench سے کوئی سر نکالے اور جونہی ادھر سے کوئی سر نکالتا ہے، ڈز ہوتا اور اسے گولی جا لگتی ہے لیکن حضرت علیؓ اور طلحہؓ و زبیرؓ کی لڑائی میں شام کے وقت لڑائی موقوف کر کے طلحہؓ کے آدمی حضرت علیؓ کے پیچھے نماز پڑھنے کے لئے آ جاتے تھے۔ اسی طرح جب معاویہ سے حضرت علیؓ کی جنگ تھی تو تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ معاویہ کے بہت سے آدمی حضرت علیؓ کے پیچھے نماز پڑھنے آ جاتے تھے بلکہ بعض تو کھانا بھی دوسرے فریق کے دستر خوان پر آ کر کھاتے تھے۔ یہ نہیں ہوتا تھا کہ سنتری للکارتا ہے کون آ رہا ہے۔ اس نے جواب دیا۔ دوست۔ تو اس نے پوچھا کہ کیا ہے۔ آج کا پروانۂ راہداری۔ اس نے کہا۔ فلاں ۔ تو اس نے کہہ دیا آ جاؤ اور اگر وہ دوسرے فریق کا آدمی ہؤا اور اس نے پوچھا کون آ رہا ہے۔ اس نے کہا مَیں فلاں ہوں۔ بس یہ سنتے ہی اس نے گولی ماری اور یہ بے چارہ وہیں ختم ہو گیا بلکہ یہ ہوتا تھا کہ شام کو لڑائی ختم ہوتی تو تلوار گھر میں رکھی اور چھڑی ہاتھ میں لے کر علی کے آدمی معاویہ کے لشکر میں سیر کے لئے جا رہے ہیں اور معاویہ کے علی کے لشکر میں۔ اورپھر دستر خوان بچھائے جاتے ہیں اور ایک دوسرے کے دستر خوان پر کھانا کھاتے ہیں۔ حضرت ابو ہریرہؓ حضرت علیؓ کی طرف تھے مگر کھانا ہر روز معاویہ کے ہاں کھایا کرتے تھے۔ کسی نے کہا ابو ہریرہ یہ کیا؟ ہو تو علی کے طرفدار ۔ نمازیں علی کے پیچھے پڑھتے ہو اور کھانا معاویہ کے پاس جا کر کھاتے ہو۔ حضرت ابو ہریرہؓ نے جواب دیا کہ نماز علی کے پیچھے لطف دیتی ہے اور کھانا معاویہ کا مزیدار ہوتا ہے۔ تو دیکھو لڑائی بھی ہو رہی ہے مگر محبت بھی قائم ہے کیونکہ دماغ میں ایک ہی رَو چل رہی ہے۔ یہ نہیں کہ اگر اختلاف ہے یا لڑائی ہے تو ایک دوسرے کی صورت نہیں دیکھنی اور جس طرح بھی ممکن ہے اسے نقصان پہنچانا ہے۔ علیؓ اورمعاویہ ؓمیں لڑائی ہو رہی تھی تو قیصر روم کے پاس اس کا بڑا اُسْقُف آیا اور اس نے کہا کہ آپ ذرا اپنے شکاری کتّے منگوائیں، اس نے منگوائے تو پادری نے کہا ان کےآ گے گوشت ڈالا جائے چنانچہ گوشت ڈالا گیا اور وہ آپس میں لڑنے لگے اس پر اُسْقُف نےایک نوکر سے کہا کہ ان کو مارو ۔ اس نے انہیں لٹھ مارا تو وہ چوں چوں کرتے ہوئے بھاگے۔ اُسْقُف نے کہا کہ دیکھو یہ کتنے بڑے بڑے کتّے ہیں۔ کیا یہ کسی کو اپنے پاس بھی آنے دیتے ہیں لیکن اب کہ یہ آپس میں لڑ رہے تھے ایک معمولی آدمی نے بھی ان کو پیٹا تو اس کے آگے بھاگ کھڑے ہوئے ہیں۔ قیصر نے پوچھا اس کا کیا مطلب ہے؟تو اُسْقُف نے کہا کہ اس وقت معاویہؓ اور علیؓ آپس میں لڑ رہے ہیں اور بڑا اچھا موقع ہے۔ اگر مسلمانوں پر حملہ کر دیا جائے تو عیسائی حکومت دوبارہ دنیا میں قائم ہو سکتی ہے۔ قیصر نے اس کا ارادہ کیا، فوج تیار کرنی شروع کی۔ معاویہؓ کو بھی اس کی اطلاع ہوئی کیونکہ وہ راستہ میں تھےیعنی شام میں اور حضرت علیؓ دور عراق میں تھے۔ معاویہؓ کو پہلے خبر ہوئی کہ قیصر کا لشکر حملہ کی تیاری کر رہا ہے تو انہوں نے قیصر کو کہلا بھیجا کہ سنا ہے آپ اسلامی ممالک پر حملہ کرنے والے ہیں۔ اس لئے کہ مجھ میں اور علی میں لڑائی ہے لیکن یہ لڑائی تو ایسی ہی ہےجیسے بھائیوں بھائیوں میں ہوتی ہے۔ اگر تم نے اس طرف کا رخ کیا تو سب سے پہلا جرنیل جو علی ؓکے حکم کے ماتحت تمہارے مقابل پر آئے گا وہ معاویہ ہو گا۔ یہ سن کر قیصر نے اُسی وقت اپنے ارادہ کو چھوڑ دیا ۔3تو اگر خیالات کی رَو ایک ہو تو ایسا اتحاد قائم ہوتا ہے کہ اگر اختلاف اور لڑائی بھی ہو تو محدود ہوتی ہے اور اتفاق کے لئے دلوں میں سامان موجود رہتے ہیں۔
یزید جیسا ناپاک انسان جس نے رسول کریم ﷺ کی نسل اپنی طرف سے ختم کر دی، اس کا بیٹا اس کے بعد بادشاہ ہوتا ہے۔ لوگ اسے بادشاہ بنا دیتے ہیں مگر سب سے پہلا خطبہ جو اس نے پڑھا اس میں کہا ۔ اے لوگو! دنیا میں ایسا شخص بھی موجود ہے جس کا دادا میرے دادا سے اچھا تھا اور جس کا باپ میرے باپ سے اچھا تھا یعنی زین العابدین جو امام حسینؓ کے لڑکے تھے۔ خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ حکومت اسی کے سپرد کی جائے جو اس کا اہل ہو مگر آپ لوگوں نے اس کے سپرد کر دی ہے جو اس کا اہل نہ تھا۔ آپ نے مجھے بادشاہ بنا دیا ہے مگر مَیں اس کا اہل نہیں ہوں اس کے اہل وہی ہیں جن سے یہ حکومت چھینی گئی ہے۔ اس لئے چاہئے کہ پھر انہی کے سپرد کر دی جائے۔ بہرحال مَیں اسے چھوڑتا ہوں۔ چاہو تو حقداروں کو ان کا حق دے دو اور چاہو تو کسی اَور کو بادشاہ بنا لو۔ وہ یہ کہہ کر گھر میں گیا تو ماں اس سے لڑنے لگی اور اسے گالیاں دینے لگی کہ کمبخت تُو نے ماں باپ کو ذلیل کر دیا ۔ اس نے جواب دیا اماں مَیں نے ماں باپ کو ذلیل نہیں کیا بلکہ عزت قائم کر دی اور خدا کے سامنے منہ دکھانے کے قابل ہو گیا۔4 آج لوگ گالی دیتے ہیں تو کہتے ہیں یزید کا بچہ حالانکہ اس نے تو اپنے عمل سے ثابت کر دیا تھا کہ وہ نیک ہے۔ یہ کتنی بڑی نیکی تھی جو اس سے ظاہر ہوئی۔ آج جرمنی اور برطانیہ کی جنگ ہو رہی ہے۔ کیا ان میں سے کوئی ایسا کر سکتا ہے۔ یہ دلی اتحاد کا نتیجہ تھا۔ دل ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے اور یہ اتحاد اسی وقت قائم ہو سکتا ہے جب خیالات ایک ہوں۔ اس کے بغیر دوسری چیز ظاہری ہے۔ پس ظاہری تعریف سے ہمیں ہرگز خوش نہ ہونا چاہئے۔ جب تک کہ تعریف کرنے والوں کے اور ہمارے خیالات ایک نہ ہوں۔ جب تک وہ اسلام اور احمدیت کو ان معنوں میں نہ مان لیں جن معنوں میں ہم مانتے ہیں اور یہ کس طرح ہو سکتا ہے جب تک کہ ہم ان کو اپنے اخلاص سے مجبور نہ کر دیں۔ ایک جبر محبت کا بھی ہوتا ہے۔ بچہ رو رو کر ماں سے چیز لے لیتا ہے۔ یہ ہے تو جبر مگر کیا ماں اسے ناپسند کرتی ہے۔ تم نے دیکھا ہو گا اگر بچہ کچھ دن نہ مانگے تو ماں کہتی ہے میرا بچہ مجھ سے خفا ہو گیا ہے۔ جب وہ مانگتا ہے تو بعض دفعہ اس پر بھی خفا ہوتی ہے۔ بعض جاہل مائیں دفعہ ہو جا، مر جا بھی کہتی ہیں لیکن جب بچہ نہیں مانگتا اور روٹھ جاتا ہے تو پھر بھی کہتی ہے کہ میرا بچہ کیوں چیز نہیں مانگتا۔ بچہ ماں پر جبر تو کرتا ہے لیکن اگر وہ چپ ہو جائے تو بھی وہ پسند نہیں کرتی۔ اسی طرح تبلیغ کا جبر ہے۔ جب ہم لوگوں کو اس طرف توجہ کرنے پر مجبور کریں گے تو وہ بگڑیں گے، ناراض ہوں گے۔ بعض کہیں گے یہ تو پیچھے ہی پڑ گئے، کیسے ذلیل لوگ ہیں، کتنے عجیب لوگ ہیں مگرروح کی آواز کہے گی یہ چیز ہے تو کچھ میٹھی۔ اگر یہ جبر ہوتا رہے تو شاید حق کھل ہی جائے۔ تو جب تک یہ جبر نہ کیا جائے بار بار سنا سنا کر ان کو مجبور نہ کر دیا جائے کہ یا لڑیں اور یا سوچیں حقیقی تبلیغ نہیں ہو سکتی۔ مَیں نے ایک گزشتہ خطبہ میں کہا تھا کہ وہ زمانہ آنے والا ہے اور قریب ہے کہ جب تبلیغ کے یہ رستے ہمیں چھوڑنے پڑیں گے اوروہ اختیار کرنے پڑیں گےجو دین کی سلطنت کے رستے ہیں جیسے دریا اپنا راستہ بناتا ہے۔ اب تک تو ہماری تبلیغ کی مثال پانی کی اس باریک دھار کی ہے جو گلی میں سے گزرتا ہے مگر جب اس کی راہ میں کوئی پتھر آ جاتا ہے تو مڑ جاتا ہے۔ مگر حقیقی تبلیغ کی مثال اس سیلاب کی ہے جو مکانوں اور ہر اس چیز کو جو اس کے آگے آئے بہا لے جاتا ہے۔ وہ اپنا راستہ بناتا ہے بدلتا نہیں۔ دیکھو جب دریائے سندھ جوش میں آتا ہے، جب خدا تعالیٰ اسے حکم دیتا ہے کہ تُو اپنے رنگ میں تبلیغ کر تو وہ گاؤں کے گاؤں، تحصیلوں کی تحصیلوں اور اضلاع کے اضلاع کو اجاڑتا ہؤا چلا جاتا ہے۔ اسی طرح انبیاء کی جماعتیں جب حقیقی تبلیغ کے لئے اٹھتی ہیں تو دیوانگی کا رنگ رکھتی ہیں۔ لوگ کہتے ہیں یہ لوگ پاگل ہیں۔ وہ بھی کہتے ہیں کہ ہاں ہم پاگل ہیں مگر اس جنون سے پیاری چیز ہمیں اور کچھ نہیں۔ مگر اس دن کے آنے سے پہلے تبلیغ میں تیزی کی ضرورت ہے۔ سمندر کو ایک دن میں کوئی شخص پار نہیں کر سکتا جو اسے پار کرنا چاہے پہلے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس کے قریب کرے۔ ایک چھلانگ میں ہی کوئی اس تک نہیں پہنچ سکتا۔ پس پہلے اس کے لئے تیاری کی ضرورت ہے۔
اس سلسلہ میں مَیں نے یہ تجویز کی ہے کہ سرِ دست ضرورت ہے کہ ایک حد تک اس طبقہ میں جو علماء ، رؤسا اور امراء یا پیروں اور گدی نشینوں کا طبقہ ہے اس تک باقاعدہ سلسلہ کا لٹریچر بھیجا جائے۔ الفضل کا خطبہ نمبر یا انگریزی دان طبقہ تک سن رائز جس میں میرے خطبہ کا انگریزی ترجمہ چھپتا ہے باقاعدہ پہنچایا جائے۔ تمام ایسے لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے جو عالم ہیں یا امراء ، رؤسا یا مشائخ میں سے ہیں اورجن کا دوسروں پر اثر و رسوخ ہے اور اس کثرت سے ان کو بھیجیں کہ وہ تنگ آ کر یا تو اس طرف توجہ کریں اور یا مخالفت کا بیڑا اٹھائیں اور اس طرح تبلیغ کے اس طریق کی طرف آئیں جسے آخر ہم نے اختیار کرنا ہے۔ لٹریچر اور الفضل کا خطبہ نمبر یا سن رائز بھیجنے کے علاوہ ایسے لوگوں کو خطوط کے ذریعہ بھی تبلیغ کی جائے اور بار بار ایسے ذرائع اختیار کر کے ان کو مجبور کر دیں کہ یا وہ صداقت کی طرف توجہ کریں اور تحقیق کرنے لگیں اور یا پھر مخالفت شروع کر دیں مثلاً ایک چٹھی بھیج دی، پھر کچھ دنوں کے بعد اَور بھیجی، پھر کچھ انتظار کے بعد اَور بھیج دی۔ جس طرح کوئی شخص کسی حاکم کے پاس فریاد کرنے کے لئے اسے چِٹھی لکھتا ہے مگر جواب نہیں آتا تو اَور لکھتا ہے پھر وہ توجہ نہیں کرتا تو ایک اَور لکھتا ہے حتّٰی کہ وہ افسر توجہ کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ پس تکرار کے ساتھ علماء، امراء، رؤسا ، مشائخ نیز راجوں مہاراجوں، نوابوں اوربیرونی ممالک کے بادشاہوں کو بھی چِٹھیاں لکھی جائیں۔ اگر کوئی شکریہ ادا کرے تو اس پر خوش نہ ہو جائیں اور پھر لکھیں کہ ہمارا مطلب یہ ہے کہ آپ اس کی طرف توجہ کریں۔ جواب نہ آئے تو پھر چند روز کے بعد اور لکھیں کہ اس طرح آپ کو خط بھیجا گیا تھا مگر آپ کی طرف سے اس کا کوئی جواب نہیں آیا۔ پھر کچھ دنوں تک انتظار کے بعد اَور لکھیں حتّٰی کہ یا تو بالکل وہ ایسا ڈھیٹ ہو کہ اس کے دل پر مہر لگی ہوئی ہے اور اس کی طرف سے اس کے سیکرٹری کا جواب آئے کہ تم لوگوں کو کچھ تہذیب نہیں، بار بار دِق کرتے ہو ، راجہ صاحب نے یا پیر صاحب نے خط پڑھ لیا اور وہ جواب دینا نہیں چاہتے اور یا پھر اس کی طرف سے یہ جواب آئے کہ آؤ جو سنانا چاہتے ہو، سنا لو۔ اس رنگ میں تبلیغ کے نتیجہ میں کچھ لوگ غور کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے مگر اس وقت تو یہ حالت ہے کہ غور کرتے ہی نہیں۔ پس اب اس رنگ میں کام شروع کرنا چاہئے۔ اس کے لئے ضرورت ہے ایسے مخلص کارکنوں کی جو اپنا وقت اس کام کے لئے دے سکیں۔ بہت سی چِٹھیاں لکھنی ہوں گی، چٹھیاں چھپی ہوئی بھی ہو سکتی ہیں مگر پھر بھی ان کو بھیجنے کا کام ہو گا۔ اگر جواب آئے تو ان کا پڑھنا اور پھر ان کے جواب میں بعض چِٹھیاں دستی بھی لکھنی پڑیں گی۔ بعض چٹھیوں کے مختلف زبانوں میں تراجم کرنے ہوں گے اور یہ کافی کام ہو گا۔ اس کے لئے جن دوستوں کو اللہ تعالیٰ توفیق دے وہ اس کام میں مدد دیں۔ پھر جو دوست الفضل کا خطبہ نمبر اور سن رائز دوسروں کے نام جاری کرا سکیں وہ اس رنگ میں مدد دیں ۔ اگر الفضل کا خطبہ نمبر اور سن رائز ہزار ہزاربھی فی الحال بھجوانا شروع کر دیں تو اس پر چھ ہزار روپیہ خرچ کا اندازہ ہے اور یہ کوئی ایسا خرچ نہیں۔ جماعت کے افراد خدا تعالیٰ کے فضل سے اسے آسانی سے برداشت کر سکتے ہیں۔ اگر جوش اور اخلاص کےساتھ کام کیا جائے تو بہت فائدہ ہو سکتا ہے اور اس تبلیغ کے زمانہ میں اس طرح کام کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ مَیں اس کے متعلق کوئی خاص تحریک نہیں کر رہا جیسے تحریک جدید ہے۔ صرف یہ کہتا ہوں کہ جن کو اللہ تعالیٰ توفیق دے وہ اس رنگ میں مدد کریں اور اگر وہ اس میں حصہ لیں تو یقیناً اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کر سکتے ہیں۔ تحریک جدید کے نوجوانوں کو بھی اگر ضرورت ہو تو اس کام میں لگایا جا سکتا ہے۔ گو یہ ان کی تعلیم کا زمانہ ہے۔ اس لئے دوسرا کوئی زیادہ کام ان کو نہ کرنا چاہئے۔ باقی دوستوں میں سے جن کو توفیق ہو وہ چٹھیاں لکھنے ، ان کے تراجم کرنے، جوابات کو پڑھنے اور دوسرے دفتری کام کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں۔ اس سلسلہ میں دفتری کام کافی ہو گا جن کی طرف سے جواب نہ آئے ان کو یاد دہانی کرنی ہو گی او ربا ربار کرنی ہو گی۔ پس مَیں دوستوں کو عام رنگ میں اس کی تحریک کرتا ہوں۔ شاید اللہ تعالیٰ ایسا دن لے آئے کہ تحریک جدید کو اسی سلسلہ میں لگایا جا سکے۔
خلافت جوبلی فنڈ میں سے مَیں نے ابھی تبلیغ پر خرچ کرنا شروع نہیں کیا۔ میرا ارادہ ہے کہ اس سے آمد شروع ہو جائے توپھر کیا جائے۔ تعلیمی وظائف اگرچہ شروع کر دئیے ہیں مگر تبلیغی اخراجات ابھی اس سے شروع نہیں کئے اور چاہتا ہوں کہ آمد کی صورت پیدا ہو جائے تو پھر یہ اخراجات اس سے کئے جائیں۔ سرِ دست یہی تحریک کرتا ہوں کہ جو دوست خواہش رکھتے ہیں کہ تبلیغ کے کام میں اَور زیادہ حصہ لیں وہ اس طرف توجہ کریں اور ‘‘الفضل’’ خطبہ نمبر یا ‘‘سن رائز’’ کے جتنے پرچے جاری کرا سکتے ہوں کرائیں۔ امداد دینے والے دوست اپنے نام میرے سامنے پیش کریں، مَیں خود تجویز کروں گا کہ کن لوگوں کے نام یہ پرچے جاری کرائے جائیں۔ پھر اس سلسلہ میں اور جو دوست خدمت کے لئے اپنا نام پیش کرنا چاہیں وہ بھی کر دیں۔ ان کے ذمہ کام لگا دئیے جائیں گے مثلاً یہ کہ فلاں قسم کے خطوط فلاں کے پاس جائیں اَور ان کے جواب بھی وہ لکھیں۔ اس کام کی ابتدا کرنے کے لئے مَیں نے ایک خط لکھا ہے جو پہلے اردو اور انگریزی میں اور اگر ضرورت ہوئی تو دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ کرا کے دنیا کے بادشاہوں اور ہندوستان کے راجوں مہاراجوں کی طرف بھیجا جائے گا۔ اس قسم کے خطوط بھی وقتاً فوقتاً جاتے رہیں مگر اصل چیز الفضل کا خطبہ نمبر یا سن رائز ہے جو ہر ہفتہ ان کو پہنچتا رہے اَور چونکہ خطبہ کے متعلق مسنون طریق یہی ہے کہ وہ اہم امور پر مشتمل ہو اس لئے اس میں سب مسائل پر بحثیں آ جاتی ہیں۔ اس میں سلسلہ کے مسائل بھی ہوتے ہیں۔ جماعت کو قربانی کی طرف بھی توجہ دلائی جاتی ہےاور مخالفتوں کا ذکر بھی ہوتا ہے اور اس طرح جس شخص کو ہر ہفتہ یہ خطبہ پہنچتا رہے ۔ احمدیت گویا ننگی ہو کر اس کے سامنے آتی رہے گی اور وہ بخوبی اندازہ کر سکتا ہے کہ اس جماعت کی امنگیں اور آرزوئیں کیا ہیں، کیا ارادے ہیں، یہ کیا کرنا چاہتے ہیں، دشمن کیا کہتا ہے اور یہ کس رنگ میں اس کا مقابلہ کرتے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں۔ اگر اس رنگ میں کام شروع کیا جائے تو ایک شور مچ سکتا ہے۔ اگر دو ہزار آدمی بھی ایسے ہوں جن کے پاس ہر ہفتہ، سلسلہ کا لٹریچر پہنچتا رہے تو بہت اچھے نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے۔ ان لوگوں کو چٹھیاں بھی جاتی ہیں اور ان سے پوچھا جائے کہ آپ ہمارا لٹریچر مطالعہ کرتے ہیں یا نہیں۔ اگر کوئی کہے نہیں تو اس سے پوچھا جائے کیوں نہیں۔ یہ پوچھنے پر بعض لوگ لڑیں گے اَور یہی ہماری غرض ہے کہ وہ لڑیں یا سوچیں۔ جب کسی سےپوچھا جائے گا کہ کیوں نہیں پڑھتے تو وہ کہے گا کہ یہ پوچھنے سے تمہار اکیا مطلب ہے۔ تو ہم کہیں گے کہ یہ پوچھنا ضروری ہے کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کی آواز ہے جو آپ تک پہنچائی جا رہی ہے۔ اس پر وہ یا تو کہے گا سنا لو اَور یا پھر کہےگا کہ مَیں نہیں مانتا اورجس دن کوئی کہے گا کہ جاؤ مَیں نہیں مانتا۔ اسی دن سے وہ خدا تعالیٰ کا مد مقابل بن جائے گا اور ہمارے رستہ سے اٹھا لیا جائےگا۔ جن لوگوں تک یہ آواز ہم پہنچائیں گے ان کے لئے دو ہی صورتیں ہوں گی۔ یا تو ہماری جو رحمت کے فرشتے ہیں سنیں اور یا پھر ہماری طرف سے منہ موڑ کر خدا تعالیٰ کے عذاب کےفرشتوں کی تلوار کے آگے کھڑے ہو جائیں۔ مگر اب تو یہ صورت ہے کہ نہ وہ ہمارے سامنے ہیں اور نہ ملائکہ عذاب کی تلوار کے سامنے بلکہ آرام سے اپنے گھروں میں بیٹھے ہیں۔ نہ تو وہ اللہ تعالیٰ کی تلوار کے سامنے آتے ہیں کہ وہ انہیں فنا کر دے اور نہ اس کی محبت کی آواز کو سنتے ہیں کہ ہدایت پا جائیں۔ اب تو وہ ایک ایسی چیز ہیں جو اپنے مقام پر کھڑی ہے اور وہاں سے ہلتی نہیں لیکن نئی تعمیر کے لئے یہ ضروری ہے کہ اسے وہاں سے ہلایا جائے۔ یا تو وہ ہماری طرف آئے اور یا اپنی جگہ سے ہٹ جائے۔ یہ کام تحریک جدید کے پروگرام کا ایک حصہ ہے۔ تحریک جدید کی موجودہ شکل کے اب دو سال باقی رہ گئے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ان دو سالوں میں اس کام کی بنیاد شروع کی جا سکتی ہے تا جس وقت تک تحریک جدید کے مبلّغ کام کے لئے تیار ہو سکیں، ہمیں پتہ لگ جائے کہ ہم نے دنیا سے کس طرح معاملہ کرنا ہے اور اس نے ہم سے کس طرح کرنا ہے۔
مَیں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ جماعت کے مخلصین کو توفیق دے کہ وہ اس آواز پر لبیک کہہ سکیں اور پھر ان کو استقلال کے ساتھ کام کرنے کی توفیق بخشے اور ایسی طرز پر اپنی باتیں لوگوں تک پہنچانے کی توفیق دے کہ وہ ہدایت کا زیادہ موجب ہوں اور ٹھوکر کا موجب صرف انہی لوگوں کے لئے ہوں جن کے لئے ازل سے ٹھوکر مقدر ہے۔ آمین یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ۔ (اس وقت تک قریباً اڑھائی تین سو کی رقم آ چکی ہے جو صرف قادیان کے دوست جن میں سے اکثر کی طرف سے ابھی کوئی وعدہ نہیں آیا ہمیشہ کی طرح دوسروں سے بڑھ کر رہنے کی کوشش کریں گے۔ اَور بیرونی دوست ان سے بڑھ کر اپنے اخلاص کا ثبوت دینے کی کوشش کریں گے۔ ایک الفضل کے خطبہ نمبر کی قیمت 8/2 ہے اور ایک سن رائز کی ہندوستان کے لئے قیمت ۔4/ ہے)۔‘‘ (الفضل 22 اکتوبر 1942ء)
1: درثمین اردو صفحہ 54 ۔ نظارت اشاعت ربوہ
2:طبقات ابن سعد جلد 3 صفحہ255مطبوعہ بیروت 1985ء
3: اَلْبَدَایَة وَ النّھَایَة جلد 8 صفحہ 126 مطبوعہ بیروت 2001ء
4:تاریخ الخمیس جلد 2صفحہ 301مطبوعہ بیروت زیر عنوان ذکر خلافۃ معاویۃ بن یزید

35

شعائر اللہ اور قومی شعائر کی حفاظت کے لئے تمہیں ہر وقت تیار رہنا چاہئے
(فرمودہ 23 اکتوبر 1942ء )

تشہد، تعوّذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’دنیا میں دو قسم کی زبانیں بولی جاتی ہیں اور وہ دونوں زبانیں اپنی جگہ پر بہت بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ ان میں سے ایک زبان تو لفظی ہوتی ہے اور ایک زبان تمثیلی ہوتی ہے۔ اپنی اپنی جگہ پر ان دونوں کو اہمیت حاصل ہے اور درحقیقت ان دونوں زبانوں کے بغیر کوئی کام چل ہی نہیں سکتا۔ لفظی زبان کے متعلق تو سب ہی جانتے ہیں کہ اس کے بغیر گزارہ ممکن نہیں ہوتا، کوئی عربی میں کلام کرتا ہے، کوئی فارسی میں کلام کرتا ہے، کوئی اردو میں کلام کرتا ہے، کوئی انگریزی میں کلام کرتا ہے، کوئی جرمن میں کلام کرتا ہے اور کوئی فرانسیسی زبان میں کلام کرتا ہے اور اس طرح تمام لوگ اپنے اپنے ما فی الضمیر کو الفاظ میں ادا کرتے ہیں مگر باوجود اس لفظی زبان کے ہر زبان کے آدمی تمثیلی زبان کے بھی محتاج ہوتے ہیں۔ کبھی یہ تمثیلی زبان اخفاء کے لئے استعمال کی جاتی ہے ۔ جیسے دو آدمی باتیں کر رہے ہوتے ہیں اور ایک تیسرا آدمی ان دو میں سے ایک کے ساتھ کوئی ایسی بات کرنا چاہتا ہے جو وہ دوسروں سے چھپانا چاہتا ہے تو وہ اسے کسی اشارے سے اپنے ما فی الضمیر سے اطلاع دے دیتا ہے مثلاً اگر ان دو میں سے ایک شخص یہ پسند نہیں کرتا کہ جس کام کے لئے اسے بلایا جا رہا ہے اس کا کسی اَور کو بھی علم ہو تو دوسرا آنے والا آدمی پشت سے اسے اشارہ کر دیتا ہے جس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ ادھر چلو، ادھر کا اشارہ وہ اس طرف انگلیاں کر کے کر دیتا ہے اور چلو کا اشارہ وہ ہاتھ کو حرکت دے کر کر دیتا ہے۔ اب ہاتھ کو پیچھے کی طرف حرکت دینے کے معنے ہماری زبان میں یہ نہیں ہیں کہ پیچھے چلو مگر اس اشارہ سے وہ سمجھ جاتا ہے کہ پیچھے کی طرف ہاتھ کو حرکت دینے کے معنے یہ ہیں کہ چلو ۔ اور جس طرف اشارہ کیا گیا ہے اس طرف اشارہ کرنے کے یہ معنے ہیں کہ ادھر چلو۔ اگر یہ زبان نہ ہوتی تو دوسرا شخص اخفاء سے کام نہ لے سکتا بلکہ اسے بلا کر لے جانا پڑتا، جس سے دوسرے کے دل میں شبہ پیدا ہوتا کہ اسے نہ معلوم کس غرض کے لئے بلایا گیا ہے۔ اسی طرح فوجوں میں یہ زبان کام آتی ہے۔ فوجوں میں جھنڈیوں کے اشارہ سے لوگ اپنا مطلب بیان کر دیتے ہیں۔ مختلف رنگ کی جھنڈیاں ہوتی ہیں اور مختلف تعداد اس کی حرکتوں کی مقرر ہوتی ہے۔ جن سے مختلف مطالب بیان کئے جاتے ہیں یا شیشے پر روشنی ڈال کر اس کی چمک سے اطلاع دے دیتے ہیں، اس چمک میں کوئی الفاظ نہیں ہوتے بلکہ انہوں نے بعض اشارے مقرر کئے ہوئے ہوتے ہیں کہ اتنی بار چمک کے یہ معنے ہیں۔ اس رخ کی چمک کے یہ معنے ہیں اور اُس رخ کی چمک کے یہ معنے ہیں۔ یہ ایک ضرورت ہے جو جنگ کی حالت میں بہت بڑی اہمیت رکھتی ہے اور اس غرض کے لئے فوجوں کو خاص طور پر ٹریننگ دی جاتی ہے۔ یہی تصویری زبان ایک لیکچرار کے بھی کبھی کبھی کام آتی ہے، وہ تقریر کرتا ہے اور زور دار الفاظ اپنی تقریر میں لاتا ہے جس سے سامعین کو اپنے دلی خیالات سے واقف کرنا اس کا مقصود ہوتا ہے۔ لیکن کبھی کبھی اس کے دل میں اتنا جوش پیدا ہوتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے الفاظ کے ذریعہ مَیں ان پر اتنا اثر نہیں ڈال سکتا جتنا لفظی زبان کے ساتھ تمثیلی زبان ملا کر اثر ڈال سکتا ہوں۔ چنانچہ اس غرض کے لئے وہ کسی وقت اپنے ہاتھ کو زور سے نیچے کی طرف جھٹک دیتا ہے۔ اب اس کا تقریر کرتے ہوئے اپنے ہاتھ کو نیچے کی طرف جھٹک دینا بے کار نہیں ہوتا بلکہ اگر اچھا لیکچرار اچھے موقع پر اچھے طریق سے اس تمثیلی زبان کو اپنی لفظی زبان کی تائید میں استعمال کرتا ہے تو سامعین پر اس کا ضرور اثر ہوتا ہے اسی طرح وہ کبھی اپنے ہاتھ کو دائیں طرف جھٹکا دے دیتا ہے، کبھی بائیں طرف جھٹکا دے دیتا ہے اور یہ جھٹکے اس کی لفظی زبان میں زیادہ زور پیدا کر دیتے ہیں۔ یہی زبان مذاہب میں بھی استعمال کی جاتی ہے۔ مثلاً نماز کو ہی لے لو۔ اس میں لفظی زبان کے ساتھ تصویری زبان بھی شامل ہے۔ ہماری غرض نماز میں یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور ہم اپنی محبت اور اپنے عشق اور اپنے انکسار اور اپنے عجز کا اظہار کریں۔ زبان سے جو الفاظ ہم نکالتے ہیں وہ ان ساری باتوں کو ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ جب ہم اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۔ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۔ مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ1کہتے ہیں تو یہ ہمارے اس سے تعلق کا اظہار ہوتا ہے کہ تُو ہی ہمارا رب ہے تُو ہی رحمان ہے بغیر مانگے اور طلب کئے تُو ہم پر اپنی نعمتیں نازل کرتا ہے، ہماری ضرورتیں تُو ہی پوری کرنے والا ہے۔ تُو جب فیصلہ کرتا ہے تو نہایت سچا اور صحیح ہوتا ہے پھرہم اس کے حضور اپنے عجز اور انکسار کے اظہار کے لئے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ 2کہتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر عجز کا اَور کیا اظہار ہو سکتا ہے کہ ہم کہتے ہیں ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد طلب کرتے ہیں۔ پھر اپنی درخواستیں پیش کرنے کے لئے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ۔صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ 3سے زیادہ اَور کیا الفاظ ہو سکتے ہیں مگر جہاں ہم یہ الفاظ بیان کرتے ہیں وہاں ہم سینہ یا ناف پر ہاتھ بھی باندھتے ہیں جو ایک تصویری زبان ہے اور جس کے معنے یہ ہیں کہ ہم مؤدبانہ طور پر اور ملتجیانہ طور پر تیرے سامنے ایک سوالی کی حیثیت میں کھڑے ہیں۔ اسی طرح ہم جب ہاتھ اٹھا کر تکبیر کہتے ہیں تو وہ بھی ایک تصویری زبان ہوتی ہے۔ ہم اپنے عمل سے اس وقت ظاہر کر رہے ہوتے ہیں کہ نماز کے علاوہ ہم کسی اَور طرف توجہ نہیں کر رہے۔ ہم اس وقت بالکل خاموش ہوتے ہیں۔ کوئی شخص ہم سے بات کرے تو ہم اس کو جواب نہیں دیتے مگر پھر بھی تصویری زبان میں ہم اپنا ہاتھ اٹھاتے ہیں جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اب ہم ساری دنیا سے قطع تعلق کر چکے ہیں، ہم رکوع میں اس کی تسبیح و تمجید کرتے اور اس کی عظمت بیان کرتے ہیں مگر ساتھ ہی تمثیلی زبان میں ہم جھک بھی جاتے ہیں۔ ہم سجدے میں جا کر خدا تعالیٰ کی تسبیح کرتے اور اس کی علو شان کا اقرار کرتے ہیں مگر ساتھ ہی تصویری زبان میں اس کے سامنے اپنا سر بھی رکھ دیتے ہیں ہم نہایت ہی لطیف الفاظ میں تشہد میں خدا تعالیٰ سے اپنے تعلق کا اظہار کرتے ہیں مگر ساتھ ہی تمثیلی زبان میں اس کے سامنے گھٹنے ٹیک کر بیٹھ جاتے ہیں۔ غرض جو جو اغراض اور مقاصد ہم الفاظ میں بیان کرتے ہیں انہی کو ہم تمثیلی زبان میں بھی بیان کرتے ہیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کہ ہمارے مذہب نے بھی تمثیلی زبان کی اہمیت اور اس کی عظمت کو تسلیم کیا ہے۔ دوسرے مذاہب میں بھی یہ بات اپنے اپنے رنگ میں پائی جاتی ہے بلکہ ہماری تمثلی زبان سے بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔ عیسائیوں میں اس حد تک غلو کرتے ہیں کہ وہ ایک خاص مقام خاص شکل کا بناتے ہیں جہاں پادری کھڑا ہوتا ہے، وہاں شمعیں جلائی جاتی ہیں اور ان شمعوں کی تعداد مقرر ہوتی ہے کہ اتنی شمعیں جلائی جائیں اور وہ شمعیں ایسی ہوں۔ اسی طرح اَور کئی قسم کی تمثیلیں ہیں جن پر عیسائیوں اوریہودیوں کی عبادت گاہوں میں عمل کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ہندوؤں کے مندروں میں ہوتا ہے۔ تو تمثیلی زبان کی ضرورت کو تمام مذاہب نے تسلیم کیا ہے۔ پھر ہم اللہ تعالیٰ کے کلام کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جس طرح لفظوں میں الہام نازل کرتا ہے اسی طرح وہ تمثیل میں بھی الہام نازل کرتا ہے۔ جس طرح وہ کسی بندے کو لفظوں میں کہہ دیتا ہے کہ مَیں تم کو علم بخشوں گا اسی طرح وہ کبھی تمثیلی زبان میں اس کو دودھ کا پیالہ دے دیتا ہے اور انسان رؤیا میں دیکھتا ہے کہ اسے کسی نے دودھ کا پیالہ دیا ہے اور وہ اس نے پی لیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ا س کو علم عطا فرمائے گا۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ کے سامنے ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے خواب کی حالت میں دودھ کا پیالہ ملنے کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا اس سے مراد علم ہے۔ 4 تو خواب میں اگر دودھ کا پیالہ کسی شخص کو ملے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ اسے علم عطا فرمائے گا لیکن اسی مفہوم کو اگر لفظوں میں ادا کیا جائے تو الفاظ یہ بنیں گے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے مَیں تم کو علم بخشوں گا۔ اسی طرح خدا تعالیٰ کسی کو یوں بھی فرما دیتا ہے کہ تم نزلہ سے بیمار ہونے والے ہو اور کسی کو گدلا پانی دکھا دیتا ہے جس سے وہ کھیل رہا ہوتا ہے یا اس میں تیر رہا ہوتا ہے۔ جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اسے نزلہ یا نزلہ کی قسم کی کوئی اَور بیماری ہونےوالی ہے جیسے انفلوئنزا ہے یا نمونیا ہے جس میں نزلہ اعضاء پر گرتا اور انسان کو بیمار کر دیتا ہے۔ اسی طرح وہ کسی کو کہہ دیتا ہے کہ تمہیں غم پہنچے گا اور کسی کو خواب میں چنے دکھا دیتا ہے یا کچا گوشت دکھا دیتا ہے یا بینگن دکھا دیتا ہے یا گنے دکھا دیتا ہے اوران کی تعبیر یہ ہوتی ہے کہ کوئی غم پہنچنے والا ہے۔ اسی طرح کسی کو وہ یہ کہہ دیتا ہے کہ تمہارا بیٹا مرنے والا ہے اور کسی کو یہ دکھا دیتا ہے کہ وہ ایک بکرا ذبح کر رہا ہے۔ غرض وہ کبھی لفظوں میں اپنے خیالات کا اظہار کرتا اور کبھی تمثیلی زبان میں ان کو بیان کرتا ہے۔ ہم الفاظ میں سارے مسلمان یہ کہتے ہیں کہ ہم ایک خدا کے ماننے والے ہیں اور سارے کےسارے ایک نقطۂ مرکزی پر جمع ہیں مگر کبھی ہم اس بات کو تمثیلی زبان میں ادا کرتے ہیں جبکہ ہم حج کے لئے جاتے ہیں اور سارے ملکوں سے مسلمان خانہ کعبہ میں اکٹھے ہوتے ہیں۔ یہ حج کے لئے تمام مسلمانوں کا اکٹھا ہونا کیا ہے۔ یہ تمثیلی زبان میں اس امر کا اقرار ہوتا ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان ایک ہیں۔ اسی طرح ہم مُنہ سے کہتے ہیں کہ ہم خدا تعالیٰ کے لئے سارے کام چھوڑنے کے لئے تیار ہیں لیکن ہم تمثیلی زبان میں بھی ایسا کرتے ہیں چنانچہ جب نماز کا وقت ہوتا ہے تو تمام لوگ مسجد میں اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح جمعہ کے دن اردگرد کے علاقہ کے لوگ جمعہ پڑھنے کے لئے ایک مسجد میں اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ یہ مسجد میں مسلمانوں کا نماز کے لئے اکٹھا ہونا کیا ہے۔ یہ تمثیلی زبان میں اس امر کا اقرار ہوتا ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے لئے اپنے تمام کام کاج چھوڑنے کے لئے تیار ہیں۔ جب بھی اس کی طرف سے آواز آئے گی ہم فوراً اس پر لبیک کہتے ہوئے جمع ہو جائیں گے۔
یہ جو تمثیلی زبان کے اشارے ہوتے ہیں ان کا بھی اسی رنگ میں اعزاز کیا جاتا ہے جس رنگ میں لفظی کلام کا اعزاز کیا جاتا ہے۔ جس طرح ہمیں یہ حکم ہے کہ ہم قرآن کریم کی وحی کا ادب اور احترام کریں اسی طرح ہمیں یہ بھی حکم ہے کہ ہم شعائر اللہ کا ادب اور احترام کریں۔ شعائر اللہ کیا ہیں؟ وہ درحقیقت ایک تمثیلی زبان ہیں۔ صفا اور مروہ ایک تمثیلی زبان ہیں، منیٰ ایک تمثیلی زبان ہے، مزدلفہ ایک تمثیلی زبان ہے۔ غرض یہ سب تمثیلی زبان ہیں۔ انبیاء کا وجود بھی اپنی ذات میں ایک تمثیلی زبان ہوتا ہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اتحاد کا ایک نقطہ ہوتے ہیں۔ تو جہاں الفاظ کے احترام کا ہمیں حکم ہے وہاں خدا تعالیٰ کی تمثیلی زبان کے احترام کا بھی ہمیں حکم ہے۔ جس طرح ہمیں یہ حکم ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف کوئی جھوٹا کلام منسوب مت کرو۔ یہ مت کہو کہ خدا نے ہم کو یہ الہام کیا ہے حالانکہ خدا نے تم کو کوئی الہام نہ کیا ہو۔ اسی طرح ہمیں یہ بھی حکم ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف جھوٹے طور پر کوئی تمثیلی زبان بھی منسوب مت کرو اور یہ نہ کہو کہ خواب میں ہم نے گنے دیکھے ہیں یا چنے دیکھے ہیں حالانکہ تم نے نہ گنے دیکھے ہوں، نہ چنے دیکھے ہوں۔ تو دونوں چیزوں کا ادب اور احترام کیا گیا ہے اس کا بھی اور اُس کا بھی۔ اس تمثیلی زبان کو بعض لوگوں نے اتنی عظمت دے دی ہے کہ وہ اس کی تعظیم خدا تعالیٰ کے برابر کرنے لگ گئے چنانچہ جیسے مذہب میں تمثیلی زبانیں ہوتی ہیں اسی طرح سیاسیات میں بھی تمثیلی زبانیں ہوتی ہیں۔ اور سیاسی تمثیلی زبان میں ہر قوم کا ایک جھنڈا ہوتا ہے جس کا ادب اور احترام کیا جاتا ہے۔ دنیا میں آج تک مختلف اقوام اپنے اپنے جھنڈے رکھتی چلی آئی ہیں اور وہ ان جھنڈوں کو خاص عزت اور عظمت دیتی ہیں یہاں تک کہ جو قربانی اپنی قوم کی معزز ترین اور محبوب ترین ہستی کے لئے کی جاتی ہے وہی قربانی وہ قومیں ان جھنڈوں کے لئے کرتی ہیں اور قوموں کے لئے یہ بات بڑی ذلت کا موجب سمجھی جاتی ہے اگر ان کا جھنڈا کوئی دشمن چھین کر لے جائے۔ وہ اس جھنڈے کو بچانے کے لئے اس سے زیادہ کوشش کرتی ہیں جتنی کوشش وہ اپنے آدمیوں کی جان بچانے کے لئے کرتی ہیں۔ حالانکہ آدمی تلوار چلاتے ہیں، توپ چلاتے ہیں، دفاع کرتے ہیں، دشمن سے لڑتے ہیں مگر باوجود اس کے کہ جھنڈا بے جان ہوتا ہے چونکہ تمثیلی زبان میں اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ یہ ہماری قوم کی عزت ہے اس لئے لوگ جھنڈے کے لئے آدمیوں کو جو کام کرنے والے ہوتے ہیں قربان کر دیتے ہیں اور اس کپڑے اور لکڑی کو بچانے کے لئے بیسیوں نہیں سینکڑوں جانیں قربان کر دیتے ہیں۔ پھر بعض قوموں نے تو اس قدر غلو کیا ہے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کی توحید کو بھی اس پر قربان کر دیا ہے مثلاً ہندوستان میں ہی قومی جھنڈا لہرایا جاتا اور پھر اسے سلام کیا جاتا اور اس کے آگے جھکا جاتا ہے حالانکہ سلام جاندار چیزوں کو کیا جاتا ہے چنانچہ بعض دفعہ مسلمانوں اور ہندوؤں میں اختلاف کا ایک موجب یہ بات بھی ہو جاتی ہے۔ مسلمانوں میں سے جو موحّد ہیں وہ کہتے ہیں ہم جھنڈے کو سلام کرنے کے لئے تیار نہیں ۔ اس پر ہندو ناراض ہوتے ہیں اوروہ کہتے ہیں کہ ان کے دلوں میں اپنی قوم کی محبت نہیں حالانکہ مومن اسی حد تک اپنے تعلقات رکھ سکتا ہے جس حد تک خدا تعالیٰ نے ان تعلقات کے رکھنے کا حکم دیا ہے۔ وہ ملک کی خاطر یا قوم کی خاطر خدا تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود سے باہر نہیں جا سکتا۔ غرض جھنڈے کو سلام کرنے کی غرض انہوں نے یہی رکھی ہے کہ لوگ اس سے وہ انتہاء درجہ کی محبت کریں جو محبت وہ اپنے مذہب سے کرتے ہیں اور اس کے لئے انہوں نے اپنی ہمسایہ قوم سے لڑائی کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا کیونکہ وہ چاہتے ہیں، چاہے مسلمانوں سے لڑائی ہو جائے جھنڈے کا سلام ضرور قائم کر دیا جائے۔ یوروپین قوموں میں یہ رواج پایا جاتا ہے کہ وہ جھنڈے کو دیکھ کر اپنا سر ننگا کر دیتے ہیں اور بعض لوگ جھنڈے کے آگے جھک جاتے ہیں حالانکہ سوائے خدا کے اَور کسی کے آگے اعزازی جھکنا جائز نہیں۔ یہ سب باتیں مشرکانہ ہیں اور ایک مسلم ان میں سے کوئی بات بھی اختیار نہیں کر سکتا۔ مگر باوجود اس کے ہم اس امر سے انکار نہیں کر سکتے کہ تمثیلی زبان بہت بڑی اہمیت رکھنے والی چیز ہے اور تمثیلی زبان میں جن چیزوں کو عزت کا موجب سمجھا جائے ان کی حفاظت کرنا مذہب کے خلاف نہیں بلکہ مذہب کا ہی حصہ ہے۔ اب ایک مسجد کی اینٹیں ویسی ہی ہوتی ہیں جیسے کسی اَور مکان میں اینٹیں لگی ہوئی ہوتی ہیں۔ ایک ہی بھٹے سے وہ اینٹیں آتی ہیں، ایک ہی آگ سے وہ پکی ہوئی ہوتی ہیں، ایک ہی چمنی نے ان کی دودکشی کی ہوئی ہوتی ہے، ایک ہی مستری نے وہ اینٹیں پتھوائی ہوتی ہیں جو بعض دفعہ ایک چوڑھا اور چمار بھی ہو سکتا ہے۔ پھر انہی اینٹوں سے ایک سکھ کا مکان بنتا ہے ، ایک ہندو کا مکان بنتا ہے، ایک عیسائی کا مکان بنتا ہے، ایک مسلمان کا مکان بنتا ہے مگر کسی مکان کو کوئی خاص عظمت حاصل نہیں ہوتی لیکن انہی اینٹوں سے بنی ہوئی مسجد کے لئے مسلمان اپنی جانیں دینے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ اس لئے کہ مسجد تصویری زبان میں خدا تعالیٰ کی عبادت کا نشان ہوتی ہے حالانکہ ایک چوڑھے یا چمار نے وہ اینٹیں پاتھی ہوتی ہیں۔ ایک ہی قسم کا کوئلہ ان پر خرچ ہؤا ہوتا ہے، ایک ہی قسم کے آدمیوں نے جو بعض اوقات شرابی اور بدکار بھی ہو سکتے ہیں ان کو تیار کرنے میں حصہ لیا ہوتا ہے مگر جب وہ اینٹیں مسجد کو جا کر لگتی ہیں تو ان کو خاص عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جانے لگتا ہے۔ اس لئے نہیں کہ وہ اینٹیں اپنی ذات میں قابل عزت ہیں بلکہ اس لئے کہ ان اینٹوں سے مسجد بنتی ہے اور ان اینٹوں کے گرانے کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ مسجد گرائی جاتی ہے اور مسجد کے گرانے کے یہ معنے سمجھے جاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی عبادت کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ اسی طرح کسی بزرگ کے سامنے کوئی شخص اگر اس سے اونچی جگہ پر آ کر بیٹھ رہے تو سب لوگ اسے بے ادب اور گستاخ کہنے لگ جائیں گے یا باپ تو نیچے بیٹھا ہو اور بیٹا اوپر بیٹھ رہے تو سب لوگ کہیں گے یہ بڑا بے حیا اور بےشرم ہے، باپ نیچے بیٹھا ہؤا ہے اور بیٹا اوپر بیٹھ گیا ہے حالانکہ عملی طور پر اس نے اپنے باپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا ہوتا۔ باپ اگر نیچے بیٹھا ہوتا ہے تو اپنی مرضی سے بیٹھا ہوتا ہے اور بیٹا اگر اوپر بیٹھ رہتا ہے تو اس لئے بیٹھتا ہے کہ اسے اوپر بیٹھنے سے آرام حاصل ہوتا ہے مگر تصویری زبان میں چونکہ اوپر اور نیچے کے معنے عزت اور ذلت یا اعلیٰ اور ادنیٰ کے سمجھے جاتے ہیں اس لئے باوجود اس کے کہ بیٹے کے اوپر بیٹھنے سے باپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا وہ اگر اوپر بیٹھ جاتا ہے تو سب لوگ اسے برا سمجھتے ہیں۔ اس لئے کہ تصویری زبان میں اوپر اور نیچے کا مفہوم اعلیٰ اور ادنیٰ کے معنوں میں سمجھا جاتا ہے اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے اپنے عمل سے اس امر کا اظہار کیا ہے کہ مَیں اعلیٰ ہوں اور میرا باپ ادنیٰ ہے یا مَیں بڑا ہوں او رمیرا باپ چھوٹا ہے۔ اسی تصویری زبان کے لحاظ سے جب کسی مسجد کو گرایا جاتا ہے تو یہ نہیں سمجھا جاتا کہ چند اینٹوں کو گرا دیا گیا ہے بلکہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ مسجد پر حملہ کر کے خدا تعالیٰ کی عبادت کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔
مَیں نے ابھی جھنڈے کی مثال دی تھی اور مَیں نے بتایا تھا کہ قوموں میں جھنڈے کا بڑا ادب اور احترام کیا جاتا ہے۔ بعض دفعہ دشمن سے اس کا جھنڈا چھیننے کے لئے بڑی بڑی قربانیاں کی جاتی ہیں اور بعض دفعہ اپنا جھنڈا بچانے کے لئے بڑی بڑی قربانیاں کی جاتی ہیں اور یہ شرک نہیں ہوتا بلکہ جیسے باپ کے سامنے اس کے بیٹے کا اوپر بیٹھنا سب لوگ ناجائز سمجھتے ہیں اس لئے کہ اس طرح تمثیلی زبان میں باپ کی ہتک ہوتی ہے ، اسی طرح تمثیلی زبان میں چونکہ قوم کا جھنڈا چھینے جانے کے معنے اس کی عزت و آبرو کے خاک میں مل جانے کے ہیں۔ اس لئے قومیں اپنی جانیں قربان کر دیتی ہیں مگر یہ برداشت نہیں کر سکتیں کہ ان کا جھنڈا دشمن کے قبضہ میں چلا جائے۔
فرانس کا ایک مشہور واقعہ ہے اس جنگ میں نہیں بلکہ اس سے پہلے کی جنگ میں ایک دفعہ جرمن والوں نے فتح پائی اور فرانس کی حکومت نے جرمنی سے صلح کر لی۔ صلح کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ جو فوج آگے لڑ رہی ہے اس کا جھنڈا جرمنوں کے حوالے کر دیا جائے۔ جس وقت یہ اطلاع اس فوج کو پہنچی وہ آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے اور انہوں نے کہا ہم یہ نہیں کر سکتے کہ اپنا جھنڈا دشمنوں کے حوالے کر دیں۔ صلح کرنی اَور بات ہے لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ اپنا جھنڈا اپنے ہاتھ سے دشمن کے حوالے کر دیا جائے۔ افسروں نے کہا ہم اس بارہ میں کیا کر سکتے ہیں۔ یہ ہماری حکومت کا فیصلہ ہے اور اب لازماً ہمیں لڑائی چھوڑنی پڑے گی مگر اس بات میں ہم بھی تم سے متفق ہیں کہ اپنا جھنڈا دشمن کو دے دینا ایسی ذلت ہے جس سے بڑی اَور کوئی ذلت نہیں مگر طے شدہ شرائط میں سے کسی شرط کو توڑ دینے کے یہ معنی تھے کہ پھر لڑائی مول لے لی جائے اور یا پھر دشمنوں کی طرف سے کوئی اَور بھاری سزا قبول کی جائے چنانچہ وہ سب حیران تھے کہ کیا کریں، اتنے میں ایک کرنیل اٹھا ۔ اس نے اپنے جھنڈے کو اتارا او رقریب ہی کھانا پکانے کے لئے آگ جل رہی تھی اس میں وہ جھنڈا اس نے ڈال دیا اور پھر آگ میں جھنڈا ڈالنے کے بعد چیخیں مار کر رونے لگ گیا۔ جھنڈا جلانے کے معنی یہ تھے کہ ہم نے اپنی قوم کا جھنڈا دشمن کے ہاتھ میں نہیں جانے دیا اور اس کےر ونے کے یہ معنی تھے کہ مجھے اپنے ہاتھ سے اپنی قوم کا جھنڈا تلف کرنا پڑا۔ گویا اس نے دونوں کام کر لئے اپنے خیال میں اس نے اپنی قوم کی عزت کو بھی بچا لیا اور پھر اپنے ہاتھ سے اپنی قوم کا جھنڈا تلف کرنے پر اس نے اپنے درد کا بھی اظہار کر دیا۔ وہ ایک فوجی افسر تھا اور فوجی افسر کے لئے آنسو بہانا بھی برا سمجھا جاتا ہے مگر وہ اس وقت چیخیں مار کر رونے لگ گیا۔ بظاہر ایک انسان حیران ہوتا ہے کہ یہ کیسی عجیب بات ہے۔ ایک سمجھدار اور عقلمند انسان تھوڑے سے کپڑے اور لکڑی کے ضائع ہونے پر رو رہا ہے مگر جب کسی قوم کے افراد کے دلوں میں اس کے جھنڈے کی عظمت قائم کر دی جاتی ہے تو وہ انہیں اس بات کے لئے تیار کر دیتی ہے کہ اگر اپنے جھنڈے کی حفاظت کے لئے انہیں اپنی جانیں بھی قربان کرنی پڑیں تو بلا دریغ جانیں قربان کر دیں کیونکہ اس وقت تھوڑی سی لکڑی اور کپڑے کا سوال نہیں ہوتا بلکہ قوم کی عزت کا سوال ہوتا ہے جو تمثیلی زبان میں ایک جھنڈے کی صورت میں ان کے سامنے موجود ہوتا ہے۔ مَیں نے کئی دفعہ پہلے بھی بیان کیا ہے کہ ہمیں صحابہؓ میں بھی اس قسم کی مثال نظر آتی ہے۔ ایک جنگ میں ایک مسلمان افسر کے پاس اسلامی جھنڈا تھا وہ لوگ شاندار جھنڈے نہیں بنایا کرتے تھے بلکہ ایک معمولی سی لکڑی پر کالا کپڑا باندھ لیتے تھے مگر چاہے وہ کالا کپڑا ہوتا، چاہے اس جھنڈے کی معمولی لکڑی ہوتی، اس وقت سوال قوم کی عزت کا ہؤا کرتا تھا۔ یہ نہیں دیکھا جاتا تھا کہ جھنڈا قیمتی ہے یا معمولی بلکہ وہاں صرف اس بات کو ملحوظ رکھا جاتا تھا کہ قوم کی عزت اس بات میں ہے کہ اس جھنڈے کی حفاظت کی جائے۔ بہرحال اس لڑائی میں عیسائیوں نے جن کے خلاف جنگ ہو رہی تھی خاص طور پر اس جگہ حملہ کیا جہاں مسلمانوں کا جھنڈا تھا۔ حضرت جعفرؓ کے پاس یہ جھنڈا تھا اور یہ جنگ جنگ موتہ تھی۔ انہوں نے جب حملہ کیا تو حضرت جعفرؓ کا ایک ہاتھ کٹ گیا، انہوں نے جھٹ اس جھنڈے کو دوسرے ہاتھ میں پکڑ لیا ۔ جب دشمن نے دیکھا کہ جھنڈا پھر بھی نیچا نہیں ہؤا تو اس نے دوبارہ حملہ کیا۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ ان کا وہ دوسرا ہاتھ بھی کٹ گیا جس میں انہوں نے جھنڈا تھاما ہؤا تھا۔ انہوں نے فوراً جھنڈے کو دونوں لاتوں سے پکڑ لیا۔5 چونکہ لاتوں سے زیادہ دیر تک جھنڈا پکڑا نہیں جا سکتا تھا اس لئے انہوں نے زور سے آواز دی کہ کوئی مسلمان آگے آئے اور اس جھنڈے کو پکڑے اور انہوں نے کہا مسلمانو! دیکھنا اسلام کا جھنڈا نیچا نہ ہو۔ اب تھا وہ کپڑے کا یا معمولی لکڑی کا جھنڈا مگر اس کا نام انہوں نے اسلام کا جھنڈا رکھا کہ گو ہے تو وہ لکڑی کا، ہے تو وہ معمولی سے کپڑے کا مگر بہرحال اسلام کا جھنڈا ہے اس لئے اس کی حفاظت ضروری ہے۔ چنانچہ ایک اَور افسر نے آگے بڑھ کر اس جھنڈے کو پکڑ لیا۔ میرا خیال ہے کہ غالباً وہ حضرت خالد بن ولید تھے جنہوں نے وہ جھنڈا پکڑا۔6
تو دیکھو ایک کپڑے کی چیز ہے، معمولی لکڑی کی چیز ہے اور اسلام کے نزدیک اس کپڑے یا لکڑی کو کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں مگر جس حد تک قومی اعزاز کا سوال ہے، اسلام اس سے منع نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا یہ اسلام کا جھنڈا ہے دیکھنا یہ گرنے نہ پائے اور رسول کریم ﷺ نے بھی ان کی اس بات کو ناپسند نہیں کیا بلکہ بعض دفعہ خود رسول کریم ﷺ ایسی چیزوں کی عظمت قائم کرنے کے لئے فرما دیا کرتے تھے کہ یہ جھنڈا کون شخص لے گا۔ چنانچہ بعض لڑائیوں میں آپ نے فرمایا کہ مَیں جھنڈا اس شخص کے ہاتھ میں دوں گا جو اس کی عزت کو قائم کرے گا اور صحابہؓ ایک دوسرے سے بڑھ بڑھ کر اس جھنڈے کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اسی طرح ایک دفعہ آپ ایک تلوار لائے اور فرمایا یہ تلوار مَیں اس شخص کو دوں گا جو اس کا حق ادا کرے گا۔ کئی لوگوں نے اپنے آپ کو اس کے لئے پیش کیا مگر آپ نے ان میں سے کسی کو نہ دی۔ اتنے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ آ گئے اور رسول کریم ﷺ نے وہ تلوار ان کو دے دی اور آپ نےفرمایا علیؓ ! مَیں امید کرتا ہوں کہ تم اس تلوار کا حق ادا کرو گے۔7 چنانچہ جیسا کہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کا حق ادا کر دیا اور ایسے طور پر جنگ میں حصہ لیا کہ دشمن کو شکست ہو گئی۔
رسول کریم ﷺ کی اس سنت کی پیروی میں ہم نے بھی اپنی جماعت کا ایک جھنڈا بنایا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں خدام الاحمدیہ کا ایک جلسہ ہؤا تھا اس جلسہ میں باہر کی جماعتوں کی طرف سے بھی لوگ آئے تھے۔ اس میں ایک ایسے واقعہ کا مجھے علم ہؤا جو ایک حد تک میرے لئے خوشی کا موجب ہؤا اور مَیں سمجھتا ہوں جس نوجوان سے یہ واقعہ ہؤا ہے وہ اس قابل ہے کہ اس کی تعریف کی جائے۔ اس لئے مَیں یہ واقعہ اپنے خطبہ میں بیان کر دیتا ہوں۔ واقعہ یہ ہے کہ لاہور کے خدام جب جلسہ میں شمولیت کے لئے آ رہے تھے تو اس وقت جبکہ ریل سٹیشن سے نکل چکی تھی اورکافی تیز ہو گئی تھی ایک لڑکے سے جس کے پاس جھنڈا تھا ایک دوسرے خادم نے جھنڈا مانگا۔ وہ لڑکا جس نے اس وقت جھنڈا پکڑا ہؤا تھا ایک چھوٹا بچہ تھا۔ اس نے دوسرے کو جھنڈا دے دیا اور یہ سمجھ لیا کہ اس نے جھنڈا پکڑ لیا ہے مگر واقعہ یہ تھا کہ اس نے ابھی جھنڈے کو نہیں پکڑا تھا۔ اس قسم کے واقعات عام طور پر ہو جاتے ہیں۔ گھروں میں بعض دفعہ دوسرے کو کہا جاتا ہے کہ پیالی یا گلاس پکڑاؤ اور دوسرا برتن اٹھا کر دے دیتا ہے اور یہ خیال کر لیتا ہے کہ اس نے پیالی یا گلاس کو پکڑ لیا ہو گا مگر اس نے ابھی ہاتھ نہیں ڈالا ہوتا ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ برتن گِر جاتا ہے ۔ اسی طرح جب اس سے جھنڈا مانگا گیا اور اس نے جھنڈا دوسرے کو دینے کے لئے آگے بڑھا دیا تو اس نے خیال کیا کہ دوسرے نے جھنڈا پکڑ لیا ہو گا مگر اس نے ابھی پکڑا نہیں تھا ، نتیجہ یہ ہؤا کہ جھنڈا ریل سے باہر جا پڑا۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ وہ چھوٹا لڑکا جس کے ہاتھ سے جھنڈا گرا تھا فوراً نیچے کودنے لگا مگر وہ دوسرا لڑکا جس نے جھنڈا مانگا تھا اس نے اسے فوراً روک لیا اور خود نیچے چھلانگ لگا دی۔ لاہور کے خدام کہتے ہیں ہم نے اسے اوندھے گرے ہوئے دیکھ کر سمجھا کہ وہ مر گیا ہے مگر فوراً ہی اٹھا اور جھنڈے کو پکڑ لیا اور پھر ریل کے پیچھے دوڑ پڑا۔ ریل تو وہ کیا پکڑ سکتا تھا بعد میں کسی دوسری سواری میں بیٹھ کر اپنے قافلہ سے آ ملا۔ مَیں سمجھتا ہوں اس کا یہ فعل نہایت ہی اچھا ہے اور اس قابل ہے کہ اس کی تعریف کی جائے۔ خدام الاحمدیہ نے اس کے لئے انعام مقرر کیا تھا اورتجویز کیا تھا کہ اسے ایک تمغہ دیا جائے مگر اس وقت یہ روایت میرے پاس غلط طور پر پہنچی تھی اس لئے مَیں نے وہ انعام اسے نہ دیا۔ بعد میں مجھے معلوم ہؤا کہ صحیح بات یہ ہے کہ جھنڈا اس کے ہاتھ سے نہیں گرا تھا بلکہ دوسرے کے ہاتھ سے گرا تھا۔ پہلے مجھے یہ بتایا گیا تھا کہ اسی کے ہاتھ سے جھنڈا گرا تھا۔ بہرحال یہ ایک نہایت ہی قابل تعریف فعل ہے۔ خدام الاحمدیہ سے ہمیشہ اس بات کا اقرار لیا جاتا ہے کہ وہ شعائر اللہ کا ادب اور احترام کریں گے۔ اسی طرح قومی شعائر کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھیں گے۔ اس اقرار کو پورا کرنے میں لاہور کے اس نوجوان نے نمایاں حصہ لیا ہے اور مَیں اس کے اس فعل کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس نوجوان کا نام مرزا سعید احمد ہے اور اس کے والد کا نام مرزا شریف احمد ہے۔ بظاہر یہ سمجھا جائے گا کہ اس نوجوان نے اپنی جان کو خطرہ میں ڈالا مگر جہاں قومی شعائر کی حفاظت کا سوال ہو وہاں اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی اور درحقیقت وہی لوگ عزت کے مستحق سمجھے جاتے ہیں جو اپنی جان کو خطرہ میں ڈالنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ وہ لوگ جو اپنی جان کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں انہیں کی جانیں دنیا میں سب سے زیادہ سستی اور بے حیثیت سمجھی جاتی ہیں۔ آخر غلام قومیں کون ہوتی ہیں، وہی لوگ غلام بنتے ہیں جو اپنی جانوں کو قربان کرنے سے ڈرتے ہیں اور کہتے ہیں ہم مر نہ جائیں۔ وہ ایک وقت کی موت قبول نہیں کرتے تو خدا تعالیٰ انہیں بعض دفعہ صدیوں کی موت دے دیتا ہے۔ غدر کا مشہور واقعہ ہے کہ انگریزوں نے ظفر شاہ٭ کی ایک بیوی پر اثر ڈالا ہؤا تھا جو بادشاہ کو بہت پیاری تھی اور اس سے یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر تُو نے ہمارا ساتھ دیا تو ہم تیرے بیٹے کو بادشاہ بنا دیں گے۔ اس لڑائی میں ایک وقت انگریزی فوج نے ایک ایسی جگہ توپیں لگائیں جہاں سے قلعہ پر کامیاب حملہ کیا جا سکتا تھا۔ ان توپوں پر ایک ایسی جگہ سے زد پڑتی تھی جو ملکہ کے محل کے سامنے تھی اس جگہ توپیں لگا دی جاتیں تو انگریزی حملہ بیکار ہو جاتا تھا۔ انگریز سمجھتے تھے کہ اگر اس موقع پر شاہی قلعہ کے اس مقام سے گولہ باری کی گئی
٭ محمد بہادر شاہ ظفر (1869-1775ء) اردو جامع انسائیکلو پیڈیا
تو ان کے لئے فتح پانا بالکل ناممکن ہو جائے گا چنانچہ انہوں نے بیگم کو پیغام بھجوایا کہ جس طرح بھی ہو سکے یہاں سے توپ اٹھوا دو۔ اس نے بادشاہ کو کہلا بھیجا کہ مَیں نے سنا ہے میرے محل کے سامنے توپ رکھی گئی ہے آپ اسے اٹھوا دیں ورنہ مَیں تو توپ کی آواز سے مر جاؤ ں گی۔ بادشاہ نے کہا یہ ایک فوجی سوال ہے اور اس تکلیف کو تمہیں برداشت کرنا چاہئے۔ اگر اس جگہ سے ہم انگریزوں پر گولہ باری نہیں کریں گے تو ہم کبھی فتح حاصل نہیں کر سکیں گے مگر وہ برابر اصرار کرتی رہی ۔ آخر بادشاہ کے حکم سے فوجیوں نے توپ داغ دی، توپ کا داغنا ہی تھا کہ اس کی بیوی نے ہسٹیریا کا دَورہ بنا لیا اور شور مچانے لگ گئی کہ ہائے مَیں مر گئی، ہائے مَیں مر گئی چونکہ بادشاہ بھی ایسا تھا جسے ملک اور قوم سے اتنی محبت نہیں تھی جتنی محبت اسے اپنی بیوی سے تھی اور اس کی طبیعت میں عیاشی پائی جاتی تھی۔ اس نے حکم دے دیا کہ میری بیوی کو تکلیف ہوتی ہے یہاں سے توپ اٹھا لی جائے چنانچہ اسے اٹھا لیا گیا مگر نتیجہ کیا ہؤا؟ نتیجہ یہ ہؤا کہ اس کے بیٹے نے بادشاہ تو کیا بننا تھا، شہزادہ بھی نہ بنا اور آخر فقیروں کی موت مرا اور پھر اس کے بعد وہ قوم قریباً ایک سو سال ہونے کو آیا کہ اب تک انگریزوں کی غلام چلی آتی ہے۔ اس عرصہ میں ہم نے اپنی آنکھوں سے دہلی میں بعض پانی پلانے والے اور بعض حقہ پلانے والے لوگ دیکھے جن کے متعلق لوگوں نے بتایا کہ یہ شاہی خاندان میں سے ہیں۔ اگر وہ لوگ اپنی جانوں کی کوئی قیمت نہ سمجھتے تو یہ ذلت اور رسوائی کا دن دیکھنا انہیں کیوں نصیب ہوتا۔ یہ تو اس بیگم کا فریب تھا کہ مَیں مرنے لگی ہوں لیکن فرض کرو اگر وہ مرنے بھی لگتی اور کسی دوسری جگہ توپ رکھنے سے اس کی جان بچ سکتی تو اس کا فرض تھا کہ وہ بادشاہ کو کہلا بھیجتی کہ بادشاہ تم مجھے مرنے دو تاکہ قوم اور ملک زندہ ہو کیونکہ وہی قومیں دنیا میں زندگی پاتی ہیں جو اپنی جان کو حقیر سمجھتی ہیں۔ جس قوم میں زندگی کی قیمت آ گئی اس قوم کی زندگی کی کوئی قیمت نہیں رہتی مگر جو قوم موت کو معمولی بات سمجھتی ہے اس قوم کو ابدی حیات حاصل ہو جاتی ہے۔ درحقیقت حیات موت کے گلے ملنے سے ہی میسر آتی ہے۔ دنیا میں زندگی اور باعزت زندگی کا اَور کوئی ذریعہ نہیں سوائے اس کے کہ انسان موت کو قبول کر لے ۔ جو لوگ موت قبول کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں ان کو اور ان کی اولادوں کو ہمیشہ کی زندگی حاصل ہو جاتی ہے مگر جو اپنے لئے اور اپنی اولادوں کے لئے زندگی تلاش کرتے پھرتے ہیں ان کے پیچھے پیچھے ہر وقت موت دوڑتی رہتی ہے۔ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے یہ عجیب قانون بنایا ہے کہ جن چیزوں کے پیچھے بھاگو وہ آگے آگے بھاگتی ہیں، جو شخص زندگی کے پیچھے بھاگتا ہے، زندگی اس کے آگے آگے بھاگتی ہے اور موت اسے آ کر پکڑ لیتی ہے اور جو شخص موت کے پیچھے بھاگتا ہے، موت اس کے آگے آگے بھاگتی ہے اور زندگی اسے آ کر پکڑ لیتی ہے۔ جو قومیں مال اور دولت کے پیچھے بھاگتی ہیں ، دولت ان کے آگے آگے بھاگتی ہے اور جو لوگ اپنے مال اور دولت کو حقیر خیال کرنے لگ جاتے ہیں انہیں یہ دولت اتنی کثرت سے ملتی ہے کہ ان کے پیچھے پیچھے بھاگی پھرتی ہے۔ زمیندار ہر سال غلہ اپنے گھر سے نکالتا اور زمین میں جا کر پھینک آتا ہے۔ اس کا اپنے گھر سے غلہ نکال کر زمین میں ڈال آنا آخر کیا ہوتا ہے۔ اس غلے کو بظاہر ضائع اور تباہ کرنا ہی ہوتا ہے مگر پھر وہی غلہ اس کے پیچھے پیچھے دوڑتا چلا آتا ہے۔ اگر وہ اس غلے کو بچا کر رکھے تو کیا تم سمجھ سکتے ہو کہ اسے اتنی کثرت سے غلہ مل سکتا ہے۔ اگر وہ کہے کہ مَیں اپنے دانوں کو کیوں زمین میں ڈالوں، معلوم نہیں اگلے سال غلہ پیدا ہو یا نہ ہو ، یا کیا پتہ وہ سیلاب سے خراب ہو جائے یا پرندے آئیں اور اسے چُن چُن کر کھا جائیں اور اس طرح غلے کو اپنے گھر میں سنبھال کر رکھ لے تو اس کے گھر میں آئندہ سال کبھی غلہ نہیں آئے گا۔ ہاں جو زمیندار کھیتوں میں اپنے غلہ کو پھینک دے گا اور اس کے ضائع ہونے کی کوئی پرواہ نہیں کرے گا اس کے گھر کثرت سے غلہ آ جائے گا۔ تو وہی قومیں دنیا میں عزت حاصل کیا کرتی ہیں جو اپنی عزت کو قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتی ہیں اور وہی قومیں دنیا میں زندگی حاصل کیا کرتی ہیں جو اپنی زندگی کو قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتی ہیں۔ قربانی کے بغیر دنیا میں عزت اورنیک نامی حاصل کرنے کا اَور کوئی طریق نہیں۔ کہتے ہیں پرانے زمانہ میں ایک بادشاہ تھا۔ وہ ایک دفعہ کہیں جا رہا تھا کہ اس نے راستہ میں دیکھا ایک بڈھا ایک درخت لگا رہا تھا مگر وہ درخت ایسا تھا جو بیسیوں سال کے بعد پھل دیتا تھا۔ بادشاہ اسے دیکھ کر کہنے لگا بڈھے تمہاری عقل ماری گئی ہے تم اسّی نوّے سال کے ہو گئے ہو اگر تم اس سال نہ مرے تو اگلے سال مر جاؤ گے مگر تم درخت وہ لگا رہے ہو جو بیس پچیس سال کے بعد پھل دیتا ہے۔ یہ تم کیا کر رہے ہو۔ بڈھے نے کہا بادشاہ سلامت آپ بادشاہ ہو کر کیسی غیر معقول بات کر رہے ہیں۔ ہمارے باپ دادا نے درخت لگائے اور ہم نے ان کے پھل کھائے۔ اب ہم درخت لگائیں گے اور ہماری اولادیں ان کا پھل کھائیں گی۔ اگر ہمارے باپ دادا یہ قربانی نہ کرتے اور وہ بھی یہی کہتے کہ ہم کیوں درخت لگائیں ہم انہیں کیوں پانی دیں، ہم کیوں ان کی نگہداشت کریں اور کیوں ان پر محنت کریں تو ہم ان درختوں کے پھل کہاں سے کھاتے۔ اسی طرح ہم اگر اس خیال میں رہیں گے کہ ہم نے تو مر جانا ہے۔ اب ہم نے درخت لگا کر کیا کرنا ہے تو ہماری اولادیں ان درختوں کا پھل کہاں سے کھائیں گی۔ بادشاہ کو اس بڈھے کی یہ بات بہت ہی پسند آئی اور اس کے مُنہ سے بے اختیار نکلا کہ زِہ یعنی تم نے کیا ہی اچھی بات کہی ہے اور بادشاہ نے یہ حکم دیا ہؤا تھا کہ جب مَیں کسی بات سے خوش ہو کر زِہ کہوں تو اسے فوراً دو ہزار درہم انعام دے دئیے جایا کریں۔ اس کے وزیر کے پاس ہمیشہ ایسی تھیلیاں رہتی تھیں جونہی بادشاہ نے کہا زِہ تو وزیر نے جھٹ دو ہزار درہم کی تھیلی اس بڈھے کے سامنے رکھ دی۔ بڈھے کے ہاتھ میں جب روپیہ آیا تو وہ کہنے لگا بادشاہ سلامت ابھی آپ طعنے دے رہے تھے کہ تُو نے اس درخت کا پھل تھوڑا کھانا ہے۔ تُو تو اس وقت تک مر جائے گا اور تیری اولادیں اس کا پھل کھائیں گی حالانکہ اگر میری اولادیں اس کا پھل کھاتیں تب بھی مَیں ہی اس کا پھل کھاتا مگر مَیں نے تو یہ درخت لگاتے لگاتے اس کا پھل کھا لیا۔ بادشاہ کے مُنہ سے پھر نکلا زِہ یعنی کیا ہی اچھی بات کہی ہے اور وزیر نے جھٹ ایک دوسری تھیلی دو ہزار درہم کی اس کے سامنے رکھ دی۔ پھر بڈھا کہنے لگا دیکھئے بادشاہ سلامت آپ کیا اعتراض کرتے تھے ۔ لوگ تو درخت لگاتے ہیں اور کئی سال کے بعد جب اس کا پھل پیدا ہوتا ہے تو سال میں صرف ایک دفعہ اس کا پھل کھاتے ہیں مگر مَیں نے تو ایک گھنٹہ میں اس کا دو دفعہ پھل کھا لیا۔ بادشاہ کہنے لگا زِہ اور وزیر نے جھٹ ایک تیسری تھیلی دو ہزار درہم کی اس کے سامنے رکھ دی۔ پھر بادشاہ اپنے وزیر سے کہنے لگا چلو یہاں سے یہ بڈھا تو ہمیں لُوٹ لے گا۔تو حق یہی ہے کہ قربانیاں ہی ہیں جو اچھا پھل لاتی ہیں۔ یہ ہے تو ایک لطیفہ مگر حقیقت یہی ہے کہ قربانی کرنے والے وقت سے بہت پہلے اپنی قربانی کا پھل کھا لیتے ہیں۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا کہ انہیں ان کی قربانی کا پھل ملنے والا ہے مگر اللہ تعالیٰ جو عرش سے ان کی قربانیوں کو دیکھتا ہے ان کو ان کا پھل کھلا دیتا ہے ۔ مکہ میں جو لوگ قربانیاں کرتے رہے تھے کب ان کے وہم اور گمان میں بھی یہ بات آ سکتی تھی کہ عنقریب وہ اس کا پھل کھا لیں گے۔ وہ اسّی نوّے یا سَو آدمیوں کی جماعت جو ہر روز لوگوں کے ظلموں کے نیچے دبی ہوئی تھی جنہیں پتھروں پر گھسیٹا جاتا تھا، جنہیں کوڑے مارے جاتے تھے، جن میں سے بعض کو قتل بھی کر دیا جاتا تھا اور جنہیں آخر اپنا گھر بار چھوڑ کر حبشہ کی طرف ہجرت کر کے جانا پڑا کب وہ اس بات کا قیاس بھی کر سکتے تھے کہ ہم لوگ اپنی زندگی میں اپنی ان قربانیوں کا پھل کھا لیں گے لیکن یہ اسّی نوّے یا سَو آدمیوں کی جماعت جسے تیرہ سال کفار نے ظلموں کا تختہ مشق بنائے رکھا مدینہ میں ابھی دو سال نہیں گزرے تھے کہ اس کے ہاتھوں سے اس کی آنکھوں کے سامنے اس کا دشمن تہِ تیغ ہو گیا اور وہ جو روزانہ ان پر ظلم کرتے اَور انہیں قسم قسم کے دکھ پہنچایا کرتے تھے ان کا نام و نشان تک مٹ گیا ۔ بدر کی جنگ میں جو کچھ ہؤا مکہ کی زندگی میں مسلمانوں کا وہم اور خیال بھی اس طرف نہیں جا سکتا تھا پھر ابو جہل کے متعلق ان میں سے کوئی شخص یہ قیاس بھی نہیں کر سکتا تھا کہ وہ اس طرح لڑائی کے میدان میں مسلمانوں کے ہاتھوں سے مار ا جائے گا اور اسے مارنے والے مدینہ کے دو چھوٹے چھوٹے لڑکے ہوں گے۔ 8 مگر تیرہ سال ظلم سہنے کے بعد ایک چھوٹی سی جماعت میں اتنا جوش پیدا ہو گیا کہ انہوں نے اپنے دشمن کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا اور وہی لوگ جو ذلیل سمجھے جاتے تھے دنیا میں عزت کے ساتھ دیکھے جانے لگے۔ اس کی آخر کیا وجہ تھی؟ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے قربانیاں کیں اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں کسی قسم کی قربانی پیش کرنے سے دریغ نہ کیا۔ وہ خدا کے نام کی عزت کے لئے مر گئے اور جب انہوں نے خدا کے نام کی عزت کے لئے مرنا قبول کر لیا تو خدا نے کہا اب مَیں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ تمہیں ذلیل اور رسوا ہونے دوں۔ وہ سب کے سب کیا مرد اور کیا عورتیں اور کیا بچے خدا تعالیٰ کے دین کے لئے ہر قسم کی موت خوشی سے برداشت کرنے کے لئے تیار ہو گئے تھے۔ انہوں نے کہا ہم خدا کے لئے ہر قسم کی تکلیف برداشت کرنے کے لئے تیار ہیں، ہم خدا کے لئے ہر قسم کی ذلت برداشت کرنے کے لئے تیار ہیں، ہم خدا کے لئے ہر قسم کی موت برداشت کرنے کے لئے تیار ہیں۔ تب خدا نے کہا اب میری غیرت بھی برداشت نہیں کر سکتی کہ مَیں تمہیں ذلت اور رسوائی سے مرنے دوں، مَیں تمہیں زندہ رکھوں گا اور عزت سے زندہ رکھوں گا۔ کیا ہی خوشی کا مقام ہوتا تھا ان کے لئے خدا تعالیٰ کی راہ میں کسی تکلیف کا برداشت کرنا اور کس مسرت سے وہ ان مصائب کو برداشت کیا کرتے تھے۔ اس کے لئے حضرت عثمانؓ بن مظعون کا ایک واقعہ نہایت ہی دردناک اور ایمان افروز ہے۔ مَیں نے یہ واقعہ پہلے بھی کئی دفعہ سنایا ہے۔ جو اس امر کو واضح کرتا ہے کہ وہ لوگ خدا تعالیٰ کی راہ میں کس خوشی سے تکالیف برداشت کیا کرتے تھے۔ حضرت عثمانؓ بن مظعون ایک بہت بڑے رئیس کے لڑکے تھے۔ ان کا باپ بچپن میں فوت ہو گیا تھا اور وہ ابھی چھوٹے ہی تھے کہ مسلمان ہو گئے مکہ میں جس طرح اَور مسلمانوں پرظلم کئے جاتے تھے اسی طرح عثمانؓ بن مظعون کو بھی مختلف مظالم کا تختہ مشق بنایا جاتا تھا۔ آخر ایک دفعہ انہوں نے ارادہ کیا کہ وہ حبشہ کی طرف ہجرت کر کے چلے جائیں چنانچہ وہ اس ارادہ سے جا رہے تھے کہ انہیں ایک رئیس نے دیکھ لیا جو ان کے باپ کا دوست تھا۔ اس نے ان سے پوچھا کہ عثمانؓ کہاں کی تیاریاں ہیں۔ انہوں نے کہا مکہ والوں کے ظلم سے تنگ آ کر مَیں حبشہ کی طرف ہجرت کر کے جا رہا ہوں۔ وہ رئیس چونکہ ان کے باپ کا دوست تھا اس لئے کہنے لگا عثمان مَیں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ تُو مکہ چھوڑ کر چلا جائے۔ مَیں تیرے باپ کو کیا مُنہ دکھاؤں گا تُو آج سے میری پناہ میں آ جا تجھے مکہ والے کوئی تکلیف نہیں پہنچا سکیں گے۔ عربوں میں دستور تھا کہ جب ان میں سے کوئی شخص کسی کو اپنی پناہ میں لے لیتا تو پھر اس پر کوئی شخص ہاتھ نہیں اٹھا سکتا تھا۔ انہوں نے کہا بہت اچھا ۔ عام طور پر دستور یہ تھا کہ خانۂ کعبہ کی مسجد میں جا کر اعلان کر دیا جاتا کہ مَیں فلاں کو اپنی پناہ میں لیتا ہوں۔ اس دستور کے مطابق وہ بھی خانۂ کعبہ میں گیا اور اس نے اعلان کر دیا کہ عثمان آج سے میری پناہ میں ہے چنانچہ اس کے بعد وہ آرام سے زندگی بسر کرنے لگے اور کسی کو یہ جرأت نہیں ہوتی تھی کہ ان پر ہاتھ اٹھائے۔ ایک دن وہ بازار میں سے گز ر رہے تھے کہ انہوں نے بعض غلام صحابہ کو دیکھا کہ ان کے پاؤں میں رسیاں بندھی ہوئی ہیں ، لڑکے انہیں پتھروں پر گھسیٹ رہے ہیں، انہیں مارتے جا رہے ہیں اور کہتے ہیں تم کہو لات اور عزّٰی بھی اپنے اندر خدائی صفات رکھتے ہیں اور محمد (ﷺ) نَعُوْذُ بِاللہ جھوٹے مگر و ہ اس کے جواب میں یہی کہتے اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ عثمانؓ نے جب ان کی یہ قربانی دیکھی تو اسی وقت واپس لوٹے اور اس رئیس سے جا کر کہنے لگے کہ اپنی پناہ واپس لے لو۔ اس نے کہا کیوں؟ کیا تمہارا دماغ پھر گیا ہے؟ مَیں نے اگر پناہ واپس لے لی تو تمہیں سخت تکلیف پہنچے گی۔ وہ کہنے لگے ہاں یہ مجھے معلوم ہے مگر مَیں نے آج اپنے بھائیوں کو اس اس طرح مظالم کا شکار ہوتے دیکھا ہے اور میری غیرت اس امر کو برداشت نہیں کر سکتی کہ مَیں تو تمہاری پناہ میں رہوں اور وہ لوگ تکلیف اٹھائیں۔ جو اُن کا حال ہے وہی مَیں اپنے لئے پسند کرتا ہوں۔ چنانچہ اس نے پھر خانہ کعبہ کی مسجد میں جا کر اعلان کر دیا کہ اے لوگو! مَیں نے عثمان سے اپنی پناہ واپس لے لی ہے۔ اب مَیں اس کا ذمہ دار نہیں ہوں۔ کچھ دنوں کے بعد حج کا موسم آیا اور عرب میں یہ قاعدہ تھا کہ حج کے موقع پر مکہ میں بڑے بڑے خطیب اور شعراء اکھٹے ہوتے، جو لیکچر دیتے اور اشعار سناتے۔ عرب کے ایک مشہور شاعر لبیدؓ گزرے ہیں جنہوں نے بعد میں اسلام بھی قبول کر لیا تھا۔ وہ اس موقع پر ایک بہت بڑی مجلس میں اپنا قصیدہ سنا رہے تھے اور تمام رؤساء واہ وا کہہ رہے تھے۔ لبید اس زمانہ میں عرب کے سب سے بڑے شاعر سمجھے جاتے تھے۔ شعر سناتے سناتے انہوں نے ایک مصرع یہ پڑھا کہ ؂
اَلَا کُلُّ شَیْءٍ مَا خَلَا اللہَ بَاطِلٗ
یعنی سنو خدا تعالیٰ کے سوا دنیا کی سب چیزیں فانی ہیں۔ انہوں نے یہ مصرع پڑھا تو حضرت عثمانؓ کہنے لگے۔ واہ وا کیا اچھا مصرع کہا ہے۔ تم بالکل ٹھیک کہتے ہو کیونکہ اس مصرع میں توحید کا مضمون پایا جاتا تھا وہ تصدیق کرنے سے رک نہ سکے۔ لبید یہ سنتے ہی بگڑ گئے اور انہوں نے کہا اے مکہ کے لوگو! کیا تم میں اب کوئی ادب باقی نہیں رہا۔ مَیں بڑی عمر کا آدمی ہوں اسّی نوّے سال میری عمر ہو چکی ہے۔ سارا عرب میرے اشعار کو اپنے سر اور آنکھوں پر رکھتا ہے اور میرا کلام اپنے اندر ایسے محاسن اور حکمتیں رکھتا ہے کہ سب لوگ اس کی قدر کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں کیا تم سمجھتے ہو، میرے کلام کو درست قرار دینے کے لئے ایک انیس سالہ لڑکے کا داد دینا کوئی وقعت رکھتا ہے اور کیا وہ اگر میرے شعر کو درست قرار دے گا تو وہ درست ہو گا اور اگر وہ ٹھیک نہیں کہے گا تو وہ ٹھیک نہیں ہو گا۔ اس لڑکے کا میرے اس مصرع کے متعلق یہ کہنا کہ یہ ٹھیک ہے یہ بھی میری ہتک ہے۔ میرے شعر اس چھوٹے سے لڑکے کی تصدیق کے محتاج نہیں ہیں۔ چنانچہ سب نے اسےڈانٹنا شروع کیا کہ لڑکے آرام سے شعر سن، درمیان میں تُو کیوں بولتا ہے۔ وہ خاموش ہو گئے۔ اس کے بعد پھر اس نے اگلا مصرع پڑھا کہ
وَ کُلُّ نَعِیْمٍ لَّا مُحَالَةَ زَائِلٗ
اور ہر ایک نعمت یقیناً آخر تباہ ہو جائے گی۔ اب پھر عثمان بول پڑے اور کہنے لگے یہ بالکل جھوٹ ہے۔ جنت ہمیشہ قائم رہے گی۔ جو شخص عثمان کے ایک مصرع کو ٹھیک کہنے پر ناراض ہو گیا تھا ، تم سمجھ سکتے ہو کہ جب اس کے دوسرے مصرع کو جھوٹ کہہ دیا گیا تو وہ کس قدر نارض ہؤا ہو گا۔ اس نے شعر پڑھنے بند کر دئیے اور کہا مَیں اب کوئی شعر نہیں سناؤں گا۔ اب مکہ شریفوں کی جگہ نہیں رہا اور یہاں کسی کی عزت محفوظ نہیں۔ اس کا یہ کہنا تھا کہ لوگوں میں جوش پیدا ہو گیا اور سب عثمان بن مظعون کو مارنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور انہیں اتنا مارا اتنا مارا کہ وہ لہولہان ہو گئے۔ اسی دوران میں ایک شخص نے زور سے ان کی ایک آنکھ پر گھونسہ مارا جس سے ان کی آنکھ کا ڈیلا نکل کر باہر آ گیا۔ اس مجلس میں وہ رئیس بھی موجود تھا جو حضرت عثمانؓ بن مظعون کے والد کا دوست تھا۔ ایک طرف اس پر اپنی قوم کا رعب تھا اور دوسری طرف اس کے اپنے ایک پرانے دوست یعنی عثمانؓ کے والد سے جو تعلقات تھے وہ اسے یاد آ گئے اور اس نے خیال کیا کہ عثمانؓ کا باپ اس سے کیسا حسن سلوک کیا کرتا تھامگر آج اس کے بیٹے کی کیا حالت ہو رہی ہے۔ اس شش و پنج کی حالت میں جیسے کسی کے نوکر بچے کو جب اس کے آقا کاکوئی لڑکا مارتا ہے تو ماں اپنے آقا کے لڑکے کو تو نہیں مار سکتی الٹا اپنے بچے کو مارتی ہے کہ تُو وہاں کیوں گیا تھا اور درحقیقت وہ محبت کی مار ہوتی ہے۔ اسی طرح ان کے باپ کا وہ دوست غصہ سے کھڑا ہو گیا اور اس نے کہا عثمانؓ مَیں نے نہیں کہا تھا کہ تُو میری پناہ میں سے نہ نکل۔ اب تھا تو وہ غصہ مگر اس کا موجب درحقیقت وہ محبت تھی جو اسے اس کے باپ سے تھی۔ مطلب یہ تھا کہ تُو میری پناہ سے نکلا تو آج مجھے بھی یہ دکھ دیکھنا پڑا کہ تیری ایک آنکھ نکل گئی۔ حضرت عثمانؓ نے آگے سے جواب دیا کہ چچا تم اس ایک آنکھ کا ذکر کرتے ہو میری تو اس راہ میں دوسری آنکھ بھی نکلنے کے لئے تیار ہے۔ 9
یہ وہ قربانیاں تھیں جو خدا تعالیٰ کے لئے انہوں نے کیں اور پھر دو سال کے اندر اندر ان کی تلواروں کے نیچے ان کے دشمنوں کی گردنیں آ گئیں اوروہی سردار جو رسّیاں باندھ باندھ کر انہیں گلیوں میں گھسیٹا کرتے تھے ایسے ذلیل ہو گئے کہ جس کی کوئی حد ہی نہیں۔ آج لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے ظلم کئے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کفار نے اس سے سینکڑوں گنا زیادہ ان پر سختیاں کی تھیں۔ وہ صحابہؓ جو غلام کہلاتے تھے، ان کی ٹانگوں میں رسیاں باندھ باندھ کر انہیں گلیوں میں پتھروں پر گھسیٹا جاتا تھا اور انہیں اس قدر مارا اور پیٹا جاتا تھا کہ ان کا تمام جسم زخمی ہو جاتا تھا۔ اس زمانہ میں مکہ میں کچے مکان زیادہ تھے اور پکے کم تھے او رجہاں کچے مکان زیادہ ہوں وہاں گلیوں میں پانی کی رَو روکنے کے لئے ایک خاص قسم کے پتھر رکھ دئے جاتے ہیں جنہیں پنجابی میں کِھنگھر کہتے ہیں۔ قادیان میں بھی پہلے گلیوں میں اس قسم کے کِھنگھر ہؤا کرتے تھے اور یہ کِھنگھر اس لئے رکھے جاتے ہیں تاکہ پانی سے مکانات کو نقصان نہ پہنچے۔ ان پتھروں پر خالی بیٹھنا بھی مشکل ہوتا ہے مگر صحابہؓ کو ان پر گھسیٹا جاتا تھا اور اس طرح ان کو انتہاء درجہ کی تکلیف پہنچائی جاتی تھی۔ ایک صحابی کہتے ہیں مَیں نے ایک دفعہ ایک دوسرے صحابی کی پیٹھ دیکھی تو مجھے ان کا چمڑا ایسا معلوم ہؤا کہ گویا وہ آدمی کا چمڑا نہیں بلکہ کسی جانور کا چمڑا ہے۔ مَیں نے ان سے کہا کہ کیا آپ کو یہ کوئی بیماری ہے۔ وہ ہنس کر کہنے لگے یہ بیماری نہیں بلکہ ہمیں مکہ میں پتھروں پر گھسیٹا جاتا تھا جس کی وجہ سے پیٹھ کا چمڑا ایسا سخت ہو گیا۔10 مگردیکھو پھر انہی غلام صحابہ کو خدا تعالیٰ نے کیسی عزت دی۔ جب انہوں نے خدا تعالیٰ کے لئے قربانیاں کیں۔ جب لوگ انہیں کہتے کہ تم شرک کرو اوروہ بلند آواز سے کہتے کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ، جب لوگ انہیں کہتے کہ تم محمد (ﷺ) کو گالیاں دو اور وہ کہتے کہ محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔ تو خدا تعالیٰ ان کی اس قربانی کو آسمان سے دیکھتا اور وہ اپنے فرشتوں سے کہتا کہ جاؤ اور دنیا میں میرے ان بندوں کی ہمیشہ کے لئے عزت قائم کر دو۔ چنانچہ پھر وہ دن آیا جب خدا نے ان کی عزت قائم کی اور مکہ کے رؤساء اور بڑے بڑے سرداروں کو ذلیل کر دیا ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک دفعہ اپنی خلافت کے زمانہ میں مکہ میں حج کے لئے گئے اور مکہ کے بڑے بڑے سرداروں اور رؤساء کے لڑکے جو اب سلام قبول کر چکے تھے حضرت عمرؓ کے ملنے کے لئے آئے۔ حضرت عمرؓ نے ان کا مناسب احترام کیا اور ان سے باتیں شروع کر دیں۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ انہی غلاموں میں سے جو مکہ کی گلیوں میں پتھروں پر گھسیٹے جاتے تھے بعض صحابہؓ حضرت عمرؓ کی ملاقات کے لئے آئے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان نوجوانوں سے کہا ذرا پیچھے ہٹ جاؤ۔ وہ پیچھے ہٹ گئے۔ اتنے میں ایک دوسرا غلام آگیا، پھر تیسرا غلام آ گیا اور پھر چوتھا غلام آ گیا۔ بہت سے غلام صحابہؓ اس وقت مکہ میں جمع تھے اور سب ایک ایک کر کے حضرت عمرؓ کی ملاقات کے لئے آنے شروع ہو گئے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہر غلام کے آنے پر ان نوجوانوں سے کہتے کہ ذرا پیچھے ہٹ جاؤ یہاں تک کہ ہوتے ہوتے وہ جوتیوں تک جا پہنچے ۔ یہ دیکھ کر وہ اُٹھ کر باہر چلے گئے اور انہوں نے باہر آ کر ایک دوسرے سے کہا دیکھا آج ہماری کیسی بے عزتی ہوئی ہے۔ وہ غلام جو کل تک ہمارے گھروں میں جھاڑو دیا کرتے تھے ، جو ہمارا پانی بھرا کرتے تھے، جو ہمارے لئے گھاس کھود کر لایا کرتے تھے، جو ہمارے گھوڑوں کے لئے چارہ تیار کیا کرتے تھے آج بادشاہی دربار میں ان کو آگے بٹھایا گیا اور ہمیں ہر بار پیچھے ہٹا دیا گیا۔ مگر اب وہ ایمان لا چکے تھے اور اب شیطانی وساوس ان پر پورا غلبہ نہیں پا سکتے تھے۔ ان میں سے ایک نوجوان بولا اور اس نے کہا۔ اس میں کس کا قصور ہے؟ ہمارے اور ہمارے باپ دادوں کا یا حضرت عمرؓ کا؟ انہوں نے کہا قصور تو ہمارے باپ دادوں کا ہی ہے۔ اس نے کہا تو پھر اس میں شکوے کی کونسی بات ہے۔ انہوں نے کہا ہم شکوہ نہیں کرتے، ہم صرف یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ کیا اس ذلت کو دور کرنے کا کوئی طریق نہیں ۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ چلو یہی بات حضرت عمرؓ سے دریافت کر لیتے ہیں۔ چنانچہ وہ پھر سب کے سب حضرت عمرؓ کی مجلس میں گئے اور ان سے کہا کہ ہم آپ سے ایک بات دریافت کرنا چاہتے ہیں۔ حضرت عمرؓ سمجھ گئے اور انہوں نے کہا مَیں امید کرتا ہوں کہ تم میرے آج کے سلوک سے بُرا نہیں مناؤ گے کیونکہ مَیں اس میں بالکل مجبور ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو محمد ﷺ کے دربار میں معزز سمجھے جاتے تھے اس لئے یہ نہیں ہو سکتا کہ ان کے خادم کے دربار میں وہ پیچھے رہیں۔ انہیں لازماً آگے بٹھایا جائے گا اور مجھ پر میرے آقا کی طرف سے جو ذمہ دواریاں ہیں ان کی وجہ سے مَیں اس بارہ میں بالکل مجبور ہوں۔ انہوں نے کہا ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا نے جو مظالم کئے تھے اس کے نتیجہ میں یہی کچھ ہونا چاہئے تھا مگر ہم آپ سے یہ دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ کیا اس ظلم اور تعدی کا ہماری جانوں کے لئے کوئی کفارہ نہیں؟ حضرت عمرؓ تھوڑی دیر خاموش رہے اس کے بعد آپ نے سر اٹھایا۔ اس وقت قیصر کی فوجوں سے اسلامی فوجوں کی جنگ ہو رہی تھی۔ آپ نےشام کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ وہاں ایک جنگ ہو رہی ہے تم اگر اس جنگ میں چلے جاؤ تو شاید ان گناہوں کا کفارہ ہو جائے۔ انہوں نے اسی وقت اپنی سواریاں کسیں اور سب کے سب اس جنگ میں شامل ہونے کے لئے چلے گئے اور تاریخ بتاتی ہے کہ وہ سب کے سب وہیں مارے گئے ، واپس نہیں آئے۔ 11 تو دیکھو یہ عزت تھی جو خدا تعالیٰ نے ان کو ان کی قربانیوں کے بدلہ میں دی۔ اگر جس وقت بلالؓ اور مصعبؓ اور یاسر کو تپتی ہوئی ریت پر لٹایا جاتا تھا اور کہا جاتا تھا تم کہو لات اور منات کی پرستش میں ہی عزت ہے۔ وہ کہہ دیتے کہ ہاں لات اور منات کی پرستش میں ہی عزت ہے۔ تو کیا تم سمجھتے ہو ، انہیں یہ عزت حاصل ہو سکتی تھی۔ اسی طرح جس وقت انہیں پتھروں پر گھسیٹا جاتا تھا، انہیں مارا پیٹا جاتا تھا۔ اگر وہ اپنی جانوں کی پرواہ کرتے ہوئے کفار کی ہاں میں ہاں ملا دیتے اورجب انہیں کہا جاتا کہ کہو محمدؐ جھوٹا ہے تو وہ کہہ دیتے محمد (ﷺ) نَعُوْذُ بِاللہِ، جھوٹا ہے تو کیا تم سمجھتے ہو ان کو یہ عزت حاصل ہو سکتی تھی؟ بلالؓ کو رسول کریم ﷺ نے اذان پر مقرر کیا ہؤا تھا وہ حبشی تھے اور اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ نہیں کہہ سکتے تھے بلکہ اَسْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کہتے۔ بعض لوگ ہنستے کہ انہیں صحیح لفظ بھی ادا کرنا نہیں آتا۔ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ نے لوگوں کو اسی طرح بلالؓ کی اذان پر ہنستے ہوئے سنا تو فرمایا۔ خدا عرش پر بلالؓ کی اذان کی تعریف کرتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کو‘‘ ش’’ اور‘‘ س’’ سے کوئی غرض نہیں۔ خدا تعالیٰ تو ان پتھروں کو دیکھ رہا تھا جن پر بلالؓ کو گھسیٹا جاتا تھا مگر باوجود اس شدید تکلیف کے وہ یہی کہتے کہ اَسْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ اَسْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ لوگوں کی نظروں سے وہ ریت کے ذرّے اوجھل تھے، لوگوں کی نظروں سے وہ ریت کے ذرّے پوشیدہ تھے کیونکہ ریت کے بعض اور ذرّوں نے ان کو نگاہوں سے مخفی کر دیا تھا مگر خدا تعالیٰ کے سامنے وہ سرخ سرخ ذرّے موجود تھے جن کو بلالؓ کے خون نے سرخ کر دیا تھا۔ تو جو لوگ قومی اور ملّی مفادکے لئے قربانی کرتے ہیں، خدا تعالیٰ ان کو کبھی ذلیل نہیں کرتا ۔ جو شخص خدا کے لئے مرتا ہے وہ ہمیشہ کی زندگی پاتا ہے اور جو شخص خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان بچانے کی کوشش کرتا ہے خدا تعالیٰ کے فرشتے اس سے کہتے ہیں مر اور ہمیشہ کے لئے مر مگر جہاں مَیں یہ کہتا ہوں وہاں مَیں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ایسے موقع پر یہ محبتیں کبھی کبھی شرک کا رنگ بھی اختیار کر لیا کرتی ہیں جیسے مَیں نے بتایا ہے کہ کانگرسی اپنے جھنڈے کو سلام کرتے ہیں اور بعض قومیں جھنڈے کے سامنےاسی طرح جھک جاتی ہیں جیسے رکوع کیا جاتا ہے۔ یہ سب ناجائز امور ہیں۔ پس جہاں تم شعائر اللہ کی حفاظت کرو اور قومی شعائر کا ادب اور احترام اپنے دل میں پیدا کرنے کی کوشش کرو، وہاں تم اس بات کو بھی یاد رکھو کہ ان چیزوں کو کبھی ایسا مقام مت دو کہ یہ زندہ خدا کی جگہ لے لیں۔
ہمارا خدا واحد خدا ہے اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک کرنا جائز نہیں۔ پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ جن چیزوں کو ہم خادم سمجھتے ہیں ان کو آقا کی جگہ دے دیں۔ اس سے زیادہ بیوقوفی اور حماقت کی بات اَور کوئی نہیں ہو سکتی۔ پس جہاں مَیں تمہیں شعائر اللہ اور قومی شعائر کی حفاظت کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے کی ہدایت کرتا ہوں اور تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ جب خدا اور اس کےدین کے لئے تمہیں بلایا جائے اس وقت تم اپنی جانوں کی اتنی قیمت بھی نہ سمجھو جتنی ایک مری ہوئی مکھی ہوتی ہے۔ وہاں مَیں تمہیں یہ بھی نصیحت کرتا ہوں کہ کسی چیز کو خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں مت کھڑا کرو۔ ہمارا خدا ایک خدا ہے، اس کی قدرتوں میں کوئی شریک نہیں، اس کی حکومت میں کوئی شریک نہیں، اس کی عبادت میں کوئی شریک نہیں۔ جو شخص کسی کو خدا تعالیٰ کا شریک قرار دیتا ہے ، چاہے شریک قرار دیا جانے والا خدا تعالیٰ کا نبی اور رسول ہی کیوں نہ ہو، وہ راندۂ درگاہ ہو جاتا ہے مگر جو تمام چیزوں کو اپنے اپنے مقام پر رکھتا ہے۔ خدا کو خدا کی جگہ دیتا ہے، رسول کو رسول کی جگہ دیتا ہے، شعائر کو شعائر کی جگہ دیتا ہے وہی خدا تعالیٰ کے حضور عزت پاتا ہے۔ اس دنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی۔‘‘
(الفضل 31 اکتوبر 1942ء )
1: الفاتحہ: 2 تا 4 2: الفاتحہ: 5 3: الفاتحہ: 7:6
4: بخاری کتاب التعبیر باب اللبن
5: السیرة الحلبیة جلد 3 صفحہ 78۔ مطبوعہ مصر 1935ء
6: حضرت جعفرؓ سے جھنڈا حضرت عبد اللہ بن رواحہ نے لیا اور جب وہ شہید ہوئے تو فوج کی کمان حضرت خالد بن ولید نے سنبھالی۔ بخاری کتاب المغازی باب غزوة موتة
7: مسلم کتاب فضائل الصحابة باب من فضائل علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ
8: بخاری کتاب المغازی باب قتل ابی جھل
9: اسد الغابة جلد 3 صفحہ 385-386 ۔ مطبوعہ ریاض 1286ھ
10: الاستیعاب جلد 2 صفحہ 21-22 مطبوعہ بیروت 1995ء
11: اسد الغابة جلد 2 صفحہ 372۔ مطبوعہ ریاض 1285ھ

36

’’تبلیغ خاص‘‘ کی تحریک کے متعلق بعض امور کی وضاحت
(فرمودہ 30 اکتوبر 1942ء )

تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’مَیں نے ایک گزشتہ خطبہ میں تبلیغ کی ایک نئی تحریک کے متعلق کچھ کہا تھا۔ اس بارہ میں دوستوں کی طر ف سے جو چِٹھیاں موصول ہو رہی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض دوست اس کام کی تفصیلات کو سمجھے نہیں ہیں مثلاً بعض دوستوں نے لکھا ہے کہ ہم نے اس تحریک کے ماتحت ایک یا ایک سے زیادہ خطبہ نمبر جاری کرا دئیے ہیں حالانکہ میرے خطبہ میں کوئی ایک لفظ بھی ایسا نہیں جس میں اس بات کی اجازت ہو کہ اس تحریک کے ماتحت دوست جس کسی کے نام چاہیں اپنے طور پر خطبہ نمبر یا سن رائز جاری کر ا دیں۔ پھر بعض نے لکھا ہے کہ ہم نے دفتر الفضل کو لکھ دیا ہے کہ ہماری طرف سے کسی کے نام خطبہ نمبر جاری کر دیا جائے لیکن اس بات کی اجازت کا بھی میرے خطبہ میں کوئی اشارہ تک موجود نہیں کہ دوست اخبار ‘‘الفضل’’ کے عملہ کو لکھ دیں کہ وہ ان کی طرف سے خود ہی کسی کے نام خطبہ نمبر جاری کر دے بلکہ یہ پرچے جن کی اشاعت کے متعلق مَیں نے تحریک کی ہے وہ مرکزی فہرستوں کے مطابق تقسیم کئے جائیں گے۔ اس لئے جو لوگ خود کسی کے نام پرچہ جاری کرنے کے لئے لکھ دیتے ہیں یا دفتر کو ہدایت کر دیتے ہیں کہ ان کی طرف سے کسی کے نام پرچہ جاری کر دیا جائے ان کا ایسے رنگ میں کام کرنا میری اس تحریک میں حصہ لینا نہیں کہلا سکتا بلکہ اس تحریک میں حصہ لینے والا وہی سمجھا جائے گا کہ جو اس مَد میں جتنا بھی چندہ دے سکتا ہے یا دینا چاہتا ہے وہ فنانشل سیکرٹری تحریک جدید کے پاس بھیج دے۔ جس کو مَیں نے اس کام کے لئے مقرر کیا ہے۔ پھراس رقم سے اخبار اور رسالے اس فہرست کے مطابق تقسیم کئے جائیں گے جو دفتر مرکزی تیار کرے گا۔ ہاں ایسے دوست ایسے ناموں سے اطلاع دے سکتے ہیں جن کے نام پرچہ جاری کرنا ان کے خیال میں مفید ہو گا۔ ایسی تجاویز کا آنا یقیناً ہمارے کام میں ممد ہو گا مگر فیصلہ مرکز کے اختیار میں ہو گا۔ وہ ایسے دوستوں کی تجویز کا پابند نہ ہو گا۔
اس بارہ میں مَیں ایک اَور امر بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں جو بعض دوستوں کے خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی ان پر واضح نہیں ہؤا۔ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ اس تحریک میں حصہ لینے کے یہ معنے ہیں کہ کوئی ایک پرچہ یا ایک سے زیادہ پرچے جاری کرائے جائیں لیکن میرا یہ منشاء نہیں۔ جو شخص ایک یا ایک سے زیادہ پرچے جاری کرا سکتا ہے بے شک وہ زیادہ ثواب کا مستحق ہے۔ کسی نیک تحریک میں جتنا زیادہ حصہ کوئی شخص لیتا ہے اتنا ہی زیادہ ثواب کا وہ مستحق ہو گا مگر تحریک جدید کی طرح یہ کسی معیّن رقم کی تحریک نہیں بلکہ ایک عام تحریک ہے اور عام تحریک اسی کو کہہ سکتے ہیں جس میں رقم معیّن نہ ہو۔ اگر ہم اس تحریک کو بھی انہی لوگوں تک محدود رکھیں جو کم سے کم ایک اخبار جاری کرا سکیں تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ اس میں صرف وہی لوگ حصہ لے سکیں گے کہ جو کم سے کم اڑھائی روپے یا چار روپے دے سکیں کیونکہ ‘‘الفضل’’ کے ایک خطبہ نمبر کی قیمت اڑھائی روپیہ ہے اور سن رائز کی قیمت چار روپے۔ مگر بہت سے دوست ایسے ہو سکتے ہیں جن کو اڑھائی روپیہ یا چار روپے دینے کی توفیق نہیں مگر ان کے دل میں تبلیغ میں حصہ لینے کا جوش اور خواہش ہے۔ اس لئے اس تحریک کو صرف مالدار لوگوں تک محدود رکھنا مناسب نہیں بلکہ مَیں چاہتا ہوں کہ جماعت کا ہر فرد اس میں حصہ لینے کی کوشش کرے۔ چاہے ایک پیسہ یا دھیلہ دے کر ہی لے۔ فرض کرو ایک ایک پیسہ دے کر ایک سَو ساٹھ آدمی اڑھائی روپے جمع کرتے ہیں تو ان میں سے ہر ایک اس تبلیغ میں حصہ دار ہو سکے گا یا اگر چالیس دوست ایک ایک آنہ دینے کی توفیق رکھتے ہیں اور وہ مل کر اڑھائی روپے جمع کر دیتے ہیں اور اس طرح ایک پرچہ جاری کراتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ انہیں اس عام تحریک سے محروم رکھا جائے یا علیٰ قدرِ مراتب بعض دوست دو دو آنے یا چار چار آنہ یا آٹھ آٹھ آنہ دے کر حصہ لے سکیں اور اس طرح مل کر ایک پرچہ جاری کرا سکیں۔ تو اگر ہم اڑھائی روپیہ کی شرط لگا دیں تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ ہم ان کو اس میں حصہ لینے سے روکتے ہیں۔ تحریک جدید اور اس تحریک میں فرق یہی ہے کہ تحریک جدید کی اصل غرض یہ ہے کہ زیادہ تر بوجھ آسودہ حال لوگوں پر پڑے۔ تحریک جدید کا مقصد یہ ہے کہ ایک ایسا فنڈ مہیا کیا جائے جو تبلیغ کے کچھ حصہ کا خرچ ادا کرتا رہے چونکہ اس میں جائداد پیدا کرنے کی صورت تھی اس لئے اس کا بوجھ زیادہ تر صاحب جائداد لوگوں پر ڈالا گیا اور یہ شرط رکھی گئی کہ اس میں جو حصہ لینا چاہے کم سے کم ایک سال میں پانچ روپے چندہ دے۔ وہ چونکہ ایسے لوگوں سے تعلق رکھتی ہے اور ایسے کام کے لئے ہے جو مالداروں سے مشابہت رکھتا ہے، چاہے سلسلہ کے لئے ہی اس سے جائداد خریدی جا رہی ہے۔ بہرحال وہ مال ہے اس لئے اسے ایسے لوگوں تک محدود رکھا گیا جن کی جائدادیں ہوتی ہیں اور اس وجہ سے ان کے اموال مشکوک بھی ہو سکتے ہیں۔ اس لئے یہ تحریک ان کے لئے مخصوص کی گئی تا ان کے مال حلال ہو جائیں اور جائداد کی زکوٰة نکل جائے اور ان کی جائدادوں سے ایک حصہ خدا تعالیٰ کے نام پر خرچ ہو سکے مگر یہ تحریک ایسی نہیں جس سے کوئی جائداد بنائی جاتی ہے بلکہ یہ اعلائے کلمة اللہ کے روزہ مرہ کے کاموں کے لئے ہے اور اعلائے کلمة اللہ کا فرض ہر ایک کے لئے ہے۔ پس اس تحریک میں حصہ لینے میں کوئی روک نہیں اور کوئی شرط نہیں کہ ضرور کم سے کم اتنی رقم دی جائے مگر اس کے یہ معنی بھی نہیں کہ اگر کوئی زیادہ دے سکتا ہے تو میری طرف سے اس رعائت سے فائدہ اٹھا کر وہ کم دے دے۔ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ثواب ملنے کی بات ہے مجھ سے یا کسی اَور سے کچھ حاصل کرنے کی بات نہیں۔ اس لئے جو شخص اس میں زیادہ حصہ لے سکتا ہے اور نہیں لیتا وہ خدا تعالیٰ کے حضور ثواب کا حقدار نہیں بلکہ کوتاہی کا مجرم ہو گا۔ تبلیغ کو قرآن کریم نے ہر مومن پر فرض قرار دیا ہے اس لئے جو شخص اس میں زیادہ حصہ لےسکتا ہے مگر کم لیتا ہے وہ یقیناً مجرم ہے۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ مَیں نے ایک روپیہ دے دیا اور اپنا فرض ادا کر دیا۔ خدا تعالیٰ یہ نہیں کہے گا کہ اسے ایک روپیہ دے دینے کا ثواب دیا جائے بلکہ کہے گا کہ اس پر چار روپے واجب تھے مگر دیا اس نے ایک۔ اس لئے باقی تین نہ دینے پر اسے گرفت کی جائے۔ پس اس تحریک کو عام کرنے کے معنے یہ نہیں ہیں کہ جو زیادہ دینے کی توفیق رکھتے ہیں وہ اس سے فائدہ اٹھا کر اپنے آپ کو ثواب سے محروم کر لیں۔ انہیں چاہئے کہ ثواب کے اس کام میں بڑھ بڑھ کر حصہ لیں تا اللہ تعالیٰ کی باتیں زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ سکیں اور اللہ تعالیٰ بہت سے لوگوں کےد لوں کو اسلام اور احمدیت کے لئے ان کے ذریعہ کھول دے اور وہ جماعت میں شامل ہوں اور پھر وہ اس تحریک میں حصہ لیں اور پھر ان کے ذریعہ اَور لوگ ہدایت پائیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسلام اور احمدیت کو زیادہ سے زیادہ لوگوں کے دلوں میں راسخ کر دے۔ میرے آج کے خطبہ کی غرض یہ واضح کرنا ہے کہ اس تحریک میں حصہ لینے سے غرباء کو محروم کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ اگر کوئی ایک پیسہ یا ایک دھیلہ دے کر بھی اس میں حصہ لے سکتا ہے تو لے بلکہ آجکل تو کوڑیوں کا رواج نہیں، پہلے زمانہ میں یہ استعمال ہوتی تھیں۔ اگر آج بھی یہ استعمال ہوتیں تو مَیں کہتا کہ اگر کوئی چند کوڑیاں دے کر بھی اس میں حصہ لینا چاہے تو اسے ثواب سے محروم نہ رکھا جائے۔ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ایسے لوگ بھی تھے جو جنگوں وغیرہ کی تیاری کے لئے ہزاروں روپیہ چندہ دیتے تھے اور وہ بھی تھے جو مٹھی بھر گیہوں یا جَو دے کر ہی حصہ لیتے تھے1 بلکہ ایک شخص کے پاس کھانے کے لئے کچھ کھجوریں تھیں وہ وہی دے گیا۔ اللہ تعالیٰ مال کی کثرت یا قلت کو نہیں دیکھتا بلکہ دلوں کو دیکھنے والا ہے اور وہ دلوں کی صفائی کو چاہتا ہے۔ اس لئے ایسے کاموں سے کسی کو محروم نہیں رکھنا چاہئے، جن سے دلوں کی صفائی ہوتی ہے۔ تبلیغ بھی ایسے ہی کاموں میں سے ہے جن سے دل کی صفائی ہوتی ہے۔ تبلیغ میں حصہ لینے والا اپنے نفس پر بھی بوجھ ڈالتا ہے اور اس طرح اس سے دل کی صفائی ہوتی ہے۔ اصلاح نفس کے ذرائع میں سے تبلیغ ایک بہت بڑا اور اہم ذریعہ ہے اور ہر شخص کو یہ موقع نہیں ہوتا کہ وہ دنیا میں جا کر تبلیغ کرے اور اس لئے اگر وہ اس تحریک میں کچھ رقم دیتا ہے جس کا مقصد تبلیغ کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانا ہوتا ہے تو وہ یقیناً ثواب میں آگے قدم بڑھاتا ہے۔ پس آج کے خطبہ کے ذریعہ مَیں دونوں غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا چاہتا ہوں۔ میری اس تحریک کا یہ مطلب نہیں کہ دوست خود ہی کسی کے نام الفضل کا خطبہ نمبر یا سن رائز جاری کرا دیں یا ان اخباروں کے عملہ کو ہدایت کر دیں کہ وہ کسی کے نام ان کی طرف سے اخبار جاری کر دیں۔ اپنے طور پر اگر وہ ایسا کرنا چاہیں تو بےشک کرا دیں لیکن یہ ان کی طرف سے اس تحریک میں حصہ لینا نہ ہو گا۔ اس میں حصہ لینے والا وہی سمجھا جائے گا جو اس تحریک میں روپیہ یا وعدہ تحریک جدید میں بھیجے پھر اس تحریک میں وعدہ کرنے والے اس امر کا خیال رکھیں کہ یہ کوئی ایسی تحریک نہیں کہ اس کے وعدے سالوں پر پھیلائے جائیں گے اور ان وعدوں کی ادائیگی کے لئے یاد دہانیوں کے لئے کوئی دفتر قائم کیا جائے گا۔ یہ کوئی ایسی رقم نہیں کہ یا ددہانیوں کے لئے کوئی دفتر مقرر کیا جا سکے۔ اگر اس کے لئے کوئی دفتر مقرر کیا جائے تو یہ رقم اسی پر خرچ ہو جائے گی۔ اس میں تو جو وعدہ ہو گا وہ لکھ لیا جائے گا اور وعدہ کرنے والے کو چاہئے کہ ایک ماہ کے اندر اندر خود ہی موعودہ رقم بھیج دے۔ اگر تو کوئی ایک ماہ تک بھیج دے گا تو وہ شمار کر لیا جائےگا ورنہ اس کا نام کاٹ دیا جائے گا۔ کسی کو یاد دہانی نہ کرائی جائے گی کیونکہ اس کے لئے کوئی الگ دفتر نہیں۔ یہ رقم اتنی تھوڑی ہے کہ اس کے لئے کوئی الگ دفتر مقرر نہیں کیا جا سکتااور نہ یاد دہانیوں کے لئے کوئی خرچ کیا جا سکتا ہے۔ تحریک جدید کے چندہ کا وعدہ کرنے والوں کو یاد دہانی کرائی جاتی ہے اور دفتر سے بعض دفعہ دس دس بارہ چِٹھیاں لکھی جاتی ہیں۔ میرے خطبوں کے پرچے بھیجے جاتے ہیں۔ آجکل لفافہ چھ پیسے میں اور کارڈ تین پیسے میں جاتا ہے۔ اخبار پر بھی جو یاد دہانی کے طور پر بھجوایا جائے دو پیسہ کے ٹکٹ لگتے ہیں اور اگر اس چھوٹی سی رقم کے لئے تحریک جدید کی طرح ہی بار بار خط لکھے جائیں یا اخبار کے پرچے بھیجے جائیں تو جس نے آٹھ آنہ کا وعدہ کیا ہے اس پر تو یاد دہانیوں میں وعدہ کی رقم ساری ہی خرچ ہو جائے گی بلکہ ہو سکتا ہے کہ اس سے بھی زیادہ خرچ آ جائے جتنا کسی کا وعدہ ہے۔ اس لئے اس تحریک کے متعلق کوئی ایسی صورت اختیار نہ کی جائے گی ۔ اس میں جو وعدہ کرے گا سمجھا جائے گا کہ وہ خود ہی رقم بھیج دے گا اور اگر وہ خود نہ بھیجے گا تو اس کا نام کاٹ دیا جائے گا۔ اس لئے جو اس میں حصہ لینا چاہتا ہے چاہئے کہ وہ نقد ادا کر دے اور اگر زیادہ رقم دینا چاہتا ہے اور ساری رقم اس کے پاس نقد نہیں تو بقیہ بعد میں ادا کرنے کے لئے وقت مقرر کر دے اورپھر خود ہی اس وقت تک بھیج دے۔ کوئی دفتر اس بارہ میں یاد دہانی نہ کرائے گا۔ غرض یکمشت وعدہ کی رقم ایک ماہ تک آ جانی چاہئے لیکن اگر کوئی شخص 6 ماہ کے بعد ادا کرنا چاہتا ہے تو اسے نام لکھانے کی ضرورت نہیں۔ 6 ماہ کے بعد یا جب بھیجنا چاہے پھر بھیج دے۔ اس میں کوئی ایسی شرط نہیں کہ فلاں تاریخ تک ہی اس میں حصہ لیا جا سکے گا۔ جیسے تحریک جدید میں ہوتا ہے۔ جب بھی کوئی چاہے رقم بھیج سکتا ہے۔ ہاں جلد حصہ لینےو الے سَابِقُوْنَ میں شمار ہوں گے اور خدا تعالیٰ کے حضور اسی ثواب کے مستحق ہوں گے جو سَابِقُوْنَ کو ملتا ہے۔
اسی سلسلہ میں مَیں ایک اَور بات کی طرف بھی دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں اور وہ صدر انجمن احمدیہ اور نظارت دعوة و تبلیغ سے تعلق رکھتی ہے۔ پہلے خطبہ نمبر زیادہ صفحات پر شائع ہؤا کرتا تھا اور اس میں خطبہ کے علاوہ اور مضامین بھی ہؤا کرتے تھے مگر اب وہ بھی آٹھ ہی صفحات کا ہوتا ہے۔ اس سے وہ غرض پوری نہیں ہو سکتی جو میری اس تحریک سے ہے۔ میری غرض یہ ہے کہ خطبہ نمبر ایسا ہو کہ جس میں ساری باتیں آ جائیں صرف خطبہ ہی نہ ہو۔ اس لئے خطبہ نمبر کے صفحات بڑھائے جائیں۔ زیادہ نہیں تو کم سے کم بارہ صفحات کا ہی ہو۔ اگر اخبار والے یہ ثابت کر دیں کہ بارہ صفحات کا پرچہ اتنی قیمت میں نہیں دیا جا سکتا تو قیمت میں اضافہ کی بھی اجازت دی جا سکتی ہے۔ اگرچہ مَیں اس بات کو نہیں سمجھ سکتا کہ کیوں اسی قیمت میں بارہ صفحات کا پرچہ نہیں دیا جا سکتا۔ اخبار ‘‘فاروق’’بارہ بلکہ سولہ صفحات کا ہوتا تھا اور اس کی قیمت اڑھائی روپیہ ہی تھی ۔ اگر الگ ایڈیٹر اور علیحدہ عملہ رکھنے کے باوجود ‘‘فاروق’’ زیادہ صفحات پر شائع ہو سکتا تھا تو کوئی وجہ نہیں ‘‘الفضل’’ زیادہ صفحات کا شائع نہ ہو سکے جبکہ اس کے لئے کسی علیحدہ عملہ کا خرچ برداشت نہ کرنا پڑے گا۔ تاہم اگر وہ ثابت کر دیں کہ خرچ زیادہ آتا ہے تو خواہ سمجھ میں نہ آئے ، قیمت میں اضافہ کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ بہرحال خطبہ نمبر کو خاص طور پر ایڈیٹ کیا جانا چاہئے۔ ‘‘سن رائز’’ کا نصف سے زیادہ حصہ دوسرے مضامین کے لئے وقف ہوتا ہے، کوشش کی جائے کہ اس میں بھی اور الفضل کے خطبہ نمبر میں بھی زیادہ سے زیادہ تبلیغی کوائف اور ہند و بیرون ہند میں جماعت کی تبلیغی مساعی کا ذکر ہو۔ تا اسے مطالعہ کرنے والا سلسلہ کے حالات سے پوری طرح واقف ہو سکے۔ مَیں جماعت کے مضمون نگار دوستوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس پرچہ کو زیادہ سے زیادہ دلچسپ بنانے کی کوشش کریں۔ اس کے متعلق مَیں نے پہلے بھی توجہ دلائی ہے اور کئی بار ایسی باتیں بھی بیان کی ہیں جن پر عمل کر کے اسے زیادہ دلچسپ بنایا جا سکتا ہے مگر ان کی طرف اتنی توجہ نہیں کی گئی جتنی کرنی چاہئے تھی اور جتنی توجہ کرنے سے وہ پرچہ بہت زیادہ مفید ہو سکتا ہے اس میں ایسے دلچسپ مضامین ہونے چاہئیں کہ اگر کسی کو سلسلہ سے مذہبی دلچسپی نہ بھی ہو تو بھی وہ ضروری اسلامی مضامین کے لحاظ سے اسے پڑھنے پر مجبور ہو۔ حق بات یہی ہے کہ جو شخص ایک بار دیانت داری سے سلسلہ کے لٹریچر کا مطالعہ کرے وہ مجبور ہو جاتا ہے کہ پھر بھی اسے پڑھے۔ تھوڑا عرصہ ہؤا مجھے ایک غیر احمدی صاحب کا خط آیا جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ مَیں پہلے آپ کی جماعت کا سخت مخالف تھا اور آپ کے لٹریچر کو ہاتھ بھی نہ لگاتا تھا۔ ایک دفعہ مَیں نے مجبوری کی حالت میں ‘‘الفضل’’ کا ایک پرچہ پڑھ لیا اور اب مَیں باقاعدہ اس کا مطالعہ کرتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ اسلامی امور کی تائید جیسی اس اخبار میں ہوتی ہے ویسی اَور کسی میں نہیں ہوتی اور اسلام کی سچی خدمت کرنے والا یہی اخبار ہے۔ تو دیانتداری سے سلسلہ کا لٹریچر پڑھنے والوں پر ضرور اثر ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے جب مَیں نے ‘‘الفضل’’ کو جاری کیا وہ ہفتہ وار تھا اور کئی غیر احمدیوں کو اس سے عقیدت تھی۔ ایک دفعہ سندھ سے ایک غیر احمدی نوجوان کا خط مجھے آیا۔ اس نے لکھا تھا کہ تین ماہ سے یہ اخبار میرے نام آتا ہے۔ مَیں غیر احمدی ہوں۔ ابھی ایک ماہ ہؤا میری شادی ہوئی ہے اور مجھے اپنی بیوی سے بڑی محبت ہے۔ اس ہفتہ آپ کا اخبار مجھے نہیں ملا ، معلوم نہیں دفتر کی غلطی سے یا ڈاک خانہ کی غلطی سے، بہرحال مجھے پرچہ نہیں ملا اور اس سے مجھے اتنی تکلیف ہوئی ہے کہ مَیں نہیں سمجھتا اگر مجھے یہ اطلاع ملتی کہ میری بیوی فوت ہو گئی ہے تو اس خبر کے سننے سے مجھے زیادہ تکلیف ہوتی یا پرچہ کے نہ ملنے سے زیادہ ہوئی ہے۔ اس سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اگر سلسلہ کا لٹریچر بار بار کسی کے سامنے آتا رہے تو اس قسم کا لگاؤ پیدا ہو جاتا ہے کہ اس کے بغیر وہ رہ نہیں سکتا۔ جب تک تو انسان واقف نہیں ہوتا۔ وہ سمجھتا ہے خبر نہیں ، یہ کیسے لوگ ہیں مگر جب وہ واقف ہو جائے تو اس پر ضرور اثر ہوتا ہے۔ پچھلے دنوں ایک معزز غیر احمدی یہاں آئے اور حالات کو دیکھ کر ان پر اتنا اثر ہؤا کہ انہوں نے کہا کہ آپ لوگوں کو چاہئے باہر سے لوگوں کو یہاں بلوایا کریں۔ یہاں آ کر بہت سی غلط فہمیاں جو باہر پھیلی ہوئی ہوتی ہیں دور ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح چند روز ہوئے ایک غیر مسلم لیڈر یہاں آئے اور جب مجھ سے ملے تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ باہر آپ لوگوں کے متعلق بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ چاہئے کہ آپ باہر سے لوگوں کو بکثرت یہاں بلایا کریں اور یہاں کے حالات ان کو دکھائیں مگر قادیان میں آنا ہر ایک کا کام نہیں۔ ہاں اخبار اور لٹریچر ان تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ کچھ عرصہ ہؤا چودھری ظفر اللہ خان صاحب کے ساتھ گورنمنٹ آف انڈیا کے ایک بڑے افسر قادیان آئے۔ وہ چودھری صاحب کے دوست تھے۔ یہاں سے واپس جانے کے بعد ایک دفعہ وہ چودھری صاحب سے ملے تو مذاق میں کہنے لگے کہ آپ لوگوں کو چاہئے مجھے تنخواہ دیا کریں۔ چودھری صاحب نے پوچھا کیوں؟ وہ کہنے لگے کہ مَیں آپ لوگوں کا مبلغ ہوں۔ وہ ہندو تھے اور گورنمنٹ آف انڈیا میں ایک بڑے افسر تھے۔ وہ کہنے لگے کئی لوگ میرے پاس آتے ہیں اور مختلف باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ مَیں نے محسوس کیا ہے کہ ہر ایک کا دل آپ لوگوں کے خلاف بُغض سے بھرا ہؤا ہے۔ جس سے بھی ذکر آئے وہ برا بھلا کہنے لگ جاتا ہے۔ بعض مجھ پر بھی اعتراض کرتے ہیں کہ آپ قادیان کیوں چلے گئے۔ مَیں ان سے کہا کرتا ہوں کہ سچائی معلوم کرنے کے دو طریق ہو سکتے ہیں یا تو آدمی لٹریچر کو پڑھے یا خود ان لوگوں کے حالات کو دیکھے۔ لٹریچر کے لحاظ سے مَیں اور آپ برابر ہیں۔ نہ مَیں نے کوئی لٹریچر پڑھا ہے نہ آپ نے۔ اس لئے اس لحاظ سے نہ آپ کو اعتراض کا حق ہے اورنہ مجھے۔ باقی رہ گیا دوسرا ذریعہ۔ سو مَیں خود وہاں جا کر دیکھ آیا ہوں مگر آپ نے نہیں دیکھا۔ مَیں دیکھ آیا ہوں کہ وہاں بہت اچھا کام ہو رہا ہے اس لئے میرا حق ہے کہ کوئی دعویٰ کر سکوں۔ آپ کا کوئی حق نہیں کیونکہ آپ نے دیکھا نہیں۔ ایسے آدمی کی بات کا بہت اثر ہوتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں یہ ہندو ہے، اتنا بڑا افسر ہے اور یہ اجنبی ہو کر تعریف کرتا ہے، غلط نہیں کہتا ہو گا۔ پس حقیقت معلوم کرنے کے دو ہی طریق ہیں یا تو یہاں آ کر کوئی دیکھے اوریا لٹریچر کا مطالعہ کرے۔ یہاں آنا تو مشکل ہے گو جو آتے ہیں وہ ضرور اثر لے کر جاتے ہیں۔ جلسہ پر جو غیر احمدی یہاں آتے ہیں ان میں سے ساٹھ ستر فیصدی بیعت کر لیتے ہیں مگر ہر ایک یہاں آ نہیں سکتا بالخصوص بڑے لوگوں کا آنا تو بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو ایسا مشغول سمجھتے ہیں کہ ان کا خیال ہوتا ہے ساری دنیا انہی کے سہارے پر چل رہی ہے۔ اگر وہ اپنا کام نہ کریں تو دنیا کا کام چلنا بند ہو جائے۔ ویسے بھی جب تک کوئی بڑی پوزیشن والا آدمی ان کو نہ بلائے آنا مناسب نہیں سمجھتے۔ بعض بڑے بڑے لوگوں کو جب چودھری ظفر اللہ خان صاحب بلاتے ہیں تو وہ آ جاتے ہیں مگر دوسرے جو ان سے واقف نہیں اور جن کو وہ نہیں بلاتے ان کے آنے کی کوئی خاص صورت نہیں۔ مگر ہم لٹریچر کے ذریعہ ان تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس لئے نہ صرف یہ کہ ہمیں ان تک لٹریچر پہنچانا چاہئے بلکہ جو لٹریچر بھیجا جائے وہ ایسا مکمل ہونا چاہئے کہ اسلام اور احمدیت کا صحیح نقشہ پڑھنے والے کی آنکھوں کے سامنے آ جائے۔ اس کے لئے مَیں الفضل کے عملہ اور نظارت دعوة و تبلیغ کو جس کے ماتحت وہ ہے اور دفتر تحریک جدید کو جس کے ماتحت سن رائز ہے توجہ دلاتا ہوں کہ ان پرچوں کو زیادہ سے زیادہ مکمل اور دلچسپ بنانے کی کوشش کریں۔ ان کے علاوہ مَیں سلسلہ کے مضمون نگاروں کو بھی جنہیں اللہ تعالیٰ نے اچھا لکھنے کی توفیق دی ہے یہ کہتا ہوں کہ وہ مختصر عبارتوں میں ایسے مضامین لکھیں کہ جن سے یہ پرچے زیادہ دلچسپ اور زیادہ مفید بن سکیں اور لوگوں کی توجہ تبلیغ کی طرف کھنچ سکے۔ خالی دلچسپی بھی کوئی چیز نہیں۔ یہ تو بھانڈ پن ہی ہے بلکہ دلچسپی کا مطلب یہ ہے کہ دین کے معاملات کو ایسی عمدگی اور خوبصورتی سے پیش کیا جائے کہ لوگوں کے دل ان کی طرف مائل ہوں۔ قرآن کریم سے زیادہ دلچسپ کتاب اَور کوئی نہیں ہو سکتی مگر اس میں کھیل تماشہ کی کوئی بات نہیں۔ پھر بھی کافر یہ کہتے تھے کہ کانوں میں انگلیاں ڈال لو۔ خوب شور مچاؤ تا یہ کلام کانوں میں نہ پڑے۔2 وہ آنحضرت ﷺ کو ساحر 3 اور قرآن کریم کو سحر کہتے تھے۔4 یہ دلچسپی کی ہی بات ہے اور اس کا مطلب یہی ہے کہ جو سنے اس پر ضرور اثر ہوتا ہے۔ بشرطیکہ اس کے دل میں خدا کا خوف ہو۔ ہاں جس کا دل ہی بیمار ہو اس پر کوئی اثر نہیں ہو سکتا جس طرح کوئی کھانا خواہ کس قدر لذیذ اور عمدہ کیوں نہ ہو۔ بیمار آدمی کو اس کی طرف رغبت نہیں ہوتی۔ پس جن کے دل بیمار نہ ہوں۔ ان پر خدا تعالیٰ کے کلام کا اثر ضرور ہوتا ہے اور جن کےد ل بیمار نہیں اور جو دل سے مذہب کو سچا سمجھتے ہیں ان کے لئے قرآن کریم سحر کا کام دیتا ہے اور ایسا اثر کرتا ہے کہ گویا جادو ہے جو اپنی طرف کھنچے لئے جا رہا ہے۔ اسی وجہ سے مکہ کے لوگ رسول کریم ﷺ کو ساحر اور قرآن کریم کو سحر کہتے تھے اور اسی وجہ سے سب انبیاء کو ساحر کہا گیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی ساحر کہتے تھے۔ مجھے یاد ہے ایک دوست نے سنایا کہ فیروز پور کے علاقہ میں ایک مولوی تقریر کر رہا تھا کہ احمدیوں کی کتابیں بالکل نہ پڑھنی چاہئیں اور قادیان میں ہرگز نہ جانا چاہئے اور اس کذّاب نے لوگوں کو اپنا ایک مَن گھڑت واقعہ بھی اپنی بات کی تائید میں سنایا۔ اس نے کہا مَیں ایک دفعہ قادیان گیا، میرے ساتھ ایک رئیس بھی تھا۔ ہم مہمانہ خانہ میں جا کر ٹھہرے اور کہا کہ مرزا صاحب سے ملنا ہے۔ تھوڑی دیر میں مولوی نور الدین صاحب آ گئے اور بڑی میٹھی میٹھی باتیں کرنے لگے۔ اس کے تھوڑی دیر کے بعد ہمارے لئے ایک شخص حلوہ لایا اور مولوی نور دین صاحب نے کہا کہ یہ آپ لوگوں کے لئے تیار کرایا گیا ہے۔ مَیں تو جانتا تھا اس لئے سمجھ گیا کہ اس حلوے پر جادو کیا گیا ہے اس لئے اسے ہاتھ تک نہ لگایا مگر میرے ساتھی کو پتہ نہ تھا اس نے کھا لیا۔ مَیں کوئی بہانہ بنا کر وہاں سے کھسک گیا۔ مولوی نور دین صاحب کو یہ پتہ نہ لگ سکا کہ مَیں نے حلوہ نہیں کھایا۔ تھوڑی دیر کے بعد میراوہ ساتھی کہنے لگا کہ میرے دل کو تو ایسی کشش ہو رہی ہے کہ مَیں بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ گویا اس پر حلوے کا اثر ہو گیا مگر مَیں نے تو کھایا ہی نہ تھا اس لئے مجھ پر کوئی اثر نہ ہؤا اور تھوڑی دیر ہوئی تو مرزا صاحب نے اپنی فٹن تیار کرائی اس میں وہ خود بھی بیٹھے اور مولوی نور دین صاحب کو بھی بٹھایا ۔ مجھے بھی ساتھ بٹھا لیا اور لگے مجھ سے باتیں کرنے۔ مَیں بھی تجربہ کرنے کے لئے سر ہلاتا گیا۔ انہوں نے سمجھا یہ مان لے گا۔ اس نے حلوہ کھا لیا ہؤا ہے۔ پہلے تو کہا کہ مَیں نبی ہوں پھر تھوڑی دیر کے بعد کہا کہ مَیں محمد (ﷺ) سے بھی بڑھ کر ہوں اور پھر کہا کہ مَیں خدا ہوں۔ یہ باتیں سن کر مَیں نے کہا اَسْتَغْفِرُ اللہَ، یہ سب جھوٹ ہے۔ اس پر مرزا صاحب نے مولوی نور دین سے حیرت کے ساتھ پوچھا کہ کیا اسے حلوہ نہیں کھلایا تھا؟ انہوں نے کہا کھلایا تو تھا۔ اس مجلس میں ایک غیر احمدی وکیل بھی تھے جو کسی زمانہ میں یہاں حضرت خلیفہ اول کے پاس علاج کے لئے آئے تھے۔ یہ بات سن کر وہ کھڑے ہو گئے اور کہا کہ مَیں تو مولویوں سے پہلے ہی بدظن تھا اور سمجھتا تھا کہ یہ لوگ بہت جھوٹے ہوتے ہیں مگر آج مَیں نے سمجھا کہ ان سے زیادہ جھوٹا اَور کوئی ہوتا ہی نہیں۔ انہوں نے لوگوں سے کہا آپ لوگ جانتے ہیں مَیں احمدی نہیں ہوں مگر مَیں علاج کے لئے خود وہاں ہو کر آیا ہوں اور وہاں رہا ہوں۔ مولوی صاحب نے جتنی باتیں کیں سب غلط ہیں۔ فٹن تو کجا وہاں تو کوئی ٹانگہ بھی نہیں (اس زمانہ میں یہاں یکے ہی ہوتے تھے) اور خدا تعالیٰ کی عجیب قدرت ہے کہ فٹن آج تک یہاں نہیں ہے۔ تو اب بھی ایسے لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ یہاں جادو ہے اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ دیکھتے ہیں کہ جو لوگ اس جماعت میں داخل ہوتے ہیں ان کو ماریں پڑتی ہیں، گالیاں دی جاتی ہیں، بے عزت کیا جاتا ہے، ان کو مالی نقصان پہنچایا جاتا ہے پھر بھی یہ فدائی رہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں ان کو مار پیٹ گالی گلوچ اور نقصانات کی وجہ سے ڈر جانا چاہئے مگر ان پر کسی بات کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور وہ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ عقل بھی رکھتے ہیں بے وقوف نہیں ہیں اور عقل رکھنے کے باوجود ان کا اس طرح وابستہ رہنا جادو کی وجہ سے ہی ہو سکتا ہے حالانکہ یہ جادو سچائی کا جادو ہوتا ہے۔ سچائی انسان کو اپنی طرف ایسا مائل کر لیتی ہے کہ جادو کیا کر سکتا ہے۔ دنیا کے جادوگروں میں سے کون ایسا ہے جو لوگوں سے وہ قربانیاں کرا سکے جو آنحضرت ﷺ نے کرائیں۔ مَیں نے بو علی سینا کا واقعہ پہلے بھی کئی بار سنایا ہے۔ ایک دفعہ اس کا ایک شاگرد اس کی فلسفیانہ باتوں سے ایسا متاثر ہؤا کہ اس نے کہا کہ آپ تو نبی ہیں۔ اگر آپ محمد (ﷺ) کے زمانہ میں ہوتے تو آپ نبی ہوتے۔ بو علی نے اس کی بات سنی تو چپ ہو رہا۔ یوں تو وہ شرابی کبابی آدمی تھا۔ معلوم ہوتا ہے عقلی طور پر اسلام کو مانتا تھا۔ اپنے شاگرد کی یہ بات سن کر وہ خاموش ہو رہا۔ سردیوں کا موسم آیا توایک دفعہ وہ اس کے ساتھ ایک تالاب کے پاس سے گزرا جس پر برف جمی ہوئی تھی۔ اس نے اپنے اس شاگرد سے کہا کہ کپڑے اتار کر اس تالاب میں چھلانگ لگا دو۔ یہ بات سن کر اس شاگرد نے کہا کہ مَیں تو آپ کو بڑا حکیم سمجھتا تھا مگر معلوم ہوتا ہے آپ تو پاگل ہو گئے ہیں، جو مجھ سے ایسی سخت سردی کے موسم میں اس برف میں چھلانگ لگوانا چاہتے ہیں۔ بو علی نے اسے کہا کہ تجھے یاد ہے ایک دفعہ تُو نے کہا تھا کہ مَیں نبی ہوں اور کہ اگر محمد (ﷺ) کے زمانہ میں مَیں ہوتا تو مَیں نبی ہوتا۔ بے وقوف! محمد ﷺ کے کہنے پر تو لوگ آگ میں کود جاتے تھے، ان کے کہنے پر ہزاروں لوگوں نے اپنی جانیں قربان کر دیں اور میرے کہنے پر تم تالاب میں چھلانگ لگانے کو تیار نہیں ہوتے۔
تو اللہ تعالیٰ کے انبیاء کے کہنے پر لوگ جو جو قربانیاں کرتے ہیں ان کی مثال کسی دوسری جگہ نہیں مل سکتی۔ حضرت عمر ؓکے زمانہ کا واقعہ ہے۔ اسلامی لشکر کہیں جا رہا تھا کہ رستہ میں ایک یخ بستہ دریا تھا۔ اسلامی فوج کے کمانڈر نے ایک سپاہی کو حکم دیا کہ اس میں چھلانگ لگا دو اس نے فوراً تعمیل کی اور گرنے کے ساتھ ہی اس پر فالج گِرا اور پھر اسے گھسیٹ کر باہر نکالنا پڑا۔ اس واقعہ کا جب حضرت عمرؓ کو علم ہؤا تو آپ نے حکم دیا کہ کوئی کمانڈر کسی سپاہی کو ایسا حکم نہ دے جو انسانی طاقت سے بالا ہو۔ تو آنحضرت ﷺ تو الگ رہے، آپؐ کے خلیفہ اور اس کے بھی ماتحت ایک فوجی افسر کے حکم پر ایک سپاہی نے برف میں چھلانگ لگا دی اور پوچھا تک نہیں کہ اس کا کیا فائدہ حالانکہ وہ افسر کمانڈر انچیف نہ تھا بلکہ معمولی سا افسر تھا۔ تو اللہ تعالیٰ کے انبیاء اورمامورین کےساتھ ایسی عقیدت اللہ تعالیٰ دلوں میں پیدا کر دیتا ہے کہ لوگ کسی بھی قربانی سے نہیں ڈرتے اوراس لئے لوگ ان کو ساحر کہتے ہیں مگر یہ سحر سچائی کا سحر ہوتا ہے اور اس سحر کے مقابلہ میں لوگوں کے خود ساختہ سحر کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہوتی۔ پس اس سچائی کے سحر کو چلانے کی ضرورت ہے مگر یہ ایسا جادو ہے جو پڑھنے سے چلتا ہے، بند رکھنے سے نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو قرآن اور اس کی تفسیر دنیا کو دی وہ اگر تمہارے گھروں میں بند رہے گی تو دنیا کو اس سے کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ دنیا اس کو اسی وقت سمجھ سکے گی جب وہ لوگوں کے سامنے پیش کی جائے گی۔ پس یہ کام ہے جو ہمیں کرنا ہے اور اسی کے لئے مَیں نے یہ تحریک کی ہے۔ اب تک اس میں دس گیارہ سو روپیہ کے وعدے آ چکے ہیں۔ ڈاک میں جوو عدے مجھے بعد میں ملے ہیں ان سے یہ رقم دو ہزار سے بڑھ گئی ہے۔ یہ اتنی رقم ہے کہ اس سے دونوں اخباروں کے قریباً دو دو سو پرچے جاری کئے جا سکتےہیں ابھی بعض تار اور خطوط وغیرہ مَیں نے دیکھے نہیں۔ ممکن ہے کچھ وعدے اَور بھی آئے ہوں اور اب کہ مَیں نے اس تحریک کی پوری طرح وضاحت کر دی ہے۔ مَیں امید رکھتا ہوں کہ سب دوست اس میں حصہ لیں گے ۔ اب تک جو وعدے آئے ہیں وہ صرف ستّر اسّی دوستوں کی طرف سے ہی ہیں اور اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر جماعت اس میں پوری طرح حصہ لے تو یقیناً یہ تحریک بہت کامیاب اورمفید ہو سکتی ہے۔‘‘ (الفضل 5 نومبر 1942ء )
بعد میں غور کر کے مَیں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ کچھ حصہ اس رقم کا اردوکا ریویو جاری کرنے پر بھی خرچ کیا جائے۔
1: بخاری کتاب الزکٰوة باب اِتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ (الخ)
2: وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِهٰذَا الْقُرْاٰنِ وَ الْغَوْا فِيْهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ(حم السجدة: 27)
3: وَ قَالَ الْكٰفِرُوْنَ هٰذَا سٰحِرٌ كَذَّابٌ (صٓ: 5)
4: وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ اٰيٰتُنَا بَيِّنٰتٍ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِلْحَقِّ لَمَّا جَآءَهُمْ١ۙ هٰذَا سِحْرٌ مُّبِيْنٌ (الاحقاف: 8)

37
موجودہ جنگ میں لیبیا کے محاذ کےمتعلق ایک رؤیا جو کئی بار شائع ہو چکا اور بار بار پورا ہو رہا ہے
( فرمودہ 6 نومبر 1942ء )

تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’ مَیں نے پہلے بھی کئی دفعہ وہ رؤیا سنایا ہے جو مصر کی جنگ کے متعلق مَیں نے دیکھا تھا۔ وہ رؤیا یہ تھا کہ مَیں نے دیکھا لیبیا کی طرف سے اٹلی کی فوجیں مصر کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ یہ ستمبر 1940ء کی بات ہے۔ مَیں نے اس وقت رؤیامیں دیکھا کہ مَیں گویا اس علاقہ میں ہوں اور لیبیا کی طرف سے انگریزی علاقہ کی طرف اطالوی فوجیں بڑھ رہی ہیں۔ انگریزی فوجیں جن میں ہندوستانی فوجیں بھی ہیں ان کا زور شور سے مقابلہ کرتی ہیں مگر ان کے قدم کسی جگہ جمتے نہیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا۔ اس وقت وہ میدان جس میں لڑائی ہو رہی ہے مجھے ایک ہال کی شکل میں دکھایا گیا جس کی ایک طرف دروازہ کی جگہ سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں اور وہ سیڑھیاں اس ہال میں اترتی ہیں۔ گویا وہ ہال میں آنے اور نکلنے کا راستہ ہیں۔ مَیں نے دیکھا کہ پہلے تو انگریزی فوجیں سیڑھیوں کے دوسرے سرے پر دشمن سے لڑ رہی ہیں مگر پھر دشمن کے دباؤ کو برداشت نہ کرتے ہوئے انہوں نے آہستہ آہستہ انہی سیڑھیوں پر سے اترنا شروع کر دیا اور دشمن کی فوجوں نے آگے بڑھنا شروع کر دیا۔ دشمن کی فوجوں کے داخل ہوتے وقت انگریزی فوجیں قدم قدم پر ان کا مقابلہ کرتی ہیں مگر دشمن کا زور اتنا زیادہ ہے کہ وہ اس کا پورے طور پر مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ وہ لڑتی ہیں مگر پھر سیڑھیوں سے اترنے پر مجبور ہو جاتی ہیں یہاں تک کہ تمام سیڑھیاں ختم ہو گئیں اور انگریزی فوجیں ہال میں اتر آئیں اور دشمن کی فوج بھی ان کے پیچھے ہال میں اترنے لگ گئی۔ جب وہ نیچے ہال میں پہنچیں تو وہاں بھی انہوں نے دشمن کی فوج سے مقابلہ کیا مگر مَیں نے دیکھا کہ وہاں بھی چند فٹ وہ پیچھے ہٹ گئیں ۔ جب مَیں نے رؤیا میں انگریزی فوجوں کو اس طرح پیچھے ہٹتے دیکھا تو گھبرا گیا اور مَیں نے کہا اب کیا ہو گا۔ اگر یہی حال رہا تو اس علاقہ پر دشمن قبضہ کر لے گا۔ گویا مَیں ایک وسیع علاقہ کو اس وقت ہال اور سیڑھیوں کی صورت میں دیکھ رہا ہوں اور خواب کے نظارے عموماً ایسے ہی ہوتے ہیں۔ پس مجھے گھبراہٹ پیدا ہوئی کہ اگر انگریزوں کی یہی حالت رہی تو دشمن فتح حاصل کر لے گا اور ہندوستان بالکل ننگا ہو جائے گا۔ اس حالت میں مَیں گھبرا کر گھر کی طرف بھاگتا ہوں۔ مَیں اس وقت اپنے آپ کو مصر میں سمجھتا ہوں مگر اپنا گھر بھی بالکل قریب معلوم ہوتا ہے، ایسا ہی جیسے مدرسہ احمدیہ سے ہمارا گھر قریب ہے۔ پس مَیں تیزی سے گھر کی طرف گیا اور میاں بشیر احمد صاحب کو تلاش کیا۔ وہ مجھے ملے تو مَیں نے ان سے کہا ہم فوج میں تو داخل نہیں ہو سکتے کیونکہ ہماری صحت ایسی نہیں کہ فوج میں باقاعدہ بھرتی ہو سکیں مگر ہم باہر سے انگریزوں کی مدد کر سکتے ہیں۔ آپ کے پاس بھی رائفل ہے اور میرے پاس بھی۔ چلو ہم اپنی رائفلیں لیں اور اپنےطور پر ہی دشمن پر حملہ کر دیں۔ چنانچہ مَیں ان کو اپنے ساتھ لے کر وہاں گیا ۔ خواب کے نظارے بھی عجیب ہوتے ہیں اس وقت گو لڑائی ہال میں ہو رہی ہے مگر ہم باہر کھڑے ہو کر اندر کا تمام نظارہ دیکھ رہے ہیں اور ہال کی دیواریں اس نظارہ میں روک نہیں بنتیں۔ وہاں ایک جھاڑی دیکھ کر مَیں لیٹ گیا یا دو زانو ہو گیا ہوں اور مَیں نے کچھ فائر کئے ہیں۔ یہ یاد نہیں کہ میاں بشیر احمد صاحب نے بھی کوئی فائر کیا ہے یا نہیں۔ بہرحال مَیں نے دیکھا کہ ان فائروں کے بعد انگریزی فوج اٹلی والوں کو دبانے لگی اور اس نے پھر انہی سیڑھیوں پر واپس چڑھنا شروع کر دیا جن پرسے وہ اتری تھی۔ دشمن کی فوج پیچھے ہٹتے ہوئے نہایت سختی سے مقابلہ کرتی ہے مگر پھر بھی انگریزی فوج اسے دباتے ہوئے سیڑھیوں تک لے گئی اور پھر اسے ہٹاتے ہوئے دوسرےسرے تک چڑھ گئی۔ جب مَیں نے یہ نظارہ دیکھا تو اس وقت مجھے آواز آئی کہ ایسا دو تین بار ہو چکا ہے۔ گویا دو تین دفعہ دشمن اسی طرح انگریزی فوج کو دبا کر لے آیا ہے اور پھر انگریزی فوج اسے دباتی ہوئی اپنے علاقہ سے باہر لے گئی ہے۔ جب مَیں نے یہ رؤیا دیکھا اس وقت اٹلی کی فوجیں انگریزی علاقہ میں گھسی ہوئی تھیں۔ مَیں نے اس وقت چودھری ظفر اللہ خان صاحب کو یہ رؤیا سنایا اور مَیں نے ان سے کہا کہ مَیں نے اٹلی والوں کو خواب میں بڑی سختی سے لڑتے ہوئے دیکھا ہے۔ اخباروں میں تو ہم پڑھتے ہیں کہ اٹلی والے بہت بزدل ہیں اور انگریز مصلحتاً پیچھے ہٹے ہیں مگر مجھے خواب میں یہ نظارہ دکھایا گیا ہے۔ وہ اس وقت وائسرائے کی کونسل کے اجلاس میں شامل ہونے کے لئےجا رہے تھے۔ جب واپس آئے تو انہوں نے کہا مَیں نے آپ کے اس رؤیا کا علاوہ اَور لوگوں کے ہز ایکسی لنسی وائسرائے کے پرائیویٹ سیکرٹری سر لیتھویٹ سے بھی ذکر کیا تھا اور انہوں نے اس رؤیا کو بہت تعجب سے سنا ہے۔ اگلے دن انہوں نے چودھری صاحب کے ہاں چائے پر آنا تھا ۔ چودھری صاحب نے کہا انہوں نے خواہش کی تھی کہ مَیں یہ رؤیا خود ان کی زبان سے بھی سننا چاہتا ہوں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ رؤیا میں یہ جو دکھایا گیا ہے کہ اطالوی نہایت سختی سے مقابلہ کر رہے ہیں یہ بالکل درست ہے۔ چنانچہ سر لیتھویٹ نے کہا تھا کہ اخبارات کے نمائندے یونہی غلط طور پر شور مچاتے رہتے ہیں کہ اٹیلین بزدل ہیں۔ ہمارے پاس جو پرائیویٹ اطلاعات آتی ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اطالوی نہایت سخت مقابلہ کر رہے ہیں۔
اس رؤیا کے بعد ابھی پورے دو مہینے نہیں گزرے تھے اور برطانیہ کے متعلق مَیں نے جو رؤیادیکھا تھا کہ چھ ماہ کے بعد اس کی حالت بدل جائے گی اس پر پورے چھ مہینے گزر چکے تھے کہ انگریزی فوجوں نے اٹلی کی فوجوں کو شکست دی اور اسے پیچھے دھکیلتی ہوئی کئی سو میل تک لے گئیں۔ اس کے بعد مَیں نے یہ رؤیا 1940ء کے جلسہ سالانہ میں بھی سنایا اور پھر بعض خطبات میں بھی اسے بیان کیا۔ مجھے تعجب ہے کہ باوجود اس کے کہ مَیں نے اس رؤیا کو اتنی دفعہ بیان کیا ہے۔ مَیں ‘‘الفضل’’ میں پڑھتا ہوں کہ دشمن یہ اعتراض کرتا ہے کہ یہ خواب بعد میں حالات کو دیکھ کر بنا لیا گیا ہے لیکن اس کا صحیح جواب نہیں دیا جاتا۔ معلوم ہوتا ہے اخبار والے حوالے پوری محنت سے تلاش نہیں کرتے ورنہ انہیں اس قسم کے کئی حوالے مل جاتے۔ میرے خطبات سننے والے جانتے ہیں کہ مَیں نے کئی دفعہ اس رؤیا کو اپنے خطبات میں بیان کیا ہے اور دو گواہ تو یقینی طور پر موجود ہیں۔ ایک اپنی جماعت کے یعنی چودھری ظفر اللہ خان صاحب اور دوسرے ہز ایکسی لنسی وائسرائے کے پرائیویٹ سیکرٹری سر لیتھویٹ۔ چنانچہ دوسرے تیسرے دن جب وہ چودھری صاحب کے ہاں چائے پر آئے تو چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے مجھ سے کہا کہ انہیں آپ کے اس رؤیا سے بڑی دلچسپی ہے جو آپ نے اٹلی اور انگریزی فوجوں کی جنگ کے متعلق دیکھا ہے اور یہ چاہتے ہیں کہ آپ کی زبان سے یہ رؤیا سنیں۔ چنانچہ مَیں نے خود ان کو یہ رؤیا سنایا جس وقت اب لیبیا کی جنگ میں انگریزوں کو دوبارہ شکست ہوئی ہے اور وہ دشمن کے دباؤ کو برداشت نہ کرتے ہوئے پیچھے ہٹ آئے ہیں تو اس وقت بھی مَیں نے یہ رؤیا اپنے ایک خطبہ میں بیان کر دیا تھا۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس خواب کے تمام حصے نہایت عمدگی اور صفائی کے ساتھ پورے ہو گئے ہیں حالانکہ اس خواب کے بعض حصے ایسے تھے جن کے متعلق میرا پہلے یہ خیال تھا کہ وہ تعبیر طلب نہیں بلکہ خواب کو مزین کرنے کے لئے دکھائے گئے ہیں۔ ہر انسان جس قدر خوابیں دیکھتا ہے اس کے دو حصے ہوتے ہیں۔ ایک حصہ تو اصلی ہوتا ہے اور ایک حصہ ایسا ہوتا ہے جیسے تصویر میں بیک گراؤنڈ ہوتی ہے یعنی تصویر بنانے والے تصویر کے ساتھ اس کا ایک ماحول بھی تیار کرتے ہیں۔ بعض دفعہ ان کا مقصد صرف ایک انسان کی تصویر تیار کرنا ہوتا ہے مگر وہ خالی انسان کی تصویر تیار نہیں کرتے بلکہ وہ اس کے ساتھ کہیں بادل دکھا دیتے ہیں، کہیں سورج چڑھتا ہؤا دکھا دیتے ہیں، کہیں درخت دکھا دیتے ہیں۔ ان کی غرض ان چیزوں کے بنانے سے تصویر کو دلچسپ بنانا ہوتا ہے۔ اسی طرح پر خواب کے بعض حصے تو تعبیر طلب ہوتے ہیں مگر بعض حصے تعبیر طلب نہیں ہوتے۔ وہ صرف اس خواب کو شکل دینے کے لئے ہوتے ہیں مثلاً خواب میں ہمارے سامنے ایک شخص آتا ہے اور اس کا نام بشیر احمد ہے تو اس کی تعبیر یہ ہو گی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں کوئی بشارت دینا چاہتا ہے۔ پس خواب اتنی ہی ہو گی مگر جب اللہ تعالیٰ خواب میں بشیر احمد کو دکھائے گا تو اسے ننگا نہیں دکھائے گا بلکہ اس کے سر پر کلاہ ہو گا یا پگڑی ہو گی ، پاجامہ بھی اس نے پہنا ہو گا، قمیص بھی اس کے جسم پر ہو گی۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ کشمیری طرز کا لمبا کُرتہ ہو یا عام قمیص ہو۔ اسی طرح غالباً اس کے پاؤں میں بوٹ جوتی یا گرگابی بھی ہو گی۔ اب اگر کوئی شخص خواب سنائے اور کہے کہ مَیں نے خواب میں بشیر احمد دیکھا ہے۔ اس کی کیا تعبیر ہے تو اسے کہہ دیا جائے گا کہ اس کی تعبیر یہ ہے کہ تمہیں کوئی خوشخبری ملنے والی ہے لیکن اس کے بعد اگر وہ کہے کہ اچھا خواب میں مَیں نے اس کے جو سر پر کلاہ دیکھا تھا اس کی کیا تعبیر ہے۔ اس کے پاؤں میں جو جوتی تھی اس کی کیا تعبیر ہے۔ اس نے جو پاجامہ پہنا ہؤا تھا اس کی کیا تعبیر ہے۔ اس کے جسم پر جو قمیص تھی اس کی کیا تعبیر ہے۔ تو ایسے شخص کو ہم وہمی ہی کہیں گے۔ یہ نہیں ہو گا کہ ہم پگڑی اور کلاہ اور قمیص اور پاجامہ اور بوٹ اور جوتی کی الگ الگ تعبیر بتانے لگ جائیں۔ خواب کے یہ حصے ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے کوئی شخص اپنے کسی عزیز کو خط میں اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ لکھتا ہے۔ اگر وہ خوشنویس ہوتا ہے تو اچھی طرح الف ڈالتا ہے، سین، لام اور میم کو بڑی احتیاط سے لکھتا ہے اور دائرے بڑی احتیاط سے ڈالتا ہے مگر اس کی اصل غرض ان دائروں سے نہیں ہوتی بلکہ اصل غرض اپنے مطلب سے ہوتی ہے۔ یہ احتیاط وہ اپنے کام کو خوبصورت بنانے کے لئے کرتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ خوابوں کو خوبصورت بنانے کے لئے اس میں بہت سے ایسے حصے بھی شامل کر دیتا ہے جو درحقیقت خواب کا حصہ نہیں ہوتے۔ اسی طرح خوابوں میں بہت سا حصہ انسان کے دماغ کا بھی ہوتا ہے مثلاً اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کو کہتا ہے اسے بشیر احمد دکھا دو۔ وہ اسے بشیر احمد دکھا دیتے ہیں اور جس قسم کا لباس اسے پسندیدہ ہوتا ہے اسی قسم کے لباس میں وہ اسے دکھا دیتے ہیں۔ اصل غرض صرف بشارت کی خبر دینا ہوتی ہے مگر لباس وغیرہ میں اس کی عام طبیعت اور دماغی مناسبت کو ملحوظ رکھ لیا جاتا ہے یا مثلاً کوئی شخص دعا کر رہا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ یہ بتانا چاہتا ہے کہ مَیں نے تیری دعا قبول کر لی ہے تو وہ اسے اسماعیل نامی کوئی شخص دکھا دیتا ہے۔ چاہے وہ واقف ہو یا ناواقف، جنگل میں ہو یا شہر میں۔ اس کے سر پر ٹوپی ہو یا پگڑی۔اب اگر کوئی شخص کہے کہ یہ تو ہوئی خواب کی تعبیر کہ اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول کر لی مگر یہ جو جنگل میں مَیں نے اسے دیکھا ہے، اس کی کیا تعبیر ہے، یا شہر میں اسےدیکھا ہے اس کی کیا تعبیر ہے، یا مشرق میں اسےد یکھا ہے ، اس کی کیا تعبیر ہے، یا مغرب میں اسے دیکھا ہے اس کی کیا تعبیر ہے، یا اس کا قد لمبا تھا اس کی کیا تعبیر ہے یا اس کا قد چھوٹا تھا اس کی کیا تعبیر ہے۔ تو ہر واقف کار شخص کہے گا کہ ان چیزوں کی کچھ بھی تعبیر نہیں یہ صرف خواب کی تحسین کے لئے ہیں۔ پس جب مَیں نے یہ رؤیا دیکھا تو مَیں نے سمجھا کہ سیڑھیوں اور ہال کو صرف تحسین کے طور پر دکھایا گیا ہے یہ تو نہیں ہو سکتا تھا کہ میری آنکھیں اتنی وسیع ہو جاتیں کہ وہ ہزاروں میل کا علاقہ جس میں لڑائی ہو رہی تھی مجھے دکھا دیا جاتا، لازماً اس کو چھوٹا کر کے ہی دکھایا جا سکتا تھا جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں فرعون کو سات سالوں کا قحط گندم کی چند خشک بالوں کی شکل میں دکھایا گیا یااسے سات تر و تازہ اور سبز بالیں دکھائی گئیں جس کی تعبیر یہ تھی کہ بہت غلہ پیدا ہو گا۔ مگر اس غلّے کو چند بالوں کی شکل میں دکھا دیا گیا ۔ اب اس کے یہ معنے نہیں تھے کہ اس وقت مصر میں اتنے ہی سٹے پیدا ہوں گے بلکہ معنے یہ تھے کہ زمینداروں کےگھروں میں کثرت سے غلہ پیدا ہو گا مگر خدا تعالیٰ نے یہ نہیں کیا کہ بادشاہ مصر کو گندم کی اتنی تعداد دکھائی ہو جتنی مصر میں پیدا ہوئی تھی بلکہ صرف چند بالیں دکھا دیں۔ تو خوابوں میں بسا اوقات ایک بڑی چیز کو چھوٹی شکل میں دکھا دیا جاتا ہے لیکن بہرحال ہر خواب کے کچھ حصے تعبیر طلب ہوتے ہیں اور کچھ حصے تعبیر طلب نہیں ہوتے۔ اس رؤیا کے متعلق بھی میرا خیال یہی تھا کہ اس کی سیڑھیوں اور ہال والا حصہ تعبیر طلب نہیں مگر اس آخری دفعہ جبکہ دشمن یہ اعتراض کر چکا تھا کہ یہ خواب واقعات کو دیکھ کر بعد میں بنا لیا گیا ہے اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات ظاہر کئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ خواب کے یہ حصے بھی تعبیر طلب تھے چنانچہ مصر میں آجکل جس جگہ جنگ ہو رہی تھی وہ جیسا کہ اخبارات میں خبریں آ چکی ہیں۔ صرف چالیس میل میں محدود ہے جس کے ایک طرف سمندر ہے اور دوسری طرف گڑھے ہیں۔ خواب میں ہال دکھائے جانے کے معنی بھی یہی تھے کہ ایسی جگہ لڑائی ہو گی جو ایک وسیع میدان نہیں ہو گی بلکہ محدود جگہ ہو گی۔ اسی طرح خواب میں جو سیڑھیوں والا حصہ دکھایا گیا تھا وہ بھی اس جنگ میں نمایاں طور پر پورا ہؤا ہے۔ چنانچہ اس جنگ کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ انگریزی فوج جس جگہ لڑ رہی تھی وہ نسبتاً ڈیپریشن (Depression) یعنی نیچی جگہ تھی اور دشمن شروع میں سامنے کی پہاڑیوں پر قابض تھا۔ گویا جس حصہ کو مَیں تعبیر طلب نہیں سمجھتا تھا وہ بھی تعبیر طلب تھا۔ پھر اگر رؤیا میں نے واقعات کو دیکھ کر بعد میں بنا لیا تھا تو جس وقت مَیں نے یہ رؤیا بیان کیا ہے اس وقت تو دشمن کی فوجیں انگریزی فوجوں کو دھکیل کر مصر کی سرحد پر لے آئی تھیں اور دوسرے حصہ کو پورا کرنا میرے اختیار میں نہیں تھا مگر اب دیکھو کس طرح اللہ تعالیٰ نے پھر حالات کو پلٹنا شروع کر دیا ہے اور کس طرح انگریزوں کی فوجیں پھر آگے بڑھ رہی اور دشمن کی فوجیں پیچھے ہٹ رہی ہیں۔ پرسوں نہایت مایوس کن خبریں آئی تھیں لیکن کل ریڈیو پر خبریں آ گئیں اور آج اخبارات میں بھی شائع ہو گئی ہیں کہ انگریزی فوج نے بہت بڑا حملہ کر کے اطالوی فوج کو پیچھے ہٹا دیا ہے اوران کے نو ہزار سے زیادہ آدمی قید کر لئے ہیں٭ اسی طرح ان کے کئی سو ٹینک تباہ کر دئیے گئے ہیں اور انگریز ان کی سرحد تک بڑھ رہے ہیں۔ پھر یہ جگہ بھی ایسی ہے جو ہال کی طرح محدود ہے۔ ہال اور میدان میں یہی فرق ہوتا ہے کہ میدان بہت کھلا ہوتا ہے اور ہال چھوٹی سی جگہ ہوتی ہے۔ پس لڑائی کا ہال میں ہونابتاتا تھا کہ یہ لڑائی بڑی جگہ سے چھوٹی جگہ میں آ جائے گی۔ چنانچہ یہ میدان جس میں آجکل لڑائی ہو رہی ہے کل 40 میل لمبا ہے حالانکہ پہلے دو دو سو میل بلکہ اس سے بھی لمبے علاقہ میں لڑائی ہؤا کرتی تھی۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی صحن سے کمرہ میں چلا جائے۔ اسی طرح سیڑھیاں دیکھنے کی یہ تعبیر تھی کہ جس جگہ یہ لڑائی ہو گی وہاں ڈیپریشنز (Depressions) یعنی نشیب مقامات بہت ہوں گے۔
یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسی خبر ہے جس پر غور کر کے ہر انسان اسلام اور احمدیت کی سچائی کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔ دشمن نے اس پر جو اعتراض کرنا تھا وہ کر لیا اور اس طرح اس کے اعتراض نے اس خبر کو اَور بھی پختہ بنا دیا کیونکہ اس نے بہرحال خواب کو سن کر اعتراض کیا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ایک بڑی بھاری بشارت ہے اور متواتر یہ رؤیا اس جنگ میں پورا ہؤا ہے۔ مَیں نے بتایا ہے کہ رؤیا میں ہی مجھے آواز آئی کہ ایسا دو تین بار ہو چکا ہے چنانچہ دو تین بار ہی ایسا ہؤا اور میرے نزدیک اس کی کوئی مثال تاریخ کے صفحات میں نہیں مل سکتی۔ کچھ عرصہ ہؤا ایک انگریز فوجی مبصر نے روس کی لڑائی کو غیر معمولی قرار دیتے ہوئے لکھا تھا کہ تاریخ میں اس بات کی کوئی مثال نہیں مل سکتی کہ کوئی دشمن کسی ملک میں اتنی دور تک آ گیا ہو اور پھر دوسری فوج نے اسے پیچھے دھکیل دیا ہو مگر لیبیا کی لڑائی میں تین دفعہ ایسا ہو چکا ہے
٭ خطبہ دیکھنے کے وقت تک 40 ہزار قیدی بنانے کی خبر آ چکی ہے۔
اور تینوں دفعہ ایک فریق نے یہی سمجھا کہ اس نے دوسرے کو تباہ کر دیا ہے۔ پہلے 1940ء میں اطالوی فوجیں آگے بڑھیں اور انہوں نے انگریزی فوجوں کو پیچھے ہٹا دیا۔ 1940ء کے آخر میں پھر انگریزی فوجیں آگے بڑھیں اور اطالوی فوجیں شکست کھا کر پیچھے ہٹ گئیں۔ 1941ء میں دشمن پھر آگے بڑھا اور انگریزی فوجوں کو دھکیلتا ہؤا مصر کی سرحد پر لے آیا۔ 1941ء کے آخر میں انگریز پھر آگے بڑھے اور دشمن کی فوجوں کو شکست دیتے ہوئے کئی سو میل تک لے گئے۔ جون 1942ء میں پھر دشمن کی فوجیں انگریزی فوجوں کو دھکیل کر مصر کی سرحد پر لے آئیں اور اب 1942ء کے آخر میں پھر انگریزوں نے بڑھنا شروع کر دیا ہے۔ ان تینوں دفعہ دشمن کو شکست بھی ایسی خطرناک ہوئی ہے کہ یہ خیال نہیں کیا جا سکتا تھا کہ وہ دوبارہ حملہ کر کے کامیاب ہو جائے گا مگر اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی خبر کے مطابق ہمیشہ ایسا ہی ہوتا رہا کہ وہ دوبارہ آگے بڑھا اور اس نے انگریزوں کو پیچھے ہٹا دیا۔جب انگریزی فوجوں نے اٹلی والوں کو پہلی مرتبہ دھکیلنا شروع کیا ہے تو ان کے پونے دو لاکھ قیدی بنا لئے تھے ۔ یہ اتنی بڑی تعداد ہے کہ اس کے بعد خیال بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ اٹلی کی فوجیں آگے بڑھیں گی مگر کچھ عرصہ کے بعد اچانک وہ آگے بڑھیں، انگریزی فوجوں کو شکست ہوئی اور ان کے تیس ہزار کے قریب سپاہی قید کر لئے گئے۔ پھر دوبارہ انگریز بڑھے تو انہوں نے اٹلی والوں کے 37 ہزار آدمی قید کر لئے۔ اس کے بعد دشمن آگے بڑھا تو اس نے پھر انگریزوں کے تیس چالیس ہزار آدمی قید کر لئے اور اب آخری ہلّے میں انگریزوں نے نو ہزار کے قریب آدمی پکڑ لئے ہیں۔ (تازہ خبروں کے مطابق چالیس ہزار کے قریب تک قیدی پکڑے جا چکے ہیں) مگر یہ تعداد آخری نہیں۔ قیدی اس وقت ملتے ہیں جب بھاگڑ مچ جاتی ہے اور سپاہی اپنی جان بچانے کے لئے اِدھر اُدھر دوڑنے لگ جاتے ہیں۔ پس ابھی اَور زیادہ قیدیوں کی امید رکھنی چاہئے گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو رؤیا مجھے دکھایا گیا تھا وہ متواتر پورا ہؤا۔ لڑائی کا میدان مجھے دکھایا گیا تھا۔ اس کا محل وقوع مجھے دکھایا گیا تھا، اس کی شکل و صورت مجھے بتا دی گئی تھی اور یہ بھی بتا دیا گیا تھا کہ اس جگہ اس قسم کی جنگ ہو گی کہ کبھی تو انگریزی فوج دشمن کو دھکیلتی ہوئی دور تک لے جائے گی اور کبھی دشمن اسے دھکیل کر اسے کے ملک میں گھس آئے گا۔ چنانچہ یہ تمام باتیں پوری ہو چکی ہیں۔
مَیں نے انگریزوں کو بارہا توجہ دلائی ہے کہ اگر وہ چاہیں اور جماعت احمدیہ سے دعا کی درخواست کریں تو اللہ تعالیٰ ہماری دعا سے ان کی مشکلات کو دور کر دے گا مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ابھی تک انگریزوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہؤا حالانکہ چودہری ظفر اللہ خان صاحب کے ذریعہ میرے اس قسم کےر ؤیا وغیرہ وائسرائے اور دوسرے انگریز افسروں تک پہنچ چکے ہیں اور اس لحاظ سے ان پر احمدیت کی روحانی طاقت ایک حد تک ظاہر ہو چکی ہے۔ اسی طرح میری یہ بات بھی ان تک پہنچ چکی ہے کہ اگر وہ ہماری طرف دعا کے لئے سچے دل سے متوجہ ہوں تو اللہ تعالیٰ اس فتنہ کو دور کر دے گا اور ان کے لئے امن اور آسائش کے ایام واپس لے آئے گا مگر باوجود اس کے کہ ایک عرصہ سے یہ اعلان ہماری جماعت کی طرف سے ہو چکا ہے گورنمنٹ نے اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا ۔ ہم دعائیں تو اب بھی کرتے ہیں اور مَیں جماعت کو ہمیشہ کہتا رہتا ہوں کہ انگریزوں کی کامیابی کے لئے دعائیں کیا کرے مگر ان دعاؤں میں اور اس دعا میں بہت بڑا فرق ہے۔ بعض نادان کہا کرتے ہیں کہ اگر تمہاری دعاؤں سے ہی یہ لڑائی دور ہو سکتی ہے تو تمہارے دلوں میں دعا کے لئے کیوں جوش پیدا نہیں ہوتا۔ دنیا میں اتنا خون خرابہ ہو رہا ہے اور تم دعا نہیں کرتے۔ وہ نادان اور احمق یہ نہیں سمجھتے کہ دعا کے لئے جوش پیدا ہونے کے مختلف اسباب میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے اور اس فرق کی وجہ سے وہ جوش کبھی کم پیدا ہوتا ہے اور کبھی زیادہ پیدا ہوتا ہے۔ اس وقت بھی ہم بے شک انگریزوں کی کامیابی کے لئے دعا کرتے ہیں مگر اس لئے کہ ہمارے نزدیک انگریز مظلوم ہیں اور ان کا دشمن ظالم ہے۔ پس ہماری ہمدردی ان کے ساتھ ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ ظالم کو فتح حاصل ہو لیکن اگر انگریز ہم سے دعا کی درخواست کریں تو چونکہ اس درخواست کے نتیجہ میں اسلام اور احمدیت کی سچائی ظاہر ہو گی اس لئے اسلام کی فتح، احمدیت کی فتح اور قرآن کی فتح کے لئے ہمارے دلوں میں دعا کے لئے جس قدر جوش پیدا ہو سکتا ہے وہ جوش موجودہ صورت میں کہاں پیدا ہو سکتا ہے۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ جہاں اسلام کی سچائی کا سوال آئے گا، جہاں احمدیت کی صداقت کا سوال آئے گا، جہاں عیسائیت کے مقابلہ میں اسلام کے غالب اوربرتر ہونے کا سوال آئے گا، وہاں دعا کے اندر جو جوش پیدا ہو سکتا ہے، وہ دوسری صورت میں کبھی پیدا نہیں ہو سکتا۔ نادان انسان سمجھتا ہے کہ دعا کے لئے ہر حالت میں یکساں جوش ہونا چاہئے حالانکہ کُجا محمد ﷺ کی سچائی کا سوال اور کُجا انگریزوں کی مظلومی کا سوال۔ بھلا دونوں میں کوئی بھی نسبت ہے۔ کہتے ہیں
کُجا راجہ بھوج اور کُجا گنگو تیلی
انگریزوں کی محمد ﷺ کے مقابلہ میں بھلا نسبت ہی کیا ہے کہ ان دونوں کے متعلق دعا کرنے میں طبیعت میں یکساں جوش پیدا ہو۔ وہاں تو یہ سوال ہو گا کہ اس دعا کے نتیجہ میں قران کی سچائی اور محمد ﷺ کی سچائی ظاہر ہو گی اور عیسائیوں پر اسلام کی صداقت واضح ہو جائے گی۔ پس وہاں تو ہر احمدی دعا میں اپنا زور لگا دے گا اور اتنی دعائیں کرے گا کہ گویا اپنی ناک رگڑ دے گا۔ وہ نادان جو یہ اعتراض کرتا ہے اس کے نزدیک انگریزوں کی خیر خواہی اور محمد ﷺ کی سچائی کا سوال ایک جیسا ہو گا اور اس کےد ل میں جیسے انگریزوں کی محبت ہے ویسی ہی محمد ﷺ کی محبت ہو گی لیکن ہمارے دلوں میں تو اس محبت اور اس محبت میں بہت بڑا فرق ہے۔ ہمیں انگریزوں سے بے شک خیر خواہی ہے اور ہم ان کی کامیابی کے لئے دعائیں بھی کرتے ہیں لیکن اس جوش اور اُس جوش میں بھلا کوئی بھی نسبت ہو سکتی ہے۔ محبت بے شک ہمیں دونوں سے ہے مگر محبت محبت میں فرق ہوتا ہے اور محبت کےفرق کی وجہ سے طبیعت کے جوش میں بھی بہت بڑا فرق واقع ہو جاتا ہے۔ مَیں نے کشمیر میں دیکھا ہے کشمیری لوگوں میں شرک بہت زیادہ ہے۔ ان کے نزدیک خدا کی اور محمد ﷺ کی اتنی عظمت نہیں جتنی سید عبد القادر جیلانیؒ کی ہے۔ ان سے اُتر کر شیخ زین الدین صاحب کی عظمت وہ لوگ کرتے ہیں اور پھر تیسرے درجہ پر اللہ اور رسول کو عظمت دیتے ہیں ۔سری نگر کے پاس ایک چھوٹی سی جھیل ہے جو ڈَل کہلاتی ہے، وہ ڈیڑھ دو میل لمبی ہے اور میل ڈیڑھ چوڑی ہے۔ اس کے پاس سے ہی دریائے جہلم گزرتا ہے اور دریا میں سے ایک نہر کاٹ کر اس ڈل کے سامنےسے گزاری گئی ہے۔ جس وقت کا مَیں ذکر کر رہا ہوں اس وقت وہ باقاعدہ نہر تھی۔ ممکن ہے اس سے پہلے ایک طبعی نالہ ہو، جو اسے دریا سے ملاتا ہو۔ اس کے کنارے پر سڑکیں ہیں اور ان پر تانگے وغیرہ چلتے رہتے ہیں۔ اس ڈل میں اس نہر کا دروازہ کھلتا ہے۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ دریا کا پانی اونچا ہو جاتا ہے جس کے نتیجہ میں نہر کا پانی بھی اونچا ہو جاتا ہے اور ڈل میں زور سے پانی گرنے لگ جاتا ہے۔ اس وقت کشتی نیچے سے اوپر کی طرف لے جانی بڑی مشکل ہوتی ہے اور بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ دریا کا پانی نیچا ہو جاتا ہے اورڈل کا پانی اونچا ہوتا ہے۔ سارا سرینگر اسی ڈل پر گزارہ کرتا ہے۔ بعض زمینداروں نے اس ڈل میں گیلیاں ڈالی ہوئی ہیں اور ان گیلیوں پر مٹی ڈال کر سبزی ترکاری بو لیتے ہیں۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی شخص دوسرے کی یہ گیلیاں چُرا کر لے جاتا ہے ۔ اس وقت یہ حیرت انگیز بات وہاں سننے میں آتی ہے کہ بھئی تم نے کہیں میری زمین دیکھی ہے۔ کوئی شخص اسے چُرا کر لے گیا ہے۔ بہرحال ان زمینوں کی وجہ سے کثرت سے سبزی پیدا ہوتی ہے اور صبح کے وقت کشتیاں سبزی سے بھری ہوئی وہاں سے آ رہی ہوتی ہیں۔ جب دریا اور ڈل کا پانی برابر ہو تب تو کشتیاں آسانی سے ادھر ادھر آتی رہتی ہیں لیکن جب ایک طرف کا پانی اونچا نیچا ہو تو پھر کشتی چلانے میں انہیں بڑی دقّت محسوس ہوتی ہے۔ مَیں نے ایک دفعہ دیکھا کہ ایک کشتی آئی جس میں کشمیری عورتیں اور مرد بیٹھے ہوئے تھے اور ایک طرف کا پانی اونچا تھا۔ انہوں نے کشتی چلانے کے لئے زور لگانا شروع کیا، بانس بھی چلایا مگر کشتی نہ چلی آخر کچھ آدمی کشتی سے اتر گئے اور رسّے ڈال کر انہوں نے کشتی کو کھینچنا شروع کر دیا۔ اس وقت جس طرح ہمارے ہاں شیعیت سے متاثر مسلمان زور سے یا علی کا نعرہ لگاتے ہیں۔ انہوں نے بھی نعرہ لگانا شروع کر دیا کہ لَا یِلٰہَ یِلَّا اللہُ لَا یِلٰہَ یِلَّا اللہُ۔ کشمیری الف نہیں بول سکتے بلکہ الف کی بجائے یا کا استعمال کرتے ہیں اوریہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ بنی اسرائیل میں سے ہیں۔ تم کہتے ہو اسماعیل مگر ایک یہودی کہے گا یِشْمَئِیْل یعنی تمہارے الف کی جگہ وہ ی استعمال کرے گا۔ بعض دفعہ ی کی جگہ عربوں کا تلفظ ع کا سا ہوتا ہے جو الف کے تلفظ کے مشابہ ہوتا ہے مثلاً وہ کہتے ہیں یشوع اور عرب کہتے ہیں عیسیٰ۔
غرض ان کشمیریوں نے بھی زور سے نعرے لگائے کہ لَا یِلٰہَ یِلَّا اللہُ لَا یِلٰہَ یِلَّا اللہُ اور کوشش کی کہ کشتی وہاں سے نکل جائے مگر ان کا کام کچھ بنا نہیں۔ جب انہوں نے دیکھا کہ اللہ کا نام لے کر ہمارا کام نہیں بنا تو انہوں نے شیخ زین الدین صاحب کا (جو الفاظ انہوں نے استعمال کئے مجھے وہ اس وقت یاد نہیں) نام لے کر نعرہ لگایا اور اور تب مَیں نے دیکھا کہ انہوں نے پہلے سے زیادہ زور لگایا اور کشتی کو کچھ کھینچ کر بھی لے گئے مگر پھر ایک لہر آئی اور کشتی رک گئی۔ اس پر کچھ اَور آدمی کشتی سے اتر گئے مگر جب اس طرح بھی انہیں پوری کامیابی حاصل نہ ہوئی تو آخر میں انہوں نے ‘‘یا پیر دستگیر’’ کا نعرہ لگایا۔ یعنی سید عبد القادر صاحب جیلانی کو اپنی مدد کے لئے پکارا۔ جب انہوں نے یا پیر دستگیر کہا تو یہ نظارہ مجھے آج تک نہیں بھولتا کہ اکثر مرد، عورتیں اور بچے کود کر کشتی سے نیچے اتر آئے اور پاگلوں کی طرح زور لگانے لگے۔ گویا اللہ اگر ہارتا ہے تو بے شک ہار جائے مگر عبد القادر جیلانی نہ ہارے۔
تو بےشک ہمیں انگریزوں سے خیر خواہی ہے، ان کی تکالیف پر ان سے ہمدردی ہے اور ہم ان کی کامیابی کے لئے دعائیں بھی کرتے ہیں مگر اللہ اور محمد ﷺ کے مقابلہ میں ان کی حیثیت ہی کیا ہے کہ جو جوش ہمیں خدا اور اس کے رسولؐ کے لئے دعا میں پیدا ہونا چاہئے وہی جوش ہمارے دلوں میں انگریزوں کے متعلق پیدا ہو۔ ہم کوئی کشمیری تھوڑے ہیں کہ شیخ عبدالقادر جیلانی کے لئے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ دیں گے۔ جب اللہ تعالیٰ کی عظمت کا سوال آئے گا، جب رسول کریم ﷺ اور اسلام کی صداقت کا سوال آئے گا اس وقت احمدیت کا بچہ بچہ دعا میں لگ جائے گا اور اللہ تعالیٰ کے دروازہ پر اس طرح جھک جائے گا کہ خواہ ماتھے رگڑے جائیں، ناکیں گھس جائیں وہ خدا تعالیٰ کے دروازہ سے اس وقت تک ہلے گا نہیں جب تک اپنے مقصد کو حاصل نہ کر لے کیونکہ اس میں ہمارا فائدہ نہیں بلکہ خدا اور اس کے رسولؐ کا فائدہ ہو گا۔ پس انگریز ہم سے اپنی کامیابی کے لئے دعا کی درخواست کریں تو چونکہ اس درخواست کے نتیجہ میں اسلام اور احمدیت کی صداقت کا ایک عظیم الشان نشان ظاہر ہو گا اس وقت ہر احمدی دعا میں لگ جائے گا۔ چاہے انہیں اپنے کاروبار چھوڑ دینے پڑیں اور چاہے نوکریوں سے استعفیٰ دے کر جنگلوں میں دعا کے نکل جانا پڑے۔ پس ان دونوں باتوں میں بہت بڑا فرق ہے۔ نادان انسان جسے ان باتوں کی سمجھ نہیں وہ کہتا ہے کہ اتنے لوگ جنگ میں مر رہے ہیں کیوں دعا نہیں کی جاتی کہ لوگ اس جنگ کی مصیبت سے بچ جائیں حالانکہ بے شک جنگ میں لوگ مر رہے ہیں مگر محمد ﷺ کی زندگی اور ان سپاہیوں کی زندگی میں بھی تو بہت بڑا فرق ہے۔ اب ہم دعا کرتے ہیں تو اس لئے کہ انگریزی سپاہی بچائے جائیں اور اس جنگ کی آگ سے وہ محفوظ رہیں مگر جب اسلام اور احمدیت کی صداقت کا سوال پیدا ہو گا، جب لوگوں پر اسلام اور احمدیت کی صداقت ثابت کرنے کے لئے انگریزوں کی درخواست پر یہ دعا کی جائے گی اس وقت ہم یہ دعا نہیں کریں گے کہ انگریزوں کو زندگی دے بلکہ ہم یہ کہیں گے کہ اے خدا! محمد ﷺ جو اس وقت دنیا کی نگاہ میں مُردہ ہیں انہیں ہمیشہ کے لئے زندہ کر دے۔ اس دعا کا بھلا اس دعا سے کیا مقابلہ ہو سکتا ہے جو اس وقت ہم انگریزوں کے لئے کر رہے ہیں۔ کاش انگریز اس طرف توجہ کرتے اور ہماری جماعت سے اپنی کامیابی کے لئے دعا کی درخواست کرتے ۔ پھر ہماری یہ دعا ویسی ہی درد بھری چیخ و پکار ہوتی جیسے یونسؑ نبی کی قوم نے اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دیکھ کر چیخ وپکار کی تھی اورآخر اللہ تعالیٰ نے اپنے عذاب کو دور کر دیا۔ خدا کرے انگریزوں کی آنکھیں کھلیں اور وقت کی ضرورت کو پہچانیں اور دعا کے اس کارگر حربہ سے جو خدا تعالیٰ نے ہماری جماعت کو عطا فرمایا ہے فائدہ اٹھائیں۔ اگر وہ اس طرح توجہ کریں تو یقیناً یہ امر ادھر ہمارے لئے خوشی کا موجب ہو گا کہ اس طرح اسلام اور احمدیت کی صداقت کا ایک عظیم الشان نشان ظاہر ہو گا اور اُدھر ان کے لئے بھی خوشی کا موجب ہو گا۔ بغیر شدید قربانیوں کے انہیں جنگ میں فتح حاصل ہو جائے گی۔ انشاء اللہ۔‘‘ (الفضل 12 نومبر 1942ء)

38

تحریک جدید سال نہم کا آغاز
( فرمودہ 27 نومبر 1942ء )

تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’احباب کو معلوم ہے کہ مجھے قریباً بیس دنوں سے نقرس کا پاؤں میں شدید دورہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ تین چار دنوں سے اس میں بہت کچھ تخفیف ہو چکی ہے اور کل سے کسی قدر پاؤں بھی زمین پر رکھا جانے لگا تھا لیکن بہرحال چونکہ مَیں چل نہیں سکتا تھا اور چلنا تو کُجا بیٹھنا بھی میرے لئے کچھ دن قریباً ناممکن تھا۔ سوائے اس کے کہ تکیہ لگا کر اور سہارا لے کر بیٹھوں۔ اس لئے پہلے تو مَیں نے یہ ارادہ کیا کہ اب جو تحریک جدید سال نہم کے اعلان کا وقت آیا ہے تو مَیں ایک مضمون لکھ کر اس کا اعلان کر دوں۔ لیکن پھر میرے ذہن میں بعض تاریخی واقعات اس قسم کے آئے کہ بعض جرنیلوں نے میدانِ جنگ میں نقرس کے درد کی حالت میں فوجوں کی کمان کی ہے اور پالکیوں میں لیٹے لیٹے لوگوں کو احکام دئیے اور فتوحات حاصل کی ہیں۔ پس میرے دل نے کہا کہ گو یہ ایک تکلیف دِہ امر ہے کہ انسان دوسروں کے کندھوں پر چڑھ کر آئے اور بظاہر یہ ایک معیوب سا فعل معلوم ہوتا ہے لیکن بہرحال جبکہ ہمارا مقابلہ بھی دشمن سے ایک جنگ کے رنگ میں ہی ہے اگرچہ یہ جسمانی نہیں بلکہ روحانی جنگ ہے اورپہلے انبیاء نے بھی کہا ہے کہ آخری زمانہ میں خدا تعالیٰ کے فرشتوں اور شیطان کی آخری جنگ ہو گی تو کوئی وجہ نہیں کہ اگر دنیوی جنگیں نقرس کے حملہ میں پالکیوں میں بیٹھ کر لڑی گئی ہیں تو مَیں بھی اسی رنگ میں شامل نہ ہوں۔ چنانچہ مَیں نے فیصلہ کیا کہ اس تکلیف کے باوجود مَیں خود جمعہ کے لئے جاؤں اور تحریک جدید کے نئے سال کے لئے اسی رنگ میں تحریک کروں جیسے گزشتہ سالوں میں مَیں ہمیشہ تحریک کرتا چلا آیا ہوں۔
مَیں نے پہلے بھی کئی دفعہ بیان کیا ہے کہ خدا تعالیٰ کا اس معاملہ میں میرے ساتھ ایسے معجزانہ رنگ میں سلوک ہوتا ہے کہ مَیں اسے دیکھ کرحیران ہو جاتا ہوں۔ مَیں نے بتایا ہے کہ کل میرا پیر زمین پر لگنے لگ گیا تھا اور مَیں چند قدم چلا بھی تھا۔ اس بات کے امتحان کے لئے کہ مَیں جمعہ میں جا سکتا ہوں یا نہیں مگر شام کے وقت ایک نئی جگہ میں درد شروع ہو گیا اور مَیں نے سمجھا کہ اب ظاہری تدبیریں چارۂ کار نہیں ہو سکتیں۔ اللہ تعالیٰ سے ہی دعا کرنی چاہئے چنانچہ مَیں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور اب جو مَیں آنے کے لئے اٹھا تو مَیں یہ تو نہیں کہتا کہ درد بالکل جاتا رہا ہے مگر جب یہاں آنے کے لئے مَیں نے اپنے پاؤں کو زمین پر رکھا۔ تو زمین پر ٹکے ہوئے پیروں میں کچھ دیر تک درد محسوس نہیں ہؤا جس سے مَیں نے یہ سمجھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس مرض کا اس حد تک ازالہ کر دیا ہے کہ میرے لئے اب وہ تکلیف دِہ نہیں رہا۔
اس کے بعد مَیں تمام دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ سال ہشتم کی تحریک کے اعلان پر ایک سال گزر گیا اوراب سال نہم کی تحریک کا وقت آ گیا ہے۔ اس لئے مَیں ان تمام احباب کو جو قادیان میں موجود ہیں یا قادیان سے باہر ہیں۔ ہندوستان میں یا ہندوستان سے باہر ہیں۔ ہر اس شخص کو جو احمدی کہلاتا ہے یا ابھی اس کو علی الاعلان جماعت میں شامل ہونے کی توفیق تو نہیں ملی مگر اس کے دل میں احمدیت کی سچائی گھر کر چکی ہے، توجہ دلاتا ہوں کہ اب نواں سال تحریک جدید کا شروع ہو گیا ہے۔ پس تمام ایسے لوگ جن کو اللہ تعالیٰ نے اس امر کی توفیق عطا فرمائی ہے کہ وہ مقررہ شرائط کے مطابق حصہ لے سکیں مَیں انہیں اس تحریک میں شامل ہونے کی دعوت دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے ایسے نشانات ظاہر کئے ہیں اور دنیا میں ایسے تغیرات پیدا کرنے شروع کر دئیے ہیں کہ ان کا اندازہ اور قیاس بھی اس سے پہلے نہیں ہو سکتا تھا۔ پہلی جنگ جب ختم ہوئی تو اس کے بعد لوگ مذہب سے اَور بھی بیگانہ ہو گئے تھے اور اس جنگ کا ان طبیعتوں پر یہ اثر پڑا تھا کہ اگر انسانی زندگی اتنی ہی محدود ہے اور اگر ہماری جانیں اتنے ہی خطرہ میں ہیں تو ہم اپنی زندگی کے اس تھوڑے سے عرصہ کو کیوں نہ زیادہ سے زیادہ خوشی میں گزاریں اور کیوں نہ عیش اور آرام میں اپنی عمر کے دن بسر کریں۔ چنانچہ پہلی جنگ کے بعد ناچ اور گانے اور رنگ رلیوں کی اتنی کثرت ہو گئی کہ دنیا ان کے بوجھ سے دب گئی اور گناہوں کی فریاد آسمان پر پہنچ کر خدا تعالیٰ کے عرش کو ہلانے لگ گئی۔ لوگ بجائے اس کے کہ اس جنگ سے یہ سبق حاصل کرتے کہ ہم ہر وقت خدا تعالیٰ کے غضب اور اس کی گرفت کے نیچے ہیں اور اس کے فضل کے بغیر زندگی کا آرام اور راحت سے بسر ہونا ناممکن ہے۔ انہوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ ہم اپنی محدود عمر کوکیوں نہ زیادہ سے زیادہ راحت اور آرام میں بسر کریں اور کیوں نہ زیادہ سے زیادہ خوشی حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ خوشی توپہلے بھی یورپ کرتا تھا، خوشی تو پہلے بھی امریکہ کرتا تھا، اسی طرح ناچ اور گانوں میں پہلے بھی یورپ شامل ہوتا تھا اور پہلے بھی امریکہ ناچ گانوں میں شامل ہوتا تھا مگر جنگ کے بعد ایک طرف ریڈیو کی ایجاد کی وجہ سے اور دوسری طرف خیالات میں تغیر پیدا ہونے کی وجہ سے کہ خواہ مخواہ روپیہ سنبھال کر رکھنے کا کیا فائدہ ہے۔ ایک جنگ میں ہی کس قدر بربادی ہو گئی ہے۔ ہمیں زیادہ سے زیادہ خوشی میں اپنی زندگی بسر کرنی چاہئے۔ لوگوں نے پہلے سے سینکڑوں گنا زیادہ ان چیزوں میں دلچسپی لینی شروع کر دی۔ چنانچہ وہی چیزیں جن کو پہلےعیاشی سمجھا جاتا تھا جنگ کےبعد ان کو ضروریات زندگی میں شامل کر لیا گیا اور یہ سمجھ لیا گیا کہ ان کے بغیر خوشی اور آرام حاصل نہیں ہو سکتا۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک قلیل عرصہ کے اندر اندر دوبارہ ایک ہولناک جنگ برپا کر دی۔ چنانچہ پہلی جنگ پر ابھی بیس سال بھی نہیں گزرے تھے کہ یہ جنگ شروع ہو گئی۔ پہلی جنگ اکتوبر 1919ء میں ختم ہوئی تھی اور ستمبر 1939ء میں اب دوسری جنگ شروع ہو گئی۔ گویا 19 سال کے عرصہ کے اندر اندر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو بتا دیا کہ اس طریق ِزندگی کا نتیجہ کیا ہو سکتا ہے۔ یہ امن کی جھوٹی تحریک جو دنیا میں جاری کی گئی تھی۔ یہ عیاشی کی جھوٹی تحریک جو دنیا میں جاری کی گئی تھی۔ انیس سال بھی دنیا میں امن قائم نہ کر سکی اور پھر ساری دنیا ایک بہت بڑی جنگ میں مبتلا ہو گئی۔ خوشی اور امن حاصل کرنے کی پہلی تحریکیں بھی ناقص تھیں مگر پھر بھی ان میں سے کوئی تحریک پچاس سال تک چلی اور کوئی ساٹھ سال تک چلی مگر یہ تحریک انیس سال بھی نہ جا سکی اور اب دنیا ایک ایسی جنگ میں سے گزر رہی ہے کہ پہلی جنگ اس کے مقابلہ میں بالکل بچوں کا کھیل نظر آتی ہے۔ جیسے پہلے غلیلوں سے لڑائی کی جاتی تھی اورپھر رائفلوں سے جنگ شروع ہو گئی۔ ویسا ہی فرق 1919ء اور 1939ء کی جنگ میں ہے۔ وہ جنگ اس کے مقابلہ میں بالکل ایسی نظر آتی ہے جیسے غلیلوں کی لڑائی ہوتی ہے۔ جتنے بم اس وقت ایک سال میں گرائے جاتے تھے اتنے بم اس جنگ میں بعض دفعہ ایک دن میں ایک جگہ پر گرا دئیے جاتے ہیں۔ جس گولہ باری پر پہلی جنگ میں مہینوں لگ جاتے تھے اور مہینوں کے بعد گولہ باری کی وجہ سے راستہ ملنا ناممکن ہوتا تھا۔ اب موجودہ جنگ میں چند گھنٹوں کے اندر اندر اتنی گولہ باری کر دی جاتی ہے کہ چاروں طرف رستے بند ہو جاتے ہیں اور لاشوں اور ٹوٹی پھوٹی عمارتوں کے سوا اَور کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ پھر کُجا تو وہ دن تھا کہ ہوائی جہاز میں دو یا تین آدمی بیٹھ سکتےتھے اور اگر ایک ہوائی جہاز اڑانے والا ہوتا تھا تو وہ اپنےساتھ صرف پانچ من گولوں کا بوجھ لے کر ایک مقام سے دوسرے مقام تک جا سکتا تھا اور کُجا یہ دن ہے کہ آج دس دس بیس بیس ہزار پونڈ کے گولے ایک ہوائی جہاز اٹھالیتا ہے اور ایک ایک ہوائی حملہ میں چار چار ہزار ٹن یعنی سوا لاکھ من کے بم ایک شہر پر پھینک دیئے جاتے ہیں۔ اس سے تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ یہ جنگ پہلی جنگ کے مقابلہ میں کس قدر تباہ کن اور برباد کرنے والی ہے۔ پھر تم اس جنگ کی ہولناکی کا اس امر سے بھی اندازہ لگا سکتے ہو کہ آج سے پانچ مہینے پہلے جرمنی کے ایک شہر کولون پر بمباری کی گئی تھی۔ ابھی پچھلے دنوں سویڈن کا ایک اخبار نویس وہاں گیا اور اس نے وہاں سے واپس آ کر اخبارات میں شائع کرایا کہ مَیں ابھی ابھی کولون کو دیکھ کر واپس آ رہا ہوں۔ باوجود اس کے کہ پانچ مہینے گزر چکے ہیں ابھی تک کولون کی گلیوں میں سے ملبہ تک اٹھایا نہیں جا سکا اور شہر کی تمام آبادی کو ملک کے مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ پھر وہ لکھتا ہے کولون اس قدر تباہ ہو چکا ہے کہ اب تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ شہر جو کولون ہے بلکہ تمہیں یہ کہنا چاہئے کہ وہ شہر جو کبھی کولون ہؤا کرتا تھا۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں بھی یہی بتایا گیا تھا ‘‘ان شہروں کو دیکھ کر رونا آئے گا’’1 کئی دوست بیان کرتے ہیں ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اس وقت لوگ یہ نہیں کہیں گے کہ فلاں شہر ہے بلکہ یہ کہیں گے کہ فلاں شہر ہؤا کرتا تھا۔ بعینہٖ یہی الفاظ اس اخبار نویس نے لکھے ہیں۔ بعض راویوں نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے لاہور کا نام لیا اور فرمایا مثلًا لاہور ہے۔2 لوگ یہ نہیں کہیں گے کہ لاہور شہر ہے بلکہ یہ کہیں گے لاہور جو کبھی شہر ہؤا کرتا تھا ۔ کولون لاہور سے بڑا ہی ہے چھوٹا نہیں مگر وہ اخبار نویس لکھتا ہے کولون اب ایسی حالت میں ہے کہ تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کولون ہے بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ کولون جو کبھی شہر ہؤ اکرتا تھا حالانکہ اس پر صرف چند گھنٹے بمباری ہوئی تھی مگر چند گھنٹوں میں ہی وہ شہر مٹی کا ڈھیر بن گیا۔ تم جانتے ہو کہ اگر ایک گولی بھی کہیں سے گزر جاتی ہے تو کس طرح سن سن کی آواز اس سے پیدا ہوتی ہے حالانکہ وہ صرف اڑھائی تین تولے کی ہوتی ہے لیکن اس جنگ میں سوا سوا لاکھ من بارود بعض دفعہ چند گھنٹوں میں ایک شہر پر پھینک دیا جاتا ہے اور وہ اس طرح برباد ہو جاتا ہے کہ لوگ یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں شہر ہے بلکہ انہیں کہنا پڑتا ہے کہ فلاں شہر جو کبھی ہؤا کرتا تھا۔ تو آج دنیا میں ایسے خطرناک حالات پیدا ہو چکے ہیں کہ اس جنگ کے مقابلہ میں پہلی جنگ کی کوئی نسبت ہی نہیں رہی۔
پس مَیں سمجھتا ہوں اس جنگ کا نتیجہ یہ نہیں ہو گا کہ مذہب سے لوگ اور زیادہ بیزار ہو جائیں بلکہ اس جنگ کے نتیجہ میں مذہب سے لگاؤ اور انس پیدا ہو جائے گا اورلامذہبیت جو لوگوں کے قلوب میں پائی جاتی ہے وہ جاتی رہے گی چنانچہ ابھی سے اس قسم کی آوازیں اٹھنی شروع ہو گئی ہیں کہ یہ خمیازہ درحقیقت مذہب سے دور ہو جانے کا ہے۔ گو یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس چیز کو وہ لوگ مذہب سمجھتے ہیں وہ اور ہے اور جس چیز کو ہم مذہب سمجھتے ہیں وہ اَور ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مذہب خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری کا نام ہے مگر وہ سمجھتے ہیں کہ کسی نظام کی خواہ وہ اخلاقی نظام ہی کیوں نہ ہو فرمانبرداری کرنا مذہب ہے۔ گویا ہم خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری کا نام مذہب رکھتے ہیں اوروہ کسی اخلاقی نظام کی فرمانبرداری کا نام مذہب رکھتے ہیں اور چونکہ ہر اخلاقی نظام خدا تعالیٰ کی طرف منسوب ہونا ضروری نہیں اس لئے وہ اپنی قوم کی ترقی کے لئے جو بات بھی ضروری سمجھتے ہیں اسے وہ اس نظام میں شامل کر لیتے ہیں۔ ابھی مولوی جلال الدین صاحب شمس کا تار آیا ہے کہ انگلستان کے بڑے بڑے پادریوں نے فیصلہ کیا ہے کہ انجیل میں تو کہا گیا ہے کہ عورت کو ننگے سر گرجا میں نہیں جانا چاہئے۔3 ہم اس کے باوجود یہ حکم دیتے ہیں کہ اگر عورتیں گرجا میں ننگے سر آ جائیں تو یہ کوئی اعتراض کی بات نہیں ہو سکتی۔ پادریوں کا یہ فیصلہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے مشہور ہے کہ کسی پٹھان نے ایک دفعہ حدیث میں پڑھا کہ رسول کریم ﷺ ایک دفعہ نماز پڑھ رہے تھے کہ اسی حالت میں کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا اور آپ نے نماز میں ہی تھوڑا سا ہل کر دروازہ کھول دیا یا یہ حدیث تھی کہ آپ نے نماز میں حضرت حسن کو گود میں اٹھا لیا اور سجدہ کے وقت اتار دیا۔ یہ ایک اسلامی مسئلہ ہے اور اسلام نے اس بات کو جائز قرار دیا ہے کہ ضرورت کے وقت انسان نماز کے وقت بچہ کو اٹھا یا رکھ سکتا ہے یا اشد ضرورت پر قبلہ کی طرف مُنہ رکھتے ہوئے دروازہ کھول سکتا ہے۔ اسی طرح سانپ یا بچھو نکل آئے تو نماز کی حالت میں ہی اس کو مار ڈالنا جائز ہے مگر فقہاء نے یہ لکھاہے کہ نماز کی حالت میں اگر تھوڑی سی حرکت بھی کی جائے تو وہ ناجائز ہوتی ہے حالانکہ فقہاء کی مراد اس سے یہ تھی کہ وہ حرکت جو بلا وجہ ہو حالت نماز میں جائز نہیں ہوتی۔ یہ مطلب نہیں تھا کہ ضرورت پر بھی نماز میں حرکت کرنی جائز نہیں۔ پٹھانوں نے چونکہ کنز ٭بہت پڑھی ہوئی ہوتی ہے اور وہ انہیں حفظ ہوتی ہے اس لئے یہ مسئلہ اس پٹھان کو خوب یاد تھا ۔ ایک دن وہ حدیث پڑھ رہا تھا کہ اس میں یہ ذکر آ گیا کہ رسول کریم ﷺ نے حالت نماز میں دروازہ کھول دیا۔ یا یہ ذکر تھا کہ رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ نماز کی حالت میں ہی حضرت امام حسنؓ یا حضرت امام حسینؓ کو اٹھا لیا ۔ جس وقت آپ سجدہ کے لئے جاتے تو انہیں اتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو پھر انہیں اٹھا لیتے۔ 4 جونہی اس نے آپ کی اس حرکت کا حدیث میں ذکر پڑھا تو وہ کہنے لگا خو محمد صاحب کا نماز ٹوٹ گیا۔ کنز میں لکھا ہے آج ہم اس بات پر ہنستے ہیں اور واقع میں یہ ہنسی کے قابل بات ہے کیونکہ مذہب کو خدا نے نازل کیا اور محمد ﷺ نے اس کے احکام کی اپنے عمل سے تفسیر و توضیح کی یا ان کو علم لدنی عطا فرما کر حکم دیا کہ وہ مذہبی احکام کی تشریح لوگوں کے سامنے کر دیں۔ کنز والا تو آپ کی جوتیاں اٹھانے والا اور آپ کی باتوں کا کاتب تھا اور کاتب فیصلہ نہیں کیا کرتا بلکہ مضمون لکھنے والے کا کام ہوتا ہے کہ وہ مسائل کے متعلق فیصلہ کرے۔ کنز والے کی ساری عزت اس بات میں تھی کہ محمد ﷺ نے جو کچھ فرمایا اس کی صحیح صحیح تشریح لوگوں تک پہنچا دے۔ اسی طرح حدیثیں جمع کرنے والوں کی
٭ کنز الدقائق
ساری عزت اس بات میں تھی کہ جو کچھ رسول کریم ﷺ کے متعلق انہیں معلوم ہؤا ہے۔ اسے صحیح صحیح لوگوں تک پہنچا دیں۔ پس یہ کہنا کہ کنز میں چونکہ فلاں بات لکھی ہے اس لئے محمد ﷺ کا عمل نَعُوْذُ بِاللہ باطل ہو گیا، بالکل لغو بات ہے اور ویسی ہی لغو بات ان لاٹ پادریوں کی ہے کہ گو انجیل میں یہ لکھا ہے کہ عورت کو گرجا میں ننگے سر نہیں آنا چاہئے مگر ہم جو لاٹ پادری ہیں حکم دیتے ہیں کہ عورتیں ننگے سر بھی گرجا میں آ سکتی ہیں۔ ایسے لوگوں سے کیا تعجب ہے کہ کل کو وہ یہ کہہ دیں کہ گو خدا نے فلاں حکم دیا ہے مگر ہم جو لاٹ پادری ہیں حکم دیتے ہیں کہ اس کی خلاف ورزی میں کوئی حرج نہیں۔ بہرحال اس سے اتنی بات ضرور معلوم ہوتی ہے کہ ان میں مذہب کی طرف توجہ پیدا ہو رہی ہے۔ عورتوں نے کہا ہو گا کہ ہمیں مذہب سے دلچسپی ہے اور ہم گرجا میں جانا چاہتی ہیں مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم سر ڈھانک کر جائیں۔ انہوں نے کہا بہت اچھا ۔ تم گرجا میں آ جایا کرو، سر بےشک نہ ڈھانکو مگر یہ سلسلہ نہایت خطرناک ہے۔ ممکن ہے کل وہ کہہ دیں کہ ہم گرجا میں تو آنا چاہتی ہیں مگر اپنی چھاتی ننگی رکھیں گی یا بعض کہہ دیں کہ ہم گھٹنوں تک اپنے جسم کو ننگا رکھنا چاہتی ہیں یا بعض کہہ دیں کہ ہم ایسا لباس پہن کر آنا چاہتی ہیں جس سے ہمارا تمام جسم لوگوں کو نظر آئے۔ اس پر وہ لاٹ پادری پھر یہی کہہ دیں گے کہ بہت اچھا۔ یہی سہی۔ انجیل میں بےشک اس کے خلاف لکھا ہے مگر ہم جو لاٹ پادری ہیں فیصلہ کرتے ہیں کہ عورتیں اپنی چھاتی کو ننگا رکھ کر یا گھٹنوں تک ٹانگوں کو ننگا رکھ کر یا ایسا لباس پہن کر جس سے تمام جسم نظر آئے گرجا میں آ سکتی ہیں۔
پس یہ بات ہے تو بالکل لغو اورہنسی کے قابل مگر بہرحال اس سے اتنا پتہ ضرور چلتا ہے کہ عیسائی عورتوں کے دلوں میں گرجاجانے کی تحریک زور پکڑ رہی ہے اور اللہ تعالیٰ نے دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے سامان پیدا کرنے شروع کر دئیے ہیں اورجب لوگوں کے دلوں میں یہ احساس پیدا ہو جائے کہ انہیں مذہب اور اخلاق کی طرف توجہ کرنی چاہئے تو اس وقت ان کے کانوں تک مذہبی باتیں پہنچانا بہت آسان ہوتا ہے۔فرض کرو ہمارے پاس کوئی اخلاق کی کتاب ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ لوگ اسے پڑھیں اور اس کی باتوں پر عمل کریں تو ہم ہر دروازہ پر جائیں گے، اسے کھٹکھٹائیں گے اور لوگوں سے کہیں گے کہ یہ اخلاق کے متعلق ایک مفید کتاب ہے۔ اسے آپ پڑھیں اور اس پر عمل کریں لیکن اگر لوگوں کو اخلاق کی طرف توجہ نہیں تو نتیجہ یہ ہو گا کہ ہم جب دروازوں پر دستک دیں گے اور لوگ باہر آئیں گے تو وہ کہیں گے نہیں اس کتاب کی ضرورت نہیں اور ہم ناکام واپس آ جائیں گے۔ ایسی صورت میں ہماری کوشش کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا اور اگر ہم ہر شخص کو بتانے لگیں کہ اخلاق کی کیا ضرورت ہے تو یہ اتنا لمبا کام ہو گا جس کا ختم کرنا آسان نہیں ہو گا لیکن فرض کرو۔ لوگوں کے قلوب کی یہ حالت ہے کہ وہ اخلاق کی طرف متوجہ ہیں اور اخلاق کی اہمیت اور اس کی ضرورت کو سمجھتے ہیں تو ایسی حالت میں خواہ کوئی ہندو اخلاق کی کتاب لے جائے، خواہ کوئی سکھ اخلاق کی کتاب لے جائے، وہ کوئی نہ کوئی صفحہ نکال کر پڑھ لیں گے اور اس طرح لوگوں تک اپنے خیالات کے پہنچانے میں آسانی پیدا ہو جائے گی۔ اس وقت دنیا کی یہی حالت ہے۔ وہ یورپ جو اخلاق کی طرف توجہ کرنے کے لئے تیار نہیں تھا اس کے کانوں تک اپنے خیالات کا پہنچانا ہمارے لئے سخت مشکل تھا مگر وہ یورپ جو اخلاق کی طرف توجہ کرنے کے لئے تیار ہے۔ اس یورپ تک ہم اپنے خیالات کو آسانی کےساتھ پہنچا سکتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ یورپ پہلے یورپ سے مختلف ہو گا۔ پہلا یورپ ہماری باتوں کو سنتا او رپھر ہماری پیٹھ پر تھپکی دے کر کہتا تھا کہ تمہاری باتیں بہت اچھی ہیں مگر جب ہم واپس آ جاتے تھے تو وہ کہتا تھا یہ بے وقوف لوگ ہیں جو اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ مگر یہ یورپ ہماری پیٹھ پر تھپکی نہیں دے گا بلکہ وہ ہماری باتوں کو سنے گا، سنجیدگی سے سنے گا اور پھر ہمارے مُنہ پر تھپڑ مار کر کہے گا کہ مَیں عیسائی ہوں۔ کیا تم مجھے عیسائیت کے عقائد سے منحرف کرنے کے لئے آئے ہو۔ مَیں تمہارے فریب میں نہیں آ سکتا۔ جب تک اس قسم کا تھپڑ مارنے والا یورپ پیدا نہ ہو جائے۔ اس وقت تک نہ انہیں مذہب کی طرف توجہ پیدا ہو سکتی ہے اورنہ ہم اپنی مذہبی باتیں ان سے منوا سکتے ہیں۔ ہمیں وہ تھپکیاں منظور نہیں جو لا مذہب یورپ ہمیں دیتا تھا۔ ہمیں وہ تھپڑ منظور ہیں جو ایسے انسان کی طرف سے ہوں گے جو مذہب کی اہمیت کو سمجھنے لگا ہے اور خدا تعالیٰ تک پہنچنے کی خواہش اس کے دل میں پیدا ہو گئی ہے۔ پھر ان میں سے بھی لاکھوں ایسے ہوں گے جو کہیں گے کہ ہم خدا کو تو مانتے ہیں مگر ہم نے ابھی یہ فیصلہ نہیں کیا کہ ہم کون سے مذہب کو اختیار کریں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی تختیاں صاف ہوں گی اور ایسے ہی لوگوں کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام فرمایا کرتے تھے کہ جن لوگوں کے دل کی تختیاں صاف ہوں ان پر لکھنا آسان ہوتا ہے۔ ایسے لوگ جو لاکھوں کی تعداد میں ہوں گے جن کے دلوں میں خدا تعالیٰ تک پہنچنے کی خواہش تو ہو گی مگر انہوں نے یہ فیصلہ نہیں کیا ہو گا کہ وہ کون سے مذہب کو اختیار کریں۔ وہ بھی ہمارے لئے بہت مفید ثابت ہوں گے۔ غرض ان تمام لوگوں تک پہنچنے کے لئے ہمیں آدمیوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں روپیہ کی ضرورت ہے، ہمیں عزم اور استقلال کی ضرورت ہے اور ہمیں ان دعاؤں کی ضرورت ہے جو خدا تعالیٰ کے عرش کو ہلا دیں اور انہی چیزوں کے مجموعہ کا نام تحریک جدید ہے۔ تحریک جدید کو اس لئے جاری کیا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ ہمارے پاس ایسی رقم جمع ہو جائے جس سے خدا تعالیٰ کے نام کو دنیا کے کناروں تک آسانی اور سہولت سے پہنچا دیا جائے۔ تحریک جدید کو اس لئے جاری کیا گیا ہے تاکہ کچھ افراد ایسے میسر آ جائیں جو اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت کے لئے وقف کر دیں اور اپنی عمریں اسی کام میں لگا دیں۔ تحریک جدید کو اس لئے جاری کیا گیا ہے تاکہ وہ عزم اور استقلال ہماری جماعت میں پیدا ہو جو کام کرنے والی جماعتوں کے اندر پایا جانا ضروری ہوتا ہے۔ چنانچہ ہاتھ سے کام کرنے کی نصیحت، سینما سے بچنے کی نصیحت اور سادہ زندگی اختیار کرنے کی نصیحت اسی لئے کی گئی ہے کہ کوئی شخص بڑے کام نہیں کر سکتا۔ جب تک بڑے کاموں کی صلاحیت اس میں پیدا نہ ہو اور بڑے کاموں کی صلاحیت اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتی جب تک انسان تکلیفیں برداشت کرنے کا عادی نہ بن جائے۔ جب تک جماعت کے افراد ایک حد تک تکلیفیں برداشت کرنے کے عادی نہیں ہوں گے اس وقت تک وہ کسی بڑی قربانی کے لئے تیار نہیں ہو سکتے۔ ہر اونچی سیڑھی پر چڑھنے کے لئے پہلے نیچی سیڑھی پر قدم رکھنا ضروری ہوتا ہے اور جب تک کوئی شخص نیچے کی سیڑھی پر قدم نہیں رکھتا اس وقت تک وہ بلندی پر نہیں پہنچ سکتا۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ تم میں سے ہر شخص کو یورپ جانا پڑے گا، مَیں یہ نہیں کہتا کہ تم میں سے ہر شخص کو امریکہ جانا پڑے گا، مَیں یہ نہیں کہتا کہ تم میں سے ہر شخص کو جاپان جانا پڑے گا، مَیں یہ نہیں کہتا کہ مَیں تم میں سے ہر شخص کو کہوں گا کہ وہ ایسا کرے مگر آخر یورپ اور امریکہ اور جاپان کچھ نہ کچھ آدمی ضرور بھیجنے پڑیں گے اور انہیں اپنی ساری زندگی اس غرض کے لئے وقف کرنی پڑے گی مگر وہ اپنے ماحول کو نہیں بدل سکتے۔ تم یہ تو کر سکتے ہو کہ سنگترے کی شاخ پر مالٹے کا پیوند لگا دو یا کھٹے کی شاخ پر مالٹے کا پیوند لگا دو مگر تم یہ نہیں کر سکتے کہ تم آم کی شاخ پر مالٹے کا پیوند لگا دویا مالٹے کی شاخ پر آم کا پیوند لگا دو۔ اسی طرح تم یہ تو کر سکتے ہو کہ باقی ساری جماعت تھوڑی قربانی کر رہی ہو اور کچھ لوگ ایسے ہو رہے ہوں جو زیادہ قربانی کر رہے ہوں مگر تم یہ نہیں کر سکتے کہ باقی ساری جماعت عیش کر رہی ہو اور چند لوگ انتہا درجہ کی قربانی کر رہے ہوں۔ اگر تم ایسا خیال کرو تو یہ ایسی ہی بات ہو گی جیسے کوئی کھٹے پر آم کا پیوند لگا دے یا آم پر مالٹے کا پیوند لگا دے۔ اگر ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ دنیا میں کچھ لوگ ایسے پیدا ہوں جو ہمارے حکم پر آگ میں کودنے کے لئے تیار ہوں تو ہمیں اپنی تمام جماعت کو تنور کے پاس لا کر بٹھا دینا پڑے گا ۔ اگر ساری جماعت تنور کے پاس بیٹھی ہوئی ہو اور اس کی گرمی اسے جھلس رہی ہو تو چند لوگ ایسے بھی پیدا ہو سکتے ہیں جو اس تنور میں کود پڑیں اور حکم ملنے پر آگ میں چھلانگ لگا دیں۔ مگر تم یہ نہیں کر سکتے کہ باقی ساری جماعت تو باغ میں آرام کر رہی ہو اور کچھ لوگ آگ میں کود جانے کے لئےتیار ہوں۔ مَیں یہ مانتا ہوں کہ تم سب کو یہ نہیں کہا جائے گا کہ وہ تنور میں کود جائیں مگر تم میں سے بعض کو آگ میں کُودنے پر تیار کرنے کے لئے ضروری ہے کہ تم سب کو تنور کے اردگرد لا کر بٹھا دیا جائے کیونکہ اگر ہم نے بعض سے تنور میں چھلانگ لگوانی ہے۔ اگر ہم بعض سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ ہمارے حکم پر آگ میں کُود جائیں گے تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم سب کو تنور کے پاس لا کر بٹھا دیں اور اس بات کی ذرا بھی پروا نہ کریں کہ تنور کی گرمی ان کے جسم کو پہنچتی ہے۔ پس جہاں تحریک جدید کی غرض جماعت کے اندر سادہ زندگی کی روح پیدا کرنا اور اسلامی تمدن کا صحیح شعور پیدا کرنا ہے۔ وہاں تحریک جدید کی ایک اہم ترین غرض یہ بھی ہے کہ سب لوگوں کو تنور کے پاس لا کر بٹھا دیا جائے تاکہ ضرورت پر اس میں ایسے لوگ پیدا ہوتے چلے جائیں جو حکم کے ملتے ہی اس تنور میں کود جائیں اور اپنی جان کو سلسلہ اور اسلام کے لئے قربان کر دیں۔ اگر سب لوگ تنور کے اردگرد نہیں بیٹھیں گے تو چند لوگ بھی تنور میں کودنے کے لئے میسر نہیں آ سکیں گے۔ یہ خدائی قانون ہے جو قوم کی ترقی کی حالت میں بھی جاری رہتا ہے اور اس کے زوال کی حالت میں بھی جاری رہتا ہے۔ خوشی میں بھی جاری رہتا ہے اور غمی میں بھی جاری رہتا ہے کہ جب لوگ کسی کو کوئی بڑا کام کرتا دیکھتے ہیں تو انہیں اس سے انس پیدا ہو جاتا ہے اور اس وقت ان کےد لوں میں ایسا جوش پیدا ہوتا ہے کہ ان کی کمزوریاں چھپ جاتی ہیں ، ان کی بے استقلالی جاتی رہتی ہے اور وہ بھی بڑے سے بڑے کام کرنے کے لئےتیار ہو جاتے ہیں۔ تم اگر گھروں پر جاؤ اور لوگوں کو ان کے مکانوں سے نکال کر کہو کہ فلاں جگہ ایک شخص ڈوب رہا ہے اسے چل کر بچاؤ تو تم کئی تیرنے والوں کو بھی اس کی جان بچانے کے لئے آمادہ نہیں کر سکو گے۔ لیکن تالاب یا نہر یا دریا پر جو لوگ کھڑے ہوں اور اپنی آنکھوں سے کسی کو ڈوبتا دیکھ رہے ہوں ان میں سے ایسے لوگ بھی دوسرے کو بچانے کے لئے دریا میں چھلانگ لگا دیتے ہیں جو خود تیرنا نہیں جانتے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو تیرنا نہیں جانتے تھے مگر جب انہوں نے دیکھا کہ کوئی شخص ڈوبنے لگا ہے تو یکدم ان کی طبیعت میں ایسا جوش پیدا ہؤا کہ وہ بھی کود گئے اور انہوں نے اپنی جان کی پرواہ نہ کی کیونکہ انہوں نےاپنی آنکھوں سے ایک نظارہ دیکھا اور ان کے لئے یہ برداشت کرنا مشکل ہو گیا کہ وہ تو کنارے پر کھڑے رہیں اور کوئی اَور شخص ان کے دیکھتے دیکھتے ڈوب جائے۔ مَیں سمجھتا ہوں تم میں سے بھی ہر شخص نے اس قسم کے نظارے دیکھے ہوں گے۔ اسی طرح مَیں نے دیکھا ہے بعض دفعہ ایک جگہ آگ لگی ہوئی ہوتی ہے مگر ایک اَور شخص اس آگ میں بے دھڑک کود جاتا ہے اور یہ خیال کرتا ہے کہ مَیں کچھ نہ کچھ سامان نکال کر لے آؤں گا حالانکہ اگر کسی دوسرے گاؤں سے لوگوں کو مدد کے لئے بلایا جائے اور یہ کہا جائے کہ فلاں جگہ آگ لگی ہوئی ہے، اسے چل کر بجھاؤ تو کئی لوگ بہانے بنانے لگ جائیں گے۔ کوئی کہے گا میرے سر میں درد ہے اور کوئی کہے گا میرے پیٹ میں درد ہے لیکن جو لوگ آگ کے کنارے کھڑے ہوں وہ برداشت نہیں کر سکتے اور ان میں سے کئی آگ میں کود جاتے ہیں۔ تو تحریک جدید سے میری غرض جماعت میں صرف سادہ زندگی کی عادت پیدا کرنا نہیں بلکہ میری غرض انہیں قربانیوں کے تنور کے پاس کھڑا کرنا ہے تاکہ جب ان کی آنکھوں کے سامنے بعض لوگ اس آگ میں کود جائیں تو ان کے دلوں میں بھی آگ میں کودنے کے لئے جوش پیدا ہو اور وہ بھی اس جوش سے کام لے کر آگ میں کود جائیں اور اپنی جانوں کو اسلام اور احمدیت کے لئے قربان کر دیں۔ اگر ہم اپنی جماعت کے لوگوں کو اس بات کی اجازت دے دیتے کہ وہ باغوں میں آرام سے بیٹھے رہیں تو وہ گرمی میں کام کرنے پر آمادہ نہیں ہو سکتے اور بزدلوں کی طرح پیچھے ہٹ کر بیٹھ جاتے۔ مگر اب جماعت کے تمام افراد کو قربانیوں کے تنور کے قریب کھڑا کر دیا گیا ہے تاکہ جب ان سے قربانیوں کا مطالبہ کیا جائے تو وہ اپنی جان کو قربان کرتے ہوئے آگ میں کود جائیں۔ چنانچہ جب قربانی کا وقت آئے گا اس وقت یہ سوال نہیں رہے گا کہ کوئی مبلغ کب واپس آئے گا۔ اس وقت واپسی کا سوال بالکل عبث ہو گا۔ دیکھ لو عیسائیوں نے جب تبلیغ کی تو اسی رنگ میں کی۔ تاریخوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب کوئی حواری یا کوئی اَور شخص کسی علاقہ میں تبلیغ کے لئے گیا تو پھر یہ نہیں ہؤا کہ وہ واپس آ گیا ہو بلکہ ہم تاریخوں میں یہی پڑھتے ہیں کہ فلاں مبلّغ کو فلاں جگہ پھانسی دے دی گئی اور فلاں مبلّغ کو فلاں جگہ قید کر دیا گیا۔
ہمارے دوست اس بات پر خوش ہؤا کرتے ہیں کہ صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید نے سلسلہ کے لئے اپنی جان کو قربان کر دیا حالانکہ ایک عبداللطیف نہیں جماعت کو زندہ کرنے کے لئے سینکڑوں عبد اللطیف درکار ہیں جو مختلف ملکوں میں جائیں اور اپنی اپنی جانیں اسلام اور احمدیت کے لئے قربان کر دیں۔ جب تک ہر ملک اور ہر علاقہ میں عبد اللطیف پیدا نہیں ہو جاتے اُس وقت تک احمدیت کا رعب قائم نہیں ہو سکتا۔ احمدیت کا رعب اُسی وقت قائم ہو سکتا ہے جب سب لوگوں کو گھروں سے نکال کر ایک میدان میں قربانی کی آگ کے قریب کھڑا کر دیا جائے تا جب پہلی قربانی دینے والے قربانی دیں تو ان کو دیکھ کردوسرے خود بخود آگ میں کُودنا شروع کر دیں اور اسی ماحول کو پیدا کرنے کے لئے مَیں نے تحریک جدید جاری کی ہے۔ مَیں نے کہا ہے کہ مَیں نے تحریک جدید جاری کی مگر یہ درست نہیں۔ میرے ذہن میں یہ تحریک بالکل نہیں تھی اچانک میرے دل پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ تحریک نازل ہوئی۔ پس بغیر اس کے کہ مَیں کسی قسم کی غلط بیانی کا ارتکاب کروں مَیں کہہ سکتا ہوں کہ وہ تحریک جدید جو خدا نے جاری کی ۔ میرے ذہن میں یہ تحریک پہلے نہیں تھی ، مَیں بالکل خالی الذہن تھا اچانک اللہ تعالیٰ نے یہ سکیم میرے دل پر نازل کی اور مَیں نےاسے جماعت کے سامنے پیش کر دیا۔ پس یہ میری تحریک نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی نازل کردہ تحریک ہے ۔ اس تحریک کی غرض مَیں نے بتا دی ہے اور یہ بھی بتا دیا ہے کہ اس کے لئے مسلسل قربانی اور ایثار کی ضرورت ہے۔ اسی طرح اس تحریک کے لئے قربانی کرنے والوں کا وجود ضروری ہے۔ قربانی کے لئے مناسب ماحول ضروری ہے اور کاموں کی سر انجام دہی کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے۔ اسی طرح چوتھی چیز دعا ہے۔ یہ بھی اس تحریک کی تکمیل کے لئے ضروری ہے۔ چنانچہ جماعت کے کچھ حصہ کے ذمہ روپیہ جمع کرنا لگا دیا گیا ہے اور کچھ حصہ کے لئے دعائیں کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ اس تحریک میں کم سے کم پانچ روپیہ دینے کی شرط رکھ کر باقی جماعت کو الگ کر دیا گیا ہے۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ اس میں ایک عظیم الشان فائدہ مخفی تھا ۔ اگر پانچ، دس، سَو یا ہزار کی رقم مقرر نہ کی جاتی تو مالدار کبھی اتنی قربانی نہ کرتے جتنی آج کر رہے ہیں۔ جو لوگ آج تحریک جدید میں پانچ روپیہ چندہ دے رہے ہیں وہ ایک ایک اور دو دو روپیہ دے کر دل میں اس بات پر خوش ہو جاتے کہ انہوں نے تحریک جدید میں حصہ لے لیا ہے اور وہ لوگ جو آج دس دس روپے دے رہے ہیں، چھ چھ روپے دے کر سمجھ لیتے کہ وہ تحریک جدید میں شامل ہو گئے ہیں اور ایک ایک ہزار دینے والے سَو سَو دے کر سمجھ لیتے کہ وہ اس ثواب میں شریک ہو گئے ہیں چنانچہ اس کا ثبوت اسی سے ملتا ہے کہ ابھی چند دن ہوئے مَیں نے تبلیغ خاص کے نام سے ایک تحریک کی ہے اور مَیں نے کہا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک پیسہ بھی دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔ اس تحریک کے متعلق میرے پاس شکایت آئی ہے کہ اس میں لوگوں کی طرف سے چندہ کم آ رہا ہے۔ اگر کوئی رقم معیّن کر دی جاتی تو اس قدر کم چندہ نہ آتا حالانکہ وہ یہ نہیں جانتے کہ اس تحریک سے میری غرض اَور ہے اور تحریک جدید سے میری غرض اَور ہے۔ یہاں میری غرض صرف اتنی تھی کہ ہر شخص اپنے اپنے اخلاص کے مطابق اس تحریک میں حصہ لے۔ چنانچہ اس عام اجازت سے مجھے اندازہ ہو گیا ۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ اس چندہ میں تعداد کے لحاظ سے یوپی،بہار اور حیدر آبادنے بہت زیادہ حصہ لیا ہے مگر پنجاب نے بہت کم حصہ لیا ہے۔ بعض بڑے بڑے شہروں نے تو بالکل حصہ لیا ہی نہیں مثلاً لاہور ہے اس کے گیارہ حلقوں میں سے صرف دو حلقوں نے اس میں حصہ لیا ہے۔ امرتسر میں سے غالباً کسی نے بھی حصہ نہیں لیا۔ اسی طرح پنجاب کے اَور بعض شہر ایسے ہیں جن کی طرف سے کوئی وعدہ نہیں آیا۔ اس کے مقابلہ میں یوپی میں وہ آدمی جو صرف چار یا پانچ روپیہ چندہ دیا کرتے ہیں ان میں سے کسی نے سو روپیہ چندہ دیا ہے، کسی نے ڈیڑھ سو روپیہ چندہ دیا ہے اور کسی نے اڑھائی سو روپیہ چندہ دیا ہے۔ اس سے مجھے یہ اندازہ لگانے کا موقع مل گیا ہے کہ وہ لوگ کس قسم کی تکلیفوں میں مبتلا ہیں اور ان علاقوں کے لوگوں کے اندر کس قدر یہ احساس پایا جاتا ہے کہ جماعت ترقی کرے۔ پس اس تحریک کے ذریعہ ان علاقوں کے لوگوں کی تکالیف کا مجھے احساس ہو گیا۔ پنجاب میں چونکہ ہماری جماعت کثرت سے ہے اس لئے تبلیغ کا جوش لوگوں میں کم ہے۔ جماعتیں بالعموم بڑی بڑی ہیں اور پھر قریب قریب ہیں۔ اس لئے انہیں کوئی دکھ نہیں دیتا اور وہ اپنے آپ کو امن میں خیال کر کے تبلیغ سے غافل ہو گئے ہیں۔ پس اس تحریک کا یہ فائدہ ہؤا کہ مجھے بعض علاقوں کے لوگوں کی تکالیف کا احساس ہو گیا ۔ اگر مَیں اس تحریک میں مثلاً سو روپیہ کی رقم معیّن کر دیتا اور کہتا کہ اس سے کم رقم دینے کی کسی کو اجازت نہیں تو مجھے کس طرح پتہ لگتا کہ کون کون سے علاقوں میں لوگوں کو زیادہ تکلیف ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کی جماعتوں میں ترقی ہو۔ اب اس طریق سے ایک طرف تو مجھے یہ معلوم ہو گیا کہ پنجاب میں تبلیغ کا جوش کم ہے۔ سوائے چند جماعتوں کے اور دوسری طرف یہ بھی معلوم ہو گیا کہ یو۔پی، بہار اور حیدر آباد کی احمدی جماعتیں تکلیف میں ہیں اور انہیں اس بات کا احساس ہے کہ جماعت ترقی کرے۔ اس کے مقابلہ میں تحریک جدید سے میری غرض یہ تھی کہ اس میں مالدار لوگ زیادہ حصہ لیں اور جو مالدار نہیں وہ اس میں مالی حصہ نہ لیں۔ ہاں مَیں نے یہ کہہ دیا کہ جن کے پاس اس قدر روپیہ نہیں کہ وہ اس تحریک میں حصہ لے سکے وہ بھی اس تحریک میں حصہ لے سکتا ہے بشرطیکہ وہ تحریک جدید کی کامیابی اور احمدیت کی ترقی کے لئے باقاعدہ دعائیں کرے۔ اگر مَیں یہ شرط نہ کرتا تو ایک غریب آدمی دھیلہ یا پیسہ دے کر بھی تحریک جدید میں شامل ہو جاتا مگر اب وہ مجبور ہے کہ باقاعدہ دعائیں کرے تا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور وہ بھی تحریک جدید میں حصہ لینے والوں میں سے سمجھا جائے اورمَیں جانتا ہوں ہماری جماعت میں سینکڑوں لوگ ایسے ہیں کہ جب مَیں دعا کی تحریک کرتا ہوں تو وہ اس کے بعد مہینوں باقاعدہ دعا میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ ان کا اس دعا میں شامل ہونا کیا روپیہ دینے سے کم ہے۔ اگر یہ اجازت دے دی جاتی کہ جس قدر جی چاہے دے دو تو کوئی پیسہ دے کر اور کوئی آنہ دے کر سمجھ لیتا کہ وہ بھی تحریک جدید میں شامل ہو گیا ہے مگر اب وہ سب اس بات پر مجبور ہیں کہ دعائیں کریں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں روپیہ دے کر وہ اس تحریک میں شامل نہیں ہو سکے۔ اب ان کے لئے اس تحریک میں شامل ہونے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ وہ کثرت سے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کریں۔ گویا اس طریق سے کام لے کر روپیہ بھی زیادہ مل گیا اور دعائیں بھی زیادہ مل گئیں۔ اس سے زیادہ نفع بخش کام اور کونسا ہو سکتا ہے۔ پس مَیں نے ایک حد بندی مقرر کر کے جماعت کے ایک حصہ کو شمولیت سے محروم نہیں کیا بلکہ مَیں نے اپنے دعاؤں کے خانہ کو بھی بھر لیا اور اپنے روپے کے خانہ کو بھی بھر لیا۔ گویا ایک تحریک سے دونوں کام ہو گئے اور اس طرح چوتھی چیز جو اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے ساتھ تعلق رکھتی تھی وہ بھی ہماری جماعت کو میسر آ گئی۔ غرض جماعت کے اندر وہ روح پیدا کرنا جس کی قربانیوں کے لئے ضرورت ہوتی ہے، قربانی کرنے والے وجودوں کو مہیا کرنا اور خدا تعالیٰ کے فضل کو کھینچنے کے سامان ہونا یہ ساری چیزیں تحریک جدید میں شامل ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کا ہی فضل اور اس کا مخفی الہام تھا جس نے ایسی مکمل تحریک نازل کی ورنہ میرے علم اور میرے ارادہ میں اس قسم کی کوئی مکمل تحریک نہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ہی ہمارے لئے ہر قسم کے سامان بہم پہنچائے اور دوسری طرف سے اس کے فضل سے دنیا میں ایسے تغیرات پیدا ہوئے اور ہو رہے ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ دنیا میں ایک عظیم الشان انقلاب پیدا کرنے کا ہے۔ پس پیشتر اس کے کہ جنگ ختم ہو ہمیں جلد سے جلد اشاعت دین کے لئے ایک مستقل بنیاد قائم کر دینی چاہئے۔ عام طور پر لوگوں کے اندر یہ خیال پایا جاتا ہے کہ دو سال کے اندر اندر جنگ ختم ہو جائے گی۔ میرا اپنا خیال بھی بعض پیشگوئیوں کے مطابق یہی ہے کہ 1944ء میں جنگ ختم ہو جائے گی اور 1944ء میں ہی تحریک جدید ختم ہوتی ہے اور چونکہ بعض دفعہ جزو بھی ساتھ ہی شامل ہوتا ہے اس لئے یہ بھی ممکن ہے کہ 1945ء میں ابھی چند ماہ تک یہ جنگ چلی جائے۔ بہرحال اب یہ جنگ بظاہر دو تین سال میں ختم ہونے والی ہے۔ اگر ہماری جماعت کے دوست اس تحریک میں پورے زور سے حصہ لیں تو یہ سکیم کہ اس روپیہ سے ایک ایسی جائداد پیدا کی جائے جس سے اشاعت اسلام کے مستقل خرچ ہم پورے کر سکیں۔ اس عرصہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے مکمل ہو جائے گی اور درحقیقت پھر بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہے جو اسے نتیجہ خیز بنا سکتا ہے ورنہ کیا جائدادیں دنیا میں تباہ نہیں ہو جاتیں۔ قادیان میں ہی دیکھ لو۔ قادیان کے اردگرد گاؤں کے گاؤں ہمارے باپ دادا کی ملکیت تھے مگر اب ملکیت چھوڑ سکھ ہمارے سخت دشمن ہیں اور گو اب حالات خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھے ہو گئے ہیں مگر ایک زمانہ ایسا گزرا ہے کہ ان گاؤں میں ملکیت چھوڑ ہمارے لئے پانی پینا بھی مشکل تھا۔ تو اگر اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال نہ ہو تو بڑی بڑی جائدادیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ بہرحال ہمارا فرض یہی ہے کہ ہم جس قدر کام کر سکتے ہوں کریں اور باقی کے متعلق اللہ تعالیٰ پر توکل کریں مگر مَیں نے دیکھا ہے کئی لوگ ایسے ہیں جن کو سارا توکل اللہ تعالیٰ کے کاموں کے متعلق ہی سوجھتا ہے۔ گھر کے کاموں کے متعلق نہیں سوجھتا۔ جب خدا تعالیٰ کے دین کے لئے کسی جائداد کا سوال آ جائے تو کہہ دیں گے پتہ نہیں کل کیا ہو جانا ہے جائداد بنا کر کیا کرنا ہے مگر ان کی اپنی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ کہتے ہیں یہ کوٹھڑی بھی بن جائے، وہ پاخانہ بھی تیار ہو جائے۔ گویا انہیں سارا توکل اللہ تعالیٰ کے لئے ہی سوجھتا ہے گھر کے لئے نہیں سوجھتا۔ گھر کے لئے اس شدید گرانی کے ایام میں بھی چیزیں تیار ہوتی چلی جاتی ہیں۔ یہاں آجکل جنگ کی وجہ سے کوئی احمدی بھٹے والا نہیں اور ضرورت پر ہندو بھٹے والے سے اینٹیں خریدی جاتی ہیں۔ مَیں نے دیکھا ہے باوجود شدید گرانی کے عموماً درخواستیں آتی رہتی ہیں کہ شدید ضرورت کے لئے دس ہزار اینٹوں کی ضرورت ہے، خریدنے کی اجازت دی جائے۔ کوئی لکھتا ہے شدید ضرورت کے لئے چالیس ہزار اینٹوں کی ضرورت ہے حالانکہ آجکل 21-22 روپے ہزار اینٹ ملتی ہے مگر پھر بھی لوگ خریدتے چلے جاتے ہیں لیکن جہاں خدا اور اس کے دین کا سوال آ جائے وہاں کہنے لگ جاتے ہیں کہ اس کو جانے دو خبر نہیں کل کیا ہو جائے گا۔ یہ سُستوں کی علامت ہے مومنوں کی نہیں۔ مومن تو کہتا ہے کہ خدا کا کام ہونا چاہئے میرا کام اگر رہتا ہے تو بے شک رہ جائے اور اگر یہ مقام کسی کو حاصل نہیں تو کم سے کم اتنا تو ہونا چاہئے کہ اللہ کا کام بھی انسان کرتا رہے اور اپنا کام بھی کرتا رہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کے مخلصین کو اس امر کی توفیق عطا فرمائی ہے کہ وہ مشکلات کے باوجود اس تحریک میں حصہ لیں اور مَیں دیکھتا ہوں کہ اس تحریک کی برکت کی وجہ سے جماعت کا قدم قربانیوں کے میدان میں پہلے سے بہت زیادہ تیز ہو گیا ہے۔ جب مَیں نے تحریک جدید کو جاری کیا ہے اس وقت متواتر صدر انجمن احمدیہ کے ممبروں نے مجھے کہا کہ یہ تحریک جاری کر کے انجمن کے قرضہ کی ادائیگی کا راستہ بالکل بند کر دیا گیا ہے اور انجمن دیوالیہ ہو جائے گی۔ اب مَیں صدر انجمن احمدیہ کے انہی ممبروں سے پوچھتا ہوں کہ بتاؤ انجمن دیوالیہ ہوئی ہے یا اس کے خزانہ میں پہلے سے زیادہ مال آیا ہے۔ جب مَیں نے یہ تحریک جاری کی ہے اس وقت انجمن پر اڑھائی لاکھ روپیہ قرض تھا مگر اب صرف پینتیس ہزار کے قریب قرض رہ گیا ہے۔ دو لاکھ کے قریب قرض اتر چکا ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اب ایسے سامان پیدا ہو چکے ہیں کہ قرض اتار کر (کیونکہ کچھ جائداد کے بھی قرضے ہیں) انجمن کے خزانہ میں بھی کچھ رقم ہو جائے گی۔ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس تحریک کے بعد جماعت نے اپنے ایمان اور اخلاص میں ایسی ترقی کی ہے کہ جب بھی کوئی تحریک کرو جماعت کے لوگ روپیہ کو یوں پھینکنا شروع کر دیتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دلوں میں روپیہ سے کوئی محبت رہی ہی نہیں ۔ اس وقت جماعت پر تحریک جدید کا بھی بوجھ ہے مگر اس کے باوجود جماعتوں کا جو سالانہ چندہ ہے اس میں قریباً ستّر اسّی ہزار روپیہ سالانہ کی زیادتی ہوئی ہے۔ پھر ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہؤا مَیں نے غرباء کے لئے غلہ کی تحریک کی تھی۔ اس پر جماعت نے آٹھ ہزار روپیہ اکٹھا کر دیا اور اب ‘‘تبلیغ خاص’’ کی تحریک پر ساڑھے چھ ہزار سے اوپر روپیہ آ چکا ہے اوربعض جماعتیں ابھی باقی ہیں۔ ممکن ہے ان کی فہرستیں آ رہی ہوں اور اب خطبہ کے بعد دفتر میں جا کر مَیں ڈاک دیکھوں تو اس میں ان کے وعدے بھی آ جائیں۔ اگر مَیں ان سب جماعتوں کو شامل کر لوں جنہوں نے ابھی تک وعدہ نہیں کیا تو میرا اندازہ ہے کہ بارہ تیرہ ہزار روپیہ اکٹھا ہو جانا چاہئے۔ مَیں نے اعلان کیا تھا کہ میرا ارادہ ریویو آف ریلیجنز اردو پر بھی کچھ حصہ خرچ کرنے کا ہے چنانچہ مجھے امید ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ ارادہ بھی پورا ہو جائے گا اور اس قدر رقم آ جائے گی کہ ریویو آف ریلیجنز کو بھی لوگوں کےنام جاری کرایا جا سکے گا۔
غرض اللہ تعالیٰ کے فضل سے کوئی تحریک ایسی نہیں جس میں جماعت نے بڑھ چڑھ کر حصہ نہ لیا ہو۔ مَیں نے اگر ایک روپیہ مانگاتو جماعت نے چار روپے دیئے۔ مَیں نے پانچ سو من غلّہ مانگاتھا جماعت نے پندرہ سو من غلّہ اکٹھا کر دیا۔ خدا تعالیٰ کی قدرت ہے میرا اندزہ بالکل غلط نکلا اور خرچ بھی پندرہ سو من کے قریب قریب ہو گیا بلکہ اب تک بعض غرباء کی طرف سے درخواستیں آ رہی ہیں ۔ ہم نے سو ڈیڑھ سو من غلّہ محفوظ رکھا تھا کیونکہ بعض دفعہ نئے آدمی آ جاتے ہیں اور بعض دفعہ اچانک کوئی ایسی مصیبت پیش آ جاتی ہے جس کا فوری طور پر تدارک کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ایسی ضروریات کے لئے مَیں نے سو ڈیڑھ سو من غلّہ محفوظ رکھوایا ہؤا تھا مگر مَیں دیکھتا ہوں اب تک برابر درخواستوں کا سلسلہ جاری ہے۔ تو مَیں نے پانچ سو مَن غلّہ مانگا او رجماعت نے پندرہ سو من غلّہ مہیا کر دیا۔ اب مَیں نے ‘‘الفضل’’ اور ‘‘سن رائز’’ کے ایک ایک ہزار پرچوں کے لئے اعلان کیا تھا۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے ‘‘الفضل’’ اور ‘‘سن رائز’’ کے ایک ایک ہزار پرچے جاری کرانے کے لئے جس قدر روپیہ کی ضرورت تھی وہ اکٹھا ہو چکا ہے اور ابھی اَور روپیہ آ رہا ہے جس سے امید ہے کہ ریویو آف ریلیجنز اردو کے پرچے بھی جاری کرائے جا سکیں گے۔ پہلے میرا منشا ء یہ تھا کہ ‘‘الفضل’’ اور ‘‘سن رائز’’ بجائے ایک ایک ہزار جاری کرانے کے آٹھ آٹھ سو جاری کر ادئیے جائیں اورجو رقم باقی بچے اس سے ریویو آف ریلیجنز اردوجاری کرا دیا جائے مگر اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دئیے کہ ‘‘الفضل’’ اور‘‘سن رائز’’ کے بعد اب ریویو اردو کے لئے بھی روپیہ اکٹھا ہو رہا ہے اور ابھی غیر ممالک سے اس کے متعلق کوئی وعدے نہیں آئے۔ ہندوستان کی بہت سی جماعتوں نے بھی ابھی تک اس میں حصہ نہیں لیا۔ اس سے مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ ریویو آف ریلیجنز اردو کا ایک ہزار پرچہ بھی ہم آسانی سے تبلیغ کے لئے جاری کر سکیں گے۔ تو اللہ تعالیٰ کےفضل سے تحریک جدید کے بعد وہ لوگ جنہوں نے اس میں حصہ لیا تھا ان کے ایمانوں میں ایسی ترقی ہوئی کہ انہوں نے اَور تحریکوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کر دیا اور وہ لوگ جنہوں نے اس تحریک میں حصہ نہیں لیا تھا انہوں نے اس ندامت سے کہ وہ تحریک جدید میں حصہ نہیں لے سکے بعد میں دوسری تحریکوں میں حصہ لینا شروع کر دیا گویا جنہوں نے تحریک جدید میں حصہ لیا تھا انہوں نے پہلے سے بھی زیادہ قربانیاں کرنی شروع کر دیں اور جنہوں نے حصہ نہیں لیا تھا انہوں نے اس ندامت اور شرمندگی کی وجہ سے کہ وہ تحریک جدید میں حصہ نہیں لے سکے دوسری تحریکوں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ اور اس طرح ساری جماعت کا قدم ترقی کی طرف بڑھنا شروع ہو گیا۔ علاوہ ممبران صدر انجمن احمدیہ کے جن کو طبعاً فکر ہونی چاہئے تھی بعض نادان لوگوں نے تو یہانتک کہہ دیا تھا کہ اب جماعت میں تحریک جدید جاری کر دی گئی ہے نہ معلوم کیا ہو گا۔ جماعت کی کمرہمت ٹوٹ جائے گی، اس کی مالی حالت خراب ہو جائے گی، اس میں قربانی اور ایثار کی روح کم ہو جائے گی، وہ اس تحریک میں حصہ لے گی تو اَو رتحریکوں میں حصہ نہیں لے سکے گی مگر خدا تعالیٰ نے اس تحریک کے بعد جماعت کو ہر نئی تحریک میں پورے جوش اور اخلاص کے ساتھ حصہ لینے کی توفیق عطا فرما کر بتا دیا کہ ہماری کمریں پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گئی ہیں۔ ہمارے ہاتھ پہلے سے زیادہ لمبے ہو گئے ہیں، ہمارا ایثار پہلے سے زیادہ بڑھ گیا ہے، ہمارا خدا ہم سے پہلے سے زیادہ قریب آ گیا ہے اورہم پہلے سے بھی اونچے نظر آتے ہیں۔ گویا وہی بات ہماری جماعت پر صادق آ رہی ہے کہ ‘‘ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات’’خدا تعالیٰ کے فضل سے چکنے چکنے پات نکل رہے ہیں اورہم دیکھ رہے ہیں کہ خدا تعالیٰ اس کو بہت بڑا درخت بنانے کا ارادہ رکھتا ہے ورنہ یہ چکنائی، یہ سرسبزی اور یہ شادابی کس طرح پیدا ہوتی۔ غرض جس چیز کو لوگوں نے تباہی سمجھا تھا وہی ہماری ترقی کا ذریعہ بن گئی۔ لوگ مجھے کہتے تھے کہ تم نے جماعت پر ایسا بوجھ ڈالا ہے کہ اس کی کمر توڑ ڈالی ہے مگر جماعت نے اپنی قربانیوں سے بتا دیا کہ اس کی کمر ٹوٹی نہیں بلکہ پہلے سے بہت زیادہ مضبوط ہو گئی ہے۔ چنانچہ انجمن کے قرضوں کا بہت حد تک اتر جانا، نئی تحریکات کا جماعت میں قبولیت حاصل کرنا اور لوگوں کا اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا اور اس تحریک میں حصہ لینے والوں کا اپنے چندوں کو ہر سال پہلے سال سے بڑھاتے چلے جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری جماعت اپنے ایمان اور اپنی قربانیوں میں پہلے سے کئی گنا ترقی کر گئی ہے۔ اب اگر ہمیں اپنے اندر کچھ کمزوریاں نظر آتی ہیں تو وہ ایمان کی ترقی کی وجہ سے نظر آتی ہیں اور ان کمزوریوں کا دکھائی دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے ایمان پہلے سے بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں۔ اب ہمیں ایک کھانا کھانا بھی کمزوری دکھائی دیتا ہے حالانکہ پہلے ہمارے لئے دو کھانوں کا چھوڑنا سخت مشکل تھا۔ اب ہم چاہتے ہیں کہ اگر ہو سکے تو اس سے بھی زیادہ سادگی اختیار کریں اور اب اگر کسی ضرورت کے موقع پر ہمارے دستر خوان پر دو کھانے آ جاتے ہیں تو ہمیں یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا کھانا حلال کا نہیں رہا بلکہ حرام کا ہو گیا ہے۔ پس یہ کمزوری جو دکھائی دیتی ہے محض اس لئے ہے کہ ہمارے دوستوں کے ایمان اتنے پختہ اور مضبوط ہو چکے ہیں کہ جن باتوں کو وہ پہلے قربانی سمجھا کرتے تھے ان کو وہ اب اپنی کمزوری نظر آتی ہے۔ پس یہ خوبی کی بات ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم ترقی کے میدان میں نیا قدم بڑھانے کے لئے تیار ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض حصوں میں جماعت نے کمزوری بھی دکھائی ہے مثلاً سینما دیکھنے کی ممانعت کے متعلق جو حکم مَیں نے دیا تھا۔ اس سلسلہ میں بعض نوجوانوں کے متعلق میرے پاس شکایتیں پہنچتی رہی ہیں کہ وہ ممانعت کے باوجود سینما دیکھنے کے لئے چلے جاتے ہیں۔یہ ایک بہت بڑی کمزوری ہے جس سے ہماری جماعت کے نوجوانوں کو بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ درحقیقت سینما نے ہمارے ملک کی طبائع پر ایسا بُرا اثر ڈالا ہے کہ لوگ اسے دیکھنے کے لئے بیتاب رہتے ہیں اور میرے پاس تو جس وقت بعض نوجوان سینما دیکھنے کی خواہش کا اظہار کرتے اور اس کے متعلق لجاجت اور خوشامد کرتے ہیں تو مجھے یوں معلوم ہوتا ہے وہ یہ لجاجت کر رہے ہیں کہ ہمارا باپ ڈوب رہا ہے اسے بچانے کی اجازت دی جائے۔ زمانہ کی ایک رَو ہے جو طبائع پر اثر کر رہی ہے لیکن اس زبردست خواہش کے باوجود ہماری جماعت میں ایسے نوجوان ہیں جنہوں نے اپنے نفسوں کو روکا اور باوجود اس کے کہ انہیں سینما دیکھنے پر مجبور کیا گیا انہوں نے سینما نہیں دیکھا۔ ایک دوست نے ایک دفعہ لکھا کہ اسے بعض دوست پکڑ کر سینما دکھانے کے لئے لے گئے۔ اس نے جانے سے انکار کیا تو انہوں نے بہانہ بنایا اور کہا کہ ہم سینما کو نہیں بلکہ سیر کو چلتے ہیں۔ پھر انہی میں سے ایک شخص جا کر ٹکٹ لے آیا اور کہا کہ اب تو ہمارے پیسے بھی خرچ ہو گئے ہیں اب تو تمہیں ضرور سینما دیکھنا چاہئے مگر اس نے پھر بھی انکار کیا۔ آخر وہ اس کے ہاتھ پاؤں پکڑ کر سینما کی طرف لے گئے اورجبراً ہال میں بٹھا دیا۔ جب سینما شروع ہؤا اور اس کے ہاتھ پاؤں ڈھیلے ہوئے تو معاً اس نے چھلانگ لگائی اور دوڑ کر باہر نکل گیا۔ سینما والے بھی حیران ہو گئے کہ اسے کیا ہو گیا ہے۔ آخر اس کا یہ اثر ہؤا کہ اس کے دوستوں نے اقرار کیا کہ ہم آئندہ سینما نہیں دیکھیں گے۔ تو ہماری جماعت میں ایسے ایسے نمونے بھی پائے جاتے ہیں مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ بعض نوجوانوں نے کمزوری دکھائی ہے۔ مَیں آج ان کو پھر توجہ دلاتے ہوئے کہتا ہوں کہ تم سے تو ہماری آئندہ بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ جب تمہارے باپ دادا اور دوسرے رشتہ دار مر جائیں گے اس وقت تم نے ہی اس امانت کو سنبھالنا ہے۔ اگر تم پہلوں سے زیادہ مضبوط نہیں ہو تو ہمارے لئے کوئی خوشی نہیں ہو سکتی۔ ہماری خوشی تو اس بات میں ہے کہ ہم اگر ایک قدم چلیں تو تم دو قدم چلو، ہم تین قدم چلیں تو تم چار قدم چلو۔ جب تک تم ہم سے زیادہ قربانی کرنے والے، ہم سے زیادہ جرأت رکھنے والے اور ہم سے زیادہ دلیری دکھانے والے نہیں بنتے اس وقت تک سلسلہ کی امانت محفوظ ہاتھوں میں نہیں رہ سکتی۔ پس مَیں تمہیں کہتا ہوں کہ تم بہادر بنو اور اپنے نفسوں کے غلام مت بنو۔ تمہارے قبضہ میں آئندہ دنیا کی حکومتیں آنے والی ہیں اور تمہارا فرض ہے کہ آئندہ زمانہ میں جب خدا تعالیٰ تمہیں حکومت اور سلطنت عطا فرمائے تو جس طرح محمود غزنوی نے مندر توڑ ڈالے تھے اسی طرح تم ریڈیو کےوہ ٹرانسمٹر توڑ ڈالو۔ جہاں سے گانے بجانے نشر کئے جاتے ہیں۔ یہ ریڈیو کے سیٹ خبریں سننے اور علمی تقاریر اور دوسرے مفید معلومات کے لئے بے شک اچھی چیز ہیں مگر آجکل ریڈیو نے ناچ اور گانے کو اتنا قریب کر دیا ہے کہ ہر خاندان کو اس نے ڈوم اور میراثی بنا دیا ہے۔ مَیں نے دیکھا ہے مَیں بعض دفعہ سنتیں پڑھنے لگتا ہوں اور اس خیال سے کہ اب خبریں آنے والی ہیں ریڈیو میں گرمی پیدا کرنے کے لئے اسے چلا دیتا ہوں کیونکہ ریڈیو کچھ گرمی کے بعد کام شروع کرتا ہے۔ مگر کھولتےوقت گو کوئی تقریر ہو رہی ہوتی ہے مگر نماز پڑھ کر اسے اونچا کرو تو کوئی گانا شروع ہوتا ہے اور قریباً جب بھی اسے کھولو زور سے باجے اور گانے کی آوازیں آنی شروع ہو جاتی ہیں۔ اس وقت مَیں خیال کرتا ہوں کہ اگر گلی میں سے گزرتے ہوئے کوئی شخص سُن لے تو وہ یہی خیال کرے گا کہ ہمیں تو گانا سننے سے روکا جاتا ہے مگر خود ریڈیو پر گانا سن لیا جاتا ہے۔ اسی طرح کئی دفعہ پاخانے کی حاجت ہوتی ہے، خبریں ہو رہی ہوتی ہیں اور مَیں اسی طرح ریڈیو کو چھوڑ کر غسلخانہ کو چلا جاتا ہوں کہ اتنے میں زور زور سے باجے کی یا گانے کی آواز آنے لگتی ہے کیونکہ خبریں ختم ہوتے ہی کوئی گویّا یا ڈوم گانے یا باجے کا شغل شروع کر دیتا ہے۔ ایسے وقت میں کئی دفعہ جلد جلد غسلخانے سے فارغ ہو کر آنا پڑا ہے۔ محض اس وہم سے کہ گلی میں سے گزرتے ہوئے لوگ سنیں گے تو کہیں گے آپ تو باجا سن رہے ہیں اور ہمیں اسے روکا جاتا ہے۔
غرض ریڈیو ایک ایسی چیز ہے جس نے ہر گھر کو ڈوم بنا دیا ہے۔ اس میں گندے گانے ہوتے ہیں جن کا طبائع پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ بے شک اور پروگرام بھی ہوتے ہیں مگر مَیں نے دیکھا ہے کہ کوئی معقول چیز بھی لمبے عرصہ تک نہیں چلتی۔ دیہاتیوں کا پروگرام بڑی مفید چیز ہے اور زمینداروں کو بڑی بڑی اچھی باتیں بتائی جاتی ہیں اور اگر ریڈیو میں صرف زمیندارہ پروگرام ہوتا تو شاید مَیں یہ حکم دے دیتا کہ ہر جگہ جماعت کے چندے سے ایک ایک ریڈیو سیٹ خریدا جائے اور دیہاتی پروگرام سنا جائے مگر اب کیا ہوتا ہے کہ پہلے بتایا جاتا ہے ہل اس قسم کا ہونا چاہئے ، زمین کو اس طرح بونا چاہئے اور یہ ہدایتیں مدنظر رکھنی چاہئیں۔ اس کے بعد کہا جاتا ہے اب فلاں بائی 5آپ کو گانا سنائے گی۔ وہ گانا ختم ہوتا ہے تو پھر ایک زراعتی مضمون شروع کر دیا جاتا ہے کہ بیلوں کو یوں رکھنا چاہئے ، ان کی پرورش میں فلاں فلاں باتیں مدنظر رکھنی چاہئیں اور چند منٹ کے بعد کہہ دیا جاتا ہے کہ اب فلاں بھانڈ آپ کو گیت سنائیں گے۔ وہ ختم ہوتا ہے تو پھر بتانا شروع کر دیا جاتا ہے کہ اچھے بیج کی کیا علامت ہے اور وہ کہاں سے مل سکتا ہے اور یہ سبق دینے کے بعد کہہ دیا جاتا ہے اب فلاں کنچنی آپ کو گیت سنائے گی۔ گویا پانچ منٹ مضمون سنایا جاتا ہے اور پانچ منٹ گانا سنایا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ آخر تک قائم رہتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ اصل چیز گانا ہی ہے باقی چیزیں یونہی شامل کر لی گئی ہیں۔ تمہارا یہ کام ہے کہ جس دن خدا تعالیٰ تمہیں حکومت دے تم ریڈیو کے ان گندے انتظاموں کو بدل دو اور سب ڈوموں اور میراثیوں اور کنچنیوں کو رخصت کر دو اور ان کی بجائے علمی چیزیں ریڈیو کے ذریعہ نشر کرو۔ دنیا کے مذاق کو بنانا ہمارا کام ہے ، اس کے مذاق کو بگاڑنا ہمارا کام نہیں۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص لوگوں کو غریبوں کی مدد کرنے کی تحریک کرنا چاہے تو وہ اس کا طریق یہ نکالے کہ اپنی بیوی اور بیٹیوں کو ننگا کر کے باہر لے جائے اور جب لوگ اکٹھے ہو جائیں تو وہ انہیں کہے کہ غریبوں کی مدد کیا کرو۔ بے شک غریبوں کی مدد کرنا اچھا کام ہے مگر اس کے لئے غلط طریق اختیار کرنا کس طرح جائز ہو سکتا ہے۔ اسی طرح بے شک ریڈیو کے ذریعہ بعض اچھی چیزیں بھی نشر کی جاتی ہیں مگر ناچ اور گانا ایسی گندی چیزیں ہیں جس نے ہر گھر کو ڈوم اورمیراثی بنا دیا ہے اور ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو اور باقی دنیا کو اس ضرر سے بچائے اوراس کا صرف مفید پہلو قائم رکھے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے لَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَيْتُمْ6جب تم ہدایت پر ہو تو تمہیں دوسرے کی گمراہی کی پرواہ بھی نہیں کرنی چاہئے۔ اگر تم صحیح راستے پر چل رہے ہو اور دوسرا شخص تمہارے ساتھ یہ شرط کرنا چاہتا ہے کہ تم صحیح راستے کو چھوڑ کر غلط راستے کو اختیار کر لو تو فرماتا ہے ایسے شخص کو تم بے شک گمراہ ہونے دو مگر صحیح راستے کو ترک نہ کرو۔ تو ان چیزوں کو دنیا سے تم نے مٹانا ہے اور تمہارا فرض ہے کہ خدا تعالیٰ تمہیں جب حکومت اور طاقت عطا فرمائے تو جس قدر ڈوم اور میراثی ہیں ان سب کو رخصت کر دو اور کہو کہ جا کر حلال کمائی کماؤ ۔ ہاں جغرافیہ یا تاریخ یا مذہب یا اخلاق کا جو حصہ ہے اس کو بےشک رہنے دو اور اعلان کر دو جس کی مرضی ہے ریڈیو سنے اور جس کی مرضی ہے نہ سنے۔ اس وقت ریڈیو والوں نے ایک ہی وقت میں دو نہریں جاری کی ہوئی ہیں۔ ایک نہر میٹھے پانی کی ہے اور دوسری نہر کڑوے پانی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں بھی دو نہروں کا ذکر کرتا ہے اور فرماتا ہے ایک نہر میں تو میٹھا پانی ہے مگر دوسری نہر میں کڑوا پانی ہے۔7 مَیں جب بھی ریڈیو سنتا ہوں تو مجھ پر یہی اثر ہوتا ہے کہ یہی دو نہریں ہیں جن کا قرآن کریم نے ذکر کیا ہے۔ اس سے ایک طرف میٹھا پانی جاری ہوتا ہے اور دوسری طرف کڑوا پانی جاری ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ۔ ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا اور یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ کڑوی نالی کے ہوتے ہوئے میٹھا پانی غالب آ جائے۔ میٹھا پانی اسی صورت میں غالب آ سکتا ہے جب کڑوے پانی کی نالی کو بالکل بند کر دیا جائے۔ پس مَیں نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ ان میں سے بعض سے صرف اس مطالبہ کو پورا کرنے میں کوتاہی ہوئی ہے مگر مَیں امید کرتا ہوں کہ آئندہ وہ اپنی اصلاح کریں گے اور اس نقص کو دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس وقت میرے سامنے بورڈنگ تحریک جدید کے لڑکے بیٹھے ہوئے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ ان میں سے بعض بے ٹکٹ گاڑی پر سوار ہو کر اور اس طرح گورنمنٹ کے روپیہ کو چرا کر بٹالے جاتے اور وہاں سینما دیکھتے ہیں اور پھر بے ٹکٹ واپس آتے ہیں۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ سارے ایسے ہیں۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ بہت سے ایسے ہیں۔ مَیں یہ بھی نہیں کہتا کہ معتد بہ ایسے ہیں۔ ہاں مَیں یہ ضرور کہتا ہوں اور تحقیق سے کہتا ہوں کہ کچھ لڑکے ایسے ہیں جو اس قسم کی حرکت کرتے ہیں۔ گویا وہ تین حرام خوریاں کرتے ہیں۔ وہ گورنمنٹ کی چوری کر کے بٹالے جاتے ہیں، وہ سلسلہ کی چوری کر کے سینما دیکھتے ہیں اور پھر گورنمنٹ کی چوری کر کے و اپس آتے ہیں۔ شاید تم سمجھتے ہو کہ گورنمنٹ کی دو چوریوں میں سلسلہ کی ایک چوری حلال ہو جاتی ہے مگر یہ بالکل غلط ہے۔ دو چوریوں میں ایک اَو رچوری حلال نہیں ہو جاتی بلکہ وہ اَور بھی گندی ہو جاتی ہے جیسے اَور چوریاں بری ہیں ویسی ہی گورنمنٹ کی چوری بھی بری ہے۔ پس تم میں سے بعض نوجوانوں کا یہ خیال کہ گورنمنٹ کی چوری چوری نہیں ہوسکتی بالکل غلط ہے۔ چوری چوری ہی ہے خواہ وہ رسول کی ہو، نبی کی ہو، گورنمنٹ کی ہو، دوست کی ہو، دشمن کی ہو۔ اسی طرح ایک کنچنی کی چوری بھی چوری ہے اور ایک ڈوم کی چوری بھی چوری ہے۔ اگر تم کسی ڈاکو کا مال اٹھا لیتے ہو تو یہ بھی ویسی ہی چوری ہے جیسے کسی اور کی چوری۔ لوگوں کے دلوں میں یہ غلط خیال بیٹھا ہؤا ہے کہ گورنمنٹ کی چوری چوری نہیں ہوتی حالانکہ وہ بھی ویسی ہی چوری ہوتی ہے جیسے کوئی اور چوری۔ جب تم چھپ کر ریل کے خانے میں جا کر بیٹھ جاتے ہو اور دل میں سمجھتے ہو کہ یہ ناجائز صورت کہاں ہے۔ گارڈ ہمارا واقف ہے وہ ہم پر کوئی گرفت نہیں کرے گا تو اس وقت بھی تم گناہ کے مرتکب ہوتے ہو۔ کیونکہ وہ گورنمنٹ کا مال ہے۔ گارڈ کے باپ کا مال نہیں۔ اگر گارڈ تم کو مفت لے جانا چاہتا ہے تو تم اسے کہو کہ چل کر ایجنٹ کے سامنے کہہ دو کہ مَیں اسے بلا ٹکٹ لے جانا چاہتا ہوں۔ پھر اگر اس کی نوکری رہ جائے تو بے شک تم مفت چلے جاؤ اور اگر وہ ملازمت سے بر طرف کر دیا جائے تو تمہیں سمجھ لینا چاہئے کہ گارڈ کی واقفیت کی بناء پر بلا ٹکٹ سفر کرنا بھی ویسا ہی جرم ہے جیسے کسی اَور صورت میں بلا ٹکٹ سفر کرنا۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کسی کے مکان پر پہرہ لگا ہؤا ہو تو وہ کہے کہ مَیں پہرہ دار کی اجازت سے مالک مکان کی کرسی اٹھا لایا تھا یا میز اٹھا لایا تھا۔ اس کی اجازت سے وہ چوری جائز تو نہیں ہو جائے گی ۔اس کے معنے تو صرف یہ ہوں گے کہ تم بھی چور ہو اور وہ بھی چور ہے۔ پس تمہارا کسی گارڈ کے کہنے پر یا سٹیشن ماسٹر کے کہنے پر بلا ٹکٹ چلے جانا یہ معنے رکھتا ہے کہ وہ بھی چور ہے اور تم بھی چور ہو۔ تم اگر چار آنے نہیں ایک پیسہ بھی ریلوے کے ایجنٹ کی جیب سے نکال لیتے ہو تو تم اپنے دل میں ضرور شرمندہ ہو گے کہ مَیں نے چوری کی ہے۔ پھر تمہیں کیوں خیال نہیں آتا کہ تم ایک پیسہ نہیں بلکہ بعض دفعہ چار یا چھ آنے بلا ٹکٹ سفر کر کے گورنمنٹ کے خزانہ سے چُرا لیتے ہو اورتم سمجھتے ہو کہ تم نے کوئی برا فعل نہیں کیا۔ اگر کوئی گارڈ یا سٹیشن ماسٹر تمہیں کہتا ہے کہ تم بلا ٹکٹ سفر کر لو تو اس کا یہ کہنا بھی تمہارےفعل کو جائز قرار نہیں دے سکتا بلکہ اس کے معنے صرف یہ ہوں گے کہ تم بھی چور ہو اور وہ بھی چور ہے۔ پس بلا ٹکٹ سفر کرنا کوئی خوبی کی بات نہیں بلکہ یہ بھی ویسی ہی چوری ہے جیسے کسی اَور چیز کی چوری ہوتی ہے۔ سوچو تو سہی کہ اگر تمہاری الماری میں مصری پڑی ہوئی ہو اور کوئی دوسرا شخص اس میں سے ایک تولہ بھی چرا لے تو باوجود اس کے کہ مصری تین آنے کی آدھ سیر آ جاتی ہے تم ایک تولہ مصری چرانے والے کو ملامت کرنے لگ جاتے ہو اور کہتے ہو بے شرم، بے حیا، تیرے باپ کا مال تھا کہ تُو نے بلااجازت لے لیا۔ پھر تم سوچو کہ تم ایک تولہ مصری اٹھا لے جانے والے کو تو بے شرم کہتے ہو اَور تم گورنمنٹ کے اتنے آنے چرا کر لے آتے ہو اور تمہیں کوئی ندامت محسوس نہیں ہوتی۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر چھ آنے کا ٹکٹ ہو اور تم بلا ٹکٹ سفر کرو تو تم نے گورنمنٹ کی ایک سیر مصری چُرا لی یا تین سیر گندم اڑا لی۔ پس بلا ٹکٹ سفر کرنا بھی بہت بڑا گناہ ہے اور تمہیں ان عیوب سے محفوظ رہنا چاہئے بلکہ اگر تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کر دئے جائیں تب بھی تم کہو کہ ہمیں موت منظور ہے مگر بے ایمانی منظور نہیں ۔ تو یہ چیزیں اس قسم کی ہیں کہ اس میں ہم تم سے بہت اچھی امید رکھتے ہیں اور تمہارا فرض ہے کہ بجائے اس کے کہ خود ان گناہوں کا ارتکاب کرو۔ اگر کوئی اَور شخص اس قسم کی غلطی کرے تو اسے سمجھاؤ اور اگر سمجھانے کے بعد بھی نہ مانے تو اس کی شکایت کرو اور اس بات کو یاد رکھو کہ جیسے غلّہ میں کیڑا لگ جاتا ہے اسی طرح یہ گناہ تمہاری روحانیت کے لئے موت کے کیڑے ہیں۔ اگر تمہارے پاس سال بھر کا غلّہ ہو اور تمہاری غفلت سے اسے کیڑا لگ جائے اور دوسری طرف ملک میں بھی غلّہ ختم ہو جائے تو نتیجہ یہ ہو گا کہ جب تم غلّہ کو کوٹھی سے نکالو گے تو وہ کِرم خوردہ ہو گا اور تمہارے کسی کام نہیں آئے گا۔ اسی طرح اگر اس قسم کی ٹھگیوں کی عادت پیدا ہو جائے تو جماعت کو گُھن کھا جائے گا اور جب دین کے لئے لڑائی کا وقت آئے گا اور ہم اپنے سپاہیوں کے مخزن کو دیکھیں گے تو بجائے اس کے کہ اس میں سے زندہ اور دیندار سپاہی نکلیں مُردہ اور بے دین آدمی نکلیں گے اور وہ اسلام کو فائدہ پہنچانے کی بجائے اس کے ضعف اور تنزل کا باعث بن جائیں گے۔
یہ تو ایک ضمنی بات تھی۔ اس کے بعد مَیں پھر دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ آج تحریک جدید کا نواں سال شروع ہے۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ چار حصے سفر کے طے ہو چکے ہیں اور اب صرف پانچواں حصہ باقی رہ گیا ہے۔ مَیں ہر سال دوستوں کو یہ تحریک کرتا چلا آیا ہوں کہ انہیں اس میں پہلے سالوں سے زیادہ حصہ لینا چاہئے مگر اس سال مَیں دوستوں سے یہ کہتا ہوں کہ ان کو اس تحریک میں گزشتہ سالوں سے بہت زیادہ حصہ لینا چاہئے اور چونکہ یہ تحریک اب خاتمہ کے قریب ہے اس لئے انہیں اس سال پہلے سالوں سے نمایاں اضافہ کے ساتھ وعدے کرنے چاہئیں۔ خاتمہ سے میری مراد یہ نہیں کہ اس کے بعد کوئی تحریک نہیں کی جائے گی۔ درحقیقت کوئی جماعت پے در پے تحریکات کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی اور ہماری جماعت کے سامنے وقتاً فوقتاً نئی سے نئی تحریکات اِنْشَاءَ اللہ ہوتی چلی جائیں گی مگر بہرحال دس سال گزرنے کے بعد اس تحریک کی موجودہ شکل قائم نہیں رہے گی۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اس کے بعد کیا صورت پیدا ہو۔ مَیں بھی دعا کر رہا ہوں تم بھی دعائیں کرو کہ ان دس سالوں کے بعد اس درخت کو زندہ اور سرسبز و شاداب رکھنے کےلئے اللہ تعالیٰ میری صحیح رہنمائی فرمائے اور اپنی طرف سے ترقی کی تدابیر بتائے مگر بہرحال جیسا کہ مَیں اعلان کر چکا ہوں۔ دس سال کے بعد اس تحریک کی موجودہ شکل ختم ہو جائے گی اور چونکہ اب سفر خاتمہ کے قریب ہے اس لئے اس وقت بہت زیادہ ہمت اور بہت زیادہ کوشش اور بہت زیادہ سعی اور بہت زیادہ قربانی کی ضرورت ہے۔ مَیں جانتا ہوں کہ بعض لوگ ایسے ہیں جنہوں نے شروع سے اس تحریک میں نمایاں قربانی کے ساتھ حصہ لیا ہے مگر ایسے لوگ بھی بہت ہیں جنہوں نے اپنے معیار سے کم قربانیاں کی ہیں۔ پس وہ لوگ جنہوں نے ابھی تک نمایاں قربانی نہیں کی مَیں ان سب سے کہتا ہوں کہ سفر اب خاتمہ کے قریب ہے، منزل نظر آ رہی ہے، اگلا سال تحریک جدید کا آخری سال ہو گا۔ پس تمہیں کنارے پر پہنچ کر اپنا سارا زور لگا دینا چاہئے تاکہ اللہ تعالیٰ اس تحریک کے ذریعہ اسلام اور سلسلہ کے مفاد کے لئے ایک ایسی مستقل بنیاد قائم کر دے جو آئندہ آنے والے دنوں میں اسلام اور شیطان کی جنگ میں ایک مفید اور بابرکت عنصرثابت ہو۔ اسی غرض کے لئے آج مَیں خود چل کر آیا ہوں، باوجود اس کے کہ بیماری کی حالت میں نکلنا میرے لئے مشکل تھا اورباوجود اس کے کہ لکڑی کے سہارے بھی اگر چلنے کی کوشش کروں تو درد عود کر آتا ہے اورباوجود اس کے کہ کرسی پر بیٹھ کر اورلوگوں کے کندھوں پر سوار ہو کر آنا میری طبیعت کے خلاف ہے اور مجھے ایسا ہی معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی گھسٹتا ہؤا آ رہا ہو۔ پھر بھی مَیں نے اپنے مزاج کے خلاف اور اپنی صحت کے خلاف یہ کام محض اس لئے کیا ہے تاکہ مَیں دوستوں کو توجہ دلا دوں کہ اب غفلت اور کوتاہی سے کام لینے کا وقت نہیں رہا۔ جس نے آج غفلت اور کوتاہی سے کام لیا اس کے لئے دوبارہ منزل کو پہنچنا اور ریل کو پکڑنا مشکل ہو گا۔ یاد رکھو! خدا تعالیٰ کے قرب کی طرف جانے والی ریل اب چلنے ہی والی ہے۔ آخری گھنٹیاں بج رہی ہیں۔ اس کے بعد جو رہ گیا وہ ہمیشہ کے لئے رہ گیا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نیکیوں کے مواقع ہمیشہ ملتے رہتے ہیں مگر نیکیوں کے مدارج میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔ صحابہؓ کو دیکھ لو۔ رسول کریم ﷺ کی صحبت میں بیٹھنے کی وجہ سے وہ صحابیت کا مقام حاصل کر گئے اور دنیا آج تک ان کی عزت کرنے پر مجبور ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ بعد میں بھی اگر کوئی شخص صحابہؓ کے مقام تک پہنچنا چاہے اور اس کے لئے صحیح جدو جہد کرے تو وہ اس مقام تک پہنچ سکتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کے بعد کروڑہا کروڑ لوگوں میں سے کتنے ہیں جنہیں صحابیت کا مقام حاصل ہؤا۔ ہر زمانہ میں کروڑوں لوگ امتِ محمدیہ میں ہوئے مگرکسی زمانہ میں دو اور کسی زمانہ میں تین صحابہؓ کے مقام کو حاصل کر سکے اور باقی لوگوں میں سے کوئی شخص اس مقام تک نہ پہنچ سکا مگر رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں عبداللہ بن ابی بن سلول جیسا منافق انسان بھی صحابی کہلاتا تھا۔ تو ایک زمانہ ایسا ہوتا ہے جب خدا تعالیٰ کے قرب کے دروازے کھلے ہوتے ہیں اور انسان معمولی معمولی قربانیوں سے بڑے بڑے انعامات حاصل کر سکتا ہے۔ دیکھ لو! رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں عبد اللہ بن ابیّ بن سلول صحابی تھا مگر بعد میں بڑے بڑے لوگ بھی صحابیت کا مقام حاصل نہیں کر سکے۔ کسی بہت بڑے مجاہدہ کرنے والے انسان نے صحابہؓ کے درجے کو پایا ہو تو اَور بات ہے مگر سوال یہ ہے کہ کتنے لوگ ہیں جن سے رسول کریم ﷺ ملے ہوں اور اس طرح انہیں آپ کی صحابیت کا شرف حاصل ہؤا ہو۔ ہاں اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے تم کو صحابی بننے کا موقع دے دیا کیونکہ تم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا اور مسیح موعود وہ شخص ہے جس کے متعلق رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ مَیں اور وہ ایک ہی ہیں۔ اس کا نام میرے نام کے مطابق اور اس کے باپ کا نام میرے باپ کے نام کے مطابق ہو گا۔8 گویا ع
مَن تُو شدم تُو من شدی من تن شدم تُو جاں شدی
والا معاملہ ہو گا۔ تو سینکڑوں سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ مقام عطا فرمایا۔ آپ میں ایسے لوگ موجود ہیں جو صرف دو آنہ چندہ دیا کرتے ہیں مگر صحابی وہ بھی کہلاتے ہیں۔ اسی طرح آپ لوگوں میں وہ بھی ہیں جو پانچوں نمازیں مسجد میں پڑھ سکتے ہیں لیکن پڑھتے مسجد میں چار ہیں۔ خدا تعالیٰ کے حضور ایسے لوگ بے شک کمزور یا گنہگار سمجھے جائیں گے مگر جب وہ مر جائیں گے تو خدا کے حضور تو وہ کمزور مومنوں میں شمار ہوں گے لیکن دنیا میں ان کی اولادوں کو بڑے بڑے بادشاہ بُلا کر عزت و تعظیم کی جگہ پر بٹھائیں گے اور کہیں گے یہ فلاں صحابیؓ کی اولاد ہیں۔ صحابیت کے مقام کے لحاظ سے بے شک تمہارے اندر بعض کمزوریاں پائی جاتی ہیں مگر تم نے صحابی بن کر اپنی اولادوں کے لئے جائدادیں پیدا کر دی ہیں۔ بڑے بڑے بادشاہ آئیں گے اور وہ تمہاری اولادوں کی عزت کرنے پر مجبور ہوں گے۔ وہ کہیں گے یہ صحابی کی اولاد ہیں حالانکہ ممکن ہے وہ صحابی کہلانے والا منافق ہو یا کمزور اورخطا کار مومن ہو۔ چنانچہ دیکھ لو۔ خدا تعالیٰ نے عبد اللہ بن ابیّ بن سلول کو تو ظاہر کر دیا اور بتا دیا کہ وہ منافق ہے مگر اَور منافقوں کو ظاہر نہیں کیا حالانکہ بیسیوں منافق تھے اور رسول کریم ﷺ کو ان کا علم تھا۔ حضرت حذیفہؓ ایک صحابی تھے۔ وہ ہمیشہ رسول کریم ﷺ کے پیچھے پڑ کر اصرار سے دریافت کیا کرتے تھے کہ کون کون منافق ہے اور رسول کریم ﷺ انہیں بتا دیا کرتے تھے۔ صحابہؓ کہتے ہیں ہمیں معلوم نہیں تھا کہ کون کون منافق ہے مگر حذیفہؓ ہمیشہ رسول کریم ﷺ کے پیچھے پڑے رہتے تھے کہ یَا رَسُوْلَ اللہ مجھے منافقوں کے نام بتا دیجئے، ایسا نہ ہو کہ مَیں کسی منافق کے پیچھے نماز پڑھ بیٹھوں اور میری نماز خراب ہو جائے اور رسول کریم ﷺ ان کے اصرار کو دیکھ کر انہیں منافقوں کے نام بتا دیا کرتے تھے۔ صحابہؓ کہتے تھے چونکہ حذیفہؓ کو منافقوں کا علم تھا اس لئے ہم ہمیشہ تاڑتے رہتے تھے کہ حذیفہؓ کس کا جنازہ نہیں پڑھتے۔ جس کا جنازہ موجود ہونے کے باوجود حضرت حذیفہؓ نہیں پڑھا کرتے تھے اس کا جنازہ ہم بھی نہیں پڑھتے تھے اور سمجھ جاتے تھے کہ وہ منافق تھا۔9 اب دیکھو۔ ہمیں معلوم نہیں کہ کون کون منافق تھا۔ حضرت حذیفہؓ کو بے شک معلوم تھا مگر انہوں نے کسی کو بتایا نہیں۔ اب حدیثوں میں جب ان صحابہؓ کا نام آتا ہے تو ہم کیا کہتے ہیں۔ ہم یہی کہتے ہیں رَضِیَ اللہُ عَنْہُمْ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمْ اور نہ معلوم ہماری ان دعاؤں سے کتنے منافق بخشے جا چکے ہوں کیونکہ جب سارے مسلمان ان کا نام آنے پر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمْ کہتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو تو غالباً خدا تعالیٰ ان میں سے کئی کے قصوروں کو معاف کر چکا ہو گا مگر بہرحال باوجود اس کے کہ بعض لوگ منافق تھے اور رسول کریم ﷺ کو ان کا علم تھا۔ آج تک سارے مسلمان ان کا نام آنے پر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمْ کہتے ہیں حالانکہ یہ بھی ممکن ہے کہ خدا نے اب تک انہیں نہ بخشا ہو۔ بہرحال صحابیت کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے ان کی دنیا میں عزت قائم کر دی اور سینکڑوں سال تک ان کی اولادوں نے اپنے باپ دادا کی صحابیت کی وجہ سے شاہی درباروں میں بڑے بڑے انعامات حاصل کئے ۔ ایک شخص آتا اور کہتا مَیں فلاں صحابی کا بیٹا ہوں۔ دوسرا شخص آتا اور کہتا مَیں فلاں صحابی کا بیٹا ہوں اور بادشاہ فوراً آواز دیتا کہ لانا اس کو میرے پاس اور جب وہ اس کے پاس لایا جاتا تو بادشاہ اسے بہت بڑا انعام دیتا۔ اس وجہ سے کہ وہ ایک صحابی کی اولاد میں سے ہے مگر خدا تعالی کے فرشتے کہتے ہیں رَضِیَ اللہُ عَنْہُکہاں۔ وہ تو منافق اور مردود تھا۔ غرض تمہیں وہ چیز مفت میں حاصل ہو گئی ہے جو تمہارے لئے اور تمہاری اولادوں کے لئے بہت بڑی عزت اور خیر و برکت کا ذریعہ ہے۔ اگر یہ نعمت تمہیں باطن میں بھی میسر آ گئی اور ظاہر میں بھی تو تمہارے لئے دونوں جہانوں میں فائدہ ہے اور اگر یہ نعمت تم نے صرف ظاہر میں حاصل کی ہے باطن میں حاصل نہیں کی تو اس صورت میں بھی گو تم نے فائدہ نہیں اٹھایا مگر تمہاری اولادیں مجاوروں کی طرح اس سے فائدہ اٹھائیں گی۔
تحریک جدید بھی نیکی کے ایسے ہی عظیم الشان مواقع میں سے ایک بہت بڑا موقع ہے اور امید نہیں کہ آئندہ ایسی شان کے ساتھ ایسی آسان اور سہل تحریک جس میں کثرت سے لوگ شامل ہو سکیں پھر جماعت میں جاری ہو اور اگر آئندہ کوئی تحریک جاری کی گئی تو وہ ایسی سہل نہیں ہو گی بلکہ اسے سخت مشکل بنا دیا جائے گا اور اس میں تلخیاں کثرت سے پیدا کر دی جائیں گی تاکہ ان تلخیوں اور مشکلات کو اٹھا کر ہی بعد میں آنے والوں کو تمہارے برابر ثواب حاصل ہو سکے۔ بہرحال آج جس سہولت اور آسانی سے لوگ اس عظیم الشان تحریک میں حصہ لے کر اپنے رب کو راضی کر سکتے ہیں۔ اس سہولت اور آسانی سے وہ کسی اور تحریک میں شامل نہیں ہو سکیں گے۔ اب گاڑی چھوٹنے والی ہے۔ تم جلدی اس میں سوار ہو جاؤ ایسا نہ ہو کہ رہ جاؤ اور بعد میں اپنی غفلت اور محرومی پر پچھتاؤ۔ وہ لوگ جنہوں نے ابھی تک اس تحریک میں حصہ نہیں لیا وہ اب بھی اس تحریک میں حصہ لے سکتے ہیں اور جیسا کہ مَیں بتا چکا ہوں وہ کچھ چندہ اس تحریک کے ختم ہونے کے بعد بھی ادا کر سکتے ہیں۔ اسی طرح وہ لوگ جنہوں نے اس تحریک میں حصہ تو لیا مگر اپنی طاقت سے کم حصہ لیا ہے مَیں ان کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی کمی کو پورا کر لیں اور اپنے چندے کی فہرست کو دیکھ کر گزشتہ سالوں کی کمی کو نمایاں اضافوں کے ساتھ پورا کریں۔ مجھے معلوم ہے کہ کئی لوگ ایسے ہیں جن کی صرف پچاس ساٹھ روپے تنخواہ ہے مگر انہوں نے اس تحریک میں ہر سال سو سو روپیہ چندہ دیا ہے اور کئی لوگ ایسے بھی ہیں جن کی دو سو روپیہ تنخواہ ہے مگر انہوں نے صرف دس یا بیس روپے چندہ دیا ہے۔ ایسے لوگوں کے لئے بھی وقت ہے کہ وہ اپنی کمی کو پورا کر لیں۔ یاد رکھو! چھلکا کام نہیں آ سکتا مغز کام آتا ہے۔ اسی طرح نام کام نہیں آ سکتا حقیقت کام آیا کرتی ہے۔ بے شک ایسے لوگوں نے ظاہری قواعد کو پورا کرتے ہوئے تحریک جدید میں اپنا نام لکھوا لیا ہے مگر ثواب ہم نے نہیں دینا بلکہ خدا نے دینا ہے اور خدا جانتا ہے کہ چندہ اپنی طاقت کے مطابق دیا گیا ہے یا طاقت اور توفیق سے کم دیا گیا ہے۔ پس وہ لوگ جنہوں نے اس تحریک میں کم حصہ لیا ہے انہیں چاہئے کہ وہ اب اپنی کمی کو پورا کر لیں تاکہ جب خدا تعالیٰ کے دین کے گھر کی بنیاد رکھی جائے اس وقت تمہارے لئے بھی ایک نیک خاندان کی بنیاد رکھ دی جائے اور اس دنیا اور آخرت میں تمہاری جڑیں ایسی مضبوطی سے قائم ہو جائیں جیسے ایک بہت بڑے شاندار اور پھل لانے والے درخت کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں۔‘‘ (الفضل 2 دسمبر 1942ء )
1: تذکرہ صفحہ 719۔ ایڈیشن چہارم
2: تذکرہ صفحہ 795 ایڈیشن چہارم
3: 1۔ کرنتھیوں باب 11آیت 13،14
4: ابو داؤد کتاب الصَّلٰوة بَاب اَلْعَمَلُ فِی الصَّلٰوة میں ایسی روایات حضرت امامہ بنت زینب کے متعلق ہیں۔
5: بائی: گانا گانے والی عورت
6: المائدة : 106
7: وَ مَا يَسْتَوِي الْبَحْرٰنِ١ۖۗ هٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ سَآىِٕغٌ شَرَابُهٗ وَ هٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ (فاطر:13)
8: ابو داؤد کتاب المھدی۔ حدیث 4282
9: اسدالغابہ جلد1صفحہ 422 حذیفہ بن الیمان ۔ بیروت لبنان 2001ءمیں حضرت عمرؓکے حوالے سے ذکر ہے۔

39
قادیان کے متعلق ’’تخت گاہِ رسول‘‘ کے الفاظ کا استعمال
جماعت تحریک جدید کی قربانیوں میں زیادہ سے زیادہ حصہ لے
( فرمودہ 4 دسمبر 1942ء )

تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’حکیم محمد عمر صاحب نے اصرار کیا ہے کہ مَیں ان کے مقدمہ کے متعلق احباب کو دعا کرنے کے لئے کہوں۔ وہ مقدمہ درحقیقت ان کا نہیں بلکہ سلسلہ کا ہے کیونکہ ایک زمین انہوں نے لی تھی جو سلسلہ کی طرف انہوں نے منتقل کر دی اور اس کے متعلق ایک بڑا بھاری مقدمہ چلا ہؤا ہے جس میں اگر فتح ہو جائے تو سلسلہ کو پانچ سو ایکڑ زمین مل جاتی ہے اور اگر خدانخواستہ شکست ہو جائے تو اتنی ہی زمین سلسلہ کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔ انہوں نے خواہش کی ہے کہ چونکہ اب مقدمہ آخری منزل میں ہے اس لئے دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو کامیابی دے اور سلسلہ کو فائدہ پہنچ جائے۔
اس کے بعد مَیں پہلے تو ایک ایسے امر کی طرف جماعت کو اور سلسلہ کے مصنفوں اور ناشروں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں جو بظاہر تو معمولی معلوم ہوتا ہے لیکن اپنے اندر بہت بڑے خطرات رکھتا ہے۔ مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس بات پر فخر حاصل ہے کہ باوجود کم عمری کے، باوجود کم علمی کے، باوجود نا تجربہ کاری کے اورباوجود بہت سی مشکلات میں گھِرا ہونے کے مَیں وہ پہلا شخص ہوں جس نے اس تحریک کا مقابلہ کیا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے مقام کو گرانے کے لئے لاہورکے کچھ دوستوں کی طرف سے جاری کی گئی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت مجھے طرح طرح کی دھمکیاں دی جاتی تھیں اور وہی دوست جو آج بڑے اخلاص سے میرے ساتھ شامل ہیں، مشورے دیا کرتے تھے کہ ان لوگوں کا مقابلہ کرنا آسان نہیں آپ یہ بوجھ نہ اٹھائیں۔ گو ایسے بھی تھے جو باوجود اس وقت کے لحاظ سے خاص رسوخ نہ رکھنے کے اور باوجود اس کے کہ انہیں کوئی مالی یا دنیوی وجاہت حاصل نہ تھی بلکہ غربت کی حالت تھی پھر بھی وہ اخلاص اور محبت سے میری تائید کرتے تھے۔ چنانچہ معلوم نہیں انہیں یاد ہے یا نہیں مگر چودھری عبد اللہ خان صاحب داتا زیدکا والے جو چودھری ظفر اللہ خان صاحب کے ماموں ہیں ان کے متعلق مجھے خوب یاد ہے کہ جب یہ باتیں شروع ہوئیں تو مسجد مبارک کی جو چھوٹی سیڑھیاں چڑھتی ہیں اس کے اوپر جہاں لکڑی لگی ہوئی ہے اورجوتیاں رکھنے کے لئے جگہ ہے وہاں کھڑے ہو کر انہوں نے مجھے ہمت دلائی اور کہا کہ یہ سلسلہ کا کام ہے آپ بے شک دلیری سے ان لوگوں کا مقابلہ کریں۔ تو مَیں نے اس وقت جب جماعت کے بڑے بڑے آدمی حیران و پریشان تھے کہ وہ کیا کریں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس رَو کا مقابلہ کیا جو زمانہ کے موعود کے درجہ کو گھٹانے کے لئے بعض لوگوں کی طرف سے اپنی دنیوی اغراض کے ماتحت جاری کی گئی تھی لیکن اگر اس کے یہ معنے ہوں کہ مَیں نے اس رَو کا اپنی خواہش کے ماتحت مقابلہ کیا تو ایسا مقابلہ دین نہیں کہلا سکتا بلکہ میلانِ طبع اور دنیا بھی کہلا سکتا ہے۔ جب تک وہ مقابلہ خالص طور پر سچائی کے لئے نہ ہو۔ اور خالص سچائی چاہتی ہے کہ صرف ایک جہت کی نہیں بلکہ دونوں جہت کی حفاظت کی جائے۔ جو شخص صرف ایک جہت کی حفاظت کرتا ہے اور دوسری جہت کی حفاظت کی پرواہ نہیں کرتا وہ راستباز نہیں کہلا سکتا۔ وہ جوشیلا انسان تو کہلا سکتا ہے، مصلحت بین تو کہلا سکتا ہے، وہ سیاست دان تو کہلا سکتا ہے مگر وہ سچا نہیں کہلا سکتا۔ سچائی چاہتی ہے کہ جہاں کہیں وہ ظاہر ہو اس کی تائید کی جائے۔
پس جہاں مَیں نے اس رَو کی مخالفت کی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے درجہ کو گرانے اور آپ کی شان کو کم کرنے کے لئے شروع کی گئی تھی وہاں میرا یہ بھی فرض ہے کہ مَیں ایسی تمام تحریکوں اور ان تمام طریقوں کی مخالفت کروں جن سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے درجہ کو ایسا رنگ دے دیا جائے جس سے آپ رسول کریم ﷺ کے مقابل پر یا آپ کے مماثل نظر آنے لگ جائیں۔ چنانچہ جس وقت ہماری جماعت میں سے ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے متعلق یہ لکھنا شروع کر دیا کہ ان کا کلمہ پڑھنا جائز ہے اور قادیان کی طرف مُنہ کر کے نماز پڑھنا بھی جائز ہے تو ان کی مخالفت کرنے والوں میں سے بھی مَیں ہی پہلا شخص تھا۔ وہ ہمیشہ مجھے اکساتا رہتا تھا کہ لاہور والوں کا مقابلہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ وہ جس قدر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درجہ کو گرانے کی کوشش کریں اسی قدر آپ کے درجہ کو بڑھا کر بتایا جائے اور وہ چاہتا تھا کہ اس کا لٹریچر لوگوں میں تقسیم ہو مگر مَیں نے اسے کبھی وقعت نہیں دی کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی کے متعلق میری جد و جہد سچائی پر مبنی تھی، کسی جنبہ داری پر مبنی نہیں تھی۔ اس لئے جب ایک اَور شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے درجہ میں غلو سے کام لیا تو مَیں نے اس کی بھی مخالفت کی۔
اس تمہید کے بعد مَیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میرے آج کے خطبہ کا محرک یہ امر ہؤا ہے کہ آج صبح جب مَیں نے ‘‘الفضل’’ کو دیکھا تو اس کے ایک مضمون کا یہ عنوان تھا کہ ‘‘تخت گاہِ رسول میں اہل اللہ کا عظیم الشان اجتماع’’ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ قادیان آپ کی تخت گاہ ہے۔ مَیں نے خود کئی دفعہ یہ بات کہی ہے لیکن جب ہم بغیر کسی نسبت کے رسول کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے مراد رسول کریم ﷺ کے سوا اَور کوئی نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک دیوار ہے جو ہم نے رسول کریم ﷺ کے عہدہ کے لئے کھینچ دی ہے اور جب ہم بغیر کسی نسبت کے رسول کا لفظ استعمال کریں تو اس وقت صرف اور صرف محمد رسول اللہ ﷺ مراد لئے جاتے ہیں اور وہی مراد لئے جا سکتے ہیں۔ اگر اس دیوار کو ہم توڑ دیں تو بہت سے کمزور لوگ ایسے ہو سکتے ہیں جو دھوکا کھا کر کہیں سے کہیں نکل جائیں۔ اگر کسی غیر مقام اور قادیان کا مقابلہ ہو ، سوائے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے تو اس وقت مضمون کی وضاحت کے لئے اور یہ بتانے کے لئے کہ قادیان میں جس شخص نے احمدیت کا مرکز قائم کیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کا رسول ہے، کہہ سکتے ہیں ، کہتے ہیں اور کہتے چلے جائیں گے کہ قادیان خد اکے رسول کا تخت گاہ ہے لیکن جب ہم خالی تخت گاہِ رسول کے الفاظ استعمال کریں تو دنیا میں سوائے مدینہ منورہ کے اور کوئی شہر اس سے مراد نہیں ہو سکتا اور اسی کو ‘‘تخت گاہ رسول’’ کہنے اور سمجھنے پر ہر شخص مجبور ہو گا۔ مَیں جس جگہ پر کھڑا ہوں یہ خدا تعالیٰ کا گھر ہے۔ کوئی شخص اس سے انکار نہیں کر سکتا ۔ مسجدیں اللہ تعالیٰ کا ہی گھر ہوتی ہیں، کسی گاؤں کسی شہر اور کسی محلہ میں مسجد ہو وہ خدا تعالیٰ کا گھر کہلاتی ہے اور اگر کوئی شخص اس میں دخل دینے لگے اور زبردستی اپنی حکومت جتائے تو ہم اسے کہہ سکتے ہیں کہ تمہارا کیا حق ہے کہ تم خدا کے گھر میں اپنی حکومت جتاؤ۔ اسی طرح خدا کے گھر کے الفاظ ہم اس چھوٹی سی چھوٹی مسجدکے لئے بھی استعمال کر سکتے ہیں جس میں صرف تین چار آدمی نماز پڑھ سکتے ہوں اور خدا کے گھر کو عربی زبان میں بیت اللہ کہتے ہیں۔ اگر عرب میں کوئی ایسا ہی واقعہ پیش آئے اور کوئی شخص کسی مسجد میں جا کر دخل دینے لگے تو عرب اسے یہی کہیں گے کہ کیا تم بیت اللہ میں اپنی حکومت جتاتے ہو!! مگر جب خالی بیت اللہ کا لفظ استعمال کیا جائے گا تو بیت اللہ سے مراد سوائے خانۂ کعبہ کی مسجد کے اَور کوئی مسجد نہیں ہو گی۔ چاہے مسجد نبوی ہی کیوں نہ ہو۔ جب بھی ہم خالی بیت اللہ کا لفظ بولیں گے تو چونکہ ہم نے یہ دستور مقرر کر لیا ہے کہ جب اس لفظ کو خالی استعمال کیا جائے تو اس سے مراد خانہ کعبہ کی مسجد ہوتی ہے۔ اس لئے بیت اللہ سے خانہ کعبہ ہی مراد ہو گا کوئی اَور مسجد مراد نہیں ہو گی اور اگر کوئی شخص خالی بیت اللہ کا لفظ استعمال کر کے کہہ دے کہ میری مراد اس سے فلاں مسجد تھی تو ہم ایسے شخص کے متعلق یہی کہیں گے کہ یا تو وہ خود فریب خوردہ ہے یا جان بوجھ کر لوگوں کو دھوکا دیتا ہے۔ خالی بیت اللہ کا لفظ جب بھی استعمال کیا جائے گا اس سے مراد خانۂ کعبہ ہو گا اور خالی تختِ گاہ رسول کا لفظ جب بھی استعمال کیا جائے گا اس سے مراد مدینہ منورہ ہو گا۔ اسی طرح اگر کوئی احمدی کھڑا ہو اور وہ کہے کہ مَیں حدیثِ رسول بیان کرتا ہوں اور اس کے بعد وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی بات سنانی شروع کر دے تو ہم ایسے شخص کے متعلق یہی کہیں گے کہ وہ ایک فتنہ کی بنیاد رکھ رہا ہے کیونکہ گو حدیث کے معنے بات کے ہیں اور گو مسیح موعود اللہ تعالیٰ کے نبی اور رسول ہیں مگر خالی حدیث رسول کے الفاظ جب بھی استعمال کئے جائیں گے اس سے مراد صرف رسول کریم ﷺ کی باتیں ہوں گی کسی اَور رسول کی باتیں مراد نہیں ہوں گی۔ اگر ہم ایسے امور میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو شریک کر لیں تو یقیناً ایک حصۂ جماعت کے ذہن میں یہ خیال آنا شروع ہو جائے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نَعُوْذُ بِاللہرسول کریم ﷺ کے مقابل کے رسول ہیں۔ حقیقت یہی ہے اور اگر غور سے کام لیا جائے تو اس بات کا سمجھنا کوئی مشکل امر نہیں۔ لوگ روزانہ اپنی گفتگو میں اس قسم کے الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ میرا فلاں بات پر ایمان ہے اور اس قسم کے الفاظ استعمال کرنے والے مسلمان ہی نہیں ہندو اور عیسائی اور دوسرے مذاہب کے بھی لوگ ہوتے ہیں۔ مگر ان الفاظ کے نتیجہ میں انہیں مومن نہیں کہا جا سکتا کیونکہ مومن کا لفظ ایک اصطلاح ہے اوریہ اصطلاح اسی مقام پر استعمال کی جا سکتی ہے جس مقام پر استعمال کرنے کا خدا نے حکم دیا ہے۔ اسی طرح رسول اگر اس وقت محمد رسول اللہ ﷺ ہی ہیں۔ اس لئے جب خالی رسول کا لفظ استعمال کیا جائے گا تو اس سے مراد محض آنحضرت ﷺ ہوں گے اور یہ اصطلاح غلط طور پر مشہور نہیں بلکہ صحیح طور پرمشہور ہے کیونکہ کوئی ایسا رسول اسلام میں نہیں آ سکتا جو رسول کریم ﷺ کی غلامی سے آزاد ہو کر مقامِ نبوت کو حاصل کر سکے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے جو اپنے آپ کو ظلی اور بروزی کہا تو اس کے بھی یہی معنے ہیں کہ آپ رسول کریم ﷺ کے تابع اور امتی نبی ہیں۔ چنانچہ جب لوگ اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ کے ہوتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نبی کس طرح ہو گئے؟ تو ہم یہی کہتے ہیں کہ آپ نے جب رسول کریم ﷺ کی رسالت کو منسوخ نہیں کیا تو آپ ان کے بعد کس طرح ہو گئے۔ آپ کی رسالت تو رسول کریم ﷺ کی رسالت کے اندر شامل ہے اور اندر والے کے متعلق ایسی اصطلاحیں رائج کرنا جن سے وہ باہر کی چیز بن جائے کسی صورت میں بھی درست نہیں ہو سکتا۔ بے شک جب مسئلے کا سوال آئے گا ہم کہیں گے کہ مسیح موعود خدا کا رسول ہے۔ جب لاہور اور قادیان کا مقابلہ ہو گا ہم کہیں گے کہ قادیان خدا کے رسول کا تخت گاہ ہے تمہاری اس کے مقابلہ میں حقیقت ہی کیا ہے۔ مگر جب خالی تخت گاہ رسول کے الفاظ استعمال کئے جائیں گے تو اس سے مراد صرف مدینہ منورہ ہو گا اَور کوئی شہر نہیں ہو گا۔ اورجب خالی بیت اللہ کا لفظ استعمال کیا جائے گا تو اس سے مراد صرف خانہ کعبہ ہو گا مدینہ منورہ یا قادیان یا کسی اَور مقام کی مسجد مراد نہیں ہو گی۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے ہماری جماعت میں جب مہدیٔ موعود کے الفاظ استعمال ہوں گے تو اس سے مراد صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام ہوں گے ورنہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود لکھا ہے آپ سے پہلے بھی کئی مہدی گزر چکے ہیں لیکن جب ہم مہدی موعود کہیں گے تو اس سے مراد صرف حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ہوں گے اور کوئی مہدی اس سے مراد نہیں ہو گا۔ اگر کوئی شخص اس اصول کو مدنظر نہ رکھے اور لوگوں کو دھوکا دینے لگ جائے تو دنیا میں امن قائم نہیں رہ سکتا اور لوگوں کا قدم غلط راستہ پر پڑ سکتا ہے۔
پس مَیں جماعت کے تمام مصنفین وغیرہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس قسم کے الفاظ کا استعمال کرنا جائز نہیں۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ تم قادیان کے متعلق ’’تخت گاہِ رسول‘‘ کے الفاظ استعمال مت کرو۔ مَیں یہ کہتا ہوں کہ جب مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے علاوہ دوسرے شہروں کا ذکر آ جائے تو اس کے مقابلہ میں قادیان کو ‘‘تخت گاہِ رسول’’ کہا جا سکتا ہے۔ مگر جب شہروں کا عام ذکر ہو جن میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ بھی شامل ہوں۔ تب قادیان کے متعلق ‘‘تخت گاہِ رسول’’ کے الفاظ کا استعمال درست نہیں کیونکہ اس صورت میں تخت گاہ رسول صرف مدینہ منورہ ہو گا جیسے ‘‘بیت اللہ’’ کا لفظ ہم ہر مسجد کے لئے بول سکتے ہیں مگر اس صورت میں جب کوئی اشارہ اور قرینہ موجود ہو لیکن جب بغیر قرینہ کے ‘‘بیت اللہ’’ کا لفظ استعمال کیا گیا ہو تو اس سے مراد صرف بیت اللہ کی مسجد ہو گی اَور کوئی مسجد نہیں ہو گی۔ پس اس بارہ میں ہمارے لئے احتیاط بہت ضروری ہے۔ ہمارا کام صرف یہ نہیں کہ ہم پیغامیوں کا مقابلہ کریں بلکہ ہمارا کام یہ بھی ہے کہ ایسی تحریکیں بھی جماعت میں نہ اٹھنے دیں جن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام یا آپ کے خلفاء کے متعلق غلوّ سے کام لیا گیا ہو۔ مَیں نے دیکھا ہے حضرت خلیفۂ اول کے زمانہ میں بعض لوگ ایسے تھے جنہوں نے آہستہ آہستہ آپ کو ایک مستقل درجہ دینا شروع کر دیا تھا اور اب بھی اگر سلسلہ کے اخبارات کو گہرے غور سے پڑھا جائے جس طرح مَیں پڑھا کرتا ہوں تو تھوڑے تھوڑے مہینوں کے بعد اس کی لپک سی پیدا ہو جاتی ہے اور صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ بعض لوگ حضرت خلیفہ اول کو مستقل طور پر کوئی الگ درجہ دینا چاہتے ہیں۔ میرے ڈر کی وجہ سے یا سلسلہ کے نظام کے ڈر کی وجہ سے اس قسم کے خیالات ابھرتے نہیں لیکن تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد اس کی لپک سی پیدا ہو جاتی ہے اور مجھے ہمیشہ ایسی باتوں کو پڑھ کر مزا آتا ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے ایک دفعہ مجھے ہی مخاطب کرتے ہوئے فرمایا اور شاید اسی لئے فرمایا کہ مَیں اس کی نگرانی کروں کہ ہماری جماعت میں تین قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ ایک تو وہ ہیں جو حضرت مولوی صاحب کی وجہ سے سلسلسہ میں داخل ہو گئے ہیں (حضرت خلیفہ اول کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام عام طور پر مولوی صاحب کہا کرتے تھے) وہ مولوی صاحب کی قدر جانتے ہیں۔ ہماری نہیں۔ چونکہ مولوی صاحب نے ہماری بیعت کر لی ہے اس لئے وہ بھی بیعت میں شامل ہو گئے ہیں۔ اس سے زیادہ ان کا ایمان نہیں۔ بے شک ان کے دلوں میں ایمان ہے مگر ان کا ایمان واسطے کا ایمان ہے۔ اس کے مقابلہ میں ایک گروہ ہماری جماعت میں ایسا ہے جس نے یہ دیکھا کہ ایک جماعت بن گئی ہے اور اس میں قربانی اور ایثار کا مادہ پیدا ہو گیا ہے تو قوم کی خدمت کے لئے وہ اس جماعت میں شامل ہو گیا کیونکہ قومی خدمت کے لئے قربانی اور ایثار کرنے والوں کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ سوائے ہماری جماعت کے اَور کہیں نہیں مل سکتے۔ ایسے لوگ چاہتے ہیں کہ انجمنیں بنائیں، مدرسے بنائیں ،دفاتر بنائیں اور دنیوی رنگ میں قوم کی بہبودی کے کام کریں۔ ایسے لوگ بے شک ہم کو مانتے ہیں مگر اپنے کاموں کا آلۂ کار بنانے کے لئے۔ ہمارے مقام کو سمجھ کرنہیں مانتے۔مگر ان کے علاوہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے ہم کو سچے دل سے مانا ۔ وہ ہمیں خدا کا مامور سمجھتے ہیں اور ان کی نگاہ پہلے ہم پر پڑتی ہے اور ہم سے اُتر کر پھر کسی اَور پر پڑتی ہے ۔ اصل مخلص وہی ہیں باقی جس قدر ہیں وہ ابتلاء اور ٹھوکر کھانے کے خطرہ میں ہیں۔ یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے میرے سامنے بیان کی تھی حالانکہ میری عمر اُس وقت بہت چھوٹی تھی۔ آپ کا اس بات کامیرے سامنے بیان کرنا بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم کے ماتحت آپ اس بات کو جانتے تھے کہ لوگوں کی نگرانی کسی زمانہ میں میرے سپرد ہونے والی ہے اور آپ نے اُسی وقت مجھے ہوشیار کر دیا چنانچہ ایک ٹکراؤ تو میری خلافت کے شرو ع ہوتے ہی انجمن والوں سے ہو گیا اور وہ قادیان سے نکل گئے باقی جو غلو کرنے والے ہیں وہ بھی ہمیشہ رہتے ہیں اورہمارا فرض ہے کہ ان کا سر کچلتے رہیں۔ اس کے مقابلہ میں ایک تیسرے گروہ کا پیدا ہو جانا بھی کوئی بعید از قیاس نہیں۔ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے درجہ میں غلوّ سے کام لے اگر ہم ان لوگوں کو نہ دبائیں تو یہ دین کو کہیں کا کہیں لے جائیں گے۔ ہم بے شک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا رسول کہتے ہیں مگر نفسانیت کی وجہ سے نہیں۔ اس وجہ سے نہیں کہ ہم احمدیہ جماعت میں شامل ہیں۔ اگر ہمارے سلسلہ کا بانی رسول ہو گا تو ہماری شان بہت بڑھ جائے گی۔ ہم اگر آپ کو رسول کہتے ہیں تو صرف اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو رسول کہا اور خدا تعالیٰ کے رسول نے آپ کو رسول کہا۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو ہم میں سے جو راستباز ہوتے۔ وہ کبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو رسول نہ کہتے لیکن جب ہمیں یقین پیدا ہو گیا کہ آپ کو خد انے رسول کہا اور ہمیں یقین پیدا ہو گیا کہ آپ کو خدا کے رسول نے رسول کہا ہے۔ تو پھر ہم نے فیصلہ کر لیا کہ اب اس کے بعد دشمن کے حملوں کی پرواہ نہیں کی جا سکتی۔ وہ بے شک مخالفت کرے۔ ہم آپ کو ضرور رسول کہیں گے چنانچہ دیکھ لو کتنے سالوں سے دشمن قادیان پر حملہ کر رہا ہے مگر ہم اس کی ذرا بھی پرواہ نہیں کرتے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ انسانوں میں کسی کو تباہ کرنے کی طاقت نہیں۔
مجھے یاد ہے کشمیر موومنٹ کے ایام میں جب مَیں کشمیر کمیٹی کا پریذیڈنٹ تھا اور احرار نے شورش برپا کر دی تو ایک دن سر سکندر حیات خان صاحب نے مجھے کہلا بھیجا کہ اگر کشمیر کمیٹی اور احرار میں کوئی سمجھوتہ ہو جائے تو حکومت کسی نہ کسی رنگ میں فیصلہ کر دے گی۔ مَیں چاہتا ہوں کہ اس بارہ میں دونوں کا تبادلۂ خیالات ہو جائے وہ ان دنوں ریونیو ممبر تھے اور مجھے یہ بھی علم ہو گیا تھا کہ انہیں گورنمنٹ کی طرف سے امید دلائی گئی ہے کہ اگر کشمیر کمیٹی اور احرار میں کوئی سمجھوتہ ہو جائے تو گورنمنٹ اس کو قبول کر لے گی۔ مَیں اُن دنوں لاہور میں ہی تھا۔ مَیں نے کہا کہ مجھے شریک ہونے میں کوئی عذر نہیں۔ یہ میٹنگ سر سکندر حیات خان صاحب کی کوٹھی پر ہوئی اور مَیں اس میں شریک ہؤا۔ چوہدری افضل حق صاحب بھی آ گئے اور اسی طرح اَور بہت سے مسلمان شامل تھے۔ باتیں شروع کرتے ہی چودھری افضل حق صاحب نے میرے متعلق کہا کہ مجھے سخت شکوہ ہے۔ انہوں نے الیکشن میں میری کوئی مدد نہیں کی۔ پھر انہی باتوں کے دوران میں وہ جوش میں آ گئے اور کہنے لگے مَیں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اب احمدیہ جماعت کو تباہ کر کے رکھ دوں۔ انہوں نے یہ بات بڑے جوش سے کہی۔ مَیں ان کی یہ بات سن کر مسکرایا اور کہا چوہدری صاحب! اگر احمدیت خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے توپھر ہمیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ آپ اس کے مقابلہ کے لئے کھڑے ہوں یا کوئی اَور کھڑا ہو۔ اگر یہ سلسلہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے تو خدا خود اس کی حفاظت کرے گا۔ اور اگر یہ سلسلہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں تو پھر اس کے مقابلہ کے لئے آپ کو بھی کھڑے ہونے کی ضرورت نہیں خدا خود اس کو تباہ کر دے گا۔ پس دو ہی صورتیں ہیں کہ یا تو یہ سلسلہ خدا کی طرف سے ہو یا نہ ہو۔ اگر یہ سلسلہ خدا کی طرف سے ہے اور یہ اس کی اپنی چیز ہے تو پھر وہ اس چیز کی خود حفاظت کرے گا اور کسی کی مخالفت ہمیں ڈرا نہیں سکتی اور اگر اس کی چیز نہیں تو آپ تو اسے کل تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ میری دعا یہ ہے کہ یہ آج ہی تباہ ہو جائے۔
تو جو چیز خداتعالیٰ کی ہے۔ اس کی وہ خود حفاظت کیا کرتاہے اور جو چیز اس کی نہیں اسے وہ تباہ ہونے دیتا ہے۔ ہمارا تعلق محض خدا کے لئے ہوتا ہے۔ چاہے وہ نبی سے ہو یا اس کے خلیفہ سے ہو اور درحقیقت ہمارا محمد رسول اللہ ﷺ سے تعلق بھی محض اسی لئے ہے کہ آپ کا خدا سے تعلق تھا اور ہمارا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام سے تعلق بھی محض اسی لئے ہے کہ آپ خدا کے ہو گئے تھے۔ ورنہ ہمارا اصل تعلق تو اسی سے ہے جس نے ہمیں پیدا کیا جو ہمارا رازق، مالک، رحمان، رحیم اورمَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن ہے۔ باقی سب تعلقات طفیلی ہیں ، چاہے وہ محمد رسول اللہ ﷺ سے ہوں اور چاہے حضرت مرزا صاحب سے ہوں۔ ہمارے دل کی کیفیت وہی ہے جو کسی نے کہا کہ ‘‘میں راجہ کا نوکر ہوں بینگن کا نوکر نہیں۔’’ ہم بھی خدا تعالیٰ کے نوکر ہیں اور اسی کی مرضی پر چلنا جانتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف کوئی مرزا صاحب کی طرف بات منسوب کرے گا تو ہم اس کی مخالفت کریں گے اور اگر اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف کوئی محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف بات منسوب کرے گا تو ہم اس کی مخالفت کریں گے۔ اگر کوئی کہے گا کہ محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول نہیں تو ہم اس کی مخالفت کریں گے اور اگر کوئی کہے گا کہ محمد ﷺ غیب دان تھے تو ہم اس کی مخالفت کریں گے۔ اگر کوئی کہے گا کہ محمد ﷺ کی محبوبیت کی شان نہیں پائی جاتی تو ہم اس کی مخالفت کریں گے اور اگر کوئی کہے گا کہ محمد ﷺ خدا تعالیٰ کے برابر ہیں تو ہم اس کی مخالفت کریں گے۔ ہمارا تعلق تو سب سے محض اللہ کے لئے ہے جدھر اللہ ہو گا ادھر ہم ہوں گے اور جدھر وہ نہیں ہو گا ادھر ہم بھی نہیں ہوں گے۔
پس مَیں جماعت کے تمام دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ کبھی کوئی ایسا موقع نہ آنے دو جس سے آئندہ نسلیں دھوکا کھا جائیں۔ تھوڑے ہی دن ہوئے ایک شخص نے مجھے لکھا کہ قادیان کے متعلق ‘‘تخت گاہ رسول’’ جو کہا جاتا ہے۔ یہ غلوّ سے کام لیا جاتا ہے ۔ میرا منشاء تھا کہ اسے یہ جواب لکھوں کہ جسے خدا نے تخت گاہ رسول قرار دیا ہے اسے ہم کیوں نہ تخت گاہِ رسول قرار دیں۔اس وقت میرے ذہن میں بھی یہ نہ تھا کہ چند ہی دنوں میں اس طرح عمومیت کے رنگ میں یہ لفظ استعمال کیا جائے گا۔ بہرحال موقع اور محل پر ہم ہزار بار نہیں لاکھ بار کہیں گے کہ قادیان خدا کے رسول کا تخت گاہ ہے اور اگر مناسب موقع اور محل پر یہ الفاظ استعمال کئے جائیں تو بالکل جائز اور درست ہوں گے اور ہم ان الفاظ کے استعمال سے کبھی نہیں رکیں گے کہ قادیان خدا کے رسول کا تخت گاہ ہے لیکن ہم قادیان کا یہ نام نہیں رکھیں گے کیونکہ یہ نام صرف مدینہ منورہ کا ہے۔ اسی طرح بیت اللہ ہم تمام مسجدوں کو کہتے ہیں اور کہتے چلے جائیں گے مگر جب یہ لفظ نام کے طور پر آئے گا اور بغیر کسی قرینہ کے استعمال کیا جائے گا تو اس وقت اس سے مراد صرف خانہ کعبہ ہو گا اور کوئی مسجد نہیں ہو گی۔ اسی طرح خالی رسول اللہ کے الفاظ جب بھی استعمال کئے جائیں گے تو اس سے مراد محض رسول کریم ﷺ ہوں گے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام مراد نہیں ہوں گے نہ حضرت موسیٰ یا حضرت عیسیٰ مراد ہوں گے۔ خالی رسول اللہ صرف محمد رسول اللہ ﷺ ہیں۔ پس خالی رسول اللہ کے الفاظ جو بغیر کسی قرینہ کے استعمال کئے جائیں۔ ان کا استعمال سوائے محمد ﷺ کے اَور کسی کے لئے جائز نہیں۔ یہ محمد ﷺ کا مال ہے اور کوئی شخص اس مال کو آپ سے چھین نہیں سکتا۔ پس ایک تو یہ نصیحت ہے جو مَیں کرنا چاہتا ہوں کہ ان باتوں سے احتیاط سے کام لو اور ان الفاظ کی بجائے اَور الفاظ استعمال کیا کرو تاکہ لوگوں کو دھوکا نہ لگے اور وہ کسی فتنہ میں مبتلا نہ ہو جائیں۔
اس کے بعد مَیں احباب کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ تحریک جدید کے نئے سال کے متعلق گزشتہ خطبہ میں مَیں نے جو اعلان کیا تھا۔ اس میں بعض باتیں بیان کرنے سے رہ گئی تھیں مثلاً وعدوں کے وقت کی تعیین کے متعلق گزشتہ خطبہ میں کوئی اعلان نہیں کیا جا سکا۔ اب اس خطبہ کے ذریعہ مَیں یہ اعلان کر دینا چاہتا ہوں کہ ہندوستان کے دوستوں کی طرف سے 31 جنوری تک بھیجے ہوئے وعدے قبول کئے جائیں گے مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ دوست 31 جنوری تک وعدے بھجوانے میں تاخیر سے کام لیں۔ یہ صرف لوگوں کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے تاریخ مقرر کی گئی ہے ورنہ دوستوں کو چاہئے کہ جلسہ سالانہ سے پہلے پہلے تحریک جدید کے متعلق اپنے وعدے بھجوا دیں تاکہ آئندہ سال کا پروگرام تیار کرنے میں ہمیں کوئی دقت اور پریشانی پیدا نہ ہو۔ اگر وقت کے اندر اندر وعدے آ جائیں تو ہمیں اس امر کا اندازہ ہو سکتا ہے کہ آئندہ سال دوستوں کی طرف سے اس قدر رقم آئے گی اور پھر اس رقم کے اندر اپنے اخراجات رکھے جا سکتے ہیں۔ اس لئے جہاں تک ہو سکے دوستوں کو 24،25 دسمبر تک اپنے وعدے بھجوا دینے چاہئیں۔ یا جلسہ سالانہ پر آئیں تو جماعتوں اور افراد کے وعدوں کی فہرستیں مرتب کر کے اپنے ہمراہ لیتے آئیں۔ پھر جو لوگ رہ جائیں گے چونکہ انہیں واپس جانے میں کچھ دیر لگ جاتی ہے اور پھر واپس پہنچ کر انہیں پہلے اپنے کئی کام سنوارے پڑتے ہیں اور پھر دوستوں سے وعدوں کے لئے ملنا ہوتا ہے۔ اس لئے ایسے لوگوں کے لئے 31 جنوری کی تاریخ مقرر کی گئی ہے یعنی وہ خطوط جو 31 جنوری کو چلیں گے یا یکم فروری کی ان پر مہر ہو گی۔ ان کےو عدوں کو منظور کر لیا جائے گا۔ یکم فروری کی مہر کی شرط اس لئے زائد کی گئی ہے کہ ہو سکتا ہے کوئی شخص 31 جنوری کی شام کو خط لکھے اور چونکہ ڈاک اگلے دن ہی نکل سکتی ہے اس لئے خط پر یکم فروری کی مہر لگے گی۔ پس جس خط پر یکم فروری کی مہر ہو گی اس کے وعدہ کو بھی میعاد کے اندر سمجھا جائے گا۔ اسی طرح بعض جگہ ہفتہ میں صرف ایک دفعہ ڈاک نکلتی ہے۔ ایسے مقامات کے متعلق یہ دستور ہو گا کہ وہاں کے جو دوست 31 جنوری کو خط لکھ دیں گے وہ ہمیں خواہ کسی تاریخ کو پہنچیں ہم ان کےو عدہ کو قبول کر لیں گے کیونکہ وہ 31 جنوری کے بعد پہلی ڈاک میں آئے ہوں گے لیکن اس تاریخ کے بعد کوئی وعدہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ ہاں اگر کوئی شخص اپنے وعدہ میں زیادتی کرنا چاہے تو وہ ہر وقت کر سکتا ہے مثلاً پہلے اس نے دس روپوؤں کا وعدہ کیا تھا پھر وہ پندرہ روپے دینا چاہے تو اسے اختیار ہے کہ جب چاہے اپنے وعدہ میں اضافہ کر لے۔ اضافہ کرنے میں کوئی روک نہیں البتہ نیا وعدہ ہندوستان کے کسی دوست کی طرف سے 31 جنوری کے بعد قبول نہیں کیا جائے گا۔ سوائے بنگال وغیرہ کے کہ ان کے وعدوں کے لئے اپریل کی آخری تاریخ مقرر ہے اور سوائے باہر کے ممالک کے کہ ان کے وعدوں کی آخری تاریخ 30 جون ہے یا سوائے ان لوگوں کے جو اس وقت بر سرکار نہیں یا غریب ہیں اور دوران سال میں بر سر کار ہو جائیں یا خدا تعالیٰ انہیں مال دے دے۔ ان تاریخوں پر تمام دوستوں کو اپنے اپنے وعدے بجھوانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس کے بعد مَیں پھر اس امر پر زور دینا چاہتا ہوں کہ جماعت کو چاہئے وہ خصوصیت سے تحریک جدید کے ان آخری سالوں میں زیادہ سے زیادہ قربانی کرے۔ مَیں جانتا ہوں کہ بعض دوست ایسے ہیں جنہوں نے تحریک جدید کے چندہ میں زیادہ سے زیادہ قربانی کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ابھی بہت سے دوست ایسے ہیں جنہوں نے اس رنگ میں نمایاں قربانی نہیں کی۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ دوستوں کی ایک ایسی شمار میں آنے والی مقدار ہے جن کےو عدے ان کی آمدنیوں کے مطابق نہیں۔ ان دوستوں کو مَیں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی آمدنیوں کے مطابق یا قربانی کی حد تک وعدے کریں۔ اس کے ساتھ ہی مَیں اس امر کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کہ ابھی پندرہ بیس ہزار روپیہ کے وعدے سال ہشتم کے وعدوں میں سے پورے ہونے باقی ہیں ان میں سے بعض مہلتیں لے رہے ہیں اور جن کو حقیقی مشکلات درپیش ہیں، انہیں مہلتیں دی جا رہی ہیں لیکن باقی دوست جنہوں نے ابھی تک نہ اپنا وعدہ پورا کیا ہے اور نہ چندے کی ادائیگی کے لئے کوئی مہلت لی ہے انہیں مَیں یہ کہتا ہوں کہ وہ اب نئے سال کے وعدے کی خوشی میں نہ بیٹھ جائیں بلکہ کوشش کریں کہ ان کا گزشتہ سال کا وعدہ جلد سے جلد پورا ہو جائے۔ اگر وہ 30 نومبر تک اپنے وعدوں کو پورا نہیں کر سکے تھے تو اب کم سے کم جلسہ سالانہ تک اپنے وعدوں کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے یا زیادہ سے زیادہ 31 جنوری تک اپنے وعدے پورے کر دیں۔ اگر وہ گزشتہ سال کے وعدوں کو 31 جنوری تک پورا کر دیں تو سال رواں کےبجٹ پر اچھا اثر پڑے گا اور ان رقوم کے ذریعہ اس سال کے اخراجات پورے ہو سکیں گے اور ہم ابھی سے اگلے سال کے روپیہ میں سے خرچ کرنے پر مجبور نہیں ہوں گے پھر جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے تحریک جدید کے دوسرے حصوں کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے اور خصوصیت سے دعاؤں پر زور دینا چاہئے۔ مَیں نے پچھلی دفعہ بھی توجہ دلائی تھی کہ جو لوگ اس تحریک کے مالی مطالبہ میں حصہ نہیں لے سکتے۔ وہ دعاؤں پر زور دے کر اس تحریک میں حصہ لے سکتے ہیں۔ انہیں چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور اخلاص سے اور بار بار دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ اس تحریک میں ان لوگوں کو زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے جن کو اس نے اپنے فضل سے مالی وسعت عطا فرمائی ہوئی ہے۔ اس غرض کے لئے وہ جتنی زیادہ دعائیں کریں گے اور جتنا جوش ان کی دعاؤں کی وجہ سے لوگوں کے قلوب میں پیدا ہو گا اور جس قدر زیادہ وہ اس تحریک میں حصہ لیں گے اسی قدر ان کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ثواب ملے گا۔ پھر وہ یہ بھی دعا کریں کہ جن لوگوں نے وعدے کئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی جلد سے جلد اپنےو عدے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ وعدہ کرنا آسان ہوتا ہے لیکن اسے پورا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ پس ان لوگوں کے لئے بھی دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے وعدوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
مَیں اس موقع پر اس خوشی کااظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ مَیں نے پچھلےسے پچھلے سال سے اس بات پر زور دینا شروع کیا تھا کہ دوستوں کو اپنے وعدے جلد پورے کرنے چاہئیں سو اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے پچھلے سال بھی وصولی اچھی رہی تھی اور اس سال تو وصولی کی رفتار گزشتہ سال سے بھی بہتر رہی ہے اور دوستوں نے اپنے وعدوں کو بروقت پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ انہیں اس خلوص اور ایثار کی زیادہ سے زیادہ بہتر جزا دے۔ مَیں امید کرتا ہوں کہ اس سال بھی جہاں دوست اس بات کی کوشش کریں گے کہ ان کےو عدے گزشتہ سالوں سے اضافہ کے ساتھ ہوں وہاں وہ اس بات کی بھی کوشش کریں گے کہ ان وعدوں کو جلد سے جلد پورا کریں اور اس بارہ میں دعا کرنے والے ہماری بہت بڑی مدد کر سکتے ہیں۔ درحقیقت دل اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں اور اگر وہ قربانیوں کے لئے لوگوں کے دل پھیر دے تو پھر قربانی کے راستہ میں کوئی چیز روک نہیں بن سکتی۔ آخر ابو بکرؓ اور عمرؓ کا دل ہی تھا جو زیادہ سے زیادہ قربانیوں پر تیار رہتا تھا اور جب بھی رسول کریم ﷺ کوئی تحریک فرماتے وہ کوشش کرتے کہ قربانیوں میں دوسروں سے بڑھ کر رہیں۔ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ نے ایک بڑی بھاری تحریک فرمائی۔ حضرت عمرؓ نے فیصلہ کیا کہ مَیں آج سب سے بڑھ کر قربانی کروں گا چنانچہ وہ اپنے گھر میں آئے اور اپنا آدھا مال اٹھا کر رسول کریم ﷺ کی مجلس میں پہنچے۔ وہ دل میں یہ خیال کرتے جا رہے تھے کہ کوئی اپنے مال کا بیسواں حصہ لائے گا، کوئی دسواں حصہ لائے گا، کوئی پانچواں حصہ لائے گا مگر مَیں تو اپنا آدھا مال لے آیا ہوں اور کسی نے میرے برابر کیا قربانی کرنی ہے۔ جب وہ مال سے لدھے پھندے اور بوجھ سے دبے رسول کریم ﷺ کی مجلس میں پہنچے تو دیکھا کہ حضرت ابو بکرؓ پہلے ہی پہنچے ہوئے ہیں۔ ان کے دل میں یہ بھی خیال تھا کہ مَیں سب سے پہلے بھی پہنچوں اور قربانی بھی میری ہی سب سے زیادہ ہو۔ جب انہوں نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو پہلے پہنچا ہؤا دیکھا تو کہنے لگے۔ آج بھی یہ بڈھا سبقت لے گیا مگر خیر قربانی میں تو میرا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ جب وہ اَور زیادہ قریب پہنچے تو انہوں نے سنا رسول کریم ﷺ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کہہ رہے تھے کہ ابو بکرؓ تم سب کچھ لے آئے ۔ گھر میں کیا چھوڑا اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ حضور اللہ اور رسول کا نام چھوڑا ہے ۔ اس وقت حضرت عمرؓ کومعلوم ہؤا کہ وہ جو سمجھتے تھے کہ آج مَیں قربانی میں سب سے بڑھ جاؤں گا۔ ان کا یہ خیال درست نہ نکلا اور آج بھی ابو بکرؓ سب سے بڑھ گیا۔1
تو دلوں کے بدلنے سے ہی سب قربانیاں ہوتی ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ دل نہ بدلے تو کوئی قربانی نہیں ہو سکتی۔ ہماری جماعت کو ہی دیکھ لو چونکہ ہماری جماعت کے دل بدلے ہوئے ہیں اس لئے باوجود اس کے کہ ہماری جماعت چھوٹی سی ہے قربانیوں کے میدان میں وہ دوسروں سے بہت بڑھی ہوئی ہے۔ اس کے مقابلہ میں مسلمانوں میں آج اس گری ہوئی حالت میں بھی ایسے ایسے مالدار موجود ہیں کہ ہماری ساری جماعت کی جائدادیں ان میں سے اگر صرف ایک شخص خریدنا چاہے تو خرید سکتا ہے مگر باوجود اس قدر مالدار ہونے کے انہیں اسلام کے لئے اتنا چندہ دینے کی توفیق نہیں ملتی جتنی ان کے نوکروں کے نوکروں سے بھی کم حیثیت رکھنے والے ہماری جماعت کے افراد ایک مہینہ میں دے دیتے ہیں۔ یہ دلوں کے تغیر کی بات ہے ورنہ مال دوسروں کے پاس زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود ہماری جماعت کے افراد ہر تحریک میں نمایاں حصہ لیتے ہیں۔ ماہوار چندے دیتے ہیں اور اپنی قربانی کو ہر سال اس قدر بڑھاتے چلے جاتے ہیں کہ تعجب آتا ہے ہمارے ہاں سو سو روپیہ کی رقمیں چندہ میں نہایت کثرت سے آتی ہیں لیکن دوسروں کے ہاں اس قدر چندہ دینے والے بہت شاذ ہوتے ہیں اور اگرکبھی کوئی سو روپیہ چندہ دے دے تو اعلان کئے جاتے ہیں کہ فلاں نے سو روپیہ کی رقم خطیر دے دی لیکن ہم اپنے ہاں یہ دکھا سکتے ہیں کہ ہماری جماعت کے چالیس چالیس، پچاس پچاس اور ساٹھ ساٹھ روپے تنخواہ لینے والے سو سو روپیہ چندہ دے دیتے ہیں اور ایسی ایک دو نہیں سینکڑوں مثالیں پائی جاتی ہیں لیکن ان کو حس بھی نہیں ہوتی کہ انہوں نے کوئی احسان کیا ہے کیونکہ دینے والے سمجھتے ہیں کہ انہوں نے خدا کو دیا ہے بندوں کو نہیں دیا اور لینے والے بھی سمجھتے ہیں کہ ہمارا کام صرف اتنا ہے کہ روپوؤں کو کھاتے میں درج کریں اور انہیں خدا کے حکم کے مطابق خرچ کریں۔ اجر تو خدا تعالیٰ ہی دینے والا ہے۔ یہ دلوں کا تغیر ہی ہے جس کے نتیجہ میں ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے قربانیوں میں شاندار حصہ لے رہی ہے اور جب دلوں میں تغیر پیدا ہو جائے تو بڑی سے بڑی قربانی بھی حقیر معلوم ہونے لگتی ہے۔ پس جو شخص اس غرض کے لئے دعائیں کرتا ہے وہ تحریک جدید کے مقاصد کے پورا ہونے میں بہت بڑی امداد دیتا ہے۔ دوستوں کو چاہئے کہ وہ کثرت سے دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو قربانی کے معیار کے مطابق تحریک جدید میں حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے۔ اگر خود ان میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ اس تحریک میں حصہ لے سکیں تو وہ دوسروں کے لئے دعائیں کر کے اس تحریک میں حصہ لے سکتے ہیں۔ ان کی دعاؤں سے دوستوں کو جتنی زیادہ مالی قربانی کرنے کی توفیق ملے گی اسی قدر ان کو زیادہ ثواب ملے گا۔ پس دعائیں کرواور کرتے چلے جاؤ یہاں تک کہ وعدوں کی آخری تاریخ آ جائے اور خدا تعالیٰ ان کی دعاؤں کی قبولیت کا یہ نمونہ دکھائے کہ اس سال کےو عدے گزشتہ تمام سالوں سے زیادہ ہوں اور دوستوں نے اپنے وعدوں میں زیادہ سے زیادہ قربانی سے کام لیا ہو۔ پھر وہ یہ بھی دعا کریں کہ جن لوگوں نے اس تحریک میں مالی حصہ لینے کا وعدہ کیا ہے اللہ تعالیٰ ان کو اپنے وعدوں کے پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور وہ خوشی سے اور سہولت سے اور ایمان کو بڑھاتے ہوئے اپنےو عدوں کو پورا کریں۔ پھر وہ اس بات کے لئے بھی دعائیں کریں کہ وہ لوگ جن کے ہاتھوں سے یہ روپیہ خرچ ہوتا ہے خواہ مَیں ہوں یا میرے ماتحت اَور لوگ ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم کو زیادہ سے زیادہ صحیح مصرف پر روپیہ خرچ کرنے کی توفیق دے اور سلسلہ کا ایک پیسہ بھی ضائع نہ ہو تاکہ ہم اس امانت کو عمدگی سے ادا کر سکیں جو خدا تعالیٰ نے اس جہت سے ہم پر عائد کی ہے۔ یہ کام دعاؤں کے بغیر نہیں ہو سکتے۔ پس دوستوں کو اس بارہ میں اہتمام سے دعائیں کرنی چاہئیں۔
مَیں اس تحریک کا ایک اَور اہم پہلو بھی بیان کرنا چاہتا تھا مگر چونکہ اب نماز کا وقت ہو گیا ہے اس لئے مَیں خطبہ ختم کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی تو اگلے جمعہ مَیں اسے بیان کروں گا۔ اِنْشَاءَ اللہُ تَعَالٰی۔‘‘ (الفضل 10 دسمبر 1942ء )
1: ترمذی ابواب المناقب باب رِجَاؤُہٗ ﷺ اَنْ یَّکُوْنَ اَبُوْ بَکْرٍ مِمَّنْ یُّدْعٰی مِنْ جَمِیْعِ اَبْوَابِ الْجَنَّةِ ۔ حدیث 3675

40
جلسہ سالانہ کے سلسلہ میں اہم ہدایات
( فرمودہ 11 دسمبر 1942ء )

تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’مَیں نے پچھلے جمعہ اس بات کا اعلان کیا تھا کہ ایک ضروری امر جس کا تعلق تحریک جدید سے ہے۔ اس کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا تھا لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے بیان نہیں کر سکا اور کہ مَیں آئندہ خطبہ میں اسے بیان کروں گا لیکن بعد میں غور کرنے سے مَیں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ابھی اس بات کو بیان نہ کروں۔ اس وقت جلسہ کے قرب کی وجہ سے بھی ضرورت ہےکہ اس کی طرف دوستوں کو توجہ دلاؤں۔ اس لئے مَیں موعودہ مضمون کو ملتوی کرتے ہوئے دوستوں کو جلسہ سالانہ کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔
سب سے پہلے تو مَیں باہر کے احباب کو خطبہ کے ذریعہ اس امر کی اطلاع دینا چاہتا ہوں کہ اس سال ریلوں کے سفر میں بہت کچھ دقّت پیدا ہو گئی ہے جہاں بڑے بڑے اجتماع ہوتے ہیں وہاں تو اس سال گورنمنٹ نے مسافروں کا آنا بالکل روک دیا تھا۔ ہمارا جلسہ سالانہ اتنا بڑا اجتماع تو نہیں ہوتا کہ اس کی وجہ سے گورنمنٹ پر کوئی زیادہ بار پڑے جن کو روکنے کی گورنمنٹ کو ضرورت پیش آئی۔ وہ تو ایسے تھے جن میں دو دو، تین تین لاکھ آدمی جمع ہوتے تھے لیکن ہمارے جلسہ پر تو ریل کے رستہ آنےو الوں کی تعداد گیارہ بارہ ہزار ہوتی ہے۔ باقی زیادہ تر ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اردگرد کے علاقوں سے پیدل یا گھوڑیوں پر یا دوسرے ذرائع سے اور بعض موٹروں اور لاریوں میں آ جاتے ہیں۔ جو لوگ ایام جلسہ سے کئی کئی روز قبل آ جاتے ہیں ان کو بھی اگر شامل کر لیا جائے تو ریل سے آنے والوں کی تعداد 12،13 ہزار کے قریب ہو جاتی ہے اور یہ تعداد ایسی نہیں کہ جس کا بار ریلوے پر خاص طور پر پڑتا ہو۔ اتنی تعداد میں تولوگ بڑے شہروں میں یوں بھی آتے رہتے ہیں۔ پس مَیں امید تو نہیں کرتا کہ یہ اجتماع حکومت پر کوئی ایسا بار ہو کہ وہ اس کے لئے سہولت بہم پہنچانے کے لئے تیار نہ ہو لیکن اگر گورنمنٹ سہولت بہم پہنچائے تو بھی وہ ایسے پیمانہ پر نہ ہو گی کہ جس پر گزشتہ سالوں میں وہ انتظام کرتی رہی ہے۔ اس لئے مَیں دور سے آنےو الے دوستوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ اگر وہ اس سال جلسہ میں شمولیت کرنا چاہتے ہیں تو کچھ دن زیادہ نکال کر آئیں مثلاً کوشش کریں کہ بیس تاریخ کے قریب قریب قادیان پہنچ جائیں اور جلسہ کے ختم ہونے کے چار پانچ روز بعد یہاں سے روانہ ہوں تا اس طرح ان ملازموں کے لئے جو فوراً واپس جانے پر مجبور ہوں یا قریب کے لوگوں کے لئے گاڑیوں میں زیادہ جگہ مل سکے۔
دوسری بات جو مَیں کہنا چاہتا ہوں وہ ایسی ہے کہ قریب کے لوگوں کو بھی چاہئے کہ اسے مدنظر رکھیں جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے اگر گورنمنٹ نے کوئی انتظام کیا تو بھی اس سال گاڑیوں میں زیادہ بھیڑ ہو گی اور ایک کی جگہ دو آدمیوں کو مل سکے گی۔ پس اس مشکل کو مدنظر رکھ کر گھروں سے نکلنا چاہئے۔ جب انسان تکلیف کا پہلے سے اندازہ کر لیتا ہے تو وہ اسے کم معلوم ہوتی ہے۔ پس اگر کوئی ایسے آدمی ہوں جو مراق کے مریض ہوں یا دل کی دھڑکن کے مرض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے ہجوم کی برداشت نہ کر سکتے ہوں انہیں یا تو آنا نہیں چاہئے اور یا بٹالہ سے دوسری سواری میں آنا چاہئے کیونکہ ریلوں میں جس قسم کا ہجوم ہو گا ایسے لوگوں کے لئے اس کا برداشت کرنا مشکل ہو گا۔ ہماری طرف سے کوشش ہو رہی ہے کہ گورنمنٹ اگر زیادہ گاڑیاں نہ چلائے تو کم سے کم کچھ دنوں کے لئے اتنی ہی چلا دے جو پہلے یہاں عام طور پر چلتی تھیں۔ پہلے یہاں چار گاڑیاں روزانہ آتی تھیں اور جلسہ کے ایام میں سپیشل گاڑیاں ان کے علاوہ چلائی جاتی تھیں۔ اس دفعہ کسی سپیشل گاڑی کی امید تو حد سےز یادہ ہے لیکن کوشش ہو رہی ہے کہ کم سے کم اتنی تو چلا دی جائیں جو پہلے عام حالات میں روزانہ چلا کرتی تھیں۔ یہ بھی موجودہ لحاظ سے تو سپیشلیں ہی ہو جائیں گی لیکن دراصل پرانے عام قاعدے کی حد تک پہنچیں گی۔
اس وقت یہاں صرف دو گاڑیاں آتی ہیں اگر ایک یا دو اَور چلا دی جائیں تو اصطلاحی رنگ میں تو یہ سپیشل کہلائے گی لیکن اصل میں اتنی ہی ہوں گی جتنی عام قاعدے کے مطابق چلا کرتی تھیں۔ اگر یہ انتظام ہو بھی جائے تو بھی سلسلہ کے افسروں کو اس امر کی کوشش کرنی چاہئے کہ اگر ہو سکے تو بٹالہ میں کرایہ پر چلنے والی کچھ لاریوں کا انتظام بھی کر لیا جائے تا اگر ریل پر تمام سواریوں کے لئے گنجائش نہ ہو یا ایسے وقت میں وہاں سواریاں پہنچیں کہ گاڑی نہ مل سکتی ہو تو وہ یہاں پہنچ سکیں۔
اس دفعہ جلسہ کی تاریخ بھی ایک دن پہلے کر دی گئی ہے 25،26،27 تاریخیں مقرر ہوئی ہیں بجائے 26،27،28 کے۔ کیونکہ اس سال حکومت نے چھٹیاں انہی تاریخوں میں رکھی ہیں۔ 27 کو تو اتوار ہے اور 25،26 کو تعطیل ہے۔ پس تاریخ ایک دن پہلے کر دی گئی ہے تا لوگ آسانی سے شامل ہو سکیں پھر بھی ہماری جماعت کے ہزاروں آدمی ایسے ہیں جو اس سال شامل نہ ہو سکیں گے۔ ہماری جماعت کے کم سے کم چھ سات ہزار آدمی لڑائی پر یا لڑائی سے متعلقہ بعض دوسرے کاموں پر جا چکے ہیں۔ ایک ہزار رنگروٹ تو صرف قادیان اور اس کے نواحی علاقہ سے ہی گیا ہے۔ ایسی صورت میں یہاں اجتماع محدود ہو گا۔ زیادہ ترجوان اور کمانے والے لوگ ہی آتے ہیں اس لئے مَیں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ جن کو توفیق ہو۔ وہ اس سال ضرور پہنچیں تا جو لوگ اس سال نہ آ سکیں گے۔ یہ ان کے قائمقام ہو سکیں۔ بیرونجات سے جن غیر احمدیوں کو دوست ساتھ لاتے ہیں ان کے متعلق مَیں پہلے بھی یہ بتا چکا ہوں کہ وہ بالعموم احمدیت کو قبول کر لیتے ہیں لیکن مَیں دیکھ رہا ہوں کہ گزشتہ دو چار سال سے کچھ ایسے لوگ بھی یہاں آنے لگے ہیں جو صرف دیکھنے کے لئے آتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو جہاں لانے والوں کو نہ تو خود کوئی فائدہ ہو سکتا ہے، نہ آنے والوں کو اور نہ سلسلہ کو۔ اس لئے دوست خیال رکھیں کہ صرف ایسے لوگوں کو ساتھ لائیں جو سنجیدگی سے سچائی کو قبول کرنے پر غور کرنےو الے ہوں۔ جلسہ دیکھنا، جلسہ منانا اور لطف اٹھانا کوئی ایسی چیز نہیں کہ اس کے لئے دوست اپنے گھروں سے جائیں اور دوسروں کو یہاں آنے کی تحریک کریں۔ جن لوگوں کو ساتھ لایا جائے وہ خواہ کسی مذہب سے تعلق رکھنے والے ہوں لیکن ایسے ہوں جن کے اندر تحقیقات کا مادہ ہو۔ مجاوروں کی سی طبیعت کے لوگ نہ ہوں۔ جن میں تحقیق کا مادہ ہی نہ ہو۔ ایسے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم بہت وسیع الخیال ہیں۔ چلو ان کے جلسہ میں بھی ہو آئیں۔ ایسے لوگ ہمارے کام کے نہیں بلکہ ان کے آنے سے نقصان ہوتا ہے کیونکہ بعض مخلص احمدی ان کی مہمان نوازی کی وجہ سے جلسہ میں شامل ہونے سے محروم رہ جاتے ہیں حالانکہ یہ لوگ دراصل مہمان نہیں بلکہ سیاح ہوتے ہیں۔ اس قسم کے لوگوں کو یہاں لانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ جو لوگ ایسے لوگوں کو لاتے ہیں ان کو یہ کہنے میں کیا خوشی ہو سکتی ہے کہ مَیں بھی ایک آدمی لایا ہوں۔ ایسے لوگ آدمی کہاں ہوتے ہیں ۔ آدمی تو اسے کہتے ہیں جو تحقیق کا مادہ رکھتا ہو۔ ایسے لوگ جو اس غرض سے یہاں آتے ہیں کہ لوگوں کو یہ بتائیں کہ وہ بہت وسیع الخیال ہیں اور احمدیوں سے بھی میل جول رکھتے ہیں ان کو لانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایسے لوگ سیاسی انجمنوں کو زیب دیتے ہیں کیونکہ ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اندر ہی اندر ایسے وسائل بھی جمع کریں اور جتھے تیار کریں جن سے کسی وقت دوسری قوم میں سیندھ لگا سکیں۔ مذہبی جماعتوں کو ایسے لوگوں کی ضرورت نہیں۔ پس جو لوگ تو سچائی کی تلاش کے لئے آنا چاہیں وہ ہمارے سر آنکھوں پر۔ لیکن جو اس غرض کو لے کر نہیں آتے وہ اپنے گھر خوش رہیں اور ہم اپنے گھر خوش ہیں۔
پھر دوست اپنےساتھ چلنے والے تمام لوگوں کو اچھی طرح یہ بھی سمجھا دیں کہ یہاں آنا سراسر دینی اغراض کے لئے ہے۔ ہر سال سمجھانے کے باوجود تقریروں کے وقت کئی لوگ باہر پھرتے رہتے ہیں اورباتیں کر کے شور کرتے ہیں۔ جب ان سے کہا جائے تو ان کو ساتھ لانے والے احمدی کہہ دیتے ہیں کہ یہ احمدی نہیں۔ ہمارے ساتھ آئے ہیں حالانکہ جب وہ ان کےساتھ آئے ہیں تو ان پر ان کا اثر بھی ضرور ہو گا اس لئے اس اثر کو استعمال کر کے انہیں اس حرکت سے باز رکھنا چاہئے۔ جس کی وجہ سے جماعت کے لوگوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ ایسے لوگ جلسہ گاہ کے باہر کھڑے ہو کر آپس میں باتیں کرتے رہتے ہیں ۔ جس سے شور ہوتا ہے اور تقریریں سننے والے بھی اچھی طرح نہیں سن سکتے اس لئے مَیں دوستوں کو پھر نصیحت کرتا ہوں کہ وہ یہاں آ کر جلسہ گاہ میں آرام سے بیٹھ کر تقریروں کو سنیں۔ اگر کوئی بیمار یا کمزور ہے تو اس میں کوئی خوبی کی بات نہیں کہ وہ جلسہ گاہ میں ضرور آئے اور پھر ہر دس منٹ کے بعد وہاں سے اٹھ کر باہر جائے۔ ایسے شخص کو چاہئے کہ رہائش گاہ پر ہی رہے۔ جلسہ گاہ کے قریب شور کرنا ٹھیک نہیں۔ ایک اَور ضروری نصیحت مَیں یہ کرنا چاہتا ہوں کہ جب کوئی شخص کسی عبادت گاہ کی طرف جاتا ہے تو اس کے جانے کا کوئی نہ کوئی نتیجہ اللہ تعالیٰ ضرور نکالتا ہے۔ بعض کام بظاہر بے نتیجہ سمجھے جاتے ہیں اس لئے کہ ان کا نتیجہ ظاہر میں دکھائی نہیں دیتا ورنہ کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ اور ذلیل سے ذلیل کام بھی ایسا نہیں جس کا کوئی نتیجہ نہ ہو۔ کم سے کم ایسا کوئی کام بے نتیجہ نہیں ہوتا جس پر دین کا لیبل لگ جائے۔ جو شخص حج کے لئے جاتا ہے وہ یا تو پہلے سے بہت زیادہ نیک بن کر لوٹے گا اور یا بہت بدمعاش بن کر آئے گا۔ اگر وہ نیک نیتی سے گیا اور اس نے عقل اور سمجھ سے کام لیا تو اس کے دل پرپہلے سے زیادہ نیکی کا اثر ہو گا لیکن اگر وہ خواہشِ نفس کے لئے گیا ہے یا اس لئے گیا ہے کہ اس کا لوگوں میں اعزاز بڑھ جائے یا رسم و رواج کے ماتحت گیا ہے یا اس لئے گیا ہے کہ لوگ اسے حاجی کہیں۔ وہ اپنا پہلا ایمان بھی مٹا کر آئے گا اور لچ پن میں بڑھ جائے گا۔ حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام سنایا کرتے تھے کہ ایک بار سردی کا موسم تھا۔ کسی ریل کے سٹیشن پر کوئی اندھی بڑھیا گاڑی کے انتظار میں بیٹھی تھی۔ اس کے پاس کوئی کپڑا بھی نہ تھا۔ سوائے ایک چادر کے جو اس نے پاس رکھی ہوئی تھی تا جب گاڑی میں بیٹھنے کے بعد تیز ہوا کی وجہ سے سردی محسوس ہو تو اوڑھ لے۔ اس نے وہ چادر پاس رکھی تھی اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد اسے ٹٹول لیتی تھی۔ ایک شخص اس کے پاس سے گزرا اور سوچا کہ یہ تو اندھی ہے، اندھیرا ہو چکا ہے، اس لئے کوئی اَور بھی آسانی سے نہیں دیکھ سکتا۔ اس نے چپکے سے وہ چادر کھسکا لی۔ بڑھیا چونکہ باربار اسے ٹٹولتی تھی اسے پتہ لگ گیا کہ کسی نے چادر اٹھا لی ہے۔ اس نے جھٹ آواز دی کہ بھائیا حاجیا میری غریب دی چادر دے جا۔ میرے کول تے ہور کوئی کپڑا وی نہیں۔ یعنی بھائی حاجی صاحب میری چادر دے دیں۔ مَیں اندھی غریب ہوں او رمیرے پاس کوئی اَور کپڑا بھی نہیں۔ وہ شخص فوراً واپس مڑا، چادر تو آہستہ سے اس کے ہاتھ میں پکڑا دی اور کہنے لگا کہ مائی یہ تو بتاؤ۔ تمہیں یہ کس طرح پتہ لگا کہ مَیں حاجی ہوں۔ (حقیقتاً وہ حاجی تھا) وہ بڑھیا کہنے لگی ‘‘پُت ایہو جہے کم حاجی ہی کر سکدے نے۔’’ یعنی بیٹا ایسے کام سوائے حاجیوں کے اَور کوئی نہیں کر سکتا۔ مَیں اندھی، کمزور، غریب ہوں، سردی کا موسم ہے اور مَیں بالکل اکیلی ہوں۔ ایسی حالت میں میرا ایک ہی کپڑا چُرانے کی کوئی چور اور ڈاکو بھی جرأت نہیں کر سکتا۔ یہ ایسا کام ہے جسے حاجی ہی کر سکتا ہے۔ تو یہ بات بالکل سچی ہے کہ جو شخص *** خیال سے خدا تعالیٰ کے گھر جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی لعنتیں اس پر اَور بھی زیادہ پڑیں گی۔ اس گھر میں جانے کا فائدہ جب ہو سکتا ہے جب انسان خدا تعالیٰ کا خوف دل میں لے کر جائے ورنہ یقیناً فرشتے اس پر *** کریں گے اور کہیں گے کہ اسے یہاں آ کر بھی خدا تعالیٰ کا خوف نہیں اورایسا انسان جب واپس آئے گا تو وہ پہلے سے بھی زیادہ سنگدل اور بدمعاش ہو گا۔ مَیں نے پہلے بھی کئی بار سنایا ہے کہ مَیں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ سورت کا ایک تاجر حج کے لئے گیا لیکن عین ایسے وقت میں جب حاجی ذکر ِ الٰہی کرتے ہیں اور ہر ایک کی زبان پر اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ لَاشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ ہوتا ہے اور دلوں پر خشیت طاری ہوتی ہے۔ وہ اونٹ پر اردو کے گندے عشقیہ شعر پڑھتا جا رہا تھا۔ پھر اس کے ساتھ ظاہری غیرتِ اسلامی اتنی تھی کہ جس جہاز پر مَیں واپس آ رہا تھا اسی پر وہ شخص سوار تھا اور میرے کانوں نے خود سنا کہ وہ خدا تعالیٰ کو مخاطب کر کے کہہ رہا تھا کہ اَے خدا یہ جہاز کیوں غرق نہیں ہو جاتا جس میں یہ شخص سوار ہے حالانکہ وہ خود بھی اسی جہاز میں تھا اور اگر جہاز ڈوبتا تو وہ بھی ساتھ ہی ڈوب جاتا۔ پھر اس کی عملی حالت یہ تھی کہ ایک حافظِ قرآن کمزور اور اندھا تھا۔ یہ اس وقت مجھے ٹھیک طرح یاد نہیں کہ وہ اندھا تھا یا نہیں بہرحال کمزور تھا اور غالباً اندھا بھی۔ اس نے مجھے سنایا کہ مَیں نے اس کے پاس چالیس روپے رکھے تھے کہ مجھے جب خرچ کی ضرورت ہو گی، دے دے گا اور میرا خیال تھا کہ یہ امیر آدمی ہے، بد دیانتی نہ کرے گا مگر اب مَیں مانگتا ہوں تو دیتا نہیں۔ اس کی دونوں باتیں سن کر مجھے اس سے دلچسپی پیدا ہوئی اور مَیں نے اس سے خود پوچھا یا کسی کی معرفت کہلا بھیجا کہ آپ کو یاد ہے۔ جب آپ منیٰ کی طرف جا رہے تھے۔ آپ راستہ میں گندے عشقیہ شعر پڑھ رہے تھے۔ آپ کو اس حالت میں حج کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اس نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ ہماری دکان بہت اچھی چلتی تھی۔ ایک پڑوسی دکاندار حج کر آیا اور اس علاقہ کے لوگوں کی یہ حالت ہے کہ کوئی حج کر آئے تو سب اس کی دکان پر جانا پسند کرتے ہیں۔ اس کے حج کر آنے سے ہماری دکان پر بہت بُرا اثر پڑا۔ اس لئے میرے باپ نے کہا کہ تم بھی جا کر حج کر آؤتا ہم بھی بورڈ پر حاجی کا لفظ لکھ سکیں اور اس طرح یہ مصیبت ٹلے۔ تو اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ جب کسی مقدس مقام کی طرف کوئی انسان جاتا ہے اور اس کے دل میں خوفِ خدا ہوتا ہے تو وہ اس کے دل میں اَور بھی زیادہ تقویٰ پیدا کر کے اسے واپس بھیجتا ہے اور جو اخلاص کے ساتھ حج کے لئے جاتا ہے وہ ایمانوں کے ڈھیر لے کر واپس آتا ہے لیکن جو بغیر اخلاص کے جاتا ہے۔ وہ کبھی پہلا ایمان لے کر بھی واپس نہیں آتا۔ یہی حال دوسرے مقدس مقامات کا علیٰ قدر مراتب ہے۔
پس جو دوست جلسہ سالانہ پر آتے ہیں وہ اگر تقویٰ طہارت اور دل میں خوف خدا لے کر آئیں تو جس ایمان کے ساتھ آتے ہیں۔ اسی کے ساتھ واپس نہ جائیں گے بلکہ ان کے ایمانوں میں بہت اضافہ ہو گا۔ مَیں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے سنا ہے اور کئی بار سنا ہے۔ حضور فرمایا کرتے تھے کہ خدا تعالیٰ کے بزرگوں کے پاس جا کر ایمان کو سلامت لانا بڑی بھاری بات ہے۔ ہم تو اسی کو پکا احمدی سمجھتے ہیں جو قادیان میں آئے یہاں رہ کر جائے اور پھر پکا اور مخلص احمدی رہے۔ پس جو لوگ جلسہ پر آتے ہیں مَیں ان کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اخلاص کے ساتھ آئیں۔ یہاں آکر نمازوں اور دعاؤں کی طرف بہت زیادہ توجہ کریں ورنہ خطرہ ہے کہ وہ پہلا ایمان بھی نہ ضائع کر جائیں۔ جو شخص یہاں آ کر اپنے وقت کو بہتر رنگ میں صرف نہیں کر سکتا اس کے لئے بہتر یہی ہے کہ یہاں نہ آئے۔
اس کے بعد مَیں قادیان کے دوستوں کو یہ بات کہنی چاہتا ہوں کہ وہ آنے والے مہمانوں کی خدمت کے لئے خصوصیت سے اپنے نام پیش کریں مَیں نے افسوس کے ساتھ اخبار میں یہ اعلان پڑھا ہے کہ اس سال یہاں مکان نہیں مل سکتے۔ کیا یہاں کے مکان گر گئے ہیں۔ مکان نہ مل سکنے کی دو ہی وجوہ ہو سکتی ہیں یا تو مکان گر گئے ہوں اور یا ایمان گر گئے ہوں۔ مَیں تو اخبار میں یہ اعلان پڑھ کر پسینہ پسینہ ہو گیا اور مَیں نے خیال کیا کہ کیا مکان گر گئے یا ایمان گر گئے۔ مکان تو بہرحال نہیں گرے ۔ دوسری صورت یہی ہے کہ ایمان گر گئے ہوں مگر کون احمدی ہے جو یہ سننا برداشت کر سکے کہ یہاں خدا تعالیٰ کے مہمان آنے والے ہیں اور ان کے لئے مکان نہیں مل سکے۔ یہاں گزشتہ سال کی نسبت زیادہ مکان موجود ہیں۔ پھر اگر ایمان ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ مکان نہ مل سکیں۔ صحابہ کو دیکھو کہ وہ اخلاص میں کتنے بڑھے ہوئے تھے۔ مہاجرین جب مدینہ میں آئے تو رسول کریم ﷺ نے ان کا دل بہلانے کے لئے انصار کو بلایا اور فرمایا۔ ایک ایک کو اپنے ساتھ ملاؤ اور اس طرح ایک برادرانہ رشتہ قائم کر دیا۔ مہاجرین میں سے ایک کو ایک انصاری اپنے گھر لے گئےاور کہا کہ اب تو تم میرے بھائی بن گئے اس لئے میرے باپ کا ورثہ آدھا میرا اور آدھا تمہارا ہؤا اور انہیں اپنی آدھی جائیداد بانٹ دی۔ ان کی دو بیویاں تھیں اُس وقت تک پردہ کے احکام نازل نہ ہوئے تھے اس لئے انہوں نے کہا کہ ان میں سے جس کے ساتھ تم شادی کرنا چاہو مَیں اسے طلاق دے دیتا ہوں1 تو صحابہ میں ایسا اخلاص اور ایسی قربانی کی روح تھی۔ ہماری جماعت بھی مدعی ہے کہ وہ صحابہ کے نقشِ قدم پر چلنے والی ہے اس لئے اسے بھی ان کے طریق پر ہمیشہ خدمت اور قربانی کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ اورمَیں تو یہ خیال بھی نہیں کر سکتا کہ یہاں کے احمدیوں کے لئے چند دنوں کے واسطے اپنے مکان کے کسی حصہ کو چھوڑ دینا محال ہے۔ مَیں تو سمجھتا ہوں کہ اگر کسی مخلص کو یہ بات سمجھا دی جائے تو وہ کپڑے اٹھا کر باہر چل پڑے گا اور کہے گا خواہ مجھے بازار میں سونا پڑے مَیں سوؤں گا آپ مکان لے لیں۔ میرا خیال ہے شاید منتظمین لوگوں کے پاس گئے نہیں۔ ہاں جس کا ایمان سلامت نہیں اس سے بے شک مکان لینا مشکل ہے۔ مومن کو انگیخت کرنا مشکل نہیں اسے صرف مصلحت وقت کے سمجھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر اس سے جو چاہو قربانی کرا لو۔ مومن کا قدم قربانی میں کہیں نہیں رکتا۔ اس نے خدا تعالیٰ سے وہ چیز مانگی ہوتی ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی۔ آریوں نے اعتراض کیا تھا کہ محدود اعمال کے نتیجہ میں غیر محدود انعامات کس طرح مل سکتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے اس کا یہ جواب دیا کہ اعمال کے محدود ہونے میں انسان کا دخل نہیں۔ اس نے تو خدا تعالیٰ سے نہیں کہا تھا کہ اسے موت دے دے وہ تو ہمیشہ کے لئے قربانی کرنے کے لئے تیار تھا۔ پس جو غیر محدود قربانی کے لئے تیار تھا۔ اسے کیوں نہ غیر محدود انعام دیا جائے۔ ہاں جس پر بات واضح ہو جائے اور پھر بھی وہ پیچھے نہ ہٹے۔ سمجھ لو کہ اس کے اندر ایمان نہیں۔ اس لئے اسے چھوڑ دو۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے حواریوں کو فرمایا کہ ’’اگر کوئی تمہیں قبول نہ کرے اور تمہاری باتیں نہ سنے تو اس گھر یا اس شہر سے باہر نکلتے وقت اپنے پاؤں کی گرد جھاڑ دو۔‘‘2ایسا شخص اگر مکان دے بھی دے جس کے دل میں نفاق ہے تو ہم نے ایسے *** مکان کو لے کر کیا کرنا ہے۔ اس میں تو جو رہے گا اس کی کبھی نماز چھوٹ جائے گی، کبھی وضو ٹوٹ جائے گا۔ مَیں کسی مخلص سے یہ امید نہیں کر سکتا کہ اسے یہ واضح کر دیا جائے کہ خدا تعالیٰ کے مہمانوں کے لئے مکان کی ضرورت ہے مگر وہ کہے کہ وہ جہاں چاہیں رہیں یا نہ رہیں۔ مَیں تو اپنے گھر میں آرام سے رہوں گا۔ قادیان میں مکانوں کی کمی نہیں۔ مَیں جانتا ہوں کہ لوگوں نے تنگی کے باوجود یہاں نئے مکان بنائے ہیں۔ اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ مکان نہ مل سکیں۔ میرے نزدیک یہ کارکنوں کی غلطی ہے اور مَیں اس بارہ میں جماعت کو مخاطب کرنا بھی پسند نہیں کرتا۔ کارکنوں کو چاہئے تھا کہ صحیح طریق اختیار کرتے۔ جو یہ تھا کہ اگر ان کو کوئی دقّت پیش آئی تھی تو میرے پاس آتے اورمجھے بتاتے۔ پھر مَیں ان کو صحیح علاج بتاتا لیکن معلوم ہوتاہے۔ وہ لوگوں کےپاس گئے ہی نہیں اور قبل از وقت اس طرح اعلان اخبار میں کرنا میرے نزدیک جماعت کی ہتک ہے۔ اس لئے مَیں اس بارہ میں جماعت کو مخاطب کر نے کی ضرورت نہیں سمجھتا۔ قصور ان کا ہے جو لوگوں کے پاس گئے نہیں۔ ورنہ کوئی مخلص احمدی کوئی الٰہی تحریک سن کر پیچھے رہ سکے۔ یہ بالکل ناممکن بات ہے۔‘‘
(الفضل 16 دسمبر 1942ء )
1: بخاری کتاب النکاح باب قول الرجل لاخیہ انظر اَیَّ زَوْجَتَیَّ شِئْتَ حتی انزل لک عنھا
2: متی باب 10 آیت 14

41

محمد رسول اللہ ﷺ کی بے مثال عظمت و شان
( فرمودہ 18 دسمبر 1948ء )

تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’آج کا دن وہ دن ہے جبکہ ہزاروں میلوں سے مختلف زبانوں میں باتیں کرنے والے مختلف قوموں کے افراد مختلف تمدنوں کے عادی لوگ کھچے کھچے اس مقام پر جا پہنچے ہیں جہاں تیرہ سو سال سے زیادہ ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کا وہ نبی پیدا ہؤا تھا جو تمام نبیوں کے کاموں کو پورا کرنے والا اور نبوت کا آخری پیغام پہنچانے والا تھا۔ صدیاں گزریں مکہ کے لوگوں نے اس کی آواز کو سنا اور کہا نکل جا اور دُور ہو جا، ہم تیری بات کو سننا نہیں چاہتے۔ مکہ کے لوگوں کی دنیوی لحاظ سے حیثیت ہی کیا تھی۔ نہ وہ کوئی بڑے بادشاہ تھے، نہ ان کا تمدن کوئی ایسا اعلیٰ درجہ کا تھا کہ اس کی وجہ سے وہ دنیا پر خاص اثر رکھتے ہوں، نہ وہ علوم و فنون کے ایسے ماہر تھے کہ یونان کے فلسفہ کی طرح ان کی دنیا پر دھاک بیٹھی ہوئی تھی، نہ وہ ایسے فاتح تھے کہ سکندر اورخورس کی طرح دنیا میں ان کا نام روشن ہو۔ معمولی حیثیت کے انسان تھے جیسے یہاں کے پہاڑی راجے ہوتے ہیں بلکہ اس سے بھی کم، مگر محمد رسول اللہ ﷺ کی حیثیت ان کے مقابلہ میں بھی اتنی کمزور تھی کہ وہ سمجھتے تھے کہ ہمارے سامنے یہ شخص ٹھہر ہی نہیں سکتا اور وہ بھی اپنی آواز کی اتنی قیمت سمجھتے تھے کہ خیال کرتے تھے کہ اس کی آواز ہماری آوازوں کےسامنے ضرور دَب جائے گی۔ وہ اس کو ایک مقامی فتنہ خیال کرتے تھے اور دنیا اس کو ایسا ہی سمجھتی تھی جیسا کسی چھوٹے سے گاؤں میں دو زمینداروں کے درمیان آپس میں کسی کھیت پر لڑائی ہو جاتی ہے۔ اس لڑائی کا اثر اردگرد کے گاؤں پر بھی نہیں پڑتا۔ اس لڑائی کا اثر اس گاؤں پر بھی نہیں پڑتا جس میں لڑائی ہوئی ہوتی ہے۔ بسا اوقات وہ دونوں لڑ جھگڑ کر گھر آ جاتے ہیں اور خود ان کے محلہ کے لوگوں کو بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ان کی آپس میں کوئی لڑائی ہوئی ہے۔ پس بظاہر وہ ایسی ہی لڑائی تھی جو مکہ والوں کی محمد رسول اللہ ﷺ سے جاری تھی۔ مکہ والے خیال کرتے تھے کہ وہ اپنے اس حقیر دشمن کو مٹا دیں گے۔ اسے تباہ اور برباد کر کے رکھ دیں گے لیکن آج اگر دنیا کے پردہ پر ابو جہل کو لا کر کھڑا کر دیا جائے۔ اگر آج عتبہ اور شیبہ اور اسی قسم کے دوسرے دشمنوں کو لا کر کھڑا کر دیا جائے جو مکہ میں دن رات رسول کریم ﷺ کو دکھ دیا کرتے تھے اور یہ خیال کیا کرتے تھے کہ محمد (ﷺ) کا نام دنیا سے مٹا دیں گے تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں کہ آج ملک کے لوگ تو الگ رہے، یمن کے لوگ تو الگ رہے، مدینہ کے لوگ تو الگ رہے، نجد کے لوگ تو الگ رہے، دنیا کے ہر گوشہ اور ہر ملک کے لوگ چاروں طرف سے دوڑتے ہوئے مکہ میں اکٹھے ہو رہے ہیں۔ وہاں جاوا سے بھی لوگ پہنچ چکے ہیں، سماٹرا سے بھی پہنچ چکے ہیں، چین سے بھی پہنچ چکے ہیں اور ہندوستان سے بھی پہنچ چکے ہیں۔ غرض ہر قوم ، ہر جتھہ اور ہر گروہ کے لوگ آج بے تحاشا عاشقوں کی طرح محمد رسول اللہ ﷺ کی آواز پر یہ کہتے ہوئے اکٹھے ہو رہے ہیں۔ ہم آ گئے، ہم آ گئے۔ مکہ کے لوگوں نے محمد رسول اللہ ﷺ سے کہا تھا کہ تُو یہاں سے نکل جا۔ خدا نے کہا تم اسے یہاں سے نکالتے ہو۔ مَیں ہمیشہ دنیا کے کناروں سے لوگوں کو یہاں اکٹھا کروں گا جو لَبَّیْکَ اللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ کہتے ہوئے دوڑتے چلے آئیں گے کسی کی آنکھیں دیکھنے والی ہوں تو وہ دیکھے، کسی کے کان سننے والے ہوں تو وہ سنے کہ مکہ والوں نے کیا کہا اور خدا نے اس کا کیا جواب دیا۔ مکہ والوں نے کہا تھا کہ تم ان کا بائیکاٹ کر دو، ان کے کھانے بند کر دو۔ یہ خود بخود تباہ ہو جائیں گے۔ مکہ والوں کے پاس کیا تھا۔ ایک وادی غیر ذی زرع جہاں نہ کھیتی باڑی ہوتی ہے نہ کھانے کے لئے چیزیں ملتی ہیں۔ وہ باہر سے غلّہ لاتے اور کھاتے ہیں یہاں تک کہ مکہ میں زیادہ جانور بھی نہیں ہوتے کیونکہ وہاں ان کے چارہ کے لئے کوئی رکھ نہیں۔ عرب کا گھوڑا بہت مشہور ہے لیکن مکہ میں چند گھوڑوں سے زیادہ نہیں ملتے۔جب ہم عرب کا گھوڑا کہتے ہیں تو اس سے مراد نجد کا گھوڑا ہوتا ہے۔ ورنہ مکہ گھوڑوں سے خالی ہے۔ صرف چند بڑے بڑے امراء کے پاس گھوڑے ہوتے ہیں عام لوگ اپنے پاس گدھے رکھتے ہیں کیونکہ گدھے سادہ خوراک پر بھی رکھے جا سکتے ہیں۔
بہرحال مکہ والوں نے کہا۔ ہم اس کی روٹی بند کر دیں گے۔ یہ آپ ہی تباہ ہو جائے گا۔ ہمارے رب نے اس کا کیا ہی لطیف جواب دیا ۔ ہمارے رب نے کہا تم محمد ﷺ کی روٹی کیا بند کرتے ہو۔ ہم ہمیشہ تمہاری روٹی محمد ﷺ کے ذمہ لگا دیتے ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر دنیا کے چاروں طرف سے حاجی مکہ مکرمہ میں نہ جائیں تو مکہ کے لوگ بھوکے مر جائیں۔ ہر سال ہزاروں نہیں لاکھوں حاجی، کروڑوں روپیہ خرچ کر کے وہاں جاتے اور اس طرح مکہ والوں کے لئے سامان معیشت بہم پہنچاتے ہیں۔ یہ کیسا شاندار اور رحم والا بدلہ ہے جو خدا نے اپنے رسولؐ کے لئے لیا۔ انہوں نے کہا تھا ہم اس کی روٹیاں بند کر دیں گے۔ خدا تعالیٰ نے کہا اب ہم قیامت تک تمہاری روٹیاں اس رسول کے طفیل لگا دیتے ہیں۔ عام حالات میں علاوہ عرب کے حاجیوں کے ہر سال چالیس پچاس ہزار حاجی باہر سے وہاں جاتے ہیں اور بعض دفعہ تو یہ تعداد لاکھ دو لاکھ تک بھی پہنچ جاتی ہے اور ہر ایک حاجی وہاں اوسطاً تین چار سو روپیہ سے لے کر دو دو چار چار ہزار روپیہ تک خرچ کرتا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ ان دنوں میں باہر سے جانے والے حاجی ڈیڑھ کروڑ سے لے کر پندرہ بیس کروڑ روپیہ تک ہی قدر مراتب اور مختلف سالوں کے لحاظ سے کہ کبھی حاجی کم آتے ہیں اورکبھی زیادہ اور مختلف موسموں کے لحاظ سے کہ کبھی چیزیں مہنگی ہوتی ہیں اور کبھی سستی۔ وہاں خرچ کرتے ہیں۔ اگر اوسط تین چار کروڑ روپیہ بھی فرض کر لیں تو کم از کم چار کروڑ روپیہ ان دنوں میں وہاں جا پہنچتا ہے۔ اس کے علاوہ گورنمنٹ کا بھی ٹیکس ہوتا ہے اور یہ ٹیکس ان ٹیکسوں کے علاوہ ہے جو گورنمنٹ بالواسطہ وصول کرتی ہے مثلاً وہاں کھانے پینے کی چیزوں پر بھی ٹیکس ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر دکاندار کوئی اور چیز بیچے تو اسے اپنی آمد کا ایک حصہ گورنمنٹ کو ادا کرنا پڑتا ہے۔ اندازہ کیا جاتا ہے کہ اگر حاجی وہاں نہ جائیں تو عرب حکومت چند سالوں میں ہی متزلزل ہو جائے کیونکہ اس کی آمد کا بہت بڑا حصہ حاجیوں سے وابستہ ہوتا ہے۔ اب دیکھو آج تیرہ سو سال گزرنے کے بعد جو نظارہ ہمیں نظر آ رہا ہے اور جو شان و شوکت محمد رسول اللہ ﷺ کی ہمیں دکھائی دے رہی ہے اس کا اندازہ اور قیاس بھی پہلے لوگ کہاں کر سکتے تھے اس کی مثال بالکل ایسی ہی ہے۔ جیسے کوئی شخص میاں بیوی کو آپس میں ملتا دیکھے تو اس وقت وہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ عورت بانجھ ہو گی یا صاحب اولاد۔ مرد نامرد ہو گا یا اس کا کوئی بچہ ہو گا۔ پھر اگر بچہ پیدا ہؤا تو وہ زندہ رہے گا یا نہیں اگر زندہ رہے گا تو وہ علم والا ہو گا یا جاہل۔ اگر علم والا ہو گا تو وہ اپنے علم کو استعمال کرنے والاہو گا یا نہیں۔ اگر علم کو استعمال کرنے والا ہو گا تو اسے کامیابی کے مواقع میسر آئیں گے یا نہیں۔ اگر کامیابی کے مواقع اسے میسر آ گئے تو وہ ان مواقع سے فائدہ بھی اٹھا سکے گا یا نہیں اور اگر ان مواقع سے وہ فائدہ اٹھا سکا تو اسے ایسا ماحول بھی میسر آئے گا یا نہیں جس میں وہ پنپ سکے اور ترقی کر کے دوسروں کی نگاہ میں ایک ممتاز مقام حاصل کر سکے لیکن اس کے مقابلہ میں ایک وہ شخص ہوتا ہے جو ایک فاتح کو اس کی فتوحات کے زمانہ میں دیکھتا ہے اس کی بلندی اور شان و شوکت کے زمانہ میں دیکھتا ہے۔ اس وقت وہ ان خیالات کا اندازہ بھی نہیں کر سکتا جو اس کے ماں باپ کی شادی میں شامل ہونے والوں کے دلوں میں تھے اور نہ اس کے ماں باپ کی شادی میں شامل ہونے والے ان فتوحات کا قیاس کر سکتے تھے جو ان کے بیٹے کو حاصل ہونے والی تھیں اور یا پھر اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص ایک درخت لگاتا اور زمین میں اس کی گٹھلی بوتا ہے۔ وہ اس وقت اندازہ اور قیاس بھی نہیں کر سکتا کہ اس درخت کی آئندہ کیا حالت ہو گی۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ گٹھلی گل سڑ جاتی ہے اور اس سے کوئی درخت پیدا نہیں ہوتا اور بسا اوقات اس سے ایک بہت بڑا درخت پیدا ہو جاتا ہے اور بعض دفعہ تو اس کا پھل ایسا لذیذ نکل آتا ہے کہ لوگ دور دور سے اسے دیکھنے کے لئے آتے اور اس کا پھل منگوا کر استعمال کرتے ہیں۔ پھر وہ آہستہ آہستہ ساری دنیا میں مشہور ہو جاتا ہے۔ دور دور سے لوگ اس کا پیوند حاصل کرنے کی کوشش کرتے اور اپنے اپنے علاقہ میں اس کا بیج لگانا شروع کر دیتے ہیں اور اس کے میٹھے اور لذیذ پھل کو کھا کر لطف حاصل کرتے ہیں مگر وہ جس نے اس درخت کو پہلی دفعہ لگایا وہ اس کا بیج بوتے وقت یا اس کی گٹھلی لگاتے وقت ان لوگوں کے خیالات کا اندازہ نہیں کر سکتا۔ جنہوں نے اس کا لذیذ اور میٹھا پھل کھایا اور اس کے سایہ میں آرام حاصل کیا اور نہ اس کے ذہن کے کسی گوشہ میں یہ نظارہ آ سکتا ہے کہ دور دور سے بیوپاری آتے ہیں اور اس کا پھل اپنے اپنے علاقوں میں لے جاتے ہیں یا کیا وہ قیاس بھی کر سکتا ہے کہ لوگ آئیں گے۔ درخت کے مالک کی منتیں کریں گے اور کہیں گے ذرا ہمیں بھی اس کا پیوند لگا لینے دو تاکہ ہم بھی اپنے علاقہ میں اس کا نمونہ قائم کر سکیں۔ یہی حال محمد ﷺ کی ترقی اور آپ کی عزت و عظمت کا ہے۔ حق یہ ہے کہ محمد ﷺ کے صحابہؓ نے بھی آپ کی ترقی کا وہ نقشہ نہیں دیکھا جو ہمیں نظر آ رہا ہے اس لئے کہ ان کے زمانہ میں ابھی اسلامی طاقت کمزور تھی بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ اسلامی ترقی کے زمانہ میں بھی محمد رسول اللہ ﷺ کی فتوحات کا وہ نقشہ نظر نہیں آ سکتا تھا جو آج اس تنزل کے زمانہ میں نظر آ رہا ہے کیونکہ لوگ اس وقت سمجھتے تھے یہ ترقی کی ایک رَو ہے جو جاری ہو گئی ہے۔ ممکن ہے یہ رَو کچھ عرصہ کے بعد مٹ جائے اور ترقی جاتی رہے۔ دنیا میں بڑے بڑے سیلاب آئے ہیں جو گاؤں کے گاؤں بہا کر لے جاتے ہیں مگر کچھ عرصہ کے بعد لوگ بالکل بھول جاتے ہیں کہ کبھی کوئی سیلاب بھی آیا تھا لیکن اگر کوئی ایسا سیلاب آئے جو ملک کو ایسا برباد کر دے کہ اس کی نظیر پہلے کئی سو سال میں نہ ملتی ہو تو سینکڑوں سال تک لوگ اس کو یاد رکھتے ہیں اور کہتے ہیں وہ تباہی بہت بڑی تباہی تھی۔ اس طرح درخت پھل دیتے ہیں مگر کچھ عرصہ کے بعد وہ پھل دینے سے رہ جاتے ہیں۔ کھیتیاں غلہ پیدا کرتی ہیں مگر ایک عرصہ کے بعد ناکارہ ہو جاتی ہیں لیکن بعض ایسے درخت بھی ہوتے ہیں جو سو سو دو دو سو سال تک پھل دیتے چلے جاتے ہیں۔ پیوندی آم ہوں تو پچاس ساٹھ سال تک پھل دیتے ہیں اور اگر کوئی تخمی آم کے درخت ہوں تو وہ سو دو سو سال تک پھل دیتے ہیں لیکن اگر کوئی ایسا آم کا درخت ہو جو دو ہزار سال تک پھل دیتا چلا جائے تو تم سمجھ سکتے ہو کہ کتنی دور دور سے لوگ اس کو دیکھنے کے لئے آئیں گے اور اس کے پھل کو استعمال کر کے کیسا لطف اٹھائیں گے۔ اسی طرح اسلامی ترقی کے زمانہ میں لوگ کہہ سکتے تھے کہ طبعی طور پر یہ ایک رَو جاری ہے۔ رسول کریم ﷺ نے چونکہ دعویٰ کیا ہے کہ مَیں خَاتَمُ النَّبِیِّیْن ہوں اور قیامت تک میرا زمانہ رہے گا۔ اس لئے لوگ آپ کو قبول کر رہے ہیں۔ ضروری نہیں کہ یہ رَو ہمیشہ جاری رہے۔ پس بے شک ان لوگوں نے بھی محمد ﷺ کی عظمت و شان کے زمانہ کو دیکھا۔ مگر حق یہ ہے کہ محمد ﷺ کی عظمت اور شان جو آج ہمیں نظر آ رہی ہے اس کا اندازہ اور قیاس بھی پہلے لوگ نہیں کر سکتے تھے۔ اس وقت کون کہہ سکتا تھا کہ اس نظارہ میں اور موسیٰ ؑ کی فتوحات میں کوئی فرق ہے۔ مگر ہم آج تیرہ سو سال گزر جانے کے بعد اس عظمت کو سمجھ سکتے ہیں جو محمد ﷺ کو حاصل ہوئی۔ اس شان و شوکت کا اندازہ لگا سکتے ہیں جو خدا نے آپ کو عطا فرمائی۔ اب سوائے اس کے کہ آپ کے خادموں اور غلاموں میں سے کوئی شخص دنیا کی اصلاح کے لئے کھڑا ہو اور کسی ماں کے بچے میں یہ طاقت نہیں کہ وہ کہہ سکے مجھے خدا نے دنیا کی اصلاح کے لئے کھڑا کیا ہے۔ گردنیں جھک گئیں، زبانیں کٹ گئیں اور اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرما دیا کہ اب کوئی شخص آپ کے مقابلہ میں کھڑا نہیں ہو سکتا۔ جو آئے گا وہ آپ کا خادم ہو کر آئے گا تابع ہو کر آئے گا۔ شاگرد ہو کر آئے گا، ظل ہو کر آئے گا۔ تیرہ سو سال اس دعوے پر گزر چکے مگر کوئی شخص اس دعوے کو غلط ثابت نہیں کر سکا اور آئندہ بھی ایسا ہی ہو گا، دنیا ختم ہو جائے گی زمانہ گزر جائے گا مگر کوئی شخص آپ کے بالمقابل کھڑا نہیں ہو سکے گا۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَ عَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔‘‘
(الفضل 5 جون 1960ء )

42

حج اور جلسہ سالانہ کے جمعہ کو شروع ہونے سے نیک فال
( فرمودہ 25 دسمبر 1942ء )

تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’اس دفعہ ایسےسامان ہو گئے کہ باوجود اس کے کہ ہمارا جلسہ ہفتہ سے شروع ہونا چاہئے تھا وہ جمعہ سے شروع ہؤا ہے کیونکہ گورنمنٹ کی طرف سے جو چھٹیاں دی گئیں وہ صرف جمعہ اورہفتہ کی تھیں اور باقی چھٹیاں جو پہلے دی جایا کرتی تھیں گورنمنٹ کی ضرورتوں کے لحاظ سے منسوخ کر دی گئیں۔ اس وجہ سے غیر معمولی طور پر یہ جلسہ جمعہ سے شروع ہؤا ہے۔ مجھے اس میں ایک بڑی فال نیک نظر آتی ہے اور وہ یہ کہ اس دفعہ حج بھی جمعہ کے دن تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة وا لسلام نے قادیان کو بھی اس حج کا ایک ظل قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ بھی اس کا خدا نے ایک رنگ میں ظہور بنایا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔
ہجوم خلق سے ارضِ حرم ہے 1
نادانوں نے اس کی حکمت کو نہ سمجھتے ہوئے کہہ دیا کہ قادیانی لوگ اپنے جلسہ کو حج کہتے ہیں حالانکہ یہ پاگل پن کی بات ہے۔ نہ ہم اسے حج کہتے ہیں اور نہ جسے خدا نے حج قرار دیا اسے کوئی اور شخص منسوخ کر سکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام تو آنحضرت ﷺ کے ظل تھے۔ آپ کے شاگرد اور غلام تھے ۔ حج کو تو محمد رسول اللہ ﷺ بھی بدل نہیں سکتے تھے کیونکہ وہ خدا کی مقرر کردہ چیز ہے جسے کوئی انسان بدل نہیں سکتا جو کچھ ہم کہتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہمارا جلسہ حج کا ایک ظل ہے اور کسی چیز کو ظل قرار دینے سے اصل کی شان بڑھا کرتی ہے کم نہیں ہؤا کرتی۔ اگر تم کسی چیز کو ظل قرار دو تو یہ لازمی بات ہو گی کہ اس کا کوئی اصل بھی ہو گا ورنہ اگر کوئی اصل چیز نہیں تو اس کا سایہ کہاں سے آ گیا۔ پس کسی چیز کو ظل تسلیم کرنے کے معنے یہ ہؤا کرتے ہیں کہ ہم اصل کا انکار نہیں کرتے بلکہ اس کے وجود پر تصدیق کی مہر لگاتے ہیں۔ حج تو ایک ایسی چیز ہے جو ہر سال ہوتی ہے لیکن بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن پر زمانہ گزر جاتا ہے اور ان کا وجود نظر نہیں آتا یا بہت حد تک مشکوک ہو جاتا ہے مثلاً رسول کریم ﷺ کی ذات اب دنیا سے اوجھل ہے۔ آپ نے جو معجزات اور نشانات دکھائے وہ تاریخوں میں لکھے ہوئے ہیں مگر آجکل کے نو تعلیم یافتہ یا دشمن ان پر تمسخر اڑاتے ہیں اورکہتے ہیں مسلمانوں کے ہاتھ میں قلم تھا۔ انہوں نے جو چاہا، لکھ دیا۔ ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ نےحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو پیدا کیا اور فرمایا تم ظلِ محمدؐ ہو یعنی محمد ﷺ کے سایہ ہو۔ اس سایہ سے جب نہایت ہی زبردست نشانات ظاہر ہوئے جن سے خدا تعالیٰ کا چہرہ لوگوں کو نظر آنے لگ گیا تو دنیا کو ماننا پڑا کہ اصل میں بھی یہ تمام کمالات اپنی پوری شان سے موجود تھے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے ذریعہ ایک زندہ ثبوت اس بات کا مل گیا کہ رسول کریم ﷺ ایک انسان کی حیثیت سے بے شک فوت ہو چکے ہیں مگر ایک عظیم الشان نبی کی حیثیت سے اب تک زندہ ہیں ورنہ آج آپ کا سایہ نہ ہوتا اور نہ آپ کے سایہ سے ایسے عظیم الشان معجزات ظاہر ہوتے۔ اگر آئینہ میں کسی کا عکس پڑے اور ہمیں عکس میں اس کا ناک دکھائی دے۔ تو ماننا پڑے گا کہ جس کا سایہ ہے اس کا ناک ضرور ہے۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ آئینہ میں عکس کا تو ناک نظر آئے مگر اصل کا ناک نہ ہو یا عکس کی آنکھیں ہوں مگر اصل کی آنکھیں نہ ہوں یا عکس کے کان ہوں مگر اصل کے کان نہ ہوں یا عکس کے ہاتھ ہوں مگر اصل کے ہاتھ نہ ہوں تو جب کسی کا ظل لوگوں کے سامنے آ جائے اور اس ظل میں وہ تمام چیزیں نظر آ جائیں جن کا انکار لوگ اصل کے متعلق کیا کرتے تھے تو ماننا پڑے گا کہ اصل میں بھی وہ تمام چیزیں موجود ہیں۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کی ذات نے رسول کریم ﷺ کی ان خوبیوں کا جن کا دنیا انکار کر رہی تھی۔ ایک زندہ ثبوت بہم پہنچا دیا اور اس طرح آپ کا وجود رسول کریم ﷺ کی صداقت کا ثبوت ٹھہرا۔ کوئی احمق کہہ سکتا ہے کہ مرزا صاحب غلط کہتے تھے کہ مَیں محمد ﷺ کا ظل ہوں اور میری تمام خوبیاں آپ سے ہی حاصل کر دہ ہیں۔ آپ کی یہ خوبیاں ذاتی تھیں۔ اس لئے رسول کریم ﷺ کی صداقت کا ثبوت نہیں ہو سکتیں۔ ہم ایسے احمقوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا دنیا میں کوئی شخص ایسا بھی ہوتا ہے جو اپنی خوبیوں کو دوسروں کی طرف منسوب کر دے یا کوئی عالم کسی جاہل کے متعلق کہے کہ یہ مجھے پڑھایا کرتا ہے۔ ہم دنیا میں یہ تو دیکھتے ہیں کہ انسان دوسرے کی خوبی اپنی طرف منسوب کر لیتے ہیں مگر یہ کہیں دکھائی نہیں دیتا کہ لوگ اپنی خوبی دوسرے کی طرف منسوب کر دیں تم یہ تو دیکھو گے کہ کسی شخص کو کوئی عمدہ سا نکتہ سوجھ گیا۔ تو اس سے سن کر کسی اَور شخص نے اس نکتہ کو اپنی طرف منسوب کر لیا اورکہا کہ یہ بات میرے فکر کا نتیجہ ہے مگر تم یہ نہیں دیکھو گے کہ کوئی شخص اپنا ہنر دوسرے کی طرف منسوب کر دے۔ پس اگر کوئی احمق یہ بات کہے تو ہم اسے کہیں گے۔ دنیا میں کوئی شخص ایسا نہیں ہو سکتا جو اپنی خوبی دوسرے کی طرف منسوب کر دے اور اگر کوئی شخص اپنی خوبی کسی دوسرے کی طرف منسوب کرے گا تو وہ اسی وقت کرے گا۔ جب وہ دیانت دار شاگرد ہو گا اور سمجھے گا کہ یہ میری خوبی ذاتی نہیں بلکہ میرے آقا اور میرے استاد کی تعلیم کا نتیجہ ہے اور جب وہ اس بات کو تسلیم کرے گا تو لازماً تمام خوبی اس کے آقا اور استاد کی ہی سمجھی جائے گی نہ کہ شاگرد کی۔ تو ظل اصل چیز کے لئے اس کے ایک ثبوت کے طور پر ہوتا ہے۔ اس نقطۂ نگاہ کی روشنی میں حج کے ظل کا مطلب یہ بنتا ہے کہ گو آجکل ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ دنیا کے مختلف اطراف سے حج کے لئے جاتے ہیں مگر چونکہ سینکڑوں سالوں سے ایسا ہوتا چلا آیا ہے اس لئے اب وہ زمانہ لوگوں کی نگاہ سے مخفی ہو گیا ہے جبکہ دنیا بھر کے لوگ مکہ مکرمہ کو نہیں جاتے تھے۔ اب تو جو بھی پیدا ہوتا ہے یہی دیکھتا ہے کہ مسلمان ہر سال دنیا بھر سے حج کے لئے مکہ کو جاتے ہیں۔ یورپ میں جو لوگ موجود ہیں وہ جب سے پیدا ہوئے یہی دیکھ رہے ہیں کہ مسلمان حج کے لئے جاتے ہیں۔ ان کے باپ دادا نے بھی یہی کہا کہ ہم یہی دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ لوگ مکہ کو جاتے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں جاوا اور سماٹراکے لوگ بھی یہی دیکھتے ہیں کہ مسلمان ہمیشہ حج کے لئے جاتے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ انہیں عادت پڑی ہوئی ہے کہ وہ ہر سال حج کے لئے مکہ کو جائیں۔ چین کے لوگ بھی یہی دیکھتے ہیں کہ مسلمان ہر سال حج کے لئے چلے جاتے ہیں اور وہ بھی اس کو کوئی عجیب بات نہیں سمجھتے کیونکہ جب سے وہ پیدا ہوئے۔ وہ یہی نظارہ دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔ اس کانتیجہ یہ ہے کہ وہ کشمکش وہ جدو جہد، وہ جنگ اور وہ لڑائی جو محمد ﷺ کو دنیا سے کرنی پڑی اور جس جنگ کے بعد لوگ مغلوب ہوئے اور آخر وہ کھچے کھچے مکۂ مکرمہ کی طرف جانے لگے۔ وہ اب لوگوں کو نظر نہیں آتی۔ وہ یہی نظارہ دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔ وہ یہی سمجھتے ہیں کہ یہ ایک رسمی چیز ہے جو مسلمانوں میں پائی جاتی ہے۔ اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حج کا ایک ظل قادیان میں قائم کیا اور فرمایا کہ بتاؤ کیا یہاں لوگ آیا کرتے تھے۔ تم جانتے ہو کہ یہاں لوگ نہیں آیا کرتے تھے۔ یہ تمہاری آنکھوں دیکھی بات ہے۔ جنگل کی طرح ایک غیر آباد خطہ تھا جو دنیا سے بالکل غیر متعلق تھا مگر اب اسی جگہ اللہ تعالیٰ کے الہامات کے مطابق ساری دنیا سے لوگ کھچے ہوئے آ رہے ہیں۔ جب قادیان میں تمہاری آنکھوں کے سامنے خدا تعالیٰ کا یہ عظیم الشان نشان ظاہر ہو رہا ہے تو تمہیں ماننا پڑے گا کہ ایسا ہی بلکہ اس سے بہت بڑا نشان مکہ مکرمہ میں دکھایا گیا تھا۔ پس ہمارا جلسہ حج کا ایک ظل ہے اور اس ظل نے ثابت کر دیا ہے کہ مکہ میں ہر سال لوگوں کا جمع ہونا عادتاً نہیں بلکہ بہت بڑی جد و جہد اور خدائی نشانوں کا نتیجہ ہے۔ اب اگر کوئی شخص کہے کہ لوگوں کا مکہ مکرمہ میں جانا محض ایک رسم ہے انہیں چونکہ نسلاً بعد نسلٍِ وہاں جانے کی عادت پڑی ہوئی ہے اس لئے لوگ جاتے ہیں تو ہم اسے کہیں گے بے شک آج تمہیں یہ رسم دکھائی دیتی ہے کیونکہ تم ایک لمبا زمانہ گزرنے کی وجہ سے اس حالت کا پورا احساس نہیں کر سکتے جو ابتدائی زمانہ میں رسول کریم ﷺ کی تھی لیکن اگر تم اس حالت کا اندزہ نہیں لگا سکتے اور تمہارے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ مکہ میں مسلمانوں کا جانا ایک رسم ہے تو تم ہماری حالت دیکھ لو۔ کس طرح دنیا نے ہماری جماعت کا مقابلہ کیا مگر کس طرح لوگوں کی مخالفت کے باوجود ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے قدم بقدم ترقی کرتی چلی گئی۔ ہماری جماعت کا کسی ایک مذہب یا ایک گروہ نے مقابلہ نہیں کیا بلکہ مسلمانوں نے بھی مقابلہ کیا، ہندوؤں نے بھی مقابلہ کیا ، عیسائیوں نے بھی مقابلہ کیا بلکہ اَلْکُفْرُ مِلَّةٌ وَّاحِدَةٌ کے مطابق جو بھی اٹھتا ہے وہ اپنی ناراضگی اور غصے کا نشانہ احمدیوں کو ہی بنانا شروع کر دیتا ہے۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ سارے ایسے ہیں۔ ہر قوم میں شریف النفس لوگ بھی موجود ہوتے ہیں اور انہیں شریف النفس لوگوں میں سے کچھ آہستہ آہستہ ہماری جماعت میں شامل ہوتے رہتے ہیں مگر بالعموم ایسا ہی ہوتا ہے کہ ہر شخص خواہ وہ کسی مذہب و ملت سے تعلق رکھتا ہو احمدیوں کو ہی برا سمجھتا ہے جہاں بھی کسی احمدی اور غیر احمدی کے درمیان جھگڑا ہو فوراً ہندو، سکھ اور عیسائی غیر احمدی سے مل جائیں گے اوربغیر کسی دلیل اور ثبوت کے اس کی تائید کرنا شروع کر دیں گے حالانکہ ان کو اس لڑائی میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں ہوتا محض احمدیت کے بغض کی وجہ سے وہ دوسرے کی تائید کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ کثرت سے لوگ ہمارے پاس آتے ہیں اور وہ یہی بتاتے ہیں کہ ہر مذہب و ملت کے آدمیوں کے دلوں میں آپ کی جماعت کابغض بھرا ہؤا ہے اور وہ لوگوں سے یہی کہتے ہیں کہ احمدی بہت برے ہوتے ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں سکھ قوم کے ایک لیڈر یہاں آئے اور مجھ سے بھی ملے۔ ملتے ہی پہلی بات انہوں نے یہی کہی کہ میری آپ سے ملنے کی بڑی غرض یہ تھی کہ مَیں آپ کو اس امر کی طرف توجہ دلاؤں کہ آپ باہر سے لوگوں کو کثرت کے ساتھ یہاں بلایا کریں تاکہ ان کو پتہ لگے کہ اصل حالات کیا ہیں ورنہ باہر آپ لوگوں کے متعلق بہت کچھ غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ مَیں نے کہا سردار صاحب یہ تو صحیح ہے کہ یہاں آ کر لوگوں کی بہت سی غلط فہمیاں دور ہو جاتی ہیں مگر اس کا کیا علاج ہے کہ ہم تولوگوں کو بلاتے ہیں مگر وہ نہیں آتے۔ اسی طرح گورنمنٹ آف انڈیا کے ایک بڑے افسر چودھری ظفر اللہ خان صاحب کے تعلق کی وجہ سے ایک دفعہ قادیان آئے۔ واپس جانے کےبعد وہ ایک دن مذاقاً چودھری ظفر اللہ خان صاحب سے کہنے لگے کہ آپ لوگوں کو چاہئے مجھے تنخواہ دیا کریں۔ چودھری صاحب نے پوچھا کس وجہ سے؟ انہوں نے جواب دیا کہ مَیں بھی آپ کی تبلیغ کیا کرتا ہوں اس کے بعد انہوں نے سنجیدگی سے کہا کہ مذاق بر طرف۔ اصل بات یہ ہے کہ جب سے مَیں قادیان سے واپس آیا ہوں میرے پاس مسلمان، ہندو، سکھ اور عیسائی ہر مذہب و ملت کے لوگ کثرت سے آئے ہیں اور ہر ایک نے مجھے یہی کہا ہے کہ آپ قادیان کیوں گئے۔ احمدی تو بہت برے ہوتے ہیں۔ یہ صاحب جن کا ذکر اوپر ہؤا ہے۔ ایک بنگالی ہندو ہیں اور گورنمنٹ آف انڈیا کے ایک بہت بڑے عہدہ پر متمکن ہیں مگر انہوں نے بھی یہی کہا کہ مَیں حیران ہوں کوئی قوم نہیں جس کے افراد آپ لوگوں کی برائی بیان نہ کرتے ہوں مگر انہوں نے کہا جب میرے پاس آپ کی جماعت کی کوئی شخص مذمت کرتا ہے تو مَیں اسے یہ جواب دیا کرتا ہوں کہ کسی مذہب کے متعلق واقفیت حاصل کرنے کے دو ہی طریق ہؤا کرتے ہیں یا تو انسان اس مذہب کی کتابیں پڑھے یا خود اس مذہب کا مرکز دیکھے اور اس طرح اس کے متعلق واقفیت حاصل کرے۔ آپ بتائیں کہ آیا آپ نے احمدیت کی کتابیں پڑھی ہیں۔ اس سوال کے جواب میں وہ یہی کہتا ہے کہ مَیں نے جماعت احمدیہ کے لٹریچر کو نہیں دیکھا۔ اس پر مَیں کہا کرتا ہوں جہاں تک کتابیں نہ پڑھنے کا سوال ہے۔ مَیں اور آپ برابر ہیں اور اس لحاظ سے نہ مجھے کوئی اعتراض کا حق حاصل ہے اور نہ آپ کو کوئی اعتراض کا حق حاصل ہے۔ لیکن کسی مذہب کے متعلق واقفیت حاصل کرنے کا جو دوسرا طریق ہے۔ اسے مَیں اختیار کر چکا ہوں اور آپ لوگوں نے وہ بھی اختیار نہیں کیا۔ مَیں خود وہاں گیا تھا اور مَیں وہاں اپنی آنکھوں سے احمدیوں کے حالات کو دیکھ آیا ہوں۔ اس لئے میرے نزدیک تم جو باتیں کہتے ہو وہ بالکل غلط ہیں۔ تو دیکھو یہ ایک غیر مذہب والے کی شہادت ہے کہ مَیں حیران ہوں۔ یہ بات کیا ہے کہ ہر مذہب و ملت والا کہتا ہے کہ احمدی بہت برے ہوتے ہیں حالانکہ ہم کسی کا بگاڑتے کیا ہیں ۔ جہاں تک ہو سکتا ہے، دوسروں کو خیر خواہی ہی کرتے ہیں مگر ان کی دشمنی اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ اگر کوئی اجنبی اور غیر آدمی بھی یہاں آ جائے تو اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں کہ وہ یہاں آیا کیوں۔ گویا ہر آدمی کے دل میں ہماری عداوت پائی جاتی ہے۔ یہی عداوت تھی جس کی بناء پر عیسائیوں کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر قتل کا ایک جھوٹا مقدمہ دائر کیا گیا اورمولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اس میں عیسائیوں کے گواہ بن کر آئے۔ انہوں نے سمجھا کہ مَیں سچائی کی تائید کر رہا ہوں اور یہ نہ سمجھا کہ وہ اس شخص کے خلاف گواہی دینے کے لئے آئے ہیں۔ جو کہتا ہے ؂
بعد از خدا بعشقِ محمدؐ مخمرم گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم 2
کہ مَیں خدا تعالیٰ کے عشق کے بعد محمد ﷺ کے عشق میں مخمور ہوں۔ اگر یہ کفر ہے تو خدا تعالیٰ کی قسم میں سخت کافر ہوں۔ اور اس شخص کی تائید میں گواہی دینے کے لئے کھڑے ہیں جو کہتا ہے کہ محمد ﷺ نَعُوْذُ بِاللہِ دجال ہیں۔ آخر خدا نے اسی وقت انہیں اس کی سزا دے دی اور وہ اس طرح کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی عدالت میں اس امید سے آئے تھے کہ مرزا صاحب کو نَعُوْذُ بِاللہ ہتھکڑی لگی ہوئی ہو گی اور وہ ملزموں کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے کیونکہ یہ مقدمہ ایک پادری کی طرف سے تھا او رڈپٹی کمشنر جس کی عدالت میں یہ مقدمہ پیش تھا۔ وہ بھی پادری نما تھا۔ پس وہ سمجھتے تھے کہ مرزا صاحب کو ہتھکڑی لگی ہوئی ہو گی اور وہ ذلت کے ساتھ ملزموں کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے مگر جب وہ عدالت میں پہنچے تو انہوں نے کیا دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بجائے ملزموں کے کٹہرے میں کھڑے ہونے کے نہایت اعزاز کے ساتھ ڈپٹی کمشنر کے پہلو میں کرسی پر بیٹھے ہیں۔ آپ پر قتل کا الزام تھا مگر الٰہی تصرف کے ماتحت ڈپٹی کمشنر نے اپنے پاس ایک کرسی بچھا دی اور آپ کو ملزموں کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی بجائے اس پر بٹھا دیا۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو آپ کی ذلت دیکھنے کے لئے عدالت میں آئے تھے۔ انہوں نے جب اس طرح آپ کو عزت کےساتھ ڈپٹی کمشنر کے پاس کرسی پر بیٹھے ہوئے دیکھا تو ان کے تن بدن میں آگ سی لگ گئی کہ اگر مرزا صاحب کو ہتھکڑی نہیں لگائی گئی تو کم سے کم انہیں ملزموں کے کٹہرے میں تو کھڑا ہونا چاہئے تھا پھر انہیں یہ اور ذلت محسوس ہوئی کہ اب تو مَیں گواہ کی حیثیت سے کٹہرے میں کھڑا ہوں گا اور مرزا صاحب کرسی پر بیٹھے ہوئے ہوں گے۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ یہ بات ان کی برداشت سے باہر ہو گئی اور انہوں نے ڈپٹی کمشنر سے کہا۔ صاحب آپ نے ملزم کو کرسی دے رکھی ہے، مجھے بھی عدالت میں کرسی ملنی چاہئے۔ ڈپٹی کمشنر کہنے لگا تم گواہ ہو اور ہر گواہ کو کرسی نہیں ملا کرتی۔ انہوں نے کہامَیں تو گواہ ہوں۔ آپ نے جب ملزم کو کرسی دے رکھی ہے تو مجھے کیوں کرسی نہیں دی جاتی۔ ڈپٹی کمشنر کہنے لگا ہمارے پاس پنجاب کے رؤساء کی لسٹیں موجود ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ کس کو کرسی ملنی چاہئے اور کس کو نہیں ملنی چاہئے۔ مرزا صاحب کے خاندان سے ہم واقف ہیں اور جانتے ہیں کہ گورنمنٹ ان کے خاندان کو کس عزت کی نگاہ سے دیکھتی چلی آئی ہے۔ اس لئے انہیں جائز طور پر کرسی دی گئی ہے۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی یہ جواب سن کر بھی خاموش نہ رہے اور کہنے لگے۔ صاحب !مَیں لاٹ صاحب کے پاس ملنے کے لئے جاتا ہوں تو وہ مجھے کرسی دیتے ہیں آپ مجھے کیوں کرسی نہیں دیتے۔ اس پر ڈپٹی کمشنر کو غصہ آ گیا اور کہنے لگا اگر ایک چوہڑا بھی ہمیں اپنے مکان پر ملنے کے لئے آئے تو ہم اسے کرسی دے دیتے ہیں مگر یہ عدالت کا کمرہ ہے، ملاقات کا کمرہ نہیں۔ اس پر پھر انہوں نے اصرار کیا۔ آخر ڈپٹی کمشنر نے انہیں کہا بک بک مت کر، پیچھے ہٹ اورجوتیوں میں کھڑا ہو جا۔ معلوم ہوتا ہے وہ جوش کی حالت میں کچھ آگے بڑھ آئے ہوں گے ۔جس پر انہیں کہنا پڑا کہ پیچھے ہٹ اور جوتیوں میں کھڑا ہو جا۔ وہاں سے اپنی ذلت کروا کے باہر نکلے تو برآمدہ میں ایک کرسی پڑی ہوئی تھی۔ اس کرسی پر وہ بیٹھ گئے اور انہوں نے خیال کیا کہ جب لوگ مجھے یہاں کرسی پر بیٹھا ہؤا دیکھیں گے تو خیال کریں گے کہ اندر بھی اسے کرسی ملی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے یہ قانون مقرر کیا ہؤا ہے کہ نوکر اکثر آقا کے پیچھے چلتے ہیں، عدالت کا چپڑاسی برآمدہ میں موجود تھا وہ بٹالہ یا گورداسپور کا ہو گا اور اس ضلع میں رہنے کی وجہ سے وہ جانتا ہو گا کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی لوگوں کےد لوں میں کس قدر عزت ہے مگر کسی نے کہا ہے ہم راجہ کے نوکر ہیں بینگن کے نہیں۔ چپڑاسی بھی اندر تمام باتیں سن چکا تھا اور دیکھ چکا تھا کہ ڈپٹی کمشنر ان پر سخت ناراض ہوئے ہیں۔ چنانچہ جب وہ برآمدہ میں کرسی پر بیٹھ گئے تو چپڑاسی دوڑا دوڑا آیا اور کہنے لگا مولوی صاحب یہاں نہ بیٹھئے۔ یہاں آپ کو بیٹھنے کی اجازت نہیں اور یہ کہتے ہی اس نے کرسی ان کے نیچے سے کھینچ لی۔ وہاں سے اٹھے تو باہر ہجوم میں آ گئے اور خیال کیا کہ یہاں کوئی اچھی سی جگہ مل جائے تو یہیں بیٹھ جاؤں۔ کچھ یہ بھی خیال تھا کہ ان لوگوں میں سے تو اکثر مرزا صاحب کے مخالف ہیں۔ اس لئے ضرور مجھے اچھی جگہ مل جائے گی اتفاقاً وہاں کسی شخص نے اپنی چادر بچھائی ہوئی تھی۔ مولوی صاحب فوراً اس چادر پر بیٹھ گئے مگر خدا تعالیٰ نے یہاں بھی ان کی ذلت کا سامان کر دیا۔ چادر کے مالک نے جب انہیں اپنی چادر پر بیٹھے دیکھا تو وہ دوڑا دوڑا آیا اور کہنے لگا میری چادر چھوڑ دو۔ تم نے تو میری چادر پلید کر دی تم ایک عیسائی کی تائید میں ایک مسلمان کے خلاف گواہی دینے کے لئے آئے ہو۔ آخر مولوی صاحب کو وہاں سے بھی ذلت کےساتھ اٹھنا پڑا۔
تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے بڑے بڑے نشانات دکھائے گئے ہیں۔ مگر اس کے باوجود اب تک آپ کی اور آپ کی جماعت کی ہر مذہب وملت کے آدمیوں کے دلوں میں مخالفت پائی جاتی ہے۔ آخر یہ حد درجہ کی مخالفت کی دلیل نہیں تو اَو رکیا ہے کہ رسول کریم ﷺ کو دجال کہنے والے کی تائید کی گئی اوروہ شخص جو رسول کریم ﷺ کو دجال کہنے والوں سے لڑتا تھا۔ اس کے خلاف عدالتوں میں گواہی دی گئی اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے عیسائیوں کا گواہ بن کر آپ کے خلاف شہادت دی۔ اس سے تم سمجھ لو کہ ہمارے خلاف لوگوں کے دلوں میں کس قدر بغض بھرا ہؤا ہے۔
مجھے ہمیشہ یاد رہتاہے مَیں چھوٹا بچہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ ملتان تشریف لے گئے۔ مَیں بھی آپ کے ساتھ تھا۔ میری عمر اس وقت 7-8 سال کی تھی۔ اس سفر کے صرف دو واقعات مجھے یاد ہیں۔ یوں تو بعض واقعات مجھے اس وقت کے بھی یاد ہیں جبکہ میری عمر صرف دو سال کی تھی بلکہ ابھی چند دن ہوئے ایک دوست نے ایک واقعہ بتایا جو مجھے بھی یاد آ گیا اور اس کی جو تاریخ انہوں نے بتائی اس کے لحاظ سے میری عمر اس وقت ایک سال کی بنتی ہے۔ پس مجھے اتنی چھوٹی عمر کے بعض واقعات یاد ہیں لیکن اس سفر کی صرف دو باتیں میرے ذہن میں ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ واپسی پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام لاہور میں ٹھہرے۔ وہاں ان دنوں مومی تصویریں دکھائی جا رہی تھیں جن سے مختلف بادشاہوں اور ان کے درباروں کے حالات بتائے جاتے تھے۔ شیخ رحمت اللہ صاحب مالک انگلش ویئر ہاؤس جو ان دنوں ‘‘بمبئی ہاؤس’’ کہلاتا تھا ۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام سے عرض کیا کہ یہ ایک علمی چیز ہے۔ آپ اسے دیکھنے کے لئے تشریف لے چلیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے انکار کر دیا۔ اس کے بعد انہوں نے مجھ پر زور دینا شروع کر دیا کہ مَیں چل کر وہ مومی مجسمے دیکھوں۔ مَیں چونکہ بچہ تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے پیچھے پڑ گیا کہ مجھے یہ مجسمے دکھائے جائیں چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام میرے اصرار پر مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔ مختلف بادشاہوں کے حالات تصویروں کے ذریعہ دکھائے گئے تھے جن میں بعض کی موتوں اور بعض کی بیماریوں وغیرہ کا نقشہ کھینچا گیا تھا۔ پس ایک تو یہ واقعہ مجھے یاد ہے۔ دوسرا واقعہ جو مجھے یاد ہے وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی لاہور کے اندر کسی نے دعوت کی اور آپ اس میں شامل ہونے کے لئے تشریف لے گئے۔ کچھ اثر میرے دل پر یہ بھی ہے کہ دعوت نہیں تھی بلکہ مفتی محمد صادق صاحب یا ان کا کوئی بچہ بیمار تھا اور آپ انہیں دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے تھے۔ بہرحال شہر کے اندر سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام واپس آ رہے تھے کہ سنہری مسجد کی سیڑھیوں کے پاس مَیں نے ایک بہت بڑا ہجوم دیکھا جو گالیاں دے رہا تھا اور ایک شخص ان کے درمیان کھڑا تھا۔ ممکن ہے وہ کوئی مولوی ہو اور جیسے مولویوں کی عادت ہوتی ہے وہ شاید اپنی طرف سے بے موقع چیلنج دے رہا ہو۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی گاڑی پاس سے گزری تو ہجوم کو دیکھ کر مَیں نے سمجھا کہ یہ بھی کوئی میلہ ہے۔ چنانچہ مَیں نے نظارہ دیکھنے کے لئے گاڑی سے اپنا سر باہر نکالا۔ اس وقت کا یہ واقعہ مجھے آج تک نہیں بُھولا کہ مَیں نے دیکھا۔ ایک شخص جس کا ہاتھ کٹا ہؤا تھا اورجس پر ہلدی کی پٹیاں بندھی ہوئی تھیں وہ بڑے جوش سے اپنے ٹنڈے ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مار مار کر کہتا جا رہا تھا ’’مرزا دوڑ گیا، مرزا دوڑ گیا۔‘‘
اب دیکھو ایک شخص زخمی ہے، اس کے ہاتھ پر پٹیاں بندھی ہوئی ہیں مگر وہ بھی مخالفت کے جوش میں یہ سمجھتا ہے کہ مَیں اپنے ٹنڈے ہاتھ سے ہی نَعُوْذُ بِاللہ احمدیت کو دفن کر آؤں گا۔ یہ کیسی خطرناک دشمنی ہے جو لوگوں کے قلوب میں پائی جاتی ہے اور کس کس طرح انہوں نے زور لگایا کہ لوگ قادیان میں نہ آئیں اور احمدیت کو قبول نہ کریں۔ ایسے کئی لوگ احمدیوں میں موجود ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے زمانہ میں قادیان آنے کے ارادہ سے بٹالہ تک آئے مگر پھر ان کو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے واپس کر دیا۔ چنانچہ مَیں نے سنا ہے کہ مولوی عبد الماجد صاحب بھاگلپوری بھی اسی لئے شروع میں احمدیت قبول کرنے سے محروم رہے کہ جب وہ بٹالہ میں آئے تو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے ان کو ورغلا کر واپس کر دیا اور یہی مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا روزانہ کا مشغلہ رہتا تھا ۔ وہ ہر روز ریل پر جا پہنچتے اور جب بعض لوگ قادیان جانے کے ارادہ سے اترتے تو وہ انہیں کہتے کہ وہاں جا کر کیا لو گے، وہاں گئے تو ایمان خراب ہو جائے گا اور کئی لوگ انہیں عالم سمجھ کر واپس چلے جاتے اور خیال کرتے کہ مولوی محمد حسین صاحب جو کچھ کہہ رہے ہیں یہ سچ ہی ہو گا۔ ایک دفعہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سٹیشن پر گئے تو انہیں کوئی مہمان نہ ملا اور کبھی کبھی ایسا ہو جایا کرتا تھا کہ کوئی مہمان نہیں آتا تھا۔ انہیں جب اور کوئی شخص نہ ملا تو اتفاقاً انہوں نے پیراں دتّے کو دیکھ لیا۔ یہ ایک فاتر العقل شخص تھا اور گنٹھیا کی وجہ سے اس کا سارا جسم مارا گیا تھا۔ اس کے رشتہ داروں کو بعض لوگوں نے بتایا کہ تم اسے قادیان لے جاؤ وہاں مرزا صاحب اس کا مفت علاج کر دیں گے اور اس کی خبر گیری بھی کریں گے چنانچہ اس کے رشتہ دار اسے یہاں چھوڑ کر چلے گئے۔ وہ بالکل وحشی اور اجڈ تھا۔ بعض دفعہ مٹی کے تیل کی بوتل پی جایا کرتا تھا۔ لوگ اسے چار آنے دیتے تووہ مٹی کے تیل کی بوتل منہ لگا کر پی جاتا یا دال میں ڈال کر کھا لیتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا علاج کیا اور وہ اچھا ہو گیا۔ اس احسان کا اس کی طبیعت پر ایسا اثر ہؤا کہ پھر وہ قادیان چھوڑ کر نہیں گیا۔ اس کے رشتہ داروں کو جب معلوم ہؤ اکہ پیرا اچھا ہو گیا ہے تو وہ اسے واپس لے جانے کے لئے آئے اور چاہا کہ وہ پھر زمیندارہ کام میں ان کا ہاتھ بٹائے مگر اس نے واپس جانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ تم مجھے چھوڑ کر چلے گئے تھے مَیں تمہارے ساتھ نہیں جا سکتا۔ بے شک تم میرے رشتہ دار ہو مگر اب میرے رشتہ دار وہی ہیں جنہوں نے میرا علاج کیا۔ چنانچہ وہ یہیں رہا اور یہیں فوت ہؤا۔ اسے اسلام اور احمدیت کی کوئی سمجھ نہیں تھی۔ نماز وہ نہیں پڑھتا تھا اور اگر نماز اسے یاد کرائی جاتی تھی تو وہ اسے یاد نہیں ہوتی تھی۔ بہت دفعہ ایسا ہؤا کہ اسے نماز کا کوئی سبق دیا گیا مگر دو دو تین تین مہینہ کے بعد جب اسے کہا جاتا کہ نماز سناؤ تو وہ کہہ دیتا کہ آندی تے سی پر بھل گئی ہے۔ یعنی آتی تو تھی مگر بھول گئی ہے۔ حضرت خلیفہ اول نے ایک دفعہ اس کے لئے انعام مقرر کیا اور فرمایا پیرے! اگر تم ایک دن پانچوں نمازیں وقت پر پڑھ لو تو تمہیں دو روپے انعام دوں گا۔ اس نے شاید عشاء کی نماز شروع کی اور جوں توں کر کےچار نمازیں پڑھ لیں۔ آخری نماز اس کی مغرب کی تھی۔ وہ مغرب کی فرض نماز میں شامل ہؤا ۔ ان دنوں مہمانوں کا کھانا ہمارے گھر میں تیار ہؤا کرتا تھا۔ مغرب کی نماز میں اندر سے اس عورت نے جو کھانا لایا کرتی تھی زور سے پیرے کو آوازیں دینی شروع کر دیں کہ پیرے کھانا تیار ہے۔ مہمانوں کے لئے لے جا۔ اس وقت نماز ہو رہی تھی اور پیرا بھی جماعت میں شامل تھا۔ آخر ی تشہد میں تھا جب اس عورت نے زور سے آواز دی کہ پیرے! اتنی آوازیں دی ہیں تُو جواب نہیں دیتا، کھانا لے جا، نہیں تو مَیں تیری شکایت کر دوں گی۔ اس پر پیرے نے تشہد میں ہی جواب دیا کہ ٹھہر جا تھوڑی سی نماز رہ گئی ہے۔ اَلتَّحِیَّات پڑھ لوں تو آتا ہوں۔ غرض وہ بہت ہی موٹی عقل کا آدمی تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام نے اگر کبھی کوئی تار دینا ہوتا تو آپ اسے بٹالے بھجوا دیا کرتے تھے یا کبھی کوئی ریلوے کا پارسل آیا ہوتا تو آپ اسے بٹالے بھجوا دیتے۔ اس طرح اکثر مہینہ میں پانچ سات پھیرے وہ بٹالے کے کیا کرتا تھا۔ ایک دن مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو جب اور کوئی مہمان نہ ملا تو انہوں نے پیرے کو ہی پکڑ لیا۔ پیرا بھی چونکہ اکثر بٹالے جایا کرتا تھا اس لئے وہ بھی جانتا تھا کہ مولوی صاحب قریباً روزانہ سٹیشن پر آتے اور ان لوگوں کو جو قادیان جانا چاہتے ہیں وہاں جانے سے روکتے ہیں جس پر بعض لوگ واپس چلے جاتے ہیں اور بعض پھر بھی قادیان آ جاتے ہیں۔ مولوی صاحب نے سمجھا کہ آج اگر اور کوئی نہیں ملا تو چلو پیرے کو ہی سمجھائیں۔ چنانچہ وہ پیرےسے کہنے لگے۔ پیرے تو اپنی عاقبت کیوں خراب کر رہا ہے۔ مرزا صاحب تو کافر ہیں۔ ان کے ساتھ تعلق رکھنے کی وجہ سے تیرا ایمان بھی خراب ہو گیا ہے اور وہاں قادیان میں تو یہ بے دینی ہے، وہ بے دینی ہے تُو ان کے پیچھے چل کر کیوں خراب ہو رہا ہے۔ پیرا بیچارہ سنتا رہا۔ آخر جب مولوی صاحب اپنا جوش نکال چکے تو پیرا کہنے لگا۔ مولوی صاحب مجھے تو مسئلوں کی نہ وہاں سمجھ آتی ہے اور نہ یہاں سمجھ آتی ہے۔ لیکن ایک بات مَیں جانتا ہوں اور وہ یہ کہ مَیں یہاں ہمیشہ تاریں دینے یا پارسل وغیرہ لینے کے لئے آتا رہتا ہوں اور مَیں ہمیشہ دیکھتا ہوں کہ آپ لوگوں کو ورغلا رہے ہوتے ہیں اور انہیں قادیان جانے سے منع کرتے ہیں۔ اس کوشش میں آپ کی اب تک شاید کئی جوتیاں گھس گئی ہوں گی مگر آپ کی پھر بھی کوئی نہیں سنتا اور دوسری طرف مَیں یہ دیکھتا ہوں کہ مرزا صاحب گھر میں بیٹھے ہوئے ہیں مگر لوگ دور دور سے ان کی طرف کھچے چلے جاتے ہیں۔ میرے نزدیک تو اس سے مرزا صاحب ہی سچے ثابت ہوتے ہیں۔
اب دیکھو یہ وہی بات ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نےاس شعر میں بیان فرمائی کہ ؂
ہجومِ خلق سے ارضِ حرم ہے
آج دنیا ہماری شدید ترین مخالف ہے مگر پھر بھی خدا تعالیٰ اپنی نصرت و تائید کا یہ کیسا عظیم الشان نشان دکھلاتا چلا آ رہا ہے کہ لوگ دور دور سے اور نہایت کثرت کے ساتھ قادیان آتے ہیں بلکہ ایسے ایسے علاقوں سے لوگ قادیان آتے ہیں کہ نہ ان کی زبان کو ہم سمجھتے ہیں اور نہ ہماری زبان کو وہ سمجھتے ہیں۔ وہ مسکرا مسکرا کر ہی اپنی دلی خواہش کو پورا کر کے چلے جاتے ہیں۔ ان کے مسکرانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہمیں الفاظ کے ذریعہ اپنی دلی محبت کا اظہار کرنا نہیں آتا۔ آپ ہمارے مسکرانے سے ہی سمجھ لیجئے کہ ہمارے دل میں ایمان پایا جاتا ہے۔ پس حج اور جلسہ دونوں کو جمعہ کے دن دیکھ کر مَیں نے ایک نیک فال سمجھی۔ اگر اتفاقیہ طور پر ہمارا جلسہ جمعہ کے دن شروع ہوتا تو یہ بالکل اور بات ہوتی مگر اس دفعہ اللہ تعالیٰ جبراً ہمارے جلسہ کو جمعہ کے دن لے آیا اور ا س نے ایسے حالات پیدا کر دئیے کہ ہم مجبور ہو گئے کہ جمعہ کے دن ہی اپنے جلسہ کو شروع کریں۔ پس مَیں نے اس فال سے سمجھا کہ شاید اللہ تعالیٰ قریب زمانہ میں ہی احمدیت کی ترقی کی کوئی ایسی صورت پیدا کرنے والا ہے جو مکہ کےساتھ اس کے ظل ہونے کے لحاظ سے وابستہ ہے اور اس ترقی کا نفاذ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت جلد ہونے والا ہے کیونکہ ان دونوں ہجوموں کو ایک نئے حادثہ اور غیر طبعی حالات نے اکٹھا کر دیا ہے اور دونوں جمعہ کے دن ہی ہوئے ہیں۔ پس آج جبکہ ہمارا جلسہ شروع ہے۔ مَیں اپنے ان طبعی جذبات کے اظہار سے نہیں رک سکا۔ باقی ہمیں چاہئے کہ ہم بھی اللہ تعالیٰ کی تقدیر کو جلد سے جلد پورا کرنے کی کوشش کریں اور اپنی تمام طاقتیں اس غرض کے لئے وقف کر دیں۔ا گر خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ پھر اسلام کی ترقی ہو اور پھر محمد ﷺ کی طرف ساری دنیا کو کھینچ کر لائےاور ہماری طبعی خواہش بھی یہی ہے کہ ضرور ایسا ہو۔ تو ہمیں بھی خدا تعالیٰ کے اس ارادہ کو پورا کرنے کے لئے دن رات ایک کر دینا چاہئے۔ یاد رکھو بعض وقت چھوٹے چھوٹے کاموں اور چھوٹی چھوٹی محنتوں کا بہت بڑا اجر مل جاتا ہے۔ دنیا میں اس قسم کے کئی واقعات ہوتے ہیں کہ کوئی بادشاہ کسی جنگل میں سے گزر رہا ہوتا ہے ، اسے سخت پیاس لگی ہوئی ہوتی ہے مگر پانی کہیں نہیں ملتا۔ اتفاقاً پاس ہی کوئی جھونپڑی دکھائی دیتی ہے اور اس میں بیٹھے ہوئے شخص کے پاس پانی ہوتا ہے۔ وہ ایک کٹورا بھر کر بادشاہ کو پلا دیتا ہے اور بادشاہ ایسا خوش ہوتا ہے کہ اسے انعام میں بڑی بڑی جاگیریں دے دیتا ہے حالانکہ اس سے پہلے کئی لوگ بڑے بڑے تحفے پیش کر چکے ہوتے ہیں اور انہیں کچھ نہیں ملتا۔ تو کئی مواقع ایسے ہوتے ہیں جب تھوڑا سا کام بھی بہت بڑی مقبولیت حاصل کر لیتا ہے۔ یہ زمانہ بھی ایسا ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی برکات کے حصول کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے مگر آج اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دینے کے لئے بیٹھا ہؤا ہے ۔ وہ کہتا ہے مانگو کہ مَیں تمہیں دوں۔ ایسے وقت میں جبکہ خدا تعالیٰ دینے پر تیار بیٹھا ہو وہ شخص بڑا ہی بد قسمت ہو گا جو یہ کہے کہ مَیں لینے کے لئے تیار نہیں۔ پس ہمیں چاہئے کہ ہم ان دنوں سے فائدہ اٹھائیں اور اللہ تعالیٰ سے ہر وقت دعائیں کریں۔ اپنے لئے بھی اور اسلام کی ترقی اور عظمت کے لئے بھی کہ خدا تعالیٰ ہمارے گھروں کو اپنی نعمتوں سے بھرے اور اسلام اور احمدیت کے گھر کو بھی اپنے فضلوں سے بھر دے۔ وہ اسلام اور احمدیت کو سچے دیندار بخشے جو خلوص کے ساتھ اس کی خدمت کرنے والے ہوں اور ہمیں سچے دیندار دل عطا فرمائے جو دین کی خدمت کے لئے ہر وقت تیار رہیں۔ اللہ تعالیٰ اسلام کو تو یقیناً ترقی عطا فرمائے گا ہماری دعا صرف یہ ہے کہ اسلام کے تخت پر جو موتی جڑے جائیں ان میں سے ایک ہم بھی ہوں اورہماری اولادیں بھی ہوں۔‘‘
(الفضل 24 جنوری 1943ء )
1: درثمین اردو صفحہ 56
2: درثمین فارسی صفحہ 112۔مطبوعہ نظارت اشاعت ربوہ
 
Top